Mazameen-eBasheer Vol 1

Mazameen-eBasheer Vol 1

مضامین بشیر (جلد 1)

Author: Hazrat Mirza Bashir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی سلسلہ احمدیہ کی خدمت کے لئے وقف رہی۔ آپ نے نہایت جانفشانی سے سلسلہ کے استحکام کے لئے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، جن کا علمی ، تربیتی اور اخلاقی فیضان ہمیشہ جاری رہے گا۔ آپ ؓ کی سلسلہ کے حالات پر خدا کے فضل سے بڑی گہری نظر تھی جب بھی اہم معاملہ یا واقعہ رونما ہوتا تو آپ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کا عام فہم اور مدلل حل یا تشریح تفصیلاً ضبط تحریر میں لاتے اور پھر جماعتی اخبارات ورسائل میں شائع فرماتے۔ آپ کا یہ علمی، تربیتی اور روحانی سلسلہ تحریرات 1913 سے 1963 تک کے طویل عرصہ پر پھیلا ہوا ہے۔ یوں  ہزاروں صفحات  پر مشتمل اس مجموعہ سے استفادہ جہاں بہت سے نازک اور دقیق علمی  اور معاشرتی موضوعات پر قابل قدر رہنمائی اور روشنی کا وسیلہ ہے وہاں یہ صفحات تاریخ احمدیت کے متنوع موضوعات کے لئے بھی گراں بہاسرمایہ ہے۔اس مجموعہ کی ابتدائی دونوں جلدوں کے آخر تفصیلی انڈیکس بھی موجود ہے۔


Book Content

Page 1

مضامین بشیر جلد اوّل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے

Page 2

Page 3

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مضامین بشیر نَحْمَدُهُ وَنُصَّلِى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ ان حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی پوری زندگی سلسلہ احمدیہ کی خدمت کے لئے وقف رہی.آپ نے نہایت جانفشانی سے سلسلہ احمدیہ کے استحکام کے لئے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے جن کا علمی ، تربیتی اور اخلاقی فیضان ہمیشہ جاری وساری رہے گا.حضرت صاحبزادہ صاحب کی سلسلہ کے حالات پر خدا کے فضل سے بہت گہری نظر تھی.جب کبھی بھی کوئی اہم معاملہ یا کوئی واقعہ رونما ہوا تو آپ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کا حل یا تشریح تفصیلاً ضبط تحریر میں لائے اور پھر جماعتی اخبارات ورسائل میں شائع فرمایا.آپ کا یہ علمی، تربیتی اور روحانی سلسلہ تحریرات 1913 ء سے 1963 ء تک کے طویل عرصہ پر محیط ہے اور یہ قیمتی سرمایہ مختلف اخبارات و رسائل میں بکھرا پڑا ہے جس تک ہر فر د جماعت کی رسائی ممکن نہیں.مجلس انصاراللہ کے زیراہتمام ونگرانی کو یکجا کرنے کا فریضہ سرانجام دیا.اس کام میں اب ان تحریرات کو مضامین بشیر کے نام سے شائع کیا جا رہا ہے.ان تمام تحریرات نے ان کی معاونت کی.حضرت صاحبزادہ صاحب کی ان تحریرات کی پہلی جلد جو 1913 ء سے 1945 ء تک کی تحریرات پر مشتمل ہے احباب جماعت کے استفادہ کے لئے شائع کی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس علمی و تربیتی اور روحانی مائدہ سے افراد جماعت کو احسن رنگ میں مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 4

i فہرست عناوین مضامین بشیر نمبر شمار ا.صلح یا جنگ عنوان ۱۳، ۱۶، ۱۹۱۷ء ۲.مسئلہ کفر و اسلام.اسمہ احمد حوالہ جات ١٩٢٦ء ا.سیرت المہدی اور غیر مبایعین حوالہ جات ۱۹۲۷ء، ۲۸، ۱۹۳۳،۳۲،۲۹ء صفحہ نمبر | نمبر شمار ۱۷ ۲۱ ۲۳ ۱۰۴ عنوان ۱۵.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک خاوند کی حیثیت میں ۱۶.محمد ہست برہانِ محمد صفحہ نمبر ۱۳۵ ۱۴۵ ۱۷.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی ہدایات ،صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو ۱۵۱ ۱۸.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہر علم النفس کی حیثیت میں ۱۹.رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ حوالہ جات ۱۹۳۴ء ۱۹۳۵ء ۱۵۹ ۱۶۶ ۱۶۸.برکات رمضان سے فائدہ اٹھاؤ نظارت تعلیم و تربیت کا ایک ضروری اعلان ے.سود کے متعلق حضرت مسیح موعود کا فیصلہ شریعت کے کسی حکم کو چھوٹا نہ سمجھو.ایک قابلِ قدر خاتون کا انتقال سودی لین دین کے متعلق حضرت مسیح موعود ۱۰.علیہ السلام کا فتویٰ رمضان المبارک کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ ۱۲.اپنے گھروں میں درس جاری کرو ۱۳- محمد هست بر بان محمد ۱۴.مقامی امیر کی پوزیشن ۱۰۷ ۱۰۹ ۱۱۶ ۱۲۱ ۱۲۳ ۱۲۷ ۱۲۹ ۱۳۱ ۱۳۲ ۲۰.رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ ۲۱.دعا اختتام درس رمضان ۲۲.ہندوستان کے شمال مشرق کا تباہ کن زلزلہ اور خدا کے زیر دست نشانوں میں سے ایک تازه نشان ۲۳.رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ ۱۷۲ ۱۷۳ ۲۰۹ ۲۴ اختتام درس قرآن کریم کی دعا ۲۱۳ ۲۵.تذکرہ کے بارے میں جماعت احمدیہ کو پیغام ۲۱۴ حوالہ جات ۲۱۶

Page 5

مضامین بشیر نمبر شمار عنوان ١٩٣٦ء، ١٩٣٧ء : صفحہ نمبر نمبر شمار عنوان ۴۴.ہر حال میں سچی شہادت دو صفحہ نمبر ۲۹۴ ۲۶.سیرت المہدی حصہ اوّل کے متعلق ضروری اعلان ۲۲۱ ۴۵.ہماری پھوپھی صاحبہ مرحومہ اور نکاح والی پیشگوئی ۲۹۹ ۴۶.موجودہ برقعہ اور اسلامی پردہ ۲۷.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ ۴۷.اپنے بچوں کو تخت گاہِ رسول کی برکات سے پیدائش معین ہو گئی ۲۸ تبلیغ احمدیت کے متعلق قیمتی ہدایات ۲۲۲ ۲۲۵ محروم نہ کریں ٣٠٣ ۳۰۹ ۳۱۲ ۴۸.نفاق اور اس کی اقسام اور علامات آپ چود ہری فتح محمد صاحب کی رکس طرح مدد کر سکتے ہیں؟ ۳۰.قادیان کے ووٹران کی خدمت میں ضروری گزارش ۳۱.قادیان کے ووٹر ان کے متعلق احباب کی خاص ذمہ داری ۳۲.اسرار حدیث ۳۳.میاں فخر الدین صاحب ملتانی کی موت پر ۳۴.میرے قلبی تاثرات مولوی محمد علی صاحب کو قتل کی دھمکی ۳۵.رمضان کا مہینہ نفس کو پاک کرنے کے لئے ۳۶.خاص اثر رکھتا ہے اندرونی اختلافات سے بچنے کا طریق ۲۲۷ ۲۳۰ ۲۳۱ ۲۳۲ ۲۳۶ ۲۴۶ ۲۵۰ ۲۵۵ ۴۹.ایک قابل تحقیق مسئلہ ۵۰.۳۲۱ خلافت جو بلی فنڈ مخلصین قادیان سے اپیل ۳۲۳ ۵۱.بے کاری کے نقصانات اور اس کے انسداد کا تربیتی پہلو ۵۲ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ ماجدہ کا انتقال اور حضرت امیر المومنین ایده اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمدردی کا پیغام ۵۳.خلافت جوبلی فنڈ اور اہلِ قادیان کی مخلصانہ قربانی ۵۴- ریویو آف ریجنز اردو کا نیا دور ۵۵.ایک غلط فہمی کا ازالہ ۵۶ - خلافت ثانیہ جو بلی فنڈ کیا ہے؟ ۳۷.کیا آپ نے تحریک رمضان میں حصہ لیا ہے؟ ۲۵۶ حوالہ جات ۲۵۹ ١٩٣٩ء ۳۲۵ ۳۳۳ ۳۳۵ ۳۳۸ ۳۴۰ ۳۴۱ ۳۴۲ ۳۴۵ ۳۴۹ ۳۵۱ ۳۵۲ ۳۵۶ ۵۷.مذہبی اصطلاحات کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت ۲۶۱ ۲۶۳ ۳۸ لیلۃ القدر کی دعا اور تحریک مصالحت ۳۹.تحریک اصلاح نفس کے متعلق آخری یاد دہانی حوالہ جات ١٩٣٨ء ۴۰.عزیز سعید احمد مرحوم ۲۶۵ ۵۸.مسجد اقصی اور مسجد مبارک کے لئے چندہ کی تحریک ۴۱.صدمات میں اوہام باطلہ سے بچنے کا طریق ۲۷۸ ۵۹.مسجد مبارک کے متعلق الہام کی تصحیح ۴۲.احباب سے ایک ضروری معذرت ۴۳.تمباکو کے نقصانات اور جماعت کو اس کے ترک کی تحریک ۲۸۴ ۲۸۵ ۲۰ خلافت جو بلی فنڈ کے متعلق جماعت کی ۶۱.ذمہ داری خلافت جو بلی کب اور کس طرح منائی جائے

Page 6

نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر نمبر شمار ۶۲.احباب کی خدمت میں ایک ضروری اطلاع ۳۶۰ ۶۳.احمد یہ جھنڈے کے متعلق بعض شبہات کا ازالہ ۳۶۱ ۶۴.بارش سے پہلے بادلوں کی گرج حوالہ جات ۶۵- کتاب فضل عمر.۱۹۴۰ء ۶۶ خان بهادر مولوی غلام حسن خان صاحب کی بیعت خلافت اور شکر یہ احباب ۶۷.حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم ۳۶۴ ۳۶۹ ۳۷۱ ۳۷۲ ۳۷۴ مضامین بشیر عنوان صفحہ نمبر ۸۱.میرے مضمون میں ایک قابل اصلاح غلطی ۴۴۲ ۸۲ روایتوں کے جمع کرنے میں خاص احتیاط کی ضرورت ۸۳ مرز افضل احمد صاحب کے جنازہ کے متعلق ایک معزز غیر احمدی کی شہادت م م م ۴۴۷ ۸۴.مسئلہ جنازہ میں غیر مبایعین کا افسوسناک رویہ ۴۵۱ ۸۵ - عورت یعنی ٹیڑھی پسلی کی عجیب و غریب پیداوار ۴۶۶ ۸۶.مسئلہ رحم میں جماعت کے علماء کو تحقیق کی دعوت ۴۷۶ ۸۷.ایک غلطی کی اصلاح ۴۸۳.ایک عزیز کے نام مخط“ پر حضرت ۸۸ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی وفات پر مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی رائے ۳۷۹ ۲۹.مسئلہ کفر و اسلام میں ہمارا مسلک ۷۰.عزیزہ امتہ الودود بیگم کی وفات میں ہمارے لئے ایک سبق اے.نقشہ ما حول قادیان ۳۸۰ ۳۸۵ ۳۹۰ ۷۲ خریداران اراضی کے لئے ایک ضروری اعلان ۳۹۱ ۷۳.ایک بدعت کا آغاز ۳۹۲ ۷۴.خان غلام محمد خان صاحب مرحوم آف میانوالی ۳۹۶ ۷۵.حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایده -<Y ایک نوٹ ۴۸۴ ۸۹.رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھانے کا طریق ۴۹۴ ۹۰.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دوستوں اور دشمنوں سے سلوک ۹۱.نفع مند کام پر رو پیدلگانے کا عمدہ موقع ۹۲.ایک غلط فہمی کا ازالہ اور مسئلہ رہن پر ایک مختصر نوٹ حوالہ جات ۱۹۴۳ء، ۱۹۴۴ء اللہ تعالیٰ کے متعلق دعاؤں کی خاص ضرورت ۳۹۹ -۹۳ زمانہ ترقی کے خطرات اور ان کا علاج ایک غلط فہمی کا ازالہ ے.تقویٰ پیدا کر و تقوی ۴۰۷ ۴۰۸ ۷۸.جمعہ کی رات میں خاص دعاؤں کی ضرورت ۴۱۸ حوالہ جات ۱۹۴۱ء،۱۹۴۲ء ۴۲۸ -۹۴ ایک بزرگ صحابی کا وصال اور اس پر میرے بعض تا ثرات ۵۰۷ ۵۱۲ ۵۱۴ ۵۱۸ ۵۲۱ ۵۲۹ خلافت کا نظام مذہب کے دائمی نظام کا حصہ ہے ۵۳۸ // (حصہ دوئم) ۵۴۴ ۹۷.مہر کے متعلق اسلام کی اصولی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسوہ حسنہ 29 - كَلْبٌ يَمُوتُ عَلَى كَلْبِ والا الہام اور بدخواہ دشمن کی نامرادی ۴۳۱ ۹۸.موسیقی کے متعلق صحیح زاویہ نظر ۸۰.کون بہتر ہیں قربانی دینے والے یا انعام والے ۴۳۶ ۹۹.قادیان میں احمدیہ کالج کا اجراء ۵۴۷ ۵۶۱

Page 7

مضامین بشیر نمبر شمار عنوان ۱۰۰ رونداد جلسہ ہوشیار پور کے متعلق ایک ضروری تشریح ۱۰۱.ہماری بہن سیدہ اُمم طاہر احمد رضی اللہ عنہا ۱۰۲.ہمارا تعلیم الاسلام کالج ۱۰۳.رمضان کا مبارک مہینہ iv صفحہ نمبر نمبر شمار ۵۶۳ ۵۶۵ ۵۹۰ ۵۹۵ عنوان ۱۱۱.ہماری قدسیہ کا انتقال اور احباب و اغیار کے جذبات ۱۱۲.ہمارا پاک قرآن اور پاک اسلام ۱۱۳.قادیان اور اس کے گردو نواح میں زمین ۶۴۴ ۶۵۴ خریدنے والوں کے لئے ایک ضروری اعلان ۶۵۹ ۱۰۴.خدا کے متعلق عدل و احسان کرنے کا مفہوم ۶۰۳ ۱۱۴.ایک غلطی کا ازالہ حوالہ جات ۱۹۴۵ء ۱۰۵.اسلام میں نظام زکوۃ کے اصول ۱۰۶.ہماری مسجد مبارک ۱۰۷ مجلس مذہب و سائنس کے کام کا حلقہ ۱۰۸.سائنسدان معجزات کے منکر نہیں ۱۰۹.تعلیم الاسلام کالج میں داخلہ کا آخری موقع ۶۱۱ ۶۱۵ ۶۲۶ ۶۳۷ ۶۳۹ ۶۴۱ ۱۱۵ حضرت ام المومنین اطال اللہ بقاء ھا کے خط کا نمونہ ۶۶۱ ۶۶۲ ۱۱۶.حضرت ام المومنین کے خط کا ایک اور نمونہ ۶۶۳ ۱۱۷.قادیان سے ایک امت مبلغین کی روانگی ۶۶۵ ۱۱۸.مجلس مذہب وسائنس کی مالی اعانت فرمانے والے احباب کا شکریہ حوالہ جات ۶۶۹ ۶۷۰ ۱۱۰ مجلس مذہب و سائنس کی مالی اعانت کے لئے اپیل ۶۴۲

Page 8

١٩١٣ء مضامین بشیر صلح یا جنگ.احمدیوں اور غیر احمدیوں کے باہم تعلقات پر بحث کرنا کوئی آسان بات نہیں.اور ہر ایک کا کام نہیں کہ اس پر قلم اٹھاوے کیونکہ یہ مضمون قومی نظام کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور قومی نظام کی پوری ذمہ داری کو سوائے قوم کے لیڈر کے اور کوئی نہیں سمجھ سکتا.لہذا ایسا مضمون جس پر حضرت اقدس کی کوئی تحریر شاہد نہ ہو ، کبھی بھی قوم کے لئے دستور العمل نہیں ہوسکتا.اس لئے میں نے مناسب سمجھا ہے کہ جو کچھ لکھوں ، اس پر حضرت صاحب کی شہادت ہو ورنہ میں کیا اور میری بساط کیا.ایسا ہی میرا خیال ہے کہ اگر ہر ایک احمدی کوئی مضمون لکھتے ہوئے حضرت صاحب کی کتب کو سامنے رکھ لے تو قوم بہت سی مشکلات سے بچ جاوے.اس قدرتمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.قرآن شریف اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک فطرت پر پیدا کیا ہے.جیسے فرما یا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا له اسلام کا کام اس فطرت کا جگانا ہے اور قرآن اسی غرض سے دنیا میں نازل ہوا مگر وقت یا یوں کہئے کہ زمانہ اپنے اندر ایک عجیب اثر رکھتا ہے.کتنی ہی سخت سے سخت مصیبت کیوں نہ پڑے کیسا ہی بڑے سے بڑا غم کیوں نہ ہوا ایک عرصہ کے بعد اس کی تیزی ضرور کم ہو جائے گی.مجھ کو یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود کی وفات کا وقت احمدی قوم پر بڑے درد کا وقت تھا اور غم کی وجہ سے وہ دیوانی نظر آتی تھی لیکن آج پانچ یا چھ سال کے بعد وہ غم نہیں ، وہ درد نہیں ، وہ تکلیف نہیں ، وقت نے اپنا اثر کیا اور آہستہ آہستہ غم کم ہوتا گیا.اور اب جتنا ہم کو زمانہ اس سانحہ دور ڈالتا چلا جائے گا ، اتنا ہی ہمارے لئے اس کی تکلیف کم ہوتی جائے گی.اسی طرح جو اسلام کی محبت اور دین الہی کی غیرت اور اپنی عقلی کی فکر مسلمانوں کو نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی وہ آج نہیں.وہ فاتح تھے اور یہ مفتوح.وہ بادشاہ تھے اور یہ رعایا.وہ آزاد تھے اور یہ غلام.وہ اسلام کا فخر اور یہ اسلام کی جائے عار.غرض وہ منعم علیہم اور یہ مغضوب ، دنیا کی محبت آگئی اور دین کو کھو بیٹھے.زمین نے اپنے چھپے ہوئے خزانے ان کے دروازوں پر لاڈھیر کئے.آسمان نے ان کے لئے رحمت کے بادل برسائے مگر انہوں نے شکر کرنے کی بجائے اپنی عیش میں خدا کو بھلا دیا.نتیجہ کیا

Page 9

مضامین بشیر ہوا ؟ ذلت.قردة خاسئین ہو گئے دوسرے کے نچائے ناچتے ہیں.پھر اس پر غضب یہ ہوا کہ عیسائی تہذیب نے ملک میں قدم رکھا اور مسلمان جو پہلے ہی اُدھار کھائے بیٹھے تھے اس پر لٹو ہو گئے.پتلون کی آمد پر پاجامہ صاحب رفو چکر ہوئے اور جبہ کی مسند پر فراک کوٹ کو بٹھایا گیا اور کیا چاہیئے تھا من مانی مرادیں مل گئیں.شراب و کباب میں غرق ہوئے.بابو صاحب کا لقب پایا اور مولویت کو خیر باد کہہ دی.اللہ اللہ ! یہ وہ قوم ہے جو اسلام کا دعویٰ رکھتی ہے.خدا تو ظالم نہیں.ہاں انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا.پھر کہتے ہیں کہ ہم پر مصائب کیوں آتے ہیں.کوئی کہے تم انعاموں کے کام کرتے ہو؟ یہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے طریقے ہیں؟ دوسروں پر کفر کے فتوے اور اپنے گھر کا یہ حال! آخر شرم بھی کوئی چیز ہے ، جائے غور ہے یہ آسمان پر تھے اور زمین پر گرے تختوں پر ان کا ٹھکانا تھا اور اب خاک بھی ان کو جگہ دیتی شرماتی ہے.آخر یہ سب کچھ کس بات کا نتیجہ ہے؟ یہ عتاب کیسا ؟ اس ناراضگی کے کیا معنے ؟ خدا بدل گیا یا یہ ہی وہ نہ رہے ؟ کبھی اس آیت پر بھی غور کیا ہے؟ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ کہنے والے نے خوب کہا ہے :- غیروں سے اب لڑائی کے معنے ہی کیا ہوئے خود ہی غیر بن کے محل سزا ہوئے اسلامی جوش مٹ گیا اور دنیا کی محبت دل میں گھر کر گئی.عیش وعشرت کے خمار میں پڑ گئے اور اپنے مولیٰ کو بھلا دیا.جوں جوں زمانہ دور ہوتا گیا اسلامی تعلیم دلوں سے محو ہوتی گئی تو کیا اب کئی صدیوں کا خماران چکنی چپڑی باتوں سے دور ہو جائے گا؟ یہ نیند نہیں بدمستی ہے اب کوئی مضبوط ہاتھ ہی ہوش میں لائے گا.نرم باتوں کو کون سنتا ہے.ہم نے تو دیکھا ہے کہ شرابی اپنے نشہ میں مست عجیب شور مچاتے ہیں اور بیہودہ بکو اس سے ناک میں دم کر دیتے ہیں مگر جب بالوں سے پکڑ کر دو چار رسید کر دی جائیں تو فوراً ہوش آ جاتا ہے.جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ اَحْسَنُ سے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ حق کو چھوڑ دیا جاوے اور دل خوش کن باتیں کر کے راضی کر لیا جاوے.ہاں بات کرنے کا طریق احسن ہو اور اس سے کسی کو انکار نہیں.مثلاً ایک ہندو ہمارے پاس آوے اور ہم سے سوال کرے کہ آپ ہم کو کیا سمجھتے ہیں تو ہم اگر حق کہتے ہوئے نہ ڈریں تو دو طرح سے جواب دے سکتے ہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تو کمبخت کا فربے ایمان جہنم کا ایندھن ہے اور یہ جواب حق ہوگا.یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو تم نے اللہ کے ایک مرسل کا انکار کیا اور کسی رسول کے انکار کو کفر کہتے ہیں.تم میں حقیقی ایمان نہیں اور اللہ تعالیٰ اسی وجہ سے تم پر خوش نہیں اور

Page 10

مضامین بشیر جس پر وہ ناراض ہوتا ہے ان کے لئے اُس نے جہنم کا عذاب رکھا ہے.یہ ہے وہ جواب جو جَادِلُهُمُ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کے ماتحت آئے گا.حق بھی ظاہر ہو گیا اور اس کے بیان میں نرمی بھی آگئی.وہ کلمات جو اپنے اندر صرف نرمی ہی نرمی رکھتے ہیں ، اور حق سے دور ہوتے ہیں.بلا ریب سننے والے کو ضرور خوش کر دیں گے اور وہ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ الَّا الْإِحْسَانُ کے کے ماتحت غالباً ہماری ہاں میں ہاں بھی ملا دے گا لیکن کیا اس سے ہمارا مطلب حل ہو گیا ؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ہم نے تو اس کے اور حق کے درمیان ہمیشہ کے لئے روک قائم کر دی.یقین رکھو کہ ایسا شخص ہمارے قریب نہیں آیا بلکہ ہم سے دور چلا گیا.جب کبھی ہم اس کے خلاف مطلب کوئی بات کہیں گے وہ الگ ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود مخالفت سے بالکل نہ گھبراتے تھے بلکہ جب کبھی سنتے کہ فلانی جگہ مخالفوں کا بڑا زور ہے تو بہت خوش ہوتے کہ اب وہاں احمدیت بھی ترقی کرے گی.تجربہ نے بھی یہ ہی ثابت کیا ہے کہ جہاں کہیں زیادہ مخالفت ہوئی وہیں زیادہ ترقی ہوئی.اور کیوں نہ ہوتی خدا کے مرسلوں کی بات پوری ہو کر رہا کرتی ہے.سو چاہیئے کہ ہم جو مسیح کی غلامی کا دعویٰ رکھتے ہیں ، ان کے نقش قدم پر چلیں اور اگر ہم ان کے منشاء کو پورا نہیں کر رہے تو ہم احمدی کہلانے کے حقدار نہیں جیسے کہ آج کل کے برائے نام مسلمانوں پر مسلمان کا لفظ بولتے ہوئے طبیعت ہچکچاتی ہے.غرضیکہ حق ایک ایسی چیز ہے جو کسی وقت بھی چھوڑنی نہیں چاہیئے.وہ پالیسی جس میں حق کو چھپانا پڑے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.یہ اور بات ہے کہ دنیا کی واہ واہ کو ، کامیابی کو حاصل کر لیا جاوے مگر یا درکھو صرف ہاں میں ہاں ملانے والے کبھی جماعت کے اندر داخل نہیں ہو سکتے اور ہوں بھی کیسے.منافق کو حق سے کیا نسبت ہے اس کو اگلا جہاں یاد ہی نہیں.مثلاً ایک عیسائی ہم سے کہے کہ میں نبی کریم کو مانتا ہوں مگر ان کو مسیح پر فضیلت نہیں تو کیا اس کا جواب یہ چاہیئے کہ ہاں لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِه ۵ قرآن شریف میں بھی آیا ہے؟ کمبخت عیسائی تو خوش ہو گیا مگر ساتھ ہی حق کا بھی خون ہو گیا اس کا جواب تو یہ تھا کہ ہم کیوں نہ نبی کریم " کو مسیح پر فضیلت دیں عَلَيْهِمَا السَّلامُ ؟ غلام کو آقا سے کیا نسبت؟ مریم کے صاحبزادے کا عرب کے سردار سے کیا مقابلہ؟ محمد مصطفى ( فِدَاهُ أَبِى وَاُمّى ) کے کام کو دیکھوا اور پھر شام کے نبی کی کاروائی.سورج اور چاند کی بھی کچھ نسبت ہوتی ہے.مگر یہاں تو زمین آسمان کا فرق ہے.یہ جواب تھا جو نصرانی کو ہوش میں لاتا اور اس کو اپنی عقبی کی فکر پڑتی.حضرت صاحب نے بیشک ہندوؤں کو صلح کا پیغام دیا.غور کرنے والوں کے لئے اس میں بھی ایک نکتہ ہے کہ پیغام کے مخاطب ہندو تھے لیکن یہ بھی تو دیکھنا چاہیئے کہ کن شرائط پر.سب سے بڑی شرط جو پیش کی گئی وہ یہ تھی کہ تم

Page 11

مضامین بشیر لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله پر ایمان لے آؤ.پھر ہم تم بھائی ہیں ورنہ یا د رکھو کہ جنگل کے درندوں اور زہریلے سانپوں سے ہماری صلح ہونی ممکن ہے مگر تم سے ناممکن.اب اگر حضرت مسیح موعود کے وصال کے بعد احمد یہ سرکل میں سے کوئی فرد یا جماعت یہ آواز اٹھائے کہ غیر احمدیوں سے صلح کی جاوے تو اس کے لئے ہم اپنے آقا کے نقش قدم پر چل کر علی بصیرہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سب سے بڑی شرط یہ ہو کہ غیر احمدی اپنے مسیح کو مار کر خدا کے مسیح اور مہدی کو مان لیں اور اسی کے سایہ عاطفت کے نیچے آجاویں.پھر وہ ہمارے بھائی ہوں گے لیکن اگر وہ اس شرط کو قبول نہ کریں جس طرح ہندوؤں نے ہماری آواز پر لبیک نہ کہا تو یاد رکھیں کہ جنگل کے درندوں اور زہریلے سانپوں سے ہماری صلح ممکن ہے مگر ان کے ساتھ ناممکن.پھر ایک اور بات ہے وہ یہ کہ دنیا میں دو ہی قسم کے تعلقات ہوتے ہیں.دینی اور دنیوی.دینی تعلقات میں سب سے بڑا تعلق عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیا میں رشتہ داری سب سے بڑا تعلق سمجھا جاتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے ان دونوں بڑے تعلقات کو جو احمدی اور غیر احمدیوں کے درمیان ہو سکتے تھے ہمیشہ کے لئے قطع کر دیا ہے.دین میں حکم دیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز بالکل نہ پڑھو.مر جائیں تو جنازہ کوئی نہیں.دنیا کے لئے فرمایا کہ غیر احمدی کولڑ کی نہ بینا.اب باہم تعلق کی بات ہی کونسی رہ گئی.یہ ہی باتیں ہیں جن سے نبیوں کے سردار محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو روکا.ورنہ کفار کے ساتھ لین دین کے معاملات اور معمولی تعلقات تو اصحاب بھی رکھتے تھے.یہ ایک بڑا باریک نکتہ ہے جو غور کرنے والے کے لیئے کافی ہے.ع کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے اب ہم اس مضمون کی تائید میں جو ہم نے شروع میں لکھا ہے حضرت صاحب کی تحریر پیش کرتے ہیں.آپ ازالہ اوہام حصہ اول میں فرماتے ہیں :- بڑے دھوکہ کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ دشنام دہی اور بیان واقعہ کو ایک ہی صورت میں سمجھ لیتے ہیں اور ان دونوں مختلف مفہوموں میں فرق کرنا نہیں جانتے.بلکہ ایسی ہر ایک بات کو جو دراصل ایک واقعی امر کا اظہار ہوا اور اپنے محل پر چسپاں ہو محض اس کی کسی قدرمرارت کی وجہ سے جو حق گوئی کے لا زم حال ہوا کرتی دشنام دہی تصور کر لیتے ہیں اگر ہر ایک سخت اور آزاردہ تقریر کو محض بوجہ اس کے کہ مرارت اور تلخی اور ایذارسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کر سکتے ہیں.تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پر ہے کیا.ہے

Page 12

خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ " نہیں فرمایا.کیا مومنوں کی علامات میں أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کے نہیں رکھا گیا ؟ (افسوس ہے یہاں اشداء بينهم اور رحماء على الكفار پر عمل ہو رہا ہے دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان واقعہ کا گو وہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری شے ہے ہر ایک محقق اور حق گو کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سچی بات کو پورے پورے طور پر مخالف گم گشتہ کے کانوں تک پہنچا د یوے.پھر اگر وہ سچ کو سن کر افروختہ ہو تو ہوا کر...اگر نادان مخالف حق کی مرارت اور تلخی کو دیکھ کر دشنام دہی کی صورت میں اس کو سمجھ لیوے اور پھر مشتعل ہو کر گالیاں دینی شروع کر دے تو کیا اس سے امر معروف کا دروازہ بند کر دینا چاہیئے.کیا اس قسم کی گالیاں پہلے کفار نے کبھی نہیں دیں.اسلام نے مداہنہ کو کب جائز رکھا اور ایسا حکم قرآن شریف کے کس مقام میں موجود ہے بلکہ اللہ جلشانہ مداہنہ کی حمایت میں صاف فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے باپوں یا اپنی ماؤں کے ساتھ بھی ان کی کفر کی حالت میں مداہنہ کا برتاؤ کریں وہ بھی ان ہے جیسے ہی بے ایمان ہیں اور کفار مکہ کی طرف سے حکایت کر کے فرماتا وَدُّرُ الوُتُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ هوه تلخ الفاظ جو ا ظہا ر حق کے لئے ضروری ہیں اور اپنے ساتھ اپنا ثبوت رکھتے ہیں وہ ہر ایک مخالف کو صاف صاف سُنا دینا نہ صرف جائز بلکہ واجبات وقت سے ہے تامداہنہ کی بلا میں مبتلا نہ ہو جائیں.سخت الفاظ کے استعمال کرنے میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ خفتہ دل اس سے بیدار ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے جو مداہنہ کو پسند کرتے ہیں ایک تحریک ہو جاتی...سو یہ تحریک جو طبیعتوں میں سخت جوش پیدا کر دیتی ہے اگر چہ ایک نادان کی نظر میں سخت اعتراض کے لائق ہے مگر ایک فہیم آدمی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ ہی تحریک رو بحق کرنے کے لئے پہلا زینہ ہے.جب تک ایک مرض کے مواد مخفی ہیں تب تک اس مرض کا کچھ علاج نہیں ہو سکتا.لیکن مواد کے ظہور اور بروز کے وقت ہر ایک طور کی تدبیر ہوسکتی ہے.انبیاء نے جو سخت الفاظ استعمال کئے حقیقت میں ان کا مطلب تحریک ہی تھا تا خلق اللہ میں ایک جوش پیدا ہو جائے.اور خواب غفلت سے اس ٹھوکر کے ساتھ بیدار ہو جائیں اور دین کی طرف خوض اور فکر کی نگا ہیں دوڑانا شروع کر دیں.اور اس راہ میں حرکت کریں.گو وہ مخالفانہ حرکت مضامین بشیر

Page 13

مضامین بشیر ہی سہی اور اپنے دلوں کا اہل حق کے دلوں کے ساتھ ایک تعلق پیدا کر لیں.گو وہ عدوانہ تعلق ہی کیوں نہ ہو...دراصل تہذیب حقیقی کی راہ وہی راہ ہے جس پر انبیاء علیہم السلام نے قدم مارا ہے جس میں سخت الفاظ کا داروئے تلخ کی طرح گاہ گاہ استعمال کرنا حرام کی طرح نہیں سمجھا گیا بلکہ ایسے درشت الفاظ کا اپنے محل پر بقدر ضرورت و مصلحت استعمال میں لانا ہر ایک مبلغ اور واعظ کا فرض وقت ہے جس کے ادا کرنے میں کسی واعظ کا سستی اور کا ہلی اختیار کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ غیر اللہ کا خوف جو شرک میں داخل ہے اس کے دل پر غالب اور ایمانی حالت اس کی ایسی ضعیف اور کمزور ہے جیسے ایک کیڑے کی جان ضعیف اور کمزور ہوتی ہے.‘2.یہ ہیں الفاظ ہمارے آقا کے، ہمارے ہادی کے ، ہمارے مرشد کے، ہمارے امام کے ، دیکھیں ے امام کے، دیکھیں اس کے غلاموں پر ان کا کیا اثر ہوتا ہے چوں چرا کرتے ہیں یا سر تسلیم خم.میں آخر میں یہ اشارہ کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ضرورت سے زیادہ نرمی استعمال کرنے اور دل خوش کن باتیں کہنے سے اختلاط کا ڈر ہوتا ہے اور اختلاط کے بدنتائج سے تو غالباً اکثر لوگ واقف ہی ہوں گے.سواے قوم! تو خواب غفلت سے جاگ اور اپنے فرض منصبی کو پہچان.اس راہ پر قدم مارجس پر تیرا امام تجھ کو ڈال گیا ہے.تو ایک قطرہ ہے جس کو تو نہیں جانتی کہ کن کن محنتوں ، کن کن مشقتوں اور تکلیفوں کو برداشت کر کے کن کن مصیبتوں کو جھیل کر ، دنوں کو خرچ کر کے، راتوں کو جاگ جاگ کر ، جبینِ نیا ز کو تنہائی میں اپنے مولیٰ کے سامنے خاک پر رگڑ رگڑ کے ایک شخص نے صاف کیا ہے.آہ! کیا اس کی محنت کا یہ ہی اجر ہے کہ اس کے صاف کئے ہوئے قطرے کو پھر گندے سمندر میں پھینک دیا جاوے؟ فتدبر اختلاط کے نتائج پر انشاء اللہ حسب توفیق پھر کبھی لکھوں گا.( مطبوعه الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۱۳ء)

Page 14

١٩١٦ء مضامین بشیر مسئلہ کفر و اسلام اس وقت تک مسئلہ کفر و اسلام پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے.میں نے خود اس مضمون پر ایک مختصر سا رسالہ ” کلمۃ الفصل گذشتہ سال لکھا تھا جو چھپ چکا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک اس مسئلہ پر کچھ اور لکھنے کی گنجائش ہے کیونکہ گا ہے گا ہے مختلف مقامات سے اس مسئلہ کے متعلق یہاں سوالات پہنچتے رہتے ہیں اور گو عام طور پر اب اس کو حل شدہ سمجھا جاتا ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک کسی مسئلہ کو نہایت سہل طریق سے بوضاحت نہ بیان کیا جائے وہ نہیں سمجھ سکتے.اس لئے میرا ارادہ ہے کہ نہایت مختصر اور عام فہم پیرا یہ میں اس پر کچھ لکھا جاوے تا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہمارے گم کردہ راہ احباب کے لئے یہ ہدایت کا سامان ہو.چونکہ باریکیوں میں پڑنے اور تفصیلات میں جانے سے عوام الناس کے لئے مضمون اور بھی مشتبہ ہو جاتا ہے ، اس لئے میں انشاء اللہ تعالیٰ ایسی تمام پیچیدہ باتوں سے پر ہیز رکھوں گا.وما توفیقی الا بالله میں نے اپنے فہم کے مطابق مسئلہ کفر و اسلام کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے.ایک تو یہ کہ غیر احمد یوں کا اسلام کیسا ہے اور کن معنوں میں وہ مسلمان ہیں اور کن میں مسلمان نہیں.دوسرے یہ کہ غیر احمد یوں کو کافر کہنے سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے.غیر احمد یوں کا اسلام مضمون اوّل کے لئے سب سے پہلے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے واسطے لفظ اسلام اپنے اندر صرف ایک مفہوم رکھتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا یا بالفاظ دیگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا لفظ صرف اپنی حقیقت کے لحاظ سے مستعمل تھا.یہی وجہ ہے کہ کوئی قوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مسلم کے نام سے موسوم نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی مذہب نے آنحضرت سے پہلے اسلام کا نام پایا.گوحقیقت کے لحاظ سے پہلے مذاہب بھی اسلام ہی تھے اور گذشتہ انبیاء کے پیرو بھی مسلمان تھے لیکن جیسا کہ تاریخ اس امر

Page 15

مضامین بشیر پرشاہد ہے ، وہ کبھی اس نام سے موسوم نہیں ہوئے.اس کی وجہ یہی تھی کہ گذشتہ تمام مذاہب بوجہ قیود زمانی اور مکانی کے کامل نہ تھے.اس لئے ان پر اسم ذات یا علم کے طور پر اسلام کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا.لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ مذہب لائے جوان قیود سے آزاد ہے اور آپ کی لائی ہوئی شریعت ہر طرح سے کامل شریعت ہے.اس لئے آپ کی بعثت سے یہ تبدیلی واقع ہوئی کہ آپ کا لایا ہوا مذ ہب نہ صرف حسب دستور سابق اپنی حقیقت کے لحاظ سے اسلام ہوا بلکہ علمیت کے طور پر اس کا نام بھی اسلام رکھا گیا.اسی طرح آپ کی طرف منسوب ہونے والے لوگوں کا نام مسلمان ہوا.گویا کہ آپ کی بعثت کی وجہ سے اسلام کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہونے لگا.ایک وہی پرانے حقیقی مفہوم کے لحاظ سے اور دوسرے بطور علم یعنی اسم ذات کے.گویا بجائے ایک کے دو دائرے قائم ہو گئے.ایک حقیقت کا اور دوسرا علمیت کا.اب یہ بالکل ظاہر ہے کہ علمیت کے دائرہ پر زمانہ کا کوئی اثر نہیں.وہ اسی طرح قائم رہے گا ، جیسا کہ ایک دفعہ ہو چکا.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والی قوم ہمیشہ سے ہی مسلمان کہلائے گی.اور جو کوئی بھی کلمہ لا اله الا الله محمد رسول الله پڑھے گا اس دائرہ کے اندر آ جائے گا لیکن حقیقت کا دائرہ جو علمیت کے دائرہ کے اندر ہے اس کا یہ حال نہیں بلکہ حقیقت کے متعلق سنت اللہ یہی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ مدہم ہوتی جاتی ہے.چنانچہ اسی غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام میں مجددین کے سلسلہ کو جاری فرمایا ہے.تا حقیقت پر جو میل آ جاوے وہ اسے دھوتے رہیں اور حقیقت کو روشن کرتے رہیں لیکن اسلام پر ایک وقت ایسا بھی مقدر تھا جب اس کی حقیقت بالکل محو ہو جانی تھی اور ایمان دنیا سے کامل طور پر اٹھ جانا تھا.( جیسا کہ لوکان الايمان معلقا بالثریا اور بعض دیگر احادیث نبوی و آیات قرآنیہ سے ظاہر ہے ) ایسے وقت کے لئے نبی کریم کی دوسری بعثت صفت احمدیت کے ماتحت اپنے ایک نائب کے ذریعہ مقد رتھی.اس نائب کا دوسرا نام مہدی اور صحیح ہے.وہ محمد رسول اللہ کا نائب صیح اور مہدی دنیا میں آیا اور اس نے مطابق سنت مرسلین پھر حقیقت اسلام کا دائرہ قائم کیا.اس لئے اب جو شخص اس کو قبول نہیں کرتا اور اس کی تکذیب کرتا ہے وہ حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج ہے لیکن اگر وہ کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ پڑھتا ہے تو وہ علمیت کے دائرہ سے خارج نہیں اور کوئی شخص حق نہیں رکھتا کہ اسے مطلقاً دائرہ اسلام سے خارج قرار دے یا غیر مسلم کے نام سے پکارے.وہ مسلم ہے اور حق رکھتا ہے کہ اس نام سے پکارا جائے مگر ہاں نائب ختم الرسل کے انکار نے اُسے بیشک حقیقت کے دائرہ سے خارج کر دیا ہے.

Page 16

۹ مضا مین بشیر خوب یاد رکھو کہ اب آسمان کے پردے کے نیچے محمد رسول اللہ کے سوائے کسی شخص کی ایسی شان نہیں ہے کہ اس کا انکار انسان کو ہر قسم کے اسلام سے خارج کر دے.مسیح موعود خواہ اپنی موجودہ شان سے بھی بڑھ کر شان میں نزول فرما دے مگر اس کا انکار اس کے منکرین کو صرف حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج کر سکتا ہے.اس سے زیادہ ہر گز نہیں.میں اپنے ذوق اور تحقیقات کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اتر کر باقی تمام انبیاء سے افضل یقین کرتا ہوں اور اس کے ثبوت کے لئے بفضل تعالیٰ اپنے پاس نہایت قوی دلائل رکھتا ہوں.جن کے بیان کا یہ موقع نہیں مگر پھر بھی میرا یہی ایمان ہے کہ مسیح موعود کا انکار مطلقاً اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں کرسکتا.اور اگر کوئی یہ کہے کہ اصل چیز تو حقیقت ہے علمیت کا دائرہ کوئی چیز نہیں تو میں اس سے متفق نہیں ہوں گا.کیا خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل ہونا محمد رسول اللہ کو خاتم النبین یقین کرنا.قرآن کریم کو خدا کا کلام اور کامل شریعت جاننا اور اسلام جیسے پیارے نام کی طرف منسوب ہونا کچھ بھی نہیں ؟ یقینا ہے اور بہت کچھ ہے.خدا تعالیٰ تو نکتہ نواز ہے.وہ رحم کرنے پر آئے تو اس نام کی طرف نسبت رکھنا ہی بہت کچھ ہے.بھلا بتاؤ تو سہی کہ اگر علمیت کا دائرہ کچھ نہیں تو کس چیز نے غیر احمدیوں کو ہندوؤں ، یہودیوں اور عیسائیوں کی نسبت ہمارے بہت زیادہ قریب کر رکھا ہے.غرض یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ مسیح موعود کا انکار صرف حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج کرتا ہے.مطلقاً اسلام سے خارج نہیں کرتا.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں اپنے منکروں کو اسلام کے دائرہ سے خارج بیان فرمایا ہے وہاں بعض جگہ بڑے بڑے صاف الفاظ میں ان کو مسلمان بھی لکھا ہے.بعض نادان اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود پر اعتراض کر دیتے ہیں کہ کہیں آپ کچھ لکھتے ہیں اور کہیں کچھ.وہ اتنا نہیں سوچتے کہ جب خاتم النبیین کی بعثت نے اسلام کو دو دائروں میں تقسیم کیا ہے تو پھر یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص با وجود ایک دائرہ سے خارج ہو جانے کے دوسرے دائرہ کے اندر داخل رہے.غرض حضرت مسیح کے کلام میں کوئی تناقض نہیں ہاں ہمارے بعض احباب کی عقلوں پر پردہ ہے کہ وہ ایسی موٹی بات نہیں سمجھ سکتے.میں چیلنج کرتا ہوں تمام غیر مبایعین احباب کو کہ وہ مجھے یہ دکھا دیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں حقیقت اسلام کا ذکر فرماتے ہوئے اپنے منکروں کو مسلمان کہا یا لکھا ہو.اسی طرح میرا یہ بھی دعوی ہے کوئی صاحب ایسا حوالہ بھی پیش نہیں کر سکتے کہ جس میں حضرت مسیح موعود نے عام طور پر قومی رنگ میں ذکر فرماتے ہوئے اپنے منکروں کو مسلمان کے سوا کسی اور نام سے یاد کیا ہو.حالانکہ میں بفضل خدا ایک نہیں بیسیوں ایسے حوالے پیش کر سکتا ہوں جن میں حضرت مسیح

Page 17

مضامین بشیر موعود نے غیر احمد یوں کو مسلمان کہا اور لکھا ہے.اور نیز بیسیوں ایسے حوالے جن میں آپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ غیر احمدیوں کے اسلام سے انکار کیا ہے.فتدبرو." میں نے اپنے رسالہ ” کلمتہ الفصل میں کافی ذخیرہ ایسے حوالوں کا جمع کر دیا ہے جس کو موقع ملے وہ اس رسالہ کو دیکھے.یہاں صرف نمونہ کے طور پر دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام عبد الحکیم خان مرتد کو لکھتے ہیں :- خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا.وہ مسلمان نہیں ہے.اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے 66 اس تحریر میں حضرت مسیح موعود نے کس وضاحت کے ساتھ اپنے منکرین کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے.مخالف ہزار سر پیٹے اس تحریر کی صفائی کو مکد رنہیں کر سکتا.پھر آپ نے اپنی ۲۶ دسمبر ۱۹۰۶ ء والی تقریر میں غیر احمدیوں کی نسبت فرمایا کہ :- اللہ تعالیٰ اب ان لوگوں کو مسلمان نہیں جانتا جب تک وہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہ راست پر نہ آجا دیں.اور اس مطلب کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے.“ دیکھئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک غیر احمدی مسلمان نہیں ہیں.جب تک وہ مسیح موعود پر ایمان لا کر اپنے عقائد کو درست نہ کریں.پھر آپ اپنی کتاب اربعین نمبر ۴ صفحه ۱۱ (روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۴۱ حاشیہ ) پر تحریر فرماتے ہیں کہ : - ” جب میں دہلی گیا تھا.اور میاں نذیر حسین غیر مقلد کو دعوت دین اسلام کی گئی تھی.تب ان کی ہر ایک پہلو سے گریز دیکھ کر اور ان کی بدزبانی اور دشنام دہی کو مشاہدہ کر کے آخری فیصلہ یہی ٹھہرایا گیا تھا کہ وہ اپنے اعتقاد کے حق ہونے کی قسم کھا لے.پھر اگر تم کے بعد ایک سال تک میری زندگی میں فوت نہ ہوا تو میں تمام کتابیں اپنی جلا دوں گا اور اس کو نعوذ باللہ حق پر سمجھ لوں گا لیکن وہ بھاگ گیا.“ دیکھئے اس تحریر میں حضرت مسیح موعود نے کسی دھڑلے کے ساتھ مولوی نذیرحسین کے مقابلہ میں صرف اپنے عقائد کو ہی اسلام قرار دیا ہے اور مولوی مذکور کو جو غیر احمد یوں میں دین اسلام کا ایک

Page 18

مضامین بشیر رکن سمجھا جاتا تھا اسلام سے خارج بتایا ہے.ایسے اور بھی بہت سے حوالے ہیں مگر اس مختصر سے مضمون میں ان کی گنجائش نہیں.اس قسم کے حوالوں کے مقابلہ میں دوسری قسم کے بھی بیسیوں حوالے ہیں.جن کو عند الضرورت پیش کیا جا سکتا ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقت کی رو سے ہمیشہ اپنے منکروں کو اسلام سے باہر قدم رکھنے والے سمجھا ہے مگر ہاں اتمی اور رسمی طور پر ان کو مسلمان بھی کہا اور لکھا ہے.اس حقیقت کو حضرت مسیح موعود کا ایک الہام بھی خوب واضح کر رہا ہے.جو یہ ہے.چو دورِ خسروی آغاز کردند دو مسلمان را مسلمان باز کردند ! اس میں جناب باری تعالیٰ نے غیر احمدیوں کو صاف طور پر مسلمان بھی کہا ہے.اور پھر صاف طور پر ان کے اسلام کا انکار بھی کیا ہے.پس اب ہم مجبور ہیں کہ غیر احمد یوں کو عام طور پر ذکر کرتے ہوئے مسلمان کے نام سے یاد کریں.کیونکہ کلام الہی صاف طور پر حضرت مسیح موعود کے منکروں کو مسلمان کے نام سے پکار رہا ہے.اسی طرح اب خواہ کوئی کتنا ہی بڑا انسان غیر احمدیوں کو مسلمان سمجھے.ہم مجبور ہیں کہ اس کی ایک نہ سنیں کیونکہ وہی کلام الہی واضح اور غیر تاویل طلب الفاظ میں ان کے اسلام کا انکار کر رہا ہے.فتدبرو غیر احمد یوں کا کفر اب میں مضمون کی دوسری شق کو لیتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود کے منکروں پر کس قسم کا کفر عاید ہوتا ہے.سواس کے متعلق جہاں تک قرآن شریف کی آیتوں اور حضرت مسیح موعود کی تحریروں اور احادیث نبوی سے پتہ چلتا ہے وہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود کا منکر اسی طرح الہی مؤاخذہ کے نیچے ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے دیگر رسولوں کے منکرین ہیں کیونکہ باری تعالیٰ کی طرف سے جتنے بھی مامورین آتے ہیں ان کا مقصد اعلیٰ یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لوگوں کی طرف سے صرف زبانی اقرار نہ ہو بلکہ ایمان ویقین کے درجہ تک پہنچ کر مخلوق خدا کے رگ وریشہ میں رچ جائے اور انسان کا عرفان ذات حق تعالیٰ کے متعلق اس قدر مستحکم ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کا صفاتی وجود ہر جگہ محسوس و مشہور ہو کیونکہ اس کے بغیر گناہ سے چھٹکارہ نہیں اور گناہ سے پاک ہونے کے بغیر نجات نہیں.یہ غلط ہے کہ سب رسولوں کا نئی شریعت لانا ضروری ہے.بنی اسرائیل میں موسیٰ علیہ السلام کے بعد سینکڑوں ایسے نبی ہوئے جن کو کوئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ وہ تو ریت کے خادم تھے.خود حضرت مسیح موعود نے

Page 19

مضامین بشیر ۱۲ براہین حصہ پنجم صفحہ ۱۳۸ پر لکھا ہے کہ نبی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ صاحب شریعت نبی کا متبع نہ ہو.غرض اس بات کو خوب یا درکھنا چاہیئے کہ ہر ایک رسول کی اصل حیثیت ایک منجی کی ہوتی ہے اور وہ تمام ایک کشتی تیار کرتے ہیں جس کے اندر بیٹھنے والے تمام خطرات سے نجات پا جاتے ہیں.وہ کشتی یہی ایمان کی کشتی ہوتی ہے مگر لبوں تک محدود رہنے والا ایمان نہیں بلکہ وہ ایمان جو مومن کے رگ وریشہ کے اندر سرایت کر جاتا اور اسے یقین کی مستحکم چٹان پر قائم کر دیتا ہے.اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے.یہ حدیث نبوی کہ لوكَانَ الْإِيمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّالَنَالَهُ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسُ - اگر زبانی اقرار کا نام ایمان رکھا جاوے تو پھر اس حدیث کے کوئی معنی ہی نہیں بنتے کیونکہ زبانی اقرار والا ایمان تو تمام مسلمان کہلانے والے لوگوں میں ہمیشہ پایا جاتا رہا ہے.سوماننا پڑتا ہے کہ اس جگہ وہ ایمان مراد ہے جو خدا کی ہستی کو محسوس و مشہود کر وا دیتا ہے اور گناہوں کو آگ کی طرح جلا کر خاک کر دیتا اور انسان کو ایک نئی زندگی بخشتا ہے.سو اس لحاظ سے تو تمام مامورین کا انکار منکرین کے غیر مومن ہونے پر مہر لگانے والا ہوتا ہے مگر پھر بھی کفر کی اقسام ہیں جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں.سو جاننا چاہیئے کہ گفر دو قسم کا ہوتا ہے.ایک ظاہری کفر اور ایک باطنی کفر.ظاہری کفر سے یہ مُراد ہے کہ انسان کھلے طور پر کسی رسول کا انکار کر دے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور نہ مانے.جس طرح یہود نے مسیح ناصری کا کفر کیا یا جس طرح نصاریٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی طرف سے رسول نہ مانا اور باطنی کفر یہ ہے کہ ظاہر طور پر تو انسان کسی نبی یا رسول کی نبوت ورسالت پر ایمان لانے کا اقرار کرے اور اس کی امت میں اپنے آپ کو شمار کرتا ہولیکن در حقیقت ( اللہ تعالیٰ کی نظر میں ) وہ اس نبی کی تعلیم سے بہت دور جا پڑا ہو اور اس کی پیشگوئیوں پر پورا پورا ایمان نہ لائے اور جس شخص پر ایمان لانے کا خدا نے حکم دیا ہو.اس کی تکذیب کرے اور اس نبی کے احکام پر کار بند نہ ہو یا اگر ہو تو صرف قشر پر گرا رہے اور حقیقت سے دور ہو.غرض صرف رسمی طور پر اس کی طرف منسوب کیا جائے.جیسا کہ مسیح ناصری کا زمانہ پانے والے یہود کا حال تھا.گو وہ ظاہر طور پر تورات کے حامل تھے اور موسیٰ کی اُمت میں اپنے آپ کو شمار کرتے تھے لیکن درحقیقت وہ موسیٰ کی طرف صرف رسمی طور پر منسوب تھے.چنانچہ اس حقیقت کو مسیح ناصری کی بعثت نے بالکل مبرہن کر دیا اور یہ بات بالکل ظاہر ہوگئی کہ حقیقت میں یہود موسیٰ کی تعلیم سے بہت دور جا پڑے تھے اور انہوں نے تو رات کو پس پشت ڈال رکھا تھا اور ان کا موسیٰ کی امت میں ہونے کا دعویٰ صرف ایک زبانی دعوی تھا جو آزمانے پر غلط نکلا.حضرت مسیح کی بعثت سے پہلے تمام بنی اسرائیل موسیٰ کی تعلیم پر کار بند ہونے کے مدعی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے مسیح کو نازل فرما کر بچوں اور جھوٹوں میں تمیز پیدا کر دی اور اس بات پر الہی مُہر لگ گئی کہ اکثر بنی اسرائیل اپنے دعوے

Page 20

۱۳ مضامین بشیر میں جھوٹے تھے.پس یہود نے مسیح کے انکار سے اپنے اوپر دو کفر لئے.ایک مسیح کا ظاہری کفر اور دسرے موسیٰ یا یوں کہیے کہ مسیح سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کا باطنی کفر.یہی حال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پانے والے نصاریٰ کا ہے.جنہوں نے آپ کا انکار کر کے اس بات پر بھی مہر لگا دی کہ وہ مسیح ناصری پر ایمان لانے کے دعوے میں جھوٹے تھے اور اس کی تعلیم کو دلوں سے بھلا چکے تھے.پس انہوں نے بھی دو قسم کا کفر کیا.ایک ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہری کفر اور دوسرے مسیح ناصری اور اس سے پہلے کے تمام انبیاء کا باطنی کفر.اب یہ مسئلہ بالکل صاف ہے کہ ایک رسول کے انکار سے باقی تمام رسولوں کا انکار لازم آتا ہے.ہاں ہم یہ نہیں کہتے کہ ایک رسول کا ظاہری کفر باقی رسولوں کا بھی ظاہری کفر ہے کیونکہ جیسا کہ میں بتا آیا ہوں ظاہری کفر زبانی انکار سے تعلق رکھتا ہے.اس لئے بغیر کسی کی طرف سے زبانی انکار کے اس پر ظاہری کفر کا فتو ی عائد کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں.ایک شخص اگر کہتا ہے کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں اور وہ کلمہ گو ہے.تو پھر ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم اس کو ظاہری کفر کے لحاظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کا فر کہیں.ہاں اگر وہ کسی اور مامور من اللہ کا ظاہری کفر اپنے اوپر لیتا ہے تو پھر بے شک جیسا کہ میں ابھی ثابت کر آیا ہوں اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی باطنی کفر کیا کیونکہ ایک رسول کے ظاہری کفر سے باقی رسولوں کا باطنی کفر لازم آتا ہے.ہر ایک رسول کی بعثت بذات خود زبان حال سے پکار رہی ہوتی ہے کہ اس سے پہلے کے انبیاء بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ خود ذات باری تعالیٰ کا باطنی کفر دنیا میں شروع ہو چکا ہے.مسیح ناصری کا دنیا میں آنا اس بات پر گواہ تھا کہ موسیٰ کی قوم نے موسیٰ کا باطنی کفر شروع کر رکھا تھا.پھر آخر مسیح کی بعثت نے ثابت کر دیا کہ امت موسویہ میں واقعی اکثر دھا گے کچے تھے جو ذرا سے جھٹکے میں ٹوٹ گئے.اسی طرح مسیح محمدی کی بعثت دلیل ہے اس بات پر کہ امت محمدیہ میں خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا کفر شروع ہے مگر وہی باطنی کفر کیونکہ ظاہری کفران پر عائد نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اسلام سے ظاہر طور پر ارتداد کی راہ نہ اختیار کریں.پس اب ہماری پوزیشن بالکل صاف ہے.ہم غیر احمدیوں کو حضرت مسیح موعود کا کافر سمجھتے ہیں.آپ کے سوا کسی اور رسول کے وہ ظاہری کا فرنہیں اور نہ ہم ان کو کہتے ہیں مگر ہاں مسیح موعود کا کفر ہم کو اتنا ضرور.بتا رہا ہے کہ آپ کے منکرین میں محمد رسول اللہ صلی اللہ کا بھی باطنی کفر شروع ہے.فریق مخالف نے مسئلہ کفر و اسلام بے ہودہ جھگڑوں سے پیچیدہ کر دیا ہے ورنہ بات بالکل صاف ہے.کون کہتا ہے کہ غیر احمدی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری کا فر ہیں.ہمارا سر پھرا ہے کہ ہم کہیں غیر احمدی محمد رسول اللہ کے ظاہری طور پر کفر کرنے والے ہیں.اس کے تو یہ معنی ہوں گے کہ

Page 21

مضامین بشیر ۱۴ غیر احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے مدعی بھی نہیں اور یہ بالبداہت غلط ہے.خدا را ہماری طرف وہ بات منسوب نہ کرو جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے.ہم تو غیر احمدیوں کو صرف مسیح موعود کا کافر سمجھتے ہیں اور بس.چونکہ اور کسی رسول کا انہوں نے ظاہر أطور پر انکار نہیں کیا.بلکہ ایمان لانے کے مدعی ہیں اس لئے وہ مسیح موعود کے سوا کسی اور رسول کے مطلقا کا فرنہیں کہلا سکتے.ہاں انہوں نے مسیح موعود کے انکار سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی گذشتہ انبیاء کا باطنی کفر اپنے اوپر ضرور لے لیا ہے بلکہ خود خدا تعالیٰ کا کفر سہیڑ لیا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں کہ :- جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا ۱۲ جس کا یہی مطلب ہے.کہ میرا ظاہری کفر خدا اور رسول کا باطنی کفر ہے.فتدبر تعجب ہے کہ ہمارے غیر مبایعین احباب حضرت مسیح موعود کے کفر کو بالکل معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ محمد رسول اللہ سے اتر کر باقی تمام رسولوں کے کفر سے مسیح موعود کا کفر زیادہ سخت اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو زیادہ بھڑ کانے والا ہے.جیسا کہ خود حضرت اقدس فرماتے ہیں :- فی الحقیقت دو شخص بڑے ہی بد بخت ہیں اور انس و جن میں سے اُن سا کوئی بھی بد طالع نہیں.ایک وہ جس نے خاتم الانبیاء کو نہ مانا.دوسرا وہ جو خاتم الخلفاء پر ایمان نہ لایا.۱۳ خلاصہ تمام مضمون کا یہ ہوا کہ ہم مسیح موعود پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے تمام غیر احمدیوں کو حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج سمجھتے ہیں مگر چونکہ وہ قشر پر قائم ہیں.اس لئے علمیت کے دائرہ سے ان کو خارج قرار دینا صحیح نہیں ہے.جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود غیر احمدیوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں :- و جس اسلام پر تم فخر کرتے ہو یہ رسم اسلام ہے نہ حقیقت اسلام.‘۱۴ اسی طرح غیر احمدیوں کو ہم مسیح موعود کے انکار کی وجہ سے کا فر سمجھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسیح موعود کے ظاہر أطور پر کافر ہیں اور محمد رسول اللہ اور باقی رسولوں کے باطنی کا فر، اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے مسیح موعود کی اس تحریر میں کہ : - کفر دو قسم پر ہے.( اول ) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے.اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا.( دوم ) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا.“

Page 22

۱۵ اور پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ : - اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں.۱۵۰ پھر اسی کتاب کے صفحہ ۶۳ پر لکھا ہے کہ : - جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا.“ ان سب حوالوں پر یک جائی طور پر نظر ڈالنے سے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ظاہری کفر کو باطنی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ خود ذات باری تعالیٰ کا کفر قرار دے رہے ہیں.وهو المراد ( مطبوعه الفضل ۶ ، ۵ ستمبر ۱۹۱۶ء) مضامین بشیر

Page 23

17 مضامین بشیر

Page 24

۱۷ ۱۹۱۷ء مضامین بشیر اسمُهُ أَحْمَدُ قرآن شریف میں حضرت مسیح ناصری کی ایک پیشگوئی درج ہے، جو ان کے بعد کسی ایسے رسول کی آمد کی خبر دیتی ہے جس کا اسم احمد ہو گا.اصل الفاظ پیشگوئی کے جو قرآن کریم میں درج ہیں یہ ہیں :- وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِبَنِي إِسْرَاءِ يُلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ مُّصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَّأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ ! یعنی فرما یا عیسی بن مریم نے کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کی طرف سے ایک رسول ہوں.مصدق ہوں اس کا جو میرے سامنے ہے.یعنی تو رات اور 66 بشارت دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا.اور جس کا اسم احمد ہو گا.“ پیشتر اس کے کہ اور قرائن کے ساتھ اس موعود رسول کی تعیین کی جاوے ہم پہلے الفاظ اسمہ احمد کو ہی لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ الفاظ کس حد تک ہم کو تعین کے کام میں مدد دیتے ہیں.پہلا لفظ اسم ہے یہ مشتق ہے.وسم سے جس کے معنی نشان لگانے کے ہیں تو گویا اس لحاظ سے اسم کے معنی ہوئے نشان اور چونکہ نشان کی غرض تخصیص و تعیین ہوتی ہے تو اس لئے اسم کے پورے معنی ہوئے وہ نشان وغیرہ جس سے کسی شے کی تعیین و تخصیص ہو جائے.اب اسم کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں.ایک یہ کہ اسم سے مراد اسم ذات لیا جائے.یعنی وہ نام جس سے کوئی شخص عام طور پر معروف ہو.خواہ حقیقت کے لحاظ سے اس نام کا مفہوم نام بردہ میں پایا جاوے یا نہ پایا جاوے.مثلاً بیسیوں ایسے دہریہ مل جائیں گے جن کا نام عبداللہ یا عبدالرحمن وغیرہ ہوگا.حالانکہ اگر حقیقت کے لحاظ سے دیکھیں تو وہ عبداللہ اور عبدالرحمن کے ناموں سے کوسوں دور ہوں گے.ایسے اسم کو جس میں حقیقت کا ہونا نہ ہونا ضروری نہ ہو.اسم ذات کہتے ہیں.دوسری اسم کی یہ صورت ہے کہ مثلا کسی شخص کا کوئی نام بطور اسم ذات کے تو نہ ہومگر اس نام کا مفہوم نمایاں طور پر اس شخص میں پایا جاوے.مثلاً محمد رسول اللہ کا اسم ذات کے

Page 25

مضامین بشیر ۱۸ طور پر تو عبداللہ نام نہ تھا مگر عبداللہ کے مفہوم کے لحاظ سے محمد رسول اللہ سے بڑھ کر کوئی عبد اللہ نہیں گزرا.ایسے نام کو اسم صفت کہتے ہیں.قرآن شریف میں بھی اسم کے معنے صفت کے آئے ہیں.ملا حظہ ہو لَهُ إِلَّا سُمَاءُ الْحُسْنَى كل یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پاک ہیں غرض لفظ اسم دونوں معنوں میں آتا ہے.اسم ذات اور اسم صفت.کیونکہ یہ دونوں ایک حد تک تعیین اور تخصیص کرنے والے ہوتے ہیں.دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں اسمہ احمد والی پیشگوئی کس شخص پر چسپاں ہوتی ہے.عیسی علیہ السلام کے بعد دو شخص رسالت کے مدعی ہوئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام.یا تو یہ پیشگوئی ابھی تک پوری ہی نہیں ہوئی.اور اگر ہوئی ہے تو پھر ان دونوں میں سے کسی پر ضرور چسپاں ہوگی.پہلے ہم لفظ اسم کے مفہوم اول یعنی اسم ذات کے لحاظ سے پیشگوئی کی تعیین کرنے ہیں.آنحضرت کا اسم ذات محمد تھا.یہی نام آپ کا آپ کے بزرگوں نے رکھا اور اسی نام سے آپ مشہور تھے.دوسری طرف مسیح موعود کا نام تھا غلام احمد یہی نام ان کا ان کے والدین نے رکھا.اور اسی نام سے وہ مشہور تھے.یہ سرسری نظر جو ہم نے ان دو مدعیان رسالت پر ڈالی تو ہم کو معلوم ہوا کہ یہ پیشگوئی کم از کم اس ذات کے لحاظ سے ان ہر دو میں سے کسی پر بھی چسپاں نہیں ہوتی تو پھر یہ ماننا پڑا کہ یا تو یہ پیشگوئی ابھی تک پوری نہیں ہوئی یا ہماری ظاہری نظر نے دھوکا کھایا.پہلی صورت چونکہ مسلمہ طور پر غلط ہے.اس لئے دوسری صورت کو صحیح سمجھ کر پھر نظر ڈالتے ہیں تا کہ اگر سرسری نظر نے لفظ احمد کو ان دو بزرگوں پر اسم ذات کے طور پر نہیں چسپاں کیا تو شاید پیشگوئیوں میں جو اخفاء کا پردہ ہوتا ہے.اس کو خیال رکھتے ہوئے ہم ذرا گہری نظر سے لفظ احمد کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا مسیح موعود میں سے کسی کے ساتھ اسم ذات کے طور پر دیکھ سکیں.تاریخ اور احادیث صحیحہ ( وضعیات الگ رکھ کر ) شاہد ہیں کہ محمد رسول اللہ کا رسالت سے پہلے کبھی بھی احمد کے نام سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکتا.دعویٰ سے پہلے کی شرط اس واسطے ہے کہ دعوی کے بعد والا نام اول تو اسم ذات نہیں کہلا سکتا.دوسرے خصم پر حجت نہیں ہے.اگر دعوی سے بعد کا اپنے مونھ سے آپ بولا ہوا نام بھی اسم ذات ہوسکتا ہے تو پھر تو امان اٹھ جاوے.مثلاً پیشگوئی ہو کہ عبدالرحمن نام ایک شخص مامور ہوکر آئے گا تو ایک شخص مسمی جمال دین اُٹھے اور کہے کہ میرا نام ہی عبدالرحمن ہے.تو وہ صحیح نہ سمجھا جائے گا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں تو یہ جھگڑا بھی نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اسم ذات کے طور پر دعوئی کے بعد بھی کبھی اپنا نام احمد نہیں بتایا.اگر کوئی دعویٰ کرے تو بار ثبوت اس کے ذمہ ہے.

Page 26

19 مضا مین بشیر غرض محمد رسول اللہ کے معاملہ میں تو ہماری گہری نظر بھی ماندہ ہو کر واپس لوٹی کیونکہ بالحاظ اسم ذات کے گجا محمد اور کجا احمد.اب رہے مسیح موعود ان کے متعلق بھی جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہماری سرسری نظر تعیین کرنے سے قاصر رہی.اب ذرا گہری نظر ڈالیں مسیح موعود کا نام جو عام مشہور تھا اور جو والدین نے رکھا غلام احمد تھا.یہ مرکب ہے لفظ غلام اور احمد سے.اب ہم نے دیکھنا ہے کہ ان ہر دو میں سے نام کا اصل اور ضروری حصہ کونسا ہے.یادر ہے کہ نام ہوتا ہے.تعیین اور تخصیص کے لئے اس اصل کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم مسیح موعود کے خاندان کے ممبروں کے ناموں پر نظر ڈالیں اور تھوڑی دیر کے لئے تعصب کو الگ رکھیں تو امید ہے کچھ نہ کچھ ہم کو ضرور نظر آ جائے گا.حضرت مسیح موعود کے والد کے چار بھائی تھے.تو گویا کل پانچ ہوئے.ان میں سے تین یہ ہیں مرزا غلام حیدر، مرزا غلام مرتضی ، مرزا غلام محی الدین باقی دو بچپن میں فوت ہوئے.اس لئے ان کے نام کی ابھی تک تحقیقات نہیں کر سکا.مگر اتنا پتہ یقینی چل گیا ہے کہ ان کے ناموں میں غلام کا لفظ ضرور تھا.تو اب غلام کا لفظ تو ان سب میں ا مشترک تھا.اس لئے یہ الفاظ ان کے ناموں کا اصل حصہ نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس نے تخصیص پیدا نہیں کی بلکہ تخصیص پیدا کرنے والے حیدر اور مرتضیٰ اور محی الدین الفاظ تھے.پس اگر ان کو ہی اصل نام کہہ دیا جاوے تو حرج نہیں.اب آگے چلئے.حضرت مسیح موعود دو بھائی تھے.آپ کا نام غلام احمد تھا اور آپ کے بڑے بھائی کا نام غلام قادر تھا.غور فرمائیں غلام کا لفظ پھر مشترک ہوا.اسم کا کام ہے ایک حد تک تخصیص کرنا وہ تخصیص کسی لفظ نے قائم کی ؟ ہمارا ضمیر بولتا ہے کہ ایک طرف احمد نے اور دوسری طرف قادر نے.پس حرج نہیں کہ انہی کو اصل نام سمجھا جاوے.مسیح موعود کے چا مرزا غلام محی الدین کی نسل میں بھی یہی سلسلہ چلا.ان کے تین بیٹے ہوئے.جن کے نام تھے مرزا کمال الدین ، مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین.ان میں دین کا لفظ مشترک ہے اور امام اور نظام اور کمال نے تخصیص کی.پس وہی اصل نام ٹھہرے پھر آگے چلئے.مرزا غلام قادر جو مسیح موعود کے بڑے بھائی تھے.ان کے ہاں ایک بیٹا ہوا جس کا نام رکھا گیا عبدالقادر ، گویا اس نے اپنے باپ کے خصوصیت والے اصل نام کو ورثہ میں لیا.پھر یہی نہیں خود مسیح موعود کی اولادکو لیجئے.دعوئی کے بعد کی مثال تو آپ مانیں گے نہیں.دعوئی سے بہت سال پہلے جب آپ ابھی جوان ہی تھے اور بالکل گوشہ تنہائی میں اپنے دن کا نتے تھے اور بیرونی دنیا میں کوئی آپ کو نہ جانتا تھا.آپ کے ہاں دولڑ کے پیدا ہوئے.جن کے نام رکھے گئے مرزا سلطان احمد اور مرز افضل احمد.دیکھئے باپ کے اصل نام کو ورثہ میں لے لیا وہ نام جس نے باپ کو چچا سے خصوصیت دی تھی پھر اور سنئے حضرت مسیح موعود کے والد نے دو گاؤں آباد کئے اور ان دونوں کو اپنے دو بیٹوں کے نام پر موسوم کیا.ایک کا نام رکھا قادرآباد

Page 27

مضامین بشیر اور دوسرے کا احمد آباد.ان سب باتوں سے نتیجہ نکلا کہ حضرت مسیح موعود کا گو پورا نام غلام احمد تھا لیکن نام کا اصل اور ضروری حصہ یعنی وہ حصہ جس نے آپ کی ذات کی خصوصیت پیدا کی ، احمد تھا.اس لئے کوئی حرج نہیں اگر یہ کہا جاوے کہ آپ کا اصل اسم ذات احمد ہی تھا مگر یا در ہے کہ یہ ہم نے شروع میں ہی مان لیا تھا کہ پہلی نظر ہم کو محمد رسول اللہ اور مسیح موعود دونوں کی طرف سے مایوس کرتی ہے لیکن ہاں اگر ان ہر دو رسولوں میں سے کسی ایک پر پیشگوئی کو ضرور اسم ذات کے طور پر ہی چسپاں کرنا ہے تو عقل سلیم کا یہی فتویٰ ہے کہ احمد جس کی پیشگوئی کی گئی تھی وہ مسیح موعود ہی تھے.خاص کر جب ہم یہ بھی خیال رکھیں کہ سنت اللہ کے موافق پیشگوئیوں میں ضرور ایک حد تک اختفاء کا پردہ بھی ہوتا ہے اور وہ پردہ اس معاملہ میں غلام کے لفظ میں ہے.جو گو مسیح موعود کے نام کا اصل حصہ نہیں بلکہ ایک صرف زائد چیز ہے.جیسا اوپر بیان ہو امگر پھر بھی آخر نام کے ساتھ ہی ہے.( مطبوعه الفضل ۱۵ تا ۱۹ مئی ۱۹۱۷ء)

Page 28

۲۱ حوالہ جات ۱۹۱۳ء،١٩١٦ء، ۱۹۱۷ء ا.الروم : ۳۱ ٢- الرعد : ۱۲ ۳.النحل : ۱۲۶ الرحمن : ۶۱ ۵ - البقره : ۲۸۶ ۶ - التحريم : ۱۰ ۷.الفتح : ۳۰ القلم : ۱۰ ۹.ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ - صفحہ ۱۰۹ تا ۱۲۰ ۱۰ صحیح البخاری کتاب التفسير سورة الجمعه ۱۱.تذکره صفحه ۵۱۴-۶۲ ۵ طبع ۲۰۰۴ء ۱۲.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۸ ۱۳.الحمد کی.روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۲۵۰ ۱۴.نزول امسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۷۲ ۱۵.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۸۵ ۱۶.الصف:۷ ۱۷ - الحشر : ۲۵ مضامین بشیر

Page 29

۲۲ مضامین بشیر

Page 30

۲۳ ١٩٢٦ء مضامین بشیر سیرت المہدی اور غیر مبایعین ناظرین کو معلوم ہے کہ کچھ عرصہ ہوا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حالات میں ایک کتاب سیرت المہدی حصہ اوّل شائع کی تھی.اس کتاب کی تصنیف کے وقت میرے دل میں جو نیت تھی اسے صرف میں ہی جانتا ہوں یا مجھ سے بڑھ کر میرا خدا جانتا ہے جس سے کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں اور مجھے اس وقت یہ وہم و گمان تک نہ تھا کہ کوئی احمدی کہلانے والا شخص اس کتاب کو اس حاسدانہ اور معاندانہ نظر سے دیکھے گا.جس سے کہ اہل پیغام نے اسے دیکھا ہے مگر اس سلسلہ مضامین نے جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی طرف سے گذشتہ ایام میں پیغام صلح لاہور میں شائع ہوتا رہا ہے.میری اُمیدوں کو ایک سخت ناگوار صدمہ پہنچایا ہے.جرح و تقید کا ہر شخص کوحق پہنچتا ہے اور کوئی حق پسند اور منصف مزاج آدمی دوسرے کی ہمدردانہ اور معقول تنقید کو نا پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا بلکہ دراصل یہ ایک خوشی کا مقام ہوتا ہے کیونکہ اس قسم کی بحثیں جو نیک نیتی کے ساتھ معقول طور پر کی جائیں طرفین کے علاوہ عام لوگوں کی بھی علمی تنویر کا موجب ہوتی ہیں کیونکہ اس طرح بہت سے مفید معلومات دنیا کے سامنے آ جاتے ہیں اور چونکہ طرفین کی نیتیں صاف ہوتی ہیں اور سوائے منصفانہ علمی تنقید کے اور کوئی غرض نہیں ہوتی اس لئے ایسے مضامین سے وہ بد نتائج بھی پیدا نہیں ہوتے جو بصورت دیگر پیدا ہونے یقینی ہوتے ہیں مگر مجھے بڑے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا مضمون اس شریفانہ مقام تنقید سے بہت گرا ہوا ہے.میں اب بھی ڈاکٹر صاحب کی نیت پر حملہ نہیں کرنا چاہتا لیکن اس افسوس ناک حقیقت کو بھی چھپایا نہیں جاسکتا کہ ڈاکٹر صاحب کے طویل مضمون میں شروع سے لے کر آخر تک بغض و عداوت کے شرارے اُڑتے نظر آتے ہیں اور ان کے مضمون کا لب ولہجہ نہ صرف سخت دل آزار ہے بلکہ ثقاہت اور متانت سے بھی گرا ہوا ہے.جا بجا تمسخر آمیز طریق پر ہنسی اُڑائی گئی ہے اور عامی لوگوں کی طرح شوخ اور چست اشعار کے استعمال سے مضمون کے تقدس کو بری طرح صدمہ پہنچایا گیا ہے.مجھے اس سے قبل ڈاکٹر صاحب کی کسی تحریر کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا اور حق یہ ہے کہ باوجود عقیدہ کے اختلاف کے میں آج تک ڈاکٹر صاحب

Page 31

مضامین بشیر ۲۴ کے متعلق اچھی رائے رکھتا تھا مگر اب مجھے بڑے افسوس کے ساتھ اس رائے میں ترمیم کرنی پڑی ہے.مجھے یاد نہیں کہ میری ذات کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو آج تک کبھی کوئی وجہ شکایت کی پیدا ہوئی ہو.پس میں ڈاکٹر صاحب کے اس رویہ کو اصول انتقام کے ماتحت لا کر بھی قابل معافی نہیں سمجھ سکتا.میں انسان ہوں اور انسانوں میں سے بھی ایک کمزور انسان اور مجھے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ میری رائے یا تحقیق غلطی سے پاک ہوتی ہے.اور نہ ایسا دعویٰ کسی عقل مند کے منہ سے نکل سکتا ہے.میں نے اس بات کی ضرورت سمجھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جلد ضبط تحریر میں آجانے چاہئیں، محض نیک نیتی کے طور پر سیرت المہدی کی تصنیف کا سلسلہ شروع کیا تھا.اگر اس میں میں نے کوئی غلطی کی ہے یا کوئی دھوکا کھایا ہے تو ہر شخص کا حق ہے کہ وہ مجھے میری غلطی پر متنبہ کرے تا کہ اگر یہ اصلاح درست ہو تو نہ صرف میں خود آئیندہ اس غلطی کے ارتکاب سے محفوظ ہو جاؤں بلکہ دوسرے لوگ بھی ایک غلط بات پر قائم ہو جانے سے بچ جائیں لیکن یہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ بلا وجہ کسی کی نیت پر حملہ کرے اور ایک نہایت درجہ دل آزار اور تمسخر آمیز طریق کو اختیار کر کے بجائے اصلاح کرنے کے بغض و عداوت کا ختم ہوئے.اس قسم کے طریق سے سوائے اس کے کہ دلوں میں کدورت پیدا ہوا اور کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے زور قلم کا بہت غیر مناسب استعمال کیا ہے جسے کسی مذہب وملت کا شرافت پسند انسان بھی نظر استحسان سے نہیں دیکھ سکتا.میں ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے مختلف عبارتیں نقل کر کے ان کے اس افسوسناک رویہ کو ثابت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن بعد میں مجھے خیال آیا کہ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا.اب ان عبارتوں کو نقل کر کے مزید بدمزگی پیدا کرنے سے کیا حاصل ہے.پس میری صرف خدا سے ہی دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ میرے ان الفاظ کو نیک نیتی پر محمول سمجھ کر اپنے طرز تحریر میں آئندہ کے لئے اصلاح کی طرف مائل ہوں اور ساتھ ہی میری خدا سے یہ بھی دعا ہے کہ وہ میرے نفس کی کمزوریوں کو بھی عام اس سے کہ وہ میرے علم میں ہوں یا مجھ سے مخفی ، دور فرما کر مجھے اپنی رضا مندی کے رستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین اللهم آمین اصل مضمون کے شروع کرنے سے قبل مجھے ایک اور بات بھی کہنی ہے اور وہ یہ کہ علاوہ دل آزار طریق اختیار کرنے کے ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں غیر جانبدارانہ انصاف سے بھی کام نہیں لیا.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ تنقید کرنے والے کا یہ فرض ہے کہ وہ جس کتاب پر ریویو کر نے لگا ہے، اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالے یعنی اچھی اور بری دونوں باتوں کو اپنی تنقید میں شامل کر کے کتاب کے حسن و فتح کا ایک اجمالی ریویولوگوں کے سامنے پیش کرے تا کہ دوسرے لوگ اس کتاب کے ہر

Page 32

۲۵ مضامین بشیر پہلو سے آگاہی حاصل کر سکیں.یہ اصول دنیا بھر میں مسلم ہے اور اسلام نے تو خصوصیت کے ساتھ اس پر زور دیا ہے.چنانچہ یہود و نصاری کے باہمی تنازع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَقـــــالــــتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْ ءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْ ءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ل.یعنی یہود و نصاری ایک دوسرے کے خلاف عداوت میں اس قدر ترقی کر گئے ہیں کہ ایک دوسرے کے محاسن اِن کو نظر ہی نہیں آتے اور یہود یہی کہتے چلے جاتے ہیں کہ نصاری میں کوئی خوبی نہیں ہے اور نصاریٰ یہ کہتے ہیں کہ یہود تمام خوبیوں سے مبرا ہیں حالانکہ دونوں کو کم از کم اتنا تو سوچنا چاہیئے کہ تو رات اور نبیوں پر ایمان لانے میں وہ دونوں ایک دوسرے کے شریک حال ہیں.پھر فرماتا ہے.لَا يَجُرِ مَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُواقف هُوَاَقْرَبُ لِلتَّقوای ۲.یعنی کسی قوم کی عداوت کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہیئے کہ انسان انصاف کو ہاتھ سے دیدے کیونکہ بے انصافی تقوی سے بعید ہے.اور پھر عملاً بھی قرآن شریف نے اسی اصول کو اختیار کیا ہے.چنانچہ شراب اور جوئے کے متعلق اجمالی ریویو کرتے ہوئے فرماتا ہے.فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ہے.یعنی شراب اور جوئے میں لوگوں کے لئے بہت ضر ر اور نقصان ہے مگر ان کے اندر بعض فوائد بھی ہیں لیکن ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں.کیسی منصفانہ تعلیم ہے جو اسلام ہمارے سامنے پیش کرتا ہے مگر افسوس ! کہ ڈاکٹر صاحب نے اس زریں اصول کو نظر انداز کر کے اپنا فرض محض یہی قرار دیا کہ صرف ان باتوں کو لوگوں کے سامنے لایا جائے جو ان کی نظر میں قابل اعتراض تھیں.میں ڈاکٹر صاحب سے امانت و دیانت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا میری کتاب میں ان کو کوئی بھی ایسی خوبی نظر نہیں آئی جسے وہ اپنے اس طویل مضمون میں بیان کرنے کے قابل سمجھتے ؟ کیا میری تصنیف بلا استثناء محض فضول اور غلط اور قابل اعتراض باتوں کا مجموعہ ہے؟ کیا سیرۃ المہدی میں کوئی ایسے نئے اور مفید معلومات نہیں ہیں.جنھیں اس پر تنقید کرتے ہوئے قابل ذکر سمجھا جاسکتا ہے؟ اگر ڈاکٹر صاحب کی دیانتداری کے ساتھ یہی رائے ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل میں کوئی بھی ایسی خوبی نہیں جو بوقت ریویو قابل ذکر خیال کی جائے تو میں خاموش ہو جاؤں گا لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو میں یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی تنقید انصاف اور دیانتداری پر مبنی نہیں ہے.اسلام کے اشد ترین دشمن جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) کی مخالفت میں عموماً کسی چیز کی بھی پرواہ نہیں کرتے.آپ کی ذات والا صفات پر ریویو کرتے ہوئے اس بات کی احتیاط کر لیتے ہیں کہ کم از کم دکھاوے کے لئے ہی آپ کی بعض خوبیاں بھی ذکر کر دی جائیں.تا کہ عامۃ الناس کو یہ خیال پیدا نہ ہو کہ یہ ریویو محض عداوت پر مبنی ہے اور لوگ ان کی تنقید کو ایک

Page 33

مضامین بشیر ۲۶ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تنقید خیال کر کے دھو کہ میں آجائیں لیکن نہ معلوم میں نے ڈاکٹر صاحب کا کونسا ایسا سنگین جرم کیا ہے جس کی وجہ سے وہ میرے خلاف ایسے غضبناک ہو گئے ہیں کہ اور نہیں تو کم از کم اپنے مضمون کو مقبول بنانے کے لئے ہی ان کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ جہاں اتنے عیوب بیان کئے ہیں وہاں دو ایک معمولی سی خوبیاں بھی بیان کر دی جائیں.مضمون تو اس عنوان سے شروع ہوتا ہے کہ سیرت المہدی پر ایک نظر مگر شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جاؤ.سوائے عیب گیری اور نقائص اور عیوب ظاہر کرنے کے اور کچھ نظر نہیں آتا.گویا یہ نظر“ عدل وانصاف کی نظر نہیں جسے حسن و فتح سب کچھ نظر آنا چاہیئے بلکہ عداوت اور دشمنی کی نظر ہے جو سوائے عیب اور نقص کے اور کچھ نہیں دیکھ سکتی.مکرم ڈاکٹر صاحب! کچھ وسعت حوصلہ پیدا کیجئے.اور اپنے دل ودماغ کو اس بات کا عادی بنائیے کہ وہ اس شخص کے محاسن کا بھی اعتراف کر سکیں.جسے آپ اپنا دشمن تصور فرماتے ہوں.میں نے یہ الفاظ نیک نیتی سے عرض کئے ہیں اور خدا شاہد ہے کہ میں تو آپ کا دشمن بھی نہیں ہوں ورنہ آپ کے بعض معتقدات سے مجھے شدید اختلاف ہے.اس کے بعد میں اصل مضمون کی طرف متوجہ ہوتا ہوں.ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں چند اصولی باتیں لکھی ہیں جو ان کی اس رائے کا خلاصہ ہیں جو انہوں نے بحیثیت مجموعی سیرۃ المہدی حصہ اوّل کے متعلق قائم کی ہے.سب سے پہلی بات جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ کتاب کا نام سیرۃ المہدی رکھنا غلطی ہے کیونکہ وہ سیرت المہدی کہلانے کی حقدار ہی نہیں.زیادہ تر یہ ایک مجموعہ روایات ہے جن میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسی روایات کی بھی کمی نہیں جن کا سیرۃ سے کوئی تعلق نہیں.اس اعتراض کے جواب میں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک تنقید کرنے والے کے فرض کو پورا نہیں کیا.ناقد کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ جس کتاب یا مضمون کے متعلق تنقید کرنے لگے پہلے اس کتاب یا مضمون کا کماحقہ مطالعہ کر لے تا کہ جو جرح وہ کرنا چاہتا ہے.اگر اس کا جواب خود اسی کتاب یا مضمون کے کسی حصہ میں آگیا ہو تو پھر وہ اس بے فائدہ تنقید کی زحمت سے بچ جاوے اور پڑھنے والوں کا بھی وقت ضائع نہ ہومگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے تنقید کے شوق میں اپنے اس فرض کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے.اگر وہ ذرا تکلیف اٹھا کر اس ”عرض حال کو پڑھ لیتے جو سیرۃ المہدی کے شروع میں درج ہے تو ان کو معلوم ہو جا تا کہ ان کا اعتراض پہلے سے ہی میرے مدنظر ہے اور میں اصولی طور پر اس اعتراض کا جواب دے چکا ہوں.چنانچہ سیرۃ المہدی کے عرض حال میں میرے یہ الفاظ درج ہیں..مطبوعہ الفضل سے مئی ۱۹۲۶ء

Page 34

۲۷ دد بعض باتیں اس مجموعہ میں ایسی نظر آئیں گی جن کو بظاہر حضرت مسیح موعود کی سیرت یا سوانح سے کوئی تعلق نہیں لیکن جس وقت استنباط واستدلال کا وقت آئے گا (خواہ میرے لئے یا کسی اور کے لئے ) اس وقت غالباً وہ اپنی ضرورت خود منوالیں گی.“ مضامین بشیر میرے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ میں نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس کتاب میں بعض ایسی روایتیں درج ہیں جن کا بادی النظر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت سے تعلق نہیں ہے لیکن استدلال و استنباط کے وقت ان کا تعلق ظاہر کیا جا سکتا ہے.پس میری طرف سے اس خیال کے ظاہر ہو جانے کے باوجود ڈاکٹر صاحب کا اس اعتراض کو پیش کرنا ما سوائے اس کے اور کیا معنی رکھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو صرف بہت سے اعتراض جمع کر دینے کا شوق ہے.میں جب خود مانتا ہوں کہ سیرۃ المہدی میں بعض بظاہر لاتعلق روایات درج ہیں اور اپنی طرف سے اس خیال کو ضبط تحریر میں بھی لے آیا ہوں تو پھر اس کو ایک نیا اعتراض بنا کر اپنی طرف سے پیش کرنا انصاف سے بعید ہے اور پھر زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ان الفاظ کا اپنے ریویو میں ذکر تک نہیں کیا.ورنہ انصاف کا یہ تقاضا تھا کہ جب انہوں نے یہ اعتراض کیا تھا تو ساتھ ہی میرے وہ الفاظ بھی درج کر دیتے جن میں میں نے خود اس اعتراض کو پیدا کر کے اس کا اجمالی جواب دیا ہے اور پھر جو کچھ جی میں آتا فرماتے مگر ڈاکٹر صاحب نے میرے الفاظ کا ذکر تک نہیں کیا اور صرف اپنی طرف سے یہ اعتراض پیش کر دیا ہے تا کہ یہ ظاہر ہو کہ یہ تنقید صرف ان کی حدت نظر اور دماغ سوزی کا نتیجہ ہے.اور اعتراضات کے نمبر کا اضافہ مزید براں رہے.افسوس! اور پھر یہ شرافت سے بھی بعید ہے کہ جب میں نے یہ صاف لکھ دیا تھا کہ استدلال و استنباط کے وقت ان روایات کا تعلق ظاہر کیا جائے گا تو ایسی جلد بازی سے کام لے کر شور پیدا کر دیا جاوے.اگر بہت ہی بے صبری تھی تو حق یہ تھا کہ پہلے مجھے تحریر فرماتے کہ تمہاری فلاں فلاں روایت سیرۃ سے بالکل بے تعلق ہے اور کسی طرح بھی اس سے حضرت مسیح موعود کی سیرت پر روشنی نہیں پڑتی اور پھر اگر میں کوئی تعلق ظاہر نہ کر سکتا تو بے شک میرے خلاف یہ فتویٰ شائع فرما دیتے کہ اس کی کتاب سیرۃ کہلانے کی حقدار نہیں کیونکہ اس میں ایسی روایات آگئی ہیں جن کا کسی صورت میں بھی سیرت کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے.دوسرا جواب اس اعتراض کا میں یہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر بالفرض سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایات آگئی ہیں جن کا واقعی سیرت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر بھی کتاب کا نام سیرۃ رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب کم از کم اس بات کو ضرور تسلیم کریں گے کہ سیرۃ المہدی میں زیادہ تر

Page 35

مضامین بشیر ۲۸ روایات وہی ہیں جن کا سیرت کے ساتھ تعلق ہے.پس اگر ان کثیر التعدا د روایات کی بناء پر کتاب کا نام سیرۃ رکھ دیا جاوے تو قابل اعتراض نہیں ہونا چاہیئے اور کم از کم یہ کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے ڈاکٹر صاحب جائے اعتراض گردان کر اسے اپنی تنقید میں جگہ دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود باجود ہر مخلص احمدی کے لئے ایسا ہے کہ خواہ نخواہ طبیعت میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ آپ کے متعلق جو کچھ بھی ہمارے علم میں آ جاوے وہی کم ہے اور جذ بہ محبت کسی بات کو بھی جو آپ کے ساتھ تعلق رکھتی ہو ، لا تعلق کہہ کر نظر انداز نہیں کرنے دیتا.پس اگر میرا شوق مجھے کہیں کہیں لاتعلق باتوں میں لے گیا ہے تو اس خیال سے کہ یہ باتیں بہر حال ہیں تو ہمارے آقا ، ہماری جان کی راحت ، اور ہماری آنکھوں کے سرور حضرت مسیح موعود ہی کے متعلق.میرا یہ علمی جرم اہل ذوق اور اہل اخلاص کے نزد یک قابل معافی ہونا چاہیئے.مکرم ڈاکٹر صاحب اگر آپ محبت کے میدان میں بھی خشک فلسفہ اور تدوین علم کی باریکیوں کو راہ دینا چاہتے ہیں تو آپ کا اختیار ہے مگر تاریخ عالم اور صحیفہ فطرت کے مطالعہ سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ جذبہ محبت ایک حد تک ان سخت قیود سے آزاد سمجھا جانا چاہیئے.آپ اشعار کا ذوق رکھتے ہیں.یہ شعر تو آپ نے ضرور سنا ہوگا خلق میگوئید که خسرو بت پرستی میکند آرے آرے میکنم با خلق و عالم کار نیست بس یہی میرا جواب ہے.حضرت مسیح موعود بھی فرماتے ہیں، تا نه دیوانه شدم ہوش نیا مد بسرم اے جنوں گرد تو گردم که چه احسان کردی کے پس جوش محبت میں ہمارا تھوڑا سا دیوانہ پن کسی احمدی کہلانے والے پر گراں نہیں گذرنا چاہیئے.تیسرا جواب اس اعتراض کا میری طرف سے یہ ہے کہ میں نے خود اس کتاب کے آغاز میں اپنی اس کتاب کی غرض و غایت لکھتے ہوئے یہ لکھ دیا تھا کہ اس مجموعہ میں ہر ایک قسم کی وہ روایت درج کی جاوے گی جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کوئی تعلق ہے.چنانچہ کتاب کے شروع میں میری طرف سے یہ الفاظ درج ہیں :- ” میرا ارادہ ہے.واللہ الموفق کہ جمع کروں اس کتاب میں تمام وہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق تحریر فرمائی ہیں اور جو دوسرے لوگوں نے لکھی ہیں.نیز جمع کروں تمام وہ زبانی روایات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مجھے پہنچی ہیں.یا جو آئندہ پہنچیں اور نیز وہ باتیں جو میرا ذاتی علم اور

Page 36

مشاہدہ ہیں.‘۵ ۲۹ مضامین بشیر میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اس بات کو تسلیم کریں گے کہ ان الفاظ کے ماتحت مجھے اپنے دائرہ عمل میں ایک حد تک وسعت حاصل ہے اور دراصل منشاء بھی میرا یہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جو بھی قابل ذکر بات مجھے پہنچے میں اسے درج کر دوں تا کہ لوگوں کے استمتاع کا دائرہ وسیع ہو جاوے اور کوئی بات بھی جو آپ کے متعلق قابل بیان ہو ، ذکر سے نہ رہ جائے.کیونکہ اگر اس وقت کوئی بات ضبط تحریر میں آنے سے رہ گئی تو بعد میں وہ ہمارے ہاتھ نہیں آئے گی اور نہ بعد میں ہمارے پاس اس کی تحقیق اور جانچ پڑتال کا کوئی پختہ ذریعہ ہوگا.مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ان الفاظ کو جو میں نے اسی غرض کو مد نظر رکھ کر لکھے تھے بالکل نظر انداز کر کے خواہ نخواہ اعتراضات کی تعداد بڑھانے کے لئے میرے خلاف ایک الزام دھر دیا ہے.چوتھا اور حقیقی جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے لفظ سیرۃ کے مفہوم پر غور نہیں کیا اور اس کے مفہوم کو ایک بہت ہی محدود دائرہ میں مقید سمجھ کر مجھے اپنے اعتراض کا نشانہ بنالیا ہے.اگر ڈاکٹر صاحب سیرۃ کی مختلف کتب کا مطالعہ فرماویں خصوصاً جو کتب متقدمین نے سیرۃ میں لکھی ہیں.انہیں دیکھیں تو ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہو جائے گا کہ سیرت کا لفظ نہایت وسیع معنوں میں لیا جاتا ہے.دراصل سیرت کی کتب میں تمام وہ روایات درج کر دی جاتی ہیں جو کسی نہ کسی طرح اس شخص سے تعلق رکھتی ہوں جس کی سیرت لکھنی مقصود ہوتی ہے.مثلاً سیرۃ ابن ہشام آنحضرت ﷺ کے حالات میں ایک نہایت ہی مشہور اور متداول کتاب ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے اس کا ضرور مطالعہ کیا ہو گا.لیکن اسے کھول کر اوّل سے آخر تک پڑھ جاویں.اس میں سینکڑوں ایسی باتیں درج ملیں گی جن کا آنحضرت مے کے ساتھ براہ راست بلا واسطہ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن چونکہ بالواسطہ طور پر وہ آپ کے حالات زندگی پر اور آپ کی سیرت و سوانح پر اثر ڈالتی ہیں ، اس لئے قابل مصنف نے انہیں درج کر دیا ہے.بعض جگہ صحابہ کے حالات میں ایسی ایسی باتیں درج ہیں جن کا آنحضرت مو کی سیرت سے بظاہر کوئی بھی تعلق نہیں اور ایک عامی آدمی حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ نہ معلوم آنحضر نہ کے حالات میں یہ روایات کیوں درج کی گئی ہیں لیکن اہل نظر و فکر ان سے بھی آپ کی سیرت وسوانح کے متعلق نہایت لطیف استدلالات کرتے ہیں.مثلاً صحابہ کے حالات ہمیں اس بات کے متعلق رائے قائم کرنے میں بہت مدد دیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی صحبت اور آپ کی تعلیم و تربیت نے آپ کے متبعین کی زندگیوں پر کیا اثر پیدا کیا.یعنی ان کو آپ نے کس حالت میں پایا اور کس حالت میں چھوڑا اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے کوئی عقل مند انسان آپ کی سیرت وسوانح کے لحاظ سے لاتعلق نہیں کہہ

Page 37

مضامین بشیر سکتا.اسی طرح مثلاً آپ کی سیرۃ کی کتب میں آپ کے آباء واجداد کے حالات اور آپ کی بعثت کے وقت آپ کے ملک وقوم کی حالت کا مفصل بیان درج ہوتا ہے.جو بادی النظر میں ایک لاتعلق بات سمجھی جاسکتی ہے.لیکن در حقیقت آپ کی سیرت و سوانح کو پوری طرح سمجھنے کے لئے ان باتوں کا علم نہایت ضروری ہے.الغرض سیرۃ کا مفہوم ایسا وسیع ہے کہ اس میں ایک حد مناسب تک ہر وہ بات درج کی جاسکتی ہے جو اس شخص کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق رکھتی ہو ، جس کی سیرت لکھی جارہی ہے.بعض اوقات کسی شخص کی سیرت لکھتے ہوئے اس کے معروف اقوال اور گفتگوئیں اور تقریروں کے خلاصے درج کئے جاتے ہیں.جن کو ایک جلد باز انسان سیرۃ کے لحاظ سے زائد اور لاتعلق باتیں سمجھ سکتا ہے.حالانکہ کسی شخص کے اقوال وغیرہ کا علم اس کی سیرۃ کے متعلق کامل بصیرت حاصل کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے.پھر بعض وہ علمی نقطے اور نئی علمی تحقیقا تیں اور اصولی صداقتیں جو ایک شخص کے قلم یا منہ سے نکلی ہوں وہ بھی اس کی سیرۃ میں بیان کی جاتی ہیں تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ وہ کس دل و دماغ کا انسان ہے.اور اس کی وجہ سے دنیا کے علوم میں کیا اضافہ ہوا ہے مگر عامی لوگ ان باتوں کو سیرۃ وسوانح کے لحاظ سے غیر متعلق قرار دیتے ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور اس کو اس کے تنگ اور محدود دائرہ میں لے کر اعتراض کی طرف قدم بڑھا دیا ہے ورنہ اگر وہ ٹھنڈے دل سے سوچتے اور سیرۃ کے اس مفہوم پر غور کرتے جو اہل سیر کے نزدیک رائج و متعارف ہے تو ان کو یہ غلطی نہ لگتی اور اسی وسیع مفہوم کو مد نظر رکھ کر میں نے سیرۃ المہدی میں ہر قسم کی روایات درج کر دی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک صاحب بصیرت شخص ان میں سے کسی روایت کو زائد اور بے فائدہ قرار نہیں دے سکتا.میں نے اس خیال سے بھی اپنے انتخاب میں وسعت سے کام لیا ہے کہ ممکن ہے اس وقت ہمیں ایک بات لاتعلق نظر آ وے لیکن بعد میں آنے والے لوگ اپنے زمانہ کے حالات کے ماتحت اس بات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ وسوانح کے متعلق مفید استدلالات کر سکیں.جیسا کہ مثلاً ابتدائی اسلامی مورخین نے آنحضرت لے کے متعلق ہر قسم کی روایات جمع کر دیں اور گو اس وقت ان میں سے بہت سی روائتوں سے ان متقدمین نے کوئی استدلال نہیں کیا لیکن اب بعد میں آنے والوں نے اپنے زمانہ کے حالات وضروریات کے ماتحت ان روایات سے بہت علمی فائدہ اٹھایا ہے اور مخالفین کے بہت سے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے ان سے مدد حاصل کی ہے.اگر وہ لوگ ان روایات کو اپنے حالات کے ماتحت لاتعلق سمجھ کر چھوڑ دیتے تو ایک بڑا مفید خزانہ اسلام کا ضائع ہو جاتا.پس ہمیں بھی بعد میں آنے والوں کا خیال رکھ کر روایات کے درج کرنے میں

Page 38

۳۱ مضامین بشیر فراخ دلی سے کام لینا چاہیئے اور حتی الوسع کسی روایت کو محض لا تعلق سمجھے جانے کی بناء پر رد نہیں کر دینا چاہیئے.ہاں بے شک یہ احتیاط ضروری ہے کہ کمزور اور غلط روایات درج نہ ہوں مگر جو روایت اصول روایت وداریت کی رو سے صحیح قرار پائے اور وہ ہو بھی حضرت مسیح موعود کے متعلق تو خواہ وہ آپ کی.سیرۃ کے لحاظ سے بظاہر لاتعلق یا غیر ضروری ہی نظر آوے اسے ضرور درج کر دینا چاہیئے.بہر حال میں نے روایات کے انتخاب میں وسعت سے کام لیا ہے کیونکہ میرے نزدیک سیرۃ کا میدان ایسا وسیع ہے کہ بہت ہی کم ایسی روایات ہو سکتی ہیں جو من کل الوجوہ غیر متعلق قرار دی جاسکیں.اس جگہ تفصیلات کی بحث نہیں.کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے صرف اصولی اعتراض اٹھایا ہے.اور مثالیں نہیں دیں ورنہ میں مثالیں دے کر بتا تا کہ سیرۃ المہدی کی وہ روایات جو بظاہر غیر متعلق نظر آتی ہیں دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک گہرا تعلق رکھتی ہیں لیکن اگر اب بھی ڈاکٹر صاحب کی تسلی نہ ہو تو میں ایک سہل علاج ڈاکٹر صاحب کے لئے پیش کرتا ہوں اور وہ یہ کہ میں سیرت ابن ہشام اور اسی قسم کی دیگر معروف کتب سیر سے چند باتیں ایسی نکال کر پیش کروں گا جن کا بظا ہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا اور پھر جو تعلق ڈاکٹر صاحب موصوف ان باتوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے ثابت کریں گے.میں انشاء اللہ اتنا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر تعلق سیرۃ المہدی کی روایات کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت سے ثابت کر دوں گا جن کو ڈاکٹر صاحب غیر متعلق قرار دیں گے.خلاصہ کلام یہ کہ کیا بلحاظ اس کے کہ سیرت کے مفہوم کو بہت وسعت حاصل ہے.اور مورخین اس کو عملاً بہت وسیع معنوں میں لیتے رہے ہیں.اور کیا بلحاظ اس کے کہ ہمارے دل کی یہ آرزو ہے کہ حضرت مسیح موعود کی کہی بات ضبط و تحریر میں آنے سے رہ نہ جائے اور کیا بلحاظ اس کے کہ ممکن ہے کہ آج ہمیں ایک بات لاتعلق نظر آوے مگر بعد میں آنے والے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں.اور کیا بلحاظ اس کے کہ میں نے اپنی کتاب کے شروع میں یہ بات لکھ دی تھی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہر قسم کی روایات اس مجموعہ میں درج کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور کیا بلحاظ اس کے کہ میں نے خود اپنی کتاب کے دیباچہ میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اس کتاب میں بعض روایات لاتعلق نظر آئیں گی لیکن استدلال و استنباط کے وقت ان کا تعلق ثابت کیا جا سکے گا.میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کو اس اعتراض کا حق حاصل نہیں تھا اور مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے سراسر تعدی کے ساتھ مجھے اپنے غیر منصفانہ اعتراض کا نشانہ بنایا ہے.دوسرا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے سیرۃ المہدی کے متعلق کیا ہے وہ یہ ہے مطبوعه الفضل ۲۱ مئی ۱۹۲۶ء

Page 39

مضامین بشیر ۳۲ کہ گو کتاب کے دیباچہ میں یہ لکھا گیا ہے کہ فی الحال روایات کو صرف جمع کر دیا گیا ہے اور ترتیب اور استنباط واستدلال بعد میں ہوتا رہے گا لیکن عملاً خوب دل کھول کر بخشیں کی گئی ہیں اور جگہ جگہ استدلال واستنباط سے کام لیا گیا ہے.چنانچہ ڈاکٹر صاحب موصوف فرماتے ہیں :.مصنف صاحب کا دعوی ہے کہ میں نے صرف اس میں روایات جمع کی ہیں اور ترتیب اور استنباط کا کام بعد میں ہوتا رہے گا، مگر اسی کتاب میں صفحوں کے صفحے مختلف کتابوں مثلاً براہین احمدیہ، سیرۃ مسیح موعود مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ، پنجاب چیفس اور مختلف اخبارات سے نقل کئے ہیں اور مختلف مسائل پر خوب استنباط واستدلال سے کام لیا ہے.“ اس اعتراض کے جواب میں سب سے پہلی بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے بہت سوچا ہے مگر میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ ڈاکٹر صاحب کا اس اعتراض سے منشاء کیا ہے.یعنی وہ کونسا علمی نکتہ ہے جو اس اعتراض کے پیش کرنے سے ڈاکٹر صاحب موصوف پبلک کے سامنے لانا چاہتے ہیں.اگر میں نے یہ لکھا کہ ترتیب واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا اور بفرض محال یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ اس سے میری مراد وہی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے قرار دی ہے اور پھر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ میں نے اپنے اس بیان کے خلاف سیرۃ المہدی میں استدلال و استنباط سے کام لیا ہے.پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو چھیں بچیں ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی اور یہ ایسی بات ہرگز نہیں تھی جسے ڈاکٹر صاحب اپنے اصولی اعتراضات میں شامل کرتے.میں اب بھی یہی کہوں گا کہ میں ڈاکٹر صاحب کی نیت کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہتا لیکن اس قسم کی باتیں خواہ نخواہ طبیعت کو بدظنی کی طرف مائل کر دیتی ہیں.ناظرین غور فرمائیں کہ ایک طرف تو ڈاکٹر صاحب کو سیرۃ المہدی پر تنقید کرتے ہوئے اس کے اندر ایک خوبی بھی ایسی نظر نہیں آتی جسے وہ اپنے مضمون میں درج کرنے کے قابل سمجھ سکیں اور دوسری طرف اعتراضات کے مجموعہ کو دیکھا جائے تو ایسی ایسی باتیں بھی درج ہیں جن کو علمی تنقید سے کوئی بھی واسطہ نہیں اور غالباً صرف اعتراضات کی تعداد بڑھانے کے لیئے ان کو داخل کر لیا گیا ہے.کیا یہ طریق عمل انصاف و دیانت پر مبنی سمجھا جا سکتا ہے؟ اگر میں نے یہ بات لکھی کہ اس کتاب میں صرف روایات جمع کر دی گئی ہیں اور استدلال بعد میں کیا جائے گا اور پھر دوران تحریر میں نے کہیں کہیں استدلال سے کام لے لیا تو میں پوچھتا ہوں کہ حرج کون سا ہو گیا اور وہ کون سا خطر ناک جرم ہے جس کا میں مرتکب ہوا ہوں اور جسے ڈاکٹر صاحب قابل معافی نہیں سمجھ سکتے.اس تبدیلی کا اگر کوئی نتیجہ ہے تو صرف یہی ہے کہ ایک زائد بات جس کا میں نے ناظرین کو وعدہ نہیں دلایا تھا ایک حد تک ناظرین کو

Page 40

۳۳ مضامین بشیر حاصل ہوگئی.میں نے روایات کے جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا اور وہ وعدہ میں نے پورا کیا استدلال واستنباط کی اُمید میں نے نہیں دلائی تھی بلکہ اسے کسی آئندہ وقت پر ملتوی کیا تھا لیکن بایں ہمہ کہیں کہیں ضرورت کو دیکھ کر یہ کام بھی ساتھ ساتھ کرتا گیا ہوں.گویا میرا جرم یہ ہے کہ جس قدر بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری میں نے لی تھی اس سے کچھ زیادہ بوجھ اٹھایا ہے اور میرے اس جرم پر ڈاکٹر صاحب غضبناک ہورہے ہیں ! فرماتے ہیں :- ایک طرف یہ سب بحثیں دیکھوا اور دوسری طرف اس کتاب کے متعلق اس بیان کو دیکھو کہ استدلال کا وقت بعد میں آئے گا تو حیرت ہو جاتی ہے.“ مکرم ڈاکٹر صاحب ! بیشک آپ کو حیرت ہوتی ہوگی کیونکہ آپ کے مضمون سے ظاہر ہے کہ آپ کے سینہ میں قدر شناس دل نہیں ہے ورنہ اگر کوئی قدر دان ہوتا تو بجائے اعتراض کرنے کے شاکر ہوتا.یہ تو میں نے صرف اصولی جواب دیا ہے ورنہ حقیقی جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ استدلال واستنباط کے متعلق میں نے جو کچھ سیرۃ المہدی میں لکھا ہے اس کا وہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو ڈاکٹر صاحب سمجھے ہیں اور میں حیران ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے کس طرح میری عبارت سے یہ مطلب نکال لیا ہے حالانکہ اس کا سیاق و سباق صریح طور پر اس کے خلاف ہے، اگر ڈاکٹر صاحب جلد بازی سے کام نہ لیتے اور میری جو عبارت ان کی آنکھوں میں کھٹکی ہے اس سے کچھ آگے بھی نظر ڈال لیتے تو میں یقین کرتا ہوں کہ ان کی تسلی ہو جاتی مگر غضب تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دل میں اعتراض کرنے کا شوق ایسا غلبہ پائے ہوئے ہے کہ جو نبی ان کو کوئی بات قابل گرفت نظر آتی ہے وہ اسے لے دوڑتے ہیں.اور اس بات کی تکلیف گوارہ نہیں کرتے کہ اس کے آگے پیچھے بھی نظر ڈال لیں.میں ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ اس طرح وہ مفت میں اپنا مذاق اڑواتے ہیں.مگر یہ ضرور کہوں گا کہ یہ طریق انصاف سے بہت بعید ہے.میری جس عبارت کو لے کر ڈاکٹر صاحب نے اعتراض کیا ہے وہ یہ ہے :- ” میرے نزدیک اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق جتنی بھی روایتیں جمع ہوسکیں ان کو ایک جگہ جمع کر کے محفوظ کر لیا جاوے.ترتیب اور استنباط واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا.کیونکہ وہ ہر وقت ہو سکتا ہے مگر جمع روایات کا کام اگر اب نہ ہوا تو پھر نہ ہو سکے گا.اس عبارت کو لے کر ڈاکٹر صاحب یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں ترتیب واستدلالات کے

Page 41

مضامین بشیر ۳۴ کام کو بعد کے لئے چھوڑ ا جانا بیان کیا گیا ہے حالانکہ خود کتاب کے اندر جابجا استدلالات موجود ہیں.پس استدلالات کے متعلق جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ ایک غلط بیانی ہے اور گویا ناظرین کے ساتھ ایک دھوکا کیا گیا ہے.اس کے جواب میں میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ اگر بالفرض اس عبارت کے وہی معنی ہوں جو ڈاکٹر صاحب نے لئے ہیں تو پھر بھی یہ کوئی غلط بیانی یا دھوکا بازی نہیں ہے جو قابل ملامت ہو بلکہ میرا یہ فعل قابل شکر یہ سمجھا جانا چاہیئے لیکن حق یہ ہے کہ اس عبارت کے وہ معنی ہی نہیں ہیں جو ڈاکٹر صاحب نے قرار دیئے ہیں بلکہ اس میں صرف اس استدلال کا ذکر ہے جس کی ضرورت ترتیب کے نتیجہ میں پیش آتی ہے.یعنی مراد یہ ہے کہ اس مجموعہ میں ترتیب ملحوظ نہیں رکھی گئی اور نہ وہ استدلالات کئے گئے ہیں جو مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضروری ہو جاتے ہیں.چنانچہ میرے الفاظ یہ ہیں :.ترتیب و استنباط واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا.جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں وہ استدلال مراد ہے جو تر تیب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے نہ کہ وہ عام تشریحات جو انفرادی طور پر روایات کے ضمن میں دی جاتی ہیں.چنانچہ میرے اس دعوی کی دلیل وہ الفاظ ہیں جو اس عبارت سے تھوڑی دور آگے چل کر میں نے لکھے ہیں اور جن کو ڈاکٹر صاحب نے بالکل نظر انداز کر دیا ہے.وہ الفاظ یہ ہیں :- میں نے جو بعض جگہ روایات کے اختتام پر اپنی طرف سے مختصر نوٹ دیئے ہیں..اور میں سمجھتا ہوں کہ اس مجموعہ کے جمع کرنے میں میرے سب کا موں سے یہ کام زیادہ مشکل تھا.بعض روایات یقیناً ایسی ہیں کہ اگر ان کو بغیر نوٹ کے چھوڑا جاتا تو ان کے اصل مفہوم کے متعلق غلط فہمی پیدا ہونے کا احتمال تھا مگر ایسے نوٹوں کی ذمہ واری کلینتہ خاکسار پر ہے.‘ کے ان الفاظ کے ہوتے کوئی انصاف پسند شخص استنباط و استدلال سے وہ عام تشریحی نوٹ مراد نہیں لے سکتا جو انفرادی روایات کے متعلق بطور تشریح کے دیئے جاتے ہیں بلکہ اس سے وہی استدلالات مقصود سمجھے جائیں گے جن کی مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضرورت پیش آتی ہے.ناظرین غور فرمائیں کہ ایک طرف تو میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے کہ ترتیب اور استنباط واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا اور دوسری طرف اسی جگہ میری یہ تحریر موجود ہے کہ میں نے مختلف روایات کے متعلق تشریحی نوٹ دیئے ہیں.اب ان دونوں تحریروں کے ہوتے ہوئے جو میرے ہی ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک ہی کتاب کے عرض حال میں ایک ہی جگہ موجود ہیں ، ڈاکٹر

Page 42

۳۵ مضامین بشیر صاحب کا صرف ایک عبارت کو لے کر اعتراض کے لئے اٹھ کھڑا ہونا اور دوسری عبارت کا ذکر تک نہ کرنا کہاں تک عدل وانصاف پر مبنی سمجھا جاسکتا ہے.میں نے اگر ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ میں نے اس کتاب میں استدلال نہیں کئے تو دوسری جگہ یہ عبارت بھی تو میرے ہی قلم سے نکلی ہوئی ہے کہ میں نے جا بجا تشریحی نوٹ دیئے ہیں.اس صورت میں اگر ڈاکٹر صاحب ذرا وسعت حوصلہ سے کام لیتے اور میرے ان ” استدلالات کو جو ان کی طبیعت پر گراں گزرے ہیں.وہ تشریحی نوٹ سمجھ لیتے جن کا میں نے اپنے عرض حال میں ذکر کیا ہے تو بعید از انصاف نہ تھا مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ساتھ معاملہ کرنے میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیا.خلاصہ کلام یہ کہ جہاں میں نے یہ لکھا ہے کہ اس کتاب میں ترتیب واستنباط واستدلال سے کام نہیں لیا گیا وہاں جیسا کہ میرے الفاظ سے ظاہر ہے وہ استدلالات مراد ہیں جو مختلف روایات کے ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضروری ہوتے ہیں.اور وہ تشریحی نوٹ مراد نہیں ہیں جو انفرادی طور پر روایات کے ساتھ دیئے جاتے ہیں کیونکہ دوسری جگہ میں نے خود صاف لکھ دیا ہے کہ میں نے جا بجا تشریحی نوٹ دیئے ہیں.امید ہے یہ تشریح ڈاکٹر صاحب کی تسلی کے لئے کافی ہوگی.وہ علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جہاں میں نے استدلال واستنباط کا ذکر کیا ہے وہاں ود استدلالات بھی مراد ہیں جو واقعات سے سیرۃ واخلاق کے متعلق کئے جاتے ہیں یعنی منشاء یہ ہے کہ جو روایات بیان کی گئی ہیں اور جو واقعات زندگی ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں ، ان سے بالعموم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ واخلاق کے متعلق استدلالات نہیں کئے گئے بلکہ ان کو صرف ایک مجموعہ کی صورت میں جمع کر لیا گیا ہے اور استدلال و استنباط کو کسی آئندہ وقت پر ملتوی کر دیا گیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کے استدلالات بھی ان تشریحی نوٹوں سے بالکل الگ حیثیت رکھتے ہیں جو کہ روایات کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے ساتھ ساتھ دیئے جاتے ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ جہاں میں نے یہ لکھا ہے کہ استدلال و استنباط کا کام بعد میں ہوتا رہے گا وہاں دو قسم کے استدلالات مراد ہیں اول وہ استدلالات جن کی مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے سے ضروت پیش آتی ہے.اور دوسرے وہ استدلالات جو روایات اور واقعات سے صاحب سیرۃ کے اخلاق و عادات کے متعلق کئے جاتے ہیں اور ان دونوں قسم کے استدلالات کو میں نے کسی آئندہ وقت پر چھوڑ دیا ہے.والشاذ کالمعدوم باقی رہے وہ تشریحی نوٹ جو مختلف روایتوں کے متعلق درج کئے جانے ضروری تھے سو ان کو میں نے ملتوی نہیں کیا اور نہ ہی ان کا ملتوی کرنا درست تھا کیونکہ انہیں چھوڑ دینے سے غلط فہمی کا احتمال تھا جس کا بعد میں ازالہ مشکل ہو جاتا اور اسی لئے میں نے عرض حال میں یہ تصریح کر دی تھی کہ گو

Page 43

مضامین بشیر ۳۶ میں نے استدلالات نہیں کئے اور صرف روایات کو جمع کر دیا ہے لیکن جہاں جہاں کسی روایت کے متعلق تشریح کی ضرورت محسوس کی ہے وہاں ساتھ ساتھ تشریحی نوٹ درج کر دیئے ہیں مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے استدلال و استنباط اور تشریحات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے مجھے اپنے اعتراض کا نشانہ بنالیا ہے ہاں بے شک میں نے ایک دو جگہ بعض بحثیں بھی کسی قدر طول کے ساتھ کی ہیں لیکن ان بحثوں کو استدلالات اور تشریحات ہر دو کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے کیونکہ نہ تو وہ استدلال کہلا سکتی ہیں اور نہ ہی تشریح کا مفہوم ان پر عائد ہوتا ہے بلکہ وہ ایک الگ مستقل چیز ہیں جن کی ضرورت کو محسوس کر کے میں نے انہیں درج کر دیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان بحثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ وسوانح کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اور آپ کے مقام کو کما حقہ سمجھنے کے لئے ان کا جاننا ضروریات سے ہے مثلاً یہ سوال کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تعلیم و تربیت کے ماتحت کیسی جماعت تیار کی ہے ایک نہایت ہی ضروری سوال ہے جسے کوئی دانشمند مؤرخ آپ کی سیرۃ سے خارج کرنے کا خیال دل میں نہیں لاسکتا.بے شک ڈاکٹر صاحب موصوف یا کوئی اور صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو خیال ظاہر کیا گیا ہے وہ درست نہیں اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم و تربیت کا اثر کوئی خاص طور پر اچھا نہیں ہے بلکہ معمولی ہے لیکن اس بات کو بہر حال تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ بحث آپ کی سیرۃ سے ایک گہراتعلق رکھتی ہے جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.اس بحث کو ختم کرنے سے قبل میں ڈاکٹر صاحب کے اس اعتراض کے ایک اور حصہ کی طرف بھی ناظرین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں.ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :- مصنف کا دعوی ہے کہ میں نے صرف اس میں روایات جمع کی ہیں اور ترتیب اور استنباط و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا مگر اسی کتاب میں صفحوں کے صفحے مختلف کتابوں مثلاً براہین احمدیہ، سیرۃ مسیح موعود مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ، پنجاب چیفس اور مختلف اخبارات سے نقل کئے ہیں.الخ گویا کتابوں اور اخباروں کی عبارتیں نقل کرنے کو ڈاکٹر صاحب استدلال و استنباط قرار دیتے ہیں مگر میں حیران ہوں کہ کسی کتاب یا اخبار سے کوئی عبارت نقل کرنا استدلال و استنباط کے حکم میں کیسے آ سکتا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی کے حالات اپنی کسی کتاب میں درج فرمائے اور میں نے وہ حصہ سیرۃ المہدی میں درج کر دیا یا پنجاب چیفس میں جو حالات آپ کے خاندان کے درج ہیں وہ میں نے اپنی کتاب میں درج کر دیئے یا کسی اخبار میں کوئی ایسی بات مجھے ملی جو آپ کی سیرۃ سے تعلق رکھتی تھی اور اسے میں نے لے لیا تو میرا یہ فعل استدلال و استنباط کیسے بن گیا؟

Page 44

۳۷ مضامین بشیر میں واقع حیرت میں ہوں کہ اس قسم کی عبارتوں کے نقل کرنے کا نام ڈاکٹر صاحب نے کس اصول کی بناء پر استدلال واستنباط رکھا ہے اور دنیا کی وہ کونسی لغت ہے جو اقتباس درج کرنے کو استدلال واستنباط کے نام سے یاد کرتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے قلم سے یہ الفاظ جلدی میں نکل گئے ہیں اور اگر وہ اپنے مضمون کی نظر ثانی فرما ئیں تو وہ یقیناً ان الفاظ کو خارج کر دینے کا فیصلہ فرمائیں گے.پھر ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی نہیں غور کیا کہ میرے جس فعل پر ان کو اعتراض ہے وہ ایسا فعل ہے کہ جسے میں نے اپنی کتاب کے شروع میں اپنے فرائض میں سے ایک فرض اور اپنے اغراض میں سے ایک غرض قرار دیا ہے.چنانچہ میرے الفاظ یہ ہیں : - ” میرا ارادہ ہے والله المُوَقِّقُ کہ جمع کروں اس کتاب میں تمام وہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق خود تحریر فرمائی ہیں اور وہ جو دوسرے لوگوں نے لکھی ہیں.نیز جمع کروں تمام وہ زبانی روایات...الخ ، اس عبارت سے پتہ لگتا ہے کہ میں نے اپنے سامنے صرف زبانی روایات کے جمع کرنے کا کام نہیں رکھا بلکہ تمام متعلقہ تحریرات کے تلاش کرنے اور ایک جگہ جمع کر دینے کو بھی اپنی اغراض میں سے ایک غرض قرار دیا ہے.اندریں حالات میں نہیں سمجھ سکا کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے عبارتوں کے نقل کرنے کے فعل کو کس اصول کے ماتحت جرم قرار دیا ہے.مکرم ڈاکٹر صاحب مجھے آپ معاف فرما ئیں مگر میں پھر یہی کہوں گا کہ گو میں آپ کی نیت پر حملہ نہیں کرتا لیکن آپ کی تنقید کسی طرح بھی عدل وانصاف پر مبنی نہیں سمجھی جاسکتی.تیسرا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی حصہ اول پر کیا ہے وہ ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ : - روایات کے جمع کرنے میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل اتاری ہے.یہاں تک کہ اردو تحریر میں اردو کے صرف ونحو کونظر انداز کر کے عربی صرف ونحو کے مطابق طرز بیان اختیار کیا ہے مگر جہاں راوی خود مصنف صاحب ہوتے ہیں وہاں عربی چولا اتر جاتا ہے.“ یہ اعتراض بھی گذشتہ اعتراض کی طرح ایک ایسا اعتراض ہے جسے مضمون کی علمی تنقید سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب پسند فرماتے تو اپنے علمی مضمون کی شان کو کم کرنے کے بغیر اس اعتراض کو چھوڑ سکتے تھے.: مطبوعه الفضل ۲۵ مئی ۱۹۲۶ء

Page 45

مضامین بشیر ۳۸ دراصل منتقدین کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر وہ اپنی تنقید میں اس قسم کی باتوں کا ذکر لانا بھی چاہیں تو ایک مشورہ کے طور پر ذکر کرتے ہیں جس میں سوائے اصلاح کے خیال کے اور کسی غرض و غایت کا شائبہ نہیں ہوتا مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دل کو ایسی وسعت حاصل نہیں ہے کہ وہ کوئی قابل گرفت بات دیکھ کر پھر بغیر اعتراض جمائے صبر کر سکیں اور زیادہ قابل افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اعتراض بھی ایسے لب ولہجہ کرتے ہیں جس میں بجائے ہمدردی اور اصلاح کے تحقیر و تمسخر کا رنگ نظر آتا ہے.بہر حال ڈاکٹر صاحب نے یہ اعتراض اپنے اصولی اعتراضات میں شامل کر کے پبلک کے سامنے پیش کیا ہے اور مجھے اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ اس کے جواب میں حقیقت حال عرض کروں.بات یہ ہے کہ جیسا کہ سیرۃ المہدی کے آغاز میں مذکور ہے میں نے سیرۃ المہدی کی ابتدائی چند سطور تبرک و تیمن کے خیال سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیت الدعا میں جا کر دعا کرنے کے بعد وہیں بیٹھے ہوئے تحریر کی تھیں اور میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ بغیر کسی تصنع یا نقل کے خیال کے یہ چند ابتدائی سطور مجھ سے اسی طرح لکھی گئیں جس طرح کہ عربی کی عبارت کا دستور ہے بلکہ چونکہ اس وقت میرے جذبات قلبی ایک خاص حالت میں تھے میں نے یہ محسوس بھی نہیں کیا کہ میں عام محاورہ اردو کے خلاف لکھ رہا ہوں پھر جب بعد میں بیت الدعا سے باہر آکر میں نے ان سطور کو پڑھا تو میں نے محسوس کیا کہ میرے بعض فقرے عربی کے محاورہ کے مطابق لکھے گئے ہیں اور پھر اس کے بعد میرے بعض دوستوں نے جب سیرۃ کا مسودہ دیکھا تو انہوں نے بھی مجھے اس امر کی طرف توجہ دلائی لیکن خواہ ڈاکٹر صاحب موصوف اسے میری کمزوری سمجھیں یا وہم پرستی قرار دیں یا حسن ظنی سے کام لینا چاہیں تو تقاضائے محبت و احترام پر محمول خیال فرمالیں مگر بہر حال حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان سطور کو جو میں نے دعا کے بعد بیت الدعا میں بیٹھ کر لکھی تھیں بدلنا نہیں چاہا.چنانچہ وہ اسی طرح شائع ہو گئیں.اس سے زیادہ میں اس اعتراض کے جواب میں کچھ نہیں کہنا چاہتا.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ تم نے حدیث کی نقل میں ایسا کیا ہے اور گو میرے نزدیک اچھی اور اعلی چیز میں اس قابل ہوتی ہیں کہ ان کی اتباع اختیار کی جائے اور اگر نیت بخیر ہوتو ایسی اتباع اور نقل خواہ وہ ظاہری ہو یا معنوی اہل ذوق کے نزدیک موجب برکت سمجھی جانی چاہیئے نہ کہ جائے اعتراض.لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ میں نے نقل کے خیال سے ایسا نہیں کیا.والله على ما اقول شهید ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : - جہاں راوی خود مصنف صاحب ہوتے ہیں وہاں عربی چولا اتر جاتا ہے.وہاں

Page 46

۳۹ مضامین بشیر روایت یوں شروع ہوتی ہے کہ خاکسار عرض کرتا ہے.ہونا تو یوں چاہیئے تھا کہ عرض کرتا ہے خاکسار.“ اس استہزاء کے جواب میں سلام عرض کرتا ہوں.ایک طرف مضمون کے تقدس کو دیکھئے اور دوسری طرف اس تمسخر کو ! مکرم ڈاکٹر صاحب حیرت کا مقام یہ ہے نہ کہ وہ جس پر آپ محو حیرت ہونے لگتے ہیں.افسوس ! 66 چوتھا اصولی اعتراض جو جناب ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون کے شروع میں بیان کیا ہے.یہ ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل میں راویوں کے ” صادق و کا ذب” عادل وثقہ ہونے کے متعلق کوئی احتیاط نہیں برتی گئی اور نہ راویوں کے حالات لکھے ہیں کہ ان کی اہلیت کا پتہ چل سکے اور دوسرے یہ کہ بعض روایتوں میں کوئی راوی چھٹا ہوا معلوم ہوتا ہے.گویا کتاب کے اندر مرسل روائتیں درج ہیں جو پا یہ اعتبار سے گری ہوئی ہیں اور پھر اس کے بعد یہ مذاق اڑایا ہے کہ احادیث کی ظاہری نقل تو کی گئی ہے.لیکن محدثین کی تنقید اور باریک بینیوں“ کا نام ونشان نہیں اور روایات کے جمع کرنے میں بھونڈا پن اختیار کیا گیا ہے.الغرض ڈاکٹر صاحب کے نزدیک سیرۃ المہدی’ ایک گڑ بڑ مجموعہ ہے.“ اور مصنف یعنی خاکسار نے ”مفت میں اپنا مذاق اڑوایا ہے.چونکہ ڈاکٹر صاحب نے اس جگہ مثالیں نہیں دیں ، اس لئے میں حیران ہوں کہ کیا جواب دوں.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ راویوں کے صادق و کا ذب ہونے کا کوئی پتہ نہیں“ میں عرض کرتا ہوں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو کھول کر ملا حظہ فرمائیے.ان میں بھی راویوں کے صادق و کا ذب ہونے کا کوئی پتہ نہیں چلتا.کم از کم مجھے بخاری اور مسلم کے اندر بلکہ کسی تاریخ و سیرۃ کی کتاب کے اندر یہ بات نظر نہیں آتی کہ راویوں کے صادق و کا ذب ثقہ وعدم ثقہ ہونے کے متعلق بیان درج ہو بلکہ اس قسم کی بحثوں کے لئے الگ کتابیں ہوتی ہیں جو اسماء الرجال کی کتابیں کہلاتی ہیں اور جن میں مختلف راویوں کے حالات درج ہوتے ہیں.جن سے ان کے صادق و کاذب ، عادل و غیر عادل، حافظ و غیر حافظ ہونے کا پتہ چلتا ہے اور انہی کتب کی بناء پر لوگ روایت کے لحاظ سے احادیث کے صحیح یا غیر صحیح مضبوط یا مشتبہ ہونے کے متعلق بحثیں کرتے ہیں مگر میرے خلاف ڈاکٹر صاحب کو نا معلوم کیا نا راضگی ہے کہ وہ اس بات میں بھی مجھے مجرم قرار دے رہے ہیں کہ میں نے کیوں سیرۃ المہدی کے اندر ہی اس کے راویوں کے حالات درج نہیں کئے.حق یہ تھا کہ اگر ان کو سیرۃ المہدی کا کوئی راوی مشتبہ یا قابل اعتراض نظر آتا تھا تو وہ اس کا نام لے کر بیان فرماتے اور پھر میرا فرض تھا کہ یا تو میں اس راوی کا ثقہ و عادل ہونا ثابت کرتا اور یا اس بات کا اعتراف کرتا کہ ڈاکٹر صاحب کا اعتراض درست ہے اور وہ راوی واقعی اس

Page 47

مضامین بشیر ۴۰ بات کا اہل نہیں کہ اس کی روایت قبول کی جاوے مگر یونہی ایک مجمل اعتراض کا میں کیا جواب دے سکتا ہوں.سوائے اس کے کہ میں یہ کہوں کہ میں نے جن راویوں کو ان کی روایت کا اہل پایا ہے صرف انہی کی روایت کو لیا ہے.روایت کے لحاظ سے عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا (۱) را وی جھوٹ بولنے سے متہم تو نہیں (۲) اس کے حافظہ میں تو کوئی قابل اعتراض نقص نہیں (۳) وہ سمجھ کا ایسا ناقص تو نہیں کہ بات کا مطلب ہی نہ سمجھ سکے گو یہ ضروری نہیں کہ وہ زیادہ فقیہہ ہو (۴) وہ مبالغہ کرنے یا خلاصہ نکال کر روایت کرنے یا بات کے مفہوم کو لے کر اپنے الفاظ میں آزادی کے ساتھ بیان کر دینے کا عا دی تو نہیں (۵) اس خاص روایت میں جس کا وہ راوی ہے اسے کوئی خاص غرض تو نہیں (۶) وہ ایسا مجہول الحال تو نہیں کہ ہمیں اس کے صادق و کاذب ، حافظ و غیر حا فظ ہونے کا کوئی پتہ ہی نہ ہو.وغیرہ ذالک اور جہاں تک میر اعلم اور طاقت ہے میں نے ان تمام باتوں کو اپنے راویوں کی چھان بین میں على قدر مراتب ملحوظ رکھا ہے.واللہ اعلم.اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میرے سامنے کوئی مثال نہیں ہے.دوسرا حصہ اس اعتراض کا یہ ہے کہ سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایات آگئی ہیں جن میں کوئی را وی چھٹا ہوا معلوم ہوتا ہے کیونکہ بعض اوقات را وی ایسی باتیں بیان کرتا ہے جس کا علم اس کے لئے براہ راست ممکن نہیں تھا.پس ضرور اس نے کسی اور سے سن کر یا کسی جگہ سے پڑھ کر یہ روایت بیان کی ہوگی اور چونکہ اس درمیانی راوی کا علم نہیں دیا گیا اس لئے روایت قابل وثوق نہیں سمجھی جاسکتی.میں اس اعتراض کی معقولیت کو اصولاً تسلیم کرتا ہوں.اس قسم کی روایات اگر کوئی ہیں تو وہ واقعی روایت کے اعلیٰ پایہ سے گری ہوئی ہیں لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس کمزوری کی وجہ سے ایسی روایات کو کلیۂ متروک بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بسا اوقات اس قسم کی روایات سے نہایت مفید اور صحیح معلومات میسر آجاتے ہیں دراصل اصول روایت کے لحاظ سے کسی روایت کے کمزور ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ روایت فی الواقع غلط بھی ہے بلکہ بالکل ممکن ہے کہ ایسی روایت بالکل صحیح اور قابل اعتماد ہو.مثلاً فرض کرو کہ میں نے ایک بات سنی اور کسی معتبر آدمی سے سنی لیکن کچھ عرصہ کے بعد مجھے وہ بات تو یا د رہی لیکن راوی کا نام ذہن سے بالکل نکل گیا.اب جو میں وہ روایت بیان کروں گا تو بغیر اس راوی کا نام بتانے کے کروں گا اور اصول روایت کی رو سے میری یہ روایت کمزور سمجھی جائے گی لیکن دراصل اگر میرے حافظہ اور ہم نے غلطی نہیں کی تو وہ بالکل صحیح اور درست ہوگی بلکہ بعید نہیں کہ اپنی صحت میں وہ کئی ان دوسری روایتوں سے بھی بڑھ کر ہو جو اصول روایت کے لحاظ سے صحیح قرار دی جاتی ہیں.مگر بایں ہمہ اصول روایت کے ترازو میں وہ ہلکی ہی اترے گی اس طرح عملاً بہت سی باتوں میں

Page 48

مضامین بشیر فرق پڑ جاتا ہے.پس با وجود ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اصولاً متفق ہونے کے کہ ایسی روایت اگر کوئی ہو تو یہ کمزور کبھی جانی چاہیئے.میں نہایت یقین کے ساتھ اس بات پر قائم ہوں کہ اس وجہ سے ہم ایسی روایات کو بالکل ترک بھی نہیں کر سکتے کیونکہ اس طرح کئی مفید معلومات ہاتھ سے دینے پڑتے ہیں.عمدہ طریق یہی ہے کہ اصول درایت سے تسلی کرنے کے بعد ایسی روایت کو درج کر دیا جائے اور چونکہ ان کا مرسل ہونا بد یہی ہوگا اس لئے ان کی کمزوری بھی لوگوں کے سامنے رہے گی.اور مناسب جرح و تعدیل کے ماتحت اہل علم ان روایات سے فائدہ اٹھا سکیں گے.احادیث کو ہی دیکھ لیجئے ان میں ہزاروں ایسی روایات درج ہیں جو اصول روایت کے لحاظ سے قابلِ اعتراض ہیں لیکن ان سے بہت سے علمی فوائد بھی حاصل ہوتے رہتے ہیں اور چونکہ ان کی روائتی کمزوری اہل علم سے مخفی نہیں ہوتی.اس لئے ان کی وجہ سے کوئی فتنہ بھی پیدا نہیں ہوسکتا اور اگر کبھی پیدا ہوتا بھی ہے تو اس کا سدِ باب کیا جا سکتا ہے.بہر حال مناسب حدود کے اندراندر مرسل روایات کا درج کیا جانا بشرطیکہ وہ اصول درایت کے لحاظ سے رڈ کئے جانے کے قابل نہ ہوں اور ان سے کوئی نئے اور مفید معلومات حاصل ہوتے ہوں بحیثیت مجموعی ایسا نقصان دہ نہیں جیسا کہ مفید ہے یعنی نفعها اكبر من اثمها والا معاملہ ہے.والله اعلم.یہ تو اصولی جواب ہے اور حقیقی جواب یہ ہے کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایسی روایتوں کے لینے میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے اور جہاں کہیں بھی مجھے یہ شبہ گذرا ہے کہ راوی اپنی روایت کے متعلق بلا واسطہ اطلاع نہیں رکھتا وہاں یا تو میں نے اس کی روایت لی ہی نہیں اور یا روایت کے اختتام پر روایت کی اس کمزوری کا ذکر کر دیا ہے.اس وقت مجھے ایک مثال یاد ہے وہ درج کرتا ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ تلاش سے اور مثالیں بھی مل سکیں گی.سیرۃ المہدی کے صفحہ ۱۲۸ پر میں نے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی ایک روایت منشی احمد جان صاحب مرحوم مغفور لدھیانوی کے متعلق درج کی ہے اور اس کے آخر میں میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب منشی صاحب مرحوم سے خود نہیں ملے.لہذا انہوں نے کسی اور سے یہ واقعہ سنا ہو گا.“ میرے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ میں نے اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ اگر راوی اپنی روایت کے متعلق بلا واسطہ علم نہیں رکھتا تو اسے ظاہر کر دیا جائے تا کہ جہاں ایک طرف روایت سے مناسب احتیاط کے ساتھ فائدہ اٹھایا جاسکے وہاں دوسری طرف اس کی کمزوری بھی سامنے رہے.ڈاکٹر صاحب نے چونکہ اس جگہ کوئی مثال نہیں دی اس لئے میں نہیں سمجھ سکتا کہ کون سی روایت

Page 49

مضامین بشیر ۴۲ ان کے مد نظر ہے لیکن اگر کوئی روایت پیش کی جائے جس میں اس قسم کی کمزوری ہے اور میں نے اسے ظاہر نہیں کیا تو گو محدثین کے اصول کے لحاظ سے میں پھر بھی زیر الزام نہیں ہوں کیونکہ محدثین اپنی کتابوں میں اس قسم کی کمزوریوں کو عموماً خود بیان نہیں کیا کرتے بلکہ یہ کام تحقیق و تنقید کرنے والوں پر چھوڑ دیتے ہیں لیکن پھر بھی میں اپنی غلطی کو تسلیم کرلوں گا اور آئندہ مزید ا حتیاط سے کام لوں گا.ہاں ایک غیر واضح سی مثال روایت نمبر ۳ے کی ڈاکٹر صاحب نے بیان فرمائی ہے جس میں حضرت خلیفہ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی روایت سے کسی ہندو کا واقعہ درج ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مخالفانہ توجہ ڈالنی چاہی تھی لیکن خود مرعوب ہو کر بدحواس ہو گیا.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ : - اس روایت میں یہ درج نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ ثانی نے یہ واقعہ خود دیکھا تھا یا کہ کسی کی زبانی سنا تھا اور اگر کسی کی زبانی سنا تھا تو وہ کون تھا.“ اس کے جواب میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب ایک واقعہ کوئی شخص بیان کرتا ہے اور روایت کے اندر کوئی ذکر اس بات کا موجود نہیں ہوتا کہ اس واقعہ کے وقت وہ خود بھی موجود نہیں تھا اور نہ وہ واقعہ ایسے زمانہ یا جگہ سے تعلق رکھنا بیان کیا جاتا ہے کہ جس میں اس راوی کا موجود ہونا محال یا ممتنع ہو ( مثلاً وہ ایسے زمانہ کا واقعہ ہو کہ جس میں وہ راوی ابھی پیدا ہی نہ ہوا ہو.یا وہ ایسی جگہ سے تعلق رکھتا ہو کہ جہاں وہ راوی گیا ہی نہ ہو ) تو لا محالہ یہی سمجھا جائے گا کہ راوی خوداپنا چشم دید واقعہ بیان کر رہا ہے.اور اس لئے یہ ضرورت نہیں ہوگی کہ راوی سے اس بات کی تصریح کرائی جاوے کہ آیا وہ واقعہ کا چشم دید ہے یا کہ اس نے کسی اور سے سنا ہے.بہر حال میں نے ایسے موقعوں پر یہی سمجھا ہے کہ راوی خود اپنی دیکھی ہوئی بات بیان کر رہا ہے.اسی لئے میں نے اس سے سوال کر کے مزید تصریح کی ضرورت نہیں سمجھی.ہاں البتہ جہاں مجھے اس بات کا شک پیدا ہوا ہے کہ راوی کی روایت کسی بلا واسطہ علم پر مبنی نہیں ہے.وہاں میں نے خود سوال کر کے تصریح کرالی ہے.چنانچہ جو مثال مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی روایت کی میں نے اوپر بیان کی ہے اس میں یہی صورت پیش آئی تھی.مولوی صاحب موصوف نے منشی احمد جان صاحب کے متعلق ایک بات بیان کی کہ ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ یوں یوں گفتگو ہوئی تھی اب حضرت مسیح موعود کی تحریرات کی بنا پر میں یہ جانتا تھا کہ منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود کے دعوئی سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی ملاقات حضرت صاحب کے ساتھ بعد دعویٰ مسیحیت ہوئی ہے.پس لا محالہ مجھے یہ شک پیدا ہوا کہ مولوی صاحب کو اس بات کا علم کیسے ہوا.چنانچہ میں نے مولوی صاحب سے سوال کیا اور انہوں نے مجھ سے بیان فرمایا کہ میں نے خود منشی صاحب مرحوم کو نہیں دیکھا.چنانچہ

Page 50

۴۳ مضامین بشیر میں نے یہ بات روایت کے اختتام پر نوٹ کر دی.الغرض میں نے اپنی طرف سے تو حتی الوسع بڑی احتیاط سے کام لیا ہے لیکن اگر میں نے کسی جگہ غلطی کھائی ہے یا کوئی کمزوری دکھائی ہے تو میں جانتا ہوں کہ میں ایک کمزور انسان ہوں اور غلطی کا اعتراف کر لینا میرے مذہب میں ہرگز موجب ذلّت نہیں بلکہ موجب عزت ہے.پس اگر اب بھی ڈاکٹر صاحب یا کسی اور صاحب کی طرف سے کوئی ایسی بات ثابت کی جائے جس میں میں نے کوئی غلط یا قابل اعتراض یا غیر محتاط طریق اختیار کیا ہے تو میں نہ صرف اپنی غلطی کو تسلیم کر کے اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا بلکہ ایسے صاحب کا ممنون احسان ہوں گا.ا افسوس صرف یہ ہے کہ محض اعتراض کرنے کے خیال سے اعتراض کر دیا جاتا ہے اور دوسرے کی کوشش کو بلا وجہ حقیر اور بے فائدہ ثابت کرنے کا طریق اختیار کیا جا تا ہے ورنہ ہمدردی کے ساتھ علمی تبادلہ خیالات ہو تو معترض بھی فائدہ اٹھائے.مصنف کی بھی تنویر ہو.اور لوگوں کے معلومات میں بھی مفید اضافہ کی راہ نکلے.اب میری کتاب ان مسائل کے متعلق تو ہے نہیں جو مبایعین اور غیر مبایعین کے درمیان اختلاف کا موجب ہیں بلکہ ایک ایسے مضمون کے متعلق ہے جو تمام احمدی کہلانے والوں کے مشترکہ مفاد سے تعلق رکھتا ہے اور پھر اس مضمون کی اہمیت اور ضرورت سے بھی کسی احمدی کو انکار نہیں ہوسکتا.اندریں حالات اس قسم کی تصنیفات کے متعلق صرف اس خیال سے کہ ان کا مصنف مخالف جماعت سے تعلق رکھتا ہے خواہ نخواہ مخالفانہ اور غیر ہمدردانہ اور دل آزار طریق اختیار کرنا دلوں کی کدورت کو زیادہ کرنے کے سوا اور کیا نتیجہ پیدا کرسکتا ہے..پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ سیرت المہدی میں محدثین کی ظاہری نقل تو کی گئی ہے لیکن ان کی تنقید اور باریک بینیوں کا نشان تک نہیں ہے.محدثین کا مقدس گروہ میرے لئے ہر طرح جائے عزت واحترام ہے اور گو جائز طور پر دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش ہر صحیح الدماغ شخص کے دل وسینہ میں موجود ہوتی ہے یا کم از کم ہونی چاہیئے.لیکن میرے دل کا یہ حال ہے واللہ علیٰ ما اقول شهید که ائمه حدیث کا خوشہ چیں ہونے کو بھی میں اپنے لئے بڑی عزتوں میں سے ایک عزت خیال کرتا ہوں اور ان کے مد مقابل کھڑا ہونا یا ان کے سامنے اپنی کسی نا چیز کوشش کا نام لینا بھی ان کی ارفع اور اعلیٰ شان کے منافی سمجھتا ہوں.میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ کتاب کے شروع میں جو چند فقرات عربی طریق کے مطابق لکھے گئے ہیں اور نقل کی نیت سے ہر گز نہیں لکھے گئے لیکن اگر نقل کی نیت ہو بھی تو میرے نزدیک اس میں ہر گز کوئی حرج نہیں ہے.مکرم ڈاکٹر صاحب ! اگر ہم اپنے بزرگوں کے نقشِ پا پر نہ چلیں گے تو اور کس کے چلیں گے.حضرت مسیح موعود کی تو یہاں تک خواہش رہتی تھی کہ ممکن ہو ا حمد یوں کی زبان ہی عربی ہو جائے.پس

Page 51

مضامین بشیر ۴۴ اگر میری قلم سے چند فقرے عربی صرف ونحو کے مطابق لکھے گئے اور میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ وہ میں نے نقل اور تصنع کے طور پر نہیں لکھے تو آپ اس کے متعلق اس طرح دل آزار طریق پر اعتراض کرتے ہوئے بھلے نہیں لگتے.باقی رہی محدثین کی تنقید اور باریک بینی.سو وہ تو مسلم ہے اور میری خدا سے دعا ہے کہ وہ مجھے ان جیسا دل و دماغ اور علم و عمل عطا فرمائے.پس آپ اور کیا چاہتے ہیں میں نے جہاں تک مجھ سے ہو سکا چھان بین اور تحقیق و تدقیق سے کام لیا ہے اور جہاں آپ نے آگے چل کر میری غلطیوں کی مثالیں پیش فرمائی ہیں وہاں انشاء اللہ میں یہ ثابت کرسکوں گا کہ میں نے روایات کے درج کرنے میں اندھا دھند طریق سے کام نہیں لیا.آپ کا یہ تحریر فرما نا کہ سیرۃ المہدی ایک گڑ بڑ مجموعہ ہے نیز یہ کہ ”میں نے مفت میں اپنا مذاق اڑوایا ہے آپ کو مبارک ہو اس قسم کی باتوں کا میں کیا جواب دوں.اگر سیرۃ المہدی ایک گڑ بڑ مجموعہ ہے تو بہر حال ہے تو وہ ہمارے آقا علیہ السلام کے حالات میں ہی اور نہ ہونے سے تو اچھا ہے.میں نے تو خود لکھ دیا تھا کہ میں نے روایات کو بلاکسی ترتیب کے درج کیا ہے.پھر نا معلوم آپ نے اسے ایک گڑ بڑ مجموعہ قرار دینے میں کون سی نئی علمی تحقیق کا اظہار فرمایا ہے.آج اگر وہ بے ترتیب ہے تو کل کوئی ہمت والا شخص اسے ترتیب بھی دے لے گا.بہر حال اس کام کی تکمیل کی طرف ایک قدم تو اٹھایا گیا اور اگر آپ ذوق شناس دل رکھتے تو آپ کو اس گڑ بڑا مجموعہ میں بھی بہت سی اچھی باتیں نظر آجاتیں اور مذاق اڑوانے کی بھی آپ نے خوب کہی.مکرم ڈاکٹر صاحب آپ خود ہی مذاق اڑانے والے ہیں.سنجیدہ ہو جائیے.پس نہ میرا مذاق اڑے گا.اور نہ آپ کی متانت اور سنجیدگی پر کسی کو حرف گیری کا موقع ملے گا.آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں.یہ تو سب اپنے اختیار کی بات ہے.وو پانچواں اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ سیرت المہدی میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سیٹرھی آگے چڑھنے کی کوشش کی گئی ہے.یعنی ہر ایک روایت کو بسم الله الرحمن الرحیم سے شروع کیا ہے.؟! پڑھنے والوں کو سمجھ نہیں آتا کہ یہ موجودہ زمانے کے راویوں کی کوئی روایت شروع ہو رہی ہے یا قرآن کی سورت شروع ہو رہی ہے.خاصہ پارہ عم نظر آتا ہے گویا جابجا سورتیں شروع ہو رہی ہیں.حدیث کی نقل ہوتے ہوتے قرآن کی نقل بھی ہو نے لگی.اس کا نام بچوں کا کھیل ہے.‘“ : مطبوعه الفضل یکم جون ۱۹۲۶ء

Page 52

۴۵ مضامین بشیر میں اس اعتراض کے لب ولہجہ کے متعلق کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ جو کہنا تھا اصولی طور پر کہہ چکا ہوں.اب کہاں تک اسے دہرا تا جاؤں مگر افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں بسم اللہ بھی کھٹکنے سے نہیں رہی.تعصب بھی بری بلا ہے میں تبرک و تیمن کے خیال سے ہر روایت کے شروع میں بسم اللہ لکھتا ہوں اور ڈاکٹر صاحب آتش غضب میں جلے جاتے ہیں مگر مکرم ڈاکٹر صاحب ! اس معاملہ میں تو مجھے آپ کی اس تکلیف میں آپ سے ہمدردی ضرور ہے لیکن بسم الله الرحمن الرحيم کا لکھنا تو میں کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا.آپ کے اصل کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ قرآن شریف نے کیا ہے اس کے خلاف کرو تا کہ نقل کرنے کے الزام کے نیچے نہ آ جاؤ.میں کہتا ہوں کہ خواہ دنیا ہمارا نام نقال رکھے یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی خطاب دے لیکن قرآن شریف کے نمونہ پر چلنا کوئی مسلمان نہیں چھوڑ سکتا.اگر قرآن شریف کو با وجود اس کے کہ وہ خدا کا کلام اور مجسم برکت و رحمت ہے اپنی ہر سورت کے شروع میں خدا کا نام لینے کی ضرورت ہے تو ہم کمزور انسانوں کے لئے جنہیں اپنے ہر قدم پر لغزش کا اندیشہ رہتا ہے یہ ضرورت بدرجہ اولی سجھی جانی چاہیئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) فرماتے ہیں :- كل امرذى بال لا يبدأ ببسم الله فهو ابتر 9 یعنی ہر کام جو ذراسی بھی اہمیت رکھتا ہو وہ اگر بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے تو وہ برکات سے محروم ہو جاتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب ہیں کہ میرے بسم اللہ لکھنے کو بچوں کا کھیل قرار دے رہے ہیں.اور اگر ڈاکٹر صاحب کا یہ منشاء ہو کہ بس صرف کتاب کے شروع میں ایک دفعہ بسم اللہ لکھ دینی کافی تھی اور ہر روایت کے آغاز میں اس کا دہرا نا مناسب نہیں تھا تو میں کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے کیوں ہر سورت کے شروع میں اسے دہرایا ہے.کیا یہ کافی نہ تھا کہ قرآن شریف کے شروع میں صرف ایک دفعہ بسم اللہ درج کر دی جاتی اور پھر ہر سورت کے شروع میں اسے نہ لایا جاتا.جو جواب ڈاکٹر صاحب قرآن شریف کے متعلق دیں گے وہی میری طرف سے تصور فرمالیں.دراصل بات یہ ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے اپنے غصہ میں نظر انداز کر رکھا ہے کہ ہر کام جو ذرا بھی مستقل حیثیت رکھتا ہو خدا کے نام سے شروع ہونا چاہیئے اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا منشاء ہے جو او پر درج کیا گیا ہے.اسلام نے تو اس مسئلہ پر یہاں تک زور دیا ہے کہ انسان کی کوئی حرکت وسکون بھی ایسا نہیں چھوڑا جس کے ساتھ خدا کے ذکر کو کسی نہ کسی طرح وابستہ نہ کر دیا ہو.اٹھنا بیٹھنا ، کھانا سونا جاگنا ، بیوی کے پاس جانا ، گھر سے نکلنا ، گھر میں داخل ہونا ، شہر سے نکلنا ، شہر میں داخل ہونا، کسی سے ملنا ، کسی سے رخصت ہونا ، رفع حاجت کے لئے پاخانہ میں جانا ، کپڑے بدلنا ، کسی کام کو شروع کرنا ، کسی کام کو ختم

Page 53

مضامین بشیر ۴۶ کرنا ، غرض زندگی کی ہر حرکت وسکون میں خدا کے ذکر کو داخل کر دیا اور میرے نزدیک اسلام کا یہ مسئلہ اس کی صداقت کے زبر دست دلائل میں سے ایک دلیل ہے مگر نہ معلوم ڈاکٹر صاحب میرے بسم اللہ لکھنے پر کیوں چیں بجیں ہورہے ہیں.میں نے کوئی ڈاکہ مارا ہوتا یا کسی بے گناہ کو قتل کر دیا ہوتا یا کسی غریب بے بس کے حقوق کو دبا کر بیٹھ گیا ہوتا یا کسی الحاد و کفر کا ارتکاب کرتا تو ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہ شور و غوغا کچھ اچھا بھی لگتا لیکن ایک طرف اس چیخ و پکار کو دیکھئے اور دوسری طرف میرے اس جرم کو دیکھئے کہ میں نے خدا کے نام کا استعمال اس حد سے کچھ زیادہ دفعہ کیا ہے جو ڈاکٹر صاحب کے خیال میں مناسب تھی تو حیرت ہوتی ہے.خیر جو بات میں کہنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ ہر کام جو ذرا بھی مستقل حیثیت رکھتا ہو بلکہ زندگی کی ہر حرکت و سکون خدا تعالیٰ کے اسم مبارک سے شروع کیا جائے تا کہ ایک تو کام کرنے والے کی نیت صاف رہے اور دوسرے خدا کا نام لینے کی وجہ سے کام میں برکت ہو.چنانچہ قرآن شریف نے جو اپنی ہر سورت کو بسم اللہ سے شروع فرمایا ہے تو اس میں بھی ہمارے لئے یہی عملی سبق مقصود ہے.اب ناظرین کو یہ معلوم ہے اور ڈاکٹر صاحب موصوف سے بھی یہ امر مخفی نہیں کہ سیرۃ المہدی کوئی مرتب کتاب نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف روایات بلا کسی ترتیب کے اپنی مستقل حیثیت میں الگ الگ درج ہیں.اس لئے ضروری تھا کہ میں اس کی ہر روایت کو بسم اللہ سے شروع کرتا.اگر سیرت المہدی کی روایات ایک ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتی ہوئی ایک متحدہ صورت میں جمع ہوتیں تو پھر یہ ساری روایات ایک واحد کام کے حکم میں سمجھی جاتیں اور اس صورت میں صرف کتاب کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا لکھ دینا کافی ہوتا لیکن موجودہ صورت میں اس کی ہر روایت ایک مستقل منفرد حیثیت رکھتی ہے.اس لیے میں نے ہر روایت کو بسم اللہ سے شروع کیا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے اپنی ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ کو رکھا ہے.بہر حال اگر قرآن کریم اپنی ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ کا درج کرنا ضروری قرار دیتا ہے باوجود اس کے کہ اس کی تمام سورتیں ایک واحد لڑی میں ترتیب کے ساتھ پروئی ہوئی ہیں تو سیرۃ المہدی کی روایات جو بالکل کسی ترتیب میں بھی واقع نہیں ہوئیں بلکہ فی الحال ان میں سے ہر ایک الگ الگ مستقل حیثیت رکھتی ہے حتی کہ اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ المہدی کو ایک گڑ بڑا مجموعہ قرار دیا ہے بدرجہ اولی بسم اللہ سے شروع کی جانی چاہیئے.اور اسی خیال سے میں نے کسی روایت کو بغیر بسم اللہ کے شروع نہیں کیا.دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جمع کرنے کا کام ایک بڑی ذمہ داری کا کام ہے.اور سوائے خدا کی خاص نصرت و فضل کے اس کام کو بخیر وخوبی سرانجام دینا ایک نہایت مشکل ا

Page 54

۴۷ مضامین بشیر ہے اور خواہ مجھے کمزور کہا جائے یا میرا نام وہم پرست رکھا جائے حقیقت یہ ہے کہ میں ہر قدم پر لغزش سے ڈرتا رہا ہوں اور اسی خیال کے ماتحت میں نے ہر روایت کو دعا کے بعد خدا کے نام سے شروع کیا ہے.یہ اگر ایک بچوں کا کھیل ہے تو بخدا مجھے یہ کھیل ہزار ہا سنجید گیوں سے بڑھ کر ہے.اور جناب ڈاکٹر موصوف سے میری یہ بصد منت درخواست ہے کہ میرے اس کھیل میں روڑا نہ اٹکا ئیں.مگر خدا جانتا ہے کہ یہ کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے اور اگر میں نے تصنع کے طور پر یا لوگوں کے دکھانے کے لئے یہ کام کیا ہے تو مجھ سے بڑھ کر شقی کون ہوسکتا ہے کہ خدائے قدوس کے نام کے ساتھ کھیل کرتا ہوں اس صورت میں وہ مجھ سے خود سمجھے گا اور اگر یہ کھیل نہیں اور خدا گواہ ہے کہ یہ کھیل نہیں تو ڈاکٹر صاحب بھی اس دلیری کے ساتھ اعتراض کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے خدا سے ڈریں.بس اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا.چھٹا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں سیرۃ المہدی پر کیا ہے وہ یہ ہے کہ ” دراصل یہ کتاب صرف محمودی صاحبان کے پڑھنے کے لیئے بنائی گئی ہے.یعنی صرف خوش عقیدہ لوگ پڑھیں.جن کی آنکھوں پر خوش عقیدگی کی پٹی بندھی ہوئی ہے.نہ غیروں کے پڑھنے کے لائق ہے ، نہ لا ہوری احمدیوں کے، نہ کسی محقق کے ، بعض روایتوں میں حضرت مسیح موعود پر صاف زد پڑتی ہے مگر چونکہ ان سے لاہوری احمدیوں پر بھی زد پڑنے میں مدد ملتی ہے اس لئے بڑے اہتمام سے ایسی لغو سے لغو روائتیں مضبوط کر کے دل میں نہایت خوش ہوتے 66 معلوم ہوتے ہیں.الخ اس اعتراض کے لب ولہجہ کے معاملہ کو حوالہ بخدا کرتے ہوئے اس کے جواب میں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اگر یہ اعتراض واقعی درست ہو تو میری کتاب صرف اس قابل ہے کہ اسے آگ کے حوالہ کر دیا جائے اور اس کا مصنف اس بڑی سے بڑی سزا کا حق دار ہے جو ایک ایسے شخص کو دی جاسکتی ہے جو اپنی ذاتی اغراض کے ماتحت صداقت کی پروا نہیں کرتا اور جو اپنے کسی مطلب کو حاصل کرنے کے لئے خدائے ذوالجلال کے ایک مقرب و ذی شان فرستادہ کو اعتراض کا نشانہ بناتا ہے.اور اگر یہ درست نہیں اور میرا خدا شاہد ہے کہ یہ درست نہیں تو ڈاکٹر صاحب خدا سے ڈریں اور دوسرے کے دل کی نیت پر اس دلیری کے ساتھ حملہ کر دینے کو کوئی معمولی بات نہ جانیں.یہ درست ہے کہ ان کے اس قسم کے حملوں کے جواب کی طاقت مجھ میں نہیں ہے لیکن خدا کو ہر طاقت حاصل ہے اور مظلوم کی

Page 55

مضامین بشیر ۴۸ امداد کرنا اس کی سنت میں داخل ہے مگر میں اب بھی ڈاکٹر صاحب کے لئے خدا سے دعا ہی کرتا ہوں کہ ان کی آنکھیں کھولے اور حق و صداقت کے رستے پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے.ان کی غلطیاں ان کو معاف ہوں اور میری لغزشیں مجھے معاف.یہ نیت کا معاملہ ہے.میں حیران ہوں کہ کیا کہوں اور کیا نہ کہوں.ہاں اس وقت ایک حدیث مجھے یاد آ رہی ہے وہ عرض کرتا ہوں.ایک جنگ میں اسامہ بن زیڈ اور ایک کافر کا سامنا ہوا.کا فراچھا شمشیر زن تھا خوب لڑتا رہا لیکن آخر اسامہ کو بھی ایک موقع خدا نے عطا فرمایا اور انہوں نے تلوار تول کر کافر پر وار کیا.کا فرنے اپنے آپ کو خطرہ میں پا کر جھٹ سامنے سے یہ کہہ دیا کہ مسلمان ہوتا ہوں.مگر اسامہ نے پرواہ نہ کی اور اسے تلوار سے موت کے گھاٹ اتار دیا.بعد میں کسی نے اس واقعہ کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کر دی آپ حضرت اسامہ پر سخت ناراض ہوئے اور غصہ سے آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا.آپ نے فرمایا.اے اسامہ! کیا تم نے اسے اس کے اظہار اسلام کے بعد ماردیا ؟ اور آپ نے تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے.اسامہ نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ شخص دکھاوے کے طور پر ایسا کہتا تھا تا کہ بچ جاوے آپ نے جوش سے فرمایا : - أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعَلَمُ مِنْ أَجُلٍ ذَالِكَ قَالَهَا أَمْ لَا یعنی تو نے پھر اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ وہ ٹھیک کہتا تھا کہ نہیں حضرت اسامہ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ایسی ناراضگی میں فرمائے کہ تَمَيَّنُتُ أَنِّي لَمْ أَكُنُ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَالِكَ الْيَوْمِ " میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں اس سے قبل مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا اور صرف آج اسلام قبول کرتا تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ناراضگی میرے حصہ میں نہ آتی.میں بھی جو رسول پاک کی خاک پا ہونا اپنے لئے سب فخروں سے بڑھ کر فخر سمجھتا ہوں آپ کی اتباع میں ڈاکٹر صاحب سے یہی عرض کرتا ہوں کہ میرے خلاف یہ خطرناک الزام لگانے سے قبل آپ نے میرا دل تو چیر کر دیکھ لیا ہوتا کہ اس کے اندر کیا ہے.بس اس سے زیادہ کیا جواب دوں.ڈاکٹر صاحب کوئی مثال پیش فرماتے تو اس کے متعلق کچھ عرض کرتا لیکن جو بات بغیر مثال دینے کے یونہی کہہ دی گئی ہو اس کا کیا جواب دیا جائے.میرا خدا گواہ ہے کہ میں نے سیرۃ المہدی کی کوئی روایت کسی ذاتی غرض کے ماتحت نہیں لکھی اور نہ کوئی روایت اس نیت سے تلاش کر کے درج کی ہے کہ اس سے غیر مبایعین پر زد پڑے بلکہ جو کچھ بھی مجھ تک پہنچا ہے اسے بعد مناسب تحقیق کے درج کر دیا ہے.ولعنت الله علیٰ من کذب.بایں ہمہ اگر میری یہ کتاب ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم رتبہ متقین کے اوقات گرامی کے

Page 56

۴۹ مضامین بشیر شایان شان نہیں تو مجھے اس کا افسوس ہے.ساتواں اور آخری اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ سیرۃ المہدی کی بہت سی روایات درایت کے اصول کے لحاظ سے غلط ثابت ہوتی ہیں اور جو بات درایتہ غلط ہو وہ خواہ روایت کی رو سے کیسی ہی مضبوط نظر آئے اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا.مثلاً ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایتیں آگئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی تحریرات کے صریح خلاف ہیں بلکہ بعض حالتوں میں آپ کے مزیل شان بھی ہیں اور ایسی حالت میں کوئی شخص جو آپ کو راست بازیقین کرتا ہو، ان روایات کو قبول نہیں کر سکتا.راوی کے بیان کو غلط قرار دیا جا سکتا ہے مگر حضرت مسیح موعود پر حرف آنے کو ہمارا ایمان ، ہمارا مشاہدہ، ہمارا ضمیر قطعاً قبول نہیں کر سکتا.خلاصہ کلام یہ کہ ایسی روایتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طریق عمل اور آپ کی تحریرات کے صریح خلاف ہوں قابل قبول نہیں ہیں مگر سیرت المہدی میں اس قسم کی روایات کی بھی کوئی کمی نہیں وغیرہ وغیرہ.اس اعتراض کے جواب میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں اصولاً اس بات سے متفق ہوں کہ جو روایات واقعی اور حقیقتا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طریق عمل اور آپ کی تعلیم اور آپ کی تحریرات کے خلاف ہیں وہ کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہو سکتیں اور ان کے متعلق بہر حال یہ قرار دینا ہوگا کہ اگر راوی صادق القول ہے تو یا تو اس کے حافظہ نے غلطی کھائی ہے اور یا وہ بات کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکا.اس لئے روایت کرنے میں ٹھوکر کھا گیا ہے.اور یا کوئی اور اس قسم کی غلطی واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے حقیقت امر پر پردہ پڑ گیا ہے.واقعی زبانی روایات سے سوائے اس کے کہ وہ تواتر کی حد کو پہنچ جائیں صرف علم غالب حاصل ہوتا ہے اور یقین کامل اور قطعیت تامہ کا مرتبہ ان کو کسی صورت میں نہیں دیا جاسکتا.پس لامحالہ اگر کوئی زبانی روایت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ثابت شدہ طریق عمل اور آپ کی مسلم تعلیم اور آپ کی غیر مشکوک تحریرات کے خلاف ہے تو کوئی عقیدت مندا سے قبول کرنے کا خیال دل میں نہیں لاسکتا.اور اس حد تک میرا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اتفاق ہے.لیکن بایں ہمہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ عملاً یہ معاملہ ایسا آسان نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے سمجھ رکھا ہے.درایت کا معاملہ ایک نہایت نازک اور پیچیدہ معاملہ ہے اور اس میں جرات کے ساتھ قدم رکھنا سخت ضرر رسان نتائج پیدا کر سکتا ہے.دراصل جہاں بھی استدلال و استنباط ، قیاس و استخراج کا سوال آتا ہے وہاں خطر ناک احتمالات و اختلافات کا مطبوعه الفضل ۱۱ جون ۱۹۲۶ء

Page 57

مضامین بشیر دروازہ بھی ساتھ ہی کھل جاتا ہے.ایک مشہور مقولہ ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیں اور دنیا کے تجربہ نے اس مقولہ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے.جہاں تک مشاہدہ اور واقعہ کا تعلق ہے.وہاں تک تو سب متفق رہتے ہیں.اور کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتا.والشاذ کا لمعد وم لیکن جونہی کہ کسی مشاہدہ یا واقعہ سے استدلال واستنباط کرنے اور اس کا ایک مفہوم قرار دے کر اس سے استخراج نتائج کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے پھر ہر شخص اپنے اپنے رستہ پر چل نکلتا ہے اور حق و باطل میں تمیز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے.پس یہ بات منہ سے کہہ دینا تو بہت آسان ہے کہ جو روایت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طریق عمل کے خلاف ہو اسے رڈ کر دو.یا جو بات تمہیں حضرت کی تحریرات کے خلاف نظر آئے اسے قبول نہ کرو اور کوئی عقلمند اصولاً اس کا منکر نہیں ہوسکتا لیکن اگر ذرا غور سے کام لے کر اس کے عملی پہلو پر نگاہ کی جائے تب پتہ لگتا ہے کہ یہ جرح و تعدیل کوئی آسان کام نہیں ہے اور ہر شخص اس کی اہلیت نہیں رکھتا کہ روایات کو اس طرح اپنے استدلال واستنباط کے سامنے کاٹ کاٹ کر گرا تا چلا جائے.بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طریق عمل کے خلاف کوئی روایت قابل شنوائی نہیں ہو سکتی مگر طریق عمل کا فیصلہ کرنا کارے دارد.اور میں اس شیر دل انسان کو دیکھنا چاہتا ہوں جو یہ دعوی کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا طریق عمل قرار دینے میں اس کی رائے غلطی کے امکان سے بالا ہے.اسی طرح بے شک جو روایت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کے خلاف ہوا سے کوئی احمدی قبول نہیں کر سکتا.مگر تحریرات کا مفہوم معین کرنا بعض حالتوں میں اپنے اندر ایسی مشکلات رکھتا ہے.جن کا حل نہایت دشوار ہو جاتا ہے.اور مجھے ایسے شخص کی جرات پر حیرت ہوگی جو یہ دعوی کرے کہ حضرت کی تحریرات کا مفہوم معین کرنے میں اس کا فیصلہ ہر صورت میں یقینی اور قطعی ہوتا ہے.پس جب درایت کا پہلو اپنے ساتھ غلطی کے احتمالات رکھتا ہے تو اس پر ایسا اندھا دھند اعتماد کرنا کہ جو بھی روایت اپنی درایت کے خلاف نظر آئے اسے غلط قرار دے کر رڈ کر دیا جائے ، ایک عامیانہ فعل ہو گا جو کسی صورت میں بھی سلامت روی اور حق پسندی پر مبنی نہیں سمجھا جا سکتا.مثال کے طور پر میں ڈاکٹر صاحب کے سامنے مسئلہ نبوت پیش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات ہر دو فریق کے سامنے ہیں لیکن مبایعین کی جماعت ان تحریرات سے یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور غیر مبایعین یہ استدلال کرتے ہیں کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا.اور فریقین کے استدلال کی بنیاد حضرت مسیح موعود کی تحریرات پر ہے.اب اگر درایت کے پہلو کو آنکھیں بند کر کے ایسا مرتبہ دے دیا جائے کہ جس کے سامنے روایت کسی صورت میں بھی قابل قبول نہ ہو تو اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا.-

Page 58

۵۱ مضامین بشیر ہوسکتا ہے کہ جو روایت غیر مبایعین کو ایسی ملے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت ثابت ہوتی ہو تو وہ اسے رڈ کر دیں.کیونکہ وہ بقول ان کے آپ کی تحریرات کے خلاف ہے.اور اگر کوئی روایت مبایعین کے سامنے ایسی آئے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبوت کا دعویٰ نہیں تھا تو وہ اسے قبول نہ کریں.کیونکہ بقول ان کے یہ روایت حضرت صاحب کی تحریرات کے خلاف ہے.اسی طرح مبایعین کا یہ دعویٰ ہے کہ غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طریق عمل کے خلاف تھا.اور غیر مبایعین یہ کہتے ہیں کہ جو غیر احمدی مخالف نہیں ہیں ان کا جنازہ پڑھ لینا حضرت مسیح موعود کے طریق عمل کے خلاف نہیں.اب اس حالت میں ڈاکٹر صاحب کے پیش کردہ اصول پر اندھا دھند عمل کرنے کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے.کہ اگر کسی مبایع کو کوئی ایسی روایت پہنچے کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعض حالتوں میں غیروں کا جنازہ پڑھ لیتے تھے یا پڑھنا پسند فرماتے تھے تو وہ اسے رڈ کر دے.کیونکہ بقول اس کے یہ بات حضرت کے طریق عمل کے خلاف ہے.اور جب کوئی روایت کسی غیر مبالع کو ایسی ملے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام غیروں کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے یا پڑھنا پسند نہیں فرماتے تھے تو خواہ یہ روایت اصول روایت کے لحاظ سے کیسی ہی پختہ اور مضبوط ہو وہ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دے کیونکہ بقول اس کے یہ روایت حضرت صاحب کے طریق عمل کے خلاف ہے.ناظرین خود غور فرمائیں کہ اس قسم کی کاروائی کا سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوسکتا ہے کہ علم کی ترقی کا دروازہ بند ہو جائے اور ہر شخص اپنے دماغ کی چادیواری میں ایسی طرح محصور ہو کر بیٹھ جائے کہ باہر کی ہوا اسے کسی طرح بھی نہ پہنچ سکے اور اس کا معیار صداقت صرف یہ ہو کہ جو خیالات وہ اپنے دل میں قائم کر چکا ہے.ان کے خلاف ہر اک بات خواہ وہ کیسی ہی قابل اعتماد ذرائع سے پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہو رڈ کئے جانے کے قابل ہے کیونکہ وہ اس کی درایت کے خلاف ہے.مکرم ڈاکٹر صاحب مجھے آپ کے بیان سے اصولی طور پر اتفاق ہے مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ آپ نے اس مسئلہ کے عملی پہلو پر کما حقہ غور نہیں فرمایا.ورنہ آپ درایت کے ایسے دلدادہ نہ ہو جاتے کہ اس کے مقابلہ میں ہر قسم کی روایت کورڈ کئے جانے کے قابل قرار دیتے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو کہ اصل چیز جس پر بنیا د رکھی جانی چاہیئے وہ روایت ہی ہے اور علم تاریخ کا سارا دارو مدار اسی اصل پر قائم ہے اور درایت کے اصول صرف بطور زوائد کے روایت کو مضبوط کرنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور آج تک کسی مستند اسلامی مؤرخ نے ان پر ایسا اعتماد نہیں کیا کہ ان کی وجہ سے صحیح اور ثابت شدہ روایات کو ترک

Page 59

مضامین بشیر ۵۲ کر دیا ہو.متقدمین کی تصنیفات تو قریباً قریباً کلیتہ صرف اصول روایت پر ہی مبنی ہیں اور درایت کے اصول کی طرف انہوں نے بہت کم توجہ کی ہے.البتہ بعد کے مورخین میں سے بعض نے درایت پرزور دیا ہے لیکن انہوں نے بھی اصل بنیا دروایت پر ہی رکھی ہے اور درایت کو ایک حد مناسب تک پر کھنے اور جانچ پڑتال کرنے کا آلہ قرار دیا ہے اور یہی سلامت روی کی راہ ہے.واقعی اگر ایک بات کسی ایسے آدمی کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہے جو صادق القول ہے اور جس کے حافظہ میں بھی کوئی نقص نہیں اور وہ فہم وفراست میں بھی اچھا ہے اور روایت کے دوسرے پہلوؤں کے لحاظ سے بھی وہ قابل اعتراض نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کی روایت کو صرف اس بناء پر رڈ کر دیں کہ وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی یا یہ کہ ہمارے خیال میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل یا تحریروں کے مخالف ہے.کیونکہ اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم واقعات کو اپنے محدود استدلال بلکہ بعض حالتوں میں خود غرضانہ استدلال کے ماتحت لانا چاہتے ہیں.خوب سوچ لو کہ جو بات عملاً وقوع میں آگئی ہے یعنی اصول روایت کی رو سے اس کے متعلق یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ وہ واقعی ہو چکی تو پھر خواہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے یا ہمارے استدلال کے موافق ہو یا مخالف ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے قبول کریں سوائے اس کے کہ وہ کسی ایسی نص صریح کے مخالف ہو جس کے مفہوم کے متعلق امت میں اجماع ہو چکا ہو.مثلاً یہ بات کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا ہر احمدی کہلانے والے کے نزدیک مسلم ہے اور کوئی احمدی خواہ وہ کسی جماعت یا گروہ سے تعلق رکھتا ہو اس کا منکر نہیں.پس ایسی صورت میں اگر کوئی ایسی روایت ہم تک پہنچے جس میں یہ مذکور ہو کہ آپ نے کبھی بھی مسیح موعود ہونے کا دعوی نہیں کیا خواہ بظاہر وہ درایت مضبو ط ہی نظر آئے ہم اسے قبول نہیں کریں گے اور یہ سمجھ لیں گے کہ راوی کو (اگر وہ سچا بھی ہے ) کوئی ایسی غلطی لگ گئی ہے جس کا پتہ لگا نا ہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود کی صریح تحریرات ( یعنی ایسی تحریرات جن کے مفہوم کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے ) کے مخالف ہے، لیکن اگر کوئی روایت ہمیں مسئلہ نبوت یا کفر و اسلام یا خلافت یا جنازہ غیر احمد یاں وغیرہ کے متعلق ملے اور وہ اصول روایت کے لحاظ سے قابل اعتراض نہ ہو تو خواہ وہ ہمارے عقیدہ کے کیسی ہی مخالف ہو ہمارا فرض ہے کہ اسے دیانتداری کے ساتھ درج کریں اور اس سے استدلال واستنباط کرنے کے سوال کو ناظرین پر چھوڑ دیں تا کہ ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکے اور علمی تحقیق کا دروازہ بند نہ ہونے پائے.اور اگر ہم اس روایت کو اپنے خیال اور اپنی درایت کے مخالف ہونے کی وجہ سے ترک کر دیں گے تو ہمارا یہ فعل کبھی بھی دیانتداری پر مبنی نہیں سمجھا جا سکتا.

Page 60

۵۳ مضامین بشیر پھر مجھے یہ بھی تعجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک طرف تو مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ میری کتاب صرف محمودی‘ خیال کے لوگوں کے مطلب کی ہے اور لاہوری محققین کے مطالعہ کے قابل نہیں اور دوسری طرف یہ اعتراض ہے کہ کتاب درایت کے پہلو سے خالی ہے حالانکہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے اصول کے مطابق میرے خلاف اس اعترض کا حق نہیں تھا کیونکہ اگر میں نے بفرض محال صرف ان روایات کو لیا ہے جو ہمارے عقیدہ کی مؤید ہیں تو میں نے کوئی برا کام نہیں بلکہ بقول ڈاکٹر صاحب عین اصول درایت کے مطابق کیا ہے کیونکہ جو باتیں میرے نزدیک حضرت کے طریق عمل اور تحریروں کے خلاف تھیں ان کو میں نے رڈ کر دیا ہے اور صرف انہیں کو لیا ہے جو میرے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور آپ کی تحریرات کے مطابق تھیں.اور یہ ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ میں ان کے خلاف کسی روایت کو قبول کروں کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ میں صریح حضرت مسیح موعود کی تحریروں اور طرز عمل کے خلاف اگر ایک روایت ہو تو حضرت مسیح موعود کو راست با زماننے والا تو قطعاً اس کو قبول نہیں کر سکتا.ہم..راوی پر حرف آنے کو قبول کر سکتے ہیں.مگر مسیح موعود پر حرف آنے کو ہمارا ایمان ہماری ضمیر ہمارا مشاہدہ ہمارا تجر به قطعا قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا.“ پس اس اصول کے ماتحت اگر میں نے ان روایتوں کو جو میرے نزدیک حضرت کی تحریرات اور طرز عمل کے صریح خلاف تھیں.رڈ کر دیا اور درج نہیں کیا.اور اس طرح میری کتاب محمودی عقائد کی کتاب بن گئی.تو میں نے کچھ برا نہیں کیا.بلکہ بڑا ثواب کمایا اور ڈاکٹر صاحب کے عین دلی منشاء کو پورا کرنے کا باعث بنا اور ایسی حالت میں میرا یہ فعل قابل شکر یہ سمجھا جانا چاہیئے نہ کہ قابل ملامت.اور اگر ڈاکٹر صاحب کا یہ منشاء ہے کہ روایت کے اصول کی رو سے تو میں اپنے فہم کے مطابق ڑتال کیا کروں مگر درایت کے مطابق پر کھنے کے لئے ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم مشربوں کی فہم وفراست کی عینک لگا کر روایات کا امتحان کیا کروں.تو گو ایسا ممکن ہولیکن ڈرصرف یہ ہے کہ کیا اس طرح میری کتاب’ پیغامی عقائد کی کتاب تو نہ بن جائے گی اور کیا ڈاکٹر صاحب کی اس ساری تجویز کا یہی مطلب تو نہیں کہ محنت تو کروں میں اور کتاب ان کے مطلب کی تیار ہو جائے.مکرم ڈاکٹر صاحب افسوس! آپ نے اعتراض کرنے میں انصاف سے کام نہیں لیا بلکہ یہ بھی نہیں سوچا کہ آپ کے بعض اعتراضات ایک دوسرے کے مخالف پڑے ہوئے ہیں.ایک طرف آپ یہ فرماتے ہیں کہ میری کتاب محمودی عقائد کی کتاب ہے اور دوسری طرف میرے خلاف یہ ناراضگی ہے کہ میں نے درایت سے کام نہیں لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور تحریرات کے

Page 61

مضامین بشیر ۵۴ خلاف روایتیں درج کر دی ہیں.اب آپ خود فرمائیں کہ اس حالت میں میں کروں تو کیا کروں.اپنی درایت سے کام لوں تو میری کتاب محمودی عقائد کی کتاب بنتی ہے اور اگر درایت سے کام نہ لوں تو یہ الزام آتا ہے کہ درایت کا پہلو کمزور ہے ایسی حالت میں میرے لئے آپ کے خوش کرنے کا سوائے اس کے اور کونسا رستہ کھلا ہے کہ میں درایت سے کام تو لوں مگر اپنی درایت سے نہیں بلکہ آپ کی درایت سے اور ہر بات جو آپ کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طریق عمل اور تحریرات کے خلاف ہو، اُسے رڈ کرتا جاؤں جس کا نتیجہ یہ ہو کہ جب کتاب شائع ہو تو آپ خوش ہو جائیں کہ اب یہ کتاب روایت و درایت ہر دو پہلو سے اچھی ہے کیونکہ اس میں کوئی بات لا ہوری احباب کے عقائد کے خلاف نہیں.اگر جرح و تعدیل کا یہی طریق ہے تو خدا ہی حافظ ہے.یہ سب کچھ میں نے ڈاکٹر صاحب کے اصول کو مدنظر رکھ کر عرض کیا ہے ورنہ حق یہ ہے کہ میں نے جہاں تک میری طاقت ہے.روایت و درایت دونوں پہلوؤں کو دیانتداری کے ساتھ علی قدر مراتب ملحوظ رکھا اور یہ نہیں دیکھا کہ چونکہ فلاں بات ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے اس لئے اسے ضرور لے لیا جائے یا چونکہ فلاں بات لاہوری احباب کے عقیدہ کے مطابق ہے اس لئے اسے ضرور چھوڑ دیا جائے بلکہ جو بات بھی روایت کے رو سے میں نے قابل قبول پائی ہے اور درایت کے رو سے اسے حضرت مسیح موعود کی صریح اور اصولی اور غیر اختلافی اور محکم تحریرات کے خلاف نہیں پایا اور آپ کے مسلم اور غیر مشکوک اور واضح اور روشن طریق عمل کے لحاظ سے بھی اسے قابل رد نہیں سمجھا اسے میں نے لے لیا ہے مگر بایں ہمہ میں سمجھتا ہوں کہ گوشائد احتیاط اسی میں ہے جو میں نے کیا ہے.لیکن بحیثیت مجموعی روایات کے جمع کرنے والے کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ صرف اصول روایت تک اپنی نظر کو محدود رکھے اور جو روایت بھی روایت کے اصول کے مطابق قابل قبول ہوا سے درج کر لے اور درایت کے میدان میں زیادہ قدم زن نہ ہو بلکہ اس کام کو ان لوگوں کے لئے چھوڑ دے جو عند الضرورت استدلال واستنباط کے طریق پر انفرادی روایات کو زیر بحث لاتے ہیں.والا نتیجہ یہ ہوگا کہ شخصی اور انفرادی عقیدے یا مذاق کے خلاف ہونے کی وجہ سے بہت سی کچی اور مفید روایات چھوٹ جائیں گی.اور دنیا ایک مفید ذخیرہ علم سے محروم رہ جائے گی.یہ میری دیانتداری کی رائے ہے اور میں ابھی تک اپنی اس رائے پر اپنے خیال کے مطابق علی وجہ البصیرت قائم ہوں.والله اعلم ولا علم لنا الا ما علمتنا.ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے اصولی اعتراض کا جواب دینے کے بعد اب میں ان مثالوں کو لیتا مطبوعه الفضل ۱۱ جون ۱۹۲۶ء

Page 62

۵۵ مضامین بشیر ہوں جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی سے پیش فرما کر ان پر جرح کی ہے.لیکن اس بحث کے شروع کرنے سے قبل میں ضمنی طور پر ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ جب میں نے ڈاکٹر صاحب کے مضمون کا جواب لکھنا شروع کیا تو میں نے ایڈیٹر صاحب پیغام صلح لاہور کے نام ایک خط ارسال کیا تھا.جس کی نقل میں نے نہیں رکھی.مگر جس کا مضمون جہاں تک مجھے یاد ہے یہ تھا کہ چونکہ ڈاکٹر صاحب کا مضمون جو سیرۃ المہدی کی تنقید میں لکھا گیا ہے.پیغام صلح میں شائع ہوتا رہا ہے.اس لئے کیا ایڈیٹر صاحب پیغام صلح اس بات کے لئے تیار ہوں گے کہ میں اپنا مضمون بھی ان کی خدمت میں ارسال کر دوں.اور وہ اُسے اپنے اخبار میں شائع فرما ئیں.تا کہ جن اصحاب تک ڈاکٹر صاحب کی جرح پہنچی ہے ان تک میرا جواب بھی پہنچ جائے.اور پبلک کو کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں امداد ملے.اس خط کا جو جواب مجھے موصول ہوا وہ سیکرٹری صاحب احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی طرف سے تھا اور مضمون کے لحاظ سے وہ وہی تھا جس کی مجھے امید تھی لیکن اس بات سے مجھے خوشی ہوئی کہ خط کا لب ولہجہ اچھا تھا.اور ڈاکٹر صاحب کا سا دل آزار طریق اختیار نہیں کیا گیا تھا بلکہ متانت اور تہذیب کے ساتھ جواب دیا گیا تھا.خط کا مضمون خلاصہ یہ تھا کہ جو تجویز تمہاری طرف سے پیش کی گئی ہے وہ پسندیدہ ہے لیکن کیا کارکنان الفضل بھی ہمارے مضامین ( غیر مبایعین کے مضامین ) کو اپنے اخبار میں جگہ دینے کے لئے تیار ہوں گے.اگر الفضل والے اس بات کے لئے تیار ہوں تو تمہارا یہ مضمون پیغام صلح میں شائع کیا جا سکتا ہے.اور پھر یہ بھی تجویز کی گئی تھی کہ بہتر ہو کہ طرفین کی جانب سے چند آدمی نامزد کر دئے جائیں.جن کے سوا کسی اور کو ایک دوسرے کے خلاف قلم اٹھانے کی اجازت نہ ہو.وغیرہ ذالک میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ اس خط کے الفاظ اور طرز تحریر کے متعلق مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے مضمون سے ضرور ایک حد تک اختلاف رکھتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اصولاً ہمارے غیر مبایع دوستوں کو اس بات سے اتفاق ہے کہ ان کا اخبار مخالف خیالات کے اظہار کے لئے بھی کھلا ہونا چاہیئے اور اسے وہ علمی تحقیق کے لئے مفید سمجھتے ہیں تو یہ خیال درمیان میں نہیں آنا چاہیئے کہ جب تک الفضل اس بات کے لئے آمادہ نہیں ہو گا اس وقت تک پیغام صلح بھی ہمارے مضمون نہیں لے سکتا.اگر ایک طریق اچھا اور پسندیدہ ہے تو کسی دوسرے کا اسے قبول نہ کرنا اس بات کا موجب نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم بھی جو اس کی خوبی کے معترف ہیں اسے رڈ کر دیں.پس میرے خیال میں سیکرٹری صاحب انجمن احمد یہ اشاعت اسلام لاہور نے جہاں اتنی وسعت قلب دکھائی تھی کہ اصولاً میرے مضمون کے شائع کرنے کی تجویز کو قبول کر لیا تھا.وہاں اگر ذرا اور وسعت سے کام لے کر ” الفضل والی شرط

Page 63

مضامین بشیر ۵۶ زائد نہ کرتے تو اچھا ہوتا مگر افسوس ہے کہ ایسا نہیں کیا گیا.دوسری بات یہ ہے کہ سیکرٹری صاحب انجمن اشاعت اسلام لاہور نے ہر قسم کے مضامین کو ایک ہی درجہ میں رکھا ہے اور اختلافی مضامین اور عام تحقیقی مضامین میں کوئی امتیاز نہیں کیا جو کہ ایک صریح غلطی ہے.میں نے جو ایڈیٹر صاحب پیغام صلح کی خدمت میں لکھا تھا اس کا منشاء یہ تھا کہ چونکہ میرا یہ مضمون ایک عام علمی مضمون ہے اور طرفین کے اختلافی عقائد کے ساتھ اسے کوئی تعلق نہیں اس لئے ایڈیٹر صاحب کو اسے اپنے اخبار میں شائع کرنے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہیئے.والا اگر میرا یہ مضمون اختلافی عقائد سے تعلق رکھتا تو میں کبھی بھی ایسا خط نہ لکھتا.کیونکہ میں جانتا ہوں اختلافی عقائد کے اظہار کے لئے فریقین کے اپنے اپنے اخبارات موجود ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم فریق مخالف سے یہ امید رکھیں کہ وہ اختلافی عقائد کے متعلق ہمارے مضامین اپنے اخبار میں شائع کرنے کی اجازت دے گا.اور دراصل مستثنیات کو الگ رکھیں تو ایسا ہونا بھی مشکل ہے کیونکہ اس طریق میں بعض ایسی عملی دقتوں کے رونما ہونے کا احتمال ہے کہ جن سے بجائے اس کے کہ تعلقات میں کوئی اصلاح کی صورت پیدا ہو.فساد کے بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے.لیکن عام علمی اور تحقیقی مضامین شائع کرنے میں اس قسم کا کوئی اندیشہ نہیں ہے.بلکہ ایسا طریق علاوہ وسعت حوصلہ پیدا کرنے کے آپس کے تعلقات کو خوشگوار بنانے کا موجب ہو سکتا ہے.اور چونکہ میرا مضمون اختلافی عقائد کے متعلق نہ تھا اس لئے میں نے محض نیک نیتی کے ساتھ ایڈیٹر صاحب پیغام صلح لا ہور کی خدمت میں خط لکھ کر یہ درخواست کی تھی کہ اگر ممکن ہو تو میرے مضمون کو وہ اپنے اخبار میں شائع کر کے مجھے اور عام پبلک کو ممنون فرمائیں.لیکن افسوس ہے کہ اس کے جواب میں سیکرٹری صاحب احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے ایک ایسا سوال کھڑا کر دیا کہ جس کا نتیجہ سوائے اس کے کہ طرفین آپس میں الجھنا شروع کر دیں اور کوئی نہیں ہو سکتا.میں نے کسی ایسے مضمون کے لئے پیغام صلح کے کالموں کی فیاضی کا مطالبہ نہیں کیا تھا جو فریقین کے اختلافی عقائد سے تعلق رکھتا ہو.بلکہ ایک عام علمی اور تحقیقی مضمون کی اشاعت کی درخواست کی تھی.اس کے جواب میں مجھ سے یہ کہنا کہ جب تک الفضل ہمارے مضامین کے شائع کرنے کی اجازت نہیں دے گا اُس وقت تک تمہارا مضمون پیغام صلح میں شائع نہیں ہوسکتا انصاف سے بعید ہے.اوّل تو الفضل میرا اخبار نہیں ہے بلکہ جماعت احمدیہ کے مرکزی نظام کی نگرانی میں شائع ہوتا ہے اور مجھے اس کی پالیسی یا اس کے انتظام سے کسی قسم کا بلا واسطہ تعلق نہیں.پس اس کے متعلق مجھ سے کوئی فیصلہ چاہنا خلاف اصول ہے.دوسرے میرا یہ خط جو میں نے ایڈیٹر صاحب پیغام صلح کی خدمت میں

Page 64

۵۷ مضامین بشیر ارسال کیا تھا ایک بالکل پرائیویٹ خط تھا جس کے جواب میں کوئی محکمانہ بحث شروع نہیں کی جاسکتی تھی.اور تیسرے میں نے یہ خط اس نیت اور خیال سے لکھا تھا کہ چونکہ میرا یہ مضمون ایک عام علمی مضمون ہے اور اختلافی عقائد سے اسے کوئی تعلق نہیں اس لئے کارکنان پیغام صلح کو اس کے شائع کرنے میں تامل نہیں ہو سکتا.مگر میری اس درخواست سے ناجائز فائدہ اٹھا کر مجھے یہ جواب دیا گیا کہ جب تک الفضل کے کالم غیر مبایعین کے مضامین کے لئے کھولے نہ جائیں گے اس وقت تک پیغام صلح تمہارا مضمون شائع کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا.یہ طریق کسی طرح بھی جائز اور صلح جوئی کا طریق نہیں سمجھا جاسکتا.پھر میں یہ کہتا ہوں کہ کب کسی غیر مبائع کی طرف سے کوئی عام علمی مضمون الفضل میں شائع ہونے کے لئے آیا.اور الفضل والوں نے اس کا انکار کیا ؟ کم از کم میرے علم میں کوئی ایسی مثال نہیں ہے کہ کسی غیر مبائع نے کوئی عام تحقیقی مضمون جسے اختلافی عقائد سے تعلق نہ ہو الفضل، میں بھیجا ہوا اور پھر کارکنان الفضل نے اسے محض اس بناء پر رڈ کر دیا ہو کہ اس کا لکھنے والا جماعت مبایعین میں سے نہیں ہے پس جب کوئی ایسی مثال موجود ہی نہیں ہے تو ایک فرضی روک کو آڑ بنا کر انکار کر دینا انصاف سے بعید ہے.اگر سیکرٹری صاحب احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لا ہور اس بناء پر انکار فرماتے کہ ان دنوں میں پیغام صلح میں اس مضمون کے شائع ہونے کی گنجائش نہیں ہے یا کوئی اور اسی قسم کی روک بیان کرتے جو بعض اوقات اخبار نویسوں کو پیش آجاتی ہے تو مجھے ہر گز کوئی شکایت نہ تھی.لیکن افسوس یہ ہے کہ اول تو ہر قسم کے مضامین کو ایک ہی حکم کے ماتحت سمجھ کر ایک ہی فتویٰ لگا دیا گیا ہے اور اختلافی مضامین اور عام علمی اور تحقیقی مضامین میں کوئی فرق نہیں کیا گیا اور دوسرے الفضل کا نام درمیان میں لاکر روک پیش کر دی گئی ہے جو بالکل فرضی اور موہوم ہے میں امید کرتا ہوں کہ میرے یہ چند الفاظ سیکر ٹری صاحب انجمن اشاعت اسلام لاہور کی تسلی کے لئے کافی ہوں گے.اب میں اصل مضمون کی طرف متوجہ ہوتا ہوں پہلی مثال جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے بیان فرمائی ہے.وہ منگل کے دن کے متعلق ہے میں نے سیرۃ المہدی حصہ اول میں حضرت والدہ صاحبہ کی زبانی یہ روایت درج کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے.اس روایت پر ڈاکٹر صاحب نے بڑی لمبی جرح کی ہے جو کئی حصوں پر منقسم ہے اور میں ضروری سمجھتا ہوں کہ مختصر اتمام حصوں کا جواب دوں.کیونکہ میرے خیال میں اس امر میں ڈاکٹر صاحب نے بڑی سخت غلطی کھائی ہے اور صرف ایک عامیانہ جرح کر کے اپنے دل کو خوش کرنا چاہا ہے لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس جرح کا جواب دوں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سیرت المہدی حصہ اول کے شائع ہونے کے بعد مجھے بعض دوستوں کی طرف سے بھی یہ بات پہنچی تھی کہ یہ روایت کچھ وضاحت چاہتی ہے.چنانچہ میں

Page 65

مضامین بشیر ۵۸ نے انہی دنوں میں سیرت المہدی حصہ دوئم میں جو ان ایام میں زیر تالیف ہے ، اس روایت کے متعلق ایک تشریحی نوٹ درج کر دیا تھا اور میں چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کا جواب دینے سے پہلے یہ نوٹ احباب کے سامنے پیش کردوں کیونکہ یہ نوٹ سیرۃ المہدی حصہ دوئم کے مسودے میں آج سے ایک سال پہلے کا لکھا ہوا موجود ہے.جبکہ ابھی ڈاکٹر صاحب کا مضمون معرض تحریر میں بھی نہیں آیا تھا.میرے اس بیان کے تسلیم کرنے میں اگر ڈاکٹر صاحب کو کوئی تامل ہے اور وہ میرے اس نوٹ کو اپنی جرح کے جواب میں لکھا ہوا خیال کریں تو ان کا اختیار ہے لیکن میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میرا یہ نوٹ ڈاکٹر صاحب کے مضمون کے شائع ہونے سے کم از کم ایک سال قبل کا لکھا ہوا ہے اور اگر میں بھولتا نہیں تو بعض دوستوں نے اسے اسی زمانہ میں مسودے کی صورت میں مطالعہ بھی کیا تھا.ان دوستوں میں سے چودہری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹر امیر جماعت احمدیہ لاہور، مولوی جلال الدین صاحب شمس مبلغ شام اور نیک محمد خان صاحب کے نام مجھے اچھی طرح یاد ہیں.مقدم الذکر دوا حباب نے سیرۃ المہدی حصہ دوئم کا مسودہ لاہور میں مطالعہ کیا تھا.جبکہ میں گذشتہ سال ماہ جون میں تبدیل آب و ہوا کے لئے منصوری جاتا ہوا دو دن کے لئے لاہور ٹھہرا تھا اور مؤخر الذکر صاحب نے غالباً ماہ جولائی ۱۹۲۵ء میں بمقام منصوری اسے پڑھا تھا.یہ دوست اگر بھول نہ گئے ہوں تو اس امر کی شہادت دے سکتے ہیں کہ جو نوٹ اس روایت کے متعلق ذیل میں درج کرتا ہوں وہ آج کا نہیں بلکہ آج سے کم از کم ایک سال قبل کا لکھا ہوا ہے.وہ نوٹ یہ ہے :.وو روایت نمبر ۳۲۲.بسم الله الرحمن الرحيم خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی روایت نمبر ۱۰ ( صحیح نمبر11) میں خاکسار نے یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے.اس کا مطلب بعض لوگوں نے غلط سمجھا ہے.کیونکہ انہوں نے اس سے ایسا نتیجہ نکالا ہے کہ گویا منگل کا دن ایک منحوس دن ہے جس میں کسی کام کی ابتداء نہیں کرنی چاہئیے.ایسا خیال کرنا درست نہیں اور نہ حضرت صاحب کا یہ مطلب تھا.بلکہ منشاء یہ ہے کہ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے ، دن اپنی برکات کے لحاظ سے ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں.مثلاً جمعہ کا دن مسلمانوں میں مسلمہ طور پر مبارک ترین دن سمجھا گیا ہے.اس سے اتر کر جمعرات کا دن اچھا سمجھا جاتا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفروں کی ابتداء اس دن میں فرماتے تھے.خلاصہ کلام یہ کہ دن اپنی برکات و تاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے پر فوقیت

Page 66

۵۹ مضامین بشیر رکھتے ہیں اور اس تو ازن اور مقابلہ میں منگل کا دن گو یا سب سے پیچھے ہے کیونکہ وہ شد اند دوختی کا اثر رکھتا ہے ، جیسا کہ حدیث میں بھی مذکور ہے نہ یہ کہ نعوذ بالله منگل کوئی منحوس دن ہے.پس حتی الوسع اپنے اہم کاموں کی ابتداء کے لئے سب سے زیادہ افضال و برکات کے اوقات کا انتخاب کرنا چاہیئے.لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے کوئی نقصان برداشت کیا جائے یا کسی ضروری اور اہم کام میں توقف کو راہ دیا جائے.ہر ایک بات کی ایک حد ہوتی ہے اور حد سے تجاوز کر نے والا انسان نقصان اٹھاتا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ دنوں وغیرہ کے معاملہ میں ضرورت سے زیادہ خیال رکھتے ہیں ان پر بالآخر تو ہم پرستی غالب آجاتی ہے.گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی جیسا کہ اشخاص کے معاملہ میں چسپاں ہوتا ہے ویسا ہی دوسرے امور میں بھی صادق آتا ہے.اور یہ سوال کہ دنوں کی تاثیرات میں تفاوت کیوں اور کس وجہ سے ہے، یہ ایک علمی سوال ہے جس کے اٹھانے کی اس جگہ ضرورت نہیں.“ میرا یہ نوٹ ہر عقل مند اور سعید الفطرت انسان کی تسلی کے لئے کافی ہونا چاہیئے کیونکہ علاوہ اس کے کہ اس میں اصولی طور پر گو مختصر ا ڈاکٹر صاحب کے اعتراض کا جواب آ گیا ہے.اور روایت مذکورۃ الصدر کے متعلق جس غلط فہمی کے پیدا ہونے کا احتمال تھا اس کا ازالہ کر دیا گیا ہے.یہ نوٹ اس وقت کا ہے جبکہ ابھی ڈاکٹر صاحب کا تنقیدی مضمون معرض تحریر میں بھی نہیں آیا تھا بلکہ غالباً ابھی ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی حصہ اول کا مطالعہ بھی نہیں فرمایا ہوگا.اندریں حالات اگر میں صرف اسی جواب پر بس کروں تو قابل اعتراض نہیں سمجھا جا سکتا.لیکن چونکہ یہ ایک علمی سوال ہے اور ڈاکٹر صاحب نے اس روایت کے متعلق ضمنی طور پر بعض ایسے اعتراضات کئے ہیں جن کا جواب علم دوست احباب کی دلچسپی اور بعض نا واقف لوگوں کی تنویر کا باعث ہوسکتا ہے.اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی تنقید کا کسی قدر تفصیل کے - 66 ساتھ جواب عرض کروں.وما توفيقى الا بالله اب میں ان تفصیلی اعتراضات کو لیتا ہوں جو ڈا کٹر بشارت احمد صاحب نے اپنے مضمون میں منگل والی روایت کے متعلق بیان کئے ہیں.سب سے پہلا اعتراض ڈاکٹر صاحب کا یہ ہے کہ : - حضرت والدہ صاحبہ اپنا خیال پیش کرتی ہیں کہ حضرت صاحب منگل کے دن کو : مطبوعه الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۲۶ء

Page 67

مضامین بشیر اچھا نہیں سمجھتے تھے.مگر یہ انہیں کس طرح پتہ لگا کہ حضرت صاحب کا ایسا خیال تھا.کیا حضرت صاحب نے کبھی فرمایا تھا.کیا یہ ممکن نہیں کہ حضرت والدہ صاحبہ نے کسی امر میں غلطی سے اپنے خیالات پر حضرت صاحب کے خیالات کو قیاس کر لیا ہو.“ اس اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ اس روایت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ بیان نہیں کئے گئے ، بلکہ راوی نے خود اپنے الفاظ میں ایک خیال آپ کی طرف منسوب کر دیا ہے.اس لئے یہ روایت قابل قبول نہیں.مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس معاملہ میں کما حقہ غور نہیں فرمایا.اور نہ ہی حدیث نبوی کا توجہ کے ساتھ مطالعہ کیا ہے.کتب احادیث میں بہت سی ایسی حدیثیں ملتی ہیں.جن میں راوی خوداپنے الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک خیال بیان کر دیتا ہے ، اور آپ کے الفاظ بیان نہیں کرتا اور ائمہ حدیث اسے رد نہیں کرتے.میرا یہ مضمون آگے ہی کافی لمبا ہو گیا ہے.اور میں اسے زیادہ طول نہیں دینا چاہتا اور نہ میں ایسی متعد د مثالیں ڈاکٹر صاحب کے سامنے پیش کرتا کہ راویوں نے بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ بیان کرنے کے ایک خیال آپ کی طرف منسوب کر دیا ہے اور محد ثین نے اسے صحیح مانا ہے.دراصل حدیث میں کئی جگہ ایسے الفاظ آتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلاں بات کو پسند فرماتے تھے.اور فلاں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے.وغیرہ ذالک.اور میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب جو غالباً ہمارے خلاف مضمون نویسی سے کچھ تھوڑا سا وقت بچا کر احادیث کے مطالعہ میں بھی صرف کرتے ہوں گے.اس بات کا انکار نہیں کریں گے.دراصل ہر زبان میں اظہار خیال کے طریقوں میں سے ایک طریق یہ بھی ہے کہ بعض اوقات بجائے اس کے کہ دوسرے شخص کے الفاظ بیان کئے جائیں.صرف اپنے الفاظ میں اس کے خیال کا اظہار کر دیا جاتا ہے اور یہ طریق ایسا شائع و متعارف ہے کہ کوئی فہمیدہ شخص اس کا انکار نہیں کر سکتا.مگر نہ معلوم میرے خلاف ڈاکٹر صاحب کو کیا غصہ ہے کہ خواہ نخواہ اعتراض کی ہی سوجھتی ہے.اگر ڈاکٹر صاحب حسن ظنی فرماتے تو یہ خیال کر سکتے تھے کہ چونکہ حضرت والدہ صاحبہ ایک بہت لمبا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ رہی ہیں.اس لئے ان کا یہ بیان کرنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، اپنی طرف سے نہیں ہو سکتا.اور نہ عام حالات میں کسی غلط فہمی پر مبنی سمجھا جا سکتا ہے.اور یہ کہ انہوں نے جو حضرت صاحب کے الفاظ بیان نہیں کئے تو یہ اس لئے نہیں کہ یہ بات مشکوک ہے بلکہ اس لئے کہ یہ روایت بیان کرتے ہوئے انہوں نے بلا ارادہ روایت بالمعنی کا

Page 68

۶۱ مضامین بشیر طریق اختیا ر کیا ہے یا یہ کہ ان کا یہ خیال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی ایک قول پر مبنی نہیں.بلکہ یا تو متعدد مرتبہ کی گفتگو پر مبنی ہے اور یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ایک بہت لمبا عرصہ رہنے کے نتیجہ میں اُن کی طبیعت نے آپ کے متعلق ایک اثر قبول کیا تھا جسے انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہے جیسا کہ مثلاً حدیث میں حضرت عائشہ کا قول آتا ہے کہ كان يحب التيمن في سائر امره لا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر بات میں دائیں طرف سے ابتداء کرنے کو پسند فرماتے تھے.اب کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ حضرت عائشہ نے اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ بیان نہیں کئے بلکہ صرف اپنے الفاظ میں آپ کی طرف ایک خیال منسوب کر دیا ہے.اس لئے یہ روایت قابل قبول نہیں؟ ہر گز نہیں اگر ڈاکٹر صاحب غور فرمائیں تو ان کو معلوم ہو کہ بیوی کی طرف سے اس قسم کی روایت جس کا نام روایت بالمعنی رکھا جاتا ہے قابل اعتراض نہیں بلکہ بعض اوقات عام لفظی روایتوں کی نسبت بھی یہ روایت زیادہ پختہ اور قابل اعتماد سمجھی جانی چاہیئے.کیونکہ جہاں لفظی روایت کسی ایک وقت کے قول پر مبنی ہوتی ہے وہاں اس قسم کی معنوی روایت جو بیوی یا کسی ایسے ہی قریبی کی طرف سے مروی ہو متعدد مرتبہ کی گفتگو یا لمبے عرصہ کی صحبت کے اثر کا نتیجہ ہوتی ہے.اور ان دونوں میں فرق ظاہر ہے.حضرت عائشہ والی روایت کو ہی دیکھ لو.اگر حضرت عائشہ صرف یہ فرما دیتیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فلاں موقع پر فرمایا تھا کہ ہر بات میں دائیں سے ابتداء کرنی چاہیئے تو ان کی اس روایت کو ہرگز وہ پختگی حاصل نہ ہوتی جو موجودہ صورت میں اسے حاصل ہے کیونکہ موجودہ صورت میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی ایک قول نقل نہیں کیا.بلکہ متعدد مرتبہ کی گفتگو یا ایک لمبی صحبت کے اثر کے نتیجہ کو بیان کیا ہے.اور اگر ڈاکٹر صاحب کو یہ خیال ہو کہ یہ روایت چونکہ حضرت عائشہ نے کی ہے اس لئے وہ جرح سے بالا ہے.کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیوی تھیں جنہوں نے کئی سیال آپ کی صحبت میں گزارے اور جو دن رات اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے کھاتے پیتے آپ کو دیکھتی تھیں مگر کسی دوسرے راوی کی طرف سے اس قسم کی روایت بالمعنی قابل قبول نہیں سمجھی جاسکتی تو اس کے متعلق میں بڑے ادب سے یہ عرض کروں گا کہ جس روایت پر ڈاکٹر صاحب نے جرح فرمائی ہے وہ بھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیوی کی ہی ہے.اور بیوی بھی وہ جس نے حضرت عائشہ کی نسبت بہت زیادہ عرصہ اپنے خاوند کے ساتھ گذارا ہے.لیکن بایں ہمہ میں ڈاکٹر صاحب کی تسلی کے لئے ایک اور حدیث پیش کرتا ہوں.ایک صحابی ابو برزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ كَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ

Page 69

مضامین بشیر ۶۲ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالحَدِيث بَعْدَهَا ۳ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو نا پسند فرماتے تھے.اور اسی طرح عشاء کے بعد بات چیت کرنے کو بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے.اس حدیث میں ابو برزہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایک خیال اپنے الفاظ میں منسوب کیا ہے.اور امام بخاری صاحب نے اسے بلا جرح اپنی صحیح بخاری میں درج فرمالیا ہے.اور ڈاکٹر صاحب کی طرح یہ اعتراض نہیں کیا کہ :- ابو برزہ اپنا خیال پیش کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے قبل سونے کو نا پسند فرماتے تھے مگر یہ انہیں کس طرح پتہ لگا کہ آنحضرت کا ایسا خیال تھا.کیا آپ نے کبھی فرمایا تھا کہ عشاء کی نماز سے قبل سونا مکروہ ہوتا ہے.......کیا یہ ممکن نہیں کہ ابو برزہ نے غلطی سے اپنے خیالات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کو قیاس کر لیا ہے.“ سی ڈاکٹر صاحب موصوف کے اپنے الفاظ ہیں جن میں سوائے ناموں کی تبدیلی کے میں نے کوئی تصرف نہیں کیا تا کہ اور نہیں تو کم از کم اپنے الفاظ کا لحاظ کر کے ہی ڈاکٹر صاحب میرے معاملہ میں کچھ در گذر سے کام لیں.دوسرا جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ خود اسی روایت کے اندر یہ ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فلاں موقع پر منگل کے دن کے متعلق اپنے خیال کا اظہار فرمایا تھا.مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے غصہ کے جوش میں اس کی طرف توجہ نہیں کی.میں ڈاکٹر صاحب سے با ادب عرض کرتا ہوں کہ وہ اس روایت کے آخری حصہ کا دوبارہ مطالعہ فرمائیں جہاں ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کی ولادت کا ذکر ہے.اور پھر بتائیں کہ کیا اس جگہ صاف الفاظ میں یہ لکھا ہوا موجود نہیں کہ اس وقت حضرت صاحب نے دعا فرمائی تھی کہ خدا اسے منگل کے خراب اثر سے محفوظ رکھے.اور پھر انصاف سے کہیں کہ اگر بالفرض کوئی اور واقع نہ بھی ہو.تو کیا صرف یہی واقعہ اس بات کے سمجھنے کے لئے کافی نہیں تھا.کہ حضرت صاحب منگل کے دن کو مقابلہ اچھا نہیں سمجھتے تھے.اندریں حالات ڈاکٹر صاحب کا یہ فرمانا کہ والدہ صاحبہ کو کیسے معلوم ہوا.کہ حضرت صاحب کا یہ خیال تھا کہ منگل کا دن اچھا نہیں ہے اور یہ کہ کیوں نہ یہ سمجھ لیا جاوے کہ والدہ صاحبہ نے خود بخود ہی ایسا سمجھ لیا ہو گا.ایک لایعنی بات ہے جس کی طرف کوئی فہمیدہ شخص توجہ نہیں کر سکتا.دوسرا اعتراض ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ ہے کہ اس روایت کے اندر جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے دعا فرمائی تھی کہ مبارکہ بیگم کی ولادت منگل کے دن نہ ہو تو اس بات کا کیا ثبوت

Page 70

۶۳ ہے یعنی کیا حضرت صاحب دعا کے لئے جاتے ہوئے یہ فرما گئے تھے کہ : - میں اس امر کے لئے دعا کرنے چلا ہوں یا دعا کے وقت میاں صاحب ( یعنی خلیفہ اسیح الثانی جو اس حصہ روایت کے راوی ہیں ) پاس کھڑے دعا کے الفاظ سنتے جاتے تھے.کیا یہ ممکن نہیں بلکہ اغلب یہی ہے کہ حضرت صاحب ایسے موقع پر بچہ کی ولادت کی سہولت کے لئے دعا کر رہے ہوں.مستورات کے دل میں جو منگل کی نحوست کا خوف تھا.اس نے والدہ صاحبہ یا دیگر مستورات کے دل پر یہ خیال مستولی کر دیا کہ حضور منگل کو ٹالنے کے لئے دعا کر رہے ہیں.میاں صاحب نے مستورات سے ایک بات لے لی اور اسے لے اڑے.آگے مخاطبین اپنے مرید ہیں جو سچ اور بجا کہنے اور سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! کا نعرہ بلند کرنے کو ہر آن موجود ہیں.66.مضامین بشیر ان الفاظ میں جس بے دردی کے ساتھ متانت کا خون کیا گیا ہے ، وہ ڈاکٹر صاحب کا ہی حصہ ہے جس میں خاکساران کے سامنے عہدہ بر آنہیں ہو سکتا.مکرم ڈاکٹر صاحب آخر آپ خود بھی کسی کے حلقہ بگوشوں میں اپنے آپ کو شمار کرتے ہوں گے پھر دوسرے کے متعلق ایسی دل آزار باتوں سے کیا حاصل ہے آپ میری کتاب پر ریویو فرما رہے ہیں شوق سے فرمائیے اور تنقید میں جو کچھ بھی جی میں آتا ہے شوق سے کہئے.مگر ان طعنوں اور دل آزار باتوں کو بلا وجہ درمیان میں لا کر کسی دوسرے کو اپنے او پر حرف گیری کرنے کا موقع کیوں دیتے ہیں.آگے آپ کا اختیار ہے.جو مزاج میں آئے کیجئے.انشاء اللہ میرے تو ازن طبع کو آپ متزلزل ہوتا نہیں دیکھیں گے.آپ نے اعتراض فرمایا ہے کہ یہ جو لکھا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مبارکہ بیگم کی ولادت کے موقع پر دعا فرمائی تھی.اس کے متعلق حضرت والدہ صاحبہ یا میاں صاحب کو کیسے پتہ لگا کہ وہ منگل کے متعلق تھی.کیا وہ دعا کے وقت ساتھ ساتھ تھے اور الفاظ سنتے جاتے تھے.یا حضرت صاحب دعا کے لئے جاتے ہوئے ان سے کہہ گئے تھے کہ میں فلاں امر کے لئے دعا کرنے جاتا ہوں اور پھر آپ نے حسب عادت اس پر مذاق اڑایا ہے.اس کے متعلق اگر آپ مجھے اجازت دیں تو مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ میں نے تو اس روایت میں ایسی عبارت کوئی نہیں لکھی جس سے یہ پتہ لگتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کرنے کے لئے اس جگہ سے اٹھ کر کہیں اور تشریف لے گئے تھے یا یہ کہ آپ نے با قاعدہ ہاتھ اٹھا کر کوئی لمبی دعا فرمائی تھی.اور جب یہ نہیں تو پھر آپ کو یہ کیسے پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود اس دعا کے لئے کسی اور جگہ تشریف لے گئے تھے یا یہ کہ آپ اتنی دیر تک یہ دعا

Page 71

مضامین بشیر ۶۴ فرماتے رہے تھے کہ دوسرے کو آپ کے ساتھ ساتھ رہ کر آپ کے الفاظ سننے کا موقع مل سکتا.جن معتبر ذرائع سے آپ کو بغیر اس کے کہ اس روایت میں کوئی ایسا ذکر موجود ہو، یہ سب مخفی علوم حاصل ہو گئے ان کے معلوم کرنے کا مجھے شوق ہے تا کہ میں آپ کی قوت استدلال کا اندازہ کر سکوں.اور اگر آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ بغیر اس قسم کا ذکر موجود ہونے کے خود بخودا اپنی طرف سے یہ باتیں فرض کر کے اعتراض قائم کر نے لگ جائیں تو دوسرے کے لئے بھی آپ کو یہ حق تسلیم کرنا چاہیئے.بہر حال جو بنیاد آپ اپنے ان استدلات کی پیش فرمائیں گے.اس سے زیادہ قوی اور یقینی بنیاد میں اس بات کی پیش کرنے کا ذمہ دار ہوں کہ حضرت والدہ اور حضرت میاں صاحب کو یہ علم کس طرح ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعا اس غرض کے لئے تھی کہ خدا تعالیٰ مولودہ کو منگل کے اثر سے محفوظ فرمائے.افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب دوسروں پر تو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات کس طرح سمجھی.حالانکہ اس کے سمجھنے کے لئے کافی و وافی قرائن موجود ہیں.لیکن خود بغیر کسی بنیاد کے نتیجہ پر نتیجہ قائم کرتے چلے جاتے ہیں.اور پھر طرفہ یہ کہ اپنے ان موہوم نتائج پر اپنی علمی تنقید کی بنیا د رکھتے ہیں.کیا یہی وہ مضمون ہے جس پر غیر مبایعین کو ناز ہے.اور جس کے جواب کے لئے میرے نام پیغام صلح کے پر چے خاص طور پر بھجوائے جاتے ہیں تا کہ دنیا پر یہ ظاہر کیا جائے کہ یہ وہ لا جواب مضمون ہے جس کے جواب کے لئے ہم خود خصم کو چیلنج دیتے ہیں مگر کوئی معقول جواب نہیں ملتا.مکرم ڈاکٹر صاحب خدا آپ کی آنکھیں کھولے.آپ نے بڑے ظلم سے کام لیا ہے.میں نے کہاں لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود دعا کے لئے کسی اور جگہ تشریف لے گئے جو آپ کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہوا کہ کیا وہ جاتے ہوئے فرما گئے تھے کہ میں اس امر کے لئے دعا کرنے جاتا ہوں ؟ پھر میں نے کہاں لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی باقاعدہ لمبی دعا کی تھی جو آپ کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہوا کہ کیا کوئی شخص حضرت صاحب کے ساتھ ساتھ ہو کر دعا کے الفاظ سنتا جاتا تھا.آپ نے خود ہی یہ باتیں فرض کر لیں اور پھر ان کی بنا پر خود ہی اعتراض جمادئیے.آپ کے تخیلات کے زور نے اس چھوٹی سی بات کو ایسا بڑا اور اہم بنا دیا ہے کہ میں اب اصل حقیقت کو عرض کرتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ کے احساسات کو کوئی ناگوار صدمہ نہ پہنچ جائے.مگر چونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں اس لئے مجبوراً عرض کرتا ہوں بات یہ ہے کہ اس تیرانداز شہزادہ کی طرح جس کا ذکر حالی کی ایک نظم میں آتا ہے آپ کے تخیلات کا تیر ہر جگہ لگا لیکن اگر نہیں لگا تو اصل نشانے پر نہیں لگا.جس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ اصل نشانہ بالکل قریب اور سامنے تھا اس لئے آپ کے تخیلات اپنے زور میں اسے چھوڑ کر بلند اور دور نکل گئے.حقیقت یہ ہے کہ میں نے صرف اتنی بات لکھی تھی کہ جب ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم پیدا

Page 72

مضامین بشیر ہونے لگیں تو حضرت مسیح موعود نے دعا فرمائی تھی کہ خدا اسے منگل کے اثر سے محفوظ رکھے.اب بات صاف تھی اور ڈاکٹر صاحب بھی اسے بڑی آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ حضرت صاحب نے اسی وقت گھر کی مجلس میں یہ دعائیہ الفاظ اپنی زبان سے فرما دیئے ہوں گے.اور بس.یعنی جب ولادت کا وقت ہوا تو حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر کہ منگل کا دن ہے اس مفہوم کے دعائیہ الفاظ فرمائے کہ خدا تعالیٰ بچہ کو منگل کے خراب اثر سے محفوظ رکھے.اب اس صاف حقیقت کو چھوڑ کر بات کا بتنگڑ بنا دینا کہ گویا حضرت مسیح موعود اس امر کے لئے خاص طور پر دعا کرنے کے واسطے کسی علیحدہ جگہ میں تشریف لے گئے ہوں گے اور جاتے ہوئے یہ فرماگئے ہوں گے کہ میں فلاں امر کے لئے دعا کرنے جاتا ہوں یا کوئی شخص خود بخود آپ کے پیچھے پیچھے جا کر آپ کے الفاظ سنتا گیا ہوگا وغیرہ وغیرہ یہ سب باتیں ڈاکٹر صاحب کے دماغی تخیلات کا نتیجہ ہیں جن کا کہ قطعاً کوئی ذکر صراحتہ یا کنا یہ روایت میں موجود نہیں ہے.افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک معمولی سی بات کو بڑا بنا دیا ہے.منگل کا اچھا یا برا ہونا کوئی اہم دینی امور میں سے نہیں ہے کہ جس پر ڈاکٹر صاحب اسقدر چیں بجیں ہوتے.دنیا کی ہر چیز ا چھے اور برے پہلو رکھتی ہے اور اشیاء کی برکات میں تفاوت بھی مسلم ہے.پھر ایک معمولی سی بات کو لے کر اس پر اعتراضات جماتے چلے جانا گویا کہ وہ نہایت اہم امور میں سے ہے.کہاں کا انصاف ہے اور پھر زیادہ افسوس یہ ہے کہ اپنی طرف سے ایسی باتیں فرض کر لی گئی ہیں کہ جن کا روایت کے اندر نام ونشان تک نہیں ایک سرسری بات تھی کہ مبارکہ بیگم کی ولادت پر حضرت صاحب نے دعا فرمائی کہ وہ منگل کے خراب اثر سے محفوظ رہے.جس کا منشاء صرف یہ تھا کہ اسوقت گھر کی مجلس میں حضرت صاحب نے اپنی زبان مبارک سے اس قسم کے دعائیہ الفاظ فرمائے.اس پر یہ فرض کر لینا کہ حضرت صاحب نے ایک خاص اہتمام کے ساتھ کسی تنہائی کی جگہ میں جا کر یہ دعا فرمائی ہوگی اور پھر اس فرضی واقعہ پر یہ سوال کرنا کہ کیا آپ جاتے ہوئے یہ فرما گئے تھے کہ میں اس غرض سے جا تا ہوں یا یہ کہ کوئی شخص آپ کے ساتھ ساتھ جا کر آپ کے الفاظ سنتا جاتا تھا.امانت و دیانت کا خون کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے شاید یہ سمجھ رکھا ہے کہ دعا کے لئے ضروری ہے.کہ وہ کسی خاص اہتمام کے ساتھ کسی علیحدہ جگہ میں جا کر کی جائے یا یہ کہ وہ اتنی لمبی ہو کہ کسی دوسرے شخص کو دعا کرنے والے کے ساتھ ساتھ رہ کر اس کے الفاظ سنے کا موقع مل سکے.مکرم ڈاکٹر صاحب ممکن ہے کہ آپ کی ساری دعائیں اسی شان کی ہوتی ہوں مگر میں تو دیکھتا ہوں کہ دعا کے مختلف رنگ ہوتے ہیں.اور اگر کسی علیحدہ جگہ میں جا کر لمبی دعا کرنا دعا کہلاتی ہے تو کسی بات کے پیش آنے پر اسی جگہ بیٹھے بیٹھے یا کھڑے کھڑے دعائیہ الفاظ کہہ دینا بھی دعا ہی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ابن عباس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کے

Page 73

مضامین بشیر ۶۶ لئے پانی کا لوٹا بھر کر لائے تو آپ نے دعا فرمائی کہ خدا اسے دین کا علم عطا کرے.اور سب لوگ اس کے یہی معنی سمجھتے رہے ہیں کہ آپ نے وہیں بیٹھے بیٹھے یہ دعائیہ الفاظ اپنی زبان مبارک سے فرمائے تھے مگر ڈاکٹر صاحب کے نزدیک شاید یہ معنی ہوں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت وضو کی تیاری چھوڑ کر کسی حجرہ میں تشریف لے گئے ہوں گے تا کہ وہاں جا کر ابن عباس کی علمی ترقی کے لئے دعا فرما ئیں.اور جاتے ہوئے یہ فرماگئے ہوں گے میں اس غرض سے جاتا ہوں یا کوئی شخص آپ کے ساتھ ساتھ جا کر آپ کے الفاظ سنتا جاتا ہو گا تعصب کا ستیا ناس ہو یہ بھی انسان کی عقل پر کیسا پردہ ڈال دیتا ہے.حمید ایک اعتراض ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ ہے کہ یہ جو لکھا گیا ہے کہ منگل کا منحوس اثر صرف دنیا او راہل دنیا کے لئے ہے اور آخرت والوں پر اس کا اثر مبارک پڑ رہا ہے.یہ فضول بات ہے گویا اگر کچھ اثر ہے تو سب طرف ایک سا اثر ہونا چاہیئے اور اس تفریق کی کوئی وجہ نہیں.اس اعتراض کے جواب سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ڈاکٹر صاحب کا سراسر ظلم ہے کہ وہ بار بار میری طرف یہ منسوب کر رہے ہیں کہ گویا میرے نزدیک منگل منحوس دن ہے.میں نے ایسا بالکل نہیں لکھا.اور مجھے ڈاکٹر صاحب کی جرات پر حیرت ہے کہ کس دلیری کے ساتھ وہ میری طرف ایسی بات منسوب کرتے جاتے ہیں جس کا نام و نشان تک میری تقریر وتحریر میں موجود نہیں.بلکہ اگر ڈاکٹر صاحب میری بات کا یقین کر سکیں تو میں یہ کہوں گا کہ جو کبھی میرے وہم وگمان میں بھی نہیں آئی میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ حضرت صاحب منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے.جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دوسرے ایام کے مقابلہ میں اپنے افاضہ برکات کے لحاظ سے کم ہے اور نیز یہ کہ اس کا اثر شدائد اور تختی وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے.لیکن ڈاکٹر صاحب نہ معلوم کن مخفی اثرات سے متاثر ہوکر میری طرف اپنے مضمون میں بار بار یہی خیال منسوب کرتے جاتے ہیں کہ میں منگل کو ایک منحوس دن سمجھتا ہوں.دراصل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ہندو لوگ عموماً منگل کو منحوس سمجھتے ہیں.اس لئے ڈاکٹر صاحب نے ان سے متاثر ہو کر بلا سوچے سمجھے میری طرف بھی یہی عقیدہ منسوب کر دیا ہے.حالانکہ نہ میں نے ایسا لکھا اور نہ میرے خیال میں کبھی یہ بات آئی.باقی رہا اصل معاملہ یعنی ڈاکٹر صاحب کا یہ اعتراض کہ یہ جو میں نے لکھا ہے.کہ گویا دنوں وغیرہ کی شمار اہل دنیا کے واسطے ہے.آخرت پر اس کا اثر نہیں ، یہ غلط ہے.سو اس کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے پوری طرح میری بات پر غور نہیں فرمایا.میر امنشاء یہ تھا کہ ہر ایک چیز کا ایک معتین حلقہ اثر ہوتا ہے جس کے اندراندراس مطبوعہ الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۲۶ء

Page 74

۶۷ مضامین بشیر کا اثر محدود رہتا ہے اور چونکہ ستارے اس عالم دنیوی کا ایک حصہ ہیں اس لئے ان کا اثر بھی اسی دنیا تک محدود ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر ڈاکٹر صاحب اعتراض پیدا کرتے اور یہ خیال کہ اگر کسی ستارہ کا اثر اس دنیا کے اوپر کسی خاص رنگ میں پڑ رہا ہے تو ضرور ہے کہ آخرت پر بھی اس کا وہی اثر پڑتا ہو.ایک طفلانہ خیال ہے.ایک درخت اگر ایک جگہ سایہ ڈال رہا ہے تو کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ وہ دوسری جگہ بھی سایہ ڈال رہا ہو گا.آخر اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ قدرت نے جو قانون مخلوقات میں جاری کیا ہے وہی چلے گا.اور ڈاکٹر صاحب یا کسی اور کی مرضی اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتی.اور ڈاکٹر صاحب کا یہ فرمانا کہ وفات کے وقت تو حضرت صاحب ابھی دنیا میں ہی تھے.تو کیا ان کے لئے وہ ایک مبارک گھڑی آ رہی تھی یا منحوس ! یعنی اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آخرت پرستاروں کا کوئی اثر نہیں پھر بھی اس اعتراض کا کیا جواب ہے کہ قرب وفات کے وقت تو حضرت صاحب ابھی دنیا میں ہی تھے.(اور چونکہ دنیا ستاروں کے اثر کے نیچے ہے اور وہ منگل کا دن تھا ) تو کیا وصال محبوب کی آمد آمد حضرت صاحب کے لئے منحوس تھی ؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں جو قابل افسوس میلان نحوست و منحوس وغیرہ کی طرف پیدا ہو گیا ہے اس کے متعلق عرض کر چکا ہوں کہ اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں ، میرا اس میں قطعاً کوئی دخل نہیں.میں نے نہ یہ الفاظ لکھے اور نہ ان کا مفہوم میرے ذہن میں تھا.میں نے تو صرف یہ لکھا تھا کہ حضرت صاحب منگل کے دن فوت ہوئے تھے اور وہ دن دنیا کے لئے ایک مصیبت کا دن تھا.لیکن چونکہ زمانہ کا اثر دنیا تک محدود ہے اس لیئے آخرت کے نقطہ نگاہ سے وہ گھڑی حضرت صاحب کے لئے وصال محبوب کی مبارک گھڑی تھی.اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ان دو باتوں میں قطعاً کوئی تناقص نہیں کیونکہ دو مختلف موقعوں کے لحاظ سے دو مختلف حالتیں ہوسکتی ہیں.فرض کرو کہ ایک دائرہ ہے کہ جو سختی اور شدائد کا حلقہ ہے.اور اس کے باہر ایک مقام آرام اور خوشی کا ہے.اب اگر ایک شخص اس دائرہ کے اندر ہے اور اس کے کنارے کی طرف چل رہا ہے تو وہ جب تک کہ دائرہ سے باہر نہیں ہو جا تا شدائد کے حلقہ کے اندر ہی سمجھا جائے گا.لیکن بایں ہمہ مسرت و خوشی کے مقام سے بھی وہ قریب ہوتا جائے گا.ایسی حالت میں کیا کوئی شخص یہ کہ سکتا ہے کہ آرام و خوشی کا مقام اس شخص کے لئے سختی اور شدائد کا مقام ہے؟ ہرگز نہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے وصال محبوب کی آمد شدائد کا پہلو ( یا بقول ڈاکٹر صاحب نعوذ باللہ خوست کا پہلو ) ہرگز نہیں رکھتی تھی.بلکہ شدائد ومصیبت کا پہلوصرف ان لوگوں کے لئے تھا جن کو آپ اپنے پیچھے چھوڑ رہے تھے.یعنی دنیا و اہل دنیا کے لئے.اور یہی میں نے لکھا تھا جسے ڈاکٹر صاحب نے بگاڑ کر کچھ کا کچھ بنا دیا ہے.

Page 75

مضامین بشیر ۶۸ آخری اعتراض ڈاکٹر صاحب کا اصل مسئلہ کے متعلق ہے.ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں :- حضرت صاحب کے اصحاب میں سے کوئی شخص یہ بتا سکتا ہے کہ حضرت صاحب کے کسی قول یا فعل سے صراحتہ یا کنایہ کبھی ایسا محسوس ہوا ہو کہ آپ منگل کے دن کو منحوس سمجھتے تھے.قرآن میں کہیں نہیں ، حدیث میں کہیں نہیں ، حضرت صاحب کی تقریر و تحریر میں کہیں نہیں.اگر منگل کا دن ایسا ہی منحوس تھا تو کیا آپ کا فرض نہ تھا کہ اس راز کو جماعت کو بتلا جاتے کس قدر لغو! کہ وہ شخص جو قرآن کا بینظیر علم رکھتا تھا جس کے فیض صحبت سے بہت سے امی عالم قرآن بن گئے.وہ قرآن کی یہ آیت معاذ اللہ نہ جانتا تھا.کہ سَخَّرَ لَكُمُ مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِیعاً ۱۵ کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب کچھ تمہاری خدمت میں لگا ہوا ہے.وہ شخص جو انسان کی خلافت الہی کا نکتہ جماعت کو بتلا گیا وہ نعوذ باللہ منگل سے ڈرتا تھا.اور دعا کرتا تھا کہ منگل کا دن ٹل جاوے گویا منگل کا دن ٹل جائے گا تو تقدیر الہی بدل جائے گی.“ کاش یہ زور قلم صداقت کی تائید میں خرچ ہوتا ! کاش یہ لفاظی حقیقت پر پردہ ڈالنے میں استعمال نہ کی جاتی.میں ڈاکٹر صاحب کی جرات پر حیران ہوں کہ اپنے مطلب کے حاصل کرنے کے لئے کس طرح ایک چھوٹی سی بات کو بڑھا کر اس طرح آہ و پکار شروع کر دیتے ہیں کہ گویا دنیا میں ایک ظلم عظیم بر پا ہو گیا ہے.جس کے مقابلہ کے لئے ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی کی اعلیٰ ترین طاقتیں وقف کر دینا چاہتے ہیں.ایک سرسری سی بات تھی کہ دن اپنی برکات اور تاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متفاوت ہیں اور اس میزان میں منگل کا دن سب سے سخت ہے.اب اس پر یہ واویلا اور یہ شور پکار کہ گویا آسمان ٹوٹ پڑا ہے.کہاں کا انصاف ہے.ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : - حضرت صاحب کے اصحاب میں سے کوئی شخص یہ بتا سکتا ہے کہ حضرت صاحب کے کسی قول یا فعل سے صراحتہ یا کنا یہ کبھی ایسا محسوس ہوا ہو کہ آپ منگل کے دن کو منحوس سمجھتے تھے.“ غیظ وغضب میں سب کچھ بھول جانے والے ڈاکٹر صاحب خدا کے لئے یہ منحوس کا لفظ ترک کر دیجئے.غالباً آپ کے سوا دنیا کا ہر فرد بشر یہ گواہی دے سکتا ہے کہ میری تحریر میں کسی جگہ منگل کے دن کے متعلق منحوس یا اس کا کوئی ہم معنی لفظ استعمال نہیں ہوا اور میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میری

Page 76

۶۹ مضامین بشیر نیت میں بھی یہ نہ تھا کہ منگل کوئی منحوس دن ہے تو پھر اس ظلم کے کیا معنی ہیں کہ آپ اس تکرار اور اس اصرار کے ساتھ میری طرف یہ لفظ منسوب کرتے جاتے ہیں.اگر آپ کو دنیا کا ڈر نہیں ہے تو خدا سے ہی ڈریئے.باقی آپ کا یہ فرمانا کہ کیا حضرت صاحب کے اصحاب میں سے کوئی ہے جو یہ بیان کر سکے کہ حضرت صاحب کا ایسا خیال تھا.اس کے جواب میں عرض ہے کہ شاید آپ بھول گئے ہوں میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ اس روایت کے راوی حضرت کے اصحاب میں سے ہی ہیں.پہلی روا یہ حضرت والدہ صاحبہ ہیں جن کے صحابیہ ہونے سے آپ با وجود اس قدر مخالفت کے بھی انکار نہیں کر سکتے.دوسرے راوی حضرت خلیفہ ثانی ہیں جو وہ بھی صحابیوں میں سے ہیں.پھر نا معلوم آپ کس صحابی کی شہادت ڈھونڈتے ہیں اور اگر آپ کا یہ منشاء ہے کہ ان راویوں کے علاوہ کوئی اور راوی ہو تو اول تو اس ترجیح بلا مرجح کی کوئی وجہ چاہیئے کہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفہ ثانی کی روایت کیوں منظور نہیں اور دوسروں کی کیوں منظور ہے.اور پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جب میں نے کوئی اور شہادت پیش کی تو آپ یہ نہ فرمائیں گے.کہ اس راوی کی شہادت بھی میں نہیں مانتا.کوئی اور راوی لاؤ تب مانوں گا.آپ خود فرمائیں کہ اس طرح یہ سلسلہ بھی بند بھی ہوسکتا ہے مگر چونکہ آپ کو بہت اصرار ہے اس لئے ایک اور شہادت پیش کرتا ہوں.امید ہے اس شہادت کے متعلق آپ کو جرح کا خیال نہیں آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں : - ستارے فقط زینت کے لئے نہیں ہیں جیسا کہ عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان میں تاثیرات ہیں.یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے.اسی قسم کا دخل جیسا کہ انسانی صحت میں دوا اور غذا کو ہوتا ہے ( یعنی وہ دنیا اور اہل دینا پر دوا اور غذا کی طرح اچھا اور برا اثر ڈالتے ہیں پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے لہذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلوفر اور تربد اور سقمونیا اور خیارشنبر کی تاثیرات کا تو قائل ہے.( جیسا کہ اطباء لوگ قائل ہوتے ہیں.اور خوش قسمتی سے ڈاکٹر بشارت احمد صاحب بھی طبیب ہیں اور ان ادویہ کی تاثیرات کے ضرور قائل ہوں گے مگر ان ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اول درجہ پر بجلی گاہ اور مظہر العجائب ہیں..یہ لوگ جو سرا پا جہالت میں غرق ہیں اس علمی سلسلہ کو شرک میں داخل کرتے ہیں.14

Page 77

مضامین بشیر لیجئے ڈاکٹر صاحب اب آپ کیا فرماتے ہیں ستاروں کی تاثیرات کے متعلق حضرت صاحب نے کیسا صاف فیصلہ فرما دیا ہے اور اگر آپ کو یہ عذر ہو کہ یہ تو صرف عام تا خیرات کا بیان ہے حضرت صاحب نے یہ تو نہیں لکھا کہ انسان کی ولادت پر بھی ستاروں کا اثر پڑتا ہے کیونکہ یہاں پر زیر بحث ایک بچہ کی ولادت کا سوال ہے نہ کہ کوئی عام تاثیرات کا ذکر تو اس کے متعلق بھی ملا حظہ فرمائیے حضرت صاحب تحریر فرماتے ہیں :- چونکہ اللہ تعالی علمی سلسلہ کو ضائع کرنا نہیں چاہتا اس لئے اس نے آدم کی پیدائش کے وقت ان ستاروں کی تاثیرات سے بھی کام لیا.کلا میں نہیں سمجھ سکتا کہ حضرت صاحب کے اس غیر مشکوک فیصلہ کے بعد ڈاکٹر صاحب یا کوئی اور احمدی ایک لمحہ کے لئے بھی ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہوسکتا ہے اور یہی وہ بات تھی جو میں نے اس روایت میں بیان کی تھی جس پر ڈاکٹر صاحب نے اتنی آہ و پکار کی ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب یہ فرمائیں کہ ان حوالجات میں منگل کا کہاں ذکر ہے تو گو منگل کو مخصوص طور پر ذکر کئے جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سارے مسئلہ کی بنیاد اس اصل پر ہے کہ ستاروں کی تاثیرات زمانہ اور اہل زمانہ اور ولادت بچگان پر پڑتی ہیں اور ان حوالجات میں قطعی طور پر یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ ستارے اس قسم کی تاثیرات اپنے اندر رکھتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ تاثیرات دوا اور غذا کی طرح مفید اور ضرر رساں ہر دو پہلو اپنے ساتھ رکھتی ہیں.گوڈاکٹر صاحب پر مزید اتمام حجت کرنے کے لئے ایک اور حوالہ بھی پیش کرتا ہوں.حضرت صاحب فرماتے ہیں :- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ.مریخ کے اثر کے ماتحت ہے.اور یہی سر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مفسدین کے قتل اور خوں ریزی کے لئے حکم فرمایا گیا جنہوں نے مسلمانوں کو قتل کیا اور قتل کرنا چاہا اور ان کے استیصال کے درپے ہوئے اور یہی خدا تعالیٰ کے حکم اور اذن سے مریخ کا اثر ہے.‘۱۸ اس جگہ مریخ کا اثر شدائد اور سختی اور قتل و خونریزی کے رنگ میں ظاہر کیا گیا ہے.اور ڈاکٹر پنے مضمون میں بیان کرتے ہیں کہ ہندوؤں کا ستارا منگل اور اسلامی ہئیت دانوں کا مریخ ایک ہی ہیں.پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک منگل کا اثر شدائد اور سختی اور قتل و خونریزی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور یہی میری روایت کا منشاء تھا اور اگر اس جگہ کسی کو یہ

Page 78

21 مضامین بشیر خیال پیدا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مریخ کے اثر کے ماتحت کیوں ہوئی تو اس کا جواب آگے آئے گا.ہے ڈاکٹر صاحب ستاروں کے اثرات کے متعلق تحریر فرماتے ہیں یہ مسئلہ : - یہ مسئلہ قرآن شریف میں کہیں نہیں.حدیث میں کہیں نہیں.حضرت صاحب کی 66 تقریر و تحریر میں کہیں نہیں.“ حضرت صاحب کا فیصلہ تو پیش خدمت کر چکا ہوں اب حدیث کو لیجئے.بخاری میں ایک حدیث آتی ہے کہ ایک سفر میں رات کو بارش ہوئی اور صبح کو لوگوں میں یہ باتیں ہوئیں کہ یہ بارش فلاں فلاں ستاروں کی وجہ سے ہوئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز میں تشریف لائے تو آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے فرمایا ہے کہ : - أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِى مُؤْمِنُ بِى وَكَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ : مُطِرُنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَالِكَ مُؤْمِنُ بِى كَافِرٌ بِالْكَوْ كَبِ ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ: بنَوْءِ كَذَا وكَذَا، فَذَالِكَ كَافِرٌ بِي مُؤْمِنُ بِالْكَوْكَبِ ۱۹ یعنی خدا فرماتا ہے کہ آج صبح میرے بندوں میں سے بعض نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ مجھ پر ایمان لانے والے اور ستاروں کا کفر کرنے والے تھے اور وہ وہ تھے جنہوں نے یہ کہا کہ خدا کے فضل اور رحمت سے ہم پر بارش برسی ہے.اور وہ 66 جنہوں نے یہ کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کے اثر نے بارش برسائی ہے، وہ میرے کافر ہوئے اور ستاروں کے مومن بنے.یہ حدیث نبوی جس میں امت محمدیہ کو توحید کا ایک نہایت لطیف سبق سکھایا گیا ہے.اس بات کا ایک ثبوت ہے کہ ستارے اپنے اندر دنیا اور اہل دنیا کے لئے تاثیرات رکھتے ہیں کیونکہ اگر ستاروں میں تا خیرات نہ ہوتیں تو یہ نہ کہا جاتا کہ ستاروں کی تاثیر کی طرف بارش وغیرہ کو منسوب نہ کرو اور خدا کے فضل و رحمت کی طرف منسوب کیا کرو.بلکہ اس صورت میں یہ بیان کیا جاتا کہ بارش کے برسنے میں ستاروں کے اثر کا دخل نہیں.بلکہ فلاں فلاں اسباب کا دخل ہے.لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ انعامات کو خدا کے فضل و رحمت کی طرف منسوب کرنا چاہیئے.جس میں یہ صاف اشارہ ہے کہ ستاروں کی تاثیرات تو درست ہیں لیکن مومن کو چاہیئے کہ تمام ارضی اور سماوی انعامات کو خدا کے فضل کی طرف منسوب کیا کرے اور درمیانی وسائط کو صرف بطور ایک خادم کے سمجھے.تا کہ ایک تو اس مطبوعہ الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۲۶ء

Page 79

مضامین بشیر ۷۲ کا قلب خدا کے شکر و امتنان کے جذبات سے معمور رہے اور دوسرے یہ کہ وہ اس نکتہ کو بھول کر کسی مخفی شرک میں مبتلا نہ ہو کہ دنیا کا کارخانہ خواہ کتنے ہی لمبے سلسلہ اسباب کے ماتحت چل رہا ہو ، اس کا اصل چلانے والا صرف خدا ہی ہے اور باقی ہر اک چیز اس کی خادم اور اس کے قبضہ تصرف کے نیچے ہے.والا اگر اس حدیث کا یہ منشاء نہ ہوتا تو عبارت اس طرح ہونی چاہئے تھی کہ بارشیں ستاروں کے اثر کے ماتحت نہیں ہوتیں بلکہ فلاں فلاں سبب سے ہوتی ہیں.پس ستاروں کی تاثیر کے مقابلہ میں کسی دوسرے سبب کا بیان نہ کرنا بلکہ خدا کے فضل اور رحمت کا نام لینا جو الاسباب ہے صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہاں ستاروں کی تاثیر کا انکار مقصود نہیں بلکہ ان کی تا شیر کو تسلیم کرتے ہوئے اس مواحدانہ نکتہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ ہر انعام کو خدائے واحد کے فضل و رحمت کی طرف منسوب کرنا چاہیئے.مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ نہ کہو کہ عمر جو بیمار تھا وہ زید کے علاج سے اچھا ہوا ہے بلکہ یہ کہو کہ خدا کے فضل نے اسے اچھا کیا ہے تو اس کے یہ صاف معنی ہوں گے کہ علاج تو زید کا ہی تھا لیکن شفایابی کی نسبت خدا کی طرف ہوئی چاہیئے جس نے زید کو صحیح اور درست علاج کی توفیق دی.مسب خلاصہ یہ کہ سبب کے مقابلہ میں مسبب کا ذکر نہ کرنا اس وجہ سے نہیں ہوا کرتا کہ وہ سبب غلط ہے بلکہ اس لئے کہ اصل نام لینے کے قابل مسبب ہے اور اگر سبب کی نفی مقصود ہو تو اس کے مقابلہ میں مسبب کو نہیں بلکہ کسی دوسرے سبب کو لایا جاتا ہے.پس ثابت ہوا کہ حدیث مذکورہ بالا میں ستاروں کی تاخیر کی نفی نہ کرتے ہوئے خدا کے فضل و رحمت کا نام نہ لینا اس بات کا صاف ثبوت ہے کہ ستاروں کی تاثیر برحق ہے.باقی ایمان و محبت کا یہ تقاضا ہونا چاہیئے کہ تمام انعامات ارضی و سماوی کی نسبت خدا کے فضل و رحمت کی طرف کی جائے اور درمیانی وسائط کو ان کا باعث قرار دے کر خدا کے فضل و رحمت کو مشکوک نہ بنایا جائے.الغرض اس حدیث سے ستاروں کی تاخیر کا وجو د ثا بت ہے.و ہوالمراد اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث سے یہ کہاں پتہ چلتا ہے کہ تا شیر سماوی کی وجہ سے دن بھی اپنی برکات و تاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متفاوت ہیں تو اس کے متعلق مندرجہ ذیل حدیث پیش کرتا ہوں.ضَّلَ اللَّهُ عَنِ الْجُمُعَةِ مَنْ كَانَ قَبلنا، فَكَانَ لِلْيَهُودِ يَوْمُ السَّبُتِ، وَكَانَ لِلْنَصَارَى يَوْمُ اللَّا حَدِ، فَجَاءَ اللَّهُ بِنَا، فَهَدَانَا اللَّهُ لِيَؤْمِ الْجُمُعَة - ٢٠

Page 80

۷۳ مضامین بشیر یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو امتیں ہم سے پہلے گذری ہیں وہ جمعہ کے دن کو اپنا مبارک دن قرار دینے سے بھٹکی رہیں.چنانچہ یہود نے ہفتہ کو اپنا مبارک دن بنالیا اور عیسائیوں نے اتوار کو لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا میں قائم کیا تو اس نے ہم کو جمعہ کے دن کی طرف ہدایت کی اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ جمعہ کے دن کو دوسرے دنوں پر ایک امتیاز حاصل ہے جس کی وجہ سے وہی اس بات کی اہلیت رکھتا ہے کہ اسے ہفتہ کا مبارک دن قرار دے کر اس دن اپنی مخصوص اور اجتماعی عبادات کو سرانجام دیا جائے اور یہ جو بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جمعہ کے دن جو ایک مخصوص اجتماعی عبادت رکھی گئی ہے تو اس کی وجہ سے جمعہ کو امتیاز حاصل ہو گیا ہے ، یہ غلط ہے کیونکہ جیسا کہ حدیث مذکورہ بالا سے پتہ لگتا ہے حق یہ ہے کہ جمعہ کا یہ امتیاز اس عبادت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ عبادت اس لئے ہے کہ جمعہ کو ایک امتیاز حاصل ہے.چنانچہ موطا کی ایک روایت ہے کہ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ.ال.یعنی سب دنوں میں سے جمعہ کا دن مبارک ترین دن ہے.“ پس ثابت ہوا کہ دن اپنی برکات اور تاثیرات میں ایک دوسرے سے متفاوت ہیں.اسی طرح ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفروں کے لئے عموماً جمعرات کے دن کو پسند فرماتے تھے جس سے یہ ظاہر ہے کہ جمعرات اپنی برکات کے لحاظ سے باقی دنوں پر فوقیت رکھتا ہے.ور نہ کوئی وجہ نہیں کہ آپ اسے دوسروں پر ترجیح دیتے.الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ دنوں میں برکات کا فرق تسلیم فرماتے تھے اور اس فرق سے مناسب حد تک فائدہ اٹھانے کا خیال بھی آپ کو رہتا تھا.اب رہی قرآن کی شہادت سو وہ بھی ملاحظہ ہو.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- اَوَلَمْ يَرَوُا إِلى مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّؤُا ظِلَلُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِل سُجَّدَ اللهِ.۲۲ یعنی کیا لوگ نہیں دیکھتے کہ دنیا کی ہر چیز کا سایہ یعنی اثر خدا کے حکم کے ماتحت دائیں بائیں یعنی ہر طرف پھرتا ہے.“ اس اصل کے ماتحت ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ستارے بھی اپنے اندر تا ثیرات رکھتے ہیں اور نیز یہ کہ یہ تا شیر دنیا کی ہر چیز پر اثر پیدا کر رہی ہے.پس ثابت ہوا کہ ستاروں کا اثر زمانہ اور اہل زمانہ اور

Page 81

مضامین بشیر ۷۴ حیات انسانی پر بھی پڑتا ہے اور یہی میری روایت کا منشاء تھا.اور اگر کسی شخص کو یہ شبہ گذرے کہ اس آیت کریمہ میں تو ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے.ستاروں کی تاثیر کا کوئی خاص ذکر نہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ جب اس آیت میں دنیا کی ہر چیز میں ہر دوسری چیز کے لئے تاثیر مان لی گئی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ ستارے بھی کسی نہ کسی رنگ میں انسان کی زندگی پر اپنا اثر ڈالتے ہیں.مگر معترض کی مزید تسلی کے لئے ایک اور آیت پیش کرتا ہوں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۲۳ یعنی ہم نے آسمانوں کو روشن ستاروں سے زینت دی ہے تا کہ وہ نظام عالم کی 66 حفاظت میں بھی کام دیں.اس جگہ ستاروں کی تین غرضیں بیان کی گئی ہیں.اول زینت دوسر کے تنویر.تیسر کے حفاظت و تقویم عالم اور تیسری شق کے اندر ان کی وہ مختلف تاثیرات شامل ہیں جو وہ دنیا اور اہل دنیا پر قانون قدرت کے ماتحت ڈالتے رہتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں کہ : - یہ ستارے فقط زینت کے لئے نہیں ہیں جیسا کہ عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان میں تا ثیرات ہیں جیسا کہ آیت وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا یعنی حفظا کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے.۲۴ پھر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ گولڑویہ میں ان آیات قرآنی کی تفسیر فرمائی ہے جن میں آدم کی پیدائش اور اس کے متعلق فرشتوں کے سوال کا ذکر ہے.اس میں بھی آپ نے یہی بات بیان کی ہے کہ : - فرشتوں نے جو آدم کی پیدائش پر خدا سے یہ سوال کیا کہ کیا تو ایک ایسی مخلوق بنانے لگا ہے جو دنیا میں فتنوں کا موجب ہو گی.کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ جمعہ کا دن قریبا گذر چکا ہے.اور اب ستارہ زحل کا اثر شروع ہونے والا ہے جو قہر و عذاب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے.جس پر ان کو گھبراہٹ پیدا ہوئی تو اس پر خدا نے فرمایا کہ انی اعلم ما لا اتعلمون یعنی تمہیں خبر نہیں.کہ میں آدم کو کس وقت بناؤں گا.میں مشتری کے وقت کے اس حصہ میں اسے بناؤں گا جو اس دن کے تمام حصوں میں سے زیادہ مبارک ہے اور اگر چہ جمعہ کا دن سعد اکبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہر ایک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے.۲۴

Page 82

۷۵ مضامین بشیر یہ الفاظ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہیں جو آپ نے ان آیات قرآنی کی تفسیر میں تحریر فرمائے ہیں.الغرض قرآن شریف میں یہ بات ثابت ہے کہ ستارے اپنے اندر تا ثیرات رکھتے ہیں.یہ تاثیرات دنوں اور زمانوں پر بھی اپنا اثر رکھتی ہیں.وہو المراد میں بفضلہ تعالیٰ یہ ثابت کر چکا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے جو تحدی کے ساتھ یہ لکھا تھا کہ : - قرآن میں کہیں نہیں.حدیث میں کہیں نہیں.حضرت مسیح موعود کی تقریر و تحریر 66 میں کہیں نہیں.“ یہ بالکل غلط اور ایک محض بے بنیاد دعوئی ہے جس کی کچھ بھی حقیقت نہیں.اس کے بعد ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :.دو کس قد ر لغو کہ وہ شخص جو قرآن کا بے نظیر علم رکھتا تھا.جس کی فیض صحبت سے بہت سے اُمّی عالم قرآن بن گئے.وہ قرآن کی یہ آیت معاذ اللہ نہ جانتا تھا کہ سَخَّرَ لَكُمُ مَا فِى السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ ۳۶ے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے وہ سب کا سب تمہاری خدمت میں لگا ہوا ہے.مکرم ڈاکٹر صاحب ! خدا آپ کو اس آتش غضب سے نجات دے.آپ کیسی باتیں کرتے ہیں.اگر سانپ اور بچھو با وجود اس کے کہ وہ لاکھوں انسانوں کی جانیں ہر سال ضائع کر دیتے ہیں اور شیر اور چیتا اور بھیڑیا با وجود اس کے کہ وہ ہر آن اس تاک میں رہتے ہیں کہ انسان کو اپنی خوراک بنائیں اور پھر یہ ہزاروں قسم کے زہر اور لاکھوں قسم کی دوسری مضرت رساں چیزیں جن کے تکلیف دہ اثرات کا انسان نشانہ بنا رہتا ہے.انسان کی خدمت کے لئے مسخر سمجھی جاسکتی ہیں تو بعض قہری اور شدائد کا پہلو رکھنے والی تاثیرات والے ستارے کیوں نہ مستخر سمجھے جائیں.افسوس ڈاکٹر صاحب نے غور نہیں کیا کہ ہر اک چیز مستظر ہے ان معنوں میں کہ وہ خدا کے حکم اور اس کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت ہے.اور پھر ہر اک چیز انسان کے لئے مسخر ہے ان معنوں میں کہ انسان خدا کے مقرر کردہ قانون کا علم حاصل کر کے اس سے اپنی ترقی و بہبودی میں مدد حاصل کر سکتا ہے.پس خدا کی قہری اور جلالی شان کو ظاہر کرنے والی چیزیں بھی انسان ہی کے لئے مسخر ہیں کیونکہ ان کے اندر بھی انسان کی فلاح و بہبودی کا راز مضمر ہے.ابلیس بھی جو آگ سے پیدا کیا گیا اور ہر وقت ابن آدم کو گمراہ اور آلام میں مبتلا کرنے کے درپے رہتا ہے اس آیت تسخیر سے باہر نہیں کیونکہ وہ بھی انسانی فطرت کے بہت سے مخفی مگر قیمتی جو ہروں کو ظاہر کرنے اور نشو و نما دینے کا باعث بنتا ہے.مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے بالکل عامیانہ رنگ میں ایک اعتراض کر دیا ہے اور اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کی طرف توجہ نہیں کی.

Page 83

مضامین بشیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تین چیزیں بعض اوقات انسان کے لئے نحوست کا موجب ہو جاتی ہیں.ایک مکان دوسرے بیوی اور تیسرے سواری تو کیا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک یہ چیزیں تسخیر سے باہر ہیں.پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں :- وہ شخص جو انسان کی خلافت الہی کا نکتہ جماعت کو بتلا گیا.وہ نعوذ باللہ منگل سے ڈرتا تھا اور دعا کرتا تھا کہ منگل کا دن ٹل جائے.گویا منگل کا دن ٹل جائے گا تو 66 تقدیر الہی بدل جائے گی.“ میں ڈاکٹر صاحب سے خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ وہ دیانت داری سے یہ بتائیں کہ میں نے کہاں لکھا ہے کہ حضرت صاحب منگل سے ڈرتے تھے.آخر اس ظلم کے کیا معنی ہیں کہ خوانخواہ بلا وجہ ایک بات میری طرف منسوب کر کے اس پر اعتراض جما دیا جاتا ہے.میں نے صرف یہ لکھا تھا ނ کہ حضرت صاحب نے مبارکہ بیگم کی ولادت کے وقت دعا فرمائی تھی کہ خدا اسے منگل کے اثر محفوظ رکھے.جو شدائد اور سختیوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے.اب اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ گویا حضرت صاحب منگل سے ڈرتے تھے ، انصاف کا خون کرنا نہیں تو اور کیا ہے.اور اگر ڈاکٹر صاحب دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر ڈرنے کا لفظ جائز طور پر استعمال ہوسکتا ہے تو میں ان سے بادب پوچھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنے سفروں کے لئے جمعرات کا دن پسند فرماتے تھے تو کیا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باقی دنوں سے ڈرتے تھے.اور پھر حضرت مسیح موعود نے جو یہ لکھا ہے کہ : - اللہ تعالیٰ نے آدم کی پیدائش کے وقت خاص خاص ستاروں کی تاثیرات سے کام لیا.“ تو کیا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک نعوذ باللہ خدا باقی ستاروں سے ڈرتا تھا.“ افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس قسم کی بچگانہ باتوں کو اپنے مضمون کے اندر داخل کر کے خواہ نخواہ اپنے وقار کو صدمہ پہنچایا ہے.پھر ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں.گویا منگل کا دن ٹل گیا تو تقدیر الہی بدل جائے گی.“ مکرم ڈاکٹر صاحب ! خدا آپ کی آنکھیں کھولے.تقدیر الہی تو قانون قدرت کے ماتحت بات بات پر بدلتی ہے.پھر وہ منگل کے ٹلنے سے بدل جائے تو آپ کو کیا اعتراض ہے.آپ کے پاس ایک ملیریا کا : مطبوعه الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۲۶ء

Page 84

LL مضامین بشیر بیما رآتا ہے جس کے خون کے جراثیم اگر ہلاک نہ کئے جائیں تو اس کی تقدیرہ یہ ہے کہ وہ خود ہلاک ہو.لیکن آپ اسے کو نین دے کر اس کی تقدیر کو بدل دیتے ہیں.آپ کو خود بھوک لگتی ہے اور اگر آپ کھانا نہ کھائیں تو آپ کی تقدیر موت ہے لیکن آپ کھانا کھا کر اس تقدیر کو بدل دیتے ہیں.تو پھر اگر منگل کا دن ٹل جانے سے خدا کی کوئی تقدیر بدل جاوے تو آپ کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.افسوس ہے کہ آپ نے میرے خلاف غصہ میں تقدیر کے مسئلہ کو بھی بری طرح مسخ کر دیا ہے.حالانکہ اگر آپ سوچتے تو آپ کو پتہ لگتا کہ خدا کے مقرر کردہ قانون قدرت کے ماتحت جو نتائج پیدا ہوتے ہیں وہی خدا کی تقدیر ہوتی ہے.مثلاً خدا کی یہ تقدیر ہے کہ فلاں زہر کھانے سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی خدا ہی کی تقدیر ہے کہ اگر اس زہر کے اثر کو فلاں طرح مٹایا جائے تو وہ مٹ جاتا ہے.آپ ڈاکٹر ہیں اور آپ کا سارافن اسی بنیاد پر قائم ہے کہ خدا کی ایک قسم کی تقدیروں کو اس کی دوسری قسم کی تقدیروں سے مٹایا جائے.پھر نہ معلوم آپ میرے خلاف بلا وجہ اعتراض جما کر لوگوں کو دھوکا دینے کی راہ کیوں اختیار کر رہے ہیں.کیا آپ اس حدیث کو بھول گئے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی فوج میں طاعون شروع ہوئی تو حضرت عمر نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ فوج کو ادھر ادھر کھلی ہوا میں پھیلا دیں.اور خود بھی باہر کھلے میدان میں نکل جائیں اور انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ کیا آپ مجھے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ خدا کی تقدیر سے بھاگوں یعنی کیا میرے جانے سے خدا کی تقدیر بدل جائے گی تو اس پر حضرت عمرؓ نے یہ جواب دیا تھا کہ ہاں میں آپ کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ خدا کی ایک تقدیر سے نکل کر دوسری تقدیر میں داخل ہو جا ئیں.یعنی آپ کے یہاں رہنے سے اگر خدا کی یہ تقدیر ہو گی کہ آپ اس مرض کے اثر کو قبول کریں تو باہر جانے سے اس کی یہ تقدیر ہو گی کہ آپ اس کے اثر سے محفوظ ہو جا ئیں.پھر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ پسند فرمایا ہے کہ ہم لوگ اپنے سفروں کے لئے حتی الوسع جمعرات کا دن اختیار کر یں.تو کیا بقول ڈاکٹر صاحب ” جمعرات کے سفر سے تقدیر الہی بدل جائے گی ؟ اور پھر خدا نے جو آدم کی پیدائش میں بعض ستاروں کی تاثیرات کو اختیار کیا اور بعض کو ترک کیا تو کیا اس طرح انسان کے لئے تقدیر الہی بدل جائے گی.“ مکرم ڈاکٹر صاحب! آپ نے بڑی جلد بازی سے کام لیا ہے اور اتنا نہیں سوچا کہ یہ دنیا دار الاسباب ہے اور انسان تو انسان ہے اس دنیا میں خدا کی بھی یہی سنت ہے کہ وہ اسباب کے ذریعہ سے کام لیتا ہے.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سلسلہ اسباب کی رعایت رکھتے ہوئے یہ دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ مبارکہ بیگم کو منگل کے اس اثر سے جو شدائد اور سختی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے

Page 85

مضامین بشیر ۷۸ محفوظ فرمائے تو کچھ برا نہیں کیا.بلکہ خدا کی ایک تقدیر کو اس کی دوسری بہتر تقدیر کے ذریعہ سے بدلنا چاہا ہے.جیسا کہ خود خدا نے ہمارے جد امجد آدم کی پیدائش کے وقت بعض ستاروں کی تاثیر کو چھوڑ کر اور بعض دوسرے ستاروں کی تاثیر کو اختیار کر کے آدم کی تقدیر کو بدلا تھا.اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نصیحت فرمائی ہے کہ تم حتی الوسع جمعرات کو سفر کر کے اپنی تقدیر کو بہتر صورت میں بدلنے کی کوشش کیا کرو.اور جیسا کہ خود جناب ڈاکٹر صاحب اپنے بیماروں کا علاج کر کے ان کی تقدیر بدلنے کی کوشش فرمایا کرتے ہیں اور جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک فرد بشر بلکہ ہر اک لا یعقل جانور بھی ہر روز خدا کے قانون قدرت سے فائدہ اٹھا کر اپنی بُری تقدیروں کو اچھی تقدیر کی صورت میں بدلتا رہتا ہے.اور میں اس شخص کو سعادت فطری کے مادہ سے محروم کلی سمجھتا ہوں جو آدم کا بیٹا ہو کر جس کے خمیر میں خدا کی نیک تقدیروں کے مدد سے اس کی ضرر رساں تقدیروں کے بدلنے کا مادہ فطرت کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے.ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا رہتا ہے.اور خدا کے جاری کردہ قانون سے فائدہ اٹھا کر اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے دینی ود نیاوی ترقیات کے دروازے نہیں کھولتا بلکہ ضرر رساں تقدیروں کا تختہ مشق بنارہ کر قعر مذلت کی طرف گرتا چلا جاتا ہے.مگر یہ بھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ گویا انسان کے حالات زندگی کلیتہ ان ستاروں کے اثر کے ماتحت ہیں اور جو انسان ستاروں کی اعلیٰ تاثیرات کے ماتحت پیدا ہوتا ہے وہ بہر حال خوش بخت ہوگا اور اعلیٰ زندگی بسر کرے گا اور جو کسی دوسری قسم کی تاثیرات کے ماتحت دنیا میں آتا ہے وہ بہر حال شدائد اور سختیوں کا اثر پائے گا.ایسا ہر گز نہیں کیونکہ انسانی زندگی پر اثر ڈالنے والے صرف ستارے ہی نہیں ہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں اربوں اور چیزیں بھی ہیں.جن میں سے بہت سی انسان کے اپنے اختیار میں ہیں اور ان سب کے مجموعی اثر کے نتیجے میں انسانی زندگی کے حالات متعین ہوتے ہیں اور بہت سی تاثیرات ایک دوسرے کے مقابل پر آجانے کی وجہ سے کٹ بھی جاتی ہیں.پس بالکل ممکن ہے اور عملاً ایسا ہوتا رہتا ہے کہ ایک شخص کی ولادت امن و آسائش وغیرہ کی تاثیر رکھنے والے اجرام سماوی کے ماتحت وقوع میں آئے لیکن دوسرے اثرات اس کی زندگی کے حالات کو دوسرے رنگ میں پلٹ دیں.یا کسی شخص کی ولادت شدائد اور سختیوں کی تاثیر کے ماتحت ہولیکن دوسری چیزوں کی تاثیرات اس اثر کو مٹا کر امن و اسائش وغیرہ کی تاثیر کو غالب کر دیں.جیسا کہ مثلاً کونین کے اندر یہ تاثیر ہے کہ وہ ملیریا کے کیٹروں کو مارتی ہے لیکن اگر اس کے مقابلہ میں ایسی چیزیں آجائیں جو قانون قدرت کے ماتحت ملیریا کے کیٹرے پیدا کرتی

Page 86

۷۹ مضامین بشیر ہیں.اور ان مؤخر الذکر اشیاء کا بہت غلبہ ہو جائے تو ظاہر ہے کہ باوجود اس کے کہ ڈاکٹر اپنے بیما رکو کو نین کھلاتا رہے اس کا خون ملیریا کے جراثیم سے پاک نہیں ہو سکے گا جب تک کہ ان مخالف تا ثیرات کو توڑنے کی کوئی صورت نہ ہو.خلاصہ یہ ہے کہ انسانی زندگی پر بے شمار چیز میں اثر ڈالتی ہیں اور ان میں سے ایک ستارے بھی ہیں.اور چونکہ ہر نظمند شخص کی یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ حتی الوسع تمام نیک تاثیرات کے اثر سے مستفید ہو اور تکلیف دہ اثرات سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے.اس لیئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو خدا کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت کسی چھوٹے سے چھوٹے خدائی انعام کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتے تھے مبارکہ بیگم کی ولادت کے وقت خدا سے یہ دعا مانگی کہ وہ کسی ایسی تاثیرات کے ماتحت پیدا نہ ہو جو شدائد اور سختی وغیرہ کا اثر رکھتی ہوں.اور اگر اس کی ولادت اسی دن مقدر ہو تو پھر خدا کی طرف سے کوئی دوسرے ایسے سامان پیدا ہو جائیں جن کی تاثیر اس دن کی تاثیر پر غالب آ جائے.اور یہ کوئی انوکھی دعا نہیں.بلکہ اسی اصل کے ماتحت ہے جس کے ماتحت خدا نے ہمارے جدا مجد آدم کی پیدائش کا نتظام کیا تھا.الغرض ستارے اپنے اندر مختلف قسم کی تاثیرات رکھتے ہیں جو انسانی زندگی پر اثر ڈالتی رہتی ہیں.اور چونکہ دن بھی الگ الگ ستاروں کے اثر کے ماتحت ہیں اس لئے دنوں کا بھی اعلیٰ قدر مراتب انسانی حالات پر اثر پڑتا ہے.پس ہر مومن کا یہ فرض ہے کہ وہ جہاں خدا کی دوسری با برکت تقدیروں سے فائدہ اٹھاتا ہے وہاں ان تقادیر سے بھی حتی الوسع متمتع ہو جو دنوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں مگر یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ ہر اک بات کی ایک حد ہوتی ہے اور حد سے تجاوز کرنا تو ہم پرستی پیدا کرتا ہے.پس اگر کوئی شخص اپنے کسی اہم اور فوری کام کو صرف اس خیال سے ملتوی کر دیتا ہے کہ آج منگل ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی سختی پیش آئے یا کسی ضروری اور فوری سفر یا کام کو صرف اس خیال سے پیچھے ڈال دیتا ہے کہ مثلاً آج جمعرات نہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کام برکات سے محروم ہو جائے تو وہ غلطی کرتا ہے بلکہ ایک گونہ مخفی شرک کا مرتکب ہوتا ہے.کیونکہ ایسی صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ اس شخص نے باقی لاکھوں کروڑوں تا خیرات کو جو اسی طرح خدا کی پیدا کردہ ہیں جس طرح کہ ستارے ، نظر انداز کر کے صرف اس دنوں والی تاثیر پر اپنا تکیہ کر لیا ہے.بلکہ ان اسباب کے پیدا کرنے والے خدائے ذوالجلال کو بھی فراموش کر کے صرف ستاروں کو ہی اپنی قضا و قدر کا مالک سمجھ رکھا ہے جیسا کہ ہندوؤں کا حال ہوا.جو کسی صورت میں اپنے کسی کام کی ابتداء منگل کو نہیں کرتے گو یا منگل کے ہاتھ میں کل قضاء قدر کا معاملہ سمجھتے ہیں.یہ نادانی اور جہالت کی باتیں ہیں جن سے مومن کو پر ہیز لازم ہے.

Page 87

مضامین بشیر ۸۰ منگل ہر گز کوئی منحوس دن نہیں ہے.بلکہ اسی طرح خدا کی مقدس مخلوق ہے جیسا کہ دوسرے دن ہیں.صرف بات یہ ہے کہ اس نے خدا کی قہری اور جلالی صفات سے حصہ پایا ہے.جیسا کہ بعض دوسرے دن خدا کی جمالی اور رحیمی صفات کے ظل ہیں.حقیقت یہی ہے چاہو تو قبول کرو.و من اعتدى فقد ظلم اس روایت کی بحث کو ختم کرنے سے قبل ایک اور شبہ کا ازالہ ضروری ہے جو ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں پیش کیا ہے اور جو بعض دوسرے لوگوں کے دل میں بھی کھٹک سکتا ہے.وہ شبہ ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں یہ ہے :- پھر حضرت مسیح موعود نے جو تحفہ گولڑویہ میں اس دنیا کے زمانہ کو ایک ہفتہ قرار دے کر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو منگل کا دن قرار دیا ہے اور آپ کے جلالی رنگ کو مریخ یعنی منگل کے رنگ میں دکھایا ہے تو یہ کیا سمجھ کر ایسا تحریر کیا ہے.کیا حضرت مسیح موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل دنیا کے لئے باعث رحمت سمجھتے تھے یا نعوذ باللہ باعث نحوست.کیا وہ ایک ایسے ستارے کو جسے منحوس سمجھتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر سکتے تھے.حضرت صاحب کی یہ تحریر فیصلہ کن ہے.“ اس کے متعلق میں یہ عرض کرتا ہوں کہ حضرت صاحب کی ہر اک تحریر خدا کے فضل سے فیصلہ کن ہے لیکن سوال صرف یہ ہے کہ اس تحریر کے معنی کیا ہیں.بدقسمتی سے ڈاکٹر صاحب کے دل و دماغ میں وہی نحوست کے خیالات بھرے ہوئے ہیں اس لئے وہ میری ہر بات کو اسی عینک سے دیکھتے ہیں.انہوں نے یہ فرض کر لیا ہے کہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگل کے دن کو منحوس سمجھتے تھے اور پھر اس فرضی بات پر اعتراضات کا ایک طومار کھڑا کر دیا ہے حالانکہ جیسا کہ میں بار بار عرض کر چکا ہوں.میں نے اپنی کسی تقریر وتحریر میں منحوس یا نحوست یا اس مفہوم کا کوئی اور لفظ استعمال نہیں کیا.اور نہ میرے ذہن میں بھی یہ مفہوم آیا ہے میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ ” حضرت مسیح موعود دنوں میں سے منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے.اور پھر یہ کہ آپ کا روز وفات جو کہ منگل کا دن تھا وہ دنیا کے واسطے ایک بڑی مصیبت کا دن تھا.جس کا صاف یہ مطلب تھا کہ منگل کا دن اپنے اندر شدائد اور سختی کی تاثیر رکھتا ہے اور اسی لئے حضرت مسیح موعود نے بمقابلہ دوسرے دنوں کے اسے اچھا نہیں سمجھا.نہ کہ نعوذ باللہ وہ کوئی منحوس دن ہے.پس جبکہ بنائے اعتراض ہی غلط اور باطل ہے تو اعتراض خود غلط اور باطل ہوا.و ہوالمراد "

Page 88

ΔΙ مضامین بشیر دراصل ڈاکٹر صاحب نے غور نہیں فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت مسیح ابن مریم کی طرح جمالی رنگ میں واقع ہوئی ہے.اور اسی لئے آپ کی فطرت میں صلح اور آشتی اور امن جوئی اور محبت و نرمی اور عفو و درگزر کی طرف زیادہ میلان ہے اور خدا کی جلالی صفات سے مقابلہ بہت کم حصہ آپ نے لیا ہے.چنانچہ آپ نے اپنی کتب میں متعد دجگہ اپنی بعثت کی ان خصوصیات کو بیان فرمایا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ چونکہ میری بعثت جمالی رنگ میں مقدر تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے مجھے مشتری ستارہ کی تاثیرات کے ماتحت مبعوث فرمایا ہے تا کہ میں مشتری کی جمالی صفات سے حصہ پاؤں.چنا نچہ تحریر فرماتے ہیں :- ہزار ششم کا تعلق ستارہ مشتری کے ساتھ ہے.جو کوکب ششم من جملہ فنس کنس ہے اور اس ستارہ کی یہ تاثیر ہے کہ مامورین کو خونریزی سے منع کرتا اور عقل و دانش اور مواد استدلال کو بڑھاتا ہے.۲۷ پھر فرماتے ہیں :- اس وقت کے مبعوث پر پر تو کہ ستارہ مشتری ہے نہ پر تو ہ مریخ ۲۸ الغرض چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت مشتری کی تاثیر کے ماتحت جمالی رنگ میں واقع ہوئی ہے.اس لئے طبعا اور فطرتا آپ میں جمالی صفات کی طرف زیادہ میلان تھا اور جلالی صفات جو قہر اور عذاب اور شدائد اور سختیوں وغیرہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں آپ میں بہت کم پائی جاتی تھیں.جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ آپ ان چیزوں کو زیادہ محبت کی نظر سے دیکھتے تھے.جن کی تاثیرات جمالی رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں.اور جلالی صفات مثل قہر و عذاب اور قتل و خونریزی کے لئے کوئی طبعی محبت اپنے اندر نہ پاتے تھے اور یہی اس روایت کا منشاء ہے.اور اس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت چونکہ مریخ ستارہ کے ماتحت تھی اس لئے آپ کے اندر خدا کی جلالی صفات کا ظہور ہوا.چنانچہ یہ اس کا نتیجہ تھا کہ حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ آپ کو اپنے دشمنوں کے خلاف تلوار سے کام لینا پڑا اور ہر شخص جو قتل و خونریزی اور فساد فی سبیل اللہ کی نیت سے آپ کے خلاف اٹھا.خدا نے اسے خود آپ کے ہاتھ سے ہی اپنی جلالی تجلیات کا نشانہ بنایا.مگر اس موقع پر یاد رکھنا چاہیئے کہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں ایک وہ جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے ماتحت جلالی صفات کے ساتھ وقوع میں آیا اور دوسرا وہ جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے ماتحت آپ کے بروز کامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود کے ذریعہ جمالی صفات کے ماتحت واقع ہوا.اور ان دونوں میں آپ ہی کی

Page 89

مضامین بشیر ۸۲ قوت قدسیہ اور افاضہ روحانی کا ظہور تھا کیونکہ آپ جامع کمالات جمالی وجلالی تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : - " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں.(۱) ایک بعث محمدی جو جلالی رنگ میں ہے جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے نیچے ہے (۲) دوسرا بعث احمدی جو جمالی رنگ میں ہے اور ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے.اور چونکہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باعتبار اپنی ذات اور اپنے تمام سلسلۂ خلفاء کے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک ظاہر اور کھلی کھلی مماثلت ہے.اس لئے خدا نے بلا واسطہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ کے رنگ پر مبعوث فرمایا لیکن چونکہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عیسی سے ایک مخفی اور باریک مماثلت تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے ایک بروز (یعنی مسیح موعود ) کے آئینہ میں اس پوشیدہ مماثلت کا کامل طور پر رنگ دکھلا دیا.‘۲۹ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم سب قدموں کے اوپر ہے کیونکہ آپ خدا کی جلالی اور جمالی صفات کے ظل کامل ہیں.اور باقی کوئی اور فرد بشر اولین اور آخرین میں سے اس مرتبہ کو نہیں پہنچا.میرا یہ لکھنا کہ منگل کا دن دوسرے دنوں سے بلحاظ اپنی برکات کے مقابلہ کم ہے.اس کا بھی یہی منشاء تھا کہ چونکہ وہ خدا کی قہری اور جلالی شان کا ظل ہے اور اس کے سوا باقی دن یا تو جمالی صفات کاظل ہیں یا اگر جلالی بھی ہیں تو منگل سے کم ہیں.اس لئے وہ اس جہت سے منگل کی نسبت اپنے افاضہ برکات میں فائق ہیں کیونکہ خدا کی جمالی صفات اس کی جلالی صفات پر غالب ہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- " عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ.٣٠ یعنی میرا عذاب تو میرے بنائے ہوئے قانون کے ماتحت صرف اسی کو پہنچتا ہے.جو اپنے اعمال سے اپنے آپ کو اس کا سزاوار بناتا ہے.لیکن میری رحمت کی صفات سب پر وسیع ہیں.پھر حدیث میں آتا ہے کہ " سَبَقَتْ رَحْمَتِي غَضَبِى ٣ یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے.اور ظاہر ہے کہ جن صفات کا غلبہ ہے وہی اپنے افاضہ برکات میں بھی فائق سمجھی جائیں گی.

Page 90

۸۳ مضامین بشیر پس ثابت ہوا کہ وہ دن جوان ستاروں کی تاثیرات کے ماتحت آتے ہیں.جو خدا تعالیٰ کی جمالی صفات کا مظہر ہیں اپنے افاضہ برکات میں دوسرے دوسرے دنوں پر فائق ہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرماتے ہیں کہ :- اگر چہ جمعہ کا دن (جو بوجہ مشتری ستارے کے زیراثر ہونے کے جو اپنے اندر جمالی تاثیرات رکھتا ہے ) سعدا کبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہر اک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے“ خلاصہ کلام یہ کہ جمالی صفات کو جلالی صفات پر ایک گونہ وسعت اور فوقیت حاصل ہے.اور اسی وجہ سے منگل جو خدا کی جلالی صفات کا اثر رکھتا ہے دوسرے دنوں سے اپنے افاضہ برکات میں مقابلتا کم ہے.لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے اپنی جلالی اور جمالی ہر دو قسم کی صفات کا مظہر اتم بنایا تھا اس لئے اس کے جلالی بعث کو مریخ کے اثر کے ماتحت رکھا اور آپ کے جمالی بعث کو مشتری کی تاثیر کے ماتحت ظاہر کیا اور یہ وہ مقام عالی ہے جس کی بلندیوں تک کوئی انسان نہیں پہنچا.اللهم صل عليه وعلى عبدك المسيح الموعود بارک وسلم.منگل والی روایت کی بحث کو ختم کرنے سے پہلے میں یہ بھی عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ سائنس کی رو سے بھی ستاروں کی تاثیرات کے متعلق کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا.کیونکہ کسی بات کا سائنس کی تحقیق میں ابھی تک نہ آیا ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ بات غلط ہے.دراصل دنیا کے علوم میں سے بہت ہی تھوڑا حصہ ہے جو ابھی تک سائنس کی تحقیق میں آیا ہے.اور باقی سب میدان ہنوز غیر دریافت شدہ حالت میں پڑا ہے.اندریں حالات کوئی بات سائنس کے خلاف سمجھی جاسکتی ہے جب سائنس کی کوئی ثابت شدہ حقیقت اس کے مخالف پڑتی ہو اور اگر وہ سائنس کی کسی ثابت شدہ حقیقت کے مخالف نہیں ہے.تو صرف اس بناء پر کہ ابھی تک وہ سائنس کے احاطہ تحقیق میں نہیں آئی ، قابل اعتراض نہیں سمجھی جاسکتی.کون نہیں جانتا کہ سائنس کی تحقیقاتوں میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا ہے.پس اگر ایک چیز آج اس کے احاطہ تحقیق میں نہیں آئی.تو کل آجائے گی.اور اگر بالفرض وہ کبھی بھی اس کے احاطہ تحقیق میں نہ آئے.پھر بھی جب تک کہ اس پر سائنس دان کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کا حق نہیں ہے.لیکن میں کہتا ہوں گو سائنس کی رو سے ابھی تک ستاروں کی اس قسم کی تاثیرات ثابت نہیں ہوئیں.لیکن اُصولاً سائنس دان بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز ہر دوسری چیز پر کچھ نہ کچھ اثر ڈال رہی ہے.اور اس اصول کے ماتحت یہ ماننا پڑتا ہے کہ کسی نہ کسی رنگ میں انسانی زندگی ستاروں سے متاثر ہوتی ہے.پس ثابت ہوا کہ نہ صرف یہ کہ سائنس اس عقیدہ کے مخالف نہیں بلکہ

Page 91

مضامین بشیر ۸۴ أصولاً اس کی مؤید ہے.وہوالمراد ایک اور بات جو میں کہنا چاہتا ہوں.وہ یہ ہے کہ میں نے اپنے اس مضمون میں اس عام معروف خیال کی بناء پر بحث کی ہے کہ ہندوؤں کا ستارا منگل اور اسلامی ہیئت دانوں کا مریخ ایک ہی ہیں.اور اس میں کوئی ذاتی تحقیق میں نے نہیں کی.مگر میرے نزدیک یہ ممکن ہے کہ یہ معروف عقیدہ درست نہ ہو بلکہ اس کے خلاف بعض قرائن بھی موجود ہیں.چنانچہ انگریزوں کے لٹریچر میں جہاں تک میں نے دیکھا ہے منگل کا دن مریخ کے زیر اثر نہیں سمجھا جاتا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ لکھا ہے کہ آدم کی پیدائش مشتری کے زیر اثر تھی اور پھر آپ نے اس سے آگے ہزار ہزار سال کا دن رکھ کر زمانہ کی شمار شروع فرمائی ہے اس کی رُو سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ مبارک منگل کے مقابلہ میں نہیں آتا.حالانکہ دوسری طرف آپ کی یہ صاف اور واضح تحریر موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مریخ کے اثر کے ماتحت تھی.جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ منگل اور مریخ ایک نہیں ہیں بہر حال یہ بات مزید تحقیق چاہتی ہے.اور میں نے اس امر میں ابھی تک کوئی رائے قائم نہیں کی اور اسی لئے میں نے عام معروف خیال پر جو ڈاکٹر صاحب کے نزدیک بھی مسلم ہے اپنے جواب کی بنارکھ دی ہے.واللہ اعلم ہیں اگلی مثال کی بحث شروع کرنے سے قبل میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ مضمون کچھ زیادہ طول پکڑ رہا ہے اور گوابھی تک ڈاکٹر صاحب کی پیش کردہ بائیس مثالوں میں سے میں نے صرف ایک مثال کی بحث کو ختم کیا ہے لیکن حجم کے لحاظ سے میرا مضمون ابھی سے ڈاکٹر صاحب کے مضمون کے برابر پہنچ گیا ہے اور گواعتراض کی نسبت جواب عموماً زیادہ لمبا ہوتا ہے لیکن چونکہ مجھے بھی دوسرے کام ہیں اور ناظرین کے لئے بھی طویل مضامین کے مطالعہ کے واسطے وقت نکالنا آسان نہیں.اس لئے میں انشاء اللہ آئیندہ اپنے جوابات میں حتی الوسع اختصار سے کام لوں گا.مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں بہت سی لاتعلق باتوں کو داخل کر دیا ہے اور کئی جگہ میرے مفہوم کو بری طرح بگاڑ کر خواہ مخواہ اعتراض کی گنجائش نکالنے کی کوشش کی ہے.والا اگر وہ صرف معقول علمی تنقید تک اپنے آپ کو محدود رکھتے تو ایک تو بحث میں کوئی بدمزگی نہ پیدا ہوتی اور دوسرے یہ فائدہ ہوتا کہ اعتراضات و جوابات اس قدر طول نہ پکڑتے.اور لوگ جلد اور آسانی کے ساتھ کسی مفید نتیجہ تک پہنچ جاتے.مگر میں ایک حد تک ڈاکٹر صاحب کو مجبور سمجھتا ہوں کیونکہ در اصل مخالفت کے ہوتے ہوئے اپنے آپ کو عدل وانصاف کے مقام سے متزلزل نہ ہونے دینا ایک نہایت ہی مشکل کام ہے اور بڑے مجاہدہ کو مطبوعه الفضل ۱۶ اگست ۱۹۲۶ء

Page 92

۸۵ مضامین بشیر چاہتا ہے.ڈاکٹر صاحب کو چاہیئے تھا کہ اس بات کو یا د ر کھتے کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے : - لا يجر منكم شنان قوم على ان لا تعدلوا اعدلوا هوا قرب للتقوى.یعنی کسی کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم اس کے معاملہ میں عدل وانصاف کو چھوڑ دو.تمہیں چاہیئے کہ بہر حال عدل وانصاف کو ہاتھ سے نہ دو.66 کیونکہ یہی تقویٰ کا مقام ہے میں نے یہ الفاظ نیک نیتی اور ہمدردی کے خیال سے عرض کئے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کم از کم اس معاملہ میں بدظنی سے کام نہیں لیں گے.دوسری مثال جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کی ہے وہ حضرت والدہ صاحبہ کی ایک روایت ہے جس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے فرمایا تھا کہ کوئی انگریز مولوی محمد علی صاحب سے دریافت کرتا تھا کہ جس طرح بڑے لوگ جنہوں نے کسی بڑے کام کی بنیا درکھی ہوئی ہو اپنے بعد اپنا کوئی جانشین مقرر کر جاتے ہیں کیا اس طرح مرزا صاحب نے بھی کیا ہے اور اس کے بعد آپ نے حضرت والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کیا میں محمود کو مقرر کر دوں.جس کے جواب میں حضرت والدہ صاحبہ نے کہا کہ جس طرح آپ مناسب سمجھتے ہیں کریں اس روایت کو لے کر جس بے دردی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب ہم پر حملہ آور ہوئے ہیں وہ انہی کا حصہ ہے.میں نے ہم کا لفظ اس لیئے استعمال کیا ہے کہ اس حملہ کا نشانہ صرف خاکسار ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب نے حضرت والدہ صاحبہ اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کو بھی نہیں چھوڑا.فرماتے ہیں : - کیا واقعی اگر حضرت بیوی صاحبہ فرما دیتیں تو وہ میاں محمود احمد صاحب کو اپنا جانشین مقرر کر دیتے ؟ یہ بہتر ہوا کہ حضرت بیوی صاحبہ کی زبان سے یہ کلمہ نکلا کہ جیسا مناسب سمجھیں کریں.ورنہ مفت میں خفت اٹھانی پڑتی ، اور پھر اس فرضی بات کے اوپر جو محض ڈاکٹر صاحب کی خوش فہمی کا نتیجہ ہے ایک طومار اعتراضات کا کھڑا کر دیا ہے.میں حیران ہوں کہ اس اعتراض کا کیا جواب دوں کہ اگر بیوی صاحبہ یہ جواب دے دیتیں کہ ہاں میاں محمود احمد صاحب کو جانشین بنا دو تو پھر کیا ہوتا.جو بات وقوع میں ہی نہیں آئی اس کے متعلق میں کیا کہوں اور کیا نہ کہوں؟ ڈاکٹر صاحب کے دماغ کو تو خیر بغض وعداوت کے بخارات نے گھیرا ہوا ہے اس لئے وہ مجبوری کا عذر رکھتے ہیں لیکن میں اگر ہوش.

Page 93

مضامین بشیر ۸۶ وحواس رکھتے ہوئے ان فرضی باتوں میں پڑ جاؤں تو مجھے دنیا کیا کہے گی اور خدا کے سامنے میرا کیا جواب ہوگا ؟ اگر مجھے دیوانہ پن کی باتوں سے پر ہیز نہ ہوتا تو میں یہ عرض کرتا کہ اگر بالفرض حضرت والدہ صاحبہ وہی جواب دے دیتیں جس کا فرضی خیال بھی ڈاکٹر صاحب کو بے چین کر رہا ہے تو پھر غالبا ڈاکٹر صاحب کے دل و دماغ ایک لاعلاج اضطراب کا شکار ہو جاتے.اگر سچ پوچھا جائے تو خاموشی اختیار کرنے سے دوسرے نمبر پر اس جواب کے سوا اور کوئی جواب ڈاکٹر صاحب کے اعتراض کا میرے ذہن میں نہیں آتا.مکرم ڈاکٹر صاحب جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا اور جو جواب خدا نے حضرت والدہ صاحبہ کے دل میں الہام کیا ، اس کا انہوں نے اظہار کر دیا.اب آپ اور آپ کے رفقاء قیامت تک اپنا سر پیٹیں وہ جواب بدل نہیں سکتا.پس اب اس بغض و عداوت کی آگ میں جلنے سے کیا حاصل ہے؟ بہتر یہی ہے کہ دل سے غصہ نکال دیں اور عقل و خرد سے صلح کر لیں.اور آپ کا یہ تحریر فرما نا کہ :- حضرت صاحب نے میاں محمود احمد صاحب کو اپنا جانشین بنانا مناسب نہیں سمجھا ، نہ بنایا بلکہ انجمن کا پریزیڈنٹ بھی نہیں بنایا.گویا کسی ذمہ داری کے عہدہ کا اہل نہیں سمجھا.ورنہ اگر وہ اپنا جانشین بنانا چاہتے تو کم سے کم پریذیڈنٹ تو بنادیتے.آپ نے تو میاں صاحب کو انجمن کے کسی ذمہ دار عہدہ کے لائق بھی نہ سمجھا.جانشین بنانا تو بہت دور رہا.“ یہ سراسر آپ کی خوش فہمی ہے.روایت میں یہ کہاں ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مرزا صاحب کو اپنا خلیفہ بنانا چاہتے تھے.مگر بعد میں اپنی رائے بدل لی.وہاں تو صرف یہ ذکر ہے کہ آپ نے حضرت والدہ صاحبہ سے ایک بات دریافت کی تھی.اگر میں نے اس روایت سے یہ استدلال کیا ہوتا کہ حضرت مسیح موعود کا یہ ارادہ تھا کہ وہ حضرت میاں صاحب کو اپنا جانشین مقرر کر جائیں تو پھر آپ یہ اعتراض کرتے ہوئے بھی بھلے لگتے لیکن خواہ نخواہ اپنی طرف سے ایک بات فرض کر کے اس پر اعتراض جما دینا دیانت داری سے بعید ہے.باقی رہا حضرت میاں صاحب کی لیاقت کا سوال سو اس بحث میں میں نہیں پڑنا چاہتا.خدا کے فضل سے حضرت میاں صاحب کوئی غیر معروف آدمی نہیں ہیں.ان کی زندگی کے حالات اور ان کی قابلیت دنیا کے سامنے ہے.اور ہر عقلمند انسان جسے تعصب نے اندھا نہیں کر رکھا اپنے طور پر فیصلہ کر سکتا ہے.کہ وہ کس دل و دماغ کے مالک ہیں.ہاں ڈاکٹر صاحب کے مضمون کے مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر ضرور پہنچا ہوں کہ جب تک ڈاکٹر صاحب کا دماغ ان تاریک بخارات سے صاف نہ ہو جو بغض، حسد اور کینہ وعداوت کی آگ

Page 94

۸۷ مضامین بشیر سے اٹھتے ہیں وہ اس بات کے بھی اہل نہیں ہیں کہ حضرت میاں صاحب کی خدا دا دا اہلیت اور قابلیت کو سمجھ تک سکیں.چہ جائیکہ اس کی گہرائیوں تک ان کو رسائی حاصل ہو.یہ بات میں نے خوش عقیدگی کے مبالغہ آمیز طریق پر نہیں کہی.بلکہ علی وجہ البصیرت اس پر قائم ہوں اور جو بھی معقول طریق اس کے امتحان کا مقر ر کیا جا سکے اس کے لئے تیار ہوں.باقی رہی انجمن کی عہدہ داری سو شائد اس کے متعلق ڈاکٹر صاحب کو یہ خیال ہوگا کہ چونکہ ان کے داماد جناب مولوی محمد علی صاحب حضرت مسیح موعود کے سامنے انجمن کے سیکرٹری رہے تھے.اس لئے نیم خلافت ان کی تسلیم کی جانی چاہیئے.اور اس نعمت عظمی سے حضرت میاں صاحب محروم کلی ہیں! افسوس ہے کہ جب انسان تعصب کا شکار ہوتا ہے تو اس کی بصیرت پر پردہ پڑ جاتا ہے بھلا حضرت کی جانشینی اور انجمن کی عہدہ داری کے درمیان کون سا طبیعی رشتہ ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب کے نزدیک کوئی رشتہ ہے تو میں بادب یہ عرض کرتا ہوں کہ چونکہ حضرت صاحب کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب نے خلیفہ ہونا تھا اس لئے حضرت صاحب نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو پریذیڈنٹ مقرر فرمایا.اور چونکہ حضرت مولوی صاحب کے بعد خدا کے علم میں حضرت میاں صاحب کی خلافت تھی اس لئے حضرت مولوی صاحب نے اپنی جگہ حضرت میاں صاحب کو انجمن کا صدر مقرر کیا اور اگر اس استدلال کو اور آگے چلا یا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ مولوی محمد علی صاحب نے کبھی بھی خلیفہ نہیں بننا تھا اس لئے وہ ہر زمانہ میں صدرانجمن کی صدارت سے محروم رہے، بلکہ ڈاکٹر صاحب کے اصول کے مطابق حضرت صاحب کے زمانہ میں ان کے سیکرٹری بننے نے ہمیشہ کے لئے اس بات کا فیصلہ کر دیا کہ وہ صرف ایک ماتحت عہدہ پر کا رکن رہ سکنے کے اہل ہیں، کسی سلسلہ انتظام کی انتہائی باگ دوڑ ان کے ہاتھوں میں نہیں دی جاسکتی وغیرہ ذالک.مکرم ڈاکٹر صاحب آپ ان منہ کی پھونکوں سے قلعہ خلافت کی دیواروں میں رخنہ پیدا نہیں کر سکتے.سوائے اس کے کہ مفت میں اپنی خفت کروائیں.آپ نے بڑے ظلم اور دل آزاری کے طریق سے کام لیا ہے، اور گو میں آپ کی ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب دے سکتا ہوں مگر مجھے خدا کا خوف ہے اور میں اپنے اخلاق کو بھی بگاڑ نا نہیں چاہتا.یہ بھی جو میں نے بعض جگہ کسی قدر بلند آواز اختیار کی ہے یہ محض نیک نیتی سے آپ کے بیدار کرنے کی غرض سے کی ہے ورنہ میرا خدا جانتا ہے کہ میرا سینہ اب بھی آپ کے لئے سوائے ہمدردی کے جذبات کے اور کوئی جذبات اپنے اندر نہیں رکھتا.پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت صاحب کو اگر اس معاملہ میں انسانی مشورہ کی ضرورت تھی تو بڑے بڑے صاحب الرائے لوگوں سے مشورہ کر سکتے تھے.مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ان بڑے بڑے صاحب الرائے لوگوں کی کوئی فہرست نہیں دی.غالبا اس فہرست میں

Page 95

مضامین بشیر ۸۸ اول نمبر پر ڈاکٹر صاحب کا نام نامی ہوگا.اور پھر ان کے ہم مشرب رفقاء کے اسماء گرامی ہوں گے کیونکہ جب تک یہ بزرگان ملت کسی مشورہ میں شریک نہ کئے جائیں اس وقت تک بھلا مشورہ کا مفہوم کب پورا ہوتا ہے! کہنے کی بات نہیں ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایک گروہ ہر بات میں مشورہ کے لئے اپنے آپ کو آگے کر دیتا تھا اور اگر ان سے مشورہ نہ لیا جا تا تھا یا ان کا مشورہ قبول نہ کیا جاتا تھا تو ان کے تیور بدلنے شروع ہو جاتے تھے کہ اہل الرائے تو ہم ہیں اور مشورہ نعوذ باللہ بے وقوف اور جاہل لوگوں کا مانا جاتا ہے.مکرم ڈاکٹر صاحب اگر حضرت صاحب کی یہ بات مشورہ کے طور پر ہی تھی تو پھر بھی آپ کو حسد میں جلنے کی کوئی وجہ نہیں.حضرت صاحب خدا کی طرف سے مامور تھے انہوں نے جس سے چاہا مشورہ لیا اور جس سے اہانہ لیا.حدیث کھول کر دیکھئے کیا کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج سے مشورہ نہ لیتے تھے ؟ کیا صلح حدیبیہ کے وقت آپ نے ایک بڑے اہم امر میں سارے اہل الرائے صحابہ کو چھوڑ کر صرف اپنی بیوی ام سلمہ سے مشورہ نہیں لیا ؟ اور کیا ام سلمہ کے اس مشورہ سے آئمہ حدیث نے عورتوں سے اہم امور میں مشورہ لینے کا جواز نہیں نکالا.اور کیا امام قسطلانی نے اس مشورہ کے متعلق یہ نوٹ نہیں لکھا کہ فيــه فـضـيـلـة ام سلمة ووفور عقلها.یعنی اس واقعہ سے ام سلمہ کی فضیلت اور کمال دانشمندی ثابت ہوتی ہے.پھر کیا آپ نے اپنی بیوی عائشہ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ تم نصف دین اس سے سیکھو۳۲.گویا نہ صرف خودا اپنی بیویوں سے مشورہ لیا بلکہ امت کو بھی حکم دیا کہ ان سے مشورہ لیا کرو.اندریں حالات اگر حضرت صاحب نے اپنی بیوی سے کسی امر میں مشورہ لے لیا تو حرج کون سا ہو گیا.اور وہ کون سا شرعی حکم ہے جس کی نا فرمانی وقوع میں آئی ؟ کیا نبی کی بیوی جو دن رات اس کی صحبت اور تربیت سے مستفید ہوتی ہے اور نبی کے بعد خدائی نشانات کی گویا سب سے بڑی شاہد ہے مشورہ کی بالکل نا اہل سمجھی جانی چاہیئے.اور ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم مشرب رفقاء بڑے بڑے اہل الرائے جن کے مشورہ کے بغیر کوئی قومی کام سرانجام نہیں پاسکتا ؟ اگر یہی تھا تو نعوذ باللہ خدا نے سخت غلطی کھائی کہ حضرت صاحب کو بار بار یہ الهام فرمایا کہ اِنّى مَعَكَ وَمَعَ اَهْلِكَ ۳۳.یعنی میں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں.اور ڈاکٹر صاحب اور ان کے دوستوں کا کہیں ذکر تک نہیں کیا.میں واقعی حیران ہوں کہ آخر کس بنا پر ڈاکٹر صاحب نے یہ خیال قائم کیا ہے کہ نبی کی بیوی اہم امور میں مشورہ کی اہل نہیں ہوتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑے بڑے امور میں اپنی بیویوں سے مشورہ فرماتے تھے اور پھر صحابہ کبار بڑے بڑے مسائل میں اپنی بیویوں سے مشورہ پوچھتے تھے.اور ان میں سے بعض کی قوت استدلال واستخراج کا خصوصیت کے ساتھ لوہا مانتے تھے.چنانچہ حضرت عائشہ کے متعلق لکھا ہے کہ کان اکابر

Page 96

۸۹ مضامین بشیر الصحابة يرجعون الى قولها ويستفتونها ۳۴ یعنی بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ ان کے قول کی طرف رجوع کرتے اور ان سے فتویٰ پوچھتے تھے.دراصل حق یہ ہے کہ سوائے اس کے کہ کسی نبی کی بیوی کوخصوصیت کے ساتھ بلید اور ایک موٹی سمجھ کی عورت سمجھا جائے بالعموم اس کے متعلق یہ ماننا پڑے گا کہ نبی کی لمبی صحبت اور ہر وقت کی تربیت نے اس میں وہ اہلیت پیدا کر دی ہوگی جو بہت سے دوسرے لوگوں میں نہیں پائی جاتی.اور اس لئے وہ اس بات کی اہل مانی جائے گی کہ مشورہ طلب امور میں اس کی رائے پوچھی جائے.باقی ڈاکٹر صاحب کا یہ لکھنا کہ : - 66 وو اتنے بڑے عظیم الشان انسان مامور من اللہ کی نسبت یہ گمان کرنا کہ وہ اپنی وفات کے بعد جماعت کی ساری ذمہ داری کو اپنی بیوی کے اشارہ پر بلا سوچے سمجھے بغیر استعداد اور قابلیت پر غور کئے ایک شخص کے ہاتھ میں پکڑا دینے کو تیار تھا حضرت صاحب کی شان پر خطر ناک حملہ ہے.“ یہ یا تو پرلے درجہ کی جہالت اور یا پرلے درجہ کی بے انصافی اور سینہ زوری ہے.ڈاکٹر صاحب کی شروع سے ہی یہ افسوس ناک عادت رہی ہے کہ ایک بات اپنی طرف سے فرض کرتے ہیں اور پھر اس پر بڑے فخریہ لہجے میں اعتراض جمانا شروع کر دیتے ہیں.میں حیران ہوں کہ میں نے یہ کب لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نعوذ باللہ گویا دوزانو ہوکر حضرت والدہ صاحبہ کے سامنے بیٹھ گئے تھے ؟ کہ جو کہو میں اس پر عمل کروں گا.اور ہر گز استعداد اور قابلیت پر غور نہیں کروں گا.“ اور نہ کچھ سوچوں گا اور نہ سمجھوں گا بس جس طرح تم اس معاملہ میں مجھے کہو گی اسی طرح کر دوں گا.بلکہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں.صرف ایک اشارہ کافی ہے.اور میں تعمیل کے لئے حاضر ہوں اور جس شخص کے متعلق کہو اس کے ہاتھ میں سلسلہ کی باگ ڈوری دینے کے لئے تیار ہوں.اگر میں نے یہ الفاظ یا اس مفہوم کے کوئی الفاظ یا اس مفہوم سے قریب کی مشابہت رکھنے والے کوئی الفاظ یا اس مفہوم سے دور کی بھی مشابہت رکھنے والے کوئی الفاظ کہے یا لکھے ہوں تو میں مجرم ہوں اور اپنے اس جرم کی ہر جائز سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں.اور اگر میں نے یہ الفاظ نہیں کہے اور میرا خدا گواہ ہے کہ یہ الفاظ کہنا تو در کنار ان الفاظ کا مفہوم تک بھی میرے دل و دماغ کے کسی دور دراز کونے میں پیدا نہیں ہوا.اور نہ کسی عقلمند کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے.تو ڈاکٹر صاحب اس خدا سے ڈریں جس کے سامنے وہ ایک دن کھڑے کئے جائیں گے.اور اپنی ان دل آزار شوخیوں کے متعلق یہ خیال نہ کریں کہ وہ کسی حساب میں نہیں.خدا کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اور نہ اس کے حساب سے

Page 97

مضامین بشیر ۹۰ کوئی چیز با ہر ہے.وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يُنْقَلِبُونَ - ۳۵ بات نہایت صاف اور معمولی تھی کہ حضرت صاحب نے کسی انگریز کے سوال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ پوچھتا تھا کہ جس طرح وہ لوگ جنہوں نے بڑے کاموں کی بنیاد ڈالی ہوتی ہے اپنے بعد اپنے کام کو جاری رکھنے کے لئے اپنا کوئی جانشین مقرر کر جاتے ہیں.کیا اس طرح میں نے بھی کوئی اپنا قائمقام مقرر کیا ہے اور پھر یہ ذکر کرنے کے بعد آپ نے والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کیا میں محمود کو مقرر کر دوں.جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ جس طرح مناسب خیال فرماتے ہیں کریں.اب اس بات پر یہ شور و پکار پیدا کرنا کہ لیجیو دوڑ یو اندھیر ہو گیا سارے سلسلہ کا انتظام بیوی کے ہاتھ میں دیا جارہا ہے اور قطعا کوئی اہلیت اور قابلیت نہیں دیکھی جاتی.ڈاکٹر صاحب کے معاندانہ تخیل کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے.افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے قطعاً غور سے کام نہیں لیا.اور خوامخواہ اعتراض پیدا کرنے کی راہ اختیار کی ہے.اول تو روایت کے اندر کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس سے یہ سمجھا جاوے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت والدہ صاحبہ کے ساتھ یہ بات مشورہ حاصل کرنے کے لئے کی تھی.بسا اوقات ہم دوسرے سے ایک بات پوچھتے ہیں اور اس میں قطعاً مشورہ لینا مقصود نہیں ہوتا بلکہ یا تو اس طرح گفتگو کا سلسلہ جاری کر کے خود اپنے کسی خیال کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور یا محض دوسرے کا خیال معلوم کرنے کی غرض سے ایسا کیا جاتا ہے.یعنی صرف دوسرے کی رائے کا علم حاصل کرنا مطلوب ہوتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں کیا خیال رکھتا ہے اور یا بعض اوقات جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے بھی لکھا ہے دوسرے کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ آیا وہ اس معاملہ میں درست رائے رکھتا ہے یا نہیں تا کہ اگر اس کی رائے میں کوئی خامی یا نقص ہو تو اس کی اصلاح کر دی جائے.اور ان تینوں صورتوں میں سے ہر اک صورت یہاں چسپاں ہو سکتی ہے.یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ منشاء ہو کہ اس طرح گفتگو کا سلسلہ شروع کر کے اشارہ اپنے خیال کا اظہار فرمائیں کہ میری رائے میں محمود میرا جانشین ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنے سوال سے محض حضرت والدہ صاحبہ کی رائے معلوم کرنا چاہتے ہوں اور بس.اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو حضرت والدہ صاحبہ کی تعلیم مقصود ہو.یعنی یہ ارادہ ہو کہ اگر ان کی طرف سے کسی غلط رائے کا اظہار ہو تو آپ اس کی اصلاح فرمائیں اور اس حقیقت کو ظاہر فرمائیں.کہ خلافت کے سوال کو کلیۂ خدا پر چھوڑ دینا چاہیئے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا.اور تعجب ہے کہ مطبوعه الفضل ۳۱ اگست ۱۹۲۶ء

Page 98

۹۱ مضامین بشیر ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں اس تیسری صورت کو تسلیم کرنے کے باوجود پھر نہایت بے دردی کے ساتھ دوسری فرضی باتوں کو درمیان میں لا کر دل آزار جرح کا طریق اختیار کیا ہے اور محض بلا وجہ انجمن اور خلافت کا جھگڑا شروع کر دیا ہے.اور بزعم خود حضرت میاں صاحب کی نا قابلیت کو اعتراض کا نشانہ بنا کر اپنے قلب سوزاں کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ خدا پر معاملہ چھوڑنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ فلاں شخص خلیفہ نہ بنے بلکہ اس کا منشاء صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی طرف سے تعیین کا اظہار نہیں کرتے بلکہ معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں.وہ جسے پسند کرے گا اس کی طرف اپنے تصرف خاص سے لوگوں کے قلوب خود بخود پھیر دے گا.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود اپنی زندگی میں حضرت ابوبکر کی خلافت کے بارے میں متعدد مرتبہ اشارات کرنے کے پھر بالآخر معاملہ خدا پر چھوڑ دیا اور صراحتہ یہ حکم نہیں فرمایا کہ ابوبکر میرے بعد خلیفہ ہوگا.لیکن خدا کے تصرف خاص نے آپ کے بعد ابو بکر کو ہی خلیفہ بنایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارات پورے ہوئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مرتبہ اس قسم کے اشارات دینے کے با وجود کہ آپ کے بعد معایا کچھ وقفہ سے حضرت میاں صاحب کی خلافت ہو گی.پھر معاملہ خدا پر ہی چھوڑا اور خدا نے اپنی قدیم سنت کے مطابق اپنے وقت پر حضرت میاں صاحب کی خلافت کو قائم کیا.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو سوال حضرت والدہ صاحبہ سے کیا اس سے مراد حضرت والدہ صاحبہ کا امتحان تھا تو اس صورت میں بھی جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے سمجھا ہے اس سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کا منشاء یہ تھا کہ حضرت میاں صاحب کی خلافت نہیں ہو گی.بلکہ اگر کوئی منشاء ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ اس معاملہ کو خدا کے تصرف پر چھوڑ نا چاہیئے اور اپنے حکم کے ذریعہ سے اس کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے.اور دراصل خدا پر چھوڑنے میں یہ مصلحت ہوتی ہے کہ فتنہ پیدا کرنے والوں کو اعتراض کا موقع نہ ملے.اور وہ کام جو خدا کا منشاء ہوتا ہے وہ خود لوگوں کی رائے سے تصفیہ پا جائے.چنانچہ ایسے موقع پر خدا تعالیٰ لوگوں کے قلوب پر ایسا تصرف کرتا ہے کہ وہ اسی شخص کے حق میں رائے دیتے ہیں جو خدا کی نظر میں اس کا اہل ہوتا ہے.چنانچہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ خلیفہ خدا بنا تا ہے اس سے یہی مراد ہے کہ گو بظا ہر صورت لوگ خلیفہ کا انتخاب کرتے ہیں لیکن اس انتخاب کے وقت لوگوں کے قلوب خدا کے خاص تصرف کے ماتحت کام کر رہے ہوتے ہیں.حدیث سے پتہ

Page 99

مضامین بشیر لگتا ہے ۹۲ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جتنے بھی خلفاء راشدین ہوئے ہیں ان سب کی خلافت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش از وقت علم تھا.چنانچہ آپ کے اقوال میں صریح طور پر اس قسم کے اشارات موجود ہیں لیکن بایں ہمہ آپ نے اپنے حکم کے ذریعہ سے کسی کی خلافت کا فیصلہ نہیں فرمایا بلکہ خدا پر اس معاملہ کو چھوڑ دیا.اور پھر خدا نے اپنے تصرف خاص سے ایسا انتظام فرمایا کہ لوگوں کے انتخاب کے ذریعہ سے وہی لوگ مسند خلافت پر قائم ہوتے گئے جن کی که پیش از وقت اس نے اپنے رسول کو خبر دی تھی.پس خدا پر چھوڑ نے کے یہی معنی ہیں کہ ہونا تو وہی ہے جو خدا کا منشاء ہے اور جس کی عموماً پیش از وقت اس نے اپنے رسول کو خبر دے دی ہوتی ہے.لیکن جس طرح خدا کے ہرامر میں ایک اختفاء کا پر دہ ہوتا ہے.اسی طرح اس معاملہ میں یہ اخفاء کا پردہ رکھا جاتا ہے کہ خدا خود پس پردہ رہ کر لوگوں کی رائے کے ذریعہ سے اپنے ارادہ کو پورا فرما تا ہے.اور یہی وہ خلافت کا راز ہے جسے ہمارے روٹھے ہوئے بھائیوں نے نہیں سمجھا اور فتنے کی رو میں بہہ گئے.خلاصہ کلام یہ کہ اگر وہ گفتگو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے والدہ صاحبہ کے ساتھ فرمائی اس سے مشورہ حاصل کرنا مقصود نہ تھا تو اس کی تین غرضیں عقلاً مانی جاسکتی ہیں.اول یہ کہ حضرت صاحب کا یہ منشاء تھا کہ سلسلہ کلام شروع کر کے اپنے خیال کا اظہار فرما دیں جس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض موقعوں پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی کی خلافت کی طرف اشارات فرمائے.دوسرے یہ کہ آپ نے یہ گفتگو محض اس اردے سے کی تھی کہ والدہ صاحبہ کا خیال معلوم کریں کہ کیا ہے کیونکہ بعض اوقات محض دوسرے کی رائے کا علم حاصل کرنے کے لئے ایک بات پوچھی جاتی ہے.اور تیسرے یہ کہ آپ نے والدہ صاحبہ کے امتحان اور تعلیم کے لئے ایسا کیا تھا.تا کہ اگر وہ آپ کے سوال کے جواب میں یہ کہیں کہ ہاں محمود کو مقرر کر دیں تو آپ ان کو اس حقیقت سے مطلع فرمائیں کہ گو واقعہ کے لحاظ سے محمود نے ہی اپنے وقت پر آپ کا خلیفہ بننا ہو.لیکن عام سنت اللہ کے مطابق اس سوال کو خدا کے تصرف پر چھوڑ دینا چاہیئے کہ وہ خود لوگوں کے انتخاب کے ذریعہ سے اپنے ارادے کو پورا فرمائے.مگر چونکہ حضرت والدہ صاحبہ کے جواب سے آپ سمجھ گئے کہ وہ اس نکتہ سے آگاہ ہیں اور جانتی ہیں کہ آپ نے وہی کرنا ہے جو خدا کا منشا ء اور اس کی سنت ہے.اس لئے آپ مطمئن ہو کر خاموش ہو گئے.یہ تینوں صورتیں بالکل معقول اور حالات کے عین مطابق اور

Page 100

۹۳ مضامین بشیر روایت کے اندرونی سیاق و سباق سے پوری موافقت رکھنے والی ہیں اور ان کو ترک کر کے ڈاکٹر صاحب کا دوسری فرضی باتوں میں پڑ جانا جن کو روایت کا سیاق وسباق اور دیگر حالات ہرگز برداشت نہیں کرتے صرف ڈاکٹر صاحب کی اس دلی مہربانی کا ایک کرشمہ ہے جو وہ ہمارے حال پر رکھتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں.دوسرا پہلو اس روایت کا یہ ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو حضرت والدہ صاحبہ کے ساتھ یہ گفتگو فرمائی تو اس سے آپ کی غرض مشورہ طلب کر نا تھی یعنی آپ کا منشاء یہ تھا کہ حضرت والدہ صاحبہ سے مشورہ حاصل کریں کہ اس معاملہ میں کیا کرنا مناسب ہے.سواس صورت کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گوروایت کے الفاظ اور دیگر حالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کی غرض کوئی باقاعدہ مشورہ حاصل کرنا نہ تھی لیکن اس بات کو امکانی طور پر تسلیم کرتے ہوئے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اگر حضرت صاحب نے مشورہ کے طریق پر ہی یہ گفتگو فرمائی ہو پھر بھی ہرگز اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا.اور ڈاکٹر صاحب کا یہ سراسر ظلم ہے کہ انہوں نے مشورہ کی حقیقت اور اس کی غرض و غایت کو سمجھنے کے بغیر یونہی ایک اعتراض جما دیا ہے.درحقیقت ڈاکٹر صاحب کی یہ ایک سخت غلطی ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ مشورہ کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ بہر صورت قبول کیا جائے.یعنی جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے مشورہ لیتا ہے تو اس کا یہ فرض ہو جاتا ہے کہ اس مشورہ کے مطابق عملدرآمد کرے.یہ وہ خطرناک غلطی ہے جو ڈاکٹر صاحب کے اس اعتراض کی اصل بنیاد ہے حالانکہ ہر وہ شخص جو قوانین تمدن اور فن سیاسیات سے آشنا ہے بلکہ ہر وہ شخص جو تھوڑا بہت غور وفکر کا مادہ رکھتا ہے سمجھ سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ خیال سراسر غلط اور بودا ہے.مشورہ لینے والے کے لئے ہرگز ہرگز یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ بہر صورت مشورہ کو قبول ہی کرے.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلُ عَلَى اللَّهِ ٣٦٠ یعنی اے نبی لوگوں کے ساتھ مشورہ کر لیا کرو.اور جب مشورہ کے بعد کسی بات پر عزم کر لو تو پھر اللہ پر توکل کرو.“ اس آیت میں یہ صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ مشورہ کی پابندی ضروری نہیں اور مشورہ کے بعد مشورہ لینے والے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جس بات کے متعلق اسے اطمینان اور شرح صدر پیدا ہواس پر قائم ہو جائے.سیاسیات میں بھی یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ اعلیٰ انتظامی افسران کے ساتھ مشورہ دینے والی مجلسیں ہوتی ہیں.لیکن ان افسروں کو اختیار ہوتا ہے کہ اگر مفا د ملکی کے ماتحت ضروری خیال کریں

Page 101

مضامین بشیر ۹۴ تو اپنی ذمہ داری پر ان کے مشورہ کو رڈ کر دیں.تمنیات میں بھی دوست دوست بھائی بھائی باپ بیٹے خاوند بیوی وغیرہ کے باہم مشورہ ہوتے رہتے ہیں.لیکن مشورہ لینے والا کبھی اس بات کا پابند نہیں سمجھا جاتا کہ وہ بہر صورت مشورہ کو قبول کرے.بلکہ مشورہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مختلف دماغوں کے غور وفکر کے نتیجہ میں بات کے تمام پہلو واضح ہو جائیں.اور کسی امر کے حصول کے لئے جو مختلف تجاویز اختیار کی جاسکتی ہوں وہ سب سامنے آکر اس بات کے فیصلہ کا موقع ملے کہ ان میں سے کونسی تجویز اختیار کئے جانے کے قابل ہے.ایک اکیلا آدمی جب کسی بات کے متعلق سوچتا ہے تو خواہ وہ کتنا ہی لائق اور قابل ہو بعض اوقات بات کا کوئی نہ کوئی پہلو اس کی نظر سے مخفی رہ جاتا ہے لیکن جب وہ دوسرے لوگوں کو مشورہ میں شریک کرتا ہے تو خواہ وہ لوگ اس سے لیاقت میں کم ہی کیوں نہ ہوں باہم مشورہ سے بات کے کئی مخفی پہلو سامنے آجاتے ہیں اور کئی باتیں جو اس کے ذہن میں نہیں آئی ہوتیں دوسروں کے ذہن میں آجاتی ہیں.اور اس طرح مشورہ لینے والے کو مختلف تجویزوں اور مختلف پہلوؤں کے درمیان ٹھنڈے دل سے موازنہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے.پس مشورہ اس غرض کے لئے نہیں ہوتا کہ مشورہ لینے والا دوسروں کے ہاتھ میں اپنے معاملہ کو دے دیتا ہے کہ اب جس طرح کہو اسی طرح میں عمل کروں.بلکہ مشورہ اس لئے ہوتا ہے تا کہ مختلف دماغوں کے کام میں لگنے سے معاملہ زیر غور کے متعلق حسن و فتح کے مختلف پہلو سامنے آجائیں اور پھر مشورہ لینے والا آسانی کے ساتھ موازنہ کر کے کسی ایک رائے پر قائم ہو سکے.مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کی طرف قدم بڑھا دیا ہے میری روایت کو کھول کر دیکھا جائے.اس میں صاف طور پر یہ مذکور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت والدہ صاحبہ سے یہ دریافت کیا تھا کہ تمہارا اس معاملہ میں کیا خیال ہے اور بس.اب اس سے ڈاکٹر صاحب کا یہ نتیجہ نکالنا کہ اس روایت سے پتہ لگتا ہے کہ آپ نے گویا خلافت کا سارا معاملہ بیوی کے ہاتھ میں دے دیا صاف یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک مشورہ لینے کے یہ معنی ہیں کہ مشورہ لینے والا مشورہ کا پابند ہو جاتا ہے والا اگر ان کا ایسا خیال نہ ہوتا تو وہ محض مشورہ طلب کرنے کا ذکر پڑھنے پر یہ واویلا نہ شروع کر دیتے کہ دیکھو بیوی کے ہاتھ میں خلافت کا معاملہ دے دیا گیا ہے.خوب غور کر لو کہ محض مشورہ مانگنے کا ذکر پڑھنے پر ڈاکٹر صاحب کا یہ آہ و پکار کرنا کہ : - اتنے بڑے عظیم الشان انسان مامور من اللہ کی نسبت یہ گمان کرنا کہ وہ اپنی وفات کے بعد جماعت کی ساری ذمہ داری کو اپنی بیوی کے اشارہ پر بلا سوچے سمجھے

Page 102

۹۵ مضامین بشیر بغیر استعداد اور قابلیت پر غور کئے ایک شخص کے ہاتھ میں پکڑا دینے کو تیار تھا.حضرت صاحب کی شان پر خطر ناک حملہ ہے.یہ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ یا تو ان الفاظ کا لکھنے والا مشورہ کی حقیقت سے بالکل نا واقف ہے اور یا ہماری عداوت میں اس کا دل ایسا سیاہ ہو چکا ہے کہ وہ دیدہ دانستہ محض ایک غلط نتیجہ نکال کر اور میری طرف وہ بات منسوب کر کے جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آئی خلق خدا کو دھوکا دینا چاہتا ہے.میں پھر عرض کرتا ہوں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ گفتگو مشورہ کی غرض سے ہی تھی تو ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ اس کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہیں کہ آپ نے اپنے ایک دلی مونس اور رفیق دیر بینہ کی رائے معلوم کرنی چاہی تھی.تا کہ اگر وہ مفید ہو اور قابل قبول ہو تو آپ اس سے فائدہ اٹھا سکیں.نہ یہ کہ آپ کا یہ منشاء تھا کہ بس جو کچھ بھی حضرت ام المومنین کے منہ سے نکلے اس کے آپ پابند ہو جائیں گے اور اپنے فکر و غور سے ہرگز کوئی کام نہیں لیں گے اور نہ ہی دعا اور استخارہ سے خدائے علیم وقدیر سے استعانت فرمائیں گے.یہ محض ایک جہالت کا استدلال ہے جس کی نہ معلوم ڈاکٹر صاحب کے دل و دماغ نے انہیں کس طرح اجازت دی ہے.اگر یہ مشورہ ہی تھا تو ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مشورہ کے تمام لوازمات کو پورا فرمایا ہوگا.یعنی جہاں ایک طرف آپ نے مشورہ کیا تھا وہاں ساتھ ہی اپنے غور و فکر سے بھی کام لیا ہوگا.دعا ئیں بھی فرمائی ہوں گی اور استخارے بھی کئے ہوں گے.اور پھر وہی کیا ہوگا جس پر بالآخر آپ کو شرح صدر حاصل ہوا ہوگا.یعنی یہ کہ خلافت کے معاملہ کو خدا پر چھوڑ دیا جائے.تا کہ وہ اپنی قدیم سنت کے مطابق خود اپنے تصرف خاص سے لوگوں کے قلوب کو اس شخص کی طرف پھیر دے جو اس منصب کا اہل ہو.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ پر سوائے چند اشخاص کے ساری جماعت جمع ہو گئی.اور پھر ان کے بعد حضرت میاں صاحب کو خدا نے اس مقام کے لئے منتخب فرمایا اور جماعت کے قلوب کو ان کی طرف جھکا دیا اور سوائے ایک قلیل گروہ کے سب نے ان کو اپنا خلیفہ تسلیم کیا.اور ہزاروں نے رؤیا اور کشوف اور الہام کے ذریعہ تحریک پا کر بیعت کی.الغرض خواہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس گفتگو کو مشورہ کے رنگ میں سمجھا جائے اور خواہ دوسرے رنگ میں خیال کیا جائے ہر گز کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش نہیں اور مجھے سخت حیرت ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ضمیر نے کس طرح یہ اجازت دے دی کہ ایک صاف اور سادہ بات کو بگاڑ کر ایک ایسا نتیجہ نکالیں جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اور کوئی عقل مند آدمی جس کی آنکھوں پر تعصب اور

Page 103

مضامین بشیر ۹۶ عداوت کی پٹی بندھی ہوئی نہ ہو ان الفاظ سے نہیں نکال سکتا.جو میں نے لکھے تھے.اور اس موقع پر میں اس افسوس کا اظہار کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ ڈاکٹر صاحب نے اس اعتراض میں حضرت والدہ صاحبہ کے ادب واحترام کو بھی کما حقہ ملحوظ نہیں رکھا.میں یقین رکھتا ہوں کہ جس لب ولہجہ میں ڈاکٹر صاحب نے حضرت والدہ صاحبہ کا ذکر کیا ہے اس لب ولہجہ میں وہ کبھی اپنی والدہ ماجدہ کا ذکر کر نے کے لئے تیار نہیں ہوں گے.اس صورت میں کیا یہ افسوس کا مقام نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حرم کا جسے خود حضرت مسیح موعود نے اُم المومنین کے مقدس نام سے یاد کیا ہے، اس قدر احترام وادب نہ ہو جیسا کہ ان کو اپنی والدہ کا ہے.میں اس امر کے متعلق زیادہ نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ ڈرتا ہوں کہ میرے متعلق ذاتیات کا الزام نہ قائم کر دیا جائے مگر مجھے اس کا افسوس ضرور ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر غیرت مند احمدی کو اس کا افسوس ہونا چاہیئے.حمید تیسری مثال جو ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ المہدی سے پیش فرمائی ہے ، وہ مولوی شیر علی صاحب کی ایک روایت ہے.جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک دفعہ چند لوگ جن میں خود مولوی صاحب بھی تھے اور غالباً مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب بھی تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لئے آپ کے مکان کے اندر گئے.اس وقت آپ نے چند خربوزے انہیں کھانے کے لئے دیئے.اتفاق سے جوخر بوزہ مولوی شیر علی صاحب کو دیا وہ بڑا اور موٹا تھا آپ نے یہ خربوزہ مولوی صاحب کو دیتے ہوئے فرمایا کہ دیکھیں یہ کیسا ہے پھر خود مسکراتے ہوئے فرمایا کہ موٹا آدمی منافق ہوتا ہے.یہ خربوزہ بھی پھیکا ہی ہو گا.چنانچہ مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ خربوزہ پھیکا ہی نکلا.اس روایت کو نقل کر کے ڈاکٹر صاحب نے حسب عادت ایک عجیب خودساختہ نتیجہ نکال کر بڑے فخریہ طور پر یہ اعتراض جمایا ہے.چنانچہ لکھتے ہیں : - وو اس روایت میں خواجہ کمال الدین صاحب پر زد کرنی مقصود تھی.وہ موٹے تھے.اس لئے حضرت صاحب کی زبان سے ایک قاعدہ گھڑوایا گیا کہ موٹا آدمی منافق 66 ہوتا ہے.مطلب یہ کہ خواجہ صاحب منافق ہیں.“ میں اس کے جواب میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اگر میں نے یہ روایت خواجہ صاحب پر زد کرنے کی غرض سے گھڑ کر بیان کی ہو تو میں اس لعنت سے بچ نہیں سکتا جو خدا کے ایک مامور و مرسل پر افترا باندھنے والے پر پڑتی ہے اور اگر ایسا نہیں تو ڈاکٹر صاحب بھی خدائے غیور کے : مطبوعه الفضل ۳ ستمبر ۱۹۲۶ء

Page 104

۹۷ مضامین بشیر سامنے ہیں.بس اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا.اس اعتراض میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے انتہائی بغض وعداوت سے کام لے کر مجھ پر یہ خطرناک الزام لگایا ہے کہ خواجہ صاحب پر ز د لگانے کی نیت سے میں نے یہ روایت خود اپنی طرف سے گھڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کردی ہے.یہ ڈاکٹر صاحب کے ظلم کی انتہا ہے مگر میں کچھ نہیں کہتا.اِنَّمَا أَشْكُوا بَقِي وَحُزْنِيِّ إِلَى الله ۳۷ اور پھر ڈاکٹر صاحب نے اس الزام کے لگا دینے پر ہی بس نہیں کی بلکہ حسب عادت تمسخر اور استہزاء سے بھی کام لیا ہے.چنانچہ لکھتے ہیں : - ,, جامع الروایات کو فکر پڑی کہ وہ خود بدولت بھی ایک حد تک موٹے ہیں.اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بھی موٹے تھے.میر ناصر نواب مرحوم موٹے تھے ایک زمانہ تھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب مرحوم موٹے تھے.میر محمد اسحاق موٹے.حافظ روشن علی موٹے.خود مولوی شیر علی را وی موٹے.اجی موٹوں کی تو ایک فہرست ہے جو گنے لگوں تو خواہ نخواہ وقت ضائع ہو.“ مکرم ڈاکٹر صاحب وقت کی آپ فکر نہ فرمائیں آپ کا وقت ما شاء اللہ انہی باتوں کے لئے وقف ہے.اپنی طبیعت کے ان فطری بخارات کو ایک دفعہ دل کھول کر نکل جانے دیں.ورنہ یہ مادہ اگر یہاں دب گیا تو کہیں اور جا پھوٹے گا.اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر کہیں غلطی سے آپ کسی اپنے جیسے کو مخاطب کر بیٹھے تو پھر خیر نہیں.ڈاکٹر صاحب کا ایک اعتراض تو یہ ہے کہ میں نے یا مولوی شیر علی صاحب نے یہ روایت اپنی طرف سے گھڑ لی ہے تا کہ خواجہ صاحب کو منافق ثابت کیا جائے.اس کا ایک جواب تو دے دیا گیا ہے.کہ اگر ہم نے یہ روایت اپنی طرف سے گھڑی ہے تو لعنت الله على من افترى اور خواجہ صاحب کو منافق ثابت کرنے کے متعلق یہ جواب ہے کہ اس روایت کے بیان کرنے میں میری نیت ہر گز یہ نہ تھی کہ خواجہ صاحب یا کسی اور صاحب پر زد کی جائے.والله على اقول شهيداور جب کہ خود ڈاکٹر صاحب بڑی مہربانی سے مجھے یہ بات یاد دلاتے ہیں کہ میں خود ایک حد تک موٹا ہوں تو پھر کون عقل مند یہ خیال کر سکتا ہے کہ اس روایت کے بیان کرنے میں میرے دل میں کوئی ایسی نیست ہوسکتی ہے جو خود میرے ہی خلاف پڑتی ہو.میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال کر سکتا ہے کہ میرے دل میں خواجہ صاحب کی اس قدر عداوت بھری ہوئی ہے کہ میں ان کو منافق ثابت کرنے کے لئے خود اپنے ایمان پر بھی تبر رکھ سکتا ہوں.میں نے تو صاف لکھ دیا تھا کہ درایتہ حضرت صاحب کے اس قول سے یہ مراد نہیں ہو سکتا کہ موٹاپا اور منافقت لازم و ملزوم ہیں.بلکہ

Page 105

مضامین بشیر ۹۸ مطلب صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ آرام طلبی و تعیش کے نتیجے میں جو شخص موٹا ہو گیا ہو وہ عموماً ضرور ناقص الایمان ہوتا ہے.اب میرے اس نوٹ کے باوجود ڈاکٹر صاحب کو فوراً خواجہ صاحب کے ایمان کی فکر پڑ جانا خواہ نخواہ چور کی داڑھی میں تنکا والی مثال یاد دلاتا ہے.ناظرین غور فرمائیں کہ بقول ڈاکٹر صاحب یہ خاکسار جامع الروایات ایک حد تک موٹا اور مولوی شیر علی صاحب راوی بھی موٹے لیکن ہم دونوں کو اس روایت کے بیان کرتے اور نقل کرتے ہوئے کوئی فکر دامنگیر نہیں ہوتا کہ لوگ ہمارے ایمانوں کے متعلق کیا کہیں گے.کیونکہ ہمیں تسلی ہے کہ ہم خدا کے فضل سے مومن ہیں.اور یہ کہ حضرت صاحب کے اس قول میں ہرگز کوئی عمومیت مقصود نہیں.لیکن ڈاکٹر صاحب کا اس روایت کے پڑھتے ہی ماتھا ٹھنک جاتا ہے اور خواجہ صاحب کے ایمان کی فکر دامنگیر ہونے لگتی ہے.بہر حال خواہ ڈاکٹر صاحب خواجہ صاحب کے ایمان کے متعلق کچھ ہی فتوی لگا ئیں مجھے اس روایت کے بیان کرتے ہوئے خواجہ صاحب کے ایمان پر زد کرنا مقصود نہ تھا.اور ڈاکٹر صاحب نے حسب عادت سراسر بدظنی سے کام لے کر میری نیت پر ایک نا جائز حملہ کیا ہے.اس اعتراض کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ اگر خواجہ صاحب پر ز د کرنا مقصود نہیں تو پھر اس روایت کے بیان کرنے سے مطلب کیا تھا.اور کیوں ایسی لاتعلق بات داخل کر کے ناظرین کے وقت کو ضائع کیا گیا ہے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت ہرگز لا تعلق نہیں اور ڈاکٹر صاحب چونکہ محبت کے کوچے سے نا آشناء اور سیرت کے اصول سے نابلد ہیں اس لئے ان کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہوا ہے.میں نے جہاں اپنے مضمون کے شروع میں ڈاکٹر صاحب کے اصولی اعتراضات کا جواب دیا تھا وہاں یہ بتایا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو سیرۃ کے مفہوم کے متعلق سخت دھوکا لگا ہے اور انہوں نے صرف یہ سمجھ رکھا ہے کہ سیرۃ سے مراد یا تو زندگی کے بڑے بڑے واقعات ہیں اور یا ایسی خاص باتیں ہیں کہ جن سے اہم اخلاق و عادات کے متعلق بلا واسطہ روشنی پڑتی ہو.حالانکہ یہ درست نہیں اور سیرت کے مفہوم کو ایک بہت بڑی وسعت حاصل ہے جس میں علاوہ زندگی کے تمام قابل ذکر واقعات کے روزمرہ کی ایسی ایسی باتیں جن سے اخلاق و عادات کے متعلق کسی نہ کسی طرح استدلال ہو سکتا ہو.اور صاحب سیرت کے اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے سونے جاگنے چلنے پھرنے کام کاج کرنے دوستوں سے ملنے والدین اور بیوی بچوں اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات رکھنے دشمنوں کے ساتھ معاملہ کرنے وغیرہ کے متعلق ہر قسم کی باتیں شامل ہیں.بلکہ فلسفہ اخلاق کے ماہرین جانتے ہیں کہ اخلاق و عادات کے متعلق استدلال کرنے کے لئے زیادہ اہم واقعات کو چننا غلطی سمجھا جاتا ہے کیونکہ ایسے موقعوں پر انسان عموماً تکلف و تصنع سے کام لیتا ہے اور اس کی اصل طبیعت

Page 106

۹۹ مضامین بشیر و عادات پردہ کے پیچھے مستور رہتی ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں روز مرہ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات جنہیں بسا اوقات ایک ناواقف آدمی قابل ذکر بھی نہیں سمجھتا وہی اس قابل ہوتے ہیں کہ ان سے اخلاق و عادات کے متعلق استدلال کیا جاوے کیونکہ ان میں انسان کے اخلاق و عادات کی تصویر ہر قسم کے تصنع و تکلف کے لباس سے عریاں ہو کر اپنی جنگی صورت میں سامنے آجاتی ہے.مثال کے طور پر دیکھ لیجئے کہ اگر ایک باقاعدہ جلسہ ہو اور اس میں اپنے اور بیگانے ہر قسم کے لوگ جمع ہوں تو اس کے اندر ایک لغوا اور بیہودہ شخص بھی حتی الوسع سنبھل کر بیٹھے گا اور اپنی ہر حرکت وسکون میں خاص احتیاط سے کام لے گا تا کہ اس کے متعلق لوگ کوئی بری رائے نہ قائم کریں لیکن وہی شخص جب اپنے گھر میں ہوگا اور اپنے واقفوں اور ملنے والوں میں بیٹھے گا تو پھر تمام تکلفات سے جدا ہو کر اس کے اخلاق و عادات کی ننگی تصویر ظاہر ہونے لگے گی.پس اخلاق و عادات کے استدلال کے لئے روزمرہ کی نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کو چنا چاہیئے نہ کہ خاص خاص موقعوں کی اہم باتوں کو.اسی لئے جولوگ فن سیرۃ میں ماہر گذرے ہیں انہوں نے ایسی ایسی چھوٹی اور بظاہر نا قابل ذکر باتوں کو لیا ہے کہ نا واقف آدمی کو حیرت ہوتی ہے مگر دانا جانتا ہے کہ یہی صحیح رستہ ہے.اب اس اصل کے ماتحت دیکھا جائے تو کوئی عقل مند میری اس روایت کو لاتعلق یا نا قابل ذکر نہیں کہہ سکتا.میری روایت کیا ہے؟ یہی نا کہ چند احباب اپنی روزمرہ کی ملاقات کے لئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں.اور حضرت چونکہ کسی وجہ سے باہر تشریف نہیں لا سکتے ان کو اپنے پاس گھر کے اندر ہی بلا لیتے ہیں.اور پھر کچھ خربوزے ان کے سامنے کھانے کے لئے رکھتے ہیں.بلکہ دوستانہ بے تکلفی کے طریق پر ایک ایک کے ہاتھ میں الگ الگ خربوزہ دیتے ہیں.اور دیتے ہوئے مسکرا کر کچھ ریمارک بھی فرماتے جاتے ہیں.اب ڈاکٹر صاحب خدا کا خوف رکھتے ہوئے دیانت داری کے ساتھ بتائیں کہ کیا یہ ایک لاتعلق روایت ہے؟ کیا اس روایت سے حضرت صاحب کی مجلس کا طریق اور آپ کا اپنے خدام کے ساتھ مل کر بیٹھنے اور ان سے محبت و بے تکلفی کی باتیں کرنے کا طریق ظاہر نہیں ہوتا ؟ کیا اس روایت سے آپ کے اخلاق و عادات کی سادگی اور بے تکلفی پر کوئی روشنی نہیں پڑتی ؟ ان سوالات کے جواب کے لیئے مجھے کسی ثالث کی ضرورت نہیں.ڈاکٹر صاحب موصوف کا اپنا نو رضمیر اگر وہ بجھ کر مٹ نہیں چکا اس ثالثی کے لئے کافی ہے.بس اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا.ع اگر در خانه کس است حرفی بس است باقی رہا محبت کا میدان سو اس کے متعلق کیا عرض کروں اور پھر کروں بھی تو کس سے کروں ؟ میں

Page 107

مضامین بشیر نے ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے سمجھ لیا ہے کہ وہ اس کوچے کے محرم نہیں.ان کے مضمون سے مجھے خشک نیچریت کی بو آتی ہے.ہاں اگر ڈاکٹر صاحب محبت کے ذوق سے شناسا ہوتے تو میں عرض کرتا کہ ذرا احادیث نبوی کو کھول کر مطالعہ فرمائیں کس طرح صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول و فعل ہر حرکت وسکون کو عشق و محبت کے الفاظ میں ملبوس کر کے بعد میں آنے والوں کے لئے جمع کر دیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی موقع پر صحابہ کے سامنے کھانا کھاتے ہیں.اور گوشت میں کدو پک کر سامنے آتا ہے اور آپ کدو کے ٹکڑے شوق سے نکال نکال کر تناول فرماتے ہیں.صحابہ کے لئے اس نظارہ میں بھی عشق و محبت کی غذا ہے وہ جھٹ احادیث نبوی کے مجموعہ میں اس روایت کو داخل کر کے اس محبت کی دعوت میں ہمیں بھی شریک کرنا چاہتے ہیں.اس قسم کی روایتیں احادیث نبوی میں ایک دو نہیں دس ہیں نہیں پچاس ساٹھ نہیں بلکہ سینکڑوں ہیں.اور اہل دل اس سے محبت و عشق کی غذا حاصل کرتے ہیں.لیکن میں اگر اس قسم کی کوئی روایت اپنے مجموعہ میں درج کر دیتا ہوں تو مجرم سمجھا جاتا ہوں.اور ڈاکٹر صاحب میرے اس نا قابل معافی جرم کو پبلک کی عدالت کے سامنے لاکر مجھے ذلت و بد نامی کی سزا دلوانا چاہتے ہیں.اچھا یونہی سہی.ع ایس ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر ایک اعتراض اور دراصل اس روایت کے متعلق سارے اعتراضوں میں سے اکیلا سنجیدہ اعتراض ڈاکٹر صاحب کا یہ ہے کہ یہ بات حضرت صاحب کے طریق واخلاق کے خلاف ہے کہ آپ نے ایک ایسی مجلس میں جس میں ایک موٹا آدمی بھی بیٹھا ہو ، اس قسم کے الفاظ فرمائے ہوں کہ موٹا آدمی منافق ہوتا ہے.یہ ایک معقول اعتراض ہے اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ واقعی حضرت صاحب کا طریق ہرگز ایسا نہ تھا کہ مجلس میں اس قسم کی کوئی بات کریں کہ جو کسی کا دل دکھانے والی ہو یا جس میں صریح طور پر کوئی شخص اپنے متعلق اشارہ سمجھے مگر ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ موجودہ روایت کے متعلق حضرت مسیح موعود کے اس طریق کی رو سے کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا.کیونکہ اول تو روایت کے الفاظ میں اس مجلس کے اندر خواجہ کمال الدین صاحب کی موجودگی کو ” غالبا کے لفظ سے ظاہر کیا گیا ہے.جس کے یہ معنی ہیں کہ راوی کو خواجہ صاحب کے وہاں موجود ہونے کے متعلق یقین نہیں ہے بلکہ شک ہے اور کوئی عقل مند ایک غیر یقینی بات پر اپنے اعتراض کی بنیاد نہیں رکھ سکتا.لیکن افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس لفظ کو بالکل نظر انداز کر کے ایسے طور پر اعتراض پیش کیا ہے کہ گویا راوی کے نزد یک خواجہ صاحب کا اس مجلس میں موجود ہونا یقینی ہے.حالانکہ بالکل ممکن ہے کہ خواجہ صاحب وہاں

Page 108

موجود نہ ہوں.1+1 مضامین بشیر بہر حال جبکہ روایت کی رو سے خواجہ صاحب کے وہاں موجود ہونے اور نہ ہونے ہر دو کا احتمال موجود ہے تو ڈاکٹر صاحب کا یہ اعتراض کسی عقل مند کے نزدیک قابل توجہ نہیں سمجھا جا سکتا.دوسرے یہ کہ غالبا ڈاکٹر صاحب بھول گئے ہیں کہ خواجہ صاحب موصوف ہمیشہ سے اسی طرح کے موٹے اور فربہ نہیں چلے آئے بلکہ اوائل کے دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ شروع میں خواجہ صاحب ایک درمیانے جسم کے آدمی تھے.چنانچہ غالبا خود خواجہ صاحب اس امر کی شہادت دے سکیں گے کہ ان کے والد صاحب مرحوم یعنی جناب خواجہ عزیز الدین صاحب کبھی کبھی ہنستے ہوئے پدرانہ آزادی کے ساتھ یہ فرمایا کرتے تھے کہ خواجہ پشاور کے سنڈوں کا گوشت کھا کھا کر خود بھی سنڈا ہو گیا ہے.جس سے ظاہر ہے کہ وکالت کے لئے پشاور جانے سے قبل اور نیز پشاور کے ابتدائی ایام میں خواجہ صاحب اس تن و توش کے آدمی نہ تھے.الغرض جناب خواجہ صاحب ہمیشہ سے ہی اس فربہی کے مالک نہیں رہے.اور اس لئے بالکل ممکن بلکہ اغلب ہے کہ جو روایت مولوی شیر علی صاحب نے بیان کی ہے وہ اس زمانہ کی ہو جب کہ خواجہ صاحب زیادہ موٹے آدمیوں میں شمار نہ ہوتے ہوں.جیسا کہ خود ہمارے محترم را وی صاحب بھی ان دنوں میں جسم کے ہلکے ہوتے تھے.مگر بعد میں جسم بھاری ہو گیا.تیسرا جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ بیشک حضرت مسیح موعود کا یہ طریق تھا کہ آپ مجلس میں کوئی ایسا ریمارک نہیں فرماتے تھے کہ جو کسی کا دل دکھانے والا ہو لیکن جس قسم کی مجلس کا روایت کے اندر ذکر ہے وہ ایک ایسے لوگوں کی مجلس تھی جو عمو ماً حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر رہتے تھے.اور آپ کے طریق واخلاق و عادات سے اچھی طرح واقف تھے.اور حضرت صاحب بھی ان کے ساتھ بہت بے تکلفی کے ساتھ ملتے اور گفتگو فرماتے تھے اور یہ لوگ ویسے بھی تعلیم یافتہ اور سمجھدار تھے.پس ایسی مجلس کے اندر حضرت صاحب نے اگر وہ الفاظ فرما دیئے ہوں کہ جن کا روایت میں ذکر آتا ہے تو ہر گز قابل تعجب نہیں.کیونکہ حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ یہ لوگ میرے صحبت یافتہ اور میرے طرز وطریق سے واقف اور فہمیدہ لوگ ہیں اس لئے وہ میرے الفاظ سے کوئی ایسا مفہوم نہیں نکالیں گے کہ جو غلط ہو اور میرے طریق کے خلاف ہو.چنانچہ اس وقت کے حاضرین مجلس میں.کسی کو اس طرف خیال تک نہیں گیا کہ حضرت صاحب نے عوذ باللہ کوئی دل آزار بات کہی ہے.بلکہ سب یہی سمجھے کہ آپ کا یہ منشاء ہر گز نہیں کہ محض بدن کا موٹا ہونا منافقت کی علامت ہے خواہ وہ کسی وجہ سے ہو.بلکہ منشاء یہ ہے کہ آرام طلبی اور تعیش وغیرہ کے نتیجہ میں جو شخص موٹا ہو گیا ہو اس کے ایمان

Page 109

مضامین بشیر ۱۰۲ میں نفاق کی ضرور آمیزش ہے اور چونکہ اس وقت سب حاضرین اپنی اپنی جگہ اطمینان رکھتے ہوں گے کہ اگر ہم میں سے کوئی موٹا بھی ہے تو وہ تفتیش کے نتیجہ میں موٹا نہیں ہوا.اس لئے کسی کے دل میں حضرت صاحب کی یہ بات نہیں کھٹکی.ڈاکٹر صاحب ضد کی وجہ سے انکار کر دیں تو الگ بات ہے ورنہ یقیناً وہ اس بات سے نا واقف نہیں ہوں گے کہ بسا اوقات ایک لفظ مطلق استعمال کیا جاتا ہے لیکن دراصل وہ مقید ہوتا ہے اور بعض غیر مذکور شرائط کے ماتحت اس کے وسیع معنی مقصود نہیں ہوتے اور اس بات کا پتہ قرائن سے چلتا ہے کہ یہاں یہ لفظ اپنے کس مفہوم میں استعمال ہوا ہے.قرآن شریف وحدیث میں اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں.چنانچہ اگر ڈاکٹر صاحب اصول فقہ کی کوئی کتاب مطالعہ فرمائیں تو ان کو میرے اس بیان کی تصدیق مل جائے گی.خلاصہ کلام یہ کہ اگر راوی کے شک کو نظر انداز کرتے ہوئے یہی مان لیا جائے کہ خواجہ صاحب اس مجلس میں ضرور موجود تھے اور پھر واقعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ وہ اس وقت بھی موٹے تھے تو پھر بھی اس روایت کے ماننے سے کوئی حرج لازم نہیں آتا.کیونکہ اس وقت حضرت صاحب کے سامنے وہ لوگ تھے جو روز کے ملنے والے تھے اور آپ کے طریق وعادات سے خوب واقف تھے اور حضرت صاحب کو بھی یہ حسن ظنی تھی کہ وہ واقف حال اور فہمیدہ لوگ ہیں.عام حالات میں میرے الفاظ سے کوئی غلط مفہوم نہیں نکالیں گے.پس ایسے لوگوں کے سامنے اگر حضرت صاحب نے آزادی سے وہ الفاظ فرما دیے ہوں تو ہرگز قابل اعتراض نہیں.اس بحث کو ختم کرنے سے قبل یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ اس جگہ منافق سے مراد وہ منافق نہیں ہے جو دل میں تو کافر ہوتا ہے لیکن کسی وجہ سے ظاہر اپنے آپ کو مومن کرتا ہے بلکہ ایسا شخص مراد ہے جو دل میں بھی جھوٹا نہیں جانتا.لیکن اس کا ایمان اس درجہ ناقص ہوتا ہے کہ اس کے اعمال پر کوئی اثر نہیں کر سکتا.اور نہ غیروں کی محبت اس کے دل سے نکال سکتا ہے.دراصل قرآن شریف وحدیث سے پتہ لگتا ہے کہ نفاق کئی قسم کا ہوتا ہے.اور ایسے شخص کی حالت کو بھی حالت نفاق سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے کہ جو ویسے تو دل سے ہی ایمان لاتا ہے اور اپنا ایمان ظاہر بھی کرتا ہے لیکن اس کا ایمان ایسا کمزور ہوتا ہے کہ اس کے اعمال و عادات عموماً غیر مومنانہ رہتے ہیں اور اس کا دل بھی غیروں کے تعلقات سے آزاد نہیں ہوتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسے لوگ منافق سمجھے جاتے تھے لیکن موجودہ

Page 110

۱۰۳ مضامین بشیر زمانہ میں چونکہ ایمان کا معیار بہت گرا ہوا ہے.اس لئے ایسے لوگوں کو مومنین کی جماعت میں شمار کر لیا جاتا ہے اور منافق صرف اس شخص کا نام رکھا جاتا ہے کہ جو دل میں تو کا فر ہو مگر ظاہر اپنے آپ کو مومن کرے.بہر حال جیسا کہ قرائن سے پتہ لگتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں جو منافق کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے ایسا شخص مراد ہے کہ جس کا ایمان اس کے اعمال پر اثر پیدا نہ کر سکے اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص جو شعار اسلام کو ترک کر کے آرام طلبی اور عیش وعشرت میں زندگی بسر کرنے کی وجہ سے فربہ ہوتا جا تا ہو اس کا ایمان ضرور اس موخر الذکرفتم میں داخل سمجھا جاتا ہے.والله اعلم ولا علم لنا الا ما علمتنا - : مطبوعه الفضل ۳ ستمبر ۱۹۲۶ء

Page 111

مضامین بشیر ۱۰۴ حوالہ جات ۱۹۲۲ء ا.البقرہ : ۱۱۴ ۲.المائده : ۹ ۳.البقره: ۲۲۰ ۴.مطبوعہ البدر ۱۴ اپریل ۱۹۰۴ء ۵.سیرت المہدی صفحه ا.سیرت المہدی صفحه الف ے.سیرت المہدی صفحہ ج ۸.سیرت المہدی پروف صفحه ا ۹ - کنز العمال جلدا الفصل الثانى فى فضائل السور والآيات والبسملة.۱۰.سنن ابوداؤد - کتاب الجہاد - باب على ما يقاتل المشركون 11 صحیح البخاری.کتاب المغازی.باب بعث النبى اسامة بن زيد الى الحرقات من جهينة - ۱۲.مفہوماً صحیح البخاری - کتاب اللباس - ۱۳ صحیح البخاری.کتاب مواقيت الصلواة باب ما يكره من النوم قبل العشاء- ۱۴ صحیح المسلم - كتاب فضائل الصحابه باب من فضائل عبدالله بن عباس ۱۵.الجاثیہ: ۱۴ ۱۶.تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۲۸۲.حاشیہ ۱۷.تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۲۸۲.حاشیہ ۱۸.تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۲۵۳ ۱۹ صحیح البخاری - کتاب الاذان - باب يستقبل الامام النَّاسَ إذا اسلم.۲۰ صحیح مسلم - كتاب الجمعة - باب هداية هذه الامة ليوم الجمعة -

Page 112

۱۰۵ ۲۱.صحیح مسلم.کتاب الجمعة ـ باب فضل يوم الجمعة - ۲۲.النحل: ۴۹ ۲۳.حم السجدہ : ۱۳ -۲۴ - تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۲۸۲ حاشیہ مضامین بشیر ۲۵ ملخص // ٢٦- الجاثية : // // ۱۴ صفحه ۲۸۰ حاشیه ۲۷.تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد۷ اصفحه ۲۵۳ حاشیه ۲۸.تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۳ ۲۵ حاشیہ ۲۹.تحفہ گولڑو یہ : روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۵۴ ۳۰.الاعراف: ۱۵۷ ۳۱ صحیح البخاری.کتاب التوحيد - باب قول الله تعالى بل هو قرآن مجيد في لوح محفوظ - ٣٢ لسان العرب جلد زیرِ لفظ حَمَرَ ۳۳ - تذکره صفحه ۳۵۷، ۳۹۳،۳۷۸ - طبع ۲۰۰۴ء ۳۴.مفہوماً.اسدالغابہ.جلد ۶.باب عائشه بنت ابو بکر صفحہ ۱۹۴ - الاستيعاب في معرفة الاصحاب - جلد ۴ - باب النساء وكنا هُنَّ - صفحہ ۴۳۷ ۳۵_ الشعرآء: ۲۲۸ ۳۶ - ال عمران : ۱۶۰ ۳۷ - یوسف : ۸۷

Page 113

1+4 مضامین بشیر

Page 114

1+2 ۱۹۲۷ء مضامین بشیر برکات رمضان سے فائدہ اٹھاؤ رمضان کا مہینہ کئی وجوہات سے ایک نہایت مبارک مہینہ ہے اور اس مہینہ میں سے خصوصا آخری عشرہ کے دن بہت برکت والے دن سمجھے گئے ہیں.احباب کو چاہیئے کہ ان مبارک ایام سے پورا پورا فائدہ اٹھا ئیں اور صدقہ وخیرات اور ذکر الہی اور اصلاح نفس کی طرف ایسے شوق و ذوق کے ساتھ متوجہ ہوں کہ ان کی زندگیوں میں ایک روحانی انقلاب پیدا ہو جائے.اگر رمضان کا مہینہ آئے اور بغیر ہمارے اندر کوئی انقلاب پیدا کرنے کے گذر جائے اور ہم جیسا کہ اس مبارک مہینہ سے قبل تھے ویسے ہی بعد میں رہیں تو ہم سے بڑھ کر زیادہ خسارہ میں اور کون ہوگا.پس دعاؤں سے اور مجاہدہ سے اپنے قدم کو سرعت کے ساتھ آگے بڑھانا چاہیئے اور خدا کے ان فضلوں کو اپنی طرف کھینچنا چاہیئے جوان ایام میں اس کے بندوں کے بہت ہی قریب ہو جاتے ہیں.اس دفع خدا کے فضل سے رمضان کی ستائیس تاریخ کو جمعہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جب رمضان کی ستائیس تاریخ اور جمعہ جمع ہو جائیں تو وہ وقت بہت ہی مُبارک ہوتا ہے.پس ان مبارک گھڑیوں سے فائدہ اٹھاؤ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ باتیں منتر جنتر کے طور پر نہیں ہیں کہ انسان خواہ اپنے اعمال اور خیالات میں کیسا ہی رہے کوئی خاص گھڑی اسے کامیاب کر سکتی ہے.بعض وقتوں میں بے شک خاص برکات کا نزول ہوتا ہے لیکن ان برکات سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو اپنے اندر تغیر پیدا کر کے اپنے آپ کو ان فضلوں کا اہل بنا تا ہے.کیا آپ لوگوں نے نہیں دیکھا کہ بارش اللہ تعالیٰ کا ایک خاص مادی فضل ہے لیکن جس زمین میں تخم گندہ ہوتا ہے اس کی روئیدگی بھی بارش کے بعد گندی ہی ہوتی ہے.پس اپنے نفسوں کا محاسبہ کر کے دعا اور ذکر الہی مجاہدہ اور صدقہ وخیرات سے اپنے اندر ایک تغیر پیدا کرو اور پھر یہ مُبارک گھڑیاں سونے پر سہاگہ کا کام دیں گی اور احباب کو چاہیئے کہ ان دنوں میں خصوصیت کے ساتھ سلسلہ کی ترقی اور جماعت کی اصلاح کے لئے دعائیں کریں اور ہر دعا کو حمد باری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجنے کے ساتھ شروع کریں اور

Page 115

مضامین بشیر ۱۰۸ اپنی دعاؤں میں ایک زندگی پیدا کریں تا کہ وہ قبولیت کے مقام کو پہنچ سکیں اور میں اسلام اور احمدیت کی مقدس اخوت کو یاد دلاتے ہوئے یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ جن دو احمد یوں کے دلوں میں باہمی کدورت ہو یا جس جماعت کے افراد میں کوئی جھگڑا یا تنازعہ رُونما ہو وہ ان مبارک دنوں میں اپنے سینوں اور دلوں کو ایک دوسرے کی طرف سے صاف کرلیں اور صلح جوئی کی طرف ایک دوسرے سے بڑھ کر سرعت کے ساتھ قدم اٹھا ئیں تا کہ پیشتر اس کے کہ خدا کے یہ مقدس دن ختم ہو کر عید کا چاند ہم پر طلوع ہو ہمارے سینے ہر قسم کی کدورتوں سے صاف ہو کر ایک دوسرے کی محبت سے معمور ہو جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح آسمان پر سے ہمیں دیکھ کر سرور حاصل کرے.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہمیں اپنی رضاء کے رستوں پر چلنے کی توفیق دے.آمین (مطبوعہ الفضل یکم اپریل ۱۹۲۷ء )

Page 116

1+9 مضامین بشیر نظارت تعلیم و تربیت کا ایک ضروری اعلان مجلس مشاورت قریب آگئی ہے جس میں حسب دستور سابق ہر نظارت کی طرف سے مشورہ کے لئے ضروری امور پیش کئے جائیں گے.میں احباب سے اس بات میں مشورہ چاہتا ہوں خصوصاً سیکرٹریان تعلیم و تربیت سے کہ اس مشاورت میں جماعت کی تعلیم وتربیت کے متعلق کون سے امور پیش کئے جائیں.ایسے امور تجویز ہونے چاہئیں جو اصولی ہوں اور جماعت کی موجودہ حالت اور ضرورت کے لحاظ سے ان کی طرف توجہ کیا جانا ضروری ہو.احباب کی طرف سے مشورہ آنے پر میں نظارت تعلیم وتربیت کا ایجنڈا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں منظوری کے لئے پیش کروں گا.چونکہ وقت بہت تنگ ہے جواب جلد آنا چاہیئے.مثال کے طور پر مندرجہ ذیل امور تحریر کئے جاتے ہیں.(۱) بعض کمزور احمدی جو غیر احمدیوں کو رشتہ دے دیتے ہیں ان کی روک تھام کس طرح کی جانی مناسب ہے اور جو شخص با وجود کوشش کے باز نہ آئے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے.(۲) جو کمزور لوگ احمدیوں میں سے شریعت کے ان احکام کی پابندی اختیار نہیں کرتے جو ظاہری شعار سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً ڈاڑھی کا رکھنا ، ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہیئے اور کس حد تک حجت پوری ہونے کے بعد.(۳) کیا تبلیغی وفود کی طرح تعلیم و تربیت کے وفود کو ملک میں دورہ کے لئے بھیجنا مناسب ہے اگر مناسب ہے تو ان وفود کا کس طریق پر اور کس موسم میں انتظام کیا جانا مناسب ہو گا.(۴) بورڈ نگ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان و بورڈنگ مدرسہ احمدیہ قادیان اور احمد یہ ہوٹل لاہور میں جب احمدی بچوں کا بقایا ہو جاتا ہے اور والدین با وجود تقاضوں کے بقایا ادانہیں کرتے ، ان کے ساتھ کیا طریق اختیار کیا جانا چاہیئے.(۵) وظائف تعلیمی جو نظارت تعلیم کی طرف سے دیئے جاتے ہیں ان کی تقسیم کے متعلق کیا اصول ہونا چاہیئے اور نیز جو طلباء بغیر اس کے کہ پہلے اپنے وظیفہ کی منظوری حاصل کریں ، قادیان

Page 117

مضامین بشیر 11.آجائیں اور یہاں اُس وقت گنجائش نہ ہو یا دوسرے زیادہ حقدار موجود ہوں تو ان کے متعلق کیا طریق اختیار کیا جائے وغیرہ ذالک.(1) جماعت میں پرائمری تعلیم کو عام کرنے کے لئے حتی کہ کوئی احمدی نا خواندہ نہ رہے کیا تجویز کی جانی چاہیں.( مطبوعه الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۲۷ء )

Page 118

111 سود کے متعلق حضرت مسیح موعود کا فیصلہ سلمان تجار کی مشکلات کاحل مضامین بشیر یوں تو بعض صورتوں میں سودی روپے کے اشاعت اسلام میں خرچ کئے جانے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ فتاوی احمد یہ میں شائع ہو چکا ہے اور اکثر احباب اس سے آگاہ ہوں گے لیکن حال میں ہی حضرت اقدس کا ایک خط میاں غلام نبی صاحب سیٹھی مہاجر سے ملا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۸ء میں سیٹھی صاحب کو اپنے دستِ مبارک سے لکھ کر ارسال کیا تھا.جبکہ وہ راولپنڈی میں تجارت کا کام کرتے تھے.اس خط سے چونکہ سود کے مسئلے کے متعلق بعض نئے پہلوؤں سے روشنی پڑتی ہے اور مسلمان تجار کی بہت سی مشکلات حل ہو جاتی ہیں.اس لئے احباب کی اطلاع کے لئے یہ خط شائع کیا جاتا ہے.حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں : - دد بسم اللہ الرحمن الرحیم مجی عزیزی شیخ غلام نبی صاحب سلم اللہ تعالیٰ محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا.میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوف الہی پر اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی پیدا کر دے گا.اس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیئے اور سود کے بارہ میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قد ر سود کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریں بلکہ اس کو الگ جمع کرتے جاویں اور جب سود دینا پڑے اسی روپیہ میں سے دے دیں اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی

Page 119

مضامین بشیر ۱۱۲ خرچ نہ ہو بلکہ صرف اس سے اشاعتِ دین ہو.میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سود حرام فرمایا ہے، وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے.حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسان سُود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیال کی معیشت چلا دے یا خوراک یا پوشاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے.لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہر گز حرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرہ ذاتی نفع کے خدا تعالیٰ کی طرف رد کیا جاوے.یعنی اشاعت دین پر خرچ کیا جاوے.قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے ، جو چیز اُس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہو جاتی ہے.بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں.جیسے چوری یار ہرنی یا ڈاکہ، کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضا مندی سے حاصل کیا گیا ہو، وہ خدا تعالیٰ کے دین کی راہ میں خرچ ہوسکتا ہے.دیکھنا چاہیئے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوں کے مقابل پر جو ہمارے دین کے رد میں شائع کرتے ہیں کس قدر روپے کی ضرورت ہے.گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم اُن سے کر رہے ہیں.اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جاویں تو کچھ مضائقہ نہیں.یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے اور بیگانہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے.اور پھر خدا تعالیٰ سے دُعا کرتے رہیں.یہ تو شکر کی بات ہے کہ دینی سلسلہ کی تائید میں آپ ہمیشہ اپنے مال سے مدد دیتے رہتے ہیں.اس ضرورت کے وقت یہ ایک ایسا کام ہے کہ میرے خیال میں خدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے لئے نہایت اقرب طریق ہے.سو شکر کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دے رکھی ہے.اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ آپ اس راہ میں سرگرم ہیں.ان عملوں کو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے وہ جزا دے گا.ہاں ماسوا اس کے دُعا اور استغفار میں بھی مشغول رہنا چاہیئے.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار: مرزا غلام احمد از قادیان ۲۴ اپریل ۱۸۹۸ء

Page 120

۱۱۳ ئود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عمداً اپنے تئیں اس کام میں ڈالے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے.یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سُود کے روپیہ کا وارث ہو جائے تو وہ روپیہ اس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان ( کیا ہے ) خرچ ہوسکتا ہے اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہوگا.غ.“ مضامین بشیر خاکسار عرض کرتا ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس خط سے مندرجہ ذیل اصولی باتیں پتہ لگتی ہیں : نمبر (۱) سودی آمد کا روپیہ سود کی ادائیگی پر خرچ کیا جا سکتا ہے بلکہ اگر حالات کی مجبوری پیدا ہو جائے اور سود دینا پڑ جاوے تو اس کے واسطہ یہی انتظام احسن ہے کہ سودی آمد کا روپیہ سود کی ادائیگی میں خرچ کیا جاوے.مسلمان تاجر جو آج کل گردو پیش کے حالات کی مجبوری کی وجہ سے سود سے بچ نہ سکتے ہوں وہ ایسا انتظام کر سکتے ہیں.نمبر (۲) سود کی آمد کا روپیہ باقی روپیہ سے الگ حساب رکھ کر جمع کرنا چاہیئے تا کہ دوسرے روپے کے حساب کے ساتھ مخلوط نہ ہوا اور اُس کا مصرف الگ ممتاز رکھا جاسکے.نمبر (۳) سُود کا روپیہ کسی صورت میں بھی ذاتی مصارف میں خرچ نہیں کیا جاسکتا اور نہ کسی دوسرے کو اس نیت سے دیا جا سکتا ہے کہ وہ اُسے اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کر ہے.نمبر (۴) سودی آمد کا روپیہ ایسے دینی کام میں خرچ ہوسکتا ہے.جن میں کسی شخص کا ذاتی خرچ شامل نہ ہو مثلا طبع واشاعت لٹریچر مصارف ڈاک وغیرہ ذالک.نمبر ( ۵ ) دین کی راہ میں ایسے اموال خرچ کئے جا سکتے ہیں جس کا استعمال گوافراد کے لئے ممنوع ہو لیکن وہ دوسروں کی رضا مندی کے خلاف نہ حاصل کئے گئے ہوں.یعنی ان کے حصول میں کوئی رنگ جبر اور دھو کے کا نہ ہو.جیسا کہ مثلاً چوری یا ڈا کہ یا خیانت وغیرہ میں ہوتا ہے.نمبر (۶) اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ نازک حالت اس فتوے کی موید ہے.نمبر (۷) لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ کوئی شخص اپنے آپ عمد أسُود کے لین دین میں ڈالے بلکہ مذکورہ بالا فتویٰ صرف اس صورت میں ہے کہ کوئی حالات کی مجبوری پیش آ جائے یا کسی اتفاق کے نتیجہ میں کوئی شخص سودی روپیہ کا وارث بن جاوے.نمبر (۸) موجودہ زمانہ میں تجارت وغیرہ کے معاملات میں جو طریق سود کے لین دین کا

Page 121

مضامین بشیر ۱۱۴ قائم ہو گیا ہے.اور جس کی وجہ سے فی زمانہ بغیر سودی لین دین میں پڑنے کے تجارت نہیں کی جا سکتی.وہ ایک حالات کی مجبوری سمجھی جاوے گی جس کے ماتحت سود کا لینا دینا مذکورہ بالا شرائط کے مطابق جائز ہوگا.کیونکہ حضرت صاحب نے سیٹھی صاحب کی مجبوری کو جو ایک تاجر تھے اور اسی قسم کے حالات اُن کو پیش آتے تھے ، اس فتوے کے اغراض کے لئے ایک صحیح مجبوری قرار دیا ہے.گویا حضرت صاحب کا منشاء یہ ہے کہ کوئی شخص سود کے لین دین کو غرض رعایت بنا کر کا روبار نہ کرے لیکن اگر عام تجارت وغیرہ میں گردو پیش کے حالات کے ماتحت سودی لین دین پیش آجاوے.تو اس میں مضائقہ نہیں اور اسی صورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ فتویٰ دیا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ سود میں ملوث ہونے کے اندیشہ سے مسلمان تجارت چھوڑ دیں.یا اپنے کاروبار کو معمولی دوکانوں تک محدود رکھیں.جن میں سود کی دقت بالعموم پیش نہیں آتی.اور اس طرح مخالف اقوام کے مقابلہ میں اپنے اقتصادیات کو تباہ کر لیں.نمبر (۹) اس فتویٰ کے ماتحت اس زمانہ میں مسلمانوں کوسود کے لئے بنک بھی جاری کئے جا سکتے ہیں.جن میں اگر مجبوری کی وجہ سے سودی لین دین کرنا پڑے.تو بشر طیکہ مذکورہ بالا حرج نہیں.نمبر (۱۰) جو شخص اس فتوے کے ماتحت سودی روپیہ حاصل کرتا ہے.اور پھر اسے دین کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ اس خرچ کی وجہ سے بھی عند اللہ ثواب کا مستحق ہوگا.نمبر (۱۱) ایک اصولی بات اس خط میں موجودہ زمانہ میں بے پردہ عورتوں سے ملنے جلنے کے متعلق بھی پائی جاتی ہے.اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں جو بے پردہ عورتیں کثرت کے ساتھ باہر پھرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور جن سے نظر کو مطلقاً بچانا قریباً قریباً محال ہے.اور بعض صورتوں میں بے پردہ عورتوں کے ساتھ انسان کو ملاقات بھی کرنی پڑ جاتی ہے.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ارشا د فر مایا ہے کہ ایسی غیر محرم عورتوں کے سامنے آتے ہوئے انسان کو یہ احتیاط کر لینی کافی ہے کہ آنکھیں کھول کر نظر نہ ڈالے اور اپنی آنکھوں کو خوابیدہ رکھے یہ نہیں کہ ان کے سامنے بالکل نہ آئے کیونکہ بعض صورتوں میں یہ بھی ایک حالات کی مجبوری ہے ہاں آدمی کو چاہیئے کہ خدا سے دُعا کرتا رہے کہ وہ اُسے ہر قسم کے فتنہ سے محفوظ رکھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے بچپن میں دیکھا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں کسی عورت کے ساتھ بات کرنے لگتے جو غیر محرم ہوتی اور وہ آپ سے پردہ نہیں کرتی تھی تو آپ کی آنکھیں قریباً

Page 122

۱۱۵ مضامین بشیر بندسی ہوتی تھیں.اور مجھے یاد ہے کہ میں اس زمانہ میں دل میں تعجب کرتا تھا کہ حضرت صاحب اس طرح آنکھوں کو بند کیوں رکھتے ہیں.لیکن بڑے ہو کر سمجھ آئی کہ وہ دراصل اسی حکمت سے تھا.ایک بات حضرت صاحب کے خط سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ نازک وقت جو اسلام اور مسلمانوں پر آیا ہوا ہے اس میں سب اعمال سے بہتر عمل اسلام کی خدمت ونصرت ہے اور اس سے بڑھ کر خدا تک پہنچنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں.اس خط میں ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ جو نوٹ حضرت اقدس نے اس خط کے نیچے اپنے دستخط کرنے کے بعد لکھا ہے.اس اختتام پر حضرت صاحب نے بجائے دستخط کے صرف.غ.کا حرف درج فرمایا.جیسا کہ انگریزی میں قاعدہ ہے کہ نام کا پہلا حرف لکھ دیتے ہیں.مطبوعه الفضل یکم نومبر ۱۹۲۷ء )

Page 123

مضامین بشیر 117 شریعت کے کسی حکم کو چھوٹا نہ سمجھو گذشته مجلس مشاورت جو اپریل ۱۹۲۷ء میں قادیان میں منعقد ہوئی تھی.اس میں ایک امر نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے یہ بھی پیش ہوا تھا کہ جو احمدی کہلانے والے لوگ شریعت کے ان احکام کی پابندی اختیار نہیں کرتے جو انسان کے ظاہری شعار کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مثلاً ڈاڑھی کا رکھنا غیرہ ذلک.ان کے متعلق کیا طریق اختیار کیا جائے.یعنی اگر وہ با وجود بار بار کی پند و نصیحت کے ڈاڑھی نہ رکھیں تو آیا ان کے متعلق کوئی سرزنش کا پہلو اختیار کرنا مناسب ہوگا یا نہیں اور اگر مناسب ہوگا تو کیا.اس کے متعلق مجلس مشاورت نے بعض تجاویز پیش کیں جنہیں حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے منظور فرمایا اور جوانہی دنوں میں الفضل میں شائع کر دی گئی تھیں مگر ان تجاویز کے منظور فرمانے کے ساتھ ہی حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کے اس مسئلہ کے متعلق نظارت تعلیم و تربیت چاہیئے کہ مضامین وغیرہ کے ذریعہ جماعت میں یہ احساس پیدا کرے کہ وہ اپنی ظاہری صورتوں کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منشاء مبارک کے مطابق بنائیں اور شریعت کے کسی حکم کو بھی چھوٹا سمجھ کر نہ ٹالیں بلکہ سب کی پابندی اختیار کریں تا کہ اعلیٰ درجہ کے مومنین میں ان کا شمار ہوا اور خدا کی نعمت کا کوئی دروازہ بھی ایسا نہ رہے جو ان پر بند ہو.سو اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے خاکسار اپنے احباب کے سامنے یہ چند سطور پیش کرتا ہے اور امید رکھتا ہے کہ وہ میری اس عرضداشت کی طرف پوری پوری توجہ کریں گے اور اپنے نمونہ سے یہ ثابت کر دیں گے کہ اطاعت رسول کے لئے ان کے اندر ایک ایسا شوق اور ولولہ موجود ہے کہ اس علم کے ہونے بعد کہ کوئی ارشاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے ، دنیا کی کوئی روک جسے شریعت روک نہیں قرار دیتی ان کو اس کی تعمیل سے باز نہیں رکھ سکتی.سب سے پہلے جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں.وہ ایک اصولی بات ہے اور وہ یہ کہ بیشک شریعت کے احکام میں تفاوت ہے اور کوئی عظمندان میں مدارج کے وجود کا انکار نہیں کرسکتا اور ڈاڑھی کا رکھنا یقیناً ان اصولی باتوں میں سے نہیں ہے جن پر انسان کی روحانی زندگی کا بلا واسطہ دار و مدار ہے لیکن بایں ہمہ اس میں ذرا بھر بھی شک نہیں کہ شریعت کا کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں سمجھا

Page 124

112 مضامین بشیر جا سکتا.دراصل چونکہ شریعت کا یہ منشاء ہے کہ وہ ہر جہت سے انسان کو کامل بنائے اور تمام ان امور کی طرف توجہ کرے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی پر اثر پیدا کرتی ہیں.اس لئے خداوند تعالیٰ نے شریعت میں صرف اصولی باتوں کو ہی داخل نہیں فرمایا بلکہ بعض فروعی امور میں بھی ہدایت جاری کی ہیں اور یہ سب انسان کی روحانی حیات کے لئے کم و بیش ضروری ہیں اور خدا تعالیٰ نے صرف ان باتوں کو شریعت میں داخل کرنے سے احتراز کیا ہے، جو انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی سے اس قدر دُور کا تعلق رکھتی تھیں کہ ان میں دخل انداز ہونا فائدہ کی نسبت نقصان کے زیادہ احتمالات رکھتا تھا.یا جن کے متعلق انسان اپنے ظاہری علوم کی بناء پر خود طریق ثواب اختیار کر سکتا تھا اور اس لئے ان کے متعلق احکام جاری کرنا بے فائدہ قیود کا پیدا کرنا تھا.در اصل جیسا کہ عیسائیت بیان کرتی ہے ( گو وہ اس معاملہ میں حد اعتدال سے بہت تجاوز کر گئی ہے ) شریعت کے احکام کے متعلق ایک پہلو نقصان کا بھی ضرور موجود ہے اور وہ یہ کہ شریعت کے احکام کے توڑنے سے انسان مجرم اور گنہگار بن جاتا ہے اور اسی لئے اسلام نے نہایت حکیمانہ طور پر اس معاملہ میں اعتدال کے طریق کو اختیار کیا ہے اور شرعی احکام صرف اس حد تک جاری کئے ہیں کہ جس حد تک بالکل ضروری اور لا بدی تھے اور باقی امور میں انسان کو اس کی عقل خدا داد اور شریعت کے اصولی قیاس پر چھوڑ دیا ہے تا کہ وہ خود اپنے لئے اپنا راستہ بنائے.یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں شریعت کو ایک رحمت قرار دیا ہے اور دوسری طرف ایسی قرآن میں خود فرمایا ہے کہ زیادہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں مسئلے نہ پوچھا کرو تا کہ تمہارے لئے تفصیلی احکام نازل ہو کر تنگی کا موجب نہ بنیں.اب غور طلب بات یہ ہے کہ اگر شریعت سراسر رحمت ہی رحمت ہے تو پھر اس روک کے کیا معنی ہیں؟ کیا نعوذ باللہ خدا اس رحمت کے دائرہ کو ہم پر تنگ کرنا چاہتا ہے کہ اس نے ہمیں شریعت کے احکام کے نزول کے محرک بننے سے روک دیا ہے؟ اس ظاہری تضاد کا یہی حل ہے کہ شریعت بیشک ایک رحمت ہے لیکن شریعت کے ساتھ ایک پہلو عذاب کا بھی ہے اور وہ یہ کہ شریعت کے احکام کو توڑ نا خدا کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے اور اگر بعض تفصیلی امور جوطریق بود و باش اور تمدن وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں ان میں شریعت دخل انداز ہو تو یہ عذاب کا پہلو رحمت کے پہلو سے غالب ہو جاتا ہے یعنی ان کے ماننے میں فائدہ کا پہلو اتنا غالب نہیں ہوتا جتنا ان کے نہ ماننے میں (اگر وہ شریعت کا حصہ بن جائیں ) نقصان کا پہلو غالب ہوتا ہے اور اسی لئے جب شریعت ان تفصیلات کی حد کو پہنچتی ہے تو کمال حکمت سے وہ آگے جانے

Page 125

مضامین بشیر ۱۱۸ سے رک جاتی ہے اور لوگوں کو آزاد چھوڑ دیتی ہے کہ اپنی عقل خدا داد اور شریعت کے قیاس کے ما تحت خود اپنے واسطے ان تفصیلات میں طریق عمل قائم کریں.اس جگہ اس بات کا بیان بھی ضروری ہے کہ در حقیقت کسی شرعی حکم کے توڑنے میں دو قسم کا نقصان اور اس کے مان لینے میں دو قسم کا فائدہ ہوتا ہے.ایک فائدہ یا نقصان تو یہ ہے کہ چونکہ ہر شرعی حکم کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور اپنے اندر بعض طبعی خواص رکھتا ہے اس لئے اس کا مان لینا وہ نیک اثرات پیدا کرتا ہے جو اس کا طبعی نتیجہ ہیں اور اسی طرح اس کا نہ ماننا وہ بد اثرات پیدا کرتا ہے جو طبعی طور پر اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے چاہئیں اور دوسرا فائدہ یا نقصان یہ ہے کہ چونکہ خدا کا یہ حکم ہے کہ شریعت کی پابندی اختیار کی جائے.اس لئے کسی شرعی حکم کا مان لینا قطع نظر اس کے فائدہ کے خدا کی رضا کا موجب اور اس کا نہ ماننا قطع نظر اس کے نقصان کے خدا کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسے تفصیلی امور کو شریعت کا حصہ بنانے سے احتراز فرمایا ہے.جن کے اختیار کرنے میں کوئی بڑے فوائد مترتب نہیں ہو سکتے مگر ان کے ترک کرنے میں خدا کی ناراضگی کا پہلوضرور موجود ہے تا کہ کمزور لوگ ان امور میں نافرمانی کر کے خدا کی ناراضگی کا نشانہ نہ بنیں.خلاصہ کلام یہ کہ شریعت نے صرف انہی امور میں دخل دیا ہے جن میں دخل دینا انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی کیلئے ضروری اور لا بدی تھا.اور باقی امور میں انسان کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ خود اپنا طریق عمل قائم کرے اور اس لئے در حقیقت شریعت کا کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں سمجھا جا سکتا اور گو احکام میں تفاوت ضرور ہے لیکن سب احکام یقیناً ایسے ہیں جو انسان کے اخلاق وروحانیت پر بالواسطہ یا بلا واسطہ معتد بہ اثر ڈالتے ہیں.پس اگر کسی بات کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ وہ ایک شرعی حکم ہے تو کسی مومن کے لئے ہر گز یہ زیب نہیں کہ وہ یہ سوال اٹھائے کہ یہ چھوٹا ہے.اس لئے اس کے ماننے کی چنداں ضرورت نہیں یا یہ کہ اس بات کو دین و ایمان سے کوئی تعلق نہیں.وہ ہستی جس نے ہمارے لئے دین و ایمان کا نصاب مقرر فرمایا ہے اور جس کے سامنے جا کر ہم نے کسی دن اس نصاب کا امتحان دینا ہے وہ جب کسی بات کو ہمارے دین وایمان کا حصہ قرار دیتی ہے تو ہمیں کیا حق ہے کہ ہم اسے لاتعلق سمجھ کر ٹال دیں اور اگر ہم اپنی نادانی سے ایسا کریں گے تو نقصان اُٹھا ئیں گے.کیونکہ ہمارا ممتحن ہمارے خیال کے مطابق ہمارا امتحان نہیں لے گا بلکہ اس نصاب کے مطابق لے گا جو اس نے مقر ر کیا ہے.اندریں حالات بحث طلب امر صرف یہ رہ جاتا ہے کہ آیا کوئی بات شریعت کا حصہ ہے یا نہیں یا

Page 126

119 مضامین بشیر موجودہ بحث کے لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آیا ڈاڑھی کا رکھنا شریعت کا حصہ قرار پاتا ہے یا نہیں سواس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ ہر وہ بات جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا ہے اور اس کے کرنے کا اپنی امت کو حکم دیا ہے وہ شریعت کا حصہ ہے بشرطیکہ اس کے خلاف کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہوا اور عقل بھی یہی چاہتی ہے شارع جس کام کو کرے اور اس کے کرنے کا حکم دے وہ شریعت کا حصہ ہونی چاہیئے.ہاں البتہ ایسی باتوں کے متعلق اختلاف ہے جن کو شارع نے خود تو ہے مگر ان کے کرنے کا حکم نہیں دیا.یا جن کے متعلق شارع نے بعض صورتوں میں ہدایت تو دی ہے لیکن خود اس کی پابندی اختیار نہیں کی کیونکہ ان دونوں صورتوں میں شبہ کا احتمال ہے کہ ممکن ہے وہ شارع کی ذاتی خصوصیت یا ذاتی میلان طبع کے ساتھ تعلق رکھتی ہوں اور دین کا حصہ نہ ہوں اور اسی طرح بعض اور باتوں کے متعلق بھی اشتباء کا پہلو ہوسکتا ہے کہ کیا وہ شریعت کا حصہ ہیں یا نہیں اور اسی لئے ان کے متعلق علماء میں اختلاف ہے مگر بہر حال یہ مسلم ہے کہ جس بات کو شارع نے کیا اور اس کے کرنے کا حکم دیا وہ شریعت کا حصہ ہے بشرطیکہ کوئی واضح قرینہ اس کے خلاف موجود نہ ہو.اب اس تشریح کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ ڈاڑھی کا رکھنا شریعت اسلامی کا حصہ ہے کیونکہ اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کا حکم دونوں واضح طور پر ہمارے سامنے موجود ہیں اور حدیث شریف سے یہ ہر دو باتیں ثابت ہیں.یعنی اول یہ کہ آپ کی ڈاڑھی تھی چنا نچہ آپ کے متعلق حدیث میں گسٹ اللحية ل کے الفاظ آتے ہیں یعنی آپ کی ڈاڑھی گھنی تھی اور اسی قسم کی بہت سی احادیث ہیں.اور دوسرے یہ کہ آپ نے اپنی امت کو یہ ارشادفرمایا کہ ڈاڑھی رکھا کرو.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- قصوا الشوارب وأعفواللحى یعنی ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹ کر چھوٹا کرو.اور یہ بھی حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ غیر مسلم لوگ آپ کے سامنے آئے جن کی ڈاڑھیاں مونڈھی ہوئی تھیں ان کو دیکھ کر آپ نے نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا.اور دوسری طرف اس بات کے متعلق قطعاً کوئی قرینہ موجود نہیں ہے کہ آپ کا یہ تعامل اور آپ کا یہ ارشاد ایک یونہی ایک ذاتی پسندیدگی کے اظہار کے طور پر تھا اور دین کا حصہ نہیں ہے.اور سنت کے لحاظ سے دیکھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی بس نہیں.بلکہ جتنے بھی نبی دنیا میں گذرے ہیں اور ان کی تاریخ محفوظ ہے ان سب کی ڈاڑھیاں تھیں.چنانچہ حضرت ہارون کی ڈاڑھی کا قرآن شریف میں بھی ذکر ہے اور حضرت مسیح

Page 127

مضامین بشیر ۱۲۰ موعود علیہ السلام کی ڈاڑھی لاکھوں احمدی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں.اندریں حالات کوئی مسلمان اور خصوصیت کے ساتھ کوئی احمدی ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا کہ ڈاڑھی رکھنا شریعتِ اسلامی کا حصہ نہیں ہے.ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ احکام کے مدارج میں اختلاف ہے اور ڈاڑھی کے حکم کو ہم قطعاً ان اہم احکام میں شمار نہیں کر سکتے جن پر ہر انسان کی روحانی زندگی کا بلا واسطہ دار و مدار ہے مگر بہر حال اس میں کلام نہیں کہ وہ شریعت کا حصہ ہے.اب کوئی مومن اس حکم کو چھوٹا کہہ کر ٹال نہیں سکتا کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ چھوٹی باتوں کو شریعت نے اپنے دائرہ میں شامل نہیں کیا اور جن کو شامل کیا ہے.وہ چھوٹی نہیں ہیں.( مطبوعه الفضل یکم نومبر ۱۹۲۷ء)

Page 128

۱۲۱ مضامین بشیر ایک قابل قدر خاتون کا انتقال اخوات واحباب کو الفضل کے ذریعہ یہ اطلاع مل چکی ہے کہ ۱۰ دسمبر کی صبح کو اہلیہ صاحبہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے فوت ہو کر اپنے مالک حقیقی کے پاس پہونچ گئیں.مرحومہ جماعت کی خاص خواتین میں سے تھیں اور لجنہ اماءاللہ قادیان کے کام میں بہت دلچسپی لیتی تھیں.انہیں احمدی مستورات کی اصلاح و ترقی کا خاص خیال رہتا تھا.چنانچہ مرحومہ نے اپنے گھر میں درس تدریس کا سلسلہ جاری کر رکھا تھا اور بہت سی خواتین اور لڑکیوں نے ان سے فائدہ اٹھایا.مرحومہ اپنی عادات واطوار میں نہایت سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے پاک تھیں اور دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتی رہتی تھیں کہ انسان کو اس دنیا میں نہایت سادہ طور پر زندگی گزارنی چاہیئے.شروع شروع میں جب مدرسہ خواتین جاری ہوا تو مرحومہ کے علمی شوق نے اُنھیں اس میں داخل ہونے کی ترغیب دی.چنانچہ کچھ عرصہ تک وہ اس مدرسہ میں تعلیم پاتی رہیں لیکن بعد میں کچھ تو صحت کی خرابی کی وجہ سے اور کچھ خانگی ذمہ داریوں کی وجہ سے بہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور مرحومہ نے اپنی جگہ اپنی لڑکی عزیزہ آمنہ بیگم کو مدرسہ میں داخل کرا دیا.مرحومہ حضرت خلیفہ امسیح اول رضی اللہ عنہ کی نواسی تھیں اور حضرت خلیفہ اول کو ان کے ساتھ بہت محبت تھی.حضرت خلیفہ اول نے اپنی خواہش سے چوہدری فتح محمد صاحب کے ساتھ ان کی شادی کرائی تھی.امتہ الحفیظ بیگم جن کے مضامین اکثر الفضل میں نکلتے رہتے ہیں.مرحومہ کی چھوٹی بہن ہیں.مجھ سے بھی مرحومہ کو خاص تعلق تھا کیونکہ وہ میری رضاعی بہن تھیں.میں سمجھتا ہوں مرحومہ کی بہت سی خوبیوں کی وجہ سے مرحومہ کی وفات جماعت کے لئے اور خصوصاً قادیان کی احمدی خواتین کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے اور میں نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے مرحومہ کے معزز اور قابل قدر شوہر برادرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے اور مرحومہ کے والد صاحب مفتی فضل الرحمن صاحب اور مرحومہ کے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوا دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے.اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے.اور مرحومہ کی اولادکو اس رستے پر چلنے کی توفیق عطا کرے جس کے متعلق مرحومہ کی دلی خواہش تھی کہ وہ اس پر چلیں جو صدق واخلاص کا رستہ ہے.اللھم آمین ( مطبوعه الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۲۷ء )

Page 129

۱۲۲ مضامین بشیر

Page 130

۱۲۳ ۱۹۲۸ء مضامین بشیر سودی لین دین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ کچھ عرصہ ہوا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط اخبار الفضل میں شائع کرایا تھا جو حضور نے سیٹھی غلام نبی صاحب کے نام لکھا تھا اور جس میں سودی لین دین کے متعلق ایک اصولی فتویٰ درج تھا.اس پر بعض دوستوں کی طرف سے یہ تحریک ہوئی ہے کہ چونکہ یہ فتوی ایک اہم مسئلہ کے متعلق ہے اس لئے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کا عکس بھی شائع کر دیا جائے تو بہتر ہے.اور ساتھ ہی سیٹھی صاحب سے وہ حالات قلم بند کر وا کے شائع کئے جائیں جن کے ماتحت ان کو حضرت سے اس استفسار کی ضرورت پیش آئی.چنانچہ اس کے متعلق میں نے سیٹھی صاحب سے دریافت کیا ہے اور انہوں نے جو تحریر جواب میں مجھے ارسال کی ہے وہ درج ذیل ہے.احباب سیٹھی صاحب کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطا فرمائے کیونکہ وہ مرض دمہ سے بہت بیمار رہتے ہیں.سیٹھی صاحب کا خط جو انہوں نے میرے خط کے جواب میں لکھا درج ذیل ہے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ سیدی و مولائی سلمہ اللہ الرحمن یا سیدی میں راولپنڈی دکان بزازی اپنے والد اور بھائی کے ہمراہ کرتا تھا.وہاں پر ہمارا دستور تھا کہ جس قدر روپیہ زائد ہو صراف کے پاس جمع کرتے جاتے تھے اور جب ضرورت ہوتی اس سے لے کر کام میں لاتے تھے اور لین دین سودی ہوتا تھا یعنی سود لیتے اور دیتے تھے.میں جب احمدی ہوا تو آہستہ آہستہ شریعت پر عمل شروع کیا لیکن چونکہ میرے شرکاء زبر دست اور میں کمزور تھا اور وہ اس طریق سودی کو چھوڑتے نہیں تھے اور میرے حصہ کا سود خود بھی نہیں کھاتے تھے بلکہ بحصہ رسدی سال بسال مجھ کو لینا پڑتا تھا.اور میں والد صاحب کی زندگی میں کچھ کر نہیں

Page 131

مضامین بشیر ۱۲۴ سکتا تھا.اس لئے میں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے مسئلہ پوچھا یعنی لکھ کر دریافت کیا تو حضور نے مجھ کو جواب دیا جو یہ خط ہے.عاجز غلام نبی سیٹھی احمدی ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کا عکس درج کیا جاتا ہے.

Page 132

۱۲۵ مضامین بشیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مندرجہ بالا خط کا مضمون حسب ذیل ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم مجی عزیزی شیخ غلام نبی صاحب سلم اللہ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکانہ.کل کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا.میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوف الہی پر اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی کا نکال دے گا.اس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیئے اور سود کے بارہ میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قدر سود کا روپیہ آ وے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریں بلکہ اس کو الگ جمع کرتے جاویں اور جب سود دینا پڑے اسی روپیہ میں سے دیدیں اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو بلکہ صرف اس سے اشاعت دین ہو.میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جوسود حرام فرمایا ہے وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسان سود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیال کی معیشت چلا دے یا خوراک یا پوشاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہرگز حرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرہ ذاتی نفع کے خدا تعالیٰ کی طرف رد کیا جاوے یعنی اشاعت دین پر خرچ کیا جاوے.قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے جو چیز اس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہو جاتی ہے بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں.جیسے چوری یار ہرنی یا ڈا کہ کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو وہ خدا تعالیٰ کے دین کے رد میں خرچ ہو سکتا ہے.دیکھنا چاہیئے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوں کے مقابل پر جو ہمارے دین کی رد میں شائع کرتے ہیں کس قدر روپے کی ضرورت ہے گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم ان سے کر رہے ہیں.اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جاویں تو کچھ مضائقہ نہیں.یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے اور بیگا نہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا.یہ تو شکر کی بات ہے کہ دینی سلسلہ کی تائید میں آپ ہمیشہ اپنے مال سے مدد دیتے رہتے ہیں.اس ضرورت کے وقت

Page 133

مضامین بشیر ۱۲۶ یہ ایک ایسا کام ہے کہ میرے خیال میں خدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے لئے نہایت اقرب طریق ہے.سوشکر کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دے رکھی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ آپ اس راہ میں سرگرم ہیں.ان عملوں کو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے وہ جزا دے گا ہاں ماسوا اس کے دعا اور استغفار میں بھی مشغول رہنا چاہیئے.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار: مرزا غلام احمد از قادیان ۲۴ اپریل ۱۸۹۸ء سود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عملاً اپنے تئیں اس کام میں ڈالے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سود کے روپیہ کا وارث ہو جائے تو وہ روپیہ اس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ) خرچ ہوسکتا ہے.اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہوگا.غ“ ( مطبوعه الفضل ۶ مارچ ۱۹۲۸ء )

Page 134

۱۲۷ مضامین بشیر ا رمضان المبارک کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ یوں تو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کے دروازے ہر وقت ہی کھلے رہتے ہیں اور بندہ جس وقت بھی اپنے خدا کی طرف رجوع کرے وہ اسے تو اب اور رحیم وکریم پائے گا.بلکہ اس کی قدیم سنت کے مطابق اگر بندہ اس کی طرف ایک قدم آتا ہے تو وہ اس کی طرف دو قدم بڑھتا ہے اور اگر بندہ اس کی طرف چل کر آتا ہے تو وہ بھاگتا ہوا اس کی طرف مائل ہوتا ہے.لیکن پھر بھی بندوں کی بے تو جہی اور غفلت اور کمزوری کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ نے بعض خاص خاص اوقات کو اپنی رحمت کے غیر معمولی فیضان کے لئے مخصوص کر دیا ہے اور انہی خاص اوقات میں سے رمضان کا مہینہ ہے.پس احباب کو چاہیئے کہ ان مبارک ایام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص رحمتوں اور فضلوں کو کھینچنے کی کوشش کریں اور ذکر الہی اور نیک اعمال اور صدقہ وخیرات اور دعا سے اپنے اوقات کو معمور رکھیں.اگلا رمضان نہ معلوم کس کو نصیب ہوا اور کس کو نہ ہو.پس جو موقع میسر ہے اس سے فائدہ اٹھا ئیں اور اس بات کا عہد کر لیں کہ رمضان کا مہینہ آپ کی زندگیوں میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا کر کے جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہئے کہ ہر رمضان کے موقع پر اپنے دل کے ساتھ کم از کم یہ عہد باندھ لے کہ وہ اس رمضان میں اپنی فلاں کمزوری کو ہمیشہ کے لئے ترک کر دے گا.اور پھر اس عہد کو پورا کر کے چھوڑے تا کہ اور نہیں تو رمضان کا مہینہ اسے ایک کمزوری اور نقص سے تو پاک کرنے کا موجب ہو.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کے احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی تعمیل کے لئے کمر ہمت باندھ لیں تو خدا کے فضل سے عید کا دن ہماری جماعت کے قدم کو بہت آگے پائے گا.ہم لوگوں میں ابھی بہت سی کمزوریاں اور نقص ہیں.کوئی نماز میں ست ہے کوئی چندوں کی ادائیگی میں ڈھیلا ہے کوئی لین دین میں صاف نہیں.کوئی لغوا ور فضول عادات میں مبتلا ہے.غرض کسی میں کوئی نقص ہے اور کسی میں کوئی.پس آؤ آج سے ہم میں سے ہر فرد یہ عہد کرے کہ رمضان کے گذرنے سے قبل وہ اپنی فلاں کمزوری کو ترک کر دے گا اور پھر کبھی اپنے آپ کو اس کمزوری کے سامنے مغلوب نہیں ہونے دے گا.یہ کوئی بڑا عہد نہیں ہے بلکہ ایک معمولی ہمت کا کام ہے.اور اگر رمضان کا مہینہ اتنی بھی تبدیلی ہمارے اندر نہ پیدا کر سکے تو اس کا آنا یا نہ آنا ہمارے لئے برابر ہے.

Page 135

مضامین بشیر ۱۲۸ اب آخری عشرہ کے دن قریب آ رہے ہیں.یہ وہ دن ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینہ کے خاص ایام قرار دیا ہے.پس ان کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ اور کوشش کرو کہ ان دنوں میں تم خدا سے قریب تر ہو جاؤ تا کہ جب عید کا دن آئے تو وہ ہم سب کے لیئے حقیقی خوشی کا دن ہو.انشاء اللہ حسب دستور حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ۲۸ یا ۲۹ رمضان کے دن نماز عصر کے بعد تمام مقامی جماعت کے ساتھ مسجد اقصیٰ قادیان میں دعا فرمائیں گے.بیرونی جماعتوں کو بھی چاہیئے کہ اس دن اور اسی وقت اپنی مقامی مسجد میں یا مسجد نہ ہو تو کسی دوسری جگہ جہاں نمازوں کا انتظام ہو ا کٹھے ہو کر دعا کریں تا کہ اس گھڑی ایک متحدہ التجا خدا کے دربار تک پہونچے.اور خدا کی رحمتیں ہماری دستگیری کے لئے نیچے اتر آئیں.اگر ممکن ہوا تو میں انشاء اللہ دعا کی معین تاریخ اور وقت سے بعد میں اطلاع دوں گا.دعا میں حمد اور درود کے بعد اسلام اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی اور بہبودی کو سب دعاؤں پر مقدم رکھا جائے.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو.(مطبوعہ الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۸ء)

Page 136

۱۲۹ مضامین بشیر اپنے گھروں میں درس جاری کرو ایک عرصہ سے اس بات کی تحریک کی جا رہی ہے کہ مقامی جماعتوں کو چاہیئے کہ اپنی اپنی جگہ قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درس جاری کریں لیکن ابھی تک بہت سی جماعتوں نے اس کا انتظام نہیں کیا.جس کی وجہ کچھ تو یقینی طور پر غفلت اور بے پروا ہی ہے لیکن زیادہ تر مقامی حالات ہیں جن کی وجہ سے عموماً مقامی احباب کا ہر روز ایک معینہ وقت پر ایک معینہ جگہ پر جمع ہونا مشکل ہوتا ہے.چنانچہ انہی دقتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حضرت خلیفۃ امسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر درسوں کے اجراء کی تحریک کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ جہاں روزانہ درس نہ ہو سکے وہاں ہفتہ میں دوبار یا کم از کم ہفتہ میں ایک بار ہی درس کا انتظام کر دیا جائے.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے اس ارشاد کے ماتحت بہت سی نئی جگہوں میں درس جاری ہو گیا ہے اور خدا نے چاہا تو یہ سلسلہ بہت با برکت ہوگا.جن جن جماعتوں نے ابھی تک ایسے درسوں کا انتظام نہ کیا ہو ان کو چاہیئے کہ فوراً اس کی طرف توجہ کریں.لیکن اس موقع پر جس قسم کے درس کی میں تحریک کرنا چاہتا ہوں وہ گھر کا درس ہے.ہمارے احباب کو چاہیئے کہ علاوہ مقامی درس کے اپنے گھروں میں بھی قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری کریں اور یہ درس خاندان کے بزرگ کی طرف سے دیا جانا چاہیئے.اس کے لئے بہترین وقت صبح کی نماز کے بعد کا ہے لیکن اگر وہ منا سب نہ ہو تو جس وقت بھی مناسب سمجھا جائے اس کا انتظام کیا جائے.اس درس کے موقع پر گھر کے سب لوگ مرد عورتیں لڑکے لڑکیاں بلکہ گھر کی خدمت گاریں بھی شریک ہوں.اور بالکل عام فہم سادہ طریق پر دیا جائے.اور درس کا وقت بھی پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ ہو.تا کہ طبائع میں ملال نہ پیدا ہو.اگر ممکن ہو تو کتاب کے پڑھنے کے لئے گھر کے بچوں اور ان کی ماں یا دوسری بڑی مستورات کو باری باری مقرر کیا جائے.اور اس کی تشریح یا ترجمہ وغیرہ گھر کے بزرگ کی طرف سے ہو.میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کے خانگی درس ہماری جماعت کے گھروں میں جاری ہو جا ئیں تو

Page 137

مضامین بشیر ۱۳۰ علاوہ علمی ترقی کے یہ سلسلہ اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کے لئے بھی بہت مفید و با برکت ہوسکتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ مقامی امراء یا پریذیڈنٹ و سیکرٹریان تعلیم و تربیت بہت جلد اس کی طرف توجہ فرمائیں گے اور آئندہ تعلیم و تربیت کی ماہواری رپورٹ میں اس بات کا ذکر ہونا چاہیئے کہ اتنے گھروں میں خانگی درس کا انتظام ہے.( مطبوعه الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۸ء)

Page 138

۱۳۱ مضامین بشیر محمد هست بُرہانِ محمد مکرمی ایڈیٹر صاحب الفضل السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے فرمائش کی تھی کہ میں ” الفضل“ کے خاتم النبیین نمبر کے لیئے کوئی مضمون لکھوں.ایسی تحریک میں حصہ لینا ہر مسلمان کے واسطے موجب سعادت اور باعث فخر ہونا چاہیئے.لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں بعض معذوریوں کی وجہ سے کوئی مضمون نہیں لکھ سکا اور مجھے اس محرومی کا قلق ہے.میرا ارادہ تھا کہ میں مصرع مندرجہ عنوان کے متعلق کچھ لکھوں گا اور میں نے اپنے ذہن میں اس مضمون کا ایک مختصر سا ڈھانچہ بھی تیار کیا تھا.لیکن اس ذہنی خاکہ کو سپرد قلم نہ کر سکا.میرا ارادہ مثالیں دے کر یہ بیان کرنے کا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (فداہ نفسی ) اپنے اس کمال میں منفرد ہیں کہ آپ کا ہر قول اور ہر فعل اور ہر حرکت اور ہر سکون اور ہر عادت اور ہر خلق آپ کی صداقت اور آپ کی فضیلت اور آپ کے کمال کی ایک روشن دلیل ہے اور اس خصوصیت میں آپ جملہ بنی آدم پر ممتاز اور فائق ہیں کیونکہ دنیا میں اور کوئی شخص ایسا نہیں گذرا جس کی ہر بات اس کے کمال کی دلیل ہو.اور اسی لئے سید ولد آدم“ کا خطاب پانے کے لئے آپ کے سوا اور کوئی شخص حقدار نہیں.یہ مضمون ایک نہایت وسیع مضمون ہے اور تاریخی واقعات کی روشنی میں اسے نہایت مدلل اور دلچسپ طریق پر بیان کیا جا سکتا ہے لیکن افسوس ہے کہ اس موقع پر جو ایسے مضمون کے واسطے ایک بہت عمدہ موقع تھا.میں اس مضمون کے بیان کرنے سے محروم رہا ہوں.اگر زندگی رہی اور خدا نے توفیق دی تو انشاء اللہ پھر کبھی عرض کروں گا.وما توفیقی الا بالله اگر مناسب سمجھیں تو میری طرف سے یہ چند سطور اخبار میں شائع فرما دیں تا کہ احباب کی دُعا میں تھوڑا سا حصہ میں بھی پاسکوں.خاکسار مرزا بشیر احمد مطبوعه الفضل ۱۲ جون ۱۹۲۸ء)

Page 139

مضامین بشیر ۱۳۲ مقامی امیر کی پوزیشن اس دفعہ حضرت خلیفہ ایح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ڈلہوزی تشریف لے جاتے ہوئے مجھے المسیح قادیان کا مقامی امیر مقررفرمایا.میں نے حضرت کی خدمت میں عرض کر دیا تھا کہ میں اپنی بہت سی کمزوریوں کی وجہ سے اس عہدہ کا اہل نہیں ہوں لیکن حضرت خلیفتہ امسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے غالباً میری بہت سی کمزوریوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اپنے فیصلہ میں تبدیلی مناسب نہ سمجھی اور مجھے یہ بارا ٹھانا پڑا.اس عرصہ میں مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ قادیان کے منصب امارت کے متعلق جماعت میں بعض احباب کو غلط نہی پیدا ہو رہی ہے جس کا ازالہ ضروری ہے بہت سے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ قادیان کا امیر حضرت خلیفۃ اسی ایدہ اللہ کا قائم مقام ہے اور اسے وہی یا قریباً قریباً وہی اختیارات حاصل ہیں جو خلیفہ وقت کو خدا کی طرف سے حاصل ہیں.یہ خیال مجھے اس لئے پیدا ہوا ہے کہ اس عرصہ امارت میں میرے پاس بعض احباب کی طرف سے ایسی درخواستیں موصول ہوئی ہیں کہ مثلاً فلاں ناظر صاحب نے یہ فیصلہ کیا ہے.اسے منسوخ کیا جائے.یا مجلس معتمدین کا فلاں ریزولیوشن قابل منسوخی ہے یا یہ کہ فلاں معاملہ میں ہی حکم جاری کیا جائے حالانکہ وہ معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ اس میں صرف نا ظر متعلقہ یا مجلس یا حضرت خلیفتہ امیج ایدہ اللہ جو ان سب کے افسر ہیں حکم صادر فرما سکتے ہیں.اسی طرح اس عرصہ میں میرے پاس قادیان کے بعض مقامی احباب کی ایسی تحریریں آئی ہیں کہ ہمارے ہاں خدا کے فضل سے بچہ پیدا ہوا ہے اس کا نام تجویز کیا جاوے اور زیادہ تعجب کے قابل یہ ہے کہ بعض بیرونی احباب کی طرف سے بھی اسی قسم کے خطوط موصول ہوئے ہیں.اس قسم کی باتوں سے میں یہ سمجھا ہوں کہ ابھی تک جماعت کو قادیان کے مقامی امیر کی پوزیشن کی حقیقت معلوم نہیں ہے اور وہ اسے حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ کا قائم مقام سمجھتے ہیں.حالانکہ گو یہ درست ہے کہ وہ اپنے حلقہ میں حضرت کا قائم مقام ہوتا ہے مگر اس کی پوزیشن ایسی ہی ہے جیسے کہ دوسرے مقامات کے مقامی امیروں کی ہوتی ہے.گو اس میں شک نہیں ہے کہ مرکز کی اہمیت کی وجہ سے اس کی ذمہ داری دوسرے امراء سے زیادہ ہے لیکن بہر حال وہ ایک مقامی امیر ہے.جس طرح کہ دوسرے مقامات میں امیر ہوتے ہیں اور اسے کوئی زائد ا ختیار یا زائد رتبہ دوسرے مقامی امیروں پر حاصل نہیں ہے.گو جو فرق مدارج کا ایک ہی نوع کے افراد میں ہوا کرتا ہے وہ یہاں بھی ہے.قادیان کا مقامی امیر اسی طرح

Page 140

۱۳۳ مضامین بشیر ناظران سلسلہ کی ہدایت کے ماتحت ہے جس طرح دوسرے مقامی امیر ہیں کیونکہ ناظران مرکزی نظام سلسلہ کے رکن ہیں اور امیر خواہ مرکز کی جماعت کا ہی ہو محض ایک مقامی عہدیدار ہے.اس کی مثال ایسی کھنی چاہیئے کہ مثلاً لا ہور جو پنجاب کا دارالسلطنت ہے وہاں ایک ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے جو ایک مقامی حیثیت رکھتا ہے اور وہیں پر حکومت پنجاب کے مختلف سیکرٹریان یا ممبران ایگزیکٹو کونسل بھی رہتے ہیں جو مرکزی حکومت کے رکن ہیں.اب کوئی شخص یہ خیال نہیں کر سکتا کہ لاہور کا ڈپٹی کمشنر جو مقامی عہدیدار ہے وہ مرکزی حکومت کے ارکان کے کام میں دخیل ہوسکتا ہے یا ان کو ہدایات جاری کر سکتا ہے.دراصل سارا دھوکا اس لئے لگا ہے کہ حضرت کی موجودگی میں قایان میں کوئی مقامی امیر نہیں ہوتا کیونکہ حضرت باتباع سنت نبوی صرف اپنی غیر حاضری میں قادیان کا مقامی امیر مقرر فرماتے ہیں.حضرت کی موجودگی میں بھی کوئی مقامی امیر ہوا کرتا تو یہ غلط نہیں نہ پیدا ہوتی مگر چونکہ مرکز کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کا مقامی امیر بھی خلیفہ وقت ہوا کرتا ہے اس لئے یہ مغالطہ لگ گیا ہے کہ قادیان کے مقامی امیر کے وہ اختیارات اور وہ ذمہ داریاں سمجھ لی گئی ہیں جو خلیفہ کے عہدہ کے ساتھ خاص ہیں.بہر حال میں اس اعلان کے ذریعہ احباب کی اس غلط فہمی کو دور کر دینا چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ احباب اپنے نظام حکومت اور سیاست سلسلہ کے اصول سے اس قدرنا واقعی کا اظہار نہیں کریں گے.یہ امر بھی اس ضمن میں واضح ہونا چاہیئے کہ حضرت جب کبھی قادیان سے باہر تبدیل آب و ہوا وغیرہ کے لئے تشریف لے جاتے ہیں تو اپنے پیچھے صرف قادیان کا مقامی امیر کسی کو مقر رفرماتے ہیں.پس قادیان کے امیر کا تعلق صرف قادیان کی جماعت کے ساتھ ہوتا ہے.دوسری جماعتوں کے ساتھ اس کا کوئی انتظامی تعلق نہیں ہوتا.پس بیرونی احباب کا قادیان کے امیر کے ساتھ ان امور میں خط و کتابت کرنا جن امور میں وہ پہلے حضرت کے ساتھ خط و کتابت فرمایا کرتے تھے، کسی طرح بھی درست رائے نہیں ہے.مطبوعہ الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۲۸ء)

Page 141

الله لد مضامین بشیر

Page 142

۱۳۵ ۱۹۲۹ء مضامین بشیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک خاوند کی حیثیت میں سب سے بہتر شخص مقدس بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ خَيْرُ كُمُ خَيْرُكم لاھلِہ سے یعنی تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ معاملہ کرنے میں سب سے بہتر ہے.آپ کے ان الفاظ کو اگر اس بارہ میں آپ کی تعلیم اور آپ کے تعامل کا خلاصہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا.آپ کی خانگی زندگی یقیناً ان الفاظ کی بہترین تفسیر تھی.رسول کریم اور تعدد ازدواج قومی اور ملکی اور سیاسی اور دینی ضروریات نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ ایک وقت میں ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کریں.اور یہ ایک قربانی تھی جو آپ کو ایک غیر نفسی ضرورت کے ماتحت کرنی پڑی.مگر آپ نے اس قربانی کی روح کو اس خوبی اور کمال کے ساتھ نبھایا.اور باوجود اپنی خانگی ذمہ داری کی پیچیدگیوں کے معاشرت کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا جو دنیا کے لئے ہمیشہ کے واسطے ایک شمع ہدایت کا کام دے گا.میرے یہ الفاظ میری قلبی خوش عقیدگی کی گونج نہیں ہیں بلکہ ان کی بنیا دٹھوس تاریخی واقعات پر قائم ہے جنہیں کسی دوست کی خوش عقیدگی یا کسی دشمن کا تعصب اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے.معاشرت کا کامل نمونہ کثرت ازدواج کی وجہ سے جو اضافہ آپ کی خانگی ذمہ داریوں میں ہوا.اس کو آپ کی ان گوناگوں اور بھاری ذمہ داریوں نے اور بھی بہت زیادہ کر دیا تھا جو ایک مصلح.ایک امام.جماعت.ایک انتظامی حاکم.ایک جوڈیشل قاضی.ایک سیاسی لیڈر.ایک فوجی جرنیل اور ایک بین الاقوام نظام جمہوریت کے صدر کی حیثیت میں آپ پر عائد ہوتی تھیں اور ہر شخص جو آپ کی خانگی

Page 143

مضامین بشیر زندگی اور گھر کی معاشرت کے متعلق کوئی رائے قائم کرنا چاہتا ہے اس کا یہ پہلا فرض ہے کہ ان حالات کو پورے طور پر مدنظر رکھے جو آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں نے آپ کے لئے پیدا کر رکھے تھے.میں نے یہ الفاظ اس لئے تحریر نہیں کئے کہ میں آپ کی زندگی کے حالات کو آپ کی خانگی معاشرت پر رائے لگاتے وقت ایک موجب رعایت کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں بلکہ میں نے یہ الفاظ اس لئے لکھے ہیں کہ تا یہ ظاہر ہو باوجود ان عظیم الشان ذمہ داریوں کے جو عام اسباب کے ماتحت یقیناً آپ کے خانگی فرائض کی ادائیگی کے رستے میں روک ہو سکتی تھیں.آپ نے معاشرت کا وہ کامل نمونہ دکھایا جو دنیا کے ہر شخص کو خواہ وہ کیسے ہی حالات زندگی کے ماتحت رہا ہو شر ما تا ہے.مگر یہ مضمون اس قدر وسیع ہے اور اس پر روشنی ڈالتے ہوئے اس قدر مختلف پہلو انسان کے سامنے آتے ہیں کہ اس مختصر گنجائش کو دیکھتے ہوئے جو ایڈیٹر صاحب الفضل نے (جن کی تحریک پر میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں ) اس کے لئے مقرر کی ہے اس مضمون پر زیادہ بسط کے ساتھ لکھنا تو در کنار معمولی اور واجبی تفصیل میں جانا بھی ناممکن ہے.پس میں نہایت اختصار کے ساتھ صرف چند موٹی موٹی باتوں کے تحریر کرنے پر اکتفا کروں گا.وما توفیقی الا بالله رسول کریم کی پہلی شادی سب سے پہلی شادی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی وہ حضرت خدیجہ سے تھی.اس وقت آپ کی عمر صرف پچیس سال تھی اور حضرت خدیجہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ چکی تھیں اور بیوہ تھیں.گویا آپ نے عین عنفوان شباب میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت سے شادی کی.بظاہر حالات یہ خیال ہوسکتا ہے کہ شاید یہ شادی کسی وقتی مصلحت کے ماتحت ہو گئی ہوگی اور بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی کوئی خوشی کی زندگی نہیں گذری ہوگی کیونکہ جہاں بیوی کی عمر خاوند کی عمر سے اتنی زیادہ ہو کہ ایک کی جوانی کا عالم اور دوسرے کے بڑھاپے کا آغاز ہو تو وہاں عام حالات میں ایسا جوڑا کوئی خوشی کا جوڑا نہیں سمجھا جاتا مگر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا خوشی کا اتحاد ہوا ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ کی خانگی زندگی میں نظر آتا ہے.ایک دوسرے کے ساتھ.کامل محبت ایک دوسرے پر کامل اعتماد.ایک دوسرے کے لئے کامل قربانی کا نظارہ اگر کسی نے کسی ازدواجی جوڑے میں دیکھنا ہو تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ میں نظر آئے گا.کیا ہی بہشتی زندگی تھی جو اس رشتہ کے نتیجے میں دونوں کو نصیب ہوئی.

Page 144

۱۳۷ مضامین بشیر پاکیزہ خانگی کا اثر مجھے اس رشتہ کے کمال اتحاد کا احساس سب سے بڑھ کر اس وقت ہوتا ہے جبکہ میں اس تاریخی واقعہ کا مطالعہ کرتا ہوں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ اس غیر مانوس اور غیر متوقع جلال الہی سے مرعوب ہوکر سخت گھبرائے ہوئے اپنے گھر میں آئے اور ایک سہمی ہوئی آواز میں اپنی رفیق حیات سے فرمایا کہ مجھ پر آج یہ حالت گذری ہے اور مجھے اپنے نفس کی طرف سے ڈر پیدا ہو گیا ہے.اس وقت گھر میں بظا ہر حالات صرف یہی میاں بیوی تھے.خاوند ادھیڑ عمر کو پہنچا ہوا.اور بیوی بوڑھی.گھر کی چاردیواری میں دوست و دشمن کی نظروں سے دور تکلف کا طریق بیرون از سوال تھا.دونوں پندرہ سال کے لمبے عرصہ سے ایک دوسرے کے رفیق زندگی تھے.ایک دوسرے کی خوبیاں ایک دوسرے کے سامنے تھیں.اگر کوئی کمزوری تھی تو وہ بھی ایک دوسرے پر مخفی نہ تھی.ایسی حالت میں جس سادگی کے ساتھ خاوند نے اپنی پریشانی اپنی بیوی سے بیان کی اور جس بے ساختگی کے عالم میں بیوی نے سامنے سے جواب دیا وہ اس مقدس جوڑے کے کمال اتحاد کا ایک بہترین آئینہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ کو دیکھ کر حضرت خدیجہ کی زبان سے جو الفاظ نکلے وہ تاریخ میں اس طرح بیان ہوئے ہیں : " كَلَّا، وَاللهِ مَا يَحْزُنُكَ اللهُ اَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ ، وَتَقْرِى الضَّيْفَ ، وَتَعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقَّ.ہے ہے ایسا نہ کہیں خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا.آپ رشتوں کی پاسداری کرتے ہیں.اور لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں اور وہ اخلاق جو دنیا سے معدوم ہو چکے تھے ان کو آپ نے اپنے اندر پیدا کیا ہے اور آپ مہمان نواز ہیں اور حق وانصاف کے رستے میں جو مصائب لوگوں پر آتے ہیں ان میں آپ ان کی 66 اعانت فرماتے ہیں.“ حضرت خدیجہ کے یہ الفاظ اپنے اندر ایک نہایت وسیع مضمون رکھتے ہیں جس کی پوری گہرائی تک وہی شخص پہنچ سکتا ہے جو دل و دماغ کے نازک احساسات سے اچھی طرح آشنا ہو.ان الفاظ میں اس مجموعی اثر کا نچوڑ مخفی ہے جو پندرہ سالہ خانگی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ

Page 145

مضامین بشیر ۱۳۸ کے قلب پر پیدا کیا.جو خاوند اپنی روز مرہ زندگی کے واقعات سے اپنی بیوی کے دل ودماغ میں وہ اثرات پیدا کر سکتا ہے جن کا ایک چھوٹے پیمانہ کا فوٹو ان الفاظ میں نظر آتا ہے.اس کی پاکیزہ خانگی زندگی اور حسن معاشرت کا اندازہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.حضرت خدیجہ کے انتقال کا صدمہ حضرت خدیجہ ہجرت سے کچھ عرصہ قبل انتقال فرما گئیں اور ان کی وفات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت صدمہ ہوا اور لکھا ہے کہ ایک عرصہ تک آپ کے چہرہ پر غم کے آثار نظر آتے رہے اور آپ نے اس سال کا نام عام الحسون رکھا.ان کی وفات کے بعد جب کبھی ان کا ذکر آتا تھا آپ کی آنکھیں پُر نم ہو جاتی تھیں.ایک دفعہ حضرت خدیجہ کی بہن آپ سے ملنے کے لئے آئی اور دروازہ پر آکر اندر آنے کی اجازت چاہی ان کی آواز مرحومہ خدیجہ سے بہت ملتی تھی.یہ آواز سن کر آپ بے چین ہو کر اپنی جگہ سے اٹھے اور جلدی سے دروازہ کھول دیا.اور بڑی محبت سے ان کا استقبال کیا جب کبھی باہر سے کوئی چیز تحفہ آتی تھی.آپ لازماً حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کو اس میں سے حصہ بھیجتے تھے اور اپنی وفات تک آپ نے کبھی اس طریق کو نہیں چھوڑا.بدر میں جب ستر کے قریب کفار مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوئے تو ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد یعنی زینب بنت خدیجہ کے خاوند ا بو العاص بھی تھے.جو ابھی تک مشرک تھے.زینب نے ان کے فدیہ کے طور پر مکہ سے ایک ہار بھیجا.یہ وہ ہار تھا جو مر حومہ خدیجہ نے اپنی لڑکی کو جہیز میں دیا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو فوراً پہچان لیا اور حضرت خدیجہ کی یاد میں آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں.آپ نے رقت بھری آواز میں صحابہ سے فرمایا یہ ہارخدیجہ نے زینب کو جہیز میں دیا تھا.تم اگر پسند کرو تو خدیجہ کی یہ یادگار اس کی بیٹی کو واپس کر دو.صحابہ کو اشارہ کی دیر تھی.انھوں نے فوراً واپس کر دیا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کی جگہ ابو العاص کا یہ فدیہ مقرر فر مایا کہ وہ مکہ جا کر زینب کو فور آمدینہ بھیجوا دیں.اور اس طرح ایک مسلمان خاتون (اور خاتون بھی وہ جو سرور کائنات کی لخت جگر تھی ) دار کفر سے نجات پا گئی.حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زندہ بیوی کے متعلق کبھی جذبات رقابت نہیں پیدا ہوئے لیکن مرحومہ خدیجہ کے متعلق میرے دل میں بعض اوقات رقابت کا احساس پیدا ہونے لگتا تھا..کیونکہ میں دیکھتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بڑی محبت تھی اور ان کی یاد آپ کی دل کی گہرائیوں میں جگہ لئے ہوئے تھی.

Page 146

دوسری شادیاں ۱۳۹ مضامین بشیر حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد آپ نے حضرت عائشہ اور حضرت سودہ کے ساتھ شادی کی اور ہجرت کے بعد تو حالات کی مجبوری کے ماتحت آپ کو بہت سی شادیاں کرنا پڑیں اور آپ کی خانگی ذمہ داریاں بہت نازک اور پیچیدہ ہو گئیں مگر بایں ہمہ آپ نے عدل وانصاف کا ایک نہایت کامل نمونہ دکھایا اور کسی ذراسی بات میں بھی انصاف کے میزان کو اِدھر اُدھر جھکنے نہیں دیا.آپ کا وقت آپ کی توجہ آپ کا مال آپ کا گھر اس طرح آپ کی مختلف بیویوں میں تقسیم شدہ تھے کہ جیسے کسی مجسم چیز کو ترازو میں تول کر تقسیم کیا گیا ہو.اور اس خانگی بانٹ کے نتیجہ میں آپ کی زندگی حقیقہ ایک مسافرانہ زندگی تھی.اور آپ کا پروگرام حیات آپ کے اس قول کی ایک زندہ تفسیر تھا جو آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ كن في الدنيا كعابرى سبيلك یعنی انسان کو دنیا میں ایک مسافر کی طرح زندگی گزارنی چاہیئے.“ بیویوں میں کامل عدل مگر با وجود اس کامل عدل و انصاف کے آپ فرماتے تھے کہ اے میرے خدا میں اپنی طاقت کے مطابق اپنی بیویوں میں برابری اور مساوات کا سلوک کرتا ہوں لیکن اگر تیری نظر میں کوئی ایسا حق وانصاف ہے جس سے میں کوتاہ رہا ہوں اور جو میری طاقت سے باہر ہے تو تو مجھے معاف فرما.آپ کا یہ عدیم المثال انصاف اس وجہ سے نہیں تھا کہ آپ کے دل میں اپنی ساری بیویوں کی ایک سی ہی قدر اور ایک سی ہی محبت تھی کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے اور خود آپ کے اپنے اقوال سے بھی پتہ لگتا ہے کہ آپ کو اپنی بعض بیویوں سے ان کی ممتاز خوبیوں اور محاسن کی وجہ سے دوسری بیویوں کی نسبت زیادہ محبت تھی.پس آپ کا یہ انصاف محض انصاف کی خاطر تھا.جسے آپ کی قلبی محبت کا فرق اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکا.مرض الموت میں جب کہ آپ کو سخت تکلیف تھی اور غشیوں تک نوبت پہنچ جاتی تھی آپ دوسروں کے کندھوں پر سہارا لے کر اور اپنے قدم مبارک کو ضعف و نقاہت کی وجہ سے زمین پر گھسیٹتے ہوئے اپنی باری پوری کرنے کے خیال سے اپنی بیویوں کے گھروں میں دورہ فرماتے تھے حتی کہ بالآخر خود آپ کی ازدواج نے آپ کی تکلیف کو دیکھ کر اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ آپ عائشہ کے گھر میں آرام فرما ئیں ہم اپنی باری

Page 147

مضامین بشیر ۱۴۰ خود اپنی خوشی سے چھوڑتی ہیں.اس عدل وانصاف کے توازن کو قائم رکھنے کا آپ کو اس قدر خیال تھا کہ ایک دفعہ آپ کی موجودگی میں آپ کی بعض بیویوں کا کسی بات پر آپس میں کچھ اختلاف ہو گیا.حضرت عائشہ ایک طرف تھیں اور بعض دوسری بیویاں دوسری طرف.دوسری بیویوں نے غصہ میں آکر حضرت عائشہ کے ساتھ کسی قد رسخت باتیں کیں.مگر حضرت عائشہ نے صبر سے کام لیا اور خاموش رہیں.ان کی خاموشی سے دلیر ہو کر ان بیگمات نے ذرا زیادہ بختی سے کام لینا شروع کیا جس پر حضرت عائشہ کو بھی غصہ آگیا اور انھوں نے سامنے سے جواب دیئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت موجود تھے اور آپ خوب جانتے تھے کہ اس معاملہ میں حضرت عائشہ حق پر ہیں اور حضرت عائشہ سے آپ کو دوسری بیویوں کی نسبت محبت بھی زیادہ تھی مگر چونکہ اس اختلاف کا کوئی عملی اثر نہیں تھا آپ بالکل خاموش رہے تا کہ دوسری بیویوں کے دل میں یہ احساس نہ پیدا ہو کہ آپ عائشہ کی پاسداری فرماتے ہیں.البتہ جب یہ نظارہ بدل گیا تو آپ نے حضرت عائشہ سے از راہ نصیحت فرمایا چونکہ تم حق بجانب تھیں جب تک تم خاموش رہیں تمہاری طرف سے خدا کے فرشتے جواب دیتے رہے لیکن جب تم نے خود جواب دینے شروع کئے تو فرشتے چھوڑ کر علیحدہ ہو گئے.تعلیم و تادیب کا خیال تعلیم و تادیب کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنے گھر میں ایک بہترین مصلح اور معلم کی حیثیت رکھتے تھے.اور کوئی موقع اصلاح اور تعلیم کا ضائع نہیں جانے دیتے تھے.قرآن شریف کی ایک مشہور آیت ہے : قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًاث یعنی اے مسلمانو اپنے ساتھ اپنے اہل و عیال کو بھی ہر قسم کی معصیت اور گناہ سے اور دوسرے ضررساں رستوں سے بچاؤ.“ آپ اس آیت پر نہایت پابندی کے ساتھ مگر نہایت خوبی سے عمل پیرا تھے اور یہ آپ کی تعلیم وتربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ کی ازواج مطہرات اسلامی اخلاق و عادت اور اسلامی شعار کا بہت اعلیٰ نمونہ تھیں.بشریت کے ماتحت ان سے بعض اوقات غلطی بھی ہو جاتی تھی لیکن ان کی غلطیوں میں بھی اسلام کی بو آتی تھی.

Page 148

۱۴۱ مضامین بشیر حضرت عائشہ پر بہتان کا واقعہ جب بعض شریر فتنہ پرداز منافقوں نے حضرت عائشہ پر بہتان باندھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا سخت صدمہ ہوا اور آپ کی زندگی بے چین ہو گئی.اس بے چینی کے عالم میں آپ نے ایک دن حضرت عائشہ سے فرمایا: عائشہ اگر تمہارا دامن پاک ہے تو خدا عنقریب تمہاری بریت ظاہر فرما دے گا مگر دیکھو انسان بعض اوقات ٹھو کر بھی کھاتا ہے لیکن اگر اس ٹھوکر کے بعد وہ سنبھل جاۓ اور خدا کی طرف جھکے تو خدا ارحم الراحمین ہے.وہ اپنے بندے کو ضائع نہیں کرتا تم سے اگر کوئی لغزش ہوگئی ہے تو تمہیں چاہیئے کہ خدا کی طرف جھکو اور اس کے رحم کی طالب بنو.“ حضرت عائشہ کا دل پہلے سے بھرا ہوا تھا.اس خیال نے ان کے جذبات کو مزید ٹھیس لگائی کہ میرا رفیق زندگی اور میرا سرتاج بھی میرے متعلق اس قسم کی لغزش کا امکان تسلیم کرتا ہے.چنانچہ وہ تھوڑی دیر تو بالکل خاموش رہیں اور پھر یہ الفاظ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئیں کہ : فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ إِنَّمَا اَشْكُوا بِشَى وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ یعنی میرے لئے صبر ہی بہتر ہے.اور میں اس بات کے متعلق جو کہی جا رہی ہے خدا کے سوا کسی سے مدد نہیں مانگتی اور نہ میں اپنے دکھ کی کہانی خدا کے سوا کسی سے کہتی ہوں.“ یہ حضرت عائشہ کی غلطی تھی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ ان پر کوئی بدظنی نہیں کی تھی بلکہ محض ایک اصولی نصیحت فرمائی تھی مگر آپ کے الفاظ نے حضرت عائشہ کے حساس دل کو چوٹ لگائی اور وہ اس غم میں اندر ہی اندر گھلنے لگ گئیں.لیکن اس پر کوئی زیادہ وقت نہ گزرا کہ حضرت عائشہ کی بریت میں وحی الہی نازل ہوئی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش خوش ان کے قریب گئے اور انہیں مبارک باد دی حضرت عائشہ نے رقت بھری آواز میں جس میں کسی قدر رنج کی آمیزش بھی تھی جواب دیا کہ میں اس معاملہ میں کسی کی شکر گزار نہیں ہوں بلکہ صرف اپنے خدا کی شکر گزار ہوں جس نے خود میری بریت فرمائی.سرور کائنات کے سامنے اس رنگ میں یہ الفاظ کہنا بھی ایک غلطی تھی مگر دیکھو تو غلطیاں کیسی پیاری غلطیاں ہیں جیسے ایمان واخلاص کی لپیٹیں اُٹھ اُٹھ کر دماغ کو معطر کر رہی ہیں اور یہ سب باغ و بہار آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا نتیجہ تھا.

Page 149

مضامین بشیر امہات المومنین کو نصیحت ۱۴۲ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں عموماً یہ نصیحت فرماتے تھے کہ تمہاری حیثیت عام مومنات کی سی نہیں ہے بلکہ میرے تعلق کی وجہ سے تمہیں ایک بہت بڑی خصوصیت حاصل ہوگئی ہے اور تمہیں اس کے مطابق اپنے آپ کو بنانا چاہیئے بلکہ آپ نے فرمایا کہ تم مومنوں کی روحانی مائیں ہو.جیسا کہ میں روحانی باپ ہوں.پس تمہیں ہر رنگ میں دوسروں کے واسطے ایک نمونہ بننا چاہئے.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر تم کوئی غلط طریق اختیار کرو گی تو خدا کی طرف سے تمہیں دوہری سزا ہوگی کیونکہ تمہارے خراب نمونہ سے دوسروں پر بھی برا اثر پڑے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب جب کثرت کے ساتھ اموال آئے تو دوسرے صحابیوں کی طرح آپ کی ازدواج نے بھی اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق حصہ مانگا.آپ نے فرمایا.اگر تمہیں دنیا کے اموال کی تمنا ہے تو میں تمہیں مال دئے دیتا ہوں لیکن اس صورت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں ( کیونکہ میں اپنی زندگی کو دنیا کے مال و متاع کی آلایش سے ملوث نہیں کرنا چاہتا ) اور اگر تم میری بیویاں رہنا چاہتی ہو تو دنیا کے اموال کا خیال دل سے نکال دوسب نے یک زبان ہو کر عرض کیا کہ ہمیں خدا کے رسول کا تعلق بس ہے مال نہیں چاہیئے اور جب انہوں نے خدا کی خاطر دنیا کے اموال کو ٹھکرا دیا تو خدا نے اپنے وقت پر ان کو دنیا کے اموال بھی دے دیئے.محبت و دلداری مگر اس تعلیم و تادیب کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت و دلداری کے طریق کو بھی کبھی نہیں چھوڑ احتی الوسع آپ ہر بات میں اپنی بیویوں کے احساسات اور ان کی خوشی کا خیال رکھتے تھے.ہمیشہ ان کے ساتھ نہایت بے تکلفی اور تلطف سے بات کرتے.اور با وجودا اپنی بہت سی مصروفیتوں کے اپنے وقت کا کچھ حصہ لازماً ان کے پاس گزارتے حتی کہ سفروں میں بھی باری باری اپنی بیویوں کو اپنے ساتھ رکھتے اور آپ کی عادت تھی کہ اپنی بیویوں کی عمر اور حالات کے مناسب ان سلوک فرماتے تھے.حضرت عائشہ جب بیا ہی ہوئی آئیں تو ان کی عمر بہت چھوٹی تھی انہیں دنوں میں چند حبشی لوگ تلوار کا کرتب دکھانے کے لئے مدینہ میں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی مسجد میں کرتب دکھانے کی اجازت دی.اور آپ نے خود حضرت عائشہ کو اپنی اوٹ میں لے کر اپنے حجرہ کی دیوار کے پاس کھڑے ہو گئے اور جب تک حضرت عائشہ اس تماشے سے ( جو درحقیقت ایک

Page 150

۱۴۳ مضامین بشیر فوجی تربیت کے خیال سے کرایا گیا تھا) سیر نہیں ہو گئیں.آپ اسی طرح کھڑے رہے.نا ایک اور موقع پر جبکہ حضرت عائشہ ایک سفر میں آپ کے ساتھ تھیں آپ نے ان کے ساتھ دوڑنے کا مقابلہ کیا جس میں حضرت عائشہ آگے نکل گئیں.پھر ایک دوسرے موقع پر جبکہ عائشہ کا جسم کسی قدر بھاری ہو گیا تھا آپ دوڑے تو حضرت عائشہ پیچھے رہ گئیں جس پر آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا :- " هذه بتلك 66 یعنی لو عا ئشہ اب اس دن کا بدلا اتر گیا ہے.ایک دن حضرت عائشہ اور حفصہ بنت عمر نے صفیہ کے متعلق مذاق مذاق میں کچھ طعن کیا کہ وہ ہمارا مقابلہ کس طرح کر سکتی ہے ہم رسول اللہ کی صرف بیویاں ہی نہیں بلکہ آپ کی برادری میں آپ کی ہم پلہ ہیں اور وہ ایک غیر قوم ایک یہودی رئیس کی لڑکی ہے.صفیہ کے دل کو چوٹ لگی اور وہ رونے لگ گئیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو صفیہ کو روتے دیکھ کر وجہ دریافت کی.انہوں نے کہا عائشہ نے آج مجھ پر یہ چوٹ کی ہے.آپ نے فرمایا واہ یہ رونے کی کیا بات تھی تم نے یہ کیوں نہ جواب دیا کہ میرا باپ خدا کا ایک نبی ہارون اور میرا چا خدا کا ایک بزرگ نبی موسیٰ.اور میرا خاوند محمد (صلعم) خاتم النبین ۱۲.پھر مجھ سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے.بس اتنی سی بات سے صفیہ کا دل خوش ہو گیا.نو جوانی کی حالت میں طبعاً محبت کے جذبات زیادہ تیز ہوتے ہیں اور ایسا شخص دوسرے کی طرف سے بھی محبت کا زیادہ مظاہرہ چاہتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو علم النفس کے کامل ترین ماہر تھے اس جہت سے بھی اپنی بیویوں کے مزاج کا خیال رکھتے تھے.چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ نے ( جو آپ کی ساری بیویوں میں سے خوردسالہ تھیں ) کسی برتن سے منہ لگا کر پانی پیا جب وہ پانی پی چکیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن کو اٹھایا اور اسی جگہ منہ لگا کر پانی پیا جہاں سے حضرت عائشہ نے پیا تھا.اس قسم کی باتیں خواہ اپنے اندر کوئی زیادہ وزن نہ رکھتی ہوں مگر ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن معاشرت پر ایک ایسی روشنی پڑتی ہے جسے کوئی وقائع نگار نظر انداز نہیں کر سکتا.الغرض محبت میں تلطف میں دلداری میں وفاداری میں تعلیم و تربیت میں تادیب واصلاح میں اور پھر مختلف بیویوں میں عدل وانصاف میں آپ ایک ایسا کامل نمونہ تھے کہ جب تک نسل انسانی کا وجود قائم ہے دنیا کے لئے ایک شمع ہدایت کا کام دے گا.اللهم صل علی محمد وعلى ال محمد و بارک وسلم.( مطبوعه الفضل ۳۱ مئی ۱۹۲۹ء )

Page 151

۱۴۴ مضامین بشیر

Page 152

۱۴۵ ۱۹۳۲ء مضامین بشیر حقیقی اور کامل تعریف محمد بهشت برہان محمد مصرع مندرجہ عنوان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ کے ایک قصیدہ سے ماخوذ ہے جو آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت میں منظوم فرمایا تھا.میں نے بہت غور کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں جو الفاظ انسانوں کی طرف سے کہے گئے ہیں خواہ وہ اپنے ہوں یا برگا نے ان میں مصرع مندرجہ بالا سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح اور حقیقی اور کامل تعریف کا حاصل اور کوئی فقرہ نہیں.سب سے بڑا با کمال بے شک دنیا میں تعریف کے مستحق لاکھوں انسان گزرے ہیں اور ان میں سے بعض نے وہ مرتبہ پایا ہے کہ آنکھ ان کی رفعت اور روشنی کو دیکھ کر خیرہ ہوتی ہے اور یہ با کمال لوگ پائے بھی ہر میدان میں جاتے ہیں یعنی دین و دنیا کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو ان لوگوں کے وجود سے خالی ہو مگر ان میں سے کون ہے؟ جس کی ہستی کا ہر پہلو اس کے کمال پر شاہد ہو.کون ہے جس کے وجود کا ہر ذرہ اس کے نور باطن کا پتہ دے رہا ہو؟ کون ہے جس کی ذات والا صفات کا ہر خلق اس کی یگانگت کی دلیل ہو؟ یقیناً یہ کمال صرف مقدس بانی اسلام (فداہ نفسی) کے ساتھ مخصوص ہے اور کوئی دوسرا انسان اس صفت میں آپ کا شریک نہیں.حضرت یوسف علیہ السلام کے حسنِ خدا داد نے دنیا سے خراج تحسین حاصل کیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ید بیضا نے ایک عالم کی آنکھ کو مسخر کر دیا.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے دم عیسوی سے روحانی مُردوں نے زندگی پائی مگر باوجود اپنے روحانی کمال کے حضرت مسیح ناصری نے موسیٰ علیہ السلام کا ید بیضا نہ پایا.حضرت موسی کو باوجود اپنی رفعت شان کے حسنِ یوسف سے محرومی

Page 153

مضامین بشیر ۱۴۶ رہی.حضرت یوست با وجود اپنی ظاہری و باطنی حسن کے حضرت موسی کے ید بیضا اور حضرت مسیح کے دم عیسوی کو نہ پاسکے لیکن اسلام کا مقدس بانی اپنے ہر وصف میں یکتا ہوکر چمکا.اپنی ہرشان میں دوسروں سے بالا رہا.کسی نے کیا خوب کہا ہے.مصرعہ مندرجہ عنوان حسنِ یوسف دم عیسی ید بیضا داری آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنها داری یہ شعر بہت خوب ہے بہت ہی خوب ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اس سے بھی ارفع ہے.آپ کے ید بیضا کے سامنے حضرت موسی کا ید بیضا ماند ہے.آپ کے انفاس روحانی سے حضرت عیسی کے دم عیسوی کو کوئی نسبت نہیں.میں نے عرض کیا تھا اور پھر کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و کمال کی حقیقی تصویر صرف اس مصرع میں ملتی ہے.جو سلسلہ احمدیہ کے مقدس بانی علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے نکلا اور میرے اس مضمون کا عنوان ہے.میرا یہ دعویٰ محض خوش عقیدگی پر مبنی نہیں ہے بلکہ تاریخ کی مضبوط ترین شہادت اس بات کو ثابت کر رہی ہے کہ رہنمایانِ عالم میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات والا صفات وہ ذات ہے جس کا ہر وصف ہر خط و خال ہر ادا آپ کے کمال کی دلیل ہے.اسی لئے قدرت نے آپ کے واسطے وہ نام تجویز کیا جس کے معنی مجسم تعریف کے ہیں.اور مصرع مندرجہ عنوان کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اگر دنیا میں کوئی ایسی ہستی ہے کہ جس کا ہر وصف اسے ہر دوسرے شخص کے مقابلہ میں "محمد یعنی قابل تعریف ثابت کرتا ہوا اور اس کے لئے کسی بیرونی دلیل کی ضرورت نہ ہو تو وہ صرف پیغمبر اسلام ہے.احسن تقویم کا کامل نمونہ میرے لئے اس نہایت مختصر مضمون میں اپنے اس وسیع دعوی کے دلائل لانے کی گنجائش نہیں ہے اور نہ اس مضمون میں دلائل کا بیان کرنا میرا مقصد ہے.میں اس جگہ صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا رسول مرتبہ کیا رکھتا ہے اور وہ کون سا مقام ہے جس نے اسے اس تعریف کا مستحق بنایا ہے جو مصرع مندرجہ عنوان میں بیان کی گئی ہے.سو جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے وہ مقام یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجو د نبوت و رسالت کے جملہ کمالات میں اس قدر ترقی یافتہ ہے کہ کسی ایک وصف یا ایک کمال کو لے کر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ آپ کا امتیازی خاصہ ہے.میں آنحضرت صلی اللہ علیہ

Page 154

۱۴۷ مضامین بشیر وآلہ وسلم کا سوانح نگار ہوں اور خدا کے فضل سے آپ کے حالات زندگی کا کسی قدر مطالعہ رکھتا ہوں.اور میں نے آپ کے سوانح کا مطالعہ بھی ایک آزاد تنقیدی نظر کے ساتھ کیا ہے.میں اس معاملہ میں اپنی ذاتی ( گو معاملہ کی اہمیت کے مقابلہ میں نہایت ناچیز ) شہادت پیش کرتا ہوں کہ میں نے جب کبھی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف و محاسن کا جائزہ لے کر آپ کے وجود میں کسی امتیازی خاصہ کی تلاش کرنی چاہی ہے تو میری نظر ہمیشہ ماند ہو ہو کر لوٹ گئی ہے اور کبھی کامیابی نہیں ہوئی.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت نے اپنے نبی میں اوصاف جلالی کا نور دیکھا تو اسے لے کر اپنے بانی کی تعریف میں پل باندھ دیئے.حضرت عیسی علیہ السلام کے تبعین نے اپنے مسیح کے اوصاف جمالی کا نظارہ کیا تو اس سے مسحور ہو کر انہیں خدا کے پہلو میں جا بٹھایا.گوتم بدھ کے نام لیووں نے اپنے بانی کی نفس کشی اور فنائیت کو دیکھ کر اس کی مدح سرائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے.مگر اسلام کا بانی خدائے ذوالعرش کی کامل تصویر تھا اس لئے اس کے کمال نے اس بات سے انکار کیا کہ اس کا کوئی وصف اس کے کسی دوسرے وصف سے ہیٹا ہو.وہ اپنی امت کی کامل اصلاح کا پیغام لایا تھا اس لئے اس کی تصویر کا کوئی رنگ اس کے دوسرے رنگوں سے مغلوب نہیں ہوا.تا ایسا نہ ہو کہ اس کے متبع اس کے غالب رنگ سے متاثر ہوکر اصلاح کے ایک پہلو میں نفع اور دوسرے میں نقصان کا طریق اختیار کر لیں.قدرت نے اس کے تمام قوائے فطری کی ایک سی آبپاشی کی اور اس کے وجود میں اپنے اس فعل کو کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تقویم ۱۴ تک پہنچا دیا اسی واسطے جہاں دوسرے نبیوں کی بعثت کے لئے الہی کلام میں ان کے حسب حال اور اور رنگ کے استعارے استعمال کئے گئے ہیں.وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو خدا تعالیٰ نے خود اپنی آمد کہہ کر پکارا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس طرح خدا کی ہستی کی بہترین دلیل خود خدا کی ذات ہے جو بغیر کسی بیرونی توسل کے خود اپنی قدرت و جبروت کے زور سے اپنے آپ کو منواتی ہے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال کی بہترین دلیل خود آپ کا وجود با جود ہے.جو اپنے ہر وصف میں ایک سی کشش اور ایک سی طاقت کے ساتھ دنیا سے خراج تحسین حاصل کر رہا ہے.نا در کرشمہ قدرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ خصوصیت صرف ان روحانی کمالات تک محدود نہیں جو نبوت کے ساتھ مخصوص ہیں.بلکہ اس نادر کرشمہ قدرت نے دین و دنیا کے جس میدان میں قدم رکھا ہے

Page 155

مضامین بشیر ۱۴۸ وہاں حسن واحسان کا ایک کامل نقش اپنے پیچھے چھوڑا ہے.یہ دلائل وامثلہ کی بحث میں پڑنے کا موقع نہیں ورنہ میں تاریخ سے مثالیں دے دے کر بتا تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بچہ تھے تو بہترین بچہ تھے.اور جب جوان ہوئے تو بہترین جوان نکلے ، ادھیڑ عمر کو پہو نچے تو ادھیڑ عمر والوں میں بے مثل تھے اور جب بوڑھے ہوئے تو بوڑھوں میں لاجواب ہوئے.شادی کی تو بہترین خاوند بنے اور جب بادشاہ بنے تو دنیا کے بادشاہوں کے سرتاج نکلے کسی کے دوست ہوئے تو جہان کی دوستیوں کو شر ما دیا اور اگر کوئی آپ کا دشمن بنا تو اُس نے آپ کو اپنا بہترین دشمن پایا.اس نے اپنی آنکھوں کو آپ کے سامنے ہمیشہ کے لئے نیچا کر دیا.فوج کی کمان کی تو دنیا کے جرنیلوں کے لئے ایک نمونہ بن گئے.اور سیاست کی تو سیاست کا ایک بہترین ضابطہ اپنے پیچھے چھوڑا.انتظامی حاکم بنے تو ضبط و نظم کی مثال بن گئے اور قضا کی کرسی پر بیٹھے تو عدل وانصاف کا مجسمہ نظر آئے.فاتح بنے تو دنیا کے فاتحین کو ایک سبق دیا.اور کبھی کسی معرکہ میں حکمت الہی سے مفتوح ہوئے تو مفتوح ہونے کا بہترین نمونہ قائم کیا.معلم خیر بنے تو جذب و تاثیر میں عدیم المثال نکلے اور عابد کا لباس پہنا تو تعبد کو انتہا تک پہونچا دیا اور پھر ایسا نہیں ہوا کہ کبھی کسی وصف پر زور ہوا اور کبھی کسی وصف پر اپنے اپنے موقع پر ہر وصف کا دوسرے اوصاف کے ساتھ ساتھ کامل طور پر ظہور ہوا.اور جب بالآخر خدا کی طرف سے واپسی کا پیغام آیا تو موت کا کیسا دلکش اور کیسا پیارا نقشہ پیش کیا کہ نزع کا عالم ہے اور روح جسم کے ساتھ اپنی آخری کڑیاں تو ڑ رہی ہے اور یہاں زبان پر یہ الفاظ ہیں کہ " الصَّلوةُ وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُم ه ا يعنى اے مسلمانوں تم خدا کی عبادت میں کبھی سست نہ ہونا.کہ وہی ہر خیر و برکت اور ہر قوت وطاقت کا منبع ہے.اور دنیا میں جو لوگ تم سے کمزور ہوں.اور تمہارے اختیار کے نیچے رکھے جائیں اُن کے حقوق کی حفاظت کرنا.“ اور جب رشتہ حیات ٹوٹنے کے لئے آخری جھٹکا کھاتا ہے تو آپ کی زبان پر یہ الفاظ ہیں.اللَّهُم بِالرَّفِيقِ الا على اللهم بالرفيق الا على العني اے میرے آقا تو اب مجھے اپنی رفاقت اعلیٰ میں لے لے مجھے اپنی رفاقت اعلیٰ میں لے لے مطہر زندگی اور مطہر موت یہ اسی پاک و مطہر زندگی اور پاک و مطہر موت کا اثر تھا کہ جب وفات کے بعد حضرت ابوبکر

Page 156

۱۴۹ مضامین بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے چہرہ مبارک پر سے چار در ہٹا کر آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا تو اس زندگی بھر کے رفیق کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے.کہ طبت حيا وميتاً كله يعني ” تو زندہ تھا تو بہترین زندگی کا مالک تھا اور فوت ہوا تو بہترین موت کا وارث بنا.‘“ کیا کسی اور نبی کے اوصاف میں یہ ہمہ گیر ا فضیلت نظر آتی ہے.بلکہ میں پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی اور نبی ایسا گزرا ہے جس کی زندگی اتنے مختلف پہلوؤں کے مناظر پیش کرتی ہو؟ من كل الوجوه افضلیت یہ اسی ہمہ گیرا فضلیت کا ثمرہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے ایسی کامیابی مقدر کی جس کی مثال کسی اور نبی کی زندگی میں نہیں ملتی.بے شک خدا کے ازلی رفیق لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي ١٨ کے ماتحت ہر نبی ز کے لئے غلبہ مقدر ہوتا ہے مگر غلبہ کے بھی مدارج ہیں اور یقیناً جو غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نصیب ہوا اس کے سامنے دوسرے نبیوں کی کامیابی اسی طرح ماند ہے جس طرح سورج کی روشنی کے سامنے دوسرے اجرام سماوی کی روشنی ماند ہوتی ہے.غرض جس جہت سے بھی دیکھا جائے جن پہلوؤں سے بھی مشاہدہ کیا جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات والا صفات دوسرے رہنمایانِ عالم سے اس طرح ممتاز وفائق نظر آتی ہے جیسے ایک بلند مینا ر آس پاس کی تمام عمارتوں سے ممتاز و بالا ہوتا ہے.اور آپ کا یہ امتیاز کسی ایک وصف یا کسی ایک شعبۂ زندگی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہمہ گیر اور من کل الوجوہ ہے.اسی لئے جہاں دوسرے انبیاء مرسلین کی تعریف میں ان کے خاص خاص اوصاف کو چن لیا جاتا ہے وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی تعریف سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ :- محمد ہست بُرہان محمد اللهمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ بَارِک وَسَلِّمُ ( مطبوع الفضل ۶ نومبر ۱۹۳۲ء)

Page 157

۱۵۰ مضامین بشیر

Page 158

۱۵۱ ۱۹۳۳ء مضامین بشیر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی ہدایات صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے ولایت روانہ ہونے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی انہیں نہایت ضروری اور اہم ہدایات تحریر فرما کر دیں.ذیل میں انہیں افادہ عام کے لئے درج کیا جاتا ہے.عزیزم مظفر احمد سلمه السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته : اب جبکہ تم ولایت کے لمبے سفر پر جا رہے ہو.( اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہوا اور تمہیں ہر قسم کی دینی و دنیوی خیریت کے ساتھ کامیاب اور بامراد واپس لائے ) میں چاہتا ہوں کہ اپنی سمجھ کے مطابق جو باتیں تمہارے لئے مفید سمجھتا ہوں وہ تمہیں اختصار کے ساتھ لکھ کر دوں تا کہ اگر خدا کو منظور ہو تو وہ تمہارے لئے کارآمد ثابت ہوں.وبالله التوفيق وهو المستعان ہر اچھی بات اختیار کرو اور بُری سے بچو (1) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس ملک میں تم جا رہے ہو وہاں کا مذہب تہذیب اور تمدن بالکل جدا ہے.یہ ملک تمہارے واسطے گویا ایک نئی دنیا کا حکم رکھتا ہے.اس میں خدا کو یا در کھتے ہوئے اور خدا سے دعا مانگتے ہوئے داخل ہو.اس ملک میں بہت سی باتیں تمہیں مفید اور اچھی ملیں گی انہیں اس تسلی کے بعد کہ وہ واقعی اچھی ہیں بیشک اختیار کرو اور ان سے فائدہ اٹھاؤ کیونکہ مفید اور اچھی چیز جہاں بھی ملے وہ مومن کا مال ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے.کہ " كلمة الحكمة ضالة المومن اخذها حيث وجدها والعنى ہر اچھی بات مومن کی اپنی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے.وہ جہاں بھی ملے اسے

Page 159

مضامین بشیر ۱۵۲ لے لینا چاہیئے.مگر جہاں اس ملک میں اچھی باتیں ملیں گی وہاں بہت سی خراب اور ضرررساں باتیں بھی ملیں گی.ان باتوں کے مقابلہ پر تمہیں اپنے آپ کو ایک مضبوط چٹان ثابت کرنا چاہیئے اور خواہ دنیا کچھ سمجھے مگر تمہیں یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ خراب اور ضرر رساں چیز کے معلوم کرنے کا یقینی معیا رسوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ جو بات خدا اور اس کے رسول کے حکم اور موجودہ زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے خلاف ہے وہ یقیناً نقصان دہ اور ضرر رساں ہے.دین اور اخلاق کی حفاظت (۲) ولایت میں تمہیں اپنے دین اور اخلاق کی حفاظت کا خاص خیال رکھنا چاہیئے کیونکہ یہ ملک اپنے اندر بعض ایسے عناصر رکھتا ہے جو دین اور اخلاق کے لئے سخت ضررساں ہیں.پس اس ملک میں دعا اور استغفار کرتے ہوئے داخل ہوا اور جب تک اس میں رہو یا اس قسم کے دوسرے ملک میں رہو.خاص طور پر دعا اور استغفار پر زور دو تا کہ تمہارا دل ان ممالک کے مخفی زہروں سے محفوظ رہے اور زنگ آلود نہ ہو.نماز کی نہایت سختی کے ساتھ پابندی رکھو اور اسے اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا کر و.اسی طرح اسلام کی دوسری عبادات اور احکام کی پابندی اختیار کرو اور یقین رکھو کہ اس میں ساری برکت اور کامیابی کا راز مخفی ہے.تعلق باللہ کے لئے کوشش (۳) با وجود اسلام کی مقرر کردہ عبادات اور اس کے احکام کی پابندی اختیار کرنے کے یہ یاد رکھو کہ یہ باتیں اسلام میں بالذات مقصود نہیں ہیں بلکہ یہ صرف اصل مقصد کے حاصل کر نے کا ذریعہ ہیں.اصل مقصد خدا تعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرنا ہے.پس اپنی عبادت میں ہمیشہ اس مقصد کو یا د رکھو اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جن کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ وہ با وجود نماز کے پابند ہونے کے نماز سے غافل ہوتے ہیں میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہزار برس کی نمازیں جو اس مقصد سے لا پرواہی کی حالت میں ادا کی جاتی ہیں اس ایک سجدہ کے مقابلہ میں بیچ ہیں جو اس مقصد کے حصول کے لئے کچی تڑپ کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے.پس اپنی ہر عبادت میں اور اپنے ہر عمل میں اس بات کی کوشش کرو کہ خدا کے قرب اور خدا کی محبت میں ترقی ہو اور اس کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا ہو جائے.

Page 160

۱۵۳ مضامین بشیر اپنے اعمال اور اپنے اخلاق کو بالکل خدا کے حکم اور اس کے رسول کے منشاء کے ماتحت چلا ؤ اور کوشش کرو کہ تم میں خدا اور اس کے رسول کی صفات جلوہ فگن ہو جائیں کیونکہ اس کے نتیجہ میں خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے.مذہبی کتب کا مطالعہ (۴) میں تمہیں اپنی طرف سے ایک قرآن شریف اور ایک کتاب حدیث اور بعض کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور ایک کتاب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دے رہا ہوں ان کا باقاعدہ مطالعہ رکھو اور خصوصاً قرآن شریف اور اس زمانہ کے لحاظ سے کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مطالعہ میں ہرگز کوتا ہی نہ کرو کیونکہ ان میں زندگی کی روح ہے.قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرو اور اس کے گہرے مطالعہ کی عادت ڈالو.قرآن شریف ایسی کتاب ہے کہ اس کا ظاہر صحیفہ فطرت کی طرح بہت سادہ ہے مگر اس کے اندر حقائق اور معانی کی بے شمار گہرائیاں مخفی ہیں.جن سے انسان اپنے غور اور فکر اور تدبر کے مطابق فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر قرآن شریف کی گہرائیوں تک پہنچنے کا سب سے زیادہ یقینی رستہ تقویٰ اور طہارت ہے.اس کے بغیر قرآن شریف کے حقائق انسان پر نہیں کھل سکتے اور یہی وجہ ہے کہ مخالفین کو قرآن شریف ہمیشہ ایک سطحی کتاب نظر آتا ہے حالانکہ سمجھنے والے جانتے ہیں کہ گو اس کا ظاہر سادہ ہے مگر اس کے اندر بے شمار ذخیرے مخفی ہیں جو تقویٰ اور طہارت کے ساتھ غور کرنے والوں پر کھلتے ہیں.حدیث کا جو حصہ یقینی ہے وہ بھی اپنے اندر انتہائی اثر اور صداقت رکھتا ہے اور اس کے مطالعہ سے انسان روحانی پیاس کی سیری محسوس کرتا ہے اور اس زمانہ کے لئے خصوصیت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں خاص اثر رکھا گیا ہے.ان سب سے علی قدر مراتب فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو.لباس کے متعلق ہدایت (۵) جس ملک میں تم جا رہے ہو وہاں کا لباس یہاں کے لباس سے بہت مختلف ہے.اس کے متعلق صرف یہ اصولی بات یاد رکھو کہ اسلام کو اصولاً لباسوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.لباس گر دو پیش کے حالات اور ملک کی آب و ہوا پر منحصر ہے.پس اگر تم وہاں کی آب و ہوا کے ماتحت وہاں کے لباس کا کوئی حصہ اختیار کرنا ضروری سمجھو تو اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر انگریزی لباس میں ایک چیز ایسی ہے جسے حدیثوں میں دجال کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور اسی لئے حضرت مسیح موعود

Page 161

مضامین بشیر ۱۵۴ علیہ الصلوۃ والسلام اسے نا پسند فرماتے تھے.اور وہ انگریزی ٹوپی ہے.پس گو ظا ہری اور جسمانی لحاظ سے انگریزی ٹوپی مفید ہو.مگر اس کی ان associations کی وجہ سے اس کا روحانی اثر ضرر رساں ہے.لہذا اس کے استعمال سے پر ہیز کرنا چاہیئے.اس کے سوا میں لباس کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا.تمہیں آزادی ہے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ کسی چیز کو محض غلامانہ تقلید کے طور پر اختیار نہ کرنا.بلکہ اگر کسی چیز کے استعمال میں وہاں کے حالات کے ماتحت کوئی فائدہ یا خوبی پاؤ تو اسے بیشک اختیار کر سکتے ہو.ہاں یہ ضرور مدنظر رکھنا کہ لباس کے معاملہ میں حتی الوسع سادگی اختیار کی جائے نمائش یا بھڑ کیلا پن یا فضول خرچی مومن کی شان سے بعید ہے اور ریشم کے کپڑوں کا استعمال تو تم جانتے ہو کہ مردوں کے لئے منع ہی ہے.خوراک کے متعلق ہدایت (1) ولایت کے سفر میں خوراک کا معاملہ بھی خاص توجہ چاہتا ہے.ان ممالک میں شراب اور سور کے گوشت کی اس قدر کثرت ہے کہ جب تک انسان خاص توجہ سے کام نہ لے غلطی یا غفلت سے ان میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے.شراب کا معاملہ تو خیر نسبتا سہل ہے کیونکہ اس میں غلط فہمی کا امکان بہت کم ہے.مگر سور کے گوشت کے معاملہ میں بسا اوقات غلط نہی ہو جاتی ہے.اس لئے پوری احتیاط کے ساتھ اس بات کی نگرانی رکھنی چاہیئے کہ کھانے میں غلطی سے ممنوع گوشت سامنے نہ آ جائے.مگر شائد اس سے بھی زیادہ نگرانی کی ضرورت اس بات میں ہے کہ کہیں غلطی سے ممنوع طریق پر ذبح کیا ہوا گوشت استعمال نہ ہو جائے.یورپ میں اور جہاز پر بھی اکثر ممنوع طریق پر ذبح کیا ہوا گوشت ملتا ہے جو مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے.یعنی خود جانور تو جائز ہوتا ہے مگر ذبح کا طریق غلط ہوتا ہے.اس کا علاج یہ ہے کہ ایسی دوکانوں سے گوشت منگوایا جائے جو اسلامی طریق پر جانور ذبح کرتے ہیں.مثلاً یہودی لوگ اس معاملہ میں بہت محتاط ہیں اور خالص اسلامی رنگ میں ذبح کرتے ہیں.ان کی دوکانوں سے گوشت منگوایا جا سکتا ہے.اور جہاز وغیرہ پر جہاں انتظام اپنے ہاتھ میں نہ ہو وہاں مچھلی اور انڈے کی غذا استعمال کی جاسکتی ہے.اس بات کی عادت ڈال لینی چاہیئے کہ steward یاwaiter کو پہلے سے تاکید کر دی جائے کہ شراب یا سور کا گوشت یا غیر اسلامی یق پر ذبح کیا ہوا گوشت سامنے نہ آئے.اور کھانا سامنے آنے پر بھی پوچھ لینا چاہیئے.جہاز پر غالباً جاتے ہوئے تو بمبئی سے ذبح کیا ہوا گوشت ذخیرہ کیا جاتا ہے مگر پھر بھی تسلی کر لینی چاہیئے.اگر گوشت مشکوک ہو تو سبزی اور مچھلی اور انڈے اور پھل کی صورت میں دوسری غذا بکثرت مل سکتی ہے.خوراک

Page 162

۱۵۵ مضامین بشیر کا معاملہ مخفی طور پر انسان کے اخلاق پر گہرا اثر ڈالتا ہے.اس لئے اس معاملہ کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیئے اور پھر اسلامی احکام کی تعمیل مزید برآں ہے.اسلامی شعار کی پابندی (۷) ایک بات اسلامی شعار کی پابندی ہے.ظاہری ہئیت کے متعلق جو اسلامی طریق ہے خواہ وہ شریعت کے احکام سے ثابت ہو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تعامل سے اس کی پابندی اختیار کرنی ضروری ہے شعار کا معاملہ نہایت اہم ہے.اس لحاظ سے بھی کہ انسان کے اندرونہ پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے.اور اس لحاظ سے بھی کہ دوسروں کے لئے ظاہر میں دیکھنے والی چیز صرف شعار ہی ہے.انسان کے اخلاقی زیوروں میں سے اعلیٰ ترین زیور یہ ہے کہ وہ اپنے قومی اور ملی شعار کو نہ صرف اختیار کرے بلکہ اسے عزت کی نظر سے دیکھے.جو قو میں اس کا خیال نہیں کرتیں وہ آہستہ آہستہ ذلیل ہو جاتی ہیں.ڈاڑھی بھی اسلامی شعار کا حصہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اس پر عمل کیا ہے بلکہ زبانی طور پر بھی اس کی ہدایت فرمائی ہے.پس اس شعار کا تمہیں احترام کرنا چاہیئے.اسلام کا یہ منشاء نہیں کہ ڈاڑھی اتنی ہو یا اتنی نہ ہو.ان تفصیلات میں اسلام نہیں جاتا کیونکہ یہ باتیں انسان کی اپنی وضع اور مرضی پر موقوف ہیں مگر اسلام یہ ضرور چاہتا ہے کہ ڈاڑھی رکھی جائے خواہ وہ کتنی ہی ہو.ڈاڑھی مرد کا فطرتی زیور اورحسن ہے.اور اس کے رکھنے میں بہت سے طبی اور اخلاقی فوائد مخفی ہیں.انگلستان میں بھی اب تک بادشاہ ڈاڑھی رکھتا ہے اور اور بھی کئی بڑے بڑے لوگ رکھتے ہیں.خدمت اسلام (۸) تمہیں اپنے ولایت کے قیام میں اپنے حالات کے مطابق اسلام اور سلسلہ کی تبلیغ میں بھی حصہ لینا چاہیئے اور اس کا سب سے زیادہ سہل طریق یہ ہے کہ وہاں کے مشن کے کام میں جہاں تک ممکن ہو امداد دو اور جو کام تمہارے سپرد کیا جائے اسے سرانجام دینے کی پوری پوری کوشش کرو.یہ بھی یا درکھو کہ سب سے بہتر تبلیغ انسان کے اپنے نمونہ سے ہوتی ہے.اپنے نمونہ سے ثابت کرو کہ اسلام بہتر مذ ہب ہے.تعلیم کے متعلق ہدایت (۹) تمہاری تعلیم کے تعلق میں مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے.تم سمجھدار ہو اور اس لائن

Page 163

مضامین بشیر ۱۵۶ میں کافی تجربہ حاصل کر چکے ہو.اپنے وقت کی قدر و قیمت کو پہچانتے ہوئے وقت کا بہترین استعمال کرو اور یا درکھو کہ دنیا میں جو مرتبہ محنت کو حاصل ہے.وہ عام حالات میں ذہن کو بھی حاصل نہیں ہے.محنت سے اگر وہ ٹھیک طرح پر کی جائے ذہن کی کمی بڑی حد تک پوری کی جاسکتی ہے مگر ذہن محنت کی کمی کو پورا نہیں کرسکتا.پس محنت کی عادت ڈالو.اور محنت بھی ایسی جسے گویا کام میں غرق ہو جانا کہتے ہیں.ایسی محنت اگر صحیح طریق پر کی جائے اور خدا کا فضل شامل ہو جائے تو ضرور اعلی نتیجہ پیدا کرتی ہے.جس لائن کے واسطے تم جا رہے ہو اس کے لئے عموماً بہترین لڑ کے لئے جاتے ہیں.جب تک شروع سے ہی محنت اختیار نہیں کرو گے کامیابی مشکل ہو گی.اگر تم محنت کرو تو پھر تمہیں خدا کے فضل سے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے.اگر گذشتہ نتائج میں دوسرے طلباء تم سے آگے بھی رہے ہوں تو تم محنت سے ان سے آگے نکل سکتے ہو.انسان کی ساری ترقی کا راز محنت میں ہے مگر محنت صحیح طریق پر ہونی چاہیئے اور ہر کام کے لئے صحیح طریق جدا جدا ہے.پس سب سے پہلے تمہیں واقف کار اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم کرنا چاہیئے کہ اس لائن کے لئے تیاری کا صحیح طریق کونسا ہے اور اس کے بعد پوری محنت کے ساتھ اس میں لگ جانا چاہیئے.یہ تم جانتے ہی ہو کہ مقابلہ کے امتحان کے لئے مخصوص طور پر کوئی یونیورسٹی کی تعلیم نہیں ہوتی بلکہ سارا دارو مدار طالبعلم کی اپنی کوشش پر ہوتا ہے.البتہ ولایت میں بعض پرائیویٹ درسگا ہیں ایسی ہیں جو طالب علموں کو اس کے لئے تیاری کراتی ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیئے.علاوہ ازیں تمہیں چاہیئے کہ جاتے ہی برٹش میوزیم کے ممبر بن جاؤ.جس میں دنیا بھر کی بہترین کتب کا ذخیرہ موجود رہتا ہے.اس لائبریری سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے.اور گذشتہ سالوں کے پرچے دیکھ کر امتحان کے معیار اور طریق کا بھی پتہ لگانا چاہئے.اس کے علاوہ تمہیں بیرسٹری کی تعلیم کے لئے بھی کسی کالج میں داخل ہو جانا چاہیئے کیونکہ ایک تو یہ تعلیم مقابلہ کے امتحان میں مدد دے گی اور دوسرے اگر خدانخواستہ مقابلہ کے امتحان میں کامیابی کی صورت نہ ہوسکی تو یہ تعلیم ویسے بھی مفید رہے گی.بلکہ میں تو چاہتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو بیرسٹری کے علاوہ کوئی اور کورس بھی لے لو بشر طیکہ وہ امتحان مقابلہ کی تیاری میں روک نہ ہو.مثلاً بی.اے کا کورس یا اور اسی قسم کا کوئی کو رس لے سکتے ہو.غرض اپنے ولایت کے قیام سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو.تعلیم کا ایک ضروری حصہ اخبار بینی ہے جس کی تمہیں عادت ڈالنی چاہیئے.زمانہ حال کے معلومات کے لئے اخبار سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے اور ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے.اسی

Page 164

۱۵۷ مضامین بشیر طرح جو نئی نئی کتب شائع ہوں ان کا بھی مطالعہ رکھنا چاہیئے.رسائل کا مطالعہ بھی مفید ہوتا ہے.تقریر کی مشق کے لئے تم نے ہندستان میں میری نصیحت کی طرف توجہ نہیں کی.اب اگر خدا توفیق دے تو اس کمی کے بھی پورا کرنے کا خیال رکھنا.خرچ کے متعلق (۱۰) خرچ کے متعلق میں نے درد صاحب کو لکھا ہے وہ وہاں کے حالات کے ماتحت اندازہ لکھ کر بھیجوا دیں گے.جس کے مطابق انشاء اللہ تمہیں خرچ بھجوایا جاتا رہے گا.میں نے انہیں لکھا ہے کہ اندازہ لگاتے ہوئے درمیانہ درجہ کے شریفانہ معیار کو مدنظر رکھیں یعنی نہ ہی تو کوئی نا واجب تنگی ہو جو تکلیف کا موجب بنے اور نہ ہی ایسی ہی فراخی ہو جو بے جا آرام و آسائش کا باعث ہوا اور فضول خرچی میں شمار ہوا اور میں امید کرتا ہوں کہ تم بھی اپنے اخراجات میں اسی اصول کو مدنظر رکھو گے.سوسائٹی کے متعلق (۱۱) وہاں اپنی سوسائٹی کے انتخاب کے لئے تم کو یہ اصول مدنظر رکھنا چاہیئے کہ ایسے لوگوں میں ملا جاوے جو اپنی زبان اور عادت واطوار کے لحاظ سے شریف طبقہ کے لوگ سمجھے جاتے ہوں اور رذیل اور بداخلاق اور گندے اور عامیانہ زبان والے لوگوں سے قطعی پر ہیز کرنا چاہیئے.خط و کتابت کی تاکید (۱۲) ولایت کی ہندوستان کے ساتھ خط و کتابت سفت روزہ ہے.جس میں ایک عام ڈاک ہے اور ایک ہوائی ڈاک ہے.تمہیں چاہیئے کہ التزام کے ساتھ ہر ہفتہ اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہو.اگر ہوائی ڈاک کے ذریعہ خط لکھ سکو تو بہتر ہوگا ورنہ عام ڈاک میں خط بھجوا دیا کرو.حضرت صاحب کو با قاعدہ اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہو اور دعا کی تحریک کرتے رہو.اسی طرح حضرت والدہ صاحبہ ام المؤمنین کو بھی دعا کے واسطے لکھتے رہو.گاہے گا ہے سلسلہ کے دوسرے بزرگوں کو بھی دعا کے لئے لکھتے رہو.ڈاک کے خرچ کی کفایت اسی رنگ میں ہوسکتی ہے کہ ایک ہی لفافہ میں کئی لفافے بند کر کے بھجوا دیئے جائیں.اب میں موٹی موٹی باتیں جو تمہیں کہنا چاہتا تھا وہ کہہ چکا ہوں میرے دل میں بہت کچھ ہے مگر

Page 165

مضامین بشیر ۱۵۸ میں اس سے زیادہ تمہیں کہنا نہیں چاہتا اور بس اسی قدر نصیحت کے ساتھ تمہیں خدا کے سپر د کرتا ہوں.خدا تمہیں خیریت سے لے جائے اور خیریت سے رکھے اور ہر قسم کی مکروہات سے بچاتے ہوئے کامیاب اور مظفر و منصور واپس لائے.امین اللهم امين نوٹ : ایک بات جو میں لکھنا چاہتا تھا.مگر وہ لکھنے سے رہ گئی ہے.وہ وہاں کی عورتوں کے متعلق ہے.ولایت میں علاوہ اس کے کہ عورت بالکل بے پردہ اور نہایت آزاد ہے، آبادی کے لحاظ سے اس کی کثرت بھی ہے جس کی وجہ سے مردوں کو باوجود کوشش کے ان کے ساتھ ملنا پڑتا ہے اور اسی اختلاط کے بعض اوقات خراب نتائج نکلتے ہیں.میں عورت ذات کا مخالف نہیں ہوں.عورت اللہ کی ایک نہایت مفید اور بابرکت مخلوق ہے اور مرد کے واسطے رفاقت حیات اور اولاد کی تربیت کے نقطہ نگاہ سے عورت کا وجود ایک نہایت قابل قدر وجود ہے مگر غیر مرد عورت کا بے حجابانہ اختلاط اپنے اندر سخت فتنے کے احتمالات رکھتا ہے اور اسی لئے جہاں شریعت نے عورت کے وجود کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے وہاں یہ بھی تختی کے ساتھ حکم دیا ہے کہ غیر مرد و عورت ایک دوسرے کے ساتھ ملنے میں پردہ کی ان ان شرائط کو ملحوظ رکھیں.ان شرائط میں سے خاص طور پر قابل ذکر یہ ہیں کہ (الف ) غیر مرد وعورت ایک دوسرے کی طرف آنکھیں اٹھا کر نہ دیکھیں.(ب) وہ ایک دوسرے کے ساتھ خلوت میں دوسروں سے علیحدہ ہو کر نہ ملیں اور (ج) ان کا جسم ایک دوسرے کے ساتھ نہ چھوئے.ان شرائط کے علاوہ شریعت نے اور کوئی خاص شرط پردہ کے متعلق نہیں لگائی.پس میں امید کرتا ہوں کہ تم ولایت میں پردے کی ان شرطوں کی پابندی اختیار کرو گے اور دل میں خدا سے دعا بھی کرتے رہو گے کہ وہ تمہیں ہر قسم کے شر اور فتنہ سے محفوظ رکھے.اللہ تمہارا حافظ و ناصر ہو.( مطبوعه الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۳۳ء)

Page 166

۱۵۹ مضامین بشیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہر علم النفس کی حیثیت میں انبیاء کا ایک نمایاں امتیاز دنیا میں بہت لوگ علم النفس کے ماہر گزرے ہیں اور آج کل تو یہ علم خصوصیت سے بہت ترقی کر گیا ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اکثر لوگ جو اس علم کے عالم کہلاتے ہیں.ان کا علم صرف اصطلاحات کی واقفیت تک محدود ہوتا ہے اور اگر اصطلاحات کے علم سے اوپر گزر کر کبھی کسی کو حقیقی علم تک رسائی بھی ہوتی ہے تو وہ صرف اس فن کے علمی حصہ تک محدود رہتی ہے اور اس کا عملی حصہ جو حقیقہ مقصود ہے اس فن کے اکثر ماہرین کے دائرہ حصول سے باہر رہتا ہے اور صرف علم النفس پر ہی مصر نہیں.دنیا میں بہت سے علوم اسی نامرادی کی حالت میں پائے جاتے ہیں کہ لوگوں کا مبلغ علم اصطلاحات کی حد سے آگے نہیں جاتا.اور جن صورتوں میں وہ آگے جاتا بھی ہے وہ صرف علمی پہلو تک محد ودر ہتا ہے.اور علوم کے عملی استعمال تک بہت ہی کم لوگ پہو نچتے ہیں.منطق کے علم کو دیکھو تو ہزاروں لاکھوں اس علم کے ماہر نظر آئیں گے مگر ان کا علم اصطلاحات سے آگے نہیں جاتا اور ان کی عمر عزیز اصطلاحات کے رٹنے میں ہی صرف ہو جاتی ہے اور اس علم کا جو حقیقی مقصد ہے کہ جرح و تعدیل کا صحیح ملکہ پیدا ہو جائے اس سے اکثر لوگ محروم رہتے ہیں.بلکہ بسا اوقات منطقی لوگ اپنے دلائل میں زیادہ بودے اور سطحی پائے گئے ہیں کیونکہ اصطلاحات کی الجھن ان کے لئے حقیقت تک پہونچنے کے رستے میں روک بن جاتی ہے لیکن عام لوگوں کے مقابل پر اگر انبیاء کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ امتیا ز نمایاں صورت میں نظر آتا ہے کہ ان کے جملہ علوم حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں بلکہ وہ گو بعض اوقات علوم کی اصطلاحات سے بوجہ ظاہری تعلیم کی کمی کے واقف نہیں ہوتے مگر ہر علم جو اُن کے دائرہ کار سے تعلق رکھتا ہے اس کے اصل مقصد و مدعا یا بالفاظ دیگر اس علم کے گودے اور جو ہر سے انہیں پوری پوری واقفیت ہوتی ہے اور ان سے بڑھ کر کوئی شخص ایسے علم کا عالم مل نہیں سکتا.انبیاء اور علم النفس علم النفس بھی جو گویا انسان کے ذہنی اور قلبی تاثرات کا علم ہے انبیاء کے مخصوص علوم کا حصہ ہے

Page 167

مضامین بشیر 17.کیونکہ تربیت اور اصلاح کے کام سے اس علم کو خاص تعلق ہے بلکہ حق یہ ہے کہ شریعت کی داغ بیل زیادہ تر اسی علم کی بناء پر قائم ہوتی ہے لیکن جیسا کہ قرآن شریف ہمیں بتاتا ہے اور حالات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے انبیاء کے بھی مدارج ہیں جیسا جیسا کام کسی نبی کے سپرد ہونا ہوتا ہے.اسی کے مطابق اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے توفیق دی جاتی اور علوم کے دروازے کھولے جاتے ہیں.رسول کریم اور علم النفس ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ خاتم النبیئین تھے اور بخلاف گزشتہ انبیاء کے ساری دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور آپ کا پیغام ہرا سود واحمر کے نام تھا.اور آپ کی شریعت ہر قوم اور ہر زمانہ کے لئے بھیجی گئی تھی.اس لئے طبعا آپ کے اندر وہ قو تیں بھی ودیعت کی گئی تھیں اور وہ علوم آپ کو عطا ہوئے تھے جو اس عظیم الشان کام کے سرانجام دینے کے لئے ضروری تھے اور اس میں کسی نبی کی بہتک نہیں ہے کہ دوسرے انبیاء میں سے کسی کو وہ علوم نہیں دیئے گئے جو آپ کو دیئے گئے اور کوئی ان قوتوں کو ساتھ لے کر نہیں آیا جنہیں لے کر آپ مبعوث ہوئے.اسی لئے آپ نے فرمایا ہے.انا سَيَّدُ وَلَدِادَمَ وَلَا فَخُر ٢٠ میں آدم کی اولاد کا سردار ہوں مگر اس کی وجہ سے میں اپنے نفس میں کوئی تکبر نہیں پاتا اور جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل الرسل تھے تو ضروری تھا کہ علم النفس میں بھی جس کا جاننا فرائض نبوت کی ادائیگی کے ساتھ گویا لازم وملزوم کے طور پر ہے.آپ سب سے اول اور سب سے آگے ہوں اور ہم دیکھتے ہیں کہ حقیقہ ایسا ہی تھا چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا تعالیٰ نے تربیت اور اصلاح کا عظیم الشان اور عدیم المثال کام لینا تھا.اس لئے یہ علم آپ کے وجود میں اس طرح سرایت کئے ہوئے تھا جیسے ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا پانی میں ڈبو کر نکالنے کے بعد پانی سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور ایک قدرتی چشمے کے طور پر اس علم کی ابدی صداقتیں آپ سے پھوٹ پھوٹ بہتی تھیں.چونکہ میرے لئے اس مختصر مضمون میں اس موضوع کے سارے پہلوؤں کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے بلکہ کسی ایک پہلو کو بھی تفصیل کے ساتھ نہیں بیان کیا جاسکتا.اس لئے میں اس جگہ نہایت اختصار کے ساتھ صرف چند مثالیں آپ کے کلام میں سے بیان کروں گا جن سے یہ پتہ لگتا ہے کہ کس طرح آپ کی ہر بات علم النفس کے ابدی اصول کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نکلتی تھی.اور زیادہ اختصار کے خیال سے میں آپ کے کلام میں سے بھی صرف اس حصہ کو لوں گا جو روزمرہ کی گفتگو اور بے ساختہ نکلی ہوئی باتوں سے تعلق رکھتا ہے.

Page 168

171 مضامین بشیر رسول کریم کے کلام کا کمال میں بتا چکا ہوں کہ عام زبان میں علم النفس اس علم کا نام ہے جو انسانی ذہن کی تشریح اور اس کے کام سے تعلق رکھتا ہے.اس علم میں ذہنی اور قلبی تاثرات سے بحث کی جاتی ہے.اور یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان اپنے ماحول سے کس طرح اثر قبول کرتا ہے اور اس کے خیالات کی روئیں کس طرح اور کن اصول کے ماتحت چلتی ہیں.وغیر ذالک.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام میں یہ کمال تھا کہ اس میں مخاطب فرد یا جماعت کی ذہنی کیفیت کا پورا پور لحاظ رکھا جاتا تھا اور کسی فرد یا جماعت کے خیالات کی اصلاح کے لئے جو بہترین طریق ہو سکتا ہے اس کے مطابق آپ کی زبان مبارک گویا ہوتی تھی.اور اس لئے سوائے اس کے کہ مشیت ایزدی دوسری طرح ہو آپ کی ہر بات ایک اپنی میخ کی طرح سامع کے دل میں دھنس جاتی تھی اور آپ اپنے مخاطب کے خیالات کی رو کو غلط رستے پر جاتا دیکھ کر یا یہ سمجھ کر کہ اس کے غلط رستے پر پڑنے کا احتمال ہے فوراً ایسی بات فرماتے تھے جو سامع کی ذہنی رو کو کاٹ کر اس کا رُخ بدل دیتی تھی.ایسی مثالیں آپ کی زندگی میں ہزاروں ملتی ہیں بلکہ آپ کی ساری زندگی ہی اس کی مثال ہے.مگر میں اس جگہ بطور نمونہ صرف چند مثالیں بیان کر دینے پر اکتفا کروں گا.وما توفیقی الا بالله.جنگ بدر کے موقع کی مثال جنگ بدر کے موقع پر جب کہ ابھی مسلمان لشکر کفار کے سامنے نہیں ہوئے تھے اور اکثر مسلمان اس بات سے بے خبر تھے کہ کفار کا ایک جرار لشکر مکہ سے نکل کر آ رہا ہے.اور صرف اس خیال سے گھر سے نکلے تھے کہ قافلہ سے سامنا ہو گا.اس وقت بعض صحابہ نے کفار مکہ کا ایک سپاہی جو انہیں ایک چشمہ پر مل گیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پکڑ کر پیش کیا.آپ نے اس سے لشکر کفار کے متعلق بعض سوالات کئے اور پھر پوچھا کہ رؤساء مکہ میں سے کون کون ساتھ ہے.اس نے کہا عتبہ شیبہ امیہ.نظر بن حارث.عقبہ.ابو جہل.ابو البختری.حکیم بن حزام وغیرہ سب ساتھ ہیں.یہ لوگ چونکہ قبیلہ قریش کے روح رواں تھے اور نہایت بہادر اور جری سپہ سالار سمجھے جاتے تھے ان کے نام سُن کر اور یہ معلوم کر کے کہ مکہ کے سارے نامی لوگ مسلمانوں کے استیصال کے لئے نکل آئے ہیں.بعض کمزور صحابہ کسی قدر گھبرائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو بے ساختہ فرمایا - هذه مكة قد القت اليكم اخلاف كبدها.لومکہ نے تو تمہارے سامنے

Page 169

مضامین بشیر ۱۶۲ اپنے جگر گوشے نکال کر رکھ دیئے ہیں.یعنی تم خوش ہو کہ خدا نے تمہارے لئے اتنا بڑا شکار جمع کر دیا ہے.صحابہ کے خیالات کی رو فوراً پلٹا کھا گئی کہ یہ تو کوئی گھبرانے کا موقع نہیں ہے بلکہ خدا نے اپنے وعدوں کے مطابق ان روساء کفار کو ہمارے ہاتھوں تباہ کرنے کے لئے یہاں جمع کر دیا ہے اور اس طرح وہی خبر جو کمزور طبیعت مسلمانوں کے لئے پریشانی اور خوف کا باعث بن سکتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک بے ساختہ نکلی ہوئی بات سے ان کے لئے خوشی اور تقویت کا باعث بن گئی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فقرہ کسی غور وفکر کے نتیجہ میں نہیں فرمایا بلکہ ادھر آپ نے مکہ کے سپاہی کے مونہہ سے یہ الفاظ سنے اور صحابہ کے چہروں پر نظر ڈال کر گھبراہٹ کے آثار دیکھے اور اُدھر بے ساختہ طور پر آپ کے مونہہ سے یہ لفظ نکل گئے.جیسا کہ ایک تیرا پنی کمان کے چلہ سے نکل جاتا ہے اور اس بات کے نتیجہ میں مسلمانوں کے خیالات کی رو پلٹا کھا کر فوراً اپنا رخ بدل گئی.فتح مکہ کے موقع کی مثال فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابوسفیان رئیس مکہ کی دلداری منظور تھی.اور آپ نے اس کے ساتھ اس بارے میں بعض وعدے بھی فرمائے تھے.جب اسلامی لشکر نہایت درجہ شان وشوکت کے ساتھ اپنے پھر میرے لہراتا ہوا مکہ کی طرف بڑھا اور ابوسفیان ایک اونچی جگہ پر بیٹھا ہوا اس تزک واحتشام کو دیکھ رہا تھا.تو اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے حضرت سعد بن عبادہ رئیس انصار نے جو اپنے قبیلہ کے سردار اور علم بردار تھے ابوسفیان کو سُنا کر کہا کہ آج مکہ والوں کی ذلت کا دن ہے.ابوسفیان کے دل میں یہ بات نشتر کی طرح لگی.اس نے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا : - ” آپ نے سنا سعد نے کیا کہا ہے.سعد کہتا ہے کہ آج ملکہ کی ذلت کا دن ہے.“ آپ نے فرمایا : - سعد نے غلط کہا.آج تو مکہ کی عزت کا دن ہے.سعد سے سرداری کا جھنڈا لے کر اس کے بیٹے کے سپر د کر دیا جائے.‘۲۲ یہ ایک بے ساختگی کا کلام تھا.مگر دیکھو تو اس میں علم النفس کی کتنی ابدی صداقتیں مخفی ہیں.پہلی بات یہ ہے کہ مکہ والوں کی ذلت کے فقرہ سے یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں داخل ہوں تو مکہ والوں کی یہ ذلت ہے حالانکہ مکہ خواہ مفتوح ہو جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے آ رہا ہے.تو اس کی عزت ہی عزت ہے.اور پھر مکہ کا مقام ایسا ہے کہ

Page 170

۱۶۳ مضامین بشیر اسے کسی صورت میں ذلت سے منسوب نہیں کیا جاسکتا.دوسرے سعد کے فقرہ سے اور اس فقرہ کے کہنے کے انداز سے مسلمانوں کے دلوں میں ابوسفیان کے متعلق تحقیر کے جذبات پیدا ہو سکتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منشاء اس کی دلداری کرنا تھا.اس لئے آپ نے فوراً ابوسفیان کی شکایت پر سعد کو تنبیہ فرمائی.اور مسلمانوں کے خیالات کو غلط رستے پر پڑنے سے روک لیا.تیسرے آپ نے یہ دیکھتے ہوئے کہ سعد کے مونہہ سے یہ بات بے اختیار نکلی ہے اور جان بوجھ کر نہیں کہی گئی اور پھر یہ سوچتے ہوئے کہ سعد اپنے قبیلہ کا سردار ہے.حتی الوسع اس کی تحقیر بھی نہیں ہونی چاہیئے.یہ حکم تو دیا کہ اس کے ہاتھوں سے سرداری کا جھنڈا لے لیا جائے مگر ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ یہ جھنڈا اس سے لے کر اس کے بیٹے کے سپر د کر دیا جائے تاکہ سعد کی بھی دلداری رہے اور کسی دوسرے کو بھی اس پر طعن کا موقع نہ پیدا ہو.غور کرو.ان مختصر سے الفاظ میں جو بے ساختہ آپ کے مونہہ سے نکلے ، آپ کی نظر کہاں کہاں تک پہنچی.گویا ایک آن واحد میں آپ کے الفاظ نے کئی ذہنی دروازے جو نقصان دہ تھے ، بند کر دیئے اور کئی ذہنی دروازے جو نفع مند تھے وہ کھول دیئے.غزوہ حنین کے موقع کی مثال غزوہ حنین کے بعد جب غنائم کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ والوں کی تالیف قلب کے خیال سے انہیں زیادہ حصہ دیا.بعض جو شیلے اور کم فہم انصار کو اس پر شکایت پیدا ہوئی اور انہوں نے کہا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے مگر انعام مکہ والے لے گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بات پہونچی تو آپ نے انصار کو ایک علیحدہ جگہ میں جمع کیا.اور ان سے کہا کہ مجھے ایسی ایسی خبر پہونچی ہے.کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو سکے کہ لوگ تو بھیڑ بکری اور اونٹ لئے جاتے ہیں مگر تمہارے ساتھ خدا کا رسول جا رہا ہے.انصار کی بے اختیار چیخیں نکل گئیں اور روتے روتے ہچکی بندھ گئی.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم میں سے بعض نادان نو جوانوں کے مونہہ سے یہ فقرہ نکل گیا تھا.ہم خدا کے رسول کو لیتے ہیں.ہمیں دنیا کے اموال کی رغبت نہیں.آپ نے فرمایا : - اے انصار کے گروہ.اب تم مجھے جنت میں حوض کوثر پر ہی ملنا.‘۲۳ علم النفس کے ماتحت اس واقعہ کے پہلے حصہ کی تشریح واضح ہے.کسی نوٹ کی ضرورت نہیں مگر آپ کا آخری فقرہ کچھ تشریح چاہتا ہے.یہ ایک بہت سادہ اور صاف فقرہ ہے.مگر علم النفس کے سانچے میں کس طرح ڈھل کر نکلا ہے.آپ کا منشاء یہ تھا کہ تم میں سے بعض نے دنیا کا لالچ کیا ہے.

Page 171

مضامین بشیر ۱۶۴ اب اس کی پاداش میں تمہیں دنیا میں اس خدائی انعام سے محرومی رہے گی جو دنیا کے انعاموں میں سب سے بڑا انعام ہے.یعنی حکومت وسلطنت.لیکن یہ نہ سمجھو کہ تمہارا اخلاص اور تمہاری قربانیاں رائگاں گئیں.بلکہ اس کے لئے تم مجھے آخرت میں حوض کوثر پر آکر ملنا.وہاں تم آخرت کے انعاموں سے مالا مال کئے جاؤ گے.اور خدا تمہاری سب کسریں نکال دے گا مگر دنیا میں حکومت واقتدار کا انعام اب تمہیں نہیں ملے گا.گویا اس چھوٹے سے فقرہ میں آپ نے انصار کے دل میں یہ سبق پختہ طور پر جما دیا کہ اگر قومی طور پر مضبوط ہونا چاہتے ہو اور ترقی کرنا چاہتے ہو تو اپنے کمزور ساتھیوں کو بھی اپنے ساتھ سنبھال کر چلو ورنہ ایک حصہ کا وبال دوسرے حصہ کو بھی اٹھانا پڑے گا.اور اسی فقرہ میں آپ نے یہ بھی بتا دیا کہ تم نے میرا دامن پکڑ کر دنیا کی نعمتوں کا لالچ کیا اب تمہیں دنیا کی نعمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھنا چاہیئے مگر چونکہ خیالات کی اس رو کے ساتھ فوراً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ گویا انصار کی جماعت خدائی انعامات سے محروم رہی.اس لئے آپ نے ساتھ ہی اس کا ازالہ فرما دیا کہ نہیں.ایسا نہیں بلکہ خدا انہیں آخرت میں انعامات کا وارث بنائے گا.اور چونکہ اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے اس لئے اگر آخرت میں انعامات مل جائیں تو دنیا کی محرومی چنداں قابل لحاظ نہیں ہے.آپ کے اس فقرہ میں یہ مزید لطافت ہے کہ گو آپ کا اصل منشاء اس موقع پر انصار کو تنبیہ کرنا تھا.لیکن آپ نے انعام کے حصہ کو تو صراحت کے ساتھ لفظوں میں بیان فرما دیا.مگر سزا اور محرومی کے مفہوم کو لفظوں میں نہیں بیان کیا.بلکہ بین السطور رکھا یعنی یہ نہیں فرمایا کہ اب تمہیں دنیا میں حکومت کا انعام نہیں ملے گا.بلکہ صرف اس قدر فرما کر خاموش ہو گئے کہ اچھا اب تم مجھے آخرت میں ملنا مگر چونکہ یہ ایک تو بیخ کا موقع تھا آپ نے یہ بات نہیں کھولی کہ آخرت میں تم خدائی انعامات سے بہت بڑا حصہ پاؤ گے.بلکہ صرف اس قدر فرمانے پر اکتفا کی.کہ مجھے حوض کوثر پر ملنا.یعنی اس حوض پر میرے پاس آنا.جہاں ہر انعام اور ہر خوبی اپنی انتہائی کثرت میں پائی جائے گی.جس میں اشارہ یہ تھا کہ دنیا کی محرومی کی تلافی آخرت کے انعاموں کی کثرت سے ہو جائے گی.یہ صحرائے عرب کے اس امی نبی کا کلام ہے جو ظاہری علم کے لحاظ سے ابجد تک سے بے بہرہ تھا.ایک اور موقع کی مثال مشیت ایزدی کے ماتحت ایک جنگ میں مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی اور کئی صحابی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے.بعد میں یہ لوگ شرم کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہیں آتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اُن کو مسجد کے کونے میں منہ چھپائے تاریکی میں بیٹھے ہوئے دیکھا.

Page 172

ܬܪܙ مضامین بشیر تو پوچھا تم کون ہو.وہ شرم سے پانی پانی ہو رہے تھے رو کر عرض کیا.يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ الْفَرَّرُونَ ، ہم بھگوڑے ہیں.یا رسول اللہ آپ نے بے ساختہ فرمایا.بَلْ انْتُمُ الْعَكَارُونَ.۲۴ نہیں نہیں تم بھگوڑے نہیں ہو.تم تو دوبارہ حملہ کے لئے تیار بیٹھے ہو.اللہ اللہ کیا شان ہے.میدان جنگ سے بھاگے ہوئے سپاہی ندامت میں ڈوبے جا رہے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ہم آپ کو کیا مونہہ دکھا ئیں.ہم تو میدان میں پیٹھ دکھا چکے ہیں.آپ دیکھتے ہیں.کہ ان کی ہمتیں گری جاتی ہیں.فورا فرماتے ہیں کہ تم بھگوڑے کہاں ہو تم تو دوبارہ حملہ کرنے کے لئے پیچھے ہٹ آئے ہو.میرے ساتھ ہو کر پھر جنگ کے لئے نکلو گے اور اس ایک لفظ سے گرے ہوئے پست ہمت سپاہی کو اس کی پستی سے اٹھا کر کسی بلندی پر پہونچا دیتے ہیں ! مطبوعه الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۳۳ء)

Page 173

مضامین بشیر ۱۶۶ رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ الحمد للہ کہ مورخہ ۱۹ دسمبر ۱۹۳۳ء سے رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہو گیا ہے.یہ مہینہ نہایت درجہ مبارک ہے.اور اس کے اوصاف میں بہت سی قرآنی آیات اور احادیث وارد ہوئی ہیں.چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ رمضان کے ذکر میں فرماتا ہے :- وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَان ۲۵ یعنی رمضان کے مہینہ میں میں اپنے بندوں سے قریب ہوجاتا ہوں اور ان کی 66 دعاؤں کو خاص طور پر سنتا ہوں.“ پس احباب کو چاہیئے کہ اس مبارک مہینہ کی برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.سوائے کسی شرعی عذر مثلاً سفر اور بیماری وغیرہ کے روزہ ہر گز ترک نہ کیا جائے.اور روزے کے ایام کو خاص طور پر تلاوت قرآن کریم اور ذکر الہی اور نوافل میں گزارہ جائے.اور ہر قسم کے مناہی اور لغویات سے کلی طور پر پر ہمیز کیا جائے.نیز رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر نماز تہجد کا اہتمام کیا جائے اور اپنی اپنی جگہ پر نماز تراویح کا انتظام کر کے قرآن شریف ختم کرنے کی کوشش کی جائے.علاوہ ازیں حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مہینہ میں خاص طور پر صدقہ و خیرات پر زور دیتے تھے.اس لئے احباب کو بھی اس سنت کے ماتحت رمضان میں حتی الوسع صدقہ وخیرات کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیئے.غرض اس ماہ میں دینی مشاغل اور اعمال صالحہ کی طرف خاص توجہ ہونی چاہیئے.اور خصوصیت کے ساتھ دعاؤں پر بہت زور دیا جائے اور اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی اور جماعت کی اصلاح اور بہبودی کے لئے دعائیں کی جائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر درود بھیجنے کے علاوہ حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے لئے بھی دعائیں کی جائیں.اس کے علاوہ ایک اور بات جس کی طرف بعض گزشتہ رمضانوں میں بھی توجہ دلائی جاتی رہی ہے یہ ہے کہ ہر احمدی بھائی کو چاہیئے کہ اس رمضان میں اپنی کمزوریوں میں سے کسی ایک کمزوری کے دور کرنے کا عہد باندھیں اور پھر پورے عزم اور استقلال کے ساتھ اس عہد کو نبھا ئیں.حضرت مسیح 0

Page 174

مضامین بشیر موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیئے کہ ہر رمضان میں اپنی کسی ایک کمزوری کے متعلق یہ عہد کر لیا کرے کہ آئندہ میں اس سے بچوں گا اور پھر اپنی پوری کوشش کے ساتھ خدا سے دعا کرتے ہوئے اس سے ہمیشہ کے لئے مجتنب ہو جائے.اس کے متعلق کسی سے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں.صرف اپنے نفس کے ساتھ خدا کو گواہ رکھ کر عہد باندھا جائے.البتہ اگر ایسے احباب جو اس رمضان میں اس نسخہ کو استعمال فرما ئیں.بذریعہ خط مجھے بھی اطلاع بھجوا دیں تو میں انشاء اللہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ان کے اسماء پیش کر کے ان کے لئے خاص دعا کی تحریک کروں گا مگر اس اطلاع میں بھی سوائے کسی بدیہی بات کے اپنی کمزوری کا ذکر نہ کیا جائے کیونکہ ایسا اظہار نا جائز ہے بلکہ صرف اس بات کی اطلاع بھجوائی جائے کہ ہم نے اس تحریک کے ماتحت اس رمضان میں اپنی ایک کمزوری کے متعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد باندھا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ احباب میری اس تحریک کی طرف خاص توجہ فرما کر عنداللہ ماجور ہوں گے.( مطبوعه الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۳۳ء)

Page 175

مضامین بشیر ۱۶۸ حوالہ جات ۱۹۲۷ء، ۱۹۲۸، ۱۹۲۹، ۱۹۳۲۶ء،۱۹۳۳ء ا.شمائل الترمذى باب ماجاء فى خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم ۲.مسند احمد بن حنبل جلد ۲ ، مسند ابی هر میره - جامع الترمذی ابواب المناقب باب فضل ازدواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم.۴.صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بداء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۵ سنن ابوداؤ د كتاب الجهاد - باب فی فدالاسير بالمال.۶.مسند احمد بن حنبل جلد ۷.حدیث نمبر ۲۴۳۴۳ ے صحیح البخاری کتاب بدء الوحى ، جامع الترمذى باب الـذهــد باب ماجاء في قصر الامل - التحریم: ۷ و صحیح البخاری کتاب المغازی باب حدیث الافک ۱۰ صحیح البخاری کتاب العیدین باب الحراب والدرق يوم العيد - ۱۱.سنن ابوداؤ د كتاب الجهاد باب تت.۱۲.جامع الترمذی ابواب المناقب باب فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ١٣.سنن النسائى كتاب الطهارة باب مواكلة الحائض والشرب من سؤرها.۱۴.التین : ۵ ۱۵.سنن ابن ماجه كتاب الوصايا باب وهل اوصی رسول الله صلى الله عليه وسلم - ۱۶ صحیح البخاری کتاب المرضی باب تمنى المريض الموت - ا الطبقات الكبرى الابن سعد - جلد الثاني ذکر تقبیل ابی بکر صدیق.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد وفاته

Page 176

۱.المجادلة: ٢٢ ۱۶۹ ۱۹.جامع الترمذی کتاب العلم باب ماجاء في فضل الفقة على العبادة - ۲۰.سنن ابن ماجه ابواب الزهد ذكر الشفاعة - ٢١- البداية والنهاية جلد ۳ صفحه ۲۶۵ ۲۲ - اسعد الغابه جلد نمبر ۲ صفحه ۳۰۰ - ۳۰۱ ذکر سعد بن عباد لا طبع بیروت مضامین بشیر ۲۳ صحیح البخاری کتاب باب المناقب الانصار.۸.۱.قول النبي صلى الله عليه وسلم اصبرو احتى تلقوني على الحوض ۲۴.جامع الترمذی ابوب الجہاد باب ما جاء في الذار من الزحف - ۲۵ - البقره: ۱۸۷

Page 177

+71 مضامین بشیر

Page 178

121 ۱۹۳۴ء مضامین بشیر رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ ابتداء رمضان میں میں نے اخبار کے ذریعہ احباب کو توجہ دلائی تھی کہ رمضان کے مبارک مہینہ کی برکات سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ارشاد کے ماتحت یہ بھی تحریک کی تھی کہ احباب رمضان میں اپنی کسی کمزوری کے ترک کرنے کا عہد باندھیں اور اس طرح اصلاح النفس کے لئے ایک عملی قدم اٹھا کر عنداللہ ماجور ہوں.الحمد للہ کہ میری اس تحریک کے نتیجہ میں بعض احباب نے اس قسم کا عہد باندھا ہے اور مجھے اس سے اطلاع بھی دی ہے.گو یہ تعداد زیادہ نہیں مگر ایک نیک تحریک کا جس حد تک بھی نتیجہ نکلے غنیمت ہے.میں ایسے احباب کے اسماء خاص دعا کی تحریک کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اور جب رمضان کے آخری دن نماز عصر کے بعد دعا ہو گی.اس میں بھی انشاء اللہ حضرت کی خدمت میں دوبارہ عرض کروں گا.مگر میں اس اعلان کے ذریعہ دوسرے احباب سے بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی وقت ہے وہ بھی اس تحریک سے فائدہ اٹھائیں اور عنداللہ ماجور ہوں.علاوہ ازیں آج سے رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا ہے جو رمضان کا مبارک ترین حصہ سمجھا گیا ہے.احباب کو چاہیئے کہ ان ایام میں خاص طور پر ذکر الہی اور نوافل اور دعاؤں پر زور دیں اور اپنی دعاؤں میں اسلام اور سلسلہ کی ترقی کو خصوصیت سے ملحوظ رکھیں اور ہر دعا کو تحمید اور درود سے شروع کریں کیونکہ ان کی قبولیت کا یہ ایک بہت مؤثر ذریعہ ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.مطبوع الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۳۴ء)

Page 179

مضامین بشیر ۱۷۲ ایک نہائت ضروری اعلان دعا اختتام درس رمضان جیسا کہ احباب کو معلوم ہے قادیان میں رمضان کے مہینہ میں مسجد اقصیٰ میں قرآن شریف کا درس ہو ا کرتا ہے اس درس کے اختتام پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قرآن شریف کی آخری دو سورتوں کا درس دے کر دُعا فرمایا کرتے ہیں.اس سال یہ دُعا انشاء اللہ تعالیٰ ۲۹ رمضان مطابق ۱۶ جنوری ۱۹۳۴ء بروز منگل قبل غروب آفتاب ہو گی.یعنی حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بعد نماز عصر پہلے درس دیں گے اور پھر دُعا فرمائیں گے.بیرونی احباب اس وقت اپنی اپنی جگہ پر دُعا کا انتظام کر کے اس دُعا میں شریک ہو سکتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز عموماً یہ دعا بہت لمبی فرمایا کرتے ہیں اور قادیان کے ارد گرد ونواح کے احباب اس میں شریک ہوتے ہیں اور خدا کے فضل سے یہ وقت ایک خاص رقت اور سوز کا وقت ہوتا ہے.بیرونی جماعتوں کو چاہیئے کہ حتی الوسع اپنی اپنی جگہ پر انتظام کر کے اس مبارک موقع میں شرکت اختیا ر کریں.( مطبوعه الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۳۴ء)

Page 180

۱۷۳ مضامین بشیر ہندوستان کے شمال مشرق کا تباہ کن زلزلہ اور خدا کے زبر دست نشانوں میں سے ایک تازہ نشان ہر مامور مرسل کے ساتھ نشانات بھیجے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی یہ قدیم سنت ہے کہ جب وہ دنیا کی اصلاح کے لئے اپنے کسی بندے کو مامورفر ما تا ہے تو اس کی تائید کے لئے اپنی طرف سے غیبی نشانات بھی ظاہر کرتا ہے تا کہ حق و باطل میں امتیاز ہو جائے اور سعید روحیں صداقت کی طرف راستہ پانے میں روشنی حاصل کریں.یہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک رحمت کے نشان اور دوسرے قہری نشان.ہر چند کہ ہر مامور من اللہ خدا کی طرف سے اصل میں رحمت کا پیغام لے کر ہی آتا ہے اور خود اس کا وجود ایک مجسم رحمت ہوتا ہے لیکن چونکہ دنیا میں ہر مامور کا انکار کیا جاتا ہے.جیسا کہ فرمایا : - يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَا دِمَايَا تِيْهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وَنَا یعنی اے افسوس لوگوں پر ان کی طرف کوئی رسول نہیں آتا مگر یہ اس کا انکار کرتے اور اس کے دعوے کو ہنسی کا نشانہ بنا لیتے ہیں.“ اس لئے لازماً ہر مامور ومرسل کو رحمت کے نشانوں کے ساتھ ساتھ قہر اور عذاب کے نشان بھی دیئے جاتے ہیں لیکن چونکہ خدا کی رحمت بہر حال اس کے عذاب پر غالب ہے.اس لئے جہاں رحمت کے لئے کوئی حد بندی نہیں، وہاں خدا تعالیٰ نے خود اپنے عذاب کے لئے ازل سے چند اصولی قاعدے اور حد بندیاں مقرر کر رکھی ہیں.چنانچہ فرماتا ہے :- وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُ ونَ.وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا.یعنی اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کو اس حالت میں عذاب نہیں دیتا کہ وہ اپنی غلطیوں کو

Page 181

مضامین بشیر ۱۷۴ محسوس کر کے تو بہ اور استغفار میں لگی ہوئی ہو اور نہ ہی ہم کبھی کوئی سخت عذاب نازل کرتے ہیں.جب تک کہ ہم اپنی طرف سے کوئی رسُول مبعوث نہ کر لیں“.اس اصولی قاعدے کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ اگر کوئی قوم اپنی شوخیوں اور بداعمالیوں میں حد سے گزرنے لگتی ہے.تو وہ پہلے اس میں ایک مامور کو مبعوث کر کے تو بہ اور اصلاح کا موقع دیتا ہے اور اگر وہ اپنی اصلاح نہیں کرتی تو پھر خدا کی طرف سے وہ عذاب کا نشانہ بنائی جاتی ہے.آیت مندرجہ بالا کے ماتحت بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مامور ومرسل کی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ دُنیا کے مختلف حصوں میں جو کسی وجہ سے عذاب کے مستحق ہو چکے ہوتے ہیں.اپنے قہری نشانوں کی تجلی دکھاتا ہے تا کہ دنیا کو خواب غفلت سے بیدار کر کے اپنے مامور کی طرف متوجہ کرے.ایسے عذابوں کا باعث مامور کا انکار نہیں ہوتا مگر وہ مامور کے لئے ایک نشان قرار پاتے ہیں اور مشیت الہی ان کو اس وقت تک روکے رکھتی ہے.جب تک کہ رسول مبعوث نہ ہولے اور بسا اوقات اللہ تعالیٰ ایسے عذابوں کی خبر قبل از وقت اپنے مامور کو دے کر اس کی صداقت کے لئے ایک مزید شہادت پیدا کر دیتا ہے.الغرض مامورین کی بعثت کے بعد رحمت کے نشانوں کے ساتھ قہری نشانات کا ظہور بھی خدائی سنت میں داخل ہے.یہ قہری نشانات ایسے علاقوں میں بھی ظاہر ہوتے ہیں.جہاں مامور کا نام پہنچ چکا ہوتا ہے اور ایسے علاقوں میں بھی جہاں مامور کا نام ابھی تک نہیں پہونچا ہوتا.وہ ایسے ملکوں میں بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں جہاں خدا کے نزدیک مامور کے متعلق اتمام حجت ہو چکا ہوتا ہے اور ایسے ملکوں میں بھی جہاں ابھی اتمام حجت نہیں ہو چکا ہوتا مگر یہ جملہ عذاب خواہ کسی باعث اور کسی وجہ سے ہوں ، وہ مامور کے لئے خدا کی طرف سے ایک نشان ہوتے ہیں.اور بسا اوقات اللہ تعالیٰ ان کے متعلق اپنے مامور کو پہلے سے خبر دے کر اس نشان کی عزت کو دوبالا کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ نشانات کا وعدہ اسی قدیم سنت کے مطابق جس کی مثالیں دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم میں پائی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے جب اس زمانہ میں دُنیا کی اصلاح کے لئے حضرت میرزاغلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود جری اللہ فی حلل الا انبیاء کو آج سے قریباً پچاس سال پیشتر مبعوث فرمایا اور آپ کو ہر قوم کے نبی کا نام دے کر تمام اقوامِ عالم کے لئے آخری زمانے کا موعود مصلح قرار دیا تو آپ کے ساتھ ساتھ رحمت کے نشانوں کے پیچھے پیچھے عذاب کے نشانوں کی بھی خبر دی.چنانچہ آپ کی زندگی اور آپ

Page 182

۱۷۵ مضامین بشیر کی جماعت کی زندگی رحمت کے نشانوں سے معمور ہے اور قیامت تک کے لئے خدا کا وعدہ ہے کہ وہ آپ پر ایمان لانے والوں اور آپ کی تعلیم پر چلنے والوں کو آسمان اور زمین کی نعمتوں سے مالا مال کرے گا اور ان پر رحمت کی بارشیں برسائے گا اور ان کو ایک پتیلی اور نازک کونپل کی طرح زمین سے نکال کر آہستہ آہستہ ایک عظیم الشان درخت بنا دے گا.جس کی جڑیں زمین کی پاتال میں قائم ہوں گی اور شاخیں آسمان سے باتیں کریں گی اور اس درخت کے مقابلہ پر جو دراصل وہی درخت ہے جس کا بیج آج سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بویا تھا.دنیا کی دوسری روئید گیاں گھاس بات سے زیادہ حیثیت نہیں رکھیں گی مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اور قدیم سے یہی ہوتا چلا آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انکار بھی مقدر تھا.چنانچہ ابتدائے دعوئی میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے یہ الہام فرمایا کہ : - میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.آخری زمانہ کے ساتھ زلازل کی خصوصیت یہ زور آور حملے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے لئے مقدر تھے.مختلف صورتوں میں آنے والے تھے مگر قرآن شریف اور کتب سابقہ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کا ایک خاص قہری نشان زلزلوں کی صورت میں ظاہر ہونا تھا.چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام آخری زمانہ کے متعلق اپنی آمد ثانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس زمانہ میں قوم قوم پر اور بادشاہت بادشاہت پر چڑھ آوے گی اور کال اور مری پڑے گی اور جگہ جگہ بھونچال آدیں گے.۵ اسی طرح قرآن شریف آخری زمانہ کے عذابوں کا ذکر کرتا ہو ا فر ماتا ہے :- يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاحِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَّاجِفَةٌ.اَبْصَارُهَا خَا شِعَةٌ - ا یعنی اللہ تعالیٰ فرشتوں کی قسم کھا کر جو ایسے امور کے انتظام کے واسطے مامور ہیں ، فرماتا ہے کہ :- اس وقت زمین زلزلوں کے دھکوں سے لرزہ کھائے گی اور ایک کے بعد دوسرا زلزلہ آئے گا.جس سے لوگوں کے دل دھڑ کنے لگیں گے اور آنکھیں خوف اور

Page 183

مضامین بشیر ہیبت کے مارے اوپر نہیں اٹھ سکیں گی.“ 127 اسی کے مطابق احادیث میں بھی قرب قیامت کی علامت کے ذکر میں صراحت کے ساتھ یہ بیان ہوا ہے کہ اس زمانہ میں بڑی کثرت کے ساتھ زلزلے آئیں گے.کے اسی طرح جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا کی طرف سے حکم پا کر دعوی کیا تو آپ کے ابتدائی الہاموں میں آئندہ آنے والے زلزلوں کی خبر تھی.چنانچہ ۱۸۸۳ء کا ایک الہام ہے کہ : - فَبَرَّاهُ اللهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيْهَا.أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدُهُ فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَل جَعَلَهُ دَكَّا وَاللَّهُ مُؤْهِنُ كَيْدِ الْكَافِرِينَ».یعنی خدا اپنے اس مامور مرسل کی ان تمام باتوں سے بریت ظاہر کرے گا جو مخالف لوگ اس کے متعلق کہیں گے.کیونکہ وہ خدا کی طرف سے عزت یا فتہ ہے.کیا مخالفوں کے حملوں کے مقابلہ پر اللہ اپنے اس بندہ کے لئے کافی نہیں ہے.جب خدا اپنی تجلی پہاڑ پر کرے گا تو اس کو پارہ پارہ کر دے گا اور منکرین کی ساری تدبیروں کو خدا تعالیٰ خاک میں ملا دے گا.پھر اسی براہین احمدیہ میں دوسری جگہ یہ الہام درج ہے کہ.فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَل جَعَلَهُ دَكَّا.قُوَّةُ الرَّحْمَنِ لِعُبَيْدِ اللَّهِ الصَّمَدِ.یعنی وہ زمانہ آتا ہے کہ ” جب خدا پہاڑ پر اپنی تجلی ظاہر کرے گا تو اسے پارہ پارہ کر دے گا.یہ کام خدا تعالیٰ کی خاص قدرت سے ہوگا جسے وہ اپنے بندے کے لئے ظاہر کرے گا.“ ۱۹۰۵ء کا تباہ کن زلزلہ اس کے بعد جب خدا کے علم میں زلازل کا زمانہ قریب آیا تو خدا تعالیٰ نے زیادہ صراحت اور زیادہ تعیین کے ساتھ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر الہامات نازل فرمائے.چنانچہ سب سے پہلے اُس ہیبت ناک اور تباہ کن زلزلہ کی خبر دی گئی جو ۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو شمال مغربی ہندوستان میں آیا جس سے کانگڑہ کی آباد وادی خدائی عذاب کا ایک عبرت ناک نشانہ بن گئی.چنانچہ

Page 184

122 مضامین بشیر پہلا الہام اس بارے میں دسمبر ۱۹۰۳ء میں ہوا.جو یہ تھا.زلزلہ کا ایک دھگا.۱۰ یعنی عنقریب ایک زلزلہ کا حادثہ پیش آنے والا ہے.اس کے بعد یکم جون ۱۹۰۴ء کو الہام ہوا.عَفَتِ الذِيَارُ مُحَلُّهَا وَمُقَامُهَا.یعنی جس زلزلہ کی خبر دی گئی ہے.وہ بہت سخت ہوگا اور اس سے ” ملک کے ایک حصہ میں عارضی رہائش کے مکان اور نیز مستقل رہائش کے مکان منہدم ہو کر مٹ جائیں گے“.اس الہام میں زلزلہ کی تباہی کے علاوہ کمال خوبی کے ساتھ اس جگہ کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا تھا جہاں اس زلزلہ کی سب سے زیادہ بختی محسوس ہوئی تھی.چنانچہ مُحَلَّهَا وَمُقَامُهَا کے الفاظ صاف طور پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس زلزلہ کی زیادہ تباہی ایسے علاقہ میں آئے گی جہاں عارضی رہائش اور مستقل رہائش دونوں قسم کی بستی ہوگی اور ظاہر ہے کہ وہ ایسا پہاڑ ہی ہوسکتا ہے.جہاں ایک طرف تو مستقل آبادی ہو اور دوسری طرف وہاں گرمی گزارنے کے لئے لوگ موسم گرما میں عارضی طور پر بھی جا کر رہتے ہوں.چنانچہ کانگڑہ کے ضلع میں دھرم سالہ اور پالم پور وغیرہ کے صحت افزا مقامات بالکل اسی نقشہ کے مطابق ہیں.گویا زلزلہ سے قریباً سوا سال قبل جبکہ اس زلزلہ کا وہم و گمان بھی نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح کو آنے والے زلزلہ کی خبر دے دی.اور پھر زلزلہ سے دس ماہ قبل اس کی خطرناک تباہی سے اطلاع دی.اور پھر اس کی جگہ بھی بتادی اور اس کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے مندرجہ بالا الہام سے صرف چند دن بعد یعنی ۸ جون ۱۹۰۴ء کو پھر دوبارہ الہام کیا کہ : - عَفَتِ الذِيَارُ مَحَلُّهَا وَمُقَامُهَا إِنِّى أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ.١٢ یعنی ایک حصہ ملک کے عارضی رہائش کے مکانات اور مستقل رہائش کے مکانات منہدم ہو کر مٹ جائیں گے.مگر میں اس حادثہ عظیمہ میں اُن لوگوں کو جو تیری جماعت کی چاردیواری میں ہوں گے محفوظ رکھوں گا.“ اس الہام میں سابقہ خبر کی تکرار کے ساتھ یہ بشارت زیادہ کی گئی کہ اس زلزلہ میں جماعت احمد یہ کی جانیں محفوظ رہیں گی.اس کے بعد جب زلزلہ کا وقت زیادہ قریب آیا تو ۲۶/۲۷ فروری ۱۹۰۵ء کی رات کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک کشف میں بتایا کہ دردناک موتوں سے عجیب طرح پر شور قیامت برپا ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی الہام ہوا کہ : -

Page 185

مضامین بشیر ۱۷۸ ،، موتا موتی لگ رہی ہے.‘۱۳ گویا اس الہام میں یہ ظاہر کیا گیا کہ جس زلزلہ کا وعدہ دیا گیا ہے اس میں صرف مالی نقصان ہی نہیں ہوگا بلکہ جانی نقصان بھی ہوگا اور بہت سی جانیں ضائع جائیں گی لیکن چونکہ ان دنوں میں طاعون کا بھی دور دورہ تھا اور خیال ہوسکتا تھا کہ شاید یہ الہام طاعون کے متعلق ہو.اس لئے یکم اپریل ۱۹۰۵ ء کو خدا نے الہام فرمایا : - مَحَوْنَا نَارَ جَهَنَّمَ.١٢ یعنی ہم نے وقتی طور پر طاعون کی آگ کو محو کر دیا ہے.“ یعنی یہ نہ سمجھو کہ یہ موتا موتی جس کی خبر دی گئی ہے طاعون کے ذریعہ ہوگی کیونکہ خدا کے علم میں یہ تباہی کسی اور حادثہ کے نتیجہ میں مقدر ہے.پھر جب یہ زلزلہ بالکل سر پر آن پہنچا تو اس سے صرف ایک دن پہلے یعنی ۳ اپریل ۱۹۰۵ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا کہ : - موت دروازے پر کھڑی ہے.۱۵۰ یعنی جس تبا ہی کی ہم نے خبر دی تھی.اس کا وقت آن پہنچا ہے.چنانچہ اس الہام کے دوسرے دن یعنی ۱۴اپریل ۱۹۰۵ء کو صبح کے وقت زلزلہ آیا اور اس سختی کے ساتھ آیا کہ ملک کی تاریخ میں اس سے پہلے اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے اور یہ زلزلہ عین شرائط بیان کردہ کے مطابق آیا.یعنی اس کی سب سے زیادہ تباہی ضلع کانگڑہ کے مقامات دھرم سالہ اور پالم پور وغیرہ میں ہوئی جو اس علاقہ میں مستقل اور عارضی رہائش کے بڑے مرکز تھے اور اس زلزلہ کے نتیجہ میں لاکھوں روپے کے مالی نقصان کے علاوہ کئی ہزا رلوگ اس دنیا سے کوچ کر گئے.چنانچہ سرکاری اعلانات سے پتہ لگتا ہے کہ اس زلزلہ میں قریباً ۳۰ ہزار جانیں ضائع ہوئیں اور بے شمار عمارتیں مٹی کا ڈھیر ہو گئیں.14 مگر یہ خدا کا فضل رہا کہ جیسا کہ پہلے سے وعدہ دیا گیا تھا.اس تباہی میں کوئی احمدی فوت نہیں ہوا.اب ہر انصاف پسند شخص غور کرے کہ یہ کیسا عظیم الشان نشان تھا جو خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر ظاہر کیا.خدا نے وقت سے پہلے.ا.عذاب کی نوعیت بتا دی.۲.عذاب کی جگہ کی طرف اشارہ کر دیا گیا.۳.تباہی کی تفصیل بیان کر دی.۴.عذاب کا وقت ظاہر فرما دیا.

Page 186

۱۷۹ مضامین بشیر ۵.اور بالآخر یہ بشارت بھی دے دی کہ اس حادثہ میں احمدیوں کی جانیں محفوظ رہیں گی.اور پھر سب کچھ عین اسی طرح ظاہر ہوا جس طرح پہلے بتا دیا گیا تھا.کیا اس سے بڑھ کر کوئی نشان ہو گا مگر افسوس کہ بہت تھوڑے تھے جنہوں نے اس نشان سے فائدہ اٹھایا اور اکثر لوگ انکار اور استہزاء میں ترقی کرتے گئے اور خدا کا یہ قول ایک دفعہ پھر سچا ہوا کہ : - يحَسُرَةً عَلَى الْعِبَادِمَايَا تِيهِمُ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوابِهِ يَسْتَهْزِءُ وُنَ.عَ یعنی اے افسوس لوگوں پر ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر وہ اس کا انکار کرتے اور اسے ہنسی کا نشانہ بنا لیتے ہیں.“ آئیندہ زلازل کی پیشگوئی جب اللہ تعالیٰ نے یہ دیکھا کہ اس کے اس عظیم الشان نشان سے لوگوں نے فائدہ نہیں اٹھا یا تو اس کی رحمت پھر حرکت میں آکر عذاب کی صورت میں تجلی کرنے کے لئے تیار ہوئی.چنانچہ اس زلزلہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پے در پے زلزلوں کی خبر دی اور بار بار الہام فرمایا کہ اب تیری صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے خدا از مین کو غیر معمولی طور پر جنبش دے گا اور کثرت کے ساتھ زلزلے آئیں گے جن میں سے بعض قیامت کا نمونہ ہوں گے اور زمین کے بعض حصے تہ و بالا کر دیئے جائیں گے اور یہ زلزلے دنیا کے مختلف حصوں میں آئیں گے تا خدا اپنے قہری نشانوں سے لوگوں کو بیدار کرے اور تیری صداقت دنیا پر ظاہر ہو.چنانچہ ۱۸اپریل ۱۹۰۵ ء کو خدا نے فرمایا : - تازه نشان تازه نشان کادهکه زَلْزَ لَهُ السَّاعَةِ قُوا أَنْفُسَكُمْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ.١٨ یعنی لوگوں نے پہلے نشان سے فائدہ نہیں اٹھایا اس لئے اب ہم اور تازہ نشان دکھائیں گے اور یہ نشان دھکے کی صورت میں ظاہر ہوگا.جو قیامت کا نمونہ ہو گا.پس اے لوگو اس آنے والے عذاب سے اپنی جانوں کو بچاؤ.اس کے ذریعے حق ظاہر ہو گا اور باطل بھاگ جائے گا.“ - پھر ۱۹ اور ۱۰ اپریل ۱۹۰۵ء کو یہ الہام ہوا : - لكَ نُرِى ا يتٍ وَّنَهْدِمُ مَا يَعْمَرُونَ - 19 یعنی ہم تیرے لئے اور نشانات ظاہر کریں گے اور جو عمارتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں.

Page 187

مضامین بشیر انہیں ہم مٹاتے جائیں گے.‘“ ۱۸۰ پھر ۱۰ اپریل ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا : - إِنِّي مَعَ الَّا افْوَاجِ اتِيُكَ بَغْتَةً ٢٠ یعنی میں اپنی فوجیں لے کر آؤں اور اچانک آؤں گا.یہ الہام اس کے بعد بھی کئی دفعہ ہوا.پھر ۱۱۵ پریل ۱۹۰۵ء کو ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ و سخت زلزلہ آیا ہے جو پہلے سے زیادہ معلوم ہوتا تھا.۲۱ پھر ۱۱۸اپریل ۱۹۰۵ء کو ایک اور خواب دیکھا کہ : - وو بڑے زور سے زلزلہ آیا ہے اور زمین اس طرح اڑ رہی ہے جس طرح روئی دھنی جاتی ہے.‘۲۲ پھر ۲۳ اپریل ۱۹۰۵ء کو یہ الہام ہوا کہ :- بھونچال آیا اور بڑی شدت سے آیا.‘۲۳ پھر ۲۳ مئی ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا : - زمین تہ و بالا کر دی ۲۴۰ پھر ۲۳ اگست ۱۹۰۵ ء کو یہ وحی ہوئی کہ : - ا.پہاڑ گرا اور زلزلہ آیا.۲.تو جانتا ہے میں کون ہوں؟ میں خدا ہوں جس کو چاہتا ہوں عزت دیتا ہوں.جس کو چاہتا ہوں ذلت دیتا ہوں.‘۲۵ پھر ۳ استمبر ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا : - عَفَتِ الذِيَارُ كَذِكُرِى ٢٦ یعنی جس طرح لوگوں نے میری یاد کو اپنے دلوں سے محو کر رکھا ہے.اسی طرح اب 66 میرے ہاتھ سے آبادیاں بھی صفحہ ہستی سے محو ہوں گی.“ پھر ۱۴ مارچ ۱۹۰۶ء کو الہام ہوا : - " چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشان کی پنج بار ۲۷ یعنی پانچ زلز لے خاص طور پر نمایاں ہوں گے.پھر ۴ امئی ۱۹۰۴ء کو الہام ہوا: - هَلْ أَتَاكَ حَدِيتُ الزَّلْزَلَةِ إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا

Page 188

۱۸۱ مضامین بشیر وَاَخْرَجَتِ الْأَرْضُ اثْقَالَهَا.وَقَالَ لَا انْسَانُ مَالَهَا.۲۸ کیا تمھارے پاس زلزلہ کی خبر پہنچ گئی ہے.جب زمین کو سخت دھکے آئیں گے اور وہ اپنے اندر کی چیزیں نکال کر باہر پھینک دے گی اور لوگ حیرت سے کہیں گے زمین کو کیا ہو گیا ہے.“ پھر ۱۲ اگست ۱۹۰۶ ء کو الہام ہوا : - صحن میں ندیاں چلیں گی اور سخت زلزلے آئیں گے ۲۹ یعنی سخت زلزلوں کے ساتھ ساتھ بعض طغیانیاں بھی مقدر ہیں اور یہ دونوں مل کر تباہی کا باعث بنیں گے.“ پھر ۱۹ مارچ ۱۹۰۷ء کو فرمایا : - ارَدْتُ زَمَانَ الزَّلْزَلَةِ.٣٠ یعنی خدا فرماتا ہے کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اب دنیا پر زلزلوں کا زمانہ آجائے.“ پھر ۲۴ مارچ ۱۹۰۷ ء کو فر مایا : - لاکھوں انسانوں کو تہ و بالا کر دوں گا.۳۱ یعنی یہ جو زلازل کا زمانہ آرہا ہے اس میں دنیا کے مختلف حصوں میں زلزلے آئیں گے اور لاکھوں جانیں ضائع ہوں گی.پھر ۲ امئی ۱۹۰۷ ء کو الہام ہوا : - ان شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا ۳۲ مندرجہ بالا الہامات ورؤیا کے علاوہ اور بھی بہت سے الہامات اور خواہیں ہیں جن میں زلزلہ کی خبر دی گئی ہے اور بعض الہامات میں یہ بتایا گیا ہے کہ بعض زلزلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہی آئیں گے اور بعض آپ کے بعد.مگر اس جگہ اختصار کے خیال سے صرف اسی پر اکتفا کی جاتی ہے اور الہامات اور خوابوں پر ہی بس نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے زلزلوں کے متعلق بعض مکاشفات بھی دیکھے ہیں جنہیں آپ نے اپنی تصنیفات میں درج فرمایا ہے.مثلاً آپ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں.وہ تباہی آئے گی شہروں پہ اور دیہات پر جس کی دنیا میں نہیں ہے مثل کوئی زینہار ایک دم میں غم کدے ہو جائیں گے عشرت کد کے شادیاں جو کرتے تھے بیٹھیں گے ہو کر سوگوار

Page 189

مضامین بشیر پھر فر ماتے ہیں :- ۱۸۲ وہ جو تھے اونچے محل اور وہ جو تھے قصر بریں پست ہو جائیں گے جیسے پست ہو اک جائے غار ایک ہی گردش سے گھر ہو جا ئیں گے مٹی کا ڈھیر جس قدر جانیں تلف ہوں گی نہیں ان کا شمار تم سے غائب ہے مگر میں دیکھتا ہوں ہر گھڑی پھرتا ہے آنکھوں کے آگے وہ زماں وہ روزگار ۳۳ وہ زلزلے جو سان فرانسسکو اور فارموسا وغیرہ میں میری پیشگوئی کے مطابق آئے وہ تو سب کو معلوم ہیں.لیکن حال میں ۱۶ اگست ۱۹۰۶ء کو جو جنوبی حصہ امریکہ یعنی چلی کے صوبہ میں ایک سخت زلزلہ آیا.وہ پہلے زلزلوں سے کم نہ تھا.جس سے پندرہ چھوٹے بڑے شہر اور قصبے برباد ہو گئے اور ہزار ہا جا نیں تلف ہوئیں اور دس لاکھ آدمی اب تک بے خانماں ہیں.شاید نادان لوگ کہیں گے کہ یہ کیوں کر نشان ہو سکتا ہے.یہ زلزلے تو پنجاب میں نہیں آئے مگر وہ نہیں جانتے کہ خدا تمام دنیا کا خدا ہے نہ صرف پنجاب کا اور اس نے تمام دنیا کے لئے یہ خبر یں دی ہیں نہ صرف پنجاب کے لئے..یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے.پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے.ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیاء کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدرموت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی اور اکثر مقامات زیر وزبر ہو جائیں گے کہ گویا ان میں کبھی آبادی نہ تھی..یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک ان سے محفوظ ہے.میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید ان سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے.اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمھاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح کا زمانہ تمھاری

Page 190

۱۸۳ مضامین بشیر آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے مگر خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.۳۴ مندرجہ بالا خدائی الہامات و مکاشفات میں جس دل ہلا دینے والے طریق پر زلزلوں کی خبر دی گئی ہے.وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں اور جیسا کہ ان میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے یہ شروع سے مقدر تھا کہ موعودہ زلزلے دنیا کے مختلف حصوں میں اور مختلف وقتوں میں آئیں اور ان میں سے بعض اس قدر سخت ہوں کہ قیامت کا نمونہ پیش کریں.سو ان میں سے بعض زلزلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں آگئے.( جیسا کہ شمال مغربی ہندوستان.جزائر غرب الہند.فارموسا.سان فرانسسکو اور چلی وغیرہ میں پے در پے خطرناک زلزلے آئے ) اور یہ زلزلے اس طرح غیر معمولی طور پر آئے کہ مشہور انگریزی اخبار پاؤ نیر کو حیران ہوکر لکھنا پڑا کہ یہ بالکل ایک غیر معمولی تباہی ہے.چنانچہ پاؤ نیر نے لکھا.اس عالمگیر تباہی کی دنیا کی تاریخ میں حضرت مسیح ناصری کے ایک سوسال بعد سے لے کر آج تک بہت ہی کم مثال نظر آتی ہے.۳۵ لا ہور کے ایک انگریزی اخبا رسول نے لکھا : - جمیکا کا تباہ کن زلزلہ جو ۱۹۰۶ ء کے اسی قسم کے بہت سے تباہ کن زلازل کے اس قدر جلد بعد آیا ہے.ہر شخص کے دل میں یہ خیال پیدا کر رہا ہے کہ اب سطح زمین امن کی جگہ نہیں رہی...اس زلزلہ میں ہمیں اس قسم کے ہیبت ناک واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں جو دور کے کسی گزشتہ زمانہ میں سنا جاتا ہے کہ ہوا کرتے تھے یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اس کرہ ارض کو چھوڑ کر کسی اور پر امن کرہ میں نہیں جا سکتے “.۳۶ الغرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے بعد آپ کی زندگی میں دنیا کے مختلف حصوں میں بڑے سخت زلزلے آئے اور بعض آپ کی وفات کے بعد آئے.( جیسا کہ اٹلی ، جاپان ، چین وغیرہ کے تباہ کن زلزلے ) اور بعض آئندہ آئیں گے اور یہ خدا ہی کو علم ہے کہ وہ کب کب اور کہاں کہاں آئیں گے اور ان کے نتیجہ میں کیا کیا تبا ہی مقدر ہے.مگر وہ تباہ کن زلزلہ جو حال ہی میں ۱۰ جنوری ۱۹۳۴ء کو ہندوستان کے شمال مشرق میں آیا ہے جس نے صوبہ بہار اور ریاست نیپال اور بنگال کے بعض حصوں میں قیامت برپا کر رکھی ہے.وہ ایک ایسا زلزلہ ہے کہ اس میں ۱۹۰۵ء کے شمال مغربی ہندوستان والے زلزلہ کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی

Page 191

مضامین بشیر ۱۸۴ سلسلہ احمدیہ کے الہامات و کشوف میں تصریح اور تعیین پائی جاتی ہے اور یوں نظر آتا ہے کہ گویا خدائی ہاتھ معین طور پر اشارہ کر رہا ہے کہ یہ زلزلہ ان خاص زلزلوں میں سے ایک ایسا زلزلہ ہے جس کے متعلق تعیین اور صراحت کے ساتھ خبر دی گئی تھی.۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کا قیامت نما زلزلہ اور اس کی علامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اور کشوف سے پتہ لگتا ہے کہ ۱۵/ جنوری ۱۹۳۴ء والے زلزلے کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مندرجہ ذیل علامات مقرر تھیں.یعنی منجملہ بعض اور علامات کے ذیل کی پانچ علامت اس کے لئے خاص طور پر مقرر کی گئی تھیں.اوّل.اس زلزلہ میں خطرناک تباہی آئے گی اور اس کے ساتھ پانی کا سیلاب بھی ہوگا.دوم.یہ زلزلہ نادر شاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کے بعد اس کے قریب کے زمانہ میں آئے گا.سوم.یہ زلزلہ موسم بہار میں آئے گا.چہارم.یہ زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرقی علاقہ میں آئے گا.پنجم.یہ زلزلہ خاکسا راقم الحروف مرزا بشیر احمد کی زندگی میں آئے گا اور خاکسار ہی ابتدا اس پیشگوئی کی طرف توجہ دلانے والا ہوگا.یہ وہ پانچ علامات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آج سے قریباً ۲۸ سال پہلے اس زلزلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ظاہر فرمائیں اور آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ باتیں کس طرح من وعن پوری ہوئیں.اس زلزلہ کی خطرناک تباہی کے ساتھ پانی کا سیلاب بھی مقدر تھا سب سے پہلی علامت جو زلزلہ کی تباہی اور پانی کے سیلاب کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.اس میں سے تباہی والا حصہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت سے الہامات اور کشوف میں بیان ہوا ہے.جیسا کہ مندرجہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہے اور چونکہ یہ زلزلہ بھی ان خطرناک زلزلوں میں سے ایک زلزلہ ہے جن کی خبر دی گئی تھی.اس لئے جو تباہی کی صورت دوسرے سخت زلزلوں کے متعلق بیان ہوئی ہے.وہی اس زلزلہ پر بھی چسپاں ہوگی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک مکاشفہ میں ایک ایسے زلزلے کا ذکر کیا ہے جس کے ساتھ زمین کو زیر وزبر کر دینے والی تباہی کے پہلو بہ پہلو سیلاب کی تباہی بھی شامل ہوگی.چنانچہ فرماتے ہیں ؎

Page 192

۱۸۵ مضامین بشیر سونے والو جلد جاگو یہ نہ وقت خواب ہے جو خبر دی وحتی حق نے اس سے دل بیتاب ہے زلزلہ سے دیکھتا ہوں میں زمین زیر و زبر وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے ۳۷ اس مکاشفہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاف الفاظ میں بیان فرماتے ہیں.ایک خطرناک زلزلہ آنے والا ہے جس سے زمین زیر وزبر ہو جائے گی اور اس زلزلہ کے ساتھ پانی کا سیلاب بھی ہوگا.عام حالات کے لحاظ سے یہ ایک عجوبہ بات نظر آتی ہے کہ زلزلہ اور سیلاب ایک جگہ جمع ہوں مگر خدا کے مسیح نے یہ بتا رکھا تھا کہ وقت آتا ہے کہ یہ دونوں تباہیاں ایک جگہ جمع ہوں گی.اس مکاشفہ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ پہلے زلزلہ آئے گا اور پھر اس کے بعد پانی کا سیلاب آئے گا مگر ساتھ ہی دونوں کو اکٹھا کر کے یہ بھی ظاہر فرما دیا گیا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ دونوں الگ الگ حادثات ہیں بلکہ اصل میں دونوں ایک ہی چیز ہیں مگر ان کا ظہور ایک دوسرے کے ساتھ آگے پیچھے ہوگا.اب دیکھ لو کہ ۱۵/ جنوری ۱۹۳۴ء کو صوبہ بہار میں بعنیہ اس کے مطابق واقعہ ہوا یعنے پہلے زلزلہ آیا اور اس سے زمین زیروز بر ہوگئی اور پھر اس کے بعد زمین اچھٹنے سے اس کے اندر کا پانی جوش مارتا ہوا باہر نکلا.جس سے میل ہامیل تک کا علاقہ پانی میں غرق ہو کر یوں نظر آنے لگا جیسے کوئی سمندر ہے.چنانچہ ہندوستان کا مشہور انگریزی اخبار سٹیٹسمین لکھتا ہے :.اس زلزلہ کے دھکوں سے کئی جگہوں پر زمین پھٹ پھٹ کر بڑے بڑے غار پڑ گئے اور زمین کے اندر کا پانی جوش مارتا ہوا باہر نکل آیا جس سے اب سا را علاقہ 66 غرقاب ہے.۳۸ لا ہور کا ایک اخبار ”زمیندار“ رقمطراز ہے کہ :- اس زلزلہ کے نتیجہ میں زمین کے پھٹ جانے کی وجہ سے پانی کے چشمے اہل رہے ہیں.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طغیانی آگئی ہے.تمام شہر پانی کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمند رنظر آتا ہے“.۳۹ زمین کے پھٹنے سے جو سیلاب آیا.اس کے علاوہ زلزلہ کے بعد اس علاقہ میں سخت بارش بھی ہوئی.گو یا اوپر اور نیچے دونوں طرف سے زلزلہ کی مصاحبت کے لئے پانی آموجود ہوا.اور خدا کی قدرت نمائی کا مزید کرشمہ یہ ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض الہامات میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ بعض زلزلے ایسے بھی آئیں گے کہ ان سے پہلے ملک میں سخت طغیانیاں آچکی ہوں

Page 193

مضامین بشیر ۱۸۶ گی.۱۵/جنوری ۱۹۳۴ء والے زلزلے سے پہلے بھی ملک کے مختلف حصوں میں طغیانیاں آئیں.چنانچہ اس بارے میں یہ الہام الہی اوپر درج ہو چکا ہے کہ : - دو صحن میں ندیاں چلیں گی اور سخت زلزلے آئیں گے ۴۰۰ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس الہام کی تشریح فرماتے ہوئے لکھا تھا کہ : - ”میرے پر خدا نے الہامیہ ظاہر کیا تھا کہ سخت بارشیں ہونگی اور گھروں میں ندیاں چلیں گی اور بعد اس کے سخت زلزلے آئیں گئے.اے سو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ علامت بھی ۱۵ / جنوری والے زلزلہ میں لفظ بلفظ پوری ہوئی کیونکہ جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ گزشتہ موسم برسات کے آخر میں ملک کے کئی حصوں میں نہایت سخت طغیانیاں آئیں.چنانچہ رہتک صوبہ پنجاب، دریائے گومتی کی وادی ، صوبہ یو.پی ، مدنا پور کا علاقہ صوبہ بنگال ، اور اڑیسہ صوبہ بہار میں ۱۹۳۳ء کے آخر میں جو تباہ کن طغیانیاں آئیں.وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں.گویا اس زلزلہ میں وہ دونوں علامتیں پوری ہوئیں جو پہلے سے بتا دی گئی تھیں.یعنے اول یہ کہ زلزلہ سے پہلے مختلف حصوں میں تباہ کن طغیانیاں آئیں.جن سے صحنوں میں ندیاں چل گئیں اور دوسرے یہ کہ اس خاص زلزلہ میں زلزلہ کے دھکوں سے جگہ بہ جگہ زمین کا پھٹ کر اندر کا پانی جوش مارتا ہوا باہر نکل آیا اور ایک خطر ناک سیلاب کی صورت پیدا ہوگئی اور اسطرح وہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی کہ اس زلزلہ کے ساتھ پانی کا سیلاب بھی ہوگا اور زلزلے کے دھکے اور پانی کی تباہی دونوں مل کر تباہی کے ہیبت ناک منظر کو پورا کریں گے.جان و مال کا بے انداز نقصان باقی رہا جان و مال کا نقصان جو اس زلزلہ کے نتیجہ میں ہوا.سو اس کی داستان ایک خون کے آنسو رلانے والی داستان ہے.جانی نقصان کا تو ابھی صحیح اندازہ لگ ہی نہیں سکا.گورنمنٹ نے اپنی طرف سے وقتاً فوقتاً اندازے شائع کئے اور ہزاروں جانوں کا نقصان بتایا مگر بعد میں ہر اندازے کی تردید ہو گئی اور صحیح اندازہ لگ بھی کس طرح سکتا ہے.جبکہ ابھی ہزار ہا مکانوں کا ملبہ اسی طرح ڈھیروں کی صورت میں پڑا ہے اور کچھ خبر نہیں کہ ان کے نیچے کتنی جانیں دبی پڑی ہیں.اور مالی نقصان کا تو یہ حال ہے کہ شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں اور سوائے مٹی کے ڈھیر کے کچھ نظر نہیں آتا.غریبوں کے گھر امیروں کے مکانات راجوں ، مہاراجوں کی کوٹھیاں ، بادشاہوں کے محل ، گورنمنٹ کی عمارات ، کارخانے ، پل ، دوکانیں ، بازار ، منڈیاں وغیرہ سب خاک میں مل گئے ہیں.اور سیلاب

Page 194

۱۸۷ مضامین بشیر اور زمین کے جگہ جگہ سے پھٹ جانے سے فصلوں کا جو نقصان ہوا ہے وہ مزید برآں ہے.الغرض اس علاقہ میں اس وقت ایک قیامت کا نمونہ برپا ہے.مونکھیر ، درا بھنگہ ، مظفر پور، موتی ہاری اور کھٹمنڈو تو گویا بالکل ہی صاف ہو چکے ہیں اور باقی جگہوں میں بھی ایک ہولناک نظارہ تباہی و بربادی کا نظر آتا ہے.زلزلہ کی رو پہلے تو ایک طرف سے دوسری طرف جاتی ہوئی محسوس ہوئی لیکن پھر یوں محسوس ہوا کہ زمین کے نیچے کوئی چیز چکی کی طرح گھوم رہی ہے.گو یا خدائی فرشتوں کی فوج اس ارادہ سے اتری ہے کہ سب کچھ پیس کر رکھ دے گی اس زلزلہ کی تباہی ۱۹۰۵ء کے شمال مغربی زلزلے سے بھی بہت بڑھ کر ہے کیونکہ نہ صرف جانوں کا نقصان زیادہ ہے.بلکہ بوجہ اس کے یہ ایک زرخیز اور آباد علاقہ تھا.اس میں جو مالی نقصان ہوا ہے.وہ کانگڑہ وادی کے نقصان سے بہت بڑا ہے.اور کروڑوں کروڑ روپے سے کسی صورت میں کم نہیں.چنانچہ اسی نقصان کو دیکھتے ہوئے علا وہ بہت سے ہندوستانی لیڈروں کے ہز ایکسی لنسی وائسرائے ہند اور گورنران صوبجات والیان ریاست اور ہر میجسٹی کنگ جارج اور وزیر ہند اور لارڈ مئیر آف لنڈن اور غیر حکومتوں کے صدر اور وزراء وغیرہ نے مصیبت زدگان کی امداد کے لئے چندہ کی خاص تحریک کی ہے اور خود بھی چندہ دیا ہے.الغرض کیا بلحاظ جانی نقصان اور کیا بلحاظ مالی نقصان (جس کا پورا اندازہ ابھی تک نہیں ہوسکا اور اس وقت تک جو بھی اندازہ ہوا ہے.اس سے اصل نقصان بہر حال بڑھ کر ہے ) یہ زلزلہ ایک خاص زلزلہ تھا اور اس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ یہ ایک قیامت کا ایک نمونہ تھا جو خدا نے دنیا کے سامنے پیش کیا مگر چونکہ ہر قوم وملت کے اخبارات میں اس زلزلہ کی تباہی کے حالات مفصل شائع ہو چکے ہیں.اس لئے ہمیں اس کے متعلق حوالے اور اقتباسات نقل کرنے کی ضرورت نہیں.لیکن محض نمو نے کے طور پر اور کسی قدر تفصیلات کا علم دینے کے لئے چند اقتباسات درج کئے جاتے ہیں.تباہی کے ہولناک کوائف اخبار الجمیعتہ دہلی لکھتا ہے :.سب سے زیادہ ہولناک تباہی کی خبریں صوبہ بہار کے بڑے بڑے شہروں اور قصبوں مثلاً پٹنہ، مظفر پور، دربھنگہ، لہر یا سرائے ، موناکھیر ، بھاگل پور، جمال پور ، گیا ، بتیا ، ترہٹ، پورینہ ، سمستی پور، سارن، چمپارن، موتی ہاری، صاحب گنج، ستیا مڑھی ، چھپرا ، منمیت پور، حاجی پور، ڈیکھی ، آرہ اور چھوٹے چھوٹے قصبات

Page 195

مضامین بشیر ۱۸۸ ودیہات کے متعلق موصول ہوئی ہیں.مونگھیر ، دربھنگہ اور مظفر پور بالکل تباہ ہو گئے.مونگھیر میں صرف چار مکانات باقی ہیں.پٹنہ میں کوئی ایسی عمارت نہیں بچی جو بالکل یا جزوی طور پر مسمار نہ ہو گئی ہو.اول الذکر شہر میں ہزاروں لاشیں برآمد ہو چکی ہیں اور ہزاروں ابھی چونے اور اینٹوں اور لوہے کے گاڈروں کے نیچے دبی پڑی ہیں.شہروں اور شہروں کے باہر دیہاتی علاقوں میں زمین شق ہوگئی کنوئیں ابل پڑے اور بعض مقامات پر کئی کئی سو گز کی چوڑائی سے پانی میں فٹ اونچا فضاء میں کئی کئی گھنٹوں تک ابلتا رہا اور ایسی طغیانی آئی کہ وہ علاقے جو ہمیشہ خشک رہتے تھے سات فٹ گہرے پانی کی جھیل بن گئے.پٹنہ کے قریب گنگا کا دریا پانچ منٹ کے لئے بالکل غائب ہو گیا اور پانچ منٹ کے بعد پورے جوش اور طغیانی کے ساتھ بہنے لگا.غاروں سے گندھک اور ریت نکلتا رہا.فصلیں تباہ ہو گئیں اور گاؤں کے گاؤں غرق ہو گئے.آتشزدگی نے علیحدہ تباہ کیا مونگھیر اور مظفر پور میں ہزاروں انسان جو مر گئے ان کی لاشیں بلا امتیاز مذہب وملت دریا میں بہا دی گئیں.جو باقی رہ گئے ان کی خانماں بربادی اور حسرت انگیز تباہی کا منظر قابل رحم ہے.۴۲ سٹیٹس مین کا بیان ہے کہ :- مہا راجہ دربھنگہ کے محلات اور مکانات اس طرح زمین کے برابر ہو گئے کہ ان کے کھنڈروں کو پہچانا بھی نہیں جاسکتا ، ۴۳ وو اخبا رسول لا ہور لکھتا ہے کہ : - مہا راجہ صاحب دربھنگہ کے محلات کا یہ حال ہے کہ انند باغ محل کا مینار اور دیواریں زمین سے پیوست ہو گئی ہیں اور باقی بھی شکستہ ہو گئی ہیں.نور گو از محل ، موتی محل بالکل کھنڈرات ہو گئے ہیں.راج نگر جس پر مہاراج کے باپ نے ایک کروڑ روپیہ خرچ کیا تھا.اب صرف ایک تباہ شدہ بستی اور اجاڑ کھنڈرات کا ڈھیر رہ گیا ہے.مہا راجہ دربھنگہ کے کل نقصان کا موٹا اندازہ پانچ کروڑ روپے سے کم 66 نہیں ہے.۴۴ اخبار سرچ لائٹ پٹنہ لکھتا ہے کہ ”جب بھونچال آیا تو اس کے ساتھ ہی زمین سے آگ نکلنی شروع ہوگئی.جس سے موضع اکدھرم اور نتہو دونوں گاؤں تباہ ہو گئے ،۴۵

Page 196

۱۸۹ مضامین بشیر اخبار رحقیقت لکھنؤ لکھتا ہے کہ : - کھٹ منڈو میں ایسی قیامت آئی کہ جس کا اندازہ نہیں ہوسکتا.رام نگر سے کھٹمنڈو کو جو سلسلہ کو ہ جاتا ہے اس کی سب سے بڑی پہاڑی را مارا تھوئی میں عجیب طور پر شگاف ہو گیا ہے یعنے جس طرح کوئی دیوار بنیاد تک شق ہو جائے.اس طرح پہاڑ کے دوٹکڑے ہو گئے اور شگاف کی تہہ میں ایک کھولتا ہوا چشمہ ابل پڑا ہے جس سے کچھ ایسے بخارات اٹھ رہے ہیں کہ کوئی اس کے قریب نہیں جا سکتا.تین سرکاری عالی شان محل جن کی خوبصورتی اور صناعی پر یورپین انجینئر عش عش کرتے تھے مسمار ہو گئے ہیں.اور سب سے زیادہ اندوہناک واقعہ یہ ہے کہ راستہ میں ایک ایسا گہرا شگاف پڑ گیا ہے کہ کئی دنوں تک آمد و رفت نہ ہو سکے گی.اگر چہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ اس علاقہ میں ہزاروں جانیں ضائع ہو گئی ہیں لیکن اس سے عجیب واقعہ یہ ہے کہ کئی پہاڑی ندیاں جو ان دنوں بھی ابلتی رہتی ہیں وہ بھی غائب ہوگئی ہیں.گوالا منڈی نیپال گنج اور بھکتہ تھوری میں بھی اس وقت حشر بپا ہے.بازار تباہ ہو گئے ہیں.شہر پر ویرانے کا دھوکہ ہوتا ہے خاص کر نیپال گنج میں جہاں بڑے بڑے گودام تھے.ایسی تباہی آئی ہے جس کا انداز ہ لاکھوں روپیہ سے زیادہ ہے.پہاڑی علاقہ میں ایسی تباہی آئی ہے جس کا اندازہ دشوار ہے.انسان تو انسان حیوان اس قہر خدا سے حواس باختہ ہو گئے تھے اور درندے نہایت بدحواسی سے آدمیوں کے پاس بھاگتے ہوئے جار ہے تھے.۴۶ اخبار ملاپ لا ہو رلکھتا ہے کہ : وادی نیپال میں قریباً قریباً تمام مکانات گر گئے ہیں.کھٹمنڈو میں کئی میدانوں اور پہاڑیوں میں دراڑ پڑ گئے ہیں.مہاراجہ کی دولڑکیاں ہلاک ہو گئیں.مہاراجہ کی ایک پوتی اور چچازاد بھائی.اس کی بیوی اور دو بچے بھی ہلاک ہو گئے ہیں.۴۷ ٹریفک منیجر بنگال ریلوے کا بیان ہے کہ : - اس علاقہ میں آمد و رفت کے ذرائع کے کلی انقطاع کا اندازہ کرنا آسان نہیں.مختصر یہ ہے کہ نہ سڑکیں رہی ہیں نہ ریلیں نہ تاریں.ملک کے وسیع قطعے سیلاب میں غرق ہیں.اور عملی طور پر اس علاقہ میں سے گزرنا قطعاً ناممکن ہو رہا ہے.اس وقت آنکھوں کے سامنے ابتری اور مایوسی کا منظر ہے اور آئندہ کے لئے سوائے خاموشی

Page 197

مضامین بشیر ۱۹۰ اور خطرے کے کچھ نظر نہیں آتا.۴۸ اخبار زمیندار لا ہو ر لکھتا ہے کہ :- ۱۵ جنوری کے ہولناک زلزلے نے صوبہ بہار کے مختلف مقامات پر تباہی و بر بادی کا جو ہولناک منظر پیدا کر دیا ہے.اس کی نظیر ہندوستان کی تاریخ میں موجود نہیں.اس بد نصیب صوبہ بہار میں اب تک تقریباً ہزار ہا نفوس جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ہلاکت کا شکار ہو چکے ہیں.مجروحین کی تعداد قریباً ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے.کروڑوں روپے کی جائداد میں زلزلے کے بے پناہ ہاتھ سے پیوند زمین ہو چکی ہیں.تمام اثاث البیت جو انہوں نے صدیوں کی محنت سے جمع کیا تھا.ہزاروں من ملبے کے نیچے دب کر برباد ہو چکا ہے.شہروں کے شہر مسمار اور علاقوں کے علاقے ڈھنڈ ہار ہو چکے ہیں.کئی کئی میل تک کھانے پینے کی چیزوں کا نام ونشان نہیں.سردی سے بچنے کے لئے کپڑے کی دھجی تک میسر نہیں.۴۹ اخبار پرتاپ لا ہور لکھتا ہے کہ :- بہار واڑیسہ سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں وہ بہت دردناک ہیں.وہاں سے جو اصحاب بھاگ کر الہ آباد میں آئے ہیں ان کا بیان ہے کہ مونگھیر ، مظفر پور، چھپرا ، ستیا مڑھی اور دربھنگہ میں ۲۰ کروڑ کا نقصان ہو گیا ہے.۲۵ ہزار آدمی صرف ایک مونگھیر میں مر گئے ہیں.صرف ۲۲ / جنوری کے دن سرکاری انتظامات کے ماتحت تین ہزار لاشوں کو جلایا گیا ہے.مذکورہ بالا شہروں میں بازاروں کا نام ونشان نہیں ملتا.وہ لاشوں ، سروں، ٹانگوں اور پتھروں وغیرہ سے بھرے ہوئے ہیں اتنی بد بو پھیل رہی ہے کہ مظہر نا مشکل ہو رہا ہے.“ ,, امرت بازار پتر کا سپیشل نامہ نگارمونکھیر سے لکھتا ہے کہ : - زلزلہ زدہ علاقہ میں ایک لاکھ مویشی ہلاک ہو گئے ہیں.ایک تجارتی ایجنٹ ابھی ابھی مظفر پور سے آیا ہے جو زلزلہ کے وقت وہاں موجود تھا.وہ بیان کرتا ہے کہ مکانات کی چھتوں سے انسانی سر.ٹانگیں.ہاتھ اور پاؤں بیسیوں کی تعداد میں کٹے ہوئے گر رہے تھے.ہاہا کار کی آوازوں سے میں گھبرا گیا.کئی آدمیوں کو کھڑکیوں سے چھلانگیں لگاتے دیکھا مگر ان کے نیچے آنے سے پہلے دیوار میں گر جاتی تھیں.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انسانی سروں.ہاتھوں اور بازوؤں

Page 198

۱۹۱ کی بارش ہو رہی ہے.گیا کے قریب ایک چھوٹا سا دریا تھا.جس کا نام پھلگر ہے وہ بالکل خشک ہو گیا.جہاں پہلے پانی تھا وہاں اب ریت کے انبار لگے ہوئے ہیں نہ معلوم دریا کا پانی کہاں غائب ہو گیا لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ وہ ندیاں جو اس موسم میں بالکل خشک ہوا کرتی تھیں پانی سے بھر گئی ہیں.۵۰ وه مونگھیر کی تباہی کے متعلق ایک صاحب کا چشم دید بیان ہے کہ : - بج کر ۵ منٹ پر جب کہ میں بازار میں جا رہا تھا دفعتہ ہولناک آواز سنائی دی.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہوائی جہاز آ رہا ہے.چند ہی سیکنڈ میں کپکپی اور رعشہ شروع ہونے لگا.پھر زمین میں دائیں اور بائیں دوحرکتیں ہوئیں.بعد ازاں ایسا معلوم ہوا کہ کسی نے زمین کو چرخی پر رکھ کر گھما دیا ہے...میرے ہوش وحواس زائل ہو گئے.آدھ گھنٹہ کے بعد سنبھلا تو ایک عجیب منظر میرے سامنے تھا.جہاں تک نظر جاتی تھی کھنڈر ہی کھنڈر دکھائی دیتے تھے.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں مونگھیر میں نہیں.شہر کی حالت اتنی تبدیل ہو گئی تھی کہ میں اپنا گھر نہ پہچان سکا.آخر ایک ٹیلہ پر بیٹھ کر رات گزاری.صبح اٹھ کر دیکھا تو تمام شہر خاک کا ڈھیر تھا.۵۱ آنریبل سید عبدالعزیز صاحب وزیر تعلیم صوبہ بہار بیان کرتے ہیں کہ : - ایک جگہ نہر پانی سے بھری ہوئی رواں تھی.زمین پھٹی اور نہر کا پانی اند رسما گیا اور نہر خشک ہو گئی.ایک لاری جا رہی تھی.زلزلہ آیا اور آدمی اس سے اتر گئے.زمین شق ہوگئی اور لاری زمین کے اندر سما گئی.اس کے بعد زمین لاری کو اپنے پیٹ مضامین بشیر میں لے کر اس طرح پیوست ہوگئی کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں“.۵۲ مہا راجہ صاحب مونگھیر کے داماد کا بیان ہے کہ :- وہ شہر ( مونگھیر ( جو کسی وقت نہایت خوبصورت اور دلکش تھا ، نہایت بھیانک اور خوفناک منظر پیش کر رہا تھا.سوائے منہدم دوکانات کے ملبوں کے علاوہ وہاں کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی.ابھی ہلاک ہونے والوں کا صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکتا.فی الحال ۲۵ ہزار آدمیوں کا اندازہ کیا گیا ہے.اب تک میونسپلٹی رجسٹروں میں ۱۲ ہزار کے نام درج ہو چکے ہیں.چیل اور کووں کے جھنڈ کے جھنڈ مردہ لاشوں کو چیر نے اور پھاڑنے میں مشغول نظر آتے ہیں.تمام شہر قبرستان کا ایک ہیبت ناک منظر پیش

Page 199

مضامین بشیر ۱۹۲ کر رہا ہے.میں اس منظر کے بیان کرنے سے قاصر ہوں جو میں نے وہاں دیکھا ۵۳ اخبار ملاپ کا ایڈیٹر اپنے چشم دید حالات لکھتا ہے کہ :- زلزلہ کی وجہ سے ایسی سخت مصیبت آئی ہے کہ جس کا بیان کرنا نہ صرف مشکل بلکہ تو اریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ان حالات کے بیان کرنے سے دل لرزتا ہے.....مسلمانوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ طوفان نوح آ گیا ہے یہ کیفیت پانی کے سیلاب سے ہوئی.بڑے بڑے لکھ پتی اس وقت درختوں کے نیچے چادر وغیرہ تانے ہوئے پڑے ہیں.۵۴ پھر لکھتا ہے کہ : - اٹھائیس برس کے بعد ایک بار پھر ہندوستان نے ایک خوفناک بھونچال کو دیکھا ہے.۱۹۰۵ء میں ضلع کانگڑہ میں تباہی مچی تھی اور اب کے بہار واڑیسہ اور نیپال میں ہیبت ناک بر بادی ہوئی ہے.بھونچال کے وقت کئی کئی فٹ مکانات معہ بنیا دوں کے زمین کے اوپر اچھلے ہیں.کنوؤں کا پانی فوارے کی طرح باہر نکلا ہے اور اپنے ساتھ اندر کی ریت بھی ساتھ لایا ہے کہ کھیتوں میں میل ہامیل تک ریت کی کئی کئی فٹ تک نہ جم گئی ہے.’باپ بچوں کی تلاش میں سرگردان ہیں.بچے اپنے ما تا پتا کو تلاش کر رہے ہیں.گرے ہوئے مکانات میں جو بچے بیچ رہے ہیں وہ ایک ایک اینٹ اٹھا کر دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ما تا پتا نیچے سے نظر آسکیں اور انہیں پیار سے بلا سکیں.لیکن بھونچال نے کس کو زندہ رہنے دیا ہے.جب مکان کھودتے کھودتے لاش نکلتی ہے تو پھر چیخ و پکار کا کیا ٹھکانا ہے پتھر سے پتھر دل بھی روتا ہے“.۵۵ پھر لکھتا ہے کہ : - وو ’ وہ کھیت جو ۱۵ جنوری کی دو پہر تک دھان کی فصل کے لئے نہایت مفید تھے.دفعتہ ریگستان میں تبدیل ہو گئے ہیں اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیا زلزلہ کے باعث جو ریت زمین کے جگر سے نکل کر خوشگوار کھیتوں میں پڑی ہے.وہ صحرا کی دائگی صورت اختیار کر جائے گی یا اس ریگستان کے نخلستان میں تبدیل ہو جانے کا کوئی امکان باقی ہے؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو لاکھوں ایکڑ

Page 200

۱۹۳ مضامین بشیر اراضی تباہ ہو گئی ہے.اس کے غریب باشندوں کو جن کا گزارہ کاشت اراضی پر تھا کس طرح روٹی مہیا کی جائے اور زمین کو کس طرح اس قابل بنایا جائے کہ وہ از سر نو اپنی زندگی شروع کرسکیں.“ وو شہر والوں کے متعلق یہ غلط خیال ہے کہ وہی زیادہ مصیبت زدہ ہیں.دیہات والے تو بالکل ہی تباہ ہو گئے ہیں.ایک لاکھ ایکڑ رقبہ سے زیادہ گنے کی فصل کھڑی ہے مگر گنا پہلینے کے تمام کارخانے تباہ ہو گئے ہیں.۵۶ پھر ملاپ لا ہور کا ایڈیٹر اپنے ایڈیٹوریل مضمون میں لکھتا ہے کہ :- تین دن اور تین رات لگا تار بھونچال زدہ علاقہ میں سفر کرنے کے بعد پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ تبا ہی بہت بڑی ہے اور اخباروں کے ذریعہ اب تک عوام کو جو پتہ لگا ہے وہ اس تباہی کا عشر عشیر بھی نہیں ہے.میری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ہے، افسوس میر اقلم اور میری زبان اس کے بیان کرنے سے قاصر ہے.کوئی تباہی سی تباہی ہے اور بربادی سی بربادی ہے؟ دومنٹ کے جھٹکے نے چشم زدن میں دوسو میل لمبے اور ایک سو میل چوڑے علاقہ کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے.ہزاروں برس کی تہذیبیں اور سینکڑوں برس کی یادگاریں مٹادی گئی ہیں.جن مکانوں اور محلوں میں ہر وقت چہل پہل رہتی تھی.وہاں اب گدھ اور چیلیں منڈلا رہی ہیں اور حیوانوں انسانوں کی لاشوں کو نوچ نوچ کر کھا رہی ہیں.“ ریل کی سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں.موٹر کار کا راستہ پھٹ چکا ہے.کھیت دلدل بن گئے ہیں.ایک ہزار گاؤں پانی سے محروم ہو گئے ہیں.کنوؤں نے آتش فشاں پہاڑ کے دہانہ کا کام دیا ہے.بھونچال کے وقت ان سے ریت پانی اور کا لا مادہ اچھل اچھل کر نکلتا رہا ہے.کئی مقامات پر زمین اتنی پھٹ گئی ہے کہ اس میں کئی غاریں بن 66 گئی ہیں اور بہت سے جانوران غاروں میں گر کر جاں بحق ہو گئے ہیں.زلزلہ کا سب سے زیادہ غصہ مونکھیر پر نکلا ہے.یہ مہا بھارت کے راجہ کرن کا آباد کیا ہوا پرانا شہر تھا.چالیس پچاس ہزار کی آبادی ہوگی.تنگ بازار اور تنگ گلیاں تھیں.مکانات سہ منزلہ اور چار منزلہ تھے.دیہات سے لوگ عید کے لئے خوشی کا سامان خریدنے کے لئے آئے ہوئے تھے.ہندو بسنت کی تیاریوں میں مشغول تھے کہ یک لخت ۱۵ جنوری کو ایک مہیب شور زمین کے اندر سے سنائی

Page 201

مضامین بشیر 66 ۱۹۴ دینے لگا.گڑ گڑاہٹ نے کان پھاڑ ڈالے اور زمین متزلزل ہو اٹھی.مکانات ناچتے ہوئے نظر آنے لگے اور پھر ایک لمحہ میں اڑا اڑا دہم“ کی صدائیں اٹھیں.گردوغبار کا چاروں طرف اٹھتا ہوا انبار تھا.جو جہاں تھا وہیں رہ گیا اور کسی کو کسی کی خبر لینے کی سدھ نہ رہی.چند منٹوں کے بعد جو لوگ زندہ بچ نکلے.انہوں نے دیکھا کہ مونگھیر کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا اور کھنڈرات کے اندرون سے چیخوں کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں.زلزلہ کی ہیبت ناک آواز تو بند ہوگئی ہے لیکن دبے ہوئے مردوں بچوں اور عورتوں کی چلا ہٹ سے زمین کے اندر طوفان برپا ہو رہا ہے لیکن تھوڑی دیر بعد وہ انسانی شور بند ہوگیا اور دبے ہوئے لوگ یا تو مر گئے یا بے ہوش ہو گئے.“ اس کے بعد کھدائی کا کام شروع ہوا.بازاروں میں سائیکل سوار بدستور سائیکل پر بیٹھا نکلا ہے لیکن مرا ہوا.مکان میں ماں بچے کو نہلا رہی ہے.ایک ننھا بچہ گود میں ہے اسی حالت میں مکان گرا ہے اور لاشیں اسی حالت میں نکلی ہیں.دوکاندار سودا تول رہا ہے سامنے خریدار کھڑے ہیں اور انہیں جہاں کا تہاں بھونچال نے رکھ دیا ہے.ملبہ کو ہٹانے کے بعد اسی پوزیشن میں لاشیں نکلی ہیں.مونگھیر کے بعد شمالی بہار میں سب سے زیادہ نقصان مظفر پور میں ہوا ہے.اس کی آبادی ۵۲ ہزار کی تھی.سارے شہر میں ایک درجن سے زائد مکان نہیں بچے.سب کے سب نشٹ ہو گئے ہیں.اس وقت تک مظفر پور میں ملبہ کے نیچے........سے ۳ ہزار لاشیں نکل چکی ہیں اور ابھی اور نکالی جارہی ہیں.“ لوگوں کا بیان ہے کہ پہلے ایک معمولی سا جھٹکا آیا.پھر زمین کے اندر سے ہوائی جہاز کے چلنے کی آواز آئی.شور زیادہ بڑھا اور ایسا معلوم ہوا جیسے بم کے ہزار ہا گولے پھٹ رہے ہیں اور تب مکانات گرنے لگے اور چیخ و پکار کی ختم نہ ہونے والی صدائیں بلند ہو اٹھیں.دوکانوں اور مکانوں کے اندر زمین پھٹ گئی اور پانی اور ریت کے چشمے جاری ہو گئے.سڑکیں بھی پھٹ گئی اور ان کے اندر سے بھی ریت اور پانی باہر نکلنے لگا.دیہات میں بھی زمین جگہ جگہ سے پھٹ گئی اور کہیں سے سات گز اور کہیں سے پانچ پانچ گز بلند فوارے جاری ہو گئے.“ جنگ پور میں سات آٹھ دن گزر جانے کے باوجود بازاروں میں کشتی چل رہی

Page 202

۱۹۵ ہے.اسی طرح ستیا مڑھی کا حال ہوا ہے اور دوسری طرف موتی ہاری (چمپارن ) میں بھی جل تھل بن گیا ہے اور اس سارے علاقہ میں جہاں جہاں خشکی ہی خشکی تھی وہاں پانی ہی پانی ہو گیا ہے.عجیب تبدیلیاں ہوئی ہیں.کروڑ پتی اور لاکھوں پتی لوگوں کے عالی شان محل گر گئے ہیں اور اب وہ پھٹی پرانی بوریوں میں رات بسر کر رہے ہیں.کئی خاندانوں کے نام و نشان مٹ گئے ہیں.۵۷ پھر یہی اخبار ملاپ اپنے ایک اور نمبر میں ایک اور شخص کا چشم دید بیان لکھتا ہے کہ : - ایک دومنٹ میں ہی مکانوں کے گرنے سے اندھیرا ہو گیا نظر کچھ نہیں آتا تھا.جیسا کہ روز قیامت ہے.زمین ہل رہی تھی مکان گر رہے تھے زمین پھٹ رہی تھی اور ایسی پھٹ رہی تھی جیسے کوئی مقراض سے زمین چیر رہا ہے اور جہاں وہ پھٹ رہی تھی پانی کا دریا انڈرہا تھا لوگ جو باقی بچے تھے وہ اپنی جان پانی کے بہاؤ سے بچانے کے لئے بھاگ رہے تھے بھاگ کر کہاں جائیں جدھر دیکھو پانی ہی پانی نظر آتا تھا.چاروں طرف زمین پھٹ رہی تھی.شہر میں سڑکیں پھٹ چکی تھیں.ہزاروں آدمی کھنڈرات کے نیچے دب کر مر چکے تھے.خاندانوں کے خاندان تباہ ہو گئے ہیں.کل جو لاکھوں کے مالک تھے وہ آج کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے ہیں.۵۸ اخبار زمیندارلکھتا ہے کہ : -.نگھیر میں رات سے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی جو اب تک برابر جاری ہے.بدنصیب باشندگان مونگھیر کی مصیبتوں میں اضافہ ہو گیا ہے.اس وقت ان کی حالت قابل رحم ہے.ان کے پاس نہ اوڑھنے کے لئے کمبل ہے نہ پہنے کے لئے کپڑا.اس نئی مصیبت کی وجہ سے بعض کی زبان سے یہ الفاظ سنے گئے اس سے تو بہتر تھا کہ ہم بھی مرجاتے.اس زندگی سے تو موت بہتر ہے اے خدا ہمیں موت دے‘۵۹ اخبار ملاپ لکھتا ہے کہ : - مظفر پور اور پٹنہ میں کل رات سے موسلا دھار بارش شروع ہے.سڑکوں پر پڑے پڑے ہزار ہا بندگان خدا اب بارش میں شرابور سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں.مطلع پرابر محیط ہے.اور ابھی بارش تھمنے کی کوئی علامت نظر نہیں آتی..۶۰ مضامین بشیر

Page 203

مضامین بشیر ۱۹۶ اخبار پر کاش لا ہو رلکھتا ہے کہ : - ”ہندوستان کی تاریخ میں اس سے پہلے شاید ہی کوئی اتنا بڑا زلزلہ آیا ہو.زلزلہ کیا ہے پر ماتما کا ایک کوپ ہے.اخبار سرفرا زلکھنو لکھتا ہے کہ :.- ہندوستان کے باشندے گویا زلزلے کو بھولے ہوئے تھے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اب کچھ زمانہ سے ہندوستان میں بھی پے در پے زلزلے آ رہے ہیں.۱۲ " اخباراہلحدیث لکھتا ہے کہ : - یقین ہے کہ بعد ختم رسالت محمدیہ علی صاحب بالتحیة والسلام اگر نبوت جاری رہتی تو جدید نبی پر جو کتاب آتی اس میں عاد ثمود اور فرعونیوں کی تباہی کے ذکر کے ساتھ ہی صوبہ بہار کے زلزلہ زدہ مقامات کا ذکر بھی ضرور ہوتا.یعنی بتایا جاتا کہ ,, عادیوں نمودیوں کے عذاب سے زیادہ عذاب ان مقامات پر آیا.۱۳ گورنمنٹ ہند کے ہوم ممبر سر ہیری ہیگ نے اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ : - سرکاری عمارتوں مثلاً عدالتوں، دفتروں اور رہائشی مکانات کی مرمت یا از سرنو تعمیر کے مجموعی اخراجات کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا لیکن گورنر بہار نے کہا ہے کہ صرف ایک شہر میں ۳۰ لاکھ کی سرکاری عمارات مسمار ہوچکی ہیں.ریل کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے.صرف جمال پور کے نقصان کی مرمت کا انداز ۵۰۰ لاکھ روپے سے کم نہیں ہے.“ مقامی اداروں مثلاً ڈسٹرکٹ بورڈوں اور میونسپل کمیٹیوں کو بھی ہسپتالوں، دوا خانوں، سکولوں، سڑکوں اور پلوں کی تباہی سے بہت نقصان پہنچا ہے.,, 66 پرائیویٹ ملکیتیوں کے نقصان کا مجموعی اندازہ پیش کرنا قطعاً ناممکن ہے.“ "زراعتی زمینوں کے نقصانات کا اندازہ بھی ویسا ہی ناممکن ہے.بعض مقامات پر سُرخ کیچڑ اور ریت زمین سے نکل آئی ہے اور یہ کہ وہ مستقبل میں زمین کی زراعتی قابلیتوں کو کس حد تک نقصان پہنچائے گی.اس کا اندازہ سر دست نہیں کیا جا سکتا.کاشتکاروں پر اس وقت سب سے زیادہ مصیبت کا رخانجات شکر سازی کی وجہ سے بھی آئی ہے.جیسا کہ ہزا سیکسی لنسی گورنر نے اشارہ کیا تھا.تین اضلاع متاثرہ میں دولاکھ ایکڑ زمین پر نیشکر بویا جاتا تھا.جس سے ۲۲ لاکھ من شکر برآمد ہوتی

Page 204

۱۹۷ تھی.کارخانوں کی تباہی نے بے چارے کا شتکاروں کے لئے نہایت شدید پیچیدگی مضامین بشیر پیدا کر دی ہے.۶۴ ہر ایکسلینسی گورنر صاحب بہادر بہار نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :- اس زلزلہ کی تباہ کاری گزشتہ تاریخ کے مقابلہ میں بلحاظ عظمت سب سے زیادہ وسیع اور بھاری ہے.اگر دریائے گنگا کے جنوبی حصوں کو جن میں نسبتاً جان ومال کا کم نقصان ہوا ہے.چھوڑ بھی دیا جائے.تب بھی جس قدر علاقہ زلزلہ سے تباہ ہوا ہے وہ کسی طرح ملک سکاٹ لینڈ کے رقبہ سے کم نہیں ہے اور آبادی کے لحاظ سے اس سے پانچ گناہ زیادہ ہے.“ شمالی بہار کے شہروں میں اغلباً ایک خشتی مکان بھی نہیں ہے.جو کامل طور پر نقصان سے بچ گیا ہو.مونگھیر کا گنجان بازار اس حد تک برباد ہو چکا ہے کہ کئی دن تک رستہ کا پتہ باوجود کوشش کے نہیں لگ سکا.ہزار ہا جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور اگر یہ جھٹکا دن کی بجائے رات کو لگتا.تو اس سے ہزار درجہ زیادہ نقصان جان ہوتا.شہری آبادی جس پر یہ مصیبت آئی ہے ۵ لاکھ نفوس سے کسی طرح بھی کم نہیں.66 ۱۲ شہر جن کی آبادی ۱۰ ہزار سے ۶۰ ہزار تک تھی کامل طور پر تباہ ہو گئے ہیں.“ فوجی سپاہی جنہوں نے ہوائی جہاز کے ذریعہ سے رقبہ متاثرہ کی تباہی و بربادی کا مشاہدہ کیا ہے وہ اس کو ایک میدان جنگ سے تشبیہ دیتے ہیں.جس کو دشمن کی فوج نے بمباری سے تباہ کر دیا ہو.ایک بہت بڑے علاقے کے زمینداروں کی قابل کاشت زمینیں شگافوں، غاروں اور پانی کے ابلتے ہوئے چشموں سے تباہ ہوگئی ہیں.اور پانی کے ساتھ نکلی ہوئی ریت نے تین فٹ تک بلکہ اس سے زیادہ زمین کو ڈھانک دیا ہے.اس نقصان کی پوری وسعت کا اندازہ جو ہندوستان کے ایک نہایت زرخیز علاقہ کو پہنچا ہے.ایک مدت مدید تک کرنا مشکل ہے.جس علاقہ کا ڈائریکٹر آف ایگریکلچر اور ڈائریکٹر آف انڈسٹریز نے معائنہ کیا ہے.ان کا اندازہ ہے کہ مظفر پور اور دربھنگہ کے نزدیک ۲ ہزار مربع میل کے رقبہ پر نصف زمین بالکل ریگستان بن گئی ہے.“ اس کے علاوہ ہوائی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ نقصان شمالی بھا گلپور اور ضلع پور ینہ کے کھیتوں میں بھی پایا جاتا ہے.“

Page 205

مضامین بشیر ۱۹۸ تمام شمالی بہار میں آمد و رفت کے ذرائع مسدود ہیں اور سڑکیں اور ریلیں 66 برباد ہو چکی ہیں.“ اس کے علاوہ اور ایک خطرہ جس کو قطعاً نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.یہ ہے کہ زلزلہ نے تمام ملک کی سطح میں بلحاظ نشیب وفراز بڑی بڑی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں.زمین کے دھننے اور ابھرنے کی کشاکش سے اونچی اونچی سڑکیں معمولی سطح زمین کے برابر ہوگئی ہیں.آب رسانی کے سابقہ ذرائع بالکل معطل ہو گئے ہیں.دریاؤں کی گزر گا ہیں تبدیل ہوگئی ہیں.اس قدر تباہی اور زمین کے تغیرات کو مد نظر رکھتے ہوئے سخت اندیشہ ہے کہ آئندہ برسات اس علاقہ میں سخت طوفان کا باعث ہوگی.۶۵ لارڈ ریڈنگ سابق وائسرائے ہند نے لندن میں تقریر کرتے ہوئے چشم پر آب ہو کر کہا کہ : - یہ زلزلہ ایسا ہیبت ناک ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی اور یہ قریباً قریباً ناممکن ہے کہ اس تباہی کا نقشہ انگلستان کے باشندے اپنے تصور میں لاسکیں.کیا یہ تباہی جو اوپر کے حوالہ جات میں بیان ہوئی ہے.قیامت کے نمونہ سے کم ہے.کیا یہ تباہی اس ہولناک نقشہ کے عین مطابق نہیں.جو آج سے ۲۸ سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ؟ کیا یہ تباہی خدائے ذوالجلال کی قدرت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ؟ اور پھر کیا یہ تبا ہی خدا کے وعدے کے مطابق اس کے زور آور حملوں میں سے ایک زور آور حملہ نہیں؟ فاعتبروياولی الابصار ,, اس زلزلہ نے نادر شاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کے بعد آنا تھا دوسری علامت اس زلزلہ کے لئے یہ مقرر کی گئی تھی کہ وہ نادر شاہ بادشاہ افغانستان کی وفات کے بعد اس کے زمانہ سے ملتا ہوا آئے گا.یہ علامت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے اس طرح مستنبط ہوتی ہے کہ ۳ مئی ۱۹۰۵ء کی صبح کو آپ کو غیبی تحریر دکھائی گئی جس پر یہ الفاظ لکھے تھے :- آہ نادر شاہ کہاں گیا.۱۷ ی خبر نادر شاہ بادشاہ افغانستان کے واقعہ قتل کے متعلق تھی.جیسا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ

Page 206

۱۹۹ مضامین بشیر اللہ بنصرہ العزیز کے مفصل اور مدلل مضمون محر ر ہ ۲.نومبر ۱۹۳۳ء میں دوسرے الہامات اور تاریخی واقعات کی روشنی میں ثابت کیا گیا.جو آج سے قریباً دو ماہ پہلے شائع ہو کر تمام اکناف عالم میں پھیل چکا ہے اور یہ الہام بذات خود ایک عظیم الشان پیشگوئی کا حامل تھا جو ۸ نومبر ۱۹۳۳ء کو کنگ نادرشاہ کے افسوس ناک قتل سے پوری ہوئی مگر یہاں ہمیں اس پیشگوئی کی تفصیلات سے کوئی سروکا رنہیں ہے بلکہ اس جگہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نادرشاہ بادشاہ افغانستان کے متعلق سمئی ۱۹۰۵ء کو ایک پیشگوئی فرمائی تھی جو ۸ نومبر ۱۹۳۳ء کو آکر پوری ہوئی.اب ہم جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الہامات پر نظر ڈالتے ہیں جو آہ نادرشاہ کہاں گیا‘ والے الہام کے بعد آپ کو ہوئے.تو صاف طور پر ان میں ایک ایسے زلزلے کی خبر پاتے ہیں جو بہت تباہ کن ہوگا اور اس میں زمین تہ و بالا کر دی جائے گی.چنانچہ ۳ مئی ۱۹۰۵ء کے بعد الہامات درج ذیل ہیں.سب سے پہلا الہام و مئی ۱۹۰۵ء کو ہوا جو یہ ہے کہ : - وو پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی“.۲۸ آہ نادرشاہ کہاں گیا کے الہام کے بعد یہ پہلا الہام تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے متعد د جگہ تصریح فرمائی ہے کہ یہ الہام زلزلہ کے متعلق ہے.چنانچہ ایک جگہ آپ اس الہام کی تشریح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : - چونکہ پہلا زلزلہ ( یعنی ۴ را پریل ۱۹۰۵ء کا زلزلہ ) بھی بہار کے ایام میں تھا.اس لئے خدا نے خبر دی کہ وہ دوسرا زلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا“.۲۹ پھر اسی دن یعنی ۹ رمئی ۱۹۰۵ء کو دوسرا الہام ہوا کہ : - يَسْتَنبِتُو نَكَ اَحَقٌّ هُوَ قُلْ إِلَى وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقِّ.٠ك یعنی لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ زلزلہ کی خبر درست ہے.تو کہہ دے ہاں خدا کی قسم وہ درست ہے.“ پھر امئی ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا: - کیا عذاب کا معاملہ درست ہے؟ اگر درست ہے تو کس حد تک ؟‘اکے یہ الہام بھی یقیناً زلزلہ کے متعلق ہے اور واقعہ بھی اسی طرح ہے کہ اس پیشگوئی کے اعلان کے بعد اکثر مخالف حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کرتے رہتے تھے.کہ یہ جو زلزلہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اگر یہ درست ہے تو اس کی کیا کیا علامات اور کیا کیا تفصیلات ہیں.۷۲

Page 207

مضامین بشیر ۲۰۰ پھر ۲ ۲ مئی ۱۹۰۵ کو الہام ہوا کہ : - صَدَّقَنَا الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَالِكَ نَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ ۷۳ یعنی ہم نے تیرے رویا کو سچا کر کے دکھایا اور ہم اسی طرح نیکوکاروں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں.“ اس الہام کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زلزلہ کی طرف منسوب فرمایا ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ : - اس پیشگوئی کے متعلق جو زلزلہ ثانیہ کی نسبت شائع ہو چکی ہے.آج ۲۲ مئی ۱۹۰۵ء کو بوقت پانچ بجے صبح خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ( یعنی وحی مندرجہ بالا ) ہوئی.۴ کے پھر ۲۳ مئی ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا کہ : - زمین تہ و بالا کر دی.اِنّى مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيْكَ بَغْتَةً ۷۵ یعنی ایک تباہ کن زلزلہ آنے والا ہے.جبکہ خدائے ذوالجلال اپنی فوجوں کے ساتھ تیری صداقت کے اظہار کے لئے اچانک آئے گا“ یہ سارے الہامات موعودہ زلزلہ کے بارے میں ایک کڑی کی صورت میں نازل ہوئے ہیں اور آہ نادرشاہ کہاں گیا“ والے الہام کے ساتھ ملا کر اتارے گئے ہیں.جس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے علم میں ہمیشہ سے یہ مقدر تھا کہ نادر شاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کا واقعہ اور یہ زلزلہ عظیمہ ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے وقوع پذیر ہوں گے.خوب غور کر لو کہ ۱۹۰۵ء میں اللہ تعالیٰ ان الہامات کو جو دو بالکل مختلف واقعات سے تعلق رکھتے تھے.ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر نازل کرتا ہے.اور پھر ۲۸ سال کے لمبے عرصہ کے بعد وہ ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح آگے پیچھے ہو کر پورے ہوتے ہیں.جس طرح ۲۸ سال پہلے انہیں اتارا گیا تھا.کیا یہ ایک اتفاقی امر ہے یا کہ قدرت کے ہاتھوں کا ایک پیوند ہے جوازل سے جوڑا گیا ؟ الغرض زلزلہ کے متعلق مندرجہ بالا الہامات کو آہ نادر شاہ والے الہام کے ساتھ ملا کر نازل کرنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صاف اشارہ تھا کہ یہ دونوں پیشگوئیاں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ پوری ہوں گی.یعنی پہلے نادر شاہ کی دردناک وفات کا واقعہ پیش آئے گا اور پھر یہ تباہ کن زلزلہ ظاہر ہوگا.چنانچہ دیکھ لو کہ پیش گوئی کے ۲۸ سال بعد نومبر ۱۹۳۳ء میں کنگ نادر شاہ قتل ہوئے اور اس

Page 208

۲۰۱ مضامین بشیر کے پیچھے پیچھے موعود زلزلہ آن پہنچا.جس کی آنکھیں ہوں دیکھے.وما علینا الا البلاغ یہ زلزلہ بہار کے موسم میں مقدر تھا تیسری علامت یہ بیان کی گئی تھی کہ یہ زلزلہ بہار کے موسم میں آئے گا.چنانچہ اس بارے میں جو الهام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوا وہ اوپر کی بحث میں درج کیا جا چکا ہے.جو یہ ہے :- پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی.۶ کے و اس کی تشریح میں حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں کہ : - چونکہ پہلا زلزلہ بھی (جو ۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو آیا ) بہار کے ایام میں تھا.اس لئے خدا نے خبر دی کہ وہ دوسرا زلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا.اور چونکہ آخر جنوری میں بعض درختوں کا پتہ نکلنا شروع ہو جاتا ہے اس لئے اسی مہینہ سے خوف کے دن شروع ہوں گے اور غالبا مئی کے اخیر تک وہ دن رہیں گے...مجھے معلوم نہیں کہ بہار کے دنوں سے مراد یہی بہار کے دن ہیں جو اس جاڑے کے گزرنے کے بعد آنے والے ہیں یا اور کسی اور وقت پر اس پیش گوئی کا ظہور موقوف ہے جو بہار کا وقت ہوگا.بہر حال خدا تعالیٰ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہار کے دن ہوں گے خواہ کوئی بہار ہو.کے اب دیکھو کہ مندجہ بالا الہام میں اللہ تعالیٰ نے کس صراحت کے ساتھ یہ فرما دیا ہے کہ :- آئندہ تباہ کن زلزلہ بہار کے موسم میں آئے گا اور حضرت مسیح موعود نے بھی یہ صراحت کر دی ہے کہ بہار سے لازماً مراد اس الہام کے معاً بعد آنے والی بہار مراد نہیں ہے بلکہ مطلقاً بہار کا موسم مراد ہے.خواہ وہ کوئی بہار ہو اور کتنے سالوں کے بعد آئے لیکن جیسا کہ اوپر کی بحث میں بتایا جا چکا ہے.خدا کے علم میں ابتداء سے یہی تھا کہ اس بہار سے وہ بہار مراد ہے جو کنگ نادرشاہ کے واقعہ قتل کے بعد پیش آئے گی.الغرض اس زلزلہ کی علامات میں سے ایک علامت یہ تھی کہ وہ نادرشاہ کے قتل کے بعد بہار کے موسم میں آئے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ۱۵/جنوری ۱۹۳۴ء کا زلزلہ عین بہار کی ابتدا میں آیا اور حضرت مسیح موعود کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی“.اور ایک نکتہ اس پیش گوئی میں یہ ہے کہ گو پنجاب کے حالات کے لحاظ سے جہاں

Page 209

مضامین بشیر ۲۰۲ سردی زیادہ پڑتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آخر جنوری میں بہار کا آغاز تحریر فرمایا لیکن چونکہ خدا کے علم میں یہ تھا کہ یہ زلزلہ صوبہ بہار و بنگال میں آئے گا.جہاں سردی کی کمی کی وجہ سے بہار کا آغا ز طبعا کسی قدر پہلے ہوتا ہے اس لئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے زلزلہ کا زمانہ بیان کر کے لوگوں کو ہوشیار کیا ہے وہاں بجائے آخر جنوری کے عملاً سارے ماہ جنوری کو اس میں شامل کر لیا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ.اسی مہینہ ( یعنی جنوری ) سے خوف کے دن شروع ہوں گے.‘۸ کے اور پھر اس پیش گوئی میں خدا تعالیٰ کی ایک مزید قدرت نمائی یہ ہے جس سے پیشگوئی کی شان اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ جب ۲۸ جنوری ۱۹۰۶ ء کو پنجاب میں ایک درمیانے درجہ کا زلزلہ آیا تو چونکہ وہ بھی بہار کے موسم میں تھا اور اپنی وسعت کے لحاظ سے یہ الہام اس پر بھی چسپاں ہوتا تھا.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے اس زلزلہ پر چسپاں کر دیا مگر فوراً ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ : - زلزلہ آنے کو ہے.۷۹ اور خدا تعالیٰ نے خود حضرت مسیح موعود کے قلم سے یہ تشریح کروائی کہ اس زلزلہ کو جو ( ۲۸ فروری کو ) ہوا.اصل زلزلہ نہ سمجھو بلکہ سخت زلزلہ آنے کو ہے.یعنی آگے چل کر آئے گا.اور آپ نے لکھا کہ یہ تشریح میری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ” میرے دل میں ڈالا گیا کہ وہ زلزلہ جو قیامت کا نمونہ ہے وہ ابھی آیا نہیں بلکہ آنے کو ہے“.۸۰ الغرض جیسا کہ خدائی وعدہ تھا.یہ زلزلہ عین بہار کے موسم میں جبکہ بنگال و بہار میں شگوفہ پھوٹ رہا تھا، وقوع پذیر ہوا اور خدا کی یہ پیش گوئی اپنے پورے جلال کے ساتھ پوری ہوئی کہ ایک تباہ کن زلزلہ بہار کے موسم میں آئے گا اور یہ بہار وہ ہوگی جو نادر شاہ بادشاہ افغانستان کے قتل کے بعد آئے گی اب چاہو تو قبول کرو.یہ زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرق میں آنا تھا چوتھی علامت یہ مقرر کی گئی تھی کہ یہ زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرق میں آئے گا.چنانچہ اس

Page 210

۲۰۳ مضامین بشیر بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رویاء آج سے ۲۷ سال پہلے شائع ہو چکا ہے.یہ ہے، آپ فرماتے ہیں کہ :- ” میں نے ۲۰ اپریل ۱۹۰۷ء کو رویاء میں دیکھا کہ بشیر احمد ( خاکسار راقم الحروف ابن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) کھڑا ہے.وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا.۸۱ اس رویاء کے متعلق کسی تشریح کی ضرورت نہیں.مطلب بالکل ظاہر ہے یعنی یہ کہ اس ملک کا آئندہ سخت زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں آئے گا.جیسا کہ پہلا سخت زلزلہ جو ۱۹۰۵ء میں آیا.شمال مغربی حصہ میں آیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے کمال حکمت سے اس خواب میں ہی ایسے الفاظ رکھ دیئے جو یقینی طور پر اس بات کو ثابت کرتے ہیں کی شمال مشرق سے ملک کا شمال مشرق مراد ہے نہ کہ کچھ اور.چنانچہ خواب کے الفاظ یہ ہیں کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا“ کے الفاظ اس فقرہ میں چلا گیا کے الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سمت جو بتائی گئی ہے.یہ کسی پہلی سمت کے مقابل پر ہے.یعنی مقصود یہ ہے کہ پہلا زلزلہ ہندوستان کے شمال مغرب میں آیا تھا اور آئندہ زلزلہ اس کے مقابل پر شمال مشرق میں آئے گا.خوب سوچ لو کہ چلا گیا“ کے الفاظ سوائے اس کے اور کچھ ثابت نہیں کرتے کہ ان میں یہ اشارہ کرنا مطلوب ہے کہ اگر پہلے زلزلہ کی تباہی کا مرکز ہندوستان کا شمال مغربی حصہ تھا تو آئندہ زلزلہ میں یہ مرکز منتقل ہو کر شمال مشرق میں چلا جائے گا.اب دیکھو کہ یہ علامت ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ میں کس طرح حرف بحرف پوری ہوئی ہے.ہندوستان کے جغرافیہ کا ادنی علم رکھنے والوں سے بھی یہ بات مخفی نہیں ہے.حتی کے بچے بھی اسے جانتے ہیں کہ وادی کانگڑہ اور پنجاب جن میں ۱۹۰۵ء کا زلزلہ آیا.وہ ہندوستان کے شمال مغرب میں واقع ہے اور بنگال اور بہار اور نیپال جن میں ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ کی سب سے بڑی تباہی آئی.وہ ہندوستان کا شمال مشرقی حصہ ہیں اور یہ بات ایسی بدیہی اور عیاں ہے کہ اس پر ہمیں کسی دلیل کے لانے کی ضرورت نہیں مگر نا واقف لوگوں کی تسلی کے لئے اس جگہ تین اقتباسات درج کئے جاتے ہیں.جن سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ زلزلہ صحیح معنوں میں شمال مشرقی زلزلہ ہے.چنانچہ پنجاب کا انگریزی اخبا رسول لکھتا ہے : - وو ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ کا تحت الارض مرکز آسام سمجھا جاتا ہے.کیونکہ شمال مشرقی ہندوستان میں جتنے زلزلے کے دھکے محسوس ہوتے رہے ہیں ان کا تعلق آسام سے رہا ہے.آلات سائنس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ موجودہ..

Page 211

مضامین بشیر ۲۰۴ زلزلہ کا مرکز عرض بلد پر ۲۶ شمال اور طول بلد را ۸۵ شرق میں واقع ہے.۵۲ پھر اخبارسٹیٹس میں رقم طراز ہے کہ : - وو " لمبے تجربے سے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہندوستان کے شمال و مشرق کے زلزلے 66 کا مرکز آسام ہے.۸۳ پھر لکھنؤ کا اخبار سرفراز لکھتا ہے :- جو زلزله ۱۹۰۵ ء میں وقوع پذیر ہوا اس کا مرکز شمال ومغرب ہند کی وادی کانگڑہ میں تھا.اور اب اس ۱۹۳۴ء کے زلزلے کے متعلق اندازاہ ہوتا ہے کہ شمال و شرق ہند اس کا اصلی مرکز ہو گا.۸۴ الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیش گوئی کہ ہندوستان کا آئیندہ سخت زلزلہ ملک کے شمال مشرق میں آئے گا.پوری شان اور پوری آب و تاب کے ساتھ پوری ہوگئی ہے اور سوائے اس کے کہ کسی کے کان اور آنکھ اور دل سب مسلوب ہو چکے ہوں.کوئی شخص اس کی صداقت میں شبہ نہیں کر سکتا.فبای حدیث بعد ذالك يؤمنون اس زلزلہ کی پیشگوئی کی طرف سب سے پہلے مرزا بشیر احمد کی طرف سے اشارہ ہوگا پانچویں علامت یہ تھی کہ یہ زلزلہ خاکسار مرزا بشیر احمد کی زندگی میں ہی آئے گا اور ایسا ہوگا کہ ابتداء خاکسار ہی اس پیش گوئی کی طرف توجہ دلائے گا.یہ علامت بھی مندرجہ بالا رؤیا سے ہی ثابت ہوتی ہے.کیونکہ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ شمال مشرق کی سمت کی طرف خاکسار نے اشارہ کر کے کہا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا ہے.اب دیکھ لو کہ یہ علامت بھی کس طرح ہو بہو پوری ہوئی ہے.زندگی میں ایک دم کا اعتبار نہیں.دنیا میں ہر روز بچے بھی مرتے ہیں اور جوان بھی مرتے ہیں اور بوڑھے بھی مرتے ہیں اور کوئی شخص کسی عمر میں بھی موت کے حملے سے محفوظ نہیں ہے مگر خدا نے آج سے ۲۷ سال پہلے اپنے مقدس مسیح کو خبر دی تھی کہ ہندوستان کے شمال مشرق میں ایک سخت زلزلہ آنے والا ہے.اور وہ زلزلہ تیرے بیٹے بشیر احمد کی زندگی میں ہی آئے گا.اور وہی اس کی طرف اشارہ کر کے بتائے گا کہ یہ شمال مشرق کا موعود زلزلہ ہے.اس پیشگوئی پر آج ۲۷ سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر اس طویل عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے موت سے محفوظ رکھا اور مجھے اس وقت تک زندگی دی کہ میں اس زلزلہ کو دیکھوں اور لوگوں کو بتاؤں کہ

Page 212

۲۰۵ مضامین بشیر یہ وہی شمال مشرق کا زلزلہ ہے.جس کا وعدہ دیا گیا تھا اور پھر صرف مجھے زندگی ہی نہیں دی بلکہ ایسا تصرف فرمایا کہ سب سے پہلے میرا ہی ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ شمال مشرق کا موعود زلزلہ یہی ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کا زلزلہ ہے اور جس رنگ میں کہ میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا وہ بھی قابل ذکر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کے زلزلہ کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں تو اس کے چند روز بعد میں نے ایک رات یہ محسوس کیا کہ مجھے بے خوابی کا عارضہ لاحق ہے اور نیند نہیں آتی.حالانکہ عموماً مجھے بے خوابی کی شکایت نہیں ہوا کرتی.میں اس بے خوابی پر حیران تھا.اور وقت گزارنے کے لئے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کا مجموعہ " البشری اٹھا کر اسے پڑھنا شروع کیا اور میں اسے صبح کے ساڑھے چار بجے تک اسے پڑھتا رہا.آخر میں میری نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس رویاء پر پڑی کہ بشیر احمد شمال مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا مگر اس وقت بھی مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ اس میں ۱۵ جنوری والے زلزلہ کی طرف اشارہ ہے.اس کے بعد تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھ لگ گئی اور جب میں صبح اٹھا تو دن کے دوران میں اچانک ایک بجلی کی چمک کی طرح میرے دل میں یہ بات آئی کہ یہ خواب اسی زلزلہ پر چسپاں ہوتی ہے اور پھر جب میں نے اس کے حالات پر غور کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہی وہ زلزلہ ہے جو ہندوستان کے شمال مشرق میں آنا تھا.جس کے بعد میں نے اس کا ذکر حضرت مولوی شیر علی صاحب اور بعض دوسرے دوستوں کے ساتھ کیا.اور سب نے حیرت کے ساتھ اس سے اتفاق کیا کہ ہاں یہ وہی زلزلہ ہے.اور پھر جب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اب مناسب ہے کہ بشیر احمد ہی اس زلزلہ کے متعلق ایک مضمون لکھ کر شائع کرے.اور اس جگہ یہ بیان کر دینا بھی خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس رویاء میں جہاں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ زلزلہ خاکسار راقم الحروف کی زندگی میں آئے گا اور وہی سب سے پہلے اس کی طرف اشارہ کرنے والا ہوگا.وہاں اس رویاء کے الفاظ پر غور کرنے سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ یہ زلزلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آنا مقدر تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاکسار کو شمال مشرق کی طرف اشارہ کرتے دیکھنا اور اس رویاء میں اس پیش گوئی کے ظہور کے وقت سے خود آپ کی ذات کا کوئی تعلق ظاہر نہ ہونا یہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ زلزلہ آپ کی زندگی کے بعد آنا تھا.چنانچہ اس کے متعلق بعض دوسرے الہامات میں صاف اشارہ بھی ہے جیسا کہ 9 مارچ ۹۰۶ء کا الہام ہے کہ :- رَبِّ لَا تُرِنِي زَلْزَلَةِ السَّاعَةِ ، ۸۵ یعنی ” اے خدا مجھے یہ قیامت کے نمونہ والا زلزلہ نہ دکھا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.

Page 213

مضامین بشیر ۲۰۶ الغرض وہ پانچویں علامت بھی جو اس زلزلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی تھی یعنی یہ کہ یہ زلزلہ مرزا بشیر احمد کی زندگی میں آئے گا اور وہی اس کی طرف ابتدا توجہ دلانے والا ہوگا.حرف بحرف پوری ہوئی.فالحمد للہ علی ذالک ولا حول ولاقوة الا بالله تمام موعودہ علامات پوری ہوگئیں خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے علم پاکر ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ ء والے زلزلہ کے متعلق پانچ زبر دست علامات بیان فرمائی تھیں اور آج ۲۷ - ۲۸ سال کے لمبے زمانے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سب علامات من وعن پوری ہوئیں.ایک تباہ کن زلزلہ آیا اور وعدہ کے مطابق اپنے ساتھ پانی کے سیلاب کو لایا.زلزلہ آیا اور جیسا کہ وعدہ تھا عین بہار کے موسم میں آیا اور کنگ نادرشاہ کے قتل کے واقعہ کے ساتھ یوں ملا ہوا آیا کہ گویا قدرت کے ہاتھوں نے ان دو حادثوں کو ازل سے جوڑ رکھا تھا.زلزلہ آیا اور جیسا کہ وعدہ تھا عین بہار کے موسم میں آیا.گویا بہار کے موسم کو بہار کے صوبے سے کوئی مخفی نسبت تھی.زلزلہ آیا اور خدائی اشارہ کے مطابق ملک کے شمال مشرق میں آیا.یعنی جس طرح خدائی فرشتوں نے ۱۹۰۵ء میں ہندوستان کے شمال مغرب میں ڈیرے ڈالے تھے.۱۹۳۴ء میں یہ فرشتوں کی چھاؤنی ملک کے شمال مشرق میں آگئی.زلزلہ آیا اور وعدہ کے مطابق خاکسار راقم الحروف کی زندگی میں آیا اور خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ سب سے پہلے اس بات کی طرف میرا ہی ذہن منتقل ہوا کہ یہ وہی موعود زلزلہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ میرے نام کی نسبت سے اس میں یہ بھی اشارہ ہو کہ یہ زلزلہ خدائی سلسلہ کے لئے بشارت لے کر آتا ہے.پس میں پھر کہوں گا.الحمد لله على ذالک ولاحول قوة الا بالله.مصیبت زدگان سے ہمدردی ہم دنیا کی مصیبت پر خوش نہیں ہیں اور خدا جانتا ہے کہ اس زلزلہ کی تباہ کاری پر ہمارے دلوں میں ہمدردی اور مواخات کے کیا کیا جذبات اٹھتے ہیں.ہم ہر اس شخص سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں جسے اس زلزلہ میں کسی قسم کا نقصان پہنچا ہے.ہم ہر مالک مکان کے ساتھ اس کے مکان گرنے پر.ہر باپ کے ساتھ اس کے بیٹے کے مرنے پر.ہر خاوند کے ساتھ اس کی بیوی فوت ہونے پر.ہر بھائی کے ساتھ اس کے بھائی کے جدا ہونے پر.ہر بیٹے کے ساتھ اس کے باپ کے رخصت ہونے پر.ہر بیوی کے ساتھ اس کے خاوند کے گزر جانے پر.ہر دوست کے ساتھ اس کے دوست کے بچھڑنے پر سچی اور مخلصانہ ہمدردی رکھتے ہیں اور دوسروں سے بڑھ کر اپنی ہمدردی کا عملی ثبوت دینے کے لئے تیار ہیں اور اسے اپنا فرض سمجھتے

Page 214

۲۰۷ مضامین بشیر ہیں مگر اس سے بھی بڑھ کر ہمارا یہ فرض ہے کہ جب خدائے ذوالجلال کا کوئی نشان پورا ہوتا ہوا دیکھیں تو اسے دنیا کے سامنے پیش کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں اس طرح پوری ہوا کرتی ہیں تا کہ وہ خدا کو پہچانیں اور اس کے بھیجے ہوئے مامور مرسل کی شناخت کریں اور خدا سے جنگ کرنے کی بجائے اس کی رحمت کے پروں کے نیچے آجائیں.خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کو دنیا کے لیئے ایک رحمت کا مجسمہ بنا کر بھیجا.مگر افسوس دنیا نے آپ کو قبول نہ کیا اور وقت کی ضرورت کو نہ پہچانا اور خدا کے مامور ومرسل پر اپنے تیر و تفنگ نکالے اور اسے اپنی جنسی کا نشانہ بنایا.تب خدا اپنے وعدہ کے مطابق اپنی فوجوں کو لے کر آسمان سے اترا اور اس نے پھر کہا:- میں اپنی چہکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.۸۶ دعوت الی الحق سواے عزیز و! اب خدا کے دونوں ہاتھ تمہارے سامنے ہیں.ایک طرف اس کی رحمت کا ہاتھ ہے اور دوسری طرف اس کے غضب کا ہاتھ.اور تمھیں اختیار ہے کہ جسے چاہو قبول کرو مگر یا درکھو کہ خدا کے زور آور حملے ابھی ختم نہیں ہو گئے.خدا نے اپنے مسیح سے بہت سے عجائبات قدرت دکھانے کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ سب عجائبات ظاہر ہو کر رہیں گے اور کوئی نہیں جو انہیں روک سکے.مگر بدقسمت ہے وہ جو خدا کی طرف سے نشان پر نشان دیکھتا ہے اور ایمان کی طرف قدم نہیں بڑھاتا.یاد رکھو کہ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ دنیا کے ہر حصے میں اپنے قہری نشانوں کی تجلی دکھائے گا.حتی کہ لوگ حیران ہو کر پکا راٹھیں گے کہ اس دنیا کو کیا ہونے والا ہے ؟ پس پیشتر اس کے کہ تمھاری باری آئے خدا سے ڈرو اور اس کی رحمت کے ہاتھ کو قبول کرو.دیکھو صدیوں کے انتظار کے بعد خدا نے تمھاری طرف ایک مامور کو بھیجا ہے اور اس نے ارادہ کیا ہے کہ اس مردہ دنیا کو پھر زندہ کرے.پس اس کے اس ارادے کے رستے میں حائل مت ہو کیونکہ یہ ارادہ پورا ہو کر رہے گا.اور کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی.تم دنیا کے رشتوں اور دنیا کی دوستیوں اور دنیا کے مالوں اور دنیا کی عزتوں کی خاطر خدا کو چھوڑ رہے ہو مگرسن رکھو کہ یہ سب چیزیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور آخر پر ہر شخص کا معاملہ خدا کے ساتھ پڑنے والا ہے.پس اپنی عاقبت کی فکر کرو اور اس دن سے ڈرو کہ جب سب تعلقات سے الگ ہوکر خدا کے سامنے کھڑا ہونا ہوگا.خدا نے اپنی حجت تم پر پوری کر دی.اور اپنے زبر دست نشانوں سے تم پر ثابت کر دیا کہ حق کس کے ساتھ

Page 215

مضامین بشیر ۲۰۸ ہے.کیا اب بھی تم آنکھیں نہیں کھولو گے.خدا نے تم پر ثابت کر دیا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ کوئی خدا نہیں.خدا نے تم پر ثابت کر دیا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ اسلام خدا کا دین نہیں.خدا نے تم پر ثابت کر دیا کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ احمدیت خدا کی طرف سے نہیں.کیا اب بھی تم خدا کی گواہی کو قبول نہیں کرو گے؟ اور اے بہار وبنگال کے لوگو! اور اے نیپال کے رہنے والو! تم اس وقت خصوصیت سے خدا کے الزام کے نیچے ہو.کیونکہ وہ بستیاں تمھاری آنکھوں کے سامنے ہیں جو خدائی عذاب کا نشانہ بنیں.تم نے خدا کی ایک قہری تجلی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کے ایک زبر دست نشان کو اپنے سامنے مشاہدہ کیا.پس اب بھی وقت ہے کہ تم سنبھل جاؤ اور تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.خدا کا رحم اس کے غضب پر غالب ہے اور اس کی یہ سنت ہے کہ ایسے عذاب کے بعد پھر اپنی رحمت کا دروازہ کھولتا ہے.سو اس کے عذاب کو تو تم نے دیکھ لیا.اب آؤ اور اس کی رحمت کو قبول کرو.اے ہمارے مسلمان بھائیو اور اے حضرت مسیح ناصری کے نام لیواؤ اور اے ہمارے ہندو ہم وطنو اور اے تمام لوگو جو کسی مذہب وملت سے تعلق رکھنے کا دم بھرتے ہو! دیکھو اور سوچو کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ جھوٹا ہوتا اور خدا نے آپ کو مسلمانوں کے لئے مہدی اور عیسائیوں کے لئے مسیح اور ہندؤں کے لئے کرشن اور دوسری قوموں کے لئے آخری زمانہ کا موعود مصلح بنا کر نہ بھیجا ہوتا تو آپ کو ہلاک کر دینے کے لئے خود آپ کا افترا ہی کافی تھا کیونکہ خدا کے ازلی قانون کے ماتحت افترا کے اندر ہی ایسا آتشین مادہ موجود ہے کہ وہ مفتری علے اللہ کو بہت جلد جلا کر راکھ کر دیتا ہے اور اس کے لئے کسی بیرونی کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن تم دیکھتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سلسلہ باوجود ہر قسم کی مخالفت اور عداوت کے دن بدن بڑھتا چلا جاتا ہے اور ہر میدان میں اللہ تعالی اسے فتح اور کامیابی عطا کرتا اور اس کے دشمنوں کو ناکامی اور نامرادی کا منہ دکھاتا ہے.دشمن نے اپنا پورا زور لگا کر دیکھ لیا اور کوئی دقیقہ اس سلسلہ کو مٹانے کا اٹھا نہیں رکھا مگر جسے خدا بڑھانا چاہے اسے کون مٹا سکتا ہے.خدا نے ابتداء سے فرما رکھا تھا کہ ایک درخت ہے جو میرے ہاتھ سے لگایا گیا.اب یہ بڑھے گا اور پھولے گا اور پھلے گا اور کوئی نہیں جو اسے روک سکے.سو ایسا ہی ہوا.مگر خوش قسمت ہے وہ جو اس درخت کو پہچانتا ہے اور اس کے پھل پھول کو حاصل کرنے کے لئے دنیا کی کسی قربانی سے پیچھے نہیں ہتا کیونکہ وہ ابدی زندگی کا پھل ہے ، جس کے کھانے کے بعد کوئی موت نہیں.پس آؤ اور اس ابدی زندگی کے پھل کو کھا کر خدائی جنت کے وارث بنو.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.( مطبوع الفضل ۴ مارچ ۱۹۳۴ء)

Page 216

۲۰۹ مضامین بشیر رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ یہ رمضان کا مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن شریف کے نزول کی ابتداء ہوئی اور جسے خدا تعالیٰ نے روزے جیسی با برکت عبادت کے لئے مخصوص کیا ہے اور اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں خدا اپنے بندوں سے بہت قریب ہو جاتا ہے.یعنی اپنے قرب کے دروازے ان کے لئے خاص طور پر کھولتا ہے اور ان کی دعاؤں کو خاص طور پر سنتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ بندہ بھی خدا کی آواز پر کان دھرے اور اس پر ایمان لانے کے حق کو ادا کرے.پس روحانی رنگ میں ترقی کرنے کے لئے یہ ایک خاص مہینہ ہے اور وہ شخص بد قسمت ہے جو اس مہینہ کو پاتا ہے اور پھر ترقی کی طرف قدم نہیں اٹھاتا.اسی تحریک کی غرض سے امیر المومنین حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے گزشتہ دو جمعوں میں جماعت کو رمضان کی برکات کی طرف توجہ دلائی ہے اور میرے اس نوٹ کی پہلی غرض یہی ہے کہ احباب سے یہ تحریک کروں کہ حضرت امیر المومنین کے خطبوں کو غور کے ساتھ مطالعہ کریں اور ان پر کار بند ہو کر تقرب الہی کے لئے ساعی ہوں.رمضان کے متعلق مندرجہ ذیل امور خاص طور پر قابل توجہ ہیں.ا.جن لوگوں پر روزہ رکھنا فرض ہے اور وہ بیمار یا مسافر نہیں ، وہ ضرور رکھیں اور روزہ کو اس کی پوری شرائط کے ساتھ ادا کریں.۲.رمضان میں نماز تہجد کا خاص طور پر اہتمام کیا جائے خواہ باجماعت تراویح کے رنگ میں یا علیحدہ طور پر گھر میں.۳.روزہ رکھنا صرف بھو کے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایام درحقیقت تمام قوائے جسمانی پر گویا ایک بریک لگانے کی غرض سے رکھے ہیں.پس احباب کو چاہیئے کہ ان ایام میں جملہ نفسانی اور جسمانی طاقتوں کو خاص طور پر ضبط میں رکھیں تا کہ روحانی اور باطنی طاقتوں کو نشونما پانے کا موقع میسر آ سکے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل روزہ دل کا ہے.پس سب سے زیادہ توجہ دل کے خیالات وجذ بات کو پاک کرنے کی طرف ہونی چاہیئے.۴.چونکہ اس مہینہ کو خصوصیت کے ساتھ قرآن شریف کے نزول کے ساتھ تعلق ہے.اس لئے ان ایام میں قرآن شریف کی تلاوت اور اس کے معانی میں تدبر کرنے کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیئے.

Page 217

مضامین بشیر ۲۱۰ ۵.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان میں خصوصیت کے ساتھ زیادہ صدقہ وخیرات کرتے تھے.حتی کہ آپ کے متعلق حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ رمضان میں آپ کی حالت صدقہ و خیرات کے معاملہ میں ایسی ہوتی تھی کہ گویا ایک زور سے چلنے والی ہوا ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی.اور دراصل روزہ میں ضبط نفس اور قربانی کی جو تعلیم دی گئی ہے اس کا منشا کبھی پورا نہیں ہوسکتا.جب تک کہ اپنی ضروریات سے کاٹ کر غرباء کی مدد نہ کی جائے.۶.چونکہ روزہ کی برکات سے متمتع ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ انسان خدا کی آواز کو سنے اور اس پر ایمان لائے.اس لئے اس مہینہ میں خصوصیت کے ساتھ قرآن شریف کے اوامر ونواہی کو تلاش کر کے ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.اگر احباب غور کریں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ قرآن شریف کے بہت سے احکام ایسے ہیں.جن پر عمل کرنے کی انہوں نے کبھی کوشش نہیں کی اور نہ ہی ان پر عمل کرنے کا موقع تلاش کیا ہے.اسی طرح کئی نوا ہی ایسی ملیں گی جن کے متعلق انسان غفلت کی حالت میں گزر جاتا ہے.پس رمضان میں خاص طور پر قرآن شریف کے اوامر ونواہی کو مطالعہ کر کے ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش ہونی چاہیئے.تا کہ ان برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے جو خدا کی طرف سے رمضان کے مبارک مہینہ میں رکھی گئی ہیں.ے.مگر ایک عمومی کوشش کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیئے کہ رمضان میں اپنی کسی خاص کمزوری کو خیال میں رکھ کر اس کے متعلق دل میں یہ عہد کرے کہ وہ آئندہ خدا کی توفیق سے اس سے خاص طور پر بچنے کی کوشش کرے گا.اس سے بھی احباب کو فائدہ اٹھانا چاہئے..اس زمانہ میں لوگوں نے رمضان کو ضبط نفس اور قربانی کا ذریعہ بنانے کی بجائے اسے عملاً تعیش کا آلہ بنا رکھا ہے.چنانچہ سحری اور افطاری کے متعلق خاص اہتمام کئے جاتے ہیں اور بجائے کم خوری اور سادہ خوری کے رمضان میں غذا کی مقدار اور غذا کی اقسام اور بھی زیادہ کر دی جاتی ہیں.یہ طریق رمضان کی روح کے بالکل منافی ہے.پس احباب کو خاص طور پر کوشش کرنی چاہیئے کہ ان کا رمضان ان کے لئے کسی امتیش کا ذریعہ نہ بنے بلکہ یہ دن خاص طور پر سادگی اور مضبط نفس کی حالت میں گزریں.امیر المومنین حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے گذشتہ خطبات میں خوراک کے متعلق جو ہدایات دی گئی ہیں ان پر رمضان میں خصوصیت سے عمل ہونا چاہیئے.۹.رمضان کا مہینہ خاص طور پر نیک تحریکات کے قبول کرنے کا زمانہ ہے اور اس میں کیا شک

Page 218

۲۱۱ مضامین بشیر ہے کہ اس زمانہ میں اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کی تدابیر سے بڑھ کر اور کوئی تحریک نہیں ہوسکتی.پس اس مہینہ میں احباب کو خاص طور پر اس سکیم کی طرف توجہ دینی چاہیئے جو حضرت امیر المومنین نے گزشتہ خطبات میں جماعت کے سامنے پیش فرمائی ہے.۱۰.رمضان کو قبولیت دعا کے ساتھ ایک خصوصی تعلق ہے.پس احباب کو چاہیئے کہ اس مبارک مہینہ میں دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں اور خصوصیت کے ساتھ اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے دعائیں کریں.ان ایام میں سلسلہ احمدیہ کی مخالفت جس رنگ میں اور جس وسیع پیمانے پر کی جا رہی ہے.اس کی مثال کئی جہت سے اس سے پہلے زمانہ میں نہیں ملتی.یہ مخالفت یقیناً خدا کے آنے والے انعامات کے لئے پیش خیمہ کے طور پر ہے.مگر ضروری ہے کہ ہم لوگ نہ صرف اپنے عمل سے بلکہ اپنی دعاؤں سے بھی اس کے جاذب بنیں.پس ان روزوں کے ایام میں خصوصیت کے ساتھ دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہیئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہم کو اس رستہ پر چلنے کی توفیق دے جو اس کی رضاء اور فلاح کا رستہ ہے.آمین ( مطبوعه الفضل ۲۷ دسمبر ۱۹۳۴ء )

Page 219

۲۱۲ مضامین بشیر

Page 220

۲۱۳ ۱۹۳۵ء مضامین بشیر اختتام درس قرآن کریم کی دُعا گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی رمضان پر قادیان میں قرآن شریف کے درس کا انتظام کیا گیا تھا.اور اب آخری عشرہ میں مکرمی مولوی غلام رسول صاحب را جیکی آخری پاروں کا درس دے رہے ہیں.یہ درس انشاء اللہ تعالیٰ ۲۹ رمضان مطابق ۶ جنوری بروز اتوار ہوگا.اور آخری دوسورتوں کا درس خود حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد اقصیٰ میں 4 جنوری کو بعد نما ز عصر فرمائیں گے.جس کے بعد حسب دستور حضور مقامی جماعت کے ساتھ دُعا فرمائیں گے.بیرونی احباب اپنی اپنی جگہ پر 4 جنوری کو بعد نماز عصر وقبل اذان مغرب دعا کا انتظام کر کے اس دعا میں شریک ہو سکتے ہیں.( مطبوعه الفضل ۳ جنوری ۱۹۳۵ء )

Page 221

مضامین بشیر ۲۱۴ تذکرہ کے بارے میں جماعت کو پیغام آپ کو علم ہوگا کہ جہاں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تین سال گزرے جلسہ سالانہ پر احباب جماعت کو ان کے تزکیہ نفس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کے مجموعہ کی بالالتزام تلاوت کرنے کی تاکید فرمائی تھی.اور اس سے جو فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں ان کا ذکر فرمایا تھا وہاں نظارت تالیف و تصنیف کو بھی ارشاد فرمایا تھا کہ جلد تر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات مکاشفات اور رویاء کا صحیح اور مکمل مجموعہ شائع کرنے کا انتظام کرے تا کہ دوست اس سے پوری طرح مستفید ہو سکیں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نے اس کی ترتیب و تدوین کے متعلق ایک سب کمیٹی تجویز فرمائی.جس نے باہمی مشورہ کے بعد ضروری امور طے کئے جن کے مطابق مکر می مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل کی نگرانی میں سلسلہ احمدیہ کے دونو جوان علماء کے سپرد یہ کام کیا گیا اور وقتاً فوقتاً خاکسار نے بھی بحیثیت ناظر تالیف و تصنیف ان کے کام کو دیکھا.اور ضروری مشورے دیئے.اس کی تیاری کے لئے مرتب کنندگان نے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا گہرا مطالعہ کیا وہاں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اشتہارات ، مکتوبات ، تقاریر اور ڈائریوں کا بھی مطالعہ کیا.مزید برآں سلسلہ کے اخبارات، رسائل اور دوسری ضروری کتب کو بھی پڑھا اور ان کے مطالعہ کے بعد جس قدر الہامات، مکاشفات اور رویاء وغیرہ مل سکے وہ سب کے سب تاریخی ترتیب کے ساتھ جمع کر لئے گئے.یہی نہیں بلکہ بعض ضروری تشریحات بھی حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام ہی کی کتب سے لے کر ایزاد کی گئیں.اس کے سوا جن الہامات کی تاریخوں وغیرہ کے متعلق کچھ ابہام تھا اُن کے متعلق فٹ نوٹوں میں تشریح کی گئی.اور حضور کے جو الہامات عربی ، فارسی اور انگریزی وغیرہ میں تھے ان کا ترجمہ بھی ساتھ ہی ساتھ دے دیا گیا.اور جن کا ترجمہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے نہیں فرمایا تھا.ان کا ترجمہ مرتب کی طرف سے حاشیہ میں دے دیا گیا.مزید برآں عربی عبارتوں پر اعراب بھی لگا دئے گئے.تاکہ پڑھنے والا صحت کے ساتھ پڑھ سکے.الغرض اس مجموعہ کو زیادہ سے زیادہ مکمل صحیح اور مفید بنانے میں جو باتیں ضروری تھیں ان کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے.اور اس کی موجودہ صورت کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ احباب جماعت اسے دیکھیں گے تو یقیناً خوش ہوں گے.علاوہ اس محنت اور مفید اضافوں اور ضروری فٹ نوٹوں کے اس کی

Page 222

۲۱۵ مضامین بشیر کتابت ، طباعت اور کاغذ کا بھی عمدہ انتظام کیا گیا ہے.کتاب کا سائز ۲۰×۲۶ ہے.کاغذ اعلیٰ ساخت کا چھپائی عمدہ، لکھائی دیدہ زیب اور مسطر ۲۲ سطری ، حاشیہ کھلا ، اصل متن کا قلم جلی اور ترجمہ اور نوٹوں کا قلم قدرے خفی رکھا گیا ہے.تا کہ اصل اور ترجمہ میں امتیاز رہے اور حجم چھ ساڑھے چھ سو صفحات کے لگ بھگ اور قیمت بلا جلد دوروپے الغرض یہ مجموعہ الہامات جس کا نام حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ”تذکرہ تجویز فرمایا ہے.اپنی باطنی اور ظاہری خوبیوں کے لحاظ سے اس قابل ہو گیا ہے کہ دوست اسے زیادہ سے زیادہ تعداد میں خریدیں اور پڑھیں اور اس سے فائدہ اٹھا ئیں.چونکہ قلت سرمایہ کی وجہ سے صرف ایک ہزار ہی چھپوایا گیا ہے.اس لئے دوستوں کو چاہیئے کہ اس نعمت غیر مترقبہ کو جلد سے حاصل کر لیں.ورنہ ختم ہو جانے پر پھر انتظار کرنا پڑے گا.لہذا جو دوست چاہتے ہیں کہ اس دُرِ بے بہا کو جلد تر حاصل کریں اور اعلان ہذا پڑھتے ہی اپنا آرڈر بھجوا دیں.احباب کی خاطر اس مجموعہ کی جلد بھی کروائی جا رہی ہے.جلد انشاء اللہ مضبوط ، خوبصورت اور سادے کپڑے کی ہوگی اور اس پر کتاب کا نام سنہری حرفوں سے لکھا ہوگا.امید ہے کہ دوست اس نادر موقع سے ضرور فائدہ اٹھائیں گے.مطبوعه الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۳۵ء)

Page 223

مضامین بشیر ۲.الانفال :۳۴ ۲۱۶ حوالہ جات ۱۹۳۴ء،۱۹۳۵ء ۳.بنی اسراءیل : ۱۶ ۴.براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۵۷ حاشیه در حاشیه روحانی خزائن اصفحه ۶۶۵.تذکره صفحه ۸۱ طبع ۲۰۰۴ء ۵ - متی باب ۲۴ آیت ۷ النازعات : ۷ تا ۱۰ ۷.کتب احادیث ابواب الشراط الساعة.براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۱۲ طبع ۱۸۸۴ء.تذکرہ صفحہ ۲ ۷ طبع ۲۰۰۴ء.براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۵۵۷ طبع ۱۸۸۴ء.تذکره صفحه ۲ ۸ طبع ۲۰۰۴ء ۱۰ - الحکم ۲۴ دسمبر ۱۹۰۴ء.تذکرہ صفحہ ۴۱۸ طبع ۲۰۰۴ء ۱۱.الحکم ۳۱ مئی ۱۹۰۴ء.تذکره صفحه ۴۳۲ طبع ۲۰۰۴ء ۱۲ - الحکم ۱۰ جون تا ۱۷ جون ۱۹۰۴ء.تذکره صفحه ۲۳۳ طبع ۲۰۰۴ء ۱۳ - الحکم ۲۴ مارچ ۱۹۰۵ء صفحه ۲.تذکره صفحه ۴۴۴ طبع ۲۰۰۴ء ۱۴.الحکم ۱۰ اپریل ۱۹۰۵ء صفحه ۱۲.تذکره ۴۴۸ طبع ۲۰۰۴ء -۱۵ - الحکم ۱۰ اپریل ۱۹۰۵ء صفحه ۱۲.تذکره ۴۴۸ طبع ۲۰۰۴ء ۱۶.ایڈیٹوریل اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور۱۷ جنوری ۱۹۳۴ء ۱۷ لیس: ۳۱ ۱۸.اشتہار الانذار مطبوعه ۱۸ اپریل ۱۹۰۵ء تذکره صفحه ۴۵۰ طبع ۲۰۰۴ء ۱۹ - الحکم ۱۲۴ پریل ۱۹۰۵ء.تذکره صفحه ۴۵۱ طبع ۲۰۰۴ء ۲۰ - الحکم ۱۲۴ اپریل ۱۹۰۵ء.تذکرہ صفحہ ۴۵۱ طبع ۲۰۰۴ء

Page 224

۲۱۷ ۲۱.بدره ۲ اپریل ۱۹۰۵ ء صفحہ ۱.تذکرہ صفحہ ۴ ۴۵ طبع ۲۰۰۴ء ۲۲ - الحکم ۲۴ اپریل ۱۹۰۵ء.تذکرہ صفحہ ۵ ۴۵ طبع ۲۰۰۴ء ۲۳.بدر ۲۷ اپریل ۱۹۰۵ء.تذکرہ صفحہ ۷ ۴۵ طبع ۲۰۰۴ء ۲۴ - بدر ۱۸ مئی ۱۹۰۵ ء صفحه ۵ - تذکره صفحه ۲۶۳ طبع ۲۰۰۴ء ۲۵ - بدر ۲۴ اگست ۱۹۰۵ ء صفحہ ۲.تذکر ۴۷۲۵ طبع ۲۰۰۴ء ۲۶.بدر ۴ استمبر ۱۹۰۵ ء صفحہ ۲.تذکرہ صفحہ ۴۷۹ طبع ۲۰۰۴ء ۲۷ - تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۹۵ - تذکره صفحه ۵۱۶ طبع ۲۰۰۴ء ۲۸.بدرے امئی ۱۹۰۶ ء صفحہ ۲.تذکرہ ۵۲۷ طبع ۲۰۰۴ء ۲۹.بدر ۲۷ ستمبر ۱۹۰۶ء صفحه ۱۲.تذکر ۵۶۴۰ طبع ۲۰۰۴ء ۳۰.بد را ۲ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳.تذکرہ ۵۹۷ طبع ۲۰۰۴ء ۳۱.بدر ۲۸ مارچ ۱۹۰۷ء صفحه ۳.تذکرہ ۵۹۷ طبع ۲۰۰۴ء ۳۲.بدر ۶ امئی ۱۹۰۷ ء صفحہ ۴.تذکرہ صفحہ ۶۰۸ طبع ۲۰۰۴ء ۳۳.پیشگوئی جنگ عظیم از نوٹ بک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ۳۴.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۶۷ تا ۲۶۹ ۳۵ - اخبار پاؤ نیر اللہ آباد - ۲۲ اپریل ۱۹۰۶ء ۳۶.اخبار سول لا ہور.ے فروری ۱۹۰۷ء ۳۷.اشتہار النداء من وحی اسماء مطبوعه ۲۱ اپریل ۱۹۰۵ء سٹیٹسمین مورخه ۱۸ جنوری ۱۹۳۴ء ۳۹.زمیندار ۲۵ جنوری ۱۹۳۴ء ۴۰.بدر ۲۷ ستمبر ۱۹۰۶ ء.تذکر ۵۶۴۰ طبع ۲۰۰۴ء ۴۱.حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۷۸ ۴۲ - الجمیعۃ ۲۴ جنوری ۱۹۳۴ء ۴۳ سٹیٹسمین دہلی ۲۰ جنوری ۱۹۳۴ء ۴۴.سول ملٹری گزٹ ۹ فروری ۱۹۳۴ء ۴۵.سرچ لائٹ پٹنہ ۲۹ جنوری ۱۹۳۴ء ۴۶.حقیقت ۱۸ جنوری ۱۹۳۴ء مضامین بشیر

Page 225

مضامین بشیر ۴۷.ملاپ یکم فروری ۱۹۳۴ء ۴۸.سول لا ہور ۹ فروری ۱۹۳۴ء ۴۹.زمیندار ۲۵ فروری ۱۹۳۴ء ۵۰.پرتاپ لا ہو ر ۲۶ جنوری ۱۹۳۴ء ۵۱ - انقلاب یکم فروری ۱۹۳۴ء ۵۲ - انقلاب ۲ فروری ۱۹۳۴ء ۵۳ - حقیقت للمصنو ۲۴ جنوری ۱۹۳۴ء ۵۴.ملاپ لا ہو ر ۳۱ جنوری ۱۹۳۴ء ۵۵ - ملاپ لا ہور ۲۵ جنوری ۱۹۳۴ء ۵۶ - ملاپ ۳ فروری ۱۹۳۴ء ۵۷ - ملاپ ۲۸ جنوری ۱۹۳۴ء ۵۸ - ملاپ ۲۶ جنوری ۱۹۳۴ء ۵۹.زمیندار۳ فروری ۱۹۳۴ء ۶۰.ملاپ ۳۱ جنوری ۱۹۳۴ء ۶۱.پرکاش ۲۸ جنوری ۱۹۳۴ء ۲۱۸ ۶۲.سرفراز ۲۱ جنوری ۱۹۳۴ء ۶۳.اہلحدیث ۹ فروری ۱۹۳۴ء ۶۴.سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲۵ جنوری ۱۹۳۴ء ۶۵.سول اینڈ ملٹری گزٹ ۵ فروری ۱۹۳۴ء ۶۶ - اخبا رسول ۱۰ فروری ۱۹۳۴ء ۶۷.بدر ۲۷ اپریل ۱۹۰۵ ء صفحه ۱ ، تذکره صفحه ۴۶۱ طبع ۲۰۰۴ء ۶۸.بد را امئی ۱۹۰۵ ء صفحه ا ، تذکره صفحه ۴۶۱ طبع ۲۰۰۴ء ۶۹ - الوصیت ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۱۴ ۷۰.بد را امئی ۱۹۰۵ ء صفحه ا، تذکره صفحه ۴۶۱ طبع ۲۰۰۴ء اے.بد را امئی ۱۹۰۵ء صفحہها، تذکره صفحه ۴۶۲ طبع ۲۰۰۴ء ۷۲.ضمیمہ براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد ۲۱ ، صفحه ۰ ۲۵ - ۲۵۱

Page 226

۲۱۹ ۷۳ - الحکم ۲۴ مئی ۱۹۰۵ء.تذکره ۴۶۳ - طبع ۲۰۰۴ء ۷۴.بدر ۱۸ مئی ۱۹۰۵ء صفحه ۵ ۷۵ - الحکم ۲۴ مئی ۱۹۰۵ء.تذکره ۴۶۳ - طبع ۲۰۰۴ ۷۶.بد را امئی ۱۹۰۵ء، تذکره صفحه ۴۶۱ طبع ۲۰۰۴ ۷۷.الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۴ ۷۸ - الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۴ ۷۹.اشتہار زلزلہ کی پیشگوئی ۲ مارچ ۱۹۰۶ء ۸۰.اشتہار زلزلہ کی پیشگوئی ۲ مارچ ۱۹۰۶ء ۸۱ - بدر مئی ۱۹۰۷ ء ، تذکره صفحه ۶۰۴ طبع ۲۰۰۴ء ( مفهوماً) ۸۲.اخبا رسول لا ہور ۲۳ جنوری ۱۹۳۴ء ۸۳ سٹیٹسمین دہلی ۲۴ جنوری ۱۹۳۴ء ۸۴ - اخبار سرفراز لکھنو ۲۱ جنوری ۱۹۳۴ء ۸۵ - بدر ۱۶ مارچ ۱۹۰۶ء ، تذکره صفحه ۱۳ ۵ طبع ۲۰۰۴ ۸۶ - روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۶۵ ، تذکره صفحه ۸۱ طبع ۲۰۰۴ء مضامین بشیر

Page 227

۲۲۰ مضامین بشیر

Page 228

۲۲۱ ١٩٣٦ء مضامین بشیر سیرۃ المہدی حصّہ اوّل کے متعلق ضروری اعلان ابتداء میں جبکہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل پہلی دفعہ شائع ہوئی تو اس کی بعض روایات کے متعلق بعض احباب کی طرف سے تشریح و توضیح کا مطالبہ کیا گیا تھا اور بعض مخالفین سلسلہ کی طرف سے بھی نکتہ چینی ہوئی تھی.اس نکتہ چینی کے پیش نظر میں نے سیرۃ المہدی حصہ دوم کی تصنیف کے وقت اس میں بعض تشریحی نوٹ زیادہ کر دیئے تھے لیکن پھر بھی کچھ حصہ ایسا باقی رہ گیا جو مزید تشریح کا محتاج تھا.اس حصہ کو میں نے اب سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی طبع دوم میں جواب گذشتہ سالانہ جلسہ پر شائع ہوئی ہے.اپنی طرف سے واضح کر دیا ہے.یعنی جو جو حصے میری رائے میں تشریح اور وضاحت چاہتے تھے ، انہیں تشریحی نوٹوں کے رنگ میں واضح کر دیا گیا ہے.جیسا کہ میں نے طبع اوّل کے وقت کتاب کے شروع میں لکھا تھا.میں روایات کی صحت کا اس رنگ میں مدعی نہیں ہوں کہ ہر روایت ہر صورت میں اور اپنی پوری تفصیل کے ساتھ درست اور صحیح ہے.جو باتیں ایک عرصہ گذر جانے کے بعد لوگوں کے سینوں سے جمع کی جاتی ہیں ، ان میں بہر حال غلطی کا امکان ہوتا ہے اور میں نے کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میری روایات کا مجموعہ اس امکان سے بالا ہے.ہاں میں نے اپنی طرف سے یہ کوشش کی تھی اور کرتا ہوں کہ صرف ایسی روایات کو لیا جاوے جو میرے خیال میں فی الجملہ درست اور صحیح ہیں مگر کسی تفصیل میں فرق پڑ جانا یا کسی جزو میں غلطی لگ جانا ایک ایسا عنصر ہے جو اس قسم کے مجموعہ سے کبھی بھی خارج نہیں کیا جاسکتا.بہر حال جو باتیں سیرۃ المہدی کے حصہ اوّل کی طبع اول میں مجھے قابل تشریح معلوم ہوئیں، انہیں میں نے طبع دوم میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور میں کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ صورت میں سیرۃ المہدی حصہ اوّل کا دوسرا ایڈیشن پہلے ایڈیشن کی نسبت فی الجملہ زیادہ مستند ہے.اگر اس میں بھی کوئی غلطی نظر آئی یا کسی مزید تشریحی نوٹ کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ آئندہ ایڈیشن میں یا کتاب کے دوسرے حصص میں واضح کی جاسکے گی اور میں احباب کا ممنون ہوں گا جو مجھے کسی غلطی یا اغلاق کی طرف توجہ دلائیں.( مطبوعہ الفضل سے جو الا ئی ۱۹۳۶ء)

Page 229

مضامین بشیر ۲۲۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش معین ہوگئی ۱۴ شوال ۱۲۵۰ ہجری مطابق ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء بروز جمعه حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تاریخ پیدائش اور عمر بوقت وفات کا سوال ایک عرصے سے زیر غور چلا آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تصریح فرمائی ہے کہ حضور کی تاریخ پیدائش معین صورت میں محفوظ نہیں ہے.اور آپ کی عمر کا صحیح اندازہ معلوم نہیں.کیونکہ آپ کی پیدائش سکھوں کی حکومت کے زمانہ میں ہوئی تھی.جبکہ پیدائشوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تھا.البتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض ایسے امور بیان فرمائے ہیں جن سے ایک حد تک آپ کی عمر کی تعیین کی جاتی رہی ہے.ان اندازوں میں سے بعض اندازوں کے لحاظ سے آپ کی پیدائش کا سال ۱۸۴۰ء بنتا ہے اور بعض کے لحاظ سے ۱۸۳۱ء تک پہنچتا ہے اور اسی لئے یہ سوال ابھی تک زیر بحث چلا آیا ہے کہ صحیح تاریخ پیدائش کیا ہے.میں نے اس معاملہ میں کئی جہت سے غور کیا ہے اور اپنے اندازوں کو سیرۃ المہدی کے مختلف حصوں میں بیان کیا ہے.لیکن حق یہ ہے کہ گو مجھے یہ خیال غالب رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش کا سال ۱۸۳۶ عیسوی یا اس کے قریب قریب ہے مگر ابھی تک کوئی معین تاریخ معلوم نہیں کی جاسکی تھی.لیکن اب بعض حوالے اور بعض روایات ایسی ملی ہیں جن سے یقینی طور پر معین تاریخ کا پتہ لگ گیا ہے جو بروز جمعہ ۱۴ شوال ۱۲۵۰ ہجری مطابق ۱۳ فروری ۱۸۳۵ عیسوی مطابق یکم پچھا گن ۱۸۹۱ بکرمی ہے.اس تعیین کی وجوہ یہ ہیں : (۱) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تعیین اور تصریح کے ساتھ لکھا ہے جس میں کسی غلطی یا غلط فہمی کی گنجائش نہیں کہ میری پیدائش جمعہ کے دن چاند کی چودھویں تاریخ کو ہوئی تھی سے (۲) ایک زبانی روایت کے ذریعہ جو مجھے مکرمی مفتی محمد صادق صاحب کے واسطہ سے پہنچی ہے اور جو مفتی صاحب موصوف نے اپنے پاس لکھ کر محفوظ کی ہوئی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ہندی مہینوں کے لحاظ سے میری پیدائش پھاگن کے مہینہ میں ہوئی تھی.

Page 230

۲۲۳ مضامین بشیر (۳) مندرجہ بالا تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرے متعدد بیانات سے بھی قریب ترین مطابقت رکھتی ہے.مثلاً یہ کہ آپ ٹھیک ۱۲۹۰ھ میں شرف مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہوئے تھے سے.اور اس وقت آپ کی عمر چالیس سال کی تھی.وغیرہ وغیرہ.میں نے گزشتہ جنتریوں کا بغور مطالعہ کیا ہے اور دوسروں سے بھی کرایا ہے تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ پھاگن کے مہینے میں جمعہ کا دن اور چاند کی چودھویں تاریخ کس کس سن میں اکھٹے ہوئے ہیں.اس تحقیق سے یہی ثابت ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تاریخ پیدائش ۱۴ شوال ۱۲۵۰ ہجری بمطابق ۱۳ فروری ۱۸۳۵ عیسوی ہے.جیسا کہ نقشہ ذیل سے ظاہر ہو گا : - تاریخ معه سن عیسوی تاریخ چاند معه سن ہجری دن تاریخ ہندی مہینہ معه سن بکرمی ۱۷ فروری ۱۸۳۲ء ۱۴ رمضان ۱۲۴۷ھ ۸ فروری ۱۸۳۳ء ۱۷رمضان ۱۲۴۸ھ ۲۸ فروری ۱۸۳۴ء ۱۸ شوال ۱۲۴۹ھ ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء ۱۴ شوال ۱۲۵۰ھ ۵ فروری ۱۸۳۶ء ۱۷ شوال ۱۲۵۱ھ جمعه جمعہ ۴ فروری ۱۸۳۱ء ۲۰ شعبان ۱۲۴۶ھ جمعه جمعه جمعه جمعه جمعه جمعه جمعه جمعه ے پھاگن ۷ ۱۸۸ بکرم یکم پھاگن ۱۸۸۸ بکرم ۴ پھاگن ۱۸۸۹ بکرم ۵ پھاگن ۱۸۹۰ بکرم یکم بھا گن ۱۸۹۱ بکرم ۳ پھاگن ۱۸۹۲ بکرم ۴ پھا گن ۱۸۹۳ بکرم ے پھاگن۱۸۹۴ بکرم بھاگن ۱۸۹۵ بکرم ۴ پچھا گن ۱۸۹۶ بکرم ۲۴ فروری ۱۸۳۷ء ۸ از یقعد ۱۲۵۲۰ھ ۹ فروری ۱۸۳۸ء ۲۰ ذیقعد ۱۲۵۳۰ه یکم فروری ۱۸۳۹ء ۱۵ ذیعقد ۱۲۵۴۰ه ۲۱ فروری ۱۸۴۰ء ۱۶ ذی الحج ۱۲۵۵ھ اس نقشہ کی رو سے ۱۸۳۳ عیسوی کی تاریخ بھی درست سمجھی جاسکتی ہے.مگر دوسرے قرائن سے جن میں سے بعض اوپر بیان ہو چکے ہیں اور بعض آگے بیان کئے جائیں گے.صحیح یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش ۱۸۳۵ عیسوی میں ہوئی تھی.پس ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء بمطابق ۱۴ شوال ۱۲۵۰ ہجری بروز جمعہ والی تاریخ صحیح قرار پاتی ہے.اور اس حساب کی رو سے وفات کے وقت جو ۲۴ ربیع الثانی ۱۳۲۶ ہجری شے میں ہوئی آپ کی عمر پورے ۷۵ سال ۶ ماہ اور دس دن کی بنتی

Page 231

مضامین بشیر ۲۲۴ ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش کی تاریخ معین طور پر معلوم ہوگئی ہے.ہمارے احباب اپنی تحریر و تقریر میں ہمیشہ اس تاریخ کو بیان کیا کریں گے تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تاریخ پیدائش کے متعلق کوئی ابہام اور اشتباہ کی صورت نہ رہے اور ہم لوگ اس بارہ میں ایک معین بنیاد پر قائم ہو جائیں.اس نوٹ کے ختم کرنے سے قبل یہ بھی ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک الہام الہی میں یہ بتایا گیا تھا کہ آپ کی عمر ۸ سال یا اس سے پانچ یا چار کم یا پانچ یا چار زیادہ ہوگی.اگر اس الہام کے لفظی معنی لئے جائیں تو آپ کی عمر پچھتر ، چھیتر یا اسی یا چوراسی ، پچاسی سال کی ہونی چاہیئے بلکہ اگر اس الہام کے معنے کرنے میں زیادہ لفظی پابندی اختیار کی جائے تو آپ کی عمر پورے ساڑھے پچھتر سال یا اسی یا ساڑھے چوراسی سال کی ہونی چاہیئے.اور یہ ایک عجیب قدرت نمائی ہے کہ مندرجہ بالا تحقیق کی رو سے آپ کی عمر پورے ساڑھے پچھتر سال کی بنتی ہے.اسی ضمن میں یہ بات بھی قابل نوٹ ہے کہ ایک دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی پیدائش کے متعلق بحث کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت آدم سے لے کر ہزار ششم میں سے ابھی گیارہ سال باقی رہتے تھے کہ میری ولادت ہوئی اور اسی جگہ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ابجد کے حساب کے مطابق سورۃ والعصر کے اعداد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ نکلتا ہے.جو شمار کے لحاظ سے ۴۷۳۹ سال بنتا ہے کہ یہ زمانہ اصولاً ہجرت تک شمار ہونا چاہیئے کیونکہ ہجرت سے نئے دور کا آغاز ہوتا ہے.اب اگر یہ حساب نکالا جائے تو اس کی رُو سے بھی آپ کی پیدائش کا سال ۱۲۵۰ھ بنتا ہے.کیونکہ ۶۰۰۰ میں سے اا نکالنے سے ۵۹۸۹ رہتے ہیں.اور ۵۹۸۹ میں سے ۳۹ ۴۷ منہا کرنے سے ۱۲۵۰ بنتے ہیں.گویا اس جہت سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش کے متعلق مندرجہ بالا حساب صحیح قرار پاتا ہے.فالحمد لله علی ذالک مطبوعه الفضل ۱۱ اگست ۱۹۳۶ء)

Page 232

۲۲۵ مضامین بشیر تبلیغ احمدیت کے متعلق قیمتی ہدایات پچھلے سال مجھے تحریک جدید کے ماتحت تبلیغ کے لیئے جاتے ہوئے والد صاحب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے چند ہدایات لکھ کر دیں.جو افادہ عام کے لئے میں الفضل میں شائع کر رہا ہوں.خاکسار مرزا منیر احمد (1) تبلیغ ایک بڑا مقدس فرض ہے جس کی ادائیگی ہر بچے احمدی کے ذمہ ہے لیکن سب سے پہلے ضروری ہے کہ انسان اپنی نیت کو صاف کرے اور سوائے خدا اور اس کے دین کی خدمت کے اور کوئی خیال اپنے دل میں نہ رکھے.(۲) محض انسانی کوشش سے تبلیغ جیسے کام میں کبھی حقیقی کامیابی نہیں ہو سکتی.اس لئے ہمیشہ تبلیغ کی ظاہری کوشش کے ساتھ ساتھ دعا بھی کرتے رہنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کامیابی عطا کرے.(۳) تبلیغ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان کا اپنا نمونہ اچھا ہو.ایسا شخص جس کا اپنا نمونہ اچھا نہیں اور اس کے اعمال اس تعلیم کے مطابق نہیں ، جس کی وہ تبلیغ کر رہا ہے.کبھی بھی تبلیغ میں کامیاب نہیں ہوسکتا.پس تبلیغ کے دنوں میں خصوصیت کے ساتھ اپنے اعمال کو اسلام اور احمدیت کی تعلیم کا نمونہ بنانے کی کوشش کرو.جتنا اعلیٰ نمونہ ہو گا اتنا ہی زیادہ اثر ہوگا.خصوصاً نماز کی پابندی یعنی وقت پر نماز ادا کرنا اور حتی الوسع جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ، قرآن شریف کی با قاعدہ تلاوت کرنا ، سچ بولنا ، لوگوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا.وعدہ کو پورا کرنا.لوگوں کی خدمت کرنا اور سب کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش آنا.اپنی ظاہری شکل وصورت کو اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے مطابق رکھنا.کھانے پینے میں سادگی اختیار کرنا.وغیرہ وغیرہ.ان سب باتوں کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیئے اور ان میں لوگوں کے لئے ایسا نمونہ بننا چاہیئے کہ وہ دیکھ کرسمجھ لیں کہ یہ شخص ایک ایسا نمونہ پیش کرتا ہے جس کی تقلید کرنی چاہیئے.(۴) تبلیغ کے لئے بڑے صبر اور بردباری کی ضرورت ہے.خواہ دوسرے کی طرف سے کتنی ہی سختی ہو.تم اس کے مقابل میں ہمیشہ نرمی اور محبت کا طریق اختیار کرو.انسان اپنی محبت اور نرمی سے

Page 233

مضامین بشیر ۲۲۶ دوسرے کی سختی کو زیر کر سکتا ہے اور سخت سے سخت انسان بھی احسان کے سامنے جھک جاتا ہے.پس سب کے ساتھ نرمی اور محبت کے ساتھ پیش آؤ.(۵) تبلیغ میں کبھی جلد بازی نہیں کرنی چاہیئے اور اگر فوراً کوئی نتیجہ نہ نکلے تو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ صبر اور استقلال کے ساتھ لگے رہو بالآخر کامیابی حاصل ہو جاتی ہے.گو یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص جسے انسان تبلیغ کرے وہ احمدی ہو جائے مگر کسی نہ کسی رنگ میں اللہ تعالیٰ کامیابی دے دیتا ہے ور نہ ثواب تو ضرور مل جاتا ہے.(1) تبلیغ میں حتی الوسع بحث کا رنگ اختیار نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ بحث سے دوسرے کو ضد پیدا ہوتی ہے بلکہ نرمی اور ہمدردی کے رنگ میں سمجھانا چاہئے.اور اگر کسی وقت انسان دیکھے کہ دوسرے کوضد پیدا ہو رہی ہے تو اس وقت گفتگو بند کر کے دوسرے وقت کوشش کی جائے.(۷) اگر کسی شخص کے کسی سوال یا اعتراض کا جواب نہ آتا ہو تو گھبرانا نہیں چاہیئے بلکہ دل میں دعا کرنی چاہیئے اور سوچنا چاہیئے.دعا کرنے اور سوچنے سے اکثر اوقات جواب سمجھ میں آ جاتا ہے.لیکن اگر پھر بھی جواب سمجھ میں نہ آئے تو کبھی غلط اور بناوٹی جواب نہیں دینا چاہیئے بلکہ کہ دینا چاہیئے کہ اس سوال کا جواب مجھے اس وقت معلوم نہیں میں اپنے کسی عالم سے پوچھ کر بتاؤں گا.(۸) تبلیغ کے لئے ضروری کتا بیں اپنے ساتھ رکھنی چاہئیں اور یہ کتابیں دوستم کی ہونی چاہئیں.اول ایسی کتابیں جو اپنے مطالعہ کے واسطے ہوں.یہ کتا بیں مترجم قرآن شریف کے علاوہ مندرجہ ذیل مناسب ہیں.دعوۃ الامیر احمدیت یعنی حقیقی اسلام «کشتی نوح‘ احمدیہ پاکٹ بک‘.” در تین اردو وغیرہ وغیرہ.دوسری وہ کتابیں جو لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے ہوں.اس کے لئے سستے ایڈیشن کی کشتی نوح کے چند نسخے اور بعض دوسرے چھوٹے چھوٹے رسالے اور اشتہارات لینے چاہئیں جو غالباً دفتر تحریک جدید سے مل جائیں گے.یا بازار سے خریدے جا سکتے ہیں.وو رہو.(۹) اپنے کام کی باقاعدہ رپورٹ دفتر تحریک جدید قادیان اور حضرت امیرالمومنین ایده اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھجواتے رہو اور دعا کے لئے بھی لکھتے رہو (۱۰) جو تمہارا امیر مقرر ہو اس کی پوری پوری فرمانبرداری کرو اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کرو.خواہ وہ تمہاری مرضی کے کیسا ہی خلاف ہوا اور ہر طرح اس کا ادب کرو.( مطبوعه الفضل یکم دسمبر ۱۹۳۶ء)

Page 234

۲۲۷ ١٩٣٧ء مضامین بشیر آپ چودہری فتح محمد صاحب کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟ احباب کو معلوم ہے کہ اس وقت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے پنجاب اسمبلی کے لئے تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور کے مسلم حلقے کی طرف سے بطور امیدوار کھڑے ہیں.یہ ایک بین حقیقت ہے کہ چودھری صاحب موصوف سارے امیدواروں میں سے زیادہ تعلیم یافتہ ، زیادہ تجربہ کار، زیادہ قابل، زمینداروں سے زیادہ ہمدردی رکھنے والے اور اپنی رائے کو زیادہ آزادی کے ساتھ بیان کرنے والے ہیں.پس جملہ مسلمان ووٹروں کا یہ ایک قومی فرض ہے کہ وہ نہ صرف خود چودھری صاحب کے حق میں رائے دیں بلکہ دوسرے ووٹروں سے بھی چودھری صاحب کے حق میں رائے دلائیں.بعض لوگ اس معاملہ میں مذہبی سوال اُٹھا کر عوام کو بھڑ کا نا چاہتے ہیں مگر یہ ان کی سراسر غلطی بلکہ بد دیانتی ہے کیونکہ کونسلوں کا معاملہ کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک خالص سیاسی سوال ہے جس میں مسلمانوں کے سب فرقے برابر ہیں.یعنی اس میں شیعہ سنی.احمدی اور اہلحدیث کا کوئی امتیاز نہیں بلکہ محض ہند و مسلمان کا سوال ہے.پس اس معاملے میں مسلمان ووٹروں کو صرف یہ دیکھنا چاہیئے کہ امیدواروں میں سب سے زیادہ قابل کون ہے اور مسلمان زمینداروں کے حقوق کی صحیح نمائندگی کون کرسکتا ہے، پھر جو امید وارسب سے بہتر ثابت ہو اسے ووٹ دینی چاہیئے.اگر آپ ہم سے رائے لیں تو ہم آپ کو پوری پوری دیانتداری کے ساتھ یہ مشورہ دیں گے کہ آپ چودھری فتح محمد صاحب کو ووٹ دیں کیونکہ وہ یقیناً ہر جہت سے سب سے بہتر امیدوار ہیں اور ہم آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ آپ چودھری صاحب موصوف کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں: (1) اس طرح کہ اگر آپ بٹالہ تحصیل میں خود ووٹر ہیں تو آپ پولنگ کے دن اپنے گاؤں میں موجود ر ہیں اور اپنا ووٹ چودھری فتح محمد صاحب کے حق میں دیں.آپ کو اپنے گاؤں سے پولنگ سٹیشن تک پہونچانے کے لئے سواری کا انتظام کر دیا جائے گا.

Page 235

مضامین بشیر ۲۲۸ (۲) اگر آپ کسی وجہ سے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کر سکتے تو بے شک کسی سے ذکر نہ کریں اور پولنگ کے دن خاموشی کے ساتھ پولنگ سٹیشن پر جا کر چودھری صاحب کے حق میں پر چی دے دیں.(۳) اگر آپ خود ووٹر نہیں ہیں تو پھر آپ ووٹروں کو سمجھا کر تحریک کریں کہ وہ چودھری فتح محمد صاحب کے حق میں رائے دیں.(۴) اگر آپ ووٹر ہیں تو پھر بھی آپ دوسرے ووٹروں کو چودھری صاحب کے حق میں رائے دینے کی تحریک کریں.(۵) اگر آپ باہر کسی جگہ رہتے ہیں تو پولنگ کے دن سے پہلے رخصت لے کر یا فرصت نکال کر ضرور اس جگہ پہونچ جائیں جہاں آپ کی ووٹ درج ہے.پولنگ مختلف مقامات پر ہوگا اور ۱۸ جنوری سے شروع ہو کر ۲۹ جنوری ۱۹۳۷ء تک رہے گا.آدمیوں کے حلقے کے پولنگ کی جگہ اور معین وقت کا علم آپ خط لکھ کر ہم سے معلوم کر سکتے ہیں.(۶) اگر آپ کے گاؤں کا کوئی ووٹر باہر گیا ہوا ہو اور وہ چودھری صاحب کے حق میں گز رسکتا ہو تو آپ اس کے نام اور پتہ سے ہمیں اطلاع دیں تا کہ اگر سفر لمبا نہ ہو تو اس کے بلانے کا انتظام کیا جائے.(۷) اگر آپ کے گاؤں کا کوئی ووٹر فوت شدہ یا مفقود الخبر یا غیر حاضر ہو اور دور دراز جگہ پر گیا ہوا ہو تو آپ اس کے نام وغیرہ سے ہمیں اطلاع دیں تا کہ اگر اس کی جگہ کوئی جعلی پر چی گزرنے لگے تو ہمیں اس کا علم ہو جائے.(۸) آپ اپنے علاقے کے ووٹروں کو چودھری فتح محمد صاحب کا نام اچھی طرح سمجھا دیں اور اُن سے چودھری فتح محمد صاحب کا نام دوہرا کر تسلی کر لیں تا کہ ووٹ دینے کے وقت ان کے مونہہ سے کوئی غلط نام نہ نکل جائے.(۹) آپ اپنے علاقے میں ظاہر آیا خفیہ جس طرح آپ مناسب سمجھیں یہ پرا پیگنڈا کریں کہ یہ کوئی مذہبی سوال نہیں ہے بلکہ محض ایک سیاسی سوال ہے اور چونکہ اس لحاظ سے چودھری فتح محمد صاحب سب سے بہتر امیدوار ہیں اس لئے انہیں ووٹ دینی چاہیئے.(۱۰) آپ اپنے علاقہ کے ووٹروں کو سمجھائیں کہ ووٹ ایک نہایت قیمتی امانت ہے اور آئندہ اسمبلی میں اہم سیاسی سوالات پیش آنے والے ہیں.پس وہ کسی غیر اہل شخص کو ووٹ دے کر اپنی امانت کو ضائع نہ کریں.

Page 236

۲۲۹ مضامین بشیر (۱۱) آپ اپنے علاقہ کے ووٹروں کو کہیں کہ احمدی جماعت پنجاب کے چھپیں تھیں حلقوں میں غیر احمدی امید واروں کی مدد کر رہی ہے.پس اگر دو تین حلقوں میں خود اسے ضرورت ہے تو یہ اخلاق اور وفاداری کے خلاف ہے کہ اسے مدد نہ دی جائے.(۱۲) اگر آپ کے خیال میں چودہری فتح محمد صاحب کی امداد کرنے کا کوئی ایسا ذریعہ ہو جو آپ کے اختیار سے باہر ہے آپ ہمیں اطلاع دیں تا کہ اُسے اختیار کیا جا سکے.( مطبوعه الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۳۷ء)

Page 237

مضامین بشیر ۲۳۰ قادیان کے ووٹر ان کی خدمت میں ضروری گذارش احباب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخاب کے واسطے گورنمنٹ کی طرف سے پروگرام مقرر ہو گیا ہے.قادیان میں ۲۶ - ۲۷ اور ۲۸ جنوری ۳۷ ء کو مقامی ووٹروں کا پولنگ ہوگا.یعنی ۲۶ جنوری کو قادیان کی مستورات کا پولنگ ہوگا اور ۲۷ جنوری کو مرد ووٹر ان مندرجہ فہرست جز واوّل کا پولنگ ہوگا.اور ۲۸ جنوری کو مرد ووٹر ان مندرجہ فہرست جز و دوم و تتمہ کا پولنگ ہوگا.جز واول میں ان دوٹر ان کے نام درج ہیں جو بغیر درخواست جائداد کی بناء پر ووٹر بنے ہیں.اور فہرست دوم میں وہ ووٹر درج ہیں جو بذریعہ درخواست خواندگی وغیرہ کی بناء پر ووٹر بنے ہیں.بہر حال قادیان میں مندرجہ بالا تاریخوں میں پولنگ ہوگا.پس جن دوستوں اور بہنوں کا ووٹ قادیان میں درج ہے اور وہ اس وقت قادیان سے باہر گئے ہوئے ہیں، انہیں چاہیئے کہ مندرجہ بالا تاریخوں پر ضرور قادیان پہونچ جائیں تا کہ وقت مقررہ پر اپنا ووٹ دے سکیں.یہ ایک نہائت ضروری معاملہ ہے.جس کے واسطے بہنوں اور بھائیوں کو خاص طور پر وقت نکال کر قادیان پہو نچنا چاہئے.جو ووٹر اس وقت قادیان میں مقیم ہیں انہیں بھی مندرجہ بالا تاریخیں نوٹ کر لینی چاہئیں تا کہ وہ ان تاریخوں پر قادیان سے باہر نہ جائیں.اگر کسی دوست کو یہ علم نہ ہو کہ قادیان میں اس کی ووٹ درج ہے یا نہیں تو وہ میرے دفتر میں تشریف لا کر یا خط لکھ کر دریافت فرمالیں.( مطبوعه الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۳۷ء)

Page 238

۲۳۱ مضامین بشیر قادیان کے ووٹر ان کے متعلق احباب کی خاص ذمہ داری جیسا کہ متعدد دفعہ اعلان کیا جاچکا ہے.۲۶ تا ۲۸ جنوری کو قادیان میں پنجاب اسمبلی کے الیکشن کا پولنگ ہوگا.۲۶ کو مستورات کا پولنگ ہوگا ، ۲۷ کو جز واول کے مرد ووٹروں کا پولنگ ہوگا اور ۲۸ کو جز و خانی اور تمہ کے مرد ووٹروں کا پولنگ ہوگا.بعض احباب ایسے ہیں جن کا ووٹ قادیان میں درج ہے مگر اس وقت وہ قادیان سے باہر ہیں.ایسے تمام احباب کو نظارت ہذا کی طرف سے قادیان پہونچنے کے لئے تاکیدی خطوط لکھے جارہے ہیں.ان احباب کو ہر ممکن کوشش کر کے تاریخ مقررہ پر قادیان پہونچ جانا چاہیئے.نیز دوسرے احباب جماعت کو بھی چاہئے کہ قادیان کے ووٹر جس جگہ بھی ہوں انہیں خاص کوشش کے ساتھ تیار کر کے مذکورہ بالا تواریخ پر قادیان بھجوا دیں تا کہ وہ وقت مقررہ پر چود ہری فتح محمد صاحب کے حق میں ووٹ دے سکیں.یہ ایک نہائت ضروری کام ہے جس میں قطعا غفلت نہیں ہونی چاہیئے.( مطبوعہ الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۳۷ء)

Page 239

مضامین بشیر ۲۳۲ اسرار حدیث عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَبَنٍ قَدْ شِيْبَ بَمَاءٍ وَعَنْ يَمِينِهِ أَعْرَابِيَّ وَعَنْ يَّسَارِهِ أَبُو بَكْرٍ فَشَرِبَ ثُمَّ أَعْطَى الْأَعْرَابِيَّ وَقَالَ : الْأَيْمَنُ فَا لَايْمَنُ A انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس دودھ ( جس میں پانی ملا ہوا تھا ) لایا گیا.اس وقت آپ کے دائیں طرف ایک اعرابی یعنی کوئی عام دیہاتی آدمی تھا اور بائیں طرف حضرت ابوبکر تھے.آپ نے دودھ پیا اور اپنا بچا ہوا دودھ اس اعرابی کو دے دیا اور فرمایا دائیں جانب دائیں جانب ہی ہے.دوسری روائت میں آتا ہے کہ اس مجلس میں حضرت عمرؓ بھی تھے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ اپنا بچا ہوا دودھ ابو بکر کو دیجئے اس پر آپ نے فرمایا دایاں دایاں ہی ہے.66 جاننا چاہیئے کہ افراد کی فضیلت دوستم پر ہے.ایک ذاتی فضیلت اور دوسرے حالاتی فضیلت.ذاتی فضیلت تو اس طرح پر ہوتی ہے کہ مثلاً ایک شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ مقرب ہے اور دوسرا اس سے کم تو اس صورت میں مقدم الذکر شخص دوسرے پر فضیلت رکھے گا اور یہ فضیلت اس کی ذاتی فضیلت کہلائے گی حالاتی فضیلت کی یہ مثال ہوسکتی ہے کہ مثلاً ایک شخص ایک وقت کسی نہائت مبارک اور پاک جگہ میں ہے اور دوسرا جو ذاتی فضیلت کے لحاظ سے اس سے بہت بڑھا ہوا ہے.اس وقت کسی وجہ سے اس جگہ کی نسبت کسی کم مبارک جگہ میں ہے.مثلا ایک مسجد میں ہے اور دوسرا بازار میں یا ایک مسجد کی پہلی صف میں ہے اور دوسرا پیچھے تو اس مقدم الذکر شخص کو دوسرے شخص پر حالاتی فضیلت حاصل ہوگی اور ظاہر ہے کہ یہ ایک محض جزوی اور وقتی فضیلت ہو گی مگر ہو گی ضرور.دوسرے یہ جاننا چاہیئے کہ روحانی امور میں کسی شخص کی فضیلت ذاتی کے متعلق یقینی علم حاصل کرنا ایک نہائت ہی مشکل امر ہے بلکہ حق یہ ہے کہ یہ علم صرف خدا کو ہی حاصل ہوتا ہے یا جسے خدا چاہے یہ

Page 240

۲۳۳ مضامین بشیر فراست عطا کرتا ہے.کوئی کہہ سکتا ہے جب روحانی ترقیات کے تمام ذریعے شریعت نے کھول کر بتا دیئے ہیں تو پھر کسی کی فضیلت ذاتی کا علم کس طرح مخفی ہو سکتا ہے کیونکہ جو شخص ان ذرائع کو جس حد تک استعمال کرتا نظر آئے گا وہ اس حد تک فضیلت رکھنے والا سمجھا جائے گا مگر یہ خیال باطل ہے کیونکہ اول تو گوروحانی ترقیات کے ذرائع سب بیان شدہ ہیں مگر سب ظاہر و نمایاں نہیں ہیں بلکہ بہت سے مخفی ہیں جن کا علم خاص مجاہدہ سے کھلتا ہے اور عامۃ الناس تو الگ رہے بعض اوقات ظاہری علوم کے حامل بھی ان سے آگاہ نہیں ہوتے.دوسرے کسی شخص کا ان ذرائع کو استعمال کرتا ہوا نظر آنا اس بات کی دلیل بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ شخص صاحب فضیلت روحانیہ ہے کیونکہ قلب کی نیات کو جن پر سب شے کا دار و مدار ہے کوئی نہیں جانتا.اور پھر اگر نیات درست بھی ہوں تو دوسرے مخفی امراض کو کون سمجھ سکتا ہے.بلکہ نیات اور مخفی امراض تو ایسی مخفی اشیاء ہیں کہ بعض اوقات خود سالک بھی ان کے متعلق دھوکا کھا جاتا ہے.لہذا کسی کی ذاتی فضیلت کا علم ایک نہائت ہی مشکل امر ہے اور کم از کم ظاہری علوم سے تو یہ حاصل نہیں ہو سکتا لیکن اس کے مقابلہ میں کسی کی حالاتی فضیلت کا علم ایک بالکل آسان امر ہے.جسے عام واقفیت رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کیونکہ اس کو حقیقت سے واسطہ نہیں بلکہ صرف ظاہری حالت سے تعلق ہے.ان دو باتوں کے بیان کرنے کے بعد خاکسار عرض کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا جو بچا ہوا دودھ اس اعرابی کو دیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ دیا تو آپ نے اپنے اس فعل سے امت کو بعض عظیم الشان سبق دیئے.اوّل آپ نے اپنے اس فعل سے اپنی امت کو اس بات کا علم دیا اور احساس کرایا کہ جس طرح جسمانی طور پر منور اشیاء مثلاً سورج، چاند، چراغ وغیرہ ہر وقت اپنی روشنی کی کرنیں باہر پھینکتے رہتے ہیں.اسی طرح روحانی طور پر منور اشیاء سے بھی ہر وقت انوار باطنی کا ظہور ہوتا رہتا ہے اور کوئی وقت ایسا نہیں ہوتا کہ ضیاء روحانی کی کرنیں ان سے صادر ہونی رک جائیں کیونکہ اگر یہ نہ تسلیم کیا جائے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا الايمن فا لايمن فرمانا یعنی دایاں دایاں ہی ہے بے حکمت ٹھہرتا ہے کیونکہ اگر آپ کے پاس بیٹھنے میں فی ذاتہ کوئی اثر نہیں تو پھر نہ دائیں کا سوال رہا اور نہ بائیں گا.نہ پاس کا نہ بند کا.نہ آگے کا نہ پیچھے کا.خوب غور کر لو یہ سوالات تبھی پیدا ہو سکتے ہیں جب یہ تسلیم کیا جائے کہ آپ کے اندر سے ہر وقت خاموش طور پر انوار روحانی کا صدور ہوتا رہتا تھا.دائیں بائیں کے مقابلہ کے سوال کو فی الحال الگ رکھو.صرف اس بات پر نظر کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہات میں سے کسی ایک جہت کے

Page 241

مضامین بشیر ۲۳۴ متعلق خاص برکت کے الفاظ فرمائے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کے وجود کے اندر سے انوار باطنی نکل نکل کر اس جہت کو مبارک کر رہے ہیں.ورنہ اگر یہ نہیں تو اس کی برکت کیسی.اس حدیث سے نورانی وجودوں کے محض قرب سے دوسری اشیاء کا (بشرطیکہ وہ قبولیت کا مادہ رکھتی ہوں ) متاثر ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہ وہ عظیم الشان نکتہ ہے جو ہر صادق کی کامیابی کی تہہ میں کام کرتا ہے.اور یہی سالک کے سلوک کی کامیابی کی کلید اعظم ہے.خلاصہ کلام یہ کہ آپ کے اس فعل میں سب سے پہلے یہ سبق تھا کہ پاک وجودوں سے ہر وقت خاموش طور پر انوار روحانی کا صدور ہوتا رہتا ہے.وھو المراد دوسرا سبق جو اس حدیث میں ہے.یہ ہے کہ گوروحانی انوار کا صدور ہر جانب پر اثر ڈالتا ہے مگر دائیں جانب کو انوار کی کرنیں زیادہ زور اور زیادہ صفائی کے ساتھ رخ کرتی ہیں.یہ ایک خاص نکتہ ہے جس کا ادراک صرف ایک عارف پر کھولا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے تجربہ سے اس کے صدق کا مشاہدہ کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے موقع پر بھی اس کی طرف توجہ دلائی ہے.چنا نچہ مسجد میں جماعت کے وقت جہاں قرب امام اور بعض اور وجوہ سے باقی صفوں پر صف اول کو ترجیح دی گئی ہے وہاں آپ کے اقوال سے یہ بھی ثابت ہے کہ صف اول میں سے شرط ایمن یعنی دائیں جانب کی نصف صف کو بائیں جانب کی نصف صف پر فضیلت حاصل ہے مگر یہ موقع اس اصل کی اہمیت ظاہر کرنے کے واسطے ایک خاص موقع تھا کیونکہ ایک طرف صدیق اکبر تھا اور دوسری طرف ایک اعرابی.پس ایسے حالات میں بھی آپ کا اعرابی والی جانب کو اس کے شق ایمن ہونے کے ابو بکر صدیق والی جانب پر ترجیح دینا شق ایمن کی برکات کی ہیت کو خاص طور پر ظاہر کرنے والا ہے.تیسرے اس فعل سے آپ اپنی امت کو یہ سبق دینا چاہتے تھے کہ مقامی اور وقتی انعامات ان لوگوں کا حق ہوتے ہیں جو مقامی اور وقتی خصوصیت رکھتے ہیں نہ کہ ان کا جو بحیثیت مجموعی مستقل طور پر کلی فضیلت رکھتے ہوں کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو مقامی اور وقتی فضیلت رکھنے والے لوگ انعامات سے بالکل ہی محروم ہو جائیں حالانکہ خدا کی رحیمیت اور رحمانیت کا تقاضا ہے کہ اپنے اپنے دائرہ کے اندر سب لوگ انعامات حاصل کریں اور اپنے اپنے حقوق میں مثلاً ایک جرنیل ہے جو تمام فوج میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے اور اس نے بڑے بڑے کا رہائے نمایاں کئے ہیں اور دوسرا ایک معمولی سپاہی ہے جس نے اپنے محدود دائرہ میں کوئی عام فضیلت حاصل کی ہے.تو اب اس محدود دائرہ کے اندر انعامات کی تقسیم ہوگی تو سپاہی کو بھی انعام ملے گا اور یہ ظلم ہو گا کہ وہ انعام بھی جرنیل کو دے دیا جائے.

Page 242

۲۳۵ مضامین بشیر ہاں جرنیل اپنے وسیع دائرہ میں بے شک بے شمار انعامات کا وارث ہوگا.بعینہ وہی صورت اس مجلس میں تھی آپ کے بچے ہوئے دودھ کا کسی کو ملنا بے شک ایک انعام تھا کیونکہ وہ آپ کا تبرک تھا لیکن یہ انعام صرف مقامی حیثیت رکھتا تھا.پس یہ انعام اس کا حق ہو سکتا تھا جو اس مجلس میں مقامی فضیلت رکھتا ہو.اور ظاہر ہے مقامی فضیلت جس کا نام میں نے حالاتی فضیلت رکھا ہے اس وقت اس اعرابی کو تمام اہل مجلس پر حاصل تھی.آپ نے اس کو اس انعام کا وارث بنایا.ہاں اگر کوئی وسیع دائرہ کا انعام ہوتا تو آپ بے شک ذاتی فضیلت کے نام پر تقسیم کرتے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس فعل سے صحابہ کو یہ سبق سکھا دیا کہ کسی کی عام ذاتی فضیلت اور اہلیت کی وجہ سے کسی دوسرے کی جزوی یا حالاتی فضیلت کو نظر انداز نہ کر دینا چاہیئے.بلکہ اس مؤخر الذکر شخص کے حقوق کی بھی پوری نگہداشت کرنی ضروری ہے.خواہ بظاہر اس وقت کسی بڑے شخص کی کیسی شان ہی نظر آتی ہو.چوتھے اس حدیث سے یہ سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ ظاہری صورت کا بھی بڑا لحاظ رکھا جاتا ہے.کیونکہ آپ نے اس اعرابی کے صرف ظاہری مقام کا جو ایک محض اتفاقی امر تھا اور صرف ظاہری صورت میں واقعہ ہو گیا تھا اور حقیقت کے ساتھ اسے کوئی تعلق نہ تھا بہت بڑا لحاظ کیا اور اسے قابلِ.انعام گردانا.پس سالک کے لئے اس میں بھی ایک نکتہ بتایا ہے کہ اگر کبھی وہ کسی مقام قرب کی رُوح میں داخل نہیں ہوسکتا تو اس کے ظاہری حالات کو ہی اپنے اوپر وار د کر لے.کیونکہ ظاہری حالت بھی فیض الہی کو کھینچتی اور بندہ کو انعامات کا وارث بناتی ہے.یہ وہ چند میں ند حکمتیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فعل میں جو حدیث متذکرۃ الصدر میں بیان کیا گیا ہے پائی جاتی ہیں.واللہ اعلم بعض اور حکمتیں بھی ہیں مگر ان کے لئے زیادہ گہری نظر درکار ہے.درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام بھی کلام الہی کی طرح ( گو محدود پیمانہ پر ) ہدایت کا بحر بیکراں ہے اور آپ کا ہر قول و فعل اور حرکت وسکون اپنے اندر بہت بہت حکمتیں رکھتا ہے.ان اسرار سے واقف ہونا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے.کیونکہ اس سے طبیعت اطمینان اور سکون حاصل کرتی ہے.نیز بندہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لاتعداد راستوں پر آگاہ ہوکر اپنے اعمالِ صالح کا دائرہ بہت وسیع کر سکتا ہے.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين مطبوعہ الفضل ۱۱ جون ۱۹۳۷ء )

Page 243

مضامین بشیر ۲۳۶ میاں فخر الدین صاحب ملتانی کی موت پر میرے قلبی تاثرات میاں فخر الدین صاحب کی وفات کی خبر کل شام کو جب میں مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر گھر گیا تو مجھے کسی شخص نے یہ اطلاع دی کہ میاں فخر الدین ملتانی فوت ہو گئے ہیں.اس خبر سے میری طبیعت کو ایک سخت دھکا لگا اور میں ایک گہری فکر میں پڑ گیا اور میاں فخر الدین صاحب کے انجام کے متعلق سوچنے لگ گیا کہ یہ کیا ہوا اور کیونکر ہوا.سب سے پہلے میرا خیال آج سے اکتیس سال قبل کے زمانہ کی طرف گیا.جب میاں فخر الدین پہلی دفعہ قادیان آئے تھے.ابتدائی حالات مجھے یاد ہے کہ جس دن میں اپنی شادی کے سفر سے واپسی پر پشاور سے بٹالہ پہونچا تھا.اسی دن اور اسی گاڑی سے میاں فخر الدین بھی بٹالہ میں اترے تھے اور پھر وہ ہمارے ساتھ ہی یا شائد کچھ آگے پیچھے قادیان پہونچے تھے.اس وقت وہ بالکل نوجوان تھے اور اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے اور غالباً والد کو ناراض کر کے یا شائد ان کی لاعلمی میں قادیان آئے تھے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ اخلاص اور عقیدت کے ساتھ آئے تھے.اور پھر انہوں نے علی الترتیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے زمانہ میں اپنی عمر کے اکتیس سال گزارے.اور اللہ تعالیٰ کے بہت سے فضلوں سے حصہ پایا.یعنی انہیں احمدیت میں حصول تعلیم کی بھی توفیق ملی.نئے رشتہ دار بھی مل گئے.روزگار کا بھی راستہ کھل گیا اورسب سے بڑھ کر یہ کہ سلسلہ کی خدمت کا بھی موقع مل گیا اور چونکہ ملنسار تھے اور دوستوں کی خدمت کا بھی جذبہ رکھتے تھے ، اس لئے آہستہ آہستہ جماعت کے اچھے طبقہ میں ان کے تعلقات ہو گئے اور انہوں نے احمدیت میں ایک با عزت زندگی گزاری.با ہمی تعلقات خاکسار راقم الحروف کے ساتھ بھی ان کا قریباً شروع سے ہی تعلق تھا اور وہ میرے ساتھ محبت

Page 244

۲۳۷ مضامین بشیر رکھتے تھے اور سوائے اپنی عمر کے آخری دو تین سالوں کے میں نے ان میں ہمیشہ اخلاص کا جذ بہ پایا.ان کے تعلق کی وجہ سے اور اس خیال سے کہ وہ جماعت میں اکیلے داخل ہوئے تھے اور خدمت کا شوق رکھتے تھے.میں بھی ان کے ساتھ ہمیشہ محبت کا سلوک کرتا رہا اور چونکہ مجھے تصنیف کا شوق تھا.میں اپنی اکثر تصانیف انہیں دے دیا کرتا تھا اور وہ انہیں چھپوا کر اخروی ثواب کے ساتھ ساتھ دنیوی فائدہ بھی حاصل کرتے تھے.میں نے کبھی کسی تصنیف کے بدلہ میں ان سے کسی رنگ میں کچھ نہیں لیا.حتی کہ میں ان سے خود اپنی تصنیف کردہ کتاب کا نسخہ بھی قیمتاً خریدا کرتا تھا.میاں فخر الدین صاحب کو بسا اوقات اصرار ہوتا تھا کہ اپنی تصنیف کا کم از کم ایک نسخہ تو ہدیۂ لے لیا کروں مگر میں ہمیشہ یہ کہہ کر انکار کر دیا کرتا تھا کہ یہ بھی ایک گونہ معاوضہ ہے.اور میں اس معاملہ میں معاوضہ سے اپنے ثواب کو مکدر نہیں کرنا چاہتا.میاں فخر الدین صاحب چونکہ کتب کی تجارت کرتے تھے.ان کو اس عرصہ میں خدمت کا موقع ملتا رہا اور ان کے ہاتھ سے بعض اچھی اچھی کتا بیں طبع ہوئیں اور میں خوش تھا کہ وہ اپنی طاقت اور سمجھ کے مطابق ثواب اور خدمت کے راستہ پر قدم زن ہیں مگر انجام کا حال صرف خدا ہی جانتا ہے.جماعت سے اخراج وفات سے کچھ عرصہ قبل میاں فخر الدین کے دل میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے متعلق شبہات پیدا ہونے شروع ہو گئے جو آپ کی ذات اور طریق کا ردونوں کے متعلق تھے اور بدقسمتی سے ان ایام میں انہیں صحبت بھی ایسی ملی جس سے اس مرض کو مزید تقویت پہونچی اور وہ جلد جلد اپنے اخلاص کے مقام سے گرتے گئے اور بالآخر خلیفہ وقت کی طرف سے خطر ناک طور پر مسموم ہوکر اس حالت کو پہونچ گئے کہ جب ایک شاخ خشک ہو کر اپنے درخت سے کاٹ دیئے جانے کے قابل ہو جاتی ہے اور حضرت صاحب نے انہیں جماعت سے خارج فرما دیا.نہائت افسوسناک انجام اس وقت تک بھی میں سمجھتا تھا کہ شائد اس ٹھوکر کے بعد وہ سنبھل جائیں اور تو بہ اور اصلاح کی طرف میلان پیدا ہو.چنانچہ انہوں نے خود بھی ایک خواب دیکھا جس میں انہیں بتایا گیا کہ تو بہ کر کے معافی مانگ لینی چاہیئے اور بعض دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا کہ اگر وہ تو بہ نہیں کریں گے تو بہت جلد عذاب الہی میں مبتلا ہو جائیں گے مگر کچھ تو اپنی طبیعت کے نا واجب جوش کی وجہ سے اور اس

Page 245

مضامین بشیر ۲۳۸ زنگ کی وجہ سے جو ان کے دل پر لگ چکا تھا اور کچھ بعض غلط مشورہ دینے والوں کے پیچھے لگ کر انہوں نے خدا کی آواز کو نہ سنا اور مخالفت میں بڑھتے گئے اور بالآخر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ کی ذات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے متعلق ایک نہائت گندہ اشتہار نکالا اور مومنوں کی جماعت کی سخت دل آزاری کی.جس پر سلسلہ کی تعلیم کے خلاف ایک نوجوان نے اشتعال میں آکر اور اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھتے ہوئے ان پر حملہ کر دیا اور وہ چھ دن بعد ہسپتال میں انتقال کر گئے.مرنا تو سبھی نے ہے مگر جو انجام میاں فخر الدین کا ہوا ہے وہ بہت دردناک ہے اور ہر مومن اور متقی کے لئے یہ ایک خوف کا مقام ہے.اور یہی وہ احساس ہے جس کی وجہ سے میاں فخر الدین کی وفات کا سن کر میری طبیعت کو ایک سخت دھکا لگا.کیونکہ ان کی موت کا سنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے وہ زمانہ آ گیا جب وہ آج سے اکتیس سال قبل اخلاص اور محبت کے ساتھ قادیان آئے تھے.اور اس کے بعد میری آنکھوں کے سامنے ان کی موت کا زمانہ آیا.جب وہ جماعت سے کٹ کر الگ ہو چکے تھے بلکہ جماعت کی تخریب کے در پے تھے اور میں نے یوں محسوس کیا کہ ایک شخص نے اکتیس سال کے لمبے زمانہ میں دن رات لگ کر ایک عمارت تیار کی اور اپنی سمجھ اور طاقت کے مطابق اسے سجایا اور آراستہ کیا مگر پھر نہ معلوم دل میں کیا آیا کہ ایک آن کی آن میں اس عمارت کو گرا کر خاک میں ملا دیا.اس خیال کے ساتھ ہی میرے سامنے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث آگئی کہ ایک شخص نیک عمل کرتا ہے.اور نیک عمل کرتے کرتے گویا جنت کے دروازہ پر پہونچ جاتا ہے.مگر پھر اس کی کوئی مخفی بدی اس کے رستہ میں حائل ہو کر اسے جنت کے رستہ سے ہٹا کر دوسرے راستہ پر ڈال دیتی ہے.اور اس حدیث کے ساتھ ہی میری توجہ اس قرآنی آیت کی طرف بھی پھر گئی کہ "وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًاث یعنی اے مومنو! تم اس عورت کی طرح مت بنو جس نے بڑی محنت کے ساتھ سوت کا تا لیکن جب وہ سوت مکمل ہونے کو آیا تو پھر اس نے کسی وجہ سے اپنے کاتے ہوئے مضبوط سوت کو کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.“ ان خیالات نے مجھے سخت محزون کر دیا.اور میں نے خیال کیا کہ کاش فخر الدین اس گروہ میں نہ ہوتا جنہوں نے اس خیال سے ایک ایمان اور تقویٰ کی عمارت کھڑی کی کہ ہم مرنے کے بعد اُس میں بسیرا کریں گے مگر جب وہ عمارت تکمیل کو پہونچنے لگی اور ان کے مرنے کا وقت آیا تو انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے اس عمارت کو گرا کر اُ سے پاش پاش کر دیا.

Page 246

۲۳۹ مضامین بشیر فخر الدین کے ساتھیوں کا خیال پھر مجھے فخر الدین کے ساتھیوں کا خیال آیا اور میں نے کہا خدا یا ان میں بھی بعض پرانے ہیں.ان کی آنکھیں کھول اور انہیں تو بہ کی توفیق دے اور انہیں خراب انجام سے بچالے اور ان کے دلوں کو حق وصداقت کی طرف پھیر دے اور اس عارضی لغزش کو دور کر کے انہیں پھر سید ھے راستہ کی طرف لے آ اور انہیں اس نور سے محروم نہ کر جو تو نے ازل سے جماعت احمد پہ کے لئے مقدر کر رکھا ہے اور بالآخر میں اس لئے بھی مغموم ہوا کہ جو دوست اس وقت خدا کے فضل سے سید ھے راستہ پر گامزن ہیں مگر ان کا انجام ہماری نظر سے پوشیدہ ہے.ایسا نہ ہو کہ ان میں سے بھی کوئی شخص ٹھو کر کھا کر بھٹک جائے اور اپنے ہاتھوں سے اپنا کا تا ہوا سو ت کا ٹ دے بلکہ اے خدا تو ہم سب کو راستی اور صداقت اور ایمان اور اخلاص پر وفات دے اور ہمیں ان لوگوں سے نہ بنا جو تیرے دربار میں پہونچ کر پھر دھتکار دیئے جاتے ہیں اور منعم علیہ بن کر پھر مغضوب ہو جاتے ہیں.آمین اللهم امین.پانچ خطر ناک غلطیاں ان خیالات کے بعد میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ میاں فخر الدین کا یہ انجام کیوں ہوا؟ اس کے جواب میں میرے دل نے مجھے کہا کہ میاں فخر الدین سے پانچ خطرناک غلطیاں سرزد ہوئیں.جن کی وجہ سے وہ اس حد تک خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا نشانہ بن گئے کہ جب انعام لینے کا وقت آیا تو انعام لینا تو الگ رہا جو کچھ اپنے پاس موجود تھا وہ بھی گنوا بیٹھے وہ غلطیاں یہ تھیں : (1) میاں فخر الدین نے ایک الہی سلسلہ میں اپنے آپ کو منسلک کر کے اور ایک خلافتِ حقہ کے ساتھ بیعت کا رشتہ جوڑ کر پھر اپنے امام اور مقتدا پر بدظنی کی اور بدظنی بھی ایسی کی جو بغیر شرعی ثبوت کے ایک ادنی مومن کے متعلق بھی جائز نہیں.(۲) وہ اپنے دل میں زہر پیدا ہو جانے کے بعد اور دل میں خلیفہ وقت سے بیعت کا تعلق قطع کر دینے کے باوجود محض ظاہری طور پر اور پردہ رکھنے کے لئے ایک کافی لمبے عرصہ تک اپنے آپ کو بیعت میں شمار کرتے رہے مگر در پردہ وہ اپنے امام کے خلاف کوشش کرتے رہے اور اس طرح انہوں نے اپنے اوپر اس خدائی فتوی کو لے لیا جس کا نام نفاق ہے اور جس کے متعلق قرآنِ کریم میں سخت وعید آیا ہے.

Page 247

مضامین بشیر ۲۴۰ (۳) انہوں نے خلیفہ وقت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان پر وہ گندے الزامات لگائے جن کے متعلق قرآن شریف کا یہ صریح حکم ہے کہ اگر ایسے الزامات لگانے والا ایک ہی واقعہ کے متعلق چار چشم دید گواہ نہیں لاتا تو وہ خدا کے نزدیک جھوٹا اور کذاب ہے.(۴) انہوں نے الزامات کے لگانے میں وہ طریق اختیار کیا جس سے بدچلنی اور فحش کی اشاعت ہوتی ہے اور گندے جذبات اور گندے خیالات کا چرچا ہوتا ہے اور قوم کے اخلاق بگڑتے ہیں.یقیناً بسا اوقات خود بدی کا وجود خصوصاً جبکہ وہ مخفی ہوا خلاق کو اس قدر خراب نہیں کرتا جتنا کہ ایک بدی کا آزادانہ چرچا خراب کرتا ہے کیونکہ اس سے بدی کا رُعب مٹتا ہے اور لوگوں میں اس کے ارتکاب کی جرات پیدا ہوتی ہے.اسی واسطے حضرت عائشہ پر الزام لگانے والوں کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ یہ لوگ دو وجہ سے مجرم ہیں : اول : - اس لئے کہ انہوں نے ثبوت کے بغیر الزام لگایا.دوسرے:.اس لئے کہ انہوں نے قوم میں بدی کا چرچا کر کے کمزور مزاج لوگوں کے اخلاق پر گندا اثر پیدا کیا اور منش اور گندے جذبات کی اشاعت میں حصہ لیا.(۵) پانچویں میاں فخر الدین نے یہ غلطی کی کہ خدا کی قائم کردہ جماعت سے الگ ہو کر جماعت کو نقصان پہنچانے اور جماعت کے بندھے ہوئے شیرازے کو منتشر کرنے کی کوشش کی اور یہ وہ بات ہے جو خدا کے غضب کے بھڑکانے میں سب سے تیز تر ہے.ایک عظیم الشان قرآنی اصل اس کے علاوہ میاں فخر الدین نے اس عظیم الشان قرآنی اصل کو بھی بھلا دیا کہ اللہ تعالیٰ جب چیز کو اختیار کرتا ہے تو اس لئے اختیار نہیں کرتا کہ اس چیز میں سب خوبی ہی خوبی ہوتی ہے اور کوئی بھی بُرائی نہیں ہوتی اور جب وہ کسی چیز کو رد کرتا ہے تو اس لئے رد نہیں کرتا کہ اس میں صرف خرابی ہی خرابی ہے اور کوئی بھی خوبی نہیں بلکہ وہ اپنے از لی قانون کے ماتحت ہر چیز کو تولتا ہے اور پھر تو لنے کے نتیجہ میں اگر کسی چیز میں خوبی کا پہلو نمایاں اور غالب ہو تو با وجود اس کے کہ اس میں کوئی ایک آدھ نقص ہو وہ اسے قبول کر لیتا ہے.دوسری طرف اگر کسی چیز میں نقصان کا پہلو نمایاں اور غالب ہو تو باوجود اس کی بعض خوبیوں کے اللہ تعالیٰ اس کو رد کر دیتا ہے.مثلاً شراب اور جوئے کے متعلق فرمایا کہ ہم نے انہیں اس لئے حرام قرار دیا ہے کہ اِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا.یعنی گوان میں بعض خوبیاں بھی ہیں مگر نقصان کا پہلو بہت غالب ہے.پس

Page 248

۲۴۱ مضامین بشیر میاں فخر الدین صاحب کو یہ دیکھنا چاہیئے تھا اور اب اُن کے بعد اُن کے رفقاء کو یہ خیال کرنا چاہیئے کہ اگر ایک شخص کی خلافت کو خدا نے نوازا ہے اور وہ اسے ترقی پر ترقی اور برکت پر برکت دے رہا ہے اور خدا کا قول اور فعل دونوں اس کی تائید میں ہیں.تو اول تو ہما را یہ کام نہیں کہ اس کے نقصوں کے متعلق جستجو کریں.اور اگر بالفرض ہمیں کوئی نقص نظر آتا بھی ہے تو پھر بھی ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ جب خدا نے اس نقص کے باوجود اسے قبول کیا ہے اور اسے اپنی رحمت اور برکت سے نوازا ہے تو ہم کون ہیں کہ اس پر حرف گیری کریں ؟ اور اسے قابل رڈ قرار دیں.ان حالات میں اگر ہمیں کوئی نقص نظر آتا ہے تو اول تو ہمارا فرض ہے کہ استغفار کر کے اس شیطانی خیال کو دل سے نکال دیں اور اگر ہم اسے دل سے نہ نکال سکیں تو ہمیں چاہیئے کہ کم از کم اسے ظاہر کر کے فتنہ نہ پیدا کریں بلکہ خدا سے دعا کریں کہ اگر کوئی نقص ہے تو وہ اس نقص کو دور کر دے.الغرض یہ ایک زریں اصول تھا جو میاں فخر الدین صاحب اور ان کے ساتھیوں نے بالکل نظر انداز کر دیا اور وہ یہ کہ خدا کے ازلی قانون میں کسی چیز کے محض نقص یا محض خوبی کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کے مقابلہ پر رکھ کر تو لا جاتا ہے.پھر جو پہلو بھاری ہو اس کے مطابق اسے قبول کیا جاتا یا رد کیا جاتا ہے.اگر ایک شخص میں ہزاروں خوبیاں ہیں اور یہ خوبیاں نہائت اہم اور وزنی اور وسیع الاثر ہیں اور اس کے مقابلہ پر ہمیں اس میں ایک آدھ کمزوری بھی نظر آتی ہے تو کیا اس کی اس کمزوری کی وجہ سے اس کی ہزاروں خوبیوں پر پانی پھیر دیا جائے گا.ہرگز نہیں.بلکہ خدا اسے باوجود اس مزعومہ کمزوری کے قبول کرے گا کیونکہ اس کا تر از وحق کا ترازو ہے.اور اس کا یہ قانون ہے کہ اِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاتِ لایعنی نیکیاں کمزوریوں کو مٹا دیتی ہیں.یہ ایک نہائت گرمی ہوئی ذہنیت ہے کہ کسی شخص کی طرف کوئی ایک آدھ جھوٹی سچی کمزوری منسوب کر کے اسے گرانے کی کوشش کی جائے اور اس کی ہزار ہا خو بیوں اور اعلیٰ قابلیتوں اور دین کے لئے اس کی محبت اور غیرت اور جوش اور قربانی کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے.افسوس کہ یہ لوگ الوصیت کے ان الفاظ کو بھی بھول چکے ہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ موعود د خلیفہ میں بعض لوگوں کو بعض کمزوریاں نظر آئیں اور دھوکا دینے والے خیالات کی وجہ سے وہ اسے بعض اعتراضات کا نشانہ بنائیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس وجہ سے جماعت کو ٹھو کر نہیں کھانی چاہیئے کیونکہ ایک کامل انسان بننے والا بھی پیٹ میں صرف ایک نطفہ یا علقہ ہوتا ہے 66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے یہ ایک بہت لطیف سبق تھا مگر افسوس کہ میاں فخر الدین اور ان کے رفقاء نے اس سے بھی فائدہ نہ اٹھایا.

Page 249

مضامین بشیر ۲۴۲ اس جگہ یہ ذکر کر دینا ضروری ہے کہ اس پیرے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ صرف اصولی طور پر مخرجین کے اعتراضات اور ان کی موجودہ ذہنیت اور ادعا کو مدنظر رکھ کر لکھا گیا ہے ور نہ حقیقت کے لحاظ سے ان کے جملہ اتہامات سراسر باطل اور جھوٹ ہیں اور قرآن شریف ان سب کو مفتریات قرار دیتا ہے اور الزام لگانے والوں کو افترا پرداز اور کذاب ٹھہرا تا ہے.والحق ما شهد به القران - نیت کے نیک ہونے کا ادعا ایک اور بات جو غالبا ٹھوکر کا باعث ہو رہی ہے.یہ ہے کہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں اور ا بات کے مدعی ہیں کہ ہماری نیت نیک ہے اس لئے خدا ہمیں کامیابی عطا کرے گا.اس کے متعلق میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اول تو نیت کا اصل حال صرف خدا کو معلوم ہوتا ہے اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ کس کی نیت اچھی ہے اور کس کی خراب ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ نیت کا معاملہ ایسا نازک ہے کہ بسا اوقات خود نیت کرنے والے انسان کو بھی یہ خبر نہیں ہوتی کہ اس کی نیت حقیقتا نیک ہے یا نہیں کیونکہ کئی مخفی پر دے درمیان میں حائل ہوتے ہیں.دوسرے محض نیک نیت ہونا قطعا کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی محض ظاہری نیک نیتی انسان کو خدائی گرفت سے بچاسکتی ہے.مثلا دیکھو یہ جو کروڑوں لوگ اسلام کے منکر ہیں.کیا یہ سب بد نیت ہیں؟ اور یہ ساری غیر احمدی دنیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رد کر رہی ہے کیا وہ بدنیت ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ جہاں تک ظاہری نیت کا سوال ہے دنیا میں اکثر لوگ نیک نیت ہوتے ہیں لیکن وہ محض اس قسم کی نیک نیتی کی وجہ سے حق کے انکار کی لعنت سے نہیں بچ سکتے.حقیقۃ الوحی کھول کر دیکھو.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نیت کے متعلق مفصل بحث کی ہے.اور بتایا ہے کہ حقیقت کے لحاظ سے کس شخص کو نیک نیت سمجھا جاسکتا ہے اور کس کو نہیں اور یہ تشریح فرمائی ہے کہ جو شخص حق کا منکر ہے اسے محض اس کی ظاہری نیک نیتی کی وجہ سے نیک نیت نہیں قرار دیا جا سکتا جب تک کہ وہ ان شرائط اور لوازمات کو پورا نہ کرے جو نیک نیتی کے لئے ضروری ہیں.۱۲ پس ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ وہ نیک نیت ہیں بالکل قابل قبول نہیں اور وہ انہیں خدائی گرفت سے ہر گز نہیں بچا سکتا اس طرح تو ہر مفسد اور ہر فتنہ پرداز یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں نیک نیت ہوں قرآن کھول کر دیکھو کیا مدینہ کے منافق یہ دعویٰ نہیں کرتے تھے کہ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ یعنی ہم تو صرف اصلاح کی نیت سے کھڑے ہوئے ہیں.مگر خدا تعالیٰ نے یہ فرما کر ان کے دعوای کو

Page 250

ٹھکرا دیا کہ ۲۴۳ مضامین بشیر الا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَّا يَشْعُرُونَ ٣ 66 یعنی خبر دار یہی لوگ مفسد اور فتنہ پرداز ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں.“ پس محض اصلاح اور نیک نیتی کا دعوی کوئی چیز نہیں ہے جب تک اس دعوی میں خدا کی ازلی شریعت کے ماتحت اصلاح اور نیک نیتی کی حقیقت مضمر نہ ہو اور اس کی علامات نہ پائی جائیں.تعجب ہے کہ الزامات تو اس رنگ میں لگائے جا رہے ہیں جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ : أُولئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ " یعنی اس رنگ میں الزام لگانے والے خدا کے نزدیک جھوٹے اور مفتری ہیں مگر دعوی اصلاح اور نیک نیتی کا کیا جاتا ہے.پھر رستہ تو وہ اختیار کیا جا رہا ہے جس سے جماعت کا شیرازہ منتشر ہوتا ہے اور اس کی بندھی ہوئی ہوا بکھرتی ہے اور جماعت بدنام ہوتی اور اس کا رعب ٹتا اور اس کی طاقت میں کمی آتی ہے مگر دعوی جماعت کو ترقی دینے کا کیا جا رہا ہے.پھر جماعت میں بدی اور بے حیائی کی باتوں کا چرچا کر کے مخش کی اشاعت کی جاتی ہے اور گندی باتیں کر کر کے کمزور طبیعت لوگوں میں گندے جذبات کو ابھارا جا رہا ہے مگر دعوی یہ کہ ہم جماعت کو پاک وصاف کرنا چاہتے ہیں !!! افسوس ہے کہ ان لوگوں کی آنکھوں پر ایسا پردہ پڑ گیا ہے کہ اب وہ ان بدیہی حقائق کو بھی نہیں دیکھ سکتے.جو ایک راستہ چلتے ہوئے شخص کو بھی نظر آنے چاہئیں اور وہ قرآن وحدیث کی صریح تعلیم کے خلاف قدم زن ہو کر جماعت کو ہلاکت اور تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے.مجھے تو ان کا انجام اچھا نظر نہیں آتا کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ وہ جس راستہ پر چل رہے ہیں اس کی آخری منزل سوائے بے دینی اور بے حیائی کے اور کچھ نہیں اور ثبوت پوچھو تو سوائے اس کے کچھ پیش نہیں کر سکتے کہ فلاں مرد یہ کہتا ہے اور فلاں عورت یہ سناتی ہے.اور فلاں لڑکا یہ گواہی دیتا ہے.لاحول ولا قوۃ الا باللہ کیا معصوم لوگوں کے چال چلن کی اتنی ہی قیمت رہ گئی ہے کہ زید وبکر کی بے ہودہ بکو اس سے انہیں داغ دار کرنے کی کوش کی جائے ؟ کیا اس شخص کا کیرکٹر جس کے ہاتھ میں آپ نے چہارم صدی تک اپنا بیعت کا ہاتھ دیئے رکھا.اسی معیار پر تو لے جانے کے قابل ہے کہ آوارہ مزاج اور آزاد منش نو جوان اس کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟ افسوس صد افسوس کہ اتنا بھی نہیں سوچا گیا کہ شہادت دینے والے کس قماش کے لوگ ہیں.اور جس کے متعلق شہادت دی جارہی ہے وہ کس پوزیشن کا انسان ہے.اور اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کیا بشارات ہیں.اور پھر یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ اس قسم کے الزامات نئے نہیں ہیں بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام سے

Page 251

مضامین بشیر ۲۴۴ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک اکثر انبیاء اور صلحاء پر اور ان کے اہل وعیال پر کمینہ لوگوں کی طرف سے ایسے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں اور ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ اپنے قول و فعل سے ان کی تردید کرتا رہا ہے.اچھی زندگی وہی جس کا انجام اچھا ہو میں اپنے خیالات کی رو میں اصل مضمون سے ہٹ کر دوسری طرف نکل گیا.میں یہ بیان کر رہا تھا کہ میاں فخر الدین صاحب ملتانی کی وفات پر میرے دل میں کیا کیا خیالات اٹھے.میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ ان کی وفات کی خبر سن کر میری آنکھوں کے سامنے ان کی قادیان کی اکتیس سالہ زندگی کا نقشہ پھر گیا اور میں نے ان کے آغاز کے مقابل پر ان کے انجام کو رکھ کر دیکھا اور میرا دل خوف سے بھر گیا اور میں نے دل میں کہا کہ اچھی زندگی وہی ہے جس کا انجام اچھا ہو.میرے دل میں یہ خیال آیا فخر الدین آج سے ڈھائی ماہ قبل فوت ہو جاتے تو گو اس وقت بھی ان کے دل میں مرض پیدا ہو چکا تھا مگر بہر حال ابھی تک وہ خدا کے پردہ ستاری کے نیچے تھے اور یقیناً اس وقت انہیں یہ نعمت تو حاصل ہو جاتی کہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک جماعت ان کے جنازہ میں شریک ہوتی اور ان کے لئے خدا سے مغفرت کی طالب ہوتی اور چونکہ وہ موصی تھے اغلب یہ ہے کہ خدا ان کی لغزش کو معاف فرما دیتا اور مقبرہ بہشتی میں جگہ پالیتے مگر اس ڈھائی ماہ کے قلیل عرصہ نے کیا کیا تغیر پیدا کر دیا اور انہیں کہاں سے اٹھا کر کہاں دے مارا ! یقیناً یہ خدائے غیور کی تقدیر ہے جسے کوئی شخص بدل نہیں سکتا.ہمارے دل ان کی موت پر خوش نہیں بلکہ میں اپنے او پر دوسروں کو قیاس کر کے کہتا ہوں کہ ہم سب کو ان کی موت کا رنج ہے اور دلی رنج ہے اور ہمارے دل اس خیال سے محزوں ہیں کہ ہمارا ایک ساتھی جو برسوں ہمارے اندر رہا کس طرح اپنی عمر کے آخری لمحات میں ہم سے جدا ہو کر ایک ایسے رستہ پر پڑ گیا جواب ہمارے رستہ سے کہیں اور کبھی نہیں مل سکتا بلکہ اس رستہ کا ہر قدم اس روحانی جدائی کو وسیع کرتا جاتا ہے جو ہمارے اور اس کے درمیان حائل ہو چکی ہے.یہ ایک نہایت درد ناک منظر ہے مگر ہر الہی سلسلہ کو یہ مناظر دیکھنے پڑتے ہیں جن کے بغیر کوئی قوم مستحکم نہیں ہو سکتی.شیخ عبد الرحمن صاحب مصری اسی تخیل میں میری نظر میاں فخر الدین سے ہٹ کر شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی طرف منتقل

Page 252

۲۴۵ مضامین بشیر ہوئی اور میں نے دل میں کہا کہ یہ وہ صاحب ہیں جن کا میرے ساتھ میاں فخر الدین کی نسبت بھی زیادہ وسیع اور زیادہ گہراتعلق رہا ہے.یعنی ان کی اہلیہ صاحبہ میری رضاعی بہن ہیں اور ایک مخلص اور پرانے اور مرحوم صحابی کی لڑکی ہیں.وہ خود برسوں ایک صیغہ میں میرے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور پھر ان کے ساتھ میرے ذاتی دوستانہ تعلقات بھی رہے ہیں.میں نے ان باتوں کا خیال کیا اور میرا دل سخت در دمند ہو گیا اور میں نے ان کے لئے دعا کی کہ خدا یا ان کی آنکھوں کو کھول اور انہیں پنے فضل سے بچے رستہ کی طرف ہدایت دے اور انہیں بد انجام سے بچا اور اگر تیرے علم میں یہ مقدر نہیں ہے تو کم از کم انہیں اس خطرناک رستہ سے ہٹالے جو تیرے غضب کو زیادہ بھڑ کانے والا ہے اور انہیں کسی گمنامی کے گوشے میں لے جا کر ڈال دے.جہاں وہ کسی دوسرے ماحول میں پڑ کر اس آگ کے کھیل کو بھول جائیں جس میں وہ اب مصروف ہیں.انتہائی اشتعال سے مغلوب ہو جانے والانو جوان بالآخر مجھے اس نوجوان کا بھی خیال آیا جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ سے زخمی ہو کر میاں فخر الدین کی موت واقع ہوئی ہے.میں نے خیال کیا کہ یہ نوجوان اپنی جوانی کے عالم میں اس انتہائی اشتعال سے مغلوب ہو کر جو میاں فخر الدین کے الفاظ نے دلایا، میاں فخر الدین پر حملہ کر بیٹھا ہے اور اس حملہ میں اس نے جماعت کی اس تعلیم کو یا دنہیں رکھا کہ ہمیں ہر اشتعال کی حالت میں خواہ وہ کیسا ہی سخت ہو، اپنے نفس کو قابو میں رکھنا چاہیئے اور صبر اور برداشت کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہیئے.میں نے دعا کی کہ خدایا یہ نوجوان جو ایک سخت غلطی کا مرتکب ہو چکا ہے.تو اسے تو فیق عطا کر کہ وہ کچی اور دلی ندامت کے ساتھ تیرے آستانہ پر گر جائے اور قبل اس کے کہ تو بہ کا دروزاہ بند ہو وہ تیری معافی کو پالے اور اے خدا تو آئندہ جماعت کے افراد کو یہ توفیق عطا کر کہ وہ اپنے جوشوں کو نا واجب طور پر ظاہر کرنے کی بجائے اپنے نفسوں کو روک کر رکھیں اور اپنے جوشوں کو قابو میں رکھتے ہوئے انہیں ان رستوں پر ڈالیں جو تیرے دین کے لئے رحمت اور برکت اور نیک نامی کا باعث ہوں.آمین اللهم آمین وَاخِرُ دَعُونَا اَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْن وَلَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ العلى العظيم.( مطبوعه الفضل ۲۵ اگست ۱۹۳۷ء)

Page 253

مضامین بشیر ۲۴۶ مولوی محمد علی صاحب کو قتل کی دھمکی آج کل میری کسی تحریک یا خواہش کے بغیر اخبار پیغام صلح لاہور کے ارباب حل وعقد ”پیغام صلح کے بعض پرچے میرے نام بھجوا دیتے ہیں.جس سے اس اخبار کے مضامین اور مراسلات کا ایک حد تک علم ہوتا رہتا ہے.ایک حد تک کا علم میں نے اس لئے لکھا ہے کہ میں پیغام صلح کو بالاستیعاب نہیں دیکھتا بلکہ صرف اس کے خاص خاص حصے دیکھ لیتا ہوں.اس لیئے بعض حصے میرے مطالعہ سے رہ جاتے ہیں.بہر حال مجھے ان دنوں ”پیغام صلح کے مطالعہ سے پتہ لگا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کو کوئی گمنام خط اس مضمون کا پہنچا ہے جس میں مولوی صاحب موصوف کو کعب بن اشرف سے مشابہت دی گئی ہے.اور انہیں اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کو قتل کی دھمکی دی گئی ہے پیٹھی کے جو الفاظ ”پیغام صلح میں شائع ہوئے ہیں.اور غالباً وہ خلاصہ کے رنگ میں ہیں.ان میں قتل کا تو ذکر نہیں ہے مگر ایک رنگ تہدید کا ضرور پایا جاتا ہے.اس کے متعلق سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسی چٹھی چونکہ مولوی محمد علی صاحب کو غالباً پہلی دفعہ ملی ہے اس لئے وہ کچھ زیادہ گھبرا گئے ہیں.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ عام حالات میں اس قسم کی چٹھیاں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں کیونکہ بسا اوقات وہ ایک محض مجنونانہ ذہنیت یا شرارت پسند میلان طبع کا مظاہرہ ہوتی ہیں اور ان کے پیچھے کوئی حقیقی دھمکی مضر نہیں ہوتی.مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو اسی قسم کی تہدیدی چٹھیاں جن میں بعض اوقات صریح طور پر قتل کی دھمکی ہوتی ہے بڑی کثرت کے ساتھ پہونچتی رہتی ہیں مگر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ یا جماعت کی طرف سے ان پر کبھی واویلا نہیں کیا گیا.ابھی حال ہی میں خود مجھے بھی دو چٹھیاں پے در پے پہونچی ہیں جن میں سخت غیظ و غضب کا اظہار کر کے دھمکی دی گئی ہے اور مضمون سے ثابت ہوتا ہے کہ ان چٹھیوں کا لکھنے والا ایک غیر مبایع ہے مگر میں نے ان چٹھیوں پر سوائے اس کے کوئی ایکشن نہیں لیا کہ انہیں اپنی میز کے دراز میں رکھ لیا ہے.حالانکہ ان میں سے کم از کم دوسری چٹھی تو صریح طور پر خطر ناک دھمکی کا رنگ رکھتی ہے مگر نہ معلوم مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء نے اس چٹھی پر جو انہیں پہونچی ہے اس قدرشور اور واویلا کرنا کیوں مناسب خیال کیا ہے.میں اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں سمجھ سکا کہ چونکہ انہیں اس قسم کی چٹھی پہلی دفعہ آئی ہے اس لئے وہ زیادہ گھبرا

Page 254

۲۴۷ مضامین بشیر گئے ہیں.یا ممکن ہے کہ اپنی مظلومیت کا مظاہرہ بھی مدنظر ہو.واللہ اعلم بالصواب دوسری بات جو میں اس تعلق میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو چٹھی مولوی محمد علی صاحب کو پہونچی ہے.امکانی طور پر اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں : اول: یہ کہ جیسا کہ میرے پاس بعض لوگوں نے بدظنی کا اظہار کیا ہے ممکن ہوسکتا ہے کہ یہ چٹھی اپنی مظلومیت کے مظاہرہ کے لئے خود وضع کر لی گئی ہو.دوسرے یہ کہ یہ چٹھی غیر مبایعین کے کسی فرد نے اپنے لیڈروں کے علم کے بغیر اپنی پارٹی کے ہاتھ میں پراپیگنڈا کا ایک آلہ دینے کے لئے گمنام صورت میں لکھ دی ہو.تیسرے یہ کہ واقعی غیر مبایعین کے کسی مخالف نو جوان نے دھمکی کے طور پر یہ چٹھی لکھی ہو.یہ تین امکانی صورتیں ہیں جو اس چٹھی کے متعلق ہو سکتی ہیں.مجھے اس بات کے اظہار میں قطعاً کوئی تامل نہیں کہ ذاتی طور پر میں صورت اول کو غلط اور نا قابل قبول خیال کرتا ہوں کیونکہ با وجودان کی شدید مخالفت کے میں مولوی محمد علی صاحب پر اس قدر گری ہوئی بدظنی نہیں کر سکتا کہ انہوں نے از خود یہ بات وضع کر لی ہو.ہاں باقی دونوں صورتیں میرے نزدیک قرین قیاس اور قابل قبول ہیں.یعنی ہوسکتا ہے کہ غیر مبایعین کے کسی فرد نے یہ چٹھی اس غرض سے لکھ دی ہو کہ اس طرح پراپیگنڈا کا ایک بہت عمدہ آلہ ہماری پارٹی کے ہاتھ آجائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی دوسرے شخص نے اپنی مجنونانہ ذہنیت یا شرارت پسند میلان طبع کی وجہ سے تخویف وغیرہ کے خیال سے یہ چٹھی لکھی ہو.ان دو صورتوں میں سے صورتِ اول کے متعلق تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے اور اسے ہدایت دے جو اپنی پارٹی کے حق میں اس قد ر گرے ہوئے اور کمینہ طریق عمل کو اختیار کرتا ہے کہ اپنے ہی لیڈر کو خود ایک دھمکی کی چٹھی لکھ کر اپنی پارٹی کا نام پیدا کرنا چاہتا ہے.تیسری اور آخری صورت البتہ ضرور اس قابل ہے کہ اس کے متعلق ہماری طرف سے کچھ اظہار خیال کیا جائے.سواس امکانی صورت کے پیش نظر کہ اس چٹھی کا لکھنے والا کوئی مبائع نوجوان ہے.میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر بالفرض یہ چٹھی کسی مبائع کی لکھی ہوئی ہے تو یقیناً وہ سخت غلطی خوردہ اور گمراہی کے راستہ پر چلنے والا ہے اور اسے چاہیئے کہ بہت جلد خدا کے حضور تو بہ کر کے اپنی اصلاح کی فکر کرے.خدائی سلسلے اپنی ترقی کے لئے اس قسم کے غلط اور مفسدانہ طریقوں کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ حق یہ ہے کہ یہ طریق ان کی ترقی میں خطرناک روک بن جاتے ہیں اور ایسے کام ثواب کا موجب نہیں ہوتے بلکہ خدا کی ناراضگی اور عذاب کا باعث بن جاتے ہیں.کعب بن اشرف کی مثال بالکل جدا گانہ

Page 255

مضامین بشیر ۲۴۸ رنگ اور جدا گانہ حیثیت رکھتی ہے اور اسے مولوی محمد علی صاحب یا ان کے کسی رفیق پر چسپاں کرنا حد درجہ کی نادانی اور جہالت ہے.کعب مدینہ کا ایک یہودی رئیس تھا جو نہ صرف اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اشد ترین مخالف اور معاند تھا بلکہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کر کے اور آپ کی حکومت کے جوئے کو اپنی گردن پر اٹھا کر پھر آپ سے غداری کی اور خفیہ خفیہ اسلام کے دشمنوں کے ساتھ سازش کر کے اسلام کو مٹانا چاہا اور بالآخر اس قدر دلیر ہو گیا کہ اپنے حد درجہ اشتعال انگیز اور گندے شعروں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کے خلاف عربوں کو ابھارا اور آپ کے قتل کی سازش کی.ان حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حکومت مدینہ کے صدر تھے.اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا.پس کعب بن اشرف کی مثال پر مولوی محمد علی صاحب یا ان کے کسی رفیق کو دھمکی دینا پرلے درجہ کی بے وقوفی کا فعل ہے اور جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے.یہ فعل صرف جہالت ہی کا فعل نہیں بلکہ شریعت کے منشاء کے صریح خلاف اور اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے سخت مخالف ہے اور اگر ایسا شخص تائب نہیں ہوگا تو وہ یقیناً خدا کی ناراضگی کا نشانہ بنے گا اور اپنے ہاتھوں سے اپنی آخرت کو خراب اور تباہ کرنے والا ہوگا.پس جہاں ہم اس کے اس فعل سے بیزاری اور نفرت کا اعلان کرتے ہیں.وہاں خود اُسے بھی جتا دینا چاہتے ہیں کہ اس کا فعل اخلاقاً مذ ہباً اور قانوناً ہر طرح قابل ملامت ہے اور اسے چاہیئے کہ بہت جلد تو بہ کر کے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو.میں نہیں جانتا کہ اس چٹھی کا لکھنے والا کون ہے اور کہاں کا رہنے والا ہے اور اس کی اصل غرض و غائت کیا ہے لیکن اگر جیسا کہ اہل پیغام کا دعوی ہے وہ ایک مبائع نوجوان ہے تو میں اسے اس عہد بیعت کا واسطہ دے کر جو اس نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ باندھا ہے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس خلاف اسلام اور خلاف احمدیت طریق سے باز آجائے اور اس راستہ پر قدم زن نہ ہو جو دنیا و آخرت دونوں میں ذلت و رسوائی کا رستہ ہے.اور جس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ جماعت بدنام ہوا اور اس کی ترقی میں روک پیدا ہو جائے.ہم خدا کے فضل سے حق پر ہیں اور خدا کی نصرت کا ہاتھ ہمیں ہر روز ترقی کی طرف لے جارہا ہے اور ہمارے دشمن ناکامی پر نا کامی دیکھتے ہوئے روز بروز گرتے جاتے اور ذلیل ہوتے جارہے ہیں اور یہ جو بعض درمیانی ابتلا آتے ہیں اور بعض مخفی فتنے سر نکالتے ہیں.سو یہ بھی ہماری ترقی کا پیش خیمہ ہیں کیونکہ یہ وہ خدائی پھاوڑہ ہے جس سے دین کے کھیت کی گوڈائی مقصود ہے یا یہ وہ کھا د ہے جو خدائی فضل کے نشونما کو زیادہ کرنے کے لئے کھیت میں ڈالی گئی ہے.پس ہمیں ان سے ڈرنا نہیں چاہیئے.بلکہ خوش ہونا چاہیئے کہ ان کالے بادلوں کے پیچھے رحمت کی بارشیں مخفی ہیں اور ہمیں گھبرا کر کسی خلاف

Page 256

۲۴۹ مضامین بشیر اسلام یا خلاف احمدیت طریق کو نہیں اختیار کرنا چاہیئے بلکہ یقین رکھنا چاہیئے کہ خدا خود اپنی مخفی فوجوں کے ساتھ ہماری مدد کو آرہا ہے اور ہمیں ہر گز کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیئے جس سے خدا ناراض ہو کر اپنی فوجوں کو عارضی طور پر پیچھے ہٹا لے اور اپنی نصرت کے ہاتھ سے ہمیں محروم کر دے.میں نے یہ الفاظ تصنع یا نمائش یا ظاہری داری کے طور پر نہیں لکھے بلکہ وہ میرے دل کی آواز ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس قسم کی حرکات کرنے والے لوگ یقیناً اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے خلاف قدم مارتے ہیں اور گو وہ اپنے آپ کو سلسلہ کا دوست خیال کریں مگر ان کا فعل حقیقتا دشمنی کے رنگ میں رنگین ہوتا ہے.ان کو یہ دھو کہ نہیں کھانا چاہیئے کہ ان کی نیت اچھی ہے کیونکہ ظاہری نیت کوئی چیز نہیں اور اصل نیست وہی ہے جو خدا اور رسول کے حکم کے مطابق ہو.آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اے خدا تو ہمیں اس راستہ پر چلنے کی توفیق عطا کر جو تیری رضا کا رستہ ہے اور جس پر چل کر تیرے پاک بندے ہمیشہ تجھے پاتے رہے ہیں اور تو ہمارے بوڑھوں اور ہمارے جوانوں ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں کو توفیق دے کہ وہ ہر بات میں تیری رضا کو اپنا مقصد بنا ئیں اور اے خدا تو ان کے قدموں کو خود ہر قسم کی لغزش سے بچا اور انہیں صداقت اور راستی کے رستہ پر ڈال دے.امین اللهم امين بالآخر یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اہلِ پیغام نے اس خط کے سلسلہ میں یہ الزام بھی لگایا ہے کہ یہ خط حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی انگیخت سے لکھا گیا ہے اور جماعت مبایعین کا ہاتھ اس کی تہہ میں کام کر رہا ہے.اس کے تعلق میں سوائے اس کے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَها وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُو الَى مُنْقَلَبٍ يُنْقَلِبُونَ.١٦ واخر دعوانا ان الحمد الله رب العالمين ( مطبوعه الفضل ۵ ستمبر ۱۹۳۷ء)

Page 257

مضامین بشیر ۲۵۰ رمضان کا مہینہ نفس کو پاک کرنے کیلئے خاص اثر رکھتا ہے جماعت کے احباب اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں رمضان کا مبارک مہینہ قریب آرہا ہے بلکہ شاید اس مضمون کے شائع ہونے تک وہ شروع ہو چکا ہو.یہ مہینہ جیسا کہ احباب کو معلوم ہے ایک خاص مبارک مہینہ ہے.جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اس مہینہ میں اپنے بندوں کے بہت زیادہ قریب ہو جاتا ہوں.اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے میں خصوصیت سے عبادت اور ذکر الہی پر زور دیا جاتا ہے کیونکہ علاوہ روزوں کے جو خود اپنے اندر ایک نہایت درجہ مبارک عبادت کا رنگ رکھتے ہیں.رمضان کے مہینہ میں نوافل اور قرآن خوانی اور دعاؤں اور دیگر رنگ میں ذکر الہی پر خاص زور دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس مہینے کو اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت بڑی برکت اور فضیلت حاصل ہے.پس سب سے پہلے تو میں احباب سے یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس مہینے کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس حقیقت کو سمجھ کر ان مبارک ایام کو اس رنگ میں گزاریں جس رنگ میں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا منشاء ہے کہ انہیں گزارا جائے یعنی اول سوائے اس کے کہ کسی شخص کو کوئی شرعی عذر ہو سارے مہینے کے روزے پورے کئے جائیں اور روزہ رکھنے میں روزے کی اس مبارک حقیقت کو مدنظر رکھا جائے جو اسلام نے بیان کی ہے تا کہ روزہ صرف بھو کے اور پیاسے رہنے تک محدود نہ ہو بلکہ ایک زندہ روحانی حقیقت اختیار کرلے.دوسرے یہ کہ رمضان کے مہینے میں تراویح کی نماز کو بالالتزام ادا کیا جائے.جس کے لئے بہتر وقت تو سحری کا ہے مگر بطریق تنزل نماز عشاء کے بعد بھی وہ ادا کی جاسکتی ہے.تیسرے یہ کہ اس مہینے میں تلاوت قرآن مجید پر خاص زور دیا جائے اور اس بات کی خاص کوشش کی جائے کہ کم از کم ایک دور گھر پر مکمل ہو جائے.چوتھے یہ کہ رمضان کے مہینے میں دُعاؤں پر خاص طور پر زور دیا جائے.دعا علا وہ ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت ہونے کے حصول مطالب کے لئے بھی ایک بہترین ذریعہ ہے.دُعاؤں میں سب سے مقدم اسلام اور احمدیت کی ترقی کے سوال کو رکھنا چاہیئے.اس کے بعد ذاتی دعائیں بھی کی جائیں.

Page 258

۲۵۱ مضامین بشیر یہ کہ اس مہینے میں خاص طور پر صدقہ و خیرات پر زور دینا چاہیئے کیونکہ صدقہ وخیرات کورڈ بلا اور حصول ترقیات میں بہت بڑا دخل حاصل ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اگر ہمارے دوست رمضان کے مبارک مہینے میں مندرجہ بالا پانچ باتوں کا خیال رکھیں اور رسم کے طور پر نہیں بلکہ دل کے اخلاص اور خشوع کے ساتھ ان باتوں کو اختیار کریں تو وہ انشاء اللہ تعالیٰ عظیم الشان روحانی فوائد سے متمتع ہو سکتے ہیں.اس کے علاوہ میں اس سال پھر وہ تحریک کرنا چاہتا ہوں جو میں بعض گزشتہ سالوں میں کرتا رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے دوست اس رمضان کے مہینے میں اپنی کسی ایک کمزوری کو مدنظر رکھ کر اسے دور کرنے کی اور اس سے مجتنب رہنے کا خدا کے ساتھ پختہ عہد باندھیں تا کہ جب رمضان ختم ہو تو وہ کم از کم اپنے ایک نقص سے کلی طور پر پاک ہو چکے ہوں.یہ تحریک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی تھی اور خدا کے فضل سے تطہیر نفس کے لئے بہت مفید اور بابرکت ہے.چونکہ بعض دوست اپنے نفس کے محاسبہ کی عادت نہیں رکھتے اور اپنے اندر کمزوریاں رکھتے ہوئے بھی ان کی توجہ اس بات کی طرف مبذول نہیں ہوتی کہ ہمارے اندر کیا کیا کمزوریاں ہیں جنہیں ہمیں دور کرنا چاہیئے اس لئے ایسے دوستوں کی رہنمائی کے لئے ایک مختصر فہرست ذیل میں ان کمزوریوں کی درج کی جاتی ہے جو آج کل عام طور پر لوگوں میں پائی جاتی ہیں.ہمارے دوستوں کو چاہیئے کہ اپنے نفسوں کا محاسبہ کر کے ان کمزوریوں میں سے جو کمزوریاں ان میں پائی جاتی ہوں ان میں سے کسی ایک کو چن کر اس کے متعلق اپنے دل میں خدا تعالیٰ کے ساتھ پختہ عہد باندھیں کہ وہ اس کے فضل اور توفیق کے ساتھ آئندہ اس کمزوری سے کلی طور پر مجتنب رہیں گے.کمزوریوں کی فہرست درج ذیل ہے : (۱) فرض نماز میں سستی.(۲) نماز با جماعت میں سستی.(۳) امام الصلوۃ سے کسی بات پر لڑ کر اس کے پیچھے نماز ترک کر دینا.(۴) نماز کے لئے طہارت وغیرہ کے معاملہ میں بے احتیاطی کرنا.( ۵ ) سنت نماز کی ادائیگی میں سنتی.(۶) تہجد کی نماز میں سستی.(۷) روزہ رکھنے میں سنتی یعنی بغیر واجبی عذر کے یونہی کسی بہانے پر روزہ ترک کر دینا.

Page 259

مضامین بشیر ۲۵۲ (۸) جو روزے کسی عذر پر چھوڑے جائیں بعد میں ان کو پورا کرنے یا فدیہ دینے میں ستی.(۹) صاحب نصاب ہونے کے با وجو د زکواۃ ادا کر نے میں سستی.(۱۰) اس بات کی تحقیق اور جستجو کرنے میں سستی کہ آیا میں صاحب نصاب ہوں یا نہیں.(۱۱) جماعت کے مقررہ چندوں کو شرح کے مطابق ادا کرنے میں سستی.(۱۲) جماعت کے چندوں کو باقاعدہ بر وقت ادا کرنے میں سنتی.(۱۳) وصیت کی طاقت رکھنے کے باوجود وصیت کرنے میں سستی.(۱۴) یہ جانتے ہوئے کہ میرے مرنے کے بعد وصیت کی ادائیگی میں تنازع پیدا ہوسکتا ہے اپنی زندگی میں وصیت ادا کر دینے یا اس کی ادائیگی کا پختہ انتظام کر دینے میں سستی.(۱۵) با وجود اس بات کی طاقت رکھنے کے وصیت کا اعلیٰ درجہ اختیار کرنے میں ستی.(۱۶) تبلیغ کا فرض ادا کرنے میں سستی.(۱۷) اپنے اہل وعیال اور ہمسایوں اور دوستوں کی تربیت کی طرف خاطر خواہ توجہ دینے میں سستی.(۱۸) اپنے گھر میں درسِ قرآن کریم یا درس کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جاری کرنے یا جاری رکھنے میں سستی.(۱۹) اپنے بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے اور اپنے ساتھ مسجد میں لانے میں سستی.( ۲۰ ) مقامی جماعت کے کاموں میں خاطر خواہ حصہ اور دلچسپی لینے میں سستی.(۲۱) مقامی امیر یا پریذیڈنٹ کی خاطر خواہ اطاعت کرنے میں بے پروائی اور بے احتیاطی.(۲۲) با وجود طاقت رکھنے کے مرکز میں بار بار آنے اور خلافت اور مرکز کے فیوض سے مستفیض ہونے میں سستی.(۲۳) با وجود طاقت رکھنے کے الفضل اور دیگر مرکزی اخبارات ورسائل منگوانے میں سستی.(۲۴) فتنہ پردازوں اور منافق طبع لوگوں سے فتنہ اور نفاق کی باتیں سننے کے باوجود ان کے متعلق رپورٹ کرنے کے معاملہ میں سستی اور بے پروائی بالحاظ داری.(۲۵) رشتہ داری یا دوستی وغیرہ کی وجہ سے سچی شہادت دینے میں تامل کرنا.(۲۶) جھوٹ بولنا.(۲۷) دوسروں پر جھوٹے افتراء باندھنا.(۲۸) بیکاری یعنے با وجود اس کے کہ کام کی ہمت اور اہلیت ہو اس خیال سے کہ فلاں کام ہماری شان کے خلاف ہے یا اس میں معاوضہ کم ملتا ہے اپنے مفید اوقات کو بریکاری میں ضائع کر دینا.

Page 260

۲۵۳ مضامین بشیر (۲۹) با وجود فارغ وقت رکھنے کے اور اپنی خدمات کو آنریری طور پر سلسلہ کے لئے پیش کر دینے کے قابل ہونے کے بریکاری میں وقت گزارنا.(۳۰) بدنظری.(۳۱) انسانی قوت کا غلط استعمال.(۳۲) اسلامی پردے کی حدود کو توڑنا.(۳۳) بد معاملگی یعنی کسی سے روپیہ لے کر یا کوئی چیز لے کر روپیہ یا چیز کی قیمت وقت پر ادا نہ کرنا اور کمزور اور جھوٹے عذروں پر ادا ئیگی کو ٹالتے جانا.(۳۴) بد زبانی یعنی غصہ میں آکر خلاف تہذیب اور خلاف اخلاق الفاظ استعمال کرنا.(۳۵) حقہ نوشی یا سگریٹ نوشی.(۳۶) تمباکو کے دیگر ضرر رساں استعمالات یعنی ان میں تمباکو کھانا یا نسوار استعمال کرنا وغیرہ.(۳۷) موجودہ تہذیب سے متاثر ہو کر اسلامی شعار کے خلاف ڈاڑھی منڈانا.(۳۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف احمدی لڑکی کا رشتہ غیر احمدی لڑکے سے کرنا.(۳۹) مرکز کی اجازت کے بغیر غیر احمدی لڑکی کا رشتہ لینا.(۴۰) سلسلہ کی تعلیم کے خلاف غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا.(۴۱) با وجود حج کی طاقت رکھنے اور دیگر شرائط کے پورا ہونے کے حج میں ستی کرنا.(۴۲) ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری میں سستی کرنا.(۴۳) بیوی کے ساتھ بدسلو کی اور سختی سے پیش آنا یا عورت کی صورت میں خاوند کے ساتھ بدسلو کی اور تمرد سے پیش آنا اور خاوند کی خدمت میں سستی کرنا.(۴۴) رشوت لینا.(۴۵) رشوت دینا.(۴۶) فرائض منصبی کے ادا کرنے میں بد دیانتی یا سستی کرنا.(۴۷) شراب پینا یا دیگر منشی اشیاء کا استعمال کرنا.(۴۸) سود لینا یا دینا اس زمانہ میں سود کے معاملہ میں بہت غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں.او جھوٹے بہانوں کی آڑ میں ایسے لین دین کو جائز قرار دیا جارہا ہے جو حقیقتا سود کا رنگ رکھتا ہے.(۴۹) تیتامی کے مال میں خیانت یا بے جا تصرف کرنا.(۵۰) قتیموں کی پرورش میں سستی یا بے احتیاطی کرنا.

Page 261

مضامین بشیر ۲۵۴ (۵۱) نوکروں کے ساتھ نا واجب سختی اور ظلم سے پیش آنا.(۵۲) مقدمہ بازی کی عادت یعنی بات بات پر مقدمہ کھڑا کر دینے کی عادت یا دیگر بہتر ذرائع سے فیصلہ کا رستہ کھلا ہونے کے باوجود مقدمہ کا طریق اختیار کرنا.(۵۳) ستی اور کا ہلی یعنی اپنے وقت کی قیمت کو نہ پہچانتے ہوئے اپنے کام میں سنتی اور کاہلی کا طریق اختیار کرنا.(۵۴) فضول خرچی یعنی اپنی آمد سے اپنے خرچ کو بڑھا لینا.(۵۵) فضول اور ضرر رساں کھیلوں میں وقت گزارنا یعنی شطر نج تاش وغیرہ.(۵۶) کھانے پینے میں اسراف.(۵۷) اولاد کی نا واجب محبت.(۵۸) بدظنی کی عادت یعنی دوسرے کے ہر فعل کی تہہ میں کسی خاص خراب نیت کی جستجو رکھنا.(۵۹) عزیزوں اور دوستوں کی موت پر نا جائز جزع فزع کرنا.(۶۰) شادیوں کے موقع پر اپنی طاقت سے بڑھ کر خرچ کرنا.(۶۱) قرضہ لینے میں نا واجب دلیری سے کام لینا اور چھوٹی چھوٹی ضرورت پر بلکہ غیر حقیقی ضرورت پر قرضہ لے لینا وغیرہ وغیرہ.یہ چند کمزوریاں جو بغیر کسی خاص ترتیب کے اوپر درج کی گئی ہیں.ان میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد کمزوری مد نظر رکھ کر ان کے متعلق اس رمضان کے مہینہ میں اپنے دل میں عہد کیا جائے کہ آئیند ہ خواہ کچھ ہو ہر حال میں ان سے کلی اجتناب کیا جائے گا.اور پھر اس عہد پر دوست ایسی پختگی اور ایسے عزم کے ساتھ قائم ہوں کہ خدا کے فضل سے دنیا کی کوئی طاقت انہیں اس عزم سے ہلا نہ سکے.جو دوست اس تحریک میں حصہ لیں انہیں چاہئے کہ دفتر ہذا کو اپنے ارادے سے بذریعہ خط اطلاع کر دیں اس اطلاع میں اس کمزوری کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں جس کے متعلق عہد باندھا گیا ہو.بلکہ صرف اس قدر ذکر کافی ہے کہ میں نے ایک یا ایک سے زائد کمزوریوں کے خلاف دل میں عہد کیا ہے.نظارت ہذا اس کا وعدہ کرتی ہے کہ انشاء اللہ ایسے دوستوں کی ایک مکمل فہرست ہر روز مرتب کر کے حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کی تحریک کے ساتھ پیش کر دیا کرے گی.وبالله التوفيق ( مطبوعه الفضل ۵ نومبر ۱۹۳۷ء)

Page 262

۲۵۵ مضامین بشیر اندرونی اختلافات سے بچنے کا طریق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ناظر تعلیم و تربیت نے ایک صاحب کو تربیت کے متعلق حال میں ایک خط لکھوایا ، جس کا ضروری اقتباس بغرض افادہ عام درج ذیل کیا جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے دوست اس عظیم الشان جنگ کو مدنظر رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی وجہ سے حق و باطل کے درمیان شروع کیا گیا ہے ، تو انہیں غیروں کے مقابلہ سے اتنی فرصت ہی نہیں مل سکتی کہ وہ آپس کی چھوٹی چھوٹی اختلافی باتوں کی طرف توجہ دے سکیں.کسی قوم کے افراد ہمیشہ جھگڑنے کی طرف اُسی وقت متوجہ ہوتے ہیں جب دشمن کی طرف سے اُن کی نظر ہٹ جاتی ہے.پس میں کسی فریق پر الزام رکھنے کے بغیر آپ کو اور دوسرے فریق کو یہی نصیحت کروں گا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض وغائت کو پہچانیں اور باہمی اختلافات میں الجھنے کی بجائے اپنی توجہ کو باطل کا مقابلہ کرنے میں صرف کریں.یہ زاویہ نظر آپ کے لئے اور مقامی جماعت کے لیئے اور سارے سلسلہ کے لئے انشاء اللہ بہت مفید ہوگا.اور جو نہی کہ آر اس زاویہ نظر کو اختیار کریں گے، آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی نظر خود بخود اندرونی اختلافات کی طرف سے ہٹ گئی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے اور دیگر مقامی دوستوں کے ساتھ ہوا اور اس رنگ میں چلنے اور کام کرنے کی توفیق دے.جو اس کی رضاء کے حصول کا باعث ہو (مطبوعہ الفضل ۷ نومبر ۱۹۳۷ء )

Page 263

مضامین بشیر ۲۵۶ کیا آپ نے تحریک رمضان میں حصہ لیا ہے؟ کچھ دن ہوئے میں نے ”الفضل میں ایک نوٹ کے ذریعہ دوستوں کو رمضان کی برکات کی طرف توجہ دلائی تھی اور تحریک کی تھی.چونکہ رمضان کا مہینہ اپنے اندر عظیم الشان روحانی برکات رکھتا ہے.اس لئے دوستوں کو اس کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اس کی برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیئے تا کہ جب رمضان کا مہینہ گزرے اور عید کا دن آئے تو وہ ہمارے لئے حقیقی عید ہو اور ان دنوں میں ہم اپنے خدا سے قریب تر ہو چکے ہوں.اس کے لئے میں نے رمضان کی بعض خصوصیات کا بھی ذکر کیا تھا.اور مثال کے طور پر پانچ اور بھی باتیں بتا ئیں تھیں.جن کی طرف دوستوں کو اس مہینہ میں خاص طور پر توجہ دینی چاہیئے یعنی : اول :.سوائے اس کے کہ کوئی شرع عذر ہو رمضان کے سارے روزے پورے رکھے جائیں تا کہ خدا کی خاطر بھو کے اور پیاسے رہ کر اور پھر اپنی بیوی سے جدا رہ کر اپنی جان اور اپنی نسل کو خدا کے رستہ میں قربان کرنے کی طاقت اور ہمت ہو.کیونکہ بھوکا پیاسا رہنا خوداپنے نفس کی قربانی کے قائم مقام ہے اور بیوی سے مخصوص صورت میں علیحدگی اختیار کرنا اپنی نسل کو خدا کے لئے قربان کرنے کی آمادگی کی طرف اشارہ کرتا ہے.دوم : - رمضان کے مہینہ میں تراویح کی نماز کو جو در حقیقت تہجد ہی کی نماز ہے.التزام اور با قاعدگی کے ساتھ ادا کیا جائے تا کہ ایک تو نماز کی وہ حقیقی غرض حاصل ہو.جو خدا کے ساتھ مناجات اور ذاتی تعلق کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور دوسرے نیند اور آرام کے ترک سے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اے خدا ہم زندہ رہ کر اور زندگی کے حوائج کو پورا کرتے ہوئے بھی تیرے لئے زندگی کے ہر آرام و آسائش کو قید و بند کے اندر رکھنے کے لئے تیار ہیں.سوم : - اس مہینہ میں قرآن شریف کی تلاوت پر زیادہ زور دیا جائے اور کم از کم ایک دور پورا کر لیا جائے.تا کہ اس ذریعہ سے اس بات کو اظہار ہو کہ اے خدا ہم تیرے پیغام سے غافل نہیں اور ہمیں تیرا بھیجا ہوا کلام یاد ہے.اور ہم اس کے سب حکموں پر عمل کرنے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو چلانے کے لئے شب وروز فکر مند اور متوجہ ہیں.چہارم : - رمضان میں دعاؤں پر خاص زور دیا جائے تا کہ قبولیت کے اس وعدہ سے پورا

Page 264

۲۵۷ مضامین بشیر پورا فائدہ اٹھایا جا سکے جو خدا تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ رمضان میں میں اپنے بندوں کے زیادہ قریب ہو جا تا ہوں اور ان کی دعاؤں کو زیادہ سنتا ہوں.اور تا اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعائیں ہماری رفتار ترقی کو تیز تر کر دیں اور تاہم جلد تر اس خدائی وعدے کے دن کو دیکھ لیں.جو ہمارے لئے ازل سے مقدر ہے.مگر جس کا آگے یا پیچھے ہونا بڑی حد تک خود ہماری حالت پر موقوف ہے..پنجم :.اس ماہ میں صدقہ وخیرات پر زیادہ زور دیا جائے تا کہ ایک تو مساکین و یتامیٰ ہمارے اموال میں سے اپنا پورا پورا حصہ پالیں.اور ان کی مشکلات و مصائب میں کمی آ کر قوم کا قدم من حيث القوم ترقی کی طرف اٹھے.دوسرے ہم اس لحاظ سے خدا کے فضل کو اپنی طرف کھینچنے والے بنیں کہ جب ہم خدا کے پیدا کئے ہوئے بندوں کی مشکلات کو دور کرنے کے درپے ہیں تو خدا جو کسی کا احسان اپنے سر پر نہیں رہنے دیتا وہ آگے سے بھی بڑھ چڑھ کر ہماری دینی اور دنیوی مشکلات کو دُور فرمائے گا.ان پانچ رستوں کو اختیار کر کے ہم رمضان کے مہینہ میں غیر معمولی اخلاقی اور روحانی ترقی حاصل کر سکتے ہیں.اور جماعت کا قدم انفرادی اور اجتماعی رنگ میں ہر دوطرح سرعت کے ساتھ آگے اٹھ سکتا ہے اور ان پانچ طریقوں کے نتیجہ کے طور پر میں نے یہ بھی تحریک کی تھی کہ جماعت کے احباب رمضان کے مہینہ میں محاسبہ نفس کی عادت ڈالیں.اور اپنے دل میں اس بات کا عہد کریں کہ وہ اس رمضان میں اپنی کسی ایک یا ایک سے زیادہ کمزوری کو دور کریں گے اور خدا کے فضل سے پھر کبھی اس کمزوری کا ارتکاب نہیں کریں گے بلکہ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنے عہد پر قائم رہیں گے.اور اس کے بالمقابل میں نے احباب سے یہ وعدہ کیا تھا کہ جو دوست اپنے دل میں ایسا عہد باندھیں گے اور مجھے اس عہد سے اطلاع دیں گے میں انشاء اللہ ان کے اسماء ہر روز بلا ناغہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کی تحریک کے لئے پیش کیا کروں گا.میں اپنی طرف سے اس وعدہ کو پورا کر رہا ہوں اور ہر روز حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دوستوں کی فہرست پیش کی جا رہی ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک جماعت نے اس مبارک تحریک میں کافی حصہ نہیں لیا اور کم از کم جن دوستوں نے مجھے اطلاع دی ہے ان کی تعداد ابھی تک بہت کم ہے.لہذا میں پھر اس اعلان کے ذریعہ سب دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر انہوں نے ابھی تک اس بارے میں سستی کی ہے تو اب سستی نہ کریں اور فوراً اس نیک تحریک میں حصہ لے کر جو دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 265

مضامین بشیر ۲۵۸ ہی کی جاری کر دہ ہے رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھا ئیں.جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں دوستوں کو اپنی اطلاع میں کمزوری کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے.صرف اس قد ر ا طلاع دینا کافی ہے کہ ہم نے ایک یا ایک سے زیادہ کمزوریوں کے دور کرنے کا عہد باندھا ہے.کمزوریوں کی ایک عام فہرست میں نے گذشتہ مضمون میں دے دی تھی.اب اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے مگر ان کمزوریوں پر حصر نہیں ہے بلکہ ہر شخص اپنے نفس کا محاسبہ کر کے اپنے لئے خود فیصلہ کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین (مطبوعہ الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۳۷ء)

Page 266

۲۵۹ مضامین بشیر لَيْلَةُ الْقَدْر کی دُعا اور تحریک مصالحت رمضان المبارک کا مہینہ ہے اور آخری عشرہ شروع ہو چکا ہے.جس کی طاق راتوں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہدائت فرمائی ہے کہ اس میں لیلۃ القدر کو تلاش کیا جائے.اس مبارک رات کی فضیلتوں میں سے ایک فضیلت ایک صحابی بروایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں بیان کرتے ہیں کہ جو شخص لیلۃ القدر کو کچی نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خشنودی کے حصول کے لئے کھڑا ہو کر عبادت اور دعا میں گزارتا ہے.اس کے تمام سابقہ گناہ بخشے جاتے ہیں گویا یہ رات گنا ہوں کی معافی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خاص رات ہے پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ اگر میں لیلة القدر کو پاؤں تو کیا دعا کروں.آپ نے فرمایا یہ دعا کرو: - اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي كَا کہ اے اللہ تعالیٰ یقینا تو گناہوں کو بہت معاف کرنے والا ہے اور تو معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس مجھے بھی معافی عطا فرما اور مجھے عفو کی چادر میں لپیٹ لے.“ یہ حدیث بھی بتاتی ہے کہ اس رات کا گناہوں کے عفو اور خدا کی خوشنودی کے حصول سے خاص تعلق ہے.کیا ہی مبارک یہ مہینہ ہے اور کیا ہی مبارک یہ رات ہے جو ہمار لئے ہمارے مالک حقیقی کی رضا اور خوشنودی کا دروازہ کھولنے کے لئے دوڑی چلی آرہی ہے.پس اے احمدیت کے فرزند و آؤ ہم ان مبارک گھڑیوں میں سب کے سب اپنے گناہ بخشوا لیں اور اپنے مالک حقیقی کو راضی کر کے اپنے دلوں کو اس کا تخت گاہ بنا ئیں.اور اسی کے ہو جائیں اور اس زریں موقع کو ضائع نہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں: و اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے.تم سوئے ہوئے ہو گے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا.تم دشمن سے غافل ہو گے اور خدا اسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا‘۱۸۰ پھر فرماتے ہیں :- ہرا یک جو پیچ در پیچ طبیعت رکھتا ہے اور خدا کے ساتھ صاف نہیں ہے.وہ اس

Page 267

مضامین بشیر ۲۶۰ برکت کو ہر گز نہیں پا سکتا جو صاف دلوں کو ملتی ہے.کیا ہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں جو اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو ہر ایک آلودگی سے پاک کر لیتے ہیں اور اپنے خدا سے وفاداری کا عہد باندھتے ہیں کیونکہ وہ ہرگز ضائع نہیں کئے جائیں گے.ممکن نہیں کہ خدا ان کو رسوا کرے کیونکہ وہ خدا کے ہیں اور خدا ان کا.وہ ہر ایک بلا کے وقت بچائے جائیں گے.19 نظارت تعلیم و تربیت لیلۃ القدر کی مندرجہ بالا دعا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاک کلمات کو پیش کر کے احباب جماعت کو تحریک کرتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی برکت حاصل کرنے کے لئے ان دنوں میں اپنے دلوں کو پاک وصاف کر لیں اور ہر ایک قسم کا غصہ اور کینہ اور حسد اور بغض دلوں سے نکال دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تعلیم پر عمل کریں کہ تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو.کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کا ٹا جائے گا.کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے.تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور با ہمی ناراضگی جانے دو اور بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل کرو تا تم بخشے جاؤ.۲۰۰ (مطبوعہ الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۳۷ء)

Page 268

۲۶۱ مضامین بشیر تحریک اصلاح نفس کے متعلق آخری یاد دہانی میں نے اس رمضان مبارک کے بارے میں احباب سے ایک تحریک اصلاح نفس کے متعلق کی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ارشاد کی روشنی میں احباب سے اپیل کی تھی کہ اس رمضان میں اپنے کسی ایک یا ایک سے زیادہ کمزوری کے دور کرنے کا خدا سے عہد کریں اور پھر خدا سے مدد مانگتے ہوئے اس عزم کے ساتھ اس پر قائم ہوں کہ کوئی دنیا کی طاقت آپ کو اس ارادے سے ہٹا نہ سکے.مجھے خوشی ہے کہ آج کی تاریخ تک جو کہ رمضان کی بائیس تاریخ ہے دوسوا ناسی (۲۷۹) احباب اس تحریک میں شامل ہو چکے ہیں اور میں اپنے وعدہ کے مطابق ان دوستوں کے نام دُعا کی تحریک کے ساتھ ہر روز حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ ان دوستوں کا حامی و ناصر ہو اور انہیں ان کے نیک مقاصد اور ارادوں میں کامیاب فرمائے.آمین اب چونکہ رمضان کے آخری آیام ہیں اس لئے میں یہ آخری یاد دہانی شائع کر کے احباب سے اپیل کرتا ہوں جن دوستوں نے کسی وجہ سے ابھی تک اس تحریک کی طرف توجہ نہیں کی وہ بھی اس میں شامل ہو کر اصلاح نفس اور حصول ثواب کے موقع سے فائدہ اٹھائیں اور رضائے الہی کی جستجو میں ستی اور بے تو جہی سے کام نہ لیں.دوسری بات اس ضمن میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض دوستوں نے غالباً اس تحریک کی غرض و غایت اور حقیقت کو نہیں سمجھا کیونکہ متعدد دوستوں نے اپنے خطوط میں اس قسم کے الفاظ لکھے ہیں کہ ہم اپنی جملہ کمزوریوں کو ترک کرنے کا عہد کرتے ہیں.یہ ارادہ اور یہ خواہش مبارک ہے مگر جو تحریک اس وقت کی گئی ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ دوست اپنی کسی معین اور مخصوص کمزوری یا کمزوریوں کو سامنے رکھ کر ان کے متعلق خدا سے عہد کریں کہ آئندہ وہ اُن سے مجتنب رہیں گے تا کہ اصلاح نفس کے ساتھ محاسبہ نفس کی بھی عادت پیدا ہو.محض عمومی رنگ میں ساری کمزوریوں کے ترک کا ارادہ نیک ارادہ تو ضرور سمجھا جائے گا مگر وہ اس تحریک کے ماتحت نہیں آسکتا.جو اس وقت کی گئی ہے دوسری بات جو میں یہ کہنا چاہتا ہوں ، یہ ہے کہ بعض دوستوں نے اپنے خطوں میں با وجو د منع کرنے کے اپنی کمزوریوں کا ذکر کر دیا ہے.یعنی یہ کہ ہم فلاں فلاں کمزوری سے مجتنب رہیں گے.یہ نہ صرف اعلان کے خلاف

Page 269

مضامین بشیر ۲۶۲ ہے بلکہ جائز بھی نہیں ہے کیونکہ جس کمزوری کو خدا نے اپنے پردہ ستاری کے نیچے چھپایا ہوا ہے.اسے ظاہر کرنا خدا کے فضل کی ناشکری ہے.پس دوست آئندہ اس قسم کے اظہار سے مجتنب رہیں.البتہ ایسی کمزوریوں کا اظہار کیا جا سکتا ہے جن میں ستاری کا سوال پیدا نہیں ہوتا مثلاً حقہ نوشی یا داڑھی منڈوانا وغیرہ.اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں ان جماعتوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے من حيث الجماعت اس تحریک میں دلچسپی لی ہے.اور اپنے اپنے حلقوں میں تحریک کر کے مقامی دوستوں کو آمادہ کیا ہے کہ وہ اس تحریک میں حصہ لیں ان جماعتوں کے نام یہ ہیں :- (۱) جماعت احمد یہ یاد گیر حیدر آباد دکن (۲) جماعت احمدیہ کراچی (۳) جماعت احمد یہ جمشید پوری (۴) جماعت احمد یہ بنگہ ضلع جالندھر (۵) جماعت احمد یہ کھاریاں ضلع گجرات (۶) جماعت احمد یہ مزنگ لاہور (۷) جماعت احمد یہ لالہ موسیٰ ضلع گجرات (۸) جماعت احمد یہ سرائے نو رنگ ضلع بنوں.فجزاهم الله خيرًا وكان الله معهم ( مطبوعه الفضل ۳۰ نومبر ۱۹۳۷ء)

Page 270

۲۶۳ مضامین بشیر حوالہ جات ۱۹۳۶ء ، ۱۹۳۷ء ا.ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۶۵ ۲.تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۲۸۱ حاشیہ.حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۸ ۴.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۸۳ ۵ - اخبار الحکم ضمیمه ۲۸ مئی ۱۹۰۸ء.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۰.تحفہ گولڑ و سید روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۲۴۷ - جامع الترندى كتاب الاشربه باب مَا جَاءَ أَنَّ الَّا يُمَنِيْنَ أَحَقِّ بِالشَّرُبِ ۹.النحل: ۹۳ ۱۰.البقرہ: ۲۲۰ ۱۱ - هود : ۱۱۵ ۱۲ میلحض حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴ ۱۷ تا ۱۷۸ ۱۲.۱۳.البقرہ : ۱۳ ۱۴ - النور : ۱۴ ۱۵.ال عمران : ۶۲ ١٦- الشعراء: ۲۲۸ ۱۷.جامع الترمذی ، کتاب الدعوات باب فى فَضلِ سُوَّالِ العَافِيَةِ والمُعَافَاةِ - ۱۸ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۲ ۱۹ کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۰-۱۹ ۲۰ کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲

Page 271

۲۶۴ مضامین بشیر

Page 272

۲۶۵ ۱۹۳۸ء مضامین بشیر دوستوں کا شکریہ عزیز سعید احمد مرحوم عزیز سعید احمد کی وفات حسرت آیات کی خبر الفضل میں شائع ہو چکی ہے اور اس پر حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت ام المومنین اور خاکسار اور دیگر افراد خاندان کے نام متعدد دوستوں کی طرف سے ہمدردی کے تار اور خطوط موصول ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں.ہم ان سب دوستوں کے ممنون ہیں جنہوں نے عزیز مرحوم کی بیماری میں عزیز کو اپنی دعاؤں میں یا درکھا اور اس کی وفات پر ہمدردی کا اظہار فرمایا.فجزاهم الله خيراً بیماری کی ابتدا عزیز سعید احمد جو گو یا رشتہ میں ہمارا پوتا تھا یعنی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پڑپوتا اور مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے کا لڑکا تھا.ایک بہت ہی سعید فطرت، شریف مزاج ، ہوشیار اور ہونہار بچہ تھا اور اپنی طبیعت میں صبر وشکر اور ضبط کا خاص مادہ رکھتا تھا.۱۹۳۴ء میں اس نے پنجاب یونیورسٹی سے بہت اچھے نمبر لے کر بی.اے پاس کیا اور اسی سال کے آخر میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے ولایت گیا.جہاں اس نے ۱۹۳۶ء میں لنڈن یونی ورسٹی سے بی.اے کی سند حاصل کی اور اسی سال یعنی ۱۹۳۶ء میں مرحوم نے آئی.سی.ایس کا بھی امتحان دیا مگر چونکہ بی.اے اور بار کا بوجھ ساتھ تھا.اس لئے گوا چھے نمبروں پر پاس ہو گیا مگر مقابلہ میں نہیں آسکا لیکن اس ناکامی پر عزیز سعید احمد کو کوئی صدمہ نہیں ہوا کیونکہ جیسا کہ اس نے مجھے اپنے متعد دخطوں میں خود لکھا تھا.وہ ملازمت کو پسند نہیں کرتا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ آزادرہ کر ملک وقوم کی خدمت کرے.چنانچہ اس کے بعد مرحوم بیرسٹری کی تیاری میں مصروف رہا اور اس کے متعدد امتحانات پاس کئے مگر عمر نے وفا نہ کی اور آخر ستمبر ۱۹۳۷ء کے آخر میں عزیز کی صحت خراب رہنے لگی.اس

Page 273

مضامین بشیر ۲۶۶ اطلاع کے آنے پر فوراً یہ ہدایت بھجوائی گئی کہ عزیز سعید احمد کو کسی ماہر ڈاکٹر کو دکھایا لیا جائے مگر چونکہ عزیز مرحوم اپنی طبیعت کے لحاظ سے اپنے لئے کسی خاص انتظام کو پسند نہیں کرتا تھا.اس لئے یہ ڈاکٹری امتحان نومبر کے آخر تک ملتوی ہوتا گیا اور اس دوران میں عزیز بطور خود ایک عام ڈاکٹر سے علاج کراتا رہا اور ہر طرح خوش اور تسلی یافتہ تھا اور درمیان میں بعض اوقات طبیعت اچھی بھی ہو جاتی رہی.تشویشناک حالت نومبر کے آخر میں جب ایک ماہر ڈاکٹر نے عزیز سعید احمد کا ایکس رے کے ذریعہ امتحان کیا تو معلوم ہوا کہ عزیز کو سخت قسم کی جلد جلد بڑھنے والی سل ہے اور یہ کہ بیماری کافی ترقی کر چکی ہے.اس پر سخت تشویش ہوئی اور عزیز سعید احمد کوفور اور دصاحب نے لنڈن کے مشہور برائٹن ہسپتال میں داخل کرا کے علاج شروع کرا دیا مگر اس وقت گو ظاہری طور پر حالت ایسی خراب نہیں تھی مگر بیماری اس حد تک پہونچ چکی تھی کہ شروع سے ہی ڈاکٹر نے مرض کو لاعلاج قرار دے دیا تھا.حضرت امیر المومنین کے مشورہ کے ماتحت یہاں سے تار بھجوائی گئی کہ اگر حالت سفر کے قابل ہو تو فوراً ہندوستان بھجوانے کا انتظام کیا جائے مگر ڈاکٹر نے اس کی اجازت نہیں دی.اس لئے نا چارو ہیں علاج کرایا گیا اور گو ولایت کا بہترین ہسپتال اور بہترین علاج میسر تھا اور درمیان میں کچھ سنبھالے بھی آتے رہے مگر فی الجملہ حالت دن بدن گرتی گئی.عزیز مرحوم کے والد کی ولایت کو روانگی اس اثناء میں یہ بھی تجویز کی گئی کہ عزیز مرحوم کے والد یعنی عزیز مکرم مرزا عزیز احمد صاحب خود ولایت چلے جائیں اور جب بھی عزیز کی حالت سنبھلے اسے واپس لے آئیں مگر بعض وجوہ سے اس تجویز میں بھی نقصان کے پہلو دیکھے گئے اور اس طرح ۱۹۳۸ء کا ابتداء آ گیا.اس وقت سارے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ آخری فیصلہ ہوا کہ مرزا عزیز احمد صاحب ہوائی جہاز کے ذریعہ فوراً ولایت تشریف لے جائیں تا کہ اگر عزیز کی حالت سفر کے قابل نہ ہو تو کم از کم وہ اسے دیکھ ہی لیں.کیونکہ اس عرصہ میں خود مرحوم نے بھی اشارہ کنایہ سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میرے ابا جان لنڈن آجائیں تو اچھی بات ہے کیونکہ اس بہانہ سے ان کی سیر بھی ہو جائے گی.چنانچہ اصل تجویز کو جو سمندر کے رستہ سفر کرنے کی تھی ترک کر کے مرزا عزیز احمد صاحب کے جنوری ۱۹۳۷ء کو کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز روانہ ہوئے اور ۱۰ جنوری کو بروز پیر شام کے بعد لنڈن پہنچ گئے.: سہواً ۱۹۳۷ ء لکھا گیا ہے، اصل میں ۱۹۳۸ ء ہے.

Page 274

۲۶۷ مضامین بشیر باپ بیٹے کی ملاقات جاتے ہی عزیز سعید احمد کے پاس ہسپتال میں پہنچے.عزیز بہت کمزور ہور ہا تھا اور گو ہوش وحواس اچھی طرح قائم تھے اور باپ بیٹے میں معمولی باتیں ہوئیں مگر بیمار کی تکلیف اور کوفت کے خیال سے مرزا عزیز احمد صاحب اس کے پاس زیادہ نہیں ٹھہرے اور نصف گھنٹہ کے بعد عزیز سے رخصت ہو کر قریب کے ہوٹل میں تشریف لے آئے جہاں بوجہ اس کے کہ خود ہسپتال کے اندر کسی کو ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہوتی ان کے لئے انتظام کیا گیا تھا.اس رات عزیز مرحوم کو ساری رات با وجود نیند کی دوائی کے نیند نہیں آئی اور گھبراہٹ اور بے خوابی کی حالت رہی.جس کی وجہ غالبا وہ اعصابی دھکا تھا جو اسے اپنی موجودہ حالت میں باپ سے ملنے سے طبعا لگا ہو گا.دوسرے دن گیارہ بجے صبح کو جب عزیز سعید احمد کو ملنے کے لئے اس کے والد صاحب دوبارہ گئے تو اس کے بعد جلد ہی اسے جلدی جلدی سانس آنا شروع ہو گیا.اور تنفس اکھڑ گیا اور تیسرے دن یعنی بدھ کے روز تو حالت بہت نازک ہو گئی اور مرحوم کو ایک قسم کی غنودگی سی رہنے لگی.اس حالت میں بھی جب مرزا عزیز احمد صاحب اس کے پاس گئے تو ایک تنہائی کا موقع پا کر مرحوم نے اپنے ابا جان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چوما اور کہا ابا جی فکر نہ کرنا.وفات بس اس کے بعد عزیز سعید احمد نہیں بول سکا کیونکہ کمزوری بہت تھی اور اس کے ساتھ غنودگی بھی تھی اور ڈاکٹر نے بھی آرام کے خیال سے مزید غنودگی کی دوائی دے رکھی تھی.یہی غنودگی کی حالت وفات تک جاری رہی.اور بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کو صبح سوا دو بجے کے قریب عزیز کی روح جسد عصری سے پرواز کر کے اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچ گئی.انا لله وانا اليه راجعون ونرضى بما يرضى به الله نہائت تلخ جدائی موت تو ہر انسان کے لئے مقدر ہے اور ایک اسلام واحمدیت کی فضا میں تربیت یافتہ شخص ہر صدمہ میں رضا کے سبق کو مقدم رکھتا ہے اور ہم بھی خدا کے فضل سے اس سبق کو نہیں بھولے مگر جن حالات میں عزیز مرحوم کی وفات ہوئی ہے انہوں نے اس کی جدائی کو بہت ہی تلخ بنا دیا ہے.نوجوان

Page 275

مضامین بشیر ۲۶۸ (ابھی عزیز اپنی عمر کے پچیس سال بھی پورے نہیں کر سکا تھا ) سعیدالفطرت ،شریف مزاج ، صابر شاکر، بڑوں کا حد درجہ مؤدب ، چھوٹوں کے لئے نہائت شفیق، رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ بہت محبت کرنے والا اور تعلقات کے نبھانے میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے والا ، پھر نہائت قابل اور نہائت ہونہار، ملک وقوم کی خدمت کا خاص جذبہ رکھنے والا ، غربا اور مساکین کا دلی ہمدرد.یہ وہ صفات تھیں جو مرحوم میں نمایاں طور پر پائی جاتی تھیں.اگر ان صفات کا مالک نوجوان عین اٹھتی جوانی کے عالم میں جب کہ وہ زندگی کی کش مکش میں داخل ہونے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر رہا تھا اور حصول تعلیم کی آخری کڑیوں پر پہونچ چکا تھا اور اس کے اوصاف حسنہ کی وجہ سے اس کے ساتھ بہت سی امیدیں وابستہ تھیں.اچانک فوت ہو جائے اور فوت بھی ایسی حالت میں ہو کہ وہ وطن سے چھ ہزار میل پر اپنے عزیزوں سے دور ہسپتال کے ایک علیحدہ کمرہ میں تنہائی میں پڑا ہوا ہو تو انسانی فطرت جس کے اندر خالق فطرت نے خود اپنے ہاتھ سے جذبات کا خمیر دیا ہے انتہائی صدمہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتی اور ہم اس صدمہ سے بالا نہیں بلکہ شاید جذبات کی دنیا میں دوسروں سے کچھ آگے ہی ہوں مگر ہمارا مقدم فرض وہ ہے جو ہمیں اپنے خدا سے جوڑتا ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے خدا کا ہر فعل خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی تلخ اثر رکھتا ہو اپنے اندر نہ صرف انتہائی حکمت رکھتا ہے بلکہ اس کی گہرائیوں میں سراسر رحمت ہی رحمت مخفی ہوتی ہے.پس ہم خدا کی دی ہوئی امانت کو صبر اور رضا کے ہاتھوں سے خدا کے سپرد کرتے ہیں اور اس کے اس امتحان کو جو خواہ بظاہر کس قدر ہی بھاری ہے مگر بہر حال وہ ہماری بہتری کے لئے ہے، دلی انشراح کے ساتھ قبول کرتے ہیں.اللهم تقبل منا انك انت السميع الدعا مرحوم کی قابل ستائش عادات مرحوم یوں تو اپنا عزیز ہی تھا مگر گزشتہ تین سال سے جبکہ وہ ولائت میں تھا.وہ گویا ایک طرح سے میری ولائت میں بھی تھا یعنی اس کی تعلیمی نگرانی اور اسے اخراجات وغیرہ بھجوانے کا انتظام میرے سپر د تھا اور اس تین سال کے لمبے عرصہ میں تقریباً ہر ہفتہ میں میرے پاس اس کا خط آیا اور میں نے ہر ہفتہ اسے خط لکھا.مجھے اس نے اس عرصہ میں اپنے کسی لفظ کسی تحریر کسی انداز سے شکایت کا موقع نہیں دیا.بعض اوقات اگر زائد خرچ کا مطالبہ کا سوال آیا تو مرحوم نے ایسے انداز میں مطالبہ کیا کہ نہ صرف میں نے اسے کبھی بر انہیں مانا بلکہ اکثر اوقات اس کے زائد مطالبات کو پورا کرنے میں خوشی محسوس کی.اس سارے عرصہ میں صرف ایک دفعہ ایسا موقع آیا کہ مرحوم نے اپنے خط میں ایک تیسرے شخص کے

Page 276

۲۶۹ مضامین بشیر متعلق ایک ایسا لفظ لکھا جو مجھے گراں گزرا مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس خط کے بھجوانے کے معا بعد عزیز مرحوم کو اپنی غلطی محسوس ہوئی.چنانچہ جب میں نے جواب میں نصیحتاً اسے اس کی غلطی کی طرف توجہ دلائی تو اس کا فوراً جواب آیا کہ میں نے اپنی غلطی محسوس کرلی ہے اور میں بلا تامل معافی مانگتا ہوں.اور ساتھ ہی وجہ بھی لکھی کہ اس اس وجہ سے میری طبیعت اپنے رستہ سے کسی قدرا کھڑ گئی تھی مگر انشاء اللہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا.جو وجہ عزیز نے لکھی تھی وہ واقعی ایک حد تک اُسے معذور ثابت کرتی تھی.پھر جب عزیز سعید احمد آئی ہی.ایس میں پاس تو ہو گیا مگر مقابلہ میں نہ آسکا اور عزیز مظفر احمد مقابلہ میں آگیا تو عزیز سعید احمد نے مجھے مظفر احمد کی کامیابی پر مبارکبا د لکھی مگر ساتھ ہی لکھا کہ میں مبارک باد اس لئے دے رہا ہوں کہ مظفر کو اور آپ کو کامیابی کی خوشی ہو گی.ورنہ ویسے تو میں مظفر کے متعلق سمجھتا ہوں کہ وہ چونکہ قابل اور ہونہار ہے اگر وہ آزاد رہ کر خدمت کرتا تو بہتر تھا اور لکھا کہ میں تو صرف والد صاحب کے زور دینے سے آئی سی.ایس کا امتحان دیتا رہا ہوں ورنہ مجھے ملا زمت ہرگز پسند نہیں اور گو مجھے والد صاحب کی وجہ سے اپنی ناکامی کا افسوس ہے مگر اپنے خیال کے لحاظ سے میں خوش ہوں کہ اچھا ہوا.میں نے عزیز سعید احمد کی مبارکباد کا شکریہ ادا کیا مگر ساتھ ہی لکھا کہ عزیز مظفر احمد کا آئی سی.ایس میں جانا اس کی اپنی یا میری خواہش کے نتیجہ میں نہیں ہے بلکہ مشورہ کے ماتحت وسیع ترقومی مفاد کے خیال سے یہ رستہ اختیار کیا گیا ہے اور گو آزاد پیشہ عام طور پر اچھا ہوتا ہے مگر اچھی نیت کے ماتحت بعض اوقات ملازمت بھی آزاد پیشہ کی طرح اعلیٰ خدمت کا رنگ رکھتی ہے جس سے عزیز سعید احمد نے اتفاق کیا.سوشلزم کا مطالعہ چونکہ مرحوم میں غرباء کی ہمدردی کا مادہ بہت تھا اس لئے چند ماہ سے عزیز سعید احمد نے سوشلزم کا بھی مطالعہ شروع کر رکھا تھا تا کہ معلوم ہو سکے کہ سوشلزم غرباء کے لئے کس کس رنگ میں امداد اور فائدہ کا دروازہ کھولتی ہے.اس پر میں نے مرحوم کو لکھا تھا کہ اس مطالعہ کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم کا بھی مطالعہ رکھو تا کہ صحیح موازنہ کرنے میں مدد ملے.چنانچہ میں نے عزیز مرحوم کو اسلامی مسائل زکوۃ اور تقسیم ورثہ اور سود کے متعلق کچھ نوٹ بھی لکھ کر بھیجے تھے اور بتایا تھا کہ غرباء کی امداد اور دولت کی مناسب اور واجبی تقسیم کے متعلق جو اصول اسلام نے پیش کر دیئے ہیں اس پر سوشلزم قطعاً کوئی اضافہ نہیں کر سکتی بلکہ اکثر جگہ سوشلزم نے ٹھو کر کھائی ہے.عزیز اس قسم کی علمی خط و کتابت سے بہت خوش

Page 277

مضامین بشیر ۲۷۰ ہوتا تھا اور اس سے فائدہ اٹھاتا تھا.جذبہ قربانی و انکسار مرحوم جب اس آخری بیماری میں مبتلا ہوا تو شروع میں اس طرف توجہ نہیں ہوئی کہ یہ مرض سل ہے لیکن چونکہ عزیز سعید احمد کے جسم کی کمزوری کی وجہ سے شبہ ہوتا تھا.اس لئے احتیاطاً تا کیدی خط لکھا گیا کہ کسی ماہر امراض سینہ کو دکھا لیا جائے لیکن مرحوم نے محض اس خیال سے کہ میری وجہ سے اتنی تکلیف کیوں اٹھائی جائے اور اس قدرا ہتمام کیوں کیا جائے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ یونہی ایک قسم کی عام بیماری ہے سینہ کے امتحان کو ملتوی رکھا حتی کہ اندر ہی اندر بیماری ترقی کرگئی اور سینہ امتحان کے وقت تک خطر ناک صورت اختیار کر گئی.یقیناً مرحوم کی یہ ایک غلطی تھی مگر اس غلطی کی تہہ میں بھی وہی جذ بہ انکسار و قربانی کام کر رہا تھا جو مرحوم کا خاصہ تھا.بیماری کے آخری ایام میں جبکہ بیماری کے خطر ناک ہونے کا اسے علم ہو گیا تھا.سعید کے دل میں یہ خواہش موجزن تھی کہ وہ اپنے ابا جان سے مل لے مگر اسی جذبہ نے جس پر وہ اب اپنے آپ کو سرعت کے ساتھ قربان کرتا جاتا تھا، اسے اس خواہش کا اظہار نہیں کرنے دیا اور جب بھی اس کے سامنے ذکر آیا اس نے یہی کہا کہ میری خاطر ابا جان تکلیف نہ کریں لیکن جب ہم نے بالآخر اسے اپنے فیصلہ کی اطلاع دی کہ تمہارے ابا جان وہاں آرہے ہیں تو اس کے دبے ہوئے جذبات باہر آگئے اور اس نے اس خبر پر بہت خوشی کا اظہار کیا.ولایت کے قیام کے متعلق مرحوم کا کام اس تعلق میں بھی یادگار رہے گا کہ جو ایک انگریزی تبلیغی رسالہ ہمارے بچوں نے مل کر لنڈن سے نکالا تھا جس کا نام الاسلام تھا اس کا مینیجر بھی مرحوم تھا.الغرض عزیز سعید احمد ایک بہت ہی اچھی صفات کا بچہ تھا اور بہت قابل اور ہونہار تھا.اللہ تعالیٰ اسے غریق رحمت فرمائے اور جنت میں اپنے فضل خاص کا وارث کرے.آمین ولایت میں عزیز کی تیمارداری کرنے والے احباب کا شکر اس موقع پر ان احباب کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے.جنہوں نے ولایت میں عزیز کی تیمار داری اور ہمدردی میں حصہ لیا.ان میں نمایاں حیثیت مکر می مولوی عبد الرحیم صاحب در دکو حاصل ہے.جو گویا اس بیماری میں حقیقی معنوں میں مرحوم کے ولی اور گارڈین رہے اور اپنے آپ کو ہر رنگ میں تکلیف میں ڈال کر مرحوم کے لئے جملہ ضروری قسم کے انتظامات فرماتے رہے اور ہمیں بھی تاروں وغیرہ کے ذریعہ سے باخبر رکھا اور پھر مرحوم کی وفات کے بعد بھی نعش کو ہندوستان بھجوانے وغیرہ کے.

Page 278

۲۷۱ مضامین بشیر متعلق ضروری انتظام سرانجام دیے.فجزاه الله خيراً درد صاحب کے علاوہ حضرت مولوی شیر علی صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس اور ڈاکٹر کیپٹن عطاء اللہ صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبہ اور مسٹر عمل اور مسٹر فیولنگ اور عزیز مرزا ناصر احمد صاحب اور عزیز مرزا مظفر احمد صاحب بھی ہر طرح مرحوم کی تیمارداری اور ہمدردی میں مصروف رہے.فجزاهم الله خيراً وكان الله معهم چونکہ عزیز مرحوم کے تعلقات کا حلقہ خاصہ وسیع تھا.اس لئے بہت سے انگریز دوست بھی مرحوم کی بیماری کے ایام میں ہسپتال آتے رہے اور ہمدردی کے اظہار کے لئے پھولوں اور پھلوں کے تحائف پیش کرتے رہے.سرایڈ ور ڈیکلین کا شکریہ اس تعلق میں سرایڈورڈ میکسیکن سابق گورنر کا نام نامی خاص طور پر قابل ذکر ہے جو عز یز سعید احمد کی بیماری کی خبر سن کر خود ہسپتال میں تشریف لائے اور پھولوں کا تحفہ پیش کیا.سر ایڈورڈ میڈیکن کا ہمارے خاندان کے ساتھ بہت تعلق تھا اور مرحوم کے دادا برادرم مکرم خان بہا در مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے ساتھ بھی خاص تعلق تھا.اس لئے سر موصوف بیماری کا سن کر عیادت کے لئے تشریف لائے اور اپنی شرافت اور وفاداری کا ثبوت دیا.عزیز سعید احمد کی بیماری کے آخری ایام اور وفات کے تعلق میں جو پہلا خط مولوی عبدالرحیم صاحب درد کی طرف سے حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا ہے اس کے ضروری اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں.مولانا در دصاحب کا خط مولوی صاحب حضرت صاحب کی خدمت میں لکھتے ہیں :- جمعہ کی نماز کے بعد میاں سعید احمد کے پاس میں اور مظفر گئے.سعید بہت کمزور معلوم ہوتا ہے.گلا خراب ہے ، پسینہ زیادہ آتا ہے، بولتے وقت تکلیف ہوتی ہے.مرزا عزیز احمد صاحب اچھا ہوا ہوائی جہاز سے آرہے ہیں سعیدا حمد کو بتا دیا سرایڈورڈ میسکیکن سابق گورنر پنجاب پھولوں کا گملا لے کر سعید احمد کی بیماری کی خبر سُن کر انہیں دیکھنے کے لئے ہسپتال آئے اور حال پوچھتے رہے.

Page 279

مضامین بشیر ۲۷۲ پیر کے دن شام کے بعد مرزا عزیز احمد صاحب کے استقبال کے لئے میاں ناصر احمد صاحب اور مظفر احمد صاحب کے ہمراہ ہوائی جہاز کے اترنے کی جگہ میں گیا.جہاز لیٹ تھا.مرزا صاحب نہایت آرام کے ساتھ یہاں پہنچ گئے اور نو بجے کے قریب ہم ہوٹل میں پہنچے.ہوٹل میں اسباب رکھ کر ہسپتال گئے.ہم نے یہ تجویز کی کہ میاں ناصر اور مظفر اور میں سب ان کے ساتھ جائیں تا کہ سعید اور خود مرزا صاحب جذبات پر قابورکھ سکیں اور سعید کی طبیعت میں زیادہ جذباتی ہیجان نہ پیدا ہو.آدھ گھنٹہ سعید کے پاس بیٹھ کر واپس آگئے......دوسرے دن صبح ساڑھے گیارہ بجے سعید کی خواہش کے مطابق مرزا صاحب اور ہم پھر ہسپتال میں گئے.ہمیں دیکھتے ہی سعید کا دم جلدی جلدی آنے لگا.اس لئے اس خیال سے کہ اسے آرام آجائے تو پھر آئیں گے ہم جلدی واپس آگئے.پھر چار بجے کے قریب گئے اور تھوڑی دیر بیٹھے رہے مگر وہی حال تھا.بدھ کے روز دو پہر کے قریب ہسپتال والوں کا فون آیا کہ سعید کی حالت خراب ہے.مجھے اس وقت سخت تکلیف تھی مگر سب کو اطلاع دی اور حضرت مولوی شیر علی صاحب، مرزا عزیز احمد صاحب اور میاں ناصر احمد صاحب اور شمس صاحب اور میں ہسپتال پہنچ گئے.مظفر پہلے سے پہنچا ہوا تھا.سعید کی حالت بہت خراب تھی.ڈاکٹروں کوفور بلا کر دکھایا مگر حالت نہ سمبھلی.ہم ساری رات وہاں رہے اور رات کے دو بجکر دس منٹ پر سعید کا انتقال ہوگیا.انالله وانا اليه راجعون..صبح جا کر میں ہسپتال سے ٹریفکیٹ لایا اور پھر رجسٹرار کے پاس جا کر ضروری رپورٹ دی.اور ہیرڈ کے ساتھ انتظام کیا کہ وہ سعید کے جسم کو امبام کر دے.یعنی ہندوستان پہنچانے کے لئے ضروری مصالحہ لگا کر محفوظ کر دے......سعید کے فوٹو کا بھی انتظام کیا حضرت مولوی شیر علی صاحب کا خط در دصاحب کے خط کے علاوہ خود میرے نام بھی حضرت مولوی شیر علی صاحب اور شمس صاحب کے خطوط موصول ہوئے ہیں اور چونکہ حضرت مولوی صاحب کے خط میں سعید کے آخری حالات اکٹھی صورت میں بیان کئے گئے اور بعض دوسرے ضروری کوائف بھی درج ہیں.اس لئے ان کا خط درج ذیل کرتا ہوں : -

Page 280

۲۷۳ مضامین بشیر در مسجد لندن.۱۵ جنوری ۱۹۳۸ء.بخدمت مخدومی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے ایدہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ عزیزم مرزا سعید احمد مرحوم کی وفات کے درد ناک حادثہ سے سخت افسوس ہوا.انالله وانا اليه راجعون اللہ تعالیٰ مرحوم پر بیشمار رحمتیں اور فضل نازل فرمائے اور اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.آمین.مرحوم نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی خوبیوں سے متصف تھا.اپنے خاندان کی خصوصیات اور اپنے آباؤ اجداد کے اخلاق فاضلہ اس میں خاص طور پر نمایاں تھے.بیماری میں بھی اس نے حیرت انگریز نمونہ دکھایا.ہسپتال میں آنے سے پہلے جس مکان میں رہتا تھا وہاں ایک ڈاکٹر اس کا علاج کرتا تھا.اس نے درد صاحب کے کہنے پر بلغم کا معائنہ کیا.جب وہ اس کے بعد مرحوم کے پاس آیا اس وقت ڈاکٹر کیپٹن عطاء اللہ صاحب مع اہلیہ صاحبہ اور بندہ عزیز مرحوم کے پاس تھے اس نے علیحدہ ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب کو نتیجہ بتایا اور سینہ کو ٹسٹ کیا.اس وقت عزیز کو اپنی بیماری کی حقیقت معلوم ہوئی مگر اس کے چہرہ پر کوئی تغیر نہ آیا.عزیز نے اپنے کمرہ میں ٹیلیفون لگوایا ہوا تھا.ڈاکٹر کے چلا جانے کے تھوڑی دیر بعد عزیز نے در دصاحب کو ٹیلیفون کیا اور بتایا کہ ڈاکٹر ابھی آیا تھا وہ آپ کو ٹیلیفون کرے گا.کچھ خراب خبر ہی بتا گیا ہے.اس کے بعد عزیز نے مجھے کہا کہ مجھے پہلے ہی شبہ تھا.ایک جرمن ماہر نے بھی مجھے دیکھا تھا.درد صاحب نے فوراً ایک بہترین ماہر کے ساتھ وقت مقرر کیا.دوسرے دن تین بجے ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب کے ہمراہ درد صاحب عزیز کو ڈاکٹر برل کے پاس لے گئے جو امراض سینہ کا بہترین ماہر سمجھا جاتا ہے.باوجو د سخت کمزوری کے عزیز نے پسند نہ کیا کہ اس کو اٹھا کر نیچے لے جائیں.خود ہی دوسروں کا سہارا لے کر سیڑھیوں سے نیچے اُترا.ہسپتال میں بھی کبھی گھبراہٹ یا بے چینی کا اظہار نہ کیا بلکہ نہایت اطمینان کی حالت میں رہتا اور جب بھی ملنے جاتے مرحوم کو بالکل خوش دیکھتے اور ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتا.نرسوں کو بھی اس کے حسن اخلاق کی وجہ سے اس کے ساتھ خاص انس اور ہمدردی ہوگئی تھی.بیماری کے ایام میں ایک دن جبکہ میں عزیز کے پاس گیا تو عزیز نے بتایا کہ آج

Page 281

مضامین بشیر ۲۷۴ رات میں نے خواب میں حضرت خلیفہ امسیح اوّل رضی اللہ عنہ کو دیکھا.ہے.وہ میرے پاس تشریف لائے ہیں اور مجھے دیکھ کر پھر واپس تشریف لے گئے ہیں.اس کے بعد عزیز سعید نے مجھے کہا شاید میں نے تم کو پہلے نہیں بتایا جس مکان میں میں پہلے رہتا تھا وہاں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی دیکھا تھا.حضور تشریف لائے ہیں اور حضور کے ساتھ تم ( شیر علی ) ہو.پہلے میں نے خیال کیا کہ حضرت خلیفتہ امیج اول رضی اللہ عنہ ہیں مگر پھر میں نے دیکھا کہ تم ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس تشریف لے گئے مگر تم میرے بستر ے کے پاس کھڑے رہے اور تمہارے ہاتھ میں کوئی چھوٹی سی چیز ہے.( عزیز نے کسی چیز کا نام لیا جو میں نے اچھی طرح سمجھا نہیں تھا شائد دیا کہا تھا) اور تم ابھی میرے بسترہ کے پاس کھڑے تھے کہ میری آنکھ کھل گئی.جب میں بیماری کے دوران میں مرحوم کے پاس جاتا.اگر کبھی کچھ دیر بیٹھ کر واپس آنے لگتا تو عزیز کہتا کہ اور بیٹھو.ایک دن عزیزم مرزا مظفر احمد صاحب کو کہا کہ یہ آسٹریلیا کے سیب رکھے ہیں.شیر علی کو کاٹ کر دو.جب اٹھنے لگتا تو عزیز مصافحہ کرتا اور دعا کے لئے کہتا.عزیز میں ضبط کا مادہ بہت تھا.ابتداء سے عزیز کے دل میں اپنے والد صاحب کو دیکھنے کی خواہش تھی مگر کبھی کھل کر ظاہر نہیں کیا.کبھی اس طرح اس خواہش کو ظاہر کرتے کہ میں کہتا ہوں اگر ابا جی آجائیں تو اچھا ہے.اس طرح لندن کو ہی دیکھ جائیں گے.جب آپ کے ایک خط میں یہ ذکر پڑھا کہ عزیز کے والد صاحب کے ولایت آنے کی تجویز ہو رہی ہے تو اس وقت تار دلوایا کہ میں بھی چاہتا ہوں کہ وہ آجائیں.عزیز گویا اپنے والد صاحب کے آنے کے ہی منتظر تھے.جب پیر کے دن مورخہ ۱۰ جنوری کو مکرمی مرزا عزیز احمد صاحب عشاء کے وقت لنڈن پہنچے تو آتے ہی عزیز کو ملنے کے لئے ہسپتال میں تشریف لے گئے.جب عزیز کو مل کر چلے آئے تو اس رات ملاقات کے اثر کے نتیجہ میں یا معلوم نہیں کس وجہ سے عزیز کو نیند نہیں آئی.نیند کے لئے نرس نے انجکشن کر دیا تھا مگر اس رات با وجود انجکشن کے نیند نہ آئی.صبح جب گیارہ بجے مکرمی مرزا صاحب اور درد صاحب عزیز کو پھر ملنے گئے تو جانے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ عزیز کو جلدی جلدی سانس آنے کی شکایت پیدا ہوگئی ہے.اس لئے مرزا صاحب اور در د صاحب جلدی وہاں سے چلے آئے تا عزیز آرام کر سکے.دوسرے دن بروز بدھ دوپہر کے قریب نئے مکان میں ہسپتال سے ٹیلیفون آیا کہ عزیز کی حالت پہلے سے بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے.درد صاحب مسجد میں تشریف رکھتے تھے.میں نے بذریعہ ٹیلیفون درد صاحب کو

Page 282

۲۷۵ مضامین بشیر اطلاع دی اور پھر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو بھی اطلاع دی اور پھر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے فرمایا کہ میں ابھی ہسپتال جاتا ہوں اور فرمایا مرزا مظفر احمد صاحب کو اطلاع کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اور مرزا صاحب پہلے سے وہاں پہنچے ہوئے ہوں گے.درد صاحب نے بھی حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو فون کیا کہ فورا بذریعہ موٹر ہسپتال میں پہنچ جائیں اور مجھے بھی فون کیا ہم سب جلدی ہسپتال میں پہنچ گئے.اس وقت عزیز کی حالت بہت ہی کمزور تھی اور غنودگی طاری تھی.جب ہوش آتا تو اپنے والد صاحب کی طرف آنکھیں پھیر کر دیکھتے جو ان کے سر کی طرف ایک کرسی میں سر نیچے کر کے بیٹھے ہوئے تھے اور جب مرزا صاحب سر اُٹھا کر دیکھتے تو عزیز اپنی آنکھیں پھیر لیتا.اسی طرح عزیز مرحوم دوسروں کی طرف بھی آنکھیں اٹھا کر دیکھ لیتا.پانچ بجے شام کے قریب عزیز نے کہا کہ مجھے نیند آرہی ہے اب آپ جائیں ( تا میں سو جاؤں ) اس پر سب اٹھ کر چلے آئے مگر مگر می مرزا عزیز احمد صاحب تھوڑی دیر پیچھے ٹھہر گئے.اس وقت عزیز کے ہاتھ کپڑے سے باہر تھے مرزا صاحب نے ان کو اندر کیا تب عزیز نے اپنے ابا جان کو تنہا دیکھ کر ان کے ہاتھ چومے اور کہا کہ ابا جی فکر نہ کرنا.( یہ بھی عزیز کا کمال ضبط تھا کہ دوسروں کے سامنے اپنے جذبات کو ظاہر نہ کیا ) مکرمی مرزا صاحب نے فرمایا کہ فکر تو صرف مجھے ہی نہیں بلکہ قادیان میں جو ہیں ان کو بھی فکر ہے.تم اپنی بیماری کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرو.عزیز نے جواب دیا کہ میں مقابلہ کر رہا ہوں.عزیز اس وقت نہایت نازک حالت میں اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں تھا مگر اس وقت بھی عزیز نے اپنے والد صاحب کو تسلی دی.اللہ تعالیٰ عزیز پر رحم فرما دے اور اپنے قرب میں جگہ عطا فرمائے.آمین اس کے بعد درد صاحب نے اور مکرمی مرزا صاحب نے مجھے مکان پر بھیج دیا.پھر آٹھ بجے کے قریب در دصاحب کا فون آیا کہ ڈاکٹر برل آیا تھا.وہ عزیز کو اور انجکشن کر گیا ہے تا جو غنودگی کی حالت ہے وہ زیادہ گہری ہو جائے اور عزیز کو تکلیف محسوس نہ ہو اور ہم نے ہسپتال سے متصل ایک ہوٹل میں ایک کمرہ لے لیا ہے کیونکہ ہم ہسپتال میں رات کو نہیں ٹھہر سکتے تھے.چنانچہ مکرمی مرزا صاحب و حضرت مرزا ناصر احمد صاحب و عزیزم مرزا مظفر احمد صاحب و درد صاحب و مولانا شمس صاحب رات وہاں ہوٹل میں ہی ٹھہرے.پھر رات کے ڈیڑھ بجے نرس نے ہوٹل میں درد صاحب کو ٹیلیفون پر عزیز کی آخری حالت کی اطلاع دی جب یہ سب وہاں پہنچے تو ایک دو دم باقی تھے.اور ان کے سامنے عزیز دو بجے کے بعد اس عالم سے رخصت ہوا اور اپنے مولا سے جا ملا.انا للہ وانا اليه راجعون.اس کے بعد در دصاحب نے مجھے ٹیلیفون کیا کہ فوراً موٹر لے کر پہنچ جاؤ.چنانچہ بندہ بھی وہاں پہنچ گیا اور ہم سب صبح تک وہاں رہے.

Page 283

مضامین بشیر مکرمی مرزا عزیز احمد صاحب نے بہت صبر سے کام لیا ہے اور عزیزم مظفر احمد صاحب سلمہ و حضرت مرزا ناصر احمد صاحب و مکرمی در د صاحب اور مولانا شمس صاحب نے ہمدردی کا پورا پورا حق ادا کیا.جزاهم الله خيرا - حضرت مرزا ناصر احمد صاحب سلمہ کی اگر چہ خود طبیعت علیل تھی اور.ڈاکٹر کی طرف سے آرام کرنے کی تاکید تھی مگر پھر بھی وہ عزیز کے پاس کثرت سے تشریف لے جاتے اور بیماری کی حالت میں بھی ملنے کے لئے چلے جاتے تھے اور عزیزم مظفر احمد صاحب سلمہ تو روزانہ با قاعدہ جاتے اور جو چیزیں عزیز چاہتا وہ اس کے لئے مہیا کرتے.چنانچہ عزیز مرحوم نے عزیزم مظفر احمد صاحب کی اس خدمت گزاری کے متعلق اپنی خوشی کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ میں نے عمو صاحب کو ( یعنی آپ کو ) تم سے تمہاری ہی تعریف کا خط لکھوانا ہے.درد صاحب تو دن رات عزیز مرحوم کی ہمدردی میں مصروف رہے اور عزیز کے معالجہ میں اور ہر طرح آرام پہنچانے کی کوشش میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.مکر می شمس صاحب بھی کثرت سے عزیز مرحوم کی خبر گیری کے لئے جاتے رہے اور دوسرے دوست بھی عیادت کے لئے ہسپتال میں جاتے رہے.اگر چہ ڈاکٹر کی طرف سے ہدایت تھی کہ زیادہ آدمیوں کا آنا اچھا نہیں ہے.نو مسلموں میں سے مسٹر تھل نے عزیز مرحوم کے ساتھ خاص محبت اور ہمد ردی کا اظہار کیا اور اسلامی اخوت کا رنگ دکھایا.مسٹر فیولنگ نے بھی بہت اظہار محبت کیا اور کئی بار عزیز مرحوم کی عیادت کے لئے گیا اور پھل بھی عزیز کے لئے لے جاتا رہا.فجزاهم الله خيرا الجزا.مکرمی در دصاحب کو خاندان نبوت کے ساتھ خاص محبت ہے اور وہ اس خاندان مبارک کے تمام افراد کے ایک جان نثار غلام ہیں.عزیز مرحوم کی زندگی میں تو انہوں نے عزیز کی ہر طرح خدمت کی ہی تھی عزیز کی وفات کے بعد بھی آپ فوراً اس کوشش میں مصروف ہو گئے کہ عزیز مرحوم کا جنازہ قادیان پہنچانے کا انتظام کیا جائے.چنانچہ وہ اس کوشش میں کامیاب بھی ہو گئے.یہ سب کام اُن سے وہ محبت کرواتی ہے جو ان کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے ساتھ مرکوز ہے اور خدا تعالیٰ نے ان کو ان خدمات کی سرانجام دہی کے لئے قابلیت بھی خاص طور پر بخشی ہے.فجزاه الله خيراالجزا اس موقع پر نو مسلم خواتین نے بھی عزیز مرحوم کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا اظہار کیا.چنانچہ بعض ان میں سے ہسپتال میں عزیز کی عیادت کے لئے بھی گئیں اور جب مکرمی مرزا عزیز احمد صاحب تشریف لائے تو ایک نومسلمہ خاتون نصیرہ بار بار مجھے کہتی تھی کہ در دصاحب سے کہنا کہ جب مرز اسعید صاحب اپنے والد صاحب کے ہمراہ ہندوستان جانے لگیں تو مجھے بھی اطلاع کریں تا میں اس وقت

Page 284

مرزا سعید احمد صاحب سے مل لوں.۲۷۷ مضامین بشیر عزیز مرحوم کے دوستوں کا دائرہ یہاں بھی وسیع تھا اور جماعت سے باہر بھی کئی لوگ ان کے اخلاق حمیدہ کی وجہ سے ان کے مداح اور گرویدہ تھے.عزیزم مرحوم کو غرباء کے ساتھ خاص ہمدردی تھی.اللہ تعالیٰ عزیز کو غریق رحمت کرے.آمین.آخر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرزا عزیز احمد صاحب جو سعید کے ملنے کے لئے ولایت گئے تھے ، وہ ہوائی جہاز کے ذریعہ واپس آرہے ہیں اور امید ہے ۲۳ جنوری کو کراچی اور پھر ایک دوروز میں قادیان پہنچ جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہر طرح ان کا حامی و ناصر ہو.آمین.عزیز سعید کا جنازہ سمندر کے ذریعہ آ رہا ہے اور دس فروری تک بمبئی پہنچ جائے گا.اللہ تعالیٰ اس کی روح کو ابدی رحمت میں جگہ دے.آمین مطبوعه الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۳۸ء)

Page 285

مضامین بشیر ۲۷۸ صدمات میں اوہام باطلہ سے بچنے کا طریق بسا اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ مصائب اور صدمات میں طرح طرح کے اوہام باطلہ کا شکار ہونے لگتے ہیں اور بعض اوقات ایسے خیالات کا اظہار کرنے لگ جاتے ہیں یا اگر اظہار نہیں کرتے تو کم از کم ایسے خیالات کو دل میں جگہ دے دیتے ہیں جن سے خدا تعالیٰ کے متعلق نعوذ باللہ بدظنی اور بدگمانی کا رستہ کھلتا ہے اور اندر ہی اندر ایمان کو گھن لگ جاتا ہے.اس قسم کے خیالات کا اصل باعث تو کسی صدمہ پر صبر ورضا کو ہاتھ سے دے دینا ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات ان خیالات کی بنیاد لاعلمی پر بھی ہوتی ہے.یعنی لوگ موت وحیات کے قانون کو سمجھنے کے بغیر خدا کے فعل کے متعلق رائے قائم کرنے لگ جاتے ہیں اور چونکہ صدمہ کا بھی غلبہ ہوتا ہے.اس لئے اس رائے زنی میں کہیں کے کہیں نکل جاتے ہیں.احباب کو معلوم ہے کہ چند دن ہوئے ولایت میں ہمارا ایک عزیز بچہ مرزا سعید احمد فوت ہو گیا.وفات جو ایک بہت لمبی جدائی کا نام ہے.طبعاً اپنے اندر ایک انتہائی تلخی کا عنصر رکھتی ہے مگر جن حالات میں عزیز مرحوم کی وفات ہوئی انہوں نے اس کو خاص طور پر تلخ کر دیا تھا.اور اس تلخی کا احساس طبعاً ہمارے سارے خاندان کو تھا اور ہے.مگر اللہ تعالیٰ نے صبر کا حکم دیا ہے اور الحمد للہ کہ ہم نے صبر کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اس خدائی امتحان کو رضا کے ساتھ قبول کیا ہے.احباب کو یہ بھی معلوم ہے کہ آج کل میرا اپنا بچہ عزیز مرزا مظفر احمد بھی ولایت میں تعلیم پا رہا ہے.سعید احمد مرحوم کے ساتھ مظفر احمد کا بہت گہرا تعلق تھا.یعنی اول تو قریبی رشتہ دار پھر دوست ، پھر ہم عمر ، پھر ہم جماعت اور پھر دونوں وطن سے دور اور اپنے دوسرے عزیزوں کی نظروں سے اوجھل.ان حالات میں مظفر کو طبعا سعید کی وفات کا انتہائی صدمہ ہوا.اپنے اس صدمہ کے اظہار کے لئے اس نے مجھے ایک خط لکھا ہے جو درد و غم کے جذبات سے معمور ہے اور گو اس خط میں مظفر نے خدا کے فضل سے صبر و رضا کو نہیں چھوڑ ا مگر ایک فقرہ وہ ایسا لکھ گیا جو مجھے کھٹکا ہے.بلکہ خود مظفر کو بھی کھٹکا ہے.کیونکہ وہ لکھتا ہے کہ مجھے یہ خیال آیا تھا لیکن پھر میں نے اسے دل میں ہی دبا لیا.بہر حال میں نے اس کی تربیت کے خیال سے اسے اس ڈاک میں ایک خط لکھا ہے جس کا متعلقہ حصہ ناظرین کے فائدہ کے لئے الفضل میں بھجوا رہا ہوں تا کہ ہمارے دوست مصائب و آلام میں اوہام باطلہ سے محفوظ رہنے

Page 286

۲۷۹ مضامین بشیر کی کوشش کریں.یہ خط ایک پرائیویٹ خط ہے اور اگر میں اخبار کے لئے مضمون لکھتا تو شائد دوسرے رنگ میں لکھتا لیکن بہر حال چونکہ اصول ایک ہی ہے.میں اسے دوستوں کے فائدہ کے لئے الفضل میں شائع کروا رہا ہوں.اگر خدا نے چاہا تو کسی دوسرے وقت اس موضوع پر زیادہ بسط کے ساتھ لکھوں گا.وما توفیقی الا بالله العظيم خط درج ذیل ہے :- بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وَعَلى عبده المسيح الموعود عزیزم مظفر احمد سلمه السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ قادیان ۷فروری ۱۹۳۸ء تمہارے خط سے عزیز سعید احمد مرحوم کی بیماری اور وفات کے حالات کا تفصیلی علم حاصل ہوا.اس میں شبہ نہیں کہ عزیز سعید احمد کی وفات نہایت درجہ تلخ حالات میں ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے سب عزیزوں کے دل پر بہت بھاری بوجھ ہے اور میں نے تو خصوصیت کے ساتھ اس حادثہ کی تلخی کو بہت زیادہ محسوس کیا ہے.کیونکہ علاوہ عام رشتہ کے میرے ساتھ گزشتہ تین سال میں سعید مرحوم کا خاص تعلق رہا تھا اور میں نے اس صدمہ کو اسی طرح محسوس کیا ہے جیسے کہ ایک باپ کو اپنے بیٹے کا صدمہ ہوتا ہے مگر تمہارے اس خط میں ایک فقرہ ایسا ہے جسے میں دینی تربیت کے لحاظ سے یونہی بلا نوٹس نہیں چھوڑ سکتا.وہ فقرہ اس مفہوم کا ہے کہ تمہیں سعید کی وفات پر انتہائی غم والم کی حالت میں خیال آیا کہ بیسیوں ایسے آدمی ہیں جن کی موت کسی شخص کے لئے کسی خاص تکلیف کا باعث نہیں ہوتی لیکن موت آئی تو بے چارے سعید کو ہم سے جدا کرنے کے لئے اور وہ بھی اس جوانی کی عمر میں وہ اور اس غریب الوطنی کی حالت میں الخ.یہ فقرہ جیسا کہ خود تم نے محسوس کیا ہے اپنے اندر ایک گلہ کا رنگ رکھتا ہے اور گو مجھے خوشی ہے کہ تم نے اسے دبا دیا اور اس خیال کا اظہار نہیں کیا اور جو خراب خیال دل کے اندر ہی دبایا جائے.وہ گناہ نہیں ہوتا بلکہ دبا دینے کی وجہ سے ایک نیکی شمار ہوتا ہے لیکن پھر بھی چونکہ تمہارے دل میں اس قسم کا خیال آیا تھا.اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ تربیتی اور تعلیمی لحاظ سے اس کے متعلق

Page 287

مضامین بشیر ۲۸۰ کچھ ذکر کروں : - سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جسے کبھی بھولنا نہیں چاہیئے کہ خدا نے دنیا میں دوستم کے قانون جاری کئے ہیں.ایک قانون نیچر ہے اور دوسرا قانون شریعت ہے.یہ دونوں قانون اپنے علیحدہ علیحدہ دائروں میں چلتے ہیں اور ایک دوسرے کے دائرہ میں دخل انداز نہیں ہوتے اور دنیا کی دینی اور دنیوی ترقی کے لئے ان کا علیحدہ علیحدہ رہنا ہی مفید اور ضروری ہے.اس تقسیم کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ موت وحیات کا قانون نیچر کے قانون کا حصہ ہے یعنی زندگی اور موت کے امور قانون نیچر کے ماتحت رونما ہوتے ہیں اور قانونِ شریعت سے انہیں کوئی تعلق نہیں ہوتا.(سوائے مستثنیات کے جن کے ذکر کی اس جگہ ضرورت نہیں ) پس موت وحیات کے واقعات کو قانون شریعت کے ماتحت لا کر ان کے متعلق رائے لگانا ہمیشہ غلط نتیجہ پیدا کرے گا.مثلاً اگر ایک اچھا اور نیک آدمی کسی وجہ سے ہیضہ کے جراثیم کی زد کے نیچے آجاتا ہے اور ان جراثیم کے مقابلہ کی بھی اس کے جسم میں طاقت نہیں ہے تو وہ لازماً ہیضہ کا شکار ہو جائے گا اور اس کی نیکی اسے اس حملہ سے محفوظ نہیں رکھ سکے گی مگر اس کے مقابل پر اگر ایک خراب آدمی ہے لیکن وہ ہیضہ کے جراثیم کی زد کے نیچے نہیں آیا یا زد کے نیچے تو آیا مگر اس کی جسمانی حالت ان جراثیم کے مقابلہ کے لئے کافی مضبوط تھی تو با وجود دینی لحاظ سے گندہ اور خراب ہونے کے وہ اس آفت سے محفوظ رہے گا.خدا کا یہ قانون دنیا کی ہر چیز میں کام کر رہا ہے.جاندار اور غیر جاندار، انسان اور حیوان ، امیر اور غریب ، نیک اور بد سب اس قانون کے جوئے کے نیچے ہیں.پس اگر سعید مرحوم قانون نیچر کی زد میں آگیا.یعنی ایک طرف اس نے اپنی والدہ مرحومہ سے سل کی بیماری کا میلان ورثہ میں پایا اور دوسری طرف اس کی اپنی جسمانی بناوٹ بھی کمزور تھی اور تیسری طرف اس نے ہوا میں اڑتے ہوئے یا کسی اور طرح سل کے جراثیم کو اپنے جسم کے اندر لے لیا اور چوتھی طرف اس نے اپنے جذ بہ صبر ورضا کے ما تحت شروع میں اپنے اس خطرہ کا کسی سے اظہار نہیں کیا.حتی کہ بیماری اندر ہی اندر ترقی کر کے خطر ناک صورت اختیا ر کر گئی اور پانچویں طرف اسے یہ حالات اس ملک میں پیش آئے جہاں کی آب و ہوا سخت مرطوب اور خنک ہے تو ان حالات کا لازمی اور قدرتی نتیجہ یہی ہوسکتا تھا جو ہوا.یعنی قانون نیچر کے حملہ نے ہمارے عزیز کی زندگی کے لہلہاتے پودہ کو عین جوانی کے عالم میں کاٹ کر گرا دیا.یقیناً یہ سارا منظر اپنے اندر ایک انتہائی تلخی رکھتا ہے مگر اس تلخ نتیجہ کو عام قانون نیچر کے دائرہ سے نکال کر اوہام باطلہ کا شکار ہونے لگنا سخت غلطی ہے ، جس پر استغفار کرنا چاہیئے.یہ حادثہ خواہ کتنا ہی تلخ ہے مگر بہر حال وہ قانون نیچر کا ایک حصہ ہے اور اسے اس کے دائرہ کے اندر ہی

Page 288

۲۸۱ مضامین بشیر محمد و درکھنا چاہیئے ورنہ خدا پر بدظنی پیدا ہونے کا راستہ کھلتا ہے جوسرا سر مہلک ہے.مجھے یہ خوشی ہے کہ تم نے اس باطل خیال کو پیدا ہوتے ہی دبا دیا اور اس کے اظہار سے باز رہے اور اس طرح گناہ میں گرنے کی بجائے ایک نیکی کمالی ورنہ اگر اظہار کر دیتے یا اس خیال کو اپنے دل میں راسخ ہونے دیتے تو یہ سراسر معصیت تھی.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اس واقعہ کو فرض کے طور پر مستثنیات کے دائرہ میں لے جا کر قانون شریعت کے ماتحت ہی لا کر دیکھنا ہو تو پھر بھی اس میں امکانی طور پر ایسی تو جیہات کے راستے کھلے ہیں جو ایک مومن کی تسلی کا باعث ہونے چاہئیں.دوسری باتوں کے ذکر کو چھوڑتے ہوئے میں صرف مثال کے طور پر قرآن شریف کے اس بیان کردہ اصول کی طرف اشارہ کرنا کافی سمجھتا ہوں کہ بعض اوقات انجام کے لحاظ سے بچوں کی وفات ان کے والدین کے لئے بلکہ خود بچوں کے لئے رحمت کا موجب ہوتی ہے.یعنی کسی نہ کسی رنگ میں اس کی تہہ میں خدائی رحمت کا جلوہ مخفی ہوتا ہے اور خدا کے رازوں کو خدا ہی بہتر جانتا ہے.اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اور بھی بعض مصالح ہو سکتے ہیں جو اس قسم کے واقعات کی تہہ میں کام کرتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ فی الحال تمہارے لئے یہی دو اصول کافی ہیں جو میں نے اوپر بیان کر دیئے ہیں.اب ایک مختصر سی تیسری بات عشق و وفاء کے میدان کی بھی سن لو اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ اس نے ہم پر ہزاروں احسان کئے ہوں اور یہ احسان بہت وزنی اور اہم ہوں اور پھر کبھی کسی موقع پر ہمیں اس محسن کی طرف سے کوئی تکلیف بھی پہنچ جائے تو قطع نظر اس کے کہ اس تکلیف کے نیچے بھی رحمت و شفقت مخفی ہو.کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ اس شخص کے کثیر التعداد اور عظیم الشان احسانوں کو یا درکھتے ہوئے اس کی اس تکلیف اور سختی کو بھلا دیں اور تکلیف کو دیکھتے ہوئے بھی اس کے احسانوں کی وجہ سے اس کے شکر گزار رہیں.قطع نظر دوسرے لا تعداد احسانوں کے اللہ تعالیٰ نے ہم پر جو عظیم الشان احسان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل میں پیدا کر کے کیا ہے.وہی اکیلا اس قدر بھاری ہے کہ میں اپنے ذوق کے مطابق تو سمجھتا ہوں کہ اگر بالفرض خدا ہم سب کو آپ کی نسل میں پیدا کرنے کے بعد عین جوانی کے عالم میں حرف غلط کی طرح مٹاتا چلا جائے اور کسی ایک کو بھی نہ چھوڑے تو کم از کم جہاں تک میرے قلبی احساسات کا تعلق ہے میں پھر بھی اس کے پیدا کر نے کے احسان کو اس کے مارنے کے فعل پر بھاری سمجھوں گا اور کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی میرے دل میں اس کی شکر گذاری کا جذ بہ کم نہیں ہو گا.

Page 289

مضامین بشیر ۲۸۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جس میں اللہ تعالیٰ آپ سے فرماتا ہے.صادق آن باشد که ایام بلا گذارد گر قضا با محبت با وفا را عاشقی گردد اسیر بوسد آن زنجیر را کز آشنا کے یعنی صادق وہ ہوتا ہے جو مصیبت اور ابتلا کے دنوں کو بھی محبت اور وفا داری کے ساتھ گذارتا ہے اور اگر کبھی خدائی قضاء وقدر کے ماتحت کوئی عاشق مصائب و آلام میں گرفتار ہو جائے تو وہ اپنے وفور عشق میں ان مصائب و آلام کی آہنی زنجیروں کو بھی چومتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ زنجیریں بھی میرے محبوب کی طرف سے ہیں.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے جس کے متعلق سب سے مقدم فرض خود ہمارا ہے کہ ہم اس پر عمل کریں کیونکہ ہم آپ کی صرف روحانی نسل سے ہی نہیں ہیں بلکہ جسمانی نسل سے بھی ہیں اور دوسروں کی نسبت ہماری ذمہ داری زیادہ ہے.میں نے یہ باتیں محض اصولی طور پر تمہاری دینی تربیت کے لحاظ سے لکھی ہیں.ورنہ میں یہ خیال نہیں کرتا کہ تم نے اپنے خدا پر کوئی بدگمانی کی ہے.میں جانتا ہوں کہ تمہارا یہ ایک محض اڑتا ہوا خیال تھا جو تم نے دل میں فوراً ہی دبا کر مٹا دیا اور میں امید رکھتا ہوں کہ تم نے اسی قسم کے خیالات کی بنا پر ہی اسے دبایا ہو گا.جو میں نے اس جگہ بیان کئے ہیں کیونکہ تم بھی آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل سے ہوا اور گو ہماری نسبت تمہارا فاصلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بقد ر ا یک قدم زیادہ ہے لیکن بہر حال تم اس خونی رشتہ کے مبارک اثر سے محروم نہیں ہو سکتے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تم کو پہنچا ہے اور عزیز سعید مرحوم کی وفات کے متعلق بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ قانون نیچر کا ایک دردناک طبعی نتیجہ ہے جو خواہ ہمارے لئے کتنا ہی تلخ اور بھاری ہے مگر بہر حال وہ ہمارے محسن و محبوب خدا کی طرف سے ہے اور ہم با وجود انتہائی غم کے دلی صبر ورضا کے ساتھ اپنے خدا کی ان بھاری زنجیروں کو چومتے ہیں.جو اس کی قضاء وقد ر نے ہم پر ڈالی ہیں اور اس کے امتحان کو قبول کرتے ہیں.خدا بھی ہمارے صبر کو قبول فرمائے اور اس پر استقامت دے.آمین والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد اس خط میں میں نے تین اصول بیان کئے ہیں جو دوستوں کی آسانی کے لئے ذیل میں معین

Page 290

۲۸۳ مضامین بشیر صورت میں دہرا دیتا ہوں تا کہ وہ اپنے صدمات میں ان کے ذریعہ سے اوہام باطلہ سے بچ سکیں.وہ اصول یہ ہیں : - ا.موت وحیات کے واقعات عموماً قضاء قدر کے عام قانون کے ماتحت وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ان میں خدا کی کوئی خاص تقدیر مخفی نہیں ہوتی.اس لئے انہیں بلا وجہ خدا کا خاص فعل قرار دے کر بدگمانی کا رستہ نہیں کھولنا چاہیئے اور خدا کی تقدیر عام فی الجملہ مخلوق کی بہتری اور ترقی کے لئے مقصود ہے.۲.اگر کبھی استثناء کے رنگ میں موت و حیات کا کوئی فعل قانون شریعت کے ماتحت خدا کی تقدیر خاص کے نیچے وقوع پذیر ہوتا ہے تو اس میں بھی نیک لوگوں کے لئے کوئی نہ کوئی رحمت کا پہلو ہی مخفی ہوتا ہے.پس کسی صدمہ کی ظاہری تلخی کے غلبہ میں اس کی مخفی رحمت کے پہلو کو بند کرتی ہے.واللہ اعلم ولا علم لنا الا ما علمنا ( مطبوعه الفضل ۱۲ فروری ۱۹۳۸ء)

Page 291

مضامین بشیر ۲۸۴ احباب سے ایک ضروری معذرت عزیز مرزا سعید احمد کا جنازہ جب ولایت سے قادیان پہنچا تو اس وقت مرحوم کا چہرہ عزیز واقارب کے علاوہ دوسرے بھائیوں اور بہنوں کو بھی جنھیں چہرہ دیکھنے کی خواہش تھی ، دکھایا گیا تھا لیکن مجھے آج معلوم ہوا ہے کہ ہجوم کی کثرت اور ترتیب کو خاطر خواہ صورت میں قائم نہ رکھ سکنے کی وجہ سے بعض دوست با وجود خواہش کے چہرہ نہیں دیکھ سکے.حتی کہ اس فہرست میں بعض اپنے اعزہ بھی شامل ہیں.مجھے یہ اطلاع پا کر بہت ہی افسوس ہوا ہے اور میں ایسے سب دوستوں اور بہنوں اور بھائیوں سے معذرت چاہتا ہوں.دراصل اس وقت حالت ایسی تھی کہ ایک عام انتظام کے سوا خاص انتظام مشکل تھا.علاوہ ازیں یہ بھی خیال تھا کہ شاید بعض لوگ باوجود موقع پانے کے، جذباتی تکلیف کی وجہ سے چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے.پس اگر کسی دوست یا عزیز کا اس ہنگامہ میں خیال بھی آیا تو اس کی غیر حاضری کو اس وجہ کی طرف منسوب سمجھ لیا گیا.امید ہے ہمارے احباب اس دلی معذرت کو قبول فرمائیں گے.مطبوعه الفضل ۱۹ فروری ۱۹۳۸ء)

Page 292

۲۸۵ مضامین بشیر تمباکو کے نقصانات اور جماعت کو اس کے ترک کی تحریک برائیوں کی اقسام جس طرح نیکیوں کی بہت سی اقسام ہیں.اس طرح بدیوں کی بھی بہت سی قسمیں ہیں.بعض بدیاں اپنی ذات میں بہت ہی اہم اور خطرناک ہوتی ہیں مگر وہ عمو ما بدی کے ارتکاب کرنے والے کی ذات تک محدود رہتی ہیں اور دوسروں تک ان کا اثر جلدی نہیں پہو نچتا لیکن اس کے مقابل پر بعض بدیاں ایسی ہوتی ہیں کہ گو وہ اپنی ذات میں زیادہ اہم اور خطرناک نہ ہوں لیکن ان کے متعدی ہونے کا پہلو بہت غالب ہوتا ہے اور وہ ایک تیز آگ کی طرح اپنے ماحول میں پھیلتی جاتی ہیں.تمباکو اور زردہ ان موخر الذکر خرابیوں میں سے تمباکو اور زردہ کا استعمال نمایاں حیثیت رکھتا ہے اور آج کل تو اس مرض نے ایسی عالمگیر وسعت حاصل کر لی ہے کہ شائد دنیا کی کوئی اور خرابی اس کی وسعت کو نہیں پہونچتی.مرد، عورت، بچے، بوڑھے، امیر، غریب سب اس مرض کا شکار نظر آتے ہیں.اور چونکہ انسانی فطرت میں تنوع کی محبت بھی داخل ہے اس لئے تمبا کو کے استعمال کو اس کی وسعت کے مناسب حال تنوع بھی غیر معمولی طور پر نصیب ہوا ہے.چنانچہ حقہ ، سگریٹ ، سگار اور بیٹری مع اپنی گونا گوں اقسام کے اور پھر زردہ اور نسوار وغیرہ تمباکو کے استعمال کی ایسی معروف صورتیں ہیں کہ اس اضافہ کا بچہ بچہ ان سے واقف ہے اور یہ عادت مشرق و مغرب کی حدود سے آزاد ہو کر دنیا کے کونے کونے میں راسخ ہو چکی ہے اور دیہات و شہروں ہر دو میں ایک سی حکومت جمائے ہوئے ہے.خفیف قسم کا نشہ یا خمار میں چونکہ خدا کے فضل سے اس مذموم عادت کی کسی نوع میں بھی کبھی مبتلا نہیں ہوا اور بچپن سے اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا آیا ہوں.اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ تمبا کو میں وہ کونسی کشش ہے جس نے دنیا کے کثیر حصہ کو اس کا گرویدہ بنا رکھا ہے لیکن سننے سنانے سے جو کچھ معلوم ہوا ہے نیز جو کچھ اس

Page 293

مضامین بشیر ۲۸۶ عادت میں مبتلا لوگوں کے دیکھنے سے اندازہ لگایا جا سکا ہے اس کا خلاصہ یہی ہے کہ اس عادت کی وسعت محض اس خفیف قسم کے نشہ یا خمار کی بناء پر ہے جو تمبا کو کا استعمال پیدا کرتا ہے اور لوگ اپنے فارغ اوقات کاٹنے یا اپنے فکروں کو غرق کرنے یا یونہی ایک گونہ حالت سکر و خمار پیدا کرنے کی غرض سے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور چونکہ دوسری طرف کسی مذہب نے بھی تمباکو کے استعمال کو حرام قرار نہیں دیا.اس لئے بڑی جرات اور دلیری سے ہر شخص اس عادت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ یہ مرض روز بروز سرعت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے لیکن غور کیا جائے تو تمبا کو کا استعمال اپنے اندر بہت سے دینی اور اخلاقی اور جسمانی اور اقتصادی نقصانات کا حامل ہے.جن کی طرف سے کوئی عظمند اور ترقی کرنے والی قوم آنکھیں بند نہیں کر سکتی.مختصر طور پر تمباکو کے نقصانات مندرجہ ذیل صورت میں ظاہر ہوتے ہیں.دینی و اخلاقی لحاظ سے نقصان اول: دینی اور اخلاقی لحاظ سے (الف) تمباکو کے استعمال میں ایک خفیف قسم کے خمار یا سکر کی آمیزش ہے.اس لئے خواہ تھوڑے پیمانہ پر ہی سہی مگر بہر حال وہ اپنی اصل کے لحاظ سے ان نقصانات سے حصہ پاتا ہے جو شراب کے تعلق میں اسلام نے بیان کئے ہیں.اسی واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر تمبا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو میں یقین کرتا ہوں کہ آپ اس کے استعمال سے منع فرماتے.(ب) تمباکو کے استعمال سے خواہ وہ حقہ اور سگریٹ کی صورت میں ہو یا زردہ اور نسوار کی صورت میں ، انسان کو بسا اوقات ایسی مجالس یا صحبت یا سوسائٹی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے جو دینی یا اخلاقی لحاظ سے اچھی نہیں ہوتی.بے شک اس نقصان کا دروازہ سب صورتوں میں کھلا نہیں ہوتا لیکن بہت سی صورتوں میں اس کا احتمال ضرور ہوتا ہے اور چونکہ حکم کثرت کی بناء پر لگتا ہے اس لئے اس جہت سے بھی اس عادت سے پر ہیز لازم ہے.( ج ) تمباکو کے استعمال سے اوقات کو بے کا رطور پر گزار نے اور وقت ضائع کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے.افسوس ہے کہ اس زمانہ میں اس نقص کو اکثر لوگ محسوس نہیں کرتے مگر قومی ترقی کے لئے یہ نقص ایک گونہ گھن کا حکم رکھتا ہے.اور احمدیوں کو تو خاص طور پر اس نقص کی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہیئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام ہے کہ اَنْتَ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ

Page 294

۲۸۷ مضامین بشیر وقتها یعنی تو خدا کا صحیح ہے جس کا کوئی وقت ضائع نہیں جائے گا.( د ) حقہ اور سگریٹ کے استعمال سے مونہہ میں ایک طرح کی بو پیدا ہوتی ہے اور گو بُو خود ایک جسمانی نقص ہے مگر اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے پتہ لگتا ہے کہ بوخدا کی رحمت کے فرشتوں کو بہت ہی نا پسند ہے اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بو کی حالت میں مسجد میں آنے سے منع فرمایا ہے اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تمباکو کی مذمت میں فرمایا ہے کہ حقہ اور سگریٹ نوش اعلیٰ الہام سے محروم رہتا ہے.اسی طرح یہ نقص ایک اہم دینی اور اخلاقی نقص بن جاتا ہے.(ھ) تمباکو کے استعمال سے طبی اصول کے ماتحت قوت ارادی کمزور ہو جاتی ہے جو اخلاقی اور دینی لحاظ سے سخت نقصان دہ ہے کیونکہ ایسا شخص نیکیوں کے اختیار کرنے اور بدیوں کا مقابلہ کرنے میں عموماً کم ہمتی دکھاتا ہے.جسمانی لحاظ سے نقصانات دوم :.جسمانی لحاظ سے تمباکو کے مندرجہ ذیل نقص سمجھے جا سکتے ہیں.(الف) ایک تو وہی مندرجہ بالا نقص یعنی مونہہ میں بو پیدا ہونا جو ہر طبقہ اور ہر سوسائٹی میں نا پسندیدہ مجھی گئی ہے اور یقیناً صحت پر بھی بُرا اثر پیدا کرتی ہوگی.(ب) تمباکو کے استعمال سے گو عارضی طور پر اس چیز کے عادی شخص کو کسی قدر ہوشیاری اور ہمت محسوس ہوتی ہے لیکن اس کا مستقل اور دائمی اثر یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ قوت ارادی کم ہوتی جاتی اور اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں اور یقیناً اگر دوسرے حالات برابر ہوں تو ایک تمباکو کی عادت رکھنے والی قوم کی صحت فی الجملہ اس قوم سے ادنی ہوگی جو اس عادت سے محفوظ ہے.(ج) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ حقہ یا سگریٹ وغیرہ سے جو دھو آں انسان کے جسم کے اندر جاتا ہے وہ انسانی صحت کے لئے مضر ہوتا ہے.(و) زردہ اور نسوار کے استعمال سے مسوڑوں کو بھی نقصان پہو نچتا ہے.اقتصادی لحاظ سے نقصان سوم : - اقتصادی لحاظ سے تمباکو کے استعمال کے یہ نقصانات ہیں: (الف) ایک بالکل بے فائدہ اور بے خیر چیز میں مختلف اقوام کا بے شمار روپیہ ضائع چلا

Page 295

مضامین بشیر ۲۸۸ جاتا ہے.یقینا اگر اندازہ کیا جائے تو دُنیا میں ہر سال اربوں روپے کا تمبا کو خرچ ہوتا ہوگا اور اغلب یہ ہے کہ اس میں سے کروڑوں روپیہ مسلمان خرچ کرتے ہیں.اب دیکھو کہ ایک غریب قوم کے لئے یہ کس قدر بھاری نقصان ہے.احمدیوں میں بھی اگر ان کی پنجاب کی آبادی ایک لاکھ مجھی جائے اور ان میں سے سارے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہیں ہزار اشخاص تمباکو اور زردہ وغیرہ کے عادی قرار دئیے جائیں اور فی کس تمباکو کا سالانہ خرچ دو سے لے کر تین روپے تک سمجھا جائے (حالانکہ غالباً اصل خرچ اس سے زیادہ ہو گا ) تو صرف پنجاب کے احمدیوں میں تمباکو اور زردہ کی وجہ سے چالیس سے لے کر ساٹھ ہزار روپے تک سالانہ خرچ ہو رہا ہے.جو ایک بہت بھاری قومی نقصان ہے.اسی طرح تمباکو نوشی افراد کے مالی نقصان کا بھی باعث ہے کیونکہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ غریب غریب لوگ جنہیں پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا.عادت کی وجہ سے تمباکو پرضرور خرچ کرتے ہیں.جس کے نتیجہ میں ان کی اقتصادی حالت روز بروز بد سے بدتر ہوتی جاتی ہے مگر وہ اس نقصان کو محسوس نہیں کرتے.(ب) چونکہ حقہ سگریٹ وغیرہ کی وجہ سے وقت بہت ضائع ہوتا ہے.اس لئے پیشہ ور لوگ اس کی وجہ سے مالی نقصان اٹھاتے ہیں کیونکہ جو کام ایک تارک تمبا کو چار گھنٹہ میں کرتا ہے.اسے ایک حقہ نوش عموماً ساڑھے چار گھنٹے میں کرتا ہے اور حساب کر کے دیکھا جائے.تو یہ نقصان بھی ایک بھاری قومی نقصان ہے.( ج ) تمباکو کی وجہ سے قوتِ ارادی کے کمزور ہو جانے کے نتیجہ میں نسبتی لحاظ سے انسان کے کمانے کی طاقت پر بھی اثر پڑتا ہے.(و) حقہ اور سگریٹ کی وجہ سے آتشزدگی کے حادثات کا احتمال بڑھ جاتا ہے.نقصان سے بچنے کے طریق الغرض تمباکو کا استعمال ہر جہت سے ضرر رسان اور نقصان دہ ہے اور جس طرح حقہ اور سگریٹ وغیرہ کی صورت میں تمبا کو ایک ظاہری دھو آں پیدا کرتا ہے.اسی طرح تمباکو اور زردہ کا استعمال افراد و اقوام کے دین اور اخلاق اور صحت اور اموال کو بھی گویا دھواں بنا کر اڑا تا جارہا ہے.مگر کوئی اس دھوئیں کو دیکھتا نہیں.لیکن اب وقت ہے کہ کم از کم احمدی جماعت کے احباب اس نقص کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں جو مندرجہ ذیل صورتوں میں ہو سکتی ہے.

Page 296

۲۸۹ مضامین بشیر (۱) جو لوگ حقہ یا سگریٹ یا زردہ یا نسوار وغیرہ کی عادت میں مبتلا ہو چکے ہیں.ان میں سے جو جو لوگ اس مذموم عادت کو ترک کر سکتے ہوں (اور میں نہیں سمجھتا کہ حقیقتا کوئی ایک فرد واحد بھی ایسا ہو جو اسے ترک نہ کر سکتا ہو ) وہ اپنے دلوں میں خدا سے ایک پختہ عہد باندھ کر اس عادت کو یکدم یا آہستہ آہستہ جس طرح بھی توفیق ملے ترک کر دیں مگر بہتر ہے کہ یکدم ترک کریں کیونکہ آہستہ آہستہ ترک کرنے کے طریق میں ستی کا احتمال ہوتا ہے.(۲) جو لوگ اپنے خیال میں کسی وجہ سے اس عادت کو ترک نہ کر سکتے ہوں.مثلاً بوڑھے لوگ جن کو پُرانی عادت ہو چکی ہے یا دمہ وغیرہ کے بیمار جنہیں اس کے ترک کرنے سے بیماری کی تکلیف کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو وہ مندرجہ ذیل دو تجویز میں اختیار کریں :- (الف) جہاں تک ممکن ہو اس عادت کو کم کرنے کی کوشش کریں اور بہر حال اس کی کثرت سے پر ہیز کریں.( ب ) جب تک اس عادت کے ترک کی توفیق نہیں ملتی کم از کم یہ عہد کریں کہ اپنے بچوں اور دیگر کم عمر عزیزوں کے سامنے تمباکو کے استعمال سے پر ہیز کریں گے تاکہ بچوں کو اس کی عادت نہ پڑے نیز ایسے بڑی عمر کے لوگوں کے سامنے بھی تمبا کو استعمال نہ کریں جو اس کے عادی نہ ہوں.(۳) بچے اور نوجوان جو اس عادت میں مبتلا ہوں.وہ اس عادت کو یکدم اور کلی طور پر ترک کر دیں کیونکہ انہیں خدا نے طاقت دی ہے اور اس طاقت کا بہترین شکرانہ یہی ہے کہ اس سے نیکی کے رستہ میں فائدہ اٹھایا جائے.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست جن کو ہر معاملہ میں دوسروں کے لئے نمونہ بننا چاہیئے اور جن کے لئے ضروری ہے کہ ہر جہت سے اپنی زندگیوں کو اعلیٰ بنا ئیں وہ اس سراسر نقصان رسان عادت کے استیصال کی طرف فوری توجہ دے کر عنداللہ ماجور ہوں گے.اور اگر ایسے دوست جو اس تحریک کے نتیجہ میں تمبا کو ترک کریں مجھے بھی اپنے ارادہ سے اطلاع دیں تو میں انشاء اللہ ان کے اسماء حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کی تحریک کے لئے پیش کروں گا.بالآخر ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام کی تحریروں سے چند حوالہ جات درج کئے جاتے ہیں جن میں تمباکو کے استعمال کو نقصان دہ قرار دے کر اس سے منع کیا گیا ہے.

Page 297

مضامین بشیر ۲۹۰ ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۱) مورخه ۲۹ مئی ۱۸۹۸ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار شائع کیا جس کا ملخص یہ ہے کہ : - د میں نے چند ایسے آدمیوں کی شکایت سنی تھی کہ وہ پنجوقت نماز میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور بعض ایسے تھے کہ ان کی مجلسوں میں ٹھٹھے اور ہنسی اور حقہ نوشی وہ اور فضول گوئی کا شغل رہتا تھا اور بعض کی نسبت شک کیا گیا تھا کہ پر ہیز گاری کے پاک اصول پر قائم نہیں ہیں.اس لئے میں نے بلا تو قف ان سب کو یہاں سے نکال دیا ہے کہ تا دوسروں کے لئے ٹھو کر کھانے کا موجب نہ ہوں.حقہ کا ترک اچھا ہے مونہہ سے بو آتی ہے ہمارے والد صاحب مرحوم اس کے متعلق ایک بنایا ہوا شعر پڑھا کرتے تھے جس سے اس کی بُرائی ظاہر.ہوتی ہے.(۲) حقہ نوشی کے متعلق ذکر تھا فر مایا : - اس کا ترک اچھا ہے یہ ایک بدعت ہے اس کے پینے سے مونہہ سے بو آتی ہے ہے (۳) حدیث میں آیا ہے کہ وہ مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكَهُ مَا لَا يَعْنِيهِ یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑ دی جائے اس طرح پر یہ پان حقہ زردہ تمبا کو، افیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں.بڑی سادگی یہ ہے کہ انسان ان چیزوں سے پر ہیز کرے کیونکہ اگر کوئی اور بھی نقصان ان کا بفرض محال نہ ہو تو بھی اس سے ابتلا آ جاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتا ہے مثلا قید ہو جائے تو روٹی تو ملے گی لیکن بھنگ چرس یا اور منشی اشیاء نہیں دی جائیں گی.یا اگر قید نہ ہو مگر کسی ایسی جگہ میں ہو جو قید کے قائمقام ہو تو پھر بھی مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں عمدہ صحت کو کسی بیہودہ سہارے سے کبھی ضائع کرنا نہیں چاہیئے.شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضر صحت چیزوں کو مفسد ایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے.یہ سچی بات ہے کہ نشوں اور تقوی میں عداوت ہے.ایک شخص نے امریکہ سے تمباکو نوشی کے متعلق اس کے بہت سے مجرب نقصان ظاہر کرتے ہوئے اشتہار دیا اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سنا اور فرمایا اصل میں ہم اس لئے اسے سنتے ہیں کہ اکثر نو عمر لڑکے اور نوجوان تعلیم یافتہ بطور فیشن ہی کے اس بلا میں گرفتار یا مبتلا ہو جاتے ہیں.

Page 298

۲۹۱ تا وہ ان باتوں کو سن کر اس مضر چیز کے نقصانات سے بچیں.فرمایا اصل میں تمبا کو ایک دھوآں ہوتا ہے جو اندرونی اعضاء کے واسطے مضر ہے.اسلام لغو کا موں سے منع کرتا ہے اور اس میں نقصان ہی ہوتا ہے.لہذا اس سے پر ہیز ہی اچھا ہے.‘ کے ر تمباکو کو ہم مسکرات میں داخل کرتے ہیں لیکن یہ ایک لغو فعل ہے اور مومن کی شان ہے وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ اگر کسی کو کوئی طبیب بطور علاج بتائے تو ہم منع نہیں کرتے ورنہ یہ لغو اور اسراف کا فعل ہے.اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوتا تو آپ صحابہ کے لئے بھی پسند نہ فرماتے.تمباکو کی نسبت فرمایا کہ : - مضامین بشیر یہ شراب کی طرح تو نہیں ہے کہ اس سے انسان کو فسق و فجور کی طرف رغبت ہو مگر تا ہم تقویٰ یہی ہے کہ اس سے نفرت اور پر ہیز کرے.مونہہ میں اس سے بد بو آتی ہے اور یہ منحوس صورت ہے کہ انسان دھوآں اندر داخل کرے اور پھر باہر نکالے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہ ہوتا تو آپ اجازت نہ دیتے کہ اسے استعمال کیا جاوئے.ایک لغو اور بے ہودہ حرکت ہے.ہاں مسکرات میں اسے شامل نہیں کر سکتے اگر علاج کے طور پر ضرورت ہو تو منع نہیں ہے ورنہ یونہی مال کو بے جا صرف کرنا ہے عمدہ تندرست وہ آدمی ہے جو کسی شے کے سہارے زندگی بسر نہیں کرتا ۱۰ (۷) ایک شخص نے سوال کیا کہ سنا گیا ہے کہ آپ نے حقہ نوشی کو حرام فرمایا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ہم نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا کہ تمبا کو پینا مانند سو راور شراب کے حرام ہے.ہاں ایک لغوا مر ہے.اس سے مومن کو پر ہیز چاہیئے.البتہ جو لوگ کسی بیماری کے سبب مجبور ہیں وہ بطور دوا و علاج کے استعمال کریں تو کوئی حرج نہیں.اے (۸) آپ نے فرمایا : - تمباکو کے بارہ میں اگر چہ شریعت نے (صراحنا) کچھ نہیں بتلا یا لیکن ہم اسے اس لئے مکر وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو آپ اس کے استعمال کو منع فرماتے.‘۱۲

Page 299

مضامین بشیر ۲۹۲ (۹) فرمایا ”انسان عادت کو چھوڑ سکتا ہے بشرطیکہ اس میں ایمان ہو اور بہت سے ایسے آدمی دنیا میں موجود ہیں جو اپنی پرانی عادات کو چھوڑ بیٹھے ہیں.دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ جو ہمیشہ سے شراب پیتے چلے آئے ہیں بڑھاپے میں آ کر جبکہ عادت کا چھوڑ نا خود بیمار پڑنا ہوتا ہے بلا کسی خیال کے چھوڑ بیٹھتے ہیں اور تھوڑی سی بیماری کے بعد اچھے بھی ہو جاتے ہیں.میں حقہ کو منع کہتا اور نہ جائز قرار دیتا ہوں مگران صورتوں میں کہ انسان کو کوئی مجبوری ہو.یہ ایک لغو چیز ہے اور اس سے انسان کو ز پر ہیز کرنا چاہیئے.‘۱۳ ارشاد حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ عنہ (۱۰) '' تمبا کو پینا فضول خرچی میں داخل ہے.کم از کم آٹھ آنے ماہوار کا تمبا کو جو شخص پیئے.سال میں چھ روپے اور سولہ سترہ سال میں ایک صد رو پے ضائع کرتا ہے.ابتداء تمباکو نوشی کی عمو مابری مجلس سے ہوتی ہے.‘۱۴ ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ (۱) بد بودار چیزیں مثلاً پیاز وغیرہ کھانا یا کھانا کھانے کے بعد مونہہ صاف نہ کرنا اور کھانے کے ریزوں کا مونہہ میں سڑ جانا اس قسم کی غلاظتوں میں ملوث ہونے والوں کے ساتھ بھی فرشتے تعلق نہیں رکھتے.اس ذیل میں حقہ پینے والے بھی آگئے.حقہ پینے والے کو بھی صحیح الہام ہونا ناممکن ہے.۱۵ (۱۲) ایک شخص نے دریافت کیا کہ اگر کسی کے لئے طبیب حقہ بطور دوا تجویز کرے تو کیا کیا جائے.حضور نے جواب دیا کہ اگر ایک دو دفعہ پینے کے لئے کہے تو کوئی حرج نہیں اور اگر وہ مستقل طور پر بتلاتا ہے تو یہ کوئی علاج نہیں.جو طبیب خود حقہ پیتے ہیں وہی اس قسم کا علاج دوسروں کو بتلایا کرتے ہیں.کوئی ایسی بات جس کی انسان کو عادت پڑ جائے وہ میرے نزدیک بہت مضر اور بعض دفعہ تقوی اور دین کو نقصان دیتی ہے.(۱۳) اس کے بعد میں ایک اور نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حقہ بہت بری چیز ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو یہ چھوڑ دینا چاہیئے.کا (۱۴) ہر قسم کا نشہ بھی بدی ہے.اس میں شراب ، افیون ، بھنگ ،نسوار چائے حقہ سب چیزیں

Page 300

۲۹۳ مضامین بشیر شامل ہیں.۱۸ (۱۵) طلباء کو چاہئے کہ اپنے اندر دین کی روح پیدا کریں.میں نے پہلے ایک بار توجہ دلائی تھی تو اس کا بہت اثر ہوا تھا.بعض طلباء جو داڑھیاں منڈاتے تھے انہوں نے رکھ لیں.بعض سگریٹ پیتے تھے انہوں نے چھوڑ دئیے.اب معلوم ہوا ہے پھر یہ وبائیں پیدا ہور ہی ہیں.پس میں پھر انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح آپ کریں.19 ( مطبوعه الفضل ۲۴ فروری ۱۹۳۸ء)

Page 301

مضامین بشیر ۲۹۴ ہر حال میں کچی شہادت دو قریباً ہر زمانہ اور ہر قوم میں شہادت کا معاملہ نہایت اہم اور نہایت نازک چلا آیا ہے.ایک طرف تو اس کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ افراد اور حکومتوں کے حقوق بیشتر طور پر شہادت کی بناء پر تصفیہ پاتے ہیں اور دوسری طرف اس مسئلہ کو یہ نزاکت حاصل ہے کہ اکثر لوگ کسی نہ کسی غرض یا کسی نہ کسی وجہ سے متاثر ہو کر شہادت کے معاملہ میں کمزوری دکھاتے ہیں اور سچی شہادت کو چھپا کر یا بدل کر معاملہ کو کچھ کی کچھ صورت دے دیتے ہیں.شہادت کے متعلق تفصیلی ہدایات اسی لئے اسلام نے جو دنیا میں صداقت کا سب سے بڑا حامی ہے.شہادت کے متعلق تفصیلی ہدایات دی ہیں.یعنی ایک طرف تو اس نے حکومت کو یہ متنبہ کیا ہے کہ صرف ثقہ اور صادق اور عادل گواہوں کی شہادت قبول کی جائے اور دوسری طرف شہادت دینے والوں کو اس نے یہ تاکیدی ہدایت دی ہے کہ وہ کسی صورت میں بھی سچی شہادت پر پردہ نہ ڈالیں بلکہ خواہ ان کی شہادت کا اثر ان کے کسی قریب ترین عزیز پر پڑتا ہو یا کسی دوست پر پڑتا ہو یا خودان کی ذات پر پڑتا ہو وہ بہر حال سچی کچی شہادت دیں اور کسی دشمن کی دشمنی کی وجہ سے بھی اپنی شہادت کو حق وصداقت سے منحرف نہ ہونے دیں.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے: ا - وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوات ترجمہ : یعنی جن گواہوں کو شہادت کے لئے بلایا جائے انہیں انکار کا حق نہیں ہے بلکہ بلانے پر بلا تامل حاضر ہونا چاہیئے.۲ - وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمُهَا فَإِنَّهُ اثِمٌ قَلْبُهُ - ال ترجمہ: یعنی اے مسلما نو ! تم رکسی صورت میں بھی گواہی کو چھپایا نہ کرو اور جو شخص سچی گواہی کو چھپائے گا اس کا دل گناہگار ہو جائے گا.جس سے سارے جسم میں گناہ کا زہر پھیل جائے گا کیونکہ دل سے ہی سارے جسم میں خون پہو نچتا ہے.- يا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى

Page 302

۲۹۵ أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالَا قُرَبِينَ - ۲۲ ترجمہ : یعنی اے مومنو! تم دُنیا میں عدل وانصاف کے قائم کرنے کے درپے رہو.اور خدا کی خاطر ہمیشہ سچی شہادت دیا کرو خواہ تمہیں خود اپنے نفس کے خلاف شہادت دینی پڑے یا اپنے والدین کے خلاف دینی پڑے یا دوسرے عزیزوں اور دوستوں کے خلاف دینی پڑے.- وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ - ٢٣ ترجمہ : یعنی سچے مومن وہ ہیں جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے.- وَلَا يَجْرِ مَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُو اعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ للتقوى - ۲۴ و ترجمہ: یعنی اے مسلمانو ! چاہیئے کہ تمہیں کسی فریق کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس کے معاملہ میں عدل وانصاف کو چھوڑ دو بلکہ تمہیں چاہیئے کہ ہر حال میں عدل و انصاف سے کام لو کیونکہ یہی تقویٰ کا تقاضا ہے.شہادت کو خراب کرنے والی باتیں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا میں شہادت کو خراب کرنے والی چار باتیں ہیں : اول : بے جا محبت دوم : بے جا عداوت مضامین بشیر سوم : بے جالا لج چہارم : بے جاؤر یعنی کبھی تو انسان کسی عزیز یا دوست کی بے جا محبت کی وجہ سے اپنی شہادت کو بدل دیتا ہے اور کبھی کسی دشمن کی بے جا عداوت سے متاثر ہو کر اپنی شہادت میں جھوٹ کو راہ دے دیتا ہے اور کبھی رکسی لالچ کے اثر کے نیچے آ کر حق کو چھپانے کا طریق اختیار کرتا ہے اور کبھی کسی کے ڈر کی وجہ سے صداقت پر پردہ ڈال دیتا ہے.ان چار موجبات کے علاوہ دُنیا میں شہادت کو خراب کرنے کا اور کوئی باعث نہیں ہے.یعنی شہادت کے معاملہ میں سارا فسادا نہی چار جذبات کے بے جا استعمال سے پیدا ہوتا ہے.مثلاً زید اپنے ایک دوست یا عزیز کے مقدمہ میں بطور گواہ بلایا جاتا ہے اور عدالت کے سامنے جا کر اس دوست یا عزیز کی محبت کی وجہ سے جھوٹی گواہی دے آتا ہے یا بکر اپنے کسی دشمن کے مقدمہ

Page 303

مضامین بشیر ۲۹۶ میں عدالت کی طرف سے یا فریق مخالف کی طرف سے یا بعض اوقات خود دشمن کی طرف سے بطور گواہ بلایا جاتا ہے اور وہ دشمن کو نقصان پہونچانے کے لئے محض عداوت کے طور پر حق کو چھپا کر کچھ کا کہہ آتا ہے یا عمر کو خود اپنا ایک مقدمہ در پیش ہے اور اس مقدمہ میں اس کی اپنی گواہی ہوتی ہے اور وہ اپنے مفاد کو محفوظ کرنے کے لئے محض لالچ کے طور پر حق پر پردہ ڈال دیتا ہے یا خالد کسی دوسرے کے مقدمہ میں بطور گواہ کے پیش ہوتا ہے اور وہ محض اس لئے کہ میرے کسی افسر کی طرف سے مجھے نقصان نہ پہونچے یا کوئی بڑا شخص مجھ سے ناراض نہ ہو جائے جھوٹ بول کر صداقت کو چھپا دیتا ہے.مکروہ قسم کا جھوٹ یہ سارے نظارے ہر روز سینکڑوں ہزاروں بلکہ شائد لاکھوں کی تعداد میں ملک کی عدالتوں میں پیش آتے ہیں اور اس مکروہ قسم کے جھوٹ میں کم و بیش ملک کا ہر طبقہ ملوث نظر آتا ہے.زمیندار ، تاجر ، قارض ، مقروض ، افسر، ماتحت ، شہری ، دیہاتی ، امیر، غریب، جاہل، تعلیم یافته ، پیشہ ور ملا زم حتی که دنیا دار اور بظاہر دین دار سمجھے جانے والے سب کے سب إِلَّا مَا شَاءَ اللہ اس گند میں مبتلا ہیں.اور مسلمان جنہیں اس معاملہ میں سب سے زیادہ واضح اور سب سے زیادہ تاکیدی تعلیم دی گئی تھی وہ بھی دوسروں کی طرح اس مرض کا شکار ہورہے ہیں بلکہ شائد ان سے بھی بڑھ کر کیونکہ جب ایک سچا آدمی صداقت کو چھوڑتا ہے تو وہ عموماً دوسروں سے بھی ایک قدم آگے نکل جاتا ہے.جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے اس گند سے بہت حد تک بچی ہوئی ہے اور اس میں بیشمار ایسے نمونے نظر آتے ہیں کہ لوگوں نے اپنا یا اپنے عزیزوں کا نقصان کر کے دشمنوں کے حق میں سچی گواہی دی ہے اور افسروں یا بااثر لوگوں کی ناراضگی کی قطعا پروانہیں کی مگر بدقسمتی سے شاذ کے طور پر بعض مثالیں ان میں بھی ایسی پیدا ہو رہی ہیں کہ کسی کی محبت یا عداوت کی وجہ سے حق پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے.میں مانتا ہوں کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ گواہ اپنی طرف سے سچ کہہ رہا ہوتا ہے مگر واقع میں اس کا بیان غلط ہوتا ہے لیکن وہ اپنے غفلت کے پردہ میں اپنی غلطی کو سمجھتا نہیں مگر غور کیا جائے تو اس کی ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے کہ کیوں اس نے اپنے آپ کو چوکس رکھ کر جھوٹی گواہی سے نہیں بچایا.یا بعض اوقات یہ سمجھ لیا جا تا ہے کہ صرف جھوٹ بولنا گناہ ہے.حق کو چھپانا یا ذو معنیین قسم کے الفاظ کہہ کر صداقت پر پردہ ڈال دینا گناہ نہیں ہے لیکن یہ ایک خطر ناک دھوکا ہے کیونکہ اسلامی تعلیم کی رو سے شہادت میں حق کو چھپانا بھی ویسا ہی جرم ہے جیسا کہ جھوٹ بولنا.

Page 304

۲۹۷ مضامین بشیر احتیاط سے کام لینا چاہئے پس ہمارے دوستوں کو اس معاملہ میں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیئے اور ہر ایسے موقع پر استغفار کرتے ہوئے عدالت کے سامنے کھڑے ہونا چاہیئے تا کہ کوئی جذبہ محبت یا عداوت یا لالچ یا ڈرا نہیں صداقت کے رستہ سے منحرف نہ کر سکے.بے شک وہ دشمن جس نے ہر حال میں عداوت کی ٹھانی ہوئی ہو ، ہم پر پھر بھی اعتراض کرے گا مگر ہم خدا کے رو بر وضر ور سرخرو ہوں گے.مصری صاحب کا اعتراض مجھے یاد ہے کہ جب کچھ عرصہ ہوا میں شیخ عبد الرحمن صاحب مصری کے ایک مقدمہ میں عدالت کے بلانے پر بطور گواہ پیش ہوا تو میں یہ دعا کرتا ہوا اندر گیا تھا کہ خدایا مصری صاحب اس وقت ہمارے دشمن بنے ہوئے ہیں تو مجھے تو فیق عطا کر کہ اُن کے متعلق بھی میرے مونہہ سے سوائے کلمہ حق کے اور کچھ نہ نکلے اور میری شہادت میں کوئی بات صداقت کے خلاف یا اُسے چھپانے والی نہ ہو.اور میں اس وقت دل میں بار بار یہ آیت پڑھ رہا تھا کہ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوای ۲۵ مگر با وجود اس کے میں سنتا ہوں کہ مصری صاحب نے میری گواہی کے متعلق کسی مجلس میں یہ کہا ہے کہ گو اس نے اکثر باتوں میں سچ بولا ہے مگر بعض جھوٹی باتیں بھی کہہ گیا ہے.میں ان کے اعتراض کو تو حوالہ باخدا کرتا ہوں مگر بہر حال میں جماعت کے دوستوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ شہادت کے معاملہ میں اپنے معیار صداقت کو بلند کر کے عین اسلامی تعلیم کے منشاء کے مطابق بنا ئیں اور ہمیشہ دوستی دشمنی کے جذبات سے بالکل الگ ہو کر کچی کچی گواہی دیا کریں.کسی کے حق میں ظالم نہ بنو مگر اس جگہ ایک احتیاط کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے.بعض اوقات بعض لوگ شہادت کے معاملہ میں حد سے زیادہ احتیاط کا طریق اختیار کرتے ہوئے اس قدر حساس ہو جاتے ہیں کہ وہ اس بات کے شوق میں کہ دشمن کے حق میں بھی بالکل سچی بات کہنی ہے بعض اوقات نادانستہ طور پر دوست کے حق میں ظلم کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور دشمن کو بچاتے ہوئے نا دانستہ طور پر دوست کے خلاف جھوٹ بول جاتے ہیں.ایسا بھی نہیں ہونا چاہیئے بلکہ مومن کو چاہیئے کہ اپنے کلام کے تر از وکو عین

Page 305

مضامین بشیر ۲۹۸ صداقت کے نکتہ پر قائم رکھے.یعنی نہ تو دشمن کے حق میں ظالم بنے اور نہ دوست کے حق میں.بلکہ دوست کے حق میں ظالم بننا دوہرا گناہ ہے.بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ صداقت کے شوق میں بعض لوگ بلا پوچھے ایک لاتعلق بات بیان کرنے لگ جاتے ہیں.یہ بھی اعصابی کمزوری یا باتونی پن کا ایک نتیجہ ہے اور بسا اوقات فتنہ کا باعث ہوتا ہے.اسلام ہمیں یہ حکم نہیں دیتا کہ تم افسر یا عدالت کے سامنے بغیر سوال کے لا تعلق قصے شروع کر دو بلکہ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ جو بات پوچھی جائے وہ اس حد تک کہ جس حد تک پوچھی گئی ہے بلا کم و کاست سچ سچ بیان کر دی جائے اور غلط بیانی اور نا واجب پردہ داری سے بچا جائے.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست جن کو ہر بات میں اعلیٰ ترین نمونہ قائم کرنا چاہیئے ، اپنی گواہیوں میں اسلامی معیار کے مطابق پورا اترنے کی کوشش کریں گے.خصوصا زمینداروں کو شہادت کے معاملہ میں بڑی اصلاح کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اکثر اوقات محبت وعداوت کے جذبات میں بہہ کر دانستہ یا نا دانستہ جھوٹ کے حامی ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کا حافظ و ناصر ہو اور ہمیں اپنی رضا کے رستوں پر چلنے کی توفیق دے.آمین ( مطبوعه الفضل ۳ مارچ ۱۹۳۸ء)

Page 306

۲۹۹ مضامین بشیر ہماری پھوپھی صاحبہ مرحومہ اور نکاح والی پیشگوئی احباب کو’الفضل‘ کے ذریعہ خبر مل چکی ہے کہ ہماری پھوپھی عمر بی بی صاحبہ جو محمدی بیگم صاحبہ کی والدہ تھیں.۳۱ جنوری ۱۹۳۸ء کو زائد از نوے سال کی عمر میں فوت ہو کر بہشتی مقبرہ مین دفن ہو چکی ہیں.مرحومہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حقیقی چچا مرزا غلام محی الدین صاحب کی لڑکی تھیں مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے عقد میں آئی تھیں اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق ۱۸۹۲ء میں مرزا احمد بیگ کی وفات ہوئی تو اس وقت سے وہ بیوہ چلی آتی تھیں اور انہوں نے اپنی آخری عمر قادیان میں گزاری تھی.خاوند کی زندگی میں تو وہ سلسلہ کی مخالف تھیں اور اس کے بعد بھی کئی سال تک عملاً مخالف رہیں لیکن اپنی زندگی کے آخری ایام میں یعنی غالباً ۱۹۲۱ ء میں انہوں نے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی اور اس کے بعد ۱۹۳۱ء میں جب کہ ہماری تائی صاحبہ مرحومہ فوت ہوئیں ( ہماری تائی صاحبہ اور پھوپھی صاحبہ حقیقی بہنیں تھیں) تو پھوپھی صاحبہ مرحومہ نے بڑی خواہش اور اصرار کے ساتھ وصیت کر دی جو ان کے کہنے پر میں نے خود اپنے ہاتھ سے لکھی تھی.اور الحمد للہ کہ پھوپھی صاحبہ اب بہشتی مقبرہ میں پہنچ چکی ہیں.جو ایک احمدی مومن اور مومنہ کے لئے بہترین انجام ہے.مرحومہ کو میرے ساتھ خاص تعلق تھا.اگر مجھے ان کے پاس جانے میں کبھی زیادہ دیر ہو جاتی تو وہ خود کسی کو کہہ کر مجھے بلوالیا کرتی تھیں اور میرے ساتھ ہمیشہ بزرگانہ بے تکلفی سے گفتگو فرمایا کرتی تھیں.میں بھی انہیں علاوہ رشتہ میں بزرگ ہونے کے اس وجہ سے بھی خاص عزت اور محبت کی نظر سے دیکھتا تھا کہ وہ نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام والی نسل کی آخری یادگار تھے بلکہ آپ کی ایک مشہور پیشگوئی کے رحمت والے حصہ کی نشانی بھی تھیں.دراصل محمدی بیگم صاحبہ والی پیشگوئی کے دو حصے تھے.ایک تو غضب الہی کا حصہ تھا اور دوسرا خدا کی رحمت کا حصہ تھا اور مجھے ہمیشہ اس خیال سے خوشی ہوتی تھی اور ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے آخری وقت میں آ کر ہماری پھوپھی صاحبہ کو رحمت والے حصہ کے لیے الگ کر لیا تھا ورنہ پیشگوئی کے وقت ان کا قدم دوسرے رستہ پر تھا.فالحمد للہ علی ذالک

Page 307

مضامین بشیر ۳۰۰ اگر ہمارے مخالفین انصاف کی نظر سے دیکھیں تو پھوپھی صاحبہ کا احمدی ہونا بھی پیشگوئی کی صداقت کی ایک دلیل ہے.در حقیقت اگر غور سے دیکھا جائے اور اس تعلق میں جملہ الہامات اور دوسرے الہامات کو بنظر غور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ اس پیشگوئی کا مرکزی نقطه محمدی بیگم صاحبہ کی شادی نہیں تھی بلکہ خاندان کے بے دین اعزہ کو ایک رحمت یا غضب کا نشان دکھانا اصل مقصد تھا.یعنی ان کے سامنے خدا تعالیٰ نے یہ بات پیش کی تھی کہ اگر بے دینی کو ترک کر کے میرے بھیجے ہوئے مسیح کے ساتھ حقیقی تعلق جوڑو گے تو خدا تعالیٰ تمہیں بھی علی قدر مرا تب ان رحمتوں میں سے حصہ دے گا جو اس نے اپنے مسیح کی آل و اولا د اور متعلقین کے لئے مقدر کر رکھی ہیں.لیکن اگر تم بدستور بے دینی پر قائم رہے اور خدا کے مامور ومرسل کے ساتھ حقیقی رشتہ نہ جوڑا تو پھر تم بالآخر خدا کے غضب کا نشانہ بنو گے.محمدی بیگم صاحبہ کی شادی اس وقت کے حالات کے ماتحت اس تعلق کی صرف ایک ظاہری نشانی تھی.جس طرح کہ حضرت صالح علیہ السلام کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ایک طرف اپنے فضل و رحمت اور دوسری طرف اپنے غضب ولعنت کے دوہرے نشان کے لئے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو ایک ظاہری نشان قرار دے دیا تھا.مگر نادان لوگ ظاہری بات کو لے کر جو محض ایک وقتی رنگ رکھتی ہے.اپنی ضد پر اڑ جاتے ہیں اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے.بہر حال جہاں تک میں نے اس پیشگوئی کے متعلق غور کیا ہے ، میں اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس پیشگوئی میں محمدی بیگم صاحبہ کی شادی اصل مقصود نہیں تھی.بلکہ پیشگوئی کی حقیقی غرض و غایت یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رشتہ داروں کو ایک ایسا نشان دکھایا جائے جو اپنے اندر دو پہلو رکھتا ہو.ایک پہلو رحمت کا جو آپ کو ماننے والوں اور آپ کے ساتھ تعلق جوڑنے والوں کے لئے خاص ہوا اور دوسرا غضب کا ، جو انکار کرنے والوں اور الگ رہنے والوں کے لیئے مخصوص ہو.سو خدا تعالیٰ نے اپنا یہ دودھاری نشان دکھا دیا اور دکھا رہا ہے اور اس وقت تک دکھاتا جائے گا جب تک کہ یہ میدان اپنے اور غیروں کے درمیان امتیاز پیدا کر دینے کے رنگ میں صاف نہ ہو جائے.چنانچہ اس وقت تک اس خاندان میں سے ایک بہت بڑی تعداد خدا تعالیٰ کی مخفی تاروں کے ذریعہ کھینچی جا کر خدا تعالیٰ کی رحمت سے علی قدر مراتب حصہ پاچکی ہے اور کچھ لوگ جو انکار پر فوت ہوئے ہیں وہ پیشگوئی کے دوسرے پہلو کے مظہر ہیں اور ان کے انجام کی تلخی دنیا کے سامنے ہے.جس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں.باقی ایک تیسر ا گر وہ ہے جو ابھی تک ہم سے جدا ہے لیکن چونکہ یہ لوگ ہنوز بقید حیات ہیں اس لئے ہم ان کے متعلق حسن ظن رکھتے ہیں اور ہماری خواہش ہے اور ہم اسی کوشش میں ہیں کہ

Page 308

مضامین بشیر وہ بھی خدا تعالیٰ کی رحمت کے وارث بن جائیں لَعَلَّ اللَّهَ يُحَدِثُ بَعْدَ ذَالِكَ أَمُواً - اس خاندان کے جن افراد کو اس وقت تک پیشگوئی کے بعد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق مل چکی ہے ان کے اسماء یہ ہیں : - (۱) ہماری پھوپھی عمر بی بی صاحبہ والدہ محمدی بیگم صاحبہ (۲) ہماری تائی حرمت بی بی صاحبہ خالہ محمدی بیگم صاحبہ (۳) محمودہ بیگم صاحبہ مرحومہ ہمشیرہ محمدی بیگم صاحبہ ( ۴ ) عنایت بیگم صاحبہ ہمشیرہ محمدی بیگم صاحبه ( ۵ ) مرزا گل محمد صاحب ماموں زاد برادر محمدی بیگم صاحبہ (۶) خورشید بیگم صاحبہ ماموں زاد ہمشیرہ محمدی بیگم صاحبہ (۷) مرزا ارشد بیگ صاحب مرحوم بہنوئی محمدی بیگم صاحبہ (۸) مرز اسحاق بیگ صاحب فرزند محمدی بیگم صاحبه (۹) حفیظ بیگم دختر محمدی بیگم صاحبه (۱۰) مرزا عبدالسلام بیگ صاحب دختر زاده محمدی بیگم صاحبہ (۱۱) مرزا محمود بیگ صاحب برادر زاده محمدی بیگم صاحبہ (۱۲) مرزا اجمل بیگ صاحب ہمشیرہ زادہ محمدی بیگم صاحبه (۱۳) مرزا امجد بیگ صاحب ہمشیرہ زادہ محمدی بیگم صاحبہ (۱۴) مرزا احسن بیگ صاحب خالہ زاده محمدی بیگم صاحبه (۱۵) مرزا ضیاء اللہ بیگ صاحب داما دمحمدی بیگم صاحبہ.یہ پندرہ نام میں نے صرف ان اشخاص کے لکھے ہیں جو محمدی بیگم صاحبہ کے قریب ترین رشتہ داروں میں سے ہیں.اگر ان کے علاوہ دوسرے عزیز بھی جو اس خاندان سے دور نز دیک کا تعلق رکھتے ہیں شامل کر لئے جائیں تو پھر تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے.اور نابالغ بچے اور لواحقین ان کے علاوہ ہیں.اب کیا ہمارے مخالفین کے لئے یہ سب لوگ اور ان کے مقابل پر غضب کے پہلو سے حصہ پانے والے لوگ اس بات کی زندہ شہادت نہیں ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے اس میدان میں حقیقی فتح عطا فرمائی ہے اور پیشگوئی کی غرض رحمت و غضب ہر دو پہلوؤں میں پوری ہو گئی ہے.باقی رہا محمدی بیگم صاحبہ کی شادی کا سوال.سو ہم کہتے ہیں کہ اول تو وہ خود بالذات مقصود نہیں تھی بلکہ محض ایک ظاہری اور وقتی علامت کے طور پر تھی اور اگر وہ مقصود تھی بھی تو قرآنی اصول : - مَا نَفُسَخُ مِنْ آيَةٍ أَوْنُنُسِهَا ۲۸ کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود اپنی زندگی میں یہ فرما دیا تھا کہ وہ منسوخ ہو گئی ہے ۲۹.اور اسی حوالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی اشارہ فرما دیا تھا کہ شاید یہ الہام کسی دوسرے وقت میں کسی دوسری صورت میں پورا ہو اور میں اپنے ذوق کے لحاظ سے سمجھتا ہوں کہ کیا تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ کبھی خود محمدی بیگم صاحبہ کو بھی حق کے قبول کرنے کی توفیق عطا

Page 309

مضامین بشیر کر دے اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام اپنی ظاہری صورت میں بھی پورا ہو جائے کہ نرده الیک ۳۰ یعنی ہم اسے بالآخر تیری طرف لوٹا دیں گے کیونکہ ظاہر ہے کہ محض رشتہ کی صورت میں لوٹانے سے احمدیت کے حلقہ بگوشوں میں داخل کر کے لوٹا نا اپنے اندر بہت زیادہ شان رکھتا ہے.اور یہ جوڑ شادی بیاہ کے جوڑ سے بھی بہت زیادہ پختہ جوڑ ہے مگر یہ آئندہ کی باتیں ہیں جن کی حقیقت اپنے وقت پر ہی گھلا کرتی ہے.ولا علم لنا الاما علمنا الله و نرضى بما يرضى به علیه توكلنا واليه ننيب - (مطبوعہ الفضل ۱۱ مارچ ۱۹۳۸ء)

Page 310

٣٠٣ مضامین بشیر افراط و تفریط موجودہ برقعہ اور اسلامی پرده اسلام نے جو تعلیم پردہ کے متعلق دی ہے.اس کی تشریح اور تفصیل بڑی صراحت کے ساتھ ہمارے لڑ پچر میں آچکی ہے جس کے اعادہ کی اس جگہ ضرورت نہیں.صرف خلاصۂ اس قدرا شارہ کافی ہے کہ جیسا کہ دوسرے امور میں اسلام کا قاعدہ ہے اس نے پردہ کے معاملہ میں بھی ایک نہائت اعلیٰ وسطی تعلیم دی ہے جس میں ایک طرف تو عورت کی جائز آزادی اور اس کی صحت وغیرہ کے طبعی تقاضے کو پورا کیا گیا ہے اور دوسری طرف نا واجب آزادی اور زینت کے برملا اظہار اور مردوعورت کے آزاد نہ خلا ملا کے نتیجہ میں جو خطرات پیدا ہو سکتے ہیں ان کے انسداد کے لئے بھی مناسب تدابیر اختیار کی گئی ہیں.اس اسلامی تعلیم کے پیش نظر جس طرح آج سے کچھ عرصہ قبل کا پردہ جو ہندوستان کے اکثر مسلمان خاندانوں میں رائج تھا.وہ بوجہ زیادہ سخت ہونے کے افراط کی طرف مائل تھا.اسی طرح نئی روشنی کی بے پردگی جس میں اسلامی پردہ کی قیود کو بالکل ہی تو ڑ دیا گیا ہے،سراسر تفریط کی طرف مائل ہے بلکہ اس کے لئے تو تفریط کا لفظ استعمال کرنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ اس میں اسلامی تعلیم کو بالکل ہی پس پشت ڈال دیا گیا ہے.اصلاحی تغیر میں ایک خطرہ احمدیت کی غرض و غائت چونکہ دنیا کو صحیح اسلامی تعلیم پر قائم کرنا ہے.اس لئے دوسری بے شمار اصلاحوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رائج الوقت پردہ کے متعلق بھی اصلاح فرمائی اور افراط و تفریط کی راہوں سے بچا کر احمدی مستورات کو صحیح اسلامی پر دہ پر قائم کرنے کی کوشش کی.اس کوشش کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ بہت سے نادان لوگ جو رائج الوقت طریق کو ہی صحیح اسلامی طریق سمجھنے لگ جاتے ہیں اور گہرے مطالعہ کے عادی نہیں ہوتے ، وہ پردہ کے معاملہ میں احمدی مستورات کی نسبتی آزادی کو خلاف اسلام قرار دے کر اعتراض کرنے لگے اور یہ اعتراضات اپنوں اور بیگانوں دونوں کی طرف سے ہوئے.ان اعتراضوں کی تو ہمیں پروانہیں ہے کیونکہ جو قوم دنیا میں

Page 311

مضامین بشیر ۳۰۴ اصلاح کے لئے اٹھتی ہے اسے اس قسم کے اعتراضوں کا نشانہ بنا پڑتا ہے مگر اس اصلاحی تغیر میں ایک خطرہ بھی پیدا ہو رہا ہے.جس کا انسداد ضروری ہے اور میرا یہ مختصر نوٹ اسی خطرہ کے ایک پہلو سے ہے.تعلق رکھتا ہے.وہ خطرہ یہ ہے کہ اس اصلاحی قدم کے نتیجہ میں احمدی مستورات کا ایک قلیل حصہ اس عام قاعدہ کے ماتحت کہ انسان ایک انتہا سے ہٹ کر دوسری انتہا کی طرف مائل ہونے لگتا ہے.پردہ کے معاملہ میں کسی قدرنا واجب آزادی کی طرف جھک رہا ہے.بدقسمتی سے اس میلان کونئی روشنی کی بے پردگی کی زبر دست رونے اور بھی تقویت دے دی ہے.اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ جماعت کا سمجھدار طبقہ اس نقص کی فوری اصلاح کی طرف توجہ دے تا کہ ایسا نہ ہو کہ جماعت کا کوئی حصہ ایک کم خطرہ والے افراط سے نکل کر ایک زیادہ خطرناک تفریط کے گڑھے میں جا گرے.اصل اسلامی پرده اصل اسلامی پردے کا خلاصہ تین باتوں میں آجاتا ہے.اول : غیر محرم مردوں کے سامنے عورت اپنے بدن اور لباس وغیرہ کی زینت کو چھپا کر رکھے.سوائے ایسے حصوں کے جن کا چھپا نا عملاً ناممکن ہو اور زینت کے مفہوم میں قدرتی اور مصنوعی زینت ہر دو داخل ہیں.دوم : غیر محرم مرد و عورت ایک دوسرے کی طرف نظر نہ اٹھا ئیں بلکہ جب بھی ایک دوسرے کے سامنے ہوں تو اپنی نظروں کو نیچا رکھیں.سوم غیر محرم مرد و عورت ایک دوسرے کے ساتھ خلوت میں اکیلے ملاقات نہ کریں.اسلامی پردہ اور احمدی مستورات ان تین اصولی حد بندیوں کے سوا اسلام پردہ کے متعلق کوئی حد بندی نہیں لگا تا اور ایک مسلمان عورت ان ہر سہ حد بندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر قسم کے جائز کاروبار اور جائز سیروسیاحت اور دوسرے لوگوں کے ساتھ جائز اختلاط میں حصہ لے سکتی ہے اور یہ ایک بہت ہی شکر کا مقام ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لائی ہوئی تعلیم کے ماتحت احمدی مستورات ان ہرسہ پابندیوں کو بالعموم خوب اچھی طرح سمجھتی اور ان پر دلی شوق کے ساتھ عمل کرتی ہیں اور ہم بڑے فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے فضل سے ہم اس معاملہ میں دوسروں کے لئے ایک صحیح اسلامی نمونہ ہیں.یعنی

Page 312

۳۰۵ مضامین بشیر ہماری مستورات نہ تو پرانی طرز کے قیدیوں والے پردہ کی پابند ہیں کہ انہیں اپنی چار دیواری سے باہر کی ہوا تک نہ لگے اور ڈولی وغیرہ کے سوا گھر سے باہر قدم رکھنا حرام ہو اور نہ ہی انہوں نے پردہ کی اسلامی حدود کو تو ڑ کر نئی روشنی کی بے پردگی کو اختیار کیا ہے لیکن بایں ہمہ ابھی تک ہماری جماعت میں بھی بعض طبقوں میں بعض باتوں کے متعلق کسی قدر اصلاح کی ضرورت ہے.جس کی طرف ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو خاص توجہ دینی چاہیئے.ان باتوں میں سے میں اس نوٹ میں صرف برقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.برقعہ اور اسلامی پرده برقعہ کے متعلق سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہیئے کہ برقعہ قطعاً اسلامی پردہ کا حصہ نہیں ہے اور اگر کوئی عورت برقعہ کو ترک کر کے صرف ایک عام چاردر کے استعمال پر کفائت کرے تو اسلامی تعلیم کے لحاظ سے اس پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.اسلام کی غرض صرف یہ ہے کہ عورت اپنی زینت کو ( یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ زینت میں بدن اور لباس ہر دو کی زینت شامل ہے اور اسی طرح قدرتی اور مصنوعی زینت ہر دو زینت کے مفہوم میں داخل ہیں ) غیر محرموں سے چھپائے خواہ یہ چھپانا چادر کے ذریعہ ہو یا کسی اور مناسب ذریعہ سے بلکہ حق یہ ہے کہ برقعہ بہت بعد کی ایجاد ہے.جس زمانہ میں اسلامی تعلیم نازل ہوئی تھی اس زمانہ میں صرف چادر کا طریق رائج تھا اور مسلمان عورتیں چادر ہی کے ذریعہ اپنی زینت کو چھپا یا کرتی تھیں.پس جب خود برقعہ ہی اسلامی پردہ کا حصہ نہ ہوا تو یہ سوال کہ برقعہ کیسا ہو اور کیسا نہ ہو.اسے جہاں تک محض نفس برقعہ کا سوال ہے اسلامی تعلیم سے قطعاً کوئی سروکار نہیں ہے.اگر ایک برقعہ اسلامی تعلیم کے منشاء کے مطابق عورت کی زینت کو چھپاتا ہے تو خواہ اس کی ساخت کیسی ہو وہ ایک بالکل جائز چیز ہو گا جس پر کسی شخص کو اعتراض کا حق نہیں ہے.اسی طرح برقعہ کے کپڑے اور اس کے رنگ کا سوال بھی ایک ایسا سوال ہے جس میں اسلام قطعا کوئی دخل نہیں دیتا.پس جو لوگ محض برقعہ کے وجود پر یا اس کی ساخت پر یا اس کے رنگ پر اعتراض کرتے اور انہیں خلاف اسلام قرار دیتے ہیں ، وہ یقینی طور پر غلطی خوردہ ہیں.جن کی رائے کی تائید میں کوئی صحیح سند نہیں مل سکتی اور ہمارے احباب کو اس قسم کے فضول اور تنگ نظری کے اعتراضوں سے بچنا چاہیئے.خود برقعہ باعث زینت نہ ہو البتہ ایک بات ہے جو اس زمانہ کے بعض برقعوں کو اسلامی تعلیم کے لحاظ سے حد اعتراض کے

Page 313

مضامین بشیر اندر لے آتی ہے اور وہ کسی برقعہ کا خود باعث زینت ہونا ہے.ظاہر ہے کہ برقعہ کی غرض وغائت عورت کے بدن اور لباس کی قدرتی اور مصنوعی زینت کو چھپانا ہے.پس اگر کوئی عورت ایسا برقعہ استعمال کرتی ہے جو اپنی ساخت یا کپڑے کی بناوٹ یا کپڑے کے رنگ وغیرہ کی وجہ سے خود موجب زینت ہے تو وہ یقیناً ایک خلاف اسلام فعل کی مرتکب ہوتی ہے.جس سے اس کو پر ہیز لازم ہے مگر بدقسمتی سے اس زمانہ میں بعض حلقوں میں ایسے برقعے رائج ہو رہے ہیں جو یقینا قابل اعتراض حد کے اندر آتے ہیں.یعنی کوئی برقعہ تو اپنی ساخت کے لحاظ سے اور کوئی برقعہ اپنے کپڑے کی بناوٹ کے لحاظ سے اور کوئی برقعہ اپنے رنگ کی شوخی کے لحاظ سے قابل اعتراض ہو جاتا ہے اور اس طرح جو چیز زینت کو چھپانے کے لئے مقرر کی گئی ہے وہ خود زینت کا باعث بن جاتی ہے.یہ میلان ابتداء میں ان غیر احمدی مستورات میں شروع ہوا جو ایک طرف تو اپنے واسطے پردہ کی حدود سے آزادی چاہتی تھیں اور دوسری طرف ظاہر داری کے طور پر اسلام کا نام بھی رکھنا چاہتی تھیں.اس طرح انہوں نے اپنے لئے گویا ایک بین بین کی صورت تجویز کر لی تا کہ پردہ بھی رہے اور زینت کا اظہار بھی ہو جائے اور پھر ان مستورات کے اثر کے ماتحت بعض احمدی مستورات میں بھی یہ مرض پہونچ گیا.لیکن ظاہر ہے کہ ایسا برقعہ جو خود زینت کا باعث ہو قطعاً اسلامی پردہ کے مفہوم کو پورا نہیں کرتا بلکہ اس کے سراسر خلاف ہے.یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عورت ایک خوبصورت قمیص زیب بدن کرے اور پھر اس قمیص کی خوبصورتی کو چھپانے کے لئے اس کے اوپر ایک اور خوبصورت قمیص پہن لے.بہر حال اس قسم کا زیبائشی برقعہ قطعاً اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اور ہماری مستورات کو اس قسم کے برقعوں سے بالکل اجتناب کرنا چاہیئے.ہم ان کے برقعوں کی ساخت اور کپڑے اور رنگ میں دخل نہیں دیتے لیکن اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دے سکتے کہ برقعہ جو زینت کے چھپانے کے لئے مقرر ہے وہ خود زینت کا باعث بن جائے کیونکہ ایسا طریق اسلامی تعلیم کے صریح خلاف ہے اور مزید برآں اس میں یہ بھی خطرہ ہے کہ برقعہ کے اندر بھی عورتوں کی ایک حد تک شناخت ہو جاتی ہے اور گو افراد کا پتہ نہ چلے مگر اس حد تک پتہ چل جاتا ہے کہ یہ عورت کس طبقہ سے تعلق رکھتی ہے.حالانکہ ایسا علم بعض حالات میں فتنہ اور شرارت کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے.اسی اصول کے ماتحت گزشتہ ایام میں نظارت تعلیم و تربیت کی تحریک پر لجنہ اماءاللہ قادیان نے یہ قانون بنایا تھا کہ آئندہ لجنہ کی کوئی ممبر سفید اور سیاہ رنگ کے سوار کسی قسم کا برقعہ استعمال نہ کرے اور ان دورنگوں میں بھی یہ شرط ملحوظ رہے کہ برقعہ کا کپڑا اپنی بناوٹ وغیرہ کے لحاظ سے اپنے اندر کسی قسم کی سجاوٹ نہ رکھتا ہو بلکہ بالکل سادہ ہو جس کی غرض محض زینت چھپانا ہو.مجھے افسوس ہے کہ لجنہ نے

Page 314

۳۰۷ مضامین بشیر یہ قانون پاس کر کے پھر اس کی تختی کے ساتھ نگرانی نہیں کی.چنانچہ ابھی تک بعض مثالیں اس کے خلاف پائی جاتی ہیں مگر اس جگہ میری غرض لجنہ کی کسی غلطی کی طرف اشارہ کرنا نہیں ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ ہماری جماعت میں بلا استثنالجنہ ہو یا غیر لجنہ قادیان ہو یا غیر قادیان ، یہ طریق مد نظر رہنا چاہیئے کہ کسی احمدی عورت کا برقعہ ایسا نہ ہو جو کسی جہت سے بھی زینت کو چھپانے کی بجائے خود زینت کا موجب سمجھا جائے.بے شک اگر ایک عورت میل خورہ ہونے کی وجہ سے سیاہ رنگ کو زیادہ پسند کرتی ہے تو وہ سیاہ رنگ کا برقعہ استعمال کرے لیکن برقعہ خواہ سفید ہو یا سیاہ کسی صورت میں اس کی ساخت اور کپڑا اور رنگ باعث زینت نہیں ہونے چاہیں.مثلاً ہو سکتا ہے کہ ایک برقعہ ہے تو سفید یا سیاہ رنگ کا مگر اس کے کپڑے میں بیل بوٹوں اور پھولوں وغیرہ سے سجاوٹ کی گئی ہے یا کوئی سجاوٹ نہیں ہے مگر و یسے اس کا رنگ ہی ایسا شوخ اور چمکدار ہے کہ وہ زینت کا باعث سمجھا جا سکتا ہے اور لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو وہ با وجود محض سفید یا سیاہ ہونے کے قابل اعتراض ہوگا کیونکہ وہ بجائے زینت کو چھپانے کےخود زینت کا باعث ہے اور اس کا استعمال اس غرض کو پورا نہیں کرتا جو چادر یا برقعہ کے استعمال میں اسلام نے مقرر کی ہے.خلاصہ کلام یہ کہ اسلام نے چادر اور برقعہ کی بناوٹ یا تفاصیل میں تو بے شک دخل نہیں دیا مگر بہر حال اسلامی تعلیم کے ماتحت وہ ایسے ہونے چاہئیں جو پردہ کی شرائط کو پورا کرنے والے ہوں.پردہ کی اسلامی شرائط کی روشنی میں میں سمجھتا ہوں کہ ایک برقعہ میں مندرجہ ذیل باتوں کا پایا جانا ضروری ہے.برقعہ کیسا ہونا چاہیئے (۱) برقعہ کی ساخت خواہ ویسے کسی قسم کی ہو مگر بہر حال وہ ایسی ہونی چاہیئے کہ برقعہ اسلامی پردہ کی غرض وغایت کے ماتحت عورت کے بدن اور لباس کی زینت کو چھپانے والا ہو اور بدن یا لباس کا کوئی حصہ جو چھپانے کے قابل ہے وہ ننگا نہ رہے.نیز برقعہ ایسا تنگ بھی نہ ہو کہ اس کی تنگی کے باعث عورت کے بدن کی ساخت ظاہر ہونے لگے.(۲) برقعہ کا کپڑا ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ جو خود زینت کا موجب ہو.مثلاً پھول دار کپڑا یا شوخ چمکدار رنگ کا کپڑا نا جائز سمجھے جائیں گے.(۳) برقعہ کسی رنگ کا ہو سکتا ہے لیکن چونکہ سیاہ اور سفید کے سوا باقی رنگوں میں بالعموم کسی نہ کسی جہت سے زینت کا دخل آجاتا ہے.اس لئے حتی الوسع صرف انہی دورنگوں پر اکتفا

Page 315

مضامین بشیر ۳۰۸ کرنی چاہیئے لیکن اگر کوئی اور رنگ ایسا ہو جس میں کسی جہت سے زیبائش اور خوبصورتی کا دخل نہ سمجھا جائے تو اس میں ہرج نہیں ہے مگر بہتر یہی ہے کہ انہی دورنگوں پر اکتفا کی جائے تا کہ ٹھوکر کا امکان نہ رہے.(۴) کسی اور جہت سے بھی برقعہ زینت کا موجب نہیں ہونا چاہیئے.اگر ہماری بہنیں برقعہ کے متعلق ان چار شرائط کو ملحوظ رکھیں اور ہمارے بھائی اپنی مستورات سے ان شرائط کی پابندی کرائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک برقعہ کا تعلق ہے ہم صحیح اسلامی پر دہ پر قائم ہو جاتے ہیں اور کسی شخص کو ہمارے خلاف اعتراض کرنے کی جرات نہیں ہو سکتی.میں امید کرتا ہوں کہ قادیان اور بیرونجات کی بجنات بھی اپنے اپنے حلقہ میں ان شرائط کی پابندی کروانے کی طرف توجہ دیں گی.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو.اور ہر بات میں اپنی رضا کے رستہ پر چلنے کی توفیق دے.آمین پردہ کے دوسرے پہلوؤں کے متعلق انشاء اللہ کسی اور فرصت میں عرض کروں گا.وما توفيقى الا بالله.( مطبوعه الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۳۸ء)

Page 316

۳۰۹ مضامین بشیر اپنے بچوں کو تخت گاہِ رسول کی برکات سے محروم نہ کریں مرکزی مدارس میں بچوں کو داخل کرنے کی اپیل احباب نے ”الفضل“ میں مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکوئی قادیان کے نتائج دیکھ لئے ا ہوں گے جیسا کہ ان ہر دو مدارس کے ہیڈ ماسٹر صاحبان نے اعلان کیا ہے.نیا تعلیمی سال چند دن میں شروع ہونے والا ہے اور میں اس مختصر نوٹ کے ذریعہ احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو مرکزی درس گاہوں میں داخل کرا کے دنیوی فوائد کے ساتھ ساتھ دینی فوائد بھی حاصل کریں.ہمارے یہ ہر دو مدرسے نہایت اہم قومی درس گاہیں ہیں جن میں سے ایک تو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ہاتھ سے احمدی بچوں کو بیرونی مقامات کے زہریلے اثرات سے بچانے کے لئے قائم فرمائی اور دوسری کی تجویز بھی خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں دینی علماء پیدا کرنے کی غرض سے ہوئی.اور اس کی باقاعدہ داغ بیل آپ کی وفات کے جلد بعد رکھی گئی.اگر غور کیا جائے تو ہماری یہ دو درس گاہیں علوم کی دوز بر دست نہریں ہیں جن میں سے ایک میں تو خالص جنتی آبشار رواں ہے اور دوسری حسنات دارین کا مخلوط نقشہ پیش کرتی ہے.پس میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اس موقع پر جبکہ نیا تعلیمی سال شروع ہونے والا ہے، اپنے فرائض کو پہچانتے ہوئے اپنے بچوں کو قادیان بھجوانے کی پوری پوری کوشش کریں گے یعنی جن دوستوں کے بچے پہلے سے قادیان میں تعلیم پاتے ہیں وہ اس سلسلہ کو بدستور جاری رکھیں گے اور جن دوستوں نے ابھی تک اپنے بچے قادیان کی درسگاہوں میں داخل نہیں کرائے وہ اب اس اہم قومی اور دینی فریضہ کی طرف توجہ دے کر عنداللہ ماجور ہوں گے.بعض لوگ یہ عذر کیا کرتے ہیں کہ بچوں کو گھر سے باہر بھیجنے سے خرچ کا بوجھ زیادہ ہو جاتا ہے یا یہ کہ بورڈنگوں میں رہنے سے بچے اس جذباتی پرورش سے محروم ہو جاتے ہیں جو انہیں اپنے والدین کے زیر سایہ اپنے گھروں میں میسر ہوتی ہے.میں ان ہر دو باتوں کو تسلیم کرتا ہوں لیکن ہمارے دوستوں کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ کسی بات کے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے صرف ایک پہلو کود یکھنا کا فی نہیں ہوتا بلکہ سارے پہلوؤں پر یکجائی نظر ڈال کر اور ہر تجویز کے حُسن و قبح کو زیر غور لا کر پھر فیصلہ کرنا

Page 317

مضامین بشیر ۳۱۰ چاہیئے اور اگر اس اصل کے ماتحت بچوں کی تعلیم اور انہیں قادیان بھجوانے کے بارے میں غور کیا جائے تو قادیان کی تعلیم کے پہلو کو اس قدر غلبہ حاصل ہے اور اس کے اتنے عظیم الشان فوائد ہیں کہ اس کے مقابل پر نقصان کا پہلو بہت ہی کمزور اور حقیر ہے.قادیان میں بچوں کو تعلیم دلانے سے مندرجہ ذیل عظیم الشان فوائد حاصل ہوتے ہیں جن سے کوئی معقول شخص انکار نہیں کر سکتا.اول : قادیان کی رہائش سے بچے غیر محسوس طور پر ان عظیم الشان برکات سے حصہ پاتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی وجہ سے قادیان کو حاصل ہیں.ہر احمدی اس بات کو تسلیم کرے گا کہ بوجہ اس کے کہ قادیان خدا کے رسول کی تخت گاہ ہے ، خدا نے اس کے اندر ایسی برکات نازل کی ہیں جن سے ہر شخص جو اخلاص اور عقیدت کے ساتھ قادیان میں رہائش اختیار کرتا ہے.لازماً حصہ پاتا ہے کیونکہ جس طرح مثلاً ظاہری دُنیا میں آگ کا قرب تپش پہونچانے کا موجب ہوتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ روحانی وجود اپنے قریب رہنے والوں کو اپنی برکات پہونچائیں.دوم : قادیان سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خلافت گاہ ہے اور خلافت کے وجود سے جتنے روحانی فیوض خدا کے علم میں مقدر ہیں.ان سے ہر وہ شخص جو اخلاص کے ساتھ قادیان میں رہتا ہے لازماً حصہ پاتا ہے.سوم : قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفائے کرام کے تربیت یافتہ لوگوں کی سب سے بڑی جماعت رہتی ہے جو اس تعداد میں کسی اور جگہ پائی نہیں جاتی اور لازماً قادیان میں رہنے والے بچے کم و بیش اس جماعت کے نیک اثر سے فائدہ اٹھاتے ہیں.چهارم : قادیان کے سکولوں میں خواہ وہ خالص دینی سکول ہوں یا مروجہ تعلیم کے سکول، لازماً دبینیات کی تعلیم دی جاتی ہے.جس میں قرآن شریف حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام شامل ہیں.یہ تعلیم اس رنگ میں کسی اور جگہ میسر نہیں اور ظاہر ہے کہ بچپن میں یہ تعلیم بہت گہرا اور بہت وسیع اثر رکھتی ہے.: قادیان میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کا بورڈنگ تحریک جدید تو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نبصرہ العزیز کی خاص نگرانی اور تربیت میں ہے ہی مدرسہ احمدیہ کا بورڈنگ بھی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی عمومی تربیت کے ماتحت ایک دیندار طبقہ کی نگرانی میں ہے.جس میں بچوں کی ہر رنگ میں نگرانی کی جاتی ہے.ششم : قادیان میں بچے بھجوا کر آپ اپنی قومی اور مرکزی درسگاہوں کو مضبوط کرنے کا باعث

Page 318

۳۱۱ مضامین بشیر ہوتے ہیں.ہفتم : اپنے بچوں کو قادیان کی درسگاہوں میں داخل کرا کے آپ حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس اہم مطالبہ کو پورا کرنے والے بنیں گے جو حضور نے اس بارے میں تحریک جدید کے مطالبات میں شامل فرمایا ہے.یعنی یہ کہ بچوں کو تعلیم کے لئے قادیان بھجوایا جائے.یہ وہ سات عظیم الشان فوائد ہیں جو اپنے بچوں کو قادیان میں تعلیم دلانے سے ہمارے احباب حاصل کر سکتے ہیں.اس کے مقابل پر خرچ کی تھوڑی سی زیادتی یا جذبات کی تھوڑی سی قربانی بیشک اپنے دائرے میں تکلیف دہ چیزیں ہیں مگر ان عظیم الشان فوائد کے مقابلہ میں جو اوپر بیان کئے گئے ہیں ان کی کچھ بھی حقیقت نہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اس سوال کے سارے پہلوؤں پر یکجائی نظر ڈالتے ہوئے ضرور اس نتیجہ پر پہونچیں گے کہ قادیان میں بچوں کو بھجوانا بہر حال نہایت درجہ مفید اور بہتر ہے.تفصیلات کے لئے ہیڈ ماسٹر صاحبان سے خط و کتابت کی جائے.( مطبوعه الفضل ۵ اپریل ۱۹۳۸ء)

Page 319

مضامین بشیر ۳۱۲ نفاق اور اس کی اقسام اور علامات نفاق اور منافق کی تشریح کی ضرورت نفاق اور منافق ایسے الفاظ ہیں کہ جو قریباً ہر مذہبی شخص کی زبان پر کثرت کے ساتھ آتے رہتے ہیں اور مذہبی مضامین میں کم و بیش ہر قلم ان کے استعمال کا خوگر ہے مگر باوجود اس کثرتِ استعمال کے ان الفاظ کی حقیقت کو بہت کم لوگ سمجھتے ہیں اور اکثر لوگ صرف اس حد تک نفاق کی حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ کسی شخص کا ظاہر و باطن ایک نہ ہو.ہر چند کہ یہ تعریف غلط نہیں ہے اور نفاق کے عام مفہوم کے لحاظ سے بالکل صحیح تعریف ہے مگر ان الفاظ سے نفاق کے مفہوم کی وسعت اور اس کی اقسام اور علامات کا پتہ نہیں چلتا اور جب تک کسی ضرررسان چیز کی وسعت اور اس کی اقسام اور علامات کا پتہ نہ ہو انسان نہ تو خو داس کے نقصان سے بچ سکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کی حالت کو پورے طور پر سمجھنے کی قابلیت رکھتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ نفاق جیسے عام دینی مرض کو کسی قدر تشریح کے ساتھ بیان کیا جائے تا کہ اس کے متعلق کسی قسم کی غلط فہمی نہ رہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے نفاق اور منافقوں کے متعلق بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے مگر چونکہ قرآنی آیات کے متعلق غور کرنے کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہے.اس لئے بہت سے لوگ نفاق کی حقیقت کو پوری طرح نہیں سمجھتے.لہذا میں اپنے اس مختصر مضمون میں نفاق کی حقیقت اور اس کی اقسام اور علامات کے متعلق کچھ بیان کروں گا.ومــا تـوفـیـقــى الا بالله العلى العظيم.نفاق کے لغوی معنی سب سے پہلے ہمیں اس لفظ کے لغوی معنی کے متعلق غور کرنا چاہیئے کیونکہ اصطلاحی معنی کی اصل بنیا دلغوی معنی پر ہوا کرتی ہے اور گو اصطلاح میں جا کر کچھ اختلاف پیدا ہو جاتا ہے مگر بہر حال لغوی معنی سے اصطلاحی معنی کا جوڑ ضرور قائم رہتا ہے.سو جانا چاہیئے کہ نفاق ایک عربی لفظ ہے جس کی روٹ میں بہت سے معانی مخفی ہیں مگر ان میں سے زیادہ معروف یہ چار ہیں : (۱) کسی چیز کا اپنے اندر کم ہوتے یا گھٹتے.یا خرچ ہوتے.یا فنا ہوتے جانا.

Page 320

۳۱۳ مضامین بشیر (۲) کسی تجارتی سامان یا مال کا منڈی میں بہت مقبول ہونا حتی کہ چاروں طرف اس کے گاہک نظر آئیں.(۳) ایسا سوراخ جس کے دو مونہہ ہوں، جس میں کوئی چیز یا جانور ایک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف سے نکل سکے.(۴) کسی جانور کی ایسی بل جس کو مخفی رکھنے کے لئے اس نے اس کے پاس ہی ایک دوسری بل بھی بنا رکھی ہو مگر یہ دوسری بل محض نمائشی اور جھوٹی ہو اور صرف دھوکا دینے کی غرض سے بنائی گئی ہو جو تھوڑی دور جا کر بند ہو جاتی ہو اور وہ جانوران بلوں میں سے جھوٹی اور نمائشی بل کو تو ظاہر کر دے اور اصلی بل کے مونہہ کو چھپا کر رکھے.یہ وہ چار معروف معنی ہیں جو لغوی طور پر لفظ نفاق کی روٹ میں پائے جاتے ہیں اور ہر شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ نفاق کے اصطلاحی معنی ان چار لغوی معنوں میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک خاص طبعی جوڑ رکھتے ہیں.مؤخر الذکر دولغوی معنوں کے ساتھ تو نفاق کی اصطلاح کا جوڑ ظاہری ہے کیونکہ ان میں صریح طور پر دو غلے پن کا مفہوم پایا جاتا ہے.جس کے لئے کسی تشریح کی ضرورت نہیں اور اوّل الذکر لغوی معنی کے ساتھ اصطلاحی نفاق کا جوڑیوں سمجھا جا سکتا ہے کہ دینی اور روحانی بیماریوں میں سے نفاق ہی ایک ایسی بیماری ہے جس کا مریض خواہ وہ اس بات کو سمجھے یا نہ سمجھے ہر وقت اپنے اندر گھلتا اور گھٹتا رہتا ہے اور پھر ختم ہو جاتا ہے.سل کے مریض کی طرح اس کے اندرونی اعضا کو یہ بیماری کھاتی چلی جاتی ہے مگر وہ محسوس نہیں کرتا اور ثانی الذکر معنی کے ساتھ اس کا یہ جوڑ ہے کہ مقبول مال کی طرح ایک منافق بھی بزعم خود اپنے آپ کو سب کے لئے مقبول بنانا چاہتا ہے تا کہ مومن و کا فرسب اس کے خریدار رہیں.نفاق کے اصطلاحی معنی اب رہا نفاق کے اصطلاحی معنی کا سوال.سو ایک تو اس کے وہی معروف معنی ہیں جنہیں ہر شخص جانتا ہے.یعنی ظاہر کچھ کرنا اور دل میں کچھ اور رکھنا یا بالفاظ دیگر ظاہر میں تو ایمان کا اظہار کرنا مگر دل میں کا فر ہونا.یہ وہ معنی ہیں جن سے کم و بیش ہر شخص واقف ہے مگر یہ یا درکھنا چاہیئے کہ نفاق کے صرف یہی معنی نہیں ہیں بلکہ اس کے معنوں میں زیادہ وسعت اور زیادہ تنوع ہے اور اس وسعت اور تنوع کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی اکثر لوگ اپنے مرض کو سمجھنے یا دوسروں کے متعلق صحیح رائے لگانے میں غلطی کھاتے ہیں.قرآن شریف اور حدیث کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ نفاق کا مرض مندرجہ ذیل

Page 321

مضامین بشیر اقسام میں منقسم ہے :- اعتقادی منافق ۳۱۴ اول :.کوئی شخص دل میں تو منکر اور کا فر ہو مگر کسی غرض کے ماتحت اپنے آپ کو مومن ظاہر کرے.یہ قسم نفاق کی ایک واضح ترین اور کھلی کھلی صورت ہے.جس میں منافق پوری طرح اپنی دوغلی چال سے واقف ہوتا ہے مگر طمع یا خوف یا عداوت کی غرض سے دانستہ یہ طریق اختیار کرتا ہے اور گو عام حالات میں وہ لوگوں سے اپنی اصلی حالت کو چھپاتا ہے مگر کبھی کبھی نگا بھی ہو جاتا ہے.احمدیت کے ماحول میں اس نفاق کی مثال یوں سمجھی جائے گی کہ ایک شخص دل میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نعوذ باللہ جھوٹا سمجھتا ہو مگر کسی وجہ سے ظاہر میں جماعت کے اندر شامل ہو جائے یا شامل رہے.یا یہ کہ ایک شخص دل میں تو خلیفہ وقت کو برحق نہ سمجھتا ہو اور اس کی خلافت حقہ کا منکر ہومگر ظاہر میں کسی غرض کے ماتحت بیعت میں شامل رہے اور اپنے آپ کو خلافت کے حلقہ بگوشوں میں ظاہر کرے.اس قسم کے منافق کو اعتقادی منافق کہتے ہیں اور جیسا کہ ابھی بیان کیا گیا ہے.احمدیت کے ماحول میں یہ نفاق دو اقسام میں قسم ہے : (الف) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق نفاق.(ب) خلیفہ وقت کے متعلق نفاق.کمزور ایمان کا منافق دوم : کوئی شخص دل اور ظاہر ہر دو میں تو واقعی مومن ہو مگر اس کے ایمان میں اس درجہ کمزوری پائی جائے کہ بانی سلسلہ یا خلیفہ وقت یا نظام جماعت کے ساتھ اس کا ایمانی جوڑ اس قدر کمزور ہو کہ وہ کسی دھکے کی برداشت نہ کر سکے اور ہر ابتلاء کے وقت ٹوٹنے کے لئے تیار رہے.اس نفاق کو کمزوری ایمان والا نفاق کہنا چاہیئے.نفاق کی یہ قسم بھی نبوت اور خلافت کے لحاظ سے دو اقسام پر منقسم کبھی جائے گی.یعنی ایک تو ایسا منافق جو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ناقص الایمان ہے اور کسی دھکے کی برداشت نہیں رکھتا اور دوسرے ایسا منافق جو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق تو ایک حد تک پختہ ایمان رکھتا ہے مگر خلیفہ وقت کے متعلق گو بے شک محض دکھاوے کا ایمان نہیں رکھتا مگر اس قدر کمزور ہے کہ ذراسی ٹھوکر سے ٹوٹ سکتا ہے.

Page 322

عملی منافق ۳۱۵ مضامین بشیر سوم : کوئی شخص دل اور ظاہر ہر دو میں تو حقیقت مومن ہوا اور جہاں تک محض ایمان اور عقیدہ کا تعلق ہے اس کا ایمان عام حالات میں محفوظ بھی سمجھا جائے مگر عملی لحاظ سے وہ شخص اس قدر کمزور ہو کہ اس کے اعمال عموماً منکروں کے اعمال کے مشابہ ہوں.اس قسم کے منافق کو عملی منافق کہتے ہیں مگر یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اس جگہ عملی کمزوری سے عام عملی کمزوری مراد نہیں جو کم و بیش اکثر اشخاص میں پائی جاتی ہے بلکہ ایسی کمزوری مراد ہے جو انسان کو کفار اور منکروں کے مشابہ بنادے اور خصوصاً یہ کہ دین اور نظام جماعت کے لئے محبت اور غیرت اور قربانی کا جذ بہ عملاً مفقود ہو اور نہ صرف یہ کہ انسان جماعت کی ترقی میں کوشاں نہ ہو بلکہ عملاً اس کے راستہ میں روڑے اٹکانے والا ثابت ہو.منافقین کا ذکر قرآن میں یہ وہ تین موٹی قسمیں ہیں جن میں نفاق کا مرض تقسیم شدہ ہے اور قرآن شریف نے ان تینوں اقسام کے متعلق علیحدہ علیحدہ تشریح کے ساتھ ذکر کیا ہے.مثلاً پارہ اول کے شروع میں ہی قرآن شریف میں فرماتا ہے :- "وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا..وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى يَشْعُرُونَ شَيطِيْنِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمُ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُ وُنَ.یعنی لوگوں میں ایک ایسا گروہ ہے جو کہتا ہے کہ ہم خدا اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں مگر دراصل وہ مومن نہیں ہوتے.وہ خدا اور مومنوں کی جماعت کو دھوکا دینا چاہتے ہیں.مگر اس دھو کے کا وبال خود انہی پر پڑتا ہے.لیکن وہ سمجھتے نہیں.یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں.مگر جب اپنے شیطان رئیسوں کے ساتھ خلوت میں اکھٹے ہوتے ہیں تو انہیں یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصل میں تمہارے ساتھ ہیں ان مومنوں کو تو ہم یونہی بناتے ہیں.

Page 323

مضامین بشیر ۳۱۶ جیسا کہ اس عبارت سے ظاہر ہے، اس جگہ قسم اول والا نفاق مراد ہے یعنی جانتے بوجھتے ہوئے دل میں کچھ رکھنا اور ظاہر کچھ اور کرنا اور یہی وہ خالص نفاق ہے جس کے متعلق دوسری جگہ قرآن شریف میں آتا ہے کہ : - "إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرُكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۳۲۰ یعنی منافقین کا یہ گروہ ایسا ہے کہ انہیں دوزخ میں کافروں سے بھی نیچے کے درجہ میں رکھا جائے گا کیونکہ ان کا جرم دہرا ہے یعنی وہ کا فر بھی ہیں اور منافق بھی.“ اس سے کچھ آگے چل کر اسی رکوع میں قرآن شریف کمزور ایمان والے منافقوں کا ذکر فرماتا ہے.جسے ہم نے قسم دوم میں رکھا ہے.چنانچہ فرماتا ہے :- كُلَّمَا أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرُق.أَضَاءَ لَهُمْ مَّشَوُا فِيْهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا.٣٣ یعنی ایک قسم منافق لوگوں کی ایسی ہوتی ہے کہ اس کی مثال اس بارش کی سی سمجھنی چاہیئے.جس میں بادلوں کی تاریکیاں اور گرج اور بجلی پائے جاتے ہوں...جب یہ بجلی چمکتی ہے یعنی جب خدا کا نور کسی چمکتے ہوئے نشان یا آیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو یہ لوگ خوش ہو کر ایمان کے راستہ پر چل پڑتے ہیں مگر جب ابتلاؤں وغیرہ کی تاریکیاں زور کرتی ہیں تو پھر یہ لوگ شک میں پڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور چلنے سے رک جاتے ہیں.یہ گو نفاق کی دوسری قسم ہے.جسے کمزوری ایمان والا نفاق کہنا چاہیئے.“ اور منافقوں کی تیسری قسم کا ذکر سورۃ حجرات میں آتا ہے.جہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- قَالَتِ الأَعْرَابُ امَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمُ.إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُ وُا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سبيل الله ۳۴ یعنی کئی بادیہ نشین لوگ منہ سے یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں مگر اے رسول تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم ابھی مومن نہیں ہو.ہاں بے شک تم یہ کہہ سکتے ہو کہ ہم نے اسلام کی حکومت کو اپنے اوپر تسلیم کر لیا ہے ورنہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.اصلی مومن تو وہ لوگ ہیں جو خدا اور اس

Page 324

۳۱۷ کے رسول پر حقیقی ایمان لاتے ہیں اور پھر وہ اس ایمان میں کبھی ڈگمگاتے نہیں بلکہ اپنے اموال اور نفس کی طاقتوں کے ذریعہ خدا کے راستہ میں ہمیشہ جہاد کرتے رہتے ہیں.مضامین بشیر یہ قسم عملی نفاق کی ہے جسے ہم نے تیسرے درجہ پر بیان کیا ہے اور اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ اس جگہ نفاق کا لفظا ذکر نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ دوسری جگہ سورہ تو بہ میں یہ تصریح کر دی گئی ہے کہ اعراب کے گروہ میں ایک خاص قسم کا منافق طبقہ موجود ہے.چنانچہ فرماتا ہے :- وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاق.۳۵ یعنی تمہارے اردگر د صحرا میں رہنے والے اعراب میں بھی ایک گروہ منافقین کا موجود ہے مگر یہ مدینہ کے اندر رہنے والے منافق اپنے نفاق میں بہت سرکش اور پختہ ہیں.66 الغرض یہ تین قسمیں نفاق کی ہیں جو قرآن شریف اور عقل انسانی ہر دو سے ثابت ہوتی ہیں.اول خالص نفاق کہ دل میں کفر ہو اور ظاہر میں ایمان دوسرے کمزوری ایمان والا نفاق کہ دل میں کفر تو نہ ہو مگر بات بات میں ٹھوکر کا اندیشہ رہے اور تیسرے عملی نفاق کہ انسان مومنوں کی جماعت میں تو شامل ہوا اور جماعت کے نظام کو بھی قبول کرے.اور عقیدہ میں بھی ایک حد تک پکا ہو مگر اس کی عملی حالت اس قدر کمزور ہو کہ جماعت کی ترقی میں ممد و معاون ہونے کی بجائے وہ عملاً جماعت کی ترقی کے رستہ میں روک بن جائے اور اس کے اعمال منکروں کے اعمال سے مشابہ رہیں.احادیث میں منافق کی علامتیں حدیث میں بھی جو علامتیں منافق کی بیان ہوئی ہیں میں ان جملہ اقسام کے نفاق کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.چنانچہ آنحضرت فرماتے ہیں: أَرْبَعُ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمِنْهُنَّ كَانَتْ فِيْهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدْعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ ٣٦٠ یعنی چار خصلتیں ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی شخص میں ایک ہی وقت اکٹھی پائی جائیں تو وہ اس بات کی علامت ہوں گی کہ وہ شخص خالص منافق ہے.اور اگر کسی شخص میں

Page 325

مضامین بشیر ۳۱۸ ان میں سے صرف ایک خصلت پائی جائے تو ایسے شخص میں ایک خصلت نفاق کی سمجھی جائے گی.حتی کہ وہ اسے ترک کر کے تائب ہو جائے.“ اور وہ چار حصلتیں یہ ہیں کہ :.(1) جب کسی شخص کو امام جماعت یا نظام جماعت کی طرف سے کوئی امانت سپر د ہو، خواہ وہ کوئی مالی امانت ہو یا کسی عہدہ وغیرہ کی ذمہ داری کے رنگ میں ہو تو وہ اس میں خیانت کرے.(۲) جب وہ امام جماعت یا دوسرے ذمہ دار افسروں کی طرف منسوب کر کے لوگوں کے سامنے کوئی بات بیان کرے تو اس میں کذب بیانی سے کام لے یا جب وہ امور خوف دامن کے متعلق امام جماعت یا اس کے مقرر کردہ افسران کے پاس کوئی رپورٹ کرے تو اس میں غلط بیانی کا مرتکب ہو.(۳) جب وہ امام جماعت یا عہدہ داران جماعت سے جماعتی امور میں کوئی عہد باند ھے تو اس میں غداری کرے.(۴) جب اسے امام جماعت یا نظامِ جماعت سے کوئی اختلاف پیدا ہو تو اس اختلاف کی بناء پر وہ جماعت سے یا تو عملاً منحرف ہو جائے یا بالکل قطع کر لینے کے لئے تیار ہو جائے.یا د رکھنا چاہیئے کہ فجر کے معنی صرف بد زبانی اور مخش گوئی کے نہیں ہیں بلکہ منحرف ہو جانے اور قطع تعلق کرنے کے بھی ہیں.اور اس جگہ حدیث میں یہی معنی مراد ہیں ) یہ وہ چار خصائل ہیں کہ جب کسی شخص میں وہ یکجا پائے جائیں تو وہ یقینا قسم اول کا منافق ہوگا اور اس کے ایمان کا دعوی بالکل جھوٹا سمجھا جائے گا لیکن اگر یہ چار خصائل یکجا نہ پائے جائیں بلکہ ان میں سےصرف بعض پائے جائیں اور بعض نہ پائے جائیں تو ایسا شخص خالص منافق نہیں ہوگا بلکہ حسب حالات دوسری اقسام میں سے سمجھا جائے گا.اس حدیث کی تشریح کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ یہ جو چار کمزوریاں حدیث میں بیان ہوئی ہیں، ان سے عام لین دین کی کمزوریاں مراد نہیں ہیں کیونکہ عام رنگ کی کمزوریاں تو بعض اوقات ایک سچے مومن میں بھی پائی جاسکتی ہیں.پس ان سے عام کمزوریاں مراد نہیں بلکہ تعلقات ما بین الافراد والجماعت کے دائرہ کی کمزوریاں مُراد ہیں کیونکہ نفاق کے مرض کو اسی حلقہ کے ساتھ مخصوص تعلق ہے اور گو اس میں مبہ نہیں کہ یہ کمزوریاں ایسی فتیح ہیں کہ عام رنگ میں بھی وہ جس کے اندر پائی جائیں وہ کم از کم پختہ مومن نہیں سمجھا جا سکتا لیکن چونکہ نفاق کا تعلق تعلقات ما بین الافراد اور جماعت سے ہے ، اس لئے حدیث مندرجہ بالا میں اسی دائرہ کی کمزوریاں مراد ہیں.بہر حال نفاق کی

Page 326

۳۱۹ مضامین بشیر یہ چار علامتیں ہیں جو حدیث نے بیان کی ہیں اور یہ علامتیں کم و بیش تینوں قسم کے منافقوں میں پائی جاتی ہیں.یعنی قسم اول کے منافق میں جسے حدیث نے خالص منافق کے نام سے یاد کیا ہے.وہ سب کی سب پائی جاتی ہیں اور باقی اقسام میں حسب حالات جزو آ پائی جاتی ہیں : نفاق کیا ہے؟ مندرجہ بالا بیان سے ظاہر ہے کہ منافق تین قسم کے یا ایک لحاظ سے پانچ قسم کے ہیں اور ان اقسام کی روشنی میں ہر وہ شخص نفاق کے مرض میں مبتلا سمجھا جائے گا جو : - اول : بظاہر تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کا دعوی کرے مگر دل میں آپ کا منکر اور کافر ہو.دوم : حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تو دل سے ایمان لاتا ہو اور بظاہر خلیفہ وقت کی بیعت میں بھی داخل ہو مگر دل میں خلیفہ وقت کو سچا نہ سمجھتا ہو.سوم : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دل میں اور ظاہر میں ہر دوطرح سچا سمجھتا ہومگر اس قدر کمزور ایمان ہو کہ ذرا سے دھکے سے متزلزل ہونے لگے.چهارم : خلیفہ وقت کو دل میں اور ظاہر میں ہر دو طرح برحق خیال کرتا ہو مگر خلافت کے متعلق اس قدر کمزور ایمان ہو کہ بات بات پر گرنے کا خطرہ پیدا ہو جائے.پنجم : جہاں تک عقیدہ کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلیفہ وقت ہر دو کے متعلق سچا اعتقاد رکھتا ہو مگر اس اعتقاد کا اثر اس کے اعمال تک نہ پہونچے اور جماعت کے لئے محبت اور غیرت اور قربانی کے معاملہ میں حد درجہ کمزور ہو کہ خواہ عام ایمانی ابتلاؤں میں سنبھلا رہے مگر جماعت کی ترقی میں ممد و معاون ہونے کی بجائے عملاً اس کے رستہ میں ایک روک بن جائے اور اس کے اعمال غیروں کے اعمال سے مشابہ ہوں.منافق کی علامات اس کے مقابل پر جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے منافق کی علامات یہ ہیں : اول : جب امامِ وقت یا جماعت کی طرف سے اس کے ذمہ کوئی کام یا فرض لگایا جائے تو وہ اس میں خیانت سے کام لے.دوم : جب وہ امام جماعت یا دوسرے ذمہ دار افسروں کی طرف منسوب کر کے لوگوں کے

Page 327

مضامین بشیر ۳۲۰ سامنے کوئی بات بیان کرے تو اس میں کذب بیانی سے کام لے.اسی طرح جب کوئی رپورٹ امور خوف وامن کے متعلق جماعتی امور میں امام جماعت یا منتظمین مقررہ کو دے تو اس رپورٹ میں دروغ گوئی کا طریق اختیار کرے.سوم : جب وہ خلیفہ وقت یا جماعت کے ساتھ کوئی عہد باندھے خواہ وہ عہد عملاً باندھا گیا ہو یا قولاً تو اس عہد میں غداری کرے.چهارم : جب امام وقت یا منتظمین مقررہ کے ساتھ اسے کسی بات میں اختلاف پیدا ہو تو وہ جماعت سے یا تو عملاً منحرف ہو جائے یا بالکل قطع تعلق کر لینے کے لئے تیار ہو جائے.ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ ان جملہ اقسام نفاق اور ان جملہ علامات نفاق کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں اور انہیں ہمیشہ یا درکھیں تا کہ اول تو اپنے نفسوں کا محاسبہ کرنے میں مددمل سکے.دوسرے دیگر افراد جماعت کی حالت کا مطالعہ کرنے اور رائے قائم کرنے میں بھی بصیرت پیدا ہو.نیز یہ سہولت بھی پیدا ہو جائے کہ جب کوئی شخص اس مرض میں مبتلا ہوتا نظر آئے تو اوائلِ مرض میں ہی اس کی طرف توجہ دی جا سکے.قبل اس کے کہ اس کا مرض لاعلاج حد کو پہونچ جائے.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہوا اور اپنی رضا کے رستوں پر چلنے اور ایمان و اخلاص کی مستحکم چٹان پر قائم ہونے کی توفیق دے.آمین ( مطبوعه الفضل ۱۹اپریل ۱۹۳۸ء)

Page 328

۳۲۱ مضامین بشیر ایک قابل تحقیق مسئلہ علماء جماعت احمدیہ کو علمی تحقیق کی دعوت سلسلہ عالیہ احمدیہ کے قیام کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ عقائد ومسائل کی ان غلطیوں کو صاف کیا جائے جو کسی نہ کسی وجہ سے مسلمانوں میں رائج ہو چکی ہیں.ان میں سے بہت سی غلطیوں کے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کے فتاویٰ کے ماتحت اصلاح ہو چکی ہے لیکن ابھی تک بعض مسائل ایسے ہیں جن میں تحقیق کی ضرورت ہے.ان مسائل میں سے ایک مسئلہ جو بہت اہم اور وسیع الاثر ہے وہ تقسیم ورثہ سے تعلق رکھتا ہے یعنی کہ اگر کوئی شخص اپنے باپ کی زندگی میں فوت ہو جائے اور اس کے دوسرے بھائی موجود ہوں تو کیا اس کے والد کی وفات پر اس کے بچوں کو دادا کے ترکہ میں سے حصہ ملے گا ؟ اس بارے میں عام طور پر اسلامی حکم یہ سمجھا جاتا ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں بچوں کو دادا کے ورثہ میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا.مثلاً اگر ایک شخص زید نامی کے دو بیٹے بکر اور عمر نامی ہوں اور ان میں سے عمر زید کی زندگی میں چند بچے چھوڑ کر فوت ہو جائے تو عام فتوی یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس صورت میں زید کی وفات پر زید کا سارا تر کہ جو بیٹوں کو ملنا تھا وہ بکر لے جائے گا اور عمر کے بچوں کو کوئی حصہ نہ ملے گا.اور موٹے طور پر اس مسئلہ کی بنیاد یہ دلیل قرار دی جاتی ہے کہ پوتوں نے تو باپ کے واسطے سے داد کے ترکہ میں سے حصہ لینا تھا لیکن جب باپ کی وفات نے خود باپ کو ہی ورثہ سے مرحوم کر دیا تو اس کے بچوں کو کہاں سے حصہ پہونچ سکتا ہے.قانونی اور منطقی رنگ میں یہ ایک بظاہر معقول دلیل ہے لیکن ساتھ ہی یہ صورت اسلامی تعلیم کی روح کے خلاف نظر آتی ہے کیونکہ اول تو جو اولاد حقیقت کے لحاظ سے دادا کی صحیح نسل ہے.اسے محض ایک اصطلاحی آڑ کی بنا پر ورثہ سے محروم کر دینا اسلامی عدل وانصاف کے خلاف معلوم ہوتا ہے.دوسرے بیٹا خواہ باپ کی زندگی میں فوت ہو جائے مگر بالقوة طور پر وہ موجود رہتا ہے اور اس کی اولاد اس کی قائم مقام ہے جو محض اس کے مرنے کی وجہ سے دادا کی نسل سے خارج نہیں قرار دی جا سکتی.بہر حال یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے اور اب جبکہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

Page 329

مضامین بشیر ۳۲۲ نے تقسیم ورثہ کو اسلامی شریعت کے مطابق قائم کرنے کی جماعت میں پر زور تحریک فرمائی ہے تو اس بات کی اشد اور فوری ضرورت ہے کہ سلسلہ کے علماء اس مسئلہ کے متعلق اچھی طرح غور کر کے اسے صحیح اسلامی صورت میں قائم کر دیں.جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلہ کی تحقیق کا صحیح طریق یہ ہے کہ مندرجہ ذیل عنوانوں کے ماتحت غور کیا جائے : (۱) قرآن شریف سے اس مسئلہ کے متعلق کیا استدلال ہوتا ہے؟ (۲) حدیث اس مسئلہ میں کیا کہتی ہے.(۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ کا تعامل کیا ثابت ہوتا ہے.(۴) بعد کے آئمہ اسلام نے اس مسئلہ کے متعلق کیا کیا رائے ظاہر کی ہے.(۵) آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا آپ کے خلفاء کے کسی فتوی سے اس مسئلہ کے متعلق کوئی روشنی پڑتی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے علماء اور مفتیان سلسلہ اس مسئلہ کے متعلق فوری تحقیق فرمائیں گے.تا کہ ان کی رائے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کر کے حضور کا فیصلہ حاصل کیا جا سکے.اس نوٹ کے لکھنے کے بعد مجھے بتایا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کسی کتاب میں اس مسئلہ کی عام مسلّمہ صورت کو صحیح تسلیم کیا ہے میں نے یہ حوالہ نہیں دیکھا لیکن اگر یہ درست ہے تو بہر حال مندرجہ بالا تحقیق کے نتیجہ میں وہ حوالہ بھی سامنے آجائے گا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ بات مدنظر رکھنی چاہیئے کہ بعض اوقات آپ کا یہ طریق ہوتا تھا کہ ایک فقہی مسئلہ کو عامۃ المسلمین کی مسلمہ صورت میں نقل فرما دیتے تھے اور اس جگہ آپ کی غرض یہ ہوتی تھی کہ اس مسئلہ میں عام مسلمانوں کا یہ خیال ہے اپنی ذاتی رائے اور تحقیق کا اظہار مقصود نہیں ہوتا تھا.بہر حال ہمارے دوست جب اس تحقیق میں قدم رکھیں گے تو ساری حقیقت ظاہر ہو جائے گی.( مطبوعه الفضل ۲۶ ایریل ۱۹۳۸ء)

Page 330

۳۲۳ مضامین بشیر خلافت جو بلی فنڈ مخلصین قادیان سے اپیل خلافت جو بلی فنڈ کے تعلق میں گزشتہ رات جو جلسہ مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوا تھا، اس میں جماعت قادیان نے پچیس ہزار روپیہ فراہم کرنے کی ذمہ داری لی تھی اور خاکسار راقم الحروف کو کمیٹی برائے فراہمی چندہ کا رکن منتخب کیا گیا تھا.گو اخلاص اور قربانی کی روح کے سامنے یہ رقم کوئی حقیقت نہیں رکھتی لیکن جماعت قادیان کی عام مالی حالت کے پیش نظر اور ان غیر معمولی چندوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اس سال در پیش ہیں یہ رقم ایک کافی بھاری رقم ہے جس کا پورا کرنا خاص جد و جہد اور منتظم کوشش چاہتا ہے.جیسا کہ رات کی تقریروں میں اس بات کو واضح کیا گیا تھا، یہ تجویز اس لحاظ سے ایک نہائت اہم تجویز ہے کہ اس کے ذریعہ سے جماعت کے ان جذبات شکر و امتنان کا امتحان متصور ہے جو اس کے دل میں سلسلہ عالیہ احمدیہ اور خلافت کے متعلق قائم ہیں.کیونکہ خدا کے فضل سے ۱۹۳۹ء کے اوائل میں اگر ایک طرف خلافت ثانیہ کے پچیس سال پورے ہورے ہیں تو دوسری طرف انہی ایام میں سلسلہ احمدیہ کے قیام پر بھی پچاس سالہ معیاد پوری ہوتی ہے.اس طرح اس فنڈ کو کامیاب بنا کر ہمارے دوست اس بات کا عملی ثبوت دیں گے کہ وہ ان ہر دو عظیم الشان نعمتوں یعنی قدرت اولی اور قدرت ثانیہ کی قدر کو پہچانتے اور ان کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں اور اب جبکہ یہ تجویز پبلک کے سامنے آچکی ہے تو اس تجویز کو کامیاب بنانا قومی غیرت کا بھی اولین تقاضا ہے.پس میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے قادیان کے دوست جنہوں نے خدا کے فضل سے اس وقت تک ہر قسم کی قربانی کا بہترین نمونہ دکھایا ہے اس موقع پر بھی دوسروں کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ بننے کی کوشش کریں گے.اور اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیں گے کہ وہ حقیقی معنوں میں خدائی سلسلہ کی مرکزی جماعت ہیں.اپنے دوستوں کی آگاہی کے لئے میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ کسی شخص کی چندہ دینے کی طاقت صرف اس کی ماہوار یا سالانہ آمد سے پر کبھی نہیں جاتی بلکہ جائیداد بھی چندہ دینے کی طاقت کا حصہ ہے.اور اگر ایک شخص ایسا ہے کہ وہ اپنی جائیداد کا کوئی حصہ بیچ یا رہن کر کے ایک نیک تحریک میں حصہ لے

Page 331

مضامین بشیر ۳۲۴ سکتا ہے.مگر وہ محض اس وجہ سے حصہ نہیں لیتا کہ بزعم خود اس کی ماہوار آمد اس چندہ کی متحمل نہیں ہے تو یقیناً وہ اپنے آپ کو ایک اعلیٰ نیکی سے محروم کرتا ہے.صحابہ میں کثرت کے ساتھ ایسے شخصوں کی مثالیں ملتی ہیں کہ وہ ماہوار یا سالانہ آمد بہت کم رکھتے تھے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی چندہ کی تحریک ہوتی تھی تو وہ اپنی کوئی جائیداد یا اثاثہ فروخت کر کے چندہ دینے والوں کی صف اول میں آ کر کھڑے ہوتے تھے.عقلاً بھی دیکھا جائے تو جب ہم اپنی دنیوی ضروریات کے لئے بسا اوقات اپنی جائیدادوں کے رہن رکھنے یا بیچ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دینی ضروریات کے لئے ہم اپنی جائیدادوں کی طرف سے آنکھ بند کر کے صرف اپنی ماہوار یا سالانہ آمد کا خیال کرنے لگ جائیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ مرکز سلسلہ کے مخلص احباب اس مبارک تحریک میں جسے کامیاب بنانا ہمارے اخلاص اور محبت اور غیرت کا اولین فرض ہے، بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور اپنے عمل سے ثابت کر دیں گے کہ وہ اخلاص اور قربانی میں ہر دوسری جماعت کے لئے ایک بہترین نمونہ ہیں.میں انشاء اللہ کمیٹی برائے فراہمی چندہ کے ممبروں سے مشورہ کر کے عنقریب تفاصیل شائع کروں گا کہ یہ چندہ کس طرح اور کس ریٹ سے جمع کرنا ہے مگر اس وقت اس نوٹ کے ذریعہ میں احباب کو ہوشیار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے اس وعدہ کے مطابق جو انہوں نے خدا کے گھر میں بیٹھ کر کیا ہے.بیش از بیش قربانی کے لئے تیار رہیں.علاوہ اس کے میں اس وقت یہ بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی توفیق اور فضل کے ساتھ میں انشاء اللہ اس بات کی کوشش کروں گا کہ جو چھپیں ہزار کی رقم جماعت قادیان نے اپنے ذمہ لی ہے.اس میں سے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی طرف سے کم از کم دس ہزار روپے کی رقم پیش کرے.اس رقم میں وہ وعدے مجرا ہوں گے جو اس سے قبل ہمارے خاندان کے افراد کی طرف سے ہو چکے ہیں اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹے اور لڑکیاں اور ان ہر دو کی اولاد اور داماد اور بہوئیں شامل ہوں گی.اس طرح قادیان کی باقی جماعت پر صرف پندرہ ہزار روپے کا بار رہ جائے گا جو جماعت کے اخلاص اور موقع کی اہمیت کے لحاظ سے یقیناً زیادہ نہیں.وبالله التوفيق ونعم المولى ونعم النصير ( مطبوعه الفضل ۳۰ اپریل ۱۹۳۸ء)

Page 332

بیکاری کا مرض ۳۲۵ بے کاری کے نقصانات اور اس کے انسداد کا تربیتی پہلو مضامین بشیر اس زمانہ میں بے کاری کی مرض بہت زیادہ پھیل رہی ہے اور کم و بیش ہر قوم اور ہر ملک میں پائی جاتی ہے.میں نے اس کے متعلق مرض کا لفظ اس لیئے استعمال کیا ہے کہ سوائے بعض حقیقی معذوری کی صورتوں کے جب انسان واقعی کام نہ ملنے کی وجہ سے بریکاری کے لئے مجبور ہو جاتا ہے فی زمانہ اکثر صورتوں میں بے کاری حقیقہ ایک اخلاقی مرض ہے جو دوسری اخلاقی بیماریوں کی طرح اکثر انسانوں کو لگ کر خراب کر رہی ہے.یعنی بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں کام تو مل سکتا ہے مگر یہ خیال کر کے کہ ہمیں جائیداد وغیرہ سے کافی آمد ہے اس لئے کام کی ضرورت نہیں یا یہ خیال کر کے کہ جو کام ملتا ہے وہ ہماری شان کے مطابق نہیں ، وہ کام نہیں کرتے اور بے کاری میں اپنی زندگی گزار دیتے ہیں.ایسی بیکاری گو اقتصادی لحاظ سے بھی نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ جب سوسائٹی کا ایک طبقہ آمد پیدا کرنے کے بغیر رہے گا تو لازماً اس کے نتیجہ میں ملک و قوم کا مالی نقصان ہو گا مگر اس کا اصل نقصان تربیتی اور اخلاقی پہلو سے تعلق رکھتا ہے.گویا بے کاری کا مسئلہ دو جہت سے قابل غور ہے.اول اقتصادی لحاظ سے اور دوسرے تربیتی لحاظ سے اور میں اپنے اس مختصر مضمون میں موخر الذکر صورت کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.اخلاقی اور دینی لحاظ سے بریکاری کے نقصانات سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تربیتی لحاظ سے بیکاری ایک نہائت ہی مہلک بیماری ہے.جس کی وجہ سے انسان کے دین اور اخلاق کو خطرناک نقصان پہو نچتا ہے مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ اس نقصان کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور صرف اس کے اقتصادی پہلو تک اپنی نظر کو محدود

Page 333

مضامین بشیر ۳۲۶ رکھتے ہیں.اخلاقی اور دینی لحاظ سے بے کاری کے موٹے موٹے نقصانات یہ ہیں : (۱) وقت جیسی قیمتی چیز جو غالباً دنیا کی چیزوں میں سب سے زیادہ قیمتی ہے ضائع جاتی ہے.جسے انسان بے شمار صورتوں میں ملک اور قوم اور دین کی خدمت میں خرچ کر سکتا ہے.(۲) وقت کو بے کار گزارنے کی عادت پیدا ہوتی ہے اور وقت کی قدرو قیمت کی حس ماری جاتی ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے آدمی کو جب کوئی کام ملتا ہے تو عادت کی وجہ سے وہ اس میں بھی ستی اور غفلت اختیار کرتا ہے اور اس کا فرض شناسی کا معیار بالکل گر جاتا ہے جو اخلاقی اور دینی لحاظ سے سخت مہلک ہے.(۳) بے کا ر لوگ عموماً خراب عادتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ جب انسان کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا تو پھر وہ اپنے وقت کو گزارنے کے لئے اپنے واسطے ایسے مشاغل تلاش کرتا ہے جو اس کے اختیار میں ہوتے ہیں.اور اس طرح وہ بُری عادتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.مثلاً شراب نوشی.افیون اور بھنگ چرس وغیرہ کا استعمال.جوئے بازی.شطرنج اور تاش اور اسی قسم کی دوسری بے فائدہ اور مخرب اخلاقی کھیلیں.غیبت جو بے کاروں کی مجلس کا خاصہ ہے وغیرہ وغیرہ.(۴) بے کاری سے بد صحبتی کی عادت پیدا ہوتی ہے کیونکہ جب انسان بے کار ہوتا ہے تو وہ اپنا وقت گزارنے کے لیئے اپنے مفید مطلب مجلس ڈھونڈتا ہے اور بالعموم یہ مجلس اخلاقی اور دینی لحاظ سے بہت گندی ہوتی ہے.(۵) بے کاری سے بے جا اعتراضات اور نکتہ چینی کی عادت پیدا ہوتی ہے.جس میں انسان اس بات کو بالکل بھول جاتا ہے کہ میں جس شخص یا جماعت یا نظام پر اعتراض کر رہا ہوں اس پر اعتراض کرنے کا مجھے حق بھی ہے یا نہیں اور بزرگوں کے ادب اور نظام کے احترام کی روح مٹ جاتی ہے.بیکاری کا انسداد کس طرح ہو سکتا ہے؟ یہ جملہ نقصانات بہت بھاری نقصانات ہیں مگر افسوس ہے کہ لوگ بالعموم ان کی طرف سے بالکل غافل رہتے ہیں اور اپنے عزیزوں کی بے کاری کو صرف اس ترازو سے تولتے ہیں کہ بیکا ررہنے سے روپے کا نقصان ہو رہا ہے.حالانکہ گو مالی نقصان بھی بے شک قابل توجہ ہے مگر اس مالی نقصان کو ان عظیم الشان نقصانات سے کچھ بھی نسبت نہیں جو اخلاقی اور دینی لحاظ سے بیکاری کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں.اگر ہمارے دوستوں میں ان نقصانات کا احساس پیدا ہو جائے تو پھر کم از کم جہاں تک

Page 334

۳۲۷ مضامین بشیر بریکاری کے اخلاقی اور دینی پہلو کا تعلق ہے بریکاری کے مرض کو ایک دن میں نابود کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے لئے کسی نوکری یا نفع مند کام کے تلاش کی ضرورت نہیں بلکہ صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ بیکا رلوگ اپنی بے کاری کو چھوڑ کر کسی ذاتی یا خاندانی.یا قومی یا دینی کام میں لگ جائیں ، خواہ وہ آنریری ہی ہو اور خواہ اس کے بدلے میں انہیں ایک پیسہ بھی حاصل نہ ہو.اس طرح اقتصادی لحاظ سے وہ اپنا کوئی نقصان نہیں کریں گے کیونکہ وہ پہلے بھی نہیں کماتے تھے اور اب بھی نہیں کمائیں گے.مگر اخلاقی اور دینی لحاظ سے وہ اپنے آپ کو خطرناک نتائج سے محفوظ کر لیں گے اور ان کی آنریری خدمات سے ان کے خاندان یا قوم یا ملک یا دین کو جو فائدہ پہونچے گا وہ مزید برآں ہو گا.مثلاً ایک شخص زید نامی بے کار ہے.اب قطع نظر اس کے کہ اس کی یہ بیکاری کسی مجبوری کا نتیجہ ہے یا کہ خود پیدا کردہ ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کا وقت اسے کوئی مالی بدلہ نہیں دے رہا.اس حالت میں اگر وہ کسی خاندانی یا قومی یا دینی کام کے لئے اپنی خدمات آنریری طور پر پیش کر دے تو ظاہر ہے کہ اقتصادی لحاظ سے وہ کوئی نقصان نہیں اٹھاتا بلکہ جہاں ہے وہیں رہتا ہے مگر اخلاقی اور دینی لحاظ سے وہ نہ صرف بہت سے خطر ناک نقصانات سے بچ جاتا ہے بلکہ عظیم الشان فوائد بھی حاصل کرتا ہے اور اس خدائی منشاء کو بھی پورا کرنے والا بنتا ہے کہ جو آیت رَزَقْنَا هُمْ يُنْفِقُونَ ۷ ہیں بیان ہوا ہے.یعنی یہ کہ سچے مومن وہ ہیں جو ہر اس چیز میں سے جو ہم نے ان کو دی ہے خواہ وہ مال ہے یا وقت ہے یا جسمانی طاقتیں ہیں.یا آل و اولاد ہے خدا کے رستے میں خرچ کرتے ہیں.بہر حال تربیتی نقطہ نگاہ سے بریکاری کا علاج مشکل نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے صرف اس احساس کی ضرورت ہے کہ جو وقت بریکاری کی حالت میں فضول طور پر ضائع ہو جاتا ہے اسے کسی مفید کام میں خرچ کرنا چاہیئے اگر یہ کام آمد کا بھی ذریعہ ہو تو فبھا.لیکن اگر ایسا کام میسر نہ آئے تو پھر آنریری طور پر ہی کسی مفید کام کو اختیار کر لیا جائے تا کہ بہر حال وقت ضائع نہ ہو اور عادتیں بھی خراب ہونے سے محفوظ رہیں.بیکاری کے اقسام جہاں تک میں نے غور کیا ہے بیکاری کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں : (۱) بیکاری بوجہ اس کے کہ کسی حقیقی معذوری مثلاً بیماری یا جسمانی کمزوری کی وجہ سے کوئی شخص کام نہ کر سکتا ہو.(۲) بیکاری بوجہ اس کے کہ حقیقتہ کوئی کام نہ ملتا ہو.(۳) بریکاری بوجہ اس کے کہ کام تو مل سکتا ہو مگر انسان اسے اپنی شان کے مطابق نہ خیال کرے.

Page 335

مضامین بشیر ۳۲۸ (۴) بیکاری بوجہ اس کے کہ جائیداد وغیرہ کی کافی آمد موجود ہونے کے باعث انسان کام کی ضرورت نہ سمجھے.مجبور کی بیکاری یہ وہ چار قسم کی بے کاری ہے جو عموماً دنیا میں پائی جاتی ہے اور میں اس جگہ ان جملہ اقسام بیکاری کے متعلق مختصر طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں.سب سے پہلی صورت یہ ہے کہ کسی بیماری یا جسمانی معذوری کی وجہ سے انسان کام نہ کر سکتا ہو.اس کے متعلق مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ اگر معذوری ایسی ہو کہ انسان واقعی کام نہ کر سکتا ہو.مثلاً کوئی شخص کسی موذی مرض میں بالکل ہی صاحب فراش ہو جائے یا کوئی ایسا جسمانی نقص ہو کہ کام کی اہلیت ہی جاتی رہے.تو پھر تو مجبوری ہے.لا يُكلف اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۳۸ مگر حق یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنی معذوری کو محض ایک بہانہ بنا لیتے ہیں اور کام کی اہلیت رکھنے کے باوجود بیکاری میں وقت گزارتے ہیں.مثلاً نا بینا ہو نا عام طور پر معذوری خیال کیا جاتا ہے اور ایک رنگ میں وہ معذوری ہے بھی.لیکن غور کیا جائے تو ایک نابینا شخص کئی قسم کے کام کر سکتا ہے.مثلاً اگر خدا اسے توفیق دے تو وہ قرآن شریف حفظ کر کے اور کچھ علم دینیات سیکھ کر امام الصلوۃ یا کسی مکتب وغیرہ کا معلم بن سکتا ہے اور مسجد میں درس و تدریس کا سلسلہ بھی قائم کرسکتا ہے.وغير ذالک.اسی طرح اگر ایک شخص پاؤں سے معذور ہے تو وہ ایسے کام جن سے صرف دماغ کا واسطہ پڑتا ہے یا جو صرف ہاتھ کی مدد سے کئے جا سکتے ہیں کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ.پس محض کسی بیماری یا جسمانی معذوری کا پایا جانا بیکاری کے جواز کی معقول وجہ نہیں ہے ، جب تک کہ ایسی معذوری انسان کو ہر جہت سے واقعی معذور نہ کر دے اور جو شخص محض کسی جسمانی معذوری کا بہانہ لے کر بیکار بیٹھتا ہے وہ بھی اخلاقی لحاظ سے مجرم ہے اور اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے.سوائے اس کے کہ وہ حقیقتہ بے دست و پا ہو.کوئی کام نہ ملنے کی وجہ سے بیکاری بیکاری کی دوسری قسم یہ ہے کہ کسی شخص کو حقیقتہ کام نہ ملتا ہو.یعنی وہ ہر قسم کے کام کے لئے تیار ہو مگر کوئی کام نہ ملے.میں عقلاً اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ بعض حالات میں اس قسم کی صورت پیش آسکتی ہے لیکن یہ صورت بہت ہی شاذ طور پر صرف استثنائی حالات میں پیش آتی ہے.ورنہ اگر انسان ہر قسم کے جائز کام کے لئے تیار ہو اور اسے کسی کام سے عار نہ ہو تو بالعموم کام مل جاتا ہے.اگر نوکری

Page 336

۳۲۹ مضامین بشیر نہیں تو تجارت ہی سہی تجارت نہیں تو مزدوری ہی سہی.زیادہ معاوضہ والا کام نہیں تو کم معاوضہ والا کام ہی سہی.بہر حال اگر انسان نا واجب شرطیں نہ لگائے اور ہر قسم کے دیانت داری کے لئے تیار ہو.تو دنیا میں اب بھی کام کی قلت نہیں ہے.مجھے یاد ہے حضرت خلیفۃ امسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں ایک دفعہ بیکار تھا تو میں نے دوروپے ماہوار کی نوکری قبول کر لی تھی.اگر حضرت خلیفہ اول جیسی بلند مرتبہ ہستی دوروپے کی نوکری قبول کر سکتی ہے تو اور کون ہے جو اسے اپنی شان کے خلاف سمجھ سکتا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ اگر بالفرض واقعی کسی قسم کا کام نہیں ملتا تو پھر آنریری کام ہی سہی اس کا دروازہ تو ہر وقت کھلا ہے اور ہم بتا چکے ہیں کہ تربیتی لحاظ سے وہ بے کاری کے انسداد کی بالکل صحیح تدبیر ہے.شایان شان کا م نہ ملنے سے بیکاری تیسری قسم بے کاری کی یہ ہے کہ کام تو ملتا ہے مگر انسان اسے اپنی پوزیشن کے خلاف سمجھ کر اختیار نہیں کرتا اور بیکاری میں وقت گزارتا ہے.یہ گروہ سب سے زیادہ زیر ملامت ہے کیونکہ اول تو وہ تکبر اور خود بینی کی مرض میں مبتلا ہے اور اپنے مونہہ میاں مٹھو بن کر خود ہی بڑھ چڑھ کر اپنی قیمت لگا لیتا ہے.دوسرے وہ بے وقوف بھی ہے کہ اپنی فرضی شان اور نام نہاد پوزیشن کو بچانے کے لئے بدترین قسم کی اخلاقی اور دینی بیماریوں میں مبتلا ہونا پسند کرتا ہے.ایسے لوگوں کو جس قدر جلد بیدار کیا جا سکے کرنا چاہیئے اور صاف بتا دینا چاہیئے کہ تمہاری موجودہ قیمت وہی ہے جو بازار میں ملتی ہے ، نہ کہ وہ جو تم سمجھتے ہو.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد چوتھے خلیفہ ہوئے اور آپ کے داماد بھی تھے.بسا اوقات جنگل سے گھاس کاٹ کر لاتے اور اسے بازار میں بیچ کر اپنا گزارہ کرتے تھے اور دوسرے عالی قدر صحا بہ بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہر قسم کا کام اپنے ہاتھ سے کرتے اور کسی کام کو اپنی شان کے خلاف نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایک موقع پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزدوروں کی طرح پتھر اور مٹی کو اپنے کندھوں پر اٹھا اٹھا کر اِدھر ادھر پہونچایا.اور آپ کا جسم مبارک مٹی اور گردو غبار سے ڈھک گیا اور ایک زمانہ میں آپ نے بکریاں بھی چرا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہر قسم کا کام کر لیتے تھے اور بسا اوقات خود اپنے ہاتھ میں پانی کا لوٹا لے کر نالیاں وغیرہ صاف کرواتے تھے.اور جوانی کے زمانہ میں آپ سیالکوٹ میں صرف چند روپے تنخواہ پر ملازم بھی رہے تھے اور آپ اکثر فرمایا کرتے تھے.میں ایک پیسہ کے چنوں پر گزارہ

Page 337

مضامین بشیر کر سکتا ہوں.جھوٹے اور متکبرانہ عذرات ۳۳۰ اگر یہ عظیم الشان ہستیاں جن سے ہم نے ساری عزتیں حاصل کی ہیں ، کسی کام کو اپنی شان کے خلاف نہیں سمجھتی تھیں تو ہم کون ہیں کہ اپنی فرضی شان اور نام نہاد پوزیشن کو جائز اور دیانت داری کے کاموں سے بالا قرار دیں.پس یہ سب جھوٹے اور متکبرانہ عذرات ہیں جن سے ایک کام سے دل پچرانے والا انسان اپنے قیمتی اوقات کو ضائع کرنے کا بہانہ ڈھونڈھتا ہے اور ہمارے دوستوں کو ان باتوں سے گلی طور پر بچنا چاہیئے.خوب یا درکھو کہ ہر وہ کام جس میں کسی قسم کی بدیانتی یا دنانت کا دخل نہیں اور وہ شریعت کے خلاف نہیں ، وہ ایک جائز اور معزز کام ہے اور اسے ذلیل سمجھنا خود اپنی ذلت کا ثبوت دینا ہے اور کسی قوم کے تنزل کا اس سے بڑھ کر کوئی سبب نہیں ہو سکتا کہ وہ جائز اور دیانت داری کے کاموں کو اپنے لئے موجب ذلت سمجھے اور اس خیال کی وجہ سے اس کے نوجوان اپنی زندگیوں کو بریکاری میں ضائع کر دیں مگر میں کہتا ہوں کہ اگر ہم میں سے ایک طبقہ ابھی تک اپنے اندر سے اس قسم کے تکبر اور خود بینی کے جذبات کا استیصال نہیں کر سکا تو وہ آئے اور آنریری طور پر ہی اپنی خدمات پیش کر دے اور وقت کو ضائع کرنے کی بجائے اسے جماعت کی خدمت میں صرف کرے لیکن اگر وہ ایسا بھی نہیں کرتا تو وہ یقیناً جماعت کا خائن ہے اور ہر گز اس قابل نہیں کہ ایک پاک جماعت کا حصہ بن کر رہے.آسودہ حالی کی وجہ سے بیکاری چوتھی قسم بریکاری کی یہ ہے کہ انسان کو کام بھی مل سکتا ہو اور بزعم خود اپنی شان کے مطابق بھی مل سکتا ہو مگر اس خیال سے کہ میری جائیداد کی آمد کافی ہے وہ اپنے قیمتی وقت کو بے کاری میں ضائع کرتا رہے.یہ مرض آج کل ہندوستانی رؤ سا میں بہت عام ہے اور اخلاقی لحاظ سے ویسا ہی خطرناک ہے جیسا کہ دوسری قسم کی بیکاریاں اور یہ مرض اس گندی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ کام کو صرف حصولِ مال کا ذریعہ سمجھا گیا ہے اور اس کے سوا اس کی کوئی اور قیمت نہیں پہچانی گئی.حالانکہ کام کی قیمتوں میں سے حصول مال ایک بہت ہی ادنیٰ درجہ کی قیمت ہے اور اس کی اعلیٰ قیمت اس کے دوسرے ا پہلوؤں سے تعلق رکھتی ہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ اگر کسی شخص پر خدا تعالیٰ کا اس رنگ میں فضل ہے کہ اسے اپنے کھانے کے

Page 338

٣٣١ مضامین بشیر لئے پسینہ نہیں بہانا پڑتا تو وہ اس خدائی فضل کا یہ بدلہ دے کہ اپنی خدا دا د طاقتوں اور وقت کے قیمتی خزانہ کو بے سود ضائع کر دے.اس پر تو دوسروں کی نسبت بھی زیادہ فرض ہے کہ وہ اپنے وقت کو مفید صورت میں گزارے اور اپنے عمل سے ثابت کر دے کہ وہ خدا تعالیٰ کا ایک شکر گزار بندہ ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو یقیناً وہ دوہرے الزام کے نیچے آتا ہے کہ خدا نے اسے فارغ البالی عطا کر کے قومی اور دینی خدمت کا موقع عنایت کیا مگر اس نے اس موقع کو ضائع کر دیا اور اگر اقتصادی لحاظ سے دیکھیں تو پھر بھی ایسے لوگوں کے لئے کام کرنا بہتر ہے کیونکہ مثلاً اگر ایک شخص کو جائیداد سے پانچ سو روپے ماہوار کی آمد ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ملازمت یا کا روبار میں اپنا وقت لگا کر اس آمد میں اضافہ نہ کرے.یہ اضافہ اسے بہت سے دینی اور دنیوی کاموں میں مفید ہو سکتا ہے مگر بد قسمتی سے جہاں بھی رکسی شخص کو بغیر کام کے چار پیسے ملنے لگ جائیں وہ اپنے آپ کو کام سے بے نیاز سمجھنے لگ جاتا ہے اور اس طرح منعم علیہ جماعت میں ہو کر مغضُوبِ عَلَيْهِمْ کے گروہ کا راستہ لے لیتا ہے اور خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ کا موجب بنتا ہے.بے شک اگر کسی شخص کی جائیداد کا انتظام اس قدر وسیع ہے کہ وہ اس کے سارے وقت کو چاہتا ہے تو اسے اس انتظام میں اپنا وقت صرف کر کے مالی رنگ میں دین کی خدمت کرنی چاہیئے لیکن اگر جائیداد کا انتظام پورا وقت نہیں چاہتا تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسا شخص اپنا سارا وقت یا اپنا زائد وقت جیسی بھی صورت ہو قوم اور دین کی خدمت میں خرچ نہ کرے اور اپنی خدا دا د طاقتوں کو بریکاری جیسی لعنت میں ضائع کر دے.نقصان ہی نقصان خلاصہ کلام یہ کہ بیکاری کی جملہ اقسام میں وقت اور خدا دا د طاقت اور اخلاق اور دین کا نقصان پایا جاتا ہے.کسی میں کم اور کسی میں زیادہ اور بعض اقسام میں تو سراسر نقصان ہی نقصان ہے.پس ہمارے دوستوں کو چاہیئے کہ وہ بیکاری جیسی موذی مرض سے خود بھی بچیں اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بھی بچانے کی کوشش کریں اور اگر انہیں کسی وجہ سے کسی وقت بیکاری کا اقتصادی حل نظر نہ آئے تو اس کی وجہ سے گھبرا میں نہیں بلکہ انسداد بیکاری کے اخلاقی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے تربیتی تدابیر اختیار کر لیں.اس طرح انشاء اللہ تعالیٰ ان کے دین اور دُنیا ہر دو کو عظیم الشان فائدہ پہنچے گا اور وہ جماعت کا ایک نہایت مفید اور بابرکت حصہ بن جائیں گے.انسداد بے کا ری کے اخلاقی پہلو میں مندرجہ ذیل امور خصوصیت سے یا در کھے جائیں :-

Page 339

مضامین بشیر کیا کرنا چاہیئے؟ ۳۳۲ (۱) کوئی کام جو شریعت کے خلاف نہیں اور اس میں کوئی پہلو دنائت کا پایا نہیں جاتا.وہ ایک معزز کام ہے ، جسے ہر معزز سے معزز شخص اختیار کر سکتا ہے.پس یہ خیال کرنا کہ فلاں کام ہماری شان کے خلاف ہے بالکل درست نہیں.(۲) بے شک ہر شخص کے وقت کی قیمت میں فرق ہوتا ہے لیکن صرف اس بنا پر بریکاری جیسی لعنت کو خرید نا کہ ہمیں اپنے وقت کی پوری قیمت نہیں ملتی سخت غلطی ہے بلکہ بیکاری کے نقصانات سے بچنے کے لئے جو قیمت بھی ملے اسے قبول کر لینا چاہیئے اور مزید کے لئے کوشش کرنی چاہیئے.(۳) اگر کوئی کام بھی نہ ملے تو پھر آنریری طور پر ہی اپنی خدمات کو پیش کر دینا چاہیئے تا کہ وقت اور طاقت ضائع نہ جائیں اور خدمت کا ثواب حاصل ہو.بعد میں جب کام مل جائے تو آنریری خدمت سے سبکدوشی حاصل کی جاسکتی ہے.(۴) جولوگ با وجود بیماری یا معذوری کے کوئی کام کر سکیں انہیں بیماری یا معذوری کے بہانہ سے بیکارنہیں بیٹھنا چاہیئے بلکہ جس کام کے بھی وہ قابل ہوں اُسے اختیار کر لینا چاہیئے.(۵) جن لوگوں کو جائیداد کی آمد ہو اور وہ اس آمد کو اپنے گزارہ کے لئے کافی خیال کرتے ہوں انہیں بھی بریکارنہیں رہنا چاہیئے بلکہ یا تو وہ اپنی خدمات کو آنریری صورت میں پیش کر دیں اور یا کوئی معاوضہ والا کام کر کے اپنے لئے مزید آمد پیدا کریں اور اس آمد کو دینی اور دنیوی ضروریات میں خرچ کریں.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست ان باتوں کو مد نظر رکھ کر نہ صرف بریکاری کے نقصانات سے بچنے کی کوشش کریں گے بلکہ اپنے وقت اور اپنی طاقتوں کو مفید کاموں میں لگا کر اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے اور جماعت کے لئے ترقی کا راستہ کھولنے میں ممد ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور اپنی رضا کے رستوں پر چلنے کی تو فیق عطا کرے.آمین مطبوعہ الفضل کے امئی ۱۹۳۸ء)

Page 340

۳۳۳ مضامین بشیر چودہری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ ماجدہ کا انتقال اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمدردی کا پیغام احباب کو’ الفضل کے ذریعہ اطلاع مل چکی ہے کہ چودہری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ ماجدہ مورخہ ۶ امئی بروز پیر بوقت صبح نو بجے اس دار فانی سے رخصت ہو کر بہشتی مقبرہ میں اپنے خاوند بزرگوار کے قدموں میں دفن ہو چکی ہیں.مرحومہ ایک نہائت نیک ،متقی ، مخلص اور صاحب کشف و رویاء بزرگ تھیں اور دعا میں خاص شغف رکھتی تھیں.اللہ تعالیٰ انہیں جنت کے اعلیٰ مقام میں جگہ دے اور ان کے جملہ پسماندگان کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین مرحومہ کی وفات پر میں نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بذریعہ تاران کی وفات کی خبر دی تھی جس پر آج بوقت دو پہر حضور کی طرف سے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایک کارکن کی زبانی میر پور خاص سندھ سے بذریعہ ٹیلیفون یہ پیغام پہونچا ہے کہ میری طرف سے مرحومہ کی وفات پر چودہری صاحب کو انالله وانا اليه راجعون پہونچا کر اظہار ہمدردی کریں اور چونکہ مرحومہ سلسلہ کی ایک خاص خاتون تھیں اور نہائت متقی اور مخلص تھیں اور ان کی یہ بہت خواہش تھی کہ میں ان کا جنازہ پڑھاؤں اس لئے اگر ممکن ہو اور انتظار کیا جا سکے تو مجھے اطلاع دی جائے تا کہ میں جنازہ کے لئے پہونچ جاؤں.میں نے حضور کے اس پیغام کے جواب میں عرض کر دیا ہے کہ جنازہ ہو چکا ہے اور مرحومہ بہشتی

Page 341

۳۳۴ مضامین بشیر مقبرہ میں دفن ہو چکی ہیں اور موسم کی شدت اور سفر کی دوری اور حضور کی تکلیف کے خیال سے حضور سے درخواست نہیں کی گئی.اس لئے اب جیسا کہ چود ہری صاحب مکرم کی بھی خواہش ہے یا تو حضور غائبانہ جنازہ پڑھا دیں اور یا جب سندھ سے واپس تشریف لائیں تو قبر پر تشریف لے جا کر جنازہ پڑھا دیں.چود ہری صاحب مکرم اور احباب کی اطلاع کے لئے حضور کا یہ پیغام اخبار میں شائع کیا جاتا ہے.( مطبوعه الفضل ۱۹مئی ۱۹۳۸ء)

Page 342

۳۳۵ مضامین بشیر خلافت جو بلی فنڈ اور اہل قادیان کی مخلصانہ قربانی خلافت جو بلی فنڈ کے متعلق اہل قادیان نے ابتداء میں پچپیس ہزار روپے کا وعدہ کیا تھا جس میں سے خاکسار نے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے دس ہزار روپیہ جمع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی.الحمد للہ کہ قادیان کے دوستوں نے اس تحریک میں توقع سے بڑھ کر شوق واخلاص کا نمونہ دکھایا ہے.چنانچہ کمیٹی خلافت جو بلی فنڈ قادیان نے خدا کے فضل اور جماعت کے اخلاص پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے پچیس ہزار کے وعدہ کو بڑھا کر تمیں ہزار کر دیا ہے جو گویا اس فنڈ کی مجموعی رقم کا دسواں حصہ ہے.اور قادیان کے دوست جس شوق کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لے رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ امید کرنا بعید از قیاس نہیں کہ اگر خدا کا فضل شامل رہے تو شائد مرکزی جماعت اپنے تمہیں ہزار کے وعدے سے بھی کچھ زیادہ رقم جمع کر لے.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی دس ہزار کی رقم کو بڑھا کر ساڑھے بارہ ہزار کر دیا ہے.اسی طرح لجنہ اماءاللہ قادیان سے بھی دو ہزار کی توقع کی جاتی ہے.فجزاهم ا خيراً كان الله معهم - قادیان کے مختلف محلوں کے پریزیڈنٹ صاحبان بڑے شوق اور اخلاص کے ساتھ اس تحریک کو کامیاب بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور جو رپورٹیں مجھے ان کی طرف سے موصول ہو رہی ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ خدا کے فضل سے اہلِ قادیان نے اس تحریک کی غرض وغایت اور اس کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے اور اس کے مطابق اپنی کمر ہمت کو کس کر ہر قربانی کے لئے تیار نظر آتے ہیں.چنانچہ قادیان کے ایک غریب دوست کے متعلق مجھے رپورٹ ملی ہے کہ انہوں نے ایک زمین کا ٹکڑا جس کی قیمت قریباً تین سو روپیہ ہے اس چندہ میں پیش کر دیا ہے حالانکہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ دوست بالکل بیکار ہیں اور کوئی ماہوار آمد نہیں رکھتے اور غالبا چندہ عام کی شرکت سے بھی عموماً محروم رہتے ہیں - الله مگر اس تحریک میں انہوں نے اپنی اڑھائی تین سو روپے کی زمین بخوشی پیش کر دی ہے.اسی طرح ایک اور بزرگ جنہوں نے پہلے اس تحریک کو ایک عام تحریک خیال کرتے ہوئے صرف حصولِ ثواب کی غرض سے پانچ روپیہ چندہ لکھایا تھا ، جب ان پر اس تحریک کی اہمیت ظاہر ہوئی تو انہوں نے پانچ روپے کی بجائے پانچ سو روپیہ چندہ لکھا یا حالانکہ ان کی ماہوار آمد صرف

Page 343

مضامین بشیر دوسور و پیہ ہے..۳۳۶ اسی طرح ایک اور دوست نے ابتداء میں صرف پچیس روپے چندہ لکھایا تھا لیکن جب قادیان کی کمیٹی کے قیام کے بعد ان پر اس تحریک کی غرض و غایت اور اہمیت ظاہر کی گئی تو انہوں نے اپنے چندہ کو بڑھا کر تین سو کر دیا اور بعد میں شائد اس سے بھی زیادہ کر دیں.اسی قسم کی بہت سی مثالیں قادیان کے قریباً ہر محلہ میں پائی جاتی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ تخت گاہ رسول کے حاشیہ نشین خدائی نعمت کی شکر گزاری میں کسی دوسرے سے پیچھے نہیں ہم نے قادیان کے ہر محلہ کے ذمہ اس کے سالانہ بجٹ کو سامنے رکھ کر اس سے کم و بیش ڈیوڑھی رقم لگا دی تھی.جو پریزیڈنٹ صاحبان کے مشورہ سے لگائی گئی تھی لیکن جب یہ رقم اہل محلہ کے سامنے پیش ہوئی تو قریباً سب محلہ والوں نے اتفاق رائے کے ساتھ اس سے زیادہ رقم مہیا کرنے کی آمادگی ظاہر کی جو بعض صورتوں میں ہماری مشورہ کردہ رقم سے ڈیڑھ گنی اور اصل سالانہ بجٹ کی رقم سے اڑھائی تین گنی تک پہونچتی ہے.اخلاص کا یہ قابل قدرنمونہ یقیناً نہایت خوشکن اور ایمان افروز ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بھائیوں کے ایمان وا خلاص میں اس سے بھی بڑھ کر برکت عطا کرے اور دوسروں کو بھی ان کے نمونہ پر چلنے کی توفیق دے کیونکہ ایک نیک اور صالح عمل کا یہی بہترین ثمرہ ہے.میں اس موقع پر اپنے دوستوں کو پھر یہ بات یاد دلانا چاہتا ہوں کہ خلافت جو بلی فنڈ کی تحریک کوئی معمولی تحریک نہیں ہے بلکہ جس صورت اور جن حالات میں وہ جماعت کے سامنے آئی ہے ان کے ماتحت وہ : - اول: جماعت کے اس اخلاص و ایمان کا امتحان ہے جو اس کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق قائم ہے.جن کے دعوے پر آج پچاس سال.ہاں کامیابی و کامرانی کے پچاس سال پورے ہورہے ہیں.دوم : وہ جماعت کی اس محبت و وفاداری کا بھی امتحان ہے جو اسے خلافت جیسی عظیم الشان نعمت کے ساتھ حاصل ہے جس کے موجودہ دور پر عنقریب پچیس سال پورے ہونے والے ہیں.سوم : وہ ایک حقیر مالی شکرانہ ہے جو سلسلہ کے قیام پر پچاس سال اور موجودہ خلافت کے قیام پر پچیس سال پورے ہونے پر خدا کے حضور پیش کیا جارہا ہے.چہارم : وہ اس قلبی عہد کا عملی اظہا ر ہے کہ جو ذمہ داریاں سلسہ کے قیام کے ساتھ ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں ہم انہیں بیش از پیش شوق و قربانی کے ساتھ اٹھانے

Page 344

کے لئے تیار ہیں.۳۳۷ پنجم : وہ اس قومی غیرت کا بھی امتحان ہے کہ جب خدا کی ایک جماعت رکسی بوجھ کے اٹھانے کی ذمہ داری لیتی ہے اور دوست ودشمن میں اس ذمہ داری کا اعلان کرتی ہے تو پھر دُنیا کی کوئی مشکل اسے اس رستہ سے ہٹا نہیں سکتی.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے بیرونی دوست بھی اسی شوق وذوق کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لیں گے جس سے کہ قادیان کے غریب اصحاب الصفہ حصہ لے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور اپنی رضا کے رستوں پر چلنے کی تو فیق عطا کرے.آمین ( مطبوعه الفضل ۳۱ مئی ۱۹۳۸ء) مضامین بشیر

Page 345

مضامین بشیر ۳۳۸ ریویو آف ريليجنزار دو کا نیا دور ریویوار دو اور انگریزی وہ مبارک رسالے ہیں جن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مبارک ہاتھوں سے داغ بیل قائم کی اور جن کی طرف آپ کو خاص توجہ تھی.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ریویو ایک خاص شان رکھتا تھا اور اس کے اوراق بیشتر طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لکھے ہوئے یا لکھائے ہوئے مضامین سے مزین نظر آتے تھے اور دنیا اس رسالہ کا لوہا مانتی تھی مگر طبعاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد اس کی وہ شان نہیں رہی.بلکہ زیادہ افسوس یہ ہے کہ یہ رسالہ دوستوں کی بے توجہی سے آہستہ آہستہ گر کر ایک بالکل معمولی صورت اختیار کر گیا.معمولی کا لفظ میں نے نسبتی طور پر استعمال کیا ہے.یعنی میری مراد یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے رسائل اور اخبارات میں اس کی معمولی حیثیت رہ گئی ورنہ بہر حال چونکہ اس کے مضامین احمدیت کی روشنی میں لکھے جاتے رہے ہیں ، وہ دنیا کے دوسرے رسالوں میں پھر بھی ممتاز رہا ہے لیکن حال ہی میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ کی توجہ سے اس رسالہ نے ایک نیا ورق پلٹا ہے اور سابقہ انتظام کو بدل کر مولوی علی محمد صاحب اجمیری مولوی فاضل کو ریویو اردو کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا ہے.مولوی صاحب موصوف نہ صرف علوم دینیہ کے ایک جید عالم ہیں بلکہ ایک کہنہ مشق مصنف بھی ہیں اور ان میں یہ ایک امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی دسترس رکھتے ہیں.ایسا عالم یقیناً خدا کی توفیق اور فضل کے ساتھ رسالہ کو بہتر بنانے میں بہت کچھ مدد دے سکتا ہے اور میں امید کرتا به ہوں کہ مولوی صاحب کے عہد میں انشاء اللہ ر یو یو اردو بہت ترقی کرے گا.ذالک ظنی وارجوا من الله خيراً مگر اس امید افزا تبدیلی کے ساتھ دوستوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ رسالہ کو بہتر بنانے کے لئے پوری پوری کوشش اور جد و جہد سے کام لیں اور اس کی خریداری کے بڑھانے میں مدد دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ خواہش تھی کہ ریویو کی خریداری دس ہزار تک پہنچ جاوے.سو اگر ایک طرف جماعت ہمت کرے اور دوسری طرف رسالہ کے ارباب حل وعقد اس کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کریں تو کوئی تعجب نہیں کہ اب جبکہ خدا کے

Page 346

۳۳۹ مضامین بشیر فضل سے جماعت کافی ترقی کر چکی ہے.رسالہ کی خریداری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق دس ہزار تک نہ پہنچ جائے.یہ دن جماعت کے لئے یقیناً ایک حقیقی خوشی کا دن ہوگا.اللہ تعالیٰ دوستوں کو اپنے فرض کے شناخت کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے.آمین ( مطبوعہ الفضل ۱۰ جولائی ۱۹۳۸ء)

Page 347

مضامین بشیر ۳۴۰ ایک غلط فہمی کا ازالہ کچھ عرصہ سے مجھے خلافت جو بلی فنڈ کمیٹی قادیان کا صدر مقرر کیا گیا ہے.جس پر بعض بیرونی دوستوں کو یہ غلط فہمی پیش ہورہی ہے کہ گویا میں مرکزی کمیٹی کا صدر ہوں.اور اس میدان میں جملہ جماعتوں کے کام کی نگرانی میرے سپرد ہے.یہ خیال درست نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس کمیٹی کا میں صدر ہوں اس کا تعلق صرف قادیان کے ساتھ ہے.بیرونی جماعتوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے.ان کا تعلق براہ راست ناظر صاحب بیت المال سے ہے.امید ہے کہ اس اعلان کے بعد اس معاملہ میں کو ئی غلط فہمی نہیں رہے گی.اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں احباب تک یہ بات بھی پہونچانا چاہتا ہوں کہ آج کل میں ناظر تعلیم و تربیت یا ناظر تالیف و تصنیف نہیں ہوں بلکہ مجھے سیرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی تکمیل کے لئے ان کاموں سے فارغ کر دیا گیا ہے اور آج کل ان نظارتوں کا چارج عزیزم مکرم میاں شریف احمد صاحب کے پاس ہے.پس آج کل دوست ان نظارتوں کے کام کے متعلق مجھے نہ لکھا کریں بلکہ موجودہ ناظر صاحب کو مخاطب کیا کریں بلکہ بہتر یہ ہے کہ محکمانہ امور میں کسی شخص کو نام لے کر خط نہ لکھا جائے کیونکہ اس میں پیچیدگی پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے اور بعض اوقات خط ضائع ہو جاتے ہیں صرف عہدہ کا نام لکھنا چاہیئے.امید ہے دوست اسے نوٹ فرما لیں گے.( مطبوعہ الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۳۸ء)

Page 348

۳۴۱ مضامین بشیر خلافت ثانیہ جو بلی فنڈ کیا ہے خلافت ثانیہ جو بلی فنڈ کو کامیاب بنانا ایک نہایت اہم دینی فرض ہے جو ایک دوہرے جذ بہ پر مبنی ہے کہ خدا کی گزشتہ نعمتوں پر اس کا شکر یہ ادا کیا جائے اور آئیندہ کے لئے اس کی بیش از پیش خدمت کا عہد باندھا جائے.خلافت جو بلی کیا ہے؟ یہی کہ اے خدا جو فضل تو نے ہم پر نبوت وخلافت جیسی عظیم الشان نعمتوں کے ذریعہ کیا ہے جن میں سے نبوت پر پچاس سال پورے ہور ہے ہیں اور خلافت ثانیہ پر چھپیں سال، تو ہمیں ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق دے اور وہ تحیہ شکر اس رنگ میں قبول فرما کہ ہم اس موقع پر تیرے سلسلہ کی خدمت کے لئے آئندہ کے واسطے ایک مضبوط فنڈ قائم کر دیں.یہ ایک اسی قسم کا دینی مظاہرہ ہے جس طرح ہفتہ کے سات دنوں کی نمازوں کے بعد جمعہ آتا ہے یا رمضان کے روزوں کے بعد عید الفطر آتی ہے.یا حج کے بعد عیدالاضحی آتی ہے کیونکہ مومن کی خوشی اور مومن کا شکر یہ بھی عبادت کی صورت میں ہی ظاہر ہوتے ہیں اور اس زمانہ میں دین کی خدمت کا ایک بھاری ذریعہ مالی قربانی ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اس موقع پر زیادہ سے زیادہ مالی قربانی کر کے یہ ثابت کر دیں کہ ہم اپنی سابقہ قربانیوں پر حقیقہ خوش ہیں اور اس رستہ میں ترقی کرنے میں ہی اپنی خوشی اور سعادت پاتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.( مطبوعه الفضل ۱۹ اگست ۱۹۳۸ء)

Page 349

مضامین بشیر ۳۴۲ ا.تذکرہ صفحہ ۲۵۵ طبع ۲۰۰۴ء ۲ - تذکره صفحه ۳۰۴ طبع ۲۰۰۴ء حوالہ جات ١٩٣٨ء ۳.فتاوی احمد یہ.حصہ دوم صفحه ۵۹ اشتہار ۲۹ مئی ۱۸۹۸ء ۴.ماخوذ.الحکم ۳ ستمبر۱ ۱۹۰ ءصفحہ ۹ ۵.جامع الترمذی ابوب الذهد - باب من حسن اسلام المرء تركه ما لا يعنيه اا ۶.الحکم ۱۰ جولائی ۱۹۰۲ء صفحہ ۳ ۷.الحکم ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء المومنون : ۴ ۹ - الحکم ۲۴ مارچ ۱۹۰۳ء ۱۰.البدر ۱۳ اپریل ۱۹۰۳ء صفحه ۸۲ ۱۱.البدر ۲۳ جولائی ۱۹۰۳ ء.فتاوی احمد یہ صفحہ ۶۷ ۱۲.البدر ۲۴ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱ ۱۳ البدر ۲۸ فروری ۱۹۰۷ ء صفحه ۱۰ ۱۴.بدر ۱۶مئی ۱۹۱۲ ء صفحه ۳ ۱۵.منہاج الطالبین.انوار العلوم جلد ۹ صفحه ۱۶۴ ١٦ الفضل ۱۷ تا ۲۰ اپریل ۱۹۲۲ ، صفحہ ۱۱ ۱۷.منہاج الطالبین.انوار العلوم جلد ۹ صفحه ۱۶۳ ۱۸ - منہاج الطالبین.انوار العلوم جلد 9 صفحہ ۲۱۹ ۱۹.الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۳۰ء ۲۰.البقرہ: ۲۸۳ ۲۱ - البقره: ۲۸۴

Page 350

۲۲.النساء : ۱۳۶ ۲۳ - الفرقان : ۷۳ ۲۴.المائده : ۹ ۲۵.المائده : ۹ ۲۶ - الهور: ۶۵ ۲۷ - الطلاق :۲ ۲۸.البقرہ: ۱۰۷ ۳۴۳ ۲۹.تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ - صفحه ۵۷۰ ۳۰.تذکرہ صفحہ ۶۷ ۱ طبع ۲۰۰۴ء ۳۱.البقره: ۹ تا ۱۵ ۳۲.النساء : ۱۴۶ ۳۳.البقرہ : ۲۰ - ۲۱ ۳۴.الحجرات : ۱۵-۱۶ ۳۵ - التوبة : ۱۰۱ ۳۶ صحیح البخاری.کتاب الایمان - باب عَلَامَةِ المُنَافِقِ - ۲۴ ۳۷.البقرہ : ۴ ۳۸.البقره: ۲۸۷ مضامین بشیر

Page 351

۳۴۴ مضامین بشیر

Page 352

۳۴۵ ١٩٣٩ء مضامین بشیر وو مذہبی اصطلاحات کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت خاتم المناظرین کی غلط اصطلاح اس جلسہ سالانہ کے ایام میں میری نظر سے ایک اشتہار گز را.جس میں ملک عبد الرحمن صاحب خادم بی اے.ایل.ایل.بی گجرات کی تصنیف کردہ پاکٹ بک کے جدید ایڈیشن کا اعلان تھا.یہ اشتہار ایک احمدی کتب فروش کی طرف سے تھا اور جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا خادم صاحب کی اطلاع کے بغیر شائع کیا گیا تھا.اس اشتہار میں کتب فروش صاحب نے خادم صاحب کے متعلق خاتم المناظرین کے الفاظ استعمال کئے تھے.جس سے ان صاحب نے غالبا یہ مراد لی تھی کہ خادم صاحب سلسلہ کے بہترین مناظر ہیں.مجھے اس وقت اس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں کہ سلسلہ کا بہترین مناظر کون ہے لیکن اگر سلسلہ کے موجودہ مناظرین میں سے خادم صاحب کو ہی بہترین مناظر فرض کر لیا جائے تو پھر بھی کسی فردِ جماعت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ سلسلہ کے مناظرین پر قاضی اور حاکم بن کر کسی شخص کے متعلق یہ اعلان کرتا پھرے کہ وہ سلسلہ کا بہترین مناظر ہے.کیونکہ اول تو یہ فیصلہ بہت بھاری ذمہ داری کا کام ہے، جسے اٹھانا آسان بات نہیں.علاوہ ازیں اس سے فتنوں کے پیدا ہونے کا بھی احتمال ہوتا ہے، جس سے بہر صورت پر ہیز لازم ہے.پس اگر فرض کے طور پر خاتم المناظرین کے وہی معنی سمجھ لئے جائیں ، جو غالباً کتب فروش صاحب نے مراد لئے ہیں ، پھر بھی اس قسم کا اعلان سراسر نا مناسب اور نا واجب ہے اور اس میں سلسلہ کے ان علمائے کرام کی بھی ہتک ہے جو اس وقت سے کہ ابھی خادم صاحب غالباً پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ، سلسلہ کی قلمی اور لسانی خدمت میں مصروف چلے آئے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خود خادم صاحب کو بھی ہر گز ان معنوں میں بھی اس لفظ کے استعمال سے اتفاق نہیں ہو گا.

Page 353

مضامین بشیر ۳۴۶ لیکن اس وقت جس بات کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ اور ہے.احباب کو معلوم ہے ہمارے لٹریچر میں ” خاتم کا لفظ ایک معرکۃ الآرا لفظ رہا ہے اور آیت خاتم النبین کی تشریح کے تعلق میں اس لفظ کی حقیقت بالکل عیاں اور واضح ہو چکی ہے اور خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات میں بھی اس لفظ کے متعلق بہت کافی بحث 66 گزرچکی ہے.پس ہمارے لئے یہ لفظ کوئی نیا لفظ نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ اگر کوئی جماعت اس لفظ کے حقیقی معنوں سے واقف ہے تو وہ صرف احمدی جماعت ہے.ان حالات میں جماعت کے دوستوں پر اس لفظ کے استعمال کے متعلق بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور یقیناً اگر ہم لوگ اس لفظ کو غلط طور پر استعمال کریں تو یہ ایک نہایت ہی قابل افسوس فعل ہو گا.جیسا کہ ہر احمدی کو معلوم ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کی تشریح کے مطابق ” خاتم سے مراد وہ برگزیدہ انسان ہے جو کسی فن میں ایسا کمال پیدا کرے کہ نہ صرف وہ تمام گزشتہ لوگوں پر سبقت لے جائے بلکہ آئندہ آنے والے لوگ بھی سب کے سب اس کے خوشہ چین بن جائیں اور کوئی شخص اس کی شاگردی کے بغیر اس میدان میں کمال پیدا نہ کر سکے.اب کتب فروش صاحب غور کریں کہ کیا وہ خادم صاحب کو فن مناظرہ میں ایسا ہی با کمال سمجھتے ہیں کہ نہ صرف وہ تمام گزشتہ اور موجودہ مناظرین پر سبقت لے جاچکے ہوں بلکہ آئندہ کے لیئے بھی قیامت تک کوئی شخص جو مناظرہ کے فن میں کمال پیدا کرنا چاہے ، ان کے تلمذ کے بغیر اس عزت کو حاصل نہیں کر سکتا.یقیناً وہ خادم صاحب کو ایسا نہیں سمجھتے ہوں گے ، اور اگر ایسا سمجھتے ہیں تو لا ریب وہ سخت غلطی خوردہ ہیں.حق یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی فن میں خاتم" کا لقب دنیا یہ صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے اور اس کے بغیر کوئی اس بات کا حقدار نہیں کہ کسی شخص کو اس نام سے یاد کرے.اسلام اور احمدیت کے لٹریچر میں یہ لقب صرف دو ہستیوں کے متعلق استعمال ہوا ہے اور دونوں صورتوں میں اسے خود ذات باری تعالیٰ نے استعمال کیا ہے اور ان کے استعمال کے ساتھ خدا تعالیٰ نے اس کی تائید میں دلائل کا ایک ایسا سورج چڑھا دیا ہے کہ ہر دیکھنے والا جانتا اور سمجھتا ہے کہ حق حقدار کو پہونچا ہے یعنی ایک تو قرآن شریف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خاتم النبیین کا لفظ استعمال کیا ہے اور دوسرے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق خاتم الاولیاء کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ دونوں تیرا یسے نشانہ پر بیٹھے ہیں کہ صاف نظر آ رہا

Page 354

۳۴۷ مضامین بشیر ہے کہ یہ لفظ ازل سے ان ہی بزرگ ہستیوں کے لئے وضع ہوئے تھے اور جیسا کہ سب دوست جانتے ہیں ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق خاتم النبیین کے یہ معنی کئے ہیں کہ آپ نے نبوت کے کمالات کو اس درجہ کمال اور اتم صورت میں اپنے اندر جمع کیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ کوئی گزشتہ نبی اس مقام کو نہیں پہونچا اور سب نبو تیں آپ کی نبوت کے سایہ کے نیچے ہیں بلکہ آئندہ بھی کوئی شخص نبوت کے فیض سے فیضیاب نہیں ہو سکتا.جب تک کہ وہ یہ نور آپ کی وساطت سے حاصل نہ کرے اور اپنے متعلق ” خاتم الاولیاء کے لفظ کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کی ہے کہ آپ کے اندر ولایت کے کمالات اپنے معراج کو پہونچ گئے ہیں اور آئندہ کوئی شخص ولایت کے رتبہ کو آپ کی اتباع کے بغیر نہیں پا سکتا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- ,, وَإِنِّي عَلى مَقَامِ لْخَتُمِ مِنَ الْوِلَايَةِ كَمَا كَانَ سَيِّدِي الْمُصْطَفَى عَلى مَقَامِ الْخَتَمِ مِنَ النُّبُوَّةِ وَإِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنَا خَاتَمُ الْأَوْلِيَاءِ لَا وَلِيُّ بَعْدِي إِلَّا الَّذِى هُوَ مِنِّى وَعَلَى عَهْدِى.وَإِنَّ قَدَمِي هذِهِ عَلَى مَنَارَةٍ خُتِمَ عَلَيْهَا كُلُّ رِفْعَةٍ.یعنی میں ولائت کے میدان میں ختم کے مقام پر فائز ہوں جس طرح میرا سردار محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت کے میدان میں ختم کے مقام پر فائز تھا کیونکہ وہ خاتم الانبیا ء تھا اور میں خاتم الاولیاء ہوں.پس میرے بعد کوئی ولی نہیں آ سکتا.مگر وہی جو مجھ میں ہو کر ظاہر ہو اور میری اتباع کا جوا اپنی گردن پر رکھے اور میرا یہ قدم ایک ایسا مینار پر قائم ہے کہ جس پر تمام بلندیاں ختم ہو گئی ہیں.“ پس ہم تو صرف ان دو ختمیتیوں کے قائل ہیں اور ان کے سوا جو شخص خدا کے حکم کے بغیر کسی ختمیت کا دعویدار بنتا ہے، خواہ اپنے لئے اور خواہ کسی اور کے لئے وہ یقیناً جھوٹا اور غلطی خوردہ ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست آئیندہ ان الفاظ کے استعمال کرنے میں جو ہمارے لٹریچر میں ایک مقدس مذہبی اصطلاح کے طور پر قائم ہو چکے ہیں ، بہت احتیاط سے کام لیں گے کیونکہ ایسے الفاظ کا غلط استعمال نہ صرف استعمال کرنے والے کو گنہ گار بناتا ہے بلکہ جماعت میں بھی فتنہ کا دروازہ کھولتا ہے.اور ان بلند مرتبہ اصطلاحات کی ہتک کا باعث بنتا ہے جن کو خود خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے تقدس اور رفعت کی چادر پہنائی ہے.

Page 355

مضامین بشیر ۳۴۸ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.آخر میں میں یہ بات پھر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس لفظ کے استعمال میں خود خادم صاحب کا کوئی دخل نہیں تھا بلکہ ان کو اس کا علم بھی اس وقت ہوا جبکہ یہ اشتہار شائع ہو چکا تھا اور اس کے شائع ہونے پر انہوں نے بھی اسے اسی طرح بُرا منایا جس طرح ایک با غیرت احمدی کو بُرا منانا چاہیئے تھا.پس جیسا کہ انہوں نے خود مجھے بتایا ہے ان کا دامن اس غلطی کے ارتکاب سے پاک ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہمیں ہر قسم کی ظاہری اور باطنی کمزوریوں سے محفوظ رکھ کر اپنی رضا کے رستوں پر چلنے کی توفیق دے.آمین (مطبوعہ الفضل کے جنوری ۱۹۳۹ء)

Page 356

۳۴۹ مضامین بشیر مسجد اقصیٰ اور مسجد مُبارک کے لئے چندہ کی تحریک احباب کو معلوم ہے کہ قادیان کی مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک جماعت احمدیہ کی خاص طور پر مقدس اور برکت والی مسجدیں ہیں جن میں سے مسجد اقصیٰ کی بنیا دتو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد ماجد نے اپنی عمر کے آخری ایام میں رکھی اور اسی کے ایک حصہ میں وہ مدفون ہیں.اور مسجد مبارک کی بنیاد خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ کی اشاعت کے زمانہ میں اپنے ہاتھ سے رکھی اور آپ ساری عمران ہر دو مساجد کو استعمال فرماتے رہے.علاوہ ازیں ان مساجد کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ مسجد مبارک کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ الہام نازل فرمایا کہ:- مُبَارِک وَمُبَارِكٌ وَكُلُّ أَمْرٍ مُبَارَكِ يَجْعَلُ فِيهِ ۳ یعنی یہ مسجد نہ صرف خود برکت والی مسجد ہے بلکہ برکت دہندہ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں ہر قسم کے مبارک کام ہوتے رہیں گے.“ دوسری طرف مسجد اقصیٰ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود مسجد اقصیٰ کا نام دے کر اس کی اخص برکات کی طرف اشارہ فرما دیا ہے.اور اس کے اندر مینارہ اسیح جیسی عظیم الشان یادگار کے تعمیر ہونے سے بھی اس مسجد کو ایک لازوال خصوصیت حاصل ہوگئی ہے.پس یقیناً قادیان کی یہ دو مسجد میں سلسلہ کے بہت بڑے نشانات میں سے ہیں اور عظیم الشان شعائر اللہ میں داخل ہیں اور ان کی آبادی اور تکریم اور توسیع جماعت کے اہم فرائض میں سے ہے.چونکہ قادیان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ایک عرصہ سے ان مساجد میں جگہ کی تنگی محسوس ہو رہی تھی.اس لئے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ان کی توسیع کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس غرض سے جماعت کے دوستوں میں خاص چندہ کی تحریک کی گئی تھی جس سے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار روپیہ چندہ وصول ہوا تھا مگر جب توسیع کے کام کو عملاً شروع کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ چندہ بالکل غیر مکتفی تھا.چنانچہ اس رقم سے مسجد اقصیٰ کی توسیع ہی مکمل نہیں ہوسکی اور ابھی مسجد مبارک کی توسیع کلیۂ باقی ہے.زیادہ خرچ کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ چونکہ مسجد اقصیٰ کی نچلی منزل میں سٹور اور گودام وغیرہ کے لئے تہہ خانے بنائے گئے اور بھاری بھاری گارڈر ڈالے گئے اس لئے عمارت کا خرچ بڑھ گیا.لہذا مزید چندہ کی ضرورت پیش آئی.اس چندہ کے لئے حضرت

Page 357

مضامین بشیر ۳۵۰ امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز خود بنفس نفیس جلسہ کے ایام میں تحریک فرما چکے ہیں.چنانچہ جلسہ سے قبل جو جمعہ آیا تھا اس کے خطبہ میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کے چندہ کے لئے خاص طور پر پر زور تحریک فرمائی تھی.یہ خطبہ اخبار " الفضل‘ میں چھپ چکا ہے اور احباب خطبہ کے مضمون سے آگاہ ہو چکے ہیں.اس کے بعد مسجد مبارک کی توسیع کے لئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس پبلک جلسہ میں تحریک فرمائی جو مورخہ ۳ جنوری کو جلسہ کے اختتام پر منعقد ہوا تھا.اس تقریر میں حضور نے مسجد مبارک کے لئے چندہ کے لئے ایک خاص سکیم تجویز فرمائی تھی اور وہ یہ کہ ہر کمانے والا بالغ مرد مسجد مبارک کے لئے کم از کم ایک آنہ فی کس کے حساب سے اور زیادہ سے زیادہ دس روپے فی کس کے حساب سے چندہ دے.یعنی کسی کمانے والے مرد سے ایک آنہ سے کم چندہ وصول نہیں کیا جائے گا.اور نہ ہی دس روپے سے زیادہ چندہ قبول کیا جائے گا تا کہ کوئی فرد جماعت اس چندہ سے باہر نہ رہ جائے اور نہ ہی کسی پر اس چندہ کا کوئی غیر معمولی بوجھ پڑے.جن بچوں اور عورتوں کی اپنی کوئی آمد نہیں ہے ان کے لئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ وہ کم از کم ایک پیسہ فی کس کے حساب سے چندہ دیں اور اگر وہ نہ دے سکتے ہوں تو ان کی طرف سے بچوں کے والدین یا عورتوں کے خاوند چندہ ادا کریں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہر دو تحریکات کے پیش نظر اعلان کیا جاتا ہے کہ تمام مقامی جماعتوں کے کارکن اپنی اپنی جگہ ان تحریکات کو پہونچا کر جلد تر چندہ کی وصولی کا انتظام کریں اور جملہ چندہ جو جمع ہو وہ محاسب صدر انجمن احمد یہ قادیان کے نام بھجوایا جائے اور ساتھ ہی یہ تصریح کردی جائے کہ یہ چندہ مسجد اقصیٰ یا مسجد مبارک کے لئے ہے.یہ کام خاص کوشش کے ساتھ ایک دو ماہ کے اندر اندر ہو جانا چاہیئے تا کہ ہم اپنے امام کی آواز پر جلد تر لبیک کہنے والے قرار دیے جائیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بیش از پیش انعامات کے وارث ہوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہوا اور اپنی رضا کے رستوں پر چلنے کی توفیق دے.آمین ( مطبوعه الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۳۹ء)

Page 358

۳۵۱ مضامین بشیر مسجد مبارک کے متعلق البام کی تصحیح ہیں کل کے اخبار الفضل میں میرا ایک نوٹ مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک کے چندہ کی تحریک کے لئے شائع ہوا ہے.اس میں کاتب صاحب کی غلطی اور صبح صاحب کی سہل انگاری سے مسجد مبارک کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام غلط چھپ گیا ہے.چونکہ اس الہام کے متعلق بہت سے دوست غلطی کھاتے ہیں اس لئے اسے صحیح صورت میں شائع کیا جاتا ہے.تا کہ آئیندہ غلطی نہ ہو.اصل الہام یہ ہے :- مُبَارَكٌ وَمُبَارِكٌ وَكُلُّ اَمْرٍ مُبَارَكِ يُجْعَلُ فِيهِ.یعنی پہلے مبارک کی رپر زبر ہے دوسرے کی رکے نیچے زیر ہے.اور تیسرے پر پھر زبر ہے.علاوہ ازیں پہلے دو مبارک کے ک کے اوپر رفع کی تنوین ہے.اور تیسرے مبارک کے نیچے تنوین ہے.اور جعل کا لفظ بصیغہ مجہول ہے.اور معنی اس الہام کے یہ ہیں کہ یہ مسجد نہ صرف خود برکت والی ہے یعنی برکت یافتہ ہے.بلکہ برکت دینے والی بھی ہے.یعنی برکت دہندہ ہے اور اس مسجد میں ہر قسم کے برکت والے کام ہوتے رہیں گے.“ امید ہے آئندہ دوست اس الہام کو اچھی طرح یا درکھیں گے اور اس کے متعلق کسی غلطی میں مبتلا نہیں ہوں گے.( مطبوعه الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۳۹ء) نوٹ از مرتب : معلوم ہوتا ہے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کو یہ نوٹ لکھتے ہوئے ذہول ہوا ہے.کتاب ھذا کے صفحہ ۳۴۹ پر مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک کے لئے چندہ کی تحریک کے زیر عنوان یہ الہام جس طرح شائع ہوا ہے وہ درست اور صحیح ہے اور روحانی خزائن

Page 359

مضامین بشیر ۳۵۲ خلافت جوبلی فنڈ کے متعلق جماعت کی ذمہ واری بکوشید اے جواناں تا بہ دیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا ۵ شکر گزاری کا خاص موقع خلافت جو بلی فنڈ کی تکمیل کا وقت اب بہت قریب آرہا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ۱۴ مارچ ۱۹۳۹ء کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی خلافت کے پچیس سال پورے کرلیں گے.اور حسنِ اتفاق سے اسی ماہ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے قیام پر بھی پچاس سال کا عرصہ پورا ہورہا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلی بیعت مارچ ۱۸۸۹ء میں لی تھی.اس طرح یہ سال ہمارے لئے دوہری خوشی کا سال ہے اور چونکہ مومن کی خوشی بھی عبادت اور شکر گزاری کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے، اس لئے ہمیں چودھری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب کا ممنون ہونا چاہیئے کہ انہوں نے اس موقع پر خلافت جو بلی فنڈ کی تحریک کر کے جماعت کو اس اہم شکر گزاری میں حصہ لینے کا موقع دیا.جذ بہ شکر گزاری کا عملی ثبوت چودھری صاحب نے اس کے لئے تین لاکھ روپے کی تحریک کی ہے.اس رقم کی تعیین میں جماعت کا مشورہ شامل نہیں تھا اور نہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ رقم کا فیصلہ کرتی یا یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے چندوں کے پیش نظر اس سے کم رقم کا فیصلہ کرتی مگر بہر حال جب ہمارے معزز محرک صاحب نے ایک رقم کی تعین فرما دی ہے اور اس میں سے ایک تہائی رقم کے جمع کرنے کی خود ذمہ واری لی ہے تو اب جماعت کا فرض ہے کہ وہ بقیہ دولاکھ کی رقم کو وقت کے اندر اندر پورا کر کے اپنے جذ بہ شکر گزاری کا عملی ثبوت پیش کرے.یہ درست ہے کہ اس سال چندوں کا غیر معمولی بوجھ جمع ہو گیا ہے.چنانچہ چندہ عام اور چندہ تحریک جدید ، چندہ جلسہ سالانہ کے علاوہ اس سال صدرانجمن

Page 360

۳۵۳ مضامین بشیر احمدیہ کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے چندہ خاص اور پھر مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک اور مینارۃ المسیح کے لئے خاص تحریکات ہو رہی ہیں اور جماعت کی مالی طاقت نہایت محدود ہے.اس لیئے اس موقع پر خلافت جو بلی فنڈ کے چندے کی تحریک یقیناً جماعت کے لئے ایک بھاری بوجھ کا باعث سمجھی جاسکتی ہے لیکن یہ بوجھ بہر حال جماعت نے ہی اٹھانے ہیں اور قربانی کے جس مقام پر جماعت کو کھڑا کیا گیا ہے، اس کے پیش نظر یہ بوجھ کوئی حقیقت نہیں رکھتے.ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ سلسلہ کا مال ہے.اور ہمارا احمدیت کے عہد کو قبول کرنا یہی معنی رکھتا ہے کہ ہم نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو اپنے مالوں کا مالک نہیں بلکہ صرف امین خیال کریں گے اور خدا کی طرف سے آواز آنے پر اپنے اموال کی پائی پائی لا کر سلسلہ کے قدموں میں ڈال دیں گے.یہی وہ رُوح ہے جو خدا ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہی وہ رُوح ہے جو ہمیں کامیابی کا مونہہ دکھا سکتی ہے.عظیم الشان ذمہ واری کو پہچانیں پس اب جبکہ خلافت جو بلی کا وقت قریب آ رہا ہے.میں دوستوں سے یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس بارے میں اپنی عظیم الشان ذمہ واری کو پہچانیں اور ایسی قربانی کا نقشہ پیش کریں جو ان کی شان کے مطابق ہے.شان سے میری مراد مالی شان نہیں ہے کیونکہ مالی لحاظ سے تو ہم ایک بہت غریب جماعت ہیں بلکہ شان سے میری مراد ایمان کی شان ہے.جس کے آگے کوئی قربانی بڑی نہیں سمجھی جا سکتی.بعض لوگ یہ خیال کرتے ہوں گے کہ ان کے پاس کوئی روپیہ نہیں میں کہتا ہوں کہ اگر نقد روپیہ نہیں ہے تو اکثر لوگوں کے پاس کچھ نہ کچھ جائیداد تو ہے خواہ وہ زمین اور مکان کی صورت میں ہو یا زیور وغیرہ کی صورت میں.پس جس شخص کے پاس کوئی جائداد ہے وہ بھی اسی طرح اس ذمہ داری کے نیچے ہے جس طرح کہ نقد روپے والا اس کے نیچے ہے.اگر ہم اپنے بیاہ شادیوں کے موقع پر اپنی جائدادوں کا ایک حصہ رہن یا بیع کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ سلسلہ کی ایک خاص خوشی کے موقع پر جو گو یا جماعت کی شادی کا موقع ہے ہم اپنی خوشی اور ایمان کے مطابق خرچ نہ کریں.خصوصاً جبکہ افراد کی شادی کے موقع پر خرچ کیا ہوا روپیہ ضائع چلا جاتا ہے مگر یہ روپیہ سلسلہ کی ضروریات پر خرچ ہو گا اور انشاء اللہ قیامت تک کے لئے صدقہ جاریہ کا کام دے گا.پس اے دوستو! اپنی ذمہ واری کو پہچا نو اور اپنے ایمان اور اخلاص کے امتحان کے لئے تیار ہو جاؤ.دشمن کی نظر ہمارے اوپر ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ تم اپنے پیارے سلسلہ اور خلافت حقہ کے

Page 361

مضامین بشیر ۳۵۴ لئے قربانی کا کیا نمونہ دکھاتے ہو.سلسلہ کے کام تو بہر حال ہوکر رہیں گے.کیونکہ یہ ایک ازل سے جاری شدہ آسمانی قضاء ہے جو ہر گزٹل نہیں سکتی.مگر مبارک ہے وہ جو اس آسمانی قضاء کی تکمیل میں حصہ دار بنتا ہے.وہ دنیا میں خدا ہی کے دیئے ہوئے مال سے کچھ تھوڑا سا مال خدا کو واپس دے کر اپنے لیئے نہ صرف دنیا میں لسان صدق حاصل کرتا ہے بلکہ جنت میں بھی ایک ایسے مکان کی بنیاد رکھتا ہے جسے کبھی زوال نہیں.اللہ تعالیٰ ہماری آنکھیں کھولے اور ہمیں اس قربانی کی توفیق دے جو خدا کی آخری جماعت کے شایانِ شان ہے.اے اللہ ! تو ایسا ہی کر اور ہمیں اپنے فضل.دنیا و آخرت میں کامل سرخروئی عطا فرما کیونکہ کوئی توفیق تیرے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی.امين اللهم امين جو بلی فنڈ کہاں خرچ ہوگا بعض لوگ دریافت کیا کرتے ہیں کہ خلافت جو بلی فنڈ کا چندہ کہاں خرچ ہوگا.اس کا یہ جواب ہے جو سب دوستوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ رقم جمع کر کے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سامنے پیش کر دی جائے گی اور پھر حضور اسے سلسلہ کے مفاد میں جس طرح پسند فرمائیں گے خرچ فرمائیں گے.یعنی اس کے خرچ کے متعلق چندہ پیش کرنے والوں کی طرف سے کوئی حد بندی یا قید نہیں ہوگی کہ ضرور فلاں مد میں خرچ کی جائے.یعنی ایسا نہیں ہوگا کہ مثلاً یہ روپیہ ضرور سلسلہ کی تبلیغ میں خرچ کیا جائے یا ضرور جماعت کی تعلیم و تربیت میں خرچ کیا جائے.وغیر ذالک بلکہ خرچ کی مدیا مدات کا فیصلہ کرنا کلیۂ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اختیار میں ہو گا کہ خواہ وہ اسے تبلیغ میں خرچ فرما ئیں یا تعلیم و تربیت میں خرچ فرمائیں یا جماعت کے بیت المال کی مضبوطی میں خرچ فرمائیں یا مرکز سلسلہ کی مضبوطی میں خرچ فرما ئیں یا کسی اور مد میں جسے حضور پسند فرما ئیں اسے خرچ کریں.اس معاملہ میں جماعت کی طرف سے کوئی شرط یا حد بندی نہیں ہوگی اور جماعت کو بہر حال یہ یقین رکھنا چاہیئے اور اسے یہ یقین ہے کہ حضور اس رقم کو اس سے بہتر مصرف میں لائیں گے جو جماعت خود مقرر کر سکتی ہے.قادیان کے دوستوں سے مجھے اپنے مفوضہ کام کے لحاظ سے چونکہ صرف قادیان کی مقامی جماعت کے چندہ سے تعلق ہے اس لئے میں اس موقع پر قادیان کے دوستوں کی خدمت میں خصوصیت کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں

Page 362

۳۵۵ مضامین بشیر کہ وہ اس بارے میں اپنی ذمہ واری کو پہچا نہیں بلکہ دراصل ان کی ذمہ واری جماعت کے دوسرے حصہ سے بھی زیادہ ہے کیونکہ وہ مرکز میں رہتے ہیں اور سلسلہ اور خلافت کی شکر گزاری کا بوجھ سب سے زیادہ ان کے کندھوں پر ہے.مجھے یہ خوشی ہے کہ قادیان کی جماعت نے اپنے ابتدائی وعدہ سے بڑھ کر رقم جمع کرنے کا عہد کیا ہے اور خدا کے فضل سے اس وقت تک چالیس ہزار کے قریب وعدے ہو چکے ہیں.حالانکہ ابتداء میں صرف پچیس ہزار کا اندازہ تھا مگر مومن کا قدم کہیں نہیں رکھتا اور اگر خدا تعالیٰ قادیان کے دوستوں کو اس سے بھی بڑھ کر قربانی کی توفیق دے تو یہ ان کی مزید سعادت ہوگی.علاوہ ازیں ہمارے مقامی کارکنوں کو چاہیئے کہ وہ اب وصولی کی طرف زیادہ توجہ دیں کیونکہ وصولی کی ذمہ واری وعدہ لکھانے کی ذمہ واری سے بھی زیادہ ہے.کیونکہ وعدہ کی ذمہ واری سے عہدہ برائی صرف اس صورت میں سمجھی جاسکتی ہے کہ جب ہم اپنے وعدہ کے مطابق عملاً رقم ادا کر دیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی جملہ ذمہ واریوں کو بصورت احسن ادا کرنے کی توفیق دے اور ہمیں اس راستہ پر چلائے جو اس کی خوشنودی اور سلسلہ کی بہتری کا راستہ ہے.آمین واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين ( مطبوعه الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۳۹ء)

Page 363

مضامین بشیر ۳۵۶ خلافت جو بلی کب اور کس طرح منائی جائے؟ احباب کے مشورہ کی ضرورت اب خلافت جو بلی کا وقت بہت قریب آگیا ہے اور طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جو بلی کو کب اور کس رنگ میں منایا جائے.حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خلافت پر پچیس سال کی معیاد ۱۴ مارچ ۱۹۳۹ء کو پوری ہوگی مگر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جس دن کوئی معیاد پوری ہو اسی دن جو بلی منائی جائے بلکہ معیاد کے پورا ہونے کے بعد کوئی مناسب وقت مقرر کیا جا سکتا ہے.اس بارے میں ایک تجویز یہ ہے کہ ۱۹۳۹ء کے جلسہ سالانہ کو ہی جو بلی کے لئے مخصوص کر دیا جائے.گویا یہ جلسہ خلافت جو بلی کا جلسہ ہو.اس تجویز میں ایک خوبی یہ ہے کہ سال میں دو اجتماعوں کی بجائے ایک ہی اجتماع دونوں غرضوں کے لئے کافی ہو جائے گا.اور چونکہ جلسہ کے لئے پہلے سے اجتماع ہوتا ہے.اس لئے اسے مزید وسعت دینے سے دوسری غرض آسانی کے ساتھ پوری ہو جائے گی اور جماعت دو سفروں کی تکلیف اور دوہرے اخراجات کے بوجھ سے بچ جائے گی.دوسرے چونکہ دسمبر کے آخری میں زیادہ چھٹیاں ہوتی ہیں اور ان ایام میں زمیندار احباب بھی زیادہ فارغ ہوتے ہیں.اس لئے زمیندار پیشہ اور ملازمت پیشہ ہر دوطبقوں کو سہولت رہے گی.علا وہ ازیں چونکہ جلسہ میں ابھی کافی وقت ہے اس لئے جو بلی کے پروگرام کی تیاری میں بھی آسانی ہوگی اور ہر انتظام سہولت اور خوبی کے ساتھ تکمیل کو پہونچ سکے گا.ایک اور فائدہ اس میں یہ ہوگا کہ جو دوست اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے مارچ ۱۹۳۹ ء تک جو بلی کا چندہ ادا نہیں کر سکتے اور اس وجہ سے وہ اس تحریک میں چندہ کا وعدہ لکھانے سے رُکے ہوئے ہیں ، انہیں بھی اس کارخیر میں حصہ لینے کا موقع مل جائے گا.پس احباب اس معاملہ میں اپنے مشورہ سے مرکز کو مطلع فرمائیں اور ایسی اطلاع ناظر صاحب اعلیٰ قادیان کے نام آنی چاہیئے کیونکہ وہی اس کام کے نگران اور منتظم اعلیٰ ہیں مگر یہ یا درکھنا چاہیئے کہ جب تک اس بارے میں کسی فیصلہ کا اعلان نہ ہو ، دوستوں کو اپنی جد و جہد اسی اندازہ کے

Page 364

۳۵۷ مضامین بشیر مطابق جاری رکھنی چاہئے کہ گویا مارچ یا اپریل میں ہی جو بلی ہوگی اور اپنی کوششوں کوست نہیں ہونے دینا چاہیئے.دوسرا سوال یہ ہے کہ خلافت جو بلی کو منا یا کس طرح جائے.منانے کا لفظ میں نے عرف عام کے خیال سے لکھا ہے ورنہ مذہبی تقریبوں کے لئے یہ لفظ زیادہ موزوں نہیں.بہر حال سوال ہے کہ اس تقریب کی یادگار کو ظاہری شکل وصورت کیا دی جائے.سو اصولی لحاظ سے تو یہ ایک فیصلہ شدہ بات ہے کہ ہمارا اس جو بلی کو منانا اس رنگ میں نہیں ہوگا.جس طرح کہ دُنیا داروں کی جو بلیاں منائی جاتی ہیں بلکہ ہمارا اس تقریب کو منانا بھی ایک خالص مذہبی رنگ میں ہوگا.جس میں سلسلہ حقہ کی تبلیغ واشاعت اور اس کا استحکام اور خدا کے فضلوں پر شکر گزاری اصل مقصود ہوں گے.جہاں تک سرسری طور پر خیال کیا جاتا ہے یہ تقریب مندرجہ ذیل صورتوں میں منائی جا سکتی ہے:.ا.قادیان میں ایک پبلک جلسہ نہایت وسیع پیمانہ پر منعقد کیا جائے.اس کے لئے سلسلہ حقہ اور خلافت ثانیہ کے متعلق خاص تقاریر کا پروگرام ہو اور اس کی شرکت کے لئے ہندوستان کے مختلف حصوں سے بلکہ ممکن ہو تو بیرونی ممالک سے بھی کثیر تعداد میں غیر احمدی اور غیر مسلم احباب کو قادیان آنے کی دعوت دی جائے اور یہ بھی کوشش کی جائے کہ احمدی احباب بھی اس جلسہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوں.اس جلسہ کو حسب دستور زنانہ اور مردانہ ہر دوحصوں میں تقسیم کیا جائے.۲.اس تقریب پر سلسلہ کی طرف سے ایک مختصر رسالہ تصنیف کرا کے شائع کیا جائے جس میں سلسلہ کی مختصر تاریخ ، اس کے مخصوص مذہبی عقائد ، اس کی غرض وغایت اور اس کے نظام وغیرہ کے متعلق مؤثر اور دلکش پیرایہ میں حالات درج ہوں.یہ کتاب نہایت خوبصورت شکل میں طبع کرائی جائے.اور جو بلی کے موقع پر جو غیر احمدی اور غیر مسلم مہمان قادیان آئیں انہیں جماعت کی طرف سے ہدیۂ دی جائے لیکن احمدیوں میں قیمت فروخت ہوتا کہ اس کا خرچ نکل آئے.۳.اس تقریب پر الفضل“ کا ایک خاص جو بلی نمبر بھی نکالا جائے جس میں خلافت سے تعلق رکھنے والے مسائل پر بحث ہو.اور خلافت ثانیہ کی برکات پر بھی مناسب مضامین ہوں اور کچھ حصہ سلسلہ کے متعلق عام تبلیغی اور علمی مضامین کا بھی ہو.اور اگر ممکن ہو تو اس جو بلی نمبر میں مناسب تصاویر بھی درج کی جائیں.یہ اخبار کم از کم دس ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا کہ ایک رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ منشاء مبارک بھی پورا ہو جائے ، جو حضور علیہ السلام نے سلسلہ کے ایک رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے متعلق ظاہر فرمایا تھا کہ وہ دس ہزار کی

Page 365

مضامین بشیر ۳۵۸ تعداد میں شائع ہو.۴.اس موقع پر یادگار کی غرض سے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فوٹو بھی لیا جائے جس میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ رونق افروز ہوں.اسی طرح اس فوٹو میں وہ اصحاب بھی شریک ہوں جنہوں نے خلافت جو بلی فنڈ میں اپنی ماہوار آمد سے کم از کم ڈیڑھ گنا چندہ دیا ہو.اگر ایک فوٹو کے لئے یہ تعداد زیادہ کبھی جائے تو صحابہ اور چندہ دہندگان کا الگ الگ فوٹو لے لیا جائے اور ہر دو میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ سے شرکت کی درخواست کی جائے.۵.اس تقریب پر جلسے کی درمیانی شب کو قادیان کی تمام مساجد منارۃ اصیح اور سلسلہ کی دیگر پبلک عمارات پر چراغاں کیا جائے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی بعض خوشی کے موقعوں پر ہوا ہے.یہ چراغاں خوشی کے طبعی اظہار کے علاوہ تصویری زبان میں اس بات کی بھی علامت ہوگا کہ جماعت کی یہ دلی خواہش اور کوشش ہے کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کے نور کو بہتر سے بہتر صورت میں اور جلد سے جلد دنیا کے سارے کناروں تک پہونچائے.۶.اس تقریب پر جماعت کے نادار یتامیٰ اور بیوگان اور مساکین کی بھی کسی مناسب رنگ میں امداد کی جائے یا کھانا کھلایا جائے جس کی تفصیل بعد میں سوچی جاسکتی ہے.ے.اس تقریب پر نیشنل لیگ کور اور خدام الاحمدیہ کا بھی قادیان میں ایک شاندار اجتماع کیا جائے اور مناسب صورت میں ان ہر دو کے مفید کاموں کی نمائش ہو..اگر ممکن ہو تو اس موقع پر قادیان میں ایک عظیم الشان جلوس بھی نکالا جائے جس میں ہر جماعت کا علیحدہ علیحدہ دستہ ہو اور ہر دستہ کا علیحدہ علیحدہ جھنڈا ہو جس پر مناسب عبارت لکھی ہو اور اس جلوس میں حمد اور مدع کے گیت گائے جائیں اور مناسب موقعوں پر مختصر تقریریں بھی ہوں.اس کی تفاصیل بعد میں سوچی جاسکتی ہیں.۹.اس تقریب پر قادیان میں ایک پاکیزہ مشاعرہ بھی منعقد کیا جائے جس میں سلسلہ کے چیدہ شعراء سلسلہ احمدیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلافت کی برکات کے متعلق اپنے اپنے اشعار پڑھ کر سنائیں اور پھر ان میں سے خاص خاص نظموں کا مجموعہ طبع کر کے شائع کر دیا جائے یا پہلے سے ہی انتخاب کرا کے طبع کر لیا جائے اور مشاعرہ کے موقع پر اسے شائع کر دیا جائے.۱۰.اگر ممکن ہو تو صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے اس تقریب پر یہ بھی انتظام کیا جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تصنیفات میں سے جو تصنیفات اس وقت نایاب ہوں انہیں دوبارہ طبع کرا کے شائع کیا جائے تا کہ اس قیمتی خزانہ میں

Page 366

۳۵۹ مضامین بشیر سے کوئی حصہ نایاب نہ رہے اور سلسلہ کی تبلیغ میں ایک نئی جان پیدا ہو جائے.ا.اس تقریب پر جماعت کی طرف سے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کیا جائے جس میں اخلاص و عقیدت کے اظہار کے ساتھ خلافت جو بلی فنڈ کے جمع شدہ روپیہ کا چیک پیش کیا جائے اور عرض کیا جائے کہ حضور اس روپیہ کو جس مصرف میں اور جس رنگ میں پسند فرمائیں خرچ فرما ئیں.۱۲.اگر یہ فیصلہ ہو کہ جلسہ سالانہ ۱۹۳۹ء کو ہی جو بلی کا جلسہ قرار دیا جائے تو اس جلسہ کا پروگرام تین دن کی بجائے چار یا پانچ دن کا رکھا جائے تاکہ سارا پروگرام آسانی کے ساتھ پورا ہو سکے.اسی طرح کے بعض اور کام بھی سوچے جا سکتے ہیں.پس اس بارہ میں بھی احباب کے مشورہ کی ضرورت ہے.جو ناظر صاحب اعلیٰ قادیان کے نام آنا چاہیئے.میرے نام پر جواب آنے کی ضرورت نہیں.کیونکہ میرا اس کام کے ساتھ محکمانہ تعلق نہیں ہے.محکمانہ تعلق ناظر صاحب اعلیٰ کا ہے.پس انہیں کے نام پر مشورہ آنا چاہیئے تا کہ وہ صدرانجمن میں معاملہ پیش کر کے فیصلہ کرسکیں اور ان کے پاس ریکارڈ بھی محفوظ رہے گا.( مطبوعه الفضل ۹ فروری ۱۹۳۹ء ) احباب کی خدمت میں ایک ضروری اطلاع گزشتہ سال مجھے قادیان کے حلقہ میں خلافت جو بلی فنڈ کے چندہ کی فراہمی کے لئے مقرر کیا گیا

Page 367

مضامین بشیر تھا اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں اور اس سے اتر کر دوستوں کا بھی شکر گزار ہوں کہ اس کام میں خدا کے فضل اور دوستوں کے مخلصانہ تعاون سے امید سے بڑھ کر کامیابی ہوئی.یعنی جہاں اس فنڈ کے تعلق میں قادیان کے ذمہ پچیس ہزار روپے کی رقم لگائی گئی تھی اور اس وقت کے حالات کے ماتحت یہ رقم بھی بہت بھاری سمجھی گئی تھی وہاں قادیان کے دوستوں نے عملاً چالیس ہزار اکیس روپے کے وعدے لکھائے اور میں ذاتی علم کی بناء پر جانتا ہوں کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے دوستوں کی ہے جنہوں نے یقیناً اپنی طاقت سے بڑھ کر حصہ لیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کو قبول فرمائے.اور مزید خدمت کی توفیق عطا کرے.آمین ان وعدوں میں سے اس وقت تک عملاً تمیں ہزار آٹھ سو چالیس روپے وصول ہو چکے ہیں.جن میں سے گیارہ ہزار آٹھ سو بانوے روپے ہمارے خاندان کی طرف سے ہیں.فالحمد للہ علی ذالک میں امید کرتا ہوں کہ جن دوستوں نے ابھی تک وعدے نہیں لکھوائے یا وعدہ لکھانے کے بعد ابھی تک ادا ئیگی نہیں کی ، وہ بہت جلد اس طرف توجہ دے کر عنداللہ ماجور ہوں گے.مگر یہ اعلان میں ایک اور غرض سے کر رہا ہوں اور وہ یہ کہ چونکہ انتظامی کاموں کی وجہ سے تصنیف کے کام میں ہرج واقع ہوتا ہے اور آج کل میرے سپر د تصنیف کا کام ہے.اس لئے کچھ عرصہ سے میں خلافت جو بلی کے کام کی طرف زیادہ توجہ نہیں دے سکا اور عملاً ناظر صاحب بیت المال ہی قادیان کے حلقہ کا کام سرانجام دے رہے ہیں.لہذا دوستوں کو چاہیئے کہ اس بارے میں جملہ خط و کتابت ناظر صاحب موصوف کے ساتھ فرمائیں تا کہ کام میں کسی قسم کی روک نہ پیدا ہو.ویسے بھی اصولاً تمام خط و کتابت عہدہ کے پتہ پر ہونی چاہیئے نہ کہ کسی خاص فرد کے نام پر.( مطبوعه الفضل ۲۰ جون ۱۹۳۹ء) احمد یہ جھنڈے کے متعلق بعض شبہات کا ازالہ ایک دوست نے احمد یہ جھنڈا لہرانے کی تجویز کے متعلق اعتراض لکھ کر روانہ کیا تھا کہ

Page 368

مضامین بشیر غیر اسلامی طریق ہے اور کانگرس وغیرہ کی نقل کی صورت معلوم ہوتی ہے.اس کا جواب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے مدظلہ العالی نے رقم فرما کر ارسال کیا ہے.جو افادہ عام کے لیے درج ذیل کیا جاتا ہے.(ایڈیٹر ) مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط مورخہ ۲۲ شوال ۱۳۵۸ھ موصول ہوا.افسوس ہے کہ آپ سلسلہ کے حالات سے پوری واقفیت نہیں رکھتے ورنہ جو بات آپ کے دل میں کھٹکی ہے وہ غالبا نہ کھٹکتی.جھنڈے کے لہرانے کا فیصلہ خود حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے گذشتہ مجلس مشاورت میں فرمایا تھا.آپ نے غالباً یہ فیصلہ نہیں پڑھا اور یا پڑھنے کے بعد بھول گئے.بہر حال اس حال میں کہ حضرت امیر المومنین نے خود فیصلہ فرمایا تھا کسی احمدی کے دل میں جھنڈا لہرانے کی تجویز بھٹکنی نہیں چاہیئے.جہاں تک میں اسلام کا منشاء سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب انسان اہم اور اصولی امور میں کسی طریق کی صداقت کا قائل ہو کر اسے اختیار کرلے تو پھر غیر اہم اور فروعی امور میں اپنی عقل کو ایک طرف رکھ کر بلا چون و چرا ہر معاملہ میں سرتسلیم خم کرتا جائے.یہی تشریح اس آیت کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِى اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا.! اگر ہر فروعی اور جزئی امر میں انسان یہ طریق اختیار کرنے لگے کہ پہلے میری تسلی ہونی چاہیئے.تب میں آگے چلوں گا تو پھر مذہب کے معاملہ میں ساری امان اٹھ جاتی ہے اور ہر قدم پر ٹھوکر اور لغزش کا سامان پیدا ہونے لگتا ہے.میں آپ کو نصیحت کروں گا کہ آپ اس طریق سے پر ہیز کریں اور اپنی طبیعت کو اس بات کا عادی بنائیں کہ جب آپ نے اسلام احمدیت اور خلافت کو اصولی طور پر علی وجہ البصیرت سچا پایا ہے تو پھر جزئی اور فروعی امور میں بالکل آنکھیں بند کر کے امنا و صدقنا کا طریق اختیار کریں.مجھے یاد ہے کہ ایک عرصہ ہوا آپ نے اس بارہ میں بھی ایک اعتراض لکھ کر بھیجا تھا کہ حضرت امیر المومنین کی کوٹھی پر حفاظت کے لئے کتے کیوں پالے جاتے ہیں.اب پھر اس قسم کی جزئی اور فروعی بات میں آپ کی طبیعت نے لغزش کھائی ہے.کیا آپ نے حضرت امیر المومنین ایده اللہ تعالیٰ کی خلافت کو منجانب اللہ نہیں پایا.تو پھر جب انہیں خلیفہ برحق مان لیا تو ایسی ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں رُکنا اور سوال اٹھانا مومن کی شان سے بعید ہے.اس جواب سے پہلے ایک اور اصولی بات بھی کہنا چاہتا ہوں جسے آپ بھولے ہوئے ہیں.وہ یہ

Page 369

مضامین بشیر ۳۶۲ کہ اسلام نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ کی ہر تفصیل میں دخل نہیں دیا.اگر ایسا ہوتا تو شریعت بجائے رحمت کے زحمت بن جاتی.اسی لئے قرآن شریف فرما تا ہے کہ : - لا تَسْتَلُوْا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ.ك یعنی تفصیلات کے بارے میں کرید کرید کر سوال نہ کیا کرو ورنہ تمہارے لئے نا واجب تنگی اور سختی پیدا ہو جائے گی اور شریعت کی رحمت کا پہلو مکدر ہونے لگے گا.“ پس اس جہت سے بھی آپ کا یہ سوال کہ ابتدائی تاریخ اسلام میں جھنڈے لہرانے کا ثبوت نہیں ملتا ، درست نہیں کیونکہ موجودہ زمانہ کے لباسوں اور سواریوں اور کھانوں اور مکانوں وغیرہ کا بھی تو اسلام کی ابتدائی تاریخ میں کوئی نشان نہیں پایا جاتا.جب ان امور میں آپ نے اسلام پر قائم رہتے ہوئے زمانہ کے تغیرات کو قبول کر لیا ہے تو جھنڈے کے متعلق آپ کو اعتراض کیوں پیدا ہوتا ہے.اگر اس زمانہ کے طریق کے مطابق جماعت کے لیئے کسی جھنڈے کی ضرورت سمجھی جائے اور اسلام کا کوئی حکم اس کے خلاف نہ ہو تو کسی عقلمند انسان کو اعتراض نہیں ہو سکتا اور اس قسم کی تفصیلات میں معیار یہی ہوتا ہے کہ اسلام کا کوئی حکم خلاف نہ ہو.نہ یہ کہ اسلام کا کوئی حکم تائید میں بھی پایا جائے.مگر حق یہ ہے کہ آپ کا شبہ سرے سے ہی غلط اور باطل ہے.جھنڈوں کا نہ صرف ابتدائی اسلامی تاریخ میں بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ثبوت ملتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر مہم کے ساتھ جھنڈا ہوتا تھا اور جب آپ صحابہ کے کسی دستہ کو باہر روانہ کرنے لگتے تھے تو اس وقت بعض اوقات خود اپنے ہاتھ سے جھنڈا تیار کر کے دستہ کے امیر کے سپر دفرماتے تھے.ان حقائق کے ہوتے ہوئے کسی مخلص اور واقف کا راحمدی کے دل میں جھنڈے کے متعلق شبہ یا اعتراض نہیں پیدا ہونا چاہیئے اور لطف یہ ہے کہ مسیح موعود کے متعلق خاص طور پر احادیث میں یہ پیشگوئی تھی کہ وہ اپنی فوج کے ساتھ جھنڈے لہراتا ہوا آئے گا.اس کے معنی کچھ سہی مگر مینار کے معاملہ میں بھی تو حضرت مسیح موعود نے ایک باطنی حقیقت کو ظاہر میں پورا کیا تھا.یہ اعتراض کہ جھنڈے کا لہرانا کانگرس یا مسلم لیگ وغیرہ کی نقل نظر آتا ہے.اسی طرح بودا ہے جس طرح کہ سابقہ اعتراض کیونکہ اول تو آپ نے نقل کے معنی نہیں سمجھے.اگر نقل کے یہی معنی ہیں کہ کسی دوسرے کی اچھی بات بھی نہیں لینی چاہیئے تو یہ درست نہیں اور اسلامی تعلیم كــلــمة الحكمة ضالة المومن اخذها حيث فجدها حد اس کے خلاف ہے اور اگر نقل کے یہ معنی ہیں کہ کسی کی بری بات نہ لی جائے تو یہ درست ہے.مگر آپ نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ جھنڈے

Page 370

۳۶۳ مضامین بشیر کا فیصلہ اس مؤخر الذکر صورت میں کیا گیا ہے ؟ لیکن حق یہی ہے جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں اس معاملہ میں کانگرس یا کسی اور انجمن یا نظام کی نقل کا سوال ہی نہیں بلکہ ایک پرانی اسلامی روایت کو تازہ کیا جا رہا ہے.میں اس وقت جھنڈے کے فوائد کی بحث میں نہیں جاتا کیونکہ یہ ایک لمبا سوال ہے.جس میں علم النفس کے بار یک اصولوں کے ماتحت اس بحث میں داخل ہونا پڑتا ہے کہ افراد اور اقوام کے خیالات اور جذبات پر کیا کیا باتیں کس کس رنگ میں اثر انداز ہوتی ہیں.مگر خدا کے فضل سے میں اس پہلو سے بھی بتا سکتا ہوں کہ حضرت امیر المومنین کا فیصلہ فوائد پر مبنی ہے اور یونہی ایک خیالی بات نہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہوا اور ہر لغزش سے بچاتے ہوئے اپنی رضا کے راستہ پر قائم رکھے.امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے.والسلام ( مطبوعه الفضل ۱۰ دسمبر ۱۹۳۹ء) بارش سے پہلے بادلوں کی گرج آغاز خلافت ثانیہ کا ایک منظر

Page 371

مضامین بشیر ۳۶۴ جماعت قادیان پر قیامت کا سماں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی مسیحیت پر دُنیا کی فضاء بادلوں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک سے گونجنے لگ گئی تھی.اسی طرح جب خُدا کے برگزیدہ مسیح کا موعود خلیفہ مسندِ خلافت پر قدم رکھ رہا تھا تو دنیا نے پھر وہی نظارہ دیکھا.اور احمدیت کے آسمان پر گھٹا ٹوپ بادلوں کی گرجوں نے آنے والے کا خیر مقدم کیا.حضرت خلیفہ امسیح اول کی وفات کے وقت وہ اختلاف جو عر فا مخفی کہلاتا تھا مگر حقیقتہ اب مخفی نہیں رہا تھا ، یکدم مکھوٹ کر باہر آ گیا.قادیان کی جماعت کو حضرت خلیفہ المسیح اول کی وفات کی خبر اس وقت ملی جبکہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب مسجد اقصیٰ میں جمعہ کی نماز پڑھا کر مسجد سے باہر آرہے تھے.اس پر سب لوگ گھبرا کر فورا نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی پر پہونچے.جہاں حضرت خلیفہ اسیح اول اپنی بیماری کے آخری ایام میں تبدیلئی آب و ہوا کے لئے تشریف لے گئے تھے اور قادیان کی نئی آبادی کا کھلا میدان گو یا میدانِ حشر بن گیا.بے شک حضرت خلیفہ مسیح اول کی جدائی کا غم بھی ہر مومن کے دل پر بہت بھاری تھا مگر اس دوسرے غم نے جو جماعت کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ہر مخلص احمدی کے دل کو کھائے جار ہا تھا اس صدمہ کو سخت ہولناک بنا دیا.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے جمعہ کے دن سوا دو بجے کے قریب حضرت خلیفہ اسی اول کی وفات ہوئی اور دوسرے دن نماز عصر کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ منتخب ہوئے.گویا یہ قریباً چھپیں گھنٹہ کا وقفہ تھا جو قادیان کی جماعت پر قیامت کی طرح گزرا.اس نظارے کو دیکھنے والے بہت سے لوگ گزر گئے اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بعد میں پیدا ہوئے یا وہ اس وقت اس قدر کم عمر تھے کہ ان کے دماغوں میں ان واقعات کا نقشہ محفوظ نہیں مگر جن لوگوں کے دلوں میں ان ایام کی یاد قائم ہے وہ اسے کبھی بھلا نہیں سکتے.میں پھر کہتا ہوں کہ وہ دن جماعت کے لئے قیامت کا دن تھا اور میرے اس بیان میں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں.ایک نبی کی جماعت، تازہ بنی ہوئی جماعت بچپن کی اُٹھتی ہوئی امنگوں میں مخمور اور صداقت کی برقی طاقت سے دُنیا پر چھا جانے کے لئے بے قرار ، جس کے لئے دین سب کچھ تھا اور دنیا کچھ نہیں تھی.وہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی تھی کہ اگر ایک طرف اس کے پیارے امام کی نعش پڑی ہے تو دوسری طرف چند لوگ اس امام سے بھی زیادہ محبوب چیز یعنی خدا کے برگزیدہ صیح کی لائی ہوئی صداقت اور اس صداقت کی حامل جماعت کو مٹانے کے لئے اس پر حملہ آور ہیں.یہ نظارہ نہایت درجہ صبر آزما تھا اور میں نے ان

Page 372

۳۶۵ مضامین بشیر تاریک گھڑیوں میں ایک دو کو نہیں دس ہیں کو نہیں بلکہ سینکڑوں لوگوں کو بچوں کی طرح روتے اور بلکتے ہوئے دیکھا.اپنے جُدا ہونے والے امام کے لئے نہیں، مجھے اعتراف کرنا چاہیئے کہ اس وقت جماعت کے غم کے سامنے یہ غم کھولا ہوا تھا بلکہ جماعت کے اتحاد اور اس کے مستقبل کی فکر میں مگر اکثر لوگ تسلی کے اس فطری ذریعہ سے بھی محروم تھے وہ رونا چاہتے تھے مگر افکار کے ہجوم سے رونا نہیں آتا تھا اور دیوانوں کی طرح ادھر اُدھر نظر اٹھائے پھرتے تھے تا کہ کسی کے منہ سے تسلی کا لفظ سن کر اپنے ڈوبتے ہوئے دل کو سہارا دیں.غم یہ نہیں تھا کہ منکرین خلافت تعداد میں زیادہ ہیں یا یہ کہ ان کے پاس حق ہے کیونکہ نہ تو وہ تعداد میں زیادہ تھے اور نہ اُن کے پاس حق تھا بلکہ غم یہ تھا کہ باوجود تعداد میں نہایت قلیل ہونے کے اور با وجود حق سے دور ہونے کے ان کی سازشوں کا جال نہایت وسیع طور پر پھیلا ہوا تھا اور قریباً تمام مرکزی دفاتر پر ان کا قبضہ تھا اور پھر ان میں کئی لوگ رسوخ والے ، طاقت والے اور دولت والے تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ چونکہ ابھی تک اختلافات کی کش مکش مخفی تھی.اس لئے یہ بھی علم نہیں تھا کہ کون اپنا ہے اور کون بیگا نہ اور دوسری طرف جماعت کا یہ حال تھا کہ ایک بیوہ کی طرح بغیر کسی خبر گیر کے پڑی تھی.گویا ایک ریوڑ تھا جس پر کوئی گلہ بان نہیں تھا اور چاروں طرف بھیڑیے تاک لگائے بیٹھے تھے.سکینت کا نزول اس قسم کے حالات نے دلوں میں عجیب ہیبت ناک کیفیت پیدا کر رکھی تھی اور گو خدا کے وعدوں پر ایمان تھا مگر ظاہری اسباب کے ماتحت دل بیٹھے جاتے تھے.مُجمعہ سے لے کر عصر تک کا وقت زیادہ نہیں ہوتا مگر یہ گھڑیاں ختم ہونے میں نہیں آتی تھیں.آخر خدا خدا کر کے عصر کا وقت آیا اور خدا کے ذکر سے تسلی پانے کے لئے سب لوگ مسجد نور میں جمع ہو گئے.نماز کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد صاحب نے ایک مختصر مگر نہایت درد انگیز اور مؤثر تقریر فرمائی اور ہر قسم کے اختلافی مسئلہ کا ذکر کرنے کے بغیر جماعت کو نصیحت کی کہ یہ ایک نہایت نازک وقت ہے اور جماعت کے لئے ایک بھاری ابتلاء کی گھڑی در پیش ہے.پس سب لوگ گریہ وزاری کے ساتھ خدا سے دُعائیں کریں کہ وہ اس اندھیرے کے وقت جماعت کے لئے روشنی پیدا کر دے اور ہمیں ہر رنگ کی ٹھوکر سے بچا کر اس رستہ پر ڈال دے جو جماعت کے لئے بہتر اور مبارک ہے.اس موقع پر آپ نے یہ بھی تحریک فرمائی کہ جن لوگوں کو طاقت ہو وہ کل کے دن روزہ بھی رکھیں تا کہ آج رات کی نمازوں اور دُعاؤں کے ساتھ کل کا دن بھی دُعا اور ذکر الہی میں گزرے.اس تقریر کے دوران میں لوگ بہت روئے اور

Page 373

مضامین بشیر ۳۶۶ مسجد کے چاروں کونوں سے گریہ و بکا کی آوازیں بلند ہوئیں مگر تقریر کے ساتھ ہی لوگوں کے دلوں میں ایک گونہ تسلی کی صورت بھی پیدا ہو گئی اور وہ آہستہ آہستہ منتشر ہو کر دعائیں کرتے ہوئے اپنی اپنی جگہوں کو چلے گئے.مولوی محمد علی صاحب کا مخفی رسالہ رات کے دوران میں اس بات کا علم ہوا کہ منکرین خلافت کے لیڈر مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کی وفات سے قبل ہی ایک رسالہ ایک نہایت ضروری اعلان کے نام سے چھپوا کر مخفی طور پر تیار کر رکھا تھا اور ڈاک میں روانہ کرنے کے لئے اس کے پیکٹ بھی بنوا رکھے تھے اور اب یہ رسالہ بڑی کثرت سے تقسیم کیا جارہا تھا بلکہ یہ محسوس کر کے کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات بالکل سر پر ہے ، آپ کی زندگی میں ہی اس رسالہ کو ڈور ڈور کے علاقوں میں بھجوا دیا گیا تھا.اس رسالہ کا مضمون یہ تھا کہ جماعت میں خلافت کے نظام کی ضرورت نہیں بلکہ انجمن کا انتظام ہی کافی ہے.البتہ غیر احمدیوں سے بیعت لینے کی غرض سے اور حضرت خلیفہ اصیح اول کی وصیت کے احترام میں رکسی شخص کو امیر مقرر کیا جا سکتا ہے مگر یہ شخص جماعت یا صدر انجمن احمدیہ کا مطاع نہیں ہوگا بلکہ اس کی امارت اور سرداری محدود اور مشروط ہوگی وغیرہ وغیرہ.یہ اشتہار یا رسالہ میں اکیس صفحے کا تھا اور اس میں کافی مفصل بحث کی گئی تھی اور طرح طرح سے جماعت کو اس بات پر ابھارا گیا تھا کہ وہ کسی واجب الاطاعت خلافت پر رضامند نہ ہو.جب قادیان میں اس رسالہ کا علم ہوا اور یہ بھی پتہ لگا کہ قادیان سے با ہراس رسالہ کی اشاعت نہایت کثرت کے ساتھ کی گئی ہے تو طبعا اس پر بہت فکر پیدا ہوا که مبادا یہ رسالہ نا واقف لوگوں کی ٹھوکر کا باعث بن جائے.اس کا فوری ازالہ وسیع پیمانہ پر تو مشکل تھا مگر قادیان کے حاضر الوقت احمدیوں کی ہدایت کے لئے ایک مختصر سا نوٹ تیار کیا گیا جس میں یہ درج تھا کہ جماعت میں اسلام کی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وصیت کے مطابق خلافت کا نظام ضروری ہے اور جس طرح حضرت خلیفہ اسی اول جماعت کے مطاع تھے.اسی طرح آئندہ خلیفہ بھی مطاع ہوگا اور خلیفہ کے ساتھ کسی قسم کی شرائط طے کرنا یا اس کے خدا دا د ا ختیاروں کو محمد ود کرنا کسی طرح درست نہیں.اس نوٹ پر حاضر الوقت لوگوں کے دستخط کرائے گئے تا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہو کہ جماعت کی اکثریت نظام خلافت کے حق میں ہے.غرض یہ رات بہت سے لوگوں نے انتہائی کرب اور اضطراب کی حالت میں گزاری.

Page 374

مضامین بشیر سمجھوتہ کے لئے آخری کوشش دوسرے دن فریقین میں ایک آخری سمجھوتہ کے خیال سے نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی پر ہر دو فریق کے چند زعماء کی میٹنگ ہوئی.جس میں ایک طرف مولوی محمد علی صاحب اور ان کے چند رفقاء اور دوسری طرف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور نواب محمد علی خان صاحب اور بعض دوسرے مؤیدین خلافت شامل ہوئے.اس میٹنگ میں منکرین خلافت کو ہر رنگ میں سمجھایا گیا کہ اس وقت سوال صرف اصول کا ہے.پس کسی قسم کے ذاتی سوال کو درمیان میں نہ لائیں اور جماعت کے شیرازہ کی قدر کریں.یہ بھی کہا گیا کہ اگر منکرین خلافت سرے سے خلافت ہی کے اڑانے کے درپے نہ ہوں تو ہم خدا کو حاضر و ناظر جان کر عہد کرتے ہیں کہ مومنوں کی کثرتِ رائے سے جو بھی خلیفہ منتخب ہو گا خواہ وہ کسی پارٹی کا ہو ہم سب دل و جان سے اس کی خلافت کو قبول کریں گے مگر منکرین خلافت نے اختلافی مسائل کو آڑ بنا کر خلافت کے متعلق ہر قسم کے اتحاد سے انکار کر دیا.بالآخر جب یہ لوگ کسی طرح بھی نظام خلافت کے قبول کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوئے تو ان سے استدعا کی گئی کہ اگر آپ لوگ خلافت کے منکر ہی رہنا چاہتے ہیں تو آپ کا خیال آپ کو مبارک ہو لیکن جو لوگ خلافت کو ضروری خیال کرتے ہیں ، آپ خدا را ان کے رستہ میں روک نہ بنیں اور انہیں اپنے میں سے کوئی خلیفہ منتخب کر کے ایک ہاتھ پر جمع ہو جانے دیں مگر یہ اپیل بھی بہرے کانوں پر پڑی اور اتحاد کی آخری کوشش ناکام رہی.چنانچہ جب ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ ء کو بروز ہفتہ عصر کی نماز کے بعد سب حاضر الوقت احمدی خلافت کے انتخاب کے لئے مسجد نور میں جمع ہوئے تو منکرین خلافت بھی اس مجمع میں روڑا اٹکانے کی غرض سے موجود تھے.بیعت خلافت ثانیہ کا نظارہ اس دو ہزار کے مجمع میں سب سے پہلے نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح اول کی وصیت پڑھ کر سنائی جس میں جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی نصیحت تھی.اس پر ہر طرف سے حضرت میاں صاحب.حضرت میاں صاحب کی آوازیں بلند ہوئیں اور اسی کی تائید میں مولا نا سید محمد احسن صاحب امروہوی نے جو جماعت کے پرانے بزرگوں میں سے تھے ، کھڑے ہو کر تقریر کی اور خلافت کی ضرورت اور اہمیت بتا کر تجویز کی کہ حضرت خلیفہ اسیح اول کے بعد میری رائے میں ہم سب کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ہاتھ پر جمع ہو جانا چاہیئے کہ وہی ہر رنگ میں اس

Page 375

مضامین بشیر ۳۶۸ مقام کے اہل اور قابل ہیں.اس پر سب طرف سے پھر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں اور سارے مجمع نے بالا تفاق اور بالاصرار کہا کہ ہم انہی کی خلافت کو قبول کرتے ہیں.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اس وقت مولوی محمد علی صاحب اور ان کے بعض رفقاء بھی موجود تھے.مولوی محمد علی صاحب نے مولوی سید محمد حسن صاحب کی تقریر کے دوران میں کچھ کہنا چاہا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اُٹھا کر لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ جب آپ خلافت کے ہی منکر ہیں تو اس موقع پر ہم آپ کی کوئی بات نہیں سن سکتے اور اس کے بعد مومنوں کی جماعت نے اس جوش اور ولولہ کے ساتھ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی طرف رخ کیا کہ اس کا نظارہ کسی دیکھنے والے کو نہیں بھول سکتا.لوگ چاروں طرف سے بیعت کے لئے ٹوٹے پڑتے تھے اور یوں نظر آتا تھا کہ خدائی فرشتے لوگوں کے دلوں کو پکڑ پکڑ کر منظور ایزدی کی طرف کھینچے لا رہے ہیں اس وقت ایسی ریلا پیلی تھی اور جوش کا یہ عالم تھا کہ لوگ ایک دوسرے پر گر رہے تھے اور بچوں اور کمزور لوگوں کے پس جانے کا ڈر تھا اور چاروں طرف سے یہ آواز اٹھ رہی تھی کہ ہماری بیعت قبول کریں ہماری بیعت قبول کریں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے چند لمحات کے تامل کے بعد جس میں ایک عجیب قسم کا پُر کیف عالم تھا، لوگوں کے اصرار پر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور بیعت لینی شروع کی یک لخت مجلس میں سناٹا چھا گیا.اور جولوگ قریب نہیں پہونچ سکتے تھے انہوں نے اپنی پگڑیاں پھیلا پھیلا کر اور ایک دوسرے کی پیٹھوں پر ہاتھ رکھ کر بیعت کے الفاظ دہرائے.بیعت شروع ہو جانے کے بعد مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء اس مجمع سے حسرت کے ساتھ رخصت ہو کر اپنی فرودگاہ کی طرف چلے گئے.( مطبوعه الفضل ۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ء).حوالہ جات

Page 376

۳۶۹ مضامین بشیر ١٩٣٩ء ا.خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۶۹-۷۰ ۲ ال عمران : ۹ ۳.براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۶۷.حاشیہ در حاشیہ ۴.براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ ۶۶۷ حاشیه در حاشیہ.تذکرہ صفحه ۸۳ طبع ۲۰۰۴ء.۵ - آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ - ٹائیٹل صفحه ۲ ۶ - النساء : ۶۶ ۷.المائدہ : ۱۰۲ - جامع الترمذی كتاب العلم باب ماجاء في فضل الفقه على العبادة - (مفهوماً)

Page 377

مضامین بشیر ۱۹۴۰ء

Page 378

۳۷۱ مضامین بشیر کتاب «فضل عمر“ جلسہ خلافت جوبلی کے موقع پر مکرمی صوفی عبد القدیر صاحب نے ایک کتاب فضل عمر انگریزی زبان میں لکھ کر شائع کی ہے.یہ کتاب گویا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی سوانح عمری ہے.جس میں سلسلہ کے مختصر حالات کے علاوہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی ابتدائی زندگی کے حالات ، خلافت کے سوال پر غیر مبایعین کے فتنہ کی تاریخ اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے زمانہ خلافت کے حالات پر بہت دلچسپ رنگ میں روشنی ڈالی گئی ہے.میں نے اس کتاب کا بیشتر حصہ دیکھا ہے.زبان کی خوبی کے علاوہ اس کا طرز بیان نہایت مؤثر اور دلکش ہے اور پھر ہر واقعہ سند کے ساتھ ساتھ صحیح صحیح صورت میں درج کیا گیا ہے.صوفی صاحب پیدائشی احمدی ہونے کے علاوہ ایک ایسے بزرگ باپ کے فرزند ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص صحابیوں میں سے تھے اور خود صوفی صاحب بھی کافی عرصہ تک حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کے پرائیویٹ سیکرٹری رہ چکے ہیں.اس لئے ان کے معلومات بہت اچھے اور طر ز بیان نہایت عمدہ ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ کتاب ان تصانیف میں سے ہے جن کی بکثرت اشاعت تبلیغ کے لئے اور خصوصاً فتنہ غیر مبایعین کے انسداد کے لئے بہت مفید ہوسکتی ہے.ہمارے نو جوانوں کو چاہیئے کہ اس کتاب کو خود بھی پڑھیں اور دوسروں میں بھی اسے کثرت کے ساتھ پھیلا ئیں.اس ریویو کی تحریک میرے دل میں خود بخود ہوئی ہے.اس لئے میں نے یہ چند حروف رسمی رنگ میں نہیں لکھے بلکہ دوستوں کے حقیقی فائدہ کے خیال سے لکھے ہیں..( مطبوعه الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۴۰ء )

Page 379

مضامین بشیر خان بهادر مولوی غلام حسن خان صاحب کی بیعت خلافت اور شکریہ احباب محترمی خان بهادر مولوی غلام حسن خان صاحب کی بیعت خلافت کی خبر الفضل میں شائع ہو چکی ہے.جیسا کہ احباب کو معلوم ہے مولوی صاحب موصوف میرے نسر اور میری رفیقہ حیات کے والد محترم ہیں.اس لئے ان کی بیعت پر ہمیں طبعاً نہائت درجہ خوشی ہوئی ہے اور ہمیں اس خوشی پر بہت سے احباب کی طرف سے مبارکباد کے خطوط موصول ہو رہے ہیں.میں اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ان جملہ احباب کا شکر یہ ادا کرتا ہوں اور اس کے ساتھ ہی ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ خدا کے حضور دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مولوی صاحب موصوف کی بیعت کو خو د مولوی صاحب کے لئے اور ہمارے لئے اور جماعت کے لئے ہر رنگ میں بابرکت کرے.آمین جیسا کہ اخبار میں اعلان ہو چکا ہے، مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدیم اور ممتاز صحابیوں میں سے ہیں اور خدا کے فضل سے انہیں اوائل زمانہ میں اچھی خدمت کا موقع ملتا رہا ہے.لیکن جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مولوی صاحب موصوف غیر مبایعین کے ساتھ شامل ہو گئے تھے اور ایک عرصہ دراز تک اُن کے ساتھ رہے مگر اب ایک لمبے زمانہ کے بعد جو چوتھائی صدی سے بھی زیادہ ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل اور رحم کے ساتھ پھر جماعت میں منسلک ہونے اور دامنِ خلافت کے ساتھ وابستگی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.فالحمد لله على ذالك والله يهدي من يشاء الى صراط المستقيم.سب سے بڑی بات جس نے مولوی صاحب موصوف کی طبیعت پر خاص اثر پیدا کیا وہ یہ ہے جسے وہ اپنی کئی مجلسوں میں بیان فرما چکے ہیں کہ جہاں لاہوری پارٹی اس جگہ کھڑی ہے جس جگہ کہ وہ آج سے پچیس سال قبل تھی بلکہ وہ اپنے سابقہ مقام سے بھی نیچے گر گئی اور گر رہی ہے، وہاں قادیان کے ساتھ ہر قدم پر خدا کی نصرت کا ہاتھ نظر آرہا ہے اور اللہ تعالیٰ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی قیادت میں

Page 380

۳۷۳ مضامین بشیر جماعت کو ہر رنگ میں ترقی دے رہا ہے اور یہ خدائی شہادت جو عملی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے، ایسی واضح اور روشن ہے کہ باقی سب دلیلوں سے زیادہ وزن رکھتی ہے.بالآخر میں پھر ان احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے یا والدہ مظفر احمد کو اس موقع پر مبارکباد کے خطوط لکھے اور ہماری اس خواہش میں شرکت اختیار کی.جزاهم الله احسن الجزاء.احباب دُعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مولوی صاحب موصوف کا ہر طرح حافظ و ناصر ہو اور جس راستے پر اب انہوں نے قدم اٹھایا ہے.اس میں ان کو مزید سعادت اور ترقی عطا کرے اور اُن کے گزشتہ ما حول کے تاثرات کو کلی طور پر دُور فرما کر انہیں خلافت ثانیہ کی برکات سے پوری طرح متمتع فرمائے اور ان کا اور ہم سب کا انجام بخیر ہو.امین اللهم امين ( مطبوعه الفضل یکم فروری ۱۹۴۰ء)

Page 381

مضامین بشیر ۳۷۴ حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم کی وفات پر سلسلہ کے متعدد بزرگوں کی طرف سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے.جس میں مرحوم کے اعلیٰ اوصاف بیان کر کے دُعا کی تحریک کی گئی ہے.ان مضامین کے بعد اس بات کی ضرورت نہیں رہتی کہ میں بھی کچھ لکھوں مگر چونکہ مرحوم میرے اُستاد تھے اور میرے ساتھ ان کا نہایت دیرینہ اور گہرا اور مخلصانہ تعلق تھا اس لئے میں بھی چند مختصر الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت مولوی صاحب مرحوم میرے اُستاد تھے.میں نے ابتداء سکول کے زمانہ میں ان سے عربی کی تعلیم حاصل کی اور پھر ایف.اے، بی.اے اور ایم.اے میں ان سے مسلسل استفادہ کیا اور مرحوم نے جس محبت ، اخلاص، ہمدردی اور جانفشانی کے ساتھ مجھے پڑھا یا وہ انہی کا حصہ تھا.یہ الفاظ میں نے رسماً یا تکلف کے انداز میں نہیں لکھے بلکہ ایک حقیقت کا جس کا میرے قلب پر نہایت گہرا اثر ہے اظہار کیا ہے.میں نے بہت سے اُستادوں سے پڑھا ہے اور بہت سے اُستادوں کو دیکھا ہے.اور ان میں سے اچھے اچھے محبت اور شوق اور محنت کے ساتھ پڑھانے والے اصحاب شامل ہیں مگر مولوی صاحب مرحوم کا انداز یقیناً سب سے نرالا تھا کیونکہ جو محبت اور جو شوق اور جو ہمدردی اور جو قربانی مولوی صاحب موصوف میں تھی وہ مجھے کسی دوسرے میں نظر نہیں آئی.اس ریمارک سے مجھے اپنے کسی بزرگ کے مرتبہ کو گھٹانا مقصود نہیں بلکہ مولوی صاحب کے امتیاز کو ظاہر کرنا مقصود ہے.مولوی صاحب اپنے اخلاص اور محبت میں اپنے آرام اور اپنی جسمانی طاقتوں کو یوں نظرانداز کر دیتے تھے کہ گویا انہیں اپنے نفس کا خیال تک نہیں اور کم و بیش یہی حال ان کا اپنے دوسرے شاگردوں کے متعلق تھا کہ پڑھنے والا تھک جاتا تھا مگر وہ نہ تھکتے تھے.بعض اوقات اس قسم کا لطیفہ بھی ہو جاتا تھا کہ کسی نے مولوی صاحب مرحوم سے استدعا کی کہ مجھے فلاں کتاب پڑھا دیں.مولوی صاحب نے بغیر اس بات پر غور کرنے کے کہ میرے پاس وقت بھی ہے یا نہیں فور اوعدہ کر لیا کہ ہاں میں ضرور پڑھاؤں گا مگر جب اپنے وقت کا محاسبہ لیا تو معلوم ہوا کہ سارا وقت اس طرح بٹا ہوا ہے کہ رکسی مزید تقسیم کی گنجائش ہی نہیں لیکن ایسے موقع پر بھی بسا اوقات پرانے شاگردوں سے کہ کہا کران کے وقت میں سے کچھ وقت نکالنے کی کوشش کرتے تھے اور درخواست کرنے والوں کو حتی الوسع مایوس

Page 382

۳۷۵ مضامین بشیر نہیں کرتے تھے.خود بھی تحصیل علم کا از حد شوق تھا.مالی حالت اچھی نہیں تھی مگر جب بھی کوئی نئی کتاب دیکھتے یا کسی نئے ایڈیشن کی کتاب دیکھتے تھے تو بے چین ہو جاتے اور کسی نہ کسی طرح ضرور ایسی کتاب خرید لیتے.میں نے ان کی مالی حالت کو دیکھ کر بسا اوقات اصرار کے ساتھ کہا کہ آپ زیر بار نہ ہو ا کر میں بلکہ جب کبھی کوئی نئی کتاب نظر آیا کرے مجھے بتا دیا کریں میں خرید لیا کروں گا.اور پھر آپ بھی اس سے استفادہ کر لیا کریں مگر ان کی طبیعت اس قسم کے انتظام سے تسلی نہیں پاتی تھی اور باوجود مالی تنگی کے کتب کی خرید کا سلسلہ جاری رہتا تھا لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ جب ایک کتاب خرید لی اور کچھ عرصہ اسے مطالعہ میں رکھا تو پھر اس کے بعد اپنے کسی دوست کو ہدیہ دے دی.حضرت مولوی صاحب کی علمی رفعت کے تعلق میں ان کا علمی تنوع خاص طور پر قابل ذکر ہے.خدا کے فضل سے جماعت میں بڑے بڑے پایہ کے عالم موجود ہیں مگر جو علمی تنوع مرحوم کو حاصل تھا ، وہ کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتا.تفسیر ، تجوید ، حدیث ، اصول حدیث ، مصطلحات حدیث ، کتب سلسلہ احمدیہ ، فقہ، اصول فقه ، تاریخ ، بلاغت، ادب ، لغت ، صرف ونحو ، عروض وقافیه ، منطق و فلسفه حتی که علم تقدیم اور علم ہیت وغیرہ تک میں ایک سادماغ چلتا تھا اور ان سب علوم میں خوب دسترس حاصل تھی.یہ علمی تنوع یقینا کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتا مگر ان جملہ علوم میں سے حضرت مولوی صاحب کو خصوصیت سے قرآن شریف کے ساتھ از حد محبت تھی اور اس پاک کتاب کے گہرے مطالعہ میں جس میں پھر ہر علم آشامل ہوتا ہے ، خاص لطف حاصل ہوتا تھا.اسی طرح کتب سلسلہ پر کامل عبور تھا اور مولوی صاحب کا دماغ گویا حوالوں کی کان تھا.یہ جو جدید تقویم ، ہجری شمسی نظام کی بنا پر حال ہی میں جماعت میں جاری ہوئی ہے.اس کے تیار کرنے میں بھی حضرت مولوی صاحب کا خاص ہاتھ تھا اور جب سے کہ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے اس کے متعلق حکم دیا تھا.مولوی صاحب مکرم نهایت استغراق کے ساتھ اس میں منہمک رہتے تھے.اس علمی رفعت کے علاوہ حضرت مولوی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر تیز ذہن عطا کیا تھا اور دماغ از حد زیرک تھا.میں جب کبھی بھی کوئی علمی یا تحقیقی مضمون لکھتا تھا تو حتی الوسع ضرور موقع نکال کر مولوی صاحب کو سناتا تھا تا کہ اگر اس میں کوئی خامی ہو تو وہ ظاہر ہو جائے.اور مولوی صاحب کی جرح سُن کر مجھے ہر دفعہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا مولوی صاحب کا چوکس دماغ چاروں طرف دیکھتا

Page 383

مضامین بشیر کسی مضمون کے متعلق جو جو اعتراض یا اشکال مخالفین کی طرف سے امکانی طور پر پیدا ہوسکتا ہے اسے حضرت مولوی صاحب کی ڈور بین آنکھ فوراً دیکھ لیتی تھی اور بیک وقت ہر علم اور مرض کی عینک مضمون کی پاتال تک پہونچنے کے لئے تیار رہتی تھی.مولوی صاحب کی یہ غیر معمولی ذہانت بعض اوقات وہ صورت پیدا کر دیتی تھی جسے عرف عام میں تیر کا نشانہ سے پرے جا لگنا کہتے ہیں کیونکہ مولوی صاحب کا دماغ بعض اوقات اپنی تیز پرواز میں ضرورت سے زیادہ آگے نکل جاتا تھا لیکن جو لوگ مولوی صاحب کی اس جودت طبع سے واقف تھے وہ اُن کے مشوروں میں اس پہلو کو مد نظر رکھ لیتے تھے.مرحوم ایک نہایت درجہ متقی اور خدا ترس بزرگ تھے.اور ہر امر میں قال اللہ اور قــال الرسول کا خیال غالب رہتا تھا اور ان کی یہ پوری کوشش ہوتی تھی کہ اپنی زندگی کو ہر رنگ میں اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے مطابق بنائیں.فرائض کے علاوہ نوافل کی طرف بھی از حد توجہ تھی اور قرآن شریف کے مطالعہ میں بہت شغف تھا اور اس جہادا کبر کے ساتھ ساتھ اسلام اور احمدیت کے لئے غیرت کا جذ بہ بھی بہت نمایاں تھا.یہ اسی غیرت کا نتیجہ تھا کہ مخالفین سلسلہ کے متعلق مرحوم کی رائے بہت سخت تھی.اسی طرح غیر مبایعین کے خلاف بھی مولوی صاحب مرحوم کو غیر معمولی جوش تھا.بعض اوقات منکرین خلافت کے لیڈروں کا ذکر آتا تو بڑے غصہ کے ساتھ فرماتے کہ یہ لوگ احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کی روح کو مسخ کرتے جا رہے ہیں اور اس عمارت کو نقب لگا رکھی ہے جس کے سایہ میں انہوں نے پرورش پائی ہے.سلسلہ کی خاطر مالی قربانی کا یہ حال تھا کہ باوجود مالی تنگی اور کثیر العیالی کے اپنے ترکہ میں سے صد را انجمن احمدیہ کے حق میں چہارم حصہ کی وصیت کر رکھی تھی.تواضع کا مادہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.اللہ تعالیٰ نے علم وفضل میں اعلیٰ مرتبہ عطا کیا مگر چھوٹے سے چھوٹے آدمی کے سامنے بھی انکساری اور فروتنی کے ساتھ پیش آتے تھے.البتہ چونکہ طبیعت بہت حساس تھی اور کسی قدر اعصابی کمزوری بھی تھی ، اس لئے بعض اوقات خلاف مزاج بات پر چمک بھی اُٹھتے تھے.لیکن یہ اہر فوراً دب کر رفق اور تواضع کا رنگ اختیار کر لیتی تھی.اور زیادہ دیر تک دل میں رنجش نہیں رکھتے تھے بلکہ رنجش کے بعد فوراً ہی نیکی اور احسان کا طریق اختیار کر کے حالات کا رخ بدل دیتے تھے.میرے ساتھ تو ان کا سلوک ہمیشہ ہی از حد محبت کا رہا بلکہ استاد ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ خادموں کی طرح انکساری برتتے تھے.جس سے مجھے ان کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا تھا مگر جن لوگون کے ساتھ کبھی رنجش ہو جاتی تھی.ان کے متعلق بھی ضرور جلدی ہی ازالہ کا طریق اختیار فرماتے تھے اور دوسرے فریق کے ذرا سے تغیر پر بھی طبیعت بالکل صاف ہو جاتی تھی.

Page 384

۳۷۷ مضامین بشیر حضرت مولوی صاحب کی دوست نوازی بھی غیر معمولی شان کی تھی.دوست کی خاطر اپنی ہر چیز قربان کر دینے کو تیار ہو جاتے تھے.خود تنگی برداشت کرتے تھے مگر دوست کو آرام پہونچاتے تھے.مجھے ایسی مثالیں معلوم ہیں کہ مولوی صاحب نے بال بال قرض میں پھنسے ہوئے ہونے کے باوجود ایک دوست کی خاطر سینکڑوں روپے کی قربانی کر دی.ان کا یہ وصف کمزوری کی حد تک پہونچا ہوا تھا.میں نے کئی دفعہ سمجھایا کہ آپ کی مالی حالت کمزور ہے اور انسان صرف اپنی طاقت کے اندراندر ہی مکلف ہوتا ہے.اس لئے آپ بلا وجہ دوسروں کی خاطر اپنی مالی ذمہ واریوں میں اضافہ نہ کریں.میرے سامنے وعدہ کر لیتے تھے کہ اچھا میں اب خیال رکھوں گا مگر پھر ہر موقع پر طبیعت کی فیاضی غالب آ جاتی تھی.جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ وفات پر غیر معمولی قرض ثابت ہوا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس قرض کا بیشتر حصہ دوستوں کی خاطر سے معرض وجود میں آیا ہے کیونکہ خود ان کی اپنی زندگی از حد سادہ تھی اور سوائے علمی کتب کی خرید کے اور کوئی شوق نہیں تھا اور یہ ذخیرہ بھی دوستوں ہی کی نذر ہو جاتا.اسی طرح دوستوں کے ساتھ مرحوم کا تعلق بہت بے تکلفانہ رنگ رکھتا تھا اور طبیعت خوب با مذاق تھی اور اپنے دوستوں کی مجلس میں رونق کا باعث ہوتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ساتھ از حد محبت تھی اور گوقریباً سب کے استاد تھے مگر انتہائی عزت کے ساتھ پیش آتے تھے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے تو مولوی صاحب کا گویا ایک عاشقانہ رنگ تھا.اور حضرت خلیفتہ امیج کو بھی حضرت مولوی صاحب کے ساتھ بہت محبت تھی اور اس محبت میں بے تکلفی کا انداز غالب تھا.اور آپ اپنے اکثر مضامین کے لئے حوالے وغیرہ مولوی صاحب کے ذریعہ تلاش کروایا کرتے تھے اور قرآن کریم کے ترجمہ کے کام میں بھی حضرت امیر المومنین کو دوسروں کی نسبت مولوی صاحب پر زیادہ اعتماد تھا.میں جب مولوی صاحب کی مرض الموت میں پہلی دفعہ ان کی عیادت کے لئے گیا تو ضعف بہت تھا اور بخار بھی تیز تھا اور پھیپھڑے سخت ماؤف ہو چکے تھے.از حد خوشی سے ملے اور بڑے اطمینان کے ساتھ باتیں کرتے رہے لیکن میرے چند منٹ ٹھہرنے کے بعد فرمانے لگے میاں صاحب آپ کی طبیعت حساس ہے اور ایسی طبیعت بیمار کا اثر جلد قبول کرتی ہے.اس لئے اب آپ آرام کریں میں نے کہا کوئی خدمت یا ضرورت ہو تو مجھے بتا ئیں.فرمانے لگے آپ کو نہیں بتاؤں گا تو کس کو بتاؤں گا مگر جزاكم الله مجھے اس وقت کوئی ضرورت نہیں ہے.پھر جب میں مولوی صاحب کی وفات سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل دوسری دفعہ گیا تو اس وقت گویا نزع کی حالت تھی اور سانس اکھڑا ہوا تھا مگر ہوش وحواس قائم تھے.بڑی خوشی سے مصافحہ کیا اور کچھ باتیں بھی کیں لیکن پھر بھی یہی اصرار کیا کہ میں زیادہ نہ ٹھہروں.میں

Page 385

مضامین بشیر جانتا تھا کہ میرے ٹھہرنے سے انہیں از حد خوشی تھی مگر اس خوشی پر اس خطرہ کا احساس غالب تھا جو وہ اپنے خیال میں میرے زیادہ ٹھہر نے میں سمجھتے تھے.میں نے عرض کیا کہ میں آپ کے متعلق حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے واسطے تار دیتا ہوں بہت خوش ہوئے.اور جزاکم اللہ کہا مگر افسوس کہ ابھی تار ڈاک خانہ سے روانہ نہ ہوئی تھی کہ مولوی صاحب وفات پاگئے اور بجائے اس کے وفات کی تار بھجوانی پڑی.غرض حضرت مولوی صاحب کا وجود کئی لحاظ سے بے نظیر وجو دتھا اور گو ہم اس بات کے قائل نہیں کہ ایک خدائی جماعت میں کسی فرد کی وفات سے خلاء واقع ہو سکتا ہے مگر اس میں شبہ نہیں کہ اس وقت بظاہر کئی باتوں میں جماعت کے اندرمولوی صاحب کا جانشین نظر نہیں آتا.وہ چونکہ مقرر نہیں تھے.اس لئے پبلک کے سامنے نہیں آتے تھے مگر پس پردہ ان کا کام بہت اعلیٰ اور ارفع تھا.ایسے رفیع القدر بزرگ کی جدائی پر دل غم محسوس کرتا ہے اور آنکھ پُر نم ہوتی ہے مگر ہم خدا کی قضا میں اور اس کی رضا میں بہر حال راضی ہیں اور اس سے زیادہ نہیں کہتے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کی وفات پر فرمایا کہ :-.الْعَيْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ.....وَإِنَّا بِفَرَاقِكَ لَمَحْزُونُونَ - ا میں اس موقع پر ایک لفظ سلسلہ کے علماء اور مبلغین کی خدمت میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں.جماعت میں خدا کے فضل سے ہر رنگ کے عالم موجود ہیں اور ان میں سے بعض کا مرتبہ حقیقہ بہت بلند ہے مگر عمو مانو جوان علماء میں ایک پہلو خامی کا بھی نظر آتا ہے.اور وہ یہ کہ بے شک علم مناظرہ میں خوب مشق ہے اور مناظرے سے براہ راست تعلق رکھنے والے علوم میں بھی اچھی نظر ہے مگر علم کے میدان میں تنوع کی کمی ہے.جس کی وجہ سے علم میں وہ وسعت اور وہ بلندی نہیں پیدا ہوتی جو ایک اعلیٰ درجہ کے مبلغ میں ہونی چاہیئے اور بعض پہلو خامی کے باقی رہتے ہیں.اسی طرح بحث مباحثہ اور مناظرہ میں یادہ انہماک ہونے کی وجہ سے بعض طبیعتوں میں سطحیت بھی پیدا ہو جاتی ہے اور علم کی گہرائیوں میں جانے کا پہلو کمزور رہتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب کی وفات ہمارے نو جوان علماء میں اس حقیقت کا احساس پیدا کرانے میں کامیابی ہوگی، جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحب کو اپنے اعلیٰ انعامات کا وارث بنائے اور ان کی اولاد کا ہر رنگ میں حافظ و ناصر ہو.آمین ( مطبوعه الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۴۰ء )

Page 386

۳۷۹ مضامین بشیر ایک عزیز کے نام خط حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی رائے مجھے بچپن سے تصنیف کا شوق ہے.اس لئے ہر عمدہ تصنیف جو کسی کے ہاتھ سے نکلتی ہے وہ خاص خوشی کا باعث ہوتی ہے.مکرمی چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب ممبرا یگزیکٹو کونسل وائسرائے ہند نے اپنی اس قیمتی تصنیف میں جو اس وقت دوستوں کے ہاتھ میں ہے نہ صرف جماعت احمدیہ کی بلکہ بنی نوع انسان کی ایک عمدہ خدمت سرانجام دی ہے کیونکہ اس تصنیف میں وہ رستہ بنایا گیا ہے جس پر چل کر انسان ایک با اخلاق اور باخدا انسان بن سکتا ہے.دنیا میں اہل دنیا کی علمی اور اقتصادی اور سیاسی خدمت کرنے والے لوگ تو بہت ہیں مگر اخلاقی اور روحانی خدمت کی طرف موجودہ مادی زمانہ میں بہت کم لوگوں کو توجہ ہے اور اس لحاظ سے چوہدری صاحب مکرم کی یہ خدمت جس کی اس زمانہ میں دنیا کو از حد ضرورت ہے بہت قابل قدر ہے.احمدی نوجوان تو خیر ا سے پڑھیں گے ہی مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مفید تصنیف کو غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب تک بھی کثرت کے ساتھ پہونچایا جائے تا کہ وہ بھی اس پاکیزہ چشمہ کے مصفی پانی سے سیراب ہوں.( مطبوعه الفضل ۱۳ اپریل ۱۹۴۰ء )

Page 387

مضامین بشیر مسئلہ کفر و اسلام میں ہمارا مسلک آج کل جبکہ غیر مبایعین کے متعلق ایک نئی تبلیغی مہم کا آغا ز ہو رہا ہے.بعض دوست جنہیں سلسلہ کے عقائد کے متعلق تفصیلی واقفیت نہیں دریافت کرتے ہیں کہ غیر احمد یوں کے کفر و اسلام کے متعلق ہمارا مسلک کیا ہے.یعنی آیا ہم انہیں ہندوؤں اور عیسائیوں کی طرح کے کافر اور دائرہ اسلام سے کئی طور پر خارج سمجھتے ہیں یا یہ کہ ان کا کفر ہندوؤں اور عیسائیوں کی طرح کا کفر نہیں بلکہ ایک جدا گانہ رنگ رکھتا ہے.سواس کے متعلق اصولی طور پر یا درکھنا چاہیئے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہرگز نہیں کہ جن مسلمان کہلانے والوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انکار کیا ہے وہ ہندوؤں اور عیسائیوں کی طرح کا فر ہیں.یعنی جس طرح یہ تو میں ظاہری اور باطنی ہر دو لحاظ سے اسلام سے دُور پڑی ہوئی ہیں.اسی طرح غیر احمدیوں کا بھی حال ہے.ایسا خیال نہ صرف واقعات اور عقلِ خدا داد کے خلاف ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے بھی سراسر خلاف ہے لیکن اس کے مقابل پر یہ بھی ایک واضح اور تین صداقت ہے جسے کسی صورت میں چھپایا نہیں جا سکتا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکروں کو حقیقی رنگ میں مسلمان نہیں سمجھتے بلکہ قرآن کریم کی صریح تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی واضح تصریحات کے مطابق انہیں کا فر خیال کرتے ہیں.در اصل کفر کی کئی قسمیں ہیں اور اس کے مختلف مدارج ہیں اور گو شحض کا فر ہونے کے لحاظ سے سب منکر برا بر ہوں مگر اس میں شبہ نہیں کہ دائرہ انکار کی تنگی یا وسعت کے لحاظ سے ہر گروہ کے کفر میں فرق ہوتا ہے اور کفر دون کفر کا مسئلہ بالکل درست اور برحق ہے.ایک دہر یہ جو مذہب کی تمام اصولی صداقتوں کا منکر ہے.وہ ہم سے دور ترین مقام پر ہے.اس کے بعد ایک ہند و کا نمبر آتا ہے جو خدا کو اور بعض غیر سامی انبیاء کو تو مانتا ہے مگر جملہ سامی انبیاء کا منکر ہے.اس کے بعد یہودی ہیں جو اکثر انبیاء کو مانتے ہیں مگر حضرت مسیح ناصری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکر ہیں.ان سے اوپر عیسائی ہیں جو دیگر انبیاء کے علاوہ حضرت مسیح ناصری کو بھی مانتے ہیں اور اسلام کے عرفی دائرہ سے باہر ہمارے قریب تر ہیں اور بالآخر سب سے اوپر اور سب سے زیادہ قریب غیر احمدی ہیں.جو باقی سب انبیاء پر ایمان لانے کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لانے کے بھی مدعی ہیں مگر وہ موجودہ زمانہ کے مامور و مرسل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرتے ہیں.بیشک یہ تمام گروہ اصطلاحی طور پر کفر کی زد کے

Page 388

۳۸۱ مضامین بشیر نیچے آتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی حقیقی رنگ میں مسلمان نہیں کیونکہ قرآن کی اصولی تعلیم کے مطابق جو شخص بھی کسی اہم اور اصولی مذہبی صداقت کا منکر ہو وہ خدا کی نظر میں مسلمان نہیں سمجھا جا تا مگر اس میں شبہ نہیں کہ ان مختلف اقوام کا کفر الگ الگ رنگ اور الگ الگ درجہ رکھتا ہے اور ان سب کو ایک درجہ اور ایک لیول پر سمجھنا کسی طرح درست نہیں.اسی لئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے غیر احمدی منکروں کو کافر قرار دیا ہے.وہاں کفر کی اقسام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے کفر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کفر سے علیحدہ اور ممتاز بھی رکھا ہے.بہر حال ہمارے نز دیک کفر کے مختلف درجے ہیں اور کفر دون کفر کے اصول کے ماتحت غیر احمدی مسلمان ہمارے قریب تر ہیں اور یہ ایک ایسی بدیہی صداقت ہے جسے کسی صورت میں رد نہیں کیا جا سکتا.علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ اسلام کی دو تعریفیں ہیں.ایک تو عرفی اور ظاہری تعریف اور دوسری حقیقی اور اصل تعریف.عرفی اور ظاہری تعریف تو یہ ہے کہ ایک شخص ظاہری طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور قرآنی شریعت کا قائل ہو اور ان پر ایمان لانے کا دعویٰ رکھتا ہو اور حقیقی اور اصلی تعریف یہ ہے کہ اسلام کے متعلق اس کا دعویٰ محض ایک زبانی دعوئی نہ ہو بلکہ وہ اسلام کی حقیقت پر قائم ہو اور اس کی سب صداقتوں پر ایمان لاتا ہو.اسلام کی اس دوہری تعریف کے ماتحت ہم جہاں غیر احمدیوں کو عرفی اور رسمی لحاظ سے مسلمان کہتے ہیں وہاں حقیقت اور اصلیت کے لحاظ سے ہم ان کے اسلام کے منکر بھی ہیں.اسی امتیاز کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہامی شعر اشارہ کرتا ہے کہ :- چودور خسروی آغاز کردند مسلماں را مسلمان باز کردند ۲ اس لطیف الہامی شعر میں جہاں ایک طرف عرف اور نام کے لحاظ سے غیر احمد یوں کو مسلمان کہہ کر پکارا گیا ہے وہاں حقیقت کے لحاظ سے ان کے اسلام کا انکار بھی کیا گیا ہے اور یہ وہ لطیف نکتہ ہے جس میں مسئلہ کفر و اسلام کی ساری بحث کا نچوڑ آ جاتا ہے.یہ سوال کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے منکروں کو واقعی کا فرقرار دیا ہے چند حوالوں سے بالکل واضح ہو جاتا ہے.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ( الف ) : '' اللہ تعالیٰ اب ان لوگوں کو مسلمان نہیں جانتا.جب تک وہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہ راست پر نہ آجائیں اور اس مطلب کے واسطے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے.‘ے

Page 389

مضامین بشیر ۳۸۲ (ب): " خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہونچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے.( ج ) : " کفر دو قسم پر ہے.اول : ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا.دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا.دوم : اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے.جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے.اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے.پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے کا فر ہے اور اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اول کافر قسم کفر یا دوسری قسم کفر کی نسبت اتمام حجت ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لائق ہوگا اور جس پر خدا کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا اور وہ مکذب اور منکر ہے تو گوشریعت نے (جس کی بنا ء ظاہر پر ہے ) اس کا نام بھی کا فر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اس کو باتباع شریعت کا فر کے نام سے ہی پکارتے ہیں مگر پھر بھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیت لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا قابل مواخذہ نہیں ہوگا.ان حوالہ جات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ قطعی طور پر واضح ہو جاتا ہے اور کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور ظاہر ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ ہے وہی جماعت کا عقیدہ ہے جس میں کسی احمدی کہلانے والے کو انکار کی مجال نہیں.خلاصہ کلام یہ کہ مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ چونکہ غیر احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کیا ہے جو خدا کے ایک برگزیدہ مرسل و مامور تھے.اور جن کے ماننے کے لئے خدا اور اس کے رسول نے سخت تاکید فرمائی ہے اور اسے اس زمانہ کے لئے مدار نجات ٹھہرایا ہے.اس لئے آپ کا منکر اسلامی اصطلاح کی رُو سے کافر ہے اور حقیقت کے لحاظ سے اسے کسی صورت میں بھی مسلمان نہیں سمجھا جا سکتا مگر با وجود اس کے غیر احمدیوں کا یہ کفر اس رنگ اور اس درجہ کا کفر نہیں جو ہندوؤں اور عیسائیوں وغیرہ میں پایا جاتا ہے بلکہ غیر احمدی مسلمان با وجو د اس کفر کے ہمارے بہت قریب ہیں اور انہیں یہ بھی حق حاصل ہے کہ اسلام کی ظاہری اور عرفی تعریف کے لحاظ سے مسلمان کہلائیں مگر حقیقت کے لحاظ سے وہ یقیناً مسلمان نہیں.

Page 390

۳۸۳ مضامین بشیر اگر اس جگہ یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب تریاق القلوب میں لکھا ہے کہ اپنے منکروں کو کا فرقرار دینا صرف ان نبیوں کا حق ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے نئی شریعت لاتے ہیں اور غیر تشریعی نبیوں کا انکار کفر نہیں ہوتا کہ اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسلمہ طور پر غیر تشریعی نبی تھے اس لئے آپ کا منکر کا فرنہیں ہو سکتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسا لکھا ہے اور ہمارے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہر ارشاد اور ہر فیصلہ ہر حال میں واجب القبول ہے مگر ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کی تحریرات کے ایسے معنی نہ کریں جو دوسری نصوص اور محکم تحریرات کے خلاف ہوں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ تحریرات پر یکجائی نظر ڈالنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تریاق القلوب والے حوالہ کا یہ منشا نہیں کہ غیر تشریعی نبی کا انکار کسی صورت میں بھی موجب کفر نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ جہاں ایک تشریعی نبی کا انکار براہ راست کفر ہوتا ہے.وہاں ایک غیر تشریعی نبی کا انکار براہ راست کفر نہیں ہوتا بلکہ اس کے نبی متبوع کے واسطے سے کفر قرار پاتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے منکروں کو کا فر قرار دیتے ہوئے یہی دلیل دی ہے کہ چونکہ میرے انکار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار لازم آتا ہے اس لیئے میرا منکر خدا کی نظر میں مسلمان نہیں.گویا صرف واسطہ کا فرق ہے ورنہ نتیجہ دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے.علاوہ ازیں اگر یہ قرار دیا جائے کہ ایک غیر تشریعی نبی کا انکار کسی صورت میں بھی کفر نہیں ہوتا تو پھر نعوذ باللہ قرآن کریم کی وہ محکم آیتیں باطل چلی جاتی ہیں جن میں ہر رسول اور ہر نبی کے انکار کو کفر قرار دیا گیا ہے اور اس جہت سے تشریعی اور غیر تشریعی نبیوں میں کوئی تمیز ملحوظ نہیں رکھی گئی.خلاصہ یہ کہ ہم تریاق القلوب والے حوالے کو مانتے ہیں مگر ہمارے نزدیک اس کے یہ معنی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار براہ راست کفر نہیں بلکہ اس وجہ سے کفر ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز اور تابع نبی ہیں اور آپ کے انکار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار لازم آتا ہے، جن کے دین کی تجدید اور جن کے مشن کی تکمیل کے لئے آپ مبعوث کئے گئے.اس مضمون کو ختم کرنے سے قبل یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ مسئلہ کفر واسلام ان مسائل میں سے نہیں ہے جن کے متعلق عام حالات میں بحث کی کوئی حقیقی ضرورت پیش آتی ہو.ہمارے سامنے اصل بحث یہ نہیں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکر کا فر ہیں یا مسلمان بلکہ اصل بحث یہ ہے اور اسی پر ہمیں اپنے سب مخالفوں کو مجبور کر کے لانا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی برحق ہیں اور آپ پر ایمان لانا ضروری ہے.جس کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی.اگر ہم اس صداقت کو لوگوں کے

Page 391

مضامین بشیر ۳۸۴ دلوں میں قائم کر دیں تو باقی سب باتیں خود بخود صاف ہو جاتی ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ہمارے غیر مبالع مہربان ہمیں خود مجبور کر کے اس مسئلہ کی طرف لاتے ہیں جس سے ان کی غرض احقاق حق نہیں ہوتی بلکہ دوسروی کو اشتعال دلانا اصل مقصد ہوتا ہے اور پھر ہمیں مجبور ہوکر ایک تلخ صداقت کا اظہار کرنا پڑتا ہے ورنہ حقیقتہ یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ جس کے متعلق عام حالات میں بحث وغیرہ کی ضرورت پیش آئے اور جہاں تک میں نے غور کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی طریق تھا کہ آپ اس بحث میں عام طور پر از خود قدم نہیں رکھتے تھے بلکہ صرف دوسروں کی طرف سے سوال ہونے پر اظہار رائے فرماتے تھے اور یہی مسلک ہمارا ہونا چاہیئے.( مطبوعه الفضل ۲۸ مئی ۱۹۴۰ء)

Page 392

۳۸۵ مضامین بشیر عزیزہ امتہ الودود بیگم کی وفات میں ہمارے لئے ایک سبق عزیزہ امتہ الودود بیگم کی وفات پر اولاً محترمی حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور بعدۂ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لطیف مضامین شائع ہو چکے ہیں جو صدمہ رسیدہ اور زخم خوردہ دلوں کے اندرونی جذبات کے اظہار کے علاوہ جماعت کے لئے ایک اعلیٰ دینی اور روجانی سبق کا رنگ رکھتے تھے اور خصوصاً حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا مضمون حدیث نبوی اذكروا امواتاكم بالخَیرِ کی ایک بہترین تفسیر تھا.اس لئے مجھے اس بارے میں کچھ مزید لکھنے اور تازہ زخموں کو لمبا کرنے کی ضرورت نہیں البتہ ایک اور جہت سے بعض باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں.یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ عزیزہ مرحومہ اپنے اخلاق اور دینداری کی وجہ سے اپنے ہر عزیز کے دل میں ایک خاص مقام رکھتی تھی اور اس کی بظاہر بے وقت وفات نے ہمارے خاندان کے ہر خور دو کلاں کو بہت سی دردانگیز یا دوں اور حسرتوں کے ساتھ مجروح کیا ہے اور خصوصاً سب سے زیادہ صدمہ مرحومہ کے والدین اور بھائیوں کے لئے ہے جنہیں وہ از حد عزیز بھی.عزیزہ امتہ الودود یقیناً شجرہ خاندان مسیح کی ایک پاکیزہ کلی تھی جس کی لپٹی ہوئی نازک پنکھڑیاں آنے والے پھول کے تصور سے دل میں خوشی پیدا کرتی تھیں مگر جس باغ کی وہ کلی تھی وہ ہمارا لگایا ہوا باغ نہیں بلکہ ہمارے آسمانی باپ کا لگایا ہوا باغ ہے اور اگر ہمارا یہ ازلی ابدی باغبان کسی وقت کسی مصلحت سے اپنے لگائے ہوئے باغ میں سے پھول کی بجائے کلی کو توڑنا پسند کرتا ہے تو اس پر کسی دوسرے کو اعتراض کا حق نہیں.بیج بھی اس کا ہے پودا بھی اس کا ہے.کلی بھی اس کی ہے اور پھول بھی اسی کا ہے اور باغ کی زمین اور باغ کا پانی اور باغ کی ہوا اور باغ کا ہر ذرہ اسی کی ملکیت ہے.پس اس کا حق ہے کہ جس طرح چاہے اپنے باغ میں تصرف کرے جس پودے کو چاہے رکھے اور جسے چاہے کاٹ دے.جس کلی کو چاہے پھول بننے دے اور جسے چاہے کلی کی صورت میں ہی تو ڑلے لَا يُسْئَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمُ يُسْتَلُونَ ا.مگر ہمارے خدا کا کوئی فعل حکمت و دانائی سے خالی نہیں ہوتا اور اس عالم کا مقدس باغبان اپنے باغ کے متعلق جو قدم بھی اٹھاتا ہے اس میں بالواسطہ یا بلا واسطہ ظاہر آیا باطناً فرد یا اجتماعا باغ ہی کی بہتری اور بہبودی مقصود ہوتی ہے اور گو ہمارے ناقص علم میں بعض باتیں بظاہر بے وقت یا بے سود

Page 393

مضامین بشیر ۳۸۶ نظر آئیں یا تلخی اور دردمندی کے سوا ان میں بھی کوئی اور پہلو دکھائی نہ دیتا ہو مگر حقیقہ ان میں بھی خدا تعالیٰ کی گہری مصلحت کام کرتی ہے اور تلخی کی تہہ کے نیچے کوئی نہ کوئی رحمت کا چشمہ جھلک رہا ہوتا ہے.یہی وہ فلسفہ حیات ہے جس سے عارف لوگ اپنے صدمات میں تسکین پاتے ہیں.دراصل غور کیا جائے تو اکثر بے وقت موتیں اپنے اندر کئی قسم کی مصلحتیں رکھتی ہیں مثلاً : (۱) بعض اوقات ایک بچہ خدا کے علم میں کم عمری میں ہی اس مخصوص غرض و غایت کو پورا کر دیتا ہے جو خدا کے علم میں اس کی ولادت کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے.جس پر خدا تعالیٰ اسے دُنیا کی عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی اپنے پاس بلا لیتا ہے اور اس صورت میں اس کی موت اپنے رنگ میں ایک کامیاب موت ہوتی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراھیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند بشیر اول کے معاملہ میں ہوا جن کی بلند فطری استعدادوں کے باوجود جو ایک اعلیٰ مستقبل کی خبر دیتی تھیں.خدا تعالیٰ نے انہیں بچپن میں ہی وفات دے کر اپنے پاس بلا لیا کیونکہ وہ اپنی ولادت کی مخصوص غرض وغایت کو پورا کر چکے تھے بلکہ ان کی بظاہر قبل از وقت وفات بھی ان کی ولادت کی غرض وغایت کا حصہ تھی.(۲) بعض اوقات ایک بچہ کی صغرسنی کی وفات مستقبل کے لحاظ سے خود اس کے اپنے لئے مفید ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ بظاہر ایک تلخ مگر در پردہ رحمت کا ہاتھ مار کر اسے ایک اچھے وقت میں وفات دے کر آئیندہ خطرات سے بچا لیتا ہے لیکن ضروری نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ مصلحت لوگوں پر بھی ظاہر ہو.(۳) بعض اوقات ایک بچہ کی وفات اس کے عزیزوں یا دوسرے لوگوں کے لئے بعض جہات سے مفید نتائج پیدا کرنے والی ہوتی ہے.جنھیں انسان کی ظاہر بین آنکھ نہیں دیکھتی مگر اللہ تعالیٰ کا وسیع علم ان پر حاوی ہوتا ہے اور اس صورت میں خدا تعالیٰ بچہ کو بظا ہر قبل از وقت وفات دے کر اس کے متعلقین کے لئے ایک آئندہ آنے والی رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہے.(۴) بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کی وفات میں قانون شریعت کے ماتحت کوئی مخصوص غرض مد نظر نہیں ہوتی بلکہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص قضاء وقدر کے عام قانون کی زد میں آ کر وفات پا جاتا ہے.چونکہ عام حالات میں قانونِ قضاء وقد ر ا ور قانون شریعت علیحدہ علیحدہ دائروں میں کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے حلقہ عمل میں دخل انداز نہیں ہوتے.اس لئے کسی شخص کا نیک ہونا اسے قضاء وقدر کی زد سے محفوظ نہیں رکھ سکتا اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر عام اپنا کام کر جاتی ہے.یہ وہ چند استثنائی صورتیں ہیں جن کے ماتحت دنیا کے بہت سے تلخ یا بظاہر بے وقت حادثات کی

Page 394

۳۸۷ مضامین بشیر تشریح کی جاسکتی ہے اور ان کے علاوہ بعض اور وجوہات بھی ہیں جو اس قسم کے حادثات کی تہہ میں کام کرتی ہیں مگر اس مختصر سے نوٹ میں ان سب کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں لیکن خواہ وجہ کچھ بھی ہو.یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے جو بھی بدل نہیں سکتی کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو ایسے رنگ میں بنایا ہے کہ کسی محبت کے رشتہ کے کٹنے پر انسان کا دل خون ہونے لگتا اور طبیعت میں ایک خطر ناک تلاطم برپا ہو جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک زندہ جسم کا زندہ ٹکڑا کاٹ کر علیحدہ کیا جا رہا ہے.مگر خدائی تقدیر کو ٹالنے کی کسی میں طاقت نہیں اور خواہ انسان صبر کرے یا جزع فزع سے کام لے بہر حال اسے مشیت الہی کے سامنے جھکنا پڑتا ہے تو پھر کیوں نہ صبر و رضا کے ساتھ جھکا جائے اور ایک جاری شدہ تقدیر کو انشراح صدر سے قبول کر لیا جائے.صبر ورضا کی کیفیت کو پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں عام انسانی عقل کی بھول بھلیاں میں نہیں چھوڑ دیا بلکہ خود اپنی طرف سے ایک ایسے لطیف گر کی تعلیم دی ہے جو تمام فلسفہ صبر و رضا کی کلید ہے.فرماتا ہے کہ جب اس دنیا میں کسی مومن کو کوئی تکلیف یا صدمہ پہونچے تو اسے فوراً دو باتوں کو یاد کر لینا چاہیئے.اول یہ کہ انسان کی زندگی دنیا کے لئے یا دوسرے انسانوں کے لئے نہیں ہے بلکہ خدا کے لئے ہے.اس لئے خواہ اسے دوسری چیزوں کی طرف سے کتنا ہی صدمہ پہونچے.جب اس کا خالق و مالک خدا زندہ موجود ہے.جس پر کبھی موت نہیں آسکتی تو کوئی صدمہ اس کے لئے ناقابل برداشت نہیں ہونا چاہیئے.دوم یہ کہ موت انسان زندگی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ صرف ایک درمیانی دروازہ ہے جس سے انسان زندگی کے ایک دور میں سے نکل کر دوسرے دور میں داخل ہو جاتا ہے اور بالآخر خدا کے پاس سب اگلے پچھلوں نے جمع ہو جانا ہے.پس موت کی جدائی ایک عارضی جدائی ہے جس کے بعد انشاء اللہ پھر ملنا ہو گا مگر یہ ضروری ہے کہ انسان خدا کے ساتھ اتحاد قائم رکھے کیونکہ یہ آخری اجتماع خدا کے پاس ہونے والا ہے اور وہاں وہی لوگ آپس میں مل سکیں گے جو خدا کا قرب حاصل کرنے کے قابل ہوں.یہی وہ گہری حقیقت ہے جسے قرآن کریم نے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کے مختصر مگر وسیع المعانی الفاظ میں بیان کیا ہے.یعنی اے مومنوتم یقین رکھو کہ ہماری زندگی خدا کے لئے ہے اور بالآخر ہم سب پھر خدا کے پاس جمع ہو جائیں گے.پس اے ہماری جدا ہونے والی بچی امتہ الودود! بیشک تیری جدائی کا صدمہ بہت بھاری ہے اور تیری بظاہر بے وقت موت ایسی ہے کہ جیسے کسی نے ہمارے زندہ جسم کے ایک زندہ حصہ کو کاٹ کر جدا کر دیا.جس کی وجہ سے ہماری روحیں درد کی شدت سے تلملا رہی ہیں مگر یہ صرف ایک مادی عالم کے مادی قانون کا مظاہرہ ہے ورنہ ہم جانتے ہیں کہ تیری زندگی خدا کے لئے تھی اور ہم جانتے ہیں کہ

Page 395

مضامین بشیر ۳۸۸ ہماری زندگی بھی خدا کے لئے ہے اور پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم سب نے آگے اور پیچھے اپنے آسمانی باپ کی گود میں جمع ہونا ہے.تجھے خدا نے اپنی کسی بار یک دربار یک مصلحت سے آغا ز شباب میں ہی بلا لیا جبکہ تو ابھی زندگی کی ڈیوڑھی میں قدم رکھ رہی تھی اور ہمیں اس نے اپنی کسی دوسری مصلحت سے زندگی کے تلاطم میں چھوڑ رکھا ہے.ہم نہیں جانتے کہ تیری حالت بہتر ہے یا ہماری مگر بہر حال ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم سب خدا کے لئے ہیں اور جلد یا بدیر اسی کے پاس جمع ہوں گے.ہاں ایک لحاظ سے تیری حالت ضرور بہتر ہے کہ تو اپنے خدا کے پاس پہونچ گئی اور ہم ابھی انتظار میں ہیں تو اس بزرگ ہستی یعنی اپنے دادا کی گود میں جابیٹھی جس سے ہمارے خاندان کی ساری عزتیں ہیں اور ہم اپنے خاندان کے ان نو نہالوں پر نظر جمائے کھڑے ہیں جن کے متعلق ہم نہیں جانتے کہ ان کا مستقبل کیا نکلتا ہے شائد وہ ایسے اچھے نکلیں کہ سب اگلے پچھلوں کے لئے موجب فخر بن جائیں اور شائدان میں سے کوئی حصہ کمزوری دکھانے والا ہو.یہ سب اللہ کے علم میں ہے.ہمارا کام صرف یہ دُعا کرنا ہے رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَّاجَعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا.٢ ہمارے خاندان کے لئے عزیزہ امتہ الودود کی وفات دو لحاظ سے ایک سبق ہے.جس سے ہمارے خاندان کے نونہالوں کو فائدہ اٹھانا چاہیئے.اول مرحومہ کی جوانی کی وفات اور پھر اچانک وفات ہمیں اس بات کا سبق دیتی ہے کہ بچپن یا جوانی کی عمر اس بات کی ہرگز ضامن نہیں ہے کہ اس عمر میں انسان موت سے محفوظ ہوتا ہے بلکہ موت ہر عمر میں آ سکتی ہے.پس انسان کو اپنی عمر کے ہر حصہ میں خدا کے پاس حاضر ہونے کے لئے تیار رہنا چاہیئے.اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ وفات سے پہلے انسان کو آخرت کی تیاری کے لئے کوئی خاص موقع ملے بلکہ ہوسکتا ہے کہ وفات اچانک واقع ہو جائے.اس لئے انسان کو ہر لحظہ اور ہر گھڑی موت کے لئے تیار رہنا چاہیئے.اور یہی اس قرآنی آیت کی عملی تشریح ہے کہ لَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ.اور یہ ایک از حد خوشی کا مقام ہے ا.کہ باوجود اس کے کہ عزیزہ امتہ الودود کی وفات بالکل نو جوانی میں ہوئی اور پھر با وجود اس کے کہ موت اچانک ہوئی.حتی کہ مرحومہ کی مختصر بیماری کا آغاز بھی نیند کی حالت میں ہوا لیکن پھر بھی جیسا کہ اس کا انجام ظاہر کرتا ہے.ملک الموت نے اسے خدائی دربار کے لئے تیار پایا.پس ہمارے خاندان کے دوسرے بچوں اور نوجوانوں کو بھی اسی طرح اپنے رب کی حاضری کے لئے تیار رہنا چاہیئے کیونکہ کون کہہ سکتا ہے کہ کب پیغام آ جائے.دوسرا سبق جو ہمیں مرحومہ کی وفات سے حاصل ہوتا ہے.وہ اس محبت کے مظاہرہ سے تعلق رکھتا ہے جو ہمارے اس صدمہ میں جماعت کے دوستوں کی طرف سے ہوا.میں ان جذبات شکر کے

Page 396

۳۸۹ مضامین بشیر اظہار کے لئے الفاظ نہیں پاتا جو میرے دل میں اپنے روحانی بھائیوں اور بہنوں کے متعلق یہ دیکھ کر پیدا ہوئے ہیں کہ انہوں نے کس طرح ہمارے صدمہ کو اپنا سمجھا اور ہمارے درد کو اپنا درد خیال کیا اور ہماری تکلیف کے احساس سے ان کی روحیں بے چین ہو گئیں.بہت سے دوستوں کو میں دیکھتا تھا کہ وہ ہمارے سامنے آکر اپنے جذبات کی شدت میں پھوٹ پڑنے کے لئے تیار تھے مگر ہمارے اندرونی تلاطم کو محصور دیکھ کر بڑی کوشش کے ساتھ رک جاتے تھے مگر بعض ایسے بھی تھے کہ وہ رکنے کی طاقت نہ پا کر پھوٹ پڑتے تھے اور ہمیں انہیں تسلی دلانی پڑتی تھی.بہت سے لوگ جنازے کی شرکت کے لئے باہر سے تشریف لائے.بعض نے خود اپنی طرف سے تاریں دے کر اپنے باہر کے عزیزوں کو قادیان بلایا تا کہ وہ ہمارے غم میں شریک ہو سکیں.کئی ایسے ہیں جن کو اس حادثہ کے بعد رات بھر نیند نہیں آئی اور انہوں نے ہمارے خاندان کے لئے دعا کرتے ہوئے رات بسر کی اور ایک بہت بڑی تعداد نے جو باہر رہتے ہیں خطوں اور تاروں اور زبانی پیغاموں کے ذریعہ اپنی دلی ہمدردی کا اظہار کیا.ہم اپنے ان لا تعداد دوستوں بہنوں اور بھائیوں کا سوائے اس کے اور کیا شکر یہ ادا کر سکتے ہیں کہ خدا یا جس طرح ہمارے ان روحانی عزیزوں نے تیرے پاک مسیح میں سے ہوکر اور اس کے ساتھ رشتہ جوڑ کر ہماری محبت کو اپنے سینوں میں جگہ دی اور ہمارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا اور تمام دنیوی رشتوں سے بڑھ کر اس روحانی رشتہ کی قدر کی.اسی طرح تو بھی ان کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دے اور ان کی تکلیفوں میں ان کا حافظ و ناصر ہو اور ان کے اس روحانی پیوند کو اپنے فضل و رحم کے ساتھ ایسا نواز اور ایسا با برکت کر کہ اس پیوند سے پیدا ہونے والے درخت سے قیامت تک تیری رضا اور خوشنودی کے پھل اترتے رہیں.جو دنیا میں تیرے نام کو روشن کرنے والے اور تیرے کام کو تکمیل تک پہونچانے والے ہوں.امين اللهم امين واخر دعوان الحمد لله رب العالمين.(مطبوعہ الفضل ۲ جولائی ۱۹۴۰ء)

Page 397

مضامین بشیر ۳۹۰ نقشه ما حول قادیان جیسا کہ کچھ عرصہ ہوا میں نے اعلان کیا تھا میں نے قادیان کے گردونواح میں جماعت کے ایسے زمیندارا حباب کے لئے جو قادیان کے آس پاس زرعی اراضیات خریدنے کے خواہشمند ہیں زمین کی خرید کا انتظام کیا ہے تا کہ دوستوں کو اس معاملہ میں ہر قسم کی سہولت بہم پہنچائی جاسکے.اس غرض کے لئے میں نے قادیان کے گردونواح کے دیہات کا ایک نقشہ بھی تیار کرایا ہے.جس میں قادیان کے چاروں جانب چند میل تک کے دیہات دکھائے گئے ہیں اور نہر بھی اور بڑے راستہ جات وغیرہ بھی دکھائے گئے ہیں تا کہ زمین خریدنے والے اصحاب کو فیصلہ میں ہر قسم کی سہولت رہے.نقشہ میں اس بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ مختلف دیہات میں کس قوم کی آبادی ہے تا کہ دوست جس قسم کے ماحول میں زمین خرید نا پسند کریں اسے اختیار کر سکیں.علاوہ ازیں یہ نقشہ تبلیغی ضروریات کے بھی کام آ سکتا ہے اور اس غرض کے لئے اس میں بعض مفید معلومات زیادہ کر دئیے گئے ہیں.جو دوست اس نقشہ کو منگوانا چاہیں وہ خاکسار کو اطلاع دیں.قیمت کا فیصلہ بعد میں نقشہ طبع ہونے پر کیا جائے گا.موجودہ اندازہ آٹھ آنے فی نقشہ کا ہے.نقشہ ایسی صورت میں طبع کرایا جارہا ہے کہ کتابی شکل میں تہہ ہوکر جیب میں رکھا جا سکے.( مطبوعہ الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۴۰ء)

Page 398

۳۹۱ خریداران اراضی کے لئے ایک ضروری اعلان مضامین بشیر ہماری سکنی اراضیات کی فروخت کے لئے حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم مقرر تھے اور وہ عموماً جلسہ سالانہ کے بعد فروخت کا سارا حساب کتاب صاف کر کے مجھے سمجھا دیا کرتے تھے لیکن اس دفعہ چونکہ جلسہ سالانہ کے بعد مولوی صاحب موصوف کی طبیعت کچھ علیل رہی اور وہ حضرت صاحب کے ساتھ کراچی تشریف لے گئے اور وہاں سے زیادہ بیمار ہو کر واپس آئے اور اسی بیماری میں انتقال فرما گئے.اس لئے جلسہ سالانہ ۱۹۳۹ء کی فروخت کے متعلق مجھے ان سے حساب فہمی کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی فروخت اراضی کا ریکارڈ پوری طرح صاف ہو سکا.اس لئے بروئے اعلان ہذا دوستوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ جن اصحاب نے گذشتہ جلسہ سالانہ میں مولوی صاحب موصوف کی معرفت ہماری کوئی سکنی زمین خریدی ہو.وہ مجھے بہت جلد نمبر اراضی اور رقبہ اور زرشمن سے اطلاع دیں تا کہ حساب چیک کیا جاسکے اور اگر کوئی غلطی ہو تو وہ درست کر دی جائے.اگر اس اعلان کے بعد کسی صاحب نے اطلاع دینے میں غفلت یا سستی سے کام لیا تو اس کی ذمہ واری ان پر ہوگی.(مطبوعہ الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۴۰ء)

Page 399

مضامین بشیر ۳۹۲ ایک بدعت کا آغاز آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم حدیث میں فرماتے ہیں کہ خدا کے محرمات کی ایک رکھ ہوتی ہے اور خدا مومنوں کو اس محفوظ جنگل میں داخل ہونے یا اس میں اپنے جانور چرانے سے منع فرما دیتا ہے.مگر چونکہ انسان کی طبیعت کمزور واقع ہوئی ہے اور عموماً نیکی کی طرف قدم اٹھانے کی بجائے وہ بدی کی طرف جلدی جھک جاتا ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو نصیحت فرماتے ہیں کہ وہ اس خدائی رکھ کے قریب قریب بھی اپنے جانور نہ چرائیں.ورنہ اندیشہ ہے کہ کسی وقت غلطی سے وہ رکھ کے اندر جا گھسیں مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ اس نکتہ کو نہیں سمجھتے اور ہر جائز چیز کو اس انتہاء تک پہونچا دیتے ہیں کہ جہاں حرام و حلال کی حدود دملتی ہیں اور پھر کبھی دانستہ اور کبھی نا دانستہ گناہ کے جنگل میں قدم ڈال بیٹھتے ہیں.علاوہ ازیں شریعت کے گہرے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو اپنی ذات میں تو نا جائز نہیں ہوتیں مگر ایک خاص ماحول میں جا کر گناہ کا باعث بن جاتی ہیں مگر نا واقف لوگ محض اس بناء پر کہ وہ اپنی ذات میں منع نہیں ، انہیں ہر ماحول میں جائز سمجھنے لگ جاتے ہیں.مجھے اس نوٹ کی اس لئے ضرورت پیش آئی ہے کہ یہاں قادیان میں مجھے ایک ایسی دعوت ولیمہ میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا جس میں فریقین قدیم اور مخلص احمدی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے مگر اس دعوت میں ایک ایسی بدعت کا اظہار ہو ا جس کے متعلق میں ڈرتا ہوں کہ اگر اس کا بروقت انسداد نہ کیا گیا تو وہ زیادہ وسیع ہو کر ہمیں صحیح اسلامی تمدن سے دُور جا پھینکے گی.اس دعوت میں مرد وعورت دونوں مدعو تھے.عورتوں کے کھانے کا انتظام کمروں کے اندر تھا اور مرد جو کافی تعداد میں تھے ان کمروں کے ساتھ لگتے ہوئے صحن میں بٹھائے گئے تھے اور عورتوں اور مردوں کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی.جس میں متعدد دروازے کھلتے تھے.کھانے کے دوران میں کمروں کے اندر سے باجے کی آواز آنی شروع ہوئی جو غالبا گراموں فون یا ریڈیو کی آواز تھی اور گانا جہاں تک میں سمجھ سکا عورتوں کا گایا ہو ا تھا.یہ گانا عین دُعا تک بلکہ میں اگر غلطی نہیں کرتا تو دُعا کے ابتدائی حصہ میں بھی جاری رہا.میں خیال کرتا ہوں کہ گا نا خراب مضامین پر ر مشتمل نہیں ہوگا بلکہ جو الفاظ میرے کانوں تک پہونچے ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ غالبا یہ گانا مدحیہ اور نعتیہ اشعار پر ر پر مشتمل تھا مگر بہر حال یہ ایک ایسی بدعت تھی جو اس سے قبل قادیان میں کبھی نہیں دیکھی گئی.میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگوں کے گھروں میں ریڈیو سیٹ

Page 400

۳۹۳ مضامین بشیر ہیں جو انہوں نے تازہ خبروں کے سننے کی غرض سے لگا رکھے ہیں اور کبھی کبھی وہ یا ان کے اہل وعیال ان ریڈ یوسیٹوں پر موسیقی کا پروگرام بھی سُن لیتے ہوں گے.اور میں ذاتی طور پر اس میں چنداں ہرج نہیں دیکھتا بشر طیکہ گانا بُرا نہ ہو.اسی طرح میں جانتا ہوں کہ بعض لوگوں کے پاس گراموفون بھی ہیں جنہیں وہ اپنے گھروں میں پرائیویٹ طور پر استعمال کرتے ہیں اور حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک خطبہ میں ان گراموفون باجوں کے متعلق اصولی طور پر فرما چکے ہیں کہ خیـرهـا خیر و شرها شر.پس اگر کوئی شخص اپنے گھر میں پرائیویٹ طور پر کبھی کبھی موسیقی سن لیتا ہے تو اگر یہ موسیقی اپنے اندر کوئی مخرب اخلاق یا نا جائز عصر نہیں رکھتی تو مجھے یا کسی اور شخص کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا بشرطیکہ وہ حد اعتدال سے تجاوز کر کے انہاک اور ضیاع وقت کا موجب نہ ہونے لگے مگر جس بات نے مجھے اس دعوتِ ولیمہ میں تکلیف دی وہ یہ تھی کہ ایک مسنون رنگ کی دعوت میں جس میں مرد و عورت کا اس قدر قریب کا اجتماع تھا باجے اور موسیقی کا پلک مشغلہ کیا گیا جو میرے خیال میں ان حدود کے سراسر منافی ہے جو شریعت اسلامی ان معاملات میں قائم کرنا چاہتی ہے.اور پھر یہ گانا عورتوں کا گا نا تھا جو دُعا تک میں یا کم از کم اس کے ایک حصہ میں جاری رہا.میں اپنے دوستوں سے بڑی محبت اور ادب کے ساتھ عرض کروں گا کہ ایک غیر اسلامی حکومت کی وجہ سے ہم پہلے سے ہی دجالی تہذیب کے بہت سے پھندوں میں گرفتار ہیں.پس خدارا وہ اپنے ہاتھ سے ہمارے ان پھندوں کی تعداد میں اضافہ نہ کریں.ایسی باتوں میں یہ خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ یہ ایک معمولی بات ہے.دُنیا میں اکثر معمولی نظر آنے والی باتیں بالآخر وسیع اور خطرناک نتائج کا باعث بن جایا کرتی ہیں.پس عقلمند آدمی کا یہ کام ہے کہ چیزوں کی ابتدا کو نہیں بلکہ ان کی انتہاء کو دیکھے اور آگ کی ایک چھوٹی سی چنگاری میں اس وسیع اور مہیب آگ کا نظارہ کرے جو بڑے بڑے شہروں اور آبادیوں کو جلا کر خاک کر دیتی ہے.جب کسی دریا کا بند ٹوٹتا ہے تو شروع میں وہ عموماً ایک سوئی کے ناکے سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا لیکن اگر اس کا بروقت انسداد نہ کیا جائے تو یہی سوئی کا سا سوراخ ایک دوسرے دریا کی شکل اختیار کر کے وسیع علاقوں کے علاقے ڈبو دیتا ہے.پس مجھے اندیشہ ہے کہ جس بدعت کا اب آغاز ہوا ہے ( اور خدا کرے یہ آغاز ہی اس کا انجام ثابت ہو ) وہ آہستہ آہستہ ہماری مجلسوں کو ان دجالی مجالس کا رنگ نہ دیدے جن میں موسیقی اور خصوصاً عورت کی موسیقی ہر سوشل تقریب کی جان سمجھی جاتی ہے.میں ہر گز یہ خیال نہیں کرتا کہ جن دوست کے مکان پر یہ بدعة سيئة ظاہر ہوئی ہے انہوں نے

Page 401

مضامین بشیر ۳۹۴ دانستہ اس غلطی کا اسے غلطی سمجھتے ہوئے ارتکاب کیا ہو بلکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ انہوں نے اسے غلطی نہیں جانا اور یونہی ایک تفریح کے رنگ میں شادی کے ماحول کو بظاہر خوشگوار بنانے کی خاطر یہ کام کیا ہوگا اور دُعا کے وقت میں گانے کا جاری رہنا تو یقیناً غلط فہمی کا نتیجہ تھا مگر ہمارے دوستوں کو یا د رکھنا چاہیئے کہ دُنیا میں اکثر تباہیاں ان غلطیوں کی وجہ سے نہیں آتیں جو جان بوجھ کر کی جائیں بلکہ زیادہ تر ان غلط فہمیوں اور بے احتیاطیوں کی وجہ سے آتی ہیں جن کا ارتکاب نا دانستہ طور پر کیا جاتا ہے کیونکہ جان بوجھ کر غلطی کرنے والے بہت تھوڑے ہوتے ہیں.مگر غفلت اور بے احتیاطی برتنے میں ایک قوم کی قوم ملوث ہو سکتی ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ آج کی نادانستہ غلطی کچھ عرصہ کے بعد دانستہ غلطی کی شکل اختیار کر لیتی ہے.پس غور کیا جائے تو دیدہ و دانستہ غلطی کی نسبت ایک لحاظ سے غفلت اور بے احتیاطی کا ارتکاب زیادہ خطر ناک ہے.میں امید کرتا ہوں کہ میری یہ مختصر مگر ہمدردانہ نصیحت ایسے دوستوں کے لئے مفید ثابت ہو گی جو ہر نیکی کی بات کو خوشی اور شوق سے قبول کرنے کے متلاشی رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہوا اور ہمیں ہر قسم کی بدعتوں اور ٹھوکروں سے بچا کر اپنے رضا کے رستے پر چلنے کی توفیق دے.آمین ہاں ایک ضروری بات میں بھول گیا.وہ یہ کہ جب کمروں کے اندر سے گانے کی آواز آنی شروع ہوئی تو میرے قریب ایک بزرگ نے جو دینی عالم بھی ہیں اپنے ایک ساتھی سے فرمایا کہ شادی کے موقع پر گانا جائز ہے.میں ان بزرگ کے مقابل پر ہر گز کسی علمی تفوق کا مدعی نہیں مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ رائے جو انہوں نے ظاہر فرمائی درست نہیں.بے شک نکاح کے موقع پر اعلان کی غرض سے ڈھول وغیرہ بجانا جائز ہے اور احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ بعض اوقات شادی وغیرہ کے موقع پر مستورات گھروں کے اندر گانے وغیرہ کا شغل بھی کر لیتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شغل کو منع نہیں فرمایا مگر ان دونو باتوں سے وہ نتیجہ نکالنا جوان بزرگ نے نکالا ہے، میری رائے میں درست نہیں کیونکہ نکاح کے وقت کا باجا تو محض اعلان کی غرض سے ہے اور گھروں کے اندر علیحدگی میں عورتوں کا کوئی شغل کر لینا ایک پرائیویٹ چیز ہے مگر یہاں جو طریق اختیار کیا گیا وہ بالکل جدا گانہ رنگ رکھتا ہے کیونکہ یہاں ایک دعوت ولیمہ میں جبکہ مرد و عورت صرف ایک دیوار کے فاصلہ سے اکٹھے بیٹھے تھے عورتوں کا گانا ایک پبلک مشغلہ کے طور پر سنایا گیا اور ان دونوں صورتوں میں بہت بھاری فرق ہے.اگر میرے کسی دوست کو یہ فرق علمی رنگ میں نظر نہ آئے تو وہ اس طرح خیال فرما سکتے ہیں کہ جہاں ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کے گھروں میں شادیوں وغیرہ کے موقع پر عورتیں پرائیویٹ طور پر گانے کا شغل کرتی رہی ہیں.وہاں

Page 402

۳۹۵ مضامین بشیر دوسری طرف ان ہادیانِ دین میں سے کسی کے گھر میں بھی آج تک یہ بات نہیں ہوتی کہ ولیمہ وغیرہ کی دعوت پر گانے بجانے کا مشغلہ کیا گیا ہو.پس جس فرق کو ہمارے راہنماؤں نے ملحوظ رکھا ہے وہ ہمیں بھی ملحوظ رکھنا چاہیئے.( مطبوعه الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۴۰ء)

Page 403

مضامین بشیر ۳۹۶ خان غلام محمد خان صاحب مرحوم آف میانوالی الفضل میں اخویم خان غلام محمد صاحب مرحوم کی وفات کی خبر شائع ہو چکی ہے.خان صاحب مرحوم میرے ہم زلف تھے اور گو عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے مگر میری اور ان کی شادی ( جو دراصل ان کی دوسری شادی تھی ) ایک ہی دن اکٹھی ہوئی تھی.جس کو آج چونتیس سال سے زائد عرصہ گزرتا ہے.خان غلام محمد خان صاحب موصوف ابتدا میں میانوالی کے سرکاری سکول میں ہیڈ ماسٹر ہوتے تھے اور بہت کامیاب اور ہر دلعزیز ہیڈ ماسٹر سمجھے جاتے تھے.اس کے بعد وہ ای-اے.سی کے انتخاب میں آگئے اور کئی سال کی ملازمت کے بعد باعزت ریٹائر ہوئے مگر خوش قسمتی سے ریٹائر ہونے کے جلد بعد بھکر ضلع میانوالی کے قرضہ بورڈ میں چیئر مین مقرر ہو گئے اور اسی زمانہ میں وفات پائی.مرحوم کی طبیعت بہت سادہ اور صاف گو تھی اور طبیعت میں کسی قسم کا تکبر نہیں پایا جاتا تھا بلکہ ہر طبقہ کے لوگوں کے ساتھ برادرانہ اور بے تکلفانہ انداز میں ملتے تھے.طبیعت میں دیانتداری کا جذ بہ بھی غالب تھا.چنانچہ ملازمت کے دوران میں جہاں سینکڑوں ڈگمگا دینے والے موقعے پیدا ہوتے رہتے ہیں ہمیشہ اپنے دامن کو پاک رکھا بلکہ غرباء اور مظلوموں کی امداد کا اچھا نمونہ دکھایا..مرحوم پرانے احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بہت محبت رکھتے تھے.چنانچہ آپ کے الہامات اور عربی کتب کو ہمیشہ بڑے شوق اور محبت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عربی تصنیفات سے از حد متاثر تھے.چنانچہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میں نے تو ایم.اے کا امتحان بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب کی برکت سے پاس کیا تھا.اپنے بڑے دو بچوں کو بھی گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب درساً پڑھائی تھیں.جب تذکرہ شائع ہوا تو اس وقت مرحوم اتفاق سے قادیان میں تھے.مجھے کہہ کر بڑے شوق سے اس کی ایک کاپی منگوائی اور میں اگر بھولتا نہیں تو ایک رات کے دوران شروع سے لے کر آخر تک سب پڑھ ڈالی.تبلیغ کا بھی شوق تھا اور اپنے مخصوص پٹھانی انداز میں اکثر تبلیغ کرتے رہتے تھے.بلکہ اگر کسی جلسہ میں شریک ہوں اور وہاں کوئی تبلیغ کا موقع پیدا ہو یا پیدا کیا جا سکے تو فوراً کھڑے ہو کر دو چار منٹ کے لئے کلمہ حق پہونچا دیتے تھے.ایک دفعہ مشہور عیسائی سوسائٹی مسمی وائی ایم سی.اے کے جلسہ میں چلے گئے اور صدر مجلس سے کہہ کر دومنٹ کی اجازت حاصل کی کہ میں حضرت مسیح موعود کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ شروع کر دی.

Page 404

۳۹۷ مضامین بشیر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر جب جماعت میں اختلاف ظاہر ہوا تو خان صاحب نے فوراً حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور گو شروع شروع میں بعض رشتہ داروں کی مخالفت کی وجہ سے کچھ دب دب کر رہے لیکن اخلاص میں فرق نہیں آیا.چنانچہ جب ای.اے.سی کا امتحان دیا تو حضرت خلیفتہ اسی الثانی کی خدمت میں چند نب بھجوا کر دعا کی درخواست کی اور عرض کیا کہ ان نبوں پر دعا فرمائیں تاکہ میں ان سے اپنے پرچے لکھوں.چنانچہ حضرت خلیفتہ امسیح کی دعاؤں سے خدا نے کامیابی عطا فرمائی.اور اس کا وہ ہمیشہ فخر کے ساتھ ذکر کیا کرتے تھے.جب سال رواں کے شروع میں قبلہ حضرت مولوی غلام حسن خان صاحب نے حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی تو خان صاحب مرحوم اس پر بہت خوش ہوئے اور پے در پے دو خطوں میں میرے پاس اپنی خوشی کا اظہار کیا.چنانچہ ایک خط میں لکھتے ہیں :- آغا جان کی بیعت کا میں نے ۲۵ جنوری ۱۹۴۰ء کے الفضل میں پڑھ لیا تھا.مجھے پڑھ کر بہت خوشی ہوئی.میں نے خود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی بیعت ۱۹۱۴ء میں اس بیت کو مدنظر رکھ کر کی تھی کہ : - دور او پسرش چوں شود تمام بکام یادگار بینم میں نے محمد علی صاحب کی بیعت کبھی نہیں کی اور نہ مجھے کبھی اس کی خواہش ہوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے مجھے ہمیشہ محبت رہی ہے اور لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے کسی ممبر کو جب وہ میرے گھر پر آیا موجب برکت سمجھتا رہا ہوں.اور جلسہ پر بھی گاہے بگا ہے قادیان آتا رہا ہوں.اس دفعہ بھی میری خواہش تھی لیکن بوجہ ضعف و بیماری نہ آسکا.دعا کریں کہ آیندہ توفیق عطا ہو.آغا جان صاحب نے میری بیعت“ والے مضمون میں جو۲ فروری ۱۹۴۰ء کے الفضل میں چھپا ہے دو الہامات حضرت مسیح موعود سے نئی توجیہہ کی ہے لیکن ان کا خیال اس الہام کی طرف نہیں گیا کہ ”خدا مسلمانوں کے دوفریقوں میں سے ایک کے ساتھ ہوگا اور ہر طرح خیریت ہے.“ خان صاحب مرحوم نے مرض کا ربنکل سے ۳۰ ستمبر ۱۹۴۰ء کی شام کو اپنے وطن میانوالی میں بھمر - خداد و مسلمان فریق میں سے ایک کا ہوگا.تذکرہ صفحہ ۶۰۴ طبع ۲۰۰۴ء ۶۵ سال وفات پائی.کئی سال سے ذیا بیطس کی تکلیف تھی.مگر کبھی اس کی پروانہیں کی اور نہ ہی باوجود

Page 405

مضامین بشیر ۳۹۸ ڈاکٹروں کے مشورہ کے کبھی کوئی پر ہیز کیا.آخر کا ر بنکل نے حملہ کیا اور چند روز بیمار رہ کر داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.بیماری کے آخری تین روز سخت تکلیف رہی.مگر ہمت ایسی تھی کہ جس دن شام کو فوت ہونا تھا اور ڈاکٹر جواب دے چکے تھے اس دن کی دو پہر کا کھانا بھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ مل کر دستر خوان پر کھایا اور وفات سے صرف پندرہ منٹ قبل بعض ضروری کاغذات پر دستخط کئے.نزع کی حالت میں بڑے لڑکے عزیز عبدالرؤف خان نے روتے ہوئے کہا آپ ہمیں کس پر چھوڑ کر جا رہے ہیں جس پر خان صاحب نے فوراً جواب دیا خدا پر.اپنی اولاد کے حق میں مرحوم ایک بہت اچھے باپ تھے اور ہمیشہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر ان کی بہبودی کے لئے کوشاں رہتے تھے.اور دنیوی بہبودی کے ساتھ ساتھ اولاد کی دینی بہبود کا بھی خیال رہتا تھا.چنانچہ جب دو بڑے لڑکے بالغ ہو گئے تو خود انہیں ساتھ لے کر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی بیعت کروائی.اور قادیان جاتے رہنے کی بھی تاکید کرتے رہتے تھے.مرحوم نے اپنے پیچھے پانچ لڑکے اور دولڑکیاں چھوڑی ہیں.دو بڑے لڑکے سرکاری ملازمت میں آچکے ہیں.یعنی عزیز عبد الرؤف خان بی.اے نائب تحصیلدار ہیں.اور عزیز عبد الحمید خان بی.اے تحصیلدار ہیں اور دو چھوٹے لڑکے تعلیم پارہے ہیں.اور منجھلا لڑکا ملازمت کی تلاش میں ہے.ایک لڑکی شادی شدہ ہے.اور عزیز سجا د سرور نیازی بی.اے ڈائرکٹر آل انڈیا ریڈیو لاہور کے عقد میں ہے.اور دُوسری لڑکی کی شادی عنقریب عزیز مسٹر عبدالکریم نیازی ایم.اے انکم ٹیکس افسر کے ساتھ ہونے والی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کا حافظ و ناصر ہو.اور دینی اور دنیوی ترقیوں سے بہرہ ور کرے.آمین ( مطبوعه الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۴۰ء)

Page 406

۳۹۹ حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ دوہری ذمہ واری کے متعلق دُعاؤں کی خاص ضرورت مضامین بشیر حضرت امیر المومنین خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی وصیت پر جماعت نے جس رنگ میں صدقہ و خیرات اور دُعاؤں کی طرف توجہ دی ہے وہ ایک بہت قابلِ تعریف اور قابلِ قدرنمونہ ہے جس کی مثال صرف خدائی سلسلوں میں ہی نظر آتی ہے.کیونکہ اس سے جماعت کے اس اخلاص کا اندازہ ہوتا ہے ، جو اسے اسلام اور احمدیت کی ترقی اور بہبودی کی خاطر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے.مگر پھر بھی میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک جماعت کے ایک حصہ نے اس خطرہ کی اہمیت کو پوری طرح محسوس نہیں کیا جو حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ کی وصیت میں مضمر ہے اور جس کی طرف جماعت کے بہت سے دوستوں کی خوا ہمیں اشارہ کر رہی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے گوناگوں مصالح کے ماتحت انسان کی نظر سے اس کے مستقبل کو مستور کر رکھا ہے اور یہ نظام سرا سر رحمت پر مبنی ہے مگر بعض اوقات اس کی رحمت کا یہ بھی تقاضا ہوتا ہے کہ وہ الہامات یا خوابوں وغیرہ کے ذریعہ کسی آنے والے واقعہ کی جھلک دکھا کر اپنے بندوں کو ہوشیار کر دیتا ہے تا کہ اگر ممکن ہو تو وہ آنے والی مصیبت کو دعاؤں اور صدقہ وخیرات کے ذریعہ سے ٹال دیں.یا اگر خدا کے علم میں یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم وہ اس مصیبت کے لئے تیار ہو جا ئیں.کیونکہ یہ بھی ایک خدائی رحمت ہے کہ وہ اچانک صدمہ پہونچانے کی بجائے پہلے سے ہوشیار کر کے اپنی تلخ تقدیر کو وارد کرے.پس حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق مختلف لوگوں کو پے در پے مندر خوابوں کا آنا انہیں دو مصلحتوں کی وجہ سے ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ ایک چوکس سپاہی کی طرح ان دونوں رستوں کے لئے تیار رہے.یعنی ایک طرف وہ اپنے صدقہ و خیرات اور اپنی متضرعا نہ دُعاؤں کو اس حد تک پہنچا دے کہ جو انسانی کوشش اور انسانی طاقت کی آخری حد ہے تا کہ

Page 407

۴۰۰ مضامین بشیر ہماری بے کسی اور بے بسی کو دیکھ کر خدائے رحیم و کریم کی رحمت جوش میں آئے.اور ان اللہ غالب علیٰ امرہ کے ازلی اصول کے ماتحت خدا کی ایک تقدیر اس کی دوسری تقدیر کو دھکیل کر پیچھے کر دے اور دوسری طرف ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا محاسبہ کر کے اپنے آپ کو اوپر اٹھانے کی اس حد تک کوشش کریں اور اپنے علم اور اپنے ایمان اور اپنے عمل اور سب سے بڑھ کر اپنے تقوی کو اس درجہ جلا دے دیں کہ خدا کی ہر تقدیر ہمیں ہر قسم کے حالات کے لئے تیار پائے اور کوئی مصیبت خواہ وہ کتنی ہی بھاری ہو.ہماری ترقی کی رفتار کو سست نہ ہونے دے بلکہ ایک تازیانہ کا کام دے کر ہمارے قدم کو اور بھی تیز کر دے.یہ وہ دوہری ذمہ واری ہے جو اس وقت ہم پر عائد ہوتی ہے اور ہر بچے احمدی کو اس ذمہ واری کے لئے پوری مستعدی کے ساتھ تیار ہو جانا چاہیئے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کا مبارک وجود حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا وجود باجود نہ صرف اپنی عظیم الشان عملی برکات کی وجہ سے جو ہر قدم میں آپ کے ساتھ رہی ہیں بلکہ ان زبر دست خدائی شہادات کی بنا پر بھی جو آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں پائی جاتی ہیں، جماعت کے لئے ایک ایسا مبارک وجود ہے کہ اس پر خدا کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے.آپ کے وجود کو گویا خدائی تقدیر نے ابتداء سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات والا صفات کے ساتھ اس طرح جوڑ رکھا ہے جس طرح دو تو ام بچے آپس میں جڑے ہوئے پیدا ہوتے ہیں.ابتداء آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے ساتھ ملا کر يَتَزَوْجُ وَيُولَدُل کے الفاظ فرمائے اور گویا دونوں پیشگوئیوں کو ملا کر ایک کر دیا.پھر درمیانی صلحاء نے بھی اکثر صورتوں میں مسیح موعود کے ساتھ اس کے پسر موعود کو ملا کر بیان کیا جیسا کہ نعمت اللہ صاحب ولی کا یہ شعر ظاہر کرتا ہے.کہ ع دور پسرش او چون شود تمام بکام یادگار می بینم ۱۵ اور بالآخر جب خود مسیح موعود کی بعثت کا وقت آیا تو خدا نے آپ کو منصب ماموریت پر فائز کر نے کے ساتھ ہی پسر موعود کی بھی بشارت عطا کی.اور پھر تقدیر الہی نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ کی ولادت کو بھی اسی سال میں رکھا جس سال میں کہ جماعت احمدیہ کی داغ بیل قائم ہوئی.اس طرح بلا شک حضرت خلیفہ اسیح کا وجود سلسلہ احمدیہ کے لئے ایک تو ام بھائی کی حیثیت رکھتا

Page 408

۴۰۱ مضا مین بشیر ہے اور مسندِ خلافت پر آنے کے بعد آپ کی ارفع شان ان خدائی تائیدات سے ظاہر ہے جو ہر قدم میں آپ کے ساتھ ساتھ رہی ہیں.اس بات میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ آپ کی خلافت کا زمانہ تاریخ احمدیت کا ایک ایسا چمکتا ہوا اور ق ہے کہ اس کی نظیر دوسری خلافتوں میں بہت کم نظر آتی ہے.آپ کے عہد مبارک میں جماعت نے نہ صرف علم ظاہر و باطن میں بلکہ تربیت میں تنظیم میں اور تبلیغ میں اس درجہ ترقی کی ہے کہ دشمن بھی حیرت سے انگشت بدنداں ہے اور آپ کی قیادت میں جماعت کے رعب میں بھی فوق العادت رنگ میں اضافہ ہوا ہے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے لئے دُعا ئیں وقف کی جائیں باپ کا وہ منصب ہے کہ اگر وہ نالائق بھی ہو تو پھر بھی سعیداولاد کی نظروں میں محبوب ہوتا ہے.تو پھر اس باپ کا کیا کہنا جو اپنی اولاد کے لئے سراسر شفقت و رحمت ہے اور یقیناً جو محبت جماعت کو اپنے امام کے ساتھ ہے وہ بھی امام کی شان کے مطابق ہے مگر یہ ایک قدرتی تقاضا ہے کہ اولاد کی محبت اور قربانی کی رُوح باپ کے متعلق خطرہ کے احساس سے اور بھی زیادہ ترقی کرتی ہے.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس خطرہ کو جو اس وقت متعد دلوگوں کی خوابوں کے ذریعہ ہماری نظروں سے قریب کر دیا گیا ہے.محسوس کرتے ہوئے اپنی قربانیوں کا ایک عظیم الشان بند کھڑا کر کے اس خطرہ کے سیلاب کو روک دیں.یہ خوابیں یونہی پریشان خیالیاں نہیں ہیں بلکہ مختلف لوگوں کو مختلف مقامات اور مختلف حالات میں مختلف قسم کے نظاروں میں دکھائی گئی ہیں.پس ایک سادہ لوح کبوتر کی طرح آنے والے خطرہ سے محفوظ رہنے کے لئے اپنی آنکھوں کو بند کر لینا ہر گز دانائی کی راہ نہیں بلکہ ہمیں خدائی تقدیر کے ہاتھ کو چشم بصیرت سے دیکھ کر اپنی دعاؤں اور صدقہ و خیرات سے اس تقدیر کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہیئے.اسلام کا خدا وہ خدا نہیں جو اپنی قضاء وقد ر کا غلام ہو بلکہ وہ ایک قادر مطلق خدا ہے جو اپنی تقدیر پر بھی اسی طرح غالب ہے جس طرح کسی اور چیز پر اور وہ اس بات پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے کہ اپنے بندوں کی دعاؤں اور التجاؤں سے اپنی تقدیر کو بدل دے.پس ان عظیم الشان احسانوں کو دیکھتے ہوئے جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جماعت پر ہوچکے ہیں اور ان عظیم الشان برکات پر نگاہ رکھتے ہوئے جو آپ کی ذات والا صفات سے وابستہ ہیں، ہمیں اس رمضان کے مبارک مہینہ میں اپنی خاص دعاؤں کو آپ کے لئے وقف کر دینا چاہیئے تا خدا ہماری زاری اور بے بسی کو دیکھ کر اپنی تقدیر کو بدل دے.اسلام کا خدا تو وہ خدا ہے کہ جس نے اپنے رسول یونس

Page 409

مضامین بشیر کے ذریعہ ایک پختہ وعدہ دے کر اسے ایک بد کردار قوم کی گریہ وزاری سے بدل دیا تھا.تو کیا وہ خدا اپنے پیارے مسیح کی پیاری قوم کی متضرعانہ دعاؤں پر اپنے ایک برگزیدہ خلیفہ کے متعلق اپنی تقدیر کو بدل نہیں سکتا ؟ بد قسمت ہے وہ انسان جو اپنے خدا پر بدظنی کرتا ہے اور اسے ہر کام میں قادر خیال نہیں کرتا.بے شک وہ ہما را آتا ہے اور ہم اس کے غلام اور اس کی شان خداوندی بعض اوقات اس رنگ میں ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنی بات ہی منواتا ہے خواہ وہ کتنی ہی تلخ ہومگر یہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ اس معاملہ میں خدائی تقدیر ائل اور مبرم ہے.پس ہمیں چاہیئے کہ اس رمضان میں خاص طور پر حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے دعائیں کریں.انفراداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی تا کہ ہماری تضرعات کو دیکھ کر خدا ہمارے امام کی عمر کو لمبا کر دے اور ان کے سایہ کو ہمارے سروں پر تا دیر سلامت رکھے.اجتماعی دعا کے لئے یہ طریق بہتر ہے کہ جہاں تراویح کی نماز ہوتی ہے وہاں نماز تراویح کے اندر دعا کرنے کے علاوہ تراویح کے اختتام پر تمام حاضر الوقت لوگ مل کر دعا کریں.نماز تراویح وہ نماز ہے جس کے متعلق قرآن شریف اَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ل کے الفاظ فرماتا ہے یعنی یہ نماز تکلیف دہ تقدیروں کو دبانے میں سب سے زیادہ موثر اور خدا کے حضور عرض و معروضات پیش کرنے کے لئے سب سے بہتر موقع ہے.لیکن جہاں تراویح کا انتظام نہ ہو وہاں عشاء یا صبح کی نماز کے بعد ہی اجتماعی صورت میں دعا کی جاسکتی ہے.اور یہ دعا اس دعا کے علاوہ ہوگی جو نمازوں کے اندر کی جاتی ہے.اسی طرح جن دوستوں کو توفیق ہو وہ صدقہ و خیرات بھی کریں بلکہ اگر پہلے کر چکے ہوں مگر دوبارہ کرنے کی بھی توفیق رکھتے ہوں تو بہتر ہے کہ دوبارہ بھی کر دیں.صدقہ کے لئے بکر اوغیرہ ذبح کر کے بلحاظ مذہب غربا اور یتامی و بیوگان میں تقسیم کرنا اور کچھ حصہ جانوروں کو ڈال دینا عمدہ طریق ہے.یا غرباء کو کھانا پکا کر کھلا دیا جائے.یا اب جبکہ سردیاں آرہی ہیں حاجت مندوں کو سردی کے پار چات بنوا دیے جائیں.یا کسی غریب بیمار کو ادویہ مہیا کر دی جائیں.یا کسی حاجت مند کی نقد امداد کر دی جائے یا کوئی اور مناسب طریق اختیار کیا جائے مگر سب سے بہتر قربانی اپنے نفسوں کی قربانی ہے جس کے لئے رمضان کا مہینہ بہت خوب ہے.ایک لعنتی خیال یہ خیال کرنا کہ یہ سلسلہ خدا کا ہے اور وہ خود ہی اس کا حافظ و ناصر ہے اس لئے ہمیں اس کے متعلق کچھ فکر یا تگ و دو کی ضرورت نہیں ایک لعنتی خیال ہے کیونکہ اول تو یہ خیال جذبات محبت و احسان

Page 410

۴۰۳ مضامین بشیر مندی کے سراسر خلاف ہے دوسرے خدا نے دنیا کو اسباب و علل کا گھر بنایا ہے اور اسباب روحانی بھی اس میں شامل ہیں.تیسرے ہمیں خود تعلیم دی ہے کہ تم ہر دینی اور دنیوی امر میں مجھ سے مدد چاہو.پس اس تعلیم کے ہوتے ہوئے کون شخص ہے کہ جو آنے والے خطرہ کو دیکھ کر خاموش رہ سکتا ہے بلکہ خدائی کام اس بات کا بہت زیادہ ہے کہ انسان اس کے لئے فکرمند ہو.ایک خاص بات ایک اور جہت سے بھی حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ ہم آپ کے لئے اپنی بہترین دعائیں وقف کریں اور یہ ایک خاص بات ہے جو میں اس وقت دوستوں کے سامنے پیش کرنے لگا ہوں.خدائی سلسلوں کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید خدا کی طاقت کے مطابق نازل نہیں ہوتی بلکہ انبیاء اور ان کی جماعتوں کے ظرف اور قوتِ جذب کے مطابق نازل ہوا کرتی ہے.یعنی خدائے حکیم نے ایسا قانون بنا رکھا ہے کہ ان کا موں میں جو گویا خدا کے اپنے کام ہیں اور خود خدا ہی کے جاری کردہ ہیں خدا کی نصرت کا اظہار ہر نبی اور اس کی جماعت کی حالت کے مطابق ہوتا ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ چونکہ کام خدا کا ہے اس لئے ہر نبی اور اس کی جماعت کے متعلق خدا کی نصرت ایک ہی رنگ میں اور ایک ہی درجہ پر ظا ہر ہو.بے شک ہم بعض اوقات خدا کی قدرت کے اظہار کے لئے اس قسم کی باتیں بیان کرتے ہیں کہ خدا اپنی تقدیر کے نفاذ کے لئے ایک مٹی کے ڈھیلے سے بھی ایسا ہی کام لے سکتا ہے.جیسا کہ ایک زبر دست انسان سے اور ہر تلوار خواہ وہ کیسی ہی گند ہو اس کے ہاتھ میں جا کر ایک تلوار جو ہر وار کا رنگ اختیار کر لیتی ہے.اور یہ سب باتیں درست بھی ہیں بلکہ مطلقاً خدا کی قدرت کے لحاظ سے ان باتوں سے بہت بڑھ چڑھ کر باتیں بھی ممکن ہیں مگر جہاں تک انسانوں کے ذریعہ خدا کی قدرت کے اظہار کا تعلق ہے عام حالات میں ایسا نہیں ہوتا.بلکہ عام قاعدہ یہی ہے کہ خدائی قدرت اور خدائی طاقت کا اظہار اس بندے یا جماعت کے ظرف کے مطابق ہوتا ہے جس کو خدا ایسے اظہار کا آلہ بنائے.اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں ہر نبی کو ایک جیسی کامیابی نصیب نہیں ہوئی.حالانکہ ہر نبی کے وقت خدائی تقدیر یہی ہوتی ہے کہ وہ اس نبی کی لائی ہوئی صداقت کو غلبہ اور ترقی دے.حتی کہ جہاں بعض انبیاء کو اس قدر کم کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ وہ کوتاہ بینوں کے خیال میں بظاہر نا کام نظر آتے ہیں.وہاں بعض انبیاء کو ایسے حیرت انگیز رنگ میں غلبہ حاصل ہوا ہے کہ دُنیا کی نظریں خیرہ ہوتی ہیں.حالانکہ دونوں کے پیچھے ایک ہی قسم کی خدائی تقدیر کام کرتی ہے.اس فرق کی یہی وجہ ہے کہ خاص

Page 411

مضامین بشیر ۴۰۴ مستثنیات کو الگ رکھ کر خدا کی طاقت وقدرت کا اظہار خدا کی طاقت کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ نبی کے ظرف اور اس کی قوتِ جذب کے مطابق ہوتا ہے یہی حال خلفاء کے معاملہ میں نظر آتا ہے.یوں تو ہر نبی کے بعد خدائی تقدیر خلفاء کے ذریعہ انبیاء کی لائی صداقت کی تمکنت اور مضبوطی کا ذریعہ بنتی ہے مگر ہم عملاً دیکھتے ہیں کہ مختلف خلفاء کو مختلف قسم کی اور مختلف درجوں کی کامیابی حاصل ہوتی ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ وہ صرف ایک غیر مؤثر درمیانی واسطہ کی طرح خدائی طاقت کے اظہار کا ایک جیسا آلہ بنتے ہوں.اس کی ایک عمدہ مثال ریڈیو سیٹ کے اصول پر سمجھی جاسکتی ہے.جب کسی براڈ کاسٹنگ سٹیشن سے کوئی برقی پیغام فضا میں نشر کیا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی طاقت سب ریڈ یوسیٹوں کے لئے ایک ہی جیسی ہوتی ہے مگر باوجود اس کے ہر ریڈیو سیٹ اسے مختلف طاقت کے ساتھ قبول کرتا ہے اور اس کی طاقت کے مطابق اس کے اندر سے آواز نکلتی ہے.یعنی بڑے سیٹ سے بلند آواز نکلتی ہے اور چھوٹے سیٹ سے دھیمی آواز کے ساتھ.اسی طرح انبیاء اور خلفاء اور ان کی جماعتوں کا حال ہے کہ وہ بھی خدا کی نصرت کو اپنی طاقت اور ظرف کے مطابق قبول کرتے ہیں اور اپنی طاقت سے زیادہ کی برداشت نہیں رکھتے.اس اصول کے مطابق کوہ طور پر حضرت موسی کے بے ہوش ہونے کا واقعہ بھی آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے.حضرت موسی نے اپنے جوشِ شوق میں خدا سے اس کے کامل ظہور کے دیکھنے کی تمنا کی ، جو ازل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات والا صفات کے لئے مقدر تھا.اللہ نے فرمایا لو ہم تو اپنے کامل جلال کا اظہار کئے دیتے ہیں مگر تمہارے ریسیونگ سیٹ میں محمد رسول اللہ جیسی طاقت نہیں اس لئے تم اس کی برداشت نہیں کر سکو گے.چنانچہ یہی ہوا کہ خدائی تجلی سے حضرت موسی بے ہوش ہو کر زمین پر جا پڑے اور پہاڑ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا.لیکن یہی تجلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر ہوئی اور بار بار ظاہر ہوئی مگر آپ پوری مضبوطی کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہے.کیونکہ گو خدا ایک تھا مگر ان دونوں نبیوں کے ظرف اور قوت قبول میں بہت بھاری فرق تھا.اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور رنگ میں بھی ظاہر کیا ہے فرماتا ہے :- " لَوْ اَنْزَلْنَا هَدَ الْقُرُانَ عَلى جَبَلٍ أَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِعاً مِّنْ خَشْيَةِ الله كل یعنی قرآنی تجلی ایسی ہے کہ اگر اس کا نزول کسی مضبوط پہاڑ پر بھی ہو تو وہ بھی خدا کے جلال کے سامنے پھٹ کر ریزہ نیزہ ہو جائے.“ عام لوگ خیال کرتے ہیں کہ پہاڑ پر قرآن کے نازل ہونے کے کیا معنی ہیں.وہ نہیں سمجھتے کہ

Page 412

۴۰۵ مضامین بشیر اس نزول سے قرآنی وحی کا نزول مراد نہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ خدا نے جس توجہ اور جس جلال اور جس طاقت کے ساتھ قرآنی وحی کو محمد رسول اللہ کے قلب پر نازل کیا.اگر وہ اسی طاقت اور اسی جلال کے ساتھ ایک پہاڑ پر اپنی توجہ ڈالے تو وہ پہاڑ چکنا چور ہو کر گر جائے اور یہ دعا بالکل درست ہے جیسا کہ طور کا واقعہ اس پر عملاً شاہد ہے.غیر معمولی ظرف رکھنے والا خلیفہ اس تمہید سے میری مراد یہ ہے کہ یہ خیال کر لینا کہ جماعت خدا کی ہے وہ خود اس کا حافظ وناصر ہوگا اور ہر حال میں اس کی قدرت کا اظہار ایک جیسا ہی رہے گا اور خدا چاہے تو ایک مردہ لکڑی سے بھی ہر کام لے لے.بیشک مطلق طور پر خدائی قدرت کے لحاظ سے تو درست ہے اور بعض خاص استثنائی حالات میں اس قسم کی قدرت کا اظہار ہوتا بھی ہوگا.مگر جہاں تک عام حالات میں خدا کی قدرت کے اظہار کا تعلق ہے یہ خیال ہرگز درست نہیں کیونکہ گو خدا وہی ہے اور وہی رہے گا مگر اس کی نصرت کا اظہار نصرت حاصل کرنے والے کے ظرف اور قوتِ جذب پر موقوف ہے اور یقیناً خدا نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو جو ظرف عطا کیا ہے وہ ایک غیر معمولی ظرف ہے جو بہت کم لوگوں کو ملتا ہے.پس آپ سے محروم ہونے سے ہم صرف آپ کی ذات سے ہی محروم نہیں ہوں گے.بلکہ ان خدائی جلوہ نمائیوں سے بھی محروم ہو جائیں گے جو حضرت خلیفہ اصسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے وسیع ظرف کے ساتھ مخصوص ہیں.اور اگر بعد آنے والا خلیفہ اس ظرف کا نہ ہوا ( جیسا کہ بظاہر حالات اس کا امکان بہت کم ہے.واللہ اعلم ) تو گو خدا کی نصرت پھر بھی بہر حال ہمارے ساتھ ہو گی مگر ہم لاز ما اپنی ظرف اور قوت جذب کے مطابق ہی اس کی نصرت سے حصہ پائیں گے.پس اس جہت سے بھی حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق جماعت کو خاص بلکہ اخص دعاؤں اور غیر معمولی صدقہ و خیرات سے کام لینا چاہیئے.خدا ہمارے لئے یہ سنہری زمانہ لمبا کر دے ہم دنیا میں خدا کی آخری جماعت ہیں اور باپ کو اپنا آخری بچہ بہت محبوب ہوا کرتا ہے اور یقیناً ہماری بہت سی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ ہمارے ذریعہ پنی آخری تقدیر کو جو اس کی تقدیروں میں سے ایک نہایت ز بر دست تقدیر ہے ضرور پورا کرے گا اور اس کے ارادے کو کوئی نہیں روک سکتا.مگر بہر حال ہم اس کی اس پختہ سنت سے باہر نہیں

Page 413

مضامین بشیر ۴۰۶ نکل سکتے جو آدم سے لے کر اس وقت تک ہر نبی اور ہر خلیفہ کے زمانہ میں ظاہر ہوتی رہی ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی نصرت انسان کے ظرف اور قوت جذب کے مطابق ظاہر ہوتی ہے.پس ہمیں چاہیئے کہ نہ صرف اپنے ظرف کو وسیع کریں کیونکہ اسی پر ہماری بہت سی ترقیات کا مدار ہے.بلکہ جس عظیم الشان خلیفہ کے متعلق ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس کا ظرف خدا کی فوق العادت نصرتوں کا جاذب اور حامل ہے.اس کی دراز کی عمر اور صحت و عافیت کے لئے بھی خدا سے ہر وقت دست بدعا ر ہیں.تا خدا نہ صرف اپنی تقدیر کی خاطر بلکہ ہماری گریہ وزاری کو دیکھ کر بھی ہم پر رحم فرمائے.اور ہماری تاریخ کے اس سنہری زمانے کو ہمارے لئے لمبا کر دے.آمین اللهم امين (مطبوعه الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۰ء)

Page 414

۴۰۷ ایک غاظ انہی کا ازالہ مضامین بشیر میں نے اپنے کل والے مضمون میں جس میں حضرت امیر المومنین خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کے متعلق دعا کی تحریک کی تھی.یہ عرض کیا تھا کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک اس خطرہ کی اہمیت کو نہیں سمجھا جو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی وصیت میں مضمر ہے.میرے اس خیال کا تازہ بتازہ ثبوت اس نوٹ سے بھی ملتا ہے جو میرے اس مضمون کے اختتام پر مکرمی ایڈیٹر صاحب الفضل نے اپنی طرف سے درج فرمایا ہے.جناب ایڈیٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ آج کل حضرت صاحب کی طبیعت علیل ہے.اس لئے (حضرت مرزا بشیر احمد (صاحب) کی تحریک کے مطابق دوستوں کو حضرت صاحب کی صحت کے لئے خاص توجہ سے دعا کرنی چاہیئے.گویا ایڈیٹر صاحب نے میرے مضمون کا محرک حضرت صاحب کی موجودہ بیماری کو قرار دیدیا اور موجودہ بیماری کے دور ہو جانے سے وہ غالبا یہ خیال فرماتے ہیں کہ ہم اس خطرہ سے باہر آگئے جس کا میں نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے.میں افسوس کرتا ہوں کہ ایڈیٹر صاحب کے اس نوٹ نے میرے مضمون کی اہمیت اور وسعت کو بالکل کم کر دیا ہے.حق یہ ہے کہ میرے مضمون کو حضرت صاحب کی موجودہ بیماری کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یہ بیماری میرے مضمون کی محرک بنی ہے بلکہ اگر حضرت صاحب اس وقت اپنی پوری تندرستی کی حالت میں ہوتے تو پھر بھی میرا یہ مضمون شائع ہوتا کیونکہ اسے کسی عارضی اور وقتی حالت سے تعلق نہیں بلکہ اس کی بنیاد ان خوابوں پر ہے جو ایک آئیندہ آنے والے خطرہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں.خواہ وہ موجودہ بیماری سے متعلق ہو یا کہ کسی آئندہ حادثہ کے متعلق.میں امید کرتا ہوں کہ میرا یہ تشریحی نوٹ اس غلط فہمی کے ازالہ کے لئے کافی ہوگا.جو محترمی ایڈیٹر صاحب کے نوٹ سے پیدا ہو سکتی ہے.دوست حضرت صاحب کی موجودہ علالت طبع کے لئے تو دعا کرتے ہی ہوں گے اور کرنی چاہیئے مگر ان کی اصل اور خاص دعا اصولی طور پر حضرت صاحب کی دراز کی عمر اور عام صحت اور عافیت اور خوابوں سے ظاہر ہونے والے خطرہ کے دور ہونے کے لئے ہونی چاہیئے.اگر میرے اس نوٹ کے بعد بھی کوئی غلط نہی رہی اور دوستوں نے اس معاملہ کی اہمیت کو نہ سمجھا تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں گا.کہ مَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا.( مطبوعه الفضل ۱۶ اکتوبر ۱۹۴۰ء )

Page 415

مضامین بشیر ۴۰۸ تقومی پیدا کر تقومی تکمیل دین کی چار بنیادی چیزیں اللہ تعالیٰ نے دین کی تکمیل کے لئے چار بنیادی چیزیں مقرر فرمائی ہیں جن کے بغیر اسلام کی عمارت بلکہ کسی الہامی مذہب کی عمارت بھی مکمل نہیں ہو سکتی.یہ چار چیز میں یہ ہیں.اول ایمان دوم یقین سوم عمل چهارم تقویٰ اور چونکہ قانون فطرت میں ہر چیز بطور جوڑا پیدا کی گئی ہے اور جوڑے کے مفہوم میں جہاں نر و مادہ کی تقسیم شامل ہے.وہاں جسم اور روح کی تقسیم بھی جوڑے ہی کے مفہوم کا حصہ ہے.اس لئے ان چار چیزوں کو بھی حکمت الہی نے اس قدیم اصول کے ماتحت جوڑے کی صورت دی ہے.یعنی ان میں سے دو چیز میں بطور جسم کے ہیں اور دو چیزیں بطور روح کے ہیں.اور یہ جسم و روح مل کر گویا چار چیزوں سے دو مکمل چیزیں بنتی ہیں.جو ایک اور جہت سے آپس میں پھر جوڑا ہیں.ان جوڑوں کی تشریح مجملاً یہ ہے کہ ایمان جسم ہے اور یقین اس کی روح ہے جس سے ایمان کو زندگی حاصل ہوتی ہے اور پھر عمل صالحہ جسم ہے اور تقویٰ اس کی رُوح ہے جس کے بغیر عمل صالحہ ایک بے جان جسم سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا اور جب تک یہ چاروں چیزیں مل نہ جائیں دین مکمل نہیں ہوتا.ایمان اور یقین ایمان کے لغوی معنی مان لینے کے ہیں اور دینی اصطلاح میں اس کے یہ معنی ہیں کہ اس بات کا اقرار کیا جائے کہ اس دُنیا کا ایک خدا ہے اور اسی نے یہ ساری کائنات پیدا کی ہے اور اسی نے ہماری ہدایت کے لئے رسول کو بھیجا اور اس پر اپنی کتاب نازل کی وغیرہ وغیرہ.مگر ظاہر ہے کہ یہ ایمان صرف ایک جسم ہے جو اپنی روح کے بغیر بالکل مُردہ ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ یہ ایمان محض رسمی ایمان ہو اور ایمان کا دعوی کرنے والا محض ماں باپ سے سُن کر یا دوسرے لوگوں کو دیکھ کر ایمان کا اظہار کرتا ہوا اور اس کے دل میں اس ایمان نے جڑ نہ پکڑی ہو یا ہو سکتا ہے کہ یہ ایمان محض نمائشی ایمان ہو اور صرف دوسروں کو دکھانے کے لئے اس کا اظہار کیا جاتا ہو اور دل میں اس کی کوئی جگہ نہ ہو.اس صورت میں یہ ایمان ایک محض مُردہ ایمان ہے جس کی خدا کے دربار میں کچھ بھی قیمت نہیں کیونکہ وہ ایک بے جان

Page 416

۴۰۹ مضامین بشیر جسم ہے جس کے اندر کوئی روح نہیں مگر جب زبان کے ظاہری اقرار کے ساتھ دل کا یقین بھی شامل ہو جاتا ہے تو پھر یہ ایمان ایک زندہ حقیقت کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور یہی وہ ایمان ہے جس کی خدا کے دربار میں قیمت پڑتی ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کے متعلق یہ شرط قراردی ہے کہ اقرار باللسان و تصدیق بالقلب یعنی سچا ایمان وہ ہے جس میں زبان کے اقرار کے ساتھ دل کا یقین بھی شامل ہوا اور محض رسمی طور پر یا دکھاوے کے رنگ میں کوئی بات نہ کہی جائے.جیسا کہ بدقسمتی سے آج کل کے اکثر مدعیان ایمان کا حال ہے.الغرض محض ایمان جو زبان کے اقرار کا نام ہے ایک جسم ہے اور اس کی روح یقین ہے جس کے بغیر ایمان کو زندگی حاصل نہیں ہوتی اور پھر آگے یقین کے بھی کئی درجے ہیں مگر اس جگہ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہاں صرف اس قدرا ظہار مقصود ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے دل کا یقین ضروری ہے اور ان دونوں کے ملنے کے بغیر ایمان کی عمارت تکمیل نہیں ہوتی.عمل صالحہ اور تقویٰ اس کے بعد عمل صالحہ کا سوال آتا ہے سو جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے عمل صالحہ بھی صرف ایک جسم ہے جو روح کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور اس کی روح تقویٰ ہے.عمل صالحہ سے مراد وہ اعمال ہیں جو انسان بظاہر احکام شریعت کی اتباع میں بجالاتا ہے مثلاً نماز ، روزہ، حج، زکوۃ، صدقہ خیرات، عدل، انصاف وغیرہ.یہ سب اعمال اسلامی تعلیم کے مطابق ہیں اور یقیناً اپنی ظاہری صورت کے لحاظ سے عمل صالحہ میں داخل ہیں لیکن وہ صرف ایک جسم ہیں.جس کے اندر اگر روح نہ ہو تو اس کی کچھ بھی حقیقت نہیں اور اس جسم کی روح تقویٰ ہے.جس کے ساتھ مل کر عمل صالحہ ایک زندہ چیز کی شکل اختیار کر لیتا ہے.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ تقویٰ کیا ہے؟ سو تقوی اس قلبی جذ بہ کا نام ہے جس کے ماتحت انسان خدا کی ناراضگی کے موقعوں سے بچتا اور اس کی رضا کے موقعوں کی تلاش کرتا ہے.تقویٰ ہرگز کسی عمل کا نام نہیں اور نہ وہ ایسی چیز ہے جو ظاہر میں نظر آ سکے.بلکہ تقوی اسپرٹ اور روح کا نام ہے جو ظاہری اعمال کے پیچھے دل کی گہرائیوں میں مخفی ہوتی ہے.جس کے بغیر ایک بظاہر نیک نظر آنے والا عمل بھی ایک مردہ لاش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا کیونکہ جس عمل کی بنیاد تقویٰ پر نہیں یعنی اس کی تہہ میں رضا جوئی کا جذبہ کام نہیں کرتا وہ یا تو محض رسم و عادت کے طور پر کیا جاتا ہے اور یا لوگوں کے دکھانے کی غرض سے اور یہ دونوں صورتیں یقیناً مردود ہیں.پس اس بات میں ذرہ بھی شک نہیں کہ ایسا عمل جو تقویٰ کی روح سے خالی ہے ایک مردہ اور متعفن لاش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا.

Page 417

مضامین بشیر ۴۱۰ تقویٰ کے معنی تقویٰ کے معنی خوف یا ڈر کے کرنا ہر گز درست نہیں کیونکہ اسلام کا خدا نعوذ باللہ کوئی ڈراؤنی چیز نہیں ہے کہ اس کی عبادت کی بنیا د خوف یا دہشت پر قائم ہو.بیشک نیکی کے رستہ میں بعض لوگوں کے لئے خوف کا عصر بھی مؤثر ہوتا ہے مگر یقیناً تقویٰ کے مفہوم میں وہ خوف داخل نہیں ہے جو ایک ڈراؤنی چیز کو دیکھ کر پیدا ہوتا ہے بلکہ صرف اس حد تک کا خوف داخل ہے کہ کوئی بات ہمارے خالق و مالک کی مرضی کے خلاف نہ ہو جائے.یہ اسی قسم کا خوف ہے جیسا کہ ایک محبوب ہستی کے متعلق محبت کرنے والے کے دل میں ہوتا ہے کہ وہ کسی بات پر ناراض نہ ہو جائے.بہر حال تقویٰ کے معنی خدا کی ناراضگی کے موقعوں سے بچنے اور اس کی رضا کے موقعوں کی تلاش کرنے کے ہیں اور تقویٰ اس جذبہ کا نام ہے جو دل کی گہرائیوں میں جاگزین ہوتا ہے اور جس سے حقیقی عمل صالحہ کا درخت پیدا ہوتا ہے.اور اپنی شاخیں پھیلاتا ہے.مگر یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ تقوی خدا کی رضا جوئی کی کوشش کا نام نہیں بلکہ اس رُوح اور جذبہ کا نام ہے جو اس کوشش کی تہہ میں کام کرتا ہے.مثلاً ایک شخص نماز پڑھتا ہے.اس کا یہ عمل یقیناً اپنی ظاہری صورت میں اسلامی تعلیم کے عین مطابق ہے مگر ہوسکتا ہے کہ اس کا یہ عمل محض عادت یا رسم کے رنگ میں ہو.اور دل کی نیت اور اخلاص پر اس کی بنیاد نہ ہو یا ہوسکتا ہے کہ اس کا یہ عمل محض نمائش یا دکھاوے کے طور پر ہو.اور کسی دنیوی غرض کے ماتحت اختیار کیا گیا ہومگر ظاہر ہے کہ یہ سب صورتیں گو بظاہر دیکھنے میں عمل صالحہ ہیں مگر در حقیقت وہ ایک ایسا جسم ہیں جس کے اندر کوئی روح نہیں.پس زندہ عمل وہی سمجھا جائے گا کہ جب انسان ایک اچھے کام کو دلی نیت کے ساتھ خدا کی رضا جوئی کی غرض سے بجالائے.اسی لئے اسلام نے محض ظاہری عمل صالحہ کو کوئی حیثیت نہیں دی بلکہ بعض لحاظ سے اسے خدا کی ناراضگی کا موجب قرار دیا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں اللہ فرماتا ہے :- وَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلوتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُ وُنَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ولا یعنی افسوس ہے ان نمازیوں پر جو اپنی نماز کی حقیقت سے غافل ہیں.جو صرف دکھاوے کے لئے یہ کام کرتے ہیں اور نماز کی روح سے انہیں کوئی مس نہیں.ان لوگوں نے صرف ایک خالی برتن کو اپنے پاس روک رکھا ہے اور اس کے اندر کی غذا کو جو اصل مقصود ہے ضائع کر چکے ہیں.“ "

Page 418

۴۱۱ مضامین بشیر اعمال صالحہ کا فلسفہ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے اعمال صالحہ کے فلسفہ کو نہائت لطیف رنگ میں بیان فرمایا ہے.اور بتایا ہے کہ کسی عمل صالحہ کو محض ظاہری صورت میں بجالا نا کچھ حقیقت نہیں رکھتا.جب تک کہ اس کی تہہ میں وہ روح نہ ہو جو انسانی اعمال کو زندگی عطا کرتی ہے اور پھر ایک نہائت لطیف مثال دے کر یہ سمجھایا ہے کہ ایسا شخص جو ظاہر میں تو عمل صالحہ بجالاتا ہے مگر در حقیقت اس کی روح کی طرف سے غافل ہے وہ ایسا ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی برتن کو تو مضبوطی کے ساتھ اپنے ہاتھ میں تھام رکھے مگر اس کے اندر کی غذا کو ضائع کر دے.آیت میں جو ماعون کا لفظ ہے اس سے یہ سمجھنا کہ اس آیت میں گھروں کے عام استعمال کے برتنوں وغیرہ کے متعلق یہ حکم دیا گیا ہے کہ انہیں ایک دوسرے کو عاریہ دینے میں خست نہ برتا کرو.میرے خیال میں درست نہیں.اور نہ ہی اس مفہوم کو آیت کا سیاق و سباق برداشت کرتا ہے.کیونکہ حقیقت نماز کے ارفع مضمون کے ساتھ اس نسبتا ادنی مضمون کا کوئی طبعی جوڑ نہیں کہ گھروں کے برتنوں کو روک نہ رکھا کرو.پس میری رائے میں اس جگہ ماعون سے گھروں کے برتن وغیرہ مراد نہیں بلکہ عمل صالحہ کا ظاہری ظرف مراد ہے اور آیت کا منشاء یہ ہے کہ اسے مسلمانو ! جب تم نماز پڑھو تو نماز کی حقیقت کی طرف سے غافل ہو کر نماز نہ پڑھا کرو.کیونکہ ایسا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ایک شخص برتن کو تو تھامے رکھے مگر اس کے اندر کی غذا کو ضائع کر دے.یقیناً ایسی نماز جس میں صرف جسم ہی جسم ہوا اور اس کے ساتھ کوئی روح نہ ہو محض ایک مردہ چیز ہے.جو کبھی بھی رضائے الہی کا موجب نہیں بن سکتی.اگر کسی شخص کو الفاظ ماعون اور یہ منعون کے اس مفہوم کے ساتھ اتفاق نہ ہو جو اوپر کے مضمون میں بیان کیا گیا ہے تو پھر بھی میرے اس استدلال میں فرق نہیں آتا جو میں نے اس جگہ پر مندرجہ بالا آیات سے کیا ہے کیونکہ بہر حال ان آیات کا محکم اور مسلم حصہ اسی مفہوم کا حامل ہے کہ کئی لوگ دنیا میں ایسے ہیں جو بظا ہر نماز پڑھتے ہیں مگر نماز کی حقیقت سے قطعی طور پر غافل اور بے خبر ہیں اور یہی میرے مضمون کا مرکزی نقطہ ہے.ایک دوسری جگہ قرآن شریف فرماتا ہے :- " لَنْ يَّنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ ٢٠ یعنی اے مسلمانو! جب تم خدا کی راہ میں قربانیوں کے جانوروں ذبح کرتے ہو تو یہ نہ سمجھو کہ ان جانوروں کا گوشت یا خون خدا کو پہونچتا ہے.یعنی یہ خیال نہ کرو کہ ان قربانیوں کا گوشت یا خون کی رضا اور خوشی کا موجب ہوسکتا ہے.بلکہ جو چیز خدا

Page 419

مضامین بشیر ۴۱۲ کو پہونچتی ہے اور خدا کی رضا کا موجب ہوتی ہے وہ تمہارا تقویٰ ہے یعنی وہ جذبہ اور روح جس کے ماتحت تم خدا کی رضا تلاش کرتے ہو.“ احادیث میں تشریح اس کی تشریح میں ایک لطیف حدیث بھی آتی ہے حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ ابو بکر کو جو تم لوگوں پر فضیلت ہے تو یہ اس کے نماز روزہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے دل میں ہے یعنی اس کے تقویٰ کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ بعض صحابہ ظاہری نماز روزہ میں ابوبکر سے آگے ہوں.اور ظاہری اعمال میں حضرت ابو بکر کی نسبت بظاہر زیادہ شغف دکھاتے ہوں یا زیادہ خرچ کرتے ہوں مگر چونکہ تقویٰ میں حضرت ابو بکر آگے تھے اور اعمال میں اصل چیز ان کی روح ہی ہے جس کا دوسرا نام تقویٰ ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو دوسروں سے افضل قرار دیا.اگر کسی شخص کو یہ نکتہ سمجھ نہ آئے یعنی وہ خیال کرتا ہو کہ زیادہ نماز روزہ بجالانے والے سے کم بجا لانے والا کس طرح افضل ہو سکتا ہے تو وہ یوں سمجھ سکتا ہے کہ ایک شخص ہے جس کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے مگر وہ سب کھوٹا ہے اس کے مقابل پر ایک دوسرا شخص ہے جس کے پاس صرف ایک ہزار روپیہ ہے مگر یہ سب کا سب کھرا ہے تو اب بتاؤ کہ ان دونوں میں سے کون زیادہ دولتمند سمجھا جائے گا.یقیناً وہی شخص زیادہ دولت مند سمجھا جائے گا.جس کے پاس ایک ہزار کھرا روپیہ ہے اور ایک لاکھ کھوٹے روپے کے مالک کو بازار میں ایک پیسہ کی چیز بھی نہیں مل سکے گی.یہی حال قیامت کو ہونے والا ہے کہ وہاں بھی صرف اس عمل کی قیمت پڑے گی جس کے اندر تقویٰ کی روح پائی جاتی ہے اور اس کے مقابل پر دوسرے اعمال کی ، خواہ وہ پہاڑ کے.برابر ہوں اور خواہ وہ بظاہر کتنے ہی شاندار نظر آئیں کوئی قیمت نہیں دی جائے گی.ایک دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص رمضان میں روزے رکھتا ہے مگر یہ روزے تقویٰ اللہ پر مبنی نہیں ہوتے اور روزہ رکھنے والا بدستور دُنیا کے گندوں اور اس سفلی زندگی کی آلائیشوں میں ملوث رہتا ہے.تو خدا کے نزدیک ایسے شخص کا کوئی روزہ نہیں بلکہ وہ مفت میں بھوکا اور پیاسا رہتا ہے کیونکہ بیشک اس نے روزہ کے جسم کو تو اپنے سینہ سے لگا لیا.مگر اس کی روح کو کھو دیا ہے اور روح کے بغیر جسم ایک مردہ لاش سے بڑھ کر نہیں اسی طرح ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے بعد ایک ایسی قوم آنے والی ہے کہ ان کا کام گویا ہر وقت قرآن خوانی ہو گا مگر قرآن ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا ۲۲.یعنی ان کی زبان پر تو

Page 420

۴۱۳ مضامین بشیر قرآن ہو گا مگر ان کے دل کلام الہی سے اس طرح خالی ہوں گے جس طرح ایک اجڑا ہوا گھونسلا جانور سے خالی ہوتا ہے.یہ سب حدیثیں اور ان جیسی بیسیوں دوسری حدیثیں اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے ہیں کہ اعمال میں اصل چیز ان کی روح ہے جس کا نام تقویٰ ہے اور تقویٰ کے بغیر ہر عمل صالحہ خواہ وہ بظا ہر کتنا ہی شان دار ہو ایک مردہ جسم سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا.تقویٰ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنی تحریرات اور ملفوظات میں تقویٰ پر بہت زور دیا ہے بلکہ چونکہ یہ زمانہ مادیت اور ظاہر پرستی کا زمانہ ہے.اس لئے آپ کے کلام میں اعمال کی روح پر خاص زور پایا جاتا ہے.چنانچہ آپ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں : ہمیں اس یار سے تقویٰ عطا ہے سے کہ احسانِ خدا ہے کرو کوشش اگر صدق و صفا جو شرط لقا حاصل ہو یہی آیینه خالق نما یہی ایک جو ہر سيف دعا اگر اک نیکی کی جڑ جڑ رہی ہے ہے ہے ہے اتقا ہے للللللللملل کچھ رہا ہے یہی اک فیر شان اولیاء ہے بجز تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا ہے سوچو یہی دار الجزاء ہے مجھے تقویٰ سے اُس نے یہ جزا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ مبارک وہ ہے سنو ! جس کا کام تقویٰ حاصل اسلام تقوی

Page 421

مضامین بشیر ۴۱۴ خدا کا عشق ہے مسلمانو! بناؤ اور جام تقوى تام تقوی کہاں ایماں اگر ہے خام تقویٰ دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي ۲۳ یہ اشعار کیسے سادہ مگر حکمت و عرفان کی دولت سے کیسے معمور ہیں.ان اشعار میں ایک شعر خاص طور پر قابل توجہ ہے کیونکہ اس شعر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقویٰ کا فلسفہ بیان کیا ہے.اور پھر اس شعر کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس کا دوسرا مصرع الہامی ہے.یہ شعر یہ ہے : اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے ہر اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے ۲۴ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تقویٰ ایک ایسی چیز ہے کہ جو سب نیکیوں کی جڑ ہے جس سے نیک اعمال کا درخت پیدا ہوتا ہے اور پھر اسی جڑ کی مہیا کردہ خوراک سے اس درخت کی شاخیں پھوٹتی ہیں.اگر یہ جڑ موجود ہے تو با وجود ساری شاخوں کے کٹ جانے کے درخت پھر ہرا بھرا ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ جڑ موجود نہیں تو باوجود بظاہر ہزاروں شاخوں کے نظر آنے کے یہ درخت بے ثمر ہے اور بے ثمر رہے گا.کیونکہ اس صورت میں وہ شجر طبیہ نہیں بلکہ شجر خبیثہ ہے.واقعی اعمال کا بظاہر ایک بھاری درخت جو ہزاروں شاخیں رکھتا ہے.وہ اگر تقویٰ کی جڑ پر قائم نہیں تو وہ ایک ایندھن کے طومار سے زیادہ نہیں اور اس سے پھل کی امید رکھنا بے سود ہے لیکن اس کے مقابل پر اگر تقویٰ کی جڑ کے اوپر ایک چھوٹی سی شاخ بھی قائم ہے.تو وہ ایک پھلدار چیز ہے.جس سے ہزاروں شیریں پھل پیدا ہو سکتے ہیں اور اگر بالفرض کوئی شاخ بھی قائم نہیں تو پھر بھی اس سے ہر وقت نئی شاخ کے پھوٹنے کی توقع ہے کیونکہ جڑ سلامت ہے.تقویٰ کے دو پہلو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان اشعار میں ایک شعرا کیسا ہے جو بظاہر اس مضمون کے خلاف نظر آتا ہے جو میں نے اوپر بیان کیا ہے.وہ شعر یہ ہے.سنو ہے حاصل اسلام تقوی خدا کا عشق اور جام تقوی

Page 422

۴۱۵ مضامین بشیر اس شعر میں بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقویٰ کو جام قرار دیا ہے جو گویا جسم اور ظرف کے مترادف ہے حالانکہ میں نے اس مضمون میں تقویٰ کو ظرف کے مقابل پر بطور روح کے پیش کیا ہے.بے شک بظاہر یہ ایک تضاد کا رنگ ہے مگر حقیقی تضاد نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک نہائت لطیف بات بیان فرمائی ہے جو میرے بیان کردہ مضمون کے مقابل پر نہیں بلکہ اس سے اگلے مراتب سے تعلق رکھتی ہے.بات یہ ہے کہ تقوی کے دو پہلو ہیں ایک پہلو سے وہ عمل صالحہ کی روح ہے اور دوسرے پہلو سے وہ خود جسم ہے اور خدا کا عشق اس کی روح ہے.گویا عمل صالحہ کے جسم کے اندر تقویٰ کی روح ہوتی ہے اور پھر تقویٰ کے اندر ایک اور لطیف روح ہوتی ہے جسے عشق الہی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.اور اس روح کے لئے تقویٰ کا وجود بطور جسم کے ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے سورہ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ ۲۵۰ د یعنی خدا کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نہایت صاف اور صیقل شدہ خول ہو.جو طاقچہ کی صورت میں پیچھے سے بند ہو.اور اس خول کے اندر ایک شفاف شیشہ کا قمقمہ ہوا اور پھر اس قمقمہ کے اندر ایک چراغ ہو جس کے نتیجہ میں یہ چراغ ایک چمکتے 66 ہوئے ستارے کی طرح جگمگانے لگے.“ اس آیت کی تشریح سے ہمیں اس جگہ سرو کار نہیں مگر اس سے اس بات کی ایک عمدہ مثال ملتی ہے کہ کس طرح ایک چیز کے اندر دوسری چیز اور دوسری کے اندر تیسری چیز ہو سکتی ہے اور پھر کس طرح یہ تینوں مل کر ایک غیر معمولی نور پیدا کر دیتی ہیں.اس تشریح کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کا یہ مطلب ہے کہ عمل صالحہ کی روح تقویٰ ہے اور تقویٰ سے آگے ایک اور لطیف چیز ہے جو گویا تقویٰ کی بھی روح ہے اور اس چیز کا نام عشق الہی ہے گویا عمل صالحہ کی بنیا د تقویٰ پر ہونی چاہیئے.یعنی ہمارے اعمال رسم یا عادت یا نمائش کے طور پر نہ ہوں بلکہ خدا کی رضا جوئی پر مبنی ہوں اور پھر خدا کی یہ رضا جوئی جزا سزا کے خیال پر مبنی نہ ہو بلکہ عشق الہی پر مبنی ہو.یہ ایک بہت بڑا مرتبہ ہے جو صرف خاص خاص لوگوں کو حاصل ہوتا ہے.جن کے اعمال کی بنیاد خالصۂ عشق الہی پر مبنی ہوتی ہے.اور جزا سزا کا خیال تک بھی درمیان میں نہیں آتا.تقویٰ کا یہ مقام مکمل یا تام تقویٰ کے نام سے موسوم ہوسکتا ہے.جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.مجھے تو نے یہ دولت اے خدا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْإِعَادِي

Page 423

مضامین بشیر دوست تقویٰ پیدا کریں مگر یہ ایک نہائت ارفع مقام ہے جو سب لوگوں کو حاصل نہیں ہوتا اور نہ اس وقت یہ چیز میرے موجودہ مضمون کا موضوع ہے بلکہ اس وقت میرا مضمون صرف تقویٰ پر ہے جو عمل صالحہ کی روح ہے جس کے بغیر کسی عمل کو خواہ وہ دیکھنے میں کیسا ہی عالی شان نظر آئے خدا کے دربار میں کوئی وقعت حاصل نہیں ہوتی.اور میں بتا چکا ہوں کہ تقویٰ اس جذبہ کا نام ہے جس کے ماتحت انسان خدا کی ناراضگی کے موقعوں سے بچتا اور اس کے رضا کے موقعوں کی تلاش کرتا ہے.پس ہمارے دوستوں کو چاہیئے کہ اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں.یعنی ان کے ہر عمل کی تہہ میں یہ نیت ہو کہ اس ذریعہ سے ہما را خدا راضی ہو جائے یا ہم اس سے اپنے خدا کی ناراضگی سے بچ جائیں مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ تقویٰ کی اس دولت سے محروم ہوتے ہیں.وہ نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں اور بظاہر اعمال صالحہ میں خوب شغف دکھاتے ہیں اور بسا اوقات ایمان و اخلاص کے دعوی میں دوسروں سے پیش پیش نظر آتے ہیں.مگر ان کا دل تقویٰ سے خالی ہوتا ہے وہ نما ز پڑھ کر اور لمبے لمبے سجدوں سے اپنے ماتھوں کو خاک آلود کر کے مسجد سے باہر آتے ہیں اور باہر آتے ہی کمزور لوگوں کی حق تلفی اور اکل بالباطل اور بے انصافی اور جھوٹ اور فریب کے چشمہ سے اس طرح مونہ لگا دیتے ہیں کہ گویا وہ ان کے لئے شیر مادر ہے.ایسے لوگوں کو بیشک اعمال کے جسم پر قبضہ حاصل ہوتا ہے.مگر یہ جسم اسی طرح روح سے خالی ہوتا ہے، جس طرح ایک اجڑا ہوا مکان مکین سے خالی ہوتا ہے.ان کے ہاتھ میں ایک برتن ہوتا ہے.جسے وہ بڑے حاسدانہ انداز میں اپنے سینہ سے لگائے رکھتے ہیں مگر اس برتن کا دودھ جو انسان کی اصل غذا ہے وہ یا تو کبھی اس برتن میں آیا ہی نہیں ہوتا.یا اگر آیا ہوتا ہے تو ان کی غفلت سے گر کر ضائع ہو چکا ہوتا ہے.پس دوستو تقوی پیدا کرو کہ اس کے بغیر تمہارا ہر عمل ایک بے جان جسم سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا روپے کی تعداد پر مت تسلی پاؤ بلکہ یہ دیکھو کہ تمہارے پاس جو مال ہے اس میں کھرے روپے کتنے ہیں اور کھوٹے کتنے.کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایک کروڑ کھوٹے روپے جن سے کوٹھوں کے کو ٹھے بھرے ہوں ، ان سے وہ بظاہر حقیر نظر آنے والا ایک کھرا روپیہ بہتر ہے جو ایک چھوٹی سی جیب میں سما کر محسوس بھی نہیں ہوتا کیونکہ گو وہ بہت ہیں مگر کھوٹے ہیں اور گو یہ صرف ایک ہے مگر کھرا ہے.

Page 424

۴۱۷ مضامین بشیر تقویٰ کی روح بھی تلاش کرو تم میں سے جسے خدا توفیق دے وہ تقویٰ کی روح کو بھی تلاش کرے جس کا نام عشق الہی ہے جس کے بعد انسانی اعمال کی عمارت جزا سزا کی قیود سے آزاد ہو کر محض اور خالصہ عشق الہی کی بنیاد پر قائم ہو جاتی ہے لیکن اگر یہ نہیں یا جب تک یہ نہیں اس وقت تک کم از کم تقویٰ تو ہو.جو گو یا اعمال صالحہ کی جان ہے جس کے بغیر قطعاً کوئی زندگی نہیں.یقیناً اعمال کا ایک پہاڑ ا گر وہ تقویٰ سے خالی ہے مٹی اور خاک کے تو وہ کے سوا کچھ نہیں جس پر خدائی رحمت کے فرشتے تھوکتے بھی نہیں.مگر اچھے عمل کا ایک چھوٹا سا ذرہ اگر وہ تقویٰ کی روح سے معمور ہے تو وہ خدا کی نظر میں ایسا مقبول اور محبوب ہے کہ رحمت کے فرشتے اسے خدا کے حضور پہونچانے کے لئے شوق کے ساتھ لپکتے ہیں کیونکہ یہ گو مقدار میں کم ہے مگر ایک زندہ طاقت ہے اور وہ گو مقدار میں زیادہ ہے مگر ایک مردہ اور متعفن لاش سے بڑھ کر نہیں.پس جس طرح میں نے اپنے مضمون کے شروع میں کہا ہے اب آخر میں پھر کہتا ہوں کہ بھائیو! تقویٰ پیدا کر و تقویٰ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے.اور ہمیں اس رستہ پر چلائے جو اس کی کامل رضا کا رستہ ہے وہ ہمیں سچا ایمان دے.اور ہمارے ایمانوں کو یقین کی دولت سے مالا مال کرے پھر ہمیں عملِ صالحہ عطا کرے اور ہمارے اعمال کو تقویٰ کی روح سے زندگی بخشے.اور بالآخر ہمارے تقویٰ کو جزا سزا کے خیال سے اوپر اٹھا کر اس ارفع مقام پر کھڑا کر دے.جہاں ہر عمل کی بنیاد محض عشق الہی پر قائم ہوتی ہے.اے اللہ تو ایسا ہی کر.امین اللهم امين (مطبوعہ الفضل ۱۲۶ کتوبر ۱۹۴۰ء)

Page 425

مضامین بشیر ۴۱۸ جمعہ کی رات میں خاص دُعاؤں کی تحریک اور مولوی محمد علی صاحب کے ایک اعتراض کا ضمنی جواب ایک خواب میری طبیعت آج کل علیل ہے بلکہ اس وقت بھی جب کہ میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں مجھے دونوں پاؤں میں درد نقرس کی تکلیف کے علاوہ ایک سو درجہ کی حرارت بھی ہے اور سر درد مزید برآں ہے اس لئے میں زیادہ نہیں لکھ سکتا مگر ایک ضروری غرض کے ماتحت یہ چند سطور اخبار میں بھجوا رہا ہوں.مجھے ایک بیرونی دوست کی طرف سے خط ملا ہے کہ وہاں کی مقامی جماعت کی ایک نیک اور مخلص خاتون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خواب میں فرمایا ہے کہ جماعت کو چاہیئے کہ خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے جمعہ کی رات کو اکٹھے ہو ہو کر دعائیں کریں.خواب لمبی ہے مگر اس کے سارے حصے اظہار کے قابل نہیں لیکن یہ حصہ بہر حال واضح ہے جس کے اظہار میں حرج نہیں بلکہ اس کا اظہار مفید اور ضروری ہے.حدیث میں آتا ہے : - " الرَّؤيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُسْلِمُ أَوُتُرَى لَهُ ٢٦ یعنی کبھی تو مومن خود کوئی خواب دیکھتا ہے اور کبھی اس کے لئے رکسی دوسرے کو خواب دکھایا جاتا ہے.“ اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ طریق تھا کہ آپ حتی الوسع خوابوں کو ظاہر میں بھی پورا فرما دیا کرتے تھے.اور ویسے بھی رمضان کا مہینہ ایک بہت مبارک مہینہ ہے.اور جمعہ کا دن ایک مبارک دن ہے اور پھر رات کا وقت بھی قبولیتِ دعا کے لئے خصوصیت رکھتا ہے.اس لئے میں نے مناسب خیال کیا کہ اس خواب کو دوستوں تک پہونچا کر اس بات کی تحریک کروں کہ جن دوستوں کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ اس آنے والے جمعہ کی رات کو جو اس رمضان کا آخری جمعہ ہوگا ،

Page 426

مضامین بشیر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے خصوصیت سے دُعائیں کریں کہ اگر خدا کے علم میں آپ کے لئے قریب کے زمانہ میں کوئی خطرہ یا حادثہ در پیش ہے تو اللہ تعالیٰ جو اپنے فرمان کے مطابق اپنی تقدیر پر بھی غالب ہے.اپنے فضل ورحم سے اس خطرہ کو ٹال دے اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک عہد کو ہمارے لئے لمبا کر دے اور اس کی برکتوں کو جماعت کے لئے اور بھی بڑھا دے.آمین حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا عہد مبارک حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا وجود محض انفرادی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ بوجہ اس کے کہ آپ ایک الہی سلسلہ کے قائد اور ایک خدائی جماعت کے امام ہیں اور جری اللہ فی حلل الانبياء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عظیم الشان خلیفہ ہیں.جن کے مبارک عہد کو خدا تعالیٰ نے کئی قسم کی برکتوں سے نوازا ہے.اس لئے یقیناً آپ کا وجود انفرادی نہیں بلکہ جماعتی حیثیت رکھتا ہے اور آپ کے لئے دعا کرنا گویا جماعت کی ترقی کی دعا کے مترادف ہے.جس میں سب احمدیوں کو دلی جوش و خروش کے ساتھ حصہ لینا چاہیئے.خواب میں یہ تعین نہیں کہ جمعہ سے کون سا جمعہ مراد ہے لیکن چونکہ یہ خواب رمضان کے نصف آخر میں دکھایا گیا ہے اس لئے اغلب یہ ہے کہ جمعہ سے رمضان کا آخری جمعہ مراد ہے.پس دوستوں کو چاہیئے کہ اس جمعہ کی رات کو ( یا د رکھنا چاہیئے کہ جمعہ کی رات سے جمعہ سے پہلے آنے والی رات مراد ہے ) حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے متعلق خاص طور پر دعائیں کریں بلکہ اگر خدا کسی فرد یا جماعت کو توفیق دے تو بہتر یہ ہے کہ سال رواں کے آخر تک یعنی اس جلسہ سالانہ تک ہر جمعہ کی رات کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے خصوصیت - دعائیں کی جائیں.مولوی محمد علی صاحب کے خیال ނ اس موقع پر میں جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کے ان خیالات کے بارے میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں جن کا خلاصہ’الفضل نے اپنے ایک قریب کے پرچہ میں شائع کیا ہے.بقول الفضل، مولوی صاحب موصوف نے اس دعا کی تحریک کے متعلق جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ کے بارے میں کی جارہی ہیں، یہ دل آزار خیال ظاہر کیا ہے کہ جب موت ہر فرد بشر کے لئے

Page 427

مضامین بشیر ۴۲۰ مقدر ہے اور انسان ایک مٹی کا پتلا ہے جو آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں تو پھر حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ کے متعلق دعا کو اس قدر اہمیت کیوں دی جا رہی ہے، جب کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی اس بات کی بہت زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لئے دعائیں کی جائیں.چنانچہ الفضل نے مولوی صاحب کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں.خلیفہ یا اس کے چند مریدوں کو کچھ خوفناک خوا میں آگئیں.اب ان پر اس قدر شور ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ساری دعائیں ہی خلیفہ کے لئے وقف کر دینی چاہئیں.میں کہتا ہوں کہ انسان کی حیثیت ہی کیا ہے.مٹی کا پتلا آج نہیں مرے گا تو کل مر جائے گا.بے شک بیماروں کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں.یہ ایک انسانی فرض ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ خدا کے قرب کے حصول اور غلبہ اسلام کے لئے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ دعائیں کرو.‘‘۲۷ سراسر غلط نتیجه میں نے مولوی صاحب موصوف کا اصل مضمون نہیں دیکھا لیکن اگر الفضل کا یہ اقتباس درست ہے اور بظاہر کوئی وجہ نہیں کہ وہ درست نہ ہو تو افسوس ہے کہ مولوی صاحب نے اس موقع پر اس قسم کے خیالات کا اظہار کر کے نہ صرف تنگ ظرفی اور دل آزاری کا طریق اختیار کیا ہے بلکہ صحیح اسلامی فلسفہ سے بھی ایک نا قابل معافی غفلت دکھائی ہے.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مولوی صاحب نے ہماری دعاؤں کی تحریک سے یہ سراسر غلط نتیجہ نکالا ہے کہ گویا ہم لوگ یہ تحریک کر رہے ہیں کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعاؤں کو ترک کر کے اپنی ساری دعاؤں کو صرف حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی ذات تک محدود کر دیا جائے.حالانکہ یہ بالکل غلط اور خلاف واقع ہے اور کسی مضمون یا کسی تقریر میں جس کا مجھے علم ہے ایسی تحریک نہیں کی گئی کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے دعائیں نہ کرو اور صرف حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی ذات کے متعلق دعائیں کرو.اگر جناب مولوی صاحب نے ہماری تحریرات اور خطبات سے یہ نتیجہ نکالا ہے تو میں افسوس کے ساتھ کہوں گا کہ یہ ایک دیانت دارانہ نتیجہ نہیں اور اگر ان کا یہ استدلال غفلت اور بے پروائی کا نتیجہ ہے تو پھر بھی یہ استدلال نه صرف نہائت بود بلکه از حد قابل افسوس ہے.حق یہ ہے کہ جو تحریک کی گئی ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ ان ایام میں جبکہ مختلف لوگوں نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق منذ رخوا میں دیکھی

Page 428

۴۲۱ مضامین بشیر ہیں جن میں آپ کا زمانہ وفات قریب دکھایا گیا ہے آپ کے لئے خاص دعائیں کی جائیں.اس سے یہ نتیجہ کیسے نکل آیا کہ کسی اور غرض کے لئے دعائیں نہ کی جائیں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے متعلق خاص دعاؤں کے وقف کرنے کے الفاظ سے بھی وہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا جو مولوی صاحب نے نکالا ہے کیونکہ یہ بہر حال دعائیں نماز کی مسنون دعاؤں کے بعد اور ان سے بچے ہوئے وقت میں ہوتی تھیں اور مولوی صاحب جانتے ہیں کہ نماز کی دعائیں اسلام کی ترقی اور قرب الہی کے حصول کے لئے کس طرح وقف ہیں.حتی کہ ان سے بڑھ کر کوئی اور دعا اس غرض کے لئے ذہن میں نہیں آسکتی.پس اگر ہماری طرف سے یہ تحریک کی گئی کہ ان ایام میں اپنی خاص دعاؤں کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے لئے وقف کرو تو ہر عقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ اس سے یہی مراد ہے کہ اسلام اور حق وصداقت کی ترقی اور درود وغیرہ کی دعاؤں کے بعد جو بہر حال لازمی اور مقدم ہیں باقی ماندہ زائد دعاؤں میں ان دعاؤں کو موجودہ ایام میں خصوصیت کی جگہ دواور یہ ایک بالکل جائز مطالبہ ہے جو خاص حالات میں جماعت سے کیا جا سکتا ہے.مولوی صاحب نے شاید یہ سمجھا ہے کہ جب جماعت سے یہ کہا گیا ہے کہ ان ایام میں حضرت خلیفہ اصیح ایدہ اللہ کے لئے اپنی خاص دعا ئیں وقف کرو تو اس سے مراد یہ ہے کہ بس اب نماز روزہ چھوڑ کر اور نماز کی مسنون دعاؤں کو ترک کر کے صرف حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے لئے دعاؤں میں لگ جاؤ اور کوئی دوسری دعا زبان پر نہ لاؤ.بریں عقل و دانش بیاید گریست امام کا وجود جماعتی حیثیت رکھتا ہے.علاوہ ازیں مولوی صاحب نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ جو تحر یک حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ کے بارے میں خاص دعاؤں کی کی گئی ہے.وہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی ذات کے لئے نہیں ہے بلکہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے متعلق ہے اور ظاہر ہے کہ کسی ایسے امام اور لیڈر کے بارے میں دُعا کرنا جس کی اما مت اور لیڈرشپ میں کوئی جماعت یا قوم غیر معمولی طور پر ترقی کر رہی ہوا اور خدا نے اس کے زمانہ کو اپنی خاص برکات سے نوازا ہو.ایک انفرادی اور ذاتی دعا نہیں سمجھی جاسکتی بلکہ یہ ایک جماعتی دعا ہے.کیونکہ ایسے شخص کی دعا کے ساتھ جماعت کی ترقی کی دعا لازم و ملزوم کے طور پر ہے.مولوی صاحب یقیناً اس حدیث سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ جب ایک دفعہ کسی صحابی نے

Page 429

مضامین بشیر ۴۲۲ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں آپ کے لئے کتنی دفعہ دعا کروں.یعنی اپنی دعاؤں کا کتنا حصہ آپ لئے وقف کروں.کیا ایک چہارم حصہ آپ کے لئے وقف کر دوں ؟ اس پر آپ نے اُسے آہستہ آہستہ اوپر اٹھا کر بالآخر اس خیال پر قائم فرما دیا کہ اگر تم اپنی ساری دعائیں ہی میرے لئے وقف کر دو تو یہ سب سے بہتر ہے.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ایک بشر تھے جن کے ساتھ موت فوت اسی طرح لگی ہوئی تھی.جس طرح کسی اور انسان کے ساتھ اور بظاہر آپ کی ذات کے متعلق دعا کرنا اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کی دعا سے جدا اور مغائر تھا مگر چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام کے مبانی تھے.اور آپ کا وجود باجود اسلام کی عمارت کے لئے ایک زبر دست ستون تھا.(گو با وجود اس کے اللہ تعالیٰ آپ کے متعلق آفَائِنُ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمُ ۲۸ کے الفاظ فرماتا ہے ) اس لئے اپنی دعا کے اندر ہی اسلام کی دعا کو بھی شامل قرار دیا.اس سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ بعض شخصیتیں ایسی ہو سکتی ہیں اور ہوتی ہیں کہ ان کے لئے دعا کرنے میں ان کی جماعت کی ترقی اور ان کے مشن کی کامیابی کی دعا خود بخود آ جاتی ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے وجود اس مثیل کے لحاظ سے ایک لیول پر ہیں اور ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں.حاشا و کلاً ونعوذ بالله من ان نقول الا الحق بلکه صرف ایک اصولی مثال بتا کر یہ جتانا مقصود ہے کہ علی قدر مراتب امام کا وجود شخصی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ جماعتی حیثیت رکھتا ہے اور امام کے لئے دعا کرنے میں خود بخود علی قدر مراتب امام کے مشن اور اس کی جماعت کی ترقی کی دعا بھی آجاتی ہے.حضرت امیر المومنین اید و اللہ کے لئے دُعائیں کرنے کی غرض علاوہ ازیں مولوی صاحب نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ہم جو حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے دعائیں کرتے ہیں تو کیا اس لئے کرتے ہیں کہ آپ کے زندہ رہنے سے ہمیں کوئی جائیداد مل جائے گی یا حکومت میں حصہ پانے کا رستہ کھل جائے گا یا کوئی اور دنیوی فائدہ حاصل ہوگا ؟ بلکہ ہم صرف اس لئے دعائیں کرتے ہیں کہ آپ کی قیادت میں اسلام اور احمدیت کی غیر معمولی ترقی ہورہی ہے اور طبعا ہماری یہ آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ اس غیر معمولی ترقی کے عہد کو ہمارے لئے لمبا کر دے.پس اس جہت سے بھی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے دعا کرنا دراصل اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعا کے مترادف ہے اور اگر مولوی صاحب یہ فرمائیں کہ ہماری نظر

Page 430

۴۲۳ مضامین بشیر میں تو حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی قیادت میں احمدیت کو کوئی خاص ترقی حاصل نہیں ہوئی.تو اس پر میری یہ گزارش ہوگی کہ مکرم مولوی صاحب ہماری دعا کی اپیل بھی صرف ان لوگوں سے ہی ہے جو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی امامت کو جماعت اور احمدیت کی غیر معمولی ترقی کا باعث خیال کرتے ہیں.آپ سے ہر گز نہیں.جب ہم آپ کو دعا کے لئے کہنے جائیں گے اس وقت آپ بیشک اعتراض کریں.قریب کی چیز سے فطرتِ انسانی کا زیادہ متاثر ہونا تیسری بات جو مولوی صاحب نے نظر انداز کی ہے ، یہ ہے کہ مولوی صاحب نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو ایسا بنایا ہے کہ وہ بسا اوقات ایک قریب کی محدود چیز سے خواہ وہ نسبتا کم اہم ہو.ایک دور کی وسیع ضررت کی نسبت خواہ وہ نسبتاً زیادہ اہم ہو.زیادہ متاثر ہوتا ہے اور انسانی فطرت کے اسی خاصہ کو اسلام نے بھی جو خالق فطرت کا بھیجا ہوا مذ ہب ہے بڑی حد تک تسلیم کیا ہے اور اس پر متعد دشرعی احکام کی بنیا د رکھی ہے.یہ مضمون بہت گہرا اور وسیع ہے مگر میں ایک سادہ سی مثال دے کر اسے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ :- إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلوةُ وَحَضَرَ العَشَاءُ فَابُدَوا بِالعَشَاءِ ۲۹ یعنی اگر تمہارے سامنے شام کا کھانا آجائے اور اس وقت ساتھ ہی نماز کی اقامت بھی ہو جائے تو تمہیں چاہیئے کہ پہلے کھانا کھالو اور اس سے فارغ ہونے کے بعد نماز پڑھو.“ اب ظاہر ہے کہ پیٹ میں بھرنے والا کھانا ایک بہت ادنی سی مادی چیز ہے.جسے نماز جیسی اعلیٰ اور ارفع روحانی چیز سے جو روحانی کھانوں کی بھی گویا سرتاج ہے کوئی دور کی بھی نسبت نہیں مگر باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر مادی کھانے کو روحانی کھانے پر مقدم کرتے ہیں اور حکم فرماتے ہیں کہ پہلے مادی کھانا کھاؤ اور اس کے بعد روحانی کھانے کا خیال کرو.جس میں حکمت یہ ہے کہ مادی کھانا گوادنی ہے مگر وہ ایک فوری اور قریب کی ضرورت ہے جس کی اشتہا کھانے کے سامنے آجانے سے اور بھی تیز ہو جاتی ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خدائی علم کے ماتحت فطرت انسانی کی گہرائیوں سے آگاہ تھے.یہ ارشاد فرمایا کہ چونکہ مادی کھانا تمہارے سامنے آچکا ہے

Page 431

مضامین بشیر ۴۲۴ اور تمہیں اس کا خیال پیدا ہو چکا ہے اور بھوک چمک چکی ہے.اس لئے اگر اسے چھوڑ کر نماز کی طرف اٹھو گے تو لازمہ بشریت کے ماتحت طبیعت میں انتشار رہے گا.اس لئے پہلے کھانا کھا کر اپنی فوری اور قریب کی ضرورت پوری کر لو اور اس کے بعد نماز پڑھو.یہ ایک بہت چھوٹی سی بات ہے مگر غور کرو تو اس سے شریعت اسلامی کی گہری حکمت و فلسفہ پر کتنی عظیم الشان روشنی پڑتی ہے اور یہ ایک منفر د قسم کا حکم نہیں بلکہ قرآن وحدیث ایسے حکموں سے بھرے پڑے ہیں مگر عقلمند انسان کے لئے ایک اصولی مثال ہی کافی ہو سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی سے مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اس کی مثال دیکھنی چا ہو تو میں ایک ایسی مثال پیش کرتا ہوں جو خو دمولوی محمد علی صاحب کی آنکھوں کے سامنے گزری ہے اور وہ اس کے زندہ گواہ ہیں.مولوی صاحب کو معلوم ہے کہ ۱۹۰۷ء میں ہمارا چھوٹا بھائی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چھوٹا لڑکا مبارک احمد بیمار ہو گیا اور اسی بیماری میں بے چارہ اس جہان فانی سے رخصت ہوا.مبارک احمد کی بیماری میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کی تیمار داری اور علاج معالجہ میں اس قدر شغف تھا کہ گویا آپ نے اپنی ساری توجہ اسی میں جما رکھی تھی اور ان ایام میں تصنیف وغیرہ کا سلسلہ بھی عملاً بند ہو گیا تھا.یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو مولوی صاحب کی آنکھوں کے سامنے گزرا ہے اور جس سے وہ کبھی انکار نہیں کر سکتے مگر مولوی صاحب بتا ئیں کہ یہ کیا بات ہے کہ ایک مٹی کے پتلے کے لئے جس نے آج بھی مرنا تھا.اور کل بھی مرنا تھا“ خدا تعالیٰ کے بزرگ مسیح نے اس قدر شغف دکھایا کہ گویا اس عرصہ میں قلمی جہاد کا سلسلہ بھی عملاً رُ کا رہا.کیا جہا د افضل تھا یا کہ مبارک احمد کی تیمار داری؟ یقیناً جہاد ہی افضل تھا مگر ایک طرف تو مبارک احمد شعائر اللہ میں سے تھا اور دوسری طرف فطرت انسانی کے مطابق جو خدا ہی کی صفت رحمت کا پر تو ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک نسبتاً چھوٹی مگر قریب کی ضرورت کو جو پریشانی کا موجب ہورہی تھی وقتی طور پر مقدم کر لیا اور بڑی ضرورت کو با جود اس کی اہمیت کے پیچھے ڈال دیا.پس اگر جماعت احمدیہ نے اپنے محبوب امام کے لئے ایک آنے والے خطرہ کو محسوس کر کے خاص دعاؤں کا اہتمام کیا ہے تو اس پر چیں بجیں ہو کر یہ واویلا کرنا کہ اسلام اور حق وصداقت کے خیالات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ، ایک نہایت ہی ادنیٰ قسم کی سطح الخیالی ہے جس کی کم از کم ایک

Page 432

۴۲۵ مضامین بشیر امیر قوم سے توقع نہیں رکھی جاسکتی.اسلام نے جہاں ہر چیز کے حقوق مقر ر فرمائے ہیں اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہر چیز کے حقوق کا خیال رکھو اور ایک چیز کا حق دوسرے کو نہ دو ( حتی کہ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اپنے نفس یا اپنی بیوی کا حق چھین کر خدا کو دیتا ہے وہ بھی خدا کی نظر میں مجرم ہے ) وہاں اسلام نے فطرت انسانی کے ازلی قانون کے ماتحت انسان کو یہ رعایت بھی دی ہے اور یہ رعایت سرا سر رحمت پر مبنی ہے.کہ اگر کوئی ایسی فوری ضرورت ہو جو بالکل تمہاری آنکھوں کے سامنے آئی ہوئی ہو اور اس کی وجہ سے تمہارے دل و دماغ پر بوجھ ہو تو تمہیں چاہیئے کہ ایسی ضرورت کو دور کی ضرورت پر خواہ وہ زیادہ ہی اہم ہو ، مقدم کر لیا کرو.یہ بات میں نے صرف اصولی جواب کے طور پر بیان کی ہے ورنہ در حقیقت موجودہ معاملہ میں اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے کیونکہ اول تو حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی دعا میں اسلام اور احمدیت کی دعا بھی شامل ہے اور دوسرے بہر حال اس دعا کو اسلام اور احمدیت کی دعا سے مؤخر رکھا گیا ہے.مولوی محمد علی صاحب سے ایک سوال - ، آخر الذکر نکتہ کو ایک اور طرح بھی واضح کیا جا سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ جناب مولوی صاحب کی دبی ہوئی فطرت کو خود ان کے اہل وعیال کی مثال سے بیدار کیا جائے.سو میں مولوی صاحب مکرم سے بادب پوچھتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ آپ کا کوئی نوجوان اور ہونہار لڑکا کسی خطر ناک مرض میں مبتلا ہو جائے اور مرض اس حد تک پہونچ جائے کہ ڈاکٹر اور اطباء مایوس ہو کر جواب دے دیں اور یہ لڑکا آپ کو بہت محبوب ہو تو کیا آپ ایسے وقت میں ایسے لڑکے کے متعلق یہ متصوفانہ الفاظ فرما کر خاموش ہو جا ئیں گے کہ مٹی کا پتلا ہے آج نہیں مرے گا تو کل مر جائے گا یا کہ مادی اسباب کو کشتا دیکھ کر اور اپنے لخت جگر کو موت کے مونہہ میں پا کر آپ فوراً وضو کر کے کسی علیحدہ کمرہ کی طرف بھاگیں گے اور اس کے دروازوں کو بند کر کے خدا کے حضور روتے اور چلاتے ہوئے سجدہ میں گر جائیں گے کہ اے خدا تو میرے اس نور چشم کی زندگی مجھے بخش دے اور مجھے اس کی موت کے صدمہ سے محفوظ رکھ.پھر وہاں مولوی صاحب کیا اس وقت آپ کی پہلی دعا بڑے بزرگانہ انداز میں اسلام اور حق وصداقت کی ترقی کے لئے ہوگی یا کہ آپ سجدہ میں گرتے ہی اپنے صاحبزادہ کے لئے آہ وزاری شروع فرما دیں گے.میں بڑے شوق سے انتظار کروں گا کہ میرے اس سوال کے جواب میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں مگر مجھے

Page 433

مضامین بشیر ۴۲۶ آپ کی زبان یا قلم کے جواب کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ چیز میں اکثر صورتوں میں طرح طرح کی ظلمتوں سے گھری رہتی ہیں بلکہ مجھے دل کے جواب کی ضرورت ہے جو عمو ماً ظلمتوں کے پردہ سے نسبتاً آزا د ر ہتا ہے.مگر کیا کیا جائے کہ بعض لوگوں کے دل بھی مر جاتے ہیں.بہر حال اگر آپ کو اپنے فرزند کے متعلق اتنا فکر ہو سکتا ہے تو ایک زندہ اور ترقی کرنے والی جماعت کو اپنے محبوب جرنیل اور قائد کے متعلق کیوں نہیں ہوسکتا.دشمنی کا نتیجہ آخر میں میں اس افسوس کے اظہار سے بھی نہیں رک سکتا کہ مولوی محمد علی صاحب نے اس معاملہ میں بلا وجہ اور بلا کسی خاص ضرورت کے اپنا رستہ چھوڑ کر ہماری دل آزاری کا طریق اختیار کیا ہے.حضرت خلیفۃ اصیح ایدہ اللہ کے لئے دعا کا سوال ہرگز ان اختلافی مسائل میں سے نہیں ہے جو اس وقت ہر دو فریق کے درمیان رونما ہیں پھر خواہ نخواہ اسے اپنے اعتراضات کا نشانہ بنا کر ایک وسیع جماعت کے دلوں کو دکھ پہنچانا ہرگز کوئی پسندیدہ یا خوش اخلاقی کا فعل نہیں سمجھا جا سکتا.ہم دعا کی تحریک کے لئے مولوی صاحب کے پاس نہیں گئے تھے بلکہ صرف اپنے دوستوں اور ہم خیالوں سے ایک بات کہی تھی اور وہ بات سنت اللہ اور فطرت انسانی کے عین مطابق تھی اور پھر اس میں بھی ہماری نیت میں احمدیت اور اسلام کی بہبودی ہی مقصود تھی مگر افسوس کہ مولوی صاحب کو یہ بات بھی کھٹکنے سے نہ رہی اور انہوں نے ایک وسیع جماعت کے ان نازک ترین جذبات محبت پر تیر چلایا ہے جو وہ اپنے محبوب امام کے متعلق رکھتی ہے.یہ محض دشمنی کا نتیجہ ہے جو دلوں کو اندھا کر دیتی ہے ورنہ ایک سمجھدار انسان خواہ وہ دیندار نہ بھی ہو.عام حالات میں اس قسم کے خلاف اخلاق اور دل آزار طریق سے مجتنب رہتا ہے.آنے والی جمعہ کی رات کو دعائیں کی جائیں اس جملہ معترضہ کے بعد جو میرے ابتدائی اندازے سے کافی لمبا ہو گیا ہے میں پھر جماعت سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی ایک نیک بہن کی خواب کو پورا کرنے کے لئے جس کا پورا کرنا عین منشاء اسلام اور مفاد احمدیت کے مطابق ہے انہیں چاہیئے کہ اس آنے والے جمعہ کی رات کو حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر قسم کے خطرہ سے محفوظ رکھ کر آپ کے مبارک سایہ کو ہمارے سروں

Page 434

۴۲۷ مضامین بشیر پر تا دیر سلامت رکھے.آمین.اور جن افراد یا جماعتوں کو توفیق ملے وہ سال رواں کے آخر تک یعنی اس جلسہ سالانہ کے اختتام تک ہر جمعہ کی رات کو اسی دعا کے لئے مخصوص کر دیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہماری کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں ہر قسم کے ابتلا سے محفوظ رکھے.امين اللهم امين ( مطبوعه ۱۳۰ کتوبر ۱۹۴۰ء )

Page 435

مضامین بشیر ۴۲۸ حوالہ جات ۱۹۴۰ء ا صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّا بِكَ لَمَحْرُونُونَ -۴۳ ۲.تذکره صفحه ۵۱۴-۵۶۲ ، طبع ۲۰۰۴ء ۳.احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟ تقریر فرموده جلسه سالانه ۲۷ دسمبر ۱۹۰۵ء ۴.خط بنام عبد الحکیم خان مرتد - حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۶۷ ۵ - البقره: ۲۸۷ ۶ ملخص حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵ ۱۸ -۱۸۶ ے.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۳۲ ، حاشیہ المومنون : ۴۵ ۹ - تحفۃ الاحوذی، شرح صحیح البخاری ، کتاب المناقب باب فضل ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۱۰.الانبیاء : ۲۴ ۱۱.البقرہ: ۱۵۷ ۱۲ - الفرقان : ۷۵ ۱۳.ال عمران : ۱۰۳ ۱۴.مشکوۃ المصابیح ، باب نزول عیسی ، الفصل الثالث ۱۵.حضرت نعمت اللہ ولی اور ان کا اصلی قصیدہ از قمر اسلام پوری ۱۶ - المزمل : ۷ ۱۷.الحشر :۲۲ ۱۸.النساء : ۷۹ ۱۹ - الماعون : ۵ تا ۸ ۲۰ - الحج : ۳۸

Page 436

۴۲۹ مضامین بشیر ۲۱ - اصحيح البخاری، کتاب الصوم، باب من لم يدع قول الزور ولعمل به في الصوم ۲۲ - اصحیح البخاری ، ی کتاب فضائل القرآن ، باب اشم من رائى بقَراءَ ةِ القرآنِ، أَوْ تَاكُلَ بِهِ، أَوْ فَجَرَبه.۲۳.الحکم ۱۰ دسمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۳ ۲۴.تذکره صفحه ۳۳۴ ، طبع ۲۰۰۴ء ۲۵ - النور : ۳۶ ۲۶.سنن ابن ماجہ کتاب الرؤیا باب نمبرا، ابوداؤ د کتاب الصلوۃ ، باب الدعاء في الركوع السجود - ۲۷ - الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۴۰ء صفحه ۴ ۲۸ ال عمران : ۱۴۵ ۲۹ - صحیح البخاری ، کتاب الاطعمة ، باب إِذا حَضَرَ العَشَاءُ فَلَا يَعْجَلُ عَنْ عَشَائِهِ -

Page 437

۴۳۰ مضامین بشیر

Page 438

۴۳۱ ١٩٤١ء مضامین بشیر كَلْبٌ يَمُوتُ عَلَى كَلْبِ والا الهام اور بدخواہ دشمن کی نامرادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام میرے اس مضمون کے عنوان کی عربی عبارت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے جو آپ کو ۱۸۹۱ء میں ہوا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ایک شخص کی موت کی نسبت خدائے تعالیٰ نے اعداد تجھی میں مجھے خبر دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ كَلْبٌ يَمُوتُ عَلى كَلب یعنی وہ کہتا ہے اور کتے کے عدد پر مرے گا جو باون سال پر دلالت کر رہے ہیں.یعنی اس کی عمر باون سال سے تجاوز نہیں کرے گی.جب باون سال کے اندر قدم دھرے گا.تب اسی سال کے اندراندر راہی ملک بقا ہوگا.یہ الہام ایک معروف اور معلوم شخص کے متعلق تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تشریح صاف بتا رہی ہے کہ یہ الہام آپ کے کسی معلوم اور معروف دشمن کے متعلق ہے مگر آپ نے مصلحیہ اس کا نام ظاہر نہیں فرمایا.چنانچہ یہ الفاظ کہ ، ایک شخص کی موت کی نسبت خدا تعالے نے مجھے یہ خبر دی ، صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کوئی معین اور معلوم شخص ہے.ورنہ الفاظ یہ ہونے چاہئے تھے کہ کسی شخص کے متعلق مجھے یہ خبر دی گئی ہے مگر یہ الفاظ نہیں رکھے

Page 439

مضامین بشیر ۴۳۲ گئے بلکہ کسی شخص کی بجائے ایک شخص کے الفاظ رکھے گئے ہیں جو اُردو کے عام محا درہ میں صرف معلوم الاسم شخص کی صورت میں بولے جاتے ہیں.علاوہ ازیں اگر یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معلوم نہ ہوتا تو جیسا کہ آپ کا طریق تھا، آپ اس الہام کی تشریح میں اس قسم کے الفاظ زیادہ فرما دیتے کہ معلوم نہیں یہ الہام کس شخص کے متعلق ہے یا یہ کہ اس الہام کی کوئی تفہیم نہیں ہوئی.وغیرہ ذالک مگر آپ نے ایسے کوئی الفاظ نہیں لکھے.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو معلوم تھا کہ یہ الفاظ فلاں شخص کے متعلق ہیں.اسی طرح آپ کی تشریح عبارت کا مجموعی اسلوب بھی اسی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ یہ شخص آپ کے نزدیک معلوم و معروف ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس شخص کا نام معلوم ہونے کے باوجود اسے ظاہر کیوں نہیں کیا ، تا کہ الہام کی صداقت یا عدم صداقت کو پر کھا جاسکتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک سابقہ الہام میں اس الہام کی تشریح موجود تھی اور دونوں الہا موں کے ملانے سے بات واضح ہو جاتی تھی ، اس لئے آپ نے دانستہ اس الہام کی مزید تشریح سے احتراز فرمایا تا کہ سمجھنے والے سمجھ بھی جائیں اور کسی شخص کی بلا وجہ دلآزاری بھی نہ ہو اور وہ سابقہ الہام یہ ہے :- يَمُوتُ ويُبقَى مِنْهُ كِلَابٌ مُتَعَدِّدَةٌ ل یعنی یہ شخص ( جس کا اوپر کی عبارت میں ذکر موجود ہے ) مرے گا اور اس کے پیچھے کئی کتے کی سیرت رکھنے والے لوگ جو اس کے ہم رنگ ہوں گے باقی رہ جائیں گئے الہام پورا ہو چکا یہ سابقہ الہام بعد والے الہام سے کافی عرصہ پہلے یعنی ۱۸۸۶ء میں ہوا تھا.پس جبکہ الہام كَلْبٌ يَمُوتُ عَلیٰ كَلْبِ سے پہلے ایک واضح الہام ایک معین شخص کے متعلق ہو چکا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس پہلے الہام کی تشریح میں اس شخص کا نام لے کر ذکر فرما چکے تھے تو ان حالات میں یہ ہرگز ضروری نہیں تھا کہ دوسرے الہام کی تشریح میں اس کا نام لے کر بلا وجہ دل آزاری کی جاتی.پس جس طرح کہ خدا تعالیٰ نے دوسرے الہام میں نام لینے کے بغیر صرف اشارہ سے ذکر فرمایا.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی صرف اشارہ پر اکتفا کی اور پہلے الہام کی اجمالی تصریح کو کافی خیال کرتے ہوئے مزید تشریح نہیں فرمائی.چنانچہ دنیا دیکھ چکی ہے کہ یہ ہر دو الہام اپنی پوری شان کے ساتھ پورے ہوئے اور مرنے والا باون سال کی عمر میں مرکز را ہی ملک بقا ہو گیا اور

Page 440

۴۳۳ مضامین بشیر اس کے پیچھے کئی بھونکنے والے کتے اب تک بھونک بھونک کر دنیا کو ان الہاموں کی صداقت کی طرف توجہ دلا رہے ہیں ( مزید تشریح کی طرف دیکھو تذکرہ صفحہ ۱۰۸) اہل پیغام کی طرف سے انتہائی دل آزاری خیر یہ تو جو کچھ تقدیر الہی کے ماتحت ہونا تھا وہ ہو گیا مگر اہل پیغام کی جسارت اور انتہائی دل آزاری ملاحظہ ہو کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کو کہ كَلْبٌ يَمُوتُ عَلى گلب حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی پر چسپاں کر کے یہ خوشی منا رہے تھے کہ نعوذ باللہ اس الہام میں کلب سے مراد حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ہیں اور یہ کہ آپ کی وفات آپ کی عمر کے باون سال کے اندر اندر وقوع میں آجائے گی.آغاز اس فتنہ کا اس طرح ہوا کہ ایک صاحب شیخ غلام محمد جو مصلح موعود ہونے کے مدعی ہیں اور پہلے اہل پیغام کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور اب ادھر سے الگ ہو کر جماعت مبایعین اور غیر مبایعین ہر دو کو اپنے مطاعن کا نشانہ بناتے رہتے ہیں.انھوں نے اپنی مخصوص دماغی کیفیت سے متاثر ہو کر یہ آواز اٹھائی کہ كَلْبٌ يَمُوتُ عَلَىٰ کلب کا الہام حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے متعلق ہے اور یہ کہ آپ اس الہام کے مطابق باون سال کی عمر کے اندر اندر ہلاک ہو جائیں گے.گو پردہ رکھنے کے لئے یہ بھی لکھ دیا معلوم نہیں اس سے جسمانی ہلاکت مراد ہے یا کہ مقاصد کی موت سے.اس مجنونا نہ بڑ کو اپنے مفید مطلب پا کر غیر مبایعین نے بھی ہوشیاری کے ساتھ اپنا پہلو بچاتے مونہ چھپاتے ہوئے اس مکروہ پر و پیگینڈا میں اپنے ہاتھ رنگنے شروع کر دیے اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کو ایک ایسے الہام کا نشانہ نا چاہا جو ایک اشد ترین معاند سلسلہ اور دشمن خدا سے تعلق رکھتا تھا.بنانا ج خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے غیر مبایعین کا انتہائی عناد اس گندے اور نا پاک پرو پیگنڈے کا نتیجہ تو وہی ہوا کہ جو ہونا تھا کہ فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغَالِبُونَ آے کے فرمان کے مطابق ان لوگوں کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں کیونکہ آج خدا کے فضل سے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوئے تھے اپنی عمر کے باون سال مکمل کر کے علی انف اعداء ترپن سال کے آغاز میں کامرانی و با مرادی کا پر چم لہراتے ہوئے قدم رکھ رہے ہیں مگر غیر مبایعین نے جواب تک بھی بظاہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت اور غلامی کا دم بھرتے ہیں.یہ بات ثابت کر دی ہے کہ انہیں حضرت مسیح موعود

Page 441

مضامین بشیر ۴۳۴ علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے اس حد تک بغض و عناد پیدا ہو چکا ہے کہ وہ اِن الہامات کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد پر چسپاں کرنے سے دریغ نہیں کرتے جو احمدیت کے اشد ترین دشمنوں کی تباہی سے تعلق رکھتے ہیں.غیر مبایعین کا سراسر جھوٹا اور باطل ادعا غیر مبایعین نے اسی بات پر اکتفا نہیں کی کہ ایسے شخص کے پیچھے لگ کر جس کی دماغی کیفیت سے وہ خوب آگاہ تھے، اس الہام کو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز پر چسپاں کیا اور پھر آپ کی عمر کی باون سال کی گھڑیاں گن گن کر خوشی کے خواب دیکھنے لگے بلکہ جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے متعلق ہماری دعا کی تحریکوں کو بھی استہزاء کی نظر سے دیکھ کر یہ طعن دنیا شروع کیا کہ گویا ہم لوگ اس مزعومہ پیشگوئی سے خائف ہوکر لرزہ براندام ہورہے ہیں اور ہماری دعا کی تحریک اسی خوف پر بنی ہے.اگر میری یہ اطلاع درست ہے تو یہ ایک انتہا درجہ کی گری ہوئی ذہنیت ہے جس میں جھوٹ اور دل آزاری ہر دو کا پورا پورا اخمیر پایا جاتا ہے.حق یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق دعا کی تحریک شیخ غلام محمد کی نام نہاد پیشگوئی اور اس پر اہل پیغام کی حاشیہ آرائی کی وجہ سے نہیں تھی.بلکہ جیسا کہ ہمارے مضامین میں بار بار یہ تصریح کی گئی تھی.یہ تحریک ان خوابوں کی وجہ سے تھی جو جماعت کے بعض افراد کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں دکھائی گئی تھیں اور گوخوا میں تعبیر طلب ہوتی ہیں اور بعض اوقات ان کا تعلق آخری تقدیر کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ کسی درمیانی معلق تقدیر کے ساتھ ہوتا ہے لیکن چونکہ دوسرے پہلو کا امکان بھی ہوتا ہے اس لئے سنت اللہ کے مطابق حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی درازی عمر کے لئے دعا کی تحریک کی گئی.اس بات کا ثبوت کہ یہ دعا کی تحریک شیخ غلام محمد مدعی مصلح موعود یا اہلِ پیغام کی بیان کردہ پیشگوئی کی وجہ سے ہر گز نہیں تھی بلکہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی وصیت اور بعض احباب جماعت کی خوابوں کی وجہ سے تھی ، یہ ہے کہ یہ دعا کی تحریکات حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی وصیت کے شائع ہونے کے بعد کی گئیں جو آخر جولائی ۱۹۴۰ء میں شائع ہوئی تھی ھے.حالانکہ شیخ غلام محمد کا رسالہ جس میں ۱۲ جنوری ۱۹۴۱ ء تک حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ ہلاکت کی خبر دی گئی تھی فروری ۱۹۰۴ء میں شائع ہوا تھا ( دیکھو شیخ صاحب کا رسالہ ” خلیفہ قادیان کے جشن منانے کی دو جھوٹی خوشیاں“ مورخه ۲۰ فروری ۱۹۴۰ ء ) پس اگر دعاؤں کی تحریک کا باعث شیخ غلام محمد والا مضمون یا اہل پیغام

Page 442

۴۳۵ مضامین بشیر کا پروپیگنڈا ہوتا تو چاہئے یہ تھا کہ یہ تحریک فروری یا زیادہ سے زیادہ مارچ ۴۰ ء سے شروع ہو جاتی مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ یہ تحریک حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی وصیت کے بعد آخر جولائی میں جا کر شروع ہوئی اور اس بارے میں میرے مضامین تو اس سے بھی بعد یعنی اکتوبر ۱۹۴۰ء میں آکر شائع ہوئے اور جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں، حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وصیت میں صراحتا یہ ذکر کیا تھا کہ بعض دوستوں کو میرے متعلق اس قسم کی خوا ہیں آئی ہیں کہ میرا زمانہ وفات قریب ہے.اس لئے گو خوا میں تعبیر طلب ہوتی ہیں اور صدقہ وخیرات سے معلق تقادیر یل بھی جاتی ہیں لیکن چونکہ بہر حال ہر شخص نے بالآخر مرنا ہے.اس لئے میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ اپنی طرف سے ایک وصیت لکھ کر شائع کر دوں.اسی طرح میرے مضامین میں بھی اپنے دوستوں کی خوابوں کی طرف ہی اشارہ تھا.اس سے ظاہر ہے کہ اہل پیغام کا یہ ادعا کہ دعاؤں کی تحریک مزعومہ پیشگوئی سے خائف ہونے کی وجہ سے کی گئی ہے، ایک سراسر جھوٹا اور باطل ادعا ہے جو اپنی دلآزاری میں انتہا ء کو پہونچا ہوا ہے.دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھا جائے میرے اس نوٹ سے ہمارئے دوستوں کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے متعلق دعا کی تحریک اب تک قائم ہے اور گو خدا کے فضل سے بدخواہ دشمن نا مرادی کو پہونچ چکا ہے لیکن چونکہ ہماری دعا کی تحریک دوسری وجوہات پر مینی ہے، اس لئے احباب کو ان خاص دعاؤں کا سلسلہ اب بھی جاری رکھنا چاہیئے.واخرد عونا ان الحمد لله رب العالمين ( مطبوعه الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۴۱ء)

Page 443

مضامین بشیر ۴۳۶ کون بہتر ہیں قربانی والے یا انعام والے میری ایک جاگتے کی خواب ایک خاص نکتہ گزشتہ جمعرات کے دن حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں ایک نہایت لطیف تقریر فرمائی ، جس کا ایک خاص نکتہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قوموں کی ترقی کے لئے یہ اصول مقرر کر رکھا ہے کہ ان کا ابتدائی حصہ قربانی کرتا ہے اور آخری حصہ انعام پاتا ہے اور کوئی قوم ابتدائی قربانی کی بھٹی میں سے گزرے بغیر ترقی نہیں کر سکتی.لیکن یہ ایک عجیب نظارہ ہے کہ بالعموم قوم کا وہ حصہ جو قربانی کرتا ہے وہ خود اپنی اس قربانی کے پھل کو چکھنے کا موقع نہیں پاتا بلکہ اس کا زمانہ بظاہر قربانی کی انتہائی تلخی میں ہی گزر جاتا ہے اور جب پھل کا وقت آتا ہے تو دوسرے لوگ آ موجود ہوتے ہیں ، جنہوں نے اس رنگ کی اور اس درجہ کی قربانیاں نہیں کی ہوتیں.صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیاں اور ان کے پھل چنانچہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے ایسی ایسی قربانیاں کیں کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی اور خدا کی خاطر اور اس کے دین کی خاطر انتہائی تلخی کی زندگی کو اختیار کیا اور دنیا کی ہر نعمت اور ہر آرام ہر راحت کو اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے قربان کر دیا مگر کم از کم صحابہ کا ایک حصہ ایسا تھا جو اس قربانی کے کے زمانہ میں ہی گزر گیا اور اس نے اس انعام کا کوئی حصہ نہ پایا جو بعد کا زمانہ پانے والوں کو حاصل ہوا.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مثالاً فرمایا کہ جو صحابی بدر کی جنگ میں شہید ہوئے انہوں نے بظاہر اسلام کی ظاہری شان و شوکت اور اپنی قربانی کا ظاہری انعام کیا دیکھا.مکہ میں تیرہ برس وہ کفار کے سخت ترین مظالم کا نشانہ رہے اور جب مکہ سے بھاگ کر مدینہ میں آئے تو یہاں بھی ان کفار نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور ابھی ہجرت پر ڈیڑھ سال بھی نہ گزرا تھا کہ یہ فدائیان

Page 444

۴۳۷ مضامین بشیر اسلام شہدائے بدر اپنے پرانے اور نئے دونوں وطنوں سے دور ایک پیتے ہوئے ریتلے میدان میں کفار کی تلوار سے کٹ کٹ کر تڑپتے ہوئے جان بحق ہو گئے.ان لوگوں نے اسلام کے دنیوی انعاموں سے کچھ بھی حصہ نہ پایا اور صرف قربانی ہاں بظاہر تلخ ترین قربانی میں ہی اپنی ساری زندگی گزار دی.انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟ اس لئے کہ تا بعد میں آنے والے ان کی اس قربانی کا پھل کھا سکیں اور اس قسم کی دوسری مثالیں بیان کر کے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ کوئی قوم قربانی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی اور قربانی کا عام اصول یہی ہے کہ قوم کا ابتدائی حصہ پھل کھانے کی امید ترک کر کے محض قربانی کے خیال سے ہی زندگی گزار دے.گویا وہ اس معاملہ میں بھی قربانی دکھائے کہ پھل دوسروں کے لئے چھوڑ دے اور آپ بھوکا اور پیاسا رہنے کے لئے پیچھے ہٹ جائے.ہولناک منظر جب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ تقریر فرما رہے تھے تو میں چند لمحوں کے لئے تقریر کی طرف سے کھویا جا کر اس خیال میں پڑ گیا کہ ہمارے خدا کا یہ قانون بھی عجیب ہے کہ ایک فریق قربانی کی تلخی میں زندگی گزار دیتا ہے اور انعام سے کوئی حصہ نہیں پاتا اور دوسرا مفت میں بغیر کسی محنت کے انعام حاصل کر لیتا ہے.گویا ایک شخص فصل بونے کے لئے زمین میں ہل چلاتا ہے، سہا گا دیتا ہے، بیج ڈالتا ہے، پھر اسے پانی سے سینچتا ہے اور اس کی حفاظت میں اپنے دن کے چین اور رات کی راحت کو برباد کر دیتا ہے لیکن جب فصل پکتی ہے اور اس کی کٹائی کا وقت آتا ہے تو خدا ہاں ہما را رحیم و کریم خدا اس کی زندگی کا خاتمہ کر کے دوسرے لوگوں سے فرماتا ہے کہ اب تم آؤ اور اس فصل کا پھل کھاؤ.دنیا میں ایک دوسرے کو سہارا دینے اور ایک دوسرے سے سہارا لینے کا یہی قانون سہی مگر عدل و انصاف کے سرچشمہ کی حکومت میں یہ ظاہر میں نظر آنے والی بے انصافی بھی دل کو کپکپا دینے والی چیز ہے.اس خیال سے میرا دل زور زور سے دھڑ کنے لگا اور میرے بدن میں لرزہ پیدا ہو گیا کہ خدا یا تیری رحم و انصاف کی حکومت میں یہ ایک کیسا ہولناک منظر ہے جو نظر آ رہا ہے کہ جو قربانی کرتا ہے وہ محروم جاتا ہے اور جو نہیں کرتا وہ پھل کھاتا ہے.قربانی کا فلسفہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اس اصول کو تکرار کے ساتھ بیان کر کے جماعت کے

Page 445

مضامین بشیر ۴۳۸ نو جوانوں کو اپنے سحر بھری تقریر سے ابھار رہے تھے اور میرا دل اس کش مکش میں پڑا ہوا تھا کہ خدایا میری آنکھیں یہ کیا نظارہ دیکھ رہی ہیں.آخر میں نے یوں محسوس کیا کہ میرا دل آہستہ آہستہ ساکت ہو رہا ہے اور میری محویت کامل ومکمل ہو کر مجھے میرے ماحول سے نکال کر باہر لے گئی تب میرے دل میں ایک آواز پیدا ہوئی کہ تو کس بھنور میں پھنس گیا ہے ؟ کیا قربانی خود اپنے اندر ایک عظیم الشان پھل نہیں ؟ میں چونک کر بیدار ہوا اور ایک آن کی آن میں قربانی کا سارا فلسفہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا اور میں نے اپنے نفس کو ملامت کرتے ہوئے کہا کہ قربانی کی لذت سے بڑھ کر کون سا پھل ہے اور پھر ایک ایک کر کے اس پھل کے مختلف نمو نے میری آنکھوں کے سامنے آنے لگے.ایک صحابی کی مثال سب سے پہلے میرے سامنے حضرت عبداللہ بن عمرو ( والد جابر بن عبد اللہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصویر آئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کے زمانہ میں جنگ احد شہید ہوئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونجنے لگے کہ عبداللہ کی قربانی پر خدا تعالیٰ ایسا خوش ہوا کہ اس نے عبداللہ سے بالمشافہ فرمایا کہ تیری قربانی سے ہم بہت خوش ہیں اس کے بدلہ میں تیرے دل میں جو بھی خواہش ہے تو اسے مانگ ہم اسے پورا کریں گے.عبداللہ نے عرض کیا اے خدا وند عالم ! میرے دل میں سوائے اس کے کوئی اور خواہش نہیں کہ اگر تو چاہے تو میں پھر زندہ کیا جاوں اور پھر تیرے راستہ میں اسی طرح جان دوں ، میں نے عبداللہ ہاں رسول عربی کے صحبت یافتہ عبداللہ کا یہ جواب سنا اور سمجھ لیا کہ عبد اللہ کے نزدیک قربانی کی شیرینی قربانی کے انعام کی شیرینی سے بڑھ کر ہے کیونکہ عبداللہ نے اس وقت جبکہ وہ کامل انکشاف کو پا چکا تھا بلکہ اس گھر میں پہنچ چکا تھا جو سب سے بڑے انعام کا گھر ہے.قربانی کی حالت کو انعام کی حالت پر ترجیح دی.میں نے کہا سچ ہے قربانی خود ایک عظیم الشان پھل ہے اور یہ پھل قربانی کے انعام کے پھل سے بہتر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ پھر میرے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہ یہ الفاظ آئے کہ اگر مجھے ہر شب اور ہر روز آسمان سے آواز آئے کہ تیری ساری عبادت اور سارا جہاد اجر کے لحاظ سے بے ثمر ہے.اس کا

Page 446

۴۳۹ مضامین بشیر تجھے کوئی بدلہ نہیں ملے گا اور تو ہماری طرف سے کوئی انعام حاصل نہیں کرے گا تو خدا کی قسم پھر بھی میری عبادت اور میری سعی جہاد میں ایک ذرہ بھر بھی فرق نہ آئے اور میں اپنے کام میں اسی طرح اور اسی ذوق شوق کے ساتھ لگا رہوں جس طرح کہ اب لگا ہوا ہوں کیونکہ میری جزاء انعام و اکرام میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی خدمت اور اس کی محبت خود اپنی ذات میں میری جزا ہے.میرے کانوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان پیارے الفاظ کو سنا اور میرے دل نے پھر کہا سچ ہے خدا کے لئے اور اس کے دین کے لئے قربانی کرنا خود اپنے اندر ایک پھل ہے اور اس پھل کی شیرینی قربانی کے انعام کی شیرینی سے بہتر ہے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد بالا آخر ایک بجلی کی کوند کی طرح میری آنکھوں کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ الفاظ پھر گئے کہ میری امت کی مثال ایک بارش کی طرح ہے جس کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا اول حصہ بہتر ہے یا کہ آخری حصہ ہے.میں نے کہا بیشک یہ حدیث حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی بعثت پر بھی چسپاں ہوتی ہو گی اور ضرور ہوتی ہے مگر اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی زندگیوں کا ایک نقشہ کھینچا ہے اور فرمایا ہے کہ میرے صحابہ دوگروہوں میں منقسم ہیں ایک وہ جو صرف قربانی کا زمانہ پائیں گے اور قربانی کے انعام سے انہیں کوئی حصہ نہیں ملے گا جیسے بدر یا احد وغیرہ کے شہید اور دوسرے وہ جو لمبی زندگی پا کر اپنی ابتدائی قربانیوں کا کسی قدر پھل بھی چکھ لیں گے.ان دو گروہوں کو اپنے سامنے رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ ان میں سے پہلا گر وہ افضل ہے یا کہ دوسرا گر وہ حالانکہ دوسرے گروہ نے قربانی سے بھی حصہ لیا تھا اور اس کے انعام سے بھی مگر خالی قربانی کا پھل جب کہ وہ انعام سے جدا ہو کر اپنی خالص تلخی میں میسر آئے اس قدر شریں ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شائد اس پھل کی شیرینی اس شیرینی سے بھی بڑھی ہوئی ہے جو قربانی اور اس کے انعام ہر دو کی شیرینی سے مرکب ہوتی ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ یہی بات درست ہے کیونکہ خدائے حکیم کی قدرت نے اپنے برگزیدہ نبیوں کو اسی مقدم الذکر گر وہ میں شامل کیا ہے جنہیں اس دنیا میں قربانی کی تلخی کے سوا اور کوئی پھل نہیں ملتا اور ان کے لئے یہ تلخی ہی سب شیر مینوں کی سردار ہے.

Page 447

مضامین بشیر دل کی آواز ۴۴۰ میں نے دل کی آنکھ سے یہ سارے نظارے دیکھے اور میں اس خوشی میں پھولا نہ سماتا تھا کہ میں نے قربانی کے فلسفہ کو پا لیا لیکن عین جبکہ میں اس خوشی کے شباب میں تھا میرا دل پھر میرے سینہ میں ڈوبنا شروع ہواختی کہ میں نے یوں محسوس کیا کہ میں پھر کسی خیال میں کھویا گیا اور اس وقت میرے دل میں یہ آواز پیدا ہوئی کہ تو نے ابھی قربانی کا پورا فلسفہ نہیں سمجھا بھلا بتا تو سہی کہ تو خود کس گروہ میں ہے؟ تو نے قربانی کا زمانہ پایا اور اسے ضائع کر رہا ہے حالانکہ تو جان چکا ہے کہ یہی افضل چیز ہے اس کے بعد انعام کا زمانہ آئے گا اور اول تو یہ معلوم نہیں کہ تو اس زمانہ کو پائے یا نہ پائے بلکہ بظاہر حالات اغلب ہے کہ تو اس زمانہ کو نہیں پائے گا اور اگر پایا بھی تو افسوس ہے کہ ابھی تک تو فلسفہ قربانی کے اس نکتہ کو نہیں سمجھا کہ قربانی کی تلخی کے چکھے بغیر قربانی کے پھل کی حلاوت محسوس نہیں ہوا کرتی بلکہ گلے میں اٹک کر پھانسی کا پھندا بن جایا کرتی ہے.اس آواز کوسن کر میری خوشی سے بلند ہوتی ہوئی گردن شرم سے نیچی ہو گئی اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا آگیا اور میں نے اس تاریکی میں گھرے ہوئے اپنے نفس کو آواز دی کہ ہاں ہاں اگر تو واقع قربانی کے فلسفہ کو سمجھ چکا ہے تو پھر بتا کہ تو خود کس حساب میں ہے ؟ میرا نفس اس آواز کا کوئی جواب نہ دے سکا.میں نے اس سوال کو دوہرایا مگر پھر بھی خاموشی تھی اور میں یوں محسوس کرتا تھا کہ بس ابھی میرے دل کی حرکت بند ہو کر یہ سارا کھیل ختم ہو جائے گا.تب میرے دل کی طرف سے نہیں بلکہ باہر سے اوپر کی طرف سے مجھے ایک آواز آئی مگر یہ اس جاگتے کی خواب کا دوسرا ورق ہے جو شر مند ہ عریانی نہیں ہوسکتا.خدا تعالیٰ کا بہت بڑا احسان اے ہمارے خدا! اے ہمارے پیارے باپ! اے اس کون ومکان کے مالک! اے آسمانوں اور زمینوں کے بادشاہ! جو ہماری کسی خواہش پر نہیں بلکہ خود اپنی مرضی سے اپنے جمال و جلال کے اظہار کے لئے ہمیں نیست سے ہست میں لایا ہے تا ہم تیرے بندے بہنیں اور تیرے حضور میں تیری آنکھوں کے سامنے تیری رضا کے راستہ پر چلتے ہوئے تیری خدمت میں زندگی گزاریں تیرا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ تو نے ہم مٹی کے ذروں کو اپنے ہاتھ میں لے کر اوپر اٹھایا اور پھر اپنی ذات ہاں ازلی اور ابدی ذات پاک اور مقدس ذات کے ساتھ ہمیشہ کے لئے پیوست

Page 448

۴۴۱ مضامین بشیر کر لیا.تیری طرف سے تو یہ احسان یہ ذرہ نوازی اور ہمارا یہ حال کہ رات اور دن کی گھڑیوں میں تیری آنکھوں کے سامنے، تیری نظروں کے نیچے اور گویا تیری گود میں بیٹھے ہوئے گناہ کی نجاست سے کھیلتے ہیں اور پھر بھی تو فرماتا ہے کہ میں بخش دوں گا.اب میں اپنے گناہوں کی طرف دیکھوں یا تیرے عفو و کرم کی طرف.مطبوعه الفضل ۱۱ فروری ۱۹۴۱ء)

Page 449

مضامین بشیر ۴۴۲ میرے مضمون میں ایک قابل اصلاح غلطی آج مؤرخہ 1 فروری ۱۹۴۱ء کے 'الفضل میں میرا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کی سرخی یہ ہے کون بہتر ہیں قربانی والے یا انعام والے مجھے افسوس ہے کہ اس مضمون کے آخری حصہ میں ایک ایسی غلطی ہوگئی ہے جو قابل اصلاح ہے.آخری پیرے کے شروع میں یہ الفاظ آتے ہیں اے 66 ہمارے خدا.اے ہمارے باپ جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے ”اے ہمارے پیارے باپ کے الفاظ نہیں لکھے تھے’ بلکہ اے ہمارے پیارے آسمانی باپ کے الفاظ لکھے تھے گو یہ ممکن ہے کہ جلدی میں مجھ سے آسمانی کا لفظ لکھنے سے رہ گیا ہو مگر میں یہی سمجھتا اور یقین رکھتا ہوں کہ میں نے یہ لفظ لکھا تھا اور کم از کم میری نیت میں یہ لفظ ضرور داخل تھا.میں نے ایڈیٹر صاحب سے عرض بھی کیا تھا کہ میرے مضمون کی کاپی مجھے دکھا لیں تا کہ اگر کوئی غلطی ہو تو میں اس کی اصلاح کر سکوں مگر غالباً وہ کسی معذوری کی وجہ سے نہیں دکھا سکے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ” آسمانی باپ کی جگہ صرف’باپ“ کا لفظ چھپ گیا ہے اور اس کے علاوہ مجھے اور بھی بعض خفیف خفیف غلطیاں یا تبدیلیاں نظر آتی ہیں ممکن ہے کہ بعض دوست آسمانی باپ اور باپ کے مفہوم میں زیادہ فرق محسوس نہ کریں اور یہ خیال کریں کہ مراد بہر حال ایک ہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جو تو حید کا اعلیٰ سبق ہمیں اسلام سکھاتا ہے اور جس طرح اسلام نے ہر ظاہری اور باطنی رنگ کے شرک کے خلاف امت مسلمہ کی حفاظت فرمائی ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ غلطی حقیقتہ قابل افسوس اور قابل اصلاح ہے.آسمانی باپ سے تو صراحتہ یہ مراد ہے کہ ہمارا ایک اصلی باپ الگ موجود ہے اور خدا کو صرف خاص تعلقات محبت ووداء کے اظہار کے لئے آسمانی باپ کہ کر پکارا گیا ہے لیکن آسمانی کے لفظ کے چھوڑ دینے سے گویا باپ کے لفظ کی نسبت خالصہ اور منفرداً ذات باری تعالیٰ کی طرف چلی جاتی ہے جو کسی طرح درست نہیں.یہ درست ہے کہ اصل چیز لکھنے والے کی نیت اور اس کے دل کی حقیقی خیالات ہیں مگر ان غیر مادی خیالات کے لئے ہم جو جسم انتخاب کرتے اور جو زبان استعمال میں لاتے ہیں اس میں بھی بڑی احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ آہستہ آہستہ مخفی شرک کے پیدا ہو جانے یا کم از کم توحید کے اعلیٰ مقام سے گر جانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور بہر حال خدا کی وراء الور آہستی کے سامنے مناسب حال الفاظ کا استعمال کیا جانا از بس ضروری ہے.میں اُمید کرتا ہوں کہ دوست اس بات کو نوٹ فرمالیں گے.میرے مضمون

Page 450

۴۴۳ مضامین بشیر کے اصل الفاظ ” اے ہمارے پیارے باپ نہیں بلکہ اے ہمارے پیارے آسمانی باپ ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس صحیح اور اعلیٰ مقام پر قائم رکھے جو اس کی توحید کی شایان شان ہے اور ہم ممبرانِ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر تو توحید کے قیام کے متعلق خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ہمارے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- " خُدُوا التَّوحِيدَ التَّوْحِيْدَيَا ابْنَاءَ الْفَارِسِ یعنی اے نسل فارس کے بیٹو تم تو حید کو مضبوط پکڑو.“ ہاں اس تو حید کو جو خالص اور مصفی اور ہر ظاہری اور باطنی ملاوٹ سے پاک اور صاف ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی ہی توفیق دے.آمین مطبوعه الفضل ۱۲ فروری ۱۹۴۱ء)

Page 451

مضامین بشیر ۴۴۴ روایتوں کے جمع کرنے میں خاص احتیاط کی ضرورت کچھ عرصہ ہوا یعنی ۲۹ جنوری ۱۹۴۱ء کے الفضل میں ایک صاحب میاں مہر اللہ صاحب کی ایک روایت شائع ہوئی تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں فنانشل کمشنر کی آمد کا ذکر تھا اس روایت میں باوجود اس کے کہ راوی صاحب نے اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا تھا.یہ صریح غلطی تھی کہ اول تو فنانشل کمشنر کی جگہ کمشنر درج تھا دوسرے میاں مہر اللہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ بیان کیا تھا کہ آپ خود فنانشل کمشنر کے استقبال میں شریک ہوئے تھے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام استقبال میں شریک نہیں ہوئے تھے بلکہ جہاں تک قادیان سے باہر جا کر استقبال کرنے کا معاملہ تھا، آپ نے اس غرض کے لئے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم وغیرہ کو آگے بھجوایا تھا اور جو استقبال فنانشل کمشنر صاحب کا قادیان کے اندر یعنی ریتی چھلہ کے میدان میں ہوا تھا.اس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود شریک نہیں ہوئے تھے.نیز اس روایت کی تصحیح تو بعد میں مکرمی بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی نے الفضل ” مورخہ ۴ فروری و الفضل‘ مورخہ 9 فروری میں کر دی تھی اور الحکم “ اور ”بدر“ کے فائلوں میں بھی اصل واقعہ کا اندراج موجود ہے مگر مجھے اس روایت پر خیال آیا کہ اس زمانہ میں روایتوں کا کیا حال ہے کہ ایک شخص کے سامنے ایک سارا واقعہ گزرتا ہے مگر چند سال کے بعد اسے ایسی موٹی بات بھی یاد نہیں رہتی کہ آیا اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام شریک ہوئے تھے یا نہیں؟ پھر جب میں نے اس معاملہ پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ دراصل ہر زمانہ کے حالات کے مطابق انسانی قوی اور انسانی طاقتوں کی تربیت جدا جدا ظہور پذیر ہوتی ہے.قدیم زمانہ میں چونکہ لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا اور ابھی تک پر لیس بھی ایجاد نہیں ہوا تھا اور کتب اور رسالہ جات اور اخبارات بھی گویا بالکل مفقود تھے.اس لئے طبعا اس قسم کے ماحول میں انسان کو اپنی قوت حافظہ سے زیادہ کام لینا پڑتا تھا.جس کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ مشق اور مزاولت کی کثرت کی وجہ سے لوگوں کے حافظے بہت ترقی کر گئے تھے لیکن موجود وہ زمانہ میں جبکہ لکھنے پڑھنے کا رواج بہت زیادہ ہو گیا ہے اور پھر پریس کی ایجاد نے بھی گویا کتب اور اخبارات کی اشاعت کا ایک

Page 452

۴۴۵ مضامین بشیر دریا بہا دیا ہے اس لئے طبعا لوگوں کو اپنے حافظہ سے اتنا کام لینا نہیں پڑتا جتنا پہلے زمانہ میں لینا پڑتا تھا.جس کا لازمی نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہو رہا ہے کہ مشق کی کمی کی وجہ سے لوگوں کے حافظے کمزور ہو گئے ہیں اور موٹی موٹی باتیں بھی بہت جلد ذہن سے اتر جاتی ہیں.بے شک نسیان ایک فطری خاصہ ہے.اور یہ خاصہ ہر زمانہ میں موجود رہا ہے مگر پہلے زمانوں کے نسیان اور موجودہ زمانہ کے نسیان میں بہت بھاری فرق ہے یعنی اگر گزشتہ زمانوں کے لوگ سو میں سے دس باتیں بھولتے تھے تو اس زمانہ کے لوگ سو میں سے پچاس باتیں بھول جاتے ہیں.والشاذ كالمعدوم بہر حال یہ ایک بین حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ میں حافظہ کا وہ حال نہیں جو پہلے زمانوں میں تھا.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ موجودہ زمانہ میں روایات کے جمع کرنے میں خاص احتیاط سے کام لیں تا کہ کمزور اور غلط روایتیں ہمارے لٹریچر میں راہ پا کر ہماری تاریخ اور ہماری تعلیم اور ہماری تہذیب کو خراب نہ کر دیں بلکہ حق یہ ہے کہ اس زمانہ میں ہمیں روایتی علم کی اس قدرضرورت نہیں جتنی کہ پہلے زمانوں میں تھی کیونکہ موجودہ زمانہ میں کتب اور اخبارات وغیرہ کی اشاعت کی وجہ سے تاریخ اور تعلیم کا بیشتر حصہ ساتھ ساتھ ضبط میں آتا جاتا ہے اور زبانی روایتوں کی چنداں حاجت نہیں رہتی لیکن پھر بھی چونکہ بعض امور میں زبانی روایتیں مزید روشنی کا باعث ہو سکتی ہیں اور ہر بات اخبارات اور کتب وغیرہ کے ذریعہ ساتھ ساتھ ضبط میں آنی مشکل ہوتی ہے اس لئے اس حصہ کو بالکل نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا مگر ظا ہر ہے کہ موجودہ زمانہ میں اس بات کی از حد ضرورت ہے کہ روایتوں کے جمع کرنے میں انتہائی احتیاط سے کام لیا جائے.اس معاملہ میں میں خود صاحب تجربہ ہوں کیونکہ سیرۃ المہدی کے لئے میں نے بھی ایک زمانہ میں بہت سی روایتوں کو جمع کیا تھا لیکن میرے اس تجربہ نے بھی مجھے اس تلخ حقیقت کا مزہ چکھایا ہے کہ با وجود کافی احتیاط کے کمزور روایتیں ہمارے مجموعوں میں رستہ پالیتی ہیں اور جب ایک دفعہ کوئی ایسی بات معرض اشاعت میں آجاتی ہے تو پھر بعد میں اس کا ازالہ سخت مشکل ہو جاتا ہے.بے شک عقلمند اور شریف مزاج اور انصاف پسند لوگ زبانی روایتوں کی قدر و قیمت کو پہچانتے ہیں اور انہیں اس سے زیادہ وزن نہیں دیتے جو ان کا حق ہے اور ہر قوم کو اس کے مسلمہ اصولوں اور مستند تحریوں کے پیمانہ سے ناپتے ہیں اور محض کسی زبانی روایت پر جو مستند تحریروں کے خلاف ہو اپنی رائے یا فیصلہ کی بنیاد نہیں رکھتے مگر مشکل یہ ہے کہ اس زمانہ میں ہمیں زیادہ تر ایسے دشمن کے ساتھ واسطہ پڑا ہے جو اپنی خوردہ گیری اور طعنہ زنی اور بے انصافی میں انتہاء کو پہنچا ہوا ہے اور صحیح اصولوں پر منصفانہ اور فیاضیا نہ رنگ میں بحث کرنا نہیں جانتا اور اس کی اس پست ذہنیت کی وجہ سے ہم پر بھی لازماً بہت زیادہ ذمہ داری

Page 453

مضامین بشیر عائد ہوتی ہے کیونکہ بہر حال ہمارا فرض ہے کہ احمدیت کے رستہ کو حتی الوسع اعتراضوں کی خاردار جھاڑیوں سے پاک وصاف رکھیں.یوں تو روایات کے معاملہ میں بہت سی احتیاطوں کی ضرورت ہے مگر جن امور کی طرف خاص توجہ دینے اور خصوصیت سے چوکس رہنے کی ضرورت ہے وہ میرے خیال میں مختصر طور پر یہ ہیں.اول : جس راوی سے روایت لی جائے اس کے متعلق یہ پوری پوری تسلی کر لی جائے کہ (الف) وہ حافظہ کا کچا یا (ب) عقل کا کمزور یا ( ج ) ایمان کا ناقص یا ( د ) محجوب الاحوال تو نہیں تا کہ ان نقصوں کی وجہ سے ہماری روایات غلطیوں یا غلط فہمیوں کا شکار نہ بن جائیں.دوم : کوئی ایسی روایت قبول نہ کی جائے جس کا مضمون کسی رنگ میں (الف) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کسی الہام یا (ج) سلسلہ کے کسی مستند ریکا رڈیا ( د) عقل و دانش کے مسلمہ اور بدیہی اصولوں کے خلاف ہوا اور پھر وہ کسی اسلامی تعلیم کے بھی خلاف نہ ہو.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اس معاملہ میں خاص احتیاط سے کام لے کر بیدار مغزی اور فرض شناسی کا ثبوت دیں گے.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہوا اور ہمیں اپنی رضا اور صداقت کے رستہ پر قائم رکھے.آمین ( مطبوعہ الفضل ۱۳اپریل ۱۹۴۱ء )

Page 454

۴۴۷ مضامین بشیر مرز افضل احمد صاحب کے جنازہ کے متعلق ایک معزز غیر احمدی کی شہادت کچھ عرصہ ہوا جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے نے مسلہ جنازہ غیر احمدیان کے متعلق ایک رسالہ ” ثالث بنے کی دعوت لکھ کر شائع کیا تھا اور اس کے جواب کے لئے بڑی تحدی سے کام لیتے ہوئے ہر مبالع احمدی کو چیلنج دیا تھا کہ کوئی شخص میدان میں نکلے اور اس رسالہ کا جواب دے اور اس چیلنج کو بعد میں بھی اخبار ”پیغام صلح کے بہت سے نمبروں میں بڑی تحدی کے ساتھ دہرایا گیا.اس رسالہ کے جواب میں خاکسار نے ایک رسالہ ”مسئلہ جنازہ کی حقیقت“ کے عنوان کے ماتحت لکھ کر شائع کیا ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ خدا کے فضل سے میرے اس رسالہ میں مولوی صاحب کے سارے اعتراضوں کا جواب آ گیا ہے.میرے اس رسالہ کا ایک اقتباس جو ہمارے فوت شدہ بھائی مرز افضل احمد صاحب کے جنازہ سے تعلق رکھتا ہے، الفضل کی اشاعت مورخہ ۱۷.اپریل ۱۹۴۱ء میں بھی شائع ہو چکا ہے.اس اقتباس پر مجھے ایک دوست حبیب الرحمن صاحب بی.اے اسٹنٹ انسپکٹر آف سکولز کبیر والا ضلع ملتان کا ایک خط موصول ہوا ہے جو میں قارئین کرام کے فائدہ کے لئے اس جگہ درج کرتا ہوں اور میں اپنے غیر مبایعین ناظرین سے بھی استدعا کرتا ہوں کہ وہ اس غیر جانبدارانہ شہادت کو غور سے مطالعہ فرمائیں اور پھر انصاف کے ساتھ سوچیں کہ مرز افضل احمد صاحب کے جنازہ کے معاملہ میں جناب مولوی محمد علی صاحب کا دعویٰ جو انہوں نے اس قدر نا واجب تحدی کے ساتھ کیا ہے، کیا حقیقت رکھتا ہے.حبیب الرحمن صاحب اپنے خط مورخہ ۱۷.اپریل ۱۹۴۱ء میں لکھتے ہیں.بخدمت حضرت میاں صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ اخبار الفضل مورخہ ۱۷.اپریل میں جناب کے مضمون کا وہ حصہ دیکھا جو مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کے متعلق ہے اس کے متعلق میرے پاس بھی ایک شہادت ہے جو درج ذیل کرتا ہوں.سید ولایت شاہ صاحب شجاع آباد ضلع ملتان کے ایک معزز غیر احمدی بزرگ تھے ( وہ جون ۱۹۴۰ء میں فوت ہو چکے ہیں) انہوں نے متعدد بار مجھ سے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم

Page 455

۴۴۸ مضامین بشیر و مغفور کے واقعات بیان کئے.یہ صاحب حضرت مرزا صاحب مرحوم کے گہرے دوست بلکہ پروردہ تھے.حضرت مرزا صاحب نے شجاع آباد کے عرصہ قیام میں ان سے بہت اچھا سلوک کیا تھا اور ان کی دنیوی ترقیات اور عزت کا باعث بھی حضرت مرزا صاحب مرحوم کی ذات والا صفات تھی.میں جون ۱۹۳۵ء سے اپریل ۱۹۳۹ ء تک شجاع آباد میں اسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز رہا ہوں.سید صاحب مذکور میرے ہمسایہ تھے اور غیر احمدی تھے لیکن مسلک صلح کل تھا اور حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے احسانات کو بار بار یاد کرتے تھے.باتوں باتوں میں ایک دفعہ انہوں نے مرزا فضل احمد صاحب کی وفات کا بھی ذکر کیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس وقت مجھے تو بالکل یہ خیال ہی نہ تھا کہ مولوی محمد علی صاحب مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کے متعلق اتنا بڑا طوفان کھڑا کریں گے یا کر چکے ہیں ورنہ میں ان سے ان کی شہادت لکھوا لیتا.اب بھی جو کچھ انہوں نے بیان کیا تھا وہ میں ذیل میں درج کرتا ہوں لیکن یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ ان کے اصلی الفاظ مجھے پوری طرح یاد نہیں البتہ مفہوم سارا ان کا ہے اور الفاظ میں شاید کچھ تغیر و تبدل ہو.میں اس شہادت کو ادا کرتے ہوئے مفہوم کے متعلق اللہ تعالیٰ کی قسم کھا تا ہوں کہ میں نے اس میں کوئی تغیر و تبدیل نہیں کیا.وہ شہادت یہ ہے کہ مرز افضل احمد صاحب کے جنازہ کے ساتھ سید ولایت شاہ صاحب موصوف بھی قادیان میں تھے.یہ معلوم نہیں کہ ساتھ گئے تھے یا پہلے ہی وہاں موجود تھے.وہ کہتے تھے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مرزا فضل احمد صاحب کے دفن کرنے اور جنازہ پڑھنے سے قبل حضرت مرزا غلام احمد صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) نہایت کرب ، واضطراب کے ساتھ باہر ٹہل رہے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کو اس کی وفات سے حد درجہ تکلیف ہوئی ہے.اسی امر سے جرات پکڑ کر میں خود حضور کے پاس گیا اور عرض کیا کہ حضور وہ آپ کا لڑکا تھا بیشک اس نے حضور کو خوش نہیں کیا لیکن آخر آپ کا لڑکا تھا.آپ معاف فرمائیں اور اس کا جنازہ پڑھیں ( یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب نے انہیں حضرت کے حضور بھیجا ہو ) اس پر حضرت صاحب نے فر ما یا نہیں شاہ صاحب.وہ میرا فرمانبردار تھا اس نے کبھی مجھے ناراض نہیں کیا لیکن اس نے اپنے اللہ کو راضی نہیں کیا تھا اس لئے میں اس کا جنازہ نہیں پڑھتا.آپ جائیں اور پڑھیں.شاہ صاحب کہتے تھے کہ اس پر میں واپس آگیا اور جنازہ میں شریک ہوا.پر میں اللہ تعالیٰ کی دوبارہ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ شاہ صاحب کی مندرجہ بالا گفتگو کا مفہوم میں نے صحیح طور پر ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے بلکہ جہاں تک مجھے یاد ہے خط کشیدہ الفاظ بھی شاہ صاحب کے اپنے ہیں خصوصاً یہ فقرہ کہ

Page 456

۴۴۹ مضامین بشیر وو اس نے اپنے اللہ کو راضی نہیں کیا تھا “ والسلام.خاکسار حبیب الرحمن بی.اے اسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز کبیر والہ ضلع ملتان.اس خط سے جو ایک معزز غیر احمدی کی چشم دید شہادت پر مشتمل ہے مندرجہ ذیل باتیں قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوتی ہیں.اول یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مرز افضل احمد صاحب کو اپنا مطیع اور فرمانبردار خیال فرماتے تھے اور آپ کو ان کی وفات پر سخت صدمہ ہوا مگر تا ہم آپ نے ان کا جنازہ نہیں پڑھا.جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ مرز افضل احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدا دا د منصب کو قبول نہ کر کے خدا کی ناراضگی کو اپنے سر پر لیا تھا اور اس کے سوا کوئی اور وجہ جنازہ سے احتراز کرنے کی نہیں تھی.سوم جیسا کہ جناب مولوی محمد علی صاحب نے بیان کیا ہے، جنازہ سے اجتناب کرنے کی یہ وجہ ہرگز نہیں تھی کہ جنازہ غیر احمدیوں کے قبضہ میں تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے جنازہ میں شرکت کا موقع نہیں تھا.بلکہ حق یہ ہے کہ خود جنازہ میں شریک ہونے والے غیر احمدی لوگ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو ہو کر درخواست کرتے تھے کہ حضور جنازہ میں شریک ہوں مگر پھر بھی بوجہ اس کے کہ مرزا فضل احمد صاحب احمدی نہیں تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے جنازہ سے احتراز فرمایا.چهارم جیسا کہ جناب مولوی محمد علی صاحب نے بیان کیا ہے یہ بات بھی ہرگز درست نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا افضل احمد صاحب کو عاق کر دیا ہوا تھا کیونکہ جب آپ انہیں اپنا مطیع اور فرمانبردار سمجھتے تھے تو پھر عاق وغیرہ کا قصہ خود بخو د باطل ہو جاتا ہے.

Page 457

مضامین بشیر پنجم ۴۵۰ مندرجہ بالا شہادت جو ایک بالکل غیر جانبدار شخص کی طرف سے ہے ، اس بات کو بھی ثابت کرتی ہے کہ مرزا افضل احمد صاحب کے جنازہ کے بارے میں جو شہادت ہماری طرف سے پیش کی گئی ہے و ہی درست اور صحیح ہے اور اس کے متعلق جناب مولوی محمد علی صاحب کا شبہ پیدا کرنا یا اس کے مقابل پر کوئی اور ادعا کرنا ہرگز درست نہیں.یہ وہ باتیں ہیں جو مندرجہ بالا شہادت سے یقینی طور پر ثابت ہوتی ہیں اور ان باتوں کے ہوتے ہوئے جناب مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھی خود سوچ سکتے ہیں کہ اس معاملہ میں ان.کی کیا قدر و قیمت ہے.وما علینا الا البلاغ.(مطبوعہ الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۴۱ء)

Page 458

۴۵۱ مسئلہ جنازہ میں غیر مبایعین کا افسوس ناک رویہ مولوی محمد علی صاحب کا چیلنج مضامین بشیر گزشتہ جلسہ سالانہ کے قریب جناب مولوی محمد علی صاحب ایم اے امیر غیر مبایعین نے مسئلہ جنازہ غیر احمدیان کے متعلق ایک پندرہ صفحہ کا رسالہ موسومہ ثالث بننے کی دعوت “ لکھ کر شائع کیا تھا اور اس رسالہ میں جماعت احمدیہ قادیان کو نہایت نا واجب تحدی کے رنگ میں چیلنج دیا تھا کہ کوئی شخص ثالث بن کر میدان میں آئے اور ہمارے سوالات کا جواب دے اور انتہائی جرات سے کام لیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا گیا تھا کہ ہمیں کسی دلیل یا بحث وغیرہ کی ضرورت نہیں صرف بلا دلیل دوحرفہ فیصلہ کافی ہے وغیرہ وغیرہ.مولوی محمد علی صاحب کے رسالہ کا جواب میں نے خدا کے فضل سے اس رسالہ کا جواب لکھا اور لوگوں کے فائدہ کے خیال سے دوحرفہ اور بلا دلیل بیان کی بجائے ایک مفصل اور مدلل مضمون تحریر کر کے ثابت کیا کہ اول : جناب مولوی محمد علی صاحب نے اپنے رسالہ میں حوالہ جات کے پیش کرنے میں نہایت نا واجب تصرف سے کام لیا ہے اور حوالوں کو صحیح صورت میں پیش کرنے کی بجائے اپنے مفید مطلب صورت میں کاٹ چھانٹ کر درج کیا ہے ( مسئلہ جنازہ کی حقیقت صفحہ ۵ تا ۲۰ صفحہ ا۷ تا ۶ ۷ وصفحہ ۷ ۱۸ تا ۱۹۵ و غیره) دوم : مولوی صاحب موصوف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالوں سے جو یہ نتیجہ نکالا ہے کہ غیر احمد یوں کا جنازہ جائز ہے وہ ہرگز ہرگز درست نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالوں کے بغور مطالعہ سے سوائے اس کے کوئی اور بات ثابت نہیں ہوتی کہ آپ کے نزدیک صرف مصدقین احمدیت کا جنازہ ہی جائز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سچا جانتے اور احمدیت کی صداقت کے قائل اور معترف ہیں اور یہ کہ کسی مکذب یا منکر احمدیت کا جنازہ ہرگز جائز نہیں ( سارا رسالہ اور خلاصہ بحث کے لئے دیکھو صفحہ ۱۳۸ تا ۱۴۲ و غیره )

Page 459

مضامین بشیر ۴۵۲ سوم : حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں جماعت کے واقف کا راور مخلص اصحاب کا یہی خیال اور یہی عقیدہ تھا کہ حقیقتہ کسی غیر احمدی کا جنازہ جائز نہیں اور اسی کے مطابق جماعت کے مخلص اور واقف کا رطبقہ کا عمل تھا ( مثلاً دیکھو مسئلہ جنازہ کی حقیقت صفحہ ۹۹ تا ۱۰۷ و صفحه ۱۲۳ تا ۱۲۷ و غیره ) چہارم.خود غیر مبایعین اصحاب کا بھی اختلاف کے ابتدائی ایام تک یعنی ۱۹۱۴ ء تک یہی خیال اور یہی عقیدہ تھا کہ غیر احمدیوں کا جنازہ جائز نہیں ( مثلا دیکھو مسئلہ جنازہ کی حقیقت صفحه ۴ ۲۰ تا ۲۰۸) پنجم : حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے جنازہ کے معاملہ میں از روئے حقیقت وہی فتوئے دیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اول نے دیا تھا اور اس مسئلہ میں آپ کا مسلک ہرگز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مسلک کے خلاف نہیں ( مثلاً دیکھو رسالہ مسئلہ جنازہ کی حقیقت صفحه ۱۷۵ تا ۱۸۴) یہ وہ پانچ باتیں ہیں جو میں نے اپنے رسالہ ” مسئلہ جنازہ کی حقیقت میں قطعی اور یقینی طور پر ثابت کی تھیں اور خدا کے فضل سے میں نے ہر بات پوری پوری تشریح اور توضیح اور تفصیل کے ساتھ دلیلیں اور مثالیں دے دے کر بیان کی تھی اور اپنی طرف سے کوئی شک وشبہ کا کوئی رخنہ نہیں چھوڑا تھا اور مجھے امید تھی کہ کم از کم غیر مبایعین اصحاب کا ایک حصہ میرے جواب کو حق جوئی کی روح سے مطالعہ کرے گا اور اسے صداقت اور معقولیت پر مبنی قرار دے کر قدر کی نظر سے دیکھے گا اور کم از کم یہ کہ آیندہ اس معاملہ میں خاموشی اختیار کر کے بحث کو نا واجب طول نہیں دے گا.حیرت اور افسوس مگر مجھے یہ دیکھ کر سخت تعجب ہوا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میرے اس رسالہ کے جواب میں جس میں خدا کے فضل سے ہر بات نہایت مخلصانہ اور ہمدردانہ رنگ میں پیش کی گئی تھی اور نہ صرف جناب مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے بلکہ بعض دوسرے ذمہ دار غیر مبایعین کی طرف سے بھی ایسا رویہ اختیار کیا گیا ہے جو کسی طرح تقوی اور دیانت داری پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا حتی کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ میری طرف یہ بات منسوب کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا کہ گویا میں نے مسئلہ جنازہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے مسلک کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسلک کے خلاف قرار دے کر جناب مولوی محمد علی صاحب کے مسلک کو درست اور صحیح تسلیم کر لیا ہے یعنی بالفاظ دیگر میں نے یہ ۲۲۶ صفحہ کا رسالہ محض اسی غرض سے لکھا ہے کہ تا جناب مولوی محمد علی صاحب کے بیان کردہ عقیدہ کو

Page 460

۴۵۳ مضامین بشیر درست قرار دے کر اس کی تائید میں دلائل مہیا کروں اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے عقیدہ کے بطلان کو دنیا پر ظاہر کر کے مولوی صاحب اور اور ان کے ساتھیوں سے خراج تحسین حاصل کروں.اس جرات اور دلیری پر میں سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ ان الله وانا اليه راجعون ولاحول ولاقوة الا بالله العلى العظيم غیر مبایعین کی مذبوحی حرکت اگر ہمارے غیر مبایعین اصحاب کی عقل و دانش کا حقیقتہ یہی فتویٰ ہے جو اوپر کے بیان میں ظاہر کیا گیا ہے اور اگر ان کی امانت و دیانت انہیں فی الواقع اسی نتیجہ کی طرف رہنمائی کرتی ہیں جو وہ میری طرف منسوب کر رہے ہیں تو غالباً یہ دنیا بھر میں فقدان عقل وخر داور حرمان دیانت وامانت کی ایک بدترین مثال ہوگی کہ ایک طرف تو ایک کتاب کی اشاعت پر انتہا درجہ چیں بچیں ہو کر اس کی تردید میں بے تحاشا ہاتھ پاؤں مارے جائیں اور دوسری طرف اس کتاب کے مضمون کو اپنی تائید میں قرار دے کر اسے بر ملا سراہا جائے.یہ وہ عجیب و غریب ذہنیت ہے جو جناب مولوی محمد علی صاحب اپنی پارٹی کے دل و دماغ میں پیدا کر رہے ہیں اور جس پر انہیں اس قدر ناز ہے کہ اپنے ہر مضمون کو تحدیوں اور چیلنجوں کے ساتھ آراستہ کرنے میں لذت پاتے اور اس طریق میں اپنی عزت اور دوسرں کی لذت کا نظارہ دیکھتے ہیں.بہر حال اس معاملہ میں غیر مبایع اصحاب کی مذبوحی حرکات اس قدر ظا ہر وعیاں ہیں کہ ہر غیر متعصب شخص انہیں آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے اور مجھے اس موضوع پر کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.ناپاک کھیل میں حصہ لینے سے احتراز لیکن میں یہ بات کہنے سے کسی طرح رُک نہیں سکتا کہ جو فریق امانت و دیانت کے رستہ سے منحرف ہو کر اور خدا کی رضا جوئی کے طریق کو چھوڑ کر ایک مقدس مذہبی مسئلہ کو گو یا مرغ بازی کا اکھاڑہ بنانا چاہتا ہے اور تقویٰ اور خدا ترسی کے اصولوں کو خیر باد کہہ کر بحث کو صرف تو تو میں میں کی خاطر جاری رکھنے کا متمنی ہے میں اس کے مقابلہ میں کھڑا ہو کر کسی صورت میں اپنا وقت ضائع کرنے کے لئے تیار نہیں.میرے اس طریق کو اگر دوسرا فریق میری کمزوری یا شکست سے تعبیر کرتا ہے تو بے شک کرے اور ہزار دفعہ کرے، مجھے اس کی پروا نہیں.مجھے دنیا کی نظر میں شکست خوردہ کہلا نا منظور ہے اور لاکھ دفعہ منظور ہے مگر مجھے کسی صورت میں اس لعنت کے جوئے کے نیچے اپنی گردن رکھنا منظور نہیں

Page 461

مضامین بشیر ۴۵۴ کہ خدائے قدوس اور اس کے پاک فرشتے مجھے دین و مذہب کے مقدس میدان میں جس کے تقدس کو خدا کے ازلی تقدس سے حصہ ملا ہے ایک نا پاک کھیل میں مصروف دیکھیں.66 اسی قسم کے خیالات اور احساسات کے ماتحت میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ میرے رسالہ ” مسئلہ جنازہ کی حقیقت پر جو کچھ ”پیغام صلح کے کالموں میں لکھا جا رہا ہے یا خطبات وغیرہ میں بیان کیا جا رہا ہے ، میں اس پر خاموشی اختیار کروں گا کیونکہ علاوہ اس وجہ کے جو میں اوپر بیان کر چکا ہوں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جو مضامین اور خطبات میرے علم میں آئے تھے ( اور میں خیال کرتا ہوں کہ غالباً اکثر حصہ میرے علم میں آگیا ہو گا.گو قلیل حصہ ضرور ایسا بھی ہو گا جو میرے علم میں نہیں آیا ) ان سے میں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب ہمارے روٹھے ہوئے بھائیوں کے ہاتھ میں تکرار کے دل خوشکن مشغلہ کے سوا اور کچھ نہیں اور محض ظاہری لفافہ بدل کر یا بعض صورتوں میں لفافہ بدلے بغیر ہی پہلی باتوں کو دہرایا جارہا ہے.ان باتوں نے میرے دل پر سخت ناگوار اثر پیدا کیا اور میں نے یہ ارادہ کیا کہ جب تک موجودہ صورت قائم ہے میں آئیندہ اس بحث میں پڑ کر اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا کیونکہ جب میں نے جناب مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ہم عقیدہ اصحاب کی ہر بات کا مدلل اور مفصل جواب دے دیا اور پوری پوری تشریح اور توضیح کے ساتھ ہر بات کی حقیقت اور ہر حقیقت کی دلیل بیان کر دی تو پھر ایسے خصم کو جواب دینا جو ہمارے بیان کردہ حقائق اور پیش کردہ براہین کو دلائل اور شواہد کے ساتھ رڈ کرنے کے بغیر محض ” نہ مانوں کے اصول کے ماتحت اپنی سابقہ بات کو دہرائے چلا جاتا ہے تصیح اوقات کے سوا کچھ نہیں اور کم از کم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خدام کو جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ أَنتَ الشَّيْحُ الْمَسِيحُ الَّذِى لَا يُضَاعُ وَقْتُه تفصیح اوقات کے مشغلہ سے پر ہیز کرنا چاہیئے.پیغام صلح کا اعتراض بہر حال میرا ارادہ تھا کہ اب جب تک ہمارے مقابلہ پر کوئی حقیقتہ نئی بات پیش نہ کی جائے ، میں اس کیچڑ اچھالنے والی جنگ سے کنارہ کش رہوں گا اور اسی خیال کے تحت میں نے آج تک عملاً خاموشی اختیار کی کیونکہ میں دیکھتا تھا کہ اول تو محض تکرار سے کام لیا جا رہا ہے دوسرے اس تکرار میں بھی تقوی سے کام نہیں لیا جا رہا لیکن حال ہی میں میرے نوٹس میں ”پیغام صلح “ کا پرچہ مورخہ ۳۰ مئی ۱۹۱۴ ء لا یا گیا ہے جس میں میرے رسالہ کے جواب میں ایک مضمون مرز افضل احمد صاحب

Page 462

۴۵۵ مضامین بشیر مرحوم کے جنازہ کے متعلق درج کیا گیا ہے.اس مضمون میں ایڈیٹر صاحب پیغام صلح ( کیونکہ غالبا یہ مضمون ایڈیٹر صاحب کا ہی ہے ) مجھ پر یہ اعتراض فرماتے ہیں کہ تم نے رسالہ ”مسئلہ جنازہ کی حقیقت میں تو جناب مولوی محمد علی صاحب پر یہ جرح کی ہے کہ مرزا فضل احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمانبردار تھے اور آپ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور آپ کے فرمانے پر انہوں نے فوراً اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی وغیرہ وغیرہ مگر یہ کہ باوجود اس کے چونکہ وہ احمدی نہیں تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا جنازہ نہیں پڑھا لیکن اس کے مقابلہ پر اپنی تصنیف ” سیرۃ المہدی“ میں تم نے یہ روایت بیان کی ہے کہ گومرزا فضل احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطالبہ پر اپنی پہلی بیوی کو طلاق لکھ دی تھی اور اس کے بعد وہ جب کبھی باہر سے آتے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہی ٹھہرا کرتے تھے مگر بعد ازیں وہ پھر آہستہ آہستہ اپنی دوسری بیوی کے پھسلانے سے دوسروں کے ساتھ جا ملے.گویا ایڈیٹر صاحب ”پیغام صلح اس خاکسار پر یہ اعتراض فرماتے ہیں کہ جو جرح میں نے مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کی بحث میں جناب مولوی محمد علی صاحب پر کی ہے وہ درست نہیں کیونکہ بہر حال سیرۃ المہدی کی روایت کے مطابق مرزا افضل احمد صاحب اپنی وفات سے قبل مخالف رشتہ داروں کے ساتھ جا ملے تھے اور جب وہ غیروں کے ساتھ جا ملے تھے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان کے جنازہ سے احتر از فرمانا ان کے اس مخالفانہ رویہ کی وجہ سے سمجھا جائے گا نہ کہ محض غیر احمدی ہونے کی وجہ سے."سیرۃ المہدی“ کی روایت پیش نظر تھی یہ وہ اعتراض ہے جو پیغام صلح، مورخہ ۳۰ مئی ۱۹۱۴ء میں میرے خلاف کیا گیا ہے اور ایڈیٹر صاحب’ پیغام صلح ،، مجھ سے اس اعتراض کے جواب کا مطالبہ فرماتے ہیں.چونکہ یہ اعتراض ایک طرح سے نیا رنگ رکھتا ہے اور نا واقف لوگوں کو اس کی وجہ سے غلط نہی پیدا ہوسکتی ہے اس لئے میں ضروری خیال کرتا ہوں کہ مختصر طور پر اس کا جواب عرض کروں.سب سے پہلے تو میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ایڈیٹر صاحب ”پیغام صلح کا یہ خیال ہے جیسا کہ ان کے مضمون کے بین السطور سے واضح ہے کہ گویا رسالہ مسئلہ جنازہ کی حقیقت“ کی تصنیف کے وقت مجھے ” سیرۃ المہدی“ کی محولہ بالا روایت یاد نہیں تھی اور اس طرح میں بظاہر دو متضاد باتیں لکھ گیا تو یہ خیال ہرگز درست نہیں ہے کیونکہ حق یہ ہے والله على ما اقول شهید کہ سیرۃ المہدی“ کی جس روایت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ

Page 463

۴۵۶ مضامین بشیر رسالہ ”مسئلہ جنازہ کی حقیقت کی تصنیف کے وقت مجھے بھولی ہوئی نہیں تھی بلکہ میرے ذہن میں تحضر تھی اور مجھے اچھی طرح یاد ہے جس پر میں حلف اٹھانے کو تیار ہوں کہ میں نے رسالہ ”مسئلہ جنازہ کی حقیقت“ کی تصنیف کے وقت جبکہ میں مرزا افضل احمد صاحب کے جنازہ کی بحث لکھ رہا تھا اس روایت کو نکال کر دیکھا بھی تھا مگر چونکہ میرے خیال میں اس کی وجہ سے حقیقتہ جنازہ کی بحث پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا.اس لئے میں نے اسے قابل اعتناء خیال نہیں کیا اور یہ خیال کر کے خاموش ہو رہا کہ اگر کسی نے اس سوال کو ایسے رنگ میں اٹھایا جو نا واقف لوگوں کی غلط فہمی کا باعث ہوا تو پھر اس کی تشریح کر دی جائے گی.پس ایڈیٹر صاحب ” پیغام اور ان کے ساتھیوں کی اس جھوٹی خوشی کا تو جو ان کے مضمون کے بین السطور سے ظاہر ہے اسی قدر جواب کافی ہے جو میں نے اس جگہ حلفاً عرض کر دیا ہے.وليس وراء الله للمر مذهب مرزا افضل احمد صاحب کے متعلق مولوی محمد علی صاحب سے حلفیہ بیان کا مطالبہ باقی رہا اصل معاملہ سو مجھے افسوس ہے کہ مضمون نگار صاحب نے اس معاملہ میں دانستہ یا نادانستہ غلط بحث کر کے پبلک کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کی ہے.بات یہ ہے جیسا کہ میں ابھی تشریح کروں گا ایڈیٹر صاحب ”پیغام صلح نے اس معاملہ میں یا تو بالکل غور ہی نہیں کیا اور محض سطح الخیالی سے کام لیتے ہوئے یونہی بلا سوچے سمجھے ایک بات کہہ دی ہے اور یا انہوں نے ایک ظاہر میں نظر آنے والے تضاد کو آڑ بنا کر نا واقف لوگوں کو دانستہ مغالطہ میں ڈالنا چاہا ہے.حقیقت یہ ہے جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ میں تفصیل اور تشریح کے ساتھ لکھا ہے، وہ بات جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشتہار مورخہ ۲ مئی ۱۸۹۱ ء میں مرزا فضل احمد صاحب سے معین صورت میں مطالبہ کیا تھا اور اس مخصوص مطالبہ کے پورا ہونے یا نہ ہونے پر ان کے عاق ہونے یا نہ ہونے کے سوال کو منحصر قرار دیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ تم اپنی بیوی مسماة عزت بی بی بنت مرزاعلی شیر کو جو بے دینی کے رستہ پر چل کر محمدی بیگم کے نکاح کے فتنہ میں مخالفانہ حصہ لے رہی تھی طلاق دے دو اور اگر تم نے اسے طلاق نہ دی تو تم عاق ہو گے اور جیسا کہ ہم قطعی طور پر ثابت کر چکے ہیں کہ مرز افضل احمد صاحب مرحوم نے اس مطالبہ کو بلا توقف پورا کر دیا تھا اور بلا شرط طلاق نامہ لکھ کر حضرت مسیح

Page 464

۴۵۷ مضامین بشیر موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیجوا دیا.اس کے سوا مرز افضل احمد صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی معین اور مخصوص مطالبہ نہیں تھا جو اشتہار مذکور میں کیا گیا ہو.اسی لئے میں نے اپنے رسالہ میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا افضل احمد صاحب کے متعلق جو شرط عاق ہونے سے بچنے کے لئے لگائی تھی اور اس شرط کو اگر‘ کے صاف اور غیر مشکوک لفظ کے ساتھ مشروط کیا تھا ، وہ مرزا فضل احمد صاحب نے بلا توقف پوری کر دی تھی اور اس طرح وہ عاق ہونے سے بچ گئے تھے اور میرا جناب مولوی محمد علی صاحب پر یہ اعتراض تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عاق ہونے کے معاملہ کو اپنے اشتہار مورخہ ۲ مئی ۱۸۹۱ء میں اگر “ کے لفظ کے ساتھ مشروط کیا تھا اور صراحتہ لکھا تھا کہ اگر مرز افضل احمد صاحب نے اپنی بیوی کو طلاق نہ دی تو وہ عاق ہوں گے تو مولوی محمد علی صاحب کا اپنے رسالہ میں اشتہار مذکور کے حوالہ کے ساتھ اگر کی صریح اور واضح شرط کے ذکر کو ترک کر کے یہ لکھنا کہ مرزا فضل احمد صاحب فی الواقعہ اس اشتہار کے ماتحت عاق ہو گئے تھے ایک صریح مغالطہ دہی کا فعل ہے جس کی کسی دیانتدار آدمی سے توقع نہیں کی جاسکتی اور میں نے جناب مولوی محمد علی صاحب سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر وہ اپنی تحریر کو دیانت داری پر مبنی قرار دیتے ہیں اور انہوں نے اس معاملہ میں فی الواقعہ کوئی نا جائز تصرف نہیں کیا تو پھر وہ مرد میدان بن کر اس کا اعلان فرمائیں کہ اشتہار مذکور کی عبارت "اگر" کے لفظ کے ساتھ مشروط نہیں تھی بلکہ بلا شرط تھی اور یہ کہ مرزا فضل احمد صاحب واقعی اس اشتہار کے ماتحت عاق ہو گئے تھے.چنانچہ میرے الفاظ جو میں نے رسالہ ” مسئلہ جنازہ کی حقیقت میں لکھے تھے یہ ہیں." میں تحریوں اور چیلنجوں کا عادی نہیں مگر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں جناب مولوی محمد علی صاحب سے یہ عرض کروں کہ اگر وہ اشتہا ر ۲ مئی ۱۸۹۱ء کو اور اپنے رسالہ ” ثالث بننے کی دعوت کے صفحات ۱۰ وا ا کو اور میری اس تشریح کو جو اوپر گزری ہے معہ ان حوالہ جات کے جن کا میرے اس نوٹ میں ذکر ہے دوبارہ مطالعہ فرما کر یہ حلفیہ بیان شائع فرما دیں کہ میں نے ان تینوں تحریروں کو معہ متعلقہ حوالہ جات کے دوبارہ غور سے دیکھ لیا ہے اور پھر بھی میری کامل دیانت داری کے ساتھ یہی رائے ہے کہ جو کچھ میں نے رسالہ ” ثالث بننے کی دعوت میں مرزا فضل احمد صاحب کے بارے میں لکھا ہے اور وہ پوری طرح درست اور بالکل صحیح ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر مندرجہ اشتہار ۲ مئی ۱۸۹۱ء بلا شرط تھی اور اگر کے لفظ کے ساتھ

Page 465

مضامین بشیر ۴۵۸ مشروط نہیں تھی اور مرزا فضل احمد صاحب واقعی عاق ہو گئے تھے اور جن لوگوں کے تعلق کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیوٹی قرار دیا ہے ان میں مرز افضل احمد صاحب بھی شامل ہیں تو میں محض مولوی صاحب موصوف کے حلفیہ بیان پر جو مندرجہ بالا الفاظ میں بلا کمی و بیشی شائع کیا جانا ضروری ہوگا.انہیں بلا حیل و حجت یکصد روپیہ بطور انعام پیش کر دوں گا آئیندہ کے لئے اور اس معاملہ میں جناب مولوی صاحب کے اس بیان کو دیانتداری پر مبنی قرار دے کر بحوالہ خدا کر دوں گا.والله على ما اقول شهيد.خلاف دیانت فعل یہ وہ معین مطالبہ تھا جو میں نے مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کی بحث میں جناب مولوی محمد علی صاحب سے کیا تھا.اس کے جواب میں اہل پیغام کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار مؤرخہ ۲ مئی ۱۸۹۱ء کے ذکر کو ترک کر کے حالانکہ جناب مولوی محمد علی صاحب نے اسی پر اپنے بیان کی بنیاد رکھی تھی اور لازماً وہی میری جوابی جرح کی بنیا د تھا.سیرت المہدی کی ایک روایت کا سہارا ڈھونڈنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے شائع کردہ اشتہار کے ذکر کو یوں ترک کر جانا کہ گویا اس کا اس بحث سے کوئی تعلق ہی نہیں ، ایک ایسا خلاف دیانت فعل ہے جس کی مثال غالبا مذہبی مناظرات کے میدان میں بہت کم ملتی ہو گی.ناظرین ملاحظہ فرمائیں کہ مولوی محمد علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اشتہار مورخہ ۲ مئی ۱۸۹۱ء کا حوالہ دے کر وہ اس کی عبارت کا ایک حصہ درج کر کے ایک بحث اٹھاتے ہیں اور بڑی گرمی کے ساتھ ہم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس اشتہار کے ماتحت مرز افضل احمد صاحب کو عاق کر دیا ہوا تھا اور ان کے تعلق کو دیوٹی قرار دیا تھا تو پھر آپ ان کا جنازہ کس طرح پڑھ سکتے تھے یعنی بالفاظ دیگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا افضل احمد صاحب کے جنازہ سے اس لئے احتراز نہیں فرمایا تھا کہ وہ غیر احمدی تھے بلکہ اس لئے احتراز کیا تھا کہ وہ عاق شدہ تھے اور ان سے تعلق رکھنا د یوٹی کا فعل تھا اور یہ سارا استدلال جناب مولوی محمد علی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہا ر ۲ مئی ۱۸۹۱ء کی بناء پر اور اس کی عبارت نقل کر کے کیا تھا لیکن اب جب مولوی صاحب پر یہ جرح ہوئی کہ اشتہار مذکور کی عبارت غیر مشروط نہیں تھی بلکہ اگر کے لفظ کے ساتھ مشروط تھی اور یہ کہ مرزا فضل احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مطالبہ پورا کر کے اپنے آپ کو عاق ہونے سے بچا لیا تھا تو کمال سادگی

Page 466

۴۵۹ مضامین بشیر کے ساتھ اشتہار کے ذکر کو جو اس بحث میں اصل بنیاد تھا ترک کر کے اور اپنی خیانت پر پردہ ڈال کر بحث کے میدان کو سیرۃ المہدی کی ایک روایت کی طرف کھینچا جا رہا ہے.ہمیں غیر مبایعین کی نقل و حرکت پر تو کوئی اختیار نہیں وہ اپنے لئے جو حرکت بھی پسند کریں اختیار کر سکتے ہیں مگر ہر عقل مند انسان آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ان کی طرف سے یہ فعل گو یا بالفاظ دیگر خود اپنے مونہہ سے اس اقرار کرنے کے مترادف ہے کہ ہم نے اشتہار مذکور کی بنیاد پر جو کچھ لکھا تھا اور جو دعوئی اس قدر تحدی اور تفاخر کے ساتھ کیا تھا وہ واقعی خیانت اور بدیانتی پر مبنی تھا اور یہ کہ اشتہار مذکور کے ماتحت مرز افضل احمد صاحب حقیقتہ عاق نہیں ہوئے تھے.انعامی مطالبہ اب بھی قائم ہے بہر حال جناب مولوی محمد علی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار مؤرخہ ۲ مئی ۱۸۹۱ء کی بناء پر ایک سوال اٹھایا اور میں نے اس سوال پر ایک جرح کی اور یہ ثابت کیا کہ مولوی صاحب موصوف نے اشتہار مذکور کی عبارت کو خطر ناک تصرف کے ساتھ کاٹ چھانٹ کر پیش کیا ہے اور ایک مشروط کلام کو غیر مشروط صورت میں پیش کر کے خلق خدا کو دھوکا دینا چاہا ہے اور میں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر مولوی صاحب نے اشتہار مذکور کے تعلق میں نا جائز تصرف سے کام نہیں لیا اور اس اشتہار کی بناء پر مرزا فضل احمد صاحب کے بارے میں صحیح اور درست استدلال کیا ہے تو میں مولوی صاحب کے حلفیہ بیان پر ان کی خدمت میں ایک سو رو پید ا نعام پیش کر دوں گا.میرا یہ مطالبہ جس کے ساتھ یہ ایک غریبانہ انعام بھی شامل ہے اب بھی قائم ہے.پس اگر مولوی صاحب یا ان کے ساتھیوں میں ہمت ہے اور ان کا سابقہ بیان تقوی اور امانت پر مبنی تھا تو ابھی وقت نہیں گیا ، وہ حق وصداقت کی خاطر میدان میں آئیں اور میرے مطالبہ کے مطابق قسم کھا جائیں اور انعام وصول کر لیں مگر مجھے یقین ہے وہ کبھی اس میدان میں نکلنے کی جرات نہیں کریں گے کیونکہ ان کا دل محسوس کرتا ہے کہ وہ اس بحث میں ایک خلاف دیانت فعل کے مرتکب ہو چکے ہیں اور ایک خلاف دیانت فعل کا مرتکب انسان کبھی اس جرات کا مالک نہیں ہوتا جو خدا کی طرف سے ایک امین اور متقی انسان کو ملتی ہے قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا.سیرت المہدی کی روایت کی حقیقت باقی رہا سیرت المہدی کی روایت کا معاملہ سو اصولی طور پر تو اس کا یہی جواب کافی ہے کہ اشتہار

Page 467

مضامین بشیر مذکور کی عبارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی لکھی ہوئی عبارت ہے اور سیرت المہدی کی روایت بہر حال ایک زبانی روایت ہے جو واقعہ کے سالہا سال بعد انسانی حافظہ کے خطرات کے تھپیڑے کھاتی ہوئی معرض تحریر میں آئی ہے اور ہر عقل مند انسان کے نزدیک ان دونوں کے وزن اور قدر و قیمت میں بہت بھاری فرق ہے.پس اگر بالفرض سیرت المہدی کی روایت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار کے مضمون میں کوئی فرق ہے تو ہر عقل مند اور غیر متعصب انسان کے نزدیک اس فرق کی تشریح سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ اشتہار کا مضمون درست ہے اور روایت میں غلطی لگ گئی ہے لیکن یہ سب کچھ میں نے ”بالفرض کے لفظ کے ساتھ صرف اصولی تشریح کے رنگ میں عرض کیا ہے ور نہ حق یہ ہے کہ ایڈیٹر صاحب ”پیغام صلح نے سیرت المہدی کی روایت کے پیش کرنے میں بھی دیانتداری سے کام نہیں لیا اور ان لوگوں کا پس خوردہ کھایا ہے جو دین و مذہب کو کھیل بناتے ہوئے قرآن شریف سے صرف لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ 1 کے الفاظ علیحدہ کر کے پیش کر دیا کرتے ہیں کیونکہ خود سیرۃ المہدی ہی کی دوسری روایتوں میں صاف مذکور ہے کہ مرزا فضل احمد صاحب عاق نہیں ہوئے تھے اور مرز افضل احمد صاحب کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام انہیں اپنا وارث اور محبت کرنے والا بیٹا خیال فرماتے تھے.چنانچہ سیرت المہدی حصہ اول کی روایت نمبر ۴۱ صفحہ ۳۴ میں یہ الفاظ آتے ہیں : - والدہ صاحبہ ( یعنی حضرت ام المومنین ) فرماتی ہیں کہ فضل احمد نے اس وقت ( یعنی جب محمدی بیگم والا واقعہ پیش آیا تھا اور حضرت مسیح موعود نے فضل احمد سے ایک مطالبہ فرمایا تھا ) اپنے آپ کو عاق ہونے سے بچالیا اور ر وایت نمبر ۲۵ صفحہ ۲۲ میں یہ الفاظ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب مرزا فضل احمد فوت ہوا تو اس کے کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ تمہاری اولاد کے ساتھ جائیداد کا حصہ بٹانے والا ایک فضل احمد ہی تھا سو وہ بے چارہ بھی گزر گیا گزرگیا“ یعنی بالفاظ دیگر وہ عاق نہیں ہوا تھا بلکہ اگر زندہ رہتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وارث بنتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مرزا فضل احمد صاحب کی محبت کا ذکر روایت نمبر ۳۶ صفحہ ۲۸ میں درج ہے اور اس روایت میں حضرت والدہ صاحبہ یہ بیان کر کے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دوران سر کا سخت دورہ پڑا تھا مرزا فضل احمد صاحب کے متعلق بیان فرماتی ہیں کہ : - اس وقت مرزا فضل احمد کے چہرہ پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک جا تا تھا اور وہ

Page 468

۴۶۱ مضامین بشیر کبھی ادھر بھاگتا تھا اور کبھی اُدھر کبھی اپنی پگڑی اتار کر حضرت صاحب کی ٹانگوں کو باندھتا تھا اور کبھی پاؤں دبانے لگ جا تا تھا اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ کا نچتے تھے اور مرزا فضل احمد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جذبات اور تاثرات روایت نمبر ۳۷ میں صفحہ ۲۹ پر ان الفاظ میں بیان ہوئے ہیں اور یہ وہی روایت ہے جس کے ایک حصہ کو ایڈیٹر صاحب پیغام صلح نے اس بحث میں پیش کیا ہے.’ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ فضل احمد بہت شرمیلا تھا.حضرت صاحب کے سامنے آنکھ نہیں اٹھاتا تھا.حضرت صاحب اس کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ فضل احمد سیدھی طبیعت کا ہے اور اس میں محبت کا مادہ ہے مگر دوسروں کے پھسلانے سے ادھر جا ملا ہے نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ جب فضل احمد کی وفات کی خبر آئی تو اس رات حضرت صاحب قریباً ساری رات نہیں سوئے اور دو تین دن تک مغموم سے رہے.6 ❝ کیا یہی تقوی وطہارت ہے یہ وہ حقائق ہیں جو ایڈیٹر صاحب پیغام صلح کی آنکھوں کے سامنے تھے اور جس جگہ سے انہوں نے سیرت المہدی کی عبارت نقل کی ہے اس کے آگے پیچھے یہ سب الفاظ درج ہیں مگر تعصب کا ستیا ناس ہو ان جملہ حقائق کی طرف آنکھیں بند کر کے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے لکھے ہوئے اشتہار کو پس پردہ ڈال کر ہاں وہی اشتہار جسے خود مولوی محمد علی صاحب نے اپنی طرف سے پیش کر کے اس پر اپنے چیلنج کی بنیاد رکھی تھی سیرۃ المہدی کے چند فقروں کو لا تَقْرَبُوا الصَّلوة کی طرح دوسری روایتوں سے کاٹ کر پیش کر دیا گیا ہے.کیا یہی اس تقویٰ اور طہارت کا نمونہ ہے جس پر ہمارے غیر مبایع دوست اپنی کامیابی کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں.روایت پیش کردہ سے کیا ثابت ہوتا ہے اور پھر جس عبارت کو پیش کر کے اپنی ذلت اور شرمندگی کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ بھی سوائے اس کے کچھ ثابت نہیں کرتی کہ جب مرز افضل احمد صاحب نے محمدی بیگم کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے ماتحت اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اپنے

Page 469

مضامین بشیر ۴۶۲ تعلق اور محبت کے اظہار کے لئے حضرت صاحب کے پاس ہی ٹھہر نے لگ گئے تھے اور دوسروں کے ساتھ ملنا جلنا بالکل بند کر دیا تھا لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد اس سختی کے رویہ کو ترک کر کے پھر دوسرے رشتہ داروں سے ملنا جلنا اور ان کے پاس ٹھہر نا شروع کر دیا.گو یا طلاق والے اصل امر کے علاوہ وہ زائد پابندی جو مرز افضل صاحب نے اپنے اوپر عائد کر لی تھی اس میں وہ آہستہ آہستہ ڈھیلے ہو گئے.یہ وہ مفہوم ہے جو سیرۃ المہدی کی پیش کردہ روایت سے نکلتا ہے.اب ہمارے غیر مبالع اصحاب خدا را سوچیں کہ اس مفہوم کو امرزیر بحث سے کیا تعلق ہے.ظاہر ہے کہ جیسا کہ اشتہار مورخہ ۲ مئی ۱۸۹۱ء سے تفصیلاً اور صراحہ اور سیرۃ المہدی کے بیان سے مجملاً ثابت ہوتا ہے وہ معین مطالبہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا فضل احمد صاحب سے کیا تھا اور اور جس پر ان کے عاق ہونے یا نہ ہونے کا دارو مدار تھا وہ صرف یہ تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں اور یہ ایک مسلم حقیقت ہے مرزا افضل احمد صاحب نے اس مطالبہ کو فوراً بلا توقف پورا کر دیا اور عاق ہونے سے بچ گئے.اب جب یہ تین باتیں اشتہار مورخہ ۲ مئی ۱۸۹۱ء اور روایات سیرۃ المہدی ہر دو سے یقینی اور قطعی طور پر ثابت ہیں یعنی اوّل: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ.دوم : مرز افضل احمد صاحب کی طرف سے اس مطالبہ کا فوراً پورا کر دیا جانا اور سوم : اس مطالبہ کی تعمیل کے نتیجہ میں مرز افضل احمد صاحب کا عاق ہونے سے بچ جانا.تو پھر ایک ڈوبتے ہوئے شخص کی طرح ادھر اُدھر کی باتوں پر ہاتھ مارکر سہارا ڈھونڈ نا ڈوبنے والے شخص کو ڈوبنے سے تو ہر گز نہیں بچا سکتا البتہ اسے غرقابی کی ہلاکت کے علاوہ دنیا کی ہنسی کا نشانہ ضرور بنا دیتا ہے.مرزا افضل احمد صاحب نے اگر اپنی محبت اور وفاداری کے جوش میں بیوی کو طلاق دینے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ٹھہرنا شروع کر دیا اور دوسروں سے گویا بالکل ہی قطع تعلق کر کے الگ ہو گئے لیکن بعد میں آہستہ آہستہ پھر دوسروں سے میل ملاپ شروع کر دیا تو خدا را ہمیں بتایا جائے کہ اس کا طلاق والے واقعہ اور عاق والے معاملہ پر جو اس بحث میں اصل بنیادی چیز ہیں ، میں کیا اثر پڑا جب یہ دو حقیقتیں پھر بھی قائم رہیں تو بہر حال ہمارا دعویٰ ثابت ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے اس حوالہ کے پیش کرنے میں ناجائز تصرف کا رنگ اختیار کیا ہے اور یہ کہ مرزا فضل احمد صاحب ہرگز عاق شدہ نہیں تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان سے غیر احمدی ہونے کے سوا اور کوئی شکایت نہیں تھی.

Page 470

۴۶۳ مضامین بشیر ایک معزز غیر احمدی کی شہادت چنانچہ یہ حقیقت ایک معزز غیر احمدی سید ولایت شاہ صاحب ساکن شجاع آبادضلع ملتان کی شہادت سے بھی ثابت ہے جو الفضل مورخہ ۲۲ اپریل ۱۹۴۱ء صفحہ۳ پر شائع ہو چکی ہے اور اس کی صداقت پر ایک معزز احمدی نے حلفی شہادت دی ہے.چنانچہ ملک حبیب الرحمن صاحب بی.اے اسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز کبیر والا ضلع ملتان حلفاً فرماتے ہیں کہ سید ولایت شاہ صاحب نے جو اپنے علاقہ میں معزز تھے اور سادات سے تھے ، ان سے بیان کیا کہ مرزا افضل احمد صاحب کے جنازہ کے وقت میں بھی قادیان میں موجود تھا اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنازہ میں شریک نہ ہوئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بمنت عرض کی کہ بیشک مرزا افضل احمد صاحب نے آپ کو خوش نہیں کیا لیکن آخر وہ آپ کا بیٹا تھا اور یہ وقت ایسا ہے کہ آپ انہیں معاف کر دیں اور ان کے جنازہ میں شریک ہو جائیں تو حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ : - نہیں شاہ صاحب ! وہ میرا فرمانبردار تھا.اس نے مجھے کبھی ناراض نہیں کیا لیکن اس نے اپنے اللہ کو راضی نہیں کیا تھا اس لئے میں اس کا جنازہ نہیں پڑھ سکتا ، (یعنی گوفضل احمد نے مجھے ذاتی طور پر کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا اور ہمیشہ مؤدب اور فرمانبردار رہا مگر چونکہ اس نے میرے خدا دا د منصب کو قبول نہ کر کے خدا کو ناراض کیا تھا اس لئے میں اس کے جنازہ میں شریک نہیں ہو سکتا ) ان زبر دست حقائق کے ہوتے ہوئے ہمارے روٹھے ہوئے دوستوں کا تنکوں پر ہاتھ مار کر اپنی فتح کا نقارہ بجانا کسی عقل مند کے نزدیک ایک بگڑے ہوئے دماغ کے مظاہرہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا اور حق یہی ہے اور یہی رہے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا افضل احمد صاحب کے جنازہ سے احتراز کیا تو صرف اس وجہ سے کیا کہ وہ آپ کے خدا دا د منصب کا مصدق نہیں تھا اور اس کے سوا اور کچھ نہیں.ایک اور بات

Page 471

مضامین بشیر ۴۶۴ اسی ضمن میں میں ایک اور بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں.جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے جناب مولوی محمد علی صاحب اپنے رسالہ ” ثالث بننے کی دعوت، میں اور ایڈیٹر صاحب ”پیغام صلح “ نے اپنے مضمون زیر نظر میں اس بات پر خاص زور دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ سے اس لئے احتراز کیا تھا کہ ان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایسے رشتہ داروں کے ساتھ تھا جو مخالف اور معاند تھے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان کے جنازہ سے احتراز کرنا اس وجہ سے نہیں تھا کہ وہ احمدی نہیں تھے بلکہ اس وجہ سے تھا کہ سلسلہ کے مخالفین کے ساتھ ان کا میل جول تھا.اس بات پر مولوی محمد علی صاحب اور دوسرے غیر مبایعین نے اس قدر زور دیا ہے که گویا مرزا فضل احمد صاحب کے جنازہ کی بحث میں یہی ان کے دلائل کا مرکزی نقطہ ہے مگر مجھے تعجب آتا ہے کہ ہمارے یہ بھٹکے ہوئے دوست اپنے بے جا جوش وخروش میں حق وصداقت کی طرف سے کس طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور ایسی باتیں کہنے لگ جاتے ہیں جو اگر غور کیا جائے تو حقیقیہ خود انہیں کے خلاف پڑتی ہیں مثلاً اسی بات کو لے لو جو اس بحث میں غیر مبالع اصحاب پیش کر رہے ہیں.ایک معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مرز افضل احمد صاحب کے جنازہ سے احتراز کرنا اس وجہ سے تھا کہ وہ گو خود فرمانبردار اور مؤدب تھے مگر سلسلہ کے مخالفوں کے ساتھ ان کا میل جول تھا تو اس سے سوائے اس کے کیا ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت اور تکذیب ایسی چیز ہے کہ نہ صرف خود مخالفت کرنے والا انسان خدا کی رحمت اور مومنوں کی دعاؤں سے محروم ہو جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والا انسان بھی خدائی دربار سے دھتکارا جاتا ہے اور مومنوں کی دعاؤں سے حصہ نہیں پاسکتا.خوب غور کرو کہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کے استدلال کا قدرتی اور طبعی نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں نکلتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت ایسی لعنت ہے کہ وہ نہ صرف مخالفت کرنے والوں کو بلکہ ان کے پاس بیٹھنے والوں کو بھی تباہ و بربادکر کے چھوڑتی ہے گویا یک نہ شد دو شد والا معاملہ ہے.بہر حال ہر عقلمند انسان آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ مولوی صاحب کے استدلال کا نتیجہ ہمارے حق میں ہے نہ کہ ہمارے خلاف.کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا کی نظر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار اور آپ کے خدا داد منصب کی مخالفت ایسی خطرناک چیز ہے کہ نہ صرف مخالفت کرنے والا انسان بلکہ مخالفت کرنے والوں کے ساتھ ملنے جلنے والا انسان بھی خدائی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے خواہ وہ خود بظاہر مخالفت وغیرہ کے طریق سے کتنا ہی دور اور کنارہ کش رہے.یہ وہ منطقی نتیجہ ہے جو مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کے استدلال سے پیدا ہوتا ہے مگر افسوس ہے کہ یہ لوگ اتنی موٹی سی بات کے سمجھنے سے بھی

Page 472

۴۶۵ مضامین بشیر قاصر ہیں کہ جو بات وہ اپنے منہ سے کہہ رہے ہیں وہ ان کے موافق پڑتی ہے یا کہ مخالف اور کمال جرات کے ساتھ ایسی بات پیش کرتے چلے جاتے ہیں جو خود انہی کو کاٹتی ہے.یہ سب کچھ میں نے جناب مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کے ادعا کو مدنظر رکھ کر اصولی طور پر لکھا ہے ورنہ میرے نزدیک حق وہی ہے جو میں نے اپنے رسالہ ” مسئلہ جنازہ کی حقیقت اور اس مضمون کے اوپر کے حصہ میں بوضاحت عرض کر چکا ہوں.واللہ اعلم غیر مبایعین سے مخلصانہ عرض بالآخر میں پھر بڑے ادب کے ساتھ غیر مبایعین اصحاب کی خدمت میں عرض کروں گا کہ وہ خدا کے لئے اس معاملہ میں سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور یونہی تعصب کا شکار ہو کر خلاف تقوی رستہ پر قدم زن نہ ہوں.مومن کا ہر کام تقویٰ پر مبنی ہونا چاہیئے کیونکہ تقویٰ ہی سب انسانی اعمال کی روح ہے جس کے بغیر کوئی زندگی نہیں.دنیا میں مرغ بازوں کے سے جنگ اور ان جنگوں کے دیکھنے والے بہت ہیں مگر ہم خدائے پاک کی جماعت اور مسیح محمدی کے نام لیوا ہوکر دین و مذہب کے مقدس میدان میں کیچڑ اچھالتے ہوئے اور کیچڑ اچھالنے والوں کو سراہتے ہوئے اچھے نہیں لگتے.پس میری یہ آخری عرض ہے کہ اگر دیانتداری کے ساتھ اختلاف رکھتے ہو اور نیت بخیر ہے تو تقویٰ کو مد نظر رکھ کر میدان میں آؤ اور شوق سے آؤ اور ہر بحث کی عمارت کو انصاف اور حق جوئی کی بنیاد پر قائم کرد.ورنہ خدا کے لئے خاموش ہو جاؤ اور اپنی عاقبت کو اپنے ہاتھوں سے برباد نہ کرو.ورنہ آپ لوگوں کی مرضی.وما علينا الا البلاغ واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.( مطبوعہ الفضل ۲ جولائی ۱۹۴۱ء )

Page 473

مضامین بشیر ۴۶۶ عورت یعنی ٹیڑھی پسلی کی عجیب و غریب پیداوار مختصر کلام میں وسیع معانی ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے جوامع الکلم عطا کئے گئے ہیں ! یعنی مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے وہ طاقت اور وہ حکمت عطا فرمائی ہے کہ میرا کلام باوجود مختصر ہونے کے وسیع ترین معانی کا حامل ہوتا ہے اور میرے مونہہ سے نکلے ہوئے چھوٹے چھوٹے کلمات بھی بڑے بڑے علوم کا خزانہ ہوتے ہیں.آپ کا یہ دعویٰ ایک خالی دعوی نہیں ہے جو مونہہ سے نکل کر ہوا میں پہنچتا اور ختم ہو جاتا ہے بلکہ ہر شخص جو آپ کی زندگی اور آپ کے کلام کا مطالعہ کرے گا وہ اس دعوی کی صداقت کو اپنے دل کی گہرائیوں میں یوں اترتے دیکھے گا.جس طرح کہ ایک مضبوط فولادی شیخ ایک لکڑی کے تختہ کے اند داخل ہو کر اس کے ساتھ ہمیشہ کے لئے پیوست ہو جاتی ہے.خاکسار راقم الحروف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح کا کسی قدر مطالعہ کیا ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے جب کبھی بھی آپ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی باتوں پر نظر ڈالی ہے تو خواہ آپ نے کوئی بات کیسی ہی سادگی اور کیسی ہی بے ساختگی کے ساتھ فرمائی ہوئی میں نے اس پر نظر ڈالتے ہی اسے علم کا ایک ایسا عظیم الشان سمندر پایا ہے جو اپنی حدود کی وسعت اور اپنے تموج کی رفعت میں یقیناً دنیا کے پردے پر اپنی نظیر نہیں رکھتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قول صنف نازک کے متعلق اس وقت میں نہایت اختصار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قول کا ذکر کرتا ہوں جو آپ نے بنی نوع انسان کی صنف نازک یعنی عورت کے متعلق ارشاد فرمایا ہے اور اس کے ساتھ ہی میں مختصر طور پر آپ کی بعض دوسری حدیثوں پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ کے اس سلوک کا بھی ذکر کروں گا جو آپ نے جذباتی رنگ میں اس صنف لطیف کے ساتھ فرمایا.عورت کی فطرت کا نقشہ

Page 474

۴۶۷ مضامین بشیر کھینچتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.وَاسْتَوُ صُوا بِالنَّساءِ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَئي فِى الضَّلَعِ أَعْلَاهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ ، وَ أَن تَرَكْتُهُ لَمْ يَزَلُ أَعْوَجَ ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا.١٢ یعنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو کیونکہ عورتیں ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہیں.یعنی ان کی فطرت میں کسی قدر ٹیڑھا پن رکھا گیا ہے اور ایک ٹیڑھی چیز کا سب سے اونچا حصہ وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ ٹیڑھا ہوتا ہے.اس صورت میں اگر تم اس کے اس ٹیڑھے پن کو سیدھا کرنے کے درپے رہو گے تو چونکہ یہ بھی عورت کی فطرت کا حصہ ہے ، تم اسے سیدھا تو نہیں کر سکو گے البتہ اسے تو ڑ کر ضرور رکھ دو گے.اور اگر تم اسے بالکل ہی اس کی حالت پر چھوڑ دو گے تو ظاہر ہے کہ وہ ہر حال میں ٹیڑھی ہی رہے گی.ان حالات میں میری تمہیں یہ نصیحت ہے کہ عورتوں کے اس ٹیڑھے پن کی قدر و قیمت کو سمجھو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اگر ان کا ٹیڑھا پن حد اعتدال سے بڑھنے لگے تو اس کی مناسب طور پر اصلاح کرو“ عورت کی فطرت کا عجیب وغریب نقشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کلام جس کا میں نے اس جگہ آزاد تر جمہ کیا ہے ، عورت کی فطرت کا ایک ایسا عجیب و غریب نقشہ پیش کرتا ہے کہ اس سے بہتر اور اس سے لطیف تر اور اس سے زیادہ دلکش اور پھر اس سے زیادہ مختصر نقشہ ممکن نہیں.یہ ایک ایسی تصویر ہے جس پر نظر جماتے ہی یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس تصویر نے جو بعض پر دوں میں لپٹی ہوئی ہے ایک زندہ صورت اختیار کر لی ہے اور پھر اس کے پردے ایک ایک کر کے اُٹھنے شروع ہوتے ہیں اور ہر پردہ کے الٹنے سے ایک بالکل نیا منظر آنکھوں کے سامنے آنے لگتا ہے.فرماتے ہیں کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے یعنی اس کی فطرت میں بعض ایسی کجیاں رکھی گئی ہیں جو گویا اس کی ہستی کے ساتھ لازم و ملزوم کے طور پر ہیں.اس کی ان کجیوں اور اس ٹیڑھے پن کو اس سے جدا کر لو تو پھر عورت عورت نہیں رہے گی کیونکہ یہ ٹیڑھا پن اس کی فطرت کا حصہ اور اس کے پیدائشی خط و خال کا جز ولا ینفک ہے.پس اگر تم عورت کو عورت کی صورت میں دیکھنا چا ہو تو تمہیں لازماً اس کے فطری ٹیڑھے پن

Page 475

مضامین بشیر کو بھی قبول کرنا ہوگا.لطیف مضمون ۴۶۸ اب غور کرو کہ یہ ایک کیسا لطیف مضمون ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ان مختصر مگر عجیب و غریب الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے، ظاہر ہے کہ اس جگہ پیدا ہونے سے یہ مراد نہیں کہ جس طرح ماں باپ سے بچہ پیدا ہوتا ہے ، اس طرح عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے بلکہ عربی محاورہ کے مطابق اس سے یہ مراد ہے کہ عورت کی فطرت میں ٹیڑھا پن داخل ہے جو اس سے جدا نہیں ہو سکتا.چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ۱۵ یعنی انسان جلد بازی سے پیدا کیا گیا ہے، جس سے یہ مراد نہیں کہ جلد بازی کے مواد سے انسان پیدا ہوا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ انسانی فطرت میں جلد بازی کا مادہ ہے.اسی طرح ٹیڑھی پہلی سے پیدا سے ہونے سے یہ مراد ہے کہ عورت کی فطرت میں بعض طبعی کجیاں پائی جاتی ہیں جو اس کی طبیعت کا حصہ اور اس کے ساتھ لازم و ملزوم کے طور پر لگی ہوئی ہیں اور اس سے جدا نہیں ہو سکتیں.بہر حال ان الفاظ میں فصاحت و بلاغت کا کمال دکھا کر نہایت مختصر صورت میں ایک نہایت وسیع مضمون کو ادا کیا گیا ہے.ملوک الکلام مگر اسی پر بس نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد ایک اور عجیب وغریب فقرہ فرماتے ہیں جو گویا اس سارے کلام کی جان ہے.فرماتے ہیں :- إِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الفَلَّحِ أَعْلَاهُ.٦ یعنی ایک ٹیڑھی چیز کا وہ حصہ جو سب سے زیادہ ٹیڑھا ہوتا ہے وہی اس چیز میں سب سے زیادہ اونچا ہوتا ہے.“ یہ عبارت نہ صرف اپنی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے بلکہ اپنے اس عظیم الشان فلسفہ کے لحاظ سے بھی جو ان الفاظ کی گہرائیوں میں مرکوز ہے ، ملوک الکلام کہلانے کی حقدار ہے.عورت کے فطری ٹیڑھے پن کا ذکر کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ نہ سمجھو کہ عورت کا یہ ٹیڑھا پن ایک نقص یا کمزوری ہے بلکہ اس کی یہ فطری بھی دراصل اس کے اندر ایک حسن اور خوبی کے طور پر رکھی گئی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جس طرح کہ ایک ٹیڑھی چیز کا سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ ہی سب سے

Page 476

۴۶۹ مضامین بشیر زیادہ اونچا ہوا کرتا ہے مثلاً جب ایک کمان کے سیدھے حصہ کو جس طرف چلہ ہوتا ہے زمین پر لگا کر کھڑا کریں تو لازماً اس کا سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ ہی سب سے زیادہ اونچا ہوگا.......اسی طرح جو کبھی عورت کی فطرت میں رکھی گئی ہے وہ دراصل عورت کا مخصوص کمال اور اس کی انثیت ( یعنی عورت پن ) کے حسن کا بہترین حصہ ہے اور یہ مخصوص ٹیڑھا پن جتنا جتنا کسی عورت میں زیادہ ہوگا اتنا اتنا ہی وہ اپنی انثیت یعنی جو ہر نسوانی میں کامل سمجھی جائے گی.یہ وہ ابلغ اور ارفع فلسفہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان مختصر الفاظ میں جو اوپر درج کئے گئے ہیں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے.صنف نازک کا کمال اگر اس جگہ کسی شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ عورت کے اس ٹیڑھے پن سے وہ کونسی چیز مراد ہے جو اس کی انثیت کا کمال قرار دی گئی ہے تو ہر عقلمند انسان آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اس ٹیڑھے پن سے اس کی طبیعت کا جذباتی عنصر مراد ہے جو ایک عجیب و غریب انداز میں ظاہر ہوتا ہے.ظاہر ہے کہ جہاں خالق فطرت نے مرد میں عقل کو غالب اور جذبات کو مغلوب رکھا ہے وہاں عورت میں یہ نسبت ایک نہایت درجہ حکیمانہ فعل کے نتیجہ میں الٹ دی گئی ہے اور جذبات کو غیر معمولی غلبہ دے دیا گیا ہے اور یہی اس کا فطری ٹیڑھا پن ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ٹیڑھی پسلی کی پیدا وار قرار دے کر فرماتے ہیں کہ یہ ٹیڑھا پن صنف نازک کا کمال ہے عورت میں ٹیڑھا پن رکھنے کی وجہ اب سوال ہوتا ہے کہ یہ ٹیڑھا پن عورت کے اندر کیوں رکھا گیا ہے.اس کا جواب خود قرآن شریف دیتا ہے جو ساری حکمتوں کا منبع اور ماخذ ہے فرماتا ہے: خَلَقَ لَكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً.كل یعنی خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے تمہاری بیویاں بنائی ہیں تا کہ تم ان سے دل کی سکینت حاصل کر سکو اور اللہ تعالیٰ نے اس رشتہ کو تمہارے لئے محبت اور رحمت کا ذریعہ بنایا ہے." یہ وہ حکمت ہے جس کے ماتحت خالق فطرت نے عورت میں جذبات کے عنصر کو غلبہ دے کر اسے مرد کی قلبی سکسیت اور اس کی فطری محبت کی پیاس کے بجھانے کا ذریعہ بنایا ہے اور ظاہر ہے کہ جذبات

Page 477

مضامین بشیر ۴۷۰ کے ساتھ ٹیڑھا پن لازم و ملزوم کے طور پر ہے یعنی جہاں عقل عمو ماسید ھے رستہ پر چلتی ہے وہاں جذبات میں ایک قدرتی ٹیڑھا پن ہے جس کے بغیر جذبات کی نزاکت اور ان کے بانکپن کا اظہار قطعاً ناممکن ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کلام ایک عظیم الشان حکمت اور فلسفہ کا حامل ہے جس کی نظیر کسی دوسری جگہ نہیں ملتی.جذباتی سکیت کی ضرورت اس جگہ آ کر ایک اور سوال اٹھتا ہے اور وہ یہ کہ مرد کو اس قسم کی سکیت کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکیم ہستی نے انسان کو ایسی فطرت پر بنایا ہے کہ جب وہ اپنی گونا گوں ذمہ داریوں میں گھر کر اور ان کے بوجھوں کے نیچے دب کر تکان محسوس کرتا اور تھک جاتا ہے تو جس طرح خدا نے جسمانی لحاظ سے انسان کے لئے نیند کا انتظام مقرر کر رکھا ہے ، اسی طرح اس کی روح کے اندر جذبات کی پیاس بھی رکھ دی گئی ہے اور اس قسم کی تکان اور کوفت کے لمحات میں وہ اپنی پیاس کو بجھا کر پھر اپنے کام کے لئے تازہ دم ہو جاتا ہے ورنہ اس کی نازک اور بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اسے ہر وقت یکساں دبائے رکھے اور آرم اور سکون کا کوئی لمحہ بھی اسے نصیب نہ ہو تو یقیناً اس کی ہستی کی مشین چند دن میں ہی ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہو جائے.پس جہاں خدا تعالیٰ نے انسان پر دینی اور دنیوی میدان میں بھاری ذمہ داریاں لگائی ہیں ، وہاں اپنی ازلی حکمت اور رحمت کے نتیجہ میں اس کے اندر بعض خاص قسم کے جذبات پیدا کر کے اس کی دماغی تکان اور کوفت کے دور کرنے کا سامان بھی مہیا کر دیا ہے جو گو یا جسمانی نظام میں نیند کے مشابہ ہے جو جسم کی طاقتوں کو بحال رکھنے کے لئے ضروری ہے.مگر یہ یادر ہے کہ اس جگہ میری مراد جذبات سے شہوانی جذبات نہیں گوشہوانی جذبات کو بھی میں اصولاً بُر انہیں کہتا کیونکہ وہ بھی انسانی فطرت کا حصہ ہیں اور اگر وہ جائز حدود کے اندرر ہیں تو ان میں کوئی بُرائی نہیں بلکہ وہ بعض اہم فطری ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذریعہ ہیں مگر اس جگہ میری مراد محبت کے جذبات ہیں جو زخم خوردہ یا تھکے ہوئے دلوں کو سکینت پہونچانے میں عجیب قسم کا قدرتی خاصہ رکھتے ہیں گویا ان کے ذریعہ قدرت نے ایک زخمی اور دکھتی ہوئی جگہ پر مسکن اور ٹھنڈی مرہم کا بھا یہ لگا دیا ہے.اب ظاہر ہے کہ جیسی جیسی کسی انسان کی ذمہ داریاں زیادہ بھاری اور زیادہ نازک ہوں گی ، اتنی ہی اسے اس قسم کی جذباتی سکینت کی زیادہ ضرورت ہوگی.دنیا کے نادان اور بے عقل لوگوں نے غور نہیں کیا اور اپنی بے سمجھی سے خدا کے پیارے بندوں کو اعتراض کا نشانہ بنایا ہے کہ انہیں بیویاں کرنے اور بیویوں کی محبت سے متمتع ہونے کی کیا ضرورت ہے.یہ بے وقوف لوگ اس

Page 478

مضامین بشیر لطیف حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ دراصل قانون فطرت کے ماتحت یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اس قسم کی سکینت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ان لوگوں کے سپر د بہت بھاری ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور جب وہ ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں تھک کر چور ہو جاتے ہیں اور ان کی محدود انسانی طاقت ان کے فرایض منصبی کے بوجھ کے نیچے دب کر گویا ٹوٹنے لگتی ہے تو ایسے اوقات میں انہیں تھوڑے سے وقت کے لئے جذباتی تسکین کی ضرورت پیش آتی ہے.پس ان اوقات میں وہ اپنے اہل وعیال کے پاس بیٹھ کر قلبی سکون حاصل کرتے ہیں اور پھر تازہ دم ہو کر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف ہو جاتے ہیں.ان حالات میں اگر غور کیا جائے تو دراصل اس قسم کی سکینت کی ضرورت ہی ان لوگوں کو ہوتی ہے جو بھاری ذمہ داریوں کے نیچے دبے ہوتے ہیں.اور اس کے مقابل پر عام لوگوں کو جو بے سمجھی سے اس جذباتی سکینت کو ہی اصل زندگی سمجھنے لگتے ہیں اس کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ایک طرف تو ان پر ایسی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ہوتا جو انہیں تھکا کر چور کر دیں اور دوسری طرف وہ زندگی کی اصل غرض و غایت کی طرف سے غافل ہوکر ہر وقت جذباتی ماحول میں ہی غرق رہتے ہیں.گویا وہ تسکین جس کا حق انسان کو تکان کے اوقات میں پیدا ہوتا ہے وہ اِن لوگوں کے لئے ہر وقت کا مشغلہ ہوتی ہے مگر اُن لوگوں کا حال جن پر بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتا ہے بالکل جدا گانہ رنگ رکھتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حدیث میں آتا ہے اور اس حدیث کا ذکر مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک ڈائری سے ملا ہے کہ بعض اوقات جب آپ اپنے فرائض نبوت کی بھاری ذمہ داریوں میں تھک کر چور ہو جاتے تھے اور جسمانی قوی گویا ٹوٹنے کی حد تک پہونچ جاتے تھے تو آپ حضرت عائشہ کے پاس تشریف لا کر فرماتے تھے.اريـحـيـنـايا عائشة ۱۸ یعنی آؤ عا ئشہ اس وقت ہمیں کچھ راحت پہونچاؤ اور پھر تھوڑی دیر اپنی ازواج کے ساتھ محبت و پیار کی باتیں کر کے دوبارہ اپنے تھکا دینے والے کام میں مصروف وو ہو جاتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں کس شان سے تشریف رکھتے مگر یہ گھر میں بیٹھنا بھی کس شان کا ہوتا تھا.اس کی تھوڑی سی جھلک ذیل کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے حدیث میں آتا ہے :- قَالَتْ عَائِشَةَ رَضِى اللهُ عَنْهَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِتُنَا وَنُحَدِّثُهُ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَكَأَنَّهُ لَمْ يَحْرِ فَنَاوَلَمُ نَعْرِفْهُ.19 یعنی حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر

Page 479

مضامین بشیر ۴۷۲ میں تشریف لاکر اپنی ازواج کے ساتھ محبت کی باتوں میں مصروف ہوتے.آپ ہم سے باتیں کرتے اور ہم آپ سے باتیں کرتیں.مگر جو نہی کہ اذان کی آواز کان میں پڑتی اور آپ یہ سمجھتے کہ میرے خدا نے مجھے بلا یا ہے تو اس وقت ہمیں چھوڑ کر یوں اٹھ کھڑے ہوتے کہ گویا آپ ہمیں پہچانتے تک نہیں،، الله الله ! اللہ اللہ ! یہ وہ پاک اور مقدس زندگی ہے جس پر دنیا کے اوباش لوگ تعیش اور شہوت پرستی کا الزام لگاتے ہیں.خود ہزاروں لاکھوں گندوں میں مبتلا اور دن رات تعیش اور شہوت پرستی کے شغل میں مصروف اور اس تقدس وطہارت کے مجسمہ پر اعتراض جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ خدمتِ دین اور خدمت خلق میں گزرتا تھا اور جو اپنی اہلی زندگی سے اس سے زیادہ متمتع نہیں ہوتا تھا جتنا کہ ایک دھوپ میں چلنے والا مسافر جس کی منزل دور ہو دھوپ اور تکان کی حدت سے چور ہو کر ایک گھڑی بھر کے لئے کسی درخت کے سایہ میں کھڑا ہو جاتا ہے.اور چند منٹ کے آرام کے بعد پھر کمر کس کر اپنے لمبے اور پُر مشقت سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہے اور جتنی دیر وہ درخت کے سایہ کے نیچے آرام کرتا ہے وہ وقت بھی اس کا اسی انتظار میں گزرتا ہے کہ کب قافلہ کی گھنٹی بجتی ہے اور کب مجھے اٹھ کر اپنا رستہ لینا پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اور کیا خوب فرماتے ہیں :- آں شہ عالم که نامش مصطفی عشاق حق شمس الضحى آں کہ ہر نورے طفيل نور اُوست آں کہ منظورِ خدا منظور اوست آں کہ مہرش مے رساند تا سما ئے گند چون ماہِ تاباں درصفا آں نبی در چشم این کوران زار یک شہوت پرست و کیں شعار شرمت آید اے سگِ ناچیز و پست نہی نام یلاں شہوت پرست ے چیستی اے کورک فطرت تباہ

Page 480

۴۷۳ طعنه برخوباں بدیں روئے سیاہ شہوت شاں از سر آزادی بست نے اسیر آں چو تو آں قوم مست خود نگه کن آں یکے زندانی است و آں دگر داروغه سلطانی است گرچه در یکجاست هر دو را قرار ایک فرقے هست دروی آشکار مضامین بشیر کار پاکان بر بدال کردن قیاس کار ناپاکان بود اے بد حواس کامل آن باشد که با فرزند و زن با عیال جمله مشغوئی تن و شرا با تجارت با ہمہ بیع یک زباں غافل نه گردو از خدا این نشان قوت مردانه است کاملان را بس ہمیں پیمانہ است ۲۰ خلاصہ کلام خلاصہ کلام یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث جس میں عورت کو ٹیڑھی پسلی کی پیداوار قرار دیا گیا ہے اور پھر اس ٹیڑھے پن کو اس کی صنف کا کمال بتایا گیا ہے.ایک نہایت عجیب وغریب حدیث ہے.جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی شان کا نہایت نمایاں ثبوت ملتا ہے.اور اس لطیف فلسفہ پر جو صنف نازک کی نفسیات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ایک ایسی لطیف روشنی پڑتی ہے جو کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی.اور کمال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سارا مضمون صرف چند مختصر الفاظ میں ادا فر ما دیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت.مگر یہ لطیف حدیث صرف اس جگہ ختم نہیں ہوتی.بلکہ اس فلسفہ کے میدان میں ہمیں اور آگے

Page 481

مضامین بشیر ۴۷۴ لے جاتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :- "فَإِنْ ذَهَبُتَ تُقِيمُهُ كَبَرُتَهُ، وَإِن تَرَكْتُهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا.ال یعنی جب کہ یہ ٹیڑھا پن جو جذبات کے غلبہ سے تعلق رکھتا ہے عورت کی فطرت کا حصہ ہے جو اس سے جدا نہیں ہو سکتا.بلکہ یہی ٹیڑھا پن صنف نازک کا کمال ہے.تو پھر اگر تم اسے سیدھا کرنے کے درپے ہو گے.تو لا محالہ وہ سیدھا تو ہرگز نہیں ہو گا ہاں فطرت کے خلاف دباؤ پڑنے سے وہ ٹوٹ ضرور جائے گا.لیکن اگر اس کے مقابل پر تم عورت کو اس کی حالت پر بالکل ہی آزاد چھوڑ دو گے تو اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ وہ ہر حالت میں ٹیڑھی ہی رہے گی.پس تمہیں چاہیئے کہ ایک طرف تو عورت کے اس فطری ٹیڑھے پن کی قدرو قیمت کو پہچانو اور اس سے اپنی زندگی میں فائدہ اٹھاؤ اور دوسری طرف اس بات کی بھی نگرانی رکھو کہ عورت کا یہ ٹیڑھا پن ہر وقت اس کے گلے کا ہار نہ بنا ر ہے بلکہ جذبات کے ساتھ ساتھ عقل کی روشنی بھی قائم رہے اور تمہیں چاہیئے کہ بہر حال تم عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ وہ ایسے عناصر کا مرکب ہیں جن میں دونوں طرف غلطی کا اندیشہ رہتا ہے..ان الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متبعین کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ وہ اس معاملہ میں فطرت کے دوانتہائی نقطوں میں سے درمیانی رستہ اختیار کریں.یعنی چونکہ عورت کا فطری ٹیڑھا پن جو اس کی صنف کا کمال ہے.انسان کی بہتری کے لئے رکھا گیا ہے.اس لئے آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کے ذریعہ حسب ضرورت اور حسب موقع عورت کے جذبات میں سکینت اور محبت کی راحت حاصل کرو.مگر دوسری طرف چونکہ انسان بالعموم انتہاء کی طرف جھک جانے کا عادی ہوتا ہے.اس لئے اگر کوئی عورت صرف جذبات کا کھلونا بن کر ہی زندگی گزارنا چاہے اور ہر حالت میں ٹیڑھا پن ہی ظاہر کرے تو پھر تم اسے بالکل آزاد ہی نہ چھوڑ دو بلکہ اس کے جذبات کے دھندلکے میں عقل کی شعاع میں ڈال کر مناسب اصلاح کی کوشش کرتے رہو.تا کہ ایک ہی طرف کا نا گوار غلبہ ہو کر دوسری طرف کو بالکل ہی نسیا نسیا نہ کر دے.اور جذبات کے فطری غلبہ کے با وجو دمنا سب اعتدال کی حالت قائم رہے.یہ اس عجیب وغریب حدیث کی مختصر سی تشریح ہے جس کے ایک حصہ کا ترجمہ میں نے مضمون

Page 482

۴۷۵ مضامین بشیر کے عنوان میں درج کیا ہے.اور اب ناظرین خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ چھوٹی سی حدیث کتنے وسیع معانی اور کتنے لطیف مفہوم پر مشتمل ہے.مگر افسوس ہے کہ میں اس مضمون میں اس حدیث کی پری پوری تشریح نہیں کر سکا اور متعد د حدیثوں میں سے جو میں نے اس مضمون کے لئے نوٹ کی تھیں صرف ایک ہی حدیث درج ہو سکی ہے.اور اس کی بھی مکمل تشریح نہیں ہو سکی.جس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی میں نے یہ مضمون لکھنا شروع ہی کیا تھا کہ مجھے کچھ دل کی تکلیف شروع ہو گئی اور مضمون لکھنا مشکل ہو گیا.اس لئے میں نے جلدی جلدی چند سطور لکھنے پر اکتفا کی ہے لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ اگر ناظرین کرام ان چند سطور کو غور سے مطالعہ کریں گے تو وہ سمجھ جائیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) کا کلام نہ صرف فصاحت و بلاغت بلکہ معانی کی دولت سے کس درجہ معمور ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کے پر حکمت کلام کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے.آمین یارب العالمین ( مطبوعہ الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۴۱ء)

Page 483

مضامین بشیر مسئلہ رحم میں جماعت کے علماء کو تحقیق کی دعوت غالباً تین یا چار سال کا عرصہ ہوا ہو گا کہ میں نے اس معروف فقیہی مسئلہ کے متعلق علمائے سلسلہ کو تحقیق کی دعوت دی تھی کہ کیا اسلامی تعلیم کی رو سے جس شخص کا کوئی لڑکا اس کی زندگی میں فوت ہو جائے اور اس کے دوسرے لڑکے زندہ موجود ہوں.اس کے پوتے یعنی متوفی لڑکے کے لڑکے کو اس کا ورثہ پہو نچتا ہے یا نہیں.میری اس تحریک پر استاذی المکرم حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل مرحوم نے ایک سلسلہ مضامین لکھا اور معروف عقیدہ کی تائید میں بہت سے دلائل بیان فرمائے.( اور غرض بھی یہی تھی کہ تائید یا تردید جو بھی صورت ہو.اس کے دلائل سامنے آجائیں ) مگر افسوس ہے کہ دوسرے علماء نے خاموشی اختیار کی اور اس طرح یہ اہم مسئلہ بدستور تشنہ تحقیق رہا.گو مجھے حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اس مسئلہ کو ایک احسن طریق پر حل فرما دیا ہے اور امید رکھنی چاہیئے کہ انشاء اللہ کسی مناسب موقع پر حضور کا فتویٰ شائع ہو کر احباب تک پہونچ جائے گا.مسئله رحم اسی سلسلہ کی دوسری کڑی کے طور پر میں اس جگہ مسئلہ رجم کے متعلق اہل علم طبقہ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں.یعنی یہ کہ آیا اسلام نے فی الواقعہ شادی شدہ مرد یا عورت کے لئے زنا کی سزا رجم ، یعنی سنگسار مقرر فرمائی ہے؟ جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے جمہور مسلمانوں کا عام عقیدہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جب کوئی شادی شدہ مرد یا عورت زنا کا مرتکب ہو.اور خدا تعالیٰ کی ستاری اس سے اپنا دامن بھینچ کر اسے ننگا کر دے اور اس کا یہ جرم چار معتبر اور چشم دید گواہوں کی شہادت سے پایہ ثبوت کو پہونچ جائے تو ایسے شخص کے لئے اسلام نے یہ سزا مقرر کی ہے کہ اسے کسی کھلے میدان میں کھڑا کر کے خواہ زمین میں گاڑ کر یا ویسے ہی اس پر پتھروں کی بارش برسائی جائے.حتی کہ وہ اسی حالت میں پتھروں کی ضرب کھاتا ہوا جان بحق ہو جائے.یہ عقیدہ اوائل سے لے کر اب تک جمہور مسلمانوں کا مسلم عقیدہ رہا ہے اور گو بعض نے اس عقیدہ سے اختلاف کیا ہے مگر یہ اختلاف اس قدرقلیل اور شاذ ہے کہ کہا جاسکتا

Page 484

مضامین بشیر ہے کہ گویا یہ عقیدہ جمہور مسلمانوں کا متفقہ اور متحدہ عقیدہ ہے مگر تحقیقی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس عقیدہ کے متعلق بعض ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ علماء کو اس بارے میں غور کر کے کوئی آخری رائے قائم کرنی ضروری ہے.ہر چند کہ اس وقت ہندوستان میں جہاں ایک غیر اسلامی حکومت قائم ہے ، یہ مسئلہ کوئی عملی اہمیت نہیں رکھتا اور زیادہ تر صرف ایک علمی حیثیت رکھتا ہے مگر اول تو بہر حال یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے.دوسرے چونکہ اس مسئلہ کا بالواسطہ طور پر اسلامی تعلیم کی روح پر کافی گہرا اثر پڑتا ہے.اس لئے اسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.بظاہر حالات اس مسئلہ کے متعلق جو سوالات پیدا ہوتے ہیں وہ مختصر یہ ہیں : - پہلا سوال اول زنا کے تعلق میں شریعت اسلامی کی طرف دوسزائیں منسوب کی جاتی ہیں.ایک غیر شادی شدہ شخص کی سزا.یعنی اسی کوڑے.اور دوسرے شادی شدہ شخص کی سزا یعنی سنگسار.لیکن عجیب بات ہے کہ ان دوسزاؤں میں سے جو کم اہم اور نسبتا نرم ہے.یعنی کوڑے.اس کا تو قرآن شریف نے صراحتاً ذکر کیا ہے لیکن اس کے مقابل پر زیادہ اہم اور زیادہ سخت سزا کے ذکر کو ترک کر کے اسے محض زبانی حدیثوں کی تشریح پر چھوڑ دیا ہے.حالانکہ عقلاً یہ بات ضروری تھی کہ قرآن شریف جو شریعت اسلامی کا اصل ماخذ ہے زیادہ اہم سزا کا ذکر کرتا اور اگر کسی سزا کا ذکر ترک ہی کرنا تھا تو ہلکی سزا کے ذکر کو ترک کر دیا جاتا مگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ زیادہ اہم سزا کے ذکر کو ترک کر کے صرف کم اور ہلکی سزا کا ذکر درج کر دیا گیا ہے اور زیادہ اہم سزا کے ذکر کے لئے ہمیں حدیث کا رستہ دکھایا جاتا ہے.دوسرا سوال دوم : قرآن شریف نے زنا کی سزا کا ذکر سورہ نور میں کیا ہے.جہاں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر بہتان والے واقعہ کی ذیل میں زنا سے تعلق رکھنے والے احکام نازل ہوئے ہیں مگر عجیب بات ہے کہ اس جگہ واقعہ تو ایک شادی شدہ عورت کا ہے.اور ذکر اس سزا کا کیا جاتا ہے جو غیر شادی شدہ سے تعلق رکھتی ہے.حالانکہ اگر اسلام نے رجم کی سزا مقرر کی ہوتی تو طبعا اور لازماً یہی وہ موقع تھا مگر اس جگہ رجم کے ذکر کا نام ونشان تک نہیں.تیسرا سوال

Page 485

مضامین بشیر ۴۷۸ سوم : کہا جاتا ہے کہ شروع میں رجم کی سزا کے متعلق قرآن شریف میں ایک آیت بھی نازل ہوئی تھی.اور وہ یہ کہ الشيخ والشيخة اذازنيا فارجموھما.مگر بعد میں اس آیت کے الفاظ تو منسوخ ہو گئے مگر حکم قائم رہا.اگر یہ درست ہے تو اس آیت کا ترک کیا جانا اور اس کے الفاظ کا منسوخ کیا جانا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اب یہ سزا نہیں رہی.ورنہ جب آیت اتر چکی تھی اور سزا بھی قائم کی تھی تو آیت کو ترک کیوں کیا گیا.علاوہ ازیں الفاظ کا منسوخ ہو جانا اور حکم کا قائم رہنا بھی ایک غیر معقول ساخیال ہے.پھر مزعومہ آیت کے الفاظ بھی یہ شبہ پیدا کرتے ہیں کہ یہ کوئی قرآنی آیت نہیں.چوتھا سوال چہارم : اسلام نے اصولی تعلیم دی ہے کہ قتل کرنے کے طریق میں نرمی کو اختیار کرنا چاہیئے.چنا نچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مسلمان قتل کرنے کے طریق میں سب لوگوں سے زیادہ نرم ہوتا ہے.اور ایک دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ ہدایت بیان ہوئی ہے کہ جب کبھی مسلمان جنگ میں کافروں کے سامنے ہو تو اسے چاہئے کہ کسی کے مونہہ پر ضرب نہ لگائے ۲۲ وغیرہ وغیرہ.ان اصولی ارشادات کے ساتھ رجم کی سزا جو ایک سخت ترین طریق قتل پر مشتمل ہے.جس میں عملاً زیادہ تر سرا اور مونہہ ہی پتھروں کا نشانہ بنتے ہیں، کسی طرح مطابقت نہیں کھاتی.پانچواں سوال پنجم : آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عام طریق تھا کہ جب تک اسلامی شریعت کا کوئی نیا حکم نازل نہیں ہوتا تھا.آپ بالعموم موسوی شریعت کے مطابق فیصلہ فرمایا کرتے تھے.پس جب رجم کے متعلق قرآن کریم میں کوئی حکم موجود نہیں تو کیوں نہ سمجھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو رجم کی بعض مثالیں ملتی ہیں.وہ اس بناء پر نہیں ہیں کہ اسلام رجم کا حکم دیتا ہے بلکہ اس بنا پر ہیں کہ سابقہ شریعت میں اس کا حکم تھا.اور جب اسلامی شریعت آئی تو یہ حکم منسوخ کر دیا بلکہ بعض لوگ اسے غلطی سے غیر منسوخ سمجھتے رہے.چھٹا سوال ششم : قرآن شریف میں یہ صریح حکم موجود ہے کہ زنا کے معاملہ میں ایک لونڈی کی سزا آزاد عورت سے نصف ہے مگر ظاہر ہے کہ رجم کی صورت میں میں سزا کا نصف ہونا کسی طرح ممکن نہیں.

Page 486

۴۷۹ مضامین بشیر نصف کا اصول اسی صورت میں چل سکتا ہے کہ زنا کی سزا کو صرف کوڑوں تک محدود سمجھا جائے.ساتواں سوال ہفتم : مندرجہ بالا وجوہات کی بناء پر کئی اسلامی علماء کو بھی رجم کی سزا کے متعلق شبہات پیدا ہوئے ہیں.چنانچہ بعض نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ چونکہ قرآن شریف رجم کا حکم نہیں دیتا بلکہ صرف کوڑوں کی سزا کا حکم دیتا ہے اس لئے بیشک حدیث کے ماتحت شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے مگر احتیاطاً قرآنی حکم کے ماتحت اسے کوڑے بھی لگا دینے چاہئیں.چنانچہ بعض علماء کا فتویٰ ہے کہ پہلے کوڑے لگائے جائیں اور بعد میں رجم کیا جائے اور بعض کہتے ہیں کہ پہلے رجم کیا جائے اور بعد میں مقتول کی نعش کو کوڑے مارے جائیں.اس سے اس مسئلہ میں علماء کی پریشانی ظاہر وعیاں ہے.رجم کی تائید میں دلائل ان دلائل اور اسی قسم کے دوسرے دلائل سے رجم کی سزا کے متعلق حقیقی شبہ پیدا ہوتا ہے مگر اس کے مقابل پر رحم کے حکم کی تائید میں بھی بعض وزنی دلائل ہیں مثلاً پہلی دلیل اول : رجم ان مسائل میں سے ہے جو عمل سے تعلق رکھتے ہیں.اس لئے اس میں سب سے زیادہ وزن مسلمانوں کے تعامل کو دیا جائے گا.اور خصوصاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین کے عمل کو اور جب ہم عمل کو دیکھتے ہیں تو تاریخ سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بلکہ خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی شادی شدہ زانیوں کو رجم کی سزا دی جاتی رہی ہے.اگر یہ مثالیں صرف ابتدائی زمانہ تک محدود ہو تیں تو یہ خیال کیا جا سکتا تھا کہ شائد یہ طریق قبل نزول سوره نور سابقہ شریعت کی اتباع میں جاری تھا اور بعد میں منسوخ ہو گیا لیکن جب کہ خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی رجم کی سزا دی گئی ہے تو لا محالہ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ رجم ایک مستقل اسلامی حکم ہے جس پر ہر زمانہ میں عمل ہوتا رہا ہے.دوسری دلیل دوم : اگر سورہ نور میں رجم کی سزا کا حکم بیان نہیں ہوا تو اس سے اصل مسئلہ پر چنداں اثر نہیں پڑتا کیونکہ سورۂ نور بے شک حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قصہ میں نازل ہوئی مگر چونکہ حضرت

Page 487

مضامین بشیر ۴۸۰ عائشہ بہر حال بُری اور معصوم تھیں.اس لئے ان کے قصہ کے ذیل میں کسی شادی شدہ کی سزا کا بیان کرنا ضروری نہیں تھا بلکہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عائشہ کی بریت اور معصومیت کا احترام یہ چاہتا تھا کہ اس میں کسی ایسی سزا کی طرف اشارہ نہ ہو جو شادی شدہ سے تعلق رکھتی ہے تا کہ حضرت عائشہ کی بریت کا اعلان بالکل بے داغ رہے.اسی لئے سورہ نور میں صرف غیر شادی شدہ کی سزا کے ذکر پر اکتفا کی گئی اور شادی شدہ کا ذکر ترک کر دیا گیا.تیسری دلیل سوم : یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ قرآن شریف نے زیادہ سخت اور زیادہ اہم سزا کا ذکر ترک کر کے کم اہم سزا کو اس لئے بیان کیا ہوتا اس ذریعہ سے یہ اشارہ کیا جائے کہ یہ ایک ایسا جرم ہے کہ اس کا ادنی درجہ بھی خدا کے نزدیک بر ملا سزا کے قابل ہے اور اس کے اوپر کے درجے تو بہر حال قابل سزا ہیں ہی.چوتھی دلیل چہارم : حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو اسلامی شریعت اور خصوصاً شریعت کے تعزیری حصہ کے تفقہ میں بہت بلند پایہ رکھتے ہیں.رجم کی سزا پر اس قدر یقین تھا کہ وہ زور وشور کے ساتھ اعلان فرمایا کرتے تھے کہ دیکھنا یہ نہ سمجھنا کہ رجم کا حکم قرآن میں نہیں ہے.اس لئے اس پر عمل واجب نہیں ہے بلکہ یہ حکم قرآنی شریعت کا حصہ ہے اور اس پر عمل ضروری ہے.پانچویں دلیل پنجم : بے شک عام حالات میں اسلام نے قتل کے طریق میں نرمی کا پہلو اختیا ر کیا ہے اور نرمی کی تعلیم دی ہے لیکن چونکہ زنا ایسا جرم ہے کہ اس کا سوسائٹی کے اخلاق پر بہت بھاری اثر پڑتا ہے اور ضروری ہے کہ سخت ذرائع استعمال کر کے اس جرم کا انسداد کیا جائے.اس لئے اسلام نے اس بارے میں سخت سزا کا حکم دیا.کیونکہ اس سختی کے پردہ میں بھی مخلوق ہی کے لئے رحمت و شفقت پنہاں ہے.چھٹی دلیل ششم : جس شخص سے خدائے ارحم الراحمین جس کی ستاری کی صفت انتہا کو پہونچی ہوئی ہے.

Page 488

۴۸۱ مضامین بشیر اپنی ستاری کے دامن کو اس حد تک کھینچ لیتا ہے کہ وہ زنا جیسے جرم میں جو انتہائی پردہ کی حالت میں کیا جاتا ہے ، اس درجہ ننگا ہو جاتا ہے کہ چار معتبر گواہ اس کی روسیا ہی پر چشم دید شہادت دیتے ہیں تو اس کی انتہائی شقاوت میں کیا شبہ ہے اور وہ خدا کے بندوں کی طرف سے کس رحم کا مستحق سمجھا.جا سکتا ہے.ساتویں دلیل ہفتم: میں نے سنا ہے گو میں نے یہ حوالہ خود نہیں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنی کسی تحریر میں اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ اسلام نے زنا کی سزا رجم مقرر کی ہے.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ بیان جمہور مسلمانوں کی طرف سے محض حکایت کے رنگ میں نہیں ہے بلکہ خود آپ کا اپنا ذاتی فتویٰ ہے تو احمد یہ جماعت کے لئے اس کے بعد کسی اور بحث کی گنجائش نہیں رہتی اور کم از کم میرے لئے تو ساری بحث کا خاتمہ ہو جاتا ہے.کیونکہ میں نے خدا کے فضل سے اپنے دل کو ہمیشہ اس بات کے لئے آمادہ پایا ہے کہ اگر میرے پاس کسی بات کی تائید میں ہزار دلیل ہو.جس پر مجھے فخر اور ناز ہو مگر مجھ پر یہ ظاہر ہو جائے کہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد وہاں بظاہر بے دلیل و بے ثبوت ارشاد کچھ اور ہے تو میں اپنے خیالات کو اپنے دل سے اس طرح نکال کر پھینک دیتا ہوں جس طرح مکھن میں سے بال کو نکال کر پھینک دیا جاتا ہے.علماء کا کام خلق مے گوید که خسرو بت پرستی ریست آرے آرے می کنم با خلق و عالم کار نیست مختصراً یہ وہ دلائل ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رجم کی سزا درست اور برحق ہے.پس اب ہمارے علماء کا یہ کام ہے کہ وہ اس بحث کے موافق و مخالف دلائل پر غور کر کے اور اس میدان میں مزید تحقیق کا رستہ کھول کر کوئی آخری رائے قائم کریں مگر یہ بات بہر صورت مد نظر رہنی چاہیئے کہ عملی مسائل میں سب سے زیادہ وزن مومنوں کے تعامل کو ہوتا ہے.اور محض کسی عقلی دلیل سے جو غلطی کا امکان رکھتی ہو، ایک ثابت شدہ تعامل کو ہرگز ر دنہیں کیا جا سکتا.گو یہ علیحدہ بات ہے کہ کسی امر میں تعامل ہی ثابت نہ ہو یا ایک رنگ تعامل کا تو ہو مگر تعامل کی تہہ میں کوئی اور معقول

Page 489

مضامین بشیر ۴۸۲ تشریح موجود ہو.مجھے اس مسئلہ میں تحقیق کی ضرورت اس لئے محسوس ہورہی ہے کہ سیرۃ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف میں یہ مسئلہ میرے راستہ میں آتا ہے اور چونکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ جماعت کا علم دوست طبقہ اس کے متعلق مزید تحقیق کر کے میری رہنمائی کرے.نیز اگر کسی دوست کو اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی ارشاد یاد ہو تو اس سے بھی مطلع فرمائیں.( مطبوعہ الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۴۱ء )

Page 490

۴۸۳ ایک غلطی کی اصلاح رجم کی سزا کے متعلق میرا جو نوٹ ۱۸ جولائی کے الفضل میں شائع ہوا ہے.اس میں سہوا یہ غلطی ہو گئی ہے کہ زانی کی سزا سو کوڑوں کی بجائے ۸۰ کوڑے درج ہو گئی ہے.ناظرین کرام صحت فرمالیں.(مطبوعہ الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۴۱ء ) مضامین بشیر

Page 491

مضامین بشیر ۴۸۴ یاران تیز گام نے محمل کو جالیا ہم مجو ناله جرس کارواں رہے حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم کی وفات پر ایک نوٹ ابتدائی زمانہ کے پاک نفس بزرگ الفضل، مورخہ ۲۸ اگست ۱۹۴۱ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کا وہ خطبہ شائع ہوا ہے جو حضور نے مورخہ ۲۲ اگست ۱۹۴۱ء کے جمعہ میں فرمایا تھا.اس خطبہ میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی وفات کا ذکر کر کے جماعت کو ان پاک نفس بزرگوں کی قدرشناسی کی طرف توجہ دلائی ہے.جنہوں نے ابتدائی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ساتھ دے کر اور ہر قسم کی تلخی اور تنگی اور قربانی میں حصہ لے کر محبت اور اخلاص اور وفاداری کا اعلیٰ ترین نمونہ قائم کیا ہے.اسی مبارک گروہ میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم بھی شامل تھے.جن کے متعلق میں اس مضمون میں بعض خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں.دریافت حال کے لئے خط غائبا ۱۸ اگست کی تاریخ تھی اور حضرت خلیفہ محی الثانی ایدہ اللہ و بوی میں تشریف رکھتے تھے کہ مجھے حضرت منشی صاحب مرحوم کے بھانجے منشی تنظیم الرحمن صاحب کے ایک خط سے یہ اطلاع ملی کہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلہ میں سخت بیمار ہیں اور حالت تشویشناک ہے.میں نے اس اطلاع کے ملتے ہی حضرت منشی صاحب موصوف کے صاحبزادہ شیخ محمد احمد صاحب بی.اے.ایل.ایل.بی کپورتھلہ کے نام ایک خط اظہار ہمدردی اور دریافت خیریت کے لئے ارسال کیا اور مجھے یہ خوشی ہے کہ میرا یہ خط منشی صاحب مرحوم کی زندگی میں ہی ان کی وفات سے چند گھنٹے قبل شیخ محمد احمد صاحب کومل گیا اور منشی صاحب مرحوم کے علم میں بھی آ گیا.جنہوں نے اس خط پر خوشی اور تسکین کا اظہار فرمایا مگر چونکہ خدا کے علم میں حضرت منشی صاحب کا پیمانہ حیات لبریز ہو چکا تھا اور وفات کا مقدر وقت آچکا تھا

Page 492

۴۸۵ مضامین بشیر اس لئے وہ میرے خط کے پہونچنے کے چند گھنٹہ بعد یعنی ۲۰ اگست ۱۹۴۱ء کی صبح ڈھائی بجے کے قریب وفات پا کر اپنے محبوب حقیقی کے قدموں میں جا پہونچے.فانالله وانا اليه راجعون وكل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذی الجلال والاکرام.وفات کی اطلاع منشی صاحب مرحوم کی وفات کی اطلاع مجھے شیخ محمد احمد صاحب کی تار کے ذریعہ ملی جو مجھے ۲۰ اگست کی دو پہر کو وصول ہوئی.اس تار میں یہ اطلاع بھی درج تھی کہ منشی صاحب کا جنازہ آرہا ہے اور قادیان میں شام کے قریب پہونچے گا.میں نے اس تار کے ملتے ہی حضرت مولوی شیر علی صاحب مقامی امیر اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور منشی کظیم الرحمن صاحب اور افسر صاحب صیغہ مقبرہ بہشتی اور ایڈیٹر صاحب الفضل کی خدمت میں اطلاع بھجوا دی اور دفتر مقبرہ بہشتی کے ہیڈ کلرک صاحب کو اپنے پاس بلا کر یہ مشورہ دیا کہ منشی صاحب مرحوم چونکہ قدیم ترین صحابہ میں سے تھے.اس لئے ان کی قبر خاص صحابہ کے قطعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے قریب تر تیار کرائی جائے.چنانچہ قبروں کی جاری شدہ لائن کو ترک کر کے جہاں اس لائن کے وسط میں ایک پہلے سے تیار شدہ قبر موجود تھی.اس کے ساتھ کی نئی لائن میں رستہ کے اوپر نئی قبر تیار کی گئی تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مقرب صحابی جو موجودہ صحابیوں میں سے غالباً سب سے سابق تھا اپنے محبوب کے مزار کے قریب تر جگہ پا سکے.اس کے علاوہ میں نے مقامی امیر حضرت مولوی شیر علی صاحب کی خدمت میں عرض کر کے قادیان کے تمام محلہ جات میں جنازہ کی شرکت کے لئے ایک ابتدائی اعلان بھی کروا دیا.نماز جنازہ اور تدفین.جنازہ عصر کی نماز کے بعد بذریعہ لاری قادیان پہونچا.چونکہ اس وقت نماز مغرب کا وقت قریب تھا اور آخری اعلان کے لئے وقت کافی نہیں تھا اس لئے یہ تجویز کی گئی کہ نماز جنازہ مغرب کے بعد ہو اور اس عرصہ میں دوبارہ تمام محلوں کی مساجد میں نماز مغرب کے وقت آخری اعلان کرایا گیا.تا کہ دوست زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوں.چنانچہ الحمد للہ کہ باوجود اس کے کہ رات کا وقت تھا اور گرمی کی بھی شدت تھی.تمام محلہ جات سے لوگ کافی کثرت کے ساتھ شریک ہوئے اور مدرسہ احمدیہ کے صحن میں نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد حضرت منشی صاحب کو بہت سے مومنوں کی دعاؤں کے ساتھ مقبرہ بہشتی کے خاص قطعہ میں دفن کیا گیا.(یا درکھنا چاہیئے کہ یہ قطعہ ویسے کوئی خصوصیت نہیں رکھتا

Page 493

۴۸۶ مضامین بشیر سوائے اس کے کہ پرانے صحابہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے قریب ترین حصہ میں ایک پلاٹ ریزرو کر دیا گیا ہے تا کہ اس حصہ میں دفن ہو کر السابقون الاولون اپنے محبوب آقا کے پاس جگہ پاسکیں.یعنی جس طرح وہ زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب تھے ، اسی طرح موت کے بعد بھی قریب رہیں اور یہ ان کا ایک ادنی ساحق ہے جو جماعت کی طرف سے اس رنگ میں ادا کیا جاتا ہے.ورنہ بہشتی مقبرہ کا حصہ ہونے کے لحاظ سے مقبرہ کی ساری زمین ایک ہی حکم میں ہے اور کوئی امتیاز نہیں ) موت میں جشن شادی کا رنگ دفن کے وقت جس کے لئے گیس کی روشنی کا انتظام تھا، میں نے اکثر لوگوں کی زبان سے یہ شعر سنا اور واقعی اس موقع کے لحاظ سے یہ ایک نہائت عمدہ شعر تھا کہ ؎ عروسی بود نوبت ما تمت اگر برنکوئی شود خاتمت د یعنی اگر تیری وفات نیکی اور تقویٰ پر ہوتی ہے تو پھر یہ وفات ماتم کا رنگ نہیں رکھتی بلکہ گویا ایک جشن شادی کا رنگ رکھتی ہے.“ یہ ایک نہائت عمدہ شعر ہے اور نہائت عمدہ موقع پر لوگوں کی زبان پر آیا اور مجھے اس شعر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) کا وہ مبارک فرمان یاد آ گیا.جو آپ نے حضرت سعد بن معاذ رئیس انصار کی وفات پر ارشادفرمایا تھا.اور وہ یہ کہ : - اهْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمَنِ لِمَوْتِ سَعْدِ مِنْ مُعَاذِ.۲۳ 66 یعنی سعد کی موت پر تو خدائے رحمن کا عرش بھی جھومنے لگا.“ واقعی خواہ دُنیا کے لوگ سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر حقیقت یہی ہے کہ جس شخص کا انجام اچھا ہو گیا اور اس پر ایسے وقت میں موت آئی کہ جب خدا اس پر راضی تھا اور وہ خدا پر راضی تھا تو اس کی موت حقیقتاً ایک جشن شادی ہے.بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر کیونکہ جہاں شادی کا جشن دوفانی انسانوں یعنی مرد و عورت کے ملنے پر منایا جاتا ہے.حالانکہ یہ ملنا عارضی ہوتا ہے اور اس وقت کو ئی شخص یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ جوڑا خوشی کا باعث بنے گا یا کہ غم کا ، اچھے نتائج پیدا کرے گا یا کہ خراب ، خدا کی رحمت کا پیش خیمہ ہو گا یا کہ عذاب کا.وہاں اس کے مقابل پر اُس عظیم الشان جشن کا کیا کہنا ہے کہ جس میں ایک پاک روح یا ایک پاک شدہ روح اپنے ازلی ابدی خدا، اپنے رحیم و ودود آقا ، ہاں سب پیار

Page 494

۴۸۷ مضامین بشیر کرنے والوں اور سب پیار کئے جانے والوں سے زیادہ پیار کرنے والے محب ومحبوب سے ملنے کے لئے نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہمیشہ کی راحت میں ہم آغوش ہو جانے کے لئے موت کے دروازے سے گزرتی ہے.پاک انجام پانے والے شخص کے لئے موت یقیناً ایک عظیم الشان عروسی جشن ہے.اور کہنے والے نے بالکل سچ کہا ہے کہ عروسی بود نوبت ما تمت اگر برنکوئی شود خاتمت عجیب وغریب منظر یہ شعر منشی ظفر احمد صاحب مرحوم کی تدفین کے وقت میرے کانوں میں قریباً چاروں طرف سے پہونچا اور میرے دل نے کہا سچ ہے کہ موت ایک عجیب و غریب پردہ ہے، جس کے ایک طرف جدا ہونے والے کے دوست اور اعزہ اپنے فوت ہونے والے عزیز کی عارضی جدائی پر غم کے آنسو بہاتے ہیں اور دوسری طرف پہلے سے گزرے ہوئے پاک لوگ اور خدا کے مقدس فرشتے بلکہ خود خدائے قدوس آنے والی روح کی خوشی میں ایک عروسی جشن کا نظارہ دیکھتے ہیں.اللہ اللہ ! یہ ایک کیسا عجیب منظر ہے کہ ایک طرف صف ماتم ہے اور دوسری طرف جشن شادی اور درمیان میں ایک اڑتی ہوئی انسانی زندگی کے آخری سانس کا پھڑ پھڑاتا ہوا پردہ.گویا مرنے والے کے ایک کان میں رونے کی آواز پہونچ رہی ہوتی ہے اور دوسرے کان میں خوشی کے ترانے اور وہ اس عجیب وغریب مرکب ماحول میں گھرا ہوا اگلے جہان میں قدم رکھتا ہے.مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ اصل جذ بہ وہی ہے جو ملاء اعلیٰ میں پایا جاتا ہے.جسے شاعر نے جشنِ شادی کے لفظ سے تعبیر کیا ہے.کیونکہ وہ انسان کی زندگی کے آغاز کا اعلان ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ گو خدا نے سارے انسانوں کو ہی اس مبارک جشن کی دعوت دی ہے اور اس بابرکت تحفہ کو ہر روح کے سامنے محبت اور رحمت کے ہاتھوں سے پیش کیا ہے مگر بہت کم لوگ اسے قبول کرتے ہیں اور اکثر نے اپنے لئے یہی بات پسند کی ہے کہ جب وہ اس دنیا سے جدا ہو کر اگلے جہان میں قدم رکھیں تو ان کے لئے یہ جہان اور اگلا جہان دونوں ماتم کدہ بن جائیں.خدایا تو ایسا فضل فرما کہ ہم اور ہمارے وہ سب عزیز جن کے ساتھ ہمیں محبت ہے اور وہ سب لوگ جنہیں ہمارے ساتھ محبت ہے.یعنی تیرے وہ سارے بندے جو احمدیت کی پاک لڑی میں محبت اور اخلاص کے ساتھ پروئے ہوئے ہیں ان کی زندگیاں تیری رضا کے ماتحت گزریں اور اگر ان سے کوئی گناہ سرزد ہو تو اے ہمارے رحیم و مہربان آقا ! تو اس وقت تک ان سے

Page 495

مضامین بشیر ۴۸۸ موت کو روکے رکھ ، جب تک کہ تیری قدرت کا طلسمی ہاتھ انہیں ان کے گناہوں سے پاک وصاف کر کے تیرے قدموں میں حاضر ہونے کے قابل بنادے تا کہ ان کی موت عروسی جشن والی موت ہو اور وہ تیرے دربار میں اپنے گنا ہوں سے دھل کر اور پاک وصاف ہوکر پہونچیں.اے خد تو ایسا ہی کر.ہاں تجھے تیری اس عظیم الشان رحمت کی قسم ہے جو تیرے پاک مسیح کی بعثت کی محرک ہوئی ہے کہ تو ایسا ہی کر.آمین یا رب العالمین.ساٹھ سال کے عرصہ میں ہر قدم پہلے سے آگے میں اپنے مضمون سے ہٹ گیا.میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم کی تدفین کا ذکر کر رہا تھا کہ اس وقت بہت سے لوگوں کی زبان پر یہ ذکر تھا کہ ان کی وفات ایسے حالات میں ہوئی ہے جو ہر مومن کے لئے باعث رشک ہونی چاہیئے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ منشی صاحب مرحوم کی زندگی اور موت دونوں نے خدا کی خاص، بلکہ خاص الخاص برکت سے حصہ پایا ہے.ابھی وہ بچپن کی عمر سے نکل ہی رہے تھے اور نو جوانی کا آغاز تھا کہ خدا کی ازلی رحمت انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں لے آئی.یہ غالباً ۱۸۸۳ء کا سال تھا جبکہ براہین احمدیہ زیر تصنیف تھی اور ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے مجددیت کے دعویٰ کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا.وہ دن اور آج کا دن جن کے درمیان قریباً ساٹھ سال کا عرصہ گزرتا ہے ، مرحوم کا ہر قدم پہلے قدم سے آگے پڑا اور مرحوم کی محبت اور اخلاص نے اس طرح ترقی کی جس طرح ایک تیزی سے بڑھنے والا پودا اچھی زمین اور اچھی آبپاشی اور اچھی پرداخت کے نیچے ترقی کرتا ہے، اس زمانہ میں مصائب کے زلزلے بھی آئے ، حوادث کی آندھیاں بھی چلیں ، ابتلاؤں کے طوفانوں نے بھی اپنا زور دکھایا مگر یہ خدا کا بندہ آگے ہی آگے قدم اٹھاتا گیا.گرنے والے گر گئے ، ٹھوکر کھانے والوں نے ٹھوکریں کھائیں، لغزش میں پڑنے والے لغزشوں میں پڑ گئے مگر منشی صاحب مرحوم کا سر ہر طوفان کے بعد اوپر ہی اوپر اٹھتا نظر آیا اور بالآخر سب کچھ دیکھ کر اور سارے عجائبات قدرت کا نظارہ کر کے وہ موت کے عروسی جشن میں سے ہوتے ہوئے اپنے آقا ومحبوب کے قدموں میں پہونچ گئے.اس زندگی سے بہتر کونسی زندگی اور اس موت سے بہتر کونسی موت ہو گی ؟ شیع مسیح کے زندہ جاوید پروانے منشی صاحب مرحوم ان چند خاص بزرگوں میں سے تھے جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 496

۴۸۹ مضامین بشیر کا خاص بے تکلفانہ تعلق تھا.کپورتھلہ کی جماعت میں ہاں وہی جماعت جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں سے یہ مبارک و وعید سند حاصل کی ہے کہ خدا کے فضل سے وہ جنت میں بھی اسی طرح آپ کے ساتھ ہوگی جس طرح وہ دنیا میں ساتھ رہی ہے.تین بزرگ خاص طور پر قابل ذکر ہیں اعنی حضرت میاں محمد خان صاحب مرحوم اور حضرت منشی اروڑا صاحب مرحوم اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم.یہ تینوں بزرگ حقیقۂ شمع مسیحی کے جان نثار پروانے تھے ، جن کی زندگی کا مقصد اس شمع کے گرد گھوم کر جان دینا تھا.انتہاء درجہ محبت کرنے والے ، انتہاء درجہ مخلص ، انتہاء درجہ وفادار، انتہاء درجہ جان نثار اپنے محبوب کی محبت میں جینے والے جن کا مذہب عشق تھا اور پھر عشق اور پھر عشق اور عشق میں ہی انہوں نے اپنی ساری زندگیاں گزار دیں.کیا یہ لوگ بھی کبھی مر سکتے ہیں ؟ ہرگز نمیرد آن که دلش زنده شد بعشق ثبت است بر جریدہ عالم دوام شاں ایک یوروپین سے حضرت منشی اروڑے خاں صاحب کی ملاقات کا نظارہ میں نے مرحوم محمد خان صاحب کے علاوہ باقی دونوں اصحاب کو دیکھا ہے اور ان کے حالات کا کسی حد تک مطالعہ بھی کیا ہے.( یہ یادر ہے کہ اس جگہ صرف کپورتھلہ کی جماعت کا ذکر ہے.ورنہ خدا کے فضل سے بعض دوسری جماعتوں میں بھی اس قسم کے فدائی لوگ پائے جاتے تھے.جیسے کہ مثلاً سنور میں حضرت منشی عبداللہ صاحب مرحوم تھے.اور اسی طرح بعض اور جماعتوں میں بھی تھے ) اور میں مبالغہ سے نہیں کہتا بلکہ ایک حقیقت بیان کرتا ہوں کہ میرے الفاظ کو وہ پیما نہ میسر نہیں ہے، جس سے ان بزرگوں کی محبت کو ناپا جاسکے مگر ایک ادنیٰ مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ جس طرح ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا پانی کو جذب کر کے پانی کے قطروں سے اس طرح بھر جاتا ہے کہ اسفنج اور پانی میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا اور نہیں کہہ سکتے کہ کہاں پانی ہے اور کہاں سفنج.اسی طرح ان پاک نفس بزرگوں کا دل بلکہ ان کے جسموں کا رواں رواں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت سے لبریز تھا.مجھے خوب یاد ہے اور میں اس واقعہ کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ جب ۱۹۱۶ء میں مسٹر والٹر آنجہانی جو آل انڈیا وائی ایم سی.اے کے سیکرٹری تھے اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق تحقیق کرنے کے لئے قادیان آئے تھے.انہوں نے قادیان میں یہ خواہش کی کہ مجھے بانی سلسلہ احمدیہ کے کسی پرانے صحابی سے ملایا جائے.اس وقت حضرت منشی اروڑا صاحب مرحوم قادیان میں تھے.مسٹر والٹر کومنشی صاحب مرحوم کے ساتھ

Page 497

مضامین بشیر ۴۹۰ مسجد مبارک میں ملایا گیا.مسٹر والٹر نے منشی صاحب سے رسمی گفتگو کے بعد یہ دریافت کیا کہ آپ پر جناب مرزا صاحب کی صداقت میں سب سے زیادہ کس دلیل نے اثر کیا ؟ منشی صاحب نے جواب دیا کہ میں زیادہ پڑھا لکھا آدمی نہیں ہوں اور زیادہ علمی دلیلیں نہیں جانتا مگر مجھ پر جس بات نے سب سے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی.جس سے زیادہ سچا اور زیادہ دیانتدار اور خدا پر زیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا.انہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص جھوٹا ہے.باقی میں تو ان کے مونہ کا بھوکا تھا.مجھے زیادہ دلیلوں کا علم نہیں ہے.یہ کہ کر منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد میں اس قدر بے چین ہو گئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی.اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ کا ٹو تو بدن میں لہو نہیں.ان کے چہرہ کا رنگ ایک دھلی ہوئی چادر کی طرح سفید پڑ گیا تھا اور بعد میں انہوں نے اپنی کتاب احمد یہ موومنٹ میں اس واقعہ کا خاص طور پر ذکر بھی کیا اور لکھا کہ جس شخص نے اپنی صحبت میں اس قسم کے لوگ پیدا کئے ہیں، اسے ہم کم از کم دھو کے باز نہیں کہہ سکتے.کاش مسٹر والٹر کا ذہن اس وقت زمانہ حال سے ہٹ کر تھوڑی دیر کے لئے ماضی کی طرف بھی چلا جاتا اور وہ انیس سو سال پہلے کے مسیح ناصری کے حواریوں کا بیسویں صدی کے مسیح محمدی کے حواریوں کے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھتے کہ وہاں تو مسیح ناصری کے خاص حواریوں میں سے ایک نے چند روپے لے کر مسیح کو پکڑوا دیا اور دوسرے نے جو بعد میں مسیح کا خلیفہ بننے والا تھا، لوگوں کے ڈر سے مسیح پر کئی دفعہ لعنت بھیجی اور یہاں خدا کے برگزیدہ محمدی مسیح کو ایسے جانثار پروانے عطا ہوئے جن کی روح کی غذا ہی مسیح کی محبت تھی اور جو ہر وقت اسی انتظار میں رہتے تھے کہ ہمیں اپنے آقا پر قربان ہونے کا کب موقع ملتا ہے اور پھر کاش مسٹر والٹر اس وقت اپنے خدا وند مسیح کا یہ قول بھی یاد کر لیتے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.‘ مگر شاید ان کا خیال اس طرف گیا ہوا اور شاید ان کی اس وقت کی گھبراہٹ اسی خیال کی وجہ سے ہو.کون کہہ سکتا ہے؟ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی دور وائتیں.الغرض حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم ایک خاص طبقہ کے فرد تھے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عشق تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ان لوگوں کے ساتھ خاص محبت تھی اور آپ اپنے چھوٹے عزیزوں کی طرح ان سے محبت کرتے اور ان کے ساتھ بے تکلفی کا رنگ رکھتے تھے.مجھے خوشی ہے کہ میرے پاس منشی ظفر احمد صاحب کی بہت سی روائتیں محفوظ ہیں جو میں نے ان سے عرض

Page 498

۴۹۱ مضامین بشیر ނ کر کے ان کے صالح فرزند شیخ محمد احمد صاحب کے ذریعہ وفات سے کچھ عرصہ قبل جمع کر والی تھیں.ان میں سے بطور نمونہ دور وائتیں اس جگہ درج کرتا ہوں اور لطف یہ ہے کہ ان دونوں میں منشی اروڑ ا صاحب مرحوم کا بھی تعلق پڑتا ہے.ایک دفعہ منشی ظفر احمد صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا کہ میں اور منشی اروڑا صاحب اکٹھے قادیان میں آئے ہوئے تھے اور سخت گرمی کا موسم تھا اور چند دن بارش رکی ہوئی تھی.جب ہم قادیان سے واپس روانہ ہونے لگے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں سلام کے لئے حاضر ہوئے تو منشی اروڑا صاحب مرحوم نے حضرت صاحب سے عرض کیا ” حضرت گرمی بڑی سخت ہے دعا کریں کہ ایسی بارش ہو کہ بس اوپر بھی پانی ہو اور نیچے بھی پانی ہو.“ حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا.”اچھا اوپر بھی پانی ہو اور نیچے بھی پانی ؟“ مگر ساتھ ہی میں نے ہنس کر عرض کیا کہ حضرت یہ دعا انہی کے لئے کریں.میرے لئے نہ کریں.( ذرا ان ابتدائی بزرگوں کی بے تکلفی کا انداز ملاحظہ ہو کہ حضرت صاحب سے یوں ملتے تھے جیسے ایک مہربان باپ کے اردگرد اس کے بچے جمع ہوں ) اس پر حضرت صاحب پھر مسکرا دیئے اور ہمیں دعا کر کے رخصت کیا.منشی صاحب فرماتے تھے کہ اس وقت مطلع بالکل صاف تھا اور آسمان پر بادل کا نام ونشان تک نہ تھا.مگر ابھی ہم بٹالہ کے راستہ میں یکہ میں بیٹھ کر تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ سامنے سے ایک بادل اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر چھا گیا اور پھر اس زور کی بارش ہوئی کہ رستے کے کناروں پر مٹی اٹھانے کی وجہ سے جو خندقیں بنی ہوئی تھیں ، وہ پانی سے لبالب بھر گئیں.اس کے بعد ہمارا یکہ جو ایک طرف کی خندق کے پاس پاس چل رہا تھا یک لخت الٹا اور اتفاق ایسا ہوا کہ منشی اروڑا صاحب خندق کی طرف کو گرے اور میں اونچے راستے کی طرف گرا.جس کی وجہ سے منشی صاحب کے اوپر اور نیچے سب پانی ہی پانی ہو گیا اور میں بچ رہا.چونکہ خدا کے فضل سے چوٹ کسی کو بھی نہیں آئی تھی.میں نے منشی اروڑا صاحب کو اوپر اٹھاتے ہوئے ہنس کر کہا ”لو اوپر اور نیچے پانی کی اور دعائیں کروالو.“ اور پھر ہم حضرت صاحب کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے آگے روانہ ہو گئے.۲۴

Page 499

مضامین بشیر ۴۹۲ بے نظیر اخلاص و ایثار دوسری روایت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم یہ بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ اوائل زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لدھیانہ میں کسی ضروری تبلیغی اشتہار کے چھپوانے کے لئے ساٹھ روپے کی ضرورت پیش آئی.اس وقت حضرت صاحب کے پاس اس رقم کا انتظام نہیں تھا اور ضرورت فوری اور سخت تھی.منشی صاحب کہتے تھے کہ میں اس وقت حضرت صاحب کے پاس لدھیانہ میں اکیلا آیا ہوا تھا.حضرت صاحب نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ اس وقت یہ اہم ضرورت درپیش ہے.کیا آپ کی جماعت اس رقم کا انتظام کر سکے گی.میں نے عرض کیا ”حضرت انشاء اللہ کر سکے گی.اور میں جا کر روپے لاتا ہوں.چنانچہ میں فوراً کپورتھلہ گیا اور جماعت کے کسی فرد سے ذکر کرنے کے بغیر اپنی بیوی کا ایک زیور فروخت کر کے ساٹھ روپے حاصل کئے اور حضرت صاحب کی خدمت میں لاکر پیش کر دئیے.حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور جماعت کپورتھلہ کو ( کیونکہ حضرت صاحب یہی سمجھتے تھے کہ اس رقم کا جماعت نے انتظام کیا ہے ) دعا دی.چند دن کے بعد منشی اروڑا صاحب بھی لدھیانہ گئے تو حضرت صاحب نے ان سے خوشی کے لہجہ میں ذکر فرمایا کہ منشی صاحب اس وقت آپ کی جماعت نے بڑی ضرورت کے وقت امداد کی.منشی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ”حضرت کون سی امداد مجھے تو کچھ پتہ نہیں ؟ حضرت صاحب نے فرمایا.” یہی جو منشی ظفر احمد صاحب جماعت کپورتھلہ کی طرف سے ساٹھ روپے لائے تھے.منشی صاحب نے کہا حضرت منشی ظفر احمد نے مجھ سے تو اس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی جماعت سے ذکر کیا اور میں ان سے پوچھوں گا کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا.اس کے بعد منشی اروڑا صاحب میرے پاس آئے اور سخت ناراضگی میں کہا کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور تم نے مجھ سے ذکر نہیں کیا.میں نے کہا "منشی صاحب تھوڑی سی رقم تھی اور میں نے اپنی بیوی کے زیور سے پوری کر دی.اس میں آپ کی ناراضگی کی کیا بات ہے.مگر منشی صاحب کا غصہ کم نہ ہوا اور وہ برابر یہی کہتے رہے کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی تھی اور تم نے یہ ظلم کیا کہ مجھے نہیں

Page 500

۴۹۳ بتا یا اور پھر منشی اروڑا صاحب چھ ماہ تک مجھ سے ناراض رہے.اللہ اللہ ! یہ وہ فدائی لوگ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا ہوئے.ذرا غور فرمائیں کہ حضرت صاحب جماعت سے امداد طلب فرماتے ہیں مگر ایک اکیلا شخص اور غریب شخص اٹھتا ہے اور جماعت سے ذکر کرنے کے بغیر اپنی بیوی کا زیور فر وخت کر کے اس رقم کو پورا کر دیتا ہے اور پھر حضرت صاحب کے سامنے رقم پیش کرتے ہوئے یہ ذکر تک نہیں کرتا کہ یہ رقم میں دے رہا ہوں یا کہ جماعت تا کہ حضرت صاحب کی دعا ساری جماعت کو پہنچے اور اس کے مقابل پر دوسرا فدائی یہ معلوم کر کے کہ ا حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور میں اس خدمت سے محروم رہا.ایسا پیچ و تاب کھا تا ہے کہ اپنے دوست سے چھ ماہ تک ناراض رہتا ہے کہ تم نے حضرت صاحب کی اس ضرورت کا مجھ سے ذکر کیوں نہیں کیا.۲۵ آسمان احمدیت کے درخشندہ ستارے یہ وہ عشاق حق کا گر وہ تھا جو احمدیت کے آسمان پرستارے بن کر چمکا اور اب ایک ایک کر کے غروب ہوتا جا رہا ہے.ہم نے ان ستاروں کو بلند ہوتے دیکھا اور اب انہیں غروب ہوتے دیکھ رہے ہیں لیکن پھر بھی ہم میں سے کتنوں کا دل پسیجا ہے؟ کتنوں کے سینوں میں وہ آگ سلگی ہے جو خدا کی محبت کو کھینچتی اور گناہوں کی آلائش کو جلا کر خاک کر دیتی ہے؟ اے اللہ تو رحم کر.اے اللہ تو رحم کر ! یاران تیز گام نے محمل کو جالیا ہم مجو نالہ جرس کارواں میں نے کچھ اور بھی لکھنا تھا.مگر اب نہیں لکھتا نہیں لکھ سکتا ! رہے مطبوعه الفضل ۹ ستمبر ۱۹۴۱ء) مضامین بشیر

Page 501

مضامین بشیر ۴۹۴ رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھانے کا طریق رمضان کا مبارک مہینہ اور اس کی برکات غالباً کوئی مسلمان کہلانے والا شخص اس بات سے ناواقف نہیں ہوگا کہ رمضان کا مہینہ ایک نہائت ہی مُبارک مہینہ ہے مگر بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ اس کی برکتوں سے عملاً اور تفصیلاً کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے بلکہ بعض لوگ تو اس بات سے بھی واقف نہیں کہ رمضان کا مہینہ کیونکر اور کس وجہ سے مبارک ہے.اور ظاہر ہے کہ جب تک انسان کو کسی چیز کی برکت کا باعث معلوم نہ ہو اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جب تک انسان کسی با برکت چیز سے فائدہ اٹھانے کا طریق نہ جانتا ہو، اس کے لئے اس کی برکت خواہ وہ کتنی ہی عظیم الشان ہو.ایک کھیل بلکہ ایک موہوم چیز سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی.کسی شاعر نے کہا ہے اور کیا خوب کہا ہے کہ ؎ ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی ہے د یعنی اگر کوئی شخص اپنی جگہ ابن مریم کا مرتبہ رکھتا ہے.( جن کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ بیماروں کو صرف ہاتھ لگا کر اچھا کر دیتے تھے ) لیکن مجھے اس شخص سے شفا حاصل نہیں ہوتی اور میرا دکھ ویسے کا ویسا رہتا ہے تو میرے لئے اس شخص کا ابن مریم ہونا کیا خوشی کا موجب ہوسکتا ہے.مجھے تو اس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی شخص میرے دُکھ کو دور کرے.“ ماہ رمضان کی شہادت قیامت کے دن بعینہ اسی طرح اگر رمضان کا مہینہ مبارک ہے اور وہ یقیناً مُبارک ہے اور بہت مبارک ہے لیکن ہم اس کی برکتوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے یا نہیں اٹھاتے تو اس کا مبارک ہونا ہمارے کس کام کا ہے بلکہ اس صورت میں یہی مبارک مہینہ قیامت کے دن ہمارے خلاف شہادت کے طور پر پیش ہو گا کہ : - غالب

Page 502

۴۹۵ مضامین بشیر خدا نے ہمارے لئے اس کا موقع میتر کیا مگر ہم پھر بھی اس کی برکتوں سے محروم رہے.رمضان کا چاند آیا اور برا برتمیں دن تک ہر مومن مسلمان کے دروازہ کو کھٹکھٹا تا پھرا اور اس کے ساتھ خدا کی نعمتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ تھا جسے وہ گویا محض مانگنے پر تقسیم کرنے کو تیار تھا مگر بہت کم لوگوں نے اس کے لئے دروازہ کھولا اور تمہیں دن کے بعد وہ اپنا بوریا بستر باندھ کر پھر آسمان کی طرف اُٹھ گیا اور خدا کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ تیرے بندے تیری نعمتوں کی قدر کو نہیں پہچانتے.میں نے تیری طرف سے تیرے ہر بندے کے سامنے تیرے انعاموں کو پیش کیا مگر سوائے چند گنتی کے لوگوں کے میں نے سب کو سوتے ہوئے پایا اور وہ میرے جگانے پر بھی نہیں جاگے.میں نے انہیں ہوشیار کیا اور ہلایا اور جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کی مگر وہ بیدار نہ ہوئے.میں نے انہیں آوازیں دیں اور بتایا کہ دیکھو میں تمہارے خدا کی طرف سے تمہارے لئے ایک تحفہ لایا ہوں مگر انہوں نے آنکھ تک نہ کھولی بلکہ میری طرف سے کروٹ بدل کر پھر گہری نیند کے سمندر میں غرق ہو گئے.رمضان کے مہینہ کی یہ شہادت جو ہرست اور غافل اور بے دین شخص کے خلاف قیامت کے دن پیش ہونے والی ہے کس قدر ہولناک اور کس قدر ہیبت ناک اور کس قدر دل ہلا دینے والی ہے مگر پھر بھی بہت ہی کم لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہیں اور ہم میں سے اکثر کا یہی حال ہے کہ جس حالت میں ہمیں رمضان پاتا ہے اسی حالت میں بلکہ اس سے بھی بدتر حالت میں ہمیں چھوڑ کر واپس چلا جاتا ہے اور ہم اپنے مہربان آقا و مالک سے ویسے کے ویسے ہی دور رہتے ہیں.یہ وہ جذبات ہیں جو اس رمضان کے مہینہ میں میرے دل میں پیدا ہوئے.بلکہ پیدا ہورہے ہیں اور میں نے مناسب خیال کیا کہ ایک نہایت مختصر مضمون کے ذریعہ سب سے پہلے اپنے آپ کو اور اس کے بعد اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بتاؤں کہ رمضان کی برکتیں کیا ہیں اور ان سے کس طرح اور کس رنگ میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.رمضان کی سب سے بڑی خصوصیت.سو جاننا چاہیئے کہ رمضان کی سب سے بڑی خصوصیت جس کی وجہ سے اسے خدا کی نظر میں خاص برکت حاصل ہے ، یہ ہے کہ وہ اسلام کی پیدائش کا مہینہ ہے کیونکہ جیسا کہ قرآن شریف نے بتایا ہے اور حدیث اور تاریخ سے تفصیلاً ثابت ہے قرآن شریف کے نزول کی ابتداء اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی وحی جس سے اسلام کی بنیاد قائم ہوئی.رمضان ہی کے مبارک مہینہ میں ہوئی تھی.پس یہ مہینہ گویا اسلام کی سالگرہ کا مہینہ ہے.یعنی وہ مہینہ جس میں خدا کی آخری

Page 503

مضامین بشیر ۴۹۶ اور کامل و مکمل شریعت جس نے خدا کے بھٹکے ہوئے بندوں کو خدا کے قریب تر لانا تھا اور جس کے ذریعہ دنیا میں روحانیت کے دروازے زیادہ سے زیادہ فراخ صورت میں کھلنے والے تھے ، نازل ہونی شروع ہوئی.دُنیا میں مختلف قوموں نے اپنے لئے خاص خاص دن مقرر کر رکھے ہیں.جو گویا ان کی قومی تاریخ میں خاص یادگار سمجھے جاتے ہیں اور ان دنوں کو خاص خوشی اور خاص شان کے سے منایا جاتا ہے تا کہ اس ذریعہ سے لوگوں میں قومی زندگی کی روح کو تازہ رکھا جا سکے مگر غور کیا جائے تو ان دنوں کی خوشی اس عظیم الشان دن کی خوشی کے مشابہ کیا حقیقت رکھتی ہے.جبکہ خدائے زمین و آسمان نے اپنی آخری شریعت کو دنیا پر نازل فرمایا جس کے اختتام پر یہ الہی بشارت جلوہ افروز ہونے والی تھی کہ اليَومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِينًا ۲۶.سچ پوچھو تو دنیا میں اگر کوئی دن منانے کے قابل تھا تو وہ یہی تھا کہ جب خدا کی اس آخری اور کامل و مکمل شریعت کے نزول کا آغاز ہوا اور انسان کے پیدا کئے جانے کی غرض جہاں تک کہ خدا کے فعل کا تعلق تھا پوری ہوگئی.پس رمضان کی سب سے پہلی سب سے بڑی اور سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اسلام کی پیدائش کا دن ہے.ہاں وہی اسلام جو ہماری انفرادی اور قومی زندگی کی روح و رواں اور ہمیں اپنے خالق و مالک کے ساتھ باند ھنے کی آخری زنجیر ہے.خدا اپنے بندوں کے بالکل قریب ہے اس کے بعد دوسری خصوصیت رمضان کو یہ حاصل ہے اور یہ خصوصیت گویا پہلی خصوصیت کا ہی نتیجہ اور تمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق مومنوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں اس مبارک مہینہ میں اپنے بندوں کے بالکل قریب ہو جایا کروں گا اور ان کی دعاؤں کو خصوصیت سے سنوں گا.یہ وعدہ قرآن شریف میں نہایت واضح الفاظ میں موجود ہے.اور حدیث میں بھی اس کا نہائت نمایاں طور پر ذکر آتا ہے.اور یہ وعدہ ایسا ہی ہے جیسے کہ بڑے بڑے بادشاہ اپنی سلطنتوں کے خاص یادگار والے ایام میں جبکہ وہ کوئی خاص جشن مناتے ہیں اپنی رعایا میں غیر معمولی طور پر انعام و اکرام تقسیم کیا کرتے ہیں.پس خدا نے بھی جو ارحم الراحمین ہے اس بات کو پسند فرمایا کہ وہ اپنے پیارے مذہب کی سالگرہ کے موقع پر اپنے خزانوں کا مونہ کھول کر اپنے انعاموں کے حلقہ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کر دے.چنانچہ فرماتا ہے : - إِذَا سَالَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّى قَرِيبٌ ُأجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ

Page 504

۴۹۷ مضامین بشیر فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي.۲۷ د یعنی اے رسول جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں کہ رمضان میں میری صفات کا کس طرح ظہور ہوتا ہے تو تو ان سے کہدے کہ میں رمضان میں اپنے بندوں کے قریب تر ہو جاتا ہوں اور میں پکارنے والے کی پکار کوسنتا اور اس کا جواب دیتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ پکارنے والا میرے احکام کو مانے اور مجھ پر ایمان لائے.قریب ہونے سے مراد اس جگہ قریب ہونے سے یہ مراد نہیں کہ گویا خدا کی ذات لوگوں کے قریب ہو جاتی ہے کیونکہ خدا کوئی مادی چیز نہیں ہے کہ اس کی ذات قریب ہو سکے.بلکہ مراد یہ ہے کہ خدا کی صفت رحم خاص طور پر جوش میں آکر بندوں کے قریب تر ہو جاتی ہے.علاوہ ازیں اسلام یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں ایک رات ایسی آیا کرتی ہے اس کی ایک گھڑی میں خدائی رحمت اور صفت قبولیت دعا کا غیر معمولی جوش کے ساتھ اظہار ہوتا ہے.اس رات کو اسلامی اصطلاح میں لیلۃ القدر کہتے ہیں اور وہ عموماً طاق راتوں میں سے کوئی رات ہوتی ہے اور اس کا تعین وقت اس لئے پردہ میں رکھا گیا ہے تا کہ لوگ اس کی جستجو میں زیادہ سے زیادہ عبادت کر سکیں.اب غور کرو کہ جس ذات والا صفات کی صفت رحمت پہلے سے ہی اس کی ہر دوسری صفت پر غالب ہے.وہ اپنی رحمت کے خاص لمحات میں کس قدر رحیم و کریم ہو گا.پس یہ دوسری خصوصیت ہے جو رمضان کو حاصل ہے کہ اس میں خدا کی صفت رحمت کا خاص طور پر ظہور ہوتا ہے اور مومنوں کی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں.خاص عبادتیں ان دو برکتوں کے علاوہ رمضان کو ایک تیسری برکت یہ بھی حاصل ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے بعض خاص عبادتیں مقرر فرما دی ہیں.مثلاً روزہ ، تراویح اور اعتکاف وغیرہ جن کی وجہ سے یہ مہینہ گویا ایک خاص عبادت کا مہینہ بن گیا ہے اور ظاہر ہے کہ جو زمانہ خاص عبادت میں گزرے گا ، وہ لازماً خدا کی طرف سے خاص برکات کا جاذب اور خاص برکات کا حامل بن جائے گا.

Page 505

مضامین بشیر ۴۹۸ رحمت اور برکت کا لطیف چکر رمضان کی یہ صفت گویا ایک گونہ دوری کا رنگ رکھتی ہے.یعنی رمضان کی خاص برکات کی وجہ سے اس میں خاص عبادتیں مقرر کی گئیں اور پھر ان خاص عبادتوں کی وجہ سے رمضان نے مزید خاص برکتیں حاصل کیں.گویا رحمت و برکت کا ایک لطیف چکر قائم ہو گیا.الغرض یہ وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے رمضان کا مہینہ خاص طور پر مبارک مہینہ قرار دیا گیا ہے اور مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ اس مہینہ کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں تا کہ رحمت و برکت کا یہ لطیف چکر زیادہ سے زیادہ وسیع ہوتا چلا جائے.برکات رمضان سے فائدہ اٹھانے کا طریق اب سوال ہوتا ہے کہ رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کا طریق کیا ہے.سو یہ کوئی مشکل سوال نہیں اور اسلام نے اسے نہائت سہل طریق پر چند سادہ ہدایات دے کر حل کر دیا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ اکثر لوگ صرف مونہہ کی خواہش سے تمام مراحل طے کرنا چاہتے ہیں اور دین کی راہ میں کسی چھوٹی سے چھوٹی قربانی کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے.بہر حال اسلام نے رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کا جو طریق بتایا ہے اسے ہم ذیل کے چند مختصر فقروں میں ہدیہ ناظرین کرتے ہیں.بغیر شرعی عذر کے روزہ نہ ترک کیا جائے اول : رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھائے کے لئے سب سے ابتدائی اور سب سے ضروری شرط یہ ہے کہ انسان خدا کے حکم کے مطابق رمضان کے روزے رکھے اور بغیر کسی شرعی عذر کے کوئی روزہ ترک نہ کرے.روزہ رمضان کی برکات کے لئے گویا بطور ایک کلید کے ہے اور جو شخص با وجود روزہ واجب ہونے کے بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ ترک کرتا ہے ، وہ ہرگز اس بات کا حق نہیں رکھتا کہ رمضان کی برکتوں سے کوئی حصہ پائے.ہاں جو شخص کسی جائز شرعی عذر کی وجہ سے روزہ ترک کرتا ہے مثلاً وہ واقعی بیمار ہے یا سفر میں ہے وغیر ذالک اور محض حیلہ جوئی کے رنگ میں روزہ ترک کرنے کا طریق اختیار نہیں کرتا ، تو ایسا شخص شریعت کی نظر میں معذور ہے اور اس صورت میں وہ اگر رمضان کی دوسری شرائط کو پورا کر دیتا ہے تو وہ روزہ کے بغیر بھی رمضان کی

Page 506

۴۹۹ مضامین بشیر برکتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.روزہ نفس کی اصلاح اور روحانی ترقی کے لئے عجیب وغریب اثر رکھتا ہے اور یقیناً وہ شخص بہت ہی بد قسمت ہے جو محض حیلہ جوئی کے رنگ میں روزہ جیسی نعمت سے اپنے آپ کو محروم کر لیتا ہے.مگر جیسا کہ ہر عمل کے ساتھ اچھی نیت کا ہونا ضروری ہے.اسی طرح روزہ میں بھی اچھی نیت از بس ضروری ہے.جس کے بغیر کوئی روزہ خدا کی نظر میں مقبول نہیں ہو سکتا.پس روزہ ایسا ہونا چاہئے کہ اس میں عادت یا دکھاوے کا قطعاً دخل نہ ہو.بلکہ خالصتہ خدا کی رضا جوئی کے لئے رکھا جائے اور وہ اس دعا کی عملی تفسیر ہو جو روزہ کھولنے کے وقت کی جاتی ہے کہ اللهمَّ لَكَ صُمْتُ وَ عَلَى رِزْقِكَ اَفْطَرُتُ.۲۸.یعنی اے میرے آقا میں نے یہ روزہ صرف تیری رضا کی خاطر رکھا تھا اور اب 66 تیرے ہی دیئے ہوئے رزق پر اس روزہ کو کھول رہا ہوں.“ علاوہ ازیں حدیث میں آتا ہے کہ ہر عمل کی ایک روح ہوتی ہے اور روزہ کی روح یہ ہے کہ جس طرح انسان روزہ میں خدا کی خاطر کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ ملنے سے پر ہیز کرتا ہے.اور اس طرح گویا اپنی ذاتی اور نسلی زندگی ہر دو کو خدا کے لیئے قربانی کر دیتا ہے.اسی طرح وہ صرف روزہ کی ظاہری شکل وصورت میں ہی نہ اُلجھار ہے بلکہ رمضان کے مہینہ میں اپنے اعمال کو کلیۂ خدا کی رضا کے ماتحت لگا دے.ایسا روزہ یقینا رمضان کی برکات کے حصول کے لئے ایک زبر دست ذریعہ ہے.جس سے گویا انسان کے لئے خدائی خزانوں کے مونہہ کھل جاتے ہیں.تہجد اور نوافل کی طرف زیادہ توجہ دی جائے دوم : دوسری شرط رمضان کی برکات فائدہ اٹھانے کی یہ ہے کہ انسان رمضان میں نوافل نماز کی طرف زیادہ توجہ دے یعنی علاوہ اس کے کہ پنجگانہ نماز کو پوری پوری شرائط کے ساتھ ادا کرے.نوافل کی طرف بھی خاص توجہ دے اور خصوصاً نماز تہجد کا بڑی سختی کے ساتھ التزام کرے.دراصل نماز تہجد ایک بہت ہی بابرکت نماز ہے جو روحانی ترقیات کے لئے گویا اکسیر کا حکم رکھتی ہے اور اسی لئے رمضان میں اس کا خاص حکم دیا گیا ہے.اصل تہجد کی نماز تو یہ ہے کہ انسان رات کے پچھلے حصہ میں اُٹھ کر نماز ادا کرے مگر رمضان کے مہینہ میں اس انعام کو وسیع کرنے کے لئے کمز ور لوگوں کے واسطے یہ سہولت کر دی گئی ہے کہ وہ عشاء کی نماز کے بعد بھی تراویح کی صورت میں نماز ادا کر سکتے ہیں مگر یہ ایک ادنیٰ مرتبہ ہے اور رمضان کی اصل تراویح یہی ہے کہ رات کے پچھلے حصہ میں اُٹھ کر نماز تہجد ادا کی جائے.

Page 507

مضامین بشیر ۵۰۰ قرآن شریف میں تہجد کی اتنی تعریف آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تہجد کی نماز کو پوری شرائط اور پورے خلوص کے ساتھ ادا کرنے سے انسان خدا کی نظر میں مقام محمود تک پہونچ جاتا ہے.یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر انسان کے لئے علیحدہ علیحدہ مقام محمود مقرر ہے ، جو گویا اس کی روحانی ترقی کا انتہائی نقطہ ہے جس تک پہونچ کر وہ خدا کی نظر میں اس تعریف کا مستحق ہو جاتا ہے کہ اب میرے اس بندے نے اپنی فطری استعداد کے مطابق اپنی روحانی ترقی کے انتہائی نقطہ کو پالیا اور تہجد کی نما ز انسان کو اس کے مقام محمود تک پہونچانے میں حد درجہ مؤثر ہے.تلاوت قرآن کریم زیادہ کی جائے سوم : تیسری شرط رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی یہ ہے کہ انسان رمضان کے مہینہ میں قرآن شریف کی تلاوت پر خاص زور دے.میں اپنے ذوق کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ انسان کو رمضان کے مہینہ میں کم از کم دو دفعہ قرآن شریف کا دور ختم کرنا چاہیئے.دو دفعہ میں حکمت یہ ہے کہ جب انسان ایک دفعہ قرآن شریف ختم کر کے پھر ا سے دوسری مرتبہ شروع کرتا ہے تو وہ گویا زبانِ حال سے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ قرآن شریف کے متعلق میرا طریق یہ نہیں ہوگا کہ میں اسے ایک دفعہ پڑھ لوں اور پھر بھول جاؤں یا بند کر کے رکھ دوں بلکہ میں اسے بار بار تکرار کے ساتھ پڑھتا رہوں گا اور اس کے حکموں کو ہر وقت اپنی نظروں کے سامنے رکھوں گا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ابتداء میں حضرت جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر رمضان میں قرآن شریف کا ایک دور ختم کیا کرتے تھے لیکن جب قرآن شریف کا نزول مکمل ہو چکا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری رمضان میں حضرت جبرائیل نے آپ کے ساتھ قرآن شریف کا دو دفعہ دور کیا ۲۹.پس چونکہ ہمارے سامنے بھی قرآن شریف مکمل صورت میں ہے اس لئے اگر انسان کو توفیق ملے تو رمضان میں قرآن شریف کے دو دور پورے کرنے چاہئیں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے.میں نے اندازہ کیا ہے کہ اگر انسان اوسطاً پچاس منٹ روزانہ دے تو وہ آسانی کے ساتھ قرآن شریف کے دود ورختم کر سکتا ہے.تلاوت قرآن کے متعلق ضروری امور علاوہ ازیں قرآن شریف کی تلاوت کے متعلق ہر مسلمان کو ذیل کی چار باتیں ضرور ملحوظ

Page 508

۵۰۱ مضامین بشیر رکھنی چاہئیں : - الف : جہاں کہیں قرآن شریف میں کوئی حکم امر کی صورت میں آئے.یعنی کسی بات کا مثبت صورت میں حکم دیا جائے کہ ایسا کرو تو انسان کو اس جگہ رک کر اپنے دل میں یہ غور کرنا چاہیئے کہ کیا میں اس خدائی حکم پر عمل کرتا ہوں.اگر وہ عمل نہیں کرتا یا کمزوری دکھاتا ہے تو اپنے دل میں عہد کرے کہ میں آئیندہ اس حکم پر عمل کروں گا..ب : جہاں کہیں کوئی حکم نہی کی صورت میں آئے یعنی کسی بات کے متعلق منفی صورت میں حکم دیا جائے کہ یہ کام نہ کرو.تو اس وقت پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لئے رُک کر اپنے دل میں سوچے کہ کیا میں اس نہی سے رُکتا ہوں.اگر نہیں رکتا یا کمزوری دکھاتا ہے تو آئندہ اصلاح کا عہد کرے.ج : جہاں کہیں قرآن شریف میں خدا کی کسی رحمت یا انعام کا ذکر آئے تو اس وقت پڑھنے والا اپنے دل میں یہ دعا کرے کہ خدایا یہ رحمت اور یہ انعام مجھے بھی عطا فرما اور مجھے اس سعادت سے محروم نہ رکھ.و: اور جہاں کہیں قرآن شریف میں کسی عذاب یا سزا کا ذکر ہو تو انسان اس جگہ خدا سے استغفار کرے اور یہ دعا کرے کہ خدایا مجھے اس عذاب اور سزا سے محفوظ رکھیو اور اپنی ناراضگی کے موقعوں سے بچائیو.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر انسان ان چار باتوں کو مد نظر رکھ کر قرآن شریف کی تلاوت کرے گا اور اس کی نیت اچھی ہو گی تو وہ اس تلاوت سے خاص بلکہ اخص فائدہ اٹھائے گا.افسوس ہے کہ اکثر لوگ قرآن شریف کے نکات اور رموز کے در پے تو رہتے ہیں مگر اس کے عملی پہلو کی طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں.حالانکہ قرآن شریف کا عملی پہلو اس کے نکات اور رموز کی نسبت بہت زیادہ قابلِ توجہ ہے.بیشک عالم لوگوں اور مذہبی مجادلات میں حصہ لینے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ قرآن شریف کے حکمت و فلسفہ اور اس کے علمی خزانوں کی طرف بھی توجہ دیں مگر وہ بات جس کی ہر متنفس کو ضرورت ہے جس کے بغیر انسان کی روحانی زندگی قائم ہی نہیں رہ سکتی ، وہ قرآن شریف کا عملی پہلو ہے.اور یہ عملی پہلو صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے کہ جب قرآن شریف کو مندرجہ بالا چار شرائط کے ساتھ مطالعہ کیا جائے.زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کیا جائے چهارم : چوتھی بات جو رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھانے میں از بس مفید و مؤثر ہے، یہ ہے

Page 509

مضامین بشیر ۵۰۲ کہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کیا جائے.صدقہ وخیرات انسان کی جسمانی اور روحانی تکالیف کو دُور کرنے اور خدا کے فضل اور رحم کو جذب کرنے میں گو یا اکسیر کا حکم رکھتا ہے.جو نہی کہ ایک شخص خدا کے کسی مصیبت زدہ بندے کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو خدا اپنے ازلی فیصلہ کے مطابق اس کے اس فعل کو گویا خود اپنے اوپر ایک احسان خیال کرتا ہے اور اس پر فوراً خدائی قدرت نمائی کی وسیع مشینری اس بندے کی تائید میں حرکت کرنے لگتی ہے.حدیث میں آتا ہے اِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ ٣٠ یعنی صدقہ خدا کے غضب کو دُور کرتا ہے.تو پھر اس صدقہ کا کیا کہنا ہے جو رمضان جیسے مبارک مہینہ میں خالص خدا کی رضا کے لئے کیا جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قاعدہ تھا کہ رمضان میں اتنا صدقہ کرتے تھے کہ صحابہ نے آپ کے اس صدقہ کو ایک ایسی تیز ہوا سے تشبیہ دی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی اسے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ رمضان میں اتنا صدقہ کرتے تھے کہ اس صدقہ میں اپنی طاقت اور ہمت کو بھی بھول جاتے تھے اور صدقہ میں آپ کا ہاتھ اس طرح چلتا تھا جس طرح ایک تیز آندھی تمام قیود و بند سے آزاد ہو کر چلتی ہے.واقعی رمضان میں صدقہ و خیرات خدا کی نظر میں بہت ہی بڑا مرتبہ رکھتا ہے.اور اس سے رمضان کی برکت کو چار چاند لگ جاتے ہیں مگر صدقہ میں یہ بات ضرور مد نظر رکھنی چاہیئے کہ جو لوگ واقعی حاجت مند ہیں انہیں تلاش کر کر کے مدد پہونچائی جائے.مثلاً کوئی یتیم ہے اور وہ خرچ سے لاچار ہے.کوئی بیوہ ہے اور وہ تنگ دست ہے کوئی غریب ہے اور وہ گزارہ کی صورت نہیں رکھتا.کوئی بیمار ہے اور اسے علاج کی طاقت حاصل نہیں.کوئی مسافر ہے اور زادراہ سے محروم ہے.کوئی مقروض ہے اور قرض ادا کرنے سے قاصر ہے.وغیرہ وغیرہ.ان لوگوں کو تلاش کر کر کے صدقہ پہونچایا جائے اور ایسے رنگ میں پہونچایا جائے کہ اس میں کوئی صورت من وادی کی نہ پیدا ہو بلکہ اگر خدا کسی کو توفیق دے تو صدقہ کا بہتر مقام یہ ہے کہ صدقہ دینے والا صدقہ قبول کرنے والے کا احسان خیال کرے کہ اس کے ذریعہ مجھے خدا کے رستہ میں نیکی کی توفیق ملی رہی ہے.پھر صدقہ وخیرات کے حلقہ میں جانوروں تک کو شامل کرنا چاہیئے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِيدٍ حَرَّى أَجْرًا ۳۲ یعنی ہر زندہ جگر رکھنے والی چیز پر رحم کرنے میں خدا کی طرف سے اجر ملتا ہے.خواہ وہ انسان ہو یا حیوان.یہ سوال کہ صدقہ کتنا ہو اس کے متعلق شریعت نے کوئی حد بندی نہیں مقرر کی.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا عشق رکھنے والوں کے لئے آپ کا یہ نمونہ کافی ہے کہ صدقہ میں انسان کا ہاتھ ایک تیز آندھی کی طرح چلنا چاہیئے.لیکن میں اپنے ذوق کے مطابق عام لوگوں کے لئے یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر رمضان میں اپنی آمدنی کا دسواں حصہ

Page 510

۵۰۳ مضامین بشیر صدقہ دے دیا جائے تو مناسب ہے مثلاً اگر کسی شخص کی ماہوار آمد ایک سو روپیہ ہے تو اس کے لئے مناسب ہے کہ رمضان میں دس روپے صدقہ کر دے.خدا کے راستہ میں قربانی کرنے والے لوگوں کے لئے یہ رقم یقیناً زیادہ نہیں ہے.اور پھر یہ تو ایک کھیتی ہے جتنا زیادہ بوؤ گے اسی نسبت سے زیادہ اُگے گا اور اسی نسبت سے زیادہ کاٹو گے.ہر انسان کے اردگرد کے بے شمار غریب اور مسکین اور یتیم اور مصیبت زدہ اور بیمار وغیرہ بستے ہیں.رمضان میں ان کی تکلیف کو دور کرنا خدا کی رحمت کو ایسی مضبوط زنجیر کے ساتھ کھینچنے کا حکم رکھتا ہے، جس کے ٹوٹنے کا خدا کے فضل سے کوئی اندیشہ نہیں.اعتکاف رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کا ایک طریق اعتکاف بھی ہے.جس کا قرآن شریف میں مجملاً اور احادیث میں تفصیلاً ذکر آتا ہے.مسنون اعتکاف یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں کسی مسجد میں ڈیرہ لگا دیا جائے اور سوائے حوائج انسانی یعنی پیشاب پاخانہ وغیرہ کی ضرورت کے مسجد سے باہر نہ نکلا جائے اور یہ دس دن رات خصوصیت کے ساتھ نماز اور قرآن خوانی اور ذکر اور دعا وغیرہ میں گزارے جائیں.گویا انسان ان ایام میں دنیا سے کٹ کر خدا کے لئے کلیۂ وقف ہو جائے.اعتکاف فرض نہیں ہے بلکہ ہر انسان کے حالات اور توفیق پر موقوف ہے مگر اس میں شبہ نہیں کہ جس شخص کے حالات اجازت دیں اور اسے اعتکاف کی توفیق میسر آئے اس کے لئے یہ طریق قلب کی صفائی اور روحانی ترقی کے واسطے بہت مفید ہے لیکن جس شخص کو اعتکاف کی توفیق نہ ہو یا اس کے حالات اس کی اجازت نہ دیں تو اس کے لئے یہ طریق بھی کسی حد تک اعتکاف کا مقام ہوسکتا ہے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں اپنے اوقات کا زیادہ سے زیادہ حصہ مسجد میں گزارے اور یہ وقت نماز اور قرآن خوانی اور ذکر اور دعا وغیرہ میں صرف کرے.بے شک اعتکاف کے بدلہ میں یہ کوئی مسنون طریق نہیں ہے لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کی تعریف فرمائی ہے جس کا دل مسجد میں آویزاں رہتا ہے.اس لئے یہ طریق بھی اگر حسن نیت سے کیا جائے تو فائدہ سے خالی نہیں ہوسکتا.نفس کا محاسبہ کیا جائے ششم : چھٹی بات یہ ہے کہ انسان رمضان میں اپنی زندگی کو خصوصیت کے ساتھ رضائے البی کے ماتحت چلائے اور اپنے نفس کا بار بار محاسبہ لیتا رہے کہ کیا میرے اوقات خدا کے منشاء کے ماتحت

Page 511

مضامین بشیر ۵۰۴ گزر رہے ہیں یا نہیں.ایسا محاسبہ ہر وقت ہی مفید ہوتا ہے اور کوئی سچا مومن محاسبہ سے غافل نہیں ہوسکتا کیونکہ محاسبہ انسان کو غفلت سے محفوظ رکھتا اور آئندہ کے لئے ہوشیار کرنے کا باعث ہوتا ہے.مگر رمضان کے مہینہ میں یہ محاسبہ زیادہ کثرت اور زیادہ التزام کے ساتھ ہونا چاہیئے.مثلاً اگر ہر شخص رمضان میں یہ التزام کرے کہ ہر نماز کے وقت اپنے دل میں یہ محاسبہ کیا کرے کہ کیا میں نے اس سے پہلی نماز کے بعد سے لے کر اس نماز تک اپنا وقت خدا کی رضا میں گزارا ہے اور کیا میں نے اس عرصہ میں کوئی بات منشاء الہی کے خلاف تو نہیں کی تو یقیناً ایسا محاسبہ نفس کی اصلاح کے لئے بہت مفید ہوسکتا ہے اور اس طرح گویا ایک رنگ میں انسان کی زندگی کا ہر لمحہ ہی عبادت بن جاتا ہے.اسی طرح بستر میں لیٹ کر سوتے وقت مسنون دعائیں کرنے سے انسان اپنے سونے کے اوقات کو بھی عبادت کا رنگ دے سکتا ہے اور انہیں اپنے لئے مبارک بنا سکتا ہے.دعا ہفتم : سب سے آخر میں رمضان کی برکتوں سے حصہ پانے کا طریق دعا ہے.رمضان کے ایام کا ماحول دعا کے لئے یقیناً ایک بہترین ماحول ہے.یہ مہینہ مسلمانوں کے لئے خاص عبادت کا مہینہ ہے.گویا ساری اسلامی دنیا اس مہینہ کو عملاً عبادت میں گزارتی ہے.اور مومنوں کی طرف سے اس مہینہ میں نماز اور روزہ اور تلاوت قرآن اور صدقہ وخیرات اور ذکر وغیرہ کے پاکیزہ اعمال اس کثرت اور تنوع کے ساتھ آسمان کی طرف چڑھتے ہیں کہ اگر وہ نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ کئے گئے ہوں تو یقیناً خدا کی خاص الخاص رحمت اور خاص الخاص فضل کو کھینچنے کا موجب ہوتے ہیں.پھر اگر ایسے موقع پر دعا زیادہ قبول نہ ہو تو کب ہو.علاوہ ازیں رمضان کے متعلق خدا تعالیٰ کا قرآن شریف میں مخصوص وعدہ بھی ہے کہ میں اس مہینہ میں اپنے بندوں کے بالکل قریب ہو جاتا ہوں اور اُن کی دعاؤں کو خاص طور پر سکتا ہوں.پس لا ریب یہ مہینہ خاص دُعاؤں کا مہینہ ہے اور جو شخص اس مبارک مہینہ میں اپنے آپ کو دُعاؤں سے محروم رکھتا ہے.وہ یقیناً ایک بہت ہی شقی اور بد بخت انسان ہے جو گویا ایک شیریں چشمہ کے مونہہ پر پہونچ کر پھر پیا سالوٹ جاتا ہے.علاوہ ازیں رمضان میں لیلتہ القدر کا واقع ہونا تو گویا سونے پر سہا گہ ہے.جس کی طرف سے کوئی سچا مومن غافل نہیں ہو سکتا مگر دُعا ان شرائط کے مطابق ہونی چاہیئے جو خدا تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر

Page 512

مضامین بشیر کر رکھی ہیں اور رمضان کی دُعاؤں کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے قبولیت کی شرائط کو ایک بہت ہی معین صورت دے دی ہے.چنانچہ فرماتا ہے :- 66 " فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ٣٣ یعنی ہم رمضان کے مہینہ میں اپنے بندوں کی دُعاؤں کو ضر ور قبول کریں گے مگر یہ شرط ہے کہ وہ میری بات مانیں.یعنی رمضان کے متعلق جو حکم میں نے دیا ہے اسے قبول کریں اور مجھ پر سچا ایمان لائیں.وہ ایمان پر محبت اور اخلاص پر مبنی ہو.اور اس میں کسی قسم کے نفاق اور شرک کی ملونی نہ پائی جائے ، ان شرطوں پر کار بند ہو کر وہ قبولیت کا رستہ ضرور پالیں گے.اب دیکھو کہ یہ ایک کیسا آسان سودا ہے جو خدا نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے.باقی رہا یہ امر کہ خدا کس صورت اور کس رنگ میں دُعا کو قبول فرماتا ہے.سو یہ خدا کی سُنت وحکمت پر موقوف ہے جس میں انسان کو دخل نہیں دینا چاہیئے.وہ جس رنگ اور جس صورت میں مناسب خیال کرے گا.ہماری دُعاؤں کو قبول کرے گا لیکن اگر ہم اس کی شرطوں کو پورا کر دیتے ہیں تو وہ قبول ضرور کریگا اور ممکن نہیں کہ اس کا وعدہ غلط نکلے.دعا کس طرح کی جائے دعاؤں کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ ہر دعا سے پہلے خدا کی حمد کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجنا اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے دعا مانگنا نہایت ضروری ہے.اور جو شخص ان دعاؤں کو ترک کرتا ہے ، وہ یقیناً خدا کا مخلص بندہ نہیں سمجھا جا سکتا.البتہ ان دعاؤں کے بعد اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لئے بھی دعائیں کی جائیں اور دعاؤں میں درد اور گداز پیدا کیا جائے.ایسا گداز جس سے دل پگھلنے لگے اسی طرح جس طرح ایک لوہے کا ٹکڑا بھٹی میں پگھلتا ہے تا کہ دعا ایک رسمی اور مردہ چیز نہ رہے بلکہ حقیقی اور زندہ چیز بن جائے.ایسی دعا موقوف ہے الہی توفیق پر اور پھر دعا کرنے والے کے حالات اور احساسات پر.ماہ صیام کی خدا کے حضورت شہادت یہ وہ چند باتیں ہیں جنہیں اختیار کر کے انسان رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یقیناً

Page 513

مضامین بشیر جو شخص ان باتوں کو خدا کی رضاء کے لئے اختیار کرے گا.اس کا رمضان اس کی کایا پلٹ دینے کے لئے کافی ہے.ایسے شخص کے متعلق رمضان کا چاند خدا کے حضور یہ شہادت دے گا کہ خدایا میں نے تیرے اس بندے کو جس حالت میں پایا اس سے بہت بہتر حالت میں اُسے چھوڑا.وَ ذَالِكَ فَوزُ عَظِيمٌ وَمَا التَّوفِيقُ إِلَّا بِاللَّهِ الرَّحِيمِ آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اے ہمارے آسمانی آقا ! ہم تیرے بہت ہی کمزور اور نالائق بندے ہیں.ہم تیری طرف سے انعام پر انعام دیکھتے ہیں اور کمزوری پر کمزوری دکھاتے ہیں تو ہمیں اوپر اٹھاتا ہے اور ہم نیچے کی طرف جھکتے ہیں.تو احسان کرتا ہے اور ہم ناشکری میں وقت گزارتے ہیں مگر پھر بھی ہم بہر حال تیرے ہی بندے ہیں.پس اگر تو یہ جانتا ہے کہ ہم با وجود اپنے لا تعداد گنا ہوں اور کمزوریوں کے تیری حکومت کے باغی نہیں اور تیری اور تیرے رسول اور تیرے مسیح کی محبت کو خواہ وہ کتنی ہی کمزور ہے اپنے دلوں میں جگہ دیئے ہوئے ہیں تو تو اس رمضان کو اور اس کے بعد آنے والے رمضانوں کو ہمارے لئے اور ہمارے عزیزوں اور دوستوں کے لئے اور ہماری نسلوں کے لئے جو آگے آنیوالی ہیں مبارک کر دے.اور ہمیں اپنا وفادار بندہ بنا.اور ہمیں اسلام اور احمدیت کی ایسی خدمت کی توفیق عطا کر جو تجھے خوش کرنے والی ہو.اور ہمارے انجام کو بخیر کر.امین یا ارحم الراحمین ( مطبوعه الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۴۱ء)

Page 514

۵۰۷ مضامین بشیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دوستوں اور دشمنوں سے سلوک دوستوں سے سلوک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسا دل عطا کیا تھا جو محبت اور وفا داری کے جذبات سے معمور تھا.آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کسی محبت کی عمارت کو کھڑا کر کے پھر اس کے گرانے میں کبھی پہل نہیں کی.ایک صاحب مولوی محمد حسین صاحب ٹبالوی آپ کے بچپن کے دوست اور ہم مجلس تھے مگر آپ کے دعوای مسیحیت پر آکر انہیں ٹھوکر لگ گئی اور انہوں نے نہ صرف دوستی کے رشتہ کو توڑ دیا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشد ترین مخالفوں میں سے ہو گئے اور آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ لگانے میں پہل کی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں آخر وقت تک ان کی دوستی کی یاد زندہ رہی اور گو آپ نے خدا کی خاطر ان سے قطع تعلق کر لیا اور ان کی فتنہ انگیزیوں کے ازالہ کے لئے ان کے اعتراضوں کے جواب میں زور دار مضامین بھی لکھے مگر ان کی دوستی کے زمانہ کو آپ کبھی نہیں بھولے اور ان کے ساتھ قطع تعلق ہو جانے کو ہمیشہ تلخی کے ساتھ یاد رکھا.چنانچہ اپنے آخری زمانہ کے اشعار میں مولوی محمد حسین صاحب کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں : قَطِعُتَ وداد قد غرسناه في الصبا وليس فؤادى فى الوداد يقصر ۳۴ یعنی تو نے تو اس محبت کے درخت کو کاٹ دیا جو ہم دونوں نے مل کر بچپن میں لگایا تھا میرا دل محبت کے معاملہ میں کوتا ہی کرنے والا نہیں ہے“.جب کوئی دوست کچھ عرصہ کی جدائی کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملتا تو اسے دیکھ کر آپ کا چہرہ یوں شگفتہ ہو جاتا تھا جیسے کہ ایک بند گلی اچانک پھول کی صورت میں کھل جاوئے اور دوستوں کے رخصت ہونے پر آپ کے دل کو از صدمہ پہنچتا تھا.ایک دفعہ جب آپ نے اپنے بڑے فرزند اور ہمارے بڑے بھائی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( موجود امام جماعت احمدیہ ) کے قرآن شریف ختم کرنے پر آمین لکھی اور اس تقریب پر بعض بیرونی دوستوں کو بھی بلا کر اپنی خوشی میں شریک فرمایا تو اس وقت آپ نے اس آمین میں اپنے دوستوں کے آنے کا ذکر بھی کیا اور پھر ان کے واپس

Page 515

مضامین بشیر ۵۰۸ جانے کا خیال کر کے اپنے غم کا بھی اظہار فرمایا.چنانچہ فرماتے ہیں مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانى دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے شکوہ کی کچھ نہیں جایہ گھر ہی بے بقا ہے یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ يَّرَانى ۳۵ اوائل میں آپ کا قاعدہ تھا کہ آپ اپنے دوستوں اور مہمانوں کے ساتھ مل کر مکان کے مردانہ حصہ میں کھانا تناول فرمایا کرتے تھے اور یہ مجلس اس بے تکلفی کی ہوتی تھی اور ہر قسم کے موضوع پر ایسے غیر رسمی رنگ میں گفتگو کا سلسلہ رہتا تھا کہ گویا ظاہری کھانے کے ساتھ علمی اور روحانی کھانے کا بھی دستر خوان بچھ جاتا تھا.ان موقعوں پر آپ ہر مہمان کا خود ذاتی طور پر خیال رکھتے اور اس بات کی نگرانی فرماتے کہ ہر شخص کے سامنے دستر خوان کی ہر چیز پہنچ جائے.عموماً ہر مہمان کے متعلق خود دریافت فرماتے تھے کہ اسے کسی خاص چیز مثلاً دودھ یا چائے یا پان وغیرہ کی عادت تو نہیں اور پھر حتی الوسع ہر ایک کے لئے اس کی عادت کے مطابق چیز مہیا فرماتے.جب کوئی خاص دوست قادیان سے واپس جانے لگتا تو آپ عموماً اس کی مشایعت کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو میل تک اس کے ساتھ جاتے اور بڑی محبت کے اور عزت کے ساتھ رخصت کر کے واپس آتے تھے.آپ کو یہ بھی خواہش رہتی تھی کہ جو دوست قادیان میں آئیں وہ حتی الوسع آپ کے پاس آپ کے مکان کے ایک حصہ میں ہی قیام کریں اور فرمایا کرتے تھے کہ زندگی کا اعتبار نہیں جتنا عرصہ پاس رہنے کا موقع مل سکے غنیمت سمجھنا چاہیئے اس طرح آپ کے مکان کا ہر حصہ گویا ایک مستقل مہمان خانہ بن گیا تھا اور کمرہ کمرہ مہمانوں میں بٹا رہتا تھا مگر جگہ کی تنگی کے باوجود آپ اس طرح دوستوں کے ساتھ مل کر رہنے میں انتہائی راحت پاتے تھے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ معززین جو آج کل بڑے بڑے وسیع مکانوں اور کوٹھیوں میں رہ کر بھی تنگی محسوس کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک ایک کمرہ میں سمٹے ہوئے رہتے تھے اور اس میں خوشی پاتے تھے.

Page 516

۵۰۹ مضامین بشیر قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد صاحب کے زمانہ کا ایک پھلدار باغ ہے جس میں مختلف قسم کے ثمر دار درخت ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ جب پھل کا موسم آتا تو اپنے دوستوں اور مہمانوں کو ساتھ لے کر اس باغ میں تشریف لے جاتے اور موسم کا پھل تڑوا کر سب دوستوں کے ساتھ مل کر نہایت بے تکلفی سے نوش فرماتے.اس وقت یوں نظر آتا تھا گویا ایک مشفق باپ کے ارد گرد اس کی معصوم اولا دگھیرا ڈالے بیٹھی ہے مگر ان مجلسوں میں کبھی کوئی لغو بات نہیں ہوتی تھی بلکہ ہمیشہ نہایت پاکیزہ اور اکثر اوقات دینی گفتگو ہوا کرتی تھی اور بے تکلفی اور محبت کے ما حول میں علم و معرفت کا چشمہ جاری رہتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلقات دوستی کے تعلق میں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ آپ کی دوستی کی بنیا داس اصول پر تھی کہ الحب فی الله والبغض فی اللہ یعنی دوستی اور دشمنی دونوں خدا کے لئے ہونی چاہئیں نہ کہ اپنے نفس کے لئے یا دنیا کے لئے.اسی لئے آپ کی دوستی میں امیر و غریب کا کوئی امتیاز نہیں تھا اور آپ کی محبت کے وسیع دریا سے بڑے اور چھوٹے ایک سا حصہ پاتے تھے.دوشمنوں سے سلوک قرآن شریف فرماتا ہے : وَلَا يَجُرٍ مَنْكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا.اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ للتقوى.٣٦ یعنی اے مسلمانو! چاہیئے کہ کسی قوم یا فرقہ کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان کے معاملہ میں عدل وانصاف کا طریق ترک کر دو بلکہ تمہیں ہر حال میں ہر فریق اور ہر شخص کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرنا چاہیئے.قرآن شریف کی یہ زریں تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا نمایاں اصول تھی.آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں کسی شخص کی ذات سے عداوت نہیں ہے بلکہ صرف جھوٹے اور گندے خیالات سے دشمنی ہے.اس اصل کے ماتحت جہاں تک ذاتی امور کا تعلق ہے آپ کا اپنے دشمنوں کے ساتھ نہایت درجہ مشفقانہ سلوک تھا اور اشد ترین دشمن کا درد بھی آپ کو بے چین کر دیتا تھا.چنانچہ جیسا کہ آپ کے سوانح کے حالات گزر چکا ہے جب آپ کے بعض چچا زاد بھائیوں نے جو آپ کے خونی دشمن تھے ، آپ کے مکان کے سامنے دیوار کھینچ کر آپ کو اور آپ کے مہمانوں کو سخت تکلیف میں مبتلا کر دیا اور بھر بالآخر مقدمہ میں خدا نے آپ کو فتح عطا کی اور ان لوگوں کو خود اپنے ہاتھ سے دیوار گرانی پڑی تو اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وکیل نے آپ سے

Page 517

مضامین بشیر ۵۱۰ اجازت لینے کے بغیر ان لوگوں کے خلاف خرچہ کی ڈگری جاری کروا دی.اس پر یہ لوگ بہت گھبرائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عاجزی کا خط بھجوا کر رحم کی التجا کی.آپ نے نہ صرف ڈگری کے اجراء کو فوراً رکوا دیا بلکہ اپنے ان خونی دشمنوں سے معذرت بھی کی کہ میری لاعلمی میں یہ کارروائی ہوئی ہے جس کا مجھے افسوس ہے اور اپنے وکیل کو ملامت فرمائی کہ ہم سے پوچھے بغیر خرچہ کی ڈگری کا اجراء کیوں کروایا گیا ہے.اگر اس موقع پر کوئی اور ہوتا تو وہ دشمن کی ذلت اور تباہی کو انتہا تک پہنچا کر صبر کرتا مگر آپ نے ان حالات میں بھی احسان سے کام لیا اور اس بات کا شاندار ثبوت پیش کیا کہ آپ کو صرف گندے خیالات اور گندے اعمال سے دشمنی ہے کسی سے ذاتی عداوت نہیں اور یہ کہ ذاتی معاملات میں آپ کے دشمن بھی آپ کے دوست ہیں.اسی طرح یہ واقعہ بھی اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ جب ایک خطر ناک خونی مقدمہ میں جس میں آپ پر اقدام قتل کا الزام تھا ، آپ کا اشد ترین مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی آپ کے خلاف بطور گواہ پیش ہوا اور آپ کے وکیل نے مولوی صاحب کی گواہی کو کمزور کرنے کے لئے ان کے بعض خاندانی اور ذاتی امور کے متعلق ان پر جرح کرنی چاہی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی ناراضگی کے ساتھ اپنے وکیل کو روک دیا اور فرمایا کہ خواہ کچھ ہو میں اس قسم کے سوالات کی اجازت نہیں دے سکتا اور اس طرح گویا اپنے جانی دشمن کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائی.اسی طرح جب پنڈت لیکھرام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق لاہور میں قتل ہوئے اور آپ کو اس کی اطلاع پہنچی تو گو پیشگوئی پورا ہونے پر آپ خدا تعالیٰ کا شکر بجالائے مگر ساتھ ہی انسانی ہمدردی میں آپ نے پنڈت لیکھرام کی موت پر افسوس کا بھی اظہار کیا اور بار بار فرمایا کہ ہمیں یہ درد ہے کہ پنڈت صاحب نے ہماری بات نہیں مانی اور خدا اور اُس کے رسول کے متعلق گستاخی کے طریق کو اختیار کر کے اور ہمارے ساتھ مباہلہ کے میدان میں قدم رکھ کر اپنی تباہی کا بیج بولیا.قادیان کے بعض آریہ سماجی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف تھے اور آپ کے خلاف نا پاک پرا پیگنڈے میں حصہ لیتے رہتے تھے مگر جب بھی انہیں کوئی تکلیف پیش آتی یا کوئی بیماری لاحق ہوتی تو وہ اپنی کارروائیوں کو بھول کر آپ کے پاس دوڑے آتے اور آپ ہمیشہ ان کے ساتھ نہایت درجہ ہمدردانہ اور محسنا نہ سلوک کرتے اور ان کی امداد میں دلی خوشی پاتے.چنانچہ ایک صاحب قادیان میں لالہ بڑھامل ہوتے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف تھے.جب قادیان میں منارة امسیح بننے لگا تو ان لوگوں نے حکام سے شکایت کی کہ اس سے ہمارے گھروں کی بے پردگی ہوگی اس لئے مینار کی تعمیر کو روک دیا جائے.اس پر ایک مقامی افسر یہاں آیا اور اس کی معیت میں لالہ

Page 518

۵۱۱ مضامین بشیر بڈھا مل اور بعض دوسرے مقامی ہندو اور غیر احمدی اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان افسر صاحب کو سمجھایا کہ یہ شکایت محض ہماری دشمنی کی وجہ سے کی گئی ہے اور نہ اس میں بے پردگی کا کوئی سوال نہیں.اگر بالفرض کوئی بے پردگی ہوگی تو اس کا اثر ہم پر بھی ویسا ہی پڑے گا جیسا کہ ان پر اور فرمایا کہ ہم تو صرف ایک دینی غرض سے یہ مینارہ تعمیر کروانے لگے ہیں ورنہ ہمیں ایسی چیزوں پر روپیہ خرچ کرنے کی کوئی خواہش نہیں.اسی گفتگو کے دوران میں آپ نے اس افسر سے فرمایا کہ اب یہ لالہ بڈھا مل صاحب ہیں آپ ان سے پوچھیے کہ کیا کبھی کوئی ایسا موقع آیا ہے کہ جب یہ مجھے کوئی نقصان پہنچا سکتے ہوں اور انہوں نے اس موقع کو خالی جانے دیا ہو اور پھر ان ہی سے پوچھئے کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ انہیں فائدہ پہنچانے کا کوئی موقع ملا ہوا اور میں نے اس سے دریغ کیا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس گفتگو کے وقت لالہ بڈھامل اپنا سر نیچے ڈالے بیٹھے رہے اور آپ کے جواب میں ایک لفظ تک مونہہ پر نہیں لا سکے.۳۷ الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود ایک مجسم رحمت تھا وہ رحمت تھا اسلام کے لئے اور رحمت تھا اس پیغام کے لئے جسے لے کر وہ خود آیا تھا.وہ رحمت تھا اسی بستی کے لئے جس میں وہ پیدا ہوا اور رحمت تھا دنیا کے لئے جس کی طرف وہ مبعوث کیا گیا.وہ رحمت تھا اپنے اہل وعیال کے لئے اور رحمت تھا اپنے خاندان کے لئے اور رحمت تھا اپنے دوستوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے دشمنوں کے لئے.اس نے رحمت کے بیج کو چاروں طرف بکھیرا اوپر بھی اور نیچے بھی آگے بھی اور پیچھے بھی دائیں بھی اور بائیں بھی مگر بد قسمت ہے وہ جس پر یہ پیج تو آ کر گرامگر اس نے ایک بنجر زمین کی طرح اسے قبول کرنے اور اُگانے سے انکار کر دیا.( مطبوعه الفضل ۵ دسمبر ۱۹۴۱ء)

Page 519

مضامین بشیر ۵۱۲ نفع مند کام پر روپیہ لگانے کا عمدہ موقع ! آج کل جنگ کی وجہ سے ہندوستان کی صنعت و حرفت کو خاص ترقی حاصل ہورہی ہے.اور اس ذیل میں قادیان کے متعدد کارخانوں میں بھی کام بہت بڑھ گیا ہے.لیکن سرمایہ کی وجہ سے بہت سے کارخانے اپنے کام کو اتنا وسیع نہیں کر سکتے جتنا کہ اُن کے واسطے موقع ہے.چنانچہ میرے پاس متعدد کارخانہ دار اس بات کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں کہ اگر ان کے سرمایہ کی توسیع کا انتظام ہو جائے تو موجودہ حالات میں انہیں اور سرمایہ لگانے والوں کو معقول نفع حاصل ہوسکتا ہے.میں چونکہ ہمیشہ احتیاط اور حفاظت کے پہلو کو ترجیح دیتا ہوں.اس لئے میں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں دی تھی.کیونکہ خواہ تجارت ہو یا صنعت و حرفت بہر حال اس میں فائدہ اور نقصان دونوں کا رستہ کھلا ہوتا ہے.اور میں اس بات سے ڈرتا رہا ہوں کہ ہماری جماعت کے تھوڑی تھوڑی پونجی والے اصحاب زیادہ نفع کی آرزو میں اپنا سرمایہ ہی برباد نہ کر بیٹھیں مگر اب متعدد کارخانہ داروں کے ساتھ بات کرنے کے نتیجہ میں یہ صورت تجویز کی گئی ہے کہ سرمایہ لگانے والے دوست کا روبار میں شریک نہ ہوں.(سوائے اس کے کہ خود اُن کی طرف سے ایسی درخواست ہو.( بلکہ جائیداد کے رہن کی صورت میں روپیہ لگا دیں.اور پھر اس مر ہو نہ جائیداد پر انہیں کرایہ کی صورت میں نفع ملتا رہے.اس طرح انشاء اللہ روپیہ بھی محفوظ رہے گا اور سرمایہ داروں کو معقول منافع بھی مل سکے گا.پس جو دوست اس رنگ میں اپنا روپیہ لگانا چاہیں وہ خاکسار کے ساتھ خط و کتابت فرما دیں.سرمایہ لگانے والوں کی سہولت کے لئے اس قسم کی شرط بھی ہو سکتی ہے کہ اگر کسی وقت کسی سرمایہ دار کو اپنے روپے کی واپسی کی ضرورت پیش آئے تو وہ دو یا تین ماہ کا نوٹس دے کر اپنا روپیہ واپس لے لے.رہن عام حالات میں مکان یا دوکان یا زمین یا مشینری وغیرہ کی صورت میں ہوگا.اور روپیہ لینے والا شخص جائیداد مرہونہ کا مناسب کرایہ ادا کرتا رہے گا.عام حالات میں ایک ہزار سے کم روپیہ نہیں لیا جائے گا.مگر اس سے زیادہ جتنا بھی ہو قابل قبول ہوگا.اور انشاء اللہ باقاعدہ تحریر کے ذریعہ فریقین کے حقوق محفوظ کرا دیے جائیں گے.میرا کام صرف امانت دار نہ مشورہ دینا ہو گا.اس سے زیادہ مجھے نہ تو نفع میں کوئی حصہ حاصل ہوگا اور نہ ہی مجھ پر کوئی ذمہ داری ہوگی.جو دوست روپیہ فوراً بھجوانا چاہیں.وہ میرے نام براه راست یا بالواسطه دفتر محاسب صد را انجمن احمد یہ قادیان روپیہ بھجوا دیں.جب تک

Page 520

۵۱۳ مضامین بشیر ان کا روپیہ کسی کام پر نہیں لگتا ، اس وقت تک یہ روپیہ خزانہ صدرانجمن احمدیہ میں میرے نام پر امانت رہے گا اور امانت دار کی درخواست پر انشاء اللہ ہر وقت واپس مل سکے گا.جو دوست اپنے روپے کے متعلق کوئی خاص شرط پیش کرنا چاہیں وہ کر سکتے ہیں.جو اگر شریعت اور قانون کے خلاف نہ ہوئی تو اس کا خیال رکھا جائے گا.مطبوعه الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۴۲ء)

Page 521

مضامین بشیر ۵۱۴ ایک غلط فہمی کا ازالہ اور مسئلہ رہن پر ایک مختصر نوٹ چند دن ہوئے میری طرف سے ”الفضل میں ایک اعلان شائع ہوا تھا.جس میں قادیان کے کارخانوں کی امداد کے واسطے روپیہ لگانے کی تجویز پیش کی گئی تھی.مجھے ایک محترم دوست نے توجہ دلائی ہے کہ اس اعلان کے بعض الفاظ ایسے ہیں کہ اُن سے اس معاملہ میں سُود کی جھلک نظر آتی ہے.میں نے اس اعلان کو دوبارہ نہیں دیکھا ممکن ہے کہ بعض الفاظ غیر محتاط ہو گئے ہوں.مگر بہر حال کسی سچے احمدی کے اعلان میں سُود کا رنگ مقصود نہیں ہو سکتا.اور اس بارے میں غلط فہمی کا پیدا ہونا یقیناً قابل افسوس ہے.جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے اس اعلان میں صراحت کر دی تھی کہ روپیہ دو طرح لگایا جا سکتا ہے.ایک کارخانہ میں حصہ داری کی صورت میں اور دوسرے رہن کی صورت میں جو مکانوں ، دوکانوں ، یا زمین یا مشینری وغیرہ کی صورت میں ہو سکتا ہے میرے بزرگ دوست نے رہن والی صورت میں اعلان کے اندر کوئی قابلِ اعتراض بات سمجھی ہے.افسوس ہے کہ میں اس وقت بوجہ وقت کی تنگی اور مصروفیت کے زیادہ نہیں لکھ سکتا.اور بوجہ اس کے کہ میں مفتی یا فقیہہ نہیں ، زیادہ لکھنے کا حق بھی نہیں رکھتا لیکن مختصر طور پر عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ رہن کی صورت اگر اس کی تفصیل میں کوئی بات شریعت کے خلاف نہ ہو ایک جائز صورت ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفہ وقت کے فتویٰ اور عمل کی تائید حاصل ہے.دراصل رہن کی جائز صورت کا مرکزی نقطہ ان تین باتوں میں آجاتا ہے : اول : رہن میں آمد یا کرایہ وغیرہ کی بنیا د روپیہ کی مقدار پر نہ ہو بلکہ جائداد مر ہو نہ کی بنیاد پر ہو.مثلاً ایک شخص ایک مکان ایک ہزار روپے میں رہن لیتا ہے.اور وہ مکان چار روپے ماہوار کرایہ کی حیثیت کا ہے تو رہن لینے والے کے لئے اس مکان کا چار روپے ماہوار کرایہ وصول کرنا بالکل جائز

Page 522

۵۱۵ مضامین بشیر ہوگا.لیکن اگر وہ مکان کی حیثیت کو نظر انداز کر کے اپنے روپیہ کی بنیاد پر زیادہ کرایہ لینا چاہتا ہے تو یہ ایک ناجائز صورت ہوگی اور سود کا رنگ پیدا ہو جائے گا.البتہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ رہن لینے والا اس بات کی خواہش کرے کہ میں اپنے ایک ہزار روپے کے بدلہ میں یہ مکان رہن نہیں لیتا جس کا کرایہ چار روپے ماہوار ہے.بلکہ کوئی دوسرا مکان لینا چاہتا ہوں جس کا کرایہ سات یا آٹھ روپے ہے.کیونکہ اس صورت میں نفع کی بنیاد بہر حال جائیداد مر ہونہ پر رہے گی نہ کہ روپیہ پر.دوسری : ضروری شرط یہ ہے کہ رہن مقبوضہ یعنی با قبضہ صورت میں ہو.یعنی مرہونہ چیز صرف آڑ کے طور پر نہ ہو.بلکہ واقعی اس کا قبضہ مرتہن کو حاصل ہو جائے اور حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح ایده اللہ تعالیٰ کے فتویٰ کے مطابق قبضہ کی یہ قانونی صورت بھی جائز ہے کہ رہن رکھنے والا مرتہن کو واجبی کرایہ نامہ لکھ دے اور پھر ا سے کرایہ دار کی حیثیت میں کرایہ ادا کرتا رہے بشرطیکہ فریقین کے واسطے اس کرایہ نامہ کی دائمی پابندی نہ ہو.بلکہ جب کوئی فریق چاہے مناسب نوٹس دے کر کرایہ کو مناسب طور پر بڑھا گھٹا سکے.یا قبضہ بدل سکے.مثلاً را ہن کو یہ اختیار ہو کہ وہ مناسب نوٹس دے کر مکان خالی کر دے اور مرتہن کو بھی یہ حق ہو کہ وہ مناسب نوٹس کے ساتھ مرہو نہ مکان خالی کرا سکے.تیسری شرط یہ ہے کہ تا قیام رہن مرہو نہ جائیداد کا خرچ جو اس کے رکھ رکھاؤ کی صورت میں ہو وہ بذمہ مرتہن ہو نہ کہ بذمہ را ہن.ان تین شرطوں کے ساتھ رہن کی صورت ایک جائز صورت ہے جو نہ صرف کسی اسلامی تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے فتویٰ اور عمل کی تائید بھی حاصل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ثمر دار باغ حضرت ام المومنین کے پاس رہن رکھا.اور یہ کہہ کر اور جتا کر رکھا کہ تم اس کی آمد جو کم و بیش اس قدر ہے تا قیام رہن وصول کرنا اور ساتھ ہی معیاد بھی لکھ دی کہ اتنے عرصہ تک یہ رہن فک نہیں ہوگا.اسی طرح حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ کے ذریعہ متعدد رہن بصورت بالا ہوئے ہیں.اور بپا بندی شرائط بالا انہیں بالکل جائز سمجھا گیا ہے.میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ بعض فقہا نے اس بارہ میں اختلاف کیا ہے یعنی بعض فقہا نے مر ہو نہ چیز کی آمد سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں بعض خاص پابندیاں لگائی ہیں.اسی طرح انہوں نے قبضہ کو محض قانونی قبضہ کی صورت میں جائز نہیں سمجھا بلکہ ظاہری اور بد یہی صورت ضروری قرار دی ہے مگر یہ اختلاف ایسا ہی ہے جیسا کہ دوسرے مسائل میں فقہاء میں ہو جاتا ہے اور بہر حال اصل اسلامی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے فتویٰ کی تائید او پر والی صورت کو حاصل ہے اور ہمارے واسطے یہی کافی ہے.یہ درست ہے کہ یہ

Page 523

مضامین بشیر ۵۱۶ مسئلہ ایک بہت نازک مسئلہ ہے اور ذراسی بے احتیاطی سے ناجائز رنگ پیدا ہوسکتا ہے اور میں اس بات کو بھی تسلیم کرنے کو تیار ہوں کہ بعض لوگ بے احتیاطی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں مگر خدا کے فضل سے مجھ پر اس مسئلہ کی صحیح صورت مخفی نہیں.اور میں رہن کا ہر معاملہ کرتے ہوئے اسے اپنی طرف سے حتی الوسع مد نظر رکھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر میں جانتا ہوں کہ انسان بہت کمزور ہے و ما ابری نفسی ان النفس لامارة بالسوء الامارحم ربى ان ربي غفور رحيم.جہاں میں نے اوپر کا نوٹ لکھا ہے وہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری شریعت نے محرمات کے متعلق ایک نہائت سنہری گر بتایا ہے.اور وہ یہ کہ محرمات ایک سرکاری رکھ کا رنگ رکھتی ہے جس کے اندر اپنے جانور چھوڑنا تو بہر حال منع ہی ہے.اس کے قریب قریب بھی اپنے جانوروں کو نہیں چرانا چاہیئے تا کہ کبھی بھٹک کر یا بے احتیاطی سے وہ اس کے اندر نہ چلے جائیں.یہ ایک نہائت قیمتی اور محفوظ اصول ہے ، جسے دوستوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے.کسی جائز چیز کے حصہ سے محروم ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں مگر کسی نا جائز چیز میں ملوث ہو جانا ایک خطرناک زہر ہے.جو ایمان اور عمل صالح کو گھن لگا دیتا ہے.پس ایسے معاملات میں بڑی خشیت اور احتیاط سے کام لینا ضروری ہے.ایک مسلمان شاعر نے تقوی کی تعریف میں ایک صحابی کے قول کو کس خوبصورتی کے ساتھ منظوم کیا ہے کہتا ہے..ـذنـوبَ, وك ــا ذاك التـ ـقـ اءة ض الشوك يـــحـــــرمــــــــا يـــــــرای لات رن ان الجبــــــال مـــن الـــــحــــــــــــــى د یعنی تمام گناہوں سے مجتنب رہو.خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، یہی تقویٰ ہے.اور دنیا میں اس طرح چلو جس طرح ایک ایسا شخص چلتا ہے جس کا رستہ کانٹے دار جھاڑیوں میں سے گزرتا ہو جو ہر چیز سے ڈرتا ہو.اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتا ہے.کسی چھوٹی چیز کو بھی حقیر نہ سمجھو.کیونکہ بڑے بڑے پہاڑ بھی چھوٹے چھوٹے کنکروں سے مل کر بنتے ہیں.تقوی کی یہ ایک نہائت لطیف تعریف ہے اور یہی ہمارا لائحہ عمل ہونا چاہیئے اور اس جہت سے

Page 524

۵۱۷ مضامین بشیر میں اپنے محترم دوست کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے اس معاملہ میں توجہ دلا کر میرے واسطے روحانی بیداری کا سامان بہم پہونچایا.فجزاه الله خيراً.جیسا کہ میں اوپر اشارہ کر چکا ہوں یہ مسئلہ ایک اہم اور نازک مسئلہ ہے.اور حق رکھتا ہے کہ اس پر تفصیل اور تشریح کے ساتھ لکھا جائے لیکن اول تو میں نہ مفتی ہوں نہ فقیہہ دوسرے آج کل قرآن کریم کے کام کے تعلق میں فرصت بھی بہت کم ملتی ہے.اور یہی وجہ ہے کہ میں ایک عرصہ سے اپنے دوستوں کی خدمت میں اخباری ملاقات کے ذریعہ حاضر نہیں ہو سکا.اللہ تعالیٰ میرا اور سب دوستوں کا حافظ و ناصر ہوا اور بچے تقویٰ پر قائم ہونے کی توفیق دے.امین یارحم الراحمین ( مطبوعه الفضل ۱۳ دسمبر ۱۹۴۲ء)

Page 525

مضامین بشیر ۵۱۸ ا.تذکرہ صفحہ ۱۴۵ طبع ۲۰۰۴ء ۲.تذکره صفحه ۱۰۸ طبع ۲۰۰۴ء حوالہ جات ۴۲ - ۱۹۴۱ء ۳- رساله شیخ غلام محمد صاحب مؤرخه ۲۰ فروری ۱۹۴۰ء ۴.المائدہ: ۵۷ ۵.الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۴۰ء ۶ - اسد الغابہ جلد ۳ صفحه ۴۸.زیر تعارف عبد اللہ بن عمر و بن حرام -طبع ۲۰۰۱ ء.بیروت، لبنان.جامع الترمذی ابواب الادب باب مثل امتى، مثل المطر - تذکرہ صفحہ ۱۹۷.طبع ۲۰۰۴ء ۹.تذکرہ صفحہ ۳۱۸.طبع ۲۰۰۴ء ۱۰.مسئلہ جنازہ کی حقیقت صفحہ ۷۵ تا ۷۶ ۱۱.بنی اسرائیل : ۸۲ ۱۲.النساء : ۴۴ ۱۳ صحیح البخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنتہ باب قول النبي لا لا لا لها بعشرت جوامع الكلم ۱۴ صحیح بخاری کتاب النکاح باب الوصاةِ بالنَّسَاءِ- ۱۵.الانبیاء : ۳۸ ۱۶ صحیح بخاری کتاب النکاح باب الوصَاةِ بالنَّسَاءِ ۱۷.الروم : ۲۲ ۱۸ - ملفوظات جلد اول صفحہ ۵۳۶ ۱۹ - فیض القدیر ، جلد نمبر ۳ صفحه ۸۸ - طبع بیرورت ۲۰.براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۲۷ تا ۶۲۹ ۲۱ صحیح بخاری.کتاب النکاح باب الوصَاةِ بالنَّسَاءِ -

Page 526

۵۱۹ ۲۲.صحیح البخاری کتاب العتق باب اذا ضرب العبد فليجتنب الوجه ۲۳ صحیح بخاری - کتاب مناقب الانصار باب سعد بن معاذ - ۲۴.الحکم ۱۴ اپریل ۱۹۳۴ء ۲۵.سیرت المہدی جلد سوم.روایت نمبر ۷۷۶ ( مفہوماً) ۲۶.المائدہ : ۴ ۲۷.البقرۃ: ۱۸۷ ۲۸.سنن ابو داؤد - کتاب الصیام باب القول عند الافطار - رض مضامین بشیر صل الله ۲۹ صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب كان جبريل يعرض القرآن على النبي - ۳۰.جامع الترمدی - کتاب الزکوۃ باب ماجاء في فضل صدقة - ۳۱ صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب كان جبريل يعرض القرآن على النبي - صحیح البخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبي الله يكون في رمضان.۳۲.سنن ابنِ ماجہ.ابواب الادب باب فضل الصدقة الماء.۳۳.البقرة : ۱۸۷ ۳۴.براہین احمدیہ جلد پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۳۵ ۳۵ محمود کی آمین.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۲۳ ۳۶.المائدہ: ۹ ۳۷.البدر ۲۲ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳۹

Page 527

۵۲۰ مضامین بشیر

Page 528

۵۲۱ ۱۹۴۳ء مضامین بشیر زمانہ ترقی کے خطرات اور ان کا علاج اور دعا ایک خاص دعا کی تحریک احباب کرام حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے ان خطبات سے واقف ہوچکے ہیں جو حضور نے اس سال یوم جمعہ کے غیر معمولی اجتماع کے بارے میں حال ہی میں ارشاد فرمائے ہیں.اسی ذیل میں میں احباب کی خدمت میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں.غالبا 4 جنوری ۱۹۴۳ ء کی تاریخ تھی اور ابھی محرم شروع نہیں ہوا تھا اور نہ ہی ابھی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا دوسرا خطبہ دیا تھا.اور میں نماز ظہر کے بعد اس بات کے متعلق سوچ رہا تھا کہ اس سال کس طرح ہمارے خدا نے جمعہ کے دن کو غیر معمولی طریق پر ہماری بہت سی تقریبوں میں جمع کر دیا ہے.یعنی (۱) حج جمعہ کے دن ہوا.(۲) جلسہ سالانہ کا آغاز جمعہ کو ہوا.(۳) شمسی سال جمعہ کے روز شروع ہوا.اور (۴) اب قمری سال کی ابتداء بھی جمعہ ہی سے ہونے والی ہے.میں یہ خیال کر رہا تھا کہ یہ غیر معمولی اجتماع یونہی اتفاقی نہیں ہو سکتا اور اس کے پیچھے ضرور خدائے قدیر کی قدرت کا ہاتھ ہمارے واسطے ایک اشارہ کا کام دے رہا ہے.میں نے خیال کیا کہ اسلام میں جمعہ نہ صرف ایک نہایت درجہ مبارک دن ہے.حتی کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے عیدین پر فضیلت حاصل ہے.بلکہ اسلام پرفہ اور احمدیت کی روایات سے پتہ لگتا ہے کہ معنوی رنگ میں وہ ایک پرانے دور کے اختتام اور نئے دور کے آغاز کی علامت بھی ہے.چنانچہ اسی لئے آدم کو جمعہ کے دن پیدا کیا گیا اور اسی غرض سے آدم ثانی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش بھی جمعہ ہی کے دن ہوئی کیونکہ اس کے ساتھ بھی دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز مقدر تھا.میں انہی خیالات میں مستغرق تھا کہ عصر کی نماز کا وقت آگیا اور جب

Page 529

مضامین بشیر ۵۲۲ میں نماز پڑھ رہا تھا تو عین اس وقت میری توجہ ایک ایسے مضمون کی طرف منتقل ہوئی جو اسی جمعہ والے مضمون کی ایک فرع اور شاخ ہے اور میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ یہ مضمون احباب تک بھی پہنچاؤوں.تا جن دوستوں کے واسطے خدا مقدر کرے وہ اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی آنے والی ترقی کو دائمی صورت دے سکیں.وما توفيقنا الا بالله العظيم جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں میں ان خیالات میں مستغرق تھا کہ جمعہ ایک نئے دور کے آغاز کی علامت ہوتی ہے اور اس سال اس دن کا غیر معمولی اجتماع ظاہر کرتا ہے کہ یہ بات یونہی اتفاقی نہیں بلکہ قدرت کی پرسرار انگلی ہمیں اس کے ذریعہ ایک خاص مضمون کی طرف توجہ دلانے کے لئے اٹھ رہی ہے.عین اس وقت ایک بجلی کی سی چمک کے طور پر میری توجہ قرآن شریف کی سورہ نصر کی طرف پھر گئی اور میرے دل میں فوری خیال آیا کہ ہمارے لئے اس آنے والے دور کی ترقی اور اس ترقی کے زمانہ کے خطرات اور پھر ان کا علاج اور اس علاج کے نتیجہ میں خدائی سلوک سبھی کچھ اس مختصر قرآنی سورۃ میں مرکوز ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک وسیع مضمون آنکھوں کے سامنے آ گیا.جس کا خلاصہ میں اس وقت احباب کے سامنے پیش کرتا ہوں مگر اس سے پہلے میں اس جگہ اس قرآنی سورۃ اور اس کے ترجمہ کو درج کر دینا چاہتا ہوں تا کہ احباب اس کے الفاظ کو مستحضر رکھ سکیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا دو یعنی جب خدا کی نصرت اور فتح کا وقت آئے.اور تم دیکھو کہ لوگ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اس وقت تم خدا کی تعریف میں ہور لگ جانا اور اس سے اپنی حفاظت اور اپنی کمزوریوں کی مغفرت چاہنا.اگر تم ایسا کرو گے تو یقیناً تم اپنے خدا کو بار بار رحمت کے ساتھ رجوع کرنے والا پاؤ گے.“ یہ قرآنی سورۃ وہ سورۃ ہے جو سب سے آخر میں نازل ہوئی اور اس کے بعد اسلام میں فتح اور توسیع کا ایک غیر معمولی دروازہ کھل گیا.دراصل جیسا کہ تاریخ ادیان سے پتہ چلتا ہے.ہر الہی سلسلہ کے ابتدائی زمانہ میں دو دور آیا کرتے ہیں :- ایک وہ دور جس میں ترقی کی رفتار بہت دھیمی ہوتی ہے اور لوگ فرداً فرداً حق کو قبول کرتے

Page 530

۵۲۳ مضامین بشیر ہیں اور ایک ایک دو دو کر کے آہستہ آہستہ خدائی سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں اور جب تک خدا کو منظور ہوتا ہے ، یہی صورت قائم رہتی ہے.پھر اس کے بعد دوسرے دور کا آغا ز ہوتا ہے جس میں خدا کی چھپی ہوئی نصرت گویا اپنے پردوں کو پھاڑ کر باہر نکل آتی ہے اور نظر آنے والی فتح کے دروازے وسیع طور پر کھل جاتے ہیں.اس وقت ترقی کی رفتار بہت تیز ہو جاتی ہے اور خدائی سلسلہ میں داخلہ انفرادی صورت تک محدود نہیں رہتا بلکہ افواج کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور لوگ جوق در جوق اور فوج در فوج حق کو قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں.یہی وہ نصرت وفتح ہے جس کی طرف اوپر والی سورۃ میں اشارہ کیا گیا ہے.پس اس وقت میری توجہ اس طرف منتقل ہوئی کہ احمدیت کا نیا دور جو خدا کے فضل سے نصرت اور فتح کا دور ہے.سنت اللہ کے ماتحت اپنے اندر بعض خطرات بھی رکھتا ہے اور اپنے ساتھ بعض ذمہ داریاں بھی لاتا ہے.اور جماعت کا فرض ہے کہ ان خطرات اور ان ذمہ داریوں کی طرف سے قطعاً غافل نہ ہو.اور آنے والی ترقی کے زمانہ میں خصوصیت کے ساتھ اس روحانی علاج کو اختیار کرے جو اس سورۃ کے آخر میں بیان کیا گیا ہے اور وہ علاج یہ ہے.اول : تسبیح وتحمید.دوم :.استغفار.یہ الفاظ بہت مختصر ہیں مگر ان کے اندر حقائق کا ایک وسیع سمندر مخفی ہے.دراصل غور کیا جائے تو خدائی جماعتوں پر جب ترقی کا دور آتا ہے تو اس وقت دو بھاری خطرات ان کے سامنے ہوتے ہیں اور اگر وہ ان خطرات پر آگاہ ہو کر ان کے انسداد کا طریق اختیار کریں.اور اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھا ئیں تو ان کے لئے اس ترقی کے قدم کو اور بھی زیادہ تیز کر دیا جاتا ہے.ورنہ نعوذ بالله من ذالک یہی ترقی ان کی تباہی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے.وہ دو خطرے جن کی طرف یہ سورۃ اشارہ کرتی ہے.یہ ہیں کہ : - اول.جب ایک جماعت کمزور حالت سے ترقی کر کے مضبوطی کو پہونچ جاتی ہے تو بسا اوقات وہ اپنی ترقی کو خو دا اپنی جد و جہد اور اپنی قربانی کی طرف منسوب کر نے لگ جاتی ہے.اور اس بات کو بھول جاتی ہے کہ اس کی ترقی کی تہہ میں خدا کا مخفی ہاتھ کام کر رہا تھا اور یہ کہ اگر یہ ہاتھ نہ ہوتا تو وہ کبھی بھی ترقی کی اس منزل کو نہ پہنچ سکتی.دوسرا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ ترقی کے زمانہ میں بسا اوقات لوگ اپنی ترقی اور بڑائی کے نشہ میں مخمور ہو کر ان خوبیوں کو کھو بیٹھتے ہیں جو انہیں کمزوری کے زمانہ میں حاصل تھیں اور اپنے فرائض کی طرف سے غافل ہو جاتے ہیں.اور وہ خرابیاں جو عموماً بڑے لوگوں میں پائی جاتی ہیں مثلاً

Page 531

مضامین بشیر ۵۲۴ فرائض کی طرف سے غفلت.آرام طلبی اور ستی.قربانی سے گریز عیش پرستی ، تکبر ونخوت ، ظلم وستم وغیرہ وغیرہ ، ان میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں.یہ وہ دو عظیم الشان خطرے ہیں جو ہر اس قوم کو پیش آتے ہیں جو ایک کمزور اور مقہور حالت سے اٹھ کر مضبوطی اور غلبہ کی حالت کو پہونچتی ہے.وہ اس بات کو بھول جاتی ہے کہ کسی زمانہ میں وہ اتنی کمزور و نا تواں تھی کہ اس کے لئے خود بخود اٹھنا بالکل محال تھا اور صرف خدا کے طاقتور ہاتھ نے اسے اٹھایا.وہ اس بات کو بھول جاتی ہے کہ دنیا کے تمام ظاہری اسباب اس کے خلاف تھے مگر خدا نے اپنے زبر دست باطنی اسباب کو حرکت میں لاکر اس کے واسطے ترقی کا رستہ کھولا.وہ اس بات کو بھول جاتی ہے کہ اگر اسے سہا را دینے کے لئے خدائے ذوالعرش کی غیر معمولی تقدیر آڑے نہ آتی تو اس کا ترقی کرنا تو درکنار زندہ رہنا بھی محال تھا.وہ اپنے ترقی کے زمانہ میں ان سب باتوں کو بھول کر صرف اس نشہ آور خیال میں مخمور ہونے لگتی ہے کہ میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے اپنے قوت بازو سے حاصل کیا ہے اور یہ عروج کے زمانہ کا سارا باغ و بہار میری اپنی ہی قربانیوں کا ثمرہ ہے.یہ وہ مہلک خطرہ ہے جس کی طرف ہمارے آسمانی آقا نے ان مختصر الفاظ میں توجہ دلائی ہے کہ سبح بحمد ربک یعنی تم اپنے ترقی کے زمانہ میں اپنے قوت و باز و یا اپنی قربانیوں کی طرف نہ دیکھنا کیونکہ خدا کی نصرت کے بغیر یہ چیز میں ایک مردہ کیڑے سے بڑھ کر نہیں ہیں بلکہ اس خدا کی حمد کے گیت گا نا جو تمہارا رب ہے ، جس نے تمہیں پستی کے ایک تاریک گڑھے سے اٹھا کر بلندی کے ایک مضبوط اور روشن مینار پر پہنچا دیا ہے.دوسرا خطرہ ان خرابیوں کے پیدا ہونے سے تعلق رکھتا ہے جو عموماً ترقی کے زمانہ میں قوموں میں پیدا ہو جایا کرتی ہیں.اور عین شباب کے جو بن میں موت کا پیغام لے آتی ہیں.ایسی قوموں کے اٹھان میں ہی ان کے تنزل کا بیج مخفی ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے اٹھنے کے ساتھ ساتھ ہی ان گندے اور مذموم اخلاق کا شکار ہونے لگتی ہیں جو قوموں کی زندگی کے لئے ایک مہلک زہر کا رنگ رکھتے ہیں.یہ ایک کھلی ہوئی تاریخی حقیقت ہے.اور آہ کتنی تلخ حقیقت ہے کہ ہر ترقی کرنے والی قوم جو بعد میں گرتی ہے اس کے گرنے کے اسباب خود اس کے اپنے عروج کی تہوں میں لیٹے ہوئے ہوتے ہیں.کسی شاعر نے کیا خوب مصرع کہا ہے.اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے قوموں کے گھر بھی کسی باہر سے آئی ہوئی آگ سے نہیں جلا کرتے بلکہ خود گھر کے چراغ سے ہاں اسی چراغ سے جو ان کی روشنی کا ذریعہ ہے جل کر خاک ہو جایا کرتے ہیں.کیونکہ قوموں کا تنزل بدا خلاقی

Page 532

۵۲۵ مضامین بشیر اور بداعمالی کے نتیجہ میں ہوا کرتا ہے اور یہ بداخلاقی اور بد اعمالی باہر سے نہیں آتی بلکہ خو د قوموں کی پنی ترقی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.عروج کے زمانہ میں لوگ ست ، کا ہل ، عیش پرست ، آرام طلب، متکبر ، ظالم ، بد اعمال ، خائن ، دین کی طرف سے غافل ، دنیا کی لذتوں میں منہمک ہو جاتے ہیں اور اسی میں ان کی تباہی کا بیج مخفی ہوتا ہے.یہ وہ دوسرا خطرہ ہے جس کی طرف قرآن شریف اس مختصر مگر حکمت سے پُر اور دانائی سے لبریز لفظ میں توجہ دلاتا ہے.کہ استغفرہ یعنی جب تم پر ترقی کا زمانہ آوے تو ان بدا خلاقیوں اور بداعمالیوں کی طرف سے ہوشیار رہنا جو عروج کے زمانہ میں رونما ہو ا کرتی ہیں اور اپنے واسطے خدا کی حفاظت اور مغفرت کے طالب ہونا تا کہ تمہاری ہر گھڑی اس کے سایہ میں گزرے اور اگر تم کبھی لغزش بھی کھاؤ تو اس کی کریما نہ بخشش تمہیں بچانے کے لئے موجود ہو.یہ وہ دو عظیم الشان خطرے ہیں جن کی طرف خدا تعالیٰ نے ان دو مختصر الفاظ میں ہمیں توجہ دلائی ہے اور الفاظ ایسے چنے ہیں کہ وہ صرف بیماری ہی کی طرف اشارہ نہیں کرتے بلکہ ساتھ ہی علاج بھی بتا رہے ہیں.اللہ اللہ ! قرآن شریف کیسی کامل و مکمل کتاب ہے کہ ان دو چھوٹے سے لفظوں میں کتنا وسیع نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے.گویا روحانی عالم میں علم التشخیص اور علم اصلاح کے دو وسیع مضمونوں کو دو مختصر لفظوں میں محصور کر کے ہمارے واسطے بے نظیر رحمت اور ہدایت کا سامان بہم پہونچا دیا ہے.فرماتا ہے کہ جب فتح و نصرت کا زمانہ آئے اور لوگ فوج در فوج خدائی سلسلہ میں داخل ہونا شروع ہوں تو سبـح بــحــمــدر بک و استغفرہ اس وقت تم اس ترقی کو خودا اپنی کوشش کی طرف منسوب کر کے خدا کی ناشکری نہ کرنا بلکہ خدا ہی کی حمد کے گیت گانا جس نے تمہارے لئے ترقی کا رستہ کھولا ہے.اور پھر جو بداعمالیاں عموماً ترقی کے ساتھ ہوا کرتی ہیں ان کی طرف سے ہوشیار رہ کر خدا کی حفاظت اور مغفرت کے طالب رہنا.اگر تم ان دو باتوں کا خیال رکھو گے تو فرماتا ہے کہ انـه گـان تواباً.یعنی پھر تم خدا کو بار بار جھکنے والا بار بار رحم کرنے والا پاؤ گے.یعنی پھر ایسا نہ ہو گا کہ تمہاری کمزوری کے زمانہ میں تو خدا تم پر رحم کرے اور طاقت کے زمانہ میں تمہیں چھوڑ دے بلکہ اس صورت میں وہ تمہارے عروج کے زمانہ میں بھی تمہارا اسی طرح خبر گیر رہے گا جس طرح کہ وہ کمزوری کے زمانہ میں رہا ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کی طرف میری توجہ ملتوی ہوئی.اور میرے دل میں خیال آیا کہ جس طرح اسلام کے ابتدائی زمانہ میں ہوا اسی طرح احمدیت میں بھی ہونے والا ہے یعنی احمدیت کے سامنے بھی ترقی کے زمانہ کے یہی دو خطرے ہیں اور ان خطروں کے یہی دو علاج ہیں.جو اس مخی مختصر سورۃ کے ان دو مختصر لفظوں میں بیان کئے گئے ہیں.کہ سبح بحمد ربک و استغفرہ اور پھر جو

Page 533

مضامین بشیر ۵۲۶ قوم اس علاج کو اختیار کرے گی اس کے لئے یقیناً وہی از لی تقدیر مقدر ہے.جوانـه كـان توابا کے لفظ میں مرکوز ہے.تو اب کے معنے جیسا کہ اوپر بیان کئے گئے ہیں بار بار جھکنے اور بار بار رحم اور شفقت کا سلوک کرنے کے ہیں.گویا اس صورت میں خدا کا سلوک اس محبت کرنے والی ماں کی طرح ہوگا جو صرف ایک دفعہ اپنے بچہ کو پیار کر کے نہیں چھوڑ دیتی بلکہ اپنی مامتا کے جوش میں اس کی طرف بار بار جھکتی اور بار بار پیار کرتی ہے اور پھر بھی سیر نہیں ہوتی.اللہ اللہ ! ہمارے خدا کی محبت کس اتھاہ سمندر کی طرح ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں اور نہ اس کی گہرائی کی کوئی حد ہے.وہ ترقی کا مادہ پیدا کرتا ہے.ترقی کا سامان بہم پہنچاتا ہے.تنزل کے خطرات سے آگاہ کرتا ہے.ان خطرات کا علاج بتا تا ہے اور پھر کیا مزے سے کہتا ہے کہ اگر ان باتوں کو اختیار کرو گے تو ہم تم سے نہ صرف پیار کریں گے بلکہ پیار کرتے ہی چلے جائیں گے.سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم سبحان الله وبحمده سبحان ا وبحمده سبحان الله العظيم.مگر جہاں یہ مضمون میرے ذہن میں آیا ، وہاں میرے دماغ میں ایک اور بات بھی بجلی کی طرح کو ند گئی اور میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مضمون میں اس کی طرف بھی مجملاً اشارہ کر دوں تا کہ دوستوں کو دعا کی طرف توجہ پیدا ہو.حدیث میں آتا ہے کہ جب سورۃ نصر نازل ہوئی.تو عام صحابہ تو اس کے الفاظ میں زمانہ ترقی کی آمد آمد کی خبر پا کر خوش تھے کہ اب ہمارے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے.مگر خاص اور فہیم صحا بہ اس خوشی کے ساتھ ساتھ اس غم اور کرب میں بھی مبتلا ہو گئے کہ یہ خوشی کی خبر اپنے اندر ہمارے پیارے رسول کی وفات کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے حضرت ابن عباس کا جو بالکل نوجوان تھے بڑی بڑی عمر کے سابق بالایمان صحابہ کے مطابق وظیفہ مقرر کیا تو اس پر بعض صحابہ کو اعتراض ہوا کہ کیوں ایک بچہ کو ایسے ایسے بزرگوں کے برابر رکھا گیا ہے.اس اعتراض کو سن کر حضرت عمر نے ان لوگوں کو بلایا اور ابن عباس کی حاضری میں ان سے پوچھا کہ آپ لوگ اذا جاء نصر الله والی سورۃ کا کیا مطلب سمجھتے ہیں.انہوں نے کہا اس کا یہی مطلب ہے کہ اب ترقی کا زمانہ آ رہا ہے اور بس اس پر حضرت عمرؓ نے ابن عباس سے چھا کہ تم کیا سمجھتے ہو.ابن عباس نے کہا میں تو یہ سمجھا ہوں اور سمجھا تھا کہ اس سورۃ میں ترقی کی خبر کے ساتھ ساتھ رسول اللہ کے قرب وفات کی خبر بھی دی گئی ہے کہ حضرت عمرؓ نے کہا میں بھی یہی سمجھا تھا اور اس سے کچھ زیادہ نہیں سمجھا جس پر ان لوگوں نے سمجھ لیا کہ ابن عباس کو

Page 534

۵۲۷ مضامین بشیر اپنے علم وعرفان کی وجہ سے وہ فضیلت حاصل ہے جو کئی بڑی عمر کے صحابہ کو بھی حاصل نہیں اور ان کے دل کی کھٹک دُور ہو گئی.پس مندرجہ بالا مضمون کے ساتھ ساتھ میرے دل میں ایک نشتر کی طرح یہ بات بھی کھٹکی کہ جہاں چار جمعہ کے دنوں کا غیر معمولی اجتماع جس کی طرف حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے توجہ دلائی ہے.ہمارے لئے ایک نئے ترقی کے دور کی خبر لا رہا ہے.وہاں وہ ہمیں اس طرف بھی توجہ دلا رہا ہے کہ ہمیں ان ایام میں اپنے امام طال اللہ بقاءہ کی درازی عمر کے لئے بھی خاص طور پر دُعائیں کرنی چاہئیں.یہ خدا تعالیٰ کا عجیب قانون ہے اور وہی اپنے مصالح کو بہتر سمجھتا ہے کہ بسا اوقات وہ جن لوگوں کے ہاتھ سے قربانی کرواتا ہے انہیں قربانی کے نتیجہ میں آنے والے انعام سے پہلے اٹھا لیتا ہے.یہ منظر بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ ایک شخص نے بڑی محنت کر کے اور پسینہ بہا کر کھیت تیار کیا اور اس کے اندر بیج ڈالا اور اس کی حفاظت کی مگر جب کھیت پکنے کا وقت آیا تو اس سے پہلے ہی وہ گزر گیا اور فصل اٹھانے کے لئے دوسرے لوگ آ موجود ہوئے.شاید یہ اس لئے ہے کہ خدائے حکیم کی ازلی مشیت نے یہی پسند کر رکھا ہے کہ عام حالات میں قربانی کرنے والوں کو اس دنیا میں قربانی کی تلخ مٹھاس کے سوا اور کوئی اجر نہ دے اور ان کے باقی اجروں کو اگلی دنیا کے واسطے اٹھا رکھے ہیں میں نے تلخ مٹھاس کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ اکثر صورتوں میں اہل دل اور اہل کمال کے لئے قربانی کی تلخی میں وہ شیرینی مخفی ہوتی ہے جسے ہزار انعاموں کی مٹھاس بھی نہیں پہونچ سکتی مگر ہمارا خدا اپنے امر پر بھی غالب ہے.وہ اگر چاہے تو ایک شخص کے لئے قربانی اور انعام دونوں کی شیرینی کو ایک جگہ جمع کر سکتا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ جب یہ دونوں انعام اکٹھے ہو جاتے ہیں تو پھر خدائی نعمت کی بہارا اپنے جو بن پر نظر آتی ہے.پس آؤ ہم دعا کریں کہ خدا ہمارے امام کی پیشانی کو ان دونوں سہروں سے مزین فرمائے.اس نے انتہائی قربانی کا زمانہ پایا اور اپنی روحانی توجہ سے اس قربانی کی تلخی کو جماعت کے لئے تمام مٹھائیوں سے بڑھ کر میٹھا بنا دیا.اب اگر خدائی رحمت ہمارے لئے نصرت و فتح کا زمانہ قریب لا رہی ہے تو اے ہمارے قادر و مالک خدا تو ایسا تصرف فرما کہ جس ہاتھ سے جماعت نے تنگی اور عسرت کی قاشوں کو شیرینی میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے اسی ہاتھ سے اسے ترقی و فراخی کا جام پینا بھی نصیب ہو اور تو ہمارے لئے جو تیرے نہایت ہی کمزور بندے ہیں مگر بہر حال تیرے دین کے آخری علمبردار ہیں یہ مقدر کر دے اور اس تقدیر کو اپنی

Page 535

مضامین بشیر ۵۲۸ نہ مٹنے والی کتاب میں لکھ دے کہ ترقی کے زمانہ کا مخفی طوفان ہمیں اس مضبوط قلعہ میں محفوظ پائے جو خود تیرے مقدس ہاتھوں نے ہمارے لئے تسبیح و تحمید اور استغفار کی مضبوط بنیادوں پر تعمیر کیا ہے اور اے خدا ایسا کر کہ ہم تجھے ہاں تجھے جس نے خود اپنا نام ودود رکھا ہے، اپنی طرف اور اپنے عزیزوں کی طرف ہمیشہ پیارا اور رحمت اور شفقت کے ساتھ جھکتا ہوا دیکھیں.آمين يا ارحم الراحمين ( مطبوعه الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۴۳ء)

Page 536

۵۲۹ ایک بزرگ صحابی کا وصال اور اس پر میرے بعض تأثرات اظہار ہمدردی کرنے والوں کا شکریہ مضامین بشیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پُرانے اور ممتاز صحابی اور میرے خسر حضرت مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری کی وفات کی خبر احباب تک پہنچ چکی ہے.اور اس بارہ میں بعض مضامین اور اشعار بھی الفضل میں شائع ہو چکے ہیں اور شاید اس کے بعد اس موضوع پر کچھ اور لکھنے کی ضرورت نہ سمجھی جائے مگر اس قریبی رشتہ کی وجہ سے جو مجھے حضرت مولوی صاحب مرحوم کے ساتھ تھا اور ان کثیر التعداد خطوط و پیغام ہائے تعزیت کی وجہ سے جو مجھے اس بارہ میں موصول ہوئے ہیں اور پھر ان مخصوص حالات کی وجہ سے جن کے ماتحت حضرت مولوی صاحب کی وفات ہوئی ہے.میں ضروری خیال کرتا ہوں کہ مختصر طور پر اپنے بعض تأثرات کا اظہار کروں.سب سے پہلے میں ان عزیزوں اور دوستوں اور بزرگوں کا دلی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس موقع پر زبانی طور پر یا خطوں اور تاروں کے ذریعہ ہمدردی کا اظہار کیا ہے.کہتے ہیں کہ انسان دوسرے کے غم کو بانٹ نہیں سکتا اور یہ ایک لحاظ سے درست بھی ہے مگر خالق فطرت نے انسانی سرشت میں کچھ ایسا مادہ ودیعت کیا ہے کہ وہ غم کے اوقات میں اپنے عزیزوں اور دوستوں کی ہمدردی سے تسکین پاتا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اس طرح اس کے غم میں بڑی حد تک کمی آجاتی ہے.پس میں ان سب بہنوں اور بھائیوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.اور ان کے لئے دل سے دعا گو ہوں جنہوں نے اس موقع پر میرے ساتھ یا میری رفیقہ حیات اُم مظفر احمد کے ساتھ قولاً یا فعلاً ہمدردی کا اظہار کر کے ہمارے لئے تسکین تشفی کا سامان مہیا کیا ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء في الدنيا والأخرة

Page 537

مضامین بشیر ۵۳۰ حضرت مسیح موعود کی نظر میں حضرت مولوی صاحب کا مقام حضرت مولوی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم ترین صحابہ میں سے تھے.کیونکہ جیسا کہ وہ اکثر خود فرمایا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں بھی اس کا ذکر موجود ہے انہوں نے بالکل اوائل زمانہ میں بیعت کی تھی.یعنی اعلان بیعت کے بعد پہلے سال میں ہی یعنی ۱۸۸۹ء میں اس سعادت سے مشرف ہو گئے تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ازالہ اوہام میں جو ۱۸۹۱ء میں شائع ہوئی تھی اپنے اخبار کی ذیل میں ان کا ذکر کیا ہے اور ان کی تعریف فرمائی ہے اس کے بعد تین سو تیرہ صحابیوں کی فہرست میں بھی جو ۱۸۹۶ء میں ایک خاص پیشگوئی کی بنا پر بطور نشان تیار کرائی گئی تھی ، ان کا ذکر خیر موجود ہے اور پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بچوں کی شادی کی تجویز فرمائی تو خاکسار راقم الحروف کی شادی کے لئے حضرت مولوی صاحب مرحوم کی ایک صاحبزادی کو منتخب فرما کر گویا انہیں اپنے خاندان کے ساتھ منسلک فرما لیا اور بالآخر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سلسلہ کے بعض مرکزی کاموں کو سرانجام دینے کے لئے ۱۹۰۶ ء میں صدرانجمن احمدیہ کی بنیا درکھی تو جن چودہ اصحاب کو اس انجمن کی ممبری کے لئے جماعت میں سے منتخب کیا گیا ان میں حضرت مولوی صاحب موصوف بھی شامل تھے.حضرت مولوی صاحب کی ایک اور خصوصیت ان خصوصیات کے علاوہ جن کی قدر و قیمت مرورِ زمانہ کے ساتھ یقیناً بڑھتی چلی جائے گی ، حضرت مولوی صاحب کو یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ وہ صوبہ سرحد میں گویا احمدیت کے ہراول دستہ کے قائد اور لیڈر تھے جن کے ذریعہ نہ صرف پشاور اور اس کے گردونواح کے بہت سے لوگوں نے حق کو قبول کیا بلکہ درہ خیبر کے رستہ آنے جانے والے باشندگان افغانستان میں بھی احمدیت کا نفوذ ہوا.حضرت مولوی صاحب کا یہ ایک خاص اور نمایاں وصف تھا کہ ان کا دستر خوان نہ صرف دوستوں کے لئے بلکہ تمام آنے جانے والوں کے لئے خواہ وہ اپنے ہوں یا بیگانے بڑے ہوں یا چھوٹے ہمیشہ کھلا رہتا تھا.حتی کہ ان کی آمدنی کا بیشتر حصہ مہمان نوازی میں خرچ ہو جاتا تھا اور چونکہ حضرت مولوی صاحب کو اوائل زمانہ سے ہی قرآن شریف اور حدیث کے درس تدریس کا شوق تھا.اس لئے اس شوق نے مہمان نوازی کے خلق کے ساتھ مل کر حضرت مولوی صاحب کے لئے تبلیغ کا ایک

Page 538

۵۳۱ مضامین بشیر غیر معمولی موقع پیدا کر دیا تھا اور خدا نے بھی ان کی اس تبلیغ کو نوازا اور انہیں بہتوں کی ہدایت کا ذریعہ بنا دیا.اں سعادت بزور تا بازو نیست خدائے بخنده ام مظفر احمد کی قربانی اور اس کا ثمرہ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اچانک ایک تغیر آیا اور حضرت مولوی صاحب مرحوم اپنے بعض دوستوں کے ساتھ اس غلطی میں مبتلا ہو گئے کہ حضرت مسیح موعود کے بعد خلافت نہیں بلکہ انجمن ہے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے رسالہ ”الوصیت میں انجمن ہی کو اپنا کلی جانشین مقرر فرمایا ہے.یہ خیال اتنا غالب ہوا کہ مولوی صاحب موصوف اس خیال کے لیڈروں میں سے ایک لیڈر بن گئے اور جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی تو وہ غیر مبایعین میں شامل ہو کر مرکز سے کٹ گئے اور قادیان کے ساتھ تمام تعلقات منقطع کر لئے اور گو انہوں نے کبھی معاندانہ رنگ میں مخالفت نہیں کی مگر پھر بھی اصولاً وہ شدید مخالف تھے اور یہ وقت میری رفیقہ حیات ام مظفر احمد کے لئے ایک بڑے امتحان کا وقت تھا.کیونکہ نہ صرف باپ بلکہ ماں اور سارے بہن بھائی اور دوسرے جدی عزیز غیر مبایعین کے ساتھ ہو گئے تھے اور ان کے لئے میرے ساتھ رہنے کا یہ مطلب تھا کہ وہ عملاً اپنے تمام رشتہ داروں کے ساتھ قطع تعلق کر لیں مگر خدا نے انہیں توفیق دی اور ہمت عطا کی.چنانچہ میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بلا تامل جواب دیا کہ میں بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ساتھ ہوں میں یقین کرتا ہوں کہ یہ زیادہ تر ان کی اسی قربانی کا ثمرہ تھا کہ چھبیس سال کے طویل عرصہ کے بعد جو گویا ایک نسل کا حکم رکھتا ہے اللہ تعالیٰ جو کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی ضائع نہیں فرماتا اور ہر نیکی کے مناسب حال اس کا بدلہ دیتا ہے ، ان کے والد کو ان کے باقی تمام رشتہ داروں سے کاٹ کر اور بیٹوں تک سے جدا کر کے ان کے پاس لے آیا اور انہی کے مکان میں انہیں کے ہاتھوں میں وفات دی.مجھے پھر کہنا چاہیئے کہ اس سعادت بزور بخشد خدائے بازو نیست بخشنده

Page 539

مضامین بشیر ۵۳۲ حضرت مولوی صاحب کی قادیان میں آمد حضرت مولوی صاحب کی اس دینی جدائی کا صدمہ میرے لئے بھی بہت بھاری تھا کیونکہ بسر ہونے کی وجہ سے وہ میرے لئے گویا باپ کے حکم میں تھے اور میں اپنی بعض تنہائی کی گھڑیوں میں یہ سوچا کرتا تھا کہ کہیں ان کی یہ جدائی اور دوری میرے کسی مخفی عمل کی شامت کا نتیجہ نہ ہو مگر میرے لئے سوائے دعا کے اور کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ حضرت مولوی صاحب مرحوم با وجود نهایت با اخلاق بزرگ ہونے کے اپنے خیالات میں بہت پختہ اور سخت تھے اور اب ان کی عمر بھی ایسی ہو چکی تھی جس میں عموماً انسان کے خیالات میں ایک قسم کا ٹھوس پن پیدا ہو جاتا ہے.اور انسانی دماغ کسی ذہنی تبدیلی کے لئے جلد تیار نہیں ہوسکتا لیکن خدائی تقدیر اپنی مخفی تاروں کے ساتھ بر سر عمل تھی اور جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا حضرت مولوی صاحب اپنے رفقاء لا ہور کو قریب سے دیکھنے کے نتیجہ میں ان کے طور طریق سے آہستہ آہستہ بدظن ہورہے تھے اسی حالت میں خلافت جو بلی کی تقریب آگئی اور مجھے اس کے لئے کتاب سلسلہ احمدیہ کی تصنیف میں مصروف ہونا پڑا.اس تصنیف کے دوران میں جب میں سلسلہ کی تاریخ کے اس حصہ میں پہونچا جو غیر مبایعین کے فتنہ سے تعلق رکھتا ہے تو اس وقت یہ حقیقت اپنی انتہائی تلخی کے ساتھ میرے سامنے آئی کہ میرا ایک نہایت قریبی بزرگ ابھی تک خلافت حقہ کے دامن سے جدا ہے اور میں نے اس رسالہ کے لکھتے لکھتے یہ دعا کی کہ خدایا تو ہر چیز پر قادر ہے اگر تیری کوئی اٹل تقدیر مانع نہیں تو تو انہیں حق کی شناخت عطا کر اور ہماری اس جدائی کو دُور فرما دے.میں اپنے خدا کا رکس مونہہ سے شکر ادا کروں کہ ابھی اس رسالہ کی اشاعت پر ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ہمارے خدا کی مخفی تاریں حضرت مولوی صاحب کو کھینچ کر قادیان لے آئیں اور وہ چھیں سال کی لمبی جدائی کے بعد بیعت خلافت سے مشرف ہو گئے.فالحمد لله على ذالك ولا حول ولا قوة الا بالله العلى العظيم نیکی اور فطری سعادت جہاں تک ظاہری اسباب کا تعلق ہے اس غیر معمولی اور غیر متوقع تغیر کا باعث حضرت مولوی صاحب کی اپنی نیکی اور اپنی فطری سعادت تھی.حدیث میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قریبی رشتہ دار حکیم بن حزام ایک لمبی مخالفت کے بعد مسلمان ہوئے تو انہوں نے آنحضرت

Page 540

۵۳۳ مضامین بشیر صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ میں جاہلیت کے زمانہ میں صدقہ وخیرات بہت کیا کرتا تھا.کیا مجھے اس کا بھی کچھ ثواب ملے گا.آپ نے بے ساختہ فرمایا : - أَسْلَمْتَ عَلَى مَا أَسْلَفْتَ ۳ یعنی تمہیں اسلام کی توفیق ملنا اسی نیکی کی وجہ سے ہے جو تم صدقہ و خیرات کی صورت میں اسلام سے پہلے کیا کرتے تھے.“ بس یہی حال حضرت مولوی صاحب کی بیعت کا سمجھنا چاہیئے.ایک غلط فہمی کی وجہ سے انہیں خلافت کے معاملہ میں ٹھو کر لگی مگر نیت خراب نہیں تھی اور تمام زندگی نیکی اور طہارت اور عمل خیر میں گزری تھی اور دنیا کی چیزوں میں کبھی انہاک نہیں کیا اور اپنے آپ کو ہمیشہ خدمت دین کے لئے وقف رکھا.پس خدائے رحیم وکریم نے جو دلوں کو دیکھتا ہے انہیں وفات سے پہلے ان کی غلطی پر آگاہ کر کے حق کے قبول کرنے کی توفیق عطا کر دی.گو یا خدا کے فرشتے ان کی نیکی کی طرف دیکھتے ہوئے ان کی موت کو روکے ہوئے تھے.تا وقتیکہ انہیں حق کی شنا خت نصیب ہو گئی.گرچہ بھا گئیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار چھبیس سال کی طویل مخالفت خود مخالف خیال کے لیڈر اور روح رواں شدید ترین معاند گروہ کا ما حول ساری اولا د مخالف خیال کی موید - عمر سو سال کے قریب جبکہ انسانی خیالات عموماً ٹھوس صورت اختیار کر کے منجمد ہو جاتے ہیں اور کسی تبدیلی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.بایں ہمہ جب میں نے ۱۹۳۹ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت مولوی صاحب موصوف کو قادیان تشریف لانے کی تحریک کی تو انہوں نے کچھ تامل کے بعد اسے قبول کر لیا.اور پھر چند دن کے قیام کے بعد جنوری ۱۹۴۰ء میں خدا نے انہیں بیعت کی توفیق عطا کر دی.یقیناً یہ ایک خاص خدائی تقدیر تھی جو ایک طرف ان کی نیکی اور دوسری طرف ہماری دلی تڑپ کی وجہ سے انہیں وفات سے پہلے گویا گھیر گھیر کر قادیان کھینچ لائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا ہے.دد گرچہ بھا گیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار میرے خسر میری بیوی کے باپ، میرے بچوں کے نانا، چھبیس سال تک خدائی تقدیر سے بھاگا کئے.حتی کہ اس بھاگ دوڑ میں وہ اس عمر کو پہونچ گئے جبکہ بھاگنے والا عموما چپکے سے بچ کر نکل جایا کرتا ہے مگر خدا کی تقدیر سے کون بھاگ سکتا ہے آخر جب کہ وہ گویا قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے اور

Page 541

مضامین بشیر ۵۳۴ ظاہری حالات کے ماتحت ہمیں ان کی طرف سے گویا مایوسی تھی.خدائی رحمت کی تقدیر نے انہیں آ پکڑا اور اب وہ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پہلو میں مدفون ہیں کیونکہ بیعت کے ساتھ ہی انہوں نے وصیت کی توفیق بھی پائی تھی.خلافت حقہ کی تائید میں زور دار مضامین لیکن ابھی ایک خاص مرحلہ باقی تھا.اگر مولوی صاحب موصوف جیسا کہ ان کی عمر اور حالت کا تقاضہ تھا بیعت کے جلد بعد ہی فوت ہو جاتے تو عوام الناس کو غلط نہی میں ڈالنے کے لیئے غیر مبائعین اصحاب کو اس اعتراض کا موقع تھا کہ پیر فرتوت تھے کہ قادیان جا کر وہاں کے ماحول سے متاثر ہو گئے اور لوگوں کے کہنے کہانے سے بلا سوچے سمجھے بیعت کر لی یا کسی کے ناواجب اثر کے نیچے آگئے وغیرہ ذالک.اس اعتراض کے سد باب کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مولوی صاحب کو بیعت کے بعد پورے تین سال تک زندہ رکھا اور نہ صرف زندہ رکھا بلکہ ان کے قلم سے خلافت حقہ کی تائید میں بڑے زور دار مضامین لکھوائے اور ان کے ذریعہ سے کئی لوگوں کو بیعت خلافت کی توفیق عطا کی اور یہ سلسلہ ان کے پشاور تشریف لے جانے کے بعد تک جاری رہا.جس سے ثابت ہو گیا کہ ان کی بیعت کسی خارجی اثر کے ماتحت نہیں تھی بلکہ علی وجہ البصیرت تھی اور انہوں نے غیر مبایعین کے عقائد اور طریق کو غلط پا کر اور خلافت ثانیہ کو حق بجانب یقین کر کے بیعت کی تھی.خدا تعالیٰ کے فضل کا غیر معمولی کرشمہ اور جب یہ سب کچھ ہو چکا تو اللہ تعالیٰ اپنی ازلی تقدیر کے ماتحت انہیں مقبرہ بہشتی کے لئے واپس قادیان لے آیا اور ہمیں ان کے آخری ایام کی خدمت کی توفیق اور سعادت عطا کی اور پھر مزید فضل الہی یہ ہوا کہ ان کی وفات بھی ایسے وقت میں ہوئی جبکہ حضرت خلیفہ اصیح ایدہ اللہ قادیان میں موجود تھے.حالانکہ اس سے قبل اور اس کے بعد ہر دو زمانہ میں آپ باہر سفر پر رہے اور صرف درمیان میں چند دن کے لئے قادیان میں قیام کیا اور پھر نماز جنازہ میں بھی غیر معمولی کثرت کے ساتھ دوستوں نے شرکت کی.یہ سب باتیں ہمارے قادر و متصرف رحیم و کریم خدا کے فضل و رحمت کا غیر معمولی کرشمہ ہیں والفضل بيد الله يوتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم غیر مبایعین کے ایک معزز رکن کا خواب جن اصحاب کی طرف سے مجھے اس موقع پر ہمدردی اور تعزیت کے خطوط موصول ہوئے.ان

Page 542

۵۳۵ مضامین بشیر میں سے ایک خط مولوی محمد یعقوب خان صاحب ایڈیٹر اخبار لائیٹ کا بھی تھا.خان صاحب موصوف غیر مبایعین کے ایک معزز رکن ہیں اور جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کے ہم زلف اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے داماد ہیں.خان صاحب نے اپنے اس خط میں حضرت مولوی صاحب مرحوم کی بہت تعریف کی ہے اور اپنا ایک خواب بھی لکھا ہے جو میں خود انہیں کے الفاظ میں اس جگہ درج کرتا ہوں خان صاحب لکھتے ہیں : - میں نے (حضرت مولانا مرحوم کی وفات سے چند دن قبل ) رویا میں دیکھا کہ آپ ہی کے مکان میں مولانا چار پائی پر پڑے ہیں اور بیماری کی حالت میں ہیں.اس چار پائی کے ساتھ ساتھ بڑے موٹے موٹے انار لگے ہوئے ہیں.جیسے ایک درخت کے ساتھ مگر ہر ایک انار کٹا کٹا یا ہے اور اس کے موٹے موٹے دانے ایسی چمک اور کشش رکھتے تھے کہ کھانے کو دل للچاتا تھا اور جب میں نے بھی ہاتھ بڑھا کر اس کے دو چار دانے کھائے تو خیال گزرا کہ یہ تو مولانا کی چیز ہے اور ساتھ ہی یہ سمجھ آئی کہ یہ جنت کا وہ نقشہ ہے جو قُطُوُ فُهَا دَانِيَةٌ کے میں 66 کھینچا گیا ہے.“ غیر مبایعین کے لئے ایک زبر دست حجت یہ خواب جہاں ایک طرف حضرت مولوی صاحب مرحوم کے نہایت نیک انجام کی طرف اشارہ کرتی ہے ، وہاں دوسری طرف ہمارے غیر مبایعین اصحاب کے لئے بھی ایک زبر دست حجت ہے.خان صاحب موصوف کا ایک ایسے شخص کے متعلق یہ خواب دیکھنا جو ان کے درمیان چھبیس سال کا طویل عرصہ رہ کر پھر ان سے قطع تعلق کر کے اور ان کے خیالات سے متنفر ہو کر قادیان کی طرف رجوع کرتا ہے اور اسی رجوع کی حالت میں وہ وفات پا تا اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوتا ہے اور خواب میں یہ دکھا یا جا نا کہ وہ نہ صرف جنتی ہے بلکہ جنت کے اعلیٰ اور دلکش پھلوں سے گھرا ہوا ہے اور یہ پھل اس کے لئے اس طرح کٹے کٹائے ہیں کہ گویا کھائے جانے کے لئے بالکل تیار ہیں اور خواب میں ہی یہ خیال آنا کہ یہ منظر بہتی نظاره قطوفها دانية کی ایک جھلک ہے ، حضرت مولوی صاحب کے غیر معمولی نیک انجام اور ان کے آخری خیالات اور آخری عقائد کے صحیح ہونے کی تائید میں ایک ایسی بین اور روشن دلیل ہے جس سے کوئی عقل مند اور غیر متعصب

Page 543

مضامین بشیر ۵۳۶ انکار نہیں کر سکتا اور اس خواب کا ایک لطیف حصہ یہ بھی ہے کہ مولوی محمد یعقوب خانصاحب کو خواب میں ہی ان دلکش پھلوں کے کھانے کی تحریک ہوئی جو اس طرف اشارہ تھا کہ انہیں خلافت حقہ کی طرف توجہ دینی چاہیئے.چنانچہ جب انہوں نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چند دانوں کو چکھا اور مزا محسوس کیا اور یہ چکھنا اس غرض سے تھا کہ انہیں اس کا مزا محسوس کرایا جائے اور اس کے حاصل کرنے کی تحریک کی جائے تو اس پر فوراً ان کے دل میں ڈالا گیا کہ یہ پھل تو حضرت مولوی صاحب مرحوم کا حصہ اور انہی کا حق ہیں.کاش ہمارے غیر مبایع اصحاب اس خواب پر غور کریں اور اس سے فائدہ اٹھا ئیں.والحکم الله والله خير الحاكمين حضرت مولوی صاحب کی اولا د سے گزارش بالآخر میں حضرت مولوی صاحب کی اولاد اور اپنے نسبتی بھائیوں اور بہنوں اور ان کی اولاد سے بھی جن میں سے کئی اب تک بیعت خلافت سے محروم ہیں، یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مرحوم اس نا پائدار دنیا میں اپنی پاک زندگی کے ایام گزار کر اپنے خدا کے حضور پہونچ چکا ہے اور اس کا انجام ایسا مبارک ہوا ہے کہ ہم سب کے لئے جائے رشک ہے مگر اس کی وفات سے آپ لوگوں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اگر آپ نے اپنے پاک نفس بزرگ کی زندگی اور اس کے نیک انجام کو دیکھتے ہوئے اس رستہ کی طرف قدم نہ اٹھایا جس کی طرف خدائے قدیر کی از لی تقدیر اپنے گونا گوں تصرفات کے ساتھ اسے وفات سے قبل کھینچ لائی تھی تو آپ یقیناً خدا کے سامنے جواب دہ ہوں گے.میرے دل میں آپ لوگوں کی بے حد محبت ہے.پس گو دنیا داری کے اصول کے ماتحت شاید یہ موقع ایسی باتوں کے کہنے کا نہیں مگر ہمارا مسلک دینی ہونا چاہیئے نہ کہ دنیاوی اور آپ کی محبت اور ہمدردی ہی مجھے اس فرض کی طرف توجہ دلا رہی ہے کہ میں اس موقع پر آپ کو بتا دوں اور جتا دوں کہ جدھر خدائی تقدیر کی انگلی اٹھ رہی ہے آپ کا فرض ہے کہ ادھر توجہ دیں اور اپنے مرحوم باپ اور دادا اور نانا کے مسلک کو ہاں اس مسلک کو جس کے صحیح ہونے پر خدائی مہر ثبت ہو چکی ہے، اپنا مسلک بنا کر خدائی انعاموں کے وارث ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اور آپ کا حافظ و ناصر رہے.اور آپ کو اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور انجام بخیر کرے.آمین اور اے خدا تو ایسا فضل فرما کہ میں بھی تیرا ایک بہت گناہگار اور ناکارہ بندہ ہوں.تیری وسیع رحمت سے اپنے عمل کے مطابق نہیں بلکہ اپنے اس جذبہ کے مطابق جو تو نے میرے دل میں ودیعت کیا ہے ، حصہ پاؤں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کیونکہ میں اپنے نفس کے متعلق بھی وہ علم نہیں رکھتا جو تو رکھتا ہے.آمین یا ارحم الراحمین

Page 544

دوستوں اور عزیزوں کا شکریہ ۵۳۷ مضامین بشیر آخر میں ان سب بزرگوں اور دوستوں اور عزیزوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں.جنہوں نے حضرت مولوی صاحب کی تیمار داری میں یا ان کی وفات کے بعد ان کی تجہیز و تکفین و تدفین وغیرہ کے انتظام میں حصہ لے کر ہمارا ہاتھ بٹایا اور اسلامی اخوت و ہمدردی کا ثبوت دیا.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين ( مطبوعه الفضل ۱۸ فروری ۱۹۴۳ء)

Page 545

مضامین بشیر ۵۳۸ خلافت کا نظام مذہب کے دائمی نظام کا حصہ ہے اور خدا تعالی کی ازلی نقد سر کا ایک زبردست کرشمہ کا قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ بطور اصول کے ارشاد فرماتا ہے کہ دنیا میں دو طرح کی چیزیں پائی جاتی ہیں.ایک وہ جن کا وجود محض عارضی اور وقتی حالات کا نتیجہ ہوتا ہے اور ان میں بنی نوع انسان کے کسی حصہ کے لئے کوئی حقیقی فائدہ مقصود نہیں ہوتا اور دوسری وہ جو نظام عالم کا حصہ ہوتی ہیں اور لوگوں کے لئے ان میں کوئی نہ کوئی فائدہ کا پہلو مقصود ہوتا ہے.مقدم الذکر چیزیں دُنیا میں جھاگ کی طرح اُٹھتی اور جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہیں مگر مؤخر الذکر چیز میں جم کر زندگی گزارتی ہیں اور انہیں دُنیا میں قرار حاصل ہوتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- " فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الأرض.یعنی جھاگ کی قسم کی چیز تو آنا نا نا گزر کر ختم ہو جاتی ہے.مگر نفع دینے والی چیز جم کر زندگی گزرتی ہے اور دُنیا میں قرار حاصل کرتی ہے.“ اس اصل کے ماتحت ہم صحیفہ قدرت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ لطیف منظر نظر آتا ہے کہ جو چیز بھی دنیا کے لئے کسی نہ کسی جہت سے مفید ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے قائم رہنے کے لئے کوئی نہ کوئی انتظام کر رکھا ہے.حتی کہ ادنیٰ سے ادنی جانوروں اور حقیر سے حقیر جڑی بوٹیوں کی بقاء نسل کا انتظام بھی موجود ہے اور قدرت کا مخفی مگر زبردست ہاتھ انہیں مٹنے اور نا پید ہو جانے سے بچائے ہوئے ہے.صحیفہ عالم کے زیادہ گہرے مطالعہ سے یہ بات بھی مخفی نہیں رہ سکتی کہ جتنی کوئی چیز بنی نوع انسان کے لئے زیادہ مفید ہوتی ہے ، اتنا ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی حفاظت کا انتظام زیادہ پختہ اور زیادہ وسیع ہوتا ہے.قرآن شریف کی حفاظت کا وعدہ بھی اسی اصل کے ماتحت ہے.

Page 546

چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- ۵۳۹ مضامین بشیر إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ " چونکہ قرآنی الہام ایک ہمیشہ کی یاد گار قرار دیا گیا ہے اور خدا کا یہ منشاء ہے کہ وہ قیامت تک لوگوں کے بیدار کرنے کا ذریعہ رہے.اس لئے خدا خود اس کا محافظ ہوگا اور ہمیشہ ایسے سامان پیدا کرتا رہے گا جو اسے ظاہری اور معنوی ہر دو لحاظ سے محفوظ رکھیں گے.گویا قرآنی حفاظت کی وجہ ”ذکر“ کے چھوٹے سے لفظ میں مرکوز کر دی گئی ہے.یہی حال نبوت کا ہے.جب اللہ تعالیٰ دنیا کو کسی عظیم الشان فتنہ وفساد میں مبتلا دیکھ کر اس کی اصلاح کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ کسی شخص کو اپنی طرف سے رسول یا نبی بنا کر مبعوث کرتا ہے مگر نبی بہر حال ایک انسان ہوتا ہے اور لوازمات بشری کے ماتحت اس کی زندگی چند گنتی کے سالوں سے زیادہ وفا نہیں کر سکتی.اس صورت میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس نبی کے مشن کو کامیاب بنانے اور انتہا تک پہنچانے کے لئے اس کی وفات کے بعد بھی کوئی ایسا انتظام کرے جس کے ذریعہ نبی کا بویا ہوا بیج اپنے کمال کو پہونچ سکے.اور وہ اصلاح جو اللہ تعالیٰ نبی کی بعثت سے پیدا کرنا چاہتا ہے دنیا میں قائم اور راسخ ہو جائے.یہ خدائی نظام جسے گویا نبوت کا تتمہ کہنا چاہیئے خلافت کے نام سے موسوم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ ہر عظیم الشان نبی کے بعد اس کے کام کو تعمیل تک پہنچانے کے لئے خلفاء کا سلسلہ قائم فرماتا ہے.یہ خلفاء بالعموم خود نبی یا مامور نہیں ہوتے مگر نبی کے تربیت یافتہ اور اس کے خدا داد مشن کو سمجھنے والے اور اسے چلانے کی اہلیت رکھنے والے ہوتے ہیں اور گو وہ خدا کی وحی کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے مگر خدا تعالیٰ اپنی تقدیر خاص کے ماتحت ایسا تصرف فرماتا ہے کہ نبی کے گزر جانے کے بعد وہی لوگ مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہیں جنہیں خدا اس کام کے لئے پسند فرماتا ہے گویا خدا تعالیٰ کی مخفی تاریں مومنوں کے قلوب پر متصرف ہو کر انہیں خود بخو د خلافت کے اہل شخص کی طرف پھیر دیتی ہیں.اسی لئے باوجود اس کے کہ ایک غیر ما مور خلیفہ لوگوں کا منتخب شدہ ہوتا ہے، اسلام یہ تعلیم دیتا ہے اور قرآن اس حقیقت کو صراحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.بظاہر یہ ایک متضادی بات نظر آتی ہے کہ ایسا شخص جو لوگوں کی کثرت رائے یا اتفاق رائے سے خلیفہ منتخب ہو اس کے تقر ر یا انتخاب کو خدا کی طرف منسوب کیا جائے مگر حق یہی ہے کہ باوجود ظاہری انتخاب کے ہر بچے خلیفہ کے انتخاب میں دراصل خدا کا مخفی ہاتھ کام کرتا ہے.اور صرف وہی شخص خلیفہ بنتا ہے اور بن سکتا ہے جسے خدا کی ازلی تقدیر اس کام کے لئے پسند کرتی ہے اور اس کے سوا کسی کی مجال نہیں کہ مسند خلافت پر قدم رکھنے کی جرات کر سکے.یہی گہری صداقت آنحضرت صلی اللہ علیہ

Page 547

مضامین بشیر ۵۴۰ وسلم کے اس قول میں مخفی ہے جو آپ نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے حضرت ابو بکر کے متعلق فرمایا.آپ فرماتے ہیں : - أَوْ أَرَدْتُ اَنْ أُرْسِلَ إِلى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ فَأَعْهَدَانْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ، أَوْ يَتَمَنَّى المَتَمَنُّونَ، ثُمَّ قُلْتَ يَابَى اللَّهُ وَيَدْ فَعُ وَيَدْفَعُ المَوْ مِنُونُ، أَوْ يَرْفَعُ اللَّهُ وَيَابَى المَؤْمِنُونَ.ك یعنی میں ابو بکر کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنا چاہتا تھا مگر پھر میں نے خیال کیا کہ یہ خدا کا کام ہے.خدا ابوبکر کے سوا کسی اور شخص کو خلیفہ نہیں بننے دے گا اور نہ ہی خدا کی مشیت کے ماتحت مومنوں کی جماعت ابوبکر کے سوا اور کی خلافت پر راضی ہو سکے گی.“ اللہ اللہ ! اس چھوٹے سے فقرہ میں نظامِ خلافت کا کتنا وسیع مضمون ودیعت کر دیا گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بے شک میرے بعد بظاہر مسلمانوں کی کثرت ابو بکر کو خلیفہ منتخب کرے گی مگر دراصل اس رائے کے پیچھے خدائے قدیر کی از لی تقدیر کام کر رہی ہوگی اور وہی ہوگا جو خدا کا منشاء ہو گا اور اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور با وجود اس کے کہ اندرونی طور پر انصار نے اپنے میں سے کسی اور شخص کو کھڑا کرنا چاہا اور بیرونی طور پر عرب کے بدوی قبائل نے باغی ہو کر خلافت کے نظام کو ہی ملیا میٹ کر دینے کی تدبیر کی مگر چونکہ ابوبکر خدا کا مقرر کردہ خلیفہ تھا، اس لئے اس کے اتباع کی قلت اس کے مخالفین کی کثرت کو اس طرح کھا گئی.جس طرح سمندر کا پانی اپنے اوپر کی چھاگ کو کھا جاتا ہے.پھر جو الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان سے فرمائے کہ ” خدا تمہیں ایک قمیض پہنائے گا اور لوگ اُسے اتارنا چاہیں گے مگر تم اسے نہ اُتارنا.وہ بھی اسی قدیم سنتِ الہی کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دراصل خلیفہ خدا بناتا ہے اور انتخاب کرنے والے لوگ صرف ایک پردہ کا کام دیتے ہیں اور ایک آلہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے.جسے خدا اپنی تقدیر کو جاری کرنے کے لئے اپنے ہاتھ میں لیتا ہے.ان الفاظ پر غور کرو کہ وہ کیسے پیارے اور کیسے دانائی سے معمور ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ بنانے کے فعل کو خدا کی طرف منسوب فرماتے ہیں اور خلافت سے معزول کرنے کی کوشش کو لوگوں کی طرف نسبت دیتے ہیں.گویا جو صورت بظا ہر نظر آتی ہے اس کے بالکل برعکس ارشاد فرماتے ہیں.خلافت کے انتخاب میں بظاہر نظر آنے والی

Page 548

۵۴۱ مضامین بشیر صورت یہ ہے کہ لوگ خلیفہ کو منتخب کرتے ہیں اور خدا بظاہر لاتعلق ہوتا ہے لیکن با وجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد یہ فرماتے ہیں کہ خلیفہ بنا تا خدا ہے.ہاں مفسد لوگ بعض اوقات خدا کے بنائے ہوئے خلفاء کو معزول کرنے کی کوشش ضرور کیا کرتے ہیں.یہ وہ عظیم الشان نکتہ ہے جسے سمجھنے کے بعد کوئی شخص خدا کے فضل سے مسئلہ خلافت کے تعلق میں ٹھو کر نہیں کھا سکتا ہے.لیکن چونکہ دنیا کا ہر نظام وقتی ہے.اور عموماً دوروں میں تقسیم شدہ ہوتا ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہوشیار اور چوکس رکھنے کے لئے یہ انکشاف بھی فرما دیا کہ ” میرے بعد متصل اور مسلسل طور پر خلافت حلقہ کا دور صرف تمہیں سال تک چلے گا.جس کے بعد غاصب لوگ ملوکیت کا رنگ اختیار کر لیں گے.اور اس کے بعد حسب حالات اور ضرورت زمانہ روحانی خلافت کے دور آتے رہیں گے.حتی کہ بالآخر مسیح و مہدی کے نزول کے بعد پھر منہاج نبوت پر ظاہری خلافت کی صورت قائم ہو جائے گی.‘‘ چونکہ خلافت کا نظام نبوت کے نظام کا حصہ اور تتمہ ہے اور نبوت کی خدمت اور تکمیل کے لئے قائم کیا جاتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق قرآن شریف کی آیت استخلاف میں ایسی علامات مقرر فرما دی ہیں جو سچی خلافت کو جھوٹی خلافت سے روز روشن کی طرح ممتاز کر دیتی ہیں فرماتا ہے : - "وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُو الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ط وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَالِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ.یعنی خدا تعالیٰ کا یہ پختہ وعدہ ہے کہ وہ عمل صالح بجالانے والے مومنوں میں سے ملک میں خلفاء مقرر کرے گا ( یہ مطلب نہیں کہ جو مومن بھی عمل صالح کرنے والا ہوگا وہ ضرور خلیفہ بنے گا بلکہ اس میں اشارہ یہ ہے کہ جو خلیفہ ہو گا وہ ضرور مومن اور عمل صالح بجالانے والا ہوگا ) یہ خلفاء اسی سنت کے مطابق مقرر کئے جائیں گے.جس طرح پہلی امتوں میں مقرر کئے گئے.اور خدا تعالیٰ اس دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے.ان کے ذریعہ سے دنیا میں مضبوطی سے قائم

Page 549

مضامین بشیر ۵۴۲ فرما دے گا.اور ( چونکہ ہر تغیر کے وقت ایک خوف کی حالت پیدا ہوا کرتی ہے ) اللہ تعالیٰ ان کی خوف کی حالت کو اپنے فضل سے امن میں بدل دے گا.یہ لوگ میرے بچے پرستار ہوں گے.اور میرے سوا کسی معبود کے سامنے ( خواہ وہ مخفی ہو یا ظاہر ) گردن نہیں جھکا ئیں گے.اور جو شخص ایسی نصرت و تائید کو دیکھتے ہوئے بھی اس نظام خلافت سے سرکشی اختیار کرے گا وہ یقیناً خدا کا مجرم اور فاسق سمجھا جائے گا.یہ آیت کریمہ جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صراحت کے ساتھ خلافت کے نظام سے متعلق قرار دیا ہے ، اپنے مختصر الفاظ میں ایک نہایت وسیع مضمون کو لئے ہوئے ہے اور اس نقشہ کی بہترین تصویر ہے جو کم و بیش ہر نئی خلافت کے قیام کے وقت دنیا کے سامنے آتا ہے.ہر نبی یا خلیفہ کی وفات ایک عظیم زلزلہ کا رنگ رکھتی ہے اور ہر بعد میں آنے والا خلیفہ ایسے حالات میں مسند خلافت پر قدم رکھتا ہے کہ جب لوگوں کے دل سہمے ہوئے اور خوفزدہ ہوتے ہیں کہ اب کیا ہوگا مگر پھر لوگوں کے دیکھتے دیکھتے خدا اس آیت کریمہ کے وعدہ کے مطابق اپنی تقدیر کی مخفی تاروں کو کھینچنا شروع کرتا ہے اور خوف کے دنوں کو امن سے بدل کر آہستہ آہستہ جماعت کو کمزوری سے مضبوطی کی طرف یا مضبوط حالت سے مضبوط تر حالت کی طرف اٹھانا شروع کر دیتا ہے.اور یہ خلفا ء اپنی دینی حالت اور دینی خدمت سے اس بات پر مہر لگا دیتے ہیں کہ خدا کی محبت اور خدا کی نصرت کا ہاتھ ان کے ساتھ ہے اور یہ سلسلہ اپنی ظاہری صورت میں اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ خدا کے علم میں نبی کے لائے ہوئے دین کے استحکام اور اس کے مشن کی تکمیل اور مضبوطی کے لئے ضروری ہوتا ہے.جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا ہے.یہ خلافت کا نظام جو دراصل نبوت کا حصہ اور تمہ ہے.ہر عظیم الشان نبی کے زمانہ میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے کام کی تکمیل کے لیئے حضرت یوشع خلیفہ ہوئے اور حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد پطرس خلیفہ ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن سارے نبیوں سے زیادہ شاندار اور زیادہ وسیع تھا اس لئے آپ کے بعد خلافت کا نظام بھی سب سے زیادہ نمایاں اور شاندار صورت میں ظہور پذیر ہوا، جس کی تیز کرنیں آج تک دنیا کو خیرہ کر رہی ہیں.حق یہ ہے کہ اگر نبوت کے ساتھ خلافت کا نظام شامل نہ ہو تو نعوذ باللہ خدا پر ایک خطر ناک الزام عائد ہوتا ہے کہ اس نے دنیا میں ایک اصلاح پیدا کرنی چاہی مگر پھر اس اصلاح کے

Page 550

۵۴۳ مضامین بشیر لئے ایک فرد واحد کو چند سال زندگی دے کر وفات دے دی اور اس اصلاحی نظام کو اپنے ہاتھ سے ملیا میٹ کر دیا.گویا یہ ایک بلبلا تھا جو سمندر کی سطح پر ظاہر ہوا اور پھر ہمیشہ کے لئے مٹ کر پانی کی مہیب لہروں میں غائب ہو گیا.سبحان الله ما قدروا الله حق قدرہ ہمارا حکیم وعلیم خدا تو وہ خدا ہے کہ جو ایک ادنیٰ سے ادنی نفع دینے والی چیز کو بھی دنیا میں قائم رکھتا اور اس کے قیام کا سامان مہیا کرتا ہے.چہ جائیکہ نبوت جیسے جو ہر اور ایک مامور کی لائی ہوئی اصلاح کو ایک ہوا کے اڑتے ہوئے جھونکے کی طرح باغ عالم میں لائے اور پھر لوگوں کے دیکھتے دیکھتے اسے ان کی نظروں سے غائب کر دے اور اس کے روح پرور اثر اور حیات افزا تا شیر کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے اپنی طرف سے کوئی انتظام نہ فرمائے.یقینا یہ منظر ایک کھیل سے زیادہ نہیں اور کھیل کھیلنا شیطان کا کام ہے.خدا کا نہیں.خدا جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کی اہمیت اور وسعت کے مطابق حال اس کے لئے سامان بھی مہیا فرما تا ہے اور اس کام کے دائیں اور بائیں اور اوپر اور نیچے کو ایسی آہنی سلاخوں سے مضبوط کر دیتا ہے کہ پھر جب تک اس کا منشاء ہو کوئی چیز اسے اس کی جگہ سے ہلا نہیں سکتی.اسی لئے خدا کی یہ سنت ہے کہ خاص خاص انبیاء کے صرف بعد ہی ان کے مشن کی مضبوطی اور استحکام کے لئے خلافت کا نظام قائم نہیں فرما تا بلکہ ان کی بعثت سے پہلے بھی اُن کے لئے رستہ صاف کرنے کی غرض سے بعض لوگوں کو بطور ا رہاص یعنی آنے والی منزل کی علامت کے طور پر مبعوث کرتا ہے.جولوگوں کی توجہ کو آنے والے مصلح کے مشن کی طرف پھیرنا شروع کر دیتے ہیں.چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے حضرت سکی بطور ا رہاص مبعوث ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے متعد دلوگ جو حنفا کہلاتے تھے ، توحید کے ابتدائی جھونکے بن کر ظاہر ہوئے اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے سید احمد صاحب بریلوی سوئے ہوئے لوگوں کی بیداری کا ذریعہ بن کر آئے.کیا ایسے حکیم و دانا خدا سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ نبی کی چند سالہ زندگی کے بعد اس کے لائے ہوئے مشن کو بغیر کسی انتظام کے چھوڑ سکتا ہے اور اس بڑھیا کی مثال بن جاتا ہے جو اپنے محنت سے کاتے ہوئے دھاگے اپنے ہاتھ سے تباہ و برباد کر دیتی ہے.میں پھر کہوں گا سبحان الله ما قدروا الله حق قدره.( مطبوعه الفضل ۴ اپریل ۱۹۴۳ء)

Page 551

مضامین بشیر ۵۴۴ خلافت کا نظام مذہب کے دائمی نظام کا حصہ ہے اور خدا کی از لی تقدیر کا ایک زبر دست کرشمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی چونکہ دنیا میں ایک عظیم الشان مشن لے کر مبعوث ہوئے تھے اور اپنے مقام کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل و بروز کامل تھے.حتی کہ آپ نے ان کے مقام اور کام کے پیش نظر فر مایا : - " يُدْفَنُ مَعِيَ فِي قَبْرِى !! یعنی مسیح موعود میرے ساتھ میری قبر میں دفن ہوگا.یعنی آخرت میں اسے میری معیت حاصل ہوگی اور اسے میرے ساتھ رکھا جائے گا.“ اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے خداداد مشن کی تکمیل کے لئے بھی آپ کے بعد خلافت کا نظام قائم ہو.چنانچہ آپ نے اپنی کتب اور ملفوظات میں متعدد جگہ اس نظام کی طرف اشارہ کیا ہے بلکہ آپ کے بہت سے الہامات میں بھی اس نظام کی طرف اشارات پائے جاتے ہیں مگر میں اس جگہ اختصار کے خیال سے صرف ایک حوالہ پر اکتفا کرتا ہوں.اور یہ وہ عبارت ہے جو آپ نے اپنے زمانہ وفات کو قریب محسوس کر کے اپنے متبعین کے لیئے بطور وصیت تحریر کی.آپ فرماتے ہیں :- ” خدا کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا.کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے.اور ان کو غلبہ دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تحمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا.بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر.

Page 552

۵۴۵ مضامین بشیر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے.ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے.اور ایسے اسباب پیدا کر دینا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدرنا کام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے.خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے.جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا.جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی.اور بہت سے بادیہ نشین مرتد ہو گئے.اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا.اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا : - ہوا وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمُ دينَهُمُ الَّذِى ارتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمُ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمُنًا.یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خد تعالی دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر د یوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی (یعنی میری وفات کے قریب ہونے کی خبر ) غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں.کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.۱۲

Page 553

مضامین بشیر ۵۴۶ یہ عبارت جس صراحت اور تعیین کے ساتھ نظام خلافت کی طرف اشارہ کر رہی ہے.وہ محتاج بیان نہیں اور یہ عبارت بطور وصیت کے لکھی گئی جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے قرب وفات کی خبر پا کر اپنے بعد کے نظام کے بارے میں اپنی جماعت کو آخری نصیحت فرمائی اور ہر عقلمند غیر متعصب شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ اس عبارت سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں.اوّل : خدا تعالیٰ انبیاء کے کام کی تکمیل کے لئے دو قسم کی قدرت ظاہر فرماتا ہے.ایک خود نبیوں کے زمانہ میں اور دوسری ان کی وفات کے بعد تا کہ اُن کے مشن اور اُن کی جماعت کو ایک لمبے عرصہ تک اپنی خاص نگرانی میں رکھ کر ترقی دے اور تکمیل تک پہنچائے.دوم : دوسری قدرت خلافت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر کے وجود میں ظاہر ہوئی.سوم : یہ خلافت کا نظام جو نبوت کے نظام کا حصہ اور اسی کا تمہ ہے خدائی سنت کا رنگ رکھتا ہے اور ہر نبی کے زمانہ میں قائم ہوتا رہا ہے.چهارم: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی اسی رنگ میں قدرت ثانیہ کا ظہور مقدر تھا.کیونکہ جیسا کہ آپ خود خدا کی ایک مجسم قدرت تھے.آپ کے بعد بعض اور وجودوں نے دوسری قدرت کا مظہر ہونا تھا اور ان وجودوں نے حضرت ابوبکر کے رنگ میں ظاہر ہونا تھا.پنجم : نبی کے بعد آنے والے خلفاء خواہ بظاہر صورت لوگوں کے انتخاب سے مقرر ہوں مگر دراصل ان کے تقرر میں خدا کا ہاتھ کام کرتا ہے اور درحقیقت خلیفہ خدا ہی بناتا ہے.ششم : سورہ نور کی آیت استخلاف نظام خلافت سے تعلق رکھتی ہے اور حضرت ابو بکر کی خلافت اسی آیت کے ماتحت تھی اور حضرت مسیح موعود کے بعد کی خلافت بھی اسی آیت کے ماتحت ہوئی تھی.(مطبوعہ الفضل ۷ اپریل ۱۹۴۳ء)

Page 554

۵۴۷ مضامین بشیر مبر کے متعلق اسلام کی اصولی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسوہ حسنہ سیده نواب مبارکه بیگم صاحبہ کے مہر کے متعلق ضروری تشریح کچھ عرصہ ہوا الفضل میں مہر کے متعلق حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کا ایک اصولی اور قیمتی ارشاد شائع ہوا تھا.اس ارشاد کی ضمن میں ہمشیرہ مکر مہ مبارکہ بیگم صاحبہ کے مہر کا بھی ذکر آیا تھا.اس بارے میں حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلہا سے جو علم مجھے حاصل ہوا ہے، میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ اسے دوستوں کی اطلاع کے لئے شائع کر دوں.حضرت ام المومنین نے مجھ سے فرمایا کہ تمہاری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا مہر چھپن ہزار روپیہ مقرر ہوا تھا اور جب یہ مہر مقرر ہوا تو حضرت صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) نے مجھ سے فرمایا تھا کہ : - یہ مہر اس لئے زیادہ رکھا گیا ہے کہ معلوم ہوا ہے کہ ریاست مالیر کوٹلہ میں خاوند کی جائداد میں سے بیوی کو حصہ نہیں ملتا.گویا اس قدر مہر مقرر کئے جانے میں یہ بات بھی مد نظر تھی کہ جائداد میں سے حصہ نہ ملنے کی تلافی ہو جائے.‘۱۳ اس روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو مہر ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا مقرر کیا گیا تھا یعنی چھپن ہزار روپیہ (حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی ایک تقریر میں سہواً پچپن ہزار مذکور ہے مگر دراصل مہر چھپن ہزار تھا) وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رائے اور خیال کے مطابق مہر کے عام معیار سے زیادہ تھا اور اس زیادتی کی وجہ یہ تھی کہ ریاست کے قانون کے مطابق ہماری ہمشیرہ کو اخویم محترم نواب محمد علی خانصاحب کی جائداد میں سے حصہ نہیں مل سکتا تھا.پس اس کمی کو اس رنگ میں پورا کر دیا گیا.اس ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس وقت ہماری ہمشیرہ کی شادی ہوئی تھی اس وقت نواب صاحب موصوف کی سالانہ آمد قریباً چوبیس ہزار روپی تھی.( گو بعد میں نواب صاحب کی

Page 555

مضامین بشیر ۵۴۸ آمد زیادہ ہوگئی ) اس طرح ہماری ہمشیرہ کا مہر گویا نواب صاحب کی دوسال کی آمد سے بھی زیادہ تھا.( گو اس وقت اسے ایک غلط فہمی کی بناء پر دو سال کی آمد کے برابر سمجھا گیا تھا ) مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے.یہ زیادتی مہر کے عام اصول کے ماتحت نہیں تھی.بلکہ جائداد کے حصہ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے تھی.مہر کے متعلق قرآن کریم کا ارشاد اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں یہ بات بھی دوستوں کی خدمت میں عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم اور سنت نبوی سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مہر میں گو بہر حال خاوند کی حیثیت کو مد نظر رکھنا ضروری ہے مگر وہ اس قدر گراں نہیں ہونا چاہیئے کہ مرد کے لئے اس کی دوسری ذمہ داریوں کی ادائیگی میں روک پیدا کر دے یا نا واجب تنگی اور بوجھ کا موجب ہو.بلکہ ایسا ہونا چاہیئے کہ خاوند اسے طیب نفس اور بشاشت قلب کے ساتھ ادا کر سکے.چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وَاتُو النِّسَاءَ صَدُقَتِهِنَّ نِحْلَةً.١٢ یعنی اے مرد و! تمہیں چاہیئے کہ عورتوں کا مہر بشاشت قلب اور طیب نفس کے ساتھ ادا کیا کرو.اور اس کی ادائیگی میں تمہارے دلوں کے اندر تنگی نہ پیدا ہوا کرے.“ یہ آیت کریمہ جہاں اس ارشاد کی حامل ہے کہ خاوند اپنی بیوی کے مہر کی ادائیگی میں حیل و حجت اور تنگ دلی کا طریق نہ اختیار کرے، وہاں اس آیت میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ مہر ایسا ہونا چاہیئے جسے انسان اپنے حالات کے ماتحت طیب نفس کے ساتھ ادا کر سکے اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ مہر نا واجب طور پر بھاری نہ ہو ورنہ مہر زیادہ باندھ کر پھر یہ توقع رکھنا کہ خاوند اسے بشاشت قلب اور طیب نفس سے ادا کرے ایک تکلیف ما لا يطاق کا رنگ رکھتا ہے جو درست نہیں.فطری قانون کے ماتحت طیب نفس کی کیفیت تبھی پیدا ہو سکتی ہے کہ جب مہر کی رقم ایسی ہو کہ خاوند سے اپنی مالی حالت کے پیش نظر آسانی اور خوشی کے ساتھ ادا کر سکے.علاوہ ازیں قرآن شریف کی متعدد آیات میں یہ اشارہ ملتا ہے اور احادیث سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ شریعت اسلامی نے اس بات کو پسند کیا بلکہ بہتر قرار دیا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو خاوند شادی کے وقت ہی اپنی بیوی کا مہر ادا کر دے اور تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ صحابہ کرام عموماً ایسا ہی کیا کرتے تھے.یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ مہر زیادہ نہیں ہونا چاہیئے.کیونکہ جب شادی کے موقع پر

Page 556

۵۴۹ مضامین بشیر ہی مہر کی نقد بہ نقد ادئیگی کو پسند کیا گیا ہے ( اور ظاہر ہے کہ شادی کے وقت مرد کے لئے اور بھی کئی قسم کے اخراجات در پیش ہوتے ہیں ) تو لاز ما یہی سمجھا جائے گا کہ شریعت کا یہ منشاء نہیں کہ مہر کی وجہ سے مرد کسی غیر معمولی بوجھ کے نیچے دب جائے.بلکہ شریعت نے اسے ایک ایسی چیز قرار دیا ہے جو دوسرے اخراجات کو جاری رکھتے ہوئے معقول طور پر برداشت کی جا سکے.عام حالات میں مہر کی حد اندریں حالات حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مہر کے متعلق جو یہ اصولی ارشاد فرمایا ہوا ہے کہ وہ مرد کی چھ ماہ کی آمد سے لے کر بارہ ماہ کی آمد تک ہونا چاہیئے ھا.وہ بہت خوب اور مناسب ہے.اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں مہر چھ ماہ کی آمد کے برابر ہونا چاہیئے مگر خاص حالات میں سات آٹھ نو یا دس ماہ کی آمد تک رکھا جا سکتا ہے.خلاصہ یہ کہ شریعت اسلامی کے اصولی رجحان کو دیکھتے ہوئے عام حالات میں چھ ماہ کی حد بہت مناسب اور بہتر ہے اور اکثر صورتوں میں اس سے اوپر جانے کی ضرورت نہیں.مگر چھ ماہ کے اندازے کا یہ مطلب نہیں کہ مہر کسی صورت میں بھی اس کے کم نہیں ہوسکتا کیونکہ استثنائی حالات میں ( مثلاً جبکہ خاوند بہت مقروض ہو یا اس پر بہت سے دوسرے رشتہ داروں کا بوجھ ہو وغیرہ ذالک) مہر اس سے بھی کم رکھا جا سکتا ہے اور کم ہونا چاہیئے اور اس کے مقابل پر دوسری قسم کے استثنائی حالات میں مہر دس ماہ کی آمد سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے.پس گو بہر حال مہر خاوند کی مالی حیثیت کی بناء پر مقرر ہونا چاہیئے یعنی نہ تو وہ محض برائے نام ہو اور نہ ہی نمائش کے خیال سے بڑھا چڑھا کر رکھا جائے بلکہ حالات کے مطابق واجبی ہولیکن بہر صورت اس کے تقرر میں اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیئے کہ اس کی ادائیگی خاوند پر کوئی غیر معمولی بوجھ نہ بن جائے بلکہ وہ ایسا ہو کہ قرآنی منشاء کے ماتحت ایک نیک دل خاوند اسے بشاشت قلب اور طیب نفس کے ساتھ ادا کر سکے.میں نے نیک دل خاوند کی شرط اس لئے لگائی ہے کہ ایک خسیس اور کنجوس انسان کے لئے تو ایک روپیہ دینا بھی دوبھر ہوتا ہے اور اسے کسی رقم پر بھی خواہ وہ کتنی ہی قلیل ہو طیب نفس کی کیفیت حاصل نہیں ہوسکتی.پس ایسے لوگوں کا معاملہ جدا گانہ ہے.شریعت نے اپنے احکام کی بنیا د ایسے لوگوں کی طبیعت پر نہیں رکھی بلکہ عام انسانی فطرت کے اصولوں پر رکھی ہے.واللہ اعلم ( مطبوعہ الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۴۳ء)

Page 557

مضامین بشیر موسیقی کے متعلق صحیح زاویہ نظر اور میرے ایک مضمون کے متعلق غلط انہی کا ازالہ ایک نامہ نگار کا مضمون الفضل مورخہ ۲ نومبر ۴۳ ء میں مبارک احمد خاں صاحب پسر محترمی ماسٹر عبدالعزیز خاں صاحب مالک طبیہ عجائب گھر کا ایک مضمون فن موسیقی کے مطابق گانا سننے کے متعلق شائع ہوا ہے.جس میں نوجوان نامہ نگار نے اس اہم مضمون کے متعلق بہت سے مفید حوالہ جات جمع کرنے کے علاوہ جماعت احمدیہ کے مفتی کا فتوی بھی شائع کیا ہے.مضمون یقیناً اخلاص اور محنت اور کوشش کے ساتھ لکھا گیا ہے جس میں بعض احادیث اور بہت سے گذشتہ صلحاء کے حوالے درج کرنے کے علاوہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کے بعض خطبات کے اقتباسات بھی شامل کئے گئے ہیں اور بالآخر جماعت احمدیہ کے مفتی حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کا ایک فتویٰ درج کر کے بتایا گیا ہے کہ : - آلات موسیقی کے ساتھ گانا سننا ممنوع ہے خواہ مرد کا ہو یا عورت کا اور آلات خواہ پرانے ہوں یا جدید.اور خواہ گانا اپنی ذات میں بُرے مضمون پر مشتمل ہو یا اچھے پر 66 ظاہر ہے کہ جو مضمون احادیث نبوی اور ارشاد حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ اور فتاویٰ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مہر کے ساتھ شائع ہو.اس کی صحت میں کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی.سوائے اس کے کہ کسی شخص کو اس استدلال پر اعتراض ہو جو پیش کردہ حوالوں سے کیا گیا ہو یا ان معنوں سے اختلاف ہو جو درج کردہ حوالوں سے نکالے جاتے ہوں یا کوئی شخص بعض ایسے حوالے پیش کرسکتا ہو جو ان پیش کر دہ حوالوں کو نا قابل استدلال قرار دیتے ہوں اور حق یہ ہے کہ میں مخلص نامہ نگار کی

Page 558

۵۵۱ مضامین بشیر محنت کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کیونکہ قطع نظر اس کے کہ اُن کے مضمون کے بعض حصے درست ہیں یا نہیں.انہوں نے اس مضمون کے ذریعہ جماعت کو ایک اصولی امر کی طرف توجہ دلائی ہے جو آج کل کثیر التعداد لوگوں کی ٹھوکر بلکہ بعض حالات میں تباہی کا موجب ہو رہا ہے اور جس کے انتہائی خطرات سے بعض احمدی بھی ابھی تک پوری طرح آگاہ نہیں مگر مجھے اس مضمون میں ایک بات قابل اعتراض اور دوسری بات قابل دریافت نظر آتی ہے جسے میں اس جگہ پیش کر دینا ضروری خیال کرتا ہوں.استفتاء کی بنیاد مبارک احمد خاں صاحب نے جو حسن اتفاق سے میرے استاد ماسٹر عبدالعزیز خانصاحب کے فرزند ہیں اور اس لئے ہم دونوں ایک دوسرے پر دوسروں کی نسبت غالبا کسی قدر زیادہ حق رکھتے ہیں ، اپنے مضمون میں اپنے استفتاء کی بنیاد میرے ایک مضمون کو بنایا ہے جو ایک بدعت کا آغا ز کے عنوان کے ماتحت الفضل مورخہ ۲۹ ستمبر ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا تھا.جس میں میں نے یہ دیکھ کر کہ قادیان کی ایک مسنون دعوت ولیمہ میں جس میں فریقین مخلص احمدی تھے اور مردوں اور عورتوں کی بیٹھنے کی جگہ میں صرف ایک دیوار حائل تھی ، ریڈیو یا گراموفون کے گانے کے ذریعہ مہمانوں کی دعوت کو پر تکلف بنانے کی کوشش کی گئی تھی.اس فعل کو ایک بدعت قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی.اور جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ایسے وقت میں جبکہ ہم چاروں طرف سے دجالی تہذیب کے فتنوں سے گھرے ہوئے ہیں، ہمیں اس احتیاط کی بے حد ضرورت ہے کہ کہیں ہم غفلت کی حالت میں مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر کسی خطرناک گڑھے میں نہ گر جائیں اور میں نے اس جہت سے بھی جماعت کو ہوشیار کیا تھا کہ گو ایسے خطرات کا آغاز اکثر اوقات بہت حقیر اور نا قابل التفات نظر آیا کرتا ہے مگر انجام بالعموم نہایت مہیب اور مہلک ہوتا ہے.جو بسا اوقات ایک قوم کی قوم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے.الغرض میرا یہ مضمون نہ صرف اپنی غرض وغایت کے لحاظ سے بلکہ اپنے الفاظ و مفہوم کے لحاظ سے بھی موجودہ زمانہ کی موسیقی اور اس کے خطرناک نتائج کے خلاف بھرا پڑا تھا.لیکن ضمناً اس میں ایک ایسا فقرہ بھی آگیا تھا کہ اگر کوئی ایسا گانا ہو جس میں کوئی ناجائز عنصر نہ ہو.اور نہ کوئی مخرب اخلاق بات ہو اور اس میں انہاک اور ضیاع وقت کی صورت بھی نہ پائی جائے تو کبھی کبھار گھر میں پرائیویٹ طور پر اس کا سننا قابل اعتراض نہیں سمجھا جا سکتا مگر میرے اس ضمنی فقرہ کو جو حقیقیہ ضمنی ہی تھا کیونکہ سارا مضمون موجودہ زمانہ کی موسیقی کے خطرات کے خلاف بھرا پڑا تھا اور پھر اس

Page 559

مضامین بشیر ۵۵۲ ضمنی فقرہ میں بھی میری طرف سے چار اہم شرائط لگا دی گئی تھیں.جن کی تشریح میں آگے چل کر بیان کروں گا.ہمارے نوجوان مضمون نگار نے اپنے استفتاء کی بنیاد بنا کر پیش کیا ہے.گویا میں جدید موسیقی کا دلدادہ اور حامی ہوں اور نامہ نگار صاحب اس کے الفاظ کو پیش کر کے حضرت مفتی سلسلہ سے اس کے خلاف فتویٰ طلب فرما رہے ہیں.چنانچہ مبارک احمد خاں صاحب لکھتے ہیں :.و کچھ عرصہ ہوا.الفضل جلد ۲۸ نمبر ۲۲۱ میں ہمارے سلسلہ کے ایک محترم بزرگ نے ( یہ اشارہ خاکسار کی طرف سے ) اس بدعت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا تھا کہ ریڈیو سیٹوں پر ایسے گانے جو مخرب اخلاق نہ ہوں اور نہ ہی اپنے اندر کوئی نا جائز عنصر رکھتے ہوں، حد اعتدال کے اندر سننے سے کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا.( یہ الفاظ بھی صحیح طور پر خاکسار کے نہیں ) اس پر میں نے مضمون مذکورہ کے الفاظ میں ہی مندرجہ ذیل استفتاء حضرت مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت میں ارسال کیا تھا جس کی نقل مع جواب حسب ذیل ہے :- استفتاء بخدمت گرامی حضرت مفتی سلسلہ عالیہ احمد یہ دام معالیکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ براہ کرم مندرجہ ذیل استفتاء کا جواب مرحمت فرما کر ممنون فرمایا جائے.ریڈیو سیٹوں پر سُر اور تال کے قواعد کے مطابق جدید آلات موسیقی کے ساتھ عورتوں یا مردوں کے گانے کبھی کبھار بطور تفریح سنناور آنحالیکہ گانا بُرا نہ ہو اور نہ ہی کوئی مخرب اخلاق یا نا جائز عنصر اس گانے میں شامل ہو.اس شرط کے ساتھ کہ وہ حد اعتدال سے تجاوز کر کے انہماک اور ضیاع وقت کا موجب بھی نہ ہونے لگے.از روئے شرع شریف گناہ یا معصیت خدا اور رسول میں شامل ہے یا نہیں؟ اس کے مقابل میرے مضمون کا وہ فقرہ جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسی کے الفاظ میں یہ استفتاء پیش کیا جا رہا ہے یہ تھا : - اگر کوئی شخص اپنے گھر میں پرائیویٹ طور پر کبھی کبھار موسیقی سن لیتا ہے تو اگر یہ موسیقی اپنے اندر کوئی مخرب اخلاق یا نا جائز عنصر نہیں رکھتی تو مجھے یا کسی اور شخص کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا.بشرطیکہ وہ حد اعتدال سے تجاوز کر کے انہماک اور

Page 560

۵۵۳ مضامین بشیر ضیاع وقت کا موجب نہ ہونے لگے.بے احتیاطی میرے مضمون اور اپنی اس عبارت کے پیش نظر میرے مضمون نگار دوست خود ملا حظہ فرمائیں کہ اول :- کیا ان کے لئے یہ مناسب اور درست تھا کہ وہ میرے مضمون کے اصل مقصد اور اس کے حقیقی موضوع کے خلاف بلکہ اسے بالکل نظر انداز کرتے ہوئے اس کے ایک محض ضمنی فقرہ کو اپنے استفتاء کی بنیاد بنا ئیں.دوم : - کیا میرے ضمنی فقرہ کی عبارت اور ان کے استفتاء کی عبارت ایک ہے اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو کیا ان کے واسطے یہ جائز تھا کہ دعویٰ تو یہ کریں کہ میرے مضمون کے الفاظ میں ہی استفتاء پیش کر رہے ہیں مگر عملاً اسے بدل کر اور اس کے ساتھ اپنی طرف سے ایسے الفاظ زیادہ کر کے جو میں نے ہر گز نہیں کہے اپنا استفتاء مرتب کریں.چنانچہ استفتاء میں یہ الفاظ لکھے گئے ہیں کہ : - سر اور تال کے قواعد کے مطابق جدید آلات موسیقی کے ساتھ عورتوں یا مردوں کے گانے سننا 66 مجھے میرے عزیز نامہ نگار صاحب بتائیں کہ میرے فقرہ میں یہ الفاظ یا اس مفہوم کے الفاظ یا اس قسم کے الفاظ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کہاں ہیں ؟ تو پھر کیا یہ انصاف کے خلاف نہیں.کہ دعوئی تو یہ کیا جائے کہ میرے مضمون کے الفاظ میں ہی استفتاء پیش کیا جا رہا ہے مگر عملاً استفتاء کی عبارت میں خود اپنی طرف سے کئی الفاظ زائد کر دئیے جائیں.اور الفاظ بھی ایسے جو استفتاء کی صورت اور اس کی بنیاد کو ہی بدل دیتے ہیں.اسلام تو وہ منصفانہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل وانصاف کی تعلیم دیتا ہے چنانچہ فرماتا ہے :- لَا يَجُرِ مَنْكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوى كل لیکن ہمارے بعض عزیز اپنوں کے ساتھ بھی انصاف روا ر کھنے کو تیار نظر نہیں آتے مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ مضمون نگارصاحب سے یہ غلطی بدنیتی سے نہیں ہوئی بلکہ صرف بے احتیاطی یا جوش تحریر میں ہوگئی ہے.اس لئے میں اپنے دل میں ان کے خلاف قطعاً کوئی رنجش نہیں پاتا بلکہ ان کے اخلاص اور جوش ایمان پر خوش ہوں.دراصل ہمارے دوست نے غور نہیں کیا ورنہ وہ آسانی سے جان سکتے تھے کہ ریڈیو یا گراموفون میں ہر قسم کا گانا ہوتا ہے.مردوں کا بھی اور عورتوں کا بھی.آلات موسیقی کے ساتھ

Page 561

مضامین بشیر ۵۵۴ بھی اور سادہ خوش الحانی کے رنگ میں بھی.اور پھر آلات بھی کئی قسم کے ہیں.یعنی از قسم دف بھی اور نالی دار بھی اور تار والے بھی.ان حالات میں گانے کے متعلق میرے سادہ الفاظ کو از خود سر اور تال اور جدید آلات موسیقی اور مردوں اور عورتوں کے بھاری بھر کم اور وسیع الاثر الفاظ کے ساتھ مقید کر کے اپنے استفتاء کی بنیاد بنانا اور پھر دعوی یہ کرنا کہ استفتاء میرے ہی الفاظ میں پیش کیا گیا ہے.ایک بہت بڑی بھول ہے.جس پر میں اپنے عزیز کے لئے خدا سے مغفرت چاہتا ہوں.اب رہا وہ ضمنی فقرہ جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.سواس میں میں نے خود چار واضح شرطیں لگا دی تھیں.اور میں سمجھتا ہوں کہ ان چار شرطوں کے ہوتے ہوئے وہ نہ صرف کسی شرعی فتوی کی زد کے نیچے نہیں آتا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر احتیاط اور حزم کی طرف لے جاتا ہے.جو چار شرطیں میں نے لکھی تھیں.وہ یہ تھیں.چارا ہم شرطیں اول: گانے میں کوئی نا جائز عنصر نہ ہو.جس میں یہ باتیں شامل ہیں کہ مثلاً گانے کا مضمون خلاف مذہب نہ ہو.یا گانے کا طریق خلاف مذہب نہ ہو.یا گانے میں کوئی ایسا آلہ استعمال نہ کیا جائے جس کا استعمال شریعت میں ممنوع ہے یا گانے والی عورتوں کی مجلس میں مرد نہ شرکت کریں.وغیرہ ذالک دوم : گانے میں کوئی مخرب اخلاق بات نہ ہو یعنی نہ صرف یہ کہ گانے میں کوئی بات کسی جہت سے خلاف مذہب نہ ہو بلکہ اس کے مضمون اور طریق میں کوئی بات خلاف اخلاق بھی نہ ہو جو انفرادی یا قومی اخلاق کو بگاڑنے والی سمجھی جاوے.سوم : وہ انہماک کا باعث نہ ہو.یعنی انسان اس میں اس طرح نہ پڑے جو انہماک کا رنگ رکھتا ہو اور اسے اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف سے غافل کر دے.اسی اصل کے ماتحت گانے کو اپنا پیشہ بنالینا بھی جائز نہیں سمجھا جائے گا.جیسا کہ بعض احادیث میں بھی اس طرف اشارہ آتا ہے.چهارم: وہ ضیاع وقت کا موجب نہ ہو یعنی اس میں اتنا وقت خرچ نہ کیا جائے جو انسانی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع کر نیوالا ہو.ناظرین غور کریں کہ کیا ان چار شرائط کے باہر بھی کوئی بات رہ جاتی ہے؟ کیا خوش الحانی کے ساتھ گانا جوان چار شرائط کے ماتحت آتا ہو کسی شخص کے نزدیک ناجائز اور ممنوع سمجھا جا سکتا ہے؟ کیا

Page 562

۵۵۵ مضامین بشیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خوش الحانی کے ساتھ اشعار نہیں سنے؟ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں خوش الحانی کے ساتھ گا کر شعر نہیں پڑھے گئے؟ کیا خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فونوگراف کے لئے شعر نہیں لکھے اور کیا ان شعروں کو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے فونوگراف میں خوش الحانی کے ساتھ ریکارڈ نہیں کیا اور کیا اس ریکارڈ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہیں سنا ؟ کیا کبھی خلفاء احمدیت کی مجلسوں میں خوش الحانی کے ساتھ گا کر شعر نہیں پڑھے گئے؟ کیا ہمارے ہر سالانہ جلسہ کی ابتداء قرآن کریم کی تلاوت کے بعد کسی نظم کے ساتھ نہیں ہوتی.اور کیا یہ نظم گا کر یعنی خوش الحانی کے ساتھ نہیں پڑھی جاتی.پھر کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کی آواز سن کر یہ نہیں فرمایا.کہ اسے تو لحن داؤ دی سے حصہ ملا ہے؟ اگر یہ ساری باتیں درست ہیں تو ان چار ا صولی شرطوں کے ماتحت جو میں نے بیان کی ہیں.میرا مشار الیہ گانا کس طرح قابل اعتراض اور ناجائز سمجھا جا سکتا ہے.جو حوالے اور ارشادات پیش کئے گئے وہ سب ہمارے سر آنکھوں پر ہیں مگر ان میں میرے مشار الیہ گانے کی طرف اشار انہیں بلکہ اس گانے کی طرف اشارہ ہے جو ان شرطوں کے خلاف ہے.یعنی (۱) اس میں یا تو کوئی بات یعنی گانے کا مضمون یا طریق یا آلہ وغیرہ مضمون یا طریق خلاف مذہب ہے یا (۲) اس کا مضمون یا طریق خلاف اخلاق ہے.اور یا (۳) اس میں انہاک کا رنگ پیدا کر لیا جاتا ہے.یا (۴) اس کی وجہ سے ضیاع وقت ہوتا ہے اس چاردیواری کے اندر محفوظ ہو جاؤ پھر خدا کے فضل سے سب خیر ہی خیر ہے.اور کوئی بات قابل اعتراض نہیں رہتی.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کا ارشاد حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ گراموفون کے متعلق اصولی طور پر فرماتے ہیں :- ریکارڈ اپنی ذات میں تو کوئی بُری چیز نہیں.بلکہ اس کے لئے اخراجات جو اسراف کی حد تک پہنچتے ہوں بھروا نا اس کا سننا جو وقت ضائع کرنے کی حد تک پہونچتا ہو.اور اس میں ایسی چیز کا بھروانا جو اپنی ذات میں نا پسندیدہ ہو.اسے بُرا بنا دیتی ہے.اگر اس کا خریدنا اسراف کی حد تک نہیں پہنچا تا.اور اس کا سننا وقت ضائع کرنے کی حد تک نہیں پہنچتا ( اور اس میں کوئی ایسی چیز نہیں بھروائی جاتی جو اپنی ذات میں بڑی ہے ) تو یہ جائز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی ایک نظم مولوی عبد الکریم صاحب سے خود فونوگراف میں بھروائی تھی

Page 563

مضامین بشیر لیکن اگر یہ راگ کے اوزان میں ہے اور مزامیر کے ساتھ ہے تو یہ نا پسندیدہ ہے.۱۸ ناظرین ملا حظہ فرمائیں کہ کیا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ارشاد میں وہی شرائط درج نہیں جو میں نے اپنے مضمون کے اس ضمنی فقرہ میں بیان کی ہیں.جسے ہمارے نوجوان دوست نے اپنے استفتاء کی بنیاد بنایا ہے.بات یہ ہے کہ اسلام کسی فطری جذبہ کو بھی مٹاتا نہیں بلکہ اس کی مناسب تربیت کرتا اور اسے جائز قیود کے ساتھ مقید کرتا ہے.حتی کہ شہوانی قومی کو بھی اسلام نے مٹایا نہیں بلکہ صرف لگام دے کر صحیح راستہ کے اندر محدود کر دیا ہے.تو پھر یہ سمجھنا کہ فطرت کے جذبہ توازن کو جو نہ صرف انسان بلکہ حیوان بلکہ میں کہوں گا کہ نباتات اور جمادات تک میں پایا جاتا ہے اور جس کا اظہار موسیقی کے نام سے تعبیر ہوتا ہے ، اسلام نے قطعی طور پر مٹا دیا ہے.ایک ایسا دعویٰ ہے جس کے ثبوت کے لئے اس سے بہت زیادہ مضبوط براہین کی ضرورت ہے.جو ہمارے دوست نے پیش کی ہیں.ہاں جس طرح ہر چیز کا غلط استعمال بڑا اور نا جائز ہے اسی طرح اس فطری جذبہ توازن کا غلط استعمال بھی یقیناً نا جائز ہے.اور یہی وہ خطر ناک موسیقی ہے جس کی طرف ہمارے مضمون نگار کے پیشکر دہ حوالہ جات ہماری راہ نمائی کر رہے ہیں.اور جس کے خلاف خود اس خاکسار نے ۱۹۴۰ء میں آواز اٹھائی تھی مگر غلطی سے اس کے کچھ اور معنی سمجھ لئے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد گانے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ بھی اصولی روشنی ڈال سکتا ہے.حضور اس سوال کے جواب میں کہ لڑکی یا لڑکے کے ہاں جو جوان عورتیں مل کر گاتی ہیں وہ کیا ہے.فرماتے ہیں : - اگر گیت گندے اور نا پاک نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے مسجد میں ایک صحابی نے خوش الحانی سے شعر پڑھے تو حضرت عمر نے ان کو منع کیا اس نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شعر پڑھے ہیں تو آپ نے منع نہیں کیا بلکہ آپ نے ایک بار اس کے شعر سنے تو اس کے لئے رحمۃ اللہ فرمایا غرض اس طرح پر اگر وہ فسق و فجور کے گیت نہ ہوں تو.عمرؓ

Page 564

۵۵۷ مضامین بشیر منع نہیں.مگر مردوں کو نہیں چاہیئے کہ عورتوں کی ایسی مجلسوں میں بیٹھیں.‘19 قابل دریافت امر یہاں تک تو میں نے اس بات کے متعلق عرض کی ہے جو میرے خیال میں مبارک احمد خان صاحب کے مضمون میں قابل اعتراض تھی.اور میں نے ثابت کیا ہے کہ انہوں نے خواہ نخواہ میرے فقرہ کو بدل کر اور اس کے ساتھ زائد باتیں لگا کر اپنے استفتاء کی بنیاد بنا لیا.حالانکہ میری اصل عبارت میں کوئی بات صحیح اسلامی فتویٰ کے خلاف نہیں تھی.اب میں مختصر طور پر اس دوسری بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں.جو میرے خیال میں اس مضمون میں قابل دریافت ہے.اور یہ بات ہمارے محترم مفتی سلسلہ کے فتویٰ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.حضرت مفتی تحریر فرماتے ہیں کہ :.اسلام نے آلات کے ساتھ گانا ممنوع قرار دیا ہے.خواہ مرد کا ہو یا عورت کا اور آلات خواہ پرانے ہوں یا جدید ہوں گا نا خواہ اچھے معنی رکھتا ہو خواہ برے معنی رکھتا ہو.بہر حال ان سب کو ممنوع قرار دیا ہے.“ اس کے متعلق میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جناب مفتی سلسلہ کی مراد " آلات موسیقی سے کیا ہے.یہ الفاظ چونکہ مختلف معانی کے حامل سمجھے جا سکتے ہیں.اس لئے ان کی تشریح اور توضیح بلکہ تعیین ہو جانی ضروری ہے تا کہ غلط فہمی کا امکان نہ رہے.مثلاً کیا حضرت مفتی کے نزدیک دف اور ڈھول بھی آلات موسیقی میں شامل ہیں؟ اگر ہیں تو پھر ان احادیث کی کیا تشریح ہے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں مسلمان لڑکیوں کا گھروں کے اندر دف یا ڈھول پر بعض اشعار وغیرہ کا گانا ظاہر ہوتا ہے ( مثلاً ملاحظہ ہو بخاری کتاب النکاح عین الربیع بنت معوذ ) اور دف کے استعمال کو اعلان کی غرض سے نکاح کے موقع پر بھی جائز رکھا گیا ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا ہے عموماً آلات موسیقی تین قسم کے ہوتے ہیں :- اول : دف اور ڈھول کی قسم کے آلات جن میں کسی خلاء دار فریم پر چمڑا وغیرہ منڈھا ہوتا ہے اور ہاتھ یا لکڑی وغیرہ کی ضرب سے انہیں بجایا جا تا ہے.دوم : نالی دار آلات جن کو مونہہ سے لگا کر سانس کے زور سے آواز نکالی جاتی ہے.سوم : تار والے آلات جن کی تاروں کو انگلیوں وغیرہ سے چھو کر موسیقی پیدا کی جاتی.اور پھر آگے ان تینوں کی بہت سی قسمیں ہیں.اب سوال یہ ہے کہ کیا ان سب کے متعلق شریعت ہے.اسلامی کا ایک ہی حکم ہے.یا کہ مختلف ؟ اس سوال کے سوا میں اس وقت جناب مفتی سلسلہ کے فتویٰ کے

Page 565

مضامین بشیر ۵۵۸ متعلق کچھ اور عرض نہیں کر سکتا.پس میں اپنے اس نوٹ کو انہی مختصر فقرات پر ختم کرتا ہوں.اور خدا سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے بھی اور دوسرے دوستوں کو بھی ہمیشہ اپنی رضا کے راستہ پر قائم رکھے.آمین حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کا شائع شدہ فیصلہ میں یہ مضمون لکھ چکا تھا کہ مجھے ایڈیٹر صاحب الفضل نے حضرت خلیفتہ المسح الثانی ایدہ اللہ کے ایک ایسے شائع شدہ فتوی کی طرف راہ نمائی کی ہے جو اس مسئلہ کے ایک حصہ میں اصولی روشنی ڈالنے والا ہے اور ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں درج کر دیا جائے.اس فتویٰ کا واقع یوں ہے کہ غالباً ۱۹۳۹ء کے آخر یا ۱۹۴۰ء کے شروع میں حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ ریڈیو یا گراموفون ریکارڈ کے ذریعہ غیر عورت کا گانا سننا جائز نہیں ہے لیکن جب نظارت تعلیم و تربیت کے ذریعہ یہ فتویٰ حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ کے علم میں لایا گیا تو اس پر حضور نے مندرجہ ذیل ارشادصا در فرمایا : - دو میں اس بات کا قائل نہیں کہ کسی عورت کا گانا آمنے سامنے ہو کر سننا یا بذریعہ ریڈیو یا گراموفون سننا ایک ہی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ مرزا افضل بیگ صاحب مرحوم کے گراموفون پر ایک غزل گائی جاتی تھی ، میرے سامنے سنی اور اس کو منع قرار نہیں دیا.البتہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس طرح برا اثر پڑ سکتا ہے.اور ضیاع وقت ہے اس بات کو روکا جا سکتا ہے مگر اس دلیل کی بناء پر اس کی حرمت کا فتوی میں دینے کو تیار نہیں ہوں.۲۰۰ غیر عورتوں کا گانا سننے کے متعلق یہ فتویٰ ایک اصولی رنگ رکھتا ہے مگر چونکہ اس میں آلات موسیقی کے متعلق کوئی تصریح نہیں اس لئے میرا اوپر کا سوال پھر بھی قائم رہے گا.مسئلہ کے چار حصے دراصل اس مسئلہ کے چار حصے ہیں اول: مردوں یا عورتوں کا اپنے طور پر خوش الحانی کے ساتھ شعر یا گیت وغیرہ پڑھنا.دوم : مردوں کا غیر عورتوں کے گانے کو ان کی مجلس میں شریک ہو کر سننا.سوم : مردوں کا ریڈیو یا گراموفون پر غیر عورتوں کا گانا سننا چهارم: آلات موسیقی والا گا ناسننا خواہ وہ عورتوں کا ہو یا مردوں کا اور خواہ سننے والے مرد ہوں یا عورتیں.

Page 566

۵۵۹ مضامین بشیر ان چاروں کے متعلق صراحت کے ساتھ علیحدہ علیحدہ فتویٰ کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا فتویٰ امر اول دوم وسوم کے متعلق واضح معلوم ہوتا ہے مگر امر چہارم کے متعلق ابھی مزید صراحت کی ضرورت ہے کہ آیا سب آلات موسیقی منع ہیں یا یہ کہ بعض منع ہیں اور بعض جائز لیکن ان سارے امور کے متعلق بہر حال یہ شرط لازمی سمجھی جائے گی کہ گانا اپنی ذات میں بُرا نہ ہو اور اس کے سننے میں انہماک اور ضیاع وقت کی صورت نہ پیدا ہونے لگے.واللہ اعلم ( مطبوعه الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۴۳ء)

Page 567

۵۶۰ مضامین بشیر

Page 568

۵۶۱ ۱۹۴۴ء مضامین بشیر قادیان میں احمدیہ کالج کا اجراء احباب کو یہ سن کر یقیناً بہت خوشی ہوگی کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز نے گزشتہ مشاورۃ کے بعد جس احمدیہ کالج کے اجراء کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے لئے حضور کی مقرر کردہ کمیٹی کے ذریعہ کوشش ہوتی رہی ہے پنجاب یونیورسٹی نے اس کی منظوری دے دی ہے.اور انشاء اللہ یہ کالج جس کا نام غالباً تعلیم الاسلام کا لج ہوگا.اس سال کے موسم گرما سے شروع ہو جائے گا.فالحمد لله على ذالک احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے ہر رنگ میں بابرکت اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے نیز احباب کو ابھی سے اس کے متعلق تیاری شروع کر دینی چاہیئے جو دورنگ میں ہونی چاہیئے.اول : اپنے بچوں کو اس کالج میں بھجوانے کا انتظام دوم : دوسروں میں اس کے متعلق تحریک مختصر کوائف یہ ہیں :- (۱) اس کالج میں فی الحال صرف ایف.اے اور ایف ایس سی ( نان میڈیکل ) کا انتظام ہوگا اور علاوہ دینیات کے مندرجہ ذیل مضامین پڑھائے جائیں گے :- عربی ، انگریزی ، ریاضی، ایکونا مکس، تاریخ ، منطق ، فلسفه، کیمسٹری اور فزکس.اردو زائد مضمون کے طور پر ہوگا اور شاید فارسی کا انتظام بھی کیا جا سکے.تعلیم کا انتظام انشاء اللہ تسلی بخش صورت میں کیا جائے گا.(۲) کالج کے ساتھ ہوسٹل کا انتظام بھی ہوگا.(۳) اس سال صرف فرسٹ امیر کلاس کھلے گی.جس میں انٹرنس پاس طلبہ داخل ہو سکیں گے.(۴) یہ کالج حسب گنجائش ساری قوموں کے طلبہ کے لئے کھلا ہوگا.(۵) دیگر انتظامات حسب ضرورت اور مطابق قواعد یونی ورسٹی کئے جائیں گے.

Page 569

مضامین بشیر ۵۶۲ چونکہ انٹرنس پاس کرنے کے وقت طلبہ اپنی عمر کے ایک نہایت نازک حصہ میں ہوتے ہیں جبکہ بیرونی کالجوں اور بیرونی شہروں کا خلاف اخلاق اور خلاف اسلام ماحول اپنے خطرناک اثرات کے ساتھ ان پر یکدم حملہ آور ہوتا ہے.اس لئے احباب کو اس نعمت کی طرف جو انہیں مجوزہ کا لج کی صورت میں حاصل ہو رہی ہے.زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہیئے.خرچ بھی انشاء اللہ بڑے شہروں کی نسبت کم رہے گا.جو بچے اس سال بصورت کامیابی امتحان انٹرنس فرسٹ امرہ میں داخل ہونا چاہیں وہ مکرمی ملک غلام فرید صاحب ایم.اے سیکرٹری کالج کمیٹی قادیان کو اپنے نام اور پتہ سے اطلاع دیں.اور ساتھ ہی یہ بھی نوٹ کر دیں کہ وہ فلاں فلاں مضمون لینا چاہتے ہیں تا کہ تعداد کے اندازے کے مطابق انتظام کیا جا سکے.مطبوعه الفضل ۱۵ فروری ۱۹۴۴ء)

Page 570

۵۶۳ مضامین بشیر روئداد جلسہ ہوشیار پور کے متعلق ایک ضروری تشریح الفضل ، مورخہ ۲۴ فروری ۱۹۴۴ء میں جو روئداد جلسہ ہوشیار پور کی شائع ہوئی ہے اس میں کچھ غلطی واقع ہوگئی ہے.جن اصحاب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام والے کمرہ کے اندر جا کر دعا کی تھی.ان میں صوفی عبد القدیر صاحب بی.اے بھی شامل تھے جو حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوری مرحوم کے فرزند ہیں.اس طرح کمرہ کے اندر دعا کرنے والوں کی تعداد ۳۶ ہو جاتی ہے.دراصل شروع میں جب مکان کے اندر جا کر دعا کرنے والوں کی فہرست بنائی گئی تو اس وقت حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد تھا کہ مندرجہ ذیل چار اقسام کے اصحاب کمرہ کے اندر جائیں : - (۱) ۱۹۰۱ء سے پہلے بیعت کرنے والے صحابہ (۲) جمله ناظر صاحبان (۳) افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ امسیح اول رضی اللہ عنہ اور (۴) ایسے اصحاب جن کا پیشگوئی مصلح موعود کے ساتھ خاص تعلق ہے.یعنی صوفی عبد القدیر صاحب جو حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوری مرحوم کے لڑکے ہیں.جو سفر ہوشیار پور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہمراہ تھے اور مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ جو شیخ حامد علی صاحب مرحوم کے داماد ہیں.اور وہ بھی سفر ہوشیار پور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور مکر می شیخ بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ لاہور جن کے مکان میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مصلح موعود ہونے کے متعلق رویا دیکھا.اس طرح یہ فہرست قریباً ساٹھ ستر اصحاب کی بن گئی تھی اور خیال تھا کہ کمرہ کے علاوہ جو مکان کی دوسری منزل پر واقع تھا.کچھ دوست اس کے ساتھ کے برآمدہ میں بھی کھڑے ہو جائیں گے اور باقی دوست باہر کی پبلک گلی اور ساتھ کے میدان میں کھڑے رہیں گے.مگر تقریر کے اختتام کے قریب مالک مکان کی طرف سے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کو پیغام آیا کہ چونکہ کمرہ چھوٹا ہے اس لئے اگر حضور کے ساتھ صرف چھ سات اصحاب اندر آ ئیں تو مناسب ہوگا.اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ شاید مالک مکان لوگوں کی کثرت سے گھبراتے ہیں.اس لئے تم جلدی سے جا کر مکان کے دروازہ پر کھڑے ہو جاؤ اور پہلی فہرست کو

Page 571

مضامین بشیر ۵۶۴ منسوخ سمجھو اور صرف چند دوستوں کو اندر بھجوا دو.اور فرمایا کہ تم خود بھی آجانا اور میاں شریف احمد صاحب بھی آجائیں.اور ناظروں میں سے ناظر اعلیٰ آجائیں اور تین چار دوست پرانے صحابہ میں سے آجا ئیں.جنہیں تم خود دیکھ کر اندر بھجوا دینا.چنانچہ میں نے دروازہ پر جا کر اعلان کر دیا کہ اب سابقہ فہرست کے مطابق کوئی دوست از خود اندر نہ تشریف لے جائیں بلکہ میرے بلانے پر اندر آئیں.اور اس کے بعد میں نے مجمع پر نظر ڈال کر ایک ایک دوست کو آواز دے کر اندر بھجوا نا شروع کیا.اور خدا کا فضل ایسا ہوا کہ مجھے مالک مکان کی عملی رضامندی کے ساتھ حضرت خلیفہ امسیح ایده اللہ کے علاوہ ۳۵ اصحاب کو اندر بھجوانے کا موقعہ مل گیا.گو بعد میں مجھے یہ معلوم کر کے افسوس ہوا کہ بعض ایسے اصحاب باہر رہ گئے جو اگر اس وقت میری نظر کے سامنے آ جاتے تو میں انہیں بھی ضرور اندر لے جانے کی کوشش کرتا مگر وہ اس وقت میری نظر سے اوجھل رہے.میں ان اصحاب سے معافی چاہتا ہوں.جیسا کہ احباب اخبار الفضل میں پڑھ چکے ہیں.خدا کے فضل سے ہوشیار پور کا یہ جلسہ ایک خاص شان کا جلسہ تھا ، جس میں اس کا روحانی پہلو اور برکات الہی کا نزول خاص طور پر نمایاں تھا.پس وہ دوست خوش قسمت ہیں جنہوں نے اس جلسہ میں شرکت کا موقع پایا اور پھر ان میں سے وہ دوست اور بھی زیادہ خوش قسمت ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام والے مقدس کمرہ کے اندر جا کر حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ کے ساتھ خاص دعا کا موقع حاصل ہوا.فالحمد للہ علی ذالک (مطوعه الفضل ۲۵ فروری ۱۹۴۴ء) : ۲۶ فروری ۱۹۴۴ء

Page 572

ہماری بہن سیدہ ام طاہر احمد رضی اللہ عنہا مضامین بشیر صاحبزادہ مبارک احمد کی وفات اور اس پر حضرت مسیح موعود کے قلبی جذبات آج سے ۳۶ سال قبل جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پسر چہارم اور ہمارا سب سے چھوٹا بھائی مبارک احمد (ہاں وہی مبارک احمد جس کی زوجیت کے لئے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتداء ہماری مرحومہ بھاوج سیدہ اُم طاہر احمد کو منتخب فرمایا ) ستمبر ۱۹۰۷ء میں فوت ہوا.تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے قلبی جذبات کا ان مبارک اشعار میں اظہار فرمایا تھا : - جگر کا ٹکڑہ مبارک احمد جو پاک شکل شکل اور پاک خو تھا وہ ہمارے آج ہم دل کو جدا ہوا ہے حزیں بنا کر برس تھے آٹھ اور کچھ کچھ مہینے خدا نے اُسے بلایا بلانے والا ہے ނ اُسی پیارا پہ اے دل تو جان فدا کرات ان مختصر اشعار میں جن دو متوازی جذبات کا اظہار کیا گیا ہے وہ ایک سچے مومن کی فطرت کا صحیح آئینہ ہیں.جو اگر ایک طرف طبعی قانون کے ماتحت ایک عزیز وجود کی جدائی پر انتہائی رنج و غم محسوس کرتا ہے تو دوسری طرف خدا کا عزیز تر وجو د بھی ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے رہ کر اُسے یاد دلاتا رہتا ہے کہ تمام محبتوں کی سرچشمہ اور تمام رشتوں کی سرتاج اور ازلی ابدی زندگی کی واحد مالک صرف خدا کی ذات ہے.پس اگر یہ رحیم وکریم ذات کسی م وقت ہمارے کسی عزیز کو اپنے پاس بلانے کا فیصلہ کرتی ہے تو ایک سچے مومن کی زبان پر اس

Page 573

مضامین بشیر کے سوا کوئی اور فقرہ نہیں آ سکتا کہ :- بلانے والا ہے اُسی ނ پیارا اے دل تو جاں فدا کر یہ وہی تسکین وہ سبق ہے جو قرآنی آیت انا للہ وانا اليه راجعون میں سکھایا گیا ہے.یعنی ہم سب خدا کی امانت ہیں اور ہم سب نے آگے پیچھے اسی کے پاس جمع ہونا ہے.راحت بخش آسمانی مرهم اور پھر یہی وہ راحت بخش مرہم کا چھا یہ ہے جو ہمارے آسمانی آقا نے زمین والوں کے دُکھتے ہوئے دلوں کے لئے ان پیارے الفاظ میں پیش کیا ہے کہ : - الا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ۲۲ یعنی اے مومنو تمہیں دنیا میں مختلف قسم کے رنج و غم پیش آسکتے ہیں جو بعض اوقات اس شدت کے ساتھ آتے ہیں کہ تمہاری ہستی کو اس کی بنیادوں سے ہلا دیتے ہیں مگر تم ایسے اوقات میں بھی گھبرانا نہیں اور اپنے خدا کو بھول نہ جانا بلکہ اسے اور بھی زیادہ یا د رکھنا.کیونکہ رنج کی تاریک گھڑیوں میں اسی کی پیاری یا دتمہارے دل کے لئے حقیقی تسکین کا باعث ہو سکتی ہے.واقعی اگر جیسا کہ ہم دعوی کرتے ہیں.ہمارا خدا بیچ بیچ سب پیاروں سے زیادہ پیارا اور سب سہاروں سے بڑا سہارا ہے.اور اگر جیسا کہ ہمارا ایمان ہے وہ حقیقہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحیم اور حی و قیوم قادر مطلق خدا ہے.تو پھر اس میں کیا شک ہے کہ تکلیف واضطراب کے وقتوں میں صرف اسی کا ذکر اور اسی کا تعلق ہی انسان کے لئے طمانیت قلب کا ذریعہ بن سکتا ہے.اسی لئے میں نے اپنے اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان سکینت بخش الفاظ سے شروع کیا ہے کہ : - بلانے والا ہے اسی : ایک اور نا گہانی حادثہ ހނ پیارا اے دل تو جاں فدا کر میں اس قدر مضمون لکھ چکا تھا کہ اچانک ہمارے چھوٹے ماموں حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات کا نا گہانی حادثہ پیش آ گیا.جس کے نتیجہ میں یہ مضمون کئی دن تک رُکا رہا.حضرت میر محمد

Page 574

مضامین بشیر اسحاق صاحب مرحوم کی زندگی اور وفات کو کئی لحاظ سے ہماری مرحومہ بہن سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ کی زندگی اور وفات کے ساتھ مشابہت و مماثلت حاصل ہے.جسے میں اپنے اس مضمون میں جو میں انشاء اللہ عنقریب حضرت میر صاحب مرحوم کے متعلق لکھوں گا بیان کرنے کی کوشش کروں گا.فی الحال میں ایک بیحد زخمی مگر اپنے خدا کی طرف سے مرہم یافتہ دل کے ساتھ اپنے موجودہ مضمون کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں.وماتوفیقی الا بالله القدير) سیدہ ام طاہر احمد پیدائشی احمدی تھیں ہمشیرہ سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ جو حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب مرحوم کی سب سے چھوٹی لڑکی تھیں غالبا 1909 ء کے شروع میں پیدا ہوئی تھیں اور چونکہ ان کی پیدائش سے تین چار سال قبل حضرت شاہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں منسلک ہو چکے تھے اس لئے ہمشیرہ مرحومہ گویا پیدائشی احمدی تھیں.یعنی انہوں نے اس دنیا میں اپنی زندگی کا پہلا سانس احمدیت ہی کی مبارک فضا میں لیا تھا اور گو وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھیں حتی کہ انہوں نے اپنی ایک بڑی بہن ( والدہ صاحبہ سید بشیر شاہ ) کا دودھ بھی پیا ہوا تھا.اور خدا کے فضل سے اس وقت تک ان کے سب بہن بھائی زندہ موجود ہیں.مگر یہ ایک عجیب کرشمہ قدرت ہے کہ عمر میں سب سے چھوٹی ہونے کے باوجود وہ اپنے رب کو سب سے پہلے پیاری ہوئیں.ٹھیک اسی طرح جس طرح ہمارے چھوٹے ماموں حضرت میر محمد اسحاق صاحب ہمارے نانا جان مرحوم کے سب سے چھوٹے بچہ ہونے کے باوجود سب سے پہلے خدا کے حضور حاضر ہوئے.حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم اور ان کی زوجہ محترمہ ( اللہ تعالیٰ اُن پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے ) ضلع راولپنڈی کے رہنے والے تھے مگر چونکہ وہ اپنی ملازمت کے تعلق میں ایک بہت لمبا عرصہ رعیہ ضلع سیالکوٹ میں رہے تھے.اس لئے رعیہ گویا ان کا وطن ثانی بن گیا تھا اور ان کی یاد میں ہمیشہ محبوب رہتا تھا.اور مجھے یاد ہے ہمشیرہ ام طاہر احمد صاحبہ بھی کئی دفعہ محبت کے ساتھ رعیہ کا ذکر کیا کرتی تھیں.اور اس علاقہ کے اصحاب بھی حضرت شاہ صاحب مرحوم اور ان کے خاندان کو نہایت درجہ محبت اور احترام کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں اور اب تک ان کے زمانہ کی یاد ان کے دلوں کو محبت

Page 575

مضامین بشیر.۵۶۸ کے غیر معمولی جذبات سے گرما دیتی ہے.جیسا کہ جاننے والے دوست جانتے ہیں حضرت شاہ صاحب مرحوم اور ان کی زوجہ محترمہ نہائت درجہ نیک اور پاک نفس بزرگ تھے.حتیٰ کہ ایک روایت کے مطابق خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ ان کے اور ان کے خاندان کے متعلق و بہشتی شیر“ کے الفاظ فرمائے تھے.اور سیدہ ام طاہر احمد مرحومہ بھی ہمیشہ اپنے مرحوم والدین کو انتہائی رقت اور محبت کے ساتھ یاد کیا کرتی تھیں.اور ان کی درد بھری دعاؤں سے محروم ہو جانے کا از حد قلق رکھتی تھیں.ابھی چند مہینہ کی بات ہے کہ ہمشیرہ مرحومہ کو کسی معاملہ میں ایک پریشانی لاحق ہوئی تو انہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے کہا اور ساتھ ہی یہ ذکر کر کے بے اختیار رو پڑیں کہ بڑے شاہ صاحب میرے لئے بہت دعا ئیں کیا کرتے تھے.سیدہ اُم طاہر احمد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت ۱۹۰۷ ء کے وسط میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا آخری زمانہ تھا.ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد مرحوم بیمار ہوا.گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے متعلق اشارۃ معلوم ہو چکا تھا کہ وہ غالباً بچپن میں ہی وفات پا جائے گا مگر چونکہ مستقبل کا آخری علم صرف خدا کے ہاتھ میں ہے آپ نے اس بیماری میں اس کے علاج میں انتہائی جد و جہد سے کام لیا.اور بیماری کے ایام میں ہی نیک فال کے طور پر اس کی شادی کی بھی تجویز فرما دی.حالانکہ اس وقت اس کی عمر صرف آٹھ سال کی تھی.اس شادی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہماری مرحومہ بہن سیدہ مریم بیگم تو راللہ مرقدہا کو منتخب فرمایا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک ہاتھوں سے ہی ہمارے خاندان کے ساتھ ہمیشہ کے لیئے پیوند ہو گئیں.اس وقت ان کی عمر غالباً دو اڑھائی سال کی ہوگی.کیونکہ مجھے یاد ہے کہ مبارک کی شادی کے ایام میں ہم انہیں اکثر اپنی گود میں اٹھائے پھرتے تھے.جب مبارک احمد بقضائے الہی فوت ہو گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ام المومنین متـعـنـا الـلـه بطول حياتها كو وصیت فرمائی کہ یہ لڑکی اب ہمارے نام کی ہو چکی ہے.اب اسے کسی دوسری جگہ نہ جانے دینا بلکہ ہمارے تین لڑکوں میں سے ہی کوئی لڑکا اس کے ساتھ شادی کر لے.چنانچہ آپ کی اس وصیت کے ما تحت اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ کو اوائل ۱۹۲۱ء میں تو فیق عطا فرمائی کہ آپ نے انہیں اپنے ساتھ عقد زوجیت میں منسلک کر لیا اور اس طرح ہماری یہ بہن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دہری بہو بن گئیں.

Page 576

۵۶۹ مضامین بشیر سیدہ مرحومہ کا ایک خاص امتیاز اور اس کا خاص نتیجہ یہ امتیاز ایسا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بہوؤں میں سے کسی اور کو حاصل نہیں ہوا.چنانچہ میں سیدہ مرحومہ کو ان کا یہ امتیاز اکثر یاد کرایا کرتا تھا.اور وہ اسے سن کر بہت خوش ہوتی تھیں.اور کئی دفعہ کہا کرتی تھیں کہ دعا کریں کہ آخرت میں بھی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاک وجود اور آپ کے خاندان کا حصہ بن کر رہوں.سو خدا نے ان کی اس خواہش کو پورا فرمایا اور وہ حضرت خلیفۃ اصسیح الثانی ایدہ اللہ اور جماعت کی ہزاروں درد بھری دعاؤں کے ساتھ ہاں ایسی دعا ئیں جن کی نظیر پہلے بہت کم ملتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت قریب خاندان کی مخصوص قبروں میں جگہ پا کر اپنی آخری نیند سو رہی ہیں ہم کیوں نہ یہ یقین رکھیں کہ یہ ظاہری قرب اس روحانی قرب کی ایک علامت ہے جو مرحومہ کو عالم اخروی میں اپنے روحانی اور جسمانی باپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اپنے جسمانی اور روحانی نانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل ہوا اور ہو رہا ہے.ایک گہری فطری صداقت اور بے حساب بخشش پانے کی آرزو مرحومہ کو خالق فطرت کی طرف سے بے حد جذباتی دل عطا ہوا تھا.اور میرا یہ یقین بلکہ تجر بہ ہے کہ ایک نیک انسان کے جذبات کا خدا بھی احترام کرتا ہے اور یہی اس حدیث قدسی میں اشارہ ہے.که أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی ہی ۲۳ یعنی خدا فرماتا ہے کہ میں اپنے نیک بندوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتا ہوں جیسا کہ وہ مجھ سے توقع رکھتے ہیں.یہ ارشاد باری کسی منتر جنتر کے طور پر نہیں ہے.بلکہ ایک گہری فطری صداقت پر مبنی ہے کیونکہ نیک جذبات کا پیدا ہونا اور نیک ظنی کا قائم ہونا سوائے قلبی طہارت کے کسی صورت میں حاصل نہیں ہو سکتا اور قلبی طہارت ہی فلاح کا پہلا زینہ ہے.اسی ضمن میں مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ میں نے ہمشیرہ مرحومہ کے ساتھ یہ ذکر کیا کہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میری امت میں ستر ہزار لوگوں کو بے حساب بخشش عطا فرمائے گا ۲۴.یعنی ستر ہزار ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے مخصوص روحانی قرب کی وجہ سے بغیر حساب کے بخشش حاصل کریں گے.مجھے خوب یاد ہے کہ جب میں نے مرحومہ کو یہ حدیث سنائی اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی بعض اور باتیں بھی سنائیں تو جیسا کہ مرحومہ کی عادت تھی ہر نیک تحریک کو گو یا لپک کر لیتی تھیں.وہ نہایت اصرار اور تکرار کے ساتھ کہنے لگیں کہ میرے لئے بھی دعا کریں کہ

Page 577

مضامین بشیر ۵۷۰ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اس پاک گروہ میں شامل کرے.چنانچہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تو فیق عطا فرمائی کہ میں اپنی اکثر دعاؤں میں ان کی اس نیک خواہش کو یا د رکھتا رہا ہوں اور ان کی وفات کے بعد تو کسی دعا میں بھی اسے نہیں بھولا.اور مجھے خدا کے فضل اور رحم پر یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس نیک خواہش کو بھی ضرور پورا فر مائے گا.ذالک ظنی بالله وارجو منه خيراً.اور اگر میری روحانی آنکھ غلطی نہیں کرتی تو مجھے ہمیشہ مرحومہ کی زندگی اور موت دونوں میں اس کے قرائن بھی نظر آرہے ہیں.والله اعلم ولا علم لنا الاما علمنا الله دینی اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہمشیرہ سیدہ ام طاہر احمد بہت سی غیر معمولی خوبیوں کی مالک تھیں.مگر اس مختصر مضمون میں اس بات کی گنجائش نہیں کہ ان کے اوصاف پر کوئی مکمل تبصرہ کیا جائے.اس لئے اذکروا موتاکم بالخیر ۲۵ کے ارشاد کے ماتحت صرف چند خوبیوں کے ذکر پر ہی اس جگہ اکتفا کرتا ہوں.مرحومہ کا نہایت نمایاں وصف دینی اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تھا.ان کا یہ وصف اس قدر ممتاز تھا کہ عورتوں میں تو خیر ان کی جو پوزیشن تھی وہ تھی ہی ان کا نمونہ اکثر مجاہد مردوں کے لئے بھی قابل رشک تھا.صحت کی خرابی کے باوجود یوں نظر آتا تھا کہ گویا ان کی روح جماعتی کاموں میں حصہ لینے کے لئے ہر وقت ایک چوکس سپاہی کی طرح ایستادہ اور چشم براہ رہتی ہے.میں اپنے خاندان کی مستورات سے اکثر ذکر کیا کرتا تھا کہ اس میدان میں سیدہ ام طاہر احمد دوسروں سے اس قدر آگے اور ممتاز ہیں کہ گویا وہی سارے کام پر چھائی ہوئی ہیں اور میں بسا اوقات تحریک کیا کرتا تھا کہ دوسروں کو بھی جماعتی کاموں میں آگے آنا چاہیئے.حضرت خلیفہ اسیح یا جماعت کی طرف سے جو تحریک بھی ہوتی تھی سیدہ موصوفہ نہایت جوش اور اخلاص کے ساتھ اس کا خیر مقدم کرتی تھیں.اور پھر اپنے ذاتی اثر اور دن رات کی جد و جہد کے ساتھ اس کے متعلق مستورات میں ایک غیر معمولی حرکت پیدا کر دیتی تھیں.غیر معمولی شخصیت اللہ تعالیٰ نے انہیں شخصیت بھی ایسی عطا کی تھی کہ ان کے ساتھ کام کرے والی کا رکنات ان کی قیادت کو ہمیشہ محبت اور شوق کے ساتھ قبول کرتی تھیں.سیدہ ام خلیل امتہ الحئی صاحبہ مرحومہ کی وفات کے بعد سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ مرکزی لجنہ اماءاللہ قادیان کی سیکرٹری مقرر ہوئیں.اور اپنی وفات سے

Page 578

تھیں ۵۷۱ مضامین بشیر کچھ عرصہ پہلے تک جبکہ وہ ہماری ایک دوسری محترم بہن کی علالت کی وجہ سے ان کی جگہ صدر مقرر ہوگئی وہ برابر اس عہدہ پر فائز رہیں مگر یہ ایک عجیب بات ہے کہ (میری دوسری بہنیں مجھے معاف فرمائیں کہ ان کی بہت سی خوبیوں کے باوجود مجھے اس جگہ یہ ریمارک کرنا پڑا ہے ) جب تک ہمشیرہ سیدہ ام طاہر سیکرٹری رہیں سیکرٹری کا عہدہ ہی سب کچھ تھا اور صدر کا عہدہ قریباً برائے نام تھا لیکن جب سیدہ موصوفه صد ر مقرر ہوئیں اور ان کی جگہ ہماری ایک اور بہن سیکرٹری مقرر ہوئیں تو اس کے بعد صدر کا عہدہ ہی سب کچھ ہو گیا.اور سیکرٹری کا عہدہ قریباً برائے نام رہ گیا.ممکن ہے یہ خیال کیا ہائے کہ سیدہ مرحومہ اس طرح کام پر چھا جاتی تھیں کہ دوسروں کے لئے بہت کم گنجائش باقی رہتی تھی.مگر میں کہتا ہوں کہ کیا قرآن شریف نے اسلام کی خدمت کو ایک دوڑ کے ساتھ تشبیہ نہیں دی ؟ اور ظاہر ہے کہ جو شخص دوڑ میں آگے نکلے گا وہ بعض حالات میں کسی حد تک دوسروں کا رستہ بھی رو کے گا.لیکن اس کی وجہ سے آگے نکل جانے والا قابل ملامت نہیں سمجھا جا سکتا اور نہ پیچھے رہنے والا معذور خیال کیا جا سکتا ہے.میں نے یہ ذکر اس لئے بھی کیا ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ ہمارے خاندان کی دوسری مستورات جو خدا کے فضل سے ذاتی طور پر دینی جذبات سے معمور ہیں ، جماعتی کاموں میں زیادہ حصہ لینے کی کوشش کریں اور مرحومہ کی روایات کو نہ صرف زندہ رکھیں بلکہ اور بھی ترقی دے کر ایک اعلیٰ نمونہ اپنے پیچھے چھوڑ ہیں.لمسہ سالانہ اور مشاورت کے موقعوں پر سیدہ مرحومہ کی خدمات جماعتی کاموں میں سے ایک خاص کام جلسہ سالانہ اور مجلس مشاورت کے موقعوں پر مستورات کے جلسوں کا انتظام کرنا ہوتا ہے.مرحومہ جب تک زندہ رہیں گویا اس سارے انتظام کی جان اور روح در واں تھیں.ان کی یہ عادت تھی کہ کام کے ہر حصہ کی طرف ذاتی توجہ دیتی تھیں اور ان موقعوں پر دن رات ایک کر دیتی تھیں اور ان میں یہ ملکہ تھا کہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی پورے شوق اور انہماک کے ساتھ لگائے رکھتی تھیں.مرحومہ کی زندگی میں صرف گزشتہ جلسہ سالانہ ہی ایسا جلسہ آیا تھا جبکہ وہ لاہور میں شدید بیمار ہونے کی وجہ سے جلسہ میں شرکت نہیں کر سکیں.مگر یہ جدائی جہاں خودان کے لئے بے حد شاق تھی وہاں ان کے ساتھ کام کرنے والیوں کے لئے بھی انتہائی دردوالم کا منظر پیش کرنے والی تھی.اور میں نے بہت سی عورتوں کو ان کی غیر حاضری کے متعلق آنسوؤں اور آہوں کے ساتھ ذکر کرتے سنا ہے.جلسہ کے بعد جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری

Page 579

مضامین بشیر ۵۷۲ کی وجہ سے جلدی لاہور واپس جانے کا ارادہ کیا تو مرحومہ نے حضور کی خدمت میں خاص پیغام بھجوایا کہ چونکہ جلسہ کا کام ایک خاص دینی کام ہے آپ میری وجہ سے واپسی میں جلدی نہ کریں بلکہ تسلی اور اطمینان کے ساتھ سارے کام سے فارغ ہو کر واپس آئیں.اسی طرح مکر می سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے مضمون میں احباب پڑھ چکے ہیں کہ جب شاہ صاحب موصوف کو جو مرحومہ کے بڑے بھائی ہیں مرحومہ کی بیماری کی وجہ سے جلسہ کے موقع پر قادیان واپس آنے میں تامل ہوا تو ہمشیرہ مرحومہ نے انہیں یہ کہتے ہوئے اصرار کے ساتھ واپس بھجوایا کہ میں تو بوجہ بیماری جلسہ کی شرکت سے محروم رہی.آپ اس خدمت اور اس نعمت سے کیوں محروم ہوتے ہیں.مالی قربانی میں ممتاز حیثیت مالی قربانی میں بھی سیدہ موصوفہ کو خدا تعالیٰ نے ممتاز حیثیت عطا کی تھی اور میں جب ان کے چندوں کو دیکھتا تھا تو حیران ہوتا تھا کہ یہ اس قلیل آمد پر اتنے بھاری چندے کس طرح ادا کرتی ہیں.جو دوست ہمارے گھروں کے حالات سے واقف ہیں انہیں معلوم ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی طرف سے جو ماہوار خرچ حضور کے گھروں میں ملتا ہے وہ بہت ہی نپا تلا ہوتا ہے.مگر با وجود اس کے سیدہ موصوفہ نہ معلوم کس طرح اپنے گھر کے اخراجات سے رقمیں کاٹ کر سلسلہ کے چندوں میں دوسروں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں.اور پھر یہی نہیں کہ صرف چندہ عام یا چندہ تحریک جدید میں حصہ لے لیا اور باقی کو نظر انداز کر دیا بلکہ چندہ کی ہر تحریک میں پیش پیش رہتی تھیں.حتی کہ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ تحریک جدید کی امانت ذاتی کے شعبہ میں بھی انہوں نے محض شرکت ثواب کی خاطر حصہ لے رکھا تھا اور اسی طرح پرائیویٹ چندوں میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتی تھیں.یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ سوائے حضرت خلیفہ اسیح والی باری کے دن کے جب کہ وہ کچھ تو حضور کے آرام کے خیال سے اور کچھ اس احساس کے ماتحت کہ حضور کو ان کی گھر کی تنگی کا علم نہ ہو کسی قد راچھا کھانا پکوالیتی تھیں.عموماً گھر کا کھانا پینا نہائت درجہ سادہ بلکہ غریبا نہ ہوتا تھا.بایں ہمہ ہمشیرہ مرحومہ بے حد مہمان نواز تھیں.اور مہمانوں کے آرام کی خاطر سب کچھ خرچ کر ڈالنے میں دریغ نہیں تھا.اور مہمانوں کی خدمت میں حقیقی خوشی پاتی تھیں.مرحومہ موصیہ تو شروع سے ہی تھیں مگر یہ بات غالباً اکثر لوگوں کو معلوم نہیں ہوگی کہ کئی سال سے مرحومہ نے اپنے حصہ وصیت کو 4 سے بڑھا کر ۳/ ا کر دیا تھا.اور دوست جانتے ہیں کہ ۳ وہ انتہائی حد ہے جس سے اوپر اسلام نے کوئی وصیت جائز نہیں رکھی.

Page 580

۵۷۳ مضامین بشیر الغرض ہمشیرہ مرحومہ کا سب سے نمایاں وصف دینی اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تھا.اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ مرحومہ کی رُوح نے اس نکتہ کو اپنا حرز بنا رکھا ہے کہ فَضَّلَ اللهُ الْمُجَاهِدِينَ بِاَ مُوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ٢٦ یعنی خدا کے نزدیک دین کے راستہ میں جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر 66 بہت بڑی فضیلت حاصل ہے.“ ویسے بھی کسی امر میں قاعد بن کر رہنا مرحومہ کی فطرت کے بالکل خلاف تھا.ان کی روح ہر وقت حرکت میں رہنا چاہتی تھی.اور اس میں کیا رشک ہے کہ حرکت میں ہی برکت ہے.بہر حال جماعتی خدمات میں ہمشیرہ مرحومہ کا مقام بہت بلند تھا.اور اس جہت سے ان کا نیک نمونہ یقیناً ہم میں سے بہتوں کے لئے ایک مفید مشعل راہ کا کام دے سکتا ہے.نظام جماعت سے دلی اخلاص اور جماعتی کاموں میں محبانہ شرکت کا نتیجہ اس جگہ میں ایک ضمنی بات بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں.میں نے اپنے ذوق کے مطابق بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والوں کے حالات کا مطالعہ کیا ہے.اور خصوصاً ان لوگوں کے حالات کو زیادہ غور سے دیکھا ہے جو باوجو د موصی نہ ہونے کے مقبرہ بہشتی میں جگہ حاصل کر لیتے ہیں یا با وجود موصی ہونے کے وہاں دفن ہونے سے محروم رہ جاتے ہیں اور اس مطالعہ کے نتیجہ میں مجھے اللہ تعالیٰ نے یہی علم عطا کیا ہے کہ خدا کے نزدیک جو وزن نظام جماعت کے ساتھ دلی اخلاص رکھنے اور اس نظام کا پرزہ بن کر رہنے اور جماعتی کاموں میں شوق اور محبت اور قربانی کی روح کے ساتھ حصہ لینے کو حاصل ہے.اس کا عشر عشیر بھی ان نیکیوں کو حاصل نہیں جو محض ایک انسان کی ذات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.اور میں سمجھتا ہوں کہ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الجَنَّةَ - وہاں بھی اسی از لی نکتہ کا اظہار مقصود ہے کہ پاک نیت اور سچے دل کے ساتھ الہی نظام کو قبول کرلو اور اس کا حصہ بن جاؤ.پھر تمہارے لئے جنت کا رستہ صاف ہے.خواہ تم میں کوئی عملی کمزوری ہی موجود ہو.کیونکہ ایسی کمزوری کو خدائے رحیم وکریم کا یہ زبردست قانون که إِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاتِ ۲۸ خس و خاشاک کی طرح اڑا کر پھینک دیتا ہے.مقبرہ بہشتی کے حالات میں میں نے دیکھا ہے اور بارہا دیکھا اور اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو میں اس کی مثال بھی پیش کر دیتا کہ جو شخص اس زمانہ کے الہی نظام کو سچے دل سے قبول کر کے کا حقیقی پرزہ بن جاتا ہے.اور

Page 581

مضامین بشیر ۵۷۴ اسے کامیاب بنانے میں کوشاں رہتا ہے تو با وجود اس کی بعض کمزوریوں کے اللہ تعالیٰ اس پر موت نہیں آنے دیتا.جب تک کہ اس کے ایسے سامان نہ پیدا کر لے جو اس کے لیے جنت کا رستہ صاف کر دیں.اللہ اللہ ہمارا خدا بھی کیسا عجیب وغریب خدا ہے.جو اپنے ظاہری قانون کو بھی پورا کر لیتا ہے اور اپنی زبر دست مشیت کو بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اور بہر حال کرتا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں ؎ تیرے اے میرے مربی کیا عجائب کام ہیں گرچہ بھا گئیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار مگر یہ جبر ظلم و تعدی کا جبر نہیں بلکہ شفقت و رحمت کا جبر ہے کیونکہ جس طرح ایک محبت کرنے والا باپ اپنے بیٹے پر انعام کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے.اسی طرح ہما را آسمانی باپ بھی جب اپنے کسی بندہ پر انعام کرنا چاہتا ہے اور اپنے کسی قانون کو اس انعام کے رستہ میں بظاہر روک پاتا ہے.تو اپنی گونا گوں مشیت کے بہانے تلاش کر کے اس کے لئے انعام کے نئے دروازے کھول دیتا ہے.کیونکہ وہ خود فرماتا ہے کہ وہ اپنے قانون کا غلام نہیں بلکہ اپنے حکم پر بھی غالب اور حاکم ہے.ہاں یہ ضروری ہے کہ بندہ اس کا باغی نہ ہو بلکہ ایک پیار کرنے والے بچہ کی طرح اس کے دامن کے ساتھ چمٹا ر ہے.انتظامی قابلیت اور چند دلچسپ گھر یلو واقعات ایک ضمنی بحث میں پڑ کر اپنے اصل مضمون کو چھوڑ گیا.میں یہ بیان کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری مرحومہ بہن سیدہ ام طاہر احمد میں بہت سی خوبیاں ودیعت کی ہوئی تھیں اور ان خوبیوں میں غالباً سب سے نمایاں اور سب سے ممتاز خوبی جماعتی کاموں میں حصہ لینا تھی.اس کے علاوہ مرحومہ اپنی انتظامی قابلیت میں بھی بہت نمایاں تھیں.اور ان کی یہ قابلیت جماعتی کا موں اور خانگی امور ہر دو میں یکساں ظاہر ہوتی تھی.یہ اسی وصف کا نتیجہ تھا کہ ہر موقع پر اور ہر مجلس میں وہ گو یا طبعی طور پر آگے آجاتی تھیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی عموماً خاص موقعوں کے انتظامات انہی کے سپر دفرمایا کرتے تھے.مثلاً گھر کی خاص دعوتوں کا انتظام انہی کے سپر د ہوتا تھا.یا کوئی خاص مہمان آجا تا تو اس کی مہمانی کا انتظام بھی زیادہ تر ان کے سپرد کیا جاتا تھا یا اگر کسی سفر کی تیاری کرنی ہوتی تھی تو ایسی تیاری کی انچارج بھی بالعموم وہی ہوا کرتی تھیں.اسی طرح سفروں کے درمیان میں ٹرپ یعنی تفریحی سیروں کا انتظام بھی عام طور پر وہی کیا کرتی تھیں.چنانچہ اس وقت مجھے گذشتہ سفر ڈلہوزی کا ایک چھوٹا

Page 582

۵۷۵ مضامین بشیر سا گھر یلو واقعہ یاد آ گیا ہے.جو اس جگہ مختصر درج کرتا ہوں.حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ چونکہ گذشتہ سال ایک لمبی بیماری سے اٹھے تھے.اس لئے قیام ڈلہوزی کے آخری ایام میں حضور نے صحت کے خیال سے بعض تفریحی سیروں کا انتظام فرمایا تھا.ان سیروں میں سے آخری سیر کا لاٹوپ پہاڑ تک کی گئی تھی.جو ڈلہوزی سے قریباً چھ سات میل چنبہ کی جانب واقعہ ہے.اس ٹرپ میں یہ خاکسار بھی ساتھ تھا.مستورات کے لئے عموماً گھوڑوں کا انتظام تھا اور مرد پیدل تھے.اور ٹرپ کا اہتمام بدستور سیدہ ام طاہر احمد کے ہاتھ میں تھا.چونکہ سیدہ موصوفہ نے انتظام وغیرہ کی وجہ سے سب سے آخر میں آنا تھا اس لئے میں نے دیکھا کہ جب ہم اپنے گھروں سے قریباً ایک میل نکل آئے تو سیدہ مرحومہ والے گھوڑے پر ان کی بجائے ہماری بڑی ممانی آرہی ہیں.مجھے حیرانی ہوئی کہ یہ کیا بات ہے اور میں نے اس کا ذکر حضرت امیر المومنین سے بھی کیا.اس پر میں نے دیکھا کہ حضور کے چہرہ پر کسی قدر فکر اور اس کے ساتھ ہی رنج کے آثار ظاہر ہوئے.فکر اس لئے کہ سیدہ اُم طاہر کی عدم موجودگی میں کہیں انتظام میں کوئی دقت نہ ہو.اور رنج اس لئے کہ ٹرپ کو رونق دینے والی رفیقہ حیات پیچھے رہ گئیں.مگر حضور نے زبان سے صرف اس قدر فرمایا کہ سارا انتظام ام طاہر نے ہی کیا ہوا ہے اور انہیں ہی معلوم ہے کہ کون سی چیز کہاں ہے اور کون سی کہاں.کسی اور کو تو کچھ خبر نہیں.میں نے اشارہ سمجھ کر جلدی سے ایک شخص کو آگے بھگایا کہ ڈاکخانہ کے چوک کے پاس جا کر کوئی اور گھوڑا تلاش کرو اور اگر مل جائے تو فوراً لے کر واپس آ جاؤ.اور سیدہ ام طاہر کو لے آؤ.اور خدا کا شکر ہے کہ گھوڑا فوراً مل گیا.مگرا بھی یہ گھوڑا واپس جاہی رہا تھا کہ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک خادم کو ساتھ لے کر پیدل ہی چلی آ رہی ہیں.حالانکہ پیدل چلنے سے انہیں سخت تکلیف ہو جایا کرتی تھی.اس وقت میں نے یوں محسوس کیا کہ انہیں دیکھ کر گویا حضرت صاحب کا فکر اور رنج سب دور ہو گیا.اور ہم خوشی خوشی آگے روانہ ہو گئے.ان کے پیچھے رہ جانے کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ جب وہ گھوڑے پر چڑھ کر روانہ ہو رہی تھیں تو حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلہا نے انہیں دیکھ کر فرمایا کہ شوکت ( ہماری بڑی ممانی صاحبہ ) نے ضرور جانا ہے، ان کے لئے انتظام کر دو.سیدہ موصوفہ جنہیں حضرت اماں جان سے انتہائی محبت اور اخلاص تھا.فوراً اپنے گھوڑے سے اتر آئیں اور ممانی جان کو اپنا گھوڑا دے کر روانہ کر دیا.اور آپ پیدل چل پڑیں.ڈلہوزی کے ایام کا ہی ایک اور واقعہ بھی قابل ذکر ہے.گذشتہ رمضان کا مہینہ ڈلہوزی میں ہی آیا تھا اور چونکہ حضرت صاحب کے ساتھ قافلہ بڑا تھا اس لئے سحری وغیرہ کے لئے خاص انتظام کی ضرورت تھی.سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ با وجود اس کے کہ ایک لمبی بیماری کاٹ کر ابھی ابھی بستر سے اٹھی تھیں جسب عادت پورے شوق اور انہماک کے ساتھ اس انتظام میں مصروف

Page 583

مضامین بشیر ہوگئیں.اور مصروف بھی اس طرح ہوئیں کہ نصف شب کو اُٹھ کر سب روزہ داروں کے لئے خود اپنے ہاتھ سے پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ پر اٹھے پکاتی تھیں اور باورچی کو دوسری خدمت کے لئے خالی کر دیا تھا.یہ پراٹھے صرف اپنے عزیزوں اور مہمانوں کے لئے ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ نوکر اور خادم بھی اس میں برابر کے شریک تھے کیونکہ سیدہ مرحومہ رمضان کے مبارک مہینہ میں سب کی خدمت کا یکساں ثواب حاصل کرنا چاہتی تھیں.میں نے سنا ہے کہ ان ایام میں وہ رات کو دو تین گھنٹہ سے زیادہ نہیں سوسکتی تھیں اور چونکہ وہ ابھی ابھی ایک لمبی بیماری سے اٹھی تھیں اور ڈلہوزی کے بعد بہت جلد اپنی آخری بیماری میں مبتلا ہوگئیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی مرض الموت میں ڈلہوزی کے ایام کی غیر معمولی محنت اور کوفت کا بھی ضرور دخل تھا مگر یہ ساری محنت انہوں نے انتہائی محبت اور اخلاص کے ساتھ خود اپنے ذمہ لی تھی اور بڑے اور چھوٹے اور آقا اور نوکر کا کوئی امتیاز نہیں رکھا تھا.ڈلہوزی میں جو بہشتی پانی بھرنے کے لئے قادیان سے گیا تھا وہ چونکہ بہت مشقت کا کام کرتا تھا اور کچھ بیمار بھی تھا.اس لئے وہ روزہ نہیں رکھتا تھا.مگر سیدہ مرحومہ کے ہاتھ سے پراٹھے تقسیم ہوتے دیکھ کر وہ سیدہ مرحومہ کے پاس گیا اور کہنے لگا آپا جان سب کو پر اٹھے ملتے ہیں مگر مجھے نہیں ملتا.سیدہ موصوفہ نے فرمایا میں تو روزہ داروں کے لئے پکاتی ہوں اور تم روزہ نہیں رکھتے.اگر تم روزہ رکھو تو تمہیں بھی بڑی خوشی سے پکا دیا کروں گی.اُس نے کہا میں بھی روزہ رکھا کروں گا.سیدہ موصوفہ نے کہا پھر میں تمہیں بھی ضرور دیا کروں گی.چنانچہ ہمشیرہ مرحومہ کی برکت سے یہ غریب بہشتی روزہ دار بھی بن گیا اور پراٹھے بھی کھانے لگا.غربا کی خدمت اور ان کی امداد کا غیر معمولی جذبہ جیسا کہ اوپر کے واقعہ سے بھی ظاہر ہے کہ سیدہ ام طاہر مرحومہ میں غربا کی خدمت اور غرباء کی امداد کا وصف بھی خاص طور پر پایا جاتا تھا دراصل چونکہ ان کے دل کو خالق فطرت کی طرف سے جذبات کا غیر معمولی خمیر ملا تھا.اس لئے جب بھی وہ کسی غریب یا بیمار یا مصیبت زدہ کو تکلیف میں دیکھتی تھیں تو اُن کا دل بے چین ہونے لگتا تھا اور وہ فوراً اس کی امداد کے لئے تیار ہو جاتی تھیں.چنانچہ اُن کے گھر میں غریبوں ، بیواؤں اور یتیموں کا تانتا لگا رہتا تھا اور وہ مقدور بھر سب کی امداد کرتی تھیں.یعنی اگر کسی مصیبت زدہ کی خود مدد کر سکتی تھیں تو خود کر دیتی تھیں اور اگر کسی ناظر یا کسی اور شخص کو کچھ کہنا ہوتا تھا تو اُسے کہلا بھیجتی تھیں اور اگر حضرت صاحب تک معاملہ پہنچانا ضروری ہوتا تھا تو حضور تک پہنچا دیتی تھیں.میں نے دیکھا ہے کہ جہاں حضور کی دوسری بیویاں حضور کی مصروفیت کا خیال

Page 584

۵۷۷ مضامین بشیر کر کے یا اس اندیشے سے کہیں ہماری سفارش غلط نہ ہو حضرت صاحب تک معاملات پہنچانے میں اکثر حجاب اور تامل کرتی تھیں، وہاں یہ خدا کی بندی جب کسی شخص کو واقعی قابل امداد خیال کرتی تھیں تو بلا تامل حضور تک معاملہ پہنچا دیتی تھیں اور پھر اس کا پیچھا بھی کرتی تھیں.بے شک وہ بعض اوقات غلطی سے محبت کی ” جھاڑ بھی کھا لیتی تھیں مگر پھر بھی کسی موقع پر چوکتی نہیں تھیں اور اپنا فرض برابر ادا کئے جاتی تھیں.اسی لئے غریب عورتیں بلکہ غریب مرد بھی انہیں اپنا سچا مربی خیال کرتے تھے.اور ہر تکلیف کے وقت ان کے دروازہ کی طرف دوڑتے تھے.اور وہ بھی سب کے ساتھ انتہائی محبت اور انتہائی شفقت کے ساتھ پیش آتی تھیں.سیدہ موصوفہ نے کئی یتیم بچوں اور بچیوں کو اپنے ساتھ رکھ کر اپنے گھر میں پالا اور ہمیشہ اپنے بچوں کی طرح سلوک کیا اور ان کے دُکھ کو اپنا دُ کھ اور ان کی راحت کو اپنی راحت سمجھا.غریبوں کی دلداری کا اس رنگ میں بھی مرحومہ کو خاص خیال تھا کہ ان کی خوشیوں میں اپنے عزیزوں کی طرح شریک ہوتی تھیں.اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جب سیدہ موصوفہ کسی سفر وغیرہ میں ہوتی تھیں تو کئی لوگ اپنے عزیزوں کی شادی کو صرف اس غرض سے ملتوی کر دیتے تھے کہ آپا جان واپس آئیں گی تو پھر ان کے سامنے شادی کریں گے.الغرض مرحومہ حقیقی معنوں میں غریبوں کی دوست اور یتیموں کی ماں تھیں.مجھے وہ واقعہ غالباً کبھی نہیں بھولے گا کہ جب حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات ہوئی تو اُس دن میں نے دیکھا کہ ایک غریب مہاجر بہشتی مقبرہ کی سڑک پر رورہا تھا.اور جب میں اس کے پاس سے گذرا اور اس کی طرف نظر اٹھائی تو اس نے مجھے سسکیاں لیتے ہوئے کہا کہ آج غریب بالکل یتیم ہو گئے.پھر کہنے لگا کہ بارہ دن پہلے غریب کی ماں گزر گئی تھی آج باپ بھی رخصت ہوا.اس کا اشارہ سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ کی اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی طرف تھا.میں نے دل میں کہا کہ گو اصل یتیم اور غیر یتیم تو خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنے یا نہ رکھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.اور جس کا خدا زندہ ہے اور اس کا اس سے تعلق ہے وہ کبھی بھی یتیم نہیں ہو سکتا.مگر اس غریب مہاجر کا کہنا بھی اپنے رنگ میں درست ہے کہ ان دو او پر تلے کی موتوں نے قادیان کے غریبوں کے دو بڑے اور ظاہری سہارے ان سے چھین لئے ہیں اور میں نے دعا کی کہ خدا تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے نعم البدل عطا کرے تا کہ ان دکھے ہوئے دلوں کی تسکین اور راحت کا سامان پیدا ہو.امین یا ارحم الراحمین خدا اور اس کے رسول کی محبت جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہمشیرہ مرحومہ میں خدا اور اس کے رسول کی محبت کا جذ بہ بھی بہت غالب

Page 585

مضامین بشیر ۵۷۸ تھا.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے انہیں یہ حدیث سنائی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کے ایک صحابی نے قیامت کے متعلق کوئی سوال کیا.جس پر آپ نے فرمایا کہ تم قیامت کے متعلق پوچھتے ہو.کیا اس کے لئے تم نے کوئی تیاری بھی کی ہے؟ اس نے جواب دیا.یا رسول اللہ اگر تیاری سے نماز روزہ وغیرہ مراد ہے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا.ہاں میں یہ جانتا ہوں کہ میں اپنے دل میں خدا اور اس کے رسول کی سچی محبت رکھتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اگر یہ درست ہے تو میں تمہیں خوش خبری دیتا ہوں کہ الْمَرُءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ ۲۹ یعنی انسان اپنی محبوب ہستیوں سے جدا نہیں کیا جائے گا.میں نے دیکھا کہ جب میں نے ہمشیرہ مرحومہ کو یہ حدیث سنائی تو ان کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور وہ بے ساختہ کہنے لگیں کہ میں بھی اپنے دل کو ایسا ہی پاتی ہوں.میں نے کہا کہ پھر آپ کو بھی رسول خدا کی یہ خوشخبری مبارک ہو کہ آپ اپنی محبوب ہستیوں کے ساتھ جگہ پائیں گی.چنانچہ ان کے انجام نے بتا دیا کہ خدا کے فضل و رحم سے ایسا ہی ہوا.واقعی مرحومہ کو خدا اور اس کے رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پھر اپنے سرتاج حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ساتھ بے حد محبت تھی.میں نے ان کے اس پاک جذبہ کو مختلف رنگوں میں اور مختلف موقعوں پر اور مختلف زمانوں میں ایسے کامل یقین کے ساتھ محسوس کیا ہے.کہ اس میں قطعاً کسی شک کی گنجائش نہیں.واللہ علیٰ ما اقول شهيد.شریعت اسلامی کے مطابق نوافل بجالانے کی طرف بھی مرحومہ کو بہت توجہ تھی.چنانچہ با وجود اس کے کہ عورتوں کے لئے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا فرض نہیں ہے.میں نے گزشتہ سال موسم گرما میں دیکھا کہ وہ ایک لمبے عرصہ تک گھر کی لڑکیوں اور دوسری مستورات کو ساتھ لے کر اور خودان کی امام بن کر انہیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھایا کرتی تھیں اور جہری قرآت والی نمازوں میں بلند اور پُر سوز آواز سے قرآن شریف پڑھتی تھیں.مجھے یہ نظارہ دیکھنے کا اس طرح موقع ملا کہ جب میں اپنے گھر سے مسجد کی طرف نماز کے لئے جاتا تو میرا راستہ ان کے صحن کے پاس سے گزرتا تھا.اور میں نے انہیں بارہا ان کے صحن میں لڑکیوں کو نماز پڑھاتے دیکھا.اور حضرت خلیفتہ امیج ایدہ اللہ کی قرآت سننے کا تو انہیں اتنا شوق تھا کہ میری ہمشیرہ نے مجھے بتایا کہ وہ کہا کرتی تھی کہ اگر حضرت صاحب سارا دن قرآن شریف پڑھتے رہیں تو میں اس کے سننے سے بہت تھکوں.اسی ضمن میں مجھے ہمشیرہ مرحومہ کا ایک اور دلچسپ واقعہ بھی یاد آیا.کوئی ڈیڑھ سال کی بات ہے کہ ایک دفعہ شام کے قریب ہمشیرہ مرحومہ ان سیڑھیوں کے اوپر کے حصہ پر آ کر بیٹھ گئیں جو میرے مکان کے حصہ میں اترتی ہیں اور مجھے بلا کر فرمانے لگیں کہ میں آپ سے ایک بات کہتی ہوں مگر وعدہ

Page 586

۵۷۹ مضامین بشیر کریں کہ انکار نہیں کریں گے.میں نے کہا میں نے پہلے کب کسی بات کا انکار کیا ہے کہ اب آپ وعدہ لیتی ہیں.کہنے لگیں نہیں پہلے وعدہ کریں تو پھر بتاؤں گی.میں نے کہا اگر کر سکنے کی ہوئی تو انشاء اللہ ضرور کروں گا.فرمانے لگیں کہ آپ کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کافی تبرک ہیں اور میرے پاس کوئی نہیں اور مجھے بے حد تڑپ ہے کہ میرے پاس بھی کوئی تبرک ہو.میں نے کہا میں نے آج تک اپنے تبرکات کو محفوظ رکھا ہوا ہے لیکن انشاء اللہ آپ کو ضرور دوں گا.پھر میں تھوڑی دیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ٹھنڈا کرتا ، چند بال اور ایک حضور کے ہاتھ کی لکھی ہوئی دستی تحریر لے کر گیا.جسے لے کر بے حد خوش ہوئیں.اور بڑی دیر تک ان تبرکات کو اپنے سینہ کے ساتھ لگائے رکھا اور مجھے بھی دعائیں دیتی رہیں.اولاد کی محبت و خیر خواہی اولاد کی محبت اور خیر خواہی انسان کی فطرت کا حصہ ہے اور کوئی والدین اس جذبہ سے خالی نہیں ہوتے مگر اس میں بھی مدارج کا سلسلہ چلتا ہے.ہماری مرحومہ بہن اس جذ بہ میں بھی غیر معمولی شان رکھتی تھیں.انہیں اپنی اولاد کی بہتری اور بہبودی اور اس سے بڑھ کر ان کی دینداری کا بے حد خیال رہتا تھا.اور وہ ان کے واسطے نہ صرف خود بے انتہا دعائیں کرتی تھیں بلکہ دوسروں کو بھی کثرت کے ساتھ تحریک کرتی رہتی تھیں.پھر اولاد کے ساتھ ان کی محبت کا رنگ بھی نرالا تھا.جو حجاب بسا اوقات والدین اور اولاد کے درمیان ادب عمر کے فرق وغیرہ کی وجہ سے پیدا ہو جاتا ہے.وہ ان میں اور ان کی اولاد میں بہت کم پایا جاتا تھا.کیونکہ ان کی عادت تھی کہ بچوں کو بے تکلف عزیزوں کی طرح اپنے ساتھ لگائے رکھتی تھی.بایں ہمہ ان کے بچوں میں (خدا انہیں دین ودنیا کی اعلیٰ ترین حسنات سے متمتع فرمائے آمین ) اپنی محترم والدہ صاحبہ کا بے حد ادب تھا.اور وہ اپنی والدہ کے لئے حقیقہ قرۃ العین تھے.جیسا کہ احباب کو علم ہے.مرحومہ نے اپنے پیچھے تین لڑکیاں چھوڑی ہیں اور ایک لڑکا.لڑکے کے اکیلا ہونے کا مرحومہ کو بہت احساس تھا اور وہ اس بات کے لئے ہمیشہ خاص دعائیں کرتیں اور کرواتی رہتی تھیں کہ ان کا لڑکا جس کا نام طاہر احمد ہے دین و دنیا کی اعلیٰ ترین ترقیاں حاصل کرے اور اس کی تربیت کا خاص خیال رکھتی تھیں.جب میں ان کی بیماری میں آخری دفعہ لاہور گیا ( یعنی ان کی وفات والی دفعہ سے پہلے ) تو جب میں واپسی پر انہیں رخصت کا سلام کہنے کے لئے ان کے کمرہ میں گیا.اور میں نے ان سے ذکر کیا کہ طاہر احمد کا امتحان ہونے والا ہے.اس لئے میں واپس جاتا ہوں تو انہوں نے مجھے تاکید کے ساتھ کہا کہ ہاں آپ ضرور جائیں اور طاہر کا خیال رکھیں اور پھر یہ خیال کر کے کہ شاید ان کی بیماری

Page 587

مضامین بشیر ۵۸۰ کی شدت کی وجہ سے میں طاہر کو اکیلا چھوڑ کر درمیان میں پھر واپس لاہور نہ آ جاؤں.کسی قدر رقت کے ساتھ کہا کہ آپ میری خاطر امتحان کے آخر تک وہیں طاہر کے پاس ٹھہر ہیں.چنانچہ میں قادیان چلا آیا اور جہاں تک خدا نے توفیق دی طاہر کا خیال رکھتا رہا مگر یہ ایک خدا کا فضل تھا کہ ان کی وفات اتوار کو ہوئی جو کہ امتحان کے لحاظ سے رخصت کا دن تھا.اور اس طرح میں عزیز طاہر احمد کو گھبراہٹ میں ڈالنے کے بغیر ہمشیرہ مرحومہ کے آخری لمحات میں چند گھنٹہ کے لئے پھر لاہور پہنچ سکا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی اور میری دونوں کی خواہش کو بیک وقت پورا کر دیا.لڑکیوں کے متعلق ہمشیرہ مرحومہ کو ہمیشہ یہ خیال رہتا تھا کہ وہ جلد تر ان کی زندگی میں ہی بیا ہی جائیں تا کہ یہ نازک بوجھ ان کے سر سے اتر جائے.مشیت الہی کے ماتحت ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکی.مگر یہ عجیب قدرت الہی ہے کہ گو وہ ہر بیماری میں ہماری ہمشیرگان وغیرہ کے ساتھ اس کا ذکر زیادہ تکرار کے ساتھ کیا کرتی تھیں مگر اپنی آخری بیماری کے ایام میں مرحومہ نے اس ذکر کو بالکل ترک کر دیا تھا گویا کہ وہ راضی برضا الہی ہو کر اس معاملہ کو خدا پر چھوڑ چکی ہیں.بہر حال سیدہ موصوفہ اپنی اولاد کے حق میں ایک بہترین ماں تھیں اور ان کی دینی اور دنیوی بہبودی کے لئے بے حد کوشاں رہتی تھیں.عزیزوں اور رشتہ داروں سے خاص محبت اولاد کے علاوہ ہمشیرہ مرحومہ کو دوسرے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ بھی خاص محبت تھی اور وہ سب کو بڑے شوق سے ملتیں اور بڑے اخلاق کے ساتھ پیش آتی تھیں.عزیزوں کی بیماری میں بھی بے حد ہمدردی کا ثبوت دیتی تھیں اور ایسے موقعوں پر اپنے آرام کو گو یا بالکل بھول جاتی تھیں.چنانچہ دو سال کا عرصہ ہوا جب میری لڑکی عزیزہ امتہ السلام بیگم سخت بیمار ہوئی تو ہمشیرہ مرحومہ پورے تین دن رات قریباً مسلسل اس کے سرہانے کے ساتھ لگی بیٹھی رہیں اور تیمارداری کے نازک فرائض کو اس محبت اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا کہ میرے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی تھی.یہ ان ایام کی بات ہے جبکہ سیدہ مرحومہ کے بھائی عزیزم مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب افریقہ سے تازہ تازہ رخصت لے کر کئی سال کے وقفہ کے بعد قادیان پہنچے تھے اور مرحومہ کے یہ وہ بھائی ہیں جن کے ساتھ مرحومہ کو اپنے سب بھائی بہنوں میں زیادہ بلکہ اخص درجہ محبت تھی مگر با وجود اس کے انہوں نے امتہ السلام بیگم کی خدمت میں تین دن رات ایک کر دئے.اور اس وقت تک ساتھ نہیں چھوڑا جب تک کہ وہ خطرہ سے باہر نہیں ہو گئی.یہی سلوک ان کا دوسرے عزیزوں کے ساتھ تھا.اور حضرت صاحب کی بیماری میں تو ان کی خدمت اور جاں نثاری انتہا ء کو

Page 588

۵۸۱ مضامین بشیر پہنچ جاتی تھی.مگر اللہ میاں کے سودے بھی کتنے نقد بنقد ہوتے ہیں کہ وفات سے پہلے خدا نے ہمشیرہ مرحومہ کی آنکھیں بھی اس نظارہ سے ٹھنڈی کیں کہ باوجو د لمبی بیماری کے مرحومہ کے ذی شان خاوند نے ان کی تیمار داری میں انتہائی محبت اور انتہائی خدمت کا حق ادا کیا.اور دوسرے عزیزوں نے بھی علی حسب مراتب کسی بات میں کمی نہیں کی اور مرحومہ کی لجنہ کی رفیق کا راقبال بیگم صاحبہ نے تو اڑھائی مہینہ اس محبت اور اس جانفشانی کے ساتھ خدمت سر انجام دی کہ ہم سب کے دل سے ان کے لئے دعا نکلتی ہے.لین دین کے معاملات میں صفائی لین دین کے معاملہ میں بھی ہمشیرہ مرحومہ نہایت صاف تھیں اور لوگ ان پر کامل اعتماد کرتے تھے.اور ان کے پاس کثرت کے ساتھ امانتیں رکھواتے تھے.اور اگر مرحومہ کو کبھی کسی سے قرض لینے کی ضرورت پیش آتی تھی تو وہ نہ صرف قطعاً کوئی تامل نہیں کرتا تھا.بلکہ خوشی اور شوق کے ساتھ پیش کر دیتا تھا.حاجتمندوں کو قرض دینے میں بھی مرحومہ بے حد فراخ دل تھیں.بلکہ اگر اپنے پاس نہیں ہوتا تھا تو کسی دوسرے سے لے کر دے دیتی تھیں.مجھے انہوں نے بعض اوقات ایسے رنگ میں روپے کے انتظام کے متعلق کہا کہ میرے دل میں درد پیدا ہونے لگا کہ انہیں کتنی سخت اور فوری ضرورت در پیش ہے مگر بات کھلنے پر معلوم ہوا کہ وہ کسی دوسرے حاجتمند کی ضرورت پر بے چین ہو کر اس کے واسطے سفارش کر رہی ہیں.دوکانداروں کے ساتھ لین دین بھی نہایت صاف تھا اور پائی پائی کا حساب لکھ کر وعدہ پر ادا کر دیتی تھیں.اب بھی اگر کسی کا کوئی روپیہ مرحومہ کے ذمہ نکلتا ہوتو وہ حضرت خلیفہ اصیح ایدہ اللہ کو اطلاع دے کر اپنا روپیہ وصول کر لے کیونکہ مرحومہ کی روح عالم بالا میں ایسے سفلی بوجھوں سے آزاد رہنی چاہیئے.آخری بیماری میرے نوٹ ابھی بہت باقی ہیں اور مضمون پہلے ہی اخبار کی حدود سے زیادہ لمبا ہو گیا ہے.اس لئے میں بقیہ باتوں کو چھوڑ کر صرف مرحومہ کی آخری بیماری اور وفات کے متعلق ایک مختصر بیان پر اپنے اس مضمون کوختم کرتا ہوں.یہ ذکر او پر کیا جاچکاہے کہ ہمشیرہ مرحومہ کی صحت عموما اچھی نہیں رہتی تھی.گو وہ درمیان میں بظاہر بالکل اچھی نظر آنے لگتی تھیں.جب حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی گذشته سال ماه اکتوبر میں ڈلہوزی سے واپس آکر پھر نومبر کے تیسرے ہفتہ کے آخر میں دو دن کے لئے

Page 589

مضامین بشیر ۵۸۲ ڈلہوزی تشریف لے گئے تو اس وقت بھی ہمشیرہ مرحومہ بظاہر بالکل اچھی تھیں.چنانچہ حضور نے موسم سرما میں غرباء کی تقسیم کے لئے جو لحاف تیار کروانے تھے ، ان کا کام سیدہ مرحومہ کے سپر د کر کے ڈلہوزی تشریف لے گئے اور تاکید کر گئے کہ دو دن کے اندر اندر ہماری واپسی تک سارے لحاف تیار ہو جائیں تا کہ دیر ہو جانے کی وجہ سے غریبوں کو تکلیف نہ ہو.میں تو حضور کے ساتھ ڈلہوزی چلا گیا تھا مگر واپس آکر سُنا کہ ہمشیرہ مرحومہ نے یہ دو دن سارا وقت لگا کر اور بہت سی کا رکنات کو اپنے ساتھ رکھ کر یہ لحاف تیار کئے اور بے حد کوفت اٹھائی.ڈلہوزی کے اس دوروزہ قیام میں میں نے ہمشیرہ مرحومہ کے متعلق ایک خواب دیکھی جس میں جیسا کہ بعد کے حالات نے ظاہر کیا صریح طور پر ان کے نا کام اپریشن اور اس کے بعد وفات کی طرف اشارہ تھا.مگر اس وقت اس طرف قطعاً خیال نہیں گیا.حتی کہ بارہ سال کا عرصہ ہوا، خود حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی سیدہ مرحومہ کے متعلق ایک صریح خواب دیکھی تھی کہ ان کا اپریشن ہوا ہے.اور اس کے بعد ہارٹ فیل کر گیا ہے.مگر تصرف الہی کے ماتحت اپریشن سے پہلے حضور کے ذہن سے بھی یہ خواب بالکل اتری رہی.بہر حال جب ہم ۲۲ نومبر ۱۹۴۳ء کو ڈلہوزی سے واپس آئے تو اس وقت بھی ہمشیرہ مرحومہ بظاہر بالکل اچھی تھیں.مگر اس کے چوبیس گھنٹے کے اندراندریعنی ۲۳ نومبر ۱۹۴۳ء کی شام کو بستر میں لیٹ گئیں اور ایسی لیٹیں کہ پھر نہ اٹھیں.اس کے بعد کے حالات مختصر طور پر الفضل میں شائع ہوتے رہے ہیں اور اس جگہ اُن کے اعادہ کی ضرورت نہیں البتہ بعض زائد با تیں قابل ذکر ہیں.بیماری کے ابتدائی ایام میں خود حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ گردہ کی شدید تکلیف سے بیمار ہو گئے اور کئی دن تک سیدہ مرحومہ کی تیمارداری کے لئے تشریف نہیں لا سکے اور ہمشیرہ کی تکلیف دن بدن زیادہ ہوتی گئی.انہی ایام میں ایک دن مکرمی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے جو ہمارے خاندانی معالج ہیں.اور ہمیشہ نہایت محبت اور اخلاص سے علاج فرماتے ہیں.( اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے) مجھے رات کے دو بجے کے قریب پیغام بھیجا کہ سیدہ ام طاہر صاحبہ کو زیادہ تکلیف ہے تم بھی اوپر آ جاؤ.میں گیا تو وہ درد اور کرب کی انتہائی تکلیف میں مبتلا تھیں.اور سخت بے چینی تھی.مجھے دیکھ کر رقت کے ساتھ فرمانے لگیں میرے بھائی آپ میرے واسطے دعا نہیں کرتے ؟ یہ ان کے کہنے کا مخصوص انداز تھا تا کہ دعا کی زیادہ تحریک ہو.ورنہ وہ خوب جانتی تھیں کہ میں اُن کے لئے ہمیشہ خاص طور پر دعا کرتا ہوں.اُس وقت میں نے یہ تجویز پیش کی کہ کیا میں ماموں جان ( محترمی ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب جنہوں نے آخری ایام میں اپنی بیماری اور کمزوری کے باوجود مرحومہ کا اس محبت اور شفقت کے ساتھ علاج کیا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی - فجزاه الله احسن الجزاء ) کو بلالوں مگر انہوں نے رات کے وقت ماموں جان کی تکلیف _

Page 590

۵۸۳ مضامین بشیر کے خیال سے اس تجویز کو منظور نہیں کیا.اور میں نے بھی ان کی حساس طبیعت ہونے کی وجہ سے ان کی مرضی کے خلاف قدم اٹھانا نہیں چاہا.بہر حال بیماری جلد جلد بڑھتی گئی.اور اس عرصہ میں حضرت صاحب بھی اپنی حالت میں کسی قدرا فاقہ ہونے پر باوجود نقاہت اور کمزوری کے تشریف لے آئے.اور اپنی خدمت گزار اور وفا دار اور جاں نثار بیوی کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہو گئے.اور پھر آخر تک اس خدمت کو اس محبت اور اس شفقت اور اس وفاداری اور اس قربانی کے ساتھ نباہا کہ آپ کا یہ اُسوہ ہم سب کے لئے ہمیشہ کے واسطے ایک پاک نمونہ کا کام دے گا.لاہور میں علاج جب قادیان میں افاقہ کی صورت نہ ہوئی تو آخری طبی مشورہ کے ماتحت حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ ۱۷ دسمبر ۱۹۴۳ء کو بروز جمعہ سیدہ مرحومہ کو لاہور لے گئے.اور لیڈی لینگٹن ہسپتال میں داخل کرا دیا اور پانچ میل کی لمبی مسافت طے کر کے صبح شام دونوں وقت ان کی عیادت کے لئے ہسپتال تشریف لے جاتے رہے.ہسپتال میں ابتداء افاقہ کی صورت پیدا ہوئی مگر پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ ڈاکٹر کرنیل ہنیر کو ۱۴ جنوری ۱۹۴۴ء کو بروز جمعہ پیٹ کا اپریشن کرنا پڑا.اور چند دن بعد پھر ایک دوسرا آپریشن ہوا.مگر حالت دن بدن بگڑتی اور کمزوری بڑھتی ہی چلی گئی.آخر جب یہ دیکھا گیا کہ اس ہسپتال کے ڈاکٹر اپنا زور لگا کر ہمت ہار چکے ہیں.اور اس جگہ کی پابندیاں بھی ایسی تھیں جو اس مذہبی اور روحانی ماحول کی منافی تھیں جو ایک مسلمان کو اپنے آخری لمحات میں حاصل ہونا چاہیئے تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ نے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اور اس خاکسار کو فون کر کے لاہور بلوایا تا کہ مشورہ کیا جا سکے کہ کیوں نہ پیش آمدہ حالات میں سیدہ ام طاہر کو احتیاط کے ساتھ قادیان پہنچا دیا جائے اور وہاں اپنی نگرانی میں علاج کیا جائے.چنانچہ ہم دونوں لاہور پہنچے اور سیدہ مرحومہ کی بیماری میں ہمارا یہ چوتھا سفر تھا.لیکن چونکہ ان کی حالت زیادہ کمزور پائی گئی ، اس لئے بالآخر یہی تجویز ہوئی کہ کسی اور ماہر ڈاکٹر کو دکھا کر کسی دوسرے ہسپتال میں منتقل کر لیا جائے.چنانچہ کرنیل بھر وچہ کے ساتھ بات کر کے اور انہیں آماده پا کر ۲۶ فروری ۱۹۴۴ء کو بروز ہفتہ سیدہ مرحومہ کو سر گنگا رام ہسپتال میں ایک ایمبولینس کار کے ذریعہ احتیاط کے ساتھ منتقل کر دیا گیا.اور اس انتقال ہسپتال کے تعلق میں کرنیل ہنیر نے بھی بطیب خاطر امداد دی.نئے ہسپتال میں کرنیل بھر وچہ خود دو وقت دیکھتے اور خود پٹی کرتے تھے.اور حضرت صاحب کو یہ سہولت تھی کہ اول تو یہ ہسپتال حضور کی قیام گاہ کے بالکل قریب تھا.

Page 591

مضامین بشیر ۵۸۴ دوسرے اس میں آنے جانے کے اوقات کی ویسی سخت پابندیاں نہیں تھیں جیسی کہ لیڈی لنگٹن ہسپتال میں تھیں اور تیسرے یہ کہ اس جگہ کا ماحول تقریباً اپنے اختیار میں تھا.جہاں اپنا مخصوص مذہبی اور روحانی رنگ آسانی سے پیدا کیا جا سکتا تھا.مگر تقدیر کے نوشتے بہر حال پورے ہونے تھے.حالت یہاں بھی خراب ہی ہوتی گئی.اور آخر ۵ مارچ ۱۹۴۴ء کو اتوار کے دن اڑھائی بجے سہ پہر کو قریباً ۳۹ سال کی عمر میں ہماری بہن نے داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے آقا و مالک کے حضور پہنچ گئیں.فانالله وانا اليه راجعون وكل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاكرام آخری لمحے یوں تو کچھ عرصہ قبل سے ہی ہمشیرہ کی حالت بے حد تشویش ناک ہو رہی تھی.اور آنے والا خطرہ ہر دم قریب آتا نظر آتا تھا.اور ۵ مارچ سے قبل کی ساری رات حضرت صاحب اور ہم سب ہسپتال میں ٹھہرے رہے تھے.لیکن ۵ مارچ کو دس بجے صبح کے قریب کرنیل بھر وچہ اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی متفقہ رائے کے ماتحت یہ بات معین طور پر سمجھ لی گئی تھی کہ اب بظا ہر اس فانی دنیا میں سیدہ مرحومہ کے آخری لمحات ہیں.اس وقت حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ اب مناسب ہے کہ مرحومہ کے بچوں کو ( عزیز طاہر احمد سلمہ کے سوا جو قادیان میں تھا اس وقت سارے بچے لا ہور ہی میں موجود تھے ) بلا کر ان کی والدہ سے ملا دیا جائے مگر بچوں کو سمجھا دیا جائے کہ ماں کے سامنے ضبط سے کام لیں تا کہ سیدہ 66 مرحومہ کے دل کو کوئی فوری دھکا نہ پہنچے.“ اس وقت بچوں کو اور حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کو اور دوسرے عزیزوں کو گھر سے بلالیا گیا.اور سب نے باری باری مرحومہ کے کمرے میں جا کر انہیں اس فانی دنیا میں آخری نظر دیکھ لیا.اور انہیں اپنی آخری دعا دی اور ان کی آخری دعا لی.اس وقت تک مرحومہ پوری ہوش میں تھیں اور میں دیکھتا تھا کہ وہ کامل سکون کے ساتھ لیٹی ہوئی تھیں.اور ہر اندر جانے والے کی طرف ان کی محبت کی آنکھیں اُٹھتی تھیں.اور دعائیہ فقروں کے ساتھ ہونٹ ہلتے جاتے تھے.جب ان کی چھوٹی بچی عزیزہ امتہ الجمیل سلمہا جس کی عمر صرف سات سال کی ہے.ان کے سامنے گئی تو مرحومہ نے اپنا کمزور ہاتھ اٹھا کر اس کے سر پر رکھا اور اور ایک سیکنڈ کے لئے اپنی آنکھیں

Page 592

۵۸۵ مضامین بشیر بند کر لیں مگر اس سارے عرصہ میں ایسے صبر اور ضبط کا نمونہ دکھایا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی محتا نہ توجہ اس وقت حضرت صاحب کا یہ حال تھا کہ بار بار کمرے کے اندر جاتے اور قرآن کریم اور مسنون دعاؤں کی تلاوت فرماتے اور پھر دعا کرتے ہوئے باہر آ جاتے اور برآمدہ میں ٹہلنے لگتے اور درمیانی عرصہ میں حضرت صاحب کی جگہ ہمارے ماموں جان ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اور مکرمی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور دوسرے عزیز قرآن شریف پڑھنے لگتے اور سب کی مشترکہ آواز سے کمرہ قرآنی دعاؤں سے گونج رہا تھا.یہ ایک عجیب نظارہ تھا جو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خدائی حکم کے ماتحت آسمانی صناعوں نے ان غم کی گھڑیوں کو روحانیت کی مخلوط تاروں کے ساتھ ملا جلا کربن دیا ہے.اس وقت میں جب بھی کمرہ کے اندر گیا یا جب بھی میں نے دروازہ کھول کر کمرے کے اندر جھانکا ( کیونکہ بعض اوقات میں کمرے کے اندر جانے کی ہمت نہیں پاتا تھا ) میری آنکھوں نے یہی نظارہ دیکھا کہ ہمشیرہ مرحومہ کی آنکھیں محبت سے بھرے ہوئے جذبات کے ساتھ کمرہ کے مختلف حصوں میں اپنے عزیزوں پر آخری نظر ڈالنے کے لئے چاروں طرف گھومتی تھیں اور مرحومہ کے ہونٹ دعائیہ الفاظ کے ساتھ برابر ملتے جاتے تھے.البتہ جب حضرت صاحب کمرہ کے اندر جاکر اور مرحومہ کے منہ کی طرف جھک کر قرآنی آیات پڑھتے تھے تو مرحومہ کی نظریں حضور کے چہرے پر جم جاتی تھیں اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے اپنی حقیقی قرار گاہ کو پالیا ہے.پُرسکون انجام اس منظر کا نمایاں پہلو سکینت کے لفظ میں مرکوز تھا اور یوں نظر آتا تھا کہ ایک بادبانوں والی کشتی ایک پہاڑوں سے گھری ہوئی جھیل کی ہلکی ہلکی لہروں پر آہستہ آہستہ حرکت کرتے ہوئے اپنی آخری گھاٹ کے قریب پہنچ رہی ہے.مرحومہ کے چہرے پر کرب اور اضطراب کا نام ونشان تک نہیں تھا.بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کامل سکون اور انتہائی طمانیت کے ساتھ اپنی جان کو خود ہتھیلی پر رکھے ہوئے اپنے آقا و مالک کو اس کی آخری امانت واپس کرنے کیلئے خراماں خراماں آگے بڑھ رہی ہیں.موت کے وقت کی یہ حالت عام لوگوں کے لحاظ سے بھی غیر معمولی ہے مگر ہمشیرہ مرحومہ کے لحاظ سے تو وہ حقیقۂ محیر العقول تھی کیونکہ سیدہ مرحومہ زندگی کے جذبات سے اس قدر معمور تھیں کہ ان کے متعلق

Page 593

مضامین بشیر ۵۸۶ اندیشہ تھا کہ ان کے رشتہ حیات ٹوٹنے میں نہ معلوم کیسے کیسے کرب اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو.مگر خدا کے فضل خاص نے ان پر اس وقت غیر معمولی سکینت نازل فرمائی.اور ان کے آخری سفر کو ان کے لئے ایسا آسان کر دیا کہ جیسے ایک نازک پھول کو ایک نرم ہاتھوں والا شخص ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیتا ہے.ایں سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں مرحومہ کو قریباً آخری وقت تک ہوش رہی.سوائے آخری چند منٹ کے جبکہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ہوش میں نہیں تھیں مگر ان آخری چند منٹوں میں بھی ان کی حالت میں کوئی تغیر نہیں آیا.وہی سبک رفتار کشتی تھی اور وہی سطح جھیل کی ہلکی ہلکی لہریں.حتی کہ کنارے کے ساتھ لگنے کا آخری جھٹکا بھی محسوس نہیں ہوا.گویا خدا کی رحمت کے فرشتوں نے اسے کنارے پر لگنے سے پہلے ہی اپنے ہاتھوں میں تھام لیا تھا.جب بالکل آخری سانس تھے تو میں نے ڈاکٹروں کا اشارہ پا کر حضرت صاحب کو جو اس وقت برآمدہ میں ٹہلتے ہوئے دعائیں کر رہے تھے کمرہ کا دروازہ کھولتے ہوئے اشارہ سے اندر تشریف لانے کو کہا اور پھر ہم سب باہر آ گئے اور اس طرح صرف حضور کے ہاتھوں میں اور حضور ہی کی آنکھوں کے سامنے حضور کی یہ تئیس سالہ رفیقہ حیات جس نے اپنے خاوند کو انتہائی محبت دی اور اس سے اس کی انتہائی محبت کو پایا اور اپنے خدا کے حضور پہنچ گئی.اچھی زندگی اور اچھی موت موت فوت تو ہر انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے.اور جلد یا بدیر ہر فرد بشر کو الہی قدیر کے اس اٹل دروازے سے گزرنا پڑتا ہے.مگر مبارک ہے وہ انسان جسے اچھی زندگی کے ساتھ اچھی موت بھی نصیب ہو.اور الحمد لله ثم الحمد لله کہ ہماری مرحومہ بہن نے خدا کی ان دونوں نعمتوں سے پورا پورا حصہ پایا.زندگی تو یوں گزری کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منتخب کردہ بہو اور بہو بھی دہری بہو.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی مصلح موعود کی چہیتی بیوی جس نے اپنے خاوند کے گھر میں ربع صدی تک محبت کا راج کیا.پھر الہی جماعت کے نصف حصہ یعنی احمدی خواتین کی محبوب لیڈر اور جماعتی خدمات میں سب کے لئے اعلیٰ نمونہ.بھلا ایسی زندگی کسے نصیب ہوتی ہے؟ اور موت آئی تو کیسی ؟ پیٹ کی بیماری جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد

Page 594

۵۸۷ مضامین بشیر فرماتے ہیں کہ وہ مومن کے لئے شہادت ہوتی ہے ۳۰.پھر ساڑھے تین ماہ کی طویل علالت جو اپنی ذات میں تکفیر سیات اور رفع درجات کا بھاری ذریعہ ہے.پھر اس بیماری میں جماعت کے اندر مرحومہ کے لئے خاص دعاؤں اور صدقہ و خیرات کی ایسی غیر معمولی تحریک جس کی نظیر نہیں ملتی.پھر عین وفات کے وقت مرحومہ کے اردگرد تلاوت قرآن اور دعاؤں کا غیر معمولی ماحول.پھر جنازہ میں مومنوں کا عدیم المثال اجتماع جو ساری تاریخ احمدیت میں حقیقتہ بے نظیر تھا.پھر جنازہ کی نماز میں غیر معمولی خشوع خضوع جس کی وجہ سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ لوگوں کے دل پکھل پکھل کر باہر آرہے ہیں.پھر قبر پر حضرت خلیفتہ امی الثانی ایدہ اللہ کی مومنوں کی جماعت کے ساتھ انتہائی سوز ودرد کی دعائیں اور بالآخر مرحومہ کی وفات پر بہت سی نیک تحریکات کا آغاز مثلاً مسجد مبارک کی توسیع وقف جائیداد کی تحریک وقف زندگی کی جدید تحریک.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک مزار پر ترقی اسلام کے لئے روزانہ دعاؤں کا اہتمام وغیرہ ذالک.یہ سب تحریکات ایسی ہیں جو مرحومہ کی وفات سے براہ راست تعلق رکھتی ہیں اور انشاء اللہ مرحومہ کی روح ان سب مبارک تحریکوں کے غیر معمولی ثواب سے حصہ وافر پائے گی.پھر مرحومہ کی وفات تو مقدر تھی ہی مگر خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ ان کی بیماری کو لمبا کر کے ان کی موت کو اس وقت تک روکے رکھا جب تک حضرت خلیفۃ اسیح ایدہ اللہ پر پسر موعود کا انکشاف نہ فرما دیا.اور اس طرح مرحومہ نے اپنی وفات سے پہلے اس عظیم الشان خوشخبری کو اپنے کانوں سے سُن لیا کہ ان کا سرتاج مصلح موعود ہے.اور اس خبر سے انہوں نے بے حد راحت حاصل کی اور عجیب بات یہ ہے کہ مرحومہ کی بیماری ہی اس سفر کا باعث بنی جس میں حضرت خلیفہ اسی پر مصلح موعود کے بارے میں انکشاف ہوا.یہ سب باتیں ہمارے خدائے قدیر کی قدرت نمائی کا زبر دست کرشمہ ہیں.جس نے ہماری مرحومہ بہن کی زندگی اور موت دونوں کو روحانی مٹھاس سے بھر دیا.اور یہ مٹھاس ایک صاحب دل شخص کے لئے اتنی غالب ہے کہ اس کے مقابل میں جدائی کی تلخی اپنی انتہائی شدت کے باوجود اپنی تلخی کو کھو کھو دیتی ہے مگر ہمارے خدا نے اپنی ازلی حکمت کے ماتحت انسان کو صرف روح ہی نہیں دی بلکہ اس کے ساتھ گوشت پوست کا ڈھانچہ بھی عطا کیا ہے.پس گو ہماری روح اس روحانی شیرینی کی طرف سرور میں آ آ کر لپکتی ہے لیکن جسم کمزور ہے اور تلخی کے بوجھ کے نیچے ٹو ٹا جا رہا ہے مگر ہم سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہتے کہ : - نرضى بما يرضى به الله وانا بفراقك يا اخت لمحزنون وانا لله وانا اليه راجعون

Page 595

مضامین بشیر ۵۸۸ مرحومہ کے لئے درمندانہ دعائیں اب ایک آخری لفظ کہہ کر میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں ، ہر وفات پانے والے کے متعلق اس کا ہر عزیز کچھ نہ کچھ ذاتی جذبات رکھتا ہے.اور میں اس فطری قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں اور اگر میں چاہوں تو ہمشیرہ مرحومہ کے متعلق جو ایک بہترین بہن تھیں.اس باب میں بہت کچھ لکھ سکتا ہوں مگر میں نے دانستہ اس رستہ پر پڑنے سے احتراز کیا ہے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ مرحومہ کے متعلق میرے جذبات لفظوں میں گم ہو کر ہوا میں اڑ جائیں.پس میں انہیں دعاؤں کی تحریک کے لئے اپنے سینہ میں محفوظ رکھتا ہوں کیونکہ ایک مرنے والے کے لئے جس کے اپنے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے.اس کے پیچھے رہ جانے والوں کی دعائیں ہی بہترین خدمت ہیں مگر دعاؤں کی توفیق ملنا بھی خدا کے فضل پر منحصر ہے.پس اے ہمارے مہربان آقا جو زمین و آسمان کا واحد خدا ہے.جو اس دنیا کا بھی مالک ہے اور اگلے جہان کا بھی.جس نے موت سے زندگی پیدا کی اور پھر اس زندگی کو موت میں گم کر دیا.اور اس موت سے پھر ایک آخری زندگی پیدا کرے گا.جس کے بعد کوئی موت نہیں.پس اے آخری اور دائمی زندگی کے مالک جس طرح تو نے ہماری رخصت ہونے والی بہن کو اس کی زندگی کے پہلے دور میں نوازا اور اس کے دامن کو اپنے فضل و رحمت کے پھولوں سے بھر دیا اور پھر جس طرح تو نے اس کی موت کو اپنی تقدیر خاص کے ماتحت برکت عطا کی اور اسے رحمت کے نشانوں سے زینت دی.اسی طرح اے ہمارے رحیم و ورود آقا تو اپنی اس کمزور بندی کو جو عین عالم شباب میں زندگی کے پہلے دور سے کٹ کر اور بے شمار عزیزوں کی رفاقت کو چھوڑ کر زندگی کے آخری دور میں تنہا قدم رکھ رہی ہے.اپنے فضل اور رحمت کے ہاتھوں سے قبول کر اور اس کی کمزوریوں پر جواکثر انسانوں کے ساتھ لگی ہوئی ہیں اپنی مغفرت کا پردہ ڈال کر اسے اس پاک گروہ میں داخل فرما.جو تیری از لی تقدیر کے ماتحت بے حساب بخشش پانے والا ہے.خدایا تو ہماری اس بہن کے لئے جس کی پہلی زندگی تیرے ہی سایہ کے نیچے گزری اس کے قبر کے زمانہ کو آسان کر دے اور اس کی روح کے تو خش کو جو اس نئے دور کے ماحول میں پیدا ہوسکتا ہے، اپنی شفقت کی نظر سے دور فرما اور اسے سکینت اور قرار عطا کر.وہ تیری ہی رحمت کے سایہ میں سے نکلی ہے تیری ہی رحمت کے سایہ میں جگہ پائے.اور تیرا برگزیدہ رسول جس کی وہ نواسی ہے اور تیرا پاک مسیح جس کی وہ بہو اور بیٹی ہے اسے اپنی محبت کی گود میں جگہ دیں.خدا یا تیری جنت بہت وسیع ہے.اور تیرے فضل و کرم کی کوئی حد نہیں.تو ایسا کرم فرما کہ تیری یہ بندی جسے تو نے دنیا میں مرتبہ اور شرف عطا کیا وہ آخرت میں بھی تیری رحمت کے ہاتھوں سے رتبہ اور شرف پائے

Page 596

۵۸۹ مضامین بشیر اور تیرے برگزیدہ بندوں میں شمار ہو.خدا یا تو اس کی ان تمام نیک مرادوں کو جو وہ دنیا میں رکھتی تھی ، اپنے فضل و رحم سے پورا کر اور اس کی اولاد کا جسے اس نے کم سنی کی عمر میں ہزا ر د لی امنگوں کو اپنے سینے میں لئے ہوئے تیرے ہاتھ میں چھوڑا ہے حافظ و ناصر ہو.آمین یا ارحم الراحمین.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين ( مطبوعہ الفضل ۲ اپریل ۱۹۴۴ء)

Page 597

مضامین بشیر ۵۹۰ ہمارا تعلیم الاسلام کالج دوستوں تک یہ خوشخبری پہنچ چکی ہے کہ حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ کے ارشاد کے ماتحت اس سال سے موجودہ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کو جس کی بنیا د حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک ہاتھوں آج سے قریباً ۴۵ سال پہلے رکھی گئی تھی.کالج کے معیار تک بڑھا دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے.جس کی منظوری یونیورسٹی پنجاب سے بھی حاصل ہوچکی ہے اور انشاء اللہ اس سال ماہ مئی کے آخر سے مجوزہ کالج کا افتتاح ہو جائے گا.یہ کالج فی الحال ایف.اے اور ایف.الیں.سی کے معیار تک ہوگا لیکن تجویز ہے کہ اگر خدا چاہے تو جلدی ہی اسے بی.اے ، ایم.اے تک ترقی دے دی جائے.یوں تو دنیا میں لاکھوں کا لج ہوں گے اور ظاہری تعلیم کے لحاظ سے دنیا میں بہتر سے بہتر کالج موجود ہیں اور خود پنجاب کے اندر بھی بہت سے عمدہ عمدہ کالج پائے جاتے ہیں.اور اس لحاظ سے جماعت کا یہ فیصلہ بظاہر کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا سوائے اس کے کہ ایک ہائی سکول کو ترقی دے کر کالج بنا دیا گیا ہے.لیکن اگر ہم جماعت احمدیہ کے اہم دینی مقاصد کے ماتحت جماعت کے مخصوص حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اس تجویز پر نظر ڈالیں تو پھر کسی عظمند کے لئے اس تجویز کی اہمیت مخفی نہیں رہ سکتی.سب سے پہلی خصوصیت جو اس کالج کو حاصل ہے ، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تصرف خاص کے ماتحت اس کے اجراء کو تاریخ احمدیت کے اس زمانہ کے ساتھ پیوند کر دیا ہے جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے دعوئی مصلح موعود کے ماتحت جماعت کے لئے ایک نئے دور کا حکم رکھتا ہے.گویا منجملہ دوسری مبارک تحریکات کے جو اس وقت جماعت کے سامنے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کالج کو بھی نئے دور کی نشانیوں میں سے ایک نشانی بنادیا ہے.اور اس طرح یہ کالج خدا کے فضل سے گویا اپنے جنم کے ساتھ ہی اپنے ساتھ خاص برکت و سعادت کا پیغام لا رہا ہے.فالحمد للہ علی ذالک دوسری خصوصیت اس کالج کو خدا تعالیٰ نے یہ دے دی ہے کہ وہ تاریخ عالم کے لحاظ سے بھی موجودہ جنگ عظیم کے آخری حصہ میں عالم وجود میں آ رہا ہے.اور جنگ کا یہ حصہ وہ ہے جب کہ دنیا کے بہترین سیاسی مدبر دنیا کے بعد الحرب نئے نظام کے متعلق بڑے غور و حوض سے تجویز میں سوچ رہے اور غیر معمولی اقدامات عمل میں لا رہے ہیں.اس لحاظ سے ہمارا یہ کالج دو عظیم الشان دینی اور

Page 598

۵۹۱ مضامین بشیر دنیوی تحریکوں کے ساتھ اس طرح مربوط ہو گیا ہے کہ ایک الہی جماعت جو ہر امر میں خدائی تقدیر کا ہاتھ دیکھنے کی عادی ہوتی ہے ، اسے محض ایک اتفاق قرار دے کر نظر انداز نہیں کر سکتی.مگر جہاں ہم تقدیر الہی کے اس کرشمہ کو دیکھ کر خوش ہوتے اور اسے ایک نیک اور مبارک فال خیال کر کے خدا کا شکر بجالاتے ہیں ، وہاں یہ غیر معمولی اتفاقِ حسنہ“ جو خدائی قضاء وقدر کا ایک حصہ ہے، ہمیں اس کالج کے متعلق اس بھاری ذمہ داری کی طرف بھی توجہ دلا رہا ہے کہ اس کا لج کو ایسی بنیادوں پر قائم کرو اور اس کا تعلیمی اور تربیتی ماحول ایسا بناؤ کہ وہ آنے والے دو عظیم الشان دینی اور دنیوی دوروں میں اسلام اور احمدیت کی صحیح خدمت سر انجام دے سکے اور اس خطرناک دینی جنگ کے لئے مواد تیار کر سکے جو آنے والے دوروں میں احمدیت اور اسلام کو پیش آنے والا ہے.جس کے بعد انشاء اللہ خدا کے حکم سے صداقت کی دائمی فتح کا دن مقدر ہے.پس ہمارا یہ کالج کوئی معمولی چیز نہیں، بلکہ دو ایسے پھیلے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ ہماری طرف بڑھ رہا ہے ، جن میں سے ایک میں اگر ہمارے لئے برکت اور تہنیت کا پیغام ہے تو دوسرے میں ہماری عظیم الشان ذمہ داریوں پر ہمارے لئے ایک خطرناک انتباہ بھی ہے.اور جب تک ہم مشیت الہی کے ان دونوں ہاتھوں کو غیر معمولی قوت و استقلال کے ساتھ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے ہم کبھی بھی دین و دنیا میں فلاح حاصل نہیں کر سکتے.و لیکن حق یہ ہے کہ اگر اس موقع پر یہ دو غیر معمولی تقریبات نہ بھی جمع ہوتیں ، تب بھی اس بات کے پیش نظر کہ اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے نظام کو موجودہ زمانہ میں جو دنیا کا آخری زمانہ ہے، اقوامِ عالم کی اصلاح کے لئے پیدا کیا ہے.اور اس طرح جماعت احمد یہ حقیقتہ ایک خدائی فوج کا حکم رکھتی ہے.اس کا ہر جماعتی اقدام در اصل میدانِ جنگ کی ایک اہم نقل وحرکت کا رنگ رکھتا ہے.اور اسے کبھی بھی اس کی ظاہری شکل وصورت کی وجہ سے ایک معمولی دنیوی تجویز کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا.کیونکہ سچ یہ ہے کہ ہمارا ہر ادارہ خواہ وہ بظاہر دنیا کا ہو یا دین کا ، ایک ایسے کارخانہ کے حکم میں ہے جو ایک عظیم الشان اور خطرناک جنگ کے لئے سپاہی ٹرینڈ کرے.اور سامان بنانے میں مصروف ہو.جب تک یہ جماعت اس نکتہ کو سمجھے گی اور اسے پیش نظر ر کھے گی اس کا قدم انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ ترقی کی طرف اٹھتا چلا جائے گا.اور شیطان کا کوئی حملہ اسے کسی جہت سے عدم تیاری کی حالت میں نہیں پائے گا.لیکن جب وہ جماعتی کاموں میں سے بعض کو بظاہر دنیوی سمجھ کر ان کی طرف سے دینی رنگ میں غفلت برتنے لگے گی تو وہ اپنے اس صحیح مقام کو چھوڑ دے گی جس پر اسے خدا قائم رکھنا چاہتا

Page 599

مضامین بشیر ۵۹۲ ہے.بات یہ ہے کہ دین روح ہے اور دنیا جسم.اور جس طرح ایک انسان کی کامل ترقی روحانی اور جسمانی ہر دو پہلوؤں کی طرف توجہ دینے کے ساتھ ہی مشروط ہے ، اسی طرح خدائی جماعتوں کی ترقی بھی دینی اور دنیوی تدابیر کو احسن طور پر ملا کر بجالانے کے ساتھ وابستہ ہے.یہی وہ لطیف نکتہ ہے جس کی طرف حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کو اپنے دعوئی مصلح موعود کی بنیادی رؤیا میں توجہ دلائی گئی ہے.یعنی آپ کو رویا میں تین رستے دکھائے گئے ایک بالکل دائیں طرف جانے والا جو خالص دینی تدابیر کا راستہ تھا.اور ایک بالکل بائیں طرف جانے والا جو خالص دنیوی تدابیر کا رستہ تھا.اور ایک دونوں کے بین بین رستہ جو ہر دو قسم کی تدابیر کو ملاتا تھا.اور آپ کو رویا میں وحی خفی کے ذریعہ ہدایت دی گئی کہ اس درمیانی رستہ پر گامزن ہونا چاہیئے.اور جیسا کہ حضور نے خود اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا ہے یہی اشارہ اس قرآنی آیت میں ہے.جس میں مسلمانوں کو امۃ وسطی کہا گیا ہے.الغرض جس جہت سے بھی دیکھا جائے ہما را مجوزہ کا لج نہ صرف آنے والے عظیم الشان دوروں کی برکت اور ذمہ داری کو اپنے ساتھ لا رہا ہے.بلکہ جماعت کے نظام کا ایک حصہ اور خلیفہ وقت کے ارشادات کی ایک مبارک پیداوار ہونے کے لحاظ سے بھی آخری زمانہ کی روحانی جنگ کی تدبیروں میں سے ایک تدبیر ہے.اور اسی جہت سے جماعت کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیئے اور جہاں تک ہماری طاقت میں ہے اسے کامیاب بنانے کی پوری پوری کوشش کرنی چاہیئے.دراصل آنے والے دور کی بڑی اور بھاری خصوصیت اقوام عالم کے علمی اور عملی مقابلہ کے رنگ میں ظاہر ہونے والی ہے.جنگ کے بعد دنیا کی ہر قوم ایک حشر کے رنگ میں اٹھے گی.اور دنیا میں زندہ رہنے اور دوسروں سے آگے آنے کے لئے غیر معمولی جد و جہد سے کام لے گی.اور طبائع میں ایک خاص قسم کی بیداری اور تلاش کی کیفیت پیدا ہو جائے گی اور اس میدان کے لئے ہمیں ابھی سے پوری پوری تیاری کرنی چاہیئے.جس کا ایک بھاری ذریعہ دین و دنیا کے بہترین عالم پیدا کرنا ہے.جو اپنے بلند پایہ علم کے ساتھ ساتھ غیر معمولی قوت عمل کے بھی مالک ہوں.پس میں اپنے دوستوں سے جنہیں خدا نے اپنے فضل ورحم سے نوراحمدیت کے طفیل خاص شعور عطا فرمایا ہے.اپیل کرتا ہوں کہ وہ مجوزہ تعلیم الاسلام کالج کی امداد کے لئے مندرجہ ذیل طریق پر آگے آئیں اور اس کا ثواب میں حصہ لیں.اوّل: جیسا کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ میں اپیل کی ہے.وہ اپنے چندوں سے کالج کے ابتدائی اور مستقل اخراجات کے لئے بڑھ چڑھ کر امداد دیں.

Page 600

۵۹۳ مضامین بشیر موجودہ ضروریات کا اندازہ حضور نے ڈیڑھ لاکھ روپے کا کیا ہے.یہ رقم بہت جلد جمع ہو جانی چاہیئے.اور ایک ایسی جماعت کے لئے جو مالی قربانیوں میں خاص طور پر تربیت یافتہ ہے یہ رقم ہرگز زیادہ نہیں بلکہ آج کل جنگ کی وجہ سے جو غیر معمولی اضافہ اکثر احباب کی آمد نیوں میں ہو چکا ہے اس کے پیش نظر وہ فوراً جمع ہو سکتی ہے.دوست یا د رکھیں کہ جو خرچ بھی وہ دین کے راستہ میں کرتے ہیں وہ ایک روحانی کھیت کا بیج ہے، جو کبھی بھی ضائع نہیں جاتا بلکہ بہت بڑھ چڑھ کر واپس ہوتا ہے.دوم : دوست اس کا لج میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے بچوں کو بھجوائیں تا کہ جماعت کا یہ ادارہ زیادہ سے زیادہ فائدہ بخش ہو سکے.بچوں کو اس کالج میں بھجوانا انشاء اللہ تعالیٰ تین لحاظ سے مبارک ہوگا.(1) وہ ایک نسبتا ستی جگہ میں تعلیم پائیں گے.اور والدین پر بڑے شہروں کی نسبت کم بوجھ پڑے گا.(۲) بچے اپنی عمر کے نازک ترین دور میں جبکہ وہ گویا ایک پکھلی ہوئی حالت میں سانچے کے اندر پڑے ہوئے ہوتے ہیں ، احمدیت کے ماحول میں تربیت پائیں گے.اور بیرونی دنیا کے گندے اور مادی اثرات سے محفوظ رہیں گے.(۳) وہ اسلام اور احمدیت کے بہادر سپاہی بن سکیں گے.اور اس نئے اور نازک دور میں جو جماعت پر بلکہ ساری دنیا پر بڑی سرعت کے ساتھ آ رہا ہے اسلام کی خدمت سرانجام دے کر اپنے اور اپنے والدین کے لئے خدا سے غیر معمولی برکتیں پائیں گے.اور اپنے خاندانوں کے لئے گویا ایک مجسمہ صدقہ جاریہ بن جائیں گے.نیز دوستوں کو چاہیئے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے غیر احمدی اور غیر مسلم احباب میں تحریک کریں کہ وہ اپنے بچوں کو ہمارے کالج میں تعلیم پانے کے لئے بھجوائیں.سوم : اگر کسی دوست کے ذہن میں مجوزہ کالج کو زیادہ بہتر اور زیادہ کامیاب بنانے کے لئے کوئی تجویز آئے تو وہ کالج کمیٹی کو ، جس کے سیکرٹری مکرمی ملک غلام فرید صاحب ایم.اے قادیان ہیں ، اپنے مفید مشورہ سے مطلع فرمائیں.چهارم : جن دوستوں کو مجوزہ کالج میں تعلیم دینے کے لئے بطور لیکچرار وغیرہ چنا جائے وہ اسے ایک دینی خدمت سمجھتے ہوئے آگے آئیں.اور اس نیت اور عزم کے ساتھ آئیں کہ ان کے سپر د جماعت کے ایسے نوجوان کئے جار ہے ہیں جنہوں نے حق و باطل کی آخری جنگ میں سپاہی بن کر لڑنا ہے.جو نہ صرف اعلی علمی زیور سے آراستہ ہونے چاہئیں.بلکہ غیر معمولی قوت

Page 601

مضامین بشیر ۵۹۴ عملیہ سے بھی مسلح ہونے ضروری ہیں.جو روحانیت کے ساتھ ساتھ اسلام اور احمدیت کے اعلیٰ اخلاق سے بھی مزین ہوں.جن پر علوم کی کتابیں ایک بوجھ اٹھانے والے گدھے کے طور پر لدی ہوئی نہ ہوں.بلکہ وہ علوم پر اس طرح سوار ہوں جس طرح ایک شاہسوار ایک عمدہ گھوڑے پر سوار ہوتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست کا لج کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان جملہ جہات سے جن کا میں نے مختصراً اوپر ذکر کیا ہے.اس کارخیر میں ممد و معاون بننے کے لئے دلی شوق وذوق کے ساتھ آگے آئیں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو.اور وہ کام کرنے کی توفیق عطا کرے جو اس کی رضا کے مطابق ہو.آمین ( مطبوعه الفضل ۸ اپریل ۱۹۴۴ء)

Page 602

۵۹۵ مضامین بشیر رمضان کا مبارک مہینہ اس سال میں نے شروع رمضان سے ہی ارادہ کیا تھا کہ اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو اپنے نفس کی اصلاح اور دوستوں کے فائدہ کی خاطر رمضان کی برکات کے متعلق ایک مضمون لکھ کر ” الفضل میں شائع کروں گا.اور اس کے لئے میں نے چند نوٹ قلم برداشتہ طور پر لکھ لئے تھے کہ پھر بیماری نے ایسا گھیرا کہ اب تک اس کے پنجہ سے نجات حاصل نہیں ہوئی.گوشکر ہے کہ اس شدید حملہ سے جو گذشتہ چند ایام میں درد گردہ اور قولنج کی صورت میں ظاہر ہوا.اور جس نے مجھے چند دن تک انتہائی تکلیف میں مبتلا رکھا.اب صحت کی صورت پیدا ہو چکی ہے.فالحمد للہ علی ذالک اب رمضان کے اختتام کی وجہ سے مفصل مضمون شائع کرنے کا موقع تو نہیں رہا لیکن ثواب کی خاطر سے میں نے مناسب سمجھا ہے کہ اپنے نوٹوں کو ہی مناسب صورت دے کر شائع کر دوں تا اگر خدا چاہے تو وہ اس سال میری روزوں سے محرومی کا کفارہ ہو جائے.اور شائد اس آخری وقت میں ہی ان کی وجہ سے کسی دوست کو خاص دعا اور خاص عمل کی توفیق مل جائے جو جماعت کے روحانی اموال میں اضافہ کا باعث ہو.وانما الاعمال بالنيات ولكل امرئ ما نوى وماتوفيقى الا بالله (1) گو اسلام میں ہر عمل جو خدا کی رضا کی خاطر کیا جائے عبادت کا رنگ رکھتا ہے خواہ بظاہر وہ ایک بالکل ہی دنیوی فعل ہو.مگر روزہ ان چار خاص عبادتوں میں سے ایک ہے جو اسلام میں گویا انسانی اعمال کے لئے بطورستون کے قرار دی گئی ہیں.اور ان چار عبادتوں ( نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ) میں سے ہر عبادت اپنی ایک خاص غرض و غایت رکھتی ہے.خواہ وہ حقوق اللہ سے متعلق ہو یا حقوق العباد سے.اور ان میں صیام یعنی روزہ کو یہ مزید خصوصیت حاصل ہے کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں سے یکساں تعلق رکھتا ہے.اور دونوں باغوں کی ایک سی آبپاشی کرتا ہے.(۲) روزہ کو ایک خصوصیت یہ بھی حاصل ہے کہ اس کے اندر خدائے حکیم نے اسلام کی جملہ بنیادی

Page 603

مضامین بشیر ۵۹۶ عبادتوں کو ایک خاص حکیمانہ انداز میں جمع کر دیا ہے.مثلاً صوم کے علاوہ جو رمضان کا اصل مقصود ہے روزہ میں تراویح اور مخصوص قیام اللیل کے ذریعہ نماز کے عصر کو نمایاں طور پر شامل کر دیا گیا ہے.اسی طرح صدقۃ الفطر اور عام صدقات کی کثرت کے ذریعہ زکوۃ کے عنصر کو بڑھا دیا گیا ہے.اور پھر اعتکاف کے ذریعہ گویا حج کی روح کا خمیر لے لیا گیا ہے کیونکہ حج اور اعتکاف میں ایک گہری مناسبت ہے جو کسی غور کرنے والے پر مخفی نہیں رہ سکتی (۳) روزہ کو شہادت کے عمل سے بھی بہت مشابہت ہے کیونکہ جس طرح ایک شہید خدا کے سامنے اپنی زندگی کا ہدیہ پیش کرتا ہے.اسی طرح ایک سچا روزہ دار خدا کی خاطر نہ صرف اپنی انفرادی زندگی کو بلکہ اپنی نسل کے سوتوں کو بھی کاٹتے ہوئے خدا کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے.کہ اے خدا میں تیرے لئے اپنی ظاہری زندگی کے سہاروں ( طعام وشراب ) اور اپنے نسلی بقا ( ملامست ازواج ) سے کنارہ کش ہوتا ہوں اور یہی شہادت کی روح ہے.(N) قرآن شریف میں روزہ کے فضائل اور اغراض و مقاصد بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں.ان میں سے بعض یہ ہیں :- (الف) سب سے پہلے خود رمضان کا نام ہے جو اسلام کا جاری کردہ ہے کیونکہ اسلام سے قبل رمضان کے مہینہ کا نام ناتق ہوا کرتا تھا جسے بدل کر رمضان کر دیا گیا.اور چونکہ لفظ رمضان کے معنے گرم ہونے اور تپنے یا شدت پیاس سے جلنے کے ہیں! اس لئے اس انتخاب میں یہ اشارہ ہے کہ یہ عبادت مسلمانوں کے دلوں میں خدا کی محبت کی گرمی پیدا کرنے کے لئے مقرر کی گئی ہے یا یہ کہ روزہ مسلمانوں کے دلوں میں خدا کے قرب کی پیاس کو تیز کرتا ہے.وغیر ذالک (ب) اس کے بعد صوم اور صیام کا لفظ ہے جو اسلام نے روزہ کی عبادت کے لئے اختیار کیا ہے اس کے معنی کسی چیز سے رُکے رہنے یا پیچھے ہٹنے یا کھانے پینے سے پر ہیز کرنے کے ہیں.اس میں ضبط نفس اور محرمات سے اجتناب کی غرض کی طرف اشارہ ہے.یعنی روزہ انسان کے اندر ضبط نفس کا مادہ پیدا کرتا ہے اور بدیوں سے رُکنے کی طاقت کو بڑھاتا ہے.اسی لئے حدیث میں شہر رمضان کا دوسرا نام شہر صبر بھی آتا ہے.(ج) اوپر کے دو الفاظ کے اجمالی اشارہ کے علاوہ قرآن شریف نے صراحتاً بھی روزہ کی بعض خاص اغراض بیان فرمائی ہیں.مثلا فرماتا ہے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ یعنی روزہ کی عبادت اس لئے فرض کی

Page 604

۵۹۷ مضامین بشیر گئی ہے کہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہوا اور تقویٰ کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ ایک طرف تو تمہیں ہر بات میں خدا کو اپنے ساتھ ڈھال کی طرح چمٹائے رکھنے کی عادت ہو جائے ، دوسرے تم لوگوں کے خلاف ظلم و دست درازی سے مجتنب رہ سکو کہ یہی تقوی کے دو مرکزی مقاصد ہیں.(د) ایک غرض روزہ کی قرآن شریف یہ بیان کرتا ہے کہ اِنِّی قَرِيبٌ یعنی اس ذریعہ سے انسان خدا کا قرب حاصل کرتا ہے.یا زیادہ صحیح طور پر یوں کہنا چاہیئے کہ روزوں کے نتیجہ میں خدا اپنے بندے کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے.اور یہی انسان کی زندگی کا اولین مقصد ہے.3- - (ھ) پانچویں بات قرآن شریف یہ فرماتا ہے کہ اُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ اس یعنی خدا فرماتا ہے میں روزہ رکھنے والوں کی دعاؤں کو قبول کرتا ہوں.یعنی گو آگے پیچھے بھی میں اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا اور قبول کرتا ہوں لیکن روزہ میں میری اس رحمت کا دروازہ بہت زیادہ وسیع ہو جاتا ہے اور اگر اس کے یہ معنی کئے جائیں کہ روزہ میں انسان کی ساری ہی دعائیں قبول ہو جاتی ہیں تو پھر بھی یہ غلط نہیں ہو گا.کیونکہ حدیث میں صراحت سے آتا ہے کہ ایک مومن کی دعا تین طرح قبولیت کو پہنچتی ہے.اول یا تو خدا اسے اسی صورت میں کہ جس صورت میں وہ مانگی جاتی ہے قبول کر لیتا ہے.دوسرے یا اگر اس کا اسی صورت میں قبول کرنا خدا کی کسی سنت یا مصلحت کے خلاف ہوتا ہے یا خود دعا کرنے والے کے حقیقی مقاصد کے خلاف ہوتا ہے.تو پھر خدا اس کے عوض میں دعا کرنے والے سے کسی مناسب حال بدی اور شر کو ٹال دیتا ہے اور تیسرے یا آخرت میں اس دعا کا بہتر ثمرہ پیدا کر کے بندے کی تلافی کر دیتا ہے.اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ دراصل کوئی سچی دعا بھی ضائع نہیں جاتی.پس روزہ کو دعاؤں کی قبولیت سے خاص تعلق ہے.اور اسی لئے اہل اللہ کا طریق رہا ہے کہ جب کوئی خاص دعا کرنی ہو تو اس دن روزہ رکھ کر دعا کرتے ہیں اور یہ ایک بہت آزمایا ہوا طریق ہے.(۵) حدیث نے روزہ کے برکات اور فوائد میں دو نہایت لطیف باتیں بیان کی ہیں.اوّل: حدیث میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دوسری عبادتوں کی جزا ئیں تو اور اور مقرر ہیں مگر روزہ کی جزا خود میں ہوں ۲ سے یہ وہی لطیف مفہوم ہے جو قر آنی الفاظ انـی قــریــب میں بیان ہوا ہے.یعنی جب بندہ روزہ رکھ کر اپنے آپ کو خدا کے لئے مٹاتا ہے تو ہمارا رحیم وکریم خدا اس کے بدلہ میں خود اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کر دیتا ہے.کہ اے میرے لئے مٹنے والے تیرے عمل کا

Page 605

مضامین بشیر ۵۹۸ بدلہ یہی ہے کہ تو خود مجھی کو پالے.اسی قسم کے الفاظ حدیث میں شہید ہونے والے شخص کے متعلق بھی آتے ہیں.کیونکہ شہادت کو روزہ سے گہری مشا بہت ہے.دوم : دوسری بات حدیث میں یہ بیان ہوئی ہے کہ خدا نے قیامت کے دن کے لئے جنت میں داخل ہونے کے واسطے مختلف دروازے مقرر کر رکھے ہیں.کوئی دروازہ نماز کے لئے ہے اور کوئی ذکوۃ کے لئے ہے.اور کوئی حج کے لئے وغیرہ ذالک.اور روزہ کے واسطے جو دروازہ مقرر کیا گیا ہے اس کا نام ریسان ہے ۳۳.اب ریسان کے معنی عربی زبان میں پیاسے کے مقابل کے ہیں.یعنی وہ شخص جو پانی سے سیراب شدہ ہو.اور اس میں اشارہ یہ ہے کہ جب ایک انسان خدا کی خاطر اپنی انفرادی اور نسلی زندگی کی تاروں کو کاٹنے پر آمادہ ہو جاتا ہے.یعنی نہ کھاتا پیتا ہے.اور نہ بیوی کے پاس جاتا ہے.تو خدا اسے فرماتا ہے کہ اے میرے بندے تو نے میرے لئے اپنی ظاہری زندگی کے سہاروں کو کاٹ دیا.اب تیری جزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ میں تجھے حقیقی اور دائمی زندگی کے پانی سے اتنا سیراب کروں کہ تم مجسم سیرابی ہو جائے.یہی وہ لطیف مفہوم ہے جو ریان کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے.ہمارے خدا کے قانون جزا وسزا میں عجیب تناسب اور توازن چلتا ہے.وہ جس چیز کو لیتا ہے.اس کے بدلہ میں اسی نوع کی چیز ہزاروں درجہ بڑھا چڑھا کر دیتا ہے.یہی وہ عظیم الشان فلسفہ ہے جس کے مطابق شہید ہونے والے شخص کے متعلق خدا فرما تا ہے اور کس شان اور غیرت کے ساتھ فرماتا ہے کہ جو شخص میرے رستہ میں جان دے اسے کبھی مرنے والا مت کہو کیونکہ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ۳۴ وہ زندہ ہیں.اور خدا سے زندگی کا مزید رزق حاصل کرتے ہوئے ابدی ترقی پاتے جائیں گے.(۶) حدیث میں روزہ کی ایک اور فضیلت بھی بیان ہوئی ہے.اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں.اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ۳۵.اس میں جہاں یہ اشارہ ہے کہ روزہ کی وجہ سے نیکیاں ترقی کرتی اور بدیاں مٹتی ہیں ، وہاں یہ بھی اشارہ ہے کہ رمضان میں خدا کے عفو کا دروازہ بہت وسیع ہو جاتا ہے.اور جب عفو کا دروازہ وسیع ہوا تو اس کے نتیجہ میں لازماً جنت کا دروازہ کھلے گا اور جہنم کا بند ہوگا.یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت عائشہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ اگر میں لیلتہ القدر کو پاؤں تو کیا دعا کروں تو اس پر آپ نے فرمایا یہ دعا کرو کہ اللهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ۶ سے یعنی اے میرے خدا تیری ایک صفت گناہ اور بدی

Page 606

۵۹۹ مضامین بشیر کے نشانوں کو مٹانا بھی ہے اور یہ صفت تجھے بہت محبوب ہے پس ایسا کر کہ اول تو مجھ سے کوئی بدی ہو ہی نہیں.اور اگر کبھی ہو جائے تو پھر اپنے فضل و رحم سے اس کے نام ونشان کو ایسا مٹا دے کہ گویا وہ ہوئی ہی نہیں یعنی میں بھی اسے بھول جاؤں لوگ بھی بھول جائیں.تیرے فرشتے بھی بھول جائیں اور تو خود بھی بھول جائے.خدا کو نعوذ باللہ نسیان نہیں مگر جس چیز کا وہ نام ونشان مٹا دے اور اس کے ذکر کومحو کر دے اسے وہ گویا بھلا دیتا ہے.اسی لئے خدا کی عفو کی صفت اس کے تکفیر اور مغفرت کی صفات سے بالا ہے.(2) روزہ کی حقیقت پر اس دعا کے الفاظ سے بھی بہت روشنی پڑتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افطاری کے وقت پڑھنے کا حکم دیا ہے.یعنی اَللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ ا فطرت سے یعنی اے خدا اگر میں کھانے پینے سے رُکا تھا تو تیرے لئے اور اب کھانے پینے لگا ہوں تو تیرے دیئے ہوئے رزق پر بعینہ وہی مفہوم ہے جو مشہور قرآنی آیت قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ ۳۸ میں بیان کیا گیا ہے.(۸) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے کہ آپ رمضان میں روزہ کی مخصوص عبادت کے علاوہ مندرجہ ذیل زائد اور نفلی اعمال کی طرف بہت توجہ فرماتے تھے.(الف) نماز تہجد اور قیام اللیل جو گو یا صیام کی بھی زینت ہے اور جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انتہائی شغف تھا.( ب ) تلاوتِ قرآن کریم جس کے متعلق حدیثوں میں اشارہ آتا ہے کہ رمضان میں دودفعہ ختم کرنا زیادہ پسندیدہ ہے.( ج ) صدقہ و خیرات.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ رمضان میں آپ اس کثرت سے صدقہ و خیرات فرماتے تھے کہ جیسے ایک زور سے چلنے والی آندھی ہو جو کسی روک کو خیال میں نہ لائے.۳۹ے (د) آپ نے روزہ کی روح کی طرف اشارہ کرنے کے لئے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو شخص بظا ہر کھانے پینے سے تو رک جاتا ہے مگر جھوٹ اور خیانت اور گالی گلوچ اور دنگا فساد اور بیہودہ گوئی وغیرہ سے نہیں رکتا تو وہ مفت میں بھوکا مرتا ہے کیونکہ اس کا کوئی روزہ نہیں.(9) رمضان کی ایک خاص عبادت اعتکاف ہے جو آخری عشرہ میں کسی جامع مسجد میں ادا کی جاتی

Page 607

مضامین بشیر ۶۰۰ ہے.یہ ایک نفلی عبادت ہے جس میں انسان گویا خدا کی خاطر دنیا سے کامل انقطاع اختیار کرتا ہے.دراصل اعتکاف روزہ کا معراج ہے اور اس میں انسانی فطرت کے اس جذ بہ کی تسکین کا سامان مہیا کیا گیا ہے جو کئی لوگوں کے اندر رہبانیت کی صورت میں پایا جاتا ہے.اسلام نے اپنی کامل حکمت سے رہبانیت کو تو جائز نہیں رکھا مگر انسانی فطرت کے اس میلان کو کہ میں ظاہری طور پر بھی کلیتہ خدا کا ہو جاؤں.اعتکاف کی اجازت دے کر پورا کر دیا ہے.اعتکاف میں انسان اپنے شہادت کے عمل کو کمال تک پہنچاتا ہے.اور اسے رمضان کے آخری عشرہ میں رکھنے میں یہ حکمت ہے کہ تا گویا زبان حال سے انسان سے یہ کہلوایا جائے کہ میں خدا کے لئے روزہ رکھنے سے تھکتا نہیں بلکہ جوں جوں دن گذرتے جاتے ہیں میری خدا تک پہنچنے کی پیاس ترقی کرتی جاتی ہے.حتی کہ رمضان کے آخری ایام میں میں یوں ہو جاتا ہوں کہ گویا میرا سب کچھ خدا کے لئے ہو گیا ہے.اور سچی بات یہ ہے کہ عید کی شیرینی بھی ایسے ہی لوگوں کے لئے ہے.حدیث میں آتا ہے کہ جب آخری عشرہ آتا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَحْيَاءَ اللَّيْلَ وَ أَيْقَظَ أَهْلَهُ، وَجَدَّ، وَشَدَّ الْمِعْزَرَ ٤٠ (۱۰) رمضان کے آخری عشرہ کے کمالات میں سے ایک لیلتہ القدر بھی ہے.جس میں خدا کا ہاتھ رحمت کی بارش برسانے کے لئے زمین کے قریب تر ہو جاتا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ لیلتہ القدر کو آخری عشرہ کی وتر راتوں میں تلاش کرنا چاہیئے اے.اور وتر میں سے زیادہ میلان ستائیسویں رات کی طرف پایا جاتا ہے لیکن اس بارے میں حصر نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ حصر میں علاوہ غلطی کے امکان کے انسان عمل کا دائرہ محدود ہو جاتا ہے.خدا کا منشاء یہ ہے کہ روح کو اس کے آقا کی تلاش کے لئے زیادہ سے زیادہ چوکس و ہوشیار رکھا جائے.قرآن شریف نے لیلتہ القدر کی شان میں کیا خوب الفاظ بیان فرمائے ہیں کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ ٢ یعنی اگر کسی شخص کو حقیقی لیلتہ القدر مل جائے تو وہ اس کے عمر بھر کے عمل سے بہتر ہے.الف شهر کا عرصہ سالوں میں قریباً ساڑھے تر اسی سال بنتا ہے اور یہ لمبی انسانی عمر کی طرف اشارہ ہے.یعنی خدا فرماتا ہے کہ لیلتہ القدر کا میسر آجانا بسا اوقات زندگی بھر کے عام اعمال سے بہتر ہو جاتا ہے.اور زندگی بھی وہ جو عام اوسط زندگیوں سے لمبی ہو.(11) روزوں کے متعلق ایک خاص بات یہ بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ جس طرح نماز میں خدا نے فرض نماز کے ساتھ سنت نماز مقرر فرمائی ہے جو گویا فرض نماز کے واسطے بطور محافظ اور پہرہ دار کے ہے

Page 608

۶۰۱ مضامین بشیر یا یوں سمجھنا چاہیئے کہ فرض نماز اندر کا مغز ہے اور سنتیں اس کے گرد کا چھلکا ہیں.جو اُ سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہیں.اسی طرح رمضان کے فرض روزوں کے دونوں جانب یعنی رمضان سے قبل شعبان کے مہینہ میں اور رمضان کے بعد شوال کے مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر نفلی روزوں کی تحریک فرمائی ہے.یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ مثلاً ظہر کی نماز میں جو دن کے مصروف ترین حصہ میں آتی ہے اسلام نے اس کے آگے پیچھے سنتیں مقرر فرما دی ہیں.دراصل انسانی فطرت کا قاعدہ ہے کہ وہ کسی کام میں توجہ کے جمانے میں کچھ وقت لیتا ہے.اور جب توجہ کے اختتام کا وقت آتا ہے تو پھر بسا اوقات اس کے اختتام سے قبل ہی اس کی توجہ اکھڑنی شروع ہو جاتی ہے.اس لئے آگے پیچھے نفلی روزے رکھ کر درمیانی فرض روزوں کو محفوظ کر دیا گیا ہے اور یہی سنت نماز کا فلسفہ ہے.پس دوستوں کو اس کا بھی خیال رکھنا چاہیئے.(۱۲) روزوں کے مسائل معروف و معلوم ہیں.اس لئے ان کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں مگر ایک دو باتیں ایسی ہیں جو غالباً ابھی تک عموماً اتنی محسوس و مشہود نہیں ہوئیں جتنی ہونی چاہئیں.(الف) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارہ میں سخت تاکید فرمائی ہے کہ سحری میں دیر اور افطاری میں جلدی کرنی چاہیئے.اس میں یہ بھاری حکمت ہے کہ تا جو وقت روزہ کا خدائی حکم کے ماتحت مقرر ہے وہ دوسرے وقت کے ساتھ مخلوظ نہ ہونے پائے.اگر ایک شخص سورج غروب ہو جانے کے معاً بعد روزہ نہیں کھولتا تو وہ اپنے عمل کو مشکوک کر دیتا ہے.اور گویا زبان حال سے یہ کہتا ہے کہ کچھ وقت تو میں خدا کی خاطر کھانے پینے سے رُکا رہا اور کچھ وقت اپنی مرضی سے رُکتا ہوں.اور یہ نظریہ عمل صالح کے لئے سم قاتل ہے.یہی صورت سحری میں دیر نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ سحری میں زیادہ سے زیادہ دیر کرو.اور افطاری میں زیادہ سے زیادہ جلدی کرو تا کہ تمہارا کھانے پینے سے رکنا کلیۂ اس وقت کے مطابق ہو جائے جو خدا کا مقرر کردہ ہے.اور کوئی فالتو وقت اپنی طرف سے زیادہ کر کے اپنے عمل کو مشکوک نہ کرو.( ب ) شاید اکثر لوگ اس بات سے واقف نہیں کہ جس طرح با وجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نما زنہیں ہوتی ۱۴۴ اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مجبوری سے نماز کی پہلی رکعت میں قیام کے اندر شامل نہیں ہوسکتا بلکہ رکوع میں آکر شامل ہوتا ہے تو با وجود اس کے اس کی رکعت ہو جائے گی.اسی طرح حدیث میں صراحت آتی ہے کہ اگر سحری کھاتے کھاتے دیر ہو جائے اور مؤذن اذان کہہ دے اور تمہارے ہاتھ میں کھانے پینے کا برتن ہو تو

Page 609

مضامین بشیر ۶۰۲ اذان کی وجہ سے رکو نہیں بلکہ تم ہاتھ کے برتن سے کھا پی سکتے ہو ۴۵.یہ گویا اللہ میاں کا صدقہ ہے.اور خدا کے صدقہ کو رڈ کرنا شکر گزاری کا فعل نہیں سمجھا جا سکتا.مگر اس بارے میں احتیاط ضروری ہے اور انسان کو باغی اور عادی نہیں بننا چاہیئے.بالآخر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ چونکہ دعاؤں پر زور دینا رمضان کی بھاری خصوصیات میں سے ہے.اور قرآن شریف نے بچے روزہ داروں کے لئے قبولیت دعا کا خاص وعدہ فرمایا ہے.اس لئے دوستوں کو اس ماہ میں دعاؤں پر بہت زور دینا چاہیئے.اور بہترین دعائیں اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعائیں ہیں.جن میں گویا ہمارا سب کچھ آجاتا ہے.اس کے علاوہ امام جماعت کے لئے بھی خاص دعا ئیں ضروری ہیں مگر دوسری انفرادی دعاؤں کو بھی بھلا نا نہیں چاہیئے کیونکہ جماعتیں افراد سے بنتی ہیں.اور افراد کی ترقی قومی ترقی کا پہلا زینہ ہے.اور اپنی دعاؤں میں اپنے زندوں کے ساتھ اپنے مُردوں کو بھی یا درکھو کہ ہمارے محسن آقا نے ارشاد فرمایا ہے کہ اذكـــــروا مــــوتــــاكــــم بالخير ٢٦ اور دعا سے بہتر خیر اور کیا ہوسکتی ہے؟ ( مطبوعہ الفضل ۷ استمبر ۱۹۴۴ء)

Page 610

۶۰۳ مضامین بشیر خدا کے متعلق عدل و احسان کرنے کا مفہوم اور آیت ان الله يامر بالعدل میں ہمارے لئے ایک عظیم الشان سبق شاید ڈیڑھ ماہ کے قریب عرصہ گذرا ہے جب کہ میرے موجودہ دورہ در دنفرس کا آغا ز تھا.ایک عزیز نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ قرآن شریف کی سورہ نحل میں جو یہ آیت آتی ہے کہ اِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتاى ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ۷ آے اس کے معنی جہاں تک انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا تعلق ہے ہماری جماعت میں واضح اور معروف ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی نہائت لطیف تفسیر فرمائی ہے.جس میں ایـــــــای ذی القربی کے یہ معنی کر کے کہ رشتہ داروں کا سا یا رشتہ داروں کی طرح دینا ، اس آیت کی تفسیر کا ایک نیا باب کھول دیا گیا ہے.مگر کیا خدا تعالیٰ کی نسبت سے بھی اس آیت کے کچھ معنی کئے جا سکتے ہیں.یعنی حقوق اللہ کی ذیل میں اس آیت کے کیا معنی ہوں گے؟ اس عزیز کے اس سوال پر میں ایک لمحہ کے لئے فکر میں پڑ گیا کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت کے اس پہلو کی طرف اس سے قبل میرا خیال نہیں گیا تھا.مگر میرا یہ تامل ایک آنِ واحد کے لئے تھا جسے شاید سوال کرنے والے عزیز نے محسوس بھی نہیں کیا ہوگا اور اس کے بعد معاً میرے دل میں ایک معنی آئے جو میں نے اس عزیز کو خلاصتہ سنا دئیے.اور اب دوستوں کے فائدہ کے لئے اسے مختصر تشریح کے ساتھ اس جگہ بیان کرتا ہوں چونکہ قرآن شریف کے معانی میں بے انتہا وسعت ہے اور اس کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے اس لئے اگر میرے یہ معنی کسی بزرگ کے کئے ہوئے معنوں سے مختلف ہوں تو اس پر مجھے قابل گرفت نہ خیال کیا جائے.کیونکہ ایک ہی آیت کے بہت سے معنے ہو سکتے ہیں اور ان کا باہمی اختلاف قابل اعتراض نہیں بلکہ قرآنی علوم کی وسعت کی دلیل ہے.

Page 611

مضامین بشیر ۶۰۴ جو معنی اس عزیز کے سوال پر میرے دل میں آئے وہ یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنی ازلی حکمت کے ماتحت اپنے دین کو تین حصوں میں منقسم کیا ہے.اول :.فرائض یعنی بعض باتوں کے کرنے اور بعض باتوں سے رکنے کا معین صورت میں حکم دے دیا گیا ہے.اور کرنے والی باتوں کو چھوڑنا اور نہ کرنے والی باتوں کو کرنا گناہ قرار دیا گیا ہے.جس پر خدا کی طرف سے گرفت ہوتی ہے.یہ وہ حصہ ہے جو عدل کے نیچے آتا ہے یعنی انسان اس حصہ پر عمل کرے گا تو نجات پائے گا اور اسے توڑے گا تو سزا کا مستحق ہوگا.یا دوسری جہت سے یوں کہہ سکتے ہیں کہ بعض معین اعمال کے مقابلہ پر ایک معین اجر مقرر کر دیا گیا ہے.دوسرا حصہ دین کا وہ ہے جو نوافل کی صورت میں مقرر کیا گیا ہے.یعنی خدا نے ان کا حکم نہیں دیا اور نہ ان کے ترک کو قابل سزا قرار دیا ہے مگر ان کی تحریک ضرور فرمائی ہے کیونکہ وہ انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی میں بے حدمد و موثر ہیں.اور جو لوگ اس حصہ پر عمل کرتے ہیں ، وہ صرف نجات ہی نہیں پاتے بلکہ درجات کی بلندی حاصل کر کے بہت سے زائد انعاموں کے وارث بن جاتے ہیں.مگر اس حصہ کا ترک انسان کو قابل مواخذہ نہیں بناتا.اس حالت کو جیسا کہ میں آگے چل کر تشریح کروں گا ، احسان کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے.کیونکہ احسان کے معنی صرف حسنِ سلوک کرنے کے نہیں ہیں.جیسا کہ اردو زبان میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے بلکہ عربی میں احسان کے معنی بہت وسیع ہیں.جن میں سے ایک معنی نیکی کو کمال تک پہنچانے کے بھی ہیں.تیسرا حصہ دین کا اس بات سے تعلق رکھتا ہے کہ اعمال کو صرف تاجرانہ رنگ میں نہ ادا کیا جائے جس میں ہر عمل کے ساتھ اس کی جزا کی توقع بھی لگی ہوئی ہو.بلکہ انسان کے اعمال کی بنیاد خدا کی فطری محبت اور نیکی کی طبعی کشش پر قائم کی جائے.ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک ماں اپنے بچہ کے ساتھ معاملہ کرتی ہے.جس کے محبت بھرے طبعی سلوک میں کوئی عصر جزا کی توقع کا نہیں پایا جا تا.اس حالت کو قرآنی آیت نے ایتائ ذی القربیٰ کے پیارے الفاظ میں بیان کیا ہے.یعنی خواہ تم فرائض بجالاؤ یا نوافل ادا کرو.تمہاری نیکی کا کمال اور تمہارے روحانی سلوک کا معراج یہ ہے کہ تمہارے اعمال کی بنیاد جزا سزا کے خیال سے بالا ہو کر صرف خدا کی محبت پر قائم ہو ، جو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے.اس طرح اس آیت نے انسانی اعمال کو حقوق اللہ کے میدان میں بھی تین ممتاز درجوں میں تقـ کیا ہے.اوّل: عدل یعنی فرائض کی ادائیگی یا بقول دیگران معین اعمال کا بجالا نا جن پر انسان کی نجات کا

Page 612

مضامین بشیر دارو مدار ہے گویا ایک نپی تلی چیز ادا کرو.اور اس کے مقابل پر ایک نپا تلا اجر لے لو اور گو اس اجر کو اعمال سے کوئی نسبت نہیں اور انسانی نجات کی اصل بنیاد خدا کے فضل پر ہے.مگر بہر حال یہ وہ حالت ہے جسے خدا نے عدل کے نام سے تعبیر کیا ہے.کیونکہ اس میں ایک معین عمل کے مقابلہ پر ایک معین اجر قائم کیا گیا ہے.اور اس کے ترک پر سزا بھی رکھی گئی ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک بدوی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.اور پوچھنے لگا کہ یا رسول اللہ ہم پر کونسی باتیں فرض کی گئی ہیں؟ آپ نے اسے توحید پر ایمان اور نماز، روزہ، حج ، زکوۃ وغیرہ کے احکام بتائے.جس پر وہ صحرائے عرب کا آزاد بد و بے اختیار ہوکر بولا کہ خدا کی قسم جو حکم آپ نے بتائے ہیں ان کو تو میں چھوڑوں گا نہیں مگر میں ان کے علاوہ کوئی زائد عمل بھی ہرگز نہیں کروں گا.آپ اس کے یہ الفاظ سن کر ہنس پڑے اور صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ جو وعدہ اس نے کیا ہے اگر وہ اس پر قائم رہے تو لا ریب نجات پا گیا ۴۸ میہ وہی عدل والی صورت ہے کہ ایک ہاتھ سے انسان ایک معین چیز دیتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے ایک معین چیز لے لیتا ہے.اس روحانی سودے میں بیشک قیمت اور جنس میں کوئی نسبت نہیں مگر جس چیز کو خود ہمارا خدا سودا قرار دے اسے ہم اور کس نام سے یاد کر سکتے ہیں.دوسرا درجہ احسان کا ہے جب ایک انسان فرائض کی ادائیگی بجالا کر نیکی سے مانوس ہو جاتا ہے تو اس کے اندر آہستہ آہستہ یہ حس پیدا ہونی شروع ہوتی ہے کہ محض عدل کے مقام پر قانع ہونا کوئی اعلیٰ درجہ کی نیکی نہیں ہے بلکہ انسان کا قدم اس سے بھی آگے اٹھنا چاہیئے.یہ اسی قسم کا احساس ہے جیسا کہ ایک فرض شناس طالب علم کو جو محنت کا عادی ہو جاتا ہے اور علم کی چاشنی کو پالیتا ہے یہ حس پیدا ہونی شروع ہوتی ہے کہ امتحان میں صرف پاس ہونے کے قابل نمبر لے لینا کوئی خاص خوبی کی بات نہیں اور اس جس کے پیدا ہوتے ہی وہ زیادہ محنت کر کے اور زائد توجہ دے کر اور زائد مطالعہ کر کے اعلیٰ نمبر حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.اسی طرح مذہبی میدان میں فرائض کو بجالانے والا انسان بھی فرائض کی شیرینی کو پا کر نوافل کی طرف توجہ دینی شروع کر دیتا ہے تا کہ وہ اپنے روحانی امتحان میں صرف پاس ہی نہ ہو بلکہ اعلیٰ درجہ پر کامیابی حاصل کرے.یہ احسان کا مقام ہے اور قرآن شریف میں جو بعض انبیاء کو حسن کے نام سے یاد کیا گیا ہے ، اس سے یہی مراد ہے کہ یہ بزرگ لوگ نوافل کے میدان میں خاص طور پر اعلی درجہ کی نیکیاں بجالانے والے تھے اور محض فرائض کی ادائیگی پر قانع نہیں تھے.اسی طرح حدیث میں جو احسان کی یہ تعریف آتی ہے کہ أَنْ تَعْبُدُ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِن لَّمْ تَكُنُ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يُرَاكَ ۴۹ یعنی احسان کے معنی یہ ہیں کہ تو خدا کی

Page 613

مضامین بشیر ۶۰۶ عبادت ایسے رنگ میں کرے کہ صرف خدا ہی تجھے نہیں دیکھ رہا بلکہ تو خود بھی خدا کو دیکھ رہا ہے.اور اگر ایسا نہیں تو کم از کم اس قدر احساس تو ہو کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے.یہ بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ نیکی کو اعلیٰ صورت میں ادا کیا جائے کیونکہ بندہ کا خدا کو دیکھنا یا خدا کا بندہ کو دیکھنا دونوں نہ صرف نیکی کی روح کے لئے زبر دست محرک ہیں بلکہ اسے غیر معمولی جلا بھی دے دیتے ہیں.تیسرا درجہ ایتائی ذی القربیٰ کا ہے.جب ایک انسان نہ صرف فرائض میں کامل ہو جاتا ہے بلکہ نوافل کے ذریعہ زائد نیکیوں کی مدد سے روحانیت اور قرب الہی کی بلندیوں تک بھی جا پہنچتا ہے تو پھر اس کے لئے اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرماتا ہے کہ اے میرے بندے اب تو نے ظاہری اعمال میں تو کمال حاصل کر لیا.مگر ابھی تک اس کی روح میں اصلاح کی ضرورت ہے.اب آئندہ تم ایسا کرو کہ اپنے اعمال میں جزا وسزا کے خیال کو اپنے دل سے بالکل نکال دو.بلکہ صرف میری محبت اور میری عبادت کے طبعی جذ بہ کے ماتحت نیکی کیا کرو.بیشک اعمال کی جزاء دینا میرا کام ہے اور میں وہ آقا ہوں کہ میرے دربار میں عمل کا ایک ذرہ بھی ضائع نہیں جا سکتا بلکہ میں ہر عمل کا بہت بڑھ چڑھ کر بدلہ دیتا ہوں.مگر مجھے اپنے خاص بندوں کے لیئے یہ بات پسند ہے کہ وہ جزاء کے خیال سے بالا ہو جا ئیں اور صرف میرے لئے اور میری محبت کی خاطر نیک اعمال بجالائیں.یہ وہ عظیم الشان مرتبہ ہے جسے قرآن شریف نے ایتائی ذی القربیٰ کے نام سے یاد کیا ہے.چنانچہ اس کی تشریح میں دوسری جگہ فرماتا ہے :- فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُركُمُ ابَاءَ كُمُ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۵۰ یعنی اے میرے بندو تم میری عبادت اور میرا ذکر ایسے رنگ میں کیا کرو.جس طرح تم بچہ ہونے کی حالت میں اپنے والدین کا ذکر کرتے ہو.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یعنی تمہارے اعمال میں طبعی اور فطری رنگ پیدا ہو جائے اور جزاء کا محرک درمیان میں سے نکل جائے.“ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی یوں تشریح فرمائی ہے کہ :- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرا کوئی بندہ میرے رستہ سے بھٹک جاتا ہے اور پھر اسے کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ میرے رستہ کی طرف ہدایت ملتی ہے.تو اس پر میں اس طرح خوش ہوتا ہوں.جس طرح ایک ماں کو اس کا کھویا ہوا بچہ مایوس ہو چکنے کے بعد واپس ملتا ہے“ اس لطیف مثال میں بھی یہی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جب خدا اپنی ارفع و اعلیٰ شان کے ساتھ اپنے ناچیز بندوں کے متعلق ماں باپ والے جذبات رکھتا ہے تو تمہیں بھی اس کے لئے کم از کم ایسے ہی

Page 614

۶۰۷ مضامین بشیر جذبات رکھنے چاہئیں.بلکہ چونکہ تم اس کی مخلوق اور خادم بھی ہو.اس لئے اشد ذكراً والا معاملہ ہونا چاہیئے.اسی ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مبارک کلام بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے کہ میں جو خدا کی عبادت کرتا اور اس کی راہ میں جد و جہد سے کام لیتا ہوں تو میرا یہ فعل کسی جزاء یا انعام کے خیال سے ہرگز نہیں ہے بلکہ اگر مجھے خدا کی طرف سے یہ آواز آئے کہ تیری یہ ساری عبادت اور یہ ساری جد و جہد غیر مقبول ہے تو پھر بھی میری عبادت اور میری خدمت میں ذرہ بھر فرق نہ آئے.کیونکہ میرا دل خدا کی طرف جزاء سزاء کے واسطہ سے نہیں بلکہ محبت کی تاروں کے ساتھ کھچا ہوا ہے.( یہ الفاظ میرے ہیں کیونکہ مجھے اس وقت اصل حوالہ یاد نہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض ڈائریوں میں میں نے اس مفہوم کا کلام ضرور دیکھا ہے.اور بعض گذشتہ اولیاء اللہ کے کلام میں بھی ایسے حوالے پائے جاتے ہیں ) الغرض خدا کے تعلق میں نیک اعمال کی بھی تین اقسام ہیں جن کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے.اور یہی وہ مفہوم ہے جو اس عزیز کے سوال پر میرے دل میں آیا.اب رہا آیت کے دوسرے حصہ کا سوال جو فحشاء اور منکر اور بغی سے رکنے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.سو جس طرح کہ عدل اور احسان اور ایتائی ذی القربی مثبت قسم کی نیکیاں یہ منفی قسم کی نیکیاں ہیں.یعنی آیت کے پہلے حصہ میں تین باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور آیت کے دوسرے حصہ میں تین باتوں کو ترک کرنے کا ارشاد ہے.اور جس طرح پہلے حصہ میں ایک طبعی ترتیب رکھی گئی ہے.اسی طرح دوسرے حصہ میں بھی ایک طبعی ترتیب پائی جاتی ہے.چنانچہ سب سے اول فحشاء کو رکھا گیا ہے.جس کے کئی معنی ہیں.مگر اس جگہ اس سے ایسی بدیاں مراد ہیں جو دوسروں تک نہیں پہنچتیں.اور انسان کے اپنے نفس تک محدود رہتی ہیں.یعنی وہ بدیاں جو انسان قانون کے الفاظ پر قائم رہتے ہوئے قانون کی روح کو توڑنے کی صورت میں کرتا ہے.دنیا میں ایسے لوگ بہت ہیں کہ وہ ایک قانون کو مانتے ہیں.اور صرف مانتے ہی نہیں بلکہ اس پر بظاہر عمل بھی کرتے ہیں مگر اس قانون کی روح کی طرف سے غافل رہتے ہیں اور بظا ہر قانون پر قائم رہتے ہوئے بھی اس روح کو عملاً کچلتے چلے جاتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے ہی قرآن شریف فرما تا ہے کہ ” وَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَوتِهِمْ سَاهُونَا یعنی افسوس ہے ان لوگوں پر جو بظا ہر نماز تو پڑھتے ہیں مگر نماز کی حقیقت سے غافل ہیں.“ اور دوسری جگہ فرماتا ہے :-

Page 615

مضامین بشیر ۶۰۸ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ۵۲ یعنی حقیقی نماز تو وہ ہے جو انسان کو نہ صرف الہی قانون کے توڑنے سے روک دیتی ہے.بلکہ قانون کی روح کو بھی مرنے سے بچاتی ہے.“ دوسرے درجہ پر قرآن شریف نے منکر کا لفظ رکھا ہے منکر کے معنی لوگوں کو نظر آنے والی بدی کے ہیں.جسے قانون پر چلنے والے لوگ دیکھیں اور اسے بُرا منا ئیں.گویا منکر سے مراد قانون شکنی ہے.یعنی ایک انسان اپنے اوپر خدائی حکومت کو تو تسلیم کرے اور اس کی حکومت کا باغی نہ ہو.مگر عملاً قانون تو ڑتا بھی رہے.یہ بدی بھی بہت عام ہے مثلاً ایک شخص اسلام کا دعوی کرتا ہے مگر نما ز نہیں پڑھتا یا روزہ نہیں رکھتا یا زکوۃ فرض ہوتے ہوئے زکوۃ نہیں دیتا.وغیرہ ذالک.ایسا شخص فحشاء کی حد سے آگے گزر کر منکر کا مرتکب ہوتا ہے.کیونکہ جہاں فحشا کا ارتکاب کرنے والا شخص بظاہر قانون پر قائم اور کار بند تھا اور صرف اس کی روح کے خلاف قدم مارتا تھا وہاں یہ شخص خود قانون کو ہی تو ڑتا ہے.اور خدا کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے حکموں کو عملاً نہیں مانتا.تیسرا درجہ بغی کا ہے یعنی انسان سرے سے خدا کی حکومت ہی کا باغی اور سرکش ہو جائے اور یہ دو طرح سے ہو سکتا ہے.ایک اس طرح کہ ایک انسان خدائی حکومت کا کلی طور پر باغی ہو جائے.مثلاً مطلقاً اسلام کا ہی انکار کر دے اور دوسرے اس طرح کہ اسلام کے کسی حکیم سے انکاری ہو جائے.مثلاً یہ کہتا ہو کہ میں اسلام کو تو مانتا ہوں مگر اس کا جو حکم سود کے متعلق ہے یا جو تعلیم اس کی تعدد ازدواج کے بارے میں ہے اسے درست نہیں سمجھتا.سو ایسا شخص بافی یعنی بغی کا مرتکب ہے.جو منکر کے مرتکب سے بھی آگے قدم مارتا ہے.خلاصہ کلام یہ کہ آیت کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے تین اصولی بدیوں کو علی الترتیب بیان کر کے اور انہیں پہلے حصہ کی تین اصولی نیکیوں کے مقابل پر رکھ کر اپنی تعلیم کو اصولی طور پر مکمل فرما دیا ہے.پس یہ آیت صرف حقوق العباد ہی کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی بلکہ ایک نہائت لطیف رنگ میں حقوق اللہ کے ساتھ بھی گہرا تعلق رکھتی ہے.اور یہ قرآن شریف کا کمال ہے کہ اس نے اتنے مختصر الفاظ میں اتنے وسیع مضمون کو بیان فرما دیا ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد ہر دو میدانوں میں ایک مشعل راہ کا کام دیتا ہے.جس کے باہر کوئی مثبت یا منفی قسم کی نیکی باقی نہیں رہتی.اور انسان کے ہاتھ میں ایک اصولی مگر مکمل ضابطہ عمل آجاتا ہے.فسبحان الله والحمد لله ولا حول ولا قوة الا بالله.بالآخر میں اس جگہ نہائت مختصر طور پر ایک اور بات بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں.جو اس آیت سے مجموعی طور پر مستنبط ہوتی ہے.اور یہ بات انسانی تربیت کے ساتھ اصولی تعلق رکھتی ہے کہ انسانی

Page 616

۶۰۹ مضامین بشیر تربیت کا یہ اصول ہے کہ پہلے اس کے اندر منفی قسم کی نیکیاں پیدا کی جائیں.یعنی پہلے اسے بدیوں سے پاک وصاف کیا جائے.اور پھر مثبت قسم کی نیکیوں کی طرف توجہ کی جائے.بظاہر یہ ایک بالکل سیدھا اور طبعی طریق نظر آتا ہے.مگر در حقیقت یہ ایک نہائت غلط اور تباہ کن طریق ہے.اور زیر بحث قرآنی آیت بڑی وضاحت سے اس کی تردید کرتی ہے.کیونکہ اس آیت میں پہلے مثبت قسم کی نیکیوں کا ذکر ہے اور پھر منفی قسم کی نیکیوں کا اور غور کیا جائے تو یہی طریق صحیح اور طبعی طریق ہے کہ پہلے نیکی قائم کی جائے اور پھر اس کی مدد سے بدی کا استیصال ہو.حقیقت یہ ہے کہ قوت و طاقت کا اصل منبع مثبت قسم کی نیکی میں مرکوز ہے.اور منفی قسم کی نیکی اس کے تابع ہے.جس طرح ایک ریل کی گاڑیاں اس کے انجن کے تابع ہوتی ہیں.ویسے بھی غور کریں تو منفی نیکی رکنے کا نام ہے اور مثبت نیکی عمل اور اقدام کا رنگ رکھتی ہے.اور کون عقلمند ہے جو رکنے کے فعل کو طاقت وقوت کا منبع قرار دے سکتا ہے.اسی لئے قرآن شریف نے مثبت نیکی کو مقدم رکھا ہے اور منفی کو مؤخر.چنانچہ اس آیت کے علاوہ بھی قرآن شریف نے جہاں جہاں ہر دو قسم کی نیکیوں کو ایک جگہ بیان کیا ہے.یا جہاں جہاں نیکیوں کی تلقین و تبلیغ کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں مثبت قسم کی نیکیوں کو پہلے بیان کیا ہے اور منفی قسم کو بعد میں.مثلاً اس قسم کی آیتوں سے قرآن شریف بھرا پڑا ہے کہ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۵۳ ور نہ عام خیال کے مطابق یوں ہونا چاہیئے تھا کہ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيَأمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ مگر چونکہ اسلام فطرت کا مذہب ہے اس لئے اس نے انسانی فطرت کی صحیح نبض پر انگلی رکھ کر مثبت نیکی کو ہمیشہ پہلے رکھا ہے اور منفی نیکی کو بعد میں بلکہ ایک جگہ تو قرآن شریف صراحت کے ساتھ فرماتا ہے کہ.إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ ۵۴ یعنی ہم نے مثبت نیکیوں میں یہ طاقت ودیعت کی ہے کہ وہ بدیوں کو اس طرح بہا کر لے جاتی ہیں جس طرح کہ دریا کی تیز روخس و خاشاک کو بہاتی ہے.“ اور دوسری جگہ فرماتا ہے کہ اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَائِوَ الْمُنْكَرِ یعنی نماز جو ایک مثبت قسم کی نیکی ہے اس میں خالق فطرت نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ انسان کو فحشاء اور منکر سے بچاتی ہے.اس لئے ضروری تھا کہ تربیت انسانی کے میدان میں مثبت نیکیوں کو مقدم کیا جا تا.اور اسی حکیمانہ اصول کی طرف ہمیں آیت زیر بحث بڑے لطیف پیرا یہ میں توجہ دلا رہی ہے.پس چاہیئے کہ ہم اپنے بچوں اور کمزور لوگوں اور نو مسلموں اور نو احمد یوں بلکہ خود اپنے نفسوں کی تربیت میں اس پختہ اور فطری اصول کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں.یقیناً وہ والدین جو بزنم خودا اپنے آوارہ بچوں کی آوارگی کو دور

Page 617

مضامین بشیر ۶۱۰ کرنے کے درپے تو رہتے ہیں مگر انہیں نماز، روزہ اور ذکر الہی اور خدمت سلسلہ کی طرف توجہ نہیں دلاتے اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ پہلے ان بچوں کی آوارگی دور ہو تو پھر انہیں ان نیکیوں کی تلقین کی جائے ، وہ اپنے بچوں کے دشمن ہیں اور خود اپنے ہاتھوں سے ان کی تباہی کا بیج بوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے من گھڑت اصولوں کے پیچھے لگ کر اس عظیم الشان فطری طاقت کو بھول جاتے ہیں جو بدیوں کے دور کرنے میں ساری چیزوں سے زیادہ سریع الاثر اور زیادہ وسیع الاثر ہے.کاش لوگ اس نکتہ کو سمجھیں.چونکہ ابھی تک بیماری کے نتیجہ میں میری طبیعت کمزور ہے اور یورک ایسڈ کی زیادتی نے میرے خون میں غلبہ پا کر میرے اعضا کو گو یا دبا رکھا ہے اس لئے زیادہ لکھنے سے مجھے تکلیف کے عود کرنے کا اندیشہ ہے بلکہ اسی قدر لکھنے سے میرے اندر اعصابی بے چینی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے کیونکہ گوروح تیار ہے مگر جسم کمزور ہے.اس لئے اسی مختصر نوٹ پر اکتفا کرتے ہوئے اس وسیع مضمون کو جو پوری تشریح کے لئے بہت زیادہ تفصیل چاہتا ہے ختم کرتا ہوں.اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے بھی اور دوسرے دوستوں کو بھی اپنی پاک تعلیم کو سمجھنے اور اس پر چلنے کی توفیق عطا کرے.اور ہمیں اپنا ایسا بندہ بنالے جو نفس مطمئنہ پا کر ہر آن خدا کی طرف فطری محبت کی تاروں کے ذریعہ لوٹنے والا ہو.ع اینست کام دل اگر آید میسرم ( مطبوعه الفضل یکم اکتوبر ۱۹۴۴ء)

Page 618

་་་ مضامین بشیر ا.سورة النصر حوالہ جات ۱۹۴۳ء ۱۹۴۴ء ۲ صحیح البخاری کتاب التفسير سورة النصر باب قوله فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابَا صحیح مسلم.باب بیان حكم عمل الكافر إِذَا أَسْلَمَ بَعْدَهُ ۴- الحاق : ۲۴ ۵ - الرعد : ۱۸.الحجر : ۱۰ صحیح البخاری کتاب الاحکام باب الاستخلاف - جامع الترمذی.ابواب المناقب فی مناقب عثمان ۹.مشکوۃ باب الانذار والتحزير - مسند احمد بن حنبل جلد ۵ عن نعمان بن بشیر ۱۰ - النور : ۵۶ ا.مشکوۃ کتاب الفتن باب نزول عیسی علیہ السلام ۱۲.رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۳ تا ۳۰۶ ۱۳.الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۴۰ء صفحه ا ۱۴.النساء: ۵ ۱۵ - الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۴۰ء -۱۲.الفضل مورخہ ۱۹ ستمبر ۱۹۴۰ء ۱۷.المائدہ: ۹ ۱۸.خطبہ جمعہ.مطبوعه الفضل ۲۱ ستمبر ۱۹۳۳ءصفحه ۵ ۱۹.مجموعہ فتاوی احمد یہ جلد دوم صفحه ۱۷ - ۱۸ ۲۰.الفضل مورخہ ۱۴ جون ۱۹۴۰ء

Page 619

مضامین بشیر ۲۱.اصحاب احمد جلد اول صفحه ۴۳ طبع ۲۰۰۵ء ٢٢- الرعد : ٢٩ ۲۳ صحیح البخاری کتاب التوحید ۶۱۲ ۲۴ صحیح البخارى كتاب الرقاق باب يَدْخُلُ الجَنَّةَ سَبْعُونَ أَلْفًا بَغَيْرِ حِسَابِ ۲۵ - تحفتہ الاحوذی شرح الترندی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۲۶ النساء : ٩٦ ۲۷.الحجم الکبیر جلد ۵ - ۷، طبع بغداد ۲۸ - الهود : ۱۱۵ ۲۹ - جامع الترندی - ابواب الزهد باب ماجاء ان المرء مع من أَحَبَّ - ۳۰.سنن النسائی.کتاب الجھاد باب من خان غازيا في اهله ۳۱.البقرہ: ۱۸۷ ۳۲.صحیح البخاری کتاب الصوم ـ باب فضل الصوم طبع بیروت ۳۳ - صحیح البخاری کتاب الصوم باب الريان للمصئمين طبع بيروت ۳۴ - ال عمران : ۱۷۰ ۳۵ - صحیح البخاری کتاب الصوم باب هل يقال رمضان، أَوْ شَهُرُ رَمَضَانَ مِن رَائِ كُلُّهُ وَاسِعًا - ٣٦ - جامع الترمذی.ابواب الدعوات ۳۷.سنن ابوداؤ د کتاب الصیام باب الفطر قبل غروب.۳۸.الانعام : ۱۶۳.۳۹ - صحیح البخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يكون في رمضان ۴۰ - صحیح المسلم كتاب الاعتكاف باب الاجتهـادفــى العشر الاواخرمن شهر رمضان.۴۱) صحیح البخاری کتاب فضل ليلة القدر باب التماس اليلة القدر في السبح الاواخر.۴۲ - القدر : ۴ ۴۳ صحیح البخاری کتاب الصوم باب تعجيل الافطار

Page 620

۶۱۳ مضامین بشیر ۴۴ - صحیح البخاری کتاب التوحید باب وَسَمَّى النَّبِيُّ الصَّلوة عَمَلاً.۴۵.صحیح البخاری کتاب الصوم باب قول النبى لا يمنعكم من سحوركم اذان بلال ۴۶ - تحفة الاحوزی شرح ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ۴۷.النحل: ۹۱ ۴۸ صحیح البخاری کتاب الایمان.باب الزكواة من الاسلام ۴۹ - صحیح مسلم کتاب الایمان ۵۰ - البقره: ۲۰۱ ۵۱ - الماعون : ۵-۶ ۵۲ - العنکبوت : ۴۶ ۵۳ - التوبة : ۷۱ ۵۴ - الهود : ۱۱۵

Page 621

۶۱۴ مضامین بشیر

Page 622

۶۱۵ ۱۹۴۵ء مضامین بشیر اسلام میں نظام زکوۃ کے اصول تاریخ عالم کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ ہر زمانہ کے الگ الگ مسائل ہوتے ہیں اور الگ الگ مشکلات اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں موجودہ زمانہ کے مادی مسائل میں سے سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ قابل توجہ مسئلہ قومی اقتصادیات کا مسئلہ ہے یعنی یہ کہ سامان معیشت کے پیدا کرنے کے ذرائع اور افراد و اقوام میں دولت کی تقسیم کے طریق کن اصول پر مبنی ہونے چاہئیں.آج کل کی بیشتر سیاست خواہ وہ کسی ملک کے ساتھ تعلق رکھتی ہو اسی خاردار مسئلہ کے ساتھ لیٹی ہوئی ہے اور احمدیت کو بھی آگے چل کر اسی مسئلہ کے ساتھ دو چار ہونا ہے.بہر حال موجودہ زمانہ کے تمام نظامات کسی نہ کسی پہلو سے اس مسئلہ کے ساتھ براہ راست وابستہ ہیں.چنانچہ انگلستان و امریکہ کی سرمایہ داری اور روس و جرمنی کی سوشلزم ( جو روس میں کمیونزم اور جرمنی میں نیشنل سوشلزم کی صورت میں قائم ہے.اسی پیچد ارمسئلہ کی مختلف شاخیں ہیں جو بعض ممالک میں ایک انتہاء کی طرف اور بعض ممالک میں دوسری انتہاء کی طرف جھک گئی ہیں.اور ہر دور بین آنکھ دیکھ رہی ہے کہ اگر ان انتہاؤں نے جلدی ہی کوئی عملی مفاہمت کی صورت اختیار نہ کی تو ایک تیسری عالمگیر جنگ اور غالباً سب جنگوں سے زیادہ ہولناک جنگ ہمارے دروازے پر کھڑی ہے.بلکہ جیسا کہ بائیل اور قرآن وحدیث کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اور مکاشفات میں بھی صراحت کے ساتھ پایا جاتا ہے یہ تیسری جنگ بہر حال ہونے والی ہے کیونکہ نہ دنیا نے اپنے طور پر اصلاح کی طرف قدم اٹھانا ہے اور نہ خدا کی اس از لی تقدیر نے ٹلنا ہے اور اسلام واحمدیت کے غلبہ کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ مغرب کی مادی طاقتیں آپس کے ایک آخری ہیبت ناک ٹکراؤ میں آکر تباہ ہوں اور ان کے کھنڈروں پر دنیا کے نئے نظام کی بنیاد رکھی جائے.کیونکہ قضائے آسمان است اس بہر حالت شود پیدا

Page 623

مضامین بشیر ۶۱۶ اسلام چونکہ ایک عالمگیر مذہب ہے جو سارے زمانوں کے لئے آیا ہے.اس لئے ضروری تھا کہ اس میں ہر زمانہ کی مشکلات اور ہر زمانہ کے مسائل کے حل موجود ہوں.جو اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہو کر دنیا کی بیماریوں کا علاج پیش کر سکیں.یہ ساری چیزیں بالقوۃ طور پر اسلام میں ہمیشہ سے موجود تھیں مگر ان کا اظہار و انکشاف ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق ہوتا رہا ہے.اسی طرح جس طرح یہ مادی دنیا ہمیشہ سے موجود ہے مگر اس کے مخفی خزانوں کا اظہار و انکشاف ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق ہوتا رہا ہے.چنانچہ دنیا کے اقتصادی مسائل کا حل بھی اسلام میں شروع سے کافی اور شافی طور پر موجود تھا مگر اس کے بعض پہلو جو قبل از وقت ہونے کی وجہ سے پہلے زمانوں کے لوگوں سے مخفی رہے ہیں یا ان کی اہمیت کی طرف پہلے لوگوں کی توجہ نہیں گئی وہ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے موجودہ زمانہ کی ضرورت کے مطابق نمایاں ہو کر ظاہر ہو رہے ہیں اور آیت إِنْ مَنُ شَيْ ءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُدَةٍ لَهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ لا کے ارشاد کے مطابق قیامت تک ظاہر ہوتے چلے جائیں گے.مختصر طور پر اسلام نے جن بنیادی احکام کے ذریعہ دنیا کے اقتصادی نظام کی تباہ کن انتہاؤں کا انسداد کیا ہے وہ یہ ہیں : - (۱) اسلام کا قانونِ ورثہ جو دوسرے نظاموں کی طرح صرف بڑے لڑکے یا صرف لڑکوں یا صرف اولا دہی کو وارث قرار نہیں دیتا بلکہ تمام اولا د اور ماں اور باپ اور بیوی یا خاوند سب کو وارث بناتا ہے اور ان وارثوں کے نہ ہونے کی صورت میں بہنوں اور بھائیوں اور دوسرے عزیزوں کو بھی ان کا واجبی حق دیتا ہے.بلکہ ورثہ کے متعلق مرنے والے کو ایک تہائی وصیت کا اختیا ر دے کر دولت کی مزید منصفانہ تقسیم کا دروازہ کھول دیتا ہے.(۲) اسلام کا حکم درباره سود، جس کی رو سے سود کے لین دین کو قطعی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے.اور سود وہ تباہ کن چیز ہے جو نہ صرف دنیا میں خطرناک جنگ وجدال کا موجب ہوتی ہے بلکہ قوم کی دولت کو چند افراد کے ہاتھوں میں جمع کر دینے اور باقیوں کو قلاش بنا دینے کا بہت مؤثر ذریعہ ہے.(۳) اسلام کا حکم دربارہ جوا بازی ، جس کی رو سے جوئے کو قطعاً ممنوع کر دیا گیا ہے اور جو ا وہ خطرناک چیز ہے جو دولت کمانے کو محنت اور قابلیت پر مبنی قرار دینے کی بجائے محض اتفاق پر مبنی قرار دیتی ہے.جس سے افراد کی دولت کی مناسب اور منصفانہ تقسیم میں بھاری رخنہ پیدا ہوسکتا ہے.

Page 624

۶۱۷ مضامین بشیر (۴) اسلام کا یہ حکیمانہ ارشاد کہ دولت کو خزانوں کی صورت میں جمع کر کے بند نہ رکھا کرو بلکہ کام پر لگاؤ.اور اگر کوئی شخص ایسا فعل کرے تو اسلام اس پر پانچویں حصہ یعنی ہیں فیصدی کا بھاری ٹیکس عائد کرتا ہے اور یہ ٹیکس غرباء کی بہبودی پر خرچ کر دیا جاتا ہے.اس کی کسی قدر تشریح آگے آتی ہے.(۵) اسلام کا قانونِ صدقات جس میں امیروں کی دولت کا مناسب حصہ کاٹ کر غریبوں کو امداد پہنچائی جاتی ہے اور اس نظام کے دو حصے ہیں.اول عام طوعی اور انفرادی صدقات جن کی اسلام میں انتہائی تاکید پائی جاتی ہے اور دوسرے زکوۃ جو حکومت کے انتظام کے ماتحت جبراً وصول کی جاتی اور پھر حکومت کے انتظام کے ماتحت ہی غرباء اور مساکین وغیرہ میں تقسیم کر دی جاتی ہے.یہ وہ پانچ بھاری رکن ہیں جن کے ذریعہ اسلام نے ملکوں اور قوموں کی دولت کو منصفانہ صورت میں تقسیم کرنے اور امیر وغریب کے ناگوار امتیاز کو احسن صورت میں کم کرنے کا دروازہ کھولا ہے.اور جن کے نتیجہ میں کبھی بھی کوئی اسلامی سوسائٹی جوان اصولوں پر کار بند رہی ہو سرمایہ داری یا کمیونزم جیسی مہیب انتہاؤں کا شکار نہیں ہوئی.اس وقت میں مختصر طور پر صرف اسلامی نظام زکوۃ کے اصولوں کو بیان کرنا چاہتا ہوں مگر میری غرض زکوۃ کے فقہی مسائل بیان کرنا نہیں بلکہ ان اصولوں کی تشریح ہے جن پر اسلام میں زکوۃ کے نظام کی بنیا درکھی گئی ہے اور بدقسمتی سے یہ وہ حصہ ہے جس کی طرف ہمارے فقہاء نے نسبتاً کم توجہ دی ہے.حالانکہ زکوۃ کی بحث میں زیادہ اہم اور اصولی حصہ یہی ہے کیونکہ اس سے اس روح اور حکمت پر روشنی پڑتی ہے جو اسلام کے اقتصادی نظام میں خدائے حکیم کے مدنظر ہے.(۱) سب سے پہلے میں زکوۃ کے لفظ کو لیتا ہوں کیونکہ اسلام نے دینی اصطلاحات بھی ایسی قائم کی ہیں جن کے اندر ہی مسائل کی غرض وغایت کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے.سوجیسا کہ ہر مستند لغت کے مطالعہ سے پتہ لگ سکتا ہے زکوۃ کا لفظ جو زَگا سے نکلا ہے ، دو مفہوموں کے اظہار کے لئے موضوع ہے.ایک بڑھنا یا بڑھانا اور دوسرے پاک ہونا یا پاک کرنا.یہ ہر دو مفہوم اس لفظ میں اس طرح مرکوز ہیں کہ اس روٹ سے بننے والے جتنے بھی الفاظ عربی میں مستعمل ہیں ، ان سب میں کسی نہ کسی صورت میں یہ دو بنیادی مفہوم موجود رہتے ہیں مگر اس جگہ مفصل لغوی تشریح کی گنجائش نہیں.بہر حال زکوۃ کے لفظ میں وضع لغت کے لحاظ سے یہ دو مفہوم پائے جاتے ہیں.یعنی اول بڑھنا یا بڑھانا اور دوسرے پاک ہونا یا پاک کرنا.اور اس دوہرے مفہوم میں یہ عظیم الشان اشارہ ہے کہ زکوۃ کا نظام

Page 625

مضامین بشیر ۶۱۸ بنی نوع انسان کے لئے ہر جہت سے ترقی اور طہارت کا باعث ہے.یعنی یہ ترقی اور طہارت کا باعث ہے.اس غنی کے لئے جو اپنے مال میں سے زکوۃ دیتا ہے.یہ ترقی اور طہارت کا باعث ہے.اس غریب کے لئے جو زکوۃ میں سے حصہ پاتا ہے.یہ ترقی اور طہارت کا باعث ہے.اس حکومت کے لئے جو ز کوۃ کی وصولی اور تقسیم کا انتظام کرتی ہے اور بالآخر یہ ترقی اور طہارت کا باعث ہے خود اس مال کے لئے بھی جس میں سے زکوۃ دی جاتی ہے.پس اسلام نے اس ایک لفظ کے اندر ہی ان عظیم الشان اغراض و مقاصد کی طرف اشارہ کر دیا ہے جو زکوۃ کے نظام میں ہمارے خالق و مالک کے مدنظر ہیں.مگر قرآن شریف نے صرف اس لفظی اشارہ پر ہی اکتفا نہیں کی.بلکہ اس حقیقت کو ایک واضح بیان کے ذریعہ بھی کھول دیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے :- وو وَمَا اتَيْتُمُ مِنْ رِبًا لِيَرُ بُوَافِى اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ وَمَا أتَيْتُمُ مِنْ زَكوةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ یعنی جو سود تم اس خیال سے دیتے ہو کہ تا اس ذریعہ سے لوگوں کے مالوں میں زیادتی ہو.تو یا درکھو کہ خدا کے نزدیک ایسا مال ہرگز نہیں بڑھتا.مگر جو ز کوۃ تم خدا کی رضا کی خاطر دیتے ہو.اس کے ذریعہ تم ضرور سب کے لئے ترقی کا رستہ کھول دیتے ہو.“ اور دوسری جگہ فرماتا ہے :.خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُ هُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا یعنی اے رسول تو مومنوں سے صدقہ اور زکوۃ وصول کر.کیونکہ اس ذریعہ سے تو انہیں پاک ہونے اور بڑھنے میں مدد دے گا.“ دوسرا لفظ جو ز کوۃ کے لئے اسلام نے استعمال کیا ہے ، وہ صدقہ کا لفظ ہے مگر یہ یا درکھنا چاہیئے کہ صدقہ کا لفظ زکوۃ کے لفظ کی نسبت زیادہ عام ہے.کیونکہ زکوۃ کے علاوہ جو حکومت کے انتظام کے ماتحت وصول کی جاتی ہے وہ ان طوعی اور انفرادی صدقات پر بھی بولا جاتا ہے جو ایک فردا اپنے طور پر دوسرے فرد یا افراد کو دیتا ہے اور جن کی اسلام میں بڑے زور سے تحریک کی گئی ہے.صدقہ کا لفظ جو صدق سے نکلا ہے.اس کے معنی صرف سچ بولنے کے ہی نہیں ہیں.بلکہ اپنے دعوی کے مطابق سچا عمل کرنے کے بھی ہیں.پس زکوۃ کو صدقہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے صدق اور اخلاص کی علامت ہے.یعنی جس طرح انسان منہ سے خدا اور رسول کو ماننے اور مومنوں کو اپنا بھائی سمجھنے کا دعویٰ کرتا ہے.اس کے مطابق وہ عمل کر کے بھی دکھا دیتا ہے.کہ میر اسب مال ومتاع خدا کے لئے ہے.

Page 626

۶۱۹ مضامین بشیر اور چونکہ خدا سب کا ہے.اس لئے میرا فرض ہے کہ میں اپنے مال میں سے اپنے غریب بھائیوں کا بھی حصہ نکالوں.(۲) اس لفظی اشارہ کے علاوہ اسلام نے زکوۃ کی غرض و غایت ان جامع و مانع الفاظ میں بھی پیش کی ہے کہ : - صَدَقَةٌ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَا ئِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ ؟ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ زکوۃ وہ مبارک ٹیکس ہے جو قوم کے غنی اور دولت مند لوگوں سے وصول کیا جاتا ہے.اور قوم کے غریب اور حاجتمند لوگوں کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے.“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ پیارے الفاظ اپنے اندر عظیم الشان حکمتیں رکھتے ہیں.جو مختصر طور پر اس طرح بیان کی جاسکتی ہیں کہ : - (الف) زکوۃ کی غرض وغایت ملک میں دولت کو سمونا ہے تا کہ جن لوگوں کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ مال ہو ، ان سے ان کے مال کا ایک معین حصہ ( جو حالات کے اختلاف کے ساتھ اڑھائی فیصدی سے لے کر بیس فی صدی تک بنتا ہے ) وصول کر کے ان غریبوں کو دیا جا سکے جن کے پاس ان کی ضرورت سے کم مال ہے.( ب ) یہ وصولی اور یہ خرچ دونوں حکومت کے انتظام میں ہوں گے.جیسا کہ الفاظ تـو خــذ ( لیا جائے ) اور تو ڈ ( دیا جائے ) میں بیان کیا گیا ہے.یہ نہیں کہ زکوۃ دینے والے لوگ خود بخود اپنے طور پر غریبوں میں تقسیم کر دیں.کیونکہ اس میں سستی اور لحاظ داری اور احسان مندی کا دروازہ کھلتا ہے.( ج ) یہ زکوۃ امیروں کی طرف سے احسان کے طور پر نہیں ہے بلکہ غریبوں کا حق ہے.جیسا کہ لفظ ترد (لوٹا یا جائے ) میں اشارہ ہے.جس میں یہ بتانا مقصود ہے کہ چونکہ دولت پیدا کرنے کے ذرائع سب خدا کے پیدا کردہ ہیں.اور خدا نے یہ سب کچھ مجموعی طور پر سارے انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے.اس لئے جو شخص اپنے مال میں سے غریبوں کا وہ حصہ جو خدا کی طرف سے بطور حق کے مقرر ہے، نہیں نکالتا وہ گویا حرام کھاتا ہے.اور اپنے سارے مال کو گندہ کر لیتا ہے.(۳) زکوۃ میں نصاب ( یعنی وہ تعداد یا وہ مقدار جس پر زکوۃ واجب ہوتی ہے ) اس اصول کے ماتحت مقرر کیا گیا ہے کہ مال کا کچھ ابتدئی حصہ زکوۃ سے آزاد چھوڑ کر صرف اوپر والے حصہ پر زکوۃ لگائی گئی ہے.اور یہ نہیں کیا گیا کہ ہر چھوٹے سے چھوٹے مال پر بھی زکوۃ لگا دی گئی ہو.مثلاً

Page 627

مضامین بشیر ۶۲۰ چاندی پر دوسو درہم سے کم پر زکوۃ نہیں ، سونے پر میں دینار سے کم پر زکوۃ نہیں ، غلہ پر ساڑھے بائیس من سے کم پر زکوۃ نہیں ، بکریوں ، بھیڑوں پر چالیس راس سے کم پر زکوۃ نہیں ، گائے ، بھینس پر تمیں راس سے کم پر زکوۃ نہیں وغیرہ ذالک.ان اتبدائی حصوں کو زکوۃ سے آزا در رکھنے میں یہ دوہری حکمت مد نظر ہے کہ : - ( الف ) چونکہ یہ ٹیکس غرباء کی امداد کی غرض سے لگایا گیا ہے اس لئے خودغریب لوگ اس ٹیکس کی زد میں آنے سے بچے رہیں اور اس کا بوجھ صرف امیروں پر پڑے.(ب) شخصی کمائی کا ایک حصہ بہر حال ٹیکس سے آزا در ہے.تا کہ یہ فطری تقاضا کہ انسان کو اس کی محنت کا معقول ثمرہ حاصل ہونا چاہیئے پورا ہوتا رہے.اس ضمن میں یہ بات خصوصیت سے قابل توجہ ہے کہ موجودہ انگریزی قانون میں یہ ایک بھاری نقص ہے کہ جہاں اس قانون میں انکم ٹیکس کی اغراض کے ماتحت آمد کے کچھ حصہ کو ٹیکس سے آزاد رکھا جاتا ہے.وہاں زمیندار کی آمد کا کوئی حصہ بھی آزاد نہیں رکھا جاتا.بلکہ اگر کسی زمیندار کی صرف ایک مرلہ زمین ہے تو اس پر بھی ٹیکس لگا دیا جاتا ہے جو ایک صریح ظلم ہے.علاوہ ازیں جہاں شریعت زمینوں کے ٹیکس یعنی عشر یا نصف عشر کو پیدا وار کی بنیاد پر تشخیص کرتی ہے.وہاں انگریزی قانون پیداوار کی طرف سے آنکھ بند کر کے محض رقبہ کی بنیاد پر ٹیکس لگا دیتا ہے.خواہ کسی سال میں اس رقبہ میں ایک دانہ تک بھی پیدا نہ ہوا ہو.خاکسار راقم الحروف نے سینکڑوں ایسی مثالیں دیکھی ہیں کہ ایک غریب زمیندار کی زمین میں ایک دانہ بھی پیدا نہیں ہوالیکن پھر بھی چونکہ حکومت کا ٹیکس بہر حال رقبہ کی بنیاد پر واجب الادا ہوتا ہے اس لئے اس غریب زمیندار نے کسی بنیئے وغیرہ سے قرض لے کر سر کاری معاملہ ادا کیا.اور پھر اس قرض کی وجہ سے ایسے چکر میں پڑا ہے کہ ساری عمر اس سے نجات نہیں ملی.شریعت اسلامی کے نظام میں اس ظلم کے دروازہ کو قطعی طور پر بند کر دیا گیا ہے.کیونکہ شریعت میں ٹیکس کی بنیاد پیداوار پر رکھی گئی ہے نہ کہ رقبہ پر اور پھر پیدا وار میں سے بھی شریعت ایک حصہ کو ٹیکس سے کلیتہ آزا د ر کھتی ہے.چونکہ اسلام خزانوں اور دفینوں کی صورت میں روپیہ بند رکھنے کا سخت مخالف ہے.اور اس بات کا زبر دست حامی ہے کہ روپے کو کام میں لگا کر چکر دیا جائے تا کہ ایک طرف تو قوم میں سرمایہ داری کی روح نہ پیدا ہوا اور دوسری طرف روپے کے کام پر لگنے سے غرباء کو فائدہ پہونچ سکے.اس لئے اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ جو لوگ خزانوں اور دفینوں کی صورت میں مال جمع کر کے اسے بند ر کھتے ہیں.انہیں اخروی سزا کے علاوہ اس دنیا میں بھی بھاری ٹیکس کے نیچے لانا چاہیئے.چنانچہ کنوز اور رکاز میں اسلام نے ہیں فیصدی بالمقطع ٹیکس لگایا ہے.اور بچے ہوئے مال پر جو کاروبار میں لگ جائے عام زکوۃ اس کے.

Page 628

۶۲۱ مضامین بشیر علاوہ ہو گی.اور یہ سارے محاصل غریبوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے خرچ کیے جائیں گے.یہاں یہ بات قابل نوٹ ہے کہ میں نے اس جگہ قرآنی لفظ کنز اور حدیث کے لفظ ر کاز کو ایک ہی معنوں میں استعمال کیا ہے کیونکہ دراصل لغوی وضع کے لحاظ سے وہ قریباً ہم معنی ہیں.اور قرآن شریف نے بھی سورۃ کہف کی آیت ۸۳ میں کنز کے لفظ کو رکاز کے معنوں میں استعمال کیا ہے.کیونکہ دونوں الفاظ کا حقیقی مفہوم یہی ہے کہ بند شدہ خزانہ.پس میرے نز دیک رکاز جس پر حدیث نے ہیں فیصدی ٹیکس لگایا ہے.اس کے وسیع معنوں کے لحاظ سے قرآنی کنز بھی اس کے اندر شامل سمجھا جائے گا.واللہ اعلم ( ۵ ) زکوۃ کا نظام چونکہ اسلامی رکنوں میں سے ایک بھاری رکن ہے جس میں غرباء کی بہبودی اور ملکی دولت کی بہتر تقسیم مد نظر ہے.اس لئے اسلام نے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی شخص زکوۃ ادا کر نے سے انکاری ہو تو وہ اس سے زبر دستی وصول کی جائے خواہ اس غرض کے لئے اس سے لڑنا پڑے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : - " وَمَنْ مَنَعَهَا فَإِنَّا اَخِذُوْهَا ۵ یعنی اگر کوئی شخص زکوۃ نہیں دیتا تو ہم اس سے زبر دستی لیں گے.اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زکوۃ کے منکر کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا ہے.(۶) اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ جب زکوۃ کا مال آئے تو اسے روکا نہ جائے بلکہ بلا تو قف غرباء میں تقسیم کر دیا جائے.اس میں یہ حکمت ہے کہ حقدار کو اس کا حق پہنچنے میں کسی قسم کی دیر نہ ہو.اور غرباء کی امداد میں کوئی توقف نہ ہونے پائے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کی نماز کے بعد جلدی جلدی اٹھ کر اپنے گھر تشریف لے گئے.اور صحابہ نے آپ کے اس فعل میں غیر معمولی عجلت اور گھبراہٹ کے آثار محسوس کر کے آپ کے واپس تشریف لانے پر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ آج آپ اس طرح جلدی سے اٹھ کر کیوں تشریف لے گئے تھے.جس پر آپ نے فرمایا کہ میرے پاس کچھ صدقہ کا مال رکھا تھا جسے میں تقسیم کرنا بھول گیا تھا.پھر نماز میں مجھے وہ مال یاد آیا تو میں جلدی جلدی گھر گیا تا کہ رات کے آنے سے قبل میں اسے غرباء تک پہنچا دوں...اللہ اللہ آپ کے دل میں غرباء کی کس قدر ہمدردی تھی کہ اس خیال نے آپ کو بے چین کر دیا کہ کوئی غریب تکلیف میں رات گزارے اور آپ کے گھر میں زکوۃ کا مال پڑا ہو.(۷) اسلام نے صرف زکوۃ کے مفروضہ اور مقررہ ٹیکس پر ہی حصر نہیں کیا بلکہ اس کے علاوہ

Page 629

مضامین بشیر ۶۲۲ غریبوں کی زائد امداد کے لئے یہ سفارش بھی فرمائی کہ جو شخص مقررہ زکوۃ سے زیادہ دے سکے تو اس کا یہ فعل خدا کی نظر میں بہت مقبول و محبوب ہوگا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زکوۃ کے مسائل بیان فرماتے ہوئے اکثر فرمایا کرتے تھے :- " إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا كَ یعنی یہ حصہ تو فرض ہے لیکن اگر کوئی صاحب تو فیق شخص اس سے زیادہ دینا چاہے تو وہ خوشی سے قبول کیا جائے گا.“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ بطور اپیل کے فرمائے تھے کہ جن لوگوں کو تو فیق ہو وہ زیادہ دیا کریں.چنانچہ جب ایک صحابی نے جس پر ایک اونٹ کا بچہ دینا فرض تھا ایک جوان اونٹ زکوۃ میں پیش کیا تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے فعل پر بہت خوش ہوئے اور اُس کے لئے برکت کی دعا فرمائی.(۸) اسی طرح حکم ہے کہ زکوۃ دینے والا اپنے مال میں سے خراب یا ناقص حصہ نکال کر نہ دے یہ کہ مثلاً اگر مویشیوں میں سے زکوۃ دینی ہو تو کوئی مریض یا کمزور یا عیب دار جانور دے دے.یا اگر پھل میں سے زکوۃ دینی ہو تو سٹرا ہوا یا مرجھایا ہوا یا ٹھٹھرا ہوا پھل پیش کر دے.بلکہ اچھا مال دینا چاہیئے.گو ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت بھی فرمائی ہے کہ زکوۃ وصول کرنے والے افسر کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ بہترین مال دیکھ کر اس پر قبضہ کرے.بلکہ ملتا جلتا اوسط مال لینا چاہیئے.(۹) زکوۃ کی وصولی میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ " لا جَلْبَ وَلَا جَنْبَ وَلَا تُؤْخَذُ صَدَقَاتُهُمْ إِلَّا فِي دَيَارِهِمْ ^ یعنی نہ تو یہ ہونا چاہیئے کہ زکوۃ وصول کرنے والا افسر لوگوں کو تنگ کرے یعنی خود ایک جگہ بیٹھا رہے اور لوگوں کو مجبور کرے کہ وہ اپنے مالوں کو لے کر اس کے پاس پہنچیں.بلکہ اسے خود ان کی جگہوں پر جانا چاہیئے.اور دوسری طرف یہ بھی نہیں ہونا چاہیئے کہ زکوۃ دینے والے لوگ دیر کرنے یا افسروں کو تکلیف میں ڈالنے کے خیال سے اپنے مالوں کو لے کر دور دراز علاقوں میں نکل جائیں.کیونکہ اس طرح غرباء تک ان کا حق پہنچنے میں نا واجب تو قف کا رستہ کھلتا ہے.اسلام کی یہ تعلیم بھی آجکل کے حکام کے لئے ایک شرم دلانے والا سبق ہے، جو دولت اور ثروت

Page 630

۶۲۳ مضامین بشیر اور انتظامی سہولت کے ذرائع رکھتے ہوئے غریب رعایا کو بلا وجہ اپنے دور دراز کے کیمپوں میں بلا کر خراب اور زیر بار کرتے ہیں.(۱۰) پھر اسلام میں زکوۃ وہ ٹیکس نہیں ہے جو ایک دفعہ ادا کرنے سے آئندہ واجب ہونا بند ہو جاتا ہے.بلکہ حمال عليها الحول کے اصول کے ماتحت اسے ہر سال مقررہ شرح پر ادا کرنا ہوتا ہے.خواہ اس سال بہ سال ادا ئیگی کی وجہ سے کسی کا سارا سرمایہ ہی ختم ہو جائے.اس لئے جہاں اس نظام میں غرباء کا زیادہ سے زیادہ فائدہ مقصود ہے.وہاں صاحب مال شخص بھی زکوۃ کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے کہ مسلسل جد و جہد سے اپنے کام کو برقرار رکھتا اور ترقی دیتا چلا جائے.اور چونکہ زکوۃ صرف راس المال پر ہی واجب نہیں ہوتی.بلکہ نفع پر بھی واجب ہوتی ہے.اس لئے اس نظام میں غرباء اور امراء ہر دو کے لئے ایک عجیب و غریب با برکت چکر قائم ہو جاتا ہے.(۱۱) زکوۃ کی شرح بھی معمولی نہیں رکھی گئی.بلکہ اقتصادی اصول کے ماتحت اچھی بھاری شرح مقرر کی گئی ہے.تا کہ ایک طرف سرمایہ داری کے لئے سراٹھانا مشکل ہو جائے.اور دوسری طرف غرباء کے لئے زیادہ سے زیادہ امداد کا رستہ کھل جائے.چنانچہ زکوۃ کی شرح اڑھائی فیصدی سے لے کر خاص حالات میں بیس فیصدی تک چلتی ہے.مثلاً سونے چاندی میں ( جن کے اندر بھاری زیورات بھی شامل ہیں ) اڑھائی فیصدی شرح ہے.بکر یوں بھیٹروں میں بھی اڑھائی فیصدی شرح ہے.گائیوں بھینسوں میں سوا تین فیصدی شرح ہے.اونٹوں میں چار فیصدی شرح اور غلوں میں چاہی اور نہری اراضی کی پیداوار میں پانچ فیصدی شرح ہے.اور بارانی یا قدرتی چشموں سے سیراب ہونے والی اراضی کی پیداوار میں دس فیصدی شرح ہے.اور دفینوں اور بند خزانوں میں بیس فیصدی با مقطع کے علاوہ ان کے کام پر لگنے کی صورت میں سونے چاندی والی عام زکوۃ زائد لگتی ہے.وغیرہ ذالک.اور نفلی اور طوعی صدقات مزید برآں ہیں.اور اگر نفلی صدقات میں اسلامی تعلیم کا نمونہ دیکھنا ہو تو اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی اسوہ یہ تھا کہ روایت آتی ہے کہ رمضان کے مہینہ میں جس میں غرباء کی ضروریات زیادہ بڑھ جاتی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ غریبوں کی امداد میں اس طرح چلتا تھا جس طرح کہ وہ تیز آندھی جس کے رستہ میں کوئی روک نہ ہو چلا کرتی ہے.(۱۲) عام زکوۃ کے علاوہ اسلام نے عید الفطر کے موقع پر جو ایک خاص طور پر خوشی کا موقع ہوتا ہے.غرباء کی امداد کے لئے ایک خاص زکوۃ الگ صورت میں بھی مقرر فرمائی ہے.جسے صدقۃ الفطر

Page 631

مضامین بشیر ۶۲۴ کہتے ہیں.اس کے لئے دینے والے کی مالی حیثیت کا نصاب مقر ر نہیں ہے.بلکہ یہ صدقہ ہر مسلمان سے جو اس کی طاقت رکھتا ہو وصول کیا جاتا ہے.اور پھر عید سے پہلے پہلے غرباء میں تقسیم کر دیا جاتا ہے تا کہ اپنے خوشحال بھائیوں کو دیکھ کر ان کا دل میلا نہ ہو.اور وہ بھی اس خوشی کے دن کو خوشی خوشی گذار سکیں.یہ صدقہ جو مرد اور عورت اور بچے اور بوڑھے ہر شخص پر واجب ہے.فی کس اڑھائی سیر غلہ کے حساب سے دیا جاتا ہے.اور اس طرح اس خوشی کے دن میں غریب وا میر سب خدا کی نعمت سے حصہ پالیتے ہیں.بیشک ایک مومن کے لئے اصل خوشی روح کی خوشی ہے مگر جس مہربان آقا نے روح کے ساتھ جسم بھی پیدا کیا ہے.وہ اپنے بندوں کی جسمانی راحت کے بغیر کس طرح تسلی پاسکتا تھا.اسلام کی دوسری عید یعنی عید الاضحیٰ میں صدقۃ الفطر کی جگہ قربانیوں کا گوشت مقرر کیا گیا ہے جو تین دن تک ہر مسلمان گھر میں مفت پہنچتا رہتا ہے.یہ وہ مبارک نظام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غریبوں اور مسکینوں کے واسطے قائم فرمایا مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس پر بھی آپ کے قلب اطہر کی کامل تسلی نہیں ہوئی.کیونکہ آپ نے محسوس کیا کہ ابھی تک غریبوں کے جذبات کو ٹھیس لگنے کے بعض موقعے کھلے ہیں.چنانچہ اس جذباتی کمی کو پورا کرنے کے لئے آپ نے وہ مبارک الفاظ فرمائے جو قیامت تک ایک صاحب دل غریب کے لئے ٹھنڈک اور تسکین کا موجب ہوں گے.فرماتے ہیں : - "إِنَّ الإِسْلَام بَدَأَ غَرِيباً وَسَيَعُودُ غَرِيبًا كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا فَطُوبَى لِلْغُرُبَاءِ یعنی اسلام اپنے ابتدائی دور میں غربت یعنی بیکسی اور بے بسی کی حالت میں شروع ہوا ہے اور ایک آخری دور اس پر پھر غربت کا آنے والا ہے.ویسا ہی جیسا کہ اس کی ابتداء میں آیا.مگر کیا ہی بابرکت یہ غربت ہے.اور کیا ہی مبارک یہ بے کس لوگ ہیں جو ان دو غربت کے دوروں کا زمانہ پائیں گے.“ ان روح پرور الفاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گویا بے کسوں اور غریبوں کے دماغوں کا کا نشاہد لنے کی کوشش فرمائی ہے تا کہ ان کی غربت ان کے لئے موجب تنگی وعسرت نہ رہے بلکہ ایک روحانی مسرت اور راحت کی یاد گار بن جائے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف یہ الفاظ بھی منسوب کئے جاتے ہیں کہ الفقر فخری لایعنی اے فقر میں مبتلا لوگو گھبراؤ نہیں اور تمہارے دل پریشان نہ ہوں.کیونکہ فقر تو وہ چیز ہے جسے میں بھی اپنی ذات کے لئے عز و افتخار کا باعث سمجھتا ہوں.اللہ اللہ کیا ہی رحیم وکریم شفیق

Page 632

۶۲۵ مضامین بشیر ور فیق وہ ہستی تھی جس نے غریبوں کی بہبودی کے واسطے ایک عجیب وغریب اور پختہ اور دائمی نظام قائم کر دینے کے باوجود ان کی تسلی اور تسکین کے لئے یہ پیارے الفاظ فرمائے کہ اے میرے غریب روحانی بچو جہاں تک میرے لئے امیروں کی دولت کو جائز طور پر حاصل کرنے کا رستہ کھلا تھا وہ میں نے ان سے لے کر تمہیں دیدی.لیکن اگر پھر بھی کوئی کسر باقی رہ جائے تو پھر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ الفقر فخری یعنی اس صورت میں تم میری طرف آؤ.کیونکہ میں اس فقر میں تمہارے ساتھ شریک ہوں.اور میں اس فقر میں بھی تمہارے لئے فخر کے سامان پیدا کر دوں گا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ عظیم الشان فلسفہ پیش کر کے کہ انسانی خوشی صرف جسم تک محدود نہیں ہے.بلکہ زیادہ اہم اور زیادہ دیر پا اور زیادہ قابل قدر خوشی روح کی خوشی ہے.اپنی امت کے فاقہ مست درویشوں کے لئے مادی سامان آسائش کے نہ ہونے کی صورت میں بھی ایسی روحانی خوشی کا رستہ کھول دیا ہے جس کے مقابل پر جسمانی خوشی اتنی بھی حقیقت نہیں رکھتی جتنی ایک پہاڑ کے مقابل پر رائی کے دانہ کی حقیقت ہے.اور اس خوشی کی قدرو قیمت وہی لوگ جانتے ہیں جنہوں نے اس سے حصہ پایا ہے.اللهم صل على محمد وعلى آل محمد و بارک وسلم.( مطبوعه الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۴۵ء)

Page 633

مضامین بشیر اسلام میں مساجد کا مقام ۶۲۶ ہماری مسجد مبارک اسلام میں مساجد کو جو خاص روحانی مقام حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.یہ وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے اردگر داسلامی سوسائٹی کے تمام نیک اعمال چکر لگاتے ہیں.یہ اس مقدس کعبتہ اللہ کا عکس ہے جو دنیا میں خدا اور انسان کا پہلا گھر قرار دیا گیا ہے.یہ تصویری زبان میں اس روحانی تعلق کا ظاہری اور مادی نشان ہے.جو ایک نیک بندے کو اس کے آسمانی آقا کے ساتھ پیوست کرتا ہے.یہ اسلامی مساوات کی ایک بولتی ہوئی تصویر ہے.جس کے سامنے کسی سرکش اور متکبر انسان کو اپنے کسی غریب اور عاجز بھائی کے مقابل پر بڑائی کا دم بھرنے کی جرات نہیں ہو سکتی.یہ وہ چوبیس گھنٹے کھلا رہنے والا روحانی ہسپتال ہے.جس میں ہر دکھتے ہوئے دل پر رحمت کا بھا یہ رکھا جاتا ہے.یہ وہ امن وعافیت کا حصار ہے جس میں داخل ہو کر انسان دنیا کے فکروں اور اس سفلی زندگی کی پریشانیوں سے نجات پاتا ہے.پھر جب ہر مسجد کا یہ حال ہے تو اس مسجد کا کیا کہنا جسے خدائے قدیر ورحیم نے اپنی رحمت وقدرت کے ہاتھوں سے خاص طور پر ممسوح کیا ہو.اور میں اس جگہ ایک ایسی ہی بابرکت مسجد کا ذکر کر نے لگا ہوں.قادیان کی دو مساجد قادیان میں گواس وقت خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کی کم از کم بارہ مسجد میں ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں صرف دو مسجدیں ہوتی تھیں.ایک وہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رہائشی مکان کے ساتھ ملحق ہے.جس کا نام مسجد مبارک ہے اور دوسری وہ جس کے اندر منارۃ المسیح تعمیر شدہ ہے.اور جو عرف عام میں مسجد اقصیٰ کہلاتی ہے یہ دو مسجد میں گویا ہماری مرکزی مسجد میں ہیں.جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کثرت کے ساتھ نمازیں ادا فرمائی ہیں.ان دو مسجدوں میں سے مسجد مبارک کے نام کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے.کیونکہ یہ نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہاموں میں آچکا ہے.اور شروع سے ہی جماعت احمدیہ ال میں اس مسجد کے متعلق استعمال ہوتا چلا آیا ہے.مگر مسجد اقصیٰ کے نام کے متعلق اختلاف ہے.اور

Page 634

۶۲۷ مضامین بشیر اختلاف کی گنجائش بھی ہے.کیونکہ گو عرف عام میں یہ مسجد مسجد اقصیٰ کہلاتی ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض تحریرات سے پتہ لگتا ہے کہ حضور نے یہ نام بھی مسجد مبارک پر ہی چسپاں کیا ہے.لیکن بہر حال اس میں شبہ نہیں کہ یہ مسجد بھی جو مسجد اقصیٰ کہلاتی ہے.ہماری مرکزی مسجد ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے اندر کثرت سے نمازیں پڑھتے رہے ہیں.اور مرکزی جماعت کے جمعے بھی اس میں ہوتے رہے ہیں.اور خطبہ الہامیہ والا عظیم الشان خطبہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مسجد میں دیا تھا.یہ مسجد جیسا کہ اکثر احباب کو معلوم ہے ہمارے دادا حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی تعمیر کردہ ہے.جو انہوں نے خاص قلبی تحریک کے ماتحت اپنی عمر کے آخری حصہ یعنی ۱۸۷۶ء میں تعمیر کرائی تھی.چنانچہ ان کی خواہش کے مطابق ان کی قبر بھی اسی مسجد کے پاس بنی تھی.جواب مسجد کے وسیع ہونے پر مسجد کے اندر آ گئی ہے.احمدیت کی اوّل المساجد اس کے مقابل پر مسجد مبارک جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رہائشی مکان کے ساتھ ملحق ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعمیر کردہ ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیشتر نمازیں ( بلکہ دعوی کے بعد تو غالباً پچانوے فیصدی نمازیں ) اسی مسجد میں ادا کی ہیں.اور میں اس جگہ اسی مسجد کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.کیونکہ یہ مسجد احمدیت کی اوّل المساجد ہے.جو خدا کے فضل سے حال ہی میں وسیع ہو کر پہلے سے دوگنی وسعت اختیار کر گئی ہے.سو جاننا چاہیئے کہ اس مسجد کی ابتدائی تعمیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک ہاتھوں سے ۱۳۰۰ ھ مطابق ۱۸۸۳ء میں ہوئی تھی.جبکہ ہمارے دادا اور ہمارے تایا دونوں کی وفات ہو چکی تھی.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی زندگی کے ایک نئے دور کا آغا ز فرمارہے تھے.چنانچہ اس مسجد کی تعمیر کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو الہام اس مسجد کے متعلق ہوا وہ بھی ایک نئے دور کی طرف اشارہ کر رہا ہے.اور اس سے مسجد کی تعمیر کی تاریخ بھی نکلتی ہے.وہ الہام یہ ہے.مسجد مبارک کے متعلق پہلا الہام مُبَارِک وَمُبَارَكٌ وَكُلُّ أَمْرٍ مُّبَارَكِ يُجْعَلُ فِيْهِ - د یعنی یہ مسجد برکت دہندہ.اور برکت یا فتہ ہے اور ہر ایک امر مبارک اس میں کیا

Page 635

مضامین بشیر ۶۲۸ جائے گا ۳ ( یہ ترجمہ بھی حضرت مسیح موعود کا کیا ہوا ہے ) اس الہام میں اس مسجد کی تین خصوصیات بیان کی گئی ہیں.اوّل: اس کا مبارک (‘ کی زیر سے ) ہونا.یعنی یہ مسجد لوگوں کو برکت دینے والی ہے.رجو شخص بھی اس کے اندر روحانی طور پر داخل ہوگا.وہ خدا کی خاص برکتوں سے حصہ پائے گا.دوم: اس کا مبارک (‘ کی زبر سے ) ہونا.یعنی یہ مسجد خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت وو یافتہ ہے.اور خدا نے اس کے اندر کئی قسم کی برکتیں رکھی ہوئی ہیں.سوم : خدا تعالیٰ ایسا تصرف فرمائے گا کہ اس مسجد میں ہر قسم کے با برکت کام ہوتے رہیں گے.یہ تین علیحدہ علیحدہ وعدے ہیں جو اپنے اندر عظیم الشان رحمت اور قدرت کا نشان رکھتے ہیں.اور انشاء اللہ قیامت تک ظہور پذیر ہوتے رہیں گے.بعض لوگ اس الہام کے آخری حصہ کو یوں پڑھتے ہیں کہ کل امر مبارک يُجْعَلُ فيه جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر امر جو اس مسجد میں کیا جائے گا.وہ با برکت ہو جائے گا.مگر یہ درست نہیں ہے.کیونکہ اول تو یہ معنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کئے ہوئے معنوں کے خلاف ہیں جیسا کہ اوپر کے حوالہ سے ظاہر ہے.دوسرے یہ معنی کرنے سے اس آخری فقرہ میں کوئی جدت نہیں رہتی بلکہ محض پہلے فقرہ کے معنوں کی تکرار ہو جاتی ہے.کیونکہ جب مبارک (رکی زیر سے ) کہہ کر برکت دینی والی صفت کا مفہوم شروع میں ہی ادا کر دیا گیا ہے.تو یہ فقرہ کہ اس مسجد کے اندر جو کام ہو گا وہ بابرکت ہو جائے گا محض ایک تکرار کا رنگ اختیار کر لیتا ہے.جو خدائی کلام کی فصاحت سے بعید ہے.پس حق یہی ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ترجمہ سے ظاہر ہے اس الہام کا آخری فقرہ اسی طرح ہے.جس طرح میں نے شروع میں لکھا ہے.یعنی کل امر مبارک يُجْعَلُ فيه اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اس مسجد میں ہر قسم کے بابرکت کام ہوتے رہیں گے.اور یہ مفہوم مبارک والے مفہوم سے بالکل جدا اور نیا ہے.یہ بات بھی بعض لوگوں کے دلوں میں کھٹک سکتی ہے.کہ طبعی ترتیب کے لحاظ سے مبارک کا لفظ مبارک کے لفظ سے پہلے ہونا چاہیئے تھا.کیونکہ طبعی طریق ہے کہ پہلے ایک چیز خود برکت پاتی ہے.اور پھر دوسروں کو برکت دیتی ہے.مگر یہ اعتراض کوتاہ نظری کا نتیجہ ہے کیونکہ صحیح فطری ترتیب وہی ہے جو خدا نے اپنے اس کلام میں رکھی ہے.یعنی مبارک پہلے ہے اور مبارک بعد میں.دراصل یہ انسانی فطرت کا ایک خاصہ ہے کہ جو بات اس کے ساتھ براہ راست اور زیادہ تعلق رکھتی ہے اس کے سننے کے لئے وہ زیادہ بے تاب اور زیادہ چشم براہ ہوتا ہے.پس چونکہ مبارک کی صفت کا انسان کے ساتھ زیادہ تعلق ہے اس لئے کلام الہی نے اسے پہلے بیان کیا ہے.اور اس طریق کے اختیار کرنے

Page 636

۶۲۹ مضامین بشیر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے سراسر رحمت اور شفقت کا اظہار ہے.کہ انسانی فطرت کو دیکھتے ہوئے زیادہ تسلی دینے والے کلام کو مقدم کر لیا ہے.کسی بزرگ نے کیا خوب شعر کہا ہے کہ ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی پس گومنطقیانہ رنگ میں یہ سمجھا جائے کہ مبارک کی صفت پہلے ہونی چاہیئے تھی.لیکن علم النفس کے فطری اصولوں کے ماتحت مبارک کی صفت یقیناً مقدم ہے اور یہی پہلے آنی چاہئے تھی.اور اسی لئے خدا تعالیٰ نے اسے پہلے بیان کیا ہے.گو بد قسمتی سے اس وقت جو الہامی عبارت مسجد مبارک میں آویزاں ہے.اس میں بھی یہ غلطی ہوگئی ہے کہ کا تب صاحب نے سہؤا مبارک کو مبارک سے پہلے لکھ دیا ہے.لیکن بہر حال جو بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات سے ثابت ہے وہی درست سمجھی جائے گی.الغرض اس الہام میں مسجد مبارک کے متعلق تین عظیم الشان وعدے ہیں.(۱) یہ مسجد خدا کے فضل و کرم سے برکت دھندہ ہے.(۲) یہ مسجد خدا کی طرف سے برکت یافتہ ہے.(۳) اس مسجد میں ہر قسم کے بابرکت کام ہوتے رہیں گے.اور پھر جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے.اس الہام سے مسجد کی تعمیر کی تاریخ بھی نکلتی ہے.جو ۱۳۰۰ھ ہے.اور یہ وہ زمانہ ہے جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماموریت کا الہام تو ہو چکا تھا مگر ابھی تک بیعت کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا.دوسرا الہام دوسرا الہام جو اس مسجد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا وہ بھی اوّل الذکر الہام کے قریب کے زمانہ کا ہے اور وہ یہ ہے.فِيهِ بَرَكَاتُ لِلنَّاسِ وَمَنْ دَخَلُهُ كَانَ آمِنًا ! یعنی چونکہ اس مسجد میں لوگوں کے واسطے غیر معمولی برکات رکھی گئی ہیں اس لئے اس مسجد کو خدا کے نزدیک یہ مرتبہ حاصل ہے کہ جو شخص بھی اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ اس کے اندر داخل ہوگا وہ ہر قسم کے خطرات سے محفوظ ہو جائے گا.“ اس الہام میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ اس مسجد میں روحانی طور پر داخل ہونے والا شخص ان تمام خطرات سے محفوظ ہو جائے گا.جو ایک سالک راہ کو دین کے رستہ میں پیش آسکتے ہیں.گویا وہ شیطان کے پنجے سے رہائی پا کر خدا کی گود میں چلا جائے گا.علاوہ ازیں الفاظ مــن دخـلـہ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ مسجد کعبتہ اللہ کی مثیل ہے اور گویا خدا کے نزدیک حرم ہونے کا شرف رکھتی ہے.کیونکہ بعینہ یہی

Page 637

مضامین بشیر ۶۳۰ الفاظ قرآن شریف میں مسجد حرام کے متعلق بھی استعمال ہوئے ہیں.تیسرا الہام تیسرا الہام جو اس مسجد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا وہ یہ ہے.بَيْتُ الْفِكْرِ وَبَيْتُ الذِكرها یعنی اے خدا کے مقرر کردہ امام اگر تیرا گھر افکار علمی وروحانی کا گہوارہ ہے جس میں سے اسلام کی تائید میں اور شیطانی طاقتوں کی تردید میں گولہ و بارود تیار ہو ہو کر نکلتا رہے گا تو یہ تیرے گھر کے ساتھ لگی ہوئی چھوٹی سی مسجد خدا کے علم میں بیت الذکر ہے جس میں ہمیشہ خدائے واحد کا نام لیا جاتا رہے گا اور اس کے پجاریوں کی زبانیں ابدالآباد تک خدائے قدوس کے ذکر سے تر رہیں گی.“ چوتھا الہام پھر چوتھا الہام اس مسجد کے متعلق یہ ہے کہ : - لا رَادَّ لِفَضْلِه یعنی خدائے قدیم و علیم نے ارداہ فرمایا ہے کہ آئندہ اس مسجد پر اور اس مسجد کے ساتھ تعلق رکھنے والوں پر اپنے فضل و رحمت کی بارشیں نازل فرمائے اور دنیا کی 66 کوئی طاقت ان فضلوں کو روک نہیں سکے گی.“ یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد مبارک کے دروازہ کی پیشانی پر سبز حروف میں لکھے ہوئے دیکھے تھے.دروازہ پر لکھا ہوا دیکھنا اس اعلان کو بانگ بلند پکارنے اور مخالفوں کو یہ کھلا چیلنج دینے کی طرف اشارہ ہے کہ اگر تم میں ہمت ہے تو آؤ اور ان خدائی فضلوں کو روک لو.اور سبز رنگ میں یہ اشارہ ہے کہ اس مسجد میں ہمیشہ جنت والی تر و تازگی رہے گی اور کبھی خزاں نہیں آئے گی.اسی طرح جب حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی پیدائش ہونے والی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تھا کہ مسجد مبارک کی دیوار پر پیدا ہونے والے بچہ کا نام محمود لکھا ہوا ہے.کا اس میں یہ اشارہ تھا کہ یہ بچہ مسجد مبارک والے وعدوں سے حصہ پائے گا.اور اپنے کاموں میں محمود نکلے گا.اور عجیب بات یہ ہے کہ خدائی تصرف کے ماتحت مصلح موعود والی پیشگوئی کے ابتدائی

Page 638

۶۳۱ مضامین بشیر اعلان کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کاغذ چنا وہ بھی سبز رنگ کا تھا.جس نے اس پیشگوئی کو لا راد لفضله والے سبز رنگ کے الہام کے ساتھ جوڑ دیا ہے.مسجد مبارک کی ایک اور خصوصیت پھر اس مسجد کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے اندر یعنی اس کے ملحقہ حجرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وہ عظیم الشان کشف ہوا تھا جس میں آپ نے یہ نظارہ دیکھا تھا کہ خدا تعالیٰ نے بعض قضاء وقدر کے احکام پر دستخط کرتے ہوئے اپنے قلم کو چھڑ کا ہے.اور اس چھڑ کنے کے نتیجہ میں خدائی روشنائی کے بعض چھینٹے آپ کے کرتے پر بھی گر گئے ہیں.۱۸ اور یہ وہ با برکت کرتہ ہے جسے جماعت احمدیہ کے ہزاروں دوست دیکھ چکے ہیں اور اب وہ حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوری کے کفن کا حصہ بن کر مقبرہ بہشتی کی پاک زمین میں دفن ہے.اس کشف میں یہ اشارہ تھا کہ اب خدائے قدیر اپنی غیر محدود طاقتوں کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم کرنے والا ہے.جس کی ترقی ظاہری اسباب کے ماتحت نہیں ہوگی.بلکہ کرتہ کے چھینٹوں کی طرح خدا کی ازلی طاقت کے ہاتھوں سے خارق عادت رنگ میں ہوگی اور روشنائی کے سرخ ہونے میں یہ اشارہ ہے کہ جس طرح عموماً سرخ روشنائی سرکاری دستاویزات کی اصلاح اور درستی کے لئے استعمال کی جاتی ہے ، اسی طرح اب خدا وند عالم نے دُنیا کے موجودہ نظام میں اصلاحی رد و بدل کا ارادہ فرمایا ہے.اور اس جدید نظام کے لئے قضا و قدر کے دفتر سے احکام جاری کر دیئے گئے ہیں.اور ممکن ہے کہ سُرخ رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض قہری پیشگوئیوں کی طرف بھی اشارہ ہو.مسجد مبارک کے متعلق ایک لطیف انکشاف بالآخر اس مسجد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اور لطیف انکشاف بھی فرمایا ہے.اس سے اس مسجد کا مقام بہت زیادہ بلند ہو جاتا ہے.فرماتے ہیں : - قرآن شریف کی یہ آیت کہ سُبْحَانَ الَّذِى اسرای معرج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے.پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہونچا دیا تھا.ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکتِ اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا برکاتِ اسلامی کے زمانہ تک

Page 639

مضامین بشیر ۶۳۲ جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہونچا دیا...والمسجد الاقـــطـــــى هو المسجد الذي بناه المسيح الموعود في القاديان سمي اقصى لعبده من زمان النبوة 19 یعنی اس آیت میں جو مسجد اقصیٰ کا لفظ ہے اس سے وہ مسجد مراد ہے جو مسیح موعود نے قادیان میں تعمیر کی ہے.اس کا نام اقصیٰ زمانہ نبوی کے بعد کی وجہ سے رکھا گیا ہے.اس بیان میں جو ایک اہم آیت قرآنی کی تفسیر پر مبنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی بناء کر دہ مسجد مبارک کو ہی معنوی اور زمانی رنگ میں وہ مسجد اقصی قرار دیتے ہیں.جس کا ذکر قرآن شریف میں آتا ہے.اور صراحت فرماتے ہیں کہ اس سے وہ مسجد مراد ہے جو میں نے خود قادیان میں تعمیر کرائی ہے اور یہ ایک بہت بڑا شرف ہے جو مسجد مبارک کو حاصل ہوا ہے.مسجد مبارک کے برکات الغرض یہ مبارک مسجد بہت سی برکات کا مجموعہ ہے.کیونکہ وہ (۱) خدا کے علم سے برکت دہندہ ہے.یعنی روحانی مقناطیس ہے جس سے چھوتی ہے اسے برکتوں سے بھر دیتی ہے.(۲) وہ خدا کی طرف سے برکت یافتہ ہے یعنی خدا نے اسے ہر نوع کی برکتوں کا مجموعہ بنا دیا ہے.(۳) اس میں ہر قسم کے کام ہونے مقدر ہیں فرضی بھی نفلی بھی انفرادی بھی قومی بھی اخلاقی بھی روحانی بھی تنظیمی بھی تربیتی بھی وغیرہ وغیرہ (۴) وہ انسان کے لئے امن و عافیت کا حصار ہے جو اُسے ہر قسم کے خطروں سے محفوظ کرتی ہے.(۵) وہ ہمیشہ ذکر الہی سے گونجتی رہے گی.(1) اس پر خدائی فضلوں کی ایسی بارش ہورہی ہے اور ہوتی رہے گی کہ جسے روکنا کسی انسان کی طاقت میں نہیں.( ۷ ) وہ ہمیشہ سرسبز و شاداب رہے گی اور خزاں کی باد سموم سے محفوظ (۸) اس کی برکات مصلح موعود کے ساتھ اور مصلح موعود کی برکات اس کے ساتھ باہم پیوست ہیں.(۹) وہ اس خدائی اعلان کی علمبر دار ہے کہ اب دنیا میں ایک نیا نظام قائم ہونے والا ہے.اور (۱۰) وہ دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج زمانی کا آخری نقطہ ہے.یہ وہ عشرہ کا ملہ ہے جو قادیان کی اس چھوٹی سی مسجد کو حاصل ہے.یعنی اپنے اندر یہ بھی منی عمارت اپنے اندر وہ عظیم الشان برقی طاقت چھپائے ہوئے ہے.جس کے ذریعہ سے ساری دنیا کا متحد ہونا مقدر ہے.اس کے اندر وہ بیٹریاں پوشیدہ ہیں جو سر جھکانے والوں کے لئے دن چڑھا دینے والی روشنی اور سرکشی کرنے والوں کے لئے بھسم کرنے والی آگ کا خزانہ ہیں.اب یہ دنیا کا کام ہے کہ وہ اس کی روشنی کو قبول کرتی ہے یا اس کی آگ کو.

Page 640

مسجد مبارک کی ابتدائی شکل ۶۳۳ مضامین بشیر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ مسجد کی تعمیر ۱۳۰۰ھ بمطابق ۱۸۸۳ء میں ہوئی تھی.اس وقت یہ ایک بہت چھوٹی سی عمارت قلمدان کی صورت میں ہوتی تھی جس کا نقشہ مع پیمائش قریباً یوں تھا: - نقش مغرب ۴ فٹ ۱۷۲ اینچ تا ے فٹ 4 انچ فٹ 2 انچ ۱۰ فٹ ۱۷۲ اینچ و فٹ ۱۱۲ اینچ شمال مشرق دوسری شکل اس کے بعد مسجد مبارک کی پہلی توسیع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہی اور آپ کی منشاء کے مطابق صدر انجمن احمدیہ کے انتظام کے ماتحت ہمارے نانا جان مرحوم کی نگرانی میں ۱۹۰۷ء میں ہوئی.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی وفات تک جو مئی ۱۹۰۸ء میں ہوئی ، اس توسیع شدہ حصہ میں نمازیں ادا فرماتے رہے.گویا اس توسیع نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں سے اصل مسجد کی برکتوں کا خمیر حاصل کر لیا لیکن مجھے یاد ہے کہ جب ۱۹۰۹ء میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعض اراکین انجمن پر خفا تھے تو ایک تقریر کے وقت جو انہی لوگوں کے فتنہ کے متعلق تھی ، آپ مسجد کے توسیع شدہ حصہ سے اٹھ کر اصل پرانے حصہ میں آکر کھڑے ہو گئے تھے.اور فرمایا تھا کہ اس وقت میں اپنے امام کے ہاتھوں بنی ہوئی مسجد میں کھڑا ہوں گا.مگر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا یہ فعل ایک وقتی تنبیہہ کے رنگ میں تھا اور نہ اس میں ہر گز کوئی شبہ نہیں کہ یہ توسیع شدہ حصہ مسجد مبارک ہی کا حصہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے اس کا حصہ ہی سمجھا اور اس میں بہت سی نمازیں

Page 641

مضامین بشیر ۶۳۴ ادا فرمائیں.اور پھر آپ کے خلفاء بھی اسی میں نمازیں پڑھاتے رہے ہیں.۱۹۰۷ء والی توسیع کے بعد مسجد مبارک کی شکل یہ ہو گئی : - نقشه مغرب ۲۸ فٹ ۱۸ چ ۱۹۰۷ ء والی توسیع ۱۸۸۳ء کی اصل تعمیر شمال ۲۳ فٹ ۱۱۰اینچ مشرق تیسری اور موجودہ شکل اس کے بعد دوسری توسیع اب ۱۹۴۴ء میں آکر حضرت امیر المومنین خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ کے ہاتھوں سے ہوئی ہے.اور اس توسیع کے لئے روپیہ بھی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی اپیل پر دوستوں نے پر جوش طوعی چندوں کی صورت میں پیش کیا ہے.جس میں ایک معقول حصہ خود حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے ذاتی چندہ کا بھی شامل ہے.اور اس تعمیر کی نگرانی کا کام حضور کے حکم کے ماتحت یہ خاکسار سرانجام دیتا رہا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.اور عملی نگرانی سید سردار حسین شاہ صاحب اوورسیئر نے کی ہے.فجزاه الله خيرا.یہ توسیع عملاً دسمبر ۱۹۴۴ء میں مکمل ہو چکی تھی.چنانچہ حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے مورخہ ۲ دسمبر کو اس حصہ میں نما ز کا آغا ز کر دیا تھا گو تکمیل کی بعض جزئیات کا سلسلہ ۴۵ء میں بھی جاری رہا ہے.اس آخری توسیع کے بعد اب مسجد مبارک کی شکل یوں ہے.

Page 642

مغرب.( ۳۸ فٹ ۷ اینچ ۶۳۵ ۲۸ فٹ ۱۶ نچ ۱۹۴۴ء کی توسیع ۳۸ فٹ ۷ اینچ مضامین بشیر ۱۹۰۷ ء کی توسیع مشرق ۱۸۸۳ء کی اصل تعمیر ۲۸ فٹ ۱۱۸ اینچ شمال

Page 643

مضامین بشیر ۶۳۶ یہ مسجد چھت کے اوپر واقع ہے.جس کے نیچے دفاتر اور گلیاں وغیرہ ہیں اور اس کے اوپر تیسری منزل پر مسجد کا صحن ہے.جہاں گرمیوں میں نماز ہوتی ہے.اس آخری توسیع کو اس خصوصیت کے علاوہ کہ یہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہتعالی کی ذاتی تجویز پر ذاتی تحریک سے جمع شدہ چندہ سے تعمیر ہوئی ہے.یہ خصوصیت بھی حاصل ہے.(اور دراصل یہ ایک عجیب توارد ہے ) کہ اس کی تعمیر گو یا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے دعویٰ مصلح موعود کے ساتھ بطور توام یعنی جوڑیں بچہ کے پیوستہ ہے.یعنی جس طرح مسجد مبارک کی ابتدائی تعمیر کے ساتھ مصلح موعود کی پیشگوئی کے اعلان کا جوڑ تھا.اسی طرح اس آخری توسیع کو اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے ساتھ جوڑ ہے.کیونکہ ادھر خدا نے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ پر اس پیشگوئی کے مورد ہونے کا انکشاف فرمایا اور ادھر آپ کے دل میں اس مسجد کی توسیع کا خیال پیدا کر دیا.الغرض قادیان کی یہ چھوٹی سی مسجد ایک عجیب و غریب شان رکھنے والی اور ایک نادر مجموعہ برکات ہے مگر روحانی برکتیں ایک چشمہ کا رنگ رکھتی ہیں.اور کسی چشمہ کے اندر خواہ کتنا ہی پانی ہو اس سے سیراب ہونے کے لئے بعض خارجی باتوں کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے.اور روحانی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے لئے خصوصیت سے ضرورت ہے انسان کی طرف سے شوق وطلب کی اور خدا کی طرف سے تو فیق و فضل کی اور خوش قسمت ہے وہ ہاں کیا ہی خوش قسمت ہے وہ جسے یہ دونوں باتیں نصیب ہو جائیں.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین.مطبوعه الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۴۵ء)

Page 644

۶۳۷ مضامین بشیر مجلس مذہب و سائنس کے کام کا حلقہ مجلس مذہب و سائنس کا پہلا پبلک جلسه ۲۹ ماه امان ( مارچ ) ۱۳۲۴ھ کو مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صدر مجلس مذہب و سائنس نے تمہیدی تقریر کرتے ہوئے فرمایا : - چونکہ آج کا جلسہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قائم کردہ ”مجلس مذہب وسائنس کا پہلا جلسہ ہے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ہم اسے دعا کے ساتھ شروع کریں (دعا کے بعد ) جیسا کہ اکثر دوستوں کو ” الفضل“ کے اعلان سے معلوم ہو چکا ہوگا.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت قادیان میں ایک نئی مجلس قائم کی گئی ہے.جس کا نام ” مجلس مذہب وسائنس ہے.یہ نام کو مختصر ہے مگر اس مجلس کا کام نہائت وسیع اور اہم ہے.جیسا کہ دوست جانتے ہیں سلسلہ احمدیہ کے کام کا دائرہ اب آہستہ آہستہ بہت وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے.جس طرح سمندر میں پہلے ایک لہر اٹھتی ہے، پھر دوسری اور پھر تیسری اور اس طرح لہروں کا حلقہ وسیع ہوتا جاتا ہے.اسی طرح خدائی سلسلہ بھی روز بروز بڑھتا ہے اور اپنے حلقہ کو وسیع کرتا جاتا ہے.شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہماری ابتدائی بحث قریباً نوے فیصدی وفات مسیح کے مسئلہ پر ہوا کرتی تھی.پھر صداقت مسیح موعود کے مسئلہ پر زور شروع ہوا.پھر نبوت کے مسائل پر بحث کا دور آیا اور ساتھ ساتھ دوسری قوموں کے ساتھ مقابلہ بڑھتا گیا اور اب آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ وہ وقت لا رہا ہے.جبکہ احمدیت کا ساری دنیا کے ساتھ ٹکراؤ ہونے والا ہے.اور اس کے نتیجہ میں ہی اسے انشاء اللہ عالمگیر فتح حاصل ہوگی.پس ضروری ہے کہ اب دنیا کی مختلف تحریکات کے مقابلہ کا انتظام کیا جائے.اس وقت دنیا میں مختلف خیالات کی روچل رہی ہے.یا بالفاظ دیگر مختلف نظام دنیا کی نجات کے لئے پیش کئے جار ہے ہیں.یہ نئی تحریکات اس وقت اصولاً تین دائروں کے اندر محدود ہیں.پہلا دائرہ اقتصادیات کا ہے.جس میں دولت کے پیدا کرنے کے ذرائع اور دولت کی تقسیم کے اصول پر بحث کی جاتی ہے اور ہر قوم اپنے اپنے نظام کی فوقیت ثابت کرتی ہے.اس دائرہ میں اس وقت سب سے نمایاں تحریک اشتراکیت کی تحریک ہے.دوسرا دائرہ فلسفہ کا ہے.یہ گو عمل کے میدان میں نہیں ہے مگر اپنے فاسد خیالات کی وجہ سے بڑی گمراہی کا باعث بن سکتا ہے.

Page 645

مضامین بشیر ۶۳۸ تیسرا دائرہ سائنس کا ہے.جسے اس زمانہ میں غیر معمولی ترقی حاصل ہوئی ہے.چونکہ سائنس کی بعض ایجادات یا بعض نظریے اسلام کے خلاف سمجھے جاسکتے ہیں.اس لئے اس کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.الغرض اس وقت ہمارے لئے معین مذہبی تعلیمات کو چھوڑ کر تین مقابلے درپیش ہیں.ان میں سے بعض تو حقیقی ہیں اور بعض خیالی لیکن بہر حال ان تینوں کا مقابلہ کرنا اس مجلس کا کام ہے.پہلا دائرہ جو اقتصادیات کا دائرہ ہے ایک عملی دائرہ ہے.جس کا اسلام اور احمدیت سے بھاری مقابلہ ہے.ہمیں اس کے مقابل پر وہ نظام پیش کرنا ہے جو اسلام پیش کرتا ہے اور اُسے غالب کر کے دکھانا ہے.دوسرا دائرہ جو فلسفہ سے تعلق رکھتا ہے.ایک قولی مقابلہ ہے.یہ لوگ فلسفے کے چند نظریے پیش کرتے ہیں جو بعض صورتوں میں اسلامی تعلیموں کے ساتھ سخت ٹکراتے ہیں.ہمیں ان کے مقابلہ میں اسلام کے نظرئیے پیش کرنے اور ان کی فوقیت ثابت کرنی ہے.تیسرا حلقہ سائنس کا حلقہ ہے.اس حلقہ کا مذہب کے ساتھ کوئی حقیقی ٹکراؤ نہیں ہے.کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے سائنس خدا کا فعل ہے اور مذہب خدا کا قول ہے مگر چونکہ بعض لوگ کو تاہ بینی کی وجہ سے غیر ثابت شدہ حقائق کو ثابت شدہ حقائق سمجھ کر اعتراض کر دیتے ہیں اس لئے اس کے مقابلہ کی بھی ضرورت ہے.تین دائرے ہیں ایک عملی دوسرا قولی تیسرا خیالی یعنی غیر حقیقی جن کے مقابلہ کے لئے ہے مجلس مذ ہب و سائنس‘ قائم ہوئی ہے.اس وقت جو لیکچر ہوگا وہ اقتصادیات کے حلقہ سے تعلق رکھتا ہے.غرض اس کی یہ ہے کہ بتایا جائے کہ اقتصادیات کے نظام سے مراد کیا ہے.اور اس وقت کونسی نئی اقتصادی تحریکات دنیا میں چل رہی ہیں.چونکہ یہ ایک عملی سوال ہے.اس لئے آج کل کی بیشتر سیاسی تحریکات بھی اسی مسئلہ کے ساتھ لپٹی ہوئی ہیں.آج کا مضمون کوئی تحقیقی مضمون نہیں ہے.بلکہ اس کا مقصد صرف اس مسئلہ کے ساتھ عام تعارف پیدا کرانا ہے.یہ غالباً ایک لمبا مضمون ہے.جو ایک وقت میں بیان نہیں ہوسکتا.اس لئے شروع میں صرف ایک عام تعارف کرا دیا جائے گا.اور اس کے بعد ایک ایک تحریک کو لے کر علیحدہ علیحدہ بیان کیا جائے گا.اب میں ملک غلام فرید صاحب ایم.اے سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنا لیکچر شروع کریں.لیکچر کے اختتام پر سوالات کی اجازت دی جائے گی مگر میں یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ سوالات صرف تشریح و توضیح کے خیال سے ہونے چاہئیں.بالمقابل بحث کا رنگ پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی.( مطبوعه الفضل ۲۵ اپریل ۱۹۴۵ء)

Page 646

۶۳۹ مضامین بشیر سائنس دان معجزات کے منکر نہیں اور نہ ڈارون کی تھیوری کے قائل ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سائنس کے ساتھ مذہب کا کوئی حقیقی ٹکراؤ ممکن نہیں کیونکہ سائنس خدا کا فعل ہے جو دنیا میں عمل کی صورت میں ظاہر ہوا ہے اور مذہب اس کا قول ہے.جو وحی والہام کے ذریعہ اس کے منشاء کو ظاہر کرتا ہے.اور جب ایک معمولی عقلمند انسان کے قول و فعل میں بھی تضاد نہیں ہو سکتا.تو خدا جیسی علیم و حکیم ہستی کے قول و فعل میں تضاد کس طرح ممکن ہے.پس اگر کسی بات میں مذہب اور سائنس کے درمیان بظاہر تقضا نظر آئے تو اسے حقیقی تضاد نہیں سمجھنا چاہیئے.بلکہ ایسا تضا دصرف اس وجہ سے نظر آتا ہے کہ بعض اوقات کو تاہ بین لوگ ایسی باتوں کو بھی سائنس کے ثابت شدہ حقائق سمجھنے لگ جاتے ہیں جو دراصل ثابت شدہ حقائق نہیں ہوتے بلکہ محض تھیوریاں یعنی سائنس دانوں کی خیال آرائیاں ہوتی ہیں جن کی بنیاد مشاہدہ پر نہیں ہوتی بلکہ صرف تخیل پر ہوتی ہے.جس میں بعض اوقات سائنس دان بھی مبتلا ہو جاتے ہیں.کیونکہ ان کے دل میں بھی کبھی کبھی فلسفیوں کی طرح دماغی خیال آرائی کا شوق چراتا ہے.اس حصہ کو تھیوری کہتے ہیں.جسے کسی عظمند کے نزدیک وہ وزن حاصل نہیں ہوتا جو ایک ثابت شدہ حقیقت کو حاصل ہے لیکن بعض اوقات نا واقف لوگ غلطی سے سائنس دانوں کے اس قسم کے خیالات کو بھی سائنس کے ثابت شدہ حقائق سمجھنے لگ جاتے ہیں.اور پھر انہیں مذہب کے خلاف پا کر شکوک میں مبتلا ہونے لگتے ہیں.ورنہ دراصل سائنس اور مذہب میں کوئی حقیقی ٹکراؤ نہیں کیونکہ دونوں کی بنیا د مشاہدہ پر ہے اور مشاہدہ میں ٹکراؤ ناممکن ہوتا ہے.پس جب کبھی بھی مذہب و سائنس میں ٹکراؤ نظر آئے وہ لازماً ظاہری ہوگا.جو صرف اس وقت نظر آتا ہے جب یا تو سائنس کی کسی غیر ثابت شدہ حقیقت کو جو محض تھیوری کا رنگ رکھتی ہے ، غلطی سے ایک ثابت شدہ حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے اور یا مذہب کی کسی تعلیم کے سمجھنے میں غلطی لگ جاتی ہے.اور جو بات مذہب نہیں پیش کرتا اسے غلطی سے مذہب کا حصہ قرار دے لیا جاتا ہے.جیسا کہ مثلاً دنیا کی عمر کے متعلق بعض پیروان مذاہب نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ صرف چھ سات ہزار سال ہے.یعنی جب سے کہ ہمارے آخری آدم کی پیدائش ہوئی بس اسی وقت سے اس دنیا کا آغاز ہوا ہے.حالانکہ اسلامی تعلیم کی رو سے یہ

Page 647

مضامین بشیر ۶۴۰ بات ثابت ہے کہ یہ آخری آدم جنہیں گذرے صرف چھ سات ہزار سال کا عرصہ ہوا ہے، نسلِ انسانی کے اول نہیں تھے بلکہ ان سے پہلے بھی کئی آدم گزر چکے ہیں.جو اپنے اپنے دور کے آدم تھے اور اس طرح دنیا کی عمر صرف چھ سات ہزار سال نہیں رہتی بلکہ کروڑوں سال بن جاتی ہے.چنانچہ اسلام کے بہت بڑے عالم محی الدین صاحب ابن عربی کی ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ اس دنیا میں ایک لاکھ آدم گزرا ہے.جن میں سے ہر ایک اپنے اپنے دور کا بانی تھا.اس طرح ایک آدم کا اوسط زمانہ سات ہزار سال سمجھا جائے تو دنیا کی عمر ستر کروڑ سال بنتی ہے.حالانکہ سائنس دانوں کی موجودہ تحقیق کے مطابق دنیا کی عمر ابھی تک صرف دس لاکھ سال ثابت ہوئی ہے اللہ اسی طرح بعض اوقات ظاہری تضاد کی یہ وجہ بھی ہو جاتی ہے کہ سائنس دانوں کی خیال آرائیوں کو سائنس کے ثابت شدہ حقائق سمجھ لیا جاتا ہے.جیسا کہ مثلاً ڈارون کی مشہور ارتقائی تھیوری کو جس میں بندر کو انسانی نسل کا مورث اعلیٰ قرار دیا گیا ہے عوام الناس نے سائنس کی ثابت شدہ حقیقت سمجھ رکھا ہے.حالانکہ واقف کارلوگ جانتے ہیں کہ یہ کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے.بلکہ محض ڈارون کا تخیل ہے جو ایک تھیوری سے زیادہ وزن نہیں رکھتا.اور بہت سے سائنس دان اس تھیوری سے شدید اختلاف رکھتے ہیں.چنانچہ ذیل میں ولایت کی اس تازہ تار کا ترجمہ کیا جاتا ہے جو دنیا کے مشہور سائنس دان سرجان ایمبارس فلیمنگ کی وفات کے متعلق سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور میں شائع ہوئی ہے.زیر عنوان ” دنیا کے مشہور سائنس دان اور موجد سر جان فلیمنگ کی وفات اخبار سول اس تار کا ایک حصہ یوں درج کرتا ہے.دد گوسر جان ایمبارس فلیمنگ دنیا کا ایک بہت مشہور سائنس دان تھا مگر وہ کوئی وجہ نہیں دیکھتا تھا کہ معجزات کے وجود کا انکار کرے اور وہ ڈارون کی ارتقائی تھیوری کے خلاف اور بائیبل کی تائید میں بھی دوسروں کے پیش پیش تھا.اور ڈارون کی تھیوری کو ایک دماغی تخیل سے زیادہ وقعت نہیں دیتا تھا.‘۲۲ سر جان فلیمنگ جن کی ایجادات سے ریڈیو اور بجلی اور ٹیلیفون وغیرہ کی ترقی میں دنیا کو بھاری فائدہ پہنچا ہے اس شہادت میں اکیلا نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بہت سے دوسرے سائنسدان بھی یہ رائے ظاہر کر چکے ہیں کہ ڈارون کی تھیوری ایک محض خیالی چیز ہے.جس کی تہہ میں کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں اور بہت سے سائنسدان خدا کی ہستی کے قائل اور مذہب کے پُر جوش مؤید گزرے ہیں مگر اس جگہ صرف اس تازہ شہادت پر اکتفا کی جاتی ہے.( مطبوعه الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۴۵ء)

Page 648

۶۴۱ تعلیم الاسلام کالج میں داخلہ کا آخری موقع مضامین بشیر احباب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ گو عام قاعدہ کے ماتحت اب ایف.اے اور ایف.ایس.سی کا داخلہ بند ہو چکا ہے لیکن پانچ روپے لیٹ فیس ادا کر کے اب بھی داخلہ ہو سکتا ہے، جوم جولائی تک کھلا رہے گا.جن طلباء نے ابھی تک تعلیم الاسلام کالج قادیان کے داخلہ سے فائدہ نہیں اٹھایا ، ان کے لئے اب یہ آخری موقع ہے.ہمارے کالج میں خدا کے فضل سے قابل اور ہمدرد اور محنتی پروفیسروں کی تعلیم کے علاوہ طلباء کی اخلاقی اور دینی تربیت کا بھی خاص انتظام ہے اور فیس اور اخراجات تعلیم بھی دوسرے کالجوں کے مقابل میں کم ہیں.اور ایف.اے آرٹس اور ایف ایس سی کی نان میڈیکل سائنس ہر دو تعلیموں کا انتظام موجود ہے.پس احباب اس آخری موقع سے فائدہ اٹھا ئیں.اور اپنے بچوں کا سال ضائع ہونے سے بچائیں کہ انشاء اللہ یہاں کی تعلیم ان کے لئے ہم خرما و ہم ثواب کا موجب ہو گی مگر یہ یا درکھنا چاہیئے کہ ایف.ایس.سی میں صرف ان طلباء کو داخل ہونا چاہیئے جنہوں نے انٹرنس میں سائنس لی ہوا اور اچھے نمبر لے کر پاس ہوئے ہوں، ور نہ کلاس میں چلنا مشکل ہوتا ہے.مطبوعه الفضل ۲۸ جون ۱۹۴۵ء)

Page 649

مضامین بشیر ۶۴۲ مجلس مذہب و سائنس کی مالی اعانت کے لئے اپیل سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الثانی ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سال کے شروع میں مجلس مذہب و سائنس کا ایک نہایت ہی اہم مقصد کے لئے قیام فرمایا ہے.موجودہ دنیا میں مذہب کی سب سے بڑی جنگ سائنس کے اُن علوم سے ہے جنہیں مذہب کے خلاف سمجھا جاتا ہے.مذہب وسائنس کا رشتہ تین قسم کا ہے.ایک تو سائنس کے بعض علوم درحقیقت مذہبی اور بالخصوص اسلامی صداقتوں کی تائید کرتے ہیں لیکن مذہبی دنیا میں ابھی ان علوم کے متعلق پوری تحقیق نہیں ہوئی.دوسرے ایسے نظریے اور تھیوریاں ہیں جن کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ مذہب کے خلاف ہیں لیکن در حقیقت ان کے اور مذہب کے درمیان حقیقی ٹکراؤ نہیں.اور تیسرے وہ علوم جن کی تھیوریاں مذہبی سچائیوں کی تکذیب کرتی ہیں.ان ہر سہ امور میں بہت وسیع اور لمبی تحقیق کی ضرورت ہے، اس کے بغیر احمدیت کی عالمگیر علمی جنگ کا میگزین تیار نہیں ہو سکتا.یہ تحقیق جہاں علمی ذوق رکھنے والے احمدی احباب کے پورے تعاون کی متقاضی ہے وہاں اس کے لئے بہت وسیع لائبریری کی بھی ضرورت ہے.جس میں سائنس اور فلسفہ کے تمام علوم جدیدہ کی نئی سے نئی کتب موجود ہوں تا کہ اس طرح جدید تحقیق کا علم ہوتا رہے.پھر مختلف ہفتہ وار ماہوار رسائل کا جوان علم کے مختلف زیر تحقیق مسائل پر بحث کرتے رہتے ہیں ، ملنا بھی ضروری ہے.اس کے علاوہ وسیع علمی تحقیق کے لئے ایسے ماہرین فن فلسفیوں اور سائنسدانوں کو مختلف علمی اداروں اور یونیورسٹیوں سے بلا کر اُن کے تحقیقی لیکچر بھی قادیان میں کرائے جائیں گے، جن کی روشنی میں ان علوم کی تفصیلات بوجہ احسن سمجھی جاسکیں.یہ تمام امور اور پھر روز مرہ کی خط و کتابت کے لئے اخراجات کی ضرورت ہے.لیکن ابھی تک مجلس مذہب و سائنس کے پاس ان مقاصد کے لئے کوئی رقوم نہیں ہیں.جس کی وجہ سے کام کی رفتار پر بھی ایک حد تک اثر پڑا ہے.حال ہی میں سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں یہ معاملہ پیش کیا گیا تو حضور نے تحصیل چندہ کی اجازت عطا فرمائی ہے.بنابر میں جماعت کے پُر جوش مخلص اور ذی استطاعت احباب سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اس مبارک کام کی اہمیت کا احساس فرماتے ہوئے مجلس کی مالی اعانت فرما ئیں تا کہ یہ نہایت ضروری کام جو احمدیت کی وسیع علمی جنگ کے لئے اسلحہ تیار کرنے کے مترادف ہے بوجہ احسن جاری

Page 650

۶۴۳ مضامین بشیر ہو سکے.امید ہے کہ احباب جلد از جلد اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں گے اور مجلس کی زیادہ سے زیادہ مددفرمائیں گے.تمام رقوم محاسب صدر انجمن احمدیہ کے نام مجلس مذہب وسائنس کی امانت میں آنی چاہیں.کو پن منی آرڈر پر خاص طور پر یہ تصریح کر دی جائے کہ یہ رقم مجلس مذہب و سائنس کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض کے سمجھنے اور ان کی صحیح اور کامل ادا ئیگی کی تو فیق عطا فرمائے.خاکسار مرز البشير احمد صدر مجلس مذہب و سائنس ( مطبوعه الفضل ۱۷ اگست ۱۹۴۵ء)

Page 651

مضامین بشیر ۶۴۴ ہماری قدسیہ کا انتقال اور احباب و اغیار کے جذبات میری نواسی قدسیہ مرحومہ کی ناگہانی وفات پر جو ۲۳ ستمبر ۱۹۴۵ء کی سہ پہر کو ڈلہوزی میں واقع ہوئی.دور ونزدیک کے اصحاب کی طرف سے اس کثرت کے ساتھ ہمدردی کے تار اور خطوط وصول ہوئے ہیں کہ میں رسمی طور پر نہیں کہتا بلکہ حقیقہ ان کا فرداً فرداً جواب دینا مشکل ہے.اور چونکہ مجھے اس موقع پر بعض اور خیالات کا اظہار کرنا بھی مقصود ہے.اس لئے اس مختصر نوٹ کے ذریعہ تمام ان بھائیوں اور بہنوں کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس حادثہ موطہ میں ہمارے ساتھ ہمدردی کا اظہار فرمایا.یا اگر خط وغیرہ کے ذریعہ لفظا اظہار نہیں کر سکے تو کم از کم دل میں مرحومہ اور اس کے پسماندگان کے لئے نیک جذبات کو جگہ دی.فجزاهم الله احسن الجزا في الدنيا والاخرة اسلام اور احمدیت کی نعمتوں میں سے یہ ایک بڑی بھاری نعمت ہے کہ ہم لوگ خدا کے فضل ورحمت سے ایک دوسرے کے درد کو حقیقہ اپنا درد خیال کرتے ہیں.اور ایک بھائی کی تکلیف کو دیکھ کر ہمارے دل اس طرح محبت اور ہمدردی کے جوش میں اس کی طرف لپکتے ہیں کہ قرآن پاک کے ان الفاظ کی عملی تفسیر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُو بِكُمْ فَا صُبَحْتُم بِنِعْمَتِةٍ إِخْوَانًا ۲۳ یعنی اے مومنو! اتحاد اور محبت و موالات کی قدر کو پہچانو اور خدا کی رشی کو سب کے سب اکٹھے ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو اور انتشار اور تفرقہ سے بچو.اور خدا کی اس نعمت کو کبھی مت بھولو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے.مگر خدا تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کردی.اور تم اس کی دی ہوئی نعمت (اسلام واحمدیت ) کے ذریعہ بھائی بھائی بن گئے.“ اللہ اللہ ! کیا ہی روح افزا نظارہ ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں اور مختلف قوموں میں سینکڑوں ہزاروں میل کے چکر میں پھیلے ہوئے لوگ بستے ہیں.کوئی گورا ہے کوئی کالا ہے.کوئی امیر ہے کوئی

Page 652

۶۴۵ مضامین بشیر غریب ہے.کوئی تندرست ہے کوئی بیمار ہے کوئی عالم ہے کوئی ظاہری علم سے خالی ہے مگر یہ سب لوگ محبت واخوت کی ایسی پختہ زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں کہ اگر ایک شخص کو کوئی تکلیف پہونچتی ہے تو گویا یہ سارا عالم درد سے تلملا اٹھتا ہے.پس میں دوستوں کی اس مخلصانہ محبت کا سوائے اس کے اور کیا بدلہ پیش کروں کہ خدا یا تو ان سب لوگوں کو جزائے خیر دے جنہوں نے اس صدمہ میں ہمارے ساتھ ہمدردی کے جذبات کو جگہ دی.اور جس طرح انہوں نے ہماری تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھا.تو ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ ( حدیث سے ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بعض بندوں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے ) اور ان کا حافظ و ناصر ہو.اور ان کے لئے اس شراب محبت کے پیمانہ کو اور بھی وسیع کر دے.جس سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنے بعض بھائیوں کے دکھ میں ان کی طرف اور ہمدردی کا ہاتھ بڑھایا ہے.آمین یاراحم الراحمين واقعہ یوں ہوا کہ مورخہ ۲۳ ستمبر کی صبح کو جب کہ ڈلہوزی میں کئی دن کی مسلسل بارش کے بعد ذرا دھوپ نکلی تو میری لڑکی امتہ السلام بیگم سلمہا اپنے شوہر عزیزم مرزا رشید احمد صاحب کے ساتھ بچوں کو سیر کرانے کی غرض سے ڈلہوزی کے قریب ایک پہاڑی ویان گنڈ پر گئی.جہاں اور بھی کئی لوگ جو سابقہ بارش سے اکتائے ہوئے تھے ٹرپ کرنے گئے ہوئے تھے.ابھی عزیزہ امتہ السلام بیگم اور ان کے بچے وہیں تھے کہ پھر بارش شروع ہوگئی اور یہ لوگ جلدی جلدی گھر پہو نچنے کی غرض سے واپس روانہ ہو گئے.جب قریباً ڈیڑھ میل کی اترائی اتر کر لکڑ منڈی میں پہنچے جہاں ریاست چمبہ کے محکمہ جنگلات کی طرف سے مسافروں کے لئے ایک شیڈ سا بنا ہوا ہے تو اس شیڈ کے اندر جا کر بارش کے تھمنے کا انتظار کرنے لگے.اس شیڈ میں (جس کی چھت نوک دار صورت کی تھی اور اسے خلاف اصول بجلی کے امکانی حادثہ کے پیش نظر ارتھ بھی نہیں کیا گیا تھا ) اس وقت اور بھی کئی لوگ اسی غرض سے جمع تھے.ابھی انہیں اس شیڈ کے اندر گئے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ اس شیڈ کے ایک کو نہ کے کھمبا پر بجلی گری اور ایک سکھ اور ایک ہندو لیڈی ڈاکٹر اور ایک ہندولڑکی وغیرہ کے جسموں کو پوری طرح جھلتے ہوئے انہیں بیہوش کر کے نیچے گرا دیا اور بجلی کے منتقل شدہ اثر کے ماتحت شیڈ کے اندر کے دوسرے اکثر لوگ بھی بیہوش ہو کر زمین پر گر گئے.انہی مؤخر الذکر لوگوں میں قدسیہ مرحومہ بھی تھی.ان میں سے باقی لوگ تو ایک دومنٹ کی بیہوشی کے بعد سنبھل کر کھڑے ہو گئے.مگر قدسیہ کا دل چونکہ نہایت کمزور تھا.وہ اس فوری صدمہ کو برداشت نہ کر سکی.اور اس حادثہ کے نتیجہ میں فوت ہوگئی.فــان اللـه وانــا الـيـه راجعون.جو تین چار اشخاص بجلی کی براہ راست ضرب سے مجروح ہوئے تھے.ان میں سے بعض چند دن کے علاج کے بعد صحت یاب ہو گئے اور بعض ابھی تک ڈلہوزی میں زیر علاج ہیں.

Page 653

مضامین بشیر ۶۴۶ جب اس حادثہ کی اطلاع حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح ایدہ اللہ کو پہنچی تو حضور نے ایک طرف تو مجھے ( جو ایک دوسری کوٹھی میں کچھ فاصلہ پر ٹھہرا ہو ا تھا ) فوری اطلاع بھجوائی.اور دوسری طرف خود عزیزم ڈاکٹر منور احمد اور چند دوسرے اصحاب کو ساتھ لے کر جائے حادثہ کی طرف جو حضور کی کوٹھی سے تین چار میل کے فاصلہ پر تھی روانہ ہو گئے.مگر جب حضور وہاں پہنچے (اور حضور کے تھوڑی دیر بعد میں بھی وہاں پہنچ گیا ) تو قدسیہ مرحومہ فوت ہو چکی تھی.طبی اصول کے ماتحت اسے مصنوعی تنفس اور ٹیکوں وغیرہ کے ذریعہ بحال کرنے کی کوشش کی گئی.مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے دھکہ میں ہی حرکت قلب کے بند ہو جانے سے جان بحق ہو چکی تھی.اس وقت اس کے قریب ایک ہندولڑ کی بھی بیہوشی کی حالت میں پڑی تھی اور عزیز ڈاکٹر منور احمد نے حضرت صاحب کی ہدایت کے ماتحت اس کی طرف بھی فوری توجہ دی اور چونکہ وہ صرف بیہوشی کی حالت میں تھی.عزیز موصوف کی کوشش سے (اس کے کچھ عرصہ بعد بعض اور ڈاکٹر بھی پہنچ گئے تھے ) اس کی طبیعت سنبھل گئی.اور پھر حضرت صاحب کی ہدایت کے ماتحت اس بیمار ہندولڑکی کو ڈانڈی میں بٹھا کر پہلے روانہ کیا گیا.اور بعد میں ہمارا قافلہ آیا اور چونکہ بلندی کے علاوہ تازہ بارش کی وجہ سے اس وقت سردی کافی تھی.اس لئے اس بیمار ہندولڑ کی کو گرم رکھنے کے لئے بعض زائد کپڑے جن میں قدسیہ مرحومہ کا ایک نیا کمبل بھی تھا اسے اڑھا دئیے گئے.اور خود قدسیہ کو ایک خادم کی چادر میں ڈھانک کر روانہ کر دیا گیا.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر خدا نے قدسیہ کو عالم بالا میں ان واقعات کا علم دیا ہوگا.تو اسکی نیک روح اس خیال سے خوش ہوئی ہوگی کہ ، گوخود اس کے جسم کو ڈھانکنے کے لئے ایک خادم کی میلی سی چادر ملی ہے.اس کا اپنا مکمل ایک ہندولڑ کی کی زندگی کی حفاظت میں استعمال ہو رہا ہے.کیونکہ خدا کے فضل سے ہم مسلمان اس روحانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن کے قابل فخر آباء واجداد جنگ کے میدانوں میں شہید ہو کر کپڑے کی قلت کی وجہ سے مٹی سے آلودہ گھاس میں لپیٹ کر قبروں میں اتارے گئے.اور ان کی پاک روحوں نے اسی میں بہترین فخر محسوس کیا.حالانکہ ان کے بعد آنے والے روساء اور ملوک جوان کے پاؤں کی خاک کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتے.ریشم کے دوشالوں میں لپٹ کر آخری آرام گاہ میں پہنچتے رہے ہیں بیچ ہے کہ انسان کا مرتبہ اس کے ظاہری جاہ و جلال میں نہیں ہے.اس کی روح کی بلندی اور اسکے خالق و مالک کے قرب میں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فدا نفسی ) سے کون بڑا پیدا ہوا ہے.اور کون بڑا پیدا ہو گا.مگر آپ کی زندگی کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ آپ آرام کے لئے لیٹنا چاہتے تھے تو ایک کھردری سی پرانی چٹائی کے سوا کچھ میسر نہیں آیا.چنانچہ آپ اسی پر لیٹ گئے اور جب آپ اٹھے تو مٹی اور گرد کے علاوہ اس چٹائی کے موٹے موٹے پٹھوں نے آپ کے جسم مبارک پر نشان ڈال رکھے تھے.

Page 654

۶۴۷ مضامین بشیر.حضرت عمر نے آپ کو اس حالت میں دیکھا تو لپک کر آپ کے جسم سے مٹی جھاڑی اور آبدیدہ ہوکر عرض کیا، یا رسول اللہ قیصر و کسریٰ اپنے محلات میں کس آرام و آسائش کی زندگی گزارتے ہیں اور خالق کونین کا رسول کس حال میں ہے؟ آپ نے فرمایا تم یہ کیا کہتے ہو؟ بخدا مجھے اس زندگی کی نعمتوں سے اس سے زیادہ سروکار نہیں.جتنا کہ ایک ایسے مسافر کو اپنے گرد و پیش سے ہوتا ہے.جو راستہ چلتے ہوئے گھڑی دو گھڑی کے لئے کسی درخت کے سایہ میں بیٹھ جاتا ہے.اور پھر اٹھ کر اپنی راہ لیتا ہے ۲۴.ہماری قدسیہ بھی اس پاک رسول کی ایک ادنی کنیز تھی تو پھر اس کی روح عالم بالا میں اس نظارہ پر کیوں نہ خوش ہوئی ہوگی.مگر میں اپنے اصل مضمون سے ہٹ گیا.میں یہ بتا رہا تھا کہ ہم قدسیہ مرحومہ کو ساتھ لے کر ڈلہوزی کی طرف روانہ ہوئے اور چونکہ مرحومہ موصیہ تھی.اس لئے اس کے حق میں اپنی آخری ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے فوراً قادیان کی تیاری شروع کر دی اور قدسیہ کی والدہ اپنے غم کو دبا کر واپسی کی تیاری میں مصروف ہو گئی.چنانچہ دوسرے دن صبح حضرت صاحب نے اپنی ڈلہوزی کی کوٹھی بیت الفضل کے صحن میں نماز جنازہ پڑھائی اور نو بجے کے قریب ہم لوگ جنازہ کو لے کر روانہ ہو گئے اور غروب آفتاب سے قبل قادیان پہنچ گئے.جہاں ایک بھاری مجمع نے دوسری نماز جنازہ کے بعد مرحومہ کو بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے قریب اس کی دادی کے پہلو میں جوا سے اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھتی تھیں خدائی رحمت کے فرشتوں کے ہاتھوں میں سونپ دیا.قدسیہ نہائت شریف اور نیک اور کم سخن لڑکی تھی.اور دنیا کی زیبائشوں کے ساتھ اسے کبھی بھی شغف نہیں ہوا.چنانچہ جب کبھی اس کی والدہ اس کے لئے کوئی اچھی چیز تیار کرتی تو اکثر کہا کرتی تھی کہ مجھے ضرورت نہیں صبیح (اس کی چھوٹی بہن) کو دے دو، نماز کی بہت پابند اور خود اپنے شوق سے وصیت کی تھی.خواب بین بھی تھی.چنانچہ اس نے وفات سے کئی سال پہلے اپنی یہ خواب سنائی تھی کہ پہلے مبارک (اس کا چا زاد بھائی ) کی وفات ہوگی اور پھر اس کی اماں جان ( یعنی دادی ) کی وفات ہوگی اس کے بعد خود اس کی اپنی وفات ہو گی.چنانچہ بعینہ اسی طرح ہوا.ویان کنڈ کے ٹرپ میں اس نے اپنی آخری نماز بڑے شوق اور رقت کے ساتھ ادا کی اور اس نماز کے ایک دو گھنٹہ بعد اپنے دائگی آقا و مالک کے قدموں میں جا پہنچی.وفات کے وقت اس کی عمر بیس سال کے قریب تھی مگر ابھی غیر شادی شدہ تھی اور شادی کی طرف اسے چنداں رغبت بھی نہیں تھی.اکثر اوقات علیحدگی میں بیٹھ کر دعا کرتے ہوئے روتی رہتی تھی اور اپنی والدہ سے کہا کرتی تھی.کہ آپ میری کوئی فکر نہ کیا کریں.میں نے ساری عمر میں اس کے منہ سے بمشکل چند گنتی کے الفاظ سنے ہوں گے.گذشتہ عید کے موقع پر یعنی اس کی وفات سے صرف

Page 655

مضامین بشیر ۶۴۸ چند روز قبل میں اسے عیدی دینے لگا تو وہ مجھ سے ادہراد ہر چھپتی پھرتی تھی.آخر میں نے اسے ایک کمرہ کے کونے میں پکڑ کر عیدی دی.اس وقت وہ تھوڑا سا مسکرائی مگر منہ سے کچھ نہیں کہا.خدا اس کی روح کو جنت میں ابدی راحت عطا کرے اور اس کے والدین اور بہن بھائیوں کو خدا کی رضا کے رستہ پر چلتے ہوئے صبر جمیل کی توفیق دے اور اسے ان کے لئے فرط بنائے آمین اب میں مختصر طور پر اس استہزاء کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں.جو مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض غیر احمدی اور غیر مسلم حلقوں میں اس واقعہ پر کیا گیا ہے مگر انصاف اور شرافت کا یہ تقاضا ہے کہ اس استہزاء کے جواب سے قبل میں اس شریفانہ سلوک کا اعتراف کروں جو اس حادثہ پر ڈلہوزی اور دوسرے مقامات پر ہم سے بالعموم کیا گیا.میں نہیں کہہ سکتا آیا ہمارے متعلق بعض لوگوں کی ذہنیت میں کوئی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے یا یہ کہ یہ اس غیر معمولی ہمدردی اور اعانت کے سلوک کا نتیجہ تھا جو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس موقع پر دوسرے مجروحین کے ساتھ کیا گیا.مگر بہر حال یہ امر واقع ہے کہ ڈلہوزی میں غیر احمدی مسلمان اور ہندو اور سکھ شرفا عموماً اس صدمہ میں ہمارے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے ، جو ان کے چہروں اور ان کے الفاظ سے ظاہر تھی اور بہت سے لوگ اظہار ہمدردی کے لئے ہمارے گھروں پر بھی آئے اور رسمی طریق پر ہمدردی کا اظہار کیا.میں موتی شعبہ کی کوٹھی تیسرا ہال میں اپنی چھوٹی ہمشیرہ کے ساتھ ٹھہرا ہوا تھا.وہاں اُس پاس کی قریباً تمام ہمسایہ عورتوں نے جو ہر مذہب وملت اور اچھے اچھے گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں ہماری ہمشیرہ کے پاس آکر ہمدردی کا اظہار کیا اور بعض تو کئی کئی دفعہ آئیں.ہم ان سب کے شکر گزار ہیں.کیونکہ ہمارا پیارا مذہب ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ من لم يشكر الناس لم يشكر الله ۲۵ یعنی جو شخص انسانوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا کا شکر گزار بھی نہیں ہوسکتا.مگر کسی قوم کے سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے.چنانچہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض حلقوں میں اور خصوصاً لاہور کے ایک غیر احمدی اخبار میں اس حادثہ کو ہمارے خلاف ہنسی اور طعن کا ذریعہ بنایا گیا ہے.اصولاً ہمیں کسی کے طعن و تشنیع کی پروا نہیں کیونکہ یہ وہ پرانا کھیل ہے.جو بدفطرت لوگ ہمیشہ سے کھیلتے آئے ہیں مگر ایک اصولی اعتراض کا جواب ضروری ہے.جو بعض نا واقف لوگوں کے دل میں شبہ پیدا کر سکتا ہے.اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ بجلی کے گرنے سے مرنا گویا ایک عذاب کا نشانہ بننا ہے اور اس طرح قدسیہ مرحومہ کی وفات گویا ہمارے جھوٹا ہونے کی ایک دلیل ہے وغیرہ وغیرہ.میں نے خود یہ اعتراض نہیں پڑھا مگر سنتا ہوں کہ لاہور کے ایک اخبار میں اس قسم کا اعتراض شائع ہوا ہے.بعض لوگوں کی زبان پر اس کا چرچا ہے.مگر جیسا کہ ابھی ظاہر ہو جائے گا یہ اعتراض بالکل بودا اور سراسر جہالت پر مبنی

Page 656

۶۴۹ مضامین بشیر ہے.اور صرف ایسے لوگوں کے دل کو بہلا سکتا ہے جو اسلام کی تعلیم سے ہی بے بہرہ نہیں ہیں.بلکہ سنت اللہ اور قانون نیچر کے اصولوں سے بھی قطعاً نا واقف ہیں.ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی حکیمانہ قدرت کے ماتحت دنیا میں دو قانون جاری رکھے ہیں.ایک قانون شریعت ہے جو روحانی اور اخلاقی امور سے تعلق رکھتا ہے.اور نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے ظاہر ہوتا آیا ہے.اور تمام مذاہب کے شرعی قوانین اسی دائرہ کے ساتھ وابستہ ہیں.اس قانون کی رو سے دنیا دارالعمل ہے.اور آخرت کی دنیا.دار الجزاء مثلاً یہ ایک شرعی قانون ہے کہ جو شخص سچی نیت اور صحیح طریق پر نماز روزہ اور حج زکواۃ کی پابندی اختیار کرے گا اسے خدا کا قرب حاصل ہو گا.اور وہ آخرت میں اس کا کھلے طور پر اجر پائے گا.دوسرے قانون قضا و قدر یا قانون نیچر ہے جو مادیات کے میدان میں خواص الاشیا اور ان کے با ہمی اسباب و نتائج سے تعلق رکھتا ہے.یہ قانون خدائی الہام کے ذریعہ ظاہر نہیں ہوتا بلکہ خود صحیفہ فطرت میں ایک ازلی حقیقت کے طور پر مرکوز ہے.اور اس کا عمل بدیہی طور پر سب لوگوں کو نظر آرہا ہے مثلاً آگ جلاتی ہے اور پانی بجھاتا اور ٹھنڈک پہنچاتا ہے.یا مثلاً با دل پانی برساتے ہیں اور زمین روئیدگی نکالتی ہے یا مثلاً یہ کہ انسان غرقاب پانی میں ڈوب جاتا ہے جب تک کہ وہ تیر نے کا فن سیکھ کر اپنے آپ کو بچانے کی تدبیر نہ اختیار کرے.اسی طرح یہ کہ جو شخص آگ میں گرے گا وہ ضرور جلے گا سوائے اس کے کہ اس کے بچانے کا کوئی خارجی سبب پیدا ہو جائے وغیرہ وغیرہ.انہی دو قا نونوں کی طرف قرآن شریف نے سورہ مائدہ کی اس آیت میں اشارہ کیا ہے کہ :- لِكُلِّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ٢٦ یعنی اے بنی نوع انسان ہم نے تم سب کے لئے دو قانون بنائے ہیں.ایک قانون شریعت یعنی گھاٹ تک پہنچنے کا رستہ ( کیونکہ شرعتہ گھاٹ کے رستہ کو کہتے ہیں اور چونکہ پانی زندگی کا ذریعہ ہے اور خدا منبع حیات ہے اس لئے گھاٹ کے رستہ سے روحانی قانون مراد ہے.جو خدا تک پہنچاتا ہے ) اور دوسرے مادی قانون جو صحیفہ فطرت میں کھلے طور پر کام کرتا نظر آتا ہے.( کیونکہ عربی میں منہاج واضح طور پر نظر آنے والے رستہ کو کہتے ہیں ) الغرض اللہ تعالیٰ نے دنیا میں دو قانون جاری کر رکھے ہیں.ایک قانون شریعت اور دوسرے قانونِ نیچر یا قضا وقدر.قانون شریعت طوعی ہے.یعنی انسان اس کے معاملہ میں مختار ہے کہ چاہے تو اسے قبول کرے اور چاہے تو رڈ کر دے مگر قانون نیچر جبری ہے.گونتیجہ بہر حال دونوں کا لازمی طور پر نکلتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کی کامل حکمت نے ان دونوں قانونوں کو عام حالات میں ایک دوسرے سے

Page 657

مضامین بشیر آزاد رکھا ہے.یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ اگر مثلاً کوئی شخص قانون شریعت کا کوئی جرم کرے تو اسے قانون نیچر کے ماتحت سزا دے دی جائے.یا اگر کسی شخص سے قانون نیچر کے ماتحت کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسے قانون شریعت کے دائرہ میں سزا مل جائے بلکہ ان دونوں قانونوں کے دائرے عام حالات میں ایک دوسرے سے بالکل جدا اور آزاد رہتے ہیں اور قانون شریعت کے جرم کی سزا قانون شریعت کے حلقہ میں ملتی ہے.اور قانون نیچر کی قانون نیچر میں.گویا یہ دو قانون آزاد حکومتوں کی طرح ہیں جو خدا تعالیٰ کی مرکزی حکومت کے ماتحت تو بیشک ہیں مگر ایک دوسرے کے مقابل پر عملاً آزاد ہیں.سوائے اس کے کہ کسی استثنائی حالت میں خدا کی مرکزی حکومت ان میں سے کسی ایک کو دوسرے کی امداد میں لگا دے جیسا کہ مثلاً معجزات وغیرہ کے موقع پر ہوتا ہے.جب کہ خدا تعالیٰ اپنے رسولوں کی صداقت کے لئے بعض اوقات قضاء قدر کے قانون کو وقتی طور پر شریعت کے قانون کے تابع کر دیتا ہے.مگر یہ ایک استثنائی صورت ہے جو صرف خاص حالات سے تعلق رکھتی ہے.اور عام قاعدہ یہی ہے کہ یہ دونوں قانون ایک دوسرے سے آزاد رہتے ہوئے الگ الگ دائرہ کے اندر کام کرتے ہیں مثلاً اگر ایک کشتی میں دو شخص بیٹھے ہوں جن میں سے ایک نیک اور پارسا ہو اور دوسرا دنیا دار اور بد اطوار اور اتفاق سے یہ کشتی دریا کے وسط میں پہنچ کر الٹ جائے تو یہ نہیں ہوگا کہ نیک شخص اپنی نیکی کی وجہ سے ڈوبنے سے بچ جائے اور بد شخص اپنی بدی کی وجہ سے تباہ ہو جائے کیونکہ پانی میں ڈو بنایا بچنا قانون نیچر کے دائرہ سے تعلق رکھتا ہے.اور قانون شریعت کی نیکی کسی شخص کو غرقابی سے بچا نہیں سکتی.پس اگر ایسے موقع پر بد شخص تیرنا جانتا ہے اور نیک نہیں جانتا تو لازماً بد شخص بچ جائے گا اور نیک ڈوب جائے گا کیونکہ یہ فعل قانون نیچر کے دائرہ سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ قانون شریعت سے اور ان دونوں قانونوں کے دائرہ کا الگ الگ ہونا انسانی ترقی کے لئے ضروری اور لازمی ہے.ورنہ دنیا میں اندھیر نگری پیدا ہو جائے.یہ ایک لمبی اور علمی بحث ہے مگر میں اس جگہ صرف اس قدر مجمل اشارہ پر اکتفا کرتا ہوں.پس بجلی کا جو حادثہ لکڑ منڈی میں پیش آیا وہ قانون نیچر کا ایک حادثہ تھا اور اس میں جو شخص بھی اس کی زد کے نیچے آیا اس نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اس سے نقصان اٹھایا.یہ کہنا کہ کیا تمہیں چالیس اشخاص میں سے صرف قدسیہ نے ہی وفات پانا تھا ایک جہالت کا خیال ہے کیونکہ اگر تمہیں چھوڑ کر تین سولوگ بھی ہوتے اور ان میں صرف قدسیہ کا دل زیادہ کمزور ہوتا تو پھر بھی ان تین سولوگوں میں صرف قدسیہ ہی وفات پاتی.جیسا کہ مثلاً اگر کسی کشتی میں تین سو آدمی سوار ہوں اور تین سو میں سے دو سوننانوے تیرنا جانتے ہوں اور صرف ایک شخص تیرنا نہ جانتا ہو اور یہ کشتی وسط دریا میں پہنچ کر الٹ جائے اور اس وقت حالات ایسے ہوں کہ تیرنے والے اشخاص بے تیر نے والے شخص کو بیچا نہ سکیں تو

Page 658

۶۵۱ مضامین بشیر لازماً وہ دوسوننانوے لوگ جو تیر نا جانتے ہیں بچ جائیں گے.اور وہ ایک شخص جو تیر نا نہیں جانتا ڈوب جائے گا اور کوئی عقلمند اس ایک شخص کے ڈوبنے کو خدائی عذاب کی طرف منسوب نہیں کر سکتا بلکہ ہر شخص یہی کہے گا کہ یہ نیچر کا ایک معمولی حادثہ تھا.جس میں تیرنے والے بچ گئے اور تیرنا نہ جاننے والا وفات پا گیا.پس چونکہ جیسا کہ اس کے سارے عزیز جانتے ہیں.قدسیہ مرحومہ کا دل غیر معمولی طور پر کمزور تھا اس لئے جہاں دوسرے لوگ بجلی کا صدمہ اٹھا کر کم و بیش تکلیف کے بعد بچ گئے وہ بیچاری اس فوری صدمہ سے بچ نہ سکی اور جان بحق ہو گئی اور اس حادثہ میں خدائی غضب کا موجب تلاش کرنا محض جہالت یا شرارت کا نتیجہ ہے جس میں کچھ بھی حقیقت نہیں.ہاں جیسا کہ میں اوپر اشارہ کر چکا ہوں بعض اوقات خاص استثنائی حالات میں خدا تعالیٰ اپنے قانون نیچر کو وقتی طو پر قانونِ شریعت کے تابع بھی کر دیتا ہے مگر یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ اس نے اپنے کسی فرستادہ کے حق میں کوئی خاص نشان دکھانا ہو.ایسے حالات میں خدائی تقدیر ایسے غیر معمولی حالات پیدا کر دیتی ہے کہ قانون قضاء قدر قانون شریعت کے سامنے ایک خادم کی حیثیت میں آکھڑا ہوتا ہے.جیسا کہ مثلاً پنڈت لیکھرام کے وقت میں ہوا.جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پنڈت لیکھرام نے ایک دوسرے کے مقابلہ پر نشان دکھانے کی غرض سے پیشگوئی کی اور اس کے لئے ایک معیاد بھی مقرر کر دی اور پھر اس معیاد کے اندر پنڈت صاحب کے ہم خیال لوگوں کی طرف سے ظاہری سامانوں کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف سازشیں بھی ہوئیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے صرف دعا پر اکتفا کی گئی.مگر پھر بھی خدائی فرشتوں کا زبردست ہاتھ ایک کاری چھری بن کر پنڈت صاحب کے پیٹ میں گھس گیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا باوجود آپ کے خلاف ہزاروں سازشوں کے ، بال تک بیکا نہ ہو سکا.کیونکہ یہ ایک خاص استثنائی صورت تھی.جب کہ خدا کی مرکزی حکومت کے حکم سے قضا و قدر کی طاقتیں قانون شریعت کے ماتحت کر دی گئی تھیں مگر عام حالات میں ان دونوں قانونوں کا دائرہ ایک دوسرے سے بالکل جدا ر ہتا ہے.اور خاص حالت کے سوا پر دو قانون مہذب حکومتوں کی طرح ایک دوسرے کے دائرہ میں دخل نہیں دیتے.یہ مضمون پھر ایک تفصیلی بحث چاہتا ہے مگر یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں.البتہ جو لوگ زیادہ تفصیل کے خواہاں ہوں وہ اس خاکسار کی کتاب ”ہمارا خدا کا متعلقہ حصہ ملا حظہ فرما سکتے ہیں.مگر اسلام کا خدا بھی کیسا رحیم و کریم خدا ہے کہ جب اس کا کوئی بندہ اس کی قضا وقدر کے قانون کی زد میں آنے لگتا ہے تو ایک مہربان ماں کی طرح اس کی رحمت جوش میں آتی ہے.اور گو وہ عام حالات میں قانون شریعت کی وجہ سے اپنے قانون نیچر میں تبدیل نہیں کرتا مگر اس صورت میں اس کی

Page 659

مضامین بشیر ۶۵۲ رحمت اپنے اظہار کے لئے بعض اور دروازے کھول دیتی ہے.جن کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کے دکھتے ہوئے دلوں پر محبت اور شفقت کا پھا یہ رکھ دیتا ہے.چنانچہ اس حادثہ سے قبل اس نے اپنے بہت سے بندوں پر خوابوں وغیرہ کے ذریعہ پہلے سے ظاہر کر دیا تھا کہ عنقریب کوئی تکلیف دہ حادثہ ہونے والا ہے.جس کی تین غرضیں تھیں.اول یہ کہ اس قبل از وقت انکشاف کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ اپنے ذاتی تعلق کا اظہار کرنا چاہتا تھا.کہ دیکھو میں تمہارے ساتھ ہوں.اور چونکہ میرے ازلی قانون کے ماتحت تمہیں ایک صدمہ پہنچنے والا ہے اس لئے میں اس انکشاف کے ذریعہ تمہارے ساتھ پہلے سے ہمدردی کا اظہار کئے دیتا ہوں.یعنی گو قانون نیچر کو بدلنا تو میری مصلحت کے خلاف ہے مگر اس حادثہ سے یہ نہ سمجھنا کہ میں تم پر خفا ہوں اور تمہیں سزا دے رہا ہوں.بلکہ حق یہ ہے کہ میں تم پر اس مقدر حادثه کا قبل از وقت انکشاف کر کے اپنا تعلق ظاہر کرنا چاہتا ہوں.یہ اسی قسم کی بات ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خاص الہام کے ذریعہ آج سے قریباً ساٹھ سال پہلے بتایا گیا کہ : - تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا.اور برکت دوں گا.مگر بعض ان میں سے کم عمری میں بھی فوت ہوں گے.۲۷ اس الہام میں صاف طور پر بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل میں بعض کی وفات کم عمری میں واقع ہوگی.اور اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے اتنا عرصہ پہلے اسی غرض سے ظاہر کیا کہ تا اس قسم کے حادثہ کو شریر لوگ غضب الہی کا نتیجہ قرار نہ دیں.بلکہ ایک پیشگوئی کا ظہور سمجھیں.ورنہ ظاہر ہے کہ بعض بچے صغرسنی میں فوت ہوا ہی کرتے ہیں.اور یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ اس کے اظہار کی ضرورت سمجھی جاتی.پس یہ انکشاف صرف اسی غرض سے کیا گیا کہ تا خدا تعالیٰ قبل از وقت خبر دے کر اس قسم کے مقدر واقعات کو بھی اپنے تعلق کی نشانی قرار دے.دوسرے قبل از وقت انکشاف سے یہ بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ تالوگوں کے ذہن اس قسم کے حادثہ کے لئے پہلے سے تیار ہو جا ئیں.اور صدمہ کی فوری نوعیت کی شدت میں کمی آجائے.تیسرے ایسے انکشافات میں خدائی رحمت کا یہ پہلو بھی مدنظر ہوتا ہے کہ تا خواب دیکھنے والے لوگ اور وہ لوگ جن تک ان خوابوں کا ذکر پہنچے دعا اور صدقہ و خیرات اور ذکر الہی کی طرف متوجہ ہو کر اپنے واسطے اخروی سامان پیدا کریں.اور ان میں سے جس شخص کی موت مقدر ہے اس کا انجام خشیت اور تقوی اللہ کے ماحول میں ہو.سو یہ سب رحمت کے پہلو ہیں جو ہمارے رحیم و کریم خدا نے اس موقع پر ہمارے لئے پیدا کر دئیے.چنانچہ قدسیہ مرحومہ کے حادثہ سے قبل حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے خواب دیکھا.میں نے خواب دیکھا.قدسیہ کے والد نے خواب دیکھا.قدسیہ کی والدہ نے خواب دیکھا.خود قدسیہ نے خواب

Page 660

۶۵۳ مضامین بشیر دیکھا.ہماری بڑی ہمشیرہ نے خواب دیکھا.قدسیہ کی خالہ منصورہ بیگم سلمہا نے خواب دیکھا.اور ان کے علاوہ اور بہت سے بھائیوں اور بہنوں نے خواب دیکھے.یہ سب خواب ہمارے مہربان آسمانی آقا کی طرف سے محبت ورحمت کے چھینٹے تھے.جو اس نے آنے والے واقعہ کے پیش نظر ہمارے دکھنے والے دلوں پر خود اپنے دست شفقت سے ڈالے.پس بے شک فطری قانون کے ماتحت ہمارے دل ایک نیک اور سعید بچی کی وفات پر غم محسوس کرتے ہیں مگر دوسری طرف ہم اپنے آقا و مالک کے اس محبت بھرے سلوک پر کہ اس نے قبل از وقت خبر دے کر ہماری تسلی کا سامان مہیا کیا.اور اپنے نا چیز بندوں کے ساتھ اپنے ذاتی تعلق کا اظہار فرمایا.خدا کے حضور شکر وامتنان کے جذبات سے جھکے ہوئے ہیں.اور ہم تکلف سے نہیں کہتے بلکہ بخدا سچے دل اور کچی نیت کے ساتھ کہتے ہیں ہاں اس بھاری صدمہ میں بھی یہی کہتے ہیں کہ الحمد لله الذى خلق السموات والارض وجعل الظلمات والنور ثم الذين كفر و ابربهم يعدلون.وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين ( مطبوعه الفضل ۱۱۵ کتوبر ۱۹۴۵ء)

Page 661

مضامین بشیر ہمارا پاک قرآن اور پاک اسلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی جگہ لکھا ہے اور بار ہا ذکر بھی فرماتے تھے کہ قرآن شریف چونکہ خدا کی آخری شریعت ہے اس لئے اسے ایک روحانی علم کے رنگ میں بنایا گیا ہے.جس کے اندر بے شمار علمی اور روحانی خزا نے مخفی ہیں.جو حسب ضرورت زمانہ اور حسب استعداد مفکرین ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا.بلکہ جس طرح ہمارا مادی عالم ہر زمانہ کی مادی ضروریات کو پورا کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا.حتی کہ حضرت آدم اور حضرت نوح اور حضرت ابرا ہیم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کے زمانہ میں بھی یہی مادی عالم دنیا کی محدود اور سادہ ضرورتوں کا ذخیرہ تھا.اور اب موجودہ ترقی یافتہ دنیا کی وسیع اور گونا گوں ضرورتوں کا سامان بھی اسی مادی عالم میں سے نکلتا چلا آ رہا ہے.اسی طرح یہ روحانی عالم یعنی قرآن مجید بھی تمام زمانوں کی روحانی ضروریات کو اپنے اندر لئے ہوئے ہیں.جو مَانُنَزِّلُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوم ۲۸ کے اصول کے ماتحت ہر زمانہ کی حاجت کے مطابق ظاہر ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ امسیح اول رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان کثیر التعداد علمی اور روحانی خزانوں کو ظاہر فرمایا ہے.جو موجودہ زمانہ کے لئے ازل سے قرآن شریف کے اندر ودیعت کئے گئے تھے.اور یہ سلسلہ انشاءاللہ سچے مومنوں کے ساتھ قیامت تک چلتا چلا جائے گا.اسی تعلق میں ایک چھوٹا سا تازہ واقعہ احباب کی دلچسپی کے لئے درج کرتا ہوں کہ کس طرح قرآن شریف کے مختصر اور بظاہر سادہ الفاظ میں وسیع معانی مخفی ہوتے ہیں.گزشتہ رمضان کے مہینہ میں جبکہ میں ڈلہوزی میں ایک دن غروب آفتاب کے قریب قرآن شریف کی تلاوت کر رہا تھا تو میں نے اس تلاوت کے دوران میں سورہ بلد کی مندرجہ ذیل آیات بھی پڑھیں :- الَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ وَلِسَانًا وَّ شَفَتَيْن وَهَدَيْنَهُ النَّجْدَيْنِ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ فَى رَقَبَةٍ أَوْ إِطْعَمْ فِي يَوْمٍ ذِى مَسْغَبَةٍ يَّتِيمًا ذَامَقْرَبَةً أَوْ مِسْكِينًا ذَامَتْرَبَةٍ ۲۹ یعنی کیا ہم نے انسان کو دو آنکھیں نہیں دیں.اور ایک زبان اور دو ہونٹ عطا نہیں

Page 662

مضامین بشیر کئے.اور اسے بلندی کے راستے نہیں دکھائے ؟ مگر (افسوس ) کہ پھر بھی وہ پورے زور اور سرعت کے ساتھ اس بلند گھاٹی کی طرف قدم نہیں بڑھا تا ( جو خود اسی کی ترقی کے لئے مقرر کی گئی ہے ) اور کیا تم جانتے ہو کہ یہ بلند گھائی کیا ہے؟ سنو کہ وہ بنی نوع انسان کی گردن کو (ظاہری اور باطنی ) غلامی سے آزاد کرانے اور بھوک اور قحط کے اوقات میں کھانا کھلانے میں مرکوز ہے (خصوصاً ) ایسے یتیم کو کھانا کھلانا جو یتیم کے علاوہ رشتہ داری کا حق بھی رکھتا ہے اور پھر ایسے بے بس مسکین کو کھانا کھلا نا جو غربت کے علاوہ اپنی انتہائی پستی میں خاک افتادہ بھی ہے.“ جب میں ان آیات پر پہونچا جن میں یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کا ذکر ہے تو میں نے خیال کیا کہ ہمارا خدا تیموں اور مسکینوں کا کتنا زبردست حامی ہے کہ ان کی خدمت کو ایک روحانی گھائی کے طور پر ظاہر کر کے گویا انسانی نجات کا ذریعہ قرار دے دیا ہے.مگر ساتھ ہی میرے دل میں یہ کھٹک پیدا ہوئی کہ ایک یتیم رشتہ دار کو صرف روٹی دے دینا یا ایک خاک افتادہ مسکین کو صرف کھانا کھلا دینا بے شک ایک قابل قدر نیکی ہے.مگر یہ کوئی ایسی اعلیٰ درجہ کی نیکی نہیں جسے گویا ایک عظیم الشان روحانی گھائی کے لفظ سے تعبیر کیا جائے.خصوصاً جبکہ محض کھانا کھلانا ایسے رنگ میں بھی ہوسکتا ہے جس طرح کہ مثلاً اعلیٰ ذات کے ہند و پنچ ذات کے لوگوں کو روٹی دیتے ہیں.جس میں ہمدردی اور اعانت کی بجائے تحقیر کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا ہے.کیونکہ اس ڈر سے کہ کہیں اس غریب کے جسم کا کوئی ناپاک حصہ ان کے پاک جسم کے ساتھ نہ چھوئے وہ خود تو پرے پرے سمٹتے جاتے ہیں.اور اپنے ہاتھ کو لمبا کر کے اس غریب کی طرف روٹی پھینک دیتے ہیں.بلکہ میں نے یہ خیال کیا کہ محض روٹی دینا تو اس رنگ میں بھی ہو سکتا ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی گلی کے کتے کو روٹی ڈال دیتا ہے.پس میرے دل نے کہا کہ اسلام کا رحیم وکریم خدا محض کھانا کھلانے کی نیکی کو اس شاندار صورت میں پیش نہیں کر سکتا جیسا کہ ان آیات میں کیا گیا ہے.خصوصاً جبکہ قرآن نے مسکیناً کے لفظ کے ساتھ ذا متربة کے الفاظ بھی زیادہ کئے ہیں.جس کا یہ مطلب ہے کہ ایسا مسکین جو اپنی پستی میں گویا خاک افتادہ ہے.اور مٹی کے اندرلت پت ہو رہا ہے.کھانا کھلانا بیشک ایک بھوکے کی بھوک کا علاج تو ہے اور اپنے اندر قابل تعریف ہے.مگر یہ جو خدائے حکیم نے مسکیناً کے لفظ کے ساتھ ذا متربة کے الفاظ زیادہ کئے ہیں.یعنی ”خاک افتادہ مسکین.سو اس خاک افتادگی کا بھی تو کوئی علاج مذکور ہونا چاہیئے.ورنہ نیکی ادھوری رہے گی اور بیماری کا ایک حصہ اسی طرح قائم چلا جائے گا.میں اسی فکر میں غلطاں و پیچاں تھا کہ اچانک بجلی کی طرح میرے دل میں یہ خیال آیا کہ لغت

Page 663

مضامین بشیر میں اطعام کا لفظ دیکھا چاہیئے.کیونکہ ممکن ہے کہ اسی لفظ کے مفہوم میں ذا متربة کی حالت کا بھی کوئی علاج موجود ہو.اور جب میں نے لغت کو دیکھا تو میری روح اپنے حکیم وعلیم خدا کے سامنے بے اختیار ہو کر سجدہ میں گرگئی کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ عربی زبان میں اطعام کے معنی صرف کھانا کھلانے کے ہی نہیں ہیں بلکہ دو پودوں کو آپس میں ملا کر پیوند کے ذریعہ باندھ دینے کے بھی ہیں.چنانچہ مسجد میں ( اسی وقت سفر کی حالت میں یہی چھوٹی سی لغت میرے پاس تھی ) اطعم الغصن کے یہ معنی لکھے تھے کہ : ” وصــل بــه غصــنــا مــن غيــر شجره ليكون من جنس الشجرة الماخوذة منها ذالك الغصن يعني اطعام کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں کہ ایک پودے کی شاخ کو دوسرے پودے کیسا تھ اس طرح جوڑ دیا جائے کہ موخر الذکر پورا مقدم الذکر پودے کے ساتھ پیوند ہوکر اس کا ہم جنس ہو جائے.اس وقت مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ مبارک ارشاد یاد آیا جو حضور نے ایک دفعہ میاں عبداللہ صاحب سنوری مرحوم کو مخاطب کر کے فرمایا تھا اور وہ سیرۃ المہدی میں چھپ چکا ہے کہ : میاں عبداللہ ! جہاں قرآن شریف میں کوئی عبارت کھٹکے اور کوئی اعتراض پیدا ہوتا نظر آئے تو سمجھو کہ وہیں یا اس کے آس پاس کوئی خاص علمی یا روحانی خزانہ مخفی ہے.‘۳۰ میں نے درود بھیجا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جن کے ذریعہ اس زمانہ میں قرآنی علوم کا ظہور ہوا اور میں نے درود بھیجا آپ کے آقا اور مقتداء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر جن کے ذریعہ ہمیں ایسی مبارک کتاب حاصل ہوئی.جس میں بنی نوع انسان کے پست حال طبقہ کی صرف مالی بہبود کا ہی سامان موجود نہیں بلکہ جذبات کے التزام اور ان کی گری ہوئی ذہنیتوں کے بلند کرنے کا بھی پورا پورا انتظام موجود ہے.اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ قرآن اس خدا کا کلام ہے جو اسی طرح غریبوں کا بھی خدا ہے جس طرح کہ وہ امیروں کا خدا ہے اور جب کہ قرآنی وحی کا منزل علیہ وہ پاک انسان ہے جس کی زبان پر اس دنیا میں آخری الفاظ یہ تھے کہ : الصلوة و ما ملكت ايمانكما و یعنی دیکھنا میرے بعد ( خدا کے حق ) نماز کو اور ( مخلوق کے حق ) غلاموں اور

Page 664

مضامین بشیر بے بسوں کی امداد کو نہ بھول جانا.“ اب گویا قرآنی آیات اور طعام في يوم ذى مسبغة.يتيماً ذا مقربة او مسكينا ذا متربة کے پورے معنی یہ ہوئے کہ بھوک اور تنگی کے ایام میں کھانا کھلاؤ.یتیموں کو جو تمہارے قریبی ہیں اور کھانا کھلاؤ مسکینوں کو جو اپنی پستی میں خاک افتادہ ہیں.مگر یہ کھانا کھلا نا اس طرح نہیں ہونا چاہیئے جس طرح ایک فرعون فطرت انسان اپنے دروازہ پر آنے والے سوالیوں کو کچھ دے دیتا ہے.اور خود اپنے ناک پر رومال رکھتے ہوئے ان سے پرے پرے ہٹتا جاتا ہے.یا جس طرح ایک شخص کسی کتے کو کوئی روٹی کا ٹکڑا ڈال دیتا ہے اور ساتھ ہی اسے دھتکارتا بھی جاتا ہے بلکہ یہ کھانا کھلانا اس طرح ہونا چاہیئے جس طرح دو پودوں کی شاخیں پیوند کے ذریعہ آپس میں ملا دی جاتی ہیں.یتیم کو اس لئے کہ وہ ذا مقربۃ ہے اور ہمارے ہی جسم کا ایک حصہ بے سہارا ہو کر کٹ چکا ہے.اور مسکین کو اس لئے کہ وہ ذا متربة ہے اور جب کسی قوم کا کوئی حصہ اتنا گر چکا ہو کہ گویا خاک میں لت پت ہو رہا ہے.تو اسے محض روٹی دے دینا اور اسے مٹی میں سے اٹھانے کا انتظام نہ کرنا گویا بنی نوع انسان کے ایک عضو کو کاٹ دینا ہے جو بالآخر ساری قوم کی تباہی کا موجب بن جاتا ہے.ہندوؤں نے کاسٹ سسٹم اور ذات پات کے ظالمانہ اصول مقرر کر کے اپنی قوم کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا.حضرت عیسٹی نے بچوں کی روٹی کو کتوں کے آگے ڈالنے سے انکار کیا اور ان کے مغربی نام لیوؤں نے تمام مشرقی اقوام کو غلاموں سے بدتر جانا اور مٹی میں گرے ہوئے لوگوں کو مٹی سے اٹھانے کی بجائے اور بھی مٹی میں دبانا چاہا مگر صرف اسلام کا نبی ہی وہ نبی ہے اور صرف اسلام کی کتاب ہی وہ کتاب ہے جس نے تمام انسانوں کو انسان سمجھا اور یہ زریں ہدایت جاری کی کہ اگر ترقی کی گھاٹی پر چڑھنے کے آرزومند ہو تو اپنے ساتھ ان تمام گرے ہوئے لوگوں کو بھی اٹھانا ہو گا جو تمہارے پہلو میں خاک افتادہ پڑے ہیں.اللهم صل على محمد وعلى آل محمد و بارک وسلم.الغرض اطعام کے لفظ کے ان معنوں نے جو جوڑ ملانے اور پیوند باندھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور جو لغت عرب سے ثابت ہیں.نہ صرف قرآن شریف کا کمال ہی ظاہر کیا ہے کہ کس طرح ایک ہی لفظ کے استعمال سے متعد داور وسیع معنی پیدا کر لئے جاتے ہیں.بلکہ اسلامی تعلیم کی ایک دلکش خوبی سے بھی نقاب کشائی کی ہے کہ اسلام صرف یہی نہیں چاہتا کہ غریبوں کو روٹی مل جائے اور بس.بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ خاک افتادہ لوگوں کو مٹی میں سے اٹھا کر ترقی یافتہ لوگوں کے پہلو بہ پہلو کھڑا کر دیا جائے اور آیت میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ کام خود ترقی یافتہ لوگوں کے ہاتھ سے ہونا چاہیئے.کیونکہ اس

Page 665

مضامین بشیر کے بغیر ان کے بگڑے ہوئے دماغوں کی اصلاح نہیں ہو سکتی.اور پھر اس انکشاف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس خیال کی بھی تصدیق ہو گئی کہ قرآن شریف میں جہاں کہیں بھی کوئی کھٹک پیدا ہو یا کوئی اعتراض کا پہلو نظر آئے تو اس میں غور کرنے یا اس کے آس پاس نظر ڈالنے سے صرف اسی کا حل ہی نہیں مل جاتا بلکہ کوئی نہ کوئی نیا علمی یا روحانی خزا نہ بھی نکل آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قرآن کریم کے متعلق کیا خوب فرماتے ہیں : - شکر خدائے رحماں جس نے دیا ہے قرآن غنچے تھے سارے پہلے اب گل کھلا یہی ہے کیا وصف اس کے کہنا ہر حرف اس کا گہنا دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا یہی ہے ہیں سب کتابیں مجمل ہیں جیسے خوا ہیں خالی ہیں ان کی قابیں خوانِ ہوئی یہی ہے دیکھی پایا ہے اس نے خدا ملایا وہ یار اس سے راتیں تھیں جتنی گذریں اب دن چڑھا یہی کہتے ہیں حسن یوسف دلکش بہت تھا لیکن خوبی و دلبری میں سب سے سوا یہی ہے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے.۳۲ ( مطبوعه الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۴۵ء)

Page 666

۶۵۹ مضامین بشیر قادیان اور اس کے گرد و نواح میں زمین خریدنے والوں کے لئے ایک ضروری اعلان بعض اصحاب قادیان میں ہمارے دخیل کاروں کے ساتھ ان کی زیر قبضہ زمین کے متعلق بیع و رہن وغیرہ کی گفتگو شروع کر دیتے ہیں.ایسے جملہ اصحاب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے جیسا کہ پہلے بھی متعدد مرتبہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ دخیل کا ران اپنی زیر قبضہ زمین کے مالک نہیں ہیں.بلکہ محض مزارعان موروثی ہیں ، جنہیں اپنی زمین کے رہن رکھنے یا بیچ کرنے یا زراعت کے سوا کسی اور استعمال میں لانے کا حق حاصل نہیں ہے.پس آیندہ کوئی صاحب ہمارے دخلی کا روں کے ساتھ بیع ورہن وغیرہ کی گفتگو کر کے اپنا نقصان نہ کریں.باقی رہا یہ امر کہ مالکان اراضی کی اجازت کے ساتھ اراضی دخیل کاری حاصل کی جائے.سو گو قا نو نا ایسا ہونا ممکن ہے لیکن چونکہ اس سے مالکان کے حقوق پر وسیع اثر پڑتا ہے اور کئی قسم کی مشکلات اور نا گوار حالات کے پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے.اس کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس قسم کی اجازت نہیں دی جائے گی.لہذا احباب کو چاہیئے کہ ایسی اجازت حاصل کرنے کے در پے بھی نہ ہوں.علاوہ ازیں قادیان کے گردو نواح میں تین گاؤں ایسے ہیں جہاں کے باشندگان اپنی اراضیات کے کامل مالک نہیں ہیں بلکہ صرف مالک ادنی ہیں اور ملکیت اعلیٰ کے حقوق ہمارے خاندان کو حاصل ہیں.یہ دیہات منگل باغباناں اور بھینی بانگر اور کھارا ہیں.احباب کو چاہیئے کہ ان دیہات میں بھی کوئی سودا مالکانِ اعلیٰ کی پیشگی اور تحریری اجازت حاصل کرنے کے بغیر نہ کریں.یہ پابندی ان دیہات کے قدیم اور اصل باشندگان کے سوا باقی سب احباب پر عائد ہو گی خواہ وہ اس سے قبل ان دیہات میں کوئی اراضی حاصل کر چکے ہوں یا آئیندہ کرنا چاہیے.خلاصہ یہ کہ قادیان کی اراضی دخلی کاری کی خرید وربن وغیرہ بہر صورت منع ہے اور کسی صورت میں بھی اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور جو شخص ایسا سودا کرے گا وہ اپنے نقصان کا خود ذمہ دار ہوگا.اور منگل اور بھینی اور کھارا کی اراضیات ملکیت ادنی کے لئے مالکان اعلیٰ کی پیشگی اور تحریری

Page 667

مضامین بشیر ۶۶۰ اجازت ضروری ہے.جس کے بغیر سودا نا جائز سمجھا جائے گا اور قابل منسوخی ہوگا.امید ہے کہ اس واضح اور مکرر اعلان کے بعد کوئی صاحب اس اعلان کے خلاف قدم اٹھا کر اپنے نقصان اور ہماری پریشانی کا باعث نہیں بنیں گے.( مطبوعه الفضل یکم نومبر ۱۹۴۵ء)

Page 668

۶۶۱ ایک غلطی کا ازالہ مضامین بشیر جور وئدا ومجلس مذہب وسائنس کے اجلاس مورخہ یکم نومبر کے تعلق میں الفضل میں شائع ہوئی ہے اس میں رپورٹ کنندہ ( یعنی اسٹنٹ سیکرٹری مجلس ) کی غلطی سے ایک ایسی بات بھی شائع ہوگئی ہے.جو تعلیم اسلام اور روایات سلسلہ ہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ حقیقیہ واقعہ کے بھی خلاف ہے.رپورٹ میں یہ شائع ہوا ہے کہ یہ اجلاس حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی میں مولوی ابوالعطاء صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا تھا.حالانکہ امام کی موجودگی میں کسی دوسرے کی صدارت کیا معنی رکھتی ہے.حق یہ ہے کہ چونکہ اس اجلاس میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ پہلی دفعہ شرکت فرما رہے تھے.اس لئے اس غرض سے کہ حضور کو مجلس کے طریقہ کا ر سے اطلاع ہو جائے.اور حضور آئیندہ کے لئے ضروری ہدایات جاری فرما سکیں.مولانا ابوالعطاء صاحب کو جلسہ کی کارروائی یعنی مقررین کے بلانے اور سوال کرنے والوں کو سوال کا موقع دینے کے لئے مقرر کیا گیا تھا.اور اس بات کا اعلان کرتے ہوئے یہ صراحت کر دی گئی تھی کہ اصل صدارت تو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ ہی کی ہے لیکن حضور کی منظوری کے تابع یعنی اگر حضور ا جازت فرمائیں تو مجلس کا طریق کار بتانے کے لئے مولوی ابوالعطاء صاحب کی خدمت میں جو پہلے سے اس کام کے لئے مقرر تھے ، جلسہ کی کارروائی چلانے کے لئے درخواست کی جاتی ہے.مگر رپورٹ کنندہ نے غلطی سے اسے یوں بیان کر دیا ہے کہ مولوی ابوالعطاء صاحب کی صدارت میں جلسہ ہوا جو صریحاً خلاف آداب خلافت ہے کیونکہ امام کی موجودگی میں کوئی دوسرا شخص صدر نہیں ہو سکتا.سوائے اس کے کہ خود امام کی طرف سے جیسا کہ مجلس مشاورت میں ہوتا ہے کسی کو کارروائی کے کام میں امداد کے لئے مقرر کر دیا جائے.( مطبوعه الفضل ۹ نومبر ۱۹۴۵ء)

Page 669

مضامین بشیر ۶۶۲ حضرت ام المومنین اطال اللہ بقاءِ ھا کے خط کا نمونہ ہمارے احمد یہ فروٹ فارم قادیان میں مالٹوں کے چار پودے خصوصیت سے اچھے نکلے تھے جن پر میں نے یہ چار پودے حضرت اماں جان اطال اللہ ظلہا کے لئے وقف کر دئیے.آج انہوں نے ان پودوں کا پھل اتر وایا تو اس پھل میں اپنے عزیزوں کو حصہ دار بنانے کے لئے مجھے اپنے ہاتھ سے مندجہ ذیل نوٹ لکھ ارسال فرمایا کہ ان مالٹوں میں سے اتنے مالٹے اس طرح تقسیم کروا دو.یہ نوٹ چونکہ حضرت اماں جان کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور تقسیم بھی انہوں نے خود اپنے خیال کے مطابق کی ہے.اس لئے میں ان کے اس نوٹ کا عکس یعنی چہ بہ درج ذیل کرتا ہوں تاکہ ان کے ہاتھ کی مبارک یادگار قائم رہ جائے.( مطبوعه الفضل ۳ دسمبر ۱۹۴۵ء ) حضرت ام المومنین کے نوٹ کا چہ بہ درج ذیل ہے.

Page 670

۶۶۳ حضرت ام المومنین کے خط کا ایک اور نمونہ مضامین بشیر چند دن ہوئے میں نے یادگار کی نیت سے حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلہا کے خط کا نمونہ الفضل میں شائع کرایا تھا.اس کے بعد مجھے ایک زیادہ اہم امر کے تعلق میں بھی حضرت اماں جان کے خط کا نمونہ مل گیا ہے، جو درج ذیل کرتا ہوں.اس کے مختصر حالات یہ ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی تو حضور نے اپنے پیچھے تین انگوٹھیاں چھوڑی تھیں.ایک وہ قدیم انگوٹھی تھی جو ہمارے دادا صاحب کی وفات کے بعد جو ۶ ۷ ۱۸ ء میں ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تیار کروائی تھی.جس میں الیس الله بکاف عبده ۳۳ ( یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے ) والا مشہور الہام درج ہے.دوسری انگوٹھی وہ تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غالباً ۱۸۹۲ء میں یا اس کے قریب تیار کروائی تھی.جس میں حضور کا یہ الہام جو غالبا ۱۸۸۴ء کے قریب کا ہے درج ہے کہ : - " اذْكُرُ نِعْمَتِيَ الَّتِى اَنْعَمُتُ عَلَيْكَ ۳۵ غَرَسُتُ لَكَ بِيَدِى رَحْمَتِي وَقُدْرَتِي ٣٦ یعنی میری اس نعمت کو یاد کر جو میں نے تجھ پر کی ہے.میں نے تیرے لئے اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور قدرت کا درخت لگایا ہے.“ اور تیسری انگوٹھی وہ تھی جو وفات سے کچھ عرصہ قبل یعنی غالباً ۱۹۰۶ ء میں ایک سیالکوٹ کے دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے تیار کروائی تھی اور حضور کی منشاء کے مطابق اس میں " مولا بس “ کے الفاظ کندہ کئے تھے.الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت ام المومنین اطال اللہ بقاء ھانے ارادہ فرمایا کہ یہ تین انگوٹھیاں ہم تین بھائیوں میں تقسیم فرماد ہیں.اور تجویز یہ ہوئی کہ تقسیم کے لئے قرعہ ڈال لیا جائے.چنانچہ تین علیحدہ علیحدہ پرزوں پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ( جو غالباً اس وقت تک ابھی خلیفہ نہیں ہوئے تھے ) اپنے ہاتھ سے ان تینوں انگوٹھیوں کی عبارت لکھی اور پھر حضرت اماں جان نے دعا کرتے ہوئے قرعہ اٹھایا تو اليس الله بکاف عبده والی انگوٹھی حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حصہ میں آئی اور اذكر نعمتى التي انعمت

Page 671

مضامین بشیر ۶۶۴ علیک غرست لک بیدی رحمتی و قدرتی والی انگوٹھی خاکسار راقم الحروف کے حصہ میں آئی اور مولا بس والی انگوٹھی عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے حصہ میں آئی.چنانچہ اسی وقت حضرت اماں جان نے ہر پرزہ پر اپنے ہاتھ سے ہم تینوں بھائیوں کے نام قرعہ کے مطابق لکھ دیئے.گویا ذیل کے نمونہ میں انگوٹھیوں کی عبارت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے.اور نیچے کے نام حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں.جس کا عکس یعنی چر بہ میں ایک مبارک یادگار کے طور پر اخبار الفضل میں شائع کروارہا ہوں.( مطبوعه الفضل ۱۰ دسمبر ۱۹۴۵ء)

Page 672

مضامین بشیر قادیان سے ایک ”امة ، مبلغین کی روانگی کل کا دن ہمارے سلسلہ کی تاریخ کے لحاظ سے ایک غیر معمولی دن تھا کیونکہ خدا کے فضل سے کل پونے تین بجے کی گاڑی سے نو بیرون ہند جانے والے مبلغین قادیان سے بیک وقت اکٹھے روانہ ہوئے.اتنی بڑی تعداد میں کبھی کوئی تبلیغی پارٹی قادیان سے اکٹھی روا نہ نہیں ہوئی.فالحمد لله علی ذالک.مجھے کل ریلوے سٹیشن کی طرف جاتے ہوئے دل میں بار بار خیال آتا تھا کہ خدا کے فضل سے آج اتنے مبلغین کی اکٹھی روانگی ایک غیر معمولی واقعہ ہے.اور ساتھ ہی قرآن شریف کی اس آیت کی طرف خیال گیا کہ : - " وَلْتَكُنْ مِنكُمُ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.۳۷ یعنی اے مسلمانو! تم میں سے ایک امت ایسی ہونی چاہیئے جو ( دوسروں کے لئے نمونہ بنتے ہوئے ) لوگوں کو صداقت کی طرف بلائے اور نیکی کا حکم دے اور بدی سے رو کے اور یہی لوگ با مراد ہونے والے ہیں اس آیت کی طرف خیال جاتے ہی مجھے یہ بھی خیال آیا کہ قرآن شریف نے جماعت کے اندر کی ایک پارٹی کو امۃ“ کے لفظ سے کیوں یاد کیا ہے.کیونکہ بظاہر امۃ کے معنی قوم اور جماعت کے ہیں.تو جب ساری قوم ہی امۃ ہے تو اس کے ایک حصہ کے متعلق اس لفظ کے استعمال کرنے میں ضرور کوئی خاص حکمت ہونی چاہیئے.اس پر میرا خیال قرآن شریف کی اس دوسری آیت کی طرف گیا.جہاں اکیلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امۃ“ کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : - إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ اُمَّةً قَانِنَا لِلهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ٣٨ یعنی ابراہیم اپنی ذات میں ایک امت تھا کیونکہ وہ خدا کا نہائت درجہ فرمانبردار اور اسی کی طرف ہر وقت جھکا رہنے والا تھا اور شرک کی ہر نوع سے مجتنب رہتا تھا.

Page 673

مضامین بشیر ۶۶۶ اس آیت کی طرف خیال جانے پر مجھے یہ نکتہ حاصل ہوا کہ گوامۃ کے لفظ کے اصل معنی ایسی جماعت یا ایسی قوم کے ہیں جو کسی جہت سے ( خواہ یہ جہت خیالات سے تعلق رکھتی ہو یا تمدن سے یا زمانہ سے ) با ہم اشتراک رکھتے ہوں مگر جب ایک جماعت کا کوئی حصہ بلکہ کوئی فرد واحد بھی اپنے اندر بالقوة طور پر جماعت والے اوصاف پیدا کرے.اور ایک نیوکلیس یعنی مرکزی نقطہ بن کر دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے لگ جائے تو خدا کی نظر میں یہ حصہ جماعت یا یہ فرد ہی ,, 66 جماعت کا رنگ اختیار کر لیتا ہے.چنانچہ جب خدا نے حضرت ابراہیم کو ایک امة “ قرار دیا تو اس سے یہی مرا تھی کہ : اول : ابراہیم ایسے ارفع مقام کو پہنچ چکے ہیں کہ وہ گویا خدا کی نظر میں اب ایک جماعت کے قائم مقام بن گئے ہیں اور محض فرد کی حیثیت میں نہیں رہے.دوم یہ کہ ابرا ہیم کو وہ زبردست مقناطیسی شخصیت حاصل ہے کہ اب وہ اکیلے نہیں رہ سکتے.بلکہ جس حال میں بھی ہوں دوسروں کو اپنی طرف کھینچ کر ایک امۃ بن جائیں گے.سوم : یہ کہ ابراہیم کا وجود ایسا قیمتی وجود بن گیا ہے کہ اب خدا اسے کبھی بھی ابتر نہیں رہنے دے گا.بلکہ وہ آئندہ امتوں کے لئے ایک بیج بن جائیں گے.یہ وہی مفہوم ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق زیادہ شاندار صورت میں خاتم النبیین کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.اور خدا تعالیٰ نے جو مبلغین کی جماعت کو امۃ کے لفظ سے یا د فر مایا ہے.اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ یہ حصہ گو بڑی جماعت کا ایک قلیل حصہ ہے.مگر اسے چھوٹا نہ سمجھو بلکہ دراصل یہ حصہ ایک امة کے حکم میں ہے، جس کے ساتھ تمہاری ساری ترقیوں کے تارا لجھے ہوئے ہیں.اور اسی حصہ سے دوسروں کو نمو نہ حاصل کرنا چاہیئے.دراصل امۃ کا لفظ اُم کے روٹ سے نکلا ہے.جس کے معنی کسی دوسری چیز کی طرف قصد کرنے کے ہیں.چنانچہ ماں کو اُم اسی لئے کہتے ہیں کہ بچہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے.اور امسام کو بھی اسی لئے امسام کہتے ہیں کہ وہ گویا اپنے پیروؤں کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے.جس کی طرف سب لوگ دیکھتے ہیں.اور اس سے نمونہ حاصل کرتے ہیں اور سامنے والے حصہ کو امام کہتے ہیں کیونکہ انسان اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے.اس جہت سے یہ سمجھنا چاہیئے کہ سب مسلمان امۃ ہیں.کیونکہ وہ ایک مشترکہ نظام میں منسلک ہو کر دوسری قوموں کے لئے ایک نمونہ بنتے ہیں.اور پھر مسلمانوں کا وہ حصہ جو دین کی خدمت کے لئے وقف رہتا ہے وہ بھی ایک اہمۃ ہے.کیونکہ وہ باقی ساری جماعت کے لئے اسوہ ہوتا ہے.اور پھر جماعت کے خاص افراد بھی امة ہونے چاہئیں.کیونکہ وہ جماعت کے سہارے کا باعث اور اس کے لئے نمونہ ہوتے ہیں.اور

Page 674

۶۶۷ مضامین بشیر قرآن شریف نے افراد کے امۃ بننے کا گر بھی بتا دیا ہے.کہ انہیں اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرنے چاہئیں کہ اول وہ قانت ہوں یعنی خدا کے فرمانبردار اور دوم وہ حنیف ہوں یعنی ہر وقت خدا کی طرف جھکے رہنے والے اور سوم وہ مشرک نہ ہوں.یعنی ہر نوع کے شرک ( خفی و جلی ) سے گلی طور پر مجتنب رہیں.انہی اوصاف نے حضرت ابراہیم کو امۃ بنایا.اور انہی اوصاف کو اپنے اندر پیدا کر کے اب ہم لوگ امۃ بن سکتے ہیں.مگر اس جگہ یہ خیال رہے کہ یہاں لم یک من المشرکین سے عام شرک مراد نہیں ہے اور نہ ایک عالی شان نبی کے لئے عام شرک کی نفی کوئی قابل ذکر چیز ہے.بلکہ اس سے ہر قسم کے ظاہری اور باطنی شرک سے کامل اجتناب مراد ہے جو صرف خواص کو ہی حاصل ہوتا ہے.قرآن شریف نے جو مبلغین کی جماعت کو امۃ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے.اس کے بھی تین اوصاف ضروری ہیں.اول يدعون الى الخیر یعنی وہ منکرین کو حق و صداقت کی طرف بلانے ولے ہوں.اور اس راستہ پر صبر و استقلال کے ساتھ قائم رہیں.جیسا کہ یدعون کے صیغہ میں اشارہ ہے دوم یا مرون بالمعروف یعنی جو لوگ ان کی دعوت کو قبول کریں.انہیں وہ یونہی نہ چھوڑ دیں بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کریں.اور جس دینِ حق کو انہوں نے قبول کیا ہے.اس کی تعلیم پر انہیں کار بند کرائیں.یعنی پہلے تعلیم سکھائیں.اور پھر اس تعلیم پر عمل کرا ئیں.اور سوم ينهون عن المنکر یعنی تعلیم سکھا کر اور اس پر عمل کروا کے بھی وہ مطمئن نہ ہو جائیں.بلکہ اس بات کی نگرانی رکھیں کہ یہ لوگ پھر عمل باطل کی طرف نہ لوٹ جائیں.اور یہ سلسلہ نسلاً بعد نسل چلتا چلا جائے.پھر عجیب بات یہ ہے کہ قرآن شریف نے اس آیت میں ولتــكــن فـيــكــم امۃ نہیں فرمایا بلکہ ولتكن منكم امة فرمایا ہے.یعنی فیکم کی جگہ جو اس جگہ بظا ہر زیادہ موزوں نظر آتا ہے.منکم کا لفظ رکھا ہے.اس میں یہ لطیف اشارہ مقصود ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ کسی وقت اتفاقی طور پر مسلمانوں میں مبلغین کی کوئی پارٹی پائی جائے اور بس بلکہ اس تعلق میں ان کے اندر منکم کا نظارہ نظر آنا چاہیئے.یعنی یہ پارٹی اسلامی ماحول میں تربیت یافتہ لوگوں کی ہونی چاہیئے اور ہر زمانہ میں پیدا ہوتی رہنی چاہیئے.گویا جس طرح زمین میں سے فصل اگتی ہے اسی طرح مسلمانوں کی جماعت میں سے ایک مبلغین کی امۃ “ ہر زمانہ میں پیدا ہوتی رہے.اور منکم کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ جس چیز سے ایک اعلیٰ چیز نے پیدا ہونا ہوا سے خود بھی اچھی حالت میں رکھنا چاہیئے کیونکہ صرف اچھی زمین ہی اچھی فصل پیدا کر سکتی ہے.پس ضروری ہے کہ عام جماعت کی حالت بھی اچھی رکھی جائے ورنہ اس

Page 675

مضامین بشیر ۶۶۸ سے پیدا ہونے والی چیز پر بھی اثر پڑے گا.ان خیالات کے بعد میں یہ دعا کرتا ہوا گھر کو لوٹا کہ اے خدا تو ہم پر اپنا فضل فرما کہ ہم بحیثیت مجموعی بھی امۃ نہیں.یعنی دوسری قوموں کے لئے اعلیٰ نمونہ ہوں اور پھر ہمارے اندر بھی ایک امۃ کہلانے والا حصہ پیدا ہوتا رہے جو گویا ہمارا قومی جو ہر ہو.جن کی زندگیاں کلیتہ دین کی خدمت کے لئے وقف ہوں اور بالآخر ہمارے اندر وہ افراد بھی پیدا ہوتے رہیں جوا کیلے اپنی ذات میں امۃ کہلانے کا حق رکھیں.جس طرح خدا کی نظر میں حضرت ابرا ہیم امة سمجھے گئے.امین یارب العالمین.( مطبوعه الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۴۵ء)

Page 676

۶۶۹ مضامین بشیر مجلس مذہب و سائنس کی مالی اعانت فرمانے والے احباب کا شکریہ سید نا حضرت مصلح موعود امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واطال بقاء نے مجلس مذہب و سائنس کا قیام نہائت اہم اغراض کے ماتحت فر مایا تھا.اور اجازت فرمائی تھی کہ مجلس کے کام کو چلانے مرکز سلسلہ میں علمی لائیبریری کے قائم کرنے اور مجلس کے طیار کردہ لٹریچر کی اشاعت کے لئے احباب جماعت میں تحریک کر کے چندہ جمع کیا جائے.چنانچہ اخبار الفضل اور خطوط کے ذریعے سے ذی استطاعت مخلصین کی خدمت میں اس کارِ خیر میں حصہ لینے کی درخواست کی گئی تھی.جن احباب نے اس تحریک کی اہمیت کو سمجھ کر لبیک کہا اور مالی اعانت فرمائی.مجلس کی طرف سے ان کی خدمت میں شکریہ کے خط بھجوائے جاچکے ہیں.اور اب اس اعلان کے ذریعے سے شکر یہ ادا کیا جاتا ہے.فجزاهم الله احسن الجزا في الدنيا والآخرة - مجلس کا کام ابھی تک ابتدائی حالت میں ہے.مگر ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے امید کرتے ہیں کہ حضور کی اس بابرکت سکیم کے ماتحت جو لٹریچر پیدا کیا جائے گا.وہ انشاء اللہ تعالیٰ موجودہ مادی علوم کے مقابلہ میں اسلام کے غلبہ اور احمدیت کی فتح کا موجب ہوگا.اور تبلیغی نکتہ نظر سے بالخصوص اہل علم طبقہ میں بہت مفید ثابت ہوگا.انشاء الله تعالى و على الله توكلنا فنعم المولى ونعم الوكيل.جن احباب نے اس نیک تحریک میں ابھی تک حصہ نہیں لیا ان سے گزارش ہے کہ وہ بھی نہایت مفید تحریک کی اہمیت کا احساس فرماتے ہوئے حسب توفیق واستطاعت مالی اعانت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں.تا کہ اس کام کو جلد سے جلد مکمل جامہ عمل پہنایا جا سکے.امید ہے کہ ذی ثروت مخلصین جلد توجہ فرما کر ہمیں ممنون فرمائیں گے.یہ چندہ محاسب صد را انجمن احمد یہ قادیان کے نام صیغہ امانت مجلس مذہب و سائنس میں جمع کروایا جائے.جزاکم الله خيراً ( مطبوعه الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۴۵ء)

Page 677

مضامین بشیر ۶۷۰ حوالہ جات ۱۹۴۵ء ا.الحجر :۲۲ الروم : ۴۰ ٣- التوبة : ١٠٣ كَانُوا.صحیح البخارى كتاب الذكوة باب أَخْذِ الصَّدَقَةِ مِنَ الَّا غْنِيَاءِ وَتُرَدُّ فِي الْفُقَرَاءِ حَيْثُ ۵.سنن النسائی کتاب الذكوة باب سقوط الزكواة عن الابل اذا كانت رسلاً لاهلها ولحمولتهم صحیح البخاری کتاب الاذان باب مَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَذَكَرَحَاجَةٌ فَتَخَطَّاهُمُ.ے.سنن النسائی کتاب الذكوة باب عقوبة مانع الذكواة.ابوداؤ د کتاب الزکوۃ باب ائن تصدق الاموال - ۹ صحیح البخاری کتاب الصوم ـ باب اجود ماكان النبي في رمضان صحیح المسلم کتاب الایمان باب بيان ان الاسلام بَدَأَ غريبًا وسيعود غريبًا وانه یارز بين المسجدين اا.اتحاف السادة المتقين بشرح احياء علوم الدين - كتاب ذم بخل وحب المال بيان ذم الغنى ومدح الفقر - ۱۲.اشتہار خطبہ الہامیہ مجموعہ اشتہارات جلد سوم از ۱۸۸۸ء تا ۱۹۰۸ ء صفحه ۲۸۹ ۱۳.تذکره صفحه ۳ ۸ طبع ۲۰۰۴ء ۱۴.تذکره صفحه ۸۳ حاشیہ (الف ) طبع ۲۰۰۴ء ۱۵.تذکره صفحه ۸۲ حاشیہ (الف ) طبع ۲۰۰۴ء ۱۶.تذکره صفحه ۴۰۸ - ۵۴۵ حاشیه ( الف ) طبع ۲۰۰۴ء ۱۷.تذکرہ صفحہ ۱۳۱ حاشیہ ( الف ) طبع ۲۰۰۴ء

Page 678

۶۷۱ مضامین بشیر ۱۸.تذکره صفحه ۱۰۰ تا ۱۰۲ حاشیه ( الف ) طبع ۲۰۰۴ء ۱۹.اشتہار خطبہ الہامیہ.مجموعہ اشتہارات جلد سوم - از ۱۸۸۸ء تا ۱۹۰۸ء صفحه ۲۸۸ تا ۲۹۳ ۲۰ - فتوحات مکیہ جلد ۳ صفحه ۵۴۹ طبع دار الكتب العربیه الکبری ۲۱.انسائیکلو پیڈیا برٹین کا ایڈیشن نمبر ۴ جلد ۴ صفحہ ۷۶۷ ۲۲.سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور.مورخہ ۲۲ اپریل ۱۹۴۵ء ۲۳ - ال عمران : ۱۰۴ ۲۴ - صحیح البخاری کتاب الطلاق ـ باب فى الإيلاء واعتزال النساء وتخيير هن، وقوله تعالى وان تظاهرا عليه.۲۵.سنن الترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء فِي الشَّكْرِ لِمَنْ اَحْسَنُ إِلَيْكَ ۲۶.المائده : ۴۹ ۲۷.اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء ۲۸ - الحجر : ۲۲ ۲۹ - البلد : ۹ تا ۱۷ ۳۰.سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۱۶۲.طبع اوّل (مفہوماً ) ۳۱ - مدارج النبوة اردو تر جمه صفحه ۶۳۸ ۳۲.قادیان کے آریہ اور ہم.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۵۵ - ۴۵۷ ۳۳ تذکره صفحه ۲۰ طبع ۲۰۰۴ء ۳۴.تذکره صفحه ۵ ۷ طبع ۲۰۰۴ء ۳۵.تذکره صفحه طبع ۲۰۰۴ء ۳۶.تذکرہ صفحہ ۷۲ طبع ۲۰۰۴ء ۳۷ - ال عمران : ۱۰۵ ۳۸.النحل : ۱۲۱

Page 679

آیت فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ وَاغْلُظْ عَلَيْهِم أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ وَدُّوالَوُتُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ وَادْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَبْنِي بِرَسُولٍ يَأْتِي إسْرَاءِ يُلَ مِنْ بَعْدِى اسْمُةٌ أَحْمَدُ لَهُ إِلَّا سُمَاءُ الْحُسْنَى وَقَالَتِ الْيَهُودُ.رهم يَتْلُونَ الْكِتَابَ اشاریہ مضامین بشیر جلد اوّل مرتبہ: عبدالمالک کی آیات قرآنیہ صفحہ نمبر 1 ۱۸ ۲۵ لا يَجْر مَنْكُم شَنَانُ.هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوى ۵۵۳،۲۹۷ ، ۲۹۵،۸۵،۲۵ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا سَخَّرَ لَكُمُ مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي ۲۵ مضامین بشیر آیت صفحہ نمبر الْأَرْضِ جَمِيعًا أَوَلَمْ يَرَوُا إِلَى مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّؤُا ظِللهُ عَن الْيَمِينِ وَالشَّمَائِل سُجَّدَ اللهِ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ 20.7......۷۳ ۸۲ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ ۲۴۹٬۹۰ شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّمَا أَشْكُوَابَتِي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَايَا تِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَا نُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ ونَ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّ بَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ وَمَا كُنَّا مُعَدِّ بِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاحِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَّاحِفَةٌ ۹۳ ۱۴۱ ،۹۷ ۱۴۰ ۱۴۷ ۱۴۹ ۱۷۹،۱۷۳ ۱۷۳ ۱۷۳

Page 680

صفحہ نمبر ۳۱۶ ۳۱۷ ۳۲۷ ۳۸۲ ۳۴۸ ۳۶۱ ۳۶۲ ۳۸۵ ۳۸۷ ۳۸۸ ۳۸۸ ۴۰۲ ۴۰۲ ۴۰۷ ۴۱۰ آیت قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُل := مضامین بشیر آیت صفحہ نمبر أَبْصَارُهَا خَا شِعَةٌ ۱۷۵ وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ انْكَاثًا ۲۳۸ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ....۲۴۱، ۶۰۹،۵۷۳ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَم إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۳۲۸ ۲۴۲ ۲۴۳ ۲۴۳ ۲۴۹ ۲۹۱ ۲۹۴ الا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِن لَّا يَشْعُرُونَ أوْلَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ لَعَنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَادُعُوا وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمُهَا فَإِنَّهُ الِمٌ قَلْبُهُ يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى انْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالاقْرَبِينَ وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ لَعَلَّ اللهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِكَ أَمْرًا مَانَنُسَخُ مِنْ آيَةٍ أَوْنُنُسِهَا وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ يُخْدِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا امَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيْطِينِهِمُ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُ وَنَ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتُ ورَعْدٌ وَبَرُق...كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمُ مَّشَوْا فِيْهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۲۹۴ ۲۹۵ ۲۹۵ ۳۰۱ ۳۰۱ ۳۱۵ ۳۱۶ ۳۱۶ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَابُ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلَيْمَا لَا تَسْتَلُوا عَنْ أَشْيَاءَانُ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ لا يُسْئَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْتَلُونَ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا لا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اَشَدُّوَطًا وَّاقْوَمُ قِيلًا لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ مَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمُ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُ ونَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ

Page 681

آیت لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِيُزُ جَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَانَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ آفَائِنُ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمُ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مُّوَدَّةً ۴۱۱ ۴۱۵ آیت فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْ هَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمُكُتُ فِي الْأَرْضِ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمُ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِلَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ۴۳۳ ارتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنَا يَعْبُدُ وَنَنِي لَا يُشْرِكُونَ ۴۲۲ ۴۵۹ ۴۶۱،۴۶۰ ۴۶۸ بي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ واتُوا النِّسَاءَ صَدُقَتِهِنَّ نِحْلَةً أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِا مُوَالِهِمْ وَ مضامین بشیر صفحہ نمبر ۵۳۸ ۵۳۹ ۵۴۱ ۵۴۸ ۵۷۳ ۵۹۷ ۵۹۸ ۵۹۹ ۶۰۰ ۶۰۳ ۶۰۶ ۶۰۷ ۶۰۸ ۶۰۹ انفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ۴۶۹ وَّرَحْمَةً الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِي فَانِي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوالِـي ۴۹۶ ۴۹۷ ،۴۹۶ ،۱۶۶ وَلْيُؤْمِنُوا بِي......فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْ خُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ إِنَّ اللَّهَ يَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيْتَآى ذِي الْقُرْبَى..لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ يَعِظُكُمْ......۵۰۵ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكُرِكُمْ آبَاءَ كُمُ ۵۲۲ ۵۳۵ أَوْ أَشَدَّ ذِكراً وَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ يَامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر

Page 682

۶۴۹ ۶۵۴ iv مضامین بشیر آیت إِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَانُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ وَمَا آتَيْتُمْ مِّنْ رَّبَّا لِّيَرُ بُوا فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِندَ اللهِ وَمَا آتَيْتُم مِنْ زَكواةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُ هُمُ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَا لَّفَ بَيْنَ قُلُوْ بِكُمْ فَا صُبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةٍ إِخْوَانًا صفحہ نمبر ۶۱۶ آیت لِكُلِّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا مَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ الَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ وَلِسَانًا وَّ شَفَتَين وَهَدَينَهُ النَّجْدَيْنِ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ فَتْ رَقَبَةٍ ۶۱۸ اواطْعَمْ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَّتِيمًا ذَا مَقْرَبَةً أَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةٍ ۲۱۸ وَلَتَكُنْ مِنْكُمُ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الخَيْر وَيَامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةٌ قَانِا لله ۶۴۴ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ

Page 683

حدیث لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالتَرَيَّا كُلُّ امْرِ دِى بَالِ لَا يُبْدَ أُ بِسْمِ اللَّهِ فَهُوَا أَبْتَرُ أَفَلا خَفَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمُ مِنْ أَجُلٍ ذَالِكَ فَالَهَا أُمْ لَا تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنُ أَسْلَمْتَ قَبْلَ ذَالِكَ الْيَوْمِ كَانَ يُحِبُّ التَّيَمُّنَ فِي سَائِرِ أَمْرِهِ كَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنُ بِي وَكَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرُنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَالِكَ مُؤْمِنُ بِي كَافِرُ بِالْكَوْكَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ: بِنَوْءِ كَدَا وَ كَدَاء فَذَالِكَ كَافِرٌ بِي وَ مُؤْمِنُ بِالْكَوْكَبِ أضْلَ اللَّهُ عَنِ الْجُمُعَةِ مَنْ كَانَ قَبْلَنَا، فَكَانَ لِلْيَهُودِ يَوْمُ السَّبْتِ، وَكَانَ لِلْنَصَارَى يَوْمُ الْأَحَدِ، فَجَاءَ الله بنَا، فَهَدَانَا اللَّهُ لِيَوْمِ الْجُمُعَةِ خَيْرُ يَوْم طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ سَبَقَتْ رَحْمَتِي عَلَى عَضَبِي كث اللحية X احادیث نبوی مضامین بشیر صفحہ نمبر Actr......ra......CA.......۴۸ 41.....YP.......21......Ar.......AM.......Ar.......119......حدیث قَصُّوا الشَّوَارِبَ وَأَغْفُوا اللُّحَى خَيْرُ كُمْ خَيْرُ كُمْ لَاهْلِهِ كَلَّا، وَاللَّهِ إِمَا يَحْزُنُكَ اللهُ اَبَداءِ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَ تَقْرِى الصيف، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ كُنْ فِي الدُّنْيَا كَعَا بِرِى سَبِيلٍ صفحہ نمبر 119.......ITQ......فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَحُزنِي إِلَى الله ۱۴۱ 1......هذِهِ بِتُلِكَ الصَّلوةُ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ اللَّهُمَّ بِالرَّفِيقِ الْأَعْلَى اللَّهُمَّ بِالرَّفِيقِ الاعلى طِبْتَ حَيًّا وَمَيّتًا كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ أَخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَهَا أَنَا سَيْدَ وُلْدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ هذِهِ مَكَّةَ قَدْ الْفَتْ إِلَيْكُمُ أَخْلَافَ كَبَدِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ الْفَرَّارُوْنَ عَن أنس بن مَالِكِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَبَنِ قَدُ شِيْبَ بَمَاءِ وَ عَنْ يَمِينُهِ أَعْرَابِيٌّ وَعَنْ IPT......IMA.......IMA......109......101......14..171......

Page 684

مضامین بشیر xi حدیث....الْأَيْمَنُ فَا لَا يُمَنُ صفحہ نمبر حدیث إِنَّ الصَّدْقَةَ لَتُطْفِي غَضَبَ الرَّبَّ اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي.....۲۵۹ فِي كُلَّ ذَاتِ كَبْدٍ حَرَى أَجْرًا مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرُكَهُ مَالَا يَعْنِيهِ أَرْبَعُ مَنْ كُنَّ فِيْهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَ مَنْ كَانَتْ فِيْهِ حَصْلَةٌ مِّنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدُ عَهَا: إِذَا ائْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّتْ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ أَخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَهَا.الْعَيْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ......وَإِنَّا..بِفَرَافِكَ لَمَحْزُونُونَ اذْكُرُوا أَمْوَاتَا كُمُ بِالْخَيْرِ 19.۳۶۳ MZA......MAQ......أَسْلَمْتَ عَلَى مَا أَسْلَفْتَ أَوْاَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ فَتَاعَهَدُ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُوْنَ أوْ يَتَمَتَّى المَتَمَثُونَ، ثُمَّ قُلْتَ يَابَي اللهُ وَيَدْفَعُ وَيَدْفَعُ المَوْمِنُونَ أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَ يَابَى المَؤْمِنُونَ يُدْفَنُ مَعِيَ فِي قَبْرِي أَنَا عِنْدَ ظَنَّ عَبْدِي بِي صفحہ نمبر Q.T.......Dot......۵۴۰۰ ۵۴۴......079......۵۷۳۰۰۰۰۰۰ OLA......مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةِ الْمَرَهُ مَعَ مَنْ أَحَبُّ اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي....۵۹۸ يَتَزَوْجِ وَ يُولَدُلَهُ ۴۰ 9.......اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ افْطَرْتُ...۵۹۹ الرُّؤيَا الصَّالِحَةُ بَرَاهَا الْمُسْلِمُ أَوْتُرَى لَهُ.....۳۱۸ إِذَا أَقِيِّمَتِ الصَّلَوةُ وَحَضَرَ العَشَاءُ فَايُدَوُا بِالعَشَاء وَاسْتَوُصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ خُلِفَنَّ مِنْ ضِلَعِ، وَأَنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضَّلَعِ أَعَلَاهُ، فَإِنْ ذَهَبُتَ تُقِيمُهُ كشر تهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلُ أَعْوَجَ فَاسْتَوُ صُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا أَرِحْنَابَا عَائِشَةُ قَالَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِثَنَا وَ نُحَدِثُهُ فَإِذَا حَضَرَاتِ الصَّلاةُ فَكَأَنَّهُ لَمْ يَعْرِ قُنَا وَ لَمْ نَعْرِفُهُ ۴۲۳ MYY.......۴۷۱ r21.......أَحْيَا اللَّيْلَ وَ أَيْقَظَ أَهْلَهُ، وَجَدَ، وَشَدَّ الْمِنزَرَ أن تَعْبُدُ اللهِ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ صَدَقَةٌ تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ إِلى فُقَرَائِهِمْ..وَمَنْ مَنَعَهَا فَإِنَّا اَخِذُوهَا إِلَّا أَنْ يَّشَاءَ رَبُّهَا لَا جَلْبَ وَلَا جَنْبَ وَلَا تُؤْخَذُ صَدَقَاتُهُمُ إِلَّا فِي دِيَارِهِمْ إنَّ الْأَسْلَامَ بَدَأَ غَرِيبَاً وَ سَيَعُودُ غَرِيباً كَمَا بَدَا أَفَطُوبِي لِلْغُرَبَاءِ الْفَقْرُ فَخْرَى مَنْ لَّمْ يَشْكُرُ النَّاسَ لَمْ يَشْكُر الله اهْتَنَّا عَرْشُ الرَّحْمَنِ لِمَوْتَ سَعْدِ مِنْ مَعَادٍ ۴۸۲۰ الصَّلَوةُ وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ اَللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلى رِزْقِكَ اقْطَرْتُ.....۴۹۹ Y........Y+0......719.......YMI......yrr......yrr.......yrr.......YPA......YOY......

Page 685

مضامین بشیر صفحہ نمبر ۴۳۸ ۴۳۹ ۴۶۶ ۴۷۸ ۵۰۰ ۵۲۶ ۵۴۰ ۵۴۱ ۵۶۹ ۵۸۷ ۵۹۷ ۵۹۸ ۵۹۸ ۵۹۹ vii حدیث خدا اسے ( ابن عباس کو ) دین کا علم عطا کرے.نصف دین اس (حضرت عائشہ ) سے سیکھو.خدیجہ کی یادگار ( ہار ) اس کی بیٹی کو واپس کر دو.حضرت خدیجہ کے متعلق حضرت عائشہؓ کے جذبات رقابت.حضرت عائشہ کو اپنی اوٹ میں لے کر حبشیوں کی تلوار کے کرتب دکھلانا.حضرت عائشہ کی دلداری کی خاطر پانی کے برتن کو وہیں سے منہ لگا کر پانی پینا جہاں سے حضرت عائشہ نے پیا تھا.حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے مذاق آنحضرت کا حضرت حفصہ کو کہنا کہ تم کہتی کہ میرا باپ ، چچا اور خاوند سب خدا کے نبی ہیں.آج تو مکہ کی عزت کا دن ہے.سعد سے سرداری کا جھنڈا لے کر اس کے بیٹے کے سپرد کر دیا جائے.اے انصار کے گروہ! اب تم مجھے جنت میں حوض کوثر پر ملنا.اور جو شخص رمضان میں روزے رکھتا ہے.اس سفلی زندگی کی آلائشوں میں ملوث رہتا ہے.تو خدا کے نزدیک ایسے شخص کا کوئی روزہ نہیں.میرے بعد ایک ایسی قوم آنے والی ہے کہ ان کا کام گویا ہر وقت قرآن خوانی ہو گا.مگر قرآن ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا.احادیث بالمعنى صفحہ نمبر ۶۶ ۸۸ ۱۳۸ حدیث حضرت عبداللہ بن عمر و شہید جنگ احد میں خدا کی راہ میں جان دینے کی خواہش.میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے.مجھے جوامع الکلم عطا کئے گئے ہیں.......۱۳۸ مسلمان کسی کے منہ پر ضرب نہ لگائے.اپنے آخری رمضان میں آنحضور صلی اللہ علیہ ۱۴۳ وسلم نے حضرت جبرئیل کے ساتھ قرآن شریف کا دودفعہ دور کیا.۱۴۳ ۱۴۳ ۱۶۲ ۱۶۳ ۴۱۲ ۴۱۲ سورۃ النصر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر.خدا تمہیں ( حضرت عثمان) کو ایک قمیض پہنائے گا اور لوگ اسے اتارنا چاہیں گے مگر تم اسے نہ اتارنا.مسیح و مہدی کے نزول کے بعد منہاج نبوت پر ظاہری خلافت.اللہ تعالیٰ میری امت میں ستر ہزار لوگوں کو بے حساب بخشش عطا فر مائے گا.پیٹ کی بیماری مومن کے لئے شہادت ہوتی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ کی جزا میں خود ہوں.روزہ کے واسطے جنت کا دروازہ ريَّان“ ہے.رمضان میں جنت کے دروازے کھولے اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں.رمضان میں آپ اس کثرت سے صدقہ و خیرات کرتے جیسے ایک زور سے چلنے والی آندھی ہو.

Page 686

صفحہ نمبر ۶۲۱ ۶۲۳ ۶۴۰ ۶۴۷ viii مضامین بشیر حدیث لیلۃ القدر کو آخری عشرہ کی وتر راتوں میں تلاش کرنا چاہیئے.سحری میں دیر اور افطاری میں جلدی کرنی چاہیئے.سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی سحری کھانے کے دوران اذان ہونے پر ہاتھ کے برتن سے کھایا جا سکتا ہے.یا رسول اللہ ہم پر کون سی باتیں فرض کی گئی ہیں.صفحہ نمبر ۶۰۰ ۶۰۱ ۶۰۱ ۶۰۲ حدیث صدقہ کا مال تقسیم کرنے میں جلدی کرنا.رمضان میں آپ کسی روک کو خاطر میں نہ لانے والی آندھی کی طرح صدقہ دیتے تھے.اس دنیا میں ایک لاکھ آدم گزرا ہے.مجھے اس زندگی کی نعمتوں سے اس سے زیادہ سروکار نہیں جتنا کہ ایک مسافر کو اپنے گردو پیش سے ہوتا ہے.

Page 687

مضامین بشیر ix الہامات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام چو دور خسروی آغاز کردند مسلماں را مسلماں باز کروند ۲ - إِنِّي مَعَكَ وَمَعَ أَهْلِكَ ۳.میں اپنی چہکار دکھلاؤں گا ۳۸۱،۱۱ ۸۸ ۲۰۷ ،۱۷۵ - فَبَرَّاهُ اللهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيها....١٧٦ ۵.فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكَّا ۶.زلزلہ کا ایک دھکا.۷ - عَفَتِ الذِيَارُ مَحَلُّهَا وَمُقَامُهَا - عَفَتِ......وَمُقَامُهَا.إِنِّي.....فِي الدَّار ۹.موتا موتی لگ رہی ہے ۱۰_محونا نار جهنم 11.موت دروازے پر کھڑی ہے 12Y......۱۷۶ 122 122 122 IZA ۱۷۸ 12^ ۱۲.تازہ نشان.تازہ نشان کا دھکا - زَلْزَلَةُ السَّاعَةِ...١٧٩ ۱۳.لَكَ نُرِى آيَاتٍ وَنَهْدِمُ مَا يَعْمُرُونَ ۱ - إِنِّي مَعَ الَا فُوَاجِ اتِيْكَ بَغْتَةً 1/9.......۱۷۹ ۱۸۰ ۲۷.آہ ! نادرشاہ کہاں گیا ۲۸.پھر بہار آئی خدا کی بات پھر یوری ہوئی ٢٩ - يَسْتَنبِتُونَكَ أَحَقُّ هُوَ قُلْ إِى ۲۰۰،۱۹۸ ۲۰۱،۱۹۹ ١٩٩ ۳۰.کیا عذاب کا معاملہ درست ہے اگر درست ہے تو کس حد تک : ۱۹۹ ۳۱- صَدَّقْنَا الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَا لِكَ ۳۲.زمین تہ و بالا کردی.إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ ۳۳.زلزلہ آنے کو ہے ۳۴- رَبِّ لَا تُرِنِي زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ ۳۵- صادق آن باشد....زنجیر را کز آشنا أَنْتَ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُهُ ۳۷.نَرُدُّهَا إِلَيْكَ مُبَارِک وَمُبَارَكَ.....يُجْعَلُ فِيهِ ۳۹.خداد و مسلمان فریق میں سے ایک کا ہوگا ۴۰.كَلْبٌ يَمُوتُ عَلَى كَلْبٍ ا - يَمُوتُ وَيَبْقَى مِنْهُ كِلَابٌ مُّتَعَدِّدَةٌ ۲۰۰ ۲۰۰ ۲۰۲ ۲۰۵ ۲۸۲ ۲۸۷ ،۲۸۶ ٣٠٢ ۶۲۷ ،۳۴۹ ۳۹۷ ۴۳۳،۴۳۲،۴۳۱ ۴۳۲ ۱۵.سخت زلزلہ آیا ہے جو پہلے سے زیادہ معلوم ہوتا تھا.۱۸۰ ۴۲ - خُدُوا التَّوْحِيدَ التَّوْحِيدَيَا ابْنَاءَ الْفَارس....۴۴۳ ٢٣ - أنتَ الشَّيْخُ المَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقْتُه : ۴۵۴ ۴۴ - فِيْهِ بَرَكَاتُ لِلنَّاسِ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۶۲۹ ۴۵ - بَيْتُ الْفِكْرِ وَبَيْتُ الذِّكْرِ ۶۳۰ ۶۳۰ ۶۶۳ ۶۶۳ ۶۶۳ ۱۸۰ ۱۸۰ ۱۸۰ ۱۶.بڑے زور سے زلزلہ آیا ہے اور زمین ۱۷.بھونچال آیا اور بڑی شدت سے آیا ۱۸.زمین تہ و بالا کر دی ۱۹.پہاڑ گرا اور زلزلہ آیا.تو جانتا ہے میں کون ہوں؟ میں خدا ہوں: ۱۸۰ ۴۶.لَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۲۰- عَفَتِ الذِيَارُ كَذِكُرِى ۲۱.چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشاں کی پنج بار ۱۸۰ ۱۸۰ - اذْكُرُ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمُتُ عَلَيْكَ ۲۸ - غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِى رَحْمَتِی وَقُدْرَتِي.۲۲ - هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الزَّلْزَلَةِ مَالَهَا....۱۸۱،۱۸۰ ۴۹ - أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۲۳ صحن میں ندیاں چلیں گی اور سخت زلزلے آئیں گے: ۱۸۶،۱۸۱ ۱۸۱ ۱۸۱ ۱۸۱ ۲۴ - أَرَدْتُ زَمَانَ الزَّلْزَلَةِ ۲۵.لاکھوں انسانوں کو تہ و بالا کر دوں گا ۲۶.ان شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا

Page 688

مضامین بشیر X اسماء امته الودود بیگم؛ صاحبزادی امجد بیگ ؛ مرزا ام سلمہ (ام المومنین ) ۳۸۷،۳۸۵ ۳۰۱ ۸۸ اُم طاہر احمد ، صاحبہ ؛ سیده (سیده مریم بیگم صاحبه) ۵۶۵، ،۵۷۸،۵۷۶،۵۷۵۰ ۵ ۷۴،۵۷۰، ۵۶۹ ،۵۶۸ ، ۵۶۷ ۵۷۲ ۵۷۷ 171 ۲۳۲ ۲۷۱ ۵۱۱،۵۱۰ ۲۷۳ ۵۳۵،۳۱،۲۵،۲۴ ۵۸۴،۵۸۲ مالی تحریکات میں حصہ تیموں کی ماں امیه انس بن مالک ایڈورڈ میکلیگن (گورنر پنجاب) بڑھامل ؛ لالہ برل ؛ ڈاکٹر بشارت احمد ؛ ڈاکٹر کتاب ”سیرت المہدی“ پر آپ کے اعتراضات ۲۳ بشیر احمد حضرت صاحبزادہ مرزا ۲۰۵،۲۰۴،۲۰۳،۱۸۴، ۶۶۴،۲۸۲،۲۵۹ سیرت المہدی“ پر ڈاکٹر بشارت احمد کے اعتراضات کے جوابات ۲۳ 117 شریعت کا کوئی حکم بھی چھوٹا سمجھ کر نہیں ٹالا جاسکتا گھروں میں کتب حضرت اقدس علیہ السلام کا درس ۱۲۹ صاحبزادہ مرزا مظفراحمد کی لنڈن روانگی پر ان کو تحریری ۱۵۱ ۲۲۵ ہدایات تبلیغ احمدیت کے متعلق آپ کی ہدایات آر ۱۲۱ ۶۶۵،۳۸۶،۳۷۸ ۲۹ ۱۶۱ ۶۲ ۶۲۱،۵۴۵،۵۴۲،۵۴۰۴۱۲ ،۲۳۲،۱۴۸ ۱۶۳ ۱۶۲ ۱۳۸ 22 ۶۶۱ ۳۰۱ ۳۰۱ ۴۲،۴۱ آدم علیہ السلام آمنه بیگم ابراہیم علیہ السلام ابن ہشام ابو البختری ابو برزة ابوبکر ابوسفیان ابوالعاص ابوعبیده ابوالعطاء جالندھری ؛ مولانا اجمل بیگ مرزا احسن بیگ، مرزا احمد جان بنشی ۳۰۱ ارشد بیگ، مرزا ۴۹۳،۴۹۲،۴۹۰،۴۸۹ ۴۸ ۳۰۱ ۱۹ ۵۸۴ ۵۷۰ ۶۴۵،۵۸۰ اروژا بنشی اسامہ بن زید اسحاق بیگ مرزا افضل بیگ ؛ مرزا امام الدین؛ مرزا امته الجمیل ؛ صاحبزادی امتہ الحئی، صاحبزادی ( أم خلیل ) امتہ السلام؛ صاحبزادی

Page 689

مضامین بشیر xi فضیلت کی اقسام.ذاتی فضیلت اور حالاتی فضیلت ۲۳۲ رمضان میں ترک کرنے والی کمزوریوں کی فہرست ۲۵۱ اسلامی پردہ کا خلاصہ برقعہ کے متعلق لجنہ اماءاللہ قادیان کا قانون منافق کی علامات انسداد بیکاری سلسلہ احمدیہ کی اشاعت کی تجویز ۳۰۴ ۳۰۶ ۳۱۹ ڈارون رشید احمد؛ مرزا روشن علی حافظ زین العابدین ولی اللہ شاہ زینب ڈ.رز مجلس مذہب وسائنس کے صدر بشیر احمد ایڈووکیٹ بشیر اوّل ؛ صاحبزاده بشیر شاہ سید بھروچہ؛ ڈاکٹر جابر بن عبد الله جان ایمبارس فلیمنگ ج - ح - خ جلال الدین شمس جمال الدین حالی؛ الطاف حسین (شاعر) حامد علی، شیخ حبیب الرحمن بی-اے حرمت بی بی صاحبہ حشمت اللہ ؛ ڈاکٹر حفیظ بیگم صاحبہ حکیم بن حزام خصه (ام المومنین ) خان غلام محمد خان خدیجه (ام المومنین ) خورشید بیگم ۳۵۷ ۶۳۷ ۵۶۳ ۳۸۶ ۵۶۷ ۵۸۴،۵۸۳ ۴۳۸ ۶۴۰ ۲۷۶،۲۷۵ ،۲۷۲،۵۸ ۱۸ ۶۴ ۵۶۳ ۴۶۳،۴۴۹ ،۴۴۷ ٣٠١ ۵۸۵،۵۸۲ ۳۰۱ ۵۳۲،۱۶۱ ۱۴۳ ۳۹۶ ۱۳۹،۱۳۸،۱۳۷ ،۱۳۶ سجادسرور نیازی سعد بن عبادة سعد بن معاو س ش ص ض ۶۴۰_۴۳۹ ۶۴۵ لا ۵۷۲ ۱۳۸ ۳۹۸ ۱۶۳،۱۶۲ ۴۸۶ سعید احمد؛ صاحبزادہ مرزا ۲۷۰،۲۶۹،۲۶۷،۲۶۶،۲۶۵، ۲۸۴،۲۷۹،۲۷۸ ،۲۷ ۷ ، ۲۷۶ ، ۲۷ ۲۴ ، ۲۷۳ ۲۷۲ ۲۷۱ سلطان احمد؛ حضرت صاحبزادہ مرزا ۲۷۱،۱۹، ۴۴۷، ۴۴۸ ۱۳۹ ۵۴۳ ۶۶۴،۳۴۰ ۵۷۵ ۴۸۵ ،۲۷۴ ۲۷۱ ، ۱٠١،٩٦ سودة (ام المومنین ) سید احمد بریلوی شریف احمد؛ حضرت صاحبزادہ مرزا شوکت صاحبه شیر علی ، مولوی صالح علیہ السلام صفیه ؟ ام المومنین ضیاءاللہ بیگ ؛ مرزا b-b ۱۴۳ ۳۰۱ طاہراحمد ؛ مرزا ( حضرت خلیفہ مسیح الرابع) ۵۸۴٬۵۸۰۵۷۹ ظفر احمد ، منشی ۴۹۲،۴۹۰،۴۸۸ ، ۴۸۶،۴۸۵ ، ۴۸۴ عائشہ (ام المومنین) ۶۱، ۱۴۲،۱۴۱،۱۴۰،۱۳۹،۱۳۸۸۸، ۴۸۰ ، ۴۷۹،۴۷۱ ،۲۵۹،۱۴۳

Page 690

مضامین بشیر ۳۰۱،۳۰۰،۲۹۹ ۳۰۱ عمر بی بی صاحبہ عنایت بیگم صاحبہ عیسی علیہ السلام ۱۲،۳، ۵۴۵،۵۴۳،۵۴۲،۱۸۳،۱۴۵،۸۱،۱۷ غ غلام احمد مرزاً ؛ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۰۱، xii ۱۸ ۵۶۳ ۳۴۸،۶۴۳،۳۴۵ ۳۹۸ ۲۴۴ ،۲۹۷ ۲۷۶،۲۷۵ ،۲۷۴ ، ۲۷۱ ، ۲۷۰ ، ۱۵۷ ،۱۲۳،۷۵ ،۷۴،۵۱ ،۴۲،۳۶ ، ۳۱ ، ۲۸ ،۲۷ ،۲۰،۱۸ ،۱۱ ،۹ ،۲۰۳ ،۲۰۲،۲۰۱ ، ۱۹۸،۱۸۶،۱۸۵ ، ۱۷۸،۱۷۵ ،۱۷۴ ،۵۰۹ ،۴۹۱ ،۴۶۴ ،۴۶۳ ،۴۵۱ ، ۴۴۴ ،۴۲۴ ، ۲۲۳،۲۰۵ ۶۵۴۵۴۶،۵۴۴،۵۴۳،۵۳۰ ۳۹۸ ۱۹۱،۵۶۷ ۳۰۱ آپ کے منکرین دائرہ اسلام سے خارج ہیں غیر احمد یوں کا جنازہ پڑھنا آپ کے طریق عمل کے خلاف ہے آپ کی بعثت کے دورنگ موٹا پا منافق کی نشانی 1.۵۱ ۸۲ ۹۶ ستائیسویں رمضان کا بروز جمعہ ہونا بہت مبارک ہوتا ہے ۱۰۷ ۱۱۲ سودی رو پید ا شاعت اسلام میں خرچ ہو سکتا ہے ہر رمضان میں کم از کم ایک برائی کے ختم کرنے کا عہد ۱۲۷ ۲۵۷ ،۲۵۱،۲۱۰ ۲۹۰ ۴۱۸ تمباکونوشی کے متعلق آپ کے ارشادات آپ کا خوابوں کو ظاہر میں پورا فرمانا گانے کے متعلق آپ کا فتویٰ جہاں قرآن شریف میں کوئی عبارت کھنٹے..✓......کے آس پاس کوئی روحانی خزا نہ مخفی ہے ۶۵۲ غلام حسن خان ؛ خان بہادر ۵۳۲،۵۳۰،۵۲۹،۳۷۲، ۵۵۳ ۱۹ ۲۱۳ ۱۹ غلام حیدر ؛ مرزا غلام رسول را جیکی ، مولانا ۱۹۱ ۱۹ ۵۶۳،۳۷۱ ۳۶ ۳۹۸ ۱۸ ۶۵۶،۵۶۳ ۵۲۶،۶۵ ۴۳۸ ۵۴۰ ،۲۶۷،۲۶۶،۲۶۵ عبدالرحمن عبدالرحمن جٹ عبدالرحمن خادم عبدالحمید خان عبدالرحمن مصری، شیخ عبدالرحیم درد عبدالرؤف خان عبدالستارشاه؛ سید عبد السلام بیگ، مرزا عبدالعزیز خاں عبدالعزیز اسید عبد القادر مرزا عبدالقدیر صوفی عبدالکریم ؛ مولوی عبدالکریم نیازی عبد الله عبداللہ سنوری عبداللہ بن عباس عبد اللہ بن عمر عثمان (امیر المومنین ) عزت بی بی عزیز احمد، حضرت صاحبزادہ مرزا ۲۷۷ ،۲۷۶،۲۷۵ ،۲۷۴،۲۷۲ ۲۷۳ ۳۲۹ ۴۵۶ ۳۳۸ عطاء اللہ ، کیپٹین ڈاکٹر علی (امیر المومنین ) علی شیر ؛ مرزا علی محمد اجمیری؛ مولوی عمر ( امیر المومنین) ۶۴۶،۵۵۶،۵۲۶،۴۸۰،۲۳۲،۱۴۳،۷۷ غلام محی الدین ؛ مرزا ؛

Page 691

xiii مضامین بشیر غلام مرتضی ؛ مرزا غلام فرید ؛ ملک غلام قادر؛ مرزا غلام محمد با شیخ غلام نبی سیٹھی ۱۹ ۶۳۸،۵۶۲ ۱۹ ۴۳۴۴۳۳ ۱۲۵،۱۳۴،۱۲۳،۱۱۱ ف ق ک گ فتح محمد سیال ، چوہدری ۲۳۱،۲۲۹،۲۲۸ ،۲۲۷ ،۱۲۱ ،۲۳۲،۱۶۲،۱۶۰،۱۵۹، ۱۴۹ ، ۱۴۸ ،۱۴۷ ، ۱۴۶،۱۴۵ ،۱۴۱ ۵۴۴،۵۳۲،۴۶۶،۳۲۹ آپ سے پہلے کوئی قوم مسلم“ کے نام سے موسوم نہیں ہوئی عشاء سے پہلے سونا اور عشاء کے بعد بات چیت کرنا نا پسندیدہ عمل ہے دنوں میں برکات کا فرق آپ کی بعثت مریخ ستارہ کے ماتحت تھی سورة ” والعصر“ کے اعداد سے آپ کے زمانہ کا فخر الدین ملتانی ۲۳۶، ۲۴۱،۲۴۰،۲۳۸،۲۳۷ ۲۴۵،۲۴۴ تعین فضل احمد ، مرزا ۱۹، ۴۴۷، ۴۴۸، ۴۵۶،۴۵۵،۴۵۴،۴۴۹، فضل الرحمن بن ، مفتی قدسیه؛ صاحبزادی ۴۶۴،۴۶۳،۴۶۲۰۴۶۱۰ ۴۶۰ ، ۴۵۹،۴۵۸ ، ۴۵۷ ۱۲۱ ۶۵۲۶۴۶،۶۴۵،۶۴۴ ۲۰۸ ۱۹۳ ۴۸۴،۴۸۵ ۲۴۸ ،۲۴۷ ،۲۴۷ ۴۴۴ ،۹۸،۹۶،۱۰۱ ، ۱۰۰ ۱۹ کرشن علیہ السلام کرن (راجہ) کظیم الرحمن بنشی کعب بن اشرف کمال الدین ؛ خواجہ کمال الدین ؛ مرزا کعب بن اشرف کے قتل کا حکم محمد احسن امروہی ، سید محمد احمد ، شیخ محمد اسحاق ، حضرت میر محمد اسماعیل حضرت مولوی ۶۲ ۷۳ ΔΙ ۲۳۲،۲۲۴ ۲۴۸ ۱۶۸ ۴۹۰،۴۸۵،۴۸۴ ۵۶۷،۵۷۷،۵۶۶،۳۸۵ ۳۹۱،۳۷۸،۳۷۴ تقویم ہجری کشسی کے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ارشاد خاندان اقدس سے محبت محمد اسماعیل فاضل ؛ مولوی ۳۷۵ ۳۷۷ ۵۵۸،۴۷۶،۳۹۱،۲۱۴ ۵۸۵،۵۸۴،۵۸۲ ۵۱۰،۵۰۷ ۴۸۹ ۴۵۸،۵۵۰،۴۲ ۴۱ محمد اسماعیل، ڈاکٹر میر محمد حسین بٹالوی ، مولوی محمد خان ، منشی محمد سرور شاہ ؛ سید ۱۴۷ لم گل محمد ؛ مرزا گوتم بدھ لیکھرام ؛ پنڈت مبارک احمد ؛ حضرت صاحبزادہ مبارک احمد خان ۵۱۰ ۵۶۸،۵۶۵،۴۲۴ ۵۵۷،۵۵۲،۵۵۱،۵۵۰ محمد صادق ؛ مفتی محمد ظفر اللہ خان ؛ چوہدری محمد علی خان نواب ۲۲۲ ۳۷۹،۳۳۳،۵۸ ۵۴۸،۵۴۷ ،۳۶۷ مبارکہ بیگم حضرت صاحبزادی ۶۵،۶۴۶۳ م۵۴۷،۷۹۷۶، ۵۴۸ محمد علی ، مولوی ۸۵، ۴۱۸،۳۹۷،۳۶۶،۲۴۸،۲۴۶،۸۷، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲،۹،۴،۳،۱، ۱۷، ۱۹،۱۸، ۳۱،۲۵، ،۱۳۸،۱۳۷ ،۱۳۶،۱۳۵ ،۱۳۱ ،۱۱۹ ، ۱۰۰ ، ۷۰۶۶ ، ۶۰ ، ۴۸ ،۴۵۱،۴۴۹ ،۴۴۷ ، ۴۲۶ ،۴۲۵ ، ۴۲۳ ،۴۲۱ ،۴۲۰ ، ۴۱۹ ۵۳۵،۴۶۲،۴۵۹،۴۵۸ ، ۴۵۶ ،۴۵۵ ، ۴۵۲

Page 692

محمدی بیگم محمد یعقوب خان ؛ مولوی xiv ۴۶۰،۴۵۶،۳۰۱ ،۳۰۰،۲۹۹ ۵۳۶ محمود احمد مرزا ( حضرت خلیفۃ المسح الثانی) ۶۹،۶۳، مضامین بشیر ناصر احمد، مرزا (حضرت خلیفة اسم الثالث )۲۷۲، ۲۷۵، ۲۷۶ ناصر نواب میر نذیر حسین ۶۳۳۹۷ 1.،۵۲۱،۵۰۷ ، ۴۵۲،۲۰۵ ،۱۳۲،۱۲۸ ،۱۱۶ ، ۹۲،۹۰،۸۶،۸۵ ۵۸۵،۵۸۱،۵۶۸،۵۴۷ تذکرہ" کی تصنیف کے بارہ میں ارشاد آپ کے نام دھمکیوں بھرے خطوط کا آنا تمباکو نوشی کے متعلق آپ کے ارشادات آپ کی خلافت آپ کے لیے دعاؤں کی تحریک گانے کے متعلق آپ کا فتویٰ محمود اللہ شاہ ؛ سید محمود بیگ مرزا محمودہ بیگم مریم ۲۱۴ ۲۴۶ ۲۹۲ ۳۶۸ ۴۲۱ ۵۵۸ ۵۸۰ ۳۰۱ ۳۰۱ مظفر احمد صاحبزادہ مرزا ۱۵۱، ۲۷۵،۲۷۲،۲۷۱،۲۶۷، ۵۳۰،۳۷۳،۲۷۹،۲۷۸ ،۲۷۶ منور احمد ڈاکٹر ؛ صاحبزادہ مرزا منیر احمد؛ صاحبزادہ مرزا موسیٰ علیہ السلام ۶۴۶ ۲۲۵ ۵۴۲،۱۴۶،۱۴۵ ،۱۴۳٬۸۲،۱۲ مہر اللہ ؛ میاں نادرشاه (شاه افغانستان) ۲۰۶،۲۰۲،۲۰۰،۱۹۹،۱۹۸،۱۸۴ نصرت جہاں سیدہ (حضرت ام المومنین) ۸۵،۶۹،۵۹، نصیرہ ( نومسلم نظام الدین؛ مرزا نظر بن حارث نوح علیہ السلام ۶۶۳۶۶۲،۵۸۴ ،۴۶۱ ، ۴۶۰ ، ۹۲ ۲۷۶ ۱۹ ۱۶۱ نورالدین ؛ حکیم مولوی (حضرت خلیفۃ المسح الاول) ۱۹۲ ،۸۷ ۶۳۳،۴۵۲،۳۶۵،۱۲۱،۹۷ ،۹۵ تمباکو نوشی کے متعلق آپ کا ارشاد ۲۹۲ نیک محمد خاں و.ہ.ی والٹر ولایت شاہ ؛ سید ہارون علیہ السلام جنیر با کرنل ڈاکٹر یوسف علیہ السلام یوشع علیہ السلام ۵۸ ۴۹۰،۴۸۹ ۴۶۳۴۴۸ ،۴۴۷ ۵۸۳ ۲۴۳،۱۴۶ ۵۴۲

Page 693

مضامین بشیر XV مقامات آسام اٹلی آ - الف احمد آباد اڑیسہ افریقہ ۲۰۴،۲۰۳ ۱۸۳ جاپان جرمنی ج - چ ۲۰ جزائر غرب الہند ۱۸۶ ۵۸۰ افغانستان ۵۳۰،۲۰۲،۱۹۸،۱۸۴ امریکہ انگلستان بتیا بٹالہ بیتی بنگال ۶۱۵،۱۸۲ ۶۱۵ بیت ۱۸۷ ۲۳۶،۲۲۷ ۱۵۴ ۲۰۳۲۰۲،۱۸۶ بہار ۱۸۶،۱۸۳ ، ۱۹۴،۱۹۱،۱۸۷، ۲۰۳،۲۰۲،۱۹۶ ۱۹۷ ،۱۸۷ جمال پور جمیکا جنگ پور چلی چمپارن و.ڈ دربھنگہ دھرم ساله دہلی ۱۸۳ سارن ۶۱۵ ستیا مڑھی س - ش - ص ۱۸۳ سکاٹ لینڈ ۱۸۳ ۱۹۴ ۱۸۷ سان فرانسسکو سمستی پور سیالکوٹ ۱۸۳،۱۸۲ شام ۱۸۳ شجاع آباد صاحب گنج ۱۹۷،۱۸۸،۱۸۷ ۱۷۸ ۱۷۷ 1.ڈلہوزی ۱۳۲ ، ۴۸۴ ۴۰ ۵۷۵،۵۷ ، | فارس ۶۴۵،۵۸۲،۵۸۱ ۱۸۷ فارموسا قادر آباد اده فق ۱۸۷ ۱۸۷ ۱۹۷ ۱۸۳،۱۸۲ IAZ ۵۶۷ ،۳۲۹ ۵۸،۳ ۴۶۳۴۴۸ ۱۸۷ ۱۲ ۱۸۳،۱۸۲ ۱۹ قادیان ۱۳۲،۱۲۸،۱۲۱،۱۱۶،۱۰۹، ،۳۰۹،۲۸۴،۲۷۷ ،۲۳۱،۲۳۰،۱۷۲ ۱۸۸ ،۳۳۶،۳۳۵،۳۲۳،۳۱۱،۳۱۰ ۵۶۷ ،۱۲۳،۱ ،۳۵۶،۳۵۵،۳۵۴،۳۴۹ ،۳۴۰ ۵۶۷ ،۳۸۹،۳۷۲،۳۶۰،۳۵۸،۳۵۷ ۶۱۵ ، ۴۸۵ ،۴۵۱،۴۴۴ ،۳۹۸،۳۹۰ ۱۸۶ ،۵۷۰،۵۷۶،۵۰۸ ،۴۹۱،۴۸۹ ۴۴۴ ،۵۹۰،۵۸۴،۵۷۶۵۸۰،۵۸۳ رام نگر راولپنڈی رعیہ روس رہتک ریتی چھلہ 127.122 ۱۹۵،۱۸۸،۱۸۷ ۵۳۰،۲۳۶،۱۰۱ ،۲۰۲،۲۰۱،۱۸۶،۱۳۳ ۵۹۰،۲۸۸ ،۲۷۱،۲۰۳ ۱۹۷ ،۱۸۷ ۱۸۷ بھاگلپور پالم پور پٹنہ پشاور پنجاب پورینہ تر ہٹ

Page 694

۵۸ ۱۹۵،۱۸۷ ،۱۹۴،۱۹۳،۱۸۸،۱۸۷ ۱۹۵ ن.ھی ۲۰۳،۱۹۰،۱۸۸،۱۸۳ ۶۴۵ منصوری موتی ہاری مونگیر نیال ویان گنڈ ہندوستان ،۱۸۳،۱۷۶،۱۷۳ ،۲۰۵،۲۰۴،۲۰۳،۲۰۲،۱۹۸ ،۱۹۶ ۵۱۲،۲۷۰،۲۰۶ ۵۶۴،۵۶۳ ۱۸۶ ہوشیار پور یوپی xvi ،۵۳۲،۱۹۳،۱۸۸،۱۸۵ ،۱۳۳،۱۰۹ ،۵۸۴،۵۸۳،۵۸۰،۵۷۹،۵۶۳ ۶۴۰ ۲۰۴،۱۹۶ ،۲۶۶،۲۶۵،۱۸۷ ۲۷۸ ،۲۷۴،۲۶۸ ۱۸۷ ۵۴۷ ۱۴۲ ۱۹۵،۱۹۴،۱۸۸،۱۸۷ ۴۶۳ مضامین بشیر ۶۶۵،۶۵۹،۶۴۷ ،۶۳۲،۶۲۶ ک میگ کالاٹوپ ۵۷۵ لکھنو کانگڑہ لنڈن کپورتھلہ کراچی کھٹمنڈو ۲۰۴،۲۰۳،۱۹۲ ۴۹۲،۴۸۸ ۳۹۱،۲۷۷ ،۲۶۶ ۱۸۹،۱۸۷ ۱۹۱،۱۸۷ لہریا سرائے مالیر کوٹلہ مل بینہ گیا مظفر پور لم مکه لاہور ۲۳، ۵۸،۵۷،۵۶،۵۵، ملتان

Page 694