Maulvi Muhammad Hussain

Maulvi Muhammad Hussain

میری یادیں (حصّہ اوّل)

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

Book Content

Page 1

( حصّہ اوّل) ميرى يادين حضرت مولوی محمد حسین صاحب صحابی حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ

Page 2

میری یادیں حضرت مولانا محمد حسین صاب صحابی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ - تاثر رانا محمد اقبال ایم اے کینیڈا.

Page 3

نام کتاب میری یادیں (حصہ اول) سن اشاعت طبع دوم سن اشاعت طبع سوم 2007 ء انڈیا 2008 ، انڈیا تعداد 1000 ناشر زیر اہتمام مطبع رانا محمد اقبال ایم اے کینیڈا ( واقف زندگی) ظفر اینڈ سنز پرنٹ ویل پریس امرتسر

Page 4

خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے وہ بنتی ہے ہوا اور ہر خس رہ کو اڑاتی ہے وہ ہو جاتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی ہے.کبھی وہ خاک ہو کر دشمنوں کے سر پہ پڑتی ہے کبھی ہو کر وہ پانی ان پہ اک طوفان لاتی ہے غرض رکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے بھلا خالق کے آگے علق کی کچھ پیش، جاتی ہے

Page 5

بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيم حضرت مولانا محمد حسین صاحب کی خوش قسمتی صد سالہ جشن تشکر کے موقعہ پر برطانیہ کے جلسہ سالانہ 1989ء پر امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفتہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مولانا محمد حسین صاحب کو سٹیج پر بلایا اور فرمایا : اب میں ایک شخص کا تعارف آپ سے کروانا چاہتا ہوں جو آسمانی بادشاہ کے کے طور پر یہاں آیا ہے میں خلیفہ وقت کی بات نہیں کر رہا بلکہ حضرت مسیح موعود کے ایک رفیق کی بات کر رہا ہوں.مجھے چند دن پہلے یہ خیال آیا کہ جہاں دنیا کے بڑے بڑے معزز دوست تشریف لائیں گے ان کی عزت افزائی ہمارا فرض ہے.اور ان کا حق ہے لیکن جماعت یہ کہیں بھول نہ جائے کہ سچی عزت آسمان کی عزت ہوا کرتی ہے.اور کچی عزت وہی ہوتی ہے جو بچے مذہب سے وابستہ ہو اس لئے یہ صد سالہ جشن تشکر کیسا جشن تشکر ہو گا جس میں حضرت مسیح موعود کا کوئی رفیق شریک نہ ہو چنانچہ میں نے فوری طور پر ربوہ کہلا کے بھجوایا کہ جس طرح بھی ہو سکے حضرت مسیح موعود کے جو چند گفتی کے رفقاء زندہ ہیں ان میں سے کسی کو یہاں بھجوایا جائے.مولوی محمد حسین صاحب (رفیق) اپنی صحت کی کمزوری کی وجہ سے اس سے پہلے انکار کر چکے تھے مگر جب میرا پیغام سنا تو بڑے شوق سے انہوں نے لبیک کسی اور کہا کہ میری ہر تکلیف ہے حقیقت ہے اگر چہ میری حالت یہ ہے کہ مجھے نصف نصف گھنٹے کے بعد پیشاب کرنے جانا پڑتا ہے لیکن خلیفہ وقت کا پیغام مجھے پہنچا ہے

Page 6

2 میں اس پر لبیک کہتا ہوں جو کچھ مجھ پر ہو میں ضرور وہاں پہنچوں گا.اس لئے یہ معزز مہمان آج ہمارے درمیان ہے میں آخر پر ان کا تعارف کرواتا ہوں اور ان.درخواست کرتا ہوں کہ میرے ساتھ کی کرسی پر آکر تشریف رکھیں.حضرت مولوی صاحب کو لایا گیا.حضور نے مصافحہ اور معانقہ کیا اور اپنے ساتھ کی کرسی پر بٹھا لیا (سامعین نے نعرے لگائے) اس کے بعد حضور نے فرمایا : یاد رکھیں کپڑوں سے مراد رفقاء بھی ہوا کرتے ہیں جس طرح قرآن کریم میں بیوی کو مرد کے کپڑے اور مرد کو بیوی کے کپڑے کہا گیا ہے.اس لئے یہ خیال نہ کریں کہ اس الہام کے معنے صرف ظاہری کپڑے ہیں.میرے نزدیک اس کے اول معنے حضرت مسیح موعود کے رفقاء ہیں اور ان معنوں میں جب ہم اس الہام کا ترجمہ کریں گے تو مراد یہ ہوگی کہ لوگ ڈھونڈیں گے اور نہیں ملیں گے.کوشش کریں گے کہ کاش ہمارے نصیب میں یہ ہوتا کہ ہم ان سے برکت حاصل کرتے.جہاں تک کپڑوں کا تعلق ہے ظاہری کپڑوں کا انشاء اللہ ان معنوں میں بھی یہ الہام پورا ہوگا.اور ایک وقت میں لوگ ان کپڑوں کو بھی ڈھونڈا کریں گے.مگر جب تک حضرت مسیح موعود کے رفقاء زندہ ہیں کپڑے کہلانے کا پہلا حق ان کا ہے.اس لئے اللہ تعالی کا بڑا احسان ہے کہ ایک صدی گزرنے کے بعد آج جشن تشکر کے اس اہم جلسہ میں حضرت اقدس مسیح موعود کے ایک رفیق ہمارے اندر موجود ہیں اللہ تعالٰی ان کی صحت اور عمر میں برکت دے اور صحابہ کی برکت کا سایہ اور بھی ہماری اگلی صدی میں ممتد کرے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.لیکن ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے جب آپ لوگ تابعین کے طور پر یاد کئے جائیں گے اور وہ سب لوگ جو آج اس رفیق کی زیارت کر رہے ہیں وہ تاریخ احمدیت میں تابعین کے طور پر گنے جائیں گے.اور لکھے جائیں گے.اس لئے آپ سب خوش نصیب ہیں جنہوں نے اس سے

Page 7

3 پہلے کسی رفیق کو نہیں دیکھا کہ وہ آج حضرت مسیح موعود کے ایک رفیق کو اپنی جسمانی آنکھوں سے بھی دیکھ رہے ہیں ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اگلی صدی میں ہو سکتا ہے وہی عزت جو آج ایک رفیق کو دی جا رہی ہے کسی تابعی کو دی جا رہی ہو اور اس وقت کا خلیفہ وقت بڑے فخر کے ساتھ ایک تابعی کے گلے مل رہا ہو کہ یہ حضرت مسیح موعود کو دیکھنے والے تبرکات میں سے ایک ہے.بہرحال اللہ تعالی اس برکت کو بڑھاتا جائے گا اور پھیلاتا جائے گا اور جاگ سے جاگ" لگتی جائے گی.میرا آخری پیغام آپ کو یہی ہے کہ کوشش کریں کہ صحیح جاگ قبول کرنے والے نہیں.ایسے تابعی نہیں جو رفقاء کے ہم رشک ہوں اور رفقاء کے رنگ میں رنگین ہونے والے ہوں.ایسی قوم نہ ہوں جو ماضی میں زندہ رہا کرتی ہے ایسی قوم نہ بنیں جو یہ کہا کرتی ہے کہ "پدرم سلطان بود" میرے آباء و اجداد رفقاء تھے دنیا کے سامنے وہ رفقاء کے رنگ پیش کریں کہ آپ میں رفاقت کی خوشبو سونگھی جائے اور آپ کی ذات میں رفاقت کے رنگ دکھائی دینے لگیں.اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آئیے اب ہم دعا میں شامل ہوتے ہیں".(جلسہ سالانہ یو کے 1989ء) (وڈیو کیسٹ افتتاحی خطاب)

Page 8

: 4 امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفتہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان کے دیں جلسہ سالانہ میں ۲۸ دسمبر ۱۹۹۹ء کو حضرت مولانا محمد حسین صاحب کو حاضرین جلسہ سے یوں متعارف فرمایا : اپنا آخری خطاب شروع کرنے سے پہلے میں ایک بزرگ ہستی کا تعارف کروانا چاہتا ہوں.مولوی محمد حسین صاحب رفیق حضرت اقدس مسیح موعود صحت کی کمزوری کے باوجود اس عظیم تاریخی جلسے میں شامل ہونے کے شوق میں یہاں تشریف لائے ہیں (اسی طرح آپ کے زمانہ کی ایک بزرگ خاتون بھی جن کی عمر تقریباً ۱۰۰ برس ہے وہ بھی خاص اس غرض سے بہت تکلیف اٹھا کر قادیان تشریف لائی ہیں.یعنی چوہدری عبد الوہاب صاحب ایڈووکیٹ کی والدہ) میں چاہتا ہوں کہ آپ سب ان کی زیارت کرلیں.کیونکہ اس زیارت سے بھی آپ کو ایک قسم کی تابعیت کا مقام حاصل ہو جائے گا.اس غرض سے میں نے حضرت مولوی صاحب کے لئے کرسی آگے رکھوا دی ہے.تاکہ سب لوگ دیکھ سکیں کہ حضرت مسیح موعود کے رفقاء کیا تھے".اختتامی خطاب جلسه سالانه قادیان (28/12/91

Page 9

سید نا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود (1835-1908ء) جن کو خدائے عالم الغیب نے دین اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے مامور فرمایا آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے لاکھوں صحابی تھے ان میں سے ایک حضرت مولوی محمد حسین صاحب ہیں جن کی یادیں افادہ عام کے لئے پیش ہیں.

Page 10

حضرت الحاج حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفہ المسح الاول جن کوخدا تعالیٰ نے مقام صدیقیت پر فائز فرمایا.آپ کے درس قرآن نے بے شمار عشاق قرآن پیدا کر دئیے.سامور زمانہ نے آپ کے متعلق کیا ہی بچ فرمایا ہے کہ چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دین بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے

Page 11

حضرت الحاج مرزا بشیر الدین محمد مد صاحب خلیفہ المی اثانی الصلح الموجود جن کے طویل 52 سالہ کامیاب دور خلافت میں حضرت مولوی محمد حسین صاحب کو وقف کر کے مکانہ تحریک اور کشمیر میں شاندار خدمات کی سعادت حاصل ہوئی.

Page 12

حضرت حافظ مرزا ناصر احد صاحب خلیفہ اسیح الثالث رحم اللہ تعالی جن کے دور خلافت میں حضرت مولوی محمد حسین صاحب نے نظارت اصلاح وارشاد و مقامی کے تحت دور و نزدیک کے اضلاع میں سینکڑوں احباب جماعت کی تعلیم و تربیت کی توفیق پائی.

Page 13

5 يشوا للُو الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تعارف ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود کے خلاف جو مارٹن کلارک نے مقدمہ اقدام قتل کیا تھا اس کے فیصلہ کے موقع پر میرے والد میاں محمد بخش صاحب بٹالوی نے بیعت کی تھی میری عمر اس وقت تقریباً چار پانچ سال تھی.۱۹۰۱ ء میں میرے والد صاحب بٹالہ چھوڑ کر قادیان ہی آگئے تھے.۱۹۰۲ء کے شروع میں جب میری عمر دس سال کے قریب تھی دوسرے لوگوں کے ہمراہ میں نے بھی حضرت مسیح موعود کے کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی.بیعت کے نظارہ میں سے صرف یہی یاد رہ گیا ہے کہ بیعت لیتے وقت حضور نے فرمایا " آج میں احمد کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر پچھلے تمام گناہوں سے تو بہ کرتا ہوں اور ہم ساتھ ساتھ یہ الفاظ دہراتے رہے.جب آپ نے بیعت لیتے وقت یہ الفاظ فرمائے کہ ”اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں.تو میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں.آمین" تو اس وقت دل میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی.آٹھ پشتوں سے میرے آباء و اجداد میں گیان سنگھ سکھوں سے مسلمان ہوئے.ان کا تعلق راجپوت کھو کھر خاندان سے تھا.بعد میں ان کا نام گیانہ خان رکھا گیا اور آپ ضلع ہوشیار پور کے رہنے والے تھے.

Page 14

6 مجھے ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۸ء تک حضرت مسیح موعود کا کلام سننے اور مجالس میں بیٹھنے کا کافی موقع ملتا رہا.مجھے شروع ہی سے تبلیغ کا از حد شوق تھا.پرائیویٹ طور پر بزرگوں سے مختلف دینی کتب پڑھتا رہا.1904ء میں مجھے دوکانداری کے ایام میں ہر مذہب و ملت کے لوگوں سے واسطہ پڑتا رہا اور خدا کے فضل سے اپنی قابلیت کے مطابق تبلیغ کرتا رہا.حتی کہ ایک دن اخبار البدر " اور "الحکم" میں یہ الہام شائع ہوا کہ کشتیاں چلتی ہیں تا ہوں کشتیاں".اس الہام پر بازار کے لوگوں نے ہمارا خوب مذاق اڑایا.وہ کہتے تھے کہ تمہارے مرزا صاحب کے الہام کیسے ہیں.کیا کشتیاں کوئی پہلوان ہیں جن کی کشتیاں ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ.ہم یہی جواب دیتے رہے کہ یہ بناوٹ نہیں ہے.جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو معلوم ہوا وہ آپ نے بیان کر دیا اور جب اس کا وقت آئے گا تو حقیقت واضح ہو جائے گی.جب ۱۹۹۴ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران کشتیوں کی کشتیوں کا نظارہ بھی ظاہر ہوا اور ہر مذہب کے اخبارات میں یہی ہیڈنگ "کشتیوں کی کشتیاں چھپے تو اس پر بازار والوں کے منہ بند ہو گئے اور وہ حیران تھے کہ کس شان سے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ہے.tt عاجز چونکہ بچپن ہی سے اللہ مولوی" کا نام کیوں اور کس طرح رکھوایا تعالٰی کے فضل سے نمازوں کا پابند تھا اور کبھی داڑھی بھی نہیں منڈوائی تھی اس لئے لوگ مجھے مولوی کہتے تھے.اس لفظ کو میں پسند نہیں کرتا تھا اور یہ لفظ سن کر مجھے دکھ ہوتا تھا.۱۹۱۸ء میں جنگ عظیم اول کے دوران خاکسار فوج میں بھرتی ہو کر بصرہ چلا گیا.وہاں بھی نمازوں اور تلاوت قرآن پاک میں باقاعدگی کی وجہ سے لوگ مجھے مولوی کہنے لگے جس کا مجھے علق تھا.بصرہ ہی میں ایک رات خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں بیت اقصیٰ میں جمعہ پڑھنے

Page 15

7 کے لئے گیا ہوں.اس وقت بہت پرانی طرز کی تھی جس میں تین در تھے.میری خواہش تھی کہ میں جلد پہنچ کر پہلی صف میں بیٹھوں.جب میں لوگوں میں سے گذرتا ہوا درمیانے در کے قریب پہنچا تو پیچھے سے آواز آئی ”مولوی صاحب" عاجز نے خیال کیا کہ کسی اور کو کسی نے بلایا ہے کیونکہ میں تو مولوی نہیں ہوں اور اس آواز سے بے نیاز ہو کر آگے بڑھا.جب درمیانے دروازے کے اندر پہنچا تو پھر آواز آئی.مولوی صاحب اس مرتبہ پیچھے سر گھمایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود اس عاجز کو پکار رہے تھے.میں نے جلدی سے صحن میں آکر حضور سے ملاقات کی.حضور نے میرا ہاتھ نہ چھوڑا اور مجھے بائیں ران پر بٹھا کر پوچھنے لگے کہ مولوی صاحب آج کل لوگ ہم پر کیا اعتراض کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ حضور کی نبوت پر ہی لوگ بحث کرتے ہیں تو حضور نے پوچھا آپ پھر کیا جواب دیتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نہ تو کوئی کتاب لائے ہیں اور نہ نیا قبلہ اور نہ ہی نیا کلمہ تو وہ نبی کیسے ہو گئے.میں ان سے پھر یہی پوچھتا ہوں کہ آپ کے پاس کتنے کھلے ہیں وہ کہتے ہیں."آٹھ " پھر میں کہتا ہوں کتابیں کتنی ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں چار پھر میں پوچھتا ہوں کہ آج تک کتنے قبلے بنے ہیں تو وہ کہتے ہیں "ورد" پھر میں پوچھتا ہوں کہ آج تک دنیا میں کتنے نبی آئے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار " پھر میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ جب ہر نبی کا کلمہ ، قبلہ اور کتاب الگ الگ ہوتی ہے تو پھر باقی کلے ، قبلے اور کتابیں کہاں ہیں؟ اس پر وہ لاجواب ہو جاتے ہیں.حضور میرا جواب سن کر فرمانے لگے کہ یہی جواب درست ہے.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میرے دل میں تحریک ہوئی کہ اب چونکہ سیدنا حضرت مسیح موعود نے "مولوی" کا خطاب دے دیا ہے لہذا کسی کے مولوی کہنے پر اب میں ناراض نہیں ہوں گا.پھر اللہ تعالی نے اپنے فضل

Page 16

80 سے اس عاجز کو مولوی ہی بنا دیا اور اپنی جانب سے علم دے کر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرنے کی برکت سے سینکڑوں مناظرے سکھوں.آریوں.سناتن دھرم والوں.سنیوں.دیوبندیوں.عیسائیوں.بریلویوں.- - حفیوں اور اہل حدیث سے کئے اور خدا تعالیٰ کی نصرت ہر جگہ شامل حال رہی اور کامیابی ہوئی.1901ء میں میری والدہ صاحبہ میرے چھوٹے بھائی محمد علی کے کئی بار بیعت" ہمراہ گھر کا کچھ سامان لے کر میرے والد صاحب کے ساتھ پہلے بٹالہ اور پھر قادیان آگئیں اور آکر بیعت کر لی.میرے والد صاحب میں یہ عادت پائی جاتی تھی کہ جب بھی بازار میں اچھے خربوزے دیکھتے خرید کر والدہ صاحبہ کے ذریعہ حضور کی خدمت میں روانہ کر دیتے جس پر حضور خوشنودی کا اظہار فرماتے.سکول سے چھٹی کے بعد ہم بیت میں چلے جاتے تھے.وہاں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بڑی خوش الحانی سے اذان دیتے تھے عصر کی نماز عام طور پر میں بیت مبارک ہی میں ادا کرتا تھا.عام طور پر حضرت موادی عبد الکریم صاحب ہی امام الصلوۃ ہوتے تھے.وہاں میں حضرت مسیح موعود کی زیارت بھی کرتا اور باتیں بھی سنتا اور جب کوئی بیعت کرنے والا آتا تو میں بھی اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیتا.میرا اندازہ ہے کہ پچاس سے بھی زیادہ مرتبہ میں نے اس طرح بیعت کی ہوگی.ہر مرتبہ بیعت کے الفاظ سن کر دل پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی.ہمارا گھر اس وقت قادیان میں نید صابر علی شاہ صاحب کے گھر کے پیچھے تھا جو کہ سید چراغ صاحب کے والد تھے.میرے والد محترم محمد بخش صاحب اہل حدیث تھے اور " چادر کھینچنے کا واقعہ" میرے تایا بھی پہلے اہل حدیث ہی تھے اور بعد ، احمدی ہو گئے تھے.میرے والد صاحب ہمیشہ مولوی محمد حسین بٹالوی کی امامت میں ہی جمعہ

Page 17

9 کی نماز ادا کرتے تھے اور ان کے ہی مداح تھے اور باوجود ان پڑھ ہونے کے بہت ہی ذہین تھے.آپ نے قرآن پاک ناظرہ بھی نہیں پڑھا ہوا تھا مگر پہلے پارہ کا پہلا ربع اور تیسویں پارہ کا آخری ربع زبانی یاد تھا.وہ بتاتے تھے کہ پہلے پارے کا پہلا ربع ایک حافظ سے حفظ کیا تھا اور آخری پارے کا آخری ربع مقتدی ہونے کی حیثیت میں مختلف اماموں کی قرأت سن کر ہی حفظ کر لیا تھا.آپ مسائل کو بھی خوب یاد رکھتے تھے.مارٹن کلارک کی طرف سے یکم اگست ۱۸۹۷ء کو حضرت مسیح موعود پر مقدمه اقدام قتل دائر کیا گیا تھا.اس کا بیان تھا کہ مرزا صاحب نے عبد الحمید نامی ایک شخص کو میرے قتل کے ارادے سے بھیجا تھا.یہ شخص جہلم کا رہنے والا تھا.مسٹر ڈگلس نے جو وہاں کا ڈپٹی کمشنر تھا اس مقدمہ کی پہلی پیشی بٹالہ میں رکھی.مولوی محمد حسین بٹالوی نے بھی حضور کے خلاف گواہی دینے کا ان سے وعدہ کر رکھا تھا.جس دن پہلی پیشی تھی اس دن مولوی محمد حسین بٹالوی اپنی مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے نہ آئے.میرے والد صاحب اس وقت چونکہ اہل حدیث تھے اور نماز جمعہ مولوی محمد حسین بٹالوجی کے پیچھے ہی پڑھا کرتے تھے اس لئے اس دن نائب امام الصلوۃ مولوی امام دین کے پیچھے نماز ادا کرنے سے محمد حسین بٹالوی کی غیر حاضری محسوس کی.نماز کے بعد مولوی صاحب نے میرے والد صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں آج شیر کے منہ میں بکرا آنے والا ہے.اگر وہ جان سے نہ مارا گیا تو زخمی ہونے سے بھی نہ بچ سکے گا.گویا مولوی محمد حسین بٹالوی کو شیر بنایا اور حضرت مسیح موعود کو (نعوذ باللہ ) بکرے سے تعبیر کیا.اور میرے والد صاحب سے کہا کہ آپ آج عدالت میں ضرور آئیں.میں بھی رہاں مقدمہ سننے کے لئے آؤں گا.میرے والد صاحب کندھے پر چادر رکھ کر عدالت میں پہنچ گئے تو اس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی ڈپٹی کمشنر سے کرسی کا مطالبہ کر رہے تھے اور ڈپٹی کمشنر صاحب نے ان کو یہ

Page 18

10 جواب دیا کہ میری فہرست میں آپ کا نام کرسی نشینوں کی فہرست میں نہیں ہے.مولوی صاحب کے دوبارہ اصرار پر ڈپٹی کمشنر نے انہیں جھڑک دیا.اس پر مولوی صاحب برآمدے میں پڑی ہوئی ایک کرسی پر جا بیٹھے جہاں سے چپڑاسی نے یہ کہتے ہوئے اٹھا دیا کہ آپ کیوں میری روٹی بند کروانے لگے ہیں.صاحب نے آپ کو کری نہیں دی تو میں کیسے دے سکتا ہوں؟ وہاں سے مولوی صاحب سراسیمگی کی حالت میں اٹھ کر میرے والد صاحب کے پاس آئے اور ان کے کندھے سے چادر اتار کر زمین پر بچھا کر بیٹھ گئے.میرے والد صاحب نے چونکہ اسی دن حضرت مسیح موعود کو پہلی بار بغور دیکھا تھا اور دیکھتے ہی طبیعت پر ایسا اثر پڑا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی سے نفرت ہو گئی.اس خیال سے کہ ایسی بزرگ ہستی کے خلاف عیسائیوں کی طرف سے جھوٹا گواہ بن کر سزا دلوانے کے لئے آئے ہیں.والد صاحب کے دل میں ایسا جوش پیدا ہوا کہ مولوی صاحب سے کہا کہ میری چادر دیدو اور زبردستی مولوی صاحب کے نیچے سے چادر کھینچ لی اور جھاڑ کر کہا میری چادر پلید کر دی ہے.عدالت میں دوسرے گواہ اپنی شہادتیں قلم بند کرواتے رہے.اس مقدمہ کی دوسری پیشی گورداسپور کی عدالت میں ہونا قرار پائی.مولوی صاحب جب عدالت میں کرسی طلب کر رہے تھے اس وقت یہ الفاظ بھی کہے کہ صاحب میری پوزیشن کا خیال رکھو.اس وقت حضرت مسیح موعود کے وکیل نے کہا کہ حضور اس کی پوزیشن کا ضرور معلوم کر لیںنے اس وقت حضرت مسیح موعود نے اپنے وکیل کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا " ولا تجسسوا ولا يغتب" یعنی کسی کا عیب تلاش نہ کرو.صاحب نے اپنے ریڈر سے پوچھا کہ مرزا صاحب نے اپنے وکیل سے کیا کہہ کر روک دیا ہے.چونکہ مولوی صاحب کی پیدائش بھی گھناؤنی تھی اس لئے حضور نے روک دیا تھا مگر ریڈر صاحب نے کہا کہ میں لنچ (دوپہر کا کھانا) کے وقت آپ کو بتاؤں

Page 19

11 گا.گورداسپور میں دوسری پیشی کے موقع پر میرے والد صاحب پھر عدالت میں گئے.اس پیشی میں مخبر نے خود ہی اقرار کر لیا کہ یہ سب معاملہ بناوٹی ہے.اس پر حضور کو بری کر دیا گیا.اس وقت میرے والد صاحب نے مجھے بتایا کہ صاحب نے حضرت صاحب سے کہا کہ آپ ان جھوٹے گواہوں کے خلاف میرے پاس مقدمہ دائر کر دیں میں ان کو بغیر سزا کے نہیں چھوڑونگا مگر حضرت صاحب نے فرمایا کہ صاحب میرا مقدمہ خدا تعالیٰ کے دربار میں ہے.میں کسی پر مقدمہ نہیں کرنا چاہتا.صاحب پر اس بات کا بہت اچھا اثر ہوا.عدالت میں اس وقت بے شمار لوگ آئے ہوئے تھے.کچھ تو اس توقع کے ساتھ آئے تھے کہ آج مرزا صاحب کو ضرور سزا ہو جائے گی اور بعض حضرت صاحب کا چہرہ دیکھنے آئے ہوئے تھے.حضور کے جواب نے ان پر بہت گہرا اثر کیا تھا.جب حضور عدالت سے باہر تشریف لائے تو لوگوں نے آپ کو گھیرے میں لے لیا اور کافی پیغتیں ہوئیں.میرے والد صاحب نے بھی وہیں بیعت کی تھی.الحمد للہ " خلیفہ اول کی دعا" سے ۱۹۰۲ء کے آخر میں میرا چھوٹا بھائی محمد علی تپ محرقہ.وفات پا گیا.والد صاحب کو اسکا بہت صدمہ تھا.حضرت مولوی نور الدین صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور والد صاحب کو تسلی دی اور جماعت میں اعلان کیا کہ میاں محمد بخش کے لئے بہت دعا کریں کہ اللہ تعالٰی ان کو نیک لمبی عمر والا اور خادم دین بیٹا عطا فرمائے.چونکہ میرے والدین بوڑھے تھے اس لئے والد صاحب یہ فرمایا کرتے تھے کہ اور اولاد کی تو مجھے امید نہ تھی ہاں میرا یہ اعتقاد پختہ ہو گیا کہ میرا موجودہ لڑکا جس کا نام محمد حسین ہے (یعنی عاجز) اس کو ہی اللہ تعالی لمبی عمر دیگا اور خدمت دین کی توفیق دیگا.مجھے والد صاحب کی زندگی میں ہی تبلیغ کا بہت شوق تھا.بچپن میں ہی میں حتی المقدور تبلیغ کیا کرتا تھا.جب والد

Page 20

12 صاحب مجھے دیکھتے تو بہت خوش ہوا کرتے تھے.میں نے اپنے والد صاحب کو ساتھ سال کی عمر میں قرآن کریم ناظرہ ختم کرایا تھا اور وہ ہمیشہ بالالتزام تلاوت کرتے تھے."مینارة المسیح کی بنیاد" ۱۹۰۳ء میں میں دوسری جماعت میں پڑھتا تھا اس وقت مینارة المسیح کی بنیاد کھودی گئی اور میرے اندازے کے مطابق زمین کی سطح سے میں فٹ گہرائی پر بجری بھر کر کوٹنا شروع کیا اور بیت اقصیٰ کے فرش سے چار فٹ بلندی پر ختم کیا گیا.یہ مینارہ حضرت خلیفتہ اصبح الثانی نور اللہ مرقدہ کی خلافت کے زمانے میں 1910ء میں مکمل ہوا.میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا کہ ایک دن شدید سردی کی "برف کا نظارہ" وجہ سے پانی منجمد ہو گیا.حضور کی ایک خادمہ آئیں اور کہنے لگیں کہ اے لڑ کو آج حضور کو برف دکھانی ہے.میں نے بھی برف کا بڑا سا ٹکڑا تانبے کے ایک مجمع میں رکھ دیا اور اسے سر پر اٹھا کر جب ہم حضور کے کمرے میں پہنچے تو حضور اس برف کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ہماری طرف دیکھ کر فرمایا لڑکوں سے تو سردی بھی ڈرتی ہے.کیونکہ اس وقت میں نے صرف ایک قمیض پہن رکھی تھی اور شلوار بھی اوپر اڑس رکھی تھی جب کہ سردی شدید تھی.حضور نے مجھے بھی انگیٹھی کے پاس بٹھا لیا اور چبانے کو ریوڑیاں دیں.خود آپ دوبارہ لکھنے میں مصروف ہو گئے.تھوڑی دیر کے بعد اجازت لے کر ہم دوبارہ سکول آگئے کچھ عرصہ کے بعد حضور گورداسپور خزانہ سے اپنا جرمانہ واپس لینے کے لئے چلے گئے.وہاں سے حضور نے جس دن قاریان واپس آنا تھا اس دن ہمیں سکول سے چھٹی ہو گئی اور ہم اپنے اپنے بستے گھروں میں چھوڑ کر بھاگے بھاگے موضع براں کے راستے نہر کی پٹڑی پر ہو لئے.کافی دور جا کر ہمیں حضور ایک رتھ پر تشریف لاتے ہوئے نظر آئے.جب ہم رتھ کے قریب پہنچے تو حضور نے پوچھا یہ لڑکے کون ہیں.رتھ

Page 21

حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ جن کے دور میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مولوی محمد حسین صاحب کو آسٹریلیا، برطانیہ اور بھارت میں احباب جماعت کو سیدنا حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے حالات سنانے اور انہیں شرف ملاقات بخشنے کی توفیق عطا فرمائی.

Page 22

حضرت مولوی محمد حسین صاحب 1936ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی معیت میں مربیان کی عملی فوجی تربیت کے موقعہ پر قطار نمبر 1 ( کھڑے ہوئے ) دائیں سے نمبر 2 پر

Page 23

13 بان بابا حیوا نے بتایا کہ حضور یہ سکول کے لڑکے قادیان سے آئے ہیں.حضور نے فرمایا کہ رتھ روک لو اور بعد میں نیچے اتر کر ہم سب کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور ساتھ ہی کچھ میٹھے اور کچھ پھیکے پنے سب کو تھوڑے تھوڑے دیئے.ہم سب چنے چہاتے رہے اور بعد میں نہرہی سے پانی پیا.پھر حضور بھی ہمارے ساتھ پیدل چلنے لگے.ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ قادیان سے آنے والے چند اور دوستوں سے ملاقات ہوئی.حضور ان سے مصافحہ کرتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ چلتے جاتے تھے.جب حضور کے ہمراہ یہ قافلہ موضع بران میں پہنچا تو وہاں کے دو معزز سکھوں نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا ” مرحاجی ساڈی بنتی ہے کہ تیس رو پیو" یعنی ہماری عرض ہے آپ اس پی کر جائیں.حضور نے فرمایا آدمی بہت زیادہ ہیں آپ تکلیف نہ کریں مگر انہوں نے بہت اصرار کیا اور دو چار پائیاں بچھا کر ان پر سفید کھیں بچھا دیئے.حضور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس پر بیٹھ گئے.دو بلینے چل رہے تھے.انہوں نے سب کو رس پلایا.بعدہ حضور پیدل ہی قافلہ کے ہمراہ قادیان تشریف لائے.فروری ۱۹۰۵ء میں صبح کے وقت جو سب سے بڑا زلزلہ آیا تھا اس وقت میری عمر تقریبا تیرہ سال تھی.سارا دن چھوٹے چھوٹے زلزلے آتے رہے.اکثر لوگ شہر سے باہر چلے گئے تھے اور حضور بھی اپنے باغ میں تشریف لے گئے تھے.۱۹۰۵ء میں حضرت مولوی عبدالکریم ہشتی مقبرہ قادیان میں پہلی قبر میں.صاحب کی وفات ہوئی اور چند ماہ روہڑی قبرستان میں آپ کو امامت دفن کیا گیا.بعد میں بہشتی مقبرہ قادیان میں آپ کے تابوت کو لایا گیا.اس وقت میں بھی تابوت اٹھانے والوں میں شامل تھا.اس طرح بہشتی مقبرہ قادیان میں پہلی قبر مولوی عبد الکریم صاحب کی بنی.

Page 24

14 قادیان سے آریوں کا اخبار شجھ قادیان کے آریوں میں طاعون کی وباء پختک نکلا کرتا تھا.اس کے ایڈیٹر سو مراج اور معاون اچھر چند بھگت رام تھے.یہ اخبار احمدیت کے خلاف بہت زہر اگتا رہتا تھا.جب یہ بد زبانی حد سے بڑھ گئی تو حضرت مسیح موعود نے ایک اشتہار دیا.کہ قادیان کے آریوں کا اور ہمارا رب اللہ تعالٰی ہی انصاف کرے گا.طاعون کے دنوں میں میری چچی کو بھی طاعون ہو گئی تھی.چنانچہ دوائی لینے کی غرض سے جب میرے چا جان بازار گئے تو وہاں اچھر مذکور نے کہا کہ اللہ یار صاحب ہاتھ میں یہ بوتل کیوں پکڑی ہوئی ہے.چچا جان نے جواب دیا کہ میری بیوی طاعون سے دوچار ہے.دوا لینے جا رہا ہوں.اس پر اچھر چند نے طنزا" کہا کہ تم بھی کشتی نوح میں سوار ہو جاؤ تمہیں تو کسی دوائی کی ضرورت نہیں.چا جان نے جواب دیا کہ ہم انشاء اللہ تعالٰی کشتی نوح میں سوار ہوں گے مگر تم اپنے گھڑے تیار کر لو اور یہ جواب دے کر وہاں سے چل دیئے.چونکہ چچا جان نے وہ تفسیر سنی ہوئی تھی کہ جب حضرت نوح اور ان کے ساتھی کشتی میں سوار ہو گئے تو منکرین نے گھڑوں پر تیرنا شروع کر دیا تھا.اس وقت خدا تعالیٰ نے تیز ہوا چلا دی جس کی وجہ سے گھڑے آپس میں ٹکرا کر ٹوٹ گئے.اس طرح تمام منکرین غرق ہو گئے تھے.لہذا چچا جان نے برجستہ جواب دیا تھا اور بعد میں دوسرے ہی دن سو مراج کی بیوی طاعون سے مر گئی تھوڑے وقفہ کے بعد مستو کے مرنے کی خبر آگئی.پھر سو مراج کا اکلوتا بیٹا بھی مر گیا.اس طرح چند ہی دنوں میں سو مراج اس کی بیوی اس کا بیٹا مستو ، اچھر چند اور اس کی بیوی اور سب بچے ، بھگت رام اس کی بیوی اور بچے حتی کہ ان کے پریس کو چلانے والا عبدل اور اس کا بھائی جو چوختہ کشمیری کے لڑکے تھے وہ بھی مر گئے اور دونوں ایک ہی قبر میں دفن کئے گئے.ہندو محلہ اور غیر احمدیوں کے محلہ میں سخت

Page 25

15 طاعون پھیلی ہوئی تھی اور ہم باغ کے پاس حضور کے حکم کے تحت چلے گئے تھے کیونکہ نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے کہ وباء کے ایام میں دوسری بستی میں نہیں جانا چاہئے البتہ کھلے میدان میں چلے جانا چاہئے.۲۶ مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل حضرت مسیح موعود کا حضرت مسیح موعود کی وفات لاہور میں وصال ہو گیا.جب آپ کی وفات کی اطلاع بذریعہ تار قادیان پہنچی تو کسی کو بھی اعتبار نہ آیا اور یہی خیال کیا جانے لگا کہ کسی دشمن نے ایسا تار بھیج دیا ہے.چنانچہ بٹالہ سے تار بھجوا کر دوبارہ پتہ کروایا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ کی واقعی وفات ہو گئی ہے.قادیان کے احمدیوں کی حالت اس اچانک خبر سے ناگفتہ بہ تھی.شاید ہی کوئی ایسا احمدی ہو جس کی آنکھوں سے آنسو جاری نہ ہوئے ہوں.غرضیکہ جماعت کے لئے بہت بڑا دھوکا تھا.مگر خدا تعالٰی کے نوشتے تو پورے ہی ہو کر رہتے ہیں.۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو بوقت دس بجے دن آپ کا جنازه قادیان پہنچا.باغ والے مکان کے صحن میں تمام سکھوں ، ہندوؤں ، غیر احمدیوں اور عیسائیوں کو آپ کے چہرے کا دیدار کرایا گیا.اسی دن حضرت مولوی نورالدین صاحب کو تمام جماعت کے اراکین نے متفقہ طور پر خلیفہ منتخب کیا اور پھر سب نے حضور کی بیعت کی.خواجہ کمال الدین صاحب مولوی محمد علی صاحب ، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب سید محمد حسین شاہ صاحب، شیخ رحمت الله صاحب و دیگر ممبران صدر انجمن احمدیہ نے اعلان کیا کہ حضرت خلیفتہ المسیح کی اطاعت ہم پر اسی طرح واجب ہے جس طرح حضرت مسیح موعود کی تھی.بعدۂ خلیفہ اول نے آپ کا جنازہ پڑھایا جس میں ہم سب نے شرکت کی.آپ کے جنازہ میں غیر احمدیوں نے بھی کثرت سے شرکت کی.بعد میں حضور کے جسد اطہر کو تابوت میں رکھ دیا گیا اور اس عاشق رسول ﷺ کو اللہ تعالی کے سپرد کرتے ہوئے دفن کر دیا گیا.تدفین مغرب کے

Page 26

16 وقت ہوئی.یہ غم ناک نظارہ ہمیں عمر بھر نہیں بھول سکتا.ہمیں یہ فخر ہے کہ خدا کے ایسے مقرب بندے کی تدفین میں ہمارا حصہ بھی شامل ہے.آپ کی وفات کے کئی دن بعد تک اداسی کی کیفیت زائل نہ ہوئی.غیر احمدی بھی کہنے لگے کہ اس جماعت کا شیرازہ صرف مرزا صاحب کے وجود ہی سے تھا.اب یہ سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خدائی سلسلہ کی نگرانی اللہ تعالی خود ہی کرتا ہے.چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس جماعت نے کتنی ترقی کی ہے اور کرتی چلی جا رہی ہے."خلافت اولی" ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء بوقت دو بجے دن حضرت خلیفتہ المسیح الاول کا زمانہ شروع ہوا.آپ کی خلافت میں قادیان کے مضافات کی زمین بھی آباد ہونے لگی.وہاں مولوی شیر علی صاحب کی کو ٹھی بھی بنی.تعلیم الاسلام ہائی سکول اور بورڈنگ کی تعمیر ہوئی.بیت اقصیٰ میں بھی پہلی بار توسیع آپ ہی کے زمانہ میں ہوئی.1910ء میں طاعون کی وباء دوبارہ طاعون کا حملہ اور میری دوسری زندگی قادیان میں پھیل گئی اور میں بھی اس بیماری میں مبتلا ہو گیا.جتنے بھی غیر احمدی اس وباء کا شکار ہوئے تھے کوئی بھی جانبر نہ ہو سکا تھا اس لئے جس وقت کسی کو طاعون ہو جاتی تو فورا اس کی قبر کھودنے کا انتظام کیا جاتا.میرا مرنا بھی مشہور ہو گیا.میرے والدین کو اس بات کا شدید صدمہ تھا.بار بار حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہو کر میری حالت سے آگاہ کرتے رہے.ایک دن میری حالت اتنی خراب ہو گئی کہ لمحوں کا مہمان نظر آنے لگا اور موت کے آثار دکھائی دینے لگے.میرے والد صاحب حضرت خلیفہ اول کے پاس نماز ظہر کے وقت بیت اقصیٰ میں پہنچے.حضور نے میرے والد صاحب سے پوچھا

Page 27

17 کہ بچے کا کیا حال ہے.میرے والد صاحب نے جواب دیا کہ اب آخری وقت معلوم ہوتا ہے اور آنسو ٹیکنے شروع ہو گئے.حضور نے مصلے پر کھڑے ہو کر اعلان فرمایا کہ میاں صاحب کا بیٹا سخت بیمار ہے اس لئے خدا تعالی کے دربار میں اس کی صحت کے لئے ایسے درد دل سے دعا کریں جو خدا تعالٰی منظور ہی کر لے اور پھر نماز میں بہت گڑ گڑا کر دعا کی گئی.میرے والد صاحب نے فرمایا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اب میرا بچہ ضرور اس موذی مرض سے شفاء پائے گا.نماز کے بعد حضور نے بھی میرے والد صاحب کو تسلی دی.جب آپ گھر کے پاس پہنچے تو مکرم بابا حسن محمد صاحب والد مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا ملے اور کہنے لگے کہ مجھے آپ کے بیٹے کا بہت افسوس ہے.میرے والد صاحب گھبرا گئے اور گھر تک دونوں ہی آئے.پتہ چلا کہ مجھے بے ہوشی ہے مگر سانس چلتا ہے.آپ نے سجدہ شکر کیا.تھوڑی دیر کے بعد مجھے قدرے ہوش آیا اور میں نے اپنا خواب سنانا شروع کیا.خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں فوت ہو گیا ہوں اور مجھے نہلا کفنا کر عید گاہ والے قبرستان میں لے گئے ہیں.میری آنکھیں بند ہیں مگر میں سب کو دیکھتا ہوں اور ان کی باتیں سنتا ہوں مگر بول نہیں سکتا.میری چارپائی کو قبر کے پاس لے جا کر رکھ دیا ہے اور شیخ جھنڈو خوجہ جو ہمارا ہمسایہ تھا اور جس کی فروٹ کی دوکان بیت اقصیٰ کے کونے پر تھی میری قبر کو صاف کر رہا تھا جب کفن میں سے میں نے اسے صفائی کرتے ہوئے دیکھا اور پہلا کر کہا کہ میں نے دوبارہ اس دنیا میں نہیں آتا.ذرالحد کو خوب صاف کر دو.اس نے جواب دیا کہ میں نے لھ کو خوب صاف کر دیا ہے اور اب میں اس میں باریک ریت بچھانے لگا ہوں تاکہ کوئی کنکر وغیرہ نہ چھے اور بیچ میں لیٹ کر دیکھتا ہوں کہ لحد تنگ تو نہیں ہے اور پھر خود اس میں لیٹ جاتا ہے اور مجھے ایک بہت خوبصورت بیت دکھائی دیتی ہے اور میں شیخ صاحب سے کہتا ہوں کہ تم قبر کو اچھی

Page 28

18 طرح صاف کر دو میں جاتے جاتے آخری مرتبہ نماز بیت میں ادا کر آؤں.میں اٹھ کر بیت میں چلا گیا اور وضو کر کے نماز پڑھنے لگا تو مجھے ہوش آگیا اور شیخ صاحب قبر اہی میں رہ گئے.تھوڑے سے وقفہ کے بعد شیخ صاحب کے مکان سے رونے کی آواز یکبارگی میرے کان میں پڑی تو میں نے کہنا شروع کر دیا کہ شیخ جھنڈو فوت ہو گئے ہیں.مگر میری کمزور حالت کو دیکھ کر میرے والدین نے شیخ جھنڈو کی وفات کی خبر مجھ سے چھپائے رکھی مگر میں نے دریافت کر کے ہی چھوڑا کہ واقعی شیخ صاحب قبر میں پہنچ گئے ہیں.میں خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے تندرست ہو گیا.صرف میری دائیں آنکھ پر اس بیماری کا اثر پڑا باقی جسم ٹھیک رہا.الحمد للہ.چونکہ میں سخت بیمار رہا تھا اور کمزوری حد سے تجاوز کر چکی تھی اور کچھ کھانے پینے کو جی نہ چاہتا تھا.گھر والے کچھ نہ کچھ کھانے پر مجبور کرتے.ان کے بار بار اصرار پر میں نے کہا کہ دال ماش کی کھچڑی پکائیں اور اس میں سے نصف حضرت خلیفہ اول کھائیں گے تو پھر کھاؤں گا ورنہ کچھ نہیں کھاؤں گا.میری والدہ صاحبہ اسی وقت حضور کے گھر گئیں اور سارا قصہ سنا دیا.حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے اسی وقت حکم دیا کہ اسی قسم کی کھچڑی بناؤ لہذا ایسا ہی کیا گیا اور اس میں سے دو چار تھے حضور نے کھائے اور باقی حصہ بیچ سمیت میرے لئے بھیج دیا.متواتر ایک ہفتہ حضور اسی طرح کرتے رہے.اے خدا ان کو جنت الفردوس میں خاص مقام عطا فرما اور ان کی اولاد پر بھی میں.رحم فرما.آمین.۱۹۱۲ء اور ۱۹۱۳ء میں دونوں سال میں بیت اقصیٰ قادیان میں اعتکاف ایک رویا بیٹھا.۱۹۱۳ء کے رمضان شریف کے آخری عشرہ میں جب ہم اعتکاف بیٹھے تو بہت اقصیٰ میں بہت رونق تھی اور کافی اصحاب اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے.اس وقت صرف چند کے نام یاد ہیں.حافظ روشن علی صاحب صوفی غلام محمد

Page 29

19 صاحب مولوی محمد عارف صاحب ماسٹر نور الہی صاحب باقی یاد نہیں رہے.جب ستائیسویں رات آئی تو آسمان ابر آلود تھا اور حضرت خلیفہ اول نے بعد نماز عشاء و تراویح پیغام بھیجا کہ آج معتکفین دعاؤں میں زور لگالیں خدا کے فضل سے بہت دعائیں کی گئیں.اس رات خواب میں معتکفین نے مختلف خواہیں دیکھیں مگر میں نے درج ذیل خواب دیکھا کہ جس جگہ اب مولوی شیر علی صاحب کی کوٹھی ہے وہاں ایک وسیع میدان تھا اور خلیفہ اول قرآن کریم کا درس فرما رہے ہیں.غالبا" پچیس واں سپارہ تھا.قطب کی طرف حضور کا چہرہ مبارک تھا اور ہم سب لوگ قرآن کریم کھولے درس سن رہے ہیں اور حضرت میاں محمود احمد صاحب بڑی تیزی کے ساتھ سائیکل پر وہاں پہنچتے ہیں اور سب لوگوں نے آپ سے مصافحہ کیا.میں نے بھی مصافحہ کیا اور اپنے ہاتھوں سے قرآن کریم میاں محمود احمد صاحب کے ہاتھوں پر رکھ کر انگلی سے بتایا کہ میاں یہاں تک میں نے درس دیا ہے اور اس کے آگے آپ شروع کر دیں.مولوی صاحب ایک پہینچ پر بیٹھ گئے اور حضرت میاں محمود احمد صاحب آپ کی کرسی پر بیٹھ گئے اور وہاں سے درس شروع کر دیا جہاں سے مولوی صاحب نے چھوڑا تھا.یہ نظارہ دیکھنے کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں تہجد میں مشغول ہو گیا.

Page 30

20 20 حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی وفات اور مولوی محمد علی صاحب کا فتنہ ۱۳ مارچ ۱۹۴۷ء بروز جمعتہ المبارک بوقت دو بجے حضرت خلیفہ اول کا نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی میں وصال ہوا.اس وقت مولوی محمد علی صاحب نے جھگڑا پیدا کر دیا کہ اب خلیفہ نہیں ہونا چاہئے اور انجمن ہی خلیفہ ہے وبس.حالانکہ آپ آپ حضرت مولوی نورالدین صاحب کو پہلے خلیفہ مان کر بیعت کر چکے تھے مگر آپ کی خلافت کے دوران ہی 1909ء میں مولوی صاحب موصوف نے چہ میگوئیاں شروع کر دی تھیں.اس کی تفاصیل "الحکم" اور "البدر اکتوبر 1909 ء اور 1986ء میں چھپے ہوئے خطبات حضرت خلیفہ اول میں موجود ہیں.غرضیکہ اس وقت بہت بڑا فتنہ پیدا ہو گیا اور جماعت میں اضطراب پھیل گیا.اس سے قبل ایسا اضطراب سیدنا حضرت مسیح موعود کی وفات پر ہی دیکھنے میں آیا تھا.اسی دن مغرب کے وقت اعلان کیا گیا کہ تمام مرد و زن صبح ہفتہ کے دن روزہ رکھیں اور دعاؤں پر زور دیں تا اللہ تعالی ہماری نصرت فرما کر انشرح صدر پیدا کر دے کہ کون خلیفہ ہو.تمام مرد و زن نے ہفتہ کے روز روزہ رکھا اور ظہر کی نماز بیت نور میں حضرت میاں محمود احمد صاحب نے پڑھائی وہ ایک بے نظیر نماز تھی کہ بیت نور کی چھت پر مومنوں کی گریہ و زاری سے فرشتے بھی آمین کہہ رہے ہوں گے.دعاؤں سے بیت کے درو دیوار بن گئے.نماز کے بعد وہیں تقاریر ہو ئیں اور سید نا مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا انتخاب ہوا.تمام جماعت نے متفقہ طور پر آپ کو خلیفتہ المسیح الثانی تسلیم کیا اور ساری جماعت نے بخوشی بیعت کرلی سوائے مولوی محمد علی صاحب و ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب وغیرہ وغیرہ.غالبا یہ سات نفوس ایسے تھے جو بیت نور میں الگ ایک کونے میں بیٹھے

Page 31

21 رہے.بیعت کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے نماز جنازہ پڑھائی اس میں مولوی محمد علی صاحب کے حامیوں کے چند نفوس پر مشتمل ایک گردہ اور بہت سے غیر احمدی احباب بھی باقاعدہ شامل ہوئے.مغرب سے قبل حضرت اقدس مسیح موعود کے پہلو میں آپ کو دفن کیا گیا.اور تمام احباب واپس آگئے.وہ وقت بھی خوشی اور غم کے ملے جلے احساس کے ساتھ ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر رہا تھا جو کہ بیان سے باہر ہے.یعنی ایک طرف تو وفات کا غم اور دوسری طرف نئے خلیفہ کی خوشی.آخر مغرب کی اذان ہوئی اور روزہ افطار کیا گیا.رات گھروں میں بھی یہی تذکرہ جاری رہا جب دوبارہ بیت اقصیٰ میں اسی جگہ پر کھڑے ہو کر جہاں حضرت خلیفہ اول کھڑے ہو کر درس دیا کرتے تھے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے قرآن کریم کھولا تو پہلے وہی الفاظ فرمائے جو میری خواب میں تھے کہ دوستو اس جگہ تک حضرت خلیفہ لول نے درس دیا تھا.اب میں اس سے آگے شروع کرتا ہوں اور پھر درس دینا شروع کر دیا.میرا ایمان تازہ ہو گیا اب میرا خواب لفظ بلفظ پورا ہو گیا تھا.الحمد للہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول اپنی زندگی کا آخری درس دے رہے تھے جس میں آپ حضرت خلیفہ اول کے لئے دعا نے فرمایا کہ حضرت مرزا صاحب کی بیوی تو مومنوں کی ماں ہیں مگر میری بیوی اگر میرے بعد چاہے تو اپنا عقد کر سکتی ہے.ان الفاظ کو منہ سے نکالتے ہوئے حضور کی آنکھیں پر نم تھیں.اس بات کا میرے دل پر بہت زیادہ اثر ہوا اور سارا دن پریشانی میں گزرا.اس دن مغرب کی نماز بیت اقصیٰ میں سید سرور شاہ صاحب نے پڑھائی.میرے والد صاحب بھی اس نماز میں شامل تھے لیکن وہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد گھر تشریف لے گئے اور مجھے سنتوں کی ادائیگی کے دوران حضرت خلیفہ اول کے پیارے درس کا خیال آیا اور میرے دل میں آپ کے لئے دعا کے واسطے تحریک

Page 32

22 ہوئی.میں نے بڑی گریہ و زاری سے دعا کی کہ "اے الہ العالمین" تیرا یہ بندہ نافع الناس ہے اور جماعت کا خلیفہ بھی ہے.درس و تدریس کا عاشق و ظاہری طور پر بھی مریضوں کا علاج کرتا ہے.اس وجود کی وفات ہمارے لئے نقصان دہ ہو گی اگر تیرا کوئی ایسا قانون ہے تو میری نصف زندگی مولوی صاحب کو دی جائے.اگر ایسا کوئی قانون نہیں تو بنانا بھی تیرے ہی ہاتھ میں ہے.میرے جیسا انسان زندہ رہا بھی تو کوئی فائدہ نہیں مگر حضرت مولوی صاحب کا زندہ رہنا عوام کے لئے اور جماعت احمدیہ کے لئے بہت نافع ہے.بہت ہی گریہ و زاری سے لمبی دعا کی اور سجدہ گاہ تر ہوتی رہی.دو اتنا لمبا سجدہ تھا کہ میرے والد صاحب گھر سے دوبارہ بیت میں آئے کہ پتہ کروں کہ ابھی تک گھر کیوں نہیں آیا.میں اس وقت سنتوں کی ادائیگی سے فارغ ہوا ہی تھا.میری حالت دیکھ کر والد صاحب بہت فکر مند ہوئے اور پوچھا کہ کیا کوئی تکلیف ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ایک تکلیف تھی مگر وہ اب رفع ہو گئی ہے.اسی رات کو میں نے یہ آیت کریمہ دیکھی خواب میں او كالذي مر على قرية و هي خاوية على عروشها قال انى يحى هذه الله بعد موتها فاماته الله مائة عام ثم بعثه مقال كم لبثت قال لبثت يوما او بعض يوم (سورة البقره آیت (۲۶۰) صبح جب میں بیدار ہوا تو مجھے تقسیم ہوئی ، معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کی زندگی اب قریب الاختام ہے مگر میرے دل میں از حد اطمینان ہوا کہ میری دعا مولا کریم کے دربار میں پہنچ گئی ہے جبھی یہ نظارہ مجھے دکھایا گیا ہے.اس کے بعد چند ماہ ہی مولوی صاحب زندہ رہے اور ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو رحلت فرما گئے.انا لله وانا اليه راجعون خلافت ثانیہ کا آغاز ۱۲ مارچ ۱۹۱۴ء بروز ہفتہ دن کے تین بجے خلیفہ ثانی کا انتخاب ہوا.آپ کے دور خلافت میں سب سے پہلی

Page 33

23 عمارت مینارة امسیح کی تکمیل ہوئی پھر دوسری عمارتیں محلہ جات باب الانوار ، دار الفضل ، دار البرکات ، دار الرحمت، دار الصحت، ریتی چھلہ کالج اور تار ٹیلی فون اور ہر شعبہ کی نظارتوں کی عمارتیں بنیں.آپ کے دور خلافت ہی میں بیرونی ممالک میں احمدیہ مشن قائم ہوئے اور مرکز سے مبلغین کرام بھیجے گئے.غیر ممالک میں سکول و کالج اور بیوت بنوائی گئیں.ہر طرف اسلام کا چرچا ہوا اور اسلامی تعلیم کی اشاعت بخوبی جاری ہو گئی.اللهم زد فزد حصول ملازمت کیلئے سہارن پورا مر تسر اور لاہور کا سفر اور نصرت الہی 1919ء میں ہمارا آپس میں بٹالہ کی زمین متصل ذیلی گھر بیرونی منڈی پر مقدمہ ہو گیا جو فریقین کے لئے سوائے نقصان کے فائدہ مند نہ ہوا اور اس کا ۱۹۱۸ ء میں فیصلہ ہوا.والد صاحب چونکہ بوڑھے تھے اور میں بھی بیکار تھا اس لئے مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کی معرفت حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ سے بھرتی ہونے کی اجازت لیکر گورداسپور جا کر بھرتی ہو گیا.اس وقت ۱۹۱۴ء والی جنگ عظیم شروع تھی.گورداسپور سے راتوں رات ہی میں مجھے سہارنپور بھیج دیا گیا.وہاں مجھے سہارن پور کی ریلوے ورکشاپ میں ایک ماہ تک بڑائی کے لئے بھیجتے رہے.انہی ایام میں میری مخالفت کا آغاز ہوا.میرا دارو مدار تو دعا پر ہی تھا اور سوائے خدا تعالٰی کے کوئی سہارا نہ تھا اور نہ ہے.لہذا اپنے علم کے مطابق جواب دیتا رہا.میری نماز اور قرآن کریم کی پابندی کا میرے قرب میں رہنے والوں پر خاص اثر تھا.اگر وہاں چار میری مخالفت کرتے تھے تو دو میرے حق میں ہو جاتے تھے.آخر اسی دوران عید الاضحیہ کا ون آگیا.بڑی مشکل سے شہر سہارنپور میں مولوی عبد العزیز صاحب کا مکان تلاش

Page 34

24 کیا.پیر سراج الحق صاحب نعمانی بھی وہیں تشریف فرما تھے.قریباً نہیں احباب نے سرکاری باغ میں جا کر نماز عید پڑھی اور میں واپس کیمپ میں آگیا.میں دوسرے دن پھر ٹرائی کے لئے گیا.انگریز فورمین نے لڑائی لی اور سیکنڈ گریڈ فٹر کا سرٹیفیکیٹ دیا میں جب اسے سرکاری دفتر میں داخل کرانے گیا تو کلرک نے رشوت مانگی مگر میرے نہ دینے پر اور فارم سے قادیان کا نام پڑھ کر وہ جل گیا اور اس نے اس فارم پر فٹر قلی کر دیا جس کا مجھے بہت افسوس ہوا.میں افسر کے پاس گیا اور اسے سارا ماجرا سنایا.اس نے کہہ دیا کہ میں اب کچھ نہیں کر سکتا.میں نے اس سے ریل کا پاس طلب کیا تو اس نے دے دیا.میرے پاس صرف اس وقت آٹھ آنے ہی تھے.میں گاڑی میں سوار ہو کر نصف شب کے قریب امر تسر پہنچا.اسی پریشانی کے عالم میں ایک ماہ گھر سے دور بھی رہا اور کوئی کام بھی نہ ملا.غرضیکہ بہت دعا کی اور رات امرتسری میں گزاری.صبح کو فوٹو کھنچوا کر بھرتی ہو گیا.ڈاکٹری رپورٹ کے لئے پھر انہوں نے پانچ روپے طلب کئے.میرے پاس اب کچھ بھی نہ تھا.نیست پریشان بیٹھا تھا کہ خدا تعالٰی نے میری مدد فرمائی.میرے پاس ایک ہندو جمھور جو ترن تارن کا رہنے والا تھا اور بہت شریف نوجوان تھا آیا اور مجھ سے پریشانی کی وجہ دریافت کی.میں نے وجہ بتائی تو اس نے پانچ روپے نکال کر دیئے اور کہا کہ فورا جا کر سرٹیفکیٹ لے لو.دفتر بند ہونے والا ہے.میں نے جا کر سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور واپس آکر اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے کہا کہ اب میں کس طرح آپ کے پانچ روپے لوٹا سکتا ہوں ، آپ ایڈریس دے جائیں.اس نے کہا کہ آپ کوئی فکر نہ کریں.اب یہ لوگ آپ کو لاہور لوکو ورکشاپ میں بھیج دیں گے اور میں بھی وہیں جا رہا ہوں.ہم دونوں نے اکٹھے ہی سفر کیا اور صبح ہم کارخانہ میں گئے.وہ بے چارہ کارخانہ کے گیٹ پر ہی کھڑا رہا.قریباً چار بجے شام مجھے جنرل نٹر کا سرٹیفکیٹ ملا اور مستری نے پانچ روپے

Page 35

25 طلب کئے.میں دوبارہ گیٹ پر گیا تو وہ نوجوان ابھی وہیں کھڑا تھا.میں نے اسے ساری حقیقت بتائی تو اس نے مزید پانچ روپے مجھے دے دیئے اور اس طرح میں نے سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور ساتھ ہی دفتر سے مجھے پچاس روپے الاؤنس بھی ملا.اس کے علاوہ کراچی جانے کے لئے ریلوے کا پاس بھی مل گیا.میں واپس گیٹ پر آیا تو وہ نوجوان بدستور کھڑا تھا.اس نے بڑے پیار سے پوچھا کہ میاں صاحب سنائیں آپ کا کام بن گیا ہے؟ میں نے سارا واقعہ اسے کہہ سنایا اور سارا الاؤنس اسے دیدیا کہ آپ نے بغیر کسی واقفیت کے تین دن میرا خرچ اٹھایا اور پھر احسان بھی کیا ہے اور اس وقت مجھے یہی کچھ ملا تھا اور اب ہم صبح سات بجے کراچی جا رہے ہیں.وہاں سے جہاز پر سوار ہو کر بصرہ جائیں گے.اس نے ساری رقم گئی اور واپس میری جیب میں ڈال کر کہا کہ میں کوئی پیسہ نہیں لونگا.میرے دل میں آپ سے امرتسر میں ہی قدرتی محبت پیدا ہو گئی تھی سو اب آپ کا کام بن گیا ہے اس کی ہی مجھے بہت خوشی سواب ہے.اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھ سے لے لیں.کافی دیر تک اس سے باتیں ہوتی رہیں دل ہی دل میں اپنے معبود حقیقی کا میں بہت شکر گزار تھا کہ غیب سے اس نے مدد فرما کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا.ہے کیوں کے سر پر یا رب تیرا ہی سایہ رہے بڑی مشکل سے میں نے اس کے دس روپے واپس کئے اور ماہ ستمبر ۱۹۱۸ ء کی صبح کو لاہور سے بھرتی شدہ قافلہ کے ساتھ بذریعہ ٹرین کراچی روانہ ہوا.میری غیبی مدد کرنے والا دوست پلیٹ فارم پر ہی کھڑا رہا اور جب گاڑی چلنے لگی تو سلام کہہ کر چلا گیا اور پھر دوبارہ کبھی نہیں ملا.لاہور میں قیام کے دوران رات کو میں نے خواب میں اس قسم کے میدان میں کوارٹر دیکھے تھے جیسے بعد میں ہمیں کراچی میں ملے ف پھر کراچی میں قیام کے دوران ویسا ہی جہاز دیکھا جس پر بعد میں ہم سوار

Page 36

26 ہوئے.جہاز کے سفر کے دوران رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمیں ایسی جگہ لے جایا جا رہا ہے جہاں کھجوروں کے جھنڈ ہیں.بعدہ ویسا ہی پایا.میری ہر جگہ مخالفت ہوتی رہی مگر د ہیں پر میرے حق میں کھڑے ہو جانے والے بھی مل گئے.خدا تعالٰی اس عاجز کو ہر جگہ غلبہ عطا کرتا رہا.شهر عشار اور بصرہ کا تقریبا دو میل کا جنگ عظیم کے دوران بصرہ کو روانگی فاصلہ تھا.دریائے دجلہ اور فرات کے کنارہ پر عشار یعنی عشرہ تھا اور اسی کنارہ پر ایک کارخانہ ڈبلیو ٹی کاڈ کیا رڈ تھا.اس کے ساتھ ہی کچھ مکان بنے ہوئے تھے.غالبا 14 نومبر ۱۹۸ء کو لڑائی بند ہو گئی تھی اور ۱۵ نومبر ۱۹۱۸ء کو ہمیں اس کارخانہ میں کام کرنے کے لئے بھیجا گیا جب مجھے وہاں رہتے ہوئے تین چار دن گزر گئے تو بعض آدمیوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ نماز پڑھنے کے لئے بیت میں کیوں نہیں آتے؟ نماز آپ میں پڑھ لیتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ میرا چونکہ ان لوگوں سے ابھی پورا تعارف نہ تھا نیز حضور اور قادیان سے دور تھا.کوئی خونی رشتہ دار بھی وہاں نہ تھا لہذا طبیعت بہت اداس رہتی تھی اور بڑی خاموشی سے زندگی گزر رہی تھی.اس کارخانہ میں تقریبا دو ہزار آدمی تھی جن میں سے اکثر ہندو، عیسائی اور سکھ تھے.نو صد کے قریب مسلمان تھے.ان میں سے صرف میں ہی اکیلا احمدی تھا.دوسرے مسلمان لاہور ، امرتسر، فیروز پور جالندھرو گورداسپور وغیرہ کے تھے.میں چپکے سے اس کوشش میں لگا رہا کہ کسی اور احمدی کا پتہ چل جائے لیکن کارخانہ میں کوئی اور احمدی نہ تھا.اس لئے میں نے ان لوگوں کو اپنی علیحدہ نماز کے متعلق کچھ نہ بتایا.ایک دن پھر انہوں نے یہی سوال کیا کہ آپ دوسروں کو تو مسئلے بتاتے ہیں نماز کی بھی تاکید کرتے ہیں اور قرآن پاک کی تلاوت بھی روزانہ کرتے ہیں.رات کو اٹھ کر نفل بھی پڑھتے ہیں اور داڑھی بھی

Page 37

27 رکھی ہوئی ہے مولوی معلوم ہوتے ہیں اس لئے صرف یہ بتا دیں کہ آپ بیت میں نماز با جماعت کیوں نہیں لوا کرتے.میں نے آج خاموش رہنا مناسب نہ سمجھا اور ان پر ظاہر کر دیا کہ میں احمدی ہوں اور میری نماز ان لوگوں کے پیچھے نہیں ہوتی اس لئے میں الگ اپنے ڈیرے پر ہی پڑھ لیتا ہوں مگر آپ یہ بتائیں کہ نہ آپ بیت میں اور نہ ڈیرے پر کہیں بھی نہیں پڑھتے.آپ کو میری نماز کا کیوں فکر ہے.وہ لاجواب ہو کر خاموش ہو گئے مگر خفیہ طور پر لوگوں میں میرے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیا اور میرے ساتھ بات چیت بند کر دی اور اپنے طور پر آپس میں مجھے نانے کے لئے حضرت صاحب پر قسم قسم کے اعتراض کرتے مگر میرا جواب نہ سنتے.میں بھی انہیں سنا سنا کر اپنی عقل کے مطابق جواب دیتا رہتا.ایک دن مجھے سخت گھبراہٹ ہوئی، اس خیال سے کہ مومن تو کبھی اکیلا نہیں رہتا جب کہ میں اکیلا ہوں مجھے اپنی فکر کرنی چاہئے.کیا میں مومنوں میں شامل نہیں ہوں؟ دل میں بڑا جوش اٹھا.میں دریا کے کنارے چلا گیا اور دعا کرنے لگ گیا کہ اے میرے مولا کریم اگر میں مومن نہیں ہوں تو اپنے زور سے تو بن نہیں سکتا.مجھے مومن بنانا بھی تیرا ہی کام ہے.میری تو تیرے ہی دربار میں التجا ہے کہ میری نصرت فرما.غرضیکہ دعا مطمئن ہونے کے بعد واپس اپنے ڈیرے پر آگیا.اس سے اگلے دن نصف شب کے قریب ایک بڑا شریف اور نمازی آدمی (احمد دین) میرے پاس آیا جو ضلع راولپنڈی کا رہنے والا تھا.وہ کہنے لگا مولوی صاحب میری بیعت لے لیں.میں بڑا حیران ہوا کہ یہ شخص کون ہے جو نصف شب کے قریب مجھے جگا کر یہ الفاظ کہہ رہا ہے.میں نے موم بتی جلائی اور بڑی محبت سے اپنے پاس بٹھا کر پوچھا کہ اب بتا ئیں کہ کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ میں بعد نماز عشاء درود شریف پڑھتے پڑھتے سو گیا کیا دیکھتا ہوں کہ دو بزرگ میرے پاس آئے ہیں.ایک بزرگ نے میرے

Page 38

28 سوال پر یہ جواب دیا کہ تم چونکہ درود شریف پڑھا کرتے ہو اس لئے یہ دوسرے بزرگ حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانی آپ کے پاس تشریف لائے ہیں یہ سن کر میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور میں نے آگے بڑھ کر حضور کا ہاتھ چومنے کی کوشش کی تو آپ نے ہاتھ نہ دیا اور فرمایا کہ اب میرا زمانہ نہیں ہے.میں نے پوچھا حضور پھر کس کا زمانہ ہے؟ حضور نے فرمایا آؤ میرے ساتھ چلو تمہیں بتا دوں.میں ساتھ چل پڑا تو حضور مجھے آپ کے پاس لے آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر آپ کے ہاتھ میں دے دیا اور خود غائب ہو گئے.پھر میری آنکھ کھل گئی.اور اب میں آپ کے پاس آگیا ہوں.میں نے کہا بہت اچھا اب آپ آرام کریں صبح انشاء اللہ تعالی میں آپ کو بتا دوں گا کہ اب کس کا زمانہ ہے.صبح کی نماز کے بعد وہ پھر آگئے.میں نے انہیں بتایا کہ اب حضرت مسیح موعود کا زمانہ ہے اور اب ان کے دوسرے خلیفہ آجکل قادیان میں ہیں.آپ ان کی بیعت میں شامل ہو جائیں آپ کو ایک بزرگ ہستی خود تشریف لا کر تبلیغ کر گئی ہے.اس شخص نے بخوشی بیعت کرلی اور اپنا بستر بھی میرے پاس اٹھا لائے.مجھے بھی بڑی خوشی ہوئی کہ الحمد للہ اللہ تعالی نے مجھے اکیلے نہیں چھوڑا.اس کے بعد چند قرآن کریم سیکھنے والے نوجوان مل گئے جن کی تعداد بارہ کے قریب تھی.میں نے قادیان سے قاعدہ يسرنا القرآن منگوا لئے اور پڑھانے شروع کر دیئے.سب نے خدا تعالٰی کے فضل سے تمام قرآن کریم مکمل کیا.سب کے نام میرے پاس محفوظ تھے مگر سب کچھ قادیان میں ہی رہ گیا چند نام یاد رہ گئے ہیں.(1) محمد شریف فیروز پوری (۲) تقو امرتسری (۳) بابا عبداللہ سیالکوئی (۴) محمد جعفر بیگ لاہوری (۵) عبد المجید دهلوی (۱) فضل کریم پٹھانکوٹی وغیرہ وغیرہ.مخالفین نے کئی آدمیوں سے تبادلہ خیالات کرایا اور ناکام رہے پھر حملہ کروا کے مردانا چاہا مگر میرے شاگردوں نے بار بار بلند آواز سے یہ اعلان کیا

Page 39

بلڈنگ جامعہ احمد یہ ربوہ کے سامنے غیر ملکی طلباء جامعہ احمدیہ واسٹاف جامعہ احمد یہ ربوہ کا ایک گروپ فوٹو حضرت مسیح موعو علیہ السلام د کے نو صحابہ کے ہمراہ.درمیان میں حضرت مولوی محمد حسین صاحب تشریف فرما ہیں.

Page 40

حضرت مولوی محمد حسین صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ کی مجلس علمی کے ساتھ

Page 41

89 10 حضرت مولوی محمد حسین صاحب لندن 1989 ء میں اپنے پیارے آقا کے ہمراہ

Page 42

آسٹریلیا میں حضرت مولوی محمد حسین صاحب ستمبر 1983ء میں ذکر حبیب پر خطاب فرمارہے ہیں.

Page 43

29 که احمدی مولوی صاحب ہمارے استاد ہیں اور ہمارے دلوں میں ان کی اپنے باپوں سے بھی زیادہ عزت ہے اس لئے مسائل میں آپ بے شک انہیں شکست دیں کیونکہ ہمارے عقائد بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہیں.مگر اخلاق سے گری ہوئی بات اگر کسی نے مولوی صاحب کو کسی یا جسمانی تکلیف دینے کی کوشش کی تو ہم ہرگز برداشت نہیں کریں گے.اور حملہ کرنے والوں کی ہڈیاں توڑ دیں گے خواہ ہمیں قید ہی کیوں نہ بھگتنی پڑے.میرے مولا کریم نے شریف نوجوانوں کی پارٹی مجھے دے دی جس سے مجھے بہت آرام ملتا رہا.کھانے پینے اوڑھنے بچھونے کا سب کام وہی کرتے تھے.میرا کام صرف سرکاری کام سے فراغت حاصل کرنے کے بعد نمازیں پڑھنا.قرآن کریم پڑھانا اور آنے جانے والوں سے گفتگو کرنا ہی تھا اور بس.ایک روز عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک بنگالی نوجوان جہاز سے اتر کر کسی مولوی کی تلاش میں میرے پاس پہنچا اور السلام علیکم کہا.میر نے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ ہمارے ساتھ مارگل نمبر ۲ کے ایک بہت بڑے مولوی صاحب ہیں جو سہارنپور کے رہنے والے ہیں.انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ آپ مولود شریف کرائیں میں وقت پر آجاؤں گا مگر جب ہم نے تمام انتظامات مکمل کر لئے اور کنارہ پر موجود دوسرے جہازوں میں سے سب مہمان اکٹھے ہو گئے تو ان کی طرف سے اطلاع آئی کہ میں بیمار ہو گیا ہوں لہذا نہیں آسکتا.ہمیں یہ سن کر سخت مایوسی ہوئی اور ہم شام سے کسی مولوی کی تلاش میں پھر رہے ہیں.اب آپ کے پاس پہنچے ہیں.براہ آپ ہمارے ساتھ تشریف لے چلیں.میں اپنے بارہ شاگردوں کے ساتھ قرآن کریم لے کر کشتی کے ذریعہ جہاز پر پہنچا.تمام جہاز پبلک سے بھرا ہوا تھا اور سب مایوس بیٹھے تھے.ہمارے پہنچنے پر سب کو مرغ پلاؤ کھلایا گیا.بعد میں نے آنحضرت ﷺ کی زندگی کے حالات بیان کرنے شروع کر دیئے اور تقریر میں

Page 44

30 مخالفین اسلام کے منصوبے خاک میں ملتے ہوئے بتائے.غرضیکہ فتح مکہ تک کا ذکر کیا.سب لوگ تقریر سن کر بہت خوش ہوئے اور دعا پر جلسہ برخاست ہوا.جہاز کے سارنگ نے بتایا کہ ہم جتنے مایوس ہوئے تھے اس سے بڑھ کر ہمیں خوشی ہوئی ہے اور ساتھ ہی میرے بار بار انکار کے باجود اس نے زبر دستی کچھ نذرانہ میری جیب میں ڈال دیا.اس کے بعد دوسرے لوگوں نے بھی مصافحہ کرتے ہوئے نذرانہ پیش کیا.بعدہ ہمیں وہ لوگ کنارے پر چھوڑ گئے.نذرانہ کی کل رقم ساٹھ روپے کے قریب بنی.بنگال میں مولود شریف کا بہت رواج ہے.بڑی خوشنما مجلس قائم کی جاتی ہے.خوشبو اور صفائی کا خاص انتظام کیا جاتا ہے.جگہ کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے.مذکورہ مولود شریف میں مچھلی و دال کے علاوہ ۴۰ مرغیاں پکائی گئی تھیں.وہ اپنے آڑے کاموں کو درست کرنے کے لئے مولود شریف کی منت مانتے ہیں اور پھر اسے پورا کرتے ہیں.جب اس جہاز کے لوگ سہارنپور کے بڑے مولوی بصرہ میں پہلا مناظرہ صاحب سے ملے اور میرا ذکر بھی کیا کہ انہوں نے آکر مولود شریف پڑھایا اور قرآن کریم کا وعظ کیا اور لوگ سن کر بہت خوش ہوئے تو مولوی صاحب نے ایک احمدی کی یہ تعریف سن کر سخت تیوری چڑھائی اور ان لوگوں سے جنہوں نے پہلے بھی میری باتیں اور گفتگو سنی ہوئی تھی ان کو مولوی صاحب نے مناظرہ کا چیلنج دے دیا.ہمارے ایک احمدی دوست نے چیلنج منظور کر لیا اور اتوار کا دن مقرر ہو گیا.میں بھی وقت مقررہ پر پہنچ گیا وہاں صرف ایک دو احمدی ڈاکٹر صوبیدار محمد یعقوب خان صاحب اور میجر نورالدین صاحب تھے.باقی سب احمدیوں کو اطلاع دے کر بلوایا گیا.حیات و ممات مسیح پر عاجز سے بحث ہوئی.غیر احمدیوں میں یہ چرچا ہو گیا کہ احمدی مولوی بہت آیتیں پڑھتا ہے اور ہمارا مولوی " رفع " پر ہی

Page 45

31 پھنسا ہوا ہے اور رفع کے معنی زندہ آسمان پر جانا ثابت نہیں کر سکا.مولوی صاحب اپنے ہی آدمیوں سے لڑنے لگے اور اس طرح یہ مناظرہ ختم ہو گیا.ہمارا ان پر بہت اچھا اثر رہا.غرضیکہ اسی قسم کے چودہ پندرہ مناظرے ہوئے.ہر موقع پر اللہ تعالٰی نے خاص نصرت فرمائی.ایک درزی مولوی سے مکالمہ ایک روز ایک سیالکوٹی سول درزی جو کچھ مولوی بھی تھا اور میرا واقف بھی نہ تھا لیکن مولوی ابراہیم سیالکوٹی کا بڑا مداح اور شاگرد تھا ہمارے پاس آیا.ہم اس وقت شام کا کھانا کھا رہے تھے.آتے ہی کہنے لگا کہ اس جگہ آپ کے کیمپ میں سنا ہے کہ کوئی مرزائی مولوی رہتا ہے.میں نے ذرا اس کی خبر لینی ہے.کیا آپ لوگوں کو اس کا کچھ پتہ ہے؟ میں نے اپنے شاگردوں کو خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہوئے اسے کہا کہ ہاں ہمیں پتہ ہے.ہم آپ کو اس سے ملانے کی کوشش کریں گے.آپ پہلے کھانا کھائیں.اس نے کہا اس کی خبر لینا ہی میرا کھاتا ہے.میرے اصرار پر وہ کھانا کھانے بیٹھ گیا ہم کھانا بھی کھاتے رہے اور اس طرح بات بھی شروع کر دی کہ مولوی صاحب آپ اس مولوی کو کیا سمجھائیں گے وہ تو کچھ قرآن کریم سے واقف معلوم ہوتا ہے کہنے لگا کیا مرزائی اور قرآن اکٹھے ہو سکتے ہیں؟ میں نے کہا کہ پھر کبھی پہلے اس سے ملے نہیں ہونگے کہنے لگا اگر وہ مجھے پہلے ملا ہوتا تو پھر آج تک مرزائی نہ کہلاتا.میں نے کہا مولوی صاحب وہ تو اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہلواتا بلکہ احمدی کہلواتا ہے.کہنے لگا ہیں جی احمدی تو ہم ہیں.میں نے کہا خیر آپ بھی احمدی ہیں اور وہ بھی احمدی کہلواتا ہے پھر آپ کا آپس میں تھوڑا ہی فرق ہوگا ہم آپ کو اس سے ملا دیتے ہیں.مگر آپ اس سے بات کیسے شروع کریں گے وہ بھی تو آخر پڑھا ہوا ہے.درزی صاحب کہنے لگے آپ ذرا ان سے مجھے ملا دیں اور

Page 46

32 پھر اس کافر کے ساتھ میرا کلام سنتا.میرا ایک شاگرد غصہ سے اسے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ میں نے اسے روک دیا اور درزی سے کہا کہ اگر آپ نے تبادلہ خیالات کرنا ہے تو کسی مولوی کو لے آنا ہم پھر اس سے ملا دیں گے.کیونکہ وہ تو بڑا خوش اخلاق اور لوگ اس کی یہاں بڑی عزت کرتے ہیں.آپ نے تو فورا" اسے کافر کہہ دیا ہے.یہ طرز کلام پسندیدہ نہیں ہے.درزی مولوی کہنے لگا آپ ذرا مجھے اس سے ملا ئیں تو پھر دیکھنا کیسا میں اس کا ناطقہ بند کرتا ہوں.میں نے کہا اس نے تو بہت بخشیں کی ہیں کبھی کسی کو برا لفظ نہیں کہا اور ویسے بھی بڑی تہذیب سے بات کرتا ہے.اگر آپ بھی اس سے شائستہ گفتگو کی ضمانت دیں تو ہم اسے آپ سے ملا سکتے ہیں.پہلی بات تو وہ یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی موت میں اسلام کی حیات ہے اور دوسرا یہ کہ حضرت محمد ہی صرف زنده نبی ہیں جنہوں نے زندہ خدا کو پیش کیا ہے.وہاں مستری محمد فاضل صاحب کو ٹلی لوہاراں کے بھی بیٹھے ہوئے تھے.اور بہت تجربہ کار آدمی تھے.درزی کے پاس جا کر پوچھنے لگے کہ کیا آپ نے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا ہوا ہے؟ درزی صاحب بولے میں نے کچھ پڑھا ہوا ہے.مستری صاحب بولے جناب میں آپ سے کچھ پڑھا ہوا نہیں پوچھ رہا.سارا پڑھا ہوا ہے کہ نہیں؟ درزی صاحب بولے تم کون ہو جو میرا امتحان لے رہے ہو.مستری صاحب! "جناب عالی میں نے آپ کی بے علمی کا امتحان لینا تھا جو لے لیا ہے " درزی صاحب بولے وہ کیسے؟ مستری صاحب کہنے لگے کہ ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور اتنی باتیں بھی ہوئیں اور ابھی تک جاہل ہی رہے کہ مرزائی کہاں ہے.یہی تو وہ احمدی مولوی ہیں.اگر کوئی دوسرا مولوی ہو تا تو جب آپ نے کافر کا لفظ کہا تھا تھپڑ مار کر آپ کا منه سرخ کر دیتا.یہ حوصلہ صرف احمدیوں کا ہی ہے.اب آپ شرم کریں اور اگر کوئی بات کروانا ہی ہے تو کسی مولوی کو لے آؤ اور آرام سے بیٹھ کر کرو.درزی

Page 47

33 صاحب بھی حیران ہوئے اور اپنے کہے ہوئے لفظ ”کافر کو واپس لیا اور آئندہ اتوار کو اپنے گھر میں آنے کی ہمیں دعوت دی اور سخت ندامت محسوس کی.ہم اپنے وعدہ کے مطابق درزی صاحب کے مکان پر پہنچے.تھوڑی دیر تبادلہ خیالات کے بعد ان کے مولوی صاحب کہنے لگے کہ آئندہ کسی اور وقت کا تعین کر لیں.ہم پنجاب سے کتابیں منگوا کر بات کریں گے.میں نے کہا سب سے پہلے عرب والوں پر یہ قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا.اب ہم سب اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ اس کی مدد سے آپس کے تنازعات کا فیصلہ کریں.اگر آپ ایسا نہیں چاہتے تو پھر اس بات کا آپ اقرار کریں کہ قرآن مجید ہماری مدد نہیں کرتا یا پھر یہ کہیں کہ قرآن کریم ہمیں پڑھنا نہیں آتا.وہ ایسے اقرار سے گریزاں رہا مگر میں بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑتا تھا.آخر کار مولوی صاحب وہاں سے اٹھ کر چلے گئے اور درزی صاحب نے ہمیں سوڈا واٹر بوتلیں پلائیں اور ساتھ ہی معذرت بھی کی کہ ہمارے پاس کوئی مولوی نہیں ہے جس سے آپ تبادلہ خیالات کر سکیں.ایک مرتبہ غیر احمدیوں نے فیصلہ کیا کہ کسی عرب ایک عرب مولوی کا واقعہ مولوی کو میرے مقابلہ پر لائیں اور اس طرح مجھے شرمندہ کریں چنانچہ ایک اتوار کو بمبئی کے رہنے والے ایک مولوی کو بیس روپے پر رضامند کر کے کیمپ میں لے آئے اور اسے پانچ روپے بطور بیعانہ کے بھی دے دیئے.بعدہ اسے وہاں بٹھا کر اور مجھے ایک ضروری کام کا جھانسہ دے کر وہاں لے گئے.میں نے جاتے ہی السلام علیکم کہا اور بیٹھ گیا.عرب مولوی صاحب بولے کیف حالک میں نے جواب دیا الحمد لله على كل حال اعوذ بالله من كل اهل النار میرے جواب پر وہاں بیٹھے ہوئے پنجابی چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ ہمیں تو دونوں میں سے کسی کی بات بھی سمجھ میں نہیں آئی.میں نے کہا تو پھر اس جگہ تو

Page 48

34 سب باتیں عربی میں ہی ہوں گی.یہ سن کر وہ عربی مولوی صاحب کو بلا کر باہر لے گئے اور دیئے ہوئے بیعانہ پر ہی اکتفا کرتے ہوئے واپس بھیج دیا اور اس طرح پندرہ روپے بچالئے بعد میں ایک دوست نے آکر مجھے سارا ماجرا سنایا کہ جب آپ نے عربی مولوی صاحب کے چھوٹے سے عربی کے سوال کا اتنا لمبا جواب دیا تو ہم سمجھ گئے کہ عرب مولوی آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتے لہذا ہم نے باقی پندرہ روپے کی کفایت کر لی اور اب ہم کوئی اور فیصلہ کا طریق سوچیں گے.میں نے اللہ تعالی کا بہت شکر ادا کیا کیونکہ اسی نے اس وقت میری عزت رکھی تھی جبکہ میں اس وقت عربی سے نا واقف تھا.پکڑوانے کا منصوبہ جب غیر احمدیوں کو عربی مولوی سے مقابلہ کروانے میں ناکامی ہوئی تو ان میں سے بعض متعصب لوگوں نے مجھے حکومت سے سزا دلوانے کی کوشش کی اور میری رپورٹ کر دی کہ یہ احمدی مولوی مناظرے کرتا ہے اور اس طرح ہمیں تنگ کرتا ہے.میرے ایک خیر خواہ دوست نے اس رپورٹ سے مجھے آگاہ کر دیا جو کیمپ کمانڈر کے پاس گئی تھی.تھوڑی دیر کے بعد چپڑاسی مجھے بلانے آگیا اور پھر میں اس کے ساتھ ہی کیمپ کمانڈر کے پاس گیا.وہاں ان دنوں مذہبی مباحثات کی سختی سے ممانعت تھی اور اگر کوئی اس میں ملوث پایا جاتا تو اسے جرمانہ کے ساتھ سزا بھی دی جاتی تھی.نیز اس کی سروس بک خراب ہو جاتی تھی اب میرے امتحان کا وقت آن پہنچا تھا.اگر میں کہوں کہ مناظرے کئے ہیں تو سزا واجب ہو جاتی ہے اور اگر یہ کہوں کہ میں نے کوئی مناظرہ نہیں کیا تو وہ جھوٹ تھا جس کا لوگوں پر بھی برا اثر پڑ سکتا تھا.وہاں پہنچتے ہی کیمپ کمانڈر نے سوال کیا کہ تم نے مباحثہ کیا ہے؟ میری زبان سے بے ساختہ نکلا کہ صاحب کس کے ساتھ ؟ اس نے کہا کس کے ساتھ کیا ؟ میں نے کہا جناب عالی مباحثہ

Page 49

35 یا مناظرہ کوئی آدمی اکیلا نہیں کر سکتا.پھر اس نے پوچھا کیا اکیلا آدمی مناظرہ نہیں کر سکتا؟ میں نے جواب دیا صاحب ہر گز نہیں کر سکتا.صاحب سوچنے لگ گیا.اتنی دیر میں ایک آریہ نوجوان کلرک آپہنچا جس سے میری کئی بار گفتگو ہو چکی تھی.صاحب نے پوچھا کہ بحث کس طرح کرتے ہیں؟ اس نے بتایا کہ دو مولوی یا دو پنڈت یا دو پادری اپنی اپنی بات کچی ثابت کرنے کے لئے دلائل دیتے ہیں اور لوگ سنتے ہیں.صاحب بولے کیا دو آدمی بحث کرتے ہیں.آریہ بولا جی ہاں.صاحب نے درخواست دہندہ افراد کو جو میری سزا کے منتظر بیٹھے تھے بلایا اور پوچھا کہ دوسرا مولوی کہاں ہے.وہ خاموش رہے.اس پر صاحب نے انہیں انگلش میں برا بھلا کہا اور ساتھ ہی دو دو تین تین ہنٹر بھی لگائے.1919ء میں حکومت پنجاب انگریز کمانڈر سے گائے کی قربانی کی اجازت نے جھٹکا کرنے والے سکھ ہمارے پاس بھیجوا دیئے اور انہوں نے مسلمانوں کا ذبیحہ کھانے سے انکار کر دیا اور اپنا علیحدہ جھٹکا کرنا شروع کر دیا.اس بات پر مسلمان بہت مشتعل ہوئے کیونکہ اس سے قبل سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کو اکٹھا ہی حکومت کی طرف سے گوشت ملتا تھا.مگر نئی بھرتی میں آنے والے سکھوں نے اپنے بکرے علیحدہ جھٹکا کرنا شروع کر دیئے لہذا جب انہوں نے ایسا کرنا شروع کیا تو مسلمانوں نے یہ پروگرام بنایا کہ یا تو سکھوں کو قتل کر دینا چاہئے یا ان کا جھٹکا سختی سے بند کر دینا چاہئے.کارخانہ چونکہ دن رات چتا تھا اس لئے مسلمانوں نے بہت جلد چھرے ، چاقو اور بلم جیسے ہتھیار تیار کرلئے.معزز لوگوں کو اس آمدہ ہنگامہ کے متعلق علم ہوا تو انہوں نے خفیہ طور پر سیٹنگ کی اور یہ طے پایا کہ احمدی مولوی کو بھی اس میٹنگ میں ضرور شامل کرنا چاہئے.چنانچہ سب نے فوری طور پر مستری تھے خاں صاحب کو جو بمبئی کے قریب

Page 50

36 کے رہنے والے تھے مجھے بلانے کو بھیجا.انہوں نے مجھے آمدہ فتنہ کے بارے میں بتایا اور یہ کہ اس کے انسداد کے لئے ہمیں کچھ کرنا چاہئے.میں نے کہا کہ بجائے اس کے کہ وہ مجھے وہاں بلائیں یہاں میرے پاس آجائیں تو خدا کے فضل سے امن کا راستہ نکل سکتا ہے.وہ واپس گئے اور اپنے ہمراہ سب کو میرے پاس لے آئے.میں نے کہا کہ اگر آپ دل سے اس بات کا اقرار کریں کہ اس معاملہ میں اگر ہمیں جانیں بھی دینا پڑیں تو اکٹھے دیں گے تو خدا کے فضل سے سکھوں کا جھٹکا بند کرا سکتا ہوں.ان سب معززین نے میرے سامنے قسمیں کھائیں کہ ہم آخری وقت تک آپ کے ساتھ تعاون کریں گے.پس میں نے کہا پرسوں اتوار ہے آپ سب صبح ہی میرے پاس تشریف لے آئیں پھر میں آپ کو اپنا پروگرام بتاؤں گا.وہ سب چلے گئے اور بعد میں میرے پاس آنا جانا شروع کر دیا.ہمارا پہلا کیمپ کمانڈر بدل چکا تھا.نئے کیمپ کمانڈر صاحب نہایت شریف آدمی تھے.ان کا اردلی ایک بنگالی لڑکا تھا جو میرے پاس اردو پڑھنے کے واسطے آیا کرتا تھا.میں نے اسے کہا کہ کسی وقت مجھے اپنے صاحب سے ملاؤ.اس نے کہا کہ بہت اچھا آج چھٹی کے بعد بارہ بجے تشریف لے آنا.میں بارہ بجے وہاں پہنچ گیا.اس نے میرا اپنے صاحب سے تعارف کروایا کہ یہ مولوی صاحب ہیں اور جناب سے کچھ درخواست کرنے کے لئے آئے ہیں.صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کام ہے؟ میں نے کہا کہ صاحب ہم سب لوگ آپ کی رعایا ہیں اور سب گھر بار چھوڑ کر حکومت کی حفاظت کی خاطر جان دینے آئے ہوئے ہیں.ایک ہفتہ تک ہمارا بڑا دن یعنی عید الضحی ہے.ہم لوگ اس دن اپنے گھروں میں گائے کی قربانی دیتے ہیں مگر اس جگہ نہیں دے سکتے اگر آپ اجازت دیں تو ہم عید کے دن گا.نرید کر قربانی دے لیں گے.صاحب یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اپنی ران پر ہاتھ مار کر انگریزی میں کہنے لگا کہ ران کا نصف سیر گوشت

Page 51

37 مجھے بھی دینا.میں نے کہا صاحب دو پاؤنڈ دیں گے اور پھر گائے ذبح کرنے کا تحریری اجازت نامہ لے لیا مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی مگر میں نے اس کا اظہار نہ کیا دوسرے دن میں نماز سے فارغ ہو کر ابھی قرآن کریم پڑھ ہی رہا تھا کہ معززین کا وفد آگیا.وہ کافی دیر بیٹھے رہے.جب میں فارغ ہو گیا تو چار معززین کو میں نے الگ لے جا کر اپنی اسکیم سے مطلع کیا وہ یہ سن کر باغ باغ ہو گئے اور مجھے گلے لگاتے رہے.پھر ہم سب ڈیرہ پر واپس آئے اور اسی وقت ساٹھ مسلمانوں سے گائے کے واسطے ساٹھ روپے اکٹھے کئے مگر عوام کو اس چیز کا بھید نہ دیا اور شام کو ایک اعلیٰ قسم کی گائے خرید کر اس کی خوراک کا انتظام کر کے جہاز میں بھیج دی.عید سے ایک دن قبل سکھوں کو معلوم ہو گیا کہ مسلمانوں نے گائے کی قربانی کرنا ہے.سکھوں اور ہندوؤں میں شور بپا ہو گیا کہ اگر ایسا ہوا تو ہم گاؤ کے لئے جائیں دے دیں گے اور اگلے دن کام پر نہ جانے کا فیصلہ کر لیا.حالانکہ عید کی چھٹی صرف مسلمانوں کو تھی عید کی صبح ہوئی اور کارخانہ کا بگل بجا مگر کوئی سکھ یا ہندو کام پر نہ گیا.جب اس کی خبر کیمپ کمانڈر کو ملی تو اس نے ان کے افسروں کو بلا کر حکم دیا کہ سب لوگوں کو کام پر حاضر کرو.مگر انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا.صاحب نے فون کیا اور فوراً ہی ایک بریگیڈ گورکھوں کا مسلح دستہ حاضر ہو گیا سب سکھ اور ہندو رونے لگے کہ صاحب ہم گائے قربان نہیں ہونے دیں گے.صاحب نے کہا کہ کسی قسم کی کوئی گڑیڑ نہیں ہوگی.وہ سب یہ سن کر کام پر چلے گئے اور میں بھی عید پڑھانے مارگل نمبر ۲ چلا گیا مگر جلد ہی واپس آگیا.کئی احمدی و غیر احمدی یہ نظارہ دیکھنے کو جمع ہو گئے صاحب بھی تشریف لے آئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ میں آپ کو ایسا کرنے سے لوکوں گا اور سختی سے روکوں گا مگر تم نے جلدی سے اپنا کام کر لیتا ہے.پھر میں ناراض ہو کر چلا جاؤں گا مگر آپ نے کوئی فکر نہیں کرنا.ہمارے آدمی گائے لے

Page 52

38 آئے.دس پٹھانوں کی گائے ذبح کرنے پر ڈیوٹی تھی اور انہیں سارا کام سمجھا دیا گیا تھا.ادھر سکھ دیکھ رہے تھے اور سپاہی ان کو کام پر بھیج رہے تھے.صاحب نے پٹھانوں کو روکا کہ یہ کام مت کرو.مت کرو.مگر پٹھان یہ کہتے ہوئے (بلند آواز سے) کہ صاحب آج ہمارا بڑا دن ہے.ہم گائے کی قربانی دیں گے گائے کو ذبح کر دیا.سکھ دوسری طرف منہ کر کے کام پر چلے گئے اور صاحب یہ کہتے ہوئے کہ ہم اس کا تختی سے نوٹس لیں گے اپنے کوارٹر کی طرف چلے گئے.کافی بکرے بھی ذبح کئے گئے تھے.غرضیکہ شام تک خوب جشن ہو تا رہا.ایک گیانی سے بحث عید کے دن شام کو ایک گیانی کرپان پہنے ہوئے میرے پاس آیا.مسلمان فورا" اکٹھے ہو گئے اور گیانی سے اس کی آمد کے متعلق پوچھا اس نے کہا کہ میں نے مولوی صاحب سے بات کرتا ہے.میں نے کہا کہ پھر آپ بیٹھ کر بات کریں.کہنے لگا کہ قرآن کریم میں کہیں بھی گائے کا گوشت کھانا نہیں لکھا.میں نے کہا قرآن کریم میں تو ہم ہی جانتے ہیں کہ کتنی دفعه گوشت کھانے کے متعلق لکھا ہے مگر آپ یہ بتائیں کہ گرنتھ میں گوشت کھانے کے متعلق کہاں ذکر آیا ہے.کہنے لگا کہ میرے ساتھ تاریخ کا تعین کر لو اور پھر ہم بحث کریں گے.میں نے مسلمان بھائیوں سے مشورہ کر کے آئندہ اتوار کا تعین کر لیا.چنانچہ صاحب (کیمپ کمانڈر) کو بھی اس بحث کی اطلاع کر دی گئی.سکھوں اور مسلمانوں نے دونوں طرف بہت خوبصورت سٹیج بنائے.وقت مقررہ پر کیمپ کمانڈر اور اس کی بیوی ہمارے سٹیج پر بیٹھ گئے.وہاں سگریٹ اور چائے کا بھی انتظام کیا ہوا تھا.تھوڑی دیر کے بعد ان کی طرف سے ایک سفید پوش گیائی اٹھا جس کی داڑھی ٹاف سے بھی کچھ نیچی تھی اور کچھ پڑھ کر اس کا ترجمہ کیا کہ گرو گرنتھ صاحب نے مانس کھانے کی ممانعت کی ہے اور جنم ساکھی میں بھی کہیں مانس کھانا نہیں لکھا.مجھے

Page 53

39 یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی اور سکھ بہت حیران ہو گئے اور اس گیانی کو فورا سٹیج سے نیچے اتار لائے اور کہنے لگے کہ اس کی عقل ٹھیک نہیں ہے چونکہ گیانی نے پنجابی میں تقریر کی تھی اور صاحب کچھ نہ سمجھ سکا تھا چنانچہ میں نے آہستہ آہستہ اردو میں تقریر کرنا شروع کی اور گیانی کی تقریر کا ترجمہ کر کے صاحب کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ سکھوں کو سوائے دال اور سبزیوں کے اور کچھ نہیں ملنا چاہئے اس کے بر عکس دین حق اور قرآن پاک سے مسلمانوں کے لئے گوشت کھانا ثابت ہے.سکھوں نے تنگ آکر اپنی طرف سے ایک ڈاکٹر کو سٹیج پر کھڑا کیا.اس نے ڈاکٹری اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے گوشت کھانے کے فوائد بیان کرنا شروع کئے.میں نے کہا کہ یہ تو آپ دین حق کی تائید کر رہے ہیں کیونکہ دین حق نے صحت مند جانوروں کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے.آپ کو تو یہ ثابت کرنا چاہئے کہ گرنتھ میں گوشت کھانے کے متعلق لکھا ہے مگر آپ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں.بعده مسلمانوں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے اور جلسہ برخاست ہو گیا.صاحب نے دس روپے مجھے بطور انعام دیئے اسی طرح اس کی بیوی نے بھی دس روپے بطور انعام دیئے اور سب مسلمانوں کے دلوں میں میرا احترام پہلے سے بڑھ گیا." ہندو مسلم سکھ 19 اتحاد.اسی دن رات کو سکھوں کا ایک وفد صوبیدار ڈاکٹر کی قیادت میں میرے پاس پہنچا اور وہ کہنے لگے کہ ہمیں آپس میں محبت سے رہنا چاہئے میں نے کہا یہ تو ہماری دلی خواہش ہے اور اس سے قبل ہم ایسے ہی پیار اور محبت سے رہ رہے تھے.جب سے سکھوں نے جھٹکا کرنا شروع کیا ہے اسی دن سے فتنہ پیدا ہو گیا ہے.مسلمان چونکہ انہیں جھٹکا کرنے سے روکتے نہیں اس لئے مسلمانوں نے بھی گائے ذبح کرنے کی اجازت لے لی ہے.اب آپ کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے.سکھ اپنے ساتھ چند ہندوؤں کو بھی

Page 54

40 لے آئے تھے وہ کہنے لگے کہ گائے ہماری مقدس چیز ہے اس لئے اسے ذبح کرنے سے ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے.میں نے کہا کہ مسلمانوں کے لئے جو جانور حلال ہیں جب آپ ان کو جھٹکا کے ذریعے مارتے ہیں تو انہیں بھی بہت دکھ ہوتا ہے.کہنے لگا کہ اگر یہ بات ہے تو ہم جھٹکا نہیں کریں گے آپ بھی گائے ذبح نہ کریں.میں نے کہا کہ اس کا جواب تو ہم آپس میں مشورہ کر کے ہی دے سکتے ہیں.سکھ اور ہندو منتیں کرنے لگے کہ ابھی مشورہ کر لو ہم نے اب فیصلہ کر کے ہی جاتا ہے.مسلمان بھی وہی بیٹھے تھے کہنے لگے کہ جو بھی فیصلہ مولوی صاحب کریں ہمیں منظور ہے.دوسری طرف سکھ کہنے لگے کہ جو فیصلہ بھی موادی صاحب کردیں وہ ہمیں بسر و چشم منظور ہو گا.میں نے کہا کہ اگر میرا فیصلہ دونوں فریقوں کو منظور ہے تو میرے پاس اس کی تحریریں آجانی چاہئیں اور اس پر فریقین کے معززین کے دستخط ہوں.چنانچہ اسی وقت ہی فریقین نے تحریریں لکھ دیں.میں نے تقریر کے ذریعہ یہ ثابت کیا کہ اس فتنہ کی ابتداء سکھوں کی طرف سے ہوئی ہے اور مسلمانوں نے بعد میں گائے ذبح کرنے کی منظوری لی ہے اس لئے میرا یہ فیصلہ ہے کہ سکھ بھائی بطور تاوان تین صد رو پید مسلمانوں کو ادا کریں اور ساتھ ہی یہ تحریریں لکھ دیں کہ اگر آئندہ سکھ کیمپ میں جھٹکا کریں تو مسلمانوں کو اجازت ہو گی کہ وہ بھی گائے ذبح کر لیا کریں.دوسری طرف مسلمان یہ تحریر لکھ دیں کہ اگر ہمارے سکھ بھائی اس معاہدہ کی پابندی کریں گے تو ہم ان کی دل شکنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیمپ میں گائے ذبح نہیں کریں گے اور اس تین صد روپیہ سے سب کا مشترکہ جلسہ کیا جائے جس میں ہر مذہب کا نمائندہ اپنے اپنے مذہب کی صرف خوبیاں بیان کریں اور کسی دوسرے مذہب پر اعتراض نہ کریں اس جلسہ میں اس روپیہ کی مٹھائی اور سوڈا واٹر کی بوتلوں کا انتظام کیا جائے گا تاکہ سب دوستوں کے آپس میں دل صاف ہو جائیں.فریقین نے

Page 55

41 میرے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا اور سکھوں نے اسی وقت تین صد روپے میری ہتھیلی پر رکھ دیئے.میں نے اس وقت معزز مسلمانوں کی ایک کمیٹی بنا کر ان کے سپردوہ روپیہ کر دیا.سکھ ہندو اور مسلمانوں نے بڑے پیار سے ایک دوسرے سے مصافحے کئے اور میرا بہت بہت شکریہ ادا کیا.فریقین نے ایک دوسرے کو تحریریں لکھ دیں اور آئندہ اتوار جلسہ کے لئے مقرر کر لیا.ہم نے کیمپ کمانڈر صاحب کو اطلاع کر دی کہ اب ہندوؤں اور مسلمانوں کی صلح ہو گئی ہے اور یہ کہ آئندہ جھٹکا نہیں کیا کریں گے لہذا ان کو علیحدہ بکرے نہ دیئے جائیں.آمدہ اتوار کو جلسہ کا انتظام کیا گیا.میں نے اپنی تقریر سب سے آخر میں رکھی تھی.یہ جلسہ خدا تعالی کے فضل سے نہایت کامیاب رہا.سکھ اور ہندو بہت خوش ہوئے.مسلمانوں نے خوشی سے ان میں مٹھائی اور سوڈا واٹر کی بوتلیں تقسیم کیں.تب وہاں ہندو مسلم اتحاد زندہ باد کے نعرے لگائے گئے.بعدہ مسلمانوں میں میری تبلیغ بھی ہونا شروع ہو گئی اور چند آدمی احمدیت میں بھی داخل ہو گئے.میں چونکہ مارگل نمبر ۲ میں جا کر درس و تدریس کا کام کیا کرتا تھا اور وہاں ہمارے پچتیں احمدی احباب جمع ہو جایا کرتے تھے اور نمازوں کے لئے امام الصلوۃ مجھے ہی بنایا کرتے تھے حالانکہ وہاں ہمارے ضیاء الحق صاحب شیخ منظور احمد صاحب لاہوری اور بابو محمد عبد اللہ صاحب امرتسری بھی ہوا کرتے تھے.انہی ایام میں شیخ عبد الواحد انسپکٹر خفیہ پولیس بھی رہیں تھے.یہ چونکہ لاہور جماعت کے جوشیلے نمبر تھے لہذا اتوار کا سارا دن بابو محمد عبد اللہ صاحب کے ساتھ مباحثہ میں ہی گزر جاتا.طرفین حوالہ جات انکار نبوت اور اقرار نبوت دیتے رہتے مگر کوئی فیصلہ بھی نہ ہو پاتا.میں نے تنگ آکر بابو محمد عبد اللہ صاحب سے عرض کیا کہ خدا کے لئے اس بحث کو بند کریں اور آئندہ اتوار کو میں شیخ صاحب سے کسی ایک جگہ پر نصف گھنٹہ کے لئے ایک بات کرنا چاہتا ہوں.شیخ صاحب نے

Page 56

42 ۱۹۱۴ء سے یہ منظور کر لیا.اس وقت ہم سب واپس آگئے اور اگلے اتوار کو پھر حاضر ہوئے شیخ صاحب کو میں ایک الگ مکان میں لے گیا اور عرض کی کہ خدا کے لئے میری عرض کو غور سے سنیں.میں آپ سے اس وقت بحث نہیں کرنا چاہتا.صرف یہ دریافت کرتا ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کا قیام صرف باتونی بنانے کے لئے ہوا ہے یا کچھ روحانیت حاصل کرنے کے لئے بھی.شیخ صاحب نے کہا کہ یہ روحانی سلسلہ ہے.میں نے کہا جزاک اللہ.میرا بھی یہی عقیدہ ہے.مگر آپ یہ بتائیں کہ اب ۱۹۲۰ء ہے اور اختلاف خلافت سے شروع ہوا کیونکہ مولوی محمد علی صاحب خلافت کے خلاف تھے اور نبوت کا انکار کرتے رہے اور آپ لوگ مولوی صاحب کا ساتھ دے رہے ہیں اور یہ یقین کئے بیٹھے ہیں کہ مولوی صاحب کا مسلک ہی صحیح ہے.اب اس کا تصفیہ میں روحانی طور پر کروانا چاہتا ہوں.آپ کو اس خدا کی قسم دیتا ہوں جس کے ہاتھ میں آپ کی جان ہے کہ کیا اس چھ سات سالہ اختلافی دور میں آپ کو کسی کشف یا خواب کے ذریعہ اشارہ " یا کنایتہ خدا تعالی کی طرف سے کبھی تسلی دی گئی ہے کہ مولوی صاحب کا مسلک صحیح ہے اور میاں صاحب کا مسلک صحیح نہیں ہے؟ شیخ صاحب نے نہایت مومتانہ دلیری سے یہ کہکر کہ " نہیں " انہوں نے مجھ پر وہی سوال وہی (ویسی) قسم دے کر دہرایا کہ آپ ہی بتائیں کہ آپ کو کوئی تسلی خدا تعالی کی طرف سے دی گئی ہے؟ میں نے انہیں الفاظ میں حلف اٹھا کر ۱۹۱۳ء کے ماه رمضان کی ستائیسویں تاریخ کا خواب بیان کر دیا.(جو پیچھے بیان ہو چکا ہے) شیخ صاحب نے سارا خواب سن کر اپنی جیب سے کاغذ نکال کر کچھ لکھنا شروع کیا.ایک لمبا خط لکھنے کے بعد اسے ایک سادہ لفافہ میں ڈال کر میرے حوالہ کیا.اس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ سے معافی مانگ کر بیعت قبول کرنے کی درخواست کی تھی جسے پڑھ کر میرا دل باغ باغ ہو گیا.اور ہم دونوں خوشی سے بغل "

Page 57

43 گیر ہو کر مجلس میں چلے گئے.مجلس والوں نے کہا کہ ہمیں بھی اپنے فیصلہ سے آگاہ کریں.میں نے وہ لفافہ بابو محمد عبد اللہ صاحب کے حوالے کر دیا.انہوں نے اسے ساری مجلس میں پڑھ کر سنایا تو سب احباب نے شیخ صاحب کو اور مجھے مبارکباد دی اور مٹھائی منگوا کر تقسیم کی گئی.اننده اتوار کو صوبیدار ڈاکٹر یعقوب خان حضرت انس کے روضہ پر دعا صاحب ایک جرنیل کی چار گھوڑوں والی بگھی پر مجھے اور چند دوسرے آدمیوں کو قصبہ زبیر دکھانے لے گئے.وہاں حضرت زیبر حضرت طلحہ اور حضرت حسن بصری کی قبریں تھیں.وہاں دعا کرنے کے بعد ہم شام کو واپس آگئے.پھر مجھے معلوم ہوا کہ "عشار" سے کافی دور جنگل میں حضرت انس کا روضہ ہے.اسے دیکھنے کا دل میں بڑا اشتیاق پیدا ہوا.چنانچہ چھ احمدی میرے ساتھ ہو لئے.بڑی مشکل سے چھ گھنٹے کا پیدل سفر کر کے وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوئے.جب ہم قریب پہنچے تو پہلے تو کتنے شور مچانے لگے.پھر ایک عربی محافظ بندوق تان کر ہمارے سامنے کھڑا ہو گیا.انہیں اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے تھے.میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر بلند آواز سے یا رفیقی السلام علیکم کہا.یہ سنتے ہی اس نے بندوق وہیں رکھ دی اور میرے ساتھ بغلگیر ہو گیا.بعدہ ہمیں اپنے ہمراہ لے کر روضہ پر پہنچا.چونکہ ہم بہت تھک چکے تھے لہذا میرے ہمراہی تو فاتحہ پڑھ کر باہر اگر چٹائی پر بیٹھ گئے مگر مجھے دعا کا از حد لطف آیا اور میں نے وہاں نصف گھنٹہ سے زیادہ وقت دعا کی اور اس وقت میرے دل میں سے دو اشعار ٹوٹے پھوٹے الفاظ مین نکلے - وهو هذا - گرا ہوں تیرے در پر میں بلا لو یا خدا مجھ کو پھنسا ہوں دشمنوں کے ہاتھ چھڑا لو یا خدا مجھ کو

Page 58

44 یہی اک دل میں آتا ہے کروں تبلیغ میں حق کی مبلغ اپنی رحمت سے بنا لو یا خدا مجھ کو میرا یہ اندازہ ہے کہ میں نے جتنی وہاں دعائیں کی تھیں اس کا بیشتر حصہ خدا تعالی نے پورا کر دیا ہے.جو باقی ہے اسے بھی خدا تعالیٰ سے پورا ہونے کی پوری امید ہے.انہی ایام میں بیت برلن کے لئے حضرت صاحب کی تحریک پہنچی جو پہلے ستر ہزار ، پھر ایک لاکھ بعدۂ ایک لاکھ تیس ہزار روپیہ تک پہنچ گئی.میں نے وہاں یہ اعلان کیا کہ ہم یہاں پچھتیں احمدی ممبر ہیں اور ہماری مجموعی تنخواہ بچتیں صد روپیہ مالہانہ بنتی ہے.اگر سب نمبر ایک ماہ کی نصف تنخواہ ادا کر دیں تو اس طرح بارہ صد پچاس روپے اکٹھے ہو سکتے ہیں.لہذا دوستوں نے میری تجویز پر عمل کیا اور اس طرح ہم نے بارہ صد پچاس روپیہ نیت برلن کے لئے روانہ کر دیا.الحمد للہ.خدا تعالی کے فضل و کرم سے وہاں تین مرتبہ رمضان شریف آیا اور باوجود سخت گرمی کے میرا ایک روزہ بھی وہاں نہیں چھوٹا.ایک دن ہم جہاز میں کام بحری جہاز کی غرقابی اور مجرمانہ طور پر حفاظت کر رہے تھے کہ علم آیا کہ یہ جہاز مع کام کرنے والوں کے بغداد بھیج دیا جائے گا.اس لئے سب کام کرنے والے اپنا سامان جہاز ہی میں لے آئیں.کیونکہ اس وقت بڑی سخت جنگ ہو رہی تھی.میرے دس ساتھیوں نے یہ سنتے ہی رونا شروع کر دیا.مگر میں نے نفل پڑھنے شروع کر دیئے جہاز کی روانگی کادو مرتبہ وسل (Whistle) ہو چکا تھا.جہاز کی روانگی میں صرف دو منٹ باقی تھے کہ جنرل صاحب کی طرف سے فون آیا کہ میرے معائنہ کے بغیر جہاز روانہ نہ کیا جائے.چنانچہ جنرل صاحب وہاں پہنچے اور بعد معائنہ جہاز کی روانگی کا حکم دیا.پھر جب اچانک ہم لوگوں پر نظر پڑی تو جہاز کے کپتان سے دریافت

Page 59

حضرت مولوی محمد حسین صاحب 2 جنوری 1993 ء کو عمر کے 100 سال مکمل ہونے پر

Page 60

حضرت مولوی محمد حسین صاحب اپنے بیٹے رانا محمد اقبال صاحب کے ساتھ ( جون 1985 ء )

Page 61

45 کیا کہ یہ فٹر کنارہ کے ہیں یا پانی کے؟ اس نے جواب دیا کہ حضور کنارہ کے.جنرل صاحب نے کہا نہیں نہیں یہ نہیں جائیں گے.صرف پانی کے فٹ ہمراہ لے جاؤ اور ہمیں جنرل صاحب نے جہاز سے باہر آنے کا حکم دیا.بعدہ پانی کے فٹ آگئے اور جہاز روانہ ہو گیا.رات دو بجے کے قریب اطلاع آئی کہ دشمن نے جہاز غرق کر دیا ہے اور ایک آدمی بھی زندہ نہیں بچ سکا.ہم نے خدا تعالٰی کا شکر ادا کیا کہ ہماری ابھی زندگی باقی تھی.غرضیکہ جس جگہ میں نے بیرک نمبر 1 میں جا کر بستر رکھا تھا وہیں میں نے اپنی ساری سرکاری سروس کا عرصہ گزار دیا.ہاں ایک بات یاد آئی کہ جب رمضان کا مہینہ نزدیک تھا تو چند مسلمان معزز لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے که مولوی صاحب ہم جانتے ہیں کہ آپ نیک بھی ہیں اور عالم بھی.ہماری یہ خواہش ہے کہ آپ ہمارے امام کے پیچھے صرف ایک نماز پڑھ لیں تو ہم آپ کو اپنا امام مقرر کر لیں گے اور آپ ہی تراویح بھی پڑھائیں گے خواہ کوئی پڑھے یا نہ پڑھے.ہر ایک مسلمان سے ہم پانچ روپے وصول کر کے آپ کو دیں گے اور جو امیر آدمی ہیں ان سے زیادہ بھی وصول کریں گے اور اس طرح یہاں نو صد آدمیوں سے آپ کو مفت میں پانچ چھ ہزار روپیہ مل جائے گا.میں نے کہا خدا تعالٰی نے قرآن کریم میں یہ دعا سکھائی ہے کہ متقیوں کے امام بننے کی کوشش کیا کرو.لیکن مجھے یقین نہیں کہ یہ متقی ہیں تو پھر میں ان کا امام کیسے بنوں.اور اگر برو پسینہ کے لالچ میں ایسا کروں تو خدا تعالٰی عید سے ایک دن قبل ہی مجھے وفات دے سکتا ہے.ایسی صورت میں یہ روپیہ کہاں جائے گا اور میں کہاں جاؤنگا.یہ سن کر مایوس ہو کر وہ واپس چلے گئے.غرضیکہ جولائی ۱۹۲۱ء کو میں بخیریت واپس فلوریان پہنچ گیا.الحمد للہ.خدا تعالی کی تائید و نصرت ہر قدم پر دیکھی اور حضرت مسیح موعود کی ہدایات جو دعا کے متعلق انہوں نے ہمیں دی ہیں ان پر عمل کرنا ہر رنگ میں اور ہر حالت میں

Page 62

46 بابرکت پایا اور مفید ثابت ہوا.بصرہ سے واپس قادیان پہنچ کر میں نے شدھی کی تحریک اور وقف زندگی یہ پروگرام بنایا اکہ ایران میں آبادان آئیل کمپنی میں کام کیا جائے کیونکہ وہاں ان دنوں فٹر کی ماہوار تنخواہ تین صد روپیه تھی مگر گھر والوں کے روکنے پر قادیان میں ہی فضل کریم صاحب کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا.ماہ ستمبر ۱۹۲۱ء تا ماہ مارچ ۱۹۲۳ء تک ان کے پاس کام کیا.اسی دوران شردھانند آریہ نے آگرہ سے غالبا یہ اشتہار دیا کہ اگر آریہ سماج چار لاکھ روپیہ اکٹھا کر کے مجھے بھیج دیں تو میں ساڑھے چار لاکھ ملکانہ مرد و زن بچوں کو آریہ بنا سکتا ہوں.جب یہ اشتہار حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں پہنچا تو حضور کو سخت قلق ہوا اور آپ نے وہ اشتہار خطبہ جمعہ میں پڑھ کر سنایا اور اعلان کیا کہ ہماری جماعت اب میدان میں نکلے اور تین ماہ خدا تعالیٰ کی خاطر وقف کرے اور اپنے ہی کرایہ اور کھانے کے بندوبست پر یوپی کے علاقہ جہاں بھی اس کا تعین کیا جائے رہ کر ان لوگوں کو دین حق سے اچھی طرح وابستہ کرے.چنانچہ جو لوگ اس کام کے لئے تیار ہوں وہ بہت جلد اپنی درخواستیں بھیج کر جانے کے لئے تیار رہیں.حضور کا یہ اعلان سنتے ہی سینکڑوں مخلصین نے درخواستیں دیں.میں نے بھی والد صاحب سے اجازت لے کر درخواست دے دی.میری اس درخواست کا سن کر والده صاحبه بهت گھبرائیں کیونکہ کسی عورت نے بتا دیا تھا کہ جہاں یہ لوگ جائیں گے وہاں ہندوؤں سے جھگڑے ہوں گے اور وہاں ہندو کثرت سے ہیں.نا معلوم یہ کہاں مارے جائیں.عورتوں کے دل کمزور ہوتے ہیں.اسی لئے آپ بھی گھبرا گئیں.میں نے آپ کو بڑی محبت سے سمجھایا کہ خدا نے اس جگہ سے ہمیں بچائے رکھا جہاں ہم گورنمنٹ کی نوکری میں صرف جنگ کرنے کے لئے ہی گئے تھے اور یہ تو خدا تعالٰی

Page 63

47 کا کام ہے وہ خود ہی ہماری حفاظت کرے گا.آپ بالکل فکر نہ کریں اور ہر نماز میں دوسری دعاؤں کے ساتھ دین حق کی فتح کی دعا بھی کرنا شروع کر دیں.قادیان سے ۱۲ مارچ ۱۹۲۳ء کو پہلا وفد برائے سروے حضور نے روانہ فرمایا.حضور اور دیگر احباب کثرت سے ڈلہ کے موڑ تک وفد کو روانہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے.وہاں ایک کنویں کے نزدیک تمام احباب اکٹھے ہو گئے.حضور نے مختلف نصیحتیں کرنے کے بعد ایک لمبی دعا کروا کر وفد کو روانہ کیا اور اس وقتہ تک وہیں کھڑے رہے جب تک وفد کے احباب جاتے ہوئے دکھائی دیتے رہے.جب یہ وفد آنکھوں سے اوجھل ہوا تو حضور نے واپسی کا سفر شروع کیا.ہم بھی آپ کے ہمراہ واپس آگئے.اس وقت میرے دل میں بہت جوش اٹھا کہ کاش میں بھی اس جانے والے وفد کے ہمراہ ہو تا.واپس قادیان اگر غمگین دل کے ساتھ دوبارہ کام شروع کر دیا.بالاخر ۲۴ ، مارچ ۱۹۲۳ء کو دوسرا وفد جانے کی افواہ سنی.بڑی خوشی ہوئی کہ اب میرا نام بھی اس وفد میں ضرور آجائے گا.میں نے فہرست میں اپنے نام کی تسلی کرنے کے لئے کوشش کی تو جواب ملا کہ آپ تسلی سے اپنا کام جاری رکھیں.جب آپ کا نام آئے گا تو روانگی سے ایک دن قبل آپ کو اطلاع کر دی جائے گی.۲۳ مارچ کا دن بھی آگیا مگر شام تک مجھے کوئی اطلاع نہ ملی اور اگلے دن صبح یہ اعلان ہو گیا کہ آج بعد دو پر دو سرا وفد روانہ ہو گا.چنانچہ پہلے وفد کی روانگی کی طرح اب بھی ہم حضور کے ہمراہ اسی جگہ تک گئے اور نصائح کے بعد دعا کے ساتھ وفد کو روانہ کیا.میرا نام وفد میں نہ آنے کی وجہ سے سخت اضطراب کی حالت میں رہا اور پھر تنگ آکر میں نے حضور کی خدمت میں ایک درخواست لکھی کہ اگر حضور نے مجھے تیسرے وفد میں بھی نہ بھیجا تو میں بیمار ہو جاؤں گا.آخر اللہ تعالٰی نے میری التجا سن لی اور مجھے اطلاع ملی کہ کل مورخہ ۴/ اپریل ۱۹۲۳ء کو تیسرے وفد کے ہمراہ جانے کے لئے

Page 64

48 تیار رہیں اور کل دس بجے اپنا مختصر سامان ، کھانا اور کپڑے وغیرہ ہمراہ لیکر دفتر تشریف لے آئیں.یہ سن کر میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی.اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور اگلے دن مع سامان اور ساٹھ روپے نقد لے کر دفتر پہنچ گیا.وہاں سے سرٹیفکیٹ ملا کہ "حامل سرٹیفکیٹ جماعت احمدیہ قادیان ضلع گورداسپور پنجاب کا ہونا نائڈ مشنری ہے.اسے ہر جگہ جانا پڑے گا اور ضرورت کے مطابق لباس بھی تبدیل کرنا پڑے گا.اس لئے گورنمنٹ اسے مشتبہ نظر سے نہ دیکھے وغیرہ وغیرہ.مورخہ ۴ / اپریل ۱۹۲۳ء کو دفتر سے تبلیغی و فود کی روانگی اور سفر آگرہ فارغ ہونے کے بعد وفد کے اصحاب جو تعداد میں پچیس کے قریب تھے اکٹھے ہوئے اور ہمیں حضور اور دیگر افراد جماعت کثرت سے ڈلہ کے موڑ تک الوادع کرنے گئے.حضور نے حسب معمول نصائح فرما ئیں اور اعلان کیا کہ جس کو نئی بستی میں داخل ہونے کی دعا یاد ہے وہ گاڑی میں ہی سب احباب کو حفظ کرا دے مجھے اور عبدالرحیم صاحب کو یہ دعا یاد تھی چنانچہ ہم نے سب کو یاد کروانے کا اقرار کیا.حضور نے بعد دعا و معالفقہ ہمیں رخصت کیا.ہم پیدل ہی جا رہے تھے اور بار بار مڑ کر پیچھے دیکھ لیتے تھے.حضور بھی اس وقت تک کھڑے نہیں دیکھتے رہے جب تک ہم انہیں دکھائی دیتے رہے.ہم تیزی کے ساتھ چلتے رہے.عصر کی نماز قصر کر کے ہم نے نہر کے کنارہ پر نماز یا جماعت ادا کی اور مغرب کے بعد ہالہ پہنچے رات کو بٹالہ سے بذریعہ گاڑی روانہ ہوئے اور اگلے دن بعد دو پر آگرہ پہنچے.وہاں چوہدری فتح محمد صاحب سیال امیر تھے.انہوں نے ہمارے لئے حلقوں کا انتخاب کیا.جو لوگ مجھ سے واقف تھے وہ مجھے اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے تھے.آخر بابو جمال الدین صاحب جو ایڈیٹر نور محمد یوسف صاحب کے سر تھے انہوں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ میں

Page 65

49 عمر رسیدہ ہوں اس لئے آپ مولوی محمد حسنین کو میرے ہمراہ کر دیں.چوہدری صاحب نے منظور کر لیا.ہمیں ضلع ایٹہ ملا اور عبدالرحمان صاحب قادیانی ہمیں ہمارے حلقہ میں پہنچانے کے لئے ہمارے ہمراہ چل دیئے.کا سکنج پہنچنے کے بعد بذریعہ لاری اللہ پہنچے.چونکہ ہم رات کے وقت ایٹہ پہنچے تھے اس لئے رہائش کے لئے دیار غیر میں سرائے تلاش کرنے لگے.ایک آدمی سے سرائے کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ آپ آباد سرائے میں جائیں گے یا غیر آباد میں؟ ہم نے کہا آباد سرائے میں تو وہ بیچارہ ہمیں راستہ بتا کر کہنے لگا کہ وہاں روشنی ہو رہی ہو گی اور آپ آسانی سے وہاں پہنچ جائیں گے.جب ہم چند قدم ہی آگے بڑھے تو مجھے خیال آیا کہ اس آباد اور غیر آباد سرائے کے بارے میں معلوم کرنا چاہئے.چنانچہ واپس آکر وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ آباد سرائے میں ہر قسم کی بازاری عورت مل جائے گی اور غیر آباد میں نہیں ملے گی.میں نے لاحول پڑھا اور ہنتے بنتے عبد الرحمان صاحب کو آواز دی کہ ذرا ٹھہر جائیں اور انہیں سارا حال سنایا.وہ بھی لاحول پڑھ کر اپنے لگے اور کہنے لگے کہ شکر ہے کہ آپ کو یہ بات بروقت سوجھ گئی ورنہ صبح کو ہماری بڑی بدنامی ہوتی.غرضیکہ ہم غیر آباد سرائے میں چلے گئے.صبح اٹھ کر نماز وغیرہ پڑھی اور بعد دعا بذریعہ یکہ ڈھمری روانہ ہو گئے.ظہر کے وقت علی گنج کی تحصیل میں ایک گاؤں گڑھی" تھا جو پختہ سڑک کے کنارہ پر تھا وہاں پہنچے.بھائی عبد الرحمان صاحب نے ہمیں سڑک پر ہی اتار دیا کہ آپ اس گاؤں میں جہاں چاہئیں ڈیرہ لگالیں میں اب واپس جاتا ہوں.خدا حافظ کہہ کر اسی یکہ پر واپس روانہ ہو گئے.ہم اپنا سامان اٹھا کر اسی گاؤن کی ایک چھوٹی سی پختہ بیت میں پہنچے.چھوٹے چھوٹے بچے جن کی زبان سے ہم واقف نہ تھے ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے ·

Page 66

50 ارے یہ کوہ ہے؟ یعنی یہ کون ہیں؟ تھوڑی دیر کے بعد ایک معمر آدمی جس کا نام ممتاز علی خان تھا آیا.اس نے بڑی عمدہ سلیس اردو میں ہمارے ساتھ مہذبانہ طریق سے بات کی.ہمیں اس سے مل کر بہت خوشی ہوئی.وہ تعلیم یافتہ آدمی تھا.ہم نے اسے اس ملک میں آنے کی غرض بتائی.وہ سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ میں پہلے آپ کے کھانے کا انتظام کر آؤں پھر بیٹھ کر باتیں کریں گے.بابو صاحب کہنے لگے کہ مولوی صاحب میں تو اب نہیں رہوں گا آپ کوئی اور گاؤں قریب ہی تلاش کرلیں.میں نے کہا بہت اچھا.انشاء اللہ تعالی میں بھی کوئی گاؤں تلاش کر لوں گا.آپ بے فکر رہیں.رات کو کافی دوست اکٹھے ہو گئے.میں نے ان سے ارد گرد کے دیہات کا پتہ لیا.ان سے قسم قسم کی باتیں کر کے ان سے تعلقات پیدا کئے.وہ لوگ مجھ سے زیادہ مانوس ہو گئے کیونکہ بابو صاحب کم گو تھے اور مجھے باتیں کرنے کا شوق پرانا ہی تھا.رات کے بارہ بجے مجلس برخواست ہوئی.میں نے کچھ طالب علم بھی بابو صاحب کو مہیا کر دیے.صبح کے وقت میں نے نماز پڑھائی جس میں دو تین مقامی لوگوں نے بھی شرکت کی.دن کے دس بجے میں اپنا بستر اور دیگر سامان اٹھا کر وہاں سے روانہ ہوا.ابھی دو میل کے قریب ہی سفر کیا تھا ایک گاؤں میں بیت نما بوسیدہ سا مکان دیکھا.میں نے ایک مقامی دوست سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ ملکانہ مسلمانوں کا گاؤں ہے.اور اس کا نام نگہ گھنو ہے.میں اس بوسیدہ سے مکان میں پہنچا.اس میں محراب بھی بنا ہوا تھا اور فرش پر گھاس اگا ہوا تھا.وہیں میں نے اپنا ڈیرہ جما لیا.وہاں پانی کا کوئی انتظام نہ تھا.میں اکیلا ہی بیٹھا رہا.کسی قسم کی کوئی گھبراہٹ نہ تھی.تھوڑی دیر کے بعد ایک معمر سی عورت آئی.میں نے السلام علیکم کہا.اس نے کہا بیٹا جیتے رہو.تم کہاں سے آئے ہو اور کیا کام ہے.میں نے اپنی آمد کی غرض بتائی کہ آریوں سے اس قوم کو بچانے کے لئے ہمارے پیارے امام

Page 67

51 نے ہمیں قادیان سے بھجوایا ہے.تفصیل سے باتیں بتا ئیں تو وہ بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ یہاں کے لوگ بہت جاہل ہیں ان سے گھبرا نہ جانا.میں نے کہا اماں جی اگر یہ لوگ ہمارے بھائی، جاہل نہ ہوتے تو آریہ ان پر حملہ کیوں کرتے.وہ یہ کہتے ہوئے چلنے لگی کہ میں آپ کے لئے "ستو" یعنی ستو لاتی ہوں.میں نے کہا اماں جی آپ کا شکریہ.میرے پاس ستو بھی ہے اور بھنے ہوئے چنے اور جو موجود ہیں آپ کوئی تکلیف نہ کریں.ہمیں حضرت صاحب کا حکم ہے کہ اپنا ہی کھانا ہے کسی کو اس کی تکلیف نہیں پہنچانا.وہ بڑے اصرار کے بعد لے ہی آئی اور کہنے لگی بیٹا تین دن تک تو مہمان رہ کر حق رکھتے ہیں پھر چوتھے دن خود انتظام کر لینا.اس معمر خاتون کا نام ممتاز بیگم تھا اور یہی اس گاؤں میں نماز و روزہ سے واقف تھی.باقی سب اسلام کی تعلیم سے ناواقف تھے.اس کی زرعی زمین کافی تھی لیکن بوجہ بیوہ ہونے کے مزارعان بد دیانتی کر لیا کرتے تھے.اس کی دو شادی شدہ بیٹیاں تھیں اور ایک لڑکا نصیر الدین خان تھا جو مڈل پاس تھا.میرا پہلے دن ہی ان سے تعارف ہو گیا تھا.میں نے ظہر کی اذان کہی.بعض لوگ اذان سن کر آئے اور مجھے مل کر چلے گئے.رات کے وقت مائی جی ہی کھانا لے آئی اور میں نے اپنا سامان ان ہی کے گھر رکھ دیا.خود میں چوپال یعنی ایک مشترکہ مکان ہوتا ہے جس میں ہر گھر کی ایک چارپائی موجود رہتی ہے اور سب گھروں کے مہمان کھانا وغیرہ کھا کر رات وہیں آکر بسر کرتے ہیں.اگر کوئی مسافر ہو تو اس کا کھانا بھی چوپال ہی میں آجاتا ہے.رات کو یہ سب لوگ میرے ارد گرد جمع ہو گئے.نمبردار بھیجو خان اور وہاں کا رئیس مظفر خان اس کا والد جان محمد خان دلاور خان ، خیراتی خان ، میاں خلل، منشی خاں، عثمان خاں، تھو خاص نور محمد خاں اور افضل خاں وغیرہ وغیرہ.یہ سب ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے.میں نے ان سے تعلقات پیدا کرنے کے لئے ایک دلچسپ کہانی سنائی

Page 68

52 کیونکہ وہ لوگ کہانیوں کے بہت شوقین تھے.صبح کے وقت گاؤں میں چرچا ہو گیا کہ "ارے پنجابی مولبی صاحب تو عجب کی کہانی کاہت ہیں" یعنی پنجابی مولوی صاحب تو غضب کی کہانی کہتے ہیں.میں بھی دن بھر اس قسم کی کہانیاں گھڑ تا رہتا تھا جس سے دین حق کے ساتھ محبت بھی پیدا ہو اور دلچسپ بھی ہو.غرضیکہ تین چار دنوں میں وہ لوگ میرے ساتھ مانوس ہو گئے.میں نے آہستہ آہستہ ارد گرد کے دیہات کا دورہ کرنا شروع کر دیا اور آریوں کے تعلقات اور آمد و رفت کا پتہ رکھا.مجھے نگلہ گھنو میں رہتے ہوئے پانچواں ہی دن تھا کہ نگلہ گھنو میں پہلا مباحثہ ٹھاکر گردندر سنگھ آریہ اپدیشک وہاں آگیا.اس گاؤں میں ہندو ٹھاکروں کے دو ہی گھر تھے اور ایک گھر بنئے کا تھا مگر یہ سب لوگ میرے واقف ہو چکے تھے.اس آریہ ٹھاکر نے اگر ان لوگوں کو آریہ بن جانے کی پر زور تحریک کی اور ان کے جذبات کو بہت بھڑکایا اور ان میں ایک خون ، ایک تمدن اور ایک لباس اور ایک ہی قسم کی زبان ہونے اور اعتقاد میں ذرا سا اختلاف ہونے پر انہیں متحد ہونے کی ہدایت کی.میں خاموشی سے ان کی ساری باتیں سنتا رہا.جب وہ اپنی بات ختم کر چکا تو میں نے کہا تھا کر صاحب آپ نے متحد ہونے کی تحریک کی ہے میں نے اس سے بہت اچھا اثر لیا ہے اور ہم سب لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام لوگوں کا ایک ہی خون ہے ایک ہی خوراک ہے ایک ہی آنے کا راستہ ہے اور ایک ہی جانے کا راستہ ہے لباس بھی سب پہنتے ہیں اور غذا بھی سب کھاتے ہیں.زمین بھی سب کی ایک ہے اور آسان بھی سب کا ایک ہی لیکن جس طرح ہم سب کی شکلیں جداگانہ ، عقلیں جداگانہ علم جداگانہ اور اعتقاد بھی جدا گانہ ہیں لیکن بعض باتوں میں ہم سب ایک جیسے ہیں اور بعض میں مختلف ہیں اسی طرح نباتات جمادات اور حیوانات کا حال ہے.درخت کا لفظ تو سب کے لئے بولا جاتا ہے مگر کوئی

Page 69

53 کیکر ہے تو کوئی ڈھاک ہے، کوئی شہتوت یا آم ہے تو کوئی نیم ہے غرضیکہ نام کا اشتراک ہے مگر تاثیرات اور فوائد سب ایک ہیں مگر ہم سب کے اعتقادات جو الگ انگ قائم ہو چکے ہیں اگر ہم کوشش کریں تو یہ ایک ہو سکتے ہیں اور یہ کوشش اسی طرح ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے آریہ عقائد بیان کریں ہم سن کر ان پر غور کرتے ہیں.اگر وہ ہمارے دین حق سے اچھے ہوئے تو ہم ان کو قبول کر لیں گے.پھر میں اپنے ناقص علم کے ساتھ اسلامی عقائد و اخلاق بیان کروں گا پھر آپ ان پر غور کریں پھر ان دونوں میں جو اچھے ہوں گے ان پر ہم دونوں اکٹھے ہو جائیں گے.سارے مجمع نے اس بات کو بہت پسند کیا مگر ٹھاکر صاحب نے کہا کہ آپ سے ہماری کوئی بات نہیں ہے.آپ پنجابی ہیں.میں تو اپنی برادری کو اپنے ساتھ ملا کر جاؤں گا.میں نے کہا ہم سب مہادیو یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اس وجہ سے آدمی کہلاتے ہیں.اس لئے سب برادری ہیں.جب خدا کا بنایا ہوا سورج ساری دنیا کے کام آتا ہے، اس کی ہوا ، پانی ، آگ ، چاند ستارے آسمان اور زمین غرضیکہ اس کی بنائی ہوئی ہر چیز دنیا کے کام آتی ہے تو خدا کا دین بھی ایک ہونا چاہئے اور اس وقت ضرورت بھی ساری دنیا میں ایک ہی دین کی ہے تاکہ جس طرح سب کے جسم ایک جیسے ہیں ، اعتقاد بھی ایک جیسا ہو اور آپس میں منتقل اتحاد پیدا ہو جائے.اگر ہر برادری کا مذہب علیحدہ علیحدہ ہو تو پھر دن رات جھگڑے ہی ہوتے رہیں گے.ٹھاکر صاحب بولے کہ دنیا میں جس طرح پہلے دن سے ایک ہی سورج چلا آرہا ہے اسی طرح دنیا میں ابتدائی کتاب دید مقدس چلی آرہی ہے اگر اس پر تمام دنیا ایمان لے آئے تو سب جھگڑے آج ہی ختم ہو جاتے ہیں.میں نے ٹھاکر کا شکریہ ادا کیا کہ آخر آپ نے بھی محسوس کر ہی لیا کہ میرا بیان کرنا صحیح تھا مگر ٹھاکر صاحب آپ نے میرے پہلے بیان پر غور نہیں کیا کہ بعض باتیں تو سب کی مشترک ہیں لیکن بعض

Page 70

54 میں تبدیلی ضروری ہے.مثلا بارش بھی ابتدائے زمانہ سے چلی آرہی ہے.مگر ہمیں اس کی ہر وقت ضرورت نہیں ہوتی.اگر ہمیں کسی وقت اس کی ضرورت ہے تو کسی وقت دھوپ کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے.آپ جانتے ہیں کہ پہلی جماعت کا قاعدہ صرف پہلی جماعت کے لئے ہی ہوتا ہے.لیکن اس کے حروف ساری کتابوں میں استعمال ہوتے ہیں اور طالب علم کی استعداد کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی کتابیں بھی بدلتی جاتی ہیں.اسی طرح بچپن میں بھی ہمیں لباس ہی پہنایا جاتا تھا مگر اب جوانی میں ہم وہ لباس نہیں پہن سکتے کیونکہ ہم بڑے ہو چکے ہیں.اسی طرح اگر ابتداء میں دید تھا تو وہ ابتدائی قاعدہ کی طرح تھا.اب جب کہ دنیا کی استعداد بڑھ چکی ہے تو انہیں اب مکمل کتاب کی ضرورت تھی اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ کتاب قرآن کریم ہے.جیسے جوان آدمی کے ٹاپ کے کپڑے بڑھاپے تک کام میں آتے ہیں اسی طرح قرآن کریم اب قیامت تک کام دینے کا دعویدار ہے مگر دید میں ایسا کوئی دعوئی نہیں ہے کہ میں ساری دنیا کے لئے کامل کتاب ہوں.جب دید دعویدار ہی نہیں تو مدعی ست گواہ چست والا معاملہ آپ نہ کریں.ٹھاکر صاحب بولے آپ ہماری باتوں میں دخل نہ دیں.یہ پنجاب نہیں کہ دھنیا، جولاها ، لوہار، ترکھان سب ایک ہی ہوں.ہم راجپوت ہیں اور بادشاہوں نے ان ہمارے بھائیوں کے بزرگوں کو پتاشے کھلا کر مسلمان کر لیا تھا اور ہم لوگوں نے بھی ستی کی کہ انہیں منہ نہ لگایا.اب ہم نے تہیہ کر لیا ہے کہ ہم انہیں اپنے ساتھ ملا کر رہیں گے خواہ ان کے پاؤں پکڑنا پڑیں یا ان کے آگے ہاتھ جوڑنا پڑیں.میں نے کہا کہ ٹھاکر صاحب میں بھی آپ کا خونی رشتہ دار ہوں اور پنجابی ہونا کوئی جرم نہیں ہے.پنجاب میں گاؤں کے گاؤں راجپوتوں کے آباد ہیں اور میں خود بھی راجپوت کھو کھر ہوں.کوئی بھٹی ہیں کوئی چوہان راٹھور ہیں.رکھا دھنیا مسلمان

Page 71

55 جولاہا تیلی و موچی وغیرہ تو یہ سب ہندوؤں سے ہی ہمارے ہاں مسلمان ہوئے ہیں اور ادھر بھی موجود ہیں.مسلمان بھی ہیں اور ہندو بھی.فرق صرف یہ ہے کہ آپ ان ہندوؤں کو جو چمار ، بھنگی، تیلی و لوہار میں کمی (کمین) جان کر نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر ہم لوگ ان کے مسلمان ہو جانے پر اور صاف رہنے کی وجہ سے ان سے نفرت نہیں کرتے کیونکہ یہ سب پیشیوں کے نام ہیں اور پیشوں کے بغیر دنیا کا کام چل ہی نہیں سکتا.اس لئے وہ لوگ ہمارے مددگار ہیں.کسی بات میں ہم ان کے اور کسی بات میں وہ ہمارے محتاج ہیں.اناج حاصل کرنے کے لئے اگر وہ ہمارے محتاج ہیں تو جو تا تیل اور صفائی رضائی کے لئے ہم ان کے محتاج ہیں.اس لئے میں نے بتایا تھا کہ دید ابتدائی قاعدہ ہے.یہ ساری دنیا میں محبت و اتحاد نہیں پیدا کر سکتا اور اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو اس کی شرن میں آجائے اس کو بھائی بھائی بنا دیتا ہے.ٹھا کر صاحب بولے ہماری مقدس گائے کھانے والے لوگوں سے ہمارا اتحاد نہیں ہو سکتا اور یہ کہ ہم گائے کھانے والوں کو چیر کر رکھ دیں گے.ہمارا راجپوتی خون اب جوش میں ہے.جو ہمیں ماں کی طرح میٹھا میٹھا دودھ پلاتی ہے یہ ڈشٹ مسلمان اس کو ذبح کر دیتے ہیں اور اس کا سر تن سے جدا کر دیتے ہیں.چونکہ وہ راجپوت مسلمان بھی گائے کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس لئے ٹھاکر صاحب نے ان کے جذبات بھڑکانے کی خوب کوشش کی.جب وہ ذرا خاموش ہوا تو میں نے کہا کہ ٹھاکر صاحب آپ تو غصہ میں آگئے.حالانکہ اپریشک کا یہ فرض ہے کہ اپنے علم سے محبت کے ساتھ برے فعل کی برائی اور بھلے کام کی بھلائی بیان کر کے پبلک کو سوچ بچار کا موقع دے.اس جگہ کس نے گائے کو تکلیف دی ہے کہ آپ خوامخواہ اپنے اور دیگر دوستوں کے جذبات بھڑکانے کی کوشش میں لگ گئے ہیں.آپ کے اس بویے سے مجھ پر کوئی اچھا اثر نہیں ہوا بلکہ یہی معلوم ہوا ہے کہ آپ اپنے مذہب

Page 72

56 کی کوئی خوبی بیان نہیں کر سکتے بلکہ ایک ایسی طرح ڈالنا چاہتے ہیں جس سے آپ کی کمزوری پر پردہ پڑا رہے.میں بھی جذبات کو بھڑکا کر لڑائی کرا سکتا ہوں مگر ہمارا دین حق سلامتی کا مذہب ہے.یہ جنگ کو روکنا اور صلح کو قائم کرنا چاہتا ہے.ٹھاکر صاحب بولے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.اسلام تو پھیلا ہی جنگ سے ہے.مسلمان چور اور ڈاکو بن کر لوگوں کو لوٹتے رہے ہیں میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوا ہے اور ہمارے پاس ساری کتابیں موجود ہیں آپ کی کیا طاقت ہے کہ میری باتوں کا جواب دے سکو اور اگر کھجلی ہو رہی ہو تو میں ابھی اتارنے کے لئے تیار ہوں.تماؤ کیا مرضی ہے.اس کی یہ باتیں بن کر تین چار آدمیوں نے ارادہ کیا کہ اس ٹھاکر کو دو چار رسید کر کے مزا چکھایا جائے اور بعض ٹھاکر صاحب سے لڑنے بھی لگے.میں نے بڑی محبت سے انہیں روکا اور کہا کہ جس طرح میں آپ کا مہمان ہوں بھائیو اسی طرح ٹھاکر صاحب ہمارے مہمان ہیں.ہمارا دین حق ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر کوئی تمہارا مہمان بھی غلطی کرے تو تمہارا یہ فرض ہے کہ تم اسے معاف کر دو اور اکرام ضیف کو ملحوظ رکھو.میری یہ بات سن کر ٹھاکر صاحب بھی شرمندہ ہوئے اور انہوں نے محسوس کیا کہ اس پنجابی کی ان لوگوں میں مجھ سے زیادہ عزت ہے.خیر اب وہ صحیح راستے پر آگیا تھا.میں نے کہا ٹھاکر صاحب نے یہ دو الگ الگ سوال کئے ہیں.پہلا تو گائے کے متعلق ہے کہ مسلمانوں نے جگائے پر ظلم کیا ہوا ہے اور دوسرا ه که دین حق تلوار کے زور سے پھیلا ہے.میں ان دونوں سوالات کے جوابات علیحدہ علیحدہ دیتا ہوں.(1) ہم سب مسلمان دودھ دینے والے سب جانوروں کی خدمت کرتے ہیں.چاہے گائے ہو یا بکری، بھینس ہو یا اونٹنی ہم سب کو چارہ بھی ڈالتے ہیں اور راتب بھی کھلاتے ہیں.اس کی بچپن ہی سے نگہداشت کرتے ہیں مگر ہم ان تمام جانوروں کو اپنا خادم سمجھتے ہیں نہ کہ بزرگ.ان میں سے جو دودھ نہ

Page 73

57 دے یا بانجھ ہو جائے تو اسے ہندو اور مسلمان دونوں قصابوں کے پاس فروخت کر آتے ہیں تو یہ کوئی انجو بہ نہیں.اب رہا یہ سوال کہ بیٹھا دودھ دینے کی وجہ سے وہ ماں ہے تو پھر ٹھاکر صاحب آپ یہ بتائیں کہ کیا بھینس ، اونٹنی اور بکری وغیرہ کا دودھ کڑوا ہوتا ہے؟ جب ان کا دودھ بھی میٹھا ہے تو گائے اگر ماں ہے تو بھینس نانی ہوئی اور بکری بہن ہوئی تو پھر ان کی عزت ہندوؤں کے دلوں میں کیوں نہیں ہے؟ اس کی وجہ اب ٹھاکر صاحب ہی بتائیں گے کہ ایسا کیوں نہیں ہے؟ (۲) ہر مذہب میں ماں باپ کی ایک جیسی عزت کرنے کا حکم ہے تو پھر ہمارے یہ ہندو بھائی کیا ظلم کرتے ہیں کہ گائے ماں کو مقدس جان کر اتنی زیادہ عزت کرتے ہیں کہ ایسی عزت نہ کرنے والوں کو چیر کر رکھ دینے کو تیار ہیں مگر اپنے باپ بیل کو ہال میں جو نتا یا ان کی مدد سے کنواں چلانا گاڑی کھینچتا کولہو چلانا اس پر بوجھ لادنا اور ذرا ہی کو تاہی پر مار مار کر فتا کر دیتا اور ہر وقت اس پر مصیبت کھڑی رکھنا اور ذرا بھی عزت نہ کرنا حالانکہ اس باپ کی کوشش سے ہی گائے دودھ دینے کے قابل اور ماں بنی تھی.(۳) اگر گائے ہاں کا ہی مقام رکھتی ہے جو انہیں بچپن میں دودھ پلاتی ہے تو پھر اس کے مرنے پر وہ کیوں چماروں کے حوالے کر کے اس کی کھال اترواتے ہیں اور اس کے گوبر او پلے اور پیشاب سے چننا متر بناتے ہیں اور اس کی کھال کے جوتے پہنتے ہیں.یہ سب تقدیس کے دعوے ان کی ان حرکات سے باطل ہو جاتے ہیں.انہوں نے صرف ہندوؤں کو مسلمانوں سے دور رکھنے کے لئے یہ ایک جذباتی طریق اختیار کیا ہوا ہے (۳) اگر ناکارہ بھینس بکری اونٹنی بھیٹر وغیرہ ذبح کئے جائیں اور ان کے مرنے پر ہی چڑہ میسر آتا ہو تو پھر پانچ صد روپے کا بھی جوتا نہیں مل سکتا اور لوگ دھوپ اور سردی میں ننگے پاؤں ہی چلیں اور ہر وقت کانٹے ہی نکالتے رہیں.(۲) دوسرا سوال کہ دین حق تلوار کے زور سے پھیلا ہے.ٹھاکر صاحب نے

Page 74

58 کر کے راجپوتوں کی سخت توہین کی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی تلوار سے ڈر کر اپنا آبائی مذہب جھٹ تبدیل کر لیا مگر چہار بھنگی ، تیلی وغیرہ تلوار سے نہ ڈرے اور انہوں نے اپنا مذہب تبدیل نہ کیا.کیا آپ راجپوتوں کی یہی بہادری ظاہر کرتے پھر رہے ہیں کہ راجپوت اتنے ڈرپوک اور بھوکے تھے کہ جب انہیں تلوار اور پائے دکھائے گئے تو جھٹ ڈر کر اور میٹھی چیز دیکھ کر مسلمان ہو گئے.ٹھاکر صاحب آپ نے تو تاریخ دان ہونے کا دعویٰ کیا تھا.اب آپ بتائیں کہ جب حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اس ہندوستان میں درویشی کی حالت میں آئے تھے تو ان کے ہاتھ میں کون سی تلوار تھی اور ان کے ہمراہ کونسی فوج تھی؟ ہاں بزرگی ، نیکی تقوی ، طہارت ، خوش اخلاقی، دلائل ، عبادت ، ریاضت، شرافت اور تبلیغ کی تلوار تھی جس نے راجہ اور پر جا کو ان کے سامنے جھکا دیا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو گئے ورنہ جب مسلمان بادشاہ اکبر تخت نشین ہوئے تو ان کی بیوی جودہ بائی تھی اور وہ تمام عمر بت پرستی کرتی رہی اور ہندو ہی رہی.اور اسے جبرا مسلمان نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دین حق میں جبر نہیں ہے.بلکہ لا اکراہ فی الدین " کا سبق دیا جاتا ہے.دین حق ہمیشہ اپنی صداقت اور خوبیوں سے پھیلا ہے.آپ آج بھی قادیان جا کر دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے ہندو اور سکھ مسلمان ہو چکے ہیں.اب تو مسلمانوں کے ہاتھ میں دین حق پھیلانے کے لئے تلوار نہیں ہے اور نہ اس سے قبل ہی دین حق تلوار سے پھیلا.البتہ اتنا ضرور ہے کہ جس نے تلوار سے دین حق کو مٹانے کی کوشش کی اسے تلوار ہی سے روکا گیا.اب آپ دلائل سے بات کریں انشاء اللہ دلائل ہی سے جواب دیئے جائیں گے.اس وقت کافی رات گذر چکی تھی مگر مرد بدستور چوپال میں اور عورتیں مکانوں کی چھتوں پر بیٹھی تھیں اور سب میرے جواب کے منتظر رہتے تھے.ٹھاکر صاحب بولے کہ آپ کے عرب والے نبی نے نو

Page 75

59' (9) عورتوں کے ساتھ شادی کیوں کی؟ جب کہ امت کے لئے چار ہی جائز قرار دیں.اس کی کیا حکمت ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ عرب کے لوگ بھی ہندوؤں کی طرح بت پرست تھے اس وقت نہ تو کوئی اصول اور نہ کوئی شریعت تھی.جس طرح آج پٹیالہ کے ہندو راجہ نے دو سو سے زیادہ بیویاں رکھی ہوئی ہیں اسی طرح عرب کے لوگ اس وقت سو سو بیویاں رکھ لیتے تھے.جب حضرت نبی کریم ﷺ نے نویں شادی کی تو خدا تعالی کی طرف سے حکم آیا کہ اور شادی نہیں کرنا اور نہ ان میں سے ہی کسی کو چھوڑنا ہے.چونکہ نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہوتی ہیں اس لئے ان میں سے کسی کو بھی علیحدہ نہیں کرنا اور ساتھ ہی مومنوں کے لئے حکم دے دیا کہ تم چار تک اپنے خیالات کے مطابق شادیاں کر سکتے ہو اور اگر تمہیں لڑائی جھگڑے کا خوف ہو تو ایک ہی شادی رہنے دو.اگر رسول پاک کسی بیوی کو چھوڑ دیتے تو وہ ماں کی صورت میں کہاں جاتی جب کہ منو شاستری میں بھی یہی لکھا ہے کہ گرد کی بیوی ماں ہوتی ہے.ٹھاکر صاحب کہنے لگے کہ میں اب سمجھ گیا ہوں.میں نے کہا کہ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ہمارے آقا نے تو نو شادیاں کر کے اپنے حسن و اخلاق اور سلوک کا یہ نمونہ دکھایا کہ کسی ایک بیوی کو بھی کسی جگہ نا انصاف کہنے کا موقع نہیں ملا.حضور کے نیک سلوک کا ان کے دلوں پر اتنا اثر تھا کہ ایک دفعہ حضور کے پاس مال غنیمت بکثرت پہنچا.یہ دیکھ کر بعض بیویوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اب موقع ہے کہ ہم آپ نے اچھے لباس اور زیورات کا مطالبہ کریں.چنانچہ انہوں نے آپ کے سامنے اپنی دلی کیفیت کا اظہار کیا.حضور کو اللہ تعالٰی نے جواب میں بتایا کہ اے نبی اپنی ان بیویوں سے کہہ دو کہ میں تمہیں تمہاری خواہش کے مطابق زیورات اور لباس بنوا دیتا ہوں مگر پھر تم میرے پاس نہیں رہ سکتیں یعنی علیحدہ ہونا پڑے گا.اور اگر تم اللہ تعالٰی کو اور مجھے

Page 76

60 پسند کرتی ہو تو پھر تم اس خواہش کو ترک کر دو.یہ سن کر سب نے یہ جواب دیا کہ ہم اپنی اس خواہش کو قربان کرتی ہیں ہمیں صرف آپ ا کی اور اللہ تعالی کی ضرورت ہے.بظاہر یہ الفاظ معمولی نظر آتے ہیں مگر جب مستورات کی حالت اور خواہشات کو سامنے رکھ کر غور کیا جاتا ہے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی بیویوں کے ایسا کہنے سے آپ کے اعلیٰ اخلاق کا ان کے قلوب پر کتنا گہرا اثر تھا حالانکہ ان کا مطالبہ بھی جائز تھا لیکن انہوں نے کسی قسم کی بحث نہیں کی اور اپنے مطالبہ کے مقابل پر اپنے خدا اور اس کے رسول کا ساتھ نہ چھوڑا.مگر یہ اعتراض کرنے والے زرا اپنے گریبان میں جھانک کر تو دیکھیں کہ ان کی ایک بیوی بھی جسے اولاد نہ ہو گیارہ مردوں سے نیوگ کر سکتی ہے.کتنی شرم کی بات ہے.پس معلوم ہوا کہ عرب کا ایک آدمی نو یا گیارہ بیویاں سنبھال سکتا تھا مگر ان آریوں کی ایک بیوی گیارہ مردوں کو سنبھال سکتی ہے.اگر یہ لوگ اس قسم کے اعتراض نہ کریں تو اور کیا کریں کیونکہ یہ کام ان کی طاقت سے باہر ہے.ٹھاکر صاحب یہ الفاظ سن کر چیخ اٹھے کہ یہ ہندو دھرم کی توہین کی ہے.میرے پاس حوالہ موجود تھا میں نے فورا "ستیار تھ پر کاش" نکال کر اسے دکھا دی.وہ بہت شرمندہ ہوا.رات کا پچھلا پہر تھا.مباحثہ ٹھا کر صاحب کے ان الفاظ پر ختم ہوا کہ صبح دس بجے اب میں اعتراض کرونگا یہ کہہ کر ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ قادیانی تلوار سے ہی قابو آئیں گے یہ علم سے قابو میں نہیں آسکتے.میں نے کہا کہ اس شعر کا جواب آپ کو انشاء اللہ کل ہی دیا جائے گا.غرضیکہ سب مرد و زن اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے.میں اکیلا ہی دیا جلا کر بیٹھ گیا اور خیان کیا کہ اس کے بے تکے شعروں کا جواب بھی اگر بے تکے اشعار میں ہی دیا جائے تو اثر اچھا رہے گا اور خدا کا نام لے کر لکھنے بیٹھ گیا.فجر کی نماز تک میں نے اپنے ناقص علم کے مطابق ستر (۷۰) اشعار بنائے.جو شعر مجھے اس

Page 77

61 وقت یاد ہیں تحریر کر دوں گا باقی سب ریکارڈ قادیان میں ہی رہ گیا تھا.خیر فجر کی نماز کے لئے بہت پہنچا.وہاں ایک فقیر طبع آدمی جسے ہم میاں صاحب کہا کرتے تھے اسد علی نامی تھا.وہ میرا بہت گردیدہ ہو چکا تھا.وہ بھی رات کو گفتگو کے اختتام پر ہی سویا تھا.اسے بیدار کیا اور اذان کہلوائی.بعدہ دونوں نے نماز باجماعت ادا کی.باقی لوگوں نے ہم سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ ہم جمعہ سے نمازیں پڑھنا شروع کر دیں گے.نماز کے بعد دعا اور قرآن کریم پڑھ کر سو گیا.جب حضور ہمیں الوداع کہنے کے لئے ڈلہ موڑ تک تشریف لائے تھے تو اس وقت یہی نصیحت کی تھی کہ "کثرت سے دعائیں کرنا ، نماز کے بعد تسبیح و تحمید کرنا اور خدا کو ہی قادر مطلق جاننا اور صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ کرنا.کیسی بھی مخالفت ہو گھبرانا نہیں بلکہ میدان میں شیر بننا.مختلف چاہے کتنا بڑا عالم ہو اسے معمولی سمجھنا اور نڈر ہو کر اسے جواب دینا.اپنے علم اور عقل پر بھروسہ نہ کرنا.ہر وقت خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنا.تلاوت قرآن پاک با قاعدہ کرنا.ہر ایک کو دوست بنانے کی کوشش کرنا.خوش اخلاقی کو اپنا شعار بنانا تجد پڑھنے کی کوشش کرنا.مخالف کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ملکانونکی اچھی طرح سے تربیت کرنا اور دین حق کا پابند کرنے کی کوشش کرنا.دین حق کی انہیں خوبیاں بتاتے رہنا اور خود بھی کتب کا مطالعہ کرتے رہنا.سب سے.ی خندہ پیشانی سے پیش آنا اور دل و جان سے سب کا ہمدرد بننا.جاؤ خدا تعالی حافظ و ناصر رہے.آمین ثم آمین" میں بیدار ہو کر دوبارہ بیت پہنچا.لوگ بھی بصد شوق آئے ہوئے تھے اور مختلف قسم کی باتوں میں مصروف تھے کوئی کہتا کہ مولبی کا بہت مجہ آیو ، ٹھاکر سر کو بھی کوئی آیسو مولبی نہ ملو تھو.کوئی کہتا کہ " ہم جو جانت رہے کہ جوہ مولبی سیندھو سادھو معلوم ہوت ہے پر رات کو تو جب کر دیو تھو" غرضیکہ قسم قسم کی باتیں ہو رہی تھیں.رات والی بڑھیا پہنچ گئی اور کہنے لگی کہ مولوی بیٹا اللہ آپ کو بہت

Page 78

62 عمر دے.یہ ٹھا کر بڑا آریہ تھا اس کی خوب رات کو خبر لی ہے.گاؤں کے سب مرد اور عورتیں کہہ رہے ہیں کہ اس ملک میں اتنا بڑا اور کوئی مولوی نہیں ہے.ہم تو اب اپنے بچوں کو اس سے پڑھوائیں گے.میں نے اپنے پیارے خدا کا شکر ادا کیا.ادھر ملکا نہ لڑ کے مقامی ہندو ٹھاکروں کو بتا رہے تھے کہ کیوں بھئی رات کو آریہ کا تماشا دیکھا کہ ایک جورو اور گیارہ مرد ".وہ ٹھاکر یہ سن کر کہتے کہ یہ آریہ بہت گندے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد ٹھاکر گردندر سنگھ اور بہت سالوگوں کا ہجوم پہنچ گیا.سارا میدان شائقین سے بھر گیا.میں نے سب بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رات کو ٹھاکر صاحب نے کسی گم نام آریہ کے دو شعر سنائے تھے کہ ان قادیانیوں کو قتل کر دو باتوں میں کامیابی مشکل ہے.میں نے ان کے شعروں کا جواب اشعار میں ہی دینے کا وعدہ کیا تھا.کیا وہ پہلے سالوں یا پہلے دوسری باتیں ہونی چاہئیں.سب نے کہا پہلے شعر سناؤ.میں نے شعر سنانے شروع کر دیئے.ان میں مسئلہ نیوگ ، جو نیں بدلنا وغیرہ سب کچھ بیان کر دیا.اس کے ابتدائی شعر یہاں سے شروع ہوتے ہیں.کیا ڈراتے ہو ہمیں کہ مار دیں گے جان سے کیا ڈرا کرتے ہیں وہ جو عبد ہیں رحمان کے ہم تو مر اس دن گئے تھے جب ہی گھر سے چل پڑے اے سفیہ کیا ہے تو واقف احمدی ایمان سے مرنا بہتر ہے ہمارا گرچہ تم نے دیکھنا ہو زندہ رہنا اور بھی بار رو تم جان سے پر عورتوں میں بیٹھ کر للکارنا اچھا نہیں سامنے مردوں کے آ اور جیت کے میدان سے

Page 79

63 در پدر نیوگ کا مسئلہ لئے پھرتے ہو تم آفریں اس وید پر اور اس کی اعلیٰ شان کے کتے کتیا کھیلتے تھے ایک دن مندر کے پاس آریہ انکو بلاتے تھے بڑوں کے نام سے ہیں بزرگ یہ سب ہمارے آج قسمت سے ملے ہم کھلائیں گے انہیں بھوجن بڑے آرام سے یہ صرف چودہ مصرعے ہیں کل ستر مصرعے تھے جن میں پورا مضمون تاریخ، جون بدلنا اور پھر کسی بھی عبادت یا عمل سے بخشش نہ ہونا درج تھا.میں کوئی شاعر نہیں، نہ قابلیت ہی ہے مگر ملکانوں نے خوب مزے لے لے کر بار بار انہیں سنا تھا.ٹھا کر صاحب نے یہ اشعار سن کر جھٹ کہہ دیا کہ میں اس قسم کا آریہ نہیں ہوں.میں نے کہا کہ پھر آریوں کی قسمیں ہو ئیں.کوئی پنڈت دیا نند کو سچا جاننے والا جبکہ آپ اسے جھوٹا بتا رہے ہیں کیونکہ پنڈت صاحب نے تاکید کی ہوئی ہے کہ جس طرح شادی بیاہ ہے اسی طرح نیوگ ہے مگر جو بیاہ سے پیدا ہوں ان کا اظہار تو بڑی خوشی سے کیا جاتا ہے مگر جو نیوگ سے پیدا ہوتے ہیں آپ ان کی کوئی فہرست نہیں دکھا سکتے تو معلوم ہوا کہ یہ معیوب چیز ہی ہے.ٹھاکر صاحب کہنے لگے کہ مسلمانوں میں بھی عیب ہیں.ان کے ہاں بھی بہت بازاری عورتیں موجود ہیں.میں نے کہا ٹھا کر صاحب یہ کوئی قومی یا مذہبی اعتراض نہیں ہے.ہم نے تو مذہبی گفتگو کرنا ہے.ہما را دعوی ہے کہ دین حق ایک عالمگیر مذہب ہے.اس کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ ایسا فعل کیا جائے بلکہ ایسا فعل کرنے والے کی دین حق نے بہت سخت سزا رکھی ہوئی ہے.یعنی سو 100 کوڑوں کی سزا.کسی شخص کا یہ فعل کرنا شخصی جرم ہے مذہبی نہیں.دوسرا ایسی بدکار عورتوں کا ہندوؤں کے بازار میں بیٹھنا بھی یہی ثابت کرتا ہے

Page 80

64 کہ مسلمان ایسی بدکار عورتوں کو اپنے محلے میں رہنا بھی پسند نہیں کرتے بلکہ ایسی عورتیں ہندوؤں کے بازار میں آجاتی ہیں کیونکہ ان کے گھروں میں بھی نیوگ کی تعلیم ہے اس لئے یہ بازار میں بھی برا نہیں منائیں گے.میں نے سوال کیا کہ ٹھاکر صاحب کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پچھلے جنم میں آپ کیا تھے اور پھر کیا آپ اچھے کام کر کے اپریشک آدمی بنے ہیں.ٹھاکر صاحب نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میں کسی بڑے پنڈت کو لیکر کسی وقت اسی جگہ آؤں گا اور پھر آپ کی تسلی ہو جائے گی.میں نے کہا کہ آپ نے اپنے ذمہ بہت سا قرض چڑھا لیا ہے.کیا آپ پنڈت کو لے کر آنے کی کوئی تاریخ بتا سکتے ہیں تاکہ میں بھی اس دن اسی گاؤں میں موجود رہوں.ٹھا کر صاحب بولے میں آپ کو بذریعہ چٹھی (خط) اطلاع دے دونگا.میں نے کہا آپ کا شکریہ ٹھاکر صاحب جان چھڑا کر ایسے رفو چکر ہوئے کہ بعد میں نہ تو کوئی مخط ہی ملا اور نہ خود ہی کبھی دکھائی دیئے.مجھے یہ فائدہ پہنچا کہ ہمارے ملکانے بھائیوں کو کئی باتوں کا علم ہو گیا اور ان کو مجھ سے اور زیادہ محبت پیدا ہو گئی.بعدہ وہاں کے نوجوانوں نے مجھ سے پڑھنے کا اصرار کیا.میں نے ہاتھ سے ادب لکھ کر پڑھانا شروع کر دیا.پھر قادیان چٹھی لکھی کہ دو درجن قاعدے میسرنا القرآن بھجوا دیں.چنانچہ میں شاگردوں کو قاعدہ پڑھانا شروع کیا.آہستہ آہستہ چھوٹی بچیوں نے بھی آنا شروع کیا اور میں نے ان کو بھی قرآن پڑھایا.نگلہ گھنو میں جے پور کے رہنے ایک غیر احمدی وکیل کا اظہار خوشنودی والے ایک غیر احمدی دوست چوہدری نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ میرے کام کا معائنہ کرنے کے لئے آئے تھے.جو اکثر احمدیوں کا کام دیکھ کر یہی کہا کرتے تھے کہ دین حق تو صرف احمدیوں ہی کے پاس ہے اور یہی آریوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں ان کے بر عکس دیو بندی وغیرہ سب

Page 81

65 کلی توڑ" ہیں یعنی کوئی کام نہیں کر سکتے.ایک دن بعد نماز فجر یہی وکیل صاحب اچانک بذریعہ یکہ چوپال پہنچ گئے.میں اس وقت بچوں کو قرآن کریم پڑھا رہا تھا اور سب بچے بڑے زور شور سے پڑھ رہے تھے.میں نے ان سے ملاقات کی.وہ جان محمد خان صاحب رئیس اور بھیجو خان صاحب نمبردار کو لیکر علیحدہ چلے گئے اور ان سے کچھ باتیں دریافت کیں اور پھر واپس آکر میرے ساتھ باتیں کرنے لگے.کہنے لگے مجھے از حد خوشی ہوئی ہے.میں آپ کے کام اور اخلاق کے بارے میں آپ کی عدم موجودگی میں بھی اچھی تحقیق کر چکا ہوں اور آپ کو مبارکباد دیتا ہوں.اور پوچھنے لگے کہ آپ کے پاس کیا کوئی کاپی ہے؟ میں نے انہیں کاپی دی.انہوں نے اسپر لکھ دیا کہ میں فلاں تاریخ کو نگلہ گھنو میں اچانک پہنچا اور مکرم مولوی محمد حسین صاحب کا کام دیکھ کر اور اہل دیہہ سے حالات دریافت کر کے مجھے اتنی خوشی ہوئی جو بیان سے باہر ہے.اس علاقہ کے لئے مولوی صاحب نہایت موزوں ہیں اگر کچھ عرصہ یہ ان لوگوں میں مزید رہیں تو یہاں کے رہنے والوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گے.اہل دیہہ ان سے بہت خوش ہیں.میں مولوی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مبارکباد دیتا ہوں.اگر اسی طرح مستعدی سے کام ہو تا رہا تو بچے تعلیم حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے".والسلام نذیر احمد وکیل جے پور ۲۱/۵/۲۳ حال نگلہ گھنو.میں نے اس سرٹیفکیٹ کی ایک نقل آگرہ روانہ کردی.بعدۀ ارد گرد کے دیہات لوہاری گومیٹہ ، ہیکہ ھوڑا، مجمولہ ، نگہ امر سنگھ، گڑھی ، دھروی، علی گنج رانی کارامپور بوپارہ وغیرہ کا دورہ کرنا شروع کر دیا.لوہاری گاؤں میں ہمارے ایک مبلغ مولوی واپس قادیان جانے کی تیاری عبد الخالق صاحب بڑی محنت سے کام کر رہے تھے.وہ ان دنوں احمد نگر ضلع جھنگ کے صدر ہیں.انہوں نے مجھ سے مشورہ کئے

Page 82

66 بغیر دیو بندیوں سے مناظرہ مقرر کر لیا.مقررہ تاریخ پر کافی مولوی صاحبان لوہاری پہنچ گئے اور ہماری طرف سے مولوی جلال الدین صاحب شمس، مولوی غلام احمد صاحب - بدو ملی، سیٹھ خیرالدین صاحب آف لکھنو، قاضی عبدالرحیم صاحب اور صاحب آف فرخ آباد.غرضیکہ کافی احباب پہنچ گئے.مجھے مناظرہ کی شرائط طے کرنے کے لئے بھیجا گیا.میری واپسی پر مناظرہ کا آغاز ہوا.حیات و ممات مسیح پر دیو بندیوں نے شور مچانا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ ان قادیانیوں کا علاج صرف ڈنڈا ہے اور کسی طریق سے ان کا علاج نہیں ہو سکتا.میرے گاؤں کے لوگ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ اگر علم کی بحث کرتا ہے تو مولویوں سے کرو اور اگر کسی سرے نے ڈنڈا چلاتا ہے تو ہم پر چلائے.غرضیکہ مناظرہ اسی شور میں بخیر و خوبی ختم ہو گیا.فریقین اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے.جب اس بات کی اطلاع حضور کو قادیان پہنچی کہ دیو بندیوں نے ہمیں ڈنڈے سے ڈرایا ہے اور مولوی محمد حسین صاحب کے گاؤں والوں نے انہیں ایسا جواب دیا ہے تو حضور بہت خوش ہوئے کہ یہ ہمارے مبلغ کے تعلقات کا نتیجہ ہے اور مبلغین کو ہر جگہ ایسا ہی نمونہ اختیار کرنا چاہئے.غرضیکہ حضور نے یہ خوشنودی کا اظہار فرمایا میرے وہاں دورے کا تین ماہ کا عرصہ پورا ہو چکا تھا اور منشی عبد الخالق صاحب رخصت پر قادیان جا رہے تھے تو بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی مجھ سے کہنے لگے کہ آپ خدا کے لئے دس دن اور وقف کر دیں ورنہ یہ حلقہ خالی رہ جائے گا اور دشمن اپنا پرو پیگنڈا کر کے لوگوں کو ہمارے خلاف کر دے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان مراکز سے ہمیں جواب مل جائے.میں نے ان کے کہنے پر دس دن اور وقف کر دیئے اور مزید دس دن وہاں گزارے.اسی اثناء میں منشی عبد الخالق صاحب قادیان سے میرے پاس نگلہ گھنو پہنچے اور کہا آپ واپس جانے کے لئے تیار نہ ہوں.حضور کی طرف سے آپ کو کوئی خاص حکم آئے

Page 83

67 گا کیونکہ آپ کے کام کے متعلق خفیہ خفیہ کچھ درخواستیں حضور کی خدمت میں پہنچی ہوئی ہیں کہ ان کا کام اور اثر بہت اچھا ہے لہذا انہیں ابھی واپس نہ بلایا جائے.مجھے آگرہ سنٹر سے بھی چٹھی موصول ہوئی کہ آپ بہت جلد اگرہ پہنچ جائیں تا آپ کو قادیان واپس بھجوایا جا سکے.ایک طرف مجھے قادیان جانے کی بہت خوشی تھی اور دوسری طرف ان لوگوں کی محبت کی وجہ سے ان لوگوں سے علیحدہ ہونے کا غم.گاؤں کے سب مرد اور عورتیں مع میرے شاگردوں کے مجھے رخصت کرنے کے لئے جمع تھے اور رو رہے تھے کہ معلوم نہیں کہ کب ملاقات ہو.میرے ہمراہی میرا بستر بوریا اٹھا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا خصوصی حکم سر ابھی کچھ دور کی گئے تھے کہ پڑھ چٹھی رساں مل گیا اور اس نے ایک لفافہ دیا جس میں یہ لکھا تھا کہ حضور کی طرف سے یہ حکم آیا ہے کہ محمد حسین صاحب تا حکم ثانی اسی علاقہ میں رہیں.مجھے یہ حکم کر کچھ تو اس بات کا غم ہوا کہ اپنے گھر واپس جا رہا تھا لیکن رکنا پڑا ہے اور خوشی اس بات کی کہ حضور کی جناب سے مجھے یہ حکم ملا ہے.زہے قسمت میں نے سب دوستوں کو چٹھی پڑھ کر سنائی اور سب دوست یہ سن کر بہت خوش ہوئے.سامان اٹھایا اور واپس اسی جگہ پہنچے.میں نے اپنا کام دوبارہ شروع کر دیا.چند دنوں کے بعد اگرہ سے قاضی محمد عبد اللہ صاحب کی چٹھی موصول ہوئی کہ آپ کو میں روپے ماہوار الاؤنس ملے گا.پڑھ کر سخت فکر دامنگیر ہوا کہ گھر کیا بھیجوں گا اور خود کیا کھاؤں گا مگر ساتھ ہی یہ خیال بھی پیدا ہوا کہ میں نے اپنی مرضی سے تین ماہ خدا کی راہ میں وقف کئے تھے اور اب حضور کے حکم کے تحت رہنا پڑا ہے.اگر اس عرصہ میں کچھ قرض بھی لینا پڑا تو خدا تعالٰی ضرور ہماری مدد فرمائے گا.گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے غرضیکہ دل کو تسلی دی اور مطمئن ہو کر پوری مستعدی سے کام شروع کر

Page 84

68 دیا.انہی ایام میں خدام صوفیہ جماعت علی شاہ علی پوری کے خدام صوفیہ کی آمد چند مرید بھی اس علاقہ میں پہنچے.انہوں نے اپنا ہیڈ کوارٹر اسٹیشن دریاؤ گنج کے پاس مجمولہ گاؤں میں قائم کر رکھا تھا.یہ تین چار مولوی تھے.مولوی بھور میخاں جاہل رہنگ کے ضلع کا رہنے والا دیہاتی زمیندار تھا.کرخت آواز لمبا سا قد اور سخت لڑاکا آدمی احمدیت کا شدید مخالف اور مکروہ گالیاں دینے والا تھا.دوسرے مولوی امام الدین صاحب تھے جو نہایت شریف اور معقولیت سے بات کرنے والے آدمی تھے.یہ دونوں جماعت علی شاہ صاحب کی طرف سے مبلغ گئے ہوئے تھے.ان کے علاوہ وہاں بریلوی اور دیو بندی مولوی بھی تھے جو رات دن ہمارے خلاف فتوے دینے اور مخالفت کرنے پر کمربستہ رہتے تھے.دیو بندی مولوی سرور حسین صاحب عبد الرؤف صاحب محمد ادریس صاحب بیٹی خاں صاحب بدر الحسن صاحب میرک شاہ صاحب اور انور شاہ صاحب وغیرہ سے میری ملاقات اکثر ہوتی رہتی تھی.پہلے چار مولویوں سے تو میرے مناظرے بھی ہوتے رہے تھے.وہ میرے ساتھ بڑے بے تکلف تھے میرے ہی پاس آکر ٹھرتے تھے.جب کبھی بات چیت کرتے ہوئے مجھے دیکھتے تو گھبرا جاتے تھے مگر باہر جا کر ہمارے خلاف قسم قسم کے فتوے دیتے تھے کہ یہ قادیانی ہرگز مسلمان نہیں ہیں.جو کوئی انہیں مسلمان کہتا ہے وہ خود بھی کافر ہو جاتا ہے.جو ان کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھالے اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے جو انہیں السلام علیکم کہتا ہے وہ بھی کافر ہو جاتا ہے.غرضیکہ ہر قسم کی خرافات بیان کر کے ہمارے خلاف اشتعال پیدا کرتے تھے.وہاں کے اکثر لوگ چونکہ ان پڑھ تھے.وہ ان کی باتوں کو سن کر بہت گھبراتے اور کہتے کہ یہ کیسی بات ہے کہ قادیانی مولوی ہی ہمارے بچوں کو قرآن پڑھاتے ہیں.

Page 85

69 ہمیں نماز سکھاتے ہیں ہر قسم کے وعظ اور نصائح سے ہمیں نیک بننے کی تحریک کرتے ہیں آریوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور خود بھی رات دن نہ دھوپ دیکھتے ہیں نہ بھوک نہ سردی کا خیال کرتے ہیں اور نہ گرمی کا مگر جب معلوم ہو جائے کہ فلاں گاؤں میں آریہ منڈلی پہنچی ہے اور باجووں وغیرہ کا خوب زور ہے تو یہ فورا وہاں پہنچ کر ان کی غلط رسومات کا مقابلہ شروع کر دیتے ہیں اور ہیں بھی یہ بڑے خوش اخلاق اپنا ہی کھاتے ہیں.اپنے بال بچوں کو چھوڑ کر اتنی دور غیر علاقہ اور غیر زبان لوگوں کو آریوں سے بچانے کی کوشش میں ہیں اور اگر یہ بھی کافر ہیں تو مسلمان کون ہیں.کیا وہ مسلمان ہوں گے جو ہمارے گھروں سے آکر کھانا کھا ئیں نہ کہیں بچے پڑھائیں اور نہ اسلام سکھائیں.یہ کیسے مسلمان ہیں.غرضیکہ ہمیں وہاں چار طرح کا کام کرنا پڑتا تھا.(۱) پبلک میں اپنے عقائد بیان کرنا.(۲) دیو بندی خدام صوفیہ اور بریلویوں کے اعتراضات کے جوابات دینا.(۳) آریوں کا دن رات مقابلہ کرنا.(۴) ملکانوں کو اسلام سکھانا اور اس کے علاوہ بچوں کو پڑھانا.ہمیں نہ تو رات کو چین تھا اور نہ ہی دن کو چاروں طرف سے ہمارے گاؤں میں لوگ آتے رہتے تھے اور چاروں طرف ہی جاتے رہتے تھے جن سے ہمیں بھی خبریں مل جایا کرتی تھیں اور کچھ ہماری خبریں باہر لے جایا کرتے تھے اس طرح میرا کام تیزی سے جاری رہا.تعلیم القرآن اور نوجوان خواتین کچھ عرصہ کے بعد بڑی عمر کی لڑکیوں نے اپنے والدین کو مجبور کیا کہ ہمیں بھی قرآن پاک مولوی صاحب پڑھائیں.میں نے انکار کر دیا کہ بالغ لڑکیوں کو میں نہیں پڑھاؤنگا انہوں نے نہ پڑھانے کی وجہ دریافت کی.میں نے کہا کہ لڑکیاں بھی لڑکوں کی طرح علم حاصل کرنے میں برابر کی حقدار ہیں لیکن ان بالغ لڑکیوں کو کوئی عورت

Page 86

70 کرنا ہی پڑھا سکتی ہے.میں سات آٹھ سال تک کی بچیوں کو پڑھا رہا ہوں.اس سے بڑی عمر والی لڑکیوں کو پڑھاتے ہوئے تو ویسے ہی شرم آتی ہے اور انہیں بھی مجھ سے پردہ نا چاہئے.کہنے لگے کہ ہماری لڑکیاں روتی ہیں کہ ہمیں مولوی صاحب سے ہی پڑھایا جائے.میں نے کہا کہ آپ انہیں تسلی دیں کہ چند دن وہ مزید صبر کریں.انشاء اللہ انہیں بھی ضرور پڑھایا جائے گا.میں نے اسی گاؤں سے تین لڑکے نصیر الدین خال صاحب.مبارک خاں صاحب اور حبیب خاں صاحب قادیان برائے تعلیم بھیجے ہوئے تھے.گاہے بگاہے ان کے خطوط آتے رہتے تھے.میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں اس بارے میں مفصل چٹھی لکھی کہ حضور فارغ وقت میں میں نے بچوں کو تعلیم دینے کا ایک سکول کھولا ہوا ہے جہاں بچے قرآن پاک پڑھ رہے ہیں.اب بڑی عمر کی بچیاں بھی پڑھنے کا شوق رکھتی ہیں مگر میں نے انہیں پڑھانے سے انکار کر دیا ہے لیکن ان کے والدین بدستور اصرار کر رہے ہیں کہ انہیں ضرور پڑھایا جائے.اگر حضور بھی یہ پسند کرتے ہیں کہ لڑکیوں کو ضرور پڑھایا جائے تو میرے نزدیک یہ طریق بہتر ہو گا کہ میری بیوی یہاں آجائے تو اس کی نگرانی میں میں لڑکیوں کو سبق دے دیا کروں گا.اس طرح کسی قباحت کا اندیشہ نہ ہو گا ورنہ یہ دیہاتی لڑکیاں چار پائے چرانے والی ہیں.کسی مسئلہ سے واقف نہیں ہیں.اس لئے خطرہ ہے کہ کوئی بدنامی کی صورت پیدا نہ ہو جائے.حضور کے جواب کا منتظر حضور نے بہت جلد جواب مرحمت فرمایا کہ لڑکیاں ضرور پڑھاؤ اور فورا اگر اپنی بیوی کو لے جاؤ.دس یوم کی رخصت آپ کو دی جاتی ہے.میں قادیان جانے کے لئے تیار ہوا تو ایک معمر محبوب خاں صاحب اور مائی ممتاز بیگم صاحبہ جن کا بیٹا نصیر الدین خاں صاحب قادیان میں تھے نیز مائی ممتاز کی لڑکی الطاف بیگم بھی میرے ہمراہ تیار ہو گئیں.منشی عبد الخالق صاحب مبلغ لوہاری نے بھی کہا کہ میرے اور اسلم کے

Page 87

71 بچوں کو بھی ساتھ ہی لیتے آنا.ہمارا قافلہ نگلہ گھنو سے قادیان پہنچا اور چند دن ٹھہرنے کے بعد واپس نگہ گھنو پہنچے.قادیان میں قیام کے دوران حضور نے میرے سارے حلقہ کے مفصل حالات دریافت کئے.اور میں نے ان کے مفصل جوابات دیئے.واپس پہنچ کر بڑی لڑکیوں کو بھی پڑھانا شروع کر دیا اس طرح میرے جاری کردہ سکول میں طلباء و طالبات کی تعداد پینتالیس کے قریب ہو گئی.کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اسلم صاحب فرخ آباد سے بچوں کا امتحان لینے آئے.قاعدہ پڑھنے والے بچوں سے قاعده سنا قرآن پڑھنے والوں سے قرآن سنا اور بعدۂ سب کو کچھ نہ کچھ انعام دیا.اس طرح سب بچے خوش ہو گئے.نکہ گھنو میں جہاں ہم نماز پڑھتے تھے وہ دور نگلہ گھنو میں احمد یہ بہیت کی تعمیر نے چوپال ہی معلوم ہوتی تھی چنانچہ ایک دن میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر اس کے مینار بن جائیں اور بیت کے صحن میں کنواں اور غسل خانہ وغیرہ بن جائے تو یہ دور ہی سے بہت معلوم ہوگی.میں نے اس بارہ میں حضور کی خدمت میں درخواست لکھی اور اپنا پروگرام بتایا.حضور نے جواباً فرمایا کہ بہت جلد خرچ کا اندازہ لگا کر اطلاع دو کہ کتنے صد روپے خرچ ہونگے.میں نے حضور کو لکھا کہ حضور میری منشاء یہ ہے کہ حضور صرف دس یا میں روپے تیر کا بھیج دیں باقی جو خرچ آئے گا وہ انہیں لوگوں سے لے کر پورا کیا جائے تاکہ انہیں بعد میں اس کی مرمت اور آبادی کا خیال رہے.کیونکہ فلاں گاؤں میں انجمن کے روپیہ سے جو کچی بیت بنائی گئی تھی اس میں تو گاؤں والوں نے نماز بھی نہ پڑھی اور لپائی وغیرہ کا خیال بھی نہ رکھا جس کی وجہ سے وہ خود بخود ہی گر گئی.لہذا ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے اور ان مقامی لوگوں سے ہی بیت بنوائی جانی چاہئے تاکہ اپنی بنائی ہوئی چیز کی یہ نگرانی بھی رکھ سکیں اور اسے آباد بھی کریں.

Page 88

72 - حضور نے میری تجویز کو مناسب سمجھا اور میں روپے روانہ فرما دیئے.میں نے دس روپے اپنی جیب سے ڈال کر سب سے پہلے بیت کے صحن میں ایک چھوٹا سا کنواں بنوایا اور پھر گاؤں کے احباب کو جمعہ کی نماز کے بعد اکٹھا کر کے چندہ وصول کیا.کسی نے پانچ روپے اور کسی نے یہ کہا کہ ہم اپنی گاڑیوں پر اینٹیں لے آئیں گے اور غریبوں نے کہا کہ ہم مزدوری کریں گے.وہاں کے رئیں جان محمد نے کہا کہ میں پچیس روپے اپنے گھر کی طرف سے دونگا میں نے کہا آپ کے گھر سے یکصد روپیہ پورا کرتا ہے.وہ کہنے لگا کہ پھر میں کچھ بھی نہیں دیتا.میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالٰی نے چاہا تو آپ سے یکصد روپیہ ہی وصول کرونگا ورنہ میں دوسرے دیہات کے احباب سے بیت کے لئے مانگ لاؤں گا.غرضیکہ وہ روپیہ دینے سے انکاری ہو گیا اور قدرے دل سے ناراض بھی مگر میں جانتا تھا کہ یہ امیر آدمی ہے زیادہ پیسے بھی دے سکتا ہے.ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ نصف شب کے قریب جان محمد کی اہلیہ آئیں اور دروازے پر دستک دے کر اونچی آواز سے کہنے لگیں کہ جلدی میرے ساتھ گھر چلیں.مظفر کے ابا کا سانس بند ہو رہا ہے.میں وضو کر کے اس کے ساتھ گیا.دیکھا تو نبض کمزور ہے.سانس رکا ہوا ہے غرضیکہ نزع کا سا عالم طاری تھا.میں نے کٹورے میں پانی منگوایا.اس وقت وہاں گاؤں کے سب لوگ جمع تھے.میں نے اس پانی پر دعا پڑھ کر اس پر پھونکا اور دل میں دعا کی کہ مولا کریم تو عزیز بھی تو حکیم بھی اور شانی بھی ہے.تو اگر اس پانی میں ہی شفاء رکھ دے تو تیرا گھر بن جائے گا.میں نے میچ سے پانی اس کے منہ میں ڈالا اور پانی خود بخود راستہ بناتا ہوا حلق سے اتر گیا.سانس چلنے لگا.میں نے ایک پیچ پانی اور ڈالا.وہ بھی جلد بھی حلق سے اتر گیا.پھر تیسرا میچ ڈالا وہ بھی بلا روک اتر گیا.اب سانس درست ہونے لگا اور اس نے آنکھیں کھول دیں.پھر دودھ پر دعا کی اور وہ بھی اسی میچ سے پلایا.ابھی

Page 89

73 چھٹا بیچ ہی اس کے منہ میں ڈالا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ انہیں سو روپیہ دے دو.گاؤں کے سب لوگ اس بات پر حیران ہو گئے کہ خدا تعالٰی نے صرف پانی سے ہی شفاء دے دی.اس کی بیوی نے سو روپے گن کر میرے سامنے رکھ دیئے.میں نے نمبردار بھیجو خان کو کہا کہ اپنے پاس رکھ لو.اس نے مسکرا کر روپے اٹھا لئے.وہاں کے تمام لوگ خوش بیٹھے تھے اور مریض نے آہستہ آہستہ باتیں کرنا شروع کر دیں لیکن یہ کہہ کر کہ ابھی آرام کرو اسے روک دیا.وہ مجھے اپنے پاس سے اٹھنے نہ دیتا تھا.میں نے دس روپنے مریض کی بیوی اور پانچ روپے اس کی بہو سے بھی وصول کئے اور نمبردار کو دے دیئے.چونکہ گھر والے بھی اکیلے تھے اس لئے مریض کی لڑکی کو جو میری شاگرد تھی اپنے گھر بھیج دیا.اور ہم صبح کی نماز کے لئے اس مریض کے گھر سے ہی بیت چلے گئے.بیت میں نمازی آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ "سب سن لو بھائی! ہمارے مولوی صاحب جو بات کہا کریں مان لیا کرو.دیکھ لو اللہ میاں گلے سے پکڑ کر مولوی صاحب کی بات پوری کروا دیتا ہے.سارا دن گاؤں میں خوب چرچا رہا کہ مولبی صاحب کی اللہ میاں بات مانتا ہے.ہم نے خود دیکھ لیو.اللہ کے فضل سے ہماری بیت مکمل ہو گئی.اس میں غسل خانہ مینار باہر کا دروازہ ، چار دیواری کنواں غرضیکہ دور ہی سے بیت کی شکل دکھائی دینے لگی.خدا کے فضل و کرم سے یہ بہت دور نواب اچھن خاں سے بات چیت دراز سے دکھائی دینے لگی.اب وہاں کے آریوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ نگلہ گھنو کے لوگ اب تو پکے مسلمان ہو گئے ہیں اب ان کے پاس جانا ہی فضول ہے.دیو بندی احباب دانت پینے لگے کہ اگر یہ گاؤں ہمیں مل جائے تو اس طرح ہمیں بنی بنائی بیت اور اس کے ساتھ ملحقہ سکول

Page 90

74 دونوں مل جاتے ہیں.چنانچہ انہوں نے نواب اچھن خان علی گنج کے ذریعہ ہمارے گاؤں پر حملہ کرنے کی تیاری کی.معمر نواب صاحب اچکن پہنے ہوئے یکہ پر تشریف لائے.میں تو ان سے اس سے قبل واقف نہ تھا.سب لوگ بڑے تپاک سے انہیں ملے.اسکول کے بچوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور پھر بیت بنانے کی مجھے مبارک باد دی اور کہنے لگے کہ مولوی صاحب آپ نے بیت بنا کر بہت اچھا کام کیا ہے.ویسے آپ بہت خوش اخلاق ہیں لیکن مجھے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ باقی سب علماء آپ کے خلاف ہیں اور سب نے مل کر آپ لوگوں کے خلاف فتوی دے دیا ہے.اس لئے ہم بڑی محبت سے آپ کو جدا کر رہے ہیں ایسا کرنے پر ہم مجبور ہو چکے ہیں.نہ تو ہم آپ کے ہاتھ کا پکا ہوا کھا سکتے ہیں اور نہ اپنے ہاتھوں کا پکا ہوا آپ کو کھلا سکتے ہیں.میں اسی لئے خود حاضر ہوا ہوں تاکہ اپنے ہاتھوں سے آپ کو رخصت کر آؤں.میں نے کہا نواب صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے نہایت اچھے الفاظ میں مجھے یہاں سے اس لئے نکل جانے کا مشورہ دیا ہے کہ سب علماء نے متفقہ طور پر مجھ پر فتویٰ لگایا ہے.اگر آپ اور دوسرے گاؤں والے مجھے یہ حکم دیں گے کہ میں اس گاؤں سے نکل جاؤں تو میری کیا مجال ہے کہ اس جگہ ٹھرا رہوں.آپ تسلی رکھیں میرے دل میں آپ کی بہت عزت ہے.میں دین حق کا خادم ہوں.اگر اس جگہ نہیں تو کسی اور جگہ خدمت کرنے کے لئے چلا جاؤنگا.مگر آپ سے یہ امید رکھتے ہوئے کہ آپ سنجیدہ آدمی اور خاندانی لوگ ہیں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ایک ہزار چور اور ڈاکو مل کر کسی ایسے آدمی کے متعلق جو کسی خاص سرکاری ذمہ دار عہدے پر متعین ہو یہ رپورٹ تھانہ میں درج کروا دیں کہ یہ آدمی بھی چور اور ڈاکو ہے تو کیا گورنمنٹ ان رپورٹ کرنے والے لوگوں کی حقیقت دیکھے گی یا اپنے ہی مقرر کردہ افسر کو فورا گر فتار کر کے عمر بھر کی سزا

Page 91

75 دے دیگی.کیا ایک ہزار آدمی جنہیں گورنمنٹ جانتی ہے کہ یہ سب نمبر 0 السٹ میں درج ہیں.ان کی رپورٹ پر اس سرکاری افسر کو سزا ضرور ملنا چاہئے.کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے؟ نواب صاحب بولے ایسے لوگوں پر ہر گز اعتماد نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی کسی قسم کی سزا دینی چاہئے.یہ تو سرا سر نا انصافی ہوگی.میں نے کہا کہ مجھے بھی آپ کی شرافت پر یہی بھروسہ تھا کہ آپ اسے نا انصافی ہی گردانیں گے.اب میں آپ سے مودبانہ عرض کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے ہم پر پر فتوی لگایا ہے اگر ان میں سے ایک فرقے والا بھی یہ ثابت کر دے کہ ہم یہ فتوی لگانے سے پہلے ان پر یہ فتویٰ نہیں لگا ہوا تو میں آپ کا غریب بھائی ہوں اسے اسی جگہ پر نقد یکصد روت بطور انعام دوں گا اور اسی وقت نہ صرف اس جگہ سے بلکہ اس ملک ہی سے نکل جاؤں گا.آپ میرا یہ پیغام ان تک پہنچا دیں کہ یہ ثابت کر کے کہ ان کے فرقہ پر کسی دوسرے فرقے والے نے کوئی فتوی نہیں لگایا مجھ سے یکصد روپیہ انعام لے جائیں اور مجھے اپنے سامنے اس ملک سے نکلتے ہوئے دیکھ لیں.مگر نواب صاحب آپ میری یہ بات ذہن نشین کرلیں بلکہ نوٹ کر لیں کہ وہ ہر گز میدان میں نہیں آئیں گے.چاہے دیو بندی ہوں، بریلوی ہوں یا خدام صوفیہ ہوں ، وھابی ہوں شیعہ ہوں یا چکڑالوی ہوں.کوئی بھی میدان میں آنے کی جرات نہیں کرے گا.یہ من کر نواب صاحب کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور وعدہ کر کے چلتے بنے.بعدہ گاؤں کے سب لوگ خوب ہنسنے لگے کہ مولوی صاحب نواب صاحب کے آنے پر بڑے زور میں تھے اگر ان میں کچھ بھی شرم ہوئی تو دوبارہ آنے کا نام نہ لیں گے.یہ نواب تو بڑا باتونی تھا، آپ کا اس پر رعب پڑ گیا ہے.میں نے مقامی لوگوں سے نواب صاحب کی مالی حقیقت پوچھی تو معلوم ہوا کہ غفورن بٹھیاری ان کی اہلیہ ہے.یہ سب زمینیں بیچ کر کھا چکا ہے.ان کی کوئی اولاد نہیں ہے صرف دو یکے رکھے ہوئے

Page 92

76 ہیں.ایک پر نوکر رکھا ہوا ہے دوسرا خود چلاتے ہیں.یکے بھی قرض لیکر بنائے ہوئے ہیں.جو کماتے ہیں کھا لیتے ہیں مگر اپنی نوابوں کی سی ٹھاٹھ سے باز نہیں آتے.میں نے کہا کہ جب ہم علی گنج جائیں گے تو ضرور اچھن خاں کے مکان پر جائیں گے.گاؤں کے لوگ کہنے لگے کہ اس سرے کے مکان پر کیا لینے جاتا ہے.اس نے تو کبھی ہمیں پانی بھی نہیں پوچھا.۱۹۲۴ء میں حضرت المصلح الموعود ولایت حضور کی انگلستان سے واپسی تشریف لے گئے اور اپنی عدم موجودگی میں حضرت مولوی شیر علی صاحب کو جماعت کے امیر مقرر کر گئے.انہیں دنوں کابل میں امیر امان اللہ خان صاحب والی کابل کی موجودگی میں محترم نعمت اللہ خاں صاحب احمدی کو شہید کر دیا گیا اور ان کے علاوہ دو اور احمدی احباب مکرم قاضی نور علی صاحب اور عبد الحلیم خاں صاحب کو احمدیت کی بناء پر شہید کر دیا گیا.یہ دلوں کو ہلا دینے والی سنسنی خیز خبر جب قادیان پہنچی تو سننے والوں کو بہت صدمہ ہوا اور حضرت مولوی شیر علی صاحب نے یہ اعلان کروایا کہ میری یہ خواہش ہے کہ کابل میں ہمارے ایسے احمدی دوست جائیں جو اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے پیش کر سکتے ہیں.میں اس وقت علاقہ ملکانہ موضع نگلہ گھنو میں تھا.میں نے یہ مرکزی اعلان سنتے ہیں مولوی صاحب کی خدمت میں درخواست دے دی کہ میں کابل میں آپ کے پروگرام کے تحت جاکر جان دینے کے لئے تیار ہوں.آپ کے جواب کا منتظر محمد حسین مبلغ ملکانہ مجھے چند دنوں کے بعد جواب چلا گیا کہ آپ کا نام لکھ لیا گیا ہے.مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ میری درخواست منظور ہو گئی ہے.جب حضور انگلستان سے واپس تشریف لائے تو ساند ھن سے ہوتے ہوئے جماعت آگرہ کی درخواست پر اگرہ بھی تشریف لائے.ہم مبلغین علاقہ ملکانہ آگرہ میں حضور کے استقبال کے لئے

Page 93

77.پہنچ گئے.حضور کی آمد دو بجے والی ریل پر متوقع تھی مگر حضور نو بجے شب پہنچے.حضور کے دیدار کے لئے اسٹیشن پر بہت بڑا ہجوم پہنچ چکا تھا.اس دن پلیٹ فارم کے اتنے ٹکٹ فروخت ہوئے کہ ختم ہی ہو گئے.مجبوراً اسٹیشن ماسٹر نے لوگوں کو بغیر ٹکٹ پلیٹ فارم پر آنے کی اجازت دے دی.ہم مبلغین اور دوسرے احمدی احباب نے آپس میں ہاتھ پکڑ کر لائنیں بنائی ہوئی تھیں.حضور گاڑی سے اتر کر لائنوں کے درمیان سے گزر کر اپنی کار میں سوار ہو کر تجویز شدہ رہائش گاہ تشریف لے گئے.اس وقت اس علاقہ کے (امیر المجاہدین) چوہدری فتح محمد سیال صاحب تھے.انہوں نے تمام مبلغین کی حضور سے ملاقات کروائی قریباً نصف شب گزر چکی تھی.حضور مصافحہ کرنے کے بعد اس کمرہ میں تشریف فرما ہوئے اور تمام مختلف علاقوں کے مبلغین سے حالات دریافت کئے بعدۀ مبلغین کو آرام کرنے کی اجازت دی اور فرمایا کہ آپ سب کو صبح کا ناشتہ کرنے کے بعد ساند من پہنچنا ہو گا اور میں انشاء اللہ تاج محل دیکھ کر آؤں گا.ہم سب ناشتہ کرنے کے بعد ساند من پہنچ گئے.وہاں اکبر خاں صاحب کے مکان کے سامنے والے وسیع میدان میں حضور کی دعوت کا انتظام کیا گیا تھا جس میں تمام مہمان بھی شریک ہوئے.مبلغین کے مشورہ سے جماعت کے احباب نے یہ انتظام کیا کہ ایک ایک فرلانگ کے فاصلہ پر ایک ایک احمدی دوست پٹانے دے کر بٹھا دیئے جائیں اور جب حضور آگرہ سے چل کر شہر سے باہر آجائیں تو وہاں کا آدمی پٹاخہ چلا دے اور جب آپ وہاں سے آگے نکل آئیں تو دوسرا آدمی پٹاخہ چلا دے اور اسی ترتیب سے چلاتے جائیں حتی کہ جب آپ گاؤں میں داخل ہوں تو سب آپ کی آمد سے باخبر ہوں جب حضور کا گاؤں میں ورود ہوا تو مخالفوں نے اکبر خال صاحب کے مکان کو آگ لگا دی ہم سب نے مٹی وغیرہ ڈال کر آگ بجھانے کی پوری کوشش شروع کر دی.آگ کے شعلے دور دور سے دکھائی دے رہے تھے.مکان کافی

Page 94

78 حد تک جل گیا تھا.حضور نے اپنی تقریر کے آغاز میں اعلان کیا کہ دوست چندہ لکھوائیں اور اتنے سو روپیہ میں اپنی طرف سے لکھواتا ہوں تاکہ اکبر خاں صاحب کا ایسا نیا اور پختہ مکان بن جائے جسے آگ نہ لگ سکے.ہم سب لوگوں نے چندے لکھوانے شروع کر دیئے تو اکبر خاں صاحب حضور کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ میں حضور کی پیشکش کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ میں اپنا مکان چندہ کی رقم سے نہیں بنوانا چاہتا کیونکہ اس طرح میرے شریک مجھے یہ طعنہ دیں گے کہ بالاخر مکان چندوں سے بنوایا ہے.اس لئے حضور مجھے نقشہ سے باخبر کر دیں میں خود اس کے مطابق پختہ مکان بنوالوں گا.لہذا حضور نے چندہ لکھوانے سے روک دیا.بعدہ سب احباب نے کھانا کھایا.روٹی گوشت کا انتظام تھا.برتنوں کی کمی کی وجہ سے میرے حصہ میں ایک گڑوی" آئی جس میں مجھے سالن ڈال دیا گیا اس میں شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بھی کھانا کھا رہے تھے اور ساتھ ساتھ ہم ہنس بھی رہے تھے کہ ایسے برتن میں اس سے قبل کبھی کھانا نہ کھایا تھا.بعدۂ حضور نے مبلغین کو ارشاد فرمایا کہ آپ اپنے اپنے حلقوں کو روانہ ہو جائیں اور میں آگرہ سے سوار ہو کر قادیان جا رہا ہوں.حضور جب قادیان پہنچے تو مولوی شیر علی صاحب نے جان کی قربانی دینے والا پروگرام حضور کے سامنے پیش کیا.حضور نے اسے ناپسند کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے خون اتنے ستے نہیں ہیں جنہیں ضائع کر دیا جائے.بعد میں حضور کے اس ارشاد سے ہم سب کو مطلع کر دیا گیا.حضور کی طرف سے " امیر المجاہدین " کے عہدہ پر تقرری انہی ایام میں مکرم اسلام صاحب کو قادیان سکول میں بلایا گیا اور مشی عبد الخالق

Page 95

79 صاحب بھی قادیان تشریف لے گئے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے عاجز محمد حسین کو تین ضلعوں یعنی پوری ، فرخ آباد اور ایٹہ کے حلقہ جات کا امیر مقرر کر دیا اب تو مجھ پر پہلے سے کہیں بڑی ذمہ داری پڑ گئی.رات دن دوڑ دھوپ کر کے مینوں ضلعوں کی نگرانی کرنا پڑتی تھی.جو بھی اس حلقہ کے لئے مجاہد جاتا پہلے میرے پاہی پہنچا اور میں اسے گڑھی یا کوہیٹہ یا لوہاری لگا دیتا تھا.اسی طرح مکرم مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ میرے پاس پہنچے.انہیں میں نے گو ہیٹہ لگا دیا.ڈاکٹر محمد یعقوب صاحب کو گڑھی میں اور ڈاکٹر احمد دین صاحب اور بابو محمد اسماعیل صاحب اور بعض دیگر مجاہدین کا مختلف حلقوں میں تقریر کر دیا.مولوی مهدی حسن کا میری عدم موجودگی میں امامت پر قبضہ جمانا میرے گاؤں کے سب نوجوان میرے شاگرد تھے جس طرف میں جاتا تو کوئی نہ کوئی ضرور ساتھ چل پڑتا تھا.ایک جمعہ کے روز میں لوہاری کا دورہ کرنے گیا.میں نے سب گاؤں والوں سے کہا ہوا تھا کہ کوئی مسافر یہاں سے بھوکا نہیں جانا چاہئے اگر کبھی کوئی مولوی صاحب تشریف لائیں تو انہیں میں خود ہی سنبھالا کروں گا.نے کسی کو کھانا وغیرہ نہیں دیتا.میں مذکورہ جمعہ کے روز جاتے وقت یہ بھی کہہ گیا کہ جمعہ میں انشاء اللہ یہیں پڑھاؤں گا.اسی دن گیارہ بجے کے قریب ایک مولوی صاحب بیت میں آبیٹھے.ساڑھے بارہ بجے کے قریب جب منشی خاں صاحب نہانے کے لئے بیت میں آئے تو وہ مولوی صاحب ان سے کہنے لگے کہ اذان دے دیں.انہوں نے جواب دیا کہ ہم اپنے مولوی صاحب کے آنے پر اذان دیں گے.اسی اثناء میں اور لوگ بھی اکٹھے ہو گئے.مولوی صاحب کہنے لگے کہ تمہارا مولوی میں

Page 96

80 ہوں.میں دیوبند پاس ہوں اور جمیعت العلماء نے مجھے اس بیت کا اہم مقرر کر کے بھیجا ہے اور میں ہی جمعہ پڑھاؤں گا اور یہ کہہ کر مصلے پر جم کر بیٹھ گئے.تھوڑی دیر کے بعد میں بھی بیت میں پہنچ گیا جہاں میں نے مولوی صاحب کو امام کے لئے مصلے پر براجمان پایا.اس صورت حال کو دیکھ کر میں نے اپنے شاگردوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ آپ لوگ بہت ست ہیں کہ نہ تو ابھی تک بیت میں جھاڑو ہی دیا ہے اور نہ صفیں بچھائی ہیں.وہ فورا کام میں لگ گئے اور میں وضو کرنے لگا.انہوں نے مصلی جھاڑنے کے لئے مولوی صاحب کو وہاں سے اٹھایا.جونہی انہوں نے مصلی جھاڑ کر بچھایا میں نے اس پر سنتیں پڑھنا شروع کر دیں.پہلی اذان ہو چکی تھی اور سب لوگ جمع ہو چکے تھے لہذا میں نے دوسری اذان دلوا کر خطبہ شروع کر دیا.میں نے اکرام ضیف کے متعلق خطبہ دیا.مولوی صاحب بھی بیت کے ایک کو نہ میں بیٹھ کر خطبہ سنتے رہے اور پھر نماز بھی میرے پیچھے ہی پڑھ لی.جب جمعہ ختم ہوا تو میں بڑی محبت سے مولوی صاحب سے ملا اور گھر سے شربت منگوا کر مولوی صاحب کو پلایا.میں چونکہ کھانا لوہاری سے ہی کھا آیا تھا.اس لئے میرا کھانا مولوی صاحب کے کام آیا.وہاں میری ہندوؤں اور مسلمانوں سے عام واقفیت ہو چکی تھی اور سب بڑی محبت سے ملتے اور ایک بڑا عالم سمجھتے تھے.یہ تمام برکتیں حضرت مسیح موعود کی دعاؤں کے طفیل تھیں ورنہ تین جماعتیں پڑھا ہوا آدمی عالم کیسے کہلا سکتا ہے؟ میں نے مولوی صاحب سے بات کا آغاز کچھ اس طرح کیا " مولوی صاحب آپ کی تعریف ؟" بولے میں دیوبند کا سند یافتہ ہوں اور آگرہ سے اس گاؤں کے لئے بھیجا گیا ہوں.میں نے کہا کہ بڑی خوشی ہوئی کہ آپ تشریف لے آئے ہیں میں بھی اکیلا گھبرایا ہوا تھا.اب آپ بھی جائیں کہ کام کرنے کے لئے کیا طریق اختیار کیا جائے.آپ اس بات سے تو بخوبی آگاہ ہوں گے کہ میں جماعت احمد یہ قادیان سے تعلق

Page 97

81 رکھتا ہوں جبکہ آپ دیوبند فرقہ سے ہیں.ہم دونوں نے تو دین حق کی خدمت کرنا ہے لہذا آپ ہی بتائیں کہ کیا صورت اختیار کی جائے.دیو بندی فاضل صاحب بولے کہ آپ لوگ صرف ایک غلطی کر گئے کہ مرزا صاحب کو نبی بنا دیا ورنہ ہمارے درمیان کوئی بڑا اختلاف نہ تھا.مرزا صاحب نے دعوی کر کے پبلک کو بہت ہی گمراہ کر دیا ہے ورنہ دیوبند میں ایک جمیعت العلماء کی مجلس بنائی گئی تھی جس کا مقصد تمام مسلمانوں کو ایک نقطہ پر اکٹھا کرنا تھا لیکن مرزا صاحب نے ایک علیحدہ راستہ اختیار کر کے صلح کے راستہ کو لمبا کر دیا ہے جس کا ہمیں بہت افسوس ہے.میں نے انہیں اس وقت کوئی جواب دینا اس لئے پسند نہ کیا کہ دوسرے لوگ وہاں موجود نہ تھے.رات کو سب لوگ میری اطلاع پر اکٹھے ہو گئے.مولوی صاحب کا نام مهدی حسن تھا جو دربھنگہ کے رہنے والے تھے.مولوی صاحب کو کھانا کھلاتے وقت ہمیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ صاحب مولوی مرتضی حسن دربھنگہ والوں کے (جو احمدیت کے اشد ترین مخالفوں میں سے ہیں) بھانجے ہیں.اس لئے میں نے محتاط ہو کر کام کرنا ضروری خیال کیا.میں نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھائیو یہ مولوی صاحب دیوبندی ہیں اور بہت بڑے عالم فاضل ہیں.مگر آپ جانتے ہیں کہ میں ایک ادنی سا آدمی ہوں جو دین حق کی خدمت کرنے جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے بھیجا گیا ہوں.آج مولوی صاحب نے بحث کے لئے نہیں بلکہ نصیحت کرنے کے لئے چند باتیں کی ہیں جو بیان کئے دیتا ہوں.بعدہ اپنا خیال بھی ظاہر کر دونگا.مولوی صاحب نے پہلا سوال تو یہ کیا ہے کہ آپ لوگوں نے مرزا صاحب کو نہی بنا دیا اور اس طرح انہوں نے بہت ساری دنیا کو گمراہ کر دیا ہے ورنہ دیوبند میں مولویوں کی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی تا ساری دنیا کے مسلمانوں کو ایک نقطہ پر اکٹھا کیا جاسکے.در حقیقت ان مولوی صاحب کے تین سوال ہیں.(1) نبی لوگ بناتے

Page 98

82 ہیں.(۲) مرزا صاحب نے گمراہی پھیلائی.(۳) دیو بند کی مولوی کمیٹی جس نے تمام مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنا تھا نا کام ہو گئی.سب سے پہلے تو مولوی صاحب کا پہلا سوال ہی غلط بلکہ الغلط ہے.کیونکہ نبی کو لوگ نہیں بناتے اور نہ ہی بنا سکتے ہیں نی ہمیشہ خدا تعالٰی ہی بناتا ہے اور پھر اس کی مدد کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ نبی جس کام پر مبعوث ہوتا ہے اس میں کامیاب ہو کر جاتا ہے.ہر ایک نبی کے زمانہ میں ایسا ہی ہوا ہے اور اگر نہی کے لفظ پر ہی غور کیا جائے تو یادہ خدا کا بنایا ہوا ہو گا اور یا پھر مفتری ہو گا.اس کا دعوئی وہ خود ہی کر سکتا ہے.خواہ وہ خدا تعالی کے حکم سے کرے یا افتراء کرے.صادق نبی ہی کے آواز دینے پر لوگ ہدایت پائیں گے اور اگر نبی کا دعوی کرنے والا مفتری ہے تو لوگ اسے ماننے کے بعد بھی چھوڑ جائیں مجھے کیونکہ اس کی تعلیم اور اس کا اپنا عمل صادقوں جیسا نہ ہو گا.اس لئے نبی کا دعوئی اس کی ذات سے ہی ہو سکتا ہے نہ کہ لوگ اسے بنائیں.ہمارے سامنے یہ دو مثالیں موجود ہیں.آنحضرت ﷺ نے بھی خود ہی دعویٰ کیا تھا اور مسیح نے بھی خود ہی دعوی کیا ہے اس لئے مولوی صاحب یہ سوال تو کر سکتے تھے کہ حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ صحیح نہیں ہے.جب وہ یہ سوال کریں گے تو میں جوابا عرض کرونگا که اگر مرزا صاحب کا دعوئی صحیح نہ ہوتا تو وہ ایسی جماعت تیار نہ کر سکتے جو خدا تعالٰی کی محبت میں فنا ہو رہی ہے.اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال ، جان ، وقت اور عزت سب کچھ دین حق کی ترقی پر ہی لگا دینے کے علاوہ نماز ، روزہ، حج، زکوۃ کی پابندی اور خدا کی وحدانیت کا اقرار ، تسجد کا شوق، قرآن کریم سے عشق شریف کا درد صحبت صالحین سے خوشی اعمال سوء سے نفرت اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنا اپنا شیوا بنائے ہوئے ہے.اس کے بعد میں نے بیعت فارم سے دس شرائط پڑھ کر سنائیں اور انہیں بتایا کہ مولوی صاحب کی کمیٹی کا نا کام ہونا بھی بتاتا ہے کہ وہ ورود

Page 99

83 حزب اللہ کی کمیٹی نہ تھی کیونکہ قرآن کریم میں یہ آیت موجود ہے کہ حزب اللہ غالب آیا کرتے ہیں اور شیطان خسارہ میں رہ کر ناکام ہو جاتے ہیں.پس معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کو مان کر ہم گمراہ نہیں ہوئے بلکہ حق پر قائم ہو گئے ہیں.کیونکہ درخت اپنے پھل سے شناخت کیا جاتا ہے اور مرزا صاحب کا ایسی منتظم جماعت اور قربانی کرنے والی جماعت کا قائم کرنا اس کی صداقت کو ثابت کرتا ہے.مولوی صاحب بڑے عالم تھے مگر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے سے قاصر اور بہت کم گو تھے آہستہ سے بولے کہ اب کوئی نبی نہیں آسکتا.قرآن کریم اور احادیث میں ممانعت ہو چکی ہے.میں نے کہا مولوی صاحب معاف فرمانا آپ شریف آدمی ہیں مگر ایک طرف تو آپ مانتے ہیں کہ اب کوئی نبی نہیں آسکتا اور دوسری طرف کتاب والے نبی بلکہ آپ کے عقیدہ کے مطابق کلمے والے نبی حضرت عیسی علیہ السلام کا آپ کو رات دن انتظار ہے.آپ یہ دو قسم کے عقیدے کیسے بیان کرتے ہیں.مہربانی فرما کر اس کی ذرا تشریح فرما دیں.مولوی صاحب کہنے لگے کہ اس کی تشریح یہی ہے کہ وہ نبی بن کر نہیں آئیں گے بلکہ انہوں نے یہ دعا کی تھی کہ مجھے امت محمدیہ میں امتی بنا کر بھیجا جائے اسے خدا تعالٰی نے منظور کر لیا اور اب وہ ضرور آئیں گے میں نے کہا کہ جو دعا ئیں حضرت عیسی علیہ السلام نے کی ہیں وہ قرآن پاک میں درج ہیں آپ اس مضمون کی آیت پڑھ دیں تاہم اس پر غور کر سکیں مگر آپ ایسی کوئی آیت نہیں پڑھ سکتے.اگر یہ دعا منظور ہو ہی گئی تھی تو کیا ان کے آنے پر قرآن پاک میں جو بار بار ان کے بارے میں نبی و رسول لکھا ہے.سب آیات نکال لی جائیں گی یا وہیں رہیں گی.اگر ان آیات کو نکالا جائے تو قرآن پاک مکمل نہیں رہتا اور اگر نہ نکالی جائیں تو آپ تو نبی اور رسول ہی رہے.اس کا حل کیا ہونا چاہئے.مولوی صاحب کہنے لگے کہ اب مجھے نیند آرہی ہے ہم پھر کسی وقت علیحدہ باتیں کریں

Page 100

84 گے.میں نے کہا اگر مجھے ابھی یہ اطلاع آئے کہ فلاں جگہ آریہ جلسہ کرنے والے ہیں تو میں تو اسی وقت چل پڑونگا اور وہاں جا کر معلوم کرونگا کہ وہ کہیں دین حق پر اعتراض تو نہیں کرتے اور اگر کرتے ہوں گے تو ساری رات ان سے سوال و جواب کرتا رہوں گا.مولوی صاحب بولے کہ میں تو ایسا نہیں کر سکتا.میں نیند کو روک نہیں سکتا.میرا شاگر د عثمان خان بولا کہ مولوی صاحب آپ اس علاقہ میں کام نہیں کر سکتے.آپ کہیں جا کر سکول میں پڑھائیں ہمارے مولوی صاحب تو ساری ساری رات جاگ کر کام کرتے ہیں.مولوی صاحب کہنے لگے کہ قادیانی مولوی صاحب تو مقابلہ کرنے اور چلنے پھرنے میں سخت مضبوط ہیں اور مقابلہ دلائل سے کرتے ہیں اور خوش اخلاق بھی ہیں ہمیں تو غصہ ہی بہت جلد آجاتا ہے.خدا جانے اس کی کیا وجہ ہے.عثمان خان بولے امیں نے تو اسی لئے آپ سے کہا ہے کہ آپ کسی سکول میں پڑھائیں یہ منزل تو بڑی کٹھن ہے.پورا پورا دماغ پر بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے چاہے کتنی ہی رات گذر جائے مولوی صاحب سو گئے اور ہم نبی کا مسئلہ حل کرتے رہے.میں نے پہلے بھی انہیں اس مسئلہ سے روشناس کرایا تھا.ایک دوست مسمی فتح خاں صاحب بولے کہ مولوی صاحب جتنے مخالفین آتے ہیں آپ ان سب کو کھانا کھلاتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہمارے نبی حضرت محمد ال نے اپنے مخالف یہود و نصاری کو بھی کھانا کھلایا کرتے تھے.لہذا ان کے امتی ہونے کی حیثیت سے ان کی پیروی کرنا بھی ہمارا فرض ہے.فتح خاں صاحب بولے کہ ان مولویوں نے کبھی آپ کو بھی کھانا کھلایا؟ میں نے کہا کہ آج تک تو کبھی ایسا اتفاق ہوا نہیں آگے خدا جانے بعد میں ہم سب وہاں سے اٹھ کر سونے کے لئے چلے گئے.اگلے دن صبح مولوی مهدی حسن صاحب کیلئے جائے رفتن نہ پائے ماندن میں نے ہی

Page 101

85 نماز پڑھائی مگر مولوی صاحب سوئے ہی رہے.سورج نکلنے پر وہ بیدار ہوئے اور مٹی کا لوٹا لیکر پاخانہ کرنے کے لئے چلے گئے.اس علاقہ میں مٹی کے لوٹے سے آب دست کرنا سخت جرم سمجھا جاتا تھا.وہاں لوگوں نے مولوی صاحب کو اس حالت میں دیکھ لیا اور ان میں سے کسی ایک نے مجھے بھی مطلع کر دیا.بے چارے مولوی صاحب مار سے تو بچ گئے مگر اب انہیں کوئی چوپال پر چڑھنے نہیں دیتا تھا.میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ کوئی حرکت بھی میرے پوچھے بغیر نہ کیا کریں کیونکہ یہ لوگ بڑے سخت ہیں.مولوی صاحب بہت ڈر گئے.میں نے انہیں سلوایا اور ہاتھ وغیرہ منجھوائے تو وہ مجھے بیت میں ہی لے کر بیٹھ گئے اور مجھے بتانے لگے کہ مجھے ساٹھ روپے ماہوار دے کر انجمن دیو بند اگرہ نے اس گاؤں میں بھیجا ہے کہ آپ کو نکال کر اس گاؤں پر قبضہ کروں مگر یہاں آکر معلوم ہوا ہے کہ اگر میں نے آپ کو نکالنے کا نام بھی لیا تو پٹ جاؤنگا.لہذا اب آپ ہی مجھے کوئی راہ بتائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہئے.اور باقی زندگی کس طرح گزارنی چاہئے.میں نے کہا کہ قریب ہی گڑھی ہے اور وہاں بھی ہمارے مبلغ رہے ہیں مگر آجکل وہ جگہ خالی ہے.وہاں بیت بھی ہے.آپ اگر وہاں ڈیرہ لگالیں تو بڑی اچھی بات ہو گی ہم آپس میں ملتے بھی رہیں گے.میں بوقت فرمت وہاں آجایا کرونگا اور آپ بھی فرصت کے وقت یہاں آجایا کریں.انہوں نے میری اس تجویز کو بہت پسند کیا.ہم نے پرائیویٹ طور پر تمام کے تمام اختلافی مسائل تقریبا حل کر لئے تھے.اگلے دن صبح کے وقت میں اسے وہاں چھوڑنے گیا.اور سب لوگوں سے اس کا تعارف بھی کروا دیا.میں نے انہیں کہا کہ آپ لوگوں نے دوسرے لوگوں کا اثر لیکر ہمارا مبلغ یہاں سے نکال دیا تھا جس کی وجہ سے آپ کے بچے قرآن کریم پڑھنے سے محروم رہ گئے اور آپ لوگوں کا بہت زیادہ حرج ہوا.آپ لوگوں کی نسبت نگلہ والوں کی بہت ہی مخالفت ہوئی مگران

Page 102

86 کے پاس جب بھی کوئی آیا تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہمارے مولوی سے بحث کر لو.اگر تم جیت گئے تو ہم تمہیں رکھ لیں گے.ہم لوگ سینکڑوں سالوں سے مسلمان ہیں.تم اس سے قبل کبھی منہ دکھانے کو بھی نہیں آئے اور اب جب کہ ہمارے بچے قرآن پڑھ گئے ہیں تو تم کہتے ہو کہ ان کو نکال دو تاکہ ہم علم سے محروم رہ جائیں؟ اب ہم مولوی صاحب کو اپنی زندگی میں اپنے منہ سے نہیں کہہ سکتے کہ یہاں سے چلے جاؤ.حالانکہ نگہ والے بھی آپ ہی کے بھائی تھے.مگر پھر بھی آپ سے ہماری ہمدردی ہے.اب ہم نے آپ کو دیو بندی مولوی صاحب لا دیتے ہیں.ان کی خدمت کرو اور تعلیم حاصل کرو.مولوی صاحب کا سامان بہت مختصر تھا.میں نے مولوی صاحب سے اپنے سامان کی خود حفاظت کرنے کا ذکر کیا اور اپنے مبلغوں کی چیزیں چرائے جانے کا بھی بتایا.بعدہ مولوی صاحب سے سلام کر کے واپس لوٹ آیا.مولوی صاحب بھی کچھ دور مجھے چھوڑنے آئے وہاں سے لوٹنے کے بعد بچوں کو سبق پڑھایا.جب عصر کا وقت ہوا تو مہدی حسن صاحب میرے پاس پہنچ گئے اور کہنے لگے کہ میں سارا دن اکیلا بیٹھے بیٹھے گھبرا گیا تھا.کھانا بھی کسی نے نہیں دیا.اس لئے آپ کے پاس آگیا ہوں.میں نے کہا کہ ہم لوگ ہر جگہ اپنا ہی کھانا کھاتے ہیں.ہمارے مبلغ بھی اس جگہ اپنا ہی کھانا کھاتے تھے.آپ فکر نہ کریں شام کو آپ کے پاس لوگ جمع ہو جائیں گے.میں نے گھر سے کھانا منگوا کر انہیں کھلایا اور واپس رخصت کیا.دوسرے دن میں بچوں کو سبق پڑھا کر مولوی صاحب کے پاس گیا اور ایک گھر میں ان کے کھانے کا انتظام کر کے واپس لوٹ آیا.تیسرے روز مولوی صاحب پھر بستر اور سامان اٹھائے میرے پاس پہنچ گئے.میں پھر انہیں کھانا کھلا کر واپس چھوڑنے گیا اور لوگوں سے دریافت کیا کہ آپ لوگ کیوں ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے.وہ بولے کہ مولوی صاحب ہمیں چور سمجھتے ہیں.جب پاخانہ کرنے

Page 103

87 جاتے ہیں تو تمام سامان اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں اور واپسی پر ساتھ لے آتے ہیں.اس سے قبل کوئی مولوی ایسا نہیں کرتا تھا.اس لئے ہم انہیں چور سمجھتے ہیں.آپ مہربانی فرما کر انہیں نگلہ گھنو ںلگا دیں اور آپ یہاں آجائیں.میں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس بیت سے کوئی راہ گیر یا مسافر ایک مولوی صاحب کی گھڑی اٹھا کر لے گیا تھا اور دوسرے مولوی صاحب کے کپڑے جاتے رہے تھے.اگر یہ مولوی صاحب اس بات کی احتیاط رکھتے ہیں تو اس میں آپ کا کیا حرج ہے.اس طرح نہ تو آپ پر کوئی الزام لگ سکتا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی نقصان ہو سکتا ہے.پھر مولوی صاحب پوچھنے لگے کہ میرے کھانے کا کیا انتظام ہو گا؟ میں نے کہا کہ آپ دس روپے ماہوار انہیں دے دیا کریں.یہ دال روٹی، صبح کا ناشتہ لسی کے ساتھ آپ کو دے دیا کریں گے اور تین دن کے بعد گوشت روٹی دیا کریں گے.مولوی صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ یہ لوگ پانچ آنے روزانہ شام کو مجھ سے لے لیا کریں.یہ ایک روپیہ میں ابھی دیتا ہوں.غرضیکہ ان کا آپس میں سودا کروا کر میں واپس چلا گیا.ابھی تین دن ہی گذرے مولوی مهدی حسن دیوبندی کا قبول احمدیت تھے کہ مولوی صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں ان لوگوں میں نہیں رہ سکتا.یہ صرف آپ کا ہی حوصلہ ہے.چونکہ آپ کے اخلاق نے مجھ پر گہرا اثر کیا ہے.لہذا میں آپ کے مرکز میں جا کر کچھ عرصہ رہنا چاہتا ہوں اور مرزا صاحب کی کتب کا مطالعہ کر کے احمدیت میں داخل ہونا چاہتا ہوں.میرا آپ کے بغیر خدا کی قسم دل نہیں لگتا اور میں ید نام ہو جاؤنگا کیونکہ میرے تمام افسر بھی دیو بندی ہیں اور یہ لوگ شکایت کریں گے کہ اسے قادیانی مولوی صاحب سے محبت ہے جو میرے لئے ٹھیک نہیں.میں نے آپ کو دل کی بات بتادی ہے ورنہ احمدی تو پرسوں ہی ہو گیا تھا جب میں نے اختلافی

Page 104

88 مسائل چھیڑے تھے اور آپ نے جواب دیئے تھے.جن کے متعلق اور تو تمام حوالے میں نے نوٹ کر لئے ہیں مگر تحذیر الناس کا حوالہ مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کا میں قادیان جا کر دیکھوں گا اور بیعت کر لوں گا.میں نے اسی وقت آگرہ مرکز کو چٹھی لکھی کہ اگرہ میں دیوبندی بھی ایک مکان میں بند ہیں لہذا مولوی مهدی حسن صاحب کو فورا قلیاون پہنچا دیں.چھٹے دن آگرہ سے چٹھی آئی کہ جزاک اللہ.آپ کی امانت اسی دن وفد کے ساتھ روانہ کر دی تھی.دو دن کے بعد مهدی حسن صاحب کی چٹھی آئی کہ آپ کو مبارک ہو میں نے پہلے وہ حوالہ دیکھا تھا جو ٹھیک تھا اور بعد نماز جمعہ میں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی بیعت کرلی ہے.اب حضور نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں کچھ عرصہ یہاں رہ کر کتب کا مطالعہ کروں گا بعدۂ حضور کا جو ارشاد ہو گا اس پر عمل کیا جائے گا.ایک ہفتہ کا عرصہ گذرنے پر ایک دیو بندی انسپیکٹر دیوبندی انسپکٹر کا ورود ہمارے پاس آگرہ سے آئے اور کہنے لگے کہ ہم نے مولوی مهدی حسن صاحب فاضل دیو بند یہاں بھیجے تھے آپ کو ان کے متعلق کیا کوئی علم ہے؟ میں نے کہا میرے پاس ہر فرقہ کے مولوی صاحبان آتے ہی رہتے ہیں آپ اس وقت آرام کریں کھانے کا وقت بھی ہو چکا ہے اور ابھی میں نے بھی کھانا کھانا ہے.پھر بیٹھ کر تسلی سے باتیں کریں گے.میں اب مغرب کی نماز پڑھانے جا رہا ہوں.آپ نہیں بیٹھیں.وہ کہنے لگا کہ میں نے بھی نماز پڑھنی ہے لیکن تھکاوٹ کی وجہ سے ذرا ٹھہر کر پڑھوں گا.میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد گھر گیا اور ان کا کھانا بھی ہمراہ لے آیا وہاں پہنچ کر دونوں نے مل کر کھایا.وہاں جان محمد خان بھی بیٹھے ہوئے تھے.بولے کہ مولوی صاحب آپ سے پہلے یہاں دیو بندی مولوی صاحب آئے تھے اس وقت یہاں قادیانی مولوی صاحب نہیں تھے تو انہوں

Page 105

89 نے ہمیں بتایا تھا کہ جو ان قادیانیوں کو السلام علیکم کہتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے اور جو ان کے ساتھ کھانا کھاتا ہے اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ جو بھی دیو بندی آتا ہے وہ قادیانی مولوی صاحب سے السلام علیکم بھی کرتا ہے.مصافحہ بھی کرتا ہے اور کھانا بھی ساتھ بیٹھ کر کھا لیتا ہے.اس کی کیا وجہ ہے؟ انسپکٹر صاحب بے چارے شرم سے پانی پانی ہو رہے تھے کیونکہ بری طرح پھنس چکے تھے.میں نے ان کی جان چھڑانے کے لئے جھٹ کہہ دیا کہ یہ انسپکٹر صاحب اگر اس بات کے قائل ہوتے تو یہ اس جگہ آتے ہی کیوں.یہ اس آیت کو جانتے ہیں کہ لم تقولون مالا تفعلون بعض مولوی جلد باز ہوتے ہیں وہ جھٹ فتوی دے دیتے.ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ آج کل تو ہمیں کوئی ایسا فرقہ ملتا ہی نہیں ہے کہ جس پر دوسرے فرقہ والوں کا فتویٰ نہ لگا ہوا ہو.اب ضرورت تو اس بات کی ہے کہ مل کر کافروں کو مسلمان کیا جائے.کافی لمبا عرصہ سے مسلمان آپس میں الجھے ہوئے ہیں.اب اتحاد کی ضرورت ہے نہ کہ اختلاف کی.کیوں مولانا سچ ہے کہ نہیں مولانا بولے بالکل سچ ہے.اس طرح انسپکٹر صاحب کی جان چھوٹی.اب وہ پوچھنے لگے کہ مولوی مهدی حسن صاحب فاضل دیوبندی کہاں ہیں.میں نے انہیں ساری بات تفصیل سے بتادی اور کہا کہ اب وہ آپ کے مولوی صاحب نہیں رہے بلکہ بعد تبادلہ خیالات اب وہ ہمارے احمدی بھائی بن کر قادیان شریف میں ہیں اور وہاں پڑھائی شروع کر دی ہے.مجھے ان کی طرف سے خیریت کی چٹھی بھی موصول ہو گئی ہے.آپ فکر نہ کریں.یہ سن کر وہ ششدر رہ گئے اور کہنے لگے کہ کیا یہ جو کہانی میں سن رہا ہوں حقیقت ہے؟ پھر انہوں نے کوئی بات نہ پوچھی اور ساری رات کروٹیں بدلتے رہے اور اف اف کرتے رہے صبح ہم نماز پڑھنے گئے تو بعد میں مولوی انسپکٹر اپنے رفو چکر ہوئے کہ کبھی دکھائی نہ دیئے.

Page 106

90 ایک دن صبح کے ولایت خان نمبردار اور کفر کے فتووں کی حقیقت وقت لوہاری کے غیر احمدی نمبر دار ولایت خان صاحب ہمارے پاس چوپال پر آئے اور ہنس کر کہنے لگے کہ مولوی صاحب کل ہمارے دیو بندی مولوی سرور حسین فاضل نے فتوی دیا کہ قادیانیوں سے سلام کرنے سے انسان کافر ہو جاتا ہے اور اگر ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھ کر ان کے ساتھ کوئی کھانا کھا لے تو اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے.ابھی انہوں نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کہ تھوڑی دور مولوی سرور حسین دیو بندی آتے ہوئے دکھائی دیئے.میں نے اس نمبردار کو فورا چوپال کے اندر بھیج دیا.وہ کواڑ سے دیکھتے بھی رہے اور کپڑا اوڑھے لیٹے بھی رہے.دیو بندی مولوی صاحب آئے.مجھ سے مصافحہ وغیرہ کر کے خیریت دریافت کی.ناشتے کا وقت تھا میرا ایک شاگرد نور محمد خاں ہمارے گھر سے کھانا لے آیا.دیو بندی مولوی صاحب کے بھی ہاتھ دھلائے اور ایک ہی برتن میں کھانا کھانے لگے.چپکے سے نمبردار صاحب اندر سے اٹھ کر ہمارے پاس دالان میں آگئے.میں نے انہیں بھی ساتھ بٹھا لیا اور سالن روٹی اور منگوا لیا اور ان سے کھانے کو کہا.نمبردار صاحب بولے تم دونوں قادیانی مل کر کھاؤ میں تو دیو بندی ہوں میں تو نہیں کھا سکتا.دیو بندی مولوی صاحب شرمندہ ہو کر بولے کہ نمبردار یار دل لگی کی باتوں کو بھی شریعت ہی سمجھ لیتے ہو آئیں آپ بھی کھائیں.نمبردار ان کے فتووں کی حقیقت پہلے بھی جانتا تھا.اس نے بھی ناشتہ کیا.بعدہ گالیاں نکال کر کہنے لگا کہ اس کی ماں کو میں یہ کروں جو دیو بندی مولویوں کے فتوؤں کو سچا کہے.قادیانی بچے ہیں.اپنے مذہب کے پکے ہیں.یہ غیر احمدی کا جنازہ نہیں پڑھتے چاہے باپ ہی کیوں نہ ہو اور اس پر عمل کر کے دکھا دیتے ہیں چاہے ساری دنیا مخالف ہو جائے.اس لئے ہم تو قادیانی مولویوں کے فتوؤں کو سچا سمجھتے ہیں چاہیے.

Page 107

91 کچھ بھی ہو جائے.اس نے دیو بندی فرقہ کے لوگوں کو بھی بے نطق سنائیں کہ یہ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں مگر مولوی ڈھیٹ ہو کر سب سنتا گیا.اس نے بھی مهدی حسن صاحب کا پوچھا میں نے بتایا.اس کا اس پر بہت اچھا اثر ہوا.حضرت مسیح موعود کی برکت سے اللہ علماء دیو بند کا آریوں سے مناظرہ تعالٰی ہر میدان میں فتح دیتا تھا.ایک دفعہ میں نے سنا کہ علی گنج تحصیل میں رانی کے رامپور میں دیو بندی اور آریہ مناظرہ کر رہے ہیں.مناظرہ کے دن میں وہاں پہنچ گیا.مجھ سے قبل وہاں تین مولوی صاحبان بیٹھے ہوئے تھے.مولوی سرور حسین صاحب دیو بندی دوسرے مولوی امام الدین صاحب سیالکوئی خدام صوفیہ اور تیسرے ایک بریلوی مولوی تھے چوتھا ایک احمدی مولوی وہاں پہنچ گیا.ہمارے گاؤں کے دو تین ملکانے بھی میرے ہمراہ تھے مناظرہ شروع ہونے میں دو گھنٹے باقی تھے اور یہ تینوں مولوی بڑی گرمجوشی سے آپس میں اختلافی مسائل پر بحث کر رہے تھے اور ایک دوسرے پر پل پڑنے کو تیار تھے.میں نے بڑی حکمت عملی سے انہیں سمجھایا کہ اس وقت کفر و اسلام کی بحث ہونے والی ہے آپ کوئی تیاری کریں کیونکہ مقابلہ پر جو آریہ آیا ہوا ہے وہ بہت ہوشیار اور پھکڑ ہے.آپ آپس میں الجھ رہے ہیں کتنے افسوس کی بات ہے.سرور حسین نے مجھے بتایا کہ مولانا کام بہت خراب ہو گیا ہے.ہمارے مولوی بدرالحسن صاحب نے دیو بند سے تار دے دیا ہے کہ کوئی اور مولوی سکول سے فارغ نہیں ہے.میں نے آنے کا وعدہ کیا تھا مگر پیچش کے باعث سخت بیمار ہوں اس لئے نہیں آسکتا.اب بڑی تشویش میں ہوں کہ کیا کیا جائے.میں نے کہا تبھی آپس میں جھگڑا شروع کیا ہوا تھا اب اگر آپ کی طرف سے کوئی مناظر کھڑا نہ ہوا تو ملکانوں پر کیا اثر پڑے گا اور آریہ کتنے خوش ہوں گے میں نے دوسرے مولوی صاحبان سے کہا کہ اب کیا

Page 108

92 کرنا چاہئے قرآن اور دید کا مقابلہ ہے کہ قابل قبول اور عالمگیر تعلیم کس کی ہے یہ علمی مضمون ہے اب بریلی والے مولوی صاحب مناظرہ کریں.مولوی صاحب بولے کہ توبہ میں ان بے دین آریوں کے مکروہ چہرے بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا چہ جائیکہ ان نابکاروں کو مخاطب کر کے باتیں کروں.یہ دیو بندی ہی جائیں جنہوں نے مناظرہ کی طرح ڈالی ہے اب وقت آیا تو پیچش شروع ہو گئی ہے.یہ سن کر دیو بندی صاحب کو پھر غصہ آیا مگر میرے روکنے پر رک گئے.میں نے پھر امام الدین صاحب سے کہا کہ اب پھر آپ ہی اس وقت کو سنبھالیں تو وہ بولے کہ مولوی صاحب یہ آپ ہی کا کام ہے اور آپ نے ہی کرنا ہے آپ تیاری کر لیں.میں نے کہا کہ مناظرہ شروع ہونے میں قریب ایک گھنٹہ باقی رہتا ہے اور اب میں تیاری کروں.اچھا جو خدا چاہے گا ہو گا.مناظرہ کی شرائط پڑھیں احتیاط چند کتابیں اپنے ہمراہ رکھی ہوئی تھیں.کچھ اپنی نوٹ بک پر نظر دوڑائی اور دعا میں لگ گیا.آریہ مناظر کا نام سوری کولہ مل تھا اور دیہات میں وہی مناظرے اور لیکچر کے کام کیا کرتا تھا.وہاں ہندو آریہ پہلے ہی کافی تعداد میں تھے اور مسلمان مکانے بھی کافی تعداد میں جمع ہو میرے ایک واقف ہندو دوست تھے جن کی بات سب لوگ متوجہ ہو کر سنتے تھے اور سبحان اللہ کہا کرتے تھے کیونکہ ان کی آواز اچھی تھی.آریہ مناظر نے اٹھ کر اسلام پر بعض اعتراض کئے اور وید کے منتر سے نہیں بلکہ ادھر ادھر کی ہندی کتابوں سے ویدک تعلیم کو عالم گیر ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی.میں نے اپنی ٹرن میں اس کے اسلام پر کئے ہوئے اعتراض کے جواب دیئے اور کچھ اس سے مطالبات کئے اور کہا کہ آپ ادھر ادھر سے ادھار نہ کھائیں.دید کا دعوئی پیش کریں کہ میں ساری دنیا کے لئے ہوں.جب دید اس بات کا دعویدار ہی نہیں تو پھر آپ کی وکالت کا کیا فائدہ؟ اگر دید ساری دنیا کے لئے ہوتا جیسے یہ بتایا جاتا ہے کہ جب گئے.

Page 109

93 سے دنیا کا آغاز ہوا دید اس وقت سے ہے تو پھر اب اسے گھر گھر ہونا چاہئے اور ساری دنیا اب تک اپنی اپنی زبانوں میں اس کا ترجمہ کر چکی ہوتی اور بچوں کو سکھا رہی ہوتی اس کے برعکس اس کی یہ حالت ہے کہ ہندوستان میں اردو زبان بولی جاتی ہے مگر آج تک اس کا اردو میں بھی ترجمہ نہیں ہو سکا اور انگریزی ہندی جو رد لکھی ، عربی ، عبرانی یونانی، لاطینی، جرمنی، فرانسیسی، فارسی، پشتو، مرہٹی، ملایا اور دوسری زبانوں کا تو اردو میں ترجمہ ہو گیا لیکن اس دید کا اردو میں ترجمہ نہیں ہو سکا جس کا مطلب یہ ہوا کہ دینی ، دنیوی اور سیاسی و تمدنی لحاظ سے وید بے ثمر کا مقام ہی رکھتا ہے اس کے مقابلہ میں قرآن کریم ہر ملک میں پڑھا جاتا ہے اور اس کی بے شمار تفسیریں اردو عربی انگریزی اور فارسی زبان میں ہر ملک میں موجود ہیں اور اب مزید بیسیوں زبانوں میں ہو رہی ہیں.آپ نے نیوگ وغیرہ کی تعلیم کی وجہ سے اسکی تعلیم کو چھپایا ہوا ہے اور میں نے دھمکی بھی دی کہ اگر آپ نے اسلام پر یا بانی اسلام پر کوئی گندہ اعتراض کر کے اپنا آریہ ہونے کا ثبوت دیا تو میرے پاس یہ ستیارتھ پرکاش اور منو شماستر اور دیگر مطلب کی کتابیں موجود ہیں آریہ سماج کا سارا گند نکال کر پبلک کے سامنے رکھ دوں گا.تمام مناظرہ مذکورہ بالا باتوں کے ارد گرد ہی چکر لگاتا رہا اور بڑے امن سے ختم ہوا.بعد مناظرہ دوسرے مولوی صاحبان مرحبا اور جزاک اللہ کہتے رہے.بعدہ آریہ مناظر اگر ملا اور کہنے لگا میں قادیانی مولویوں کو مذہبی عالم خیال کرتا ہوں.آپ کا بہت بہت شکریہ اور آپ آج بھوجن ہمارے ہاں ہی کھائیں گے میں نے کہا آپ کا بہت شکریہ میرے اس جگہ اور بہت سے لوگ واقف ہیں.دوسرے ہم کھانا کھا کر آئے ہیں.سب ہندو اور مسلمان یہ کہہ رہے تھے کہ قادیانی مولوی کے ذریعے اسلام کی فتح ہوئی ہے.آریہ مناظر تھا تو بڑا ہو شیار مگر قادیانی مولوی صاحب کا رعب پڑ گیا اور آخر تک حواس باختہ رہا.

Page 110

94 اس علاقہ کے سب برہمن ایک بر همن زادی کی پر اسرار بیماری اور شفایابی میری بہت عزت کرتے تھے.لوہاری کے پاس ایک گاؤں بدو پور ہے اور وہ سارا گاؤں برہمنوں کا ہے وہاں کے سب سے بڑے رئیس برہمن جن کا نام غالبا رام بھجن پنڈت تھا ان کی نوجوان لڑکی جس کی پندرہ یوم کے بعد شادی ہونے والی تھی اس قسم کی بیماری میں مبتلا ہو گئی کہ جب اسے دورہ پڑتا تو اس قسم کا جوش اس میں پیدا ہو تا کہ ہر پاس آنے والے کو کاٹتی اور سارے بدن کے کپڑے پھاڑ ڈالتی تھی.جوں جوں انہوں نے اسے دوائی دی توں توں بیماری کا زور بڑھتا گیا وہاں ایک دو سادھو بہت مشہور تھے.ان کے پاس لڑکی کو لے کر گئے لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا.اس جگہ کے یہ سب لوگ بہت ہی وہمی تھے.جس بیماری کا علاج نہ ہو سکتا یہ کہہ دیتے تھے کہ جادو ہو گیا ہے.کسی نے جادو کر دیا ہے یا اس پر جنوں کا قبضہ ہو گیا ہے.انہیں بھی کسی سادھو نے یہ کہہ دیا کہ اس پر کوئی جن عاشق ہو گیا ہے اور وہ بہت بڑا ہے جو کہ میری طاقت سے باہر ہے کہ میں اس کا مقابلہ کر سکوں.اس نے اپنے جنتر منتر بہت چلائے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.وہ لوگ بہت مایوس ہو گئے اور قریب تھا کہ بارات روک دیتے.ادھر ہمارے گاؤں کی عورتیں اور مرد میرے ایسے معتقد ہو گئے تھے کہ جب کسی کو مر درد ہو تو ”مولوی صاحب دم کر دو“ اگر پیٹ درد ہو تو سونف پڑھ دو اور اگر بخار ہو تو پانی پڑھ دو میں ان کی دلجوئی کے لئے دعا کر کے دم کر دیتا.خدا تعالٰی شفا دے دیتا اور اس طرح میری عزت بھی بن جاتی آہستہ آہستہ ارد گرد کے دیہات کے ہندو مسلمان عورتیں اور بچے بھی آنا شروع ہو گئے غرضیکہ خوب شہرت ہو گئی ایک دن ایک ہندو اس گاؤں بدو پور میں گیا وہاں اس لڑکی کی بیماری کا بہت چرچا تھا.وہ ہندو لڑکی کے باپ پنڈت کے پاس گیا اور خدا جانے اس سے کیا کہا.میرے متعلق باتیں روو

Page 111

95 بتا ئیں تو کہتے ہیں کہ مرتا کیا نہ کرتا پنڈت صاحب اپنے دو بیٹوں کی مدد سے اس لڑکی کو رسی سے باندھ کر میری طرف چل پڑے.اڑھائی میل کا فاصلہ ان کے لئے تمہیں میں بن گیا.بڑی مشکل سے وہ میرے پاس اس وقت پہنچے جب میں عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر ابھی اکیلا مسجد میں ہی بیٹھا تھا کہ باہر سے شیخ کی آواز آئی.باہر چاند کی روشنی تھی.باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک خوبصورت نوجوان لڑکی کو رسیوں سے باندھے ہوئے اس کے بھائی دور دور کھڑے ہیں کیونکہ وہ انہیں کاٹتی تھی.اس کے کھلے ہوئے بال بکھرے ہوئے ہیں.سر پر کوئی کپڑا نہیں ہے امنگہ پہنے ہوئے تھی.انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہنے لگے کہ مولوی صاحب ہم اپنی لڑکی کو آپ کی تعریف سن کر لائے ہیں.اس کا کوئی علاج کریں.میرا اپنا دل اس بچی کو مصیبت میں دیکھ کر افسردہ اور آنکھیں اشکبار ہو گئیں.اور دل سے اس کی شفایابی کے لئے دعا نکل رہی تھی.میں نے انہیں تسلی دی اور اس کے بھائیوں سے اس کے پاؤں دھلا کر صف پر اسے بٹھا لیا اور اللہ تعالی کا نام لے کر اسے بازو سے پکڑ لیا.گاؤں کے مرد اور عورتیں کافی تعداد میں وہاں اکٹھے ہو گئے.پنڈت جی کو سب نے پہچان لیا.میں نے اپنے گھر سے صاف پانی کا گلاس منگوایا اور اس بچی کو صف: لٹا کر اس پر اپنا صافہ ڈال دیا اور سب سے کہہ دیا کہ اس جگہ اب کوئی بات نہ کرے.درد دل سے دعا کی اور پانی کا پہلا چمچہ جب میں اس کے منہ میں ڈالنے لگا تو لڑکی بے ہوش ہو چکی تھی اور اس کا منہ بند تھا.میں نے پنڈت کو اشارہ سے کہا کہ اس کا منہ کھولو تاکہ پانی ڈالا جا سکے.کہنے لگے مجھ سے نہیں کھلتا آپ ہی کھولیں.خیر میں نے منہ کھول کر دو تین چمچ پانی ڈالا تو لڑکی نے انگڑائی لی.مجھے بھی قدرے تسلی ہوئی پھر دعا شروع کر دی اور اس پر پانی چھڑ کا.وہ اٹھ کر بیٹھ گئی.بارہ دنوں سے بیمار اس لڑکی کو نصف گھنٹہ کے بعد خدا تعالٰی نے بات کرنے کی توفیق دی.میں نے

Page 112

96 اپنا بستر گھر سے چوپال پر ہی منگوا لیا اور لڑکی کو گھر بھیج دیا.پنڈتوں کو گھر سے گندم کا آٹا اور گھی وغیرہ منگوا دیا.انہوں نے بھورے مینی" کو نکلوں پر آٹے کے پیڑے بنا کر رکھ دیتے ہیں اور پک جانے پر گڑ اور گھی ملا کر کھا لیتے ہیں) بنا کر کھالئے.ادھر نب لڑکی میرے گھر پہنچی تو میری بیوی نے میرے پیغام بھیجنے پر لڑکی سے پوچھا کہ آپ کیا کھائیں گی.لڑکی ہندی پڑھی ہوئی تھی.کہنے لگی کہ میں نے جب مولوی صاحب کے ہاتھ سے پانی پی لیا ہے تو اب ان کے گھر کی پکی ہوئی روٹی کھا لینے میں کیا حرج ہے؟ اگر ہو تو مجھے بھلکیہ (چپاتی) دیدو اور سائن کیا ہے؟ اس نے کہا کلیہ (یعنی گوشت.اس لڑکی نے خوب پیٹ بھر کر گوشت روٹی کھائی وہ کئی دنوں سے بھوکی بھی تھی.خیر دن چڑھا ہم نماز سے فارغ ہو کر چوپال پر بیٹھ گئے تو پنڈتوں نے میرا بہت شکریہ ادا کیا اور پچیس روپے میرے سامنے رکھ دیئے میں نے کہا پنڈت صاحب ہم لوگ خدا کی ساری مخلوق کے ہمدرد ہیں.میں حکیم نہیں ہوں.خدا تعالٰی سے دعا کرتا ہوں وہ منظور کر لے تو اس کی مہربانی ہو جاتی ہے ورنہ ہمارا کوئی زور نہیں ہے.جیسے وہ آپ کی بچی ہے ویسے ہماری بچی ہے.میں نے کبھی کسی سے کچھ نہیں لیا اور نہ اب لوں گا.اس رقم سے آپ اس بیوہ کی مدد کر دیں جس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں تو اس کا آپ کو فائدہ پہنچ جائے گا.ان پر اس بات کا بہت نیک اثر ہوا.لڑکی تو گھر سے ناشتہ کر آئی اور اگر آواز دی کہ اب چلیں.لڑکی نے میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر سلام کیا اور پنڈت صاحب بھی سلام کر کے چلے گئے.انہوں نے اپنے گاؤں میں جا کر ہماری بزرگی اور نیکی کا خوب پر چار کیا.جس دن لڑکی کی بارات آئی اس دن اس کا بھائی گھوڑی لے کر میرے پاس مجھے لینے آیا.میں نے بھی اپنا تبلیغی فائدہ ملحوظ رکھ کر اس کے ساتھ جانا پسند کیا.وہاں لے جا کر انہوں نے میری بہت آؤ بھگت کی غرضیکہ بہت شہرت ہوئی.الحمد للہ

Page 113

97 ایک دفعہ مجہولہ گاؤں میں آریوں نے قتل کا منصوبہ اور نصرت ایزدی ایک پوشیدہ میٹنگ کی جس میں اور باتیں پاس کرتے ہوئے یہ بھی تجویز کیا گیا کہ مجھے گھنو میں جو قادیانی مبلغ رہتا ہے اسے قتل کرا دیا جائے اس طرح اس گاؤں میں ہماری بھی دال گل سکتی ہے.لہذا ہمارے قریبی گاؤں ہیکہ کے ایک منہ زور ٹھا کر بھوپ سنگھ نے مجھے قتل کرنے کا ذمہ لیا.اس پر آریوں نے دو ہزار روپیہ قرض چھوڑ دینے کا اقرار کر لیا.اس پنچائیت میں ایک احمد پور کا پنڈت تھا.وہ اس رئیس پنڈت کے ہاں رات کو آکر ٹھہرا اور میرے بارے میں سارا قصہ بھی بیان کر دیا.پنڈت صاحب صبح سویرے ہی گھوڑی پر سوار ہو کر میرے پاس پہنچے اور کہنے لگے آپ اکیلے ہی دورہ پر نکل جایا کرتے ہیں مگر فلاں شخص سے ہوشیار رہنا اور آریہ سروں کی ہم خبر لیں گے اور ہم بھوپ سنگھ سے مل کر بھی اسے اس کام سے باز رہنے کی تلقین کریں گے.میں نے اس کے اطلاع دینے پر پنڈت جی کا شکریہ ادا کیا اور انہیں تسلی دی کہ ہم سب لوگوں کے خیر خواہ ہیں.دیکھیں ہندو لڑکے بھی میرے پاس پڑھتے ہیں.ہم متعصب نہیں ہیں اور ہمیں اپنے خدا تعالیٰ پر کامل بھروسہ ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ وہ ہماری ہر قدم پر مدد کرے گا.دوسرے دن صبح ہی وہ بھوپ سنگھ چوپال پر ملا اور پوچھنے لگا کہ مولوی صاحب اب کدھر کا دورہ کرتا ہے.میں نے کہا جس طرف سے آریوں کی میٹنگ یعنی پنچائیت کی خبر ملے گی ادھر ہی جاؤں گا.دو تین دن ہوئے مجمولہ کی پنچائیت کا پتہ چلا تھا مگر وہ ان کی پرائیویٹ میٹنگ تھی.چیدہ چیدہ ٹھاکر انہوں نے بلائے ہوئے تھے.کیا آپ کو بھی مدعو کیا ہوا تھا.کہنے لگا مجھے بلایا تو تھا مگر میں گیا نہیں.اچھا تو پھر آج رات کو ہمارے ہاں ناچ ہے سب لوگوں نے آتا ہے کیا آپ بھی آئیں گے.میں نے کہا کہ میں تو ایسی مجلسوں سے لوگوں کو بھی روکتا ہوں تو پھر میں کیسے جا سکتا

Page 114

98 ہوں.غرضیکہ وہ واپس چلا گیا رات کو ناچ وغیرہ ہوا جس میں اس نے چوہدری کا کردار ادا کیا.اسے ساتھ والے گاؤں کے ٹھاکر بھی دیکھنے گئے ہوئے تھے.ان کی آگے بڑھ کر بیٹھنے پر لڑائی ہو گئی اور وہ واپس آگئے.صبح وہ ان کے گاؤں میں لوہار سے کھر پہ بنوانے گیا اور وہاں وہ بھٹی میں کھال سے پھونک پہنچا رہا تھا کہ وہاں رات والے تینوں نوجوان بھی پہنچ گئے جن سے اس کی رات لڑائی ہو گئی تھی.انہوں نے اسے دیکھ لیا اور ایک نے بڑھ کر اس کے سر پر لاٹھی ماری.ابھی وہ سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ دوسرے نے اور پھر تیسرے نے بھی دے ماری جس سے وہ وہیں ڈھیر ہو گیا.مجھے صبح کے وقت جب اس تماشہ میں جانے والوں نے آکر بتایا کہ بھوپ سنگھ سے لڑائی ہوتے ہوتے بمشکل بچی ہے تو میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کہ میرا خدا تعالی اسے نہیں چھوڑے گا.دوپہر کو اس کے مرنے کی خبر آگئی.وہاں سب لوگ اس کی لاش دیکھنے گئے.ہمارے حلقہ کے تھانے میں میرا ایک دوست نرائن سنگھ تھانیدار لگا ہوا تھا جو ترن تارن ضلع امرتسر کا رہنے والا تھا.میرا پہلے ارادہ تو بنا تھا کہ میں اس تک بھوپ سنگھ کی رپورٹ پہنچا دوں مگر ابھی پہنچائی نہ تھی وہ تھانیدار میرے پاس آیا اور کہنے لگا مولوی صاحب آپ کے حلقہ میں خون ہو گیا ہے اور آپ یہیں بیٹھے ہیں.آئیں چلیں اور آپ کے دوست انسپکٹر پولیس کے نام تار دے آیا ہوں.وہ بھی تھوڑی دیر تک وہاں آجائیں گے.یہ انسپکٹر ضلع بلند شہر کے رہنے والے تھے اور احمدی تھے مگر اخبار پیغام صلح اور الفضل دونوں منگوایا کرتے تھے.ان کا نام غلام محی الدین خان تھا اور ان کی اہلیہ اہل حدیث تھی.وہ F.A پاس تھی اور احمدیت کی اشد مخالف تھی.وہ خدا تعالٰی کے فضل سے میری تبلیغ سے بعد رفع شکوک احمدی ہو گئی تھی اور بہت مخلص ہو گئی تھی.بعدہ اس نے پیغام صلح اخبار منگوانا بند کر دیا تھا اور الفضل منگواتی رہی.میں نے بھی جانے کے لئے گھوڑی منگوا

Page 115

99 کی اور گھر میں کہہ دیا کہ مرغ کا سالن بنا لیتا اور آٹا وغیرہ گوندھ چھوڑنا شاید انسپکٹر صاحب بعد معائنہ لاش ہیں آجا ئیں.ہم ابھی وہاں پہنچے ہی تھے کہ انسپکٹر صاحب بھی تشریف لے آئے اور مجھ سے ملے.تھوڑے بہت بیان بھی انہوں نے کچھ لوگوں سے لئے اور لاش کا معائنہ کرنے کے بعد اسے ایٹہ پہنچا دیا اور تھانیدار کو حکم دے دیا کہ بیانات قلم بند کر کے مولوی صاحب کے پاس لے آئیں.میں نے کہا کہ بیان تو ہو ہی گئے ہیں.مارنے والے بھاگ چکے ہیں اب ہم اکٹھے ہی چلتے ہیں.مغرب سے قبل ہم تینوں گھر پہنچ گئے.کھانا وغیرہ پہلے ہی تیار تھا.وہ سکھ تھانیدار بھی آزاد خیال تھا اور کھانا وغیرہ ہمارے ساتھ کھا لیتا تھا.کھانے کے بعد میں نے مجمولہ کی پنچائیت کا فیصلہ، بھوپ سنگھ کی ڈیوٹی اس کا میرے پاس آکر دورے پر جانے کا پتہ لینا اور رات کو تماشے کا واقعہ اور اس کا انجام سب بتا دیا.تھانیدار اور انسپکٹر سن کر بہت حیران ہوئے اور بہت اچھا اثر لیا.بعدۂ قدرت نے تھانیدار کے دل میں خاکسار کی عزت قائم کر دی.اس طرح جب بھی کسی مظلوم کی جائز مدد کی ضرورت پڑتی تو تھانے میں میری سفارش سے مظلوم کا مسئلہ حل ہو جاتا تھا چاہے وہ ہندو ہوتا یا مسلمان.علی گنج میں تحصیلدار محمد عادل صاحب اور چھوٹے تحصیل دار مرغوب احمد صاحب جب بھی حلقہ میں آتے مجھے ضرور مل کر جاتے اور ایک دفعہ تو مرغوب احمد صاحب شکار کی غرض سے آئے تو ایک ہفتہ میرے پاس ہی ٹھرے.ایک دفعہ نواب بقاء اللہ خاں صاحب علی ایک اور آزمائش.قاتلانہ حملہ گنج والوں نے مجھے رقعہ بھیجا کہ میرے ماموں صاحب مولوی ہیں اور وہ آپ سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں.اس لئے آپ بدیدن رقعہ مذا تشریف لے آئیں.ان ایام میں بابو محمد اسماعیل صاحب فیروز پوری موضع گڑھی میں احمدی مبلغ تھے.میں نے انہیں بھی وہاں پہنچنے کے لئے پیغام بھیج

Page 116

100 ނ دیا.میرے دو تین شاگرد بھی ہمراہ چل دیئے.ہم فرک (ایک چھوٹی سی گاڑی) پر سوار ہو کر چل دیئے اور شہر پہنچے.ساتھ دو تین کتابیں بھی لے گئے.شہر میں میرے چار پٹھان دوست جو کہ علی گنج کے رہنے والے تھے مل گئے.وہ میرے اس طرح واقف ہو گئے تھے کہ آریوں سے میری گفتگو ہوتی تھی تو وہ سنتے تھے اور بہت خوش ہوتے تھے.اس لئے وہ میری بہت عزت کرتے تھے.میں نے انہیں بتایا کہ نواب بقاء اللہ خان صاحب نے اس کام کے لئے بلایا ہے.وہ بھی میرے ساتھ ہو لئے.ہم اکٹھے وہاں پہنچے.ان کے ماموں بڑے شریف آدمی تھے.بڑی خندہ پیشانی - ملے.حیات و ممات مسیح کے مسئلہ پر گفتگو ہوئی.ان کے دلائل کی قرآنی آیات سے تردید کی گئی اور عقلی دلائل کی عقلی دلائل ہی سے تردید کی تو انہوں نے قدرے خاموشی اختیار کرلی.تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے سوال کیا کہ کیا خدا تعالی میں یہ قدرت نہیں کہ انہیں زندہ آسمان پر لے جائے.میں نے کہا کہ خدا تعالیٰ میں یہ طاقت موجود ہے.نہ صرف مسیح بلکہ ساری دنیا کو آسمان پر لے جائے.اس کو قدرت حاصل ہونے کا سوال نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ مسیح کو آسمان پر لے جانا قرآن کریم سے ثابت ہے کہ نہیں.انہوں نے اقرار کیا کہ میں آپ کے بیان کردہ دلائل پر ضرور غور کردن گاوہ تو بے چارے خاموش ہو گئے مگر نواب بقاء اللہ خاں صاحب کو بہت رنج ہوا کہ میرے ماموں صاحب کو اتنے مجمع میں انہوں نے کیوں خاموش کرا دیا اور لاجواب کر دیا.اس طرح میری ہتک ہوئی ہے.میں اس قادیانی کو زندہ نہیں جانے دوں گا.سارا مجمع حیران ہو گیا کہ اس نواب کو کیا ہو گیا ہے.ماموں اس کے مناظرہ نہیں کر سکے اور غصہ پردیسیوں پر.غرضیکہ اندر سے پستول نکال لائے کہ میں ابھی ختم کر دونگا.ان پٹھان لڑکوں نے بڑی کوشش سے پستول چھینا تو تلوار لے کر میری طرف لپکے وہ بھی ان لڑکوں نے چھینی.ایک نوجوان کا ہاتھ بھی ا

Page 117

101 زخمی ہو گیا اور بے حساب گالیاں نکالتا رہا اور کہنے لگا کہ اگر پٹھانوں کے محلہ میں تم کو میں نے دیکھ لیا تو جان سے مار دوں گا.ہم سب لوگ واپس چلے آئے اور سب سامعین نواب کی اس ناشائستہ حرکت پر افسوس کرتے رہے اور ان کی حماقت اور ماری شرافت کا تذکرہ عام لوگوں میں ہوتا رہا.وہ پٹھان لڑکے میرے لئے دودھ وغیرہ لے آئے ساتھ پان وغیرہ کی بھی خوب بھر مار رہی.شہر سے ضرورت کی اشیاء خرید کر ہم واپس گاؤں آگئے.راستہ میں میرے علم کے مطابق کچھ اشعار میری زبان سے نکلے جن میں سے صرف سات آٹھ اشعار درج ذیل ہیں باقی سب بھول چکے ہیں.کل بیس کے قریب اشعار تھے.گاؤں پہنچ کر میرے ساتھیوں نے سارے حالات لوگوں کو سنا دیئے.سب لوگوں نے نواب کی جہالت پر بہت افسوس کا اظہار کیا.نہ ڈراؤ ہمیں ہم ڈرائے ہوئے ہیں نہ مارو ہمیں ہم جلائے ہوئے ہیں محلہ سے اپنے ہمیں روکتا ہے که تبلیغ کرنے کیوں آئے ہوئے ہیں ترے روکنے سے نہیں رک سکیں گے خلیفہ کے ہم تو بٹھائے ہوئے ہیں.ومہ ہمارے وفات مسیح ہے اتاریں گے وہ جو چڑھائے ہوئے ہیں بعد از نبوت یہ باتیں بھی ہونگی بتائیں گے ہم جو پڑھائے ہوئے ہیں خدا نے مقرر کئے چار درجے لئے تین چوتھا چھپائے ہوئے ہیں صادق شہید اور صالح تو نے پر نبوت سے چکر میں آئے ہوئے ہیں جب بے عمل عالم کا بازو نہ پہنچا تو کڑوی بتا کر بنائے ہوئے ہیں یہ سب اشعار ملکانہ بھائی مزے لے لے کر سنا کرتے تھے اور یہی میری غرض بھی تھی آخر خدا نے دو ماہ کے عرصہ کے بعد نواب بقاء اللہ خاں پر پستول کا مقدمہ ی کروا دیا اور چار سال کے لئے جیل کی ہوا کھانے کے لئے چلے گئے.سننے میں آیا

Page 118

102 تھا کہ ایک ہندو سے ان کی پرانی دشمنی چلی آرہی تھی کہ ایک دن اس ہندو نے اپنی ران پر روئی کا گدا رکھ کر خود ہی گولی مار لی اور شور مچا دیا کہ نواب بقاء اللہ خاں نے گولی ماری ہے.کیونکہ نواب صاحب کا مکان اس کے مکان کے قریب ہی تھا.آخر اس پر مقدمہ دائر ہو گیا جس میں اسے بہت مالی نقصان اٹھانا پڑا اور بعد میں چار سال کی سزا بھی بھگتنا پڑی.انہیں سن کر دکھ ہوا مگر اس پر افسوس بھی بہت تھا کیونکہ خدا تعالٰی کے ماموروں کو گالیاں دینا بہت برا ہوتا ہے جو کہ وہ اکثر دیا کرتا تھا.قرآن کریم اور دید قرآن کریم کی برکت سے ایک ہندو نوجوان کی کربناک حالت سے نجات ایک دفعہ ایک رشتہ دار محمد حسین خاں گنگٹی گاؤں کا رہنے والا جو دریائے گنگا کے عین کنارہ پر آباد تھا اور ضلع فرخ آباد میں تھا میرے پاس آیا اور بتانے لگا کہ ہمارے گاؤں میں آریہ تین دن کے بعد آئیں گے اور گاؤں میں رہنے والوں کو شدھ ہونے کی تحریک کریں گے.ہم چونکہ انہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے لہذا آپ ضرور چلیں ورنہ ہمارے گاؤں کی خیر نہیں میں اگلے دن فجر کے وقت ہی اس کے ساتھ چل پڑا.ہمارے ساتھ رئیس جان محمد خان صاحب اور ان کے بیٹے مظفر خان صاحب اور ان کے علاوہ نمبردار بھیجو خاں صاحب بھی چل پڑے کیونکہ وہاں بہت بڑا میلہ بھی تھا اور انہیں بیل خریدتا تھے.ہم نصف شب کے قریب وہاں پہنچے.نمازیں ہم نے راستہ ہی میں پڑھ لی تھیں.چاندنی رات تھی.کھانا کھاتے کھاتے سحری کا وقت ہو گیا.گرمی کا موسم تھا.ذرا ہی سوئے تھے کہ فجر کا وقت ہو گیا.نماز وغیرہ پڑھی.وہاں ان کے رشتہ دار اکٹھے ہو گئے.انہیں اسلام کی صداقت کی باتیں بتائیں آریہ بھی منڈلی لے کر آگئے.ایک خوبصورت نوجوان

Page 119

103 $ لڑکی بھی ان کے ساتھ تھی جو بڑی سریلی آواز میں بھجن گاتی تھی دوسرے باجے واج، طبلہ سارنگی غرضیکہ نوجوانوں کو خوش کرنے کے سب سامان موجود تھے.لوگ انہیں دیکھتے جاتے اور اس لڑکی کی خوبصورتی کی بہت تعریف کرتے.اس نے بھی بتاؤ سنگھار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی.میں لوگوں کی باتیں سن کر حیران بھی تھا لیکن دعا میں مصروف رہا.بوقت چار بجے دن آریوں کے پنڈت بھی وہاں پہنچ گئے.بڑے زور و شور سے پوری کچوری کا انتظام ہوا.ہمارا جاسوس محمد حسین خاں وہاں آتا جاتا رہا.ان آریہ پنڈتوں نے مشورہ کیا کہ یہ قادیانی مولوی بڑا خطرناک ہے.بد قسمتی سے ہندو بھی اس کے مداح ہو جاتے ہیں اس لئے اسلام پر طرح طرح کے اعتراض کر کے اسے خوب تنگ کرو.جب وہ تھک جائے تو اسی وقت مناظرہ کا چیلنج دے کر مناظرہ شروع کر دو.اب ایک ایک کر کے پنڈت جائیں اور اسے خوب تنگ کریں.ان کی اس اسکیم کی ہمیں بھی اطلاع مل چکی تھی.رات کو ابھی ہم تھوڑا سا ہی سوئے تھے کہ ہمارے قریب بہت شور بلند ہوا.ایک ہندو لڑکا جس کی عمر بمشکل چودہ سال ہوگئی پیٹ میں شدید تکلیف کی وجہ سے چینی اور شور مچاتا تھا، ہائے میں جل گیا.وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا.سارا خاندان بہت حیران تھا.گنگا پر ایک سادھو صاحب تھے.ان کے پاس اس لڑکے کو لے گئے.اس نے جواب دے دیا.اب سمارا خاندان رو رہا تھا.بہت بے بس ہو چکے تھے.اس محمد حسین خاں نے ان ہندوؤں سے کہا کہ ہماری چوپال پر قادیانی مولوی صاحب آئے ہوئے ہیں.وہ اس کا علاج کریں گے.اس لڑکے کی چیخ و پکار اور سخت تکلیف کی وجہ سے اس کے ساتھ ایک بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا.وہ سب لوگ جب میری طرف آئے تو میں ان کا شور سن کر بیدار ہو گیا.انہوں نے ساری حقیقت مجھے بتائی.میں نے جوش میں آکر کہہ دیا کہ آریہ پنڈت وید سے اس کا علاج کریں یہ ہندو بچہ سخت

Page 120

104 "1 تکلیف میں ہے.اب ان پنڈتوں کو بلاؤ کہ وہ اگر موجودہ دید کی کرامت دکھائیں ورنہ اپنے ہتھکنڈوں سے خدا تعالی کی مخلوق کو جہنم کا ایندھن بنا کر خود کو بھی سزائے و اس یعنی دوزخ میں جانے والے نہ بنا ئیں.میرا تمہارا اب اسی وقت فیصلہ ہو جائے گا.تم دید کی صداقت اور اپنی روحانیت کا مظاہرہ کرا کر اثر ڈال لو کیونکہ مذہب کی غرض ہی یہی ہے کہ پرماتما سے تعلق پیدا ہو جائے اور اب اگر یہ آریہ میدان میں نہ نکلیں تو یہ جھوٹے ہوں گے اور میں خدا کے فضل سے قرآن کریم سے اس بچے کا علاج کروں گا.اب وید اور قرآن پاک " کا مقابلہ ہے کہ دونوں میں سے کون سچا ہے.وہ لوگ آریوں کو بلانے گئے اور انہوں نے مقابلہ میں آنے سے انکار کر دیا لیکن علاج ہوتا ہوا دیکھنے آگئے.میں نے اپنے پیارے مولا کریم سے ہی دعا کی کہ میرے مولا کریم میں جو کچھ کرتا ہوں تیرے لئے کرتا ہوں کہ تیرا دین حق سچا ثابت ہو.موٹی آپ ہی اس بچہ کو شفاء دے کر قرآن مجید کی برتری ثابت کردیں یہ سب لوگ جاہل اور موٹی عقل کے مالک ہیں.ان پر اچھا اثر پڑ جائے گا.پانی پڑھ کر پلایا اور دم کیا ہوا پانی اوپر چھڑ کا.پہلے تو میرے ہاتھ پکڑنے سے بچے نے شور مچانا بند کر دیا.عورتوں اور مردوں کا بڑا ہجوم تھا.لوگ چھتوں پر بیٹھے ہوئے تھے.آریہ بھی دیکھ رہے تھے.ان کی بھیجن گانے والی لڑکی بھی مستورات میں بیٹھی واقعہ دیکھ رہی تھی.جب بچہ میرے ہاتھ لگانے سے ہی چیخنے سے رک گیا اور لٹانے پر بیہوش ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد دم کر کے پانی چھڑ کنے اور پلانے سے میرے محسن خدا تعالٰی نے اسکو بالکل ٹھیک کر دیا اور میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ دو شخص میرے دل پر چھرے مار رہے تھے.میرا دل پھونکا جا رہا تھا کہ اچانک وہ یہ کہہ کر بھاگ گئے ہیں کہ " للے تیرو بدو اچھو ہتھو کہ جوہ مولبی پنجابی آگیا ورنہ تمکو آج ہم نے مار ڈار نا تھو" یعنی لڑکے تیری تقدیر اچھی تھی کہ پنجابی مولوی آگیا ورنہ آج ہم نے تمہیں

Page 121

105 مار ڈالنا تھا.سارا ہجوم حیران ہو گیا اور رونا دھونا ختم ہوا اور خوشی کا گانا شروع ہو گیا.ہندو شکر گزار تھے اور مسلمان آریوں سے بیزار ہو گئے اور راتوں رات گاؤں کے ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر پنچائیت کی اور فیصلہ کیا کہ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ آریوں کا مذہب گندہ ہے.اگر یہ شریف ہوں تو جوان لڑکیوں کو ساتھ لے کر دربدر نہ پھریں.اس طرح ہماری بچیوں پر برا اثر پڑے گا اور ایمان دھرم بھرشٹ ہوگا.ان سے صبح کہہ دو کہ مہربانی کر کے یہاں سے چلے جائیں.ہم تمہارے مذہب و مجلس میں ہر گز شامل ہونا نہیں چاہتے ہم جس مذہب پر ہیں دہی ٹھیک ہے.صبح جب آریوں کو ایسا پیغام پہنچا تو وہ اسی وقت وہاں سے چلے گئے کیونکہ جس مکان میں وہ ٹھرے ہوئے تھے اس نے کہا کہ میری برادری ناراض ہے اس لئے جلد مکان خالی کر دو.میں نے وہاں تین دن قیام کیا.میرے گاؤں والے مجھ سے کہنے لگے کہ مولوی صاحب ہمیں بیل خرید دیں.میں نے کہا مجھے تو کوئی شناخت نہیں ہے.وہ مصر ہو گئے کہ جو آپ خرید کر دیں گے ہم وہی لیں گے.میں نے کہا اچھا پھر منڈی چلیں.وہاں بیلوں کی ہزاروں جوڑیاں تھیں.میں نے ایک جوڑی کے لئے کہا کہ یہی لے لو.وہ چار صد روپے کی لے دی.وہ کہنے لگے کہ مولوی صاحب پچاس روپے زائد قیمت دی گئی ہے.میں نے کہا کہ نہیں آج کل کی قیمت کے مطابق یک صد روپے سے ہمیں رعایتی مل گئے ہیں مگر انہیں اطمینان نہ ہوا.اتنے میں ایک بیوپاری بیل خرید نے آگئے.کہنے لگے اس جوڑی کے کیا لو گے.میں نے کہا پانچ صد پچاس روپے لیں گے.انہوں نے پانچ صد روپیہ رکھ دیا کہ ہم یہی دیں.گے.آخر ہم نے بھی محنت کر کے چار پیسے کمانے ہیں.میں نے کہا یہ ہم نے اپنے لئے خریدے ہیں.ہم نے صرف یہ دیکھنا تھا کہ ہم زیادہ قیمت تو نہیں دے آئے.وہ کہنے لگے کہ ہم پانچ صد پچیس روپے تک دینے کو تیار ہیں.ہمارے گاؤں والے

Page 122

106 خوش ہو گئے اور کہنے لگے کہ خدا اپنے بندوں کو کہیں شرمندہ نہیں ہونے دیتا حالانکہ مولوی صاحب کو بیلوں کی کیا شناخت تھی.ایک دفعہ نگلہ گھنو میں حیلے سب جاتے رہے اک حضرت نواب ہے رات کے وقت میں اپنے گھر سویا ہوا تھا کہ ایک مہمان دوندے مئی ضلع فرخ آباد سے میرے پاس پہنچا اور مجھے جگا کر بتانے لگا کہ دو تین روز تک ہاتھی پور گاؤں جو ضلع فرخ آباد - متصل ہے وہ سارے کا سارا آریہ ہو جائے گا کیونکہ وہاں کے نمبردار لعل خاں نے کسی کا چھ ہزار روپیہ قرض دینا تھا جو آریوں نے اس شرط پر ادا کر دیا ہے کہ وہ نمبردار مع سارے گاؤں کے افراد کے مرتد ہو کر ان میں شامل ہو جائے گا.اس بات کا تحریری معاہدہ ہو چکا ہے.میں نے چونکہ اپنے حلقہ میں اطلاع دینے کی ڈیوٹی کی تھی اب میں نے آپ کو مطلع کر دیا ہے.میری نیند وغیرہ تو جاتی رہی.میں نے اسی وقت چمار کو بلوایا اور کتابوں کی صند و قیچی اسکے سر پر رکھوا کر اسی وقت چل پڑا.گھر والے کہنے لگے کہ اس وقت رات کافی ہے صبح کے وقت چلے جانا.میں نے کہا کہ نو میل پیدل چلنا پڑے گا پھر گاڑی ملے گی اس لئے ابھی چلوں گا تو گاڑی ملے گی ورنہ گاڑی چھوٹ جائے گی.راستہ میں بکثرت سانپ اور بھیڑیئے وغیرہ ملے مگر خدا تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے ہر شر اور تکلیف سے محفوظ رکھا.دریاؤ گنج اسٹیشن پر گاڑی کا انتظار کرنے لگا.چمار کو مزدوری دے کر واپس روانہ کر دیا.ریل پر سوار ہو کر فرخ آباد پہنچا.وہاں سے تین میل پیدل چل کر ہا تھی پور پہنچا لحل خلال نمبردار کو بہت سمجھایا کہ ایسا کرنے سے باز آجاؤ.پڑھے لکھے آدمی ہو عقل سے کام لو مگر دہ ایک نہ مانا.بعدہ اس کے گھر پہنچا کیونکہ اس کی بیوی میرے ایک دوست کی بیٹی تھی.وہ مجھے خوب جانتی تھی.وہ مجھے دیکھ کر رو پڑی اور کہنے لگی کہ مولوی صاحب

Page 123

107 ہرگز کافر نہیں بنوں گی مگر اس بے چاری کی کون سنتا تھا.جب میں اسے منانے میں کامیاب نہ ہو سکا تو میں وہاں کے راجہ ہادی یار خاں صاحب کے پاس پہنچا اور ساری حقیقت بتائی.انہوں نے وعدہ کیا کہ میں کل چار بجے فرخ آباد کے اسٹیشن پر ملوں گا.واپس فرخ آباد آیا اور وہاں کے رئیس امیر علی خان صاحب کو سارا واقعہ سنایا تا کہ سب رؤوسا کے ذریعہ لعل خال پر اثر ڈالا جائے اور امراؤ علی خاں صاحب نمبردار شہر کو تیار کیا کہ آج چار بجے ہم اکٹھے وہاں چلیں گے.میں پھر احمد علی خاں صاحب سیشن جج ریٹائرڈ گوالیار کی کوٹھی پر پہنچا.میرے وہ واقف نہ تھے.جا کر دیکھا کہ بڑے بڑے رئیس زادے دو مسلمان اور بھی بیٹھے ہیں.میرے وہ بھی واقف نہ تھے اور قادیانیوں کی باتیں ہو رہی تھیں.کہہ رہے تھے کہ یہ بڑے مرتد اور کپی لوگ ہیں.کرتے کچھ بھی نہیں اور اخباروں میں بڑے کام کرنے کے دعویدار ہیں.میں کیونکہ چپکے سے جا کر کرسی پر بیٹھ گیا تھا اور ان کی باتیں سن کر بہت افسوس کر رہا تھا.احمد علی خاں ان کی باتوں کو سن کر کہہ رہا تھا کہ اگر مجھے کوئی قادیانی مل جائے تو میں اس پر فائر کر کے جان سے مار دوں گا.میں نے موقع محل دیکھتے ہوئے خود ہی بات کا آغاز کر دیا کہ جناب خاں صاحب ہاتھی پور گاؤں جو آپ کے شہر کے قریب ہے گویا آپ کے پاؤں تلے ہے وہاں کا نمبردار لعل خاں سارے گاؤں سمیت مرتد ہونے کا وعدہ کر چکا ہے.میں نے بہت کوشش کی تھی کہ وہ سمجھ جائے لیکن وہ مان نہیں رہا.میں پھر راجہ ہادی یار صاحب کے پاس گیا وہ بھی اور رئیس اعظم امیر علی خان صاحب اور امراؤ علی خانصاحب بھی آج چار بجے ہاتھی پور میں جا کر اسے سمجھائیں گے آپ بھی خدا کے فضل سے ایک شریف اور نیک اور معزز گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک معزز عہدہ سے ریٹائرڈ ہو کر خوش قسمتی سے تشریف لے آئے ہیں.اگر آپ بھی تشریف لے چلیں شاید لعل خان پر اثر پڑ جائے تو

Page 124

108 دین کی ایک بڑی بھاری خدمت کر کے ثواب دارین حاصل کر سکنے کا ایک سنہری موقع ہے.اگر آپ عاجز کی درخواست قبول کر لیں تو بڑی نوازش ہو گی.حج صاحب کہنے لگے مولوی صاحب آپ آگے والی کرسی پر تشریف لے آئیں.میں آگے آکر بیٹھ گیا.کہنے لگے اس وقت گیارہ بجے کا وقت ہے آپ نے ناشتہ کر لیا ہے؟ میں نے کہا کہ میرا ناشتہ وہی ہے اگر جناب جانے کا وعدہ کر لیں تو " آپ یہ بتائیں کہ ناشتہ کر لیا ہے کہ نہیں؟" میں نے کہنا "نہیں".اوہو پھر تو رات ہی کا کھانا کھایا ہوا ہے.میں نے کہا نہیں رات کو بھی موقع نہیں ملا تھا.بولے تو کیا کل دن کو کھانا کھایا تھا میں نے کہا نہیں پرسوں شام کو گھر سے کھایا تھا.پھر بھاگم بھاگ موقع ہی نہیں ملا آپ پر سوں کہاں سے چلے تھے ؟ میں نے کہا نگلہ گھنو ضلع ایٹہ سے رات بارہ بجے پیدل چلا تھا اور اسٹیشن دریاد گنج سے سوار ہو کر اب تک بھاگا پھر رہا ہوں.کہیں موقع ہی نہیں ملا کہ آرام سے بیٹھوں اور کھانا کھاؤں.جج صاحب "استغفر الله" آپ کسی جماعت کی طرف سے وہاں تعینات ہیں.؟" جناب احمدیہ جماعت قادیان کی طرف سے.حج صاحب رقیق القلب بھی تھے.آنکھوں میں آنسو بھی آگئے اور جوش سے میز پر ہاتھ مار کر کہنے لگے کہ خدا کی قسم اگر یہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں تو پھر دنیا میں کوئی بھی مسلمان نہیں ہے.اللہ اللہ اتنی زبر دست تکلیف اسلام کے لئے اٹھانا انہیں لوگوں کا کام ہے.اچھا یہ بتاؤ کسی اور جماعت کا مولوی بھی لعل خان کے پاس گیا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں.وہ رئیس نوجوان بولے که خان صاحب ان کی یہ کوشش تو ثابت کرتی ہے کہ دوسرے مولوی ان کے خلاف بہت غلط بیانی سے کام لیتے ہیں.جج صاحب.میں تو ان مولویوں کو اپنی کو ٹھی میں گھنے نہیں دوں گا ان کی سب باتیں ان مولوی صاحب کے عمل سے غلط ثابت ہو رہی ہیں دیکھیں کیسی فقیرانہ کی صورت ہے اور دربدر مارے مارے پھر

Page 125

109 رہے ہیں.یہ کوئی لعل خان کے رشتہ دار ہیں؟ رشتہ دار تو ہم ہیں مگر ہماری برادری یہ سنبھال رہے ہیں.اور لوگوں پر کتنا افسوس ہے.رئیسوں کے پاس گئے مگر کسی نے کھانا تک نہیں کھلایا.اور نوکر کو آواز دی.نوکر کی آواز آئی "حضور؟" اہے کوئی کھانے والی چیز موجود ہے؟ حضور نہیں.ابے دودھ بھی نہیں؟ حضور ہے.جلدی سے بڑا گلاس بھر کر لے آؤ اور حج صاحب اپنی الماری سے انگور نکال کر لے آئے اور کھانے کو کہنے لگے.میں نے پاؤ بھر انگور اور دودھ پی لیا اور خدا تعالی کا شکر ادا کیا.حج صاحب نے نوکر کو بلایا اور کہا کہ مولوی صاحب کو اچھی طرح پہچان لو.جس وقت بھی تشریف لائیں خواہ آدھی رات ہی کیوں نہ ہو تازہ کھانا اور بستر وغیرہ دیتا ہے.خواہ میری غیر حاضری میں ہی آئیں اور چار پائی کے پاس پانی کا لوٹا اور مصلی موجود رہے اور مجھ سے کہنے لگے کہ مولوی صاحب آپ کو خدا کی قسم آپ اپنا گھر سمجھ کر تشریف لایا کریں اور اگر ہو سکے تو آنے سے پہلے دو پیسے کا کارڈ لکھ دیا کریں کہ میں فلاں گاڑی سے آرہا ہوں تو ہمارا تانگہ آپ کو اسٹیشن سے لے آیا کرے گا میں نے کہا کہ جناب کی ہمدردی اور شفقت کا تہہ دل سے مشکور اور ممنون ہوں.جج صاحب نے کہا کہ میرا بڑا لڑکا اپنے تانگے پر جائے گا آپ بھی اس پر سوار ہو جائیں اور دوپہر کا کھانا ہم مل کر کھائیں گے.غرضیکہ میں تمام رؤوسا کو لے کر ہاتھی پور پہنچا.راجہ ہادی یار خان صاحب نے لعل خان کو بہتیرا سمجھایا میں نے بھی پورا زور لگایا مگر اس نے سب کو ٹھکرا دیا.سب رؤوسبا ناراض ہو کر سکوں پر سوار ہو کر واپس چلے گئے.میں لعل خان کو یہ شعر سنا کر واپس چل پڑا.ہم تو اپنا حق دوستو اب کر چکے ادا اب بھی اگر نہ سمجھے تو سمجھائے گا خدا ابھی نصف راستہ ہی طے کیا تھا کہ اس ناکامی کی وجہ سے سخت اضطراب میں خود بخود یہ مصرعہ زبان سے جاری ہو گیا کہ ” خیلے سب جاتے رہے اک حضرت تو اب

Page 126

110 شخص ہے.میرا دل بھر آیا.قریب ہی چری کا ایک کھیت تھا اس میں گھس کر سجدہ ریز ہو گیا اور فریاد کی اور بڑے درد سے دعا کی.زمین آنسوؤں سے تر ہوتی گئی.ساتھ ہی میرے دل کی تسلی ہو گئی اور گھبراہٹ وغیرہ بھی جاتی رہی.سورج غروب ہو رہا تھا.بعدة امراد علی خان نمبردار کے مکان پر پہنچا.اس نے بھی لعل خان کی حالت پر افسوس کا اظہار کیا اور مجھے بیٹھک میں آرام کرنے کے لئے کہا.میں نے کہا کہ میں باہر تخت پوش پر رہوں گا.کھانا میں نہیں کھاؤں گا اور صرف پانی کا ایک لوٹا دے دیں اور بس.وہ مجھے پانی دے کر اندر چلا گیا.میں نمازیں وغیرہ پڑھ کر بہت دعا ئیں کرتا رہا.کافی رات اسی طرح گزر گئی.آخر سو گیا تھوڑی دیر کے بعد ایک نے روتے ہوئے اور کانپتے ہوئے مجھے جگایا اور کہنے لگا مولوی صاحب خدا کے لئے مجھے معاف کر دیں.چونکہ اندھیرا تھا میں نے کہا کہ آپ کون ہیں کہنے لگا لعل خان.میری عجیب سی کیفیت ہو گئی کہ کیا خواب دیکھ رہا ہوں یا بیدار ہوں.آخر اپنے آپ کو ہوش میں پا کر اسے اپنے پاس بٹھایا اور دریافت کیا کہ اس وقت کیسے آئے؟ کہنے لگا ذرا ٹھہر جائیں تھوڑا سا آرام کرلوں.میں نے تسلی دی کہ فکر نہ کرو کیا بات ہے.بتانے لگا کہ مولوی صاحب جب آپ یہ شعر پڑھ کر واپس مڑے ہیں تو میں اسی وقت گھر سے باہر نکل گیا تھا تاکہ اپنے دل کی گھبراہٹ کو دور کر سکوں لیکن آہستہ آہستہ میری گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا گیا جس کی وجہ سے کھانے پینے کو بھی جی نہ چاہا.گھر والوں نے کھانا نہ کھانے کی وجہ دریافت کی لیکن میری سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا غرضیکہ اسی حالت میں کافی رات گزر گئی اور پھر نیند آگئی.تھوڑی دیر ہی سویا تھا کہ میں نے ایک بہت بڑا قد آور نوجوان دیکھا اس کی آنکھیں موٹی اور سرخ تھیں.ساری زندگی میں نے کبھی اتنا بارعب شخص نہیں دیکھا تھا.وہ آکر میرے سرہانے کھڑا ہو گیا اور اپنے پاؤں سے بہت بڑا جو تا جو ڈیڑھ دو فٹ کے قریب لمبا تھا

Page 127

111 اتار کر بولا کہ او جنم کی تیاری کرنے والے تیرے پاس خدا کا ایک بندہ تیری برادری کو لے کر آیا تھا تاکہ تجھے جہنم میں جانے سے روک لے مگر تو نے اسے روتے ہوئے لوٹا دیا.اب میں تیری خبر لینے آیا ہوں اور یہ کہتے ہوئے اس نے تین چار جوتے میرے رسید کئے جنہیں میں برداشت نہ کر سکا اور میں نے روتے روتے اسے جواب دیا کہ میں ان مولوی صاحب کا کہا مان لوں گا آپ مجھے معاف کر دیں.اس نے کہا ابھی جا کر ان سے معافی مانگو ورنہ اس جوتے سے تیری جان نکال دوں گا اور اتنے زور سے ایک اور جوتا مارا کہ میں بیدار ہو گیا اور سر بری طرح دیکھ رہا تھا.میں نے یہ سارا واقعہ اسی وقت اپنی بیوی کو بتا دیا اور کہہ دیا کہ کسی سے ذکر نہ کرنا اور اب میں مولوی صاحب کو ڈھونڈنے جا رہا ہوں اور وہی جو ان جوتا لے کر میرے تصور میں اب بھی کھڑا ہے.میں گھر سے چپکے سے ہی نکل آیا ہوں کیونکہ سب لوگ سو رہے تھے.خیال پیدا ہوا کہ امراؤ علی خان سے مولوی صاحب کا پتہ چل جائے گا.جب میں شہر میں داخل ہوا تو پہرے دار سویا ہوا تھا.چپکے سے نکل آیا ہوں اور اب میں توبہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی مرتد ہونے کا خیال بھی دل میں نہ لاؤں گا.الحمد للہ.میری خوشی کی انتہا نہ رہی.میں نے فورا - امراؤ علی خان کو جگایا اور اسے سارا ماجرا سنایا.میرا چونکہ رات والا کھانا بھی ابھی پڑا ہوا تھا.میں نے وہ منگوایا اور میں نے اور لعل خان نے مل کر کھایا.فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد لعل خان کو رئیس اعظم امیر علی خان کے مکان پر لے گیا.وہ بھی ساری کہانی سن کر بہت خوش ہوئے.پھر میں نے ان سے مشورہ کیا کہ لعل خاص تو یہیں رہے اور میں ہاتھی پور میں جاکر وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر واپس آتا ہوں.ہاتھی پور پہنچ کر الجبل خان کی تلاش کرنے لگا اور چپکے سے اس کی بیوی کو بتا دیا کہ لعل خان ہمارے پاس پہنچ چکا ہے اور امیر علی خان کی کوٹھی پر ہے اور باہر آکر تلاش جاری رکھی.

Page 128

112 آریہ بھی تلاش کرتے دکھائی دیے.میں نے پوچھا کون کون سے مماشا پہنچ گئے ہیں.انہوں نے بتایا کہ مہاراجہ تروا مہاراجہ او گڑھ اور مہاراجہ سنو یہ تینوں اور ارد گرد کے پنڈت پہنچ چکے ہیں اور یانت تیاری کر رہے ہیں.مگر اس وقت سب حیران ہیں کہ لعل خان کہاں چلا گیا ہے گھر میں بھی نہیں ہے اور نہ ہی کہیں گاؤں میں دکھائی دیتا ہے باہر وہ آج جا بھی نہیں سکتا تھا.میں نے کہا کہ کل اس کی برادری کے بڑے بڑے لوگ یہاں آئے ہوئے تھے تو اس نے کیا جواب دیا تھا.وہ کہنے لگے کہ ہمیں تو علم نہیں ہے.میں نے کہا یہ جو راجے آئے ہوئے ہیں ان پر تو مقدمہ چلے گا کیونکہ یہ دنیا کے سیاسی مسئلوں میں تو دخل دے سکتے ہیں مگر یہ مذہبی معاملے میں دخل دینے آئے ہوئے ہیں اور یہ قانون کے خلاف ہے.انہوں نے جا کر راجوں پر مقدمہ چلنے کا ذکر کیا.یہ بات راجوں تک بھی پہنچ گئی اور وہ نصف گھنٹہ کے اندر اندر وہاں سے چلے گئے اور باقی لوگ چھوٹے چھوٹے گروپوں میں بٹ کر چلے گئے.نہ تو کوئی شدھی ہوئی بلکہ بدھی یعنی عقل ٹھکانے آگئی.جب یہ شور وغیرہ ختم ہو گیا تو لعل خان بھی گھر پہنچ گیا.اب آریہ شرم کے مارے منہ بھی سامنے نہ کرتے تھے میں نے یہ سب حالات جج صاحب کو جا کر بتائے.وہ بھی بہت محظوظ ہوئے.فرخ آباد سے غیر احمدیوں کا ایک اخبار نکلا کرتا تھا.اس میں بعض واقعات درج کر کے یہ لکھا ہوا ہوتا تھا کہ اس ہتھیہ پور کی شدھی روکنے کا سہرا قادیانی مبلغ کے سر ہے جس نے نہایت جانثاری سے شب و روز دوڑ دھوپ کی اور آخر خدا تعالی نے انہیں کامیاب کر دیا.کاش کہ ہمارے اچکن پہننے والے مولوی صاحبان بھی اپنی مولویت کے کوئی جو ہر دکھا ئیں.جب کہ یہ ناممکن دکھائی دے رہا ہے.را جورہ گاؤں میں راجہ سنئو سے مقابلہ ایک دفعہ مکرم مهربان خان صاحب لوہاری والے میرے پاس اطلاع

Page 129

113 لے کر آئے کہ راجورہ گاؤں والے سب کے سب شدھ یعنی آریہ ہونے کو تیار ہو گئے ہیں.میں یہ سن کر اسی وقت وہاں پہنچنے کو تیار ہو گیا.ہمارے گاؤں والوں کی وہاں رشتہ داری تھی.اس لئے ان سے کہہ دیا کہ کل دوپہر تک تم بھی وہاں آجاتا.ہمارے گاؤں سے ہیں میل کا سفر تھا.گھوڑی لے کر چل دیا.گاؤں سے جب چار میل کا سفر رہ گیا تو میں نے ہاتھی کے پاؤں کے نشانات دیکھے.میں نے اسی وقت الم ترکیف فعل والی سورۃ کا ورد شروع کر دیا اور گاؤں پہنچنے تک پڑھتا رہا.جب میں باغ میں پہنچا تو وہاں اسی راجہ مشو کی صدارت میں جلسہ ہو رہا تھا اور لیکچر دینے والا آریہ میرا واقف تھا.مجھے دیکھتے ہی اس کا لیکچر ڈھیلا پڑ گیا.میں جلسہ والی جگہ سے ذرا دور ہی گھوڑی سے اتر گیا اور گھوڑی کو آم کے درخت کے ساتھ باندھ دیا اور خود ایک کٹے ہوئے درخت کے تنے پر بیٹھ کر اس کی تقریر کے نوٹس لینے لگ گیا اس لیکچرار نے راجہ کے قریب ہو کر اسے بتایا کہ قادیانی مولوی آگیا ہے یہ ہمارے جلسہ میں ضرور گڑ بڑ کر دیگا اس لئے اسے فورا یہاں سے نکال دینا چاہئے.راجہ مشئو نے میری طرف ایک سپاہی کے ذریعہ پیغام بھیجا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ یہ ہمارا پرائیویٹ جلسہ ہے.سپاہی مسلمان تھا.اس نے سلام کرنے کے بعد پیغام دے دیا.میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ پٹیالی سے گورنمنٹ کی طرف سے آئے ہیں یا را بہ کی پولیس کے ہیں؟ کہنے لگا کہ میں پٹیالی کے تھانہ سے آیا ہوں میں نے کہا کہ آپ گورنمنٹ کے آدمی ہیں راجہ صاحب کے ماتحت نہیں ہیں.دوسری بات یہ کہ آپ مسلمان نہیں اور یہ مسلمانوں کو مرتد کرنے آئے ہیں اور مجھے اپنے بھائیوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے.آپ کا فرض ہے کہ میری مدد کر کے ثواب حاصل کریں.تیسری بات یہ کہ یہ کوئی پرائیویٹ جلسہ نہیں ہے بلکہ کھلے راستہ میں ہو رہا ہے.ہر راہ گیر سننے کا حق رکھتا ہے ورنہ یہ کسی مکان کے اندر جلسہ کرتے.

Page 130

114 چوتھی یہ بات کہ گورنمنٹ کے قانون کے مطابق کوئی راجہ مذہبی باتوں میں دخل نہیں دے سکتا اور یہ راجہ قانون شکنی کر رہا ہے.آپ اس سے کہہ دیں کہ قانونا" میں اسے نہیں نکال سکتا.پھر میں جانوں اور راجہ صاحب جائیں.اس نے میری بات مان لی اور جا کر یہی جواب دے دیا.راجہ بہت اونچا سنتا تھا.سپاہی نے بلند آواز سے کہہ دیا کہ وہ نہیں جاتے اور میں جبرا نہیں نکال سکتا راجہ غصہ سے خود میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ یہاں سے جائیں.میں نے کہا کہ آپ کس قانون کے تحت مجھے نکال سکتے ہیں.کہنے لگا کہ یہ ہندوؤں کا جلسہ ہے.میں نے کہا کہ پھر ہمارے مسلمان بھائی کیوں بٹھائے ہیں.یہ آریہ ہونے کو بیٹھے ہیں.میں نے کہا ابھی وہ مسلمان ہیں.جب وہ آریہ ہو جائیں گے تو میں اسی وقت یہاں سے چلا جاؤں گا اور راجہ صاحب آپ مذہبی باتوں میں دخل نہیں دے سکتے.آپ گورنمنٹ کے حکم کے خلاف چل رہے ہیں.اتنی دیر میں مجلس سے اٹھ کر حاکم خان اور فوجدار خان دونوں میرے پاس آئے.سلام کر کے مصافحہ کیا اور گھوڑی پکڑ لی اور ہم تینوں گاؤں چلے گئے.راستہ میں وہ کہنے لگے کہ مولوی صاحب ہم نے تو پہلے آپ کو پہچانا ہی نہ تھا ورنہ ہم اسی وقت آجاتے.یہ سب لوگ میرے واقف تھے اور ان کے رشتہ داروں کے بچے میرے شاگرد تھے.میں نے کہا کہ یہ کیا میلہ لگا ہوا ہے؟ کہنے لگے کہ یہ سب ظالم خاں ہی کی کھیل ہے.میں نے کہا کہ کل جان محمد خان صاحب بھیجو خان صاحب نذیر خان صاحب، مهربان خان صاحب وغیرہ سب آئیں گے.اب آپ ایسا کریں کہ یہاں سے آواز دے کر سب مسلمانوں کو بلا لو اور آریوں سے کہہ دو کہ ہمارے رشتہ داروں نے مولوی بھیجا ہے کہ اگر آریوں کو شوق ہے تو وہ بحث کریں.پھر جو سچا ہو گا سب اس کے ساتھ ہو جائیں گے.انہوں نے سب مسلمان بلا لئے.آریہ لیکچرار نے راجہ سے کہا کہ میں نے بتایا تھا کہ اب

Page 131

115 جلسہ میں گڑ بڑ ہو جائے گی.غرضیکہ سب مسلمان اور سپاہی آگئے اور انہیں روٹی کھلائی گئی.سپاہی کہنے لگا کہ دوستو یہ سب قادیانی مولوی صاحب کی بہادری ہے کہ ان کا جلسہ کسی قانونی زد میں آئے بغیر نا کام کر دیا.ہمارے مولویوں میں تو ذرہ برابر بھی جرات نہیں.اتنی دیر میں گاؤں کے ہندو بھی آگئے اور راجہ صاحب واپس چلتے ہے.جب مجمع کافی بڑا ہو گیا تو میں نے تقریر کرنا شروع کر دی کہ آریہ مذہب جھوٹ اور زنا کی تعلیم دیتا ہے جب کہ دین حق عورتوں کی عزت کی حفاظت کرتا ہے.جھوٹ سے تو بڑی تیزی سے دنیا میں بدی پھیل سکتی ہے اور دین حق اس سے سختی کے ساتھ روکتا ہے.گاؤں کا ایک ہندو اٹھا اور بولا کہ آریہ زنا کی تعلیم دیتے ہیں اس کا کوئی حوالہ دیں.میں نے جھٹ ستیارتھ پرکاش نکال کر نیوگ کا مسئلہ تفصیل سے بیان کر دیا اور چیلنج کر دیا کہ اگر کوئی آریہ زنا اور نیوگ میں فرق نکال دے تو میں پچاس روپے نقد انعام دونگا.جھوٹ کے متعلق انہیں منو شاستر سے حوالہ دکھا دیا کہ اپنا مطلب نکالنے کے لئے جھوٹ بولنا گویا سچ بولنا ہے میں نے دونوں حوالے ان کی کتب سے پیش کئے تو وہ آریوں کو گالیاں دینے لگ گیا اور ہندو ٹھا کر بھی نیوگ کا مسئلہ سن کر آریوں کا تمسخر اڑانے لگا.آریوں کا ایک منشی داس بہت چیخ چیخ کر لیکچر دیا کرتا تھا مگر مناظرہ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ مناظرہ کرنا تو ایک فن ہے جس میں موقع محل اور پبلک کے جذبات کا خیال رکھ کر بات کہی جاتی ہے.مجھے یوپی میں آریوں کے ساتھ بے حد مناظرے کرنے کے مواقع میسر آئے لیکن خدا تعالیٰ کی مدد سے کبھی شکست کا سامنا نہ کرنا پڑا.اور سب اپنے پرائے یہی کہتے رہے کہ بہت حاضر جواب ہیں.منشی واس مقابلہ پر نہ آیا اور کہنے لگا کہ قادیانیوں کا چوٹی کا مناظر ہے.غرضیکہ آریوں کو خدا تعالٰی نے ناکام کیا.ہم سب تیسرے دن نگلہ گھنو واپس آگئے.میں کافی دیر اسی گاؤں میں ہی رہا.ان کے لڑکے تیسری جماعت میں داخل ہونے

Page 132

116 کے قابل ہو گئے.گاؤں کے سب مرد اور عورتیں جمعہ و نماز وغیرہ کی بہت پابند ہو گئیں اور احمدیت کے متعلق خاص خاص مسائل سے آگاہ ہو گئیں.اس گاؤں کے سات افراد بھی اپنی مرضی سے سلسلہ احمدیت میں داخل ہو گئے.شروع شروع میں جب میں نگلہ گھنو پہنچا نگلہ گھنو (ملکانہ) میں قبول احمدیت تو وہاں کے دیو بندی مولویوں نے شور مچا دیا کہ یہ مولوی آپ کو قادیانی بنا لے گا.ان لوگوں نے اس بارے میں مجھ سے پوچھنا شروع کیا تو میں نے ان سے کہا کہ جب تک میں آپ کے پاس رہوں گا کبھی بھی اپنی زبان سے آپ کو احمدی ہونے کے متعلق نہیں کہوں گا اور اس پر آخر تک کاربند رہا مگر احمدیت کی ساری تعلیم ان پر واضح کر دی.جب میری تبدیلی کے دن قریب آئے تو وہاں کے ایک امیر اثر و رسوخ والے آدمی رئیس جان محمد خان صاحب نے خواب میں دیکھا کہ دنیا پر بارش سے تباہی آچکی ہے اور آسمان سے سیر میر بھر کے اولے گر رہے ہیں جن سے تمام باغات اور فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور میں تباہ شدہ چوپال کی ایک دیوار سے چمٹا ہوا ہوں اور رو رہا ہوں کیونکہ چرند پرند اور انسان سب مرچکے ہیں اور میدان اولوں سے بھرا پڑا ہے.میں بڑے غور سے دیکھتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ بیت محفوظ ہے اور اس کے اندر آپ بلند آواز سے قرآن پاک پڑھ رہے ہیں.آپ کو دیکھ کر مجھے کچھ تسلی ہوتی ہے کہ مولوی صاحب تو زندہ ہیں مگر اولے بڑی کثرت سے گر رہے ہیں.آپ بیت سے نکل کر میدان کی طرف چل دیتے ہیں اور میں گھبرا جاتا ہوں کہ اب مولوی صاحب نہیں بچیں گے مگر کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کے اوپر نہ تو بارش ہی پڑی ہے اور نہ ہی اولے اور آپ جس طرف جاتے ہیں آپ کے سامنے راستہ پر سے اولے دونوں طرف سے ہٹتے جاتے ہیں اور راستہ صاف ہوتا جا رہا ہے میں بہت حیران ہوتا ہوں کہ اس کی کیا وجہ ہے؟

Page 133

117 کہ نہ تو آپ پر بارش ہی پڑتی ہے اور نہ ہی اولے.آخر آپ اس میدان میں پہنچتے ہیں اور آپ ہاتھ اور منہ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کرتے ہیں کہ یکا یک بارش اور اولے بند ہو جاتے ہیں.پھر آپ نے چاروں طرف گھوم کر پھونک ماری ہے جس سے تمام چار پائے فصلیں ، باغ ، مکانات غرضیکہ ہر چیز دوباره آباد و شاداب نظر آنے لگتی ہے.اور اسی خوشی میں میری آنکھ کھل جاتی ہے.آج میں نے مان لیا ہے کہ سلسلہ احمدید خدا تعالٰی کی طرف سے ہے اور آپ لوگوں کی خدا تعالی سنتا ہے.آپ میری بیعت لکھ دیں.میں نے کہا کہ یہ بھی اللہ تعالٰی کا آپ پر انعام ہے کہ آپ پر حق ظاہر کر دیا ہے.اب اسے مفید بنانا آپ کے ہاتھ میں ہے.آج رات سارے گاؤں والوں کو اکٹھا کر کے پہلے خواب سناؤ اور پھر بیعت کے متعلق مجھ سے بات کرنا.چنانچہ ہرات کو انہوں نے تمام لوگوں کو اپنی خواب سنائی جس کے نتیجہ میں وہاں سے کثرت سے لوگوں نے احمدیت قبول کر لی.میرا تبادلہ اور نئی منزلیں عاجز اس علاقہ میں ۵ اپریل ۱۹۲۳ء تا سی جون ۱۹۲۸ء ۱۴ تک رہا اور مولوی جلال الدین صاحب مرحوم و مغفور فیروز موردی کو چارج دیگر واپس قادیان آگیا.ضلع ایٹہ مین پور اور فرخ آباد کے علاوہ آگرہ کانپور ، لکھنو، متھرا وغیرہ کے بھی میں نے دورے کئے.سینکڑوں دیہات اور قصبات کا دورہ کیا جن میں سے مشہور مشہور مندرجہ ذیل ہیں.1.کا سکنج -۲- سوان ۳ سماور ۴ جلیر ۵- دریاؤ گنج - قائم گنج ۷.علی شیخ ۸ نواب گنج -۹- کریم گنج نواب گنج - کریم گنج ۱۰ خدا گنج ا رسول گنج - ۱۲ بین سنج ۱۳ رانی گنج ہوا.رحیم گنج وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ فتح گڑھ اور چھپر امٹو بھی ان میں شامل ہیں.خداتعالی کے فضل و کرم سے سب جگہ کا دورہ کامیاب رہا.بعدہ دو ماہ کی رخصت پر قادیان رہا.مذکورہ تمام عرصہ میں دفتر کی طرف

Page 134

118 سے صرف پچیس روپے ماہوار الاؤنس ملتا رہا اب تمہیں روپے ماہوار الاؤنس پٹھانکوٹ کی تحصیل میں لگا دیا گیا.ڈلہوزی بکلوہ - ویزا اور شکر گڑھ کی تحصیل و بٹالہ کی تحصیل کا دورہ کرتا رہا.ان مقامات کے بعد لدھیانہ ، جالندھر ، اور ضلع ہوشیار پور میں مجھے متعین کیا گیا.ان کے ساتھ ساتھ پٹیالہ نابھہ ، جنید ، ہائے پھولکیاں کی ریاستوں میں بھی تبلیغ کرتا رہا.جب میرا ہیڈ کوارٹر لدھیانہ مقرر ہوا تو لدھیانہ شہر میں پہلا تبلیغی جلسہ میں نے وہاں کے احباب سے پوچھا کہ ب کبھی سلسلے کے کوئی بزرگ مبلغ تشریف لاتے ہیں تو آپ ان سے بیت ہی میں تقریر کیوں کروا لیتے ہیں اور اس طرح غیر احمدی ہماری باتیں سننے سے محروم رہ جاتے ہیں.تو جواب ملا کہ آپ یوپی میں تبلیغ کرتے رہے ہیں مگر یہ لدھیانہ ہے.یہاں ہمارے بڑے بڑے مبلغ تشریف لاتے رہے ہیں مگر یہاں کے غیر احمدیوں نے ہمارا کوئی جلسہ نہیں ہونے دیا.ایک دفعہ نیر صاحب اور سلسلہ احمدیہ کے ایک دوسرے بہت بڑے مبلغ تشریف لائے.ہم نے سرکاری باغ میں جلسہ کا انتظام کیا جس میں میز کرسیاں دریاں اور روشنی کا خاصہ انتظام کیا گیا تھا.لیکن ایک غیر احمدی مولوی الرحمان صاحب جلسہ کے وقت آن دھمکے اور خود ہی صدر بن کر ہمارے خلاف رات گئے تک زہر اگلتے رہے اور جاتے وقت ہماری کرسیاں بھی توڑ گئے.میں نے کہا کہ آپ کو وہ بیدار کرنے آئے تھے کہ آپ بار بار جلسہ کریں اور اس طرح وہ آپ کی غیرت کو بھڑکا کر گئے تھے.لیکن آپ الٹا ان سے ڈر گئے.اب اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے بولو کہ کسی محلہ میں پہلے تقریر کی جائے.وہاں کے سیکرٹری تبلیغ صوفی عبدالرحیم صاحب بولے کہ آج ہمارے صوفی محلہ میں تقریر ہونی چاہئے.میں نے کہا جو مار کھانے سے نہیں ڈرتے وہ تشریف لا ئیں اور جو ایسی

Page 135

119 حالت کو برداشت نہ کر سکتے ہوں وہ بجائے وہاں سے بھاگنے کے گھر ہی سے تشریف نہ لائیں.صوفی محلہ میں ایک چوک تھا وہاں میں نے پہلے تلاوت اور پھر نظم پڑھوائی.اس چوک کے قریب ہی ایک بیت تھی وہاں مخالفین نے اکٹھے ہو کر پورے زور و شور سے درود شروع کر دیا تاکہ ہماری آواز دوسروں تک نہ پہنچ سکے.میں نے صوفی صاحب سے پوچھا کہ یہ درود شریف روزانہ پڑھتے ہیں کہ آج ہی پڑھا جا رہا ہے.کہنے لگے کہ آج ہی ایسا ہو رہا ہے.مکانوں کی چھتوں پر غیر احمدی مرد اور عورتیں بیٹھے ہوئے تھے اور چوک میں احمدیوں سے زیادہ غیر از جماعت لوگ بیٹھے تھے.میں نے کلمہ شہادت فاتحہ اور درود شریف پڑھنے کے بعد تقریر شروع کی کہ پیارے بھائیو اور بہنو ہمارا اس جگہ پر جلسہ کرنا کس قدر بابرکت ثابت ہوا ہے کہ رحمته اللعالمین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر طرف سے درود بھیجا جانے لگا ہے.اب میں آپ کو درود شریف کا ترجمہ سناتا ہوں پھر تفصیل بتاؤں گا.میری آواز بھی کافی بلند تھی اور سامعین پر بھی خاموشی طاری ہو گئی اور بغور سننے لگے مجھے اطلاع ملی کہ بیت میں ہم پر خشت باری کے لئے کافی روڑے اکٹھے کر لئے گئے ہیں اور اب ان کا مارنے کا پروگرام ہے.میں نے تقریر ہی میں بتایا کہ آج آریہ اور عیسائی یہ کہتے ہیں کہ محمد کی صداقت ثابت کرو.وہ تو جدھر جاتے تھے انہیں لوگ پتھر مارتے تھے کبھی راستے میں کانٹے بچھا دیتے کبھی راستے میں گڑھا کھود دیتے.گلی سے جاتے وقت ان پر کوڑا پھینک دیتے.نماز میں سجدہ کرتے وقت ان کے سر پر اونٹ کی اوجھری رکھ دیتے.کبھی گلے میں پھندہ ڈال دیتے کبھی ان کو زخمی کر دیتے کبھی سارا وجود ہی لہو لہان کر دیتے.مگر کیا وہ یہ دیکھتے نہیں کہ جس وجود نے اتنی تکلیفوں میں پرورش پائی تھی آج بھی اس پر ہر گلی کوچہ شہر اور ملک میں درود پڑھا جا رہا ہے.کیا مخالفین ان کا کچھ بگاڑنے میں کامیاب ہو گئے.ہرگز

Page 136

120 نہیں بلکہ انہیں مٹانے والوں کا نام و نشان تک مٹ گیا.اگر انہیں اس کا پہلے ہی سے علم ہو تا کہ ہماری یہ مخالفت ہمارے ہی ناموں کو مٹادے گی تو وہ کبھی مخالفت نہ کرتے اور شرافت سے حضور کی تعلیم پر غور کرتے.جس طرح حضرت ابو بکر صدیق حضرت عمر فاروق حضرت عثمان اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کیا تھا ان کے نام بھی آج زندہ اور روشن ہوتے.پھر میں نے درود شریف کے معنے اور تفصیل بیان کی اور انہیں بتایا کہ درود شریف میں یہ پیش گوئی ہے کہ آل ابراہیم والے انعام اب محمد ﷺ کی امت کو ملیں گے اور ساتھ ہی احمدیوں کے عقائد ، بیعت کرنے کی دس شرائط بیان کیں اور لوگوں کو غور کرنے کی طرف توجہ دلائی.ان پر واضح کیا کہ انسانی نظر ہر مامور کے زمانہ میں غلطی کھاتی رہی ہے اس لئے دعاؤں سے بہت کام لینا چاہئے.غرضیکہ دو گھنٹے کی یہ تقریر پر امن ماحول میں ہوئی اور دعا پر جلسہ برخاست ہوا جلسہ کے بعد بعض غیر احمدی دوستوں نے تقریر کی بہت تعریف کی اور مصافحہ بھی کیا.جو احمدی احباب جلسہ میں شامل نہ ہوئے تھے جب انہیں جلسہ کی کامیابی کا علم ہوا تو بہت افسوس کرنے لگے اور آئندہ کے لئے ان کے حوصلے بلند ہو گئے.بعدۂ لدھیانہ کے ہر اس محلہ میں جہاں ہمارا کم از کم ایک احمدی رہتا تھا جلسہ کیا گیا.حتی کہ مولوی حبیب الرحمان صاحب عرف بو کا کے گھر کے پڑوس والے بابو شیر محمد صاحب کے مکان میں جلسہ کیا اور مولوی صاحب مع اپنی بیوی کے اپنے گھر کے صحن میں بیٹھ کر تقریر سنتے رہے.وہاں میری تقریر تائید الہی سے بہت جو شیلی اور مقبول ہوئی.دار البیعت میں بھی جلسہ کیا گیا اور سب جگہوں پر بہت امن سے کامیاب جلسے ہوئے.لدھیانہ میں تو تمام محلہ جات میں ایک اہل حدیث باباجی کا دلچسپ واقعہ ہمارے جلسے بخیر و خوبی انجام پذیر

Page 137

121 ہوئے سوائے جلا ہکہ محلہ میں وہاں جلسہ کے دوران ایک اہلحدیث بابا جی اٹھ کر بڑے زور سے کہنے لگے کہ مرزائی بھی جھوٹے اور ان کے تمام مبلغ بھی جھوٹے ہیں.اس کے ایسا کہنے سے بعض غصہ میں آگئے لیکن میرے روکنے سے رک گئے.میں نے بابا جی سے بڑی محبت سے پوچھا کہ آپ نے کس لئے سب احمدیوں کو جھوٹا کہہ کر اس بڑھاپے کی عمر میں گناہ کمایا ہے کہنے لگا کہ آپ لوگوں نے جو نوٹ بک لکھی ہے اس میں تفسیر محمدی کے حوالہ سے لکھا ہے.پیو دے نال مشابہ بیٹا ہوندا شک نہ کوئی زنده رب ہمیش نه مرسی موت عیسی نوں ہوئی تفیسر محمدی میں نہیں ہے.اگر ایسا دکھا دو تو انعام لے لو.میں نے کہا بابا جی اگر یہ اس تفسیر میں نہ ہوا تو میں اقرار کر لوں گا کہ یہ حوالہ غلط لکھا ہوا ہے اور اگر ہوا تو پھر آپ کیا انعام دیں گے.کہنے لگا پچاس روپے.میں نے کہا کہ آپ پچاس روپنے ایک شریف ہندو کے پاس جمع کروا دیں اور اگر یہ حوالہ نکل آیا تو وہ پچاس روپے مجھے دے دے گا اور اگر حوالہ نہ نکلا تو میں سارے مجمع میں یہ اعلان کر دونگا کہ یہ حوالہ غلط لکھا ہوا ہے اور وہ پچاس روپے آپ کو واپس کر دیئے جائیں گے.بابا جی نے فورا" بذریعہ پروٹوٹ پچاس روپے جمع کروا دیئے اور گھر سے تفسیر لے آئے اور مجھے دی.میں نے فورا سورہ آل عمران کے دیباچہ سے حوالہ نکال کر اس ہندی کے پاس رکھ دیا اور کہا کہ لالہ جی پڑھ کر سب کو سنا دو اور پچاس روپے مجھے دے دو.بابا جی نے شور مچانا شروع کر دیا.ایسا کرنے پر ہندو نے حوالہ دکھایا تو بابا جی کہنے لگے کہ مجھ سے پڑھا نہیں جاتا اس پر دو مسلمانوں نے پڑھ کر بابا سے کہا کہ حوالہ ٹھیک ہے.میں نے کہا کہ اب پچاس روپے بھی دے بیٹھے ہو اور احمدی بھی بچے ثابت ہو گئے ہیں.اب جاؤ اپنے گھر میں بیٹھو اور آرام کرو.غرضیکہ حوالہ سننے

Page 138

122 والوں پر بہت اچھا اثر پڑا اور جلسہ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.بعد میں احمدی احباب مجھے دار البیعت میں چھوڑ کر گئے.دار البیعت کے دالان کے دو حصے کئے ہوئے تھے.جس حصہ میں حضور نے ابتدائی بیعتیں لینی شروع کی تھیں وہاں مہمانوں کے لئے کمرے بنے ہوئے تھے اور دوسرا حصہ محافظ کے لئے تھا.ان دنوں وہاں کے محافظ مولوی سید سعد اللہ شاہ صاحب دہلوی مع اپنی اہلیہ زینت بی بی اور بیٹی امتہ العلیم صاحبہ کے رہا کرتے تھے اور شاہ صاحب باوجود عمر رسیدہ ہونے کے ہر جلسہ میں جوانوں کی طرح شریک ہوتے تھے.عربی اور فارسی کے کافی عالم تھے.نہایت باعمل اور نیک احمدیت کے فدائی تھے مگر قدرے کم گو تھے.جس حصہ میں حضور بیٹھا کرتے تھے اور جہاں انہوں نے پہلی بیعت لی تھی اس حصہ میں میں رہا کرتا تھا.شاہ صاحب اپنے گھر سے دوبارہ میرے پاس آگئے اور بوڑھے کی حرکات پر خوب ہنستے رہے.خیر رات ہو گئی اور ہم سو گئے.فجر کی نماز پڑھانے کے بعد میں درس دے رہا تھا کہ وہی رات والا بوڑھا آدمی چار معزز آدمیوں کو ہمراہ لیکر میرے پاس پہنچ گیا اور السلام علیکم کہہ کر سب بیٹھ گئے.بعدہ اس بوڑھے کی طرف سے کہنے لگے کہ رات کو اس کی بیوی نے اس کی بہت بے عزتی کی ہے کہ تم غریب آدمی جو لوگوں کی تانی تن کر گزارہ کرتے ہو تم وہاں بڑے مولوی بننے کو کیوں کھڑے ہو گئے.اب چاہے لوگوں کی تانیاں بیچ کریا مجھے بیچ کر پچاس روپے پورے کرو.میں تو اپنی بیٹی کے پاس چلی جاتی ہوں.رات سے اسے پیچش کی بھی شکلیت ہے.صبح اسے خون بھی آیا ہے.آپ اسے معاف کر دیں اور اس کے پچاس روپے واپس لوٹا دیں اور اس کا پرونوٹ بھی واپس کر دیں.اسی صورت میں یہ بیچ سکتا ہے ورنہ زندہ رہنا مشکل ہے.میں نے کہا کہ مجھے اس بڑے میاں سے ہمدردی ہے اور آپ صاحبان کی بھی قدر کرتا ہوں مگر کیا آپ یہ خیال کر سکتے ہیں کہ اگر میں بھری مجلس میں حوالہ نہ دکھا

Page 139

123 سکتا تو اس نے سارے شہر میں یہ مشہور کر دیا تھا کہ میں نے سارے مجمع میں احمدیوں کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے.اب یہ تو ہو سکتا ہے کہ آپ کے آنے کی وجہ سے پانچ یا دس روپے کی رعایت کر دوں اس جگہ ان کے دوسرے اہل حدیث بھائی کافی ہیں.یہ ان سے مدد لے سکتے ہیں.میرے پاس ان کا دوبارہ آنا درست نہ تھا.ہمارے ایک بھائی سید میر قاسم علی صاحب سے ایک آریہ نے غلطی سے تین صد روپے مولوی ثناء اللہ صاحب کو دلا دیئے تھے.انہوں نے تو ایک پیسہ بھی واپس نہ کیا تھا.مجھے تو ابھی تین صد روپیہ سے پچاس روپے ہی واپس ہوئے ہیں.یہ اب مولوی ثناء اللہ صاحب کو لکھ سکتے ہیں کہ میری مدد کر دو.میں تو آپ کے کہنے سے رعایت کر سکتا ہوں مگر پورے پیسے واپس نہیں کرونگا.وہ بے چارے چلے گئے مگر تھوڑی دیر کے بعد چند معزز احمدیوں کو ساتھ لے کے پھر آگئے اور مجھے بہت مجبور کیا کہ اس کے پیسے واپس کر دو ورنہ یہ مرجائے گا.اس کے گھر میں اس وجہ سے فتنہ پڑ گیا ہے.میں نے کہا کہ لکھو کہ میں پچاس روپے معاف کرواتا ہوں اور اب کبھی بھی احمدیوں کی مخالفت نہیں کروں گا.اس بے چارے نے اسی طرح لکھ دیا.میں نے اسے پروٹوٹ اور سارے روپے واپس کر دیئے اور وہ شکریہ ادا کر کے چلے گئے.بعد میں ہم نے لدھیانہ شہر میں جتنے بھی جلسے کئے کسی نے کبھی کوئی اعتراض کرنے کی کوشش نہ کی.ایک دن پہلی دفعہ میں لدھیانہ شہر کے سیکرٹری تبلیغ ایک غیر معمولی واقعہ صوفی عبدالرحیم کے مکان پر گیا تو وہ بیٹھنے کے لئے کرسیاں باہر گلی میں لے آئے.میں نے کہا کہ یہ راستہ ہے یہاں ہمیں نہیں بیٹھنا چاہئے.کہنے لگے کہ میری بیوی بڑے امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور یافتہ بھی ہے مگر احمدیت کے نام سے اسے بہت نفرت ہے.وہ کسی احمدی کا گھر میں

Page 140

124 آنا پسند نہیں کرتی اس لئے میں کرسیاں باہر ہی لے آیا ہوں.میں نے کہا آپ مجھے اس وقت اجازت دیں.پھر کسی وقت میں دوبارہ یہاں آؤنگا.لیکن صوفی صاحب نہ مانے اور مجھے وہیں بیٹھنے پر مجبور کر دیا ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک برقعہ پوش عورت آئی اور یہ کہتے ہوئے کہ یہ کوئی شریف آدمیوں کا کام ہے کہ راستہ میں بیٹھیں اور صوفی صاحب کے گھر میں داخل ہو گئی.میں بہت شرمندہ ہوا کہ صوفی صاحب نے میرا کہا نہ مان کر بے عزتی کروا دی ہے.صوفی صاحب کہنے لگے کہ یہ میری بیوی ہے جو اپنے والدین کے گھر سے آئی ہے یہ کہہ کر وہ اپنے گھر بھاگے بھاگے گئے.میں وہیں اکیلا کھڑا رہا اور حیران ہوا کہ یہ بھاگ کر اندر کیوں گئے ہیں.ابھی چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ وہ واپس آبدیدہ آنکھوں سے آگئے.مجھے اپنا خون آلود بازو دکھانے لگے جس پر دانتوں کے نشانات تھے اور خون بہہ رہا تھا.مجھ سے کہنے لگے مولوی صاحب خدا کے لئے ذرا گھر کے اندر چلیں اور اس کا علاج کریں.آپ میرے بزرگ بھائی ہیں.( آپ سے کیا پردہ ہے) جلدی چل کر دیکھیں بڑا نقصان ہو رہا ہے.میں اندر گیا.اس کی بیوی کی حالت دیکھ کر میں واپسی کے لئے مڑا تو صوفی صاحب خدا کا واسطہ دے کر روکنے لگے.اور کہنے لگے کہ کچھ علاج کریں.میں نے کہا بے شک یہ ہماری بہن ہے.اس کے سر کے بال کھلے ہیں اور اس کی آنکھیں آگ کی طرح سرخ ہیں.میں کس طرح قریب جا سکتا ہوں.صوفی صاحب بولے کہ اگر میں ڈاکٹر کو لاؤں تو وہ بھی اسی حالت میں اگر دیکھے گالور میں تو اسے اس حالت میں چھوڑ کر ایک قدم بھی باہر نہیں جا سکتک میں ہمت کر کے اندر داخل ہوا اور صوفی صاحب سے بستر بچھانے کو کہا اور آگے بڑھ کر اس عورت کا بازو پکڑ لیا اور بستر پر لٹا دیا.پانی پر دم کر کے اسے پلایا اور نبض پر ہاتھ رکھ کر دعا کرنے لگا.وہ میرے لٹانے کے ساتھ ہی بے ہوش ہو گئی.تھوڑی دیر کے بعد میں نے خود

Page 141

125 ہی اس کا منہ کھول کر پانی ڈالا اور اس پر پانی چھڑ کا.قریبا پانچ منٹ کے بعد اس نے انگڑائی لی میں نے پھر اس کے منہ میں پانی ڈالا اور دوبارہ اس کے جسم پر پانی چھڑکا.تھوڑی دیر کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور میرے ہاتھ میں نبض دیکھ کر بولی کہ مجھے کیا ہو گیا ہے.میں نے کہا کچھ نہیں آپ فکر نہ کریں.وہ اٹھ کر بیٹھ گئی.صوفی صاحب اسے بتانے لگے کہ اپنے ریشمی کپڑے پھاڑ کر تو نے پھینک دیئے تھے.چینی اور شیشے کے بھی کافی برتن توڑ دیئے ہیں اور اپنا زخمی بازو بھی اسے دکھانے لگے جسے اس نے کاٹا تھا.وہ بہت شرمندہ ہوئی.اسے کہنے لگے کہ میری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے مولوی صاحب یہاں موجود تھے جنہوں نے آپ کا علاج کیا اور آپ ک خدا تعالی نے شفا دے دی.میں نے صوفی صاحب سے جانے کی اجازت چاہی کیونکہ نماز کا وقت بھی ہو چکا تھا.وہ دونوں یک زبان ہو کر بولے کہ نہیں ہم نہیں جانے دیں گے."آپ دونوں ہیں نماز پڑھ لیں" اس کی بیوی نے کہا میں نہیں جانتی کہ میرے ساتھ آج ایسا کیوں ہوا.یہ میرے اختیار سے باہر کی بات ہے اس لئے مولوی صاحب ! میرے دو حقیقی بھائی ہیں اور میں آپ کو آج سے اپنے ایمان سے تیسرا حقیقی بھائی سمجھوں گی.آپ بے دھڑک جس وقت چاہیں آجایا کریں اور ضرور آیا کریں.میں نے کہا میری بہن آپ کا بہت بہت شکریہ.میری بھی دو حقیقی بہنیں ہیں اور تیسری آپ کو آج سے سمجھوں گا.پھر میں نے اس سے کہا کہ میری پیاری بہن کافر اور مومن بھائی یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ کے خیال میں ہم کافر ہیں تو بات بنتی نہیں.کہنے لگی مولوی صاحب بے شک میں اس بیماری سے قبل آج تک یہی خیال کرتی رہی مگر اب جب کہ صوفی صاحب نے میری حالت بیان کی ہے آپ کی دعا اور نتیجہ شفاء کا ذکر کیا ہے تو میرے دل پر اس کا بہت اثر ہوا ہے.جن کے مرید ایسے ہیں کہ خدا ان کی فریاد سنتا ہے اور وہ یہ جانتے ہوئے کہ یہ شخص ہمارا سخت

Page 142

126 مخالف ہے اور برا سمجھتا ہے اس کے بعد بھی اتنے ہمدرد ہو جاتے ہیں کہ دعا کرنے سے دریغ نہیں کرتے تو یہ لوگ آپس میں کتنے ہمدرد ہوں گے.مولوی صاحب میں آج سے ان تمام کلمات سے جو میں نے حضرت صاحب کے خلاف بولے ہیں تو بہ کرتی ہوں.خدا تعالیٰ مجھے معاف کرے.ہم دونوں نے آمین کہا.میں نے شرائط بیعت کا فارم دیا اور انہوں نے اسے غور سے پڑھ کر دستخط کر دیئے.ہم نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا.میں اگلے دن عشاء کے وقت دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے واپس آگیا.ہماری اس بہن کا نام غالبا ثریا بیگم اور لڑکی کا نام طاہرہ بیگم تھا.پھر تربیت اور دلجوئی کے لئے گاہے بگا ہے وہاں جاتا رہا.اس نے بھی پھر کبھی ہمارے جلسہ سے غیر حاضری نہ کی.جب اس کی سہیلیوں کو اس بات کا علم ہوا تو ملامت کرنے لگیں لیکن چونکہ وہ خود تعلیم یافتہ تھی اس لئے اس کے آگے کوئی بھی دم نہ مار سکی.دو سرے دن مجھے قادیان سے آرڈر آگیا کہ انبالہ شہر میں خانہ خدا کی تعمیر آپ انبالہ فورا" چلے جائیں کیونکہ وہاں مبلغ کی اشد ضرورت ہے.میں اسی دن انبالہ چلا گیا.جماعت کے احباب بڑی محبت سے پیش آئے.ان دنوں وہاں کے امیر ریٹائرڈ ہیڈ کلرک ڈپٹی کمشنر با بو عبد الرحمان تھے.میں نے بھی تبلیغ کا کام شروع کر دیا.انبالہ کی جماعت کے احباب جمعہ اور نمازیں ایک بوسیدہ سے مکان ہی میں پڑھا کرتے تھے.کوئی بیت نہ تھی.میں نے وہاں بیت بنانے کی تحریک کی.وہ ہر دفعہ یہی بذر کرتے تھے کہ ایک تو بیت کے لئے جگہ نہیں ملتی اور دوسرے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی و دیگر بزرگان جماعت اسی جگہ نماز پڑھاتے رہے ہیں.میں نے کہا کہ مہمان کو میزبان جس جگہ بٹھائے گا مہمان تو وہیں بیٹھے گا.سب لوگ خوش ہو کر کہنے لگے کہ یہ بہت اچھی جگہ ہے.میں نے باہو عبد الرحمن صاحب امیر جماعت سے کہا کہ آپ کو اللہ تعالٰی نے تین مکان دیئے

Page 143

127 ہوئے ہیں.آپ ان میں سے ایک مکان خدا کا گھر بنانے کے لئے دے دیں تو اللہ تعالی اس نیک کام کے عوض بہت کچھ آپ کو جنت میں دیگا.حاجی میراں بخش صاحب بولے کہ بابو صاحب مکان دے دیں اور جتنا روپیہ بیت پر خرچ آئے گا میں ونگا.بابو صاحب نے منظور کرتے ہوئے دوسرے دن ہی مکان بیت کے لئے ہبہ کر دیا.مقامی غیر احمدیوں کی طرف سے کئی رو کیں ڈالی گئیں لیکن کمیٹی نے نقشہ کی نظوری دے دی.چنانچہ مکان گرا کر بیت کی بنیادیں کھدوائی گئیں.جماعت نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں تار دیا کہ جماعت کی خواہش ہے کہ سنگ بنیاد حضور رکھیں.حضور نے جواباً فرمایا کہ ؟ آپ بنیاد اپنے حلقہ کے مبلغ سے رکھوائیں.میں اس دن ماچھیواڑہ میں تھا.مجھے بذریعہ تار منگوایا گیا.میں نے بعد دعا بنیادی اینٹ رکھی.خدا تعالی کے فضل و کرم سے عالیشان بیت تعمیر ہوئی اور میرے خسرسید سعد اللہ شاہ صاحب میری عدم موجودگی میں امام الصلوۃ مقرر ہوئے آپ نے بچوں کو قرآن کریم پڑھانا بھی شروع کر دیا.میں نے جگادھری عبد اللہ پور بوڑھیہ ، گھر والی، نرائن گڑھ ، ساڈھورہ جولی ، مبارک پور ، منی مزاع، روپر اثر پور کووال، پیر اور غوث گڑھ، پھلور، سرہند، خانپور راجپورہ، پٹیالہ نامہ دھوڑی، سنگرو، بٹھنڈہ لوہیاں، سلطانپور، کھرڈ وغیرہ میں تبلیغی دورے کئے اور احمدیت کی خدا تعالٰی کے فضل سے اس علاقہ میں خوب شہرت ہو گئی.ایک دفعہ نابھہ میں ہمارا جلسہ ہو رہا تھا جس میں نا بھر میں کامیاب جلسہ بکثرت غیر احمدی حضرات بھی شامل تھے.جلسہ کی صدارت میں خود کر رہا تھا اور گیانی واحد حسین صاحب کی تقریر ہو رہی تھی کہ ایک غیر احمدی مولوی صاحب نے اٹھ کر اعتراض کیا کہ نبی کا نام مفرد ہوتا ہے جب کہ مرزا صاحب کا نام مرکب ہے لہذا یہ ہی نہیں ہو سکتے.میں نے گیانی صاحب کو بٹھا

Page 144

128 دیا اور صدر ہونے کی حیثیت میں کہا کہ مولوی صاحب نے اگر کوئی اعتراض کرنا ہی تھا تو صدر مجلس سے اجازت تو لی ہوتی.معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب اس قانون سے واقف نہیں ہیں.ہم درگزر سے کام لیتے ہیں.میری سمجھ میں نہیں آرہا که مولوی صاحب کو ایسا سوال کرنے کی کیا سوجھی.کیا مولوی صاحب کے پاس ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کی فہرست ہے یا قرآن پاک حدیث شریف، تفسیریا تاریخ میں کہیں اگر لکھا ہے تو وہ دکھا دیں.لیکن وہ بھی ایسا نہیں دکھا سکتے اور اگر کسی کم علم ملاں نے یہ بتا دیا ہے جو یہ کہہ رہے ہیں یا مان چکے ہیں تو یاد رکھیں کہ حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل اور حضرت مسیح ابن مریم تو ان کے ہاتھ سے گئے.اور ایک رسول کا انکار بھی انسان کو کافر بنانے کے لئے کافی ہے اب مولوی صاحب کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے.مولوی صاحب یہ جواب سن کر خاموش ہو گئے اور ایک سکھ بولا کہ کٹا انجمن کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے" غرضیکہ بڑی خاموشی اور سکون کے ساتھ یہ جلسہ بڑی کامیابی کے ساتھ برخواست ہوا.دھوری ریاست پٹیالہ میں تھانیدار کی مخالفت اور ہمارا شاندار تبلیغی جلسہ ایک دفعہ میں نے دھوری میں تقریر کرنے کی منادی کرائی.تھوڑی دیر کے بعد ایک اور منادی ہو گئی کہ رات کو کوئی تقریر نہیں ہو گی.ہمیں بڑی تشویش ہوئی.مارے وکیل شیخ عباد اللہ صاحب نے پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ یہ منادی تھانے والوں کی طرف سے کرائی گئی ہے.ہم نے پھر منادی والے سے کہا کہ دوبارہ اس بات کی منادی کرو کہ تقریر ضرور ہوگی.منادی کرنے والا کہنے لگا کہ ہم تھانے والوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں.ہم نے اپنے نوجوانوں کو گھنٹی خرید کر دی اور وہ منادی کرنے لگے

Page 145

129 کہ آج شام تھانے کے عقب والے میدان میں ضرور تقریر ہو گی.ہم نے میز اور کرسیاں وغیرہ وہاں پہنچا دیں اور ساتھ ہی روشنی کا بھی بہت عمدہ انتظام کیا گیا رات کو میں نے شیخ صاحب کو صدر بنا کر تقریر کا آغاز کیا جس میں بیان کیا کہ دوست اور دشمن کی پہچان نہ کر سکتا قابلیت نہیں ہے.چونکہ پبلک بہت اکٹھی ہو گئی تھی اس لئے میں نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ دوست اس بات پر حیران ہوں گے کہ تقریر ہونے کی اور نہ ہونے کی دو منادیاں کیوں ہوئی ہیں.ہم نے تقریر ہونے کی منادی کروائی ہے یہ بیان کرنے کے لئے کہ دین حق امن کی تعلیم دیتا اور بدامنی اور بغاوت سے سختی کے ساتھ روکتا ہے.چوری بھی بغاوت ہے کیونکہ چور بھی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اخلاق سے عاری ہوتا ہے.اسی طرح ہر بد معاشی کرنے والا قانون شکن بھی ہوتا ہے اور اسلامی تعلیم کی خلاف ورزی بھی کر رہا ہوتا ہے.مگر ہمیں بہت تعجب ہوا کہ اس قسم کی تقریر کو تھانہ والوں نے روکنے کی کوشش کی اور جو چلے حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے جرات کے ساتھ قانون شکنی کرنے کی تحریک جاری کرنے کے لئے کئے گئے انہیں تھانے والوں کا نہ روکنا کچھ منے رکھتا ہے.اور یہ معنی مکہ صاحب مہاراجہ پٹیالہ کے دربار میں ہی انشاء ہوں گے.جو تقریریں حکومت کے خلاف ہوتی رہی ہیں ان کے ہم نے نوٹ لئے ہوئے ہیں.اب تھانے والے میری تقریر کے نوٹ بھی لے سکتے ہیں.ہماری تقریر کی غرض یہ ہے کہ چوری وغیرہ کی روح کو کچلا جائے تاکہ تھانے والوں کو رات دن بھاگنا نہ پڑے.تھانے والوں کا کام اس وقت نکلتا ہے جب کہیں واردات ہو جاتی ہے.یعنی ہم تو بدی کی روح کو کچلتے ہیں اور تھانے والے بدی کرنے کے بعد انہیں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں.اب اگر تھانے والوں کو بھی یہی غرض ہے کہ وارداتوں میں کمی ہو تو انہیں بھی اس تقریر سے پریشان نہیں ہونا چاہئے.مگر ایسے جلسہ کو روکنے

Page 146

130 سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے جلسے انہیں پسند نہیں جو امن کو قائم رکھنے کی تعلیم دیں.ان کے لئے بغاوت پھیلانے والے جلسے مفید ہیں.اب جب کہ یہ معاملہ عدالت میں جائے گا تو خدا جانے یہ کیا جواب دیں گے؟ بہر حال اب وہیں دیکھا جائے گا.میں تینوں ریاستوں یعنی پٹیالہ نا بھ اور جنید کا مبلغ ہوں اور ہر جگہ جلسے کراتا ہوں.وہاں گورنمنٹ کے سب افسر بھی موجود ہوتے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہیں مگر یہ نزالی چال یہاں ہی دیکھی ہے کہ تھانے کے ذمہ دار افسر نے یہ منادی کروادی کہ تقریر نہیں ہو گی.مجھے اس کا بڑا افسوس ہے.بعدہ میں نے دین حق قرآن پاک اور احمدیت کی صداقت بیان کی.اڑھائی گھنٹے کی تقریر بخیر و خوبی اختتام کو پنچی اور دعا پر جلسہ ختم ہوا.جلسہ کے بعد تھانیدار صاحب ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے ایک غلط فہمی کی بناء پر منادی کروائی تھی کہ کہیں یہ تقریر بھی امن کے خلاف نہ ہو.آپ نے جتنی باتیں بھی اپنی تقریر کے دوران بیان کی ہیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں.آپ اور وکیل صاحب صبح چائے میرے ڈیرے پر پینے کے لئے تشریف لا ئیں اور میں اپنے اس فعل پر نادم ہوں اور آپ سے معافی مانگتا ہوں.شیخ صاحب نے منظور کر لیا.صبح کے وقت ہم ان کے ڈیرے پر پہنچ گئے انہوں نے بڑی پر تکلف چائے پلائی اور دوبارہ معافی مانگ کر کہنے لگے کہ آپ اب اس معاملہ کو مزید آگے نہ چلائیں.ہم نے کہا بہت اچھا.ہم سارے معاملہ کو نہیں ختم کرتے ہیں اور آئندہ سے آپ بھی احتیاط سے کام لیا کریں.دفتر سے نظم آیا کہ آپ اپنا ہیڈ کوارٹر روپڑ ضلع انبالہ میں میرا بائیکاٹ ہیڈ کوارٹر روپڑ میں بنائیں.میں رو پڑ چلا گیا.وہاں مجھ سے قبل کوئی احمدی دوست نہ تھا.میں نے سرائے میں ایک کمرہ کرائے پر لیا اور اس میں ٹھہر گیا اور اکثر بازار میں لوگوں سے تعلقات پیدا

Page 147

131 کرنے کے لئے باہر نکل جاتا تھا.علاقہ مخالفین کا گڑھ تھا.مولوی محمد عبد اللہ صاحب فاضل امرتسری اور ان کے بھتیجے حافظ محمد اسماعیل و مولوی عبد القادر صاحب یہ سب دوست اہل حدیث تھے اور مولوی عبد الرحمان صاحب حنفی تھے.بازار میں لوگوں کو اپتہ چل گیا کہ یہ احمدی مبلغ ہے.انہوں نے چھوٹے چھوٹے بچے اکٹھے کر کے میرے پیچھے لگا دیئے جو مرزائی او مرزائی اور کئی قسم کے نعرے اور شور مچاتے رہے.میں اسی حالت میں شہر سے باہر نکل آیا اور نہر کے پل سے چار آنے کی ریوڑیاں خرید کر بچوں میں تقسیم کر دیں.وہ خوش ہو کر واپس چلے گئے.دوسرے دن جب میں شہر گیا تو ان شرارت کرنے والے لوگوں نے پھر بچے اکٹھے کرلئے اور ان سے کہنے لگے کہ جاؤ اس مرزائی کو جا کر ستاؤ.مگر ان لڑکوں نے مجھے ستانے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ ہم نہیں جاتے کیونکہ "او بڑا چنگا اے.اوہنے سانوں ریوڑیاں دیتیاں سن " (یعنی وہ بہت اچھا ہے اس نے ہمیں ریوڑیاں دی تھیں.وہ بہت شرمندہ ہوئے.پھر مولویوں نے اپنی شرارتیں شروع کر دیں اور سارے شہر میں اعلان کر دیا کہ ایک مرزائی مولوی آیا ہوا ہے اس سے بیچ کر رہنا.کوئی تنور والا اسے روٹی نہ دے.اور اگر کوئی تنور والا اسے روٹی دے تو کوئی مسلمان اس تنور والے سے روٹی نہ کھائے اور ساتھ ہی پہرے بٹھا دیئے.شہر سے کچھ فاصلہ پر مستریوں کی سرائے تھے اور ان میں سے ایک صاحب کو مجھ سے دلی ہمدردی ہو گئی تھی.وہ ہمیشہ میری بڑی عزت کرتا تھا جب اسے بائیکاٹ کا علم ہوا تو وہ مجھ سے افسوس کرنے لگا کہ دنیا بہت اندھی ہو گئی ہے.اب کوئی نیکی اور بدی میں تمیز کرنے والا رہا ہی نہیں.اس نے واپس جا کر اس بات کا اپنی بیوی سے ذکر کیا تو وہ کہنے لگی کہ میں روٹی پکا کر مولوی صاحب کے ہاں پہنچایا کروں گی.آپ مولوی صاحب سے کہہ دیں کہ وہ بازار سے روٹی کھانے نہ جائیں جب کہ میں نے پہلے ہی روٹی کے سب

Page 148

132 لئے بازار جانا بند کر دیا تھا.تھانے دار صاحب سے تبلیغی گفتگو مستری صاحب کے پڑوس میں ایک تھانیدار صاحب کا گھر تھا اور وہ رخصت پر آئے ہوئے تھے.ان کے پاس مستری صاحب نے بیان کیا کہ ہمارے ہاں ایک احمدی مبلغ آئے ہوئے ہیں بڑے نیک تجد گزار اور ہر قسم کے اعتراض کا بڑی خوشی سے مدلل جواب دیتے ہیں.تھانیدار صاحب دوپہر کے بعد سرائے میں ی تشریف لائے.اچھا علمی شغف رکھتے تھے انہوں نے عیسائیوں اور آریوں کے دین حق پر اعتراضات بیان کئے.میں نے ان کے تفصیلا" جواب دیئے.وہ سن کر بہت خوش ہوئے.پھر احمدیت کی تعلیم پوچھنے لگے.میں نے کہا وہی تعلیم جو ہمارے آقا سرور کائنات لائے تھے وہیں.اس کے علاوہ دوسرے مولوی صاحبان ہم پر جو اعتراضات کرتے ہیں ان کے جوابات دیئے.تین گھنٹے بیٹھے باتیں کرتے رہے.پھر دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے چلے گئے.دوسرے دن ایک مولوی صاحب کو ہمراہ لیکر آئے.مولوی صاحب نے آتے ہی کہہ دیا کہ میں ان کو کافر سمجھتا ہوں.اس کی اس بات پر تھانیدار صاحب اور مستری صاحب نے بہت برا منایا.میں نے کہا مولوی صاحب آپ یہ بتائیں کہ آپ نے اتنی جلدی پیچھا چھڑانے کی کوشش کیوں کی ہے؟ آپ کو چاہئے تھا کہ آپ پہلے میرے عقائد سنتے اور پھر کہتے کہ یہ عقیدہ رکھنا کفر ہے تو اس طرح مجھے بھی غور کرنے کا موقع مل جاتا اور آپ کو ثواب بھی ملتا مگر " لا تقف ما لیس لک به علم " کے خلاف آپ نے آتے ہی عمل کر لیا.کہنے لگے میں جانتا ہوں کہ آپ نے مغل کو نبی مان لیا ہے.میں نے کہا کہ آپ کے علم میں اضافہ کے لئے بتا دیتا ہوں کہ ہم لوہار ، ترکھان ، سنگ تراش ، ساربان دری بان اور مصور کو بھی نبی مان چکے ہیں.پوچھنے لگے وہ کون تھے؟ میں نے بتایا

Page 149

133 حضرت داؤد ، حضرت عیسی ، حضرت ابراہیم " ، حضرت صالح ، حضرت شیث اور حضرت سلیمان تھے.اور مولانا اگر آپ نے تو رات انجیل یا قصص الانبیاء پڑھی ہوتی تو آپ ایسا سوال ہی نہ کرتے.خیر اگر آپ کچھ فائدہ اٹھانا یا پہنچانا چاہتے ہیں تو قرآن کریم کی روشنی میں بات کریں.مگر بعدہ مولوی صاحب میرے دلائل ہی سنتے رہے میں نے دس شرائط بیعت اور الفاظ بیعت بھی سنائے.مولوی صاحب کے! علاوہ باقی اصحاب بھی اچھا اثر لیتے رہے.مستری صاحب بولے کہ تھانیدار صاحب اگر کوئی ضد سے اڑ رہے تو اور بات ہے.قرآن کریم نے تو سب مسئلے حل کئے ہوئے ہیں.تھانیدار صاحب کہنے لگے کہ مجھے جب بھی کوئی احمدی ملا ہے میں نے اسے بہت ہی شریف اور دلائل سے بات کرنے والا پایا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب اچھے لوگ احمدی ہی ہوتے جا رہے ہیں.آخر میں تھانے دار صاحب ہم سے اگلے دن کی دعوت طعام کا وعدہ لے کر چلے گئے ای سرائے میں رہتے ہوئے میرا سرائے میں سامان کی چوری اور بازیابی سارا سامان بستر اور کتابیں وغیرہ چوری ہو گئیں اور پانچویں روز ایک جنگل سے کتابیں وغیرہ ادھر ادھر بکھری ہوئی مل گئیں.میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میری کتب دوبارہ مجھے مل گئیں.دراصل چور کسی بیو پاری کا مال سمجھ کر لے گئے تھے مگر جب جنگل میں جا کر انہوں نے ٹرنکوں کے تالے وغیرہ توڑے تو ان میں کتب دیکھ کر ویسے ہی پھینک گئے.چند دنوں کے بعد میں اثر اثر پور ہیڈ کوارٹر اور روپڑ میں شاندار جلسہ میر محمد پور گیا.وہاں ہمارے ایک احمدی دوست کا گھر تھا.چوہدری رحمت اللہ صاحب اور ان کے تین بھائی اور ایک بہن اور ان کا والد گویا پانچ افراد رہتے تھے بتانے لگے کہ رو پڑ احمدیت کے لئے کوفہ

Page 150

134 ہے.ہمارے مولوی عبد الصمد صاحب پٹیالوی بڑے نڈر احمدی تھے اور تبلیغ سے عشق رکھتے تھے.وہ روپڑ میں گئے.وہاں کے لوگوں نے آپ کو پتھر وغیرہ مارنے مگر آپ بھی وہاں جانے سے باز نہ آئے.ایک دن وہاں کے شریروں نے آپ کو شہر سے باہر لا کر آپ کو گرا کر منہ میں ریت بھر دی جس سے بمشکل آپ کی جان بچی اور وہ شریر وہاں سے بھاگ گئے.اس کے بعد آپ روپڑ نہ گئے بلکہ ادھر ادھر دوسری جماعتوں میں جاتے رہے اور روپڑ کو کوفہ ہی کہتے.ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ آپ اپنا ہیڈ کوارٹر اس جگہ بنائیں اور ارد گرد کے علاقوں میں بھی دورہ جات کریں یہاں پر آپ کو روٹی وغیرہ کی بھی آسانی ہو گی.خود ہی پکا کر خود ہی کھانی ہو گی.مجھے ان کی بات بہت پسند آئی اور میں نے اپنا ہیڈ کوارٹر اثر پور ہی میں بنا لیا.وہاں سے کا ٹھگڑھ سات آٹھ میل کے فاصلہ پر تھا اور سکو دال ، چک لوہت بمبوالی اور غوث گڑھ میں کافی جماعتیں تھیں.میں نے پروگرام بنا کر وہاں کے خوب دورے کئے اور سب جماعتوں سے مل کر مشورہ کیا کہ روپڑ میں وسیع پیمانے پر جلسہ کیا جائے.میں نے وہاں کے سب انتظامات طعام و مکان خفیہ طور پر ہی طے کر لئے اور اشتہار بھی چھپوا لیا جس کا موضوع "روپڑ میں احمدیہ تبلیغی جلسہ" تھا.روپڑ کے مولوی اس پر واویلا کرنے لگے کہ ہم یہاں جلسہ نہیں ہونے دیں گے.یہ اپنی رہائش کا انتظام یہاں نہیں کر سکیں گے جب کہ خفیہ طور پر میں نے سب انتظامات کر لئے تھے.مقررہ تاریخ پر انبالہ شہر، سرہند ، خانپور بیر اور کھرڑ کا ٹھگڑھ ، بلا چور غوث گڑھ ، ممبودالی، فر، چک لوہٹ ، مکرووال اور اثر پور کے احمدی احباب غیر احمدی دوستوں کو بھی ساتھ لے کر وہاں پہنچ گئے.ہم سب مل کر شہر سے جلوس کی صورت میں نکل کر شہر کے پل پر پہنچے.وہاں سب نے وضو کیا اور واپس آکر جلسہ گلہ میں نماز ادا کی.مرکز سے مولوی عبد الغفور صاحب اور مولوی محمد یار صاحب تشریف

Page 151

135 لائے ہوئے تھے جلسہ گاہ میں حافظ عبد القادر وغیرہ اگر شور مچانے لگے کہ جلسہ نہ ہو.بہت بھاری مجمع اکٹھا ہو چکا تھا.احمدیوں اور غیر احمدیوں کے علاوہ ہندو سکھ اور عیسائی بھی بکثرت موجود تھے ڈپٹی انسپکٹر صاحب نے شور کرنے والے مولویوں کو شور کرنے سے روک دیا اور کہا اگر آپ جلسہ سن سکتے ہیں تو ٹھہریں ورنہ یہاں سے چلے جائیں.پولیس کا بڑا زبردست انتظام تھا.تانگوں پر کچھ سپاہی بکثرت ہتھکڑیاں لے کر وہاں پہنچ گئے.غرضیکہ ڈیڑھ دن کا یہ جلسہ بڑے پر امن طریق پر جاری رہا ہم تینوں باری باری تقریریں کرتے رہے.اس جلسہ کا لوگوں پر بڑا اچھا اثر ہوا اور بہت سے لوگ جن سے پہلے میں واقف نہ تھا واقف بن گئے.بہار سے آنے والے غیر احمدی احباب اپنی اپنی بیت میں جا کر نماز ادا کر آتے تھے.انہیں ان کے کسی مولوی نے کھانا تو درکنار ، پانی تک نہ پوچھا اور ہم صبح و شام اعلان کرتے تھے کہ جلسہ میں شامل ہونے والا کوئی دوست بھوکا نہ رہے.یہ لنگر حضرت مسیح موعود کی طرف سے سب کے لئے جاری ہے سب غیر احمدی احباب بھی آکر کھانا کھاتے رہے اور اپنے مولویوں کو برا بھلا کہتے رہے کہ ہم ان کی اتنی خدمت کرتے ہیں مگر جب ہم ان کے پاس آئے ہیں تو انہوں نے پانی تک نہیں پوچھا.تیسرے دن سب احباب واپس تشریف لے گئے مگر مولویوں میں آگ بھر گئی.وہ "موتوا بغيظكم" کے مصداق ہو گئے.ہمارے جلسہ کا ارد گرد کے دیہات میں خوب چرچا ہو گیا اور ہمارے لئے تبلیغ کا رستہ کھل گیا.روپڑ میں مجھے رہتے ہوئے ابھی تھوڑے ہی دن وپڑ میں ایک مناظرہ گزرے تھے کہ وہاں کے مولویوں نے مجھے مناظرہ کرنے کا چیلنج دیا.میں نے منظور کر لیا.دفتر کی اجازت سے تاریخ کا تعین کر لیا.مناظرہ میں شامل ہونے والوں نے کھانے کا انتظام خود ہی کر لیا.اہل حدیثوں کی :

Page 152

136 طرف سے نور حسین صاحب گرجا گھی اور احمد دین صاحب گھڑی آگئے.ہماری طرف سے خادم صاحب گجراتی اور ایک مولوی صاحب اور تھے ( غالباً غلام احمد صاحب بدو ملی تھے یا کوئی اور یاد نہیں رہا) غرضیکہ بہت زور شور سے مناظرہ ہوا لیکن لوگوں نے بہت کم فائدہ اٹھایا.تھوڑے ہی عرصہ کے بعد چوہدری محمد عبد اللہ خان صاحب برادر چوہدری ظفر اللہ خانصاحب میونسپل کمشنر بن کر رو پر میں آگئے.چنانچہ جن لوگوں نے مناظرہ سے فائدہ اٹھایا ہوا تھا ان میں جرات پیدا ہو گئی.سید سردار علی شاہ صاحب ایڈووکیٹ و دیگر پندرہ سولہ احباب احمدیت میں داخل ہو گئے.ایک دن ایک صاحب ہمارے ہاں آئے اور کہنے لگے کہ ہم اس وقت اس شخص کو مہدی مانیں گے جس کا نام محمد ہو گا قریشی خاندان سے ہو اور اس کے باپ کا نام عبداللہ ہو اور ماں کا نام آمنہ ہو تو تب ہم مانیں گے تو چوہدری محمد عبداللہ صاحب کہنے لگے کہ بہت اچھا تھوڑا سا اور صبر کر لو میرا بیٹا جوان ہو جائے تو آپ لوگوں کے لئے وہ دعوی کر لے کیونکہ اس کا نام محمد ہے باپ کا نام عبد اللہ اور ماں کا نام بھی آمنہ ہے.آپ فکر مند نہ ہوں یہ سن کر وہ بہت شرمندہ ہوئے.کافی عرصہ تک میں نے اس علاقہ میں کام کیا.ہر گاؤں میں تقاریر کرتا رہا.خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی تعداد میں لوگ احمدیت میں بھی داخل ہوئے.مجھے قادیان سے حکم ملا کہ میں واپس مرکز پہنچ جاؤں.وادی کشمیر کی طرف میں اس علاقہ میں دو سال تبلیغی کام کر کے ۱۹۳۳ء میں واپس قادیان پہنچ گیا.دفتر سے سید ولی اللہ شاہ صاحب نے یہ حکم دیا کہ آپ مع اپنی اہلیہ ثانی پونچھ چلے جائیں اور تبلیغ کریں.آخر جولائی ۱۹۳۳ء کو پونچھ کی طرف روانہ ہوا.جہلم میں ہی بارش ہو گئی تھی.بڑی مشکل سے دریا عبور کیا کسٹم گھٹافیاں پر ہمیں یہ کہتے ہوئے روک لیا کہ کسی پنجابی مولوی کو ریاست میں داخل

Page 153

137 ہونے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ دو سال قبل ریاست میں بڑی بغاوت ہو گئی تھی جس کے مقدمات ابھی تک چل رہے ہیں.میں نے کہا کہ میں مولوی نہیں ہوں میں تو مبلغ ہوں.کسٹم افسر کہنے لگا کہ مبلغ کے کہتے ہیں میں نے کہا جو امن کی تعلیم دے اور بغاوت سے روکے.لوگوں کو نیک بننے کی تحریک کرے اور حکومت کی قوانین کی پابندی کروائے.بعدہ کہنے لگے کہ آپ یہاں تھوڑی دیر انتظار کریں.ہم جموں تار دے رہے ہیں.جواب آنے پر آپ کو بھی مطلع کر دیا جائے گا.میں نے کیا بہت اچھا ساتھ میری اہلیہ بھی ہے.اس لئے ہمارے لئے کسی پردہ دار مکان اور کھانے کا انتظام آپ کر دیں کیونکہ نامعلوم جواب کب آئے.افسر کہنے لگا کہ ہمارے پاس ایسا کوئی فنڈ نہیں ہے.میں نے کہا جناب آپ بھی شہری ہیں اور شریف آدمی ہیں ذرا سوچیں کہ ہم بھی شہری ہیں.ہمیں نہ تو آپ آگے کی طرف ہی جانے دیتے ہیں اور نہ پیچھے واپس ہی جانے دیتے ہیں.اگر تو آپ ہمیں اپنی حراست میں رکھنا چاہتے ہیں تو پھر یہ سامان کرنا تو آپ کے لئے ضروری ہو جاتا ہے وہ اندر گیا اور اپنے ساتھی سے مشورہ کر کے واپس آکر کہنے لگا کہ میرے ساتھ آپ کو میر پور تھانہ کی معرفت واپس کیا جائے گا.میں نے کہا چلو.وہ تانگہ لے آئے اور اسب اس پر سوار ہو کر چل پڑے.میں نے راستہ میں افسر صاحب سے کہا کہ تانگے کا کرایہ آپ دیں گے.کہنے لگا یہ آپ کو دینا پڑے گا.یہ کہہ کر وہ اتر گیا کہ اچھا آپ چلیں میں کسی دوسرے مانگہ پر آجاؤں گا.میں نے تانگے والے سے کہا کہ میں مبلغ ہوں اور یہ کٹم والے شرارت کرتے ہیں.تم فوراً جتنی جلدی ممکن ہو نہیں میرپور پہنچاؤ.سالم کرائے کے ساتھ آٹھ آنے انعام کا وعدہ بھی کر لیا.وہاں ہمارے فلاں پنجابی وکیل ہیں ان کے مکان پر ہمیں چھوڑ آؤ.انعام سن کر اس نے کسی دوسرے تانگے والے کو آگے نہ بڑھنے دیا.وہاں مرکز کی طرف سے احمدی

Page 154

138 متعین تھے.انہیں میں نے سب ماجرا کہہ سنایا.کہنے لگے کہ آپ مشکل مرحلہ تو طے کر آئے ہیں اب وہ آپ کو واپس نہیں لے جاسکتے.اگلے دن دو گھوڑے دشوار گزار راستے..قدم قدم پر نصرت ایزدی کرایہ پر لے کر وہاں سے چل پڑے.ایک گھوڑے پر سامان رکھا اور دوسرے گھوڑے پر گھر والوں کو بٹھایا اور خود ساتھ پیدل چل پڑا نہیں میل کا پیدل سفر کیا.راستہ میں بارش ہو جانے کی وجہ سے بہت تکلیف اٹھانا پڑی.رات راجدھانی گاؤں میں بسر کی اور صبح بہت چوڑا نالہ ہمیں عبور کرنا تھا.اسے عبور کرتے وقت کنارہ کے مکینوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ اوپر کی سمت سے بہت زیادہ پانی آ رہا ہے یہ پرویسی مسافر اس میں بہہ جائیں گے.ہم نے گھوڑوں کی رفتار کو تیز کرنا چاہا تو سلمان والا گھوڑا پانی میں بیٹھ گیا.اوپر سے بڑی تیزی کے ساتھ بہت بھاری پانی کا ریلا آرہا تھا.میں نے فوراً گھوڑے کو کھڑا کیا اور ابھی کنارہ پر پاؤں رکھا ہی تھا کہ پانی کا ریلا بڑے بھاری پتھروں کو بہاتے ہوئے لے کر پہنچ گیا.اگر ہمیں نصف منٹ کی بھی تاخیر ہو جاتی تو ہم بیچ نہیں سکتے تھے مگر جسے خدا تعالی بچانا چاہے بھلا اسے کون مار سکتا ہے.ہمارے کپڑے اور سلمان وغیرہ سب پانی سے تر ہو گیا.ہم نے قریبی دوکان کے خالی حصے میں جا کر کپڑے وغیرہ تبدیل کئے اور اسی گاؤں میں رات گزاری.اگلے دن پھر ناشتہ کر کے دوبارہ چل پڑے.ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی.کبھی کبھی دھوپ بھی نکل آتی تھی.کوٹلی سے چند میل کے فاصلہ پر ایک "کس" ہے جسے بان کہتے ہیں وہ دریا کے قریب سے ہی عبور کرنا پڑتا تھا.اس میں بھی بہت پانی آیا ہوا تھا اور مسافروں کو پار کرانے کے لئے مزدور لگے ہوئے تھے.میں نے ان سے کہا کہ زنانہ سواری کو گھوڑی پر بیٹھے بیٹھے ہی پار کراتا ہے.چار مزدور ارد گرد حفاظت کے لئے ساتھ گئے

Page 155

139 اور کنارہ پر چھوڑ آئے.پھر سامان والے گھوڑے کو بھی پار کر آئے.بعد میں نے بھی اسے عبور کیا.شام کے وقت ہم کو ٹلی میں منشی میر عالم صاحب احمدی کے مکان پر پہنچے.کوٹلی میں دو دن قیام کرنے کے بعد پھر دو گھوڑے پونچھ جانے کے لئے کرایہ پر لئے اور روانہ ہو گئے.آسمان ابر آلود تھا.بڑی مشکل سے شام کے وقت بارش میں دھناہ" پہنچے.نور محمد صاحب احمدی کے مکان پر گئے تو معلوم ہوا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں اور ان کی بیوی کہنے لگی کہ گھر میں رہنے کے لئے جگہ نہیں ہے.پھر فتح محمد خاں صاحب احمدی کے مکان پر پہنچے تو گھر میں ایک ہی جگہ پر چوپائے اور گھر والے رہ رہے تھے ہم بھی ایک چارپائی پر بیٹھ گئے.مکرم امیر عالم صاحب کے چھوٹے بھائی ہمارے ہمراہ تھے.انہوں نے وہاں کھانے کا انتظام کیا اور رات گزاری.اگلے دن پھر بارش میں ہی چل پڑے.فتح محمد صاحب نے بہت روکا کہ بارش زیادہ ہے آپ نہ جائیں.میں نے کہا کہ جس کی بارش ہے اس کے ہم ہیں.ہمیں اب اجازت ہی دیں.ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ بارش تھم گئی اور دھوپ نکل آئی.ہم مینڈری دریا پر پہنچے تو خدا تعالٰی نے چند آدمی ہماری مدد کے لئے دے دیئے جن کی مدد سے ہم نے دریا پار کیا.جب ہم مدار پور کے پل سے تیتری فورٹ کے راستے پونچھ کے قریب پہنچے تو بتاڑ نالہ جو پونچھ شہر سے بالکل قریب ہے میں کافی پانی تھا جس کی وجہ سے مسافر رکے ہوئے تھے اور ہمارے جانے سے پہلے چار خچر اور ایک آدمی پانی کی رو میں بہہ چکے تھے.اس لئے ڈر کے مارے کوئی مسافر بھی آگے نہ بڑھتا تھا.قریب ہی ایک گاؤں تھا جس میں رات گزارنے کے یارے میں ہم سب ابھی مشورہ ہی کر رہے تھے کہ شہر کی طرف سے ہاتھی آیا جس کے مہاوت نے بلند آواز دی کہ مولوی صاحب کہاں ہیں.میں انہیں لینے آیا ہوں.ہم نے سلمان اور گھوڑے وہیں روک دیئے اور میں خود میری اہلیہ اور دین

Page 156

140 محمد صاحب تینوں اس پر سوار ہو کر پار چلے گئے.وہاں جا کر معلوم ہوا کہ پونچھ شہر میں شیعوں کا جلسہ ہے اور ان کا مولوی لاہور سے آنے والا تھا انہیں سبز رنگ کا صافہ دیکھ کر یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ ہمارا ہی مولوی ہے.انہوں نے کوشش کر کے راجہ سے ہاتھی منگوایا تھا جو ہمارے کام آیا.رات کو منشی دانشمند صاحب کے مکان پر ٹھہرے اور دوسرے دن ہم ہاتھی لے کر گئے اور اپنا سامان وغیرہ بھی لے کر آگئے اور گھوڑے واپس کر دیئے.الحمد للہ کہ خدا تعالٰی نے اپنی نصرت کے ساتھ بخیریت پونچھ پہنچا دیا.چونکہ ہم رات کے وقت پونچھ شہر میں ایک شیعہ عورت کی زیادتی پونچھ پہنچے تھے اس لئے اگلے دن فجر کی نماز پر احباب جماعت سے ملاقات ہوئی اور انہیں اپنی آمد کی غرض و غایت سے آگاہ کیا تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی سعی فرمائیں اور میری اہلیہ سے بچوں کو قرآن کریم ، نماز اور اردو کی تعلیم دلوائیں اور بڑی مستورات اپنی نماز بست کروا ئیں.وہاں شیعوں کے محلہ میں ایک مکان کرائے پر لیا اور وہیں رہنا شروع کر دیا.وہاں گھر کے اخراجات خود ہی برداشت کرتا تھا اس لئے گھر سے تسلی تھی.میں نے ارادہ کیا کہ اب قریب کے دیہات کا دورہ کر کے حالات معلوم کرنے چاہئیں.دورہ پر جانے سے پہلے گھر میں ضروری اشیاء اکٹھی خرید کر رکھیں اور گٹھے ایندھن کے گھر کے صحن میں رکھوا دیئے.دورہ پر سب سے پہلے منگتاڑ کی طرف گیا.راستہ میں دریا عبور کرتے وقت کافی مشکل پیش آئی اور بمشکل کنارہ پر پہنچا.رات اسی گاؤں میں رہا.وہاں دو تین آدمیوں سے ملاقات ہوئی.دوسرے دن میں کنویاں پہنچا وہاں بھی ایک رات رہا.بعض دوستوں سے تبادلہ خیالات بھی ہوا.تیسرے دن واپس گھر لوٹ آیا دریا میں خوب پانی بھرا ہوا تھا.ہاتھی کے ذریعے دریا

Page 157

141 پار کیا.جب گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گھر خالی پڑا ہے.بڑا تعجب ہوا.بابو عبد الکریم صاحب تار بابو ملے.انہوں نے بتایا کہ آپ کی اہلیہ کو سامان سمیت میں اپنے گھر لے آیا تھا کیونکہ جس دن آپ دورہ پر گئے تھے اسی دن آپ کے گھر والے (اہلیہ) جب منشی دانشمند صاحب کے گھر والوں کو سبق پڑھانے گئے تو فلاں شیعہ عورت جو مشتبہ اور سخت لڑاکا ہے صحن سے سارا ایندھن اٹھا کر اپنے گھر لے گئی.شکر ہے کہ تالہ توڑ کر کہیں سامان اور کتابیں نہیں لے گئی اس لئے بہن صاحبہ کو سامان سمیت میں اپنے مکان میں لے آیا تھا میں ایسی ڈاکو عورت پر بڑا حیران ہوا.پھر ایک ماہ اس مکان میں رہنے کے بعد کچھ عرصہ بھائی غلام حسین صاحب کے مکان میں رہے.انہی ایام میں موضع کرماڑہ سے احمد شیر خاں کی بیوی کا قبول احمدیت ہمارے ایک احمدی بھائی احمد شیر خاں صاحب بوقت عصر تشریف لائے.ساتھ ایک گھوڑا زائد بھی لائے اور کہنے لگے کہ آپ میاں بیوی دونوں کو میں لینے آیا ہوں کیونکہ میرے گھر کے ارد گرد سب لوگ بڑی مخالفت کرتے ہیں.آپ انہیں سمجھا ئیں بجھائیں اور آپ کی اہلیہ میری بیوی کو سمجھائے کیونکہ وہ بھی احمدیت کی بڑی مخالفت کرتی ہے.میں نے کہا کہ اس وقت تو ہنڈیا چولہے پر پک رہی ہے اور اب ہم آٹا گوندھنے لگے ہیں.تھوڑی دیر ٹھر جائیے.کہنے لگے نہیں ابھی چلنا ہو گا اور میں آپ کو لے کر جاؤنگا.میں نے کہا تو پھر آپ تشریف رکھیں کھانا کھا کر ہم تینوں ہی چل پڑے.وہاں سے اس کا گاؤں تین میل کے فاصلہ پر تھا.مغرب کے معا بعد ہم وہاں پہنچے.گاؤں کی عورتیں پنجابی برقع پوش کو دیکھنے کے لئے اکٹھی ہو گئیں.کھانا اور نماز وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد تبلیغی کام شروع کر دیا.رات گئے تک کام جاری رہا.فجر کی نماز کے بعد تین آدمیوں اور دو عورتوں نے بیعت فارم پر کر دیے.مکرم احمد شیر خانصاحب

Page 158

142 اپنی بیوی کے بیعت کر لینے پر بہت ہی خوش ہوئے اور اس سے کہنے لگے کہ تم نے میرے کہنے پر تو بیعت نہ کی اور اب کرلی ہے وہ کہنے لگی تم نے کب اس طرح سمجھایا.تیسرے دن وہ ہمیں خود گھر چھوڑ آیا.پہاڑی دیہات کا تحفہ واپس پونچھ پہنچ جانے کے بعد اب میں نے ارادہ کیا کہ شیندره" وغیرہ کا دورہ کروں.وہاں مولوی کرم دین صاحب بھی خوش قسمتی سے میرے پاس آگئے.میں ان کے ہمراہ ہی چل پڑا.سفر ایسا خطرناک تھا کہ ہر وقت موت ہی سامنے نظر آتی تھی.بالآخر بخیریت وہاں پہنچے.وہاں چند احمدی احباب تھے.ان سے ملاقات ہوئی.اس سے قبل مستورات کی کوئی بیعت نہ تھی.ان کے لئے بیعت فارم وغیرہ پر کئے.وہاں چند ایک ہی احباب کچھ سمجھ دار تھے.مولوی کرم دین صاحب ، میاں بہادر صاحب، میاں ہاشم صاحب اور میاں ناصر صاحب میں کچھ روحانی بیداری پیدا کی.بعض دوسرے لوگ بھی احمدیت میں داخل ہوئے.تین دن یہاں قیام کیا.پھر پٹھاناں تیر " جا کر کچھ تبلیغی کام کیا.بعده "سلواہ گیا.وہاں مولوی عبدالحئی صاحب جو کسی وقت حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے پاس قادیان پڑھا کرتے تھے کو پہچان کر ان سے ملا.وہ بہت خوش ہوئے.بہت اچھے عالم اور حکیم، دوکاندار ، زمیندار اور مالدار تھے اور اس کے ساتھ ساتھ بہت نیک بھی تھے.علاقہ میں ان کا بہت اچھا اثر تھا.میرے جانے پر انہوں نے وہاں جلسہ بھی کروایا اور تبلیغ بھی خوب زور و شور سے کروائی.پچیس یوم کے دورہ میں مندرجہ ذیل جماعتیں زیر تبلیغ آئیں.شیندرہ ، پٹھاناں تیر، سلواہ گر ساہی دھوڑیاں، لوہار کہ چار کوٹ کوٹلی کالا بن، دہری ریوٹ ، ڈھرانہ سیداہ، ٹائیں منکوٹ اس مصروف پچیس روزہ دورے میں صرف پانچ راتیں سونے کا موقع ملا کیونکہ پہاڑی بھائیوں کے گھروں میں پسو کھٹمل بکثرت ہوتے ہیں ان کے علاوہ ایک

Page 159

143 اور کیڑا ہوتا ہے جسے وہ انڈو کہتے ہیں.وہ چھہ ماشہ کے قریب خون چوس لیتا ہے اور ذرا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کب چمٹا ہے.جب اس کا پیٹ خوب بھر جاتا ہے تو پھر وہ خود بخود گر جاتا ہے.بعد میں کاٹنے والی جگہ پر خوب کھجلی ہوتی ہے.زخم بھی کافی دنوں تک قائم رہتا ہے.یہ بلائیں رات بھر سونے نہیں دیتیں.خاص طور پر اجبنی کو تو ساری رات کھجلاتے ہی گزر جاتی ہے.رات دن جاگنے کی وجہ سے بیمار ہو کر واپس پونچھ پہنچ گیا.واپس پہنچ کر حضرت صاحب کی خدمت میں اس تکلیف کو بیان کیا اور ساتھ ہی چھٹی کی درخواست کر دی.حضور نے جواباً تحریر فرمایا کہ آپ سات روپیہ ماہوار تک ایک آدمی اپنے ساتھ رکھ لیں جو راستہ میں آپ کا سامان اٹھا سکے اور کھانا پکانے کا کام دے سکے.سردست تین ماہ کے لئے میری طرف سے رکھ لیں.میں نے ایک نوجوان دوست محمد خان ابن حسین خان نمبردار کو اپنے ساتھ رکھ i لیا اور دوبارہ دورہ پر روانہ ہو گیا.دورہ کے دوران جب میں "ٹائیں" پہنچا تو معلوم ہوا کہ مولوی لال حسین اختر عبدالرحمن صاحب احمدی کو غیر احمدیوں نے اپنے جلسہ میں منکوٹ بلوایا ہوا ہے تاکہ ان کی باتوں کا جواب دیں.مولوی صاحب موصوف بہت کم گو آدمی تھے.وہ بے چارے ان کی باتوں کا جواب نہ دے سکے اور یہ کہہ کر واپس آگئے کہ آپ ہمیں مناظرہ کا تحریری چیلنج دیں.ہم پونچھ میں اپنے مبلغ سے مشورہ کرکے تاریخ کا تعین کریں گے اور آپ کو بھی اطلاع دے دیں گے.مگران لوگوں نے آپ کو پکڑ لیا کہ ابھی ہمارے سوالوں کا جواب دے کر جاؤ یا پھر مسلمان ہو جاؤ اور وہیں انہیں مجبور کر کے مناظرہ کی شرائط اپنی مرضی سے منوا کر دستخط کروا لئے.وہ میرے پاس ”ٹائیں" پہنچے اور مناظرہ کی شرائط دکھانے لگے جو بالکل فضول تھیں اور اس کے نیچے لال حسین اختر کے دستخط تھے.میں اسی وقت انہیں ہمراہ

Page 160

144 لے کر ان کے جلسہ میں پہنچا.محمد افضل نمبردار ان کے جلسے کا صدر تھا اور لال حسین اکثر احمدیت کے خلاف خوب زہر اگل رہا تھا مگر سامعین سب مجھے دیکھ رہے تھے کہ دیکھتے ہیں اب کیا ہوتا ہے.میں نے صدر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ مناظرہ کی شرائط کس نے لکھی ہیں.لال حسین بولا کہ میں نے اور مولوی ་ عبدالرحمن صاحب نے طے کی ہیں.میں نے کہا یہ صحیح نہیں ہیں آپ تو مناظر تھے.مگر مقابلہ پر مناظر نہیں تھا اس لئے آؤ میرے ساتھ شرائط طے کرو.کہنے لگا جو شرائط طے ہو چکی ہیں وہی رہیں گی.میں نے کہا چاہے اصول کے خلاف ہوں تب بھی وہی رہیں گی؟ اس نے جھٹ کہہ دیا کہ یہ اصول کے خلاف نہیں ہیں.میں نے کہا آپ نے اپنے آپ کو تردید مرزائیت کا مدعی لکھا ہے.حالانکہ دعوئی پہلے ہوتا ہے اور تردید بعد میں ہوتی ہے مگر آپ کا اصول بھی نرالا ہی دیکھا ہے.صدر صاحب کہنے لگے کہ دعوی کرنے والا ہی مدعی ہوتا ہے.میں نے کہا مرزا صاحب نے دعوی پیش کیا ہے.ہم ان کا دعوئی پیش کریں گے.پھر آپ اسکی تردید کریں اور دونوں طرف سے قرآن کریم ہی پیش ہو گا.سب کہنے لگے کہ بالکل ٹھیک ہے.وہ لوگوں پر برس پڑا کہ تم لوگ جاہل ہو.میں نے کہا منشی لال حسین صاحب اس معاملہ میں جاہل نہیں ہیں.یہ عدالت میں دعوے کر کے مدعی بھی بنتے ہیں اور کبھی مدعا علیہ بھی بنتے ہیں.جب آپ جیل میں گئے تھے تو کیا سرکار مدعی نہ تھی اور آپ ملزم نہ تھے ؟ اور آپ سرکار کے دعوے کو خلاف قانون ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے.غصہ میں آکر کہنے لگا کہ میں کب جیل گیا تھا.میں نے فوراً ترک مرزائیت اس کی کتاب نکال کر لوگوں کے سامنے رکھ دی اور کہا کہ جناب نے خود اس میں درج کیا ہے کہ گورنمنٹ نے مجھے جیل بھیج دیا.تو کیا صاحب آپ اقبالی مجرم ہو گئے ہیں یا ابھی کچھ فرق ہے.اگر میں آپ کی ساری ہسٹری لوگوں کے

Page 161

145 سامنے رکھ دوں تو آپ انہیں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے مگر ہم شرافت سے ہی بات کرنا پسند کرتے ہیں.آپ میرے ساتھ شرائط مناظرہ طے کر لیں تو پھر ہم دونوں فریق تھانہ میں رپورٹ کر دیں گے وہاں سے پولیس آجائے گی اور مناظرہ امن سے ہو جائے گا اور لوگ بھی سکون سے دلائل سن لیں گے.کہنے لگا تمہارے مرزا صاحب بھی حکومت کے بل بوتے پر زندہ رہے اور تم بھی حکومت کی طرف ہی بھاگتے ہو.ہمیں اس معاملہ میں حکومت کی کوئی ضرورت نہیں.اگر مناظرہ کرنا ہے تو کرو مگر تم میں یہ طاقت کہاں کہ لال حسین کے مقابل کھڑے ہو سکو.میں نے کہا کہ لال حسین صاحب آپ خوب جانتے ہیں کہ مرزائیوں کے دلائل کتنے ٹھوس ہوتے ہیں کہ نہ تو کوئی آریہ نہ عیسائی اور نہ لال حسین جیسا کوئی ہمارے مقابلہ پر آج تک ٹھہرا ہے اور نہ خدا کے فضل سے ٹھرے گا.مرزا صاحب اس وقت اکیلے تھے جب سے یہ لوگ مقابلہ کرتے آئے ہیں مگر مرزا صاحب نے ان کے سینکڑوں، ہزاروں بلکہ لاکھوں آدمیوں کو اپنے حلقہ اثر میں لے لیا مگر ان لوگوں نے بھی قسم کھائی ہوئی ہے کہ ہم نے بھی یہ رٹ نہیں چھوڑنی کہ یہ جھوٹا ہے.یہ جھوٹا ہے مگر لال حسین کے پڑوس میں رہنے والے مرزا صاحب کو صادق اور لال حسین کو کاذب جانتے ہیں.اس کے علاوہ لال حسین کے خالو خالہ اور خالہ زاد بھائی جو مولوی فاضل ہیں اور لال حسین ڈل ٹیل ہے.وہ سب کے سب مرزا صاحب کو صادق اور اال حسین کو کاذب سمجھتے ہیں.اور میرے ساتھ لال حسین اس بات پر ایک گھنٹہ تک مناظرہ کرے کہ یہ پہلے کاذب تھے یا اب کاذب ہیں.اگر میں ان کی خود نوشت تحریر سے یہ ثابت نہ کر دوں کہ یہ کاذب ہیں تو پچاس روپیہ ہرجانہ دونگا.کیا لال حسین اس بات پر تیار ہیں؟ اس وقت سردار محمد افضل صاحب نمبر دار بولے کہ احمدی مولوی صاحب تو یہ چاہتے ہیں کہ مناظرہ حکومت کی موجودگی

Page 162

146 میں پرامن طریق پر ہو مگر لال حسین صاحب حکومت کی پرواہ نہیں کر رہے.میرے نزدیک یہ مناظرہ حکومت کی شمولیت کے بغیر نہیں ہونا چاہئے.کیونکہ اس مجلس میں زیادہ تر زمیندار شریک ہو رہے ہیں اس لئے مناظرہ اب نہیں ہوتا چاہیے.لال حسین صاحب اپنی تقریر ختم کریں اور اپنی راہ لیں.لہذا جلسہ برخاست ہو گیا اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے.اس طرح لال حسین صاحب کو وصولی کچھ بھی نہ ہوئی.گناہ کیا مگر بے لذت.اس لئے وہ ادھر ہی کسی نزدیکی گاؤں میں چلے گئے اور میں واپس پونچھ میں چلا گیا.دو دن کے بعد ہی منشی عبد الکریم صاحب آف سلواہ کو لال حسین نے شرائط مناظرہ طے کر کے پھنسا لیا.وہ میرے پاس پونچھ پہنچے کہ لال حسین مرتد نے دھر مسال مینڈر میں بڑا شور مچا رکھا ہے کہ کوئی مرزائی میرا نام سن کر اس حلقہ میں نہیں رہتا اور بھاگ جاتا ہے.غرضیکہ ہم نے اسی وقت کتابوں کے ٹرنک گھوڑے پر رکھے اور ہم چھ احمدی مع دو لاہوری احمدیوں کے پیدل چل پڑے.رات اندھیرے میں ہم دھر مسال پہنچے.وہاں کھانے کا انتظام پہلے سے تھا.کھانا کھا کر ہم سو گئے.ان دنوں وہاں عجب سنگھ صاحب تھانیدار لگے ہوئے تھے.وہ فجر کی نماز کے بعد مجھے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیں.میں نے کہا ہمیں دو میز دو کرسیاں اور کچھ دریاں چاہیں.کہنے لگے کہ وقت آنے پر مل جائیں گی.وقت مقررہ پر ہم میدان مناظرہ میں پہنچ گئے.وہاں کرسیاں میز اور دریوں وغیرہ کا انتظام تھا اور بکثرت لوگ آئے ہوئے تھے.سونا گلی کوئی بھابڑہ ٹائیں ڈھرانہ سلواہ، پٹھاناں تیر ، شیندرہ اور گر ساہی وغیرہ سے احمدی احباب بھی کافی تعداد میں آئے ہوئے تھے.وہاں ایک ہندو ڈاکٹر گوری شنکر تھے جو قادیان کے ڈپٹی سری ناتھ کے رشتہ دار تھے.انہیں شرائط مناظرہ طے کرتے وقت منصف مقرر کر لیا.میں نے لال حسین سے کہا کہ شرائط

Page 163

147 مناظرہ لکھاؤ.وہ لکھاتے گئے.کتب حضرت مسیح موعود کے ساتھ میں نے کہا کہ كتب سلف صالحین بھی رکھ لیں.اس نے اس بات سے انکار کر دیا جس پر بحث شروع ہو گئی.وہ کہنے لگا کہ مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس لئے استدلال صرف قرآن و احادیث اور کتب مرزا صاحب سے ہو گا.میں نے جواب دیا کہ مرزا صاحب کا کلام صرف احمدیوں پر حجت ہے اور قرآن کریم و حدیث فریقین پر حجت ہے اس لئے صرف قرآن کریم اور حدیث سے ہی فیصلہ ہونا چاہئے.کہنے لگا مرزا صاحب کی کتب پر ہی بحث ہوگی اور کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں میں نے کہا اگر قرآن و حدیث آپ کی مدد نہیں کرتے تو پھر مرزا صاحب کی کتب ہی رکھ لو.ہمیں منظور ہے مگر آپ یہ لکھ دیں کہ میرے لئے بھی مرزا صاحب کی کتب حجت ں.اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا غرضیکہ دونوں دفعہ صدر صاحب کا فیصلہ میرے حق میں ہوا.پھر لال حسین نے کہا کہ مرزا صاحب نبی تھے تو انکا فیصلہ قرآن پاک، حدیث اور کتب مرزا صاحب سے ہونے سے آپ گھبراتے کیوں ہیں.میں نے کہا کہ میں خدا کے فضل سے گھبرانے والا نہیں ہوں مگر آپ کو تفصیلات بتا دیتا ہوں کہ مرزا صاحب کا دعوی امتی نبی ہونے کا ہے اس لئے امت کے بزرگوں کی کتب بھی پیش ہوں گی اور نبیوں کی کتب بھی پیش ہوں گی.آپ اولیاء اللہ کی کتب سے نفرت کیوں کرتے ہیں.اس طرح کرنے سے میدان وسیع ہو جائے گا آپ جس طرح چاہیں بیان کریں اور تردید کریں.میں بھی سب کتابوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صداقت بیان کروں گا.صدر ڈاکٹر گوری شنکر صاحب نے آخری فیصلہ یہ دیا که قادیانی مولوی صاحب سچ کہتے ہیں کہ بزرگوں کی جو بھی کتاب دونوں فریق چاہیں پیش کر سکتے ہیں.اس میں روک نہیں ہونی چاہئے.جیسا کہ قادیانی مولوی صاحب نے کہا ہے کہ مرزا صاحب کا دعوئی براہ راست نبی یا شرعی نبی ہونے کا نہیں بلکہ

Page 164

148 امتی نبی ہونے کا ہے اس لئے امت کے بزرگوں کی کتب بھی پیش ہونی چاہیئں اور نبیوں کی بھی.بہر حال اب یہ بحث ختم کرد.اتنے میں لال حسین نے اس شخص کو بلایا جس نے امن رکھنے کا ذمہ لیا ہوا تھا.اس کو کان میں کچھ سمجھایا اور وہ کہنے لگا کہ مجمع بہت بڑا ہو گیا ہے اس لئے اب میں اپنی ذمہ داری چھوڑتا ہوں.میں نے کھڑے ہو کر اعلان کر دیا کہ پلک مناظرہ سننے کو آئی ہے لڑائی کرنے کو نہیں آئی اور چونکہ یہ مناظرہ تحصیل میں ہو رہا ہے اس لئے لڑائی کا کوئی امکان نہیں.میں احمدیوں کی طرف سے امن کی ذمہ داری لیتا ہوں اور لال حسین کو غیر احمدیوں کی طرف سے لینی چاہئے.اس طرح یہ مناظرہ سکون سے ہو سکتا ہے.دوست اپنا قیمتی وقت ضائع کر کے اکٹھے ہوئے ہیں.ہم ضرور انہیں اپنے اپنے دلائل سنا دینا چاہتے ہیں.لیکن لوگوں نے شرائط طے کرتے وقت ہی کافی بحث سن لی تھی اور پھر لال حسین نے امن کا ذمہ بھی نہ لیا جس پر تھانیدار صاحب نے کہہ دیا کہ سب لوگ چلے جائیں.کوئی بحث مزید نہیں ہوگی.لال حسین کہنے لگا کہ پہلے قادیانیوں کو نکالو ہم بعد میں جائیں گے.میں نے کہا جو پہلے آئے تھے وہی پہلے جائیں گے اور بعد میں آنے والے بعد میں جائیں گے اور ساتھ ہی احمدیوں کو بیٹھے رہنے کی تلقین بھی کر دی.لال حسین کو تھانے والوں نے وہاں سے نکال کر ایک میل دور چھوڑ دیا ہم آپس میں باتیں کرتے رہے.اسی اثناء میں ہندو پوچھنے لگے کہ ان کے وقتوں میں انہیں فتوے دیتا رہا ہے اور اب مرزا صاحب پر خود ساختہ اعتراض کرتے ہیں.پھر ہم بھی بتا دیتے ہیں کہ پہلے بزرگوں کو بھی نہ مان کر اس قسم کے اعتراض کرتے رہے ہیں.اس پر پھر انہیں شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے.اگر یہ کہیں کہ وہ بزرگ نہیں تھے تو لوگ ناراض ہو جاتے ہیں اور اگر وہی اعتراض اس جگہ کریں تو مرزا صاحب صادق ہو جاتے ہیں.اس لئے یہ انہیں ہتھکنڈوں سے کام لیتے ہیں.پھر لال حسین

Page 165

149 کی ساری ہسٹری سنائی.جس پر وہ بہت حیران ہوئے.ہم سارا دن اور رات دھر مسال میں رہے.غیر احمدی ہم سے خوب مسائل وغیرہ دریافت کرتے رہے.مولوی احمد دین صاحب گھڑی سے مناظرہ میں ابھی ٹائیں مشکوٹ میں ہی رہ رہا تھا کہ ایک وقعه مولوی کرم دین صاحب شیند رہ والے میرے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ لاہوری جماعت والوں نے اور اپنے احمدی احباب نے آپ کو اسی وقت پونچھ بلوایا ہے اور سلاتے ہی جماعت کی طرف سے رقعہ دیا جس میں لکھا تھا کہ احمد دین صاحب اور نور حسین صاحب گر جا کھی پونچھ آئے ہوئے ہیں.انہوں نے احمدیت پر بڑے ذلیل اعتراض کئے ہیں اور ساتھ ہی مناظرہ کا چیلنج دیا ہے جو ہم نے منظور کر لیا ہے.صبح گیارہ بجے عید گاہ میں صداقت حضرت مسیح موعود پر مناظرہ ہو گا.اس لئے آپ اسی وقت تشریف لے آئیں.وہ پہلے ہی میرے پاس عصر کے وقت پہنچے تھے اور پونچھ کا فاصلہ بھی وہاں سے پچیس میل کا تھا.اس کے علاوہ سواری کا بھی کوئی انتظام نہ تھا.چنانچہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے چھ آدمیوں کا گروپ نورا" چل پڑا اور بڑی مشکل سے رات بارہ بجے ہم پونچھ پہنچے.تھکان بہت ہو چکی تھی.اسی وقت مد مقابل مولویوں کی طرف رقعہ لکھ کر ایک صاحب کے ہاتھ بھجوایا کہ ابھی مناظرہ کی شرائط طے کر لو مگر مولویوں کی طرف سے جواب آیا کہ کوئی شرائط طے نہیں ہوں گی بلکہ کھلا مناظرہ ہو گا اور اس بات کی ہمارے پاس تحریر آگئی میں نے دو گھنٹے آرام کرنے کے بعد مناظرہ کی تیاری شروع کر دی.دن کے دس بجے ہم سب لوگ میدان مناظرہ میں پہنچ گئے.ان کی طرف سے مولوی گھڑی صاحب مناظر اور گرجاکھی صاحب ان کے معاون مقرر ہوئے.مکرم کرم دین صاحب سنار صدر مقرر ہوئے.ہماری طرف سے لاہوری پارٹی کے خواجہ محمد عبد اللہ صاحب صدر

Page 166

150.مناظرین میں خود اور معاون پیارا خدا تعالیٰ تھا.میں نے صداقت حضرت مسیح موعود پر چند آیات قرآنی بیان کیں.اس پر کھڑی صاحب بولے کہ قرآن پاک نے مرزا صاحب کی صداقت بیان کرنا قرآن پاک کی تنگ کرنا ہے.تم مرزا صاحب کی صرف ایک پیشگوئی محمدی بیگم والی بچی ثابت کر دو تو ہم احمدی ہو جائیں گے اور کسی بات کے متعلق ہم نے بات نہیں کرنی.ہم نے کہا حافظ صاحب نے یہ تو تسلیم کر لیا ہے کہ قرآن پاک مرزا صاحب کو سچا ثابت کرتا ہے اور جو آیات میں نے پڑھی ہیں.ان کا حافظ صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں ہے.دوسرے مرزا صاحب کی باقی ہزاروں پیشگوئیاں تو پوری ہیں صرف محمدی بیگم والی پیشگوئی حافظ صاحب کی بیعت میں روک بنی ہوئی ہے.اب میں اس روک کو بھی دور کرنے کی کوشش کرونگا.امید ہے کہ حافظ صاحب خدا کا خوف رکھتے ہوئے اچھی طرح سنیں گے.حافظ صاحب مانتے ہیں کہ احمد بیگ اس پیشگوئی سے مر گیا تھا اور سلطان محمد کی موت توبہ کر لینے سے ٹل گئی تھی.اس کی موت کے ٹل جانے پر مرزا صاحب نے یہ لکھ دیا کہ پیشگوئی کا ایک حصہ تاخیر میں پڑ گیا یا منسوخ ہو گیا ہے.حافظ صاحب غصے سے بولے کہ میں مناظرہ کو مختصر کرنے کے لئے صرف ایک پیش گوئی کو سامنے رکھا تھا ورنہ میں تو مرزائیوں کے چھکے چھڑا دیا کرتا ہوں اور اب بھی دیکھ لینا.اجی مولوی صاحب کو میرا تمہارا فیصلہ ہو گیا اور مرزا صاحب تو الگ رہے تمہارا بھی جھوٹ پکڑ لیا ہے یہ لو دس روپے انعام اور ساتھ میں بیعت بھی کر لوں گا لفظ منسوخ" دکھا دو اور میں تمہیں پڑھاتا ہوں کہ لفظ منسوخ نہیں ہے بلکہ فسخ ہے.میں اب بیٹھ جاتا ہوں تم لفظ منسوخ رکھا کر دس روپیہ انعام بھی لو اور میں بھی بیعت کرلوں گا.میں نے اپنے احباب سے حوالہ کے متعلق پوچھا تو کسی کو بھی یاد نہ تھا مگر میں نے اسے ایک زمانہ میں پڑھا تھا مگر یہ یاد نہ تھا کہ کس کتاب میں تھا.میں نے

Page 167

151 یونی کتاب "حقیقتہ الوحی" ہاتھ میں پکڑلی.کھولی تو ضمیمہ کے صفحہ نمبر ۱۳۲ پر اسی حوالے پر میری نظر پڑی کہ "جس طرح یونس کی پیشگوئی جو شرعی ہی نہ تھی وہ منسوخ ہو گئی اس طرح پیشگوئی کا یہ حصہ بھی تاخیر میں پڑ گیا یا منسوخ ہو گیا.میری خوشی کی کوئی حد نہ رہی.حافظ صاحب نے جس کے پاس دس روپے رکھوائے تھے میں نے انہیں آواز دی کہ بابو صاحب تشریف لے آئیں اور حوالہ دیکھ لیں.وہ بابو ہمارا سخت مخالف تھا.بولا آجاتا ہوں.میں تمہاری طرح بے ایمان نہیں ہوں.میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ اس کے ایسے گستاخانہ بولنے پر تھانیدار صاحب اور دوسرے لوگوں نے بہت برا منایا تھا.ہمارے روکتے روکتے ہمارے لاہوری صدر صاحب نے اسے گالیاں دینا شروع کر دیں کہ تم نے مولوی صاحب کو بے ایمان کیوں کہا ہے.اس طرح ساری پبلک میں کھلبلی مچ گئی.ادھر تھانیدار صاحب نے اٹھ کر اس بابو کی کمر میں زور سے ٹھنڈ " (لات مارنا) مار دیا کہ تم نے بلاوجہ گالی بک کر مجمع خراب کر دیا ہے.تمہیں ابھی حوالات بھیجوں گا.وہ بھاگ کر دس روپیہ کا نوٹ انہیں ہی واپس دیکر کر بھاگ گیا.مناظرہ کا بھی اب کچھ مزہ نہ رہا کیونکہ آدھے لوگ بیٹھے تھے اور آدھے کھڑے تھے.میں نے حافظ صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ حافظ صاحب دس روپے تو میرے ہو گئے چاہے آپ یہاں دیں یا اگلے جہان میں یہ آپ کی مرضی ہے مگر حوالہ دیکھ لیں.نور حسین صاحب حوالہ دیکھ کر کہنے لگے یہ حوالہ تو درست ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ مرزا صاحب بچے ہیں.میں نے کہا کہ پہلے تو آپ نے یہی معنی کئے تھے کہ اگر لفظ منسوخ دکھا دو تو میں بیعت کر لوں گا مگر اب آپ کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں.میں نے کہا کہ حافظ صاحب اس پیشگوئی پر ہر جگہ اعتراض کرنا بھی مرزا صاحب کی صداقت ثابت کرتا ہے کیونکہ مرزا صاحب کو خدا تعالیٰ نے یہ بتا دیا تھا کہ يموت و يبقى منه كلاب

Page 168

152 متعددة یعنی یہ وہ پیش گوئی ہے جس میں مرے گا تو ایک ہی مگر لوگ شور ڈالتے رہیں گے یعنی جس طرح کتا بھونکتا ہے اسی طرح ملاں بھونکتے رہیں گے اور بھی بہت سی ذوقیہ باتیں ہوتی رہیں اور بالآخر مناظرہ ختم ہو گیا.ابھی پہلے مناظرے کو تھوڑا پیر بدیع الزمان شاہ پونچھی کا شوق مناظرہ ہی ہے عرصہ ہی ہوا تھا کہ پیر زمان شاہ پونچھ والے کو خیال پیدا ہوا کہ میرے مریدوں میں دن بدن کمی پیدا ہو رہی ہے اور اب شہرت حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مرزائیوں کو مناظرے کا چیلنج دے دیا جائے.چنانچہ انہوں نے چار کوٹ پہنچ کر احمدیت کے خلاف خوب زہر اگلا اور یہ بڑ بھی ہانک دی کہ میرے مقابلہ کے لئے سید ولی اللہ صاحب یا احمدیوں کے خلیفہ صاحب قادیان سے آئیں.میں انہیں کرائے کے دو صد روپے بھی دونگا اور مجھے سے مقابلہ کر لیں.ہماری جماعت کے احباب نے ان سے کہا کہ اگر ہمارا مبلغ آپ کے اعتراضوں کا جواب نہ دے سکا تو پھر ہم قادیان سے کسی اور کو منگوالیں گے.آپ فکر نہ کریں اور ساتھ ہی پیر صاحب کے مناظرہ کا چیلنج قبول کرتے ہوئے میری طرف ایک آدمی روانہ کر دیا کہ مناظرہ کے لئے بہت جلد تشریف لے آئیں.میں نے کہا کہ عید قریب ہے اس لئے مناظرے کے دن کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا.خیر جانے کے لئے تیار بھی ہو گیا.گھر والے کہنے لگے کہ ہم نے کبھی مناظرہ نہیں سنا ہم بھی ساتھ جانا چاہتے ہیں.غرضیکہ ہم گھوڑوں پر سوار ہو کر بر تو کل خدا چل پڑے.رات دھر سال رہے اور اگلے دن گیارہ بجے چار کوٹ پہنچ گئے.دوسرے دن شاہ محمد صاحب نمبردار کی حویلی میں مناظرہ ہونا قرار پایا تھا.پبلک پہلے دن ہی بہت اکٹھی ہو گئی ہوئی تھی.اس لئے میں نے کہا کہ نماز ظہر اور عصر اکٹھی پڑھ لیتے ہیں کیونکہ بعد وقت تھوڑا رہ جائے گا.جب ہم نمازیں جمع کر رہے تھے تو پیر صاحب نے شور

Page 169

153 مچانا شروع کر دیا کہ دیکھو اسلام کے خلاف ہر کام کرتے ہیں.دو نمازیں اکٹھی کرنے کا کہیں بھی حکم نہیں ہے.ہم نے نماز سے فارغ ہو کر حدیث بخاری سے جمع صلوتین کا باب ہی دکھا دیا تو پیر صاحب کی اس طرح بہت کرکری ہوئی.حیات مسیح پر بے چارے نے کیا بیان کرنا تھا.وہ مناظرہ کے آخر تک ایک ہی آیت بل رفعه الله الیہ پیش کر کے بیٹھ گئے.میں نے کہا پیر صاحب مسیح کی وفات کے ساتھ آپ کی وفات بھی ہو جاتی ہے.دس منٹ کی جگہ ایک منٹ ہی لے کر بیٹھ جاتے ہیں کیا بات ہے.آپ نے یہ مصیبت کیوں خواہ مخواہ اپنے گلے ڈال لی ہے جب کہ پیروں فقیروں کا کام روٹی مانگنا یا شیرینی حاصل کرنا ہے.آپ سے مناظرہ میں الجھنے کے لئے کس نے کہہ دیا تھا.اب سن لیں کہ رفع کے معنی آسمان پر جانے کے نہیں ہوتے درنہ یہ مانا پڑے گا کہ امت کے سب اولیاء اور بزرگ رات دن آسمان پر جانے کے لئے اپنی نمازوں میں دعائیں کرتے رہے مگر خدا تعالیٰ نے نہ تو ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کی سنی نہ اہل بیعت کی ، نہ اصحاب رسول کی سنی نہ خلفاء راشدین کی سنی نہ اولیاء کی سنی اور نہ ہی صوفیاء کی.غرضیکہ امت میں سے کسی کی بھی یہ دعا نہ سنی جب کہ آنحضرت ا سے لیکر آج تک دونوں سجدوں کے الله درمیان یہی دعا پڑھی جاتی رہی ہے کہ "وار فعنی " اور ایک بھی آسمان پر نہیں گیا بلکه سب اسی زمین میں مدفون ہیں.پیر صاحب بولے کہ میں تو حیات و ممات کا مسئلہ لیتا ہی نہیں تھا.ان احمدیوں نے ہی رکھ لیا تھا.اب ہم نے نماز عصر پڑھنی ہے اس لئے میں آج کے مناظرے کو ختم کرتا ہوں کل آپ کی خبر لوں گا.کچھ کھا پی کر آنا.آج آپ نے مجھے بہت شرمندہ کیا ہے.کل امکان نبوت اور مرزا صاحب کی صداقت پر اکٹھی بحث ہوگی.سب لوگ چلے گئے.ہم بھی واپس لوٹ آئے اگلے دن ۱۰ بجے مناظرہ شروع کر کے عصر کے وقت تک رہنا تھا.

Page 170

154 ختم نبوت کے معانی ( پیر صاحب نے اپنے گھوڑے ہار دیئے) دوسرے دن پیر جی بڑے طمطراق سے آئے.ہم پہلے ہی موجود تھے.کافی لوگ مناظرہ سننے کے لئے اکٹھے ہو گئے.ذیلدار نمبردار اور سپاہی بھی آگئے.آج دونوں مناظروں میں مدعی میں تھا.کافی آیات پڑھ کر سنائیں.پیر جی نے آیت خاتم النبیین پڑھی.میں نے کہا اب اس کے معنی ایسے کرنا جس کی قرآن پاک سے تائید ہوتی ہو.کہیں قرآن پاک میں اختلاف نہ ثابت کر دینا ورنہ آریہ اور عیسائی بچے ہو جائیں گے.اور لوجدوا فیه اختلافا كثيرا کے بھی خلاف ہو جائے گا.اس معاملہ میں بڑی ہوش کی ضرورت ہے.پیر صاحب کہنے لگے کہ میں وہی معنی کروں گا جو مرزا صاحب نے کئے تھے.هست او خیر الرسل خیر الانام ہر نبوت را برو شد اختتام اب اس "ہر" کا جواب دیدو تو یہ میرے چار گھوڑے ہیں یہ چاروں آپ کو ای مجلس میں بطور انعام دے دیئے جائیں گے.اب ادھر ادھر کی باتوں سے نہ ٹالنا اور میرے ”ہر نبوت را برد شد اختام" کا جواب دو.ہمارے احمدی دوست کچھ گھبرائے تو میں نے کہا پیر صاحب کلیہ تو یہی ہے نا کہ اپنے کلام کے جو معنی متکلم کرے وہ صحیح ہوتے ہیں.پیر صاحب بولے بیٹک ٹھیک ہے.میں نے کہا کہ پیر صاحب آب آپ کو "ہر" کا جواب دو حرفوں میں دیتا ہوں.ذرا دہی در ثمین فارسی پھر نکال لیں.آپ فرماتے ہیں.ختم شد برنفس پاکش ہر کمال لا جرم شد ختم ہر پیغمبری پیر صاحب فارسی کے نشی فاضل تھے.فورا سمجھ گئے کہ ٹھیک ہے.میں نے کہا کہ دوستو پیر صاحب کے گھوڑے کھول کر ادھر لے آؤ.پیر صاحب کی ہوائیاں

Page 171

155 اڑ گئیں اور مجلس میں شور مچ گیا کہ پیر صاحب گھوڑے ہار گئے.پیر صاحب میں مزید مناظرہ کرنے کی سکت کہاں باقی تھی! مجھ سے کہنے لگے کہ میں پونچھ سے مولوی لا کر مناظرہ کراؤں گا.اب مناظرہ ختم ہے اور السلام علیکم کہہ کر چل دیئے.میں پیر صاحب کو آواز میں دیتا رہا کہ پیر جی ابھی مناظرے کا وقت کافی باقی ہے مگر ذیلدار نمبردار اور سپاہی کہنے لگے کہ مولوی صاحب پیر جی کو جانے دیں.بعد میں واپس آئے اور منتیں کرنے لگے کہ گھوڑے واپس کر دیں.میں نے کہا کہ پہلے مجھے یہ تحریر لکھ دیں کہ یہ قادیانی مولوی کے گھوڑے ہیں.کہنے لگا اچھا اب آپ مجھے معاف کر دیں.یہ آپ ہی کے گھوڑے ہیں.اس کی منتیں دیکھ کر میں نے گھوڑے واپس کر دیئے.اس مناظرہ کا تمام اس علاقہ میں بہت اچھا اثر ہوا.وہ پیر جی جس طرف بھی دورہ پر گئے یہ مشہوری کرتے گئے کہ قادیانی مولوی بڑا عالم ہے.وہ میں ہی ہوں جس نے ان کے ساتھ جھڑ ہیں برداشت کر لی ہیں.اور کس کی طاقت ہے کہ اس کے ساتھ مناظرہ کر سکے.غرضیکہ تمام علاقہ کے مولوی دب گئے اور میرا خدا تعالی کے فضل سے وہاں بڑا رعب قائم ہو گیا.ایک دفعہ میں پولیس مولوی عزیز الدین شاہ پوری کا مناظرہ کیلئے چیلنج کرمان ، میوه ، راوی ہجیرہ کوٹ اور باغ کا دورہ کرنے گیا ہوا تھا کہ میری عدم موجودگی میں کنوئیاں میں میرے گھر مکرم فرمان علی خاں صاحب احمدی کالا بن کوٹلی سے پہنچے اور میری غیر حاضری کی وجہ سے بہت افسردہ ہوئے اور کہنے لگے کہ ایک غیر احمدی مولوی مولوی عزیز الدین صاحب نے مجھے مناظرے کا تحریری چیلنج دیا تھا.اس وقت ذیلدار اور نمبردار اس کے ساتھ تھے.میں نے منظور کر لیا تھا.ساتھ ہی فریقین کی طرف سے تحریریں بھی لکھی گئیں کہ جو مقررہ تاریخ پر اپنا مولوی پیش نہ کرے وہ فریق ثانی کو دو صد روپیہ

Page 172

156 بطور ہرجانہ ادا کرے.مگر اب مناظرہ میں صرف دو دن باقی رہ گئے ہیں اور مولوی صاحب بھی آگے دورے پر گئے ہوئے ہیں اس لئے مجھے سخت گھبراہٹ ہو رہی ہے.میرے گھر والوں نے تسلی دی کہ آج مولوی صاحب واپس آجائیں گے کیونکہ دورہ دس روزہ تھا اور آج دسواں ہی دن ہے.تھوڑی ہی دیر بعد میں بیس میل کا ایک لمبا اور پیدل سفر کر کے گھر پہنچا.بہت تھکان تھی کیونکہ دس دنوں میں ایک سو پچاس میل کا پیدل سفر کیا تھا.فرمان صاحب نے سب حالات سنائے میں نے روانگی کے لئے دوبارہ کتابیں رکھ لیں اور اگلے ہی دن ان کے ساتھ چل دیا.اب کے پھر تیں میل کا پیدل سفر کیا تو مزید چلنا دو بھر ہو گیا.اندھیرا ہو رہا تھا.رات کو ایک مکان پر پہنچے.وہاں صرف ایک عورت ہی تھی اس لئے وہاں ہم نے رہنا پسند نہ کیا اور بڑی مشکل سے ایک اور اگلے ہی ) مکان پر پہنچے اور باہر سے آواز دی.اندر ایک مردانہ آواز آئی کہ یہاں رہنے کی جگہ نہیں ہے.میں نے کہا کہ ہم نے تو رات اپنی جگہ بسر کرتا ہے.خیر وہ مرد باہر آیا اور بتانے لگا کہ میری لڑکی شدید بیمار ہے اس لئے آپ کو تکلیف ہو گی.میں نے کہا کہ ہم دعا کریں گے آپ فکر نہ کریں اور ایک مصلی لے آؤ.ہم تینوں نے وہاں نمازیں پڑھیں.نماز کے بعد میں نے اس مرد سے کہا کہ بیمار لڑکی کو یہاں لے آؤ.وہ بیماری کی وجہ سے سخت نحیف ہو چکی تھی بڑی مشکل سے آئی میں نے پانی دم کر کے اسے پلایا.اسے خونی دست آرہے تھے.میں نے اس سے پوچھا کہ گھر میں سونف ہو تو گرم کر کے پیس کرلے آئیں.وہ تھوڑی دیر کے بعد باریک کر کے لے آیا.میں نے اپنے پاس سے مصری ڈال کر سات پڑیاں بنا دیں اور دو دو گھنٹے کے وقفے سے دینے کی تاکید کر دی.ہم کھانا وغیرہ کھا کر سو گئے.صبح جب ہم بیدار ہوئے تو وہ بتانے لگا کہ بچی کو خدا تعالٰی نے بالکل آرام دے دیا ہے اور بڑی خوشی کا اظہار کیا.دن کے وقت ہمیں الوداع

Page 173

157 کہنے کے لئے وہ تین میل تک ہمارے ساتھ گیا.دن کے نو بجے ہم دھوڑیاں پہنچے وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ میاں صلاح الدین کلا بن گیا ہوا ہے کیونکہ آج مناظرہ کا دن ہے اور مولوی صاحب پیسے مانگتے ہیں.ہم اسی وقت آگے چل پڑے.ایک میل چل کر ہم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو وہاں ہمیں کسی احمدی دوست نے دیکھ لیا.اس نے شور مچا دیا کہ مبلغ صاحب تشریف لے آئے ہیں.کافی تعداد میں احمدی احباب وہاں اکٹھے تھے سب استقبال کے لئے آگے بڑھے.جب ہم میدان مناظرہ میں پہنچے تو احمدی احباب تو بہت خوشی محسوس کر رہے تھے جب کہ غیر احمدی احباب بہت حیران ہو رہے تھے کہ یہ اتنا لمبا پیدل سفر کر کے کیسے پہنچ گئے ہیں.بعد میں احمدی اور غیر احمدی سب احباب سے مصافحہ ہوا.میں نے مولوی عزیز اللہ صاحب کو مناظرہ کی شرائط طے کرنے کے لئے بلایا.وہ آگئے اور ہم نے شرائط تحریر کر کے فریقین کو دے دیں.ذیلدار صاحب کہنے لگے کہ مولوی صاحب چونکہ اس مناظرے کو سننے والے کافی شوقین حضرات ہیں اس لئے اگر یہ کوٹلی میں نمبردار عبد اللہ خانصاحب کے مکان پر ہو تو بہتر ہو سکتا ہے.کسی اور جگہ اتنی پلک بیٹھ بھی نہیں سکے گی.میں نے کہا بہت اچھا آپ ان سے امن کی ذمہ داری لے لیں.انہوں نے ہمیں امن کی ذمہ داری بھی لے دی اور تحریر لکھ کر بھی دے دیا.ہم اگلے دن وہاں پہنچ گئے.اس مناظرے کا وقت تین دن تھا.پہلے دن وقالت مسیح، دوسرے دن امکان نبوت اور تیسرے دن صداقت حضرت مسیح موعود پر مناظرے ہوئے تھے.غرضیکہ تین دن بڑے پر امن طریق پر مناظرہ جات ہوئے.تیسرے ون مناظرہ میں یہ اصول مقرر کر دیا کہ آج چونکہ آپ نے حضرت مسیح موعود کی کتب پر اعتراض ہی کرتے ہیں اس لئے جو اعتراض کفار نے رسول کریم پر اور دیگر انبیاء پر کئے تھے وہ نہیں کئے جائیں گے.ان کے جوابات تو قرآن مجید میں

Page 174

158 موجود ہیں اور میں انشاء اللہ تعالی قرآن پاک سے ان کے جواب بھی دے دوں گا.لیکن معترض کو ان کفار ہی میں شامل سمجھا جائے گا.جنہوں نے حضور ا اعتراض کئے تھے.یہ سن کر سب دوست کہنے لگے کہ بہت اچھا اصول ہے.ادھر مولوی صاحب کچھ جھجکنے لگے.بعد میں اس نے کافی اعتراض کئے جن کے میں نے بڑے مدلل جواب دیئے.ان کی طرف سے تینوں دن تین مختلف مولوی مناظرہ کے لئے آئے اور ادھر میں اکیلا ہی خدا پر توکل کرتے ہوئے مقابلہ کرتا رہا.یہ مناظرہ بہت کامیاب رہا اور مناظرے کے بعد بیعتیں بھی ہو ئیں اور سارے پونچھ میں میری بہت شہرت ہو گئی.بعدہ ہر جگہ تبلیغ کے لئے پہنچا رہا اور اسی طرح اپنی ذاتی طور پر بھی کافی واقفیت ہو گئی.مولوی عبد القادر اور مولوی اسماعیل روپڑی سے مناظرہ آریوں ، سکھوں ، وہابیوں ، سینوں، شیعوں ، عیسائیوں اور لاہوری احمدیوں سے میری اکثر بات چیت ہوتی رہتی تھی اور سب میرے اخلاق کے بڑے مداح تھے مگر ہر جگہ اپنی شکست کو بھی ناپسند کرتے تھے.انہیں دنوں میں کوٹلی میں حافظ عبد القادر اور محمد اسماعیل سے مناظرے کرنے آیا ہوا تھا.دو دن مناظرہ بڑے جوش و خروش سے ہوا.تینوں اہم موضوعات پر عبد القادر صاحب نے بہت چیلنج بازی کا مظاہرہ کیا جو کہ بغیر گولی کے بندوق چلانے کے مترادف تھا ہمارے صدر ایک ہندو وکیل تھے.نہایت شریف اور مذہبی آدمی تھے.خدا کے فضل سے وہاں کے ہندو اور غیر احمدیوں نے مجھ سے بہت اچھا اثر لیا اور وہ میرے گرویدہ ہو گئے.عبد القادر نے یہ کہہ کر کہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ مجھے حمل ہو گیا ہے پبلک کو بہت ہنسایا.میں نے اپنی ٹرن

Page 175

159 پر انہیں بتایا کہ اے دوستو آپ ہے تو خوب ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ کوئی ایسا نہی نہیں جسے حمل نہ ہوا ہو.کسی کو "توریت" کا حمل ہوا اور وہ حامل توریت کہلائے کسی کو زبور کا حمل ہوا اور وہ حائل زبور کہلائے، کسی کو انجیل کا حمل ہوا اور وہ حاصل انجیل کہلائے اور کسی کو قرآن مجید کا سب سے بڑا حمل ہوا اور حضور حامل قرآن کہلائے اور قرآن مجید میں بھی مومنوں کو یہی دعا سکھلائی گئی ہے کہ ربنا و لا تحملنا مالا طاقة لنا به" اور اب حافظ صاحب بھی نہیں دعا کرتے رہتے ہیں جس کے معنی یہ کہ اے ہمارے رب ہمیں اتنا حمل نہ کرنا جسے ہم اٹھا نہ سکیں.مگر ان سے مراد عورتوں والے حمل نہیں.یہ ان بزرگوں کو خدا کے کلام کا حمل ہوتا تھا مگر حافظ صاحب کا خیال اپنی ماں بہن کی طرف چلا گیا حالانکہ وہ حمل مراد ہی نہیں ہیں.اس پر پبلک نے یہ جان لیا کہ حافظ عبد القادر صاحب صرف تمسخر کرنا ہی جانتے ہیں غرضیکہ یہ مناظرہ بھی بہت کامیاب رہا اور لوگوں پر بہت اچھا اثر ہوا.بعدہ کتابیں وغیرہ لے کر میرپور کی جانب روانہ ہو گئے.وہیں بعد جلسہ مجھے حکم ملا جد کو ٹلی میں مولوی کرم دین سنار سے مناظرہ کہ روپڑ کی تحصیل سے کئی رپورٹیں حضور کی خدمت میں پہنچیں کہ جب سے ہمارے مبلغ محمد حسین صاحب کو دفتر نے بلوا کر پونچھ بھیج دیا ہے ہماری جماعتیں ست ہو گئی ہیں چنانچہ اب ہمیں ہمارا مبلغ واپس کیا جائے.اس لئے آپ اسی جلسہ کے بعد مولوی محمد صادق صاحب مبلغ ساڈا کو ادھر کا چارج دے کر آئیں.جلسہ کے بعد میں مولوی صاحب کو ہمراہ لے کر جہلم دھنیال نگیال کا دورہ کراتے ہوئے براستہ میر پور کوٹلی پہنچا.وہاں مولوی کرم دین سنار نے مناظرہ کی طرح ڈالی ہوئی تھی.چنانچہ اس نے مناظرہ کیا.وہ مناظرے کے دوران کہنے لگا کہ میں ایسے بم چلاؤں گا کہ مرزائیت اڑ جائے گی.میں

Page 176

160 نے کہا کہ مرزائیت کو اڑانے کے لئے آپ جیسے بہت شیر قالین اٹھے مگر خوبیجان ثابت ہوئے اور خدا تعالٰی نے احمدیت کو ہر جگہ قائم کر دیا اب اگر تم ہم چلاؤ گے تو اللہ تمہارے گلے میں وہ ہم پہنچا دے گا کہ تمہارا سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ تیسری ٹرن میں ہی سنار کا گلا ایسا بند ہوا کہ بات تک نہ منہ سے نکال سکے.خدا تعالٰی نے گلے ہی سے پکڑ لیا.یہ واقعہ دیکھ کر پبلک بہت حیران ہوئی.وہابیوں نے کہنا شروع کر دیا کہ قادیانی مولوی نے کوئی کلام پڑھ کر پھونک مار دی ہے جس سے ہمارے مولوی کا گلا بند ہو گیا ہے.چنانچہ سارے مجمع پر اس مناظرے کا بہت اچھا اثر رہا.پھر جب ہم پونچھ پہنچے تو مولوی محمد صادق صاحب سماری پونچھ میں مناظرے کی کم گوئی کی وجہ سے مولوی عبدالرحمن فاضل دیو بندی اور کرم دین سنار نے پھر مناظرے کا چیلنج دے دیا.جماعت نے منظور کر لیا.مولوی محمد صادق صاحب کا مولوی عبد الرحمن صاحب سے حیات و ممات مسیح پر اور میرا کرم دین سنار سے صداقت حضرت مسیح موعود پر مناظرہ ہونا قرار پایا.دونوں مناظرے خدا تعالٰی کے فضل سے دلائل کی وجہ سے بہت کامیاب رہے لیکن احمدی احباب یہی کہتے رہے کہ دونوں مناظرے آپ ہی کو کرنے چاہئیں تھے.مولوی صاحب کو سارے علاقے کا رہتال تک دورہ کرا کر جب ہم راجوری پہنچے تو مولوی محمد حیات کھودہ چار مولویوں کے ہمراہ راجوری میں جلسہ کرنے کے لئے آگئے.اگلے دن مولوی محمد حیات کھورہ کی تقریر " مرزا صاحب کی اسلام کی توہین " کے موضوع پر شروع ہوئی.ہم بھی کتب لے کر جلسہ کے سنٹر میں جا بیٹھے ساری پبلک مجھ سے واقف تھی.یہ جلسہ راجوری کے تحصیلدار کی صدارت میں ہو رہا تھا جس میں احمدیت کے خلاف ذلیل الزام لگا کر پبلک کو مشتعل کیا جا رہا تھا.میں نے کھڑے ہو

Page 177

161 کر صدر صاحب کو توجہ دلائی کہ اگر یہ جلسہ پبلک کر رہی ہے تو تحصیل دار صاحب " آن ڈیوٹی " ہونے کی صورت میں اس مذہبی جلسہ کے صدر نہیں ہو سکتے اور اگر حکومت جلسہ میں اشتعال پیدا کروا کر ہم پر حملہ کروانا چاہتی ہے تو یہ حکومت کے قانون کے خلاف ہے.یہ سنتے ہی تحصیل دار صاحب تو صدارت چھوڑ کر الگ ہو گئے اور مرزا محمد حسین صاحب آف بھروٹ صدر بن گئے.جب صدر بدلا تو پبلک نے محسوس کیا کہ قادیانی مولوی تو قانون بھی جانتا ہے اور وہ بڑے حیران ہوئے.میں نے پھر صدر صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ ہمیں ان خرافات کا جواب دینے کا موقع دیا جائے گا کہ نہیں.مرزا صاحب میرے واقف تھے کہنے لگے.ضرور.میں نے کہا میں محمد حیات صاحب کے پہلے ہی جھوٹ کی قلعی کھولنا چاہتا ہوں.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم معزز صدر و سامعین حضرات محمد حیات نے یہ الزام لگایا ہے کہ مرزا صاحب نے حضرت فاطمہ کی توہین کی ہے حالانکہ مرزا صاحب کا کشف ہے کہ حضرت فاطمہ نے مادر مہربان کی طرح میرا سر اپنی ران پر رکھ لیا.اس پر یہ خود تمسخر اڑا کر ہماری مہربان ماں کی بے عزتی کرتے ہیں اور اس کے متعلق براہین احمدیہ سے حوالہ بھی نکال کر پیش کیا.مرزا محمد حسین صاحب نے بعد میں اس مولوی کی تقریر بند کرتے ہوئے دوسرے مولویوں سے کہا کہ صرف اسلام کی فضیلت بیان کریں اور کسی مسلمان فرقے پر ہم آپ کے اعتراض نہیں سننا چاہتے.قادیانی ہماری قوم کی علمی ترقی کے لئے پوری کوشش کر رہے ہیں.لہذا بعد میں دوسری تقاریر ہوتی رہیں لیکن کسی ایک نے بھی پھر ہمارے خلاف زبان نہ کھولی.پھر ہم واپس پونچھ آگئے.چار کوٹ گوئی ، پونچھ ، سلواہ اور کوٹلی والوں نے مجھے ایڈریس پیش کئے.بعدہ میں براستہ کوٹلی، میرپور اور جہلم واپس قادیان آگیا.الحمد

Page 178

162 ضلع انبالہ میں دوبارہ تقرری کرنال کے پرنسپل سے تبادلہ خیالات قادیان میں تھوڑے دن قیام کر کے مع گھر والوں کے میں انبالہ روانہ ہوگی.سخت گرمی کے دن تھے.گھر والوں کو اپنے خسر کے پاس چھوڑ کر خود حلقہ میں تبلیغ کے لئے روانہ ہو گیا.ایک ماہ دورہ کرنے کے بعد جب واپس پہنچا تو دفتر سے چٹھی آئی کہ بہت جلد کر ٹال میں حافظ عبد الحلیم صاحب بوٹ مرچنٹ کے پاس جائیں.میں نے اسی وقت تیاری کی اور دوپہر کے وقت حافظ صاحب کے پاس جا پہنچا.حافظ صاحب مجھے دیکھتے ہی بغیر پانی وغیرہ پوچھنے کے دفتر والوں پر غصہ کا اظہار کرنے لگے.کیونکہ چند دن قبل مولوی ابو العطاء جالندھری دہلی سے واپسی پر حافظ صاحب کی 1 درخواست پر کرنال اترے تھے اور وہاں کے کالج کے ایک فلسفہ کے پروفیسر سے ان کی گفتگو ہوئی لیکن چونکہ مولوی صاحب نے جلدی واپس قادیان پہنچنا تھا اس لئے جلد ہی واپس چلے گئے.پروفیسر صاحب نے حافظ صاحب کو آہستہ سے کہا کہ قادیان سے کوئی قابل مولوی منگوائیں کیونکہ ان مولوی صاحب سے بات کر کے میری تسلی نہیں ہوئی.حافظ صاحب نے دفتر کو ساری تفصیل لکھ بھیجی.چنانچہ دفتر والوں نے مجھے قاتل مولوی نہیں بلکہ حافظ صاحب سے نزدیک ہونے کی وجہ سے بھجوا دیا.حافظ صاحب کے خیال میں کوئی بڑا قابل اور آچکن والا مولوی آنا چاہئے تھا اس لئے حافظ صاحب ناراض ہونے میں حق بجانب تھے اور میں بھی قصور وار نہ تھا کیونکہ میں تو دفتر کے حکم کی تعمیل میں آگیا تھا.ان کی اس ناراضگی کا مجھے بڑا قلق ہوا کہ حافظ صاحب کا میرے ساتھ یہ سلوک نہیں ہونا چاہئے تھا.ادھر پروفیسر صاحب کی طرف سے آدمی آیا کہ اپنے مبلغ صاحب کو لے کر جلد تشریف لے آئیں.ہم

Page 179

163 نصف درجن آدمی انتظار کر رہے ہیں.حافظ صاحب نے جواب دے دیا کہ یہ تو ہمارے مہمان آئے ہوئے ہیں.جب ہمارے مولوی صاحب آئیں گے تو لے کر حاضر ہو جاؤنگا.میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ میں پہلے پروفیسر صاحب سے ملاقات کر آتا ہوں.جب آپ کا مبلغ آئیگا تو ان کے ساتھ آپ تشریف لے جانا.چنانچہ میں حافظ صاحب سے سلام کر کے بلانے والے کے ہمراہ چلا گیا.جاکر السلام علیکم کہا.سب اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور مصافحہ کیا.مجھے سخت پیاس لگ رہی تھی اس لئے پہلے پانی پیا.پھر پروفیسر صاحب بولے آپ کا دولت خانہ ؟ میں نے کہا ر جناب عالی قادیان.وہ بولے کیا آپ مبلغ ہیں.میں نے کہا جناب عالی دیہات میں بڑے بڑے علامہ دورے نہیں کر سکتے اور نہ دیہاتی لوگ ہی عالمانہ باتیں سمجھنے کے اہل ہوتے ہیں.اس لئے ہم لوگوں نے دیہات میں دورے کر کے اسلام سکھانے کے لئے اپنی زندگی پیش کی ہوئی ہے.پروفیسر صاحب کہنے لگے.مولوی صاحب.آپ تو بڑے شریف نیک اور سادہ آدمی ہیں آپ مرزا صاحب کے جال میں کیسے پھنس گئے بڑے تعجب کی بات ہے.میں نے کہا کہ جناب عالی حضرت آدم سے تا دم یہی توریت ، زبور، انجیل ، قرآن مجید و دیگر کتب مقدسہ سے ثابت ہوا ہے کہ ہمیشہ یہ جال لگتے آئے اور بڑے بڑے نیک شریف اور سادہ لوگ ہی پہنتے رہے ہیں اور شروع سے ابلیس انا خیر منه" کہہ کر اکڑ گیا تھا اور ہمیشہ اس کی سیرت کے لوگ ہی اپنے آپ کو عقل مند اور ماننے والوں کو سفھاء کہہ کر دور ہی رہے ہیں.سو اس زمانہ میں یہ قانون کس طرح بدل سکتا ہے.ہزاروں انبیاء کی فہرستیں اس بات کی شاہد ناطق ہیں.پروفیسر صاحب اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ اس مولوی صاحب کے لئے مولوی جودت صاحب رامپوری کو بلاؤ پھر بات کرنے کا مزہ آئے گا.میں نے کہا کہ اگر مولانا جودت صاحب کو بلوانے کے لئے چندہ اکٹھا کرنا

Page 180

164 ہے تو اس وقت میں بھی ایک روپیہ دونگا کیونکہ ہماری ملاقات ایک لمبے عرصہ کے بعد ہو گی اور وہ بھی آپ کی کوشش ہے.اس پر پروفیسر صاحب اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ دوستو پھر مشورہ کر کے بات کریں گے اور میرے ساتھ مصافحہ کر کے سب نے اپنی اپنی راہ لی تو حافظ صاحب بھی اپنے خریداروں سے فارغ ہو کر آرہے تھے کہ مجھے راستہ میں ملے اور کہنے لگے کیوں صاحب کوئی بات تو نہیں ہوئی.میں نے کہا صرف دو باتیں ہی ہوئی ہیں اب ان سے جا کر پوچھ لینا.آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا کوئی احمدی دوست اور بھی یہاں ہیں ؟ بتانے لگے کہ یہاں ڈاکٹر منیر احمد صاحب ہیں جو قادیانی ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب کے بھتیجے ہیں اور اس جگہ تھوڑے ہی عرصہ سے آئے ہوئے ہیں.میں نے کہا آپ کی بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ مجھے ان کے مکان تک پہنچا دیں وہ مجھے ڈاکٹر صاحب سے ملا آئے اور ڈاکٹر صاحب مجھے اپنے گھر لے گئے.وہ بھی اکیلے ہی تھے اس لئے خوب باتیں ہوتی رہیں.رات کو حافظ صاحب بھی تشریف لے آئے.پروفیسر صاحب سے جو میری گفتگو ہوئی تھی.میں نے وہ سنائی.وہ بہت خوش ہوئے اور مجھ سے اپنی بے توجہی کی معافی مانگی میں نے انہیں بتایا کہ یہ سلسلہ روحانی ہے ظاہری علم پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے.ہم امی نبی کی امت ہیں مگر حضور ﷺ کی روحانی تعلیم قلوب سے مفقود ہو گئی تھی اس لئے خدا تعالٰی نے حضرت مسیح موعود کو دنیا میں دوبارہ روحانی زندگی کے حصول کے طریق بتانے کے لئے مبعوث فرمایا ہے.میری بہت تھوڑی تعلیم ہے مگر صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہوتا ہے اور دعا کر کے عالموں ، فاضلوں ، پروفیسروں ، آریوں ، عیسائیوں اور غیر احمد ہی اصحاب کے مولویوں سے گفتگو کا خدا تعالٰی نے خوب موقع دیا اور ہر جگہ خود ہی میری مدد فرما کر کامیابی دی یہ حضرت صاحبوں کی صداقت کا ثبوت ہے.میں نے انہیں مولانا جودت کی بات بھی سنا دی.

Page 181

165 وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے وہاں دو دن مزید رکھا.دونوں صاحب کی شدید مصروفیت کی بنا پر تبلیغ کا موقع نہ ملا اور میں واپس انبالہ آگیا.ہمارے وہاں کے امیر جماعت بابو عبد الرحمن صاحب اس بات کا بے حد شوق رکھتے تھے کہ جو بات چیت دورہ کے دوران ہوئی ہو وہ نہیں.لہذا انہیں ساری باتیں سنائی گئیں.وہ بھی بہت خوش ہوئے اور میری ٹی پارٹی بھی کی اور اسی دوران دوستوں کو بھی باتیں سناتے رہے.برست ضلع کرنال ضلع کرنال میں ایمان اصحاب ثلاثہ پر بحث میں ایک بہت بڑا گاؤں تھا جس میں نصف سنی ، نصف شیعہ اور ایک احمدی صاحب رہ رہے تھے.وہاں ایمان اصحاب ثلاثہ پر بحث مقرر ہو گئی.ان سینوں نے احمدی دوست سے کہا کہ یہ آپ کا اور ہمارا مشترکہ مسئلہ ہے.اگر ہم اپنے کسی مولوی کو بلوا ئیں تو وہ ہمارا دیوالیہ نکالنے کے علاوہ بہت ممکن ہے کہ لڑائی کرا دے.اس لئے یہ بہت بہتر ہو گا اگر آپ اپنے کسی مولوی کو بلوالیں.غرضیکہ اس احمدی دوست نے مرکز کو چٹھی لکھی.مرکز سے مجھے وہاں پہنچے کا حکم ملا.جب میں برست پہنچا تو وہاں فریقین کی گاڑیاں آئی ہوئی تھیں.میرا سبز صافہ دیکھ کر شیعوں نے یہ خیال کیا کہ یہ ہمارے مولوی ہیں جو لاہور سے آئے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنی گاڑی پر مجھے سوار کر لیا اور دہلی والی گاڑی پر مولوی عمرالدین صاحب شملوی تشریف لے آئے.تھوڑی دیر بعد وہاں ایک صاحب لاتین لائے جس کی روشنی میں ہم نے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھا اور ہم ایک ہی گاڑی میں اکٹھے ہو گئے.اب شیعہ بہت مایوس ہوئے کہ سینوں کے دو مولوی آگئے ہیں اور ہمارا ایک مولوی بھی ابھی تک نہیں پہنچا.بڑے میں کہنے لگے کہ جب ہمارے مولوی کا وقت آتا ہے تو چھپ جاتے ہیں اور

Page 182

166 جب کھانے پینے کا وقت آتا ہے تو بن بلائے حاضر ہو جاتے ہیں.راستہ میں مولوی عمر الدین صاحب مجھ سے ذکر کرنے لگے کہ آجکل میری طبیعت گانے اور نعتیں سننے کو بہت پسند کرتی ہے.خدا جانے کیا وجہ ہے کہ طبیعت نئی نئی سکیمیں بنارہی ہے.رات گزری، اگلے دن میدان مناظرہ میں پہنچے.وہاں ایک نابینا حافظ صاحب راض رفع کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ میں ثابت کروں گا کہ حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان مینوں ہی ایماندار نہ تھے.میں نے اپنی ٹرن میں بیان کیا کہ ایک تو ہمارے حضرت علی ہیں جو چوتھے خلیفہ ہیں.وہ حضور کے داماد ، بڑے نیک ، شیر خدا اور غیور تھے اور خدا تعالیٰ ان کی مدد کرتا تھا اور وہ خدا کے دین کے مدد گار تھے.انہوں نے نہ تو کبھی عمدہ کے حاصل کرنے کا لالچ کیا اور نہ ہی کبھی ناکام ہوئے.میرے جتنے بھی اعتراض ہوں گے وہ مذکورہ علی پر نہیں ہوں گے بلکہ شیعوں کے ناکام و نامراد رہنے والے علی پر ہوں گے.ہم مسلمان اس علی کے واقف نہیں ہیں جو قوم کا دھتکارا ہوا تھا.وہ بقول شیعہ صاحبان پہلا خلیفہ بننا چاہتا تھا جس میں ناکامی ہوئی پھر دوسرے اور تیسرے خلیفہ کی جگہ لینے کے لئے بھی ناکام کوششیں کیں مگر شرمندہ نہ ہوا.یہ بھی ثابت ہو گیا کہ وہ مومن بھی نہ تھا کیونکہ قرآن کریم ان کو مومن قرار دیتا ہے جو مقابلہ پر کھڑے ہو کر کامیاب ہوں.فرماتا ہے.انا لننصر رسلنا والذين آمنوا في الحیوۃ الدنیا کہ مخالف جب ہمارے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کے مقابل پر آتے ہیں تو نا کام ہوتے ہیں اور وہ یوم يقوم الاشہاد سے ثابت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں بڑے بڑے درجے حاصل کرتے ہیں.اگر اس آیت پر اچھی طرح غور کیا جائے تو شیعوں کا علی دونوں جہانوں میں نامراد رہا اور کار نے حضرت علی کرم اللہ وجہ دونوں جہانوں میں کامیاب رہے کیونکہ وہ متوکل تھے اور جب ان کی باری آئی فورا خلافت سنبھال لی.میرے اس طریق کے اختیار

Page 183

167 کرنے پر تمام پبلک خوش ہو گئی اور اہل تشیع کا رنگ سیاہ ہو گیا انکی طرف سے حافظ غضبناک ہو کر بولا کہ میں کئی علوم کا ماہر ہوں اور علم نجوم سے پوری طرح واقف ہوں اس لئے آپ میرے دلائل کی تاب نہ لا سکیں گے.غرضیکہ اسی طرح کی گئیں ہانک کر بیٹھ گیا.میں نے کہا حافظ صاحب جس شخص کو اس وقت اتنا علم نہ ہو کہ سورج کس جگہ پر ہے وہ عطارد، زحل اور مشتری سیاروں کے بارے میں کیا جان سکتا ہے اور علم نجوم کا ماہر کیسے ہو سکتا ہے.اس پر تمام لوگ ہنس پڑے اور شیعوں نے کھڑے ہو کر اقرار کیا کہ ہمارے مولوی صاحب وقت پر نہیں پہنچ سکے تو ہم نے اس جاہل اندھے کو اس کی خواہش پر کھڑا کر دیا تھا.ہم معافی چاہتے ہیں.اب دوبارہ جب ہم مناظرہ کروانا چاہیں گے تو اپنے خرچ پر آپ کو بھی بلوا ئیں گے.ہم نے اعلان کر دیا کہ دوپہر کے بعد مولوی عمر دین صاحب کی ختم نبوت کے موضوع پر تقریر ہو گی دوست مطلع رہیں.وقت مقررہ پر مولوی صاحب کی بہت عمدہ تقریر ہوئی اور بہت مقبول ہوئی کہ نئی شریعت لانے والے نبی بند ہیں اور اب رسول پاک کی شریعت پر چلانے والے نبی آتے رہیں گے.مسلمانوں نے دو دن ہمیں اپنے پاس رکھا اور قسم قسم کے شیعوں کے اعتراضات کے جواب پوچھتے رہے.بعدہ مولوی صاحب دہلی کو اور میں انبالہ کو واپس روانہ ہو گیا.تیسرے دن انبالہ کی مسجد میں ہم نے جلسہ کرنا شروع انبالہ شہر میں مناظرہ کیا.بابو عبدالحکیم صاحب جو سید غلام بھیک صاحب کی انجمن تبلیغ کا ہیڈ کلرک تھا.اس نے میری تقریر پر ایک عیسائی سے اعتراض کروایا که مسیح موسوی تو مردے زندہ کیا کرتا تھا.اگر مرزا صاحب مسیح ہیں تو انہوں نے کونسے مردے زندہ کئے ہیں.میں نے کہا کہ اگر مسیح جسمانی مردے زندہ کر سکتا تھا تو اس کی تو ایک فوج بن جانی چاہئے تھی کیونکہ جسے وہ زندہ کرتا تھا وہ تو اس کا مرید بن

Page 184

168 جاتا ہو گا مگر ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا.باقی سب نبی بھی مردے ہی زندہ کرنے کے لئے آتے رہے ہیں.اسی طرح مسیح نے بھی مردے زندہ کئے.اصل بات یہ ہے کہ جو خدا تعالی کی شناخت نہیں کر سکتے وہ مذہبی اصطلاح میں سب مردہ ہوتے ہیں اور پھر نبی سے تازہ نشان دیکھ کر وہ زندہ ہو جاتے ہیں یعنی خدا کی شناخت کر لیتے ہیں.بابو عبد الحکیم صاحب بولے کہ ہمارے ساتھ حیات و ممات مسیح پر قرآن شریف کی روشنی میں بحث کر لیں.ہم نے منظور کر کے شرائط و تاریخ کا تعین کر لیا.رات کو وہ مولوی ثناء اللہ کو لینے امر تسر چلے گئے.ہمارے دوستوں نے حضور کو تار دے دی که مولوی ثناء اللہ آرہے ہیں اور ان سے مناظرہ ہے اس لئے کوئی چوٹی کا مبلغ بھجوا دیا جائے.حضور نے جواب دیا کہ آپ کو مبلغ دیا ہوا ہے وہی کافی ہے.مولوی ثناء اللہ صاحب کو جب امرتسر جا کر مناظرہ کی شرائط دکھائی گئیں تو برہم ہو کر ان سے کہنے لگے کہ کسی بھڑوے" نے یہ شرائط طے کی ہیں؟ اب وہ خود ہی مناظرہ کرے میں نہیں جا سکتا.بڑی منت کے بعد مولوی محمد یوسف دینا نگری کو بھیجا.وہ پہلے سے ہی میرے واقف تھے.مقابلہ کے لئے دونوں سٹیج بنانا غیر احمدیوں کا کام تھا.انہوں نے اپنا سٹیج تو بڑا شاندار بنایا اور ہمارا ایک نالی کے اوپر تخت پوش رکھ کر دو کرسیاں ایک میز اور ایک مردہ سی لائین رکھی ہوئی تھی.میں نے نوجوانوں سے کہا کہ روٹی کا فکر نہ کرد مناظرہ کے بعد کھالیں گے اور اپنی کتابیں اٹھا کر عمدہ سٹیج پر رکھ دو.ایسا کرنے پر محافظ بولا کہ آپ کا سنج دوسرا ہے.میں نے کہا کوئی حرج نہیں جہاں بیٹھ گئے ہیں ٹھیک ہے.یہ دونوں سٹیج آپ نے ہی بنائے ہیں.چنانچہ ہم نے سٹیج پر پوری طرح قبضہ کر لیا.جب ان کے مولوی صاحب آئے تو سٹیج دیکھ کر ان پر بہت خفا ہوئے کہ امیہ نالی پر سٹیج کیوں بنایا ہے دیکھو ان کا سٹیج کتنا اچھا ہے.وہ بولے کہ دونوں ہم نے ہی بنائے ہیں.وہ آپ کے لئے بنایا تھا مگر انہوں نے پہلے اگر وہ

Page 185

169 سنبھال لیا ہے.مولوی صاحب کہنے لگے کہ وہ تو پرانے مناظر ہیں اس لئے آپ کا کیا دھرا آپ کے ہی سامنے آگیا.تم اگر دونوں سٹیج ایک جیسے بناتے تو کسی کو بھی اعتراض نہ ہوتا.میں نے کہا مولانا مناظرے کا وقت ہو گیا ہے.وہ بولے مناظرہ تو شرائط کے بل بوتے پر ہوتا ہے.اور شرائط کے ملے کرنے کے وقت یہ "بدو" آپ کے پاس آگئے.اب آپ ہی شروع کریں.میں نے مناظرے کا آغاز کیا.خدا تعالٰی کے فضل سے دو گھنٹے کا بہت کامیاب مناظرہ ہوا جو وہاں کے لوگوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوا.مناظرہ کے بعد مولوی محمد یوسف صاحب میرے پاس آکر بیٹھے رہے اور میری خیریت دریافت کرتے رہے اس کا بھی لوگوں پر اچھا اثر ہوا.پھر میرے لئے چائے آگئی جو ہم دونوں نے پی اور بعد میں اپنی اپنی منزلوں کی جانب روانہ ہو گئے.ایک دلچسپ معاہدہ انبالہ شہر کے مختلف محلوں میں بھی ہم تبلیغی جلسے کرتے رہے.ایک دفعہ ایک محلہ میں ہمارے جلسے سے تھوڑی دیر قبل مولوی ابراہیم نے جو بہت شرارتی تھا.لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہ مزا تب ہے اگر ان کا آج جلسہ نہ ہو سکے جس پر چند شوریدہ لڑکے لڑنے مرنے کو تیار ہو گئے کہ ہم جلسہ نہیں ہونے دیں گے.ہم نے پوچھا کہ وجہ بتا ئیں آپ کیوں ہمارے جلسہ سے خائف ہیں.کہنے لگے کہ ہم مرزا صاحب کا نام تک سننے کو تیار نہیں ہیں.ہم نے کہا ہم مرزا صاحب کا نام ساری تقریر میں نہیں لیں گے.اس پر سے سمجھوتہ ہو گیا.میں نے تلاوت و نظم کے بعد تقریر شروع کر دی تو ہمارے احباب بہت حیران ہونے لگے کہ مولوی صاحب نے ان سے ایسا معاہدہ کیوں کر لیا کہ ہم مرزا صاحب کا نام ساری تقریر کے دوران نہیں لیں گے.میں نے رسول پاک صلعم کی شان اکمال دین کا ذکر کیا پھر علماء امتی کا انبیاء بنی اسرائیل کا ذکر کیا.ان سے

Page 186

170 اور ساتھ العلماء ورثه الانبیاء کا ذکر کیا کہ میرے دین کی خدمت کریں گے.پھر علماء کے اختلافات اور امت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا بیان کیا اور مسیح موعود کی آمد کی غرض اور ادیان باطلہ کا اسلام پر حملہ اور حضرت مسیح موعود کا مقابلہ کر کے عیسائیوں، یہودیوں اور آریوں سے انعام رکھ کر چیلنج کرنا اور ان کا اسلام کی برتری ثابت کر کے لاکھوں کی تعداد میں ایک تبلیغی جماعت کا قائم کرنا بیان کیا اور اب ان کے خلفاء کا زمانہ ہے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں.اب ہر اس بھائی کا جس کے دل میں اسلام کی ترقی کا عشق ہے اس جماعت میں شامل ہونا رسول پاک کی خوشنودی کا موجب ہے.اللہ تعالی ہر مسلمان کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے.آمین.غرضیکہ ساری تقریر میں مرزا صاحب کا نام نہ آنے دیا اور دعا پر جلسہ ختم ہوا جماعت کے دوست بہت خوش ہوئے.بعدۀ مولوی ابراہیم صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لیکچرز ہوں تو ایسے ہوں.مرزا صاحب کی صداقت بھی بیان کر دی نہ ماننے والوں کو کافر بھی ثابت کر دیا اور اپنے اوپر حرف بھی نہ آنے دیا.پھر علیحدگی میں مجھ سے ملا اور کہنے لگا کہ اگر آپ کی جماعت مجھے اپنا مبلغ بنا لے اور معقول گزارہ الاؤنس دے تو میں بھی آپ میں شامل ہو جاؤں گا.میں نے کہا کہ مولوی صاحب ! اگر آپ گزارہ کے لئے شامل ہوتے ہیں تو آپ کو لے نہیں سکتے اور اگر احمدیت کو سچا مان کر شامل ہونا چاہتے ہیں تو آئیے بسم اللہ.وہ بے چارے ایسے خاموش ہو کر گئے کہ دوبارہ کبھی نظر نہ آئے.ایک دن انجمن شعبہ تبلیغ انبالہ کی طرف سے ملازمت کی پیشکش میں بذریعہ ریل انبالہ چھاؤنی جا رہا تھا کہ بابو عبدالحلیم صاحب ہیڈ کلرک انجمن شعبہ تبلیغ جو سید غلام بھیک صاحب نے قائم کی ہوئی تھی مجھے چھاؤنی کے سٹیشن پر ملے اور ایک

Page 187

171 طرف لے جا کر بڑے ہمدردانہ لہجے میں بات چیت کا آغاز کیا.کہنے لگے کہ میں نے خفیہ طور پر معلوم کرایا تھا کہ آپ کدھر جا رہے ہیں.جب یہ معلوم ہوا کہ آپ چھاؤنی جا رہے ہیں تو میں نے بھی جھٹ چھاؤنی کا ٹکٹ لے لیا.صرف آپ کی ہمدردی نے ایسا کرنے پر مجبور کیا مگر آپ کی سادگی دیکھ کر میں بڑا کڑھتا ہوں کہ اتنی تھوڑی تنخواہ دی جاتی ہے جب کہ آپ ایسے قابل ہیں کہ آریوں ، عیسائیوں سے آپ کے سوال و جواب سن کر آپ کی قدر معلوم ہو جاتی ہے.آپ کے اخلاق و عادات بھی اچھے ہیں اور مسلمانوں کے فرقوں سے بھی خاصے واقف ہیں اور تقریر کو بھی خوب نبھا لیتے ہیں.اس لئے میں نے یہ کوشش کی ہے کہ آپ کو یہ خوشخبری دوں کہ ہماری انجمن کو آپ جیسے ایک مبلغ کی ضرورت ہے اور میں نے سید صاحب کے پاس آپ کا ذکر کیا تھا.انہوں نے بھی مجھے تسلی دی ہے.جب میں آپ کا کام دیکھتا ہوں اور پھر ایسا گرا ہوا لباس دیکھتا ہوں تو مجھے آپ پر ترس آتا ہے.اب آپ تائیں کہ آپ کی انجمن آپ کو کیا دیتی ہے.میں نے کہا میں تو ابھی بتانے کو تیار نہیں ہوں.آپ اپنی گنجائش بتا دیں.میں آپ کی ہمدردی کا شکریہ ادا کرتا ہوں.انہوں نے بتایا کہ ہمارے چار پانچ مولوی کام کرتے ہیں.ہم انہیں پچاس ساٹھ روپے دیتے ہیں اور سفر خرچ بھی تھیں روپے تک ہو جاتا ہے.چنانچہ اوسطا" یکصد روپے کے قریب ہو جاتا ہے.آپ کو زیادہ تر ہم نے غیر مذاہب کے لئے لیتا ہے اس لئے آپ کو یکصد روپیہ سے شروع کر کے پانچ روپیہ سالانہ ترقی اور دو صد روپے پر گریڈ ختم ہو گا دیں گے.پھر جیسے جیسے حالات تبدیل ہوں گے دیکھا جائے گا اور پچاس سے ساٹھ روپے تک آپ کا سفر خرچ بھی ہو جایا کرے گا اور جو چندہ آپ کو ملے وہ انجمن کا اور جو نذرانہ ملے وہ آپ کا ہو گا.اب ایک تو آپ بچے اسلام کی خدمت کر کے جنت کے وارث بنیں گے دوسرے دنیوی حساب میں بھی

Page 188

172 آپ کا گزارہ اچھا ہو جائے گا.اب میں نے آپ سے تحریر لے کر جاتا ہے کہ آپ کب تک جواب دیں گے.میں نے کہا کہ آپ کی ہمدردی اور پیش کش کا بہت بہت شکریہ اور میں جناب کی خدمت میں جواب ابھی عرض کر دیتا ہوں اور امید ہے کہ میرا سارا جواب سن کر آپ آسانی سے نتیجہ نکال لیں گے.اول تو آپ کو میرے ایمان کے متعلق ہمالیہ پہاڑ جتنی غلط فہمی ہو گئی ہے.میں کسی روپیہ کی خاطر احمدیت میں نہیں آیا بلکہ اللہ پاک کا بہت ہی شکر گزار ہوں کہ بٹالہ جیسے شہر کے ماحول میں رہ کر میرے والدین نے احمدیت قبول کرلی اور مجھے ورثہ میں مل گئی.پھر دوسری مرتبہ میں اپنے پیدا کرنے والے خالق کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ میرے والدین کو حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی مع اہل و عیال ۱۹۰۲ء میں قادیان آنے کی توفیق بخشی.اس وقت میری عمر دس سال تھی اور خدا کا شکر گزار ہوں کہ میری آنکھوں کو اس پیارے خدا کے مامور اور آنحضرت ﷺ کے نور کے حصہ کو دیکھنے کا موقع ملا جس نے ہمیں شیر بننے کے لئے اس قسم کی تعلیم سکھائی جس سے غیر مذاہب کا مقابلہ کرنے کی ہم میں جرات پیدا ہو گئی اور آنحضرت ﷺ ہوا دین اصل شکل میں ہمارے سامنے رکھ دیا اور قرآن و اسلام اور بانی اسلام علیہ السلام پر اعتراض کرنے والوں کو کثیر انعام رکھ کر مقابلہ کے لئے انکار کر بلایا کہ کوئی ہے جو میرے سامنے اگر ان پر اعتراض کر سکے اور وہ علمی جواہر پارے تقسیم کر دیئے جس سے ساری دنیا کے لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں.تیسری دفعہ اپنے رزاق خدا کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ اس نے ہمیں حقیقی دین کی تبلیغ کا موقع بھی دیا اور کھانا اور کپڑا بھی مل رہا ہے ورنہ جب ہم نے بیعت کرلی تو وہ ہمیں حکم دے سکتے تھے کہ جاؤ ٹوکری اٹھاؤ اور تبلیغ کرے.اس وقت ہم بالکل انکار نہ کر سکتے تھے.بابو صاحب ہم تو ایمان حاصل کر کے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش میں رات دن پر کا لایا

Page 189

173 مصروف ہیں ورنہ اگر دنیا ہی کمانی ہوتی تو ان ایام میں تین سو روپیہ ماہوار کی ملازمت مجھے ملتی تھی.صرف ابادان جانا پڑتا تھا اور میرے ساتھی وہاں چلے بھی گئے.پھر فتح گڑھ ضلع فرخ آباد میں امریکن پادری ۲۰۰ روپیہ ماہوار دیتے تھے پھر پادری سوجان پوری دو سو پچاس روپیہ علاوہ سفر خرچ کے امریکن مشن سے دلاتا تھا.اگر ایمان کی ضرورت نہ ہوتی تو ادھر تو بڑی عیش تھی.اس لئے بابو صاحب میں نے جہاں تک تحقیقات کی ہیں حضرت عیسی کے متعلق جو عقائد پادریوں کے ہیں وہی آپ صاحبان کے ہیں اور باوجود یہ عقیدہ رکھنے کے آپ دونوں گروہ جنت کی خوشبو بھی لے رہے ہیں گویا جنت کے اجارہ دار ہیں حالانکہ رسول اکرم ا نے خبردار بھی کیا تھا کہ پادریوں کا گروہ دجال ہو گا اس سے بچنا.اور سورۃ کہف کا پہلا اور آخری رکوع پڑھنا کیونکہ یہ دونوں رکوع عیسائیوں کا حال ظاہر کرتے ہیں اس طرح تم دجالی فتنہ سے بچ سکو گے.اب میری مئودبانہ بلکہ ناصحانہ گزارش ہے کہ آپ احمدیت کی تحقیق کریں خدا تعالٰی آپ کو ضرور ہدایت دے دے گا.غرضیکہ بابو صاحب اس دن کے بعد ایسے غائب ہوئے کہ آج تک کہیں نظر نہیں آئے.آیت فاولئک مع الذین انعم الله عليهم میں لفظ مع کے عجیب معنی تحصیل پٹھانکوٹ میں ایک دفعہ تبلیغی دورہ کے دوران ماسٹر عبد الکریم صاحب ٹیلر نے مجھے کمزور جان کر بات چیت کرنے کے لئے وقت مانگا اور رات کو مولوی عبدالکریم صاحب ، شیخ نور الدین صاحب اور چند احباب میرے پاس آگئے.کہنے لگے کہ ہم بات چیت کرنے آئے ہیں.میں نے خوش آمدید کہا اور بات شروع ہو گئی.سوال و جواب کافی دیر تک ہوتے رہے.آخر مولوی صاحب لفظ " مع " کے

Page 190

174 یہ معنی کرنے لگے کہ یہ اس قسم کی معیت ہے جس طرح دیوار کے ساتھ "پاتھی" لگائی جاتی ہے.میں نے کہا معاف کرنا مولوی صاحب آپ نے اس کلام الہی کی سخت توہین کر دی ہے.اگر تھوڑی دیر کے لئے یہ معنی مان لئے جائیں تو اس امت کے صدیق اور صلحاء اس پاتھی کے مقام پر ہی رہ گئے اور اس دیوار نے جو رسول ے ہیں انہیں نہ اپنایا نہ تو ان میں اپنا رنگ ہی دیا اور نہ ان میں مضبوطی ہی پیدا کی اور نہ اپنے ساتھ ہی رہنے دیا اور انہیں صرف ایندھن کا کام لینے کے قابل ہی بنا دیا حالانکہ خدا تعالٰی فرماتے ہیں وحسن اولئک رفیقا اور وہ احسن رفاقت ہے.کیا ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ہو تو وہ رفاقت احسن ہے یا چپڑاسی کی رفاقت احسن ہے ؟ مولوی صاحب ! یہ معیت کا لفظ مع " چاروں عہدوں پر چسپاں ہے یعنی نبی ، صدیق ، شہید اور صالح.آپ نے نبی کی رفاقت سے امتی نبی کو الگ کرتے کرتے باقی تین درجے بھی مٹا دیے.خدا تعالیٰ ہی اب اپنے فضل سے اسلام کی مدد فرمائے ورنہ عالم تو ہم نے دیکھے کہ اس امت میں کنجر ، چور ، شرابی زانی کاذب ، فاسق ، ڈاکو ، مشرک، بے نماز بے دین ، جاہل، جیب کترے، بھنگی چری تو سب جاری ہیں مگر اس خیر الامت میں نبی ، صدیق ، شہداء اور صالحین سب بند ہیں.آج اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے اور اس امت کو پہلی سب امتوں سے ناقص ثابت کیا جا رہا ہے.انا للہ وانا اليه راجعون وہ سب یہ سن کر خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے.ہمارے احمدی دوست کہنے لگے کہ رات تو کافی گزر چکی ہے مگر خدا جانے یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے.میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کہ وہ خوب سمجھتے ہیں.ہماری رات نے دن کا کام دکھلایا ہے.ہم نے بھی آرام کیا.صبح کو جب میں بازار گیا تو شیخ نورالدین صاحب جو رات کو مولوی صاحب کے ہمراہ تھے بڑے تپاک سے ملے اور بتانے لگے کہ رات

Page 191

175 راستہ میں مولوی عبد الکریم صاحب کہنے لگے کہ قادیانی بہت خوش اخلاق مبلغ ہوتے ہیں.میں اگر یہ پاتھی والی مثال کسی اور مولوی کے سامنے دے دیتا تو وہ ضرور کفر کا فتویٰ لگا دیتا.مگر احمدی مولوی صاحب نے ہمیں ڈھیٹ تو ضرور کر دیا ہے لیکن کوئی فتوئی نہیں دیا.اب اس آیت پر اور بنی آدم والی آیت پر غور کرنا بڑا ضروری ہے.آخر خدا کے فضل سے یہ تینوں دوست احمدی ہو گئے تھے.ایک دن میں سوجان پور کے حافظ پادری قائم الدین کا قبول اسلام مولوی عبد الکریم صاحب کی دوکان پر بیٹھا تھا کہ ایک پادری سو جان پور سے آگئے.ان کا نام پادری حافظ قائم الدین تھا.ان کا امریکن مشن سے براہ راست تعلق تھا.مولوی صاحب نے میرا ان کے ساتھ تعارف کروایا.میں ان کے متعلق یہ سن کر کہ حافظ قرآن بھی، مولوی بھی اور پادری بھی بڑا حیران ہوا اور انہیں اپنے گھر لے آیا.چائے وغیرہ پلائی.پھر ان سے حالات وغیرہ دریافت کئے کہ کس وجہ سے پادر ہی ہوئے ہیں.کہنے لگے کہ مولوی صاحب آپ کے اچھے اخلاق کا میرے دل پر بہت اثر ہوا ہے اور قسم کھا کر کہنے لگے کہ کل اتوار ہے (چھٹی کا دن) آپ نو بجے سو جان پور تشریف لا ئیں.میں آپ کو گھر پر ملوں گا اور علیحدگی میں باتیں ہوں گی.میں رضا مند ہو گیا اور پادری صاحب چلے گئے.میں اپنے وعدہ کے مطابق صبح اٹھا دعا کی اور آٹھ آنے کے پھل لے کر سو جان پور پہنچا.پادری صاحب بازار میں ہی گوشت والے کی دوکان پر مل گئے.انہیں سارے بازار والے جانتے تھے اس لئے یہاں تو مجھ سے نہ طے البتہ گھر لے گئے.گوشت وغیرہ رکھ کر بیٹھک کا دروازہ کھولا اور السلام علیکم کہہ کر مجھ سے بغل گیر ہو گئے.میں نے ان سے کہا کہ میں بھی پادری صاحب سمجھتا تھا که بازار میں آپ مجھ سے نہیں مل سکتے یعنی اس طرح پاک ہے.انہوں نے اپنے

Page 192

176 سب بچوں کو بلا لیا.دو لڑکیاں دسویں میں اور چھوٹا لڑکا چھٹی میں پڑھتا تھا.بڑی لڑکی اور ان کی والدہ نے اندر ہی سے السلام علیکم کہہ دیا کیونکہ پہلی ملاقات تھی اور فریقین کو بات کرنے میں حجاب تھا.پادری صاحب سوال کرنے لگے کہ مولوی صاحب! میاں بیوی کا ایک ہی مذہب ہوتا ہے یا الگ الگ؟ میں نے کہا آپ تو پادری ہیں اور ساتھ ہی حافظ بھی.یہ دونوں مثالیں قرآن اور توریت سے ملتی نہیں جیسا کہ حضرت نوح اور حضرت لوط کے مذہب اپنی اپنی بیویوں سے مختلف تھے.حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت محمد مصطفے ﷺ اور ان کی بیویوں کے مذہب ایک ہی تھے.پادری کی بیوی صاحبہ بولیں.جناب مولوی صاحب جب حافظ صاحب کو قرآن شریف بھولا ہے اس وقت سے توریت اور انجیل بھی انہیں نہیں آتی.میں تو اپنے اسلام پر قائم ہوں.موقع ملے تو نماز بھی پڑھ لیتی ہوں اور روزے بھی رکھ لیتی ہوں.پادری صاحب اپنی بیوی سے کہنے لگے کہ میں نے کبھی اس بات سے بھی منع کیا ہے کہ تم نیک عمل نہ کرو.آپ بھی پردہ کرتی ہیں اور لڑکی بھی.آپ برقعہ پہنتی ہیں کئی دفعہ بڑے پادری صاحب نے یہ سوال بھی کیا ہے کہ وہ گر جا نہیں آتیں.میں نے ان سے کہہ دیا کہ میں انہیں ابھی سمجھا رہا ہوں جب سمجھ جائیں گی تو خود بخود آجایا کریں گی میں انہیں مجبور نہیں کر سکتا.میں نے کہا حافظ صاحب آپ کی اہلیہ عقائد کے لحاظ سے میری بہن ٹھہریں اور آپ کی بیٹی میری بھانجی.اب صرف آپ ہی سے میرا اختلاف رہ گیا ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم دوستانہ رنگ میں اس اختلاف کو دور کرلیں.کہنے لگے بہت بہتر مگر یہ سب باتیں اسی جگہ ہونگی.میں نے کہا کہ پھر یہ کیسے معلوم ہو گا کہ فریقین میں سے کس کے دلائل زیادہ مضبوط اور قابل قبول ہیں.پادری صاحب کی اہلیہ صاحبہ بولیں کہ مولوی صاحب ! حافظ صاحب میرے خاوند ہیں اور آپ میرے دینی بھائی ہیں بلکہ

Page 193

177 میں نے آپ کو حقیقی بھائی سمجھ لیا ہے.اگر آپ اعتبار کریں تو خدا تعالٰی نے میری دعا سن لی ہے اور میری خواہش کے مطابق آپ کو یہاں بھیجا ہے.میرے ساتھ حافظ صاحب کی بہت عرصہ باتیں ہوتی رہی ہیں مگر میری کم علمی کی وجہ سے ان کے سامنے میری کچھ پیش نہ جاتی تھی.میں آپ دونوں کی باتیں سن کر خدا لگتی بات کر دیا کروں گی چاہے کچھ ہو جائے چونکہ یہ ایک پرائیویٹ معاملہ تھا اس لئے میں نے اور حافظ صاحب نے رضا مندی کا اظہار کر دیا.میں نے حافظ صاحب سے پوچھا کہ جب یہ بھنگی (عیسائی) عورتیں اور مرد آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ ان کے خوردو نوش کا کیا اور کہاں انتظام کرتے ہیں.حافظ صاحب بولے کہ ان کے کھانے پینے کا انتظام چوہر محلہ میں ہی ہوتا ہے.میرے گھر میں تو آہی نہیں سکتے.میں نے کہا آخر آپ کی دعوت وغیرہ تو کرتے ہی ہوں گے حافظ صاحب کہنے لگے ہر گز نہیں.میرے ان کے ساتھ اتنے تعلقات نہیں.میں صرف اتوار کے روز گر جا جا کر دعا کروا آیا کرتا ہوں اور بس.انہیں پڑھانے والے میرے ماتحت ہیں.میرا تعلق براہ راست امریکہ مشن سے ہے.اور ان سب کی تنخواہیں میرے ذریعے آتی ہیں.بتانے لگے کہ میری تنخواہ دو صد روپیہ ہے.میری اہلیہ کا پچیس روپے الاؤنس ہے.میری لڑکی کا وظیفہ پچیس روپے ، لڑکے کا پندرہ روپے اور چھوٹی لڑکی اور لڑکے کے لئے ہیں روپے کی منظوری آگئی ہے.پچیس روپے کرایہ مکان اور تمہیں روپے ماہوار مهمان نوازی کے بھی ہیں.کل تین صد ساٹھ روپے ماہوار مجھے مل جاتے ہیں.مشن کا مہمان کبھی آیا ہی نہیں اور مکان کا کرایہ صرف دس روپے ادا کرتا ہوں.باقی سب بچپت ہی بچت ہے.اب مولوی صاحب آپ یہ بتائیں کہ آپ کی کیا آمدنی ہے.میں نے کہا میری آمد مسیح جتنی ہے.بہن صاحبہ ہنس پڑیں اور حافظ صاحب سے کہنے لگیں آپ خود ہی گن لیں.میں نے کہا کہ آپ بادشاہوں کے

Page 194

178 مبلغ ہیں جن کے جوتا پہنانے والے اردلی کو بھی کئی صد روپے تنخواہ ملتی ہے اور ہم اس کے مبلغ ہیں کہ جس کے اپنے گھر کی یہ حالت رہی ہے کہ جب بھی زیادہ مال آجا تا رات کو اس وقت تک نیند نہ آتی تھی جب تک اسے تقسیم نہ کر دیتے تھے اور خود بھی معمولی غذا پر گزارہ کرتے تھے.اگر بیویوں نے اچھے کھانے کپڑے اور زیورات طلب کئے تو صاف جواب دے دیا کہ یہ سب چیزیں لے لو اور یہاں سے رخصت ہو جاؤ اور اگر اللہ اور رسول حاصل کرنا ہیں تو سادہ غذا کھاؤ“ سادہ لباس پہنو اور آخرت سنوارو.اس لئے حافظ صاحبہ ہم تو اللہ تعالی کے شکر گزار ہیں کہ ہمیں روٹی کپڑا مل جاتا ہے.اور مسیح کے اصل حواریوں کی طرح ہماری زندگی گالیوں اور ملامتوں میں گزر رہی ہے.ہم اپنے اللہ رسول ا اور مسیح موعود کا نام بلند کئے جاتے ہیں.کسی لومة لائم کی کبھی پرواہ نہیں کی تا خدا تعالی خوش ہو جائے و ہی.میری ان باتوں کا بہن صاحبہ پر بڑا اثر ہوا.وہ کہنے لگیں کہ پہلے کھانا کھا لیں پھر باتیں ہوں گی.میں نے اپنے بیگ میں سے پھل نکال کر اندر بھیجوا دیا.بعدہ ہم نے کھانا کھایا.کھانے کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ جاری ہوا.میں نے کہا حافظ صاحب آپ نے اسلام چھوڑ کر عیسائیت قبول کی ہے.گویا پیچھے جا کر آپ کو صداقت ملی ہے اس لئے (1) آپ مسیح کی تعلیم میں کوئی ایسی خوبی بتا دیں جو اسلام میں نہ پائی جاتی ہو.(۲) دوسرے مسیح کی تعلیم نے (جو بقول عیسائی برادران تمام دنیا کے لئے ہے) دنیا میں ایک روحانیت کے رنگ میں ایسا انقلاب پیدا کر دیا ہو جس سے اسلام تہی دست رہا ہو.(۳) تیسرے مسیح کی تعلیم پر عمل کر کے فی زمانہ کوئی بھی خدا تعالٰی سے تعلق پیدا کر لینے کا دعویدار ہو.(۴) چوتھا مسیح کی تعلیم پر چل کر کسی نے مسیح کی روحانیت کو حاصل کر کے مسیح جیسے معجزات دکھائے ہوں؟ جیسے نادر زاد اندھوں کو آنکھیں دینا کوڑھیوں کا شفا دینا مردوں کو زندہ کرنا اور غیب

Page 195

179 دان ہو جانا پہاڑ کو ادھر سے ادھر کر دینا اور پھر آسمان پر چلے جانے کا معجزہ دکھایا ہو تو بیان کریں.ابھی میں صرف یہی چار سوال رہنے دیتا ہوں تا کہ آپ کوئی بوجھ محسوس نہ کریں.حافظ صاحب کہنے لگے مولوی صاحب میں قریباً ہر پادری و عیسائی سے ملا ہوں جو اسلام چھوڑ کر عیسائی ہوا ہے.وہ کسی نہ کسی لالچ میں ہوا ہے ورنہ عیسائیوں میں مذہب کہاں تھا.وہ تو سارا رسول پاک ﷺ کی آمد پر ہی ختم ہو گیا اور باقی صرف دنیا داری ہی رہ گئی.اب کوئی نوکری کے لئے کوئی شادی کے لئے کوئی کسی ٹھیکہ کو لینے کے لئے کوئی پڑھائی کے وظیفہ کے لئے کوئی کسی رعب میں آکر کوئی مالی کمزوری کی وجہ سے اور کوئی یتیم خانہ میں پرورش پا کر عیسائی ہو جاتا ہے.اب بھلا بتائیں کہ عیسائی مذہب کہاں رہ گیا ہے.بلکہ پادری بھی عیسائی نہیں ابن المال ہیں و بس.کسی پادری نے مناظرہ کیا کرنا ہے.طبائع میں آزادی، بے پردگی غریب کی کمائی ، صرف حکومت سے تعلق ہے ورنہ عیاشی لادینیت اور دہریت کا دور دورہ ہے.میرے یہ تھوڑے سے الفاظ سن کر پادری صاحب بولے کہ مولوی صاحب اگر آپ برا نہ منائیں تو اسلام میں تو سب کچھ ہے مگر مسلمان خالی ہو گئے ہیں.انہیں ہم بات تک نہیں کرنے دیتے اور نہ وہ ہمارے سوالوں کے جواب ہی دے سکتے ہیں.ہمارا سوال ہوتا ہے کہ ہمارا خداوند یسوع مسیح خدا کے بیٹے تھے اس لئے انہوں نے وہ معجزے دکھائے جو کوئی اور نبی نہیں دے سکا یعنی جو آپ نے اپنے سوال نمبر ۴ میں بیان کر دیئے ہیں.وہ مسلمان ان سب معجزات کو مانتے ہیں جواب کیا دیں گے.مگر اس زمانہ میں حضرت مرزا صاحب نے آکر عیسائیت کا چراغ نہ صرف گل کر دیا بلکہ توڑ موڑ کر ایسا ٹکڑے ٹکڑے کر دیا کہ اب قیامت تک نہ جل سکے اور عیسائی ہی کیا غیر مذاہب کا ایسے ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ اسلام کو ان پر غالب کر دیا اور اپنے مریدوں کی فوج کو اسلامی دلائل سے ایسا مسلح کر دیا کہ ساری دنیا ان - 6

Page 196

180 سے بات نہ کرنے میں ہی بچاؤ کی صورت سمجھتی ہے.میں نے حضرت مرزا صاحب کی بہت سی کتب کا مطالعہ کیا ہے.ایسے برجستہ دلائل ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ مرزا صاحب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے گھر میں بیٹھ کر چند سال تعلیم حاصل کی اور ساری دنیا کے مذاہب کے مقابلہ میں کھڑے ہو کر للکار رہے ہیں کہ آؤ علمی مقابلہ کردیا روحانی مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ خدا تعالی کس کی مدد کے لئے کھڑا ہے.حالانکہ آپ نے دنیوی سٹیمیں دیکھی ہی نہ تھیں.گھر میں بیٹھ کر اسلامی اصول کی فلاسفی لکھی اور اشتہار دیدیا کہ ہمارے خدا نے فرما دیا ہے کہ ہمارا مضمون سب مضامین پر غالب رہے گا اور بعد میں سب مذاہب کے مضامین پر واقعی غالب رہا.اگر یہ حیرانی نہیں ہے تو کیا ہے.میں نے کہا پادری صاحب! حیرانگی والی تو کوئی بات نہیں.پہلا مسیح چھوٹی سی بستی ناصرہ میں پیدا ہو کر کھڑا ہو گیا اور یہ دوسرا مسیح ایک ذرا بڑے گاؤں میں کھڑا ہو گیا.پہلے مسیح نے حکیمانہ معجزے دکھا کر خدا تعالی کی ہستی کا ثبوت دیا اور انہوں نے عالمانہ معجزے دکھا کر خدا تعالیٰ کو الحی القیوم ظاہر کر دیا.اس طرح دونوں خدا تعالٰی کے مقرب ثابت ہو گئے.غرضیکہ تین ماہ تک حافظ صاحب سے ہر اتوار کو تھوڑی بہت دوستانہ گفتگو ہوتی رہی.تین ماہ کے بعد جناب ناظر صاحب دعوة التبلیغ چودہری فتح محمد صاحب سیال کی خدمت میں سب بچوں سمیت مشن میں استعفیٰ دینے کے بعد اپنے آپ کو قادیان میں پیش کر دیا.اس طرح ان سب نے احمدیت قبول کر لی کچھ عرصہ قادیان رہے پھر اپنے وطن سرگودھا کی طرف تشریف لے گئے.پہلے تو وہ مجھے بھی یہ مشورہ دیتے تھے کہ آپ کو چار صدہا ہوار کے قریب رقم آجایا کرے گی.ہم اندر سے احمدی رہتے ہیں اور ظاہری عیسائی پادری رہیں گے اس طرح گزارہ بھی معقول ہو تا رہے گا.اس کا صرف میں نے یہی جواب دیا کہ اگر پہلی تنخواہ آنے سے قبل ہی میری جان نکل جائے تو ایمان

Page 197

181 بھی گیا اور جان بھی گئی اور اس طرح دنیا بھی گئی.اس طرح میں نے کیا کمائی کی.اس بات نے حافظ صاحب اور انکی اہلیہ پر جادو کا اثر کر دکھایا ور اس وقت سے ہی بیوی نے خاوند کو راضی کرنے کی یہ کوشش شروع کر دی کہ ہم سوکھی روٹی نمک مرچ سے کھالیں گے.اب توبہ کر لو.آخر خداتعالی نے انہیں ہدایت سے نوازا.الحمد لله ہیڈ کوارٹر کاٹھ گڑھ میں تھانیدار اور ڈیٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سے تبادلہ خیالات انبالہ سے کاٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور میں ہیڈ کوارٹر بنا کر تبلیغ کرنے کے لئے مجھے مرکزی حکم ملا.میں اپنی اہلیہ سمیت رو پڑ کے راستے کاٹھ گڑھ پہنچ گیا.جماعت کے احباب نے بیت کے ساتھ ایک کمرہ رہائش کے لئے دے دیا.میں نے اس حلقہ میں چھ ماہ تک کام کیا.ایک دن ایک تھانیدار صاحب ملے اور کہنے لگے مولوی صاحب آپ جب بھی آیا کریں تو تھانے میں اگر ہم سے بھی ضرور ملا کریں میں نے کاٹھ گڑھ میں آریوں کے خلاف آپ کی ایک تقریر سنی تھی جو ایک آریہ کے اسلام پر اعتراض کے جواب میں آپ نے کی تھی.آپ کی تقریر سن کر ایمان کو بہت تقویت ملی تھی.آپ نے جب آریہ مذہب کے عقائد بیان کئے تو تمام ساتنی اس وقت سن کر چیخ اٹھے تھے اور ان کی آریوں سے لڑائی بھی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے علی الصبح ہی تمام آریہ وہاں سے چلے گئے تھے ہمارے تھانے کا ہیڈ کلرک آریہ ہے.وہ ہر وقت مسلمان سپاہیوں پر اعتراض کر کے تنگ کرتا رہتا ہے.اگر آپ مناسب خیال کریں تو آپ اس سے دوستانہ ماحول میں بات چیت کروا دیں.میں نے بات چیت کرنے کا وعدہ کر لیا.میں اتوار کے دن ان کے ہاں گیا.تھانیدار صاحب

Page 198

182 نے اس آریہ کلرک کو اپنے ڈیرے پر ہی بلوالیا اور اس سے کہنے لگے کہ یہ مولوی صاحب ہمارے مہمان آئے ہیں.ان سے کوئی بات پوچھیں تو ہم بھی سن لیں.آزید صاحب بولے کہ مولوی صاحب یہ بتائیں کہ جب آپ کے یوسف نبی کو زلیخا جیسی پری روش نوجوان قسم کی حور جنت ایک مزین مکان میں اکیلی لے کر گھس گئی جب کہ اس کی نیت بھی اچھی نہ تھی اور حسن و جمال بھی پورے جوبن پر تھا تو کیا اس علیحدگی کی حالت میں کوئی نوجوان بچ سکتا ہے؟ اگر کوئی بچ سکتا ہے تو اس کی کوئی مثال دیں.میں نے کہا سیتاجی پری روش آریہ سورگ کی خاص دیوی بادشاہ روان جیسا بد کار اپنی بہن کا بدلہ لینے کے لئے اٹھا کر اپنے محل میں لے کر چلا جائے تو کیا اپنی من مانی کئے بغیر رہ سکتا ہے اور پھر بیتا جیسی کو پاکدامن رہنے کا موقع دے سکتا ہے.اگر بیتا بیچ سکتی ہے تو خدا تعالیٰ کا نبی بننے والا مرد ایسی عورت سے کیوں نہیں بچ سکتا.آریہ کے سب قصے ہی من گھڑت ، منو شاستر بھی من گھڑت ، دید بھی من گھڑت ، ستیارتھ پرکاش بھی من گھڑت.یہ تھانے کی ضمنیاں نہیں ہیں یہ مذہبی ستکیں ہیں.تھانیدار صاحب کسی سناتنی پنڈت کو جلدی سے بلوائیے.آریہ صاحب بولے کہ میں کوئی لیکچرار نہیں ہوں.تھانے دار صاحب آپ نے مجھے خوامخواہ پھنسا لیا ہے.یہ تو کوئی مرزائی مولوی صاحب ہیں.دوسرے مولویوں کو تو ہماری کتب کے نام بھی نہیں آتے.غرضیکہ نمستے کہہ کر بھاگ نکلے.تھانیدار صاحب و دیگر سامعین میری باتیں سن کر بہت خوش ہوئے.ایک دفعہ پھر میں تھانہ میں گیا.میں نے سمجھا کہ تھانیدار صاحب اندر ہیں.میں نے جا کر السلام علیکم کہا.وہاں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب بیٹھے تھے.بولے آپ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ احمدی مسلمان ہوں.کہنے لگے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ پستول سے آپ کا کام تمام کر دوں.میں کٹر احراری ہوں بس باہر چلے جاؤ.میں نے چونکہ کریام پہنچا تھا اس لئے باہر آگیا

Page 199

183 اور اسی لاری سے جانا تھا جسے ڈپٹی صاحب نے خود جانے کے لئے رکوایا ہوا تھا.انہوں نے بنگلہ جانا تھا.لاری کی تمام سواریاں رکنے کی وجہ سے تنگ آئی ہوئی تھیں.ڈپٹی صاحب اندر سے نکلنے میں دیر کر رہے تھے.سواریاں انہیں گالیاں دے رہی تھیں.لاری کا ڈرائیور مجھے جانتا تھا.اس نے دوسری سیٹ پر میری جگہ بنا دی.تھوڑی دیر کے بعد میری اگلی سیٹ پر کٹر احراری ڈپٹی صاحب آکر بیٹھ گئے اور مجھے دیکھ کر بولے کہ مرزائی سوار ہے خدا ہی بچائے.میں نے جھٹ کہہ دیا کہ میں چوتھے پانچویں روز جاتا ہی رہتا ہوں.خدا تعالی سلامتی ہے ہی لے جاتا رہا ہے.ڈرائیور صاحب گواہ موجود ہیں.آج ڈپٹی صاحب سوار ہیں دیکھیں کیا حشر ہوتا ہے.وہ یہ سن کر ہنس پڑا.چھ میل کے فاصلہ کے بعد لاری کیچڑ میں پھنس گئی.سواریوں نے نکالنے کی بہت کوشش کی.پڑول بھی سارا ختم ہو گیا مگر وہ نہ نکلی.لوگ کہنے لگے کہ مولوی صاحب کی بات پوری ہو گئی.ڈپٹی صاحب بھی اتر آئے اور میں بھی اور باقی دوست بھی.میں نے ڈرائیور سے کہا آپ اس جگہ تک کا کرایہ لے لیں.آگے میں پیدل ہی چلا جاؤں گا.وہ کہنے لگا کہ کرایہ میں کسی سے بھی نہیں لوں گا.مجھے افسوس ہے کہ آپ سب لوگوں کو پیدل جانا پڑے گا.میں السلام علیکم کہہ کر چل پڑا تو ڈپٹی صاحب نے آواز دی کہ واپس آجائیں.اس گاؤں سے گھو ڑیاں منگوا لیتے ہیں پھر چلیں گے.میں نے کہا جناب عالی آپ کا شکریہ جب تک انتظار کرنا ہے (گھوڑی کا) تب تک میں کریام پہنچ جاؤں گا.ڈپٹی صاحب کہنے لگے کہ مرزا صاحب نے آپ کو کیا دکھایا ہے.میں نے کہا مرزا صاحب نے ہمیں صحیح مسلمان بن کر رسول پاک ﷺ کا نمونہ دکھایا ہے اور ہم نے خدا تعالیٰ کا نور دیکھا ہے کہنے لگے خدا کا نور کیسا ہے؟ میں نے کہا صحیح طور پر بیان کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں اور نہ میں اس کا نقشہ ہی بتا سکتا ہوں.صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ وہ نور بھی ہے

Page 200

184 مثل ہے.اس کی سفیدی کو جو سبزی مائل ہے.یہ آنکھیں برداشت نہیں کر سکتیں.اگر وہ اپنا پورا جمال ظاہر کر دے تو انسان کی حرکت قلب بند ہو جائے.اس لئے ذات باری تعالی ایک از حد خفیف جھلک ظاہر کر کے اپنے بندے کا اطمینان قلب کرتی ہے وبن.ڈپٹی صاحب نے اٹھ کر مجھے اپنی چھاتی سے لگالیا اور کہنے لگے کہ آج سے میرا احرار سے فرار ہے اور میں اب احمدیت کی ضرور تحقیق کروں گا اور ساتھ اپنا مکمل ایڈریس بھی دیا.کہنے لگے کہ آپ جب بھی ہوشیار پور آئیں مجھے ضرور ملیں میں اپنی گستاخی کی معافی چاہتا ہوں.افسوس ہے کہ میرا سارا ریکارڈ قادیان میں رہ گیا ورنہ بہت فائدہ پہنچ سکتا تھا.اس کے بعد جلسہ کے موقع پر مجھے مع المیہ صاحبہ کے واپس قادیان بلوالیا گیا اور حکم ملا کہ بعد جلسہ آپ کو کسی دوسرے حلقہ میں بھیجا جائے گا.بعد جلسہ مجھے حکم ملا کہ دوبارہ پونچھ پونچھ ریاست کشمیر میں ایک سال بعد جیسی ہے چلے جاؤ کیونکہ مولوی محمد صادق سماٹری وہاں بوجہ کٹھن راستے کھانے پینے کی تنگی اور ناموافق غذا کے بیمار ہو کر واپس جلسہ پر مرکز پہنچ گئے.وہ مجھ سے دفتر میں ملے اور کہنے لگے.استغفراللہ مولوی صاحب آپ مجھے کہاں پھنسا آئے تھے.وہاں کام کرنا آپ ہی کا کام ہے.میں نے تو کان پکڑ لئے ہیں کہ آئندہ کبھی پونچھ نہ جاؤں گا.میں نے کہا ہمیں دفتر والوں نے آج تک جہاں بھی بھیجا ہے اللہ پر توکل کر کے چل پڑا.اب بھی انبالہ کرنال ، پانی پت رہتک ، کلانور ، آریہ پو برست ، شاه آباد انبالہ چھاؤنی کا ٹھگڑھ ، سروعہ ضلع ہوشیار پور کا دورہ کر کے آیا ہوں.اب جدھر کا حکم ہو گا چل پڑیں گے.غرضیکہ دفتری حکم کے مطابق مع اپنے گھر والوں کے پونچھے پہنچا اور کام شروع کر دیا تمام حلقہ جات تحصیل باغ اور تحصیل راولا کوٹ وغیرہ کا دورہ کیا گیا.تحصیل مینڈر کا دورہ

Page 201

185 آمده جلسه تک کیا دورہ جات کے دوران اپنا میڈ کوارٹر پونچھ ہی میں رکھا.دوران ) سال کسی نے بھی مناظرے کی طرح نہ ڈالی صرف خاموش تبلیغ ہی ہوتی رہی.پونچھ میں ایک فارسٹر نامی بواد ته محل آرید راد اس متصل ڈیرہ بابا نانک کا رہنے والا ملازم تھا.میری جب بھی کسی آریہ ، مولوی یا پادری سے ملاقات ہوتی تو وہ بڑے شوق سے سنتا اور ساری باتیں بغور سننے کے بعد الگ مجلس قائم کر کے لوگوں کو بتاتا کہ اس احمدی مولوی کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے یہ نیک بھی ہے خوش اخلاق بھی اور ہر مذہب کا واقف بھی.اگر کوئی پنڈت ہو گا تو اپنے مذہب کا ہی واقف ہو گا.اگر کوئی مولوی ہو گا تو وہ بھی صرف اپنے مذہب کا ہی واقف ہو گا.اسی طرح پادری ہو سکھ ہو یا سناتی ہی کیوں نہ ہو سارے اپنے اپنے مذاہب سے بھی خوب واقف ہیں.چونکہ بوادتہ مل آریہ تعلیم یافتہ اور ذی اثر تھا اس لئے جب بھی یہ ایسی باتیں کرتا تو خدا تعالیٰ احمدیت کا اور بھی رعب ان کے دلوں پر جما دیتا.غرضیکہ سارا سال دورہ کرنے کے بعد جلسہ سالانہ کے موقع پر واپس قادیان آگیا.میری تیسری شادی شریفاں بیگم سے میری تیسری شادی کی داستان عجیب ہے.وہ سلواہ تحصیل منڈھیر ضلع پونچھ کی رہنے والی تھیں.ان کے والد محمد عبد اللہ مرحوم ایک متمول زمیندار لیکن درویش منش انسان تھے.لوگوں کو اور ان کے بچوں کو قرآن مجید پڑھانا.زندگی کا اہم فریضہ بنالیا تھا.ان کی ساڑھے چار صد کنال زرعی زمین سلواہ اور شینہ درہ میں تھی (شینہ درہ نام شیروں کے مسکن کی وجہ سے مشہور ہوا.شینہ شیر کو کہتے -

Page 202

186 ہیں) پونچھ میں مولوی کرم الہی صاحب کے پاس میری رہائش تھی شریفاں بیگم نے ایک رویا دیکھا کہ ان کے گھر ایک مولوی صاحب آئے ہیں اور ان کی پگڑی سبز رنگ کی ہے اور وہ انہیں ایک خوبصورت پھولوں کا ہار پہنا رہی ہیں.اور دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ ہے.ان کے روپا دیکھنے کے چند دن بعد ہی میں نے شینہ درہ کا دورہ کیا.وہ اپنی والدہ کے ہمراہ اپنی زمینوں کی نگرانی کے سلسلہ میں سکواہ سے شینہ درہ پہنچی تھیں.ان کے والد چونکہ وفات پاچکے تھے.اس لئے زمینوں کی نگرانی کا کام ان کی والدہ کے سپرد تھا.چنانچہ میں نے تقریر کی تو دیگر عورتوں کے ساتھ وہ بھی مکان کی چھت پر بیٹھ کر تقریر سننے لگیں.انہوں نے غور سے دیکھا تو اپنی والدہ کو بتایا کہ یہ تو وہی مولوی صاحب ہیں جن کو میں نے رویا میں ہار پہنایا تھا.ان کی والدہ نے ان کے استاد مولوی عبد الحئی صاحب نمبردار سے کہا کہ میری بچی جوان ہو گئی ہے یہ مولوی صاحب قادیان سے آئے ہیں ان کو کہیں کہ قادیان میں کوئی رشتہ تلاش کریں.اور شرط یہ ہے کہ لڑکا مولوی ہو.ان کی والدہ نے اس رویا کا یہ مطلب لیا کہ ان کی بچی کا رشتہ میرے ذریعہ ہو گا نمبردار صاحب نے ذکر کیا.تو میں نے کہا کہ قادیان کا مولوی تو پڑھا لکھا ہو گا.اور یہ لڑکی ان پڑھ ہے اس سے اتنی دور آکر کون رشتہ کرے گا.اس لئے بہتر ہے کہیں اور رشتہ تلاش کریں.پونچھ میں قیام کے دوران میری بیوی جو شریک سفر تھیں کے دونوں ہاتھوں کی کلائیوں میں درد شروع ہو گیا تھا جس وجہ سے کھانا پکانے اور دیگر گھر کے کام کاج کرنے میں دشواری تھی.اس غرض کے لئے ایک ملازمہ رکھ لی تھی.اس کے جوان ہونے پر اس کی شادی ہو گئی.تو ایک بار پھر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا.اس دوران ان کی والدہ کے چار بھائیوں میں سے چھوٹا بھائی آیا.اس نے دیکھا اور سنا تو اس نے مجھے

Page 203

187 اپنی بھانجی سے شادی کرنے کی پیشکش کر دی یہ پیشکش عقیدت کی بناء پر تھی کہ مجھے گھر کی وجہ سے پریشانی نہ ہو میں نے کہا کہ میری دو بیویاں پہلے موجود ہیں اور صاحب اولاد بھی ہیں اس لئے مجھے ایسی کوئی خواہش نہیں کہ میں تیسری شادی کروں اور یہ کہ میری تنخواہ اتنی قلیل ہے کہ گزارہ بھی مشکل سے ہوتا ہے.تیسری بیوی کا بار کس طرح اٹھا سکوں گا.اس لئے آپ اس مسئلے کو رہنے دیں.اس نے پوچھا تنخواہ کتنی ہے؟ میں نے بتایا پینتالیس روپے.اس نے اطمینان کا اظہار کیا کہ یہ تو بہت بڑی تنخواہ ہے.چنانچہ اس نے اصرار کیا اور مولوی کرم الہی صاحب سے بھی کہلوایا.میں نے اسے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ تم اپنے بڑے بھائی کو بھیجو تو غور کریں گے.مقصد یہ تھا کہ یہ پیش کش تو چھوٹے بھائی نے عقیدت کے جذبہ سے متاثر ہو کر کی ہے.بڑا بھائی لازمی اختلاف کرے گا.اس لئے بات مل جائے گی.لیکن وہ اپنے بڑے بھائی اور مولوی عبد الحئی صاحب اور دو اور معززین کو ساتھ لے کر دوبارہ آیا اور انہوں نے بھی پیشکش کو منظور کرنے پر زور دیا.چنانچہ ان سب کی متفقہ بات پر صاد کرنا پڑا اور اس کے بعد شادی ہو گئی.اس طرح وہ رویا جو اس نے شادی سے قبل دیکھی تھی حقیقی تعبیر بن گئی.محترمہ شریفاں کی ہمیشہ خواہش رہی کہ وہ میری زندگی میں اور میرے پاس وفات پائے.ان کی یہ خواہش اپنی دو سوکنوں کی وفات کے پس منظر میں تھی.میری دوسری بیوی سیدہ امتہ العلیم جو اولاً فوت ہو ئیں.جب بیمار ہو ئیں تو دفتر کی طرف سے ٹیلی گرام ملنے پر عاجز چنیوٹ پہنچا تو اسی شام فوت ہو گئیں.اور پہلی بیوی کریم بی بی جو ان کے بعد فوت ہو ئیں وہ رمضان المبارک کے مہینہ میں جب عاجز تراویح اور در بن القرآن کے لئے دورہ پر گیا.اس کے فورا بعد بیمار ہو گئیں اور ٹیلی گرام پر ٹیلی گرام آئے کہ حالت نازک ہے سانس اٹک اٹک کر رہ جاتی ہے فورا پہنچیں.لیکن

Page 204

188 میں جواب دیتا کہ دعا کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.چنانچہ موت و حیات کی کشمکش میں ایک ماہ گذر گیا.عاجز عید کی نماز پڑھانے کے بعد گھر پہنچا تو بے ہوشی سے ہوش میں آکر مجھے دیکھا اور چند باتیں کیں اس کے بعد اسی شام فوت ہو گئیں اور شریفاں بیگم بھی میو ہسپتال لاہور میں ہیں دن سے موت و حیات کی کشمکش میں تھیں اور ہر وقت سانس کے اٹک جانے کا دھڑکا لگا رہتا.اور جب ڈاکٹروں کے مشورہ کے بعد ربوہ واپس لائے تو اس کے اگلے دن میری موجودگی میں ۱۵ / اکتوبر ۱۹۸۴ء کو وفات پائی اور نماز جنازہ حضرت صوفی غلام محمد صاحب ناظر اعلیٰ ثانی نے پڑھائی اور تینوں بیویاں ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں.جلسہ سالانہ کے بعد میں جموں ریاست اکھنور چار کوٹ کشمیر میں ہیڈ کوارٹر اور هم پور کا دورہ کر کے ماہ مئی ۱۹۳۸ء میں واپس قادیان گیا اور گھر والوں کو اپنے ہمراہ لیکر براستہ گجرات ، بھمبر پہنچا.وہاں سے چار کوٹ تک بہتر میل کا سفر گھوڑے پر ہی کیا.وہاں پہنچ کر مکرم حیات علی خانصاحب کے مکان پر ہی ٹھہرا اور باقی حلقہ کا دورہ شروع کر دیا.جولائی ۱۹۳۸ء کے آخری عشرہ راجوری سے سری نگر تک پیدل سفر میں خاکسار نے آٹھ آدمیوں پر مشتمل ایک وفد تشکیل دیا تا راجوری سے سری نگر تک کا پیدل سفر کر کے تبلیغ کا کام کیا جائے.اس وفد میں مولوی عطا اللہ صاحب مولوی ثناء اللہ صاحب ماسٹر بشیر احمد صاحب، میاں محسن محمد صاحب اور میاں اللہ دتہ وغیرہ میرے ہمراہ تھے.دوران سفر بڑے کٹھن راستے عبور کرنا پڑے دریائے پونچھ کی پہلی آبشار وہاں سے شروع ہوتی دیکھی.گرمیوں میں وہاں سردی کا یہ عالم کہ دو گھنٹہ سے زیادہ وہاں رہنے کی قدرت گویا اجازت ہی نہ دیتی تھی.سردی سے دانت بجنے لگے.ہم نے

Page 205

189 وہاں سے بھاگنا شروع کیا.تین میل تک بھاگنے کے بعد ہم قدرے گرم ہوئے.وہاں پہاڑ کی چڑھائی بھی ختم ہو گئی تھی اور اترائی پھر سری نگر تک چلی گئی تھی جب ہم پہلے ہی دن بڑھانوں سے روانہ ہوئے تو چڑھائی شروع ہو گئی تھی اور ہم نے شام تک پچیس میل پیدل سفر طے کیا تھا اور چڑھائی میں آخری مکان تھا جہاں میرے ساتھیوں نے رات کاٹنے کی درخواست کی مگر گھر والوں نے صاف انکار کر دیا.اب واپس ہی جا سکتے تھے کیونکہ آگے کوئی مکان نہیں تھا.بڑی منت سماجت کی مگر سب بے سود.واپس میرے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ اب کیا کریں؟ پھر میں خود اس گھر گیا اور گھر والوں سے السلام علیکم کہا.وہ سب اندر چولہے کے آگے بیٹھے تھے.مجھے دیکھ کر انہوں نے زمین پر ہی ایک ہوئی" (گرم چادر ) بچھا دی اور میں بھی چولہے کے آگے بیٹھ گیا.میں نے ان سے خیریت دریافت کی.انہوں نے کہا کہ ہماری بڑی لڑکی سردرد سے مری جارہی ہے.میں نے کہا اسے یہاں بلاؤ.وہ میرے پاس آبیٹھی میں نے اس کا ماتھا پکڑ کر دم کیا اور پوچھا بتاؤ بیٹی اب کیا حال ہے؟ وہ اپنی ماں سے مخاطب ہو کر کہنے لگی کہ میرا سر اس قدر ہلکا ہو گیا ہے اور درد بھی کافور ہو گئی ہے گویا کہ درد تھی ہی نہیں.حالانکہ وہ چار دن سے درد سے تڑپ رہی تھی.اس چیز کا گھر والوں پر بڑا اثر ہوا.انہوں نے میرے لئے رہائش کا انتظام کیا اور ساتھ ہی روٹی پکانا شروع کر دی.میں نے ساتھیوں کو اندر بلا لیا.ہم نے نماز مغرب اور عشاء باہر ہی جمع کرلی تھی.کھانا کھا کر بڑے آرام سے رات بسر کی.صبح پھر انہوں نے میرے لئے تازہ روٹی پکا دی.ہم سب نے ناشتہ کے بعد دوبارہ سفر شروع کر دیا.خدا کا شکر ہے کہ رات آرام سے کٹ گئی ورنہ ایسے خطرناک جنگل میں جہاں چیتے ریچھ ، بندر اور کئی قسم کے درندے ہیں رات کیسے گزرتی.میرے ساتھیوں نے کافی روٹیاں پکوا کر ساتھ لے لی ہوئی تھیں اور مجھ سے کہنے لگے کہ مولوی صاحب

Page 206

190 ہمیں آپ کا بڑا فکر ہے ہم تو روکھی سوکھی کھانے کے عادی ہیں مگر آپ کیا کریں گے.میں نے کہا آپ اپنا فکر کریں اور مجھے آپ اللہ تعالی کا ہی مہمان رہنے دیں.سو آج پہلے دن ہی انہیں اس چیز کا تجربہ ہو گیا کہ خدا تعالی کس طرح اپنے بندے کے لئے سلمان پیدا کرتا ہے.اب غیر آباد علاقہ میں سفر ہو رہا تھا.دور دور تک کوئی آبادی دکھائی نہیں دے رہی تھی.سب حیران تھے کہ اب کیا کیا جائے.راستہ میں ایک مسافر سے ملاقات ہوئی.اس نے بتایا کہ تین میل کے فاصلہ پر علی آباد کی سرائے ہے اور اس سے ایک میل جنوب کی طرف تین چار مکان بھی ہیں.یہ سن کر قدرے دلیری ہوئی.سورج غروب ہو چکا تھا اور اندھیرا بھی گھپ ہو رہا تھا.آج کے دن کا سفر بھی میں میل کے قریب ہو گیا تھا.تھکان کی وجہ سے مجھے بخار ہونے لگ گیا تھا.بھوک، تھکان اندھیرا اور بخار جب یہ چاروں چیزیں اکٹھی ہو گئیں تو قریب سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں.ہم نے گھر والوں کو آواز دی کہ کتے باندھ لو انہوں نے کتے باندھ لئے.میں ان کے گھر میں داخل ہو گیا.انہوں نے میرے لئے ایک چارپائی خالی کر دی اور میرے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ یہاں سے لکڑیاں لے لو باہر چولہا ہے وہاں روٹی پکاؤ اور کھاؤ اور وہیں آرام بھی کرو.تھوڑی دیر کے بعد میرے سامنے ایک پلیٹ چاولوں کی اور ساتھ گوشت لا کر رکھ دیا.میں نے کہا چلول کچھ زیادہ ہیں.کچھ چاول نکال لیں.کہنے لگے آپ کی جتنی طبیعت چاہتی ہے کھا لیں.ہمارے لئے کافی چاول باقی ہیں.میں نے بھوک کے مطابق کھانا کھلایا اور ان کا شکریہ ادا کیا.نماز وغیرہ پڑھی تو وہ چائے لے آئے.میرے ساتھی بھی کھانا کھا کر مجھے دہانے کے لئے آگئے اور خوب دبایا.گھروالوں نے بھی دبانے میں حصہ لیا.وہاں اس گھر میں مردد بچے کل دس افراد تھے اور ان کا جنگل میں بسیرا تھا.انہیں اہم مہدی کے آنے کی اطلاع دی اور نماز روزہ کی تاکید

Page 207

191 کی.رات بڑے سکون کے ساتھ گزر گئی.صبح پھر گھر والوں نے میرے لئے جائے اور مکئی کی تازہ روٹی پکائی.میں نے بھوک کے مطابق ناشتہ کیا.میرے ساتھی بھی صبح ہی ناشتہ کر کے فارغ ہو چکے تھے.ہم نے صبح ہی اگلے سفر کی تیاری کی اور چل دیئے.راستے میں بڑے خطرے تھے.برف کے پل بنے ہوئے تھے جن کے نیچے سے پانی بہہ رہا تھا.اس برف کے پل پر سے لوگ اور چار پائے پانی عبور کرتے تھے.تھوڑے فاصلہ پر علی آباد کی خیر آباد سرائے آگئی جو غالباً جہانگیر بادشاہ نے بنوائی تھی.سفر کی زیادتی کی وجہ سے بخار بڑھ گیا اور بارش بھی ہونے لگی.کیونکہ میرے ساتھیوں کے پاس کھانا وافر تھا میں نے ان سے کہا کہ مجھ سے کمزوری کی وجہ سے مزید نہیں چلا جاتا اس لئے آج کسی گھنے درخت کے نیچے ہی بسیرا کر لیتے ہیں.جنگل میں لکڑی بھی خوب ہے آگ جلا کر گزارہ کر لیں گے.چنانچہ ایک بڑے سایہ دار درخت کے نیچے ڈیرے ڈال لئے.نماز ظہر و عصر جمع کی گئیں.نماز کے دوران ہی ایک عورت ادھر سے گزری.بعد میں ہم لکڑیاں اکٹھی کر رہے تھے تو نیچے کی جانب سے ایک آدمی پکارنے لگا کہ ادھر آجاؤ.ہم لوھر چلے گئے.اس کا بڑا وسیع مکان تھا.اس نے صحن میں میرے لئے چارپائی بچھوائی.میں نے اپنے ساتھیوں سے بستر کروایا اور لیٹ گیا.گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ مکان سرکاری ہے اور وہ جنگل کا رکھوالا ہے.چند اور گھر بھی اس کے قریب آباد تھے.میں نے اس کے ذریعے دوسرے گھر والوں کو پیغام دیا کہ شام کا کھانا کھانے کے بعد تمام مرد اس گھر میں تشریف لے آئیں.اس گھر والے نے میرے لئے مرغی اور چاول تیار کروائے.غرضیکہ بہت خدمت کی.کھانا وغیرہ کھانے کے بعد نماز مغرب و عشاء ادا کی.تھوڑی دیر کے بعد قریبی مکانوں سے پندرہ سولہ آدمی آگئے.انہیں نماز و روزہ کی تاکید کی اور خوب خوشگوار ماحول میں انہیں تبلیغ کی.وہ بھی بہت خوش ہوئے.

Page 208

192 رات بڑے آرام سے گزری.صبح پھر انہوں نے توفیق کے مطابق میرے لئے ناشتہ تیار کیا.ناشتہ کے بعد پھر ہم نے جنگل کا سفر شروع کر دیا.راستہ میں دوبارہ بارش شروع ہو گئی.بہت بڑے بڑے قدرت کے لگائے ہوئے درخت دیکھنے میں آئے.دیار کے بعض درخت اتنے بڑے تھے کہ ان کے تنوں کا پھیلاؤ چالیس فٹ کے قریب تھا گویا درختوں کے پہاڑوں کے پہاڑ کھڑے نظر آتے تھے.مختلف قسم کے جانور قسم قسم کی بولیاں بول کر اپنی حکومت اور رہائش کی طرف اشارہ کر رہے تھے گویا کہ وہ اس جنگل کے واحد مالک تھے.بھیگتے ہوئے ہم امیر پور پہنچے جو شوپیاں سے سات میل کے فاصلہ پر ہے.وہاں ایک درزی کی دوکان تھی.اس درزی سے کہا کہ ہم نے یہاں رات گزارنی ہے.اگر یہاں کوئی مسجد سکول یا سرائے ہے تو ہمیں بتاؤ.وہ مجھے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہنے لگا کہ پہلے یہ چائے کی پیالی پیئں اور پھر ہماری دکان کے اوپر سکول ہے.ماسٹر سے پوچھ کر رات گزار لینا.ہم جب اوپر گئے تو سکول کا دروازہ باہر سے بند تھا.دروازہ کھول کر اندر چلے گئے.سکول کے صحن میں ماسٹر صاحب کی چارپائی پڑی تھی اور ساتھ ہی بستر پڑا تھا.میرے ساتھیوں نے اس کا بستر اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا اور میرا بستر بچھا دیا.تھوڑی دیر کے بعد ماسٹر صاحب تشریف لے آئے.ہم اس وقت نماز وغیرہ سے فارغ ہو چکے تھے.اس سے بات چیت ہوئی کہ ہم نے رات آپ کے ہاں گزارنی ہے.کہنے لگے بہت اچھا.میں نے کہا کہ میرے ساتھیوں کو کوئی ایسا مکان بتا دیں جہاں یہ روٹی وغیرہ با آسانی پیکا سکیں.کہنے لگے آپ کا کھانا میں لاؤں گا اور انہیں جگہ بتا دیتا ہوں.گویا اس بیچارے نے سب کام کروا دیا.میرے لئے کشمیری کھانا شلغم چاول لے آئے میں نے بھی خوب کھائے.شام کی نماز پر چند آدمیوں کو بلایا گیا جن میں ایک مخالف بھی آگیا.اس نے بہت سے اعتراضات بھی کئے جن کے تسلی بخش جواب سن کر

Page 209

193 خاموش ہو گیا.ہم نے دل کھول کر تبلیغ کی.بارش بھی بدستور جاری رہی.صبح بغیر ناشتہ کے ہی چل پڑے کہ شوپیاں چل کر کھانا وغیرہ کھائیں گے اور پھر موٹر پر سوار ہو جائیں گے.مگر ابھی نصف راستہ ہی چلے تھے کہ میرے ساتھی بیٹھ گئے کہ اب مزید نہیں چلا جاتا میں نے ایک درخت پر چڑھ کر دیکھا کہ ایک عورت دودھ کا ایک بڑا سا برتن لئے جاری ہے.میں نے اسے آواز دی تو وہ آگئی.پوچھنے پر جواب دیا کہ میرے پاس پانچ سیر دودھ ہے.ہم نے چھ آنے میں سارا ہی خرید لیا.اب مسئلہ اسے رکھنے کا تھا کیونکہ ہمارے پاس اتنا بڑا برتن بھی کوئی نہ تھا.اس نے بتایا کہ پاس ہی ایک مائی کا مکان ہے ہم وہاں چلے گئے اور اس سے ایک نئی ہنڈیا لے کر دودھ گرم کیا اور سب دوستوں کو پلا دیا میں نے کہا کہ میں تو خالی پیٹ دودھ نہیں پی سکتا.مجھے ہضم نہیں ہوتا.وہ مائی میری باتیں سن رہی تھی وہ اندر سے میرے لئے ایک مکئی کی روٹی لے آئی اور مجھے دے دی.میں نے اس کا تھوڑا سا ٹکڑا لے کر کھا لیا اور باقی بانٹ دی اور مائی کو دو آنے دے دیئے.بعدہ چل کر شوپیاں پہنچے.وہاں ایک احمدی درزی جو میرے بچپن کے واقف تھے مل گئے.وہ چائے اور قلچے لے آئے.ہم سب نے خوب کھائے.اب سری نگر کا سفر صرف ہیں میل باقی رہ گیا تھا.وہاں سے لاری بھی مل گئی لیکن اس میں صرف ایک آدمی کی گنجائش تھی.میں نے دوستوں سے کہا کہ آپ کل سری نگر میں دفتر اصلاح پوچھ کر آجانا.میں آج جا کر آپ کی رہائش وغیرہ کا انتظام کرتا ہوں.سب کہنے لگے کہ ٹھیک ہے میں ظہر کے وقت سری نگر پہنچ گیا.میں بھی پہلی مرتبہ سری نگر گیا تھا.لوگوں سے پوچھ کر دفتر پہنچا.دفتر میں مولوی عبد الواحد صاحب مبلغ مل گئے.ان سے مل کر بڑی خوشی ہوئی.وہ یہ سن کر بڑے حیران ہوئے کہ اتنا سفر پیدل طے کیا ہے.نماز پڑھ کر ایک احمدی دوست کے کارخانہ میں ساتھیوں کی رہائش کا انتظام کیا.دوسرے دن ساتھی

Page 210

194 بھی پہنچ گئے.کارخانے میں دوسرے دن وہ ساتھی آکر ٹھہر گئے اور قریب ہی ان کو ایک سستا ہوٹل دکھا دیا.چار دن سری نگر میں قیام کیا.محلہ خانیار میں قبر مسیح اور شاہی مسجد دیکھی جس کے دیار کی لکڑی کے تین صد کے قریب اونچے اونچے ستون ہیں.جماعت کے احباب سے ملاقات ہوئی.چار دن قیام کرنے کے بعد دوبارہ اسی راستے سے ایک ہفتے کا پیدل سفر کر کے واپس بخریت پہنچ گئے.حلقہ پونچھ کا دورہ کرنے کے دوران اس حلقہ راجوری شہر میں تبلیغی جلسہ کے سارے احمدی دوستوں کی یہ خواہش زور پکڑ گئی کہ راجوری شہر میں ہمارا تبلیغی جلسہ ہو.چنانچہ جب ۱۹۳۸ء کے سالانہ جلسہ پر میں قادیان گیا تو وہاں سے مختلف عنادین کے تحت میں نے پانچ صد کی تعداد میں اشتہار چھپوا لئے یہ سارے اشتہار میں ہمراہ لے گیا اور راجوری شہر میں کامیاب جلسہ کرنے کی پوری کوشش شروع کر دی.تھانہ میں بھی اطلاع کر دی کہ فلاں تاریخ کو را جوری شہر میں دو دن کے لئے ہمارا جلسہ ہو رہا ہے.مقررہ تاریخ پر ہمارے دو مبلغ ناسٹور سے مولوی نعمت اللہ صاحب و مولوی عبد الغفار صاحب تشریف لے آئے.تاریخ مقررہ پر جب ہم راجوری پہنچے تو شہر والوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ہم احمدیوں کا جلسہ ہر گز نہ ہونے دیں گے.وہاں کے تھانیدار صاحب بہت گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ آپ جلسہ نہ کریں.یہاں کے مسلمان بڑے جوش میں ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے اور یہ کریں گے اور وہ کریں گے غرضیکہ فساد کا اندیشہ ہے اس لئے جلسہ بند کر دیں.میں نے کہا جلسہ ضرور ہو گا ہم بند نہیں کریں گے.تھانیدار صاحب کہنے لگے کہ میں معاملہ حج کے پاس پیش کئے دیتا ہوں آپ وہاں چلیں.ہم سب جج کے پاس چلے گئے.دوسری طرف سے بھی بڑی تعداد میں ہجوم اکٹھا ہو گیا اور شور مچانا شروع کر دیا.میں نے جج صاحب سے کہا کہ

Page 211

195 یہ تو بات کرنے کا اصول نہیں ہے کہ سب شور شروع کر دیں آخر ہم بھی امن پسند رعلیا ہیں.یہ اپنے کسی معتبر آدمی کو نمائندہ بنا ئیں اور اس کے علاوہ اور کوئی نہ بولے.یہ عدالت ہے اور ان لوگوں نے چڑیا گھر بنایا ہوا ہے.وہ معتبر نمائندہ جناب کی موجودگی میں ہم سے بات چیت کریں اور بتائیں کہ احمدیوں کا جلسہ کیوں نہیں ہو سکتا تاکہ ہم بھی اس پر غور کر سکیں اور جناب کو بھی ان کی معقولیت کا علم ہو جائے گا.جج صاحب نے انہیں حکم دیا کہ سب باہر نکل جائیں اور اپنے میں سے ایک آدمی مقرر کر کے اندر بھیج دیں.وہ سب نکل گئے تو جج صاحب کہنے لگے مولوی صاحب یہ سب لوگ گدھے ہی ہیں.نہ تو یہ ادب آداب ہی جانتے ہیں اور نہ ہی تہذیب.ان کی طرف سے دو آدمی منتخب ہو کر آگئے اور کہنے لگے کہ ہم چند وجوہات بیان کرنا چاہتے ہیں.(1) احمدی اس لئے یہاں جلسہ نہیں کر سکتے کہ ہم ان کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہیں.(۲) ان کا کوئی احمدی یہاں نہیں ہے.(۳) ان کی کوئی جگہ یہاں نہیں ہے.(۴) ہمارے اور ان کے عقائد میں اختلاف ہے.(۵) یہ ہمیں کافر کہتے ہیں اور ہم انہیں کافر جانتے ہیں.اس لئے ہمارے شہر میں ان کا جلسہ نہیں ہو سکتا.بعد میں ان کے پانچوں سوالوں کے میں نے درج ذیل جوابات دیئے.(1) اس شہر کے بعض مسلمان اور ہندو صاحبان نے ہمیں بار بار تاکید کی کہ ہمارے شہر میں جلسہ کریں ہم سنیں گے اور اگر کوئی نہیں سننا چاہتا تو ہم اسے مجبور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ ضرور سنے.یہ تو اس کی مرضی ہے.مذہبی آزادی ہے کوئی روک نہیں مگر ہمارا جلسہ کیوں رکے.(۲) دوسرا یہ اعتراض کہ یہاں کوئی احمدی نہیں یہ بات بھی جلسہ میں روک نہیں ہو سکتی بلکہ اب تو جلسہ کرنا ضروری ہو گیا ہے تاکہ لوگ احمدیت کی صداقت معلوم کر سکیں.آخر جموں کشمیر وغیرہ میں ہمارے جلسے ہوتے ہی رہتے ہیں اور لوگ تحقیقات کر کے اس پر امن

Page 212

196 جماعت میں داخل ہو جاتے ہیں مگر جلسہ کسی جگہ روکا نہیں جاتا جب کہ قانون تو ہر جگہ ایک ہی ہے.جب ہندوستان میں حضرت معین الدین چشتی تشریف لائے ہیں.اس وقت ہندوستان میں کوئی مسلمان نہ تھا.اگر اس وقت ہندو بھائی ان مسلمانوں کی طرح سوال اٹھاتے تو اسلام کس طرح پھیل سکتا تھا.یہ بھی جلسہ روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی (۳) تیسرا سوال یہ کہ انکی یہاں کوئی جگہ نہیں ہے تو صاحب والا آپ کے جو مولوی پنجاب سے اگر اس جگہ جلسہ کرتے ہیں ان کی کونسی یہاں جگہ ہوتی ہے.میرے دوستو کتوں گھوڑوں اور اونٹوں کو تو یہاں پیشاب اور لید کرنے کی جگہ مل جائے مگر ہمیں جگہ نہ ملے.حج صاحب بولے مولوی صاحب اب جانے دیں ان کو اور مجھے بتائیں کہ آپ جلسہ کس جگہ کرنا چاہتے ہیں.ہم نے اور جج صاحب نے دو تین جگہیں دیکھیں مگر جگہیں صاف نہ تھیں.بالا خرج صاحب کہنے لگے کہ آپ سرکاری باغ میں جلسہ کر لیں.میں نے منظور کرتے ہوئے کہا کہ باغ پل سے پار ہے.مخالفین پیکٹنگ نہ لگا دیں.حج صاحب کہنے لگے کہ اگر انہوں نے کوئی ایسی حرکت کی تو میں انہیں جیل بھیج دوں گا اور ویسے یکصد آدمی گن کر مجھ سے لے لینا.میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اگلے دن جلسہ کا اعلان کر دیا.میں نے تھانیدار صاحب سے کہہ دیا کہ ہماری درخواست پر تاریخ بڑھالیں.صبح حج صاحب کافی لوگوں کو ہمراہ لے کر آگئے.سب سے پہلے میری دو گھنٹہ کی تقریر ہوئی.بے شمار لوگ اکٹھے ہو گئے.ہمارا اجلاس بارہ بجے تک ہوا اور پھر اعلان کر دیا گیا کہ کھانا اور نماز کے بعد جلسہ دوبارہ شروع ہو جائے گا.افسوس کہ مجھے شدید بخار ہو گیا اور میں دوبارہ تقریر نہ کر سکا.جب تحصیل دار صاحب کو میرے بخار کا علم ہوا تو وہ میری عیادت کے لئے آئے.دوسرے دن بعد دو پر ہمارا جلسہ بخیر و خوبی انجام پذیر ہوا ہمارے جلسے کا ہندوؤں اور مسلمانوں پر بہت

Page 213

197 اچھا اثر ہوا.اس کے بعد ہم نے تین سال متواتر راجوری میں جلسے کئے.پھر کوئی روک پیدا نہ ہوئی.راجوری میں ہمارے خلاف بھی بہت سے جلسے کئے گئے جن کے مکمل جوابات دیئے گئے مگر راجوری میں میرے مناظرے کا چیلنج کسی نے قبول نہ کیا.کئی مرتبہ چیلنج دیا کہ ہم ہر وقت تبادلہ خیالات کے لئے تیار ہیں مگر وہ لوگ ٹی سے مس نہ ہوئے.احمدیت کے مداح تو بہت پیدا ہو گئے مگر احمد ی نہ ہو سکے.جب ہمارا را جوری شہر میں پہلا تبلیغی جلسہ بہت میں میل پیدل پہاڑی سفر اثر ہوا تو وہاں کے غیر احمدی صاحبان نے پنجاب سے مولوی محمد حیات صاحب عرف کھورہ و دیگر تین مولوی بلوا کر احمدیت کے خلاف لوگوں میں بہت زہر پھیلا دیا تھا.میں اسی وقت چند احباب کو ساتھ لیکر چل پڑا اور ہمیں میل پہاڑی سفر پیدل ہی چل کر ان کے راجوری والے جلسے میں شامل ہو گیا.اس وقت مولوی محمد حیات صاحب تقریر کر رہے تھے کہ مرزا صاحب نے اہل بیت کی سخت توہین کی ہے " مرزا کہتا ہے کہ فاطمہ کے پٹ پر میں نے سر رکھ ؟ دیا اس وقت تحصیل دار صاحب خود جلسہ کی صدارت کے فرائض ادا کر رہے تھے.اور وہ کٹر شیعہ تھے.میں نے کھڑے ہو کر صدر صاحب سے اجازت طلب کی کہ مجھے چند منٹ دیئے جائیں تاکہ میں حقیقت کا اظہار کر سکوں تو صدر صاحب تلخ لہجہ میں کہنے لگے کہ آپ خاموش رہیں.میں نے کہا تحصیل دار صاحب آپ قانون شکنی کر رہے ہیں.آپ آن ڈیوٹی ہوتے ہوئے کسی مذہب کے جلسہ کی صدارت نہیں کر سکتے.جب میری اور آپ کی حج صاحب کی عدالت میں پیشی ہو گی تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ قانون شکنی کر رہے ہیں یا نہیں.دوسرے آپ کے سامنے مولوی محمد حیات صاحب ہر قسم کی غلط بیانیاں کر رہے ہیں اور پالک کو ہمارے خلاف اشتعال دلا رہے ہیں.اگر ہم پر حملہ کیا گیا تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے.

Page 214

198 مولوی حیات نے کہا کہ مرزا نے لکھا ہے کہ میں نے حضرت فاطمہ کے پٹ پر سر رکھ دیا.اگر مولوی صاحب یہ الفاظ مرزا صاحب کی کسی کتاب میں دکھا دیں تو یہ دس روپے میں انہیں بطور انعام دیتا ہوں مگر وہ قیامت تک نہیں دکھا سکتے.اس کے بعد میں نے وہ کشف سنا دیا.لوگ یہ سن کر حیران ہو گئے.میں نے کہا کہ ان کی ساری تقریر ہی جھوٹ کا پلندہ ہے.تحصیل دار صاحب فورا کرسی صدارت سے اٹھ کر دری پر جا بیٹھے اور مرزا محمد حسین صاحب بی.اے آف بھروٹ کو صدر بنا دیا.وہ میرے قدرے واقف تھے.انہوں نے صدارت سنبھالتے ہی یہ اعلان کر دیا کہ ہر تقریر نماز ، روزہ اور اصلاح نفس پر ہو گی.دوسروں کے خلاف بات نہیں ہونی چاہئے.محمد حیات بیٹھ گیا.پالک پر ہمارا رعب پڑ گیا کہ احمدی مولوی نے تحصیلدار صاحب کی صدارت ہی چھڑوا دی.میں نے اعلان کر دیا کہ دو دن کے بعد ہمارا اعتراضات کے جوابات کے لئے اس جگہ یعنی اسی شہر میں جلسہ ہو گا.مولویوں نے تو ہمیں وقت نہیں دیا مگر ہم سوال و جواب کے لئے وقت دیں گے.اس کے بعد ایک غیر احمدی مولوی نے "نماز" کے موضوع پر تقریر کی اور جلسہ برخاست ہو گیا.ہم نے جلسہ کروانے والوں کو پیغام بھیجا کہ آپ مولوی صاحبان کو دو دن تک نہ جانے دیں تاکہ وہ بھی ہمارے جواب سن کر جائیں اور اگر آپ ان کے خرچ سے گھبراتے ہیں تو دو دن کا خرچ ہم سے لے لیں.مگر مولوی صاحب رات کے وقت ہی گھوڑوں پر تشریف لے گئے.تیسرے دن ہمارے احمدی احباب چار کوٹ لوھار کہ کالا بن ، دھوڑیاں ، موہریاں ، ڈنہ بڑھانوں ، رہتال وغیرہ سے راتوں رات پہنچ گئے.آتے وقت اپنا کھانا ساتھ لے آئے.غیر احمدی اور ہندو بھی کافی تعداد میں آگئے.کل چار پانچ سو کے قریب تعداد ہو گئی تھی.دن کے ڈیڑھ بجے نماز ظہر و عصر سے فارغ ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے میں نے اپنی تقریر کا آغاز کیا.

Page 215

199 پہلے تو ان اعتراضات کے جوابات تفصیل سے بیان کئے اور فرض سے سبکدوش ہوا جو مولویوں نے دو دن لگا کر احمدیوں پر کئے تھے.پھر قرآن کریم ، حدیث شریف اور اقوال بزرگان است سے وفات مسیح ثابت کی.نیز یہ بھی بتایا کہ میں خود دو مرتبہ سری نگر کشمیر محلہ خانیار میں مسیح کی قبر پر فاتحہ پڑھ آیا ہوں.بعدہ امکان نبوت ختم نبوت اور صداقت حضرت مسیح موعود اور ان کی آمد کے نشانات قرآن ، حدیث انجیل اور بھگوت گیتا سے بیان کئے.میری یہ تقریر تسلسل کے ساتھ رات ساڑھے آٹھ بجے تک جاری رہی.اپنی سات گھنٹہ کی تقریر میں میں نے ان تمام احباب کی ہر مسئلہ میں اچھی طرح قبلی کرادی پھر ساڑھے آٹھ بجے دعا پر جلسہ ختم ہوا.لطف کی بات یہ کہ اگر کوئی دوست جلسہ سے اٹھ کر گئے بھی تو بہت جلد واپس آنے کی کوشش کی.جلسہ کے اختتام پر لوگ کہہ رہے تھے کہ حیرانگی کی بات ہے کہ اتنی لمبی تقریر بغیر دودھ ولی کے سوائے بوقت ضرورت دو گھونٹ پانی کے یہ خدا کی دی ہوئی طاقت ہی ہو سکتی ہے.جلسہ کے بعد سب ہندو اور غیر احمدی احباب مل کر اور مصافحہ کر کے گئے.ہم سب احمدیوں نے رات وہیں گزاری.رات میرے لئے کھانا ایک غیر احمدی دوست نے بھیج دیا اور باقی دوست اپنا اپنا کھانا کھا کر سو گئے.اگلے دن سب نے اپنی اپنی منزل کی راہ لی.ساج میں تبلیغی جلسہ راجوری گاؤں کے قریب ہی ساج گاؤں ہے.جب وہاں کے لوگوں کو ہمارے راجوری والے جلسہ کے متعلق علم ہوا تو آگ بگولا ہو گئے اور کہنے لگے کہ راجوری والے بزدل لوگ ہیں.اگر مرزائی ہمارے گاؤں سے بھی گزرے تو ہم جان سے نہ مار دیں تو ہمیں حرامی سمجھنا.مجھے جب ان کی اس قسم کی گفتگو کا علم ہوا تو میں نے ایک احمدی دوست فرمان علی خانصاحب کو کالا بن سے بلوایا اور تاکید کی کہ آپ کی چونکہ سماج گاؤں میں

Page 216

200 رشتہ داری ہے اس لئے مولوی ثناء اللہ صاحب کو بڑھانوں سے ساتھ لے کر ساج جاؤ اور گاؤں کے درمیان میں ایک ایکڑ زمین مالیہ پر لے کر اس کی رسید ہمراہ لے آگئے.- اؤ اور یہ ظاہر نہ کرنا کہ ہم نے جلسہ کرنا ہے.وہ میری ہدایت پر وہاں گئے اور بہت اچھی جگہ کا انتخاب کر کے رسید ساتھ لے آئے.میں نے جماعت کے افراد سے مشورہ کیا کہ سماج میں ضرور جلسہ ہونا چاہئے.سب نے رضا مندی ظاہر اور کچھ چندہ بھی اکٹھا کیا.جلسہ کی تاریخ مقرر کر کے تھانہ راجوری اور تھنہ میں اطلاع کر دی کہ اس تاریخ کو ہمارا ساج میں جلسہ ہو رہا ہے تا بعد کوئی اعتراض نہ کر سکیں.اپنے سب احباب کو تاکید کردی کہ مقررہ تاریخ پر سب دوست مع ایک مضبوط لاٹھی کے آٹھ بجے صبح جلسہ گاہ میں پہنچ جائیں.لہذا اس پر عمل ہوا.دو سپاہی بھی ہم نے وہاں کے نمبردار صاحب کو جلسہ کا صدر مقرر کر لیا.غیر احمدی احباب بھی بکثرت اکٹھے ہو گئے.شوریدہ سر نوجوان بھی آگئے اور کہنے لگے کہ ہم اپنے کھیت میں جلسہ نہیں ہونے دیں گے.نمبردار صاحب کہنے لگے کہ یہ کھیت احمدیوں نے مالیہ پر لیا ہوا ہے.اس پر وہ خاموش ہو گئے.میں نے کہا خانصاحب آپ ہمارے کھیت میں بیٹھیں.اگر یہ کھیت آپ کا ہے تو ہم بھی آپ کے ہی مولوی ہیں.آپ کو قرآن کریم سنانے آئے ہیں.کوئی فکر والی بات نہیں ہے.وہ بولے کہ ان کو اپنے ہمراہ کیوں لے کر آئے ہوئے ہو.میں نے کہا کہ نہ تو پولیس والے میرا نام جانتے ہیں اور نہ ہی میں ان کے نام جانتا ہوں.یہ تو ہماری تقاریر کے نوٹس لینے اور امن قائم رکھنے کے لئے آئے ہیں تاکہ مسلمانوں میں آپس میں ہی بد مزگی نہ پیدا ہو جائے کہ سپاہی بولے بالکل درست ہے.ہم تو سرکاری آدمی ہیں یہاں آنے کا حکم ہوا تھا.ہم پہنچ گئے ہیں.ہم بھی جلسہ سن لیں گے.اختلافی مسائل پر تین گھنٹہ میری تقریر جاری رہی جس میں واضح کر دیا تھا کہ کبھی کوئی شخص

Page 217

201 آسمان سے نہیں آیا اور نہ بجسد عصری آسمان پر گیا ہی ہے.ہمیشہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں میں سے ہی چن لیتا رہا ہے.اگر کوئی آسمان پر سے آئے تو وہ زمین والوں کے لئے نمونہ نہیں ہو سکتا کیونکہ باقی لوگ آسمان سے نہیں آئے ہوتے.جلسہ نہایت خیر و خوبی سے شام تک جاری رہا.رات میں انہی نمبردار صاحب کے گھر میں رہا.میرے ہمراہ دن احمدی نوجوان بھی رہے رات خوب مسئلے مسائل بیان ہوتے رہے.نمبردار صاحب کے گھر والوں اور خاندان پر بہت اچھا اثر ہوا.اگلے دن دوپہر کے وقت ہم سب بڑھانوں کی جانب روانہ ہو گئے.بعد میں معلوم ہوا کہ بعض مخالف مولوی سید ولایت شاہ فاضل دیو بند کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ یہ ہیں روپے لے لو اور قادیانی مولوی کا مقابلہ کرو.سید صاحب نے انہیں جواب دے دیا کہ وہ تو مناظر ہیں اور میں مناظر نہیں ہوں اس لئے آپ چار پانچ سو روپیہ اکٹھا کر کے پنجاب سے کوئی مولوی منگوالیں جو ان کا مقابلہ کر سکے.سارے پہاڑ میں کشمیر تک ان کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے.یونی اس کے ساتھ نہ الجھ جاتا ورنہ سارا گاؤں احمدی ہو جائے گا.سید صاحب میرے دوست بھی تھے اور احمدیت کے مداح بھی تھے.تیسرے دن ہم چار کوٹ واپس آگئے.ہماری رہائش دار التبلیغ میں تھی.میری بیویاں وہاں کے احمدی بچوں کو قرآن کریم و دیگر مسائل پڑھاتی تھیں.دار التبلیغ کے پاس ہی جامع مسجد تھی جس پر درج ذیل الفاظ لکھے ہوئے تھے.تعمیر احمد ید دار التبلیغ زیر نگرانی ایم محمد حسین احمدی مبلغ قادیانی - ۱۹۳۹ء ཡ بعد جلسہ جو بلی دفتر سے مجھے حکم ملا کہ بھدرواہ ضلع اور ھم پور حلقہ بھر رواه چلے جائیں اور اس نئے علاقہ میں تبلیغ کا کام شروع کر دیں.اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے جنوری ۱۹۴۰ء میں براستہ جموں بھدرواہ روانہ ہوا.میرے ہمراہ مولوی عبد الواحد صاحب مبلغ کشمیر اور ان کی اہلیہ صاحبہ تھے.جموں پہنچ

Page 218

202 کر انجمن کو ٹھی گردانہ میں جمعہ پڑھایا.بعد جمعہ جماعت کے احباب نے بتایا کہ اس جگہ شیعوں نے جلسہ کر کے احمدیت کے خلاف بہت زہر اگلا ہے اور ایڈیٹر اخبار ذو الفقار سیالکوٹ نے بہت ہی برے الفاظ استعمال کر کے عوام کو احمدیت کے خلاف بھڑ کالیا ہے.ہم نے اور لاہوری جماعت نے مشورہ کیا تھا کہ ہم بھی انسدادی جلسہ کر کے ان کے اعتراضوں کے جواب دیں.سو الحمد للہ کہ آپ لوگ آئے ہیں.ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ لاہوری جماعت کے نمبر بھی آگئے اور قرار پایا کہ اسی میدان میں جہاں شیعوں نے جلسہ کیا تھا احمد یہ لاہوری جماعت کی بہت ہے.رہیں جلسہ کیا جائے گا اور کل عشاء کی نماز کے بعد ہمارے شہر میں جلسہ کی منادی کروادی جائے گی.میں نے اپنی تقریر کا موضوع «شیعیت اور احمدیت" رکھا اور مولوی عبد الواحد صاحب نے اپنی تقریر کا موضوع "اسلام کی تعلیم عالمگیر ہے " رکھا.اگلے دن حلقہ میں منادی کروادی گئی اور تھانہ میں بھی ہونے والے جلسے کی رپورٹ دے دی.ریاست جموں میں ایک جلسہ اگلے دن وقت مقررہ پر تلاوت و نظم سے جلسہ کا آغاز ہوا.مولوی عبد الواحد صاحب کی نصف گھنٹہ تقریر ہوئی.بعدۂ عاجز کی تقریر ہوئی.شیعوں کے احمدیت پر کئے جانے والے تمام اعتراضات کے ترتیب وار جواب دیئے.پھر میں نے کہا کہ ہم نے شیعہ صاحبان کا قرض کوڑی کوڑی اتار دیا ہے.اب مزا تو تب ہے کہ جو قرض اب ہم انہیں دے رہے ہیں وہ بھی اتار کر دکھا ئیں.مگر وہ ایسا ہر گز نہیں کر سکیں گے.البتہ بزرگوں پر بد زبانی کرنا ان کا پیشہ ہے.وہ تو کر لیں گے مگر دلائل سے جواب نہیں دے سکیں گے.سب سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ امام حسین کا قاتل کون تھا.اس وقت کوفہ میں نہ تو حنفی تھے اور نہ وہابی تھے اور نہ ہی احمدی

Page 219

203 تھے.تو پھر کون تھے.تمام کے تمام شیعان علی تھے.انہوں نے چٹھیاں لکھ کر حضرت حسین کو تحریم دلائی کہ اپنے باپ کی مسند پر اگر بیٹھو.ہم آپ کی رعایا ہیں آپ کے مرید ہیں یزید پلید کے جانی دشمن ہیں.خدا کے لئے جلدی آجاؤ.اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے.امام صاحب نیک انسان تھے انہوں نے اعتبار کر لیا اور پہلے امام مسلم کو بھیجا.انہوں نے بڑی آؤ بھگت کر کے شیدائی ہونے کا ثبوت دیا.مسلم کو بے دریغ شہید کر کے اپنی شقاوت قلبی کا ثبوت دے دیا.غرضیکہ تفصیلاً بیان کیا کہ ان ظالم شیعوں نے اپنا نالتہ اعمال سیاہ کیا.امام حسین کو قید کر کے پانی وغیرہ بند کیا.خاندان کے افراد کو گرفتار کیا.امام کا سر تن سے جدا کر کے نیزہ پر ٹکا کر خوشی منائی.یہ سارے حالات حوالہ جات کے ساتھ پیش کئے.ہمارا جلسہ اتنا دلچسپ رہا کہ جتنے بھی مرد و زن بیٹھے ہوئے تھے جلسہ کے انتقام پر واپس گئے اور ہر مذہب اور ملت کی عورتین اور مرد جاتے وقت سب شیعوں کو ملامت کرتے گئے.میں نے شیعوں پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے قرآن کریم کی روشنی میں ثابت کیا کہ اس وقت سے بطور لعنت شیعوں کے گھر میں ماتم پڑا ہوا دیکھتے ہیں.اگر کسی اور قوم کا جرم ہوتا تو یہ رونے پیٹنے چیخنے چلانے کی لعنت ان پر پڑنی چاہئے تھی.چونکہ انہوں نے یہ بہت بڑا جرم کیا تھا اس لئے یہ سزا بھی ان کے لئے قیامت تک رہے گی.وہاں جلسہ کی ڈائری لکھنے والے ایک احمدی تعلیدار صاحب اور دوسرے شیعہ جو الدار تھے.میں سارے حوالہ جات ساتھ ساتھ لکھاتا جاتا تھا.آخر شیعہ صاحبان کا ایک وفد سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کے پاس گیا اور یہ صاحب خود بھی شیعہ تھے.کہنے لگے کہ احمدی مولوی صاحب نے ہمیں قاتل حسین کیا ہے اور ہم ان پر مقدمہ دائر کرنا چاہتے ہیں.سپرنٹنڈنٹ صاحب کہنے لگے کہ صبح کے وقت آنک.رات میرے پاس ڈائریاں آجائیں گی اور پتہ چل جائے گا.سپرنٹنڈنٹ صاحب رات بھر میرے

Page 220

204 حوالے پڑھتے رہے اور صبح جب وفد کے اراکین دوبارہ حاضر ہوئے تو ان سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ "اتو کے پھو " تم نے احمدیوں کو چھیڑا کیوں تھا؟ اب ان کا حق تھا کہ تم پر اعتراض کرتے اور پھر لطف یہ ہے کہ انہوں نے ساتھ ساتھ شیعہ کتب سے حوالے دیئے ہوئے ہیں.اب تم اپنی کتابیں لکھنے والوں پر دعوی کر دیا یہ ثابت کرد کہ یہ حوالے غلط ہیں.بیچارے شرمندہ ہو کر گھر کو لوٹ گئے.ہمارے احمدی اور لاہوری بھائی بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ نے تو کمال کر دکھایا.یہ تو ہمارے قابو نہیں آتے تھے.غیر احمدی احباب بھی شکریہ ادا کرنے آئے اور کہنے لگے کہ شیعہ ہمیشہ ہمیں یہ طعنہ دیا کرتے تھے کہ تمہارے بڑوں نے یہ کرتوت کی تھی.آج پتہ لگ گیا کہ یہ شیعوں ہی کی کرتوت تھی.رات بارہ بجے یہ جلسہ دعا پر ختم ہوا.اگلے دن احمدی اور غیر احمدی احباب بڑی کثرت سے ملتے رہے.تیسرے دن ہم جموں سے روانہ ہو کر اودھم پور چلنی نماز کی ظاہری برکت کدھ سے ہوتے ہوئے بوٹ پہنچے.رات وہیں رہے.صبح مولوی صاحب مع اپنی اہلیہ صاحبہ کے سری نگر چلے گئے اور میں مزدور تلاش کرتا رہا.چونکہ میں نے باون میل پیدل سفر کرنا تھا اس لئے دو مزدور کرایہ پر لے کر سفر کا آغاز کر دیا.سولہ میل کے فاصلہ پر استر گاؤں میں رات کائی.صبح پھر چل پڑے.کھلنی سے کھلنی سے تین میل پیچھے ہی مزدور تھک کر رہ گئے اور کہنے لگے کہ ہم مزید نہیں چل سکتے.مزدوروں نے اپنا قہوہ بنایا اور ساتھ روٹی کے سوکھے ٹکڑے کھا کر سو گئے اور میں نے زمین پر کمبل بچھا کر نماز پڑھنا شروع کر دی.قریب ہی ہندوؤں کا مکان تھا.میں نماز سے فارغ ہو کر تسبیح وغیرہ کر رہا تھا کہ ایک ہندو عورت صاف تھالی میں گیہوں کے چار چھلکے (چپاتیاں) اور ساتھ بینگن کا سالن چپکے سے میرے آگے رکھ کر چلی گئی.میں حیران تھا مگر خدا تعالیٰ کی عطا سمجھ کر کھا گیا اور خدا

Page 221

205 تعالی کا شکر ادا کیا.میں نے برتن میں ایک چوٹی رکھ دی.جب وہ برتن اٹھانے آئی تو چونی نکال کر میرے کمبل پر رکھ کر بولی جنہوں نے پر ماتما کا نام تک نہیں لیا وہ تو کھا کر ہو گئے اور جنہوں نے پرماتما کی پوجا کی وہ بھوکے سو جائیں؟ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا.میں نے اپنے گھر کے لئے مکئی کی روٹیاں پکائی ہوئی ہیں.آپ کے لئے گیہوں کی روٹی پکا کر لائی ہوں.یہ کہہ کر وہ گھر چلی گئی اور میں بھی سو گیا.صبح بیدار ہو کر قریبی چشمہ سے وضو کیا نماز پڑھی.وہ ہندو بہن بھی اس چشمہ سے پانی لیکر آئی اور میرے آنے تک اس نے روٹی پکالی تھی اور اب میرے سامنے رکھ دی.میں نے اس کا بہت بہت شکریہ ادا کیا.ناشتہ کے بعد دوبارہ سفر شروع کر دیا.ڈوڈہ کے پل پر کچھ دکانیں تھیں.وہاں سے چائے پی اور کچھ انڈے ہمراہ لے لئے.رات بھر رواہ پہنچ گئے.بھدرواہ میں قیام اور شدید مخالفت بھدرواہ پہنچ کر عبدالرزاق صاحب لاہوری احمدی کی دوکان پر گئے.وہ بھی مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے.مزدور اپنی مزدوری لیکر جانے لگے تو میں نے انہیں چار آنے زائد دے دیئے.وہ بیچارے دعا دیتے ہوئے واپس چلے گئے.عبد الرزاق صاحب مجھ سے دریافت کرنے لگے کہ حضرت امیر صاحب کی طبیعت کیسی تھی.میں نے کہا کہ میں قادیان سے آرہا ہوں.وہ یہ سن کر خاموش ہو گیا اور تھوڑی دیر کے بعد بولا کہ اب قادیان میں کیا رکھا ہے.میں نے کہا چڑیا گھر اور عجائب گھر لاہور میں ہیں اور اسلام قادیان میں ہے.وہ میرا جواب سن کر جل گیا مگر بظاہر کچھ نہ بولا.میں نے بھی محسوس کیا کہ اس جگہ پر میرا بیٹھنا درست نہیں.قریب ہی سنار کی دوکان اور اس پر چوبارہ تھا.میں نے اس سے کہا کہ اگر چوبارہ خالی ہو تو مجھے کرائے پر دے دیں.کہنے لگا کہ ماہوار ایک روپیپر کرایہ لوں گا.میں نے

Page 222

206 اسی وقت ایک روپیہ دے کر رسید لکھوالی اور سامان وغیرہ لیکر اوپر چلا گیا.ایک چارپائی اور بالٹی اس سنار سے مستعار لے لی اور ایک مٹی کا لوٹا اور ٹین کا ڈبہ بازار سے لے آیا.لوٹے میں پانی بھر کر رکھ لیا اور تالا لگا کر شہر کا چکر لگانے چلا گیا.وہاں اتنی سخت مخالفت تھی کہ مولوی عبد الواحد صاحب سناتے تھے کہ میں وہاں ڈیڑھ سال کا عرصہ گزار کر آیا ہوں مجھ سے ان کا اتنا سخت بائیکاٹ تھا کہ سلام و کلام بند ہو گئے تھے اور انجمن نے واپس بلا لیا تھا.اب آپ کو وہاں بھیجا جا رہا ہے.آپ وہاں جا کر عبد الرزاق کو جامیں وہ اچھا آدمی ہے.اب اس اچھے آدمی نے غیروں کو اطلاع کر دی کہ ایک قادیانی آگیا ہے اور سب دوکانداروں سے کہہ دیا کہ جو کوئی اسے روٹی دے گا اس کی دوکان سے اور کوئی روٹی نہیں کھائے گا.غرضیکہ کوئی بھی میرے ساتھ کلام نہ کرے اور میری نشانی سبز صافہ شہر میں مشہور ہو گئی.میں نے بوٹ سے ایک سیر شکر پارے خریدے ہوئے تھے.ان سے ہی تین دن گزارے.آج چوتھا دن تھا.عبد العزیز خطیب جو میری مخالفت میں اول نمبر پر تھا درزی کا کام کرتا تھا.اس کے سامنے ایک نوجوان کی کپڑے کی دوکان تھی.میں وہاں گیا اور اس سے کہا کہ مجھے ایک قمیض کا کپڑا چاہئے.اس نے مجھے دو تین قسم کے کپڑے دکھائے.میں نے ان کا بھاؤ پوچھا.اس نے بتایا.میں نے کہا کہ ہمارے قادیان میں تو اس کا بھاؤ یہ تھا.آپ زیادہ قیمت لگا رہے ہیں.مگر خیر آخر گھر میں ہی پیسے رہیں گے ایک مسلمان بھائی کچھ زیادہ بھی لے لے تو کوئی حرج نہیں ہے.اس پر میری بات کا بہت اچھا اثر ہوا اور کہنے لگا مولوی صاحب آپ قادیانی کیوں ہو گئے ہیں.آپ تو بڑے نیک دل آدمی معلوم ہوتے ہیں.میں نے کہا کہ بھائی صاحب کیا بتاؤں ادھر جو بھی ہوتے ہیں بڑے نیک دل ہی ہوتے ہیں.ہر انسان اپنے ذوق کے مطابق تلاش کرتا ہے.آج مسلمانوں کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے نہ نیکی ہے نہ پیار ہے

Page 223

207 نه اسلامی شعار نہ اخلاق کی درستی کی طرف توجہ ہے اور نہ اسلامی تعلیم سے واقفیت ہے.نہ نیک و بد کی تمیز ہی ہے تو اس لئے مجھے ایسی جماعت تلاش کرنی پڑی جو دین کی خدمت گزار ہو اور رسول پاک پر شار ہو.سو الحمد للہ کہ ہمیں ایسی جماعت مل گئی.دوکاندار صاحب بولے کہ اگر آپ کو ایسی جماعت مل گئی ہے تو اس کی مخالفت کیوں ہوتی ہے.میں نے کہا کہ ایسی جماعتوں کی یہی شناخت ہوا کرتی ہے کیونکہ حضرت منصور ، حضرت حسین ، حضرت امام اعظم ، حضرت سید عبد القادر جیلانی ، حضرت بایزید بسطامی ، حضرت سرمد ، حضرت شاہ شمس تبریز حضرت مجدد الف ثانی وغیرہ سب کی مخالفت ان کی صداقت کی وجہ سے ہوتی آئی ہے.اب اس کی مخالفت نہ ہو تو یہ سلسلہ سچا ثابت ہی نہیں ہو سکتا.ہاں کنجروں ! چوروں ، بد معاشوں ، بے دینوں کی مخالفت نہیں ہوتی.وہ خاموش ہو گیا اور میں کپڑا لیکر سخت مخالف کے پاس چلا گیا اور اس سے کہا کہ پہلے مجھے قمیص کی دو.وہ کہنے لگا چار آنے لوں گا.میں نے کہا بہت اچھا مگر بنوا کر یہاں ہی سے جاؤنگا.وہ مان گیا.وہ اور اس کے علاوہ چھ سات آدمی بھی میری باتیں سنتے رہے.آخر میں درزی صاحب بولے کہ خوب تبلیغ کرلی ہے.میں نے کہا کہ انہوں نے ایک سوال کیا تھا میں نے اس کا جواب ہی دیا ہے.ایک اخون صاحب بولے (وہاں اخون ملوانے کو کہتے ہیں) که مولوی صاحب آپ کھانا کہاں سے کھاتے ہیں.میں نے کہا جہاں سے میرے پیارے بزرگ سیدی امام حسین نے کربلا میں کھایا تھا.وہ بڑا حیران ہوا.دوبارہ پوچھا تو میں نے کہا کہ آج چوتھا دن ہے کھانا کھانا تو الگ.کسی کو کھاتے ہوئے بھی نہیں دیکھا.اخون صاحب بولے میں غریب آدمی ہوں آپ میرے ساتھ چلیں اور پہلے کھانا کھائیں ورنہ ایک عالم کا کسی شہر میں آکر بھوکا رہنا خدا کا غضب بھڑکانا ہے اور شہر والوں کی بد قسمتی ہے.آپ اٹھیں.وہ مجھے ہمراہ لیکر اپنے گھر پہنچ گیا.ان

Page 224

208 کی ایک چھوٹی بچی دو بڑے لڑکے اور ایک بیوی یعنی وہ کل پانچ نمبر تھے.میں نے اس چھوٹی بچی کو ایک چونی دی.اخون صاحب بولے کہ مولوی صاحب اس جگہ یہ سب یزیدی ہیں اور یہ نقصان کرنے میں کوئی فرق کرنے والے نہیں ہیں.آپ کا ہتر اور سامان بھی ہم نہیں لے آتے ہیں.آپ اسی بیٹھک میں رہیں اور جو کھانا آپ کہہ دیا کریں گے پک جایا کرے گا.میں نے ان کا شکریہ ادا کیا.وہ میرا بستر اور سامان چوہارے سے اٹھا لائے.میں نے اس کی بیٹھک میں رہنا شروع کر دیا.گھی آنا وغیرہ منگوا لیا اور گزارہ ہونا شروع ہو گیا.اگلے ہی دن اس کی طرف چند آدمی آئے اور کہنے لگے کہ تم نے سارے شہر کے برعکس ایک مرزائی کو جگہ دی ہوئی ہے.اگر تم نے فورا اسے نہ نکالا تو سارا شہر تم سے بھی بائیکاٹ کر دے گا.وہ کہنے لگا کہ میرے اس مکان میں تحصیلدار اور پٹواری صاحب بھی رہے ہیں.وہ یہاں شراب تک پیا کرتے تھے مگر کسی ایک نے بھی کبھی اگر یہ نہ کہا کہ انہیں نکال دو اور اب جو قرآن کریم حدیث نماز و تسجد کا پابند اور رسول کریم ﷺ کی باتیں سنانے والا آیا ہے تو اسے نکالنے کے لئے آرڈر لے کر آگئے ہو.جاؤ ان سے کہہ دو کہ وہ نہیں نکالتا.میں تم سب کی مسلمانی کو جانتا ہوں.ذرا میرا بائیکاٹ کرنا پھر تمہاری اور میری باتیں ہوں گی.لفنگے کہیں کے مجھے ڈرانے آئے ہیں کہ بائیکاٹ کر دیں گے.بھدرواہ میں اخون صاحب کے گھر گئے ہوئے بھدرواہ میں قتل کا منصوبہ ابھی مجھے دوسرا ہی دن تھا کہ ایک نوجوان نے مجھے آکر بتایا کہ یہاں کے لوگوں نے آپ کو قتل کروانے کا منصوبہ بنایا ہے اور اس کام کی ذمہ داری ایک پٹھان نوجوان عبد الرحمن خان نے اپنے ذمہ لی ہے.وہ آپ کو موقع پا کر گزند پہنچائے گا اور وہ بڑے جوش و خروش سے آپ کی تلاش میں ہے.میں نے کہا کہ اگر میری موت مجھے بھدرواہ لیکر آئی ہے تو اس سے کیا انکار ہو

Page 225

209 سکتا ہے.آپ نے مجھے اطلاع دی ہے اس لئے آپ کا شکریہ مگر اتنا احسان کر دیں کہ خانصاحب کی مجھے شناخت کرا دیں.وہ بولا کہ آپ ابھی عزیز درزی کی دوکان پر آجانا غالبا وہ ابھی وہیں بیٹھا ہوا ہو گا.میں آپ کو اشارے سے بتا دونگا.میں نے اسی وقت جاکر اسے دیکھ لیا.واپسی پر دریا کے کنارے دعا کرتے ہوئے جا رہا تھا جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عبدالرحمن پٹھان بھی آرہا تھا.میں بھی ذرا ہوشیار ہو گیا.رہاں قبرستان کے قریب میں کھڑا ہو گیا.جب وہ میرے قریب آیا تو میں نے اسے السلام علیکم کہا.اس نے وعلیکم السلام کہا.میں نے کہا خان صاحب آپ کی طبیعت اچھی ہے؟ اس نے کہا اچھی ہے.میں نے کہا آپ کا اسم شریف عبدالرحمان خان ہے؟ وہ بڑا حیران ہوا.پوچھنے لگا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ میں خان ہوں اور عبدالرحمن ہوں.میں نے کہا آپ جیسا میرا ایک دوست ہے جس کا نام کرنل عبدالرحمن خان ہے اس لئے محبت سے میں نے آپ کو اسی نام کا سمجھا.وہ کہنے لگا میں تو آپ کا بڑا مخالف ہوں میں نے کہا میرے دل میں تو آپ کی محبت جوش مارتی ہے.اب خدا تعالی ہی جانے اس کی کیا وجہ ہے.میں تو آپ کے لئے ضرور دعا کروں گا.خدا تعالی آپ کو ہدایت دے.خان صاحب کہنے لگے کہ کیا میں ” ہے ہدایتا" ہوں؟ میں نے کہا کہ ہمارے آقا سردار دوجہاں سیدنا و مولانا محمد مصطفی باوجود سب انبیاء سے برتر ہونے کے ہمیشہ یہ دعا کرتے رہے کہ اهدنا الصراط المستقیم یعنی میرے مولا جس مقام پر تو نے لا کھڑا کیا ہے اس سے بھی اوپر لے چل.خانصاحب کہنے لگے کہ ہم کون ہیں جو یہ دعا چھوڑ کر بیٹھ جائیں.مجھے سے پوچھنے لگے کہ کیا آپ رسول پاک ﷺ کو مانتے ہیں.میں نے کہا کہ اس پاک رسول کو منوانے کے لئے ہی تو مرزا صاحب آئے اور اگر منادی کی کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو صرف زبان سے ہی نہ مانو بلکہ دل سے مان کر حضور کی پیروی

Page 226

210 کرد تا اجر پاؤ مثلاً اگر کوئی دوکاندار اپنی دکان پر "جنرل مرچنٹ" کا بورڈ لگا دے مگر اندر اس کے کچھ بھی نہ رکھا ہو تو کیا صرف ایسا لکھ دینے سے مالک کو یا گاہک کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے.خان صاحب بولے نہیں.پھر میں نے کہا کہ مسلمان کہلانے سے اس وقت تک کیا فائدہ ہو سکتا ہے جب تک اللہ اور رسول پاک ﷺ کی تعلیم پر عمل نہ کیا جائے؟ آپ کے پاس چاہے کتنی بھی زمین ہو جب تک آپ اس میں بل چلا کر بیچ نہیں ڈالتے کیا آپ کو کچھ فائدہ دے سکتی ہے؟ خانصاحب کہنے لگے کہ کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.میں نے بتایا کہ حضور کے تربیت یافتہ کیسے مسلمان تھے کہ خدا بھی لے لیا اور بادشاہت بھی مگر اب مسلمانوں کی حالت کیسی ناگفتہ بہ ہے آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ مسلمانوں پہ تب ادبار آیا کہ جب تعلیم قرآن کو بھلایا ہم باتیں کرتے تین میل باہر تک نکل آئے تھے.میں نے اسے مکمل تبلیغ کر کے آنحضرت ا ن کی حضرت مسیح موعود کے متعلق کافی پیشگوئیاں سنا دیں اور موجودہ مسلمانوں کی حالت ، علماء کا باہمی اختلافات میں الجھنا کفر بازی خدائی سلسلوں کی ہمیشہ مخالفت ، اکثریت کی گمراہی اور اقلیت کا صداقت قبول کر لینا اور حضرت صاحب کی نبوت کے سب فوائد سنا دیے.خانصاحب کہنے لگے کہ آپ نے تو میری کایا ہی پلٹ دی.اگر چہ میں نے ابھی بیعت تو نہیں کی مگر غیر احمدی بھی نہیں رہا.اب مغرب کے وقت میں اپنے ایک دوست کو ساتھ لے کر آپ کے ڈیرہ پر آؤں گا.کیا آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوگی.میں نے کہا اگر آپ تشریف نہ لائے تو ضرور تکلیف ہو گی.اور خدا حافظ کہہ کر چلے گئے.جب میں واپس گھر آیا تو اخون صاحب ناراض کھڑے تھے کہ اتنی دیر کہاں رہے.مجھے اور میری اہلیہ کو آپ کی بڑی فکر رہی ہے اس جگہ کے لوگ خون کر کے ہضم کر جاتے ہیں اور آپ کی

Page 227

211 مخالفت ہی بہت ہے اور میں نے سنا ہے کہ ایک پٹھان لڑکا آپ کی تلاش میں پھر رہا ہے.وہ بڑا منہ زور ہے.میں نے کہا آپ کا شکریہ.آج رات کو بیگم صاحبہ کو کہیں کہ میرا کھانا دو گنا پکا ئیں شائد میرا کوئی مہمان آجائے.جب ہم مغرب کی نماز سے فارغ ہوں تو میرے کہنے کے بغیر ہی آپ کھانا لے آئیں.کہنے لگے کہ بہتر مگر مہمان کہاں سے آئے گا.میں نے کہا چاہے اس جگہ کا ہو آپ کھانا ضرور لے آتا.بھدرواہ میں پہلا احمدی و میں نے کچھ آرام کرنے کے بعد نماز مغرب کے لئے وضو وغیرہ کیا اور نماز بھی.تھوڑی دیر کے بعد عبدالرحمن خان صاحب اپنے دوست جمال الدین کو ہمراہ لیکر پہنچ گئے.میں نے کہا کہ یہ پانی پڑا ہوا ہے پہلے وضو کر کے نماز پڑھ لیں.انہوں نے اپنے حساب کے مطابق جلدی جلدی نماز پڑھ لی.اخون صاحب کھانا لے آئے.میں نے بڑے اصرار سے ان دونوں کو بھی شامل کر لیا.کھانے کے بعد سوال و جواب شروع ہو گئے.اسی طرح رات کے بارہ بج گئے.اخون صاحب اور ان کی اہلیہ بھی بیٹھی سنتی رہیں.آخر جمال الدین صاحب کہنے لگے کہ مولوی صاحب آپ کی باتیں تو ہمارے دل میں دھنس گئی ہیں.اب ہم ضرور سوچیں گے.خان صاحب بولے کہ میں تو صبح انشاء اللہ لاہوریوں کی لائبریری میں بیٹھ کر بیعت فارم پر کروں گا چاہے گھر والے ناراض ہی کیوں نہ ہو جائیں.مولوی صاحب آپ اجازت دیں میں صبح حاضر ہوں گا.اچھا خدا حافظ.صبح کے وقت خان صاحب آگئے.ہم دونوں لاہور کی جماعت کی لائبریری میں گئے.میں نے بیعت فارم دیا.خان صاحب نے بلند آواز سے پڑھا اور پر کر کے میرے حوالے کر دیا.یہ دیکھ کر لوگ بڑے حیران ہوئے اور مجھے جادو گر کہنے لگے.لاہوری احباب مخالفت میں پیش پیش تھے.بالاخر خدا کے فضل سے چار افراد بیعت میں شامل ہو گئے.مجھے وہاں رہتے ہوئے ابھی دو ماہ کا

Page 228

212 عرصہ ہی ہوا تھا کہ مجھے نوجوانوں نے مشورہ دیا کہ آپ اس جگہ پختہ اڈہ جمانے کے لئے اپنے گھر والوں کو یہیں لے آئیں.میں نے دفتر سے منظوری حاصل کی اور پیدل پٹھانکوٹ والا راستہ اختیار کیا.تین دن میں اسی میل پیدل اور تھوڑا سا سواری پر سفر کیا.قادیان سے گھر والوں کو لے کر جموں پہنچا اور پھر بوٹ سے کچھ آگے گھوڑوں پر باون میل سفر کر کے بھدرواہ پہنچا.وہاں ایک چھوٹے سے مکان میں آمده دسمبر تک گزارہ کیا.اس وقت تک عبدالرحمن خان صاحب اور ملک عبد الرحمن صاحب ند عبدالله صاحب جمال الدین صاحب اور ان کے دو بھائی ماسٹر عبدالکریم صاحب ان کی والدہ ہمشیرہ و بھانجی صاحبہ غلام محمد صاحب سنار ، ماسٹر محمد صدیق صاحب مع چھ بچے و المیہ صاحبہ غلام رسول صاحب خطیب مع چھ بچے اور المیہ صاحبہ غلام رسول صاحب گنائی، غلام نبی صاحب ، غلام حیدر صاحب مع تین بیٹیاں اور اہلیہ صاحبہ ان تمام افراد پر مشتمل ایک جماعت قائم ہو گئی.اکثر پڑھے لکھے نوجوان تھے.ہم جلسہ پر واپس قادیان آگئے.بعد جلسہ یہ طریق رہا کہ ہر سال دو ماہ کے لئے بھدرواہ اور باقی عرصہ جموں اور پونچھ وغیرہ کے علاقہ میں دورہ کرتے رہنا اور جلسہ کے ایام میں قادیان واپس پہنچ جانا.ان دنوں جموں شہر میں میرا تبلیغی ایک احمدی عورت کی وفات پر ہنگامہ کیا کروں ہیڈ کوارٹر تھا.مجھے ایک احمدی خاتون کی وفات کی خبر ملی اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ احراریوں نے قبرستان پر قبضہ کیا ہوا ہے.وہ سب ڈنڈوں وغیرہ سے مسلح ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی مرزائی مرد و زن کو یہاں دفن نہیں ہونے دیں گے.وہاں کے پریذیڈنٹ میاں غلام محمد صاحب خادم نے آکر مجھے سارے حالات بتائے اور پوچھنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہئے.میں نے کہا کہ ہم تو ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.آپ سیدھے SP صاحب کے پاس چلے

Page 229

213 جائیں اور انہیں خطرے کے حالات سے آگاہ کریں اور کہیں کہ ہماری جماعت بہت تھوڑی ہے اور ہم ہنگامہ آرائی میں حصہ نہیں لینا چاہتے اس لئے آپ براہ مہربانی یا تو تھانہ میں دفنانے کے لئے کوئی جگہ تجویز کر دیں اور یا پھر گھر پر ہی دفن کرنے کی اجازت دیں.میاں صاحب نے اسی طرح جا کر SP صاحب کے سامنے رپورٹ کر دی جو ڈوگرہ قوم سے تعلق رکھتے تھے اور کہنے لگے کہ میں یہ معاملہ گورنر صاحب کے پاس پیش کرتا ہوں جو وہ فیصلہ کریں اس پر عملدرآمد کر لینا.گورنر صاحب نے ان کی رپورٹ پر حکم دیا کہ دونوں فریقوں کے سرغنوں کو بلایا جائے.احراریوں کی طرف سے حافظ عبدالرحمن صاحب اور ہماری طرف سے میاں صاحب کو بلوا لیا گیا.ہمارے پریذیڈنٹ صاحب نے جب یہ دیکھا کہ ان کی طرف سے ایک عالم بلوایا گیا ہے تو گور نر صاحب سے کہنے لگے کہ مجھے اجازت دیں کہ میں بھی اپنے مبلغ صاحب کو بلوالوں.اجازت ملنے پر وہ مجھے بھی ساتھ لے گئے.ہم تینوں گورنر صاحب کی سامنے کی جانب کرسیوں پر بیٹھ گئے.گورنر صاحب مجھ سے یہ سوال کرنے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ یہ آپ کی میت دفن نہیں کرنے دیتے.میں نے کہا جناب عالی یہ سوال مجھ سے نہیں کیا جاسکتا.ہم تو دفن کرنا چاہتے ہیں اور ہم نے پہلے بھی میتیں وہیں دفن کی ہیں.یہ سوال تو ان سے پوچھیں.گورنر صاحب نے یہی سوال حافظ صاحب پر دہرایا.حافظ صاحب کہنے لگے کہ یہ ہمیں کافر کہتے ہیں جب کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور انہیں کافر سمجھتے ہیں لہذا مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی کافر کی میت ہم اس قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیں گے.گورنر صاحب نے مجھے جواب دینے کا حکم دیا میں نے کہا جناب عالی جہاں ہم ایک دوسرے کو کافر سمجھتے ہیں وہاں ہم سب کے محلہ جات اکٹھے ہیں.جب ان کا کوئی فرد مر جاتا ہے تو ہم افسوس کے لئے جاتے ہیں اور جب ہمارا کوئی فرد فوت ہو جاتا ہے تو یہ افسوس

Page 230

214 کے لئے آتے ہیں.اسی طرح ہم ایک دوسرے کی شادیوں میں شریک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو تبلیغ بھی کرتے ہیں مگر جہاں شہر خموشاں ہے وہاں یہ میت کو دفن نہیں کرنے دیتے.حافظ صاحب یا تو یہ ثابت کریں کہ ہمارے کسی مردہ نے اٹھ کر ان کے کسی مردہ کو تبلیغ کی ہو اور اس نے ان کے پاس رپورٹ کی ہو کہ یہ احمدی ہمیں تنگ کرتا ہے تو پھر تو ان کے روکنے پر غور ہو سکتا ہے اور اگر یہ ایسا ثابت نہیں کر سکتے تو جہاں ہم ایک دوسرے سے لڑ سکتے ہیں تبلیغ کر سکتے ہیں وہاں تو ہم اکٹھے رہیں اور جہاں کوئی ایک دوسرے کو گزند نہیں پہنچا سکتا وہاں سے یہ روکتے ہیں.گورنر صاحب مسکرائے اور حافظ صاحب سے کہنے لگے کہ کیا آپ اس کا کوئی جواب دے سکتے ہیں کہ کسی احمدی کی میت نے آپ کی کسی میت کو ستایا ہے یا تبلیغ کی ہے.اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ انہیں قبرستان میں میت دفن کرنے سے نہیں روک سکتے اور ساتھ ہی S.P صاحب کو آرڈر دیا کہ پولیس کی ایک مسلح جمعیت ساتھ لے کر میت کے ساتھ جاؤ اور اگر کوئی روک پیدا کرے تو اسے پکڑ کر میرے پاس لے آؤ.غرضیکہ پولیس کی معیت میں ہم میت کو لیکر قبرستان گئے اور اسے دفن کیا.بہت تعداد میں لوگ اس نظارے کو دیکھ کر حیران تھے.جب ہم وہاں پہنچے تو تمام احراری وہاں سے بھاگ گئے ہوئے تھے.اس بات کا اس علاقہ کے تمام لوگوں پر بہت اچھا اثر پڑا.میں ۱۹۴۵ء میں بھدرواہ سے کشتواڑ چلا گیا اور آریوں کی طرف سے چیلنج آریہ میرے بعد بھدرواہ چلے گئے.انہوں نے وہاں اسلام پر بڑے خطرناک اعتراض کرنے شروع کئے جن کا وہاں کے غیر احمدی نوجوانوں پر بہت برا اثر پڑا.وہ اپنے مولویوں کے پاس گئے تا وہ ان اعتراضوں کے جواب سن سکیں لیکن انہوں نے کوئی جواب دینے پر آمادگی ظاہر کرنے کی بجائے الٹا

Page 231

215 ان نوجوانوں کو کوسنا شروع کر دیا کہ تم ان کی ایسی مجلس میں گئے کیوں تھے.جس پر وہاں کے نوجوانوں نے ایک کمیٹی بنائی جس کا نام آزاد نوجوان رکھا.اس کمیٹی کے ممبران ہمارے احمدی نوجوانوں سے مل کر کہنے لگے کہ شہر والوں نے تو تمہارا مکمل بائیکاٹ کیا ہوا ہے مگر اب آریہ انعام رکھ کر چیلنج دے رہے ہیں کہ اگر کوئی مولوی ان کے اعتراضوں کے جواب دے دے تو وہ انہیں پچاس روپے انعام دیں گے اس لئے آپ اپنے مرکز سے کسی احمدی مبلغ کو بلواؤ.ہمارے احمدی نوجوان کہنے لگے کہ ہمارے ایک احمدی مبلغ کشتواڑ آئے ہوئے ہیں اور ہم نے اس لئے یہاں نہیں بلوائے کیونکہ یہاں کے حالات خراب ہیں اور اگر کسی نے ہماری بات کو نہ سنا تو مغز کھپائی" کا کیا فائدہ ہو گا.انہوں نے اصرار کیا کہ آپ ضرور بلوائیں ہم سب نوجوان ان کی باتیں شوق سے سنیں گے.چنانچہ وہاں کے نوجوانوں نے مجھے تار دے دی.میں تار ملتے ہی وہاں سے روانہ ہو گیا اور ڈیڑھ دن میں چالیس میل پیدل پہاڑی سفر طے کر کے بھدرواہ پہنچا.چونکہ ہمارے وہاں کے احمدی نوجوانوں نے ان کے اعتراض نوٹ کئے ہوئے تھے ان پر نظر دوڑائی.وہ میرے لئے خدا تعالی کے فضل سے نہایت معمولی اعتراض تھے.صرف لفظ " اللہ " پر انہوں نے تمسخر اڑایا ہوا تھا کہ یہ موہوم لفظ ہے جس کے کوئی معنے نہیں ہیں.اگر کوئی لغت میں سے ان کے معنی بتا دے تو وہ پچاس روپے نقد انعام حاصل کر سکتا ہے.اس بات کا مسلمانوں پر بہت برا اثر تھا.میں نے وہاں کے غیر احمدی نوجوانوں کو بلوایا اور ان سے کہا کہ کل پہلا روزہ ہے.اگر آپ آریوں کے اعتراضوں کے تسلی بخش جواب سنتا چاہتے ہیں تو خود شہر میں منادی کرو تاکہ لوگ کثرت سے شامل ہوں اور جلسہ با رونق ہو جائے.انہوں نے میری تجویز کو منظور کرتے ہوئے صبح اور دوپہر دو وقت شہر میں جلسہ کی منادی کر دی.

Page 232

216 اگلے روز جلسہ کے دن پونے تین بجے شام میرے بھدرواہ میں جوابی جلسہ پاس ایک سپاہی آیا اور کہنے لگا کہ آپ کو تحصیلدار صاحب بلا رہے ہیں.میں نے اس سے کہا کہ تحریری حکم لاؤ حاضر ہو جاؤں گا.اب ہمارے جلسہ کا وقت ہو گیا ہے اور میں وہاں جا رہا ہوں پلک میری منتظر ہے.جب میں میری بازار چوک والے وسیع میدان میں پہنچا تو وہاں پبلک ہزاروں کی تعداد میں بیٹھی تھی.ہندوؤں اور مسلمانوں کی مستورات ارد گرد کے مکانات کی چھتوں پر بیٹھی تھیں اور آریہ اپدیشک میرے سامنے ایک آریہ ڈاکٹر کی دوکان پر بیٹھے تھے.تحصیل دار صاحب بھی کٹر آریہ تھے.وہ قریبی ہسپتال کے ایک کمرہ میں آکر بیٹھ گئے اور حج صاحب ہندو تھے.میں نے تلاوت اور نظم جس کا آغاز اس مصرعے سے ہوتا ہے.اے آریہ سماج پھنسو مت عذاب میں پڑھوائی پھر کلمات شہادت فاتحه و درود شریف وغیرہ سے اپنی تقریر کے واسطے تمہید باندھی کہ احباب کرام موجودہ گورنمنٹ کے قانون میں ہر مذہب و ملت کے لوگوں کو اس بات کی آزادی ہے کہ اپنے اپنے مذاہب کی پر امن طریق پر تبلیغ کریں مگر یہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ دوسرے مذہب والوں کے اعتقادات و مسلمات اور اصولوں کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے ان کی دل شکنی اور اپنی جہالت کا ثبوت دینے کو کھڑا ہو جائے.میں عرصہ پانچ سال سے اس بھدرواہ شہر میں اگر تقاریر کر رہا ہوں، ہمیشہ اسلام کی خوبیاں بیان کرتا رہا.آریہ و سناتن پنڈت صاحبان بھی آتے رہے اور اپنا پرچار کر جاتے رہے کبھی کسی نے ایک دوسرے پر اعتراض نہیں کیا.تمام ہندو اور مسلمان نہایت محبت اور پیار سے رہتے رہے ہیں مگر امسال جو آریہ لیکچرار تشریف لائے ہیں انہوں نے اپنی تقاریر سے پبلک کی فضا خراب کر دی ہے اور اسلام پر ایسے رنگ میں حملے کئے ہیں جو مسلمانوں کی برداشت سے تجاوز کر گئے ہیں اور مسلمانوں کو اس چیز کا بہت دکھ ہے کہ آریوں نے

Page 233

217 یہ جرات کیسے کی ہے جب کہ اس قصبہ میں مسلمان اکثریت میں ہیں.ان کے خدا رسول اور اسلام پر انہوں نے سوقیانہ قسم کے اعتراض کئے ہیں.اس کی وجہ صرف اور صرف تحصیل دار صاحب کا آریہ اور جج صاحب کا ہندو ہونا ہی ہو سکتی ہے.ورنہ پہلے کبھی ایسا کیوں نہیں ہوا تھا.میں نے اس جوش کو ٹھنڈا کرنے کی یہی تجویز سوچی کہ آریوں کے سب اعتراضوں کا مدلل جواب دے کر بتایا جائے کہ یہ کم علمی تعصب کی بناء پر اعتراض کئے گئے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دل مطمئن ہو جائیں اور ہندو صحیح حقیقت جان کر امن کی فضا پیدا کر سکیں اور ساتھ ہی فتنہ پرداز لیکچراروں سے نفرت کریں.دوسرے لفظوں میں چونکہ ابتداء آریوں کی طرف سے ہوئی ہے اس لئے میرے اس وقت آریہ صاحبان ہی مخاطب ہیں اور انہیں کے لئے میرے سب جوابات ہیں.سناتن دھرمی جو آریوں کی تعداد کے لحاظ سے زیادہ ہیں میرے مخاطب نہیں ہیں.اس وقت میرے پاس صرف (1) رگوید آدمی بھاشیہ (۲) ستیارتھ پرکاش (۳) منو شاستر اور (۴) سنس کا رود ہی موجود ہیں.میں سب سے پہلے ان لوگوں نے جو اسلام پر اعتراضات کئے ہیں ان کے جوابات دوں گا اور جب قرض اتر جائے گا تو پھر آریہ سماج کا فوٹو لوگوں کو دکھاؤں گا کہ یہ تعلیم دیانندی ہے جسے آریہ سماج لیکر اسلام کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں.پہلا اعتراض کہ لفظ " اللہ " کے لغت سے معنی دکھاؤ اور پچاس روپے انعام لو.ہمارے آریہ اپریشک اس قسم کے جاہل ہیں کہ عام جاہلوں کو بھی ان پر رونا آجاتا ہے.لغت تو لوگوں نے بنائی ہے.کیا انہوں نے اپنے پیدا کرنے والے کا نام تجویز کرنا تھا.تف ہے ایسی عقل پر.خدا تعالٰی نے اپنے کلام میں اپنا نام اللہ بتایا اور کہا کہ یہ میرا ذاتی نام ہے.باقی سب میرے صفاتی نام ہیں اور خود ہی اپنے کلام میں لفظ "اللہ" کے معنی بھی بتائے ہیں کہ اللہ کے معنی الحي القيوم العلى العظيم الرحمن الرحيم

Page 234

218 الروء ف الحكيم البصير السميع العلیم یہ سب آیات پڑھ کر ان کے تفصیل سے معانی سمجھائے.چونکہ طبقہ جہلاء کا تھا اس لئے بڑی تفصیل سے معانی بنا کر ہر ایک کے ذہن نشین کر دیے اور آریہ سے کہا کہ وہ آریہ معنوں کے لحاظ سے یعنی " شریف آدمی" ہے تو انعام والے پچاس روپے یہاں میز پر لا کر رکھ دے تاکہ اس سے پبلک کو مٹھائی کھلائی جائے اور اگر وہ اناڑیہ " ہے تو خاموشی سے بیٹھا رہے گا.اگر وہ اب بھی لفظ " اللہ " کو موہوم سمجھتا ہے تو اسے دیدوں کی قسم دیتا ہوں کہ وہ اب میدان میں نکل کر اعتراض کرے.مگر وہ زندہ ہی درگور رہا اور چپکنے سے بیٹھا رہا.میں نے اعتراضات کے ترتیب وار جواب دیئے اور قرض چکا دیا اور اعلان کر دیا کہ کل پھر اسی طرح جلسہ ہو گا اور بڑا دلچسپ ہو گا.امید ہے کہ سب احباب کثرت سے آئیں گے.میری تقریر کے اختتام پر اسلام زندہ باد احمدی مولوی زندہ باد اور نعرہ تکبیر کے نعرہ جات نوجوانوں نے کثرت سے لگائے اور بڑا ہجوم مجھے ڈیرے تک چھوڑنے آیا.ڈیرہ پر پہنچ کر میں نے روزہ افطار کیا اور تھوڑا سا آرام کرنے کے بعد کھانا وغیرہ کھایا.بعدہ نماز عشاء پڑھا کر نماز تراویح پڑھا رہا تھا تو تحصیل دار صاحب آگئے اور خاموشی سے میری چارپائی پر بیٹھے رہے.جب ہم نے پوری نماز پڑھ لی تو بولے کہ مولوی صاحب آپ تو غضب کے آدمی ہیں.پہلے روزہ رکھ کر ساڑھے تین گھنٹے تقریر کی جو صرف آپ کا ہی کام ہے اور اب پھر اتنی لمبی نماز پڑھنا.میں تو حیران ہوں.میرا تو خیال تھا کہ آپ سو گئے ہوں گے.میں نے کہا ابھی تو درس ہونے والا ہے.وہ کہنے لگے کہ میں آپ کی غلط فہمی دور کرنے آیا ہوں کہ میرے ایماء پر پنڈت نے ایسا لیکچر نہیں دیا اور نہ ہی میں اس قسم کے لیکچرز کو پسند کرتا ہوں.یہ اس پنڈت کی ذاتی غلطی تھی.اب میں نے اسے فورا شہر سے نکل جانے کا حکم دے دیا ہے.میں نے جھٹ کہہ دیا کہ جناب نے میرے اس

Page 235

219 سے انعام والے پچاس روپے بھی لے لئے ہیں یا نہیں.کہنے لگے نہیں.میں نے کہا یہ تو آپ نے میرا نقصان کر دیا ہے.میں نے تو اس سے لیکر ہی چھوڑنا تھے خواہ مجھے آپ کے پاس دعوئی ہی کیوں نہ کرنا پڑتا آپ مہربانی فرما کر اس کا ایڈریس مجھے دے دیں.میرے تو سینکڑوں گواہ ہیں.خیر وہ بولے کہ اب آپ بھی مزید کوئی تقریر نہ کرنا وہ یہاں سے چلا گیا ہے.میں نے کہا کہ ہم تو ہر گز یہ نہ چاہتے تھے کہ وہ یہاں سے چلا جائے بلکہ ہم نے تو اسے بتانا تھا کہ شیش محل میں بیٹھ کر قلعہ والوں پر فائر کرنا مناسب نہیں ہوتا.دوسری بات یہ ہے کہ پندٹ صاحب نے تین دن لیکچر دے کر پبلک میں بدامنی پھیلائی ہے اور اگر زیادہ کی اجازت نہیں تو کم از کم تین لیکچر دینا تو ہمارا جائز حق ہے.اور اسی طرح پبلک کی تسلی ہو سکتی ہے.کوئی انصاف پسند آدمی ہمارے مطالبے کو ناجائز قرار نہیں دے سکتا اور اگر ہم نے اس آگ کو دیا رہنے دیا تو کسی وقت بھی اس کے شعلے بھڑک اٹھنے کا اندیشہ ہے.تحصیلدار صاحب بولے اچھا پھر کل والا لیکچر دے دیں اور آئندہ یہ سلسلہ بند کر دیں.میں نے کہا بہت اچھا ایسا ہی کرنے کی کوشش کروں گا.اس کے بعد تحصیلدار صاحب چلے گئے اور ہم نے بھی آرام کیا.دوسرے دن خدا کے فضل سے اور زیادہ پبلک اکٹھی ہو میری تقریر شام تک جاری رہی جس میں آریہ سماج کا مسئلہ اواگون اور بیاہ کی تعلیم کہ کس قسم کی لڑکی سے شادی کرنا چاہئے اور کس قسم کی لڑکی سے شادی نہ کرنا چاہئے.مگر افسوس کہ دیانندی تعلیم میں اس کا کوئی حل نہیں بتایا گیا کہ جن لڑکیوں سے شادی نہ کی جائے وہ بے چاری کیا کریں.انہیں مار دیا جائے یا ملک بدر کر دیا جائے.نہ تو جسم پر بال رکھنے والی سے شادی ہو سکتی ہے اور نہ اس سے جس کے جسم پر بالکل بال نہ ہوں.نہ آنکھوں سے ہلی نہ خاوند سے طاقتور نہ خاوند سے کمزور نہ خاوند سے اونچی اور نہ نیچی علی ہذا القیاس.اب بتاؤ کہ ایسی لڑکیاں کہاں جائیں.

Page 236

220 اب ذرا خدا لگتی کہتا کہ کیا یہ تعلیم عالم گیر ہو سکتی ہے.نہ کشمیری لڑکی اور نہ ولایت کی لڑکی سے شادی ہو سکتی ہے اور پھر نیوگ کے مسئلہ نے تو آریوں کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا اور تاریخ کے چکر نے بھی پبلک کو بہت خوش کیا جس کی روح سے سونا چرانے والا اگلے جنم میں سنار بنتا ہے وغیرہ وغیرہ.منو شاستر کے حوالوں نے سب کو حیرت زدہ کر دیا اور بات بات پر نعرے بلند ہوتے رہے.اسلام زندہ باد احمدی مبلغ زندہ باد ، آج پھر تقریر کرتے کرتے مغرب کی اذان ہو گئی لوگوں نے انظاری کا سامان منگوا لیا اور سب نے وہیں روزہ افطار کیا.دعا پر جلسہ ختم ہوا.میں نے لوگوں کو کہا کہ بیان کرنے کے لئے تو ابھی بہت کچھ باقی ہے مگر تحصیلدار صاحب کی خواہش ہے کہ اب اس سلسلہ کو بند کر دیا جائے اور دوسرے یہ مہینہ رمضان کا ہے اس لئے عبادت کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہئے اور اس قسم کے گندے اعتقاد کا ذکر بھی اچھا نہیں ہے.اس لئے اب کوئی تقریر نہ ہوگی.میں نے السلام علیکم کہا اور باقی سب لوگ بھی اس کے ساتھ ہی وعلیکم السلام کہہ کر چل دیئے اب اس شہر کے آریہ تو بہت شرمندہ ہو چکے تھے جبکہ یہاں کے سناتنی بہت خوش تھے.فهرست دوره کرده مقامات میں نے ڈیوٹی کے دوران اس علاقہ کے مندرجہ ذیل مقامات کا دورہ کیا.کنوئیاں ، شیندرہ ، پٹھاناں تیر ، سلواہ گر ساہی ، دھوڑیاں ، کالا بن ، کوٹلی، برگی بڑھانوں ، رہتال، راجوری ، ڈھرانہ، منکوٹ، ٹائیں، چوٹی، سونا گلی ، گوئی چر ناڑی بھابڑہ رہناہ، دورہ شیر خاں، گھنڈی سیرہ ، میر پور کرماڑہ پولس راولا کوٹ باغ سدھن گلی ، چکار لوڑی، علیہ آباد، سرائے علیا آباد شوپیاں ، پیر دی گلی ، سری نگر، ہیر پور اسلام آباد با نهال، رام بن بنوٹ اسر، کھلنی، ڈوڈہ، کشتواڑ ، مھلیں، بعد رواه چلنی ، اور ھم پور ریاسی ، جموں ، اکھنور، برنالہ بھمبر، آدھ ڈھک، جوگی i

Page 237

221 ہٹی، سرائے نوشہرہ، باقی چھوٹے چھوٹے دیہات کے نام یاد نہیں ہیں ورنہ بیسیوں ہیں جن کے دوروں کے دوران تبلیغ کی جاتی رہی.ابھی میں بھدرواہ میں ہی تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ ضلع گجرات کا تبلیغی دورہ وہی آریہ پنڈت ڈوڈہ جا کر تقریر کرے گا.میں بھی وہاں سے روانہ ہو کر ڈوڈہ کے پل پر پہنچا تو پتہ چلا کہ پنڈت بٹوٹ میں لیکچر دے گا.غرضیکہ اسی پنڈت جی کا میں نے جموں تک پیچھا کیا لیکن پنڈت جی نے لاہور جا کر ہی دم لیا اور پھر میں پونچھ چلا گیا اور جلسہ سالانہ تک وہاں کام کرتا رہا اور پھر جلسہ کے موقع پر قادیان واپس آگیا.جلسہ کے بعد ۱۹۴۷ء میں کشتواڑ اور بھدرواہ گیا.ماہ جون میں بھر رواہ سے براستہ ہوٹ و رام نگر بانہال اور اسلام آباد ، سری نگر پہنچا.تین دن چھاؤنی سری نگر میں بوساطت جمال الدین صاحب احمدی ، افسران کو تبلیغ کرتا رہا اور براستہ اوڑی و علی آباد پونچھ پہنچا.رمضان شریف کے اختتام تک وہاں قیام کیا.پھر ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے اور میں پونچھ سے براستہ جموں قادیان پہنچ گیا.دفتر سے میری اور گیانی واحد حسین صاحب کی ڈیوٹی لگی کہ ضلع گجرات میں جلسے کر کے تبلیغ کریں.ہم نے وہاں تقریباً دو ماہ کا دورہ کیا جس کے دوران درج ذیل علاقوں میں تبلیغ کی گئی.شیخ پور، نسودالی کڑیانوالہ بھوا، عا لمگڑھ ، فتح پور مجرات شہر کھاریاں، شادی وال جو لیگی ، منڈی بہاؤالدین وغیرہ.جب میں دورہ سے واپس آرہا تھا اس وقت پر خطر حالات میں قادیان واپسی لاہور میں ماردھاڑ کا سلسلہ جاری تھا.صبح والی ریل پر سوار ہو گیا.نو بجے والی گاڑی دن کے بارہ بجے روانہ ہوئی اور ہمیں راستہ میں امرتسر اتار دیا گیا پٹھانکوٹ کی طرف دن کے وقت کوئی گاڑی نہ گئی اور معلوم ہوا کہ رات دس بجے ایک گاڑی پٹھانکوٹ کے لئے روانہ ہو گی.مرزا بشیر

Page 238

222 بیگ صاحب نائب ناظر بھی امرتسر ہی میں رکے ہوئے تھے.وہ بھی ہمارے پاس تشریف لے آئے.وہاں ساٹھ کے قریب احمدی مرد اور بیس کے قریب احمدی عورتیں موجود تھیں.مگر سب متفکر تھے.امرتسر شہر میں کئی جگہ آگ لگی ہوئی چاروں طرف مار دیا جلا دیا کا شور بلند تھا.مجھے ان سب نے امیر قافلہ مقرر کیا.اسٹیشن پر ہر آن خطرہ تھا.مسلمان ہندوؤں سے اور ہندو مسلمانوں سے ڈرتے تھے.چاروں طرف ہر اس کا دور دورہ تھا.میں نے سب سے پہلے آرڈر دیا کہ اسٹیشن پر گاڑیاں کھڑی ہیں.تلاش کرو کہیں سے لکڑی کے ڈنڈے مل جائیں تو فورا لے آؤ.خدا کی قدرت ایک ڈبے سے جلانے والے ڈنڈے مل گئے اور وہ سب میرے پاس لائے گئے.میں نے تمام مردوں کا ایک وسیع دائرہ بنوا کر درمیان میں تمام عورتیں اور بچے بٹھا دیئے.رات دس بجے گاڑی آئی سب کو سوار کر کے ہم بھی چڑھ گئے.رات بارہ بجے بٹالہ پہنچے.اتر کر قادیان فون کیا.وہاں سے ایک ٹرک آگیا اس میں سب عورتیں بچے اور بوڑھے سوار کر دیئے.بو جھل سامان بھی رکھ دیا اور ٹرک پہریداروں کی حفاظت میں روانہ کر دیا.دوبارہ پلیٹ فارم پر آکر میں نے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ چاند کی روشنی میں اگر ہم قافلہ کی صورت میں ریل کی پنسری پر چلیں تو فجر کی اذان تک ہم قادیان پہنچ سکتے ہیں اور دن کی نسبت رات کو ہم بے فکر سفر کر سکتے ہیں.سب نے مشورے پر اتفاق کیا.ہمارے قافلے میں دو بندوقیں ایک پستول اور ایک تلوار بھی موجود تھی.قادیان میں مینار پر فجر کی اذان ہو رہی تھی جب ہم بخیریت قادیان پہنچ رہے تھے.ثم الحمد للہ قادیان پر احملہ قادیان میں ہی سارا رمضان گزارا.آخری روزه افطار کرتے وقت یہ سن کر بہت دکھ ہوا کہ گورداسپور ہندوستان میں آگیا ہے.سب لوگوں پر غم و فکر کی گھٹائیں چھائی تھیں

Page 239

223 کیونکہ دو دن قبل ہی یہ اعلان ہوا تھا کہ گورداسپور پاکستان میں آیا ہے اور اب اچانک ایک متضاد خبر سن رہے تھے.غرضیکہ بہت سوچ و بچار اور فکر میں دن گزرے.شروع تمبر میں ہی میرا بڑا لڑکا فوجی ٹرک لیکر آگیا اور کہنے لگا کہ ضروری سامان اور مستورات کو میرے ہمراہ پاکستان بھیج دو.میں نے کہا ہم نے تو حلف اٹھائے ہوئے ہیں اس لئے ہم تو نہیں جا سکتے.غرضیکہ وہ اپنے بچوں اور دیگر لوگوں کو سوار کر کے پاکستان لے آیا اور ہم قادیان میں ہی رہے.دن بدن خطرہ بڑھتا گیا قسم قسم کی مار دھاڑ کی خبریں آرہی تھیں.ہمیں پورا اطمینان تھا کہ قادیان پر حملہ نہیں کر سکتے اور اگر انہوں نے ایسی غلطی کی تو خدا کے فضل سے منہ توڑ جواب دیا جائے گا.مگر وہاں خدا کی تقدیر ہی کچھ اور تھی.۲ اکتوبر کو ساری رات فائر ہوتے رہے.نصف رات کو محلہ کمہاراں پر حملہ ہو گیا.قتل و غارت اور نوجوان لڑکیوں کا اغوا ہوا اور مکانات لوٹے گئے.اگلے دن بروز جمعہ ۳ اکتوبر عید گاہ میں پٹیالہ ہندوستانی ملٹری نے...کو اکٹھا کیا اور حملہ کرنے کی تاکید کی.چونکہ آگے موت - ر دکھائی دیتی تھی.اس لئے حملہ نہیں کرتے تھے اس لئے اب ملٹری خود ہی آگے ہوئی اور جو مسلمان نظر آتا اسے گولی کا نشانہ بنانے لگے.چونکہ ہمارا گھر محلہ دار الرحمت میں حملہ آوروں کے بالکل سامنے تھا اس لئے میں اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر سارا نظارہ دیکھ رہا تھا.ہمارے سامنے ہمارے محلہ میں صوفی غلام محمد صاحب کا مکان لوٹا گیا.ہمیں ملٹری کا مقابلہ کرنے کا حکم نہ تھا صرف اپنی مستورات کو آرڈر دے دیا کہ اب حملہ آور ملٹری کے ہمراہ دیواروں کے پانی آگئے ہیں اس لئے عزت بچانا ضروری ہے جس حالت میں بھی ہیں فورا گھر سے نکل پڑیں.چنانچہ سب بھرے بھرائے مکان مع سامان ، اناج و زیور چھوڑ کر بھوکے ہی انا للہ وانا اليه راجعون پڑھ کر گھر سے نکل پڑے اور بورڈنگ ہاؤس میں آکر مقید ہو گئے

Page 240

324 اور جمعہ پڑھا.وہاں بے شمار مرد اور عورتیں تھیں.ہر کوئی اپنی اپنی روٹی کا بندوبست کر رہا تھا.بڑی تکلیف اور فکر میں وقت گزرا کیونکہ کوئی شے میسر نہ تھی.ایک ہفتہ بورڈنگ ہاؤس میں تکلیف دہ قیام کے بعد مستورات کو داغ ہجرت ٹرک مل گئے.یہ دوسرے ہی دن بخریت لاہور پہنچ گئیں.10 اکتوبر کو ہم نے انہیں وہاں سے روانہ کیا تھا اور ۶ اکتوبر کو ہم سے بھی بورڈنگ ہاؤس خالی کرالیا گیا.ہم شہر کے احمد یہ مدرسہ میں چلے گئے وہاں مجھے آرڈر ملا کہ آپ فورا دفتر سے کچھ ریکارڈ لے کر کسی ٹرک کے ہمراہ لاہور پہنچیں.بارہ کے قریب مبلغوں کی سروس لکھیں اور دو رجسٹر میرے سپرد کر دیئے گئے.میرے پاس نہ تو کوئی کپڑا نہ بستر اور نہ کوئی کاغذ ہی تھا.صرف ایک تولیہ تھا جس میں وہ سروس بکیں اور رجسٹر لپیٹ لئے اور بدقت ۱۷ اکتوبر کی صبح کو میں لائن کے قریب جہاں دو ٹرک کھڑے تھے.ننگی تلواروں میں سے گزرتا ہوا وہاں پہنچا.میں جس تک کے پاس جاؤں احمدی سواریاں کہہ دیں کہ جگہ نہیں ہے میں پریشان ہو کر الگ جا کر کھڑا ہو گیا تو میرے مولا کریم نے ایک خالی ٹرک بھیج دیا جس میں میں سوار ہو گیا اور جو بھی کوئی آیا اسے سوار کرتا چلا گیا.حتی کہ اتنے آدمی اس میں سوار ہو گئے کہ تل دھرنے کو جگہ نہ رہی.نہ ہی بیٹھا ہوا اٹھ سکتا تھا اور نہ کھڑا ہوا بیٹھ سکتا تھا.ہم اس دن بوقت مغرب جو دھامل بلڈ نگ لاہور پہنچ گئے.رات میں اپنی ہمشیرہ کے پاس ٹھہرا.صبح کو اپنے بچوں وغیرہ کو رتن باغ سے تلاش کیا اور سب کو بخیریت پا کر خود دفتر حاضری دینے چلا گیا.فسادات کے بعد جب میں نے دفتر حاضری دی تو ۲۴ اکتوبر کو نیا ہیڈ کواٹر جہلم انہوں نے کچھ خرچ بھی دیا اور ساتھ آرڈر دے دیا کہ آپ اجہلم چلے جائیں تاکہ کشمیر د پونچھ وغیرہ کے حالات معلوم ہوتے رہیں.میں اپنے گھر والوں کو ساتھ لیکر جہلم پہنچ گیا ہم ایک ہفتہ تک جماعت جہلم کے ایک مکان میں

Page 241

225 رہے.اسی عرصہ میں راشن کارڈ بنوا لیا اور پھر مشین محلہ نمبر ۲ میں 180 G مکان میں چلے گئے.آہستہ آہستہ رھائش کا ضروری ضروری سامان اور برتن وغیرہ خریدے اور کام میں مصروف ہو گیا.۱۵ نومبر کو حضور نے مجھے لاہور بلوایا اور ہدایات دیگر مجھے، مولوی قمرالدین صاحب اور مولوی احمد خان نسیم صاحب کو درج ذیل چار ضلعوں کی جماعتوں میں چندہ کے اضافہ کیلئے دورہ کرنے کا حکم دیا.ہم نے کیمبل پور راولپنڈی، چنگا بنگیال، چک لالہ ، گو جر خان ، جہلم، محمود آباد دوالمیال، لاله موی گجرات کھیوڑہ ، منڈی بہاؤالدین وغیرہ کے دورہ جات کیسے اور چندہ جات میں خوب اضافہ کروایا.۱۹۴۸ء میں حضرت حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی جہلم تشریف آوری خلیفتہ المسیح الثانی جهلم تشریف لائے.آپ کی تقریر کا انتظام میدان پاکستان میں کیا گیا.حضور نے تقریر کے دوران کشمیر کے متعلق فرمایا کہ اس کا الحاق ہر صورت میں پاکستان کے ساتھ ہونا چاہئے اور ہندوستان کا جابرانہ قبضہ اس پر کسی جہت سے بھی جائز نہیں ہے.آپکی تقریر کو سب نے بہت پسند کیا.مغرب کے بعد حضور بیت میں تشریف لائے اور مجھے آواز دی.میں نے کہا حضور حاضر ہوں.کہنے لگے آگے آجاؤ.میں نے آگے بڑھ کر پاؤں دبانے شروع کر دیئے.حضور فرمانے لگے کہ میرے پاس رپورٹ پہنچی تھی کہ آپ فسادات میں لاپتہ ہو گئے ہیں.میں نے عرض کیا کہ حضور میں تو ایک دن کے لیے بھی لاپتہ نہیں ہوا.۱۷ اکتوبر کو بموجب حکم افسران قادیان سے لاھور پہنچا.۱۸ اکتوبر کو دفتر حاضری دی.۲۵ اکتوبر کو نظارت نے مجھے جہلم بھیج دیا.۲۰ نومبر تا ۲۰ دسمبر حضور کے حکم سے راولپنڈی وغیرہ کا دورہ کیا گیا.اگلے روز حضور راولپنڈی تشریف لے گئے.گویا حضور کی تقاریر سیالکوٹ ، گجرات، راولپنڈی

Page 242

226 سے پشاور تک ہو ئیں.واپسی پر حضور پھر تشریف لائے.آپ نے سید عزیز اللہ شاہ صاحب کے ہاں کھانا کھایا اور باقی قافلہ کو جماعت جہلم نے کھانا کھلایا.وہاں کے امیر جماعت سید امان اللہ شاہ صاحب دورہ پر گئے ہوئے تھے اور قائم مقام امیر مجھے بنا گئے تھے اسلئے حضور مجھے علیحدگی میں لیجا کر دریافت کرنے لگے کہ راجوری مسلمانوں کے قبضہ سے کس طرح نکل گئی.میں نے عرض کر دیا کہ حضور ادھر جرال قوم جن کا سرغنہ مرزا محمد حسین آف بھروٹ تھا انہوں نے آزاد فوج سے کہا تھا کہ راجوری میں کسی وقت ہماری حکومت تھی اور اب ہم نے دوبارہ اپنے زور بازو سے خالی کرائی ہے اس لئے اب اس جگہ ہماری حکومت اور قبضہ ہے.اس طرح آزاد فوج ناراض ہو کر پیچھے ہٹ گئی.ایسا دیکھ کر ہندوؤں نے دوبارہ یلغار کر کے قبضہ کر لیا اور تمام علاقہ مسلمانوں سے خالی کروالیا.مرزا محمد حسین وغیرہ کے مکان لوٹ کر جلا دیئے گئے.حضور فرمانے لگے کہ آپکی یہ رپورٹ صحیح ہے اور اسی روز پچھلے پہر حضور لاہور تشریف لے گئے.فهرست دوره کرده مقامات کئے اور کام کرتا رہا.میں نے جہلم اور گجرات کے اضلاع میں اپنی تقرری کے دوران درج ذیل علاقوں میں دورے شادیوال، مجرات جو لیکی چک سکندر، منڈی بہاؤالدین وغیرہ میں تو جلسہ جات کئے اور محمود آباد جہلم کالا گجراں، چک جمال، پڑیلہ، چک لطیف اللہ ، نہ پور دھنیالہ دینہ، رہتاس ، پنڈوری، بھڑ چکوال، ڈھلوال، دلیل پور کلر کہار، دوالمیال کھیوڑہ، چوہا سیدن شاہ پنڈ دادنخان ملک وال، کامیلہ، ترکی، مسراڑہ ، کھاریاں کوٹلہ فقیر خورد پطوالہ ، پنڈ عزیز، دستیال ، نگیال ، میرپور، کوٹلی، قیال، ٹاہلیاں، شیخ پور، نسووال کڑیانوالہ، بھنوا عالمگڑھ، فتح پور چودو دال ، جلالپور جٹاں، شادیوال، سوک

Page 243

227 کلاں، دیونہ، ماجرہ کھوکھر غربی، گوٹریالہ کنجاہ چوکنانوالی، جسو کے دھارو کی، لنگے، سعد اللہ پور آڑہ ، نورنگ ، تال، سرائے عالمگیر، بلانی ، گڑھا وغیرہ.اسکے علاوہ اور بھی بہت سے دیہات تھے.ان اضلاع کے علاوہ بھی دورے کیے مثلاً لاہور، چک نمبر ۱۴۴ پھیکی، جڑانوالہ ٹلائل پور چک جھمرہ سانگلہ ہل شاہ کوٹ، حافظ آباد گوجرانوالہ راحوالی، وزیر آباد، شورکوٹ، چک نمبر ۱۰۹، نمبر ، چنیوٹ، سرگودھا دھیر کے، راولپنڈی، چک لالہ، کیمبل پور مانسر کیمپ واہ کیمپ سهال ڈھلیاں ڈھکی ڈھوک، سنگرال جهان مندال چونترہ اسرال تکہ بجاڑ محموده گنگا نوالہ پنڈ ملو غرضیکہ تحصیل فتح جنگ میں ان جگہوں کا دورہ کیا.بعض مقامات ان میں ایسے ہیں جن کا بارہا دورہ کیا گیا.مذکورہ بالا فہرست ان مقامات کی ہے یعنی ان شہروں اور دیہات کی ہے جن کا دورہ قادیان سے نکلنے کے بعد حلقہ جہلم مقرر ہونے پر کیا گیا یعنی ۲۵ اکتوبر ۱۹۴۷ء تا ۲۲ دسمبر ۱۹۵۱۷ء.اس کے بعد جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ آگیا.۱۹۲۹ء کا واقعہ ہے.کلانور ضلع جوتوں کی بارش اور کلانور میں مناظرہ گورداسپور میں جلسہ اور مناظرہ تھا.کیونکہ ضلع گورداسپور میرا تبلیغی حلقہ تھا اور کلانور ہیڈ کوارٹر کلانور میں حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی مولوی ابوالعطاء صاحب مولوی محمد یار صاحب مولوی غلام احمد صاحب اور یہ عاجز مناظرہ کیلئے پہنچے.جب ہم شہر میں داخل ہوئے تو ایک گلی سے گزرتے ہوئے ہم پر پرانے ٹوٹے پھوٹے جوتوں کی بارش ہونے لگی.وہاں مخالفین نے لوگوں سے ہماری آمد پر ایسا کرنے کیلئے پہلے ہی کہہ رکھا تھا.ہمارے قافلے میں مولانا راجیکی صاحب سب سے آگے اور یہ عاجز سب سے پیچھے تھا.خدا کی قدرت کہ ہم میں سے کسی کو ایک جوتا بھی نہ لگا.کوئی

Page 244

228 جو تا آگے گر جاتا تو کوئی پیچھے کوئی دائیں تو کوئی بائیں سب سے آخر میں کسی نے اوپر سے ۱۴ نمبر کے بالکل نئے سلیپر پھینکے جو ان دنوں چودہ آنے میں ہی آتے تھے.میں نے وہ سلیپر اٹھا لیے ہم اپنی قیام گاہ مرزا مبارک احمد صاحب کے گھر پہنچ گئے.تھوڑی دیر کے بعد سلیپروں کی مالکہ کا خاوند ہمارے پاس پہنچ گیا.کہنے لگا کہ ہمارے بچے نے گلی میں سلیپر پھینک دیئے تھے.وہ آپ میں سے کسی مولوی صاحب نے اٹھا لیے ہیں.میں بڑا غریب آدمی ہوں ایک مہینہ سے میری بیوی ننگے پاؤں تھی.آج ہی میں نے اس کو یہ نئے سلیپر لا کر دیئے تھے جو ہمارے بچے نے گلی میں پھینک دیئے میں گھر پہنچا تو بیوی رو رہی تھی.مجھے بتانے لگی کہ بچے نے سلیپر گلی میں پھینک دیئے ہیں.جبکہ دیگر عورتیں پرانے جوتے پھینک رہی تھیں.وہ بتانے لگا کہ میں نے بیوی کو بھی سزا دی ہے اور بچوں کو بھی کہ تم مولوی صاحبان پر جوتے برسانے کیلئے کیوں چھت پر جا چڑھی تھیں؟ خیر ہم نے افسوس کیا اور کہا کہ اگر تم کسی کو سزا نہ دیتے پہلے ہی ہمارے پاس آجاتے تو بھی سلیپر تمہیں واپس مل جاتے.پہلے سزادے کر آپنے ان پر سختی کی ہے اور غلطی کی ہے.یہ اپنے سلیپر آپ لے لیں اور بیوی بچوں کو جا کر خوش کریں.اس نے بہت شکریہ ادا کیا اور خوشی خوشی سلیپر واپس لے گیا.اسی دن ہمارا عیسائیوں سے مناظرہ تھا.مولوی غلام رسول صاحب چونکہ امیر سفر تھے جو قادیان سے مقرر ہو کر گئے تھے.جب بٹالہ پہنچے تو مولانا راجیکی صاحب نے فرمایا کہ یہ ضلع تبلیغ کے لیے مولوی محمد حسین کے سپرد ہے.اب میں اپنی طرف سے ان کو امیر سفر مقرر کرتا ہوں.جب کلانور میں مناظرے کا وقت ہوا جو عیسائیوں سے تھا تو مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ یہ مناظرہ آپ نے کرتا ہے.حضرت مسیح کے کفارہ" پر مناظرہ تھا.پہلی ٹرن میں مسیح کا کفارہ ہونے کے متعلق چند لایعنی سی باتیں پادری نے بیان کیں.میں نے جوابا پادری سے سوال

Page 245

2,29 کیا کہ پادری صاحب یہ مناظرہ لمبا کرنے کی ضرورت نہیں ہے.صرف میرے سوال کا آپ جواب دے دیں.آپ نے بتایا ہے کہ آدم کی اولاد میں ورثہ میں گناہ آیا ہے.جو بھی آدم کی اولاد میں ہے وہ گناہ گار ہے.اب بائبل کی رو سے ہم نے فیصلہ کرتا ہے.مسیح نے خود فرمایا ہے کہ آدمی کو گناہ کیوجہ سے یہ سزا ملی کہ وہ پینے کی کمائی سے روٹی کما کر کھائیگا اور اسکی بیوی حوا کو پر سزا ملی کہ تو درد زہ سے بچہ بنے گی اب آپ یہ فرماتے ہیں کہ مسیح نے سب گناہ اٹھا لیے مگر حالات بتاتے ہیں کہ یہ بات صحیح نہیں کیونکہ عیسائی عورتیں بچہ جننے سے پہلے اسی طرح دردِ زہ میں مبتلا ہوتی ہیں اور جتنے عیسائی جھاڑو بردار ہیں ان سب کو سر سے پاؤں تک پسینہ آیا ہوا ہوتا ہے جس سے صاف ثابت ہے کہ مسیح کسی کا کفارہ نہیں ہو سکے.اگر آپکوشک ہو تو اپنی بیویوں سے پوچھ لیں کہ بچہ جننے سے پہلے درد زہ ہوتی ہے یا نہیں.پادری صاحب اسکے جواب کیلئے نہ اٹھے اور کہنے لگے کہ ہمارے مناظر پادری صاحب ہی نہیں آئے اس لیے ہم مناظرہ ملتوی کرتے ہیں گویا چند منٹوں میں یہ مناظرہ ختم ہو گیا غیر از جماعت کافی تعداد میں آئے ہوئے تھے.وہ بہت خوش ہوئے کہ ایک ہی سوال سے فریق ثانی کو خاموش کر دیا اور مجھے آکر مبارکباد دیتے رہے اور کہتے رہے کہ آپ نے ہمارے ہاتھ میں ان کو خاموش کرانے کیلئے ایک بڑا ہتھیار دے دیا ہے.ماہ جون ۲۸ء میں میری والدہ کا جنازہ حضرت المصلح الموعود نے پڑھایا میں ابھی یو پی ہی میں تھا ( مکانہ تحریک کے تحت) تو قادیان سے چٹھی آگئی کہ آپکی والدہ سخت بیمار ہیں.آپ کو ان کی عیادت کے لئے آنے کی اجازت ہے.میری بیوی بھی چونکہ میرے ساتھ ہی تھی.میں اسکو ہمراہ لے کر چوتھے دن قادیان پہنچا تو معلوم ہوا کہ دو دن

Page 246

230 قبل والدہ صاحبہ کا انتقال ہو گیا تھا.بہت دکھ ہوا.میں سوائے انا للہ وانا الیہ راجعون کے کیا کر سکتا تھا.لوگوں کی زبانی معلوم ہوا کہ آپکی والدہ کے جنازہ کے متعلق حضرت المصلح الموعود کو اطلاع کی گئی تھی تو حضور نے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب سے ارشاد فرمایا کہ آپ جنازہ پڑھا دیں.احمد یہ اسکول کی گراؤنڈ میں مولوی صاحب نے جنازہ پڑھانے کا اعلان کر دیا.سب لوگ وہاں اکٹھے ہو گئے.ادھر حضرت صاحب نے دوبارہ کسی سے پوچھا کہ یہ مائی کون تھی جو فوت ہو گئی ہے.بتانے والوں نے عرض کیا کہ حضور یہ محمد حسین جو یوپی میں تبلیغ کے لئے گئے ہوئے ہیں انکی والدہ تھیں تو حضور نے فرمایا وہ تو یہاں نہیں ہیں میں خود انکا جنازہ پڑھاؤنگا اور آپ وہیں سے ہی جنازہ گاہ کی طرف تشریف لے آئے.آگے مولوی صاحب صفیں بندھوا کر اللہ اکبر کہنے ہی والے تھے اور ہاتھ اٹھانے ہی لگے تھے کہ انہیں حضرت صاحب سامنے سے آتے ہوئے نظر آئے.مولوی صاحب فورا رک گئے.حضور نے خود جنازہ پڑھایا اور تقریباً سو قدم تک جنازے کو کندھا بھی دیا.حضور واپس آگئے.چونکہ مرحومہ موصیہ تھیں لہذا وہ قادیان کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں.۱۹۳۲ء میں میرا ہیڈ کوارٹر انبالہ شہر میں تھا اور ہم نے انبالہ کی تحصیل روپڑ شہر میں جلسہ کا انتظام کیا ہوا تھا.اس جلسہ میں میری تقریر جاری تھی تو قادیان سے تار موصول ہوئی کہ آپکے والد صاحب وفات پاگئے ہیں اس لیے آپ آسکتے ہیں چونکہ دو دن جلسہ تھا لہذا غیر احمدیوں پر برا اثر پڑنے کے ڈر سے جلسہ اپنے وقت پر ہی ختم کیا.جلسہ کا سارا انتظام میرے ہاتھ تھا اور بہت سا سامان عیسائیوں اور آریوں سے بھی مستعار لیا ہوا تھا یعنی میزیں کرسیاں دریاں وغیرہ) جو انکو لوٹانا تھا.غیر احمدی مولویوں کی جانب سے بے حد مخالفت ہوئی.وہ پوری طاقت سے جلسہ میں گڑبڑ پیدا

Page 247

231 کرنے کی کوشش کرتے رہے.تین تھانوں سے تھانیدار اور سپاہی ہتھکڑیوں کے ایک انبار سمیت پہنچے ہوئے تھے.اور تحصیل دار صاحب اور جج صاحب بھی تشریف لے آئے.مولوی عبد الغفور صاحب اور مولوی محمد یار صاحب قادیان سے میرے پاس پہنچ گئے تھے.انکی بھی تصاویر ہو ئیں.مولویوں کی سخت مخالفت کے باوجود جلسه نهایت خیرو خوبی سے ہوتا رہا کیونکہ جج صاحب نے جو ہندو تھا کھڑے ہو کر اعلان کر دیا تھا کہ اس جلسہ میں اسلام کی خوبیاں بیان کی جارہی ہیں اور کسی مذہب پر حملہ نہیں ہو رہا اسیلئے ایسے جلسہ میں اگر کوئی گڑ بڑ پیدا کریگا تو ہم اس کو گرفتار کرنے کے لیے مجبور ہونگے.اس وقت مولوی صاحبان چلے گئے مگر پبلک میں سے کوئی نہیں گیا.ہمارا جلسہ دو دن بڑی کامیابی سے دعا پر ختم ہوا.مندرجہ ذیل جماعتوں سے احمدی احباب بھی آئے ہوئے تھے.انبالہ شہر کاٹھ گڑھ ، سرہند خانپور پر اور چک لوہٹ گھر ڈگریام ،اچھی واڑہ راجپورہ، وغیرہ کا ٹھگڑھ سے مولوی عبد السلام صاحب اور مولوی عبد المنان صاحب دیگیں اور برتن ایک گاڑی پر لاد کر لائے تھے.چونکہ غیر از جماعت ہمارے جلسہ میں کافی شامل ہوتے تھے اور ہماری طرف سے یہ بار بار اعلان ہو تا تھا کہ جو صاحب بھی جلسہ سننے کیلئے آئے ہوئے ہیں انکے کھانے کا انتظام ہمارے ہاں موجود ہے.اسلئے سب لوگ ہمارے ہاں ہی دو دن کھانا کھاتے رہے.سب سامان وغیرہ بوٹا کر چوتھے دن میں قادیان پہنچا اور والد صاحب کی قبر پر جا کر دعا کی.مولوی عنایت اللہ شاہ بخاری گجراتی کا لفظ "صور" سے دھوکا دینا ۱۹۴۵ء میں مولوی صاحب کے جانے سے چند دن پہلے میں نے درہ شیر خان میں

Page 248

232 ایک جلسہ کیا تھا اور بیعت بھی ہوئی تھی.وہاں کے ملاں بہت سیخ پا ہوئے کہ اگر یہ جلے اسی طرح جاری رہے تو سب مرزائی ہو جائیں گے.انہوں نے ایک میٹنگ کی اور فیصلہ کیا کہ کسی بڑے مولوی کو پنجاب سے بلوایا جائے.غرضیکہ انہوں نے مولوی عنایت اللہ شاہ بخاری کو گجرات سے ۲۰۰ روپے دینا طے کر کے بلوایا.مولوی صاحب نے وہاں پہنچ کر رات کو تقریر میں ہمارے خلاف بہت زہر اگلا.ہمارے وہاں کے احمدیوں نے راتوں رات میرے پاس ایک آدمی بھیجا اور حالات سے مطلع کیا.میں اگلے ہی دن صبح کی لاری پر سوار ہو کر درہ شیر خان پہنچا.ابھی میں تھیں چالیس قدم پر ہی تھا کہ مولوی صاحب کی تقریر سنائی دی وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی مرزائی آپکے پاس آتا ہے تو کہتا ہے کہ مرزا صاحب مہدی تھے، کوئی کہتا ہے کہ مجدد تھے تو کوئی کہتا ہے کہ وہ امتی بنی تھے.میں آپکو مرزا صاحب کی ایک کتاب دکھاتا ہوں.وہ لکھتے ہیں کہ میں خدا کا صور ہوں.لوگوں نے اس لفظ کو سین" والا سئور سمجھا اور مولوی صاحب دھوکا دے گئے.پھر کہنے لگے کہ ہم مرزا صاحب کا اعتبار کریں یا انکے مریدوں کا؟ میں فورا انکے جلسے میں چلا گیا.میں اور گجراتی صاحب ایک دوسرے سے واقف تھے.میں نے کہا آپ اپنی قوم کی طرف دھیان کریں.اپنے چہرے اپنے بوٹوں اور اپنی اچکن پر دھیان دیں اور پھر ان کے مقابل پر اپنی اس شرارت پر غور کریں.کیا یہ آپکو زیب دیتی ہے؟ جو " اللہ کی عنایت" سے پیدا ہو اتنا بڑا جھوٹ بول سکتا ہے.اس لفظ سے آگے بھی کچھ پڑھ لیتے.آگے لکھا ہے کہ سب نبی خدا کے صور ہوتے ہیں اور پبلک کو بھی یہ بتایا کہ وہ سئور نہیں جو آپکی مکئی اور گنے کی فصلیں تباہ کرتے ہیں بلکہ وہ صور ہیں جن کے بارے میں قرآن میں ذکر ہے کہ نفخ في الصور کہ قیامت کے دن صور پھونکا جائے گا.اس طرح سب پر حقیقت واضح ہو گئی.بعض لوگوں پر مولوی صاحب کا بہت برا اثر پڑا.اور وہ جنہوں نے مولوی

Page 249

233 صاحب کو بلایا ہوا تھا سوچنے لگے کہ ۲۰۰ روپے ضائع ہو گئے ہیں اور جھنجلا کر مجھے مناظرے کا چیلنج دے دیا.میں نے اسی وقت چیلنج منظور کر لیا.وہاں کے نمبردار رحیم خان نے مجھ سے پوچھا کہ آپ خود مناظرہ کریں گے یا اپنے کسی اور مولوی کو بلوائیں گے.میں نے کہا کہ میں خود ہی مناظرہ کروں گا.اتنی دیر میں ٹائیں، سونا گلی ہوئی، چر نالی اور دھنہ وغیرہ سے سو سوا سو کے قریب احمدی احباب آگئے.جب انکی قطار پہاڑ پر سے اترتی ہوئی خطر آئی تو مولوی عنایت اللہ نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون آرہے ہیں.انہوں نے بتایا کہ یہ سب احمدی ہیں.مولوی صاحب گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ یہ علاقہ تو مرزائی لوگوں سے بھرا ہوا ہے.جب تک پولیس کا انتظام نہ ہو مناظرہ نہیں ہو سکتا.میں نے کہا مولوی صاحب تحریر ا ذمہ داری لیں.بڑے امن سے مناظرہ ہو جائیگا.مگر مولوی صاحب نہ مانے اور پولیس کے بغیر کسی صورت بھی مناظرے پر راضی نہ ہوئے.نمبردار صاحب بولے کہ میں اپنے لوگوں کی ذمہ داری نہیں لے سکتاکہ آپکی جماعت تو منتظم ہے مگر ہم غیر منظم ہیں لہذا آپکی طرح میں ذمہ داری نہیں لے سکتا.چنانچہ مولوی صاحب بغیر مناظرے کے گجرات چلے گئے.لوگ ہمیں گالیاں دینے لگے کہ ہمارے مولوی کی ہتک کر کے اسے بھگا دیا ہے.حالانکہ مولوی صاحب مجھ سے مصافحہ کر کے گئے تھے انکی گالیوں کے جواب میں ہم نے صرف اتنا ہی کہا کہ ان گالیوں کا بدلہ ہمارا خدا لے گا.نماز استسقاء کی قبولیت خدا کی قدرت که دره شیر خان کے دو میل کے ایریا میں جہاں انکا گاؤں تھا دو سال تک بالکل بارش نہ ہوئی.نہ اناج پیدا ہوا اور نہ چوپائیوں کیلئے چارہ.گھروں کے اناج بھی ختم ہو گئے اور فاقوں تک نوبت پہنچ گئی.ارد گرد کے سب علاقوں میں بارش اور سبز چارہ اور اناج خوب پیدا ہو تا رہا.تقریباً دو سال کے بعد اپنے دورے کے دوران میں سونا گلی

Page 250

234 کی جماعت میں پہنچا تو درہ شیر خان کے نمبردار رحیم خان اور دو اور معززین میرے پاس آئے.اپنے سب حالات سنائے اور خدا کا واسطہ دے کر کہنے لگے کہ ہمارے گاؤں چل کر دعا کریں تاکہ ہم اس عذاب سے نجات پا جائیں.اس نے رو رو کر جب مجھ سے یہ درخواست کی تو میں نے احمدی دوست سے کہا کہ چلیں وہاں چل کر نماز استسقاء ادا کرتے ہیں.مگر میں نے رحیم خان کو کہہ دیا کہ انکا کوئی آدمی ہمارے ساتھ شامل نہ ہو.چنانچہ ہیں احمدیوں کیساتھ میں درہ شیر خان چلا گیا.گرم پتھروں پر نماز شروع کر دی.بڑی رقت اور تضرع کے ساتھ خدا تعالٰی نے نماز ادا کرنے کا موقع دیا.خدا تعالٰی نے مجھے اطمینان دلا دیا کہ ہم یہ عاجزانہ التجا منظور کرتے ہیں اور بارش کی امید ہو گئی.ان کی عورتیں اور مرد دور سے ہمارے لمبے لمبے سجدے اور رکوع دیکھ رہے تھے.نماز میں ہی دل کو تسلی ہو گئی تھی اور میں نے اعلان کر دیا کہ اب خدا تعالی جلدی بارش دے گا.ہم نے نہ تو وہاں سے پانی پیا اور نہ ہی کچھ کھایا.باقی احمدیوں کو انکے گاؤں بھیج دیا اور دو آدمی میرے ساتھ میرہ کشم تک گئے.جاتے ہی پونچھ کی لاری مل گئی.اسی وقت ایسی کالی گھٹا آئی کہ ہماری دعا کے مطابق خشک سالی والے علاقے میں موسلادھار بارش ہوئی.پونچھ پہنچ کر قادیان سے تار ملی کہ اپنا سامان لے کر فورا قادیان آجائیں.میں دو دن کے اندر اندر قادیان پہنچ گیا.مجھے حضرت المصلح الموعود نے بھدرواہ کے علاقہ میں بھیجنے کیلئے بلوایا تھا.تحصیل دھر مسال مینڈر میں غیر مولانا محمد حیات کھودہ کی مضحکہ خیز حرکت از جماعت لوگوں نے ہمارے خلاف جلسہ کرنے کے لئے مولوی محمد حیات کھودہ کو بلوایا تاکہ ہمارے خلاف لوگوں کو بدظن کرنیوالی باتیں بیان کرے.کیونکہ دھر مال کے اردگرد کافی جماعتیں تھیں.جب انکے جلسہ کرنے کی ہمیں اطلاع ملی تو میں بھی پونچھ سے روانہ ہو کر

Page 251

235 دھر مسال مینڈر پہنچا اور انکے مقابلے پر جلسہ کرنے کیلئے ارد گرد کی جماعتوں کو اطلاع کر دی گئی.ہمارے احمدی دوست کافی تعداد میں پہنچ گئے تو ہم نے یہ تجویز کیا کہ ہمارا ایک آدمی انکے جلسے میں ہونے والے اعتراضات لکھ کر ہمیں بھیجتا جائے اور ہم اسکے جوابات اپنے جلسے میں بیان کرتے جائیں گے.جب انہیں ہمارے جلسے کا علم ہوا تو انہیں بے چینی ہونے لگی اور شور مچادیا.تھانیدار صاحب کو مجبور کیا کہ احمدیوں کا جلسہ نہ ہونے دیں.وہ تھانیدار صاحب ہمارے جلسہ میں آئے اور مجھے کہنے لگے کہ ایک شہر میں دو جلسے نہیں ہو سکتے.آپ اپنا جلسہ بند کر دیں کیونکہ انکا جلسہ پہلے سے ہو رہا ہے.وہ رو کے نہیں جاسکتے.میں نے کہا تھانیدار صاحب وہ لوگ ہمارے خلاف تقاریر کر رہے ہیں اور ہم جواب دینے کا حق رکھتے ہیں.دوسرے یہ کہ وہاں سے ۵۰۰ قدم کے فاصلے پر دوسرا جلسہ ہو سکتا ہے.انہوں نے فورا قدم ناپنے شروع کر دیئے.ہمارا جلسہ ۷۰۰ قدم دور ثابت ہوا.تھانیدار صاحب نے انکو کہہ دیا کہ وہ قانون کے پابند ہیں.انکا جلسہ نہیں رک سکتا.انکے جلسہ میں جو ہمارا رپورٹر گیا ہوا تھا.اس نے ہم پر کیے جانے والے اعتراض لکھ کر بھیجنے شروع کر دئیے اور ہمارے جلسہ میں انکے جوابات بیان ہونے لگے ہمارا ر پورٹر ہر اعتراض اعلان کر دیتا کہ جس نے اس اعتراض کا جواب سننا ہو ۶۰۰ قدم کے فاصلے پر دوسرے جلسے میں سن لے.اس طرح لوگ اعتراض اور جواب سننے کے لئے دونوں جلسوں میں آنے جانے لگے اور عجب سماں پیدا ہو گیا کھورہ صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ جو احمدی لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی کا مع جسم آسمان پر جانا ثابت نہیں ہے.یہ خدا کی قدرت پر حملہ کرتے ہیں.اور پھر بڑے زور سے کہا حالانکہ دیکھو کل رات ایک دوست ہمیں ایک بڑی موٹی مرغی دے گئے.اور خدا نے یہ قدرت دکھائی کہ رات رات ہی میں اسکو بچہ پیدا ہو گیا.اور وہ بچہ لوگوں کو

Page 252

236 دکھانے لگا.دراصل وہ ایک شارک (گٹار مالی) کا بچہ (بوٹ) جو سرخ رنگ کا تھا جس کے جسم پر کوئی بال بھی نہ تھا میز پر لوگوں کے سامنے رکھا ہوا تھا.یہ حیات مسیح کے ثبوت میں پیش کیا جا رہا تھا.جب میں نے یہ اعتراض دیکھا تو کہا کہ یہ خدا کی قدرت نہیں ہے.مولوی کھورہ صاحب کی کرتوت ہے کہ اپنی وضع قطع کا بچہ ایک مرغی سے ایک ہی رات میں پیدا کر دیا ان مولوی صاحب کے جسم پر بھی کوئی بال نہ تھا.نہ سر پر بال نہ بھنویں نہ پلکیں، نہ مونچھیں اور نہ داڑھی اور رنگ بھی سرخ تھا.میرا جواب سن کر لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوتے رہے.نوٹ:.صفحہ ۱۵۵ پر ”مولوی عبد القادر اور مولوی اسماعیل روپڑی سے مناظرہ کی میڈ نگ کے تحت دیئے گئے واقعہ سے پہلے کوٹلی پہنچنے کا یہ واقعہ درج ہونے سے رہ گیا تھا.اب یہاں درج کر رہا ہوں.تقریباً ۱۹۴۶ء مولوی عبد القادر اور کو ٹلی ضلع میرپور کی جانب روانگی مولوی اسماعیل روپڑی اہل حدیث ضلع میرپور پہنچے اور وہاں ہمارے خلاف تقریر کی اور بڑی تحدی سے کہا کہ مرزائی مجھے دیکھ کر ہی گھبرا جاتے ہیں.وہاں کے احمدی دوستوں نے یہ چیلنج منظور کیا اور فوراً ایک احمدی میاں محمد بخش کو میرے پاس بھیج دیا.وہ راتوں رات چالیس میل کا پیدل پہاڑی سفر طے کر کے فجر کی نماز کے وقت میرے پاس پہنچ گیا اور سب واقعہ کہہ سنایا اور بتایا کہ کل نو بجے مناظرہ ہے سر دست ایک ہی گھوڑا مل سکا.وہ شخص بھی چالیس میل کا پیدل سفر کر کے تھکا ہوا تھا.میں نے اسے گھوڑے پر بٹھا دیا اور خود پیدل چل پڑا.پھر راستے میں ہم باری باری گھوڑے پر سواری کرتے رہے.کوٹلی سے چھ میل دور سورج غروب ہو گیا.اندھیری رات تھی.راستے میں پانی کی ایک باولی آگئی.وضو کر کے وہاں نماز پڑھی اور دوبارہ چل پڑے.ابھی چار میل کا سفر باقی تھا کہ ایک

Page 253

237 پہاڑی پر سے لیمپ کی روشنی دکھائی دی.ہم نے انہیں بیٹری کی روشنی دکھائی تو وہ جان گئے کہ مولوی صاحب آرہے ہیں.وہ احمد کی دوست ہمارا ہی انتظار کر رہے تھے جو ہمارے لیے پلاؤ پکا کر لائے ہوئے تھے.وہ استقبال کے لیے آگے آگئے.وہاں پانی کی ایک ندی تھی وہ اسکے کنارے پر آکر بیٹھ گئے اور ہم بھی وہاں پہنچ گئے.سب سے ملاقات ہوئی وہ بڑے خوش ہوئے وہیں کھانا کھایا اور پھر تسلی سے شہر اپنی قیام گاہ پر چلے گئے.غالبا ۱۹۲۵ء میں ملکانہ کے علاقہ میں نگلہ گھنو ضلع خدا تعالیٰ کا نور کیسے دیکھا؟ ایٹہ اپنے ہیڈ کوارٹر میں تھا.رمضان شریف کے روزے رکھ رہا تھا اور ہمیں رمضان المبارک بعد نماز عصر وہاں کی بیت میں اعتکاف بیٹھ گیا.جب ستائیسویں روزے کی گزشتہ شب نماز تہجد ادا کر رہا تھا تو دعائے قنوت پڑھنے کے بعد مجھ پر کھڑے کھڑے ہی غنودگی طاری ہو گئی اور اسی حالت میں مجھے نور نکلتا ہوا دکھائی دیا وہ ایسا خوشنما تھا.کہ جس کی سفیدی میں کچھ سبز رنگ کی جھلک تھی.وہ اتنا تیز ہو گیا کہ اگر اس نور میں کچھ اور تیزی آجاتی تو میں بے ہوش ہو کر گر جاتا اور معابے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا بس بس بس..." اس مسجد کا محافظ میرا کھانا گھر سے لایا ہوا تھا.”بس بس بس..." کے میرے یہ الفاظ سن کر وہ بے تاب ہو گیا کہ مولوی صاحب کو کیا ہو گیا ہے؟ جب اس نے پردہ اٹھا کر اندر مجھے دیکھا تو میں سجدہ میں جا چکا تھا.ذرا ہوش قائم ہونے پر میں سجدہ میں گیا تھا.سلام پھیرنے پر اس نے پوچھا کہ مولوی صاحب آپ یہ بس بس بس کس کو کہہ رہے تھے.میں نے اسے بتایا کہ میاں صاحب میری بڑی مدت سے خواہش تھی اور میں دعا کیا کرتا تھا کہ مولا کریم جب ہم دعا کرتے ہیں تو کس چیز کو سامنے رکھیں.آپ نے اپنے کسی بندے (یعنی حضرت موسیٰ) کو تو اپنا نور دکھا کر اور اس کا جلوہ

Page 254

238 دکھا کر اپنا آپ اس پر ظاہر کیا جس کو وہ برداشت نہ کر سکا اور کسی کو انجیر کے درخت ے اپنے وجود کا اظہار کر کے دکھالیا یعنی حضرت عیسی پر تو میرے مولا اگر آپ ہمیں بھی ایسی تجملی دکھا دیں تو آپکا کوئی حرج نہیں اور ہمارا ایمان بڑھ جائے گا.لہذا ایک مدت کی دعا کے بعد آج خدا تعالٰی نے یہ تجلی دکھا کر ظاہر کر دیا ہے کہ میں صرف نور ہی نور ہوں جو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ واقعی خدا کے پورے نور کو یہ فانی وجود برداشت نہیں کر سکتک اسی لیے وہ اپنے پیارے بندوں سے من وراء حجاب ہی باتیں کرتے رہے.یہ نور دیکھ کر میرے دل کو اتنی فرحت پہنچی کہ آج بھی جب میں لکھ رہا ہوں تو یہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے ہے اور وہی مزا حاصل ہو رہا ہے.میں نے دعائیں کرتے ہوئے اس لاثانی نور کو سامنے رکھتے ہوئے بہت فائدہ اٹھایا ہے.اس کیلئے بھی بہت دعائیں کیں کہ نبی کریم ﷺ کی زیارت ۱۹۴۷ء مولا کریم تیری ہی توفیق سے ہم تیرے دین کی اشاعت اور اس پر عمل کرنے کی تحریک کرتے ہیں مگر آپ ہمیں تسلی دلائیں کہ ہمارا درود پڑھتا اور نبی کریم ﷺ کے احسانات دنیا پر بیان کرنا ہمیں بھی کوئی مقام حاصل ہوتا ہے یا نہیں.قدرت خداوندی کڑیانوالہ ضلع گجرات میں میری اور گیانی واحد حسین صاحب کی اسلامی تعلیم عالمگیر ہے " کے موضوع پر تقاریر ہوئیں.جلسہ میں بہت پبلک تھی.ہر مذہب کے بہت سے افراد تھے.غیر از جماعت مسلمان بہت سے تھے.جب ہماری تقاریر ختم ہو گئیں تو ہندوؤں اور غیر از جماعت مسلمانوں نے بہت اصرار کیا اور احمدیوں کو مجبور کیا کہ اپنے مولویوں کی کل پھر تقاریر کر لو.لہذا ہمیں رکتا پڑا اور اس رات ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب کے مکان پر ہم سونے کیلئے چلے گئے.ڈاکٹر صاحب بھی ہمارے پاس ہی ہوئے ہوئے

Page 255

239 تھے.میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک میدان میں کھڑا ہوں اور ایک بہت بڑا گھوڑا جو بہت خوبصورت اور سرخ رنگ کا تھا.اس پر ایک سوار چلا آرہا تھا.اس گھوڑے کے پیچھے پیچھے حضرت مسیح موعود اور انکے پیچھے حضرت المصلح الموعود پیدل چلے آرہے ہیں.وہ گھوڑا میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا.اس گھوڑے پر حضرت نبی كريم سوار ہیں.اتنا بڑا اور اتنا خوبصورت گھوڑا میرے خیال میں اس دنیا میں نہیں پایا جانکہ نبی کریم ﷺ کے سر پر سونے اور چاندی کا تاج ہے اور بہت خوبصورت لباس ہے.گھوڑا اس قدر طاقتور تھا کہ حضور نے دونوں ہاتھوں.باگیں بڑی مضبوطی سے پکڑ کے گھوڑے کو قابو کر رکھا تھا.میرے دل میں وہ نظارہ دیکھ کر ایک ایسا جوش پیدا ہوا کہ میں نے کہا اے مولا کریم اس تاج پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہو گی تو یہ گرم ہو جاتا ہو گا.اگر آپ مجھے پر لگا دیں تو میں اڑ کر سورج اور چاند کے درمیان آجاؤں اور اپنے پروں سے نبی کریم کو ہوا بھی پہنچاؤں اور سایہ بھی کروں.میرے کہنے کی دیر تھی کہ میرے بازوؤں کے بڑے بڑے پر بن گئے اور میں نے پاؤں سے ذرا سا اشارہ ہی کیا تو اڑ کر فضا میں عین اسی جگہ پہنچ گیا جہاں کی مجھے خواہش تھی.میرے پروں سے حضور ﷺ پر سایہ ہو رہا تھا.جب حضور کو سائے کی ٹھنڈک اور پروں کی ہوا پہنچی تو انہوں نے سر اٹھا کر میری جانب دیکھا.میں بھی آپ ﷺ کا چہرہ دیکھ رہا تھا.آپ کا چہرہ نہایت ہی خوبصورت تھا اور آپ ﷺ میری طرف دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے گویا خوشنودی کا اظہار فرما رہے ہیں.اس وقت میں بھی تہیہ کیے ہوئے ہوں کہ جدھر جدھر بھی یہ گھوڑا جائے گا میں بھی ان کے ساتھ ساتھ ان کے اوپر اوپر اڑتا چلا جاؤں گا اور اپنا سایہ ان پر کئے رکھوں گابور پروں سے سلیہ کے علاوہ ٹھنڈی ہوا بھی پہنچاؤں گا.یہ خدمت کر کے میرا دل اتنا خوش ہوا کہ ساتھ ہی آنکھ کھل گئی.میں

Page 256

240 ذرا سا کھانسا تو ڈاکٹر صاحب بھی اٹھ بیٹھے اور گیانی صاحب بھی.لیمپ کی ہلکی ہلکی روشنی ہر طرف پھیل رہی تھی.میں نے ڈاکٹر صاحب کو یہ خواب سنایا تو انہوں نے بڑے تپاک سے مجھے مبارک باد دی اور کہنے لگے کہ یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ آپ نبی کریم ﷺ کے دین کی خدمت کر رہے ہیں جو کہ مقبول ہے.اور مجھے بھی تسلی ہو گئی کہ ہم اپنے آقا اور ان کے دین کی خدمت کر رہے ہیں.یہ اللہ تعالی کا خاص فضل ہے کہ ہماری تسلی کے سامان کرتا رہا اور ہمارے حق پر ہونے کی تائید میں یہ نظارے دکھا کر اطمینان قلب بخشتا رہا ہے.کبھی خواب میں دیکھتا ہوں کہ جمعہ پڑھا رھا ہوں کسی وقت نماز پڑھا رہا ہوں اور کسی وقت قرآن پاک کا درس دے رہا ہوں.اس قسم کے نظارے فرحت بخش ہوتے ہیں.الحمد للہ.خدا تعالی نے ہمیں اس سلسلہ احمدیہ میں داخل کر کے بڑا انعام کیا ہے.

Page 257

241 صد سالہ جلسہ لنڈن میں شمولیت صد ۱۹۸۹ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق سالہ جماعت کا جلسہ سالانہ لنڈن میں منانے کا اعلان ہوا.میری بڑی خواہش تھی کہ شمولیت کروں اسی غرض سے کچھ وقت پہلے ویزا بھی لگوایا لیکن بعدۂ طبیعت بہت خراب ہو گئی اور جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا.جلسہ سالانہ سے ایک دو روز قبل ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے پیغام آیا کہ حضور ایدہ اللہ تعالٰی نے جلسہ سالانہ میں آپ کی شمولیت کے لئے حکم فرمایا ہے لہذا جلد تیار ہو جائیں.ویزا تو پہلے لگوایا.ہوا تھا لیکن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ارادہ ملتوی کیا تھا اب جب حضور ایدہ اللہ تعالی کا حکم آیا ہے تو میں بھلا کیسے انکار کر سکتا تھا میں نے کہا کہ جیسے حضور کا حکم ہے میں تیار ہوں لہذا ایک دن کے اندر ہی سارے انتظامات کئے اور اگلے دن ربوہ سے روانہ ہو کر رات اسلام آباد پہنچے وہاں سے صبح آٹھ بجے جہاز روانہ ہو کر قریباً چار بجے شام لندن پہنچا.وہاں جماعت کے احباب لینے کے لئے آئے ہوئے تھے ان کے ساتھ بیت الفضل کے پاس گیسٹ ہاؤس میں قیام کیا.اگلے دن اسلام آباد پہنچا تو حضور ایدہ اللہ تعالٰی سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا.آپ دفتر کے صحن میں کام کر رہے تھے اور پرائیویٹ سیکرٹری کو ہدایات دے رہے تھے.میرے وہاں پہنچنے پر نہایت پیار کے ساتھ ملے اور معانقہ فرمایا اور بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمانے لگے "خیریت سے پہنچ گئے ہیں.اگلے دن جلسہ سالانہ کے افتتاح کے موقع پر آپ نے نہایت شفقت کے ساتھ سٹیج پر اپنے ساتھ کرسی پر بٹھایا اور مجھ ناچیز کا تعارف

Page 258

242 کرد ایا مینوں دن میں بھی کچھ وقت کے لئے اجلاسات میں شامل ہوتا رہا.جلسہ سالانہ کے بعد قریباً چھ سات جماعتوں کے دورے کئے اور اللہ تعالٰی کی دی ہوئی توفیق - احباب جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے حالات سناتا رہا.قریبادو ماہ قیام کے بعد حضور سے اجازت لے کر واپس ربوہ آگیا.قادیان کے 100 ویں جلسہ سالانہ میں شمولیت ۲ / دسمبر 1994ء کو مجھے لاہور میں وکیل اعلیٰ کی طرف سے پیغام ملا کہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالٰی کی خواہش ہے کہ میں جلسہ جوبلی قادیان میں شمولیت کروں لہذا کل آپ تیار رہیں.میں نے جو پیغام لے کر آئے تھے ان سے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت صاحب خواہش کریں اور میں نہ جاؤں میری طبیعت بہت زیادہ خراب تھی اور پیشاب کی تکلیف تو بہت زیادہ تھی.اللہ تعالٰی پر بھروسہ کرتے ہوئے تیار ہو گیا اور اگلے دن لاہور ٹرین سے روانہ ہو کر اٹاری پہنچے اور وہاں سے بذریعہ کار قادیان پہنچے.اب تو قادیان کی رونق ہی اور تھی، ۱۹۴۷ء کے بعد پہلی دفعہ گیا تھا.جلسہ گاہ کے قریب والے گیسٹ ہاؤس میں رہائش کا انتظام تھا.کافی دوست آٹھ دس دن ملنے آتے رہے.غرضیکہ بہت مصروفیت رہی.۲۹ / دسمبر کو کا افتتاح تھا اس میں شمولیت کے لئے حاضر ہوا.عاجز کے لئے حضرت صاحب کے ساتھ سٹیج پر کرسی رکھی ہوئی تھی وہاں بڑے تپاک کے ساتھ مجھے بٹھایا.تھوڑی دیر کے بعد پیارے آقا ایدہ اللہ تعالی تشریف لائے میں آپ سے ملاقات کے لئے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ فرمانے لگے کہ آپ نہ اٹھیں اور اسی طرح میرے ساتھ

Page 259

243 بغل گیر ہوئے.میں نے آپ سے خیریت دریافت کی.میں بڑے شوق سے جاتے وقت خوشبو کا تحفہ ساتھ لے گیا تھا کہ میں خود حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کروں گا.چنانچہ پیش کیا تو آپ نے نہایت پیار اور محبت سے مجھ پر پہلے Spray کیا اور پھر خود کو لگایا.بعدہ میرا اپنی تقریر میں تعارف کروایا اور احباب سے مجھے ملنے کی تاکید کی.آپ کے اتنے پیار کا میں بے حد مشکور ہوں.ہر وقت دعا کرتا ہوں مولا کریم آپ کو صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے اور ہر وقت اپنی حفاظت میں رکھے.چونکہ پیشاب کی بہت تکلیف تھی لہذا تھوڑی دیر کے بعد حضور سے اجازت لے کر واپس اپنی رہائش گاہ پر آگیا.آپ کے حکم کی تعمیل میں دوستوں نے ہر طرح سے میرا وہاں خیال رکھا.بہت خواہش تھی کہ اپنے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر حاضری دوں لہذا دو دن کے بعد بذریعہ کار وہاں پہنچا.مزار کے پاس دوستوں نے کرسی رکھ دی وہاں بہت سارے احباب اکٹھے ہو گئے اور سب نے میرے ساتھ مل کر دعا میں شمولیت کی.بہت ہی خوشی ہوئی کہ اللہ تعالٰی نے اس عاجز کو یہ موقع عطا فرمایا.ایک دن دہاں کے T.V والے انٹرویو کے لئے آئے کہ آپ بنی نوع انسان کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں جو میں نے ریکارڈ کروایا.بعدہ انہوں نے از راہ شفقت اپنے دور درشن" پروگرام میں نشر کیا.چند دن قیام کے بعد خاکسار دوبارہ واپس لاہور امید

Page 260

244 سڈنی (آسٹریلیا) میں پہلی احمد یہ بیت الہدی کی بنیاد ۱۹۸۳ء میں اس بیت کی بنیاد رکھی گئی.حضرت خلیفتہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالٰی نے مرکز ربوہ میں حکم بھجوایا تھا کہ اس بنیاد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی رفیق کو بھی شامل کیا جائے.چنانچہ مرکز والوں نے میرا وہاں جانے کے لئے انتخاب کیا اور مجھے تیار رہنے کا حکم ملا.اس وقت بھی میں مربی تھا اور اللہ کے خاص فضل اور رحم سے اب بھی مربی ہوں.ایک موقع پر تقریر کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا تھا کہ جو مبلغ ۱۹۲۴ء سے پہلے کے ڈیوٹی پر ہیں انہیں دفتر ریٹائر نہ کرے جب تک وہ خود نہ چاہیں اور میں اللہ کے فضل.فریضہ ۴/ اپریل ۱۹۲۳ء سے ادا کرنے کی توفیق پا رہا ہوں.اس وقت میری عمر 91 برس تھی غرضیکہ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سڈنی پہنچا.یہاں قریباً ایک مربعہ زمین جماعت نے خریدی ہوئی ہے.اگلے دن حضور سے ملاقات ہوئی چند دن قیام کے بعد وہ خوش نصیب دن بھی آیا جو میری زندگی کا سرمایہ ہے.۳۰/ ستمبر ۱۹۸۳ء کو احمدیہ بیت الہدی کی بنیاد رکھی گئی سب سے پہلے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفتہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بیلچے سے بجری سیمنٹ اور ریت کا جو مصالحہ تھا بنیاد میں ڈالا.میں پیچھے کھڑا تھا حضور نے حکم دیا کہ دوسرا بیلچہ میں ڈالوں.چنانچہ اس عاجز نے تعمیل کی بعدۂ باقی احباب نے اس طرح بنیاد رکھنے میں شمولیت کی نیز حضور وہاں مغرب کی نماز کے بعد درس دیا کرتے تھے میں آپ کی دائیں جانب بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک دن میرے دل میں خیال پیدا

Page 261

حضرت مولوی محمد حسین صاحب جولائی 1989ء میں مجلس انصار اللہ ربوہ کے گیسٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں.حضرت مولوی محمد حسین صاحب جولائی 1989ء میں مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے صدر قائدین مرکز یہ اور ناظمین اضلاع اور زعماء کے ساتھ

Page 262

Ware حضرت مولوی محمد حسین صاحب 30 ستمبر 1983ء کو آسٹریلیا میں پہلی احمد یہ بیت الہدی کا سنگ بنبیا درکھتے ہوئے www حضرت مولوی محمد حسین صاحب فروری 1988ء میں لجنہ ہال ربوہ کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں

Page 263

مهدك رجاا ثوى اليهم من ال ن السَّماء حضرت مولوی محمد حسین صاحب حديقة المبشرين ربوہ کے زیر اہتمام ہونے والے ریفریشر کورس کے موقع پر مربیان سلسلہ کے ہمراہ حضرت مولوی محمد حسین صاحب حديقة المبشرين ربوہ کے ریفریشر کورس کے موقعہ پر سیکریٹری صاحب حدیقہ اور راجا نصر اللہ صاحب کے ہمراہ

Page 264

حضرت مولوی محمد حسین صاحب کے ہمراہ مربیان اطفال ربوہ سال 90-1989ء www حضرت مولوی محمد حسین صاحب ممبران مجلس اطفال الاحمدیہ مرکزیہ کے ہمراہ

Page 265

حضرت مولوی محمد حسین صاحب مدرسة الحفظ ربوہ کی ایک تقریب میں افریقہ کے ایک طالب علم کے تکمیل حفظ قرآن کے موقع پر حضرت مولوی محمد حسین صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ میں تقریب تقسیم انعامات کے موقع پر طلباء کو انعامات تقسیم کر رہے ہیں

Page 266

حضرت مولوی محمد حسین صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ میں اساتذہ جامعہ احمدیہ کے ہمراہ حضرت مولوی محمد حسین صاحب جامعہ احمدیہ ربوہ کی سیڑھیوں پر اسٹاف جامعہ کے ہمراہ

Page 267

AININ حضرت مولوی محمد حسین صاحب دارالذکر لاہور میں مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1991ء میں بطور مہمان خصوصی یادگاری شیلڈ وصول کر رہے ہیں

Page 268

حضرت مولوی محمد حسین صاحب وقف جدید میں معلمین وقف جدید سے خطاب فرمارہے ہیں حضرت مولوی محمد حسین صاحب ایڈیشنل ناظر صاحب اصلاح وارشاد مقامی کی الوداعی اور استقبالیہ تقریب میں مربیان اضلاع کے ساتھ

Page 269

245.ہوا اور حضور نے ابھی درس شروع نہیں کیا تھا کہ میں نے حضور سے درخواست کی کہ آج میں آپ کو سانس دلا دوں" فرانے لگے ضرور.چنانچہ عاجز نے درس دیتا شروع کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات سنا رہا تھا کہ حضور نے میرا کرتے ہلکا سا کھینچا.میں چپ ہو گیا اور حضور احباب کو مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ درس کے بعد سارے دوست ان سے اچھی طرح مل کر تابعی بن جائیں یہ وہ وجود ہے جو مسیح زمان کے ساتھ رہا.چنانچہ میں نے دوبارہ درس دینا شروع کیا درس کے بعد آپ کمرے کے اندر تشریف لے گئے اور سارے احباب میرے ساتھ مصافحہ کرنے لگے.اور جو برکت ہم نے امام مہدی علیہ السلام سے حاصل کی ہے اس کا فیض آگے احباب میں جاری ہوا.الحمد للہ رب العالمین چند دن مزید وہاں سیر کی اور پھر واپس پاکستان لوٹ آیا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب رفیق بانی سلسلہ کی وفات اور نماز جنازہ ۱۹۸۵ء میں صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے پیغام آیا کہ حضرت چوہدری محمد ظن ر ظفر اللہ خان صاحب وفات پاگئے ہیں اور حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفتہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے حکم ہے کہ آپ ان کی نماز جنازہ پڑھائیں.خاکسار حکم کی تعمیل میں مغرب کی نماز کے بعد صدر انجمن احمدیہ کے احاطہ میں حاضر ہوا وہاں کثیر تعداد میں احباب جمع تھے اور انہوں نے قطار میں بنائی ہوئی تھیں خاکسار چونکہ بیمار تھا اور کھڑا نہیں ہو سکتا تھا لہذا احباب نے مجھے کرسی پر بٹھا دیا بعدہ حضرت چوہدری صاحب کی نماز جنازہ خاکسار نے پڑھائی.

Page 270

246 حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بنت سیدنا حضرت مسیح موعود کی وفات اور نماز جنازہ مئی ۱۹۸۷ء میں صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے پیغام ملا کہ حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ جو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی تھیں وفات پاگئی ہیں اور حضرت خلیفتہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لندن سے حکم فرمایا ہے کہ آپ ان کا نماز جنازہ پڑھا ئیں چنانچہ خاکسار نے اس حکم کی تعمیل میں صبح دس بجے بیت اقصیٰ کے میدان میں جہاں کثیر تعداد میں ملک کی تمام جماعتوں کے نمائندے اور غیر ممالک سے بھی نمائندے موجود تھے خاکسار حاضر ہوا اور آپ کی نماز جنازہ پڑھانے کی بھی سعادت حاصل ہوئی.

Page 271

247 بتقریب صد سالہ جشن تشکر ۱۹۸۹ء لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے لئے پیغام حضرت مولوی محمد حسین صاحب رفیق حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ میری پیاری بزرگ بہنو! السلام علیکم و رحمتہ الله و بركاته اللہ تعالٰی کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے ہمیں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں پیدا کیا.جنہوں نے تمام دنیا کو پوری بصیرت سے یہ یقین دلایا کہ دین حق زندہ مذہب ہے اور آنحضرت ﷺ کی پیروی کے بغیر اب نجات نہیں ہے.حضور نے بڑی بڑی کتب تصنیف فرما کر دلائل کے ساتھ ثابت کر دیا کہ دین حق ہی وہ مذہب ہے جس کا دنیا مقابلہ نہیں کر سکتی اور ایسے ٹھوس دلائل دیئے کہ تمام مذاہب کا منہ بند کر دیا.صرف علمی طور پر ہی نہیں بلکہ مختلف رنگوں میں نشانات بھی دکھائے اور فرمایا کہ مجھے اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں سب کچھ خطا کیا ہے اب دنیا کے کناروں تک دین حق پہنچے گا.لطف یہ ہے کہ ہر ایک خدا رسیدہ انسان کے زمانہ میں ہمیشہ مخالفت ہوئی اسی طرح آپ چونکہ ایک بہت بڑے مقام پر کھڑے کئے گئے تھے.اس لئے ان کی مخالفت بھی ہر رنگ میں کی گئی باوجود ان مخالفتوں کے آپ کا مشن جو اکیلے وجود سے شروع ہو کر کروڑوں سے بھی زیادہ

Page 272

248 انسانوں تک پہنچ گیا ہے اور ایسے فدائین بھی پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی جانیں بھی قربان کیں اور سینکڑوں نوجوانوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں سے وقف کیں.خدا تعالی کے فضل سے ۱۲۰ ممالک میں احمدیت پھیل چکی ہے.یہ ایک بڑا نشان ہے بشرطیکہ انسان غور کرے.ایمان بڑھ رہے ہیں کہ ایک وجود ایک گاؤں میں کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا نے میرے ساتھ یہ وعدے کئے ہیں.کہ "میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اور آپ کی یہ پیشگوئی دیکھتے دیکھتے ہماری آنکھوں کے سامنے پوری ہو رہی ہے.آپ بہنوں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ آپ خدا تعالٰی کے مامور کا ہاتھ بٹا رہی ہیں اور ہر جماعت میں لجنہ اماء اللہ قائم کرنے کی کوشش کامیاب ہو رہی ہے.اور ہم چونکہ بحیثیت مربی ہونے کے جماعتوں کا دورہ کرتے رہے ہیں اور مردوں کے علاوہ مستورات کی خواہش پر ان میں بھی تقریریں ہوتی رہی ہیں ان کا اخلاص دیکھ کر بہت خوشی ہوتی تھی.یہ محض اللہ تعالی کا فضل اور حضرت بانی سلسلہ کی برکت ہے.اور میرا یہ پیغام ہی نہیں بلکہ شب و روز کی دعا بھی ہے کہ اللہ تعالی آپ کی سعی میں بہت زیادہ کامیابی کی صورتیں پیدا کرتا رہے.

Page 273

249 اظہار تشکر اللہ تعالٰی کا یہ بے انتہا احسان ہے کہ اس نے محض اپنے فضل سے دین حق کی نشأة ثانیہ اور اس کے دیگر ادیان پر عالمگیر غلبہ کے لئے اس زمانہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کو مبعوث فرمایا.اور سنت انبیاء کے مطابق آپ کی خاص تائید و نصرت کے لئے ہوائیں چلائیں.مشرق و مغرب اور شمال و جنوب سے آپ کو ایسے انصار دین میا فرمائے جنہوں نے بالواسطہ آپ کے بابرکت وجود سے فیض حاصل کیا اور اس نور کو مختلف اطراف میں پھیلاتے رہے.اس طرح یہ الہامی وعدہ پورا ہوا ینصرک رجال نوحى اليهم من السماء یہ بابرکت وجود اور بزرگ ہستیاں اب آہستہ آہستہ کم ہوتی جارہی ہیں.اس وقت ان بابرکت وجودوں میں سے ایک نہایت ہی درویش صفت وجود میرے محسن والد حضرت مولانا محمد حسین صاحب سبز پگڑی والے رفیق حضرت مسیح موعود ہیں.جنہیں اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی دوسری صدی تک سیدنا حضرت مسیح موعود کی پاک نشانی کے طور پر زندہ رکھا ہے یکم جنوری 1993ء کو آپ اپنی عمر کی پہلی صدی پوری کر کے دوسری صدی میں داخل ہو چکے ہیں.اللہ تعالی نے آپ کو مختلف علاقوں میں احمدیت کا پیغام نیز حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ اور آپ کے کامل غلام حضرت مسیح موعود کا فیضان پہنچانے کی سعادت بخشی آپ کی زندگی کے چند واقعات خاکسار کے پاس محفوظ تھے اور لمبے عرصہ سے میری یہ دلی خواہش تھی کہ ان ایمان افروز واقعات کو افادہ عام کے لئے چھواؤں 9 اکتوبر 1993ء کو مکرم و محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب

Page 274

250 منیر سیکرٹری صدیقته المبشرین، محترم والد صاحب کی ملاقات کے لئے اسلام آباد تشریف لائے تو والد صاحب کی زندگی کے حالات و واقعات کے بارے میں بھی دریافت کیا.خاکسار کے بتانے پر مولوی صاحب نے ان واقعات کو افادہ عام کے لئے چھپوانے کی تحریک کی بھر پور حمایت فرمائی میں ذاتی طور پر بھی سمجھتا ہوں کہ محترم والد صاحب کی خدمت دین سے بھر پور زندگی کے یہ ایمان افروز واقعات موجودہ دور میں دعوت الی اللہ کے لئے علمی اور عملی ہر دو پہلوؤں سے انتہائی مفید اور بابرکت ثابت ہوں گے.محترم والد صاحب کا وجود سیدنا حضرت مسیح موعود کی اس پیشگوئی کا بھی مصداق ہے جو اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود کو اس رنگ میں بتائی کہ : میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا.اشتهار 120 فروری 1886ء تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۷۰-۷) اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے محترم والد صاحب کی اولاد کی تعداد اس وقت 136 تک پہنچ چکی ہے.اور دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہو چکی ہے.فالحمد ) الله علی ذلک آپ کی تمام اولاد کو اللہ تعالی نے آپ کی خدمت کا خوب حق ادا کرنے کی توفیق بخشی ہے.آج کل آپ اس عاجز کے پاس اسلام آباد میں مقیم ہیں.اللہ تعالٰی آپ کی صحت میں برکت ڈالے.اور اس مبارک وجود سے ہم سب کو تا دیر استفادہ کی توفیق عطا فرمائے.اور مقبول خدمت کی توفیق بخشے.آمین ثم آمین.خاکسار آخر میں جذبات تشکر کے اظہار کے لئے مکرم و محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب منیر سیکرٹری حدیقتہ المبشرین کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہتا ہے جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت کے لئے تمام تر تیاری اور انتظامات فرمائے.اللہ تعالی انہیں اور

Page 275

251 ان کے جمیع رفقاء کار کو جنہیں اس نیک کام میں تعاون پیش کرنے کی توفیق ملی ہے اجر عظیم سے نوازے اور ان سب کا حافظ و ناصر ہو.آخر میں خاکسار پھر بزرگ والد صاحب کی صحت و عافیت کے لئے اور آپ کی تمام اولاد کے لئے دعا کا خواستگار ہے.والسلام اسلام آباد ( پاکستان ) حال کینیڈا خاکسار رانا محمد اقبال ایم اے کینیڈا ابن مولوی محمد حسین صاحب

Page 276

تعلق باللہ کبھی نصرت نہیں ملتی در مولیٰ سے گندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو وہی اس کے مقرب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں نہیں رہ اس کی عالی بار گہ تک خود پسندوں کو یہی تدبیر ہے پیارو کہ مانگو اس سے قربت کو اس کے ہا تھ کو ڈھونڈ و جلا وسب کمندوں کو

Page 276