Language: UR
جماعت احمدیہ کی مخالفت، ربوہ کے مقامی احمدیوں کو ایذاء رسانی اور ربوہ شہر کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنے والے چنیوٹ شہر کے مولوی منظور کی ابتداء اور انتہا بتاتے ہوئے اور اس کی مکمل تصویر کشی کرتے ہوئے مولانا موصوف نے اس مختصر کتاب میں صرف اور صرف مطبوعہ حوالہ جات سے مدد لی ہے۔ جس سے نہ صرف مولوی مذکور کی سیاسی، مذہبی اور کاروباری زندگی کا نقشہ سامنے آجاتا ہے بلکہ اس مولوی کے اکابرین اور اساتذہ کی حقیقت بھی تاریخ کے آئینہ میں عیاں ہورہی ہے۔ یہ کتابچہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب مورخ احمدیت نے اپنے قلمی نام ’’شاہد عجمی‘‘ کے ساتھ مرتب کیا ہے۔
چوت چانکیہ کی جنم بھومی، چنیوٹ میں مولوی منظور کا فتنہ تحریف قرآن اہل پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ 49LSAL ( -> ف ددست مونامد Gove می
عطیه از مصنف 60307 21/10/2001 فلسفہ چانکیہ اور اس کی جائے ولادت چندر گپت موریہ (وفات ۲۹۹ ق م) کے عہد میں شاطر سیاستدان اور ار تھ شاستر کے مصنف پنڈت چانکیہ کا نظریہ تھا کہ : " جو بادشاہ زیادہ قوت حاصل کرے اسے چاہئے کہ ہمسایہ بادشاہ پر حملہ کرنے میں دیر نہ کرے.جو بادشاہ دیکھے کہ اس کی طاقت بڑھ رہی ہے اسے چاہئے کہ کسی جھجک کے بغیر میثاق صلح کو توڑ کر دوسرے پر حملہ کر دے.جس بادشاہ کی سلطنت فاتح کی حدود سلطنت کے قریب واقع ہو وہ فاتح کادشمن ہوتا ہے“.(رسالہ انڈین انٹی کو بری ۱۹۰۹ء صفحہ ۳۰۳ اوس ۱۹۱۹ء صفحہ ۵۹ بحوالہ ”تاریخ نظریہ پاکستان صفحه ۲۳، ناشر انجمن حمایت اسلام لاہور.اشاعت جولائی ۱۹۷۰ء) پنڈت چانکیہ کی عوامی طاقت کار از ایسے لوگ تھے جو رومی مؤرخ جسٹین کی نظر میں چور ، لٹیرے اور راہزن تھے.جمعین آئی سی جلد ۲ صفحہ ۱۵۵۹ ایج آف امپیریل یونٹی صفحہ ۵۷ بحوالہ ارض پاکستان کی تاریخ جلد ۲ صفحہ ۱۲۶ مؤلفه رشید اختر ندوی.شائع کردہ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور (۱۹۹۸ء).جھنگ کے احراری مؤرخ جناب بلال زبیری نے اپنی کتاب ” تاریخ جھنگ“ (مطبوعہ ستمبر (۱۹۷ء) میں تسلیم کیا ہے کہ : چانکیہ چنیوٹ کا برہمن تھا“ اور: انگریز مؤرخین نے چانکیہ اور میکاولی میں موازنہ بھی کیا ہے“.(صفحہ ۳۰۴) ہ بھی کیا پاکستان دشمنی کا گڑھ ۲۹ دسمبر ۱۹۲۹ء کو ہند و سیاسی پارٹی آل انڈیا نیشنل کانگرس کے اجلاس راوی کے دوران کانگرس کے اسٹیج پر مجلس احرار کا قیام ہوا اور عطاء اللہ بخاری اس کے پہلے 1
صدر منتخب ہوئے.رئیس الاحرار صفحه ۱۴۴ - مؤلفہ عزیز الرحمن جامعی لدھیانوی کوچه رحمان چاندنی چوک دہلی.اشاعت مارچ ۱۹۶۱ء) چنیوٹ میں ملک اللہ دتہ اور ملک نذر محمد اس کے بانی تھے.قیام پاکستان سے قبل یہ شہر چانکیہ سیاست کے علمبر دار اور پاکستان دشمن ہندوؤں اور احراریوں کا گڑھ تھا.یہ بہت نازک زمانہ تھا.کیونکہ جیسا کہ قائد اعظم نے بھی بار بار متنبہ کیا کہ کانگرس دوسری قوموں پر ہندو تہذیب ٹھونسنا اور ہندوراج قائم کرنے کا خوفناک منصو بہ باندھے ہوئے تھی.(روز نامہ ملاپ لاہور ، ۷ ار جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ (۲) اور اس کا نتیجہ بر صغیر کے مظلوم مسلمانوں کی مکمل تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہ ہو سکتا تھا.بد قسمتی یہ تھی کہ سب احراری لیڈر کانگرس کے زر خرید غلام اور ایجنٹ کی حیثیت سے اس ہندو منصوبہ کی تکمیل کے لئے دن رات کوشاں تھے.چنانچہ کتاب "رئیس الاحرار “ کے صفحہ ۳۶ پر لکھا ہے: پنڈت موتی لعل نہرو، سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی سحر بیانی کے عاشق تھے.انہی کے پروگرام کے مطابق شاہ صاحب کام کر رہے تھے....پنڈت جی بار بار شاہ صاحب سے کہتے کہ شاہ صاحب کانگریس ستیہ گرہ کی کامیابی صرف آپ سے وابستہ ہے گاندھی جی اٹھ کر دروازے تک خود احرار رہنماؤں کو لینے آتے اور چلتے وقت خود ان رہنماؤں کو دروازے تک چھوڑنے آتے.یہ امتیازی بات تھی جو زندگی میں گاندھی جی نے صرف احرار ر ہنماؤں کی عزت و تکریم میں کی.خود عطاء اللہ شاہ بخاری نے اعتراف کیا کہ : د کانگرس کے چہرے کی سرخی ہماری قربانیوں اور ہمارے خون کا نتیجہ ہے“.نیز قائداعظم پر بالواسطہ طور پر تنقید کرتے ہوئے یہاں تک ہرزہ سرائی کی 2
کون کہتا ہے کہ کانگریس ہند و جماعت ہے.مسلمانو! ہوشیار رہو اور بچو یہ غلط اور خطرناک الزام کہ مسلمان کانگریس سے الگ ہیں اور وہ صرف ہندوؤں کی ترجمان ہے بہت بڑے ابلیس کا پروپیگنڈا ہے“.و (سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ ۱۰۶ از خان کا بلی.پبلشر ہندوستانی کتب خانہ ۶۳ ریلوے روڈ لاہور.طبع اول جون ۱۹۴۰) مفکر احرار چوہدری افضل حق نے قائد اعظم کو یزید “ قرار دیتے ہوئے احراری مسلک ان الفاظ میں واضح کیا کہ : ”ہم اس کے سخت خلاف ہیں کہ لاکھوں مسلمانوں کی قربانی دے کر کسی یزید جیسے ( تاریخ احرار صفحه لم) مسلمان کے لئے تخت سلطنت بچھایا جائے“.گو احراریوں نے نئے ایڈیشن سے یہ سطر حذف کر دی ہے مگر طبع اول میں موجود ہے اور شورش کا شمیری نے اپنی کتاب ”سید عطاء اللہ شاہ بخاری“ مطبوعہ ار ستمبر ۱۹۵۶ء کے صفحہ ۱۰۹ پر پورے طمطراق سے اسے نقل کیا ہے.یہ تھی وہ تشویش انگیز صورت حال جس کے پیش نظر قائد اعظم نے یہ بیان دیا کہ : اس وقت میں تین محاذوں پر آزادی کی جنگ لڑ رہا ہوں.ایک طرف انگریز سے ، دوسری طرف ہندوؤں سے ، تیسری طرف جو سب سے زیادہ خطر ناک محاذ ہے وہ غدار مسلمانوں کا ہے جو ہندوؤں اور انگریزوں کے ایجنٹ کے طور پر میری مخالفت کر رہے ہیں.تاریخ ساز - محمد علی جناح صفحه ۶۳ از بشارت احمد نسیم.اداره مطبوعات پاکستان مردان اشاعت وارد سمبر ۱۹۷۱ء) 3
منظور چنیوٹی اور اس کا فضیلۃ الشیخ انہی غداروں اور ہندوؤں اور انگریزوں کے ایجنٹوں کے سایہ تلے منظور احمد چنیوٹی صاحب نے ۱۹۳۱ء میں زندگی کا پہلا سانس لیا.ہوش کی آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ احراریوں کی زبر دست مخالفت کے باوجود پاکستان قائم ہو چکا ہے.۱۹۵۰ء وو میں وہ ٹنڈوالہ یار سندھ کے دار العلوم اسلامیہ “ ( دیوبندی مدرسہ ) سے فارغ ہوئے اور ۱۹۵۷ء میں اپنے بیان کے مطابق مولوی غلام اللہ خان سے قرآن مجید میں تخصص کیا.ان کے الفاظ یہ ہیں: اخذ التخصص في التفسير لدى فضيلة الشيخ غلام الله خان في السنة ۱۹۵۱ء.القادياني ومعتقداته اشاعت ۱۳۹۴ھ) اللہ جلشانہ نے چودہ صدیاں قبل اپنے مقدس کلام میں اعلان فرمایا تھا کہ :- لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعہ :۸۰) یعنی اسے صرف مطہر چھوتے ہیں.خاتم الانبیاء ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا گیا کہ بندے کی پاکیزگی کیا ہے؟ آنحضرت اللہ نے ارشاد فرمایا : " عمل صالح يلهمه اياه (جامع الصغير للسیوطی صفحه ۱۲ جلد اول) عمل صالح جسے اللہ تعالیٰ اسے الہام فرماتا ہے.اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ علم قرآن کی حقیقی رسائی صرف پاک باطن اور صاحب الہام بزرگوں ہی کے لئے ممکن ہے.بد نام زمانہ Ceris مگر چنیوٹی صاحب کی نظر انتخاب قرآن میں تخصص کے لئے ایک ایسے بدنام 4
زمانہ شخص پر پڑی جس کا ”قرآنی علم “ اپنے مرشد مولوی حسین علی کی تفسیر بلغة الحیران کی ذوقیات تک محدود تھا.اس تفسیر کے متعلق چنیوٹی صاحب کے دیو بندی بزرگوں کا فتویٰ یہ ہے کہ : یہ تفسیر مسلمانوں کیلئے مضر ہے".(سید مہدی حسن صدر مفتی دار العلوم دیوبند).1 " بلاشبہ عقائد اہل سنت والجماعت سے متصادم ہے“.مفتی محمد شفیع سابق مفتی مدرسه دیو بند ) مصنف کا کوئی مذہب نہیں ، نہ عقائد اہلسنت و جماعت کے موافق ہیں." ( مفتی کفایت اللہ دہلوی) ایسا طائفہ ملت اسلام سے خارج ہے.(مولوی عبد الجبار بگڑہ) (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مولوی غلام مہر علی صاحب کی کتاب ”دیوبندی مذہب صفحہ ۱۴۹.طبع دوم مکتبہ حامد یہ گنج بخش روڈ لاہور ) یہ تو مرشد کامل کا حال ہے.اب اس کے مرید اور چنیوٹی صاحب کے فضيلة الشیخ غلام اللہ خان کی ” قرآن دانی“ اور ”تقدس“ کی تفصیل مجلس احرار پشاور شہر کے صدر اور مدیر روزنامہ ”الفلاح “ پشاور حافظ سید عبداللہ شاہ (متوفی ۲۳ اکتو بر ۱۹۹۰ء) کے قلم سے ہدیہ قارئین کی جاتی ہے.لکھتے ہیں: 33 یہ شخص دریا آباد ضلع اٹک کا رہنے والا تھا.غربت کی وجہ سے مساجد میں پرورش پائی اور دینی علوم کے لئے دیوبند چلا گیا.وہاں سے فارغ ہو کر گجرات کی ایک مسجد میں دس روپے ماہوار کا امام مقرر ہوا.یہ ایک لڑکے کے ساتھ خلاف وضع فطری میں بدنام ہو کر راتوں رات وہاں سے نکل کر مری میں سنی بینک کے ایک ٹھیکیدار کے پاس اس کی مسجد کا امام بن گیا.اور اس کے بچوں کو قرآن مجید پڑھانے پر مامور ہو گیا تھا.سات روپے ماہوار تنخواہ اور روٹی دی جاتی تھی.5
میں نے ہی اسے راولپنڈی بلایا تھا.راولپنڈی کے لوگ دیندار اور جذباتی تھے انہوں نے غلام محمد کو راجہ بازار راولپنڈی کی مسجد کا امام مقرر کیا اور اس نے وہاں اپنے نام سے غلام محمد ہٹا کر غلام اللہ رکھ لیا کیونکہ اس خانہ خراب کو وہابیوں نے مالی امداد شروع کر دی اور یہ حنفیت کے لباس میں وہابیت کا پرچار کرتا رہا مجھے کیا معلوم کہ میر الگایا ہوا پورا پھولوں کی بجائے خاردار، گندہ، پلید پھل لائے گا.آخر کار میں نے اس سے تعلقات منقطع کر لئے.سال ۱۹۸۰ء میں اس نے اپنی ایک جماعت بنائی اور پشاور آکر پریس کانفرنس کی.میں نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ میں مولانا غلام اللہ کو گوشئہ گمنامی سے نکال کر راولپنڈی لایا تھا.اس نے اخبار نویسوں کے سامنے اقرار کیا اور پھر وظیفہ لینے وہابی حکومت سعودی عرب گیا اور وہاں ہی واصل فی النار ہوا.رسول اکرم ﷺ کا گستاخ تھا.مرتے وقت شکل بگڑ گئی.کسی کو اس خبیث کا منہ تک نہ دکھایا گیا....(یادداشتیں حصہ چہارم - صفحه ۸۹، ۹۰ از سید عبد اللہ شاد.مطبوعہ پشاور ) حافظامی خورد، رندی کن و خوش باش ولی دام تزویر مکن چوں دگراں قرآن را چنیوٹی صاحب اپنے شیخ کے نقش قدم پر اس عبرتناک روداد سے یہ حقیقت پوری طرح بے نقاب ہو جاتی ہے کہ ملا چنیوٹی صاحب کے فضیلۃ الشیخ کا قرآن مجید اور اس کے حقائق واسرار سے قطعاً کوئی تعلق نہ تھا بلکہ سورۃ آل عمران آیت ۱۸۸ کے مطابق تعلیم القرآن“ کے نام سے مدرسہ قائم کر کے سعودی عرب سے روپیہ بٹورنے کا کاروبار بنار کھا تھا.بعینہ یہی صورت شاگر در شید“ نے اختیار کی.پہلے ۱۹۵۴ء میں ایک مدرسہ قائم کیا پھر 6
سعودی حکمرانوں کے حضور طواف شروع کئے اور شیخ عبد العزیز عبد اللہ بن باز ساز باز کر کے بالآخر تحفظ ختم نبوت“ کے نام پر مالی امداد کا دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو گیا جس نے اس کے ادعائے علم قرآن کی قباپارہ پارہ کر ڈالی.مجد د اسلام حضرت امام غزالی نے اپنی شہرہ آفاق تالیف احیاء علوم الدین“ جلد ۲ کے چھٹے باب میں سلاطین اور حکمرانوں سے مخالطت رکھنے والے نام نہاد علماء کی مذمت میں آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث مبارک دی ہے کہ : ابغض القراء الى الله تعالى الذينَ يَزُورُونَ الأَمَرَاء (روایت حضرت ابو ہریرہ) علماء میں سے بدترین وہ ہیں جو امراء کے پاس جاتے ہیں.اسی طرح حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ : العلماء أمناء الرسل على عباد الله ما لم يخالطوا السلطان فاذا فعلوا ذلك فقد خانوا الرسل فاحذروهم واعتزلوهم - ( صفحه ۹۰۲ ناشر دار الكتب العربي ) یعنی علماء اللہ تعالیٰ کے بندوں پر رسولوں کے امین ہیں جب تک سلاطین سے میل جول نہ رکھیں اور جب ایسا کریں تو انہوں نے رسولوں کی خیانت کی ان سے بچو اور کنارہ کش ہو جاؤ.چنیوٹی صاحب کی ضیاء الحق آمر کی جبہ سائی کے نتیجہ میں ڈاکٹر عبد اللہ بن زاید وائس چانسلر مدینہ یونیورسٹی اس کے مدرسہ چنیوٹ آئے.تو اس نے اپنے سپاسنامہ میں پہلے تو یہ افتراء کیا کہ احمدیوں کے نزدیک معاذ اللہ ربوہ مکہ مدینہ سے زیادہ مقدس شہر ہے“.( سپاسنامہ صفحہ (۳).ازاں بعد سعودی عرب کے گماشتہ اور 7
دم چھلے کی حیثیت سے عرض کیا کہ رابطہ عالم اسلامی اور ”دار الافتاء “ سعودی عرب کے تعاون سے اس نے یورپ، مشرقی و مغربی افریقہ اور مشرق وسطی کے جو دورے (احمدیوں کے خلاف) کئے ان کی مفصل رپورٹیں اور اہم تجاویز سعودی حکومت کے ان اداروں کو دی جاچکی ہیں “.(صفحہ ۶).آخر میں کاسہ گدائی لئے ہوئے ڈاکٹر عبد اللہ بن زاید کی خدمت اقدس میں اپنے منصوبہ “ کے متعلق عاجزانه درخواست کی کہ حضور اس کے لئے معقول سرمایہ اور وسائل کی ضرورت سپاسنامہ صفحہ سے مطبوعہ ڈیلی بزنس پریس فیصل آباد) 66 ہے.پنجاب اسمبلی میں انسانیت سوز مظاہرہ چنیوٹی صاحب اب پورے طور پر غلام اللہ خانی" رنگ میں رنگین ہو چکے تھے.بزنس میں ان کی چانکیائی روح انہیں پنجاب اسمبلی میں بھی لے آئی تا پاکستان کے عوام میں شہرت حاصل کرنے کے علاوہ مزید دولت پیدا کر سکیں.حالانکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے کسی قسم کی عہدہ طلبی نالائقی کی کھلی علامہ علامت ہے.چنا آنحضرت خاتم الانبیاء ﷺ کا واضح ارشاد ہے کہ : انا و الله لا تُوَلّى على هذا العمل احداً سأله ولا احدا حرص عليه“.(مسلم کتاب الامارۃ.راوی ابو موسیٰ) خدا کی قسم ہم اس حکومت کے کسی منصب پر کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کرتے جو اس کا طالب ہو اور نہ کسی ایسے شخص کو جو اس کا حریص ہو.پنجاب اسمبلی میں رسول اللہ کے اس گستاخ و نا فرمان کا کردار ایسا اخلاق سوز تھا کہ اس کے مذہبی کاروبار میں شریک بھی مجسم احتجاج بن گئے.چنانچہ مجلس دعوت 8
امیہ پنجاب کے ناظم اعلیٰ نے الزام لگایا کہ مولوی منظور احمد چنیوٹی نے اسمبلی میں منفی کردار ادا کر کے اہلیان چنیوٹ کو شر مندہ کیا ہے.وہ سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ختم نبوت کا لیبل استعمال کر کے مبلغین ختم نبوت کو مجروح کر رہے ہیں.(امروز ۱۳ جون ۱۹۸۵ء) اس ضمن میں روزنامہ ”حیدر“ راولپنڈی نے یکم نومبر ۱۹۸۸ء کی اشاعت میں حسب ذیل خبر شائع کی.پنجاب اسمبلی میں مولانا منظور چنیوٹی کا کردار ملت اسلامیہ کی رسوائی کا سبب بنا (ریوه ) ( نمائندہ حیدر).خطیب مسجد احرار مولانا اللہ یار ارشد اور قاری محمد یامین گوہر امیدوار صوبائی اسمبلی نے گزشتہ روز چنیوٹ میں ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا منظور احمد چنیوٹی نے ختم نبوت کے نام کو بیچ کر قوم سے ووٹ حاصل کئے اور پنجاب اسمبلی میں جا کر جوند موم کردار ادا کیا وہ پوری ملت اسلامیہ کے لئے رسوائی کا سبب بنا.انہوں نے کہا کہ یہ شخص مذہب کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے.اور فتوی بازی اس کا مشن ہے.انہوں نے کہا کہ قوم کے ساتھ یہ دھوکہ بازی ہم ہر گز نہیں چلنے دیں گے.مولانا اللہ یار ارشد نے کہا کہ جھوٹ اس کا مشن ہے، دھو کہ اس کا پیشہ ہے.اور صوبائی اسمبلی میں معافی مانگ کر اس شخص نے ختم نبوت کے پروانوں کے سر جھکا دئے ہیں.انہوں نے کہا کہ ختم نبوت کے نام پر قوم سے چندہ بٹور کر اس نے اپنی ذاتی جاگیریں اور ڈیرے بنائے ہوئے ہیں.انہوں نے واشگاف الفاظ میں انہیں وارننگ دی کہ سیاسی فتوی بازی بند کردو ورنہ تمہار ا سارا حدود اربعہ قوم کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا“.9
احراری مذہب منظور چنیوٹی کے اینٹی احراری گروپ کی یہ تقریریں انتہائی دلچسپ بھی ہیں اور حد درجہ مغالطہ انگیز بھی ! اس لئے کہ اسلام کے نام کو اپنی اغراض کے لئے استعمال کرنے کا دوسرا نام ہی احراری مذہب ہے.اور اس حمام میں یہ سبھی ننگے ہیں.چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب مفکر احرار اپنی کتاب ”تاریخ احرار“ صفحه ۱۲۲ طبع دوم میں تحریر فرماتے ہیں: ہم لوگ تو سچ پوچھو اسلام کو اپنی اغراض کے لئے استعمال کرتے ہیں.خود اسلام کے لئے استعمال ہونا نہیں جانتے“.اسی کتاب میں انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ احرار جو بظاہر اسلام کا نام لیتے اور اسی نام سے اپنی مطلب براری کرتے ہیں پنڈت نہرو کی طرح در پردہ سوشلسٹ ہیں.چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ : لوگ بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ احرار کو کیا ہو گیا کہ مذہب کی دلدل میں پھنس گئے.یہاں پھنس کر کون نکلا ہے جو یہ نکلیں گے ؟ مگر یہ کون لوگ ہیں.وہی جن کا دل غریبوں کی مصیبتوں سے خون کے آنسو روتا ہے.وہ مذہب اسلام سے بھی بیزار ہیں اسلئے کہ اس کی ساری تاریخ شہنشاہیت اور جاگیر داری کی درد ناک کہانی ہے.کسی کو کیا پڑی کہ وہ شہنشاہیت کے خس و خاشاک کے ڈھیر کی چھان بین کر کے اسلام کی سوئی کو ڈھونڈے تاکہ انسانیت کی چاک دامانی کار فوکر سکے.اس کے پاس کارل مارکس کے سائنٹیفک سوشلزم کا ہتھیار موجود ہے.تاریخ احرار صفحہ ۷۶ اطبع دوم ناشر مکتبہ مجلس احرار اسلام.لاہور، ملتان (۱۹۶۸ء) شورش کا شمیری جیسا احراری لیڈر اس ضمن میں اپنے قریبی مشاہدات کی بنا پر 10
تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ کارل مارکس اور عطاءاللہ بخاری کے ” عمومی خدوخال ہر صفاتی بعد کے باوجود ایک سے ہیں“.(سید عطاء اللہ شاہ بخاری، صفحہ ۱۳، ۱۴) خود بخار کی صاحب کا کہنا ہے کہ : میں سر سے پاؤں تک سیاسی آدمی ہوں“.سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحه (۹۱) اب ظاہر ہے کہ سیاست میں جھوٹا پراپیگنڈہ اور حریفوں کو رسوا کرنا بلکہ گالیاں تک دینا سبھی روا بلکہ ضروری ہے.یہی وجہ ہے کہ سبھی احراری ملا اخباری پراپیگنڈہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے.شورش صاحب عطاء اللہ بخاری کا ذکر کر کے رقمطراز ہیں کہ : ان کا عقیدہ ہے کہ اخباروں نے آغاز سے اب تک بڑے بڑے جھوٹ گھڑے ہیں اگر اس جھوٹ کا بوجھ ماؤنٹ ایورسٹ پر پڑتا تو وہ بھی زمین میں دھنس چکی ہوتی.سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحه ۱۸ از شورش کا شمیری ناشر مکتبہ چٹان اور ستمبر ۱۹۵۷ء) جہاں تک دوسروں کو گالیاں دینے کا تعلق ہے شورش صاحب نے ”امیر شریعت احرار کا ایک مفصل واقعہ بیان کر کے یہ اسوہ پیش کیا ہے کہ : "شاہ جی اتنے غصے میں آئے کہ مادر و خواہر کی مغلظات تک سنادیں“.شہر ربوہ کا نام بدلنے کا مطالبہ (ایضاً صفحہ اے) منظور چنیوٹی کو اسلام کے نام پر اپنی سیاسی دکان چمکانے کا ایک سنہری موقعہ اس وقت ہاتھ آیا جب ضیاء الحق جیسا فرعون وقت جو اپنے تئیں ” قادر مطلق سمجھتا تھا بر سر اقتدار آیا اور اس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے نفاذ اسلام کا سیاسی 11
ڈھونگ رچایا.چنانچہ چنیوٹی صاحب نے ۱۴ر فروری ۱۹۷۹ کو ” چند اہم گزارشات“ کے نام پر ادارہ مرکز یہ دعوت وارشاد چنیوٹ کی طرف سے ایک دو ورقہ شائع کیا جس کے آغاز میں اس امر مطلق کے حضور مندرجہ ذیل الفاظ میں ہدیہ تبریک اور خراج تحسین پیش کیا: اس ملک کو لا تعداد قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا تھا تاکہ یہاں پر اسلام کا ضابطہ حیات نافذ کیا جاسکے.اور مسلمان قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزار سکیں.قوم کافی عرصہ سے چشم براہ تھی کہ یہ یوم سعید کب آتا ہے اور نظام مصطفی کو نافذ کرنے کی سعادت کس کے حصہ میں آتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سعادت کے لئے منتخب فرمایا اور یہ عظیم اور تاریخی کام آپ سے لیا.ایں سعادت بزور بازو نیست، تا نه بخشد خدائے بخشنده آپ نے ۱۲؍ ربیع الاول کو اسلامی نظام کے نفاذ کا جو اعلان کیا ہے وہ تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا اور دیگر اسلامی ممالک کے سربراہان کے لئے قابل تقلید نمونہ ہو گا.میں آپ کو اس ایمان افروز اعلان پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں“.اس سجدہ تعظیمی " کے بعد چنیوٹی نے احمدیوں کے خلاف پانچ مطالبات بغرض منظوری پیش کئے جن میں تیسرا مطالبہ مرکز احمدیت ، ربوہ کے نام کی فوری تبدیلی کا تھا جو درج ذیل الفاظ میں تھا قادیانیوں نے قرآن کریم میں ایک خطرناک معنوی تحریف کرتے ہوئے اپنے عالمی مرکز کا نام ربوہ رکھا ہے اور وہ یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قرآن کریم کے پارہ نمبر ۱۸ آیت نمبر ۵۰ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام کے ذکر میں جو ربوہ کا لفظ آتا ہے اس سے مراد یہی ربوہ ہے 12
جو پاکستان میں موجود ہے“.(صفحه ۳) ضیاء صاحب خدا کی قہری تجلی کا شکار ہو گئے تو چنیوٹی نے اشرفی آفسیٹ پریس لائل پور سے ایک دو ورقہ شائع کیا جس کا نام تھا ربوہ کا نام فی الفور تبدیل کرو“.اس اشتعال انگیز ہینڈ بل میں انہوں نے وزیر اعظم و ممبران قومی و صوبائی اسمبلی حکومت سے ربوہ کا نام بدلنے کا مطالبہ کیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ آیت قرآنی و اوینهما الى ربوة.(المومن :۵۱) میں ربوہ کا لفظ موجود ہے.اس نام کی آڑ میں دراصل مقصد یہ ہے کہ آنے والی نسلیں جب قرآن پاک کی اس آیت کو پڑھیں تو ربوہ کا مصداق سوائے اس کے کہ ربوہ ضلع جھنگ کا ایک شہر ہے جو چناب کے قریب ہے اور کوئی نہو اس لحاظ سے یہ ایک صاف اور صریح قرآنی تحریف ہے".بانی ربوہ کا ترجمہ آیت اور ا(صفحه ۳) دوسوسالہ مترجمین کی طرف سے اس کی تائید حق یہ ہے کہ جس طرح چنیوٹی صاحب نے وائس چانسلر مدینہ یونیورسٹی کے سامنے کمال بے شرمی اور بے حجابی سے یہ سفید جھوٹ بولا کہ احمدی اپنے عالمی مرکز.ربوہ.کو مکہ اور مدینہ سے زیادہ مقدس سمجھتے ہیں.بالکل اسی طرح یہ محض دجل اور فریب ہے کہ احمدیوں کا نعوذ باللہ یہ عقیدہ ہے کہ ربوہ سورہ المومنون میں مذکور ربوہ کا مصداق ہے یا اس کا مصداق ثابت کرنے کے لئے یہ نام تجویز کیا گیا ہے.عربی زبان میں بلند جگہ یا ٹیلہ کو ربوہ کہا جاتا ہے.(دیکھئے مفردات امام راغب ) خود قرآن مجید نے دوسرے مقام پر یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال فرمایا ہے.(ملاحظہ ہو البقرہ:۲۹۶) 13
بانی ربوہ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس سر زمین کو اپنے ماحول سے بلند ومر تفع ہونے کے باعث ہی اسے ربوہ سے موسوم فرمایا جو حضور کے بلند پایہ ذوق عربی اور نکتہ نوازی کا عکاس ہے.اور اس کا فیصلہ کن اور بالکل واضح دستاویزی ثبوت یہ ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے سورہ المومنون کی آیت ۵۱ کا ترجمہ ” تفسیر صغیر “ میں بایں الفاظ فرمایا ہے کہ : ”ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو ایک نشان بنایا اور ہم نے ان دونوں کو ایک اونچی جگہ پر بنا دی جو ٹھہر نے کے قابل اور بہتے ہوئے پانیوں والی تھی“.اگر حضور اس آیت کا مصداق ربوہ شہر کو سمجھتے تو اول تو یہ ترجمہ نہ کرتے دوسرے اس مسلک کی تائید میں اس ترجمہ کے حاشیہ میں ربوہ شہر کا تذکرہ فرماتے مگر ایسا کوئی نوٹ آپ کے قلم سے موجود نہیں ہے.اب مجھے اس حقیقت کو بے نقاب کرنا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے لفظ ربوہ کا جو ترجمہ کیا ہے بر صغیر پاک و ہند کے علماء دو صدیوں سے اس کے موافق ترجمہ کرتے آرہے ہیں ان علماء میں سنی، دیو بندی، بریلوی، مودودی اور اہل تشیع غرضیکہ مکتب فکر کے علماء شامل ہیں.ذیل میں بطور نمونہ چند اردو تراجم کا تذکرہ ہر کیا جاتا ہے.....( حضرت شاہ رفیع الدین صاحب).جاگہ دی ہم نے اون دونوں کو طرف زمین بلند کے “.( ترجمه قرآن شائع کردہ شیخ غلام علی لاہور مارچ ۱۹۲۳ء) ( حضرت شاہ عبد القادر صاحب).ان کو ٹھکانا دیا ایک ٹیلہ پر “.پانچ تر جموں والا قرآن مجید ناشر سید محمد شفیع الدین مالک اقبال پر ننگ در کس دیلی.۱۵ / فروری ۱۹۳۷ء) شمس العلماء حافظ نذیر احمد صاحب دہلوی).ان دونوں کو ایک اونچی جگہ 14
پر لے جاکر پناہ دی“......( مولوی فتح محمد صاحب جالندھری).ان کو ایک اونچی جگہ پر...پناہ دی.( ناشر تاج کمپنی لمیٹڈ کراچی) (مولوی مفتی شاہ محمد احمد رضا خان صاحب) انہیں ٹھکانہ دیا ایک بلند زمین.( ناشر تاج کمپنی لمیٹڈ کراچی ) ( مولوی ثناء اللہ صاحب امر تسری).”ہم نے ان کو ایک اونچی جگہ پر جگہ دی تھی.مطبع چشمه نور امر تسر اشاعت ۵۱۳۱۳) (مولوی عاشق الہی صاحب میر تھی).دونوں کو ٹھکانا دیا ایک اونچی جگہ (مطبوعہ گلشن ابراہیم پر لیں.امین آباد لکھنو ۱۳۳۳ھ )...( مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی).ان کو ٹھکانہ دیا ایک ٹیلہ پر “.( ناشر نور محمد کار خانه تجارت کتب آرام باغ کراچی).....( حافظ سید فرمان علی صاحب در بهنگوی بھارت).”دونوں کو ہم نے ایک (ناشر پیر محمد ابراہیم ٹرسٹ کراچی (۵) اونچی ہموار جگہ دی...حکیم سید مقبول احمد صاحب دہلوی).ان دونوں کو ایک اونچے ٹیلے پر (ناشر افتخار بکڈپو کرشن نگر لاہور ) ٹھہرنے کی جگہ تھی“.ا سید امداد حسین شاہ صاحب کا ظمی مشہدی).”ہم نے ان دونوں کو اونچی ہموار ٹھہرنے کے قابل جگہ دی.ناشر انصاف پبلشنگ کمپنی ریلوے روڈ لا ہو (۱۳۸ھ)..(سید ابو الا علی صاحب مودودی).ان کو ایک سطح مرتفع پر رکھا.تفهيم القرآن جلد سوم صفحه ۲۸۰ - مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور.ستمبر ۱۹۷۶ء) ( پیر محمد کرم شاہ صاحب الازھری سجادہ نشین بھیرہ).انہیں بسایا ایک بلند مقام پر “.(ضیاء القرآن جلد سوم صفحہ ۲۵۸،۲۵۷.ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور ۵۱۳۹۹) 15
.....( مولانا ابوالکلام صاحب آزاد امام الہند.”انہیں ایک مرتفع مقام میں پناہ دی.ترجمان القرآن جلد دوم صفحه ۵۶۵- ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لا ہو ر طبع اول ۱۹۳۶ء) (مولوی اشرف علی صاحب تھانوی).”ہم نے ان دونوں کو ایک ایسی بلند زمین پر لے جا کر پناہ دی.دی“.ناشر نور محمد کارخانه تجارت کتب کراچی ۱۳۳۷ھ مطابق ۱۹۲۸ء) ( مولوی محمد صاحب جونا گڑھی.ان دونوں کو بلند.جگہ میں پناہ (مطبوعہ شاہ فہد قرآن کریم پر فٹنگ کمپلیکس مدینه منوره زیر نگرانی وزارت مذہبی امور اوقاف دعوت وارشاد.مملکت سعودی عرب سنہ ۱۴۱۷ھ) چانکیہ اور غلام اللہ خان کے جانشین کی ترجمہ قرآن میں تحریف الغرض حضرت شاہ رفیع الدین رحمتہ اللہ کے ترجمہ قرآن سے لے کر سعودی عرب کے زیر انتظام مدینہ منورہ (دام الله شرفھا) سے طبع ہونے والا تازه ترین اردو ترجمه قرآن تک سب ہی بانی ربوہ سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کے ترجمہ ہی کی تائید کرتے ہیں.مگر اس کے مقابل اب آئیے چانکیہ اور غلام اللہ خان کے جانشین اور اس کی معنوی اولاد یعنی منظور اینڈ کمپنی کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے کہ کس طرح پوری بے شرمی سے ترجمہ کلام اللہ میں تحریف کر کے قرآن کے نام پر خوفناک سازش کی جارہی ہے.مذکورہ پمفلٹ میں چنیوٹی صاحب نے سورہ مومنون کی متعلقہ آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے: 16
”ہم نے عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ کو ایک اونچی جگہ فلسطین.مصر میں جگہ دی جو قرار والی اور چشمہ والی تھی“.( صفحه ۳ سطر ۱۳، ۱۴) خط کشیدہ الفاظ ہر گز قرآن مجید میں موجود نہیں اور ان کو ترجمہ میں نہایت دیدہ دلیری سے شامل کرنا بیسویں صدی کی بدترین اور شرمناک تحریف قرآن ہے، فراڈ ہے ، دجالیت ہے جس پر ملا چنیوٹی کو صرف اہل پاکستان سے ہی نہیں، دنیا بھر کے مسلمانوں سے معافی مانگنی چاہئے.در اصل قرآن کی لفظی اور معنوی دونوں قسم کی تحریف احراری مذہب کا جزو اعظم ہے.بطور ثبوت مکتبہ تبصرہ لاہور کی کتاب ”خطبات امیر شریعت“ ہی ملاحظہ فرمائیں جس میں کم از کم آٹھ قرآنی آیات محرف و مبدل ہیں.شورش کا شمیری نے ہفت روزہ چٹان مورخہ ۷ جنوری ۱۹۶۳ء کے صفحہ ۳ پر یہ خبر شائع کی کہ بریلوی عالم مولوی محمد عمر اچھروی نے ۲۸؍ دسمبر ۱۹۶۲ء کے ایک جلسہ عام میں کہا: احمد علی لاہوری، عطاء اللہ شاہ بخاری، اور حماد اللہ ان تینوں پر اس لئے فالج گرا کہ یہ تینوں قرآن مجید میں معنوی تحریف کرتے تھے.خدا کی طرف سے ان پر عذاب نازل ہوا.تینوں کے پہلو مارے گئے اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے حتی کہ مرتے وقت کلمہ بھی نصیب نہ ہوا.“ چانکیائی رگ اور غلام اللہ خانی سرشت جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے بانی ربوہ نے کبھی آیت اوینھما“ میں لفظ ربوہ سے مراد دریائے چناب کے کنارے آباد شہر ربوہ نہیں لیا.اسی طرح جماعت احمد یہ بھی قرآن کریم میں مذکور ”ربوہ“ کا مصداق شہر ربوہ کو ہر گز قرار نہیں دیتی.پس یہ 17
چنیوٹی صاحب کی چانکیائی اور احراری رگ ہے جو انہیں سیاسی لحاظ سے دھوکہ بازی اور فریب کاری پر انگیخت کرتی ہے اور پھر وہی غلام اللہ خانی سرشت ہے جو انہیں مذہب کے نام پر دجل و افترا پر اکساتی اور جھوٹ کے گند پر منہ مارنے پر آمادہ کرتی ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ ان کے لئے ذلت اور لعنت کے سامان پیدا فرماتا آرہا ہے.چنانچہ شہر ربوہ کا نام بدلنے کے لئے اس نے جھوٹاڈھنڈورہ پیٹا تو ختم نبوت کا بورڈ لگانے والے دوسرے ملاں نیا قادیان نام رکھنے کے بارہ میں اختلاف کر کے اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے.چوہدری افضل حق ” تاریخ احرار " صفحہ ۱۵۶ میں احراری کردار کی نشان دہی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: باسی کڑھی کے ابال کی طرح ہم اٹھتے ہیں اور پیشاب کی جھاگ کی طرح ہم بیٹھ جاتے ہیں.پورا پاکستانی پریس گواہ ہے کہ چنیوٹ کے اس احراری ملا نے اس موقع پر اپنے " بزرگوں کی اس روایت کو پوری شان “ سے قائم رکھا.اس طرح ایک طرف تَحْسَبُهُم جَمِيعًا وَّ قُلُوبُهُم شَتَّى (الحشر : ۱۵) کی تصویر کھنچ گئی.دوسری طرف إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ إِهَانَتَكَ " * - ( البام ١٨٨٠ء) کا عبرت انگیز نظارہ ایک بار پھر چشم فلک نے دیکھ لیا.فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي (ترجمہ : جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا میں اسے ذلیل ورسوا کروں گا).(البام حضرت مسیح موعود علیہ السلام) 18
ذلت کی دوبارہ پذیرائی پہلے جب ربوہ کا نام حکومت پنجاب نے نیا قادیان رکھا تو یہ اپنی نامرادی کا طوق گلے میں ڈالے پھر ارباب اقتدار کے تلوے چاٹنے لگے چنانچہ اس بار بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ذلت نے ہی اُن کی پذیرائی کی اور ربوہ کا ایک اور خوبصورت نام تجویز ہوا.اس پیارے نام سے ربوہ کی مقدس بستی کنار چن آب یعنی چاند کے پانی کے کنارے کی بستی قرار پائی.فتبارك الله احسن الخالقين.احمدیت کی صداقت کا چمکتا ہوا نشان یہی نہیں، میں ڈنکے کی چوٹ کہوں گا بلکہ دنیا بھر میں اس کی منادی کروں گا کہ مرکز احمدیت، ربوہ کا یہ دلکش نام صداقت احمدیت کا چمکتا ہوا نشان ہے.اس اجمال کی تشریح حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے قلم سے درج کرتا ہوں.آپ نے رسالہ ”الفرقان “ربوہ مئی ۱۹۷۵ء کے شمارہ میں صفحہ ۲، ۳ پر جلی قلم سے حسب ذیل ادار یہ رقم فرمایا:- دریائے چناب پر نور خدا کا نزول صداقت احمدیت پر ایک اور بُرہان راولپنڈی کے مشہور ماہنامہ فیض الاسلام میں جناب مولوی محمد فضل قدیر ظفر صاحب ندوی نے جناب سید محمد سلیمان ندوی کی مشہور تالیف سیرۃ النبی مجلد سوم سے رویائے تمثیلی کے عنوان سے احادیث نبویہ جمع فرمائی ہیں اور اسی سلسلہ میں انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے کے اپنے ایک رؤیا کا بایں الفاظ ذکر فرمایا ہے.تحریر 19
فرماتے ہیں:.پاکستان کی روز بروز کی گرتی ہوئی حالت میں میرے دل کو سہارا مل رہا ہے عالم بیدار ہی میں ایک مشاہدہ سے.ابھی تقسیم ملک کا معاملہ گونگو میں تھا کہ میں نوافل تہجد کے بعد تخت پر آنکھیں بند کئے ہوئے ذکر میں مشغول تھا.جاگ رہا تھا اونگھ بھی نہیں رہا تھا.دیکھا کہ لفظ خدا موٹے حروف میں چاند کی رنگت میں آسمان سے نازل ہو کر دریائے چناب کے پانی پر اتر گیا.میرا گھر تھا چناب سے تین سو میل مشرق میں کیتھل ضلع کرنال.“ (رسالہ فیض الاسلام راولپنڈی اپریل ۱۹۷۵ء صفحه ۲۳) جناب ظفر ندوی صاحب اس سے آگے اس خواب یا کشف سے یوں استدلال فرماتے ہیں کہ :- " راقم نے چاند کی روشنائی میں اسم خدا کو آسمان سے آب چناب پر اتر تا دیکھا تو میں اسے پاکستان کے حق میں بشارت کیوں نہ باور کروں؟ مجھے یاد ہے کہ مجھے یہ صبح صادق کے قریب یا کچھ بعد نظر آیا تھا.“ (رسالہ فیض الاسلام راولپنڈی اپریل ۱۹۷۵ء صفحه ۲۳) ہمارے نزدیک جناب ظفر ندوی صاحب کا یہ رویا یقینا سچا ہے اور اس کو پاکستان کے حق میں بھی بالواسطہ بشارت باور کرنا چاہئیے مگر اس سے بھی بڑھ کر اور براہ راست یہ رویا جماعت احمدیہ کی صداقت پر ایک روشن دلیل ہے.۴۷.۱۹۴۶ء میں ندوی صاحب کو دکھایا جاتا ہے کہ دریائے چناب کے پانی پر اسم خدا چاند کے نور کے رنگ میں نازل ہوا ہے.جب پاکستان کا قیام ہوا اور ملک تقسیم ہوا تو صرف ایک دینی جماعت یعنی جماعت احمدیہ کا مرکز دریائے چناب کے کنارے قائم ہوا.اسی جماعت نے بچے معنوں میں ہجرت کر کے بے آب و گیاہ بنجر میں دریائے چناب کے کنارے نزول کیا.اور اس جگہ سے اسلام کے نور کو اکناف عالم میں پھیلانا 20
شروع کیا.آج جو لوگ اپنی کم فہمی سے اس جماعت کو مٹانا چاہتے ہیں وہ يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ کے مصداق بن رہے ہیں اور بہر حال ناکام رہیں گئے.اس رویا میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دریائے چناب پر بننے والے مرکز دینی کی حیثیت چاند کے نور کی ہو گی جو آفتاب محمدی علیہ سے ہی مستفاد ہوتا ہے اس کی حیثیت مستقل نہ ہو گی.وہ تو نور محمدی کی ہی جھلک ہو گی.پس اس مرکز والوں کو اسلام سے دور قرار دینا آسمانی تقدیر سے لڑائی لڑنا ہے.اے کاش! ہمارے خدا ترس مسلمان بھائی اس آسمانی اشارہ کو سمجھیں! وَ مَا علينا الا البلاغ المبين! احراری تاریخ اور نام بدلنے کی قدیم روایت یہاں یہ بتانا بھی نہایت ضروری ہے کہ چنیوٹی کی احرار پارٹی کی تاریخ میں نام بدلنے کی روایت بہت پرانی ہے اور اس میں عطاء اللہ بخاری کو ید طولی حاصل تھا.انہوں نے ہندوؤں میں مقبول ہونے اور سنسر سے بچنے کیلئے دیناج پور جیل میں اپنا نام پنڈت کر پا کرام برہمچاری رکھ لیا تھا جو سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا ترجمہ یا بدل تھا.(سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحه ۷۳ از شورش کا شمیری) رسالہ سیارہ ڈائجسٹ اگست ۱۹۶۶ء صفحہ ۱۹۹، پر ایک چشمدید شہادت درج ہے کہ :." وتی دروازے کے باہر بڑے دھوم دھڑ کے سے کانفرنس ہوئی جس میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے پاکستان اور پاکستانیوں کا ذکر ان حسین الفاظ میں کیا: یہ لوگ پاکستان مانگتے ہیں.جانتے ہو کیا مانگتے ہیں.پاکستان..پاکی استان...انہیں پاکی استان چاہئے.دے دیجئے اُسترے اُن کے ہاتھوں میں اور بھیج دیجئے 21
غلسیانوں میں“.مولوی مظہر علی اظہر جنرل سیکرٹری مجلس احرار قائد اعظم کو کافر اعظم“ کے نام سے پکارتے تھے.چنانچہ تحقیقاتی عدالت پنجاب ۱۹۵۳ء کے فاضل حج صاحبان نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے :- چونکہ قائد اعظم روشن خیال آدمی تھے.اس لئے احرار نے اُن کی اس خصوصیت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر انہیں کافر کہنا شروع کر دیا.یہ شعر مولانا مظہر علی اظہر سے منسوب ہے جو تنظیم احرار میں ایک ممتاز شخصیت ہیں.اک کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا یہ قائد اعظم ہے کہ کافر اعظم مولانا مظہر علی اظہر نے ہمارے سامنے نہایت خیرہ چشمی سے یہ اظہار کیا کہ ( قائد اعظم کے متعلق ) وہ اب تک اسی خیال پر قائم ہیں.(اردور پورٹ صفحہ ۱۱) پس یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان ، قائد اعظم اور اہل پاکستان کی مخالفت کی آگ میں جل رہے ہیں.قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو پاکی استان اور پلیدستان کا نام دیتے ہیں.احراری لیڈر شیخ حسام الدین بی.اے کے خطبہ صدارت میں یہاں تک موجود ہے کہ : ایسے پاکستان کو ہم پلیدستان سمجھتے ہیں.اسلام کے باغی پاکستان سے ہم ہندو ہندوستان کو پسند کریں گے پس اگر محمد علی جناح اسلام.کے اقتصادی اور سیاسی نظام کے خلاف کسی سرمایہ داری کے نظام کو چلائے تو نفع کیا؟ اگر جواہر لعل اور گاندھی خلفائے راشدین کی پیروی میں نا برابری کے سارے نقوش کو مٹائے چلے جائیں تو بطور مسلمان کے ہمیں نقصان کیا ؟“.تاریخ احرار صفحه ۲۰ از مفکر احرار چوہدری افضل حق ناشر مکتبہ مجلس احرار پاکستان لاہور، ملتان، اشاعت مارچ ۱۹۶۸ء) 22
عطاء اللہ شاہ بخاری کے نزدیک ان ہندو لیڈروں کا مقام روحانی اور عظمت آسمانی اس سے بھی بہت بلند ہے.چنانچہ اخبار ”ذوالفقار “ (۱۶/ اپریل ۱۹۲۱ء) لکھتا ہے کہ عطاء اللہ بخاری نے ۲۵ مارچ ۱۹۲۱ء کی تقریر مسجد خیر دین امر تسر میں بیان کیا کہ ” میں مسٹر گاندھی کو نبی بالقوہ مانتا ہوں“.(بحوالہ زجاجہ صفحه ۱۴۰ از سید طفیل محمد شاه) اسی طرح ۱۹۲۱ء میں انہوں نے امر تسر ہی میں یہ تقریر کی کہ :- بلا تشبیہ اور بے تمثیل مہاتما کا میم اور موسیٰ کا میم برابر ہے“ ( مقدمات امیر شریعۃ صفحہ ۲۸،۲۷.ناشر مکتبہ احرار الاسلام ملتان.اشاعت اپریل ۱۹۶۹ء ) ۱۳ جنوری ۱۹۳۹ء کا واقعہ ہے کہ مسجد وزیر خاں لاہور میں ایک جلسہ عام کے دوران مولوی ظفر علی خان ایڈیٹر ”زمیندار“ نے عطاء اللہ شاہ بخاری اور دوسرے کانگریسی و احراری مولویوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا:.علماء خدا کو چھوڑ کر پنڈت جواہر لال نہرو کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں جو خدا کو نہیں مانتا اور لامذ ہب ہے.“ ( روزنامہ ” نیشنل کانگریں“ لاہور ۵ار جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۸) کانگریس کے پالتو مولانا اور ان کی معنوی ذریت انہی ایام میں دہلی دروازہ لاہور میں آل پنجاب مسلم سٹوڈنٹس کی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں بخاری صاحب نے پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کی.چنانچہ اخبار ملاپ ۲۷ جنوری ۱۹۳۹ء صفحہ ۲ پر لکھا ہے:./ ” مولانا نے...مسلم لیگیوں کو آڑے ہا تھ لیا.پاکستان کی سکیم کا خوب مذاق اڑایا آپ نے پاکستان کی سکیم کا خوب مضحکہ اڑایا.آپ نے پاکستان کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ جو لوگ اس کے حامی ہیں وہ ملک سے نکل جائیں“.23
امیر شریعت احرار کے مندرجہ بالا نظریات و خیالات سے اسلام، پاکستان ر مسلمانان پاکستان کی دشمنی، عداوت اور بغض و عناد کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے.لہذا مولوی چنیوٹی ہو یا کوئی اور اسلام دشمن کانگریس کے پالتو ”مولاناؤں“ اور گماشتوں کی معنوی ذریت کو پاکستان میں رہنے اور ختم نبوت“، ”اسلام “ یا ”قرآن“ کی آڑ میں فتنہ بپا کرنے کا کوئی جواز نہیں خصوصاً اس لئے کہ احرار ی شریعت کے امیر عطاء اللہ بخاری ایک طرف یہ واضح کر چکے ہیں کہ :- ہم نام نہاد اکثریت کی تابعداری نہیں کریں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اکثریت باطل پر ہے“ زمزم لاہور.۳۰ ر اپریل ۱۹۳۹ء) دوسری طرف اُن کا یہ بیان موجود ہے کہ : پاکستان ایک بازاری عورت ہے جس کو احرار نے مجبور اقبول کیا ہے“.رپورٹ تحقیقاتی عدالت ۱۹۵۳ ءار دو صفحه ۲۷۵) 24