Language: UR
حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی تالیف راجہ بر بان احمد طالع شائع کرده: نظارت نشر و اشاعت قادیان
نام کتاب حضرت مولانا برہان الدین صاحب تعیلمی حالیہ طباعت سن اشاعت نظارت نشر و اشاعت قادیان 2012: 1000 : تعداد مطبع ناشر فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر واشاعت ، محله احمد یہ قادیان ، ضلع گورداسپور ، پنجاب، انڈیا 143516 ISBN: 978-81-7912-345-4
حضرت مولوی عبد المغنی صاحب ( یکے از رفقاء313) فرزند حضرت مولا نا بر ہان الدین صاحب جیلی)
پیش لفظ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی زندگیوں میں ایک غیر معمولی روحانی انقلاب اور پاکیزگی اور دین کے لئے اور اللہ اور اس کے رسول کے لئے غیرت اور جوش و جذ بہ نظر آتا ہے.اور ان کی زندگیاں ہمارے لئے رہنما ہیں.اگر ہم بھی ان بزرگوں کی سیرت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں تو انہی غیر معمولی برکات کے وارث بن سکتے ہیں جو ہمیں ان کی زندگیوں میں نظر آتی ہیں.صحابہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام میں سے ایک بہت ہی قابل فخر وجود محترم حضرت مولوی برھان الدین صاحب جہلمی ہیں.جن کی پاک سوانح ہمارے لئے ترقی ایمان کا موجب ہے.آپ گھڑ قوم جو علاقہ کی معزز قوم تھی اور مذہبی شہرت کے حامل خاندان سے تعلق رکھتے تھے.امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بستی قادیان سے بے انتہا محبت کرنے والے اور خالصہ دین کی خدمت کرنے والے وجود تھے.آپ کی وفات حضور کی زندگی میں ہی ہوگئی.لیکن اس عرصہ میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اس سلسلہ کی ایسی خدمات کی توفیق پائی اور ایسا روحانی مقام حاصل کیا کہ آپ کا شمارا کا برصحابہ میں ہوا.آپ کی وفات سے قبل حضرت مسیح پاک کو الہام ہوا کہ دو شہتیر ٹوٹ گئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک شہتیر آپ کو ٹھہرایا اور دوسرے حضرت عبد الکریم صاحب سیالکوٹی.ان دو بزرگان کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعود کو سلسلہ کی خدمت کرنے والے ایسے وجود تیار کرنے کے لئے شاخ دینیات کا آغاز کرنے کا خیال پیدا ہوا.
خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی کے موقعہ پر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے ایسی چند عظیم ہستیوں کے حالات زندگی پر تعارفی کتب شائع کرنے کی توفیق پائی.یہ کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے.نظارت نشر و اشاعت قادیان مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے شکریہ کے ساتھ اس کتاب کو پہلی بار ہندوستان سے حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان عظیم وجودوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان
فہرست مضامین عناوین صفحہ نمبر 1 2 3 3 4 56 60 10 11 نمبر شمار 1 خاندانی تعارف پیدائش اور ابتدائی تعلیم علم دین سیکھنے کا شوق 4 تعلیمی قابلیت 6 دینی مصروفیات اور اثر و رسوخ حلقہ ء درس 7 لباس 8 حضرت مسیح موعود سے پہلی ملاقات 9 جس امام مہدی کی تلاش تھی وہ آ گیا ہے 10 فتویٰ تکفیر کی حقیقت 11 بیعت 12 | قادیان سے محبت 13 نام و نمود سے عاری 14 بیعت اور تکالیف 15 ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں شرکت 16 حضرت مولوی برہان الدین صاحب کے ایک شاگرد کی بیعت 17 پنجابی میں وعظ 18 جشن جو بلی کے موقع پر جلسہ میں تقریر 19 ایک مولوی کا آپ کے ساتھ مباحثے سے فرار 20 ایک دلچسپ بحث.....صداقت کی شہادتیں 21 احمد یہ بیت الذکر جہلم شہر 22 حضرت مسیح موعود کا سفر جہلم 12 13 13 13 15 16 17 18 18 19 21 24
نمبر شمار 23 ایک افواہ کا ازالہ 24 وفات 25 مدرسہ احمدیہ کی بنیاد 26 پا مائے پا 27 اوبر بانیا یہ نعمتاں کتھوں 28 جھڈو کا جھڈو ہی رہا 29 او میں مہدی دا چپڑاسی عناوین صفحہ نمبر 30 حضرت اقدس مسیح موعود سے انداز محبت 31 مجاہدانہ طرز زندگی 32 قدرت کا دیا ہوا فولاد 33 توکل علی اللہ 34 آپ کے علم کا رعب 35 انداز دعوت الی اللہ 36 خادمانہ رنگ کی ایک جھلک 37 بطور داروغه 38 | نڈر انسان 39 طبیعت کا ایک سادہ انداز 40 آقا کی نظروں میں 41 آپ کی خوبیوں کا بیان 42 اولاد اور ذکر خیر جہلمی 43 حضرت مولوی عبد الغنی صاحب 44 نظم مولوی برہان الدین صاحب 45 امراء ضلع جہلم 46 حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی کی آل اولاد 25 26 29 30 31 32 33 33 34 34 35 35 36 37 38 38 39 41 42 45 46 54 55 57
حضرت مولا نا برہان الدین جہلمی صاحب خاندانی تعارف حضرت مولا نا برہان الدین صاحب جہلمی کے والد محترم کا نام مولانامحمد بین صاحب تھا.آپ علاقہ کی معزز قوم گھڑ سے تعلق رکھتے تھے.یہ خاندان ایک مذہبی شہرت کا حامل تھا، جس کی سکونت موضع ” بوریاں والی نز د سکندر پور تحصیل کھاریاں ضلع گجرات میں تھی.مولانا محمد یسین صاحب گاؤں کے نہایت معتبر اور معزز فرد تھے.پیشے کے اعتبار سے آپ اوسط درجہ کے زمیندار تھے.آپ کی شرافت اور دلیری کی وجہ سے اس زمانہ میں جبکہ اردگرد آئے دن ڈا کہ زنی اور چوری کے واقعات عام تھے، کوئی اس غرض سے بوریاں والی کا رخ نہیں کرتا تھا.آپ ہر شام بلا ناغہ گاؤں کے گرد ایک چکر لگاتے تھے اور رات کو بھی گاؤں کی حفاظت کرتے رہتے تھے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے پانچ صاحبزادے اور ایک صاحبزادی عطافرمائی تھی.تمام کے تمام عالم دین اور اپنے حلقہ احباب میں قدر کی نگاہ سے جانے جاتے تھے.ان کے نام اور مختصر
2 تعارف درج ذیل ہے.1 نعمان : آپ ایک ماہر طبیب تھے، ان کا ایک ایجاد کردہ کشتہ شنگراف نعمانی“ آج تک معروف ہے.جہلم شہر کے مین بازار میں موجود جامع مسجد اہل حدیث میں آپ کا نام محراب کے اوپر آج بھی کندہ ہے.2 - لقمان : عالم بھی تھے اور شاعر بھی.3.عثمان : یہ بھی عالم تھے.4.برہان : یہ کتاب آپ ہی کے بابرکت وجود کے بارہ میں ہے.آپ ہی کے طفیل آج باقی افراد کا ذکر ہورہا ہے.یہ تمام برکات در اصل مہدی آخر الزماں کے طفیل ہیں.اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور برکتیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ، آپ کے خلفاء اور آپ کی تمام بدنی اور روحانی اولاد پر ہوں.آمین.5.سلطان : عالم تھے، اپنے بھائی نعمان کی وفات کے بعد جامع مسجد اہلِ حدیث جہلم کے امام ہوئے.آپ کی صاحبزادی جن کا نام معلوم نہیں ہو سکا مگر اتنا ضرور معلوم ہوا ہے کہ آپ بھی بہت علم رکھنے والی خاتون تھیں.المختصر یہ گھرانہ ہی علماء کا گھرانہ تھا.پیدائش اور ابتدائی تعلیم حضرت مولوی صاحب کی ولادت کی صحیح تاریخ تو اس زمانہ کے رواج کے مطابق محفوظ نہیں البتہ ایک اندازے کے مطابق آپ 1830ء میں پیدا ہوئے تھے.آپ کا وطن مالوف تحصیل کھاریاں ضلع گجرات کا گاؤں بوریاں والی ہے.آپ بچپن میں ہی جہلم چلے گئے ، پھر
3 جہلم کا ہی نشان ٹھہرے اور وہیں ابدی نیند سور ہے.آپ کا گھرانہ چونکہ علم کا گہوارہ تھا اس لئے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی والد، والدہ اور بڑے بھائیوں سے حاصل کی.اسی طرح قرآن کریم کم عمری میں حفظ کر لیا.آپ کو احادیث بھی ایک لاکھ سے زائد یاد تھیں.آپ نے دینی علم کے علاوہ علم طب میں بھی کافی دسترس حاصل کی.علیم دین سیکھنے کا شوق ایک واقعہ جو آپ کے علم دین کو زیادہ گہرائی میں جا کر سیکھنے کا سبب بنا، یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ آپ کو کسی نے گاؤں میں ”مولوی کہا اس پر ایک دوسرے شخص نے پہلے کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ یہ خود مولوی ( عالم ) نہیں.ہاں ! مولوی صاحب کے بیٹے ہیں.یعنی ان کے والد بہت بڑے عالم ہیں.اس بات کا آپ پر بہت گہرا اثر ہوا اور آپ پچپیس 25 برس کی عمر میں گھر سے دینی علوم حاصل کرنے کے لئے نکل پڑے.تعلیمی قابلیت مزید علم کی خاطر آپ نے دہلی کا رخ کیا.دہلی میں آپ نے اس وقت کے مشہور عالم حدیث مولوی نذیر حسین دہلوی صاحب سے علم حدیث حاصل کیا.حضرت مولوی عبد المغنی صاحب ( فرزند حضرت مولانا برہان الدین صاحب تحریر کرتے ہیں کہ والد صاحب معمولی پڑھے لکھے نہ تھے ، بلکہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ فی زمانہ لوگ حافظ اس کو کہتے ہیں جو قرآن شریف کا حافظ ہو.مگر محدثین کی اصطلاح میں حافظ اسے کہتے ہیں جو قرآن اور حدیث دونوں کا حافظ ہو.آپ کو بخاری شریف حفظ تھی.اس کے علاوہ قرآن، حدیث ، تفسیر، فقہ،صرف ونحو،
4 منطق ، فلسفہ، عربی ، فارسی، پشتو علم قیافہ علم طب میں غرضیکہ ہر مروجہ علم میں مولیٰ کریم نے آپ کو کمال بخشا ہوا تھا.علم کلام اور علم مناظرہ میں آپ ایسے قابل تھے کہ کوئی کتاب مناظرہ کے لئے ساتھ نہ لے جاتے.حدیث کے ویسے ہی حافظ تھے.صرف قرآن کریم اپنے پاس رکھتے اور فرمایا کرتے کہ گھر سے ہتھیار لے کر دشمن کا مقابلہ نہیں کرنا چاہئے ممکن ہے ہمارا ہی ہتھیار چھین کر دشمن ہم پر حملہ کر دے.بلکہ عقلمندی اسی میں ہے کہ دشمن کا ہتھیار چھین کر اس پر وار کیا جائے.یعنی جود دشمن اعتراض کرے اسی کو ایسے رنگ میں الٹا کر اسی کے گلے ڈال کر سوال کا مطالبہ کرو.ہاں یہ بات ضرور تھی کہ آپ غریبانہ فقیرانہ اور درویشانہ مذاق اور مزاج کے تھے.“ دینی مصروفیات اور اثر ورسوخ (ماہنامہ انصار الله اگست 1977 ء ص 11) 1865ء میں جہلم واپس آئے تو اہل حدیث تحریک کے پر جوش داعی بن گئے اور اہل حدیث مکتب فکر کی اشاعت کے لئے کوشش شروع کر دی.گجرات، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور جہلم میں تحریک کی بنیاد رکھی.اہلِ حدیث کے زمانہ میں آپ کا اثر و رسوخ اور حلقہ اثر دریائے جہلم کے پار میر پور، ریاست کشمیر علاقہ ، راجوری ،علاقہ کھڑی ،اس کے بعد گجرات ، وزیر آباد، سیالکوٹ ، مرید کے ریلوے اسٹیشن کے شمال کی طرف گیارہ میل فاصلے پر پٹیالہ دوست محمد خان کے نزدیک ایک گاؤں نجی ہے.ان مقامات پر آپ نے مختلف جماعتیں قائم کیں اور انکی نگرانی کرتے تھے.انہیں ایام میں سرحد ( خیبر پختونخواہ) کی طرف بھی عام طور پر امام مہدی کی تلاش میں پیدل جایا کرتے تھے.چنانچہ ایک بزرگ بنام پیر صاحب کو ٹھے والے تھے ان کی خدمت میں رہ کر سکتے کی خدمت بطور مجاہدہ بجالایا کرتے تھے.تیر آہ میں بھی کوئی بزرگ تھے ان
5 کے پاس بھی گئے.احمدیت سے پہلے آپ مجاہدین فرقہ کے صوبہ پنجاب کے ہیڈ تھے.مجاہدین وہ فرقہ تھا جو امام مہدی کے انتظار میں تھا اور کہتا تھا کہ جب امام مہدی آئیں گے تو ہم ہی ان کی فوج یا جماعت ہونگے جن کو ساتھ لے کر آپ دین حق کو غلبہ اور کفر کو شکست دیں گے.یہ فرقہ علاقہ سرحد سے لے کر ہندوستان تک پھیلا ہوا تھا اور اسکی شاخیں ہر شہر میں تھیں.آپ نے امام مہدی اور مسیح علیہ السلام کی تلاش میں کئی بزرگوں کی بیعت کی مگر وہ گوہر نایاب آپ کو کہیں نہ ملا.فرقہ اہلِ حدیث اختیار کرنے کے بعد آپ کو تکالیف بھی برداشت کرنی پڑیں لیکن مجاہدانہ کوششوں میں لگے رہے.ایک وقت میں کئی علماء مد مقابل ہوتے جن سے کئی کئی ہفتے مناظرہ کرتے ، مگر مخالفین پر ہمیشہ بھاری ہوتے اور کامیاب وکامران رہتے.بالآخر علاقہ میں اہلِ حدیث مکتبہ فکر کی تعداد بڑھ گئی ، یوں آپ کی تکالیف کم ہو گئیں.آپ اہل حدیث فرقہ سے تعلق تو رکھتے تھے لیکن اس کے علاوہ جس عقیدہ پر آپ مضبوطی سے قائم تھے وہ بنیادی طور پر یہ تھا.امام مہدی کے ظاہر ہونے کے قرائن و نشانات اس زمانہ میں عام ہیں اور مہدی کے آنے کا وقت یہی ہے.“ اسی غرض سے آپ حضرت مولوی عبداللہ غزنوی اور حضرت پیر صاحب کو ٹھے شریف والے کے ہاں بھی گئے مگر اطمینان نہ ہوا.حلقه درس قبول احمدیت سے پہلے آپ نے جہلم میں درسِ حدیث بھی جاری کیا تھا.آپ کے حلقہ شاگردی میں حافظ عبد المنان صاحب وزیر آبادی ،مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی،
6 مولوی حشمت علی صاحب را جوری ، مولوی محمد عرفان صاحب ڈونگا گلی مری، مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی ، مولوی محمد قاری صاحب جہلمی اور مولوی عبد الرحمان صاحب کھیوال ( والد محترم حافظ مبارک احمد صاحب سابق استاد جامعہ احمدیہ ) جیسے علماء شامل تھے.اللہ تعالیٰ نے مؤخر الذکر تین رفقاء کو قبول احمدیت کی سعادت بھی بخشی.آپ کے درس میں عام طور پر 25-20 درویش طالب علم تعلیم پاتے تھے اور وہ سب کے سب مولوی ہوتے تھے.آپ قرآن شریف، بخاری اور مسلم پڑھایا کرتے تھے.لباس حضرت مولوی صاحب ساده طرز کا زمیندار قسم کا لباس پہنتے تھے.جس طرح زمینداروں کے پاس ایک چادر ہر وقت ہوتی ہے اسی طرح وہ بھی ایک چادر رکھتے جو کمر اور کندھوں پر پڑی رہتی.آپ کا لباس عموما پرانے زمیندار فیشن کے مطابق نیلے رنگ اور فاختائی رنگ کا ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلی ملاقات آخر مولائے کریم کے فضل و رحم نے دست گیری فرمائی.حضرت مولوی صاحب درس و تدریس کے سلسلے کے ساتھ ساتھ آنے والے مامورِ زمانہ کی تلاش میں بھی تھے.کیونکہ پیش گوئیاں مامور زمانہ کی نشاندہی کر رہی تھیں.لہذا اسی جستجو میں یہ خبر سنی کہ قادیان میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو قرآن کا ماہر ہے اور ہر مذہب کے مقابل پر دینِ حق کی نمائندگی کر رہا ہے خصوصاً آریوں اور عیسائیوں کے اعتراضات اور شکوک کا مدلل اور مسکت جواب دے رہا ہے.یہ جان
کر آپ اپنی فطرت سعیدہ سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہی وہ منزل ہے جس کی مجھے تلاش تھی.چنانچہ اپنی آنکھوں سے اس وجو دکو دیکھنے کے لئے پیدل جہلم سے قادیان روانہ ہوئے.حضرت خلیفہ اسی الثانی نور اللہ مرقدہ نے اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا.حضرت مولوی برہان الدین صاحب جو اہلِ حدیث میں سے تھے اور ان کے لیڈر تھے انہوں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر سنا شاید انہوں نے براہین کا اشتہار پڑھایا آریوں اور عیسائیوں کے خلاف کسی اخبار میں آپ کا مضمون دیکھا تو ان کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں خود انہیں جا کر دیکھ آؤں.(چنانچہ آپ جہلم سے پا پیادہ قادیان روانہ ہو گئے لیکن کئی دن کے سفر کے بعد جب قادیان وارد ہوئے تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان دنوں متواتر چالیس دن عبادات اور دعاؤں میں گزارنے کے لئے الہام الہی تیری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی کی تکمیل میں ہوشیار پور گئے ہوئے ہیں.حضرت مولوی صاحب نے جہلم واپس جانا گوارا نہ کیا اور شوق ملاقات کے باعث قادیان میں رہ کر انتظار کرنا بھی مناسب نہ سمجھا.چنانچہ آپ قادیان سے ہوشیار پور روانہ ہو گئے.) وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ آپ سے ملاقات نہیں ہو سکتی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ساتھ والوں کو ہدایت دے دی تھی کہ کسی کو اندر نہیں آنے دینا اور شیخ حامد علی صاحب کو دروازہ پر بٹھایا ہوا کہ وہ نگرانی رکھیں اور کسی کو اندر نہ آنے دیں یہ وہاں پہنچے اور انہوں نے منتیں کیں کہ مجھے ملنے دومگر انہوں نے نہیں مانا.آخر مولوی برہان الدین صاحب نے کہا کہ مجھے صرف چک اٹھا کر ایک دفعہ دیکھ لینے دواس سے زیادہ میں کچھ نہیں کروں گا.لیکن حامد علی صاحب نے یہ بات بھی نہ مانی مگر اللہ تعالیٰ نے چونکہ انکی خواہش کو پورا کرنا تھا اس لیے اتفاق ایسا ہوا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود 66
8 علیہ الصلوۃ والسلام کو کوئی ضرورت پیش آئی اور آپ نے فرمایا میاں حامد علی تم فلاں چیز لے آؤ وہ اسی طرف چلے گئے اور انہیں موقع میسر آ گیا یہ چوری چوری گئے اور انہوں نے چک اٹھا کر حضرت صاحب کو دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت کچھ لکھ رہے تھے اور جلدی جلدی کمرہ میں ٹہل رہے تھے یہ عام انسان کی نظر میں بہت معمولی بات ہے مگر صاحب عرفان کی نگاہ میں یہ بڑی بات تھی انہوں نے آپ کو دیکھا اور واپس آگئے لوگوں نے آپ سے پوچھا مولوی صاحب آپ نے کیا دیکھا انہوں نے کہا اس نے بہت دور جانا ہے یہ کمرے میں بھی تیز تیز چل رہا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بڑا کام کرنا ہے.“ الفضل 5 جولائی 1957 ء ص5) آپ کے صاحبزادے حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تا مرد سخن نه گفته باشد عیب و ہنرش نهفته باشد والد صاحب نے کہا کہ آخر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان سے تبادلہ خیالات کیا جائے اور انکی علمیت اور قابلیت کا اندازہ لگایا جائے اس کے علاوہ میں جہلم سے چل کر آیا ہوں اگر لوگ دریافت کریں گے تو کیا جواب دونگا.آمدم برسر مطلب ! والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ تبادلہ خیالات کے لئے اجازت حاصل ہونے کے بعد پہلے دن میں نے معمولی سوال و جواب کئے اور بعض احادیث پیش کیں.حدیثوں کے متعلق میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب قرآن شریف کی آیات پڑھ کر کسی حدیث کو صحیح قرار دے دیتے یا ضعیف.یہ انوکھا استدلال دیکھ کر میں حیران ہوا کہ کسی حدیث کو صحیح یا مرسل وغیرہ قرار دینا آسان کام نہیں بلکہ بہت مشکل کام ہے.محدثین کا طریق تو یہ ہے کہ راویوں کو دیکھا جائے.ان کے حالات معلوم کئے جائیں.یہ کیا جائے ، وہ کیا جائے.مگر یہ
9 عجیب استدلال ہے کہ یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے لہذا ضعیف ہے.یہ حدیث قرآن کی تصدیق کرتی ہے لہذا یہ صحیح ہے.خیر پہلے دن میں کچھ شرمندہ ہو کر واپس چلا آیا اور آپ کے علم قرآن کی کچھ قدرمیرے دل میں بیٹھی.مگر رات سویا تو میرے نفس نے کہا کہ ”واہ برہان ! تم نے تو کسی جگہ اب تک پیٹھ نہیں دکھائی اور شکست نہیں مانی.مرزا صاحب نیک اور بزرگ ہیں مگر عالم ہونا اور چیز ہے.یہ مغل قوم کا فرد ہے کسی عالم گھرانے کا نہیں.پھر گاؤں کا رہنے والا نہ کہ شہر کا باشندہ اور تم نے باقاعدہ استادوں سے علوم حاصل کئے ہیں اور پھر اب تک کئی میدان مارے ہیں.کل اتفاقیہ طور پر چند کلمات مرزا صاحب کے منہ سے نکلے جو دل کو بھا گئے.“ چنانچہ دوسرے دن خاص تیاری کر کے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.سوال جواب شروع ہوئے میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب نے میرے ارد گر د قرآن کا قلعہ لگا دیا.یعنی چاروں طرف قرآن کریم کی دیوار بنادی میں حضور کی قرآن دانی سن کر اور سادہ طرز بیان جس میں قطعا تصنع اور بناوٹ کا شائبہ نہیں تھا دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گیا.میں نے اس کے ساتھ تفسیر قرآن کریم کے حقائق اور معارف سنے تو دل عش عش کر اٹھا.کیونکہ تفاسیر میں اس کا عشر عشیر تو در کنار مفسرین تو اس کو چہ سے بالکل بیگانہ دیکھے.اسی وقت میرے دل نے فیصلہ کیا.برہان جس کی تلاش میں تم حیران و سرگرداں مارے مارے پھر رہے تھے وہ گو ہر مراد یہی ہے.جب رات کو سویا تو پھر نفس نے سراٹھایا اور جوش دلایا کہ کل کا دن تو دیکھو.چنانچہ تیسری دفعہ پھر جب سوال جواب شروع ہوئے اور میرے ترکش میں جس قدر تیر اصول معانی ، منطق ، فلسفه، صرف ونحو وغیرہ علوم کے تھے استعمال کرنے شروع کئے تو حضرت صاحب نے نہایت محبت اور پیاراور سادگی سے فرمایا کہ مولوی صاحب تحقیق حق اور چیز ہے اور ہار جیت کا خیال اور چیز ہے.بس حضور کا یہ فرمانا تھا کہ میرے نفس نے مجھے نہایت ملامت کی اور میں نے اسی وقت حضور کی
10 خدمت میں عرض کی کہ حضور میری بیعت لیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہ کر بیعت لینے سے انکار کر دیا کہ مجھے بیعت لینے کا اذن نہیں.چنانچہ اس تاریخی ملاقات نے حضرت مولوی صاحب کی کایا پلٹ دی.جس امام مہدی کی تلاش تھی وہ آگیا ہے حضرت مولوی صاحب حضرت اقدس مسیح موعود کی بیعت کیے بغیر جہاں جہاں تعلق اور رسوخ تھا اور جہاں جہاں اہلحدیث زمانہ میں جماعتیں قائم کی تھیں دعوت الی اللہ کرتے اور پیغام دیتے تھے کہ جس امام مہدی کی تلاش تھی وہ آ گیا ہے.بس یہ سنتے ہی حنفی مسلک کے لوگ تو اہلحدیث ہونے کی وجہ سے پہلے ہی دشمن تھے.اب اہلحدیث نے بھی مخالفت شروع کر دی.اب مولوی صاحب نے ایک اور قدم اٹھایا.نئی مخالفت اور دشمنی شروع ہو گئی مگر آپ اپنی دھن کے پکے تھے.دعوت الی اللہ اور وعظ کرتے کہ دوستو ! یہ وہ دولت ہے جو 1400 سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے.بزرگانِ سلف اسی شخص کی زیارت کی حسرت سینوں میں لئے قبروں میں دفن ہو گئے.اے اہلحدیث دوستو ! وہ شخص جس کے متعلق منبروں پر چڑھ کر تمہیں وعظ سنائے جاتے تھے کہ امام مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور تم بھی اس کے انتظار میں تھے اس کے لئے دعائیں مانگا کرتے تھے اب خدا نے فضل کیا ہے کہ وہ شخص آ گیا ہے چونکہ تم ہی وہ مؤخد اور مجاہد جماعت ہو جو اس خدمت کے لئے تیار کی گئی تھی میرے لئے نہایت دکھ اور رنج کا مقام ہوگا کہ اگر تم ہی اس نعمت سے محروم رہ جاؤ.ابتداء میں تو نہایت دکھ اور تکالیف کا سامنا تھا اہلحدیث جماعت کے قیام سے اب جانی اور مالی طور پر آرام ہو گیا تھا مگر حضرت صاحب کا نام لیتے ہی دوبارہ پھر کئی گنا مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اہلحدیث زمانہ میں صرف حنفی مسلک کے لوگ
11 مخالف تھے مگر اب حنفی اور اہل حدیث دونوں مخالف ہو گئے.جانی اور مالی دونوں رنگ میں نقصان پہنچنا شروع ہو گیا مگر خدا کے فضل اور رحم نے دستگیری کی کہ پائے استقلال میں فرق نہ آیا چونکہ آپ کے کام میں اخلاص اور للہیت تھی مخلوق خدا کی ہمدردی اور انکی ہدایت کا شوق تھا.ہر مجلس ہر جگہ ہر گاؤں میں جانا ملنا اور دعوت الی اللہ کرنا شروع کر دی.خدا کے فضل سے ایک سے دو، دو سے چار، چار سے آٹھ ، دن دگنی اور رات چوگنی ترقی شروع ہوگئی اور خدا تعالی کے فضل سے دوبارہ جماعتیں قائم ہونا شروع ہو گئیں جہاں پہلے اہلحدیث جماعتیں تھیں اب ان کی جگہ حضرت صاحب کو ماننے والی جماعتیں تیار ہونی شروع ہوگئیں.(ماہنامہ انصار اللہ اگست 1977 ء ص 11-13) فتویٰ تکفیر کی حقیقت مشہور اہل حدیث لیڈر مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی نے 1884ء میں براہین احمدیہ از حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں ریویو لکھا: ”ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں لَعَلَّ اللَّهُ يُحْدِتُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْراً.اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی وجانی قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.(اشاعۃ السنہ جلد ہفتم نمبر 6 ص169-170 بحوالہ حیات طیبہ ص 48) لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو یہی مولوی آپ کا مخالف ہو گیا اور 1891ء میں اس نے حضرت اقدس کے خلاف 266 صفحات پر
12 مشتمل ایک فتوی رسالہ اشاعۃ السنہ جلد نمبر 13 میں شائع کیا.یہ فتوی مشہور علماء کے دستخطوں کے ساتھ شائع کیا گیا تھا جس میں حضرت مولوی برہان الدین صاحب کا نام بھی شامل کیا.حضرت مولوی صاحب نے وہ فتویٰ مقید و مشروط لکھا تھا اور وجہ قید دور ہو جانے کے بعد..کھلی مجالس میں اعلانیہ فرمایا کہ مجھے حضرت مرزا صاحب میں کوئی نقص نظر نہیں آتا.لیکن یہ بات اور بعد کے خطوط مولوی محمد حسین بٹالوی نے بوجہ اپنی بدنامی ہونے کے رسالہ اشاعۃ السنہ میں شائع نہ کئے.بہر حال حضرت مولانا برہان الدین صاحب کی پہلے کی اور بعد کی زندگی آپ کا اخلاص، اس راہ میں مصائب برداشت کرنا اس بات پر گواہ ہے کہ آپ ہمیشہ ہی بچے اور پکے عاشق حضرت احمد ر ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: وہ اول ہی اول ہوشیار پور میں میرے پاس گئے.ان کی طبیعت میں حق کے لئے ایک سوزش اور جلن تھی.مجھ سے قرآن شریف پڑھا.بائیس برس سے میرے پاس آتے تھے.صوفیانہ مذاق تھا.جہاں فقراء کو دیکھتے وہیں چلے جاتے.میرے ساتھ بڑی محبت رکھتے تھے.“ (الحکم 7 /جنوری 1907 ءص13) جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے کہ حضرت مولوی برہان الدین صاحب دل سے تو پہلے ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے معتقد ہو چکے تھے.تاہم با قاعدہ بیعت 20 جولائی 1892ء میں کی.تاریخ احمد بیت جلد دوم ایڈیشن 2007 ، ص 409)
13 قادیان سے محبت بیعت کے بعد ہر سال قادیان تشریف لے جاتے.دو اڑھائی ماہ ہمیشہ رہتے مگر باوجود ضعیف العمر ہونے کے قادیان آکر کبھی فارغ نہ رہتے تھے بلکہ تصنیف کے کام میں مدد دیتے تھے.کبھی پروف دیکھتے کبھی مسودہ دیکھتے اور کچھ نہ ہوتو پریس میں بیٹھ کر حضوڑ کی جونئی کتاب شائع ہوتی اس کی جز بندی میں لگے رہتے.حضور بھی آپ کے آنے پر پسندیدگی کا اظہار فرماتے.نام و نمود سے عاری (ماہنامہ انصار اللہ ستمبر 1977 ء ص 12) آپ کی ذات میں نام و نمود ، ریاء، ظاہر داری علمی گھمنڈ اور تکبر نامی کوئی چیز نہ تھی.دورانِ قیام قادیان جب بھی کوئی کہتا ”مولوی صاحب“ تو فوراً روک دیتے کہ مجھے مولوی ( عالم ) مت کہو میں نے تو ابھی حضرت اقدس سے ابجد شروع کی ہے.یعنی الف.ب شروع کی ہے.بیعت اور تکالیف (ماہنامہ انصار اللہ ستمبر 1977 ء ص 12) بیعت کے بعد آپ کو جو مشکلات پیش آئیں ان کا ذکر حضرت مصلح موعود نَوَّرَ اللَّهُ مَرْقَدَهُ نے یوں فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے کے بعد جب ان کے ساتھیوں نے ان
14 کو چھوڑ دیا توان کی حیثیت مزدوروں کی سی ہوگئی یٹی کہ ان کے پاس پورے کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے.مگر اس قدر قربانیوں کے باوجود ان کے دل میں ہمیشہ خلش رہتی تھی کہ ابھی ہم نے کچھ نہیں کیا.“ نیز فرمایا: الفضل 17 دسمبر 1945 ء ص 5) مولوی برہان الدین صاحب......احمدیت سے پہلے وہابیوں کے مشہور عالم تھے اور ان میں انہیں بڑی عزت حاصل تھی.جب احمدی ہوئے تو باوجود اس کے کہ ان کے گزارہ میں تنگی آگئی.پھر بھی انہوں نے پرواہ نہ کی اور اسی غربت میں دن گزار دیئے.بہت ہی مستغنی المزاج انسان تھے.انہیں دیکھ کر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ بھی کوئی عالم ہیں بلکہ بظاہر انسان یہی سمجھتا تھا کہ یہ کوئی کمی ہیں.بہت ہی منکسر طبیعت کے تھے.“ الفضل 25 دسمبر 1935 ء ص 8) آپ کے فرزند حضرت مولوی عبد المغنی صاحب....کا بیان ہے کہ والد صاحب کی زندگی نہایت تنگی میں گزری.گھی مہینوں ہمارے گھر میں نہیں آتا تھا.کبھی کبھار نقدی میسر ہوتی تو تلوں کا تیل گھی کی جگہ استعمال کرتے.گوشت کہیں سے ہدیہ آجائے تو آجائے ورنہ بازار سے خرید کر پکانا ہماری مالی طاقت سے باہر تھا.ایندھن ملتا نہیں تھا کہ سالن تیار کیا جاسکے یا روٹی اچھی طرح پکائی جا سکے.ایک شہتوت کا درخت تھا.آپ کی اہلیہ اس کے خشک پتے جمع کرتیں.اس سے نیم پختہ سالن اور روٹی تیار ہوتی.تنگ دستی کا ذکر کرتے ہوئے آپ کا بیان ہے کہ ان پتوں پر دال و غیرہ کا پانا مشکل تھا.اس سے کچھی دال کو بھون لیا جا تا اور پھر اسے چکی میں پیس لیا جاتا.
15 اور پتوں کی آگ پر پانی گرم کر لیا جاتا اور اس سفوف میں ملالیا جاتا اور نمک مرچ ڈال کر اس سے روٹی کھالی جاتی.کسی وقت سبزی کھانے کو جی چاہتا تو شہوت کی تازہ کونپلیں یا بیری کے تازہ اور کے پھل پکا کر بطو رسبری استعمال کرتے.(ماہنامہ انصار اللہ ستمبر 1977ء ص 11) حضرت مولا نا برہان الدین صاحب جہلمی کی شخصیت جہاں ایک طرف نہایت عالمانہ علمیت کی حامل تھی وہاں آپ کی ذات کا خاصہ عاجزی، سادگی ، اخلاص اور حضرت مسیح پاک سے انتہا درجہ کی محبت بھی تھی.جیسا کہ حضرت مصلح موعود نورَ اللَّهُ مَرْقَدَہ نے فرمایا کہ ” بہت ہی مستغنی المزاج انسان تھے.آپ کی طبیعت کی اس خاصیت کے واقعات آپ کی سیرت کے بیان میں یکجا کر کے لکھ دیئے گئے ہیں جن سے آپ کی طبیعت کا یہ رنگ مزید احسن طور پر سامنے آئے گا.1892ء کے جلسہ سالانہ میں شرکت حضرت مولوی صاحب بیعت کے بعد کثرت کے ساتھ قادیان تشریف لاتے تھے.جلسہ ہائے سالانہ میں شرکت کرتے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میں رہتے.1892ء کے جلسہ سالانہ میں حاضرین کی کل تعداد 327 تھی.27 دسمبر کو جلسہ گاہ میں ایک اونچے چوبی تخت پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے لئے قالین بچھا دیا گیا.حضور اس پر جلوہ افروز ہوئے اور چاروں طرف احباب فرش پر بیٹھے.سامنے شمال کی طرف حضرت مولانا نورالدین صاحب اور مغرب کی طرف حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی اور گوشہ مغرب و جنوب میں حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی اور ان کے داہنی طرف حضرت مولانا سید محمد
16 احسن صاحب فاضل امر و ہی بیٹھ گئے.حضرت مولوی برہان الدین صاحب کے ایک شاگرد کی بیعت حضرت مولوی برہان الدین صاحب کے ایک شاگر دمولوی مہر الدین صاحب رفیق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) چک پنیار (سرگودھا) بیان کرتے ہیں.”میں لالہ موسیٰ سے سودا خرید نے جایا کرتا تھا میں ریلوے گارڈ روم میں ملازم تھا جس کی وجہ سے میں گوشت سبزی ڈبل روٹی وغیرہ خریدنے کے لئے روزانہ لالہ موسیٰ سے جہلم جایا کرتا تھا اور قرآن شریف کا ترجمہ اور صرف و نحو ان سے پڑھا کرتا تھا ہر روز سبق لیکر واپس آتا اور گاڑی میں ہی سبق یاد کر لیا کرتا تھا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق آپ سے دریافت کیا کہ مجھے بھی کچھ بتلائیں آپ نے فرمایا میاں کسی زمیندار کو کہ دیں کہ یہ روپیہ کھر ا ہے تو وہ اپنے پلے باندھ لیتا ہے میرے جیسے کو دیں تو وہ پرے جا کر پتھر پر مار کر دیکھتا ہے.تم خود جا کر دیکھو پھر ایمان لانا.پھر میں ان سے رخصت لے کر قادیان پہنچا تو مولوی برہان الدین صاحب بھی یہاں آئے ہوئے تھے.تاریخ یاد نہیں مگر یہ اس وقت کا ذکر ہے کہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم والی پیشگوئی کے پورا ہونے میں دودن باقی تھے.مولوی حکیم فضل دین صاحب نے عرض کیا کہ حضور مہر الدین کی بیعت لے لیں حضور نے فرمایا ابھی نہیں.حکیم صاحب نے اصرار کیا کہ حضور پھر مصروف ہو جائیں گے ابھی بیعت لے لیں.مولوی برہان الدین صاحب نے کہا کہ حضور جس طرح فرماتے ہیں ایسا ہی کرنا چاہئے.چنا نچہ اس دفعہ میں بغیر بیعت کرنے کے واپس چلا گیا اور چار پانچ ماہ کے بعد اگست 1895ء میں دوبارہ آکر بیعت کی اس کے بعد میں عید قادیان آکر پڑھا کرتا تھا.“
17 پنجابی میں وعظ حضرت مولوی مہر الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ اپنے گاؤں کے لوگوں کو دعوت طعام دوں اور ساتھ ہی روحانی دعوت بھی دوں اور لوگوں کو میرے دعوی کے متعلق سمجھانے کے لئے حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب امروہی کو مقرر کیا جاوے.میں بھی وہاں حاضر تھا.میں نے عرض کی کہ حضور نے عید کے خطبہ کے لئے مولو ی محمد احسن صاحب کو مقرر کیا تھا، تو علمی رنگ میں خطبہ پڑھا تھا، جس سے عوام الناس کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکے.اس لئے اس مرتبہ آپ مولوی برہان الدین صاحب کو عام لوگوں کے سمجھانے کے لئے مقرر فرمائیں کیونکہ وہ پنجابی میں تقریر کرتے ہیں حضور نے فرمایا بہت اچھا.ایسا ہی کیا جاوے گا.چنانچہ مولوی برہان الدین صاحب نے تقریر کی اور بہت سے لوگوں نے بیعت کی.“ ( بحوالہ ماہنامہ انصار اللہ جولائی 1995 ء ص 22-23) سب سے پہلے حضرت خلیفہ امسح الاول نے تقریر کی اس کے بعد حضرت خلیفہ اول نے اشارہ سے کہا کہ مولوی صاحب آؤ.آپ نے جواب دیا کہ ” میری واری وی تسیں ہی واچھڈ و (یعنی میری باری بھی آپ ہی پوری کر دیں ).حضرت خلیفہ المسح الاول نے حضرت اقدس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر جرأت ہے تو حضور کو کہو.خیر مولوی صاحب نے اپنی مخصوص پنجابی زبان میں وعظ شروع کیا.جب وعظ ختم ہوا تو اس دن بہت سے لوگوں نے بیعت کی اور اس بات کا اظہار کیا کہ سانوں تے آج پتہ لگیا ہے کہ مرجا صاحب کی ہے تے کی
18 آہندے ہے اسیں تے اینویں ہی مخالف رہے ( یعنی ہمیں تو آج علم ہوا ہے کہ مرزا صاحب کا دعویٰ کیا ہے.وہ کیا کہتے ہیں اس سے پہلے تو علم ہی نہیں تھا.ہم تو ایسے ہی مخالف رہے.) چونکہ وہ دن بہت خوشی کا تھا کہ قادیان کے گردونواح کے لوگ کثرت سے حضور کی بیعت میں داخل ہوئے اور اس کا محرک مولوی برہان الدین صاحب کا وعظ ہوا.جماعت کی مستورات نے بھی خواہش کی کہ حضور ہم بھی مولوی برہان الدین صاحب کا وعظ سننا چاہتی ہیں.چنانچہ حضور کے ارشاد پر آپ نے مستورات میں وعظ کیا.جشن جو بلی کے موقع پر جلسہ میں تقریر (ماہنامہ انصار اللہ ستمبر 1977 ء ص 13-14) 22 جون 1897ء کو ملکہ برطانیہ کے جشن جو بلی کے سلسلہ میں قادیان میں ایک جلسہ عام منعقد ہوا، جس میں حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ،مولا نا حکیم نورالدین صاحب، مولا نا برہان الدین صاحب جہلمی اور مولوی جمال الدین صاحب سید والہ ضلع منٹگمری (ساہیوال) نے تقریریں کیں.ایک مولوی کا آپ کے ساتھ مباحثے سے فرار حضرت مولوی مہر دین صاحب بیان کرتے ہیں ” ایک آدمی نے لاہور سے اشتہار دیا (اس کا نام یاد نہیں ) کہ مولوی نورالدین صاحب اور مولوی برہان الدین صاحب دونوں میرے مقابل پر آئیں تو میں قرآن سے حضرت عیسی کی زندگی ثابت کر دوں.وہ اشتہار میری نظر سے گزرا تو میں نے جہلم جا کر مولوی صاحب سے عرض کیا کہ اس قسم کا اشتہار لاہور سے شائع ہوا
19 ہے.آپ نے فرمایا مجھے اس بات کا کچھ علم نہیں.تھوڑی دیر کے بعد آپ کو لاہور سے ایک خط ملا جو کسی احمدی کی طرف سے تھا کہ آپ لا ہور آکر اس مولوی سے مناظرہ کریں مگر سفر خرچ نہ تھا.آپ نے فرمایا مجھے خط تو ملا ہے لیکن کرایہ ساتھ نہیں پہنچا.میں نے اپنے پاس سے آپ کو کرایہ ادا کر دیا جس پر آپ لاہور تشریف لے گئے.جب آپ وہاں سے واپس ہوئے.میں نے دریافت کیا کہ اس مناظرے کا کیا ہوا ؟ آپ نے فرمایا کہ جب میں وہاں گیا تو ایک آدمی کو میں نے ایک رقعہ لکھ کر دیا کہ میں بحث کے لئے حاضر ہوں.آپ وقت مقرر کریں مگر ساتھ ہی اس آدمی کو یہ کہا کہ پہلے میرے رقعہ کا ذکر نہ کریں بلکہ مولوی صاحب کو کہنا کہ اگر دونوں احمدی مولویوں سے کوئی آجا تا تو آپ مباحثہ کر لیتے کوئی لڑائی تو تھی نہیں.جب وہ کہہ دے کہ ہاں ہم ایک سے ہی گفتگو کر لیتے اس پر میر ارقعہ دے دینا.جب وہ تبادلہ خیال پر آمادہ ہوا تو وہ رقعہ اس کو دیا گیا.جس پر فوراً مولوی صاحب نے کہہ دیا کہ مجھے ایک ماتم پرسی کے لئے ضروری وزیر آباد جانا ہے.وہاں سے واپسی پر میں مناظرہ کروں گا.لوگوں نے کہا کہ اتنے روز سے تم بحث پر زور دے رہے تھے مرنے والا کبھی سے وزیر آبا دمیں مرگیا ہوگا اب اگر بحث کے بعد جاویں تو کیا نقصان ہے.مگر وہ انکار پر مصر رہا اور سامنے نہ آیا.“ ایک دلچسپ بحث...صداقت کی شہادتیں مولوی مهر دین صاحب ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں.میں ایک روز حسب معمول جہلم سبق کے لئے مولوی صاحب کے ہاں حاضر ہوا تو معلوم ہوا کہ آپ ڈپٹی راجہ جہاں دادخان کی کوٹھی پر گئے ہوئے ہیں.میں.ڈ پٹی صاحب کی کوٹھی پر پہنچا دروازے پر ان کا نو کر کھڑا تھا.میں نے اس سے کہا کہ اندر جو لال داڑھی والا انسان (مولوی برہان الدین صاحب) بیٹھا ہے.
20 اس کو جا کر کہ دو مہر الدین لالہ موسیٰ والا السلام علیکم عرض کرتا ہے.جواب میں آپ نے پیغام بھیجا کہ اس کو اندر آنے دو.میں نے وہاں پہنچ کر السلام علیکم کہا.راجہ جہاں داد خاں نے کہا کہ یہ بھی احمدی ہے؟ میں نے کہا ہاں....مولوی صاحب نے فرمایا کہ کیا گاڑی میں کچھ وقت ہے؟ میں نے عرض کی پندرہ منٹ ہیں.راجہ صاحب نے کہا کہ آج تم نہ جاؤ.یہاں ہی رہ جاؤ.میں نے کہا وجود وقف کر دیا ہوا ہے.اس لئے میں رہ نہیں سکتا.اس جگہ پر ایک سید صاحب بھی تھے جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مولوی صاحب سے مناظرہ کر رہے تھے اور راجہ پیندے خاں صاحب دارا پوری بھی موجود تھے.سید صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب آپ مرزا صاحب کے قریب میں آگئے ہیں.مولوی صاحب نے کہا جب مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کتاب لکھی میں نے اس کتاب کو پڑھا، تو میں نے خیال کیا کہ یہ شخص آئندہ کچھ ہونے والا ہے.اس لئے میں اس کو دیکھ آؤں.میں ان کو دیکھنے کے لئے قادیان پہنچا تو مجھے علم ہوا کہ آپ ہوشیار پور تشریف لے گئے ہیں.میں نے کہا بار بار آنا مشکل ہے اس لئے ہوشیار پور جا کر دیکھ آؤں.میں ہوشیار پور پہنچا.پوچھ کر آپ کے مکان پر پہنچا اور دستک دی خادم آیا اور پوچھا کون ہو؟ میں نے کہا برہان الدین جہلم سے حضرت مرزا صاحب کو ملنے آیا ہے.اس نے کہا کہ ٹھہر و.میں اجازت لے لوں.جب وہ پوچھنے کے لئے گیا تو مجھے اس وقت فارسی میں الہام ہوا کہ ”جہاں تم نے پہنچنا تھا پہنچ گیا ہے.اب یہاں سے نہیں ہٹنا خادم کو حضرت صاحب نے فرمایا کہ ابھی مجھے فرصت نہیں.ان کو کہہ دیں پھر آئیں.خادم نے جب یہ مجھے بتلایا.تو میں نے کہا میں یہاں ہی بیٹھتا ہوں.جب فرصت ملے
21 24 گی تب ہی سہی.جب خادم یہ کہنے کیلئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.تو حضرت صاحب کو عربی میں الہام ہوا.کہ مہمان آوے تو مہمان نوازی کرنی چاہئے.جس پر حضرت صاحب نے خادم کو حکم دیا کہ جلدی سے دروازہ کھول دو.میں جب حاضر ہوا تو حضور بہت خندہ پیشانی سے مجھے ملے اور فرمایا کہ ابھی مجھے الہام ہوا ہے.میں نے عرض کی مجھے فارسی میں یہ الہام ہوا ہے کہ اس جگہ سے جانا نہیں.میں چند دن حضرت کے پاس رہا اور حضرت کے حالات دیکھے کہ تین وقت تک آپ نے کھانا نہیں کھایا اور نماز کے وقت جلدی سے باہر تشریف لاتے اور نماز ہمارے ساتھ ادا کر کے اندر تشریف لے جاتے.وہاں مرزا اعظم بیگ ہوشیار پوری مہتمم بندوبست تھا.وہ میرا واقف تھا.میں ان سے ملنے گیا.اس نے پوچھا مولوی صاحب آپ کیسے آئے ؟ تو میں نے کہا کہ حضرت مرزا صاحب کو دیکھنے کے لئے آیا ہوں.اس نے پوچھا کہ کون سے مرزا صاحب.میں نے کہا کہ مرزا غلام احمد قادیانی.اس نے کہا کہ آدمی تو بہت اچھا تھا.لیکن خراب ہو گیا.میں نے کہا کس طرح.اس نے کہا کہ بچپن کی حالت میں لڑکوں سے کھیلا نہیں کرتا تھا.اس کا والد اس پر ناراض ہی رہتا تھا کہ تم باہر نہیں نکلتے میں نے کہا الحَمدُ لِلهِ اس نے کہا الْحَمْدُ لِلہ کا کون سا موقع ہے.میں نے کہا جس زمانہ کا میں واقف نہیں تھا.اس کے متعلق تم نے شہادت دیدی کہ آپ بچپن میں ہی نیک تھے اور موجودہ حالت میں نے خود دیکھ لی ہے.(بحوالہ ماہنامہ انصار اللہ جولائی 1995 ء ص 26 اور 40 غیر مطبوعہ رجسٹر روایات نمبر 3) احمد یہ بیت الذکر جہلم شہر حضرت مولوی برہان الدین صاحب پہلے جہلم شہر کی مسجد میں جمعہ پڑھایا کرتے تھے جوان کے بھائی مولوی نعمان نے بنوائی تھی.جہلم کے ایک شخص الہی بخش خواجہ حج کرنے گئے ،
22 وہاں انہوں نے رؤیا دیکھی کہ نیا محلہ جہلم میں انہوں نے ایک مسجد بنوائی ہے اور مولوی برہان الدین صاحب کو اس کا امام مقرر کیا ہے.جب وہ حج کر کے واپس آئے تو انہوں نے کہا مولوی صاحب آؤ میں آپ کو مسجد بنوا دیتا ہوں.جب وہ مسجد بنانے کے لئے مسجد کی حدود کا نشان لگانے لگے تو مولوی برہان الدین صاحب نے کہا کہ مجھے تو چھوٹی سی مسجد چاہئے.اس نے کہا میں آپ کو مسجد بنا کر نہیں دے رہا بلکہ اپنی رویا پوری کر رہا ہوں.جو نقشہ میں نے لمبائی چوڑائی کا بیت اللہ میں دیکھا ہے وہی تیار کروں گا.جب مسجد تیار ہونے پر آپ کو امام مسجد بنایا تو اس آدمی کی برادری اور دوسرے لوگوں اور دوستوں نے منع کیا کہ اس وہابی کو امام مت مقرر کرو.یہ تو یہاں بیٹھ کر سب کو گمراہ کر دے گا.اس نے کہا کہ میں نے بیت اللہ میں جور و یا دیکھی تھی اس میں انہی کو امام مقرر کیا ہے.میں ہرگز نہیں ہٹا تا.مولوی صاحب نے بھی تو خدا اور خدا کے رسول کا نام لینا ہے.اس طرح اس کی امامت حضرت مولوی صاحب کے پاس آگئی.مکرم شیخ الہی بخش صاحب کی وفات کے بعد کی بات ہے.ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کا نام جماعت احمد یہ نہیں رکھا تھا.اس وقت کی بات ہے کہ مسجد جس کے آپ امام تھے پیغام حق کی مخالفت کی وجہ سے لوگوں نے چھینی چاہی.آپ ہمیشہ صبح صادق سے پہلے شہر سے نکل کر نیا محلہ والی مسجد میں تہجد اور فجر کی نماز پڑھنے کیلئے آیا کرتے تھے.نیا محلہ نئی آبادی تھی اور اس وقت مسجد کے قریب بہت ہی کم آبادی تھی بمشکل دو تین نمازی آپ کے ساتھ ہوا کرتے تھے.ایک دن کا واقعہ ہے کہ جب آپ علی الصبح تہجد کے لئے مسجد میں داخل ہوئے تو رات کو ہی چند لوگ مسجد میں چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے کہ جب آپ داخل ہوں تو آپ کا کام تمام کر دیں.چنانچہ وہ سب آپ پر ٹوٹ پڑے اور حضرت مولوی صاحب کو خوب ماراحتی کہ یہ سمجھ
23 کر کہ اب کام ہو گیا ہے آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے.صبح کے وقت کسی نمازی نے آپ کو دیکھا اور گھر پہنچادیا.آپ چند یوم تک صاحب فراش رہے.صحت یاب ہونے کے بعد حکام کےسامنے معاملہ پیش کیا.بوجہ علم و فضل سب آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.حکام نے مسجد کے بنانے والے کے لواحقین کو بلا کر فیصلہ کیا کہ تمہارے بزرگ خود تو حنفی تھے اور مولوی برہان الدین کو جو اس وقت اہلحدیث تھے امام مسجد مقرر کر گئے.اب چونکہ وہ فوت ہو چکے ہیں تو تمہارا کیا حق ہے کہ ان کو امامت سے علیحدہ کرو.تاہم مسجد کے ساتھ جود کا نہیں ہیں وہ تم لے سکتے ہو.چنانچہ وہ اس بات پر رضامند ہو گئے دکانوں پر انہوں نے قبضہ کر لیا اور مسجد حضرت مولوی صاحب کے پاس رہی.مگر اسی پر بس نہیں کچھ عرصہ کے بعد مسجد کو آگ لگا کر جلا دیا گیا.مسجد جل جانے کے بعد ایک شخص میاں نورحسین کو جو اہلحدیث ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ عقیدت رکھتا تھا اور آپ کے ساتھ ہی نمازیں پڑھا کرتا تھا، حضرت مولوی صاحب نے اس کو شہر والی مسجد جس میں خواجہ لوگ نماز پڑھتے تھے جمعہ کے روز یہ پیغام دے کر بھیجا کہ وہاں جاؤ اور جب وہ جمعہ کی نماز ختم کر دیں تو میرا پیغام دو کہ مولوی صاحب نے کہا ہے کہ آپ کے بزرگ نے یہ مسجد بنوائی تھی اب یہ جل کر شہید ہوگئی ہے آپ اسے بنوا دیں اور ثواب دارین حاصل کریں.مگر ان خواجگان نے دو جمعوں تک کوئی جواب نہ دیا.میاں نور حسین بڑا بارعب ، جوشیلا اور باغیرت انسان تھا.سہ بارہ جب تیسرے جمعہ آپ نے میاں نورحسین صاحب کو پیغام پہنچانے کے لئے کہا تو انہوں نے عرض کیا مولوی صاحب مجھے تو شرم آتی ہے میں ہر گز نہیں جاؤں گا.آپ نے کہا نور حسین شرم تو مجھے آنی چاہیئے آپ کیوں شرمندہ ہوتے ہیں.آپ تو پیغام رساں ہیں.آپ اس حکمت کو نہیں سمجھتے یہ آخری دفعہ ہے آپ جائیں.چنانچہ جب وہ تیسرے جمعہ کو پیغام لے کر گئے کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کیونکہ
24 بھی آپ کے بزرگ نے مسجد بنوائی تھی اب ہمت کر کے دوبارہ بنوا دیں.آپ کو ثواب ہوگا.اس وقت ان خواجگان نے جواب دیا کہ مولوی صاحب کو کہہ دواب مرزا کو کہیں کہ ( بیت الذكر ) بنوادے.جب یہ پیغام لے کر میاں نورحسین آیا تو آپ نے کہا الحمدللہ میں یہی چاہتا تھا کہ ان کے منہ سے یہ لفظ نکلیں ورنہ ( بیت الذکر ) تو بہر صورت بن کر رہے گی.یہ اب میرا مقابلہ نہیں مرزا صاحب کا ہے اور مرزا صاحب کا مقابلہ خدا کا مقابلہ ہے.چنانچہ اسی وقت آپ نے افریقہ میں اپنے چند ایک پرانے دوستوں کو خط لکھے جو اہلحدیث کے وقت آپ کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے کہ (بیت الذکر) بنوانی ہے روپیہ بھیجو.چنانچہ روپیہ آنا شروع ہوا اور خدا کے فضل سے ( بیت الذکر ) بن کے تیار ہوگئی.اس کام کے منتظم میاں نورحسین صاحب اور مستری اللہ دین صاحب تھے.اس وقت بمشکل حضرت مولوی صاحب کے ساتھ تمام شہر سے پانچ چھ آدمی تھے اور وہ بھی غرباء میں سے.یوں گویا تعمیر نو کے بعد آپ ہی اس کے بانی متولی اور امام الصلوۃ تھے اور یہی اب ” احمد یہ بیت الذکر جہلم “ ہے.گویا خدا تعالیٰ نے آج سے قریباً سوا سو سال پہلے تمام شہر میں سے اپنے ایک بندے کو حج کے موقع پر بیت اللہ میں رؤیا دکھا کر مسیح موعود اور امام مہدی کے غلاموں کے لئے ایک عبادت گاہ اس کے دعوی سے پہلے ہی بنوا کر اپنے ایک نیک اور مسیح و مہدی پر جاں فدا کرنے والے مجاہد کے سپر د کر دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر جہلم (ماہنامہ انصار اللہ ستمبر 1977 ء ص 9-12) 1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے.تو اس وقت حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی کی عجب عاشقانہ کیفیت تھی.آپ کی
25 خوشی کی انتہا نہ تھی.حضور نے جب جہلم ورود فرمایا.آپ اس وقت ضعیف تھے.آپ حضور کی سواری کے آگے آگے عجیب مجذوبانہ حالت میں چل رہے تھے.آپ بار بار لوگوں سے کہتے جاتے تھے.پہلی کے گھر نارائن آیا یعنی ایک چیونٹی ( معمولی اور غریب ) کے گھر خدا کا بروز آیا ہے.( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد دوم ص 265 ایڈیشن 2007ء) جہلم ریلوے اسٹیشن سے کچہری تک راستے میں لوگوں کا اثر دہام تھا.تل دھرنے کو جگہ نہ تھی.مہدی آخر الزماں کی زیارت کے لئے اردگرد کے شہر و دیہات سے بکثرت لوگ آئے ہوئے تھے.آپ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے امام الزماں کو شناخت کر کے بیعت کی جو اس شوق زیارت میں سڑکوں، بازاروں اور ریلوے اسٹیشن پر جمع تھے.قبول احمدیت کی کیفیت حضور یوں بیان فرماتے ہیں: ”جب میں جہلم کے قریب پہنچا تو تخمینا دس ہزار سے زیادہ آدمی ہوگا کہ وہ میری ملاقات کے لئے آیا.اور تمام سڑک پر آدمی تھے.اور ایسے انکسار کی حالت میں تھے کہ گویا سجدے کرتے تھے اور پھر ضلع کی کچہری کے ارد گرد اس قدر لوگوں کا ہجوم تھا کہ حکام حیرت میں پڑ گئے.گیارہ سو آدمیوں نے بیعت کی اور قریباً دوسو کے عورت بیعت کر کے اس سلسلہ میں داخل ہوئی اور بہت سے لوگوں نے ارادت اور انکسار سے نذرانے دیئے اور تھنے پیش کئے اور اس طرح ہم ہر ایک طرف سے برکتوں سے مالا مال ہو کر قادیان میں واپس آئے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 ص 264) ایک افواہ کا ازالہ سفر جہلم کاہی واقعہ ہے کہ مخالفین نے یہ بات پھیلادی کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ
26 السلام جذام اور کوڑھ کی بیماری میں مبتلا ہیں.حضور نے جہاں قیام فرمایا تھا وہاں بکثرت لوگ حضور کی زیارت کے لئے آئے.لوگوں کا اصرار بڑھتا جارہا تھا کہ وہ حضور کی زیارت کرنا چاہتے ہیں.حکام کی درخواست پر حضور باہر آ کر کرسی نشین ہوئے ، تو بیان کیا جاتا ہے کہ یہ بات چونکہ جہلم کے علاقہ میں بھی بکثرت پھیلائی گئی تھی اس لئے حضرت مولوی برہان الدین صاحب نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور جوں ہی حضور کرسی پر رونق افروز ہوئے انہوں نے حضرت اقدس کی آستینیں اٹھا کر لوگوں کو بازو اور پاؤں دکھائے اور کہا کہ دیکھ لو دشمن جھوٹ بولتا تھا کہ اس مقدس انسان کے ہاتھ اور پاؤں پر معاذ اللہ کی بیماری کے نشان ہیں.“ تاریخ احمدیت جلد 2 ایڈیشن 2007 ء ص 266) اس طرح مخالفین کا پراپیگنڈا اور افواہیں غلط ثابت ہوئیں اور حضور کی ذات اقدس پر کئے گئے اعتراضات کا ازالہ ہوا.وفات آپ رمضان شریف کو 20 / تاریخ (بمطابق 19 نومبر 1905ء) کو اعتکاف میں بیٹھے، اعتکاف کے ایام میں قرآن شریف کا ان کو پہلے سے بھی زیادہ شغف ہو گیا اور دن رات قرآن شریف پڑھتے رہتے تھے.اعتکاف میں یہ الہام ہوا:.إِنَّا كَفَّيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِيْنَ کہ ہم استہزاء کرنے والوں کے لئے کافی ہیں.اور بعد اس کے ایک اور الہام ہوا جس کا خلاصہ یہ تھا امام الوقت تو ایک طرف اب تو ان کے مریدوں کو بھی الہام ہونے لگے.پھر ہم اس بچے سلسلہ کی تائید کیوں نہ کریں؟“ ( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد دوم ص 411 ایڈیشن 2007ء)
27 عید کا چاند دیکھنے پر اعتکاف مکمل ہوا.اور آپ گھر تشریف لے آئے اور پھر عشاء کی نماز کے لئے چلے گئے.اسی رات آپ کو بخار ہوا.صبح کے وقت طبیعت کچھ سنبھلی تو عید کی نماز ادا کی.آپ کو دوبارہ بخار ہو گیا.بیماری کے دوران قرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہے.ایک روز صبح کی نماز کے بعد فرمانے لگے کہ دونوں دروازے کھولو کہ مجھے انتظار ہے.پوچھا گیا کہ کس کا؟ آپ خاموش رہے.آپ درود شریف کا ورد کرتے رہے اور نو بجے کے قریب آپ اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.اس طرح آپ 3 / دسمبر 1905ء کو جہلم میں چند دن کی علالت کے بعد وفات پاگئے.چار بجے شام آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور جہلم کے مقامی قبرستان میں تدفین ہوئی.8 دسمبر 1905ء کو حضور نے قادیان میں اپنے احباب سمیت نماز جنازہ غائب پڑھی اور دیر تک دعائے مغفرت کرتے رہے.حضور نے حاضرین کو وہ خط بھی پڑھ کر سنایا جو آپ کے فرزند حضرت مولوی عبد المغنی صاحب نے وفات کی اطلاع کے سلسلہ میں لکھا تھا.آپ نے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اس بچے کولکھ دو کہ ہم ہر طرح سے اس کی مدد کرنے کو تیار ہیں.اسے چاہئے کہ وہ اپنے باپ کے نقش قدم پر چلے اور ان کے علوم دینیہ اور اخلاق اور عادات کو حاصل کرے.علوم کے حاصل کرنے کے لئے خواہ وہ یہاں آجاوے.بہر حال یہ ضروری امر ہے کہ وہ بہت سعی کرے.“ (الحکم 17 دسمبر 1905ء ص 6) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو الہام ہوا تھا دو شہتیر ٹوٹ گئے.( بدر 14 ستمبر 1905 ء ص 2 کالم 1 ) الحکم 10 ستمبر 1905ء ص 12 کالم 4 پر یہ ان الفاظ میں ہے.
28 شہتیر ٹوٹ جائیں گے“ اس میں آپ کو شہتیر قرار دیا گیا تھا.ایک شہتیر آپ تھے اور دوسرے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی.آپ کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غیر معمولی صدمہ کا اظہار کیا.اخبار بدر 18 دسمبر 1905ء صفحہ 7 پر آپ کے اوصاف و شمائل سے متعلق حسب ذیل مختصر مگر جامع شذرہ شامل اشاعت ہوا.حضرت مولوی برہان الدین صاحب ساکن جہلم جو حضرت کے پرانے خادم ایک عالم باعمل اور متقی شخص تھے اور جماعت جہلم کے امام تھے.اس جہان فانی کو چھوڑ کر عالم بقاء کو چلے گئے.مولوی صاحب موصوف سچے اخلاص اور محبت سے بھرے ہوئے تھے.علم مناظرہ اور مباحثہ میں خدا تعالیٰ نے ان کو خاص پر اثر طرز عطا فرمایا تھا.زمانہ تصنیف براہین احمدیہ سے وہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے.مولوی صاحب مرحوم نے 3 دسمبر 1905 ء کو بروز اتوار صبح کے وقت وفات پائی اور شام کو چار بجے کے قریب جہلم میں مدفون ہوئے.ان آخری ایام میں آپ قرآن شریف بہت پڑھا کرتے تھے.رمضان شریف میں نمازوں میں اس قدر قرآن شریف پڑھتے تھے کہ مقتدی تھک جاتے تھے اور دن کو اور رات کو علیحدگی میں قرآن شریف پڑھتے رہتے تھے.آخری دنوں میں دو تین دفعہ بخار ہوا.جمعہ اور عید کی نمازوں میں شامل تھے.اس رمضان شریف میں اعتکاف بھی بیٹھے تھے اور ایام اعتکاف میں اپنے دو الہام سنائے تھے (ایک یہ کہ انا كفيناك المستهزئين اور دوسرا ایک الہام تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ امام الوقت کے مریدوں کو بھی الہام ہونے لگے ہیں.آخر تک قرآن شریف
29 پڑھتے رہے.ان کے جنازے میں قریب تین سو آدمی جمع تھے.اللہ تعالیٰ ان کو مغفرت عطاء کرے اور جنت میں بلند مقام عطاء فرمائے.آمین ثم آمین.قبل وفات فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود کا جو الہام ہے کہ دو شہتیر 66 ٹوٹ گئے.سو ایک شہتیر تو مولوی عبد الکریم صاحب تھے اور دوسرا میں ہوں.“ مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ( اخبار بدر 8 /دسمبر 1905 ء ص 7) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 6 دسمبر 1905ءکو فرمایا کہ ہماری جماعت میں سے اچھے اچھے لوگ مرتے جاتے ہیں.چنانچہ مولوی عبد الکریم صاحب جو ایک مخلص آدمی تھے اور ایسا ہی اب مولوی برہان الدین صاحب جہلم میں فوت ہو گئے.اور بھی بہت سے مولوی صاحبان اس جماعت میں فوت ہوئے مگر افسوس کہ جو مرتے ہیں ان کا جانشین ہم کو کوئی نظر نہیں آتا.تاریخ احمدیت جلد دوم ص 412 ایڈیشن 2007ء) الغرض آپ کی اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی وفات پر قادر الکلام اور خدمت دین کرنے والے علماء پیدا کرنے کے لئے جنوری 1906ء کو مدرسہ احمدیہ کی بنیاد پڑی.دعا ہے کہ اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں بھی آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)
30 سیرت کے مختلف پہلو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر رفقاء کی طرح حضرت مولانا برہان الدین جہلمی صاحب کی سیرت بھی ایک طرف اعلیٰ صفات سے مالا مال اور دوسری طرف ایک منفردشان کی حامل ہے.مختلف حوالوں سے جو واقعات معلوم ہوئے ہیں ان کا ذکر یکجا طور پر یہاں کرنے سے جو شخصیت ہمارے سامنے حضرت مولوی صاحب کی ابھرتی ہے، اس میں ایک طرف سادگی ، عاجزی، اخلاص و وفا اور تو کل علی اللہ کا مخصوص رنگ نظر آتا ہے تو دوسری طرف خدمت میں جنون اور طبیعت میں شائستگی بھی نمایاں ہے.الغرض آپ عالم باعمل تھے ، جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیروی اور اطاعت نے چار چاند لگا دیئے.وو پامائے پا“ حضرت مولانا برہان الدین جہلمی صاحب بیعت کے بعد ا کثر قادیان آیا کرتے تھے.اگر حضور قادیان میں موجود نہ ہوتے تو آپ وہیں پہنچ جاتے جہاں آپ تشریف لے جاتے.چنانچہ 1904ء میں آپ جب سیالکوٹ گئے ہوئے تھے تو مولوی صاحب بھی وہاں پہنچ گئے.سیالکوٹ کا واقعہ ہے.آپ حضور کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ کسی عورت نے کھڑکی سے حضرت اقدس پر راکھ پھینکی.حضور تو آگے گزر گئے اور راکھ مولوی صاحب کے سر پر
31 66 پڑی.آپ فرمانے لگئے پا اے مائے پا یعنی اے بڑھیا اور راکھ ڈالو.“ روایت مستری نظام الدین سیالکوٹی.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد سوم ص 423) او برھانیا ایہ نعمتاں ککھوں!" سیالکوٹ میں ہی ایک دوسرا واقعہ پیش آیا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس قادیان جانے لگے تو الوداع کہنے کے لئے حضرت مولوی صاحب بھی ساتھ آگئے.آپ جب اسٹیشن سے واپس آرہے تھے تو جو سلوک حضرت مولوی صاحب کے ساتھ کیا گیا اس کی مثالیں صرف قرونِ اولیٰ میں ہی نظر آتی ہیں.اس واقعہ کو خلفاء احمدیت نے متعدد دفعہ بیان فرمایا.اس کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے یوں بیان فرمائی ہے.” جب لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو چھوڑ کر واپس آرہے تھے تو انہیں لوگوں نے طرح طرح کی تکالیف دینی شروع کیں اور دق کیا.مولوی برہان الدین صاحب انہی میں سے ایک تھے.جب وہ واپس جارہے تھے تو کچھ غنڈے ان کے پیچھے ہو گئے.اور ان پر گند پھینکا دیکھنے والوں نے بعد میں بتایا کہ جب مولوی برہان الدین.صاحب کو جبڑا پکڑ کر ان کے منہ میں زبر دستی گوبر اور گند ڈالنے لگے تو انہوں نے کہا الحمد للہ ایہ ممتاں کتھوں مسیح موعود نے روز روز آناں وے؟ یعنی الحمد للہ یہ عمتیں انسان کو خوش قسمتی سے ہی ملتی ہیں.کیا مسیح موعود جیسا انسان روز روز آ سکتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ ایسا موقع ملے.“ الفضل 10 اکتوبر 1945 ءص2) اس وقت آپ ضعیف العمر تھے اور آپ کی عمر 74 سال کے قریب تھی.
32 جھڈو کا جھڑ وہی رہا حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی دعوت الی اللہ و اشاعت دین میں ہر وقت منہمک رہتے تھے لیکن پھر بھی آپ کو ہر وقت یہ خلش رہتی تھی کہ ابھی میں نے کچھ نہیں کیا.آپ کی زندگی کا اس قسم کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نَورَ اللهُ مَرْقَدَہ فرماتے ہیں: ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام مسجد میں بیٹھے تھے اور آپ روحانی معارف بیان فرمارہے تھے.حضرت خلیفہ اول حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور دوسرے دوست بھی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے.مولوی برہان الدین صاحب نے چیچنیں مار مار کر رونا شروع کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا مولوی صاحب کیا بات ہے.لیکن آپ جتنا پوچھتے آپ اتنا ہی زیادہ زور سے رونے لگ جاتے.آخر بار بار پوچھنے اور تسلی دلانے پر مولوی برہان الدین صاحب نے کہا حضور لوگ اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ مسیح آئیگا دنیا میں روحانی معارف لٹائے گا اور ہم اس پر ایمان لاکر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں گے ہم ان امیدوں کے ساتھ انتظار میں تھے اور سمجھ رہے تھے کہ ہم ہر قسم کی قربانیاں کر کے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرینگے کہ خدا تعالیٰ کا مسیح آگیا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے مجھے ایمان لانے کی توفیق عطا فر مادی لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں کہ اسلام کے لئے قربان کرسکوں.حالانکہ وہ غریب ہی اس لئے ہوئے تھے کہ وہ احمدی ہو گئے تھے.پھر کہنے لگے ہم سنا کرتے تھے کہ مسیح آئے گا تو خزانے لٹائے گا.اور آپ نے خوب خزانے لٹائے مگر میں تو پھر بھی جھڈو کا جھڈو ہی رہا.جھڈو کے لفظی معنی تو مجھے نہیں آتے لیکن اس کا
33 مطلب یہ ہے کہ میں پھر بھی ناکارہ کا نا کا رہ ہی رہا.یہ کہہ کر وہ چیچنیں مار کر رونے لگ گئے.یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ مَنْ ينتظر یعنی مومنوں میں ایسے لوگ بھی ہیں.جنہوں نے قربانیاں کیں اور انتہا درجہ کی قربانیاں کیں اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو پالیا اور کچھ ایسے ہیں جو قربانیاں کر رہے ہیں.“ الفضل 17 دسمبر 1945 ء ص 5-6) اد میں مہدی دا چپڑاسی قادیان کا ایک واقعہ ہے کہ حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی نے جب کہ آپ کے گلے میں ڈول تھا ، مستری نظام الدین صاحب سیالکوٹی اور دیگر رفقاء سے کہنے لگے.پوچھو! میں کون ہوں؟ یہ بات ضعیف العمری کے باوجود آپ نے بڑے جوش سے متعدد دفعہ دہرائی آخر جب ایک نے یہ سوال کیا، تو بڑے جوش میں جواب دیا جاتے.او میں مہدی دا چپڑاسی.او میں مہدی دا چپڑاسی.“ یعنی میں مہدی کا چپڑاسی ہوں.یہ فقرہ آپ فرط محبت اور جوش سے بار بار دہراتے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے انداز محبت قادیان میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جب سیر کے لیے تشریف لے جاتے تو راستے میں چلتے چلتے جوتی پر گرد پڑ جاتی واپسی پر دوستوں سے جدا ہو کر گھر داخل ہوتے وقت مولوی صاحب نہایت پھرتی و تیزی سے آگے پہنچ جاتے اور حضرت مسیح پاک کی جو نتیوں کو اپنے
34 کندھے والی چادر سے صاف کر دیتے دوسرے ہمرا ہی دوست بھی یہ سعادت حاصل کرنے کی سعی ضرور کرتے مگر مولوی صاحب کی سادگی آپ کی پھرتی کا باعث ہوتی.مجاہدانہ طرز زندگی (ماہنامہ انصار اللہ ستمبر 1977 ء ص 13-14) آپ نے یہ سارا عرصہ مجاہدانہ طرز پر گزارہ اور آپ کے اہل واولا د نے بھی بڑے صبر اور قربانی سے یہ وقت گزارا.آپ کے ایک شاگرد مولوی مہر الدین صاحب کو آپ کی تکلیف کا علم ہوا.تو انہوں نے لالہ موسیٰ سے لکڑیاں بھیجنی شروع کیں کبھی کبھی آپ کو فاقہ کشی کی نوبت آئی جس کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تا کہ آپ کی فاقہ کشی پر کسی دیکھنے والے کو اطلاع نہ ہو.ان حالات کے باوجود آپ بڑی ہمت اور استقلال کے ساتھ اشاعت دین میں مصروف رہتے.(ماہنامہ انصار اللہ ستمبر 1977 ء ص 13-14) قدرت کا دیا ہوا فولاد حضرت عبد المغنی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہمارے والد صاحب کے پاس لوہے کی ہنڈیاں رہ گئی تھیں اور جب بھی سالن وغیرہ ان میں پکتا تو لوہے کا اندرونی زنگ سالن کی ساری ہیئت کو تبدیل کر کے رکھ دیتا.چنانچہ ایک دن میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ ابا جان ! یہ جو ہم سالن کھاتے ہیں اس کے ساتھ لوہے کا زنگ بھی ہمارے پیٹوں میں چلا جاتا ہے آخر کیا وجہ ہے کہ ہم پھر بھی تندرست اور توانا دکھائی دیتے ہیں؟ اس پر مولوی برہان الدین صاحب نے فرمایا کہ بیٹا یہ زنگ نہیں ہے اور نہ ہی اسے میل کہنا چاہئے بلکہ یہ تو قدرت کا دیا ہوا فولاد ہے جو
35 ہمارے لئے طاقت کا سبب ہے اور کمی خون کا علاج بھی ہے.روٹی عام طور پر نصف بودا ملے ہوئے آٹے کی ہوتی تھی، چونکہ ایندھن خریدنے کی طاقت نہ تھی اس لئے شیشم کے پتے سمیٹ کر گوندھتے اور تجربہ کار آدمی خوب جانتا ہے کہ شیشم کے پتوں پر پکی ہوئی روٹی کیا شکل اختیار کرتی ہے.توکل علی اللہ (ماہنامہ انصار اللہ تمبر 1977 ء ص 13-14) راجہ پیده خان دارا پوری ہیڈ آف دی جنجوعہ جو احمدیت قبول کرنے کے بعد فوت ہوئے ، حضرت مولوی صاحب کو حسن عقیدت کی وجہ سے گندم بھیجا کرتے تھے.کسی وجہ سے انہوں نے گندم بھیجنا بند کر دی.پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ شروع کر دی.تو مولوی صاحب نے لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا آپ نے اچھا کیا تھا اس سے میرا خدا پر ایمان بڑھ گیا ہے.پہلے تو جب گندم ختم ہوتی تو خیال آتا کہ راجہ پیدہ خان بھیجے گا لیکن جب آپ نے بند کر دی تو اس وقت سے صرف اور صرف خدا کی طرف خیال جاتا ہے.پیندہ خان نے بہت منت کی بہت زور دیا اور کہا کہ آگے تو ایک فصل بھیجتا تھا اب دو بھیجوں گا.پہلے تو گدھوں کا انتظام آپ کی طرف سے تھا اب سب میرا انتظام ہو گا.آپ گندم لینا منظور فرما دیں اسکے اصرار پر آپ نے منظور فرمالیا.غرضیکہ باوجود تنگی کے آپ تو کل علی اللہ سے کام لیتے تھے سادہ لباس پہنتے سادہ زندگی آپ کا شعار تھا.آپ کے علم کا رعب آپ کے ایک شاگردمولوی مہر دین صاحب رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ گجرات کا ایک مولوی محمد تھا.وہ گجرات میں امام مسجد تھا.اس نے ایک
36 شخص میاں چراغ دین کو کہا کہ میں قرآن سے ثابت کروں گا کہ حضرت عیسی زندہ ہیں.میاں چراغ دین صاحب نے حضرت برہان الدین جہلمی صاحب کو لکھا کہ گجرات تشریف لائیں.مولوی صاحب راستے میں میرے پاس لالہ موسی میں ٹھہرے.میں نے سفر کے متعلق پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ مولوی محمد گجراتی کہتے ہیں کہ وہ قرآن سے حضرت عیسی کی زندگی ثابت کر سکتے ہیں.واپسی پر پھر آپ لالہ موسی میں ٹھہرے.میں نے پوچھا گجرات میں کیا فیصلہ ہوا.آپ نے فرمایا میں نے رقعہ بھیج دیا تھا کہ وقت مقرر کر کے مولوی صاحب ثبوت پیش کریں.میاں چراغ دین صاحب رقعہ لے کر گئے تو مولوی محمد نے کہا کہ مولوی برہان الدین کا علم میر ے برابر نہیں ہے.اس لئے میں مباحثہ نہیں کر سکتا.میں نے ان کو لکھ بھیجا کہ مقابل پر پہلوان کمز ور ہوتو تمہاری فتح آسان ہوگی تمہیں اس مقابلہ سے کیوں گریز ہے.اور اس علم کا نام لو جو تم نے پڑھا ہے اور میں نے نہیں پڑھا.جب یہ رقعہ مولوی کے پاس پہنچا تو پھر اس نے یہ عذر پیش کیا کہ وہ میرے استاد ہیں.اس لئے میں ادب کی وجہ سے ان سے بحث نہیں کر سکتا.اس پر لوگوں نے اس کو امامت سے الگ کر کے مسجد سے نکال دیا.انداز دعوت الی اللہ ایک روز حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلم میں ایک کتابوں کی دکان پر کھڑے تھے.ایک غیر احمدی حافظ کو آپ نے السلام علیکم کہا، حافظ صاحب نے سلام کا جواب نہ دیا اور کہا که مولوی صاحب آپ مرزا صاحب کے ساتھ ہو گئے ہیں اور وہ قرآن کے خلاف ہیں اس لئے ہم آپ کا سلام قبول نہیں کرتے.حضرت برہان الدین صاحب نے فرمایا کہ حافظ صاحب کون
37 سی آیت کے خلاف حضرت مرزا صاحب کا عمل ہے.حافظ صاحب نے کہا کہ آیت لَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُونِ اللَّهِ کے خلاف مرزا صاحب نے اس طرح کہا ہے کہ انہوں نے لوگوں کے معبودوں کو گالیاں دے کر بچے معبود کو گالیاں نکلوائی ہیں اور آپ ان کے ساتھ ہیں.اس لئے ہم آپ سے سلام نہیں کر سکتے.مولوی صاحب نے فرمایا کہ حافظ صاحب کوئی ایسی آیت نکالو جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہو کہ غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں کو برا نہ کہو.حافظ صاحب لا جواب ہو گئے.کیونکہ اللہ تعالی نے غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں کو کا فرمشرک اور جہنمی کہا ہے.خادمانہ رنگ کی ایک جھلک (ماہنامہ انصار اللہ جولائی 1995 ء ص 24) حضرت مولانا برہان الدین صاحب کے دل میں بے انتہا خدمت کا جذبہ تھا.اپنے آقا کی خدمت میں جنون کی کیفیت پائی جاتی تھی.بیعت کے بعد آپ ہر سال قادیان تشریف لے جاتے تو حضور فرمایا کرتے: مولوی صاحب آپ کے آنے سے مجھے آرام ملتا ہے.“ حضرت مولوی عبد المغنی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اکثر دفعہ فرمایا کہ مولوی صاحب آپ قادیان آجائیں آپ کی ضروریات کے ہم ذمہ دار ہوں گے.لوگوں نے کہا کہ آپ حضرت صاحب کے پاس کیوں نہیں آجاتے ، تو والد صاحب ان لوگوں کو پنجابی میں جواب دیتے ” نالے کوڑا نالے پڑیں ساڑے“ مطلب یہ کہ ایک تو میں نالائق کسی کام کے قابل نہیں دوم بجائے حضرت صاحب کی خدمت کرنے کے خود ہی ان پر بوجھ
بنوں مجھے شرم آتی ہے.38 (ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ستمبر 1977 ء ص 14) بطور داروغه ایک دفعہ حضور نے فرمایا مولوی صاحب آپ کو جہلم سے بہت محبت ہے اسے آپ چھوڑنا پسند نہیں کرتے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے لئے وہ جیلیں ہے یعنی وہ جیل خانہ ہے، جس سے آپ نکل نہیں سکتے.عرض کیا حضور سچ فرماتے ہیں.ہے تو وہ جیل مگر حضور جیل میں داروغہ بھی ہوا کرتے ہیں.حضور دعا فرما ئیں مجھے مولا کریم وہاں بطور داروغہ رکھے.نڈر انسان (ماہنامہ انصار اللہ ربوہ.ستمبر 1977 ء ص 14) حضرت مولانا برہان الدین جہلمی صاحب کچی گواہی دینے سے ہرگز نہ گھبراتے تھے.ایک دفعہ جہلم شہر کا ایک آدمی فوت ہو گیا.ان دنوں ڈاکٹر کم ہوتے تھے.اکثر لوگ حکیموں کو بلاتے تھے.آپ کو لوگ بلا کر لے گئے.آپ نے دیکھتے ہی کہا یہ آدمی ہیضہ سے ہر گز فوت نہیں ہوا.اسے کھانے میں زہر ملا کر دیا گیا ہے، کیونکہ کمرے میں ایک خاص قسم کے زہر کی بو آ رہی تھی.پھر اس شخص کی نشان دہی کی جس نے زہر دیا تھا.جب اس آدمی کا پوسٹ مارٹم ہوا، تو اس زہر کا پتہ چلا.بعد میں زہر دینے والا شخص پکڑا گیا.جس کی نشان دہی کی تھی.لوگوں نے مولوی صاحب کو کہا آپ نے جس شخص کے خلاف گواہی دی ہے وہ بہت سخت ہے.کہ رہا ہے جب میں قید سے چھوٹ کر آؤں گا تو مولوی برہان الدین کی خبر لوں گا.آپ نے یہ سن کر کہا کہ قید سے چھوٹ کر آئے گا تو خبر لے گا.چند دنوں کے بعد فیصلہ ہو گیا اور اس شخص کو پھانسی کی سزا
39 ہوگئی.(ان دنوں انگریز کی حکومت تھی اور مقدمات کا فیصلہ جلد ہو جایا کرتا تھا.) طبیعت کا ایک سادہ انداز (روز نامه الفضل 22 رمئی 1996 ء ص 4) مولانا صاحب کی طبیعت سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملائیت سے پاک تھی.چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ آپ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ ان کے محلہ میں ہرڑ پوپو آیا جو لوگوں کو ان کی قسمت بتاتا پھرتا تھا.مولوی صاحب نے اس کا انسداد کرنا چاہا اور ارادہ کیا کہ کسی طرح اس کی کرکری کی جاوے تا کہ یہ آنا جانا چھوڑ دے.ایک دن مولوی صاحب جن کا قد وقامت بڑا نہ تھا چادر اوڑھ کر بیٹھ گئے اور اس کو اپنا ہاتھ دکھا کر کہا کہ میری قسمت دیکھو کیسی ہے.ہرڑ پوپو نے انہیں عورت سمجھ کر کہا تیری قسمت بہت خراب ہے.تیرے خاوند نے جو باہر گیا ہوا ہے دوسری بیوی کر لی ہے اور اب اس کا ارادہ واپس آنے کا نہیں ہے.انہوں نے رونی صورت بنا کر الحاج سے کہا کہ اب تو ہی کوئی تدبیر بتا کہ پھر میں کیا کروں اور میری یہ گردش کس طرح دور ہو.اس نے کچھ کپڑا وغیرہ مانگا کہ یہ دے دو تو جلدی آجائے گا ور نہ اس کا ارادہ آنے کا بالکل نہیں ہے.اس پر مولوی صاحب جھٹ منہ سے کپڑا ہٹا دیا اور لمبی سی داڑھی دکھا کر اور اس کے ہاتھ کو مضبوط پکڑ کر کہنے لگے کہ کیا اب اس نے آنا ہی نہیں؟.یہ حالت دیکھ کر وہ ہرڑ پوپو ایسا شرمندہ ہوا کہ پھر کبھی اس محلہ میں نہ آیا بلکہ خیال ہے کہ اس نے اپنی ساری قوم میں اعلان کر دیا ہو گا کہ کوئی ادھر نہ جائے کیونکہ اس کے بعد پھر کوئی اس محلہ میں نہ آیا.“ الفضل 17 اپریل 1922ء ص 5-6)
40 40 " مولوی صاحب آپ کے آنے پر مجھے آرام آتا ھے.“ وه اول هی اول هوشیار پور میں میرے پاس گئے.ان طبیعت میں حق کے لئے ايك سوزش اور جلن تھی.مجھ سے قرآن شریف پڑھا.بائیس برس سے میرے پاس آتے تھے.صوفیانہ مذاق تھا.جہاں فقراء کو دیکھتے وہیں چلے جاتے.میرے ساتھ بڑی محبت رکھتے تھے.“ (احکام 7 جنوری 1909 ء ص 13)
41 آقا کی نظروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ضمیمہ انجام آتھم میں اپنے بعض رفقاء اور ان کی مالی قربانیوں کا ذکر فرمایا ہے ان میں حضرت مولانا صاحب کا نام بھی شامل ہے.آپ کا ذکر یوں فرماتے ہیں:...میاں عبداللہ صاحب سنوری اور مولوی برہان الدین صاحب جہلمی اور مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی اور قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوئی اور منشی چودھری نبی بخش صاحب بٹالہ ضلع گورداسپور پورہ اور منشی جلال الدین صاحب بلانی وغیرہ احباب اپنی اپنی طاقت کے موافق خدمت میں لگے ہوئے ہیں.“ (ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 ص313 حاشیہ ایڈیشن اول ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک درخواست بنام لیفٹیننٹ گورنر پنجاب لکھی، جس میں حضور نے اپنے مختصر حالات تحریر کئے اور اس کے آخر میں اپنی جماعت کے ممبروں کے نام لکھے اس فہرست میں حضرت مولوی صاحب کا نام یوں درج ہے: 168 - ”مولوی برہان الدین صاحب کھکھر، جہلم، حضرت مسیح موعود کا ایک الہام ہے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 ص354) جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٍ یعنی بدی کا بدلہ ویسا ہی ہوگا اور ان لوگوں پر ذلت طاری ہوگی.
42 اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ یہ لوگ جو تمہیں ذلیل کرنے والے ہیں ان کو اس دنیا میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا اس سلسلہ میں ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ میں اپنے ایک مشہور مخالف کے اس الہام کا مورد بننے کا ذکر کر کے اس کی اس رسوائی کا ذکر کیا ہے جو اسے عدالت میں نصیب ہوئی آپ نے ان لوگوں کے اسماء بھی درج فرمائے ہیں جو اس کے گواہ تھے.اس فہرست میں حضرت مولانا برہان الدین صاحب کا نام 168 نمبر پر شامل ہے جو اس موقع پر حضوڑ کے ہمرکاب تھے اور گورداسپور میں موجود تھے.( مجموعہ اشتہارات جلد سوم ایڈیشن 1986 ، صفحہ 26 اشتہار نمبر 183 ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی کے بارہ میں فرماتے ہیں : وہ اول ہی اول ہوشیار پور میں میرے پاس گئے.ان کی طبیعت میں حق کے لئے ایک سوزش اور جلن تھی.مجھ سے قرآن شریف پڑھا.بائیس برس سے میرے پاس آتے تھے.صوفیانہ مذاق تھا.جہاں فقراء کو دیکھتے وہیں چلے جاتے.میرے ساتھ بڑی محبت رکھتے تھے.میں چاہتا ہوں کہ ماتم پرسی کے لئے لکھ دوں بہتر ہے کہ ان کا جو لڑکا ہو وہ یہاں آجاوے تا کہ وہ باپ کی جابجا ہو.اسے لکھو کہ وہ دین کی تکمیل کرے.کیونکہ باپ کی ہی روش پر ہونا چاہئے.“ آپ کی خوبیوں کا بیان (الحکم 7 جنوری 1909 ء ص 13) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعوی بھی نہیں فرمایا تھا کہ آپ نے اپنی
43 مومنانہ فراست سے یہ معلوم کر لیا کہ آپ ہی مسیح زماں اور مہدی دوراں ہیں.چنانچہ آپ پیدل جہلم سے قادیان تشریف لے گئے.پھر قادیان سے ہوشیار پور جا کر حضور کی زیارت کی اور بیعت کے لئے عرض کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام دو شہتیر ٹوٹ گئے“ کے آپ مصداق بنے.آپ کی اور حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی وفات کا حضور کو غیر معمولی صدمہ ہوا.ان کی وفات پر آپ جیسے قادر الکلام اور خالصہ دین کی خدمت رکھنے والے علماء پیدا کرنے کا خیال آیا اور اس غرض سے جنوری 1906ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام میں شاخ دینیات کا آغاز ہوا جو بعد میں مدرسہ احمدیہ 1909 ء ' اور پھر جامعہ احمدیہ 1928ء کی شکل اختیار کر گئی اور آج خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں اس کی شاخیں بھارت، پاکستان، افریقہ کے ممالک، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے علاوہ کینیڈا، انگلستان اور جرمنی میں قائم ہو چکی ہیں.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان خاص صحابہ میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہے جن کا نام حضور نے اپنے 313 رفقاء میں شامل فرمایا.چنانچہ انجام آتھم میں 313 صحابہ کی فہرست میں 84 ویں نمبر پر آپ کا نام درج ہے.84.مولوی برہان الدین صاحب جہلم (ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 ص: 326) اس فہرست کے درج کرنے سے قبل خود حضور علیہ السلام ان صحابہ کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ تمام اصحاب خصلت صدق وصفار کھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ
44 تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی رضا کی راہوں میں ثابت قدم کرے.“ ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 ص: 325) آپ 313 میں سے ان چند خوش نصیب اور منفر د صحابہ میں سے ہیں جن کی اولا د کو بھی اس فہرست میں شمولیت کا شرف حاصل ہوا.چنانچہ آپ کے صاحبزادے حضرت مولوی عبد المغنی صاحب کا نام 313 اصحاب کی فہرست میں 190 نمبر پر ہے.190 - عبد المغنی صاحب فرزند رشید مولوی برہان الدین صاحب جہلمی (ضمیمہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 ص: 327) آپ کو براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قرآن کریم پڑھنے کا شرف حاصل ہوا.حضور خو دفرماتے ہیں کہ مجھ سے قرآن شریف پڑھا.“ (الحکم 7 جنوری 1909ء ص 13) حضرت مولوی صاحب کو ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت نہ تھی بلکہ خود حضور نے بھی اپنی محبت کا اظہار متعدد دفعہ فرمایا: مولوی صاحب آپ کے آنے پر مجھے آرام آتا ہے.“ ایک اور جگہ فرمایا: انصار اللہ ستمبر 1977 ، صفحہ 12) ”مولوی صاحب آپ قادیان آجائیں آپ کی ضروریات کے ہم ذمہ دار ہونگے.“ انصار اللہ ستمبر 1977ء صفحہ 14)
45 اولا داور ذکر خیر ہم ہر طرح سے اس کی مدد کرنے کو تیار ہیں اسے چاہئے کہ وہ اپنے باپ کے نقش قدم پر چلے اور ان کے علوم دینیہ اور اخلاق اور عادات کو حاصل کرے علوم کے حاصل کرنے کے لئے خواہ وہ یہاں آجاوے.بہر حال ضروری امر ہے کہ وہ بہت سعی کرے.“ (الحکم ۷ اردسمبر ۱۹۰۵ء ص ۶)
46 حضرت مولوی عبد المغنی صاحب مولوی برہان الدین جہلمی صاحب کو خدا تعالیٰ نے ایک بیٹے حضرت مولوی عبد المغنی صاحب سے نوازہ تھا جو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.آپ اپنی وفات تک جماعت احمد یہ ضلع جہلم کے امیر جماعت رہے.حضرت مولوی عبد المغنی صاحب کو یہ خاص اعزاز حاصل ہے کہ اپنے والد محترم کے ساتھ صحابہ 313 میں آپ کا نام بھی شامل ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کا نام یوں درج فرمایا ہے.پیدائش 190 - عبدالمغنی صاحب فرزند رشید مولوی برہان الدین صاحب جہلمی (ضمیمہ رساله انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 ص 327) حضرت مولوی عبد المغنی صاحب کی پیدائش 1890 ء میں ہوئی.آپ سات ماہ کے پیدا ہوئے.آپ کی والدہ نے آپ کو کنویں کی لوہے کی ٹنڈ میں روئی میں لپیٹ کر کچھ عرصہ رکھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کا ایک واقعہ آپ کی نواسی آپ ہی کی زبانی یہ واقعہ تحریر کرتی ہیں کہ جب آپ کی عمر گیارہ بارہ سال کی تھی.والد صاحب تو احمدیت کے عشق میں دعوت الی اللہ کے لیے گاؤں گاؤں پھرتے رہتے تھے.ایک دفعہ چھ ماہ ہو گئے تو والدہ کہنے لگیں چلو متنی قادیان چلیں وہیں پتہ چلے گا.میٹھی روٹیاں
47 گڑ کی پکا کر ساتھ لیں ماں بیٹا قادیان پہنچے.بیت المبارک میں نماز عصر کا وقت تھا والدہ برقعہ اوڑھے باہر کھڑی تھیں.میں اندر گیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام چند رفقاء کے ساتھ تشریف فرما تھے.میں نے کہا میری والدہ باہر کھڑی ہیں.وہ بہت پردہ کرتی ہیں اور ہم اپنے والد صاحب کو ڈھونڈنے آئے ہیں.حضرت صاحب نے فرمایا آپ کی بغل میں کیا ہے؟ میں نے کہا کہ یہ میٹھی روٹیاں ہیں والد صاحب کے لئے ، تو فرمایا ہم بھی کھالیں؟ میں نے کہا جی ، تو اس پر آپ نے مسکراتے ہوئے رو مال کھولا تھوڑ اٹکڑا تو ڑ کر اپنے منہ میں ڈالا اور ساتھ والوں کو بھی دیا.میں سخت گھبرایا ہوا تھا.پھر رومال باندھ کر واپس دیا اور فرمایا والدہ کوگھر ( حضرت اماں جان کے پاس ) اندر لے جاؤ.یہاں بھی بہت پردہ ہے.والد بھی مل جائیں گے.یہ واقعہ سناتے ہوئے نانا جان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور فرماتے تھے کہ اتنی سمجھ ہی نہیں تھی کہ کہتا حضور آپ سب روٹیاں رکھ لیں.اساتذہ اور تعلیم آپ کے استادوں میں دو کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ایک حضرت ماریہ المسیح الاول جن سے آپ نے ترجمہ کے ساتھ قرآن مجید کے کچھ سپارے پڑھے.دوسرے حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی جن کے ساتھ آپ گا ؤں گا ؤں دعوت الی اللہ کے لئے جاتے.حضرت مولوی عبد المغنی صاحب کہتے ہیں کہ کبھی بھی کسی گاؤں جاتے تو حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کسی بھی گاؤں والے سے کھانا وغیرہ کیلئے نہ کہتے.ہم شاگر دحیران ہوتے تھے کہ کیسے خود بخو دلوگوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ تھکے ہوئے ہیں.آپ بیت الذکر میں تشریف فرما ہو جاتے ،مگر ہم شا گردگاؤں میں ضرور پھرتے تھے.آپ نے قادیان میں میٹرک کے بعد مولوی
48 فاضل بھی کیا.حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کی وجہ سے فوج کی پنجاب رجمنٹ میں گئے.ملایا، پونا اور دوسرے اس قسم کے شہروں میں فوج کے ساتھ رہے اور ان شہروں کے کئی واقعات سانپ وغیرہ کے سناتے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ معجزانہ طور پر بچاتا تھا.خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت آپ نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ خدمت دین میں گزارا.وفات تک آپ امیر جماعت احمدیہ جہلم کے طور پر کام کرتے رہے.آپ نہایت متقی ، پرہیز گار، مہمان نواز اور دعا گو بزرگ تھے.آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خاندان سے بہت محبت تھی.اس بارہ میں آپ کی نواسی تحریر کرتی ہیں.امیر ضلع ہونے کی وجہ سے خطوط بہت لکھا کرتے تھے اور مجھے بھی لکھنے کا موقع ملتا تھا.ایک خط جس سے حضرت اقدس کی پاکیزہ اولاد کے ساتھ بے پناہ عشق و محبت معلوم ہوئی وہ تھا جو آپ نے خاکسار سے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کے نام لکھوایا.جو مجھے پہلی دفعہ حضرت صاحب اور ان کی پاکیزہ اولاد کے ساتھ اپنی شدید محبت پیدا کرنے کا موجب ہوا.ان لمحات کو میں آج بھی یاد کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں.“ قادیان والے مرزا سے دانے لو ایک ایمان افروز واقعہ آپ کی صاحبزادی یوں تحریر کرتی ہیں.یہ واقعہ ابا جی کی زبانی بیان کرتی ہوں.مجھے بتایا والد صاحب کی وفات کے بعد والدہ صاحبہ نے کہ مجھے خادم کے ہمراہ اپنے گاؤں بوریاں والی لالہ جی کے پاس زمین کے دانے لینے کے لئے بھیجا.والدہ صاحبہ نے
49 مجھے میٹھی روٹیاں بھی پکا کر دیں کہ لالہ جی کو دینا.جب میں خادم کے ہمراہ گاؤں لالہ جی کے پاس پہنچا انہیں میٹھی روٹیاں دیں اور کہا کہ والدہ صاحبہ نے مجھے بھیجا ہے کہ ابھی تک ہمیں دانے نہیں پہنچے میں دانے لینے آیا ہوں.لالہ جی نے روٹیاں تو رکھ لیں اور مجھے کہا تمہارا مذہب اور ہے تم جا کر اپنے قادیان والے مرزا سے دانے لو، دانے نہیں ملیں گے چلے جاؤ.میں اسی وقت خادم کے ہمراہ بہت اداس اور پریشان لوٹا.ان دنوں گاؤں سے باہر آنے کے لئے لوگ گھوڑیوں پر آتے جاتے تھے گھوڑی کا تو کوئی انتظام نہ تھا میں خادم کے ہمراہ پیدل ہی چل پڑا راستے میں روتا آیا چلتے چلتے پاؤں سوجھ گئے بہت تھک کر ہم بیت الحمد جہلم پہنچے.میں تو بیت الحمد میں بیٹھ گیا اور خادم نے بیت الحمد کے ساتھ کھلنے والا ہمارے گھر کا دروازہ کھول کر والدہ صاحبہ کو خبر دی.ہم آگئے ہیں.عبدل بیت الحمد میں بیٹھا ہے ( مجھے بچپن میں سب عبدل کہتے تھے ) والدہ صاحبہ نے اندر بلایا.میں نے بتایا لالہ جی نے روٹیاں رکھ لی ہیں اور کہا ہے تمہارا مذہب اور ہے اپنے قادیان والے مرزا سے جا کر دانے لو.والدہ صاحبہ نے مجھے تسلی دی کہا کوئی بات نہیں دانے ہمیں مل جائیں گے.دوسرے دن صبح سویرے بوریاں والی گاؤں سے نائی آیا اور اس نے پیغام دیا رات اچانک بڑے مولوی صاحب (لالہ جی ) وفات پاگئے ہیں والدہ صاحبہ اسی وقت مجھے اور خادم کو ہمراہ لے کر گاؤں بوریاں والی افسوس کے لئے پہنچیں.ہمارے جانے کے بعد لالہ جی کو دفنایا گیا دوسرے دن پٹواری نے آکر کہا اپنے دانے لے جائیں.جب ہم گھر آئے تو پیچھے اونٹوں پر لاد کر ہمارے حصے کے دانے بھی مزارع لے آئے.پھر تا زندگی دانے باقاعدگی سے آتے رہے.
50 سیرت کے مختلف پہلو آپ وقت کی پابندی سختی سے کرتے تھے.کیا جماعت کے کام کیا گھر کے کبھی کوئی نماز نہیں جو اول وقت اور خشوع و خضوع کے ساتھ نہ پڑھی ہو.عصر کی نماز گھر ا کثر پڑھ کر باہر جاتے اور مغرب کے بعد بیت الذکر سے واپس آتے.ہمیشہ مشہدی پگڑی باندھتے.کبھی بھی بغیر پگڑی نماز گھر میں نہیں ادا کی.قرآن کریم سے بے پناہ عشق کرتے اور کثرت سے تلاوت کرتے.باوجود بڑھاپے اور کمزوری صحت کے جب کبھی کوئی مربی سلسلہ یا جامعہ احمدیہ کے طالب علم تشریف لاتے تو خود ساتھ جا کر جہلم کے اہم مقامات خاص طور پر عدالت اور کوٹھی مقدمہ کرم دین بھیں والے کے سلسلہ میں حضرت اقدس جہاں تشریف فرما ہوئے تھے دکھاتے.کئی بیوہ عورتوں کی گھر والوں کے علم کے بغیر مدد کرتے تھے اور اپنی زمین کی گندم وغیرہ بھی اکثر غیر احمدی عزیزوں کے گھروں میں پہنچاتے تھے.آپ کی نواسی تحریر کرتی ہیں کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو نا نا جان کو سرائے عالمگیر فوجی کالج میں صوبیدار کوارٹر ماسٹر کی حیثیت سے فوجی وردی میں دیکھا.ہر جمعہ با قاعدگی سے جہلم سائیکل پر نماز جمعہ پڑھانے آتے تھے ریٹائرڈ ہونے کے بعد باغ محلہ شہر جہلم میں تادمِ آخر ر ہائش رہی.چھریاں مل کر تیز کی جاتی ہیں آپ کی صاحبزادی تحریر کرتی ہیں ایک دن سرائے عالمگیر سے چوہدری عبدالقیوم صاحب کی اہلیہ حفیظ بیگم جو وہاں کی صدر ر ہیں اور چوہدری مبارک مصلح الدین احمد صاحب کی
51 ہمشیرہ ہیں.ابا جی کے پاس دعا کی غرض سے آئیں اور کہنے لگیں مولوی صاحب میرے بچوں نے امتحان دیا ہے دعا کریں اللہ تعالیٰ امتحان میں کامیابی عطا کرے اور نیک بنائے.ان کے جانے کے بعد ایک بزرگ تشریف لائے اباجی نے انہیں بھی حفیظ بیگم کے بچوں کے امتحان میں کامیاب ہونے اور نیک ہونے کے لئے دعا کا کہا.پھر فرمایا جب دو چھریاں مل کر تیز کی جاتی ہیں تو جلدی تیز ہوتی ہیں.اسی طرح جب دول کر دعا کریں تو اللہ تعالیٰ جلدی سن لیتا ہے.ایمان افروز واقعه ایک واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ یہ واقعہ رمضان المبارک کا ہے.روزہ رکھا ہوا تھا.سخت بھوک اور پیاس محسوس ہورہی تھی.گرمی بھی زوروں پر تھی.اس حالت میں نیند آگئی.تو خواب میں ایک بڑا سا آم کسی نے مجھے دیا جسے میں نے خوب مزے سے کھایا.کھا چکا تو یکدم جاگ گیا.منہ میں آم کا ذائقہ نہایت شیریں تھا.طبیعت خوش اور خوب سیر تھی بھوک پیاس کا نام بھی نہ تھا.یہاں تک کہ ساتھ والوں نے بھی مجھ سے آم کی خوشبو محسوس کی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ تین دن تک اس آم کی خوشبو میرے منہ سے آتی رہی اور اپنے دوستوں کو اپنے منہ کے پاس لے جا کر بتاتا تو وہ بھی خوشبو پاتے تھے.نماز کسوف و خسوف آپ کی نواسی بیان کرتی ہیں کہ واقعات تو بہت ہیں مگر ایک واقعہ جو نہیں بھولتا کہ جب چاند گرہن ہوا.رات کے آٹھ نو بجے تھے.میں نے کہا نانا جان نماز کسوف و خسوف چاند گرہن میں پڑھتے ہیں اور زور لگا کر با جماعت کے لئے انہیں راضی کیا ان کی طبیعت کچھ خراب تھی.نانا
52 جان نماز کے لئے آگے کھڑے تھے اور میری چھوٹی بہن جو دس بارہ سال اور میں پندرہ سال کی تھی دونوں پیچھے کھڑی تھیں.نماز جو شروع ہوئی تو اتنے لمبے لمبے قیام لمبے لمبے رکوع نانا جان تو وجد میں آئے ہوئے خوش الحانی سے پڑھائے چلے جارہے ہیں لیکن ہماری تو ٹانگیں تھک گئیں.پہلے چھوٹی بہن چپکے سے لیٹ گئی.میں نے ہمت کی مگر معلوم نہیں کب لمبے سجدے میں سو گئی صبح آنکھ کھلی تو چہرے پر زبر دست مسکراہٹ بکھیرے ہوئے فرماتے ہیں کہ آج تو نماز کسوف وخسوف پڑھی گئی ہے اور ہم شرمندہ.جانوروں سے محبت آپ کی نواسی ہی بیان کرتی ہیں کہ جانور بھی آپ کی شفقت سے محروم نہیں تھے.ایک کتا سرائے عالمگیر کالج سے آپ کے ساتھ ساتھ جہلم آیا تھا.وہ بیمار ہو گیا تو اسے اپنے ہاتھوں سے دوائی ڈال کر نہلاتے.ایک بلی بھی آپ سے بہت پیار کرتی تھی.ایک دفعہ رمضان میں سحری کھانے کے لئے میں جب آپ کے پلنگ پر آپ کو جگانے گئی تو بلی کے بچوں کی آواز سن کر ڈرگئی.دیکھا تو نانا جان کروٹ بدل کر سورہے ہیں اور بلی تین نوزائیدہ بچوں کے ساتھ ان کی کمر کے ساتھ لگی اطمینان سے بیٹھی ہے.میں نے کہا نانا جان جلدی سے اٹھ جائیں اور کروٹ نہ بدلیں کیونکہ بلی نے سارے گھر میں سے محفوظ ترین جگہ پا کر آپ کے پلنگ پر بالکل کمر کے ساتھ بچے دیئے ہوئے ہیں.یہ حال تھا شفقت کا کہ جانور بھی اتنے مانوس تھے.آپ کی اولا د (1) محترمہ حمیدہ بیگم صاحبه (2) محترم عبد السلام صاحب ( آپ احمدی نہ رہے.آپ کی اولاد کے بارہ میں علم
نہیں ہوسکا.) 53 (3) محترمہ زبیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ کرامت اللہ صاحب ( جماعت احمد یہ جہلم میں آپا جی ز بیدہ بیگم صاحبہ کے نام سے جانی جاتی ہیں.دعا گو اور بزرگ خاتون تھیں.آپ کا انتقال 2001 ءکو جہلم میں ہوا اور وہیں آپ کی تدفین بھی ہوئی.) (4) محترم عبد الحئی صاحب ( آپ کی اولا دراولپنڈی میں ہے.مخلص احمدی تھے ) (5) محترمہ امتہ الحئی صاحبہ وفات آپ کی وفات 11 جون 1966ء کو ہوئی.آپ کا جنازہ آپ کے داماد مکرم ماسٹر کرامت اللہ صاحب، مکرم مولوی عبد الکریم صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ جہلم اور وہاں کی مقامی جماعت کے متعدد دیگر احباب مورخہ 12 جون 1966ء کو صبح ۵ بجے جہلم سے ربوہ لائے.حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے احاطہ مسجد مبارک میں نماز جنازہ پڑھائی.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جنازہ کو کندھا دیا اور پھر جنازہ کے ہمراہ بہشتی مقبرہ تک تشریف بھی لے گئے اور تدفین مکمل ہونے تک وہیں ٹھہرے رہے.قبر تیار ہونے پر حضور ہی نے دعا کروائی.الفضل 14 جون 1966 صفحہ نمبر 1) اس باب کا موادر روز نامہ الفضل میں شائع ہونے والے درج ذیل دو مضامین سے لیا گیا ہے ) (1).حضرت مولوی عبد المغنی صاحب آف جہلم از زبیده بیگم صاحبہ (روز نامہ افضل 22 مئی 1996ء) (2)." حضرت مولوی عبد المغنی صاحب از انیسہ رشید احمد صاحبہ ( مضمون نگارہ آپ کی نواسی ہیں)
54 حضرت مولوی برهان الدين جهلمـ ایک تھے جہلم میں رہتے مولوی بُرہان الدین جو حواری ابتدائی حضرت احمد کے تھے ایک دن جب سیر سے حضرت ہوئے واپس تو وہ احمدیہ چوک میں یوں آپ سے کہنے لگے اپنی حالت ہے عجب کمزور.اے میرے حضور احمدی بن کر بھی ہم جھڈو کے جھڈ وہی رہے گہہ کے پنجابی میں یہ الفاظ پھر وہ رو دیے حضرت مہدی تسلی اُن کی گو کرتے رہے تھے اگر چہ سلسلہ کے سَابِقُونَ الْاَوَّلُون پر ہمیشہ وہ ترقی کے رہے پیچھے پڑے وجی حق نے ان کو شہتیر جماعت تھا کہا پھر بھی اپنے حال پر نادم تھے اور حیران تھے جائے عبرت ہے کہ مجھ سا بے عمل اور نابکار جو کہے کچھ اور کرے کچھ مطمئن پھر بھی رہے ان کو تھی ہر دم تڑپ قرب الہی کی لگی اور ہم بستر میں لیٹے کروٹیں ہیں لے رہے آگ تھی دل میں نہ تھا ان کو کہیں آرام و چین جان جائے حق کی راہ میں بس یہی تھے چاہتے اے خدا بر تُربَتِ او ابرِ رحمت ہا ببار آنکه بود از جان و دل قربان رُوئے دلبرے مرحبا ! کیسے تھے احمد کے یہ اصحاب کبار احمدیت کے لئے سب کچھ ہی قرباں کر گئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مدارج ہوں نصیب حق تعالیٰ اُن سے خوش ہو مغفرت انکی کرے ( حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب.بخار دل.ص 207)
55 امراء ضلع جهلم نمبر شمار نام امیر ضلع عرصه امارت حضرت مولوی عبد المغنی صاحب 1953 تا 11 جون 1966 ابن حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی) مکرم مولوی عبدالکریم صاحب 11 / جون 1966 تا 1968 1974 1968 1980 1974 1992 1980 مکرم حکیم محمد عبد اللہ صاحب مکرم ماسٹرعبدالعلیم صاحب مکرم میاں منظور الحق پال صاحب مکرم سیٹھی ضیاءالحق صاحب 4 جون 1992 تا 20 نومبر 1993 مکرم مرز انصیر احمد طارق صاحب 20 رنومبر 1993 سے تا حال ( حاصل کرده از نظارت علیاء) 1 2 3 4 5 6 7
57 حضرت مولانا برهان الدین جھلمی کی آل اولاد حضرت مولوى عبد المغنى | حمیدہ بیگم عبد السلام ( غیر احمدی ہو گئے اولاد کا علم نہیں ) زبیدہ بیگم انیہ رشید احمد آصفہ عابد صدیقه خانم (چھوٹی عمر میں وفات ہوگئی ) بشری شیروانی ریحان احمد عمران احمد سلطان احمد عبد الحئى امتہ الحی راجہ رضوان احمد راجہ عرفان احمد راجہ عدنان احمد راجه برهان احمد مربی سلسله ( مؤلف كتاب هذا ) سلمان احمد ورده برهان مدیحہ رضوان + ریحان احمد + شمائله رضوان + فضه رضوان محمود احمد فراز احمد + برهان احمد + نمود سحر ناصر احمد طاہر احمد امیر احمد فائز احمد + ماہرہ احمد
تصویر مزار مبارک حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی
احمدیہ مسجد جہلم شہر