Language: UR
مام مودی کی سیاسی شخصیت حمید نظامی کی نظر میں یکے از مطبوعات اتمین فروغ ادب اُردو پاکستانی
فرمودات نظامی " ہم ہوں نا مودودی کو مذہبی سے زیادہ ایک سیاسی شخصیت سمجھتے ہیں اور ہماری رائے میں اُن کے مقاصد دینی نہیں سیاسی ہیں.وہ مذہب کا نام اپنی سیاست میں کامیابی کے لئے استعمال کرتے ہیں.ہیں راخبار نوائے وقت لاہور رولا کو ۱۳ جون شماره ۳ )
حرف آغاز اخبار ” نوائے وقت " کے بانی اور مدیر شہیر مسٹرحمید نظامی تحریک پاکستان کے ہیرو، محاذ جمہوریت کے نڈر اور بے باک قائدا در ملک وملت کے مخلص بہی خواہ تھے.مرحوم کسی فرد ، جماعت اور طبقہ کے نمائندے نہیں پر بری قوم کے ترجمان اور تصویر پاکستان اور اس کی عزت و آبرو کے بہادر محافظ تھے.وہ قوم کی ہر مشکل اور ہر تکلیف پر نگاہ رکھتے اور اس کا علاج سو بچتے رہتے تھے.ان کی مثال اُس آنکھ کی تھی ہو جسم کے ہر عضو کی تکلیف پر بھیگ جاتی ہے.ملت پاکستان اگر ایک جسم کے حمید نظامی اس کی آنکھ تھے اور بقول اقبال ہے مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ حمید نظامی کی آنکھ نے مولانا سید ابو الا علی صاحب مودودی اور ان کی تحریک کو کیا دیکھا کیا پایا ؟ اس اہم بحث کی تفصیل نوائے وقت کے ان چار مرکۃ الار اداریوں سے بآسانی مل سکتی ہے جو مرحوم کے قلم سے مشورہ کے وسلم میں شائع ہوے
اور بغور ملک و قوم کے لئے ہمیشہ مشعل راہ ثابت ہوں گے.یہ بلند پایہ ادارئے پوری قوم کا بہترین علمی وادبی سرمایہ ہونے کے ساتھ ساتھ حمید نظامی کی فکری کاوشوں اور سیاسی بصیرت کی ناقابل فراموش یادگار ہیں.اور اسی لئے عین اس موقعہ پر جبکہ تحریک پاکستان کے اس اولین صحافی اور ملک وملت کے بے باک اور حق گو مجاہد کی ملک بھر میں چھٹی بر سیسی منائی جارہی ہے ہم ان کو ایک مختصر کتابچہ کی صورت میں شائع کرنی کا شرف حاصل کرتے ہیں.دناشر احمد حسن بٹ نواب بازار کلاتھ مارکیٹ پرنٹرز لاہور.فضلی پرنٹنگ سروس -19 ریلوے روڈ لاہور، به مرحوم کا انتقال ۲۵ فروری ستاره که هوا ؟
پہلا ادارية ز جناب مودودی صاحب نے سارہ کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک بیان دیا تھا کہ :- اس کارروائی سے دو باتیں میرے سامنے بالکل عیاں ہو گئیں ایک یہ کہ اجترانہ کے سامنے اصل سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں ہے بلکہ نام اور سہرے کا ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کے جان ومال کو اپنی اغراض کیلئے جوئے کے داؤ پر لگا دینا چاہتے ہیں.دوسرے یہ کہ رات کو بالاتفاق ایک قرار داد کے کرنے کے بعد چند آدمیوں نے الگ بیٹھ کر ساہیانہ کی ہے اور ایک دوسرا ریزولیوشن بطور خود کو سائے ہیں.میں نے محسوس کیا کہ جو کام اس نیت اور طریقوں سے کیا جائے میں کبھی غیر نہیں ہوسکتی اور اپنی اغراض کیلئے خدا اور رسول کے نام سے کھیلنے والے بو مسلمانوں کے سروں کو شطر نج کے مہروں کی طرح استعمال کہیں اللہ کی تاثیر ے کبھی سرفرازہ نہیں ہو سکتے....الخ " دروز نامه تسلیم کیاہور بار جولائی ۱۵ این امیر جماعت اسلامی کے اس بیان پر جناب حمید نظامی نے حسب ذیل اداریہ کھا تھا.
نقاب اٹھ جانے کے بعد " مولانا مودودی صاحت سے بھی بجا طور پر دو سوال کئے جا سکتے ہیں.کیا یہ راز آپ پر آج فاش ہوتے ہیں ؟.اگر آپ پر یہ خود غرضی شرع سے ہی روشن تھی جو جب مسلمانوں کے سروں کو آپ کے قول کے مطابق "شطرنج کے مہروں کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا اسوقت آپنے قوم کو کیوں خبردار نہ کیا کہ اسی دھو کا کیا جا رہا ہے؟ دار مارچ کو گورنمنٹ ہاؤس کے اس جلسہ میں جو امن کی اس کیلئے بلایا گیا تھا.آپ کا رویہ آپ کے اس بیان کے بالکل برعکس تھا اور سلمانوں کے سڑی کو بچانے کیلئے اس کی ہیں پر دستخط کرنے سے اپنے صاف انکار کر دیا تھا.ان کیلئے اس اجلاس کی ناکامی کی ذمداری گر کسی فرد واحد پر عاید کی جاگتی ہے تو وہ آپ ہیں.آخر اسوفت گورنر پنجاب وزیراعلی پنجاب اورلاہور کے ذمہ دار کا یہ عمائد کے جلسہ میں آپ نے اس ناز کو کیوں ناش نہ کیا کہ سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں بلکہ نام اور ہر کا ہے اور خود غرض لوگ اپنی ذاتی امراض کیلئے غذا اور رسولی کے نام سے کھیل رہے اور مسلمانوں کے سردی کو شطرنج کے مہروں کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ؟ آج کا ماہ بعداس انکشاف تو ایک عام آدمی اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ آپکے سامنے بھی سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں نام اور بہرے کا تھا اور آپ اپنی اغراض کیلئے خدا اور رسول کے نام سے کھیل رہے تھے اور آپنے بھی مسلمانوں کے جان ومال کو اپنی اغراض کے لئے جوئے کے داؤں پر لگا دیا.- ب.دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ جو پوری ملت اسلامیہ کی انقلابی قیادت کے
دعویدار اور امارت کے مدعی ہیں.کیا آپ ایسے ہی ڈھلمل یقین آدمی ہیں کہ خود اپنے قوال کے مطابق آپ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ میں نے فوراً یہ رائے قائم کی کہ مجھے اٹھ کر ابھی کنونیشن سے علیحدگی کا اعلان کر دینا چاہیئے.چنانچہ میں نے....لیکن چندی انٹ بعد خود اپنے اپنے بیان کے مطابق اس کے بعد دوسرا خیال میرے ذہن میں آیا.....اور آپ نے اپنی رائے بدلی دی اور آپ کنونشن سے چھٹے رہے اور اب پورے سوا دو سال بعد آپ کو یہ خیال آیا کہ آپ کو مسلمانوں کو اس خطرہ کے خبر دار کر دینا چاہیے.خود ہی فرمائیے کہ ایسے ڈھلمل یقین اور مذہذب کیریکٹ کے لیڈر کے متعلق اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ وہ آئندہ کسی ایسے ہی کرائسس کند وقت قوم کی کشتی کو عین منجدھار میں نہ جا ڈبوئے گا " ر اخبار نوائے وقت لاہور ولائل پور در جولائی شفاء ص۲۳)
متا صالح دوسرا اداریہ جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے پاکستان ، مجلوا عمار جمعیت اہل حدیث اور مجلس تحفظ ختم نبوت (بالخصوص موں نا احمد علی صاحب.سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب اور سول نامر تضی احمد مکیش صاحب کے مابین جو جھگڑا جاری ہے بہت سے اختبارات نے اس پر افسوس کا اظہار کیا اور فریقین سے یہ اپیل کی کہ اس ناگوار بھاڑے کو ختم کریں.یہ اپیل غیر معدہ ثر ثابت ہوئی اور اب نوبت مقدمہ باندی تک تیا بہنیں ہے.33 صالحین " کے تر جمان اخبارات نے اس سلسلہ میں عجیب غریب کردار کا مظاہرہ کیا ہے اور نہ مروت مولانا احمد علی وغیرہ بزرگوں کو کفن چور اور چور" کے خطابات سے سرفرانہ کیا معند الحت کی اپیش کر نے والے عناصر کے متعلق بھی یہ لکھا کہ وہ چوروں کے بھائی بند ہیں.یہ انداز گفتگو اسلامی چھوڑ ، عام شریف آڈیوک انداز گفتگو بھی نہیں.مگر صالحین کا انجبر اور غرور انہیں اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا کہ وہ اپنے سوا کسی دوسرے شخص کے متعلق بھی اس حسن ظن نے سکین کر دہ بھی کسی معاملہ میں ایماندارانہ رائے رکھ سکتا ہے.آج سے کام نے یہ "
جماعت اسلامی کے اخبار نے مجلس احرار پر طعن و تشنیع اور دشنام دبستان کے گولے بر سلاتے ہوئے ہیں اور نوائے وقت پر مفت میں ہی گالیوں کی بوچھاڑ کر دی ہے.وجہ شکایت یہ بیان کی گئی ہے کہ آج سے کئی سال پہلے نوائے وقت" نے مولانا مودودی کے اس بیان پر کیوں نے دے کی تھی جس میں آپ نے جہاد کشمیر میںشرکت کو حرام قرار دیا تھا.صالح معاصر انتہائی بے حیائی کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ اس جہاد کا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا ! معاصر یہ سوال نہ ہی اٹھاتا تو اچھا تھا.مولانا مودودی کے اس بیان پر لے دے صرف نوائے وقت نے ہی نہیں کی تھی پاکستان کے تمام اخبارات نے کی تھی.معاصر اب اس کا جواب دے کہ کیا مولانا مودودی نے نے جہاد کشمیر کو سبوتاثر کرنے کی کوشش کی تھی یا نہیں ؟ جب ہزاروں مسلمان اپنی جانیں اس جہاد میں قربان کر رہے تھے کیا مولانا مودودی نے یہ فتوی دیا تھا یا نہیں کہ اس جہاد میں شرکت حرام ہے ؟ اور کیا اس فتویٰ کا قطعی نتیجہ یہ نہیں تھا کہ اس جہاد میں شہید ہونے والے مسلمان حرام موت مرے ہیں.ہم آج پھر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ منانا اوروردی نے جہاد کشمیر کو سبوتاثر کرنے کی کوشش کی اور اگر یہ جہاد نا کام رہا تو اس ناکامی میں مولانا مودودی کا بھی حصہ ہے.ہم یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ مولانا کا ر فعل اضطراری
نہیں تھا بلکہ اُن کی پاکستان دشمن پر مبنی تھا.مولانا کو پاکستان سے کر یہ تھی کہ اس ملک کے بانی ہونے کا سہرہ قائد اعظم کے سرکیوں ہے ؟ میرے سرکیوں نہیں؟ حالانکہ یہ سہرہ ان کے سر نہیں باندھا جا سکتا تھا کیو نکہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی نے نہ صرف تحریک پاکستان میں کوئی کام نہیں کیا تھا بلکہ اس کی مخالفت کی تھی اور جماعت اسلامی کے میرٹ کو یہ حکم دیا تھا کہ پاکستان کی بنیاد پر ہونے والے عام انتخابات میں غیر جانبدار رہیں.یعنی پاکستان کے حق میں وٹ نہ دیں.اس انتخاب میں پاکستان کے بھی میں ووٹ نہ دینے کا مطلب پاکستان کے خلاف ووٹ دنیا تھا.ہم الزام لگاتے ہیں کہ قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے خلاف مولانا مودودی کا بخض آج بھی اسی طرح قائم ہے.ہم الزام لگاتے ہیں کہ مولانا کی تحریک ہر گنہ ایک اسلامی اور دینی تحریک نہیں.وہ حسن بن صباح کی طرح سیاسی ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں اور اُن کا مقصد دین کی سربلندی کی بجائے سیاسی اقتدار کا حصول ہے.ہم مولانا مودودی کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ مولانا احمد علی اور مولا نا میکش کی طرح ہمارے خلاف بھی ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ چلائیں اور عدالت میں ان الزامات کی صفائی پیش کریں.د نوائے وقت لاہور ولائل پور ۱۵ جولائی ۹۵۵ مت)
11 تیسرا اداریہ کمیونسٹوں یا آزاد پاکستان پارٹی اور جماعت اسلامی میں کیا نقد مشترک ہے ؟ ایک گردہ خدا کے وجود تک کا منکر ہے اور مذہب کو افیون سمجھتا ہے.دوسرے فریق کا نصب العین یہ ہے کہ ملک میں ایک ایسی حکومت قائم کی جائے جس کی بنیاد ہی مذہب پر ہو.یعنی اصولاً دونوں ایک دوسرے کے بدترین دشمن ہیں.مگر کافی عرصہ سے ان دونوں میں گٹھ جوڑ ہے یہاں تک کہ امیر جماعت اسلامی کے اعزا نہ میں جماعت اسلامی کے مرکز میں اسکی مرکزی دفتر کی طرف سے دعوت افطار دی جائے تو مہمانوں میں اکثریت کمیونسٹ کارکنان کی ہوتی ہے جو سرے سے نمانہ روزہ ہی کے قائل نہیں.نوائے وقت لاہور ، لائل پور ۲۷ جولائی علاء مت)
چوتھا اداریہ لیہ مخالفت نہیں تو کیا ہے؟ معاصر نوائے پاکستان نے اپنے ایک ادارتی مقالہمیں یہ لکھا تھا.کہ مولولی مودودی صاحہ نے اب ایک یونٹ کے منصوبہ کی بھی مخالفت شروع کر دی ہے.اس پر مولوی صاحب کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا جو صرف بحرف درج ذیل ہے :- بعض اختیارات میں یہ خبر شائع ہوتی ہے کہ میں نے حیدر آباد میں وحدت مغربی پاکستان کی مخالفت کی ہے.مجھے افسوس کیساتھ کہنا پڑ تا ہے کہ اس خبر میں میرے خیالات کی غلط تر جمانی کی گئی ہے.میں نے آج تک اس کی خلاف نہ کوئی اظہار رائے کیا ہے اور نہ اسکی موافقت ہی کی ہے.دراصل جو بات میں نے حیدرآباد میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی تھی وہ یہ تھی کہ ایک یونٹ یا دس یونٹ کا مسئلہ کوئی تحقیقی اہمیت نہیں رکھتا.حقیقی اہمیت میں چیز کی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں ایک صحیح اسلامی نظام قائم کر کے مسلمانوں کے رشتہ اخوت کو مضبوط کر دیں.اور ہر باشندہ پاکستان کو یہ
اطمینان وادی کہ از روئے انصاف اسکی عبد الحقوق محفوظ ہیں.یہ بات اگر حاصل ہوگئی تو ایک یونٹ بھی مفید ہو گا اور دس یونٹ بھی رہیں تو نقصان دہ ثابت نہ ہو سکیں گے.ورنہ مصنوعی طور پر وحدت پیدا کرنے کی کوششوں کا اچھا نتیجہ بر آمد نہیں ہو سکتا ہے.ہم حیران ہیں کہ اگر یہ وصدرت مغربی پاکستان کی مخالفت نہیںتو مخالفت کے کہتے ہیں؟ مودودی صاحب فرماتے ہیں کہ اول تو یہ سکہ کوئی حقیقی اہمیت ہی نہیں رکھتا.مولوی صاحب کے حد سے بڑھا ہوا تکبر انا ، اور نفس پرستی ہی ایسی بات اُن کے منہ سے نکلوا سکتے ہیں ورنہ معمولی عقل کا آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ کم اب کم اسوقت ملک بالخصوص مغربی پاکستان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے لیگ مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ کی تو کوئی حقیقی اہمیت ہی نہیں حقیقی اہمیت نائب قربانی کی کھانوں کے مسلک کو حاصل تھی جو اس کیلئے اس کا دروازہ کم کھانا بھی ضروری بھا گیا.پھر یہ ارشاد ہوتا ہے کہ ایک یونٹ اور دس یونٹ میں کوئی فرق نہیں ایک یونٹ بن گی تو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچے گا اور دس یونٹ بن گئے تو کوئی خاص نقصان نہیں ہو گا لیتی ایک طرف یہ کہ صحیح اسلامی نظام یہ دوسری طرف یہ کہ ایک یونٹ سے رکوئی اور فائدہ نہ سہی ، اسلامی نظام کے نظریہ کو تقویت حاصل نہیں ہوگی اور سندھی پٹھان، بلوچی، بہاولپوری اخیر و یر ی اور قبائلی اس قومیتوں کو مان کر انکی بنیاد پر دس یونٹ بنائیے جائیں تو کوئی اور نقصان نہ سہی ، اسلامی نظام کے نظریہ کوبھی کوئی نقصان نہ پہنچے گا.ایک ہی سانس ہے.یہاں اخبار میں عبارت اڑگئی ہے (ناقل)
۱۴ یں دو باتیں کوئی ایسا شخص ہی کہ سکتا ہے جویا تو پرلے درجے کا احمق ہو یاحسن بن صباح یا راسپوٹین کی طرح تیار آخری فقرہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اور مصنوعی طور پر وحدت پیدا کرنیکی کوششوں کا موئی ا نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا یعنی حد کو فون کیا اور یہ گلی بھی دیدی که اسکان تیرا چھا نہ ہوگا یا پر بھی یہ ارشاد ہے کہ میں نے آجنگ مور کے خلاف اظہار رائے نہیں کیا.افسوس کہ پاکستان کو آٹھ برس گزر گئے مودودی صاحب نے ابھی تک مسلمان عوام کا یہ قصور معاف نہیں کیا کہ انہوں نے مودودی صاحب کی بجائے قائد اعظم کی بات کو پانی با در است کیوں بنایا.گزشتہ آٹھ سالوں میں ایک مرتبہ بھی تو پاکستان کے حق میںکوئی کلمہ خیرا کی زبان فیض ترجمان سے نہیں نکلا.پاکستان بہت بڑا سہی مگر آٹھ سالوں میں کوئی بات تو ایسی ہوئی ہوگی وجود حوصلا افران کی سخت ہوتی مگر مولوی مودودی صاحب جب بھی بولیں گے ایسی بات کہیں گے سے پاکستان کے مفاد پر کاری ضرب پڑتی ہو.عین اس کا نہ میں جب ہزاروں مجاہدین جہاد آزادی کشمیر میں حصہ لے رہے تھے اور سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے مودودی صاحب نے یہ نتوی دیا کہ یہ جہاد ہے ہی نہیں اور اس لڑائی میں شرکت حرام ہے.مگر یو شخص پاکستان کی لڑائی میں شرکت حرام سمجھتارہا ہو اس سے یہ توقع ہی عبث تھی کہ وہ جہاد آزادی کشمیر کی حمایت کریگا.پاکستان کے متعلق بھی لوی صاحب کی روش اسی قسم کی تھی کہ میں اس مسئلہ کی کوئی حقیقی اہمیت ہی نہیں سمجھتا.پھر یہ فرمایا کہ مسٹر جناح اور مسلم لیگ والے اسلام کو ایک چھوٹے سے خطے میں محدود کر دینا چاہتے ہیں.میں سارے ہندستان میں اسلام کے لیے کا خواہاں ہوں پھر یہ حکم ہوا کہ پاکستان کے سوال پر ووٹنگ کے وقت غیر جانبدار
ہو جاؤ اور یہ کم یہ جانے کے باوجود دیا گیا کہ اس وٹنگ پر ہی پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہوگا.اسلئے پاکستان کو ووٹ نہ دینے کا مطلب پاکستان کے خلاف ووٹ دیا ہے.پاکستان کی اس اشتد مخالفت کے با وجود جب پاکستان قائم ہو گیا تو مولوی مودودی صاحب جو سائے ہندوستان میں اسلام کو غالب بنانے کے عزم کا اظہار فرمایا کہ تے تھے بھاگ کر سب سے پہلے پاکستان چلے آئے.مولانا آزاد، سید حسین احمد مدنی صاحب مولوی حفیظ الرحمن صاحب نے بھی پاکستان کی مخالفت کی تھی مگر جب پاکستان قائم ہوگیا تو ان میں گہر ایک نے یہ کہا کہ پاکستانی مسلمانوں کو اپنا اپنا وطن مبارک ہو ہم اسکی ترائی کیلئے دعا کرتے ہیں مگر ہم مہندستان میں ہی یہ ہیں گے اور ہندوستانی مسلمانوں کی خدمت کر دیں گے مگر پرانے یم با علم میں علیہ اسلام کے دراجی مودودی صاحب کے نائب جناب نصراللہ خان عزیز گشت کے تیسرے ہفتہ میں ہی سولی سیا کہ ٹریٹ میں سلم لیگی وزیروں کے دفاتر کا طواف کرتے دیکھے گئے کہ مولوی مودودی صاحب کو مہندستان سے پاکستان پہنچانے کیلئے ٹوکی عنایات ہو جائے.جماعت اسلامی کی ایک شاخ ہندوستان میں بھی رکھی گئی مگر سیکونی من دوستان میں اس جماعت کا موقف اسکی امیر کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ ہم ایک غیر فرقہ دارانہ جماعت ہیں اور بلا امتیانہ مذہب ملت سب کی خدمت کرنا چاہتے ہیں یعنی سیکونہ اور ا دینی ہندستان میں تو اس ملک کے وفادار اور خدائی خدمت گار با مگر پاکستان میں جو بہر حال مسلمانوں کا ملک سے بخدائی فوجدار اور اس ملک کی بہتری کی سر تجویز کے مخالف (نوائے وقت لاہور ولائل پور ، رستمیر ا ء )
14 جمیت نظامی نتیجه تفکر فردوسی اسلام حضرت ابو الاثر حفیظ جالندھری) ی فروٹک میں ہے جس کی موت کا ماتم گذشتہ سال رکھ آئے تھے جبکو قبریں ہم مجھے خدا کی قسم مجھ کو مصطفی کی قسم یہ فر زندہ ہے.مانند قائد السم فرد عظیم روح.نہیں زیر قالب خاکی قلوب پر ہے محیط اب یہ نور اخلا کی.تحمید مرد مجاہد - حمید فرد فریار حمید - تیرہ شبی میں فرید صبح امید حمید - صدق و صفا کا مبلغ توحید حمید - معرکہ کہ بلا کا تازہ شہید شہید کر نہیں جاتے ہیں قران ہے حمید زندہ ہے بہانہ ہے اورانسان ہے حفیظ دیکھ رہا ہوں یہ کیا میں آئینہ دار ہر اک محاذ پر موجود ہے علم بردار.جہاں بھی قلب نظر پر عدد کی ہے یلغار حمید اسی کے مقابل ہے یہ سیر پر کار جہاں بھی نظم عوامی کو دیکھتا ہوں میں وہیں حمید نظامی کو دیکھتا ہوں میں د اشاعت خاص نوائے وقت ۲۴ فروری ۱ء ص )