Masihi Anfas

Masihi Anfas

مسیحی انفاس

عیسائیت کے مروّجہ عقائد کے ابطال میں حضرت مسیح موعود کے فرمودات
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
عیسائیت

عیسائیت کے مروجہ عقائد کے ابطال میں کاسر صلیب حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے فرمودات سے مرتب کتاب ہذا نے بڑی محنت سے مواد الگ کیا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی خزائن میں متفرق مقامات پر عقیدہ الوہیت اور ابنیت مسیح کے رد  میں، تثلیث، کفارہ، مسیح کو پیش آنے والے واقعہ صلیب، آپ کے پرخطر مگر  کامیاب سفر ہجرت وغیرہ  خاطر خواہ تحقیقی مواد موجود ہے، مرتب کتاب ہذا نے اس مواد کو متعدد ابواب میں تقسیم کرکے بڑے سلیقے سے مرتب کیا ہے یوں کسر صلیب کے مشن میں فتح نصیب جرنیل مسیح موعود کے دلائل کی جھلکیاں قارئین کو ایک جگہ میسر آگئی ہیں۔ کتاب کے آخر پر ایک انڈیکس بھی پیش کیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

مسیحی انفاس عیسائیت کے مروجہ عقائد کے ابطال میں حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السّلام کے فرمودات مؤلّفه ہادی علی چوہدری مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ

Page 2

جملہ حقوق محفوظ

Page 3

مسیحی انفاس عاجز نے پیارے آقا حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اس کتاب کا نام رکھنے کی درخواست کی اور اس سلسلہ میں چند نام پیش کئے جن میں سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا نام "مسیحی انفاس " پسند فرمایا.فالحمد للہ علی ذلک - المولف

Page 4

کی احمدیت پہلی صدی کی آخری کتاب

Page 5

کاسر صلیب ، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السّلام (۶۱۸۳۵ - ۱۹۰۸ء)

Page 6

Page 7

انتساب استاذی المکرم سید میر داؤد احمد نور اللہ مرقدہ سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ کے نام جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عطا کردہ روحانی خزائن میں سے مختلف عناوین کے تحت مواد جمع کیا اور کتاب ”مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریروں کی رو سے " تالیف کی اور ہمارے لئے اس میدان میں ایک راہنما طریق قائم کیا.اے اللہ ! ان پر ہمیشہ اپنے پیار کی نظر کر.آمین خاکسار ہادی علی چوہدری 1

Page 8

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَهُ عِوَجاً قيما ليُنذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِّن لَدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا مَّكِثِينَ فِيهِ أَبَدًا وَيُنذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا لا مَّا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لَا بَابِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ على اثرهم إن لم يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًات سورة الكهف

Page 9

ترتیب دیباچه مکاشفہ کی شہادت ہی باب اول کسر صلیب باب دوم رو الوہیت مسیح...حمد باب سومرو ابنیت مسیح ہ باب چهارم رو مثلث برو کفاره کرے کہتے کہے کرید کرید کر یہ عہد کرے کریے عہد کرے باب ششم حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیب سے نجات اور ہجرت محترف و مبدل کتب به هشتم.....تعلیم (موازنه ) باب نہم: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح علیہ السلام (موازنه ) باب و ہم حضرت مسیح علیہ السلام کے نشانات ، منجزات اور پیش گوئیاں باب یاز و هم : باب یازو ہم پولوس اور عیسویت حمد باب دواز و هم حضرت مسیح علیہ السلام کی بن باپ پیدائش باب سیز دہم بائبل اور اناجیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں : پیش گوئیاں حمد باب چہار دہم متفرق حمد باب پانز و ہم توحید کی فتح ☆☆☆ مفصل انڈیکس کتاب کے آخر پر ملاحظہ فرمائیں

Page 10

Page 11

دیباچه از قلم تکریم و محرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ) و سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ریو آخری زمانہ میں مذاہب عالم ایک موعود کے منتظر تھے.حضرت عیسی علیہ السّلام نے اپنے دوبارہ آنے کی خبر دی تھی اور حضرت سید الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت میں سے ایک ایسے وجود کی آمد کی پیش گوئی کی تھی کہ جس نے صفات مسیحیت و مہدویت کا جامع ہونا تھا.اسی لئے آپ نے اسے عیسی ابن مریم اور مہدی کے نام سے سرفراز فرمایا.پیش گوئیوں کے مطابق اس موعود کے دور میں اسلام کو تمام مذاہب پر دلائل وبراہین اور زندہ نشانوں کے لحاظ سے غلبہ نصیب ہوتا تھا.اسلام کے اس غلبہ کا کسی مذہب یا کسی عقیدہ کو زیر کرنا مقصد نہیں تھا بلکہ ہر مذہب کو ایک ایسے نقطہ وحدت پر جمع کرنا تھا جو ہر مذہب کی اصل غرض و غایت تھی تاخد اتعالیٰ کی توحید زمین پر بھی اسی طرح قائم ہو جائے جس طرح آسمانوں پر قائم ہے اور اقوام عالم توحید باری تعالیٰ کے مرکزی نقطہ پر جمع ہو کر قوم واحد بن جائے.ایک ہی خدا ہو اور ایک ہی دین.قیام توحید کے لئے سب سے بڑی اور اہم مہم وہ ہے جس کا قرآن کریم نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَنَا لَقَدْ جنتُمْ شَيْئًا إِذَا هُ نَكَادُ السَّمَوَاتُ يَنْفَطَرْنَ مِنْهُ وتنشق الأَرْضُ وَتَخِرُ الْمَالُ هَذا ما أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا برم سر وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا له إِن كُلُّ مَن فِي ١٤ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا له سورة مرية ترجمہ : اور یہ (لوگ) کہتے ہیں کہ (خدائے ) رحمان نے بیٹا بنالیا ہے.(تو کہہ دے) تم ایک بڑی سخت بات کہہ رہے ہو.قریب ہے کہ (تمہاری بات سے ) آسمان پھٹ کر گر جائیں اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر

Page 12

و (زمین پر) جاپڑیں.اس لئے کہ ان لوگوں نے (خدائے ) رحمان کا بیٹا قرار دیا ہے اور ( خدائے رحمان کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ کوئی بیٹا بنائے.کیونکہ ہر ایک جو آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (خدائے ) رحمان کے حضور غلام کی صورت میں حاضر ہونے والا ہے.پس ایسی قوم جو ان عقائد کی حامل ہے اس کو خدائے واحد دیگانہ کی طرف بلانے کے لئے اور خدائے رحمان کی طرف بیٹا منسوب کرنے وغیرہ عقائد کے رد کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موعود کی علامات میں سے ایک علامت یکسر الصلیب “ بیان فرمائی کہ اسے اس صلیب کو توڑنا ہے جس پر ایسے عقائد کی بنیاد ہے.مخبر صادق حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق ملک ہند کے صوبہ مشرقی پنجاب کے ایک قصبہ قادیان سے ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ اعلان کیا کہ اقولُ وَلَا اَحْتَى فَإِنِّي مَسِيحُه وَلوَعِنْدَ هَذَا القَوْلِ بِالسَّيْفِ أَنْحَرُ میں بانگ دہل یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں ( خدا تعالیٰ کی طرف سے ) صحیح ہوں اور مجھے کسی قسم کا خوف نہیں خواہ اس اعلان کی وجہ سے میں تلوار کے ساتھ ذبح کیا جاوں.نیز آپ نے کسر صلیب کے لئے ان الفاظ میں اپنے عزم کا اظہار کیا کہ وَاللَّهِ إِلَى أَحْسِرَنٌ صَلِيبَكُمْ وَلوَ مُرْقَتْ فَتَرَاتٌ حِسْمِي وَأَكسَر خدا کی قسم! میں تمہاری صلیب کو توڑ کے رہوں گا خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے اور میرے جسم کو ذروں میں پیس دیا جائے.

Page 13

| ز آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ عیسائیت کے مروجہ عقائد کا قرآن کریم، احادیث نبویہ، بائبل، انا جیل، تاریخ، طب، منطق اور معقولی دلائل سے رو پیش کیا اور اپنے ان دلائل پر قوانین قدرت کو بھی گواہ ٹھہرایا اور ان براہین کو خدا تعالیٰ نے تائیدی نشانوں کے ذریعہ غلبہ عطا کیا.اس طرح تو حید کے قرآنی تصور کے سامنے عیسائیوں کے مروجہ عقائد بالکل بے حقیقت و بے حیثیت ہو گئے.اپنے ان عقائد کے دفاع کے لئے مسیحی مناروں نے بہت زور لگایا اور ہر حربہ آزمایا کہ کسی طرح وہ اس ٹوٹتی ہوئی صلیب کو سہارا دے سکیں مگر تقدیر الہی ان کا ساتھ نہ دینے پر مامور تھی.پادریوں کی مسلسل ناکامی سے کون آگاہ نہیں.یہاں صرف ایک بڑے پادری بشپ جارج ایلفرڈ لیفرائے

Page 14

(۱۸۵۴، ۱۹۱۹ ) کی ہزیمت کا ذکر کافی ہے جو ایک مورخ حافظ نور محمد نقشبندی چشتی مالک اصبح المطابع دہلی نے اپنے شائع کر وہ قرآن کے دیباچہ میں صفحہ ۳۰ پر یوں بیان کیا.کہ حضرت اسی زمانہ میں پادری لیفر ائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا.ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا.عیسی کے آسمان پر جسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسیٰ جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو.اس ترکیب سے اس نے لیفرائے کو اتنا تنگ کیا کہ اس کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست د دی.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے دلائل میں کتنا وزن ہے ، صحف سابقہ اور کتاب اللہ قرآن کریم نے آپ کی کیا تائید کی، تاریخ آپ کی کس قدر مؤید ہے، نظائر و قوتین قدرت نے آپ کی نصرت کے لئے کیا سامان مہیا کئے، نور عقل نے آپ کے براہین کو کس طرح تابناک بنایا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تازہ نشانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کس شان کے ساتھ آپ کا معین و مدد گار ہوا، یہ سب آپ آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے.انشاء اللہ.لیکن اہل علم اور صاحب فکر و تدبر اصحاب نے آپ کے اس عظیم الشان کام کا جو جائزہ لیا اس کی ایک دو نظیریں پیش کی جاتی ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ آپ نے اپنے مفوضہ کام کو کس عظمت اور شوکت کے ساتھ پورا فرمایا.بر صغیر پاک و ہند کے ایک ممتاز ادیب اور مشہور مذہبی و قومی رہنما مولانا ابو الکلام آزاد نے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے اس جہاد کا ان حقیقت افروز الفاظ میں ذکر کیا کہ : وو وہ وقت ہر گز لوح قلب سے نیا منسیا نہیں ہو سکتا جب کہ اسلام مخالفین کی

Page 15

یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے اسباب ووسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سسک رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے نہ کر سکتے تھے.ایک طرف حملوں کی امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دنیا اسلام کی شمع عرفانی کو سر راہ منزل مزاحمت سمجھ کے مٹادینا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی زبر دست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گری کے لئے ٹوٹی پڑتی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ تو پوں کے مقابل پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مدافعت کا قطعی وجود ہی نہ تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا تھا سے وہ ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پرخچے اڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطر ناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا دھواں طلسم ہو کر اڑنے لگا غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنیوالی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گا.ee اخبار وکیل " امرتسر مئی ۱۹۰۸ بحواله بدر قادیان ۱۸ جون ۹۱۰۸ بر صغیر کے ایک اور نامور ادیب اور محقق مرزا حیرت دہلوی نے اخبار "کر زن گزٹ “ کیم جون ۱۹۰۸ء میں لکھا.مرحوم کی وہ اعلی خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں.اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی.نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ ایک محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا.جو بے نظیر کتابیں آریوں اور

Page 16

عیسائیوں کے مذاہب کی رد میں لکھی ہیں اور جیسے دندان شکن جواب مخالفین اسلام کو دیئے گئے آج تک معقولیت سے ان کا جواب الجواب ہم نے تو نہیں دیکھا.اس کے قلم تو میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ سارے ہند میں اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں." کتاب زیر نظر میں عزیزم محترم ہادی علی چوہدری مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مهدی معبود علیہ السلام کے کسر صلیب" کے سلسلہ میں بیان فرمودہ دلائل کو مختلف ابواب کے تحت جمع کر دیا ہے تا کہ ایک قاری کوہ تمام دلائل یکجائی صورت میں میتر آجائیں اور اس کے لئے عیسائیت کے مروجہ عقائد کو ہر زاویہ نگاہ سے دیکھنے اور پرکھنے میں آسانی ہو.اس لحاظ سے عزیزم محترم ہمارے دلی شکریہ کے مستحق ہیں اور انہیں اس محنت کی داد دینی پڑتی ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا مطالعہ کر کے ابطال عیسائیت پر مواد جمع کر دیا ہے اور بڑی دیدہ ریزی سے اور احتیاط سے ان روحانی خزائن سے یہ لعل و جواہر چن کر اکٹھے کئے اور پھر انہیں زیور اشاعت سے مزین کیا.اب لعل و جواہر کا یہ خوبصورت، دیدہ زیب اور انمول مجموعہ "مسیحی انفاس کی صورت میں آپ کے سامنے ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جاری ہونے والے اس چشمہ سے سیراب اور فیضیاب ہونے کی توفیق بخشے.آمین والسلام خاکسار ملک سیف الر حمان

Page 17

عرض حال کتاب " " میں کسر صلیب کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے بیان فرموده دلائل و براہین کو ایک مجموعہ کی شکل میں مرتب کرتے وقت اس امر کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ کوئی تحریر یا اقتباس جو اس مضمون سے تعلق رکھتا ہو، رہ نہ جائے.البتہ اس مجموعہ کے مطالعہ سے بعض جگہوں پر عبارتوں کے تکرار کا گمان ہوتا ہے لیکن معمولی سے مدتر سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک ہی بات کو یا ایک ہی واقعہ کو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے زیر بحث لایا گیا ہے اور اس سے مختلف استنباط کئے گئے ہیں.اس لئے ایسی عبارتوں کا جو بظاہر مکرر نظر آتی ہیں، درج کر نالا بدی تھا.اس کے باوجود بعض تحریریں ایسی بھی تھیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک سے زائد مرتبہ بیان فرمایا ہے اور ان کا مال بھی ایک ہی ہے.ان کو اس مجموعہ کی طوالت کے خوف سے اس میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ ان کے صرف حوالے درج کر دیے گئے ہیں تاکہ ان دلائل کا ذکر بھی قائم رہے اور تکرار بھی نہ ہو.بہر حال کسر صلیب کے مضامین پر مشتمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام تحریروں اور فرمودات کو جمع کرنے کی سعی کی گئی ہے.اس کے باوجود بھی اگر کوئی تحریر یا ارشاد اس میں شامل کرنے سے رہ گیا ہو تو قارئین سے التماس ہے کہ اس کی نشاندہی کر کے ممنون فرمائیں تاکہ آئندہ اسے بھی شامل کرنے کے بارے میں غور کر لیا جائے.ایک اور بات کا ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس کتاب میں تمام حوالہ جالت الا ما شاء اللہ لندن سے چھپنے والے روحانی خزائن کے سیٹ سے لئے گئے ہیں جو دراصل الشرکة الاسلامیہ ربوہ کے زیر اہتمام شائع شدہ سیٹ کا عکس ہے.خاکسار طالب دعا ہادی علی چوہدری - مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ ۲۲ باروخ ۶۱۹۸۹ امان ۱۳۶۸ رهش i

Page 18

Page 19

1 مکاشفہ کی شہادت اس نے مجھے اس بات پر اطلاع دی ہے کہ در حقیقت یسوع مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے.اور ان میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں.اور ان میں سے ہے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا.اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے.لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے.ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کاملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں.اور خدا کی عجیب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ایک یہ بھی ہے جو میں نے عین بیداری میں جو کشفی بیداری کہلاتی ہے.یسوع مسیح سے کئی دفعہ ملاقات کی ہے.اور اس سے باتیں کر کے اس کے دعوے اور تعلیم کا حال دریافت کیا ہے.یہ ایک بڑی بات ہے.جو توجہ کے لائق ہے.کہ حضرت یسوع مسیح ان چند عقائد سے جو کفارہ اور تثلیث اور اہمیت ہے ایسے منتظر پائے جاتے |

Page 20

ہیں کہ گویا ایک بھاری افتراء ان پر کیا گیا ہے.وہ یہی ہے.یہ مکاشفہ کی شہادت بے دلیل نہیں ہے.بلکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی طالب حق نیت کی صفائی سے ایک مدت تک میرے پاس رہے.اور وہ حضرت مسیح کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے.ان سے باتیں بھی کر سکتا ہے اور ان کی نسبت ان سے گواہی بھی لے سکتا ہے.کیونکہ میں وہ شخص ہوں جس کی روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے.تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۲۷۲ ۲۷۳

Page 21

باب اوّل کسر صلیب هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ على الدين كله ولو كره المشركون سورة الصف

Page 22

یہ مقام دارالحرب ہے پادریوں کے مقابلے میں.اس لئے ہم کو چاہئے کہ ہر گز بر کار نہ بیٹھیں.مگر یادر کھو کہ ہماری حرب ان کے ہمرنگ ہے.جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں اس طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہئے.اور وہ ہتھیار ہے قلم.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا.اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۲ مور خد ا جون ۱۹۰۱ صفحه ۲ تذکرہ - صفحہ ۷۳ حاشیہ

Page 23

1 3 سنت اللہ کے موافق یہ عاجز صلیبی شوکت توڑنے کے لئے مامور ہے یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس خدمت پر مقرر کیا گیا ہے جو کچھ عیسائی پادریوں نے کفارہ اور تثلیث کے باطل مسائل کو دنیا میں پھیلایا ہے اور خدائے واحد لا شریک کی کسر شان کی ہے.یہ تمام فتنہ بچے دلائل اور روشن براہین اور پاک نشانوں کے ذریعہ سے فرو کیا جائے.اس بات کی کس کو خبر نہیں کہ دنیا میں اس زمانہ میں ایک ہی فتنہ ہے جو کمال کو پہنچ گیا ہے اور الہی تعلیم کا سخت مخالف ہے یعنی کفارہ اور تثلیث کی تعلیم جس کو صلیبی فتنہ کے نام سے موسوم کرنا چاہئے کیونکہ کفارہ اور تثلیث کی تمام اغراض صلیب سے وابستہ ہیں.سوخدا تعالی نے اسمان پر سے دیکھا کہ یہ فتنہ بہت بڑھ گیا ہے اور ر یہ زمانہ اس فتنہ کے تموج اور طوفان کا زمانہ ہے.پس خدا نے اپنے وعدہ کے موافق چاہا کہ اس صلیبی فتنہ کو پارہ پارہ کرے.اور اس نے ابتدا سے اپنے نبی مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ خبر دی تھی کہ جس شخص کی ہمت اور دع اور قوت بیان اور تاثیر کلام اور انفاس کافرکش سے یہ فتنہ فرو ہو گا.اس کا نام اس وقت عیسیٰ اور مسیح موعود ہو گا.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ ۱ صفحه ۴۶ اس عاجز کو مسیح کی فطرت سے ایک خاص مشابہت ہے اور اس فطرتی مشابہت کی وجہ سے مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے.سو میں صلیب کے توڑنے کے لئے بھیجا گیا ہوں.میں آسمان سے اترا ہوں ان پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے.جن کو میرا خدا جو میرے ساتھ ہے میرے کام کو پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا بلکہ کر رہا ہے اور اگر میں چپ بھی رہوں اور میری قلم لکھنے سے رکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اترے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اور ان کے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کے لئے دئے

Page 24

گئے ہیں.فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۱ حاشیہ آخری زمانہ میں عیسائی مذہب اور حکومت کا زمین پر غلبہ ہو گا اور مختلف قوموں میں بہت پر سے تنازعات مذہبی پیدا ہوں گے اور ایک قوم دوسری قوم کو دبانا چاہے گی اور ایسے زمانہ میں صور پھونک کر تمام قوموں کو دین اسلام پر جمع کیا جاویگا یعنی سنت اللہ کے موافق آسمانی مصلح اینگا ر حقیقت اسی مصلح کا نام مسیح موعود ہے کیونکہ جبکہ فتنہ کی بنیاد نصاری کی طرف سے ہوگی اور خدا تعالیٰ کا بڑا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی صلیب کی شان کو توڑے.اس لئے جو شخص نصاری کی دعوت کے لئے بھیجا گیا بوجہ رعائت حالت اس قوم کے جو مخاطب ہے اس کا نام مسیح اور عیسی رکھا گیا اور دوسری حکمت اس میں یہ ہے کہ جب نصاری نے حضرت عیسی کو خدا بنایا اور اپنی مفتریات کو ان کی طرف منسوب کیا اور ہزار ہا مکاریوں کو زمین پر پھیلایا اور حضرت مسیح کی قدر کو حد سے زیادہ بڑہا دیا تو اس زندہ اور وحید اور بے مثل کی غیرت نے چاہا کہ اسی امت سے عیسیٰ ابن مریم کے نام پر ایک بندہ کو بھیجے اور کرشمہ قدرت کا دکھلاوے تا ثابت ہو کہ بندوں کو خدا بنانا حماقت ہے وہ جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے اور مشت خاک کو افلاک تک پہنچا سکتا ہے.شہادت القران.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۲ صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں مسیح موعود کا نام کا سر الصلیب رکھتا ہے اور در حقیقت بچے مسیح موعود کی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ علامت ٹھہرائی ہے کہ اس کے ہاتھ پر کسر صلیب ہو.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح موعود ایسے زمانہ میں آئیگا جبکہ ہر طرف سے ایسے اسباب پیدا ہو جائینگے کہ جن کی پر زور تاثیروں سے صلیبی مذہب عظمندوں کے دلوں میں سے گرتا جائیگا.چنانچہ یہ وہی زمانہ ہے.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۶۶ حاشیه صلیبی مذہب کا صفحہ دنیا سے معدوم ہونا جس کا حدیثوں میں ذکر ہے.بجز اس صورت کے کسی طرح ممکن نہیں.کیونکہ عیسائی مذہب کو گرانے کے لئے جو صورتیں ذہن میں آسکتی ہیں وہ صرف تین ہیں.۱.اول یہ کہ تلوار سے اور لڑائیوں سے اور جبر سے عیسائیوں کو مسلمان

Page 25

کیا جائے جیسا کہ عام مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے کہ ان کا فرضی مسیح موعود اور مہدی معہود یہی کام دنیا میں آکر کرے گا.اور اس میں صرف اسی قدر لیاقت ہوگی کہ خونریزی اور جبر سے لوگوں کو مسلمان کرنا چاہے گا.لیکن جس قدر اس کاروائی میں فساد ہیں حاجت بیان نہیں.ایک شخص کے جھوٹے ہونے کے لئے یہ دلیل کافی ہو سکتی ہے کہ وہ لوگوں کو جبر سے اپنے دین میں داخل کرنا چاہے.لہذا یہ طریق اشاعت دین کا ہر گز درست نہیں ہے اور اس طریق کے امیدوار اور اس کے انتظار کرنے والے صرف وہی لوگ ہیں جو درندوں کی صفات اپنے اندر رکھتے ہیں.اور آیت لا اکراہ فی الدین سے بے خبر ہیں.دوسری صورت صلیبی مذہب پر غلبہ پانے کی یہ ہے کہ معمولی مباحثات سے جو ہمیشہ اہل مذہب کیا کرتے ہیں.اس مذہب کو مغلوب کیا جائے.مگر یہ صورت بھی ہر گز کامل کامیابی کا ذریعہ نہیں ہو سکتی کیونکہ اکثر مباحثات کا میدان وسیع ہو سکتا ہے اور دلائل عقلیہ اکثر نظرنی ہوتے ہیں اور ہر ایک نادان اور موٹی عقل والے کا کام نہیں کہ عقلی اور نقلی دلائل کو سمجھ سکے.اسی لئے بت پرستوں کی قوم باوجود قابل شرم عقیدوں کے اب تک جابجا دنیا میں پائی جاتی ہے.تیسری صورت صلیبی مذہب پر غلبہ پانے کی یہ ہے کہ آسمانی نشانوں سے اسلام کی برکت اور عزت ظاہر کی جائے اور زمین کے واقعات سے امور محسوسہ بدیہیہ کی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ جسم عصری کے ساتھ آسمان پر گئے بلکہ اپنی طبعی موت سے مرگئے.اور یہ تیسری صورت ایسی ہے کہ ایک متعصب عیسائی بھی اقرار کر سکتا ہے کہ اگر یہ اور بات پایہ ثبوت پہنچ جائے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے.تو پھر ہوئے اور تو عیسائی مذہب باطل ہے اور کفارہ اور تشکیت سب باطل.اور پھر اس کے ساتھ جب آسمانی نشان بھی اسلام کی تائید میں دکھلائے جائیں تو گویا اسلام میں داخل ہونے کے لئے تمام زمین کے عیسائیوں پر رحمت کا دروازہ کھول دیا جائیگا.سو یہی تیسری صورت ہے جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں.خدا تعالیٰ نے ایک طرف تو مجھے آسمانی نشان عطا فرمائے ہیں اور کوئی نہیں کہ ان میں میرا مقابلہ کر سکے.اور دنیا میں کوئی عیسائی نہیں کہ جو آسمانی نشان میرے مقابل پر دکھلا سکے.اور دوسری خدا کے فضل اور کرم اور رحم نے میرے پر ثابت کر دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ صلیب پر فوت ہوئے نہ آسمان پر چڑھے بلکہ صلیب سے نجات پاکر کشمیر کے ملک میں آئے اور اسی جگہ وفات پائی.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۶۶ تا ۱۶۸

Page 26

اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ مجھے صاف طور پر اللہ جل شانہ نے اپنے الہام سے فرما دیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بلا تفاوت ایسا ہی انسان تھا جس طرح اور انسان ہیں.مگر خدا تعالیٰ کا متجانبی اور اس کا مرسل اور برگزیدہ ہے اور مجھ کو یہ بھی فرمایا کہ جو مسیح کو دیا گیا وہ بہتا بعت نبی علیہ السلام تجھ کو دیا گیا ہے اور توسیح موعود ہے.اور تیرے ساتھ ایک نورانی حربہ ہے جو ظلمت کو پاش پاش کرے گا.اور یکسر الصلیب کا مصداق ہو گا.حجة الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴۹ یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے.اور دار النجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ہے جتہ الاسلام - روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۵۳٬۵۲ پادریوں کی تکذیب انتہا تک پہنچ گئی تو خدا نے حجت محمدیہ پوری کرنے کے لئے مجھے بھیجا.اب کہاں ہیں پادری تا میرے مقابل پر آویں، میں بے وقت نہیں آیا، میں اس وقت آیا کہ جب اسلام عیسائیوں کے پیروں کے نیچے کچلا گیا بھلا اب کوئی پادری تو میرے سامنے لاوجو یہ کہتا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی پیش گوئی نہیں کی.یادر کھوہ زمانہ مجھ سے پہلے ہی گذر گیا.اب وہ زمانہ آگیا جس میں خدا یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ رسول محمد عربی جس کو گالیاں دی گئیں، جس کے نام کی بے عزتی کی گئی، جس کی تکذیب میں بد قسمت پادریوں نے کئی لاکھ کتابیں اس زمانہ میں لکھ کر شائع کر دیں.وہی سچا اور بچوں کا سردار ہے.اس کے قبول میں حد سے زیادہ انکار کیا گیا، مگر اخر اسی رسول کو تاج عزت پہنایا گیا.اس کے غلاموں اور خادموں میں سے ایک میں ہوں.جس سے خدا مکالمہ مخاطبہ کرتا ہے اور جس پر خدا کے غیبوں اور نشانوں کا دروازہ کھولا گیا ہے.حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۸۶ میں خدا تعالیٰ کی تائیوں اور نصرتوں کو دیکھ رہا ہوں جو وہ اسلام کے لئے ظاہر کر رہا ہے اور

Page 27

اس نظارہ کو بھی دیکھ رہا ہوں جو موت کا اس صلیبی مذہب پر آنے کو ہے.اس مذہب کی بنیاد محض لعنتی لکڑی پر ہے جس کو دیمک کھا چکی ہے اور یہ بوسیدہ لکڑی اسلام کے زبر دست دلائل کے سامنے اب گھر نہیں سکتی.اس عمارت کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں.اب وقت آتا ہے کہ یکدم یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوگی.اور وہ اس مردہ پرستی کے مذہب سے بیزار ہو کر حقیقی مذہب اسلام کو اپنی نجات کا ذریعہ یقین کریں گے.ملفوظات.جلد ۸ صفحه ۱۳۶ میں تعجب کرتا ہوں کہ یہ درخت عیسائی مذہب کا کیونکر بغیر پھلوں کے قرار دیا جاتا ہے اور کیوں تسلی کی راہ اس شخص کے مقابل پر پیش نہیں کی جاتی جو پیش کر رہا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی عادت نشان دکھلانا نہیں ہے تو اس دین اسلام کی تائید کے لئے کیوں نشان دکھلاتا ہے.اس لئے کیا کبھی ممکن ہے کہ ظلمت نور پر غالب آجاوے.یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ عیسائی مذہب تو سچا ہو اور تائید دین اسلام کی ہو.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۸۴ عیسائیوں کا موجودہ دین و مذہب جو حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.اس کا کوئی بھی اس پہلو نہیں ہے جو حق کے طالب کو اس سے کچھ تسلی مل سکے.اگر تعلیم کی طرف دیکھیں تو وہ ناقص ہے.اور اگر ان نشانوں کو دیکھیں جو انجیل میں سچے مسیحی کی علامت ٹہرائے گئے ہیں تو کسی عیسائی میں ان کا پتہ نہیں ملتا.اور اگر مسیح کے کام دیکھیں تو بحجر فقصتوں کہانیوں کے روئت کے طور پر کسی کا ثبوت نہیں.اور اگر ان پیش گوئیوں کو غور سے پڑہیں جن کے رُو سے مسیح کا خدا ہونا سمجھا جاتا ہے تو کوئی بھی ایسی پیش گوئی نہیں جس سے یہ مدعا ثابت ہو سکے.اور خود ظاہر ہے کہ اگر توریت اور دوسرے نبیوں کی کتابوں میں کسی خدا کے پیدا ہونے کا وعدہ دیا جاتا تو یہود اس وعدہ کے موافق ضرور یہ عقیدہ رکھتے کہ کسی وقت خدا ان کی مدد کرنے کے لئے مجسم ہو کر کسی عورت کے پیٹ میں سے پیدا ہو گا.اور ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ یہود توریت اور عہد عتیق کے صحیفوں سے برگشتہ نہ تھے تا ایسے خدا سے منکر رہتے.اور اگر حضرت سیح کی خدائی کو قبول نہیں کیا تھا تو کی وجہ تھی کہ اصل پیش توئی سے منکر ہو جاتے.ان کو بہر حال یہ کہنا چاہئے تھا کہ ایسا جسمانی خدا اگر چہ اب تک نہیں آیا.مگر ضرور آئیگا.لیکن تم یہود کو پوچھ کر

Page 28

دیکھ لو کہ ہ وہ ایسے اعتقاد سے سخت بیزار اور اس کو سخت کفر اور شرک قرار دیتے ہیں اور اس بات کے ہر گز منتظر نہیں ہیں کہ کسی وقت خدا انسانی جسم میں جنم لے گا.یا یہ عقیدہ تثلیث بر حق ہے بلکہ وہ صاف کہتے ہیں کہ ایسے عقائد رکھنے والا کافر ہے اور ہر گز نجات نہیں پائیگا.حلانکہ یہود وہ لوگ ہیں جن کے درمیان برابر نبی آتے رہے.یہ بالکل قرین قیاس نہیں کہ یہود باوجود مسلسل تعلیم انبیاء کے سرے سے خدا سے منکر ہو جاتے جس کے پیدا ہونے کی کسی پیش گوئی میں ان کو امید دی جاتی.ہاں ممکن تھا کہ اس جسمانی خدا کا مصداق حضرت مسیح کو نہ ٹھہراتے.مگریہ تو کہتے کہ وہ جسمانی خدا کوئی اور ہے جو بعد میں آئیگا.ہم نے اس زمانہ کے بہت سے فاضل یہودیوں سے دریافت کیا.انہوں نے یہ جواب لکھا ہے کہ کبھی کسی نبی نے یہودیوں کو ایسے بی نے کو جسمانی خدا کے ظاہر ہونے کی امید نہیں دلائی.اور ایسا اعتقاد صریح شرک اور کفر اور توریت کی تعلیم کے مخالف ہے.ان فاضل یہودیوں کے خطوط ہمارے پاس موجود ہیں.اگر یہ کہو کہ یہودی تو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے تبھی منکر ہیں.تو پھر ایسے یہودیوں کی گواہی کا کیا اعتبار ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہودی اصل پیش گوئی کے منکر نہیں ہیں اور اس بات کو مانتے ہیں کہ جیسا کہ توریت میں خبر دی گئی ہے.مثیل موسیٰ ضرور آنے والا ہے.ہاں یہودیوں کے ان موجودہ دو فرقوں نے جو یہودیوں کے باراں فرقوں میں سے باقی رہ گئے ہیں.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کم فہمی اور تعصب سے میل موسیٰ نہیں مانا.مگر اصل پیش گوئی سے انکار تو نہیں کیا لیکن ایسی پیش گوئی کے وجود سے تو قطعا منکر ہیں جو کسی خدا کے آنے کی نسبت کی گئی ہو.ماسوا اس کے یہودیوں کے دس فرقے اسلام میں داخل ہو چکے ہیں ؟ تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۶۱، ۱۶۲ ہر سچا مذ ہب اور سچا عقیدہ ان تین نشانوں یعنی نصوص، عقل اور تائید سماوی سے شناخت کیا جاتا ہے اور عیسائی مذہب اس معیار پر پورا نہیں اترتا.یہودیوں کی کتابوں میں اس تثلیث اور کفارہ کا کوئی پتہ نہیں اور کبھی وہ بیٹے خدا کے منتظر ہی نہ تھے.اور عقل دور سے دھکتے.ہم اپنی کتاب مسیح ہندوستان میں بڑے بڑے انگریز محققوں کے اقرار سے ثابت کر چکے ہیں کہ یہودیوں کے دس گمشدہ فرقے افغان اور کشمیری ہیں جو مسلمان ہو گئے اور پھر توریت کے وعدہ کے موافق ان میں سے اسلام میں بڑے بڑے بادشاہ ہوئے.منہ

Page 29

دیتی ہے.نشانات کا یہ حال کہ ایمانداروں کے نشان کا پایا جانا بھی مشکل ہے.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۲۳، ۱۲۴ میں اس تپش محبت سے خالی نہ تھا جو خدائے عزوجل سے ہونی چاھئے اور اس تپش محبت کی وجہ سے میں ہر گز کسی ایسے مذہب پر راضی نہیں ہوا جس کے عقائد خدا تعالیٰ کی عظمت اور وحدانیت کے بر خلاف تھے یا کسی قسم کی توہین کو مستلزم تھے.یہی وجہ ہے کہ عیسائی مذہب مجھے پسند نہ آیا کیونکہ اس کے ہر قدم میں خدائے عزو جل کی توہین ہے.ایک عاجز انسان جو اپنے نفس کی بھی مدد نہ کر سکا اس کو خدا ٹھہرایا گیا.اور اس کو خلق السماوات والارض سمجھا گیا.دنیا کی بادشاہت جو آج ہے اور کل نابود ہو سکتی ہے اس کے ساتھ ذلت جمع نہیں ہو سکتی.پھر خدا کی حقیقی بادشاہی کے ساتھ اتنی ذلتیں کیوں جمع ہو گئیں کہ وہ قید میں ڈالا گیا.اس کو کوڑے لگے اور اس کے منہ پر تھو کا گیا.اور آخر بقول عیسائیوں کے ایک لعنتی موت اس کے حصہ میں آئی جس کے بغیر وہ اپنے بندوں کو نجات نہیں دے سکتا تھا.کیا ایسے کمزور خدا پر کچھ بھروسہ ہو سکتا ہے.اور کیا خدا بھی ایک فانی انسان کی طرح مر جاتا ہے.اور پھر صرف جان نہیں بلکہ اس کی عصمت اور اس کی ماں کی عصمت پر بھی یہودیوں نے ناپاک ہمتیں لگا ئیں اور کچھ بھی اس خدا سے پر لگائیں نہ ہوسکا کہ زبر دست طاقتیں دکھلا کر اپنی برتیت ظاہر کرتا.پس ایسے خدا کا ملنا عقل تجویز نہیں کر سکتی.جو خود مصیبت زدہ ہونے کی حالت میں مرگیا اور یہودیوں کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکا.اور یہ کہنا کہ اس نے عمدا اپنے تئیں صلیب پر چڑھایا تا اس کی امت کے گناہ بخشے جائیں اس سے زیادہ کوئی بے ہودہ خیال نہیں ہو گا.جس شخص نے تمام رات جان بچانے کے لئے رورو کر ایک باغ میں دعا کی اور وہ بھی منظور نہ ہوئی اور پھر گھبراہٹ اس قدر غالب آئی کہ صلیب پر چڑھنے کے وقت ایلی ایلی لما سبقتنی کہ کر اپنے خدا کو خدا کر کے پکارا اور اس شدت بیقراری میں باپ کہنا بھی بھول گیا.کیا اس کی نسبت کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے جان دی.عیسائیوں کے اس متناقض بیان کو کون سمجھ سکتا ہے کہ ایک طرف تو یسوع کو خدا ٹھہرایا جاتا ہے پھر وہی خدا کسی اور خدا کے آگے رو رو کر دعا کرتا ہے.جبکہ تینوں خدا یسوع کے اندر موجود تھے اور وہ ان سب کا مجموعہ تھا تو پھر اس نے کس کے آمنے رو رو کر دعا کی.اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں کے نزدیک ان تین خداؤں کے علاوہ کوئی اور بھی زبر دست خدا ہے جو ان سے الگ اور ان پر حکمران ہے جس کے آگے متینوں خداؤں کو رونا

Page 30

پڑا.پھر جس غرض کے لئے خود کشی اختیار کی گئی وہ غرض بھی تو پوری نہ ہوئی.غرض تو یہ تھی کہ یسوع کو ماننے والے گناہ اور دنیا پرستی اور دنیا کے لالچوں سے باز آجائیں مگر نتیجہ بر عکس ہوا.اس خود کشی سے پہلے تو کسی قدر یسوع کے ماننے والے رو بخدا بھی تھے مگر بعد اس کے جیسے جیسے خود کشی اور کفارہ کے عقیدہ پر زور دیا گیا اس قدر دنیا پرستی اور دنیا کے لالچ اور دنیا کی خواہش اور شراب خواری اور قمار بازی اور بد نظری اور ناجائز تعلقات عیسائی قوم میں بڑھ گئے کہ جیسے ایک خونخوار اور تیزرو دریا پر جو ایک بند لگایا گیا تھا وہ بند یک دفعہ ٹوٹ جائے اور اردگرد کے تمام دیہات اور زمین کو تباہ کر دے.یہ بھی یادر ہے کہ صرف گناہ سے پاک ہونا انسان کے لئے کمال نہیں.ہزاروں کیڑے مکوڑے اور چرند پرند ہیں کہ کوئی گناہ نہیں کرتے.پس کیا ان کی نسبت ہم خیال کر سکتے ہیں کہ وہ خدا تک پہنچ گئے ہیں.پس سوال یہ ہے کہ مسیح نے روحانی کمالات کے حاصل کرنے کے لئے کونسا کفارہ دیا ؟ انسان خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کا محتاج ہے.اول بدی سے پر ہیز کرنا.دوم نیکی کے اعمال کو حاصل کرنا.اور محض بدی کو چھوڑنا کوئی ہنر نہیں ہے.پس اصل بات یہ ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے یہ دونوں قوتیں اسکی فطرت کے اندر موجود ہیں.ایک طرف تو جذبات نفسانی اس کو گناہ کی طرف مائل کرتے ہیں اور دوسری طرف محبت الہی کی آگ جو اس کی فطرت کے اندر مخفی ہے وہ اس گناہ کے خس و خاشاک کو اس طرح پر جلا دیتی ہے جیسا کہ ظاہری آگ ظاہری خس و خاشاک کو جلاتی ہے.مگر اس روحانی آگ کا افروختہ ہونا جو گناہوں کو جلاتی ہے معرفت الہی پر موقوف ہے کیونکہ ہر ایک چیز کی محبت اور عشق اسکی معرفت سے وابستہ ہے.جس چیز کے حسن اور خوبی کا تمہیں علم نہیں تم اس پر عاشق نہیں ہو سکتے.پس خدائے عزوجل کی خوبی اور حسن و جمال کی معرفت اسکی محبت یدا کرتی ہے اور محبت کی آگ سے گناہ جلتے ہیں مگر سنت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ وہ معرفت عام لوگوں کو نبیوں کی معرفت ملتی ہے اور انکی روشنی سے وہ روشنی حاصل کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو دیا گیا وہ ان کی پیروی سے سب کچھ پالیتے ہیں.مگر افسوس کہ عیسائی مذہب میں معرفت الہی کا دروازہ بند ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی ہم کلامی پر مہر لگ گئی ہے اور آسمانی نشانوں کا خاتمہ ہو گیا ہے.پھر تازہ بتازہ معرفت کس ذریعہ سے حاصل ہو.صرف قصوں کو زبان سے چاٹو.ایسے مذہب کو ایک عقلمند کیا کرے جس کا خدا ہی کمزور اور عاجز ہے اور جس کا سارا مدار قضتوں اور کہانیوں پر ہے.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۹ تا ۶۲ ۱۲

Page 31

باب دوم رد الوهیت مسیح لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَبَنِي إِسْرَاءِ يلَ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّي وَرَبِّكُمْ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَنهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ سورة المائدة

Page 32

اے عیسائیو! یاد رکھو کہ مسیح ابن مریم ہر گز ہر گز خدا نہیں ہے تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو.خدا کی عظمت مخلوق کو مت دو.ان باتوں کے سننے سے ہمارا دل کانپتا ہے کہ تم ایک مخلوق ضعیف درماندہ کو خدا کر کے پکارتے ہو.بچے خدا کی طرف آجاو تا تمہارا بھلا ہو اور تمہاری عاقبت بخیر ہو.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۵۵

Page 33

۱۵ 1 میں عیسائیوں کے خود ساختہ خدا کی نسبت تمام مسلمانوں سے زیادہ کراہت اور نفرت رکھتا ہوں.یہاں تک کہ اگر کل مسلمانوں کی نفرت عیسائیوں کے خدا کی نسبت ترازو کے ایک پلہ میں رکھ دی جاوے اور میری نفرت ایک طرف تو میرا اپلہ اس سے بھاری ہو گا.اور میں ایسے شخص کو جو عورت کے پیٹ سے نکل کر خدا ہونے کا دعوی کرے بہت ہی بڑا گنہ گار اور ناپاک انسان سمجھتا ہوں.مگر ہاں میرا یہ مذہب ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اس الزام سے پاک ہے.اس نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا.میں اسے اپنا ایک بھائی دعوی الوہیت سے مسیح سمجھتا ہوں.اگر چہ خدا تعالیٰ کا فضل مجھے پر اس سے زیادہ ہے.اور وہ کام جو میرے سپرد خدا کا پر کیا گیا ہے اس کے کام سے بہت بڑھ کر ہے.تاہم میں اس کو اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوں اور میں نے اسے بارہا دیکھا ہے.ایک بار میں نے اور مسیح نے ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا تھا.اس لئے میں اور وہ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں.ملفوظات جلد ۳ صفحه ۳۳۰ ابن مریم پاک ہیں.خدا تعالیٰ نے عیسائیوں کو ملزم کرنے کے لئے چار گواہ ان کے ابطال پر کھڑے کئے ہیں.اوّل.یہودی کہ جو تخمینا ساڑھے تین ہزار برس سے گواہی دے رہے ہیں کہ عیسائیت کے ابطال ہمیں ہر گز ہر گز تثلیث کی تعلیم نہیں ملی اور نہ کوئی ایسی پیش گوئی کسی نبی نے کی کہ کوئی خدا کے چار گواہ.یا حقیقی طور پر ابن اللہ زمین پر ظاہر ہونے والا ہے.دوم.حضرت بھی کی اہمیت یعنی یوحنا کی امت جواب تک بلاد شام میں موجود ہے جو حضرت مسیح کو اپنی قدیم تعلیم کی رو سے صرف انسان اور نبی اور حضرت یحی کا شاگرد جانتے ہیں.تیسرے.فرقہ موحدہ عیسائیوں کا جن کا بار بار قرآن شریف میں بھی ذکر ہے.جن کی بحث روم کے تیسری صدی کے قیصر نے تثلیث والوں سے کرائی تھی اور فرقہ موحدہ غالب رہا تھا اور اسی وجہ

Page 34

Σ سے قیصر نے فرقہ موحد کامذہب اختیار کر لیا تھا.چوتھے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف جنہوں نے گواہی دی کہ مسیح ابن مریم ہر گز خدا نہیں ہے اور نہ خدا کا بیٹا ہے بلکہ خدا کا نبی ہے.اور علاوہ اس کے ہزاروں راست باز خدا تعالیٰ کا الہام پا کر اب تک گواہی دیتے چلے آئے ہیں کہ مسیح ابن مریم ایک عاجز بندہ ہے اور خدا کا بی.چنانچہ اس زمانہ کے عیسائیوں پر گواہی دینے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں لوگوں پر ظاہر کروں کہ ابن مریم کو خدا ٹھہرانا ایک باطل اور کفر کی راہ ہے.اور مجھے اس نے اپنے مکالمات اور مخاطبات سے مشرف فرمایا ہے اور اس نے مجھے بہت سے نشانوں کے ساتھ بھیجا ہے اور میری تائید میں اس نے بہت سے خوارق ظاہر فرمائے ہیں.اور در حقیقت اس کے فضل و کرم سے ہماری مجلس خدا نما مجلس ہے.جو شخص اس مجلس میں صحت نیت اور پاک ارادہ اور مستقیم جستجو سے ایک مدت تک رہے تو میں یقین کرتا ہوں کہ اگر وہ دہر یہ بھی ہو تو آخر خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے گا.اور ایک عیسائی جس کو خدا تعالیٰ کا خوف ہو اور جو بچے خدا کی تلاش اور بھوک اور پیاس رکھتا ہو اس کو لازم ہے کہ بے ہودہ قصے اور کہانیاں ہاتھ سے پھینک دے اور چشم دید ثبوتوں کا طالب بن کر ایک مدت تک میری صحبت میں رہے پھر دیکھے کہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا مالک ہے کس طرح اپنے آسمانی نشان اس پر ظاہر کرتا ہے.مگر افسوس کہ ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں جو در حقیقت خدا کو ڈھونڈنے والے اور اس تک پہنچنے کے لئے دن رات سرگردان ہیں.اے عیسائیو ایاد رکھو کہ مسیح ابن مریم ہر گز ہر گز خدا نہیں ہے.تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو.خدا کی عظمت مخلوق کو مت دو.ان باتوں کے سننے سے ہمارا دل کانپتا ہے کہ تم ایک مخلوق ضعیف درماندہ کو خدا کر کے پکارتے ہو نچے خدا کی طرف آجاد تا تمہارا بھلا ہو اور تمہاری عاقبت بخیر ہو.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۵۵،۵۴ اب جب میں دیکھتا ہوں کہ عیسائی مذہب میں خداشناسی کے تینوں ذریعے مفقود ہیں عیسائیت میں خدائی تو مجھے تعجب آتا ہے کہ کس بات کے سہارے سے یہ لوگ یسوع پرستی پر زور مار رہے کے تینوں ذرائع مفقود ہیں.کیسی بدنصیبی ہے کہ آسمانی دروازے ان پر بند ہیں.معقولی دلائل ان کو اپنے ہیں.

Page 35

لا دروازے سے دھکے دیتے ہیں.اور منقولی دستاویزیں جو گذشتہ نیتوں کی مسلسل تعلیموں سے پیش کرنی چاہئے تھیں وہ ان کے پاس موجود نہیں.مگر پھر بھی ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف نہیں.انسان کی عقلمندی یہ ہے کہ ایسا مذ ہب اختیار کرے کہ جس کے اصول خداشناسی پر سب کا اتفاق ہو اور عقل بھی شہادت دے اور آسمانی دروازے بھی اس مذہب پر بند نہ ہوں.سو غور کر کے معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں صفتوں سے عیسائی مذہب بے نصیب ہے اس کا خداشناسی کا طریق ایسا نرالا ہے کہ نہ اس پر یہودیوں نے قدم مارا اور نہ دنیا کی اور کسی آسمانی کتاب نے وہ ہدایت کی.اور عقل کی شهادت کا یہ حال ہے کہ خود یورپ میں جس قدر لوگ علوم عقلیہ میں ماہر ہوتے جاتے ہیں وہ عیسائیوں کے اس عقیدہ پر ٹھٹھا اور ہنسی کرتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ عقلی عقیدے سب کلیت کے رنگ میں ہوتے ہیں.کیونکہ قواعد کلیہ سے ان کا استخراج ہوتا ہے.لہذا ایک فلاسفر اگر اس بات کو مان جائے کہ یسوع خدا ہے تو چونکہ دلائل کا حکم کلیت کا فائدہ بخشتا ہے اس کو ماننا پڑتا ہے کہ پہلے بھی ایسے کروڑ ہا خدا گذرے ہیں اور آگے بھی ہو سکتے ہیں اور یہ باطل ہے.اور آسمانی شہادت کا یہ حال ہے کہ اگر تمام پادری مسی مسیح کرتے مر بھی جائیں تاہم ان کو آسمان سے کوئی نشان نہیں مل سکتا.کیونکہ مسیح خدا ہو تو نشان دے.وہ تو بیچارہ اور عاجزان کی فریاد سے بے خبر ہے.اور اگر خبر بھی ہو تو کیا کر سکتا ہے.دنیا میں ایسا مذہب اور ان صفات کا جامع صرف اسلام ہے.ہر ایک مذہب کی خداشناسی کے اگر زوائد نکال دئے جائیں اور مخلوق پرستی کا حصہ الگ کر دیا جائے تو جو باقی رہے گا وہی توحید اسلامی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی توحید سب کی مانی منائی ہے.پس ایسے لوگ کس قدر اپنے تئیں خطرہ میں ڈالتے ہیں کہ ایک امر کو جو مسلم الکل ہے قبول نہیں کرتے اور ایسے عقیدوں کی پیروی کرتے ہیں جو محض ان کے اپنے دعوے ہیں اور عام قبولیت سے خالی ہیں.اگر قیامت کے دن حضرت مسیح نے کہہ دیا کہ میں تو خدا نہیں تھا.تم نے کیوں خواتنخواہ میرے ذمہ خدائی لگادی تو پھر کہاں جائیں گے اور کس کے پاس جاکر روئیں گے!!؟ کتاب البریۃ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۵۴،۵۳

Page 36

IA یہ دعوی الوہیت کا جو حضرت مسیح کی طرف منسوب کیا جاتا ہے یہ کوئی چھوٹا ساد علوی نہیں، ایک عظیم الشان دعوی ہے.حضرت عیسائی صاحبان کے عقیدہ کے رو سے جو شخص حضرت مسیح کی الوہیت کا انکار کرے وہ ہمیشہ کے جہنم میں گرایا جاوے گا اور قرآن دعوی اوربیت اور رای بالا است و قرآن کریم کی رو سے جو شخص ایسا لفظ منہ پر لاوے کہ فلاں شخص در حقیقت خدا ہے یا کریم کی کسوٹی در حقیقت میں ہی خدا ہوں وہ جہنم کے لائق ٹھہرے گا جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.ہے.ومن يقل منهم الى الله من دونه فذلك نجزيه جهنّم كذلك نجزي الظالمين - یعنی جو یہ بات کہے کہ میں خدا ہوں بجز اس بچے خدا کے تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے پھر اس کے اوپر کی آیت یہ وقالوا اتخذ الرحمن ولدا سبحانه بل عباد مكرمون - اور عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا بیٹا پکڑا پاک ہے وہ بیٹوں سے بلکہ یہ بندے عزت دار ہیں سیپارہ ۷ ارکوع ۲.اور پھر بعد اس کے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے ہاتھ میں کیا ثبوت ہے تو ہمیں ایک ذخیرہ کثیر ثبوتوں کا نظر آتا ہے.ایک طرف عقل سلیم انسان کی اس اعتقاد کو دھکے دے رہی ہے اور ایک طرف قیاس استقرائی شہادت دے رہا ہے کہ اب تک اس کی نظیر بجز دعوی متنازعہ فیہ کے نہیں پائی گئی اور ایک طرف قرآن کریم جو بے شمار دلائل سے اپنی حقانیت ثابت کرتا ہے.اس سے انکاری ہے جیسا کہ فرماتا ہے و يعبدون من دون الله مالم ينزل به سلطاناً وماليس لهم به علم.وما للظلمين من نصيره (س) (۱) یعنی عبادت کرتے ہیں سوائے اللہ کے ایسی چیز کی جس کی خدائی پر اللہ تعالیٰ نے کوئی نشان نہیں بھیجا یعنی نبوت پر تو نشان ہوتے ہی ہیں مگر وہ خدائی کے کام میں نہیں آسکتے اور پھر فرماتا ہے کہ اس عقیدہ کے لئے ان کے پاس کوئی علم بھی نہیں یعنی کوئی ایسی معقولی دلائل بھی نہیں ہے جن سے کوئی عقیدہ پختہ ہو سکے.اور پھر فرماتا ہے.وقالوا اتخذ الرحمن ولدًا لقد جئتم شيئًا ادا - تكاد السموات يتفطّرت منه وتنشق الارض وتخرّ الجبال هدا - أن دعو اللرحمنِ ولدًا (س) (2).اور کہتے ہیں کہ رحمان نے حضرت مسیح کو بیٹا

Page 37

19 بنالیا ہے یہ تم نےا.میسائیو ایک چیز بھاری کا دعوی کیا.نزدیک ہے جو اس سے آسمان و زمین پھٹ جاویں اور پہاڑ کانپنے لگیں کہ تم انسان کو خدا بناتے ہو.پھر بعد اس کے جب توریت کی وہ پیش گوئیاں جو الوہیت مسیح ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اس خدا بنانے میں یہودی لوگ جو اول وارث توریت کے تھے جن کے کسے ہو سکتے تھے عمد عقیق کی پیش گوئیاں سراسر غلط فہمی کی وجہ سے پیش کی جاتی ہیں کیا کبھی انہوں نے جو پیش کی جاتی ہیں.کیا یہود کو ان کی سمجھ نہیں اپنی کتابوں کو روز تلاوت کرنے والے تھے اور ان پر غور کرنے والے تھے اور حضرت کی و میسج بھی ان کی تصدیق کرتے تھے کہ یہ کتابوں کا مطلب خوب سمجھتے ہیں ان کی باتوں کو مانو.کیا کبھی انہوں نے ان بہت سی پیش کردہ پیش گوئیوں میں سے ایک کے ساتھ اتفاق کر کے اقرار کیا کہ ہاں یہ پیش گوئی حضرت مسیح موعود کو خدا بناتی ہے.اور آنے والا مسیح انسان نہیں بلکہ خدا ہو گا.تو اس بات کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا.ہر ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ اگر حضرت مسیح سے ان کو کچھ بخل اور بغض پیدا ہوتا تو اس وقت پیدا ہوتا جب حضرت مسیح تشریف لائے.پہلے تو وہ لوگ بڑی محبت سے اور بڑی غور سے انصاف و آزادی سے ان پیش گوئیوں کو دیکھا کرتے تھے اور ہر روز ان کتابوں کی تلاوت کیا کرتے تھے اور تفسیریں لکھتے تھے.پھر کیا غضب کی بات ہے کہ یہ مطلب ان سے بالکل پوشیدہ رہا.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ کھلی کھلی پیش گوئیاں حضرت مسیح کی خدائی کے لئے عہد عتیق میں کبھی کسی بھی براہب یا موجود تھیں.اب نہیں تحریر تحیر ہوتا ہے اگر ایک پیش گوئی ہوتی اور یہودیوں کو سمجھ نہ آتی میں نے حال ہی میں نہ مجاہد نے نہ لکھا کہ خدا تو وہ معذور بھی ٹھر سکتے تھے.لیکن یہ کیا بات ہے کہ باوجود صدہا پیش گوئیوں کے پائے آئے گا.جانے کے پھر بھی ایک بھی پیش گوئی ان کو سمجھ نہ آئی اور کبھی کسی اور زمانہ میں ان کا یہ عقیدہ نہ ہوا کہ حضرت مسیح بحیثیت خدائی دنیا میں آئینگے ان میں نبی بھی تھے ان میں راہب بھی تھے ان میں عابد بھی تھے مگر کسی نے ان میں سے بطور شرح یہ نہ لکھا کہ ہاں ایک خدا بھی انسانی جامہ میں آنے والا ہے.آپ تو جانتے ہیں کہ یہ تو ایک امر غیر ممکن ہے کہ ایسی قوم کا غلط فہمی پر اتفاق ہو جائے جس نے نقطہ نقطہ اور شوشہ شوشہ توریت کا اپنے ضبط میں کیا ہوا تھا کیا وہ سارے ہی نا سمجھ تھے.کیا وہ سارے ہی بیوقوف تھے کیا سب کے متعصب تھے اور پھر اگر وہ متعصب تھے تو اس تعصب کی محرک حضرت مسیح کے ظہور سے پہلے کونسی چیز تھی.یہ تو ظاہر ہے کہ تعصبات بالمقابل ہوا کرتے ہیں.جبکہ ابھی تک کسی نے خدائی کا دعوی نہیں کیا تھا پھر تعصب کس کے ساتھ کیا جائے پس یہ اتفاق یہودیوں کا قبل از زمانہ مسیح کے آنیوالا ایک انسان انسان کے جامہ

Page 38

ہے خدا نہیں ہے ایک طالب حق کے لئے کافی دلیل ہے.اگر وہ اس بات کے شائق ہوتے کہ حق کو خوانخواہ چھپایا جاوے تو پھر نبی کے آنے کا کیوں اقرار کرتے.ماسوا ا سکے توریت کے دوسرے مقامات اور بھی اس امر کے موید اور مصدق ہیں.چنانچہ توریت توریت نے غیر میں صاف لکھا ہے کہ تم زمین کی کسی چیز کو اور یا آسمان کی کسی چیز کو جو دیکھو تو اس کو خدا معبودوں کی پرستش مت بناؤ.جیسا کہ خروج ۲۰ باب ۳ میں یہ الفاظ ہیں کہ تو اپنے لئے کوئی مورت یا کسی سے منع کیا.چیز کی صورت جو آسمان پر یا نیچے زمین پر یا پانی میں زمین کے نیچے ہے مت بنا.اور پھر لکھا ہے.اگر تمہارے درمیان کوئی نبی یا خواب دیکھنے والا ظاہر ہو اور تمہیں نشان یا کوئی معجزہ دکھلاوے اور اس نشان یا معجزہ کے مطابق جو اس نے تمہیں دکھایا ہے بات واقعہ ہو اور تمہیں کہے کہ آؤ ہم غیر معبودوں کی جنہیں تم نے نہیں جانا پیروی کریں تو ہر گز اس نبی یا خواب دیکھنے والے کی بات پر کان مت دھر یو.اسی طرح اور بھی توریت میں بہت سے مقامات ہیں جن کے لکھنے کی حاجت نہیں مگر سب سے بڑھ کر حضرت مسیح کا اپنا اقرار ملاحظہ کے لائق ہے وہ فرماتے ہیں سب حکموں میں اول یہ ہے کہ اے اسرائیل سین وہ خداوند جو ہمار اخدا ہے ایک ہی خدا ہے.پھر فرماتے ہیں حیات ابدی یہ ہے کہ دے تجھ کو خدا ایک ہی ہے.اکیلا سچا خدا اور یسوع مسیح کو جسے تم نے بھیجا ہے جانیں.یوحنا.۱۷/۳.اور بھیجا کا لفظ توریت کے کئی مقام میں انہیں معنوں پر بولا گیا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی اپنے بندہ کو مامور کر کے اور اپنا بی ٹھہرا کر بھیجتا ہے تو اس وقت کہا جاتا ہے کہ یہ وہ بندہ بھیجا گیا ہے.اگر ڈاکٹر صاحب یہ بھیجا گیا کا لفظ بجز اس معنی کے جہاں نبی کی نسبت بولا جاتا ہے مقام متنازعہ فیہ کے ماسوا کسی اور جگہ دوسرے معنوں پر ثابت کر دیں تو شرط کے طور پر جو چاہیں ہم سے وصول کر سکتے ہیں.ڈاکٹر صاحب پر واضح رہے کہ بھیجا گیا کا لفظ اور ایسا ہی مخصوص کا لفظ انسان کے بارہ میں آیا ہے یہ سراسر محکم ہے کہ اب اس کے اور محنے کئے جاویں.ماسوا اس کے حضرت مسیح کی الوہیت کے بارہ میں اگر حضرات عیسائی صاحبوں کا اصول ایمانیہ میں اتفاق ہوتا اور کوئی قوم اور فرقہ اس اتفاق سے باہر نہ ہوتا تو تب بھی کسی قدر ناز کرنے کی جگہ تھی مگر اب تو اتنی بات بھی ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ یونی شیرین فرقہ لوہیت میں نہیں.ڈاکٹر صاحب فرما دیں کہ کیا آپ کے مختلف فرقوں میں سے یونی ٹیرین کا فرقہ صبیح کا منکر ہے.حضرت مسیح کو خدا جانتا ہے.کیا وہ فرقہ اس انجیل سے تمسک نہیں کرتا جس سے آپ کر رہے ہیں.کیا وہ فرقہ ان پیش گوئیوں سے بے خبر ہے جن کی آپ کو خبر ہے.پھر جس

Page 39

۲۱ حالت میں ایک طرف تو حضرت مسیح اپنے کفر کی برتیت ثابت کرنے کے لئے یوحنا باب میں اپنے تئیں خدا اطلاق پانے میں دوسروں کا ہمرنگ قرار دیں اور اپنے تئیں لا علم بھی قرار دیں کہ مجھے قیامت کی کچھ خبر نہیں کہ کب آئے گی اور یہ بھی روانہ رکھیں کہ ان کو کوئی نیک کہے اور جابجا یہ فرماویں کہ میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں.اور حواریوں کو یہ نصیحت دیں کہ پیش گوئیاں وغیرہ امور کے وہی معنے کرو جو یہودی کیا کرتے تھے اور ان کی باتوں کو سنو اور مانو اور پھر ایک طرف مسیح کے مجربات بھی دوسرے نبیوں کے معجزات سے مشابہ ہوں بلکہ ان سے کسی قدر کم ہوں بوجہ اس تالاب کے قصہ کے جو ڈاکٹر صاحب کو خوب معلوم ہو گا جس میں غسل کرنے والے اسی طرح طرح طرح کی بیماریوں سے اچھے ہو جایا کرتے تھے جیسا حضرت مسیح کی نسبت بیان کیا جاتا ہے.اور پھر ایک طرف گھر میں ہی پھوٹ پڑی ہوئی ہو.ایک صاحب حضرات عیسائیوں میں سے تو حضرت مسیح کو خدا ٹھہراتے ہیں اور دوسرا فرقہ ان کی تکذیب کر رہا ہے.ادھر یہودی بھی سخت مکذب ہوں اور عقل بھی ان نا معقول خیلات کے مخالف ہو.اور پھر وہ اخری نبی جس نے صدہا دلائل اور نشانوں سے ثابت کر دیا ہو کہ میں سچا نبی ہوں تو پھر باوجود اس قدر مخالفانہ ثبوتوں کے ایک خاص فرقہ کا خیال اور وہ بھی بے ثبوت کہ ضرور حضرت مسیح خدا ہی تھے کس کام آسکتا ہے اور کس عزت دینے کے لائق ہے اسی بنا پر میں نے کہا تھا کہ جس حالت میں اس قدر خیلے بالاتفاق آپ کے اس عقیدہ پر ہو رہے ہیں تو اب حضرت مسیح کی خدائی ثابت کرنے کے لئے آپ کو ایسا ثبوت دینا چاہئے جس کے اندر کوئی ظلمت اور تاریکی نہ ہو اور جس میں کوئی اختلاف نہ کر سکتا ہو." جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۷۸ تا ۱۸۲ میں نے فاضل یہودیوں سے پوچھا ہے کہ کیا تمہارے ہاں ایسے خدا کا پتہ ہے جو مریم کے پیٹ سے نکلے اور وہ یہودیوں کے ہاتھوں ماریں کھاتا پھرے.اس پر یہودی علماء یہودیوں میں ایسے خدا نے مجھے یہی جواب دیا کہ یہ محض افتراء ہے.توریت سے کسی ایسے خدا کا پتہ نہیں کا کوئی ذکر نہیں.ملتا.ہمار اوہ خدا ہے جو قرآن کریم کا خدا ہے.یعنی جس طرح پر قرآن مجید نے خدا تعالی کی وحدت کی اطلاع دی ہے اسی طرح پر ہم توریت کی رو سے خدا تعالیٰ کو وحدہ لا شریک مانتے ہیں اور کسی انسان کو خدا نہیں مان سکتے.اور یہ تو موٹی بات ہے کہ اگر یہودیوں کے

Page 40

۲۲ ہاں کسی ایسے خدا کی خبر دی گئی ہوتی جو عورت کے پیٹ سے پیدا ہونے والا تھا وہ حضرت منیج کی ایسی سخت مخالفت ہی کیوں کرتے یہاں تک کہ انہوں نے اس کو صلیب پر چڑھوا دیا.اور ان پر کفر کہنے کا الزام لگاتے تھے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس امر کو ماننے کے لئے قطعا تیار نہ تھے.ملفوظات جلد ۸ صفحه ۲۵۵ نیز دیکھیں جنگ مقدس.روحانی خزائن جلده صفحه ۲۷۹ لیکچر لدھیانہ.جلد ۲۰ صفحه ۲۸۹،۲۸۸ عیسائیوں میں ایسے فرقے بھی موجود ہیں جو مسیح کی الوہیت اور خدائی کے قائل نہیں اور نہ وہ تثلیث کو ہی مانتے ہیں جیسے مثلاً یونی ٹیرین تو کیا وہ اپنے دلائل اور توریت کی ان پیش وجوہات انجیل سے بیان نہیں کرتے وہ بھی تو انجیل ہی پیش کرتے ہیں.اب اگر کا تجزیہ جو گوئیوں کی صراحتاً بلا تاویل انجیل میں مسیح کی الوہیت یا تثلیث کا بیان ہوتا تو کیا وجہ ہے کہ الوہیت صحیح کے بارہ میں پیش کی جاتی یونی شیرین فرقہ اس سے انکار کرتا ہے.حالانکہ وہ انجیل کو اسی طرح مانتا ہے جس طرح ہیں.دوسرے عیسائی.جو پیش گوئیاں توریت کی پیش کی جاتی ہیں ان کے متعلق بھی ان لوگوں نے کلام کی ہے.اور ایک یونی شیرین کی بعض تحریریں بھی میرے پاس اب تک موجود ہیں.کیا انہوں نے ان کو نہیں پڑھا اور نہیں سمجھا.قرآن شریف نے کیا خوب کہا ہے.کل حزب بمالديهم فرحون - میری مراد اس کے بیان کرنے سے صرف یہ ہے کہ تاویلات رکی کہ اور ظنی باتیں تو ایک باطل پرست بھی پیش کرتا ہے مگر کیا ہمارا فرض نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اس پر پورا غور کریں.یونی ٹیرین لوگوں نے تثلیث پرستوں کے بیانات ان پیش گوؤں کے متعلق سن کر کہا ہے کہ یہ قابل شرم باتیں ہیں جو پیش کرنے کے قابل نہیں ہیں اور اگر تثلیث اور الوہیت مسیح کا ثبوت اسی قسم کا ہو سکتا ہے تو پھر بائبل سے کیا ثابت نہیں ہو سکتا.لیکن ایک محقق کے لئے غور طلب بات یہ ہے کہ وہ ان کو پڑھ کر ایک امر تنقیح طلب قرار دے اور پھر اندرونی اور بیرونی نگاہ سے اس کو سوچے.اب ان پیش گوئیوں کے متعلق جہاں تک میں کہہ سکتا ہوں یہ امر قابل غور ہیں.

Page 41

۲۳ اول کیا ان پیش گوئیوں کی بابت یہودیوں نے بھی جن کی کتابوں میں یہ درج ہیں یہی سمجھا ہوا تھا کہ ان سے تثلیث پائی جاتی ہے یا سیح کا خدا ہونا ثابت ہوتا ہے.وہ پیش گوئیاں خود دوم کیا اس نے خود بھی تسلیم کیا کہ یہ پیش گوئیاں میرے ہی لئے ہیں.اور پھر اپنے گھر میں یا نہ ہو حضرت مسیح نے اپنے پر آپ کو ان کا مصداق قرار دے کر مصداق ہونے کا عملی ثبوت کیا دیا؟ اب اگر چہ یہ ایک چہل نہیں کیں.لمبی بحث بھی ہو سکتی ہے کہ کیا در حقیقت وہ پیش گوئیاں اصل کتاب میں اسی طرح درج ہیں یا نہیں مگر اس کی چنداں ضرورت نہ سمجھ کر ان دو تنقیح طلب امور پر نظر کرتے ہیں.یہودیوں نے جو اصل وارث کتاب توریت ہیں اور جن کی بابت خود مسیح نے کہا ہے کہ وہ موسی کی گدی پر بیٹھے ہیں.کبھی بھی ان پیش گوئیوں کے یہ معنے نہیں کئے جو اپ یا دوسرے عیسائی کرتے ہیں اور وہ بھی بھی مسیح کی بابت یہ خیال رکھ کر کہ وہ تثلیث کا ایک یہودیوں نے ان پیشین گوئیوں کے وہ معافی جزو ہے منتظر نہیں چنانچہ میں نے اس سے پہلے بہت واضح طور پر اس کے متعلق سنایا نہیں کئے جو موجودہ ہے.اور عیسائی لوگ محض زبر دستی کی راہ سے ان پیش گوئیوں کو حضرت مسیح پر جماتے میسلائی کرتے ہیں.ہیں جو کسی طرح بھی نہیں جمتی ہیں ورنہ علماء یہود کی کوئی شہادت پیش کرنی چاھئے کہ کیا وہ اس سے یہی مراد لیتے ہیں جو تم لیتے ہو.پھر انجیل پڑھ کر دیکھ لو ( وہ کوئی بہت بڑی کتاب نہیں ) اس میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ حضرت مسیح نے ان پیش گوئیوں کو پورا نقل کر کے کہا ہو کہ اس پیش گوئی کے رو سے میں خدا ہوں اور یہ میری الوہیت کے دلائل ہیں.کیونکہ نزاد عوامی تو کسی دانشمند کے نزدیک بھی قابل سماعت نہیں ہے.مسیح نے خود کبھی دعوی نہیں کیا تو کسی دوسرے کا خواہ مخواہ ان کو خدا بنانا عجیب بات ہے.کہ کوئی عقلمند اور خداترس ان کو پڑھ کر انہیں خدا نہیں کہ سکتا بلکہ کوئی بڑا عظیم الشان کانونی اور عمل میں اور اگر بفرض محال کیا بھی ہو تو اس قدر تناقض ان کے دعوی اور افعال میں پایا جاتا ہے دیوی اور افعال میں انسان کہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے.انجیل کے اس دعوی کو رد کرنے کے لئے تو خود انجیل ہی کافی ہے کیونکہ کہیں مسیح کا دوعا ثابت نہیں بلکہ جہاں ان کو موقعہ ملا تھا کہ وہ اپنی خدائی منوا لیتے وہاں انہوں نے ایسا جواب دیا کہ ان ساری پیش گوئیوں کے مصداق ہونے سے گویا انکار کر دیا اور ان کے افعال اور اقوال جو انجیل میں درج ہیں وہ بھی اسی کے موید ثابت ہوتے ہیں کیونکہ خدا کے لئے تو یہ ضرور ہے کہ اس کے افعال اور اقوال میں تناقض تناقض

Page 42

باپ کے سوا نہ ہو.حالانکہ انجیل میں صریح تناقض تناقض ہے.مثلا مسیح کہتا ہے کسی کو قیامت کا علم نہیں ہے.اب یہ کیسی تعجب خیز بات ہے کہ اگر باپ اور بیٹے کی عینیت ایک ہی ہے تو کیا مسیح کا یہ قول اس کا مصداق نہیں کہ دروغ گو را حافظہ نباشد.کیونکہ ایک مقام پر تو دعوی خدائی اور دوسرے مقام پر الوہیت کے صفات کا انکار اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ انجیل میں میسج پر بیٹے کالفظ آیا ہے اس کے جواب میں ہمیں یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ انجیل متحرف یا مبدل ہے بائبل کے پڑھنے والوں سے یہ ہر گز مخفی نہیں ہے کہ اس میں بیٹے کا لفظ کس قدر عام ہے.اسرائیل کی نسبت لکھا ہے که اسرئیل فرزند من است بلکه نخست زاده من است.اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا اور خدا کی بیٹیاں بھی بائبل سے تو ثابت ہوتی ہیں.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا کا اطلاق بھی ہوا ہے کہ تم خدا ہو اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو گا.اب ہر ایک منصف مزاج دانشمند غور کر سکتا ہے کہ اگر ابن کالفظ عام نہ ہو تاتو تعجب کا مقام ہوتا لیکن جبکہ یہ لفظ عام ہے اور آدم کو بھی شجرہ ابناء میں داخل کیا گیا ہے اور اسرائیل کو نخست زادہ بتایا گیا ہے اور کثرت استعمال نے ظاہر کر دیا ہے کہ مقدسوں اور راست بازوں پر یہ لفظ حسن ظن کی بناء پر بولا جاتا ہے.اب جب تک مسیح پر اس لفظ کے اطلاق کی خصوصیت نہ بتائی جاوے کہ کیوں اس ابنیت میں وہ سارے راست بازوں کے ساتھ شامل نہ کیا جاوے اس وقت تک یہ لفظ کچھ بھی مفید اور موثر نہیں ہو سکتا کیونکہ جب یہ لفظ عام اور قومی محاورہ ہے تو مسیح پر ان سے کوئی نرالے معنے پیدا نہیں کر سکتا.میں اس لفظ کو مسیح کی خدائی یا امنیت یا الوہیت کی دلیل مان لیتا اگر یہ کسی اور کے حق میں نہ آیا ہوتا.میں سچ سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کے خوف سے کہتا ہوں کہ ایک پاک دل رکھنے والے اور نیچے کانشنس رکھنے والے کے لئے اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہو سکتی اور ان الفاظ کی کچھ بھی وقعت نہیں ہو سکتی جب تک یہ ثابت کر کے نہ دکھایا جاوے کہ کسی اور شخص پر یہ لفظ کبھی نہیں آئے اور یا آئے تو ہیں مگر مسیح ان وجوہات قویہ کی بناء پر اوروں سے ممتاز اور خصوصیت رکھتا ہے.یہ تو دور نکلی ہے کہ مسیح کے لئے یہی لفظ آئے تو وہ خدا بنایا جاوے اور دوسروں پر اس کا اطلاق ہو تو وہ بندے کے بندے.ا ملفوظات جلد ۳ صفحه ۱۲۹ تا ۱۳۱ ₹

Page 43

۲۵ متفق ہونا کیوں ضروری یہودیوں کا اتفاق اس لئے مانگا جاتا ہے کہ وہ نبیوں کی اولاد اور نبیوں سے اور مسلسل طور پر تعلیم پاتے آئے.اور انجیل شریف کا بھی مقام شہادت دے رہا ہے کہ ہر ایک تعلیم نبیوں کی معرفت ان کو سمجھائی بلکہ حضرت عیسی خود شہادت دیتے ہیں کہ فقیہ اور فریسی موسی کی گرمی پر بیٹھے ہیں جو کچھ وہ تمہیں ماننے کو کہیں وہ عمل میں لاؤ.لیکن ان اس امر پر یہودیوں کا کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں پر کرتے نہیں.متی ۲۳ بابا.اب حضرت مسیح کے اس فرمودہ سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے متبعین اور شاگردوں ہے.کو نصیحت فرمارہے ہیں کہ یہودیوں کی رائے عہد عتیق کے بارہ میں ماننے کے لائق ہے تم ضرور اس کو مانا کرو کہ وہ حضرت موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہوئے ہیں.اس سے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہودیوں کی شہادت کو رد کرنا ایک قسم کی نافرمانی حضرت مسیح کے حکم کی ہے.اور یہودی یہ تو اپنی تفسیروں میں کہیں نہیں لکھتے کہ کوئی حقیقی خدا یاخدا کا بیٹا ئیگا.ہاں ایک نچے مسیح کے منتظر ہیں اور اس مسیح کو خدا نہیں سمجھتے.اگر سمجھتے ہیں تو ان کی کتابوں میں سے اس کا ثبوت دیں.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ ۱۱۸ ن گوئیاں صرف زبر دستی کی راہ سے حضرت مسیح پر جمائی جاتی ہیں اور ایسے طور کی یہ پیش گوئیاں نہیں ہیں کہ اول حضرت مسیح نے اپ پوری پیش گوئی نقل کر کے ان کا توریت کی پیش گوئیاں مصداق اپنے تئیں ٹھرایا ہو اور مفسرین کا اس پر اتفاق بھی ہو اور اصل عبری زبان سے حریت می تواند ایات مسیح کو الملبت اسی طور سے ثابت بھی ہوتی ہوں سو یہ بار ثبوت آپ کے ذمہ ہے.جب تک آپ اس نہیں کرتیں.التزام کے ساتھ اسکو ثابت نہ کر دیں تب تک یہ بیان آپ کا ایک دعوے کے رنگ میں ہے جو خود دلیل کا محتاج ہے.چونکہ ہمیں ان پیش گوئیوں کی صحت اور پھر صحت تاویل اور پھر صحت ادعاء مسیح میں آپ کے ساتھ اتفاق نہیں ہے اور آپ مدعی صحت ہیں تو یہ اپ پر لازم ہو گا کہ آپ ان مراتب کو مصفا اور منفتح کر کے ایسے طور سے دکھلاویں کہ جس سے ثابت ہو جائے کہ ان پیش گوئیوں کی تاویل میں یہودی جو اصل وارث توربیت کہلاتے ہیں وہ بھی آپ کے ساتھ ہیں اور حضرت مسیح نے بھی تمام پیش گوئیاں جو آپ ذکر کرتے ہیں.بحوالہ کتاب وباب و آیت پورے طور پر بیان کر کے اپنی طرف منسوب کی ہیں اور آپ کی رائے کے مخالف آج تک مسی وارث توریت نے اختلاف بیان نہیں کیا اور

Page 44

۲۶ I استقراند کریم طور پر حضرت مسیح ابن مریم کے بارہ میں جن کو آپ خدائی کے رتبہ پر قرار دیتے ہیں قبول کر لیا ہے اور ان کے خدا ہونے کے لئے یہ ثبوت کافی سمجھ لیا ہے تو پھر ہم اس کو قبول کرلیں گے اور بڑے شوق سے آپ کے اس ثبوت کو سنیں گے.لیکن اس نازک مسئلہ کی زیادہ تصریح کے لئے پھر یاد دلاتا ہوں کہ آپ جب تک ان تمام مراتب کو جو میں نے لکھے ہیں بغیر کسی اختلاف کے ثابت کر کے نہ دکھلاویں اور ساتھ ہی یہود کے علماء کی شہادت ان پیش گوئیوں کی بناء پر حضرت ابن مریم کے خدا ہونے کے لئے پیش نہ کریں.تب تک یہ قیاسی ڈھکوسلے آپ کے کسی کام نہیں آسکتے.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۰۱، ۱۰۲ حضرت مسیح علیہ السّلام کی الوہیت کے بارہ میں قرآن کریم میں بغرض رو کرنے خیالات ان صاحبوں کے جو حضرت موصوف کی نسبت خدا یا ابن اللہ کا اعتقاد رکھتے ہیں رو الومیت مسی دلیل یہ آیات موجود ہیں.ما المسيح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبله الرسل وامه صدّيقة كانا يا كلان الطعام انظر كيف نبيّن لهم الايتِ.ثم انظر الي يؤفكون سیپارہ ۶ رکوع ۴ الیعنی مسیح ابن مریم میں اس سے زیادہ اور کوئی بات نہیں کہ وہ صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے بھی رسول آتے رہے ہیں.اور یہ کلمہ کہ اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے ہیں.قیاس استقرائی کے طور پر ایک استدلال لطیف ہے کیونکہ قیاسات کے جمیع اقسام میں سے استقراء کامرتبہ وہ اعلیٰ شان کا مرتبہ ہے کہ اگر یقینی اور قطعی مرتبہ سے اس کو نظر انداز کر دیا جائے تو دین و دنیا کا تمام سلسلہ بگڑ جاتا ہے.اگر ہم غور سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ حصہ کثیرہ دنیا کا اور از منہ گذشتہ کے واقعات کا ثبوت اسی استقراء کے ذریعہ سے ہوا ہے.مثلاً ہم جو ہیں کہ انسان منہ سے کھاتا اور آنکھوں سے دیکھتا اور کانوں سے سنتا اور ناک سے سونگھتا اور زبان سے بولتا ہے.اگر کوئی شخص کوئی مقدس کتاب پیش کرے اور اس میں یہ لکھا ہوا ہو کہ یہ واقعات زمانہ گذشتہ کے متعلق نہیں ہیں.بلکہ پہلے زمانہ میں انسان آنکھوں کے ساتھ کھایا کرتا تھا اور کانوں کے ذریعہ سے بولتا

Page 45

۲۷ لام تھا اور ناک کے ذریعہ سے دیکھتا تھا ایسا ہی اور باتوں کو بھی بدل دے.یا مثلاً کہے کہ کسی زمانہ میں انسان کی آنکھیں دو نہیں ہوتی تھیں بلکہ میں ہوتی تھیں.دس تو سامنے چہرہ تو میں اور دس پشت پر لگی ہوئی تھیں.تو اب ناظرین سوچ سکتے ہیں کہ گو فرض کے طور پر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ ان عجیب تحریروں کا لکھنے والا کوئی مقدس اور راست باز آدمی تھا.مگر ہم اس یقینی نتیجہ سے کہاں اور کدھر گریز کر سکتے ہیں جو قیاس استقرائی سے پیدا ہوا ہے.میری رائے میں ایسا بزرگ اگر نہ صرف ایک بلکہ کروڑ سے بھی زیادہ اور قیاس استقرائی سے نتائج قطعیہ یقینیہ کو توڑنا چاہیں تو ہر گز ٹوٹ نہیں سکیں گے بلکہ اگر ہم منصف ہوں اور حق پسندی ہمارہ شیوہ ہو تو اس حالت میں کہ اس بزرگ کو ہم در حقیقت ایک بزرگ سمجھتے ہیں اور اس کے الفاظ میں ایسے ایسے کلمات خلاف حقائق مشہورہ محسوسہ کے پاتے ہیں تو ہم اس کی بزرگی کی خاطر سے صرف عن الظاہر کریں گے اور ایسی تاویل کریں گے جس سے اس بزرگ کی عزت قائم رہ جاوے.ورنہ یہ تو ہر گز نہ ہو گا کہ جو حقائق استقراء کے یقینی اور قطعی ذریعہ سے ثابت ہو چکے ہیں وہ ایک روایت دیکھ کر دیئے جاویں.اگر ایسا کسی کا خیال ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے کہ وہ استقراء مثبته موجودہ قطعیہ یقینیہ کے برخلاف اس روائت کی تائید اور تصدیق میں کوئی امر پیش کر دیوے.مثلاً جو شخص اس بات پر بحث کرتا اور لڑتا جھگڑتا ہے کہ صاحب ضرور پہلے زمانہ میں لوگ زبان کے ساتھ دیکھتے اور کان کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے تو اس کا ثبوت پیش کرے.اور جب تک ایسا ثبوت پیش نہ کرے تب تک ایک مہذب نظمند کی شان سے بہت بعید ہے کہ ان تحریرات پر بھروسہ کر کے جن کے بصورت صحت بھی بیس ہیں معنے ہو سکتے ہیں وہ معنی اختیار کرے جو حقائق ثابت شدہ سے بالکل مغائر اور منافی پڑے ہوئے ہیں مثلاً اگر ایک ڈاکٹر سے ہی اس بات کا تذکرہ ہو کہ سم الفار اور وہ زہر جو تلخ بادام سے تیار کیا جاتا ہے اور بیش یہ تمام زہریں نہیں ہیں.اور ان کو دو دو سیر کے قدر بھی انسان کے بچوں کو کھلایا جاوے تو کچھ ہرج نہیں اور اس کا ثبوت یہ دیوے کہ فلاں مقدس کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے اور راوی معتبر ہے.تو کیا وہ ڈاکٹر صاحب اس مقدس کتاب کا لحاظ کر کے ایسے امر کو چھوڑ دیں گے جو قیاس استقرائی سے ثابت ہو چکا ہے.غرض جبکہ قیاس استقرائی دنیا کے حقائق ثابت کرنے کے لئے اول درجہ کا مرتبہ رکھتا ہے تو اسی جہت سے اللہ جل شانہ نے سب سے پہلے قیاس استقرائی کو

Page 46

۲۸ ہی پیش کیا.اور فرمایا هند الوسل خلت قبله من یعنی حضرت مسیح علیہ السلام بے شک نبی تھے اور اللہ سلمہ تلخ اور کام انی جل شانہ کے پیارے رسول تھے مگر وہ انسان تھے.تم نظر اٹھا کر دیکھو جب سے یہ سلسلہ کے لئے ہمیشہ انسان نہی مرتبہ رسالت حاصل تبلیغ اور کلام الہی کے نازل کرنے کا شروع ہوا ہے ہمیشہ اور قدیم سے انسان ہی رسالت کا کرتے رہے نہ کہ بھی مرتبہ پا کر دنیا میں آتے رہے ہیں یا کبھی اللہ تعالیٰ کا بیٹا بھی آیا ہے اور خلت کا لفظ خدا کا بیٹا آیا.اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ جہاں تک تمہاری نظر تاریخی سلسلہ کو دیکھنے کے لئے وفاکر ہے اور لوگوں کا حال معلوم کر سکتے ہو خوب سوچو اور سمجھو کہ کبھی یہ سلسلہ ٹوٹا بھی ہے.کیا تم کوئی ایسی نظیر پیش کر سکتے ہو جس سے ثابت ہو سکے کہ یہ امر ممکنات میں سے ہے پہلے بھی کبھی کبھی ہوتا آیا ہے.سو عظمند آدمی اس جگہ ٹھہر کر اور اللہ جل شانہ کا خوف سحر کے دل میں سوچے کہ حادثات کا سلسلہ اس بات کو چاہتا ہے کہ اس کی نظیر بھی کبھی کسی زمانہ میں پائی جاوے.ہاں اگر بائبل کے وہ تمام انبیاء اور صلحاء جن کی نسبت بائبل میں بھی الفاظ موجود ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے بیٹے تھے یا خدا تھے حقیقی معنوں پر حمل کر لئے جاویں تو بے شک اس صورت میں ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ خدائے تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ بیٹے بھی بھیجا کرتا ہے بلکہ بیٹے کیا کبھی کبھی بیٹیاں بھی.اور بظاہر یہ دلیل تو عمدہ معلوم ہوتی ہے اگر عیسائی صاحبان اس کو پسند فرماویں اور کوئی اس کو تو ڑ بھی نہیں سکتا کیونکہ حقیقی غیر حقیقی کا تو وہاں کوئی ذکر ہی نہیں بلکہ بعض کو تو پہلوٹا ہی لکھ دیا.ہاں اس صورت میں بیٹیوں کی میزان بہت بڑھ جائے گی.غرضیکہ اللہ جل شانہ نے سب سے پہلے ابطال الوہیت کے لئے بھی دلیل استقرائی پیش کی ہے.پھر بعد اس کے ایک اور دلیل پیش کرتا ہے امه صدیقه یعنی والدہ حضرت مسیح کی راست باز تھی.یہ تو ظاہر ہے کہ اگر حضرت مسیح کو اللہ جل شانہ کا حقیقی بیٹا فرض کر لیا جاوے تو پھر یہ ضروری امر ہے کہ ای واللہ سے وہ دوسروں کی طرح ایسی والدہ کے اپنے تولد میں محتاج نہ ہوں جو باتفاق فریقین انسان تھی ایسی تولد کا محتاج نہ ہو.کیونکہ یہ بات نہایت ظاہر اور کھلی کھلی ہے کہ قانون قدرت اللہ جل شانہ کا اسی طرر واقع ہے کہ ہر ایک جاندار کی اولاد اس کی نوع کے موافق ہوا کرتی ہے.دیکھو کہ جس قدر جانور ہیں مثلاً انسان اور گھوڑا اور گدھا اور ہر ایک پرند وہ اپنی اپنی نوع کے لحاظ سے وجود پذیر ہوتے ہیں یہ تو نہیں ہوتا کہ انسان کسی پرندہ سے پیدا ہو مسیح اگر خدا کا بیٹا ہو تو مثلاً

Page 47

۲۹ جاوے یا پرند کسی انسان کے پیٹ سے نکلے.پھر ایک تیسری دلیل یہ پیش کی ہے كانا يا كلان الطعام یعنی وہ دونوں حضرت مسیح اور آپ کی والدہ صدیقہ کھانا کھایا کرتے تھے.اب آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کیوں کھانا کھانے سے افسان کا بدن تحلیل ہوتا ہے کھانا کھاتا ہے اور کیوں کھانا کھانے کا محتاج ہے.اس میں اصل بھید یہ ہے کہ ہمیشہ انسان کیا خدا کاجسم بھی خلیل کے بدن میں سلسلہ تحلیل کا جاری ہے.یہاں تک کہ تحقیقات قدیمہ اور جدیدہ سے ہوتارہتا ہے ؟ ثابت ہے کہ چند سال میں پہلا جسم تحلیل پا کر معدوم ہو جاتا ہے اور دوسرا بدن بدل ما تخلل ہو جاتا ہے اور ہر ایک قسم کی جو غذا کھائی جاتی ہے اس کا بھی روح پر اثر ہوتا ہے کیونکہ یہ امر بھی ثابت شدہ ہے کہ کبھی روح جسم پر اپنا اثر ڈالتی ہے اور کبھی جسم روح پر اپنا اثر ڈالتا ہے.جیسے اگر روح کو یکدفعہ خوشی پہنچتی ہے تو اس خوشی کے آنکہ یعنی بشاشت اور چمک چہرہ پر بھی نمودار ہوتی ہے.اور کبھی جسم کے آثار ہننے رونے کے روح پر پڑتے ہیں.اب جبکہ یہ حال ہے تو کس قدر مرتبہ خدائی سے یہ بعید ہو گا کہ اپنے اللہ کا جسم بھی ہمیشہ اڑتا ہے اور تین چار برس کے بعد اور جسم آوے ماسوا اس کے کھانے کا محتاج ہونا بالکل اس مفہوم کے مخالف ہے.جو خدا تعالیٰ کی ذات میں مسلم ہے.اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ان حاجتمندیوں سے بری نہیں تھے.جو تمام انسانوں کو لگی ہوئی ہیں.پھر یہ ایک عمدہ دلیل اس بات کی ہے کہ وہ باوجود ان در دوں اور دکھوں کے خدا ہی تھے یا ابن اللہ تھے.اور درد ہم نے اس لئے کہا کہ بھوک بھی ایک قسم در دکی ہے.اور اگر زیادہ ہو جائے تو موت تک نوبت پہنچاتی ہے.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۹ تا ۹۳ استقراء اس کو کہتے ہیں کہ جزئیات مشہورہ کا جہاں تک ممکن ہے تتبع کر کے باقی جزئیات کا انہیں پر قیاس کر دیا جائے.یعنی جس قدر جزئیات ہماری نظر کے سامنے ہوں وضاحت.بسلسله یا تاریخی سلسلہ میں ان کا ثبوت مل سکتا ہو تو جو ایک شان خاص اور ایک حالت خاص و دلیل استقرار الورد اور الوہیت مسیح کی مزید قدرتی طور پر وہ رکھتے ہیں اس پر تمام جزئیات کا اس وقت تک قیاس کر لیں جب تک کہ ان کے مختلف کوئی اور جزئی ثابت ہو کر پیش نہ ہو مثلاً جیسے کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں.نوع انسان کی تمام جزئیات کا تنتج جہاں تک حدامکان میں ہیں ہو کر یہ امر مسلم الثبوت قرار پاچکا ہے کہ انسان کی دو آنکھیں ہوتی ہیں تو اب یہ دو آنکھیں ہونے کا

Page 48

مثلاً اس وقت تک قائم اور برقرار سمجھا جائیگا جب تک اس کے مقابل پر چار یازیادہ آنکھوں کا ہونا ثابت نہ کر دیا جائے.اسی بنا پر میں نے کہا تھا کہ اللہ جل شانہ ، کی یہ دلیل معقولی که قد خلت من قبله الرسل - جو بطور استقراء کے بیان کی گئی ہے یہ ایک قطعی اور یقینی دلیل استقرائی ہے.جب تک کہ اس دلیل کو توڑ کر نہ دکھلایا جائے اور یہ ثابت نہ کیا جائے کہ خدا تعالیٰ کی رسالتوں کو لے کر خدا تعالیٰ کے بیٹے بھی آیا کرتے ہیں اس وقت تک حضرت مسیح کا خدا تعالیٰ کا حقیقی بیٹا ہونا ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ جل شانہ، اس دلیل سے صاف توجہ دلاتا ہے کہ تم مسیح سے لے کر انبیاء کے انتہائی سلسلہ تک دیکھ لو جہاں سے سلسلہ نبوت کا شروع ہوا ہے کہ بجز نوع انسان کے کبھی خدا یا خدا کا بیٹا بھی دنیا میں آیا ہے.اور اگر یہ کہو کہ آگے تو نہیں آیا مگر اب تو آ گیا تو فن مناظرہ میں اس کا نام مصادره علی المطلوب ہے یعنی جو امر متنازعہ فیہ ہے اس کو بطور دلیل پیش کر دیا جائے.مطلب یہ ہے کہ زیر بحث تو یہی امر ہے کہ حضرت مسیج اس سلسلہ متصلہ مرفوعہ کو توڑ کر کیونکر بحیثیت ابن اللہ ہونے کے دنیا میں آگئے اور اگر یہ کہا جائے کہ حضرت آدم نے بھی اپنی طرز جدید پیدائش میں اس سلسلہ معمولی پیدائش کو توڑا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم تو خود اس بات کے قائل ہیں کہ اگر دلائل معقولی سے یا تاریخی سے سلسلہ استقراء کے مخالف کوئی امر خاص پیش کیا جائے اور اس کو ادله عقلیہ سے یا ادلہ تاریخیہ سے ثابت کر دکھلایا جائے تو ہم اس کو مان لیں گے.یہ تو ظاہر ہے کہ فریقین نے حضرت آدم کی اس پیدائش خاص کو مان لیا ہے گو وہ بھی ایک سنت اللہ طرز پیدائش میں ثابت ہو چکی ہے.جیسا کہ نطفہ کے ذریعہ سے انسان کو پیدا کرنا ایک سنت اللہ ہے اگر حضرت مسیح کو حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ مشابہ کرنا ہے اور اس نظیر سے فائدہ اٹھانا ہی نظر ہے تو چاہئے کہ جس طرح پر اور جن دلائل عقلیہ سے انتہائی سلسلہ نوع انسان کا حضرت آدم کی پیدائش خاص تسلیم کی گئی ہے اسی طرح پر حضرت مسیح کا ابن اللہ ہونا یا خدا ہونا اور سلسلہ سابقہ مشہودہ مثبتہ کو توڑ کر بحیثیت خدائی و ابنیت خدا تعالیٰ دنیا میں انا ثابت کر دکھلاویں پھر کوئی وجہ انکار کی نہ ہوگی.کیونکہ سلسلہ استقراء کے مخالف جب کوئی امر ثابت ہو جائے تو وہ امر بھی قانون قدرت اور سنت اللہ میں داخل ہو جاتا ہے سو ثابت کرنا چاہئے.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۱۳ تا ۱۱۵

Page 49

۳۱ اگر صرف خدا تعالیٰ کی روح تھی تو پھر حضرت مسیح انسان بلکہ کامل انسان کن معنوں میں کہلا سکتے ہیں کیا صرف جسم کے لحاظ سے انسان کہلاتے ہیں.اور میں بیان کر چکا ہوں کہ جسم تو معرض تخلیق میں ہے چند سال میں اور ہی جسم ہو جاتا ہے اور کوئی دانشمند جسم کے لحاظ سے کسی کو انسان نہیں کہ سکتا جب تک روح انسانی اس میں داخل نہ ہو.پھر اگر مسیح میں اگر روح انسان حضرت مسیح در حقیقت روح انسانی رکھتے تھے اور وہی روح مدیر جسم تھی اور وہی روح کی تھی تودہ خدانہ ہوئے مصلوب ہونے کے وقت بھی مصلوبی کے وقت نکلی تھی اور اگر خدا کی روح تھی تو انسان نہ ہوئے.اور ایلی ایلی کہہ کر حضرت مسیح نے جان دی تو پھر روح خدائی کس حساب اور شمار میں آئی یہ ہمیں سمجھ نہیں آتا اور نہ کوئی عظمند سمجھ سکتا ہے.اگر در حقیقت روح کے لحاظ سے بھی حضرت مسیح انسان تھے تو پھر خدا نہ ہوئے.اور اگر روح کے لحاظ سے خدا تھے تو پھر انسان نہ ہوئے.ایک سخت اعتراض ہے جس سے قطعی طور پر حضرت مسیح کی الوہیت کا بطلان ہوتا ہے.انہی اعتراضات کو قرآن کریم نے پیش کیا ہے اور اس بنا پر میں نے یہ شرط کی تھی کہ حضرت مسیح کی الوہیت پر کوئی عقلی دلیل پیش ہونی چاہئے مگر افسوس کہ اس شرط کا کچھ بھی لحاظ نہ ہوا.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۹۵ ۱۹۶ صفات الوہیت سے جو خدا کی صفات کاملہ تھی وہ سب ابن مریم پر تھاپ دی.اور ان کے مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ جمیع مافی العالم کا رب نہیں ہے بلکہ مسیح اس کی ربوبیت سے باہر ہے بلکہ سیح آپ ہی رب ہے.اور جو کچھ عالم میں پیدا ہوا وہ بزعم باطل ان کے بطور تھی مگر الہ.قاعدہ کلیہ مخلوق اور حادث نہیں بلکہ ابن مریم عالم کے اندر حدوث پاکر اور صریح مخلوق ہو کر پھر غیر مخلوق اور خدا کے برابر بلکہ آپ ہی خدا ہے.اور اس کی عجیب ذات میں ایک ایسا الجو بہ ہے کہ باوجود حادث ہونے کے قدیم ہے.اور باوجود اس کے کہ خود اپنے اقرار سے ایک واجب الوجود کے ماتحت اور اس کا محکوم ہے.مگر پھر بھی آپ ہی واجب الوجود اور آزاد مطلق اور کسی کا ماتحت نہیں.اور باوجود اس کے کہ خود اپنے اقرار سے عاجز اور ناتوان ہے.مگر پھر بھی عیسائیوں کے بے بنیاد زعم میں قادر مطلق ہے اور عاجز نہیں.اور باوجود اس کے کہ خود اپنے اقرار سے امور غیبیہ کے بارہ میں نادان محض ہے

Page 50

۳۲ یہاں تک کہ قیامت کی بھی خبر نہیں کہ کب آئیگی.مگر پھر بھی نصرانیوں کے خوش عقیدہ کی رو سے عالم الغیب ہے.اور باوجود اس کے کہ خود اپنے اقرار سے اور نیز صحف انبیاء کی ا.گواہی سے ایک مسکین بندہ ہے.مگر پھر بھی حضرات مسیحیوں کی نظر میں خدا ہے.اور باوجود اس کے کہ خود اپنے اقرار سے نیک اور بے گناہ نہیں ہے مگر پھر بھی عیسائیوں کے خیال میں نیک اور بے گناہ ہے.غرض عیسائی قوم بھی ایک عجیب قوم ہے جنہوں نے ضدین کو جمع کر دکھایا اور تناقض کو جائز سمجھ لیا.اور گوان کے اعتقاد کے قائم ہونے سے مسیح کا دروغ گو ہونا لازم آیا.مگر انہوں نے اپنے اعتقاد کو نہ چھوڑا.ایک ذلیل اور عاجز بندہ کو رب العالمین قرار دیا.اور رب العالمین پر ہر طرح کی ذلت اور موت اور در داور دکھ اور تحجبتم اور حلول اور تغیر اور تبدل اور حدوث اور تولد کور وار کھا ہے.نادانوں نے خدا کو بھی ایک کھیل بنالیا ہے.عیسائیوں پر کیا حصر ہے ان سے پہلے کئی عاجز بندے خدا قرار دئے گئے ہیں.کوئی کہتا ہے رام چندر خدا ہے.کوئی کہتا ہے نہیں کرشن کی خدائی اس سے قوی تر ہے.اسی طرح کوئی بدھ کو کوئی کسی کو کوئی کسی کو خدا ٹھراتا ہے.ایسا ہی اس آخری زمانہ کے ان سادہ لوحوں نے بھی پہلے مشرکوں کی ریس کر کے ابن مریم کو خدا اور خدا کا فرزند ٹھہرالیا.غرض عیسائی لوگ نہ خداوند حقیقی کو رب العالمین سمجھتے ہیں نہ اسے رحمان اور رحیم خیال کرتے ہیں اور نہ جزا سزا اس کے ہاتھ میں یقین رکھتے ہیں، بلکہ ان کے گمان میں حقیقی خدا کے وجود سے زمین اور آسمان خالی پڑا ہوا ہے اور جو کچھ ہے ابن مریم ہی ہے.اگر رب ہے تو وہی ہے.اگر رحمان ہے تو وہی ہے.اگر رحیم ہے تو وہی ہے.اگر مالک یوم الدین ہے تو وہی ہے.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۴۶۷ تا ۴۶۹.بقیہ حاشیه ۱۱ ایسا ہی عیسائی عقیدہ کی رو سے خدا تعالیٰ عالم الغیب نہیں ہے.کیونکہ جس حالت میں حضرت عیسی کو خدا قرار دیا گیا ہے اور وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ میں جو خدا کا بیٹا حضرت مسیح عالم الغیب ہوں.مجھے قیامت کا علم نہیں.پس اس سے بجز اس کے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ خدا کو سے بھراس سکتا کہ خدا کو قیامت کا علم نہیں کہ کب آئیگی.ہشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۶۱

Page 51

۳۳ مسیح کے حالات پڑھو تو صاف معلوم ہو گا کہ یہ شخص کبھی بھی اس قابل نہیں ہو سکتا کہ نبی بھی ہو.چہ جائیکہ خدا یا خدا کا بیٹا.تدبیر عالم اور جزا سزا کے لئے عالم الغیب ہونا ضروری ہے اور یہ خدا کی عظیم الشان صفت ہے.مگر میں ابھی دکھا آیا ہوں کہ اسے قیامت تک کا علم نہیں اور اتنی بھی اسے معالم الب و ناخدا تعالی خبر نہ تھی کہ بے موسم انجیر کے درخت کے پاس شدت بھوک سے بے قرار ہو کر پھل کی عظیم الشان صفت کھانے کو جاتا ہے اور درخت کو جسے بذات خود کوئی اختیار نہیں ہے کہ بغیر موسم کے بھی پھل دے سکے.بد دعا دیتا ہے.اول تو خدا کو بھوک لگنا ہی تعجب خیز امر ہے.اور یہ خوبی صرف انجیلی خدا کو ہی حاصل ہے کہ بھوک سے بے قرار ہوتا ہے.پھر اس پر لطیفہ یہ بھی ہے کہ آپ کو اتنا علم بھی نہیں ہے کہ اس درخت کو پھل نہیں ہے اور پھر اگر یہ علم نہ تھا تو کاش کوئی خدائی کرشمہ ہی وہاں دکھاتے اور بے بہارے پھل اس درخت کو لگا دیتے.تا دنیا کے لئے ایک نشان ہو جاتا.مگر اس کی بجائے بد دعا دیتے ہیں.اب ان ساری باتوں کے ہوتے یسوع کو خدا بنایا جاتا ہے ؟ میں آپ کو سچی خیر خواہی سے کہتا ہوں کہ تکلف سے کچھ نہیں ہو سکتا.ایک شخص ایک ہی وقت میں اپنی دو حیثیتیں بتاتا ہے.باپ بھی اور بیٹا بھی.خدا بھی اور انسان بھی.کیا ایسا شخص دھوکا نہیں دیتا ہے؟ ملفوظات جلد ۳ صفحه ۱۳۶ عیسائی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے مذہب کے اصول و فروع اچھے نہیں.ایک انسان کو خدا بنا نا ٹھیک نہیں.اس زمانہ میں فلسفہ اور طبعی اور سائنس کے علوم ترقی کر گئے ہیں اور لوگ خوب سمجھ گئے ہیں کہ مسیح بجز ایک ناتواں اور ضعیف انسان ہونے کے حضرت مسیح میں کوئی اقتداری قوت نہ اقتداری قوت اپنے اندر نہ رکھتا تھا اور یہ ناممکن ہے کہ ان علوم کو پڑھ کر خود اپنی ذات کا تھی.تجربہ رکھ کر اور مسیح کی کمزوریوں اور ناتو آنیوں کو دیکھ کر یہ اعتقادر تھیں کہ وہ خدا تھا؟ ہرگز ملفوظات جلد ۸ صفحه ۳۴۸ 14 حضرات پادری صاحبان بھی اپنے خدا کو قادر نہیں سمجھتے.کیونکہ ان کا خدا اپنے عیسائیوں کا خدا قادر مخالفوں کے ہاتھوں ماریں کھاتا رہا.زندان میں داخل کیا گیا.کوڑے لگے.صلیب پر

Page 52

نچ گیا.اگر وہ قادر ہو ناتوانی ذلتیں باوجود خدا ہونے کے ہر گز نہ اٹھاتا اور نیز اگر وہ قادر ہوتا تو اس کے لئے کیا ضرورت تھی کہ اپنے بندوں کو نجات دینے کے لئے یہ تجویز سوچتا کہ آپ مر جائے اور اس طریق سے بندے رہائی پاویں.جو شخص خدا ہو کر تین دن خدا کے بندے تین تک مرار ہا اس کی قدرت کا نام لینا ہی قابل شرم بات ہے.اور یہ عجیب بات ہے کہ خدا تو لینادی دن تک بغیر خدا جیتے تین دن تک مرار ہا لیکن اس کے بندے تین دن تک بغیر خدا کے ہی جیتے رہے.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۷۲،۳۷۱ رہے.16 قادر نیز دیکھیں نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۷۸ انجیل تو صاف جواب دیتی ہے کہ مکالمہ اور مخاطبہ کا دروازہ بند ہے اور یقین کی راہیں مسدود ہیں.اور جو کچھ ہوا وہ پہلے ہو چکا اور آگے کچھ نہیں مگر تعجب ہے کہ وہ خدا جواب غیر متکلم بغیر چار دور تک اس زمانہ میں بھی سنتا ہے وہ اس زمانہ میں بولنے سے کیوں عاجز ہو گیا ؟ کیا ہم اس بے بس خدا.اعتقاد پر تسلی پکڑ سکتے ہیں کہ پہلے کسی زمانہ میں وہ بولتا بھی تھا اور سنتا بھی تھا مگر اب وہ صرف سنتا ہے مگر بولتا نہیں.ایسا خدا کس کام کا جو ایک انسان کی طرح جو بڑھا ہو کر بعض قوی سے بیکار ہو جاتے ہیں.امتداد زمانہ کی وجہ سے بعض قوی اس کے بھی بیکار ہو گئے.اور نیز ایسا خدا کس کام کا کہ جب تک ٹکٹکی سے باندھ کر اس کو کوڑے نہ لگیں اور اس کے منہ پر نہ تھو کا جائے اور چند روز اس کو حوالات میں نہ رکھا جائے اور آخر اس کو صلیب پر نہ کھینچا جائے تب تک وہ اپنے بندوں کے گناہ نہیں بخش سکتا.ہم تو ایسے خدا سے سخت بیزار ہیں جس پر ایک ذلیل قوم یہودیوں کی جو اپنی حکومت بھی کھو بیٹھی تھی غالب آگئی.ہم اس خدا کو سچا خدا جانتے ہیں جس نے ایک مکہ کے غریب و بیکس کو اپنا نبی بنا کر اپنی قدرت اور غلبہ کا جلوہ اسی زمانہ میں تمام جہان کو دکھا دیا.یہاں تک کہ جب شاہ ایران نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے اپنے سپاہی بھیجے تو اس قادر خدا نے اپنے رسول کو فرمایا کہ سپاہیوں کو کہہ دے کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خداوند کو قتل کر دیا ہے.اب دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف ایک شخص خدائی کا دعوی کرتا ہے اور اخیر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گورنمنٹ رومی کا ایک سپاہی اس کو گرفتار کر کے ایک دو گھنٹہ میں جیل خانہ میں ڈال دیتا ہے اور تمام رات کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں.اور دوسری طرف وہ مرد ہے کہ صرف رسالت کادعوی کرتا ہے.اور خدا اس کے مقابل پر

Page 53

۳۵ بادشاہوں کو ہلاک کرتا ہے.یہ مقولہ طالب حق کے لئے نہایت نافع ہے کہ "یار غالب شوکه تا غالب شوی".ہم ایسے مذہب کو کیا کریں جو مردہ مذہب ہے.ہم اس کتاب سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو مردہ کتاب ہے.اور ہمیں ایسا خدا کیا فیض پہنچا سکتا ہے جو مردہ خدا ہے.مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اپنے خدائے پاک کے یقینی اور قطعی مکالمہ سے مشرف ہوں اور قریباً ہر روز مشرف ہو تا ہوں اور وہ خدا جس کو یسوع مسیح کہتا ہے کہ تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا میں دیکھتا ہوں کہ اس نے مجھے نہیں چھوڑا.اور مسیح کی طرح میرے پر بھی بہت حملے ہوئے مگر ہر ایک حملہ میں دشمن نا کام رہے.اور مجھے پھانسی دینے کے لئے منصوبہ کیا گیا مگر میں مسیح کی طرح صلیب پر نہیں چڑھا بلکہ ہر ایک بلا کے وقت میرے خدا نے مجھے بچایا اور میرے لئے اس نے بڑے بڑے مجربات دکھلائے اور بڑے بڑے قومی ہاتھ دکھلائے اور ہزارہا نشانوں سے اس نے مجھ پر ثابت کر دیا خدا وہی خدا ہے جس نے قرآن کو نازل کیا اور جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا.اور میں عیسی مسیح کو ہر گزان امور میں اپنے پر کوئی زیادت نہیں دیکھتا.یعنی جیسے اس پر خدا کا کلام نازل ہوا ایسا ہی مجھ پر بھی ہوا اور جیسے اس کی نسبت معجزات منسوب کئے جاتے ہیں میں یقینی طور پر ان منجزات کا مصداق اپنے نفس کو دیکھتا ہوں بلکہ ان سے زیادہ.اور یہ تمام شرف مجھے صرف ایک نبی کی پیروی سے ملا ہے جس کے مدارج اور مراتب سے دنیا بے خبر ہے.یعنی سیدنا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۵۲ تا ۳۵۴ نیز دیکھیں ملفوظات جلد ۳ صفحہ۱۱۶ ۱۱۷ IA عیسائیوں کے اعتقاد کی رو سے بھی ان کا مجستم خدا قیوم الاشیاء نہیں ہو سکتا.کیونکہ قیوم ہونے کے لئے معیت ضروری ہے.اور ظاہر ہے کہ عیسائیوں کا خدا ایسوع اب عیسائیوں کا خدا قوم زمین پر نہیں کیونکہ اگر زمین پر ہوتا تو ضرور لوگوں کو نظر آتا جیسا کہ اس زمانہ میں نظر آتا ایشیاء میں ہو سکی ہیں تھا جبکہ پلاطوس کے عہد میں اس کے ملک میں موجود تھا.پس جبکہ وہ زمین پر موجود نہیں تو زمین کے لوگوں کا قیوم کیونکر ہو.رہا آسمان سو وہ آسمانوں کا بھی قیوم نہیں.کیونکہ اس کا جسم تو صرف چھ سات بالشت کے قریب ہو گا.پھر وہ سارے

Page 54

pry Σ آسمانوں پر کیونکر موجود ہو سکتا ہے تا ان کا قیوم ہو.معیار المذاہب.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۴۹۱ ۹ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کے نام کے ساتھ کوئی صفت مفعول کے صیغہ میں نہیں خدا تعالی کی کوئی صفت ہے.قدوس تو ہے مگر معصوم نہیں ہے.کیونکہ معصوم کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ اس کو میں ان کے سینے میں بچانے والا کوئی اور ہے.حالانکہ اللہ تعالٰی تو اپنی ذات ہی میں بے عیب پاک خدا ہے اور وحدہ لا شریک اکیلا خدا ہے.اس کو بچانے والا کون ہو سکتا ہے.نہیں.ملفوظات جلد ۸ صفحه ۱۴۰ عیسائی لوگ یسوع کی تعریف میں کہا کرتے ہیں کہ وہ بے گناہ تھا.حالانکہ بے گناہ ہونا کوئی خوبی نہیں.خوبی تو اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعلیٰ درجہ کے تعلقات بے گناہ کوئی خوبی نہ ہونا کی بنی ہوں اور انسان قرب الہی کو حاصل کرنے.چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ یسوع کی لوگ حد سے زیادہ ناجائز عزت کریں گے.اس واسطے پہلے ہی سے اس کا وہ حال ہوا جس سے ہر بات میں اس کا عجز اور کمزور انسان ہونا ثابت ہوتا ہے.ملفوظات جلد ۸ صفحه ۴۱۸ عیسائیوں کو ملزم کرنے کے واسطے اس سے بڑھ کر کوئی تیز ہتھیار نہیں ہے.ان سے پہلا سوال یہی ہونا چاہئے کہ کیا وہ ناطق خدا ہے یا غیر ناطق ؟ اگر غیر ناطق ہے تو اس وہ ناطق خدا ہیں یا غیر کا گونگا ہونا ہی اس کے ابطال کی دلیل ہے.لیکن اگر وہ ناطق ہے تو پھر اس کو ہمارے ناطق ؟ مقابل پر بلا کر دکھاؤ اور اس سے وہ بولیاں بلواؤ جن سے سمجھا جاتا ہے کہ وہ انسان کی مقدرت اور طاقت سے باہر ہیں یعنی عظیم الشان پیش گوئیاں اور آئندہ کی خبریں.مگر وہ پیش گوئیاں اس قسم کی نہیں ہونی چاہئیں جو یسوع نے خود اپنی زندگی میں کی تھیں کہ مرغ بانگ دے گا.یالڑائیاں ہوں گی.قحط پڑیں گے بلکہ ایسی پیش گوئیاں جن میں قیافہ اور فراست کو دخل نہ ہو بلکہ وہ انسانی طاقت اور فراست سے بالاتر ہوں.میں دعوی سے کہتا ہوں کہ کوئی پادری یہ کہنے کی طاقت نہیں رکھ سکتا.کہ خدائے قادر کے مقابلہ میں ایک عاجز اور ضعیف انسان یسوع کی اقتداری پیش گوئیاں پیش کر سکے.غرض

Page 55

۳۷ مسلمانوں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کا خدا دعاوں کا سننے والا ہے.قرآن شریف میں ایک مقام پر ان لوگوں کے لئے جو گوسالہ پرستی کرتے ہیں اور گوسالہ کو خدا بناتے ہیں.آیا ہے الا يرجع اليهم قولاً کہ وہ ان کی بات کا کوئی جواب ان کو نہیں دیتا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو خدا بولتے نہیں ہیں وہ گوسالہ ہی ہیں.ہم نے عیسائیوں سے بار ہا پوچھا ہے کہ اگر تمہارا خدا ایسا ہی ہے جو دعاوں کو سنتا ہے اور ان کے جواب دیتا ہے تو یتا وہ کس سے بولتا ہے ؟ تم جو یسوع کو خدا کہتے ہو پھر اس کو بلا کر دکھاؤ.میں دعوی سے کہتا ہوں کہ سارے عیسائی اکٹھے ہو کر بھی یسوع کو پکار میں وہ یقینا کوئی جواب نہ دے گا کیونکہ وہ مر گیا.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۲۰۲،۲۰۱ ۲۲ مسیح کی زندگی کے حالات پڑھو تو صاف معلوم ہو گا کہ وہ خدا نہیں ہے.اس کو اپنی زندگی میں کس قدر کو فیتیں اور کلفتیں اٹھانی پڑیں اور دعا کی عدم قبولیت کا کیسا برا نمونه دعاکی عدم قبولیت اس کی زندگی میں دکھایا گیا.خصوصاً باغ والی دعا جو ایسے اضطراب کی دعا ہے وہ بھی قبول نہ ہوئی اور وہ پیالہ ٹل نہ سکا.پس ایسی حالت میں مقدیم یہ ہے کہ تم اپنی حالت کو درست کرو اور انسان کی پرستش چھوڑ کر حقیقی خدا کی پرستش کرو.ملفوظات جلد ۶ صفحه ۱۰۳ نیز ملفوظات جلد ۳ صفحه ۱۳۳ پھر ایک اور پہلو سے بھی مسیح کی خدائی کی پڑتال کرنی چاہئے کہ اخلاقی حالت تو خیر یہ تھی ہی کہ یہود کے معزز بزرگوں کو آپ گالیاں دیتے تھے.لیکن جب ایک وقت قابو آگئے کوئی اس خدا سے کیا تو اس قدر دعاکی جس کی کوئی حد نہیں.مگر افسوس سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ ساری رات کی ان من و خوانا گیا ہے پائے گا دعا عیسائیوں کے عقیدے کے موافق بالکل رو ہو گئی اور اس کا کوئی بھی نتیجہ نہ کر دیا نہیں جاتا ؟ ہوا.اگر چہ خدا کی شان کے ہی یہ خلاف تھا کہ وہ دعا کرتے.چاہئے تو یہ تھا کہ اپنی اقتداری قوت کا کوئی کرشمہ اس وقت دکھا دیتے.جس سے بیچارے یہود اقرار اور تسلیم کے سوا کوئی چارہ ہی نہ دیکھتے.مگر یہاں الٹا اثر ہو رہا ہے.اور او خود گم است کرار هبری کند

Page 56

۳۸ حوائج بشریہ الوہیت کا معاملہ نظر آتا ہے.دعائیں کرتے ہیں.چیختے چلاتے ہیں.مگر افسوس وہ دعاسنی نہیں جاتی اور موت کا پیالہ جو صلیب کی لعنت کے زہر سے لبریز ہے، نہیں ملتا.اب کوئی اس خدا سے کیا پائے گا جو خود مانگتا ہے اور اسے دیا نہیں جاتا.ایک طرف تو خود تعلیم دیتا ہے کہ جو مانگو سو ملے گا.دوسری طرف خود اپنی ناکامی اور نامرادی کانمونہ دکھاتا ہے.اب انصاف سے ہمیں کوئی بتائے کہ کسی پادری کو کی تسلی اور اطمینان ایسے خدائے ناکام میں مل سکتا ہے؟ ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۶۵،۱۶۴ لا شريك له ، وان شاء لخلق ألوفا مثل عيسى او اكبر وافضل منه ، ويخلق.ومن وہ حقیقی معبود اور پاک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اگر چاہے تو ہزاروں عیسی بلکہ اس سے افضل اور اعلی پیدا کر دے اور يعلم اسراره فتوبوا واتقوا ان تجعلوا له شركاء، وأتوه مسلمين.وكيف نظن ان پیدا کر سکتا ہے اور اس کے بھیدوں کو کون جانتا ہے پس ان باتوں سے توبہ کرو کہ اس کا کوئی شریک ٹھہراو اور اس کے فرمانبردار بدل بن عيسى هو الله وما قرأنا فلسفة يثبت منها ان رجلا كان يأكل ويشرب ويبول کے مقام کے منافی جاو.اور کس طرح ہم گمان کریں کہ نینی ہی خدا ہے اور ہم نے تو کوئی ایسا فلسفہ نہیں پڑھا جس سے یہ علیت ہو کہ ایک آدمی کھانا ہیں.تیسری ويتغوط وينام ويمرض ، ولا يعلم الغيب ولا يقدر على دفع الاعداء، ودعا لنفسه پیتا بول کرتا پاخانے جاتا ہوتا بہار ہوتا اور علم غیب سے بے بہرہ دشمنوں کو دفع کرنے سے عاجز ہو اور مصیبت کے وقت شام سے صبح عند مصيبة متبهلا متضرعا من اول الليل الى آخره، فما اجيبت دعوته ، وما تک دعا کرے اور وہ دعا بھی قبول نہ ہو اور خدا تعالیٰ نہ چاہے کہ اپنے ارادہ کو اس کے ارادہ سے متحد کرے اور شیطان اس کو ایک پہاڑ کی شاء الله ان يوافق ارادته بارادته وقاده الشيطان الى جبل ، فاتبعه فما استطاع ان طرف کھینچ لے جائے اور وہ اس کو روک نہ سکے اور اس کے پیچھے چلا جائے اور یہ بات کہتا کہتا مر گیا ہو کہ اے میرے خدا! اے میرے يفارقه، ومات قائلا: ایلی ايلى لما سبقتنى، ومع ذلك اله وابن اله.سبحانه ان خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا اور باوجود ان سب نقصانوں کے خدا بھی ہو اور خدا کا بیٹا بھی.اللہ جل شانہ ان عیبوں سے پاک ہے اور هذا الا بهتان مبين.یہ صریح بہتان ہے.(نور) الحق روحانی خزائن مجلد ٨ ص (٥٦)

Page 57

۳۹ - ۱۲۵ آپ نے کئی مقامات انجیل میں اپنی انسانی کمزوریوں کا اقرار کیا جیسا کہ جب قیامت کا پتہ ان سے پوچھا گیا تو آپ نے اپنی لاعلمی ظاہر فرمائی اور کہا کہ بجز اللہ تعالیٰ کے قیامت کے وقت کو کوئی نہیں جانتا.اب صاف ظاہر ہے کہ علم روح کی صفات میں سے ہے نہ جسم کی صفات میں انسانی کمزور ہیں اور سے.اگر ان میں اللہ تعالٰی کی روح تھی اور یہ خود اللہ تعالیٰ ہی تھے تولا علمی کے اقرار کی کیا لاعلمی وغیرہ الوہیت وجہ.کیا خدا تعالیٰ بعد علم کے نادان بھی ہو جایا کرتا ہے.پھر متی ۱۹ باب ۱۶ میں لکھا ہے کے منافی ہیں..دیکھو ایک نے آکے اسے (یعنی مسیح سے ) کہا اے نیک استاد میں کونساتنیک کام کروں کہ ہمیشہ کی زندگی پاوں.اس نے اسے کہا تو کیوں مجھے نیک کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا.پھر متی ۲۰/۲۰ میں لکھا ہے کہ زبدی کے بیٹوں کی ماں نے اپنے بیٹوں کے حضرت مسیح کے دائیں بائیں بیٹھنے کی درخواست کی تو فرمایا اس میں میرا اختیار نہیں.اب فرمائیے قادر مطلق ہونا کہاں گیا.قادر مطلق بھی کبھی بے اختیار ہو جایا کرتا ہے اور جب اس قدر تعارض صفات میں ہو گیا کہ حضرات حواری تو آپ کو قادر مطلق خیال کرتے ہیں اور آپ قادر مطلق ہونے سے انکار کر رہے ہیں.تو ان پیش کردہ پیش گوئیوں کی کیا عزت اور کیا وقعت باقی رہی جس کے لئے یہ پیش کی جاتی ہیں.وہی انکار کرتا ہے کہ میں قادر مطلق نہیں یہ خوب بات ہے.پھر متی ۲۶/۳۸ میں لکھا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ مسیح نے تمام رات اپنے بچنے کے لئے دعا کی اور نہائت غمگین اور دلگیر ہو کر اور روروکر اللہ جل شانہ سے التماس کی کہ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے گذر جائے اور نہ صرف آپ بلکہ اپنے حواریوں سے بھی اپنے لئے دعا کرائی جیسے عام انسانوں میں جب کیسی پر کوئی مصیبت پڑتی ہے اکثر مسجدوں وغیرہ میں اپنے لئے دعا کرایا کرتے ہیں لیکن تعجب یہ کہ باوجود اس کے کہ خواہ نخواہ قادر مطلق کی صفت ان پر تھوپی جاتی ہے اور ان کے کاموں کو اقتداری سمجھا جاتا ہے مگر پھر بھی وہ دعا منظور نہ ہوئی اور جو تقدیر میں لکھا تھاوہ ہو ہی گیا.اب دیکھو اگر وہ قادر مطلق ہوتے تو چاہئے تھا کہ یہ اقتدار اور یہ قدرت کاملہ ان کو اپنے نفس کے لئے کام آتا.جب اپنے نفس کے لئے کام نہ آیا تو غیروں کو ان سے توقع رکھنا ایک طمع خام ہے.صاف ثابت ہو گیا کہ حضرت مسیح اپنے اقوال کے ذریعہ اور اپنے افعال کے ذریعہ سے اپنے تئیں عاجز ٹھہراتے ہیں اور خدائی کی کوئی بھی صفت ان میں اب

Page 58

الوہیت ہیں.نہیں ایک عاجز انسان ہیں.ہاں نبی اللہ بے شک ہیں.عاجز دل ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں.اللہ جل شانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے.قل ارايتم ما تدعون من دون الله ارونى ماذا خلقوا من الارض امر لهم شرك فى السموات ايتونى بكتاب من قبل هذا او اثارة من علم إن كنتم صادقين.ومن اضل ممن يدعوا من دون الله من لا يستجيب له إلى يوم القيمة وهم عن دعائهم غافلون یعنی کیا تم نے دیکھا کہ جن لوگوں کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا معبود ٹھہرارہے ہو انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا اور یا ان کو آسمانوں کی پیدائش میں کوئی شراکت ہے.اگر اس کا ثبوت تمہارے پاس ہے اور کوئی لاب ہے جس میں یہ لکھا ہو کہ فلاں فلاں چیز تمہارے معبود نے پیدا کی تو لاؤ وہ کتاب پیش کرو اگر تم سچے ہو.یعنی یہ تو ہو نہیں سکتا کہ یونہی کوئی شخص قادر مطلق کا نام رکھالے اور قدرت کا کوئی نمونہ پیش نہ کرے اور خالق کہلائے اور خالقیت کا کوئی نمونہ ظاہر نہ کرے.اور پھر فرماتا ہے کہ اس شخص سے زیادہ تر گمراہ کون شخص ہے کہ ایسے شخص کو خدا کر کے پکارتا ہے جو اس کو قیامت تک جواب نہیں دے سکتا.بلکہ اس کے پکارنے سے بھی غافل ہے چہ جائیکہ اس کو جواب دے سکے.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۳۵ تا ۱۳۷ عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح ابن مریم جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا اسی طرح پر جس طرح عام انسان پیدا ہوتے ہیں.اور کھاتا پیتا ہگتا موستا رہاوہ خدا ہے.اب یہ تو ممکن خواص بشریہ مانع ہے کہ ایک شخص کو اس سے محبت ہو لیکن انسانی دانش کبھی یہ تجویز نہیں کرتی کہ ایسا کمزور اور نانواں انسان خدا بھی ہوتا ہے.یا یہ کہ عورتوں کے پیٹ سے خدا بھی پیدا ہوا کرتے ہیں.جبکہ پہلا ہی قدم باطل پر پڑا ہے تو دوسرے قدم کی حق پر پڑنے کی کیا امید ہو سکتی ہے.جو شعاعیں زندہ خدا اور کامل صفات سے موصوف خدا کو مان کر دل پر پڑتی ہیں.وہ ایک مرنے والی ہستی، ضعف و ناتوانی کی تصویر پرستی سے کہاں ؟؟؟ ملفوظات.جلد ۲ صفحہ ۲۳۴

Page 59

۴۱ میسج جس کو خدا بنایا جاتا ہے اس کی تو کچھ پوچھو ہی نہیں.ساری عمر پکڑ دھکڑ میں گزری اور ابن آدم کو سر دھرنے کی جگہ ہی نہ ملی.اخلاق کا کوئی کامل نمونہ ہی موجود نہیں تعلیم ایسی ادھوری اور غیر مکتفی کہ اس پر عمل کر کے انسان بہت نیچے جاگرتا ہے.حات.۲۷ وہ کسی دوسرے کو اقتدار اور عزت کیا دے سکتا ہے.جو اپنی بے بسی کا خود شاکی عیسائیوں کے خدا کی ہے، اوروں کی کیا سن سکتا ہے.جس کی اپنی ساری رات کی گریہ وزاری اکارت گئی اور چلا چلا کر ایلی ايلى لما سبقتاني بھی کہا مگر شنوائی ہی نہ ہوئی اور پھر اس پر طرہ یہ کہ آخر یہودیوں نے پکڑ کر صلیب پر لٹکا دیا.اور اپنے اعتقاد کے مطابق ملعون قرار دیا.خود عیسائیوں نے لعنتی مانا.مگر یہ کہہ دیا کہ ہمارے لئے لعنتی ہوا.حالانکہ لعنت ایسی چیز ہے کہ انسان اس سے سیاہ باطن ہو جاتا ہے.اور وہ خدا سے دور اور خدا اس سے دور ہو جاتا ہے.گویا خدا سے اس کو کچھ تعلق نہیں رہتا.اس لئے ملعون شیطان کا نام بھی ہے.اب اس لعنت کو مان کر اور مسیح کو ملعون قرار دے کر عیسائیوں کے پاس کیا رہ جاتا ہے.سچ تو یہ ہے.لعنت نال لکھ نہیں رہندا.ملفوظات.جلد ا صفحہ ۳۳۰ نیز دیکھیں نور القرآن حصہ اول.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۵۴،۳۵۳ حاشیه و ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۳۹ تا ۱۴۱ رایک پادری مسیح کو خدا کہتے ہوئے ایک دانشمند شخص کو اس حقیقی خدا پر ایمان ۲۸ رکھنے سے برگشتہ کر سکتا ہے جس کی ذات مرنے اور مصیبتوں کے اٹھانے اور دشمنوں مسیح کا معجز و اضطرار کے ہاتھ میں گرفتار ہونے اور پھر مصلوب ہو جانے سے پاک ہے اور جس کا جلالی نام عیسائیوں کے لئے قانون قدرت کے ہریک صحیفہ میں چمکتا ہوا نظر آتا ہے.ہم نے خود بعض منصف مزاج باعث ندامت ہے.عیسائیوں سے خلوت میں سنا ہے کہ جب ہم کبھی مسیح کی خدائی کا بازاروں میں وعظ کرتے ہیں تو بعض وقت مسیح کے بحجر اور اضطرار کی سوانح پیش نظر آجانے سے بات کرتے کرتے ایسا انفعال دل کو پکڑتا ہے کہ بس ہم ندامت میں غرق ہی ہو جاتے ہیں.غرض انسان کو خدا بنانے والا کیا وعظ کرے گا اور کیونکر اس عاجز انسان میں اس قادر خدا کی عظمت کا

Page 60

۴۲ ۲۹ آزمائش کر سکتا ہے.نمونہ دکھائے گا جس کے حکم سے ایک ذرہ بھی زمین و آسمان سے باہر نہیں اور جس کا جلال دکھانے کے لئے سورج چمکتا اور زمین طرح طرح کے پھول نکالتی ہے.آریہ دھرم - روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۸۲ ۸۳ عیسی نے ایک وقت میں تو یہ کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور دوسرے وقت بقول کیا شیطان خدا کی بھی عیسائیوں کے شیطان کے پیچھے پیچھے پھرتا رہا.اگر اس میں حقیقی روشنی ہوتی تو یہ ابتلا اس کو پیش نہ آتا.کیا شیطان خدا کی بھی آزمائش کر سکتا ہے.پس چونکہ عیسی انسان تھا اس لئے انسانی آزمائشیں اس کو پیش آئیں.اور عیسیٰ کی دعاؤں میں بھی کوئی اقتدار نہ تھا صرف انسان کی طرح جناب الہی میں عجز و نیاز تھا.یہی وجہ ہے کہ باغ والی دعا میں اس قدر آزمائشیں انسان کو آتی وہ رویا کہ اس کے کپڑے آنسووں سے بھر گئے مگر باوجود اس کے عیسائی کہتے ہیں کہ پھر بھی وہ دعا قبول نہ ہوئی.لیکن ہم کہتے ہیں کہ وہ قبول ہو گئی اور خدا نے اس کو صلیب سے بچالیا اور صرف یونس کی طرح قبر میں داخل ہوا اور یونس کی طرح زندہ ہی داخل ہوا اور زنده ہی نکلا.اس کا رونا اور اس کی روح کا گداز ہونا موت کے قائم مقام تھا.ایسی دعائیں قبول ہوتی ہیں جیسی مریم کے بیٹے نے باغ میں کی ہے.ہیں.- حقیقة الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۸۷ عیسائی مذہب ایک ایسا خدا پیش کرتا ہے جو مخلوق اور کمزور اور عاجز ہے جو یہودیوں حضرت مسیح دوسرے کے ہاتھ سے طرح طرح کے دکھ اٹھاتا رہا اور ایک گھنٹہ میں گرفتار ہو کر حوالات میں کیا گیا مشرکوں کے مصنوعی خداوں کی طرح ہیں.اور پھر آخر عیسائیوں کے عقیدہ کے موافق مصلوب ہوا.ایسا خدادوسرے مشرکوں کے ہی مجھے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے اپنے سولی دئے جانے کی نسبت کوئی خواب دیکھی ہوگی اس لئے ان کے دل میں یہ خوف دامن گیر ہوا کہ اگر میں سولی دیا گیا تو شریر یہودی لعنتی ہونے کی تہمت میرے پر لگائیں گے پس اسی وجہ سے انہوں نے جان توڑ کر دعاکی اور وہ دعا قبول ہو گئی اور خدا نے اس تقدیر کو اس طرح بدل دیا کہ بگفتن سولی پر چڑہائے گئے.قبر میں بھی داخل کئے گئے مگر یونس کی طرح زندہ ہی داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے.نبی بہادر ہوتے ہیں ذلیل یہودیوں کا ان کو خوف نہ تھا.

Page 61

مصنوعی خداوں کی نسبت کیا امتیاز رکھتا ہے اور نیز عقل کب تسلیم کر سکتی ہے کہ تمام مدار رحمت کا خدا کے پھانسی دینے پر ہے اور جب ایک مرتبہ خدامر گیا تو پھر اس کی زندگی سے امان اٹھ گیا اور اس پر کیا دلیل ہے کہ وہ پھر نہیں مرے گا؟ جو خدا ہو کر مر بھی سکتا ہے اس کی پوجا کرنا لغو ہے وہ کس کو بچائے گا جب اپنے تئیں بچا نہ سکا.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۷۰ سلام سلام ڈپٹی صاحب سے میرا یہ سوال تھا کہ آپ جو حضرت عیسی کو خدا ٹھراتے ہیں تو آپ کے پاس حضرت موصوف کی الوہیت پر کیا دلیل ہے کیونکہ جبکہ دنیا میں بہت سے فرقے کئی قوموں نے اپنے اور قومیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ انہوں نے اپنے اپنے پیشواؤں اور رہبروں کو خدا ٹھہرار کھا پیشواوں کو خدا بنا ہے پھر مسیح کی کیا خصوصیت ہے.جیسے ہندوؤں کا فرقہ اور بدھ مذہب کے لوگ اور وہ لوگ بھی اپنے اپنے پرانوں ہے کہ یہ تو نہ ہوں اور اور شاستروں کے رو سے ان کی خدائی پر منقولی دلائل پیش کیا کرتے ہیں بلکہ ان کے باقی نہ ہوں ؟ مجربات اور بہت سے خوارق بھی ایسی شدومد سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس ان کی نظیر نہیں جیسے کہ راجہ رام چندر صاحب اور راجہ کرشن صاحب اور برہم اور بشن اور مہادیو کی کرامات جو وہ بیان کرتے ہیں.آپ صاحبوں پر پوشیدہ نہیں تو پھر ایسی صورت میں ان متفرق خداؤں میں سے ایک سچا خدا ٹھہرانے کے لئے ضرور نہیں کہ بڑی بڑی معقولی دلائل کی ضرورت ہے.کیونکہ دعوے میں اور منقولی ثبوتوں کے پیش کرنے میں تو سب صاحب آپ کے شریک ہیں.بلکہ منقولات کے بیان کرنے میں شریک غالب معلوم ہوتے ہیں.اور میں نے ڈیٹی صاحب موصوف کو صرف اسی قدر بات کی طرف توجہ نہیں دلائی بلکہ قرآن کریم سے عقلی دلائل نکال کر ابطال الوہیت مسیح پر پیش کئے کہ انسان جو اور تمام انسانوں کے لوازم اپنے اندر رکھتا ہے کسی طرح خدا نہیں ٹھہر سکتا.اور خدا یا خدا کا بیٹا ہونے نہ کبھی یہ ثابت ہوا کہ دنیا میں خدا یا خدا کا بیٹا بھی نبیوں کی طرح وعظ اور اصلاح خلق کے سے دعوے تو پیش کئے لئے آیا ہو.مگر افسوس کہ ڈپٹی صاحب موصوف نے اس کا کوئی جواب شافی نہ دیا میری جاتے ہیں لیکن دیل نہیں دی جاتی.طرف سے یہ پہلے شرط ہو چکی تھی کہ ہم فریقین دعوی بھی اپنی کتاب الہامی کا پیش کریں گے اور دلائل معقولی بھی اسی کتاب الہامی کی سنائی جائیں گی.مگر ڈپٹی صاحب موصوف نے بجائے اس کے کہ کوئی معقولی دلیل حضرت عیسی کے خدا یا خدا کا بیٹا ہونے پر پیش کرتے دعوے پر دعوے کرتے گئے.اور بڑا ناز ان کو ان چند پیش گوئیوں پر ہے جو

Page 62

ام م انہوں نے عبرانیوں کے خطوط اور بعض مقامات بائبل سے نکال کر پیش کئے ہیں مگر افسوس کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایسی پیش گوئیاں جب تک ثابت نہ کی جاویں کہ در حقیقت وہ صحیح ہیں اور ان کا مصداق حضرت مسیح نے اپنے شیں ٹھہرالیا ہے اور اس پر دلائل عقلی دی ہیں تب تک وہ کسی طور سے دلائل کے طور پر پیش نہیں ہو سکتیں بلکہ وہ بھی ڈپٹی صاحب کے دعاوی ہیں جو محتاج ثبوت ہیں.ان دعلوی کے سوائے ڈپٹی صاحب نے اب تک حضرت مسیح کی الوہیت ثابت کرنے کے لئے کچھ بھی پیش نہیں کیا اور میں بیان کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح یو حناء اباب میں صاف طور سے اپنے تئیں خدا کا بیٹا کہلانے میں دوسروں کا ہمرنگ سمجھتے ہیں اور کوئی خصوصیت اپنے نفس کے لئے قائم نہیں کرتے حالانکہ وہ یہودی جنہوں نے حضرت مسیح کو کافر ٹھہرایا تھا ان کا سوال یہی تھا.اور یہی وجہ کافر ٹھہرانے کی بھی تھی کہ اگر آپ در حقیقت خدا کے بیٹے ہیں تو اپنی خدائی کا ثبوت دیجئے.لیکن انہوں نے کچھ بھی ثبوت نہ دیا.افسوس کہ ڈپٹی صاحب اس بات کو کیوں سمجھتے نہیں کہ کیا ایسا ہونا ممکن تھا کہ سوال دیگر و جواب دیگر.اگر حضرت مسیح در حقیقت اپنے تئیں ابن اللہ ٹھہراتے تو ضرور یہی پیش گوئیاں وہ پیش کرتے جواب ڈپٹی صاحب پیش کر رہے ہیں اور جبکہ انہوں نے وہ پیش نہیں کیں تو معلوم ہوا کہ ان کا وہ دعوی نہیں تھا.اگر انہوں نے کسی اور مقام میں پیش کر دی ہیں اور کسی دوسرے مقام میں یہودیوں کے اس بار بار کے اعتراض کو اس طرح پر اٹھا دیا ہے کہ میں در حقیقت خدا یا خدا کا بیٹا ہوں اور یہ پیش گوئیاں میرے حق میں وارد ہیں اور خدائی کا ثبوت بھی اپنے افعال سے دکھلا دیا ہے تا اس متنازعہ فیہ پیش گوئی سے ان کو مخلصی حاصل ہو جاتی.تو برائے مہربانی وہ مقام پیش کریں.اب کسی طور سے آپ اس مقام کو چھپا نہیں سکتے.اور آپ کی دوسری تاویلات تمام رکیک ہیں سچ یہی بات ہے کہ مخصوص کا لفظ اور بھیجا گیا کا لفظ عہد حقیق میں اور نیز جدید میں عام طور پر استعمال پایا ہے.آپ پر یہ ایک ہمارا قرضہ ہے جو مجھے ادا ہو تا نظر نہیں آتا جو آپ نے حضرت مسیح کی خدائی کا تو ذکر کیا لیکن ان کی خدائی کا معقولی طور پر کچھ بھی ثبوت نہ دے سکے.اور دوسرے خداؤں کی نسبت اس میں کچھ مابہ الامتیاز عقلی طور پر قائم نہ کر سکے.بھلا آپ فرما دیں کہ عقلی طور پر اس بات پر کیا دلیل ہے کہ راجہ رام چندر اور راجہ کرشن اور بدھ خدا نہ ہوں اور حضرت مسیح خدا ہوں.اور مناسب ہے کہ اب بعد اس کے آپ بار بار ان پیش گوئیوں کا نام نہ لیں جو خود حضرت مسیح کی طرز

Page 63

۴۵ : بیان سے رد ہو چکی ہیں اور حضرت مسیح ضرورت کے وقت ان کو اپنے کام میں نہیں لائے بیشک ہر ایک دانا اس بات کو سمجھتا ہے کہ جب وہ کافر ٹھہرائے گئے اور ان پر حملہ کیا گیا اور ان پر پتھراؤ شروع ہوا تو ان کو اس وقت اپنی خدائی کے ثابت کرنے کے لئے ان پیش گوئیوں کی اگر وہ در حقیقت حضرت مسیح کے حق میں تھیں اور ان کی خدائی پر گواہی دیتی مسعود کے اعتراض پر وہ تھیں سخت ضرورت پڑی تھی.کیونکہ اس وقت جان جانے کا اندیشہ تھا اور کافر تو قرار پیش گوئیاں کیوں نہ پیش کیں جو ثبوت کے پاچکے تھے تو پھر ایسی ضروری اور کار آمد پیش گوئیاں کس دن کے لئے رکھی گئی تھیں اور ہی پیش کی جاری پر آج کیوں نہیں پیش کیں.کیا آپ نے اسکا کوئی کبھی جواب دیا.پھر ہم ان پیش گوئیوں کو کیا ہیں؟ کریں اور کسی عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور کیونکر حضرت مسیح کو دنیا کے دوسرے مصنوعی خداؤں سے الگ کر لیں.اللہ جل شانہ، قرآن کریم میں فرماتا ہے وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرُ إِبْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصر المسيح ابن الله ذلك قولهم بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللهُ : الى يُؤْفَكُونَ ، اِتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالمَسْحُ ابن مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا إِلهَا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلا هُوَ سُبحة الا ان ثورة ولوكرَة الكَافِرُونَ ، هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ نِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ وَلَوْ كَرِهَ المَشْرِكُونَه (بن - (1) ) یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہا بعض یہود نے کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے اور کہا نصاری نے مسیح خدا کا بیٹا ہے یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں جن کا کوئی تجھی ثبوت نہیں رئیس کرنے لگے ان لوگوں کی جو پہلے اس سے کافر ہو چکے یعنی جو انسانوں کو خدا اور خدا کے بیٹے قرار دے چکے یہ ہلاک کئے جائیں کیسے یہ تعلیم سے پھر گئے.انہوں نے اپنے عالموں کو اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا پروردگار ٹھہر الیا اور ایسا سیح بن مریم کو حلانکہ ہم نے یہ حکم کیا تھا کہ تم کسی کی بندگی نہ کرو مگر ایک کی جو خدا ہے جس کا کوئی شریک نہیں.چاہتے ہیں کہ اپنے مونہوں کی پھونکوں سے حق کو بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ باز نہیں رہے گا جب تک اپنے نور کو پورا نہ کرے اگر چہ کافر ناخوش ہوں وہ وہی خدا ہے جس نے اپنا ر سول ہدایت اور سجاد پن دے کر بھیجاتا وہ دین سب دینوں پر غالب ہو جائے.اگرچہ مشرک ناخوش ہوں.اب دیکھئے کہ ان آیات کریمہ میں اللہ جل شانہ نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ

Page 64

سم عیسائیوں سے پہلے یہودی یعنی بعض یہودی بھی عزیر کو ابن اللہ قرار دے چکے اور نہ صرف وہی بلکہ مقدم زمانہ کے کافر بھی اپنے پیشواؤں اور اماموں کو یہی منصب دے چکے پھر ان کے پاس اس بات پر کیا دلیل ہے کہ وہ لوگ اپنے اماموں کو خدا ٹھہرانے میں جھوٹے تھے اور یہ بچے ہیں.اور پھر اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ یہی خرابیاں دنیا میں پڑ گئی تھیں جن کی اصلاح کے لئے اس رسول کو بھیجا گیا تا کامل تعلیم کے ساتھ ان خرابیوں کو دور کرے.کیونکہ اگر یہودیوں کے ہاتھ میں کوئی کامل تعلیم ہوتی.تو وہ بر خلاف توربیت کے اپنے عالموں اور درویشوں کو ہر گز خدا نہ ٹھراتے.اس سے معلوم ہوا کہ وہ کامل تعلیم کے محتاج تھے.جیسا کہ حضرت مسیح نے بھی اس بات کا اقرار کیا کہ ابھی بہت سی باتیں تعلیم کی باقی ہیں کہ تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے یعنی جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتادے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن وہ جو کچھ سنے گی وہ کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی.حضرات عیسائی صاحبان اس جگہ روح حق سے روح القدس مراد لیتے ہیں اور اس طرف توجہ نہیں فرماتے کہ روح القدس تو ان کے اصول کے موافق خدا ہے تو پھر وہ کس سے سنے گا.حالانکہ لفظ پیش گوئی کے یہ ہیں کہ جو کچھ وہ سنے گی وہ کہے گی.اب پھر ہم اس پہلے مضمون کی طرف رجوع کر کے کہتے ہیں کہ ڈپٹی صاحب موصوف نے تو حضرت مسیح کے خدا ہونے پر کوئی معقولی دلیل انجیل سے پیش نہ کی.لیکن ہم ایک اور دلیل قرآن کریم سے پیش کر دیتے ہیں کہ اللہ جل شانہ ، فرماتا ہے.الله الذي خلقكم ثم رزقكم ثمّ يميتكم ثم يحييكم هل من شركاتكم من يفعل من ذلكم من شئ سبحانہ و تعالیٰ عالیشہ کون (دیاره کو تا ہے یعنی اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا.پھر تمہیں رزق دیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا.کیا تمہارے معبودوں میں سے جو انسانوں میں سے ہیں کوئی ایسا کر سکتا ہے.پاک ہے خدا ان بہتانوں سے جو مشرک لوگ ان پر لگارہے ہیں.پھر فرماتا مسیح خدا ہیں تو ان کی ہے.ام جعلوا الله شركاء خلقو الخلقه فتشابه الخلق الوبيت كا ثبوت عليهم.قل الله خالق كل شى: وهو الواحد القهار.کیا انہوں نے خدا تعالیٰ کے شریک ایسی صفات کے ٹھہرار کھے ہیں کہ جیسے خدا خالق ہے وہ بھی خالق ہیں تا اس دلیل سے انہوں نے ان کو خدا مان لیا.ان کو کہہ دے کہ ثابت شدہ صفات خالقیت و دیں.

Page 65

یہی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہر ایک چیز کا ہے اور وہی اکیلا ہر ایک چیز پر غالب اور قاہر ہے.اس قرآنی دلیل کے موافق ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب سے میں نے دریافت کیا تھا کہ اگر آپ صاحبوں کی نظر میں در حقیقت حضرت مسیح خدا ہیں تو ان کی خالقیت وغیرہ صفات الوہیت کا ثبوت دیجئے.کیونکہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ خدا اپنی صفات کو آسمان پر چھوڑ کر نرا مجرد اور برہنہ ہو کر دنیا میں آجائے اس کی صفات اس کی ذات سے لازم غیر منفک ہیں اور کبھی تعطل جائز نہیں.یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ خدا ہو کر پھر خدائی کے صفات کاملہ ظاہر کرنے سے عاجز ہو اس کا جواب ڈیپٹی صاحب موصوف مجھے یہ دیتے ہیں کہ جو کچھ زمین آسمان میں آفتاب و ماہتاب وغیرہ چیزیں مخلوق پائی جاتی ہیں یہ مسیح کی بنائی ہوئی ہیں.اب ناظرین اس جواب کی خوبی اور عمدگی کا آپ ہی اندازہ کر لیں کہ یہ ایک دلیل پیش کی گئی ہے یا دوسرا ایک دعوی پیش کیا گیا ہے.کیا ایسا ہی ہندو صاحبان نہیں کہتے کہ جو کچھ آسمان و زمین میں مخلوق پائی جاتی ہے وہ راجہ رام چندر صاحب نے ہی بنائی ہوئی ہے.پھر اس کا فیصلہ کون کرے.پھر بعد اس کے ڈپٹی صاحب موصوف ایمانی نشانیوں کو کسی خاص وقت تک محدود قرار دیتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح صاف لفظوں سے فرمارہے ہیں کہ اگر تم میں رائی کے برابر بھی ایمان ہو تو تم سے ایسی ایسی کرامات ظاہر ہوں.پھر ایک مقام یو حنام اباب ۱۲ میں آپ فرماتے ہیں.میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے جو میں کام کرتا ہوں وہ بھی کرے گا اور ان سے بھی بڑے بڑے کام کرے گا.اب دیکھئے کہ وہ تاویلات آپ کی کہاں گئیں.اس آیت میں تو حضرت مسیح نے صاف صاف فیصلہ ہی کر دیا اور فرما دیا کہ مجھ پر ایمان لانے والا میرا ہمرنگ ہو جائیگا اور میرے جیسے کام بلکہ مجھ سے بڑھ کر کرے گا اور یہ فرمودہ حضرت مسیح کا نہایت صحیح اور سچا ہے کیونکہ انبیا اسی لئے آیا کرتے ہیں کہ ان کی پیروی کرنے سے انسان انہیں کے رنگ سے رنگین ہو جائے اور ان کے درخت کی ایک ڈالی بن کر وہی پھل اور وہی پھول لاوے جو وہ لاتے ہیں.ماسوا اس کے یہ بات ظاہر ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے اطمینان قلب کا محتاج ہوتا ہے اور ہر ایک زمانہ کو تاریکی کے پھیلنے کے وقت نشانوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے.پھر یہ کیونکر ہو سکے کہ حضرت مسیح کے مذہب قائم رکھنے کے لئے اس خلاف تحقیقات عقیدہ حضرت مسیح کے ابن اللہ ٹھہرانے کے لئے کسی نشان کی کچھ بھی ضرورت نہ ہو اور دوسری قوم جن کو باطل پر خیال کیا جاتا ہے اور وہ نبی کریم صلحم

Page 66

۴۸ کے لئے کوئی دلیل جو قرآن کریم کو لایا اس کو خلاف حق سمجھا جاتا ہے.اس کی پیروی کرنے والے تو قرآن کریم کے منشاء کے موافق خدا تعالیٰ کی توفیق اور فضل سے نشان دکھلاویں مگر مسیحیوں کے نشان آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہوں.اگر مسیحیوں میں نشان نمائی کی توفیق اب موجود نہیں ہے تو پھر خود سوچ لیں کہ ان کامذہب کیا شے ہے.میں پھر سہ بارہ عرض کرتا ہوں کہ جیسا کہ اللہ جل شانہ کے بچے مذہب کی تین نشانیاں ٹھہرائی ہیں وہ اب بھی نمایاں طور پر اسلام میں موجود ہیں.پھر کیا وجہ کہ آپ کا مذہب بے نشان ہو گیا اور کوئی سچائی کے نشان اس میں باقی نہیں رہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح نے جو نشانی دکھلانے سے ایک جگہ انکار کیا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پہلے دکھلا چکے تھے میں کہتا ہوں کہ یہ آپ کا بیان صحیح نہیں ہے اگر وہ دکھلا چکتے تو اس کا حوالہ دیتے.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۶۴ تا ۱۷۰ وما كان دليلهم على ألوهية المسيح الا انهم زعموا انه خلق الخلق بقدرته وأحيا عیسائیوں کے پاس الاموات بألوهيته ، وهو حى بجسمه العنصرى على السماء، قائم بنفسه ، مقوم الوہیت مسیح کے ثبوت لغيره، وهو عين الرب والرب عينه، وحمل احدهما على الآخر حمل المواطأة وانما التفاضل في الامور الاعتبارية..ازلى ابدى وما كان من الفانين.ويجوزون لله تنزلات في مظاهر الاكوان، ثم يختصونها بجسم المسيح جهلا وحمقا وليس عندهم على هذا من دليل مبين.نہیں.ترجمه بـ (حمامة البشرى روحانى خزائن مجلد ۷ ص ۱۷۷ اور ان کے پاس الوہیت مسیح کی کوئی دلیل نہیں سوائے اس کے کہ وہ زعم رکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قدرت سے مخلوق پیدا کی.اور اپنی الوہیت سے مردوں کو زندہ کیا اور وہ اپنے عصری جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ موجود ہیں.وہ اپنی ذات میں قائم اور دوسروں کو قائم رکھنے والے ہیں.وہ بعینہ رہتے ہیں اور رب ان کا عین ہے.حتی کہ دونوں میں کوئی دوئی نہیں ہے.البتہ مختلف نسبتوں کے اعتبار سے نام میں فرق ہے.وہ ازلی اور ابدی ہیں اور فنا ہونے والے نہیں اور وہ اس کائنات کے مختلف مظاہر میں اللہ تعالیٰ کے لئے تنزلات کو تجویز کرتے ہیں اور پھر اپنی جہالت اور حماقت کی وجہ سے ان تنزلات کو جسم مسیح کے لئے خاص کرتے ہیں.اس پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں.(ترجمہ از مرتب )

Page 67

۴۹ افسوس کہ تمام مخالف مذہب والوں نے خدا تعالیٰ کے وسیع دریائے قدرت اور رحمت اور تقدس کو اپنی تنگ دلی کی وجہ سے زبر دستی روکنا چاہا ہے اور انہی وجوہ سے ان اور کو کے فرضی خداوں پر کمزوری اور ناپاکی اور بناوٹ اور بے جا غضب اور بے جا حکومت کے طرح طرح کے داغ لگ گئے ہیں لیکن اسلام نے خدا تعالیٰ کی صفات کاملہ کی تیز رو دھاروں کو کہیں نہیں روکا.وہ آریوں کی طرح اس عقیدہ کی تعلیم نہیں دیتا کہ زمین و آسمان کی روحیں اور ذرات اجسام اپنے اپنے وجود کے آپ ہی خدا ہیں اور جس کا پر میشر نام ہے.وہ کسی نا معلوم سبب سے محض ایک راجہ کے طور پر ان پر حکمران ہے اور نہ عیسائی مذہب کی طرح یہ سکھلاتا ہے کہ خدا نے ایک انسان کی طرح ایک عورت کے پیٹ سے جنم لیا اور نہ صرف نو مہینہ تک خون حیض کھا کر ساتھ نہیں.خون اور ہڈی اور گوشت کو حاصل کیا بلکہ بچپن کے زمانہ میں جو جو بیماریوں کی صعوبتیں ہیں جیسے خسرہ چیچک دانتوں کی تکالیف وغیرہ تکلیفیں وہ سب اٹھا ئیں.اور بہت ساحصہ عمر کا معمولی انسانوں کی طرح کھو کر آخر موت کے قریب پہنچ کر خدائی یاد آگئی.مگر صرف دعوی ہی دعوی چونکہ صرف دعوی ہی دعوی تھا اور خدائی طاقتیں ساتھ نہیں تھیں.اس لئے دعوی کے ہے خدائی طاقتیں ساتھ ہی پکڑا گیا.بلکہ ان سب نقصانوں اور ناپاک حالتوں سے خدائے حقیقی ذوالجلال کو منزہ اور پاک سمجھتا ہے.اور اس وحشیانہ غضب سے بھی اس کی ذات کو بر تر قرار دیتا ہے کہ جب تک کسی کے گلے میں پھانسی کا رستہ نہ ڈالے.تب تک اپنے بندوں کے بخشے کے لئے کوئی سبیل اس کو یاد نہ آوے.اور خدا تعالیٰ کے وجود اور صفات کے بارہ میں قرآن کریم یہ بچی اور پاک اور کامل معرفت سکھاتا ہے کہ اس کی قدرت اور رحمت اور عظمت اور تقدس بے انتہا ہے.اور یہ کہنا قر آنی تعلیم کے رو سے سخت مکروہ گناہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدر تیں اور عظمتیں اور رحمتیں ایک حد پر جا کر ٹھہر جاتی ہیں یا کسی موقعہ پر پہنچ کر اس کا ضعف اسے مانع آجاتا ہے بلکہ اس کی تمام قدر تیں اس مستحکم قاعدہ پر چل رہی ہیں.کہ باستثنا ان امور کے جو اس کے تقدس اور کمال اور صفات کاملہ کے مخالف ہیں یا اس کے مواعید غیر متبدلہ کے منافی ہیں باقی جو چاہتا ہے کر سکتا ہے.مثلاً یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنی قدرت کاملہ سے اپنے تئیں ہلاک کر سکتا ہے.کیونکہ یہ بار قصر بات اس کی صفت قدیم می و قیوم ہونے کے مخالف ہے.وجہ یہ کہ وہ پہلے ہی اپنے فعل اور قول میں ظاہر کر چکا ہے کہ وہ ازلی ابدی اور غیر فانی ہے اور موت اس پر جائز نہیں.ایسا

Page 68

ہی یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی عورت کے رحم میں داخل ہوتا اور خون حیض کھاتا اور قریباً نو ماہ پورے کر کے سیر ڈیڑھ سیر کے وزن پر عورتوں کی پیشاب گاہ سے روتا چلاتا پیدا ہو جاتا ہے.اور روٹی کھاتا اور پاخانہ جاتا اور پیشاب کرتا اور تمام دکھ اس فانی زندگی کے اٹھاتا ہے اور آخر چند ساعت جان کندنی کا عذاب اٹھا کر اس جہان فانی - رخصت ہو جاتا ہے.کیونکہ یہ تمام امور نقصان اور منقصت میں داخل ہیں.اور اس کے جلال قدیم اور کمال نام کے برخلاف ہیں.معیار المذاہب.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۸۹،۴۸۸ نیز دیکھیں.حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۷۹ اب دوسرا مذ ہب یعنی عیسائی باقی ہے.جس کے حامی نہایت زور و شور سے اپنے خدا کو جس کا نام انہوں نے یسوع مسیح رکھا ہوا ہے.بڑے مبالغہ سے سچا خدا سمجھتے حضرت مسیح کی ختہ ہیں.اور عیسائیوں کے خدا کا حلیہ یہ ہے کہ وہ ایک اسرائیلی آدمی مریم بنت یعقوب کا بیٹا حالت اور ایک پہلو سے بلا اٹیک سے موازنہ ہے جو ۳۲ برس کی عمر پا کر اس دار الفنا سے گذر گیا.جب ہم سوچتے ہیں کہ کیونکر وہ گرفتار ہونے کے وقت سیاری رات دعا کر کے پھر بھی اپنے مطلب سے نامراد رہا.اور ذلت کے ساتھ پکڑا گیا اور بقول عیسائیوں کے سولی پر کھینچا گیا.اور ایلی ایلی کرتا مر گیا تو ہمیں یک دفعہ بدن پر لرزہ پڑتا ہے.کہ کیا ایسے انسان کو جس کی دعا بھی جناب الہی میں قبول نہ ہو سکی اور نہایت ناکافی اور نا مرادی سے ماریں کھانا کھانا مر گیا.قادر خدا کہہ سکتے ہیں.ذرا اس وقت کے نظارہ کو آنکھوں کے سامنے لاؤ.جب کہ یسوع مسیح حوالات میں ہو کر پلا طوس کی عدالت سے ہیرو دوس کی طرف بھیجا گیا کیا یہ خدائی کی شان ہے کہ حوالات میں ہو کر ہتکڑی ہاتھ میں زنجیر پیروں میں چند سپاہیوں کی حراست میں چالان ہو کر جھڑکیاں کھاتا ہوا گلیل کی طرف روانہ ہوا.اور اس حالت پر ملالت میں ایک حوالات سے دوسری حوالات میں پہنچا.پلاطوس نے کرامت دیکھنے پر چھوڑنا چاہا.اس وقت کوئی کرامت دکھلانہ سکا.ناچار پھر حراست میں واپس کر کے یہودیوں کے حوالہ کیا گیا.اور انہوں نے ایک دم میں اس کی جان کا قصہ تمام کر دیا.اب ناظرین خود سوچ لیں کہ کیا اصلی حقیقی خدا کی یہی علامتیں ہوا کرتی ہیں.کیا کوئی پاک کا ئنتنس اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ وہ جو زمین و آسمان کا خالق

Page 69

۵۱ اور بے انتہا قدرتوں اور طاقتوں کا مالک ہے.وہ اخیر پر ایسا بد نصیب اور کمزور اور ذلیل حالت میں ہو جائے کہ شریر انسان اس کو اپنے ہاتھوں میں مل ڈالیں.اگر کوئی ایسے خدا کو پوجے اور اس پر بھروسہ کرے تو اسے اختیار ہے.لیکن سچ تو یہ ہے کہ اگر آریوں کے پر میشر کے مقابل پر بھی عیسائیوں کے خدا کو کھڑا کر کے اس کی طاقت اور قدرت کو وزن کیا جائے.تب بھی اس کے مقابل پر یہ بیچ محض ہے.کیونکہ آریوں کا فرضی پر میشر اگر چہ پیدا کرنے کی کچھ بھی طاقت نہیں رکھتا.لیکن لکھتے ہیں کہ پیدا شدہ چیزوں کو کسی قدر جوڑ سکتا ہے.مگر عیسائیوں کے یسوع میں تو اتنی بھی طاقت ثابت نہ ہوئی.جس وقت یہودیوں نے صلیب پر کھینچ کر کہا تھا کہ اگر تو اب اپنے آپ کو بچائے تو ہم تیرے پر ایمان لاویں گے.تو وہ ان کے سامنے اپنے تئیں بیچا نہ سکا.ورنہ اپنے تئیں بچانا کیا کچھ بڑا کام تھا.صرف اپنی روح کو اپنے جسم کے ساتھ جوڑنا تھا.سو اس کمزور کو جوڑنے کی بھی طاقت نہ ہوئی پیچھے سے پردہ داروں نے باتیں بنائیں کہ وہ قبر میں زندہ ہو گیا تھا.مگر افسوس کہ انہوں نے نہ سوچا کہ یہودیوں کا تو یہ سوال تھا کہ ہمارے روبرو ہمیں زندہ ہو کر دکھلاوے.پھر جب کہ ان کے رو برو زندہ نہ ہو سکا اور نہ قبر میں زندہ ہو کر ان سے آکر ملاقات کی.تو یہودیوں کے نزدیک بلکہ ہر یک محقق کے نزدیک اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حقیقت میں زندہ ہو گیا تھا اور جب تک ثبوت نہ ہو تب تک اگر فرض بھی کرلیں کہ قبر میں لاش گم ہو گئی.تو اس سے زندہ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ عند العقل یقینی طور پر یہی ثابت ہو گا کہ در پردہ کوئی کرامات دکھلانے والا چرا کر لے گیا ہو گا.دنیا میں بہتیرے ایسے گزرے ہیں کہ جن کی قوم یا معتقدوں کا یہی اعتقاد تھا کہ ان کی نعش گم ہو کر وہ مع جسم بہشت میں پہنچ گئی ہے.تو کیا عیسائی قبول کر لیں گے کہ فی الحقیقت ایسا ہی ہوا ہو گا.مثلاً دور نہ جاؤ.بابا نانک صاحب کے واقعات پر ہی نظر ڈالو کہ ۱۷ لاکھ سکھ صاحبوں کا اسی پر اتفاق ہے کہ در حقیقت وہ مرنے کے بعد مع اپنے جسم کے بہشت میں پہنچ گئے اور نہ صرف اتفاق بلکہ ان کی معتبر کتابوں میں جو اسی زمانہ میں تالیف ہوئیں.یہی لکھا ہوا ہے.اب کیا عیسائی صاحبان قبول کر سکتے ہیں کہ حقیقت میں بابا نانک صاحب معمے جسم بہشت میں ہی چلے گئے ہیں.افسوس کہ عیسائیوں کو دوسروں کے لئے تو فلسفہ یاد آجاتا ہے مگر اپنے گھر کی نا معقول باتوں سے فلسفہ کو چھونے بھی نہیں دیتے.اگر عیسائی صاحبان کچھ انصاف سے کام لینا چاہیں تو جلد سمجھ سکتے ہیں کہ سکھ صاحبوں کے دلائل بابا نانک

Page 70

صاحب کی نعش گم ہونے اور مع جسم بہشت میں جانے کے بارے میں عیسائیوں.مزخرفات کی نسبت بہت ہی قوی اور قابل توجہ ہیں.اور بلاشبہ انجیل کی وجوہ سے زبر دست ہیں.کیونکہ اول تو وہ واقعات اسی وقت بالاوالی جنم ساکھی میں لکھے گئے.مگر انجیلیں یسوع کے زمانہ سے بہت برس بعد لکھی گئیں.پھر ایک اور ترجیح باوا نانک صاحب کے واقعہ کو یہ ہے کہ یسوع کی طرف جو یہ کرامت منسوب کی گئی ہے.تو یہ در حقیقت اس ندامت کی پردہ پوشی کی غرض سے معلوم ہوتی ہے جو یہودیوں کے سامنے حواریوں کو اٹھانی پڑی.کیونکہ جب یہودیوں نے یسوع کو صلیب پر کھینچ کر پھر اس سے معجزہ چاہا کہ اگر وہ اب زندہ ہو کر صلیب پر سے اتر آئے.تو ہم اس پر ایمان لائیں گے.تو اس وقت یسوع صلیب پر سے اتر نہ سکا.پس اس وجہ سے یسوع کے شاگردوں کو بہت ہی ندامت ہوئی اور وہ یہودیوں کے سامنے مونہہ دکھلانے کے قابل نہ رہے.لہذا ضرور تھا کہ وہ ندامت کے چھپانے کے لئے کوئی ایسا حیلہ کرتے جس سے سادہ لوحوں کی نظر میں اس طعن اور ٹھٹھے اور ہنسی سے بچ جاتے.سو اس بات کو عقل قبول کرتی ہے کہ انہوں نے فقط ندامت کا کلنک اپنے مونہہ پر سے اتارنے کی غرض سے ضرور یہ حیلہ بازی کی ہوگی.کہ رات کے وقت جیسا کہ ان پر الزام لگا تھا یسوع کی نعش کو اس کی قبر میں سے نکال کر کسی دوسری قبر میں رکھ دیا ہو گا اور پھر حسب مثل مشہور کہ خواجہ کا گواہ ڈڈو کہہ دیا ہو گا.کہ لو جیسا کہ تم درخواست کرتے تھے.یسوع زندہ ہو گیا.مگر وہ آسمان پر چلا گیا ہے لیکن یہ مشکلیں بابا نانک صاحب کے فوت ہونے پر سکھ صاحبوں کو پیش نہیں آئیں.اور نہ کسی دشمن نے ان پر یہ الزام لگایا اور نہ ایسے فریبوں کے لئے ان کو کوئی ضرورت پیش آئی.اور نہ جیسا کہ یہودیوں نے شور مچایا تھا کہ نعش چرائی گئی ہے کسی نے شور مچایا.سواگر عیسائی صاحبان بجائے یسوع کے بابا نانک صاحب کی نسبت یہ عقیدہ رکھتے تو کسی قدر معقول بھی تھا.مگر یسوع کی نسبت تو ایسا خیال صریح بناوٹ اور جعلسازی کی بدبو سے بھرا ہوا ہے.معیارا لمذاہب.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۶۸ تا ۴۷۲ بعض دفعہ حضرت مسیح یہودیوں کے پتھراؤ سے ڈر کر ان سے کنارہ کر گئے.اور بعض دفعہ توریہ کے طور پر اصل بات کو چھپا دیا.اور متنی ۲۰/ ۱۶ میں لکھا ہے.تب ۵۲

Page 71

۵۳ اس نے اپنے شاگردوں کو حکم کیا کہ کسو سے نہ کہنا کہ میں یسوع مسیح ہوں.سے کہیں کہ کیا یہ بچے ایمانداروں کا کام ہے اور ان کا کام ہے جو رسول اور مبلغ ہو کر دنیا تیری میں ایل اداروں کا کام نہیں.میں آتے ہیں کہ اپنے تئیں چھپائیں.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۸۷ انجیل کے جن مقامات کا آپ ذکر کرتے ہیں وہاں سیاق و سباق پر نظر کرنے سے الشان ٣٦ رو سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کی خدائی کے ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں کیونکہ انجیل کی رو وہ تو اس کی انسانیت ہی کو ثابت کرتے ہیں اور انسانیت کے لحاظ سے بھی اسے عظیم الشان حضرت مسیح کو عظیم انسانوں کی انسانوں کی فہرست میں داخل نہیں کرتے.جب اسے نیک کہا گیا تو اس نے انکار فہرست میں شامل کرنا کیا.اگر اس کی روح میں بقول عیسائیاں کامل تطہیر اور پاکیزگی تھی.پھر وہ یہ بات کیوں کی مشکل ہے.کہتا ہے کہ مجھے نیک نہ کہو.علاوہ بریں یسوع کی زندگی پر بہت سے اعتراض اور الزام لگائے گئے ہیں اور جس کا کوئی تسلی بخش جواب آج تک ہماری نظر سے نہیں گزرا.ملفوظات جلد ۳ صفحه ۱۳۷ ۳۷ توحید ماننے والوں میں ایک خاص رعب اور جلال ہوتا ہے جو بت پرست کو حاصل نہیں ہوتا.کیونکہ اس کا قلب ملزم کرتا رہتا ہے اور اس کے اعتقاد کی بنیاد علوم حقہ پر حضرت مسیح میں کوئی نہیں ہوتی بلکہ ظفیات اور اوہام پر ہوتی ہے.مثلاً عیسائیوں نے یسوع کو خدا غیر معمولی خوبی نہ بنا لیا مگر کوئی ایسی خصوصیت آج تک دو ہزار برس ہونے کو آئے ہیں نہیں بتائی جو یسوع میں ہو اور دوسرے انسانوں میں نہ ہو بلکہ جہاں تک انجیل کے بیان کے موافق یسوع کی حالت پر غور کرتے ہیں.اسی قدر اسے انسانی کمزوریوں کا بہت بڑا نمونہ پاتے ملفوظات جلد ۸ صفحه ۱۳۷ ہیں.آپکا یہ فرمانا کہ کونسا نبی مسیح کے مساوی ہے صرف اپنی خوش اعتقادی ظاہر کرنا ہے.میں کہتا ہوں کہ کیا حضرت موسی مسیح سے بڑھ کر نہیں جن کے لئے بطور تابع اور حضرت مسیح سے کئی مقتدی کے حضرت مسیح آئے اور ان کی شریعت کے تابع کہلائے.معجزات میں بعض نبی انبیاء افضل تھے.

Page 72

سوم ۵ حضرت مسیح سے ایسے بڑھے کہ بموجب آپ کی کتابوں کے ہڈیوں کے چھونے سے مردے زندہ ہو گئے اور مسیح کے معجزات پراگندگی میں پڑے ہیں کیونکہ وہ تالاب جس کا یوحنا باب میں ذکر ہے.حضرت مسیح کے تمام معجزات کی رونق کھوتا ہے.اور پیش گوئیوں کا تو آگے ہی بہت نرم اور پہلا حال ہے اور پھر کس عملی اور فعلی فضیلت کی رو سے حضرت مسیح کا افضل ہونا ثابت ہوا.اگر وہ ضمناً افضل ہوتے تو حضرت یوحنا بجو خدا کے کسی اور سے اصطباغ ہی کیوں پاتے.اس کے روبرو اپنے گناہوں کا اقرار ہی کیوں کرتے اور انسان کو سجدہ مت نیک ہونے سے کیوں انکار کرتے.اگر الوہیت ہوتی تو شیطان کو یہ کیوں جواب دیتے کہ لکھا ہے بجز خدا کے کسی اور کو سجدہ مت کر.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۵۱ عیسائی صاحبان اس کوشش میں ہیں کہ مخلوق پرستی میں نہ صرف آپ بلکہ تمام دنیا کو داخل کر دیں محض زبر دستی اور تحکم کے طور پر حضرت مسیح کو خدا بنایا جاتا ہے.ان میں کوئی بھی ایسی خاص طاقت ثابت نہیں ہوئی جو دوسرے نبیوں میں پائی نہ جائے بلکہ بعض دوسرے نبی معجزہ نمائی میں ان سے بڑھ کر تھے اور ان کی کمزوریاں گواہی دے رہی ہیں کہ وہ محض انسان تھے.انہوں نے اپنی نسبت کوئی ایسا دعوی نہیں کیا جس سے وہ خدائی کے مدعی ثابت ہوں اور جس قدر ان کے کلمات ہیں جن سے ان کی خدائی سمجھی جاتی ہے آپ میں کوئی بھی ایک ایسا سمجھنا غلطی ہے.اس رنگ کے ہزاروں کلمات اللہ خدا کے نبیوں کے حق میں بطور ایسی خاص حالت ثابت استعارہ اور مجاز کے ہوتے ہیں ان سے خدائی نکالنا کسی عظمند کا کام نہیں بلکہ انہیں کا کام نہیں ہوتی جو دوسرے میں اور انبیاء میں پائی کی ہے جو خوانخواہ انسان کو خدا بنانے کا شوق رکھتے ہیں اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میری وحی اور الہام میں ان سے بڑھ کر کلمات ہیں.پس اگر ان کلمات سے جائے.حضرت مسیح کی خدائی ثابت ہوتی ہے تو پھر مجھے بھی (نعوذ باللہ ) حق حاصل ہے کہ یہی دعوی میں بھی کروں.لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۳۵ اتخذوا العبد العاجز إلها، ونحتوا ،ابنا وابا ورَسوا على خزعبلاتهم امثال اور ایک عاجز بندہ کو انہوں نے خدا ٹھہرایا اور اپنی طرف سے باپ اور بیٹا تراش لیا اور اپنی باطل باتوں پر پہاڑوں اور ٹیلوں کی طرح استی کام

Page 73

۵۵ الجبال والربا وعلماؤنا هؤلاء عقدوا لجهلاتهم الحبا، وصارت كلماتهم لزهر پکڑ گئے اور یہ ہمارے مولوی لوگ ان کے آگے ان کی باطل باتوں کے سننے کے لئے زانو باندھ کر بیٹھ گئے اور ان کی باتیں عیسائیوں کے فريتهم كالصبا.وجمعوا روايات واهية كحاطب ليل او طالب سيل، ونصروا شگوفوں کے لئے باد صبا کے حکم میں ہو گئیں اور بیہودہ اور ست روایتیں انہوں نے جمع کیں جیسے کوئی رات کو ہر ایک قسم کی خشک تر النصارى بكلماتهم.وقالوا ان المسيح منفرد ببعض صفاته.وما وجد فيه من كمال لکڑی جمع کرتا ہے جیسے کوئی طوفان کا طالب ہوتا ہے اور انہوں نے نصاری کو اپنی باتوں سے مدد دی جیسا کہ انہوں نے کہا کہ مسیح ابن وجلال وعظمة فهو لا يوجد في غيره.انه كان على اعلى مراتب العصمة ، ما مسه مریم اپنی بعض صفات میں بیٹل ہے اور جو کمال اور بزرگیاں اس میں پائی جاتی ہیں اس کے غیر میں نہیں پائی جاتیں وہ ہی ایک ہے جو اعلی الشيطان عند تولده، ومس غيره من الانبياء كلهم.ولا شريك له في هذه الصفة درجہ پر گناہوں سے پاک ہے شیطان نے اس کی پیدائش پر اس کو چھوا نہیں اور بجز اس کے سب نبیوں کو چھوا اور کوئی شیطان کے حتى خاتم النبيين.میں سے بیچ نہ سکا مگر ایک مسیح اور اس صفت میں نبیوں میں سے اس کا کوئی بھی شریک نہیں یہاں تک کہ خاتم الانبیاء بھی.وقالوا انه كان خالق الطيور كخلق الله تعالى، وجعله الله شريكه بإذنه.والطيور اور خدا تعالی کی طرح وہ پرندوں کا بھی خالق تھا اور خدا تعالی نے اپنے اذن سے اس کو اپنا شریک بنایا.التي توجد في هذا العالم تنحصر في القسمين خلق الله وخلق المسيح.فانظر سو وہ سب پرندے جو دنیا میں پائے جاتے ہیں دو قسم کے ہیں کچھ خدا کی پیدائش اور کچھ مسیح کی سو دیکھو كيف جعلوا ابن مريم من الخالقين.ويشيعون في الناس هذه العقائد ولا يدرون کیونکر ابن مریم کو خالق بنا دیا.اور لوگوں میں یہ عقائد شائع کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ان عقیدوں میں ما فيها من البلايا والمنايا، ويؤيدون المتنصرين وهلك بها الى الآن ألوف من کیا کیا بلائیں اور موتیں ہیں اور نصاری کو مدد پہنچارہے ہیں.اور ان عقائد کی شامت سے اب تک ہزاروں انسان ہلاک ہو چکے الناس، ودخلوا في الملة النصرانية بعد ما كانوا مسلمين.وما كان في القرآن ذكر اور نصرانی مذہب میں داخل ہو گئے بعد اس کے جو وہ مسلمان تھے.اور قرآن میں مسیح کے خلقه على الوجه الحقيقي ، وما قال الله تعالى عند ذكر هذه القصة : فيصير حيا پرندے بنانے کا ذکر حقیقی طور پر کہیں بھی نہیں اور خدا نے اس قصہ کے ذکر کرنے کے وقت یہ نہیں فرمایا کہ فیصیر دیا بإذن الله ، بل قال فيكون طيرًا بإذن الله.فانظروا لفظ يكون ولفظ طيرًا لم بلکہ یہ فرمایا کہ فيكون طبياً بإذن الله مولفظ فيكون اور لفظ طيرا باذن الله بعض صفات میں بیٹل.

Page 74

۵۶ صفت خلق کیا تھی.اختارهما العليم الحكيم وترك لفظ يصير و حيا.فثبت من ههنا ان الله ما اراد میں غور کرو کہ کیوں اس عظیم حکیم نے انھیں دونوں لفظوں کو اختیار کیا اور لفظ یصیر حیا کو چھوڑ دیا سو اس جگہ ثابت ہوا کہ اس جگہ ههنا خلقا حقيقيا كخلقه عز وجل ويؤيده ما جاء في كتب التفسير من بعض خدا تعالیٰ کی مراد حقیقی خلق نہیں ہے اور وہ خالیت مراد نہیں ہے جو اس کی ذات سے مخصوص ہے اور اس کی تائید وہ بیانات کرتے ہیں جو بعض الصحابة ان طير عيسى ما كان يطير الا امام اعين الناس، فإذا غاب سقط على صحابہ سے تفسیروں میں بیان ہوئے ہیں اور وہ یہ کہ عیسانی کاپرنده ای وقت تک پرواز کرتا تھا جب تک کہ وہ لوگوں کی نظروں کے سامنے رہتا الارض ورجع الى اصله كعصا موسی.وكذلك كان احياء عيسى، فاين الحياة تھا اور جب غائب ہو تا تھاتو گر جاتا تھا اور اپنی اصل کی طرف رجوع کرتا تھا جیسے عصا موسی کالور عیسای کامردوں کو زندہ کرنا بھی ایسا ہی تھا سو اس الحقيقي؟ فلاجل ذلك اختار الله تعالى في هذا المقام ألفاظ تناسب الاستعارات جگہ حیات حقیقی کہاں ملیت ہوئی سواسی لئے خدا تعالیٰ نے اس مقام پر وہ لفظ اختیار کئے جو استعارات کے مناسب حال تھے ليشير الى الاعجاز الذي بلغ الى حد المجاز.وذكر مجازا ليبين اعجازا.فحمله تاکہ اس مجاز کی طرف اشارہ کرے جو اعجاز کی حد تک پہنچا تھا اور مجاز کو اس لئے ذکر کیا کہ تا ان کے معجزہ کو جو خارق عادت تھا بیان فرماوے الجاهلون المستعجلون على الحقيقة وسلكوه مسلك خلق الله من غير تفاوت ، مع پس اس مجاز کو جاہلوں نے حقیقت پر عمل کر دیا اور ایسے مرتبہ میں داخل کیا تو اللہ پیدائش کا مرتبہ ہے انه كان من نفخ المسيح وتأثير روحه من غير مقارنته دعاء.(كان الإحياء بالنفخ حالانکہ وہ صرف صحیح اور اس کی روح کی تاثیر سے تھا اور اس کے ساتھ کوئی دعا نہیں تھی پھونک سے زندہ کرنا ایسا تھا كالإماتة بالنظر).فهلكوا واهلكوا كثيرا من الجاهلين.جیسے نظر سے مارتا.سوایسے سمجھنے والے بلاک ہوئے اور بہتوں کو جاہلوں میں سے ہلاک کیا.والقرآن لا يجعل شريكا في خلق الله احدا ولو في ذباب او بعوضة ، بل يقول انه اور قرآن تو کسی کو خدا کی حالت میں شریک نہیں کرتا اگر چہ ایک سکھی بنانے یا ایک مچھر بنانے میں شراکت ہو بلکہ وہ کہتا ہے واحد ذاتا ،وصفاتا، فاقرأوا القرآن كالمتدبرين فالامر الذي ثبت عقلا ونقلا کہ خدا زانا و صفاتاً واحد لاشریک ہے سو تم قرآن کو ایسا پڑھو جیسا کہ تقدیر کرنے والے پڑھتے ہیں.سو جو امر عقلاً و عقلماً واستدلالا لا ينكره احد الا الذى ما بقى في رأسه مرة انسانية ولحق بالاخسرين و استدلال ثابت ہو گیا اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا جو ایسے شخص کے جس کے سر میں انسانی دانشمندی کا مادہ نہیں رہا السافلين.ولا يقول احد كمثل هذه الكلمات الا الذى نسي طريق التوحيد ومال نور زیاں کاروں اور تحت انترکی جانیوالوں کے ساتھ جا ملا.اور ایسی باتیں کوئی منہ پر نہیں لائے گا مگر وہی جو توحید کی راہ کو بھول گیا.

Page 75

۵۷ الى الجاهلية الأولى.اور پہلی جاہلیت کی طرف مائل ہو گیا.نور الحق ، روحانی خزائن مجلد ۸ ص ۱۹الی (۱۲) مُردوں کا زندہ ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بھی قرآن شریف میں مذکور ہے.مگر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مردے زندہ کرنے کو روحانی رنگ مردے زندہ کرنا دلیل میں مانتے ہیں نہ کہ جسمانی رنگ میں.اور اسی طرح حضرت عیسی کا مردے زندہ کرنا الوہیت میں.بھی روحانی رنگ میں مانتے ہیں نہ کہ جسمانی طور پر.اور یہ امر کوئی حضرت عیسی تک ہی محدود نہیں بلکہ بائیل میں لکھا ہے کہ ایلیا نبی نے بھی بعض مردے زندہ کئے تھے بلکہ وہ آنحضرت کا مردے زندہ کرنا ثابت ہے.حضرت عیسی سے اس کام میں بہت بڑھے ہوئے تھے.اگر فرض محال کے طور پر ہم مان بھی لیں کہ بائیل میں حضرت عیسی کا حقیقی مردوں کو زندہ کرنے کا ذکر ہے تو پھر ساتھ ہی ایلیا نبی کو بھی خدا ماننا پڑے گا.اس میں حضرت عیسی کی خدائی کی خصوصیت ہی کیا ہوئی.اور ما بہ الامتیاز کیا ہوا.بلکہ یسعیاہ نبی کے متعلق تو یہاں تک بھی لکھا ہے کہ مردے ان کے جسم کو چھو جانے پر ہی زندہ ہو جایا کرتے تھے.ان باتوں سے جو کہ اس بائیل میں درج ہیں صاف شہادت ملتی ہے کہ مردوں کا زندہ کرنا حضرت مسیح کی خدائی کے واسطے کوئی دلیل نہیں ہو سکتا اور اگر اس کو دلیل مانا جاوے تو کیوں ان دوسرے لوگوں کو بھی جنہوں نے حضرت مسیح سے بھی بڑھ کر یہ کام کیا خدا نہ مانا جاوے اور خدائی کا خاصہ صرف حضرت مسیح کی ذات تک ہی محدود و مخصوص رکھا جاوے.بلکہ ہمارے خیال میں تو حضرت موسیٰ کا سونے سے سانپ بنانے کا معجزہ مردے زندہ کرنے سے بھی حضرت موسیاہ کا مردے زندہ کرنا ثابت کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ مردہ کو زندہ سے ایک تشبیہ اور لگاؤ بھی ہے کیونکہ وہی چیز ابھی زندہ ہے.تھی اور مردے میں زندہ ہونے کی ایک استعداد خیال کی جاسکتی ہے.مگر سانپ کو سونٹے سے کوئی بھی نسبت اور تعلق نہیں ہے.وہ ایک نبات کی قسم کی چیز اور وہ سانپ.تو یہ ہونٹے کا سانپ بن جانا تو مردوں کے زندہ ہو جانے سے نہایت ہی عجیب بات ہے.لہذا حضرت موسیٰ کو بڑا خدا ملنا چاہئے.مگر حقیقی اور اصلی بات یہ ہے کہ ہم حقیقی مردوں کی زندگی کے قائل نہیں ہیں.ملفوظات.جلد ۱۰ صفحه ۲۱۵ ۲۱۶

Page 76

۵۸ ٤٢ پادری عیسی کے خدا ہونے کی دلیل بیان کرتے ہیں کہ وہ مردے زندہ کرتا تھا حلانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَمُسِكُ التي قضى عَلَيْهَا المَوت - اب خدا تعالیٰ کے کلام میں تناقض نہیں کہ ایک آیت میں کہے مردے دوبارہ دنیا میں نہیں آتے اور دوسری میرے دوبارہ دنیا میں میں کہے کہ مردہ زندہ ہوتے ہیں.پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ نے نہیں آتے.فرمایا کہ اس کے ہاتھ پر مردے زندہ ہوتے ہیں لما يحييكم اور سب کو کم میں معلوم ہے کہ اس سے مراد روحانی مردوں کا زندہ ہوتا ہے.بدر.جلدے نمبر ۱۹ ، ۲۰ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۸ صفحه ۵ نیز دیکھیں.الحکم.جلد ۹ نمبر ۴۰ مور خدے انومبر ۱۹۰۵ صفحه الحکم- جلد ۱۲ نمبر ۲۶ مورخه ۱۰ اپریل ۱۹۰۸ صفحه ۲ ان ساری باتوں کے علاوہ ایک اور بات قابل غور ہے کہ وہ کیا نشانات تھے جن سے حقیقا مسیح کی خدائی ثابت ہوتی.کیا معجزات ؟ اول تو سرے سے ان معجزات کا کوئی ثبوت ہی نہیں کیونکہ انجیل نویسوں کی نبوت ہی کا کوئی ثبوت نہیں.اگر ہم اس سوال کو در میان نہ بھی لائیں اور اس بات کا لحاظ نہ کریں کہ انہوں نے ایک محقق اور چشم دید حالات لکھنے والے کی حیثیت سے نہیں لکھتے.تب بھی ان معجزات میں کوئی رونق اور قوت نہیں پائی جاتی جبکہ ایک تالاب ہی کا قصہ مسیح کے سارے معجزات کی رونق کو دور کر دیتا ہے اور مقابلتا جب ہم انبیاء سابقین کے معجزات کو دیکھتے ہیں تو وہ کسی حالت میں مسیح" کے منجزبات سے کم نہیں بلکہ بڑھ کر ہیں.کیونکہ بائبل کے مطالعہ کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ پہلے نبیوں سے مردوں کا زندہ ہونا ثابت ہے.بلکہ بعض کی ہڈیوں سے مردوں کا لگ کر بھی زندہ ہونا ثابت ہے حالانکہ مسیح کے خیالی معجزات میں ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہے.مسیح کی لاش نے کوئی مردہ زندہ نہیں کیا پھر بتاؤ کہ مسیح کو کونسی چیز خدا بنا سکتی کیا پیش گوئیاں؟ ان کی حقیقت میں نے پہلے بتادی ہے کہ مسیح کی پیش گوئیاں پیش گوئی کا رنگ ہی نہیں رکھتی ہیں جو باتی پیش گوئی کے رنگ میں مندرج ہیں وہ ایسی ہیں کہ ایک معمولی آدمی بھی ان سے بہت باتیں کہہ سکتا ہے اور قیافہ شناس مد تر کی پیش گوئیاں ان سے بدرجہا بڑھی ہوئی ہوتی ہیں.میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ اگر اس وقت مسیح ہوتے تو

Page 77

۵۹ جس قدر عظیم الشان تائیدی نشان پیش گوئیوں کے رنگ میں اب خدا نے میرے ہاتھ پر صادر کئے ہیں وہ ان کو دیکھ کر شرمندہ ہو جاتے اور اپنی پیش گوئیوں کا کہ زلزلے آئیں گے.مری اور قحط پڑیں گے یا مرغ بانگ دے گا کبھی مارے ندامت کے نام نہ لیتے.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۳۲ وہ خدا تھا تو کیوں اس نے بالکل نرالی طرز کے معجزات نہ دکھائے.میں نے تحقیق کر لیا ہے کہ ان کے مجربات کی حقیقت سلب امراض سے کچھ بھی بڑھی ہوئی نہ تھی.جس میں مسیح کے معجزات کی آجکل یورپ کے مسمریزم کرنے والے اور ہندو اور دوسرے لوگ بھی مشاق ہیں اور حقیقت.خیالات ایسے بے ہودہ اور سطحی تھے کہ صرع کے مریض کو کہتا ہے کہ اس میں جن گھسا ہوا ہے.حالانکہ اگر صرع کے مریض کو کونین.پچھلہ.فولاد دیں اور اندر دماغ میں رسولی نہ ہو تو وہ اچھا ہو جاتا ہے.بھلا جن کو مرگی سے کیا تعلق.چونکہ یہودیوں کے خیالات ایسے ہو گئے تھے.ان کی تقلید پر اس نے بھی ایسا ہی کہہ دیا.اور یا یہ کہ جیسے آجکل جادو ٹونے کرنے والے کرتے ہیں کہ بعض ادویات کی سیاہی سے تعویذ لکھ کر علاج کرتے ہیں اور بیماری کو جن بتاتے ہیں ویسے ہی اس نے کہہ دیا ہو.مجھے افسوس ہے کہ مسیح کے معجزات کو مسلمانوں نے بھی غور سے نہیں دیکھا اور عیسائیوں کی دیکھا دیکھی اور ان سے سن سن کر ان کے معنے غلط کر لئے ہیں.مثلاً اکمہ کا لفظ ہے.جس کے معنے شب کور کے ہیں.اور اب معنے یہ کر لئے جاتے ہیں که مادر زاد اندھوں کو شفا دیا کرتے تھے.حالانکہ یہ کلمہ وہ مرض ہے کہ جس کا علاج بکرے کی کلیجی کھانا بھی ہے اور اس سے بھی یہ اچھتے ہو جاتے ہیں.لملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۳۹ زیادہ تر افسوس ان عیسائیوں پر ہے جو بعض خوارق اسی کے مشابہ مگر ان سے اونی ۴۵ حضرت مسیح میں سن سنا کر ان کی الوہیت کی دلیل گھر بیٹھے ہیں.اور کہتے ہیں کہ حضرت خوارق سے انسان خدا مسیح کا مردوں کا زندہ کرنا اور مفلوجوں اور مجزوموں کا اچھا کرنا اپنے اقتدار سے تھا کسی دعا میں بن سکتا.سے نہیں تھا.اور یہ دلیل اس بات پر ہے کہ وہ حقیقی طور پر ابن اللہ بلکہ خدا تھا.لیکن

Page 78

| + افسوس کہ ان بیچاروں کو خبر نہیں کہ اگر انہیں باتوں سے انسان خدا بن جاتا ہے تو اس خدائی کا زیادہ تر اشتقاق ہمارے سیتید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے کیونکہ اس قسم کے اقتداری خوارق جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے ہیں حضرت مسیح علیہ السلام ہر گز دکھلا نہیں سکے.اور ہمارے ہادی و مقتدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اقتداری خوارق نہ صرف آپ ہی دکھلائے بلکہ ان خوارق کا ایک لمبا سلسلہ روز قیامت تک اپنی امت میں چھوڑ دیا جو ہمیشہ اور ہر زمانہ میں حسب ضرورت زمانہ ظہور میں آتا رہا ہے اور اس دنیا کے آخری دنوں تک اسی طرح ظاہر ہوتا رہیگا اور الہی طاقت کا پر توہ جس قدر اس امت کی مقدس روحوں پر پڑا ہے اس کی نظیر دوسری امتوں میں ملنی مشکل ہے پھر کس قدر بیوقوفی ہے کہ ان خارق عادت امور کی وجہ سے کسی کو خدا یا خدا کا بیٹا قرار دیا جائے اگر ایسے ہی خوارق سے انسان خدا بن سکتا ہے تو پھر خداؤں کا کچھ انتہا بھی ہے؟ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۷ پادریوں نے خیالی اور فرضی طور پر مسیح کی خدائی کے ثبوت کے لئے بڑے ہاتھ پاؤں مارے ہیں.مگر آج تک ایک بھی رسالہ یا تحریر ان کی میری نظر سے نہیں گزری اور کوئی حضرت مسیح کے پادری میں نے نہیں دیکھا جس نے مسیح کے مجربات کے چہرہ سے تالاب کے قصہ کے معجزات پر داغ.داغ کو دور کیا ہو اور جب تک انجیل میں یہ قصہ درج ہے یہ داغ اٹھ نہیں سکتا.میں بار بار آپ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو دیکھو.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۳۳ اس کے معجزات دوسرے اکثر نبیوں کی نسبت بہت ہی کم ہیں.مثلاً معجزات کے ضمن میں اگر کوئی عیسائی ایلیا نبی کے معجزات سے جو بائبل میں مفصل مذکور ہیں.جن میں سے قران کریم کا حضرت مردوں کا زندہ کرنا بھی ہے.مسیح ابن مریم کے معجزات کا مقابلہ کرے.تو اس کو ضرور ک پر احسان ہے.اقرار کرنا پڑے گا کہ ایلیا نبی کے معجزات شان اور شوکت اور کثرت میں مسیح ابن مریم کے معجزات سے بہت بڑھ کر ہیں.ہاں انجیلوں میں بار بار اس معجزہ کا ذکر ہے.کہ یسوع مسیح مصرمو سشون یعنی مرگی زدہ لوگوں میں سے جن نکلا کرتا تھا اور یہ بڑا معجزہ اس کا شمار کیا گیا ہے.جو محققین کے نزدیک ایک ہنسی کی جگہ ہے.آجکل کی تحقیقات سے ثابت ہے

Page 79

۶۱ = مرض صرع ضعف دماغ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.یا بعض اوقات کوئی رسولی دماغ میں پیدا ہو جاتی ہے.اور بعض دفعہ کسی اور مرض کا یہ عرض ہوتی ہے.لیکن ان تمام محققین نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ اس مرض کا سبب جنس بھی ہوا کرتے ہیں.قرآن شریف کا حضرت مسیح ابن مریم پر یہ بھی احسان ہے کہ اس کے بعض معجزات کا ذکر تو کیا.لیکن یہ نہیں لکھا کہ وہ مرگی زدہ بیماروں میں سے جس بھی نکالا کرتا تھا.اور قرآن شریف میں حضرت مسیح ابن مریم " کے معجزات کا ذکر اس غرض سے نہیں ہے کہ اس سے معجزات زیادہ ہوئے ہیں.بلکہ اس غرض سے ہے کہ یہودی اس کے معجزات سے قطعاً منکر تھے.اور اس کو فریبی اور مکار کہتے تھے.پس خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہودیوں کے دفع اعتراض کے لئے مسیح ابن مریم کو صاحب معجزہ قرار دیا.اور اسی حکمت کی وجہ سے اس کی ماں کا نام صدیقہ رکھا.کیونکہ یہودی اس پر ناجائز تہمت لگاتے نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۷۹،۳۷۸ تھے.کس طرح پر ہم صحیح کو نہیں کہ وہ خدا تھا.خدائی کا دعوی ان میں نہیں.صحف سابقہ کی پیش گوئیوں کے اپنے متعلق ہونے کا انہوں نے کوئی دعوی نہیں کیا.اور نہ طلب صفات عدائی.اپنے متعلق ہونے کا کوئی ثبوت دیا.پھر سلب صفات خدائی کو ہم ان میں دیکھتے ہیں.قیامت کی بابت انہیں اقرار ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں.باپ اور بیٹے کے باوجود متحد فی الوجود ہونے کے ایک کا عالم دوسرے کا جاہل ہونا قابل لحاظ ہے.تقدس کا یہ حال کہ خود کہتا ہے کہ مجھے نیک نہ کہو.صرف باپ ہی کو نیک ٹھہراتا ہے.پھر یہ اختلاف بھی باپ بیٹے کی عینیت کے خلاف ہے.صرف ابن کا لفظ ان کی خدائی کو ثابت نہیں کر سکتا.کیونکہ حقیقت اور مجاز میں باہم تفریق کرنے کے ہم مجاز نہیں ہو سکتے.کہ کہہ دیں کہ یہاں تو حقیقت مراد ہے اور فلاں جگہ مجاز ہے.یہی لفظ یا اس سے بھی بڑھ کر جب دوسرے انبیا اور راست بازوں اور قاضیوں پر بولا جاوے تو وہ نرے آدمی رہیں اور صیح پر بولا جاوے تو وہ خود خدا اور ابن بن جاویں.یہ تو انصاف اور راستی کے خلاف ہے.اور پھر گویانئی شریعت اور نئی کتاب بناتا ہے.اس سے کوئی فائدہ نہیں.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۳۲، ۱۳۳

Page 80

۶۲ اس زمانہ کے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو خالق کی نسبت کمال غلو تک پہنچ گیا ہے.اس میں تو کچھ شک نہیں جو حضرت عیسی علیہ السّلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسی مسیح خدا کا پیارا خدا کا بر گزیدہ اور دنیا کا نور اور ہدایت کا آفتاب اور مجازی کلام.جناب الہی کا مقرب اور اس کے تخت کے نزدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑہا انسان جو اس سے بچی محبت رکھتے ہیں اور اس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور اس کی ہدایات کے کار بند ہیں وہ جہنم سے نجات پائیں گے لیکن با ایس یہ غلطی اور کفر ہے کہ اس بر گزیدہ کو خدا بنایا جائے.خدا کے پیاروں کو خدا سے ایک بڑا تعلق ہوتا ہے.اس تعلق کے لحاظ سے اگر وہ پنے تئیں خدا کا بیٹا کہہ دیں کہ خدا ہی ہے جو ان میں بولتا ہے اور وہی ہے جس کا جلوہ ہے تو یہ باتیں بھی کسی حال کے موقع میں ایک معنے کے رو سے صحیح ہوتے ہیں جن کی تاویل کی جاتی ہے کیونکہ انسان جب خدا میں فنا ہو کر اور پھر اس کے نور سے پرورش پا کر نئے سرے ظاہر ہوتا ہے تو ایسے لفظ اس کی نسبت مجازاً بولنا قدیم محاوره اہل معرفت ہے کہ وہ خود نہیں بلکہ خدا ہے جو اس میں ظاہر ہوا ہے لیکن اس سے در حقیقت یہ انہم نہیں کھلتا کہ وہی شخص در حقیقت رب العالمین ہے.اس نازک محل میں اکثر عوام کا قدم پھل جاتا ہے اور ہزار ہا بزرگ اور ولی اور اوتار جو خدا بنائے گئے وہ بھی دراصل انہیں لغزشوں کی وجہ سے بنائے گئے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جب روحانی اور آسمانی باتیں عوام کے ہاتھ میں آتی ہیں تو وہ ان کی جڑ تک نہیں پہنچ سکتے.آخر کچھ بگاڑ کر اور مجاز کو حقیقت پر حمل کر کے سخت غلطی اور گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.سواسی غلطی میں کے علماء مسیحی بھی گرفتار ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کسی طرح نضرت مسیح علیہ السّلام کو خدا بنا دیا جائے سو یہ حق تلفی خالق کی ہے.اشتہار ۲۵ مئی ۱۹۰۰ - مجموعہ اشتہارات - جلد ۳ صفحه ۲۴۵،۲۴۴ سورہ فاتحہ میں جس خدا کو پیش کیا ہے دنیا کا کوئی مذہب اسے پیش نہیں کرتا.عیسائیوں نے جو خدا دکھایا ہے.اسکے مقابلہ میں ہم کہتے عیسائی مذہب اور اسلام ہیں.لفيلد - وَلَمْ يُولد ہے.ہاں اگر مریم کے میں کا خدا که جدا کند پیٹ میں واقعی خدا آ گیا تھا تو چاہئے تھا کہ وہ پیٹ ہی میں مریم کو وعظ کرتے اور ایک لمبا لیکچر دیتے جس کو دوسرے لوگ بھی سن لیتے تو اس خارق عادت لیکچر کو سن کر سارے تصویر

Page 81

۶۳ شبہات دور ہو جاتے اور خواہ نخواہ ماننا پڑتا بلکہ اور بھی خدائی کا ثبوت ملتا.اگر پیٹ ہی میں معجزے دکھانے شروع کر دیتے تو اور بھی معاملہ صاف ہو جاتا اور خواہ نخواہ ماننا پڑتا.مگر بجائے اس کے کہ اس کی الوہیت کی کوئی عظمت ثابت ہوتی.ہر پہلو سے اس کا نقص اور کمزوری ہی ثابت ہوتی ہے.ملفوظات.جلد ۴ صفحه ۴۴۴، ۴۴۵ تعجب کی بات ہے ایک شخص انسانی جامعہ میں ہو اور انسانی لوازم اور عوارض کے ماتحت ۵۱ ہو کس دلیل سے فوق العادت انسان اس کو مانا جاسکتا ہے ؟ صورت شکل سے یہ پہچاننا کہ اللہ تعالی کے نزدیک وہ خدا ہے یہ تو سراسر خیال باطل اور محال ہے اور نصارے بھی اس کے قائل نہیں ہوں عینی آدمی سے کچھ گے تو اب بجز اس کے کہ یہ دکھایا جائے کہ اس کے یہ افعال اور اعمال تھے جو انسانی طاقتوں بھی زیادہ نہیں.سے بڑھ کر ہیں اور جو اسے خدائی کا منصب یاد دلاتے ہیں اور کوئی مضبوط دلیل اس کی الوہیت کی ہو نہیں سکتی.اور یہ سودائے خام ہے.اسلام آج تک ڈنکے کی چوٹ سے پکار رہا ہے.اِنَّ مَثَلَ عِیسَی عِندَ اللهِ كَمَثَلُ آدَمَ - یعنی جو اللہ کے نزدیک حقیقی الوہیت کا حقدار ہے اس لئے کہ جامع جمیع صفات کا ملہ اور ہر قسم کے بشری ضعفوں اور مخلوقی عوارض و لوازم سے منزہ ہے.ہاں اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسی آدمی سے کچھ بھی زیادہ نہیں.یعنی اس میں سارے وہ لوازم اور عوارض موجود ہیں جو آدمی میں پائے جاتے ہیں.جو شخص اس کی الوہیت کا مدعی ہے وہ معمولی آدمی سے بڑھ کر خواص اس میں دکھائے.یہ بڑا بھاری قرضہ نصاری کی گردن پر ہے اور تیرہ سوبرس سے برابر چلا آتا ہے.ان کی غیرت کا اگر ان میں ہوتی یہ مقتضاء ہونا چاہئے تھا کہ اس خطرناک الزام سے بری ہوتے کہاں یہ کہ وہ ایک شخص کو خدا اور الفامیکا ( ALPHA OMEC A ) کہیں اور کہاں یہ کہ اسلام مٹی سے بنے ہوئے آدمی سے کسی طرح بھی بڑھ کر اسے نہ مانے اور نہ ماننے دیے.& الحکم- جلدے نمبر ۲۲ مورخہ ۷ اجون ۱۹۰۳ صفحه ۴ ۵۲ اگر بے باپ پیدا ہو تا لیل الوہیت اور امنیت ہے تو پھر حضرت آدم علیہ السلام بدرجہ بے باپ پیدا ہو ن دلیل اولیٰ اس کے مستحق ہیں کیونکہ نہ ان کی ماں ہے نہ باپ.اور خدا تعالیٰ فرماتا او نیت نہیں ہیں

Page 82

۶۴ ۵۳ یونانی ہے.اِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كمثل ادم (۳/۱۴) اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ چونکہ حضرت عیسیٰ کے بے باپ پیدا ہونے سے خلقت کو دھوکا لگنے کا اندیشہ تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو بغیر ماں اور باپ کے پیدا کر کے ایک نظیر پہلے سے ہی قائم کر دی تھی.لیکن اگر اس کے آسمان پر جانے والی بات بھی صحیح مانی جاوے تو چاہئے تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی بھی ایک نظیر قائم کر دیتا.اب بتلاؤ جب کہ خدا تعالیٰ نے آسمان پر جانے کی کوئی نظیر پیش نہیں کی تو پھر اسی سے ہی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے آسمان پر جانے والی کہانی محض جھوٹی ہے.ا حلے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کفر نے سوال کیا تھا کہ أوْ تَرى في السماء (۱۵/۱۰) یعنی آسمان پر چڑھ جاؤ تو خدا تعالیٰ نے یہی جواب دیا تھا کہ بشر آسمان پر نہیں جاسکتا جیسے فرمایا قُل سُبحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ الا بشر ارسُولاً (۱۵/۱۰) اگر بشر آسمان پر جاسکتا تھاتو چاہئے تھا کہ کفار نظیر پیش کر دیتے.افسوس ان لوگوں نے بے وجہ پادریوں کی مدد پر کمرباندھ لی ہے.جب وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی رو سے بشر تو آسمان پر جا نہیں سکتا مگر عیسی علیہ السّلام آسمان پر سے گئے اس لئے وہ خدا ہیں تو پھر منہ تکتے رہ جاتے ہیں.اتنا نہیں علیہ السلام تو ایک کمزور اور عاجز انسان تھے اور خدا تعالیٰ کے رسول تھے.ایک ذرہ بھی اس سے زیادہ نہ تھے.اگر وہ خدا تھا تو بار ثبوت عیسائیوں پر ہے کہ وہ کوئی سورج، چاند یازمین کا پتہ دیویں جو اس نے بنائی تھی.وہ بیچارے تو ایک مچھر بھی پیدا نہیں کر سکتے تھے.قرآن مجید میں تو صاف لکھا ہے کہ وہ ایک عبد تھے.کھانے پینے اور دوسرے حوائج کے محتاج تھے اور دوسرے نبیوں کی طرح وفات پاگئے تھے.سمجھتے کہ حضرت عیسیٰ ملفوظات.جلد ۹ صفحه ۴۵۹٬۴۵۸ حضرت مسیح کا بغیر باپ پیدا ہونا بھی امور نادرہ میں سے ہے خلاف قانون قدرت نہیں بین باپ پیدائش کے ہے کیونکہ یونانی مصری ہندی طبیبوں نے اس امر کی بہت سی نظیریں لکھتی ہیں کہ کبھی بغیر ارہ میں بو علی مصری باپ کے بھی بچہ پیدا ہو جاتا ہے بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ بحکم قادر مطلق ان میں دونوں قوتیں عاقدہ اور منعقدہ پائی جاتی ہیں اس لئے دونوں خاصیتیں ذکر اور انٹی کی ان اور ہندی طبیبوں کی رائے.

Page 83

۶۵ - کے تخم میں موجود ہوتی ہے.یونانیوں نے بھی ایسی پیدائشوں کی نظیریں دی ہیں اور ہندووں نے بھی نظیریں دی ہیں اور ابھی حال میں مصر میں جو طبی کتابیں تالیف ہوئی ہیں ان میں بھی بڑی تحقیق کے ساتھ نظیروں کو پیش کیا ہے.ہندووں کی کتابوں کے لفظ چندر بنسی اور سورج بنسی در حقیقت انہیں امور کی طرف اشارات ہیں.پس اس قسم کی یدائش صرف اپنے اندر ایک ندرت رکھتی ہے جیسے توام میں ایک ندرت ہے اس سے زیادہ نہیں.یہ نہیں کہہ سکتے کہ بغیر باپ پیدا ہونا ایک ایسا امر فوق العادت ہے جو حضرت عیسی علیہ السّلام سے خصوصیت رکھتا ہے.اگر یہ امر فوق العادت ہوتا اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے ہی مخصوص ہوتا تو خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اس کی نظیر جو اس سے ہو اس جو اس بڑھ کر تھی کیوں پیش کرتا اور کیوں فرماتا اِن مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ ادم خَلَقَهُ مِنْ تَرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ یعنی حضرت عیسی علیہ السّلام کی مثال خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسی ہے جیسے آدم کی مثال کہ خدا نے اس کو مٹی سے جو تمام انسانوں کی ماں ہے پیدا کیا اور پھر اس کو کہا کہ ہو جاتو وہ ہو گیا یعنی جیتا جاگتا ہو گیا.اب ظاہر ہے کہ کسی امر کی نظیر پیدا ہونے سے وہ امر بے نظیر نہیں کہلا سکتا.اور جس شخص کے کسی عارضہ ذاتی کی کوئی نظیر مل جائے تو پھر وہ شخص نہیں کہہ سکتا کہ یہ صفت مجھ سے مخصوص ہے.تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلدی اصفحه ۲۰۲ ، ۲۰۳ حاشیه خدا کا قانون ہے کہ اس نے کسی انسان کو کسی امر میں خصوصیت نہیں دی اور کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ مجھ میں ایک ایسی بات ہے جو دوسرے انسانوں میں نہیں.اگر ایسا پیدائش کے لحاظ سے ہوتا تو ایسے انسان کو واقعی طور پر معبود ٹھہرانے کے لئے بنیاد پڑ جاتی.ہمارے نبی صلی اللہ حضرت آدم سے علیہ وسلم کے وقت میں بعض عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی یہ خصوصیت مشابت.پیش کی تھی کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں تو فی الفور اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی اس آیت میں جواب دیا.اِنَّ مُثلَ عِیسَی عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلُ أَدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ - یعنی عیسی کی مثال آدم کی مثال ہے خدا نے اس کو مٹی سے پیدا کیا پھر اس کو کہا کہ ہو جا سو وہ ہو گیا.ایسا ہی عیسی بن مریم مریم کے خون سے اور مریم کی منی سے پیدا ہوا پھر خدا نے کہا کہ ہو جا سو ہو گیا.پس اتنی بات میں کونسی خدائی اور کونسی خصوصیت اس میں پیدا ہو گئی.موسم برسات میں ہزار ہا کیڑے

Page 84

۶۶ مکوڑے بغیر ماں اور باپ کے خود بخود زمین سے پیدا ہو جاتے ہیں کوئی ان کو خدا نہیں ٹھہراتا.کوئی ان کی پرستش نہیں کرتا.کوئی ان کے آگے سر نہیں جھکاتا.پھر خوانخواه حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت اتنا شور کرنا اگر جہالت نہیں تو اور کیا ہے.براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۵۱،۵۰ نیز دیکھیں.حقیقۃ الوحی صفحہ ۴۱ ایام الصلح صفحہ ۱۳۷ حاشیہ چشمه معرفت صفحه ۲۱۹،۲۱۸ الاستفتاء (مشمولہ حقیقۃ الوحی صفحه ۵۲،۵۰) تحفہ گولڑویہ صفحہ اے حاشیہ....جنگ مقدس صفحه ۲۸۰، ۲۸۱ البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخه ۸ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۵ البدر جلد ۲ نمبر ۱۶ مورخه ۸ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۱۲ الحكم جلد نمبر ۳۹ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۶ عیسائیوں کے خدا سے تو آدم ہی اچھا رہا.کیونکہ آدم کے سامنے تو فرشتوں نے عیسائیوں کے خدا سے سجدہ کیا تھا اور ایک شیطان جس نے سجدہ نہیں کیا تھاوہ ذلیل کیا گیا اور نکلا گیا.برخلاف تو آدم ہی اچھا ہا.اس کے عیسائیوں کا خدا شیطان کے پیچھے پیچھے لگتا پھرا.اور شیطان کہہ سکتا ہے کہ چونکہ اس نے مجھے سجدہ نہیں کیا تھا اس واسطے ذلیل ہوا.اور پھانسی دیا گیا.104 لملفوظات.جلد ۸ صفحه ۴۱۸ خدا تعالیٰ کے نزدیک عیسی کی مثال آدم کی مثال ہے خدا نے اس کو مٹی سے بنایا پھر کہا کہ ہو جاپس وہ زندہ جیتا جاگتا ہو گیا.یعنی عیسی علیہ السّلام کا بے باپ ہونا کوئی امر خاص اس کے لئے نہیں تا خدا ہونا اس کا لازم آوے.آدم کے باپ اور ماں دونوں نہ خدائی کی دلیل دی ن نہیں.پس جس حالت میں خدا تعالیٰ کی غیرت نے یہ تقاضا کیا کہ حضرت عیسی میں فوق العادت بے پدر ہونے کی خصوصیت نہ رہی تا ان کی خدائی کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھہرائی جائے تو پھر

Page 85

42 | کیونکر ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی میں چار فوق العادت خصوصیتیں ہیں قبول کر لیں ہوں.ضمیمہ براہین احمدیہ.حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۹۸٬۳۹۷ 06 مریم کا صدیقہ نام رکھنا اس غرض سے نہیں تھا کہ وہ دوسری تمام پاک دامن اور صالحہ عورتوں سے افضل تھی بلکہ اس نام کے رکھنے میں یہودیوں کے اعتراض کا ذب اور دفع مقصود تھا.اسی طرح احادیث میں جو لکھا گیا کہ عیسی اور اس کی ماں من میں کی پیدائش بھی کوئی میسا امر نہیں کہ جس شیطان سے پاک تھے.اس قول کے یہ معنے نہیں کہ دوسرے نبی مست شیطان سے سے ان کی خدائی کا پاک نہیں تھے.بلکہ غرض یہ تھی کہ نعوذ باللہ جو حضرت مسیح پر ولادت ناجائز کا الزام لگایا استنباط ہو سکے.گیا تھا اور حضرت مریم کو ناپاک عورت قرار دیا گیا تھا.اس تکلمہ میں اس کارد مقصود ہے.ایسا ہی حضرت مسیح کی پیدائش کوئی ایسا امر نہیں ہے.جس سے ان کی خدائی مستنبط ہو سکے.اسی دھوکہ کے دور کرنے کے لئے قرآن شریف اور انجیل میں حضرت عیسی اور یحیٰ کی ولادت کا قصہ ایک ہی جگہ بیان کیا گیا ہے.تا پڑہنے والا سمجھ لے کہ دونوں ولاد تیں اگر چہ بطور خارق عادت ہیں.لیکن ان سے کوئی خدا نہیں بن پیدائش کے لحاظ سے سکتا.ورنہ چاہئے کہ بیٹی بھی جس کا عیسائی یوحنا نام رکھتے ہیں خدا ہو.بلکہ یہ دونوں حضرت بیٹی کا نشان امر اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ نبوت اسرائیلی خاندان میں سے جاتی رہے گی.یعنی بہت صاف رہا.جبکہ یسوع مسیح کا باپ بنی اسرائیل میں سے نہ ہوا.اور یخنی کی ماں اور باپ اس لائق نہ ہ یہ خصوصیت کہ وہ مع جسم عنصری آسمان پر چلے گئے کوئی دوسرا انسان ان کا شریک نہیں.دوسری یہ خصوصیت کہ صدہا سال تک بغیر آب و دانہ کے آسمان پر زندہ رہنے والے ٹھہرے جس میں ان کا کوئی دوسرا انسان شریک نہیں.تیسری یہ خصوصیت که آسمان پر اتنی مدت پیرانہ سالی اور ضعف سے محفوظ رہنے والے وہی ٹھہرے جس میں ان کا کوئی آدمی شریک نہیں.چوتھی خصوصیت که مدت دراز کے بعد آسمان سے مع ملائک نازل ہونے والے وہی ٹھہرے جس میں ان کا ایک بشر بھی شریک نہیں.میں کا بھی ضمیمہ براہین احمدیہ.حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۹۵

Page 86

i ۲۸ ٹھہرے کہ اپنے نطفہ سے بچہ پیدا کر سکیں.تو یہ دونوں نبی اسرائیلی سلسلہ سے خارج ہو گئے.اور یہ آئندہ ارادہ الہی کے لئے ایک اشارہ قرار پا گیا کہ وہ نبوت کو دوسرے خاندان میں منتقل کرے گا.ظاہر ہے کہ حضرت عیسی کا کوئی بنی اسرائیکی باپ نہیں ہے.پس وہ بنی اسرائیل میں سے کیونکر ہو سکتا ہے.لہذا اس کا وجود اسرائیلی سلسلہ کے دائمی نبوت کی نفی کرتا ہے.ایسا ہی یوحنا یعنی یخنی اپنے ماں باپ کے قولی میں سے نہیں ہے.سو وہ بھی اسی کی طرف اشارہ ہے.اس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ مسیح کے کسی معجزہ یا طرز ولادت میں کوئی ایسا عجوبہ نہیں کہ وہ اس کی خدائی پر دلالت کرے.اسی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مسیح کی ولادت کے ذکر کے ذکر کے ساتھ بیجی کی ولادت کا ذکر کر دیا.تا معلوم ہو کہ جیسا کہ بچی کی خارق عادت ولادت ان کو انسان ہونے سے باہر نہیں لے جاتی.ایسا ہی مسیح ابن مریم کی ولادت اس کو خدا نہیں بناتی.یہ تو ظاہر ہے کہ یوحناکی ولادت حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے کوئی کم عجیب تر نہیں.بلکہ حضرت عیسی میں صرف باپ کی طرف میں ایک خارق عادت امر ہے.اور حضرت بیٹی میں ماں اور باپ دونوں کی طرف میں خارق عادت امر ہے.اور اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حضرت بیٹی کی پیدائش کا نشان بہت صاف رہا ہے.کیونکہ ان کی ماں پر کوئی ناجائز تہمت نہیں لگائی گئی.اور بوجہ اس کے کہ وہ بانجھ تھی تہمت کا کوئی محل بھی نہیں تھا.لیکن حضرت مریم پر تہمت لگائی گئی.اور اس تہمت نے حضرت عیسی کی ولادت کے انجو بہ کو خاک میں ملا دیا.مگر اس تہمت میں صرف یہودیوں کا قصور نہیں.بلکہ خود حضرت مریم سے ایک بڑی بھاری غلطی ہوئی جس نے یہود کو تہمت کا موقعہ دیا.اور وہ یہ کہ جب اس نے اپنے کشف میں فرشتہ کو دیکھا اور فرشتہ نے اس کو حاملہ ہونے کی بشارت دی.تو مریم نے عمداً اپنے خواب کو چھپایا.اور کسی کے پاس اس کو ظاہر نہ کیا.کیونکہ اس کی ماں اور باپ دونوں نے اس کو بیت المقدس کی نذر کیا تھا.تاوہ ہمیشہ تارکہ رہ کر بیت المقدس کی خدمت میں مشغول رہے اور کبھی خاوند نہ کرے.اور بتول کا لقب اس کو دیا گیا.اور اس نے آپ بھی یہی عہد کیا تھا کہ خاوند نہیں کرے گی.اور بیت المقدس میں رہے گی.اب اس خواب کے دیکھنے سے اس کو یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر میں لوگوں کے پاس یہ ظاہر کرتی ہوں کہ فرشتہ نے مجھے بشارت دی ہے کہ تیرے لڑکا پیدا ہو گا.تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ خاوند کرنا

Page 87

! ۶۹ حمل چاہتی ہے.اس لئے وہ اس خواب کو اندر ہی اندر دیا گئی.لیکن وہ خواب سچی تھی اور ساتھ ہی اس کے حمل ہو گیا جس سے مریم مدت تک بے خبر رہی.جب پانچواں مہینہ پر گذر تب یہ چر چاپھیل گیا کہ مریم کو حمل ہے اور اس وقت لوگوں کو خواب سنا.لیکن اس وقت سناتا ہے فائدہ تھا.آخر بزرگوں نے پردہ پوشی کے طور پر یو نام ایک شخص سے اس کا نکاح کر دیا.اس طرح پر یہ نشان مکدر ہو گیا.نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۷۹ تا ۳۸۱ دی.نیز دیکھیں.الحکم.جلد ۹ نمبر ۴۲ مورخه ۳۰ نومبر ۱۹۰۵ صفحه ۲ خدا تعالیٰ کی غیرت اور جلال کے صریح خلاف ہے کہ ایک عورت کا بچہ خدا بنایا جاتا جو انسانی حوائج اور لوازم بشریہ سے کچھ بھی استثناء اپنے اندر نہیں رکھتا.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۰۶ ۱۰۷ کیا ممکن ہے کہ ایک ہی ماں یعنی مریم کے پیٹ میں سے پانچ بچے پیدا ہو کر ایک بچہ خدا کا بیٹا بلکہ خدا بن گیا اور چار باقی جو ر ہے ان بیچاروں کو خدائی سے کچھ بھی حصہ نہ PA عورت کا بچہ خدا ! ملا.بلکہ قیاس یہ چاہتا تھا کہ جبکہ کسی مخلوق کے پیٹ سے خدا بھی پیدا ہو سکتا ہے.یہ جس پیٹ سے ایک کچھ یہ نہیں کہ ہمیشہ آدمی سے آدمی اور گدھی سے گدھا پیدا ہو.تو جہاں کہیں کسی عورت خدا پیدا ہوا اس سے کے پیٹ سے خدا پیدا ہو تو پھر اس پیسٹ سے کوئی مخلوق پیدا نہ ہو.بلکہ جس قدر بچے پیدا دیر بچے بھی دادی پیدا ہونے چاہئیں.ہوتے جائیں وہ سب خدا ہی ہوں تا وہ پاک رحم مخلوق کی شرکت سے منزہ رہے اور فقط خداوں ہی کے پیدا ہونے کی ایک کان ہو.پس قیاس متذکرہ بالا کے رو سے لازم تھا کہ حضرت مسیح کے دوسرے بھائی اور بہن بھی کچھ نہ کچھ خدائی میں سے بحرہ پاتے اور ان پانچوں حضرات کی والدہ تو رب الارباب کہلاتی.کیونکہ یہ پانچوں حضرات روحانی اور جسمانی قوتوں میں سے اسی سے فیضیاب ہیں.براہین احمدیہ - روحانی خزائن جلد ا صفحه ۴۴۲.بقیہ حاشیه ۱۱ خدائی کے مستحق اگر ہو سکتے تھے تو ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و علیہ وسلم ہو سکتے مسیح کے بھائیوں کو کیوں تھے.کیونکہ آپ کا نہ کوئی بھائی تھانہ بہن.حالانکہ عیسی کے اور بھائی اور بہن خانہ کیا جائے.

Page 88

☐ ง تھے.تھے.ان کم بخت عیسائیوں کو اتنا خیال نہیں آتا کہ عیسی کے پانچ بھائی اور دو بہنیں تھیں جو کہ مریم کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھیں.پس کیا وجہ ہے کہ مریم کو خداؤں کی ماں اور مسیح کے بھائیوں کو خدا نہ کہا جاوے.ملفوظات.جلد ۶ صفحه ۱۴۸ مسیح کہتا ہے کہ مجھے نیک مت کہہ.اس کی تاویل عیسائی یہ کرتے ہیں کہ مسیح کا منشا یہ تھا کہ مجھے خدا ہے.یہ کیسے تعجب کی بات ہے.کیا مسیح کو ان کی والدہ مریم یا ان کے بھائی مسیح کو ان کی والدہ یا بھائی خدا نہیں کتے سے ہی خدا کہتے تھے جو وہ نہیں آرزو اس شخص سے رکھتے تھے کہ وہ بھی خدا کہے انہوں نے یہ لفظ تو اپنے عزیزوں اور شاگردوں سے بھی نہیں سنا تھا.وہ بھی استاد استاد ہی کہا کرتے تھے.پھر یہ آرزو اس غریب سے کیونکر ان کو ہوئی.کیا وہ خوش ہوتے تھے کہ انہیں کوئی خدا کہے.یہ بالکل غلط ہے.ان کو نہ کسی نے اوستاد یہ کہا اور نہ انہوں نے کہلوایا.پھر ایک اور توجیہ کرتے ہیں کہ دراصل وہ شخص منافق تھا.اسلئے حضرت مسیح گویا خفا ہوئے کہ تو نیک کیوں کہتا ہے کیونکہ تو مجھے نیک نہیں جانتا.یہ بھی بالکل غلط بات ہے کہاں سے معلوم ہوا کہ وہ منافق تھا.ملفوظات.جلدی صفحہ ۴۰۶ مجھے تعجب ہے کہ عیسائیوں کو کس بات پر ناز ہے.اگر ان کا خدا ہے تو وہی ہے جو مدت ہوئی کہ مرگیا اور سری نگر محلہ خانیار کشمیر میں اس کی قبر ہے اور اگر اس کے معجزات کیا عیسائیوں کو اس خدا ہیں تو وہ دوسرے نبیوں سے بڑھ کر نہیں ہیں بلکہ الیاس نبی نے معجزات اس سے بہت پر ناز ہے ؟ زیادہ ہیں.اور بموجب بیان یہودیوں کے اس سے کوئی معجزہ نہیں ہوا محض فریب اور مکر تھا.اور پیش گوئیوں کا یہ حال ہے جو اکثر جھوٹی نکلی ہیں.کیا باراں حواریوں کو وعدہ کے موافق باراں تخت بہشت میں نصیب ہو گئے کوئی پادری صاحب تو جواب دیں ؟ کیا دنیا کی بادشاہت حضرت عیسی کو ان کی اس پیش گوئی کے موافق مل گئی جس کے لئے ہتھیل کتابت کی غلطی ہے.یہ لفظ "خدا" ہونا چاہئے.(مرتب)

Page 89

1 بھی خریدے گئے تھے کوئی تو بولے ؟ اور کیا اسی زمانہ میں حضرت مسیح اپنے دعوے کے موافق آسمان سے اتر آئے ؟ میں کہتا ہوں اترنا کیا ان کو تو آسمان پر جانا ہی نصیب نہیں ہوا.یہی رائے یورپ کے محقق علماء کی بھی ہے بلکہ وہ صلیب پر سے نیم مردہ ہو کر بیچ گئے.اور پھر پوشیدہ طور پر بھاگ کر ہندوستان کی راہ سے کشمیر میں پہنچے اور وہیں فوت ہوئے.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۴۵،۳۴۴ اما عيسى عليه السلام فأنت تعلم ان القرآن لا يسميه إلها ولا ابن اله ، بل يبرئه مگر میانی علیہ السلام کے بارہ میں تو تو خوب جانتا ہے کہ قرآن ان کا نام خدا یا این خدا نہیں رکھتا بلکہ اس کو ان تمام قولوں سے بری کرتا ہے جو قرآن کریم حضرت کو اللہ نہیں مما قيل، ويرد الاقاويل افراطا كانت او تفريطا، ويقيم عليه الدليل، ويبين انه اس کے حق میں بڑھا کر یا گھٹا کر کے گئے تھے اور دلائل سے ثابت کرتا ہے کہ وہ بندہ اور مترتب نہیں ہے.ماہتا.عبد ومن المقربين.وقال في مقام وقالوا اتخذ الرحمن ولدا سبحانه بل عباد اور ایک مقام پر فرماتا ہے کہ عیسائی کہتے ہیں کہ سنی خدا کا بیٹا ہے خدا بیٹوں سے پاک ہے بلکہ یہ مكرمون.ومن يقل منهم انى اله من دونه فذلك نجزيه جهنم كذلك نجزى عزت دار بندے ہیں اور جو ان میں سے یہ کسے کہ بدون خدا کے میں بھی خدا ہوں سو ایسے شخص کی سزا جنم ہوگی اور اسی طرح ظالموں کو الظالمين.ہم سزا دیا کرتے ہیں.واشترط قول الظالمين بلفظ من دونه ليخرج به قوما اصبى الحب قلوبهم وهيج اور قرآن نے جو ظالمین کے لفظ کے ساتھ من دونے کی شرط لگادی ہے اور کہا ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ میں خدا کے کروبهم حتى بلغت عليهم المحوية والسكر وجنون العاشقين، فخرجت من سوا خدا ہوں سو یہ شرط من دونے کی یعنی سوا کی اس واسطے لگائی ہے تا ان لوگوں کو ظالم ہونے سے مست نے رکھے جن کے دلوں کو افواههم كلمات في مقام الفناء النظرى والجذبات السماوية، وورد عليهم وارد دلوں میں بے قراریاں پیدا کیں یہاں تک ان کے دوست حقیقی نے اپنی طرف کھینچ لیا اور ان کے فكانوا من الوالهين.فقال بعضهم : ما في جبتى الا الله ، وقال بعضهم : ان يدى کہ ان کے دلوں پر محویت اور سکر اور عاشقوں سیمنون آگیا سوفیا نظری کی حالت اور جذب سلوی کے وقت میں ان کے منہ سے کچھ ایسی باتیں تیسی

Page 90

i J ۶۴ هذه يد الله ، وقال بعضهم : انا وجه الله الذي وجهتم إليه ، وانا جنب الله نکل گئیں اور بعض واردات ان پر ایسے وارد ہوئے کہ وہ عشق کی مستی سے بیہوشوں کی طرح ہو گئے سو بعض نے اس مستی کی حالت میں الذي فرطتم فيه.وقال بعضهم: انا اقول وانا اسمع فهل في الدار غيرى ، وقال کہا کہ میرے جبہ میں خدا ہی ہے اور کوئی نہیں اور بعض نے کہا کہ میرا یہ ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے اور بعض نے کہا کہ میں ہی وجہ اللہ ہوں جس کی بعضهم : انا الحق.فهؤلاء كلهم معفوون ، فانهم نطقوا من غلبة كمال المحوية طرف تم نے منہ کیا اور میں ہی جنب اللہ ہوں جس کے حق میں تم نے تقصیر کی اور بعض نے کہا کہ میں ہی کہتا ہوں اور میں ہی سنتا ہوں اور والانكسار لا من الرعونة والاستكبار ، وحفت بهم سكر صهباء العشق وجذبات میرے سوالور گھر میں کون ہے اور بعض نے کہا کہ میں ہی حق ہوں سو یہ تمام لوگ مرفوع القلم ہیں کیونکہ وہ کمال محویت سے بولے ہیں نہ الحب المختار، فخرجت هذه الاصوات من خوخة الفناء لا من غرفة الخيلاء.رعونت اور تکبیر سے اور شراب عشق کے نشہ اور دوست بر گزیدہ کے جذبات نے ان کو گھیر لیا سویہ آواز میں فٹ کی کھڑکی سے نکلیں نہ تکبر کے وما نقلوا الاقدام الى دون الله ، بل فنوا في حضرة الكبرياء، فلا شك انهم غير بلاخانے سے اور دون اللہ کی طرف انہوں نے قدم نہیں اٹھایا بلکہ حضرت کبریا میں فنا ہو گئے سو کچھ شک نہیں کہ ان پر ان کلمات سے کوئی ملومين ولا يجوز اتباع كلماتهم وحرص مضاهاتهم، بل هي يجب ان تطوى ملامت نہیں.اور ان کے ان کلمات کی پیروی جائز نہیں اور نہ یہ روا ہے کہ ان کی مشاہمت کی خواہش کی جائے بلکہ یہ ایسے کھلے ہیں کہ لینے لا ان تروى.ولا يؤاخذ الله الا الذين كانوا من المتعمدين المجترئين.کے لائق ہیں نہ اظہار کے لائق اور خدا تعالیٰ انہیں سے مواخذہ کرتا ہے جو عماً چالاکی سے ایسے کلمے منہ پر لاویں.نور الحق، الجزء الاول المجلد ۸ ص..ای ۱۰۱) مسیح کے آیتہ اللہ ہونے میں کوئی خصوصیت نہیں ہے.جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے وہ آیۃ اللہ ہی ہوتا ہے.براہین احمدیہ میں مجھے مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے مسیح آیتہ اللہ تھا.ولنجعلك آية رسول الله صلى اللہ علیہ وسلم بھی آیت تھے.مسیح کی کوئی خصوصیت اس میں نہیں.عزیر بھی آیۃ اللہ تھے.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۳۷۸ واعجبنى طريق المعترض الفتان انه لا يمتنع من الهذيان، ويهذي كمثل

Page 91

۷۳ النشوان، ويقول : ان عيسى هو الروح الذى يوجد ذكره في جميع مقامات حضرت مسیح کے لئے لفظ روح کا استعمالی کہتا ہے کہ عیسی وہی روح ہے جس کا جابجا قر آن میں ذکر پایا جاتا ہے اور ایسا ہی دوسری کتابوں میں بھی ذکر پایا جاتا انہیں خدا نہیں بہاتا.القرآن وفي كتب اخرى التى هي من الله الرحمن، وما هو الا من الكاذبين.ہے جو خداتعالی کی طرف سے نازل ہوئی تھیں حالانکہ وہ اس دعوی میں سراسر جھوٹ بول رہا ہے.سوائے حق کے فاعلموا يا معشر الطلاب انه يسعى الى السراب ولا يخطو الى الصواب، وان في طالبوا یقیناً سمجھو کہ وہ صرف ریت کی چمک کی طرف دوڑتا ہے جس میں پانی نہیں اور حق کی طرف قدم كلامه دجل عجيب وتمويه غريب وكذب مبين الا يعلم ان الروح نزل على نہیں رکھتا اور اس کی کلام میں ایک عجیب قسم کا دجل ہے اور دھوکا دہی اور کھلا کھلا جھوٹ ہے.کیا نہیں جانتا کہ روح عيسى كما نزل على موسى ونبيّن آخرين.لم يلبس الحق بالباطل كالدجال جیسا کہ حضرت عیسی پر نازل ہوا ایسا ہی حضرت موسی پر نازل ہوا اور ایسا ہی دوسرے نبیوں پر.کیوں حق کے ساتھ الغالث؟ ألا يقرأ في الانجيل متى الاصحاح الثالث : واذا السموات قد انفتحت جھوٹ ملاتا ہے جیسے کہ دجال اچھے کے ساتھ برے کو ملانے والے کیا وہ انجیل متی کے تیسرے باب کو نہیں له ، فرأى روح الله نازلة مثل حمامة وآتيا عليه...ثم اصعد يسوع الى البرية من پڑھتا.کہ یکدفعہ اس کے لئے آسنوں کے دروازے کھل گئے سو اس نے خدا کی روح کو کبوتر کی طرح اترتے اور الروح ليجرب من الشيطان اللعين.اپنے پر آتے دیکھا.پھر یسوع روح سے جنگل کی طرف چلا گیا تا شیطان سے آزمایا جاوے.فثبت ان روح القدس نزل على المسيح كما نزل على ابراهيم واسماعيل الذبيح نہیں اس سے ثابت ہوا کہ روح القدس مسیح پر ایسا ہی نازل ہوا جیں کہ ابراہیم اور اسماعیل وغيره من المرسلين.فاتق رب العباد وفكر لطلب السداد، مجتهدا لتحصيل اور دوسرے نبیوں پر.سوخدا سے ڈر اور حق الامر کے ڈھونڈھنے کی فکر کر مگر اس فکر میں کوشش کر الرشاد، وتاركا سبل الرقاد وجاهدًا.هل يكون النازل والمنزل عليه شيئا واحدا.اور نیند کی راہوں سے الگ ہو.کیا نازل اور منزل علیہ ایک ہی چیز ہو سکتے ہیں كلا بل لا بد من ان يكونا شيئين متغائرين كما لا يخفى وعلى ذي العينين على سائر بلکہ یہ بات ضروری ہے کہ وہ وہ متغائر چیزیں ہیں جیسا کہ عظمندوں پر پوشیدہ نہیں.العاقلين.فأي دليل اكبر من هذا لقوم منصفين الذين ينثالون الى الحق موجفين ، پس منصفوں کے لئے اس سے بڑھ کر اور کونسی دلیل ہوگی وہ منصف جو حق کی طرف متوجہ ہو کر دوڑتے ہیں.

Page 92

ولا يتركون الصراط كعمين.واي فرق في الروح النازل على عيسى والروح الذي اور راہ کو اندھوں کی طرح نہیں چھوڑتے.اور کونسا فرق ان دو روحوں میں ہے جو حضرت عیسی اعطى لموسی کلیم ربّ العلمين؟ ألا تتفكرون يا معشر الظالمين ، وتسقطون على اور حضرت موسی پر نازل ہوئیں.اے ظالمو! کیا تم کچھ بھی فکر نہیں کرتے.اراجيف الكاذبين.ألا تقرأون في التوراة الاصحاح الحادي عشر ما قيل انه قول اور جھوٹوں کی خبروں پر گرے جاتے ہو کیا تم تو رات کے گیارہویں باب میں وہ کلام نہیں اصدق القائلين وهو ان الرب قال لموسى فانزل وانا اتكلم معك، وآخذ من پڑھتے جس میں کہا گیا ہے کہ اس خدا کا کلام ہے کہ جو اپنی باتوں میں سب سے بڑھ کر سچا ہے اور وہ یہ ہے کہ رب نے الروح الذي عليك ، وأضع عليهم أي على اكابر امته وهم كانوا سبعين.موسی سے کہا کہ میں اتروں گا اور تجھ سے کلام کروں گا اور اس روح میں سے لوں گا جو تجھ پر اور ان پر ڈالوں گا یعنی بنی وكذلك نزل هذا الروح على جد عیسی مرشده داود و یحى وغيرهما من النبيين.اسرائیل کے اکابر پر جو ستر آدمی تھے.اور اسی طرح روح حضرت عیسائی کے دادے اور اس کے مرشد یکی پر بھی نازل ولا حاجة الى ان نطول الكلام ونضيع الاوقات ونزيد الخصام، فإن الخواص من ہوئی اور ایسا ہی دوسرے نبیوں پر.اور کچھ ضرورت نہیں کہ ہم اس کلام کو طول دیں اور وقت کو ضائع کریں اور النصارى والعوام يعرفونه وما كانوا منكرين.فلم لا تشتف ايها الجهول والغبي جھگڑے کو بڑھاویں کیونکہ نصاری ان تمام باتوں کو جانتے ہیں اور منکر نہیں ہیں.پس اے نادان کیوں اپنی نظر کو پہلی المعذول في كتب الأولين، ولم لا تقبل النصيحة وتعادي العقيدة الصحيحة، ولا کتابوں میں عمیق حد تک نہیں پہنچاتا اور کیوں نصیحت کو قبول نہیں کرتا اور صحیح عقیدے کا دشمن ہو رہا ہے اور ہدایت کی تكون من المسترشدين.نعطيك شهدا ينقع وتعدو الى سم منقع ، اتريد ان تكون راہ پر نہیں آتا.ہم تجھے ایک شہر پیاس بجھانے والا دیتے ہیں اور تو ایک تیز زہر کی طرف دوڑتا ہے تا اس کو پی لے.کیا من الهالكين.تیرا مرنے کا ارادہ ہے.واما ما ظننت ان الله يسمى المسيح في القرآن روحا من الله الرحمن ، ولا يسميه اور یہ جو تو نے خیال کیا کہ اللہ تعالی قرآن میں مسیح کا نام روح میں اللہ رکھتا ہے اور اس کا نام بشر نہیں رکھتا بشرا ومن نوع الانسان فاعجبني انكم لم لا تأنفون من البهتان ، ولم لا تستحيون اور من جملہ نوع انسان اس کو قرار نہیں دیتا سو مجھے تعجب ہے کہ تم لوگ کیوں بہتان سے کراہت نہیں کرتے اور

Page 93

۷۵ ، من خرافات، وتنضنضون نضنضة الثعبان وما كنتم منتهين.وتميسون خرافات بکنے کے وقت تمہیں کیوں شرم نہیں آتی اور اثر رہاکی طرح زبان ہلاتے ہو اور باز نہیں آتے اور تم ہمارے غصہ كالسكارى وجدانا ووجدا، ولا ترون غورا ولا نجدا، ولا تخافون هوة اور غم کے ایسے چلتے ہو جیسا کہ ایک مست چلتا ہے اور نشیب و فراز کو کچھ بھی نہیں دیکھتے اور گڑھے میں گرنے سے السافلين.اجعلتم قرة عيونكم ومسرة قلوبكم في الاكاذيب، وطبتم نفسا بإلغاء نہیں ڈرتے.کیا جھوٹ بولنے میں ہی تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی خوشی ہے اور تم اس بات پر خوش ہو گئے طلب الحق والقاء حبل الله القريب، وكنتم قوما عادين.ويل لكم انكم سقطتم کہ حق کو چھوڑ دو اور خدا کے رسہ کو جو بہت نزدیک ہے پھینک دو.اور تم پر افسوس کہ تم ایک مزبلہ پر گرے اور باغ على دمنة واعرضتم عن روضة ، بل تركتم شجراء وآثرتم مرداء، ونزلتم عن متن سے کنارہ کیا بلکہ تم نے درختوں والی زمین کو چھوڑا اور ویران بے درخت زمین کو اختیار کیا اور سواری سے تم اتر بیٹھے الركوبة، واخترتم طريق الصعوبة، وقفوتم اثر المبطلين.اور خرابی اور سختی کا راہ اختیار کر لیا اور باطل پرستوں کے پیچھے لگ گئے.وان كنتم تظنون ان القرآن صدق قولكم واعان ، وقال في شأن عيسى روح منه ، اور اگر تمہیں یہ گمان ہے کہ قرآن تمہارے قول کی تصدیق کرتا اور تمہیں مدد دیتا ہے اور عیسی کے بارے میں کہا وقبل انه خرج من لدنه ، فما هذا الاجهل صريح ووهم قبيح وخطأ مبين.ثم ان ہے کہ وہ اس سے روح ہے اور اس بات کو قبول کر لیا ہے کہ وہ اس سے نکلا ہے تو یہ خیال تمہار ا صریح جہل اور مکروہ و ہم فرض ان قوله تعالى روح منه يريد شأن ابن مريم ويجعله ابن الله واعلى واكرم ، اور کھلا کھلا خطا ہے.پھر اگر ہم فرض کر لیں کہ روح نیند کا لفظ حضرت عیسی کی شان بڑہاتا ہے اور اس کو ابن اللہ اور فيجب ان يكون مقام آدم ارفع منا واعظم ، ويكون ادم اول ابناء رب العالمين.فان روح سند سے تو بلند تر مھراتا ہے سو اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت آدم کا مقام حضرت عیسی سے زیادہ بلند ہو اور پہلا بیٹا خدا تعالی کا حضرت آدم کا مقام زیادہ بلند ثابت ہوتا في شأن آدم بيان اكبر من شأن عيسى فتفكر في آية : فقعوا له ساجدين، وتدبر ہے.حضرت آدم ہی ہو.کیونکہ حضرت آدم کی شان میں حضرت عیسی کی نسبت زیادہ تعریف بیان کی گئی ہے سو کاولى النهى، وفكر في لفظ خلقت بيدى ولفظ سويته ونفخت فيه من مهمندوں کی طرح فقعوا له ساجدین میں غور کر اور پھر اس لفظ میں غور کر جو تعلقت بیدی روحي، وألفاظ اخرى ، ليظهر عليك جلالة آدم وشأنه الأعلى.فإن منطوق الآية اور سويته اور نفخت فيه من روحی ہے اور دوسرے لفظوں کو بھی

Page 94

يدل على ان روح سوچتا کہ تیرے پر حضرت آدم کی شان اعلی ظاہر ہو کیونکہ منطوق آیت کا دلالت کرتا ہے کہ روح ادا نہ حضرت آدم ومظهر تجليات، واقرب الى الله الاغنى واعلم وافضل من الملائكة اجمعين، الله نزل في آدم بنزول اجلى حتى جعله مسجود الملائكة میں اترا تھا اور وہ اترنا بہت روشن تھا یہاں تک کہ آدم ملائکہ کا سجدہ گاہ ٹھرا اور تجلیات عظمی کا مظہر بنا اور خدائے غنی وخليفة الله على الارضين سے بہت قریب ہوا اور افضل شھرا اور خدا تعالی کا خلیفہ بنا واما الآية التي نزلت في شأن عيسى فما تجعله ارفع واعلى ولا اصفى وازکی ، بل اور وہ آیت جو حضرت عیسی کی شان میں نازل ہوئی ہے سو وہ اس کو کچھ بہت اونچا نہیں بتاتی.يثبت منه ان عيسى روح من الله وعبده العاجز كاشياء اخرى ومن المخلوقين.اور نہ زیادہ پاک اور صاف بناتی ہے بلکہ اس سے تو صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ ما سجده ابليس بل امره أن يسجد له.ومع ذلك جربه ذلك الخبيث.وسجد حضرت بی خدا تعالی کی طرف سے ایک روح ہیں جیسا کہ دوسری چیزیں خدا تعالی کی طرف سے ہیں اور ثابت ہوتا لآدم الملائكة كلهم اجمعين وان آدم انبأ الملائكة باسماء سائر الاشياء.فثبت ہے کہ وہ مخلوق ہے شیطان نے اس کو سجدہ نہ کیا بلکہ چاہا کہ وہ شیطان کو سجدہ کرے اور اس کا امتحان لیا اور آدم کو تمام انه اعلم ، وَسِرُّه محيط على الارض والسماء ، ولكن عيسى اقر بأنه لا يعلم، فرشتوں نے سجدہ کیا.اور آدم نے فرشتوں کو تمام چیزوں کے نام بتلائے پس خلیت ہوا کہ وہ ان سے زیادہ عالم تھا اور واشار الى ان الملائكة قد فاقوه علما واكملوا الخوف والطاعة ، فتفكروا في هذا ولا اس کا سر تمام کائنات پر محیط تھا مگر عیسائی نے تو اقرار کیا کہ اس کو قیامت کا علم نہیں کہ کب ایگی اور یہ بھی اشارہ کیا کہ تمشوا كقوم عمين.ملائک اس سے علم اور طاعت میں افضل ہیں سو اس بات کو سوچو اور اندھوں کی طرح مت چلو منه روح.ثم اذا دققت النظر وامعنت فيما حضر فيظهر عليك ان قوله تعالى پھر اگر تو غور سے دیکھے اور واقعات موجودہ میں غور کرے تو تیرے پر ظاہر ہو گا کہ اللہ جل شانہ کا یہ قول کہ يشابه قوله تعالى جميعا منه.فمن الغباوة ان تثبت من لفظ ر منه الوهية روح روح منه ایسا ہی قول ہے جیسا کہ دوسرا قول سوبری نادانی کی بات ہے کہ روح منئے کے لفظ سے عيسى ولا تقر من لفظ جميعا منه بألوهية ارواح الكلاب والقردة والخنازير حضرت عیسی کی خدائی ثابت کرے اور دروحا منہ کے لفظ سے کتوں اور بلیوں اور سوروں اور دوسری تمام چیزوں

Page 95

واشياء اخرى.فان منطوق الآية يشهد على انها جميعا منه.فمت من الندامة ان کی خدائی کا اقرار نہ کرے کیونکہ منطوق آیت کا دلالت کرتا ہے کہ ہر یک چیز جمیعا منہ میں داخل ہے یعنی تمام كنت من المستحيين ، وتفكر وا يا معشر النصارى أليس فيكم رجل من المتفكرين.ارواح وغیرہ خدا ہی سے نکلے ہیں پس اب ندامت سے ہی مرجا اگر کچھ شرم ہے اور اے نصرانی لوگو! اس میں غور وليس لك ان ترفع في جوابنا الصوت وأن تلاقى من فكرك الموت، فإن مثيل کرو.کیا تم میں کوئی بھی غور کرنے والا نہیں ہے اور کبھی ممکن نہیں جو تو ہمارا جواب دے سکے اگر چہ اسی فکر میں مر الكاذب كخذروف مدحرج ولا قرار له عند الصادقين.جائے کیونکہ جھوٹا آدمی ایک گیند کی طرح گردش میں ہوتا ہے اور بچوں کے سامنے اس کو قرار نہیں.(نور الحق / الجزء الاول، روحانی خزائن مجلد ۸ ص ۱۳۲ الی ۱۳۷) جمنے کیوجو مین مسیح کو جو روح اللہ کہتے ہیں اور عیسائی اس پر ناز کرتے ہیں کہ یہ میسیج کی خصوصیت ہے.یہ ان کی صریح غلطی ہے.ان کو معلوم نہیں کہ قرآن شریف میں مسیح پر روح اللہ قرآن مجید میں مسیح کو کیوں بولا گیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف نے مسیح ابن مریم پر خصوصیت کے ساتھ بہت بڑا احسان کیا ہے جو ان کا تبریہ کیا ہے.بعض نا پاک فطرت یہودی حضرت مسیح کی ولادت پر بہت ہی ناپاک اور خطر ناک الزام لگاتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ بعض ولد اس قسم کے ہوتے ہیں کہ شیطان ان کی پیدائش میں شریک ہو جاتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح اور حضرت مریم کے دامن کو ان اعتراضوں سے پاک کرنے کے لئے اور اس اعتراض سے بچانے کے لئے جو ولد شیطان کا ہوتا ہے.قرآن شریف میں روح اللہ کہا.اس سے خدائی ثابت کرنا حماقت ہے کیونکہ دوسری جگہ حضرت آدم کے لئے نفخت فيه من روحی - بھی تو آیا ہے.یہ صرف تبریہ ہے.ملفوظات.جلد ۴ صفحه ۶۳ حضرت عیسی پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی بڑی بھاری صعوبت اور مشکل کا وقت تھا کیونکہ ان کی اپنی ہی کتاب کے الفاظ بھی ایسے ہی ہیں کہ آخر میں ५८

Page 96

فقرے ہیں.ہے فرمایا.سمع التقوله - یعنی تقدیر تو بڑی سخت بھی اور بڑی مصیبت کا وقت تھا مگر اس کے تقویٰ کی وجہ سے آخر کار اس کی دعا ضائع نہ کی گئی بلکہ سنی گئی.یہ عیسائی بد نصیب اس امر کی طرف تو خیال نہیں کرتے کہ اول تو خدا اور اس کا مرنا یہ دونوں خدا اور مو رو متضاد فقرے آپس میں کیسے متضاد پڑے معلوم ہوتے ہیں.جب ایک کان میں یہ آواز پڑتی ہے تو وہ چونک پڑتا ہے کہ ایس یہ کیا لفظ ہیں ؟ اور پھر ماسوا اس کے ایک ایسے شخص کو خدا بنائے بیٹھے ہیں کہ جس نے بخیال ان کے ساری رات یعنی چار پہر کا وقت ایک لغو اور بیہودہ کام میں جو اس کے آقا اور مولیٰ کی منشاء اور رضا کے خلاف تھا خواہ نخواہ ضائع کیا اور پھر ساری رات رویا اور ایسے درد اور گداز کے الفاظ میں دعا کی لوہا بھی موم ہو مگر ایک بھی نہ سنی گئی.واہ اچھا خدا تھا! ЧА پھر کہتے ہیں کہ اس وقت ان کی روح انسانی تھی نہ روح الوہیت.ہم پوچھتے ہیں کہ بھلا ان کی روح اگر انسانی تھی تو اس وقت ان کی الوہیت کی روح کہاں تھی؟ کیا وہ آرام کرتی تھی اور خواب غفلت میں غرق نوم تھی.خود بیچارے نے بڑے درد اور رقت کے ساتھ چلا چلا کر دعا کی.حواریوں سے دعا کرائی مگر سب بے فائدہ تھی.وہاں ایک بھی نہ سنی گئی.آخر کار خدا صاحب یہودیوں کے ہاتھ سے ملک عدم کو پہنچے.کیسے قابل شرم اور افسوس ہیں ایسے خیالات.ملفوظات.جلد ۵ صفحه ۳۳۵،۳۳۴ حضرت عیسی کو بھی ہم اور انبیاء کی طرح خدا تعالیٰ کا ایک نبی یقین کرتے ہیں.ہم مانتے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں صدق اور اخلاص رکھنے والے لوگ خدا تعالیٰ کے مقرب ہوتے ہیں.جس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے اور مخلص بندوں کے حق میں بباعث ان کے کمل صدق اور محبت کے بیٹے کا لفظ بولا ہے.اس طرح سے حضرت عیسی بھی انہی کی ذیل میں ہیں.حضرت عیسی میں کوئی ایسی بڑی طاقت نہ تھی جو اور نبیوں میں نہ پائی جاتی ہو اور نہ ہی ان میں کوئی ایسی نئی بات پائی جاتی ہے جس سے دوسرے محروم رہے ہوں.اگر حضرت عیسی میں مردے زندہ کرنے کی طاقت تھی تو اب بھی ان کا پیرو مردے زندہ کر کے دکھائے مردے زندہ کرنے تو در کنار بلکہ ہمارے مقابلہ میں کوئی نشان ہی دکھا دیوے.

Page 97

29 دیکھو انسان اپنی انسانی حدود اور ہیئت کے اندر ترقی مدارج کر سکتا ہے نہ یہ کہ وہ خدا بھی بن سکتا ہے.جب انسان خدا بن ہی نہیں سکتا تو پھر ایسے نمونے کی کیا ضرورت جس انسان کو انسانی نمونے کی ضرورت ہے نہ کہ سے انسان فائدہ نہیں اٹھا سکتا.انسان کے واسطے ایک انسانی نمونے کی ضرورت ہے جو عالی موت ہی کیا ہے کہ رسولوں کے رنگ میں ہمیشہ خدا کی طرف سے دنیا میں آیا کرتے ہیں نہ کہ خدائی نمونہ کی جس کی پیروی انسانی مقدرت سے بھی باہر اور بالاتر ہے.ہم حیران ہیں کہ کیا خدا کا منشاء انسانوں کو خدا بنانے کا تھا کہ ان کے واسطے خدائی کا نمونہ بھیجا تھا.پھر یہ اور بھی عجیب بات ہے کہ خدا ہو کر پھر یہود کے ہاتھ سے اتنی ذلت اٹھائی اور رسوا ہوا اور ان پر غالب نہ آسکا بلکہ مغلوب ہو گیا.ملفوظات.جلد ۱۰ صفحه ۲۱۷ پیش گوئیوں کا یہ حال ہے کہ ایسی پیش گوئیاں ہر مدیتر شخص تو در کنار عام لوگ بھی کر سکتے ہیں کہ لڑائیاں ہوں گی.قحط پڑیں گے.مرغ بانگ دے گا.ان پیش گوئیوں پر نظر کرو تو بے اختیا ہنسی آتی ہے ان کو یہودی خدائی کا ثبوت کب تسلیم کرتے مسیح کی پیش گوئیوں کا حالی اور اس کی الوہیت تھے.خدائی کے لئے تو وہ جبروت اور جلال چاہئے جو خدا کے حسب حال ہے.لیکن کی تردید " یسوع اپنی عاجزی اور ناتوانی میں ضرب المثل ہے یہاں تک کہ ہوائی پرندوں اور لومڑیوں سے بھی ادنی درجہ پر اپنے آپ کو رکھتا ہے.اب کوئی بتائے کہ کس بناء پر اس کی خدائی تسلیم کی جاوے.کس کس بات کو پیش کیا جاوے.ایک صلیب ہی ایسی چیز ہے جو ساری خدائی اور نبوت پر پانی پھیر دیتی ہے کہ جب مصلوب ہو کر ملعون ہو گیا تو کاذب ہونے میں کیا باقی رہا.یہودی مجبور تھے.ان کی کتابوں میں کاذب کا یہ نشان تھا.اب وہ صادق کیونکر تسلیم کرتے؟ جو خود خدا سے دور ہو گیا وہ اوروں کے گناہ کیا اٹھائے گا.عیسائیوں کی اس خوش اعتقادی پر سخت افسوس آتا ہے کہ جب دل ہی ناپاک ہو گیا تو اور کیا باقی رہا.وہ دوسروں کو کیا بچائے گا.اگر کچھ بھی شرم ہوتی اور عقل و فکر سے کام لیتے تو مصلوب اور ملعون کے عقیدے کو پیش کرتے ہوئے یسوع کی خدائی کا اقرار کرنے سے ان کو موت آجاتی.اب کسر صلیب کے سامان کثرت سے پیدا ہو گئے ہیں اور عیسائی مذہب کا باطل ہونا ایک بدیہی مسئلہ ہو گیا ہے.جس طرح پر چور پکڑا جاتا ہے.تو اول اول وہ کوئی اقرار نہیں کرتا اور پتہ نہیں دیتا مگر جب پولیس کی تفتیش کامل ہو جاتی ہے تو

Page 98

۸۰ پھر ساتھی بھی نکل آتے ہیں.اور عورتوں بچوں کی شہادت بھی کافی ہو جاتی ہے.کچھ کچھ مال بھی برآمد ہو جاتا ہے.تو پھر اس کو بے حیائی سے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ہاں میں نے چوری کی ہے.اسی طرح پر عیسائی مذہب کا حال ہوا ہے.صلیب پر مرنا یسوع کو کاذب ٹھہراتا ہے.لعنت دل کو گندہ کرتی اور خدا سے قطع تعلق کرتی ہے.اور اپنا قول کہ یونس کے معجزہ کے سوا اور کوئی معجزہ نہ دیا جاوے گا.باقی معجزات کو ر ڈ کر تا اور صلیب پر مرنے سے بچنے کو معجزہ ٹھراتا ہے.عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ انجیل میں کچھ حصہ الحاقی بھی ہے.یہ ساری باتیں مل ملا کر اس بات کا اچھا خاصہ ذخیرہ ہیں جو یسوع کی خدائی کی دیوار کو جو ریت پر بنائی گئی تھی بالکل خاک سے ملا دیں اور سرینگر میں اس کی قبر نے صلیب کو بالکل توڑ ڈالا.مرہم عیسی اس کے لئے بطور شاہد ہو گئی.غرض یہ ساری باتیں جب ایک خوبصورت ترتیب کے ساتھ ایک دانشمند سلیم الفطرت انسان کے سامنے پیش کی جاویں تو اسے صاف اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا.اس لئے کفارہ جو عیسائیت کا اصل الاصول ہے.بالکل باطل ہے.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۷۵،۱۷۴ جو ترقی انہوں نے کرنی تھی وہ کر چکے پورے طور پر انسان کو خدا بنا لیا.اگر انسان خدا بہت خدال جائیں گے بن سکتا ہے تو پگٹ سے کیوں ناراض ہیں بہت خدا مل جائیں گے تو طاقت زیادہ تو طاقت زیادہ ہوگی.ہے.ملفوظات.جلد ۴ صفحہ ۲۵۵ ۲۵۶ یہ ایسی موٹی بات ہے کہ معمولی عقل کا انسان بھی اس کو سمجھ سکتا ہے.دیکھو اگر ایک بڑے آدمی کو معمولی اردلی سے مشابہت دی جاوے تو وہ چڑتا ہے یا نہیں ؟ پھر کیا سی کی خدائی خداتعالی کی خدا تعالیٰ میں اتنی بھی غیرت نہیں کہ ایک عاجز انسان کو اس کی الوہیت کے عرش پر بٹھایا غیرت کے خلاف جلوے اور مخلوق تباہ ہو اور وہ انسداد نہ کرے؟ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مسیح نے ہر گز ایسا دعوی نہیں کیا کہ میں خدا ہوں.اگر وہ ایسا دعوی کرے تو میں جہنم میں ڈال دوں.ایک مقام پر یہ بھی فرمایا ہے کہ مسیح سے اس کا جواب طلب ہو گا کہ کیا تو نے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا بنالو.تو حضرت مسیح اس مقام پر اس سے اپنی برتیت ظاہر کریں

Page 99

= گے اور آخر یہ کہیں گے.فَلَمَّا تَوَفَّنِي كُنتَ أنتَ الرقيب عَلَيْهِمْ یعنی جب تک میں ان میں زندہ رہا تھا.میں نے ہر گز نہیں کہا.ہاں جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو آپ ان کا نگران تھا.اس سے پہلے مادمت فيهم - کا لفظ صاف طور پر ظاہر کرتا ہے کہ جب تک حضرت مسیح زندہ رہے ان کی قوم میں یہ بگاڑ پیدا نہیں ہوا.ساری ضلالت بعد وفات ہوئی ہے اگر حضرت مسیح ابھی تک زندہ ہیں تو پھر یہ ملنا پڑے گا کہ عیسائی نہیں بگڑے بلکہ حق پر ہیں.پس غور کر کے بتاؤ اسلام کی حقانیت پر یہ کس قدر خطرناک حملہ ہو گا.کیونکہ جب ایک سچاند ہب موجود ہے اور اس میں کوئی خرابی ہی پیدا نہیں ہوئی تو پھر جو کچھ وہ کہتے ہیں مان لینا چاہئے.مگر نہیں خدا تعالیٰ کا کلام حق ہے کہ یہی سچ ہے کہ وہ مرگئے اور عیسائی مذہب بھی ان کے ساتھ ہی مر گیا اور اس میں کوئی روح حق اور حقیقت کی نہیں رہی.اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ اس دنیا میں نہیں آئیں گے کیونکہ وہ عیسائیوں کے بگڑنے کا اقرار اپنی موت کے بعد کرتے ہیں.اگر انہوں نے آنا تھا تو وہ یہ جواب نہ دیتے.ورنہ یہ جواب اللہ تعالیٰ کے حضور جھوٹا سمجھا جاوے گا.اور رب العرش العظیم کے حضور حلف دروغی ہوگی کیونکہ اس صورت میں تو انہیں کہنا چاہئے تھا کہ میں گیا اور جاکر ان صلیبوں کو توڑا اور ان میں پھر توحید قائم کی وغیرہ وغیرہ.لمفوظات.جلد ۸ صفحه ۸۷،۸۶ کوئی ملک نظر نہیں آتا کہ جہاں بذریعہ انجیل کے اشاعت توحید کی ہوئی ہو.بلکہ انجیل کے ماننے والے موحد کو ناجی ہی نہیں سمجھتے اور پادری لوگ اہل توحید کو ایک اندھیری آگ میں بھیج رہ ہیں کہ جہاں رونا اور دانت پیسنا ہو گا اور بقول ان کے اس کالی انجیل کے ذریعہ کسی آگ سے وہی بچے گا.جو خدا پر موت اور مصیبت اور بھوک اور پیاس اور درد اور دکھ میں میں تو دی د سیمی ملک توحید نہیں اور تختم اور حلول ہمیشہ کے لئے روا ر کھتا ہو.ورنہ کوئی صورت بیچنے کی نہیں.گویا وہ پھیلی.فرضی بهشت یورپ کی دو بزرگ قومیوں انگریزوں اور روسیوں کو نصفالنصف تقسیم کر کے دیا جائے گا.اور باقی سب موحد اس قصور سے جو خدا کو ہر ایک طرح کے نقصان سے جو اس نے کے کمال نام کے منافی ہے پاک سمجھتے تھے دوزخ میں ڈالے جائیں گے.غرض ہماری اس تحریر سے یہ ہے کہ آج صفحہ دنیا میں وہ شے کہ جس کا نام توحید ہے بجزا امت

Page 100

۸۲ مسیح کی خدائی پر زد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی فرقہ میں نہیں پائی جاتی اور بجر قرآن شریف کے اور کسی کتاب کا نشان نہیں ملتا کہ جو کروڑہا مخلوقات کو وحدانیت الہی پر قائم کرتی ہو.اور کمال تعظیم سے اس بچے خدا کی طرف رہبر ہو ہر یک قوم نے اپنا اپنا مصنوعی خدا بنا لیا مسلمانوں کا وہی خدا ہے جو قدیم سے لازوال اور غیر مبدل اور اپنی ازلی اور صفتوں میں ایسا ہی ہے جو پہلے تھا.براہین احمدیہ - روحانی خزائن جلد ا صفحه ۱۱۶ تا ۱۱۸ اللہ تعالیٰ نے اگر میرا امہ عینی رکھا تو اس میں اسلام کا کیا برا ہوا ؟ یہ تو اسلام کا نخر ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فخر ہوا کہ وہ شخص جسے چالیس کروڑ انسان خدا سمجھتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا ایک فردان ممالات کو پالیتا ہے بلکہ اس سے بڑھ جاتا ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے لکھا ہے کہ ہارون رشید نے مصر کا ایک علاقہ ایک حبشی کو دے دیا.کسی نے پوچھا تو جواب دیا کہ یہ وہی مصر ہے جس کی ہے.حکومت سے فرعون نے خدائی کا دعوی کر دیا تھا اسی طرح پر مسیح کی خدائی پر ز دیار نے کر کرتے پر کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے مسیح بنا دیا.تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی علومشان اس سے ظاہر ہو.ملفوظات.جلد ۸ صفحہ ۶۷ ہم کئی دفعہ لکھ چکے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی راہ یا یوں کہو کہ ہدایت کے اسباب ووسائل تین ہیں.یعنی ایک یہ کہ کوئی گم گشتہ محض خدا کی کتاب کے ذریعہ ہدایت کے اسباب و سے ہدایت یاب ہو جائے.اور دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کی کتاب سے اچھی طرح سمجھ نہ وسائل تین ہیں.سکے تو عقلی شہادتوں کی روشنی اس کو راہ دکھلا دے.اور تیسرے یہ کہ عقلی شہادتوں سے بھی مطمئن نہ ہو سکے تو آسمانی نشان اس کو اطمینان بخشیں.یہ طریق ہیں جو بندوں کے مطمئن کرنے کے لئے قدیم سے عادۃ اللہ میں داخل ہیں یعنی ایک سلسلہ کتب ایمانیہ جو سماع اور نقل کے رنگ میں عام لوگوں تک پہنچتا ہے جن کی خبروں اور ہدایتوں پر ایمان لانا ہر ایک مومن کا فرض ہے اور ان کا مخزن اتم اور اکمل قرآن شریف ہے.دوسرا سلسلہ معقولات کا جس کا منبع اور ماخذ دلائل عقلیہ ہیں.تیسر ا سلسلہ آسمانی نشانوں کا

Page 101

۸۳ جس کا سرچشمہ نبیوں کے بعد ہمیشہ امام الزمان اور مجدد الوقت ہوتا ہے.اصل وارث ان نشانوں کے انبیاء علیہم السلام ہیں.پھر جب ان کے معجزبات اور نشان مدت مدید کے بعد منقول کے رنگ میں ہو کر ضعیف التاثیر ہو جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان کے قدم پر کسی اور کو پیدا کرتا ہے تا پیچھے آنیوالوں کے لئے نبوت کے عجائب کر شمے بطور منقول ہو گر مردہ اور بے اثر نہ ہو جائیں.بلکہ وہ لوگ بھی بذات خود نشانوں کو دیکھ کر اپنے ایمانوں کو تازہ کریں.غرض خدا تعالیٰ کے وجود اور راہ راست پر یقین لانے کے لئے یہی تین طریقے ہیں جن کے ذریعہ سے انسان تمام شبہات سے نجات پاتا ہے.اگر خدا کی کتاب اور اس کے مندرجہ معجزات اور نشان اور ہدایتیں جو اس زمانہ کے عام لوگوں کی نظر میں بطور منقول کے ہیں کسی پر مشتبہ رہیں تو ہزاروں عقلی دلائل ان کی تائید میں کھڑے ہوتے ہیں اور عقلی دلائل بھی کسی سادہ لوح پر مشتبہ رہیں تو پھر ڈھونڈنے والوں کے لئے آسمانی نشان بھی موجود ہیں.لیکن بڑے بد قسمت وہ لوگ ہیں کہ جو باوجود ان تینوں راہوں کے کھلے ہونے کے پھر بھی ہدایت پانے سے بے نہ رہتے ہیں.اور رحقیقت ہمارے اندرونی اور بیرونی مخالف اسی قسم کے ہیں.مثلاً اس زمانہ کے مولویوں کو بار بار قرآن اور احادیث سے دکھلایا گیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں مگر انہوں نے قبول نہ کیا.پھر عقلی طور پر ان کو شرم دلائی گئی کہ یہ عقیدہ تمہارا عقل کے بھی سراسر مخالف ہے.تمہارے ہاتھ میں اس بات کی کوئی نظیر نہیں کہ اس سے پہلے کوئی آسمان سے بھی اترا ہے.پھر آسمانی نشان متواتر ان کو دکھلائے گئے اور خدا کی حجت ان پر پوری ہوئی.لیکن تعصب ایسی بلا ہے کہ یہ لوگ اب تک اس فاسد عقیدہ کو نہیں چھوڑتے.ایسا ہی پادری صاحبان بھی ان تینوں طریقوں کے ذریعہ ہمارے ملزم ہیں.مگر پھر بھی اپنے بے اصل عقائد کو چھوڑنا نہیں چاہتے اور نہایت ہی سکتے اور بے جان خیلات پر گرے جاتے ہیں.اور وسائل ثلثہ مذکورہ کے رو سے وہ اس طرح ملزم ٹھہرتے ہیں کہ اگر مثلاً ان کے اس جسمانی اور محدود خدا کا جس کا نام وہ یسوع رکھتے ہیں پہلی تعلیموں سے پتہ تلاش کیا جائے یا یہودیوں کے اظہار لئے جائیں تو ایک ذرہ سی بھی ایسی تعلیم نہیں ملے گی جس نے ایسے خدا کا نقشہ کھینچ کر دکھلایا ہو.اگر یہودیوں کو یہ تعلیم دی جاتی تو ممکن نہ تھا کہ ان کے تمام فرقے اس ضروری تعلیم کو جوان کی نجات کامدار تھی

Page 102

فراموش کر دیتے اور کوئی ایک آدھ فرقہ بھی اس تعلیم پر قائم نہ رہتا.کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ایک ایسا عظیم الشان گروہ جس میں ہر زمانہ میں ہزار ہا عالم فاضل موجود رہے ہیں اور جن کے ساتھ ساتھ صدہا نبی ہوتے چلے آئے ہیں ایک ایسی تعلیم سے ان کو بے خبری ہو جو چودہ سو برس سے برابر ان کو ملتی رہی اور لاکھوں افراد ان کے ہر صدی میں اس تعلیم میں نشو و نما پاتے رہے.اور ہر صدی کے پیغمبر کی معرفت وہ تعلیم نازل ہوتی رہی اور ہر ایک فرقہ ان کا اس تعلیم کا پابند رہا اور ان کے رگ وریشہ ؟ وہ تعلیم گھس گئی.اور ایسا ہی صدی بعد صدی ان کے نبی نہایت اہتمام سے اس تعلیم کی تاکید کرتے چلے آئے.یہاں تک کہ اس صدی تک نوبت پہنچ گئی جس میں ایک شخص نے خدائی کا دعوی کیا اور وہ لوگ سب اس دعوے سے سخت انکاری ہوئے اور بالاتفاق کہا کہ یہ دعوی اس مسلسل تعلیم کے بر خلاف ہے کہ جو توریت اور دوسری کتابوں سے خدا تعلیم کے نبیوں کی معرفت چودہ سو برس سے آج تک ہمیں ملتی رہی ہے.سو عیسائی عقیدہ کے بطلان کے لئے اس سے زیادہ اور کیا دلیل ہو گی کہ وہ جس تو کو سچی اور منجانب اللہ سمجھتے ہیں وہی تعلیم ان کے جدید عقیدہ کی مکذب ہے.اور ان کے اس عقیدہ کی ایسی کھلی کھلی مخالف ہے کہ کبھی کسی یہودی کو یہ شک بھی نہیں گذرا کہ اس میں تثلیث بھی داخل ہے.ہاں عیسائی لوگ پیش گوئیوں کی طرف ہاتھ پیر مارتے ہ خیال نہایت ہنسی کی بات اور قابل شرم ہے کیونکہ جن نبیوں کی یہ موحدانہ علیم تھی جو مسلسل طور پر یہودیوں کے ہاتھوں میں چلی آئی.کیوں کر ممکن تھا کہ ایسے انبیاء علیہم السلام اپنی تعلیم کے مخالف پیش گوئیاں بیان کرتے اور اپنی تعلیم اور پیش گوئیوں میں ایسا ناقص ڈال دیتے کہ تعلیم کاتو کچھ اور منشا اور پیش گوئیوں کا کچھ اور ہی منشا ہو جاتا.اور اس جگہ عقلمند کے لئے یہ ایک نقطہ نہایت ہدایت بخش ہے کہ پیش گوئیوں میں استعارات اور مجازات بھی ہوتے ہیں مگر تعلیم کے لئے تصریح اور تفصیل ضروری ہوتی ہے اس لئے جہاں کہیں تعلیم اور پیش گوئی کا متناقض معلوم ہو تو یہ لازم ہوتا ہے کہ تعلیم کو مقدم رکھا جائے.اور پیش گوئی کو اگر اس کے مخالف ہو ظاہر الفاظ سے پھیر کر تعلیم کے الفاظ مطابق اور موافق کر دیا جائے تاریع منافض ہو.بہر حال تعلیمی مضمون کا لحاظ مقدم چاہئے.کیونکہ تعلیم علاوہ تصریح اور تفصیل کے اکثر معرض افادہ استفادہ میں آتی رہتی

Page 103

۸۵ ہے.لہذا اس کے مقاصد اور مدعا کسی طرح مخفی نہیں رہ سکتے.برخلاف پیش گوئیوں کے کہ وہ اکثر گوشہ گمنامی میں پڑی رہتی ہیں.پس اس محکم اصول کے رو سے یہودی لوگ عیسائیوں کے مقابل پر اس بحث میں بالکل بچے ہیں کیونکہ یہودیوں نے تعلیم کو پیش گوئیوں پر مقدم رکھا اور پیش گوئیوں کے وہ معنے گئے جو تعلیم کے مخالف نہ ہوں.مگر عیسائیوں نے پیش گوئیوں کے وہ معنے کئے ہیں جو تعلیم کے سراسر مخالف ہیں.ماسوا اس کے یہودیوں کے معنے اس طرح سے بھی مستند ہیں کہ وہ انبیاء علیہم السلام سے سنتے چلے آئے ہیں اور حضرت یحی نبی کا ایک فرقہ جو بلاد شام میں اب تک پایا جاتا ہے وہ بھی عیسائیوں کے اس عقیدہ کے مخالف ہے اور یہودیوں کا موید ہے اور یہ اور دلیل اس بات پر ہے کہ عیسائی غلطی پر ہیں.غرض منقول کے رو سے عیسائیوں کا عقیدہ نہایت بودا ہے بلکہ قابل شرم ہے.رہا دوسرا ذریعہ شناخت حق کا جو عقل ہے سو عقل تو عیسائی عقیدہ کو دور سے دھکے دیتی ہے.عیسائی اس بات کو مانتے ہیں کہ جس جگہ تثلیث کی منادی نہیں پہنچی ایسے لوگوں سے صرف قرآن اور توریت کی توحید کے رو سے مواخذہ ہو گا تنلیت کا مواخذہ نہیں ہو گا.پس وہ اس بیان سے صاف گواہی دیتے ہیں کہ تثلیث کا عقیدہ عقل کے موافق نہیں کیونکہ اگر عقل کے موافق ہوتا تو جیسا کہ بے خبر لوگوں سے توحید کا مواخذہ ضروری ہے ایسا ہی تشکیت کا مواخذہ بھی ضروری ٹھہرتا.اب ان دونوں کے بعد تیسرا ذریعہ شناخت حق کا آسمانی نشان ہیں یعنی یہ کہ بچے تذہب کے لئے ضروری ہے کہ اس کا صرف قصوں اور کہانیوں پر سہارا نہ ہو بلکہ ہر ایک زمانہ میں اس کی شناخت کے لئے آسمانی دروازے کھلے رہیں اور آسمانی نشان ظاہر ہوتے رہیں تا معلوم ہو کہ اس زندہ خدا سے اس کا تعلق ہے کہ جو ہمیشہ سچائی کی حمایت کرتا ہے.سو افسوس کہ عیسائی مذہب میں لامت بھی پائی نہیں جاتی بلکہ بیان کیا جاتا ہے کہ سلسلہ نشانوں اور مجربات کا آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گیا ہے اور بجائے اس کے کہ کوئی موجودہ آسمانی نشان دکھلایا جائے ان باتوں کو پیش کرتے ہیں کہ جو اس زمانہ کی نظر میں صرف قصے اور کہانیاں ہیں.ظاہر ہے کہ اگر یسوع نے کسی زمانہ میں اپنی خدائی علمیت کرنے کے لئے چند ماہی گیروں کو نشان دکھلائے تھے تو اب اس زمانہ کے تعلیم یافتہ لوگوں کو ان ان پڑھوں کی نسبت نشان دیکھنے کی بہت ضرورت ہے کیونکہ ان بیچاروں کو کسی طرح عاجز انسان کی خدائی سمجھ

Page 104

AY 40 نہیں آتی اور کوئی منطق یا فلسفہ ایسا نہیں جو ایسے شخص کو خدائی کے دعوے کی ڈگری دے جس کی ساری رات کی دعا بھی منظور نہ ہو سکی اور جس نے اپنی زندگی کے سلسلہ میں ثابت کر دیا کہ اس کی روح کمزور بھی ہے اور نادان بھی.پس اگر یسوع اب بھی زندہ خدا ہے اور اپنے پرستاروں کی آواز سنتا ہے تو چاہئے کہ اپنی جماعت کو جو ایک معقول عقیدہ پر بے وجہ زور دے رہی ہے اپنے آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے مدد دے.انسان تسلی پانے کے لئے ہمیشہ آسمانی نشانوں کے مشاہدہ کا محتاج ہے اور ہمیشہ روح اس کی اس بات کی بھوکی اور پیاسی ہے کہ اپنے خدا کو آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے دیکھے اور اس طرح پر دہریوں اور طبیعیوں اور ملحدوں کی کشاکش سے نجات پاوے.سو سچاند ہب خدا کے ڈھونڈنے والوں پر آسمانی نشانوں کا دروازہ ہرگز بند نہیں کرتا.کتاب البریہ - روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۹ تا ۵۳ اب میری طرف دوڑو کہ وقت ہے.جو شخص اس وقت میری طرف دوڑتا ہے میں اس کو اس سے تشبیہ دیتا ہوں کہ جو عین طوفان کے وقت جہاز پر بیٹھ گیا.لیکن جو شخص اگر سیح خدا ہیں تو سی مجھے نہیں مانتا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ طوفان میں اپنے تئیں ڈال رہا ہے اور کوئی بچنے کا ایک شہر کو طاعون سے سامان اس کے پاس نہیں.سچا شفیع میں ہوں جو اس بزرگ شفیع کا سایہ ہوں اور اس کا بیچا کر دکھائیں.ظل جس کو اس زمانہ کے اندھوں نے قبول نہ کیا اور اس کی بہت ہی تحقیر کی یعنی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.اس لئے خدا نے اس وقت اس گناہ کا ایک ہی لفظ کے ساتھ پادریوں سے بدلہ لے لیا کیونکہ عیسائی مشنریوں نے عیسیٰ بن مریم کو خدا بنایا اور ہمارے سید و مولی حقیقی شفیع کو گالیاں دیں اور بد زبانی کی کتابوں سے زمین کو نجس کر دیا اس لئے اس مسیح کے مقابل پر جس کا نام خدار کھا گیا.خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا.جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا.تا یہ اشارہ ہو کہ عیسائیوں کا مسیح کیسا خدا ہے جو احمد کے ادنی غلام سے بھی مقابلہ نہیں کر سکتا یعنی وہ کیسا سیح ہے جو اپنے قرب اور شفاعت کے مرتبہ میں احمد کے غلام سے بھی کمتر ہے.اے عزیزو! یہ بات غصہ کرنے کی نہیں.اگر اس احمد کے غلام کو جو مسیح موعود کر کے بھیجا گیا ہے تم اس پہلے مسیح سے بزرگ تر نہیں سمجھتے اور اس کو شفیع اور منجی قرار دیتے ہو تو اب اپنے اس دعوی کا ثبوت دو.اور جیسا کہ

Page 105

AZ اس احمد کے غلام کی نسبت خدا نے فرمایا اته أوى القرية لولا الإكرام لهلك المقام - جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا نے اس شفیع کی عزت ظاہر کرنے کے لئے اس گاوں قادیان کو طاعون سے محفوظ رکھا جیسا کہ دیکھتے ہو کہ وہ پانچ چھ برس سے محفوظ چلی آتی ہے اور نیز فرمایا کہ اگر میں اس احمد کے غلام کی بزرگی اور عزت ظاہر نہ کرنا چاہتا تو آج قادیان میں بھی تباہی ڈال دیتا.ایسا ہی آپ بھی اگر مسیح ابن مریم کو در حقیقت سچا شفیع اور منجی قرار دیتے ہیں تو قادیان کے مقابل پر آپ بھی کسی اور شہر کا پنجاب کے شہروں میں سے نام لے دیں کہ فلاں شہر ہمارے خداوند مسیح کی برکت اور شفاعت سے طاعون سے پاک رہے گا.اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو پھر آپ سوچ لیں کہ جس شخص کی اسی دنیا میں شفاعت ثابت نہیں وہ دوسرے جہان میں کیونکر شفاعت کرے گا.ہمیں دافع البلاء - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۳۳، ۲۳۴ مقام پر ایک سچی گواہی میں دینا چاہتا ہوں جو میرے پر فرض ہے اور وہ ہم ہے ں اللہ تعالی پر ایمان لاتا ہوں کہ جو بگفتن قادر مطلق نہیں.بلکہ ہر میں خدا ہے تو اس اگر حقیقی اور واقعی طور پر قادر مطلق ہے اور مجھے اس نے اپنے فضل و کرم سے سے میرے مقابل پر اپنے خاص مکالمہ سے شرف بخشا ہے اور مجھے اطلاع دیدی ہے کہ میں جو سچا اور کامل خدا ہوں میں ہر ایک مقابلہ میں جو روحانی برکات اور سماوی تائیدات میں کیا جائے تیرے ساتھ ہوں اور تجھ کو غلبہ ہو گا.اب میں..تمام حضرات عیسائی صاحبوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اس بات کو اب طول دینے کیا حاجت ہے کہ آپ ایسی پیش گوئیاں پیش کریں جو حضرت مسیح کے اپنے کاموں اور فعل کے مخالف پڑی ہوئی ہیں.ایک سیدھا اور آسان فیصلہ ہے جو میں زندہ اور کامل خدا سے کسی نشان کے لئے دعا کرتا ہوں اور آپ حضرت مسیح سے دعا کریں.آپ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ قادر مطلق ہے.پھر اگر وہ قادر مطلق ہے تو ضرور آپ کامیاب ہو جاویں گے.اور میں اس وقت اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کے کہتا ہوں کہ اگر میں بالمقابل نشان بتانے میں قاصر رہا تو ہر ایک سزا اپنے پر اٹھالوں گا.اور اگر

Page 106

۸۸ کرو.46 آپ نے مقابل پر کچھ دکھلا یا تب بھی سزا اٹھالوں گا.چاہئے کہ آپ خلق اللہ پر رحم کریں.میں بھی اب پیرانہ سالی تک پہنچا ہوا ہوں اور آپ بھی بوڑھے ہو چکے ہیں.ہمارا آخری ٹھکانہ اب قبر ہے.آو اس طرح پر فیصلہ کر لیں.سچا اور کامل خدا بے شک بچے کی مدد کرے گا.اب اس سے زیادہ کیا عرض کروں.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۳۷ ۱۳۸ پس میں دعوی سے کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں سچا ہوں اور تجربہ اور نشانات کی ایک کثیر تعداد نے میری سچائی کو روشن کر دیا ہے کہ اگر یسوع مسیح ہی زندہ خدا اگر مین خدا ہے تو شان ہے اور وہ اپنے صلیب برداروں کی نجات کا باعث ہوا ہے اور ان کی دعاوں کو قبول کرتا نمائی میں میرا مقابلہ ہے باوجودیکہ اس کی خود دعا قبول نہیں ہوئی تو کسی پادری یا راہب کو میرے مقابلہ پر پیش کرو.کہ وہ یسوع مسیح سے مرد اور توفیق پا کر کوئی خارق عادت نشان دکھائے میں اب میدان میں کھڑا ہوں اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں اپنے خدا کو دیکھتا ہوں وہ ہر وقت میرے سامنے میرے ساتھ ہے.میں پکار کر کہتا ہوں صحیح کو مجھ پر زیادت نہیں کیونکہ میں نور محمدی کا قائم مقام ہوں.جو ہمیشہ اپنی روشنائی سے زندگی کے نشان قائم کرتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کس چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے.تسلی پانے کے لیئے اور زندہ خدا کو دیکھنے کے لئے ہمیشہ روح میں ایک تریپ اور پیاس ہے اور اس کی تسلی آسمانی تائیوں اور نشانوں کے بغیر ممکن نہیں.اور میں دعوی سے کہتا ہوں کہ عیسائیوں میں یہ نور اور زندگی نہیں ہے بلکہ یہ حق اور زندگی میرے پاس ہے.میں ۲۶ برس سے اشتہار دے رہا ہوں اور تعجب کی بات ہے کہ کوئی عیسائی پادری مقابلہ پر نہیں آتا.اگر ان کے پاس نشانات ہیں تو وہ کیوں انجیل کے جلال کے لئے پیش نہیں کرتے.ایک بار میں نے سولہ ہزار اشتہار انگریزی اردو میں چھاپ کر تقسیم کئے جن میں سے اب بھی کچھ ہمارے دفتر میں ہوں گے.مگر ایک بھی نہ اٹھا جو نیسوع کی خدائی کا کرشمہ دکھاتا اور اس بت کی حمایت کرتا.اصل میں وہاں کچھ ہے ہی نہیں کوئی پیش کیا کرے.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۲۵،۱۲۴

Page 107

۸۹ الرا تم میسائی صاحبوں کا ولی خیر خواہ ا غلام احمد قادیانی اشتهار انعامی مزار الحكمة میں اسوقت ایک محکمہ وعدہ کے ساتھ یہ اشتہار شائع کرتا <A ہوں کہ اگر کوئی صاحب عیسائیوں میں بیٹوں کے نشانوں کومبو اسکی خدائی کی دلیل سمجھے جاتے ہیں میرے نشانوں اور فوق العادات خوارق سے قوت ثبوت اور کثرت تعداد میں بڑھے ہوئے نات کرسکی تو میں انکوایک ہزار روپیہ بطور انعام دونگا.نہیں پیچ پیچ اور حلفاً کہتا ہوں کہ اس میں تخلف نہیں ہوگا ئیں الیو شال کے پاس کو پیہ جمع کراسکتا ہوں جہر فریقین کا اطمینان ہوا اس فیصلہ کیلئے غیر منصف ٹھہرائے جائینگے.۲۸ جنوری درخواستیں جلد آنی چاہئیں.نوٹ اگر در خواست کر نیوالے ایک سے زیادہ ہوں تو روپیہ آپس میں تقسیم کر سکتے ہیں.منہ

Page 108

کبھی اسلام کا خدا ستیا خدا ہے.جو نہ کسی عورت کے پیٹ سے نکلا اور نہ و کا اور پیاسا ہوا.وہ ان سب تہمتوں سے پاک ہے جو اس کی نسبت کوئی خیال کرتے کہ ایک مدت تک اس کی خدائی کا انتظام درست نہ اسلام کانادا در مطلق تھا.اور نجات دینے کی کوئی راہ اور سبیل اسے نہیں ملتی تھی.یہ تو مدت اور خالق کل ہے.کے بعد گویا ساری عمر بسر کر کے سوجھی کہ مریم سے اپنا بیٹا پیدا کرے.اور مریم کی پیدائش سے پہلے یہ کفارہ کی تدبیر اس کے خیال میں نہ گذری.اور نہ کامل خدا کی نسبت ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ صرف نام ہی کا پر میشر ہے.ورنہ سب کچھ جیولور پر کرتی وغیرہ آپ ہی آپ قدیم سے ہے.نہیں بلکہ وہ قادر مطلق اور کل کا خالق ہے.انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۶۱ ہمیشہ کے لئے کی قیوم صرف وہ اکیلا خدا ہے جو تجبستم اور تمیز سے پاک اور ازلی ابدی ہے.اور جھوٹے خدا کے لئے اتنا ہی غنیمت ہے کہ اس نے ایک ہزار نو سو برس جھوٹی خدائی بہت جلد تک اپنی خدائی کا سکہ قلب چلالیا.آگے یادر کھو کہ یہ جھوٹی خدائی بہت جلد ختم ہونے ختم ہونے والی ہے.والی ہے.وہ دن آتے ہیں کہ عیسائیوں کے سعادت مند لڑکے بچے خدا کو پہچان لیں گے اور پرانے بچھڑے ہوئے وحدہ لا شریک کو روتے ہوئے آملیں گے.یہ میں نہیں کہتا بلکہ وہ روح کہتی ہے جو میرے اندر ہے جس قدر کوئی سچائی سے لڑ سکتا ہے لڑے.جس قدر کوئی مکر کر سکتا ہے کرے بیشک کرے.لیکن آخر ایسا ہی ہو گا.یہ سل بات ہے کہ زمین و آسمان مبدل ہو جائیں یہ آسان ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں لیکن یہ وعدے مبدل نہیں ہوں گے.سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۶۶

Page 109

باب سوم رد امنیت مسیح قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ اتَسْنِيَ الْكِتَبَ وَجَعَلَنِي نَبِيَّا وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَنِي بِالصَّلَوَةِ والزكوة مَا دُمْتُ حَيًّا وَبَرا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارً ا شَقِيًّا وَالسَّلَامُ عَلَى يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيَّاكَ ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَنَهُ إذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُون نَا وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبِّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمُ : سوره مرین

Page 110

خدا کے لئے بیٹا تجویز کرنا گو یا خدا تعالیٰ کی موت کا یقین کرنا ہے.کیونکہ بیٹا تو اس لئے ہوتا ہے کہ وہ یاد گار ہو.اب اگر مسیح خدا کا بیٹا ہے تو پھر سوال ہو گا کہ کیا خدا کو مرنا ہے؟ ملفوظات.جلدا صفحہ ۳۳۱

Page 111

یہودی لوگ خدا تعالیٰ کو جسمانی اور مجستم قرار دے کر عالم جسمانی کی طرح اور اس کا ایک جزو سمجھتے ہیں.اور ان کی نظر ناقص میں یہ سمایا ہوا ہے کہ بہت سی باتیں کہ جو مخلوق پر جائز ہیں وہ خدا پر بھی جائز ہیں.اور اس کو من کل الوجوہ منزہ خیال نہیں کرتے اور ان کی توریت میں جو محرف اور مبدل ہے خدائے تعالیٰ کی نسبت کئی طور کی بے ادبیاں پائی جاتی ہیں.چنانچہ پیدائش کے ۳۲ باب میں لکھا ہے کہ خدائے تعالیٰ یعقوب سے تمام رات صبح تک کشتی لڑا گیا اور اس پر غالب نہ ہوا.اسی طرح بر خلاف اس اصول کے کہ خدائے تعالیٰ ہر یک مافی العالم کا رب ہے.بعض مردوں کو انہوں نے خدا کے بیٹے قرار دے رکھا ہے.اور کسی جگہ عورتوں کو خدا کی بیٹیاں لکھا گیا ہے اور کسی جگہ بائبل میں یہ بھی فرما دیا ہے کہ تم سب ہی خدا ہو.اور سچ تو یہ ہے کہ عیسائیوں نے بھی انہیں تعلیمیوں سے مخلوق پرستی کا سبق سیکھا ہے کیونکہ جب عیسائیوں نے معلوم کیا کہ بائبل کی تعلیم بہت سے لوگوں کو خدا کے بیٹے اور خدا کی بیٹیاں بلکہ خدا ہی بناتی ہے.تو انہوں نے کہا کہ آو ہم بھی اپنے ابن مریم کو انہیں میں داخل کریں تا وہ دوسرے بیٹوں سے کم نہ رہ جائے.اسی جہت سے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ عیسائیوں نے ابن مریم کو ابن اللہ بنا کر کوئی نئی بات نہیں نکالی بلکہ پہلے بے ایمانوں اور مشرکوں کے قدم پر قدم مشرکوں کی پس وہ لوگ خدائے تعالیٰ کو جسمانی اور جسم قرار مارا ہے.دینے میں اور اس کی ربوبیت اور رحمانیت اور رحمیت وغیرہ صفات کے معطل جاننے میں اور ان صفتوں میں دوسری چیزوں کو شریک گردانے میں اکثر مشرکین کے پیشوا اور سابقین تولین میں سے ہیں.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلدا صفحه ۴۶۴ تا ۴۶۶ - بقیه حاشیه ۱۱

Page 112

! ۹۴ ۸۲ عیسائی لوگ خدائے تعالیٰ کا جلال ظاہر کر رہے ہیں.وہ ایک ایسا امر ہے کہ صرف ایک ہی سوال سے دانا سمجھ سکتا ہے یعنی اگر کسی دانا سے پوچھا جائے کہ کیا اس ذات کامل اور قدیم اور غنی اور بے نیاز کی نسبت جائز ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ اپنے تمام عظیم انشان کاموں میں جو قدیم سے وہ کرتارہا ہے آپ ہی کافی ہو.آپ ہی بغیر حاجت کسی باپ یا بیٹے کے تمام دنیا کو پیدا کیا ہو.اور آپ ہی تمام روحوں اور جسموں کو وہ قوتیں بخشی ہوں جن کی انہیں حاجت ہے.اور آپ ہی تمام کائنات کا حافظ اور قیوم اور مدبر ہو.بلکہ ان کے وجود سے پہلے جو کچھ ان کو زندگی کے لئے درکار تھاوہ سب اپنی صفت رحمانیت سے ظہور میں لایا اور بغیر انتظار عمل کسی عامل کے سورج اور چاند اور بے شمار ستارے اور زمین اور ہزار ہا نعمتیں جو زمین پر پائی جاتی ہیں محض اپنے فضل و کرم سے انسانوں کے لئے ہاتھ پر ہیں پیدا کی ہوں.اور ان سب کاموں میں کسی بیٹے کا محتاج نہ ہوا ہو.لیکن پھر وہی کامل خدا آخری زمانہ میں اپنا تمام جلال اور اقتدار کالعدم کر کے مغفرت اور نجات دینے کے لئے بیٹا بھی ایسا ناقص بینا بیٹے کا محتاج ہو جائے.اور پھر بیٹا بھی ایسا ناقص بیٹا جس کو باپ سے کچھ بھی مناسبت جس کو باپ سے کچھ نہیں.جس نے باپ کی طرح کوئی گوشہ آسمان کا اور نہ کوئی قطعہ زمین کا پیدا کیا جس بھی مناسبت نہیں.سے اس کی الوہیت ثابت ہو.بلکہ مرقس کے ۸ باب ۱۲ ایت میں اس کی عاجزانہ حالت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ اس نے اپنے دل سے آہ کھینچ کر کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان دیانہ جائے گا اور اس کے مصلوب ہونے کے وقت بھی یہودیوں نے کہا کہ اگر وہ اب ہمارے روبرو زندہ ہو جائے تو ہم ایمان لائیں گے.لیکن اس نے ان کو زندہ ہو کر نہ دکھلایا اور اپنی خدائی اور قدرت کاملہ کا ایک ذرہ ثبوت نہ دیا.اور اگر بعض معجزات بھی دکھلائے تو وہ دکھلائے کہ اس سے پہلے اور نبی بکثرت دکھلا چکے تھے.بلکہ اسی زمانہ میں ایک حوض کے پانی سے بھی ایسے ہی عجائبات ظہور میں آتے تھے (دیکھو باب پنجم انجیل یوحنا) غرض وہ اپنے خدا ہونے کا کوئی نشان دکھلا نہ سکا.جیسا کہ آیت مذکورہ بالا میں خود اس کا اقرار موجود ہے.بلکہ ایک ضعیفہ عاجزہ کے پیٹ سے تولد پاکر (بقول عیسائیوں ) وہ ذلت اور رسوائی اور ناتوانی اور خواری عمر بھر دیکھی کہ جو انسانوں میں سے وہ انسان دیکھتے ہیں جو بد قسمت اور بے نصیب کہلاتے ہیں.اور پھر مدت تک ظلمت خانہ رحم میں قید رہ کر اور اس ناپاک راہ سے کہ جو پیشاب کی بدر رو ہے پیدا ہو کر ہر یک قسم کی آلودہ حالت کو اپنے

Page 113

۹۵ اوپر وار د کر لیا.اور بشری آلودگیوں اور نقصانوں میں سے کوئی ایسی آلودگی باقی نہ رہی جس سے وہ بیٹا باپ کا بد نام کنندہ ملوث نہ ہو.اور پھر اس نے اپنی جہالت اور بے علمی اور بے قدری اور نیز اپنے نیک نہ ہونے کا اپنی کتاب میں آپ ہی اقرار کر لیا.اور پھر در صورت یہ کہ وہ عاجز بنده که خواه نخواه خدا کا بیٹا قرار دیا گیا.بعض بزرگ نبیوں سے فضائل علمی اور عملی میں کم بھی تھا.اور اس کی تعلیم بھی ایک ناقص تعلیم تھی کہ جو موسیٰ کی شریعت کی ایک فرع تھی تو پھر کیونکر جائز ہے کہ خداوند قادر مطلق اور ازلی اور ابدی پر یہ بہتان باندھا جاوے کہ وہ ہمیشہ اپنی ذات میں کامل اور غنی اور قادر مطلق رہ کر آخر کار ایسے ناقص بیٹے کا محتاج ہو گیا.اور اپنے سارے جلال اور بزرگی کو بہ یکبارگی کھو دیا.میں ہر گز باور نہیں کرتا کہ کوئی دانا اس ذات کامل کی نسبت کہ جو مستجمع جمیع صفات کا ملہ ہے.ایسی ایسی ذلتیں جائز رکھے.اور ظاہر ہے کہ اگر ابن مریم کے واقعات کو فضول اور بیہودہ تعریفوں سے الگ کر لیا جائے تو انجیلوں سے اس کے واقعی حالات کا یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ وہ ایک عاجز اور ضعیف اور ناقص بندہ یعنی جیسے کہ بندے ہوا کرتے ہیں اور حضرت موسیٰ کے ماتحت نبیوں میں سے ایک نبی تھا.اور اس بزرگ اور انستان رسول کا ایک تابع اور پس رو تھا.اور خود اس بزرگی کو ہر گز نہیں پہنچا تھا.یعنی اس کی تعلیم ایک اعلی تعلیم کی فرع تھی مستقل تعلیم نہ تھی.اور وہ خود انجیلوں میں اقرار کرتا ہے کہ میں نہ نیک ہوں نہ عالم الغیب ہوں.نہ قادر ہوں بلکہ ایک بندہ عاجز ہوں.اور انجیل کے بیان سے ظاہر ہے کہ اس نے گرفتار ہونے سے پہلے کئی دفعہ رات کے وقت اپنے بچاؤ کے لئے دعا کی.اور چاہتا تھا کہ دعا اس کی قبول ہو جائے.مگر اس کی وہ دعا قبول نہ ہوئی.اور نیز جیسے عاجز بندے آزمائے جاتے ہیں وہ شیطان سے آزمایا گیا.پس اس سے ظاہر ہے کہ وہ ہر طرح سے عاجز ہی عاجز تھا.مخرج معلوم کی راہ سے جو پلیدی اور ناپاکی کا مبرز ہے تو لہ پا کر مدت تک بھوک اور پیاس اور درد اور بیماری کا دکھ اٹھاتارہا.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ بھوک کے دکھ سے ایک انجیر کے نیچے گیا.مگر چونکہ انجیر پھلوں سے خالی پڑی ہوئی تھی اس لئے محروم رہا.اور یہ بھی نہ ہو سکا کہ دوچار انجیرمیں اپنے کھانے کے لئے پیدا کر لیتا.غرض ایک مدت تک ایسی ایسی آلودگیوں میں رہ کر اور ایسے ایسے دکھ اٹھا کر باقرار عیسائیوں کے مر گیا اور اس جہان سے اٹھایا گیا.اب ہم پوچھتے ہیں کہ کیا خداوند قادرِ مطلق کی ذات میں ایسی ہی صفات ناقصہ ہونی چاہئے.کیا

Page 114

۹۶ Ar وہ اسی سے قدوس اور ذوالجلال کہلاتا ہے کہ وہ ایسے عیبوں اور نقصانوں سے بھرا ہوا ہے.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ا صفحه ۴۳۸ تا ۴۴۲.بقیه حاشیه ۱۱ رک لوگ ایسے نادان ہیں کہ جنات کو خدا کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور اس کے لئے بغیر کسی علم اور اطلاع حقیقت حال کے بیٹے اور بیٹیل تراش رکھتی ہیں اور یہود کہتے کہ عزیه خدا کا بیٹا ہے اور نصاری مسیح کو خدا کا بیٹا بناتے ہیں یہ سب ان کے مونہہ کی باتیں ہیں جن کی صداقت پر کوئی حجت قائم نہیں کر سکتے بلکہ صرف پہلے زمانہ کے مشرکوں کی ریس کر رہے ہیں.ملعونوں نے سچائی کا راستہ کیسا چھوڑ دیا اپنے فقیہوں اور درویشوں اور مریم کے بیٹے کو خدا ٹھہرالیا ہے حالانکہ حکم یہ تھا کہ فقط خدائے واحد کی پرستش کرو خدا اپنی خدا تعالی کی ذات میں ذات میں کامل ہے اس کو کچھ حاجت نہیں کہ بیٹا بنا ہے.کو نسی کسر اس کی ذات میں رہ و پی کر وہ بھی ھی ہو گئی تھی جو بیٹے کے وجود سے پوری ہو گی اور اگر کوئی کسر نہیں تھی تو پھر کیا بیت بنانے میں خدا بیٹے کے وجود سے پوری ہو گئی.ایک فضول حرکت کرتا جس کی اس کو کچھ ضرورت نہ تھی وہ تو ہر یک عبث کام اور ہریک حالت ناتمام سے پاک ہے جب کسی بات کو کہتا ہے ہو تو ہو جاتی ہے.A کے معنے.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلدا صفحه ۵۲۴ بقیه حاشیه در حاشیه ۳ پھر صاحب موصوف تحریر فرماتے ہیں کہ توریت میں مسیح کو یک تن اور انبیاء کو یک من کر کے لکھا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام میں کہتا ہوں کہ توریت میں نہ تو کہیں ایک تن کالفظ ہے اور نہ یک من کا.صاحب کے نزدیک این اللہ موصوف کی بڑی مہربانی ہوگی کہ یہ تشریح توریت کی رو سے ثابت کریں کہ توریت نے جب دوسرے انبیاء کا نام ابناء اللہ رکھا تو اس سے مراد یک من ہونا تھا.اور جب مسیح علیہ کا نام ابن اللہ رکھا تو اس کا لقب یک تن رکھ دیا.میری دانست میں تو اور انبیاء حضرت مسیح علیہ السلام سے اس القاب یابی میں بڑھے ہوئے ہیں.کیونکہ حضرت مسیح خود اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ اور فرماتے ہیں کہ میرے ابن اللہ کہنے میں تم کیوں رنجیدہ ہو گئے یہ کونسی بات تھی زبور میں تو لکھا ہے کہ تم سب اللہ ہو.السلام حضرت مسیح کے اپنے الفاظ جو یو حناء اباب ۳۵ میں لکھتے ہیں یہ ہیں کہ میں نے کہا تم

Page 115

لا خدا ہو جبکہ اس نے انہیں جن کے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو تم اسے جسے خدا نے مخصوص کیا اور جہان میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں.اب منصف لوگ اللہ تعالیٰ سے خوف کر کے ان آیات پر غور کریں کہ کیا ایسے موقعہ پر کہ حضرت مسیح کی ابنیت کے لئے سوال کیا گیا تھا حضرت مسیح پر یہ بات فرض نہ تھی کہ اگر وہ حقیقت میں ابن اللہ تھے تو انہیں یہ کہنا چاہئے تھا کہ میں دراصل خدا کا بیٹا ہوں اور تم آدمی ہو.مگر انہوں نے تو ایسے طور سے الزام دیا جسے انہوں نے مہر لگادی کہ میرے خطاب میں تم اعلیٰ درجہ کے شریک ہو مجھے تو بیٹا کہا گیا اور تمہیں خدا کہا گیا.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۰۷ ۱۰۸ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح سے پہلے یہود لوگ بنی اسرائیل سیدھے سادے طور پر خدا تعالیٰ کو مانتے تھے اور اس ماننے میں وہ بڑے مطمئن تھے اور ہر ایک دل بول رہا تھا کہ خدا حق ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اور مصنوعات کا صانع حقیقی ہے اور واحد لا شریک ہے اور کسی قسم کا دغدغہ خداشناسی میں کسی کو نہ تھا.پھر جب حضرت مسیح تشریف لائے تو وہ آنحضرت علیہ السلام کے بیانات سن کر گھبرا گئے کہ یہ شخص کس خدا کو پیش کر رہا ہے.توریت میں تو ایسے خدا کا کوئی پتہ نہیں لگتا.تب حضرت مسیح نے کہ خدا تعالیٰ کے بچے نبی اور اس کے پیارے اور برگزیدہ تھے.اس وہم باطل کو دور کرنے کے لئے کہ یہودیوں نے باعث کو نہ اندیشی اپنی کے اپنے دلوں میں جمالیا تھا وہ اپنے کلمات مبارکہ پیش کئے جو یوحناء اباب ۲۹ ۳۰ آیت میں موجود ہیں چنانچہ وہ عبارت بجسم ذیل میں لکھ دی جاتی ہے چاہئے کہ تمام حاضرین حضرت مسیح کی اس عبارت کو غور سے اور توجہ سے سنیں کہ ہم میں اور حضرات عیسائی صاحبوں میں پوراپورا فیصلہ دیتی ہے اور وہ یہ ہے.۸۵ مسیح نے عام اصطلاح میرا باپ جس نے انہیں مجھے دیا ہے سب سے بڑا ہے اور کوئی انہیں میرے باپ سود کے مطابق خود کو ابن اللہ قرار دیا.کے ہاتھ سے چھین نہیں لے سکتا میں اور باپ ایک ہیں.تب یہودیوں نے پھر پتھر اٹھائے کہ اس پر پتھراؤ کریں یسوع نے انہیں جواب دیا کہ میں نے اپنے باپ کے بہت سے اچھے کام تمہیں دکھائے ہیں ان میں سے کس کام کے لئے تم مجھے پتھراؤ کرتے

Page 116

| یہودیوں نے اسے جواب دیا اور کہا ہم تجھے اچھے کام کے لئے نہیں بلکہ اس لئے تجھے پتھراؤ کرتے ہیں کہ تو کفر بکتا ہے اور انسان ہو کے اپنے تئیں خدا بناتا ہے یسوع نے انہیں جواب دیا کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا کہ میں نے کہا تم خدا ہو جبکہ اس نے انہیں جن کے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو تم اسے جسے خدا نے مخصوص کیا اور جہان میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے کہ میں نے کہا میں خدا کا بیٹا ہوں.اب ہر ایک منصف اور ہر ایک متدین سمجھ سکتا ہے کہ یہودیوں کا یہ اعتراض تھا کہ انہوں نے باپ کا لفظ سن کر اور یہ کہ میں اور باپ ایک ہیں یہ خیال کر لیا کہ یہ اپنے تئیں خدا تعالیٰ کا حقیقی طور پر بیٹا قرار دیتا ہے تو اس کے جواب میں حضرت مسیح نے صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ مجھ میں کوئی زیادہ بات نہیں دیکھو تمہارے حق میں تو خدا کا اطلاق بھی ہوا ہے.اب ظاہر ہے کہ اگر حضرت مسیح در حقیقت اپنے تئیں ابن اللہ جانتے اور قیقی طور سے اپنے تئیں خدا تعالیٰ کا بیٹا تصور کرتے تو اس بحث اور پر خاش کے وقت میں جب یہودیوں نے ان پر الزام لگایا تھا مرد میدان ہو کر صاف اور کھلے کھلے طور پر کہہ دیتے کہ میں در حقیقت ابن اللہ ہوں اور حقیقی طور پر خدا تعالیٰ کا بیٹا ہوں بھلا یہ کیا جواب تھا کہ اگر میں اپنے تئیں بیٹا قرار دیتا ہوں تو تمہیں بھی تو خدا کہا گیا ہے بلکہ اس موقعہ پر تو خوب تقویت اپنے اثبات دعوای کی ان کو ملی تھی.انہیں اس وقت کہنا چاہئے تھا کہ تم تو اسی قدر بات پر ناراض ہو گئے کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں.میں تو بموجب تمہاری کتابوں کے اور بموجب فلاں فلاں پیش گوئی کے خدا بھی ہوں.قادر مطلق بھی ہوں.خدا کا ہمتا بھی ہوں.کون سا مرتبہ خدائی کا ہے جو مجھ میں نہیں ہے.غرض کہ یہ مقام انجیل شریف کے تمام مقامات اور بائبل کی تمام پیش گوئیوں کو حل کرنے والا اور بطور ان کی تفسیر کے ہے.مگر اس کے لئے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۱۶ تا ۱۱۸ حضرت مسیح یو حتا باب ۱۰٫۳۰ میں ۳۷ تک صاف طور پر فرمارہے ہیں کہ مجھ میں اور دوسرے مقربوں اور مقدسوں میں ان الفاظ کی اطلاق میں جو بائبل میں اکثر انبیاء AM ۹۸

Page 117

44 دعوی این اللہ اور الموبيت یہود کی تھا.پر وغیرہ کی نسبت بولے گئے ہیں جو ابن اللہ ہیں یا خدا ہیں کوئی امتیاز اور خصوصیت نہیں.ذرہ سوچ کر دیکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح پر یہودیوں نے یہ بات سن کر کہ وہ اپنے تیں ابن اللہ کہتے ہیں یہ الزام لگایا تھا کہ تو کفر کہتا ہے یعنی کافر ہے اور پھر انہوں نے اس الزام کے لحاظ سے ان کو پتھراؤ کرنا چاہا اور بڑے افروختہ ہوئے.اب ظاہر ہے کہ ایسے موقعہ پر کہ جب حضرت مسیح یہودیوں کی نظر میں اپنے ابن اللہ کہلانے کی وجہ سے کافر طرف سے تکفیر معلوم ہوتے تھے اور انہوں نے اس کو سنگسار کرنا چاہا.تو ایسے موقعہ پر کہ اپنی برتیت یا کا جواب کیا ہونا چاہئے اثبات دعوی کا موقعہ تھا نسیح کا فرض کیا تھا؟ ہر ایک عظمند سوچ سکتا ہے کہ اس موقعہ پر کہ کا فر بنایا گیا حملہ کیا گیا سنگسار کرنے کا ارادہ کیا گیا.دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کر نا سی کا کام تھا.اول یہ کہ اگر حقیقت میں حضرت مسیح خدا تعالیٰ کے بیٹے ہی تھے تویوں جواب دیتے کہ یہ میراد عوی حقیقت میں سچا ہے اور میں واقعی طور پر خدا تعالیٰ کا بیٹا ہوں اور اس دعوی کے اثبات کرنے کے لئے میرے پاس دو ثبوت ہیں ایک یہ کہ تمہاری کتابوں میں میری نسبت لکھا ہے کہ مسیح در حقیقت خدا تعالیٰ کا بیٹا ہے بلکہ خود خدا ہے.قادر مطلق ہے.عالم الغیب ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے.اگر تم کو شبہ ہے تو لاؤ کتابیں پیش کرو میں ان کتابوں سے اپنی خدائی کا ثبوت تمہیں دکھلاوں گا.یہ تمہاری غلط فہمی اور کم توجہی اپنی کتابوں کی نسبت ہے کہ تم مجھے کافر ٹھہراتے ہو.تمہاری کتابیں ہی تو مجھے خدا بنا رہی ہیں اور قادر مطلق بتلا رہی ہیں پھر میں کافر کیونکر ہوا بلکہ تمہیں تو چاہئے کہ اب میری پرستش اور پوجا شروع کر دو کہ میں خدا ہوں.پھر دوسرا ثبوت یہ دینا چاہئے تھا کہ آؤ خدائی کی علامتیں مجھ میں دیکھ لو جیسے خدا تعالیٰ نے آفتاب.ماہتاب.سیارے.زمین وغیرہ پیدا کیا ہے.ایک قطعہ زمین کا یا کوئی ستارہ یا کوئی اور چیز میں نے بھی پیدا کی ہے اور اب بھی پیدا کر کے دکھلا سکتا ہوں اور نبیوں کے معمولی معجزات سے بڑھ کر مجھ میں قوت اور قدرت حاصل ہے.اور مناسب تھا کہ اپنے خدائی کے کاموں کی ایک مفصل فہرست ان کو دیتے کہ دیکھو آج تک یہ یہ کام میں نے خدائی کے کئے ہیں.کیا حضرت موسی سے لے کر تمہارے کسی آخری نبی تک ایسے کام کسی اور نے بھی کئے ہیں.اگر ایسا ثبوت دیتے تو یہودیوں کا منہ بند ہو جاتا اور اسی وقت تمام فقیہ اور فریبی آپ کے سامنے سجدہ میں گرتے کہ ہاں حضرت ! ضرور آپ خدا ہی ہیں ہم بھولے ہوئے تھے.آپ نے اس آفتاب کے مقابل پر جو ابتداء سے چمکتا ہوا چلا

Page 118

آتا ہے اور دن کو روشن کرتا ہے اور اس ماہتاب کے مقابل پر جو ایک خوبصورت روشنی کے ساتھ رات کو طلوع کرتا ہے اور رات کو منور کر دیتا ہے آپ نے ایک آفتاب اور ایک ماہتاب اپنی طرف سے بنا کر ہم کو دکھا دیا ہے اور کتابیں کھول کر اپنی خدائی کا ثبوت ہماری مقبولہ مسلمہ کتابوں سے پیش کر دیا ہے.اب ہماری کیا مجال ہے کہ بھلا آپ کو خدا نہ کہیں جہاں خدا نے اپنی قدرتوں کے ساتھ بجلی کی وہاں عاجز بندہ کیا کر سکتا ہے.لیکن حضرت مسیح نے ان دونوں ثبوتوں میں سے کسی ثبوت کو بھی پیش نہ کیا.اور پیش کیا تو ان عبادتوں کو پیش کیا سن لیجئے.تب یہودیوں نے پھر پتھر اٹھائے کہ اس پر پتھراؤ کریں.یسوع نے اسے جواب دیا کہ میں نے اپنے باپ کے بہت سے اچھے کام تمہیں دکھائے ہیں ان میں سے کس کام کے لئے تم مجھے پتھر لو کرتے ہو.یہودیوں نے اسے جواب دیا کہ ہم مجھے اچھے کام کے لئے نہیں بلکہ اس لئے تجھے پتھراؤ کرتے ہیں کہ تو کفر کہتا ہے اور انسان ہو کے اپنے تئیں خدا بناتا ہے.یسوع نے انہیں جواب دیا کہ کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں نے کہا تم خدا ہو جبکہ اس نے انہیں جن کے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو تم اسے جسے خدا نے مخصوص کیا اور جہان میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں.لب منصفین سوچ لیں کہ کیا الزام کفر کا دور کرنے کے لئے اور اپنے آپ کو حقیقی طور پر بیٹا اللہ تعالیٰ کا ثابت کرنے کے لئے یہی جواب تھا کہ اگر میں نے بیٹا کہلایا تو کیا ہرج ہو گیا تمہارے بزرگ بھی خدا کہلاتے رہے ہیں.ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب اس جگہ فرماتے ہیں کہ گویا حضرت مسیح ان کے بلوے سے خوفناک ہو کر ڈر گئے اور اصلی جواب کو چھپالیا اور تقیہ اختیر کیا مگر میں کہتا ہوں کہ کیا یہ ان نبیوں کا کام ہے کہ اللہ جل شانہ کی راہ میں ہر وقت جان دینے کو تیار رہتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے الذين يبلغون رسالات اللهِ وَيَحْشُونَهُ وَلا يخشون أحدًا الا الله يعني الله تعالیٰ کے بچے پیغمبر جو اس کے پیغام پہنچاتے ہیں وہ پیغام رسانی میں کسی سے نہیں ڈرتے.پس حضرت مسیح قادر مطلق کہلا کر کمزور یہودیوں سے کیوں کر ڈر گئے.اب اس سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے حقیقی طور پر ابن

Page 119

1+1 اللہ ہونے کا یا خدا ہونے کا کبھی دعوی نہیں کیا اور اس دعوی میں اپنے تئیں ان تمام لوگوں کا ہمرنگ قرار دیا اور اس بات کا اقرار کیا کہ انہیں کے موافق یہ دعوی بھی ہے تو پھر اس صورت میں وہ پیش گوئیاں جو ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب پیش فرماتے ہیں وہ کیونکر بموجب شرط کے صحیح سمجھی جائیں گی.ایسا تو نہیں کرنا چاہئے کہ مدعی ست گواہ چست.حضرت مسیح تو کفر کے الزام سے بچنے کے لئے صرف یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ میری نسبت اسی طرح بیٹا ہونے کا لفظ بولا گیا ہے.جس طرح تمہارے بزرگوں کی نسبت بولا گیا ہے گویا یہ فرماتے ہیں کہ میں تو اس وقت قصور وار اور مستوجب کفر ہوتا کہ خاص طور پر بیٹا ہونے کا دعوی کرتا.بیٹا کہلانے اور خدا کہلانے سے تمہاری کتابیں بھری پڑی ہیں دیکھ لو.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۳۳ تا ۱۳۶ حضرت مسیح کے بارہ میں جو آپ نے عذر پیش کیا ہے کہ حضرت مسیح نے صرف یہودیوں کا غصہ فرو کرنے کے لئے یہ کہہ دیا تھا کہ تمہاری شریعت میں بھی تمہارے نبیوں کی نسبت لکھا ہے کہ وہ خدا ہیں اور نیز اس جگہ آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ مسیح نے اپنی انسانیت کے لحاظ سے ایسا جواب دیا یہ بیان آپ کا منصفین کی توجہ اور غور کے لائق ہے.صاف ظاہر ہے کہ یہودیوں نے حضرت مسیح کا کلمہ کہ میں خدا تعالیٰ کا بیٹا ہوں ایک کفر کا کلمہ قرار دے کر اور نعوذ باللہ ان کو کافر سمجھ کر یہ سوال کیا تھا اور اس سوال کے جواب میں بے شک حضرت مسیح کا یہ فرض تھا کہ اگر وہ حقیقت میں انسانیت کی وجہ سے ۸۷ نہیں بلکہ خدائی کی وجہ سے اپنے تئیں خدا کا بیٹا سمجھتے تھے تو اپنے مدعا کا پورا پورا اظہار کرتے یہود کے سوال پر این اللہ ہونے کا ثبوت دینا اور اپنے ابن اللہ ہونے کا ان کو ثبوت دیتے کیونکہ اس وقت وہ ثبوت ہی مانگتے تھے.لیکن حضرت مسیح نے تو اس طرف رخ نہ کیا اور اپنے دوسرے انبیاء کی طرح قرار دے کر عذر پیش کر دیا اور اس فرض سے سبکدوش نہ ہوئے جو ایک سچا مبلغ اور معلم سبکدوش ہونا چاہتا ہے.حضرت مسیح نے جو اپنی برتیت کا ثبوت پیش کیا اس کو نکما اور مہمل کرنا آپ کا ارادہ ہے.کیا حضرت مسیح یہودیوں کی نظر میں صرف اس قدر کہنے سے بری ہو سکتے تھے کہ میں اپنے خدا ہونے کی وجہ سے تو بے شک ابن اللہ ہی ہوں لیکن میں انسانیت کی وجہ سے دوسرے نبیوں کے مساوی چاہئے تھا.

Page 120

ہوں اور جو ان کے حق میں کہا گیاوہ ہی میرے حق میں کہا گیا.اور کیا یہودیوں کا الزام اس طور کے رکیک عذر سے حضرت مسیح کے سر پر سے دور ہو سکتا تھا.اور کیا انہوں نے یہ تسلیم کیا ہوا تھا کہ حضرت مسیح اپنی خدائی کی وجہ سے تو بے شک ابن اللہ ہی ہیں اس میں ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہاں انسان ہونے کی وجہ میں کیوں اپنے تئیں ابن اللہ کہلاتے ہیں بلکہ صاف ظاہر ہے کہ اگر یہودیوں کے دل میں صرف اتنا ہی ہوتا کہ حضرت مسیح محض انسان ہونے کی وجہ سے دوسرے مقدس اور مخصوص انسانوں کی طرح اپنے تئیں ابن اللہ قرار دیتے ہیں تو وہ کافر ہی کیوں ٹھہراتے.کیا وہ حضرت اسرائیل کو اور حضرت آدم اور این اللہ ہونے کے دوسرے نبیوں کو جن کے حق میں ابن اللہ کے لفظ آئے ہیں کافر خیال کرتے تھے.نہیں ثبوت کے لئے پیش بلکہ سوال ان کا تو یہی تھا کہ ان کو بھی دھوکا لگا تھا کہ حضرت مسیح حقیقت میں اپنے تئیں اللہ گوئیاں پیش کرنی چاہئیں تھیں.کا بیٹا سمجھتے ہیں اور چونکہ جواب مطابق سوال چاہئے اس لئے حضرت مسیح کا فرض تھا کہ وہ ان کے جواب میں وہی طریق اختیار کرتے جس طریق کے لئے ان کا استفسار تھا.اگر حقیقت میں خدا تعالیٰ کے بیٹے تھے تو وہ پیش گوئیاں جو ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب بعد از وقت اس مجلس میں پیش کر رہے ہیں کے سامنے پیش کرتے اور چند نمونہ خدا ہونے کے دکھلا دیتے تو فیصلہ ہو جاتا.یہ بات ہر گز صحیح نہیں ہے کہ یہودیوں کا سوال حقیقی ابن اللہ کے دلائل دریافت کرنے کے لئے نہیں تھا.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۵۱ تا ۱۵۳ اے عزیز و اور پیارو! اس جگہ راستی کی حمایت اس بیان کے لئے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی معرفت کے بارہ میں حضرات مسیحیوں کے ہاتھ میں کوئی امر صاف نہیں ہے.وحی کے سلسلہ پر تو پہلے سے مہر لگ چکی ہے اور صحیح اور حواریوں کے بعد مجربات بھی بند ہو گئے ہیں.رہا عقلی طریق ، سو آدم زاد کو خدا بنانے میں وہ طریق بھی ہاتھ سے گیا اور اگر گذشته معجزات جواب محض قصوں کے رنگ میں ہیں پیش کئے جائیں تو اول تو ہر ایک منکر کہہ سکتا ہے کہ خدا جانے ان کی اصل حقیقت کیا ہے اور کس قدر مبالغہ ہے کیونکہ کچھ شک نہیں کہ مبالغہ کرنا انجیل نویسوں کی عادت میں داخل تھا.چنانچہ ایک انجیل میں یہ فقرہ موجود ہے کہ مسیح نے اتنے کام کئے کہ اگر وہ لکھے جاتے تو وہ دنیا میں سمانہ سکتے اب دیکھو وہ کام بغیر لکھنے کے تو دنیا میں سما گئے.لیکن لکھنے کی حالت میں وہ

Page 121

۱۰۳ دنیا میں نہیں سائینگے.یہ کس قسم کا فلسفہ اور کس قسم کی منطق ہے.کیا کوئی سمجھ سکتا ہے؟ ماسوا اس کے حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات موسیٰ نبی کے معجزات سے کچھ بڑھ کر نہیں ہیں.اور ایلیا نبی کے نشانوں کا جب مسیح کے نشانوں سے مقابلہ کریں تو ایلیا کے معجزات کا پلہ بھاری معلوم ہوتا ہے.پس اگر معجزات سے کوئی خدا بن سکتا ہے تو یہ سب بزرگ خدائی کے مستحق ہیں.اور یہ بات کہ مسیح نے اپنے تئیں خدا کا بیٹا کہا ہے پاکسی اور کتاب میں اس کو بیٹا کہا گیا ہے ایسی تحریروں سے اس کی خدائی نکالنا درست نہیں.بائبل میں بہت سے لوگوں کو خدا کے بیٹے کہا گیا ہے بلکہ بعض کو خدا بھی.پھر مسیح کی تخصیص بے وجہ ہے.اور اگر ایسا ہوتا بھی کہ کسی دوسرے کو ان کتابوں میں بجر میسیج کے بائیل میں بہت سے خدا یا خدا کے بیٹے کا لقب نہ دیا جاتا تب بھی ایسی تحریروں کو حقیقت پر حمل کرنا نادانی لوگوں کو خدا کے بیٹے قرار دیا گیا ہے.تھا.کیونکہ خدا کے کلام میں ایسے استعارات بکثرت پائے جاتے ہیں.مگر جس حالت میں بائبل کے رو سے خدا کا بیٹا کہلانے میں اور بھی مسیح کے شریک ہیں تو دوسرے شرکاء کو کیوں اس فضیلت سے محروم رکھا جاتا ہے.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۶۴، ۱۶۵ پہلی کتابوں میں جو کامل راست بازوں کو خدا کے بیٹے کر کے بیان کیا گیا ہے اس کے بھی یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ در حقیقت خدا کے بیٹے ہیں کیونکہ یہ تو کفر ہے اور خدا بیٹوں اور بیٹیوں سے پاک ہے بلکہ یہ معنی ہیں کہ ان کامل راست بازوں کے آئینہ صافی میں عکسی طور پر خدا نازل ہوا تھا.اور ایک شخص کا عکس جو آئینہ میں ظاہر ہوتا ہے استعارہ کے رنگ میں گویاوہ اس کا بیٹا ہوتا ہے.کیونکہ جیسا کہ بیٹا باپ سے پیدا ہوتا ہے ایسا ہی عکس اپنے اصل سے پیدا ہوتا ہے.پس جبکہ ایسے دل میں جو نہایت صافی ہے اور کوئی کدورت اس میں باقی نہیں رہی تجلیات الہیہ کا انعکاس ہوتا ہے تو وہ عکسی تصویر استعارہ کے رنگ میں کامل اصل کے لئے بطور بیٹے کے ہو جاتی ہے.اس بناء پر توریت میں کہا گیا ہے کہ یعقوب میرا پہلی کتابوں میں کہاں راست بازوں کو خدا بیٹابلکہ میرا پلوٹھا بیٹا ہے اور عیسی ابن مریم کو جو انجیلوں میں بیٹا کہا گیا.اگر عیسائی لوگ کے سینے قرار دیا گیا اسی حد تک کھڑے رہتے کہ جیسے ابراہیم اور اسحاق اور اسماعیل اور یعقوب اور یوسف اور ہے.موسیٰ اور داؤد اور سلیمان وغیرہ خدا کی کتابوں میں استعارہ کے رنگ میں خدا کے بیٹے

Page 122

کہلاتے ہیں.ایسا ہی عیسی بھی ہے تو ان پر کوئی اعتراض نہ ہوتا.کیونکہ جیسا کہ استعارہ کے رنگ میں ان نبیوں کو پہلے نبیوں کی کتابوں میں بیٹا کر کے پکارا گیا ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض پیش گوئیوں میں خدا کر کے پکارا گیا ہے.اور اصل بات یہ ہے کہ نہ وہ تمام نبی خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا ہیں.بلکہ یہ تمام استعارات ہیں محبت کے پیرایہ میں.ایسے الفاظ خدا تعالیٰ کے کلام میں بہت ہیں.انسان خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسا محو ہوتا ہے جو کچھ بھی نہیں رہتا.تب اسی فنا کی حالت میں ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں.کیونکہ اس حالت میں ان کا وجود درمیان نہیں ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قبل یعبادي الَّذِينَ أَسْرَفوا على انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله إن الله يغفر الذنوب جميعا یعنی ان لوگوں کو کہہ کہ اے میرے بندو خدا کی رحمت سے نومید مت ہو خدا تمام گناہ بخش دے گا.اب دیکھو اس جگہ یا عباد اللہ کی جگہ یا عبادی کہ دیا گیا حلانکہ لوگ خدا کے بندے ہیں نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے.مگریہ استعارہ کے رنگ میں بولا گیا.ایسا ہی فرمایا ان الذين يبايعونك انما يبايعون الله ، يدالله فوق ايديهم یعنی جو لوگ تیری بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت خدا کی بیعت کرتے ہیں.یہ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے.اب ان تمام آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ٹھہرایا گیا.مگر ظاہر ہے کہ وہ خدا کا ہاتھ نہیں ہے.ایسا ہی ایک جگہ فرمایا فاذكر الله كذكركم آباءكم أو أشد ذكراء پس تم خدا کو یاد کرو جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو.پس اس جگہ خدا تعالیٰ کو باپ کے ساتھ تشبیہ دی.اور استعارہ بھی صرف تشبیہ کی حد تک ہے.ایسا ہی خدا تعالیٰ نے یہودیوں کا ایک قول بطور حکایت عن الیہود قرآن شریف میں ذکر فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ سخن ابنا واللهِ وَ احباره : یعنی ہم خدا کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں.اس جگہ ابناء کے لفظ کا خدا تعالیٰ نے کچھ رہ نہیں کیا کہ تم کفر بکتے ہو.بلکہ یہ فرمایا کہ اگر تم خدا کے پیارے ہو تو پھر وہ تمہیں کیوں عذاب دیتا ط ۱۰۴

Page 123

۱۰۵ ہے.اور ابناء کا دوبارہ ذکر بھی نہیں کیا.اس سے معلوم ہوا کہ یہودیوں کی کتابوں میں خدا کے پیاروں کو بیٹا کر کے بھی پکارتے تھے.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۵ تا ۶۷ اللہ تعالیٰ نے جو ہم کو مخاطب کیا ہے کہ انت منی بمنزلة اولادى - اس جگہ یہ تو نہیں کہا کہ تو میری اولاد ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ بمنزلہ اولاد گے ہے یعنی اولاد کی طرح ہے.اور دراصل یہ عیسائیوں کی اس بات کا جواب ہے جو وہ حضرت عیسی کو حقیقی طور پر ابن اللہ مانتے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں اور خدا تعالیٰ نے خدا کی اولاد سے کیا مراد یہودیوں کے اس قول کا عام طور پر کوئی رو نہیں کیا جو کہتے تھے کہ ہے.نحن ابناؤا ادله واحباؤه - بلکہ یہ ظاہر کیا ہے کہ تم ان ناموں کے مستحق نہیں ہو.دراصل یہ ایک محاورہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے برگزیدوں کے حق میں اکرام کے طور پر ایسے الفاظ بولتا ہے.جیسا کہ حدیثوں میں ہے کہ میں اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں اور میں اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں اور جیسا کہ حدیثوں میں ہے کہ اے بندے میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہ دیا.اور میں بھو کا تھا تو نے مجھے روٹی نہ دنی.ایسا ہی توریت میں جبھی لکھا ہے کہ یعقوب خدا کا فرزند بلکہ نخست زادہ ہے.سو یہ سب استعارے ہیں جو عام طور پر خدا تعالیٰ کی عام کتابوں میں پائے جاتے ہیں.اور احادیث میں ہے.اور خدا تعالیٰ نے یہ الفاظ میرے حق میں اسی واسطے استعمال کئے ہیں تا عیسائیوں کا رو ہو.کیونکہ باوجودان لفظوں کے میں کبھی ایسا دعوی نہیں کرتا کہ نعوذ باللہ میں خدا کا بیٹا ہوں بلکہ ہم ایسا دعوی کرنا کفر سمجھتے ہیں.اور ایسے الفاظ جو انبیاء کے حق میں خدا تعالیٰ نے بولے ہیں.ان میں سب سے زیادہ اور سب سے بڑا عزت کا خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا.قل یعبادی جس کے معنے ہیں کہ اے میرے بندو.اب ظاہر ہے کہ وہ لوگ خدا تعالی کے بندے تھے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے.اس فقرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ کا اطلاق استعارہ کے رنگ میں کہاں تک وسیع ہے.ملفوظات.جلد ۹ صفحه ۴۸۲، ۴۸۳

Page 124

۱۰۶ ☑ مسیح ابن اللہ ہے یا اقنوم ا ا ا ا ا ا ا ا مانی؟ عیسائی لوگ اس لئے بندہ پرست ہیں کہ عیسی مسیح جو ایک عاجز بندہ ہے ان کی نظر میں وہی خدا ہے اور یہ قول ان کا سراسر فضول اور نفاق اور دروغ گوئی پر مبنی ہے جو وہ کہتے ہیں کہ ہم عیسی کو تو ایک انسان سمجھتے ہیں مگر اس بات کے ہم قائل ہیں کہ اس کے ساتھ اقوم ابن کا تعلق تھا کیونکہ مسیح نے انجیل میں کہیں یہ دعوی نہیں کیا کہ اقوم ابن سے میرا تعلق ہے اور وہی اقنوم ابن اللہ کہلاتا ہے نہ میں.بلکہ انجیل یہ بتلاتی ہے کہ ایک خاص خود مسیح ابن اللہ کہلاتا تھا اور جب مسیح کو زندہ خدا کی قسم دے کر سردار کاہن نے پوچھا کہ کیا تو خدا کا بیٹا ہے تو اس نے یہ جواب نہ دیا کہ میں تو ابن اللہ نہیں بلکہ میں تو وہی انسان ہوں جس کو میں برس سے دیکھتے چلے آئے ہوہاں ابن اللہ وہ اقنوم ثانی ہے جس نے اب مجھ سے قریباً دو سال سے تعلق پکڑ لیا ہے بلکہ اس نے سردار کا نہین کو کہا کہ ہاں وہی ہے جو تو کہتا ہے پس اگر ابن اللہ کے معنی اس جگہ وہی ہیں جو عیسائی مراد لیتے ہیں تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ مسیح نے خدائی کا دعوی کیا پھر کیونکر کہتے ہیں کہ ہم مسیح کو انسان سمجھتے ہیں.کیا انسان صرف جسم اور ہڈی کا نام ہے.افسوس کہ اس زمانہ کے جاہل عیسائی کہتے ہیں کہ قرآن نے ہمارے عقیدہ کو نہیں سمجھا حالانکہ وہ خود اس بات کے قائل ہیں کہ مسیح نے خود اپنے منہ سے ابن اللہ ہونے کا دعوی کیا ہے ظاہر ہے کہ سردار کاہن کا یہ کہنا کہ کیا تو خدا کا بیٹا ہے اس کا مدعا یہی تھا کہ تو جو انسان ہے پھر کیونکر انسان ہو کر خدا کا بیٹا کہلاتا ہے کیونکہ سردار کاہن جانتا تھا کہ یہ ایک انسان اور ہماری قوم میں سے یوسف نجار کی بیوی کا لڑکا ہے لہذا ضرور تھا کہ مسیح سردار کاہن کو وہ جواب دیتا جو اس کے سوال اور دلی منشاء کے مطابق ہوتا کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ سوال دیگر اور جواب دیگر ہو.پس عیسائیوں کے مصنوعی اصول کے موافق یہ جواب چاہئے تھا کہ جیسا کہ تم نے گمان کیا ہے یہ غلط ہے اور میں اپنی انسانیت کی رو سے ہر گز ابن اللہ نہیں کہلاتا بلکہ ابن اللہ تو اقنوم دوم ہے جس کا تمہاری کتابوں کے فلاں فلاں مقام میں ذکر ہے لیکن مسیح نے ایسا جواب نہ دیا بلکہ ایک دوسرے مقام میں یہ کہا ہے کہ تمہارے بزرگ تو خدا کہلائے ہیں.پس ثابت ہے کہ دوسرے نبیوں کی طرح مسیح نے بھی اپنے انسانی روح کے لحاظ سے ابن اللہ کہلایا اور صحت اطلاق لفظ کے لئے گذشتہ نبیوں کا حوالہ دیا.پھر بعد اس کے عیسائیوں نے اپنی غلط فہمی سے صحیح کو در حقیقت خدا کا بیٹا سمجھ لیا.اور دوسروں کو بیٹا ہونے سے باہر رکھا نہیں اسی واقعہ صحیحہ کی قرآن مجید نے گواہی دی اور اگر کوئی یہ کہے کہ

Page 125

1•2 اقنوم ثانی کا مسیح کی انسانی روح سے ایسا اختلاط ہو گیا تھا کہ در حقیقت وہ دونوں ایک ہی چیز ہو گئے تھے اس لئے مسیح نے اقنوم ثانی کی وجہ سے جو اس کی ذات کا عین ہو گیا تھا خدائی کا جب قوم معانی اس کے وجود کائین ہو گیا اور دعوی کر دیا تھا تو اس تقریر کا مل بھی یہی ہوا کہ بموجب زعم نصاری کے ضرور مسیح نے قوم ملی خدا ہے تو یہ خدائی کا دعوی کیا کیونکہ جب اقنوم ثانی اس کے وجود کا مین ہو گیا اور اقنوم ثانی خدا ہے تو کیا خدا بن گیا.اس سے یہی نتیجہ نکلا کہ مسیح خدا بن گیا.سو یہ وہی ضلالت کی راہ ہے جس سے پہلے اور پچھلے عیسائی ہلاک ہو گئے اور قرآن نے درست فرمایا کہ یہ بندہ پرست ہیں.انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۹۹۹۸.حاشیہ ۹۲ جواب دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تحقیقی، دوسرے الزامی.اللہ تعالیٰ نے بھی بعض جگہ الزامی جوابوں سے کام لیا ہے.اس میں معترض کو اپنے مذہب کی کمزوری معلوم ہوتی ہے.چنانچہ جب عیسائیوں نے کہا کہ عیسی خدا کا بیٹا ہے اور دلیل یہ کہ حضرت آدم کو بطریق اول خدا تعالی کا بیٹا ہونا ہر کنواری کے پیٹ سے پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.ات مثل عیسی عند چاہئے.الله كمثل آدم یعنی اگر یہی اس کے بیٹا ہونے کا ثبوت ہے تو آدم بطریق اول بیٹا ہونا مریم چاہئے.لملفوظات.جلد ۱۰ صفحہ ۳۶۵ ثم بعد ذلك نرى ان آدم كان اول ابناء الله في نوع الانسان، وقد اقرت اناجيل پھر بعد اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ پہلا بیٹا تو نوع انسان میں سے آدم ہی تھا.چنانچہ الجملہ اس بات کا اقرار کرتی ہیں النصارى بهذا البيان ومن المعلوم ان الفضل للمتقدم لا للذي جاء بعده اور یہ معلوم ہے کہ بزرگی پہلے ہی کو ہوتی ہے.اور وہ تو بزرگ نہیں کہلاتا جو پیچھے سے آوے كالمضاهين.وقد خلق الله آدم بيده وعلى صورته ونفخ فيه روحه بكمال محبته ، اور پہلے کی ریس سے کوئی بات منہ پر لاوے اور خدا نے تو آدم کو اپنے ہاتھ سے اور اپنی صورت پر پیدا کیا تھا ور کمل واما المسيح فما كان لبنة أول الاساس بل جاء في أخريات الناس، وكان من محبت سے اس میں اپنا روح پھونکا مگر مسیح تو پہلی بنیاد کی اینٹ نہیں تھے بلکہ وہ تو آخری لوگوں میں آیا اور المتأخرين.۹۳ اناجیل کے لحاظ سے تو خدا کا پہلا بیٹا آدم متاخرین میں سے کہلایا.

Page 126

ثم العجب ان إله النصارى وَلَدَ الابن ، ولم يلد البنات ، كأنه عاف الأختان او پھر تعجب ہے کہ نصاری کے خدا نے بیٹاتو جنا مگر یٹی کوئی نہیں جتنی.گویا اس نے دامادوں سے کراہت کی اور نہ چاہا کہ كره ان يصاهر الا الصفتات، او لم يجد كمثله الشرقاء السرات.فهل من کوئی غیر کفو اس کا داماد ہو.یا اپنے جیسا کوئی عزت دار نہ پایا جس کو لڑ کی دیوے.پس کیا عیسائیوں کے عقیدوں اعجوبة في السكرى مثل اطروفة النصارى ، ام هل رئيت مثلهم من المغلسين.کے انجویہ کی طرح کوئی اور بھی انجو بہ ہے یا ان کی مانند تو نے کوئی اور بھی اندھیرے میں رات میں چلتا دیکھا.والاصل الموجب الجالب الى هذه العقيدة الفاسدة والامتعة الكاسدة انهماكهم في اور اصل موجب جس نے عیسائیوں کو اس عقیدہ کی طرف کھینچا ان کا دنیا میں غرق ہوتا ہے پھر اس کے ساتھ الدنيا مع هجوم انواع العصيان وشوق نعماء الجنان مع رجس الجنان.وانت تما ستم کے گناہ اور پھر دل کی پلیدی کے ساتھ قسم کے گناہ اور کی پلیدی کے ساتھ آخرت کی نعمتوں کا شوق اور تو جاتا ہے کہ تعلم ان الشح يعمى عين روية الصواب ، فلا يفتش الشحيح العجول من الوهاد لالچ حق بینی کی آنکھ کو بند کر دیتا ہے.پس لائچی اور شتاب کار آدمی نشیب و فراز کو کچھ نہیں دیکھتا.والحداب، بل يسعى مستعجلا الى ملامح السراب بمجرد استماع قول پس اس ریت کی طرف جلدی سے دوڑتا ہے جو پانی کی طرح دکھائی دیتی ہے.اور ایک جھوٹے کی بات کو سن الكذاب.واذا بلغها فلا يجد إلا وادى التباب ، فتضطرم نار العطش وتثب عليه کر اعتبار کر لیتا ہے اور جب اس ریت پر پہنچتا ہے تو بجز ایک جنگل بلاک کرنے والے کے اور کچھ نہیں پا نا تب اس كالذياب ويحترق القلب كاحتراق الجلباب فيسقط على الارض من غلبة وقت پیاس کی آگ بھڑکتی ہے اور اس پر بھیڑیوں کی طرح حملہ کرتی ہے اور اس کا دل جیسا جاتا ہے جیسا کہ ایک چادر کو آگ لگ جاتی ہے.الاضطراب، ويطير روحه كالطير، ويلحق بالميتين.پس استوار ہو کر زمین پر گر پڑتا ہے اور اس کی روح پر ند کی طرح پرواز کر جاتی ہے اور مردوں سے جاملتی ہے.(نور الحق، الجزء الأول، روحاني خزائن مجلد ۸، ص ١٠٥..۱۰۷) عیسائیوں نے ابن مریم کی بیجا تعریفوں میں بہت سا افتراء بھی کیا.مگر پھر بھی اس کے نقصانوں کو چھپانہ سکے اور اس کی آلودگیوں کا آپ اقرار کر کے پھر خواہ نخواہ اس کو خدائے تعالی کا بیٹا قرار دیا.یوں تو عیسائی اور یہودی اپنی نجیب کتابوں کے رو سے سب خدا کے بیٹے ہی ہیں.بلکہ ایک آیت کے رو سے آپ ہی خدا ہیں.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بدھ مت I+A ۹۴

Page 127

1+9 پنے افتراء راء اور اختراع میں ان سے اچھتے رہے.کیونکہ انہوں نے بدھ کو خدا ٹھہرا بدھ مت والے اپنے کر پھر ہر گز اس کے لئے یہ تجویز نہیں کیا کہ اس نے پلیدی اور ناپاکی کی راہ سے تولد پایا افتراء اور اختراع میں ان سے اچھے رہے.تھا.یا کسی قسم کی نجاست کھائی تھی.بلکہ ان کا بدھ کی نسبت یہ اعتقاد ہے کہ وہ منہ کے راستہ سے پیدا ہوا تھا.پر افسوس کہ عیسائیوں نے بہت سی جعل سازیاں تو کیں مگر یہ جعلسازی نہ سوجھی کہ میسیج کو بھی منہ کے راستہ سے پیدا کرتے اور اپنے خدا کو پیشاب اور پلیدی سے بچاتے.اور نہ یہ سوجھی کہ موت جو حقیقت الوہیت سے بجلی منافی ہے اس پر وارد نہ کرتے.اور نہ یہ خیال آیا کہ جہاں مریم کے بیٹے نے انجیلوں میں اقرار کیا ہے کہ میں نہ نیک ہوں اور نہ دانا مطلق ہوں نہ خود بخود آیا ہوں نہ عالم الغیب ہوں نہ قادر ہوں نہ دعا کی قبولیت میرے ہاتھ میں ہے.میں صرف ایک عاجز بندہ اور مسکین آدم زاد ہوں کہ جو ایک مالک رب العالمین کا بھیجا ہوا آیا ہوں.ان سب مقاموں کو انجیل سے نکال دینا چاہئے.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو عظیم الشان صداقت الحمدللہ کے مضمون میں ہے.وہ بجز پاک اور مقدس مذہب اسلام کے کسی دوسرے مذہب میں ہر گز پائی نہیں جاتی.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ا صفحه ۴۴۲، ۴۴۳ - بقیه حاشیه ۱۱ انجیل میں غور کرنے سے صریح اور صاف طور سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ۹۵ جابجا اپنی کمزوریوں کا اعتراف کیا اور استغفار بھی کیا.اچھا بھلا ایلی ایلی لما الی اپنی کر کے کیوں نہ سبقتانی سے کیا مطلب؟ ابی ابی کر کے کیوں نہ پکارا ؟ عبرانی میں پڑا؟ امیل خدا کو کہتے ہیں.اس کے یہی معنے ہیں کہ رحم کر اور فضل کر اور مجھے ایسی بے سرو سامانی میں نہ چھوڑ ( یعنی میری حفاظت کر ) ملفوظات.جلد ۱۰ صفحه ۳۳۸ 44 اب ہم نہایت افسوس سے لکھتے ہیں کہ ایک نا سمجھ انگریز عیسائی نے اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ اسلام پر عیسائی مذہب کو یہ فضیلت ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ کا نام باپ بھی کی آیا ہے اور یہ نام نہایت پیارا اور دلکش ہے اور قرآن میں یہ نام نہیں آیا.مگر ہمیں تعجب حقیقت ہے کہ اس معترض نے اس تحریر کے وقت پر یہ خیال نہیں کیا کہ لغت نے کہاں تک اس

Page 128

11+ لفظ کی عزت و عظمت ظاہر کی ہے کیونکہ ہر یک لفظ کو حقیقی عزت اور بزرگی لغت سے ہی ملتی ہے اور کسی انسان کو یہ اختیار نہیں کہ اپنی طرف سے کسی لفظ کو وہ عزت دے جو لغت اس کو دے نہیں سکے اسی وجہ سے خدا تعالٰی کا کلام بھی لغت کے التزام سے باہر نہیں جاتا اور تمام اہل عقل اور نقل کے اتفاق سے کسی لفظ کی عزت اور عظمت ظاہر کرنے کے وقت اول لغت کی طرف رجوع کرنا چاہئے کہ اس زبان نے جس زبان کا وہ لفظ ہے یہ خلعت کہاں تک اس کو عطا کی ہے.اب اس قاعدہ کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر جب سوچیں کہ اب یعنی باپ کا لفظ لغت کی رو سے کس پایہ کا لفظ ہے تو بجز اس کے کچھ نہیں ہہ سکتے کہ جب مثلا ایک انسان فی الحقیقت دوسرے انسان کے نطفہ سے پیدا ہو مگر پیدا کرنے میں اس نطفہ انداز انسان کا کچھ بھی دخل نہ ہو تب اس حالت میں کہیں گے کہ یہ مان فلاں انسان کا اب یعنی باپ ہے اور اگر ایسی صورت ہو کہ خدائے قادر مطلق کی یہ تعریف کرنی منظور ہو جو مخلوق کو اپنے خاص ارادہ سے پیدا کرنے والا خود کمالات تک پہنچانے والا اور خود رحم عظیم سے مناسب حال اس کے انعام کرنے والا اور خود حافظ اور قیوم ہے تو لغت ہر گز اجازت نہیں دیتی کہ اس مفہوم کو اب یعنی باپ کے لفظ سے ادا کیا جائے بلکہ لغت نے اس کے لئے ایک دوسرا لفظ رکھا ہے جس کو رب کہتے ہیں جس کی اصل تعریف ابھی ہم لغت کی رو سے بیان کر چکے ہیں.اور ہم ہر گز مجاز نہیں کہ اپنی طرف سے لغت تراشیں بلکہ ہمیں انہیں الفاظ کی پیروی لازم ہے جو قدیم سے خدا کی طرف سے چلے آئے ہیں.پس اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ اب یعنی باپ کا لفظ خدا تعالیٰ کی اور رومی را نسبت استعمال کرنا ایک سوء ادب اور ہجو میں داخل ہے اور جن لوگوں نے حضرت مسیح کی نسبت یہ الزام گھڑا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کو اب کر کے پکارتے تھے اور در حقیقت جناب الہی کو اپنا باپ ہی یقین رکھتے تھے انہوں نے نہایت مکروہ اور جھوٹا الزام ابن مریم پر لگایا ہے کیا کوئی عقل تجویز کر سکتی ہے کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح ایسی نادانی کے مرتکب ہوئے کہ جو لفظ اپنے لغوی معنوں کی رو سے ایسا حقیر اور ذلیل ہو جس میں ناطاقتی اور کمزوری اور بے اختیاری ہریک پہلو سے پائی جائے وہی لفظ حضرت مسیح اللہ جل شانہ کی نسبت اختیار کریں ابن مریم علیہ السّلام کو یہ ہر گز اختیار نہیں تھا کہ اپنی طرف سے لغت تراشی کریں اور لغت تراشی بھی ایسی بیہودہ جس سے سراسر جہالت ثابت ہو.پس جس حالت میں لغت نے اب یعنی باپ کے لفظ کو اس سے زیادہ وسعت نہیں دی کہ کسی نر کا نطفہ مادہ خدا تعالیٰ کو باپ کہنا داخل

Page 129

111 کے رحم میں گرے اور پھر وہ نطفہ نہ گرانے والے کی کسی طاقت سے بلکہ ایک اور ذات کی قدرت سے رفتہ رفتہ ایک جاندار مخلوق بن جائے تو وہ شخص جس نے نطفہ گرایا تھا لغت کی رو سے اب یا باپ کے لفظ سے موسوم ہو گا.اور اب کا لفظ ایک ایسا حقیر اور ذلیل لفظ ہے کہ اس میں کوئی حصہ پرورش یا ارادہ یا محبت کا شرط نہیں.مثلا ایک بکرہ جو بکری پر جست کر کے نطفہ ڈال دیتا ہے یا ایک سلنڈ بیل جو گائے پر جست کر کے اور اپنی شہوات کا کام پورا کر کے پھر اس سے علیحدہ بھاگ جاتا ہے جس کے یہ خیال میں بھی نہیں ہوتا کہ کوئی بچہ پیدا ہو.یا ایک سور جس کو شہوات کا نہایت زور ہوتا ہے اور بار بار وه اس کام میں لگا رہتا ہے اور کبھی اس کے خیال میں بھی نہیں ہوتا کہ اس بار بار کے شہوانی جوش سے یہ مطلب ہے کہ بہت سے بچے پیدا ہوں اور خنزیر زادے زمین پر کثرت سے پھیل جائیں اور نہ اس کو فطرتی طور پر یہ یہ شعور دیا گیا ہے.تاہم اگر بچے پیدا ہو جائیں تو بلاشبہ سور وغیرہ اپنے اپنے بچوں کے باپ کو کے باپ کہلائیں گے.اب جبکہ اب لفظ یعنی باپ کے لفظ میں دنیا کی تمام لغتوں کی رو سے یہ معنی ہر گز مراد نہیں کہ وہ باپ نطفہ ڈالنے کے بعد پھر بھی نطفہ کے متعلق کار گذاری کرتا رہے تا بچہ پیدا ہو جائے یا ایسے کام کے وقت میں یہ ارادہ بھی اس کے دل میں ہو اور نہ کسی مخلوق کو ایسا اختیار دیا گیا ہے بلکہ باپ کے لفظ میں بچہ پیدا ہونے کا خیال بھی شرط نہیں اور اس کے مفہوم میں اس سے زیادہ کوئی امر ماخوذ نہیں کہ وہ نطفہ ڈال دے بلکہ وہ اسی ایک ہی لحاظ سے جو نطفہ ڈالتا ہے لغت کی رو سے اب یعنی باپ کہلاتا ہے تو کیونکر جائز ہو کہ ایسانا کارہ لفظ جس کو تمام زبانوں کا اتفاق ناکارہ ٹھہراتا ہے اس قادرِ مطلق پر بولا جائے جس کے تمام کام کامل ارادوں اور کامل علم اور قدرت کاملہ سے ظہور میں آتے ہیں اور کیونکر درست ہو کہ وہی ایک لفظ جو بکر اپر بولا گیا.بیل پر بولا گیا.سٹور پر بولا گیا.وہ خدا تعالیٰ پر بھی بولا جائے.یہ کیسی بے ادبی ہے جس سے نادان عیسائی باز نہیں آتے نہ ان کو شرم باقی رہی نہ حیاباتی رہی نہ انسانیت کی سمجھ باقی رہی.کفارہ کا مسئلہ کچھ ایسا ان کی انسانی قوتوں پر فالج کی طرح گرا کہ بالکل نکما اور بے حس کر دیا.اب اس قوم کے کفارہ کے بھروسہ پر یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ اچھا چال چلن بھی ان کے نزدیک بیہودہ ہے.حال میں یعنی ۲۱ جون ۱۸۹۵ء کو پرچہ نور افشاں لدھیانہ میں جو عیسائی مذہب کا ایک اصول کفارہ کی نسبت چھپا ہے وہ ایسا خطرناک ہے جو جرائم پیشہ لوگوں کو بہت ہی مدد دیتا ہے.اس کا ماحصل یہی ہے کہ ایک

Page 130

۱۱۲ بچے عیسائی کو کسی نیک چلنی کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ لکھا ہے کہ اعمال حسنہ کو نجات میں کچھ بھی دخل نہیں جس سے صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کوئی جز رضامندی الہی کی جو نجات کی جڑ ہے اعمال سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ کفارہ ہی کافی ہے.اب سوچنے والے سوچ سکتے ہیں کہ جبکہ اعمال کو اپنی رضامندی میں کچھ بھی دخل نہیں تو پھر عیسائیوں کا چال چلن کیونکر درست رہ سکتا ہے.جبکہ چوری اور زنا سے پر ہیز کرنا موجب ثواب نہیں تو پھر یہ دونوں فعل موجب مواخذہ بھی نہیں.اب معلوم ہوا کہ عیسائیوں کا بیباک ہو کر بد کاریوں میں پڑنا اسی اصول کی تحریک سے ہے بلکہ اس اصول کی بناء پر قتل و نیز حلف دروغی سب کچھ کر سکتے ہیں.کفارہ جو کافی اور ہر یک بدی کا مٹانے والا ہوا.حیف ایسے دین و مذہب پر.اب سمجھنا چاہئے کہ اب یا باپ کا لفظ جس کو ناحق بے ادبی کی راہ سے عیسائی نادان خدا تعالیٰ پر اطلاق کرتے ہیں لغات مشترکہ میں سے ہے یعنی ان عربی لفظوں میں سے ہے جو تمام ان زبانوں میں پائے جاتے ہیں جو عربی کی شاخیں ہیں اور تھوڑے تغیر و تبدل سے ان میں موجود ہیں چنانچہ در حقیقت فادر اور پتا اور باپ اور پدر وغیرہ اسی عربی لفظ کی خراب شدہ صورتیں ہیں.اور اگر یہ سوال ہو کہ پھر پہلی کتابوں نے کیوں اطلاق کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی کتابوں نے ب کا لفظ کیوں اول تو وہ تمام کتابیں محرف و مبدل ہیں اور ان کا ایسابیان جو حق اور حقیقت کے بر خلاف استعمال کیا ؟ ہے ہر گز پذیرائی کے لائق نہیں کیونکہ اب وہ کتابیں ایک گندے کیچڑ کی طرح ہیں جس سے پاک طبع انسان کو پر ہیز کرنا چاہئے.اور پھر اگر فرض بھی کر لیں کہ توریت میں بعض جگہ ایسے لفظ موجود تھے تو ممکن ہے کہ ان کے اور بھی معنے ہوں جو باپ کے معنے سے بالکل مختلف ہوں.کیونکہ الفاظ کے معنوں میں وسعت ہوا کرتی ہے.پھر اگر قبول بھی کریں کہ اس لغت کے ایک ہی معنے ہیں تو اس وقت یہ جواب ہو سکتا ہے کہ چونکہ بنی اسرائیل اور بعد میں ان کی اور شاخیں اس زمانہ میں نہایت تنزیل کی حالت میں تھیں اور وحشیوں کی طرح وہ زندگی بسر کرتی تھیں اور اس پاک اور کامل معنی کو نہیں سمجھتی تھیں جو رب کے مفہوم میں ہے اس لئے الہام الہی نے ان کی پست حالت کے موافق ایسے لفظوں سے ان کو سمجھایا جن کو وہ بخوبی سمجھ سکتے تھے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ توریت میں عالم معاد کی اچھی طرح تصریح نہیں کی گئی اور دنیا کے آراموں کی طمع دی گئی اور

Page 131

١١٣ دنیا کی آفتوں سے ڈرایا گیا کیونکہ اس وقت وہ قومیں عالم معاد کی تفاصیل کو سمجھ نہیں سکتی تھیں.پس جیسا کہ اس اجمال کا یہ نتیجہ ہوا کہ ایک قوم قیامت کی منکر یہود میں پیدا ہو گئی ایسا ہی باپ کے لفظ کا آخر کار یہ نتیجہ ہوا کہ ایک نادان قوم یعنی عیسائیوں نے ایک عاجز بندہ کو خدا بنا دیا مگر یہ تمام محاورات تنزل کے طور پر تھے.چونکہ ان کتابوں کی تعلیم محدود تھی اور خدا تعالیٰ کے علم میں وہ تمام تعلیمیں جلد منسوخ ہونے والی تھیں.اس لئے ایسے محاورات ایک سفلہ اور پست خیال قوم کے لئے جائز رکھے گئے اور پھر جب وہ کتاب دنیا میں آئی جو حقیقی نور دکھلاتی ہے تو اس روشنی کی کچھ حاجت نہ رہی جو تاریکی سے ملی ہوئی تھی اور زمانہ اپنی اصلی حالت کی طرف رجوع کر آیا اور تمام الفاظ اپنی اصلی حقیقت پر آگئے.یہی بھید تھا کہ قرآن کریم بلاغت فصاحت کا اعجاز لے کر کیونکہ دنیا کو سخت حاجت تھی کہ زبان کی اصل وضع کا علم حاصل ہو.پس قرآن کریم نے ہر یک لفظ کو اس کے محل پر رکھ کر دکھلا دیا اور بلاغت اور فصاحت کو ایسے طور سے کھول دیا کہ وہ بلاغت اور فصاحت دین کی دو آنکھیں بن گئیں.من الر حمان - روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۵۵ تا ۱۵۹ - حاشیه 96 لفظ باپ یا فادر کی مفہوم میں ہر گز محبت کے معنے ماخوذ نہیں.جس فعل کے شروع سے انسان یا کوئی اور حیوان باپ کہلاتا ہے اس وقت یہ خیل ہر گز نہیں ہوتا بلکہ باپ اور فادر کے محبت تو دیکھنے اور اس کرنے کے سے بعد میں رفتہ رفتہ پیدا ہوتی ہے لیکن ربوبیت کے معلوم میں محبت کے لئے محبت ابتداء ہی سے ایک لازمہ ہوتی ہے.منہ من الر حمان - روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۵۵- حاشیه در حاشیه معنے ماخوذ نہیں.١٩٨ خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین.جو رو.اپنی اولاد.اپنے نفس ، غرض ہر چیز ر اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لیا جاوے.چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے فاذکروا الله كذكركم آباءكم أو اشدّ ذكرًا معنی الله نصاری کا ابتلاء.تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اور سخت درجہ کی محبت سے یاد کرو.اب یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تعلیم نہیں دی کہ تم خدا کو باپ کہا کرو بلکہ اس لئے یہ سکھایا ہے کہ نصاری کی طرح دھو کہ نہ

Page 132

۱۱۴ لگے اور خدا کو باپ کر کے پکارا نہ جائے اور اگر کوئی کہے کہ پھر باپ سے کم درجہ کی محبت ہوئی تو اس اعتراض کے رفع کرنے کے لئے او اشدّ ذكرًا رکھ دیا.اگر او اشدّ ذكرًا نہ ہو تا تو یہ اعتراض ہو سکتا تھا.مگر اب اس نے اس کو حل کر دیا.جو باپ کہتے ہیں وہ کیسے گرے کہ ایک عاجز کو خدا کہہ اٹھے.بعض الفاظ ابتلا کے لئے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کو نصاری کا ابتلا منظور تھا.اس لئے ان کی کتابوں میں انبیاء کی یہ اصطلاح تھہر گئی.مگر چونکہ وہ حکیم اور علیم اس لئے پہلے ہی سے لفظ اب کو کثیر الاستعمال کر دیا.مگر نصاری کی بدقسمتی کہ جب مسیح نے یہ لفظ بولا تو انہوں نے حقیقت پر حمل کر لیا اور دھوکا کھا لیا.حالانکہ مسیح نے یہ کہہ کر کہ تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ تم الہ ہو اس شرک کو مٹانا چاہا اوران کو سمجھانا چاہا مگر نادانوں نے پرواہ نہ کی.اور ان کی اس تعلیم کے ہوتے ہوئے بھی ان کو ابن اللہ قرار دے ہی لملفوظات.جلد ۳ صفحہ ۱۸۸ ی کی ہے کہ خدا ایک ہے اور ایک ہے اور میرا تو یہ نہیں ہے کہ اگر انجیل اور قرآن کریم اور تمام صحف انبیاء بھی دنیا میں نہ ہوتے تو بھی خدا تعالیٰ کی توحید ت تھی کیونکہ اس کے نقوش فطرت انسانی میں موجود ہیں.خدا کے لئے بیٹا خدا کے لئے بیٹا تجویز تجویز کرنا گویا خدا تعالیٰ کی موت کا یقین کرنا ہے کیونکہ بیٹا تو اس لئے ہوتا ہے کہ کرنا گویا خدا تعالی کی موت کا یقین کر ہی وہ یاد گار ہو.اب اگر مسیح خدا کا بیٹا ہے تو پھر سوال ہو گا کہ کیا خدا کو مرنا ہے ؟ مختصر یہ ہے کہ عیسائیوں نے اپنے عقائد میں نہ خدا کی عظمت کا لحاظ رکھا اور نہ قوائے انسانی کی قدر کی ہے.اور ایسی باتوں کو مان رکھا ہے کہ جن کے ساتھ آسمانی روشنی کی تائید نہیں ہے.ملفوظات.جلدا صفحه ۳۳۱

Page 133

باب چهارم رد تثلیث لقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةً وَمَا مِنْ إِلَهِ إِلَّا إِلَهُ وَاحِدٌ وَإِن لَّمْ يَنتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيم سورة المائدة

Page 134

قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی صفت وحدہ لا شریک بتائی ہے.اس کا نقش انسانی فطرت اور دل میں موجود ہے اور دلائل قدرت ہے اس کی شہادت ملتی ہے بر خلاف اس کے انجیلی تثلیث کا نقش نہ دل میں ہے نہ قانون قدرت اس کا مؤید ہے.ملفوظات جلد ۲ صفحه ۵۹

Page 135

112 تثلیث کا عقیدہ بھی ایک عجیب عقیدہ ہے.کیا کسی نے سنا ہے کہ مستقل طور پر اور کامل طور پر تین بھی ہوں اور ایک بھی ہو اور ایک بھی کامل خدا اور تین بھی کامل خدا ایک تمین اور تیمن ہو.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۴۸ عقل کا فیصلہ تو ہمیشہ کلی ہوتا ہے.اگر عقل کی رو سے حضرت مسیح کے لئے داخل ایک.تثلیث ہو نا روا رکھا جائے تو پھر عقل اوروں کے لئے بھی امکان اس کا واجب کرے اوروں کے لئے بھی گی.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۵۰ امکان.خاصہ ہے.چونکہ نصاری کا فتنہ سب سے بڑا ہے اس واسطے اللہ تعالٰی نے ایک سورۃ قرآن شریف کی تو ساری کی ساری صرف ان کے متعلق خاص کر دی ہے.یعنی سورہ اخلاص اور کوئی احتیاج اقوم محلاثہ کا سورۃ ساری کی ساری کسی قوم کے واسطے خاص نہیں ہے.احد خدا کا اسم ہے اور احد کا مفہوم واحد سے بڑھ کر ہے.مسند کے معنی ہیں ازل سے غنی بالذات جو بالکل محتاج نہ ہو.اقنوم ثلاثہ کے ماننے سے وہ محتاج پڑتا ہے.ملفوظات.جلد ۲ صفحہ ۲۴۶ ۲۴۷ جوانجیل نے خدا تعالیٰ کی نسبت اعتقاد سکھایا ہے وہ اور بھی انسان کو اس سے متنفر کرتا ہے.عیسائیوں کا عقیدہ جو انجیل پر تھایا جاتا ہے یہ ہے کہ ”اقنوم ثانی جو ابن اللہ کہلاتا اپنینم ثلاثہ پر تبصرہ.ہے وہ قدیم سے اس بات کا خواہش مند تھا کہ کسی انسان کو بے گناہ پاکر اس سے ایسا تعلق

Page 136

رہے.پکڑے کہ وہی ہو جائے." سوالیسا انسان اس کو یسوع سے پہلے کوئی نہ ملا.اور نوع انسان کا ایک لمبا سلسلہ جو یسوع سے پہلے چلا آتا تھا اس میں اس صفت کا آدمی کوئی نہ پایا گیا.آخر یسوع پیدا ہوا اور وہ اس صفت کا آدمی تھا.لہذا اقنوم ثانی نے اس سے تعو یحیت پیدا کیا اور یسوع اور اقنوم ثانی ایک ہو گئے اور جسم ان کے لئے ایک لازمی صفت ٹھتری جو ابد الآباد تک کبھی منفک نہیں ہوگی اور اس طرح پر ایک جسمانی خدا بن گیا.یعنی یسوع اور دوسری طرف روح القدس بھی جسمانی طور پر ظاہر ہوا اور وہ کبوترین گیا.اب عیسائیوں کے نزدیک خدا سے مراد کبوتر اور یہ انسان ہے جو یسوع کہلاتا تھا.اور جو کچھ ہیں یہی دونوں ہیں.اور باپ کا وجود بجز ان کے کچھ بھی جسمانی طور پر نہیں.پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ " توحید نجات کے لئے کافی نہیں تھی جب تک اقنوم ثلا نوم ثانی مجسم ہو کر تولد کی معمولی راہ سے پیدا نہ ہوتا.اور اقنوم ثانی کا مجسم ہونا کافی نہیں تھا.جب تک اس پر موت نہ آتی اور موت کافی نہیں تھی جب تک اس مجسم اقنوم ثانی پر جو یسوع کہلاتا تھا تمام دنیا کی لعنت نہ ڈالی جاتی." پس تمام مدار عیسائیت کا ان کے خدا کی لعنتی موت پر ہے.غرض ان کے نزدیک خدا کا وجود ان کے لئے ہر گز مفید نہیں جب تک یہ تمام.مصیبتیں اور ذلتیں اس پر نہ پڑیں.پس ایسا خدا نہایت ہی قابل رحم ہے جس کو سائیوں کے لئے اس قدر مصیبتیں اٹھانی پڑیں.وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اقنوم خانی کا تعلق جو حضرت یسوع سے اتحاد اور عینیت کے طور سے تھا یہ پاک ہونے اور پاک رہنے کی شرط سے تھا.اور اگر وہ گناہ سے پاک نہ ہوتا یا آئندہ پاک نہ رہ سکتا تو یہ تعلقی بھی نہ رہتا." پس اس سے معلوم ہوا کہ یہ تعلق کسی ہے ذاتی نہیں ہے.اور اس قاعدہ کی رو سے فرض کر سکتے ہیں کہ ہر ایک شخص جو پاک رہے وہ بلا تامل خدا بن سکتا ہے.اور یہ کہنا کہ ” بجز یسوع کسی دوسرے شخص کا گناہ سے پاک رہنا ممتنع ہے." یہ دعوی بلا دلیل ہے اس لئے قابل تسلیم نہیں.عیسائی خود قائل ہیں کہ ملک صدق سالم بھی جو مسیح سے بہت عرصہ پہلے گزر چکا ہے گناہ سے پاک تھا.پس پہلا حق خدا بنے کا اس کو حاصل تھا.ایسا ہی عیسائی لوگ فرشتوں کا بھی کوئی گناہ ثابت نہیں کر سکتے پس وہ بھی بوجہ اولیٰ خدا بننے کے لئے استحقاق رکھتے ہیں.۱۱۸

Page 137

119 غرض جب کہ خدا بننے کا یہ قاعدہ ہے کہ کوئی بے گناہ ہو.تو عقل تجویز کرتی ہے کہ جس طرح یسوع کے لئے یہ اتفاق پیش آگیا کہ بقول عیسائیاں وہ ایک مدت تک گناہ نہ کر سکا یہ اتفاق دوسرے کے لئے بھی ممکن ہے.اور اگر ممکن نہیں تو کوئی دلیل اس بات پر قائم نہیں ہو سکتی کہ یسوع کے لئے کیوں ممکن ہو گیا اور دوسروں کے لئے کیوں غیر ممکن ہے.یسوع کی انسانیت کو من حیث الانسانیت اقنوم ثانی سے کچھ تعلق نہ تھا صرف اس اتفاق کے پیش آنے سے کہ وہ بقول عیسائیان ایک مدت تک گناہ سے بچ سکا اقوم خانی نے اس سے اتحاد کیا.سو اس اتحاد کی بنا ایک کسی امر ہے جس میں ہر ایک کسب کنندہ کا اشتراک ہے.اور ایک گروہ عیسائیوں کا جس میں عبداللہ انھم بھی داخل تھا یہ بھی کہتا ہے کہ اقنوم ثانی کا تمیں برس تک یسوع سے ہر گز تعلق نہ تھا صرف کبوتر کے نزول کے وقت سے وہ تعلق شروع ہوا.اس سے ضروری طور پر یہ ماننا پڑتا ہے کہ یسوع تمہیں برس گنہگار اور مرتکب معاصی رہا.کیونکہ اگر وہ اس عرصہ میں گناہ سے پاک ہوتا تو قاعدہ مذکورہ بالا کے رو سے لازم تھا کہ پہلے ہی اقنوم ثانی کا تعلق اتحادی اس سے ہو جاتا.اور اس جگہ ایک مخالف کہہ سکتا ہے کہ شاید یہی وجہ ہو کہ یسوع کی گذشتہ تمیں سال کی زندگی کی نسبت کسی پادری صاحب نے تفصیل دار سوانح کے لکھنے کے لئے قلم نہیں اٹھائی کیونکہ ان حالات کو قابل ذکر نہیں سمجھا.بہر حال یہ تمام دعوے ہی دعوے ہیں.ان تمام امور میں سے کسی امر کا ثبوت نہیں دیا گیا نہ کسی نے ثابت کر کے دکھلایا کہ یسوع نے ابتدائی عمر سے آخر تک کوئی گناہ نہیں کیا.اور نہ کسی نے یہ ثابت کیا کہ اس بے گناہی کی وجہ سے وہ خدا بن گیا.تعجب کہ اس خاص طرز کے خدائی کے لئے جو دنیا کی کثرت رائے کے مختلف اور مشرکانہ طریقوں سے مشابہ تھی کچھ بھی ثبوت پیش نہیں کیا گیا.اور ظاہر ہے کہ متفق علیہا عقیدہ دنیا میں یہی ہے کہ خدا موت اور تولد اور بھوکھ اور پیاس اور نادانی اور بجز یعنی عدم قدرت اور بختم اور تحتیز سے پاک ہے مگر یسوع ان میں سے کسی بات سے بھی پاک نہ تھا.اگر یسوع میں خدا کی روح تھی تو وہ کیوں کہتا ہے کہ ” مجھے قیامت کی خبر نہیں." اور اگر اس کی روح میں جو بقول عیسائیاں اقنوم ثانی سے عینیت رکھتی تھی خدائی پاکیزگی تھی تو وہ کیوں کہتا ہے کہ ”مجھے نیک نہ کہو." اور اگر اس میں قدرت تھی تو کیوں اس کی تمام رات کی دعا قبول نہ ہوئی اور کیوں اس کا اس نامرادی کے کلمہ پر خاتمہ ہوا کہ اس نے ایلی ایلی لما

Page 138

☐ ۱۲۰ سبقتنی " کہتے ہوئے جان دی.ہو.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۶۷ تا ۷۰ عیسائی صاحبوں کا یہ اعتقاد ہے کہ جو لوگ تسلیت کا عقیدہ اور یسوع کا کفارہ نہیں تین ممبران کمیٹں مانتے وہ ہمیشہ کے جہنم میں ڈالے جائیں گے.اور وہ اعتقاد جو خدا تعالیٰ نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے مسلمانوں کو سکھایا ہے وہ یہ ہے کہ بجز توحید کے نجات نہیں.یہی تو حید ہے جس کی رو سے تمام دنیا سے مواخذہ ہو گا خواہ قرآن ان کو نہ پہنچا کیونکہ یہ انسان کے دل میں فطرتی نقش ہے کہ اس کا خالق اور مالک اکیلا خدا ہے جس کے ساتھ کوئی شریک نہیں.اس توحید میں کوئی بھی ایسی بات نہیں جو زبر دستی منوانی پڑے کیونکہ انسانی دل کی بناوٹ کے ساتھ ہی اس کے نقوش انسان کے دل میں منقش کئے جاتے ہیں.مگر جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے غیر محدود خدا کو تین اقنوم میں یا چار اقنوم میں محدود کرنا اور پھر ہر ایک اقنوم کو کامل بھی سمجھنا اور ترکیب کا محتاج بھی اور پھر خدا پر یہ روا رکھنا کہ وہ ابتداء میں کلمہ تھا پھر وہی کلمہ جو خدا تا مریم کے پیٹ میں پڑا اور اس کے خون سے مجسم ہوا اور معمولی راہ سے پیدا ہوا اور سارے دکھ خسرہ چیچک دانتوں کی تکلیف جو انسان کو ہوتی ہیں سب اٹھائی.آخر کو جوان ہو کر پکڑا گیا اور صلیب پر چڑہایا گیا.ہر نہایت گندہ شرک ہے جس میں انسان کو خدا ٹھہرایا گیا ہے خدا اس سے پاک ہے کہ وہ کسی کے پیٹ میں پڑے اور مجسم ہو اور دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار ہو انسانی فطرت اس کو قبول نہیں کر سکتی کہ خدا پر ایسے دکھ کی مار اور یہ مصیبتیں پڑیں اور وہ جو تمام عظمتوں کا مالک اور تمام عزتوں کا سرچشمہ ہے اپنے لئے یہ تمام ذلتیں رکھے.عیسائی اس بات کو مانتے ہیں کہ خدا کی اس رسوائی کا یہ پہلا ہی موقعہ ہے اور اس سے پہلے اس قسم کی ذلتیں خدا نے کبھی نہیں اٹھائیں.کبھی یہ امر وقوع میں نہیں آیا کہ خدا بھی انسان کی طرح کسی عورت کے رحم میں نطفہ میں مخلوط ہو کر قرار پکڑ گیا ہو جیسے کہ لوگوں نے خدا کا نام سنا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ بھی انسان کی طرح کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو یہ تمام وہ باتیں ہیں جن کا عیسائیوں کو خود اقرار ہے اور اس بات کا بھی اقرار کو اس ہے کہ گو پہلے یہ تین اقنوم تین جسم علیحدہ علیحدہ نہیں رکھتے تھے مگر اس خاص زمانہ سے جس کو اب ۱۸۹۶ برس جاتا ہے تینوں اقنوم کے لئے تین علیحدہ علیحدہ جسم مقرر ہو گئے

Page 139

بر بنایا.دیکھو توربیت شکل ہے جو آدم کی کیونکہ اس.باپ کی وہ شکا پیدائش باب ! آیت ۲۷ اور بیٹا یسوع کی شکل پر مجسم ہوا دیکھو یو حناباب ! آیت اور روح القدس کبوتر کی شکل پر متشکل ہوا دیکھو متی باب ۳ آیت ۱۲.اب جس نے عیسائیوں پر کے ان تین مجستم خداؤں کا درشن کرنا ہو اور ان کی جسمانی تثلیث کا نقشہ دیکھنا منظور ہو تو ہوادیکھو ہم یسوع کے شاگردوں کو کچھ ضرور نہیں کہ ان کی طرف التجالے جائے....ان کے تین مجستم خداؤں کا درشن کرا دیتے ہیں اور ان کے سہ گوشتہ متلیٹی خدا کو دکھلا دیتے ہیں چاہتے کہ اس کے آگے جھکیں اور سیس نوادیں اور وہ یہ ہے جس کو ہم نے عیسائیوں کی شائع کردہ تصویروں سے لیا ہے.عیسائیوں کا مثلث خدا اور اس کے تین ممبران کمیٹی جو اقنوم کہلاتے ہیں روح القدس شورے کی مشکل پر جیسم بیٹا آور کی شکل پروختیم باپ ۱۲۱

Page 140

۱۲۲ ۱۰۵ یہ تینوں مجسم خدا عیسائیوں کے زعم میں ہمیشہ کے لئے مجسم اور ہمیشہ کے لئے علیحدہ علیحدہ وجود رکھتے ہیں.اور پھر بھی یہ تینوں مل کر ایک خدا ہے لیکن اگر کوئی بتلا سکتا ہے تو ہمیں بتلاوے کہ باوجود اس دائمی تجستم اور تغیر کے یہ تینوں ایک کیونکر ہیں.بھلا ہمیں کوئی ڈاکٹر مارٹن کلارک اور پادری عماد الدین اور پادری ٹھاکر داس کو باوجود ان کے علیحدہ علیحدہ جسم کے ایک کر کے تو دکھلاوے.ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ اگر تینوں کو کوٹ کر بھی بعض کا گوشت بعض کے ساتھ ملا دیا جاوے پھر بھی جن کو خدا نے تین بنایا تھا ہر گز ایک نہیں ہو سکیں گے.پھر جب کہ اس فانی جسم کے حیوان باوجود امکان تحلیل اور تفرق جسم کے ایک نہیں ہو سکتے پھر ایسے تین مجستم جن میں بموجب عقیدہ عیسائیاں تحلیل اور تفریق جائز نہیں کیونکر ایک ہو سکتے ہیں.یہ کہنا بیجا نہیں ہو گا کہ عیسائیوں کے یہ تین خدا بطور تین ممبر کمیٹی کے ہیں اور بزعم ان کے تینوں کی اتفاق رائے سے ہر ایک حکم نافذ ہوتا ہے یا کثرت رائے پر فیصلہ ہو جاتا ہے گویا خدا کا کارخانہ بھی جمہوری سلطنت ہے اور گویا ان کے گاڈ صاحب کو بھی شخصی سلطنت کی لیاقت نہیں.تمام مدار کو نسل پر ہے.غرض عیسائیوں کا یہ مرکب خدا ہے جس نے دیکھنا ہو دیکھ لے.پادری صاحبان ایسے خدا والے مذہب پر تو ناز کرتے ہیں.لیکن اسلام جیسے مذہب کی جو ایسی خلاف عقل باتوں سے پاک ہے تو ہین اور تحقیر کر رہے ہیں اور دن رات یہیں شغل ہے کہ اپنے دجالی فریبوں سے خدا کے پاک اور صادق نبی کو کاذب ٹھہر اویں اور بری بری تصویروں میں اس نورانی شکل کو دکھلاویں.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۳۴ تا ۳۶ عیسائی صاحبان اس بات کے اقراری ہیں کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کامل خدا ہیں.جن کے اندر چار روحیں موجود ہیں.ایک بیٹے کی.دوسرے تثلیث یا تخمیں؟ باپ کی.تیسری روح القدس کی.چوتھی انسان کی.اور یہ مربع خدا ہمیشہ کے لئے مربع و گا.بلکہ اس کو مخمس کہیں تو بجا ہے.کیونکہ اس کے ساتھ جسم بھی ہمیشہ ہی رہے تک اس بات کا جواب نہیں دیا گیا کہ اس خدا کا وہ جسم جو ختنہ کے وقت اس سے علیحدہ کیا گیا تھا.اور وہ جسم جو تحلیل ہوتا رہا.اور یا ہمیشہ ناخنوں اور بالوں کے گا.

Page 141

۱۲۳ کٹانے کی وجہ سے کم ہوتا رہا.کیا وہ بھی کبھی اس جسم کے ساتھ شامل کیا جائے گا.یا ہمیشہ کے لئے اس کو داغ جدائی نصیب ہوا.ہر ایک عقلمند کو معلوم ہے کہ یہ علم طبعی کا مسلم اور مقبول اور تجربہ کردہ مسئلہ ہے کہ تین برس تک پہلاجسم تحلیل پا کر نیا جسم اس کی جگہ آجاتا ہے.اور پہلے ذرات الگ ہو جاتے ہیں.پس اس حساب سے تینتیس برس کے عرصہ میں حضرت مسیح کے گیارہ جسم تحلیل پائے ہوں گے اور گیارہ نئے جسم آئے ہوں گے.اب طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ گیارہ مفقود شده جسم پھر حضرت مسیح کے موجودہ جسم کے ساتھ شامل ہو جائیں گے یا نہیں.اور اگر نہیں شامل ہوں گے تو کیا بوجہ کسی گناہ کے وہ علیحدہ رکھنے کے لائق تھے یا کسی اور وجہ سے علیحدہ کئے گئے.اور اس ترجیح بلا مرجح کا کیا سبب ہے.اور کیوں جائز نہیں کہ اس موجودہ جسم کو دور کر کے وہی پہلے جسم حضرت مسیح کو دیئے جائیں.اور کیا وجہ کہ جب کہ گیارہ دفعہ اس بات کا تجربہ ہوچکا ہے کہ حضرت مسیح تمام انسانوں کی طرح تین برس کے بعد نیا جسم پاتے رہے ہیں اور تینتیس برس تک گیارہ نئے جسم پاچکے ہیں.تو پھر کیوں اب باوجود دو ہزار برس گذرنے کے وہی پرانا جسم ان کے ساتھ لازم غیر منفک رہا.اگر اس جسم کے غیر فانی بننے کی وجہ ان کی خدائی ہے تو ان پہلے دنوں میں بھی تو خدائی موجود تھی.جبکہ ہر ایک تین برس کے بعد پہلا چولہ جسم کا وہ اتارتے رہے ہیں.اور وہ جسم جو خدائی کا ہمسایہ تھا.خاک و غبار میں ملتا رہا.تو کیوں یہ موجودہ جسم بھی ان سے الگ نہیں ہوتا.پھر یہ بھی ذرا سوچو که انسان کے جسم کے پہلے ذرات اس سے الگ ہو جاتا تو کوئی غیر معمولی بات نہیں.بلکہ رحم سے نکلتے ہی ایک حصہ اس کے جسم کے زواید کا الگ کرنا پڑتا ہے اور ناخن اور بال ہمیشہ کٹانے پڑتے ہیں.اور بسا اوقات باعث بیماری بہت دبلا ہو جاتا ہے.اور پھر کھانے پینے سے نیا جسم آ جاتا ہے.مگر خدا کے گیارہ جسم اس سے الگ ہو جائیں.اس میں بیشک خدا کی بہتک ہے ہاں جیسا کہ چاروں روحوں کے عقیدہ میں ایک راز تسلیم کیا گیا ہے.اگر اس جگہ بھی یہی جواب دیا جائے کہ اس میں بھی کوئی راز ہے.تو پھر بحث کو ختم کرنا پڑتا ہے.مگر بار بار راز کا بہانہ پیش کیے بنا ایک بناوٹ اور کمزوری کی نشانی ہے.پھر دوسرا تعجب یہ ہے کہ اس عمیس کا نام تثلیث کیوں رکھا گیا ہے جبکہ بموجب عیسائی عقیدہ کے چاروں رو میں میچ کے جسم میں ابدی اور غیر فانی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی.اور انسانی روح بھی باعث غیر فانی ہونے کے اس مجموعہ سے کبھی الگ نہیں ہوگی اور

Page 142

نہ کبھی جسم الگ ہو گا.تو پھر یہ تو سختمنیں ہوئی نہ کہ تثلیت.اب ظاہر ہے کہ واضعان تثلیث سے یہ ایک بڑی ہی غلطی ہوئی ہے.جو انہوں نے سخھینس کو تثلیث سمجھ لیا.مگر اب بھی یہ غلطی درست ہو سکتی ہے.اور جیسا کہ گذشتہ دنوں میں تثلیث کے لفظ کی نسبت ثالوث تجویز کیا گیا تھا.اب بجائے ثالوث کے تخمیس تجویز ہو سکتی ہے.غلطی کی اصلاح ضروری ہے.مگر افسوس کہ اس پانچ پہلو والے خدا کی کچھ نہ کچھ مرمت ہی ہوتی رہتی ہے.k نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۷۶ تا ۳۷۸ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب فرماتے ہیں.”جو ہم جسمانی چیز کو جو مظہر اللہ تھی اللہ نہیں مانتے.اور ہم نے ابن اللہ کو جسم نہیں مانا.ہم تو اللہ کو روح جانتے ہیں.صاحب موصوف کا یہ بیان بہت پیچیدہ اور دھوکہ دینے والا ہے.صاحب موصوف کو صاف لفظوں میں کہنا چاہئے تھا کہ ہم حضرت عیسی کو خدا جانتے ہیں اور ابن اللہ مانتے ہیں.کیونکہ یہ بات تو ہر ایک شخص سمجھتا اور جانتا ہے کہ جسم کو ارواح کے ساتھ ایسا ضروری تلازم نہیں ہے کہ تا جسم کو حصہ دار کسی شخص کا ٹھہرایا جائے.مثلاً انسان کو جو ہم انسان جانتے ہیں تو کیا بوجہ اس کے ایک خاص جسم کے جو اس کو حاصل ہے انسان سمجھا جاتا ہے.ظاہر ہے کہ یہ خیال تو بہ بداہت باطل کیونکہ جسم ہمیشہ معرض تحلیل میں پڑا ہوا ہے.چند برس کے بعد گویا پہلا جسم دور کوئی ہو کر ایک نیا جسم آ جاتا ہے.اس صورت میں حضرت مسیح کی کیا خصوصیت ہے.انسان بھی باعتبار جسم کے انسان نہیں ہے بلکہ باعتبار روح کے انسان کہلاتا ہے.اگر جسم کی شرط ضروری ہوتی تو چاہئے تھا کہ مثلاً زید جو ایک انسان ہے ساٹھ برس کی عمر پانے کے بعد زید نہ رہتا بلکہ کچھ اور بن جاتا.کیونکہ ساٹھ برس کے عرصہ میں اس نے کئی جسم بدلے.یہی حال حضرت مسیح کا ہے.جو جسم مبارک ان کو پہلے ملا تھا جس کے ساتھ انہوں نے تولد پایا تھا.وہ تو نہ کفارہ ہو سکا اور نہ کسی کام آیا.بلکہ قریباً تیس برس کے ہو کر انہوں نے ایک اور جسم پایا اور اسی جسم کی نسبت خیال کیا گیا کہ گویاوہ صلیب پر چڑھایا گیا اور پھر ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کے داہنے ہاتھ روح کے ساتھ شامل ہو کر بیٹھا ہے.اب جبکہ صاف اور صریح طور پر ثابت ہے کہ جسم کو روح کے صفات اور ۱۲۴

Page 143

۱۲۵ القاب سے کچھ تعلق نہیں.اور انسان ہو یا حیوان ہو وہ باعتبار اپنی روح کے انسان یا حیوان کہلاتا ہے اور جسم ہر وقت معرض متحلل میں ہے تو اس صورت میں اگر حضرات عیسائی صاحبان کا یہی عقیدہ ہے کہ مسیح در حقیقت خدا تعالیٰ ہے.تو مظہر اللہ کہنے کی کیا اگر میں خدا ہے تو اسے ضرورت ہے.کیا ہم انسان کو مظہر انسان کہا کرتے ہیں.ایسا ہی اگر حضرت مسیح کی روح مظفر اللہ کہنے کی کیا ضرورت ہے ؟ انسانی روح کی سی نہیں ہے اور انہوں نے مریم صدیقہ کے رحم میں اس طریق اور قانون قدرت سے روح حاصل نہیں کی جس طرح انسان حاصل کرتے ہیں.اور جو طریق طبابت اور ڈاکٹری کے ذریعہ سے مشاہدہ میں آچکا ہے.تو اول تو یہ ثبوت دینا چاہئے کہ ان کے جنین کا نشود نما پانا کسی نرالے طریق سے تھا اور پھر بعد اس کے اس عقیدہ کو چھپ چھپ کر خوف زدہ لوگوں کی طرح اور پیرایوں اور رنگوں میں کیوں ظاہر کریں.بلکہ صاف کہہ دینا چاہئے کہ ہمارا خدا اسیح ہے اور کوئی دوسرا خدا نہیں ہے.جس حالت میں خدا اپنی صفات کاملہ میں تقسیم نہیں ہو سکتا اور اگر اس کی صفات قامتہ اور کاملہ میں سے ایک صفت بھی باقی رہ جائے تب تک خدا کا لفظ اس پر اطلاق نہیں کر سکتے.تو اس صورت میں میری سمجھ میں نہیں آسکتا کہ تین کیونکر ہو گئے.جب آپ صاحبوں نے اس بات کو خود مان لیا اور تسلیم کر لیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے لئے ضروری ہے کہ وہ مستجمع جمیع صفات کاملہ ہو تو اب یہ تقسیم جو کی گئی ہے کہ ابن اللہ کامل خدا.اور باپ کامل خدا اور روح القدس کامل خدا اس کے کیا معنی ہیں اور کیا وجہ ہے کہ یہ تین ہوں کی تفریق چاہتی ہے کہ کسی صفت کی نام رکھتے جاتے ہیں.کیونکہ تفریق ناموں کی اس بات کو چاہتی ہے کہ کسی صفت کی کمی و کی ربیعی بود بیشی ہو.مگر جبکہ آپ مان چکے کہ کسی صفت کی کمی و بیشی نہیں تو پھر وہ تینوں اقنوم میں مابہ الامتیاز کون ہے جو ابھی تک آپ لوگوں نے ظاہر نہیں فرمایا.جس امر کو آپ مالیہ الامتیاز قرار دیں گے وہ بھی منجملہ صفات کاملہ کے ایک صفت ہو گی جو اس ذات میں پائی جانی چاہئے جو خدا کہلاتا ہے.اب جبکہ اس ذات میں پائی گئی جو خدا اقرار دیا گیا تو پھر اس کے مقابل پر کوئی اور نام تجویز کرنا یعنی ابن اللہ کہنا یا روح القدس کہنا بالکل لغو اور بیہودہ ہو جائیگا.خداوہ ذات ہے جو مستجمع جمیع صفات کاملہ ہے اور غیر کا محتاج نہیں اور اپنے کمال میں دوسرے کا محتاج نہیں.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۰۵ تا ۱۰۶

Page 144

جبکہ یہ تینوں شخص اور تینوں کامل اور تینوں میں ارادہ کرنے کی صفت موجود ہے.اب ارادہ کرنے والا این ارادہ کرنے والا روح القدس ارادہ کرنے والا.تو پھر ہمیں سمجھاؤ کہ باوجود اس حقیقی تفریق کے اتحاد ماہیت کیونکر اور نظیر بے حدی اور بے نظیری کی اس مقام سے کچھ تعلق نہیں رکھتی کیونکہ وہاں حقیقی تفریق قرار نہیں دی بلوجود حقیقی تفریق کے اتحاد ماہیت کیونکر گئی..جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۷۸ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح کی روح مخلوق تھی اور جسم بھی مخلوق تھا اور خدا تعالی اس کی اس کی روح اور اس کی طرح ان سے تعلق رکھتا تھا جیسا کہ وہ ہر جگہ موجود ہے یہ فرمانا ڈپٹی صاحب کا مجھے سمجھ جسم مخلوق ہیں ؟ نہیں آتا جبکہ حضرت مسیح ترے انسان ہی تھے اور ان میں کچھ بھی نہیں تھاتو پھر خدا تعالیٰ کا تعلق اور خدا تعالیٰ کا موجود ہونا ہر ایک جگہ پایا جاتا ہے.پھر باوجود اس کے آپ اس بات پر بعد میں ہوئے ؟ یا نظر الہ ہیں؟ زور دیتے ہیں کہ حضرت مسیح مظہر اللہ ہیں.میں سوچتا ہوں کہ یہ مظہر اللہ کیسے کی نظر اللہ نزول روح ہوئے.اس سے تو لازم آیا کہ ہر ایک چیز مظہر اللہ ہے.پھر میرا یہ سوال ہے کہ کیا یہ القدس سے قبل تھے یا مظہر اللہ ہو نا روح القدس کے نازل ہونے سے پہلے ہوا یا روح القدس کے پیچھے ہوا.اگر پیچھے ہوا تو پھر آپ کی کیا خصوصیت رہی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ ہم یہ نہیں مانتے کہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے لہذا اس میں وزن کیونکر ہو.میرا جواب ہے کہ بیٹا یعنی حضرت عیسی کا اقنوم مجسم ہونا ثابت ہے کیونکہ لکھا ہے کہ کلام مجسم ہوا اور روح القدس بھی مجسم تھا کیونکہ لکھا ہے کہ کبوتر کی شکل میں اترا.اور آپ کا خدا بھی مجسم ہے کیونکہ یعقوب سے کشتی کری اور دیکھا بھی گیا اور بیٹا اس کے داہنے ہاتھ جا بیٹھا.پھر آپ اپنی کثرت فی الوحدت کا ذکر کرتے ہیں مگر مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کثرت حقیقی اور وحدت حقیقی کیونکر ایک جگہ جمع ہو سکتی ہیں اور ایک کو اعتباری ٹھہرانا آپ کا مذہب نہیں.اس جگہ میں یہ بھی پوچھتا ہوں کہ حضرت مسیح جو مظہر اللہ ٹھہرائے گئے وہ ابتداء مظہریت دائی تھی یا سے اخیر وقت تک مظہر اللہ تھے اور دائمی طور پر ان میں مظہر نیت پائی جاتی تھی یا اتفاقی اور کبھی کبھی.اگر دائمی تھی تو پھر آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ حضرت مسیح کا علم الغیب ہونا اور قادر وغیرہ کی صفات ان میں پائے جانا یہ دائمی طور پر تھا حالانکہ انجیل شریف اس کی مکذب ہے.مجھے بار بار بیان کرنے کی حاجت نہیں.اتفاقی؟

Page 145

۱۲۷ با جگہ یہ بھی مجھے پوچھنا پڑا کہ جس حالت میں بقول آپ کے حضرت مسیح میں دو روحیں نہیں صرف ایک روح ہے جو انسان کی روح ہے جس میں الوہیت کی ذرہ بھی آمیزش نہیں.ہاں جیسے خدا تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور جیسے کہ لکھتا ہے کہ یوسف میں اس کی روح تھی.حضرت مسیح کے ساتھ بھی موجود ہے تو پھر حضرت مسیح اپنی ماہیت ذاتی کے لحاظ سے خدا تعالی این کے ساتھ کیونکر دوسرے اقنوم ٹھہرے.اور یہ بھی دریافت طلب ہے کہ حضرت مسیح کا آپ بھی موجود ہے اپنا سیچ اپنی ماہیت میں صاحبوں کی نظر میں دوسرا اقنوم ہونا یہ دوری ہے یا دائگی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ وہ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم انتقام نہ لو.میں تعجب کرتا ہوں کہ انتقامی شریعت یعنی توربیت تو خود آپ کی مسلمات میں سے ہے پھر کیونکر آپ انتقام سے گریز کرتے ہیں اور اس بات کا مجھے ابھی تک آپ کے منہ سے جواب نہیں ملا کہ جس حالت میں تین اقنوم صفات کاملہ اقنوم میں برابر درجہ کے ہیں تو ایک کامل اقنوم کے موجود ہونے کے ساتھ جو جمیع صفات کا ملہ ایک کال اقوم جو میع صفات کاملہ پر محیط ہے پر محیط ہے اور کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں کیوں دوسرے اقنوموں کی ضرورت ہے.اور کے ہوتے ہوئے پھر ان کاملوں کے ملنے کے بعد یا ملنے کے لحاظ سے جو اجتماعی حالت کا ایک ضروری نتیجہ دوسرے اقوموں کی کیا ضرورت ہے ؟ ہونا چاہئے وہ کیوں اس جگہ پیدا نہیں ہوا.یعنی یہ کیا سبب ہے کہ باوجودیکہ ہر ایک اقنوم تمام کمالات مطلوبہ الوہیت کا جامع تھا پھر ان تینوں جامعوں کے اکٹھا ہونے سے الوہیت میں کوئی زیادہ قوت اور طاقت نہ بڑھی.اگر کوئی بڑھی ہے اور مثلاً پہلے تینوں اقوموں کے جمع کامل تھی پھر ملنے سے یا ملنے کے لحاظ سے اکمل کہلائے یا مثلاً پہلے قادر تھی اضافہ نہ ہوا.اور پھر ملنے کے لحاظ سے اقدر نام رکھا گیا.یا پہلے خالق تھی اور پھر ملنے کے لحاظ سے خلاق یا اخلق کہا گیا.تو براہ مہربانی اس کا ثبوت دینا چاہئے.نہ آپ دعوی انجیل کے الفاظ سے پیش کرتے ہیں اور نہ دلائل معقولی انجیل کے رو سے بیان فرماتے ہیں.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۱۰ تا ۲۱۲ - پھر ڈپٹی صاحب فرماتے ہیں کہ ”بے حدی سے خالی ہونا تو کسی کا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ مسیح اس سے خالی رہے یعنی روح القدس کے نزول سے پہلے بھی مظہر اللہ ہی تھا کیونکہ عام معنوں سے تو تمام مخلوقات مظہر اللہ ہے ".جواب میں کہتا ہوں کہ آپ کا اب بھی وہی اقرار ہے کہ خاص طور پر مسیح مظہر اللہ نزول روح القدس کے بعد ہوئے اور ہونے سے طاقت میں

Page 146

۱۲۸ پہلے اوروں کی طرح آپ تھے.اور پھر ڈپٹی صاحب موصوف تین اقنوم کا ذکر فرماتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ یہ آپ کا ذکر بے ثبوت ہے آپ نے اس پر کوئی عقلی دلیل ہر ایک نبوت کے نہیں دی.اور یوں تو ہر ایک نبوت کے سلسلہ میں تین جزوں کا ہونا ضروری ہے اور آپ سلسلہ میں تین جزوں کا ہونا ضروری ہے.صاحبوں کی یہ خوش فہمی ہے کہ ان کا نام تین اقنوم رکھا.روح القدس اسی طرح حضرت نازل ہوا جس طرح قدیم سے نبیوں پر نازل ہوتا تھا.نئی بات کون سی ی پر جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ ۲۳۹، ۲۴۰ جنگ مقدس کے مباحثہ میں عیسائیوں سے بڑا بھاری مطالبہ یہ تھا کہ وہ ابن مریم کی خدائی کو عقل اور نقل کی رو سے ثابت کریں.سو عقل تو دور سے ایسے عقیدہ پر نفرین کرتی تھی.اس لئے انہوں نے عقل کا نام ہی نہ لیا.کیونکہ عقل اسلامی توحید تک ہی تعلمت عقل و نقل سے گواہی دیتی ہے اور اسی لئے تمام عیسائی اس بات کو مانتے ہیں کہ اگر ایک گروہ ایسے کسی علمیت نہیں.جزیرہ کا رہنے والا ہو جس کے پاس نہ قرآن پہنچا ہو اور نہ انجیل اور نہ اسلامی توحید پہنچی ہو اور نہ نصرانیت کی تشکیت، ان سے صرف اسلامی توحید کا مواخذہ ہو گا.جیسا کہ پادری فنڈل نے میزان الحق میں یہ صاف اقرار کیا ہے.پس لعنت ہے ایسے مذہب پر جس کے اصل الاصول کی سچائی پر عقل گواہی نہیں دیتی.اگر انسان کے کانشنس اور خداداد عقل میں متثلیث کی ضرورت فطرتاً مرکوز ہوتی تو ایسے لوگوں کو بھی ضرور تثلیث کا مواخذہ ہو تا جن تک تثلیث کا مسئلہ نہیں پہنچا.حالانکہ عیسائی عقیدہ میں بالاتفاق یہ بات داخل ہے کہ جن لوگوں تک تثلیث کی تعلیم نہیں پہنچی ان سے صرف توحید کا مواخذہ ہو توحید کے نقوش انسانی گا.اس سے ظاہر ہے کہ توحید ہی وہ چیز ہے جس کے نقوش انسان کی فطرت میں مرکوز فطرت میں مرکوز ہیں.ہیں.باقی رہا یسوع کی خدائی کو منقولات سے ثابت کرنا.سوجنگ مقدس میں آئقم مقتول ہر گز ثابت نہ کر سکا کہ یہی تعلیم جو انجیل کے حوالہ سے اب ظاہر کی جاتی ہے موسیٰ کی توریت میں موجود ہے.ظاہر ہے کہ اگر باپ بیٹے روح القدس کی تعلی د دوسرے لفظوں میں تثلیث کہلاتی ہے.بنی اسرائیل کو دی جاتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ سب کے سب اس کو بھول جاتے جس تعلیم کو موسیٰ نے چھ سات لاکھ یہود کے سامنے بیان

Page 147

۱۲۹ کیا تھا اور بار بار اس کے حفظ رکھنے کے لیے تاکید کی تھی اور پھر حسب زیم عیسائیاں متواتر خدا کے تمام نبی یسوع کے زمانہ تک اس تعلیم کو تازہ کرتے آئے ایسی تعلیم یہود کو کیونکر بھول سکتی تھی." کیا یہ بات ایک محقق کو تعجب میں نہیں ڈالتی کہ وہ تعلیم جو لاکھوں یہودیوں کو دی گئی تھی اور خدا کے نبیوں کی معرفت ہر صدی میں تازہ کی گئی تھی جو اصل مدار نجات تھی اس کو یہود کے تمام فرقوں نے بھلا دیا ہو.حلانکہ یہود اپنی تالیفات میں صاف گواہی دیتے ہیں کہ ایسی تعلیم ہمیں کبھی نہیں ملی.اور نہیں ماننا پڑتا ہے کہ یہود اس بات میں ضرور کچے ہیں.کیونکہ اگر تنزل کے طور پر یہ بھی فرض کر لیں کہ صرف یسوع کے زمانہ تک یہود میں تشکیث کی تعلیم پر عمل تھا.تب بھی یہ فرض صریح باطل ٹھہرتا ہے.کیونکہ اگر ایساعمل ہوتا تو ضرور اس کے آثار یہود کی منقولات اور تالیفات میں باقی رہ جاتے.اور غیر ممکن تھا کہ یہود یک دفعہ اس تعلیم سے روگردان ہو جاتے کہ جو تعامل سے روگردان ہو جاتے کہ جو تعامل کے طور پر برابر ان میں چلی آئی تھی.اور اگر کسی پیش گوئی میں یہود کو خبر دی جاتی کہ ایک خدا بھی عورت کے پیٹ سے پیدا ہونے والا ہے تو پیش گوئی کے ایسے مفہوم سے جو نبیوں کی معرفت سبق کے طور پر ان کو ملا تھا ہر گز انکار نہ کرتے.ہاں یہ ممکن تھا کہ یہ عذر پیش کرتے کہ ایک خدا ایک عورت کے پیٹ میں سے نکلنے والا تو ضرور ہے مگر وہ خدا ابن مریم نہیں ہے بلکہ وہ کسی دوسرے وقت میں آئیگا.حالانکہ ایسے عقیدہ پر یہود ہزار لعنت بھیجتے ہیں.پس میں پوچھتا ہوں کہ جنگ مقدس میں آتھم نے ان باتوں کا کیا جواب دیا ہے.کیا یہود کی گواہی سے ثابت کیا کہ نبیوں سے یہی تعلیم ان کو ملی تھی.یا نبیوں کی معرفت جو پیش گوئیوں کے معنے ان کو سمجھائے گئے تھے وہ یہی معنے ہیں.سچ ہے کہ آتھم اور اس کے ہم مشربوں نے بائبل میں سے چند پیش گوئیاں پیش کی تھیں مگر وہ ہرگز ثابت نہ کر سکے کہ یہود جو وارث توریت کے ہیں.وہ یہی معنے کرتے ہیں.صرف تاویلات رکیکہ پیش کیں.مگر ظاہر ہے کہ صرف خود تراشیدہ تاویلات سے ایسا بڑا دعولی جو عقل اور نقل کے برخلاف ہے ثابت نہیں ہو سکتا.مثلاً یہ لکھنا کہ " عمانوامل نام رکھنا " یہ یسوع کے حق میں پیش گوئی ہے.حلانکہ یہود نے بڑی صفائی سے ثابت کر دیا ہے کہ یسوع کی پیدائش سے مدت

Page 148

لئے جاتے ہیں ؟ پہلے یہ پیش گوئی ایک اور لڑکے کے حق میں پوری ہو چکی ہے.اور مثلاً یہ کہنا کہ الوہیم کا لفظ جو جمع ہے تثلیت پر دلالت کرتا لفظ الوہیم سے صرف تین شخص ہی کیوں مراد ہے.حالانکہ یہود نے کھلے طور پر ثابت کر دیا ہے کہ الو ہیم کالفظ توریت میں فرشتہ پر بھی پولا گیا ہے.اور ان کے نبی پر بھی اور بادشاہ پر بھی.اور لفظ الو ہیم سے صرف تین شخص ہی کیوں مراد لئے جاتے ہیں کیونکہ جمع کا صیغہ تین سے زیادہ سینکڑوں ہزاروں پر بھی تو دلالت کرتا ہے.سو ان بے ہودہ تاویلات سے بجز اپنی پردہ دری کرانے کے اور کیا آتھم کے لئے نتیجہ نکلا تھا.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۴ تا ۶ حضرات عیسائی صاحبان کا یہ عقیدہ ہے کہ باپ بھی کامل اور بیٹا بھی کامل روح تین چیزیں تین تین سیر القدس بھی کامل.اب جب تینوں کامل ہوئے تو ان تینوں کے ملنے سے اکمل ہونا فرض کی جائیں تو وہ سب مل کرو میں ہوں چاہئے کیونکہ مثلاً جب تین چیزیں تین تین سیر فرض کی جائیں تو وہ سب مل کر گی.١١٢ و سیر ہوں گی.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۹۶ بعض وقت پادری لوگ عیسوی مذہب کی عظمت دل نشین کرانے کے واسطے ایسی مصنوعات سے کام لیتے ہیں.ہمارے نزدیک اس کا معیار یہ ہے کہ اگر اس صحیفہ میں ابتداء میں ت کی عدلیہ میں تثلیت کا ذکر ہو تو سمجھنا چاہئے کہ مصنوعی ہے کیونکہ خود عیسویت کی ابتداء میں تثلیث کا عقیدہ نہ تھا بلکہ بعد میں وضع ہوا ہے.تثلیث کا نہ تھا.١١٣ ملفوظات.جلد ۴ صفحہ ۱۸۹، ۱۹۰ تیسری صدی کے بعد کانسٹنٹائن فرسٹ قسطنطنیہ کے بادشاہ نے اڑھائی سو بشپ کو جمع کر کے اپنے اجلاس میں موحد عیسائیوں اور تین اقنوم کے قائل عیسائیوں کا باہم مباحثہ تثلیث کی تاریخ کرایا تھا.اور آخر کار فرقہ موحدین کو ڈگری دی تھی اور خود ان کا مذہب بھی قبول کر لیا تھا.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۳۹

Page 149

۱۱۴ عیسائیوں میں تثلیث کا مسئلہ تیسری صدی کے بعد ایجاد ہوا ہے.جیسا کہ ڈریپر بھی کتاب میں بڑے بڑے علماء کے حوالہ سے لکھتا ہے موجد اس مسئلہ کا بشپ اتھا ناسی آس الگزنڈر ائن تھا جو صدی سوم کے بعد پیدا ہوا ہے.جب اس نے یہ مسئلہ شائع کرنا چاہا تواسی وقت بشپ ایری آس اس کا منکر کھڑا ہو گیا.اور یہاں تک اس مباحثہ میں عوام اور خواص کا مجمع ہوا کہ روم کے بادشاہ تک خبر پہنچ گئی.اتفاقاً اس کو مباحثات توحید کی فتح.سے دلچسپی تھی.اس نے چاہا کہ اس اختلاف کو اپنے حضور میں ہی فریقین کے علماء سے رفع کرا دے.چنانچہ اس کے اجلاس میں بڑی سرگرمی سے یہ مباحثات ہوئے اور نہایت لطف کے ساتھ کونسل کی کرسیاں بچھیں اور مناظرہ کرنے والے دو سو پچاس نامی پادری تھے.آخر موحدین کا فرقہ جو یسوع کو محض انسان اور رسول جانتا تھا.غالب آیا.اسی دن بادشاہ نے یونی شیرین کا مذہب اختیار کیا اور چھ بادشاہ اس کے بعد موحد رہے.چنانچہ جس قیصر کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خط لکھا تھا.جس کا ذکر صحیح بخاری میں پہلے صفحہ میں ہی موجود ہے.وہ بھی موحد ہی تھا.اس نے قرآن کے اس مضمون پر اطلاع پا کر کہ مسیح صرف انسان ہے تصدیق کی.جیسا کہ نجاشی نے بھی جو عیسائی بادشاہ تھا.قسم کھا کر کہا کہ یسوع کا رتبہ اس سے ذرہ زیادہ نہیں جو قرآن نے اس کی نسبت لکھا ہے.مگر نجاشی اس کے بعد کھلا کھلا مسلمان ہو گیا.آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحه ۳۹ ۴۰.حاشیہ ہم نے بار بار سمجھایا کہ عیسی پرستی بت پرستی اور رام پرستی سے کم نہیں اور مریم کا بیٹا کشلیتا کے بیٹے سے کچھ زیادت نہیں رکھتا.مگر کیا کبھی آپ لوگوں نے توجہ کی.یوں تو ۱۱۵ آپ لوگ تمام دنیا کے مذہبوں پر حملہ کر رہے ہیں.مگر کبھی اپنے اس مثلث خدا کی نیسی پرستی ، بت نسبت بھی کبھی غور کی.کبھی یہ خیال آیا کہ وہ جو تمام عظمتوں کا مالک ہے اس پر انسان پرستی اور رام پرستی کی طرح کیونکر دکھ کی مار پڑ گئی.کبھی یہ بھی سوچا کہ خالق نے اپنی مخلوق سے کیونکر مار کھا سے کم نہیں.لی.کیا یہ سمجھ آسکتا ہے کہ بندے ناچیز اپنے خدا کو کوڑے ماریں اس کے منہ پر تھو کیں اس کو پکڑیں.اس کو سولی دیں اور وہ مقابلہ سے عاجز رہ جائے.بلکہ خدا کہلا کر پھر اس پر موت بھی آجائے.کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ تین مجستم خدا ہوں ایک وہ نجستم جس کی

Page 150

۱۳۲ تمر شکل پر آدم ہو.دوسرا یسوع.تیرا کبوترے اور مینوں میں سے ایک بچہ والا اور دو لاولد - کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ خدا شیطان کے پیچھے پیچھے چلے اور شیطان اس سے سجدہ چاہے اور اس کو دنیا طمع دے.کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ وہ شخص جس کی ہڈیوں میں خدا گھسا ہوا تھا.ساری رایت رو رو کر دعا کرتارہا اور پھر بھی استجابت دعا سے محروم اور بے نصیب ہی رہا.کیا یہ بات تعجب میں نہیں ڈالتی کہ خدائی کے ثبوت کے لئے یہود کی کتابوں کا حوالہ دیا جاتا ہے.حالانکہ یہود اس عقیدہ پر ہزار لعنت بھیجتے ہیں اور سخت انکاری ہیں اور کوئی ان میں ایسا فرقہ نہیں جو تثلیث کا قائل ہو.اگر یہود کو موسیٰ سے آخری نبیوں تک یہی تعلیم دی جاتی تو کیونکر ممکن تھا کہ وہ لاکھوں آدمی جو بہت سے فرقوں میں منقسم تھے اس تعلیم کو سب کے سب بھول جاتے.کیا یہ بات سوچنے کے لائق نہیں کہ عیسائیوں میں قدیم سے ایک فرقہ موحد بھی ہے جو قرآن شریف کے وقت میں بھی موجود تھا.اور وہ فرقہ بڑے زور سے اس بات کا ثبوت دیتا ہے.کہ تثلیث کا گندہ مسئلہ صرف تیسری صدی کے بعد نکلا ہے اور اب بھی اس فرقہ کے لاکھوں انسان یورپ اور امریکہ میں موجود ہیں.اور ہزار ہا کتابیں ان کی شائع ہو رہی ہیں.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ ۱ صفحه ۴۱، ۴۲ تثلیث اور یسوع کی خدائی کی بابت اگر یہودیوں سے پوچھا جاوے اور ان کی کتابوں کو سیسودی نہ تقلیت کے مولا جلوے تو صاف جواب ہے کہ وہ کبھی مخلیت کے قائل نہ تھے.اور نہ کبھی انہوں نے مل ہیں نہ جسمانی خدا کسی جسمانی خدا کی بابت اپنی کتاب میں پڑھا تھا جو کسی عورت کے پیٹ سے عام بچوں کی طرح حیض کے خون سے پرورش پا کر نو مہینے کے بعد پیدا ہونے والا ہو.اور انسانوں کے سارے دکھ خسرہ چیچک وغیرہ جو انسانوں کو ہوتے ہیں اٹھا کر آخر یہودیوں کے ہاتھ سے ماریں کھاتا ہوا صلیب پر چڑھایا جاوے گا.اور پھر ملعون ہو کر تین دن ہاویہ میں رہے گا.یا باپ بیٹا روح القدس کے مجموعہ اور مرکب خدا ہی کا ذکر ان کی کتابوں میں کہیں ہوتا.اگر ہے تو ہم عیسائیوں سے ایک عرصہ سے سوال کرتے رہے ہیں.وہ کے.لے عیسائی صاحبان کبوتروں کو شوق سے کھاتے ہیں.حالانکہ کبوتران کا دیوتا ہے.ان سے ہندو اچھے رہے کہ اپنے دیوتا بیل کو نہیں کھاتے.

Page 151

۱۳۳ دکھائیں.برخلاف اس کے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے منجملہ اور اعتراضوں کے جو اس پر کئے.سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ یہ خدا کا بیٹا اور خدا بنتا ہے.اور یہ کفر ہے.اگر یہودیوں نے توریت اور نبیوں کے صحیفوں میں یہ تعلیم پائی تھی کہ دنیا میں خود خدا اور اس کے بیٹے بھی ماریں کھانے کے لئے آیا کرتے ہیں.اور انہوں نے دس پانچ کو دیکھا تھا تو پھرا نکلر کی وجہ کیا ہو سکتی تھی ؟ اصل حقیقت یہی ہے کہ اس معیار پر یہ عقیدہ کبھی پورا نہیں اتر سکتا اس لئے کہ اس میں حقانیت کی روح نہیں ہے.ملفوظات.جلد ۳ صفحہ ۱۱۶ ذکر نہیں.[112] اس وقت تین قومیں یہود عیسائی اور مسلمان موجود ہیں.ان میں سے یہود اور مسلمان بالاتفاق توحید پر ایمان لاتے ہیں.لیکن عیسائی تثلیث کے قائل ہیں.اب ہم عیسائیوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر واقعی تثلیث کی تعلیم حق تھی.اور نجات کا یہی اصل ذریعہ تھا تو پھر کیا اندھیر مچا ہوا ہے کہ توریت میں اس تعلیم کا کوئی نشان اس میں نہیں قربت میں تنقلات کا ملتا.یہودیوں کے اظہار لے کر دیکھ لو.اس کے سوا ایک اور امر قابل غور ہے.کہ یہودیوں کے مختلف فرقے ہیں اور بہت سی باتوں میں ان میں باہم اختلاف ہے لیکن توحید کے اقرار میں ذرا بھی اختلاف نہیں.اگر تثلیث واقعی مدار نجات تھی تو کیا سارے کے سارے فریقے ہی اس کو فراموش کر دیتے.اور ایک آدھ فرقہ بھی اس پر قائم نہ رہتا.کیا یہ تعجب خیز امر نہ ہو گا کہ ایک عظیم الشان قوم جس میں ہزاروں ہزار فاضل ہر زمانہ میں موجود رہے.اور برابر مسیح علیہ السلام کے وقت تک جن میں نبی آتے رہے ان کو ایک ایسی تعلیم سے بالکل بے خبری ہو جاوے جو موسیٰ علیہ السلام کی معرفت انہیں ملی ہو اور مدار نجات بھی وہی ہو.یہ بالکل خلاف قیاس اور بیہودہ بات ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ خود تراشیدہ عقیدہ ہے.نبیوں کے صحیفوں میں اس کا کوئی پتہ نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہئے.کیونکہ یہ حق کے خلاف ہے.پس یہودیوں میں توحید پر اتفاق ہونا اور تثلیث پر کسی ایک کا بھی قائم نہ ہو نا صریح دلیل اس امر کی ہے کہ یہ باطل ہے.حالانکہ خود عیسائیوں کے مختلف فرقوں میں بھی متثلیث کے متعلق ہمیشہ سے اختلاف چلا آتا ہے اور یونی ٹیرین فرقہ اب تک موجود ہے.میں نے ایک یہودی سے دریافت کیا تھا کہ توریت میں کہیں تشکیث کا بھی ذکر ہے.اور یا تمہارے تعامل میں

Page 152

۱۳۴ کہیں اس کا بھی پتہ لگتا ہے.اس نے صاف اقرار کیا.قرار کیا.کہ ہر گز نہیں ہماری توحید وہی ہے جو قرآن مجید میں ہے.اور کوئی فرقہ ہمار انتثلیث کا قائل نہیں.اس نے یہ کہا کہ اگر تثلیث ہوتا تو تھا.کہیں تثلیث کے تین جو توریت کے حکموں کو چوکھٹوں اور آستینوں پر لکھنے کا حکم کا بھی ہوتا.اس کے یہ ہے کہ باطنی شریعت میں اس کے لئے کوئی نمونہ نہیں ہے.باطنی شریعت بجائے خود توحید چاہتی ہے.پادری فنڈر صاحب نے اپنی کتابوں میں اعتراف کر لیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے جزیرہ میں رہتا ہو جہاں تثلیث نہیں پہنچی.اس سے تو حید ہی کا مطالبہ ہو گا.نہ باطنی شریعت میں اس تسلیت کا.پس اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ باطنی شریعت توحید کو چاہتی ہے.نہ کا کوئی نمونہ ہیں.تثلیث کو.کیونکہ تثلیث اگر فطرت میں ہوتی تو سوال اس کا ہونا چاہئے تھا.پھر تیسری دلیل اس کے ابطال پر یہ ہے کہ جس قدر عناصر خدا تعالیٰ نے بنائے ہیں وہ سب کردی ہیں.پانی کا قطرہ دیکھو.اجرام سماوی کو دیکھو.زمین کو دیکھو.یہ اس لیئے عناصر میں کردیت کہ کرویت میں ایک وحدت ہوتی ہے.پس اگر خدا میں تثلیث تھی تو چاہئے تھا کہ مثلث تثلیث کو رد کرتی نما اشیاء ہوتیں.ان سب باتوں کے علاوہ بار ثبوت مدعی کے ذمہ ہے.جو تثلیث کا قائل ہے.اس کا فرض ہے کہ وہ اس کے دلائل دے.ہم جو کچھ توحید کے متعلق یہودیوں کا تعامل با وجود اختلاف فرقوں کے اور باطنی شریعت میں اس کا اثر ہونا اور قانون قدرت میں ان کی نظیر ملنا بتاتے ہیں.ان پر غور کرنے کے بعد اگر کوئی تقوی سے کام لے ۱۱۸ تو سمجھ لے گا کہ ثلاث پر جس قدر زور دیا گیا ہے وہ صریح ظلم ہے.انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ کبھی غیر تسلی کی راہ اختیار نہیں کرتا.اس لئے پگڈنڈیوں کے بجائے شاہراہ پر چلنے والے سب سے زیادہ ہوتے ہیں.اور اس پر چلنے والوں کے لئے کسی قسم کا خوف وخطرہ نہیں ہوتا.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس راہ کی شہادت قوی ہوتی ہے.پس جب دنیا میں یہ ایک روز مشاہدہ میں آئی بات ہے.پھر آخرت کی راہ قبول کرنے میں انسان کیوں غیر تسلی کی راہ اختیار کرے جس کے لئے کوئی کافی اور معتبر اور سب سے بڑھ کر زندہ شہادت موجود نہ ہو.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۰۶۱۰۵ رہے عیسائی.سوان کا یہ حال ہے کہ وہ صریح توحید کے بر خلاف عقیدہ رکھتے

Page 153

۱۳۵ تقامت عقل اور منطق کے خلاف ہے.تثلیث خلاف ہیں.یعنی وہ تین خدا مانتے ہیں.یعنی باپ.بیٹا.روح القدس.اور یہ جواب ان کا سراسر فضول ہے کہ ہم تین کو ایک جانتے ہیں.ایسے بیہودہ جواب کو کوئی عاقل تسلیم نہیں کر سکتا.جبکہ یہ تینوں خدا مستقل طور پر علیحدہ علیحدہ وجود رکھتے ہیں اور علیحدہ علیحدہ پورے خدا ہیں تو وہ کونسا حساب ہے جس کے رو سے وہ ایک ہو سکتے ہیں.اس قسم کا حساب کس سکول یا کس کالج میں پڑھایا جاتا ہے.کیا کوئی منطق یا فلاسفی سمجھا سکتی ہے کہ ایسے مستقل تین ایک کیونکر ہوگئے.اور اگر کہو کہ یہ راز ہے کہ جو عقل انسانی سے برتر ہے تو یہ دھوکا دہی ہے.کیونکہ انسانی عقل خوب جانتی ہے کہ اگر تین کو تین کامل خدا کہا گیا.تو تین کامل کو بہر حال تین کہنا پڑے گا.نہ ایک.اور اس تثلیث کے عقیدہ کو نہ صرف قرآن شریف رد کرتا ہے بلکہ توریت بھی رد کرتی ہے.کیونکہ وہ توریت جو موسی کو دی گئی تھی اس میں اس تثلیث کا کچھ بھی ذکر نہیں.اشارہ تک نہیں.ورنہ ظاہر تربیت ہے.ہے کہ اگر توریت میں بھی ان خداؤں کی نسبت تعلیم ہوتی تو ہر گز ممکن نہ تھا کہ یہودی اس تعلیم کو فراموش کر دیتے.کیونکہ اول تو یہودیوں کو توحید کی تعلیم کے یادرکھنے کے لئے سخت تاکید کی گئی تھی یہاں تک کہ حکم تھا کہ ہر ایک یہودی اس تعلیم کو حفظ کر لے اور اپنے گھر کی چوکھٹوں پر اس کو لکھ چھوڑیں اور اپنے بچوں کو سکھا دیں.اور پھر علاوہ اس ر کے اسی توحید کی تعلیم کے یاد دلانے کے لئے متواتر خدا تعالیٰ کے نبی یہودیوں میں آتے تو رہے اور وہی تعلیم سکھلاتے رہے.پس یہ امر بالکل غیر ممکن اور محال تھا کہ یہودی وگ باوجود اس قدر تاکید اور اس قدر تواتر انبیاء کے تثلیث کی تعلیم کو بھول جاتے اور بجائے اس کے توحید کی تعلیم اپنی کتابوں میں لکھ لیتے.اور وہی بچوں کو سکھاتے.اور آنے والے صدہا نبی بھی اسی توحید کی تعلیم کو دوبارہ تازہ کرتے.ایسا خیال تو سراسر خلاف عقل و قیاس ہے.میں نے اس بارہ میں خود کوشش کر کے بعض یہودیوں سے حلفاً دریافت کیا تھا کہ توریت میں خدا تعالیٰ کے بارے میں آپ لوگوں کو کیا تعلیم دی گئی تھی؟ کیا تثلیث کی تعلیم دی گئی تھی یا کوئی اور.تو ان یہودیوں نے مجھے خط لکھے جو اب تک میرے پاس موجود ہیں.اور ان خطوں میں بیان کیا کہ توریت میں تثلیث کی تعلیم کا نام و نشان نہیں.بلکہ خدا تعالیٰ کے بارہ میں توریت کی وہی تعلیم ہے جو قرآن کی تعلیم ہے.پس افسوس ہے ایسی قوم پر جو ایسے اعتقاد پر اڑی بیٹھی ہے کہ نہ تو وہ تعلیم توریت میں موجود ہے اور نہ قرآن شریف میں ہے.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ تثلیث کی

Page 154

۱۳۶ تعلیم انجیل میں بھی موجود نہیں.انجیل میں بھی جہاں جہاں تعلیم کا بیان ہے ان تمام مقامات میں تثلیث کی نسبت اشارہ تک نہیں بلکہ خدائے واحد لاشریک کی تعلیم دیتی ہے.چنانچہ بڑے بڑے معاند پادریوں کو یہ بات ماننی پڑی ہے کہ انجیل میں تثلیث کی تعلیم نہیں.اب یہ سوال ہو گا کہ عیسائی مذہب میں تثلیث کہاں سے آئی ؟ اس کا جواب تثلیت یونانی عقیدہ سے لی گئی ہے.محقق عیسائیوں نے یہ دیا ہے کہ یہ تثلیث یونانی عقیدہ سے لی گئی ہے.یونانی لوگ تین دیوتاؤں کو مانتے تھے جس طرح ہندو ترکے مورتی کے قائل ہیں.اور جب پولوس نے یہودیوں کی طرف رخ کیا اور چونکہ وہ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یونانیوں کو عیسائی مذہب میں داخل کرے اس لئے اس نے یونانیوں کے خوش کرنے کے لئے بجائے تین دیوتاوں کے تین اقنوم اس مذہب میں قائم کر دئے.ورنہ حضرت عیسی کی بلا کو بھی معلوم نہ تھا کہ اقنوم کس چیز کا نام ہے.ان کی تعلیم خدا تعالیٰ کی نسبت تمام نیتوں کی طرح ایک سادہ تعلیم تھی کہ خدا واحد لاشریک ہے.پس یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مذہب جو عیسائی مذہب کے نام سے شہرت دیا جاتا تثلیث پولوی مذہب ہے.میں توحید کی تعلیم ہے.دراصل پولوسی مذہب ہے نہ مسیحی کیونکہ حضرت مسیح نے کسی جگہ تثلیث کی تعلیم نہ تق دیتے رہے.نہیں دی اور وہ جب تک زندہ رہے خدائے واحد لا شریک کی تعلیم دیتے رہے اور بعد ان کی وفات کے ان کا بھائی یعقوب بھی جوان کا جانشین تھا اور ایک بزرگ انسان تھاتو حید کی تعلیم دیتا رہا.اور پولوس نے خواہ مخواہ اس بزرگ سے مخالفت شروع کر دی اور اس کے عقائد صحیحہ کے مختلف تعلیم دینا شروع کیا.اور انجام کار پولوس اپنے خیالات میں یہاں تک بڑہا کہ ایک نیامذہب قائم کیا.اور توریت کی پیروی سے اپنی جماعت کو بجلی علیحدہ کر دیا اور تعلیم دی کہ مسیحی مذہب میں مسیح کے کفارہ کے بعد شریعت کی ضرورت نہیں اور خون مسیح گناہوں کے دور کرنے کے لئے کافی ہے.توریت کی پیروی ضروری نہیں.اور پھر ایک اور گند اس مذہب میں ڈال دیا کہ ان کے لئے سور کھانا حلال کر دیا.حالانکہ حضرت مسیح انجیل میں سور کو ناپاک قرار دیتے ہیں.تبھی تو انجیل میں ان کا قول ہے کہ اپنے موتی سوروں کے آگے مت پھینکو.پس جب پاک تعلیم کا نام حضرت مسیح نے موتی رکھا تو اس مقابلہ سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ پلید کا نام انہوں نے سوڑ رکھا ہے اصل بات یہ ہے کہ یونانی سور کو کھایا کرتے تھے جیسا کہ آجکل تمام یورپ کے لوگ سٹور کھاتے ہیں.اس لئے پولوس نے یونانیوں کے تالیف قلوب کے لئے سٹور بھی اپنی

Page 155

۱۳۷ جماعت کے لئے حلال کر دیا.حالانکہ توریت میں لکھا ہے کہ وہ ابدی حرام ہے اور اس کا چھونا بھی ناجائز ہے.غرض اس مذہب میں تمام خرابیاں پولوس سے پیدا ہوئیں.حضرت مسیح تو وہ بے نفس انسان تھے جنہوں نے یہ بھی نہ چاہا کہ کوئی ان کو نیک انسان کہے مگر پولوس نے ان کو خدا بنادیا.جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ کسی نے حضرت مسیح کو کہا کہ اے نیک استاد ! انہوں نے اس کو کہا کہ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے.ان کا وہ کلمہ جو صلیب پر چڑہائے جانے کے وقت ان کے منہ سے نکلا کیسا تو حید پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے نہایت عاجزی سے کہا.ایلی ایلی لما سبقانی.یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.کیا جو شخص اس عاجزی سے خدا کو پکارتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ خدا میرا رب ہے اس کی نسبت کوئی عظمند گمان کر سکتا ہے کہ اس نے در حقیقت خدائی کا دعوی کیا تھا ؟ اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو خدا تعالیٰ سے محبت ذاتیہ کا تعلق ہوتا ہے.بسا اوقات استعارہ کے رنگ میں خدا تعالیٰ ان سے ایسے کلمے ان کی نسبت کہلا دیتا ہے کہ نادان لوگ ان کی ان کلموں سے خدائی ثابت کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ میری نسبت مسیح سے بھی زیادہ وہ کلمات فرمائے گئے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالٰی مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے.يَا قَمَرُ يَا شَمْسُ أَنْتَ مِنِى وَأَنَا مِنكَ یعنی اے چاند ! اور اے سورج ! تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے.اب اس فقرہ کہ جو چاہے کسی طرف کھینچ لے مگر اصل معنے اس کے یہ ہیں کہ اول خدا نے مجھے قمر بنایا کیونکہ میں قمر کی طرح اس حقیقی شمس سے ظاہر ہوا اور پھر آپ قمر بنا کیونکہ میرے ذریعہ سے اس کے جلال کی روشنی ظاہر ہوئی اور ہو گی.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۷۲ تا ۳۷۶ ایک شخص رام چندر اور کرشن جی کا پوجاکر نے والا اور ان کو خدا ٹھہرانے والا اس بات سے تو بھی باز نہیں آئے گا کہ وہ رام چندر اور کرشن کو انسان محض قرار دے بلکہ بار بار اسی بات پر زور دے گا کہ ان دونوں بزرگوں میں پرم آتما کی جوت تھی اور وہ باوجود انسان ہونے کے خدا بھی تھے اور اپنے اندر ایک جہت مخلوقیت کی رکھتے تھے.اور ایک جہت خالقیت کی اور مخلوقیت ان کی حادث تھی اور ایسا ہی مخلوقیت کے عوارض بھی یعنی مرنا اور دکھ اٹھانا یا کھانا پینا سب حادثات تھے.مگر خالقیت ان کی قدیم ہے اور خالقیت کی صفات بھی 119 تثلیث پر محاکم

Page 156

قدیم لیکن اگر ان کو کہا جائے کہ اے بھلے مانسواگر یہی بات ہے تو ابن مریم کی خدائی کو بھی مان نو اور بیچارے عیسائی جو دن رات یہی سیاپا کر رہے ہیں ان کی بھی تو کچھ خاطر رکھو کہ چون آب از سر گذشت چه نیزه چه بالشت تب وہ حضرت مسیح کی اس قدر بد تہذیبی سے تکذیب کرتے ہیں کہ خدائی تو بھلا کون مانے اس غریب کو نبوت سے بھی جواب دیتے ہیں بلکہ بسا اوقات گالیوں تک نوبت پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کو سری مہاراج بر ہم مورت رام چندر جی اور کرشن جی گوپال رو در سے کیا نسبت.وہ تو ایک آدمی تھا جس نے پیغمبری کا جھوٹا دعوی کیا کہاں شری مہاراج کرشن جی اور کہاں عیسی مریم کا پوتر.اور تعجب ہے کہ اگر عیسائیوں کے پاس ان دونوں مہاتما او تاروں کا ذکر کیا جائے تو وہ بھی ان کی خدائی نہیں مانتے بلکہ بے ادبی سے باتیں کرتے ہیں.حالانکہ دنیا میں خدائی کی بنیاد ڈالنے والے یہی دونوں بزرگ ہیں اور چھوٹے چھوٹے خداؤں کے مورث اعلیٰ اور ابن مریم وغیرہ تو پیچھے سے نکلے اور ان کی شاخیں ہیں اور عیسائی مسیح کے خدا بنانے میں انہیں لوگوں کے نقش قدم پر چلے ہیں.جنہوں نے ان مہاتماوں کو خدا بنایا جیسا کہ قرآن کریم اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے.دیکھو آیت وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرُ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصْرَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللهِ ذلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ قَتَلَهُمُ اللهُ إِلَى يُؤْفَكُونَ (الجزء نمبر ۱۰) یعنی یہود نے کہا کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے.یہ سب ان کے منہ کی باتیں ہیں.یہ لوگ ان لوگوں کی ریس کرتے ہیں جو ان سے پہلے بعض انسانوں کو خدا بنا کر کافر ہو گئے.خدا کے ماروں نے کہاں سے کہاں پلٹا کھایا.سو یہ آیت صریح ہندووں اور یونانیوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور بتلا رہی ہے جو پہلے انسانوں کو انہیں لوگوں نے خدا قرار دیا.پھر عیسائیوں کی بد قسمتی سے یہ اصول ان تک پہنچ گئے.تب انہوں نے کہا کہ ہم ان قوموں سے کیوں پیچھے رہیں اور ان کی بد بختی سے توریت میں پہلے سے یہ محاورہ تھا کہ انسانوں کو بعض مقامات میں خدا کے بیٹے قرار دیا تھا بلکہ خدا کی بیٹیاں بھی بلکہ بعض گذشتہ لوگوں کو خدا بھی کہا گیا تھا.اس عام محاورہ کے لحاظ سے مسیح پر بھی انجیل میں ایسا ہی لفظ بولا گیا پس وہی لفظ نادانوں کے لئے زہر قاتل ہو گیا.تمام بائبل دو ہائی دے رہی ہے کہ یہ لفظ ابن مریم سے کچھ خاص نہیں ہر یک نبی اور راست باز پر بولا گیا ہے بلکہ یعقوب ط ۱۳۸

Page 157

۱۳۹ نخست زادہ کہلایا ہے.مگر بد قسمت انسان جب کسی پیچ میں پھنس جاتا ہے تو پھر اس سے نکل نہیں سکتا.....پھر عجیب تریہ کہ جو کچھ مسیح کی خدائی کے لئے قواعد بیان کئے گئے ہیں کہ وہ خدا بھی ہے انسان بھی یہ تمام قوائد کرشن اور رام چندر کے لئے ہندووں کی کتابوں میں پہلے سے موجود ہیں.اور اس نئی تعلیم سے ایسے مطابق پڑے ہیں کہ ہم بجز اس کے اور کوئی بھی رائے ظاہر نہیں کر سکتے کہ یہ تمام ہندووں کے عقیدوں کی نقل کی گئی ہے.ہندووں میں ترے مورتی کا بھی عقیدہ تھا جس سے برہما.بشن.مہادیو کا مجموعہ مراد ہے.سو تثلیث ایسے عقیدے کا عکس کھینچا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر عجیب بات یہ ہے کہ جو کچھ مسیح کے خدا بنانے کے لئے اور عقلی اعتراضوں سے بچنے کے لئے عیسائی لوگ جوڑ توڑ کر رہے ہیں اور مسیح کی انسانیت کو خدائی کے ساتھ ایسے طور سے پیوند دے رہے ہیں.جس سے ان کی غرض یہ ہے کہ کسی طرح عقلی اعتراضوں سے بچ جائیں اور پھر بھی وہ کسی طرح بچ بھی نہیں سکتے.اور آخر سر الہی میں داخل کر کے پیچھا چھوڑاتے ہیں.بعینہ یہی نقشہ ان ہندووں کا ہے جو رام چندر اور کرشن کو ایشر قرار دیتے ہیں.یعنی وہ بھی بعینہ وہی باتیں سناتے ہیں جو عیسائی سنایا کرتے ہیں.اور جب ہر یک پہلو سے عاجز آجاتے ہیں.تب کہتے ہیں کہ یہ ایک ایشر کا بھید ہے اور انہیں پر کھلتا ہے جو جوگ کماتے اور دنیا کوتیا گئے اور تپشیا کرتے ہیں.لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ بھید تو اسی وقت کھل گیا جب کہ ان جھوٹے خداؤں نے اپنی خدائی کا کوئی ایسا نمونہ نہ دکھلایا جو انسان نے نہ دکھلایا ہو.سچ ہے کہ گر تھوں میں یہ قصے بھرے پڑے ہیں.کہ ان کو تاروں نے بڑی بڑی شکتی کے کام کئے ہیں.مردے جلائے اور پہاڑوں کو سر پر اٹھا لیا.لیکن اگر ہم ان کہانیوں کو سچ مان لیں تو یہ لوگ خود قائل ہیں کہ بعض ایسے لوگوں کرشمے دکھلائے جنہوں نے خدائی کا دعوی نہیں کیا.مثلاً ذرا سوچ کر دیکھ لو کہ کیا مسیح کے کام موسیٰ کے کاموں سے بڑھ کر تھے.بلکہ مسیح کے نشانوں کو تو تالاب کے قصہ نے خاک میں ملادیا.کیا آپ لوگ مجز نما تالاب سے واقف نہیں جو اسی زمانہ میں تھا اور کیا اسرائیل میں ایسے نبی نہیں گذرے جن کے بدن کے چھونے سے مردے زندہ ہوئے.پھر خدائی کی شیخی مارنے کے لئے کونسی وجوہات ہیں جائے شرم !!! اور اگر چہ ہندووں نے اپنے او تاروں کی نسبت شکتی کے کام بہت لکھے ہیں.اور خواہ

Page 158

نخواہ ان کو پر میشر ثابت کرنا چاہا ہے مگر وہ قصے بھی عیسائیوں کے بیہودہ قصوں سے کچھ کم نہیں ہیں.اور اگر فرض بھی کریں کہ کچھ ان میں سے صحیح بھی ہے.تب بھی عاجز انسان جو ضعف اور ناتوانی کا خمیر رکھتا ہے.پر میشر نہیں ہو سکتا اور احیاء حقیقی تو خود باطل اور الی کتابوں کے مخالف ہاں اعجازی احیاء جس میں دنیا کی طرف رجوع کرنا اور دنیا میں پھر آباد ہونا نہیں ہوتا.ممکن تو ہے.مگر خدائی کی دلیل نہیں کیونکہ اس کے مدعی عام ہیں.مردوں سے باتیں کرا دینے والے بہت گذرے ہیں مگر یہ طریق کشف قبور کے قسم میں سے ہے.ہاں ہندووں کو عیسائیوں پر ایک فضیلت بیشک ہے.اس کے بلاشبہ ہم قائل میں اور وہ یہ ہے کہ وہ بندوں کو خدا بنانے میں عیسائیوں کے پیشرو ہیں.انہیں کے ایجاد کی عیسائیوں نے بھی پیروی کی.ہم کسی طرح اس بات کو چھپا نہیں سکتے کہ جو کچھ عیسائیوں نے عقلی اعتراضوں سے بچنے کے لئے باتیں بنائی ہیں یہ باتیں انہوں نے اپنے دماغ سے نہیں نکالیں.بلکہ شاستروں اور گرنتھوں میں سے چرائی ہیں.یہ تمام تو وہ طوفان پہلے ہی سے برہمنوں نے کرشن اور رام چندر کے لئے بنارکھا تھا جو عیسائیوں کے کام آیا.پس یہ خیال بدیہی البطلان ہے کہ شاید ہندووں نے عیسائیوں کی کتابوں ہیں سے چرایا ہے.کیونکہ ان کی تحریریں اس وقت کی ہیں کہ جب حضرت عیسی کا وجود بھی دنیا میں نہیں تھا.پس ناچار ماننا پڑا کہ چور عیسائی ہی ہیں.چنانچہ پوسٹ صاحب بھی اس بات کے قائل ہیں کہ تشیث افلاطون کے لئے ایک غلط خیال کی پیروی کا نتیجہ - مگر اصل یہ ہے کہ یونان اور ہند اپنے خیالات میں مرا یا متقابلہ کی طرح تھے.قریب قیاس یہ ہے کہ یہ شرک کے انبار کے انبار پہلے ہند سے وید ودیا کی صورت میں یونان میں گئے.پھر وہاں سے نادان عیسائیوں نے چرا چرا کر انجیل پر حاشئے چڑہائے اور اپنا نامہ اعمال درست کیا.“ نور القرآن.حصہ اول.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۶۰ تا ۳۶۴- حاشیه ایک اور بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ عیسائی لوگ لفظ الو ہیم سے جوالہ کی جمع ہے اور کتاب پیدائش میں موجود ہے یہ نکالنا چاہتے ہیں کہ گویا یہ تثلیث کی طرف اشارہ مگر اس سے اور بھی ان کی نادانی ثابت ہوتی ہے کیونکہ عبرانی لغت سے ثابت ہے کہ ٹوالو ہیم کا لفظ بظاہر جمع ہے مگر ہر ایک جگہ واحد کے معنے دیتا ہے.بات یہ ہے کہ زبان ۱۴۰ ۱۲۰

Page 159

۱۴۱ عربی اور عبرانی میں یہ محاورہ شائع ہے کہ بعض وقت لفظ واحد ہوتا ہے اور معنے جمع کے لفظ الوسيم - سے تبث دیتا ہے جیسا کہ سامر اور دجال کا لفظ اور بعض وقت ایک لفظ جمع کے صیغہ پر ہوتا ہے اور ملیت نہیں ہوتی.معنے واحد کے دیتا ہے.اور عبرانی جاننے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ لفظ الو ہیم بھی ان ہی الفاظ میں سے ہے جو جمع کی صورت میں ہیں اور دراصل واحد کے معنے رکھتے ہیں.اسی وجہ سے یہ لفظ توریت میں جس جگہ آیا ہے ان ہی معنوں کے لحاظ سے آیا ہے.اور یہ دعوی بالکل غلط ہے کہ وہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کے لئے مخصوص ہے.بلکہ بعض جگہ یہی لفظ فرشتہ کے لئے اور بعض جگہ قاضی کے لئے اور بعض جگہ حضرت موسیٰ کے لئے آیا ہے جیسا کہ قاضیوں کی کتاب باب ۲۳ ۱۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب منو حاسمون کے باپ نے خداوند کا ایک فرشتہ دیکھا تو اس نے کہا کہ ہم یقینا مر جائیں گے کیونکہ ہم نے الو ہیم کو دیکھا.اس جگہ عبرانی میں لفظ الوہیم ہے اور معنے اس کے فرشتہ کئے جاتے ہیں اور خروج باب ۱۲۹ میں الوہیم کے معنے قاضی کئے گئے اور خروج باب ۱۰ رے میں موسیٰ کو الوہیم قرار دے کر کہا ہے کہ ”دیکھ میں نے مجھے فرعون کے لئے ایک الوہیم بنایا ہے.اور استثنا باب ۳۲٫۱۵ میں یہ عبارت ہے.اور اس نے الوہا کو چھوڑ دیا جس نے اسے پیدا کیا تھا.“ دیکھو اس جگہ لفظ الوہا ہے الو ہیم نہیں ہے.اور ایسا ہی زبور ۲۲ / ۵۰ میں لفظ الوہا آیا ہے.اور اسی طرح ان کتابوں میں لفظ الوہا اور الوہیم ایک دوسرے کی جگہ آیا ہے.جس سے سمجھا جاتا ہے کہ دونوں جگہ واحد مراد ہے نہ جمع.ایسا ہی یسعیا باب ۴۴/۶ میں الو ہیم آیا ہے.اور پھر آیت آٹھ میں الوہا ہے.پس واضح ہو کہ اصل مدعا جمع کا صیغہ لانے سے خدا کی طاقت اور قدرت کو ظاہر کرتا ہے اور یہ زبانوں کے محاروات ہیں جیسا کہ انگریزی میں ایک انسان کو یو یعنی تم کے ساتھ مخاطب کرتے ہیں.مگر خدا کے لئے باوجود تثلیث کے عقیدہ کے ہمیشہ داد یعنی تو کا لفظ لاتے ہیں.ایسا ہی عبرانی میں بجائے ادون کے جو خدا کے معنے رکھتا ہے اردو نیم جاتا ہے سو در اصل یہ بحثیں محاورات لغت کے متعلق ہیں.قرآن شریف میں اکثر جگہ خدا تعالیٰ کے کلام میں ہم آجاتا ہے کہ ہم نے یہ کیا اور ہم یہ کریں گے.اور کوئی عظمند نہیں سمجھتا کہ اس جگہ ہم سے مراد کثرت خداوں کی ہے.مگر پادری صاحبوں کے حال پر بہت افسوس ہے کہ وہ قابل شرم طریقوں پر تاویلیں کر کے ایک انسان کو زبر دستی خدا بنانا چاہتے ہیں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ بت پرستی کے زمانہ کے خیلات انہیں مجبور

Page 160

۱۴۴ ۱۲۱ کرتے ہیں کہ وہ مشرکانہ تعلیم کو بناویں.خیال کرنا چاہئے کہ کیسے دور از عقل و فہم ر تکلفات انہوں نے کئے ہیں.یہاں تک کہ توریت پیدائش کے باب ۲۶ / ۱ میں جو سیہ عبارت ہے کہ خدا نے کہا کہ ”ہم انسان کو اپنی شکل پر بنائیں گے." یہاں سے عیسائی لوگ یہ بات نکالتے ہیں کہ ہم کے لفظ سے تثلیث کی طرف اشارہ ہے.مگر یادر ہے کہ عبرانی میں اس جگہ لفظ نعسہ ہے جس کے معنے ہیں نصنع.یہ لفظ تھوڑے سے تغیر سے اسی عربی لفظ یعنی نصنع سے ملتا ہے اور عربی اور عبرانی کا یہ محاورہ ہے کہ اپنے تئیں یا کسی دوسری کو عظمت دینے کے لئے تم یا ہم کا لفظ بولا کرتے ہیں مگر ان لوگوں نے مخلوق پرستی کے جوش سے محاورہ کی طرف کچھ بھی خیال نہیں کیا اور صرف یہ لفظ پا کر کہ ہم بنائیں گے تثلیث کو سمجھ لیا.بہت ہی افسوس کی جگہ ہے کہ مخلوق پرستی سے پیار کر کے ان بیچاروں کی کہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے.لیکن صرف تین کی حد بندی انہوں نے اپنی طرف سے کرلی ہے.ورنہ جمع کے صیغہ میں تو تین سے زیادہ صدہا پر اطلاق ہو سکتا ہے.یہ ضرور نہیں کہ جمع کے صیغہ سے صرف تثلیث ہی نکلتی ہے.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۹۳ تا ۹۵ کیا کوئی عقل قبول کر سکتی ہے کہ خدائے قادر باوجود اپنی بے انتہا طاقتوں کے کسی دوسرے کی مدد کا محتاج رہے.ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ عیسی کے ساتھ خدا تھا کہ جو جب تینوں خدا اس کے اپنی مخلصی کے لئے تمام رات رو رو کر دعا کر تار ہا تجب کہ جب تینوں خدا اس کے اندر تھے اندر تھے تو وہ چوتھا خدا کون تھا جس کی جناب تو وہ چو تھا خدا کون تھا جس کی جناب میں اس نے رورو کر ساری رات دعاکی اور پھر وہ دعا میں اس نے رو رو کر قبول بھی نہ ہوئی.ایسے خدا پر کیا امید رکھی جائے جس پر ذلیل یہودی غالب آئے اور اس ساری رات دعا کی تھی ١٢٢ کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک سولی پر نہ چڑہا دیا.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۷۹ وضع عالم میں خدا تعالیٰ نے توحید کا ثبوت رکھ دیا ہے.وضع عالم میں کرودیت ہے پانی ستارے آگ وغیرہ.یہ چیزیں سب گول ہیں.چونکہ کرہ میں وحدت ہوئی وضع عالم میں کرویت ہے.اس لحاظ سے اس میں جہات نہیں ہوتی ہیں.پس یہ وضع عالم میں توحید الہی کا ثبوت ہے.پانی کا ایک قطرہ دیکھو تو وہ گول ہو گا.ایسا ہی اجرام بھی اور آگ کا فلسفہ.

Page 161

۱۴۳ بھی.آگ کی ظاہری حالت سے اگر کوئی کہے کہ یہ گول نہیں ہوتی تو یہ اس کی غلطی.کیونکہ یہ مانی ہوئی بات ہے کہ آگ کا شعلہ دراصل گول ہوتا ہے مگر ہوا اس کو منتشر کرتی ہے.عیسائیوں نے بھی.یہ بات مان لی ہے کہ جہاں تثلیث نہیں پہنچی.یعنی تثلیث کی تبلیغ نہیں ہوئی وہاں ان سے توحید کی باز پرس ہوگی کیونکہ وضع عالم میں توحید کا ثبوت ملتا کی ہے اگر خدا تین ہوتے تو ضرور تھا کہ سب اشیاء مثلث نما ہوتیں.وضع عالم کی کرویت سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ آدم ہی سے شروع ہو کر آدم ہی پر سلسلہ ختم ہوتا ہے.کیونکہ محیط دائرہ کا خط جس نقطہ سے چلتا ہے اس پر ہی جا کر ختم ہو جاتا ہے.اس لئے مسیح موعود جو خاتم الخلفاء ہے اس کا نام بھی خدا نے آدم ہی رکھا ہے.چنانچہ براہین احمدیہ میں درج ہے.اردتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ أَدَمَ - ملفوظات.جلد ۲ صفحہ ۳۹۱ نیز دیکھیں.ملفوظات.جلد ۲ صفحہ ۵۹ اس زمانہ میں مذہب کے نام سے بڑی نفرت ظاہر کی جاتی ہے اور مذہب حقہ کی طرف آنا تو گویا موت کے منہ میں جانا ہے.مذہب حق وہ ہے جس پر باطنی شریعت بھی شہادت دیے اٹھے.مثلاً ہم اسلام کے اصول توحید پیش کرتے ہیں اور کہتے کار قدرت سے بات ہے کہ خدا ایک ہی ہیں کہ یہی حقانی تعلیم ہے کیونکہ انسان کی فطرت میں توحید کی تعلیم ہے اور نظارہ قدرت بھی اس پر شہادت دیتا ہے.خدا تعالیٰ نے مخلوق کو متفرق پیدا کر کے وحدت ہی کی طرف کھینچا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وحدت ہی منظور تھی.پانی کا ایک قطرہ اگر چھوڑیں تو وہ گول ہو گا.چاند، سورج سب اجرام فلکی گول ہیں اور کرویت وحدت کو چاہتی ہے.ہم اس وقت بے انتہا خداوں کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں.کیونکہ یہ تو ہے ہی ایک بیہودہ اور بے معنی اعتقاد.اور بے شمار خدا ماننے سے امان اٹھ جاتا ہے.مگر ہم تثلیث کا ذکر کرتے ہیں.ہم نے جیسا کہ قدرت کے نظائر سے ثابت کیا ہے کہ خدا ایک ہی ہے.اس طرح پر اگر خدا معاذ اللہ تین ہوتے جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں تو چاہئے تھا کہ ہے.

Page 162

۱۲۴ پانی، آگ کے شعلے اور زمین آسمان کے اجرام سب کے سب سہ گوشہ ہوتے تاکہ ستحکمیت پر گواہی ہوتی.اور نہ انسانی نور قلب کبھی متثلیث پر گواہی دیتا ہے.پادریوں سے پوچھا ہے کہ جہاں انجیل نہیں گئی وہاں تثلیث کا سوال ہو گا یا توحید کا.تو انہوں نے صاف اقرار کیا ہے کہ توحید کا.بلکہ ڈاکٹر فنڈر نے اپنی تصنیف میں یہ اقرار درج کر دیا ہے.اب ایسی کھلی شہادت کے ہوتے پھر میں نہیں سمجھ سکتا کہ تثلیث کا عقیدہ کیوں پیش کر دیا جاتا ہے.پھر یہ سیہ گوشہ خدا بھی عجیب ہیں.ہر ایک کے کام الگ الگ ہیں.گویا ہر ایک بجائے خود ناقص اور نا تمام ہے اور ایک دوسرے کا متمم ہے.لملفوظات.جلد ا صفحه ۳۳۰،۳۲۹ اسلام بہت ہی سیدھا سادہ مذہب ہے.اس نے تثلیث کی تکذیب کی ہے.غرض آپ وہ دین لائے جو سیدھا سادہ ہے.جو خدا کے سامنے یا انسان کے سامنے شرمندہ تثليث لا يحمل عقده نہیں ہو سکتا.قانون قدرت اور فطرت کے ساتھ ایسا وابستہ ہے کہ ایک جنگلی بھی آسانی ہے.کے ساتھ سمجھ سکتا ہے.تثلیث کی طرح کوئی لا نخیل عقدہ اس میں نہیں جس کو نہ خدا سمجھ سکے نہ اور تو ماننے والے جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں.تثلیث قبول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے بت پرستی اور اوہام پرستی کرے اور عقل و فکر کی قوتوں کو بالکل بیکار اور معطل چھوڑ دے.حالانکہ اسلام کی توحید ایسی ہے کہ ایک دنیا سے الگ تھلگ جزیرہ میں بھی وہ سمجھ میں آسکتی ہے.یہ دین عیسائی جو پیش کرتے ہیں یہ عالمگیر اور مکمل دین نہیں ہو سکتا.اور نہ انسان اس سے کوئی تسلی یا اطمینان پاسکتا ہے.مگر اسلام ایک ایسا دین ہے جو کیا باعتبار توحید اور اعمال حسنہ اور کیا تکمیل مسائل، سب سے بڑھ کر ہے.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۸۵

Page 163

باب پنجم رو کفاره لا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ قُلْ اللَّهِ أَبْغِى مل أغير الله انِي رَبَّا وَهُوَرَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَلَا تَكْسِبُ كُل نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا نَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَتِكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ! سورة الانتماء

Page 164

" اگر انسانوں کی نجات اسی بے ادبی پر موقوف ہے تو بہتر ہے کہ کسی کی بھی نجات نہ ہو.کیونکہ تمام گنہ گاروں کا مرنا به نسبت اس بات کے اچھا ہے کہ مسیح جیسے نور اور نورانی کو گمراہی کی تاریکی اور لعنت اور خدا کی عداوت کے گڑھے میں ڈوبنے والا قرار دیا جائے " ستاره قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۵ ص ۱۲۲، ۱۲۳ )

Page 165

۱۴۷ " ایک اور بڑی بھاری مصیبت قابل ذکر ہے اور وہ یہ ہے کہ اس خدا کے دائمی پیارے اور دائمی محبوب اور دائی مقبول کی نسبت جس کا نام یسوع ہے یہودیوں نے تو اپنی شرارت اور بے ایمانی سے لعنت کے برے سے برے مفہوم کو جائز رکھا.لیکن اس خیال سے ہمارا عیسائیوں نے بھی اس بہتان میں کسی قدر شراکت اختیار کی.کیونکہ یہ گمان کیا گیا ہے کہ بدن کانپتا ہے.گویا یسوع مسیح کا دل تین دن تک لعنت کے مفہوم کا مصداق بھی رہا ہے.اس بات کے خیال سے ہمارا بدن کانپتا ہے.اور وجود کے ذرہ ذرہ پر لرزہ پڑ جاتا ہے.کیا مسیح کا پاک دل اور خدا کی لعنت ! ! ! گو ایک سیکنڈ کے لئے ہی ہو.افسوس ! ہزار افسوس کہ یسوع مسیح جیسے خدا کے پیارے کی نسبت یہ اعتقادر کھیں کہ کسی وقت اس کا دل لعنت کے مفہوم کا مصداق بھی ہو گیا تھا." تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ ص ۲۷۴ ) Ity یچی تو بہ در حقیقت ایک موت ہے جو انسان کے ناپاک جذبات پر آتی ہے اور ایک کچی قربانی ہے جو انسان اپنے پورے صدق سے حضرت احدیت میں ادا کرتا ہے اور تمام قربانیاں جو رسم کے طور پر ہوتی ہیں اسی کا نمونہ ہے.سو جو لوگ یہ بچی قربانی ادا کرتے ہیں کی توبہ اور بچگی قربانی.ہیں جس کا نام دوسرے لفظوں میں تو بہ ہے در حقیقت وہ اپنی سفلی زندگی پر ایک موت وارد کرتے ہیں تب خدا تعالی جو کریم ورحیم ہے اس موت کے عوض میں دوسرے جہاں میں ان کو نجات کی زندگی بخشتا ہے کیونکہ اسکا کرم اور رحم اس بخل سے پاک ہے جو کسی انسان پر دو موتیں وارد کرے.سوانسان تو بہ کی موت سے ہمیشہ کی زندگی کو خریدتا ہے اور ہم اس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے کو پھانسی پر چڑھانے کے محتاج نہیں ہمارے لئے وہ صلیب کافی ہے جو اپنی قربانی دینے کی صلیب ہے؟

Page 166

۱۴۸ ۱۳۷ بیٹن.( قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۴۴۷، ۴۴۸ ) اخیر عذر یسوع کے دکھ اٹھانے اور مصلوب ہونے کا یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ خدا کفارہ کے باد میں جامع ہو کر پھر اس لئے سولی پر کھینچا گیا کہ تا اس کی موت گناہگاروں کے لئے کفارہ ٹھہرے.لیکن یہ بات بھی عیسائیوں کی ہی ایجاد ہے کہ خدا بھی مرا کر تا ہے.گومرنے کے بعد پھر اس کو زندہ کر کے عرش پر پہنچا دیا.اور اس باطل و ہم میں آج تک گرفتار ہیں کہ پھر وہ عدالت کرنے کے لئے دنیا میں آئے گا اور جو جسم مرنے کے بعد اس کو دوبارہ ملاو ہی جسم خدائی کی حیثیت میں ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا مگر عیسائیوں کا یہ مجستم خدا جس پر بقول ان کے ایک مرتبہ موت بھی آچکی ہے اور خون گوشت ہڈی اور اوپر نیچے کے سب اعضا رکھتا ہے.یہ ہندؤں کے ان او تاروں سے مشابہ ہے جن کو آج کل آریہ لوگ بڑے جوش سے چھوڑتے جاتے ہیں.صرف فرق یہ ہے کہ عیسائیوں کے خدا نے تو صرف ایک مرتبہ مریم بنت یعقوب کے پیٹ سے جنم لیا مگر ہندوں کے خدا بشن نے نو مرتبہ دنیا کے گناہ دور کرنے کے لئے تولد کا داغ اپنے لئے قبول کر لیا.خصوصا آٹھویں مرتبہ کا جنم لینے کا قصہ نہایت دلچسپ بیان کیا جاتا ہے.چنانچہ کہتے ہیں کہ جب زمین دمیستوں کی طاقت سے مغلوب ہو گئی.تو بشن نے آدھی رات کو کنواری لڑکی کے پیٹ سے پیدا ہو کر اوتار لیا.اور جو پاپ دنیا میں پھیلے ہوئے تھے.ان سے لوگوں کو چھڑایا.یہ قصہ اگرچہ عیسائیوں کے مذاق کے موافق ہے.مگر اس بات میں ہندوؤں نے بہت عقلمندی کی.کہ عیسائیوں کی طرح اپنے اوتاروں کو سولی نہیں دیا اور نہ ان کے لعنتی ہونے کے قائل ہوئے.قرآن شریف کے بعض اشارات سے نہایت صفائی کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو خدا بنانے کے موجد پہلے آریہ ورت کے برہمن ہی ہیں کنارہ کا قید ندیوں اور پھر یہی خیالات یونانیوں نے ہندوؤں سے لئے.آخر اس مکر وہ اعتقاد میں ان دونوں اور یونانیوں کی نقل قوموں کے فضلہ خوار عیسائی بنے.اور ہندوؤں کو ایک اور بات دور کی سوجھی جو عیسائیوں کو نہیں سوجھی.اور وہ ہم کہ ہندو لوگ خدائے ازلی ابدی کے قدیم قانون میں یہ بات داخل رکھتے ہیں کہ جب سبھی دنیا گناہ سے بھر گئی تو آخر ان کے پر میشر کو یہی تدبیر خیال میں آئی کہ خود دنیا میں جنم لے کر لوگوں کو نجات دیو ہے.اور ایسا واقعہ صرف ایک دفعہ نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ ضرورت کے وقتوں میں ہوتا رہا.لیکن گو عیسائیوں کا یہ تو عقیدہ ہے کہ -

Page 167

۱۴۹ خدا تعالیٰ قدیم ہے اور گذشتہ زمانہ کی طرف خواہ کیسے ہی اوپر سے اوپر چڑھتے جائیں اس خدا کے وجود کا کہیں ابتدا نہیں.اور قدیم سے وہ خالق اور رب العالمین بھی ہے لیکن وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ وہ ہمیشہ سے اور غیر متناہی زمانوں سے اپنے پیارے بیٹوں کو لوگوں کے لئے سولی پر چڑھاتا رہا ہے.بلکہ کہتے ہیں کہ یہ تدبیر ابھی اس کو کچھ تھوڑے خدا قدیم سے ہے مگر عرصہ سے ہی سوجھی ہے.اور ابھی بڑھے باپ کو یہ خیال آیا ہے کہ بیٹے کو سولی دلا کر نے کو سولی دینے کا دوسروں کو عذاب سے بچاوے یہ تو ظاہر ہے کو اس بات کے ماننے سے کہ خدا قدیم اور خلیل اسے اب آیا.اید الاباد سے چلا آتا ہے یہ دوسری بات بھی ساتھ ہی ماننی پڑتی ہے کہ اس کی مخلوق بھی بحیثیت قدامت نوعی ہمیشہ سے ہی چلی آئی ہے.اور صفات قدیمہ کے تجلیات قدیمہ کی وجہ سے کبھی ایک عالم من عدم میں مختفی ہوتا چلا آیا ہے اور کبھی دوسرا عالم بجائے اس کے ظاہر ہوتا رہا ہے.اور اس کا شمار کوئی بھی نہیں کر سکتا کہ کس قدر عالموں کو خدا نے اس دنیا سے اٹھا کر دوسرے عالم بجائے اس کے قائم کئے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ فرما کر ہم نے آدم سے پہلے جان کو پیدا کیا تھا اس قدامت نوع عالم کی طرف اشارہ فرمایا ہے.لیکن عیسائیوں نے باوجود بدیہی ثبوت اس بات کے کہ قدامت نوع عالم ضروری ہے پھر اب تک کوئی ایسی فہرست پیش نہیں کی جس سے معلوم ہو کہ ان غیر محدود عالموں میں جو ایک دوسرے سے بالکل بے تعلق تھے کتنی مرتبہ خدا کا فرزند سولی پر کھینچا گیا کیونکہ یہ تو ظاہر ہے کہ بموجب اصول عیسائی مذہب کے کوئی شخص بجز خدا کے فرزند کے گناہ سے خالی نہیں پس اس صورت میں تو یہ سوال ضروری ہے کہ وہ مخلوق جو ہمارے اس آدم سے بھی پہلے گزر چکی ہے جن کا ان بنی آدم کے سلسلہ سے کچھ تعلق نہیں.ان کے گناہ کی معافی کا کیا بندوبست ہوا تھا.اور کیا یہی بیٹا ان کو نجات دینے کے اس آدم سے پہلی لئے پہلے بھی کئی مرتبہ پھانسی مل چکا ہے یاوہ کوئی دوسرا بیٹا تھا جو پہلے زمانوں میں پہلی مخلوق حقوق کے مناد کی معانی کا کیا بندوبست تھا.کے لئے سولی چڑھتا رہا.جہاں تک ہم خیال کرتے ہیں نہیں تو یہ سمجھ آتا ہے کہ اگر صلیب کے بغیر گناہوں کی معافی نہیں تو عیسائیوں کے خدا کے بے انتہا اور ان گنت اگر صلیب کے بغیر بیٹے ہوں گے جو قتافوقتمان معرکوں میں کام آئے ہوں گے اور ہر ایک اپنے وقت پر پھانسی مکھیوں کی معافی نہیں تو ملا ہو گا.میں ایسے خدا سے کسی بہبودی کی امید رکھنا لا حاصل ہے جس کے خود اپنے ہی عیسائیوں کے خدا کے ان گنت بیٹے ہوں نوجوان بچے مرتے رہے.امرت سر کے مباحثہ میں بھی ہم نے یہ سوال کیا تھا کہ عیسائی یہ اقرار کرتے ہیں کہ ان کا گے.

Page 168

۱۵۰ کیا علاج ہے.خدا کسی کو گناہ میں ہلاک کرنا نہیں چاہتا.پھر اس صورت میں ان پر یہ اعتراض ہے کہ شیاطین کے گناہوں کا اس خدا نے ان شیاطین کی پلید روحوں کی نجات کے لئے کیا بندو بست کیا.جن پلید روحوں کا ذکر انجیل میں موجود ہے.کیا کوئی ایسا بیٹا بھی دنیا میں آیا.جس نے شیاطین کے گناہوں کے لئے اپنی جان دی ہو یا شیاطین کو گناہ سے باز رکھا ہو.اگر ایسا کوئی انتظام نہیں ہوا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسائیوں کا خدا اس بات پر ہمیشہ راضی رہا ہے جو شیاطین کو جو عیسائیوں کے اقرار سے بنی آدم سے بھی زیادہ ہیں.ہمیشہ کی جہنم میں جلادے.پھر جب کہ ایسے کسی بیٹے کا نشان نہیں دیا گیا.تو اس صورت میں تو عیسائیوں کو اقرار کرنا پڑا کہ ان کے خدا نے شیاطین کو جہنم کے لئے ہی پیدا کیا ہے.غرض بے چارے عیسائی جب سے ابن مریم کو خدا بنا بیٹھے ہیں.بڑی بڑی مصیبتوں میں پڑے ہوئے ہیں کوئی ایسا دن نہیں ہو گا کہ خود انہیں کی روح ان کے اس اعتقاد کو نفرت سے نہیں دیکھتی ہوگی.پھر ایک اور مصیبت ان کو یہ پیش آئی ہے کہ اس مصلوب کی علت عالی عند التحقیق کچھ ثابت نہیں ہوتی.اور اس کے صلیب پر کھینچے جانے کا کوئی صلیب پرکھنے جانے کا ثمرہ بپایہ ثبوت نہیں پہنچتا.کیونکہ صورتیں صرف دو ہیں.کوئی ثمرہ بیانیہ ثبوت ا (۱) اول یہ کو اس مرحوم بیٹے کے مصلوب ہونے کی علت غائی یہ قرار دیں کہ تا ں پہنچتا.اپنے ماننے والوں کو گناہ کرنے میں دلیر کرے اور اپنے کفارے کے سہارے سے خوب زور شور سے فسق و فجور اور ہر یک قسم کی بدکاری پھیلا دے..سو یہ صورت تو بہداہت نا معقول اور شیطانی طریق ہے.اور میرے خیال میں دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہو گا کہ اس فاسقانہ طریق کو پسند کرے.اور ایسے کسی مذہب کے بانی کو نیک قرار دے جس نے اس طرح پر عام آدمیوں کو گناہ کرنے کی ترغیب دی ہو.بلکہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس طرح کا فتوی وہی لوگ دیتے ہیں جو در حقیقت ایمان اور نیک چلنی سے محروم رہ کر اپنے اغراض نفسانی کی وجہ سے دوسروں کو بھی بد کاریوں کے جنم میں ڈالنا چاہتے تھے اور یہ لوگ در حقیقت ان نجومیوں کے مشابہ ہیں جو ایک شارع عام میں بیٹھ کر راہ چلتے لوگوں کو پھلاتے اور فریب دیتے ہیں.اور ایک ایک پیسہ لے کر بیچارے حمقاء کو بڑے تسلی بخش الفاظ میں خوشخبری دیتے ہیں کہ عنقریب ان کی ایسی ایسی نیک قسمت کھلنے والی ہے.اور ایک نیچے محقق کی صورت بنا کر ان کے ہاتھ کے نقوش اور چہرہ کے خط و خال کو بہت توجہ سے دیکھتے بھالتے ہیں.گویا وہ بعض نشانوں کا پتہ لگار ہے ہیں.اور پھر ایک

Page 169

۱۵۱ کشی کتاب کے ورقوں کو جو صرف اس فریب دہی کے لئے آگے دھری ہوتی.ہے الٹ پلٹ کر یقین دلاتے ہیں کہ در حقیقت پوچھنے والے کا ایک بڑا ہی ستارہ قسمت چمکنے والا غالباً کسی ملک کا بادشاہ ہو جائے گا.ورنہ وزارت تو کہیں نہیں گئی.اور یا یہ لوگ جو کسی کو باوجود اس کی دائمی ناپاکیوں کے خدا کا مورد فضل بنانا چاہتے ہیں.ان کیمیا گروں کی مانند ہیں جو ایک سادہ لوح مگر دولت مند کو دیکھ دیکھ کر طرح طرح کی لاف زنیوں سے شکار کرنا چاہتے ہیں.اور ادھر ادھر کی باتیں کرتے کرتے پہلے آنے والے کیمیا گروں کی مذمت کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ جھوٹے بد ذات ناحق اچکوں کے طور پر لوگوں کا مال فریب سے کھسکا کر لے جاتے ہیں.اور پھر آخر بات کو کشاں کشاں اس حد پہنچاتے ہیں کہ صاحبو میں نے اپنے پچاس یا ساٹھ برس کی عمر میں جس کو کیمیا گری کا مدعی یکھا جھوٹ ہی پایا.ہاں میرے گورو بیکنٹھ باشی سچے رسائی تھے.کروڑ ہاروپیہ کا دان کر گئے.مجھے خوش نصیبی سے باراں برس تک ان کی خدمت کا شرف حاصل ہوا اور پھل پایا.پھل پانے کا نام سن کر ایک جاہل بول اٹھتا ہے کہ بابا جی تب تو آپ نے ضرور رسائن کا نسخہ گوروجی سے سیکھ لیا ہو گا.یہ بات سن کر بابا جی کچھ ناراض ہو کر تیوری چڑھا کر بولتے ہیں کہ میاں اس بات کا نام نہ لو ہزاروں لوگ جمع ہو جائیں گے.ہم تو لوگوں سے چھپ کر بھاگتے پھرتے ہیں.غرض ان چند فقروں سے ہی جاہل دام میں آ جاتے ہیں پھر تو شکار دام افتادہ کو ذبح کرنے کے لئے کوئی بھی دقت باقی نہیں رہتی.خلوت میں راز کے طور پر سمجھاتے ہیں کہ در حقیقت تمہاری ہی خوش قسمتی ہمیں ہزاروں کوسوں سے کھینچ لائی ہے.اور اس بات سے ہمیں خود بھی حیرانی ہے کہ کیونکر یہ سخت دل تمہارے لئے نرم ہو گیا.اب جلدی کرو.اور گھر سے مانگ کر دس ہزار کا طلائی زیور لے آؤ.ایک ہی رات میں وہ چند ہو جائے گامگر خبر دار کسی کو میری اطلاع نہ دینا.کسی اور بہانہ سے مانگ لینا.قصہ کوتاہ یہ کہ آخر زیور لے کر اپنی راہ لیتے ہیں.اور وہ دیوانے دو چند کی خواہش کرنے والے اپنی جان کو روتے رہ جاتے ہیں.یہ اس طمع کی شامت ہوتی ہے جو قانون قدرت سے غفلت کر کے انتہاء تک پہنچائی جاتی ہے.مگر میں نے سنا ہے کہ ایسے ٹھگوں کو یہ ضرور ہی کہنا پڑتا ہے کہ جس قدر ہم سے پہلے آئے یا بعد میں آدیں گے یقینا سمجھو کہ وہ سب فریبی اور بٹ مار اور ناپاک اور جھوٹے اور اس نسخہ سے بے خبر ہیں.ایسا ہی عیسائیوں کی پڑی بھی جم نہیں سکتی جب تک کہ حضرت

Page 170

۱۵۲ آدم سے لے کر اخیر تک تمام مقدس نبیوں کو پاپی اور بد کار نہ بنائیں.(۲) دوسری صورت اس قابل رحم بیٹے کے مصلوب ہونے کی یہ ہے کہ اس سولی ملنے کی یہ علت غائی قرار دی جائے.کہ اس کی سولی پر ایمان لانے والے ہر یک قسم کفارہ کسی کو نفسانی کے گناہ اور بدکاریوں سے بچ جائیں گے اور ان کے نفسانی جذبات ظہور میں نہ آنے پائیں جذبات سے بچا نہ گے.مگر افسوس کہ جیسا کہ پہلی صورت خلاف تہذیب اور بدیہی البطلان ثابت ہوئی تھی ایسے ہی یہ صورت بھی کھلے کھلے طور پر باطل ہی ثابت ہوئی ہے.کیونکہ اگر فرض کیا جائے.کہ یسوع کا کفارہ ماننے میں ایک ایسی خاصیت ہے کہ اس پر سچا ایمان لانے والا فرشته سیرت بن جاتا ہے اور پھر بعد ازاں اس کے دل میں گناہ کا خیال ہی نہیں آتا.تو تمام گذشتہ نبیوں کی نسبت کہنا پڑے گا کہ وہ یسوع کی سولی اور کفارہ پر ایمان نہیں لائے تھے.کیونکہ انہوں نے تو بقول عیسائیاں بدکاریوں میں حد ہی کر دی.سکا.پہنچا.تو اس سے صاف طور پر ثابت ہو گیا کہ یہ جھوٹا کفارہ کسی کو نفسانی جذبات سے بچا نہیں می کی ذات کو بھی کنارہ سکتا.اور خود مسیح کو بھی بچانہ سکا.دیکھو وہ کیسے شیطان کے پیچھے پیچھے چلا گیا حلانکہ اس سے کوئی فائدہ نہ کو جانا مناسب نہ تھا اور غالبا یہی حرکت تھی جس کی وجہ سے وہ ایسا نادم ہوا کہ جب ایک شخص نے نیک کہا تو اس نے روکا کہ مجھے کیوں نیک کہتا ہے.حقیقت میں ایسا شخص جو شیطان کے پیچھے پیچھے چلا گیا.کیونکر جرات کر سکتا ہے کہ اپنے تئیں نیک ہے.یہ بات یقینی ہے کہ یسوع نے اپنے خیال سے اور بعض اور باتوں کی وجہ سے بھی اپنے تئیں نیک کہلانے سے کنارہ کشی ظاہر کی مگر افسوس کہ اب عیسائیوں نے نہ صرف نیک قرار دیا کہ بلکہ خدا بنا کر رکھا ہے غرض کفارہ مسیح کی ذات کو بھی کچھ فائدہ نہ پہنچا سکا.اور تکبر اور خود بینی جو تمام بدیوں کی جڑ ہے.وہ تو یسوع صاحب کے ہی حصہ میں آئی ہوئی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس نے آپ خدا بن کر سب نبیوں کہ رہزن اور بٹ مار اور نا پاک حالت کے آدمی قرار دیا ہے حالانکہ یہ اقرار بھی اس کی کلام سے نکلتا ہے کہ وہ خود بھی نیک نہیں ہے مگر افسوس کہ تکبیر کا سیلاب اس کی تمام حالت کو برباد کر گیا ہے.کوئی بھلا آدمی گذشتہ بزرگوں کی مذمت نہیں کرتا.لیکن اس نے پاک نبیوں کو رہزنوں اور بٹ ماروں کے نام سے موسوم کیا ہے.اس کی زبان پر دوسروں کے لئے ہر وقت بے ایمان حرام کار کا لفظ چڑھا ہوا ہے.کسی کی نسبت ادب کا لفظ استعمال نہیں کیا.کیوں نہ ہو خدا کا فرزند جو حواریوں پر کیا الر ہوا ہوا.اور پھر جب دیکھتے ہیں کہ یسوع کے کفارہ نے حواریوں کے دلوں پر کیا اثر کیا.کیا وہ

Page 171

۱۵۳ اس پر ایمان لا کر گناہ سے باز آگئے.تو اس جگہ بھی بھی پاکیزگی کاخانہ خالی ہی معلوم ہوتا عمر ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ وہ لوگ سولی ملنے کی خبر کو سن کر ایمان لاچکے تھے.لیکن پھر بھی اب تک گناہ رک نہ نتیجہ یہ ہوا کہ یسوع کی گرفتاری پر پطرس نے سامنے کھڑے ہو کر اس پر لعنت بھیجی باقی سب بھاگ گئے.اور کسی کے دل میں اعتقاد کا نور باقی نہ رہا پھر بعد اس کے گناہ سے رکنے کا اب تک یہ حال ہے کہ خاص یورپ کے محققین کے اقراروں سے یہ بات ثابت ہے کہ یورپ میں حرام کاری کا اس قدر زور ہے کہ خاص لنڈن میں ہر سال ہزاروں حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں.اور اس قدر گندے واقعات یورپ کے شائع ہوئے ہیں کہ کہنے اور سننے کے لائق نہیں.شراب خواری کا اس قدر زور ہے کہ اگر ان دو کانوں کو ایک خط مستقیم میں باہم رکھ دیا جائے تو شاید ایک مسافر کی دو منزل طے کرتے تک بھی وہ دوکانیں ختم نہ ہوں.عبادات سے فراغت ہے.اور دن رات سوا عیاشی اور دنیا پرستی کے کام نہیں پس اس تمام تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یسوع کے مصلوب ہونے سے اس پر ایمان لانے والے گناہ سے رک نہیں سکے.بلکہ جیسا کہ بند ٹوٹنے سے ایک تیز دھار دریا کا پانی اردگرد کے دیہات کو تباہ کر جاتا ہے ایسا ہی کفارہ پر ایمان لانے والوں کا حال ہو رہا ہے.اور میں جانتا ہوں کہ عیسائی لوگ اس پر زیادہ بحث نہیں کریں گے کیونکہ جس حالت میں ان نبیوں کو جن کے پاس خدا کا فرشتہ آتا تھا.یسوع کا کفارہ بدیوں سے روک نہ سکا.تو پھر کیونکر تاجروں اور پیشہ وروں اور خشک پادریوں کو ناپاک کاموں سے روک سکتا ہے غرض عیسائیوں کے خدا کی کیفیت یہ ہے جو ھم بیان کر چکے.معیار المذاہب.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۷۲ تا ۴۸۶ حاشیه سکا.۱۲۸ اور اگر ہم عیسائیوں کے اس اصول کو لعنت کے مفہوم کے رو سے جانچیں جو سیح کی نسبت تجویز کی گئی ہے تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس اصول کو قائم کر کے عیسائیوں نے یسوع مسیح کی وہ بے ادبی کی ہے جو دنیا میں کسی قوم نے اپنے رسول یا نبی کی کفارہ کا مہندر لعنت نہیں کی ہوگی.کیونکہ یسوع کا لعنتی ہو جانا کو وہ تین دن کے لئے ہی سہی عیسائیوں کے عقیدہ میں داخل ہے.اور اگر یسوع کو لعنتی نہ بنایا جائے تو مسیحی عقیدہ کے رو سے کفارہ اور قربانی وغیرہ سب باطل ہو جاتے ہیں.گویا اس تمام عقیدہ کا شہتیر لعنت ہی

Page 172

| | ۱۵۴ ہے.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جوابات روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۳۱ میں سچ کہتا ہوں کہ جب سے ان عیسائیوں نے خدا کو چھوڑ کر الوہیت کا تاج ایک عاجز انسان کے سر پر رکھ دیا ہے اندھے ہو گئے ہیں ان کو کچھ دکھائی نہیں دیتا.ایک تین دن کے لئے ہاویہ طرف اسے خدا بناتے ہیں دوسری طرف صلیب پر چڑھا کر اسے لعنتی ٹھراتے ہیں اور پھر تین دن کے لئے ہادیہ میں بھی بھیجتے ہیں.کیا وہ دوزخ میں دوزخیوں کو نصیحت کرنے گئے تھے یا ان کے لئے وہاں جاکر کفارہ ہونا تھا؟ ملفوظات جلد ۳ صفحه ۱۶۷، ۱۶۸ بعض عیسائی کہتے ہیں کہ یسوع با دس یعنی جہنم میں تحت الثری کے قیدیوں کو منادی یسوع جنم میں نصیحت کرنے گیا تھا مگر ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ لعنت کے دنوں کا کیا تقاضا تھا.کیا سزا اٹھانے کے لئے گیا.کے لئے جانا یا نصیحت کے لئے.ایک ملعون دوسرے کو کیا نصیحت کر سکتا ہے اور پھر دوزخیوں کو نصیحت کیا فائدہ کرے گی مرکز تو ہر ایک شخص راہ راست کو سمجھ جاتا ہے اور اگر اس وقت کا سمجھنا کچھ چیز ہے تو پھر ایک بھی دوزخ میں نہیں رہ سکتا.کتاب البریه روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۸۸ حاشیه در حاشیه یسوع کا جہنم میں جانا ان کتابوں سے ثابت ہوتا ہے.انجیل متی کی تفسیر خزانہ یسوع کا جسم میں الاسرار تألیف پادری عماد الدین صفحہ ۴۹۸ سطر میں ” خدا کا سارا غضب جو گناہ کے جانا (نعوذ بالله سبب سے ہے اس پر آگیا " آب ظاہر ہے کہ یہ غضب وہی چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں جنم کہتے ہیں.پھر اسی خزمانہ الاسرار کی بائیسویں سطر میں مسیح کی نسبت زبور جو سے یہ پیش گوئی نقل کی ہے ” تو نے مجھے گڑھے کے اسفل میں ڈالا اندھیرے مکانوں میں گہراؤوں میں اب ظاہر ہے کہ یہ اندھیرے کے مکان عیسائیوں کے نزدیک جہنم ہے.پھر کتاب جامعہ الفرائض مطبوعہ امریکن مشن پریس لودھیانه ۱۸۶۲ء صفحه ۶۳ سطر ۱۶.۷ ا میں مسیح کی نسبت یہ عبارت ہے ” کیونکہ کوئی گناہ ایسا نہیں جس کو

Page 173

۱۵۵ | اس کا خون صاف نہ کر سکے اور کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا اس نے بدلہ نہ دیا ہو اور کوئی سزاء گناہ ایسی نہیں جو اس نے نہ اٹھائی ہو " اور ظاہر ہے کہ گناہگاروں کی خاص سزا جہنم ہے جس کا اٹھانا پوری سزا اٹھانے کے لئے ضروری ہے.پھر اسی کتاب کے صفحہ ۹۲ سطر ۱۴ - ۱۵ میں سزا کی تشریح یہ لکھی ہے ” دیندار لوگ مرتے وقت ہی آرام کی جگہ میں داخل ہوتے ہیں اور بے دین اسی وقت دوزخ میں گرتے ہیں." اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع نے سب گناہ اپنے پر لیکر ضرور جہنم کی سزا اٹھائی.اور رسالہ معمودیہ البالغین کے صفحہ ۲۹۱ سطر او ۲ میں یسوع کی نسبت عیسائیوں کا عقیدہ یہ لکھا ہے ”صلب و مات وقير ونزل الى الجعيم " لا يعنى يسوع مصلوب ہوا اور مرگیا اور قبر میں داخل ہوا اور جہنم میں اترا.اب ان تمام عبارتوں سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح جہنم میں گیا اور اس نے ساری سیزائیں اٹھائیں.عیسائی اس بات کے بھی قائل ہیں کہ صلیب کی سزا تو صرف چند گھنٹے تھی لعنت موت کے بعد تین دن تک رہی.اب ظاہر ہے کہ لعنت کے ایام میں کسی قسم کا عذاب یسوع کے شامل حال ہو گا اور وہ عذاب بجز دوزخ کے اور کوئی نہیں اور نیز جبکہ یسوع کا فرض تھا کہ وہ آپ سزا اٹھا کر خدا تعالیٰ کا عدل پورا کرے تو پھر اگر صرف دنیا کا چند گھنٹوں کا دکھ اس نے دیکھا اور جہنم میں نہیں گیا تو اس صورت میں خدا کا عدل کیونکر پورا ہو گا.حلانکہ انجیل متی کی تفسیر میں پادری عماد الدین لکھتے ہیں کہ " خدا مسیح کے دل کے سامنے سے ہٹ گیا.تا کہ اپنی عدالت خوب پوری کرے " یعنی باعث لعنت یسوع کا دل تاریک ہو گیا اور تغییر کتاب اعمال ملقب به تذکرۃ الابرار مطبوعہ ۱۸۷۹ امریکن مشن پریس لودھیانہ میں مسیح کی نسبت یہ عبارت ہے مسیح خداوند کا شکر ہو کہ اس نے شریعت کی ساری لعنت کو اپنی صلیبی موت میں اپنے اوپر اٹھا کے ہمیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں شریعت کی لعنت سے آزاد کر دیا کہ وہ آپ ہمارے بدلے لعنتی ہوا.ہم سب حقیقت میں لعنتی تھے اور یہ لعنت ابد تک ہمارے اوپر تھی.کبھی ہم اس کے نیچے سے نکل نہ سکتے کیونکہ لاچار اور کمزور تھے پر وہ ہمارے لئے لعنتی ہوا کہ ہماری کا حال کے بعض عیسائی کتابوں میں بجائے جہنم با دس لکھا ہے جو ایک یونانی لفظ ہے جس کے معنی ہاو یہ ہے جس کو عبرانی میں ہاوث کہتے ہیں در حقیقت یہ دونوں لفظ ہادس اور ہاوث عربی کے لفظ ہاویہ سے لئے گئے ہیں.منہ

Page 174

۱۵۶ ۱۳۳ لعنت نت اس نے اپنے اوپر اٹھالی اور ہمیں اس سے مخلصی دی اور آپ بھی اس لعنت کے نیچے سے تیسرے دن نکل آیا " اب اس جگہ عیسائیوں کے عدل کی حقیقت بھی کھل گئی کہ اوروں کے لئے ابدی لعنت اور بیٹے کے لئے صرف تین دن.اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ ایک منٹ کی لعنت بھی شیطان سیرت بنا دیتی ہے چنانچہ کتاب جامعۃ الفرائض صفحہ ۹۲ میں لکھا ہے کہ " اس بے ایمانوں کے لشکر کے ساتھ شیطان ہو دیں گے " بہر حال عیسائیوں کا یہی عقیدہ ہے کہ تین دن جو لعنت کے دن تھے یسوع جہنم کا عذاب بھگتتا وو رہا.اور کتاب راہ زندگی مطبوعہ اللہ آباد ۱۸۵۰ء صفحہ ۶۹ سطر ۸ میں لکھا ہے کہ سزا ( یعنی گناہ گار کی سزا ) اکثر موت کے لفظ سے مذکور ہوتی ہے موت نہ صرف جسم کی بلکہ روح کی بھی نہ صرف دنیاوی بلکہ ابدی اور اسی کتاب راہ زندگی میں جو تالیف ڈاکٹر ہاج ڈی ڈی باشندہ امریکہ ہے لکھا ہے کہ ” لعنت اور موت اور غضب اور وہ سزا جو گنہگاروں کو ملے گی سب ایک چیز ہیں اور پھر پی اس عقیدہ کی تائید میں لکھتا ہے کہ " " مسیح نے کہا ہے کہ گنگا جہنم کی اس آگ میں جو کبھی نہیں مجھے گی ڈالے جائیں گے ؟ (مرقس باب ۹ آیت ۴۱ ) کتاب البری روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۸۳ تا ۲۸۸ حاشیه در حاشیه یہ کیسا انصاف ہے کہ اس نے اپنے بیٹے کو سزادینے کے لئے صرف تین دن مقرر کئے.مگر دوسرے لوگوں کی سزا کا حکم ابدی ٹھرایا جس کا کبھی بھی انتہا نہیں اور چاہا کہ وہ بیٹے کو سزا صرف تین دن اور دوسروں کو ہمیشہ اور ابد تک دوزخ کے تنور میں جلتے رہیں.کیارحیم کریم خدا کو ایسا کرنا مناسب تھا ؟ ابدی.بلکہ چاہئے تو یہ تھا کہ اپنے بیٹے کو زیادہ مزا دیتا کیونکہ وہ بوجہ خدائی قوتوں کے زیادہ سزا کا متحمل ہو سکتا تھا.خدا کا بیٹا جو ہوا.اس کی طاقت کے ساتھ دوسروں کی طاقت کب برابر ہو سکتی ہے جو غریب اور عاجز مخلوق ہیں.لیکچر لاھور روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۷۱ چونکہ عیسائیوں کا یہ ایک متفق علیہ عقیدہ ہے کہ یسوع مصلوب ہو کر تین دن کے لئے لعنتی ہو گیا تھا اور تمام مدار نجات کا ان کے نزدیک اسی لعنت پر ہے تو اس لعنت کے خدا کی لعنت اور کسر مفہوم کی رو سے ایک ایسا سخت اعتراض وارد ہوتا ہے جس سے تمام عقیدہ تثلیث اور صليب

Page 175

۱۵۷ کفارہ اور نیز گناہوں کی معافی کا مسئلہ کالعدم ہو کر اس کا باطل ہونا بد یہی طور پر ثابت ہو جاتا ہے.اگر کسی کو اس مذہب کی حمایت منظور ہے تو جلد جواب دے.ورنہ دیکھو یہ ساری عمارت گر گئی اور اس کا گرنا ایسا سخت ہوا کہ سب عیسائی عقیدے اس کے نیچے کچلے گئے.نہ تثلیث رہی نہ کفارہ نہ گناہوں کی معافی.خدا کی قدرت دیکھو کہ کیسا کسیر صلیب ہوا.اب ہم صفائی اعتراض کے لئے پہلے لعنت کی رو سے لعنت کے لفظ کے معنی کرتے ہیں اور پھر اعتراض کو بیان کر دیں گے سو جانا چاہئے کہ لسان العرب میں کہ جو لغت کی ایک پرانی کتاب اسلامی تالیفات میں سے ہے.اور ایسا ہی قطر المحیط اور محیط اور اقرب الموارد میں جو دو عیسائیوں کی تالیفات ہیں جو حال میں بمقام بیروت چھپ کر شائع ہوئی کی ہیں اور ایسا ہی کتب لغت کی تمام کتابوں میں جو دنیا میں پائی جاتی ہیں، لعنت کے معنے یہ لکھے ہیں.اللعن الابعاد والطرد من الخير ومن الله ومن الخلق و من أبعده الله لم تلحقه رحمته وخلّد في العذاب واللعين الشيطان والممسوخ وقال الشماخ مقام الذئب كالرجل اللعین.( لعن کا لفظ عربی اور عبرانی میں مشترک ہے ) یعنی لعنت کا مفہوم یہ ہے کہ لعنتی اس کو کہتے ہیں جو ہر یک خیر و خوبی اور ہر قسم کی ذاتی صلاحیت اور خدا کی رحمت اور خدا کی معرفت سے بلکلی بے بہرہ اور بے نصیب ہو جائے اور ہمیشہ کے عذاب میں پڑے یعنی اس کا دل بکتی سیاہ ہو جائے اور بڑی نیکی سے لے کر چھوٹی نیکی تک کوئی خیر کی بات اس کے نفس میں باقی نہ رہے اور شیطان بن جائے اور اس کا اندر مسخ ہو جائے یعنی کتوں اور سوڑوں اور بندروں کی خاصیت اس کے نفس میں پیدا ہو جائے اور شماخ نے ایک شعر میں لعنتی انسان کا نام بھیڑیا کھا ہے اس مشابہت سے کہ لعنتی کا باطن مسخ ہو جاتا ہے.تم " کلا ہم.ایسا ہی عرف عام میں بھی جب یہ بولا جاتا ہے کہ فلاں شخص پر خدا کی لعنت ہے تو هر یک ادنی اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ وہ شخص خدا کی نظر میں واقعی طور پر پلید باطن اور بے ایمان اور شیطان ہے اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے روگردان ہے.اب اعتراض یہ ہے کہ جس حالت میں لعنت کی حقیقت یہ ہوئی کہ ملعون ہونے کی حالت میں انسان کے تمام تعلقات خدا سے ٹوٹ جاتے ہیں اور اس کا نفس پلید اور اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ خدا سے بھی رو گر دائی اختیار کرتا ہے اور اس میں اور

Page 176

شیطان میں ذرہ فرق نہیں رہتا تو اس وقت ہم حضرات پادری صاحبوں سے بکمال ادب یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ در حقیقت یہ لعنت اپنے تمام لوازم کے ساتھ جیسا کہ ذکر کیا گیا یسوع پر خدا تعالیٰ کی طرف سے پڑگئی تھی اور وہ خدا کی لعنت اور غضب کے نیچے آکر سیاہ دل اور خدا سے رو گردان ہو گیا تھا.میرے نزدیک تو ایسا شخص خود لعنتی ہے کہ ایسے برگزیدہ کا نام لعنتی رکھتا ہے جو دوسرے لفظوں میں سیاہ دل اور خدا سے بر گشتہ اور شیطان سیرت کہنا چاہئے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسا پیارا در حقیقت اس لعنت کے نیچے آ گیا تھاجو پوری پوری خدا کی دشمنی کے بغیر متحقق نہیں ہو سکتی.کیونکہ لعنت کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ خدا لعنتی انسان کا واقعی طور پر دشمن ہو جائے اور ایسا ہی لعنتی انسان خدا کا دشمن ہو جائے اور اس دشمنی کی وجہ سے بندروں اور سوڑوں اور کتوں سے بد تر ہو جائے کیونکہ بندر وغیرہ خدا تعالیٰ کے دشمن نہیں ہیں.لیکن لعنتی انسان خدا تعالی کا دشمن ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی لفظ اپنے لوازم سے الگ نہیں ہو سکتا.جب ہم ایک کو سیاہ دل اور شیطان یا بندر اور کتا کہیں گے تو تبھی کہیں گے کہ جب شیطان اور بندروں اور کتوں کے صفات اس میں موجود ہو جائیں.پس جبکہ تمام دنیا کے اتفاق سے لعنت کا یہی مفہوم ہے تو یہ دو باتیں ایک وقت میں کب جمع ہو سکتی ہیں کہ ایک شخص بمقتضائے مفہوم لعنت خدا سے برگشتہ بھی ہو اور با خدا بھی، اور خدا کا دشمن بھی ہو اور دوست بھی، اور منکر بھی ہو اور اقراری بھی.محبت کا تعلق لعنت کے مفہوم کو منافی ہے جبھی کہ ایک پر لعنت پڑ گئی اسی وقت خدا سے جتنے قرب اور محبت اور رحم کے تعلقات تھے، تمام ٹوٹ گئے.اور ایسا شخص شیطان ہو گیا.اور سیاہ دل اور خدا کا منکر بن گیا.اب اگر خدا نخواستہ کچھ دنوں تک یسوع پر لعنت پڑ گئی تھی تو اس کا خدا تعالیٰ سے ابدیت کا علاقہ اور پیارا بیٹا ہونے کا لقب کیونکر باقی رہ سکتا تھا کیونکہ بیٹا ہونا تو یکطرف خود پیارا ہوتا لعنت کے مفہوم کے بر خلاف ہے.خدا کے کسی پیارے کو ایک دم کے لئے بھی شیطان کہنا کسی شیطان کا کام ہے نہ انسان کا پس میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شریف آدمی ایک سیکنڈ کے لئے بھی یسوع کے لئے یہ تمام نام جائز رکھے جو لعنت کی حقیقت اور روح ہیں.پس اگر جائز نہیں تو دیکھو کہ کفارہ کی تمام عمارت گر گئی اور شلینی مذہب ہلاک ہو گیا اور صلیب ٹوٹ گیا.کیا کوئی دنیا میں ہے جو اس کا جواب دے ؟ ۱۵۸

Page 177

۱۵۹ را تم غلام احمد قادیانی ۲ مارچ ۱۸۹۷ - مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۳۳ تا ۳۳۵ لعنت کا مفہوم اور حضرت مسیح علیہ السلام کو لعنتی ٹھرانے کا عقیدہ جو عیسائیوں کے مذہب کا اصل الاصول ہے ایسا صریح البطلان ہے کہ ایک سطحی خیال کا انسان بھی معلوم کر سکتا ہے کہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ایسا مذ ہب سچا ہو جسکی بنیاد ایسے عقیدے پر ہو جو ایک راست باز تشریح کے دل کو لعنت کے سیاہ داغ کے ساتھ ملوث کرنا چاہتا ہے.کیونکہ لعنت کا لفظ جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے نہایت پلید معنے رکھتا ہے.اور اس لفظ کے ایسے خبیث معنے ہیں کہ بجزر شیطان کے اور کوئی اس کا مصداق نہیں ہو سکتا.کیونکہ عربی اور عبرانی کی زبان میں ملعون اس کو کہتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہمیشہ کے لئے رد کیا جائے اسی وجہ سے لعین شیطان کا نام ہے.کیونکہ وہ ہمیشہ کے لئے رحمت الہی سے رد کیا گیا ہے اور خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں توریت سے قرآن شریف تک کسی ایسے شخص کی نسبت ملعون ہونے کا لفظ نہیں بولا گیا.جس نے انجام کار خدا کی رحمت اور فضل سے حصہ لیا ہو.بلکہ ہمیشہ سے یہ ملعون اور لعنتی کالفظ انہی ازلی بد بختوں پر اطلاق پاتا رہا ہے جو ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت اور نجات اور نظر محبت سے بے نصیب کئے گئے اور خدا کے لطف اور مہربانی اور فضل سے ابدی طور پر دور اور مہجور ہو گئے.اور ان کا رشتہ دائمی طور پر خدا تعالیٰ سے کاٹ دیا گیا اور اس جہنم کا خود ان کے لئے قرار پایا جو خدا تعالی کے غضب کا جہنم ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہونے کی امید نہ رہے اور نبیوں کے منہ سے بھی یہ لفظ کبھی ایسے اشخاص کی نسبت اطلاق نہیں پایا جو کسی وقت خدا کی ہدایت اور فضل اور رحم سے حصہ لینے والے تھے.اس لئے یہودیوں کی مقدس کتاب اور اسلام کی مقدس کتاب کی رو سے یہ عقیدہ متفق علیہ مانا گیا ہے کہ جو شخص ایسا ہو کہ خدا کی کتابوں میں اس پر ملعون کا لفظ بولا گیا ہو وہ ہمیشہ کے لئے خدا کی رحمت سے محروم اور بے نصیب ہوتا ہے.جیسا کہ اس آیت میں بھی اشارہ ہے ملعونین اینا ثقفوا الخذوا وقتلوا تقتیلا.یعنی زنا کار اور زنا کاری کی اشاعت کرنے والے جو مدینہ میں ہیں یہ لعنتی ہیں یعنی ہمیشہ کے لئے خدا کی رحمت سے رد کئے گئے.اس لئے یہ اس لائق ہیں کہ جہاں ان کو پاؤ

Page 178

لعنت قتل کر دو.پس اس آیت میں اس بات کی طرف یہ عجیب اشارہ ہے کہ لعنتی ہمیشہ کے لئے ہدایت سے محروم ہوتا ہے اور اس کی پیدائش ہی ایسی ہوتی ہے جس پر جھوٹ اور بدکاری کا جوش غالب رہتا ہے.اور اسی بنا پر قتل کرنے کا حکم ہوا.کیونکہ جو قابل علاج نہیں اور مرض متعدی رکھتا ہے اس کا مرنا بہتر ہے.اور یہی توریت میں لکھا ہے کہ لعنتی ہلاک ہو گا.علاوہ اس کے ملعون کے لفظ میں یہ کس قدر پلید معنے مندرج ہیں کہ عربی اور عبرانی زبان کے رو سے ملعون ہونے کی حالت میں ان لوازم کا پایا جانا ضروری ہے کہ کہ شخص ملعون اپنی دلی خواہش سے خدا تعالیٰ سے بیزار ہو.اور وہ خدا تعالیٰ سے اپنے دلی جوش کے ساتھ دشمنی رکھے اور ایک ذرہ محبت اور تعظیم اللہ جل شانہ کی اس کے دل میں نہ ہو.اور ایسا ہی خدا کے دل میں بھی ایک ذرہ اس کی محبت نہ ہو یہاں تک کہ وہ شیطان کا وارث ہو نہ خدا کا.اور یہ بھی لعنتی ہونے کے لوازم میں سے ہے کہ شخص ملعون خدا تعالیٰ کی شناخت اور معرفت اور محبت سے بکلی بے نصیب ہو.اب ظاہر ہے یہ لہ اور ملعون کی حالت کا مفہوم ایسانا پاک مفہوم ہے کہ ایک ادنیٰ سے ادنی ایماندار کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت اس کو منسوب کیا جائے کیونکہ ملعون ہونے سے مراد وہ سخت دلی کی تاریکی ہے جس میں ایک ذرہ خدا کی معرفت کا نور خدا کی محبت کا نور خدا کی تعظیم کا نور باقی نہ ہو.پس کیا روا ہے کہ ایسے مردار کی سی حالت ایک سیکنڈ لے لئے بھی مسیح جیسے راست باز کی طرف منسوب کی جائے.کیا نور اور تاریکی دونوں جمع ہو سکتی ہیں.لہذا اس سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ عیسائی مذہب کے یہ عقائد سراسر باطل ہیں.نیک دل انسان ایسی نجات سے بیزار ہو گا.جس کی اول شرط یہی ہو کہ ایک پاک اور معصوم اور خدا کے پیارے کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ وہ ملعون ہو گیا اور اس کا دل عمد ا خدا سے برگشتہ ہو گیا.اور اس کے سینہ میں سے خداشناسی کانور جاتا رہا اور وہ شیطان کی طرح خدا تعالیٰ کا دشمن ہو گیا.اور خدا سے بیزار ہو گیا اور شیطان کا وارث ہو گیا اور اس کا سارا دل سیاہ ہو گیا.اور لعنت کی زہرناک کیفیت سے اس کا دل اور اس کی آنکھیں اور اس کے کان اور اس کی زبان اور اس کے تمام خیالات بھر گئے.اور اس کی پلید زمین میں بجز لعنتی درختوں کے اور کچھ باقی نہ رہا.کیا ایسے اصولوں کو کوئی ایماندار اور شریف انسان اپنی نجات کا ذریعہ ٹھر ا سکتا ہے اگر نجات کا یہی ذریعہ ہے تو ہر ایک پاک دل شخص کا کانشنس یہی گواہی دے گا کہ ایسی

Page 179

191 نجالت سے ہمیشہ کا عذاب بہتر ہے.تمام انسانوں کا اس سے مرنا بہتر ہے کہ لعنت جیسا سڑا ہوا مردار جو شیطان کی خاص وراثت ہے صحیح جیسے پاک اور پاک دل کے منہ میں ڈالیں.اور اس مردار کا اس کے دل کو ذخیرہ بنا دیں.اور پھر اس مکروہ عمل سے اپنی نجات اور رہائی کی امید رکھیں.غرض یہ وہ عیسائی تعلیم ہے جس کو ہم نے سراسر ہمدردی اور خیر خواہی کی راہ سے اپنی کتابوں میں رد کیا ہے.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۳۸، ۲۳۹ و صفحه ۱۶۹ تا ۱۷۰ نیز دیکھیں تحفہ قیصریہ - روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۲۷۴ سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۶۴ تا ۶۶ ستارہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۲۱ تا ۱۲۳ لیکچر لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۸۸ ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۱۰ نیز صفحه ۱۶۷ ملفوظات.جلد ۸ صفحه ۲۵۵،۲۵۴ وغیرہ وغیرہ ۱۳۵ میں نہیں سمجھ سکتا کہ کون ایماندار یہ ناپاک لقب اس راست باز کی نسبت روا رکھ سکتا ہے جس کا نام انجیل میں نور لکھا ہے.کیا وہ نور کسی زمانہ میں تاریکی ہو گیا تھا؟ کیا وہ جو کیا نور کسی زمانہ میں تاریکی ہو گیا تھا.در حقیقت خدا سے ہے اس کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ در حقیقت شیطان سے ہے؟ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۶۹، ۱۷۰ ) ہوئی.اور یہ باتیں جو یسوع نوع انسان کی محبت کے لئے دنیا میں بھیجا گیا اور نوع انسان کی خاطر اس نے اپنے تئیں قربان کیا.یہ تمام کاروائی عیسائیوں کے خیال میں اس شرط سے گناہ سے لعنت آئی اور مفید ہے کہ جب یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یسوع اول دنیا کے گناہوں کے باعث ملعون اعت سے صلیب ہوا.اور لعنت کی لکڑی پر لٹکایا گیا.اسی لئے ہم پہلے اشارہ کر آئے ہیں کہ یسوع مسیح کی قربانی لعنتی قربانی ہے.گناہ سے لعنت آئی اور لعنت سے صلیب ہوئی.اب تنقیح طلب یہ امر ہے کہ کیا لعنت کا مفہوم کسی راست باز کی طرف منسوب کر سکتے ہیں ؟ سو

Page 180

۱۶۲ واضح ہو کہ عیسائیوں نے یہ بڑی غلطی کی ہے کہ یسوع کی نسبت لعنت کا اطلاق جائز رکھا.گو وہ تین دن تک ہی ہو یا اس سے بھی کم.کیونکہ لعنت ایک ایسا مفہوم ہے جو شخص ملعون کے دل سے تعلق رکھتا ہے.اور کسی شخص کو اس وقت لعنتی کہا جاتا ہے جبکہ اس کا دل خدا سے بالکل بر گشتہ اور اس کا دشمن ہو جائے.اسی لئے لعین شیطان کا نام ہے.اور اس بات کو کون نہیں جانتا کہ لعنت قرب کے مقام سے رد کرنے کو کہتے ہیں.اور یہ لفظ اس شخص کے لئے بولا جاتا ہے جس کا دل خدا کی محبت اور اطاعت سے دور جا پڑے اور در حقیقت وہ خدا کا دشمن ہو جائے.لفظ لعنت کے یہی معنی ہیں جس پر تمام ایل لغت نے اتفاق کیا ہے.اب ہم پوچھتے ہیں کہ اگر در حقیقت یسوع مسیح پر لعنت پڑ گئی لعنت کا مقسوم تھی تو اس لازم آتا ہے کہ در حقیقت وہ مورد غضب الہی ہو گیا تھا.اور خدا کی معرفت اور اطاعت اور محبت اس کے دل سے جاتی رہی تھی اور خدا اس کا دشمن اور وہ خدا کا دشمن ہو گیا تھا اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے بیزار ہو گیا تھا جیسا کہ لعنت کا مفہوم ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ وہ لعنت کے دنوں میں در حقیقت کافر اور خدا سے برگشتہ برگشتہ اور خدا کا دشمن اور شیطان کا حصہ اپنے اندر رکھتا تھا.پس یسوع کی نسبت ایسا اعتقاد کرنا گویا نعوذ باللہ اس کو شیطان کا بھائی بناتا ہے.اور میرے خیال میں ایک راست باز نبی کی نسبت ایسی بیا کی کوئی خدا ترس نہیں کرے گا بجز اس شخص کے جو خبیث طبع اور ناپاک طبع پس جبکہ یہ بات باطل ہوئی کہ حقیقی طور پر یسوع مسیح کا دل مورد لعنت ہو گیا تھا.تو ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایسی لعنتی قربانی بھی باطل اور نادان لوگوں کا اپنا منصوبہ ہے.اگر نجات اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ اول یسوع کو شیطان اور خدا سے برگشتہ لعنت ہے ایسی نجات اور خدا سے بیزار ٹھرایا جائے تو لعنت ہے ایسی نجلت پر ! ! ! اس سے بہتر تھا کہ عیسائی اپنے لئے دوزخ قبول کر لیتے لیکن خدا کے ایک مقرب کو شیطان کا لقب نہ دیتے.افسوس کہ ان لوگوں نے کیسی بے ہودہ اور ناپاک باتوں پر بھروسہ کر رکھا ہے.ایک طرف تو خدا کا بیٹا اور خدا سے نکلا ہوا اور خدا سے ملا ہوا فرض کرتے ہیں اور دوسری طرف شیطان کا لقب اس کو دیتے ہیں.کیونکہ لعنت شیطان سے مخصوص ہے اور لعین شیطان کا نام ہے اور لعنتی وہ ہوتا ہے جو شیطان سے نکلا اور شیطان سے ملا ہوا اور خود شیطان ہے.دو ستم کی تثلیث پس عیسائیوں کے عقیدہ کے رو سے یسوع میں دو قسم کی تثلیث پائی گئی.ایک رحمانی اور

Page 181

ایک شیطانی.اور نعوذ باللہ یسوع نے شیطان میں ہو کر شیطان کے ساتھ اپنا وجود ملایا.اور لعنت کے ذریعہ سے شیطانی خواص اپنے اندر لئے یعنی یہ کہ خدا کا نافرمان ہوا.خدا سے بیزار ہوا خدا کا دشمن ہوا.اب میاں سراج الدین آپ انصاف فرماویں کہ کیا یہ مشن جو مسیح کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کوئی روحانی یا معقولی پاکیزگی اپنے اندر رکھتا ہے ؟ کیا دنیا میں اس سے بد تر کوئی اور عقیدہ بھی ہو گا کہ ایک راست باز کو اپنی نجات کے لئے خدا کا دشمن اور خدا کا نافرمان اور شیطان قرار دیا جائے ؟ خدا کو جو قادر مطلق اور رحیم و کریم تھا اس لعنتی قربانی کی کیا ضرورت پڑی ؟ کیا اس لعنتی قربانی کی پھر جب اس اصول کو اس پہلو سے دیکھا جائے کہ کیا اس لیتی قربانی کی تعلیم یہودیوں کی تیاری یا کسی بھی روایات کی تعلیم ہود کو بھی دی تھی کو بھی دی گئی ہے یا نہیں تو اور بھی اس کے کذب کی حقیقت کھلتی ہے کیونکہ یہ بات ظاہر تھی؟ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں انسانوں کی نجات کے لئے صرف یہی ایک ذریعہ تھا کہ اس کا ایک بیٹا ہو اور وہ تمام گنہ گاروں کی لعنت کو اپنے ذمہ لے لے.اور پھر لعنتی قربانی بن کر صلیب پر کھینچا جائے تو یہ امر ضروری تھا کہ یہودیوں کے لئے توریت اور دوسری کتابوں میں جو یہودیوں کے ہاتھ میں ہیں اس لعنتی قربانی کا ذکر کیا جاتا.کیونکہ کوئی عظمند اس بات کو باور نہیں کر سکتا کہ خدا کاوہ ازلی ابدی قانون جو انسانوں کی نجات کے لئے اس نے مقرر کر رکھا ہے ہمیشہ بدلتا ر ہے اور توریت کے زمانہ میں کوئی اور ہو اور انجیل کے زمانہ میں کوئی اور.قرآن کے زمانہ میں کوئی اور ہو.اور دوسرے نبی جو دنیا کے اور حصوں میں آئے ان کے لئے کوئی اور ہو.آپ ہم جب تحقیق اور تفتیش کی نظر سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ توریت اور یہودیوں کی تمام کتابوں میں اس لعنتی قربانی کی تعلیم نہیں ہے.چنانچہ ہم نے ان دنوں میں بڑے بڑے یہودی فاضلوں کی طرف خط لکھے اور ان کو خدا تعالی کی قسم دے کر پوچھا کہ انسانوں کی نجات کے لئے توریت اور دوسری کتابوں میں تمہیں کیا تعلیم دی گئی ہے؟ کیا یہ تعلیم دی گئی ہے کہ خدا کے بیٹے کے کفارہ اور اس کی قربانی پر ایمان لاؤ ؟ یا کوئی اور تعلیم ہے ؟ تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ نجات کے بارہ میں نجات کے بارے میں توریت کی تعلیم بالکل قرآن کے مطابق ہے.یعنی خدا کی طرف سچا توریت کی تعلیم قرآن رجوع کرنا اور گناہوں کی معافی چاہنا اور جذبات نفسانیہ سے دور ہو کر خدا کی رضا کے لئے کے مطابق ہے.نیک اعمال بجالانا اور اس کے حدود اور قوانین اور احکام اور وصیتوں کو بڑے زور اور سختی کشی کے ساتھ بجالانا یہی ذریعہ نجات ہے جو بار بار توریت میں ذکر کیا گیا جس پر ہمیشہ خدا

Page 182

کے مقدس نبی پابندی کراتے چلے آئے ہیں اور جس کے چھوڑنے پر عذاب بھی نازل ہوتے رہے ہیں.اور ان فاضل یہودیوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ اپنی مفصل چٹھیات سے مجھ کو جواب دیا بلکہ انہوں نے اپنے محقق فاضلوں کی نادر اور بے مثل کتابین جو اس بارے میں لکھی گئی تھیں میرے پاس بھیج دیں جواب تک موجود ہیں اور چٹھیات بھی موجود ہیں.جو شخص دیکھنا چاہے میں دکھا سکتا ہوں اور ارادہ رکھتا ہوں کہ ایک مفصل اور کتاب میں وہ سیب اسناد درج کر دوں.اب ایک عظمند کو نہایت انصاف اور دل کی صفائی کے ساتھ سوچنا چاہئے کہ اگر یہی بات سچ ہوئی کہ خدا تعالیٰ نے یسوع مسیح کو اپنا بیا قرار دے کر اور غیروں کی لعنت اس پر ڈال کر پھر اس لعنتی قربانی کو لوگوں کی نجات کے لئے ذریعہ ٹھرایا تھا ور یہی تعلیم یہودیوں کو ملی تھی تو کیا سبب تھا کہ یہودیوں نے آج تک اس تعلیم کو پوشیدہ رکھا اور بڑے اصرار سے اس کے دشمن رہے اور یہ اعتراض اور بھی قوت پاتا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں کی تعلیم کو تازہ کرنے کے لئے ساتھ ساتھ نہبی بھی چلے آئے تھے.اور حضرت موسیٰ نے کئی لاکھ انسانوں کے سامنے توریت کی تعلیم کو بیان کیا تھا پھر کیونکر ممکن تھا کہ یہودی لوگ ایسی تعلیم کو جو متواتر نبیوں سے ہوتی آئی بھلا دیتے حالانکہ ان کو حکم تھا کہ خدا کے احکام اور وصایا کواپنی چوکھٹوں اور دروازوں اور آستینوں پر لکھیں اور بچوں کو سکھائیں اور خود حفظ کریں.اب کیا یہ بات سمجھ آسکتی ہے یا کسی کا پاک کا نفس یہ گواہی دے سکتا ہے کہ باوجود اتنی نگہداشت کے سلمانوں کے تمام فرقے یہود کے توریت کی اس پیاری تعلیم کو بھول گئے جس پر ان کی نجات کا مدار تھا.یہودی نہ آج سے بلکہ قدیم اس پیاری سے یہ کہتے چلے آئے ہیں کہ توریت میں وہی باتیں ذریعہ نجات بتلائی گئی ہیں جو قرآن میں ذریعہ نجات بتلائی گئی ہیں.چنانچہ قرآن شریف کے وقت میں بھی انہوں نے یہی گواہی دی اور اب بھی یہی گواہی دیتے ہیں.اور اسی مضمون کی ان کی چٹھیاں اور نیز کتابیں میرے پاس پہنچی ہیں.اگر یہودیوں کو نجات کے لئے اس لعنتی قربانی کی تعلیم دی جاتی تو کچھ سبب معلوم نہیں ہوتا کہ کیوں وہ اس تعلیم کو پوشیدہ کرتے.ہاں ممکن تھا کہ وہ يسوع مسیح کو خدا کا بیٹا کر کے نہ مانتے اور اس کی صلیب کو بچے بیٹے کی صلیب تصور نہ کرتے اور یہ کہتے کہ وہ حقیقی بیٹا جس کی قربانی سے دنیا کو نجات ملے گی یہ نہیں ہے.بلکہ آئندہ کسی زمانہ میں ظاہر ہو گا.مگر یہ تو کسی طرح ممکن نہ تھا کہ تمام فرقے یہود کے ۱۶۴

Page 183

۱۶۵ سرے سے ایسی تعلیم سے انکار کر دیتے جو ان کی کتابوں میں موجود تھی اور خدا کے پاک نبی اس کو تازہ کرتے آئے تھے.یہودی اب تک زندہ موجود ہیں اور ان کے فاضل اور عالم بھی موجود ہیں اور ان کی کتابیں بھی موجود ہیں.اگر کسی کو شک ہو تو ان سے بالمواجہ دریافت کرتے.کیا ایک عظمند جو در حقیقت سچائی کی تلاش میں ہے وہ اس بات کا محتاج نہیں کہ یہودیوں کی بھی اس میں گواہی لے.کیا یہودی وہ پہلے گواہ نہیں ہیں جو صد ہا برسوں سے توریت کی تعلیم کو حفظ کرتے چلے آئے ہیں ؟ ایک عاجز انسان کو خدا بناتالنہ اس پر پہلی تعلیموں کی گواہی نہ ان تعلیموں کے وارثوں کی گواہی نہ پچھلی تعلیم کی گواہی نہ عقل کی گواہی اور اس شخص کو خدا کا بھی کہنا اور پھر شیطان کا بھی.کیا ان گندی اور نا معقول باتوں کو ماننا پاک فطرت لوگوں کا کام ہے ؟!! سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جوابات روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۳۱ تا ۳۳۶ کیا ہوا؟ ۱۳۷ پھر جب اس عقیدہ کو اس پہلو سے دیکھا جائے کہ باوجودیکہ توریت کی متوارث اور قدیم تعلیم کی مخالفت کی گئی اور ایک کا گناہ دوسرے پر ڈالا گیا اور ایک راست باز کے دل کو لعنتی اور خدا سے دور اور مہجور اور شیطان کا ہم خیال ٹھہرایا گیا.پھر ان سب خرابیوں کے لعنتی قربانی کو قبول ساتھ اس لعنتی قربانی کو قبول کرنے والوں کے لئے فائدہ کیا ہوا.کیا وہ گناہ سے باز آگئے کرنے والوں کو فائدہ یا ان کے گناہ بخشے گئے تو اور بھی اس عقیدہ کی لغویت ثابت ہوتی ہے.کیونکہ گناہ سے باز آنا اور سچی پاکیزگی حاصل کرنا تو بہداہت خلاف واقعہ ہے.کیونکہ موجب عقیدہ عیسائیوں کے حضرت داؤد علیہ السّلام بھی کفارہ یسوع پر ایمان لائے تھے.لیکن بقول ان کے ایمان لانے کے بعد نعوذ باللہ حضرت داؤد نے ایک بے گناہ کو قتل کیا اور اس کی جورو سے زناہ کیا اور نفسانی کاموں میں خلافت کے خزانہ کا مال خرچ کیا اور سوتک جورو کی اور اخیر عمر تک اپنے گناہوں کو تازہ کرتے رہے اور ہر روز کمال گستاخی کے ساتھ گناہ کا ار تکاب کیا.پس اگر یسوع کی لعنتی قربانی گناہ سے روک سکتی تو بقول ان کے داؤد اس قدر گناہ میں نہ ڈوبتا.ایسا ہی یسوع کے حواریوں سے بھی ایمان لانے کے بعد قابل شرم گناہ سرزد ہوئے.یہودا اسکر یوطی نے تیس روپیہ پر یسوع کو بچا اور پطرس نے سامنے کھڑے ہو کر تین مرتبہ یسوع پر لعنت بھیجی اور باقی سب بھاگ گئے.اور ظاہر

Page 184

144 ہے کہ نبی پر لعنت بھیجنا سخت گناہ ہے.اور یورپ میں جو آج کل شراب خواری اور زنا کاری کا طوفان برپا ہے اس کے لکھنے کی حاجت نہیں.ہم اپنے کسی پہلے پرچہ میں بعض بزرگ پادری صاحبوں کی زنا کاری کا ذکر یورپ کے اخبارات کے حوالہ سے کر چکے ہیں.ان تمام واقعات سے بکمال صفائی ثابت ہوتا ہے کہ یہ لعنتی قربانی گناہ سے روک نہیں سکی.اب دوسراشق یہ ہے کہ اگر گناہ رُک نہیں سکتے تو کیا اس لعنتی قربانی سے ہمیشہ گناہ بخشے جاتے ہیں.گویا یہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ ایک طرف ایک بد معاش ناحق کا خون اگر کنارک نہیں سکتے کر کے یا چوری کر کے یا جھوٹی گواہی سے کسی کے مال یا جان یا آبرو کو نقصان پہنچا کر اور یا تو کیا اس معنی قربانی کسی کے مال کو تعین کے طور پر دیا کر اور پھر اس لعنتی قربانی پر ایمان لا کر خدا کے بندوں جاتے ہیں ؟ کے حقوق کو ہضم کر سکتا ہے.اور ایسا ہی زنا کاری کی نا پاک حالت میں ہمیشہ رہ کر صرف ایسا ہی لعنتی قربانی کا اقرار کر کے خدا تعالیٰ کے قہری مواخذہ سے بچ سکتا ہے.پس صاف ظاہر ہے کہ ایسا ہر گز نہیں.بلکہ ارتکاب جرائم کر کے پھر اس لعنتی قربانی کی پناہ میں جانا بد معاشی کا طریق ہے.اور معلوم ہوتا ہے کہ پولوس کے دل کو بھی یہ دھڑ کا شروع ہو گیا تھا کہ یہ پیسوا دویده مصلوب اصول صحیح نہیں ہے اصول صحیح نہیں ہے اسی لئے وہ کہتا ہے کہ ” یسوع کی قربانی پہل گناہ کے لئے ہے اور نہیں ہو سکتا.یسوع دوبارہ مصلوب نہیں ہو سکتا " لیکن اس قول سے وہ بڑی مشکلات میں پھنس گیا ہے.کیونکہ اگر یہی صحیح ہے کہ یسوع کی لعنتی قربانی پہلے گناہ کے لئے ہے تو مثلاً داؤد نبی نعوذ باللہ ہمیشہ کے جہنم کے لائق ٹھرے گا.کیونکہ اس نے اوریا کی جورو سے بقول عیسائیوں کے زنا کر کے پھر اس عورت کو بغیر خدا کی اجازت کے تمام عمر اپنے گھر میں رکھا.اور وہی مریم کے سلسلہ اقمات میں.دوباره ہے.علاوہ اس کے داؤد نے سو تک بیوی بھی کی جن کا کرنا بموجب اقرار عیسائیوں کے اس کو رواہ نہیں تھا.پس یہ گناہ اس کا پہلا گناہ نہ رہا بلکہ بار بار واقع ہو تا رہا.اور ہر ایک دن نئے سرے اس کا اعادہ ہو تا تھا.پھر جبکہ لعنتی قربانی گناہ سے روک نہیں سکتی تو بے شک عام عیسائیوں سے بھی گناہ ہوتے ہوں گے جیسا کہ اب بھی ہو رہے ہیں پس بموجب اصول پولوس کے دوسرا گناہ ان کا قابل معافی نہیں اور ہمیشہ کا جہنم اس کی سزا ہے.اس صورت میں ایک بھی عیسائی دائمی جہنم سے نجات پانیوالا ثابت نہیں ہوتا مثلاً میاں سراج الدین دور نہ جائیں اپنے حالات ہی دیکھیں کہ پہلے انہوں نے مریم کے

Page 185

192 صاحب زادے کو خدا کا بیٹامان کر لعنتی قربانی کا بیٹسمہ پایا.اور پھر قادیان میں آکر نئے سرے مسلمان ہوئے اور اقرار کیا کہ میں نے پیشمہ لینے میں جلدی کی تھی اور نماز پڑھتے رہے اور بار ہا میرے روبروئے اقرار کیا کہ کفارہ کی لغویت کی حقیقت بخوبی میرے پر کھل گئی ہے اور میں اس کو باطل جانتا ہوں اور پھر قادیان سے واپس جا کر پادریوں کے دام میں پھنس گئے اور عیسائیت کو اختیار کیا.اب میاں سراج الدین کو سوچنا چاہئے کہ جب اول وہ بیمہ پاکر عیسائی دین سے پھر گئے تھے اور قول اور فعل سے انہوں نے اس کے بر خلاف کیا تو عیسائی اصول کے رو سے یہ ایک بڑا گناہ تھا جو دوسری دفعہ ان سے وقوع میں دوسرا گنا آیا.پس پولوس کے قول کے مطابق یہ گناہ ان کا بخشا نہیں جائے گا.کیونکہ اس کے لئے دوسری صلیب کی ضرورت ہے.اور اگر یہ کہو کہ پولوس نے غلطی کھائی ہے پا جھوٹ بولا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ اگر پولوس نے غلطی لعنتی قربانی پر ایمان لانے کے بعد کوئی گناہ گناہ نہیں رہتا.چوری کروز نا کرو خون ناحق کھائی تو کیا کرو.جھوٹ بولو.امانت میں خیانت کرو.غرض کچھ کرو کسی گناہ کا مواخذہ نہیں تو مذہب ناپاکی پھیلانے ایسامذہب ایک ناپاکی پھیلانے والا مذ ہب ہو گا.اور وقت کی گورنمنٹ کو مناسب ہو گا کہ ایسے عقائد کے پابندوں کی ضمانتیں لیوے.اور اگر پھر اس خیال کو دوبارہ پیش کرو کہ لعنتی قربانی پر ایمان لانے والا کچی پاکیزگی حاصل کرتا ہے اور گناہ سے پاک ہو جاتا ہے.تو ہم اس کا جواب پہلے دے چکے ہیں.کہ یہ بات ہر گز صحیح نہیں ہے اور ہم ابھی داؤ د نبی کا اور حواریوں کے گناہ اور حضرات پادری صاحبوں کے گناہ لکھ چکے ہیں.اور اس بات کو تمام اہل تجربہ جانتے ہیں.کہ یورپ ان دنوں بدکاریوں میں اول درجہ پر ہے.اگر فرض کے طور پر کسی کی پاک زندگی کی نظیر دی جائے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حقیقت میں اس کی زندگی پاک ہے.بہتیرے بد معاش حرام خور زانی دیوث شراب خوار خدا کے منکر بظاہر پاک زندگی دکھلا سکتے ہیں اور اندر سے ان قبروں کی طرح ہوتے ہیں جن میں بجز متعفن مردہ اور اس کی ہڈیوں کے اور کچھ بھی نہیں گناہ.ہوتا.ماسوا اس کے یہ خیال کرنابھی بیجا ہے کہ کسی قوم کے سارے کے سارے اپنی فطرت کی رو سے نیک یا سب کے سب فطر تا بد معاش ہیں.بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کے قانون قدرت نے یہ دعوی کرنے کا حق ہر ایک قوم کو بخشا ہے کہ جیسے ان میں بعض لوگ فطرتا والا ہے.

Page 186

IYA IPA نہ بد اخلاق اور بد سرشت اور بد اندیش اور بد کردار ہیں.ایسا ہی بمقابلہ ان کے بعض دوسرے لوگ فطر تا دل کے غریب نیک خلق نیک چلن نیک کردار ہیں.اس قانون قدرت سے نہ ہند و باہر ہیں نہ پارسی نہ یہودی نہ سکھ نہ بدھ مذہب والے یہاں تک کہ چوہڑے اور چمار بھی اسی قانون میں داخل ہیں.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جوابات روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۳۶ تا ۳۳۹ یہ بات کہ اس لعنتی موت پر مسیح خود راضی ہو گیا تھا اس دلیل سے رد ہو جاتی ہے کہ مسیح نے باغ میں رو رو کر دعاکی کہ وہ پیالہ اس سے مل جائے.اور پھر صلیب پر کھینچنے کے کے لئے راضی کر تے وقت چیخ مار کر کہا کہ ایلی ایلی لما سبقتنی یعنی اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے حضرت مسیح احنتی موت کیوں چھوڑ دیا.اگر وہ اس صلیبی موت پر راضی تھا تو اس نے کیوں دعائیں کیں اور یہ خیال کہ مسیح کی صلیبی موت خدا تعالیٰ کی طرف سے مخلوق پر ایک رحمت تھی اور خدا نے خوش ہو کر ایسا کام کیا تھا ا د نیا سیح کے خون سے نجات پاوے.تو یہ و ہم اس دلیل سے رد ہو جاتا ہے کہ اگر در حقیقت اس دن رحمت الہی جوش میں آئی تھی تو کیوں اس دن سخت زلزلہ آیا یہاں تک کہ ہیکل کا پردہ پھٹ گیا اور کیوں سخت آندھی آئی اور سورج تاریک ہو گیا.اس سے تو صریح معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مسیح کو صلیب دینے پر سختہ تو پھر وہ یہود سخت اگر یہ خدا کی مرضی تھی ناراض تھا جس کی وجہ سے چالیس برس تک خدا نے یہودیوں کا پیچھانہ چھوڑا.اور وہ کیوں ہوا؟ ای دور اور پر دارای طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ر ہے.اول سخت طاعون سے ہلاک ہوئے اور آخر طیطوس رومی کے ہاتھ سے ہزاروں یہودی مارے گئے.حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۰ حاشیه یسوع کا مصلوب ہونا اگر اپنی مرضی سے ہوتا تو خود کشی اور حرام کی موت تھی اور خلاف مرضی کی حالت میں کفارہ نہیں ہو سکتا اور یسوع اس لئے اپنے تئیں نیک نہیں لکھ مصلوب ہوتا مرضی سکا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے اور یہ خراب چال چلن نہ خدائی کے بعد بلکہ ابتدا ہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے چنانچہ خدائی کا دعوی شراب خواری کا ایک بد نتیجه معیار المذاہب روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۸۵ حاشیه مرضی؟ تھا یا خلاف ہے.

Page 187

۱۶۹ غرض ایک مشکل تو یہودیوں کو یہ پیش آئی کہ مسیح مصلوب ہو گیا اور صلیب کی نے ان کے کذب پر ایک اور رنگ چڑھا دیا.کیونکہ وہ توریت میں پڑھ چکے تھے کہ جھوٹا ہے نبی صلیب پر لٹکایا جاتا ہے اور وہ ملعون ہوتا ہے.پس انہوں نے یہ خیال کیا کہ ایک ۱۴۰ طرف تو ایلیا آیا نہیں اور یہ مسیح ہونے کا مدعی ہے اور ایلیا کے قصے پر جو فیصلہ دیتا ہے وہ جو خود لعنتی ہو گیا وہ بظاہر ملاکی نبی کی کتاب کے مخالف ہے.اس لئے کاذب کی مخالفت اور خود مسیح کے طرز دونوں ہی یہ کیسے ہو کا شفیع عمل اور سلوک نے یہودیوں کو اور بھی بر افروختہ کر دیا تھا.جب وہ ان کو حرامکار سانپ سکتا ہے؟ اور سانپ کے بچے کہہ کر پکارتے تھے پس انہوں نے صلیب کے لئے کوشش کی اور جب صلیب پر چڑھا دیا تو ان کے پہلے خیال کو اور بھی مضبوطی ہو گئی کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ یہ صلیب پر لٹکایا جا کر لعنتی ہو گیا ہے اس لئے سچا نہیں ہے.اب انہوں نے یہ یقین کر لیا کہ جب یہ خود لعنتی ہو گیا تو دوسروں کا شفیع کیسے ہو سکتا ہے.صلیب نے اس کے کاذب ہونے پر مہر لگادی دو گواہوں کے ساتھ انسان پھانسی پاسکتا ہے انہوں نے اس وقت بھی کہا کہ اگر تو سچا ہے تواتر آنگر وہ اگر نہ سکا.اس امر نے ان کو اور بد ظن کر دیا.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۶۶ منکر تھے.حضرت عیسی علیہ السّلام تو عجیب طور پر جاہلوں کا نشانہ ہوئے ہیں.ان کی زندگی کے زمانہ میں تو یہود بے دین نے ان کا نام کافر اور کذاب اور مکار اور مفتری رکھا اور ان کے رفع روحانی سے انکار کیا.اور پھر جب وہ فوت ہو گئے تو ان لوگوں نے جن پر انسان یہودی رفع روحانی کے پرستی کی سیرت غالب تھی ان کو خدا بنادیا اور یہودی تو رفع روحانی سے ہی انکار کرتے تھے اب بمقابل ان کے رفع جسمانی کا اعتقاد ہوا اور یہ بات مشہور کی گئی کہ وہ مع جسم آسمان پر چڑھ گئے ہیں.گویا پہلے نبی تو روحانی طور پر بعد موت آسمان پر چڑھتے تھے.مگر حضرت عیسی زندہ ہونے کی حالت میں ہی مع جسم مع لپاس مع تمام لوازم جسمانی کے آسمان پر جابیٹھے گویا یہ یہودیوں کی ضد اور انکار کا جو رفع روحانی سے منکر تھے نہایت مبالغہ کے ساتھ ایک جواب تراشا گیا.اور یہ جواب سراسر نا معقول تھا.کیونکہ یہودیوں کو رفع جسمانی سے کچھ غرض نہ تھی ان کی شریعت کا یہ مسئلہ تھا کہ جولوگ صلیب پر مرتے ہیں وہ لعنتی اور کافر اور بے ایمان ہوتے ہیں.ان کا رفع روحانی خدا تعالی کی طرف نہیں

Page 188

| ۱۴۲ ہوتا اور یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ ہر ایک مومن جب مرتا ہے تو اس کی روح کو فرشتے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں.لیکن کافر کی روح آسمان کی طرف اٹھائی نہیں جاتی.اور کافر ملعون ہوتا ہے اس کی روح نیچے کو جاتی ہے اور وہ لوگ باعث صلیب پانے حضرت عیسی کے اور نیز بوجہ بعض اختلافات کے اپنے فتووں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کافر ٹھرا چکے تھے.کیونکہ بزعم ان کے حضرت عیسی علیہ السّلام بذریعہ صلیب قتل ہو گئے تھے.اور توریت میں یہ صاف حکم تھا کہ جو شخص بذریعہ صلیب مارا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے.پس ان وجوہ سے انہوں نے حضرت عیسی کو کافر ٹھرایا تھا اور ان کے رفع روحانی سے منکر ہو گئے تھے.پس یہودیوں کے نزدیک یہ منصوبہ ہنسی کے قابل تھا کہ گویا حضرت مسیح مع جسم آسمان پر چلے گئے.اور در حقیقت یہ افتراء ان لوگوں نے کیا تھا جو توریت کے علم سے ناواقف تھے اور خود فی نفسہ یہ خیال نہایت درجہ لغو تھا جس سے خدائے تعالیٰ پر اعتراض ہو تا تھا کیونکہ جس حالت میں حضرت مسیح علیہ السلام یہودیوں کے تمام فرقوں تک جو مختلف فرقوں میں متفرق ہو چکے تھے اپنی دعوت کو ہنوز پہنچا نہیں سکے تھے اور ان کے ہاتھ سے ایک فرقہ کو بھی ابھی ہدایت نہیں ہوئی تھی ایسی صورت میں تبلیغ کے کام کو نا تمام چھوڑ کر حضرت عیسی کا آسان پر چڑھ جانا سراسر خلاف مصلحت اور اپنے فرض منصبی سے پہلو تہی کرنا تھا.اور خود ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ کا محض بے ہودہ طور پر ان کو آسمان پر بٹھا دینا ایک بے سود اور لغو کام ہے جو ہر گز خدائے تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۵۷ - ۵۸ کیتا.قرآن شریف اس لئے آیا ہے کہ تا پہلے اختلافات کا فیصلہ کرے.اور یہود اور قرآن کریم نے حضرت نصاری نے جو حضرت عیسیٰ کے رفع الی السماء میں اختلاف کیا تھا جس کا قرآن نے فیصلہ مسیح کار فع روحانی ملیت کیا اور لعنت کے معلوم کرنا تھا وہ رفع جسمانی نہیں تھا.بلکہ تمام جھگڑا اور متنازع روحانی رفع کے بارے میں تھا.تھاوہ سے بچایا.یہود کہتے تھے کہ نعوذ باللہ عیسی لعنتی ہے.یعنی خدا کی درگاہ سے رد کیا گیا اور خدا سے دور کیا گیا اور رحمت الہی سے بے نصیب کیا گیا جسکارفع الی اللہ ہر گز نہیں ہوا.کیونکہ وہ مصلوب ہوا.اور مصلوب توریت کے حکم کے رُو سے رفع الی اللہ سے بے نصیب ہوتا

Page 189

ง ہے.- ہے.جس کو دوسرے لفظوں میں لعنتی کہتے ہیں.توریت کا یہ منشا تھا کہ سچا نبی کبھی مصلوب نہیں ہوتا اور جب مصلوب جھوٹا گھر ا تو بلاشبہ وہ لعنتی ہوا جس کا رفع الی اللہ غیر اور اسلامی عقیدہ کی طرح یہود کا بھی عقیدہ تھا کہ مومن مرنے کے بعد آسمان کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں.اور حضرت عیسی کے کافر ٹھرانے کے لئے یہود کے ہاتھ میں پر دلیل تھی کہ وہ سولی دیا گیا ہے.اور جو شخص سولی دیا جائے اس کا توریت کے رو سے رفع الی السماء نہیں ہوتا یعنی وہ مرنے کے بعد آسمان کی طرف نہیں اٹھایا جاتا.بلکہ ملعون ہو جاتا ہے.لہذا اس کا کافر ہو تا لازم آیا اور اس دلیل کے ماننے سے عیسائیوں کو چارہ نہ تھا کیونکہ توریت میں ایسا ہی لکھا تھا.تو انہوں نے اس بات کے ٹالنے کے لئے دو بہانے بنائے.ایک یہ کہ اس بات کو مان لیا کہ بے شک یسوع جس کا دوسرا نام عیسی ہے مصلوب ہو کر لعنتی ہوا.مگر وہ لعنت صرف تین دن تک رہی پھر بجائے اس کے رفع الی اللہ اس کو حاصل ہوا اور دوسرا یہ بہانہ بنایا گیا کہ چند ایسے آدمیوں نے جو حواری نہیں تھے گواہی بھی دے دی کہ ہم نے یسوع کو آسمان پر چڑھتے بھی دیکھا ہے گویار رفع الی اللہ ہو گیا.جس سے مومن ہونا ثابت ہوتا ہے.مگر یہ گواہی جھوٹی تھی جو نہایت مشکل کے وقت بنائی گئی.بات یہ ہے کہ جب یہود نے حواریوں کہ ہر روز دق کرنا شروع کہ بوجہ مصلوبیت یسوع کا لعنتی ہونا ثابت ہو گیا یعنی رفع الی اللہ نہیں ہوا تو اس اعتراض کے جواب سے عیسائی نہایت تنگ آگئے اور ان کو یہودیوں کے سامنے منہ دکھلانے کی جگہ نہ رہی تب بعض مفتری حیلہ سازوں نے یہ گواہی دے دی کہ ہم نے یسوع کو آسمان پر چڑھتے دیکھا ہے پھر کیونکر اس کا رفع نہیں ہوا.مگر اس گواہی میں بالکل جھوٹ سے کام لیا تھا مگر پھر بھی ایسی شہادت کو یہودیوں کے اعتراض سے کچھ تعلق نہ تھا کیونکہ یہودیوں کا اعتراض رفع روحانی کی نسبت تھا جس کی بنیاد توریت پر تھی اور رفع جسمانی کی کوئی بحث نہ اور ماسوا اس کے جسمانی طور پر اگر کوئی بفرض محال پرندوں کی طرح پرواز بھی کرے اور آنکھوں سے غائب ہو جائے تو کیا اس سے ثابت ہو جائے گا کہ وہ در حقیقت کسی آسمان تک جاپہنچا ہے ؟ عیسائیوں کی یہ سادہ لوحی تھی جو انہوں نے ایسا منصوبہ بنایا.ورنہ اس کی کچھ ضرورت نہ تھی ساری بحث روحانی رفع کے متعلق تھی جس سے لعنت کا مفہوم روکتا تھا.افسوس ان کو یہ خیال نہ آیا کہ توریت میں جو لکھا ہے جو

Page 190

۱۷۲ مصلوب کا رفع الی اللہ نہیں ہوتا تو یہ بچے نبیوں کی عام علامت رکھی گئی تھی اور یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ صلیبی موت جرائم پیشہ کی موت ہے اور نیچے نبیوں کے لئے یہ پیش گوئی تھی کہ وہ جرائم پیشہ کی موت سے نہیں مریں گے.اسی لئے حضرت آدم سے لیکر آخر تک کوئی سچا نبی مصلوب نہیں ہوا.پس اس امر کو رفع جسمانی سے کیا علاقہ تھا.ورنہ لازم آتا ہے کہ ہر ایک سچانبی معہ جسم عصری آسمان پر گیا ہو.اور جو جسم عصری کے ساتھ آسمان پر نہ گیا ہوہ جھوٹا ہو.غرض تمام جھگڑار فع روحانی میں تھا.جو چھ سو برس تک فیصلہ نہ ہوسکا آخر قرآن شریف نے فیصلہ کر دیا.اسی کی طرف اللہ جل شانہ نے اشارہ فرمایا ہے یا عیسی النی متوفیک و رافعک الی یعنی اے عیسی نہیں مجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف تیر ارفع کروں گا یعنی تو مصلوب نہیں ہو گا.اس آیت میں یہود کے اس قول کار تو ہے کہ وہ کہتے تھے کہ عیسی مصلوب ہو گیا اس لئے ملعون ہے اور خدا کی طرف اس کا رفع نہیں ہوا.اور عیسائی کہتے تھے کہ تین دن لعنتی رہ کر پھر رفع ہوا اور اس آیت نے یہ فیصلہ کیا کہ بعد وفات بلا توقف خدا تعالیٰ کی طرف عیسی کا رفع روحانی ہوا.کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۶۰ تا ۳۶۲ اصل میں مسیح کے متعلق عیسائیوں اور یہودیوں دونوں نے افراط و تفریط سے کام لیا ہے.عیسائیوں نے تو یہاں تک افراط کی کہ ایک عاجز انسان کو جو ایک ضعیفہ عورت کے پیٹ سے عام آدمیوں کی طرح پیدا ہوا خدا بنا لیا.اور پھر گرایا بھی تو یہاں تک کہ اسے میں کے تعلق افراط ملعون بنایا اور ہادیہ میں گرایا یہودیوں نے تفریط کی یہاں تک کہ معاذ اللہ اسے ولد الزنا قرار دیا اور بعض انگریزوں نے بھی تسلیم کر لیا اور سارا الزام حضرت مریم پر لگایا مگر قرآن شریف نے آکر ان دونوں قوموں کی غلطیوں کی اصلاح کی.عیسائیوں کو بتایا کہ وہ خدا کا وتفريط ۱۴۴ رسول تھا خدا نہ تھا اور وہ ملعون نہ تھا.حضور ملکہ ملفوظات جلد ۳ صفحه ۱۱۰ معظمہ اپنی روشن عقل کے ساتھ سوچیں کہ کسی کا خدا سے برگشتہ اور خدا کا دشمن نام رکھنا جو لعنت کا مفہوم ہے.کیا اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی اور بھی تو ہین ہوگی ؟ پس جس کو خدا کے تمام فرشتے مقرب مقرب کہہ رہے ہیں.اور جو خدا کے نور

Page 191

۱۷۳ سے نکلا ہے.اگر اس کا نام خدا سے برگشتہ اور خدا کا دشمن رکھا جائے تو اس کی کس قدر ملکہ معظمه اہانت ہے ؟ افسوس اس تو ہین کو یسوع کی نسبت اس زمانہ میں چالیس کروڑ انسان نے وکٹوریہ) سے مسیح سے لعنت کا مفہوم اختیار کر رکھتا ہے.اے ملکہ معظمہ ایسوع مسیح سے تو یہ نیکی کر خدا تجھ سے بہت نیکی دور کرنے کی کرے گا میں دعا مانگتا ہوں کہ اس کاروائی کے لئے خدا تعالی آپ ہماری محسنہ ملکہ معظمه در خواست کے دل میں القا کرے.پیلاطوس نے جس کے زمانہ میں یسوع تھا نا انصافی سے یہودیوں کے رعب کے نیچے آکر ایک مجرم قیدی کو چھوڑ دیا اور یسوع جو بے گناہ تھا اس کو نہ چھوڑا لیکن اسے ملکہ معظمہ قیصرہ ہند ہم عاجزانہ ادب کے ساتھ تیرے حضور میں کھڑے ہو کر عرض کرتے ہیں تو اس خوشی کے وقت میں جو شصت سالہ جوبلی کا وقت ہے یسوع کے چھوڑنے کے لئے کوشش کر.اس وقت ہم اپنی نہایت پاک نیست سے جو خدا کے خوف اور سچائی سے بھری ہوئی ہے تیری جناب میں اس التماس کے لئے جرات کرتے ہیں کہ یسوع مسیح کی عزت کو اس داغ سے جو اس پر لگایا جاتا ہے اپنی مردانہ ہمت سے پاک کر کے دکھلا.بے شک شہنشاہوں کے حضور میں ان کی استخراج سے پہلے بات کرنا اپنی جان سے بازی ہوتی ہے لیکن اس وقت ہم یسوع مسیح کی عزت کے لئے ہر کو اور لیکر ہر ایک خطرہ کو قبول کرتے ہیں.اور محض اس کی طرف سے رسالت لیکر بحیثیت ایک سفیر کے اپنے عادل باشاہ کے حضور میں کھڑے ہو گئے ہیں.اے ھماری ملکہ معظمہ ! تیرے پر بے شمار برکتیں نازل ہوں خدا تیرے وہ تمام فکر دور کرے جو تیرے دل میں ہیں.جس طرح ہو سکے اس سفارت کو قبول کر تمام مذہبی مقدمات میں یہی ایک قانون قدیم سے چلا آیا ہے کہ جب کسی بات میں دو فریق متنازعہ کرتے ہیں تو اول منقولات کے ذریعہ سے اپنے تنازعہ کو فیصلہ کرنا چاہتے ہیں.اور جب منقولات سے وہ فیصلہ نہیں ہو سکتا تو معقولات کی طرف توجہ کرتے ہیں.اور عقلی دلائل سے تصفیہ کرنا چاہتے ہیں.اور جب کوئی مقدمہ عقلی دلائل سے بھی کے ہونے میں نہیں آتا تو آسمانی فیصلہ کے خواہاں ہوتے ہیں.اور آسمانی نشانوں کو اپنا حکم ٹھراتے ہیں لیکن اے مخدومہ ملکہ معظمہ یسوع مسیح کی برتیت کے بارے میں یہ تینوں ذریعے شہادت دیتے ہیں.منقول کے ذیعہ سے اس طرح کہ تمام نوشتوں سے پایا جاتا ہے کہ یسوع دل کا غریب اور علیم اور خدا سے پیار کرنے والا اور ہر دم خدا کے ساتھ تھا.پھر کیونکر تجویز کیا جائے کہ کسی وقت نعوذ باللہ اس کا دل خدا سے برگشتہ اور خدا کا منکر اور خدا کا دشمن ہو گیا تھا.

Page 192

درخواست.جیسا کہ لعنت کا مفہوم دلالت کرتا ہے.اور عقل کے ذریعہ سے اس طرح پر کہ عقل ہر گز باور نہیں کرتی کہ جو خدا کانہی اور خدا کا وحید اور اس کی محبت سے بھرا ہوا ہو.اور جس کی سرشت نور سے مخمر ہو.اس میں نعوذ باللہ بے ایمانی اور نافرمانی کی تاریکی آجائے یعنی وہی تاریکی جس کو دوسرے لفظوں میں لعنت کہتے ہیں.اور آسمانی نشانوں کے رُو سے اس طرح پر کہ خدا اب آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے خبر دے رہا ہے کہ مسیح کی نسبت جو قرآن نے بیان کیا کہ وہ لعنت سے محفوظ رہا.اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس کا دل لعنتی نہیں ہوا یہی سچ ہے.وہ نشان اس عاجز کے ذریعہ سے ظاہر ہورہے ہیں.اور بہت سے نشان ظاہر ہو چکے ہیں اور بارش کی طرح برستے ہیں.سواے ہماری عالم پناہ ملکہ خدا تجھے بے شمار فضلوں سے معمور کرے.اس مقدمہ کو اپنی قدیم منصفانہ عادت کے ساتھ فیصلہ کر.میں با ادب ایک اور عرض کرنے کے لئے بھی جرات کرتا ہوں کہ تواریخ سے ثابت ہے کہ قیاصرہ روم میں سے جب تیسر ا قیصر روم تخت نشین ہوا اور اس کا اقبال کمال کو پہنچ قیصر روم کی طرح فرقہ گیا تو اسے اس بات کی طرف توجہ پیدا ہوئی کہ دو مشہور فرقہ عیسائیوں میں جو ایک موحد اور موحدین اور مشرکین میں مبارہ کرانے کی دوسرا حضرت مسیح کو خدا جانتا تھا.باہم بحث کرا دے.چنانچہ وہ بحث قیصر روم کے حضور میں بڑی خوبی اور انتظام سے ہوئی.اور بحث کے سننے کے لئے معزز ناظرین اور ارکان دولت کی صدہا کرسیاں بلحاظ رتبہ و مقام کے بچھائی گئیں.اور دونوں فریق کے پادریوں کی چالیس دن تک بادشاہ کے حضور میں بحث ہوتی رہی.اور قیصر روم بخوبی فریقین کے دلائل سنتا رہا.اور ان پر غور کرتا رہا.آخر جو موحد فرقہ تھا اور حضرت یسوع مسیح کو صرف خدا کار سول اور نبی جانتا تھا.وہ غالب آگیا.اور دوسرے فرقہ کو ایسی شکست آئی کہ اسی مجلس میں قیصر روم نے ظاہر کر دیا کہ میں نہ اپنی طرف سے بلکہ دلائل کے زور سے موحد فرقہ کی طرف کھینچا گیا.اور قبل اس کے جو اس مجلس سے اٹھے.توحید کا مذہب اختیار کر لیا.اور ان موحد عیسائیوں میں ہو گیا جن کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے.اور بیٹا اور خدا کہنے سے دستبردار ہو گیا.اور پھر تیسرے قیصر تک ہر ایک وارث تخت روم موحد ہوتا رہا.اس سے پتہ لگتا ہے کہ ایسے مذہبی جلسے پہلے عیسائی بادشاہوں کا دستور تھا.اور بڑی بڑی تبدیلیاں ان سے ہوتی تھیں.ان واقعات پر نظر ڈالنے سے نہایت آرزو سے دل چاہتا ہے کہ ہماری قیصرہ ہند دام اقبالہا بھی قیصر روم کی طرح ایساند ہی جلسہ

Page 193

۱۷۵ پایہ تخت میں انعقاد فرماویں کہ یہ روحانی طور پر ایک یاد گار ہوگی.مگر یہ جلسہ قیصر روم کی نسبت زیادہ توسیع کے ساتھ ہونا چاہئے کیونکہ ہماری ملکہ معظمہ بھی اس قیصر کی نسبت زیادہ وسعت اقبال رکھتی ہیں.تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۲۷۶ تا ۲۷۹ وہ تمام باتیں جو دنیا کے لوگوں نے گناہ سے بچنے کے لئے بنائی ہیں جیسے کفارہ مسیح وغیرہ.یہ طفلانہ خیالات ہیں جو نہایت محدود اور غلطیوں سے پر ہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ ۱۴۵ کسی ایک کے سر پر چوٹ لگنے سے ہمارے سر کا درد نہیں جاسکتا اور کسی کے بھوکے رہنے گناہ سے بچنے کا طریق اور یسوع سے لعنتوں سے ہم سیر نہیں ہو سکتے.ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ جس طرح ڈاکٹر مرض کی تشخیص کرتا ہے یا کا رفیعی جس طرح اہل مساحت زمین کو نا پتا ہے اسی طرح ہمارا دل نہایت محکم یقین کے ساتھ معلوم کر چکا ہے کہ کسی انسان کے نفسانی جذبات کا سیلاب بجز اس امر کے تھم ہی نہیں سکتا کہ ایک چمکتا ہوا یقین اس کو حاصل ہو کہ خدا ہے.....افسوس کہ عیسائیوں کو یہ دکھانا چاہئے تھا کہ یہ یقین ہستی باری جو انسان کو خدا ترسی کی آنکھ بخشتا ہے اور گنہ کے خس و خاشاک کو جلاتا ہے.اس کا سامان انجیل نے ان کو کیا بخشا ہے؟ بیہودہ طریقوں سے گنہ کیونکر دور ہو سکتا ہے ؟ افسوس کہ یہ لوگ نہیں سمجھے کہ یہ کیسا ایک بے حقیقت امر اور ایک فرضی نقشہ کھینچتا ہے کہ تمام دنیا کے گناہ ایک شخص پر ڈالے گئے اور گنہگاروں کی لعنت ان سے لی گئی اور یسوع کے دل پر رکھی گئی اس سے تو لازم آتا ہے کہ اس کاروائی کے بعد بجز یسوع کے ہر ایک کو پاک زندگی اور خدا کی معرفت حاصل ہو گئی ہے مگر نعوذ باللہ یسوع ایک ایسی لعنت کے نیچے دبایا گیا جو کروڑہا لعنتوں کا مجموعہ تھی.لیکن جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ایک انسان کے گناہ اس کے ساتھ ہیں اور فطرت نے جس قدر کسی کو کسی جذبہ نفسانی یا افراط اور تفریط کا حصہ دیا ہے وہ اس کے وجود میں محسوس ہو رہا ہے گوہ یسوع کو مانتا ہے یا نہیں تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جیسا کہ لعنتی زندگی والوں کی لعنتی زندگی ان سے علیحدہ نہیں ہو سکی ایسا ہی وہ یسوع پر بھی پڑ نہیں سکی کیونکہ جب کہ لعنت اپنے محل پر خوب چسپاں ہے تو وہ یسوع کی طرف کیونکر منتقل ہو سکے گی.اور یہ عجیب ظلم ہے کہ ہر ایک خبیث اور ملعون جو یسوع پر ایمان لاوے تو اس کی لعنت یسوع پر پڑے اور اس شخص کو بری اور پاکدامن سمجھا جائے پس ایسا غیر

Page 194

129 منقطع سلسلہ لعنتوں کا جو قیامت تک ممتد ر ہے گا اگر وہ ہمیشہ تازہ طور پر غریب یسوع پر ڈالا جائے تو کس زمانے میں اس کو لعنتوں سے سبکدوشی ہوگی کیونکہ جب وہ ایک گروہ کی لعنتوں سے اپنے تئیں سبکدوش کر لیگا تو پھر نیا آنے والا گر وہ جو اپنے خبیث وجود کے ساتھ نئی نعتیں رط لعنتیں رکھتا ہے وہ اپنی تمام لعنتیں اس پر ڈال دے گا.علی ہذالقیاس اس کے بعد دوسرا گر وہ دوسری لعنتوں کے ساتھ آئے گا تو پھر اس مسلسل لعنتوں سے فرصت کیونکر ہوگی؟ اس تو مانا پڑتا ہے کہ یسوع کے لئے وہ دن پھر کبھی نہیں آئیں گے جو اس کو خدا کی محبت اور معرفت کے نور کے سایہ میں رکھنے والی ہوں.پس ایسے عقیدہ سے اگر کچھ حاصل ہوا تو وہ یہی کہ ان لوگوں نے ایک خدا کے مقدس کو ایک غیر منقطع ناپاکی میں ڈالنے کا ارادہ کیا ہے اور بد قسمتی سے اس اصل بات کو چھوڑ دیا ہے جس سے گناہ دور ہوتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ وہ آنکھ پیدا کرنا جو خدا کی عظمت کو دیکھے اور وہ یقین حاصل کرنا جو گناہ کی تاریکی سے چھوڑا دے.زمین تاریکی پیدا کرتی ہے اور آسمان تاریکی کو اٹھاتا ہے پس جب تک آسمانی نور جو نشانوں کے رنگ میں حاصل ہوتا ہے کسی دل کو نہ چھوڑاوے حقیقی پاکیزگی حاصل ہو جاتا بالکل جھوٹ ہے اور سراسر باطل اور خیال محال ہے.پس گناہوں سے بچنے کے لئے اس نور کی تلاش میں لگنا چاہئے جو یقین کی کرار فوجوں کے ساتھ آسمان سے نازل ہوتا اور ہمت بخشا اور قوت بخشا اور تمام شبہات کی غلاظتوں کو دھو دیتا اور دل کو صاف کرتا اور خدا کی ہمسائیگی میں انسان کا گھر بنا دیتا ہے.ر کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۶۲ تا ۶۴ ایک اعتراض جو میں نے پادریوں کے اصول پر کیا تھا یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ” انسان اور تمام حیوانات کی موت آدم کے گناہ کا پھل ہے " حالانکہ یہ خیال دو طور سے صحیح نہیں ہے اول یہ کہ کوئی محقق اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ آدم کے وجود سے کیا موت آدم کے پہلے بھی ایک مخلوقات دنیا میں رہ چکی ہے اور وہ مرتے بھی تھے اور اس وقت نہ آدم موجود گناہوں کا پھل ہے ؟ تھا اور نہ آدم کا گناہ پس یہ موت کیونکر پیدا ہو گئی.دوسرے یہ کہ اس میں شک نہیں که آدم بہشت میں بغیر ایک منع کئے ہوئے پھل کے اور سب چیزیں کھاتا تھا اپس کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ وہ گوشت بھی کھاتا ہو گا.اس صورت میں بھی آدم کے گناہ سے پہلے

Page 195

122 حیوانات کی موت ثابت ہوتی ہے اور اگر اس سے بھی در گزر کریں تو کیا ہم دوسرے امر سے بھی انکار کر سکتے ہیں کہ آدم بہشت میں ضرور پانی پیتا تھا کیونکہ کھٹاور پین ہمیشہ سے ایک دوسرے سے لازم پڑے ہوئے ہیں.اور طبعی تحقیقات سے ثابت ہے کہ ہر ایک قطرہ میں کئی ہزار کیڑے ہوتے ہیں.پس کچھ شک نہیں کہ آدم کے گناہ سے پہلے کروڑہا کیڑے مرتے تھے.پس اس سے بہر حال ماننا پڑتا ہے کہ موت گناہ کا پھل نہیں.اور یہ امر عیسائیوں کے اصول کو باطل کرتا ہے.کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۷۴ یادر ہے کہ یہ خوا کا گناہ تھا کہ براہ راست شیطان کی بات کو مانا اور خدا کے حکم کو توڑا اور پیچ تو یہ ہے کہ خوا کا نہ ایک گناہ بلکہ چار گناہ تھے.(۱) ایک یہ کہ خدا کے حکم کی بے حوا کے چلا گناہ تھے.عزتی کی اور اس کو جھوٹا سمجھ لیا.(۲) دوسرا یہ کہ خدا کے دشمن اور ابدی لعنت کے مستحق اور جھوٹ کے پہلے شیطان کو سچا سمجھ لیا.(۳) تیسرا یہ کہ اس نافرمانی کو صرف عقیدہ تک محدود نہ رکھا بلکہ خدا کے حکم کو توڑ کر عملی طور پر ارتکاب معصیت کیا.(۴) چو تھا یہ کہ حوا نے نہ صرف آپ ہی خدا کا حکم توڑا بلکہ شیطان کا قائم مقام بن کر آدم کو بھی دھوکا دیا.تب آدم نے محض حوا کی دھوکا دہی سے وہ پھل کھایا جس کی ممانعت تھی اسی وجہ سے حوا خدا کے نزدیک سخت گنہگار ٹھری مگر آدم معذور سمجھا گیا آدم معذور سمجھا گیا.محض ایک خفیف خطا جیسا کہ آیت ولم نجد له عنما سے ظاہر ہے یعنی اللہ تعالی اس آیت میں فرماتا ہے کہ آدم نے عمداً میرے حکم کو نہیں توڑابلکہ اس کو یہ خیال گذرا کہ خوا نے جو یہ پھل کھایا اور مجھے دیا شائد اس کو خدا کی اجازت ہو گئی جو اس نے ایسا کیا.یہی خدا تعالی نے اپنی کتاب وجہ ہے کہ خدا نے اپنی کتاب میں حوا کی برتیت ظاہر نہیں فرمائی مگر آدم کی برتیت ظاہر کی ہیں جو کی بریت ظاہر نہیں فرمائی.یعنی اس کی نسبت لم نجد له عزما فرمایا اور حوا کو سخت سزادی.مرد کا محکوم بنایا اور اس کا دست نگر کر دیا اور حمل کی مصیبت اور بچے جنے کا دکھ اس کو لگادیا اور آدم چونکہ جس شخص کی پیدائش خدا کی صورت پر بنایا گیا تھا اس لئے شیطان اس کے سامنے نہ آسکا.اسی جگہ سے یہ میں زکا حصہ نہیں وہ بات نکلتی ہے کہ جس شخص کی پیدائش میں نر کا حصہ نہیں وہ کمزور ہے اور توریت کے رو کر وہ ان کے آدم گناہ سے نہیں مرا سے اس کی نسبت کہنا مشکل ہے کہ وہ خدا کی صورت پر یا خدا کی مانند پیدا کیا گیا.ہاں آدم کار را ابتدا ہے بھی ضرور مر گیا.لیکن یہ موت گناہ سے پیدا نہیں بلکہ مرنا ابتدا سے انسانی بناوٹ کا خاصہ انسانی بناوٹ کا نام ہے.

Page 196

IZA تھا.اگر گناہ نہ کر تاتب بھی مرتا.منہ تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد ۱۷ - صفحه ۲۷۳ حاشیه در حاشیه حضرت آدم کی نسبت تو خدا خود فرماتا ہے لم نجد له عنما یعنی آدم نے یہ کام اراد تا نہیں کیا.اب گناہ توارادہ پر منحصر ہے.اگر ایک شخص زہر پی لے اور اس کو علم ہو حضرت آدم کبھی ہوئے.شرک میں جتنا نہیں کہ یہ زہر ہے اور اس کا نتیجہ موت ہو گا تو ایسی صورت میں وہ ایک گناہ کا مر تکب ہوتا ہے لیکن اگر وہ اس کو بغیر علم کے پی لے تو اگر چہ اس کو نتیجہ بھگتنا پڑے گا مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس گناہ کیا.یہی حال حضرت آدم علیہ السلام کا ہے ہمیں بائیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حوا نے ان کو یہ پھل دیا تھا ان کو یہ علم نہ تھا کہ یہ وہی ممنوعہ پھل ہے.ان کا یہ کام بیشک خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف تھا مگر انہوں نے اس حکم کو عمدا نہیں توڑا اس لئے ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ انہوں نے گناہ کیا.اس پھل کے کھانے کا وہی نتیجہ نکلا جو زہر کھانے سے نکلتا ہے کیونکہ قدرت اپنا کام کرنے سے رک نہیں سکتی مگر اس صورت میں کوئی گناہ نہیں تھا کیونکہ کوئی ارادہ نہیں تھا.حضرت آدم کبھی شرک کے مرتکب نہیں ہوئے.شرک ایک ناقابل عفو گناہ ہے اور خدا کے پاک لوگ ایسا گناہ نہیں کر سکتے جس آیت کا عیسائی حوالہ دیتے ہیں اس میں حضرت آدم کا نام نہیں ہے اس میں صرف عام انسانوں کے میلان کا ذکر ہے جو شرک کی طرف ان میں پایا جاتا ہے.ریویو آف ریلیجنز جلد ۲ نمبر ۶ صفحه ۲۵۰ شرک عورت سے شروع ہوا ہے اور عورت سے اسکی بنیاد پڑی ہے یعنی خوا سے جس نے خدا تعالیٰ کا حکم چھوڑ کر شیطان کا حکم مانا.اور شرک عظیم یعنی عیسائی مذہب کی شرک عورت سے حامی بھی عورتیں ہی ہیں.در حقیقت عیسائی مذہب ایسا مذ ہب ہے کہ انسانی فطرت دور شروع ہوا.سے اس کو دھکے دیتی ہے اور وہ کبھی اس کو قبول ہی نہیں کر سکتی.۱۵۰ ملفوظات جلد ۸ صفحه ۳۴۸) یسوع کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ موروثی اور کسی گناہ سے پاک ہے.حالانکہ

Page 197

129 صریح غلط ہے عیسائی خود مانتے ہیں کہ یسوع نے اپنا گوشت و پوست اپنی والدہ سے پایا تھا اور وہ گناہ سے پاک نہ تھی.اور نیز عیسائیوں کا یہ بھی اقرار ہے کہ ہر ایک در داور دکھ یوں موروئی اور کبھی گناہ سے پاک نہ تھا گناہ کا پھل ہے اور کچھ شک نہیں کہ یسوع بھو کا بھی ہوتا تھا اور پیاسا بھی اور بچپن میں قانون قدرت کے موافق خسرہ بھی اس کو نکلا ہو گا اور چیچک بھی اور دانتوں کے نکلنے کے حضرت میں رکھ ، درد میں مبتلا ہوئے.دکھ بھی اٹھائے ہوں گے اور موسموں کے تیوں میں بھی گرفتار ہوتا ہو گا اور بموجب اصول عیسائیوں کے یہ سب گناہ کے پھل ہیں.پھر کیونکر اس کو پاک فدیہ سمجھا گیا.علاوہ اس کے جب کہ روح القدس کا تعلق صرف اسی حالت میں بموجب اصول عیسائیوں کے ہو سکتا تھا کہ جب کوئی شخص ہر ایک طرح سے گناہ سے پاک ہو تو پھر یسوع جو بقول ان کے موروثی گناہ سے پاک نہیں تھا اور نہ گناہوں کے پھل سے بچ سکا اس ملک صدقی سالم ہر سے کیونکر روح القدس نے تعلق کر لیا.بظاہر اس سے زیادہ ملک صدق سالم کا حق تھا طرح کے منہ سے کیونکہ بقول عیسائیوں کے وہ ہر طرح کے گناہ سے پاک تھا.کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۷۷، ۷۸ (ایڈیٹر کے اپنے الفاظ میں ) تعجب ہے کہ عیسائی لوگ شفاعت کے لئے عصمت کا مطالبہ کرتے ہیں.کیونکہ ان کے ہاں نرمی عصمت شفاعت کا موجب نہیں ہو سکتی بلکہ شفاعت تب ہو سکتی ہے جبکہ شفیع معصوم ہو اور پھر وہ ابن اللہ ہو اور پھر صلیب پر لٹکایا جا کر ملعون ہو.جب تک پاک تھا.۱۵۱ یہ تثلیث عیسائی مذہب کے عقیدہ کے موافق قائم نہ ہو شفیع نہیں ہو سکتا.پھر وہ عصمت شفاعت کے لئے عصمت ہی کیوں پکارتے ہیں کیا اگر کوئی معصوم ان کے سامنے پیش کیا جاوے یا ثابت صرف معصوم ہوتاہی بھی ضروری ہے.کر دیا جاوے تو وہ مان لیں گے کہ وہ شفیع ہے ؟ ہر گز نہیں بلکہ عیسائی عقیدہ کے موافق یہ ضروری نہیں بلکہ انیست ضروری ہے کہ وہ خدا بھی نہ ہو بلکہ ابن اللہ ہو اور وہ مصلوب ہو کر جب تک ملعون نہ ہوئے.ہر گز ہر گز وہ شفیع نہیں ہو سکتا.پھر ایک اور بات قابل غور ہے کہ جبکہ یسوع خود خدا تھا اور اس لئے علیہ العلل تھا اور اس نے کل جہان کے گناہ بھی اپنے ذمہ لئے پھر وہ معصوم کیونکر ہوا.اور گناہوں کا تذکرہ ہم چھوڑتے ہیں جو یہودی مورخوں اور فری تھنکروں ( آزاد خیال) نے ان کی انجیل سے ثابت کئے ہیں لیکن جب اس نے خود گناہ اٹھالئے اور بوجہ علت العلل ہونے کے سارے گناہوں کا کرنے والا وہی ٹھرا.تو پھر اسے معصوم قرار دینا عجیب دانشمندی ہے پھر خدا کا نام معصوم نہیں کیونکہ معصوم وہ ہے

Page 198

۱۸۰ جسکا کوئی دوسرا عاصم ہے.خدا کا نام عاصم ہے اس لئے جب شفاعت کے لئے ابنیت کی ضروت ہے اور اس کے لئے بھی مصلوبیت کی لعنت ضروری ہے تو یہ سارا تانا بانا ہی بنائے فاسد بر فاسد کا مصداق ہے.حقیقی اور سچی بات یہ ہے جو میں نے پہلے بھی بیان کی تھی کہ شفیع کے لئے ضرورت ہے کہ اول خدا تعالیٰ سے تعلق کامل ہو.تاکہ وہ خدا سے فیض کو حاصل کرے اور پھر مخلوق سے شدید تعلق ہو تاکہ وہ فیض اور خیر جو وہ خدا سے حاصل کرتا ہے مخلوق کو پہنچا دے.جب تک یہ دونوں تعلق شدید نہ ہوں شفیع نہیں ہو سکتا.پھر اسی مسئلہ پر تیسری بحث قابل غور یہ ہے کہ جب تک نمونے نہ دیکھے جائیں کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا.اور ساری بخشیں فرضی ہیں.مسیح کے نمونہ کو دیکھ لو کہ چند حواریوں کو بھی درست نہ کر سکے.ہمیشہ ان کو سست اعتقاد کہتے رہے بلکہ بعض کو شیطان بھی کہا اور انجیل کی رو سے کوئی نمونہ کامل ہونا ثابت نہیں ہوتا.بالمقابل ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل نمونہ ہیں کہ کیسے روحانی اور جسمانی طور پر انہوں نے عذاب الیم سے چھوڑا یا اور گناہ کی زندگی سے ان کو نکلا کہ عالم ہی پلٹ دیا.ایسا ہی حضرت موسی کی شفاعت سے بھی فائدہ پہنچا عیسائی جو مسیح کو متیل موسیٰ قرار دیتے ہیں تو یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ موسیٰ کی طرح انہوں نے گناہ سے قوم کو بچایا ہو.بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کے بعد قوم کی حالت بہت ہی بگڑ گئی.اور اب بھی اگر کسی کو شک ہو تو لنڈن یا یورپ کے دوسرے شہروں میں جاکر دیکھ لے کہ آیا گناہ سے چھڑا دیا ہے یا پھنسادیا ہے اور یوں کہنے کو تو ایک چوہڑا بھی کہ سکتا ہے کہ بالمیک نے چھوڑایا مگریہ نے دعوے ہی دعوے ہیں جن کے ساتھ کوئی واضح ثبوت نہیں ہے.پس عیسائیوں کا یہ کہنا کہ مسیح چھوڑانے کے لئے آیا تھا.ایک خیالی بات ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے بعد قوم کی حالت بہت بگڑ گئی اور روحانیت سے بالکل دور جا پڑی.ہاں تچا شفیع اور کامل شفیع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.جنہوں نے قوم کو بت پرستی اور ہر قسم کے فسق و فجور کی گندگیوں اور ناپاکیوں سے نکال کر اعلیٰ درجہ کی قوم بنا دیا.ملفوظات جلد ۳ صفحه ۲۱۶٬۲۱۵

Page 199

3 IAI ۱۵۲ پھر آپ دعوے بہ فرماتے ہیں کہ آسمان کے نیچے دوسرا نام نہیں جس سے نجات ہو اور نیز یہ بھی کہتے ہیں کہ مسیح گناہ سے پاک تھا اور دوسرے نبی گناہ سے پاک نہیں مگر تعجب کہ حضرت مسیح نے کسی مقام میں نہیں فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کے حضور میں ہر ایک قصور اور ہر ایک خطا سے پاک ہوں اور یہ کہنا حضرت مسیح کا کون تم میں سے مجھ پر الزام لگا سکتا ہے یہ الگ بات ہے جسکا یہ مطلب ہے کہ تمہارے مقابل پر اور تمہارے الزام سے میں مجرم اور مفتری نہیں تھر سکتا لیکن خدا تعالی کے حضور میں حضرت مسیح مسیح پر قصور اور خطا سے صاف اپنے تقصیر وار ہونے کا اقرار کرتے ہیں جیسا کہ متی باب ۱۹ سے ظاہر ہے کہ انہوں پاک نہیں تھے.نے اپنے نیک ہونے سے انکار کیا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ قرآن اور انجیل دونوں کلام خدا ہو کر پھر دو مختلف طریقے نجات کے کیوں بیان کرتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ جو قرآن کے مخالف انجیل کے حوالہ سے طریقہ بیان کیا جاتا ہے وہ صرف آپ کا بے بنیاد خیال ہے ابتک آپ نے ثابت کر کے نہیں دکھایا کہ حضرت مسیح کا قول ہے انجیل میں تو نہ با صراحت و نہ بالفاظ کہیں تثلیث کا لفظ موجود ہے اور نہ رحم بلا مبادلہ کا قرآن کریم کی تصدیق کے لئے وہ حوالجات کافی ہیں جو ابھی ہمنے پیش کئے ہیں جب کہ قرآن اور عہد عتیق اور جدید کے بہت سے اقوال بالاتفاق آپ کے کفارہ کے مخالف ٹھہرے ہیں تو کم سے کم آپ کو یہ کہنا چاہئے کہ اس عقیدہ میں آپ سے غلط فہمی ہو گئی ہے.کیونکہ ایک عبارت کے معنے کرنے میں کبھی انسان دھو کا بھی کھا جاتا ہے جیسا آپ فرماتے ہیں کہ آپ کے بھائیوں رومن کیتھلک اور یونی شیرین نے انجیل کے سمجھنے میں دھوکا کھایا ہے اور وہ دونوں فریق آپ کو دھو کہ پر سمجھتے ہیں.پھر جب گھر میں ہی پھوٹ ہے تو پھر آپ کا تفاقی مسئلہ کو چھوڑ دینا اور اختلافی خبر کو پکڑ لینا کب جائز ہے.جنگ مقدس بروحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۲۴ فإنهم قائلون بلسغ الذنب من آدم إلى انقطاع الدنيا، ويقولون إن كل عبد مذنب ، سواء عليه بلغه كتاب من الله تعالى أو أعطى له عقل سليم، أو كان من تر جمہ ہو چنانچہ وہ آدم سے لے کر دنیا کے خاتمہ تک گناہ کے نسل در نسل پائے جانے کے قائل ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہر شخص گنہ گار ہے خواہ اسے خدا کی کتاب کا پیغام پہنچا ہواور عقل سلیم دی گئی ہو یا معذوروں میں ۱۵۳ نہ عدل باقی رہا نہ رحم

Page 200

المعذورين.وزعموا أن الله تعالى لا يغفر أحدا إلا بعد إيمانه بالمسيح، وزعموا أن أبواب النجاة مغلقة لغيره، ولا سبيل إلى المغفرة بمجرد الأعمال، وأن الله عادل، والعدل يقتضي أن يعذب من كان مذنبا وكان من المجرمين.فلما حصحص اليأس من أن تطهر الناس بأعمالهم أرسل الله ابنه الطاهر ليَزَرَ وِزْرَا الناس على عنقه، ثم يصلب وينجي الناس من أوزارهم.فجاء الابن وقتل ونجا النصارى، فدخلوا في حدائق النجاة فرحين.هذه عقيدتهم، ولكن من نقدها بعين المعقول ، ووضعها على معيار التحقيقات ، سلكها مسلك الهذيانات وإن تعجب فما تجد أعجب من قولهم هذا.لا يعلمون أن العدل أهم وأوجب من الرحم ، فمن ترك المذنب، وأخذ المعصوم ففعل فعلاً ما بقي منه عدل ولا رحم.وما يفعل مثل ذلك إلا الذي هو أضل من المجانين.ثم إذا كانت المؤاخذات مشروطة بوعد الله تعالى ووعيده فكيف يجوز تعذيب أحد قبل إشاعة قانون الأحكام وتشييده ، وكيف يجوز أخذ الأولين والآخرين عند صدور معصية ما سبقها وعيد عند ارتكابها وما كان أحد عليها من سے ہو اور وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو مسیح پر ایمان لائے بغیر معاف نہیں کرے گا.نیز وہ گمان کرتے ہیں کہ ایسے شخص کے سوا ہر ایک کے لئے نجات کے دروازے بند ہیں اور محض اعمال سے نجات نہیں ہوتی.اور اللہ عادل ہے اور عدل کا تقاضہ تھا کہ وہ ہر گناہگار اور مجرم کو سزا دے.اور جب اس بات سے نامیدی ہو گئی کہ لوگ خود پاک ہو سکیں تو خدا نے اپنے پاک بیٹے کو بھیجا تاوہ لوگوں کے بوجھ اپنی گردن پر اٹھائے پھر صلیب پر مرے اور لوگوں کو ان کے بوجھوں سے نجات دلائے.چنانچہ بیٹا آیا اور مارا گیا اور نصاری کو نجات دلا گیا.جس پر وہ نجات کے باغات میں خوشی خوشی داخل ہوئے.یہ ان کا عقیدہ ہے مگر جو اس کو عقل کی رو سے دیکھے گا اور تحقیق کے معیار پر پر کھے گا تو اسے بیہودہ قرار دے گا.اگر تو تعجب کرتا ہے تو ان کے اس قول سے زیادہ تعجب انگیز بات تجھے نہیں ملے گی کہ عدل رحم سے زیادہ اہم اور ضروری ہے.پس کوئی جو گنہگار کو چھوڑ کر معصوم کو پکڑلے تو وہ ایسا کام کرتا ہے کہ جس سے نہ عدل باقی رہتا ہے نہ رحم.اور ایسا کام اور کوئی نہیں کرتا سوائے اس کے کہ جو پاگلوں سے بھی زیادہ گمراہ ہو پھر اگر سزا دینا خدا تعالیٰ کے وعدہ اور وعید سے مشروط ہے تو پھر کیونکر جائز ہے کہ کسی کو قوانین اور احکام کی اشاعت اور قیام سے قبل ہی سزا دے دی جائے اور یہ کیسے جائز ہے کہ اولین و آخرین کو کسی ایسے گناہ پر پکڑا lar

Page 201

۱۸۳ المطلعين.فالحق أن العدل لا يوجد أثره إلا بعد نزول كتاب الله ووعده ووعيده وأحكامه وحدوده وشرائطه.وإضافة العدل الحقيقي إلى الله تعالى باطل لا أصل لها، لأن العدل لا يتصور إلا بعد تصور الحقوق وتسليم وُجُوبها، وليس لأحد حق على رب العالمين.ألا ترى أن الله سخر كل حيوان للإنسان، وأباح دماءها لأدنى ضرورته.فلو كان العدل حقا على الله تعالى لما كان له سبيل لإجراء هذه الأحكام، وإلا فكان من الجائرين.ولكن الله يفعل ما يشاء في ملكوته ، يعز من يشاء، ويذل من وجوب يشاء ، ويحي من يشاء، ويميت من يشاء ويرفع من يشاء، ويضع من يشاء.ووجود الحقوق يقتضي خلاف ذلك، بل يجعل يداه مغلولة.وأنت ترى أن المشاهدة تكذبها..وقد خلق الله مخلوقه على تفاوت المراتب..فبعض مخلوقه أفراس وحمير وبعضه جمال ونوق وكلاب وذياب ونمور.وجعل لبعض مخلوقه سمعا وبصر، وخلق بعضهم صما وجعل بعضهم عمين.فلأي حيوان جائے جس کے ارتکاب سے قبل کوئی اندار نہ ہوا ہو اور نہ ہی اس اندار پر وہ مطلع ہوا ہو.پس حق یہ ہے کہ کتاب اللہ ، وعدہ اور وعید، خدا کے احکام اور حدود اور شرائط نازل ہونے سے قبل عدل کا کوئی وجود نہیں ہوتا.نیز خد اتعالیٰ کی طرف عدل منسوب کرنا باطل شی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں.کیونکہ عدل کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ پہلے حقوق اور ان کے تسلیم کئے جانے کا تصور موجود نہ ہو.اور خدا تعالیٰ پر کسی کا کوئی حق نہیں ہوتا.کیا تو نہیں دیکھتا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوان کو انسان کے لئے مسخر کیا ہے اور اس کے خون کو انسان کی ادنی ضرورت کے لئے بھی مباح قرار دیا ہے.پس اگر عدل خدا پر ایک لازمی حق کے طور پر ہوتا تو خدا قطعاً ایسے احکام جاری نہ فرماتاور نہ وہ ظالم قرار پاتا مگر خدا تعالیٰ تو اپنی ملکوت میں جو چاہتا ہے کرتا ہے.جسے چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے.جسے چاہتا ہے زندہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے مارتا ہے جسے چاہتا ہے اونچا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نیچے گراتا ہے مگر حقوق کے پائے جانے کا تصور اس کے مختلف ہے اور اس کے ہاتھوں کو باندھتا ہے.اور تو دیکھتا ہے کہ مشاہدہ اس بات کو رد کرتا ہے.اور خدا نے اپنی مخلوق کو مختلف مراتب پر پیدا کیا ہے چنانچہ اس میں سے بعض گھوڑے اور گدھے ہیں اور بعض اونٹ اونٹنیں، کتنے اور بھیڑیئے اور چیتے ہیں پھر اس نے بعض مخلوق کو کان اور آنکھیں دی ہیں اور بعض کو بہرہ بنایا ہے اور بعض کو اندھا.پس کون ایسا حیوان ہے کہ جو یہ حق رکھتا ہے کہ اٹھے اور خدا سے

Page 202

حق أن يقوم ويخاصم ربه أنه لم خلقه كذا ، ولم يخلقه كذا.نعم كتب الله على نفسه حق العباد بعد إنزال الكتب وتبليغ الوعد والوعيد ، وبشر بجزاء العاملين.فمن تبع كتابه ونبيه، ونهى النفس عن الهوى، فإن الجنة هي المأوى.ومن عصى ربه وأحكامه وأبى فسيكون من المعذبين.فلما كان ملاك الأمر الوعد الوعيد ، لا العدل العتيد الذي كان واجبًا على الله الوحيد، انهدم من هذا الأصول المنيف الممرد الذى بناه النصارى من أوهامهم.فثبت أن إيجاب العدل الحقيقي على الله تعالى خيال فاسد ومتاع كاسد، لا يقبله إلا من كان من الجاهلين.ومن هنا نجد أن بناء عقيدة الكفارة على عدل الله بناء فاسد على فاسد.فتدبر فيه ، فإنه يكفيك لكسر الصليب النصارى إن كنت من المنتظرين.واسم الصفة في كتاب الله تعالى رحيمية كما قال الله تعالى في كتابه العزيز: وكان بالمؤمنين رحيما.وقال : والله غفور رحيم.فهذا الفيضان لا يتوجه إلا إلى المستحق، ولا يطلب إلا عاملاً وهذا هو الفرق بين الرحمانية والرحيمية.جھگڑے کہ اس نے اسے ایسا کیوں بنایا اور ایسا کیوں نہ بنایا.البتہ خدا تعالیٰ نے کتاب نازل کرنے اور وعدہ و وعید دینے کے بعد اپنے پر بندوں کے حقوق واجب کئے ہیں اور عمل کرنے والوں کو جزا کی خوش خبری دی ہے پس جو اس کی کتاب اور اس کے نبی کی پیروی کرے گا اور نفس کو ہوا و ہوس سے روکے گا تو اس کا ٹھکانا جنت ہو گا اور جو اس کی نافرمانی کرے گا اور اس کے احکام کو توڑے گا اور ا نکار کرے گا تو وہ عذاب پانے والوں میں سے ہو گا.پس جب یہ ثابت ہو گیا کہ اصل بات وعده و وعید پر منحصر ہے نہ کہ عدل پر جو خدائے واحد پر لازم ہو تو اس اصول کے مطابق وہ قلعہ جو نصاری نے اپنے اوہام سے بنا لیا تھا منہدم ہو گیا اور وہ بے فائدہ متاع ہے جسے سوائے جاہلوں کے اور کوئی قبول نہیں کرے گا.سواس سے یہ بھی پتہ چلا کہ کفارے کے عقیدہ کی خدا کے عدل پر بناء کرنا بناء فاسد علی فاسد ہے.اس بات پر غور کر کہ یہ بات تجھے نصاری کی صلیب کو توڑنے کے لئے کافی ہے اگر تو مناظرہ کرنے والوں میں سے ہے.کتاب اللہ میں خدا تعالیٰ کی اس صفت کا نام رحیمیت آیا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ اپنی کتاب عزیز میں فرماتا ہے وكان بالمؤمنين رحيما نيز فرمایا والله غفور رحیم یہ فیضان صرف مستحق کو ملتا ہے اور صرف کام کرنے والا ہی اس کا مطالبہ کر سکتا ہے.اور رحمانیت اور رحیمیت کے ۱۸۴

Page 203

۱۸۵ والقرآن مملوء من نظائره، ولكن كفاك هذا القدر إن كنت من العاقلين.كرامات الصادقين روحاني خزائن مجلد ٧ ص ١١٤، ١١٥).۱۵۴ ہم نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ خدا تعالیٰ کا عدل بغیر کفارہ کے کیونکر پورا ہو بالکل مہمل ہے.کیونکہ ان کا یہ اعتقاد ہے کہ یسوع باعتبار اپنی انسانیت کے بے گناہ تھا.مگر پھر بھی ان کے خدا نے یسوع پر ناحق تمام جہان کی لعنت ڈال کر دنیا کو دل کی کچھ پرواہ نہیں.اپنے عدل کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا.اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے خدا کو عدل کی کچھ بھی پرواہ نہیں یہ خوب انتظام ہے کہ جس بات سے گریز تھا اسی کو بہ افتح طریق اختیار کر لیا گیا.واویلا تو یہ تھا کہ کسی طرح عدل میں فرق نہ آوے اور رحم بھی وقوع میں آجائے.مگر ایک بے گناہ کے گلے پر ناحق چھری پھیر کر نہ عدل قائم رہ سکا اور نہ رحم - لیکن یہ وسوسہ کہ عدل اور رحم دونوں خدا تعالی کی ذات میں جمع نہیں ہو سکتے.کیونکہ عدل کا تقاضا ہے کہ سزادی جائے اور رحم کا تقاضا ہے کہ در گزر کی جائے.یہ ایک ایسا دھوکہ ہے کہ جس میں قلت تدیر سے کو نہ اندیش عیسائی گرفتار ہیں.وہ غور نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ کا عدل بھی تو ایک رحم ہے.وجہ یہ کہ وہ سراسر انسانوں کے فائدہ کے عدل بھی تو ایک رحم لئے ہیں مثلاً اگر خدا تعالیٰ ایک خوبی کی نسبت باعتبار اپنے عدل کے حکم فرماتا ہے کہ وہ مارا جائے.تو اس سے اس کی الوہیت کو کچھ فائدہ نہیں.بلکہ اس لئے چاہتا ہے که تانوع انسان ایک دوسرے کو مار کرنا بو د نہ ہو جائیں.سو یہ نوع انسان کے حق میں رحم ہے اور یہ تمام حقوق عباد خدا تعالیٰ نے اس لئے قائم کئے ہیں کہ تا امن قائم رہے.اور ایک گروہ دوسرے گروہ پر ظلم کر کے دنیا میں فساد نہ ڈالیں سو وہ تمام حقوق اور سزائیں جو مال اور جان اور آبرو کے متعلق ہیں در حقیقت نوع انسان کے لئے ایک رحم ہے.انجیل میں کہیں نہیں لکھا کہ یسوع کے کفارہ سے چوری کرنا بے گانہ مال دبالینا ڈاکہ مارنا خون کرنا جھوٹی گواہی دینا سب جائز اور حلال ہو جاتے ہیں اور سزائیں معاف ہو جاتی ہیں بلکہ ہر ایک جرم کے لئے سزا ہے اسی لئے یسوع نے کہا کہ ”اگر تیری آنکھ درمیان یہی فرق ہے.قرآن ایسے نظائر سے بھرا ہوا ہے مگر مجھے استاہی کافی ہے اگر تو عقل مندوں میں سے ہے.ہے.

Page 204

IAY گناہ کرے تو اسے نکال ڈال کیونکہ کا نا ہو کر زندگی بسر کرنا جہنم میں پڑنے سے تیرے لئے بہتر ہے " پس جب کہ حقوق کے تلف کرنے پر سزائیں مقرر ہیں جن کو مسیح کا کفاره دور نہیں کر سکا تو کفارہ نے کن سزاؤں سے نجات بخشی.پس حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا عدل بجائے خود ہے اور رحم بجائے خود ہے.جو لوگ اچھے کام کر کے اپنے تیں رحم کے لائق بناتے ہیں ان پر رحم ہو جاتا ہے اور جو لوگ مار کھائے کے کام کرتے ا اور تم میں کوئی ہیں ان کو مار پڑتی ہے.پس عدل اور رحم میں کوئی جھگڑا نہیں گویا دو نہریں ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر چل رہی ہیں.ایک نہر دوسرے کی ہر گز مزاحم نہیں ہے دنیا کی سلطنتوں میں بھی یہی دیکھتے ہیں کہ جرائم پیشہ کو سزا ملتی ہے لیکن جو لوگ اچھے کاموں سے گورنمنٹ کو جھگڑا نہیں.عقل خوش کرتے ہیں وہ مور د انعام و اکرام ہو جاتے ہیں.یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ خدا تعالی کی اصل صفت رحم ہے اور عدل عقل اور قانون عدل ، عقل اور قانون عطا کرنے کے بعد آتا عطا کرنے بعد پیدا ہوتا ہے اور حقیقت میں وہ بھی ایک رحم ہے جو اور رنگ میں ظاہر ہوتا عنی اور تاکنون شرکا ہے.جب کسی انسان کو عقل عطا ہوتی ہے اور بذریعہ عقل وہ خدا تعالی کے حدود اور ہے لیکن رحم کے لئے قوانین سے واقف ہوتا ہے.تب اس حالت میں وہ عدل کے مواخذہ کے نیچے آتا ہے لیکن رحم کے لئے عقل اور قانون کی شرط نہیں.اور چونکہ خدا تعالیٰ نے رحم کر کے انسانوں کو سب سے زیادہ فضیلت دینی چاہی اس لئے اس نے انسانوں کے لئے عدل کے قواعد اور حدود مرتب کئے سو عدل اور رحم میں تناقض سمجھنا جہالت ہے.نہیں.کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۷۲ تا ۷۴ مسیحی صاحبوں کا اس پر اتفاق ہو چکا ہے کہ مسیح کے زمانہ کے بعد الہام اور وحی پر مہر لگ گئی ہے.اور اب یہ نعمت آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے.اور اب اس کے پانے کی کوئی نومیدی کی وجہ بھائی بھی راہ نہیں اور قیامت تک نومیدی ہے.اور فیض کا دروازہ بند ہے اور شاید یہی وجہ ی بات کی کی راہ نکال ہوگی کہ نجات پانے کے لئے ایک نئی تجویز نکالی گئی ہے اور ایک نیا نسخہ تجویز کیا گیا ہے.گئی.جو تمام جہان کے اصول سے نرالا اور سراسر عقل اور انصاف اور رحم سے مخالف ہے اور وہ یہ ہے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے تمام جہان کے گناہ اپنے ذمہ لے کر صلیب پر مرنا منظور کیا تا ان کی اس موت سے دوسروں کی رہائی ہو.اور خدا نے تا اپنے بے گناہ بیٹے کو مارا تا گنہ گاروں کو بچاوے.لیکن ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس

Page 205

۱۸۷ قسم کی مظلومانہ موت سے دوسروں کے دل گناہ کی پلید خصلت سے کیونکر صاف اور پاک ہو سکتے ہیں.اور کیونکر ایک بے گناہ کے قتل ہونے سے دوسروں کو گذشتہ گناہوں کی معافی کی سند مل سکتی ہے.بلکہ اس طریق میں انصاف اور رحم دونوں کا خون ہے کیونکہ گنہگار کے عوض میں بے گناہ کو پکڑ نا خلاف انصاف ہے اور نیز بیٹے کو اس طرح ناحق سخت دلی سے قتل کرنا خلاف رحم ہے.اور اس حرکت سے فائدہ خاک نہیں.اور ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ اصل سبب گناہ کے سیلاب کا قلت معرفت ہے.کا خوان پس جب تک ایک علت موجود ہے تب تک معلول کی نفی کیونکر ہو سکتی ہے ہمیشہ علت کا جب تک علت موجود وجود معلول کے وجود کو چاہتا ہے.اب جائے حیرت ہے کہ یہ کیسا فلسفہ ہے کہ گناہ ہے تب تک معلول کی ؟ کرنے کی علت جو قلت معرفت باری تعالیٰ ہے وہ تو سر پر موجود کھڑی ہے مگر معلول اس تھی کیونکر ہو سکتی ہے کا جو ارتکاب گناہ کی حالت ہے وہ معدوم ہو گئی ہے.تجربہ ہزاروں گواہ پیش کرتا ہے کہ بجزر معرفت کامل کے نہ کسی چیز کی محبت پیدا ہو سکتی ہے اور نہ کسی چیز کا خوف پیدا ہوتا.اور نہ اس کی قدر دانی ہوتی ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کسی فعل یا ترک فعل کو یا تو خوف کی وجہ سے کرتا ہے اور یا محبت کی وجہ سے.اور خوف اور محبت دونوں معرفت سے پیدا ہوتی ہیں.پس جب معرفت نہیں تو نہ خوف ہے اور نہ محبت ہے.لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۶۳، ۱۶۴ حضرت مسیح بھی گناہ بخشنے کے لئے وصیت فرماتے ہیں کہ تم اپنے گنہگار کی خطا بخشو.ظاہر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ جل شانہ کی صفات کے بر خلاف ہے کسی کا گناہ بخشا جائے تو انسان کو ایسی تعلیم کیوں ملتی ہے.بلکہ حضرت مسیح تو فرماتے ہیں کہ میں تجھے سات مرتبہ تک نہیں کہتا بلکہ ستر کے سات مرتبہ تک یعنی اس اندازہ تک کے گناہوں کو بخشتا چلا جا.اب دیکھئے کہ جب انسان کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ گویا تو بے انتہا مراتب تک اپنے گناہ گاروں کو بلا عوض بخشتا چلا جا.اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بلا عوض ہر گز نہ بخشوں گا.تو پھر یہ تعلیم کیسی ہوئی.حضرت مسیح نے تو ایک جگہ فرما دیا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے اخلاق کے موافق اپنے اخلاق کرو.کیونکہ وہ بدوں اور نیکوں پر اپنا سورج چاند چڑہاتا ہے اور ہر ایک خطا کار اور بے خطا کو اپنی رحمتوں کی بارشوں سے متمتع کرتا ہے.پھر جب یہ 104 رحم بلا مبادله

Page 206

IAA تعلیم دی؟ سے بدوں کے گناہ بخشے گئے.کیا حضرت مسیح نے حال ہے تو کیونکر ممکن تھ ممکن تھا کہ حضرت مسیح ایسی تعلیم فرماتے جو اخلاق الہی کے مختلف ٹھہرتی اخلاق الہی کے مخالف ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا یہی خلق ہے کہ جب تک سزا نہ دی جائے کوئی صورت رہائی کی نہیں تو پھر معافی کے لئے دوسروں کو کیوں نصیحت کرتا ہے.ماسوا اس کے جب ہم نظر غور سے دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ نیکوں کی شفاعت سے بدوں کے گناہ ہمیشہ نیکوں کی شفاعت بخشے گئے ہیں دیکھو گفتی باب ۱۹/ ۱۴.ایسا ہی گنتی ۱۳ / ۱۲- استثنا۱۹/ ۹- خروج ۸/۸ پھر ماسوا اس کے ہم پوچھتے ہیں کہ آپ نے جو گناہ کی تقسیم کی ہے وہ تین قسم معلوم ہوتی ہے.فطرتی.حق اللہ.حق العباد.تو پھر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ حق العباد کے تلف ہونے کا کیا سبب ہو سکتا ہے.اور نیز یہ بھی آپ کو دیکھنا چاہئے کہ فطرتی گناہ آپ کے اس قاعدہ کو توڑ رہا ہے.آپ کی توریت کے رو سے بہت سے مقامات ایسے ثابت ہوتے ہیں جس سے آپ کا مسئلہ رحم بلا مبادلہ باطل ٹھہرتا ہے.پھر اگر آپ توریت کو حق اور منجانب اللہ مانتے ہیں تو حضرت موسیٰ کی وہ شفاعتیں جن کے ذریعہ.شفاعتیں جن کے ذریعہ سے بہت مرتبہ بڑے بڑے گناہگاروں کے گناہ بخشے گئے نکمی اور بیکار ٹھرتی ہیں.اور آپ کو معلوم رہے کہ قرآن شریف نے اس مسئلہ میں وہ انسب طریق اختیار کیا ہے جو کسی کا اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا یعنی حقوق دو قسم کے ٹھہرا دئے ہیں.ایک حق اللہ اور ایک حق العباد - حق العباد میں یہ شرائط لازمی ٹھہرائی گئی ہے کہ جب تک مظلوم اپنے حق کو نہیں پاتا یا حق کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک وہ حق قائم رہتا ہے.اور حق اللہ میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جس طرح پر کسی نے شوخی اور بیا کی کر کے معصیت کا طریق اختیار کیا ہے.اسی طرح جب پھر وہ توبہ و استغفار کرتا ہے اور اپنے بچے خلوص کے ساتھ فرمانبرداروں کی جماعت میں داخل ہو جاتا ہے اور ہر ایک طور کا درد اور دکھ اٹھانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے گناہ کو اس کے اس اخلاص کی وجہ سے بخش دیتا ہے کہ جیسا کہ اس نے نفسانی لذات کے حاصل کرنے کے لئے گناہ کی طرف قدم اٹھایا تھا.اب ایسا ہی اس نے گناہ کے ترک کرنے میں طرح طرح کے دکھوں کو اپنے سر پر لے لیا ہے.پس یہ صورت معاوضہ ہے جو اس نے اپنے پر اطاعت انہی میں دکھوں کو قبول کر لیا ہے اور اس کو ہم حم بلا مبادلہ ہر گز نہیں کہہ سکتے.کیا انسان نے کچھ بھی کام نہیں کیا یوں ہی رحم ہو گیا.اس نے تو سچی توبہ سے ایک کامل قربانی کو ادا کر دیا ہے.اور ہر طرح کے دکھوں کو یہاں تک کہ مرنے کو بھی اپنے نفس پر گوارا کر لیا ہے.اور جو سزا کے طور پر اس کو ملنی

Page 207

۱۸۹ تھی وہ سزا اس نے آپ ہی اپنے نفس پر وار د کر لی ہے.تو پھر اس کو رحم بلا مبادلہ کہنا اگر سخت غلطی نہیں تو اور کیا ہے.مگر وہ رحم بلا مبادلہ جس کو ڈپٹی صاحب پیش کرتے ہیں کہ گناہ کوئی کرے اور سزا کوئی پاوے.حزقیل باب ۱۸ آیت ۱.پھر حز قیل ۲۰ / ۱۸ پھر سموئیل ۳/ ۲ مکاشفات ۱۲/ ۲۰ حز قیل ۲۷ - ۱۹/۳۰ یہ تو ایک نہایت مکروہ ظلم کی ق ہے.اس سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی ظلم نہیں ہو گا.سوائے اس کے کیا خدا تعالٰی کو یہ کیا خدا تعالی کو یہ طریق طریق معافی گناہوں کا صدہا برس سوچ سوچ کر پیچھے سے یاد آیا.ظاہر ہے کہ انتظام الہی معافی صدہا برس سوچ سوچ کر یاد آیا؟ جو انسان کی فطرت سے متعلق ہے وہ پہلے ہی ہونا چاہئے.جب سے انسان دنیا میں آیا فله احب گناہ کی بنیاد اسی وقت سے پڑی.پھر یہ کیا ہو گیا کہ گناہ تو اسی وقت زہر پھیلانے لگا.مگر خدا تعالیٰ کو چار ہزار برس گزرنے کے بعد گناہ کا علاج یاد آیا.نہیں صاحب یہ سراسر بناوٹ ہے.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جیسے ابتدا سے انسان کی فطرت میں ایک ملکہ گناہ کرنے کا رکھا.ایسا ہی گناہ کا علاج بھی اسی طرز سے اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے جیسے کہ وہ خود فرماتا ہے.بلی من اسلم وجهه بله وهو محسن ره عند ربه ولا خوف عليهم ولا هم بحریوں (کیا ہے) یعنی جو شخص اپنے تمام وجود کو خدا تعالیٰ کی راہ میں سونپ دیوے اور پھر اپنے تئیں نیک کاموں میں لگادیوے تو اس کو ان کا اجر اللہ تعالیٰ سے ملے گا.اور ایسے لوگ بے خوف اور بے غم ہیں.اب دیکھئے کہ یہ قاعدہ کہ توبہ کر کے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اپنی زندگی کو اس کی راہ میں وقف کر دینا یہ گناہ کے بخشے جانے کے لئے ایک ایسا صراط مستقیم ہے کہ کسی خاص زمانہ تک محدود نہیں.جب سے انسان اس مسافر خانہ میں آیا تب سے اس قانون کو اپنے ساتھ لایا.جیسے اس کی فطرت میں ایک شق یہ موجود ہے کہ گناہ کی طرف رغبت کرتا ہے ایسا ہی یہ دوسراشق بھی موجود ہے کہ گناہ سے نادم ہو کر اپنے اللہ کی راہ میں مرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.زہر بھی اسی میں ہے اور تریاق بھی اسی میں ہے.یہ نہیں کہ زہر اندر سے نکلے اور تریاق جنگلوں سے تلاش کرتے پھریں.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۹۷ تا ۲۰۰ آپ اپنے پہلے قول پر ضد کر کے فرماتے ہیں کہ دنیا میں جو کسی کی شفاعت سے گناہ ۱۵۷

Page 208

١٩٠ بخشے گئے.بخشے جاتے ہیں وہ ایک انتظامی امر ہے.افسوس کہ آپ اس وقت مقنن کیوں بن گئے اور توریت کی آیتوں کو کیوں منسوخ کرنے لگے اگر صرف انتظامی امر ہے اور حقیقت میں گناہ بخشے نہیں جاتے تو توریت سے اس کا ثبوت دینا چاہئے.توریت صاف کہتی ہے کہ حضرت موسیٰ کی شفاعت سے بھی گناہ حضرت موسیٰ کی شفاعت سے کئی مرتبہ گناہ بخشے گئے.اور بائبل کے تقریباً کل صحیفے خدا تعالیٰ کے رحیم اور تو آب ہونے پر ہمارے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں دیکھو یسعیاہ ۷ / ۵۵ بر میاده ۱۳ / ۳ تواریخ دوم ۷٫۱۴ زبور چهارم ۲۳۲٫۵ امثال ۱۳/ ۲۸ اسی طرح لوقا ۳ - ۷٫۴ اولو قام سے ۲۴ ۵٫ الوقا۲۵، ۲۸ / ۱۰ مرقس ۱۶ / ۱۶ اور پیدائش ۶٫۷،۹ کتاب ایوب ارا حزقیل ۱۴/۱۴ دانیال ۶٫۴ زبور ۱۳۰٫۷٫۴٫۳ زبور ۳۸/ ۷۸ میکا ۷٫۱۸ - غرض کہاں تک لکھوں آپ ان کتابوں کو کھول کر پڑھیں اور دیکھیں کہ سب سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ رحم بلا مبادلہ کی کچھ ضرورت نہیں اور ہمیشہ سے خدا تعالیٰ مختلف ذرائع سے رحم کرتا چلا آیا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ تو بہ اور ایمان باہر کے پھاٹک ہیں یعنی باوجود تو بہ اور ایمان کے پھر بھی کفارہ کی ضرورت ہے یہ آپ کا صرف دعوی ہے جو ان تمام کتابوں سے مخالف ہے جن کے میں نے حوالہ دے دئے.ہاں اس قدر سچ ہے کہ جیسے اللہ جل شانہ نے باوجود انسان کے خطا کار اور تقصیر وار ہونے کے اپنے رحم کو کم نہیں کیا ایسا ہی وہ تو بہ کے قبول کرنے کے وقت بھی وہی رحم مد نظر رکھتا ہے اور فضل کی راہ سے انسان کی بضاعت مزجات کو کافی سمجھ کر قبول فرمالیتا ہے.اس کی اس عادت کو اگر دوسرے لفظوں میں فضل کے ساتھ تعبیر کر دیں اور یہ کہہ دیں کہ نجات فضل سے ہے تو عین مناسب ہے کیونکہ جیسے ایک غریب اور عاجز انسان ایک پھول تحفہ کے طور پر بادشاہ کی خدمت میں لے جاوے اور بادشاہ اپنی عنایات بے غایات سے اور اپنی حیثیت پر نظر کر کے اس کو وہ انعام دے جو پھول کی مقدار سے ہزار ہا بلکہ کروڑہا درجہ بڑھ کر ہے یہ کچھ بعید بات نہیں ہے.ایسا ہی خدا تعالیٰ کا معاملہ ہے وہ اپنے فضل کے ساتھ اپنی خدائی کے شان کے موافق ایک گداز لیل حقیر کو قبول کر لیتا ہے جیسا کہ دیکھا جاتا ہے کہ دعاوں کا قبول ہونا بھی فضل پر موقوف ہے جس سے بائبل بھری ہوئی ہے.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۲۱، ۲۲۲

Page 209

191 سویا درکھو کہ خدائی کے دعوی کی حضرت مسیح پر سراسر تہمت ہے.انہوں نے ہر گز ایسا دعوی نہیں کیا.جو کچھ انہوں نے اپنی نسبت فرمایا ہے وہ لفظ شفاعت کی حد سے بڑہتے نبیوں کی شفاعت نہیں.سونبیوں کی شفاعت سے کس کو انکار ہے.حضرت موسیٰ کی شفاعت سے کئی مرتبہ بنی اسرائیل بھڑکتے ہوئے عذاب سے نجات پاگئے.اور میں خود اس میں صاحب تجربہ ہوں.اور میری جماعت کے اکثر معزز خوب جانتے ہیں کہ میری شفاعت سے بعض مصائب اور امراض کے مبتلا اپنے دکھوں سے رہائی پاگئے اور یہ خبریں ان کو پہلے سے دی گئی تھیں.اور مسیح کا اپنی امت کی نجات کے لئے مصلوب ہونا اور امت کا گناہ ان پر ڈالے جانا ایک ایسا مہمل عقیدہ ہے جو عقل سے ہزاروں کوس دور ہے خدا کی صفات عدل اور انصاف سے یہ بعید ہے کہ گناہ کوئی کرے اور سزا کسی دوسرے کو دی جائے.غرض یہ عقیدہ غلطیوں کا ایک مجموعہ ہے.خدائے واحد لاشریک کو چھوڑنا اور مخلوق کی پرستش کرنا عقلمندوں کا کام نہیں ہے.اور تین مستقل اور کامل اقنوم قرار دینا جو سب جلال اور قوت میں برابر ہیں اور پھر ان تینوں کی ترکیب سے ایک کامل خدا بنانا یہ ایک ایسی منطق ہے جو دنیا میں مسیحیوں کے ساتھ ہی خاص ہے.پھر جائے افسوس تو یہ ہے کہ جس غرض سے یہ نیا منصوبہ بنایا گیا تھا یعنی گناہ سے نجات پانا اور دنیا کی گندی زندگی سے رہائی حاصل کرنا وہ غرض بھی تو حاصل نہیں ہوئی.بلکہ کفارہ سے پہلے جیسے حواریوں کی صاف حالت تھی اور وہ دنیا اور دنیا کے درہم و دینار سے کچھ غرض نہ رکھتے تھے اور دنیا کے گندوں میں پھنسے ہوئے نہ تھے.اور ان کی کوشش دنیا کے کمانے کے لئے نہیں تھی.اس قسم کے دل بعد کے لوگوں کے کفارہ کے بعد کہاں رہے.خاص کر اس زمانہ میں جس قدر کفارہ اور خون مسیح پر زور دیا جاتا ہے.اسی قدر عیسائیوں میں دنیا کی گرفتاری بڑھتی جاتی ہے اور اکثر ان کے مخمور کی طرح سراسر دن رات دنیا کے شغل میں لگے رہتے ہیں.اور اس جگہ دوسرے گناہوں کا ذکر کرنا جو یورپ میں پھیل رہے ہیں خاص کر شراب خواری اور بد کاری اس ذکر کی کچھ حاجت نہیں.لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۳۵ تا ۲۳۷ اب میں ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب سے بادب دریافت کرتا ہوں کہ اگر عیسائی مذہب میں طریق نجات کا کوئی لکھا ہے اور وہ آپ کی نظر میں صحیح اور درست ہے اور اس ۱۵۸

Page 210

۱۹۲ تجلت کا طریق کیا ہے طریق پر چلنے والے نجات پا جاتے ہیں تو ضرور اس نجات یابی کی علامات بھی اس کتاب عیسائی مذہب میں اور کیا اس کے ذریعہ میں لکھی ہوں گی.اور کچے ایماندار جو نجات پاکر اس دنیا کی ظلمت سے مخلصی پا جاتے نجات حاصل کی جاسکتی ہیں ان کی نشانیاں ضرور انجیل میں کچھ لکھی ہوں گی.کیا وہ نشانیاں آپ ہے؟ صاحبوں میں جو بڑے بڑے مقدس اور اس گروہ کے سردار اور پیشوا اور اول درجہ پر ہیں پائی جاتی ہیں اگر پائی جاتی ہیں تو ان کا ثبوت عنایت ہو اور اگر نہیں پائی جاتیں تو آپ سمجھ محفوظ سکتے ہیں کہ جس چیز کی صحت اور درستی کی نشانی نہ پائی جائے تو کیا وہ چیز اپنے اصل پر می اور قائم سمجھی جائے گی.مثلاً اگر تربد یا سقمونیا یا سنا میں خاصہ اسہال کا نہ پایا جائے کہ وہ دست آور ثابت نہ ہو تو کیا اس تربد کو تربد موصوف یا سقمونیا خالص کہہ سکتے ہیں اور ماسوا اس کے جو آپ صاحبوں نے طریق نجات شمار کیا ہے جس وقت ہم اس طریق کو دوسرے طریق کے ساتھ جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے مقابل کر کے دیکھتے ہیں تو قرآن مجید کا پیش کرده طریق نجات.صاف طور پر آپ کے طریق کا تصنع اور غیر طبعی ہونا ثابت ہوتا ہے.اور یہ بات بہ پائیے ثبوت پہنچتی ہے کہ آپ کے طریق میں کوئی صحیح راہ نجات کا قائم نہیں کیا گیا مثلا دیکھئے کہ اللہ جل شانہ ، قرآن کریم میں جو طریق پیش کرتا ہے وہ تو یہ ہے کہ انسان جب اپنے تمام وجود کو اور اپنی تمام زندگی کو خدا تعالیٰ کے راہ میں وقف کر دیتا ہے تو اس صورت میں ایک سچی اور پاک قربانی اپنے نفس کے قربان کرنے کے سے وہ ادا کر چکتا ہے.اور اس لائق ہو جاتا ہے کہ موت کے عوض میں حیات پاوے کیونکہ یہ آپ کی کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دیتا ہے وہ حیات کا وارث ہو جاتا ہے.پھر جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی تمام زندگی کو وقف کر دیا اور اپنے تمام جوارح اور اعضاء کو اس کی راہ میں لگادی تو کیا اب تک اس نے کوئی بچی قربانی ادا نہیں کی.کیا جان دینے کے بعد کوئی اور بھی چیز ہے جو اس نے باقی رکھ چھوڑی ہے.لیکن آپ کے مذہب کا عدل تو مجھے سمجھ آتا کہ زید گناہ کرے اور بکر کو اس کے عوض میں سولی دیا جائے.آپ اگر غور اور تو جہ سے دیکھیں تو بیشک ایسا طریق قابل شرم آپ پر ثابت ہو گا.خدا تعالیٰ نے جب سے توجہ انسان کو پیدا کیا.انسان کی مغفرت کے لئے بھی قانون قدرت رکھا ہے جو ابھی میں نے بیان کیا ہے اور در حقیقت اس قانون قدرت میں جو طبعی اور ابتداء سے چلا آتا ہے ایسی خوبی اور عمدگی ہے جو ایک ہی انسان کی سرشت میں خدا تعالیٰ نے دونوں چیزیں رکھ دی ہیں جیسے اس کی سرشت میں گناہ رکھا ہے ویسا ہی اس گناہ کا علاج بھی رکھا.اور وہ یہ کہ نہیں آ

Page 211

١٩٣ تعالیٰ کی راہ میں ایسے طور سے زندگی وقف کر دی جائے کہ جس کو بچی قربانی کہہ سکتے ہیں.اب مختصر بیان یہ ہے کہ آپ کے نزدیک یہ طریق نجلت کا جو قرآن شریف نے پیش کیا ہے صحیح نہیں ہے تو اول آپ کو چاہئے کہ اس طریق کے مقابل پر جو حضرت مسیح کی زبان کیا اس کی زبان سے کوئی سے ثابت ہوتا ہے اس کو ایسا ہی مدلل اور معقول طور پر ان کی تقریر کے حوالہ سے پیش طریق نجات بیان کریں پھر بعد اس کے انہیں کے قول مبارک سے اس کی نشانیاں بھی پیش کریں ڈیٹی صاحب ! کوئی حقیقت بغیر نشانوں کے ثابت نہیں ہو سکتی.دنیا میں بھی ایک معیار حقائق شناسی کا ہے کہ ان کو ان کی نشانیوں سے پر کھا جائے.سو ہم نے تو وہ نشانیاں پیش کر دیں اور ان کا دعوی بھی اپنی نسبت پیش کر دیا.اب یہ قرضہ ہمارا آپ کے ذمہ ہے.اگر آپ پیش نہیں کریں گے اور ثابت کر کے نہیں دکھلائیں گے کہ یہ طریق نجات جو حضرت مسیح کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کس وجہ سے سچا اور صحیح اور کامل ہے تو اس وقت تک آپ کا یہ دعوی ہر گز صحیح نہیں سمجھا جا سکتا.بلکہ قرآن کریم نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ صحیح اور سچا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے صرف بیان ہی نہیں کیا بلکہ کر کے بھی دکھا دیا اور اس کا ثبوت میں پیش کر چکا ہوں آپ براہ مہربانی اب اس نجات کے قصہ کو بے دلیل اور بے وجہ صرف دعوی کے طور پر پیش نہ کریں.کوئی صاحب آپ میں سے کھڑے ہو کر اس وقت بولیں کہ میں بموجب فرمودہ حضرت مسیح کے نجات پا گیا ہوں اور وہ نشانیاں نجات کی اور کامل ایمانداری کی جو حضرت مسیح نے مقرر کی تھیں وہ مجھ میں موجود ہیں.پس ہمیں کیا انکار ہے.ہم تو نجات ہی چاہتے ہیں.لیکن زبان کی نسانی کو کوئی قبول نہیں کر سکتا.میں آپ کی خدمت میں عرض کر چکا ہوں کہ قرآن کا نجات دینامیں نے بچشم خود دیکھ لیا ہے.اور میں پھر اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں بالمقابل اس بات کو دکھلانے کو حاضر ہوں لیکن اول آپ دو حرفی مجھے جواب دیں کہ آپ کے مذہب میں سچی نجات معہ اس کی علامات کے پائی جاتی ہے یا نہیں.اگر پائی جاتی ہے تو دکھلاؤ.پھر اس کا مقابلہ کرو اگر نہیں پائی جاتی تو آپ صرف اتنا کہہ دو کہ ہمارے مذہب میں نجات نہیں پائی جاتی.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۴۶ تا ۱۴۹ خدا کو جیسا کہ خدا ہے بغیر کسی غلطی کے پہچان اور اسی عالم میں بچے اور صحیح طور پر اس کی ہوا؟ [109]

Page 212

۱۹۴ ذات اور صفات کی معرفت حاصل کرنا یہی تمام روشنی کا مبدء ہے.اسی مقام سے ظاہر ہے کہ جن لوگوں کا یہ مذہب ہے کہ خدا پر بھی موت اور دکھ اور مصیبت اور جہالت وارد ہو جاتی ہے اور وہ بھی ملعون ہو کر نچی پاکیزگی اور رحمت اور علوم حقہ سے محروم ہو جاتا ہے ایسے لوگ گمراہی کے گڑھے میں میں پڑے ہوئے ہیں اور بچے علوم اور حقیقی معارف جو ر حقیقت مدار نجات ہیں ان سے وہ لوگ در حقیقت بے خبر ہیں.نجات کا مفت ملنا اور اعمال کو غیر ضروری ٹھہرانا جو عیسائیوں کا خیال ہے.ان کی سراسر غلطی ہے.ان کے فرضی خدا نے بھی چالیس روزے رکھتے تھے اور موسیٰ نے کوہ سینا پر روزے رکھے.پس اگر اعمال کچھ چیز نہیں ہیں تو یہ دونوں بزرگ اس بیہودہ کام میں کیوں پڑے.جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالی بدی سے بیزار ہے تو ہمیں اس سے سمجھ آتا ہے کہ وہ نیکی کرنے نجات اعمال سے ملتی سے نہایت درجہ خوش ہوتا ہے.پس اس صورت میں نیکی بدی کا کفارہ ٹھہرتی ہے اور نیکی ، بدی کا کفارہ بھرتی ہے.ہے.اور جب ایک انسان بدی کرنے کے بعد ایسی نیکی بجالایا جس سے خدا تعالیٰ خوش ہوا تو ضرور ہے کہ پہلی بات موقوف ہو کر دوسری بات قائم ہو جائے ورنہ خلاف عدل ہو 14.نجات ہے.گا.اسی کے مطابق اللہ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا الله الحسنات يذهبن البيان یعنی نیکیاں بدیوں کو دور کر دیتی ہیں.ہے که کتاب البرية - روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۸۱،۸۰ منجملہ ہمارے اعتراضات کے ایک یہ اعتراض بھی تھا کہ عیسائی اپنے اصول کے موافق اعمال صالحہ کو کچھ چیز نہیں سمجھتے اور ان کی نظر میں یسوع کا کفارہ نجات پانے کے یکی بجا لانے والا اور لئے ایک کافی تدبیر ہے لیکن علاوہ اس بات کے کہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ یسوع کا کفارہ نہ تو عیسائیوں کو بدی سے بچا سکا اور نہ یہ بات صحیح ہے کہ کفارہ کی وجہ سے ہر ایک بدی ان کو حلال ہو گئی.ایک اور امر منصفوں کے لئے قابل غور ہے اور وہ یہ کہ عقلی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ نیک کام بلاشبہ اپنے اندر ایک ایسی تاثیر رکھتے ہیں کہ جو نیکو کار کو وہ تاثیر نجات کا پھل بخشتی ہے.کیونکہ عیسائیوں کو بھی اس بات کا اقرار ہے کہ بدی اپنے اندر ایک ایسی تاثیر رکھتی ہے کہ اس کا مرتکب ہمیشہ کے جہنم میں جاتا ہے.تو اس صورت میں قانون قدرت کے اس پہلو پر نظر ڈال کر یہ دوسرا پہلو بھی ماننا پڑتا ہے کہ علی ہذا القیاس نیکی بھی اپنے اندر ایک تاثیر رکھتی ہے کہ اس کا بجالانے والا وارث نجات بن سکتا

Page 213

ہے.۱۹۵ کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۷۶ عیسائیوں کا یہ کیسا خدا ہے جس کو دوسروں کے چھوڑانے کے لئے بجز اپنے تئیں 141 ہلاک کرنے کے اور کوئی تدبیر ہی نہیں سوجھتی.اگر در حقیقت زمین و آسمان کا مدیر گناہوں سے چھڑانے کے لئے بلاک ہونے اور مالک اور خالق یہی بیچارہ ہے تو پھر خدائی کا انتظام سخت خطرہ میں ہے.بیشک یہ خواہش والا خدا ہے تو خدائی کا تو نہایت عمدہ ہے جو انسان گناہ سے پاک ہو.مگر کیا گناہ سے پاک ہونے کا یہی طریق انتظام سخت خطرہ میں ہے کہ ہم کسی غیر آدمی کی خود کشی پر بھروسہ رکھ کر اپنے ذہن میں آپ ہی یہ فرض کر لیں کہ ہم گناہ سے پاک ہو گئے.بالخصوص ایسا آدمی جو انجیل میں خود اقرار کرتا ہے ، جو میں نیک نہیں.وہ کیونکر اپنے اقتدار سے دوسروں کو نیک بنا سکتا ہے.اصل حقیقت نجات جو خود اقرار کرتا ہے کہ کی خداشناسی اور خدا پرستی پر ہے.پس ایسے لوگ جو اس غلط فہمی کے دوزخ میں پڑے تک میں وہ دو سروں کو کیونکر نیک بنا سکتا ہوئے ہیں جو مریم کا صاحب زادہ ہی خدا ہے.وہ کیسے حقیقی نجات کی امید رکھ سکتے ہے ؟ ہیں.اشتہار ۲۹ دسمبر ۱۸۹۵.مجموعہ اشتہارات - جلد ۲ صفحہ ۱۸۹ جس قدر مذہب دنیا میں موجود ہیں سب کے سب بے برکت اور بے نور اور مردہ ہیں اور پاک تعلیم سے بے بہرہ محض ہیں.عیسائیوں نے یہ نمونہ دکھایا کہ ایک عاجز بندہ کو خدا بنا دیا.جس نے یہودیوں جیسی تباہ حال قویم سے جو جس کی اپنی دعا بے اثر گئی وہ دوسروں کے ضرَبَتْ عَلَيْهِمُ الذِيلَةُ وَالمَسْكَنَة.كي مصداق تھی.ماریں نئے کیسے گنتی ہو سکتا کھائیں.اور اخر صلیب پر لٹکایا گیا.اور ان کے عقیدہ کے موافق ملعون ہو کر اہلی اہلی کا ہے ؟ سبقتنی کہتے ہوئے جان دے دی.غور تو کرو کیا ایسی صفات والا کبھی خدا ہو سکتا ہے.وہ تو خدا پرست بھی نہیں ہو سکتا.چہ جائیک وہ خود خدا ہو.عیسائی دکھاتے ہیں کہ اس کی وہ ساری رات کی پر سوز دعا محض بے اثر گئی.اس سے زیادہ بے برکتی کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے.اور اس سے کیا توقع ہو سکتی ہے کہ وہ دوسروں کے لئے شفیع ہو سکتا ہے.ہم کو یاد نہیں کہ دو گھنٹے بھی دعا کے لئے ملے ہوں اور وہ دعا قبول نہ ہوئی ہو.ابن اللہ بلکہ خود خدا کا معاذ اللہ یہ حال ہے کہ ساری رات رو رو کر چلا چلا کر خود بھی دعا کر تا رہا

Page 214

194 اور دوسروں سے بھی دعا کر اتارہا اور کہتا رہا کہ اے خدا تیرے آگے کوئی چیز انہونی نہیں.اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مل جائے.مگر وہ دعا قبول ہی نہیں ہوئی.اگر کوئی کہے کہ وہ کفارہ ہونے کے واسطے آئے تھے.اس لئے یہ دعا قبول نہیں ہوئی ہے.ہم کہتے ہیں کہ جب ان کو معلوم تھا کہ وہ کفارہ کے لئے آئے ہیں.پھر اس قدر بزدلی کے کیا معنی ہیں.اگر ایک افسر طاعون کی ڈیوٹی پر بھیجا جاوے اور وہ کہہ دے کہ یہاں خطرے کا محل ہے.مجھے فلاں جگہ بھیج دو تو کیا وہ احمق نہ سمجھا جائے گا.جبکہ مسیح کو معلوم تھا کہ وہ صرف کفارہ ہی ہونے کو بھیجے گئے ہیں.تو اس قدر لمبی دعاوں کی کیا ضرورت تھی ؟ ابھی کیا کفارہ زیر تجویز امر تھا.یا ایک مقرر شدہ امر تھا.غرض ایک داغ ہو.دو داغ ہوں ، جس کر بیشمار داغ ہوں کیا وہ خدا ہو سکتا ہے ؟ خدا تو کیا عظیم الشان انسان بھی نہیں ہو ملفوظات.جلد ۲ صفحہ ۴۲،۴۱ سکتا.شفاعت کے مسئلہ کے فلسفہ کو نہ سمجھ کر احمقوں نے اعتراض کیا ہے اور شفاعت اور کفارہ کو ایک قرار دیا.حالانکہ پر ایک نہیں ہو سکتے.کفارہ اعمال حسنہ سے مستغنی کرتا شفاعت اور کفارہ میں ہے اور شفاعت اعمال حسنہ کی تحریک.جو چیز اپنے اندر فلسفہ نہیں رکھتی ہے.وہ بیچ ہے.ہمارا یہ دعوی ہے کہ اسلامی اصول اور عقائد اور اس کی ہر تعلیم اپنے اندر ایک فلسفہ رکھتی ہے اور علمی پیرایہ اس کے ساتھ موجود ہے جو دوسرے مذاہب کے عقائد میں فرق نہیں ملتا.ملفوظات.جلد ۴ صفحہ ۴۲۷ میں نے ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کی خدمت میں یہ تحریر کیا تھا کہ جیسے کہ آپ دعوی کرتے ہیں کہ نجات صرف مسیحی مذہب میں ہے ایسا ہی قرآن میں لکھا ہے کہ نجات صرف نجات کی نشتیاں اسلام میں ہے.اور آپ کا تو صرف اپنے لفظوں کے ساتھ دعوی اور میں نے وہ آیات عیسائیوں میں مفقود بھی پیش کر دی ہیں.لیکن ظاہر ہے کہ دعوی بغیر ثبوت کے کچھ عزت اور وقعت نہیں رکھتا.سو اس بناء پر دریافت کیا گیا تھا کہ قرآن کریم میں تو نجات اور بندہ کی نشانیاں لکھی ہیں جن نشانوں کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ اس مقدس کتاب کی پیروی کرنے والے ہیں.

Page 215

192 نجات کو اسی زندگی میں پالیتے ہیں مگر آپ کے مذہب میں حضرت عیسیٰ نے جو نشانیاں نجات یا بندوں یعنی حقیقی ایمانداروں کی لکھی ہیں وہ آپ میں کہاں موجود ہیں.مثلاً جیسے کہ مرقس ۱۲ - ۱۷ میں لکھا ہے.اور وے جو ایمان لائیں تھے ان کے ساتھ یہ علامتیں ہوں گی کہ وہ میرے نام سے دیووں کو نکالیں گے اور نئی زبانیں بولیں گے.سانپوں کو اٹھا لیں گے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پہنیں گے انہیں کچھ نقصان نہ ہو گا.وے بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو چنگے ہو جائیں گے.تو اب میں بادب التماس کرتا ہوں اور اگر ان الفاظ میں کچھ درشتی یا مرارت ہو تو اس کی معافی چاہتا ہوں کہ یہ تین بیمار جو آپ نے پیش کئے ہیں یہ علامت تو با خصوصیت مسیحیوں کے لئے حضرت عیسی قرار دے چکے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر تم سچے ایماندار ہو تو تمہاری یہی علامت ہے کہ بیمار پر ہاتھ رکھو گے تو وہ چنگا ہو جائے گا.اب گستاخی معاف اگر آپ بچے ایماندار ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو اس وقت تین بیمار آپ ہی کے پیش کردہ موجود ہیں آپ ان پر ہاتھ رکھ دیں اگر وہ چنگے ہو گئے تو ہم قبول کر لیں گے کہ بیشک آپ بچے ایماندار اور نجات یافتہ ہیں ورنہ کوئی قبول کرنے کی راہ نہیں.کیونکہ حضرت مسیح تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر تم میں رائی کے دانہ برابر بھی ایمان ہوتا تو اگر تم پہاڑ کو کہتے کہ یہاں سے چلا جاتو وہ چلا جاتا.مگر خیر میں اس وقت پہاڑ کی نقل مکانی تو آپ سے نہیں چاہتا کیونکہ کہ بیمار تو آپ نے ہی پیش وہ ہماری اس جگہ سے دور ہیں مین یہ تو بہت اچھی تقریب میں تو آپ کر دیئے.اب آپ ان پر ہاتھ رکھو اور چنگا کر کے دکھلاو.ورنہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہاتھ سے جاتا رہے گا.مگر آپ پر یہ واضح رہے کہ یہ الزام ہم پر عائد نہیں راہم ہوسکتا کیونکہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں ہماری یہ نشانی نہیں رکھی کہ با خصوصیت تمہاری یہی نشانی ہے کہ جب تم بیماروں پر ہاتھ رکھو گے تو اچھے ہو جائیں گے.ہاں یہ فرمایا ہے کہ میں اپنی رضا اور مرضی کے موافق تمہاری دعائیں قبول کروں گار اور کم سے کم یہ کہ اگر ایک دعا قبول کرنے کے لائق نہ ہو اور مصلحت انہی کے مخالف ہو تو اس میں اطلاع دی جائے گی.یہ کہیں نہیں فرمایا کہ تم کو اقتدار دیا جائے گا کہ تم اقتداری طور پر جو چاہو وہی کر گزرو گے.مگر حضرت مسیح کا تو یہ حکم معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیماروں وغیرہ کے چنگا کرنے میں اپنے تابعین کو اختیار بخشتے ہیں جیسا کہ متی ، اباب امیں لکھا ہے.پھر اس نے بارہ شاگردوں کو پاس بلا کے انہیں قدرت بخشی کہ ناپاک روحوں کو نکالیں اور ہر

Page 216

طرح کی بیماری اور دکھ درد کو دور کریں فرض اور آپ کی ایمانداری کا ضرور نشان ہو گیا کہ آپ ان بیماروں کو چنگا کر کے دکھلا دیں یا یہ اقرار کریں کہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ہم میں ایمان نہیں اور آپ کو یادر ہے کہ ہر ایک شخص اپنی کتاب کے موافق مواخذہ کیا جاتا ہے.ہمارے قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھا کہ تمہیں اقتدار دیا جائے گا بلکہ صاف فرما دیا کہ قل انما الأيات عند الله - یعنی ان کو کہہ وہ که نشان اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں جس نشان کو چاہتا ہے اس نشان کو ظاہر کرتا ہے بندہ کا اس پر زور نہیں ہے کہ جبر کے ساتھ اس سے ایک نشان لیوے یہ جبر اور اقتدار تو آپ ہی کی کتابوں میں پایا جاتا ہے بقول آپ کے مسیح اقتداری معجزات دکھلاتا تھا اور اس نے شاگردوں کو بھی اقتدار بخشا.اور آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ اب بھی حضرت مسیح زندہ کی قیوم قادر مطلق عالم الغیب دن رات آپ کے ساتھ ہے جو چاہو وہی دے سکتا ہے.پس آپ حضرت مسیح سے درخواست کریں کہ ان تینوں بیماروں کو آپ کے ہاتھ رکھنے سے اچھا کر دیویس تانشانی ایمان داری کی آپ میں باقی رہ جاوے ورنہ یہ تو مناسب نہیں کہ ایک طرف اہل حق کے ساتھ بحیثیت بچے عیسائی ہونے کے مباحثہ کریں اور جب بچے عیسائی کے نشان مانگیں جائیں تب کہیں کہ ہم میں استطاعت نہیں اس بیان سے تو آپ اپنے پر ایک اقبالی ڈگری کراتے ہیں کہ آپ کا مذہب اس وقت زندہ مذہب نہیں ہے لیکن ہم جس طرح پر خدا تعالیٰ نے ہمارے بچے ایماندار ہونے کے نشان ٹھہرائے ہیں اس التزام سے نشان دکھلانے کو تیار ہیں اگر نشان نہ دکھلا سکیں تو جو سزا چاہیں دیدیں اور جس طرح کی چھری چاہیں ہمارے گلے میں پھیر دیں اور وہ طریق نشان نمائی کا جس کے لئے ہم مامور ہیں وہ یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے جو ہمار اسچا اور قادر خدا ہے اس مقابلہ کے وقت جو ایک سچے اور کامل نبی کا انکار کیا جاتا ہے تقرع سے کوئی نشان مانگیں تو وہ اپنی مرضی سے نہ ہمارا محکوم اور تابع ہو کر جس طرح سے چاہے گانشان دکھلائے گا.آپ خوب سوچیں کہ حضرت مسیح باوجود آپ کے اس قدر غلو کے اقتداری نشانات کے دکھلانے کے عاجز رہے دیکھئے مرقس ب ۱۲٫۱۱/۸ آیت میں لکھا ہے.تب فریسی نکلے اور اس سے حجت کر کے یعنی جس طرح اب اس وقت مجھ سے حجت کی گئی.اس کے امتحان کے لئے آسمان سے کوئی نشان چاہا.اس نے اپنے دل سے آہ کھینچ کر کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں.میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان نہ دیا ۱۹۸

Page 217

199 جائے گا.اب دیکھئے کہ یہودیوں نے اسی طرز سے نشان ما نگا تھا.حضرت مسیح نے آہ کھینچ کر نشان دکھلانے سے انکار کر دیا.پھر اس سے بھی عجب طرح کا ایک اور مقام دیکھئے کہ جب مسیح صلیب پر کھینچے گئے تو تب یہودیوں نے کہا کہ اس نے اوروں کو بچایا پر پ کو نہیں بچا سکتا.اگر اسرائیل کا بادشاہ ہے تو اب صلیب سے اتر آوے تو ہم اس پر ایمان لاویں گے.اب ذرا نظر غور سے اس آیت کو سوچیں کہ یہودیوں نے صاف عہد اور اقرار کر لیا تھا کہ اب صلیب سے اتر آوے تو وہ ایمان لاویں گے.لیکن حضرت مسیح اثر نہیں سکے.ان تمام مقامات سے صاف ظاہر ہے کہ نشان دکھلانا اقداری طور پر انسان کا کام نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.جیسا کہ ایک اور مقام میں حضرت مسیح فرماتے ہیں یعنی متجب ۱۲.آیت ۳۸ کہ اس زمانہ کے بد اور حرام کار لوگ نشان ڈھونڈتے ہیں پر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی نشان دکھلایا نہ جائے گا.اب دیکھئے کہ اس جگہ حضرت مسیح نے ان کی درخواست کو منظور نہیں کیا بلکہ وہ بات پیش کی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو معلوم تھی.اسی طرح میں بھی وہ بات پیش کرتا ہوں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو معلوم ہے.میرا دعوی نہ خدائی کا اور نہ اقتدار کا اور میں ایک مسلمان آدمی ہوں جو قرآن شریف کی پیروی کرتا ہوں اور قرآن شریف کی تعلیم کے رو سے اس موجودہ نجات کا مدعی ہوں.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۵۳ تا ۱۵۶ 140 اگر یہ سچ ہے کہ حضرت مسیح کے کفارہ پر ایمان لا کر کوئی شخص خاص طور پر تبدیلی پالیتا ہے تو اس کا کیوں ثبوت نہیں دیا گیا.میں نے بارہا اس بات کو پیش کیا اور اب بھی کرتا کیا میچ کے کفارہ پر ہوں کہ وہ خاص تبدیلی اور وہ خاص پاکیزگی اور وہ خاص نجات اور وہ خاص ایمان اور وہ ایمان لا کر کوئی مخص خاص طور کی تبدیلی پا خاص لقا الہی صرف اسلام ہی کے ذریعہ سے ملتا ہے اور ایمانداری کی علامات اسلام لانے سکتا ہے ؟ کے بعد ظاہر ہوتی ہیں.اگر یہ کفارہ صحیح ہے اور کفارہ کے ذریعہ سے آپ صاحبان کو نجات مل گئی ہے اور حقیقی ایمان حاصل ہو گیا ہے تو پھر اس حقیقی ایمان کی علامات جو حضرت مسیح اگر کندہ کے ذریعہ آپ آپ لکھ گئے ہیں کیوں آپ لوگوں میں پائی نہیں جاتیں.اور یہ کہنا کہ وہ آگے نہیں بلکہ پیچھے کو نجات اور حقیقی ایمان حاصل ہو گیا ہے تو رہ گئی ہیں ایک فضول بات ہے.اگر آپ ایماندار کہلاتے ہیں تو ایمانداروں کی علامات جو حقیقی ایمان کی علامات آپ کے لئے مقرر کی گئی ہیں آپ لوگوں میں ضرور پائی جانی چاہئیں.کیونکہ حضرت مسیح کا آپ میں کیوں نہیں ؟

Page 218

144 فرمودہ باطل نہیں ہو سکتا.مگر آپ غور سے دیکھیں کہ وہ علامات دین اسلام میں ایسے نمایاں طور پر پائی جاتی ہیں کہ آپ ان کے مقابلہ پر دم بھی تو نہیں مار سکتے.میں نے انہیں کے لئے آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ آپ اگر بالمقابل کھڑے نہیں ہو سکتے تو ان علامتوں کو قرآن شریف کی تعلیم کے لحاظ سے پر کھو اور آزماد.پھر اگر وہ واقعی سچی نکلیں تو راست بازوں کی طرح ان کو قبول کر لو.مگر آپ نے بجز بنسی اور ٹھٹھہ کے اور دیا.تین لنگڑے لولے وغیرہ میرے سامنے کھڑے کر دیئے کہ ان کو چنگے کرو.حالانکہ ان کا چنگا کرنا عیسائی ایمان کی علامتوں میں ہے ہے.ہمارے لئے تو وہ علامتیں ہیں جو قرآن شریف میں آچکی ہیں اور ہمیں کہیں نہیں کہا گیا کہ تم اپنے اقتدار سے علامتیں دکھا سکتے ہو بلکہ یہی کہا گیا کہ خدا تعالیٰ سے درخواست کرو.پھر جس طرح کا نشان چاہے گاہ کھلائے گا.تو کیا آپ کی یہ بے فضائی نہیں کہ آپ نے مجھ سے وہ مطالبہ کیا جو آپ سے ہونا چاہئے تھا اور پھر اس کا نام متحرکھ لیا.میں تو اب بھی حاضر ہوں ان شرائط کے مطابق جو ہماری کتاب ہم پر فرض کرتی ہے اور نیز آپ ان شرائط کے مطابق جو آپ کی کتاب آپ پر فرض کرتی ہے میرے سے نشانوں میں مقابلہ کیجئے پھر حق اور باطل خود بخود کھل جائے گا.پر ہنسی اور ٹھٹھا کر نار است بازوں کا کام نہیں ہوتا ہے.میرے پر اسی قدر فرض ہے جو قرآن کریم میرے پر فرض کرتا ہے.اور آپ پر وہ فرض ہے جو انجیل آپ پر فرض کرتی ہے.رائی کے دانہ کا مقولہ آپ بار بار پڑہیں اور پھر آپ ہی انصاف کر جنگ مقدس روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۰۰ ۲۰۱ انسان خدا کی راہ میں پوری وفاداری دکھلا نہیں سکتا اور نہ گناہ سے باز آسکتا ہے جب تک کہ پورے یقین کے ساتھ خدا کی ہستی اور اس کی عظمت اور جلال اس پر ظاہر نہ ہو اور اسلام کے نشانات اور بجز اس سے کوئی کفارہ انسان کو گناہ سے روک نہیں سکتا.پس گناہ سے محفوظ رہنے اور صدق لور وفاداری اور محبت میں ترقی کرنے کے لئے جس امر کو تلاش کرنا چاہئے وہ محض اسلام میں موجود ہے نہ کسی اور مذہب میں.اور اس سے میری مراد وہ نشان ہیں جو تازہ بتازہ اسلام میں ہمیشہ ظاہر ہوتے رہتے ہیں.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا کا وجود جو اس زمانہ میں ایک حل طلب معما کی طرح ہو رہا ہے اور اس کے چمکتے ہوئے جو ہر پر دہریت ستاره ۲۰۰

Page 219

☑ کے خیالات نے ہزار ہا گر دو غبار ڈال دیئے ہیں.اس پاک جوہر کی چمک ظاہر کرنے کے لئے اسی کے فوق العادت نشان ذریعہ ہو سکتے ہیں.اور نوع انسان کی نجات اسی چمک پر موقوف ہے نہ کسی اور بناوٹی منصوبہ پر.جس صلیب پر عیسائیوں کا بھروسہ ہے وہ گناہ سے تو نہیں چھڑا سکی لیکن خدا کی راہ میں نیک کاموں کے بجالانے سے چھڑا دیا اور ست کر دیا ہے.اور اس سے بڑھ کر اور کیا گناہ ہو گا کہ ایک عاجز انسان کو خدا کی جگہ دی گئی ہے اور دنیا کے لئے سب کچھ کیا جاتا ہے لیکن خدا کی راہ میں ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور ان کے نزدیک جو کچھ ہے یہی کفارہ ہے اور اس سے آگے خدا کی راہ کی تلاش کی ضرورت نہیں اور وہ اپنے خیال میں ایسی منزل پر پہنچ گئے ہیں جو آخری منزل ہے پس کوئی ڈاکو کسی کو ایسا نقصان نہیں پہنچا سکتا.جیسا کہ اس کفارہ نے ان کو پہنچایا ہے.اس پوشیدہ طاقت سے وہ لوگ بالکل بے خبر ہیں جس کے قبضہ قدرت میں یہ بات داخل ہے کہ اگر چاہے تو ایک دم میں ہزارہ مسیح ابن مریم بلکہ اس سے بہتر پیدا کر دے چنانچہ اس نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کر کے ایسا ہی کیا مگر یہ اندھی دنیا اس کو شناخت نہ کر سکی وہ ایک نور تھا جو دنیا میں آیا اور تمام نوروں پر غالب آگیا اس کے نور نے ہزاروں دلوں کو منور کیا اور اس کی برکت کا یہ راز ہے کہ روحانی مدد اسلام سے منقطع نہیں ہوئی بلکہ قدم بقدم اسلام کے ساتھ چلی آتی ہے.ہم ایسی تازہ بتازہ برکتیں اس نبی کے دائمی فیض سے پاتے ہیں کہ گویا اس زمانہ میں بھی وہ نبی ہم میں موجود ہے اور اس وقت بھی اس کے فیوض ہماری ایسی ہی راہنمائی کرتے ہیں کہ جیسا اس پہلے زمانہ میں کرتے تھے.اس کے ذریعہ سے ہمیں وہ پانی ملا ہے جس کی ضرورت ہر ایک پاک فطرت محسوس کر رہی ہے.وہ پانی بڑی سرعت سے ہمارے ایمانی درخت کو نشود نما دے رہا ہے اور ان مشکلات سے ہم نے رہائی پالی ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہیں.اور اگر کسی کو ہم میں سے ابتدائی مرحلہ میں مشکلات معلوم بھی ہوں مگر وہ ایسی نہیں ہیں جو آگے قدم بڑہانے سے مغلوب اور رفع نہ ہو سکیں.اسلام میں آگے قدم بڑہانے کا وسیع میدان ہے نہ عیسائیوں کی طرح آخری دوڑ صرف مسیح کے کفارہ تک ہے و بس.ایسے تنگ خیالات ہر گز عزت اور قدر کے لائق نہیں کہ انسانی قوالے کو یا تو سراسر بیکار ٹھہراتے ہیں اور یا ان کو معطل رہنے کی تعلیم دیتے ہیں اور پھر نتیجہ کچھ نہیں.چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۱۲، ۳۱۳

Page 220

۲۰۲ 146 عیسائی مذہب کے کفارہ نے ایسی بے قیدی کر دی ہے کہ جو گناہ چاہو کر لو سزا تو یسوع بھگتے گا.اسی واسطے ضرب المثل ہو گئی ہے کہ عیسائی باش ہرچہ خواہی کن.کفاره گناه پیدا کرتا کیونکہ اگر زنا اور شراب حرام ہے تو پھر کفارے سے فائدہ کیا ؟ کفارے کا یہی تو فائدہ ہے کہ اس نے معافی کی ایک راہ کھول دی ہے.اگر عیسائی بھی گناہ کرنے سے پکڑا جاتا ہے ہوا ؟ IMA جیسا کہ غیر عیسائی پکڑا جاتا ہے تو پھر دونوں میں فرق کیا ہوا ؟ اور کسی کو عیسائی بننے سے فائدہ کیا حاصل ہوا ؟ ملفوظات.جلد ۹ صفحه ۳۲۷، ۳۲۸ کفارہ اس وجہ سے بھی باطل ہے کہ اس سے یا تو یہ مقصود ہو گا کہ گناہ بالکل سرزد نہ ہوں اور یا یہ مقصود ہو گا کہ ہر ایک قسم کے گناہ خواہ حق اللہ کی قسم میں سے اور خواہ حق کفارہ سے فائدہ کیا العباد کی قسم میں سے ہوں کفارہ کے ماننے سے ہمیشہ معاف ہوتے رہتے ہیں.سو پہلی شق تو صریح البطلان ہے کیونکہ یورپ کے مردوں اور عورتوں پر نظر ڈال کر دیکھا جاتا ہے کہ وہ کفارہ کے بعد ہر گز گناہ سے بچ نہیں سکے اور ہر ایک قسم کے گناہ یورپ کے خواص اور عوام میں موجود ہیں.بھلا یہ بھی جانے دو نبیوں کے وجود کو دیکھو جن کا ایمان اوروں سے زیادہ مضبوط تھاوہ بھی گناہ سے بچ نہ سکے.جواری بھی اس بلا میں گرفتار ہو گئے.پس اس میں کچھ شک نہیں کہ کفارہ ایسا بند نہیں ٹھہر سکتا کہ جو گناہ کے سیلاب سے روک سکے.رہی یہ دوسری بات کہ کفارہ پر ایمان لانے والے گناہ کی سزا سے مستثنیٰ رکھے جائیں گے خواہ وہ چوری کریں یا ڈا کہ ماریں خون کریں یا بد کاری کی مکروہ حالتوں میں مبتلار ہیں تو خدا ان سے مواخذہ نہیں کرے گا.یہ خیال بھی سراسر غلط ہے جس سے شریعت کی پاکیزگی سب اٹھ جاتی ہے اور خدا کے ابدی احکام منسوخ ہو جاتے ہیں.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۵۹، ۲۰ گناہوں سے بچنے کے واسطے ہر قوم نے کوئی نہ کوئی ذریعہ قرار دیا ہے.اور کوئی حیلہ نکالا ہے.عیسائیوں نے اس عام ضرورت اور سوال سے فائدہ اٹھا کر ایک حیلہ پیش کیا

Page 221

۲۰۳ ہے کہ مسیح کا خون نجات دیتا ہے.سب سے اول یہ دیکھنا ضروری ہے کہ نجات ہے کیا چیز ؟ نجات کی حقیقت تو یہی ہے کہ انسان گناہوں سے بچ جاوے.اور جو فاسقانہ خیالات آ آکر دل کو سیاہ کرتے ہیں.ان کا سلسلہ بند ہو کر کچی پاکیزگی پیدا ہو.اب ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائیوں نے گناہ سے بچنے کی ضرورت کو محسوس کیا اور اس سے فائدہ اٹھا کر نجات طلب لوگوں کے سامنے یہ پیش کر دیا.کہ مسیح کا خون ہی ہے جو گناہوں سے بچا سکتا ہے.مسیح کے خون اور گناہ مگر ہم کہتے ہیں کہ اگر مسیح کا خون یا کفارہ انسان کو گناہوں سے بچا سکتا ہے تو سب کے علاج میں کوئی رشتہ سے پہلے ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کفارہ میں اور گناہوں سے بچنے میں کوئی رشتہ بھی ہے یا نہیں ؟ جب ہم غور کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں باہم کوئی رشتہ اور تعلق نہیں.مثلاًاگر ایک مریض کسی طبیب کے پاس آوے تو طبیب اس کا علاج کرنے کے بجائے اسے یہ کہہ دے تو میری کتاب کا جزو لکھ دے.تیرا علاج یہی ہے.تو کون عقلمند اس علاج کو قبول کرے گا.پس مسیح کے خون اور گناہ کے علاج میں اگر یہی رشتہ نہیں ہے تو اور کون سارشتہ ہے یا یوں کہو کہ ایک شخص کے سر میں درد ہوتا ہو.اور دوسرا آدمی اس پر رحم کھا کر اپنے سر میں پتھر مار لے اور اس کے دردسر کا اسے علاج تجویز کر لے.یہ کیسی ہنسی کی بات ہے.پس ہمیں کوئی بتادے کہ عیسائیوں نے ہمارے سامنے پیش کیا کیا ہے.جو کچھ وہ پیش کرتے ہیں وہ تو ایک قابل شرم بناوٹ ہے.گناہوں کا علاج کیا؟ یسوع کی خود کشی جس کو گناہوں سے پاک ہونے کے واسطے کوئی حقیقی رشتہ بھی نہیں.ہم بارہا حیران ہوتے ہیں کہ حضرت مسیح کو یہ سوجھی کیا ؟ جو دوسروں کو نجات دلانے کے لئے آپ صلیب اختیار کی.اگر وہ اس صلیب کی موت سے جو لعنت تک لے جاتی ہے اور عیسائیوں کے قول اور اعتقاد کے موافق کفارہ کے لئے لعنتی ہو جانا ضروری ہے کیونکہ وہ گناہوں کی سزا ہے ) اپنے آپ کو بچاتے اور کسی معقول طریق پر بنی نوع کو فائدہ پہنچاتے تو وہ اس خود کشی سے بدرجہا بہتر اور مفید ہوتا.غرض کفارہ کے ابطال پر یہ زبر دست دلیل ہے اور کفارہ میں باہم کوئی رشتہ نہیں.پھر دوسری دلیل اس کے باطل ہونے پر یہ ہے کہ کفارہ نے اس فطری خواہش کو گناہوں سے بچنے کی فطری خواہش کو کفارہ کہ گناہوں سے انسان بچ جاوے.کہاں تک پورا کیا.اس کا جواب صاف ہے کہ کچھ نے کہاں تک پورا کیا بھی نہیں.چونکہ تعلق کوئی نہ تھا.اس لئے کفارہ گناہوں کے اس جوش اور سیلاب کو

Page 222

۲۰۴ ہوئی روک نہ سکا.اگر کفارہ میں گناہوں سے بچانے کی کوئی تاثیر ہوتی تو یورپ کے مرد و عورت گناہوں سے ضرور بچے رہتے.ہر قسم کے گناہ یورپ کے خواص و عوام میں پائے جاتے ہیں.اگر کسی کو شک ہو تو وہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں میں جا کر دیکھ لے کہ کیا ہوتا ہے.زنا کی کثرت خوف دلاتی ہے کہ کہیں زنا کے جواز کا ہی فتوئی نہ ہو جاوے.گو عملی طور پر تو نظر آتا ہے.شراب کا استعمال اس قدر کثرت سے بڑھتا جاتا ہے کہ کچھ روز ہوئے ایک عورت نے کسی ہوٹل میں پینے کو پانی مانگا تو انہوں نے کہا کہ پانی تو برتن دھونے یا نہانے وغیرہ کے کام آتا ہے.پینے کے لئے تو شراب ہی ہوتی ہے.پس اب غور کر کے دیکھو کہ گناہ کے سیلاب کو روکنے کے واسطے خونِ مسیح کا تو بند کافی نہیں ہوا.بلکہ اپنی رو میں اس نے پہلے بندوں کو بھی توڑ دیا.اور پوری آزادی اور اباحت کے قریب پہنچا دیا.ملفوظات جلد ۳ صفحه ۱ تا ۳ نیز دیکھیں.ملفوظات.جلد اصفحہ ۱۷۶ ایک اور ضروری بات ہے جو میں کہنی چاہتا ہوں اور وہ کفارہ کے متعلق ہے.کفارہ کی اصل غرض تو یہی بتائی جاتی ہے کہ نجات حاصل ہو.اور نجات دوسرے الفاظ میں گناہ کفارہ کے ذریعہ کی زندگی اور اس کی موت سے بچ جانے کا نام ہے.مگر میں آپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ خدا گناہوں سے نجات کیا کے لئے انصاف کر کے بتاؤ کہ گناہ کو کسی کی خود کشی سے فلسفیانہ طور پر کیا تعلق ہے.اگر مسیح نے نجات کا مفہوم یہی سمجھا اور گناہوں سے بچنے کا یہی طریق انہیں سوجھا تو پھر نعوذ باللہ ہم ایسے آدمی کو تو رسول بھی نہیں مان سکتے.کیونکہ اس سے گناہ رُک نہیں سکتے.آپ کو یورپ کے حالات اور لنڈن اور پیرس کے واقعات اچھی طرح معلوم ہوں گے.بتاؤ کونسا پہلو گناہ کا ہے جو نہیں ہوتا.سب سے بڑھ کر زنا تورات میں لکھا مگر دیکھو کہ یہ سیلاب کس زور سے ان قوموں میں آیا ہے.جن کا یقین ہے کہ ہے.میسج ہمارے لئے مرا.ملفوظات.جلد ۳ صفحہ ۱۰۹ ، ۱۱۰ غرض عیسائیوں نے گناہ کے دور کرنے کا جو علاج تجویز کیا ہے وہ ایسا علاج ہے جو

Page 223

۲۰۵ پیدا کرتا ہے.بجائے خود گناہ کو پیدا کرتا ہے اور اس کو گناہ سے نجات پانے کے ساتھ کوئی تعلق ہی یہ مالی منہ خود گناہ نہیں ہے.انہوں نے گناہ کے دور کرنے کا علاج گناہ تجویز کیا ہے جو کسی حالت اور صورت میں مناسب نہیں.یہ لوگ اپنے نادان دوست ہیں.اور ان کی مثال اس بندر کی سی ہے جس نے اپنے آقا کا خون کر دیا تھا.اپنے بچاؤ کے لئے اور گناہوں سے نجات پانے کے لئے ایک ایسا گناہ تجویز کیا جو کسی صورت میں بخشا نہ جاوے یعنی شرک کیا اور عاجز انسان کو خدا بنا لیا.مسلمانوں کے لئے کس قدر خوشی کا مقام ہے کہ ان کا خدا ایسا خدا نہیں جس پر کوئی اعتراض یا حملہ ہو سکے.وہ اس کی طاقتوں اور قدرتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی صفات پر یقین لاتے ہیں.مگر جنہوں نے انسان کو خدا بنایا یا جنہوں نے اس کی قدرتوں سے انکار کر دیا، ان کے لئے خدا کا عدم ووجود برابر ہے.ملفوظات.جلد ۸ صفحه ۲۵۵ ۲۵۶ نیز دیکھیں.لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۸۸، ۲۸۹ کفاره عیسائی صاحبوں کی تعلیم کو اس جگہ مفصل لکھنے کی ضرورت نہیں.خون مسیح اور کفارہ کا ایک ایسا مسئلہ ہے.جس نے ان کو نہ صرف تمام مجاہدات اور ریاضیات سے فارغ کر دیا ہے بلکہ اکثر ولوں کو گناہوں کے ارتکاب پر ایک دلیری بھی پیدا ہو گئی ہے.کیونکہ جب کہ عیسائی صاحبوں کے ہاتھ میں قطعی طور پر گناہوں کے بخشے جانے کا ایک نسخہ کندہ گناہ پر دلیر کرا ہے.یعنی خون مسیح تو صاف ظاہر ہے کہ اس نسخہ نے قوم میں کیا کیا نتائج پیدا کئے ہوں ہے (کھار ) گئے.اور کس قدر نفس امارہ کو گناہ کرنے کے لئے ایک جرات پر آمادہ کر دیا ہو گا.اس نسخہ نے جس قدر یورپ اور امریکہ کی عملی پاکیزگی کو نقصان پہنچایا ہے میں خیال کرتا ہوں کہ اس کے بیان کرنے کی مجھے ضرورت نہیں.بالخصوص جب سے اس نسخہ کی دوسری جزو شراب بھی اس کے ساتھ ملحق ہو گئی ہے.تب سے تو یہ نسخہ ایک خطرناک اور بھڑکنے والا مادہ بن گیا ہے.اس کی تائید میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عیسی علا السّلام شراب پیا کرتے تھے.ہر ایک بچے عیسائی کا یہ فرض ہے کہ وہ بھی شراب پیوے اور اپنے مرشد کی پیروی کرے.خونِ مسیح کی دلیری اور شراب کا جوش تقوی کی بیخ کنی میں کامیاب ہو گیا ہے.ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ آیا کفارہ کے مسئلہ نے یہ خرابیاں زیادہ پیدا کی ہیں یا شراب نے.اگر اسلام کی طرح پردہ کی رسم

Page 224

۲۰۶ ہوتی تو پھر بھی کچھ پردہ رہتا.مگر یورپ تو پردہ کی رسم کا دشمن ہے.ہم یورپ کے فلسفہ کو نہیں سمجھ سکتے.اگر وہ اس اصرار سے باز نہیں آتے تو شوق سے شراب پیا کریں.کہ اس کے ذریعہ سے کفارہ کے فوائد بہت ظاہر ہوتے ہیں.کیونکہ مسیح کے خون کے سہارے پر جو لوگ گناہ کرتے ہیں شراب کے وسیلہ سے ان کی میزان بڑہتی ہے.ہم اس بحث کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتے.کیونکہ فطرت کا تقاضہ الگ الگ ہے.ہمیں تو ناپاک چیزوں کے استعمال سے کسی سخت مرض کے وقت بھی ڈر لگتا ہے.چہ جائیکہ پانی کی جگہ شراب پی جائے.نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۳۲ تا ۴۳۴ عیسائی ہو کر سب سے پہلی نیکی شراب پینا ہے.اور پھر آگے جوں جوں ترقی کرے گا اپنے کمال کو پہنچے گا تو کفارہ پر ایمان لاوے گا اور یقین کرے گا کہ شریعت لعنت ہے کلالہ کے نتیجہ میں اور کہ حضرت مسیح ساری امت کے گناہوں کے بدلے پھانسی پا کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو چکا.پھر گناہ کرے گا اور پیٹ بھر کر کرے گا اور اسے کسی کا خوف نہ ہو گا اور خوف ہو تو کیسے ؟ کیا مسیج ان کے لئے پھانسی نہیں دیا گیا ؟ غرض یہ تو ان کی عملی حالت ہے.پھر دنیا کو خدائی کا جو نمونہ دیا گیا تھا وہ ایسا کمزور اور ناتواں نکلا کہ تھپڑ کھائے پھانسی دیا گیا اور دشمنوں کا کچھ نہ کر سکا.پس انہیں باتوں سے وہ خدا کے بھی منکر ہو گئے ہیں اور وہ لوگ بیچارے ہیں بھی معذور.کیونکہ یہ سب امور فطرت انسانی کے بالکل خلاف پڑے بھلا کفارہ ایسی بیہودہ تعلیم سے بجز نا پاک زندگی کے اور ایسے کمزور اور ناتواں خدا تھکے ماننے سے بجز ذلت و ادبار کی مار کے اور حاصل ہی کیا ؟ انہوں نے بھی فیصلہ کر لیا کہ ایسے خدا سے ہم یو اپنی اچھے ہیں.یہ ان کا قصور نہیں بلکہ تعلیم کا قصور ہے.ملفوظات.جلد ۱۰ صفحه ۲۴۶٫۲۴۵ عیسائی کفارہ پر بہت ناز رکھتے ہیں مگر عیسائی تاریخ کے واقف اس سے بے خبر نہیں کہ مسیح کی خود کشی سے پہلے جو عیسائیوں کے زعم میں ہی تھوڑے بہت عیسائی نیک چلن ور بعد اتوار تھے مگر خود کشی کے بعد تو عیسائیوں کی بدکاریوں کا بند ٹوٹ گیا.کیا یہ کفارہ کی نسل جو پہلے والوں کی اب یورپ میں موجود ہے اپنی چال چلن میں ان لوگوں سے مشابہ ہے جو کفارہ سے پہلے حالت

Page 225

۲۰۷ مسیح کے ساتھ پھرتی تھی.نور القرآن حصہ اول.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۳۶۹ حاشیہ ۱۷۵ افسوس کہ اکثر انسانوں نے بدقسمتی سے اس اصول کی طرف توجہ نہیں کی اور ایسے بیہودہ طریق گناہ سے پاک ہونے کے لئے اپنے دل میں تراشے ہیں کہ وہ اور بھی گناہ پر یہ طریق گناہ پر دیر کرتا گستاخ کرتے ہیں.مثلاً یہ خیال کہ گویا حضرت عیسی علیہ السلام کے ہے.صلیب دئیے جانے پر ایمان لانا اور ان کو خدا سمجھنا انسان کے تمام گناہ معاف ہو جانے کا موجب ہے.کیا ایسے خیال سے توقع ہو سکتی ہے کہ انسان میں سچی نفرت گناہ سے پیدا کرے.صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک ضد اپنی ضد سے دور ہوتی ہے.سردی کو گرمی دور کرتی ہے اور تاریکی کے ازالہ کا علاج روشنی ہے.پھر یہ علاج کس قسم کا ہے کہ زید کے مصلوب ہونے سے بکر گناہ سے پاک ہو جائے بلکہ یہ انسانی غلطیاں ہیں کہ جو غفلت اور دنیا پرستی کے زمانہ میں دلوں میں سما جاتی ہیں.اور جن پست خیالات کی وجہ سے دنیا میں بت پرستی نے رواج پایا ہے فی الحقیقت ایسے ہی نفسانی اغراض کے سبب سے یہ مذہب صلیب اور کفارہ کا عیسائیوں میں رواج پا گیا ہے.اصل امر یہ ہے کہ انسان کا نفس کچھ ایسا واقع ہے کہ ایسے طریق کو زیادہ پسند کر لیتا ہے جس میں کوئی محنت اور مشقت نہیں.مگر سچی پاکیزگی بہت سے دکھ اور مجاہدات کو چاہتی ہے.اور وہ پاک زندگی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک انسان موت کا پیالہ نہ پی لے.پس جیسا کہ انسان کی عادت ہے کہ وہ تنگ اور مشکل راہوں سے پر ہیز کرتا ہے اور سہل اور اسان طریق ڈھونڈتا ہے.اسی طرح ان لوگوں کو یہ طریق صلیب جو صرف زبان کا اقرار ہے اور روح پر کسی مشقت کا اثر نہیں بہت پسند آگیا ہے جس کی وجہ سے خدائے تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہو گئی ہے اور نہیں چاہتے کہ گناہوں سے نفرت کر کے پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کریں.در حقیقت صلیبی اعتقاد ایک ایسا عقیدہ ہے جو ان لوگوں کو خوش کر دیتا ہے جو کچی پاکیزگی حاصل کرنا نہیں چاہتے اور کسی ایسے نسخہ کی تلاش میں رہتے ہیں کہ گندی زندگی بھی موجود ہو اور گناہ بھی معاف ہو جائیں لہذا وہ باوجود بہت سی آلودگیوں کے خیال کر لیتے ہیں کہ فقط خون مسیح پر ایمان لانے سے گناہ پاک ہو گئے مگر یہ پاک ہونا در حقیقت ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک پھوڑا جو پیپ سے بھرا ہوا

Page 226

ہو اور باہر سے چمکتا ہوا نظر آئے.اور اگر غور کرنے والی طبیعتیں ہوں تو اس صلیبی نسخہ کا غلط ہونا خود صلیب پرستوں کے حالات سے واضح ہو سکتا ہے کہ وہ کہاں تک دنیا پرستی اور ہوا و ہوس کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی محبت میں محو ہو گئے ہیں.جو شخص یورپ کے ممالک کی سیر کرے وہ خود دیکھ لے گا کہ دنیا کی عیاشی اور بے قیدی اور شراب خوری اور نفس پرستی اور دوسرے فسق و فجور کس درجہ تک ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جو بڑے حامی دین کہلاتے ہیں اور جو اس ملک کے جاہل لوگوں کی طرح نہیں بلکہ تعلیم یافتہ اور مہذب ہیں.سب سے زیادہ خون صحیح پر زور دینے والے پادری صاحبان ہیں.سواکثران کے شراب خوری میں جو ام الخبائث ہے مبتلا ہیں بلکہ بعض کے حالات جو اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں ایسے ناقابل شرم ہیں جو نا گفتہ بہ....اب ظاہر ہے کہ جب کہ یہ لوگ کہ جو بڑے مقدس پادری کہلاتے ہیں اور خون مسیح سے فیض اٹھانے والے اول درجہ پر ہیں ان کا یہ حال ہے تو دوسرے بیچارے اس نسخہ سے کیا فائدہ اٹھائیں گے.سو یاد رہے کہ یہ طریق حقیقی پاکیزگی حاصل کرنے کا نہیں ہے.اور وقت آتا جاتا ہے بلکہ قریب ہے کہ لوگ اس غلط طریق پر خود متنبہ ہو جائیں گے.طریق وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے.ہر ایک شخص جو خدائے تعالیٰ کی طرف آیا ہے اسی دروازے سے داخل ہوا ہے.ہاں یہ دروازہ بہت تنگ ہے اور اس کے اندر داخل ہونے والے بہت تھوڑے ہیں کیونکہ اس دروازہ کی دہلیز موت ہے اور خدا کو دیکھ کر اس کی راہ میں اپنی سیاری قوت اور سارے وجود سے کھڑے ہو جانا اس کی چوکھٹ ہے.پس بہت ہی تھوڑے ہیں جو اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں.افسوس کہ ہمارے ملک میں عیسائی صاحبوں کو تو حضرت مسیح کے خون کے خیال نے اس دروازہ سے دور ڈال دیا اور توبہ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف ایک موت کی حالت بنا کر پر صدق دل سے رجوع کرنا اور موت کی سی حالت بنا کر اپنی قربانی آپ ادا کرنا ان کے نزدیک ایک لغو خیال ہے.پس یہ دونوں فریق اس حقیقی راہ سے محروم ہیں.براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۴ تا ۳۷ نیز دیکھیں.ملفوظات.جلد ۱۰ صفحہ ۳۱۸ - ملفوظات.جلد ۶ صفحه ۸۲ ۲۰۸

Page 227

۲۰۹ ایک عیسائی سے اگر پوچھا جائے کہ تو جو دعوی کرتا ہے کہ مسیح کے خون سے میرے گناہ پاک ہو گئے تیرے پاس اس کا کیا ثبوت ہے ؟ وہ کون سے فوق العادت امور تجھ میں پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے ایک غیر معمولی خدا ترسی اور نکو کاری کی روح تجھ میں پھونک دی ہے توہ کچھ جواب نہ دے سکے گا.برخلاف اس کے اگر کوئی مجھ سے پوچھے کنارہ کے نیچی می کند 164 تو میں اس کو ان خارق عادت امور کا زبر دست ثبوت دے سکتا سے پاک ہونے کا کوئی ثبوت نہیں.ہوں.اور اگر کوئی طالب صادق ہو.اور اس میں شتاب کاری اور بدظنی کی قوت بڑھی ہوئی نہ ہو تو میں اسے مشاہدہ کرا سکتا ہوں.بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے دلائل نہ بھی ملیں تو ان کی تاثیرات بجائے خود انسان کو قائل کر دیتی ہیں اور وہی تاثیرات دلائل کے قائم مقام ہو جاتی ہیں.کفارہ کے حق ہونے کے اگر دلائل عیسائیوں کے پاس نہیں ہیں جیسا کہ وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ بھی ایک راز ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ وہ تاثیرات کو ہی پیش کریں جو کفارہ کے اعتقاد نے پیدا کی ہیں.یورپ کی اباحتی زندگی دور سے ان تاثیرات کا نمونہ دکھارہی ہے اس سے بڑھ کر وہ کیا پیش کریں گے.اور یہ ایک عظمند کے سمجھ لینے کے واسطے کافی ہے کہ کیا اثر ہوا.ملفوظات.جلد ۳ صفحہ ۱۹ عیسائیوں کے اصول پر ایک ہمارا یہ اعتراض تھا کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ نجات کا اصل ذریعہ گناہوں سے پاک ہونا ہے اور پھر باوجود تسلیم اس بات کے گناہوں سے پاک ہونے کا حقیقی طریقہ بیان نہیں کرتے بلکہ ایک قابل شرم بناوٹ کو پیش کرتے ہیں گناہ کیا ہے ؟اس کو دور جس کو گناہوں سے پاک ہونے کے ساتھ کوئی حقیقی رشتہ نہیں.یہ بات نہایت صاف کرنے کا طریق ہے اور ظاہر ہے کہ چونکہ انسان خدا کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے اس کا تمام آرام اور ساری خوشحالی صرف اسی میں ہے کہ وہ سارا خدا کا ہی ہو جائے.اور حقیقی راحت کبھی ظاہر نہیں ہو سکتی جب تک انسان اس حقیقی رشتہ کو جو اس کو خدا سے ہے مکمن قوت سے چیز فعل میں نہ لاوے.لیکن جب انسان خدا سے منہ پھیر لیوے تو اس کی مثال ایسی ہو جاتی ہے جیسا کہ کوئی شخص ان کھڑکیوں کو بند کر دیوے جو آفتاب کی طرف تھیں اور کچھ شک نہیں کہ ان کے بند کرنے کے ساتھ ہی ساری کوٹھری میں اندھیرا پھیل جائے

Page 228

گا.اور وہ روشنی جو محض آفتاب سے ملتی ہے یک لخت دور ہو کر ظلمت پیدا ہو جائے گی.اور وہی ظلمت ہے جو ضلالت اور جہنم سے تعبیر کی جاتی ہے.کیونکہ دکھوں کی وہی جڑ جو اور ہے.ہے.اور اس ظلمت کا دور ہونا اور اس جہنم سے نجات پانا اگر قانون قدرت کے طریق پر تلاش کی جائے تو کسی کے مصلوب کرنے کی حاجت نہیں بلکہ وہی کھڑکیاں کھول دینی چاہئیں جو ظلمت کی باعث ہوئی تھیں.کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ ہم در حالیکہ نور پانے کی کھڑکیوں کے بندر کھنے پر اصرار کریں کسی روشنی کو پاسکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں.سوگناہ کا معاف ہونا کوئی قصہ کہانی نہیں جس کا ظہور کسی آئندہ زندگی پر موقوف ہو.اور یہ بھی نہیں کہ یہ امور محض بے حقیقت اور مجازی گورنمنٹوں کی نافرمانیوں اور قصور بخشی کے رنگ میں ہیں بلکہ اس وقت انسان کو مجرم یا گنہگار کہا جاتا ہے کہ جب وہ خدا سے اعراض کر کے اس روشنی کے مقابلہ سے پرے ہٹ جاتا اور اس چمک سے ادھر ادھر ہو جاتا ہے جو خدا سے اترتی اور دلوں پر نازل ہوتی ہے.اس حالت موجودہ کا نام خدا کی کلام میں ہے جس کو پارسیوں نے مبدل کر کے گناہ بنالیا ہے اور جنح جو اس کا مصدر ہے اس کے معنے ہیں میل کرنا اور اصل مرکز سے ہٹ جاتا.پس اس کا نام جناح یعنی گناہ اس لئے ہوا کہ انسان اعراض کر کے اس مقام کو چھوڑ دیتا ہے جو الہی روشنی پڑنے کا مقام ہے اور اس خاص مقام سے دوسری طرف میل کر کے ان نوروں سے اپنے تئیں دور ڈالتا ہے جو اس سمت مقابل میں حاصل ہو سکتے ہیں.ایسا ہی جرم کا لفظ جس کے معنے بھی گناہ ہیں جرم سے مشتق ہے اور جرم عربی زبان میں کاٹنے کو کہتے ہیں پس جرم کا نام اس لئے جرم ہوا کہ جرم کا مرتکب اپنے تمام تعلقات خدا تعالیٰ سے کاتا ہے اور باعتبار مفہوم کے جرم کا لفظ جناح کے لفظ سے سخت تر ہے.کیونکہ جناح صرف میل کا نام ہے جس میں کسی طرح کا ظلم ہو.مگر جرم کا لفظ کسی گناہ پر اس وقت صادق آئے گا کہ جب ایک شخص عمداً خدا کے قانون کو توڑ کر اور اس کے تعلقات کی پرواہ نہ رکھ کر کسی ناکردنی امر کا دیدہ دانستہ ارتکاب کرتا ہے.جناح اب جب کہ حقیقی پاکیزگی کی حقیقت یہ ہوئی جو ہم نے بیان کی ہے تو اب اس جگہ طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ گم شدہ انوار جن کو انسان تاریکی سے محبت کر کے کھو بیٹھتا ہے کیا وہ صرف کسی شخص کو مصلوب ماننے سے مل سکتے ؟ سو جواب یہ ہے کہ یہ خیال بالکل غلط اور فاسد ہے.بلکہ اصل حقیقت یہی ہے کہ ان نوروں کے و ۲۱۰

Page 229

۲۱۱ حاصل کرنے کے لئے قدیم سے قانون قدرت یہی ہے جو ہم ان کھڑکیوں کو کھول دیں جو اس آفتاب حقیقی کے سامنے ہیں.تب وہ کر نہیں اور شعائیں جو بند کرنے سے گم ہو گئی تھیں یک دفعہ پھر پیدا ہو جائیں گی.دیکھو خدا کا جسمانی قانون قدرت بھی یہی گواہی دے رہا ہے.اور کسی ظلمت کو ہم دور نہیں کر سکتے جب تک ایسی کھڑکیاں نہ کھول دیں جن سے سیدھی شعائیں ہمارے گھر میں پڑ سکتی ہیں.سو اس میں کچھ شک نہیں کہ عقل سلیم کے نزدیک یہی صحیح ہے جو ان کھڑکیوں کو کھولا جائے.تب ہم نہ صرف نور پائیں گے بلکہ اس مبدء الانوار کو بھی دیکھ لیں گے.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۷۸، ۷۹ اے خدا کے طالب بندو ! کان کھولو اور سنو کہ یقین جیسی کوئی چیز نہیں.یقین ہی IZA ہوتے ہیں.کفارہ ہے جو گناہ سے چھڑاتا ہے.یقین ہی ہے جو نیکی کرنے کی قوت دیتا ہے.یقین ہی ہے یقین سے منہ زیک جو خدا کا عاشق صادق بناتا ہے.کیا تم گناہ کو بغیر یقین کو چھوڑ سکتے ہو.کیا تم جذبات مکہ ترکی میں کرا نفس سے بغیر یقینی تجلی سے رک سکتے ہو.کیا تم بغیر یقین کے کوئی تسلی پاسکتے ہو.کیا تم کہا.بغیر یقین کے کوئی کچی تبدیلی پیدا کر سکتے ہو.کیا تم بغیر یقین کے کوئی کچی خوشحالی حاصل کر سکتے ہو.کیا آسمان کے نیچے کوئی ایسا کفارہ اور ایسا فدیہ ہے جو تم سے گناہ ترک کرا سکے.کیا مریم کا بیٹا عیسی ایسا ہے کہ اس کا مصنوعی خون گناہ سے چھڑائے گا.اے عیسائیو! ایسا جھوٹ مت بولو.جس سے زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے.یسوع خود اپنی نجات کے لئے یقین کا محتاج تھا اور اس نے یقین کیا اور نجات پائی.افسوس ہے ان عیسائیوں پر جو یہ کہہ کر مخلوق کو دھوکا دیتے ہیں کہ ہم نے مسیح کے خون سے گناہ سے نجات پائی ہے.حالانکہ وہ سر سے پیر تک گناہ میں غرق ہیں.وہ نہیں جانتے کہ ان کا کون خدا ہے.بلکہ زندگی تو غفلت آمیز ہے.شراب کی مستی ان کے دماغ میں ہے.مگر وہ پاک مستی جو آسمان سے اترتی ہے اس سے وہ بے خبر ہیں.اور جو زندگی خدا کے ساتھ ہوتی ہے اور جو پاک زندگی کے نتائج ہوتے ہیں وہ اس سے بے نصیب ہیں.پیں تم یادرکھو کہ بغیر یقین کے تم تاریک زندگی سے باہر نہیں آسکتے اور نہ روح القدس تمہیں مل سکتا ہے.مبارک وہ جو یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہی خدا کو دیکھیں گے.مبارک وہ جو شبہات اور شکوک سے نجات پاگئے ہیں.کیونکہ وہی گناہ سے

Page 230

۲۱۲ نجات دلا دیں.نجات پائیں گے.مبارک تم جب کہ تمہیں یقین کی دولت دی جائے کہ اس کے بعد تمہارے گناہ کا خاتمہ ہو گا.گناہ اور یقین دونوں جمع نہیں ہو سکتے.کیا تم ایسے سوراخ میں ہاتھ ڈال سکتے ہو جس میں تم ایک سخت زہریلے سانپ کو دیکھ رہے ہو.کیا تم ایسی جگہ کھڑے رہ سکتے ہو جس جگہ کسی کوہ آتش فشاں سے پتھر برستے ہیں یا بجلی پڑتی ہے یا ایک خونخوار شیر کے حملہ کرنے کی جگہ ہے یا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ایک مہلک طاعون نسل انسانی کو معدوم کر رہی ہے.پھر اگر تمہیں خدا پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ سانپ پر، یا بجلی پر، یاشیر پر، یاطاعون پر تو ممکن نہیں کہ اس کے مقابل پر تم نافرمانی کر کے سزا کی راہ اختیار کر سکو.یا صدق و وفا کا اس سے تعلق توڑ سکو.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۶ ، ۶۸ میں نے خدا سے الہام پا کر ایک گروہ انسانوں کے لئے جو میرے قول پر چلنے والے ہیں عذاب طاعون سے بچنے کے لئے خوشخبری پائی ہے اور اس کو شائع کر دیا ہے.ایسا ہی اگر نجات میں سے ہے اگر اپنی قوم کی بھلائی آپ لوگوں کے دل میں ہے تو آپ لوگ بھی اپنے ہم مذھبوں کے لئے تو مسیح طاعون سے خدا تعالیٰ سے نجات کی بشارت حاصل کریں کہ وہ طاعون سے محفوظ رہیں گے اور اس بشارت کو میری طرح بذریعہ چھپے ہوئے اشتہاروں کے شائع کریں تالوگ سمجھ لیں کہ خدا آپ کے ساتھ ہے.بلکہ یہ موقعہ عیسائیوں کے لئے بھی بہت ہی خوب ہے.وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ نجات مسیح سے ہے.پس اب ان کا بھی فرض ہے کہ ان مصیبت کے دنوں میں عیسائیوں کو طاعون سے نجات دلاویں.ان تمام فرقوں سے جس کی زیادہ سنی گئی وہی مقبول ہے.اب خدا نے ہر ایک کو موقعہ دیا ہے کہ خواہ مخواہ زمین پر مباحثات نہ کریں.اپنی قبولیت بڑھ کر دکھلاویں تا طاعون سے بھی بچیں اور ان کی سچائی بھی کھل جائے.بالخصوص پادری صاحبان جو دنیا اور آخرت میں مسیح ابن مریم کو ہی منجی قرار دے چکے ہیں.وہ اگر دل سے ابن مریم کو دنیا و آخرت کا مالک سمجھتے ہیں تو اب عیسائیوں کا حق ہے کہ ان کے کفارہ سے نمونہ نجات دیکھ لیں.۱۸۰ کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۹ اس مذہب نے گناہ کا علاج مسیح کے خون پر ایمان لانار کھا ہے کہ میسج ہمارے بدلے

Page 231

٢١٣ یہودیوں کے ہاتھوں صلیب لٹکایا جا کر جو ملعون ہو چکا ہے.اس کی لعنت نے ہم کو ایک کی موت دو سر ہے کی زندگی کاذریعہ کیونکر برکت دی.یہ عجیب فلاسفی ہے کہ جو کسی زمانہ اور عمر میں سمجھی نہیں جا سکتی.لعنت ٹھہر سکتی ہے؟ برکت کا موجب کیونکر ہو سکتی ہے اور ایک کی موت دوسرے کی زندگی کا ذریعہ کیونکر ٹھرتی ہے ؟ ہم عیسائیوں کے طریق علاج کو عقلی دلائل کے معیار پر بھی پرکھنے کی ضرورت نہ سمجھتے.اگر کم از کم عیسائی دنیا میں یہ نظر آتا کہ وہاں گناہ نہیں ہے لیکن جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں حیوانوں سے بھی بڑھ کر ذلیل زندگی بسر کی جاتی ہے.تو ہم کو اس طریق انسداد گناہ پر اور بھی حیرت ہوتی ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ اس سے بہتر تھا کہ یہ کفارہ نہ ہوا ہوتا.جس نے اباحت کا دریا چلا دیا.اور پھر اس کو معافی گناہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۳۵۱ IMI یہ ہنسی کی بات ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے سرور و پر رحم کر کے اپنے سر پر پتھر مار لے.یادوسرے کے بچانے کے خیال سے خود کشی کرتے.میرے خیال میں ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا دانا نہیں ہو گا کہ ایسی خود کشی کو انسانی ہمدردی میں خیال کر سکے.بیشک یہ انہی کی بات ہے کہ انسانی ہمدردی عمدہ چیز ہے.اور دوسروں کے بچانے کے لئے تکلیف اٹھانا بڑے کوئی شخص دوسرے کے سرور و پر رحم کر بہادروں کا کام ہے.مگر کیا ان تکلیفوں کے اٹھانے کی یہی راہ ہے جو یسوع کی نسبت کے اپنے سرپر پتھر مار بیان کیا جاتا ہے.کاش اگر یسوع خود کشی سے اپنے تئیں بچاتا اور دوسروں کے آرام کے لے لئے معقول طور پر عقلمندوں کی طرح تکلیفیں اٹھاتا.تو اس کی ذات سے دنیا کو فائدہ پہنچ سکتا تھا.مثلاً اگر ایک غریب آدمی گھر کا محتاج ہے اور معمار لگانے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس صورت میں اگر ایک معمل اس پر رحم کر کے اس کا گھر بنانے میں مشغول ہو جائے اور بغیر لینے اجرت کے چندروز سخت مشقت اٹھا کر اس کا گھر بنا دیوے تو بیشک یہ معمل تعریف کے قابل ہو گا.اور بیشک اس نے ایک مسکین پر احسان بھی کیا ہے جس کا گھر بنادیا.لیکن اگر وہ اس شخص پر رحم کر کے اپنے سر پر پتھر مار لے تو اس غریب کو اس سے کیا فائدہ پہنچے گا.افسوس دنیا میں بہت تھوڑے لوگ ہیں جو نیکی اور رحم کرنے کے معقول طریقوں پر چلتے ہیں.اگر یہ سچ ہے کہ یسوع نے اس خیال سے کہ میرے مرنے سے لوگ نجات پا جائیں گے در حقیقت خود کشی کی ہے تو یسوع کی حالت

Page 232

۲۱۴ TAY نہایت ہی لائق رحم ہے.اور یہ واقعہ پیش کرنے کے لائق نہیں بلکہ چھپانے کے لائق ہے.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جوابات.روحانی خزائن.جلد ۱۲ صفحہ ۳۳۰، ۳۳۱ غرض نجات کے لئے اس منصوبہ پر بھروسہ کر ناصحیح نہیں ہے.اور گناہ سے باز رہنے کو اس منصوبہ سے کوئی بھی تعلق نہیں پایا جاتا.بلکہ دوسرے کی نجات کے لئے میں نے اپنی رضامندی خود کشی کرنا گناہ ہے.اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہر گز مسیح نے اپنی سے صلیب کو منظور رضامندی سے صلیب کو منظور نہیں کیا.بلکہ شریر یہودیوں نے جو چاہا اس سے کیا.اور نہیں کیا مسیح نے صلیبی موت سے بچنے کے لئے باغ میں ساری رات دعا کی.اور اس کے آنسو جاری ہو گئے.تب خدا نے باعث اس کے تقوے کے اس کی دعا قبول کی اور اس کو صلیبی موت سے بچالیا جیسا کہ خود انجیل میں بھی لکھا ہے.پس یہ کیسی تہمت ہے کہ مسیح نے اپنی رضامندی سے خود کشی کی.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۶۵ کیا کسی دل کو اس پر اطمینان ہو سکتا ہے کہ ایک شخص خدا کہلا کر ساری رات موت کو را سے بچنے کے لئے دعا کر تار ہے.اور قبول نہ ہو.ایسا ہی کبھی عقل یہ تجویز نہیں کر سکتی کہ کسی کی خود کشی سے دوسرے کے گناہ بخشے جاتے ہیں.اگر مسیح کے روٹی کھانے سے کیا کسی کی خود کشی سے دوسروں کے گلہ بیٹے حواریوں کے پیٹ بھر جاتے تھے.اور عقل کے نزدیک یہ جائز ہے تو شاید یہ بھی سچ ہو کہ جاسکتے ہیں؟ کسی کے درد سر کا علاج اپنے سر میں پتھر مارنا بھی ہے.ملفوظات.جلد ۳ صفحہ ۱۱۷ اب باقی رہا وہ مسئلہ جو انجیل نے نجات کے بارہ میں بیان کیا گیا ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السّلام کا مصلوب ہونا اور کفارہ.اس تعلیم کو قرآن شریف نے قبول نہیں کیا میں تعلیم کو قرآن اور اگر چہ حضرت عیسی کو قرآن شریف ایک برگزیدہ نبی مانتا ہے اور خدا کا پیار اور مقرب شریف کے قبول کیں اگرچہ اور وجیہہ قرار دیتا ہے لیکن اس کو محض انسان بیان فرماتا ہے اور نجات کے لئے اس امر کو کیا.

Page 233

۲۱۵ ضروری نہیں جانتا کہ ایک گناہ گار کا بوجھ کسی بے گناہ پر ڈال دیا جائے اور عقل بھی تو نہیں کرتی کہ گناہ تو زید کرے اور بکر پکڑا جائے.اس مسئلہ پر تو انسانی گورنمنٹوں نے بھی عمل نہیں کیا.افسوس کہ نجات کے بارہ میں عیسائی صاحبوں نے غلطی کی ہے.چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۱۴ ۱۸۵ توبہ و استغفار سے گناہ خدا کا قدیم سے قانون قدرت ہے کہ وہ توبہ اور استغفار سے گناہ معاف کرتا ہے.اور نیک لوگوں کی شفاعت کے طور پر دعا بھی قبول کرتا ہے.مگر یہ ہم نے خدا کے قانون قدرت میں کبھی نہیں دیکھا کہ زید اپنے سر پر پتھر تارے اور اس سے بکر کی دردسر معاف ہوتے ہیں جاتی رہے.پھر ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ مسیح کی خود کشی سے دوسروں کی اندرونی بیماری کا دور ہونا کس قانون پر مبنی ہے.اور وہ کونسا فلسفہ ہے جس سے ہم معلوم کر سکیں کہ مسیح کا خون کسی دوسرے کی اندرونی ناپاکی کو دور کر سکتا ہے.بلکہ مشاہدہ اس کے بر خلاف گواہی دیتا ہے.کیونکہ جب تک مسیح نے خود کشی کا ارادہ نہیں کیا تھا تب تک عیسائیوں میں نیک چلنی اور خدا پرستی کا مادہ تھا.مگر صلیب کے بعد تو جیسے ایک بند ٹوٹ کر ہر ایک طرف دریا کا پانی پھیل جاتا ہے.یہی عیسائیوں کے نفسانی جو شوں کا حال ہوا.کچھ شک نہیں کہ اگر یہ خود کشی مسیح سے بالارادہ ظہور میں آئی تھی تو بہت بیجا کام کیا.اگر وہی خود کشی کی بجائے وعظ و زندگی وعظ و نصیحت میں صرف کرتا تو مخلوق خدا کو فائدہ پہنچتا.اس بیجا حرکت سے نصیحت سے کام کرتے دوسروں کو کیا فائدہ ہوا.ہاں اگر مسیح خود کشی کے بعد زندہ ہو کر یہودیوں کے روبرو تو زیادہ مفید تھا آسمان پر چڑھ جاتا تو اس سے یہودی ایمان لے آتے.مگر اب تو یہودیوں اور تمام عظمندوں کے نزدیک مسیح کا آسمان پر چڑھنا محض ایک فسانہ اور گپ ہے.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه نے ۳۴، ۳۴۸ کفارہ کا مسئلہ جب ان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ مسیح نے ان کے سارے گناہ اٹھالئے پر ان یہ سمجھ نہیں آتا کہ وہ کونسی چیز ہو سکتی ہے جو ان کو اعمال کی طرف متوجہ کرے.اعمال کا ١٨٦ مدعا تو نجات ہے اور یہ ان کو بلا مشقت محنت صرف خوانی مسیح پر اتنا ایمان رکھنے سے (کہ وہ خون مسیح کے بعد اعمال کی کیا ضرورت ہے ؟ ہمارے لئے مر گیا.ہمارے گناہوں کے بدلہ لعنتی ہوا ) مل جاتی ہے تو اب نجات کے

Page 234

۱۸۷ کمالات مجاہدات سے نہ سوا اور کیا چاہئے.پھر ان کو اعمال حسنہ کی ضرورت کیا باقی رہی.اگر کفارہ پر ایمان لا کر بھی نجات کا خطرہ اور اندیشہ باقی ہے تو یہ امر دیگر ہے کہ اعمال کئے جائیں لیکن اگر نجات خون مسیح کے ساتھ ہی وابستہ ہے تو کوئی عقلمند نہیں مان سکتا کہ پھر ضرورت اعمال کی کیا باقی ہے.اس لئے میں یہ تعلیم کبھی دینا نہیں چاہتا اور نہ اسلام مر نے دی کہ تم اپنے گناہوں کی گھر ہی کسی دوسرے کی گردن پر لاد دو اور خود اباحت کی زندگی بسر کرو.قرآن شریف نے صاف فیصلہ کر دیا ہے لا تزر وازرة وزرى أخرى.ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور نہ دنیا میں اس کی کوئی نظیر خدا تعالیٰ کے عام قانون قدرت میں ملتی ہے.کبھی نہیں دیکھا جانا کہ زید مثلاً سنکھیا کھا لیوے اور اسی سنکھیا کا اثر بکر پر ہو جاوے اور وہ جاوے.یا ایک مریض ہو اور دوسرے آدمی کے دوا کھا لینے سے وہ اچھا ہو جاوے بلکہ ہر ایک بجائے خود متاثر ہو گا.پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک شخص ساری عمر گناہ کرتا رہے اور دلیری کے ساتھ خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرتا رہے اور لکھ دے کہ میرے گناہوں کا بوجھ دوسرے شخص کی گردن پر ہے.جو شخص ایسی امید کرتا ہے وہ.دماغ بیده پخت و خیال باطل بست کا مصداق ہے.پس اسلام کسی سہارے پر رکھنا نہیں چاہتا کیونکہ سہارے پر رکھنے سے ابطال اعمال لازم آجاتا ہے.لیکن جب انسان سہارے کے بغیر زندگی بسر کرتا ہے.اور اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے اس وقت اس کو اعمال کی ضرورت پڑتی ہے اور کچھ کرنا پڑتا ہے.اسی لئے قرآن شریف نے فرمایا ہے قَدْ أَفْلَحَ مَن زَعَها - فلاح وہی پاتا ہے جو اپنا تزکیہ کرتا ہے.خود اگر انسان ہاتھ پاوں نہ ہلائے تو بات نہیں بنتی.ملفوظات.جلد ۴ صفحه ۴۲۶، ۴۲۷ کملات تو انسان کو مجاہدات سے حاصل ہوتے ہیں مگر جن کو سہل نسخہ مسیح کے خون کا حامل رہے ہیں.یہ مل گیاوہ کیوں مجاہدات کریں گے.اگر مسیح کے خون سے کامیابی ہے تو پھر ان کے لڑکے کسی کے خون سے امتحان پاس کرنے کے واسطے کیوں مدرسوں میں محنتیں اور کوششیں کرتے ہیں چاہئے

Page 235

۲۱۷ کہ وہ صرف مسیح کے خون پر بھرو اور اسی سے کامیاب ہوویں اور کوئی محنت نہ کریں اور مسلمانوں کے بچے محنتیں کر کر کے اور ٹکریں مار مار کر پاس ہوں.اصل بات یہ ہے.لَيسَ لِلْإِنسَانِ الأَمَا سَعَى اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان جب اپنے نفس کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے فسق و فجور وغیرہ معلوم ہوتے ہیں.آخر وہ یقین کی حالت پر پہنچ کر ان کو صیقل کر سکتا ہے.لیکن جب خون مسیح پر مدار ہے تو مجاہدات کی کیا ضرورت ہے.ان کی جھوٹی تعلیم بچی ترقیات سے روک رہی تو ہے.سچی تعلیم والا دعائیں کرتا ہے ، کوششیں کرتا ہے، آخر دور تا دوڑتا اور ہاتھ پاوں مارتا ہوا منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے.جب یہ بات ان کو سمجھ آئے گی کہ یہ سب باتیں (خون صحیح پر بھروسہ ) قصہ کہانی ہیں اور ان سے اب کوئی آثار اور نتائج مرتب نہیں ہوتے.اور ادھر کچی تعلیم کی تخم ریزی کے ساتھ برکات ہوں گی تو یہ لوگ خود سمجھ لیں گے.انسان کھیتی کرتا ہے.اس میں بھی محنت کرنی پڑتی ہے.اگر ایک ملازم ہے تو اسے بھی محنت کا خیال ہے غرضیکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر کوشش میں لگا ہے اور سب کا شمرہ کوشش پر ہی ہے.سارا قرآن کوشش کے مضمون سے بھرا پڑا للانسان الا ما سعی ان لوگوں کو جو ولایت ہے.میں خون مسیح پر ایمان لا کر بیٹھے ہیں کوئی پوچھے کہ کیا حاصل ہوا.مردوں یا عورتوں نے خون پر ایمان لا کر کیا ترقی حاصل کی.یہ باتیں ہیں جو بار بار ان کے کانوں تک پہنچانی چاہئیں.ملفوظات.جلد ۴ صفحه ۲۸۹، ۲۹۰ تعلیم ١٨٨ ترک معاصی اور شئے ہے اور نیکیوں کا حصول اور قرب الہی دوسری شئے ہے.عیسائیوں نے بھی اس معاملہ میں بڑا ہو کا کھایا ہے اور اس واسطے انہوں نے کفارہ د کا مسئلہ ایجاد کیا ہے کہ یسوع کے پھانسی ملنے سے ہمارے گناہ دور ہو گئے.اول تو یہ بات گناہ سے بچنے کی قرآنی ہی غلط ہے کہ ایک شخص کا پھانسی مناسب کے گناہ دور کر دے.دوم اگر گناہ دور بھی ہو جاویں تو صرف گناہ کا موجود ہونا کوئی خوبی کی بات نہیں ہے.بہت کیڑے مکوڑے اور بھیڑ بکریاں دنیا میں موجود ہیں جن کے ذمہ کوئی گناہ نہیں لیکن وہ خدا تعالیٰ کے مقربوں میں سے نہیں شمار ہو سکتے اور ایسا ہی کثرت سے اس قسم کے اہلہ اور سادہ لوح لوگ موجود

Page 236

۲۱۸ ۱۸۹ جو کوئی گناہ نہیں کرتے نہ چوری ، نہ زنا نہ جھوٹ نہ بد کاری، نہ خیانت.لیکن ان گناہوں کے نہ کرنے کے سبب وہ مقربان الہی میں شمار نہیں ہو سکتے.انسان کی خوبی اس میں ہے کہ وہ نیکیاں اختیار کرے اور خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے کام کرنے اور معرفت الہی کے مدارج حاصل کرے اور روحانیت میں ترقی کرے اور ان لوگوں میں شامل ہو جاوے جو بڑے بڑے انعام حاصل کرتے ہیں.اس کے واسطے قرآن شریف میں دونوں باتوں کی تعلیم دی گئی ہے.ایک ترک گناہ اور دوم حصول قرب الہی.ملفوظات.جلد ۹ صفحه ۲۹ عیسائی جو کچھ پیش کرتے ہیں وہ اور بھی عجیب ہے.وہ خدا تعالیٰ کو رحیم تو مانتے ہیں ادہ اور ہے.وہ خداتعالی مانتے اور کہتے ہیں کہ وہ رحیم ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ رحم بلا مبادلہ نہیں کر خداتعالی رحیم ہے مر سکتا.جب تک بیٹے کو پھانسی نہ و دے لے اس کار رحم کچھ بھی نہیں کر سکتا.تعجب اور بیٹے کی پھانسی ضروری ہے.مشکلات بڑھ جاتی ہیں.جب اس عقیدہ کے مختلف پہلوں پر نظ پہلووں پر نظر کی جاتی ہے اور پھر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے اکلوتے بیٹے کو پھانسی بھی دیا لیکن یہ نسخہ رحم پھر بھی خطا ہی گیا.سب سے پہلے تو یہ کہ یہ نسخہ اس وقت یاد آیا جب بہت سی مخلوق گناہ کی موت سے تباہ ہو چکی اور ان پر کوئی رحم نہ ہو سکا کیونکہ پہلے کوئی بیٹا پھانسی پرنہ چڑہا اور علاوہ بریں اگر چہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ زید کے سر میں درد ہو اور بکر اپنا سر پتھر سے پھوڑے اور یہ سمجھا جاوے کہ اس نسخہ سے زید کو آرام ہو جاوے گا.لیکن اس کو بفرض محال مان کر بھی اس نسخہ کا جو اثر ہوا ہے وہ تو بہت ہی خطرناک ہے.جب تک یہ نسخہ استعمال نہیں ہوا تھا اکثر لوگ نیک تھے اور توبہ اور استغفار کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلنے کی کوشش کرتے تھے مگر جب یہ نسخہ گھڑا گیا کہ ساری دنیا کے گناہ خدا کے بیٹے کے پھانسی پانے کے ساتھ معاف ہو گئے تو اس سے بجائے اس کے کہ گناہ رُکتا، گناہ کا ایک اور سیلاب جاری ہو گیا اور وہ بند جو اس سے پہلے خدا تعالیٰ کے خوف اور شریعت کا لگا ہوا تھا ٹوٹ گیا.جیسا کہ یورپ کے حالات سے پتہ لگتا ہے کہ اس مسئلہ نے وہاں کیا اثر کیا ہے اور فی الحقیقت ہونا بھی یہنی چاہئے تھا.پھر جب یہ بات ہے اور حالت ایسی ہے تو ہم کیونکر تسلیم کریں کہ وہ خدا جو اس رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے وہ حقیقی خدا ہے.

Page 237

۲۱۹ ملفوظات.جلدی صفحہ ۱۸۰، ۱۸۱ خدا کا کوئی فعل اس کی قدیم عادت سے مخالف نہیں اور عادت کثرت اور کلیت کو چاہتی ہے.پس اگر در حقیقت بیٹے کو بھیجنا خدا کی عادت میں داخل ہے تو خدا کے بہت بہت سے بیٹے چاہئیں سے بیٹے چاہئیں تا عادت کا مفہوم جو کثرت کو چاہتا ہے ثابت ہو اور تا بعض بیٹے جنات کے لئے مصلوب ہوں اور بعض انسانوں کے لئے اور بعض ان مخلوقات کے لئے جو دوسرے اجرام میں آباد ہیں.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۵۹ ، ۶۰ اگر یہ اعتقاد کیا جاوے کہ خدا خود ہی آکر دنیا کو نجات دیا کرتا ہے یا اس کے بیٹے ہی نجات کے لئے ہر زمانہ آتے ہیں تو پھر دور لازم آئے گا.اور ہر زمانہ میں نیا خدایا اس کے بیٹوں کا آناماننا پڑے گا.جو صریح خلاف بات ہے.کے بیٹوں کا آنا ماننا ملفوظات.جلد ۳ صفحہ ۱۳۲ پڑے گا ١٩٢ عیسائیوں کے اصول کے موافق مسیح کے خون پر ایک بار ایمان لا کر اگر گناہ ہو جاوے تو پھر صلیب مسیح کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.کونکہ مسیح دو مرتبہ صلیب پر نہیں چڑ ہے گا.تو کیا یہ بات صاف نہیں ہے کہ ان دونوں کے لئے بخشے جانے اور نجات کی راہ بند ایک بار کی صلیب کا ہے کیونکہ صدور گناہ تو رک نہیں سکتا اگر خدا تعالٰی کی کسی نعمت کا شکر نہ کرے تو یہ بھی کوئی فائدہ نہیں گناہ ہے اور غفلت کرے تو یہ بھی گناہ ہے.اور ان گناہوں پر بھی جونوں میں جانا پڑے گا یا مسیح کو دوبارہ صلیب نہیں دیا جائے گا.اس لئے کلی طور پر مایوس ہونا پڑے گا.مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ تعلیم نہیں دی.ان کے لئے ہر وقت توبہ کا دروازہ کھلا ہے.جب انسان اس کی طرف رجوع کرے اور اپنے پچھلے گناہوں کا اقرار کر کے اس سے خواستگار معافی ہو اور آئندہ کے لئے نیکیوں کا عزم کرے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دیتا ہے.لملفوظات.جلدے صفحہ ۱۸۳

Page 238

۲۲۰ ١٩٣ اس بات میں کچھ بھی شک نہیں کہ گناہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب اول قانون فرمانبرداری کا شائع ہو جائے کیونکہ نافرمانی فرمانبرداری کے بعد ہوا کرتی ہے.پھر جبکہ صورت ہے تو صاف ظاہر ہے کہ جب قانون نازل ہو گا اور خدائے تعالیٰ کی کتاب اپنے جب قانون نازل ہو گا وعدوں کے مطابق عملدرامد کریگی یعنی اس طرح کے احکام ہوں گے کہ فلاں شخص خدا تعالی کی کیا اب فلاں نیک کام کرے تو اس کا اجر یہ ہو گا.یابد کام کرے تو اس کی سزا یہ ہوگی تو اس وعدوں کے مطابق عمل در آمد کرنے کی صورت میں کفارہ کا دخل کسی طور سے جائز نہیں جب کہ وعدہ وعید کے مطابق فیصلہ اس صورت میں ایک ہوتا ہے تو اس صورت میں ایک بیٹا نہیں اگر ہزار بیٹے بھی صلیب پر کھینچے جاویں تب بھی بیٹا نہیں ہزار بیٹے بھی یب نے جاویں تو وعدہ میں مختلف نہیں ہو سکتا اور کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کو توڑتا صلیب پر کھینچے بھی وعدہ میں تعلق ہے اور جب کہ تمام مدار وعدوں پر ہے کسی حق پر نہیں ہے تو وعدوں کے مطابق فیصلہ نہیں ہو گا.ہونا چاہیئے.آپ کا یہ بار بار فرمانا کہ حقوق کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے مجھے تعجب دلاتا ہے.آپ نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ کے مقابل کسی کا حق نہیں ہے.اگر حق ہوتا تو پھر خدا تعالیٰ پر صدیا اعتراض ہر طرف سے قائم ہوتے جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ کیڑے مکوڑے اور ہر قسم کے حیوانات جو خدائے تعالیٰ نے پیدا کئے کیا یہ مواخذہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں ایسا کیوں بنایا.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی قبل از تنزیل کتاب یعنی کتاب بھیجنے سے پہلے کسی پر مواخذہ نہیں کرتا.اور یوں تو خدا تعالیٰ کے حقوق اس کے بند س قدر ہیں کہ جس قدر اس کی نعمتیں ہیں یعنی شمار میں نہیں آسکتے.لیکن گناہ صرف گے جو کتاب نازل ہونے کے بعد نافرمانیوں کی مد میں آجائیں گے.اور جب کہ صورت ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ خدائے تعالی در اصل عام طور پر اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کرتا کیونکہ وہ لاتعداد لا تخصی ہیں بلکہ نافرمانیوں کا مواخذہ کرتا ہے.اور نافرمانیاں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں وعدہ اور وعید سے وابستہ ہیں یعنی اگر نیکی کرے تو اس کو ضرور نیک جزا ملے گی.اور اگر بدی کرے تو اس کو بد ثمرہ ملے گا.اور ساتھ اس کے یہ بھی وعدہ ہے کہ ایمان اور توبہ پر نجات ملے گی تو پھر اس صورت میں کفارہ کا کیا تعلق رہا.کیا کسی کے مصلوب ہونے سے اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں سے دستکش ہو سکتا ہے.صاحب یہ تو قانونی سزائیں ہیں جو انسان کو ملیں گی.حقوق کی سزائیں نہیں جیسا کہ آپ کا بھی یہی مذہب ہے.پھر جب کہ یہ حالت ہے تو یہ جزائیں اور سزائیں صرف وعد د وعید کی رعایت سے ہو سکتے ہیں.اور کوئی صورت نہیں ہے جو اس کے بر خلاف

Page 239

۲۲۱ ہو.اور یہ بات سچ ہے کہ اللہ تعالٰی بدی پر راضی نہیں.کفر پر راضی نہیں.اس سے کون انکار کرتا ہے.مگر جرائم اسی وقت جرائم کہلاتے ہیں جب قانون ان کو جرائم ٹھہر اوے ورنہ دنیا میں صد با طور کے ناجائز امور ہوئے اور ہو رہے ہیں وہ اگر کتاب الہی سے خارج ہوں تو کیونکر جرائم ہو سکتے ہیں.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ ۲۶۷، ۲۶۸ کسی کے گناہ سے خدائے تعالیٰ کا کوئی حرجہ نہیں ہوتا اور گناہ پہلے قانون نازل ہونے کے کچھ وجود نہیں رکھتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ماكنا معذبين حتى نبعث کیا کفارہ وعدوں کو توڑ رسولا ۳ ۱۵.یعنی ہم گناہوں پر عذاب نہیں کیا کرتے جب تک رسول نہیں بھیجتے.اور سکتا ہے ؟ جب رسول آیا اور خیر و شر کا راہ بتلایا تو اس قانون کے وعدوں اور وعیدوں کے موافق عملدرامد ہو گا کفارہ کی تلاش میں لگنا ہنسی کی بات ہے.کیا کفارہ وعدوں کو توڑ سکتا ہے بلکہ وعدہ سے وعدہ بدلتا ہے اور نہ کسی اور تدبیر سے جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سلم عَلَيْكُم كتب ريكو على نفسه الرحمة انه من عمل شكم سور ابجهالة ثم تاب من بعده واصلح فإنه غفور حیم اور یہ کہنا کہ اعمال حسنہ ادائے قرضہ کی صورت میں ہیں غلط فہمی ہے.قرضہ تو اس صورت میں ہوتا کہ جب حقوق کا مطالبہ ہوتا.اب جب کہ گناہ صرف ترک قانون سے پیدا ہوا نہ ترک حقوق سے اور عبادت صرف کتابی فرمانوں پر عمل کرنے کا نام ہے تو نجات عدم نجات کا صرف قانونی وعده و وعید پر مدار رہا.جنگ مقدس - روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۷۸ تا ۲۸۱ ۲۹۵ وعجبت للنصارى ، ولا عجب من المسرفين، أنهم يقرون بأن عيسى كان عبد الله وابن آدم ، وكان يقول : إني رسول الله وعبده، وحث الناس على التوحيد والاجتناب من الشرك وانكسر وتواضع وقال : لا تقولوا لى صالحا ، ثم باپ اور بیٹے کے عجیب 6 اور مجھے عیسائیوں سے تعجب آتا ہے اور جو زیادتی کرے اس پر کچھ تعجب بھی نہیں.وہ اقرار کرتے ہیں که عینی خدا کا بندہ اور ابن آدم تھا اور کہا کرتا تھا کہ میں خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور توحید کے لئے رغبت دیتا تھا اور شرک سے ڈراتا تھ اور کسر نفسی اس میں اتنی تھی کہ اس نے کہا کہ مجھے نیک مت کہو.پھر یہ

Page 240

۲۲۲ يجعلونه شريك الباري، ويحسبونه رب العالمين، ويقولون ما يقولون، ولا يخافون يوم الدين.وينظرون أن المسيح صلب ولعن لأجل معاصيهم، وأخذ لإنجائهم وعذب لتخليصهم ، وأن الخلق أحفظ الأب بذنوبهم، وكان الأب فظا غليظ القلب سريع الغضب بعيدا عن الحلم والكرم، ومغتاظا كالحرق المضطرم ، فأراد أن يدخلهم في النار ، فقام الابن ترحما على الفجار.وكان حليما ، من رحيما كالأبرار.فمنع الأب من قهره وزيادته.فما امتنع ، وما رجع إرادته.فقال الابن يا أبت إن كنت أزمعت تعذيب الناس وإهلاكهم بالفأس ، ولا تمتنع ولا تغفر ولا ترحم، ولا تزدجر فها أنا أحمل أوازرهم، وأقبل ما أبارهم، فاغفر لهم، وافعل بي ما تريد، إن كان قليلا أو يزيد.فرضى الأب على أن يصلب ابنه لأجل خطايا الناس فنجي المذنبين، وأخذ المعصوم، وعذبه بأنواع الباس كالمذنبين.کیا خدا تعالی بیٹے کو هذا ما قالوا ، ولكن العجب من الأب الذى كان نشوانا، أو في السبات ، أنه نسي پھانسی دیتے وقت ثیرات کی تعلیم بھول عند صلیب ابنه ما كتب في التوراة ، وقال : لا أهلك إلا الذى عصاني ، ولا آخذ أحدا مكان أحد من العصاة.فنكث العهد، وأخلف الوعد ، وترك العاصين، گیا تھا ؟ لوگ اس کو خدا تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور اس کو رب العالمین سمجھتے ہیں اور جو کہتے ہیں سو کہتے ہیں اور قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے.اور یہ خیال کر رہے ہیں کہ مسیح ان کے گناہوں کے لئے مصلوب اور ملعون ہوا اور ان کے بچانے کے لئے ماخوذ اور معذب ہوا اور خلقت نے باپ کو اپنے گناہوں سے غصہ دلایا اور باپ سخت دل سریع الغضب تھا حلم اور کرم اس میں نہیں تھا بلکہ غصہ سے آگ کی طرح بھڑ کا ہوا تھا سو اس نے چاہا کہ خلقت کو دوزخ میں ڈالے سو بیٹا بد کاروں پر رحم کھا کر کے شفاعت کے لئے کھڑا ہو گیا اور بیٹا حلیم اور رحیم اور نیک آدمی تھا پس اس نے اپنے باپ کو قہر اور زیادت سے منع کیا مگر باپ اپنے ارادہ سے باز نہ آیا سو بیٹے نے کہا کہ اے باپ! اگر تیرا ہی ارادہ ہے کہ لوگوں کو ہلاک کرے اور کسی طرح تو ان کو نہیں بخشا اور نہ رحم کرتا ہے سو میں تمام لوگوں کے گناہ اپنی گردن پر لے لیتا ہوں سوان کو تو بخش دے اور جو تو نے عذاب دینا ہے وہ مجھے عذاب دے سو اس کلمہ سے باپ غضبناک راضی ہو گیا اور اس کے حکم سے بیٹا پھانسی دیا گیا تا گناہگاروں کو چھوڑا دے اور گناہگاروں کی طرح اس معصوم پر عذاب ہوا.یہ وہ باتیں ہیں جو عیسائی کہتے ہیں لیکن باپ سے تعجب ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو پھانسی دینے کے وقت اپنے اس قول کو بھول گیا جو توریت میں کہا تھا کہ میں اسی کو ہلاک کروں گا جو میرا گناہ کرے اور میں ایک کی جگہ دوسرے کو نہیں پکڑوں گا.سو اس نے عہد

Page 241

۲۲۳ وأخذ أحدا من المعصومين.لعله ذهل قوله السابق من كبر السن وأرذل العمر، وكان من المعمرين.والعجب من الابن أنه كان يعلم أن معشر الجن سبق الإنس في الخطأ، ولا بیٹے نے جنوں کے ينتهجون محجة الاهتداء، بل تجاوزوا الحد في شباءة الاعتداء، ثم تغافل من لئے کیا کفارہ سوچا؟ - أمر سياتهم، وما توجه إلى مواساتهم وما شاء أن ينتفع الجن من كفارته ، ويكون لهم حياة من أبارته، ونجاة من نار ابدية التي أعدت لهم.فما نفعهم إبارته ولا كفارته وكانوا يؤمنون بالمسيح كما شهد عليه الإنجيل بالبيان الصريح فكأن الابن ما دعا المذنبين إلى هذا القرى، وتقاعس كبخيل وضنين.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ومن المحتمل أن يكون للأب ابن آخر صلب لتلك المعشر ، بل من الواجبات ان باپ کا کوئی اور بیٹا ہو جو جنوں کے لئے صلیب يكون كذلك لتنجية العصاة.فإن ابنا إذا صلب لنوع الإنسان مع قلة العصيان فكم دیا گیا ہو من حري أن يُصلب ابن آخر لنوع جنّي الذى ذنبهم أكبر وأكثر، وإلا فيلزم الترجيح بلا مرجح باليقين.ويثبت بخل الأب أو بخل البنين ، ولا شك أن فكر مغفرة قوم عادين والتغافل من قوم آخرين عدول صريح وظلم مبين، بل يثبت کو توڑا اور وعدہ کے خلاف کیا اور گناہ گاروں کو چھوڑ دیا اور ایسے آدمی کو پکڑا جس پر کوئی گناہ نہیں تھا شاید وہ اپنا پہلا قول باعث بڑہاپے اور پیرانہ سالی کے بھول گیا کیونکہ معمر تھا.اور بیٹے سے یہ تعجب ہے کہ وہ خوب جانتا تھا کہ جنوں کا گروہ آدمیوں سے گناہ میں بڑھ گیا ہے اور وہ سیدھا راستہ اختیار نہیں کرتے بلکہ بے راہی کی تیزی میں حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں پھر اس نے ان کے بارے میں تغافل کیا اور ان کی ہمدردی کے لئے کچھ توجہ نہ کی اور نہ چاہا کہ اس کے کفارہ سے جن کا گروہ فائدہ اٹھاوے اور ان کو اس ابدی عذاب سے نجات ہو جو ان کے لئے تیار کیا گیا ہے سو جنوں کو اس کے مصلوب ہونے نے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچایا حالانکہ وہ اس پر ایمان لاتے تھے جیسا کہ اس پر انجیل گواہی دے رہی ہے پس گویا بیٹے نے اپنے اس کفارہ کی مہمانی کی طرف ان گنہگاروں کو نہیں بلایا اور بخیلوں کی طرح تاخیر کی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ باپ کا کوئی اور بیٹا ہو.جو جنوں کے لئے پھانسی دیا گیا ہو بلکہ یہ تو واجبات سے ہے کہ ایسا ہی ہو کیونکہ جب ایک بیٹا نوع انسان کے لئے جو تھوڑے ہیں پھانسی دیا گیا.پس کس قدر لائق ہے کہ ایک دوسرا بیٹا جنوں کے لئے پھانسی ملے جو گناہ اور تعداد کے لحاظ سے بنی آدم سے بڑھے ہوئے ہیں.ورنہ تریج بلا مرجع لازم آئے گی.اور باپ اور بیٹوں کا بخل ثابت ہو گا.اور کچھ شک نہیں کہ ایک قوم کی مغفرت کا فکر دوسری قوم سے تغافل صریح ظلم اور بجا کار وائی ہے بلکہ اس سے تو باپ کا جہل ثابت ہوتا ہے کیا اس کو معلوم نہیں تھا کہ گناہگار لوگ دو قومیں ہیں صرف ایک قوم نہیں سودو قوموں کے لئے صرف ایک بیٹے کا پھانسی دینا کافی نہیں

Page 242

۲۲۴ 197 من هذا جهل الأب المنان، أما كان يعلم أن المذنبين قومان، ولا يكفي لهم صليب ؛ بل اشتدت الحاجة إلى أن يكون ابنان وصليبان، ولا يقال أن الإبن كان واحدا.فرضى ليصلب لنوع الإنسان، وما كان ابن آخر لكفارة ابناء الجان، لأنا نقول في جوابه : ان الأب كان قادراً على أن يلد ابنا آخر.وما كان كالعاجز الحيران، فلا ريب أنه ترك الجن عمداً ، ومن النسيان ، أو ما صلب ابنا ثانيًا مخافة بتره كالجبان.ومن المحتمل أن يكون الابن الآخر أحب من الابن الأول إلى الأب التوقان.وهذا ليس بعجيب عند ذوى الأذهان، فإنه قد يتفق أن اصغر من الأبناء يكون أحب إلى الآباء.ففكر في هذه الآراء، وفي إله هو ذو بنات وبنين.وسبحانه ربنا عما يخرج من أفواه الظالمين.(نور الحق، الجزء الأول، روحاني خزائن مجلد ۸ ص ۱۰۱ (1.0..انجیل سے پایا جاتا ہے کہ شیاطین ضلالت پر مجبور ہیں اور ناپاک روحیں ہیں.اگر یہ حضرت مسیح کے ذریعہ بات صحیح نہیں تو ثابت کرو کہ حضرت مسیح کے ذریعہ سے کیس شیطان نے نجات یافتہ کس شیطان نے نجات یافتہ ہونے کی خوشخبری ہونے کی خوشخبری پائی بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ وہ ابتداء سے قاتل تھا اور شیاطین میں سچائی لم پائی؟ 192 نہیں.حضرت مسیح شیاطین کے لئے کبھی کفارہ تھے یا نہیں.اس کا کیا ثبوت ہے.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۷۹ پھر آپ فرماتے ہیں کہ اگر چہ مسیح میں اور کچھ بھی زیادتی نہیں صرف ایک انسان ہے بلکہ کافی طور پر یہ مقصد تب پورا ہو سکتا ہے کہ جب دو بیٹوں کو پھانسی دیا جاتا.یہ بات کہنے کے لائق نہیں کہ بیٹا تو صرف ایک ہی تھاوہ اس پر راضی تھا کہ وہ فقط نوع انسان کے لئے پھانسی دیا جاوے کوئی دوسرا بیٹا تو نہیں تھا کہ تا جنوں کے لئے پھانسی دیا جاتا کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ باپ اس بات پر قادر تھا کہ اس بات کے لئے کوئی اور بیٹا جنے جیسا کہ اس نے پہلا بیٹا جنا پس کچھ شک نہیں کہ اس نے جنوں کے گروہ کو عمداً عذاب ابدی میں چھوڑا اور محض بخل کی راہ سے ان کے لئے کوئی پھانسی پر نہ لٹکایا اور یہی گمان ہو سکتا ہے کہ چھوٹا بیٹا بڑے بیٹے سے زیادہ پیارا ہو اور یہ کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ کبھی یہ بھی اتفاق ہو جاتا ہے کہ چھوٹا بڑے سے باپ کو زیادہ پیارا ہوتا ہے پس اس بات میں فکر کر اور اس خدا کے بارہ میں جس کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں.اور ہمارا خدا ان باتوں سے پاک ہے جو ظالموں کے منہ سے نکلتی ہیں.

Page 243

۲۲۵ جیسے اور انسان ہیں.اور خدا تعالیٰ وہی علاقہ عام طور کا اس سے رکھتا ہے جو اوروں.سے سے رکھتا ہے لیکن کفارہ سے اور مسیح کے آسمان پر جانے سے اور اس کے بے باپ پیدا مسیح کی خصوصیت ، ہونے سے اس کی خصوصیت ثابت ہوتی ہے.اس قول سے مجھے بڑا تعجب پیدا ہوا کفارہ ، آسمان پر ہم لوگ کب اس بات کو مانتے ہیں کہ مسیح بھی اٹھا.ہاں حضرت مسیح کا جانے اور بے باپ پیدا ހ وفات پا جانا قرآن شریف کے کئی مقام میں ثابت ہے.لیکن اگر جی اٹھنے سے روحانی زندگی مراد ہے تو اس طرح سے سارے نبی جیتے ہیں مردہ کون ہے.کیا انجیل میں نہیں لکھا کہ حواریوں نے حضرت موسی اور الیاس کو دیکھا اور ایسا کہا کہ اے استاد اگر فرماویں تو آپ کے لئے جدا خیمہ اور موسیٰ کے لئے جدا اور الیاس کے لئے جدا کھڑا کیا جائے.پھر اگر حضرت موسیٰ مردہ تھے تو نظر کیوں آگئے.کیا مردہ بھی حاضر ہو جایا کرتے ہیں.پھر اسی انجیل میں لکھا ہوا ہے کہ لعاذر مرنے کے بعد حضرت ابراہیم کی گود میں بٹھایا گیا.اگر حضرت ابراہیم مردہ تھے تو کیا مردہ کی گود میں بٹھایا گیا.واضح رہے کہ ہم حضرت مسیح کی اس زندگی کی خصوصیت کو ہر گز نہیں مانتے بلکہ ہمارا یہ مذہب موافق کتاب و سنت کے ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حیات اقوئی اور اعلیٰ رکھتے ہیں اور کسی نبی کی ایسی اعلی درجہ کی حیات نہیں ہے جیسے آنحضرت صلعم کی.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۲۲ ۲۲۳ جس فدیہ کو عیسائی پیش کرتے ہیں وہ خدا کے قدیم قانون قدرت کے بالکل مخالف ہے.کیونکہ قانون قدرت میں کوئی اس بات کی نظیر نہیں کہ ادنی ابیچانے کے لئے اعلیٰ کو مارا جائے.ہمارے سامنے خدا کا قانون قدرت ہے.اس پر نظر ڈالنے سے ثابت ہوتا ہونے سے ہے 14A ہے کہ ہمیشہ ادنی اعلیٰ کی حفاظت کے لئے مارے جاتے ہیں.چنانچہ جس قدر دنیا میں کیے قانون قدرات ان کے خلاف ہے کہ اونی کو جانور ہیں یہاں تک کہ پانی کے کپڑے وہ سب انسان کے بچانے کے لئے جو اشرف بچانے کے لئے اعلی کو المخلوقات ہے کام میں آرہے ہیں.پھر یسوع کے خون کا فدیہ کس قدر اس قانون کے ملا جائے مخالف ہے جو صاف صاف نظر آرہا ہے اور ہر ایک عظمند سمجھ سکتا ہے کہ جو زیادہ قابل قدر اور پیارا ہے.اسی کو بچانے کے لئے ادنی کو اس اعلیٰ پر قربان کیا جاتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے انسان کی جان بچانے کے لئے کروڑہا حیوانوں کو بطور فدیہ کے دیا ہے.اور ہم تمام انسان بھی فطرتا ایسا ہی کرنے کی طرف راغب ہیں.تو پھر خود سوچ لو کہ

Page 244

E ۲۲۶ عیسائیوں کا فدیہ خدا کے قانون قدرت سے کس قدر دور پڑا ہوا ہے.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۷۷ جس فدیہ کو وہ پیش کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کے مخالف ہے.کیونکہ الہی قانون پر غور کر کے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ اونی، اعلی پر قربان کیا اونی اعلیٰ پر قربان کیا گیا ہے.مثلاً انسان اشرف المخلوقات اور باتفاق تمام جاتا ہے...عقلمندوں کے تمام حیوانات سے اعلیٰ ہے.سو اس کی صحت اور بقا اور پائیداری اور نیز اس کے نظام تمرین کے لئے تمام حیوانات ایک قربانی کا حکم رکھتے ہیں.پانی کے کیڑوں سے لے کر شہد کی مکھیوں اور ریشم کے کیڑوں اور تمام حیوانات بکری گائے وغیرہ تک جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو یہ سب انسانی زندگی کے خادم اور نوع انسان کی راہ میں فدیہ معلوم ہوتے ہیں.ایک ہمارے بدن کی پھنسی کے لئے بسا اوقات سوجوک جان دیتی ہے تاہم اس پھنسی سے نجات پاویں.ہر روز کروڑہا بکری اور بیل اور مچھلیاں وغیرہ ہمارے لئے اپنی جان دیتی ہیں.تب ہماری بقاء صحت کے مناسب حال غذا میسر ہوتی ہے.پس اس تمام سلسلہ پر نظر ڈال کر معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اعلیٰ کے لئے ادنی کو فدیہ مقرر کیا ہے.لیکن اعلیٰ کا ادنی کے لئے قربان ہونا اس کی نظیر خدا کے قانون قدرت میں ہمیں نہیں ملتی.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۹۵ ۹۶ عیسویت کے ابطال کے واسطے تو ایک دانا آدمی کے لئے یہی کافی ہے کہ ان کے اس اگر خدا کی روح نہیں ما را اما این عقیدہ پر نظر کرے کہ خدا مر گیا ہے.بھلا کوئی سوچے کہ خدا بھی مراکرتا ہے.اگر یہ باطل ہے کہیں کہ خدا کی روح نہیں بلکہ جسم مرا تھا تو کفارہ باطل ہو جاتا ہے.بلکہ جسم تھا تو کفارہ ملفوظات.جلد ۵ صفحه ۲۹۲ عیسائی کفارہ پر اس قدر زور دیتے ہیں حلانکہ یہ بالکل لغوبات ہے.ان کے اعتقاد کفارہ کے لئے خدا کو کے موافق مسیح کی انسانیت قربان ہو گئی مگر صفت خدائی زندہ رہی.اب اس پر یہ اعتراض قربان ہونا چاہئے تھانہ کہ مسیح کی انسانیت کو ہوتا ہے کہ وہ جو دنیا کے لئے فدا ہوا وہ تو ایک انسان تھا خدا نہ تھا.حالانکہ کفارہ کے لئے

Page 245

بموجب انہیں کے اعتقاد کے خدا کو قربان ہونا ضروری تھا مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ ایک انسانی جسم فدا ہوا اور خدا زندہ رہا.اور اگر خدا فدا ہوا تو اس پر موت آئی.ملفوظات.جلد ۱۰ صفحه ۱۲۶ اصل میں کفارہ کا عقیدہ ہی ان میں ایسا ہے کہ سارے حرام ان کے واسطے حلال ہو گئے ورنہ کفارہ باطل ہوتا ہے..٢٠٢ سیارے حرام ، حلال ہو گئے ہیں ورنہ کفارہ ملفوظات.جلد ۱۰ صفحہ ۲۴۸ باطل ہے عیسائیوں کا خدا مثل ان کی دوسری کلوں اور مشینوں کے خود اپنا ایجاد کر دہ ہے جس کا صحیفہ فطرت میں کچھ پتہ نہیں ملتا.اور نہ اس کی طرف سے انا الموجود کی آواز آتی ہے اور نہ اس نے کوئی خدائی کام دکھلائے جو دوسرے نبی دکھلا نہ سکے اور اس کی قربانی کے اثر سے ایک مرغ کی قربانی کا اثر زیادہ محسوس ہوتا ہے جس کے گوشت کی یخنی اس قربانی کا اثر سے فی الفور ایک کمزور ناتوان قوت پکڑ سکتا ہے.پس افسوس ہے ایسی قربانی پر جو ایک مرغ کی قربانی سے تاخیر میں کم تر ہے.حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲.حاشیہ فمثل قوم اتكأوا على الكفارة من كمال الجهل والغراوة..كمثل حمقي الذين كانوا من قوم متنصرين طحطح بهم قلة المال وكثرة العيال، حتى كان الفقر حصادهم، والترب مهادهم وطعامهم بعض الأفاني، وسحناء هم كالشيخ ، وكانوا من شدة بؤسهم مضطرين.فقيض القدر ليصبهم ووصبهم أن الفاني، جاءهم شيخ شخت الخلقة دقيق الشركة حقير السحنة ، وكان توجد فيه آثار پس ان لوگوں کی مثال جو کفارہ پر اپنے جہل اور نادانی کی وجہ سے تکیہ کئے بیٹھے ہیں ان لوگوں کی مانند ہے جو ایک گروہ بیوقوف عیسائیوں کا تھا اور ایسا اتفاق ہوا کہ وہ لوگ قلت مال اور کثرت عیال کی وجہ سے ایسے پریشان خاطر ہوئے کہ محتاجگی نے جس طرح کہ گھاس کاٹا جاتا ہے ان کو کاٹ دیا اور زمین ان کا بچھونا ہو گیا اور کھانا ان کا گھاس پات ہو گیا اور ان کی شکل مارے فاقوں کے بڑھوں کی سی ہو گئی اور اپنے فقر فاقہ سے وہ سخت محتاج ہوئے پس بری تقدیر نے ان کے ساتھ یہ اتفاق پیش کیا کہ ایک دبلا سا بڈھا ٢٠٣ کفارہ پر اعتقاد رکھنے والوں کی مثال

Page 246

، الخصامة والافتقار ويبين حاله الحذاء الموقع، وبلى الأطمار.فدخل وعليه بردان رثان وفي يده سبحة كسبحة الرهبان وكان سائلا معترا وشعثا مغبرا، قد لقى متربة وضرا، حتى انثنى محقوفا مصفرا ، أو كان لبسه كثير الانحراق بادي الأخرياق ، وكانت هيئته تشهد على أنه ما أصاب هلة ولا بلة ، وإن هو إلا معروق العظم ومن الصالحين.فولج حلقتهم بسوء حاله وأفانين مقاله، ليخدعهم بزخرفة محاله ، فسلم، ثم كلم وقال هل أدلكم إلى مكسب مال تنجيكم من أقلال، فتكونون ذوى املاك ورياض، وترفلون في ذيل فضفاض، وتفعمون صناديقكم كما يفعم الماء في حياض، فتصبحون متنعمين.فرغبوا من حمقهم وشدة شحهم في الأموال وقالوا ، مرحبا لك : تعال تعال ودلنا إلى هذا المنوال، وأنا نفعل كلما تأمر ، ونحضر أينما تحضر، وستجدنا من المتمثلين الشاكرين.ففرح الخدعة في قلبه على قيد الصيد وإصابة الكيد، وعرف أنهم سقطوا في شبكته، واغتروا ان کے پاس آیا جس کے مکروں کی جالی بہت ہی باریک تھی اور وہ کچھ رودار صورت نہیں تھا اور اس میں ناداری اور محتاجگی کے آثار نمایاں تھے اور اس کی پھٹی پرانی جوتی اور پرانی چادریں بتلا رہی تھی کہ کس شان کا آدمی ہے.پس وہ ان عیسائیوں کے گھر میں داخل ہوا ایسی حالت میں کہ دو پرانی چادر میں اس پر تھیں اور ایک تسبیح ہاتھ میں جیسا کہ راہبوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور دراصل وہ ایک محتاج پریشان حال تھا جو کمال محتاجگی تک پہنچ چکا تھا یہاں تک کہ وہ زرد رنگ اور خم پشت ہو گیا اور کپڑے جا بجا پھٹے ہوئے تھے جن کو وہ چھپا نہیں سکتا تھا اور اس کی صورت کہہ رہی تھی کہ ایک ادنی سی بہبودی بھی اس کو حاصل نہیں.اور وہ ایک بد بختی کی حالت میں ہے.سو اسی حالت میں وہ ان کے حلقہ میں داخل ہوا اور لگ باتیں بنانے تا کہ اپنے آراستہ کلام سے ان کو دھوکا دے سو اس نے پہلے تو سلام کیا اور پھر گفتگو شروع کی اور کہا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی آمدن کی راہ بتاوں جو تمہیں ناداری کی حالت سے نجات بخشے اور تم اس سے بڑے مال ملک والے ہو جاو گے اور تمہارے باغ ہوں گے اور فاخرانہ کپڑوں میں لٹکتے پھرو گے اور روپیہ سے اپنے صندوق اس قدر بھر لو گے کہ جس طرح حوضوں میں پانی ہوتا ہے اور بڑے مالدار ہو جاو گے.سوان ہو قوف عیسائیوں کے دل اپنی حماقت اور لالچ کی وجہ سے ایسے للچائے اور کہا مرحبا تشریف لائے اور ہمیں ایسی راہ بتائیے اور ہم وہی کریں گے جو آپ فرمائیں گے اور جس جگہ حاضر ہونے کو کہو گے حاضر ہو جائیں گے اور ہم کو آپ فرمانبردار اور شکر گزار پاو گے.پس وہ منکر یہ باتیں سن کر اپنے دل میں بہت خوش ہوا اور سمجھا کہ شکار مارا گیا اور فریب چل گیا اور وہ احمق اس کے دام میں ۲۲۸

Page 247

۲۲۹ بخديعته، وجاءوا تحت فخة بصفيره وزفرته فكلّمهم بأحاديث ملفقة وأكاذيب مزخرفة، وقال: مالي يأخذني رقة عليكم، وينوى قلبي إليكم، لعل الله قدر لكم حظا في منهلي ونزلا في منزلي، وأراد أن يجعلكم من المتمولين.وقد كنت أعلم أنكم من أكرم جرثومة وأطهر أرومة ومن أبناء بناة المجد أرباب الجد والآن أراكم بصفر اليد، فأُلْقِي في قلبي أن أرحمكم وأشفق عليكم، وأقوم لمواساتكم ودفع أفاتكم، وكذلك وقعت شيمتي، واستمرت عادتي، وخير الناس من ينفع الناس، ويعين ذوى الفاقات والمساكين.وستعجمون عود دعواي وحلاوة جناي وأني لمن الصادقين فكلوا هنيئا مريئا هذه المائدة الواردة واستقبلوا هذه الدولة الحاردة وخذوا تلك الغنيمة الباردة شاكرين.فاذهبوا سارعين مبادرين إلى بيوتكم، لتعطوا أجر قنوتكم، وأتوني بما كان عندكم من آثار مال بقى من زوال من نوع حلية من ذهب كان أو فضة، أو حلي جيرانكم وخلانكم ، ولا تتركوا شيئا منها وارجعوا مستعجلين واني أقرأ عليها پھنس گئے اور اس کے فریب میں آگئے اور اس کی سیٹی سن کر اس کے جال کے نیچے آ بیٹھے.سوور کہیں کی کہیں لگا کر جھوٹی باتیں سنانے لگا اور کہنے لگا کہ کیا سبب ہے کہ مجھ کو تم پر بڑا ہی رحم آتا ہے شاید خدا تعالیٰ نے میرے چشمہ میں تمہاری کچھ قسمت لکھی ہے.اور میرے مہمانخانہ میں تمہاری مہمانی مقدر ہے اور شاید خدا تعالیٰ نے چاہا کہ تم کو مالدار کر دے.اور مجھے پہلے سے معلوم ہے کہ تم لوگ بڑے خاندان کے آدمی اور اصیل ہو اور نیز رئیسوں کے بیٹے اور دولتمندوں کی اولاد ہو اور اب تم کو افلاس کی حالت میں دیکھتا ہوں سو میرے دل میں ڈالا گیا جو میں تم پر رحم اور شفقت کروں اور تمہاری ہمدردی کے لئے کھڑا ہو جاوں.اور اسی طرح میری عادت ہے کیونکہ نیک آدمی وہی ہوتا ہے جو لوگوں کو نفع پہنچا دے اور مسکین لوگوں کی مدد کرے.اور تم عنقریب میرے دعوی کی شاخ کا پھل آزمالو گے اور میرے پھل کی حلاوت تمہیں معلوم ہو جائے گی اور میں سچا ہوں سو تم اس کھانے کو جو اترا ہے خوب سیر ہو کر مزہ سے کھلو اور اس دولت کی طرف رخ کرو جس نے تمہاری طرف آنے کا قصد کیا اور اس مال مفت کو شکر کے ساتھ لے لو.سو اپنے گھروں کی طرف جلدی کر کے دوڑو تاکہ تم کو اس فرمانبرداری کا اجر ملے اور میرے پاس وہ سب مال لے آو جو از قسم زیور چاندی اور سونے کے تمہارے گھروں میں باقی رہ گیا ہو اور اپنے ہمسائیوں اور دوستوں کے بھی زیور لے آو اور اپنے گھروں میں کچھ بھی نہ چھوڑو اور پھر جلد واپس آجاو.اور میں ان زیوروں پر ایک منتر پڑھوں گااور چند گھنٹے وہی عمل

Page 248

كلمات كرقية، وأعكف على هذا العمل إلى بضع ساعة، فتهيج في الحلي ثورة مزية، وكل حلية تربو وتنمو ولزيادات فيها تبدو حتى تكون الحلى مائة أمثالها، وتنزل عليها بركات بكمالها، وتعجب الناظرين.ولا تعجبوا لهذا الحديث فإن فيه سِرِّكسِرِّ التثليث، فلا تسئلوني عن دلائل كفلسفين.العمل عجيب والوقت قريب، وتكونون من بعد قوما منتعمين.فاغتروا بقول الكاذب المكار، وحسبوا هذا العمل كالتثليث من الأسرار، بما لكزهم حمار الجهل الجذار، وبترهم سيف الشح البتار.فألقت في الضلالة الثانية الضلالات الأولى، وتكونت من ظلمة أخرى.فمالوا إليه كما كانوا مالوا الى عقائد المسيحيين..قالوا : ما نشق عصا أمرك، وما نلغي تلاوة شكرك ، وقد أتيتنا من الغيب كملائكة منجيين.فبادروا إلى بيوتهم في فكر قوتهم وتنضير سبروتهم، وما شكوا وما تقاعسوا ، بل كل منهم ذهب ليأتى به الذهب، وزاب ليزداب، وكانوا في سكرة حرصهم كالمجانين.فلما دخلوا ربوعهم مرحاً قالوا لأهلها : انعموا صباحا ، ثم قصوا عليهم القصة ، کرتا رہوں گاتب زیور میں ایک جوش بڑھنے کا پیدا ہو گا اور ہریک زیور پھولے گا اور بڑھے گا اور ان کا بڑھنا صاف معلوم ہو جائے گا یہاں تک کہ وہ زیور سو گنا ہو جائے گا.اور اس پر کامل برکتیں نازل ہوں گی اور دیکھنے والے تعجب کریں گے.اور اس عمل سے کچھ تعجب مت کرو کیونکہ یہ بھی ایک ایسا ہی بھید ہے جیسا کہ تثلیث کا بھید سو تم فلسفیوں کی طرح اس کے دلائل مت پوچھو.عمل عجیب ہے اور وقت قریب ہے اور تم بعد اس کے بڑے مالدار ہو جاو گے پس وہ لوگ اس فریبی کی بات پر دھوکا کھا گئے کیونکہ جہالت کا گدھا ان کو ایسی لات مار چکا تھا جو کاٹنے والی تھی اور لالچ کی تلوار ان کو دو ٹکڑے کر چکی تھی سو ایک گمراہی نے ان کو دوسری گمراہی میں ڈال دیا اور ایک اندھیرے سے دوسرا اندھیرا پیدا ہو گیا.پس اس کی طرف ایسے مائل ہو گئے جیسا کہ وہ مسیحی عقیدوں کی طرف مائل تھے.اور کہا ہم تیرے حکم کا انکار نہیں کرتے اور تیرے شکر کو ہم نہیں چھوڑیں گے.اور تو تو ہمارے لئے غیب سے ایسا اترا جیسا کہ فرشتے نجات دینے والے آسمان سے اترتے ہیں پھر وہ لوگ اپنے گھروں کی طرف دوڑے اس فکر میں کہ قوت کا سامان ہو جائے اور زمین خشک سرسبز ہو جائے اور کچھ شک نہ کیا اور نہ تاخیر کی بلکہ ہر ایک ان میں سے دوڑا تاکہ سونا لا دے اور چلنے میں جلدی کی تاکہ وہ کچھ بھار اٹھا لیوے اور اپنی حرص کے نشہ میں سودائیوں کی طرح ۲۳۰

Page 249

وهنأوهم متبسمين.فصدقوا قولهم الذين كانوا كمثلهم في الجهالة، ونظيرهم في الضلالة وكانوا يتفنون فرحين فنزعوا الحلي من أعضاء نساءهم وآذان إمائهم، وآناف بناتهم وأيدي أخواتهم، وأرجل أمهاتهم، وأشركوا في تلك التجارة نساء أصدقائهم وأزواج أحبائهم بل نسوان جيرانهم وعذارى أقرانهم، وغادر وهن كأشجار خالية من ثمار.وغادر كل أحد بيته أنقى من الراحة ، طمعا في كثرة المال وزيادة الراحة، ثم رجعوا مستبشرين ونبذوا الحلي أمام يديه فرحين.فلما رأى المكار امتلاء كيسه وانجلاء بؤسه، ورأى حمقهم وجهلهم فرح فرحاً شديدا، ووجد نفسه غنيًا صنديدا.قال: أعلم أنكم ذو حظ عظيم، ومن الفائزين، وستجتنون جنا عملكم وتعلون مطا جملكم، وتذكرونني إلى أبد الآبدين.ثم قال يا معشر الأخيار وأكباد هذه الديار ، اعلموا أن هذا العمل من الأسرار، ہو رہے تھے.اور پھر جبکہ وہ اپنے گھروں میں خوش خوش داخل ہوئے تو داخل ہو کر کہنے لگے کہ گڈ مارنگ پھر ان لوگوں کو تمام قصہ سے مطلع کیا اور ہنس ہنس کر ان کو مبارکباد دی پس ان لوگوں نے جو جہالت اور گمراہی میں ویسے ہی تھے ان کی باتوں کی تصدیق کی اور مارے خوشی کے گانے لگے.پھر ان لوگوں نے اپنی عورتوں کے اعضاء اور اپنی لونڈیوں کے کانوں اور اپنی بیٹیوں کے ناکوں اور اپنی بہنوں کے ہاتھوں اور اپنی مادوں کے پیروں سے زیور اتارے اور اس تجارت میں ان لوگوں کو بھی شریک کر لیا جو ان کے دوستوں کی عورتیں اور ان کے آشناؤں کی بیویاں تھیں بلکہ اپنے ہمسائیوں کی عورتوں اور اپنے ہم مرتبہ لوگوں کی کنواری لڑکیوں کو بھی اس تجارت میں داخل کیا اور ان عورتوں کو ایسی حالت میں چوڑا جیسا کہ درختوں سے پھل اتارا جاتا اور ہر ایک نے اپنے گھر کو ہتھیلی کی طرح صفاحٹ چھوڑا اس طمع سے کہ مال بڑھے گالور بہت آرام ہو گا پھر خوش خوش واپس آئے.اور آکر اس مکلر کے آگے تمام زیور ڈال دیا اور اس حرکت کرنے کے وقت بہت خوش تھے.پس جبکہ اس مکار نے دیکھا کہ اس کا تھیلہ بھر گیا اور سختی جاتی رہی اور یہ بھی دیکھا کہ یہ لوگ کیسے احمق اور جاہل ہیں تو بہت ہی خوش ہوا اور اپنے تیں ایک غنی رئیس کی طرح پایا کہنے لگا کہ میں جانتا ہوں کہ تم لوگ بڑے ہی خوش قسمت ہو اور ان میں سے ہو جو مراد پاتے ہیں.اور عنقریب تم اپنے عمل کا پھل چنو گے اور اپنے اونٹ پر سوار ہو گے اور ہمیشہ مجھے یاد رکھو گے.پھر کہنے لگا کہ اے نیکوں کے ٹولو اور اس ولایت کے جگر گوشو ! آپ لوگ یقیناً جانیں کہ یہ عمل اسرار میں سے ہے اور غیروں سے چھپانا اس کا واجب ہے اور اس کی

Page 250

وقد وجب إخفاءها من الأغيار، ومن أشراط هذه الرقية قراءتها في الزاوية على شاطئ الوادي عند نهر جار في البادية، وكذلك علمت من المعلمين.فهل تأذنوني أن أفعل كذا ، وأرجع إليكم بذهب كأمثال الربا، لترجعوا إلى شركائكم بمال ما رأته عين الناظرين، وسترون قناطير مقنطرة من الذهب الخالص والمال المليح، ولا ترون نظيره في التنجية إلا كفارة المسيح.ويكفي لدينكم الكفارة، ولدنياكم هذه الأمارة، فنجوتم في الدارين من تحريك اليدين ومن جهد الجاهدين قالوا: الأمر إليك، والقلب لديك، وإنك اليوم لدينا مكين أمين.قال : طوبى لكم، ستفتح عليكم أبواب المسرة، وتُعطى لكم مفاتيح الدولة، بل أعلمكم رقيتي لكيلا تضطربون عند غيبتى ، ولكي تكون لكم دولة عظمى ، وملك لا يبلى.قالوا : لا نستطيع إحصاء شكرك ، وأنك أكبر المحسنين.قال : جير ما علمت أحدا هذا العمل من قبلكم ، ولا أعلم بعدكم قومًا آخرين.فسألوا عنه هذا التخصيص وحكمة تحديد هذا التبصيص فأقسم بالاقنوم الذي يجير سر شرطوں میں سے ہے جو اس کو گوشہ خلوت میں پڑہیں کسی جنگل کے کنارہ پر اس جنگل میں جہاں نہر بھی جاری ہو اور اسی طرح مجھے استادوں نے سکھلایا ہے.اب کیا آپ لوگ اجازت دیتے ہیں کہ میں ایسا ہی کروں اور ٹیلوں کی طرح مال لے کر واپس آؤں تا تم وہ مال لے کر اپنے شریکوں کے پاس جلو جو کسی آنکھ نے نہ دیکھا ہو اور عنقریب تم ڈھیروں کے ڈھیر سونا اور خوبصورت مال دیکھو گے.اور بجز کفارہ مسیح کے نجات دینے میں اس کی کوئی نظیر نہیں پاو گے.تمہارے دین کے لئے تو کفارہ مسیح کافی ہے اور تمہاری دنیا کے لئے یہ امیری مکتفی ہے.سو تم دونوں جہانوں میں محنت اور کوشش کرنے سے آزاد ہو گئے.انہوں نے عرض کیا کہ ہم تیرے حکم کے تابع ہیں اور ہمارے دل تیرے پاس ہیں اور آج تو ہماری نظر میں بامرتبہ اور امین آدمی ہے.کہا شاباش عنقریب تم پر خوشی کے دروازے کھلیں گے اور تمہیں دولت کی کنجیاں دی جائیں گی بلکہ میں تمہیں یہ منتر بھی سکھلا دوں گا.تا میری عدم حاضری میں تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے اور تا تمہیں ایک ایسی دولت ملے جو بہت بزرگ دولت ہے اور ایک ایسا ملک ملے جس کا انتہاء نہیں انہوں نے کہا کہ ہم تیرا شکر نہیں کر سکتے تو سب احسان کرنے والوں سے بزر گتر ہے اس نے جواب دیا کہ تم یقینا سمجھو کہ یہ عمل میں نے تم سے پہلے کسی کو نہیں سکھایا اور نہ بعد تمہارے کسی کو سکھلوں گا.پس انہوں نے اس تخصیص کا بھید اس سے دریافت کیا اور اس چمک کے محدود رکھنے کی حکمت پوچھی پس اس نے اس اقنوم کی قسم کھائی جو گناہگار کو گناہ سے خلاصی بخشتا ہے کہ وہ اس عادت میں اقنوم ثانی ۲۳۲

Page 251

۲۳۳ أنه الجاني، ضاهى في هذه العادة بالاقنوم الثاني، وجعلهم كالمسيح من المتفردين.ثم شمّر ذيله ليطير كالعقاب، فغدا بإزعام، الذهاب ولا اغتداء الغراب، وقال لهم : عند القرار يا سادات الأمطار وصناديد الديار، سآتيكم إلى نصف النهار، فانتظروني قليلاً من الانتظار، ولا تأخذكم شيء من الاضطرار ؛ فإن الرقية طويلة ، والبغية جليلة، والطبيعة عليلة والمسافة بعيدة والبرودة شديدة، وما كنت ان أشق على نفسي في هذا الضعف والنحافة، وما أجد في بدني قوة قطع المسافة.وأني نبذت علق الدنيا كلها، وتركت كثرها وقلها، وما يسرني إلا ذكر المسيح رب العلمين (لعنة الله على الكاذبين).ولكني كلفت نفسي لكم بما رأيتكم من قبائل الشرفاء، ووجدتكم كأطلال الأمراء في الضراء بعد النعماء، بما تحققت المصافاة وانعقدت المودات، فهاجت رحمتي، وماجت شفقتي، وجذبني بختكم المحمود، ونجمكم المسعود فأردت أن أجعلكم كالسلاطين، وسأرجع إليكم مع الجنى الملتقط، فانتظروا سے مشابہ ہے.یعنی جیسے اقنوم عثمانی نے حضرت عیسی سے پہلے کسی اور سے تعلق نہیں کیا نہ بعد میں کرے گا ایسا ہی اس نے اس قوم سے تعلق پیدا کیا اور کہا کہ میں نے اقنوم ثانی کی طرح ہو کر تمہیں مسیح کی طرح اپنے تعلق سے خاص کر دیا ہے.پھر اس نے اپنا دامن اکٹھا کیا تا کہ عقاب کی طرح اڑ جائے پس اس نے چلے جانے کی نیت سے صبح کی ایسی صبح جو کبھی کوے نے بھی نہ کی ہو اور بھاگنے کے وقت ان کو کہنے لگا کہ اے شہروں کے سردار و اور ولایتوں کے رئیسو ! میں میں دوپہر تک تمہارے پاس آوں گاسو تم کچھ تھوڑی سی میری انتظار کرنا اور تمہیں کچھ بے قراری نہ ہو کیونکہ منتر بہت لمبا ہے اور مطلب بہت بڑا ہے اور مراد بہت بڑی ہے اور طبیعت بیمار ہے اور دور جاتا ہے اور سردی بہت پڑتی ہے اور میرا دل نہیں چاہتا کہ اس ضعف اور پیرانہ سالی میں یہ مشقت اپنے پر اٹھالوں اور میرے بدن میں یہ قوت بھی نہیں کہ اتنی دور جاسکوں اور میں دنیا کے تمام علاقے چھوڑ بیٹھا ہوں اور مجھے بجز اس کے کچھ اچھا کھائی نہیں دیتا جو مسیح کا ذکر کرتا رہوں جو رب العالمین ہے.مگر میں نے تمہارے لئے یہ کلفت اٹھائی کیونکہ میں نے شریف قبیلوں میں سے تمہیں پایا اور میں نے دیکھا کہ تم امیروں کے باقیماندہ نشان اور بعد نعمت کے سختی میں پڑے ہو اور اس لئے بھی کہ ہم میں بہت پیار ہو گیا ہے اور دوستانہ ربط ہو چکا ہے.سو میری رحمت اور شفقت تمہارے لئے اٹھی اور موجزن ہوئی اور تمہارے طالع محمود اور نیک ستارہ نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا سو میں نے چاہا کہ تمہیں بادشاہ کی طرح بنا دوں اور میں عنقریب تازہ چنا ہوا میوہ لے کر تمہارے پاس آوں گا سوارزومند دل کے ساتھ میرے منتظر رہو عنقریب تم سونے اور چاندی

Page 252

بالقلب المغتبط، سترون بيضاء وصفراء، كحليلة جميلة زهراء، وأوافيكم كالمبشرين المستبشرين.، فذهب وتركهم مغبونين.فما فهموا أنه غرّ وطلب المغر، وفرحوا بتصور حصول المراد، ولبثوا يرقبونه رقبة أهلة الأعياد وينتظرونه انتظار أهل الوداد متنافسين، إلى أن تلبسته الشمس كالمتندمين ،نقابها، وسوّدت كالمحزونين ثيابها، وألغت كالمخذولين حسابها واختفت بوجه مصفر كالمنهوبين.فلما طال أمد الانتظار، وتجاوز الوقت من موعد المكار، وأضاعوا في رقبة الزمان، وبان أن الرجل قد مان نهضوا كالمجانين وسعوا إلى كل طرف مفتشين ، 6 وعدوا إلى اليمين واليسار مرتدعين بتصور الحلي الكبار، وفكر هتك الأستار.فلما استيئسوا منه كالثكلى سقطوا كالموتى، وأكبوا على وجوههم باكين، وعرفوا أنهم قد خُدِعوا ، بل جدعوا ، ومن القوم قدعوا فضربوا على خدودهم قائلين : يا ويلنا إنا كنا منهوبين مخدوعين.ثم ألقوا على رؤوسهم غبار الصحراء.وصعدت صرخهم إلى السماء، وجمعوا الناس حولهم من شدة الجزع والفزع والبكاء، کے ایسے جلوہ کو دیکھو گے جیسے کہ ایک خوبصورت عورت سامنے آجاتی ہے.سو اس نے یہ کہا اور چلا گیا اور ان کو ٹوٹے میں چھوڑ گیا.سوانہوں نے نہ سمجھا کہ دھوکا دے گیا اور بھاگ گیا اور مراد ملنے کے تصور میں وہ خوش ہوئے اور اسی جگہ ٹھہر کر ایسے طور سے اس کی انتظار کرتے رہے جیسا کہ عید کے چاند کی انتظار کی جاتی ہے اور جیسا کہ دوست دوست کا منتظر ہوتا ہے یہاں تک کہ سورج نے شرمندوں کی طرح اپنا منہ چھپالیا اور ماتم زدہ اور سخت غمناک لوگوں کی طرح سیاہ کپڑے پہن لئے اور اپنے وجود کو دہو کا کھانے والوں کے مال کی طرح حساب سے نظر انداز کر دیا اور منہ زرد کے ساتھ ایسا چھپا جیسا کہ وہ لوگ زرد رنگ ہو جاتے ہیں جن کے مال لوٹے جاتے ہیں پس جبکہ انتظار کا زمانہ لمبا ہو گیا اور اس مکار کے وعدہ سے وقت بڑھ گیا اور جبکہ بہت سا وقت انہوں نے انتظار میں ضائع کیا اور کھل گیا کہ وہ آدمی تو جھوٹ بول گیا تو سودائیوں کی طرح اٹھے اور ہر یک طرف تلاش کرتے ہوئے دوڑے اور دائیں بائیں طرف دوڑتے ہوئے گئے اور بڑے زیوروں کا خیال کیا اور پردہ دری کا بھی فکر تھا پس جبکہ اس کے ملنے سے زن و فرزند مردہ کی طرح تو امید ہو گئے تو روتے ہوئے اپنے مونہوں پر گرے اور سمجھ گئے کہ ہمیں دھو کا دیا گیا بلکہ ہمارا ناک کاٹا گیا اور قوم سے ہم ہٹائے گئے تب انہوں نے اپنی گالوں پر یہ کہتے ہوئے طمانچے مارے، ہم پر واویلا ہم تو لوٹے گئے دھوکا دئے گئے پھر انہوں نے اپنے سروں پر جنگل کا گھٹا ڈال لیا اور ان کی فریاد آسمان تک پہنچ گئی تب قوم ان کے پاس دوڑتی ہوئی آئی اور انہوں نے اس بلا ۲۳۴

Page 253

۲۳۵ فجاءهم القوم مهرعين.فسألوا عن بلاء نزل، وجرح ابتزل، وعن مصيبة مذيبة للقلوب وداهية مهيجة للكروب، واستقروا من تفاصيل المصيبة وكيفية القصة.فعافوا أن يبينوا خوفا من طعن الناس والخزي بين العوام والخواص، ومع ذلك كانوا صارخين.فقال القوم : مالكم لا ترقى دمعكم ، ولا تسكن زفرتكم ! أظلمتم من قوم عادين؟ لم تسترون الحقيقة، وتزيدون الكربة؟ ألا ترون إلى لوعة كرب المحبين فصاحوا صيحة المغبون، واستحيوا من إظهار الكمد المكنون.ثم بينوا القصة وأبدوا الغُصة وما كادوا أن يبينوا ولكن عجزوا عن إصرار المصرين.فلامهم كل أحد من العقلاء، ومطرت من كل جهة سهام العذلاء، فنكسوا رؤوسهم متندمين.وقال المعيرون : يا معشر الحمقاء وائمة الجهلاء، ألستم علمتم أنه جاءكم فقير بادي الخذلان وعليه بُردان رثان كالعثان ، فمن كان في امطار كيف يهبكم رياش أفخار، وينجيكم من أسر أوطار أما رأيتم عليه أثر الإفلاس.فكيف شغفتم به ؟ أكنتم أنعاما أو من الناس.ثم كانت هذه الخرافات سے جو نازل ہوئی اور اس زخم سے جس کا شگوفہ نکلا اور اس مصیبت سے جس نے دلوں کو گلایا اور اس حادثہ سے جس نے بے قراری پیدا کی دریافت کیا اور مصیبت کی تفصیل دریافت کی اور اس قصہ کی کیفیت پوچھی سو انہوں نے بیان کرنے سے دل چرایا کیونکہ وہ لوگوں کے لعن طعن اور خاص و عام میں رسوا ہونے سے ڈرے مگر باوجود اس کے فریاد کر رہے تھے.پس قوم نے کہا کیا سبب کہ تمہارے آنسو نہیں تھمتے اور تمہاری چینیں کم نہیں ہوتیں کیا تم پر کسی ظالم نے ظلم کیا کیوں تم حقیقت کو چھپاتے اور اپنے دوستوں کی بے قراری کو زیادہ کرتے ہو.پس انہوں نے پھر ایک شیخ ماری جو ایک زباں رسیدہ مارتا ہے اور چھپے ہوئے غم کے ظاہر کرنے سے شرم کی پھر قصہ کو کھول دیا اور غصہ ظاہر کر دیا اور نہیں چاہتے تھے کہ ظاہر کریں لیکن اصرار کرنے والوں کے اصرار سے عاجز آگئے.پس ہر یک عظمند نے ان کو ملامت کی اور ملامت کرنے والوں کے ہر یک طرف سے تیر بر سے.پس انہوں نے شرمندہ ہو کر سر جھکا لئے اور ملامت کرنے والوں نے کہا کہ اے احمقو اور جاہلوں کے پیشواو ! کیا تمہیں معلوم نہیں تھا کہ ایک محتاج تمہارے پاس آیا جس کی بے عزتی کھلی کھلی تھی اور اس پر پرانی چادر میں دھوئیں کی طرح تھی سو جو شخص آپ ہی پرانی چادر میں رکھتا تھا وہ تمہیں لباس فاخرہ کہاں سے دیتا اور کیونکر تمہاری حاجت روائی کرتا کیا تم نے افلاس کے آثار اس میں نہیں پائے تھے پھر کیوں تم اس کے فریفتہ ہو گئے کیا تم چار پائے تھے یا ادمی تھے.پھر قطع نظر اس سے یہ باتیں بھی از

Page 254

بعيدة من قانون القدرة وخارجة من السنن المستمرة فكيف قبلتموها ، وقائلها إن كنتم عاقلين.وكيف نسيتم تجارب الحكماء ! أكنتم أنعاماً أو كنشوان الصهباء مخمورين وكيف ظننتم أنه صدوق أمين، مع أنه خالف الصادقين أجمعين! أما رأيتم أطماره، أما شهدتم إزاره، أما سمعتم من قبل قصص المكارين.فلا تلوموا أحدا ، ولوموا أنفسكم.إنكم قد أهلكتم نسوانكم وإخوانكم وخلانكم وجيرانكم.فليبك على فهمكم من كان من الباكين.هذا مثل المسيحيين وكفارتهم، وجهلهم وغرارتهم.وما قلنا إلا نصاحة الله لقوم جاهلين.ولكن المسيح والصالحين من أصحابه مبرءون من ذلك المثل وخطابه ، وما نتوجه إلا إلى الخائنين الذين سيرتهم سيرة السرحان، ولبسهم لبوس الرهبان.وقد تبين انكفاؤهم وبرح ليلاءهم وتبين أنهم من الضالين المضلين.ومن وقاحتهم أنهم مع جهلهم يصولون على الإسلام، ويضلون طوائف الأنام...يشيعون أنواع الآثام وكانوا قوما دجالين.فليندموا على بادرة الاعتقاد وليخافوا قبیل خرافات اور قانون قدرت سے بعید تھیں اور خدا تعالی کی سنت مستمرہ سے دور تھیں پس اگر تم عظمند تھے تو کیوں اس شخص کو اور اس کی باتوں کو قبول کر لیا ؟ اور کیونکر تم نے حکیموں کے تجارب کو فراموش کر دیا کیا تم چار پائے تھے یا شراب میں مست تھے اور تم نے کیونکر جانا کہ وہ صادق اور امین ہے حالانکہ اس نے تمام صادقوں کے بر خلاف بات کہی کیا تم نے اس کی پرانی چادر میں نہ دیکھیں کیا تم نے مکاروں کے قصے نہیں سنے تھے سو تم اپنے آپ کو ملامت کرو نہ کسی دوسرے کو تم نے اپنی بیویوں اور اپنے بھائیوں اور اپنے دوستوں اور اپنے ہمسائیوں کو ہلاک کر دیا پس چاہئے کہ ہر یک رونے والا تمہاری سمجھ پر رووے.یہ عیسائیوں اور ان کے کفارہ کی مثال ہے اور ان کی نادانی کا نمونہ ہے اور ہم نے محض اللہ نادانوں کے لئے یہ نصیحت بیان کی ہے.مگر مسیح اور اس کے نیک اصحاب اس تمثیل سے مبرا ہیں اور ہمارا خطب صرف ان خیانت پیشہ لوگوں کی طرف ہے جن کی خصلت بھیڑیے کی خصلت اور لباس راہبوں کا لباس ہے اور ان کی برگشتگی اور ان کی رات کی سختی ظاہر ہو چکی ہے اور ظاہر ہو چکا ہے کہ وہ گمراہ اور باطل پرست ہیں.اور ان کی کمال بے شرمی ہے کہ باوجود اپنی نادانی کے اسلام پر حملہ کرتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور انواع اقسام کے گناہوں کو پھیلا رہے ہیں اور وہ دجال قوم ہے پس چاہیئے کہ اپنی جلدی کے اعتقاد سے پشیمان ہوں اور اپنے آخرت کے ٹوٹے سے ڈریں اور میں تو ایک ۲۳۶

Page 255

المعاد، خسرانهم يوم د، وما أنا إلا نذير من رب العالمين.(نور الحق، الجزء الأول، روحاني خزائن مجلد ۸ ص۱۰۷..۱۱۹) ڈرانے والا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں.نور الحق.حصہ اول.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۰۷ تا ۱۱۹ ۲۳۷

Page 256

۲۳۸

Page 257

باب ششم حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت نجات و ہجرت وجعلنا ابن مريم وأمه مايه و اونهما إلى ربوزنَاتِ قَرارِ وَ مَعِينٍ لَهُمَا سورة المومنون

Page 258

میں نے کامل تحقیقات کے ساتھ یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا.اصل یہ ہے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اتار لیا گیا تھا اور وہاں سے بچ کر وہ کشمیر میں چلا آیا.جہاں اس نے ۱۲۰ برس کی عمر میں وفات پائی اور اب تک اس کی قبر خانیار کے محلہ میں یوز آسف یا شہزادہ نبی کے نام سے مشہور ہے.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۰۷

Page 259

۲۴۱ عیسائی مذہب پر غلبہ پانے کا بجز حضرت مسیح کی طبعی موت ثابت کرنے کے اور صلیبی موت کے خیال کے جھوٹا ثابت کرنے کے اور کوئی طریق نہیں.سو یہ خدا نے بات پیدا کر دی ہے نہ ہم نے کہ مکمل صفائی سے ثابت ہو گیا کہ حضرت مسیح صلیب سے عیسائی مذہب پر غلبہ جان بچا کر کشمیر میں آگئے تھے اور وہیں فوت ہوئے.یہ وہ اعلیٰ درجہ کا ثبوت ہے جیسا پانے کا طریق کہ آفتاب کا آسمان پر چمکنا.تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۲۹ ۲۰۵ بر ہے حضرت محی علیہ السلام میں نے ایک کتاب لکھتی ہے جس میں میں نے کامل تحقیقات کے ساتھ یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا.اصل یہ ہے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اتار لیا گیا تھا اور وہاں سے بچ کر وہ کشمیر میں چلا آیا.جہاں اس نے ۱۲۰ برس کی عمر کی صلیب سے نجات پیچ کرو میں وفات پائی اور اب تک اس کی قبر خانیار کے محلہ میں یوز آسف یا شہزادہ نبی کے نام سے اور پھر ہجرت کا جمالی مشہور ہے.اور یہ بات ایسی نہیں ہے جو محکم اور متحکم ودلائل کی بناء پر نہ ہو بلکہ صلیب کے جو واقعات انجیل میں لکھتے ہیں خود ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا.سب سے اول یہ ہے کہ خود مسیح نے اپنی مثال یونس سے دی ہے.کیا یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ داخل ہوئے تھے یا مر کر.اور پھر یہ کہ پیلاطوس کی بیوی نے ایک ہولناک خواب دیکھا تھا.جس کی اطلاع پیلاطوس کو بھی اس نے کر دی اور وہ اس فکر میں ہو گیا کہ اس کو بچایا جاوے اور اسی لئے پیلاطوس نے مختلف پیرایوں میں مسیح کے چھوڑ دینے کی کوشش کی اور آخر کار اپنے ہاتھ دھو کر ثابت کیا کہ میں اس سے بری ہوں.اور پھر جب یہودی کسی طرح مانے والے نظر نہ آئے تو یہ کوشش کی گئی کہ جمعہ کے دن بعد عصر آپ کو صلیب خاکہ

Page 260

دی گئی.اور چونکہ صلیب پر بھوک پیاس اور دھوپ وغیرہ کی شدت سے کئی دن رہ کر کمی مصلوب انسان مرجایا کرتا تھا وہ موقع مسیح کو پیش نہ آیا کیونکہ یہ کسی طرح نہیں ہو سکتا تھا کہ جمعہ کے دن غروب ہونے سے پہلے اسے صلیب پر سے نہ اتار لیا جاتا.کیونکہ یہودیوں کی شریعت کی رو سے یہ سخت گناہ تھا.کہ کوئی شخص سبت یا سبت سے پہلے رات صلیب پر رہے.مسیح چونکہ جمعہ کی آخری گھڑی صلیب پر چڑھایا گیا تھا.اس لئے آندھی وغیرہ کے پیش آجانے سے فی الفور اتار لیا گیا.پھر دو چور جو مسیح کے ساتھ صلیب پر لٹکائے گئے تھے ان کی ہڈیاں تو توڑ دی گئی تھیں مگر مسیح کی ہڈیاں نہیں توڑی گئی تھیں.پھر مسیح کی لاش ایک ایسے آدمی کے سپرد کر دی گئی جو مسیح کا شاگر د تھا اور اصل تو یہ ہے کہ خود پیلاطوس اور اس کی بیوی بھی اس کی مرید تھی.چنانچہ پیلاطوس کو عیسائی شہیدوں میں لکھا ہے اور اس کی بیوی کو ولیہ قرار دیا ہے.اور ان سب سے بڑھ کر مرہم عیسی کا نسخہ ہے جس کو مسلمان یہودی، رومی اور عیسائی اور مجوسی طبیبوں نے بالاتفاق لکھا ہے کہ یہ مسیح کے زخموں کے لئے تیار ہوا تھا اور اس کا نام مرہم عیسی، مرہم حواریین سل اور مرہم شیدنی و غیرہ بھی رکھا.کم از کم ہزار کتاب میں یہ نسخہ موجود - اور یہ کوئی عیسائی ثابت نہیں کر سکتا.کہ صلیبی زخموں کے سوا اور بھی کبھی کوئی زخم تھے.اور اس وقت حواری بھی موجود تھے.اب بتاؤ کہ کیا یہ تمام اسباب اگر ایک جا جمع کئے جاویں.تو صاف شہادت نہیں دیتے کہ مسیح صلیب پر زندہ بچ کر اتر آیا یہودیوں کے جو فرقے متفرق ہو کر افغانستان یا کشمیر میں آگئے تھے اور مرہم ر تھا.وہ ان کی تلاش میں ادھر چلے آئے.اور پھر کشمیر ہی میں انہوں نے وفات پائی.اور یہ بات انگریز محققوں نے بھی مان لی ہے کہ کشمیری در اصل بنی اسرائیل ہیں.چنانچہ بر نیر نے اپنے سفر نامہ میں یہی لکھا ہے.اب جب کہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مرے بلکہ زندہ اتر آئے تو پھر کفارہ کا کیا باقی رہا.ب عجیب تری بات ہے کہ عیسائی جس عورت کی شہرت پر سچ کو آسمان پر چڑہاتے ہیں وہ خود ایک اچھتے چال چلن کی عورت نہ تھی.ملفوظات.جلد ۳ صفحہ ۷ ۱۰ ، ۱۰۸ نیز دیکھیں.راز حقیقت.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۵۸ تا ۱۶۱- حاشیہ ۲۴۲

Page 261

۲۴۳ سچائی کے لئے کھیلاب میں چونکہ مسیح موعود ہوں اس لئے حضرت مسیح کی عادت کا رنگ مجھ میں پایا جانا ضروری ہے.حضرت مسیح علیہ السلام وہ انسان تھے جو مخلوق کی بھلائی کے لئے صلیب پر چڑھے.گو خدا کے رحم نے ان کو بچالیا.اور مرہم عیسی نے ان زخموں کو اچھا کر کے آخر کشمیر جنت نظیر میں ان کو پہنچا دیا.سو انہوں نے سچائی کے لئے صلیب سے پیار سے پیار کیا.اور اس طرح اس پر چڑھ گئے جیسا کہ ایک بہادر سوار خوش عنان گھوڑے پر چڑھتا ہے.سو ایسا ہی میں بھی مخلوق کی بھلائی کے لئے صلیب سے پیار کرتا ہوں.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جس طرح خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم نے حضرت مسیح کو صلیب سے بیچالیا.اور ان کی تمام رات کی دعا جو باغ میں کی گئی تھی قبول کر کے ان کو صلیب کے نتیجوں سے نجات دی.ایسا ہی مجھے بھی بچائے گا.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۹۹ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو حضرات عیسائیاں انجیلوں کے حوالہ سے یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی کے اس واقعہ کو یونس کے واقعہ اور اسحاق کے واقعہ سے مشابہت تھی پھر یسوع کے اور پھر آپ ہی اس مشابہت کے برخلاف عقیدہ رکھتے ہیں.کیا وہ ہمیں بتلا سکتے ہیں کہ واقعہ کا مکان کے واقعہ یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں مردہ ہونے کی حالت میں داخل ہوا تھا اور مردہ ہونے کی سے کیا مشابہت ہے حالت میں اس کے اندر دو یا تین دن تک رہا.پس یونٹ سے یسوع کی مشابہت کیا ہوئی.زندہ کو مردے سے کیا مشابہت ؟ اور کیا حضرات عیسائیاں ہمیں بتلا سکتے ہیں کہ اسحاق "حقیقت میں ذبح ہو کر پھر زندہ کیا گیا تھا.اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یسوع کے واقعہ کو اسحاق " کے واقعہ سے کیا مشابہت ؟ حقیقت الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۲ اصل فلاسفی اس مسئلہ میں یہ ہے کہ کوئی نبی نبیوں میں سے خدا کا پیارا نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی ولی ولیتوں میں سے اس کا محبوب ٹھہر سکتا ہے جب تک کہ ایک مرتبہ موت کا نہیوں اور ولیوں پر خوف یا موت کے مشابہ اس پر ایک واقعہ وار دنہ ہوئے.اور اسی پر سنت اللہ قدیم سے مرتبہ موت کے خوف کی وجہ جاری ہے.جب ابراہیم آگ میں ڈالا گیا تو کیا یہ نظارہ صلیب کے واقعہ سے کم تھا؟ اور جب اس کو حکم ہوا کہ تو اپنے پیارے فرزند کو اپنے ہاتھ سے ذبح کر تو کیا یہ واقعہ ابراہیم کے

Page 262

۲۴۴ لئے اور اس کے اس فرزند کے لئے جس پر چھری چلائی گئی سولی کی دہشت سے کچھ کم درجہ پر تھا ؟ اور یعقوب کے خوف کا وہ نظارہ جب کہ اس کو سنایا گیا کہ تیرا پیارا فرزند یوسف بھیڑیے کا لقمہ ہو گیا اور اس کے آگے یوسف کا مصنوعی طور پر خون آلود کرتہ ڈال دیا گیا اور پھر مدت در از تک یعقوب کو ایک مسلسل غم میں ڈالا گیا.کیا یہ نظارہ بھی کچھ کم تھا؟ اور جب یوسف کو مشکیں باندھ کر کوئیں میں پھینکا گیا توکیا یہ درد ناک نظارہ اس نظارہ سے کچھ کم تھا جب مسیح کو صلیب پر چڑہایا گیا ؟ اور پھر کیا نبی آخر الزمان کی مصیبت کا وہ نظارہ کہ جب غار ثور کا ننگی تلواروں کے ساتھ محاصرہ کیا گیا کہ اس غار میں وہ شخص ہے جو نبوت کا دعوی کرتا ہے.اس کو پکڑو اور قتل کرو.تو کیا یہ نظارہ اپنی رعب ناک کیفیت میں صلیبی نظارہ سے کچھ کم تھا؟ اور کیا ابھی اسی زمانہ کا یہ نظارہ کہ جب ڈاکٹر مارٹن کلارک نے سٹیل مسیح پر جو یہ عاجز ہے اقدام قتل کا ایک جھوٹا دعوی کیا.اور تینوں قوموں ہندوؤں اور مسلمانوں اور عیسائیوں میں سے سر بر آوردہ علماء کوشش کرتے تھے کہ یہ سزا پاوے.تو کیا یہ نظارہ مسیح کے صلیبی نظارہ سے کچھ مشابہت نہیں رکھتا تھا؟ پس سچ بات یہ ہے کہ ہر ایک جو خدا کے پیار کا دعوی کرتا ہے ایک وقت میں ایک حالت موت کے مشابہ ضرور اس پر آجاتی ہے.سو اسی سنت اللہ کے موافق مسیح پر بھی وہ حالت آگئی.مگر جتنی نظیریں ہم نے پیش کی ہیں وہ گواہی دے رہی ہیں کہ ان تمام نبیوں میں سے ایسے امتحان کے وقت کوئی بھی نبی ہلاک نہیں ہوا.آخر قریب موت پہنچ کر جب کہ ان کے روحوں سے ایلی ایلی لما سبقتنی کا نعرہ نکلا.تب یک مرتبہ خدا کے فضل نے ان کو بچالیا.پس جس طرح ابراہیم آگ سے اور یوسف کوئیں سے اور ابراہیم کا ایک پیارا بیٹا ذبیح سے اور اسماعیل پیاس کی موت سے بچ گیا.اسی طرح مسیح بھی صلیب سے بچ گیا.وہ موت کا حملہ ہلاک کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ ایک نشان دکھلانے کے لئے تھا.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۲۱، ۵۲۳ اب تک عیسائیوں اور یہودیوں کا یہی حال ہے کہ کوئی ان میں سے قسم کھا کر اور عیسائیوں اور سود ہوں اپنے نفس کے لئے بلا اور عذاب کا وعدہ دے کر نہیں کہہ سکتا کہ مجھے در حقیقت یہی سے متعلق عدم یقیں یقین ہے کہ بی بیچ مسیح قتل کیا گیا.یہ شکوک اسی وقت پیدا ہو گئے تھے اور پولس نے اپنی کا حضرت مسیح کے قتل

Page 263

۲۴۵ چالاکی سے کوشش بھی کی کہ ان شکوک کو مٹاوے مگر وہ اور بھی بڑہتے گئے.چنانچہ پولس نے بعض خطوط سے صاف ظاہر ہوتا ہے مسیح صلیب پر سے اتارا گیا تو اس کے زندہ ہونے پر ایک اور پختہ ثبوت یہ پیدا ہو گیا کہ اس کی پہلی کے چھیدنے سے فی الفور اس میں سے خون رواں ہوا.یہودی اپنی شتاب کاری کی وجہ سے اور عیسائی انجیل کی رو نداد موجودہ کے لحاظ سے اس شک میں شریک ہیں.اور کوئی عیسائی ایسا نہیں جو انجیل پر غور کرے اور پھر یقینی طور پر یہ اعتقاد رکھے کہ سچ سچ مسیح صلیب کے ذریعہ فوت ہو گیا بلکہ ان کے دل آج تک شک میں پڑے ہوئے ہیں اور جس کفارہ کو وہ لئے پھرتے ہیں اس کی ایسے ریگ کے تودہ پر بناء ہے جس کو انجیل کے بیانات نے ہی برباد کر دیا ہے.ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۹۷ ٢١ جانتا چاہیے کہ اگر چہ عیسائیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ہو ا ا کر لوٹی کی شرارت سے گرفتار ہو کر مصلوب ہو گئے اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے لیکن انجیل شریف صلیب سے نجات کے پر غور کرنے سے یہ اعتقاد سراسر باطل ثابت ہوتا ہے منی با آیت.ہم میں لکھا ہے کہ بلدہ نہیں ایک جامع جیسا کہ یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندہ رہے گا.اب ظاہر ہے کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں مرا نہیں تھا.اور اگر زیادہ سے زیادہ کچھ ہوا تھا تو صرف بیہوشی اور ششی تھی.اور خدا کی پاک کتابیں یہ گواہی دیتی ہیں کہ یونس خدا کے فضل سے مجھلی کے پیٹ میں زندہ رہا اور زندہ نکلا.اور آخر قوم نے اس کو قبول کیا.پھر اگر حضرت میں علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں مرگئے تھے تو مردہ کو زندہ سے کیا مشابہت اور زندہ کو مردہ سے کیا مناسبت ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چونکہ مسیح ایک نبی صادق تھا اور جانتا تھا کہ وہ خدا جس کا وہ پیارا تھا لعنتی موت سے اس کو بچائے گا.اس لئے اس نے خدا سے الہام پا کر پیشگوئی کے طور پر یہ مثال بیان کی تھی.اور اس مشکل میں جس نے دیا تھا کہ وہ صلیب پر نہ مرے گا.اور نہ محنت کی لکڑی پراسس کی ے کا تب کی غلطی سے پہلے ایڈیشن میں مچھلی لکھا گیا ہے.اصل میں زمین ہے.شمس ) بیان

Page 264

جان نکلے گی.بلکہ یونس نبی کی طرح صرف خوشی کی حالت ہوگئی.اور مسیح نے اس مثال میں یہ بھی اشارہ کیا تھا کہ وہ زمین کے پیٹ سے نکل کر پھر قوم سے ملے گا.ار یونس کسی قوم میں عزت پائیگا سو یہ پیشنگوئی بھی پوری ہوئی.کیونکہ مسیح زمین کے پیٹ میں سے نکل کر اپنی ان قوموں کی طرف گیا جو کشمیر اور تبت وغیرہ مشرقی ممالک میں سکونت رکھتی تھیں یعنی بنی اسرائیل کے وہ دنی فرقے جن کو شالمندر شاہ اسور سامر یہ سے سیج سے سات سو اکیس برس پیشتر مسیر کرکے لے گیا.آخر وہ ہندوستان کیطرف آکر اس ملک کے منتطرق مقامات میں سکونت پذیر ہوگئے تھے او ضرور تھاکہ سی اس سفر کو اختیار کرتا کیونکہ خدا تعالی کی رو سے یہی اسکی نبوت کی علت غائی تھی کہ وہ ان گمشدہ یہودیوں کو ملتا ہو ہندوستان کے مختلف مقامات میں سکونت پذیر ہو گئے تھے.وجہ یہ کہ درحقیقت وہی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیں تھیں جنہوں نے ان ملکوں میں آکر اپنے باپ دادے کا مذہب بھی ترک کردیا تھا اور اکثر انکے بدھ مذہب میں داخل ہوگئے تھے.اور پھر رفتہ رفتہ بت پرستی تیک وبت پہنچی تھی.چنانچہ ڈاکٹر برنر نے بھی اپنی کتاب وقائع سیر و سیاحت میں کئی اہل علم کے والد سے بیان کیا ہے کہ کشمیر کے باشندے در اصل یہودی ہیں کہ جو فرقہ شاہ اسور کے ایام میں اس ملک میں آگئے تھے؟ بہر حال حضرت سیح علیہ السلام کیئے یہ ضرور تھاکہ ان گمشدہ بھیڑوں کو تلاش کرتے جو اس ملک ہند میں اگر دوسری قوموں میں مخلوط ہوگئی تھیں.چنانچہ آگے چل کر ہم اس بات کا ثبوت دینگے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فی الواقع اس ملک ہند میں آئے اور پھر منزل منزل کشمیر یں پہنچے اور اسرائیل کی گشدہ بھیڑوں کا بدھ مذہب میں پتہ لگا لیا.اور انہوں نے آخر اسکو اسی طرح قبول کیا جیسا کہ اونس کی قوم نے یونس کوقبول کیا تھا.اورضرور تھا کہ ایساہوتا کیونکی انجیل میں اپنی زبان سے اس بات کو بیان کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کے لئے بھیجا گیا ہے.ماسوا اس کے صلیب کی موت سے نجات پانا اسکو اسلئے بھی ضروری تھا کہ مقدس کتاب یں لکھا ہے کہ جو کوئی کاٹھ پر لٹکایا گیا سولعنتی ہے.اور لعنت کا ایک ایسا مفہوم ہے کہ و عیسی اور انکے سوا اور مہوری بھی بابلی حوادث سے مشرقی بلاو کی طرف جلا وطن ہوئے.منہ ا دیکھو جلد دوم واقعات سیر و سیاحت ڈاکٹر بر نیر فرانسیسی ۲۴۶

Page 265

۲۴۷ میسی جیسے برگزیدہ پر ایک دم ک لئے بھی تجویز کرنا سخت ظلم اور نا انصافی ہے کیونکہ اتفاق تمام اہل زبان لعنت کا مفہوم دل سے تعلق رکھتا ہے.اور اس حالت میں کسی کو محون کہا جائیگا.جب کہ حقیقت میں اُس کا دل خدا سے برگشتہ ہو کر سیاہ ہو جائے اور خدا کی رحمت سے بے نصیب اور خدا کی محبت سے بے بہرہ اور خدا کی معرفت سے بکلی تهیدست اور خالی اور شیطان کی طرح اندھا اور بے بہرہ ہوکر گمراہی کے زہر سے بھرا ہوا ہو اور خدا کی محبت اور معرفت کانور ایک ذرہ اس میں باقی نہ رہے اور تمام تعلق مہر و خاک ٹوٹ جائے اور اس میں اور خدا میں با ہم بعض اور نفرت اور کراہت اور عداوت پیدا ہو جائے.یہانتک کہ خدا اس کا دشمن اور وہ خدا کا دشمن ہو جائے اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے بیزار ہو جائے.خوش ہر ایک صفت میں شیطان کا وارث ہو جائے اور اسی وجہ سے لعین شیطان کا نام ہے یا اب ظاہر ہے کہ ملعون کا مفہوم ایسا پلید اور ناپاک ہے کہ کسی طرح کسی راستباز پر جوکہ اپنے دل میں خدا کی محبت رکھتا ہے صادق نہیں آسکتا.افسوس کہ عیسائیوں نے اس اعتقاد کے ایجاد کرنے کے وقت لعنت کے مفہوم پر غور نہیں کی ورنہ ممکن نہ تھا کہ وہ لوگ ایسا خراب لفظ مسیح جیسے راستباز کی نسبت استعمال کر سکتے کیا ہم کہ سکتے ہیںکہ مسیح پر بھی ایسا زمانہ آیا تھا کہ اس کال ترقیافت خدا سے برگشتہ اور خدا کا منکر اور خدا سے بیزار اور خدا کادشمن ہوگیا تھا یا ہم گمان کرسکتے ہیں کہ کسی کے دل نے کبھی یہ محسوس کیا تھا کہ وہ اب خدا سے برگشتہ اورخدا کا ایم اور کفر و انکار کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے؟ پھر گر مسح کے دل پر کبھی ایسی حالت نہیں آئی بلکہ وہ ہمیشہ محبت اور عرفی کے نو سے بھرا رہاتو ے دانشمند و ایہ سوچنے کا مقام کی کون یہی کہتے ہیں کسی کے دل پر نہ ایک لعنت بلکہ ہزاروں خدائی لعنتیں اپنی کیفیت کے ساتھ نازل ہوئی تھیں.معاذ اللہ ہرگز نہیں.توپھرہم کیونکر کر سکتے ہیں کہ نعوذ باللہ وہ لعنتی ہوا؟ یہ کیسی نجات کی خواہش ہے میں سے ایک سچائی کا خون کیا جاتا اور ایک پاک نبی اور کامل انسان کی نسبت یہ اعتقاد کیا جاتا ہے کہ گویا اس پر یہ حالت بھی آئی یو دیکھو کتب لخت لسان المعرب صوالح ہو ہری - قاموس- محیط تاج العروس و غیره.منه

Page 266

تھی کہ اُس کا خدائے تعالیٰ سے رشتہ تعلق ٹوٹ گیا تھا.اور بجائے یک دلی اور یک جہتی کے مغائرت اور بائت اور عداوت اور بیزاری پیدا ہوگئی تھی.اور بجائے نور کے دل پر تاریکی چھا گئی تھی.یہ بھی یادر ہے کہ ایسا خیال صرف حضرت مسیح علیہ السلام کی شان نبوت اور مرتبہ رسالت کے ہی مخالفت نہیں بلکہ ان کے اس دعوی کمال اور پاکیزگی او محبت اور معرفت کے بھی مخالف ہے جو انہوں نے جابجا انجیل میں ظاہر کیا ہے.انجیل کو پڑھ کر دیکھو کہ حضرت عیسی علیہ السلام صاف دعوی کرتے ہیں کہ میں جہان کا نور ہوں.میں بادی ہوں.اور میکں خدا سے اعلیٰ درجہ کی محبت کا تعلق رکھتا ہوں.اور میں نے اُس سے پاک پیدائیں پائی ہے اور میں خدا کا پیارا بیٹا ہوں.پھر با وجود ان غیر منفک اور پاکی تعلقات کے لعنت کا نا پاک مفہوم کیونکر مسیح کے دل پر صادق آسکتا ہے ہر گز نہیں پس بلا شبہ یہ بات ثابت ہے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا یعنے صلیب پر نہیں مرا کیونکہ اسکی ذات صلیب کے نتیجہ سے پاک ہے اور جبکہ مصلوب نہیں ہوا تو لعنت کے ناپاک کیفیت سے بیشک ا سکے ول کو بچایا گیا.اور بلاشبہ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلاکہ وہ آسمان پر ہرگز نہیں گیا کیونکہ آسمان پر جانا اس منصوبہ کی ایک جزء تھی اور مصلوب ہونے کی ایک فرع تھی.پس جبکہ ثابت ہوا کہ وہ نہ لعنتی ہوا اور نہ تین دن کے لئے دوزخ میں گیا.اور نہ مر تو پھر یہ دوسری نہ آسمان پر جانے کی بھی باطل ثابت ہوئی اور اس پر اور بھی دلائل ہیں جو انجیل سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ ہم ذیل میں لکھتے ہیں.چنانچہ مجلہ انکے ایک یہ قول ہے جو مسیح کے منہ سے نکلا لیکن میں اپنے جی اٹھنے کے بعد تم سے آگے جلیل کو جاؤں گا دیکھو مستی باب ۲۶ آیت ۳۲ - اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح قبر سے نکلنے کے بعد جلیل کی طرف گیا تھا نہ آسمان کی طرف.اور مسیح کا یہ کلمہ کہ اپنے جی اُٹھنے کے بعد اس سے مرنے کے بعد جینا مرادہ نہیں ہوسکتا.بلکہ چونکہ یہودیوں اور عام لوگوں کی نظر میں وہ صلیب پر مر چکا تھا اس لئے میسج نے پہلے سے اُنکے آئیندہ خیالات کے موافق یہ کلمہ استعمال کیا.اور و حقیقت جس ۲۴۸

Page 267

۲۴۹ شخص کو صلیب پر کھینچا گیا اور اسکے پیروں اور ہاتھوں میں کیل ٹھو کے گئے یہانتک وہ اس تکلیف سے غنی میں ہو کر مردہ کی سی حالت میں ہو گیا.اگر وہ ایسے صدمہ سے نجات پاکر پھر ہوش کی حالت میں آجائے تو اُس کا یہ کہنامبالغہ نہیں ہوگا کہ میں پھر زندہ ہو گیا اور بلاشبہ اس صدمہ عظیمہ کے بعد بس کا بچ جانا ایک معجزہ تھا معمولی بات نہیں تھی.لیکن یہ درست نہیں ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ میں کی جان نکل گئی تھی.یہ ہو کہ انجیلوں میں ایسے لفظ موجود ہیں لیکن یہ اس قسم کی انہیں ولیوں کی غلطی ہے جیسا کہ اور بہت سے تاریخی واقعات کے لکھنے میں انہوں نے غلطی کھائی ہے.انجیلوں کے محقق شاریوں نے اس بات کو مان لیا ہے کہ انجیلوں میں دو حصے ہیں (1) ایک دینی تعلیم ہے جو جواریوں کو حضرت سیح علیہ السلام سے ملی تھی جو اصل روح انجیل کا ہے (۲) دوسرے تاریخی واقعات ہیں جیسے حضرت عیسی کا شجرہ نسب اوران کا پکڑا جانا اور مارا جانا اور یح کے وقت میں ایک معجزہ نما تالاب کا ہونا وغیرہ یہ وہ امور ہیں جو لکھنے والوں نے اپنی طرف سے لکھے تھے.سو یہ باتیں الہامی نہیں ہیں بلکہ لکھنے والوں نے اپنے خیال کے موافق لکھے ہیں اور بعض جگہ مبالغہ بھی حد سے زیادہ کیا ہے.جیسا کہ ایک جگہ لکھا ہے کہ میں قدرسیح نے کام کئے لینے معجزات دکھلائے اگر وہ کتابوں میں لکھے جاتے تو وہ کتابیں دنیا میں سمانہ سکتیں.ریکس قدر مبالغہ ہے.ماسوا اس کے ایسے بڑے صدمہ کو جو مسیح پر وارد ہوا تھا موت کے ساتھ تعبیر کرنا خلاف محاورہ نہیں ہے.ہر ایک قوم میں قریبا یہ محاورہ پایا جاتا ہے کہ جو شخص ایک مہلک صدمہ میں بہتا ہو کر پھر آخری کھائے.اسکو کہا جاتا ہے کہ نئے سرے زندہ ہوا اور کسی قوم اور ملک کے محادہ میں ایسی بول چال میں کچھ بھی تکلف نہیں.ان سب امور کے بعد ایک اور بات ملحوظ رکھنے کے لائق ہے کہ برنباس کی انجیل میں جوغالبا کندن کے کتب خانہ میں بھی ہو گی یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا.اور نہ صلیب پر جان دی.اب ہم اس جگہ یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ گوہ کتاب انجیلوں میں داخل نہیں کی گئی اور بغیر کسی فیصلہ کے رد کر دی گئی ہے مگر اس میں کیا شک ہے کہ یہ ایک پرانی

Page 268

کتاب ہے اور اسی زمانہ کی ہے جبکہ دوسری اپیلیں لکھی گئیں.کیا ہمیں اختیار نہیں ہے کہ اس پورانی اور دیر بینہ کتاب کو عہد قدیم کی ایک تاریخی کتاب سمجھ لیں اور تاریخی کتابوں کے مرتبہ پر رکھ کہ اس سے فائدہ اُٹھاویں؟ اور کیا کم سے کم اس کتاب کے پڑھنے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ مسیح علیہ السلام کے صلیب کے وقت تمام لوگ اس بات پر اتفاق نہیں رکھتے تھے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوگئے.پھر ماسوا اس کے جبکہ خود ان چار انجیلوں میں ایسے استعارات موجود ہیں کہ ایک مردہ کو کہدیا ہے کہ یہ ھوتا ہے مرا نہیں تو اس حالت میں اگر غشی کی حالت میں مروہ کا لفظ بولا یا تو کیا یہ یہی ہے.ہم لکھ چکے ہیں.کہ نبی کے کلام میں جھوٹ جائز نہیں میسیج نے اپنی قبر میں رہنے کے تین دن کو یونس کے تین دنوں سے مشابہت دی ہے.اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ بونس تین دن مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا.ایسا ہی مسیح بھی تین دن قبر میں زندہ رہا.اور یہودیوں میں اُس وقت کی قبریں اس زمانہ کی قبروں کے مشابہ نہ تھیں بلکہ وہ ایک کو ٹھے کی طرح اندر سے بہت فراخ ہوتی تھیں.اور ایک طرف کھڑکی ہوتی تھی جس کو ایک بڑے پتھر سے ڈھانکا ہوا ہوتا تھا.اور عنقریب ہم اپنے موقع پر ثابت کرینگے کہ عیسی علیہ السلام کی قبرو حال میں سری نگر کشمیر میں ثابت ہوئی ہے وہ بعینہ اسی طرز کی قبر ہے جیسا کہ یہ قبرتھی ہیں میں حضرت مسیح خشی کی حالت میں رکھے گئے.غرض یہ آیت جس کو ابھی ہم نے لکھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میسج قبر سے نکل کر گلیل کی طرف گیا.اور مرقس کی انجیل میں لکھا ہے کہ وہ قبر سے نکل کر جلیل کی سڑک پر جاتا ہو؟ دکھائی دیا اور آخر ان یاران واریوں کو مل جبکہ وہ کھانا کھا رہے تھے اور اپنے ہاتھ اور پاؤں جوز نمی تھے دکھائے اور انہوں نے مان کیا کہ شاید یہ روح ہے.تب اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ اور دیکھو کیونکہ زورح کو جسم اور بڑی نہیں جیسا کہ مجھ میں دیکھتے ہو اور ان سے ایک چھوٹی ہوئی چھلی کاٹکڑا اور شہد کا ایک چھپا لیا اور ان کے سامنے کھا یا.دیکھو مرقس بابا آیت ۱۴.اور لوق باب ۲۴- آیت ۳۹ - اور ۴۰.اور اہ اور ۲۲- ان آیات سے یقینا معلوم ہوتا ہو کہ مسیح ہرگز ۲۵۰

Page 269

۲۵۱ تھا.گروه مرزندہ ہوتا توکیونکر یمن تھاکہ جلالی جسم میں صلیب کے زخم باقی رہ جاتے اور اسکو روٹی کھانے کی کیا حاجت تھی اور اگر تھی تو پھر اب بھی روٹی کھانے کا محتاج ہو گا.ناظرین کو اس دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیئے کہ یہودیوں کی صلیب اس زمانہ کی پھانسی کی طرح ہو گی جس سے نجات پانا قریباً محال ہے کیونکہ اس زمانہ کی صلیب میں کوئی رشا گلے میں نہیں ڈالا جاتا تھا اور نہ تختہ پر سے گرا کر ٹکایا جاتا تھا بلکہ صرف صلیب اتھوں اور پیروں میں کیل ٹھونکے جاتے تھے اوریہ بات کم ہوتی تھی کہ گر صلیب پر ھیچنے اور کیل ٹھونکنے کے بعد ایک دو دن تک کسی کی جان بخشی کا ارادہ ہو تو اسی قدر عذاب پر کفایت کرکے ہڈیاں توڑنے سے پہلے اُسکو زندہ آنا لیا جائے.اور اگر ما ناہیں منظور ہوتا تھا تو کم سے کم تین دن تک صلیب پر کھینچا ہٹوا ر ہنے دیتے تھے اور پانی اور روٹی نزدیک نہ آنے دیتے تھے اور اسی طرح دھوپ میں تین دن یا اس سے زیادہ چھوڑ دیتے تھے اور پھر اس کے بعد اس کی ہڈیاں توڑتے تھے اور پھر آخر ان تمام عذابوں کے بعد وہ مر جاتا تھا.لیکن خدا تعالے کے فضل و کرم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو اس درجہ کے عذاب سے بچا لیا جس سے زندگی کا خاتمہ ہو جاتا.انجیلوں کو ذرہ غور کی نظر سے پڑھنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت سیح علیہ السلام نہ تین دن تک صلیب پر رہے اور نہ تین دن کی بھوک اور پیاس اٹھائی اور نہ اُن کی ہڈیاں توڑی گئیں بلکہ قریب دو گھنٹہ تک صلیب پر رہے اور خدا کے رحم اور فضل نے انکے لئے یہ تقریب قائم کر دی کہ دن کےاخر حصے میں صلیب دینے کی تجویز ہوئی اور وہ جمعہ دن دینے وہ کا دن تھا اور صرف تھوڑا سا دن باقی تھا اور اگلے دن سبت اور یہودیوں کی عید فسح تھی اور یہودیوں کے لئے یہ حرام اور قابل سزا جرم تھا کہ کسی کو بت یا سبت کی رات میں صلیب پہ رہنے دیں.اور مسلمانوں کی طرح یہودی بھی قمری حساب رکھتے تھے اور رات دن پر مقدم سمجھی جاتی تھی.پس ایک طرف تو یہ تقریب تھی کہ جو زمینی اسباب سے پیدا ہوئی.اور دوسری طرف آسمانی اسباب خدا تعالے کی طرف سے یہ پیدا ہوئے کہ جب چھٹا

Page 270

گھنٹہ ہوا تو ایک ایسی آندھی آئی جس سے ساری زمین پر اندھیرا چھا گیا اور وہ اندھیرا تین گھنٹے برابر رہا.دیکھو مرقس باب ۱۵ - آیت ۳۳.یہ چھٹا گھنٹہ بارہ بجے کے بعد تھا یعنے وہ وقت جو شام کے قریب ہوتا ہے.اب یہودیوں کو اس شدت اندھیرے ہیں یہ فکر پڑی کہ مبادا اسیت کی رات آجائے اور وہ سبت کے مجرم ہو کر تاوان کے لائق ٹھہریں.اس لئے اُنہوں نے بجلدی سے میسج کو اور اُسکے ساتھ کے دو چوٹیوں کو بھی صلیب پر سے اتار لیا.اور اس کے ساتھ ایک اور آسمانی سبب یہ پیدا ہوا کہ جب پلا طوس کچھری کی مسند پر بیٹھا تھا اسکی جو رونے اُسے کہلا بھیجا کہ تو اس راستباز سے کچھ کام نہ لکھ (یعنے اس کے قتل کرنے کے لئے سعی نہ کر ) کیونکہ میں نے آج رات خواب میں اسکے سبب سے بہت تکلیف پائی.دیکھو متی بائیکہ آیت 19.سو یہ فرشتہ جونو اب میں پلانٹس کی جورو کو دکھایا گیا.اس سے ہم اور ہر ایک منصف یقینی طور پر یہ مجھے گا کہ خدا کا ہرگز یہ منشار نہ تھا کہ مسیح صلیب پر وفات پاوے جیسے کہ دنیا پیدا ہوئی آجتک یہ بھی نہا کہ جس شخص کے بچانے کے لئے خدائیتعالی رویا میں کسی کو ترغیب دے کہ ایسا کرنا چاہیئے تو وہ بات خطا جائے.مثلاً انجیل متی میں لکھا ہے کہ خداوند کے ایک فرشتہ نے یوسف کو خواب میں دکھائی دے کے کہا اٹھ اس لڑکے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر کو بھاگ جا اور وہاں جب تک میں تجھے خبر نہ دوں ٹھہرارہ کیونکہ ہیرو دوس اس لیڈی کے کو ڈھونڈ لگا کہ ہمارڈالئے“ دیکھو انجیل متی بابت آیت ۱۳.اب کیا یہ کہ سکتے ہیںکہ یسوع کا مصری پہنچ کر ا ا ا ا سکی تھا.اسی طرح مخدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک تدبیر تھی کہ پیلاطوس کی بوردو کو مسیح کے لئے خواب آئی.اور مکن نہ تھا کہ یہ تدبیر خط جاتی.اور میں طرح مصر کے قصہ میں مسیح کے مارے جانے کا اندیشہ ایک ایسا خیال ہے جو خدائے تعالیٰ کے ایک مقرر شدہ وعدہ کے برخلاف ہے.اسی طرح اس جگہ بھی یہ خلاف قیاس بات ہے کہ خدائے تعالیٰ کا فرشتہ پلا طوس کی جورو کو نظر آوے اور وہ اس ہدایت کی طرف اشارہ کرے کہ اگر میسیج صلیب پر فوت ہو گیا.تو یہ تمہارے لئے اچھا نہ ہو گا تو پھر اس غرض سے ذشتہ کا ظاہر ہونا بے سود و جاوے اور ۲۵۲

Page 271

۲۵۳ صبیح صلیب پر مارا جائے کیا اسکی دنیا میںکوئی نظر ہے ہرگز نہیں.ہر ایک نیک دل انسان کا پاک کا نشن جب پلا طاس کی بیوی کے خواب پر اطلاع پائے گا تو بیشک وہ اپنے اندر اس شہادت کو محسوس کرے گا کہ در حقیقت اس خواب کا منشاء یہی تھا کہ میسج کے چھوڑا نے کی ایک بنیاد ڈالی جائے.یوں تو دنیا میں ہر ایک کو اختیار ہو کہ اپنے عقیدہ کے تعصب سے ایک کھی کھلی سچائی کو رد کردے اور قبول نہ کرے لیکن انصاف کے رو سے ماننا پڑتا ہے کہ پلا طوس کی بیوی کی خواب سیح کے صلیب سے بچنے پر ایک بڑے وزن کی شہادت ہے.اور رہے اول درجہ کی انجیل یعنے منتی نے اس شہادت کو قلمبند کیا ہے.اگرچہ ایسی شہادتوں سمر ہوئیں بڑے زور سے اس کتاب میں لکھوں گا مسیح کی خدائی اور مسئلہ کفارہ یک لخت باطل ہوتا ہے لیکن ایمانداری او حق پسندی کا ہمیشہ یہ تقاضا ہونا چاہیئے کہ ہم سچائی کے قبول کرنے میں قوم اور برادری اور عقائد رزمیہ کی کچھ پرواہ نہ کریں.جب سے انسان پیدا ہوا ہے آجتک اُسکی کو تہ اندیشیوں نے ہزاروں چیزوں کو خدا بنا ڈالا ہوں.یہانتک کہ بلیوںاور سانپوں کو بھی پوجا گیا ہے لیکن پھر بھی عقلمند لوگ خداداد توفیق سے اس قسم کے مشرکانہ عقیدوں سے نجات پاتے آئے ہیں.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۱۶ تا ۲۴ نیز دیکھیں (بعض دلائل ) تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۴ و صفحه ۲۴۰۲۳۹ *

Page 272

۲۵۴ صلیبی موت سے نجات کے بارہ میں انجیلی سے نجات کے بار شہادتیں اور منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہمیں مسیح ابن مریم کی صلیبی موت سے محفوظ رہنے پر ملتی ہیں.اس کا وہ سفر دور دراز ہے جو قبر سے نکل کر جلیل کی طرف اُس نے کیا.چنانچہ اتوار کی صبح کو پہلے وہ مریم گلینی کو لال مریم نے فی الفور سواریوں کو خبر کی کرسی تو جیتا ہے لیکن وہ یقین نہ لائے پھروہ حواریوں میں سے دو کو جبکہ وہ دیہات کی طرف جاتے تھے دکھائی دیا آخر وہ گیارھوں کو جبکہ وہ کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیا اور انکی بے ایمانی اور سخت دلی پر ملامت کی.دیکھو انجیل مرقس باب ۱۶ - آیت 9 سے آیت ۱۴ تک.اور جب مسیح کے بھاری سفر کرتے ہوئے اُس بستی کی طرف جارہے تھے جس کا نام اعطوس ہے جو یروشلم سے پونے چار کوس کے فاصلے پر ہے تب سی انکو ملا.اور جب وہ اس بستی کے نزدیک پہنچے تو ے مسیح نے آگے بڑھ کر چاہاکہ ان سے الگ ہو جائے تب انہوں نے اُس کو جانے سے روک لیا کہ آج رات ہم اکٹھے رہیں گے.اور اس نے اُن کے ساتھ بیٹھ کر روٹی کھانی اور و سب صح مسیح کے اطوس نام ایک گاؤں میں رات رہے.دیکھ لوقا باب ہے آیت ۱۳ اسے اس تک.اب ظاہر ہے کہ ایک جلالی جسم کے ساتھ جو موت کے بعد خیال کیا گیا ہے مسیح سے فانی جسم کے عادات صادر ہونا اور کھانا اور پینا اور سونا اور جلیل کی طرف ایک لمبا سفر کرنا جو یروشلم سے قریباً ستر کوس کے فاصلے پر تھا بالکل غیر مکن اور نامعقول بات ہے اور باوجود اسکے کہ خیالات کے میلان کی وجہ سے انجیلوں کے ان قصوں میں بہت کچھ تغیر ہو گیا ہے تاہم جس قدر الفاظ پائے جاتے ہیں اُن سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مسح اسی خانی اور معمولی جم

Page 273

۲۵۵ سے اپنے سواریوں کو ملا اور پیادہ پا جلیل کی طرف ایک لمبا سفر کیا اور سواریوں کو اپنے زخم دکھلائے اور رات اُن کے پاس روٹی کھائی اور سویا.اور آگے چل کر ہم ثابت کریں گے کہ اُس نے اپنے زخموں کا ایک مرہم کے استعمال سے علاج کیا.اب یہ مقام ایک سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ایک جلالی اور ابدی حسم پانے کے بعد یعنے اس غیر فانی جسم کے بعد جو اس لائق تھاکہ کھانے پینے سے پاک ہو کر ہمیشہ خدائے تعالی کے دائیں ہاتھ بیٹھے اور ہر ایک دارغ اور درد اور نقصان سے منزہ ہو.اور ازلی ابدی خدا کے جلال کا اپنے اندر رنگ رکھتا ہو.ابھی ہمیں نقص باقی رہگیا کہ امیر صلیب اور کیلوں کے تازہ زخم موجود تھے جن سے خون بہتا تھا اور درواور تکلیف اُنکے ساتھ تھی جنکے واسطے ایک مرہم بھی طیار کیگئی تھی.ور جلالی اور غیر فانی جسم کے بعد بھی جو بہتک سلامت اور بے عیب اور کامل اور غیر تغیر چاہیئے تھا کئی قسم کے نقصانوں سے بھرا رہا اور خود مسیح نے حواریوں کو اپنا گوشت اور ہڈیاں دکھلائیں اور پھر اسی پر کفایت نہیں بلکہ اس قانی جسم کے لوازم میں سے تھوک اور پیاس کی درد بھی موجود تھی.ورنہ اس لغو حرکت کی کیا ضرورت تھی کہ مسیح جلیل کے سفر میں کھانا کھانا اور پانی پیتا اور آرام کرتا اور سوتا.اس میں کیا شک ہے کہ اس عالم میں جیم خانی کے لئے بھوک اور پیاس بھی ایک درد ہے جس کے حد سے زیادہ ہونے سے انسان مرسکتا ہے.پس بلا شبہ یہ بات سچ ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا اور نہ کوئی نیا جلالی جسم پایا بلکہ ایک نشی کی حالت ہوگئی تھی جو مرنے سے مشابہ تھی.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ اتفاق ہوا کہ جس قبر میں وہ رکھا گیا وہ اس ملک کی قبروں کی طرح نہ تھی بلکہ ایک ہوا دار کو ٹھہ تھا جس میں ایک کھڑ کی تھی.اور اس زمانہ میں یہودیوں میں یہ رسم تھی کہ قبر کو ایک ہوادار اور کشادہ کو ٹھٹہ کی طرح بناتے تھے اور اس میں ایک کھڑکی رکھتے تھے اور ایسی قبریں پہلے سے موجود رہتی تھیں.اور پھر وقت پر میت اس میں رکھی جاتی تھی.چنانچہ یہ گواہی انجیلوں سے صاف طور پر ملتی ہے.انجیل لوقا میں یہ عبارت ہے اور وسے یعنے عورتیں اتوار کے دن بڑے تڑکے یعنے کچھے اندھیرے سے ہی اُن خوشبوؤں کو بوطیار کی تھیں لے کر قبر پر آئیں اور مکی کے ساتھ کئی

Page 274

اور بھی عورتیں تھیں.اور انہوں نے پتھر کو قبر پر سے ڈھول کا ہوا پایا اس مقام میں ذرہ غور کرو) اور اندر جا کے خداوند یسوع کی لاش نہ پائی یہ دیکھ لوقا باب ۲۴- آیت ۲ و ۳ - اب اندر جانے کے لفظ کو ذرہ سوچو.ظاہر ہے کہ انسی قبر کے اندر انسان جا سکتا ہے کہ ہوا ایک کوٹھے کی طرح ہو.اور اُس میں کھڑکی ہو.اور ہم اپنے محل پر اسی کتاب میں بیان کریں گے کہ حال میں جو حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر سری نگرکشمیر میں پائی گئی ہے.ہ بھی اس قبر کی طرح کھڑکی دار ہے.اور یہ ایک بڑے راز کی بات ہے میں پر توجہ کرنے سے محققین کے دل ایک عظیم الشان نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۴ تا ۲۷ اور منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہم کو ملی ہیں بلاطس کا وہ قول ہے جو انجیل مرقس میں لکھا ہے اور وہ یہ ہے اور جبکہ شام ہوئی اس لئے کہ تیاری کا دن تھا جو سبت سے پہلے ہوتا.یوسف ارمیا جو نامور مشیر اور وہ خود خدا کی بادشاہت کا منتظر تھا آیا اور دلیری سے پلاطس کے پاس جا کے یسوع کی لاش مانگی اور پلاٹس نے متعجب ہو کرشبہ کیا کہ ہولینے مسیح ایسا جلد مرگیا" دیکھو مرقس باب ۶ آیت ۴۲۲ سے ۴۴ تک.اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عین صلیب کی گھڑی میں ہی یسوع کے مرنے پر شبہ ہوا.اور شہد بھی ایسے شخص نے کیا جس کو اس بات کا تجربہ تھا کہ اس قدر مدت میں صلیب پر جان نکلتی ہے.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۷ اور منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہم کو ملی ہیں انجیل کی وہ عبارت ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں.پھر یہودیوں نے اس لحاظ سے کہ لاشیں سبت کے دن صلیب پر نہ رہ جائیں.کیونکہ وہ دن طیاری کا تھا.بلکہ بڑا ہی سبد تھا.پہلا طوس سے عرض کی کہ انکی ٹانگیں توڑی اور لاشیں اتاری جائیں.تب سپاہیوں نے آکر پہلے اور دوسرے کی ٹانگیں جو اس کے ساتھ ۲۵۶ ۲۱۲ ۲۱۳

Page 275

۲۵۷ صلیب پر کھینچے گئے تھے توڑیں.لیکن جب انہوں نے یسوع کی طرف آکے دیکھا.کہ وہ مر چکا ہے تو اُس کی ٹانگیں نہ توڑیں.پر سپاہیوں میں سے ایک نے بھالے سے اُس کی پسلی چھیدی اور فی الفور اس سے ہو اور پانی نکلا دیکھو یوحنا باب آیت ۳۱ سے ۳۴ تک.ان آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اسوقت کسی مصلوب کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے یہ دستور تھا کہ جو صلیب پر کھینچا گیا ہو اس کوکئی دن صلیب پر رکھتے تھے اور پھر اس کی ہڈیاں توڑتے تھے لیکن بیج کی ہڈیاں دانستہ نہیں توڑی گئیں اور وہ ضرور صلیب پر سے ان دو چوروں کی طرح زندہ تارا گیا.اسی وجہ سے پسلی چھیدنے سے خون بھی نکلا.مردہ کا سخون جم جاتا ہے.اور اس جگہ یہ بھی صریح معلوم ہوتا ہے کہ اندرونی طور پر یہ کچھ سانش کی بات تھی.پہلا طوس ایک خدا ترس اور نیک دل آدمی تھا کھلی کھلی رعایت سے قیصر سے ڈرتا تھا کیونکہ یہودی مسیح کو باغی تھراتے تھے مگر وہ خوش قسمت تھا کہ اس نے مسیح کو دیکھا.لیکن تقصیر نے اس نعمت کو نہ پایا.اس نے نہ صرف دیکھا بلکہ بہت رعایت کی.اور اُس کا ہرگز منشاء نہ تھا کہ مسبح صلیب پاوے.چنانچہ انجیلوں کے دیکھنے سے صاف طور پر پایا جاتا ہے کہ پلا طوس نے کئی دفعہ ارادہ کیا کہ سیح کو چھوڑ دے.لیکن یہودیوں نے کہا کہ اگر تو اس مرد کو چھوڑ دیتا ہے تو تو قیصر کا خیر خواہ نہیں اور یہ کہا کہ یہ باغی ہے اور خود بادشاہ بننا چاہتا ہے دیکھو یوحنا باب ۱۹ آیت ۱۲- اور پلاطوس کی بیوی کی خواب اور بھی اس بات کی محرک ہوئی تھی کہ کسی طرح مسیح کو مصلوب ہونے سے بچایا جائے.ورنہ ان کی اپنی تیا ہی ہے.مگر چونکہ یہودی ایک مشر یہ قوم تھی اور بلاطو کس پر قیصر کے حضور میں مخبری کرنے کو بھی طیار تھے.اس لئے پہلا طوس نے مسیح کے چھڑانے میں حکمت عملی سے کام لیا.اقول تو مسیح کو مصلوب ہونا ایسے دن پر ڈال دیا کہ وہ جمعہ کا دن تھا اور صرف چند گھنٹے ان سے باقی تھے اور بڑے نسبت کی رات قریب تھی اور پیلاطوس خوب جانتا تھا کہ یہودی اپنی شریعت کے محکموں کے موافق صرف شام کے وقت تک ہی میچ کو صلیب پر رکھ سکتے ہیں.اور پھر شام ہوتے ہی اُن کا سبت ہے جس میں صلیب پر رکھنا کو انہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور صبح شام سے پہلے

Page 276

صلیب پر سے اتارا گیا اور یہ قریب قیاس نہیں کہ دونوں چور چوری کے ساتھ صلیب پر کھینچے گئے تھے وہ زندہ رہے.مگر میسج صرف دو گھنٹہ تک مر گیا بلکہ یہ صرف ایک بہانہ تھا جو مسیح کو ہڈیاں توڑنے سے بچانے کے لئے بنایا گیا تھا.سمجھ دار آدمی کے لئے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ دونوں چور صلیب پر زندہ اتارے گئے اور ہمیشہ معمول تھا کہ صلیب پر سر لوگ زندہ اُتارے جاتے تھے اور صرف اس حالت میں مرتے تھے کہ ہڈیاں توڑی جائیں اور یا بھوک اور پیاس کی حالت میں چند روز صلیب پر رہ کر جان نکلتی تھی.مگر ان باتوں میں کوئی بات بھی مسیح کو پیش نہ آئی کہ وہ کئی دن ملیب پر مجھو کا پیاسا رکھا گیا اور نہ کی نہ اُس کی ہڈیاں توڑی گئیں اور یہ کہہ کر کہ سیح مر چکا ہے.یہودیوں کو اس کی طرف سے اور مر چکا کی غافل کر دیا گیا.مگر چوروں کی ہڈیاں توڑ کر اسی وقت انکی زندگی کا خاتمہ کردیا گیا.بات تو تب تھی کہ اُن دونوں چوروں میں سے بھی کسی کی نسبت کہا جاتا کہ یہ مر چکا ہے.اس کی ہڈیاں توڑنے کی ضرورت نہیں.اور یوسف نام پل طوس کا ایک معزز دوست تھا.جو انس نواح کا رئیس تھا اور مسیح کے پوشیدہ شاگرد در ہیں داخل تھا وہ عین وقت پر پہنچ گیا.مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی پلا طوس کے اشارہ سے بلایا گیا تھا مسیح کو ایک لاش قرار دیکر اُسکے سپرد کردیا گیا کیونکہ وہ ایک بڑا آدمی تھا اور یہودی اسکے ساتھ کچھ پر خامش نہیں کرسکتے تھے.جب وہ پہنچا تو مسیح کو خوشی میں تھا ایک لاش قرار دیکر اس نے لیا اور اسی جگہ ایک وسیع مکان تھا جو اُس زمانہ کی رسم پر قبر کے طور پر بنایا گیا تھا اور اس میں ایک کھڑکی بھی تھی اور ایسے موقع پر تھا جو یہودیوں کے تعلق سے الگ تھا.اسی جگہ پلاط یس کے اشارہ سے سیج کو رکھا گیا.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۷ تا ۲۹ پیلاطوس کی بیوی کو فرشتہ نے خواب میں کہا کہ اگر یسوع سولی پر مر گیا تو اس میں تمہاری تباہی ہے اور اس بات کی خدا تعالیٰ کی کتابوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی کو خواب میں فرشتہ کہے کہ اگر ایسا کام نہیں کرو گے تو تم تباہ ہو جاؤ گے اور ۲۵۸

Page 277

۲۵۹ پھر فرشتہ کے کہنے کا ان کے دلوں پر کچھ بھی اثر نہ ہو.اور وہ کہنارائیگان جائے.اور اسی طرح یہ بات بھی سراسر فضول اور جھوٹ معلوم ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا تو پختہ ارادہ ہو کہ وہ یسوع مسیح کو سولی دے اور اس طرح پر لوگوں کو عذاب ابدی سے بچاوے.اور فرشتہ خواہ نخواہ یسوع مسیح کے بچانے کے لئے رہتا پھرے.کبھی پیلاطوس کے دل میں ڈالے کہ مسیح بے گناہ ہے اور کبھی پیلاطوس کے سپاہیوں کو اس پر مہربان کرے اور ترغیب دے کہ وہ اس کی ہڈی نہ توڑیں.اور کبھی پیلاطوس کی بیوی کے خواب میں آوے اور اس کو یہ کہے کہ اگر یسوع مسیح سولی پر مر گیا تو پھر اس میں تمہاری تباہی ہے.یہ عجیب بات ہے کہ خدا اور فرشتہ کا اہم اختلاف رائے ہو.اور پھر رہائی کے اسباب میں سے جو ان چار انجیلوں میں مرقوم ہیں.ایک یہ بھی سبب ہے کہ یہودیوں کو یہ موقع نہ ملا کہ وہ قدیم دستور کے موافق پانچ چھ روز تک حضرت مسیح کو صلیب پر لٹکار کھتے تا بھوک اور پیاس اور دھوپ کے اثر سے مرجاتا اور نہ دستور قدیم کے موافق ان کی ہڈیاں توڑی گئیں جیسا کہ چوروں کی توڑی گئیں.اگرچہ یہ رعایت مخفی طور پر پیلاطوس کی طرف سے بھی کیونکہ رعب ناک خواب نے اس کی بیوی کا دل ہلا دیا تھا.لیکن آسمان سے بھی یہی ارادہ زور مار رہا تھا.ورنہ کیا ضرورت تھی کہ عین صلیب دینے کے وقت سخت آندھی آتی اور زمین پر سخت تاریکی چھا جاتی اور ڈرانے والا زلزلہ آتا.اصل بات یہ تھی کہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ یہودیوں کے دل ڈر جائیں.اور نیزان پر وقت مشتبہ ہو کر سبت کے توڑنے کا فکر بھی ان کو دامن گیر ہو جائے.کیونکہ جس وقت حضرت مسیح علیہ السّلام صلیب پر چڑھائے گئے وہ جمعہ کا دن تھا اور قریباً دوپہر کے بعد تین بجے تھے.اور یہودیوں کو سخت ممانعت تھی کہ کوئی مصلوب سبت کے دن یا سبت کی رات جو جمعہ کے بعد آتی ہے صلیب پر لٹکا نہ رہے.اور یہودی قمری حساب کے پابند تھے.اس لئے وہ سبت کی رات اس رات کو سمجھتے تھے کہ جب جمعہ کے دن کا خاتمہ ہو جاتا ہے.پس آندھی اور سخت تاریکی کے پیدا ہونے سے یہودیوں کے دلوں میں یہ کھٹ کا شروع ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ لاشوں کو سبت کی رات میں صلیب پر رکھ کر سبت کے مجرم ہوں اور مستحق سزا ٹھہریں.اور دوسرے دن عید فسح بھی تھی جس میں خاص طور پر صلیب دینے کی ممانعت تھی.پس جبکہ آسمان سے یہ اسباب پیدا ہو گئے.اور نیز یہودیوں کے دلوں پر اپنی رعب بھی غالب آگیا.تو ان کے دلوں میں یہ دھڑ کہ شروع ہو گیا کہ ایسا نہ ہو کہ

Page 278

اس تاریکی میں سبت کی رات آجائے.لہذا یح اور چوروں کو جلد صلیب پر سے اتار لیا گیا.اور سپاہیوں نے یہ چالاکی کی کہ پہلے چوروں کی ٹانگوں کو توڑنا شروع کر دیا.اور ایک نے ان میں سے یہ مکر کیا کہ مسیح کی نبض دیکھ کر کہہ دیا کہ یہ تو مر چکا ہے.اب اس کی ٹانگیں توڑنے کی ضرورت نہیں.اور پھر یوسف نام ایک تاجر نے ایک بڑے کو ٹھے میں ان کو رکھ دیا.اور وہ کوٹھا ایک باغ میں تھا.اور یہودی مردوں کے لئے ایسے وسیع کو ٹھے کھڑکی دار بھی بنایا کرتے تھے.غرض حضرت مسیح اس طرح بچ گئے.اور پھر چالیس دن تک مرہم عیسی سے ان کے زخموں کا علاج ہوتا رہا.اور پھر جب خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے حضرت مسیح علیہ السّلام کو مرہم عیسی کے استعمال سے شفا ہو گئی اور تمام صلیبی زخم اچھے ہو گئے تواللہ تعالی کے حکم سے اس ملک سے انہوں نے پوشیدہ طور پر ہجرت کی جیسا کہ سنت انبیاء ہے.اور اس ہجرت میں ایک یہ بھی حکمت تھی کہ تا خدا تعالیٰ کے پاک نیتوں کی سنت ادا ہو جائے.کیونکہ اب تک وہ اپنے وطن کی چار دیواری میں ہی پھرتے تھے.اور ہجرت کی تلخی نہیں اٹھائی تھی.اور اس سے پہلے انہوں نے اپنی ہجرت کی طرف اشارہ بھی کیا تھا جیسا کہ انجیل میں ان کا یہ قول ہے کہ ”نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں.الغرض پھر آپ پیلاطوس کے ملک سے گلیل کی طرف پوشیدہ طور پر آئے.اور اپنے حواریوں کو کلیل کی سڑک پر ملے.اور ایک گلوں میں ان کے ساتھ اکٹھے رات رہے.اور اکٹھے کھانا کھایا.تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۴۲ تا ۲۴۴ یز دیکھیں.ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۹۴ تا ۲۹۷ پیلاطوس اپنے اس قول پر قائم نہ رہ سکا.اور جب اس کو کہا گیا کہ قیصر کے پاس تیری شکلیت کریں گے تو وہ ڈر گیا اور حضرت مسیح کو اس نے عمداً خوشخوار یہودیوں کے حوالہ کر دیا.گو وہ اس سپردگی سے غمگین تھا اور اس کی عورت بھی غمگین تھی کیونکہ وہ دونوں مسیح کے سخت معتقد تھے.لیکن یہودیوں کا سخت شور و غوغا دیکھ کر بزدلی اس پر غالب آگئی.ہاں البتہ پوشیدہ طور پر اس نے بہت سعی کی کہ مسیح کی جان کو صلیب سے بچایا جاوے.اور اس سٹی میں وہ کامیاب بھی ہو گیا.مگر بعد اس کے کہ مسیح صلیب پر چڑھایا گیا.اور شدت درد سے ایک ایسی سخت غشی میں آگیا کہ گویاوہ موت ہی ۲۶۰

Page 279

۲۶۱ تھی.بہر حال پیلاطوس رومی کی کوشش سے مسیح ابن مریم کی جان بچ گئی اور جان بچنے کے لئے پہلے سے مسیح کی دعا منظور ہو چکی تھی.دیکھو عبرانیاں باب ۵ آیتے.بعد اس کے اس زمین سے مسیح پوشیدہ طور پر بھاگ کر کشمیر کی طرف آگیا اور وہیں فوت ہوا.اور تم سن چکے ہو کہ سری نگر محلہ خانیار میں اس کی قبر ہے.یہ سب پیلاطوس کی سعی کا نتیجہ تھا.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۵۷ : ۵۸ اور جملہ ان شہادتوں کے جو حضرت سی علیہ السلام کے صلہ ہے محفوظ رہنے کے بارے میں ہمیں انجیل سے ملتی ہیں وہ شہادت ہے جو انجیل متی باب میں لینے آیت ۳۶ سے آیت ۴۶ تک مرقوم ہے جس میں بیان کیا گیا ہو کہ حضرت سیح علیہ السلام گرفتار کئے جانے کا الہام پاکر تمام رات جناب الہی میں رو رو کر اور سجدے کرتے ہوئے دُعا کرتے رہے.اور ضرور تھا کہ ایسی تفریح کی دُعا جس کے لئے مسیح کو بہت لمبا وقت دیا گیا تھا قبول کی جاتی کیونکہ مقبول کا سوال جو بیقراری کے وقت کا سوال ہو.ہر گز رو نہیں ہوتا.پھر کیوں سیج کی ساری رات کی دُعا اور دردمند دل کی دعا اور مظلومانہ حالت کی دُعارہ ہوگئی.حالانکہ مسیح دعوی کرتا ہے کہ باپ جو آسمان پر ہے میری سنتا ہے.پس کیونکہ باور کیا جائے کہ خدا اسکی سنتا تھا جبکہ ایسی بیقراری کی دعاشنی نہ گئی.اور انجیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ولی یقین تھا کہ اس کی وہ دعا ضرور قبول ہو گئی اور اس دُعا پر اس کو بہت بھروسہ تھا.اسی وجہ سے جب وہ پکڑا گیا اور صلیب پر کھینچا گیا اور ظاہری علامات کو اس نے اپنی امید کے موافق نہ پایا تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا کہ ایلی ریلی لما سبقتانی اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا.لینے مجھے یہ امید ہر گز نہیں تھی کہ میرا انجام یہ ہوگا اور میں صلیب پر مروں گا.اور میں یقین رکھتا تھا کہ تو میری دعائنے گا.پس ان دونوں مقامات انجیل سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح کو خود ولی یقین تھا کہ میری دعا ضرور قبول ہوگی ور میرا تمام رات کا دور وکر دعا کرنا ضائع نہیں جائے گا.اور خود اس نے

Page 280

خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے شگردوں کو تعلیم دی تھی کہ اگر دعا کروگے تو قبول کی جائیگی بلکہ ایک مثال کے طور پر ایک قاضی کی کہانی بھی بیان کی تھی کہ جو نہ خلقت سے اور نہ خدا سے ڈرتا تھا.اور اس کہانی سے بھی مدعا یہ تھا کہ تا حواریوں کو یقین آجائے کہ بے شک خدائے تعالیٰ دعا سنتا ہے.اور اگر چہ مسیح کو اپنے پر ایک بڑی مصیبت کے آنے کا خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم تھا.نگر مسیح نے عارفوں کی طرح اس بنا پر دعا کی کہ خدائے تعالیٰ کے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور ہر ایک محوبہ اثبات اس کے اختیار میں ہے.لہذا یہ واقعہ کہ نعوذ باللہ مسیح کی خود دعا قبول نہ ہوئی.یہ ایک ایسا امر ہے جو شاگردوں پر نہایت بداثر پیدا کرنے والا تھا.سوکیونگ ممکن تھا کہ ایسا نمونہ ہو ایمان کو ضائع کرنے والا تھا.حواریوں کو دیا جاتا جبکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ مسیح جیسے بزرگ نبی کی تمام رات کی پر سوز دعا قبول نہ ہو سکی تو اس بد نمونہ سے اُن کا ایمان ایک سخت امتحان میں پڑتا تھا.لہذا خدائے تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا یہی تھا کہ اس دعا کو قبول کرتا یقینا مجھو کہ وہ دعا جو تین نام مقام میں کی گئی تھی ضرور قبول ہوگئی تھی.ایک اور بات اس جگہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جیسا کہ مسیح کے قتل کے لئے مشورہ ہوا تھا اور اس غرض کے لئے قوم کے بزرگ اور معزز مولوی قیافا نامی سردار کاہن کے گھر میں اکٹھے ہوئے تھے کہ کسی طرح مسیح کو قتل کر دیں.یہی مشورہ حضرت موسیٰ کے قتل کرنے کے لئے ہوا تھا.اور یہی مشورہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کے لئے مکہ میں دارالندوہ کے مقام میں ہوا تھا.مگر قا در خدا نے ان دونوں بزرگ نبیوں کو اس مشورہ کے بداثر سے بچالیا.اور سیح کے لئے جو مشورہ ہوا ان دونوں مشوروں کے درمیان میں ہے.پھر کیا وجہ کہ وہ بچ یا نہ گیا.حالانکہ اس نے ان دونوں بزرگ نبیوں سے بہت زیادہ د عالی.اور پھر جبکہ خدا اپنے پیارے بندوں کی ضرور سنتا ہے اور شریروں کے منشورہ کو باطل کر کے دکھاتا ہے.تو پھر کیا وجہ کہ مسیح کی دُعا نہیں سنی گئی.ہر ایک صادق کا تجربہ ہے که بیقراری اور مظلومانہ حالت کی دعا قبول ہوتی ہے.بلکہ صادق کے لئے مصیبت کا ۲۶۲

Page 281

۲۶۳ PIC وقت نشان ظاہر کرنے کا وقت ہوتا ہے.چنانچہ میں خود اس میں صاحب تجربہ ہوں.بلا شبہ خدائے تعالیٰ دُعاؤں کو سُنتا ہے بالخصوص جبکہ اُس پر بھروسہ کرنے والے مظلوم ہونے کی حالت میں اس کے آستانہ پر گرتے ہیں تو وہ اُن کی فریاد کو پہنچتا ہے اور ایک عجیب طور پر انکی مدد کرتا ہے.اور ہم اس بات کے گواہ ہیں تو پھر کیا باعث اور کیا سبب کہ مسیح کی ایسی بیقراری کی دعا منظور نہ ہوئی ؟ نہیں بلکہ منظور ہوئی اور خدا نے اس کو بچالیا.خدا نے اسکے بچانے کے لئے زمین سے بھی اسباب پیدا کئے اور آسمان سے بھی.یوحنا بنے بیٹی نبی کو خدا نے دعا کرنے کے لئے مہلت نہ دی کیونکہ اس کا وقت آپ کا تھا.گرمی کو دعا کرنے کے لئے تمام رات مہلت دی گئی.اور وہ ساری رات سجدہ میں اور قیام میں خدا کے آگے کھڑا رہا.کیونکہ خدا نے چاہا کہ وہ بیقراری ظاہر کرے.اور اُس خدا سے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں اپنی مخلصی چاہیے سوخدا نے اپنی قدیم سن کے موافق اسکی دعا کو نا.یہودی اس بات میں جھوٹے تھے.جنہوں نے صلیب دیگر قطعنہ مارا کہ اس نے خدا پر توکل کیا تھا کیوں خدا نے اسکو نہ چھڑایا.کیونکہ خدا نے یہودیوں کے تمام منصوبے باطل کئے اور اپنے پیارے سچ کو صلیب اور اس کی لعنت سے بچالیا اور یہودی نامراد رہے.سیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۰ تا ۳۴ نیز دیکھیں.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۴۱، ۲۴۲ اور مجملہ انجیلی شہادتوں کے جو ہم کو ٹلی میں اجیل متی کی وہ آیت ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں ” بابل راستباز کے خون سے بر خیاہ کے بیٹے ذکریا کے خون تک جسے تم نے ہیکل اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا.میں تم سے سے کہتا ہوں کہ یہ سب کچھ اس زمانہ کے لوگوں پر آوے گا دیکھومتی یا سے آیت ۳۶۶۳۵.اب ان آیات پر اگر نظر غور کرو.تو واضح ہوگا کہ ان میں حضرت مسیح علیہ السلام نے صاف طور پر کہ دیا ہے کہ یہودیوں نے

Page 282

جس قدر نبیوں کے خون کئے ان کا سلسلہ ذکر یا نبی تک ختم ہوگیا.اور بعد اس کے یہودی لوگ کسی نبی کے قتل کرنے کے لئے قدرت نہیں پائیں گے.یہ ایک بڑی پیشگوئی ہے اور اس سے نہایت صفائی کے ساتھ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب کے ذریعہ سے قتل نہیں ہوئے بلکہ صلیب سے بچ کر نکل گئے.اور آخر طبعی موت سے فوت ہوئے.کیونکہ اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ حضرت مسیح علیہ السلام بھی ذکریا کی طرح یہودیوں کے ہاتھ سے قتل ہونے والے تھے تو ان آیات میں حضرت مسیح علیہ السلام ضرور اپنے قتل کئے جانے کی طرف بھی اشارہ کرتے.اور اگر یہ کہو کہ گو حضرت مسیح علی الت لام بھی یہودیوں کے ہاتھ سے مارے گئے.لیکن اُن کا مارا جاتا، یہودیوں کے لئے کوئی گناہ کی بات نہیں تھی.کیونکہ وہ بطور کعت رہ کے مارے گئے تو یہ خیال صحیح نہیں ہے کیونکہ یوحنا بابا آیت میں مسیح نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ یہودی مسیح کے قتل کرنے کے ارادہ سے سخت گنہ گار ہیں.اور ایسا ہی اور کئی مقامات میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے.اور صاف لکھا ہے کہ اس جرم کی عوض میں جو مسیح کی نسبت اُن سے ظہور میں آیا خدا تعالے کے نزدیک قابل سزا ٹھر گئے تھے.دیکھو انجیل بایے آیت ۲۴ - مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۳۴، ۳۵ ار منجملہ ان انجیلی شہادتوں کے ہو ہم کو ٹی میں انجیل متی کی وہ عبارت ہے جوذیل میں کھی جاتی رہیں تم سے ہے کہتا ہوں کہ ان میں سے جو یہاں کھڑے ہیں بعضے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اپنی بادشاہت میں آتے دیکھ نہ لیں موت کا مزہ نہ چکھیں گے یہ دیکھو انخیل متی بابا آیت ۲۸.ایسا ہی انجیل یوحنا کی یہ عبارت ہے.یسوع نے اسے کہا کہ اگر میں چاہوں کہ جب تک میں آؤں وہ دینے یوحنا حواری، یہیں ٹھہرے لینے یروشلم میں بھیجو یوحنا باراہل آیت ۲۲ یعنے اگر میں چاہوں تو یوحنا نہ مرے جب تک میں دوبارہ آؤں.ان ۲۶۴ MA

Page 283

۲۶۵ آیات سے بکمال صفائی ثابت ہوتا ہے کہ مسح علیات نام نے وعدہ کیا تھا کہ بعض لوگ اُسوقت تک زندہ رہیں گے جبتک کہ وہ پھر واپس ہو اور ان زندہ رہنے والوں میں سے یوحنا کو بھی قرار دیا تھا.سوضرور تھا کہ یہ وعدہ پورا ہوتا.چنانچہ عیسائیوں نے بھی اس بات کو مان لیا ہے کہ یسوع کا اُس زمانہ میں جبکہ بعض اہل زمانہ زندہ ہوں پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے آنا نہایت ضروری تھا.تا وعدہ کے موافق پیش گوئی ظہور میں آوے.اسی بنا پر پادری صاحبوں کو اس بات کا اقرار ہے کہ یسوع اپنے وعدہ کے موافق یروشلم کی بربادی کے وقت آیا تھا اور یوحنا نے اس کو دیکھا.کیونکہ وہ اس وقت تک زندہ تھا مگر یاد رہے.کہ عیسائی اِس بات کو نہیں مانتے کہ مسیح اُس وقت حقیقی طور پر اپنے قرار داد نشانوں کے موافق آسمان سے نازل ہوا تھا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ایک کشفی رنگ میں یوجنا کو نظر آگیا.تا اپنی اس پیش گوئی کو پورا کرے.جو متی باب ۱۶ آیت ۳۰ میں ہے.نگر میں کہتا ہوں کہ اس قسم کے آنے سے پیش گوئی پوری نہیں ہو سکتی یہ تو نہایت ضعیف تاویل ہے.گویا نکتہ چینیوں سے نہایت تکلف کے ساتھ پیچھا چھڑانا ہے.اور یہ معنے اس قدر غلط اور بدیہی البطلان ہیں کہ اس کے رو کرنے کی بھی حاجت نہیں.کیونکہ اگر مسیح نے خواب یا کشف کے ذریعہ سے کسی پر ظاہر ہونا تھا تو پھر ایسی پیشگوئی گویا ایک ہنسی کی بات تھے.اس طرح تو ایک مدت اسے پہلے حضرت سیح پولوس پر بھی ظاہر ہو چکے تھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیشگوئی ہو تی بارے آیت ۲۰ میں ہے اس نے پادری صاحبوں کو نہایت گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہے.اور وہ اپنے عقیدہ کے موافق کوئی معقول معنے اس کے نہیں کرسکے.کیونکہ یہ کہنا اُن کے لئے مشکل تھا کہ مسی یروشلم کی یہ بادی کے وقت اپنے جلال کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا تھا.اور جس طرح آسمان پر ہر ایک طرف چکنے والی بجلی سب کو نظر آجاتی ہے.سب نے اُس کو دیکھا تھا.اور انجیل کے اس فقرہ کو بھی نظر انداز کرنا ان کے لئے آسان نہ تھا کہ اُن میں سے ہو یہاں کھڑے ہیں بعضے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اپنی بادشاہت میں آتے دیکھ نہ لیں موت کا مزہ نہ چکھیں گے.لہذا نہایت تکلف سے اس پیشگوئی کو کشفی رنگ نہیں

Page 284

مانا گیا مگر یہ نادرست ہے کشفی طور پر تو ہمیشہ خدا کے برگزیدہ بندے خاص لوگوں کو نظر آجایا کرتے ہیں.اور کشفی طور میں خواب کی بھی شرط نہیں بلکہ بیداری میں ہی نظر آجاتے ہیں.چنانچہ میں خود اس میں صاحب تجربہ ہوں.میں نے کئی دفعہ کشفی طور پر حضرت سی علیہ السلام کو دیکھا ہے.اور بعض نبیوں سے بھی میں نے عین بیداری میں ملاقات کی ہے.اور میں نے سید و مولی اپنے امام نبی مد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی کئی دفعہ عین بیداری میں دیکھا ہے اور باتیں کی ہیں.اور ایسی صاف بیداری سے دیکھا ہے جسکے ساتھ خواب حالت کا نام ونشان نہ تھا.اور میں نے بعض اور وفات یافتہ لوگوں سے بھی انکی قبر پر یا اور موقعہ پر عین بیداری میں ملاقات کی ہے اور اُن سے باتیں کی ہیں.میں خوب جانتا ہوں کہ اس طرح پر عین بیداری میں گذشتہ لوگوں کی ملاقات ہو جاتی ہے اور نہ صرف ملاقات بلکہ گفتگو ہوتی ہے اور مصالحہ بھی ہوتا ہے اور اس بیداری اور روز مرہ کی بیداری میں لوازم تواس میں کچھ بھی فرق نہیں ہوتا.دیکھا جاتا ہے کہ ہم اسی عالم میں ہیں اور یہی کان ہیں اور یہی آنکھیں میں اور یہی زبان ہے.گر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالم اور ہے.دنیا اس قسم کی بیداری کو نہیں جانتی کیونکہ دنیا غفلت کی زندگی میں پڑی ہے.یہ بیداری آسمان سے ملتی ہو.یہ اُنکو دیکھاتی ہے جنگو نئے سو اس ملتے ہیں.یہ ایک صحیح با ہے، اور واقعات حقہ میں نہر ہے.پس اگر مسیح اسی طرح یروشلم کی بربادی کے وقت یون کو نظر آیا تھا.تو گودہ بیداری میں نظر آیا در گ اس سے باتیں بھی کی ہوں اور مصافحہ کیا ہو.تاہم وہ واقعہ اس پیشگوئی سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتا.بلکہ یہ ہ امر ہیں جو ہمیشہ دنیا میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور اب بھی اگر ہم توجہ کریں تو خدا کے فضل سے میچ کو یا اور کسی مقدس نبی کو میں بیداری میں دیکھ سکتے ہیں.لیکن ایسی ملاقات سے متی بابت آیت ۲۰ کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہو سکتی.سو اصل حقیقت یہ ہے کہ چونکہ میچ جانتا تھا کہ میں صلیہ سے بچ کر دوسرے ملک میں چلا جاؤنگا اور خدا نہ مجھے ہلاک کرے گا اور نہ دنیا سے اٹھائی گا جب تک کہ میں یہودیوں کی بربادی اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں.اور جب تک کہ وہ بادشاہت جو برگزیدوں ۲۶۶

Page 285

۲۶۷ ۲۱۹ کے لئے آسمان میں مقرر ہوتی ہے اپنے نتائج نہ دکھلاوے میں ہرگز وفات نہیں پاؤں گا.اس لئے مسیح نے یہ پیش گوئی کی تا اپنے شاگردوں کو اطمینان دے کہ عنقریب تم میرا یہ نشان دیکھو گے کہ جنوں نے مجھ پر تلوار اٹھائی ہ میری زندگی اور میرے مسافر میں تلواروں سے ہی قتل کئے جائیں گے.سو اگر ثبوت کچھ چیر ہے تو اس سے بڑھ کر عیسائیوں کے لیئے اور کوئی ثبوت نہیں کہ مسیح اپنے منہ سے پیش گوئی کرتا ہے کہ ابھی تم میں سے بعض زندہ ہوں کہ میں پھر آؤں گا.یادر ہے کہ انجیلوں میں قسم کی پیش گوئیاں ہیں وحضرت سیح کے آنے کے متعلق ہیں (ا ) ایک وہ جو آخری زمانہ میں آنے کا وعدہ ہے وہ وعدہ روحانی طور پر ہے اور وہ آنا سی قسم کا نا ہے جیسا کہ ایمانی سیم کے وقت دوبارہ آیا تھا سو وہ ہمارے اس زمانہ میں یلیا کی طرح آپکا اوروہ یہی راقم ہے جو خادم نوع انسان ہے جو مسیح موعود ہوکر میں علی السلام کے نام پر آیا.اور سیج نے میری نسبت انجیل میں خبر دی ہے.سو مبارک وہ بواسیح کی تعظیم کے لیئے میرے باب میں دیانت اور انصاف سے غور کرے اور ٹھوکر نہ کھاوے.(۲) دوسری قسم کی پیش گوئیاں ہو مسیح کے دوبارہ آنے کے متعلق انجیلوں میں پائی جاتی ہیں وہ در حقیقت مسیح کی اس زندگی کے ثبوت کے لئے بیان کی گئی ہیں جو صلیب کے بعد خدائے تعالی کے فضل سے قائم اور بحال رہی.اور صلیبی موت سے خدا نے اپنے برگزیدہ کو بچالیا.جیسا کہ یہ پیش گوئی جو ابھی بیان کی گئی.عیسائیوں کی یہ غلطی ہے کہ ان دونوں مقاموں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیتے ہیں.اور اسی وجہ سے بڑی گھبراہٹ اور طرح طرح کے مشکلات آنکو پیش آتے ہیں.غرض مسیح کے صلیب سے بچ جانے کے لئے یہ آیت و متی 14 باب میں پائی جاتی ہے بڑا ثبوت ہے.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۳۵ تا ۳۸ ور مجمل انجیل شہادتوں کے جو ہم کوئل میں انجیل متی کی مندرجہ ذیل آیت ہے." اور

Page 286

اُس وقت انسان کے بیٹے کا نشان آسمان پر ظاہر ہوگا.اور اُس وقت زمین کی ساری قو میں چھاتی پیٹیں گی اور انسان کے بیٹے کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے ؟ دیکھو متی باب ۲۴ آیت ۳۰.اس آیت کا اصل مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئنے والا ہے کہ جبکہ آسمان سے ینے محض خدا کی قدرت سے ایسے علوم اور دلائل اور شہادتیں پیدا ہو جائینگی کہ جو آپ کی الوہیت یا صلیب پر فوت ہونے اور آسمان پر جانے اور دوبارہ آنے کے عقیدہ کا بابل ہونا ثابت کر دینگی.اور جو قومیں آپ کے نبی صادق ہونے کی منکر تھیں بلکہ صلیب دیئے جانے کی وجہ سے انکو لعنتی سمجھتی تھیں جیسا کہ یہود اُن کے جھوٹ پر بھی آسمان گواہی دیگا.کیونکہ یہ حقیقت بخوبی کھل جائیگی کہ وہ مصلوب نہیں ہوئے اسے لے لعنتی بھی نہیں ہوئے.تب زمین کی تمام قومیں جنہوں نے اُنکے حق میں افراط یا تفریط کی تھی ماتم کرینگی اور پی علی کی ہو جیسے سخت ندامت اور خجالت اُنکے شامل حال ہوگی.اور اسی زمانہ میں جبکہ حقیقت کھل جائیگی لوگ روحانی طور پریس کو زمین پر نازل ہوتے دیکھیں گے.یعنی انہی دنوں میں مسیح موعود یو اُن کی قوت اور طبیعت میں ہو کر آئیگا.آسمانی تائید سے اور اسی قدرت اور جلال سے جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے اُس کے شامل ہو گی اپنے چکتے ہوئے ثبوت کے ساتھ ظاہر ہو گا اور پہچانا جائے گا.اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی قضا و قدر سے حضرت عیسی علیہ السلام کا ایسا وجود ہے اور ایسے واقعات ہیں جو بعض قوموں نے ان کی نسبت افراط کیا ہے اور بعض نے تفریط کی راہ لی ہے.یعنے ایک وہ قوم ہے کہ جو انسانی لوازم سے اُن کو دُور تر لے گئی ہے.یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں کہ اب تک وہ قوت نہیں ہوئے اور آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں.اور ان سے بڑھ کر وہ قوم ہے جو کہتے ہیں کہ صلیب پر فوت ہو کر اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر آسمان پر پہلے گئے ہیں اور خدائی کے تمام اختیار انکو مل گئے ہیں بلکہ وہ خود خدا ہیں.اور دوسری قوم یہودی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ صلیب پر مارے گئے اس لئے نعوذ باللہ وہ ہمیشہ کے لئے لعنتی ہوئے اور ہمیشہ کیلئے مور د غضب.۲۶۸

Page 287

۲۶۹ اور خدا اُن سے بیزار ہے اور بیزاری اور دشمنی کی نظر سے اُن کو دیکھتا ہے اور وہ کا ذب اور مفتری اور نعوذ باللہ کا فرادر ملحد ہیں اور خدا کی طرف سے نہیں ہیں.سو یہ افراط اور تفریط ایسا ظلم سے بھرا ہوا طریق تھا کہ ضرور تھا کہ خدای تعالی اپنے سچے نبی کو ان ان الزاموں سے برسی کرتا.سو انجیل کی آیت مذکورہ بالا کا اسی بات کی طرف اشارہ ہے اور یہ جو کہا کہ زمین کی ساری قومیں چھاتی پیٹیں گی.یہ اس بات کی طرف ایما ئی گئی ہے کہ وہ تمام فرقے جن پر قوم کا لفظ اطلاق پاسکتا ہے اُس روز چھاتی پیٹیں گی اور تجزع فزع کرینگی اور ان کا نام سخت ہوگا.اس جگہ عیسائیوں کو ذرہ توجہ سے اس آیت کو پڑھنا چاہئیے اور سوچنا چاہیئے کہ جبکہ اس آیت میں کل قوموں کے چھاتی پیٹنے کے بارے میں پیش گوئی کی گئی ہے تو اس صورت میں عیسائی اس ماتم سے کیونکر با رہ سکتے ہیں.کیا وہ تو نہیں ہیں.اور جبکہ وہ بھی اس آیت کے رو سے چھاتی پیٹنے والوں میں داخل ہیں.تو پھر وہ کیوں اپنی نجات کا فکر نہیں کرتے.اس آیت میں صاف طور پر بتلا یا گیا ہو کہ جب مسیح کا نشان آسمان پر ظاہر ہو گا تو زمین پر بھی قومیں ہیں وہ چھاتی پیٹیں گی سوالی انص میسج کو جھٹلاتا ہے جو کہتا ہے کہ ہماری قوم چھاتی نہیں بیٹے گی.بھی وہ لوگ چھاتی پیٹنے کی پیشگوئی کا مصداق نہیں ٹھہر سکتے جنکی جماعت ابھی تھوڑی ہے اور اس لائق نہیں ہے جو اسکو قوم کہا جائے.اور وہ ہمارا فرقہ ہے بلکہ یہی ایک فرقہ ہے جو پیشگوئی کے اثر اور دلالت سے باہر ہے کیونکہ اس فرقہ کے ابھی چند آدمی ہیں جو کسی طرح قوم کا لفظ مٹی پر صادق نہیں آسکتا میسج نے خدا سے ابہام پاکر بتلایا کہ جب آسمان پر ایک نشان ظاہر ہوگا تو زمین کے کل وہ گروہ جو بباعث اپنی کثرت کے قوم کہلانے کے متفق ہیں چھاتی پیٹیں گے اور کوئی ن میں سے بات نہیں رہیگا گرو ہی کم تعداد لوگ جن پر قوم کا لفظ صادق نہیں آسکتا.اس پیش گوئی کے مصداق سے نہ عیسائی باہر ہوسکتے ہیں اور نہ اس زمانہ کے مسلمان اور نہ یہودی اورنہ کوئی اور مہذب.صرف ہماری یہ جماعت ہے کیونکہ ابھی دانے انکو تم کی طرح لایا ہے

Page 288

نبی کا کلام کسی طورسے جھوٹا نہیں ہوسکتا، جبکہ کلام میں صاف یہ اشارہ ہو کہ ہر ایک قوم جو زمین پر سے چھاتی پیٹے گی تو ان قوموں میں سے کونسی قوم باہر رہ سکتی ہے.بیج نے تو اس آیت میں کسی قوم کا استثنا نہیں کیا.ہاں وہ جماعت بہر صورت مستثنی ہو جو بھی قوم کے اندازہ تک نہیں پہنچی یعنے ہماری جماعت.اور یہ پیش گوئی اس زمانہ میں نہایت صفائی سے پوری ہوئی کیونکہ وہ ہنچائی جو حضرت مسیح کی نسبت اب پوری ہوئی ہے وہ بلاشبہ ان تمام قوموں کے ماتم کا موجب ہے کیونکہ اس سے سب کی غلطی ظاہر ہوتی ہے اور سب کی پردہ دری ظہور میں آتی ہے.عیسائیوں کے خدا بنانے کا شور و غوغا حسرت کی آنہوں سے بدل جاتا ہے مسلمانوں کا دن رات کا ضد کرنا کہ مسے آسان پر زندہ گیا آسمان پر زندہ گیا رونے اور ماتم کے رنگ میں آجاتا ہے اور یہودیوں کا تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا.اور اس جگہ یہ بھی بیان کردینے کے لائق ہو کہ آیت مذکورہ بالا میں جو لکھا ہو کہ اسوقت زمین کی ساری قومیں چھاتی پیٹیں گی.اسجگہ زمین سے مراد بلاد شام کی زمین ہے جس سے یہ تینوں قومیں تعلق رکھتی ہیں.یہودی اسلئے کہ وہی انکا مبداء اور منبع ہو اور اسی جگہ اُن کا معبد ہے.عیسائی اسلئے کہ حضرت مسیح اسی جگہ ہوئے ہیں اور عیسائی مذہب کی پہلی قوم اسی ملک میں پیدا ہوئی ہے مسلمان اس لئے کہ وہ اس زمین کے قیامت تک وارث ہیں.اور اگر زمین کے لفظ کے معنے ہریک نہیں لی جائے بھی کچھ نہیں کیونکہ حقی لکھنے پرمر کے نام ہوگا مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۳۸ تا اسم ور جملہ ان شہادتوں کے جو نبیل سے ہم کوئی ہیں جیل متی کی وہ بار ہے، جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں.اور قبریں کھل گئیں اور بہت لمیں پاک لوگوں کی تو امام میں تھیں تھی اور اسکے اٹھنے کےبعد دینے میسج کے اٹھنے کے بعد قبروں میں سے نکل کر اور مقدس شہرمیں جاکر بہتوں کو نظر آئیں.دیکھو انجیل متی با با آیت ۵۲ - اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ قصہ جوانجیل میں بیان کیا گیا ہے کہ سینے کے اٹھنے کے بعد پاک لوگ قبروں میں سے باہر نکل آئے اور زندہ ہو کر بہتوں کو نظر آئے یہ کسی تاریخی

Page 289

۲۷۱ واقعہ کا بیان نہیں پہ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر گویا اسی دنیا میں قیامت نمودار ہو جاتی اور وہ امر جو صدق اور ایمان دیکھنے کیلئے دنیا مخفی رکھا گیا تھا وہ سب پر کھل جاتا اور ایمان ایمان نہ رہتا اور ہری مومن اور کافر کی نظرمیں آنیوالے عام کی حقیقت ایک بدیہی چیز ہو جاتی جیساکہ چاند اور سورج اور ون اور رات کا وجود با یہی ہے تب یمان اسی قیمتی اور قابل قدر چیز نہ ہوتی چپر جو پانے کی کچھ امید ہوسکتی اگر لوگ اور بنی اسرائیل کے گذشتہ نبی جنکی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے بچے بچے واقعہ صلیب کے وقت زندہ ہو گئے تھے اور زندہ ہو کر شہر میں آگئے تھے اور حقیقت میں مسیح کی سچائی اور خدائی ثابت کرنے کے لئے پیجزہ دکھایا گیا تھا جود یا نبیوں اور لاکھوں راستبازوں کو ایکدم میں زندہ کردیا گیا تو اس صورت میں یہودیوں کو ایک عمدہ موقعہ ملا تھا کہ وہ زندہ شدہ نبیوں اور دو سمت راستبازوں اور اپنے فوت شدہ باپ دادوں سے سیج کی نسبت دریافت کرتے کہ کیا یہ شخص جو خدائی کا دعوئی کرتا ہے در حقیقت خدا ہے یا کہ اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہے.اور قرین قیاس ہے کہ اس موقعہ کو انہوں نے ہاتھ سے نہ دیا ہوگا.اور ضرور دریافت کیا ہوگا کہ شیر ض کیسا ہے.کیونکہ یہودی ان باتوں کے بہت تو نہیں تھے کہ اگر مرد سے دنیا میں دوبارہ آجائیں تو اُن سے دریافت کریں تو پھر میں بحالت میں لاکھوں مردے زندہ ہو کر شہر میں آگئے اور ہر ایک محلہ میں ہزاروں مردے چلے گئے تو ایسے موقعہ کو یہودی کیونکر چھوڑ سکتے تھے ضرور انہوں نے نہ ایک نہ دو سے بلکہ ہزاروں سے پوچھا ہو گا.اور جب یہ مُردے اپنے اپنے گھروں میں داخل ہوئے ہونگے.تو ان لاکھوں انسانوں کے دنیا میں دوبارہ آنے سے گھر گھر میں شور پڑ گیا ہوگا.اور ہر ایک گھر میں یہی شغل اور یہی ذکر اور یہی تذکرہ شروع ہو گیا ہوگا کہ مردوں سے پوچھتے ہونگے کہ کیا آپ لوگ اس شخص کو جو یسوع مسیح کہلاتا ہے حقیقت میں خدا جانتے ہیں.مگر چونکہ مردوں کی اس گواہی کے بعد جیسا کہ امید تھی یہودی حضرت مسیح پر ایمان نہیں لائے اور نہ کچھ نرم دل ہوئے بلکہ اور بھی سخت دل ہوگئے تو غالبا معلوم ہوتا ہے کہ مرد وں نے کوئی اچھی گواہی نہیں دی بلکہ بلا توقف یہ جواب دیا ہوگا کہ یہ شخص اپنے اس دعوئے خدائی میں بالکل جھوٹا ہے اور خدا

Page 290

پر بہتان باندھتا ہے.تبھی تو لاکھوں انسان بلکہ پیغمبروں اور رسولوں کے زندہ ہونے کے بعد بھی یہودی اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے اور حضرت مسیح کو مار کر پھر دوسروں کے قتل کی طرف متوجہ ہوئے.بھلا یہ بات سمجھ آسکتی ہے کہ لاکھوں راستباز کہ جو حضرت آدم سے لے کہ حضرت کیٹی تک اس زمین پاک کی قبروں میں سوئے ہوئے تھے وہ سب کے سب زندہ ہو جائیں اور پھر وعظ کرنے کے لئے شہرمیں آئیں اور ہر ایک کھڑا ہو کر ہمزاد ہی انسانوں کے سامنے یہ گواہی دے کہ در حقیقت میسوع مسیح خدا کا بیٹا بلکہ خود خدا ہے اسی کی پو سبا اکیپ کرو اور پہلے خیالات چھوڑو ورنہ تمہارے لئے جہنم ہے جس کو خود ہم دیکھ کر آئے ہیں.اور پھر باوجود اس اعلی درجہ کی گواہی اور شہادت رویت کے بولا کھوں راستباز مردوں کے منہ سے نکل یہودی اپنے انکار سے باز نہ آئیں.ہمارا کانشنس تو اس بات کو نہیں مانتا.پس اگر فی الحقیقت لاکھوں راستباز فوت شدہ پیغمبر اور رسول وغیرہ زندہ ہو کر گواہی کے لئے شہر میں آئے تھے تو کچھ شک نہیں کہ انہوں نے کچھ الٹی ہی گواہی دی ہو گی.اور ہرگز حضرت مسیح کی خدائی کو تصدیق نہیں کیا ہوگا.تبھی تو یہودی لوگ مردوں کی گواہیوں کو شنکر اپنے کفر پر پہلے ہو گئے.اور حضرت مسیح تو اُن سے خدائی منوانا چاہتے تھے.مگر وہ تو اس گواہی کے بعد نبوت سے بھی منکر ہو بیٹھے.غرض ایسے عقیدے نہایت مضر اور بد اثر ڈالنے والے ہیں کہ ایسا یقین کیا جائے کہ یہ لاکھوں مردے یا اس سے پہلے کوئی مردہ حضرت مسیح نے زندہ کیا تھا کیونکہ اُن مردوں کے زندہ ہونے کے بعد کوئی نیک نتیجہ پیدا نہیں ہوا.یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ اگر مثلاً کوئی شخص کسی دور دراز ملک میں جاتا ہے اور چند برس کے بعد اپنے شہر میں واپس آتا ہے تو طبعا اُس کے دل میں یہ جوش ہوتا ہے کہ اس ملک کے عجائب غرائب لوگوں کے پاس بیان کرے اور اُس ولایت کے مجیب در عجیب واقعا سے اُن لوگوں کو اطلاع سے نہ یہ کہ اتنی مدت کی جدائی کے بعد جب اپنے لوگوں کو ملے تو زبان بند رکھے

Page 291

۲۷۳ | اور گونگوں کی طرح بیٹھا ہے بلکہ ایسے موقعہ میں دوسرے لوگوں میں بھی فطرتا یہ جوش پیدا ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے پاس دوڑے آتے ہیں اور اس ملک کے حالات اس سے پوچھتے ہیں.اور اگر ایسا اتفاق ہو کہ ان لوگوں کے ملک میں کوئی غریب شکستہ حال وارد ہو جسکی ظاہری حیثیت غریبا نہ ہو اور وہ دعوی کرتا ہو کہ ہمیں اس ملک کے بادشاہ ہوں جسے پایہ تخت کا سیر کر کے یہ لوگ آئے ہیں.اور میکں فلاں فلاں بادشاہ سے بھی اپنے شاہانہ مرتبہ ہمیں اول درجہ پر ہوں تو لوگ ایسے سیاحوں سے ضرور پوچھا کتے ہیں کہ بھلا یہ تو بتلائیے کہ فلان شخص جو ان دونوں میں پہلے ملک میں اس ملک سے آیا ہوا ہے کیا سچ مچ یہ اس ملک کا بادشاہ ہے اور پھر وہ لوگ جیسا کہ واقعہ ہو بتلا دیا کرتے ہیں تو اس صورت میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت مسیح کے ہاتھ سے مردوں کا نہ نہ ہو نا فقط اس حالت میں قابل پذیرائی ہوتا جبکہ وہ گواہی جو اُن سے پوچھی گئی ہوگی جس کا پوچھا جانا ایک طبیعی امر ہے کوئی مفید نتیجہ بخشتی لیکن اس جگہ ایسا نہیں ہے پس تا چار اس بات کے فرض کرنے سے کہ مرے زندہ ہوئے تھے اس بات کو بھی ساتھ ہی فرض کرنا پڑتا ہے کہ ان مردوں نے حضرت مسیح کے حق میں کوئی مصیب گواہی نہیں دی ہوگی جیسے ان کی سچائی تسلیم کیجاتی بلکہ ایسی گواہی دی جی جسے اور بھی فتنہ بڑھ گیا ہو گا.کاش اگر انسانوں کی جگہ دو سے چار پالوں کا زندہ کرنا بیان کیا جاتا تو اس میں بہت کچھ پردہ پوشی منصور تھی.مثلاً یہ کہا جاتاکہ حضرت نے کئی ہزار بیل نہ ندہ کئے تھے تو یہ بات بہت معقول ہوتی اور کسی کے اعتراض کے وقت جبکہ مذکورہ بالا اعتراض کیا جاتا لیتے یہ کہا جاتا کہ ان مردوں کی گواہی کا نتیجہ کیا ہو تو ہم فی الفور کہ سکتے کہ وہ تو بیل تھے انکی زبان کہاں تھی جو بھلی یا بری گواہی دیتے بھلا وہ تو لاکھوں مردے تھے جو حضرت مسیح نے زندہ کئے آج مثلاً چند ہندوؤں کو بلا کر پوچھو کہ اگر تمہارے فوت شدہ باپ داد ے دس ہیں زندہ ہو کر دنیا میں واپس آجائیں اور گواہی دیں کہ فلاں مذہب سچا ہے تو کیا پھر بھی تم کو اس مذہب کی سچائی میں شک باقی رہ جائیگا.تو

Page 292

ہرگز نفی کا جواب نہیں دینگے پس یقینا سمجھو کہ دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں کہ اسقدر انکشان کے بعد پھر بھی اپنے کفر اور انکار پر اڑا رہے.افسوس ہو کہ ایسی کہانیوں کی بندش میں ہمارے مالک کے سکھ خالصہ عیسائیوں سے اچھے رہے اور انہوں نے ایسی کہانیوں کے بنانے میں خوب ہوشیاری کی.کیونکہ وہ بیان کرتے ہیں کہ اُنکے گور و باور نانک نے ایک دفعہ ایک ہاتھی مردہ زند کیا تھا اب یہ اس قسم کا معجزہ ہے کہ نتائج مذکورہ کا اعتراض اسپر وارد نہیں ہوتا کیونکہ سکھہ کر سکتے یں کہ کیا ہاتھی کی کوئی بولنے والی زبان ہو کہ تا با وا نانک کی تصدیق یا تکذیب کرتا غرض عوام تو اپنی چھوٹی سی عقل کی وجہ سے ایسے معجزات پر بہت خوش ہوتے ہیں گر عقلمند غیر قوموں کے اعترانوں کا نشانہ بنکر کوفتہ خاطر ہوتے ہیں اور جس مجلس میں ایسی بیہودہ کہانیاں کی جائیں وہ بہت شرمندہ ہوتے ہیں.اب چونکہ ہم کو حضرت ح علیہ السلام سے ایسا ہی محبت اور اخلاص کا تعلق ہے جیسا کہ عیسائیوں کو تلی ہے بلکہ ہم بہت بڑھ کر تا ہے کیونکہ وہ نہیں جانے کہ وہ س کی تعریف کرتے ہیں مگرہم جانتے ہیں کہ مکس کی تعریف کرتے ہیں کیونکہ ہم نے ان کو دیکھاہے لہذا اب ہم اس عقیدہ کی اصل حقیقت کو کھولتے ہیں کہ جو انجیلوں میں لکھا ہے کہ صلیب کے واقعہ کے وقت تمام راستباز فوت شدہ زندہ ہوکر شہر میں آگئے تھے.پس واضح ہو کہ یہ ایک کشفی امر تھا جو صلیب کے واقعہ کے بعد بعض پاک دل لوگوں نے خواب کی طرح دیکھا تھا کہ گو یا مقدس مردے زندہ ہو کر شہر میں آگئے ہیں اور لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور جیسا کہ خوابوں کی تعبیر تعدا کی پاک کتابوں میں کی گئی ہے.مثلاً جیسا کہ حضرت یوسف کی خواب کی تعبیر کی گئی.ایسا ہی اس خواب کی بھی ایک تعبیر تھی.اور وہ یہ تعبیر تھی کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا اور خدا نے اسکو صلیب کی موت سے نجات دیدی.اور اگر ہم سے یہ سوال کیا جائے کہ یہ تعبیر نہیں کہاں سے معلوم ہوئی تو اس کا یہ جواب ہے کہ فن تعبیر کے اماموں نے ایسا ہی لکھا ہے اور تمام معبرین نے اپنے تجربہ سے سپر گواہی دی ہے.چنانچہ ہم قدیم زمانہ کی ایک نام فن تعبیر بنے صاحب کتاب تخطیر الانام کی تعبیر کو اسکی اصل عبادت کے ساتھ ذیل میں لکھتے ہیں.اور وہ یہ ہے.من رای ان ۲۷۴

Page 293

۲۷۵ ۲۲۱ الموتى وثبوا من قبورهم ورجعوا إلى دورهم فانه يطلق من في السجن - دیکھو کتاب تعطير الانام في تعبير المنام مصنفہ قطب الزمان شیخ عبد الغني النابلسي صفحه ۲۸۹ - ترجمه اگر کوئی یہ خواب دیکھے یا کشفی طور پر مشاہدہ کرے کہ مردے قبروں میں سے نکل آئے اور اپنے گھروں کی طرف رجوع کیا تو اس کی یہ تعبیر ہے کہ ایک قیدی قید سے رہائی پائیگا اور ظالموں کے ہاتھ سے اس کو مخلصی حاصل ہوگی.طرز بیان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قیدی ہوگا کہ ایک شان اور عظمت رکھتا ہوگا.اب دیکھو یہ تعبیر کیسی معقولی طور پر حضرت مسیح علیہ السلام پر صادق آتی ہے اور فی الفور سمجھ آجاتا ہے کہ اسی اشارہ کے ظاہر کرنے کے لئے قوت شده است باز زندہ ہو کر شہر میں داخل ہوتے نظر آئے کہ تا اہل فراست معلوم کریں کہ حضرت مسیح صلیبی موت سے بچائے گئے.ایسا ہی اور بہت سے مقامات انجیلوں میں پائے جاتے ہیں میں سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلی کے ذریعہ سے نہیں کرے بلکہ مخلصی پارسی دو سے ملک میں چلے گئے.یکن میں خیال کرتا ہوں کہمیں قدر میں نے بیان کیا ہو و منصفوں کے مجھنے کیلئے کافی ہے.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۴۱ تا ۴۶ ممکن ہے کہ بعض لوں میں یہ اعتراض پیدا ہو کہ انجیلوں میں یہ بھی تو بار بار ذکر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت ہوگئے اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر پہلے گئے.ایسے اعتراضات کا جواب میں پہلے بطور اختصار دے چکا ہوں.اور اب بھی.اس قدر بیان کر دینا مناسب خیال کرتا ہوں کہ جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیبی واقعہ کے بعد حواریوں کو ملے اور گلیل تک سفر کیا اور روٹی کھائی اور کباب کھائے اور اپنے زخم دکھلائے اور ایک رات بمقام الملوس حواریوں کے ساتھ رہے اور خفیہ طور پر پلا طوس کے علاقہ سے بھاگے اور نبیوں کی سنت کے موافق اس ملک سے ہجرت کی اور ڈرتے ہوئے سفر کیا تو یہ تمام واقعات اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ میلب

Page 294

پر فوت نہیں ہوئے تھے اور ان جسم کے تمام اور انکے ساتھ تھے اور کوئی نئی تبد یلی اُن میں پیدا نہیں ہوئی تھی اور آسمان پر چڑھنے کی کوئی عینی شہادت انجیل سے نہیں ملتی اور اگر ایسی شہادت ہوتی بھی تب بھی لائق اعتبار نہ تھی کیونکہ نبیل نویسوں کی یہ عادت معلوم ہوتی ہے کہ وہ بات کا بتنگڑ بنالیتے ہیں اور ایک ذرہ سی بات پر حاشیے چڑھاتے چڑھاتے ایک پہاڑ اس کو کر دیتے ہیں مثلا کسی انہیں نویں کے منہ سے نکل گیا کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے.اب دوسرا انجیل نویس اس فکر میں پڑتا ہے کہ اس کو پورا خدا بنادے اور تیسرا تمام زمین آسمان کے اختیار اسکو دیتا ہے اور چوتھا ونشتگان کہ دیتا ہے کہ وہی ہے جو کچھ ہے اور کوئی دوسرا خدا نہیں.غرض اس طرح پر کھینچے کھینچتے کہیں کا نہیں لیجاتے ہیں.دیکھو وہ رویا جس میں نظر آیا تھا کہ گویا مردے قبروں میں سے اُٹھ کر شہر میں چلے گئے.اب ظاہری معنوں پر زور دیکر یہ بتایا گیا کہ حقیقت میں مردے قبروں میں سے باہر نکل آئے تھے اور پر شیلم شہر میں آکر اور لوگوں سے ملاقاتیں کی تھیں.اس جگہ غور کرو کہ کیسے ایک پر کا کوا بنایا گیا.پھر وہ ایک کوا نہ رہا بلکہ لاکھوں کوے اُڑائے گئے.جس جگہ مبالغہ کا ہر پیال ہو اُس جگہ حقیقتوں کا کیو نکر پتہ لگے.غور کے لائق ہے کہ ان انجیلوں میں جو خدا کی کتابیں کہلاتی ہیں ایسے ایسے مبالغات بھی لکھے گئے کہ مسیح نے وہ کام کئے کہ اگر وہ سب کے سب لکھے جاتے تو وہ کہتا ہیں جن میں وہ لکھے جاتے دنیا میں نہ سماسکتیں.کیا اتنا مبالغہ طریق دیانت و امانت ہے.کیا یہ سچ نہیں ہو کہ گرمی کے کام ایسے ہی خیر محدود اور حد بندی سے باہر تھے تو تین برس کی حد میں کیونکر آگئے.ان انجیلوں میں یہ بھی خرابی ہو کہ بعض پہلی کتابوں کے حوالے غلط بھی دیئے ہیں.شجرہ نسب سی کو بھی صحیح طور پر لکھ نہ سکے.انجیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگوں کی عقل کچھ موٹی تھی یہانتک کہ بعض حضرت مسیح کو بھوت سمجھ بیٹھے اور ان انجیلوں پر قدیم سے یہ بھی الزام چلا آتا ہے کہ وہ اپنی صحت کوئی بیان نہیں کرتا کہیں اس بات کا گواہ ہوںاور میری آنکھوں نے دیکھا ہو کہ وہ آسمان پر چڑھ گئے تھے.منعم

Page 295

پر باقی نہیں رہیں.اور خود جس حالت میں بہت سی اور بھی کتابیں انجیل کے نام سے تالیف کی گئیں.تو ہمارے پاس کوئی پختہ دلیل اس بات پہ نہیں کہ کیوں اُن دوسری کتابوں کے سب کے سب مضمون رہ گئے جائیں اور کیوں ان انجیلوں کا نگل لکھا ہوا ملان لیا جائے.ہم خیال نہیں کر سکتے کہ کبھی دوسری انجیلوں میں اس قدر بے اصل مبالغات لکھے گئے ہیں جیسا کہ ان چار انجیلوں میں عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو ان کتابوں میں میسیج کا پاک اور بے داغ چال چلن مانا جاتا ہے اور دوسری طرف اسپر ایسے الزام لگائے جاتے ہیں جو کسی راستباز کی شان کے ہرگز مناسب نہیں ہیں مثلاً اسرائیلی نبیوں نے یوں تو توریت کے منشاء کے موافق ایک ہی وقت میں ضد ہا بیویوں کو رکھانا پاکوں کی نسل کثرت سے پیدا ہو.مگر آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کسی نبی نے اپنی بے قیدی کا یہ نمونہ دکھلایا کہ ایک نا پاک بدکردار عورت اور شہر کی مشہور فاسقہ اسکے بدن سے اپنے ہاتھ لگائے اور اسکے سر پر حرام کی کمائی کا تیل ملے اور اپنے بال اسکے پاؤں پر لے اور وہ یہ سب کچھ ایک جوان ناپاک خیال عورت سے ہونے دے اور منع نہ کرے.اس جگہ صرف نیک خلفی کی برکت سے انسان ان اور عام سے بچ سکتا ہے جو طبعاً ایسے نظارہ کے بعد پیدا ہوتے ہیں.لیکن بہر حال یہ نمونہ دوسروں کے لئے اچھا نہیں.غرض ان انجیلوں میں بہت سی باتیں ایسی بھری پڑی ہیں کہ وہ بتلا رہی ہیں کہ یہ انجیلیں اپنی اصلی حالت پر قائم نہیں رہیں ان کے بنانیوالے کوئی اور یں حواری اور ا نکے شاگرد نہیں ہیں.مثلاً انجیل متی کا یہ قول یہ اور یہ بات آجتک یہودیوں میں مشہور ہے" کیا اس کا لکھنے والا متی کو قرار دینا صحیح اور مناسب ہو سکتا ہے ؟ کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اس انجیل متی کا لکھنے والا کوئی اور شخص ہے جومستی کی وفات کے بعد گذرا ہے.پھر اسی انجیل متی بات آیت ۱۴و۱۳ میں ہے " تب انہوں نے لینے یہودیوں نے بزرگوں کے ساتھ اکٹھے ہو کر ملاح کی اور ان پہرہ والوں کو بہت رویے دیئے اور کہا تم کہو کہ رات کو جب ہم سوتے تھے.اسکے شاگر دینے مسیح کے شاگرا کر اس پر کئے گئے یہ دیکھو کیسی کچی او نا معقول باتیں ہیں.اگر اس سے مطلب یہ ہے کہ یہودی اس بات کو پوشیدہ کرنا چاہتے تھے کہ یسوع مردوں

Page 296

میں گھی اٹھا ہے اس لئے انہوں نے پہرہ والوں کو رشوت دی تھی کہ تا عظیم الشان معجزه اُن کی قوم میں مشہور نہ ہو.تو یوں یسوع نے جس کا یہ فرض تھا کہ اپنے اس معجزہ کی یہودیوں میں اشاعت کرتا.اس کو مخفی رکھا بلکہ دوسروں کو بھی اسکے ظاہر کرنے سے منع کیا.اگر یہ کہو کہ اس کو پکڑے جانے کا خوف تھا تو میں کہتا ہوں کہ جب ایک دفعہ خدا تعالیٰ کی تقدیر پر وارد ہو چکی اور وہ مرکر پھر لالی جس کے ساتھ زندہ ہوچکا تو اب اسکو یہودیوں کا کیاخوت تھا کیونکہ اب یہودی کی طرح اسپر قدرت نہیں پاسکتے تھے.اب تو وہ فانی زندگی سے ترقی پا چکا تھا.افسوس کہ ایک طرف تو اس کا جلالی جسم سے زندہ ہونا اور سواریوں کو ملنا اور جلیل کی طرفت جانا اور پھر آسمان پر اٹھائے جانا بیان کیا گیا ہے اور پھر بات بات میں اس جلالی جسم کے ساتھ بھی بیڑیوں کا خوف ہے اُس ملک سے پوشیدہ طور پر بھاگتا ہو کہ تاکوئی یہودی دیکھ نہ لے اور جان بچانے کے لئے ستر کوس کا سفر جلیل کی طرف کرتا ہو.بار بار منع کرتا ہے کہ یہ واقعہ کسی کے پاس بیان نہ کرو کیا یہ جلال جسم کے پچھن اور علامتیں ہیں ؟ نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی جلالی اور نیا جسم نہ تھا وہی زخم آلودہ جسم تھا جو جان نکلنے سے بچایا گیا.اور چونکہ یہودیوں کا پھر بھی اندیشہ تھا اس لئے برعایت ظاہر اسباب مسیح نے اس ملک کو چھوڑ دیا اسکے مخالف جنقدر باتیں بیان کی جاتی ہیں وہ سب کی سب بیہودہ اور تمام خیال ہیں کہ پہرہ داروں کو یہودیوں نے رشوت دی کہ تم یہ گواہی دو کہ تواری لاش کو چرا کر لے گئے اور ہم سوتے تھے.اگر وہ سوتے تھے تو ان پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ تم کو سونے کی حالت میں کیونکر معلوم ہوگیا کہ یشوع کی لاش کو پوری اٹھا لے گئے.اور کیا معرف اتنی بات سے کہ یشوع قبر میں نہیں کوئی عقلمند سمجھ سکتا تھا کہ وہ آسمان پر چلا گیا ہے کیا پر دنیا میں اور اسباب نہیں جن سے قبریں خالی رہ جاتی ہیں ؟ اس بات کا بار ثبوت تو میسج کے ذمہ تھا کہ وہ آسمان پر جانے کے وقت دو تین سو یہودیوں کو ملتا اور پہلا طوس سے بھی طاقات کرنا جلال جسم کے ساتھ اس کو کس کا خوف تھا مگر اس نے یہ طریق اختیار نہیں ۲۷۸

Page 297

۲۷۹ ۲۲۲ کیا اور اپنے مخالفوں کو ایک ذرہ ثبوت نہیں دیا بلکہ خوفناک دل کے ساتھ جلیل کی طرف بھاگا اس لئے ہم قطعی طور پر یقین رکھتے اور مانتے ہیں کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ وہ اس قبرمیں سے نکل گیا جو کو ٹھے کی طرح کھڑکی دار تھی اور یہ بھی پہچ ہے کہ وہ پوشیدہ طور پر حواریوں کو ملا مگریہ ہرگز یہ نہیں کہ اسے کوئی نیا جلالی جسم پایا.وہی جسم تھا اور وہی تم تھے اور وہی خوف دل میں تھا کہ مبادا بد بخت یہودی پھر پکڑ لیں.متی باب ۲۸ آیت ، د ۱۸ ۱۹ ۱۰ کو غور سے پڑھو.ان آیات میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ دو عورتیں جنگ کسی نے یہ پسند دیا تھاکہ مسیح جیتا ہے اور جلیل کیطرف جارہا ہے اور کہنے والے نے چپکے سے یہ بھی کہا تھا کہ شاگردوں کو جاکر یہ خبر کرو.وہ اس بات کو شنکر خوش تو ہوئیں مگر بڑی خوفناک حالت میں روانہ ہوئیں یعنے یہ اندیشہ تھا کہ اب بھی کوئی شریر یہودی میسج کو پڑھے.اور آیت ؟ میں ہے کہ جب عورتیں شاگردوں کو خریدنے جاتی تھیں تو یسوع انھیں ملا اور کہا اسلام اور آئیت دس میں ہے کہ یسوع نے انھیں کہا مت ڈر ویعنے میرے پکڑے جانے کا اندیشہ نہ کرو پر میرے بھائیوں کو کہو کہ بلبل کو جائیں وہاں مجھے دیکھیں گے.یعنے یہاں میں ٹھہر نہیں سکتا کہ دشمنوں کا اندیشہ ہے.غرض اگر فی الحقیقت بسیج کرنے کے بعد جلائی جسم کے ساتھ زندہ ہوا تھاتو یہ با ثبوت اسپر تھا کہ وہ ہیں زندگی کا یہو دیوں کو ثبوت دیتا.مگر ہم جانتے ہیں کہ وہ اس بار ثبوت سے سبکدوش نہیں ہوا.نے یہ ایک بدیہی بیہودگی ہے کہ ہم یہودیوں پر الزام لگایں کہ انہوں نے میچ کے دوبارہ زندہ ہے کے ثبوت کو روک دیا بلکہ مسیح نے خود اپنے دوبارہ زندہ ہونے کا ایک ذرہ ثبوت نہیں دیا بلکہ بھاگنے ار چھینے اور کھانے اور سونے اور زخم دکھلانے سے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ صلیب پر نہیں مرا.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۴۶ تا ۵۰ وہ لوگ جو مسیح کو خدا جانتے ہیں ان میں سے یہ فرقہ بھی ہے جو بہت سے دلائل کے نوٹ.انگہ میس نے عورتوں کو ان الفاظ سے تسلی نہیں دی کہ اب میں نئے اور جلالی مہم کے ساتھ اٹھا ہوں اب میرے پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا بلکہ عورتوں کو کو دور دیکھ کر معمولی تسلی وہی جو ہمیشہ مرد عورتوں کو دیا کرتے ہیں.غرض جلالی جسم کا کوئی شوت نہ دیا بلکہ اپنا گوشت اور ہڈیاں دکھلا کر معمولی مہم کا ثبوت دے دیا.منت ھے

Page 298

☐ ۲۸۰ ساتھ ثابت کرتے ہیں کہ مسیح ہر گز آسمان پر نہیں گیا بلکہ صلیب سے نجات پاکر کسی ملک کی طرف چلاگیا اور وہیں مرگیا.چنانچہ سوپر نیچرل ریجن صفحہ ۵۲۲ میں اس بارے میں جو عبارت ہے اس کو ہم معہ ترجمہ ذیل میں لکھتے ہیں.اور وہ یہ ہے :- by some able critics is that Jesus پہلی تفسیر جو لائق محققین نے کی The first explanation adopted ہے وہ یہ ہے کہ یسوع دراصل ہے کہ یسوع دراصل did not really die on the Cross but صلیب پر نہیں مرا بلکہ صلیب سے being taken alive and his body زندہ اتار کر اس کا جسم اس کے being delivered to friends, he subsequently revived.In support Jesus is represented by Gospels as دوستوں کے حوالے کیا گیا اور وہ of this theory it is argued that آخر بچ نکلا.اس عقیدہ کی تائید میں expiring after having been but یہ دلائل پیش کئے جاتے ہیں کہ three or six hours upon the Cross which would have been but affirmed that only the hands and انا جیل کے بیان کے مطابق یسوع unprecedentedly rapid death.It is گھنٹے یا چھ گھنٹہ رہ کر فوت ہوا.سیلین صلیب پر ایسی جلدي موت ملے واقع نہیں ہوئی تھی.یہ بھی کہ صرف اس کے ہا ماری اور پاوں پر ہے میخیں نہیں لگائی گئی تھے چونکہ یہ عام قاعدہ نہ تھا کہ ہر ایک مصلوب کی ٹلنگ توڑی جائے اس واسطے تین انجیل not the feet were nailed to the Cross.The crucifragian not usua- lly accompanying crucifixion is نویسوں نے تو اس کا ذکر ہی نہیں کیا.اور چوتھے نے بھی صرف اپنے dismissed as unknown to three synoptrits and only inserted by طرز بیان کی تکمیل کی خاطر اس امر کا the fourth evangelist for dogmat بیان کیا اور جہاں ٹانگ توڑنے کا ذکر tic reasons and of course the lance disappears with the leg نہیں ہے تو ساتھ ہی برچھی کا واقعہ breaking.Thus the apparent

Page 299

ا ۲۸۱ بھی کالعدم ظاهراً موت ہو پس -death was that profound faintm ہوئی وہ ایک سخت بیہوشی تھی جو کہ چھ گھنٹہ ess which might well fall upon an organization after some hours of physical and mental agony on the Cross, following continued sufficiently recovered it is suppo- a few times to reassure them, but کے جسمانی اور دماغی صدموں کے strain and fatigue of the previous بعد اس کے جسم پر پڑی کیونکہ گذشتہ night As soon as he had سب بھی متواتر تکلیف اور تھکاوٹ sed that Jesus visited his disciples میں گذری تھی جب اسے کافی پھر with pre-caution on account of صحت حاصل ہو گئی تو اپنے حواریوں the Jews, and was by them کو پھر یقین دلانے کے واسطے کئی دفعہ dead, as indeed ke himself may ملا.لیکن یہودیوں کے سبب نہایت likewise have supposed, reviving believed to have risen from the احتیاط کی جاتی تھی.حواریوں نے of death.Seeing however that his اس وقت یہ سمجھا کہ یہ مرکر زندہ ہوا ہے.اور چونکہ موت کی سی بیہوشی تک پہنچ کر وہ پھر بحال ہوا اس واسطے ممکن ہے کہ اس نے آپ بھی دراصل یہی سمجھا ہو کہ میں مرکر پھر زندہ ہوا ہوں اب جب استاد نے دیکھا کہ اس موت نے میرے کام کی تعمیل کر دی ہے تو وہ پھر کسی ناقابل حصول اور نامعلوم تنہائی کی جگہ میں چلا گیا اور مفقود الخبر ہو گیا.گفرور رجس نے شنٹوڈ کے اس مسئلہ کی نہایت قابلیت کے ساتھ as he had done from the faintness his death had set the crown upon work the master withdrew into impenetrable obscurity and was heard no more.Gfrorer who maintains the تائید کی ہے.وہ لکھتا ہے کہ یہود theory of Scheintod with great کے حکام کے درمیان یسوع کے ability thinks that Jesus had believers amongst the rulers of مرید تھے جو کہ اس کو اگرچہ اس the Jews who although they

Page 300

مخالفت سے بچا نہیں سکتے تھے تاہم could not shield him from the ان کو امید تھی کہ ہم اس کو مرنے opposition against him still hoped سے بچالیں گے.یوسف ایک rich man found the means of دولت مند آدمی تھا.اور اسے صحیح کے بچانے کے وسائل مل گئے.نئی قبر بھی اس مقام صلیب کے قریب to save him from death.Joseph a doing so.He prepared the new ہی اس نے تیار کرائی.اور جسم بھی sepulchre close to the place of پلاطوس سے مانگ لیا.اور نکو میڈس execution to be at hand, begged جو بہت سے مصالح خرید لایا تھا تو وہ nse quantity of spices bought by صرف یہود کی توجہ ہٹانے کے واسطے -Nicomedus being merely to distr the body from Pilate-the imme- تھے اور یسوع کو جلدی قبر میں رکھا being quickly carried to the گیا.اور ان لوگوں کی سعی سے وہ بیچ گیا.گفرورر نے یوحنا باب ۲۰.آیت ۷ ا کی مشہور آیت کی عجیب تفسیر کی ہے.وہ لکھتا ہے کہ مسیح کا جو یہ فقرہ ہے کہ میں ابھی اپنے باپ کے پاس نہیں گیا.اس فقرہ میں آسمان پر جانے سے مراد صرف مرنا ہے اور یسوع نے جو یہ کہا ہے کہ مجھے نہ چھوڑ کیونکہ میں ابھی act the attention of Jews, Jesus sepulchres was restored to life by their efforts.He interprets the famous verse ssion 'I have not yet ascended to my father.' He takes as meaning تک گوشت اور خون ہوں.اس - John XX:17 curiously.The expre میں گوشت اور خون ہونے سے بھی یہی مراد ہے کہ میں ابھی مرا simply the act of dying going to Heaven' and the reply of Jesus is نہیں.یسوع اس واقعہ کے بعد equivalent to Touch me not for نیدہ طور پر کئی دفعہ اپنے حواریوں am still flesh and blood, I am not yet dead, Jesus sees his, disciples کو ملا اور جب اسے یقین ہو گیا کہ اس only a few times mysteriously ۲۸۲

Page 301

۲۸۳ کی موت نے اس کے کام کی and believing that he had set the صداقت پر آخری مہر لگادی ہے تو وہ by his death he then retires into پھر کسی ناقابل حصول تنہائی میں چلا 107.tum and dieWahrheit p final seal to the truth of his work impenetrable gloo! Das Heiligh- p.231.(P p.523 of the Supernatural religion) گیا.دیکھو کتاب سوپر نیچرل ریلیجن صفحه ۵۲۳ اور یاد رہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی موت کے مسئلہ کو مسلمان عیسائیوں سے زیادہ سمجھ سکتے ہیں کیونکہ قرآن شریف میں اس کی موت کا بار بار ذکر ہے.لیکن بعض نادانوں کو یہ دھوکا لگا ہوا ہے کہ اس آیت قرآن شریف میں یعنی وما قتلوه وما صلبوه ولكن شبه لھم میں لفظ شہد سے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسی کی جگہ کسی اور کو سولی دیا گیا اور وہ خیال نہیں کرتے کہ ہر ایک شخص کو! جان پیاری ہوتی ہے.پس اگر کوئی اور شخص حضرت عیسی کی جگہ صلیب دیا جاتا تو صلیب دینے کے وقت ضرور وہ شور مچانا کہ میں تو عیسی نہیں ہوں.اور کئی دلائل اور کئی امتیازی اسرار پیش کر کے ضرور اپنے تئیں بچالیتانہ یہ کہ بار بار ایسے الفاظ منہ پر لاتا جن سے اس کا عیسی ہونا ثابت ہوتا.رہا لفظ شبه لھم.سو اس کے وہ معنی نہیں ہیں جو سمجھے گئے ہیں اور نہ ان معنوں کی تائید میں قرآن اور احادیث نبویہ سے کچھ پیش کیا گیا ہے بلکہ یہ معنے ہیں کہ موت کا وقوعہ یہودیوں پر مشتبہ کیا گیا.وہ ایسی سمجھ بیٹھے کہ ہم نے قتل کر دیا ہے حلانکہ مسیح قتل ہونے سے بچ گیا.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اس آیت میں شبه لهم - کے یہی معنے ہیں اور یہ سنت اللہ ہے.خدا جب اپنے محبوبوں کو بچانا چاہتا ہے تو ایسے دھو کا میں مخالفین کو ڈال ؟ ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غار ثور میں پوشیدہ ہوئے تو وہاں بھی ایک قسم کے شبته لهم سے خدا نے کام لیا.تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۳۳ تا ۳۳۸

Page 302

۲۸۴ صلیبی موت سے نجات کے بارہ میں قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کی شہادتیں یہ دلائل جو آئینہ تم اس باب میں لکھنے لگے میں بظاہر ان کی نسبت ہر ایک کو خیال پیدا ہوگا کہ عیسائیوں کے مقابل پر اُن وجو ہات کو پیش کرنا ہے فائدہ ہے کیونکہ وہ لوگ قرآن شریف یا کسی حدیث کو اپنے لئے محبت نہیں سمجھ سکتے.لیکن ہم نے محض اس غرض سے اُن کو لکھا ہے کہ تا عیسائیوں کو قرآن شریف اور ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم کا ایک معجز معلوم ہو.اور اُن پر یہ حقیقت کھلے کہ کیونکر وہ سچائیاں جو صدہا برس کے بعد اب معلوم ہوئی ہیں وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے پہلے سے بیان کر دی ہیں.چنا نچہ اُن میں سے کسی قدر ذیل میں لکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.وما قتلوه وما صلبوه ولكن شبه لهم الآية وما قتلوه يقينا الآیۃ یعنے یہودیوں نے نہ حضرت مسیح کو حقیقت قتل کیا اور نہ بذریعہ صلیب ہلاک کیا بلکہ اُن کو محض ایک شبہ پیدا ہوا کہ گویا حضرت علیمی صلیب پر فوت ہو گئے ہیں اور اُن کے پاس وہ دلائل نہیں ہیں جن کی وجہ سے اُن کے دل اس بات پر مطمئن ہوسکیں کہ یقینا حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیب پر جان نکل گئی تھی.ان آیات میں اللہ تعالے نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ بظا ہر میسج صلیب پر کھینچا گیا اور اس کے مارنے کا ارادہ کیا گیا گریہ محض ایک دھوکا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ایسا خیال کر لیا کہ در حقیقت حضرت مسیح علیہ السّلام کی جان صلیب پر نکل گئی تھی بلکہ خدا نے ایسے اسباب پیدا کر دیئے جن کی وجہ سے

Page 303

۲۸۵ وہ صلیبی موت سے بچ رہا.اب انصاف کرنے کا مقام ہے کہ جو کچھ قرآن کریم نے یہود اور نصاریٰ کے برخلاف فرمایا تھا آخر کار وہی بات سچی نکلی.اور اس زمانہ کی اعلیٰ درجہ کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوگا کہ حضرت مسیح در حقیقت صلیبی موت سے بچائے گئے تھے.کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ یہودی اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہے کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی جان بغیر ہڈیاں توڑنے کے صرف دو تین گھنٹہ میں نکل گئی.اسی وجہ سے بعض یہودیوں نے ایک اور بات بنائی ہے کہ ہم نے مسیح کو تلوار سے قتل کر دیا تھا.حالانکہ یہودیوں کی پرانی تاریخ کے رو سے بیچ کو تلوار کے ذریعہ سے قتل کرنا ثابت نہیں.یہ اللہ تعالے کی شان ہے کہ سب سے بچانے کے لئے اندھیرا ہوا.بھونچال آیا.پلاطوس کی بیوی کو خواب آئی.سبت کے دن کی رات قریب آگئی جس میں مصلوبوں کو صلیب پر رکھنا وانہ تھا.حاکم کاول بوجود ہولناک خواب کے مسیح کے چھڑانے کے لئے متوجہ ہوا.یہ تمام واقعات خدا نے اس لئے ایک ہی دفعہ پیدا کر دیئے کہ تاسیح کی جان بچ جائے.اس کے علاوہ سی و ششی کی حالت میں کر دیا کہ تا ہر ایک کو مردہ معلوم ہو.اور یہودیوں پر اس وقت ہیبت ناک نشان بھونچال وغیرہ کے دکھلا کر بند دلی اور خون اور عذاب کا اندیشہ طاری کر دیا.اور یہ دھڑ کہ اس کے علاوہ تھا کہ سبت کی رات میں لاشیں صلیب پر نہ رہ جائیں.پھر یہ بھی ہوا کہ یہودیوں نے میسج کو غشی میں دیکھ کر سمجھ لیا کہ فوت ہو گیا ہے.اندھیرے اور بھونچال اور گھبراہٹ کا وقت تھا.گھروں کا بھی اُن کو فکر پیڑا کہ شاید اس بھونچال اور اندھیرے سے بچوں پر کیا گزرتی ہوگی.اور یہ دہشت بھی دلوں پر غالب ہوئی کہ اگر ی شخص کا ذب اور کا فر تھا جیسا کہ ہم نے دل میں سمجھا ہے تو اسکے اس دکھ دینے کے وقت ایسے ہولناک آثار کیوں ظاہر ہوئے ہیں جو اسے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے.لہذا انکے دل بے قرار ہو کر اس لائق نہ رہے کہ وہ میچ کو اچھی طرح دیکھتے کہ آیا مرگیا

Page 304

یا کیا حال ہے.مگر در حقیقت یہ سب امور سیج کے بچانے کے لئے خدائی تدبیریں تھیں.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے.ولکن شبه لم یعنے ہو میسج کو جان سے مارا نہیں ہے لیکن خدا نے ان کو شبہ میں ڈال دیا کہ گویا بار بار دیا ہے.اس سے راستبازوں کو خدائے تعالیٰ کے فضل پر پڑی امید ہی ہو کہ جس طرح اپنے بندوں کو چاہے بچالے.سیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جا سفحہ ۵۰ تا ۵۲ اور قرآن شریعت میں ایک یہ بھی آیت حضرت مسیو ق میں ہو.وجیهها في الدنيا والآخرة ومن المقربين.اس کا ترجمہ یہ نہ دنیا میں بھی مسیح کو اس کی زندگی میں وجاہت بیچنے عزت اور مرتبہ اور عام لوگوں کی نظر میں عظمت اور بزرگی ملے گی اور آخرت میں بھی.اب ظاہر ہے کہ حضرت شیخ نے ہیرو دوس اور پلا طوس کے علاقہ میں کوئی عزت نہیں پائی بلکہ غایت درجہ کی تحقیر کی گئی.اور یہ خیال کہ دنیا میں پھر آ کر عزت اور بزرگی پائیں گے.یہ ایک بے اصل وہم ہے جو نہ صرف خدا تعالئے کی کتابوں کے منشاء کے مخالف بلکہ اسکے قدیم قانون قدرت سے بھی مغائر اور مائن اور پھر ایک بے ثبوت امر ہے گر واقعی اور سچی بات یہ ہے کہ حضرت سیح علیہ السلام نے اس بدبخت قوم کے ہاتھ سے نجات پاکر جب ملک پنجاب کو اپنی تشریف آوری سے فخر بخشا.تو اس ملک میں خدا تعالیٰ نے انکو بہت عزت دی اور بنی اسرائیل کی دس تو میں جوگر تھیں اس جگہ اگر ان کومل گئیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل اس ملک میں آکر اکثر آنمیں سے بدھ مذہب میں داخل ہوگئے تھے اور بعض ذلیل قسم کی بت پرستی میں پھنس گئے تھے.سو اکثر ان کے حضرت مسیح کے اس ملک میں آنے سے راہ راست پر آگئے.اور چونکہ حضرت مسیح کی دعوت میں آنے والے نبی کے قبول کرنے کے لئے وصیت تھی اس لئے وہ دس فرقے جو اس ملک میں آگر افغان اور کشمیری کہلائے.آخر کا ر سب کے سب PAY

Page 305

۲۸۷ مسلمان ہو گئے.غرض اس ملک میں حضرت بیج کو بڑی وجاہت پیدا ہوئی.اور حال میں ایک سکنہ ملا ہے جو اسی ملک پنجاب میں سے برآمد ہوا ہے اس پر حضرت عیسی علیہ السلام کا نام پالی تحریر میں درج ہے اور اسی زمانہ کا سکہ ہے جو حضرت بیچ کا زمانہ تھا.اس سے یقین ہوتا ہے کہ حضرت سیح علیہ السلام نے اس ملک میں اگر شاہانہ عزت پائی.اور غالبا یہ سکہ ایسے بادشاہ کی طرف سے جاری ہوا ہے جو حضرت مسیح پر ایمان لے آیا تھا.ایک اور بسکہ بر آمد ہوا ہے اسپر ایک اسرائیلی مرد کی تصویر ہے.قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی حضرت مسیح کی تصویر ہے.قرآن شریف میں ایک یہ بھی آیت ہے کہ مسیح کو خدا نے ایسی برکت دی ہے کہ جہاں جائے گا وہ مبارک ہوگا.سو ان سکوں سے ثابت ہے کہ اس نے خدا سے بڑی برکت پائی اور وہ فوت نہ ہو ا جب تک اس کو ایک شاہانہ عورت نہ دی گئی.اسی طرح قرآن شریف میں ایک یہ بھی آیت ہے ومطهرك من الذین کفر وایعنے اے علینی میں اُن الزاموں سے تجھے بری کرونگا اور تیرا پاکدامن ہونا ثابت کر دوں گا اور اُن تہمتوں کو دور کر دوں گا جو تیرے پر یہود اور نصاری نے لگائیں.یہ ایک بڑی پیش گوئی تھی اور اس کا ماحصل میں ہو کہ یہود نے یہ تہمت لگائی تھی کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح مصلوب ہو کر ملعون ہو کر خدا کی محبت اُنکے دل میں سے جاتی رہی اور جیسا کہ لعنت کے مفہوم کے لئے شرط ہے ان کا دل خدا سے برگشتہ اور خدا سے بیزار ہو گیا اور تاریکی کے بے انتہا طوفان میں پڑ گیا اور بدیوں سے محبت کرنے لگا اور کل نیکیوں کا مخالف ہو گیا اور خدا سے تعلق توڑ کر شیطان کی بادشاہت کے ماتحت ہو گیا اور اسمیں اور خدامیں حقیقی دشمنی پیدا ہوگئی.اور ہی تہمت ملعون ہونے کی نصاری نے بھی لگائی تھی مگر نصاری نے اپنی نادانی سے دو ضروں کو ایک ہی جگہ جمع کردیا ہے.انہوں نے ایک طرف تو حضرت مسیح کو خدا کا فرزند قرار دیا اور دوسری طرف ملعون بھی قرار دیا ہے اور خود مانتے ہیں کہ متون تاریکی اور شیطان کا فرزند ہوتا ہو

Page 306

یا خود شیطان ہوتا ہے سو حضرت مسیح پر یہ سخت ناپاک تہمتیں لگائی گئی تھیں.اور مطہرک" کی پیش گوئی میں یہ اشارہ ہے کہ ایک زمانہ وہ آتا ہے کہ خدائے تعالیٰ ان الزاموں سے حضرت مسیح کو پاک کرے گا.اور یہی وہ زمانہ ہے.علیہ اگرچہ حضرت علی علیہ السلام کی تعمیر ہمارے نبی صلی الہ علیہ وسلم کی گواہی سے بھی عقلمندوں کی نظروں میں بخوبی ہوگئی.کیونکہ آنجناب نے اور قرآن شریف نے گواہی دی کہ وہ الزام سب جھوٹے ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام پر لگائے گئے تھے.لیکن گواہی عوام کی نظرمیں نظری اور باریک تھی اس لئے اللہ تعالیٰ کے انصاف نے یہی چاہا کہ جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السّلام کو مصلوب کرنا ایک مشہور امر تھا اور امور بدیہی یہ شہودہ محسوسہ میں سے تھا اسی طرح تطہیر اور بریت بھی امور مشہور دہ محسوسہ میں سے ہونی چاہیئے.سو اب اسی کے موافق ظہور میں آیا مینے تطہیر بھی صرف نظری نہیں بلکہ محسوس طور پر ہوگئی اور لاکھوں انسانوں نے اس جسم کی آنکھ سے دیکھ لیا کہ حضرت عیسی علی السلام کی قبر سری نگر کشمیر میں موجود ہے.اور جیسا کہ گلگت یعنے سردی کے مکان پر حضرت مسیح کو صلیب پر کھینچا گیا تھا ایسا ہی سمری کے مکان پر یعنے سرینگر میں انکی قبر کا ہونا ثابت ہوا.یہ عجیب بات ہے کہ دونوں موقعوں میں سری کا لفظ موجود ہے.یعنے یہاں حضرت میں علیہ السلام تصلیب پر کھینچے گئے اس مقام کا نام بھی گلگت یعنے سری ہے اور جہاں اُنیسویں صدی کے اخیر میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر ثابت ہوئی اس مقام کا نام بھی گلگت لینے سری ہے.اور معلوم ہوتا ہو کہ وہ گلگت کہ جو کشمیر کے علاقہ میں ہے یہ بھی سری کی طرف ایک اشارہ ہے.غالبا یہ شہر حضرت مسیح کے وقت میں بنایا گیا ہے اور واقعہ صلیب کی یاد گار مقامی کے طور پر اس کا نام ملک یعنے سمری رکھا گیا.جیسا کہ لاتتہ جس کے معنے ہیں معبود کا شہر.یہ عبرانی لفظ ہو اور یہ بھی حضرت مسیح کے وقت میں آباد ہوا ہے.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۵۲ تا ۵۵ ۲۸۸

Page 307

۲۸۹ امتصور ہیں.اور احادیث میں معتبر روایتوں سے ثابت ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسیح کی عمر ایک سو چپ شکیل برس کی ہوئی ہے.اور اس بات کو اسلام کے تمام فرقے مانتے ہیں کہ حضرت سیح علیہ السلام میں دو ایسی باتیں جمع ہوئی تھیں کہ سی نہیں وہ دونوں جمع نہیں ہوئیں.(۱) ایک یہ کہ انہوں نے کامل عمر پائی یعنے ایک سوچی میں برس زندہ رہے.(۲) دوم یہ کہ انہوں نے دنیا کے اکثر حصوں کی سیاحت کی.اس لئے نبی ستیاں کہلائے.اب ظاہر ہے کہ اگر وہ صرف تینتیس برس کی عمر میں آسمان کی طرف اُٹھائے جاتے تو اس صورت میں ایک سوچی برس کی روایت صحیح نہیں ٹھہر سکتی تھی اور نہ اس چھوٹی سی عمر میں تینتیس برس میں سیاحت کر سکتے تھے.اور یہ روائتیں نہ صرف حدیث کی معتبر اور قدیم کتابوں میں لکھی ہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے فرقوں میں اس تواتر سے مشہور ہیں کہ اس سے بڑھ العمال جو احادیث کی ایک جامع کتاب ہے اسکے صفحہ ہم مہم میں ابو ہریرہ سے یہ حدیث لکھی ہو.اوحی اللہ تعالى إلى عيسى ان يأ عيسى انتقل من مكان الى مكان لثلا تعريف فتوذى ینے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ اسے عیسی ایک مکان سے دوسے مکان کی طرف نقل کرتارہ بینے ایک ایسے دوسرے ملک کی طرف جا تاکہ کوئی تجھے پہچان کر دکھ نہ ہے.اور پھر اسی کتاب میں جابر سے روایت کر کے یہ حدیث لکھی ہے.كان عيسى ابن مريم يسيح فاذا أمسى اكل بقل الصحراء ويشرب الماء القراح ینے حضرت عیسی علیہ السلام ہمیشہ سیاحت کیا کرتے تھے اور ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف سیر کرتے تھے اور جہاں شام پڑتی تھی تو جنگل کے بقولات میں سے کچھ کھاتے تھے اور خالص پانی پیتے تھے.اور پھر اسی کتاب میں عبداللہ بن عمر سو روایت ہے جس کے یہ لفظ ہیں.قال احب شىء الى الله الغرباء قيل اى شى الغرباء ۲۲۵ جلد دوم - جلد دوم ماه

Page 308

۲۹۰ قال الذين يفرون بدينهم و يجتمعون الى عيسى ابن مریم یعنے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبسے پیارے خدا کی جناب میں وہ لوگ ہیں جو غریب ہیں.پوچھا گیا کہ غریب ہے کیا معنے ہیں کیا وہ لوگ ہیں جوعیسی مسیح کی طرح دین لیکر اپنے ملک سے بھاگتی ہیں.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۵۵ ۵۶ ا جلد چه ماه -

Page 309

۲۹۱ صلیبی موت سے نجات کے بارہ میں طبابت کی کتابوں کی شہادتیں یک دری کی ہوتی ہے اے ای یہ کام کیا ہے اور ایسی ایک اعلی درجہ کی شہادت جو حضرت مسیح کے صلیب سے بچنے پرہم کو مل ہے اورجو ایسی شہادت ہے کہ بجز ماننے کے کچھ بن نہیں پڑتا وہ ایک نسخہ ہے جس کا نام مرہم عیسی ہے جو طب کی صد ہا کتابوں میں لکھا ہوا پایا جاتا ہے.ان کتابوں میں سے بعض ایسی ہیں جو عیسائیوں کی تالیف ہیں اور بعض ایسی ہیں کہ جن کے مؤلف مجوسی یا یہودی ہیں.اور بعض کے بنانیوالے مسلمان ہیں.اور اکثر ان میں بہت قدیم زمانہ کی ہیں تحقیق سے ایسا معلوم ہوا ہے کہ اول زبانی طور پر اس نسخہ کالاکھوں انسانوں میں شہرہ ہوگیا اور پھرلوگوں نے اس نسخہ کو قلمبند کر لیا.پہلے رومی زبان میں حضرت مسیح کے زمانہ میں ہی کچھ تھوڑا عرصہ واقعہ صلیب کے بعد ایک قرابادین تالیف ہوئی جس میں یہ نسخہ تھا اور میں میں یہ بیان یا گیا تھا کہ حضرت علی علیہ السلام کی چوٹوں کیلئے یہ سمہ بنایا گیا تھا.پھروہ قرای این کشی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوئی یہاں تک کہ ماموں رشید کے زمانہ میں عربی زبان میں اس کا ترجمہ ہوا.اور یہ خدا کی عجیب قدرت ہے کہ ہر ایک مذہب کے فاضل طبیب بنے کیا عیسائی کیا یہودی اور کیا مجوسی اور کیا مسلمان سب نے اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور سب نے اس نسخہ کے بارے میں یہی بیان کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے اُن کے حواریوں نے طیار کیا تھا اور جن کتابوں میں ادویہ مفردہ کے خواص لکھے ہیں اُن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نسخہ ان چوٹوں کے لئے نہایت مفید ہے جو کسی ضربہ یا ستقطہ سے لگ جاتی ہیں اور چوٹوں سے جو خون روان ہوتا ہے وہ فی الفور اس سے مخشک ہو جاتا ہے اور چونکہ اس میں مر بھی داخل ہے اس لئے زخم کیڑا پڑنے سے بھی محفوظ

Page 310

رہتا ہے.اور یہ دوا طاعون کے لئے بھی مفید ہے.اور ہر قسم کے پھوڑے پھنسی کو اس سے فائدہ ہوتا ہے یہ معلوم نہیں کہ یہ دوا صلیب کے زخموں کے بعد خود ہی حضرت علی علیہ السلام نے الہام کے ذریعہ سے تجویز فرمائی تھی یا کسی طبیب کے مشورہ سے طیار کی گئی تھی.اس میں بعض دوائیں اکسیر کی طرح ہیں.خاص کر مر جس کا ذکر توریت میں بھی آیا ہے.بہر حال اس دوا کے استعمال سے حضرت مسیح علیہ السلام کے زخم چند روز میں ہی اچھے ہو گئے.اور اس قدر طاقت آگئی کہ آپ تین روز میں فلم سے جلیل کی طرف ستر کوس تک پیادہ پاگئے.پس اس دوا کی تعریف میں اس قدر کافی ہے کہ مسیح تو اوروں کو اچھا کرتا تھا مگر اس دوا نے میسج کو اچھا کیا.اور جن طب کی کتابوں میں یہ نسخہ لکھا گیا.وہ ہزار کتاب سے بھی زیادہ ہیں.سینکی فہرست لکھنے سے بہت طول ہوگا.اور چونکہ یہ نسخہ یونانی طبیبوں میں بہت مشہور ہے اس لئے میں کچھ ضرورت نہیں دیکھتا کہ تمام کتابوں کے نام آجگہ لکھوں محض چند کتا ہیں جو اس جگہ موجود ہیں ذیل میں لکھ دیتا ہوں.فهرست آن طبی کتابوں کی جین میں مرہم علی کا ذکر ہو اور ی بھی ذکر ہو کہ وہ مرہم حضرت علی کیلئے لینے انکے بدن کے زخموں کے لئے بنائی گئی تھی قانون شیخ الرئیس بوعلی سینا جلد ثالث صفحه ای را شرح قانون علامه قطب الدین شیرازی جلد ثالث كامل الصناعة تصنيف على بن العباس المجوسی جار دوهم صفحه ۲۰۲ کتاب مجموعه بقائی مصنفہ محمود محمد المنجیل مخاطب از خاقان بخطاب بدر محمد بقا خان جلد صفحه ۲۹۷ - كتاب تذكرة الوالالباب مصنفہ شیخ داود العضریر انطاکی صفحه ۳ ۳۰.قرابا دین رومی مصنفہ قریب زمانہ حضرت مسیح جس کا ترجمہ ماموں رشید کے وقت میں عربی میں ۲۹۲

Page 311

۲۹۳ ہوا امراض جلد - کتاب عمدة المحتاج مصنفہ احمد بن حسن الرشید الحکیم اس کتاب میں مرہم عیسی وغیرہ ادویہ سوکتاب میں سے بلکہ اس سے بھی زیادہ کتابوں میں سے لکھی گئی ہیں.اور وہ تمام کتابیں فریج زبان میں تھیں.کتاب قرابادین فارسی مصنفہ میک محمد اکبر ارزانی امراض جلد - کتاب شفاء الاسقام جلد دوم صفحه ۲۳۰- کتاب مرأة الشفا مصنف میکنم تو شاه نسخه قلمی امراض جلد - ذخیره خوارزم شاہی امراض جلد شرح قانون گیلانی جلد ثالث - شرح قانون قرشی جلد ثالث - قرابا دین علوی خان امراض جلد - کتاب علاج الامراض مصنفہ حکیم محمد شریف خان صاحب صفحه ۸۹۳- قرابا دین یونانی امراض جلد - تحفتہ المومنین بر حاشیه مخزن الادویہ صفحہ ۷۱۳ کتاب محیط فی الطب صفحه ۳۶۷- کتاب اکسیر اعظم جلد رابع مصنفہ علی محمد اعظم خانصاحب المخاطب بناظم جہاں صفحه ۳۳۱- کتاب قرابادین معصومی المعصوم بن کریم الدین الشوستری شیرازی - کتاب عمالہ نافعہ محمد شریف دہلوی صفحه ۴۱۰ - کتاب طب شہری مسمی بلوامع شہر یہ تالیف سید شہور کاظمی صفحه ۲۷۱- کتاب مخزون سلیمانی ترجمه اکسیر عربی صفحه ۵۹۹ - مترجم محمد شمس الدین صاحب بہاولپوری شفاء الامراض مترجم مولانا الحکیم محمدنور ریم مه ۲۹۸ کتاب الطب دارا شکوہی مولفه نورالدین محمد عبدالحکیم عین الملک الشیرازی ورق ۳۶۰- کتاب منهاج الدکان بدستور الاعيان في اعمال و تركيب النافعه للابدان تالبیعت افلاطون زمانه و رئیس اوانہ ابوالمن ابن ابی نصر العطار الاسرائیلی البهارونی دینے یہودی صفحہ کتاب زبدة الطب سيد الامام ابوابراهيم المعيل بن حسن الحسيني الجرجانی ورق ۱۸۲ - طلب اکبر مصنفہ محمد اکبر ارزانی صفحه ۲۴۲ کتاب میزان مالطب الكاوروني ام جمعین مصنفہ محمد اکبرار زانی صفحه ۱۵۲ - سديدى مصنف رئيس المتكلمين امام الحقن الدليلية صفحه ۲۸۳ جلد ۲ - کتاب حادی کبیر ابن ذکر یا امراض جلد- قرا با دین این تلمیذ امراض جلد قرا با دین ابن ابی صادق امراض جلد

Page 312

یہ وہ کتابیں ہیں جن کومیں نے بطور نمونہ اس جگہ لکھا ہے.اور یہ بات اہل علم اور خاصکر طبیبوں پر پوشیدہ نہیں ہے کہ اگر ان میں ایسی کتابیں ہیں جو پہلے زمانہ میں اسلام کے بڑے بڑے مدرسوں میں پڑھائی جاتی تھیں اور یورپ کے طالب العلم بھی ان کو پڑھتے تھے اور یہ کہنا بالکل سچ اور مبالغہ کی ایک ذرہ آمیزش سے بھی پاک ہے کہ ہر ایک صدی میں قریباً کرو ڑ ہ انسان ان کتابوں کے نام سے واقف ہوتے آئے ہیں اور لاکھوں انسانوں نے ان کو اول سے آخر تک پڑھا ہے اور ہم بڑے زور سے کہ سکتے ہیں کہ یورپ اور ایشیا کے عالم لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ ان بعض عظیم الشان کتابوں کے نام سے ناواقف ہو جو اس فہرست میں درج ہیں جس زمانہ میں ہسپانیہ اور کیس منو اور شیر نم دار اسلم تھے اس زمانہ میں بوعلی سینا کی کتاب قانون جوطب کی ایک بڑی کتاب ہے جس میں مریم عیسی کا نسخہ ہے اور دوسری کتابیں شفا اور انشارات اور بشارات جو طبیعی اور مہیئت اور فلسفہ وغیرہ میں ہیں بڑے شوق سے اہل یورپ دیکھتے تھے.اور ایسا ہی سرنا راہی اور ابو کیکان اور اسرائیل اور ثابت بن قره اور جنین بن اسحاق وغیرہ فاضلوں کی کتابیں اور انکی یونانی سے ترجمہ شدہ کتابیں پڑھائی جاتی تھیں یقینا ان کتابوں کے ترجمے یورپ کے کسی حصہ میں اب تک موجود ہونگے.اور چونکہ اسلام کے بادشاہ علم طب وغیرہ کو ترقی دینا بدل چاہتے تھے اسی وجہ سے انہوں نے یونان کی عمدہ عمدہ کتابوں کا ترجمہ کرایا اور عرصہ دراز تک ایسے بادشاہوں میں خلافت رہی کہ وہ ملک کی توسیع کی نسبت علم کی توسیع زیادہ چاہتے تھے انہی وجوہ اور اسبا ہے انہوں نے نہ صرف یونانی کتابوں کے ترجمے عربی میں کرائے بلکہ ملک ہند کے فاضل پنڈتوں کو بھی بڑی بڑی تنخواہوں پر طلب کر کے طب وغیرہ علوم کے بھی ترجمے کرائے.پس اُنکے احسانوں میں سے حق کے طالبوں پر یہ ایک بڑا احسان ہے جو انہوں نے اُن ہسپانیہ لینے اندلس یک منو یعنے قسلمونیہ.ستیر نم لینے شنترین - مناظر ۲۹۴

Page 313

۲۹۵ رومی و یونانی وغیرہ طبی کتابوں کے ترجمے کرائے جن میں مرہم عیسی موجود تھی اور جہر مرہم اور کتبہ کی طرح یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ مرہم حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے طیار کی گئی تھی.فاضل حکمار جہد اسلام نے بھیسا کہ ثابت بن قرہ اور حنین بن اسحاق ہیں.جن کو علاوہ علم طب وطبیعی و فلسفہ وغیرہ کی یونانی زبان میں خوب مہارت تھی.جب اس قرابا دین کا جس میں مرہم عیسی تھی ترجمہ کیا تو عقلمندی سے شلیخا کے لفظ کو جو ایک یونانی لفظ ہے جو باران کو کہتے ہیں بعینہ عربی میں لکھ دیا.تا اس بات کا اشارہ کتابوں میں قائم رہے کہ یہ کتاب یونانی قرابادین سے ترجمہ کی گئی.اسی وجہ سے اکثر ہر ایک کتاب میں شلینا کا لفظ بھی لکھا ہوا پاؤ گے.اور یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اگرچہ پرانے سکے بڑی قابل قدر چیزیں ہیں اور اُن کے ذریعہ سے بڑے بڑے تاریخی اسرار کھلتے ہیں لیکن ایسی پرانی کتابیں جو مسلسل طور پر ہر صدی میں کروڑیا انسانوں میں مشہور ہوتی چلی آئیں.اور بڑے بڑے مدار میں پڑھائی گئیں اور اب تک درسی کتابوں میں داخل ہیں.ان کا مرتبہ اور عربت ان نستوں اور کتبوں سے ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے.کیونکہ کتبوں اور سکوں میں جعل سازی کی بھی گنجائشیں ہیں.لیکن وہ علمی کتابیں جو اپنے ابتدائی زمانہ میں ہی کروڑہا انسانوں میں مشہور ہوتی چلی آئی ہیں اور ہر ایک قوم اُنکی محافظ اور پاسبان ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہے.انکی تحریریں بلاشبہ ایسی اعلیٰ درجہ کی شہادتیں ہیں جو سکوں اور کتیوں کو ان سے کچھ بھی نسبت نہیں.اگر ممکن ہو تو کسی سیکہ یا کتبہ کا نام تو و جس نے ایسی شہرت پائی ہو جیساکہ بوعلی سینا کے قانون نے.غرض مرہم عیسی حق کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان شہادت ہے.اگر اس شہادت کو قبول نہ کیا جائے تو پھر دنیا کے تمام تاریخی ثبوت اعتبار سے گر جاویں گے کیونکہ اگر چہ اب تک ایسی کتاب ہیں جن میں اس مرہم کا ذکر ہے قریب ایک ہزار ہیں یا

Page 314

کچھ زیادہ.لیکن کروڑہا انسانوں میں یہ کتابیں اور ان کے مولف شہرت یافتہ ہیں.اب ایسا شخص علم تاریخ کا دشمن ہوگا جو اس بدیہی اور روشن اور پر زور ثبوت کو قبول نہ کرے اور کیا یہ تحکم پیش جاسکتا ہے کہ اس قدر عظیم الشان ثبوت کو ہم نظرانداز کریں اور کیا ہم ایسے بھاری ثبوت پر بدگمانی کرسکتے ہیں جو یورپ اور ایشیا پر دائرہ کی طرح محیط ہو گیا ہے.اور جو یہودیوں اور عیسائیوں اور مجوسیوں اور مسلمانوں کے نامی فلاسفروں کی شہادتوں سے پیدا ہوا ہے.اب اسے محققوں کی روحو ! اس اعلیٰ ثبوت کی طرف دوڑو.اور اسے منصف مزاجو ! اس معامہ میں ذرا غور کرو.کیا ایسا چمکتا ہوا ثبوت اس لائق ہے کہ اُس پر توجہ نہ کی جائے ؟ کیا مناسب ہے کہ ہم اس آفتاب صداقت سے روشنی حاصل نہ کریں ؟ یہ وہم بالکل لغو اور بیہودہ ہے کہ ملک ہے که حضرت عیسی علیه السلام کو نبوت کے زمانہ سے پہلے چوٹیں لگی ہوں یا نبوت کے زمانہ کی ہی چوٹیں ہوں مگر وہ صلیب کی نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے ہاتھ اور پیر زخمی ہو گئے ہوں.مثلاوہ کسی کو ٹھے پر سے گر گئے ہوں اور اس صدمہ کے لئے یہ رم طیارکی گئی ہو، کیونکہ نبوت کے زمانہ سے پہلے سواری نہ تھے اور اس مرتہم میں حواریوں کا ذکر ہے.شیخا کا لفظ جو یونانی ہے جو باراں کو کہتے ہیں.ان کتابوں میں اب تک موجود ہے.اور نیز نبوت کے زمانہ سے پہلے حضرت مسیح کی کوئی عظمت تسلیم نہیں کی گئی تھی تا کی یاد گار روا رکھی جاتی اور نبوت کا زمانہ صرف ساڑھے تین برس تھا اور اس مدت میں کوئی واقعہ مربہ یا سقطہ کا بجز واقعہ صلیہ کے حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت تاریخوں سے ثابت نہیں.اور اگر کسی کو بد خیال ہو کہ ممکن ہے کہ ایسی چوٹیں کسی اور سبب سے حضرت عیسی علیہ السلام کو لگی ہوں تو یہ ثبوت اس کے ذمہ ہے.کیونکہ ہم جس واقعہ کو پیش کرتے ہیں وہ ایک ایسا ثابت شدہ اور مانا ہوا واقعہ ہے کہ نہ یہودیوں کو اس سے انکار ہے اور نہ عیسائیوں کو یعنے صلیب کا واقعہ.لیکن یہ خیال کہ کسی اور سبب سے کوئی چوٹ حضرت مسیح کو ۲۹۶

Page 315

۲۹۷ لگی ہوگی کسی قوم کی تاریخ سے ثابت نہیں.اس لیئے ایسا خیال کرنا عمدا سچائی کی راہ کو چھوڑنا ہے.یہ ثبوت ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کے بیہودہ عذرات سے رو ہو سکے.اب تک بعض کتابیں بھی موجود ہیں جو مصنفوں کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں.چنانچہ ایک پرانا قلمی نسخه قانون بوعلی سینا کا اُسی زمانہ کا لکھا ہوا میرے پاس بھی موجود ہے.تو پھر یہ صریح ظلم اور سچائی کا خون کرنا ہے کہ ایسے روشن ثبوت کو یونہی پھینک دیا جائے.بار بار اس بات میں غور کرو اور خوب غور کرو کہ کیونکر یہ کتابیں اب تک یہودیوں اور مجوسیوں اور عیسائیوں اور عربوں اور فارسیوں اور یونانیوں اور رومیوں اور اہل جرمن اور فرانسیسیوں اور دوسرے یورپ کے ملکوں اور ایشیا کے پرانے کتب خانوں میں موجود ہیں اور کیا یہ لائق ہے کہ ہم ایسے ثبوت سے جس کی روشنی سے انکار کی آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں یو نہی منہ پھیر لیں؟ اگر یہ کتابیں صرف اہل اسلام کی تالیف اور اہل اسلام کے ہی ہاتھ میں ہوئیں تو شاید کوئی جلد باز به خیال کرسکتا کہ مسلمانوں نے عیسائی عقیدہ پر حملہ کرنے کیلئے جعلی طور پر یہ بائی اپنی کتابوں میں لکھدی ہیں.مگر یہ خیال علاوہ ان وجوہ کے جو ہم بعد میں لکھتے ہیں اس وجہ سے بھی غلط تھا کہ ایسے جل کے مسلمان کسی طور سے مرتکب نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ عیسائیوں کی طرح مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح واقعہ صلیب کے بعد بلا توقف آسمان پر چلے گئے.اور سلمان تو اس بات کے قائل بھی نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پرکھینچ گیا یا صلیب پر سے کہ کوما اُن کو تخم پہنچے پھر وہ گڈا ایسی جعل سازی کیونکر کر سکتے تھے جو انکے عقیدہ کے تھی.مخالف تھی.ماسوا اس کے ابھی اسلام کا دنیا میں وجود بھی نہیں تھا جب کہ رومی و یونانی وغیرہ زبانوں میں ایسی قرا باد نہیں لکھی گئیں اور کروڑہا لوگوں میں مشہور کی گئیں جن میں مرہم عیسی کا نسخہ موجود تھا.اور ساتھ ہی یہ تشریح بھی موجود تھ تھی کہ یہ مرہم حواریوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے بنائی تھی.اور یہ قومیں

Page 316

یعنی یہودی و عیسائی و اہل اسلام و مجوسی مذہبی طور پر ایک دوسرے کے دشمن تھے.پس ان سب کا اس مرہم کو اپنی کتابوں میں درج کرتا بلکہ درج کرنے کے وقت اپنے مذہبی عقیدوں کی بھی پروا نہ رکھنا صاف اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مر ہم ایسا واقعہ مشہورہ تھا کہ کوئی فرقہ اور کوئی قوم اس سے منکر نہ ہوسکی.ہاں جب تک وہ وقت نہ آیا جو سیح موعود کے ظہور کا وقت تھا اسوقت تک ان تمام قوموں کے ذہن کو اس طرف التفات نہیں ہوئی کہ نینہ جوصدرہا کتابوں میں درج اور مختلف قوموں کے کروڑہا انسانوں میں شہرت یاب ہو چکا ہے ایسی کوئی تاریخی فائدہ حاصل کریں.پس اس جگہ ہم بڑا اسکے کچھ نہیں ہوسکتے کہ یہ خدا کا ارادہ تھا کہ وہ یکتا ہوا حربہ اور وہ حقیقت نما بریان که جو صلیبی اعتقاد کا خاتمہ کرے اس کی نسبت ابتدا سے یہی مقدر تھا کہ مسیح موعود کے ذریعہ سے دنیا میں ظاہر ہو.کیونکہ خدا کے پاک نبی نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ صلیبی مذہب نہ گھٹے گا اور نہ اس کی ترقی میں فتور آئیگا جب تک کہ مسیح موعود دنیا میں ظاہر نہ ہو.اور وہی ہے جو کسر صلیب اس کے ہاتھ پر ہوگی.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۵۶ تا ۶۴ نیز دیکھیں ست بچن.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۱ تا ۳۰۸ و راز حقیقت روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۵۸ تا ۱۶۱ - حاشیه * ۲۹۸

Page 317

صلیبی موت سے نجات کے بارہ میں تاریخی کتابوں کی شہادتیں چونکہ اس باب میں مختلف قسم کی شہادتیں ہیں اس لئے صفائی ترتیب کے لئے ہم اس کو کئی فصل پر منقسم کر دیتے ہیں.اور وہ یہ ہیں.پہلی فصل: اسلامی کتب کتاب روضۃ الصفا جو ایک مشہور تاریخی کتاب ہے اُس کے صفحہ ۱۳۰ - ۱۳۱ - ۱۳۲ - ۱۳۳- ۱۳۴۲ - ۱۳۵- میں بزبان فارسی وہ عبارت لکھی ہے جس کا خلاصہ ترجمہ ہم ذیل میں لکھتے ہیں.اور وہ یہ ہے:.حضرت عیسی علیہ السلام کا نام مسیح اس واسطے رکھا گیا کہ وہ سیاحت بہت کرتے تھے.ایک پشمی طاقیہ اُن کے سر پر ہوتا تھا اور ایک پشمی گرفتہ پہنے رہتے تھے.۲۹۹ ۲۲۷

Page 318

اور ایک عصا ہا تھ میں ہوتا تھا.اور ہمیشہ ملک یہ ملک اور شہر بشہر پھرتے تھے.اور جہاں رات پڑ جاتی وہیں رہ جاتے تھے.جنگل کی سبزی کھاتے تھے اور جنگل کا پانی پیتے اور پیادہ سیر کرتے تھے.ایک دفعہ سیاحت کے زمانہ میں ان کے رفیقوں نے ان کیلئے ایک گھوڑا خریدا اور ایک دن سواری کی مگر چونکہ گھوڑے کے آب و دانہ اور چارے کا بند وبست نہ ہو سکا اس لئے اسکو واپس کر دیا.وہ اپنے ملک سے سفر کر کے نصیبین ہیں پہنچے جو ان کے وطن سے کئی سو کوس کے فاصلہ پر تھا.اور آپ کے ساتھ چند سواری بھی تھے.آپ نے حواریوں کو تبلیغ کے لئے شہر میں بھیجا.مگر اس شہر میں حضرت عیسی علیہ السلام اور انکی والدہ کی نسبت غلط اور خلاف واقعہ خبریں پہنچی ہوئی تھیں اسے اس شہر کے حاکم نے حواریوں کو گرفتار کرلیا.پھرحضرت علی علی اسلام کو بلایا.آپ نے اعجازی برکت سے بعض بیماروں کو اچھا کیا.اور اور بھی کئی معجزات دکھلائے.اس لئے نصیبین کے ملک کا بادشاہ مع تمام شکر اور باشندوں کے آپ پر ایمان لے آیا اور نزول مائدہ کا قصہ جو قرآن شریف میں ہے وہ واقعہ بھی ایام سیاحت کا ہے“ یہ خلاصہ بیان تاریخ روضۃ الصفاہم.اور اسجگہ مصنف کتاب نے بہت سے بیہودہ اور لغو اور دور از عقل منجزات بھی حضرت علی علیہ السلام کی رات سو کئے ہیں جنکو ہم افسوس کے ساتھ چھوڑتے ہیں اور اپنی اس کتاب کو اُن جھوٹ اور فضول اور مبالغہ آمیز باتوں سے پاک رکھ کر صرف اصل مطلب اس سے لیتے ہیں جیسے یہ تین کلام کہ حضرت یا علی السلام ہی کرتے کرتے نصین تک ہنچ گئے تھے اونی میں مول اورشام کےدرمیان ایک ہی ہے جو انگریزی نقشوں میں سی اتے اسے لکھا ہے جب ہم ملک شام و فارس کیطرف سفر کریں تو ہاری را می نصیبین آئیگا اور بیت المقدس و تقریب اٹھے چاروکوس ہو اورپھر میں تقریبا ہم میں موصل ہو جوبیت المقدس سے پانسویل کے فاصلہ پر ہے اور وصل سے فارس کی حد صرف سومیل رہ جاتی ہو اس حسا سے نصیبین فارس کی حد سو ڈیڑھ سومیل پر ہو اور اس کی مشرقی مدافغانستان کے شہر ہرات تک ختم ہوتی ہو لینے فارس کیطرف ہرات افغانستان کی مغربی حد پر واقع ہواور اس کی مغربی حدس تقریبا و سومیل کے فاصلہ پر ہے اور اسے درہ خیبر تک قریبا پان سی کا خاصا ہیں

Page 319

ہو.سی.بی.ایس.اے عیسائی تاریخ یو بانی جس کو بین مر ایک شخص لندن کے رہنے والے نے ۱۶۵۰ء میں انگریزی زبان میں ترجمہ کیا اس کے پہلے باب چود ہو میں فصل میں ایک مخط ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بادشاہ انگیری مہم نے دریائے فرات کے پار سے حضرت ی کو اپنے پاس بلایا تھا.انگیریس کا حضرت عیسی کی طرف خط اور حضرت عیسی کا جواب بہت جھوٹ اور مبالغہ سے بھرا ہوا ہے.مگر اس قدر بھی بات معلوم ہوتی ہے کہ اس بادشاہ نے یہودیوں کا علم سن کر حضرت میسی کو اپنے پاس پنہ دینے کے لئے بلایا تھا اور بادشاہ کو خیال تھا کہ یہ سچانی ہے.منہ يسي دیکھو نقشہ ہذا شه سفر حضرت مسیح علیہ السلام نشان را سفر ** 41

Page 320

یہ ان ملوں اور شہروں کا نقشہ ہے جیسے حضرت سی علیہ السلام کا کشمہ کی طرف آتے ہوئے گذر ہوا.اس سیر و سیاحت سے آپ کا یہ ارادہ تھا کہ تا اقول ان بنی اسرائیل کو ملیں.جن کو شاہ سلمندر پکڑ کر ملک میدیا میں لے گیا تھا.اور یادر ہے کہ عیسائیوں کے شائع کردہ نقشہ میں مید یا بحیرہ روز کے جنوب میں دکھایا گیا ہے جہاں آجکل فارس کا ملک واقع ہے.اس سے سمجھ سکتے ہیں کہ کم سے کم میدیا اس ملک کا ایک حصہ تھا جسے آجکل فارس کہتے ہیں.اور فارس کی مشرقی عدا افغانستان سے متصل ہے اور اس کے جنوب میں سمندر ہے.اور مغرب میں ملک روم - بہر حال اگر روضۃ الصفا کی روایت پر اعتبار کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا نصیبین کی طرف سفر کرنا انس خوض سے تھا کہ تا فارس کی راہ سے افغانستان میں آویں اوران گشتند و یہودیوں کوجو آخر افغان کے نام سے مشہور ہوئے حق کی طرف دعوت کریں.افغان کا نام عبرانی معلوم ہوتا ہے.یہ لفظ ترکیبی ہے جس کے معنے بہادر ہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی فتحیابیوں کے وقت یہ خطاب بہادر کا اپنے لئے مقدر کیا.اب حاصل کلام یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام افغانستان سے ہوتے ہوئے پنجاب کی طرف آئے.اس ارادہ سے کہ پنجاب اور ہندوستان دیکھتے ہوئے پھر کشمیر کی طرف قدم اٹھا ہیں.یہ توظاہر ہے کہ افغانستان اور کشمیر کی حد فاصل چترال کا علاقہ اور کچھ حصہ پنجاب کا ہے.اگر افغانستان سے کشمیر میں پنجاب کے رستے سے آویں.تو قریباً اسی کوس یعنے ۳۰ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور چترال کی راہ سے سوکوس تقویت میں بنی اسرائیل کے لئے وعدہ تھا کہ اگرتم آخری نبی پر ایمان لاؤ گے تو آخری زمان میں بہت سپی مصیبتوں کے بعد پھر حکومت اور بادشاہت تم کو لے گی.چنانچہ وہ وعدہ اس طور پر پورا ہوا کہ بنی اسرایل کی دست قوموں نے اسلام اختیار کر لیا.اسی وجہ سے افغانوں میں بڑے بڑے باشاہ ہوئے اور نیز کشمیریوں میں بھی.منا ۳۰۲

Page 321

۳۰۳ کا فاصلہ ہے لیکن حضر شیخ نے بڑی عقلمندی سے افغانستان کا راہ اختیار کیا تا اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیں جو افغان تھے فیضیاب ہو جائیں.اور کشمیر کی مشرقی صد ملک تبت سے متصل ہے اس لئے کشمیر میں آکر بآسانی تبت میں جاسکتے تھے.اور پنجاب میں داخل ہو کر انکے لئے کچھ مشکل نہ تھا کہ قبل اس کے جو کشمیر اور تبت کی طرف آویں ہند وستمان کے مختلف مقامات کا سیر کریں.سو جیسا کہ اس ملک کی پرانی تاریخیں بتلاتی ہیں یہ بات بالکل قرین قیاس ہے کہ حضرت مسیح نے نیپال اور بنارس وغیرہ مقامات کا سیر کیا ہو گا اور پھر جموں سے یا راولپنڈی کی راہ سے کشمیر کی طرف گئے ہوں گے.چونکہ وہ ایک سمر ملک کے آدمی تھے.اس لئے یہ یقینی امر ہے کہ ان ملکوں میں غالباً وہ صرف جاڑے تک ہی ٹھہرے ہونگے اور اخیر مارچ یا اپریل کے ابتدا میں کشمیر کی طرف کوچ کیا ہو گا اور یونکہ وہ ملک بلاد شام سے بالکل مشابہ ہے اس لئے یہ بھی یقینی ہے کہ اس ملک میں سکونت مستقل اختیار کر لی ہوگی.اور ساتھ اس کے یہ بھی خیال ہے کہ کچھ حصہ اپنی عمر کا افغانستان میں بھی رہے ہوں گے اور کچھ بعید نہیں کہ وہاں شادی بھی کی ہو.افغانوں میں ایک قوم عیسی خیل کہلاتی ہے.کیا تجوب ہے کہ وہ حضرت عیسی کی ہی اولاد ہوں.مگر افسوس کہ افغانوں کی قوم کا تاریخی شیرازہ نہایت درہم برہم ہے اسلئے ان کے قومی تذکروں کے ذریعہ سے کوئی اصلیت پیدا کرنا نہایت مشکل امر ہے.بہر حال اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ افتان بنی اسرائیل میں سے ہیں جیسا کہ کشمیری بھی بنی اسرائیل میں سے ہیں.اور جن لوگوں نے اپنی تالیفات میں اس کے برخلاف لکھا ہے انہوں نے سخت دھوکا کھایا ہے اور فکر دقیق سے کام نہیں لیا.افغان اس بات کو مانتے ہیں کہ وہ قیس کی اولاد میں سے ہیں اور قیس بنی اسرائیل میں سے ہے.خیر اس جگہ اس بحث کو طول دینے کی ضرورت نہیں.ہم اپنی ایک کتاب میں اس بحث کو کامل طور پر لکھ چکے ہیں.اس جگہ صرف حضرت مسیح کی سیاحت کا ذکر ہے جو نصیبین کی راہ سے افغانستان میں ہو کر اور پنجاب میں گذ کر کشمیراور تب تک ہوئی.اسی لیے سفر کی وجہ سے آپکے نام نبی ستلاح

Page 322

مسم بلکہ سیاحوں کا سردار رکھا گیا.چنانچہ ایک اسلامی فاضل ا ا ا نامہ لیتے عارف بالله ابی بکرمحمدبن محمد بن الوليد الفهري الطرطوش المالکی جو اپنی عظمت اور فضیلت میں شہرہ آفاق ہیں اپنی کتاب سراج الملوک میں جو طبع خیر یہ مصر میں سلسلہ میں چھپی ہو یہ عبارت حضرت مسیح کے حق میں لکھتے ہیں صفحہ بہ میں درج ہے ابن عیسی روح الله وكلمته راس الزاهدین و امام السائحين - یعنے کہاں ہے عیسی روح اللہ و کلمتہ اللہ جو زاہدوں کا سردار اور سیاحوں کا امام تھالینے وہ وفات پاگیا ہے اور ایسے ایسے انسان بھی دنیا میں نہ رہے دیکھو اس جگہ اس فاضل نے حضرت عیسی کو نہ صرف سیاح بلکہ سیاحوں کا امام لکھتا ہے.ایسا ہی لسان العرب کے صفحہ ۳۱م میں لکھا ہے.قبیل سمي عليسى بمسيح لانه كان سائحا فی الارض لا يستقر یعنے عینی کا نام مسیح اس لئے رکھا گیا کہ وہ زمین میں سیر کر تا رہتا تھا اور کہیں اور کسی جگہ اس کو قرار نہ تھا.ہی مضمون تاج العروس شرح قاموس میں بھی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح وہ ہوتا ہے جو خیر اور برکت کے ساتھ مسح کیا گیا ہو یعنے اس کی فطرت کو خیر و برکت دی گئی ہو.یہاں تک کہ اُس کا چھونا بھی خیرو برکت کو پیدا کرتا ہو.اور یہ نام حضرت عیسی کو دیا گیا اور جسکو چاہتا ہے اللہ تعالیٰ یہ نام دیتا ہے.اور اسکے مقابل پر ایک وکبھی سیح ہے جو شر اور لعنت کے ساتھ مسح کیا گیا یعنے اس کی فطرت شہر اور لعنت پر پیدا کی گئی یہانتک کہ اس کا چھونا بھی شر او لعنت اور ضلالت پیدا کرتا ہے اور یہ نام مسیح وقبال کو دیا گیا.اور نیز ہر ایک کوجو اس کا ہم طبع ہو اور یہ دونوں نام لینے مسیح سیاحت کرنیوالا اور سی برکت دیاگیا یہ اہم ضد نہیں ہیں اور پہلے معنے دوسرے کو باطل نہیں کر سکتے.کیونکہ خدائے تعالیٰ کی یہ بھی عادت ہے کہ ایک نام کس کو عطا کرتا ہے اور کئی معنے اس سے مراد ہوتے ہیں.اور سب اسپر صادق آتے ہیں.اب خلاصہ مطلب یہ ہے کہ حضرت علی علیه السلام اسیاح ہونا استقدر اسلامی تاریخ سے ثابت ہو کہ اگر ان تمام کتابوں میں نقل کیا جائے تو میں خیال کرتا ہوں کہ وہ یہی مضمون اپنے طول کی وجہ سو ایک ضخیم کتاب ہوسکتی ہے.اس لئے اس پر کفایت کی بات ہے.سیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۶۶ تا ۷۲

Page 323

۳۰۵ دوسری فصل: بدھ مذہب کی کتب واضح ہو کہ بدھ مذہب کی کتابوں میں سے انواع اقسام کی شہاد میں ہمکو دستیاب ہوئی ہیں جنکو یکجائی نظر کے ساتھ دیکھنے سے قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ضرور اس تک پنجاب کو شمیر وغیرہ میں آئے تھے.ان شہادتوں کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں تاہر ایک منصف ان کو اول غور سے پڑھے اور پھر ان کو اپنے دل میں ایک سلسل صورت میں ترتیب دے کر خود ہی نتیجہ مذکورہ بالا تک پہنچ جائے.اور وہ یہ ہیں.اول وہ خطاب جو بدھ کو دیئے گئے مسیح کے خطابوں سے مشابہ ہیں اور ایسا ہی وہ واقعات جو بدھ کو پیش آئے مسیح کی زندگی کے واقعات ہوتے ہیں.مگر بعد منہ ہی سے مراد ان مقامات کا مذہب ہے جو تبت کی حدود دینے کیہ اور لاس اور گلگت اور ہمت وغیرہ میں پایا جاتا ہر ینیک نسبت ثابت ہوا ہے کہ حضرت مسیح اُن مقامات میں گئے تھے.خطابوں کی مشابہت میں یہ ثبوت کافی ہے کہ مثلاً حضرت عیسی علیہ السلا نے اپنی تعلیم میں اپنا نام نور رکھا ہے یامی گوتم کانام بدھ رکھا گیا ہے جو سنسکرت میں نور کے معنوں پر آتا ہے اور انجیل میں حضرت عیسی علیہ السلام کا نام استاد بھی ہے ایسا ہی بدھ کا نام استالینے استاد ہے ایسا ہی حضرت مسیح کا نام انجیل میں مارک رکھا گیا ہے.اسی طرح بدھ کا نام بھی گلگت ہے لینے مبارک ہے.ایسا ہی حضرت مسیح کا نام شاہزادہ رکھا گیا ہے اور بدمد کا نام بھی شاہزادہ ہے.اور ایک نام مسیح کا انجیل میں یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آنے کے مدعا کو پورا کرنے والا ہے ایسا ہی بدھ کا نام بھی بدھد کی کتابوں میں سدار تھا کھا گیا ہے یعنے اپنے آنے کا مدعا پورا کرنے والا.اور انجیل میں حضرت مسیح کا ایک نام یہ بھی ہے کہ وہ تھکوں ماندوں کو پنا دینے والا ہے.ایسا ہی بدھ کی کتابوں میں بدھ کا نام ہے آستون ستون یعنے بے پناہوں کو پنا؟ دینے والا.اور انجیل میں حضرت مسیح بادشاہ بھی کہلاتے ہیں گو آسمان کی بادشاہت مُراد

Page 324

یا ہی بدعہ بھی بادشاہ کہلایا ہے اور واقعات کی مشابہت کا یہ ثبوت ہے کہ مثلاً جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت جی علیہ السلام شیطان سے آزمائے گئے اور شیطان نے انکو کہا کہ اگر تو مجھے سجدہ کرے تو تمام دنیا کی دولتیں اور بادشاہتیں تیرے لئے ہوگی یہی آزمائیش بدھ کی بھی گئی اور شیطان نے اسکو کہاکہ اگرتو میری میں مان لے کہ ان فقیری کاموں سے باز آجائے اور گھر کی طرف چلا جائے تو میں تجھ کو بادشاہت کی شان و شوکت عطا کروں گا لیکن جیسا کہ مسیح نے شیطان کی اطاعت نہ کی.ایسا ہی لکھا ہو کہ بدھ نے بھی نہ کی.دیکھو کتاب ٹی ڈبلیو رائس ڈیوڈس بدھ ازم اور کتاب مونیر والیس باید ازم شد اب اس سے ظاہر ہے کہ جو کچھ حضرت مسیح علی السلام نہجیل میں کئی قسم کے خطاب اپنی طرف منسوب کرتے ہیں یہی خطاب بدھد کی کتابوں میں جو اس سے بہت عرصہ پیچھے لکھی گئی ہیں بدھ کی طرف منسوب کی گئی ہیں.اور جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام شیطان سے آزمائے گئے ایسا ہی ان کتابوں میں بدھ کی نسبت دعوی کیا گیا ہے کہ وہ بھی شیطان سے آزمایا گیا بلکہ ان کتابوں میں اس سے زیادہ بدعہ کی آزمائش کا ذکر ہے اور لکھا ہے کہ جب شیطان بدھ کو دولت اور بادشاہت کی طمع دے چکا.تب بدھ کو خیال پیدا ہوا کہ کیوں اپنے گھر کی طرف واپس نہ جائے.لیکن اُس نے اس خیال کی پیروی نہ کی.اور پھر ایک خاص رات میں وہی شیطان اُس کو پھر ملا.اور اپنی تمام ذریات ساتھ لایا اور ہیبت ناک صورتیں بنا کر اسکو ڈرایا اور بدھ کو وہ شیاطین سانپوں کی طرح نظر آئے جن کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے اور ان سانیوں نے زہر اور آگ اسکی طرف پھینکنی شروع کی لیکن زہر پھول بنجاتے تھے اور آگ بدھ کے گرد ایک ہالہ بنالیتی تھی.پھر جب اس طرح پر کامیابی نہ ہوئی تو شیطان نے انی سولہ لڑکیوں کو بی بی اور انکو کہا کہ تم اپنی خوبصورتی بد و بنظاہر کرو لیکن سے بھی بدھ کے و نیو دیکھو چائینز بده از مصنف ، ولنس-بدو مصنف اوالد مرگ ترجمہ ڈبلیو ہوئی لائف آن بدھ.ترجمہ راک ہیں.منہ

Page 325

دل کو تزلزل نہ ہوا اور شیطان اپنے ارادوں میں نام اور ہا اور شیطان نے اور اور طریقے بھی اختیار کئے مگر بڑھ کے استقلال کے سامنے اُس کی کچھ پیش نہ گئی.اور بدھ اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب کو طے کر تا گیا اور آخر کار ایک لمبی رات کے بعد یعنے سخت آزمائیشوں اور دیر پا امتحانوں کے پیچھے بدھ نے اپنے دشمن یعنے شیطان کو مغلوب کیا اور سچے علم کی روشنی اسپر کھل گئی اور صبح ہوتے ہی یعنے امتحان سے فراغت پاتے ہی اسکو تمام باتوں کا علم ہو گیا اور جس صبح کو یہ بڑی جنگ ختم ہوئی وہ بدھ مذہب کی پیدائش کا دن تھا.اُس وقت گوتم کی عمر پینتیس برس کی تھی اور اس وقت اُس کو بدھ یعنے اور اور روشنی کا خطاب ملا.اور جس درخت کے نیچے وہ اس وقت بیٹھا ہوا تھا وہ درخت نور کے درخت کے نام سے مشہور ہوگیا.اب انجیل کھول کر دیکھو کہ ی شیطان کا امتحان میں سے بدعہ آزمایا گیا کس قدر حضرت مسیح کے امتحان سے مشابہ ہے یہانتک کہ امتحان کے وقت میں جو حضرت مسیح کی عمر تھی قریباً وہی بدھ کی عمر تھی.اور جیسا کہ بدھ کی کتابوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیطان درحقیقت انسان کی طرح مجسم ہو کر لوگوں کے دیکھتے ہوئے بدھ کے پاس نہیں آیا بلکہ وہ ایک خاص نظارہ تھا جو بدھ کی آنکھوں تک ہی محدود تھا اور شیطان کی گفت گو شیطانی الہام تھی عینی شیطان اپنے نظارہ کے ساتھ بدھ کے دل میں یہ الفقار بھی کرتا تھا کہ یہ طریق چھوڑ دینا چاہیئے اور میرے حکم کی پیری کرنی چاہیئے.میں تجھے دنیا کی تمام دولتیں دید ونگا.اسی طرح عیسائی محقق مانتے ہیں کہ شیطان جو حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس آیا تھا وہ بھی اس طرح نہیں آیا تھا کہ یہودیوں کے سامنے انسان کی طرح اُن کی گلیوں کو بچوں سے ہو کر اپنی مجسم حالت میں گزرتا ہوا حضرت مسیح کو آملا ہو.اور انسانوں کی طرح ایسی گفت گو کی ہو کہ حاضرین نے بھی سنی ہو بلکہ یہ ملاقات بھی ایک کشفی رنگ میں ملاقات تھی جو حضرت مسیح کی آنکھوں تک محدود تھی اور باتیں بھی الہامی رنگ میں تھیں.یعنے شیطان نے جیسا کہ اُس کا قدیم سے طریق ہے

Page 326

اپنے ارادوں کو وسوسوں کے رنگ میں حضرت مسیح کے دل میں ڈالا تھا.مگر ان شیطانی الہامات کو حضرت مسیح کے دل نے قبول نہ کیا بلکہ مدد کی طرح اُن کو رو کیا.اب سوچنے کا مقام ہے کہ اس قدر مشابہت بدھ میں اور حضرت سیج ہیں کیوں پیدا ہوئی.اس مقام میں آریہ تو کہے ہیں کہ نعوذ بالہ حضرت مسیح نے اس سفر کے وقت جبکہ ہندوستان کی طرف انہوں نے سفر کیا تھا بُدھ مذہب کی باتوں کو شنکر اور بدھ کے ایسے واقعات پر اطلاع پاکر اور پھر واپس اپنے وطن میں جا کر اسی کے موافق انجیل بنائی تھی.اور بدھ کے اخلاق میں سے چورا کر اخلاقی تعلیم لکھی تھی اور جیسا کہ بدھ نے اپنے تئیں نور کہا اور علم کہا اور دوسرے خطاب اپنے نفس کے لئے مقرر کئے وہی تمام خطاب بسیج نے اپنی طرف منسوب کر دیئے تھے.یہانتک کہ وہ تمام قصہ بدھ کا جس میں وہ شیطان سے آزمایا گیا اپنا قصہ قرار دیدیا لیکن یہ آریوں کی غلطی اور خیانت ہے.یہ بات ہرگز صحیح نہیں ہے کہ حضرت مسیح صلب کے واقعہ سے پہلے ہندوستان کی طرف آئے تھے اور نہ اُس وقت کوئی ضرورت اس سفر کی پیش آئی تھی بلکہ یہ ضرورت اُس وقت پیش آئی جبکہ بلاد شام کے یہودیوں نے حضرت میں کو قبول نہ کیا اور انکو اپنے زعم میں صلیب دے دیا جسے خدائے تعالیٰ کی بار یک حکمت عملی نے حضرت سیح باریک نے کو بچالیا.تب وہ اُس ملک کے یہودیوں کے ساتھ حق تبلیغ اور ہمدردی ختم کر چکے اور بباعث اُس بدی کے اُن یہودیوں کے دل ایسے سخت ہو گئے کہ وہ اس لائق نہ رہے کہ سچائی کو قبول کریں اُس وقت حضرت مسیح نے خدائے تعالیٰ سے یہ اطلاع پاکر کہ یہودیوں کے دس گم شدہ فرقے ہندوستان کی طرف آگئے ہیں اُن ملکوں کی طرف قصد کیا.اور چونکہ ایک گروہ یہودیوں کا بدھ مذہب میں داخل ہو چکا تھا.اسلئے ضرور تھا کہ وہ نبی صادق بدھ مذہب کے لوگوں کی طرف توجہ کرتا سو اس وقت بدھ مذاہب کے عالموں کو جو مسیحی بدھ کے منتظر تھے یہ موقع ملا کہ انہوں نے حضرت مسیح کے خطابات اور ان کی بعض اخلاقی تعلیمیں جیسا کہ یہ کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو اور بدی کا مقابلہ نہ کرو اورنیز ۳۰۸

Page 327

٣٠٩ حضرت جی کا بگو این گورا رنگ ہوا جیساکہ گوتم بدھ نے پیشگوئی میں بیان کیا تھا یہ سب علامتیں دیکھ کر انکو بدھ قرار دے دیا.اور بھی ممکن ہو کہ مسیح کے بعض واقعات اور خطابات تعلیمیں اسی زمانہ میں گوتم بدھ کی طرف بھی عمدا یا ہوا منسوب کردیئے گئے ہوں کیونکہ ہمیشہ ہند و تاریخ نویسی میں بہت کچھے رہے ہیں.اور بدھ کے واقعات حضرت بی کے زمانہ تک فلمبند نہیں ہوئے تھے اسلئے بدھ کے عالموںکو بڑی گنجائش تھی کہ جوکچھ چاہیں بندہ کی طرف منسوب کر دیں سو بہ قرین قیاس ہو کہ جب انہوں نے حضرت سیج کے واقعات اور اخلاقی تعلیم کے اطلاع پائی تو ان امور کو اپنی طرف سے اور کی باتیں ملاکر بدھ کی طرف منسوب کر دیا ہو گا.چنانچہ آگے چکر ہم اس بات کا ثبوتینگے کہ اخلاقی تعلیم کاحصہ جو بدھ مذہب کی کتابوں میں نیل کے مطابق پایا جاتا ہے اور یہ خطابات نور وغیرہ توسیع کی طرح بدھ کی نسبت لکھے ہوئے ثابت ہوتے ہیں اور ایسا ہی شیطان کا امتحان.یہ سب امور اس وقت بدھ مذہب کی ٹپستکوں میں لکھے گئے تھے جبکہ حضرت مسیح اس ملک میں صلیبی تفرقہ کے بعد تشریف لائے تھے.اور پھر ایک اور مشابہت بعد کی حضرت سی سے پائی جاتی ہو کہ بدھ ازم میں لکھا ہو کہ بدھد ان ایام میں جو شیطان سے آزمایا گیا روزے رکھتا تھا اور اپنے چالیس رونے رکھے.اور انجیل بڑھنے والے جانتے ہیں کہ حضرت مسیح نے بھی چالیس روزے رکھے تھے.اور جب کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے بدمعہ اور سیح کی اخلاقی تعلیم میں اس قدر مشابہت اور مناسبت ہے کہ ہر ایک ایسا شخص تعجب کی نظر سے دیکھے گا.جو دونوں تعلیموں پر اطلاع رکھتا ہوگا.مثلاً انجیلوں میں لکھا ہے کہ شتر کا مقابلہ نہ کرو.اور اپنے دشمنوں سے پیار کرو.اور غربت سے زندگی بسر کرو.اور تکبر اور جھوٹ اور اپے سے پر ہیز کرو اور یہی تعلیم بدھ کی ہے.بلکہ اس میں اس سے زیادہ شد و مد ہے.پور نوٹ ہم اس سے انکار نہیں کر رسکتے کہ بدھ مذہب میں قدیم سے ایک راستہ اخلاقی تعلیم کا موجود ہے مگر ساتھ اس کے ہم یہ بھی کہتے ہیں اس میں سے وہ حصہ جو بعینہ انجیل کی تعلیم اور انجیل کی مثالیں اور انجیل کی عبارتیں ہیں ما یہ حصہ بلاشبہ اس وقت بدھ مذہب کی کتابوں میں ملایا گیا ہے جبکہ حضرت شیخ اس ملک میں پہنچے.منہ

Page 328

یہاں تک کہ ہر ایک جانور بلکہ کیڑوں مکوڑوں کے خون کو بھی گناہ میں داخل کیا ہے.مدد کی تعلیم میں بڑی بات یہ بتلائی گئ ہے کہ تمام دنیا کی خواری اور ہمدردی کرو.وہ تمام انسانوں اور حیوانوں کی بہتری چاہو اور با ہم اتفاق اورمحبت پیدا کرو.اور یہی تعلیم انجیل کی ہے.اور پھر جیساکہ حضرت مسیح نے مختلف ملکوں کی طرف اپنے شاگردوں کو روانہ کیا اور آپ بھی ایک ملک کی طرف سفر اختیار کیا.یہ باتیں بدھ کے سوانح میں بھی پائی جاتی ہیں.چنانچہ بدھ ازم مصنفہ سر مونیر ولیم میں لکھا ہے کہ بدھ نے اپنے شاگردوں کو دُنیا میں تبلیغ کے لئے بھیجا اور اُن کو اس طرح پر خطاب کیا.باہر جاؤ اور ہر طرف پھر نکلو.اور دنیا کی غمخواری اور دیوتاؤں اور آدمیوں کی بہتری کے لئے ایک ایک ہو کر مختلف صورتوں میں نکل جاؤ اور یہ منادی کرو کہ کامل پرہیز گار بنو.پاک دل ہو.برہم چاری یعنے تنہا اور مجرد رہنے کی خصلت اختیار کرو اور کہا کہ ” میں بھی اس مسئلہ کی منادی کے لئے جاتا ہوں اور بارہ بنارس کی طرف گیا اور اس طرف اُس نے بہت معجزات دکھائے.اور اس نے ایک نہایت موثر وعظ ایک پہاڑی پر کیا.جیسا کہ مسیح نے پہاڑی پر وحفظ کیا تھا اور پھر اسی کتاب میں لکھا ہے کہ بدھ اکثر مثالوں میں وعظ کیا کرتا تھا اور ظاہری چیزوں کو لے کر روحانی امور کو اُن میں پیش کیا کرتا تھا.اب غور کرنا چاہیے کہ یہ اخلاقی تعلی اور طریق وحفظ لینے مثالوں میں بیان کرنا یہ تمام طرز حضرت عیسی علیہ السلام کی ہے.جب ہم دوسرے قرائن کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر اس طرز تعلیم اور اخلاقی تعلیم کو دیکھتے ہیں تو مگا ہمارے دل میں گذرتا ہو کہ یہ سب باتیں حضرت سیے کی تعلیم کی نقل ہیں جبکہ وہ اس ملک ہندوستان میں تشریف لائے اور جابجا انہوں نے وعظ بھی کئے تو اُن دنوں میں بدھ مذہب والوں نے اُن سے ملاقات کرکے اور اُن کو صاحب برکات پاکر اپنی کتابوں میں یہ باتیں درج کرلیں ۳۱۰

Page 329

بلکہ اُن کو بُدھ قرار دے دیا.کیونکہ یہ انسان کی فطرت میں داخل ہو کہ جہاں کہیں عمدہ بات اتا ہر ہر طرح کوشش کرتا ہو کہ اس عمدہ بات کو لے لے یہانتک کہ اگر کسی مجلس میں کوئی عمدہ نکتہ کسی کے منہ سے نکلتا ہے تو دوسرا اس کو یاد رکھتا ہو.تو پھر یہ بالکل قرین قیاس ہو کہ بدھ مذہب والوں نے انجیلوں کا سارا نقشہ اپنی کتابوں میں کھینچ دیا ہے.مثلاً یہانتک کہ جیسے بیج نے پچالیس روزے رکھے ویسے ہی بدحہ نے بھی رکھے اور جیسا کہ مسیح شیطان سے آزمایا گیا ایسا ہی بدھ بھی آزمایا گیا.اور جیساکہ مسیح ہے پدر تھا ویسا ہی بدھ بھی.اور جیسا کہ مسیح نے اخلاقی تعلیم بیان کی ویسا ہی بدھ نے بھی کی اور جیسا کہ مسیح نے کہا کہ میں نور ہوں ویسا ہی بدھ نے بھی کہا.اور جیسا کہ مسیح نے اپنا نام اُستاد رکھا اور حواریوں کا نام شاگرد ایسا ہی بدھ نے رکھا.اور جیسا کہ انجیل متی بابا آیت میں ہوکر سونا اور روپا او تانیا اپنے پاس مت رکھو یہی حکم بدھ نے اپنے شاگردوں کو دیا.ور جیسا کہ انہی میں مجرد رہنے کی ترغیب دیگئی ہو ایسا ہی بدھ کی تعلیم میں ترغیب ہے.اور جیسا کہ سیح کو صلیب پر کھینچنے کے بعد زلزلہ آیا ایسا ہی لکھا ہو کہ بدھ کے مرنے کے بعد زلزلہ آیا پس اس تمام مطابقت کا اصل باعث یہی ہے کہ بدھ مذہب والوں کی خوش قسمتی سے بیج ہندوستان میں آیا اور ایک زمانہ دراز تک بدھ مذہب والوں میں رہا اور اسکے سوانح اور اسکی پاک تعلیم پر اُنہوں نے خوب اطلاع پائی.لہذا یہ ضروری امر تھا کہ بہت سا حصہ اس تعلیم اور رسوم کا اُن میں جاری ہو جاتا کیونکہ اُن کی نگاہ میں سیح عزت کی نظر سے دیکھا گیا اور بدھ قرار دیا گیا.اس لئے اُن لوگوں نے اس کی باتوں کو اپنی کتابوں میں لکھا اور گوتم بدھ کی طرف منسوب کر دیا.بدھ کابینہ حضرت بی کی طرح مثالوں میں اپنے شاگردوں کو سمجھانا خاصکر وہ مثالیں جو انجیل میں آچکی ہیں نہایت حیرت انگیز واقعہ ہے.چنانچہ ایک مثال میں بدھ کہتا ہے کہ "جیسا کہ کسان بیج ہوتا ہے اور وہ نہیں کہہ سکتا کہ دانہ آج بچھولے گا اور کل نکلے گا ایسا ہی مرید کا حال ہوتا ہے یعنے وہ کچھ بھی رائے ظاہر نوٹ جیسا کہ عیسائیوں میں شاہ ربانی ہے ایسا ہی بدھ مذہب والوں میں بھی ہے.منور

Page 330

نہیں کر سکتا کہ اس کا نشو و نما اچھا ہوگا یا اس دانہ کی طرح ہوگا جو پتھریلی زمین میں ڈالا جائے اور خشک ہو جائے “ دیکھو بعینہ یہ وہی مثال ہے جو انجیل میں ابتک موجود ہے.اور پھر بڑھا ایک اور مثال دیتا ہے کہ ایک ہرنوں کا گلہ جنگل میں خوشحال ہوتا ہے تب ایک آدھی آتا ہے اور فریب سے وہ راہ کھولتا ہے جو اُن کی موت کا راہ ہے یعنے کوشش کرتا ہے کہ ایسی راہ چلیں جب سے آخر پھنس جائیں اور موت کا شکار ہو جائیں.اور دوسرا آدمی آتا ہے اور وہ اچھا راہ کھولتا ہے یعنے وہ کبھیت ہوتا ہے تا اُس میں سے کھائیں.وہ نہر لاتا ہے تا اس میں سے پیویں اور خوشحال ہو جائیں ایسا ہی آدمیوں کا حال ہے وہ خوشحالی میں ہوتے ہیں شیطان آتا ہے اور بدی کی آٹھ راہیں اُن پر کھول دیتا ہے تا ہلاک ہوں.تب کامل انسان آتا ہے اور حق اور یقین اور سلامتی کی بھری ہوئی آٹھ راہیں اُن پر کھو دیتا ہے تا وہ بچ جائیں یہ بدھ کی تعلیم میں یہ بھی ہو کہ پر ہیزگاری وہ محفوظ خزانہ ہے جس کو کوئی پھرا نہیں سکتا.وہ ایسا خنہ انہ ہے کہ موت کے بعد بھی انسان کے ساتھ جاتا ہے.وہ ایسا خزانہ ہو جس کے سرمایہ سے تمام علوم اور تمام کمال پیدا ہوتے ہیں.دیکه که بینه یا نبی کی لی ہے اور یہ باتیں بد مذہب کی ان پرانی کتابوں میں پائی جاتی ہیں جن کا زمانہ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ سے کچھ زیادہ نہیں ہے بلکہ وہی زمانہ ہے.پھر اسی کتاب کے صفحہ ۱۳۵ میں ہے کہ بدھ کہتا ہے کہ میں ایسا ہوں کہ کوئی مجھ پر داغ نہیں لگا سکتا.یہ فقرہ بھی حضرت مسیح کے قول سے مشابہ ہے.اور بار از دم کی کتاب کے صفحہ ۴۵ میں لکھا ہو کہ بدھ کی اخلاقی تعلیم اور عیسائیوں کی اخلاقی تعلیم میں بڑی بھاری مشابہت ہے “ میں اس کو مانت ہوں.میں یہ مانتا ہوں کہ وہ دونوں ہمیں بتاتی ہیں کہ دنیا سے محبت نہ کرو.روپیہ سے محبت نہ کرو.دشمنوں سے دشمنی مت کرو.بڑے اور نا پاک کام مت کرو.بدی پر نیکی کے ذریعہ سے غالب آؤ.اور دوسروں سے وہ سلوک کرو جو تم چاہتے ۳۱۳

Page 331

٣١٣ ہو کہ وسے تم سے کریں.یہ اس قدر انجلی تعلیم اور بدھ کی تعلیم میں مشابہت ہے کہ تفصیل کی ضرورت نہیں.بدھ مذہب کی کتابوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہو کہ گوتم بدھ نے ایک اور آنے والے بدھ کی نسبت پیش گوئی کی تھی جس کا نام متی بیان کیا تھا.یہ پیشگوئی بدھ کی کتاب لگا وقتی سنتا میں ہے جس کا حوالہ کتاب اولڈن برگ صفحہ ۱۴۲ میں دیا گیا ہے.اس پیش گوئی کی عبارت یہ ہے امتی لاکھوں مریدوں کا پیشوا ہو گا جیساکہ میں اب سینکڑوں کا ہوں.اس جگہ یاد رہے کہ جو لفظ عبرانی میں مشیر ہے وہی پالی زبان میں متیا کر کے بولا گیا ہے.یہ تو ایک معمولی بات ہے کہ جب ایک زبان کا لفظ دوسری زبانوں میں آتا ہو تو اسمیں کچھ تغیر ہو جاتا ہے.چنانچہ انگریزی لفظ بھی دوسری زبان میں آگر تغیر پا جاتا ہے جیسا کہ نظیر کے طور پر ٹیکسمو لر صاحب ایک فہرست میں جوکتا ہے سیکرڈ آف دی ایسٹ جلد ا کے ساتھ شامل کی گئی ہے صفحہ ۸ اس میں لکھتا ہو کہ ٹی اپنے انگریزی زبان کا جو تھے کی آواز رکھتا ہے فارسی اور عربی زبانوں میں حث ہو جاتا ہو یعنے پڑھنے میں ث یاس کی آواز دیتا ہے.سوان تغیرات پر نظر رکھ کر ہر ایک مجھ سکتا ہو کہ میتھا کا لفظ پالی زبان میں آکر مقیا بن گیا.یعنے وہ آنیوالا متیا جسکی بُدھ نے پیشگوئی کی تھی.وہ درحقیقت مسیح ہے اور کوئی نہیں.اس بات پر بڑا پختہ قرینہ یہ ہے کہ بدھ نے یہ پیشنگوئی بھی کی تھی کہ جس مذہب کی اس نے بنیاد رکھی ہو.وہ زمین پر پانچ سو برس سے زیادہ قائم نہیں رہے گا.اور جس وقت ان تعلیموں اور اصولوں کا زوال ہو گا.تب متیا اس ملک میں اگر دوبارہ ان اخلاقی تعلیموں کو دنیا میں قائم کرے گا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح پانسو برس بعد بدھ کے ہوئے ہیں.اور جیسا کہ بدھ نے اپنے مذہب کے زوال کی مدت مقرر کی تھی.ایسا ہی اس وقت بدھ کا مذہب زوال کی حالت میں تھا.تب حضرت سیج نے صلیب کے واقعہ سے نجات پا کر اس ملک کی طرف سفر کیا اور بدھ مذہب والے اُن کو شناخت کرکے بڑی تعظیم سے پیش آئے.

Page 332

اور اس میں کوئی بھی شک نہیں کر سکتا کہ وہ اخلاقی تعلیمیں اور وہ روحانی طریقے - عیسائی مورخ اس بات کو مانتے ہیں کہ انجیل کی پہاڑی تعلیم اور دوسرے حصوں کی تعلیم جو اخلاقی امور پر مبنی ہے یہ تمام تعلیم وہی ہے جس کو گوتم بدھہ حضرت مسیح سے پانسو برس پہلے دنیا میں رائج کر چکا تھا.وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بدھ صرف اخلاقی تعلیماں کی سکھلانے والا نہیں تھا بلکہ وہ اور بھی بڑی بڑی سچائیوں کا سکھلانے والا تھا.اور اُن کی رائے میں بدھ کا نام جو ایشیا کا نور رکھا گیا وہ مین مناسب ہے.اب بدھ کی پیش گوئی کے موافق حضرت مسیح پانسو برس کے بعد ظاہر ہوئے اور حسب اقرار اکثر علماء عیسائیوں کے اُن کی اخلاقی تعلیم بعینہ بدھ کی تعلیم تھی.تو اس میں کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ وہ بدھ کے رنگ پر ظہور فرما ہوئے تھے.اور کتاب اولڈن برگ میں بحوالہ بدتہ کی کتاب لگا وتی سنتا کے لکھا ہے کہ بدھ کے معتقد آئندہ زمانہ کی اُمید پر ہمیشہ اپنے تئیں تسلی دیتے تھے کہ و ہتیا کے شاگرد بنگر نجات کی خوشحالی حاصل کرینگے یعنے ان کو یقین تھا کہ متیآبان میں آئے گا اور وہ اسکے ذریعہ.نجات پائیں گے.کیونکہ جن لفظوں میں بدھ نے ان کو منی کی امید دی تھی وہ لفظ صریح دلالت کرتے تھے کہ اس کے شاگرد متیا کو پائیں گے.اب کتاب مذکور کے اس بیان سے بخوبی یہ بات دلی یقین کو پیدا کرتی ہے کہ خدا نے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دونوں طرف سے اسباب پیدا کر دیئے تھے لینے ایک طرف تو حضرت مسیح بوجہ اپنے اس نام کے جو پیدائیش با ہے آیت ، اسے سمجھا جاتا ہے.یعنے است جس کا ترجمہ ہے جماعت کو اکٹھا کرنے والا.یہ ضروری تھا کہ اس ملک کی طرف آتے جس میں یہودی آکر آباد ہوئے تھے.اور دوسری طرف یہ بھی ضروری تھا کہ حسب منشاء بُدھ کی پیش گوئی کے بدھ کے معتقد آپ کو دیکھتے ۳۱۴

Page 333

۳۱۵ اور آپ سے فیض اٹھاتے.سو ان دونوں باتوں کو یکجائی نظر کے ساتھ دیکھنے سے یقیناً سمجھ میں آتا ہے کہ ضرو رحضرت مسیح علیہ السلام تبت کی طرف تشریف لے گئے تھے اور خود جسقدر تبت کے بدھ مذہب میں عیسائی تعلیم اور رسوم دخل کر گئے ہیں اس قدر گہرا دخل اس بات کو چاہتا ہے کہ حضرت مسیح اُن لوگوں کو ملے ہوں اور بد عہ مذہب کے سرگرم مُریدوں کا اُن کی ملاقات کے لئے ہمیشہ منتظر ہونا جیسا کہ بدھ کی کتابوں میں اب تک لکھا ہوا موجود ہے بلند آواز سے پکار رہا ہے کہ یہ انتظار شدید حضرت مسیح کے اُنکے اس ملک میں آنے کے لئے پیش خیمہ تھا.اور دونوں امور متذکرہ بالا کے بعد کسی منصف مزاج کو اس بات کی حاجت نہیں رہتی کہ وہ بدھ مذہب کی ایسی کتابوں کو تلاش کرے جن میں لکھا ہوا ہو کہ حضرت مسیح تبت کے ملک میں آئے تھے.کیونکہ جبکہ بدھ کی پیش گوئی کے مطابق آنے کی انتظار شدید تھی تو وہ پیشگوئی اپنی کشش سے حضرت سیج کو ضرور تبت کی طرف کھینچ لائی ہوگی.اور یاد رکھنا چاہئے ہمتی کا نام جو بدھ کی کتابوں میں جا بجا مذکور ہے بلاشبہ وہ مسیحا ہے.کتاب تبت تا تار گولیا بائی ایچ ٹی پر نسب کے صفحہ ہم میں مقیا بدھ کی نسبت ہو در اصل مسیحا ہو.یہ لکھا ہو کہ جو حالات ان پہلے مشنریوں (عیسائی واعظوں نے تبت میں جاکر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور کانوں سے سنے.اُن حالات پر غور کرنے سے وہ اس نتیجہ یک پہنچ گئے کہ لاموں کی قدیم کتب میں عیسائی مذہب کے آثار موجود ہیں.اور پھر اسی صفحہ میں لکھا ہے کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ متقدمین یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح کے سواری ابھی زندہ ہی تھے کہ جبکہ عیسائی دین کی تبلیغ اس جگہ پہنچ گئی تھی اور پھر اے اصفحہ میں لکھا ہے کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ اُس وقت عامہ انتظار ایک بڑے منبتی کے پیدا ہونے کی لگ رہی تھی جس کا ذکرٹے سے ٹیس نے اس طرح پر کیا ہے کہ اس انتظار کا مدار نہ صرف یہودی تھے بلکہ خود بدھ مذہب نے ہی اس انتظار کی بنیاد ڈالی تھی لینے اس ملک میں متیا کے آنے کی پیش گوئی کی

Page 334

تھی.اور پھر اس کتاب انگریزی پر مصنف نے ایک نوٹ لکھا ہے اس کی یہ عبارت ہر کتاب پیتا کسیان اور انتھا کتھا میں ایک اور بدھ کے نزول کی پیش گوئی بڑی واضح طور پر درج ہے جس کا ظہور گوتم یا ساکھی منی سے ایک ہزار سال بعد لکھا گیا ہے.گوتما بیان کرتا ہے کہ میں پچیسواں بدھ ہوں.اور بگو امتیا نے ابھی آتا ہوں.ینے میرے بعد اس ملک میں وہ آئے گا جس کا نام مقیا ہو گا اور وہ سفید رنگ ہوگا.پھر آگے وہ انگریز مصنف لکھتا ہے کہ متیا کے نام کو مسیحا سے حیرت انگیز مشابہت ہے.غرض اس پیش گوئی میں گوتم بدھد نے صاف طور پر اقرار کر دیا ہے کہ اس کے ملک میں اور اس کی قوم میں اور اسپر ایمان لانے والوں میں سیا آنے والا ہے یہی وجہ تھی کہ اس کے مذہب کے لوگ ہمیشہ اس انتظار میں تھے کہ انکے ملک میں سیحا آئے گا.اور بدھو نے اپنی پیش گوئی میں اس آنے والے بارود کا نامہ گواتا اس نے رکھا کہ بگوا سنسکرت زبان میں سفید کو کہتے ہیں.اور حضرت بی چونکہ بلاد شام کے رہنے والے تھے اس لئے وہ بگو ا یعنے سفید رنگ تھے جس ملک میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی یعنے مگریہ کا ملک جہاں راجہ گر یہا واقع تھا اس ملک کے لوگ سیاہ رنگ تھے اور گوتم بدمد نخود سیاہ رنگ تھا.اس لئے بدھ نے آنے والے بدعہ کی قطعی علامت ظاہر کرنے کے لئے دو باتیں اپنے مُریدوں کو بہت لائی تھیں.ایک یہ کہ وہ بگوا ہوگا.دوسرے یہ کہ وہ متیا ہو گا یعنے سیر کرنے والا ہو گا اور باہر سے آئے گا.سو ہمیشہ وہ لوگ انہی علامتوں کے منتظر تھے جب تک کہ انہوں نے حضرت سیج کو دیکھ لیا.یہ عقیدہ ضروری طور پر ہر ایک بدھ مذہب والے کا ہونا چاہئیے کہ بدھ سے پانسو برش بعد بگوا متیا اُن کے ملک میں ظاہر ہو ا تھا.شور اس عقیدہ کی تائید میں کچھ تعجب نہیں ہے کہ بدھ مذہب کی بعض کتابوں میں متیا یعنے ایک ہزار و پانچ ہزار سال والی بیماریں غلط ہیں.منہ

Page 335

۳۱۷ مسیحا کا اُن کے ملک میں آنا اور اس طرح پر پیش گوئی کا پورا ہو جانا لکھا ہوا ہو.اور اگر یہ فرض بھی کر لیں کہ لکھا ہوا نہیں ہے تب بھی جبکہ بدھنہ نے خدائے تعالیٰ سے الہام پا کر اپنے شاگردوں کو یہ امید دی تھی کہ بگو امتیا اُن کے ملک میں آئیگا اس بنا پر کوئی بدھ مت والا جو اس پیشگوئی پر اطلاع رکھتا ہو اس واقعہ سے انکار نہیں کر سکتا کہ دیگو امتیا جس کا دوسرا نام سیجا ہے اس ملک میں آیا تھا کیونکہ پیشگوئی کا باطل ہونا مذہب کو باطل کرتا ہے.اور ایسی پیشگوئی جسکی میعاد بھی مقدر تھی اور گوتم بد نے بار بار اس پیشگوئی کو اپنے مریدوں کے پاس بیان کیا تھا.اگر وہ اپنے وقت پر پوری نہ ہوتی تو بدھ کی جماعت گوتم بدھ کی سچائی کی نسبت شبہ میں پڑ جاتی اور کتابوں نیں یہ بات لکھی جاتی کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور اس پیش گوئی کے پورا ہونے پر ہمیں ایک اور دلیل یہ ملتی ہے کہ تبت میں ساتویں صدی عیسوی کی وہ سنت ہیں دستیاب ہوئی ہیں جن میں شیخ کا لفظ موجود ہے یعنے حضرت عیسی علیہ السلام کا نام لکھا ہے اور اس لفظ کو منی شنی ہو کر کے ادا کیا ہے.اور وہ فہرست جس میں بھی بنتی ہو پایا گیا ہے اس کا مرتب کرنے والا ایک بدھ مذہب کا آدمی ہے.دیکھو کتاب اسے ریکارڈ آف دی پر منٹ ریلی مصنفہ آئی سنگ مترجم میں ٹکا کو سو.اور جی کا کوسو بن ایک جاپانی شخص ہو ج بنی ہوئی سنگ کی کتاب کا ترجمہ کیا ہے.اور آئی سنگ ایک چینی سیاح ہو جسکی کرتا ہے حاشیہ پر اور ضمیمہ میں لگا کو سنے تحریر کیا ہو کہ ایک قدیم تالیف میں می شی ہو اسی کا نام درج ہو اور یہ تالیف قریباً ساتویں صدی کی ہے.اور پھر اس کا ترجمہ حال میں ہی کلیر بٹن پریس آکسفورڈ میں بھی ٹکا کو سونا ہم ایک جاپانی نے کیا.غرض اس کتاب میں مشیح کا بدین کا لفظ موجود ہے جس سے ہم یہ یقین سمجھ سکتے ہیں کہ یہ لفظ بدھ مذہب والوں کے پاس باہر سے نہیں آیا بلکہ بدھ کی پیش گوئی سے یہ لفظ گیا ہے جس کو کبھی انہوں نے منشیح کر کے لکھا اور کبھی بگو امنیا کر کے.ور منجملہ ان شہادتوں کے جو بدھ مذہب کی کتابوں سے ہم کو ملی ہیں ایک یہ ہے کہ

Page 336

بدهد ایزم مصنفہ سر مونیر ولیم صفحه ۴۵ میں لکھا ہے کہ چھٹا مرید بدھ کا ایک شخص تھا.جس کا نام لیا تھا.یہ لفظ یسوع کے لفظ کا مختلف معلوم ہوتا ہے.چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام بدھ کی وفات سے پانسو برس گزرنے کے بعد یعنے چھٹی صدی میں پیدا ہوئے تھے اس لئے چھٹا مرید کہلائے.یادر ہے کہ پر وفیسر میک مولر اپنے رسالہ نائن ٹینتھ سنچری اکتوبر که ایر صفحه ۱۷ھ میں گذشتہ بالا مضمون کی ان الفاظ سے تائید کرتے ہیں کہ یہ خیال کئی دفعہ ہر دل عزیز مصنفوں نے پیش کیا ہے کہ صیح پر بدھ ہیں یہ مذہب کے اصولوں نے اثر ڈالا تھا.اور پھر لکھتے ہیں کہ آج تک اس وقت کے عمل کرنے کے لئے کوشش ہو رہی ہے کہ کوئی ایسا سچا تاریخی راستہ معلوم ہو جائے جسکے ذریعہ سے بدھ مذہب مسیح کے زمانہ میں فلسطین میں پہنچ سکا ہوا اب اس عباد سے بدھ مذہب کی اُن کتابوں کی تصدیق ہوتی ہے جن میں لکھا ہے کہ ایسا بدھ کا مرید تھا.کیونکہ جبکہ ایسے بڑے درجہ کے عیسائیوں نے جیسا کہ پروفیسر میکسمولر ہیں اس بات کو مان لیا ہے کہ حضرت مسیح کے دل پر بدھ مذہب کے اصولوں کا ضرور اثر پڑا تھا تو دوسرے لفظوں میں اسی کا نام مرید ہونا ہے.مگر ہم ایسے الفاظ کو حضرت سیخ علیہ السلام کی شان میں ایک گستاخی اور ترک ادب خیال کرتے ہیں.اور بڑھ مذہب کی کتابوں میں جو یہ لکھا یا کہ یشوع بدمد کا مرید یا شاگرد تھا تو یہ تحریر اس قوم کے علماء کی ایک پرانی عادت کے موافق ہے کہ وہ پیچھے آنے والے صاحب کمال کو گذشتہ صاحب کمال کا مرید خیال کر لیتے ہیں.علاوہ اسکے جبکہ حضرت مسیح کی تعلیم اور بدھ کی تعلیم میں نہایت شدید مشابہت ہے جیسا کہ بیان ہو چکا تو پھر اس لحاظ سے کہ بدھ حضرت مسیح سے پہلے گزر چکا ہی بدھ اور حضرت مسیح میں پیری اور مریدی کا ربط دینا ہیجا خیال نہیں ہے گو طریق ادب سے دُور ہے.لیکن ہم یورپ کے محققوں کی اس طرز تحقیق کو ہرگز پسند نہیں کر سکتے کہ وہ اس بات کی تفتیش میں ہیں کہ کسی طرح یہ پتہ لگ جائے کہ بدھ مذہب سیح کے زمانہ میں فلسطین پہنچ گیا تھا.مجھے افسوس آتا ہے کہ جس ۳۱۸

Page 337

٣١٩ حالت میں بدھند جیب کی پرانی کتابوں میں حضرت بی کا نام اور ذکر موجود ہے تو کیوں یہ محقق ایسی ٹیڑھی راہ اختیار کرتے ہیں کہ فلسطین میں بدھ مذہب کا نشان ڈھونڈتے ہیں اور کیوں وہ حضرت مسیح کے قدم مبارک کو نکیال اور بت اور کشمیر کے پہاڑوں میں تلاش نہیں کرتے لیکن میں جانتا ہوں کہ اتنی بڑی سچائی کو ہزاروں تاریک پردوں میں سے پیار کرنا ان کا کام نہیں تھا بلکہ یہ اس خدا کا کام تھا جس نے آسمان سے دیکھا کہ مخلوق پرستی حد سے زیادہ زمین پر پھیل گئی اور صلیب پرستی اور انسان کے ایک فرضی خون کی پرستش نے کروڑہا دلوں کو سچے خدا سے دُور کر دیا.تب اس کی غیرت نے ان عقائد کے توڑنے کے لئے جو صلیب پر مبنی تھے ایک کو اپنے بندوں میں سے دنیا میں سیح ناصری کے نام پر بھیجا.اور وہ جیسا کہ قدیم سے وعدہ تھا سیح موعود ہو کر ظاہر ہوا.تب کسر صلیب کا وقت آگیا لینے وہ وقت کہ صلیبی عقائد کی غلطی کو ایسی صفائی سے ظاہر کر دینا جیسا کہ ایک لکڑی کو دو ٹکڑے کر دیا جائے سواب آسمان نے کسر صلیب کی ساری راہ کھولدی تا وہ شخص جو سچائی کا طالب ہے اب اُٹھے اور تلاش کرنے میسج کا جسم کے ساتھ آسمان پر جانا گو ایک غلطی تھی تب بھی اسمیں ایک راز تھا اور وہ یہ کہ توسیعی سوانح کی حقیقت گم ہوگئی تھی اور ایسی نابود ہوگئی تھی جیسا کہ قبر میں مٹی ایک جسم کو کھا لیتی ہے وہ حقیقت آسمان پر ایک وجود رکھتی تھی اور ایک مجسم انسان کی طرح آسمان میں موجودتھی اور ضرور تھا کہ آخری زمانہ میں حقیقت پھر نازل ہو.سورہ حقیقت میچہ ایک مجسم انسان کی طرح اب نازل ہوئی اور اس نے صلیب کو توڑا اور منجملہ ان شہادتوں کے جو بدھ مذہب کی کتابوں سے ہم کو ملی ہیں وہ شہادت ہے جو کتاب بدهد این هم مصنفہ اولڈن برگ صفحہ ۱۹م میں درج ہے.آپس کتاب میں بحوالہ کتاب مها و اکا صفحہ ۵۴ فصل نمبرا کے لکھا ہے کہ بدھ کا ایک جائین را تولتا نام بھی گذرا ہے کہ جو اسکا جان نشار شاگرد بلکہ بیٹا تھا.اب اس جگہ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ یہ راولتا جو بدھ مذہب کی کتابوں میں آیا ہے یہ روح اللہ کے نام کا

Page 338

بگاڑا ہوا ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کا نام ہے.اور یہ قصہ کہ یہ را ولنا بدھ کا بیٹا تھا جسکو وہ شیر خوارگی کی حالت می چھوڑ کر پردیس میں چل گیا تھا او نیز این بیوی کو سوتی ہوئی چھوڑ کر بغیر اسکی اطلاع اور ملاقات کے ہمیشہ کی جدائی کی نیت سے کسی اور ملک میں بھاگ گیا تھا.یہ قصہ بالکل بیہودہ اور لغو اور بدھ کی شان کے بر خلاف معلوم ہوتا ہے ایسا سخت دل اور ظالم طبع انسان میں نے اپنی عاجزہ عورت پر کچھ رحم ن کیا اور اس کو سوتے ہوئے چھوڑ کر بغیر اس کے کہ اس کوکسی قسم کی تسلی دیتا یونہی چوروں کی طرح بھاگ گیا اور زوجیت کے حقوق کو قطعا فراموش کر دیا.نہ اسے طلاق دی اور نہ اس سے اس قدر نا پیدا کنار سفر کی اجازت لی اور یکد فعہ غائب ہو جانے سے اسکے دل کو سخت صدمہ پہنچایا اور سخت ایزا دی اور پھر ایک خط بھی اسکی طرف روانہ نہ کیا یہانتک کہ بیٹا جوان ہو گیا ور نہ بیٹے کے ایام شیر خوارگی پر تم کیا.ایسا شخص کبھی راستباز نہیں ہو سکتا جس نے اپنی اس اخلاقی تعلیم کا بھی کچھ پاس ند یا جس کو وہ اپنے شاگردوں کو پاس کیا کو سکھلاتا تھا.ہمارا کانشنس اسکو ایسا ہی قبول نہیں کر سکتا جیساکہ انجیلوں کے اس قصہ کو کہ مسیح نے ایک مرتبہ ماں کے آنے اور اسکے بلانے کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی تھی بکہ ایسے الفاظ منہ پر لایا تھا جس میں ماں کی بے عزتی تھی.پس اگر چہ بیوی اور ماں کی دل شکنی کرنے کے دونوں قصے بھی باہم ایک گونہ مشابہت رکھتے ہیں لیکن ہم ایسے تھے جو عامہ اخلاقی حالت سے بھی گرے ہوئے ہیں نہ بیج کی طرف منسوب کر سکتے ہیں اور نہ گوتم بدھ کی طرف.اگر بدھ کو اپنی عورت سے محبت نہیں تھی تو کیا اس عاجز بصورت اور شیر خوار بچہ پر رحم بھی نہیں تھا.یہ ایسی بد اخلاقی ہے کہ صدہا برس کے گذشتہ رفتہ قصے کوٹ کر اب ہمیں درد پہنچ رہا ہے کہ کیوں اس نے ایسا کیا.انسان کی بدی کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنی عورت کی ہمدردی سے لاپر وا ہو بجز اس صورت کے کہ وہ عورت نیک چلن اور تابع حکم نہ رہے اور یا بیدین اور بدخواہ اور دشمن جان ہو جائے.سو ہم ایسی گندی کارروائی بدھ کی طرف منسوب نہیں کر سکتے جو خود اسکی ۳۲۰

Page 339

۳۲۱ نصیحتوں کے بھی بر خلاف ہے.لہذا اس قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ غلط ہے.اور در حقیقت را حولنا سے مراد حضرت عیسی ہیں جن کا نام روح اللہ ہے اور روح اللہ کا لفظ عبرانی زبان میں را حولنا سے بہت مشابہ ہو جاتا ہے.اور راحو لتا یعنی روح الله کو بدھ کا شاگر د اسی وجہ سے قرار دیا گیا ہے جس کا ذکر ابھی ہم کر چکے ہیں.یعنے مسیح جو بعد میں آکر بدھ کے مشابہ تعلیم لایا.اس لئے بدھ مذہب کے لوگوں نے اس تعلیم کا صل منبع بدھ کو قرار دے کر مسی کو اس کا شاگرد قراردے دیا اور کچھ بھی نہیں کہ بدھ لئے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر حضرت مسح کو اپنا بیا بھی قرار دیا ہو.اور ایک بڑا قرینہ اس جگہ یہ ہے کہ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ جب راحو لتا کو اس کی والدہ سے علیحدہ کیا گیا تو ایک عورت جو بدھ کی مرید تھی جس کانام گدایانا تھا اس کام کے لئے درمیان میں ایلچی بنی تھی اب دیکھو گا الیانا کانام در حقیقت مگر لینی سے بگاڑا ہوا ہے اور گرلینی ایک عورت حضرت عیسی علیہ السلام کی مرید تھی جس کا ذکر انیل میں موجود ہے.یہ تمام شہادتیں جن ک ہم نے محملا لکھا ہے ہر ایک منصف کو اس نتیجہ تک پہنچاتی ہیں کہ ضیر در حضرت علی علیہ السلام اس ملک میں تشریف لائے تھے اور قطع نظران تمام روشن شہادتوں کے بدھ مذہب اور عیسائی مذہب میں تعلیم اور رسوم کے لحاظ سے جس قدر باہمی تعلقات ہیں بالخصوص تبت کے حصہ میں یہ امرایسا نہیں ہے کہ ایک دانشمند سہل انگاری سے اس کو دیکھے.بلکہ یہ مشابہت یہانتک حیرت انگیز ہے کہ اکثر محق عیسائیوں کا یہ خیال ہے کہ بدھ مذہب مشرق کا عیسائی مذہب ہے.اور عیسائی مذہب کو مغرب کا بدھ مذہب کہ سکتے ہیں.دیکھو کس قدر عجیب بات ہے کہ جیسے سیج نے کہا کہ میں نور ہوں میں یہ ہدایت ہوں یہی بدھ نے بھی کہا ہے.اور انجیلوں میں بیچ کا نام نجات دہندہ ہے بدھ نے بھی اپنا نام نبی ظاہر کیا ہے.دیکھو لم او سترا اور انجیل میں سیب کی پیدائیش بغیر با کے بیان کی گئی ہے ایسا ہی بدھ کے سوانح میں ہے کہ در اصل وہ بغیر باپ کے پیدا ہوا تھا گو بظاہر حضرت مسیح کے باپ یوسف

Page 340

کی طرح اس کا بھی باپ تھا.یہ بھی لکھا ہے کہ بدھ کی پیدائش کے وقت ایک ستارہ نکا تھا اور سلیمان کا قصہ جو س نے حکم دیا تھا کہ اس بچے کو آدھا ادھار کے ان دونوں عورتوں کو دو کہ لے لیں.یہ قصہ بدھ کی جانکا میں بھی پایا جاتا ہے.اس سے سمجھ آتا ہے کہ علاوہ اس کے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اس ملک میں تشریف لائے اس ملک کے یہود جو اس ملک میں آگئے تھے اُن کے تعلقات بھی بدھ مذہب سے ہو گئے تھے اور بدھ مذہب کی کتابوں میں جو طریق پیدائش دنیا لکھا ہے وہ بھی توریت کے بیان سے بہت ملتا ہے.اور جیسا کہ توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت ہے.ایسا ہی بدھ مذہب کے رو سے ایک جوگی مرد ایک جوگی عورت سے درجہ میں زیادہ سمجھا جاتا ہے.ہاں بدھ تناسخ کا قائل ہے مگر اس کا تناسخ انجیل کی تعلیم سے مخالف نہیں ہے.اسکے نزدیک تناسخ تین قسم پر ہے ( ) اول یہ کہ ایک مرضیا ہے شخص کی عقد ہمت اعمال کا نتیجہ تقاضا کرتا ہے کہ ایک اور جسم پیدا ہو.(۲) دوسری وہ قسم جس کو تبت والوں نے اپنے لاموں میں مانتا ہے.یعنے یہ کہ کسی بدھ یا بدھ ستوا کی روح کا کوئی حصہ موجودہ لاموں میں حلول کر آتا ہے یعنے اسکی قوت اور طبیعت اور روحانی خاصیت موجودہ لامہ میں آجاتی ہو اور اسکی روح اس میں اثر کرنے لگتی ہے.(۳) تیسری قسم تناسخ کی یہ ہے کہ اسی زندگی میں طرح طرح کی پیدائیشوں میں انسان گذرتا چلا جاتا ہے.یہانتک کہ در حقیقت اپنے ذاتی خواص کے لحاظ سے انسان بن جاتا ہے.ایک زمانہ انسان پر وہ آتا ہے کہ گویا وہ بیل ہوتا ہے اور پھر زیادہ حرص اور کچھ شرارت بڑھتی ہے تو کتا بن جاتا ہے اور ایک ہستی پر موت آتی ہے اور دوسری ہستی پہلی ہستی کے اعمال کے موافق پیدا ہو جاتی ہے.لیکن یہ سب تغییرات اسی زندگی میں ہوتے ہیں.اسلئے یہ عقیدہ بھی انجیل کی تعلیم کے مخالف نہیں ہے.ور ہم بیان کر چکے ہیں کہ بد در شیطان کا بھی قائل ہے.ایسا ہی دوزخ اور

Page 341

۳۲۳ بہشت اور ملائک اور قیامت کو بھی مانتا ہے اور یہ الزام جو درود خدا کا منکر ہے یہ محض افتراء ہے.بلکہ بدھ ویدانت کا منکر ہے اور ان جسمانی خداؤں کا منکر ہے جو ہندو مذہب میں بنائے گئے تھے.ہاں وہ وید پر بہت نکتہ چینی کرتا ہے اور موجودہ وید کو صحیح نہیں مانتا اور اس کو ایک بگڑی ہوئی اور محترف اور مبدل کتاب خیال کرتا ہے اور جس زمانہ میں وہ ہندو اور وید کا تابع تھا اس زمانہ کی پیدائیش کو ایک بری پیدایش قرار دیتا ہے.چنانچہ وہ اشارات ک طور پر کہتا ہے کہ میں ایک مدت تک بند ر بھی رہا.اور ایک زمانہ تک ہاتھی اور پھر میں ہرن بھی بینا اور کہتا بھی اور چار دفعہ میں سانپ بنا.اور پھر چھڑیا بھی بنا اور مینڈک بھی بنا اور دو دفعہ مچھلی بنا اور دس دفعہ شیر بنا.اور چار دفعہ مرغا بنا.اور دو دفعہ میں سور بنا اور ایک وفعہ خرگوش بنا اور خرگوش بننے کے زمانہ میں بندروں اور گیدڑوں اور پانی کے کتوں کو تعلیم دیا کرتا تھا.اور پھر کہتا ہے کہ ایک دفعہ میں بھوت بنا اور ایک دفعہ عورت بنا اور ایک دفعہ ناچنے والا شیطان بنا.یہ تمام اشارات اس اپنی تمام زندگی کی طرف کرتا ہے جو بزدلی اور زنانہ خصلت اور ناپاکی اور درندگی اور وحشیانہ حالت اور عیاشی اور شکم پرستی اور تو ہمات سے بھری ہوئی تھی.معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ اس زمانہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جبکہ وہ وید کا پیرو تھا.کیونکہ وہ وید کے ترک کرنے کے بعد کبھی اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتا کہ پھر بھی کوئی حصہ گندی زندگی کا اُس کے اندر رہا تھا بلکہ اسکے بعد اس نے بڑے بڑے دعوے کئے اور کہا کہ وہ خدا کا مظہر ہوگیا اور نروان کو پا گیا.بُدھ نے یہ بھی کہا ہے کہ جب انسان دوزخ کے استمال لے کر دنیا سے جاتا ہے تو وہ دوزخ میں ڈالا جاتا ہے اور دوزخ کے سپاہی اُس کو کھینچکر دوزخ کے بادشاہ کی طرف اُس کو لے جاتے ہیں اور اُس بادشاہ کا نام یہ ہے اور پھر اس دوزخی سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تو نے ان پانچ رسولوں کو نہیں دیکھا تھا جو تیرے آگاہ کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے اور وہ یہ ہیں.بچپن کا زمانہ بڑھا پے کا زمانہ ہماری.

Page 342

مجرم ہو کر دنیا میں ہی سنترا پالینا جو آخرت کی سزا پر ایک دلیل ہے.مردوں کی لاشیں جو دنیا کی بے ثباتی ظاہر کرتی ہیں.مجرم جواب دیتا ہے کہ جناب میں نے اپنی بیوقوفی کے سبب ان تمام باتوں پر کچھ بھی غور نہ کی.تب دوزخ کے موکل اُس کو کھینچ کر عذاب کے مقام پر لے جائیں گے اور لوہے کی زنجیروں کے ساتھ ہو آگ سے اس قدر گرم کئے ہوئے ہونگے کہ آگ کی طرح سرخ ہونگے باندھ دیئے جائیں گے اور نیز بدھ کہتا ہے کہ دوزخ میں کئی طبقے ہیں جن میں مختلف قسم کے گنہ گار ڈالے جائینگے.بغرض یہ تمام تعلیمیں بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ بدھ مذہب نے حضرت مسیح کے فیض صحبت سے کچھ حاصل کیا ہے.لیکن ہم اس جگہ اس سے زیادہ طول دینا پسند نہیں کرتے اور اس فصل کو اسی جگہ ختم کر دیتے ہیں کیونکہ جبکہ بدھ مذہب کی کتابوں میں صریح طور پر حضرت مسیح کے اس ملک میں آنے کے لئے پیش گوئی لکھتی گئی ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا.اور پھر اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ بدھ مذہب کی ان کتابوں میں ہو حضرت مسیح کے زمانہ میں تالیف ہوئیں انجیل کی اخلاقی تعلیمیں اور مثالیں موجود ہیں تو ان دونوں باتوں کو باہم ملانے سے کچھ شک نہیں رہ سکتا کہ ضرور حضرت مسیح اس ملک میں آئے تھے.سوچیں شہادت کو ہم بدھ مذہب کی کتابوں میں سے ڈھونڈنا چاہتے تھے خدا کا شکر ہے کہ وہ شہادت کامل طور پر ہمیں دستیاب ہو گئی ہے.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۷۲ تا ۹۲

Page 343

۳۲۵ تیسری فصل ان تاریخی کتب کی شہادتیں جو اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ مسیح علیہ السلام کا اس ملک پنجاب اور اس کی مضافات میں آنا ضرور تھا پونکہ طبعا یہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام واقعہ صلیہ سے نجات پا کر کیوں اس ملک میں آئے اور کسی ضرورت نے ان کو اس دور دراز سفر کے لئے آمادہ کیا.اس لئے اس سوال کا تفصیل سے جواب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے.اور گو ہم پہلے بھی اس بارے میں کس قدر لکھ آئے ہیں لیکن ہم مناسب دیکھتے ہیں کہ اس بحث کو متحل طور پر درج کتاب کیا جائے.سود واضح ہو کہ حضرت سیخ علیہ السلام کو انکے فرض رسالت کے رو سے ملک پنجاب اور اسکے نواح کی طرف سفر کرنا نہایت ضروری تھا کیونکہ بنی اسرائیل کے دس فرقے جن کا نام انجیل میں اسرائیل کی گم شدہ بھیڑیں رکھا گیا ہو ان ملکوں میں آگئے تھے جن کے آنے سے کسی مؤرخ کو انکار نہیں ہے.اس لئے ضروری تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام اس ملک کی طرف سفر کرتے اور اُن گم شدہ بھیڑوں کا پتہ لگا کر خداتعالے کا پیغام آن کو پہنچاتے اور جب تک وہ ایسا نہ کرتے تب تک اُن کی رسالت کی غرض بے نتیجہ اور نامکمل تھی کیونکہ جس حالت میں وہ خدا تعالے کی طرف سے اُن گم شدہ بھیڑوں کی طرف بھیجے گئے تھے تو پھر بغیر اس کے کہ وہ ان بھیڑوں کے پیچھے جاتے اور اُن کو تلاش کرتے اور ان کو طریق نجات بتلاتے یونہی دنیا سے کوچ کر جانا ایسا تھا کہ جیسا کہ ایک شخص ایک بادشاہ کی طرف سے مامور ہو کہ وہ فلاں بیتا بانی قوم میں جاکر ایک کو آں کھو دے اور اس گنوے سے ان کو پانی پلاو سے لیکن یہ شخص کسی دوسرے مقام میں تین چار برس رہ کر واپس چلا جائے اور اس قوم کی تلاش میں ایک قدم بھی نہ اٹھا ئے و کیا اس نے بادشاہ کے کم کم وقت ملک کا ہرگز نہیں بلکہ اس نے محض اپنی آرام ملی کی وجہ سے اس قوم کی کچھ پروانہ کی.

Page 344

Mpy { ان گیری سوال ہو کر کیونکراو کس دلیل سے معلوم ہوا کہ اسرائیل کی پرت میں اس ملک میں آگئی تھیں تو اس کے جواب میں ایسے بدیہی ثبوت موجود ہیں کہ ان میں ایک معمولی اور موٹی عقل بھی شبہ نہیں کرسکتی کیونکہ یہ نہایت مشہور واقعات ہیں کہ بعض قوم میں مثلاً افغان اور کشمیر کے قدیم باشند سے در اصل بنی اسرائیل ہیں مثلا الائی کو ہستان جو ضلع ہزارہ سے دو تین دن کے راستہ پر واقع ہے اُس کے باشندے قدیم سے اپنے تئیں بنی اسرائیل کہلاتے ہیں.ایسا ہی اس ملک میں ایک دوسرا پہاڑ ہے جسکو کالا ڈاکہ کہتے ہیں.اس کے باشندے بھی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہے ہم بنی اسرائیل ہیں اور خاص ضلع ہزارہ میں بھی ایک قوم ہے جو اسرائیلی خاندان - اپنے تئیں سمجھتے ہیں ایسا ہی چلاس اور کابل کے درمیان جو پہاڑ ہیں جنوب کی طرف شرقاً و غرباً ان کے باشندے بھی اپنے تئیں بنی اسرائیل کہلاتے ہیں.اور کشمیر کے باشندوں کی نسبت وہ رائے نہایت صحیح ثابت ہوتی ہے جو ڈاکٹر پر تیر نے اپنی کتاب سیرو سیاحت کشمیر کے دوسرے حصے میں بعض محقق انگریزوں کے حوالہ سے لکھی ہے.یعنی یه که بلاش به کشمیری لوگ بنی اسرائیل ہیں اور اُنکے لباس اور چہرے اور بعض رسوم قطعی طور پر فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی خاندان میں سے ہیں.اور فارسٹر نامی ایک انگریز اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ جب میں کشمیر میں تھا.تو میں نے خیال کیا کہ میں ایک یہودیوں کی قوم کے درمیان رہتا ہوں.اور کتاب دی ریسز آن افغانستان مصنفہ اپنے ڈبلیو لیو سی ایس آئی مطبوعہ تھا کہ سپینگ اینڈ کو کلکتہ میں لکھا ہے کہ افغان لوگ ملک سیریا سے آئے ہیں.بخت نصر نے انہیں قید کیا اور پرشیا اور میدیا کے علاقوں میں انھیں آباد کیا.ان مقامات سے کسی بعد کے زمانہ میں مشرق کی طرف نکل کر غور کے پہاڑی ملک میں جابسے جہاں بنی اسرائیل کے نام سے مشہور تھے.اسکے ثبوت میں اور میں نبی کی پیشگوئی ہو کہ دس قو میں اسرائیل کی ہو قید میں ماخوذ ہوئی تھیں.قید سے بھاگ کر ملک ارسارہ میں پناہ گزین ہوئیں.اور وہ اُسی ملک

Page 345

۳۲۷ کا نام معلوم ہوتا ہے جیسے آجکل ہزارہ کہتے ہیں اور جو علاقہ غور میں واقعہ ہے.طبقات ناصری جس میں چنگیز خان کی فتوحات ملک افغانستان کا ذکر ہے اس میں لکھا ہے کہ نبیسی خاندان کے عہد میں یہاں ایک قدیم آباد تھی جس کو بنی اسرائیل کہتے تھے اور بعض ان میں بڑے بڑے تاجر تھے.یہ لوگ ہ میں جبکہ محمد ینے اس زمانہ میں جبکہ سید نا حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ نے رسالت کا اعلان کیا.ہرات کے مشرقی علاقہ میں آباد تھے ایک قریش سردار خالد ابن ولید نامی اُن کے پاس رسالت کی خبر لے کر آیا کہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ) کے جھنڈے کے نیچے آئیں.پانچ پھر سردار منتخب ہو کر اُس کے ساتھ ہوئے جن میں بڑا قیس تھا جس کا دوسرا نام کشش ہے.یہ لوگ مسلمان ہو کہ اسلام کی راہ میں بڑی جان فشانی سرلڑے اور فتوحات حاصل کیں اور انکی واپسی پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو بہت تحفے دیئے اور اُن پر برکت بھیجی اور پیش گوئی کی کہ اس قوم کو عروج حاصل ہوگا.اور بطور پیش گوئی فرمایا کہ ہمیشہ ان کے سردار ملک کے لقب سے مشہور ہوا کریں گے.اور قیس کا نام عبد الرشید رکھ دیا اور پہطان کے لقب سے سرفراز کیا.اور لفظ پر طان کی نسبت افغان مؤلف یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ ایک سریانی لفظ ہے جس کے معنے جہاز کا سکان ہے اور چونکہ نو مسلم قیس اپنی قوم کی رہنمائی کے لئے بہار کے نستان کی طرح تھا اس لئے پہطان کا خطاب اسکو ملا.اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ کس زمانہ میں غور کے افغان آگے بڑھے.اور علاقہ قندھار میں جو آجکل اُن کا وطن ہے آباد ہوئے.غالباً اسلام کی پہلی صدی میں ایسا ظہور میں آیا.افغانوں کا قول ہے کہ قیس نے نعالد ابن ولید کی لڑکی سے نکاح کیا اور اس سے اس کے ہاں تین لڑکے پیدا ہوئے جن کا نام سر آبان.پطان - اور گر گشت ہیں.سرآبان کے دو لڑکے تھے جن کے نام سچر ج مئین اور کوشش میں ہیں.اور ان ہی کی اولاد افغان مہینے بنی اسرائیل کہلاتے ہیں.ایشیا کو چک کے لوگ اور

Page 346

مغربی اسلامی مورخ افغانوں کو سلیمانی کہتے ہیں.اور کتاب سائیکلو پیڈیا آفت انڈیا ایسٹرن اینڈ سدرن ایشیا مصنفہ ای بیلفور جلد سوم میں لکھا ہے کہ قوم یہود ایشیا کے وسط جنوب اور مشرق میں پھیلی ہوئی ہیں.پہلے زمانہ میں یہ لوگ ملک چین میں بکثرت آباد تھے اور مقام یہ چور صدر مقام ضلع شور ان کا معبد تھا.ڈاکٹر و ولف جو بنی اسرائیل کے دس خائب شدہ فرقوں کی تلاش میں بہت مدت پھرتا رہا اسکی یہ رائے ہے کہ اگر افغان اولاد یعقوب میں سے ہیں تو وہ یہودا اور بن یمین قبیلوں میں سے ہیں.ایک اور روایت سے ثابت ہوتا ہو کہ یہودی لوگ تا تار میں جلا وطن کر کے بھیجے گئے تھے اور بخارا.مرد اور خیوا کے متعلقہ علاقوں میں بڑی تعداد میں موجود تھے.پوسٹر جان شہنشاہ تاتار نے ایک خط میں جو بنام الکسیس کام نی نی شہنشاہ قسطنطنیہ ارسال کیا تھا اپنے ملک تا تار کا ذکرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دریاد آموں کے پار بنی اسرائیل کے دستی قبیلے ہیں جو اگر چہ اپنے بادشاہ کے ماتحت ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن فی الحقیقت ہماری رعیت اور غلام ہیں.ڈاکٹر مور کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ تاتاری قوم بوزن یہودی الاصل ہیں.اور ان میں اب تک یہودی مذہب کے قدیم آثار پائے جاتے ہیں.چنانچہ وہ ختنہ کی رسم ادا کرتے ہیں.افغانوں میں یہ روایت ہے کہ وہ دس گم شدہ بنی اسرائیلی قبائل ہیں.بادشاہ بخت نصر نے یروشلم کی تباہی کے بعد گرفتار کر کے غور کے ملک میں بسایا جو بامیان کے نزدیک ہے اور وہ خالد بن ولید کے آنے سے پہلے برابر یہودی مذہب کے پابند رہے.افغان شکل و شباہت میں ہر طرح سے یہود و نظر آتے ہیں.اور اُن ہی کی طرح چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی بیوہ سے شادی کرتا ہے.ایک فرانسیسی ستیاح فراکہ نامی جب ہرات کے علاقہ میں سے گذر رہا تھا تو اس نے لکھا ہے کہ اس علاقہ میں بنی اسرائیل بکثرت ہیں اور اپنے یہودی مذہب کے ارکان کے ادا ۳۲۸

Page 347

۳۲۹ کرنے کی پوری آزادی انھیں حاصل ہے.ربی بن بین ساکن شہر ٹولیڈ و (سپین) بارھویں صدی عیسوی میں گم شدہ قبیلوں کی تلاش میں گھر سے نکلا.اس کا بیان ہے کہ یہ یہودی لوگ چین ایران اور تبت میں آباد ہیں.بوزی فس جس نے سنہ میں یہودیوں کی قدیم تاریخ لکھی ہے.اپنی گیارھویں کتاب میں عز انبی کے ساتھ قید سے واپس جانے والے یہودیوں کے بیان کے ضمن میں بیان کرتا ہے کہ دس قبیلے دریائے فرات کے اُس پار ابتک آباد ہیں اور ان کی تعدادو شمار سے باہر ہے دریائے فرات سے اس پار سے مراد فارس اور مشرقی علاقے ہیں اور سینٹ حروم جو پانچویں صدی عیسوی میں گذرا ہے ہو سیع نبی کا ذکر کرتے ہوئے اس معاملہ کے ثبوت میں حاشیہ پر لکھتا ہے کہ اس دن سے دبنی اسرائیل کے دس فرقے شاہ پار تھا لینے پارس کے ماتحت ہیں اور اب تک قید سے رہا نہیں کئے گئے.اور اسی کتاب کی جلد اول میں لکھا ہو کہ کونٹ پورن سٹڑنا اپنی کتاب کے صفحہ ۲۳۳-۲۳۴ میں تحریر کرتا ہے کہ افغان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بخت نصر نے جیکل یروشلم کی تباہی کے بعد بامیان کے علاقہ میں انہیں جلا وطن کرکے بھیج دیا.بامیان کا علاقہ غور کے متصل اور افغانستان میں واقع ہے) اور کتاب اسے تیرے ٹو آف اے وزٹ ٹو غزنی کابل افغانستان - مصنفہ جی ٹی ویگن الیت جی امین مطبوعہ ماریہ صفحہ ۲۶ ) میں لکھا ہے کہ کتاب مجمع الانساب سے ملا خدا داد نے پڑھ کر سنایا کہ یعقوب کا بڑا بیٹ یہودا تھا اُس کا بیٹا اسرک تھا.اُسرک کا بیٹا اکنور- النور کا بیٹا محاسب - مطالب کا فرلائی.فرلائی کا بیٹا قیس تھا.قیس کا بیٹا طالوت - طالوت کا ارمیا.اور ارمیا کا بیٹا افغان تھا.اس کی اولاد قوم افغان ہے.اور اسی کے نام پر افغان کا نام مشہور ہوا.افغان بخت نصر کا ہم عصر تھا اور بنی اسرائیل کہلاتا تھا اور اس کے چالیس بیٹے تھے.اس کی ہو تیسویں پشت میں دو ہزار برس بعد وہ قیس ہوا جو محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانہ میں تھا.اس سے پونٹھ نسلیں ہوئیں.

Page 348

مغربی اسلامی مورخ افغانوں کو سلیمانی کہتے ہیں.اور کتاب سائیکلو پیڈیا آف انڈیا ایسٹرن اینڈ سدرن ایشیا مصنفہ اسی بیلفور جلد سوم میں لکھا ہے کہ قوم یہود ایشیا کے وسط جنوب اور مشرق میں پھیلی ہوئی ہیں.پہلے زمانہ میں یہ لوگ ملک چین میں بکثرت آباد تھے اور مقام پر چور صدر مقام ضلع شور ان کا معبد تھا.ڈاکٹر و ولف جو بنی اسرائیل کے دس غائب شدہ فرقوں کی تلاش میں بہت مدت پھرتا رہا اسکی یہ رائے ہے کہ اگر افغان اولاد یعقوب میں سے ہیں تو وہ یہودا اور بن یمین قبیلوں میں سے ہیں.ایک اور روایت سے ثابت ہوتا ہی کہ یہودی لوگ تا تار میں جلا وطن کر کے بھیجے گئے تھے اور بخارا.مرد اور خیوا کے متعلقہ علاقوں میں موات JALA سلم نامی افغان کا سب سے بڑا بیٹا اپنے وطن شام سے ہجرت کر کے غور مشکوہ کے علاقہ میں جواہرات کے قرین ہے آباد ہوا.اس کی اولاد افغانستان میں پھیل گئی.اور کتاب اسے سائیکلو پیڈیا آف جوگرافی مرتبہ جیمز برائیں ایف جی ایس مطبوعہ لندن تشملہ کے صفحہ اا میں لکھا ہے کہ افغان لوگ اپنا سلسلہ نسب سال بادشاہ اسرائیل سے ملاتے ہیں اور اپنا نام بنی اسرائیل رکھتے ہیں.اگر نڈر بزنس کا قول ہے کہ افغان یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ وہ یہودی الاصل ہیں شاہ بابل نے انہیں قید کر کے غور کے علاقہ میں لابسایا جو کابل سے شمال مغرب میں واقع ہے.یہ لوگ سالہ تک اپنے یہودی مذہب پر رہے.لیکن خالد بن عبد اللہ غلطی سے ولید کی جگہ عبد الہ لکھا ہوا ہے) نے اس قوم کے ایک سردار کی لڑکی سے بیاہ کر لیا.اور اُن کو اس سال میں دین اسلام قبول کرایا.اور کتاب ہسٹری آف افغانستان مصنفہ کرنیل جی بی میلسن مطبوعہ لندن حمله و صفحہ 19 میں لکھا ہوکہ عبداللہ ان ہراتی اور فرانسیسی سیاح فراگریانی مریم جونز جوایک برابر عالم علوم شرقیہ گذرا ہے، اس بات پر متفق ہیں کہ افغان قوم بنی اسرائیل الاصل ہیں اور دس گم شدہ فرقوں کی اولاد ہیں.اور کتاب ہسٹری آف دی افغانی مصنفہ ی پی ارائه دفرانسیسی مترجمہ کپتان ولیم جے سی مطبوعہ لندن کا صفحہ میں لکھا ہے کہ شرقی مورخوں کی کثرت رائے یہی ہے کہ افغان قوم بنی اسرائیل کے دس فرقوں کی اولاد سے ہیں اور یہی رائے افغانوں کی اپنی ہے.اور یہی مورخ اس کتاب کے صفحہ ہم میں لکھتا ہے کہ افغانوں کے پاس اس بات کے ثبوت کے لئے ایک دلیل ہے جسکو وہ یوں پیش کرتے ہیں کہ جب نادر شاہ ہند کی فتح کے ارادے سے پشاور پہنچا تو یوسف زئی قوم کے کرداروں نے اسکی خدمت میں ایک یا تیل عبرانی زبان میں لکھی ہوئی پیش کی اور ایسا ہی کئی دوسری چیزیں پیش کیں جو اُن کے خاندانوں میں اپنے قدیم مذہب کے رسوم ادا کرنے کے لئے محفوظ چلی آتی تھیں.اس کیر کے ساتھ یہودی بھی موجود تھے ۳۳۰

Page 349

۳۳۱ جب ان کو یہ چیزیں دکھلائی گئیں تو فوراً انہوں نے انکو پہچان لیا اور پھر یہی مورخ اپنی کتاب کے صفحہ چہارم کے بعد لکھتا ہے کہ عبداللہ خان ہرائی کی رائے میرے نزدیک بہت قابل اعتبار ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:.ملک طالوت (سال کے دو بیٹے تھر ایک کا نام افغان دوسرے کا نام جالوت - افغان اس قوم کا مورث اعلیٰ تھا.داؤد اور سلیمان کی حکومت کے بعد بنی اسرائیل میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور فرقے فرقے الگ الگ بن گئے.بخت نصر کے زمانہ تک یہی حالت رہی.بخت نصر نے پڑھائی کر کے ستر ہزار یہودی قتل کے اور ہر تباہ کیا اور باقی یہودیوں کو قید کرکے بال لے گیا اس مصیبت کے بعد افغان کی اولاد خون کے بارے جو دیا سے ملک عرب میں بھاگ کر جاہیے اور بہت عرصہ تک یہاں آباد ہے لیکن چونکہ پانی اور زمین کی قلت تھی اور انسان اور حیوان کو تکلیف تھی اس لئے انہوں نے ہندوستان کی طرف پہلے آنے کا ارادہ کیا.ابدالیوں کا ایک گروہ عرب میں پڑا رہا اور حضرت ابو بکر کی خلافت کے زمانہ میں اُن کے ایک سردار نے اُن کا رشتہ خالد بن ولید سے قائم کیا......جب ایران اہل عرب کے قبضہ میں آیا تو یہ قوم عرب سے نکل کر ایران کے علاقوں فارس اور کرمان میں جاہے.اورحملہ چنگیز خان تک یہیں بستے رہے.اسکے مظالم کی تاب نہ لاکر ابدالی فرقہ مکان سندھہ اور ملتان کے راستے ہندوستان پہنچا.لیکن یہاں انھیں چین نصیب نہ ہوا ( آخر کار وہ کوہ سلیمان پر جا ٹھہرے.باقیماندہ ابدالی فرقے کے لوگ بھی یہاں جمع ہو گئے.ان کے چوبیس فرقے تھے جو افغان کی اولاد میں سے تھے.جس کے تین بیٹے تھے جن کے نام سرابند سرابان ارکش (گرگشت، گرلن (بطان) ان میں ہر ایک کے آٹھ فرزند ہوئے جن کے نام پر چو ہمیں قبیلے ہوئے.ان کے نام مع قبائل یہ ہیں.

Page 350

۳۳۲ ابدالی ابدال یوسف یوسف زئی با بوری بابور وزیری سرا بند کے بیٹے قبائل کے نام | گرگشت دارکش کے بیٹے قبائل کے نام خلجی خانہ فی کاکرمی جمهور بینی ستوریانی خلیج جمهورین ستوریان وزیر لوہانی پلین لوہان برچی برپا مکانی خوگیانی ان خوگیان نصری شهران شرافی نصر کرین کے بیٹے قبائل کرین کے بیٹے قبائل خٹک آفرید طور خشکی زازی زائر سوری باب بنگنیشی آفریدی بنگنیش لنڈ یوری لینڈ ہیور طوری بابی تم کلامیہ اور کتاب مخزنان افغانی تالیف خواجہ نعمت اللہ ہراتی بعهد بها نگیر شاه تالیف شده شہ ہجری جسکو پروفیسر بر نہارڈ ڈورن (خمار کو یونیورسٹی نے بمقام لندن ترجمہ کر کے لہ میں شائع کیا ہے اس کے مفصلہ ذیل ابواب میں یہ بیان ہے.معتبر تواریخ مثلاً تاریخ طبری- مجمع الا انساب - گزیدہ جہا نکشانی.مطلع الانوار- معدن اکبر سے خلاصہ کر کے یہ کتاب بنائی گئی ہے.(دیکھو صفحہ ۳ دیباچہ از مصنف) سے خلاصہ کرے

Page 351

باب اول میں بیان تاریخ یعقوب اسرائیل ہے جس سے اس (افغان) قوم کا شجرہ نسب شروع ہوتا ہے.باب دوم میں مضمون تاریخ شاہ طالوت ہے.یعنے افغانوں کا شجرہ نسب طالوت سے ملایا گیا ہے.صفحہ ۲۲ و ۲۳ میں لکھا ہے کہ طالوت کے دو بیٹے تھے.پرینیا اور ارمیاہ.برخیا کا بیٹا آصف تھا اور ارمیاہ کا افغان.اور صفحہ ۲۴ میں لکھا ہے کہ افغان کے ۲ بیٹے تھے اور افغان کی اولاد کے برابر کوئی اور اسرائیلی قبیلہ میں نہ تھا.اور صفحہ ۶۵ میں لکھا ہے کہ بخت نصر نے تمام شام پر قبضہ کر لیا اور اقوام بنی اسرائیل کو جلا وطن کر کے غور غزنی - کابل - قندہار اور کوہ فیروز کے کوہستانی علاقوں میں لابسا یا جہاں خاصکر آصف اور افغان کی اولاد رو پڑی.باب سوم میں یہ بیان ہے کہ بخت نصر نے جب بنی اسرائیل کو شام سے نکال دیا تو آصف اور افغان کی نسل کے چند قبائل عرب میں جاگزین ہوئے.اور عرب ان کو بنی اسرائیل اور بنی افغان کے ناموں سے نامزد کرتے تھے.اور اس کتاب کے صفحہ ۳۷ و ۳۸ - مصنف مجمع الانساب اور مستوفی مصنف تاریخ گزیدہ کے حوالہ سے تفصیلاً بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات میں خالد بن ولید نے ان افغانوں کی طرف دعوت اسلام کا پیغام بھیجا.جو بخت نصر کے واقعہ کے بعد غور کے علاقہ ہی میں رو پڑے تھے.افغان سردار بسر برا ہی قیس جو ۳۷ پشتوں کے بعد طالوت کی اولاد تھا حاضر خدمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے.قیس کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد الرشید رکھا.اس جگہ عبد الرشید تھیں کا شجرہ نسب طالوت (سال) تک دیا ہے).نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سرداروں کا نام پٹھان رکھا جسکے معنے سکان جہاز کے ہیں کچھ عرصہ کے بعد سردار واپس اپنے ملک میں آئے اور اسلام کی تبلیغ کی.☐

Page 352

اور اسی کتاب مخزن افغانی کے صفحہ ۶۳ میں لکھتا ہے کہ بنی افغنہ یا بنی افغان ناموں کی نسبت فرید الدین احمد اپنی کتاب رسالہ انساب افغانیہ میں مفضلہ ذیل عبارت لکھتا ہے " بخت نصر مجوسی جب بنی اسرائیل اور شام کے علاقوں پر مستولی ہوا اور یروشلم کو تباہ کیا توبنی اسرائیل کو قیدی اور غلام بنا کر جلا وطن کردیا اور اس قوم کے کئی قبیلے جو موسوی شریعت کے پابند تھے اپنے ساتھ لے گیا اور حکم دیا کہ وہ آبائی مذہب چھوڑ کر خدا کی بجائے اُس کی پرستش کر یں.لیکن اُنھوں نے انکار کیا.بنابریں بخت نر نے نہایت عاقل اور فہیم لوگوں میں سے دو ہزار کو مارڈالا اور باقیوں کے لئے حکم دیا کہ اس کے مقبوضات اور شام سے کہیں باہر پہلے جائیں.اُن کا ایک حصہ ایک سردار کے ماتحت بخت نصر کے مقبوضات سے نکل کر کوہستان غور میں چلا گیا اور یہاں ان کی اولادورہ پڑی.ولی بدن ان کی تعداد بڑھتی گئی اور لوگوں نے ان کو بنی اسرائیل - بنی آصف اور بنی افغان کے ناموں سے موسوم کیا.صفحہ ۶۲ میں مصنف مذکور کا قول ہے کہ معتبر کتب مثلاً تاریخ افغانی - تاریخ نخوری و غیره میں یہ دعوئی درج ہے.افغان بہت زیادہ حصہ تو بنی اسرائیل ہیں اور کچھ حصہ قبطی یہ نیز ابو الفضل کا بیان ہے کہ بعض افغان اپنے آپ کو مصری الاصل سمجھتے ہیں.اور یہ وجہ پیش کرتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل یروشلم سے مصر واپس گئے.اس فرقہ یعنے الفنان نے ہندوستان کو نقل مقام کیا.اور صفحہ ہے میں فرید الدین احمد افغان کے نام کی بابت یہ لکھتا ہے :.افغان نام کی نسبات بعض نے یہ لکھا ہے کہ (شام سے جلا وطنی کے بعد جب وہ ہر وقت اپنے وطن مالوف کا دل میں خیال لاتے تھے تو آہ و فغان کرتے تھے.لہذا ان کا نام افغان ہوا اور یہی رائے کنترجان حکم کی ہے دیکھو ہسٹری آفت پرشیا جلد اصفحہ ۱۰۱ - اور صفحہ ۶۳ میں مہابت خان کا بیان ہے کہ چول ایشان از توابع و لواحق سلیمان علیہ السلام اندر بنا برای ایشان را مردم عرب سلیمانی گوینده

Page 353

۳۳۵ اور صفحہ 42 میں لکھا ہے تقریباً تمام مشرقی مورخوں کی یہی تحقیقات ہے کہ افغان قوم کا اپنا یہی اعتقاد ہے کہ وہ یہودی الاصل ہیں اور اس رائے کو زمانہ حال کے بعض مورخوں نے بھی اختیار کیا ہے یا غالباً صحیح سمجھا ہے.......اور یہ رواج کی افغان یہودیوں کے نام اپنے نام رکھتے ہیں بیشک افغانوں کے مسلمان ہو جانے کی وجہ سے ہے لیکن مترجم بر نہار دوران کا یہ خیال کوئی ثبوت نہیں رکھتا.پنجاب کے شمال مغربی حصہ میں اکثر ایسی قومیں ہندی الاصل آباد ہیں جو آباد ہوگئی ہیں لیکن اُن کے نام یہودی اموں کی طرز پر ہرگز نہیں.جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ہو جائے سے ایک قوم میں یہودی نام داخل نہیں ہو جاتے " افغان کے خط و خال میہودیوں سے حیرت انگیز طور پر مشابہت رکھتے ہیں اور اس بات کو ان محققوں نے بھی تسلیم کرلیا ہے جو افغانوں کے دعوے یہودی الاصل ہونے پر کچھ التفات نہیں کرتے.اور یہی ایک ثبوت ہے جو اُن کے یہودی الاصل ہونے کے بارے میں مل سکتا ہے.سر جان ملکم کے الفاظ اس بارے میں یہ ہیں : اگر چہ افغانوں کا یہودیوں کی معزز نسل سے ہونے ہیں.اگرچہ کا کا دعوی بہت مشتبہ ہے.لیکن انکی شکل و ظاہری خط و خال اور انکے اکثر رسوم سے یہ امر صاف ظاہر ہے کہ وہ (افغان) فارسیلوں.تاتاریوں اور مہندیوں سے ایک جدا قوم ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ صرف یہی بات اس بیان کو معتبر ٹھہراتی ہے جس کی مخالفت بہت سے قوی واقعات کرتے ہیں اور جس کا کوئی مصاف ثبوت نہیں ملتا.اگر ایک قوم کی دوسری قوم کے ساتھ شکل و وضع میں مشابہت رکھنے سے کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے تو کشمیری اپنے یہودیوں والے خط و خال کی وجہ سے یقینا یقینا یہود الاصل ثابت ہونگے اور اس بات کا صرف یہ نیر نے ہی نہیں بلکہ فارسٹر اور شاید دیگر محققوں نے ذکر کیا ہے یہ ارچه فاستر برتری کی ان کو تسلیم نہیں کرتا تاہم وہ اقرار کرتا ہے کہ جب کشمیریوں میں تھا تو اس نے خیال کیا کہ وہ ایک یہودیوں کی قوم کے درمیان رہتا ہے.اور کتاب ڈکشنری آف جیوگرافی مرتبہ اسے کے جانسٹن کے صفحہ.وه

Page 354

العنوان کشمیر کے لفظ کے بیان میں یہ عبارت ہے :.یہاں کے باشندے دراز قد - قوی ہیکل.مردانہ شباہت والے عورتیں مکمل اندام والیں.خوبصورت بلند خمدار بینی والے شکل و وضع میں بالکل یہودیوں کے مشابہ ہیں.اور سول اینڈ ملٹری گزٹ (مطبوعہ ۲۳ نومبر شمار صفحه (۴) میں مضمون سواتی اور آفریدی (اقوام لکھا ہو کہ ہمیں ایک اعلی درجہ کا قیمتی اور دلچسپ مضمون ملا ہے جو برٹش ایسوسی ایشن کے ایک حال کے جلسہ میں ایسوسی ایشن مذکورہ کی شارخ متعلقه تاریخ طبیعی نوع انسان میں پیش کیا گیا ہے اور جو کمیٹی تحقیقات تاریخ طبیعی انسان کے موسم سرما کے جلسہ میں بھی سنایا جاتا ہے.ہم وہ مکمل مضمون ذیل میں درج کرتے ہیں.ہندوستان کی مغربی سرحد کے پٹھان یا پیشان باشندوں کا حال قدیمی تاریخوں میں موجود ہے اور بہت سے فرقوں کا ذکر ہیروڈوٹس نے اور سکندر اعظم کے تاریخ نویسوں نے کیا ہے.وسطی زمانہ میں اس پہاڑ کا غیر آباد اور ویرانہ کا نام روزہ تھا.اور اس علاقہ کے باشندوں کا نام رہیکہ تھا.اور اس میں شک نہیں کہ یہ رہی کے یا پٹھان قوم افغانان کے نام و نشان سے پہلے ان علاقوں میں آباد تھے.اب سارے افغان پٹھانوں میں شمار کئے جاتے ہیں کیونکہ وہ پٹھانی زبان یعنے پشتو بولتے ہیں.لیکن وہ ان سے کسی رشتہ کا اقرار نہیں کرتے.اور اُن کا دعوی ہے کہ ہم بنی اسرائیل ہیں لینے ان فرقوں کی اولاد ہیں جن کو بخت نصر قید کر کے بابل لے گیا تھا.مگر سب نے پشتو زبان کو اختیار کر لیا ہے.اور سب اسی مجموعہ قوانین ملی کو مانتے ہیں جس کا نام پکستان عالی ہے اور جس کے بہت سے قواعد پرانی موسوی شریعت سے عجیب طور پر مشابہت رکھتے ہیں.اور بعض اقوام را چوت کے پرانے رسم و رواج سے بھی ملتے جلتے ہیں.اگر ہم اسرائیلی آثار کو زیر نظر رکھ کر دیکھیں تو ظاہر ہوگا کہ پٹھانوں کی قومیں دو بڑے حصوں میں منقسم ہو سکتی ہیں...بینے اول وہ فرقے ہندی الاصل ہیں جیسے وزیری - آفریدی.اورک زئی وغیرہ.دوسرے افغان جو سامی (Termitie)

Page 355

۳۳۷ ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور سرحد پہ زیادہ آبادی انہی کی ہے.اور کم سے کم یہ ممکن ہے کہ پکستان والی جو ایک غیر مکتوب ضابطہ قواعد ملی ہے.سب کا ملکر تیار ہوا ہے.اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ موسوی احکام را چوتی رسوم سے ملے ہوئے ہیں جن کی ترمیم اسلامی رسوم نے کی ہے.وہ افغان جو اپنے تئیں درانی کہلاتے ہیں اور جب سے کہ دورانی سلطنت کی بنیاد پڑی ہے یعنے ۱۵۰ سال سے اپنے تئیں درانی ہی نامزد کرتے آئے ہیں.کہتے ہیں کہ وہ اصلا اسرائیلی فرقوں کی اولاد سے ہیں اور ان کی نسل کش (قیس) سے جاری ہوتی ہے جسکو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پٹھان کے نام سے موسوم کیا.جس کے معنے سریانی زبان میں مکان کے ہیں کیونکہ اس نے لوگوں کو اسلام کی لہروں میں کشتی کی طرح پھلا نا تھا.اگر ہم قوم افغان کا قوم اسرائیل سے کوئی قدیمی رشتہ نہ مانیں تو ان اسرائیلی ناموں کی کوئی وجہ بیان کرنا ہمارے لئے مشکل ہو جاتا ہے جو عام طور پر رائج ہیں.اور بعض روم مثلا عید صبح کے تہوار کے رائج ہونے کی وجہ بیان کرنا اور کبھی ہمارے لئے دشوار ہو جاتا ہے.اور قوم افغان کی یوسف زئی شاخ اگر مید فصیح کی حقیقت کو سمجھ کر نہیں مناتے تو کم سے کم ان کا تہوار عید فصیح کی نہایت عجیب اور عمدہ نقل ہے.ایسا ہی اسرائیلی رشتہ نہ ماننے کی حالت میں ہم اُس اصرار کی بھی کوئی وجہ نہیں بتلا سکتے.جواعلیٰ تعلیم یافتہ افغانوں کو اس روایت کے بیان کرنے اور اس پر قائم رہنے میں ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت کی صداقت کی کوئی اصل بنیاد ضرور ہوگی.بلیور Belle ) کی رائے ہے کہ اسرائیلی رشتہ کا در حقیقت سچاہ ہونا ممکن ہے مگروہ بیان کرتا ہے کہ افغانوں کی تین بڑی شانوں میں سے جو اپنے تئیں قیس کی اولاد بیان کرتے ہیں کم سے کم ایک شاخ سارا بور کے نام سے موسوم ہے اور یہ لفظ پشتو زبان میں اس نام کا ترجمہ ہے جو پرانے زمانے میں سورج بنسی راجپوتوں کا نام تھا جن کی نسبت یہ معلوم ہے کہ انکی بستیاں مہا بھارت کی لڑائی میں چندر بنسی خاندان سے شکست کھا کر افغانستان میں آبسی تھیں.اس طرح

Page 356

معلوم ہوا کہ تمکن ہے کہ افغان بنی اسرائیل ہوں جو قدیمی را چو توں میں مل گئے ہوں اور ہمیشہ سے میری نظر میں افغانوں کے اصل و نسل کے مسئلہ کا صحیح حل نہایت ہی اغلب طور پر یہی معلوم ہو تا رہا ہے.پر نو میکل کے افغان روایت و تامل کی بنا پر اپنے تئیں پر گزیدہ قوم یعنے ابراہیم کی اولاد میں سے شمار کرتے ہیں.ان تمام تحریمات کو جو نامی مولفوں کی کتابوں میں سے ہم نے لکھتی ہیں یکسانی طور پر تصویر میں لانے سے ایک صادق کو یقین کامل ہو سکتا ہے کہ یہ تو میں جو افغان اور کشمیری اس ملک ہندوستان اور اس کے حدود اور نواح میں پائی جاتی ہیں در اصل بنی اسرائیل ہیں.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۹۳ تا ۱۰۷ ۳۳۸

Page 357

۳۳۹ ۲۳۰ متفرق شہادتیں ڈاکٹر بر نیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ "کشمیر میں یہودیت کی بہت سی علامتیں پائی جاتی ہیں.چنانچہ پیر پنجال سے گزر کر جب میں اس ملک میں داخل ہوا تو دیہات کے باشندوں کی صورتیں یہود کی سی دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی.ان کی صورتیں اور ان کے طور طریق اور وہ ناقابل بیان خصوصیتیں جن سے ایک سیاح مختلف اقوام کے لوگوں کی خود بخود شناخت اور تمیز کر سکتا ہے.سب یہودیوں کے پورانی قوم کیسی معلوم ہوتی تھیں.میری بات کو آپ محض خیالی ہی تصور نہ فرمائیے گا.ان دیہاتوں کے یہودی نما ہونے کی نسبت ہمارے پادری صاحبان اور اور بہت سے فرنگستانیوں نے بھی میرے کشمیر جانے سے بہت عرصہ پہلے ایسا ہی لکھا ہے.دوسری علامت یہ ہے کہ اس شہر کے باشندے باوجود یکہ تمام مسلمان ہیں مگر پھر بھی ان میں سے اکثر کا نام موسیٰ ہے.تیسرے یہاں یہ عام روایت ہے کہ حضرت سلیمان اس ملک آئے تھے.چوتھے یہاں کے لوگوں کا یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ نے شہر کشمیر ہی میں وفات پائی تھی اور ان کا مزار شہر سے قریب تین میل کے ہے.پانچویں عموماً یہاں سب لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ایک اونچے پہاڑ پر جو ایک مختصر اور نہایت پورا نا مکان نظر آتا ہے اس کو حضرت سلیمان نے تعمیر کرایا تھا.اور اسی سبب سے اس کو آج تک تخت سلیمان کہتے ہیں.سو میں اس بات سے انکار کرنا نہیں چاہتا کہ یہودی لوگ کشمیر میں آکر بسے ہوں.پہلے رفتہ رفتہ تنزل کرتے کرتے بت پرست بن گئے ہوں گے اور پھر آخر اور بت پرستوں کی طرح مذہب اسلام کی طرف مائل ہو گئے ہوں گے." یہ رائے ڈاکٹر بر نیر کی ہے.جو انہوں نے اپنی کتاب سیر و سیاحت میں لکھی ہے.مگر اسی بحث میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ”غالباً اسی قوم کے لوگ پیکن میں موجود ہیں جو مذہب موسوی کے پابند ہیں اور ان کے پاس توریت اور دوسری کتابیں بھی ہیں.مگر حضرت عیسیٰ کی وفات یعنی مصلوب ہونے کا حال ان لوگوں کو " معلوم ہیں.ڈاکٹر صاحب کا یہ فقرہ یا در رکھنے کے لائق ہے کیونکہ بعض نادان عیسائیوں کا یہ گمان ہے

Page 358

کہ حضرت عیسی کے مصلوب ہونے پر یہود و نصاری کا اتفاق ہے اور اب ڈاکٹر صاحب کے قول سے معلوم ہوا کہ چین کے یہودی اس قول سے اتفاق نہیں رکھتے اور ان کا یہ مذہب نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ سولی پر مر گئے.اور ڈاکٹر صاحب نے جو کشمیریوں کے یہودی الاصل ہونے پر دلائل لکھے ہیں.یہی دلائل ایک غور کرنے والی نگاہ میں ہمارے متذکرہ بالا بیان پر شواہد بینہ ہیں.یہ واقعہ مذکورہ جو حضرت موسیٰ کشمیر میں آئے تھے چنانچہ ان کی قبر بھی شہر سے قریبا تین میل کے فاصلہ پر ہے.صاف دلالت کرتا ہے کہ موسیٰ سے مراد عیسی ہی ہے کیونکہ یہ بات قریب قیاس ہے کہ جب کشمیر کے یہودیوں میں اس قدر تغیر واقع ہوئے کہ وہ بت پرست ہو گئے اور پھر مدت کے بعد مسلمان ہو گئے تو کم علمی اور لاپروائی کی وجہ سے عیسی کی جگہ موسیٰ انہیں یاد رہ گیا ورنہ حضرت موسیٰ تو موافق تصریح توریت کے حورب کی سرزمین میں اس سفر میں فوت ہو گئے تھے جو مصر سے کنعان کی طرف بنی اسرائیل نے کیا تھا اور حورب کی ایک وادی میں بیت فنور کے مقابل دفن کئے گئے.دیکھو استثناء ۳۴ باب درس ۵.ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ سلیمان کا لفظ بھی رفتہ رفتہ بجائے عیسی کے لفظ کے مستعمل ہو گیا.ممکن ہے کہ حضرت عیسی نے پہاڑ پر عبادت کے لئے کوئی مکان بنایا ہو کیونکہ یہ شاذ و نادر ہے کہ کوئی بات بغیر کسی اصل صحیح کے محض بے بنیاد افتراء کے طور پر مشہور ہو جائے.ہاں یہ غلطی قریب قیاس ہے کہ بجائے عیسی کے عوام کو جو پچھلی قومیں تھیں سلیمان یا د رہ گیا ہو اور اس قدر غلطی تعجب کی جگہ نہیں چونکہ یہ تین نبی ایک ہی خاندان میں سے ہیں.اس ہے لئے یہ غلطیاں کسی اتفاقی مسامحت سے ظہور میں آگئیں.تبت سے کوئی نسخہ انجیل یا بعض عیسوی وصایا کا دستیاب ہونا جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کوئی عجیب بات نہیں ہے ب قرائن قویہ قائم ہیں کہ بعض نبی بنی اسرائیل کے کشمیر میں ضرور آئے گوان کی تعیین نام میں غلطی ہوئی اور ان کی قبر اور مقام بھی اب تک موجود ہے تو کیوں یہ یقین نہ کیا جائے کہ وہ نبی در حقیقت عیسی ہی تھا جو تول کشمیر میں آیا اور پھر تبت کا بھی سپر کیا اور کچھ بعید نہیں کہ اس ملک کے لوگوں کے لئے وصیتیں بھی لکھتی ہوں اور آخر کشمیر میں واپس آکر فوت ہو گئے ہوں.چنانچہ سرد ملک کا آدمی سرد ملک کو ہی پسند کرتا ہے اس لئے فراست صحیحہ قبول کرتی ہے کہ حضرت عیسی کنعان کے ملک کو چھوڑ کر ضرور کشمیر پہنچے ہوں گے.میرے خیال میں کسی کو اس میں کلام نہ ہو گا کہ خطہ کشمیر کو خطہ ۳۴۰

Page 359

۳۴۱ المکتبہ میں رہے شام سے بہت مشابہت ہے.پھر جب کہ ملکی مشابہت کے علاوہ قوم بنی اسرائیل بھی اس جگہ موجود تھی تو حضرت مسیح اس ملک کے چھوڑنے کے بعد ضرور کشمیر آئے ہوں گے مگر جاہلوں نے دور دراز زمانہ کے واقعہ کو یاد نہ رکھا اور بجائے عیسی کے موسیٰ یا سلیمان یاد رہ گیا.اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب فرماتے ہیں کہ میں قریباً چودہ برس تک جموں اور کشمیر کی ریاست میں نو کر رہا ہوں اور اکثر کشمیر میں ہر ایک عجیب مکان وغیرہ کے دیکھنے کا موقعہ ملتا تھا.لہذا اس مدت دراز کے تجربہ کے رو سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر بر نیر صاحب نے اس بات کے بیان کرنے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ کشمیر میں موسیٰ کی قبر ہے غلطی کی ہے.جو لوگ کچھ ہیں.وہ اس بات سے بے خبر نہیں ہوں گے کہ کشمیر میں موسیٰ نبی کے نام سے کوئی قبر مشہور نہیں ڈاکٹر صاحب کو بوجہ اجنبیت زبان کے ٹھیک ٹھیک نام کے لکھنے میں غلطی ہو گئی ہے.یا ممکن ہے کہ سہو کاتب سے یہ غلطی ظہور میں آئی ہو.اصل بات یہ ہے کہ کشمیر میں ایک مشہور و معروف قبر ہے جس کو یوز آسف نبی کی قبر کہتے ہیں.اس نام پر ایک سرسری نظر کر کے ہر ایک شخص کا ذہن ضرور اس طرف منتقل ہو گا کہ یہ قبر کسی اسرائیلی نہی کی ہے.کیونکہ یہ لفظ عبرانی زبان کے مشابہ ہیں.مگر ایک عمیق نظر کے بعد نہایت تسلی بخش طریق کے ساتھ کھل جائے گا کہ دراصل یہ لفظ یسوع آسف ہے یعنی یسوع غمگین - آسف اندوہ اور غم کو کہتے ہیں چونکہ حضرت مسیح نہایت غمگین ہو کر اپنے وطن سے نکلے تھے اس لئے اپنے نام کے ساتھ آسف ملالیا.مگر بعض کا بیان ہے کہ دراصل لفظ یسوع صاحب ہے.پھر اجنبی زبان میں بکثرت مستعمل ہو کر یوز آسف بن گیا.لیکن میرے نزدیک یسوع آسف اسم با مسمیٰ ہے اور ایسے نام جو واقعات پر دلالت کریں اکثر عبرانی نبیوں اور دوسرے اسرائیلی راست بازوں میں پائی جاتی ہیں.چنانچہ سف جو حضرت یعقوب کا بیٹا تھا اس کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے کہ اس کی جدائی پر اندوہ اور تم کیا گیا.جیسا کہ اللہ جل شانہ نے اس بات کی طرف اشارہ فرما کر با اسفا على یوسف.پس اس سے صاف نکلتا ہے کہ یوسف پر اسف یعنی اندوہ کیا گیا اس لئے اس کا نام یوسف ہوا.ایسا ہی مریم کا نام بھی ایک واقعہ پر دلالت کرتا ہے.اور وہ یہ کہ جب مریم کالڑ کا عیسی پیدا ہو تو وہ اپنے اہل و عیال سے دور تھی.اور مریم وطن سے دور ہونے کو کہتے ہیں.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرما کر کہتا ہے

Page 360

سلام سلام.واذكر فى الكتب مريم اذا نتبذت مِن أهْلِها مَكَانًا شرقيًا - یعنی مریم کو کتاب میں یاد کر جبکہ وہ اپنے اہل سے ایک شرقی مکان میں دور پڑی ہوئی تھی - سوخدا نے مریم کے لفظ کی وجہ تسمیہ یہ قرار دی کہ مریم حضرت علیسی کے پیدا ہونے کے وقت اپنے لوگوں سے دور و مہجور تھی یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس کا لڑکا عیسی قوم سے قطع کیا جائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت مسیح اپنے ملک سے نکل گئے اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کشمیر میں جاکر وفات پائی اور اب تک کشمیر میں ان کی قبر موجود ہے.- يُزَارُ وَيُتَبَرَكَ به.به ہاں ہم نے کسی کتاب میں لکھا ہے کہ حضرت سیخ کی بلاد شام میں قبر ہے.مگر اب صحیح تحقیق ہمیں اس بات کے لکھنے کے لئے مجبور کرتی ہے کہ واقعی قبر وہی ہے جو کشمیر میں ہے اور ملک شام کی قبر زندہ درگور کا نمونہ تھا جس سے وہ نکل آئے اور جب تک وہ کشمیر میں زندہ رہے ایک اونچے پہاڑ کی چوٹی پر مقام کیا گیا گویا آسمان پر چڑھ گئے.حضرت مولوی نور الدین صاحب فرماتے ہیں کہ یسوع صاحب کی قبر جو یوز آسف کی قبر کر کے مشہور ہے.وہ جامع مسجد سے آتے ہوئے بائیں طرف واقع ہوتی ہے.جب ہم جامع مسجد سے اس مکان میں جائیں جہاں شیخ عبد القادر رضی اللہ عنہ کے تبرکات ہیں تو یہ قبر تھوڑی شمال کی جانب عین کوچہ میں ملے گی اس کو چہ کا نام خانیار ہے اور یہ اصل قدیم شہر سے قریباً تین میل کے فاصلہ پر ہے جیسا کہ ڈاکٹر بر نیر نے لکھا ہے پس اس بات کو بھی خیانت پیشہ عیسائیوں کی طرح ہنسی میں نہیں اڑانا چاہئے کہ حال میں ایک انجیل تبت سے دفن کی ہوئی نکلی ہے جیسا کہ وہ شائع بھی ہے چکی ہے.بلکہ حضرت مسیح کے کشمیر میں آنے کا یہ ایک دوسرا قرینہ ہے.ہاں یہ ممکن ہے کہ اس انجیل کا لکھنے والا بھی بعض واقعات کے لکھنے میں غلطی کرتا ہو جیسا کہ پہلی چار انجیلیں بھی غلطیوں سے بھری ہوئی ہیں.مگر ہمیں اس نادر اور عجیب ثبوت سے بجلی منہ نہیں پھیرنا چاہئے جو بہت سی غلطیوں کو صاف کر کے دنیا کو صحیح سوانح کا چہرہ دکھلاتا ہے.واللہ اعلم بالصواب.ہو ست بچن.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۲ تا ۳۰۷ حاشیه

Page 361

۳۳ خط مولوی عبد الله صاحب باشنده کشمیر فائدہ عام کے لئے معہ نقشہ مزار حضرت عیسی علیہ السّلام اس اشتہار میں شائع کیا جاتا ہے از جانب خاکسار عبد اللہ بخدمت حضور مسیح موعود السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، حضرت اقدس اس خاکسار نے حسب الحکم سرینگر میں عین موقعہ پر یعنی روضہ مزار یف شہزادہ یوز آسف نبی علیہ الصلوۃ والسّلام پر پہنچ کر جہاں تک ممکن تھا بکوشش تحقیقات کی.اور معمر اور سن رسیدہ بزرگوں سے بھی دریافت کیا.اور مجاوروں اور گرد وجوار کے لوگوں سے بھی ہر ایک پہلو سے استفسار کرتا ہے.جناب من عند التحقیقات مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ مزار در حقیقت جناب یوز آسف به السلام نبی اللہ کی ہے اور مسلمانوں کے محلہ میں یہ مزار واقع ہے.کسی ہندو کی وہاں سکونت نہیں اور نہ اس جگہ کسی ہندووں کا کوئی مدفن ہے.اور معتبر لوگوں کی شہادت سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ قریباً انیس سو برس سے یہ مزار ہے اور مسلمان بہت عزت اور تعظیم کی نظر سے اس کو دیکھتے ہیں اور اس کی زیارت کرتے ہیں.اور عام خیال ہے کہ اس مزار میں ایک بزرگ پیغمبر مدفون ہے جو کشمیر میں کسی اور ملک سے لوگوں کو نصیحت کرنے کے لئے آیا تھا.اور کہتے ہیں کہ یہ نبی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قریباً چھ سو برس پہلے گذرا ہے.یہ اب تک نہیں کھلا کہ اس ملک میں کیوں آیا ہے مگر یہ واقعات بہر حال ثابت ہو چکے ہیں اور تواتر شہادت سے کمال درجہ وہ نبی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو برس پہلے گذرا ہے وہ حضرت عیسی علیہ السّلام ہیں اور کوئی نہیں.اور یسوع کے لفظ کی صورت بگڑ کر یوز آسف بنت قرین قیاس ہے.کیونکہ جب یسوع کے لفظ کو انگریزی میں جیزس بنالیا تویوز آسف میں جیزس سے کچھ زیادہ تغیر نہیں ہے.یہ لفظ سنسکرت سے ہر گز مناسبت نہیں رکھتا.صریح عبرانی معلوم ہوتا ہے.اور یہ کہ حضرت عیسی علیہ السّلام اس ملک میں کیوں تشریف لائے اس کا سبب ظاہر ہے.اور وہ یہ ہے کہ جب کہ ملک شام کے یہودیوں نے آپ کی تبلیغ کو قبول نہ کی اور آپ کو صلیب پر قتل کرنا چاہا تو خدا تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق اور نیز دعا کو

Page 362

سوم سهم سم کے یقین تک پہنچ چکے ہیں کہ یہ بزرگ جن کا نام کشمیر انوں نے یوز آسف رکھ لیا ہے یہ نبی ہیں اور نیز شہزادہ ہیں.اس ملک میں کوئی ہندووں کا لقب ان کا مشہور نہیں ہے جیسے راجہ، اوتار یا رکھی و متنی وسدہ وغیرہ بلکہ بالاتفاق سب نبی کہتے ہیں اور نبی کا لفظ اہل اسلام اور اسرائیلیوں میں ایک مشترک لفظ ہے.اور جبکہ اسلام میں کوئی نبی ہمارے.نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آیا اور نہ آسکتا تھا اس لئے کشمیر کے عام مسلمان بالاتفاق یہی کہتے ہیں کہ یہ نبی اسلام کے پہلے کا ہے.ہاں اس نتیجہ تک وہ اب تک نہیں پہنچے کہ جبکہ نبی کا لفظ صرف دو ہی قوموں کے نیتوں میں مشترک تھا یعنی مسلمانوں اور بنی اسرائیل کے نبیوں میں اور اسلام میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آ نہیں سکتا تو بالضرور یہی متعین ہوا کہ وہ اسرائیلی نبی ہے کیونکہ کسی تیسری زبان نے کبھی اس لفظ کا استعمال نہیں کیا.بلاشبہ اس اشتراک کا صرف دو زبانوں اور دو قوموں میں تخصیص ہونالازمی ہے مگر بوجہ ختم نبوت اسلامی قوم اس سے باہر نکل گئی.لہذا صفائی سے یہ بات طے ہو گئی کہ یہ بنی اسرائیلی نبی ہے.پھر اس کے بعد تو اتر تاریخی سے یہ ثابت ہو جاتا کہ یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو برس پہلے گذرا ہے پہلی دلیل پر اور بھی یقین کا رنگ چڑہاتا ہے اور زیرک دلوں کو زور کے ساتھ اس طرف لے آتا ہے کہ قبول کر کے حضرت مسیح کو صلیب سے نجات دیدی.اور جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے حضرت مسیح کے دل میں تھا کہ ان یہودیوں کو بھی خدا تعالی کا پیغام پہنچا وہیں کہ جو بخت النصر کی غارت گری کے زمانہ میں ہندوستان کے ملکوں میں آگئے تھے.سواسی غرض کی تکمیل کے لئے وہ اس ملک میں تشریف لائے.ڈاکٹر بر نیر صاحب فرانسیسی اپنے سفر نامہ میں لکھتے ہیں کہ کئی انگریز محققوں نے اس رائے کو بڑے زور کے ساتھ ظاہر کیا ہے کہ کشمیر کے مسلمان باشندے دراصل اسرائیلی ہیں جو تفرقہ کے وقتوں میں اس ؟ ملک میں آگئے تھے.اور ان کے کتابی چہرے اور لمبے کرتے اور بعض رسوم اس بات کے گواہ ہیں.پس ا نوٹ: نبی کا لفظ صرف دو زبانوں سے مخصوص ہے اور دنیا کی کسی اور زبان میں یہ لفظ مستعمل نہیں ہوا.یعنی ایک تو عبرانی میں یہ لفظ نبی آتا ہے اور دوسری عربی میں.اس کے سوا تمام دنیا کی اور زبانیں اس لفظ سے کچھ تعلق نہیں رکھتیں.لہذا یہ لفظ جو یوز آسف پر بولا گیا کتبہ کی طرح گواہی دیتا ہے کہ شخص اسرائیلی نبی ہے یا اسلامی نہی.مگر ختم نبوت کے بعد اسلام میں کوئی اور نبی نہیں آسکتا لہذا متعین ہوا کہ یہ اسرائیلی نبی ہے.اب جو مدت بتلائی گئی ہے اس پر غور کر کے قطعی فیصلہ ہو جاتا ہے کہ یہ حضرت عیسی علیہ السّلام ہیں.اور وہی شہزادہ کے نام سے پکارے گئے ہیں.منہ

Page 363

۳۴۵ معلوم ہوتا یہ نبی حضرت مسیح علیہ السلام ہیں.کوئی دوسرا نہیں.کیونکہ وہی اسرائیلی نبی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو برس پہلے گذرے ہیں.پھر بعد اس کے اس متواتر خبر پر غور کرنے سے کہ وہ نبی شہزادہ بھی کہلاتا ہے یہ ثبوت نور علی انور ہو جاتا ہے کیونکہ اس مدت میں بحر حضرت عیسی علیہ السّلام کے کوئی نبی شہزادہ کے نام سے مشہور نہیں ہوا.پھر یوز آسف کا نام جو یسوع کے لفظ سے بہت ملتا ہے ان تمام یقینی باتوں کو اور بھی قوت بخشتا ہے.پھر موقعہ پر پہنچنے سے ایک اور دلیل معلوم ہوئی ہے جیسا کہ نقشہ منسلکہ میں ظاہر ہے اس نبی کا مزار جنوباً و شمالاً واقع ہے اور ہے کہ شمال کی طرف سر ہے اور جنوب کی طرف پیر ہیں اور یہ طرز دفن مسلمانوں اور اہل کتاب سے خاص ہے اور ایک اور تائیدی ثبوت ہے کہ اس مقبرہ کے ساتھ ہی کچھ تھوڑے فاصلے پر ایک پہاڑ کوہ سلیمان کے نام سے مشہور ہے.اس نام سے بھی پتہ ملتا ہے کہ کوئی اسرائیلی نبی اس جگہ آیا تھا ہے.یہ نہایت درجہ کی جہالت ہے کہ اس شہزادہ نبی کو ہندو قرار دیا جائے.اور یہ ایسی غلطی ہے کہ ان روشن ثبوتوں کے سامنے رکھ کر اس کے رد کی بھی حاجت نہیں.سنسکرت میں کہیں نبی کا لفظ عبرانی اور عربی سے خاص ہے اور دفن کرنا ہندووں کا طریق نہیں اور ہندو لوگ تو اپنے مردوں کو جلاتے ہیں.لہذا قبر کی صورت بھی قطعی یقین دلاتی ہے کہ یہ نبی اسرائیلی ہے.قبر کے مغربی پہلو کی طرف ایک سوراخ واقع ہے.لوگ کہتے ہیں کہ اس سوراخ سے نہایت عمدہ نہایت قرین قیاس ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام شام کے یہودیوں سے نومید ہو کر اس ملک میں تبلیغ قوم کے لئے آئے ہوں گے.حال میں جو روسی سیال نے ایک انجیل لکھی ہے جس کو لنڈن سے میں نے منگوایا ہے وہ بھی اس رائے میں ہم سے متفق ہے کہ حضرت عیسی علیہ السّلام اس ملک میں آئے تھے اور جو بعض مصنفوں نے واقعات یوز آسف نبی کے لکھتے ہیں جن کے یورپ کے ملکوں میں بھی ترجمے پھیل گئے ہیں ان کو پادری لوگ بھی پڑھ کر سخت حیران ہیں کیونکہ وہ تعلیمیں انجیل کی اخلاقی تعلیم سے بہت : تی ہیں بلکہ اکثر عبارتوں میں توارد معلوم ہوتا ہے.اور ایسا ہی تبتی انجیل کا انجیل کی اخلاقی تعلیم سے بہت ا یہ ضرور نہیں کہ سلیمان سے مراد سلیمان پیغمبر ہوں بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اسرائیلی امیر ہو گا.جس کے نام سے یہ پہاڑ مشہور ہو گیا.اس امیر کا نام سلیمان ہو گا.یہ یہودیوں کی اب تک عادت ہے کہ نبیوں کے نام پر اب تک نام رکھ لیتے ہیں.بہر حال اس نام سے بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہود کے فرقہ کی کشمیر میں گذر ہوئی ہے جن کے لئے حضرت عیسی کا کشمیر میں آنا ضروری تھا.منہ

Page 364

سمسم خوشبو آتی رہی ہے.یہ سوراخ کسی قدر کشادہ ہے اور قبر کے اندر تک پہنچی ہوئی ہے.اس سے یقین کیا جاتا ہے کہ کسی بڑے مقصود کے لئے یہ سوراخ رکھی غالباً کتبہ کے طور پر اس میں بعض چیزیں مدفون ہوں گی.عوام کہتے.اس میں کوئی خزانہ ہے مگر خیال قابل اعتبار معلوم نہیں ہوتا.ہاں چونکہ قبروں میں اس قسم کا سوراخ رکھنا کسی ملک میں رواج نہیں.اس سے سمجھا جاتا ہے کہ اس سوراخ میں کوئی عظیم الشان بھید ہے اور صدہا سال سے برابر یہ سوراخ چلے آنا یہ اور بھی عجیب بات ہے.اس شہر کے شیعہ لوگ بھی کہتے ہیں کہ یہ کسی نبی کی قبر ہے جو کسی ملک سے بطور سیاحت آیا تھا اور شہزادہ کے لقب سے موسوم تھا.شیعوں نے مجھے ایک کتاب بھی دکھلائی جس کا نام عین الحیات ہے.اس کتاب میں بہت سا قصہ بصفحہ ۱۱۹ ابن بابویہ اور کتاب الکمال الدین اور اتمام النعمت کے حوالہ سے لکھا ہے لیکن وہ تمام بیہودہ اور لغو قصے ہیں.صرف اس کتاب میں اس قدر سچ بات ہے کہ صاحب کتاب قبول کرتا ہے کہ یہ نبی سیاح تھا اور شہزادہ تھا جو کشمیر میں آیا تھا.اور اس شہزادہ نبی کے مزار کا پتہ یہ ہے کہ جب جامع مسجد سے روضہ بل یمین کے کوچہ میں آویں تو یہ مزار شریف آگے ملے گی.اس مقبرہ کے بائیں طرف کی دیوار کے پیچھے ایک کوچہ ہے اور داہنی طرف ایک پورانی مسجد ہے.معلوم ہوتا ہے کہ تبرک کے طور پر کسی پرانے زمانہ میں اس مزار شریف کے قریب مسجد بنائی گئی ہے اور اس مسجد کے ساتھ مسلمانوں کے مکانات توارد ہے.پس یہ ثبوت ایسے نہیں ہیں کہ کوئی شخص معاندانہ تحکم سے یکدفعہ ان کو ر ڈ کر سکے بلکہ ان د یہ میں سچائی کی روشنی نہایت صفائی سے پائی جاتی ہے اور اس قدر قرائن ہیں کہ یکجائی طور پر ان کو دیکھنا اس نتیجہ تک پہنچاتا ہے کہ یہ بے بنیاد قصہ نہیں ہے.یوز آسف کا نام عبرانی سے مشابہ ہونا اور یوز آسف کا نام نبی مشہور ہونا جو ایسا لفظ ہے کہ صرف اسرائیلی اور اسلامی انبیاء پر بولا گیا ہے اور پھر اس نبی کے ساتھ شہزادہ کا لفظ ہونا اور پھر اس نبی کی صفات حضرت مسیح علیہ السّلام سے بالکل مطابق ہونا اور اس کی تعلیم انجیل کی اخلاقی تعلیم سے بالکل ہمرنگ ہونا اور پھر مسلمانوں کے محلہ میں اس کا مدفون ہونا اور پھر انہیں سو سال تک اس کے مزار کی مدت بیان کئے جانا اور پھر اس زمانہ میں ایک انگریز کے ذریعہ سے بھی انجیل برامد ہونا اور اس انجیل سے صریح طور پر حضرت عیسی علیہ السّلام کا اس ملک میں آنا ثابت ہونا یہ تمام ایسے امور ہیں کہ ان کو یکجائی طور پر دیکھنے سے ضرور یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بلاشبہ حضرت عیسی علیہ السلام اس ملک میں آئے تھے اور اسی جگہ فوت ہوئے اور اس کے سوا اور بھی بہت سے دلائل ہیں کہ ہم انشاء اللہ ایک مستقل رسالہ میں لکھیں گے.من المشتہر

Page 365

۳۴۷ ہیں.کسی دوسری قوم کا نام و نشان نہیں.اور اس نبی اللہ کی قبر کے نزدیک داہنے گوشہ میں ایک پتھر رکھا ہے جس پر انسان کے پاؤں کا نقش ہے کہتے ہیں کہ یہ قدم رسول کا غالبا اس شہزادہ نبی کا یہ قدم بطور نشان کے باقی ہے.دو باتیں اس قبر پر مخفی اسرار کی گویا حقیقت نما ہیں.ایک وہ سوراخ جو قبر کے نزدیک ہے دوسرے یہ قدم جو پتھر پر کندہ ہے.باقی تمام صورت مزار کی نقشہ منسلکہ میں دکھائی گئی ہے.فقط ر از حقیقت روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۶۷ تا ۱۷۰ حضرت عیسی علیہ السّلام جو یسوع اور جیزس یا یوز آسف کے نام سے بھی مشہور ہیں یہ ان کا مزار ہے اور بموجب شہادت کشمیر کے معمر لوگوں کے عرصہ انیس سو برس کے قریب سے یہ مزار سری نگر محلہ خانیار میں ہے.ر از حقیقت.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۷۱ serad جنوب چبوتره صحن به در حقد قبرستان درخت بوه تونی ستان قدم سو (100 شمال پرانا قبرستان این شهر طواف گاه مستقف * سوراخ جہاں سے خوشبو آتی مسجد کهنه و دیگر مکانات ماتم راه بطرف جامع مسجد ہے دوکان بقال آستانه به طرف مسجد کمینه

Page 366

شہد شاہد من بنی اسرائیل ایک اسرائیلی عالمه توریت کی شہارات درباره قر مسیح ک و راز میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے دیکھا یک نقشہ پاس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور تحقیق وہ صحیح ہے قبر بنی اسرائیل کی قبروں میں سے ۱ ju می مورد عدل مراد دلا الردة اور دہ ہے بنی اسرائیل کے اکابر کی قبرو زہ میں سے دم سوم و میں نے دیکھا یہ نقشہ آچکے دن جب لکھتی 31 دیر در زاده دنی بوید میں نے یہ شہادت گاہ انگریزی جون دردم ۱۹۹۸ مربی ما احد الي مردم دلا دو سلمان یوسف سیمان مناحیه درود - 2/ 242 ت کردم - ١٦٥ • مسلمان یہودی نے میرے روبرو یہ شہادت لکھی مفتی محمد صادق پھیر دی کلرک دفتر اکو نٹنٹ جنرل لاہور اشهد بالله ان هذا الكتاب كتبه سلمان بن يوسف واله رجل من اكابر بنى اسرائيل.دستخط سید عبد الله بغدادی کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ ۳۴۸

Page 367

۳۴۹ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے مخالفوں کو ذلیل کرنے کے لئے اور اس راقم کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ جو سرینگر میں محلہ خانیار میں یوز آسف کے نام کی قبر ہے وہ در حقیقت بلا شک و شبہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے.مرہم عیسی جس پر طلب کی ہزار کتاب بلکہ اس سے زیادہ گواہی دے رہی ہے اس بات کا پہلا ثبوت ہے کہ جناب مسیح علیہ السّلام نے صلیب سے نجات پائی تھی.وہ ہر گز صلیب پر فوت نہیں ہوئے.اس مرہم کی تفہ میں کھلی کھلی عبارتوں میں طبیبوں نے لکھا ہے یہ مرہم ضربه" سقطہ اور ہر قسم کے زخم کیلئے بنائی جاتی ہے.اور حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے طیار ہوئی تھی یعنی ان زخموں کے لئے جو آپ کے ہاتھوں اور پیروں پر تھے.اس مرہم کے ثبوت میں ا مرہم کے ثبوت میں میرے پاس بعض وہ طبی کتابیں بھی ہیں جو قریباً سات سو برس کی قلمی لکھی ہوئی ہیں.یہ طبیب صرف مسلمان نہیں ہیں بلکہ عیسائی یہودی اور مجوسی بھی ہیں جن کی کتابیں اب تک موجود ہیں.قیصر روم تے کتب خانہ میں بھی رومی زبان میں ایک قرابا دین تھی اور واقعہ صلیب سے دو سو برس گزرنے سے پہلے ہی اکثر کتابیں دنیا میں شائع ہو چکی تھیں.پس بنیاد اس مسئلہ کی کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے اول خود انجیلوں سے پیدا ہوئی ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اور پھر مرہم عیسی نے علمی تحقیقات کے رنگ میں اس ثبوت کو دکھلا دیا.پھر بعد اس کے وہ انجیل جو حال میں تبت سے دستیاب ہوئی اس نے صاف گواہی دی کہ حضرت عیسی ضرور ہندوستان کے ملک میں آئے ہیں.اس کے بعد اور بہت سی کتابوں سے اس واقعہ کا پتہ لگا اور کشمیر اعظمی جو قریباً دو سو برس کی تصنیف ہے.اس کے صفحہ ۸۲ میں لکھا ہے کہ ”سید نصیر الدین کے مزار کے پاس جو دوسری قبر ہے عام خیال ہے کہ یہ ایک پیغمبر کی قبر ہے." اور پھر یہی مورخ اس صفحہ میں لکھتا ہے کہ ” ایک شہزادہ کشمیر میں کسی اور ملک سے آیا تھا اور زہد اور تقوی اور ریاضت اور عبادت میں وہ کامل درجہ پر تھا وہی خدا کی طرف سے نبی ہوا.اور کشمیر میں آکر کشمیریوں کی دعوت میں مشغول ہوا جس کا نام یوز آسف ہے اور اکثر صاحب کشف خصوصاً ملاً عنایت اللہ جو راقم کا مرشد ہے فرما گئے ہیں کہ اس قبر سے برکات نبوت ظاہر ہو رہے ہیں." یہ عبارت تاریخ اعظمی کی فارسی میں ہے.جس کا ترجمہ کیا گیا ہے.اور محمدن اینگلو اور مینٹل کالج میگزین ستمبر ۱۸۹۶ء اور اکتوبر ۱۸۹۶ء میں تقریب

Page 368

ریویو کتاب جوم شہزادہ یوز آسف جو مرزا صفدر علی صاحب سرجن فوج سر کار نظام - تحریر کیا ہے کہ "یوز آسف کے مشہور قصّہ میں جو ایشیا اور یورپ میں شہرہ آفاق ہو چکا ہے پادریوں نے کچھ آمیزی کر دی ہے.یعنی یوز آسف کے سوانح میں جو حضرت مسیح کی تعلیم اور اخلاق سے بہت مشابہ ہے شاید یہ تحریریں پادریوں نے اپنی طرف سے زیادہ کر دی ہیں.لیکن یہ خیال سراسر سادہ لوحی کی بناء پر ہے بلکہ پادریوں کو اس وقت یوز آسف کے سوانح ملے ہیں جبکہ اس سے پہلے تمام ہندوستان اور کشمیر میں مشہور ہو چکے تھے اور اس ملک کی پرانی کتابوں میں ان کا ذکر ہے اور اب تک وہ کتابیں موجود ہیں پھر پادریوں کو تحریف کے لئے کیا گنجائش تھی.ہاں پادریوں کا یہ خیال کہ شاید مسیح کے حواری اس ملک میں آئے ہوں گے اور یہ تحریریں یوز آسف کے سوانح میں ان کی ہیں سراسر غلط خیال ہے بلکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ یوز آسف حضرت یسوع کا نام ہے جس میں زبان کے پھیر کی وجہ سے کسی قدر تغیر ہو گیا ہے.اب بھی بعض کشمیری بجائے یوز آسف کے عیسی صاحب ہی کہتے ہیں جیسا کہ لکھا گیا.والسلام علیٰ من اتبع الہدی.راز حقیقت روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۷۲ ۳۵۰

Page 369

باب ہشتم محرف و مبدل کتب وَلْيَحْكُم أَهْلُ الإنجيل بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فِيهِ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَأَحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ هُمْ عَمَّا جَاءَ كَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلِّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَا جَا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِن ليَبْلُوَكُمْ فِي مَا اتَنكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فيُنَتِئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ) سورة المائدة

Page 370

مسیح کی لکھی ہوئی انجیل نہیں.حواریوں کی زبان عبرانی میں نہیں.تیسری مصیبت یہ ہے کہ الحاقی بھی ہے اور پھر آخر یہ کہ یہ تعلیم ادھوری اور ناقص اور نا معقول ہے اور اسے پیش کیا جاتا ہے کہ نجات کا اصلی ذریعہ یہی ہے.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۷۴،۱۷۳

Page 371

۳۵۳ مثل ۲۳۵ کوئی دوسری کتاب بھی ایسی نہیں جو صفات الہی کے بیان میں قرآن شریف کا مقابلہ کر سکے.ہاں بائبل میں کچھ صداقتیں تھیں مگر عیسائیوں اور یہودیوں کی خائنانہ دست اندازیوں نے ان کے خوبصورت چہرہ کو خراب کر دیا.اب قرآن شریف کی تو یہ مثال ہے کہ جیسی ایک نہایت عالیشان عمارت ہو جس میں ہر یک ضروری مکان قرینہ سے بنا ہوا ہے قرآن اور بائبل کی نشست گاہ الگ ہے، باورچی خانہ الگ.خواب گاہ الگ.غسل خانہ الگ.اسباب خانہ الگ.ارد گرد نہایت خوش نما باغ اور نہریں جاری اور دیانتدار خادم اور محافظ جابجا موجود.لیکن بائیل کی یہ مثال ہے کہ اگر چہ ابتدائی زمانہ میں کسی قدر اپنے اندازہ پر ایس کی بھی عمارت عمدہ تھی ضرورت کے مکان اور کو ٹھریاں اور نشست گاہ و غیرہ بنی ہوئی تھیں بھی رار دگر د تھا.اتنے میں ایک ایساز لزلہ آیا کہ مکان بیٹھ گیا.درخت اکھڑ نہروں اور صاف پانی کا نشان نہ رہا.اور امتدادِ زمانہ سے بہت ساکیچڑ اور گندگی اینٹوں پر پڑ گئی.اور اینٹیں نہیں کی کہیں سرک گئیں.وہ قرینہ کی عمارت اور اپنے اپنے موقعہ پر موزون اور پاکیزہ مکان جو تھے وہ سب نابود ہو گئے.ہاں کچھ اینٹیں رہ گئیں جن کو چوروں نے اپنی مرضی کے موافق جس جگہ چلہار کتھا.درختوں کا بھی یہی حال ہوا.کیونکہ وہ گر جانے سے بجز جلانے کے اور کسی لائق نہ رہے.اب بیابان سنسان پڑی ہے بجز نالائق چوروں کے اور کوئی سچا خادم بھی نہیں اور خود مسمار شدہ گھر اور گرے ہوئے باغ میں بچے خادم کا کیا کام.شحنہ حق.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۹۸٬۳۹۷ یہ دعوی پادریوں کا سراسر غلط ہے کہ قرآن توحید اور احکام میں نئی چیز کونسی لایا جو توریت میں نہ تھی." بظاہر ایک نادان توریت کو دیکھ کر دھو کہ میں پڑے گا کہ توریت

Page 372

۳۵۴ میں توحید بھی موجود ہے اور احکام عبادت اور حقوق عباد کا بھی ذکر ہے.پھر کونسی نئی قرآن توحید اور احکام چیز ہے جو قرآن کے ذریعہ بیان کی گئی.مگر یہ دھو کہ اسی کو لگے گا جس نے کلام الہی میں میں نئی چیز کونسی لایا جو ی کی میں کیا اور کبھی تذیر نہیں کیا.واضح ہو کہ الہیات کا بہت سا حصہ ایسا ہے کہ توریت میں اس کا نام و نشان نہیں.چنانچہ توریت میں توحید کے باریک مراتب کا کہیں ذکر نہیں.قرآن ہم پر ظاہر فرماتا ہے کہ توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ ہم بتوں اور انسانوں اور حیوانوں اور عناصر اور اجرام فلکی اور شیاطین کی پرستش سے باز رہیں بلکہ توحید تین درجہ پر منقسم ہے.درجہ اول: عوام کے لئے یعنی ان کے لئے جو خدا تعالیٰ کے غضب سے نجات پانا چاہتے ہیں.دوسرا درجہ : خواص کے لئے یعنی ان کے لئے جو عوام کی نسبت زیادہ قرب الہی کے ساتھ خصوصیت پیدا کرنی چاہتے ہیں.اور تیسرا درجہ : خواص الخواص کے لئے جو قرب کے کمال تک پہنچنا چاہتے ہیں.اول مرتبہ توحید کا تو یہی ہے کہ غیر اللہ کی پرستش نہ کی جائے اور ہر یک چیز جو محدود اور مخلوق معلوم ہوتی ہے خواہ زمین پر ہے خواہ آسمان پر اس کی پرستش سے کنارہ کیا جائے.دوسرا مرتبہ توحید کا یہ ہے کہ اپنے اور دوسروں کے کاروبار میں موثر حقیقی خدا تعالیٰ کو سمجھا جائے اور اسباب پر اتنا زور نہ دیا جائے جس سے وہ خدا تعالیٰ کے شریک ٹھہر جائیں.مثلاً یہ کہنا کہ زید نہ ہوتا تو میرا یہ نقصان ہوتا اور بکر نہ ہوتا تو میں تباہ ہو جاتا.اگر یہ کلمات اس نیت سے کہے جائیں کہ جس سے حقیقی طور پر زید و بکر کو کچھ چیز سمجھا جائے تو یہ بھی شرک ہے.تیسری قسم توحید کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھانا اور اپنے وجود کو اس کی عظمت میں محو کرنا.یہ توحید توریت میں کہاں ہے.ایسا ہی توریت میں بہشت اور دوزخ کا کچھ ذکر نہیں پایا جاتا.اور شاید کہیں کہیں اشارات ہوں.ایسا ہی توریت میں خدا تعالیٰ کی صفات کاملہ کا کہیں پورے طور پر ذکر نہیں.اگر توریت میں کوئی ایسی سورۃ ہوتی جیسا کہ قرآن شریف میں قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدُ اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ہے تو شاید عیسائی اس مخلوق پرستی کی بلا سے رُک جاتے.ایسا ہی توریت نے حقوق کے

Page 373

۳۵۵ مدارج کو پورے طور پر بیان نہیں کیا.لیکن قرآن نے اس تعلیم کو بھی پورے کمال تک پہنچایا ہے.مثلا وہ فرماتا ہے.ان اللہ کا مرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسانِ یعنی خدا حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم احسان کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم لوگوں کی ایسے طور سے خدمت کرو کہ جیسے کوئی قرابت کے جوش سے خدمت کرتا ہے.یعنی بنی نوع سے تمہاری ہمدردی جوش طبعی سے ہو کوئی ارادہ احسان رکھنے کا نہ ہو جیسا کہ ماں اپنے بچہ سے ہمدردی رکھتی ہے.ایسا ہی توریت میں خدا کی ہستی اور اس کی واحدانیت اور اس کی صفات کاملہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے نہیں دکھلایا.لیکن قرآن شریف نے ان تمام عقائد اور نیز ضرورت الہام اور نبوت کو دلائل عقلیہ سے ثابت کیا ہے اور ہر ایک بحث کو فلسفہ کے رنگ میں بیان کر کے حق کے طالبوں پر اس کا سمجھنا آسان کر دیا ہے.اور یہ تمام دلائل ایسے کمال سے قرآن شریف میں پائے جاتے ہیں کہ کسی میں مقدور نہیں کہ مثلاً ہستی باری پر کوئی ایسی دلیل پیدا کر سکے کہ جو قرآن شریف میں موجود نہ ہو.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۸۳ تا ۸۵ جیسے تمام یہودی اب تک باصرار تمام کہتے ہیں کہ مسیح نے انجیل کو ہمارے نبیتوں کی کتب مقدسہ سے چرا کر بنالیا ہے.بلکہ ان کے علماء اور احبار تو کتابیں کھول کھول کر انجیل پہلے نبیوں کی کتب سے چرائی گئی بتلاتے ہیں کہ اس اس جگہ سے فقرات چرائے گئے ہیں.اسی طرح دیانند پنڈت بھی اپنی ہے.گئی ہے.تالیفات میں شور مچارہا ہے کہ توریت ہمارے پستکوں سے کانٹ چھانٹ کر بنائی گئی توریت پسنکوں سے ہے اور اب تک ہون و غیرہ کی رسم وید کی طرح اس میں پائی جاتی ہیں.چنانچہ آپ بھی تو بات بات کر پائی اقرار کرتے ہیں کہ ہندووں کے اصول سے انجیلی تعلیم کو بہت کچھ مشابہت ہے.پس اس اقرار سے ہی آپ اپنے مونہہ سے ہندووں کے دعوی کی تصدیق کر رہے ہیں لیکن قرآن شریف ایسا نہیں جس پر یہ الزام عائد ہو سکیں یا کسی بداندیش کا منصوبہ پیش جا سکے.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۲۳ تا ۳۲۶.بقیه حاشیه در حاشیه ۲

Page 374

۳۵۶ اگر آپ کی ذات شریف میں ایسا ہنر حاصل ہے کہ جو حضرت مسیح کو بھی حاصل نہیں تھا.تو پھر یہ جو ہر کس دن کے لئے چھپارکھا ہے.جب آپ ایسے ہی لائق ہیں کہ قرآن شریف کا مقابلہ کر سکتے ہیں بلکہ اس کا ماخذ بتلا سکتے ہیں.تو پھر آپ کے لئے بات ہی آپ کسی سے بہ آسان ہے.صحیح قرآن شریف کے علوم الہیہ اور دقائق عقلیہ اور تاثیرات باطنیہ ٹھہر جائیں گے.کا اپنی کتاب سے مقابلہ دکھلا کر روپیہ انعام کا وصول کریں.اس سے آپ کی بڑی ناموری ہو جاوے گی.اور جس میدان کے فتح کرنے سے حضرت میں ہے اور اپنی تعلیم ناقص کا آپ اقرار کر کے اس جہان سے سدھار گئے.وہ میدان گویا آپ کے ہاتھ سے فتح ہو جائے گا.گویا ایک صورت سے آپ عیسائیوں کی نظر میں مسیح سے بہتر ٹھہر جاویں گے.کہ جس کتاب و وہ مدت العمر ناقص مجھے رہے آپ نے اس کامل ظاہر کر دکھایا.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۲۹ تا ۳۳۷ بقیه حاشیه در حاشیہ نمبر ۲ صاحب بینابیع الاسلام نے اگر یہ کوشش کی ہے کہ قرآن شریف فلاں فلاں قصوں یا کتابوں سے بنایا گیا ہے.یہ کوشش اس کی اس کوشش کے ہزارم حصہ پر بھی نہیں جو ایک فاضل یہودی نے انجیل کی اصلیت دریافت کرنے کے لیئے کی ہے.اس فاضل نے اپنے خیال میں اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ انجیل کی اخلاقی تعلیم یہودیوں کی کتاب انا جیل کی تعلیم سرقہ طالمود اور بعض اور چند بنی اسرائیل کی کتابوں سے لی گئی ہے.اور یہ چوری اس قدر صریح طور پر عمل میں آئی ہے کہ عبادتوں کی عبارتیں بعینہ نقل کر دی گئی ہیں.اور اس فاضل نے دکھلا دیا ہے کہ در حقیقت انجیل مجموعہ مال مسروقہ ہے.در حقیقت اس نے حد کر دی اور خاص کر پہاڑی تعلیم کو جس پر عیسائیوں کو بہت کچھ ناز ہے طالمود سے اخذ کر نالفظ بلفظ ثابت کر دیا ہے اور دکھلا دیا ہے کہ یہ ظالموں کی عبارتیں اور فقرے ہیں.اور ایسا ہی دوسری کتابوں سے وہ مسروقہ عبارتیں نقل کر کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے.چنانچہ خود یورپ کے محقق بھی اس طرف دلچپسی سے متوجہ ہو گئے ہیں.اور ان ونوں میں میں نے ایک ہندو کار سیالہ دیکھا ہے جس نے یہ کوشش کی ہے کہ انجیل بدھ کی تعلیم کا سرقہ ہے اور بدھ کی اخلاقی تعلیم کو پیش کر کے اسکا ثبوت دینا چاہا ہے.اور عجیب تر

Page 375

۳۵۷ ٢٢٠ یہ کہ بدھ لوگوں میں وہی قصہ شیطان کا مشہور ہے جو اس کو آزمانے کے لئے کئی جگہ لئے پھرا.پس ہر ایک کو یہ خیال دل میں لانے کا حق ہے کہ تھوڑے سے تغیر سے وہی قصہ انجیل میں بھی بطور سرقہ داخل کر دیا گیا ہے.یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ ضرور حضرت عیسی علیہ السلام ہندوستان میں آئے تھے اور حضرت عیسیٰ کی قبر سری نگر کشمیر میں موجود ہے جس کو ہم نے دلائل سے ثابت کیا ہے.اس صورت میں ایسے معترضین کو اور بھی حق پیدا ہوتا ہے وہ ایسا خیال کریں کہ اناجیل موجودہ در اصل بدھ مذہب کا ایک خاکہ ہے.یہ شہادتیں اس قدر گذر چکی ہیں کہ اب مخفی نہیں ہو سکتیں.ایک اور امر تعجب انگیز ہے کہ یوز آسف کی قدیم کتاب (جس کی نسبت اکثر محقق انگریزوں کے بھی یہ خیالات ہیں کہ وہ حضرت عیسی کی پیدائش سے بھی پہلے شائع ہو چکی ہے ) جس کے ترجمے تمام ممالک یورپ میں ہو چکے ہیں انجیل کو اس کے اکثر مقامات سے ایسا توار د ہے کہ بہت سی عبارتیں باہم ملتی ہیں اور جو انجیلوں میں بعض مثالیں موجود ہیں وہی مثالیں انہیں الفاظ کے ساتھ اس کتاب میں بھی موجود ہیں.اگر ایک شخص ایسا جاہل ہو کہ گویا اندھا ہو وہ بھی اس کتاب کو دیکھ کر یقین کرے گا کہ انجیل اس میں سے چرائی گئی بعض لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ کتاب گو تم بدھ کی ہے.اور اول سنسکرت میں تھی اور پھر دوسری زبانوں میں ترجمے ہوئے.چنانچہ بعض محقق انگریز بھی اس بات کے قائل ہیں.مگر اس بات کے ماننے سے انجیل کا کچھ باقی نہیں رہتا.اور نعوذ باللہ حضرت سٹی اپنی تمام تعلیم میں چور ثابت ہوتے ہیں.کتاب موجود ہے جو چاہے دیکھ لے.مگر ہماری رائے تو یہ ہے کہ خود حضرت عیسی کی یہ انجیل ہے جو ہندوستان کے سفر میں بھی گئی اور ہم نے بہت سے دلائل سے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ یہ در حقیقت حضرت عیسی کی انجیل ہے اور دوسری انجیلوں سے زیادہ پاک وصاف ہے.مگر وہ بعض محقق انگریز جو اس کتاب کو بدھ کی کتاب ٹھہراتے ہیں وہ اپنے پاؤں پر آپ تبر مارتے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کو سارق قرار دیتے ہیں.ہے.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۳۹ ۳۲۰ تعجب ہے کہ جس حالت میں قرآن شریف ایسے جزیرہ میں نازل ہوا جس کے لوگ عموماً عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں سے بے خبر تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ

Page 376

۳۵۸ وسلم خود اُئی تھے تو پھر یہ تہمتیں آنجناب پر لگانا ان لوگوں کا کام ہے جو خدا سے بالکل بے خوف ہیں اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض ہو سکتے ہیں تو پھر حضرت حضرت مسیح تقویت عیسی پر کس قدر اعتراض ہوں گے جنہوں نے ایک اسرائیلی فاضل سے توریت کو سبقاً بنا سبعا پڑھا کرتے سبھا پڑھا تھا اور یہودیوں کی تمام کتابوں طالمود وغیرہ کا مطالعہ کیا تھا اور جن کی انجیل در حقیقت بائبل اور ظالموں کی عبارتوں سے ایسی پر ہے کہ ہم لوگ محض قرآن شریف کے ارشاد کی وجہ سے ان پر ایمان لاتے ہیں ورنہ اناجیل کی نسبت بڑے شبہات پیدا ہوتے ہیں.اور افسوس کہ انجیلوں میں ایک بات بھی ایسی نہیں کہ جو بلفظہ پہلی کتابوں میں موجود نہیں.اور پھر اگر قرآن نے بائیل کی متفرق سچائیوں اور صداقتوں کو ایک جگہ جمع کر دیا تو اس میں کونسا استبعاد عقلی ہوا.اور کیا غضب آگیا.کیا آپ کے نزدیک یہ محال ہے کہ یہ تمام قصے قرآن شریف کے بذریعہ وحی کے لئے گئے ہیں جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحب وحی ہونا دلائل قاطعہ سے ثابت ہے.اور آپ کی نبوت حقہ کے انوار و بركات اب تک ظہور میں آرہے ہیں تو کیوں شیطانی وساوس دل میں داخل کئے جاویں کہ نعوذ باللہ قرآن شریف کا کوئی قصہ کسی پہلی کتاب یا کتبہ سے نقل کیا گیا ہے.کیا آپ کو خدا تعالیٰ کے وجود میں کوئی شک ہے یا آپ اس کو علم غیب پر قادر نہیں جانتے.اور میں بیان کر چکا ہوں کہ عیسائیوں اور یہودیوں کا کسی کتاب کا اصلی قرار دینا اور کسی کو فرضی سمجھنا یہ سب بے بنیاد خیالات ہیں.نہ کسی نے اصلی کی اصلیت کا ملاحظہ کیا اور نہ کسی نے کسی جعلساز کو پکڑا.اس کی نسبت خود یورپ کے محققین کی شہادتیں ہمارے پاس موجود ہیں.ایک اندھی قوم ہے جن میں ایمانی روشنی باقی نہیں رہی.اور عیسائیوں پر تو نہایت ہی افسوس ہے جنہوں نے طبعی اور فلسفہ پڑھ کر ڈبو دیا ایک طرف تو آسمانوں کے منکر ہیں اور ایک طرف حضرت عیسی کو آسمان پر بٹھاتے ہیں.سچ تو یہ ہے کہ اگر یہود کی پہلی کتابیں سجتی ہیں تو ان کی بناء پر حضرت عیسی کی نبوت ہی ثابت نہیں ہوتی.مثلاً بچے مسیح موعود کے لئے جس کا حضرت عیسی کو دعوی ہے ملاکی نبی کی کتاب کی رو سے یہ ضروری تھا کہ اس سے پہلے الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آتا.مگر یہ قرآن شریف کا الیاس تو اب تک نہ آیا.در حقیقت یہودیوں کی طرف سے یہ بڑی حجت ہے جس کا حضرت مسیح پر احسان جواب حضرت عیسی صفائی سے نہیں دے سکے.یہ قرآن شریف کا حضرت عیسی پر ہے جو ان کی ثبوت کا احسان ہے جو ان کی نبوت کا اعلان فرمایا.اعلان فرمایا.

Page 377

۳۵۹ چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۵۷، ۳۵۸ ۲۴۱ نشانیوں سے بے بہرہ ہیں.اس بات پر عیسائیوں کو بھی نہایت توجہ سے غور کرنی چاہئے کہ خدائے بے مثل و مانیند اور کامل کی کلام میں کن کن نشانیوں کا ہونا ضروری ہے.کیونکہ ان کی انجیل بوجہ محرف اور مبدل ہو جانے کے ان نشانیوں سے بالکل بے بہرہ اور بے نصیب ہے.بلکہ الہی نشان تو یک طرف رہے معمولی راستے اور صداقت بھی کہ جو ایک منصف اور دانشمند متکلم کے کلام میں ہونی چاہئے انجیل کو نصیب نہیں.کم بخت مخلوق پرستوں نے خدا اپاچیل اٹلی کام کی کے کلام کو ، خدا کی ہدایت کو ، خدا کے نور کو اپنے ظلمانی خیالات سے ایسا ملا دیا کہ اب وہ کتاب بجائے رہبری کے رہزنی کا ایک پکا ذریعہ ہے.ایک عالم کو کس نے توحید سے برگشتہ کیا ؟ اسی مصنوعی انجیل نے.ایک دنیا کا خون کس نے کیا؟ انہیں تالیفات اربعہ نے.جن اعتقادوں کی طرف مخلوق پرست کا نفس امارہ جھکتا گیا اسی طرف ترجمہ کرنے کے وقت ان کے الفاظ بھی جھکتے گئے.کیونکہ انسان کے الفاظ ہمیشہ اس کے خیالات کے تابع ہوتے ہیں.غرض انجیل کی ہمیشہ کا یا پلٹ کرتے رہنے سے اب وہ کچھ اور ہی چیز ہے.اور خدا بھی اس کی تعلیم موجودہ کی رو سے وہ اصلی خدا نہیں کہ جو ہمیشہ حدوث اور تولد اور تجسم اور موت سے پاک تھا.بلکہ انجیل کی تعلیم کے رُو سے عیسائیوں کا خدا ایک نیا خدا ہے.یاد ہی خدا ہے کہ جس پر بدقسمتی سے مصیبتیں آئیں اور آخری حال اس کا پہلے حال سے جو ازلی اور قدیم تھا بالکل بدل گیا.اور ہمیشہ قوم اور غیر متبدل رہ کر آخر کار تمام قیومی اس کی خاک میں مل گئی.ماسوائے اس کے عیسائیوں کے محققین کو خود اقرار ہے کہ ساری انجیل الہامی طور پر نہیں لکھی گئی بلکہ متی وغیرہ نے بہت سی باتیں اس کی لوگوں سے سن سنا کر لکھی ہیں اور لو کا کی انجیل میں تو خود لو کا اقرار کرتا ہے کہ جن لوگوں نے مسیح کو دیکھا تھا ان سے دریافت کر کے میں نے لکھا ہے.پس اس تقریر میں خود لو کا اقراری ہے کہ اس کی انجیل الہامی نہیں.کیونکہ الہام کے بعد لوگوں سے پوچھنے کی کیا حاجت تھی.اسی طرح مرقس کا مسیح کے شاگردوں میں سے ہونا ثابت نہیں.پھر وہ نبی کیونکر ہوا.بہر حال چاروں انجیلیں نہ اپنی صحت پر قائم ہیں اور نہ اپنے سب بیان کے رو سے الہامی ہیں.اور اسی وجہ سے انجیلوں کے واقعات میں طرح طرح کی غلطیاں پڑ گئیں اور کچھ کا کچھ لکھا گیا.غرض اس بات پر عیسائیوں کے کامل محققین کا اتفاق ہو چکا

Page 378

۳۶۰ ۲۴۲ اناجیل ہے کہ انجیل خالص خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ پتے داری گانو کی طرح کچھ خدا کا کچھ انسان کا ہے.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۹۳ تا ۳۹۵ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳ ہے یو تاباب ۲ آیت ۲۰ میں ہے کہ یہودیوں کو مسیح نے کہا تھا کہ ہیکل چھیالیس برس میں اکا خیل عقلی دلائل اور بنائی گئی ہے.مگر یہودیوں کی کتابوں میں بتواتر یہ درج ہے کہ صرف آٹھ برس تک آسمانی نشانوں سے بے نصیب ہیں.ہیکل طیار ہو گئی تھی.چنانچہ اب تک وہ کتابیں موجود ہیں.پس یہ بات بالکل جھوٹ ہے کہ یہودیوں نے مسیح کو ایسا کہا تھا.اور خود یہ بات قرین قیاس بھی نہیں کہ ایسی مختصر عمارت جس کے بنانے کے لئے نہایت سے نہایت چند سال کافی تھے وہ چھیالیس برس تک بنتی رہی ہو.سو ایسے ایسے جھوٹھ انجیلوں میں ہیں جن کی وجہ سے ان کے مضامین قابل تمسک نہیں.مثلاً دیکھو کہ انجیل یوحنا باب ۱۴ آیت ۳۴ میں لکھا.کو کہ میں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ تم ایک دوسرے سے محبت رکھو.حالانکہ یہ نیا نہیں.کیونکہ اخبار کی کتاب باب ۱۹ آیت ۱۸ میں یہی حکم لکھا ہے پھر وہ نیا کیونکر ہو گیا.تعجب کہ یہی انجیلیں ہیں جن کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ وہ پا یہ اعتبار کے رو سے پایہ احادیث آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑھ کر ہیں.اور ظاہر ہے کہ جن کتابوں میں ایسے قابل شرم جھوٹ ہیں ان کو اسلام کی کتب احادیث سے کیا نسبت ہے.ریلینڈ صاحب اپنی کتاب اکاؤنٹ آف محمد نزم میں لکھتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مجربات نہایت مشہور عالم پر ہیز گار اور دانا محمدی فاضلوں نے اپنی بیشمار کتابوں میں درج کئے ہیں اور یہ فاضل ایسے تھے کہ کسی بات کو بغیر سخت امتحان اور بے انتہا جانچ پڑتال کے نہیں لیتے تھے اسی لئے ان کی روایات اس قابل نہیں کہ ان میں شک کیا جائے.تمام ملک پر.عرب میں وہ مشہور ہیں.اور وہ واقعات عام طور پر باپ سے بیٹے کو اور ایک پشت سے دوسری پشت کو پہنچے ہیں.اسلام کی ہر ایک قسم کی کتابیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے معجزات پر گواہی دیتی ہیں.پھر اگر اتنے بڑے اور دانا فاضلوں کی سند کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر منجزات کے واسطے اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کیونکہ ایسی باتوں کے ثبوت کے لئے جو کہ ہمارے زمانہ سے پہلے یا ہماری نظروں سے دور واقع ہوئی ہیں صرف سندیں

Page 379

ذریعہ ہیں.اور اگر ان سندوں کا انکار کیا جائے تو تمام تاریخی حالات قابل شک ہو جاتے ہیں.اور پھر ایک اور دلیل اس بات پر کہ یہ معجزات واقعی طور پر بچے تھے یہ ہے کہ ایسے لوگوں پر نبی اسلام نے (صلی اللہ علیہ وسلم) نہایت سخت لعنت کی ہے کہ جو جھوٹے طور پر آپ کی طرف معجزات منسوب کریں بلکہ صاف طور پر کہا ہے کہ جو میرے پر جھوٹ بولے اس کی سزا جہنم ہے.پس یہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ ایسی سخت ممانعت کے بعد اس قدر جھوٹے معجزات بنائے جاتے." پھر وہی مولف لکھتا ہے کہ سچ تو یہ ہے کہ جس قدر معزز گواہیاں اور سندیں نئی اسلام کے لئے پیش کی جاسکتی ہیں ایک عیسائی کی قدرت نہیں کہ ایسی گواہیاں یسوع کے معجزات کے ثبوت میں عہد جدید سے پیش کر سکے.اور اس سے زیادہ یا اس سے بہتر سندیں لاسکے." غرض فاضل عیسائی نے کسی قدر انصاف سے کام لے کر یہ تحریر کیا ہے.مگر پھر بھی اسلام کے فضائل اور اس کی سچائی کے ثبوت بیان کرنے کے لئے اسی قدر نہیں ہے جو بیان کیا گیا.کیونکہ قرآن شریف نے باوجود اس کے کہ اس کے عقائد کو دل مانتے ہیں اور ہر ایک پاک کانشنس قبول کرتا ہے پھر بھی ایسے معجزات پیش نہیں کئے کہ کسی آئندہ صدی کے لئے قصوں اور کہانیوں کے رنگ میں ہو جائیں بلکہ ان عقائد پر بہت سے عقلی دلائل بھی قائم کئے اور قرآن میں وہ انواع و اقسام کی خوبیاں جمع کیں کہ وہ انسانی طاقتوں سے بڑھ کر معجزہ کی حد تک پہنچ گیا.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۹۰، ۹۱ ہاں دوسری الہامی کتابیں کہ جو متحرف و مبدل ہیں ان میں نامعقول اور محال باتوں پر جمے رہنے کی تاکید پائی جاتی ہے جیسی عیسائیوں کی انجیل شریف.مگر یہ الہام کا قصور نہیں.یہ بھی حقیقت میں عقل ناقص کا ہی قصور ہے.اگر باطل پرستوں کی عقل صحیح انجیل میں نا معقول اور ہوتی اور حواس درست ہوتے تو وہ کا ہے کو ایسی محترف اور مبدل کتابوں کی پیروی کرتے حمل باتوں پر تے رہنے ہے.جمے اور کیوں غیر متغیر اور کامل اور قدیم خدا پر یہ آفات اور مصیبتیں جائز رکھتے کہ گویا وہ ایک کی تائید پائی جاتی عاجز بچہ ہو کر نا پاک غذا کھاتا رہا.اور ناپاک جسم سے مجسم ہوا اور نا پاک راہ سے نکلا.اور دار الفنامیں آیا.اور طرح طرح کے دکھ اٹھا کر آخر بڑی بد بختی اور بد نصیبی اور نا کامی کی حالت میں ایلی ایلی کرتا مر گیا.آخر الہام ہی تھا جس نے اس غلطی کو بھی دور کیا

Page 380

۳۶۲ سبحان اللہ کیا بزرگ اور دریائے رحمت وہ کلام ہے جس نے مخلوق پرستوں کو پھر توحید کی طرف کھینچا.واہ کیا پیارا اور دلکش وہ نور ہے کہ جو ایک عالم کو ظلمت کدہ سے باہر لایا.اور بجز اس کے ہزار ہا عظمند کہلا کر اور فلاسفر بن کر اس غلطی اور اس قسم کی بے شمار غلطیوں میں ڈوبے رہے.اور جب تک قرآن شریف نہ آیا کسی حکیم نے زور ور سے اس اعتقاد باطل کا رد نہ لکھا اور نہ اس قوم تباہ شدہ کی اصلاح کی.بلکہ خود حکماء قسم کے صدہانا پاک عقیدوں میں آلودہ اور مبتلا تھے جیسا پادری یوت صاحب لکھتے ہیں کہ حقیقت میں یہ عقیدہ تثلیث کا عیسائیوں نے افلاطون سے اخذ کیا ہے اور اس احمق یونانی کی غلط بنیاد پر ایک دوسری غلط بنیاد رکھ دی ہے.غرض خدا کا سچا اور کامل الہام نل کا دشمن نہیں ہے بلکہ عقل ناقص نیم عاقلوں کی آپ دشمن ہے.براہین احمدیہ - روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۰۶، ۳۰۷ بقیه حاشیہ نمبر ۱ پادری صاحبان کا ایک بڑا محقق شملہ نام کہتا ہے کہ یوحنا کی انجیل کے سوا باقی تینوں جعلی ہیں.اور مشہور فاضل ڈاڈ ویل اپنی تحقیقات کے بعد لکھتا ہے کہ دوسری انجیلیں صدی کے وسط تک ان موجودہ چار انجیلوں کا کوئی نشان دنیا میں نہ تھا.سیمرل کہتا ہے کہ انا جیل جعلی ہونے میں کے میلی ہی موجودہ عہد نامہ یعنی انجیلیں نیک نیتی کے بہانہ سے مکاری کے ساتھ دوسری صدی کے کے بارہ میں بعض محققین کی آراء.آخر میں لکھی گئیں.ایک اور پادری ایولین نام انگلستان کا رہنے والا کہتا ہے کہ متی کی یونانی انجیل دوسری صدی مسیحی میں ایک ایسے آدمی نے لکھی تھی جو یہودی نہ تھا.اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس میں بہت سی غلطیاں اس ملک کے جغرافیہ کی بابت اور یہودیوں کی رسومات کی بابت ہیں.عیسائیوں کے محقق اس بات کے بھی مقر ہیں کہ ایک عیسائی اپنے مذہب کے رو سے انسانی سوسائٹی میں نہیں رہ سکتا اور نہ تجارت کر سکتا ہے کیونکہ انجیل میں امیر بننے اور کل کی فکر کرنے سے منع کیا گیا ہے.ایسا ہی کوئی سچا عیسائی فوج میں بھی داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ دشمن کے ساتھ محبت کرنے کا حکم ہے.ایسا ہی اگر کامل عیسائی ہے تو اس کو شادی کرنا بھی منع ہے.ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل ایک مختص الزمان اور مختص القوم قانون کی طرح تھی جس کو حضرات عیسائیوں نے عام ٹھہرا کر صدہا اعتراض اس پر وار د کرالئے.بہتر ہوتا کہ وہ کبھی اس بات کا نام نہ لیتے کہ انجیل میں کسی قسم کا کمال ہے.ان کے اس بیجا دعوے سے بہت سی خفت اور

Page 381

۳۶۳ | مسبکی ان کو اٹھانی پڑی ہے.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۹۳ ۲۴۵ اگر انجیل لفظاً ومعناً خدا تعالیٰ کا کلام ہوتا اور اس میں ایسی خوبیاں پائی جاتیں جن کا انسان کے کلام میں پائے جاتا ممتنع اور محال ہے.تب وہ بلاشبہ بے نظیر ٹھہرتی.مگر وہ خوبیاں تو انجیل میں سے اسی زمانہ میں رخصت ہو گئیں جب حضرات عیسائیوں نے نفسانیت سے اس میں تصرف کرنا شروع کیا.نہ وہ الفاظ رہے نہ وہ معانی رہے نہ وہ اناجیل محرف و مبدل حکمت نہ وہ معرفت.سواب اے حضرات آپ لوگ ذرا ہوش سنبھال کر جواب دیں کہ ہیں.جب ایک طرف تکمیل ایمان بے مثل کتاب پر موقوف ہے.اور دوسری طرف آر لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ قرآن شریف کو مانیں اور نہ ایسی کوئی دوسری کتاب نکل کر دکھلاو میں جو بے مثل ہو.تو پھر آپ لوگ کمال ایمان ویقین کے درجہ تک کیو نکر پہنچ سکتے ہیں اور کیوں بے فکر بیٹھے ہیں.کیا کسی اور کتاب کے نازل ہونے کی انتظار ہے.یابر ہمو جی بننے کا ارادہ ہے.اور ایمان اور خدا کی کچھ پرواہ نہیں.اب دیکھئے کہ قرآن شریف کی بے نظیری کے انکار نے آپ کو کہاں سے کہاں تک پہنچایا.اور ابھی ٹھہریئے اس پر ختم نہیں آپ کے اس اعتقاد سے تو خدا کی ہستی کی بھی خیر نظر نہیں آتی.کیونکہ جیسا ہم پہلے لکھ چکے ہیں.بڑا بھاری نشان خدا کی ہستی کا یہی ہے کہ جو کچھ اس کی طرف سے ہے وہ ایسی حالت بے نظیری پر واقعہ ہے کہ اس صانع بے مثل پر دلالت کر رہا ہے.اب جب کہ وہ بے نظیری انجیل میں ثابت نہ ہوئی اور قرآن شریف کو آپ لوگوں نے قبول نہ کیا تو اس صورت میں آپ لوگوں کو یہ مانا پڑا کہ جو کچھ خدا کی طرف سے ہے اس کا بے نظیر ہونا ضروری نہیں.اور اس اعتقاد سے آپ لوگوں کو یہ لازم آیا کہ یہ اقرار کریں کہ جو چیزیں خدا کی طرف سے صادر ہیں ان کے بنانے میں کوئی دوسرا بھی قادر ہے.تو اس قول کے بموجب معرفت صانع عالم پر کوئی نشان نہ رہا.گویا آپ کے مذہب کا یہ خلاصہ ہوا کہ خدائے تعالی کی ہستی پر کوئی عقلی دلیل قائم نہیں ہو سکتی.تو اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ کیا آپ کے دہریہ بنے میں کچھ کسر رہ گئی.کیا آپ لوگوں میں ایسی کوئی بھی روح نہیں کہ جو اس بار یک دقیقہ کو سمجھے کہ قرآن سے انکار کرنا حقیقت میں رحمان پر حملہ ہے.جس کتاب کے رو سے اس کی صفات کا بے مثل ہونا ثابت ہوتا ہے.اس کے وجود کا پتہ لگتا

Page 382

۳۶۴ ہے اس کا منزہ اور مقدس ہونا مانا جاتا ہے.اس کی واحدانیت پھیلتی ہے.اس کی گم گشت تو حید قائم ہوتی ہے.اسی کتاب سے آپ لوگ مونہہ پھیرتے ہیں.بدقسمتی ہے یا نہیں؟ براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۳۶ تا ۴۴۵ بقیه حاشیه در حاشیہ نمبر ۳ جب اصل انجیل ہی ان کے ہاتھ میں نہیں ہے تو کیوں یہ امر قرین قیاس نہ مانا جائے کہ اس میں تحریف کی گئی ہے.کیونکہ مسیح اور اس کی ماں کی زبان عبرانی تھی.جس ملک جب انجیل ہی ان کے ہاتھ میں نہیں ہے تو میں رہتے تھے وہاں عبرانی بولی جاتی تھی.صلیب کی آخری ساعت میں مسیح کے منہ سے کیوں یہ امرقرین قیاس جو کچھ نکلا وہ عبرانی تھا.یعنی ایلی ایلی لما سبقتانی.اب بتاؤ کہ جب اصل انجیل ہی کا پتہ نہ مانا جائے کہ اس میں ندارد ہے تو اس ترجمہ پر کیا دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہے اصل انجیل پیش تحریف کی گئی ہے.کرو.اس صورت میں تو عیسائی یہودیوں سے بھی گر گئے.کیونکہ انہوں نے اپنی اصلی کتاب کو تو گم نہیں کیا.پھر انجیل میں مسیح نے کہا ہے کہ ”میری انجیل “ اب اس لفظ پر غور کرنے سے بھی میری انجیل! صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسودہ انجیل کا کوئی مسیح نے بھی لکھا ہو اور یہ تو نبی کا فرض ہوتا ہے کہ وہ خدا کی وحی کو محفوظ کرے اور اس کی حفاظت کا کام دوسروں پر نہ ڈالے کہ ١٢٢ وہ جو چاہیں سو لکھ لیں.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۴۱ ان کی انجیلیں اس وجہ سے بھی قابل اعتبار نہیں کہ ان میں جھوٹ سے بہت کام لیا گیا ہے.جیسا کہ لکھا ہے کہ یسوع نے اتنے کام کئے ہیں کہ اگر وہ لکھتے جاتے تو وہ کتابیں اپا جیل میں جھوٹ سے دنیا میں نہ سما سکتیں.پس سوچو کہ یہ کس قدر جھوٹ ہے کہ جو کام تین برس کے زمانہ بہت کام کیا گیا ہے.میں سما گئے اور مدت قلیلہ میں محدود ہو گئے کیا وجہ کہ وہ کتابوں میں سملنہ سکتے.پھر ان ہی انجیلوں میں یسوع کا قول لکھتا ہے کہ ” مجھے سر رکھنے کی جگہ نہیں." حالانکہ ان ہی کتابوں سے ثابت ہے کہ یسوع کی ماں کا ایک گھر تھا جس میں وہ رہتا تھا.اور سر رکھنے کے کیا معنے.گزارہ کے موافق اس کے لئے مکان موجود تھا.اور پھر انجیلوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ یسوع ایک مالدار آدمی تھا ہر وقت روپیہ کی تھیلی ساتھ رہتی تھی.جس

Page 383

۳۶۵ te میں قیاس کیا جاتا ہے کہ دو دو تین تین ہزار روپیہ تک یسوع کے پاس جمع رہتا تھا.اور یسوع کے اس خزانہ کا یہودا اسکر یوطی خزانچی تھا.وہ نالائق اس روپیہ میں سے کچھ چورا بھی لیا کرتا تھا.اور انجیلوں سے یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ یسوع نے اس روپیہ میں سے کبھی کچھ للہ بھی دیا تھا.پس کیا وجہ کہ باوجود اس قدر روپیہ کے جس سے ایک امیرانہ مکان بن سکتا تھا پھر یسوع کہتا تھا کہ ” مجھے سر رکھنے کی جگہ نہیں.پھر تیسرا جھوٹ انجیلوں میں یہ ہے کہ مثلاً اپنی کتاب کے تیسرے باب میں لکھتا ہے کہ گویا پہلی کتابوں میں یہ لکھا ہوا تھا کہ وہ یعنی یسوع ناصری کہلائے گا حلانکہ نبیوں کی کتابوں میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں.پھر چو تھا جھوٹ یہ ہے کہ وہ ایک پیش گوئی کو خواہ نخواہ یسوع پر جمانے کے لئے ناصرہ کے معنے شاخ کرتا ہے.حالانکہ عبرانی میں ناصرہ سر سبز اور خوش منظر مکان کو کہتے ہیں نہ کہ شاخ کو.اسی لفظ کو عربی میں ناضرہ کہتے ہیں.ایسے ہی اور بہت جھوٹ ہیں جو خدا کی کلام میں ہر گز نہیں ہو سکتے.کہ یہ ایک ایسا امر تھا جو عیسائیوں کے لئے غور کرنے کے لائق تھا.کیا ایسی کتابیں قابل اعتماد ہیں جن میں اس قدر جھوٹ ہیں ؟ !! کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۷۵ ۷۶ ۲۴۸ انجیلوں میں صرف اسی قسم کے جھوٹ جو یسوع کے اس حصہ عمر کے متعلق ہیں جن میں اس نے اپنے تئیں ظاہر کیا.بلکہ یسوع کی پہلی زندگی کی نسبت بھی انجیلوں کے لکھنے والوں نے عمداً جھوٹھ بولا ہے.اور اس کے ان واقعات کو ظاہر کرنا انہوں اپیل میں یسوع کی نے مصلحت نہیں سمجھا جو اس کی اس زندگی کے متعلق ہیں جو اس کے دعوے سے پہلے بعثت سے پہلے کی گذر چکی تھی.حالانکہ ایسا شخص جس نے خدائی کا دعوی کیا تھا اس کی اس عمر کا وہ پہلا اور جھوٹ ہے." بڑا حصہ بھی بیان کرنے کے لائق تھا جس میں قریبا کل عمر اس کی کھپ چکی تھی اور صرف بقول عیسائیان تین برس اس کی عمر سے باقی رہ گئے تھے تا دیکھا جاتا کہ اس تھیں برس کی عمر میں کس طرح کے چال چلن سے اس نے زندگی بسر کی اور کس طور سے خدا کا ی نوٹ:.متی نے اپنی انجیل کے باب پانچ میں ایک نہایت مکروہ جھوٹ بولا ہے.یعنی یہ کہ گویا پہلی کتابوں میں یہ حکم لکھا ہوا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت کر اور اپنے دشمن سے نفرت.حلانکہ یہ حکم کسی پہلی کتاب میں موجود نہیں.اور پھر دوسرا جھوٹ یہ کہ اس قول کو یسوع کی طرف نسبت کیا ہے.منہ زندگی کے بارہ میں

Page 384

۳۶۶ E معاملہ اس سے رہا اور کس کس قسم کے عجائبات اس سے ظہور میں آئے.مگر افسوس کہ انجیل نویسوں نے اس حصہ کا نام بھی نہ لیا.ہاں لوقا باب اول میں اس قدر کہ ر لکھا ہے کہ فرشتہ نے مریم پر ظاہر ہو کر اس کو بیٹے کی خوشخبری دی اور کہا کہ اس کا نام عیسی رکھنا ئین یہ قصہ لوقا کی خود تراشیدہ بات معلوم ہوتی ہے.کیونکہ اگر یہ قصہ صحیح ہو تاتو پھر مریم اس کی ماں جس کو فرشتہ نظر آیا تھا اور اس کے بھائی جو اس فرشتہ سے خوب اطلاع رکھتے تھے کیوں اس پر ایمان نہ لائے.اور یہ انکار اس حد تک کیوں پہنچ گیا کہ یسوع نے خود اپنے بھائیوں کے بھائی ہونے سے انکار کیا.اور ماں سے بھی انکار کیا.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۸۹، ۹۰ ایک اور اعتراض متی وغیرہ انجیلوں پر ہے اور وہ یہ ہے کہ ان تحریرات کا الہامی ہونا ہر گز ثابت نہیں.کیونکہ ان کے لکھنے والوں نے کسی جگہ یہ دعوی نہیں کیا کہ یہ کتابیں الہام سے لکھی گئی ہیں.بلکہ بعض نے ان میں سے صاف اقرار بھی کر دیا ہے اپیل کا الہی ہوا کہ یہ کتابیں محض انسانی تالیف ہیں.سچ ہے کہ قرآن شریف میں انجیل کے نام پر ایک علامت نہیں.کتاب حضرت عیسی پر نازل ہونے کی تصدیق ہے.مگر قرآن شریف میں ہر گز یہ نہیں ہے کہ کوئی الہام متی یا یو ناو غیرہ کو بھی ہوا ہے.اور وہ الہام انجیل کہلاتا ہے.اس لئے مسلمان لوگ کسی طرح ان کتابوں کو خدا تعالیٰ کی کتابیں تسلیم نہیں کر سکتے.ان ہی انجیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح خدا تعالیٰ سے الہام پاتے تھے اور اپنے الہامات کا نام انجیل رکھتے تھے.پس عیسائیوں پر لازم ہے کہ وہ انجیل پیش کریں.تعجب کہ یہ لوگ اس کا نام بھی نہیں لیتے.پس وجہ یہی ہے کہ اس کو یہ لوگ کھو بیٹھے ہیں.كتاب البریہ - روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۷۶ السلام ان میں جس قدر مجموعات لکھے گئے ہیں جن سے خواہ نخواہ حضرت عیسی علیہ ال کی خدائی ثابت کی جاتی ہے وہ معجزات ہر گز ثابت نہیں ہیں.کیونکہ انجیل نویسوں کی نبوت جو مدار ثبوت تھی ثابت نہیں ہو سکی اور نہ انہوں نے نبوت کا دعوی کیا اور نہ کوئی انجیل نویسوں میں معجزہ دکھلایا.باقی رہا یہ کہ انہوں نے بحیثیت ایک وقائع نویس کے مجربات کو لکھا ہو.سو وقائع نویسی کی شرائط وقائع نویسی کے شرائط بھی ان میں متحقق نہیں کیونکہ وقائع نویس کے لئے ضروری ہے مفقود ہیں.

Page 385

کہ وہ دروغ گو نہ ہو.اور دوسرے یہ کہ اس کے حافظہ میں خلل نہ ہو.اور تیسرے یہ کہ وہ عمیق الفکر ہو اور سطحی خیال کا آدمی نہ ہو.اور جو تھے یہ کہ وہ محقق ہو اور سطحی باتوں پر کفایت کرنے والا نہ ہو.اور پانچویں یہ کہ جو کچھ لکھتے چشم دید لکھنے محض رطب یا بس کو پیش کرنے والا نہ ہو.مگر انجیل نویسوں میں ان شرطوں میں سے کوئی شرط موجود نہ تھی یہ ثابت شدہ امر ہے کہ انہوں نے اپنی انجیلوں میں عمداً جھوٹ بولا ہے.چنانچہ ناصرہ کے معنے الٹے گئے.اور عمانوایل کی پیش گوئی کو خواہ نخواہ مسیح پر جمایا انجیل میں لکھا کہ اگر یسوع کے تمام کام لکھتے جاتے تو وہ کتابیں دنیا میں سمانہ سکتیں.اور حافظہ کا یہ حال ہے کہ پہلی کتابوں کے بعض حوالوں میں غلطی کھائی اور بہت سی بے اصل باتوں کو لکھ کر ثابت کیا کہ ان کو عقل اور فکر اور تحقیق سے کام لینے کی عادت نہ تھی بلکہ بعض جگہ ان انجیلوں میں نہایت قابل شرم جھوٹ ہے.جیسا کہ متی باپ ۵ میں یسوع کا یہ قول کہ " تم سن چکے ہو کہ اپنے پڑوسی سے محبت کر اور اپنے دشمن سے نفرت کر حلانکہ پہلی کتابوں میں یہ عبارت موجود نہیں.ایسا ہی ان کا یہ لکھنا که تمام مردے بیت المقدس کی قبروں سے نکل کر شہر میں آگئے تھے.یہ کس قدر بیہودہ بات ہے.اور کسی معجزہ کے لکھنے کے وقت کسی انجیل نویس نے یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ اس کا چشم دید ماجرا ہے.پس ثابت ہوتا ہے کہ وقائع نویسی کے شرائط ان میں موجود نہ تھے.اور ان کا بیان ہر گز اس لائق نہیں کہ کچھ بھی اس کا اعتبار کیا جائے.اور باوجود اس بے اعتباری کے جس بات کی طرف وہ بلاتے ہیں وہ نہایت ذلیل خیال اور قابل شرم عقیدہ ہے.کیا یہ بات عند العقل قبول کرنے کے لائق ہے کہ ایک عاجز مخلوق جو تمام لوازم انسانیت کے اپنے اندر رکھتا ہے خدا کہلاوے ؟ کیا عقل اس بات کو مان سکتی ہے کہ مخلوق اپنے خالق کو کوڑے مارے اور خدا کے بندے اپنے قادر خدا کے منہ پر تھو میں اور اس کو پکڑیں اور اس کو سولی دیں اور وہ خدا ہو کر ان کے مقابلہ سے عاجز ہو ؟ کیا یہ بات کسی کو سمجھ آسکتی ہے کہ ایک شخص خدا کہلا کر تمام رات دعا کرے اور پھر اس کی دعا قبول نہ ہو ؟ کیا کوئی دل اس بات پر اطمینان پکڑ سکتا ہے کہ خدا بھی عاجز بچوں کی طرح نو مہینے تک پیٹ میں رہے اور خون حیض کھاوے اور آخر چیختا ہوا عورتوں کی شرم گاہ سے پیدا ہو ؟ کیا کوئی اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ خدا بیشمار اور بے ابتد از مانہ کے بعد مجسم ہو جائے اور ایک ٹکڑہ اس کا انسان کی صورت بنے اور دوسرا کبوتر کی اور یہ جسم ہمیشہ

Page 386

۲۵۱ شہادتیں.کے لئے ان کے گلے کا ہار ہو جائے.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۸۵ تا ۸۷ افسوس کہ بعض پادری صاحبان نے اپنی تصنیفات میں حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت اس واقعہ کی تفسیر میں کہ جب ان کو ایک پہاڑی پر شیطان لے گیا.اس قدر جرات اناجیل ال جیل کے غیر معقد کی ہے کہ وہ لکھتے ہیں.یہ کوئی خارجی بات نہ تھی جس کو دنیا دیکھتی اور جس کو یہودی بھی مشاہدہ کرتے.بلکہ یہ تین مرتبہ شیطانی الہام حضرت مسیح کو ہوا تھا.جس کو انہوں نے قبول نہ کیا.مگر انجیل کی ایسی تفسیر سننے سے ہمارا تو بدن کانپتا ہے کہ مسیح اور پھر شیطانی الہام.ہاں اگر اس شیطانی گفتگو کو شیطانی الہام نہ مانیں اور یہ خیال کریں کہ در حقیقت شیطان نے مجسم ہو کر حضرت عیسی علیہ السلام سے ملاقات کی تھی تو یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اگر شیطان نے جو پرانا سانپ ہے فی الحقیقت اپنے تئیں جسمانی صورت میں ظاہر کیا تھا.اور وجود خارجی کے ساتھ آدمی بن کر یہودیوں کے ایسے متبرک معبد کے پاس اگر کھڑا ہو گیا تھا جس کے ارد گرد صدہا آدمی رہتے تھے.تو ضرور تھا کہ اس کے دیکھنے کے لئے ہزاروں آدمی جمع ہو جاتے.بلکہ چاہئے تھا کہ حضرت مسیح آواز مار کر یہودیوں کو شیطان دکھلا دیتے.جس کے وجود کے کئی فرقے منکر تھے.اور شیطان کا دکھلا دینا حضرت مسیح کا ایک نشان ٹھہرتا.جس سے بہت آدمی ہدایت پاتے اور رومی سلطنت کے معزز عہدہ دار شیطان کو دیکھ کر اور پھر اس کو پرواز کرتے ہوئے مشاہدہ کر کے ضرور حضرت مسیح کے پیرو ہو جاتے مگر ایسانہ ہوا.اس سے یقین ہوتا ہے کہ یہ کوئی روحانی مکالمہ تھا جس کو دوسرے لفظوں میں شیطانی الہام کہہ سکتے ہیں مگر میرے خیال میں یہ بھی آتا ہے کہ یہودیوں کی کتابوں میں بہت سے شریر انسانوں کا نام بھی شیطان رکھا گیا ہے.چنانچہ اسی محاورہ کے لحاظ سے مسیح نے بھی ایک اپنے بزرگ حواری کہ جس کو انجیل میں اس واقعہ کی تحریر سے چند سطری پہلے بہشت کی کنجیاں دی گئی تھیں.شیطان کہا ہے.پس یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ کوئی یہودی شیطان اور ٹھٹھے اور ہنسی کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے پاس آیا ہو گا.اور آپ نے جیسا کہ بیطرس کا نام شیطان رکھا.اس کو بھی شیطان کہہ دیا ہو گا.اور یہودیوں میں اس قسم کی شرارتیں بھی تھیں.اور ایسے سوال کرنا یہودیوں کا خاصہ ہے.اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ سب قصہ

Page 387

۳۶۹ | ہی جھوٹ ہو جو عمداً یا دھوکہ کھانے سے لکھ دیا ہو.کیونکہ یہ انجیلیں حضرت مسیح کی انجیلیں نہیں ہیں اور نہ ان کی تصدیق شدہ ہیں.بلکہ حواریوں نے یا کسی اور نے اپنے خیال اور عقل کے موافق لکھا ہے.اسی وجہ سے ان میں باہمی اختلاف بھی ہذا کہہ سکتے ہیں کہ ان خیالات میں بعض لکھنے والوں سے غلطی ہو گئی.جیسا کہ یہ غلطی ہوئی کہ انجیل نویسوں میں سے بعض نے گمان کیا کہ گویا حضرت مسیح صلیب پر فوت ہو گئے ہیں.ایسی غلطیاں حواریوں کی سرشت میں تھیں.کیونکہ انجیل ہمیں خبر دیتی ہے کہ ان کی عقل باریک نہ تھی.ان کے حالات ناقصہ کی خود حضرت مسیح گواہی دیتے ہیں کہ وہ فہم اور درائت اور عملی قوت میں بھی کمزور تھے.بہر حال یہ سچ ہے کہ پاکوں کے دل میں شیطانی خیال مستحکم نہیں ہو سکتا.اور اگر کوئی تیرتا ہوا سر سری وسوسہ ان کے دل کے نزدیک آبھی جائے تو جلد تروہ شیطانی خیال دور اور دفع کیا جاتا ہے اور ان که کے دامن پر کوئی داغ نہیں لگتا.قرآن شریف میں اس قسم کے وسوسہ کو جو ایک کم رنگ اور ناپختہ خیال سے مشابہ ہوتا ہے طائف کے نام سے موسوم کیا ہے.لغت عرب میں اس کا نام طائف اور طوف اور طیف اور طیف ہے.اور اس وسوسہ کا دل سے نہایت ہی کم تعلق ہوتا ہے گویا نہیں ہوتا.یا یوں کہو کہ جیسا کہ دور سے کسی درخت کا سایہ بہت ہی خفیف سا پڑتا ہے.ایسا ہی یہ وسوسہ ہوتا ہے.اور ممکن ہے کہ شیطان لعین نے حضرت مسیح علیہ السّلام کے دل میں اس قسم کے خفیف وسوسہ کے ڈالنے کا ارادہ کیا ہو.اور انہوں نے قوت نبوت سے اس وسوسہ کو دفع کر دیا ہو.اور ہمیں یہ کہنا اس مجبوری سے پڑا ہے کہ یہ قصہ صرف انجیلوں میں ہی نہیں ہے.بلکہ ہماری احادیث صحیحہ میں بھی ہے.چنانچہ لکھا ہے.عن محمد بن عمر ان الصيد فى قال حدثنا الحسن بن عليل العنزي عن العباس بن الواحد عن محمد بن عمر د - عن محمد بن مناذر - عن سفيان بن عيينة عن عمرو بن دينار عن طاؤس عن البى هريرة قال جاء الشيطن الى عيسى - قال الست تزعم انك صادق قال بلى قال فاوق على هذه الشاهقة فالق نفسك منها - فقال وملك الم يقل الله يا ابن ادم لا تبانی بهلاكك فاتي افعل ما انشاء یعنی محمد بن عمران صیرفی سے روایت ہے اور انہوں نے حسن بن علیل عنزی سے

Page 388

w روائیت کی اور حسن نے عباس سے اور عباس نے محمد بن عمرو سے اور محمد بن عمرو نے محمد بن مناذر سے.اور محمد بن مناذر نے سفیان بن عینیہ سے اور سفیان نے عمرو بن دینار سے اور عمرو بن دینار نے طاؤس سے اور طاؤس نے ابو ہریرہ سے کہا کہ شیطان عیسی کے پاس آیا اور کہا کہ کیا تو گمان نہیں کرتا کہ تو سچا ہے.اس نے کہا کہ کیوں نہیں.شیطان نے کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو اس پہاڑ پر چڑھ جا اور پھر اس پر سے اپنے تئیں نیچے گرا دے.حضرت عیسی نے کہا تجھ پر واویلا ہو کیا تو نہیں جانتا کہ خدا نے فرمایا ہے کہ اپنی موت کے ساتھ میرا امتحان نہ کر کہ میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں.اب ظاہر ہے شیطان ایسی طرز سے آیا ہو گا جیسا کہ جبرائیل پیغمبروں کے پاس آتا ہے.کیونا جبرائیل ایسا تو نہیں آتا جیسا کہ انسان کسی گاڑی میں بیٹھ کر یا کسی کرایہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر اور پگڑی باندھ کر اور چادر اوڑھ کر آتا ہے.بلکہ اس کا آنا عالم ثانی کے رنگ میں ہوتا ہے.پھر شیطان جو کم تر اور ذلیل تر ہے.کیونکر انسانی طور پر کھلے کھلے آسکتا ہے.اس تحقیق سے بہر حال اس بات کو ماننا پڑتا ہے جو ڈر پیپر نے بیان کی ہے.لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السّلام نے قومت نبوت اور نور حقیقت کے ساتھ شیطانی القا کو ہر گز ہرگز نزدیک آنے نہیں دیا.اور اس کے ذب اور دفع میں فوراً مشغول ہو گئے.اور جس طرح نور کے مقابل پر ظلمت ظلمت ٹھہر نہیں سکتی.اسی طرح شیطان ان کے مقابل پر ٹھہر نہیں سکا اور بھاگ گیا.یہی ان عِبَادِيَ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَان کے صحیح معنے ہیں.کیونکہ شیطان کا سلطان یعنی تسلط در حقیقت ان پر ہے جو شیطانی وسوسہ اور الہام کو قبول کر لیتے ہیں.لیکن جو لوگ دور سے نور کے تیر سے شیطان کو مجروح کرتے ہیں اور اس کے منہ پر زجر اور توبیخ کا جو نہ مارتے ہیں اور اپنے منہ سے وہ کچھ بلکے جائے اس کی پیروی نہیں کرتے وہ شیطانی تسلط سے مستثنیٰ ہیں.مگر چونکہ ان کو خدا تعالیٰ ملکوت السماوات و الارض دکھانا چاہتا ہے اور شیطان ملکوت الارض میں سے ہے.اس لئے ضروری ہے کہ وہ مخلوقات کے مشاہدہ کا دائرہ پورا کرنے کے لئے اس عجیب الخلقت وجود کا چہرہ دیکھ لیں اور کلام سن لیں جس کا نام شیطان ہے.اس سے ان کے دامن تنزہ اور عصمت کو کوئی داغ نہیں لگتا.حضرت مسیح سے شیطان نے اپنے قدیم طریقہ وسوسہ اندازی کے طرز پر شرارت سے ایک درخواست کی تھی.سو ان کی پاک طبیعت نے فی الفور اس کو رو

Page 389

کیا.اور قبول نہ کیا.اس میں ان کی کوئی کسر شان نہیں.کیا بادشاہوں کے حضور میں کبھی بد معاش کلام نہیں کرتے.سو ایسا ہی روحانی طور سے شیطان نے یسوع کے دل اپنا کلام ڈالا.یسوع نے اس شیطانی الہام کو قبول نہ کیا.بلکہ رد کیا.سو یہ تو قابل تعریف بات ہوئی.اس سے کوئی نکتہ چینی کرنا حماقت اور روحانی فلاسفی کی بے خبری ہے.لیکن جیسا کہ یسوع نے اپنے نور کے تازیانہ سے شیطانی خیال کو دفع کیا.اور اس کے الہام کی پلیدی فی الفور ظاہر کر دی.ہر ایک زاہد اور صوفی کا یہ کام نہیں.ضرورة الامام - روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۸۴ تا ۴۸۷ ۲۵۲ عیسائی مذہب بھی عجیب مذہب ہے کہ ہر ایک بات میں غلطی اور ہر ایک امر میں لغزش ہے اور پھر باوجود ان تمام تاریکیوں کے آئندہ زمانہ کے لئے وحی اور الہام پر مہر لگ گئی ہے.اور اب ان تمام اناجیل کی غلطیوں کا فیصلہ حسب اعتقاد عیسائیوں کی وحی جدید کی انجیل غلطیاں.(اندرونی رو سے تو غیر ممکن ہے کیونکہ ان کے عقیدہ کے موافق اب وحی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے.اب تمام مدار صرف اپنی اپنی رائے پر ہے جو جہالت اور تاریکی سے مبرا نہیں.اور ان کی انجیلیں اس قدر بیہودگیوں کا مجموعہ ہیں جو ان کا شمار کرنا غیر ممکن مثلاً ایک عاجز انسان کو خدا بناتا اور دوسروں کے گناہوں کی سزا میں اس کے لئے صلیب تجویز کرنا اور تین دن تک اس کو دوزخ میں بھیجنا.اور پھر ایک طرف خدا بناتا اور ایک طرف کمزوری اور دروغ گوئی کی عادت کو اس کی طرف منسوب کرنا.چنانچہ انجیلوں میں بہت سے ایسے کلمات پائے جاتے ہیں جن سے نعوذ باللہ حضرت مسیح کا دروغ گو ہونا ثابت ہوتا ہے.مثلا وہ ایک چور کو وعدہ دیتے ہیں کہ آج بہشت میں تو میرے ساتھ روزہ کھولے گا.اور ایک طرف وہ خلاف وعدہ اسی دن دوزخ میں جاتے ہیں اور تین دن دوزخ میں ہی رہتے ہیں.ایسا ہی انجیلوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ شیطان آزمائش کے لئے مسیح کو کئی جگہ لئے پھرا.یہ عجیب بات ہے کہ مسیح خدا بن کر بھی شیطان کی آزمائش سے بچ نہ سکا اور شیطان کو خدا کی آزمائش کی جرات ہو گئی.یہ انجیل کا فلسفہ تمام دنیا سے نرالا ہے.اگر شیطان دراصل مسیح کے پاس آیا تھا تو مسیح کے لئے بڑا عمدہ موقعہ تھا کہ یہودیوں کو شیطان دکھلا دیتا کیونکہ یہودی حضرت مسیح کی نبوت کے سخت انکاری تھے.وجہ یہ کہ ملا کی نبی کی کتاب میں نیچے مسیح کی یہ علامت لکھی شہادتیں) میں

Page 390

تھی کہ اس سے پہلے الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا.پس چونکہ الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہ آیا اس لئے یہودی اب تک حضرت عیسی کو مفتری اور مکار کہتے ہیں.یہ یہودیوں کی ایسی حجت ہے کہ عیسائیوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں.اور شیطان کا مسیح کے پاس آنا یہ بھی یہودیوں کے نزدیک مجنونانہ خیال ہے.اکثر مجانین ایسی ایسی خواہیں دیکھا کرتے ہیں.یہ مرض کابوس کی ایک قسم ہے.اس جگہ ایک محقق انگریز نے یہ تاویل کی ہے کہ شیطان کے آنے سے مراد یہ ہے کہ مسیح کو تین دفعہ شیطانی الہام ہوا تھا.مگر مسیح شیطانی الہام سے متاثر نہیں ہوا.ایک شیطانی الہاموں میں سے یہ تھا کہ مسیح کے دل میں شیطان کی طرف سے یہ ڈالا گیا کہ وہ خدا کو چھوڑ دے اور محض شیطان کے تابع ہو جائے مگر تعجب کہ شیطان خدا کے بیٹے پر مسلط ہوا.اور دنیا کی طرف اس کو رجوع دیا.حالانکہ وہ خدا کا بیٹا کہلاتا ہے پھر خدا ہونے کے بر خلاف وہ مرتا ہے.کیا خدا بھی مرا کرتا ہے ؟ اور اگر محض انسان مرا ہے تو پھر کیوں یہ دعوی ہے کہ ابن اللہ نے انسانوں کے لئے جان دہی.اور پھر وہ ابن اللہ کہلا کر قیامت کے وقت سے بھی بے خبر ہے جیسا کہ می کا اقرار انجیل میں موجود ہے کہ وہ باوجود ابن اللہ ہونے کے نہیں جانتا کہ قیامت کب آئیگی.باوجود خدا کہلانے کے قیامت کے علم سے بے خبر ہونا کس قدر بیہودہ بات ہے بلکہ قیامت تو دور ہے اس کو تو یہ خبر بھی نہ تھی کہ جس درخت انجیر کی طرف چلا اس پر کوئی پھل نہیں.اب ہم اصل امر کی طرف رجوع کر کے مختصر طور پر بیان کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ایک وحی اگر کسی گذشتہ قصہ یا کتاب میں آجائے یا پوری مطابق نہ ہو یا فرض کرو کہ وہ قصہ یا وہ کتاب لوگوں کی نظر میں ایک فرضی کتاب یا فرضی قصہ ہے تو اس سے خدا تعالیٰ کی وجی پر کوئی حملہ نہیں ہو سکتا.جن کتابوں کا نام عیسائی لوگ تاریخی کتابیں رکھتے یا آسمانی وحی کہتے ہیں یہ تمام بے بنیاد باتیں ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں.اور کوئی کہتا.ان کی شکوک و شبہات کے گند سے خالی نہیں.اور جن کتابوں کو وہ جعلی اور فرضی کہتے ہیں ممکن ہے کہ وہ جعلی نہ ہوں اور جن کتابوں کو وہ صحیح مانتے ہیں ممکن ہے وہ جعلی ہوں خدا تعالیٰ کی کتاب ان کی مطابقت یا مخالفت کی محتاج نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی سچی کتاب کا یہ معیار نہیں ہے کہ ایسی کتابوں کی مطابقت یا مخالفت دیکھی جائے.عیسائیوں کی کسی کتاب کو جعلی کہنا ایسا امر نہیں ہے کہ جو جوڈیشنل تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے.اور نہ ۳۷۲

Page 391

ان کا کسی کتاب کو صحیح کہنا کسی باضابطہ ثبوت پر مبنی ہے.نری انگلیں اور خیالات ہیں لہذا ان کے یہ بیہودہ خیالات خدا کی کتاب کے معیار نہیں ہو سکتے بلکہ معیار یہ ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کتاب خدا کے قانون قدرت اور قوی معجرات سے اپنا منجانب اللہ ہونا ثابت کرتی ہے یا نہیں.ہمارے سیتید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین ہزار سے زیادہ معجزات ہوئے اور پیش گوئیوں کاتو شمار نہیں.مگر ہمیں ضرورت نہیں کہ ان کا گذشته معجزات کو پیش کریں.بلکہ ایک عظیم الشان معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی وچی منقطع ہو گئی اور منجزات نابود ہو گئے اور ان کی امتت خالی اور تہی دست ہے.صرف رف قصے ان لوگوں کے ہاتھ میں رہ گئے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی منقطع نہیں ہوئی اور نہ مجربات منقطع ہوئے بلکہ ہمیشہ بذریعہ کاملین امت جو شرف اتباع سے مشرف ہیں ظہور میں آتے ہیں.اسی وجہ سے مذہب اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کا خدا ایک زندہ خدا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس شہادت کے پیش کرنے کے لئے یہی بندہ حضرت عزت موجود ہے.اور اب تک میرے ہاتھ پر ہزار ہانشان تصدیق رسول اللہ اور کتاب اللہ کے بارہ میں ظاہر ہو چکے ہیں.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۴۸ تا ۳۵۱ ۲۵۳ بے سروپا باتوں کا نام اور یادر ہے کہ عیسائیوں کا یہ بیان کہ انجیل نے قوانین کی باتوں کو انسانوں کی سمجھ پر چھوڑ دیا ہے جائے فخر نہیں بلکہ جائے انفعال اور ندامت ہے.کیونکہ ہر ایک امرجو قانون کلی اور قواعد مرتبہ منتظمہ کے رنگ میں بیان نہ کیا جائے وہ امر کو کیسا ہی اپنے مفہوم کے رو دین صرف ان چند سے نیک ہو بد استعمالی کے رو سے نہایت بد اور مکروہ ہو جاتا ہے.اور ہم کئی دفعہ لکھ چکے نہیں جو انجیل میں ہیں کہ انجیل میں کسی قدر اخلاقی تعلیم ہے تو سہی جو توریت اور ظالمود سے لی گئی ہے.مگر درج ہیں.بہت بے ٹھکانہ اور بے سروپا ہے.اور کاش اگر وہ کسی قانون کے نیچے منتظم ہوتی تو کیسی کار آمد ہو سکتی.مگر اب تو حکیمانہ نظر میں نہایت مکروہ چیز ہے.اور یہ سار ا نقصان قانون چھوڑنے سے ہے جو انتظام اور ترتیب قواعد کے استعمال سے مراد ہے.یہ خیال ایک سخت نادانی ہے کہ دین صرف ان چند بے سروپا باتوں کا نام ہے جو انجیل میں درج ہیں.بلکہ وہ تمام امور جو تحمیل انسانیت کے لئے ضروری ہیں دین میں داخل ہیں.جو باتیں انسان کو وحشیانہ حالت سے پھیر کر حقیقی انسانیت سکھلاتی یا عام انسانیت سے ترقی

Page 392

۳۷۴ ۲۵۴ دے کر حکیمانہ زندگی کی طرف منتقل کرتی ہیں اور یا حکیمانہ زندگی سے ترقی دے کر فنافی اللہ کی حالت تک پہنچاتی ہیں انہیں باتوں کا نام دوسرے الفاظ میں دین ہے.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۸۸، ۸۹ عیسائی جس دین کو پیش کرتے ہیں وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دین نہیں ہے.بلکہ یہ پادریوں کی اپنی طبیعت کی ایجاد ہے.بہت سی انجیلوں میں سے یہ چار سے کوئی عبرانی انجیل انجیلیں انتخاب کی گئی ہیں جن کو بعض یونانیوں نے حضرت مسیح سے بہت پیچھے بنا کر عیسائیوں کے پاس حضرت مسیح کی طرف منسوب کر دیا.اور کوئی عبرانی انجیل عیسائیوں کے پاس موجود نہیں.نہیں ہے اور ناحق افترا کے طور پر حضرت مسیح کو ایک یونانی آدمی تصور کر لیا ہے.حالانکہ حضرت مسیح کی مادری بولی عبرائی تھی.کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ کبھی حضرت مسیح نے ایک فقرہ یونانی کا بھی پڑھا تھا اور نہ حواریوں نے جو اُمتی محض تھے کسی مکتب میں یونانی سیکھی بلکہ وہ ہمیشہ ماہی گیروں کے کام کرتے رہے.اب چونکہ عیسائیوں کو یہ سخت مصیبت پیش آئی کہ کوئی عبرانی انجیل موجود نہیں صرف قریب ساٹھ انجیلی یونانی میں ہیں جو باہم متناقض ہیں.جن میں سے یہ چار چن لی گئیں جو وہ بھی باہم مخالفت رکھتی ہیں.بلکہ ہر ایک انجیل اپنی ذات میں بھی مجموعہ تناقضات ہے.ان مشکلات کے لحاظ یونانی کو اصل زبان ٹھہرایا گیا ہے.لیکن یہ اس قدر بیہودہ بات ہے کہ اس سے اندازہ ہو ان پادری صاحبوں نے کس قدر جھوٹ اور جعلسازی پر پر کمیر باندھی ہے.حضرت مسیح کے وقت میں رومی سلطنت تھی اور گور نمنٹ کی لاطینی زبان تھی.اور ت مسیح کو چونکہ گورنمنٹ سے کوئی تعلق ملازمت نہ تھا اور نہ ریاست اور جاہ طلبی کی تھی.اس لئے انہوں نے لاطینی کو بھی نہیں سیکھیا.وہ ایک مسکین اور عاجز اور طبع اور سادہ وضع انسان تھا.اس کو وہی بولی یاد تھی جو ناصرہ میں اپنی ماں سے سیکھی تھی یعنی عبرانی جو یہودیوں کی قومی بولی ہے اور اسی بولی میں توریت وغیرہ خدا کی کتابیں تھیں ہے.غرض یہ چاروں انجیلس جو یونانی سے ترجمہ ہو کر اس ملک میں پھیلائی سکتا ہے ی صلیب پر جب کہ حضرت مسیح کو موت کا سامنا معلوم ہو تا تھا اس وقت بھی عبرانی فقرہ زبان پر جاری ہوا.اور وہ یہ ہے کہ ایلی ایلی لما بتانی.منہ.

Page 393

۳۷۵ جاتی ہیں.ایک ذرہ قابل اعتبار نہیں.یہی وجہ ہے کہ ان کی پیروی میں کچھ بھی برکت نہیں.خدا کا جلال اس شخص کو ہر گز نہیں ملتا جوان انجیلوں کی پیروی کرتا ہے.بلکہ یہ انجیلیں حضرت مسیح کو بد نام کر رہی ہیں.کیونکہ ایک طرف توان انجیلوں میں بچے عیسائی کی یہ علامتیں ٹھہرائی گئی ہیں کہ وہ آسمانی نشانوں کے دکھلانے پر قادر ہو.اور دوسری طرف عیسائیوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک مردہ حالت میں پڑے ہوئے ہیں اور ایک ذرہ آسمانی برکت ان کے ساتھ نہیں اور کوئی نشان نہیں دکھلا سکتے.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۴۱ ، ۱۴۲ ۱۲۵۵ موجودہ انجیل کے اصلی نہ ہونے کے لئے ایک بڑی بھاری دلیل یہ ہے.کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر ایک نبی کو ہم اس کی قوم کی زبان میں اس کی طرف بھیجتے ہیں.اب موجودہ انجیل ظاہر ہے کہ یہود کی زبان عبرانی تھی.حالانکہ عبرانی میں اس وقت کوئی انجیل اصلی نہیں ملتی بلکہ اصل یونانی کو قرار دیا جاتا ہے جو کہ سنت اللہ کے برخلاف ہے.ملفوظات.جلد ۲ صفحہ ۳۱۹ تالاب کے اس قصہ نے جو انا جیل میں درج ہے مسیحی مجرات کی حقیقت کو اور بھی مشتبہ کر دیا ہے اور ساری رونق کو دور کر دیا ہے.اسی لئے عماد الدین جیسے عیسائیوں کو ماننا پڑا ہے کہ تالاب والا قصہ الحاقی ہے.لیکن انجیل کے ان نادان دوستوں نے اتنا خیال اطلاق قصہ الحاقی باب نہیں کیا کہ اس باب کو محض الحاقی کہہ دینے سے مسیحی معجزات کی گئی ہوئی رونق نہیں آسکتی.بلکہ انجیل کو اور بھی مشتبہ قرار دینا ہے کیونکہ پھر اس بات کا کیا جواب ہے جس انجیل میں ایک باب الحاقی ہو اور حصہ اس کا الحاقی نہ ہو.اور جب کہ نسب نامہ کو الحاقی کہنے والے بھی موجود ہیں.پھر اس تالاب جیسے چشمے اور ملکوں میں بھی پائے جاتے ہیں یورپ کے اکثر ممالک میں ایسے چشمے ہیں جہاں جاکر اکثر امراض کے مریض شفا پاتے ہیں.کشمیر میں بھی بعض چشموں کا پانی ایسا ہی ہے جن میں گندھک کا پانی اور نمک اور اور اس قسم کے اجزاء ملے ہوئے ہوتے ہیں.پس وہ معجزہ نما تالاب مسیح کے سارے منجزات پر پانی پھیرتا ہے.خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ مسیح کا اس تالاب پر جاتا اور اس کی مٹی کا آنکھوں پر لگانا اور اپنے پاس رکھنا بھی بیان کیا جاتا ہے.اور پھر

Page 394

۲۵۷ جعلی.الدین اسے الحاق مانتا ہے.لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک حصہ الحاقی مان کر پھر آسمانی کہتے ہوئے اسے شرم نہیں آ سیح کی لکھی ہوئی انجیل نہیں.حواریوں کی زبان عبرانی میں نہیں.تیسری مصیبت یہ ہے کہ الحاقی بھی ہے اور پھر آخر یہ کہ یہ تعلیم ادھوری اور ناقص اور نا معقول ہے اور اسے پیش کیا جاتا ہے کہ نجات کا اصلی ذریعہ یہی ہے.ملفوظات.جلد ۳ صفحہ ۱۷۳، ۱۷۴ اب یہ بھی یادر ہے کہ پادریوں کی مذہبی کتابوں کا ذخیرہ ایک ایسار دی ذخیرہ ہے جو نہایت قابل شرم ہے.وہ لوگ صرف اپنی ہی انکل سے بعض کتابوں کو آسمانی عیسائی کا ایک وہ اسی ٹھہراتے ہیں اور بعض کو جعلی قرار دیتے ہیں.چنانچہ ان کے نزدیک یہ چار انجیلیں اصلی کچھ سکتے ہیں نہ ہیں اور باقی جو چھپن کے قریب ہیں جعلی ہیں.مگر محض گمان اور شک کے رُو سے نہ کسی جو نہ مستحکم دلیل پر اس خیال کی بناء ہے کیونکہ مروجہ انجیلوں اور دوسری انجیلوں میں بہت تناقض ہے اس لئے اپنے گھر میں ہی یہ فیصلہ کر لیا ہے اور محققین کی یہی رائے ہے کہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ انجیل میں جعلی ہیں یا وہ جعلی ہیں.اسی لئے شاہ ایڈور ڈقیصر کے تخت نشینی کی تقریب پر لنڈن کے پادریوں نے وہ تمام کتابیں جن کو یہ لوگ جعلی تصور کرتے ہیں ان چار انجیلوں کے ساتھ ایک ہی جلد میں مجلد کر کے مبارکبادی کے طور پر بطور نذر پیش کی تھیں.اور اس مجموعہ کی ایک جلد ہمارے پاس بھی ہے.پس غور کا مقام ہے کہ اگر در حق حقیقت وہ کتابیں گندی اور جعلی اور ناپاک ہوتیں تو پھر پاک اور ناپاک دونوں کو ایک جلد میں مجلد کرنا کس قدر گناہ کی بات تھی.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ دلی اطمینان سے نہ کسی کتاب کو جعلی کہہ سکتے ہیں نہ اصلی ٹھہراسکتے ہیں.اپنی اپنی رائیں ہیں اور سخت تعصب کی وجہ سے وہ انجیلیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں.ان کو یہ لوگ جعلی قرار دیتے ہیں.چنانچہ برنباس کی انجیل جس میں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت پیش گوئی ہے وہ اسی وجہ سے جعلی قرار دی گئی ہے کہ اس میں کھلے کھلے طور پر آنحضرت کی پیش گوئی موجود ہے.چنانچہ سیل صاحب نے اپنی تفسیر میں اس قصہ کو بھی لکھا ہے کہ ایک عیسائی راہب اسی انجیل کو دیکھ کر مسلمان ہو گیا تھا.غرض یہ بات خوب یاد رکھنی چاہئے کہ یہ لوگ جس کتاب کی نسبت کہتے ہیں کہ یہ جعلی ہے یا جھوٹا قصہ ہے

Page 395

۳۷۷.ایسی باتیں صرف دو خیال سے ہوتی ہیں.(۱) ایک یہ کہ وہ قصہ یادہ کتاب اناجیل مروجہ کے مخالف ہوتی ہے.(۲) دوسرے یہ کہ وہ قصہ یا وہ کتاب قرآن شریف سے کسی قدر مطابق ہوتی ہے اور بعض شریر اور سیاہ دل انسان ایسی کوشش کرتے ہیں کہ اول ر اصول ہی مسلمہ کے طور پر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ جعلی کتابیں ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں ان کا قصہ درج ہے.اور اس طرح پر نادان لوگوں کو دہو کہ میں اگر ڈالتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اس زمانہ کے نوشتوں کا جعلی یا اصلی ثابت کرنا بجز خدا کی وحی کے اور کسی کا کام نہ تھا.پس خدا کی وحی کا جس کسی قصہ سے توار د ہوا وہ سچا ہے گو بعض نادان انسان اس کو جھوٹ قصہ قرار دیتے ہیں.اور جس واقعہ کی خدا کی وحی نے تکذیب کی وہ جھوٹا ہے اگر چہ بعض انسان اس کو سچ قرار دیتے ہوں اور قرآن شریف کی نسبت یہ گمان کرنا کہ ان مشهور قصوں یا افسانوں یا کتبوں یا اناجیل سے بنایا گیا ہے نہایت قابل شرم جہالت ہے.کیا یہ ممکن نہیں کہ خدا کی کتاب کا کسی گذشتہ مضمون سے توار د ہو جائے.چنانچہ ہندووں کے دید جو اس زمانہ میں مخفی تھے ان کی کئی سچائیاں قرآن شریف میں پائی جائی ہیں.پس کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وید بھی پڑہا تھا.اناجیل کا ذخیرہ جو چھاپہ خانہ کے ذریعہ سے اب ملا ہے عرب میں کوئی ان کو جانتا بھی نہ تھا اور عرب کے لوگ مشخص امی تھے.اور اگر اس ملک میں شاذ و نادر کے طور پر کوئی عیسائی بھی تھا وہ بھی اپنے مذہب کی کوئی وسیع واقفیت نہیں رکھتا تھا.تو پھر یہ الزام کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سرقہ کے طور پر ان کتابوں سے وہ مضمون لئے تھے ایک لعنتی خیال ہے.آنحضرت محض آتی تھے.آپ عربی بھی پڑھ نہیں سکتے تھے چہ جائیکہ یونانی یا عبرانی.یہ بار ثبوت ہمارے مخالفوں کے ذمے ہے کہ اس زمانہ کی کوئی پرانی کتاب پیش کریں جس سے مطالب اخذ کئے گئے.اگر فرض محال کے طور پر قرآن شریف میں سرقہ کے ذریعہ سے کوئی مضمون ہوتا تو عرب کے عیسائی لوگ جو اسلام کے سخت دشمن تھے فی الفور شور مچاتے کہ ہم سے سن کر ایسا مضمون لکھا ہے.کمرہ عیسائی مذہب میں دین کی حمایت کے لئے ہر ایک قسم کا افتراء کرنا اور جھوٹ جائز بلکہ موجب ثواب ہے.دیکھو پولوس کا قول.منہ

Page 396

| یادر ہے کہ دنیا میں صرف قرآن شریف ہی ایک ایسی کتاب ہے جس کی طرف سے معجزہ ہونے کا دعوی پیش ہوا.اور بڑے زور سے یہ دعوی کیا گیا کہ اس کی خبریں اور اس کے قصے غیب گوئی ہے اور آئندہ کی خبریں بھی قیامت تک اس میں درج ہیں.اور وہ اپنی فصاحت و بلاغت کے رو سے بھی معجزہ ہے.پس عیسائیوں کے لئے اس وقت یہ بات نہائت سہل تھی کہ وہ بعض قصے نکال کر پیش کرتے کہ ان کتابوں سے قرآن شریف نے چوری کی ہے.اس صورت میں اسلام کا تمام کاروبار سرد ہو جاتا.مگر اب تو بعد از مرگ واویلا ہے.عقل ہر گز ہر گز قبول نہیں کر سکتی کہ عرب کے عیسائیوں کے پاس در حقیقت ایسی کتابیں موجود تھیں جن کی نسبت گمان ہو سکتا تھا کہ ان کتابوں سے قرآن شریف نے قصے لئے ہیں خواہ وہ کتابیں اصلی تھیں یا فرضی تھیں تو عیسائی اس پر دہ دری سے چپ رہتے.پس بلاشبہ قرآن شریف کا سارا مضمون وحی الہی سے ہے.اور وہ وحی ایسا عظیم الشان معجزہ تھا کہ اس کی نظیر کوئی شخص پیش نہ کر سکا.اور سوچنے کا مقام ہے کہ جو شخص دوسری کتابوں کا چور ہو اور خود مضمون بناوے.اور جانتا ہو کہ فلاں فلاں کتاب سے میں نے یہ مضمون لیا ہے اور غیب کی باتیں نہیں ہیں اس کو کب جرات اور حوصلہ ہو سکتا ہے کہ تمام جہان کو مقابلہ کے لئے بلاوے اور پھر کوئی بھی مقابلہ نہ کرے اور کوئی اس کی پردہ دری پر قادر نہ ہو.اصل بات یہ ہے کہ عیسائی قرآن شریف پر بہت ہی ناراض ہیں اور ناراض ہونے کی وجہ یہی ہے کہ قرآن شریف نے تمام پر وبال عیسائی مذہب کے توڑ دیئے ہیں یہ ایک انسان کا خدا بنا باطل کر کے دکھلا دیا.صلیبی عقیدہ کو پاش پاش کر دیا.اور انجیل کی وہ تعلیم جس پر عیسائیوں کو ناز تھا نہایت درجہ ناقص اور نکما ہونا اس کا بپایہ ثبوت پہنچا دیا.چشمہ سیچی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۴۰ تا ۳۴۴ قرآن شریف نے تو اپنی نسبت معجزہ اور بیشل ہونے کا دعوی کر کے اپنی برتیت اس طرح ثابت کر دی کہ بلند آواز سے کہ دیا کہ اگر کوئی اس کو انسانی کلام سمجھتا ہے تو وہ جواب دے لیکن تمام مختلف خاموش رہے.مگر انجیل کو تو اسی زمانہ میں یہودیوں نے مسروقہ قرار دیا تھا اور نہ انجیل نے دعوی کیا کہ انسان ایسی انجیل بنانے پر قادر نہیں.پس مسروقہ ہونے کے شکوک انجیل پر عائد ہو سکتے ہیں نہ قرآن شریف پر کیونکہ قرآن کا تو دعوی ہے کہ انسان ایسا قر آن بنانے پر قادر نہیں.اور تمام مخالفین نے چپ رہ کر اس دعوی کا سچا ہونا ثایت کر دیا.منہ

Page 397

۳۷۹ : عیسائی مذہب ان نشانوں سے بھی محروم ہے.دعوی اتنا بڑا ہے کہ ایک انسان کو خدا بناتا چاہتے ہیں.اور ثبوت میں صرف قصے کہانیاں پیش کرتے ہیں.ہاں بعض کہتے ہیں لہ انجیل کی تعلیم ہی ایسی عمدہ ہے کہ جو بطور نشان کے ہے.لیکن در حقیقت یہ ان کی بڑی غلطی ہے.اور سچ یہ ہے کہ انجیل کی تعلیم نہایت ہی ناقص ہے.اسی لئے آنے فارقلیط حضرت مسیح کو عذر کرنا پڑا کہ " آنیوالا فارقلیط اس نقصان کا تدارک کرے شان والای ایرانی نقصان کا تدارک گا." ہمیں اس سے کچھ بحث نہیں کہ انجیل کے شاخوان دکھلاتے کچھ اور ہیں اور کرتے کرے گا.کچھ اور.لیکن اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ انجیل انسانیت کے درخت کی پورے طور پر آب پاشی نہیں کر سکتی.ہم اس مسافر خانہ میں بہت سے قوئی کے ساتھ بھیجے گئے ہیں اور ہر ایک قوت چاہتی ہے کہ اپنے موقعہ پر اس کو استعمال کیا جائے.اور انجیل صرف ایک ہی قوت حلم اور نرمی پر زور مار رہی ہے.علم اور عفو در حقیقت بعض مواضع میں اچھی ہے لیکن بعض دوسرے مواضع میں تم قاتل کی تاثیر رکھتی ہے.ہماری یہ تمدنی زندگی کہ مختلف طبائع کے اختلاط پر موقوف ہے بلاشبہ تقاضہ کرتی ہے کہ ہم اپنے تمام قومی کو محل بینی اور موقعہ شناسی سے استعمال کیا کریں.کیا یہ سچ نہیں کہ اگر چہ بعض جگہ ہم در گذر کر کے اس شخص کو فائدہ جسمانی اور روحانی پہنچاتے ہیں جس نے ہمیں کوئی آزار نچایا ہے.لیکن بعض دوسری جگہ ایسی بھی ہیں جو اس جگہ ہم اس خصلت کو استعمال کرنے سے شخص مجرم کو اور بھی مفسدانہ حرکات دلیر کرتے ہیں.عفوو پس یہ کس قدر غلطی ہے کہ انسانیت کے درخت کی تمام ضروری شاخیں کاٹ کر صرف ایک ہی شاخ صبر و عفو پر زور دیا جائے.اسی وجہ سے یہ تعلیم چل نہیں سکی.اور آخر عیسائی سلاطین کو جرائم پیشہ کی طرف سے طیار کرنے پڑے.غرض انجیل موجودہ ہر گز تصور کرے ہے جو امین ایا کی سکتی اور جس طرح آفتاب کے نکلنے سے ستارے مضمحل ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ آنکھوں سے غائب ہو جاتے ہیں یہی حالت انجیل کی قرآن شریف کے مقابل پر ہے.پس یہ بات نہایت قابل شرم ہے کہ یہ دعوی کیا جائے کہ انجیل کی تعلیم بھی ایک آسمانی نشان ہے !!! کتاب البرية - روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۶۵ تا ۶۷

Page 398

۳۸۰ ۲۵۹ مُصدِ قَا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مصدق کے معنے قرآنی طور پر یہ ہیں کہ جو کچھ صحیح تھا اس کی تو نقل کر دی اور جو نہیں لیا وہ غلط تھا.پھر انجیلوں کا آپس میں اختلاف ہے یہ اگر قرآن نے تصدیق کی ہے تو بتلاء کونسی انجیل کی کی ہے قرآن نے یوحنا بتی وغیرہ کی انجیل کی کہیں تصدیق نہیں کی ہاں پطرس کی دعا کی تصدیق کی ہے اسی طرح کو نسی توریت مصدق کے معنے کہیں جس کی تصدیق قرآن نے کی! پہلے توریت تو ایک بتاؤ.قرآن تو تمہاری توریت کو محرف بتلاتا ہے اور تم میں خود اختلاف ہے کہ توریت مختلف ہے.البدر - جلد ا نمبر ۲.مورخہ ۷ نومبر ۱۹۰۲ء.صفحہ ۱۰ قرآن شریف انجیل کی تصدیق قول سے نہیں کرتا بلکہ فعل سے کرتا ہے.کیونکہ جو قرآن شریف انجیل کی حصہ انجیل کی تعلیم کا قرآن کے اندر شامل ہے اس پر قرآن نے عمل در آمد کروا کے دکھلا تصدیق قول سے نہیں ہے..بلکہ قتل سے کرتا دیا ہے اور اسی لئے ہم اسی حصہ انجیل کی تصدیق کر سکتے ہیں جس کی قرآن کریم نے تصدیق کی ہمیں کیا معلوم کہ باقی کار طب و یابس کہاں سے آیا ہاں اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ پھر آیت وَلْيَحْكُمُ اهْلُ الاِنجیل میں جو لفظ انجیل عام ہے اس سے کیا مراد ہے.وہاں یہ بیان نہیں ہے کہ انجیل کا وہ حصہ جس کا مصدق قرآن ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں الانجیل سے مراد اصل انجیل اور توریت ہے جو قرآن کریم میں درج ہو چکیں.اگر یہ نہ مانا جاوے تو پھر بتلایا جاوے کہ اصلی انجیل کونسی ہے ! کیونکہ آجکل کی مروجہ اناجیل تواصل نہیں ہو سکتیں ان کی اصلیت کس کو معلوم ہے.اور یہ بھی خود عیسائی مانتے ہیں کہ اس کا فلاں حصہ الحاقی ہے.پھر ایک اور بات دیکھنے والی ہے کہ انجیل میں عیسی کی موت اور بعد کے حالات اور توریت میں موسیٰ کی موت کا حال درج ہے تو کیا اب ان کتابوں کا نزول دونوں نبیوں کی وفات کے بعد تک ہو تا رہا.اس سے ثابت ہے کہ موجودہ کتب اصل نہیں ہیں اور نہ اب ان کا میسر آنا ممکن ہے.البدر - جلد ۲ نمبر ۳۲.مورخه ۲۸ اگست ۱۹۰۳ صفحه ۲۵۰ *

Page 399

باب ہشتم تعلیم (موازنه ) ج تُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاهُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَبَّهُمْ رُكَعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانَا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَيةِ وَمَثَلُهُم في الإنجيل كزرع أخْرَجَ شَطْلَهُ فَازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى على سوقه يعجب الزراع الغيظ بهم الكفار وعَدَ اللهُ الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا :

Page 400

جس طرح آفتاب کے نکلنے سے ستارے مضمحل ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ آنکھوں سے غائب ہو جاتے ہیں یہی حالت انجیل کی قرآن شریف کے مقابل پر ہے.پس یہ بات نہایت قابل شرم ہے کہ یہ دعوی کیا جائے کہ انجیل کی تعلیم بھی ایک آسمانی نشان ہے !!! کتاب البرية - روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۶۵ تا ۶۷

Page 401

۳۸۳ یہ بات سچ ہے کہ سچائی کی تخم ریزی توریت سے ہوئی اور انجیل سے تخم نے ایک آئندہ بشارت دینے والے کی طرح منہ دکھلایا.اور ج ایک کھیت کا سبزہ پوری صحت اور عمدگی سے نکلتا ہے اور بزبان حال سچائی کی تخم ریزی اور خوشخبری دیتا ہے کہ اس کے بعد اچھے پھل اور اچھے خوشے ظہور کرنے ہی کا عالمی والے ہیں ایسا ہی انجیل کامل شریعت اور کامل رہبر کے لئے خوشخبری کے طور پر آئی اور فرقان سے وہ تختم اپنے کمال کو پہنچا جو اپنے ساتھ اس کامل نعمت کو لایا جس نے حق اور باطل میں بکلی فرق کر کے دکھلایا اور معارف دینیہ کو کمال تک پہنچایا جیسا کہ توریت میں پہلے سے لکھا تھا کہ ” خدا سینا سے آیا اور سعیر سے طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے ان پر چمکا." !!! یہ بات بالکل ثابت شدہ امر ہے کہ شریعت کے ہر ایک پہلو کو کمال کی صورت میں صرف قرآن نے ہی دکھلایا ہے.شریعت کے بڑے حصے دو ہیں.حق اللہ اور حق العباد.یہ دونوں حصے صرف قرآن شریف نے ہی پورے کئے ہیں.قرآن کا یہ منصب تھا کہ تا وحشیوں کو انسان بنادے اور انسان سے با اخلاق انسان بنادے.اور با اخلاق انسان سے باخدا بنائے.سو اس منصب کو اس نے ایسے طور سے پورا کیا جس کے مقابل پر توریت ایک گونگے کی طرح ہے.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جوابات روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۵۲، ۳۵۳ اس

Page 402

سمسم ۲۶۲ توریت توحید کے بیان کرنے میں ناقص تھی اور انجیل بھی ناقص تھی جس کے ص تھی جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ عیسائیوں نے ایک عاجز انسان کو خدا بنا لیا.اگر توریت اور انجیل میں وہ تعلیم موجود ہوتی جو قرآن شریف میں موجود ہے تو ہر گز ممکن نہ تھا کہ اس طرح پر عیسائی گمراہ ہو توحید کے لحاظ سے جاتے.ناقص چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۶۸ جاننا چاہئے کہ انجیل کی تعلیم کو کامل خیال کرنا سراسر نقصان عقل اور کم فہمی ہے.خود حضرت مسیح نے انجیل کی تعلیم کو مترا عن النقصان نہیں سمجھا جیسا کہ انہوں نجیل کی تعلیم کسی نے نے آپ فرمایا ہے کہ میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں.پر تم ان کی خود ناقص قرار دیا.برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روح الحق آویگا تو وہ تمہیں صداقت کا راستہ بتلادے گا.انجیل یوحناباب ۱۶.آیت ۱۲، ۱۳، ۱۴.اب فرمائے کیا یہی انجیل ہے کہ جو تمام دینی صداقتوں پر حاوی ہے جس کے ہوتے ہوئے قرآن شریف کی ضرورت نہیں.اے حضرات !! جس حالت میں آپ لوگ حضرت مسیح کی وصیت کے موافق انجیل کو کامل اور تمام صداقتوں کے جامع کہنے کے مجاز ہی نہیں.تو پھر آپ کا ایمان بھی عجب ایمان ہے کہ اپنے استاد اور رسول کے بر خلاف قدم چلا رہے ہیں.اور جس کتاب کو یہ حضرت مسیح ناقص کہہ چکے ہیں اس کو کامل کہے جاتے ہیں.کیا آپ کی سمجھ میچ کی سمجھ سے کچھ زیادہ ہے یاسیج کا کہنا قابل اعتبار نہیں.اور اگر آپ یہ کہیں کہ اگر چہ انجیل مسیح کے زمانہ میں ناقص تھی.مگر مسیح نے یہ بھی بطور پیش گوئی کے کہہ دیا تھا کہ جو باتیں میرے بیان کرنے سے رہ گئی ہیں ان کو تسلی دہندہ آکر بیان کر دے گا تو بہت خوب.لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر وہ تسلی دہندہ جس کے آنے کی مسیح نے انجیل میں بشارت دی ہے اور جس کی نسبت لکھا ہے کہ وہ اپنی دینی صداقتوں کو مرتبہ کمال تک پہنچائے گا اور آئندہ کے گلاور حلات یعنی قیامت کی خبریں انجیل کی نسبت بہت مفصل بیان کرے گا.آپ کے خیال میں بجز حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم جن پر قرآن شریف نازل ہوا کہ جو سب کتب سابقہ کی نسبت کامل ہونے کا دعوی کرتا ہے اور اس کا ثبوت دیتا ہے.کوئی اور شخص ہے جس نے حضرت مسیح کے بعد ظہور کر کے دینی صداقتوں کو کمال کے مرتبہ تک پہنچایا.اور آئندہ کی خبریں مسیح کی نسبت زیادہ بتلائیں تو اس کا نام بتلانا چاہئے.اور ایسی

Page 403

۳۸۵ کو پیش کرنا چاہئے کہ جو مسیح کے بعد عیسائیوں کو خدا کی طرف سے ملی جس نے وہ اپنی صداقتیں پیش کیں کہ جو مسیح کی فرمودہ ہیں موجود نہ تھیں اور آخری حالات اور آئندہ کی خبریں بتلائیں جن کے بتلانے سے صحیح قاصر رہا.تا اسی کتاب کو قرآن شریف کے مقابلہ پر وزن کیا جائے.مگر یہ تو زیبا نہیں کہ آپ لوگ مسیح کے پیرو کہلا کر پھر اس چیز کو کامل قرار دیں جس کو آپ سے اٹھارہ سو بیاسی برس پہلے مسیح ناقص قرار دے چکا ہے.اور اگر میچ کے قول پر ایمان اگر آپ کا مسیح کے قول پر ایمان ہی نہیں.اور بذات خود چاہتے ہیں کہ انجیل کا قرآن نہیں تو قرآن شریف اور شریف سے مقابلہ کریں تو بسم اللہ آئے اور انجیل میں سے وہ کملات نکال کر دکھلائیے کہ انجیل کا مقابلہ جو ہم نے اسی کتاب میں قرآن شریف کی نسبت ثابت کئے ہیں تا منصف لوگ آپ ہی دیکھ کریں.لیں کہ معرفت الہی کے سامان قرآن شریف میں موجود ہیں یا انجیل میں.جس حالت میں ہم نے اسی فیصلہ کے لئے کہ تا انجیل اور قرآن شریف کی نسبت فرق معلوم ہو جائے دس ہزار روپیہ کا اشتہار بھی اپنی کتاب کے ساتھ شامل کر دیا ہے تو پھر آپ جب تک ر است بازوں کی طرح اب ہماری کتاب کے مقابلہ پر اپنی انجیل کے فضائل نہ دکھلاویں تب تک کوئی دانشمند عیسائی بھی آپ کی کلام کو اپنے دل میں صحیح نہیں سمجھے گا.گو زبان سے ہاں ہاں کر تار ہے.حضرات آپ خوب یادرکھیں کہ انجیل اور توریت کا کام نہیں کہ کملات فرقانیہ کا مقابلہ کر سکیں.دور کیوں جائیں انہیں دو امروں میں کہ جواب تک اس کتاب میں فضائل فرقانیہ میں سے بیان ہو چکے ہیں مقابلہ کر کے دیکھ لیں یعنی اول وہ امر کہ جو متن میں تحریر ہو چکا ہے کہ فرقان مجید تمام الہی صداقتوں کا جامع ہے اور کوئی محقق اور کوئی ایسا بار یک دقیقہ انہیات کا پیش نہیں کر سکتا جو قرآن شریف میں موجود نہ ہو.سو آپ کی انجیل اگر کچھ حقیقت رکھتی ہے تو آپ پر لازم ہے کہ کسی مختلف فریق کے دلائل اور عقائد کو مثلاً برہمو سماج والوں یا آریہ سماج والوں یا دہریہ کے شبہات کو انجیل کے ذریعہ عقلی طور پر رد کر کے دکھلاو.اور جو جو خیالات ان لوگوں نے ملک میں پھیلا رکھے ہیں ان کو اپنی انجیل کے معقولی بیان سے دور کر کے پیش کرو.اور پھر قرآن شریف سے انجیل کا مقابلہ کر کے دیکھ لو.اور کسی ثالث سے پوچھ لو کہ محققانہ طور پر انجیل تسلی کرتی ہے یا قرآن شریف تسلی کرتا ہے.دوسرے یہ کہ قرآن شریف باطنی طور پر طالب صادق کا مطلوب حقیقی سے پیوند کرا دیتا ہے اور پھر وہ طالب خدائے تعالیٰ کے قرب سے مشرف ہو کر اس کی طرف سے الہام پاتا ہے جس الہام میں عنایات

Page 404

MAY حضرت احدیت اس کے حال پر مبذول ہوتی ہیں اور مقبولین میں شمار کیا جاتا ہے اور اس الہام کا صدق ان پیشین گوئیوں کے پورا ہونے سے ثابت ہوتا ہے کہ جو اس میں ہوتی ہیں اور حقیقت میں یہی پیوند جو اوپر لکھا گیا ہے حیات ابدی کی حقیقت ہے.کیونکہ زندہ سے پیوند زندگی کا موجب ہے.-4 اور جس کتاب کی مطابعت سے اس پیوند کے آثار ظاہر ہو جائیں.اس کتاب کی سچائی ظاہر بلکہ اظہر من الشمس ہے.کیونکہ اس میں صرف باتیں ہی باتیں نہیں بلکہ اس نے مطلب تک پہنچا دیا ہے.سواب ہم حضرات عیسائیوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر آپ کی انجیل تعلیم راست اور درست اور خدا کی طرف ہے ہے تو بمقابلہ قرآن شریف کی روحانی تا شیروں کے جن کا ہم نے ثبوت دے دیا ہے.انجیل کی روحانی تاثیریں بھی دکھلائیے.اور جو کچھ خدا نے مسلمانوں پر به برکت متابعت قرآن تاثیرات روحانیہ اور امور غیبه و برکات شریف اور یہ یمن اتباع حضرت محمد مصطفے افضل الرسل و خاتم الرسل صلی اللہ علیہ سلاویہ کے لحاظ سے وسلم کے امور غیبیہ رغیبیه و برکات سماویہ ظاہر کئے اور کرتا ہے.وہ ظاہر کئے اور کرتا ہے.وہ آپ بھی پیش کیجئے.مقابلہ کریں.تاسیہ روئے شور ہر کہ دروغش باشد به مگر آپ یادرکھیں کہ آپ دونوں قسم کے امور متذکرہ بالا میں سے کسی امر میں مقابلہ نہیں کر سکتے.انجیل کی تعلیم کا کامل ہونا ایک طرف تو وہ صحیح بھی نہیں رہی.اس نے تو اپنی پہلی ہی تعلیم میں ہی ابن مریم کو ولد اللہ ٹھہرا کر اول الدن در دی دکھلا دیا.رہی توریت کی تعلیم سو وہ بھی محرف اور ناقص ہونے کی وجہ سے ایک موم کا ناک ہو رہی ہے جس کو عیسائی اپنے طور پر اور یہودی اپنے طور پر بنا رہے ہیں.اگر توریت میں الہیات اور عالم معاد کے بارہ میں وہ تفصیلات ہوتیں کہ جو قرآن شریف میں ہیں تو عیسائیوں اور یہودیوں میں اتنے جھگڑے کیوں پڑتے.سچ تو یہ ہے کہ جس قدر سورہ اخلاص کی ایک سطر میں مضمون تو حید بھرا ہوا ہے.وہ تمام توریت بلکہ ساری بائبل میں نہیں پایا جاتا.اور اگر ہے تو کوئی عیسائی ہمارے سامنے پیش کرے.پھر جس حالت میں توریت میں بلکہ تمام بائبل میں صحت اور صفائی اور کمالیت سے توحید حضرت باری کا ذکر ہی نہیں.اور اسی وجہ سے توریت اور انجیل میں ایک گڑبڑ پڑ گیا اور قطعی طور پر کچھ سمجھ نہ آیا اور خود اصول میں ہی یہودیوں اور نصلی میں طرح طرح کے تنازعات پیدا ہو گئے.اسی توریت سے یہودیوں نے کچھ سمجھا اور عیسائیوں نے کچھ خیال کیا.تو اس حالت میں کون حق کا طالب ہے جس کی روح اس بات کو نہیں چاہتی کہ بیشک رحمت عامہ حضرت باری کا یہی مقتضا تھا کہ وہ ان گم گشتہ فرقوں کے

Page 405

۳۸۷ تنازعات کا آپ فیصلہ کرتا اور خطا کار کو اس کی خطا کاری پر متنبہ فرماتا.پس سمجھنا چاہئے کہ قرآن شریف کے نزول کی یہی ضرورت تھی کہ تا وہ اختلافات کو دور کرے.اور جن صداقتوں کے ظاہر ہونے کا باعث انتشار خیالات فاسدہ کے وقت آگیا تھا.ان صداقتوں کو ظاہر کر دے اور علم دین کو مرتبہ کمال تک پہنچا دے.سو اس پاک کلام نے نزول فرما کر ان سب مراتب کو پورا کیا اور سب بگاڑوں کو درست فرمایا اور تعلیم کو اپنے حقیقی کمال تک پہنچایا.نہ دانت کے عوض خواہ نخواہ دانت نکالنے کا حکم دیا.اور نہ ہمیشہ مجرم کے چھوڑنے اور عفو کرنے پر فرمان صادر کیا.بلکہ حقیقی نیکی کے بجالانے کے لئے تاکید فرمائی.خواہ وہ نیکی کبھی درشتی کے لباس میں ہو اور خواہ کبھی نرمی کے لباس میں اور خواہ کبھی انتقام کی صورت میں ہو اور خواہ کبھی عفو کی صورت میں.براہین احمدیہ - روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۰۰ تا ۳۰۴ بقیه حاشیه در حاشیہ نمبر ۲ قاصر ہے.۲۶۴ حضرت عیسی کی ہمت صرف یہود کے چند فرقوں تک محدود تھی جو ان کی نظر کے سامنے تھے اور دوسری قوموں اور آئندہ زمانہ کے ساتھ ان کی ہمدردی کا کچھ تعلق نہ تھا اس لیئے قدرت الہی کی بجلی بھی ان کے مذہب میں اسی حد تک محدود رہی جس قدر ان کی انجیل عام اصلاح سے ہمت تھی.اور آئندہ الہام اور وحی الہی پر مہرلگ گئی.اور چونکہ انجیل کی تعلیم بھی صرف یہود کی عملی اور اخلاقی خرابیوں کی اصلاح کے لئے تھی.تمام دنیا کے مفاسد پر نظر نہ تھی.اس لئے انجیل بھی عام اصلاح سے قاصر ہے.بلکہ وہ صرف ان یہودیوں کی موجودہ بد اخلاقی کی اصلاح کرتی ہے جو نظر کے سامنے تھے.اور جو دوسرے ممالک کے رہنے والے یا آئندہ زمانہ کے لوگ ہیں ان کے حالات سے انجیل کو کچھ سروکار نہیں.اور اگر انجیل کو تمام فرقوں اور مختلف طبائع کی اصلاح مد نظر ہوتی تو اس کی یہ تعلیم نہ ہوتی جواب موجود ہے.لیکن افسوس یہ ہے کہ ایک طرف تو انجیل کی تعلیم ہی ناقص تھی اور دوسری طرف خود ایجاد غلطیوں نے بڑا نقصان پہنچایا جو ایک عاجز انسان کو خواہ نخواہ خدا بنا یا گیا اور کفارہ کا من گھڑت مسئلہ پیش کر کے عملی اصلاحوں کی کوشش کا یکلخت دروازہ بند کر دیا گیا.اب عیسائی قوم دو گونہ بدقسمتی میں مبتلا ہے.ایک تو ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے

Page 406

۳۸۸ ۶۵ ہے.زریعہ وحی والہام مرد نہیں مل سکتی کیونکہ الہام پر جو ہرلگ گئی.اور دوسری یہ کہ وہ عملی آگے قدم نہیں بڑھا سکتی کیونکہ کفارہ نے مجاہدات اور سعی اور کوشش سے روک دیا.حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۹ طورة خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن اور رسول ایک نور ہے جو تمہاری طرف آیا.یہ کتاب ہر یک حقیقت کو بیان کرنے والی ہے خدا اس کے ساتھ ان لوگوں کو سلامتی کی راہ دکھلاتا توریت اور انجیل مخلص ہے جو خدا تعالیٰ کی مرضی کی پیروی کرتے ہیں اور وہ ان کو ظلمات سے نور کی طرف نکالتا الزمان والقوم میں ہے اور سیدھی راہ جو اس تک پہنچتی ہے ان کو دکھلاتا ہے.وہی خدا ہے جس نے اپنے قرآن کریم آفاقی رسول کو اس ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے.اے لوگو! قرآن ایک برہان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تم کو ملی ہے اور ایک کھلا کھلانور ہے جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے.آج تمہارے لئے دین کامل کیا گیا اور تم پر نعمتیں پوری کی گئیں.اور میری رضامندی اس میں محدود ہو گئی کہ تم دین اسلام پر قائم ہو جاو.خدا نے نہایت کامل اور پسندیدہ کلام تمہاری طرف اتارا.اس کتاب میں یہ خاصیت ہے کہ یہ کتاب متشابہ ہے یعنی اس کی تعلیمات نہ باہم اختلاف رکھتی ہیں اور نہ خدا تعالیٰ کے قانون قدرت سے منافی ہیں بلکہ جو کمال انسان کے لئے اس کی فطرت اور اس کے قومی کے لحاظ سے ضروری ہے اس مال کے مناسب حال اس کتاب کی تعلیم ہے اور یہ صفت توربیت اور انجیل کی تعلیم میں نہیں پائی جاتی.توریت میں حد سے زیادہ اور انتقام پر زور ڈالا گیا ہے.اور وہ سختی مطیع اور نافرمان اور دوست دشمن دونوں کے حق میں ایسے طور سے تجویز کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ توریت کی تعلیم کو خاص قوم اور خاص زمانہ کے لحاظ سے یہ مجبوری پیش آگئی تھی کہ سیدھے اور عام قانون قدرت کے موافق توریت کے احکام ان قوموں کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے تھے.اسی لئے توریت نے اندرونی طور پر یعنی اپنی قوم کے ساتھ یہ سختی کی کہ انتقامی احکام پر زور ڈال دیا اور عفو و در گزر گویا یہودیوں کے لئے حرام کی طرح ہو گئے.دانت کے عوض اپنے بھائی کا دانت نکال ڈالنا داخل ثواب سمجھا گیا اور حقوق اللہ میں بھی بہت سخت اور گو یا فوق الطاقت تکلیفیں جن سے معیشت اور تمدن میں حرج ہو ر کھی گئیں.ایسا ہی بیرونی احکام توریت کے بھی زیادہ سخت تھے جن کے رو سے مخالفوں اور نافرمانوں کے دیہات اور شہر

Page 407

۳۸۹ پھونکے گئے اور کئی لاکھ بچے قتل کئے گئے اور بڑھوں اور اندھوں اور لنگڑوں اور ضعیف عورتوں کو بھی تہ تیغ کیا گیا.اور انجیل کی تعلیم میں حد سے زیادہ نرمی اور رحم اور در گذر فرض کی طرح ٹھہرائے گئے.چنانچہ بیرونی طور پر اگر دشمن دین حملہ کریں تو انجیل کی رُو سے مقابلہ کرنا حرام ہے گو وہ ان کے روبرو ان کے قوم کے غریبوں اور ضعیفوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور ان کے بچوں کو قتل کر ڈالیں اور ان کی عورتوں کو پکڑ لے جائیں اور ہر طرح سے بے حرمتی کریں اور ان کے معابد کو پھونک دیں اور ان کی کتابوں کو جلا دیں غرض کیسے ہی ان کی قوم کو تہ و بالا کر دیں مگر دشمن مذہب کے ساتھ لڑائی کا حکم نہیں.ایسا ہی اندرونی طور پر بھی انجیل میں قوم کی باہمی حفظ حقوق کے لئے یا مجرم کو پاداش جرم کے لئے کوئی سزا اور قانون نہیں.اور صرف رحم اور عضو اور در گذر کے پہلو ر اگر چه جین مت سے بہت کم مگر تا ہم اس قدر زور ڈال دیا گیا ہے کہ دوسرے پہلوں میں مت کی تعلیم سے کا گویا خیال ہی نہیں.اگرچہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دینا ایک نادان کی بین اتم سر میں بڑی عمدہ تعلیم ہوگی مگر افسوس کہ ایسے لوگ نہیں سمجھتے کہ کیا کسی زمانہ کے لوگوں نے اس پر عمل بھی کیا.اور اگر بفرض محال عمل کیا تو کیا یہی آبادی رہی اور لوگوں کی جان و مال اور امن میں کچھ خلل نہ ہوا.کیا یہ تعلیم دنیا کے پیدا کرنے والے کے اس قانون قدرت کے مطابق ہے جس کی طرف انسانوں کی طبائع مختلفہ محتاج ہیں.کیا نہیں یکھتے کہ تمام طبائع جرائم کی سزا دینے کی طرف بالطبع جھک گئیں اور ہریک سلطنت نے انسداد جرائم کے لئے یہی قانون مرتب کئے جو مجرموں کو قرار واقعی سزادی جائے اور کسی ملک کا انتظام بجز قوانین سزا کے مجر در حم سے نہ چل سکا.آخر عیسائی مذہب نے بھی اس بر تم اور در گذر کی تعلیم سے بیزار ہو کر وہ خونریزیاں دکھلائیں کہ شاید ان کی دنیا میں نظیر نہیں ہوگی.اور جیسے ایک پل ٹوٹ کر ارد گرد کو تر آب کر دیتا ہے ایسا ہی عیسائی قوم نے در گذر کی تعلیم کو چھوڑ کر کام دکھلائے.سوان دونوں کتابوں کا نا تمام اور ناقص ہونا ظاہر ہے لیکن قرآن کریم اخلاقی تعلیم میں قانون قدرت کے قدم بقدم چلا ہے.رحم کی جگہ جہاں تک قانون قدرت اجازت دیتا ہے رحم ہے اور قہر اور سزا کی جگہ اس اصول کے لحاظ سے قہر اور سزا اور اپنی اندرونی اور بیرونی تعلیم میں ہریک پہلو سے کامل ہے اور اس کی تعلیمات نہایت درجہ کے اعتدال پر واقعہ ہیں جو انسانیت کے سارے درخت کی آبپاشی کرتی ہیں نہ کسی ایک شاخ کی.اور تمام قونی کی مربی ہیں نہ کسی ایک قوت کی.اور

Page 408

در حقیقت اسی اعتدال اور موزونیت کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا ہے.كِتابًا متشابها.پھر بعد اس کے مثانی کے لفظ میں اس بات کی طرف اشدہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات معقولی اور روحانی دونوں طور کی روشنی اپنے اندر رکھتی ہیں.پھر بعد اس کے فرمایا کہ قرآن میں اس قدر عظمت حق کی بھری ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی آیتوں کی سننے سے ان کے دلوں پر مشتشعر یرہ پڑ جاتا ہے اور پھر ان کی جلد میں اور ان کے دل یاد الہی کے لئے بہہ نکلتے ہیں.اور پھر فرمایا کہ یہ کتاب حق ہے اور نیز میزان حق یعنی یہ حق بھی ہے اور اس کے ذریعہ سے حق شناخت بھی ہو سکتا ہے.اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے آسمان پر سے پانی اتارا.پس اپنے اپنے قدر پر ہر یک وادی بہہ نکلی یعنی جس قدر دنیا میں طبائع انسانی ہیں قرآن کریم ان کے ہر یک مرتبہ فہم اور عقل اور ادراک کی تربیت کرنے والا ہے اور یہ امر مستلزم کمال نام ہے کیونکہ اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کریم اس قدر وسیع دریائے معارف ہے کہ محبت الہی کے تمام پیا سے اور معارف حقہ کی تمام تشنہ لب اسی سے پانی پیتے ہیں.اور پھر فرمایا کہ ہم نے قرآن کریم کو اس لئے اتارا ہے کہ تاجو پہلی قوموں میں اختلاف ہو گئے ہیں ان کا اظہار کیا جائے.اور پھر فرمایا کہ یہ قرآن ظلمت سے نور کی طرف نکالتا ہے.اور اس میں تمام بیماریوں کی شفا ہے اور طرح طرح کی برکتیں یعنی معارف اور انسانوں کو فائدہ پہنچانے والے امور اس میں بھرے ہوئے ہیں اور اس لائق ہے کہ اس کو تدبر سے دیکھا جائے اور عظمند اس میں غور کریں اور سخت جھگڑالو اس سے ملزم ہوتے ہیں اور ہر یک شے کی تفصیل اس میں موجود ہے اور یہ ضرورت حقہ کے وقت نازل کیا گیا ہے.اور ضرورت حقہ کے ساتھ اترا ہے اور یہ کتاب عزیز ہے باطل کو اس کے آگے پیچھے راہ نہ اور یہ نور ہے جس کے ذریعہ سے ہدایت دی جاتی ہے.اس میں ہر نشے کا بیان موجود ہے اور یہ روح ہے اور یہ کتاب عربی فصیح بلیغ میں ہے.اور تمام صداقتیں غیر متبدل اس میں موجود ہیں.ان کو کہہ دے کہ اگر جن وانس اس کی نظیر بنانا چاہیں یعنی وہ صفات کاملہ جو اس کی بیان کی گئی ہیں اگر کوئی ان کی مثل بنی آدم اور جنات میں سے بنانا چاہیں تو یہ ان کے لئے ممکن نہ ہو گا اگر چہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں.نہیں کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلدے صفحہ ۵۶ تا ۵۹ ۳۹۰

Page 409

۳۹۱ 744 توریت اور انجیل خاص ماسوا اس کے قرآن شریف کے وجود کی ضرورت پر ایک اور بڑی دلیل یہ ہے کہ پہلی تمام کتابیں موسیٰ کی کتاب توریت سے انجیل تک ایک خاص قوم یعنی بنی اسرائیل کو اپنا مخاطب ٹھہراتی ہیں.اور صاف اور صریح لفظوں میں کہتے ہیں کہ ان کی ہدایتیں عام فائدہ کے لئے نہیں بلکہ صرف بنی اسرائیل کے وجود تک محدود ہیں.مگر قرآن شریف کا مد نظر تمام دنیا کی اصلاح ہے.اور اس کی مخاطب کوئی خاص قوم نہیں بلکہ کھلے گھلے طور پر بیان قوم تک محدود ہیں میں فرماتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے اور ہر ایک کی اصلاح اس کا مقصود ہے.سو بلحاظ مخاطبین کے توریت کی تعلیم اور قرآن کی تعلیم میں بڑا فرق مثلاً توریت کہتی ہے کہ خون مت کر اور قرآن بھی کہتا ہے کہ خون مت کر اور بظاہر قرآن میں اسی حکم کا اعادہ معلوم ہوتا ہے جو توریت میں آچکا ہے.مگر در اصل اعادہ نہیں بلکہ توریت کا یہ حکم صرف بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا ہے اور صرف بنی اسرائیل کو خون سے منع فرماتا ہے دوسرے سے توریت کو کچھ غرض نہیں.لیکن قرآن شریف کا یہ حکم تمام دنیا سے تعلق رکھتا ہے.اور تمام نوع انسان کو ناحق کی خون ریزی سے منع فرماتا ہے.اسی طرح تمام احکام میں قرآن شریف کی اصل غرض عامہ خلائق کی اصلاح ہے اور توریت کی غرض صرف بنی اسرائیل تک محدود ہے.كتاب البرتية - روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۸۵ قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں بیچ ہیں.انجیل کالانے والا وہ روح القدس تھا جو کبوتر کی شکل پر ظاہر ہوا جو ایک ضعیف اور کمزور جانور ہے جس کو بلی بھی پکڑ سکتی ہے.اسی لئے عیسائی دن بدن کمزوری کے گڑھے میں پڑتے گئے اور انجیل کالانے والا روح القدس کبوتر کی شکل روحانیت ان میں باقی نہ رہی.کیونکہ تمام ان کے ایمان کا مدار کبوتر پر تھا.مگر قرآن کا میں ان بارہ سوات میں ہوا.روح القدس اس عظیم الشان شکل میں ظاہر ہوا تھا جس نے زمین سے لے کر آسمان تک اپنے وجود سے تمام ارض و سماء کو بھر دیا تھا.پس کجاوہ کبوتر اور کجا یہ تجلی عظیم جس کا قرآن شریف میں بھی ذکر ہے.قرآن ایک ہفتہ میں انسان کو پاک کر سکتا ہے اگر صوری یا معنوی اعراض نہ ہو.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۷

Page 410

عیسائیت کے مذہب کو دیکھو کہ وہ ابتداء میں کے صول پر مبنی تھا.اور جس م کو حضرت مسیح علیہ السّلام نے پیش کیا تھا اگرچہ وہ تعلیم قرآنی تعلیم کے مقابل پر ناقص تھی کیونکہ ابھی کامل تعلیم کا وقت نہیں آیا تھا اور کمزور استعداد میں اس لائق بھی نہیں تھیں تاہم وہ تعلیم اپنے وقت کے مناسب حال نہایت عمدہ تعلیم تھی.وہ اسی خدا کی یسائیت کی تعلیم جو طرف رہنمائی کرتی تھی جس کی طرف توربیت نے رہنمائی کی.لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد مسیحیوں کا خدا ایک اور خدا ہو گیا جس کا توریت کی تعلیم میں کچھ بھی ذکر نہیں.اور نہ بنی اسرائیل کو اس کی کچھ خبر بھی ہے.اس نئے خدا پر ایمان لانے سے تمام سلسلہ توریت کا الٹ گیا.اور گناہوں سے حقیقی نجات اور پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے جو ہدایتیں توریت میں تھیں وہ سب درہم برہم ہو گئیں.اور تمام مدار گناہ سے پاک ہونے کا اس اقرار پر آگیا کہ حضرت مسیح نے دنیا کو نجات دینے کے لئے خود صلیب قبول کی اور وہ خدارہی تھے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ توریت کے اور کئی ابدی احکام توڑ دیئے گئے اور عیسائی مذہب میں ایک ایسی تبدیلی واقع ہوئی کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام خود بھی دوبارہ تشریف لے آویں تو وہ اس مذہب کو شناخت نہ کر سکیں.نہایت حیرت کا مقام ہے کہ جن لوگوں کو تورات کی پابندی کی سخت تاکید تھی انہوں نے یک لخت تورات کے احکام کو چھوڑ دیا.مثلاً انجیل میں کہیں حکم نہیں کہ تورات میں تو سور حرام ہے اور میں تم پر حلال کرتا ہوں.اور توریت میں تو ختنہ کی تاکید ہے اور میں ختنہ کا حکم منسوخ کرتا ہوں.پھر کب جائز تھا کہ جو باتیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے منہ سے نکلیں وہ مذہب کے اندر داخل کر دی جائیں.لیکن چونکہ ضرور تھا کہ ایک عالمگیر مذہب یعنی اسلام دنیا میں قائم کرے اس لئے عیسائیت کا بگڑنا اسلام کے ظہور کے لئے بطور ایک علامت کے تھا.- لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۰۴، ۲۰۵ ماسب اور منجملہ قرآن کی ضرورتوں کے ایک یہ امر بھی تھا کہ جو اختلاف حضرت مسیح کی نسبت یہود اور نصاری میں واقع تھا اس کو دور کرے.سو قرآن شریف نے ان سے قرآن کریم نے بورد جھگڑوں کا فیصلہ کیا.جیسا کہ قرآن شریف کی یہ آیت يَا عِيسَى إِلَى مُتَوَفِّيكَ نصاری کے اختلاف کو دور کیا.وَرَافِعُكَ إِلَى اُسی جھگڑے کے فیصلہ کے لئے ہے.کیونکہ یہودی لوگ یہ خیال یہود

Page 411

۳۹۳ کرتے تھے کہ نصاری کا نبی یعنی مسیح صلیب پر کھینچا گیا.اس لئے موافق حکم توریت کے وہ لعنتی ہوا اور اس کا رفع نہیں ہوا.اور یہ دلیل اس کے کاذب ہونے کی ہے." اور عیسائیوں کا یہ خیال تھا کہ لعنتی تو ہوا مگر ہمارے لئے اور بعد اس کے لعنت جاتی رہی اور رفع ہو گیا.اور خدا نے اپنے داہنے ہاتھ اس کو بٹھا لیا.اب اس آیت نے یہ فیصلہ کیا کہ رفع بلا توقف ہوا نہ یہودیوں کے زعم پر لعنت ہوئی جو ہمیشہ کے لئے رفع الی اللہ سے مانع ہے.اور نہ نصاری کے زعم پر چند روز لعنت رہی اور پھر رفع الی اللہ ہوا بلکہ وفات کے ساتھ ہی رفع الی اللہ ہو گیا.اور ان ہی آیات میں خدا تعالیٰ نے یہ بھی سمجھا دیا کہ یہ رفع توریت کے احکام کے مخالف نہیں.کیونکہ توریت کا حکم عدم رفع اور لعنت اس حالت میں ہے کہ جب کوئی صلیب پر مارا جائے.مگر صرف صلیب کے چھونے یا صلیب پر کچھ ایسی تکلیف اٹھانے سے جو موت کی حد تک نہیں پہنچتی لعنت لازم نہیں آتی اور نہ عدم رفع لازم آتا ہے.کیونکہ توریت کا منشاء یہ ہے کہ صلیب خدا تعالیٰ کی طرف سے جرائم بشہ کی موت کا ذریعہ ہے.پس جو شخص صلیب پر مر گیا وہ مجرمانہ موت مراجو لعنتی ہے.لیکن مسیح صلیب پر انہیں مرا اور اس کو خدا نے صلیب کی موت سے بچالیا.بلکہ جیسا کہ اس نے کہا تھا کہ میری حالت یونس سے مشابہ ہے ایسا ہی ہوانہ یونس مچھلی کے میں مرانہ یسوع صلیب کے پیٹ پر.اور اس کی دعا ایلی ایلی لما سبقائی سنی گئی.اگر سرتا تو پیلاطوس پر بھی ضرور وہال آتا.کیونکہ فرشتہ نے پیلاطوس کی جورو کو یہ خبر دی تھی کہ اگر یسوع مر گیا تو یادرکھ کہ تم پر وبال آئے گا.مگر پیلاطوس پر کوئی وبال نہ آیا.اور یہ بھی یسوع کے زندہ رہنے کی ایک نشانی ہے کہ اس کی ہڈیاں صلیب کے وقت نہیں توڑی گئیں.اور صلیب پر سے اتارنے کے بعد چھیدنے سے خون بھی نکلا.اور اس نے حواریوں کو صلیب کے بعد اپنے زخم دکھلائے.اور ظاہر ہے کہ نئی زندگی کے ساتھ زخموں کا ہونا ممکن نہ تھا.پس اس سے ثابت ہوا کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا اس لئے لعنتی بھی نہیں ہوا اور بلاشبہ اس نے پاک وفات پائی اور خدا کے تمام پاک رسولوں کی طرح موت کے بعد وہ بھی خدا کی طرف اٹھایا گیا.اور نموجب وعدہ إلى مُتَوَقِيكَ وَرافِعُكَ إلى اس کا خدا کی طرف رفع ہوا.اگر وہ صلیب پر مرتاتو اپنے قول سے خود جھوٹا ٹھہرتا.کیونکہ اس صورت میں یونس کے ساتھ اس کی کچھ بھی مشابہت نہ ہوتی.-

Page 412

۳۹۴ سو یہی جھگڑا مسیح کے بارے میں یہود اور نصاری میں چلا آتا تھا جس کو آخر قرآن شریف نے فیصلہ کیا.پھر ابھی تک نصاری کہتے ہیں کہ قرآن کے اترنے کی کیا ضرورت فی.اے نادانوں ! اور دلوں کے اند ھو ! قرآن کامل توحید لایا.قرآن نے عقل اور نقل کو ملا کر دکھلایا.قرآن نے توحید کو کمال تک پہنچایا.قرآن نے توحید اور صفات باری پر دلائل قائم کئے.اور خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت عقلی نقلی دلائل سے دیا.اور کشفی طور پر بھی دلائل قائم کئے اور وہ مذہب جو پہلے قصہ کہانی کے رنگ میں چلا آتا تھا اس کو علمی رنگ میں دکھلایا.اور ہر ایک عقیدہ کو حکمت کا جامہ پہنایا.اور وہ سلسلہ معارف دینیہ کا جو غیر مکمل تھا اس کو کمال تک پہنچایا.اور یسوع کی گردن سے لعنت کا طوق اتارا.اور اس کے مرفوع اور سچانبی ہونے کی شہادت دی.تو کیا اس قدر فیض رسانی کے ساتھ ابھی قرآن کی ضرورت ثابت نہ ہوئی ؟ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جوابات.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۵۳ تا ۳۵۵ یادر ہے کہ قرآن نے بڑی صفائی سے اپنی ضرورت ثابت کی ہے.قرآن صاف کہتا اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحِى الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا یعنی اسبات کو جان توریت اور اجیل کے لوگہ زمین مرگئی تھی اور اب خدائے سرے اس کو زندہ کرنے لگا ہے.تاریخ شہادت ہوتے ہوئے قرآن کی دیتی ہے کہ قرآن کے زمانہ قرب نزول میں ہر ایک قوم نے اپنا چال چلن بگاڑا ہوا تھا ضرورت پادری فنڈل مصنف میزان الحق باوجود باوجود اس تعصب کے جو اس کے رگ وریشہ میں بھرا ہوا تھا.میزان الحق میں صاف گواہی دیتا ہے کہ قرآن کے نزول کے زمانہ میں یہودو نصاری کا چال چلن بگڑا ہوا تھا.اور ان کی حالتیں خراب ہو رہی تھیں اور قرآن کا آنا ان کے لئے ایک تنبیہ تھی.مگر اس نادان نے باوجودیکہ یہ تو اقرار کیا کہ قرآن اس وقت آیا جبکہ یہود و نصاری کا چال چلن بہت خراب ہو رہا تھا لیکن پھر بھی یہ جھوٹا عذر پیش کر دیا کہ خدا تعالیٰ کو ایک جھوٹانہیں بھیج کر یہود و نصاری کو متنبہ کرنا منظور تھا.مگر یہ اللہ تعالیٰ پر تہمت ہے.کیا ہم اللہ جل شانہ کی طرف یہ خراب عادت منسوب کر سکتے ہیں کہ اس نے لوگوں کو گمراہی اور بد چلنی میں پا کر یہ تدبیر سوچی کہ اور بھی گمراہی کے سامان ان کے لئے میسر کرے اور کروڑہا بندگان خدا کو اپنے ہاتھ سے تباہی میں ڈالے.کیا غلبہ شدائد و

Page 413

۳۹۵ مصائب کے وقت خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں یہی عادت اس کی ثابت ہوتی ہے ؟ افسوس کہ یہ لوگ دنیا سے محبت کر کے کیسے آفتاب پر تھوک رہے ہیں.ایک ناچیز انسان کو خدا بھی کہتے ہیں اور پھر ملعون بھی.اور اس عظیم الشان نبی کے وجود سے انکار کر رہے ہیں کہ جو ایسے وقت میں آیا.جبکہ نوع انسان مردہ کی طرح ہو رہی تھی.اور پھر کہتے ہیں کہ قرآن کی ضرورت کیا تھی.اے غافلو ! اور دلوں کے اند ھو ! قرآن جیسے ضلالت کے طوفان کے وقت آیا ہے کوئی نبی ایسے وقت میں نہیں آیا.اس نے دنیا کو اندھا پایا اور روشنی بخشی.اور گمراہ پایا اور ہدایت دی.اور مردہ پایا اور جان عطا فرمائی.تو کیا ابھی ضرورت ثابت ہونے میں کچھ کسر رہ گئی ؟ اور اگر یہ کہو کہ توحید تو پہلے بھی موجود تھی قرآن نے نئی چیز کون سی دی ؟ تو اس سے اور بھی تمہاری عقل پر رونا آتا ہے.میں ابھی لکھ چکا ہوں کہ توحید پہلی کتابوں میں ناقص طور پر تھی اور تم ہر گز ثابت نہیں کر سکتے کہ کامل تھی.ماسوا اس کے توحید دلوں سے بکلی گم ہو گئی تھی قرآن نے اس توحید کو پھر یاد دلایا اور اس کو کمال تک پہنچایا.قرآن کا نام اسی لئے ذکر ہے کہ وہ یاد دلانے والا ہے.ذرہ آنکھ کھول کر سوچو کہ کیا توریت نے جو کچھ توحید کے بارے میں بیان کیا تھا.وہ ایسی نئی بات تھی جو پہلے نبیوں کو اس کی خبر کیا تھی.کیا یہ سچ نہیں کہ سب سے پہلے آدم کو اور پھر شیث اور نوح اور ابراہیم اور دوسرے رسولوں کو جو موسیٰ سے پہلے آئے توحید کی تعلیم ملی تھی ؟ پس یہ توریت پر بھی اعتراض ہے کہ اس نے نئی چیز کونسی پیش کی.اے سج دل قوم ! خدا ر و ز روز نیا نہیں ہو سکتا.موسیٰ کے وقت میں وہی خدا تھا جو آدم اور شیث اور نوح اور ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب اور یوسف کے وقت میں تھا.اور توریت نے وہی توحید کے بارے میں بیان کیا جو پہلے نبی کرتے آئے.اب اگر یہ سوال ہو کہ کیوں توریت نے اسی پورانی توحید کا ذکر کیا تو اس کا جواب یہی ہے کہ خدا کی ہستی اور واحدانیت کا مسئلہ توریت سے شروع نہیں ہوا بلکہ قدیم سے چلا آتا ہے.ہاں بعض زمانوں میں ترک عمل کی وجہ سے اکثر لوگوں کی نظر میں حقیر اور ذلیل ضرور ہو تا رہا ہے.پس خدا کی کتابوں اور خدا کے نبیوں کا یہ کام تھا کہ وہ ایسے وقتوں میں آتے رہے ہیں کہ جب اس مسئلہ توحید پر لوگوں کی توجہ کم رہ گئی ہو.اور طرح طرح کے شرکوں میں وہ مبتلا ہو گئے ہوں.یہی مسئلہ دنیا میں ہزاروں دفعہ صیقل ہوا اور ہزاروں دفعہ پھر زنگ خوردہ کی طرح ہو کر لوگوں کی نظروں سے چھپ گیا.اور جب چھپ گیا تو

Page 414

پھر خدا نے پنے کسی بندہ کو بھیجا تا نئے سرے اس کو روشن کر کے دکھلائے.اسی طرح دنیا میں کبھی ظلمت کبھی نور غالب آتا رہا.اور ہر ایک نبی کی شناخت کا یہ نہایت اعلیٰ درجہ کا معیار ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کس وقت آیا اور کس قدر اصلاح اس کے ہاتھ سے ظہور میں آئی.چاہئے کہ حق طلبی کی راہ سے اس بات کو سوچیں اور شریروں اور متعصب لوگوں کے پر خیانت اقوال کی طرف توجہ نہ کریں اور ایک صاف نظر لے کر کسی نبی کے حالات کو دیکھیں کہ اس نے ظہور فرما کر اس زمانہ کے لوگوں کو کس حالت میں پایا اور پھر اس نے ان لوگوں کے عقائد اور چال چلن میں کیا تبدیلی کر کے دکھلائی تو اس سے ضرور پتہ لگ جائے گا کہ کون نبی اشد ضرورت کے وقت آیا اور کون اس سے کمتر.نبی کی ضرورت گنہگاروں کے لئے بعینہ ایسی ہوتی ہے جیسا کہ طبیب کی ضرورت بیماروں کے لئے.اور جیسا کہ بیماروں کی کثرت ایک طبیب کو چاہتی ہے ایسا ہی گنہگاروں کی کثرت ایک مصلح کو.اب اگر کوئی اس قاعدہ کو ذہن میں رکھ کر عرب کی تاریخ پر نظر ڈالے کہ عرب کے باشندے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور سے پہلے کیا تھے اور پھر کیا ہو گئے تو بلاشبہ وہ اس نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو قوت قدسی اور تاثیر قوی اور افاضہ برکات میں سب نبیوں سے اول درجہ پر سمجھے گا.اور اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی ضرورت کو تمام کتابوں اور نبیوں کی ضرورت سے بدیہی الثبوت یقین کرے گا.مثلاً یسوع نے دنیا میں آکر دنیا کی کسی ضرورت کو پورا کیا ؟ اور اس کا ثبوت کیا ہے کہ اس نے کوئی ضرورت پوری کی ؟ کیا یہودیوں کے اخلاق اور عادات اور ایمان میں کوئی بھاری تبدیلی کر دی یا اپنے حواریوں کو تزکیہ نفس میں کمال تک پہنچا دیا ؟ بلکہ ان پاک اصلاحوں میں سے کچھ بھی ثابت نہیں.اور اگر کچھ ثابت ہے تو صرف یہی که چند آدمی طمع اور لالچ سے بھرے ہوئے اس کے ساتھ ہو گئے.اور انجام کار انہوں نے بڑی قابل شرم بیوفائیاں دکھلائیں.اور اگر یسوع نے خود کشی کی تو میں اس سے زیادہ هرگز تسلیم نہیں کروں گا کہ ایک ایسی ہو توئی کی حرکت اس سے صادر ہوئی جس سے اس کی انسانیت اور عقل پر ہمیشہ کے لئے داغ لگ گیا.ایسی حرکت جس کو انسانی قوانین بھی ہمیشہ جرائم کے نیچے داخل کرتے ہیں.کیا کسی عظمند سے صادر ہو سکتی ہے ؟ ! ہرگز نہیں.پس ہم پوچھتے ہیں کہ یسوع نے کیا سکھلایا اور کیا دیا ؟ کیا وہ لعنتی قربانی جس کا ۳۹۶

Page 415

۳۹۷ عقل اور انصاف کے نزدیک کوئی بھی نتیجہ معلوم نہیں ہوتا.یادر ہے کہ انجیل کی تعلیم میں کوئی نئی خوبی نہیں بلکہ یہ سب تعلیم توریت میں پائی جاتی ہے اور اس کا ایک بڑا حصہ یہودیوں کی کتاب طالموت میں اب تک موجود ہے.اور یہودی فاضل اب تک روتے ہیں کہ ہماری پاک کتابوں سے یہ فقرے چرائے گئے ہیں.چنانچہ حال میں جو ایک فاضل یہودی کی کتاب میرے پاس آئی ہے اس نے اسی بات کا ثبوت دینے کے لئے کئی ورق لکھے ہیں اور بڑے زور سے اسناد پیش کئے ہیں کہ یہ فقرات کہاں کہاں سے چورائے گئے.محقق عیسائی اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ در حقیقت انجیل یہودیوں کی کتابوں کے ان مضامین کا خلاصہ ہے جو حضرت مسیح کو پسند آئی.لیکن بلا خریہ کہتے ہیں کہ مسیح کے دنیا میں آنے سے یہ غرض نہیں تھی کہ کوئی نئی تعلیم لائے بلکہ اصل مطلب تو اپنے وجود کی قربانی دینا تھا یعنی وہی لعنتی قربانی جس کے بار بار کے ذکر سے میں اس رسالہ کو پاک رکھنا چاہتا ہوں.غرض عیسائیوں کو یہ دھو کا لگا ہوا ہے کہ شریعت توریت تک مکمل ہو چکی.اس لئے یسوع کوئی شریعت لے کر نہیں آیا بلکہ نجات دینے کے سامان لے کر آیا اور قرآن نے ناحق پھر ایسی شریعت کی بنیاد ڈال دی جو پہلے مکمل ہو چکی تھی.یہی رہو کہ عیسائیوں کے ایمان کو کھا گیا ہے.مگر یاد رہے کہ یہ بات بالکل صحیح نہیں ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ چونکہ انسان نہو و نسیان سے مرکب ہے اور نوع انسان میں خدا کے احکام عملی طور پر ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتے.اس لئے ہمیشہ نئے یاد دلانے والے اور قوت دینے والے کی ضرورت پڑتی ہے.لیکن قرآن شریف ان ہی دو ضرورتوں کی وجہ سے نازل نہیں ہوا.بلکہ وہ پہلی تعلیموں کا در حقیقت متمم اور مکمل ہے.مثلاً توریت کا زور حالات موجودہ کے لحاظ سے زیادہ تر قصاص پر ہے اور انجیل کا زور حالات موجودہ کے لحاظ سے عفو اور صبر اور در گذر پر ہے.اور قرآن ان دونوں صورتوں میں محل شناسی کی تعلیم دیتا ہے.ایسا ہی ہر ایک یاب میں توریت افراط کی طرف گئی ہے اور انجیل تفریط کی طرف اور قرآن شریف وسط کی تو کر تا اور محل اور موقعہ کا سبق دیتا ہے.گو نفس تعلیم تینوں کتابوں کا ایک ہی ہے.مگر کسی نے کسی پہلو کو شدومد کے ساتھ بیان کیا اور کسی نے کسی پہلو کو.اور کسی نے فطرت کیا انسانی کے لحاظ سے در میانہ راہ لیا جو طریق تعلیم قرآن ہے.اور چونکہ محل اور موقعہ کا لحاظ رکھنا یہی حکمت ہے.سو اس حکمت کو صرف قرآن شریف نے سکھلایا ہے.توریت

Page 416

۳۹۸ ایک بیہودہ سختی کی طرف کھینچ رہی ہے.اور انجیل ایک بیہودہ عفو پر زور دے رہی ہے.اور قرآن شریف وقت شناشی کی تاکید کرتا ہے.پس جس طرح پستان میں آکر خون دودھ بن جاتا ہے اسی طرح توریت اور انجیل کے احکام قرآن میں آکر حکمت بن گئے ہیں.اگر قرآن شریف نہ آیا ہوتا تو توریت اور انجیل اس اندھے تیر کی طرح ہوتیں کہ کبھی ایک آدھ دفعہ نشانہ پر لگ گیا اور سو دفعہ خطا گیا.غرض شریعت قصتوں کے طور پر توریت سے آئی اور مثالوں کی طرح انجیل سے ظاہر ہوئی اور حکمت کے پیرایہ میں قرآن شریف سے حق اور حقیقت کے طالبوں کو ملی.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جوابات روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۵۵ تا ۳۵۹ قرآن شریف وہ کتاب ہے جو عین ضرورت کے وقت آئی اور ہر ایک تاریکی کو دور کیا اور ہر ایک فساد کی اصلاح کی اور توریت و انجیل کے غلط اور محترف بیانات کو رد کیا اور علاوہ کیا قرآن شریف مجربات کے توحید باری پر عقلی دلائل قائم کیں.تو اب یہ لوگ ہمیں بتلادیں کہ قرآن توریت اور انجیل کی شریف نے کس بات میں توریت و انجیل کی نقل کی ؟ کیا قرآن شریف کی تعلیم وہی ہے جو نقل ہے.توریت کی تعلیم ہے ؟ کیا توریت کی طرح قرآن شریف کا یہ حکم ہے کہ ضرور دانت کے بدلے دانت نکال دو یا آنکھ کے بدلے آنکھ نکال دو یا کیا قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ شراب پی لیا کرو ؟ یا یہ حکم ہے کہ بجز اپنی قوم کے دوسروں سے سود لے لیا کرو ؟ اور کیا عیسائیوں کے عقیدہ کی طرح قرآن شریف بھی حضرت عیسی کو خدا تعالی کا بیٹا قرار دیتا ہے؟ یا شراب پینے کا فتوی دیتا ہے یا یہ تعلیم دیتا ہے کہ بہر حال بدی کا مقابلہ نہ کرو ؟ پس یہ کس قدر خباثت اور بدذاتی ہے کہ قرآن شریف کو توریت اور انجیل کی نقل اگر قرآن شریف توریت اور انجیل کی قرار دیا جاتا ہے.اگر قرآن شریف توریت وانجیل کی نقل ہے تو پھر اس قدر اسلام اور ان نقل ہے تو کیوں فرقوں میں اختلاف کیوں پیدا ہوئے ؟ اس صورت میں تو اسلام عین یہودیت اور یا عین یہودیوں اور عیسائیوں کے اس قدر اسلام کو عیسائیت ہونا چاہئے تھا (نقل جو ہوئی ) اور اگر یہی حالت تھی کہ قرآن شریف توریت اور مغائرت کی نظر سے انجیل کی تعلیم کی نقل ہے تو کیوں یہودیوں اور عیسائیوں نے اس قدر اسلام کو مغائرت کی دیکھا؟ نظر سے دیکھا اور اس قدر مقابلہ سے پیش آئے کہ خون کی ندیاں بہہ گئیں ؟ ہاں یہ سچ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب بعض باتوں اور بعض احکام میں مشترک ہوتے ہیں.مگر کیا ہم

Page 417

۳۹۹ اس اشتراک کی وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ بعض بعض کی نقل ہے چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۰ ۲۷۲ یہ سوال کہ مذہب کا تعترف انسانی قوئی پر کیا ہے انجیل نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا.کیونکہ انجیل حکمت کے طریقوں سے دور ہے لیکن قرآن شریف بڑی تفصیل سے بار بار اس مسئلہ کو حل کرتا ہے کہ مذہب کا یہ منصب نہیں ہے کہ انسانوں کی فطرتی قوی کی مذہب کا صرف انسانی قوی پر کیا ہے ؟ تبدیل کرے اور بھیڑیے کو بکری بنا کر دکھلائے.بلکہ مذہب کی صرف علت غائی یہ ہے کہ جو قولی اور ملکات فطرتا انسان کے اندر موجود ہیں ان کو اپنے محل اور موقعہ پر لگانے کے لئے رہبری کرے.مذہب کا یہ اختیار نہیں ہے کہ کسی فطرتی قوت کو بدل ڈالے.ہاں یہ اختیار ہے کہ اس کو محل پر استعمال کرنے کے لئے ہدایت کرے اور صرف ایک قوشت مثلاً رحم یا عفو پر زور نہ ڈالے بلکہ تمام قوتوں کے استعمال کے لئے وصیت فرمائے کیونکہ انسانی قوتوں میں سے کوئی بھی قوت بُری نہیں بلکہ افراط اور تفریط اور بد استعمالی بری ہے اور جو شخص قابل ملامت ہے وہ صرف فطرتی قومی کی وجہ سے قابل ملامت نہیں بلکہ ان کے بد استعمالی کی وجہ سے قابل ملامت ہے.غرض قتتام مطلق نے ہر ایک قوم کو فطری قولی کا برابر حصہ دیا ہے.اور جیسا کہ ظاہری ناک اور آنکھ اور منہ اور ہاتھ اور پیروغیرہ تمام قوموں کے انسانوں کو عطا ہوئے ہیں.ایسا ہی باطنی قوتیں بھی سب کو عطا ہوئی ہیں.اور ہر ایک قوم میں بلحاظ اعتدال یا افراط اور تفریط اور قوم اور برے بھی.لیکن مذہب کے اثر کے رو سے کسی قوم کا اچھا سے اچھے آدمی بھی ہیں یا کسی مذہب قوم کی شائستگی کا اصل موجب قرار دینا اس وقت ثابت ہو گا کہ اس مذہب کے بعض کامل پیرووں میں اس قسم کے روحانی کمال پائے جائیں جو دوسرے مذہب میں ان کی نظیر مل سکے.سو میں زور سے کہتا ہوں کہ یہ خاصہ اسلام میں ہے.اسلام نے ہزاروں لوگوں کو اس درجہ کی پاک زندگی تک پہنچایا ہے جس میں کہہ سکتے ہیں کہ گویا خدا کی روح ان کے اندر سکونت رکھتی ہے.قبولیت کی روشنی ان کے اندر ایسی پیدا ہو گئی ہے کہ گویا وہ خدا کی تجلیات کے مظہر ہیں.یہ لوگ ہر ایک صدی میں ہوتے رہے ہیں اور ان کی پاک زندگی بے ثبوت نہیں اور نرا اپنے منہ کا دعوی نہیں بلکہ خدا گواہی دیتارہا ہے کہ ان کی پاک زندگی ہے.

Page 418

یادر ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اعلیٰ درجہ کی پاک زندگی کی یہ علامت بیان فرمائی ہے کہ ایسے شخص سے خوارق ظاہر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ ایسے شخصوں کی دعا سنتا ہے اور ان سے ہم کلام ہوتا ہے اور پیش از وقت ان کو غیب کی خبریں بتلاتا ہے اور ان کی تائید کرتا ہے.سو ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں اسلام میں ایسے ہوتے آئے ہیں.چنانچہ اس زمانہ میں یہ نمونہ دکھلانے کے لئے یہ عاجز موجود ہے.مگر عیسائیوں میں یہ لوگ کہاں اور کس ملک میں رہتے ہیں جو انجیل کی قرار دادہ نشانیوں کے موافق اپنا حقیقی ایمان اور پاک زندگی ثابت کر سکتے ہیں ؟ ہر ایک چیز اپنی نشانیوں سے پہچانی جاتی ہے جیسا کہ ہر ایک درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.اور اگر پاک زندگی کا صرف دعوی ہی ہے اور کتابوں کے مقرر کردہ نشان اس دعوی پر گواہی نہیں دیتے تو یہ دعوی باطل ہے.کیا انجیل نے بچے اور واقعی ایمان کی کوئی نشانی لکھی ؟ کیا اس نے ان نشانوں کو فوق العادۃ کے رنگ میں بیان نہیں کیا؟ پس اگر انجیلوں میں بچے ایمانداروں کے نشان لکھتے ہیں تو ہر ایک عیسائی پاک زندگی کے تدعی کو انجیل کے نشانوں کے موافق آزمانا چاہئے.ایک بڑے بزرگ پادری کا ایک غریب سے غریب مسلمان کے ساتھ روحانی روشنی اور قبولیت میں مقابلہ کر کے دیکھ لو.پھر اگر اس پادری میں اس غریب مسلمان کے مقابل پر کچھ بھی آسمانی روشنی کا حصہ پایا جائے تو ہم ہر ایک سزا کے مستحق ہیں.اسی وجہ سے میں کئی دفعہ اس بارے میں عیسائیوں کے مقابل پر اشتہار دے چکا ہوں.اور میں سچ سچ کہتا ہوں اور میرا خدا گواہ ہے کہ مجھ پر ثابت ہو گیا ہے کہ حقیقی ایمان اور واقعی پاک زندگی جو آسمانی روشنی سے حاصل ہو، بجز اسلام کے کسی طرح نہیں مل سکتی.یہ پاک زندگی جو ہم کوئی ہے یہ صرف ہمارے منہ کی لاف و گزاف نہیں.اس پر آسمانی گواہیاں ہیں.کوئی پاک زندگی بجز آسمانی گواہی کے ثابت نہیں ہو سکتی.اور کسی کے چھپے ہوئے نفاق اور بے ایمانی پر ہم اطلاع نہیں پاسکتے.ہاں جب آسمانی گواہی والے پاک دل لوگ کسی قوم میں پائے جائیں تو باقی قوم کے لوگ بظاہر پاک زندگی نما بھی پاک زندگی والے سمجھے جائیں گے.کیونکہ قوم ایک وجود کے حکم میں ہے اور ایک ہی نمونہ سے ثابت ہو سکتا ہے ہو کہ اس قوم کو آسمانی پاک زندگی مل سکتی ہے.سواگر عیسائیوں کا یہ خیال ہے کہ کفارہ سے پاک ایمان اور پاک زندگی ملتی ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ اب میدان میں آئیں اور دعا کے قبول ہونے اور نشانوں کے ظہور میں میرے ۴۰۰

Page 419

ساتھ مقابلہ کرلیں.اگر آسمانی نشانوں کے ساتھ ان کی زندگی پاک ثابت ہو جائے تو میں ہر ایک سزا کا مستوجب ہوں اور ہر ایک ذلت کا سزاوار ہوں.میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ روحانیت کے رو سے عیسائیوں کی نہایت گندی زندگی ہے اور وہ پاک خدا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے ان کی اعتقادی حالتوں سے ایسا متنفر ہے جیسا کہ ہم نہایت گندے اور سڑے ہوئے مردار سے متنفر ہوتے ہیں.اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں اور اگر اس قول میں میرے ساتھ خدا نہیں تو نرمی اور آہستگی سے مجھ سے فیصلہ کر لیں.میں پھر کہتا ہوں کہ ہر گز پاک زندگی عیسائیوں میں موجود نہیں ہے جو آسمان سے اترقی اور دلوں کو روشن کرتی ہے.بلکہ جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں بعضوں میں فطرتی بھلا مانس ہونا اور عام قوموں کی طرح پایا جاتا ہے.سو فطرتی شرافت سے میری بحث نہیں اس غربت اور شرافت کے لوگ ہر ایک قوم میں کم و بیش پائے جاتے ہیں.یہاں تک کہ بھنگی اور چہار بھی اس سے باہر نہیں.لیکن میرا کلام آسمانی پاک زندگی میں ہے جو خدا کی زندہ کلام سے حاصل ہوتی اور آسمان سے اترقی اور اپنے ساتھ آسمانی نشان رکھتی ہے.سو یہ عیسائیوں میں موجود نہیں.پھر کوئی ہمیں سمجھائے کہ لعنتی قربانی کا فائدہ کیا ہوا ؟ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جوابات روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۴۰ تا ۳۴۴ ۲۷۳ قرآن شریف میں گناہ کو ہلکا نہیں سمجھا گیا.بلکہ بار بار بتلایا گیا ہے کہ کسی کو بجر اس کے نجات نہیں کہ گناہ سے بچی نفرت پیدا کرے مگر انجیل نے بچی نفرت کی تعلیم نہیں دی.انجیل نے ہر گز اس بات پر زور نہیں دیا کہ گناہ ہلاک کرنے والا زہر ہے.اس کے عوض اپنے اندر کوئی تریاق پیدا کرو.بلکہ اس متحرف انجیل نے نیکیوں کا عوض یسوع قرآن شریف نے گناہ کی خود کشی کو کافی سمجھ لیا ہے.مگر یہ کیسی بیہودہ اور بھول کی بات ہے کہ حقیقی نیکی کے کے نفرت دلائی ہے حاصل کرنے کی طرف توجہ نہیں بلکہ انجیل کی یہی تعلیم ہے کہ عیسائی بنو اور جو چاہو کرو.کفارہ ناقص ذریعہ نہیں ہے.تاکسی عمل کی حاجت ہو.اب دیکھو اس سے زیادہ بدی پھیلنے کا ذریعہ کوئی اور بھی ہو سکتا ہے.قرآن شریف تو فرماتا ہے کہ جب تک تم اپنے تئیں پاک نہ کرو اس پاک گھر میں داخل نہ ہو گے.اور انجیل کہتی ہے کہ ہر یک

Page 420

۴۰۲ بد کاری کر تیرے لئے یسوع کی خود کشی کافی ہے.اب کس نے گناہ کو ہلکا سمجھا.قرآن نے یا انجیل نے.قرآن کا خدا ہر گز کسی کو نیک نہیں ٹھہراتا.جب تک بدی کی جگہ نیکی نہ آجائے مگر انجیل نے اندھیر مچا دیا ہے.کفارہ سے تمام نیکی اور راست بازی کے حکموں کو ہلکا اور بیچ کر دیا.اور اب عیسائی کے لئے ان کی ضرورت نہیں.حیف صد حیف.افسوس صد افسوس.نور القرآن.حصہ دوم - روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۴۲۱ قرآن کوئی لعنتی قربانی پیش نہیں کرتا.بلکہ ہر گز جائز نہیں رکھتا کہ ایک کا گناہ یا ایک کی لعنت کسی دوسرے پر ڈالی جائے چہ جائیکہ کروڑہا لوگوں کی لعنتیں اکٹھی کر کے ایک گناہ دور کرنے کے کے گلے میں ڈال دی جائیں.قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ بارہ میں تعلیم لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى یعنی ایک کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھائے گا.لیکن قبل اس کے جو میں مسئلہ نجات کے متعلق قرآنی ہدایت بیان کروں مناسب دیکھتا ہوں کہ عیسائیوں کے اس اصول کی غلطی لوگوں پر ظاہر کر دوں.تاوہ شخص جو اس مسئلہ میں قرآن اور انجیل کی تعلیم کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے وہ آسانی سے مقابلہ کر سکے.پس واضح ہو کہ عیسائیوں کا یہ اصول کہ خدا نے دنیا سے پیار کر کے دنیا کو نجات دینے کے لئے یہ انتظام کیا کہ نافرمانوں اور کافروں اور بد کاروں کا گناہ اپنے پیارے بیٹے یسوع پر ڈال دیا.اور دنیا کو گناہ سے چھوڑانے کے لئے اس کو لعنتی بنایا.اور لعنت کی لکڑی سے لٹکایا.یہ اصول ہر ایک پہلو سے فاسد اور قابل شرم ہے.اگر میزان عدل کے لحاظ سے اس کو جانچا جائے تو صریح یہ بات ظلم کی صورت میں ہے کہ زید کا گناہ بکر پر ڈال دیا جائے.انسانی کانشنس اس بات کو ہر گز پسند نہیں کرتا کہ ایک مجرم کو چھوڑ کر اس مجرم کی سزا غیر محرم کو دی جائے.اور اگر روحانی فلاسفی کے رو سے گناہ کی حقیقت پر غور کی جائے تو اس تحقیق کے رو سے بھی یہ عقیدہ فاسد ٹھہرتا ہے.کیونکہ گناہ در حقیقت ایک ایساز ہر ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خدا کی اطاعت اور خدا کی پر جوش محبت اور مجالنہ یاد الہی سے محروم اور بے نصیب ہو.اور جیسا کہ ایک درخت جب زمین سے اکھڑ جائے اور پانی چوسنے کے قابل نہ رہے تو وہ دن بدن خشک ہونے لگتا ہے اور

Page 421

اس کی تمام سرسبزی برباد ہو جاتی ہے.یہی حال اس انسان کا ہوتا ہے جس کا دل خدا کی محبت سے اکھڑا ہوا ہوتا ہے.پس خشکی کی طرح گناہ اس پر غلبہ کرتا ہے.سو اس خشکی کا علاج خدا کے قانون قدرت میں تین طور سے ہے.(1) ایک محبت.(۲) استغفار جس کے معنے ہیں دبانے اور ڈھانکنے کی خواہش.کیونکہ جب تک مٹی میں درخت کی جڑ جمی رہے تب تک وہ سر سبزی کا امیدوار ہوتا ہے.(۳) تیسرا علاج تو بہ ہے.یعنی زندگی کا پانی کھینچنے کے لئے تذلل کے ساتھ خدا کی طرف پھرنا اور اس سے اپنے شیں نزدیک کرنا اور معصیت کے حجاب سے اعمال صالحہ کے ساتھ اپنے تئیں باہر نکالنا.اور تو بہ صرف زبان سے نہیں ہے بلکہ توبہ کا مکمل اعمال صالحہ کے ساتھ ہے.تمام نیکیاں توبہ کی تکمیل کے لئے ہیں.کیونکہ سب سے مطلب یہ ہے کہ خدا سے نزدیک ہو جائیں.دعا بھی تو بہ ہے کیونکہ اس سے بھی ہم خدا کا قرب ڈھونڈھتے ہیں.اسی لئے خدا نے انسان کی جان کو پیدا کر کے اس کا نام روح رکھا.کیونکہ اس کی حقیقی راحت اور آرام خدا کے اقرار اور اس کی محبت اور اس کی اطاعت میں ہے.اور اس کا نام نفس رکھا ہے.کیونکہ وہ خدا سے اتحاد پیدا کرنے والا ہے.خدا سے دل لگانا ایسا ہوتا ہے جیسا کہ باغ میں وہ درخت ہوتا ہے جو باغ کی زمین سے خوب پیوستہ ہوتا ہے.یہی انسان کا جنت ہے.اور جس طرح درخت زمین کے پانی کو چوستا اور اپنے اندر کھینچتا اور اس سے اپنے زہر یلے بخارات باہر نکالتا ہے.اسی طرح انسان کے دل کی حالت ہوتی ہے کہ وہ خدا کی محبت کا پانی چوس کر زہریلے مواد کے نکالنے پر قوت پاتا ہے اور بڑی آسانی سے ان مواد کو دفع کرتا ہے.اور خدا میں ہو کر پاک نشود نما پاتا جاتا ہے.اور بہت پھیلتا اور خوش نما سر سبزی دکھلاتا اور اچھے پھل لاتا ہے.مگر جو خدا میں پیوستہ نہیں وہ نشو و نمادینے والے پانی کو چوس نہیں سکتا اس لئے دم بدم خشک ہو تا چلا جاتا ہے.آخر پتے بھی گر جاتے ہیں اور خشک اور بد شکل ہنیاں رہ جاتی ہیں.پس چونکہ گناہ کی خشکی بے تعلیقی سے پیدا ہوتی ہے.اس لئے اس خشکی کے دور کرنے کے لیئے سیدھا علاج مستحکم تعلق ہے.جس پر قانون قدرت گواہی دیتا ہے اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ کر کے فرماتا ہے.يَايَّها النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعِي ا نوٹ : نفس لغت میں عین شے کے معنے رکھتا ہے.منہ سم

Page 422

ام هوم ۲۷۵ إلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَدِي وَادْخُلِي جَنَّنِي یعنی اے وہ نفس جو خدا سے آرام یافتہ ہے اپنے رب کی طرف واپس چلا آوہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی پس میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میرے بہشت کے اندر غرض گناہ کے دور کرنے کا علاج صرف خدا کی محبت اور عشق ہے.لہذا وہ تمام اعمال صالحہ جو محبت اور عشق کے سرچشمہ سے نکلتے ہیں گناہ کی آگ پر پانی چھڑکتے ہیں کیونکہ انسان خدا کے لئے نیک کام کر کے اپنی محبت پر مہر لگاتا ہے.خدا کو اس طرح پرمان لینا کہ اس کو ہر ایک چیز پر مقدم رکھنا یہاں تک کہ اپنی جان پر بھی.یہ وہ پہلا مرتبہ محبت ہے جو درخت کی اس حالت سے مشابہ ہے جب کہ وہ زمین میں لگایا جاتا ہے.اور پھر دوسرا مرتبہ استغفار جس سے یہ مطلب ہے کہ خدا سے الگ ہو کر انسانی وجود کا پردہ نہ کھل جائے.اور یہ مرتبہ درخت کی اس حالت سے مشابہ ہے جب کہ وہ زور کر کے پورے طور پر اپنی جڑزمین میں قائم کر لیتا ہے.اور پھر تیسرا مرتبہ تو بہ جو اس حالت کے مثلبہ ہے کہ جب درخت اپنی جڑیں پانی سے قریب کر کے بچہ کی طرح اس کو چوستا ہے.غرض گناہ کی فلاسفی یہی ہے کہ وہ خدا سے جدا ہو کر پیدا ہوتا ہے لہذا اس کا دور کر ناخدا کے تعلق سے وابستہ ہے.پس وہ کیسے نادان لوگ ہیں جو کسی کی خود کشی کو گناہ کا علاج کہتے ہیں.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جوابات.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۲۷ تا ۳۳۰ اب جب کہ اس نجات کی تفصیل ہو چکی جو عیسائی یسوع کی طرف منسوب کرتے اس پر طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن بھی یہی لعنتی محبت اور لعنتی قربانی نوع انسان کی پاکیزگی اور نجات کے لئے پیش کرتا کیا قرآن کریم نجات کے لئے سنتی قربانی ہے یا کوئی اور طریق پیش کرتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس پلید اور ناپاک طریق سے تجویز کرتا ہے اسلام کا دامن بالکل منزہ ہے.وہ کوئی لعنتی قربانی پیش نہیں کرتا اور نہ لعنتی محبت پیش کرتا ہے.بلکہ اس نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم سچی پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے اپنے وجود کی پاک قربانی پیش کریں جو اخلاص کے پانیوں سے دھوئی ہوئی اور صدق اور

Page 423

۴۰۵ صبر کی آگ سے صاف کی ہوئی ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنُ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ، وَلَا خَوْفُ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ یعنی جو شخص اپنے وجود کو خدا کے آگے رکھ دے اور اپنی زندگی اس کی راہوں میں وقف کرے اور نیکی کرنے میں سرگرم ہو سو وہ سر چشمہ قرب الہی سے اپنا اجر پائے گا.اور ان لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم.یعنی جو شخص اپنے تمام قومی کوخدا کی راہ میں لگاوے اور خالص خدا کے لئے اس کا قول اور فعل اور حرکت اور سکون اور تمام زندگی ہو جائے.اور حقیقی نیکی بجالانے میں سرگرم رہے.سو اس کو خدا اپنے پاس سے اجر دے گا اور خوف اور حرمین سے نجات بخشے گا.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جوابات.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۴۴ دا تعالیٰ نے عدل کے بارے میں جو بغیر سچائی پر پور اقدم مارنے کے حاصل نہیں ہو سکتی.فرمایا ہے.لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَتَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو.انصاف پر قائم رہو کہ تقوی اسی میں ہے.اب آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں.جیسا کہ مکہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے.مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا.اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی ہے انجیل میں اگر چہ لکھا ہے کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو مگر یہ نہیں لکھا کہ دشمن قوموں کی دشمنی اور ظلم نہیں انصاف اور سچائی سے مانع نہ ہو.میں بھی سچ کہتا ہوں که دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے.مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا عدل کے بارہ میں تعلیم

Page 424

۴۰۶ جھوٹ ہے.اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے.اکثر لوگ اپنے شریک دشمنوں سے محبت تو کرتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتوں سے پیش آتے ہیں مگر ان کے حقوق دبا لیتے ہیں.ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت کرتا ہے اور محبت کے پردہ میں دھوکا دے کر اس کے حقوق دبا لیتا مثلاً اگر زمیندار ہے تو چالاکی سے اس کا نام کاغذات بندوبست میں نہیں لکھواتا.اور یوں اتنی محبت کہ اس پر قربان ہوا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ معیار محبت کا ذکر کیا.کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی اور انصاف سے در گزر نہیں کرے گا.وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے.مگر آپ کے خدا کو یہ تعلیم یاد نہ رہی.کہ ظالم دشمنوں کے ساتھ عدل کرنے پر ایسا زور دیتا جو قرآن نے دیا اور دشمن کے ساتھ سچا معاملہ کرنے کے لئے اور سچائی کو لازم پکڑنے کے لئے وہ تاکید کرتا جو قرآن نے تاکید کی.اور تقوی کی باریک راہیں سکھاتا.مگر افسوس کہ جو بات سکھلائی دھوکے کی سکھلائی اور پر ہیز گاری کی سیدھی راہ پر قائم نہ کر سکا.یہ آپ کے فرضی یسوع کی نسبت ہم کہتے ہیں جس کے چند پریشان ورق آپ کے ہاتھ میں ہیں اور جو خدائی کا دعوی کر تاکر تا آخر مصلوب ہو گیا اور ساری رات رورو کر دعا کی کہ کسی طرح بچ جاؤں مگر بیچ نہ سکا.نور القرآن.حصہ دوم - روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۰۹، ۴۱۰ قرآن نے جھوٹوں پر لعنت کی ہے.اور نیز فرمایا ہے کہ جھوٹے شیطان کے مصاحب ہوتے ہیں.اور جھوٹے بے ایمان ہوتے ہیں اور جھوٹوں پر شیاطین نازل ہوتے ہیں.اور صرف یہی نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ مت بولو.بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ تم جھوٹوں کی صحبت بھی چھوڑ دو.اور ان کو اپنا یار دوست مت بناؤ.اور خدا سے ڈرو اور بچوں کے ساتھ رہو.اور ایک جگہ فرماتا ہے کہ جب تو کوئی کلام کرے تو تیری کلام محض صدق ہو.ٹھٹھے کے طور پر بھی اس میں جھوٹ نہ ہو.اب بتلاویہ تعلیمیں انجیل میں کہاں ہیں.اگر ایسی تعلیمیں ہو تیں تو عیسائیوں میں اپریل فول کی گندی رسمیں اب تک کیوں جاری رہتیں.دیکھو اپریل فول کیسی بری رسم ہے کہ ناحق جھوٹ بولنا اس میں تہذیب کی بات سمجھی جاتی ہے.یہ عیسائی تہذیب اور انجیلی تعلیم ہے.معلوم ہوتا ہے

Page 425

۴۰۷ کہ عیسائی لوگ جھوٹ سے بہت ہی پیار کرتے ہیں.چنانچہ عملی حالت اس پر شاہد ہے.مثلاً قرآن تو تمام مسلمانوں کے ہاتھ میں ایک ہی ہے.مگر سنا گیا ہے کہ انجیلیں ساٹھ سے بھی کچھ زیادہ ہیں.شاید آپ نے اپنے ایک مقدس بزرگ کا قول سنا ہے کہ جھوٹ بولنا نہ صرف جائز بلکہ ثواب کی بات ہے.نور القرآن.حصہ دوم.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۰۸، ۴۰۹ دیئے جس قدر جھوٹی کرامتیں اور جھوٹے معجزات حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف منسوب کئے گئے ہیں کسی اور نبی میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی اور عجیب تریہ کہ باوجودان تمام فرضی محجرات کے ناکامی اور نامرادی جو مذ ہب کے پھیلانے میں کسی کو ہو سکتی ہے وہ انجیل نے توریت سب سے اول نمبر پر ہیں.کسی اور نبی میں اس قدر نامرادی کی نظیر تلاش کر نالا حاصل ہے کے دو بیدی محکم توز مگر یاد رہے کہ اب ان کے نام پر جو مذہب دنیا میں پھیل رہا ہے یہ ان کا مذہب نہیں ہے.ان کی تعلیم میں خنزیر خوری اور تین خدا بنانے کا حکم اب تک انجیلوں میں نہیں پایا جاتا.بلکہ یہ وہی مشرکانہ تعلیم ہے جس کی نبیوں نے مخالفت کی تھی.توریت کے دوہی بڑے بھاری اور ابدی حکم تھے.اول یہ کہ انسان کو خدا نہ بناتا.دوسرے یہ کہ سور کو مت کھانا.سو دونوں حکم پولوس مقدس کی تعلیم سے توڑ دیئے گئے.انا للہ وانا الیہ براہین احمدیہ.حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۵۸ راجعون.حقیقی تہذیب شراب خور کو حاصل نہیں ہو سکتی.انجیل کی کسی آیت نے سٹور کو بر خلاف توریت کے حلال نہیں کیا مگر یہ لوگ کثرت سے سور بھی کھاتے ہیں اور شراب خلاف بھی پیتے ہیں.ملفوظات.جلد ۸ صفحه ۳۵ توربیت عمل شریعت ٢٨٠ جب شریعت توریت قابل عمل نہیں اور باوجود بہت سی اشیاء کی حرمت کے جن کا حکم توریت میں موجود ہے، عیسائیوں کے واسطے ضروری نہیں کہ ان احکام پر عمل کریں عیسائیوں پر ایک تو پھر رشتہ ناطہ کے معاملہ میں اس قدیم شریعت پر عمل کرنے کی کیا حاجت ہے اور بہن یا سوال

Page 426

۴۰۸ STAT ۲۸۲ ٢٨٣ سالی وغیرہ سے شادی کرنا انجیل کے کس حکم کے بر خلاف ہے.ملفوظات.جلد ۸ صفحه ۳۵ ۳۶ قرآن تمہیں انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ اپنی شراب مت پیو کہ مست ہو جاو.بلکہ وہ کہتا ہے کہ ہر گزنہ پی.ورنہ تجھے خدا کی راہ نہیں ملے گی.اور خدا تجھ سے ہم کلام نہیں ہو گا اور نہ پلیدیوں سے پاک کرے گا.اور وہ کہتا ہے کہ یہ شیطان کی ایجاد ہے.تم اس سے بچو.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۹ قرآن تمہیں انجیل کی طرح فقط یہ نہیں کہتا کہ اپنے بھائی پر بے سبب غصہ مت ہو.بلکہ وہ کہتا ہے کہ نہ صرف اپنے ہی غصہ کو تھام بلکہ تو اصوا بالمرحمہ پر بھی عمل کر اور دوسروں کو بھی کہتارہ کہ ایسا کریں.اور نہ صرف خود رحم کر بلکہ رحم کے لئے اپنے تمام بھائیوں کو وصیت بھی کر.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۹ قرآن تمہیں انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ بجز زنا کے اپنی بیوی کی ہر ایک ناپاکی پر صبر کرو اور طلاق مت دو.بلکہ وہ کہتا ہے کہ الطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ - قرآن کا یہ نشا بیوی کی بد چلنی ہے کہ ناپاک پاک کے ساتھ رہ نہیں سکتا.پس اگر تیری بیوی زینا تو نہیں کرتی مگر شہوت کی نظر سے غیر لوگوں کو دیکھتی ہے اور ان سے بغل گیر ہوتی ہے اور زنا کے مقدمات اس سے صادر ہوتے ہیں گو ابھی تکمیل نہیں ہوئی اور غیر کو اپنی برہنگی دکھلا دیتی ہے اور مشرکہ اور مفسدہ ہے اور جس پاک خدا پر تو ایمان رکھتا ہے اس سے وہ بیزار ہے تو اگر وہ باز نہ آوے تو تو سے طلاق دے سکتا ہے.کیونکہ وہ اپنے اعمال میں تجھ سے علیحدہ ہو گئی.اب تیرے جسم کا ٹکڑہ نہیں رہی پس تیرے لئے اب جائز نہیں ہے کہ تو دیوئی سے اس کے ساتھ بسر کرے کیونکہ اب وہ تیرے جسم کا ٹکڑہ نہیں ایک گندہ اور متعفن عضو ہے جو کاٹنے کے لائق ہے.ایسا نہ ہو کہ وہ باقی عضو کو بھی گندہ کر دے اور تو مر جائے.

Page 427

۴۰۹ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۹ قرآن تمہیں انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ ہر گز قسم نہ کھا.بلکہ بیہودہ قسموں سے تمہیں روکتا ہے کیونکہ بعض صورتوں میں قسم فیصلہ کے لئے ایک ذریعہ ہے.خدا کسی ذریعہ ثبوت کو ضائع کرنا نہیں چاہتا.کیونکہ اس سے اس کی حکمت تلف ہوتی ہے.یہ نی امر ہے کہ جب کوئی انسان ایک متنازعہ فیہ امر میں گواہی نہ دے.تب فیصلہ کے لئے خدائی گواہی کی ضرورت ہے.اور قسم خدا کو گواہ ٹھہرانا ہے.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۹ ، ۳۰ E- ۱۲۸۵ انجیل میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ تم پر لعنت کریں.ان کے لئے برکت چاہو.مگر قرآن کہتا ہے کہ تم اپنی خودی سے کچھ بھی نہ کرو.تم اپنے دل سے جو خدا کی تجلیات کا گھر ہے فتوئی پوچھو کہ ایسے شخص کے ساتھ کیا معاملہ چاہئے.پس اگر خدا تمہارے دل میں ڈالے کہ یہ لعنت کرنے والا قابل رحم ہے اور آسمان میں اس پر لعنت نہیں تو تم لعنت کرنے والے بھی لعنت نہ کرو.تا خدا کے مختلف نہ ٹھہرو.لیکن اگر تمہارا کا نفس اس کو معذور کے بادہ میں تعلیم نہیں ٹھہراتا اور تمہارے دل میں ڈالا گیا ہے کہ آسمان پر اس شخص پر لعنت ہے تو تم اس کے لئے برکت نہ چاہو.جیسا کہ شیطان کے لئے کسی نبی نے برکت نہیں چاہی اور کسی نبی نے اس کو لعنت سے آزاد نہیں کیا.مگر کسی کی نسبت لعنت میں جلدی نہ کرو.کہ بہتیری بلھیاں جھوٹی ہیں اور بہتری لعنتیں اپنے پر ہی پڑتی ہیں.سنبھل کر قدم رکھو رخوب پڑتال کر کے کوئی کام کرو اور خدا سے مدد مانگو کیونکہ تم اندھے ہو.ایسانہ ہو کہ عادل کو ظالم ٹھہراو.اور صادق کو کاذب خیال کرو.اس طرح تم اپنے خدا کو ناراض کر دو.اور تمہارے سب نیک کام خبط ہو جاویں.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۱ انجیل میں کہا گیا ہے کہ تم اپنے نیک کاموں کو لوگوں کے سامنے دکھلانے کے لئے MAY نہ کرو.مگر قرآن کہتا ہے کہ تم ایسا مت کرو کہ اپنے سارے کام لوگوں سے چھپلو.بلکہ نیک کاموں کے برہ تم حسب مصلحت بعض اپنے نیک اعمال پوشیدہ طور پر بجالاؤ.جب کہ تم دیکھو کہ میں تعلیم

Page 428

۴۱۰ ۲۸۷ پوشیدہ کرنا تمہارے نفس کے لئے بہتر ہے.اور بعض اعمال دکھلا کر بھی کرو جبکہ تم دیکھو کہ دکھلانے میں عام لوگوں کی بھلائی ہے تا تمہیں دو بدلے ملیں.اور تا کمزور لوگ جو ایک نیکی کے کام پر جرات نہیں کر سکتے وہ بھی تمہاری پیروی سے اس نیک کام کو کر لیں.غرض خدا نے جو اپنے کلام میں فرمایا.ستر او علانية یعنی پوشیدہ بھی خیرات کرو اور دکھلا دکھلا کر بھی.ان احکام کی حکمت اس نے خود فریادی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف قول سے لوگوں کو سمجھا بلکہ فعل سے بھی تحریک کرو.کیونکہ ہر ایک قول اثر نہیں کرتا.بلکہ اکثر جگہ نمونہ کا بہت اثر ہوتا ہے.کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۱، ۳۲ ایسا ہی انجیل میں ہے کہ جب تو دعا مانگے تو اپنی کوٹھری میں جا.مگر قرآن سکھاتا ہے کہ رما، پوشیدہ کرنے اپنی دعا کو ہرایک موقعہ پر پوشیدہ مت کرو.بلکہ تم لوگوں کے روبرو اور اپنے بھائیوں کے مجمع کے ساتھ بھی کھلی کھلی طور پر دعا کیا کرو.تا اگر کوئی دعا منظور ہو تو اس مجمع کے لئے کے بارہ میں تعلیم ایمان کی ترقی کا موجب ہو.اور تا دوسرے لوگ بھی دعا میں رغبت کریں.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۲ انجیل میں ہے کہ تم اس طرح دعا کرو کہ اے ہمارے باپ کہ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو.تیری بادشاہت آوے.تیری مرضی جیسی آسمان پر ہے دعا کا طریق زمین پر آوے.ہماری روزانہ روٹی آج ہمیں بخش.اور جس طرح ہم اپنے قرض سحر داروں کو بخشتے ہیں تو اپنے قرض کو ہمیں بخش دے.اور ہمیں آزمائش میں نہ ڈال بلکہ برائی سے بچا.کیونکہ بادشاہت اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں.مگر قرآن کہتا ہے کہ یہ نہیں کہ زمین تقدیس سے خالی ہے بلکہ زمین پر بھی خدا کی تقدیس ہو رہی ہے.نہ صرف آسمان پر جیسا کہ وہ فرماتا ہے.وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمدِهِ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ یعنی ذرہ ذرہ زمین کا اور آسمان کا خدا کی تحمید و تقدیس کر رہا ہے اور جو کچھ ان میں ہے.وہ حمید اور تقدیس میں مشغول ہے.پہاڑ اس کے ذکر میں مشغول ہیں.دریا اس کے ذکر میں مشغول ہیں.درخت اس کے ذکر میں مشغول ہیں اور بہت سے

Page 429

۴۱۱ راست باز اس کے ذکر میں مشغول ہیں.اور جو شخص دل اور زبان کے ساتھ اس کے ذکر میں مشغول نہیں اور خدا کے آگے فروتنی نہیں کرتا.اس سے طرح طرح کے شکنجوں اور عذابوں سے قضا و قدر الہی فروتنی کرا رہی ہے.اور جو کچھ فرشتوں کے بارے میں خدا کی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ نہایت درجہ اطاعت کر رہے ہیں.یہی تعریف زمین کے بات بات اور ذرہ ذرہ کی نسبت قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہر ایک چیز اس کی اطاعت کر رہی ہے.ایک پتہ بھی بجز اس کے امر کے گر نہیں سکتا.اور بجز اس کے حکم کے نہ کوئی دوا شفا دے سکتی ہے اور نہ کوئی غذا موافق ہو سکتی ہے.اور ہر ایک چیز غایت درجہ کے تذلل اور عبودیت سے خدا کے آستانہ پر گری ہوئی ہے اور اس کی فرمانبرداری میں مستغرق ہے.پہاڑوں اور زمین کا ذرہ ذرہ اور دریاؤں اور سمندروں کا قطرہ قطرہ اور درختوں اور بوٹیوں کا پات پات اور ہر ایک جزوان کا اور انسان اور حیوانات کے کل ذرات خدا کو پہچانتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کی تحمید و تقدیس میں مشغول ہیں.اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الارض یعنی جیسے آسمان پر ہر یک چیز خدا کی تسبیح و تقدیس کر رہی ہے ویسے ہی زمین پر بھی ہر ایک چیز اس کی تسبیح و تقدیس کرتی ہے.پس کیا زمین پر خدا کی تحمید و تقدیس نہیں ہوتی ؟ ایسا کلمہ ایک کامل عارف کے منہ سے نہیں نکل سکتا.بلکہ زمین کی چیزوں میں سے کوئی چیز تو شریعت کے احکام کی اطاعت کر رہی ہے اور کوئی چیز قضا و قدر کے احکام کے تابع ہے.اور کوئی دونوں کی اطاعت میں کمر بستہ ہے.کیا بادل کیا ہوا کیا آگ کیا زمین سب خدا کی اطاعت اور تقدیس میں محو ہیں.اگر کوئی انسان الہی شریعت کے احکام کا سرکش ہے تو الہی قضا و قدر کے حکم کا تابع ہے.ان دونوں حکومتوں سے باہر کوئی نہیں.کسی نہ کسی آسمانی حکومت کا جواہر ایک کی گردن پر ہے.ہاں البتہ انسانی دلوں کی صلاح و فساد کے لحاظ سے غفلت اور ذکر الہی نوبت به نوبت زمین پر اپنا غلبہ کرتے ہیں.مگر بغیر خدا کی حکمت اور مصلحت کے یہ مدوجزر خود بخود نہیں.خدا نے چاہا کہ زمین میں ایسا ہو سو ہو گیا.سوہدایت اور ضلالت کا دور بھی دن رات کے دور کی طرح خدا کے قانون اور اذن کے موافق چل رہا ہے نہ خود بخود.باوجود اس کے ہر ایک چیز اس کی آواز سنتی ہے اور اس کی پاکی یاد کرتی ہے.مگر انجیل کہتی ہے کہ زمین خدا کی تقدیس سے خالی ہے؟ اس کا سبب اس انجیلی دعا کے اگلے فقرہ میں بطور اشارہ بیان کیا گیا ہے.اور وہ یہ کہ ابھی اس

Page 430

میں خدا کی بادشاہت نہیں آئی.اس لئے حکومت نہ ہونے کی وجہ سے نہ کسی اور وجہ سے خدا کی مرضی ایسے طور سے زمین پر نافذ نہیں ہو سکی جیسا کہ آسمان پر نافذ ہے.مگر قرآن کی تعلیم سراسر اس کے بر خلاف ہے..وہ تو صاف لفظوں میں کہتا ہے کہ کوئی چور خونی - زائی - کافر - فاسق.سرکش.جرائم پیشہ کسی قسم کی بدی زمین پر نہیں کر سکتا جب تک کہ آسمان پر سے اس کو اختیار نہ دیا جائے.پس کیونکر کہا جائے کہ آسمانی بادشاہت زمین پر نہیں.کیا کوئی مخالف قبضہ زمین پر خدا کے احکام کے جاری ہونے سے مزاحم ہے.سبحان اللہ ایسا ہر گز نہیں.بلکہ خدا نے خود آسمان پر فرشتوں کے لئے جدا قانون بنایا.اور زمین پر انسانوں کے لئے جدا.اور خدا نے اپنی آسمانی بادشاہت میں فرشتوں کو کوئی اختیار نہیں دیا.بلکہ ان کی فطرت میں ہی اطاعت کا مادہ رکھ دیا ہے.وہ مخالفت کر ہی نہیں سکتے اور سہو و نسیان ان پر وار د نہیں ہو سکتا.لیکن انسانی فطرت کو قبول ، عدم قبول کا اختیار دیا گیا ہے اور چونکہ یہ اختیار اوپر سے دیا گیا ہے.اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ فاسق انسان کے وجود سے خدا کی بادشاہت زمین سے جاتی رہی.بلکہ ہر رنگ میں خدا کی ہی بادشاہت ہے.ہاں صرف قانون دو ہیں.ایک آسمانی فرشتوں کے لئے قضا و قدر کا قانون ہے کہ وہ بدی کر ہی نہیں سکتے.اور ایک زمین پر انسانوں کے لئے خدا کے قضا و قدر کے متعلق ہے.اور وہ یہ ہے کہ آسمان سے ان کو بری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے.مگر جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں.تو روح القدس کی تائید سے ان کی کمزوری دور ہو سکتی ہے.اور وہ گناہ کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں.جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بچتے ہیں.اور اگر ایسے لوگ ہیں کہ گنہگار ہو چکے ہیں تو استغفار ان کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں.کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی.اور جرائم پیشہ جو استغفار نہیں کرتے یعنی خدا سے طاقت نہیں مانگتے.وہ اپنے جرائم کی سزا پاتے رہتے ہیں.دیکھو آجکل طاعون بھی بطور سزا کے زمین پر اتری ہے اور خدا کے سرکش اس سے ہلاک ہوتے جاتے ہیں.پھر کیونکر کہا جائے کہ خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں.یہ خیال مت کرو کہ اگر زمین پر خدا کی بادشاہت ہے تو پھر لوگوں سے جرائم کیوں ظہور میں آتے ہیں کیونکہ جرائم بھی خدا کے قانون قضا و قدر کے نیچے ہیں.سو اگر چہ وہ لوگ قانون شریعت سے باہر ہو جاتے ہیں.مگر قانون تکوین یعنی قضا و قدر سے وہ باہر ۴۱۲

Page 431

۴۱۳ نہیں ہو سکتے.پس کیونکر کہا جائے کہ جرائم پیشہ لوگ اپنی سلطنت کا جوا اپنی گردن پر نہیں رکھتے.دیکھو اس ملک برٹش انڈیا میں چوریاں بھی ہوتی ہیں.خون بھی ہوتے ہیں.زنا کار اور خائن اور مرتشی وغیرہ ہر یک قسم کے جرائم پیشہ بھی پائے جاتے ہیں.نہیں کہہ سکتے کہ اس ملک میں سرکار انگریزی کا راج نہیں.عیسائیوں کو اس بات پر زور دینا اچھا نہیں کہ صرف آسمان میں ہی خدا کی بادشاہت ہے جو ابھی زمین پر نہیں آئی.کیونکہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ آسمان کچھ چیز نہیں.اب ظاہر ہے کہ جبکہ آسمان کچھ چیز نہیں جس پر خدا کی بادشاہت ہو.اور زمین پر ابھی خدا کی بادشاہت آئی نہیں لو گو یا خدا کی بادشاہت کسی جگہ بھی نہیں.ماسوا اس کے ہم خدا کی زمینی بادشاہت کو بچشم خود دیکھ رہے ہیں.اس کے قانون کے موافق ہماری عمریں ختم ہو جاتی ہیں اور ہماری حالتیں بدلتی رہتی ہیں اور صدہا رنگ کے راحت اور رنج ہم دیکھتے ہیں.ہزار ہالوگ خدا کے حکم سے مرتے ہیں اور ہزار ہا پیدا ہوتے ہیں.دعائیں قبول ہوتی ہیں.نشان ظاہر ہوتے ہیں.زمین ہزار ہا قسم کے نباتات اور پھل اور پھول اس کے حکم سے پیدا کرتی ہے.تو کیا یہ سب کچھ خدا کی بادشاہت کے بغیر ہو رہا ہے.بلکہ آسمانی اجرام تو ایک ہی صورت اور منوال پر چلے آتے ہیں اور ان میں تغیر و تبدل جس سے ایک مغیر مبدل کا پتہ ملتا ہو.کچھ محسوس نہیں ہوتی.مگر زمین ہزار ہا تغیرات اور انقلابات اور تبدلات کا نشانہ ہو رہی ہے.ہر روز کروڑہا انسان دنیا سے گذرتے ہیں اور کروڑہا پیدا ہوتے ہیں.اور ہر ایک پہلو اور ہر ایک طور سے ایک مقتدر صانع کا تصرف محسوس ہو رہا ہے.تو کیا ابھی تک خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں آئی اور انجیل نے اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی کہ کیوں ابھی تک خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں آئی.البتہ مسیح کا باغ میں اپنے بچ جانے کے لئے ساری رات دعا کرنا اور دعا قبول بھی ہو جانا جیسا کہ عبرانیاں ۵.آیت میں لکھا ہے.مگر پھر بھی خدا کا اس کے چھڑانے پر قادر نہ ہوتا یہ بزعم عیسائیاں ایک دلیل ہو سکتی ہے کہ اس زمانہ میں خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں تھی زمانہ مگر ہم نے اس سے بڑھ کر ابتلا دیکھے اور ان سے نجات پائی ہے.ہم کیونکر خدا کی بادشاہت کا انکار کر سکتے ہیں.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۳ تا ۳۷

Page 432

۴۱۴ ١٢٨٩ شمال الطرق تفصیل یہ دعا جو سورہ فاتحہ میں ہے انجیل کی دعا سے بالکل نقیض ہے.کیونکہ انجیل میں زمین پر خدا کی موجودہ بادشاہت ہونے سے انکار کیا گیا ہے.پس انجیل کے رو سے نہ زمین پر خدا کی ربوبیت کچھ کام کر رہی ہے نہ رحمانیت نہ رحیمیت نہ قدرت جزا دعا کا طریق مرید سزا.کیونکہ ابھی زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں آئی.مگر سورہ فاتحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت موجود ہے.اسی لئے سورہ فاتحہ میں تمام لوازم بادشاہت کے بیان کئے گئے ہیں.ظاہر ہے کہ بادشاہ میں یہ صفات ہونی چاہئیں کہ وہ لوگوں کی پرورش پر قدرت رکھتا ہو.سوسورۂ فاتحہ میں رب العالمین کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کیا گیا ہے.پھر دوسری صفت بادشاہ کی یہ چاہئے کہ جو کچھ اس کی رعایا کو اپنی آبادی کے لئے ضروری سامان کی حاجت ہے.وہ بغیر عوض ان کی خدمات کے خو در تم خسروانہ سے بجا لاوے.سو الرحمان کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کر دیا ہے.تیسر کی صفت بادشاہ میں یہ چاہئے کہ جن کاموں کو اپنی کوشش سے رعایا انجام تک نہ پہنچا سکے ان کے انجام کے لئے مناسب طور پر مدد دے.سوالرحیم کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کیا ہے.چوتھی صفت بادشاہ میں یہ چاہئے کہ جزا و سزا پر قادر ہو.تا سیاست مدنی کے کام میں خلل نہ پڑے.سو مالک یوم الدین کے لفظ سے اس صفت کو ظاہر کر دیا ہے.خلاصہ کلام یہ کہ سورہ موصوفہ بالا نے تمام وہ لوازم بادشاہت پیش کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت اور بادشاہی تصرفات موجود ہیں.چنانچہ اس کی ربوبیت بھی موجود اور رحمانیت بھی موجود اور رحمیت بھی موجود اور سلسلہ امداد بھی موجود اور سلسلہ سزا بھی موجود.غرض جو کچھ بادشاہت کے لوازم میں سے ہوتا ہے.زمین پر سب کچھ خدا کا موجود ہے اور ایک ذرہ بھی اس کے حکم سے باہر نہیں.ہر ایک جزو اس کے ہاتھ میں ہے.ہر ایک رحمت اس کے ہاتھ میں ہے.مگر انجیل یہ دعا سکھلاتی ہے کہ ابھی خدا کی بادشاہت تم میں نہیں آئی.اس کے آنے کے لئے خدا سے دعا مانگا کرو.تاوہ آجائے.یعنی ابھی تک ان کا خداز مین کا مالک اور بادشاہ نہیں.اس لئے ایسے خدا سے کیا امید ہو سکتی ہے.سنو اور سمجھو کہ بڑی معرفت یہی ہے کہ زمین کا ذره ذرہ بھی ایسا ہی خدا کے قبضہ اقتدار میں ہے جیسا کہ آسمان کا ذرہ ذرہ خدا کی بادشاہت میں ہے.اور جیسا کہ آسمان پر ایک عظیم الشان تجلی ہے ان پر بھی ایک عظیم انشان تجلی ہے..بلکہ آسمان کی تجلی تو ایک ایمانی امر ہے.عام انسان نہ آسمان پر

Page 433

۴۱۵ گئے.نہ اس کا مشاہدہ کیا.مگر زمین پر جو خدا کی بادشاہت کی تجلی ہے.وہ تو صریح ہر ایک شخص کو آنکھوں سے نظر آرہی ہی ہے.ہر ایک انسان خواہ کیسا ہی دولت مند ہو اپنی خواہش کے مختلف موت کا پیالہ پیتا ہے.پس دیکھو اس شاہ حقیقی کے حکم کی کیسی زمین پر مجلتی ہے.کہ جب حکم آجاتا ہے تو کوئی اپنی موت کو ایک سیکنڈ بھی روک نہیں سکتا.ہر ایک خبیث اور نا قابل علاج مرض جب دامن گیر ہوتی ہے تو کوئی طبیب ڈاکٹر اس کو دور نہیں کر سکتا.پس غور کرو.یہ کیسی خدا کی بادشاہت کی زمین پر تجلی ہے.جو اس کے حکم رو نہیں ہو سکتے.پھر کیونکر کہا جائے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں بلکہ آئندہ کسی زمانہ میں آئے گی.دیکھو اس زمانہ میں خدا کے آسمانی حکم نے طاعون کے ساتھ زمین کو ہلا دیا.تا اس کے مسیح موعود کے لئے ایک نشان ہو.پس کون ہے جو اس کی مرضی کے سوا اس کو دور کر سگے.پس کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ابھی زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں.ہاں ایک بد کار قیدیوں کی طرح اس کی زمین میں زندگی بسر کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کبھی نہ مرے.لیکن خدا کی کچی بادشاہت اس کو ہلاک کر دیتی ہے.اور وہ آخر پنجہ ملک الموت میں گرفتار ہو جاتا ہے.پھر کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک خدا کی زمین پر بادشاہت نہیں.دیکھو زمین پر ہر روز خدا کے حکم سے ایک ساعت میں کروڑ ہا انسان مر جاتے ہیں اور کروڑہا اس کے ارادہ سے پیدا ہو جاتے ہیں.اور کروڑہا اس کی مرضی سے فقیر سے امیر اور امیر سے فقیر ہو جاتے ہیں.پھر کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک زمین پر خدا کی پر بادشاہت نہیں.آسمانوں پر تو صرف فرشتے رہتے ہیں.مگر زمین پر آدمی بھی ہیں اور فرشتے بھی جو خدا کے کارکن اور اس کی سلطنت کے خادم ہیں جو انسانوں کے مختلف کاموں کے محافظ چھوڑے گئے ہیں.اور وہ ہر وقت خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور اپنی رپورٹین بھیجتے رہتے ہیں.پس کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں.بلکہ خدا سب سے زیادہ اپنی زمینی بادشاہت سے ہی پہچانا گیا ہے.کیونکہ ہر ایک شخص خیال کرتا ہے کہ آسمان کا راز مخفی اور غیر مشہور ہے.بلکہ حال کے زمانہ میں آیت وَحَمَلَهَا الإِنسانُ بھی دلالت کر رہی ہے کہ خدا کا حقیقی مطیع انسان ہی ہے جو اپنی اطاعت کو محبت اور مشق تک پہنچاتا ہے.اور خدا کی بادشاہت کو ہزار ہا بلاؤں کو سر پر لے کر زمین پر ثابت کرتا ہے.پس یہ طاعت جو درد دل سے ملی ہوئی ہے فرشتے اس کو کب بجالا سکتے ہیں.منہ

Page 434

¦ قریباً تمام عیسائی اور ان کے فلاسفر آسمانوں کے وجود کے قائل ہی نہیں.جن پر خدا کی بادشاہت کا انجیلوں میں سارا دارومدار رکھا گیا ہے.مگر زمین توفی الواقع ایک کرہ ہمارے پاؤں کے نیچے ہے اور ہزار ہا قضا و قدر کے امور اس پر ظاہر ہور ہے ہیں.جو خود سمجھ آتا ہے کہ یہ سب کچھ تغیر و تبدل اور حدوث اور فنا کسی خاص مالک کے حکم سے ہو رہا ہے.پھر کیونکر کہا جائے کہ زمین پر ابھی خدا کی بادشاہت نہیں.بلکہ ایسی تعلیم ایسے زمانہ میں جبکہ عیسائیوں میں آسمانوں کا بڑے زور سے انکار کیا گیا ہے.نہایت نا مناسب ہے.کیونکہ انجیل کی اس دعا میں تو قبول کر لیا گیا ہے کہ ابھی زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں.اور دوسری طرف تمام محققین عیسائیوں نے بچے دل سے یہ بات مان لی ہے یعنی اپنی تحقیقات جدیدہ سے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ آسمان کچھ چیز نہیں ان کا کچھ وجو د ہی نہیں.پس ماحصل یہ ہوا کہ خدا کی بادشاہت نہ زمین میں ہے نہ آسمان میں.آسمانوں سے تو عیسائیوں نے انکار کیا.اور زمین کی بادشاہت سے ان کی انجیل نے خدا کو جواب دے دیا.تو اب بقول ان کے خدا کے پاس نہ زمین کی بادشاہت رہی نہ آسمان کی.مگر ہمارے خدائے عز و جل نے سورۂ فاتحہ میں نہ آسمان کا نام لیانہ زمین کا نام.اور یہ کہہ کر حقیقت سے ہمیں خبر دے دی کہ وہ ربّ العالمین ہے.یعنی جہاں تک آبادیاں محمد ہیں اور جہاں تک کسی قسم کی مخلوق کا وجود موجود ہے.خواہ اجسام خواہ ارواح ان سب کا پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا خدا ہے.جو ہر وقت ان کی پرورش کرتا اور ان کے مناسب حال ان کا انتظام کر رہا ہے.اور تمام عالموں پر ہر وقت ہر دم اس کا سلسلہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور جزا سزا کا جاری ہے.اور یاد رہے کہ سورہ فاتحہ میں ' مالک یوم الدین سے صرف یہ مراد نہیں ہے کہ قیامت کو جزا سزا ہوگی.بلکہ قرآن شریف میں بار بار اور صاف صاف بیان کیا گیا ہے کہ قیامت تو مجازات کبری کا وقت ہے.مگر ایک قسم کی مجازات اسی دنیا میں شروع ہے.جس کی طرف آیت يَجْعَلَ لَكُم فرقانا اشارہ کرتی ہے.اب یہ بات بھی سنو کہ انجیل کی دعا میں تو ہر روزہ روٹی مانگی گئی ہے.جیسا کہ کہا کہ ”ہماری ، دیکھو لفظ رب العالمین کیسا جامع کلمہ ہے.اگر ثابت ہو کہ اجرام فلکی میں آبادیاں ہیں.تب بھی وہ آبادیاں اس کلمہ کے نیچے آئیں گی.منہ

Page 435

روزانہ روٹی آج ہمیں بخش "مگر تعجب کہ جس کی ابھی تک زمین پر بادشاہت نہیں آئی.وہ کیونکر روٹی دے سکتا ہے.ابھی تک تو تمام کھیت اور تمام پھل نہ اس کے حکم ہے بلکہ خود بخود پکتے ہیں.اور خود بخود بارشیں ہوتی ہیں.اس کا کیا اختیار ہے کہ کسی کو روٹی دے.جب بادشاہت زمین پر آجائے گی تب اس سے روٹی مانگنی چاہئے.ابھی تک تو وہ ہر ایک زمینی چیز سے بیدخل ہے.جب اس جائداد پر پور اقبضہ پائے گا تب کسی کو روٹی دے سکتا ہے.اور اس وقت اس سے مانگنا بھی نازیبا ہے.اور پھر اس کے بعد یہ قول کہ " جس طرح ہم اپنے قرض داروں کو بخشتے ہیں تو اپنے قرض ہمیں بخش دے.اس صورت میں یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ زمین کی بادشاہت ابھی اس کو حاصل نہیں اور ابھی عیسائیوں نے کچھ اس کے ہاتھ سے لے کر کھایا نہیں تو پھر قرضہ کونسا ہوا.پیس ایسے تہی دست خدا سے قرض بخشوانے کی کچھ ضرورت نہیں.اور نہ اس سے کچھ خوف ہے.کیونکہ زمین پر ابھی اس کی بادشاہت نہیں اور نہ اس کی حکومت کا تازیانہ کوئی رعب بٹھلا سکتا ہے.کیا مجال کہ وہ کسی مجرم کو سزا دے سکے یا موسی کے زمانہ کی نافرمان قوم کی طرح طاعون سے ہلاک کر سکے.یا قوم لوط کی طرح ان پر پتھر بر سا سکے.بازلزلہ یا بجلی یا کسی اور عذاب سے نافرمانوں کو نابود کر سکے.کیونکہ ابھی خدا کی زمین پر بادشاہت نہیں.پس چونکہ عیسائیوں کا خدا ایسا ہی کمزور ہے جیسا کہ اس کا بیٹا کمزور تھا.اور ایسا ہی بیدخل ہے جیسا کہ اس کا بیٹا بید خل تھاتو پھر اس سے ایسی دعائیں مانگنا لا حاصل ہیں کہ ہمیں قرض بخش دے.اس نے کب قرض دیا تھا جو بخش دے.کیونکہ ابھی تک تو اس کی زمین کے بادشاہت نہیں جب کہ اس کی زمین پر باد شاہت ہی نہیں تو زمین کی روئیدگی اس کے حکم سے نہیں اور زمینی چیزیں اس کی نہیں بلکہ خود بخود ہی ہیں.کیونکہ اس کا زمین پر حکم نافذ نہیں.اور جبکہ وہ زمین پر فرمانروا اور بادشاہ نہیں اور کوئی زمینی آسائش اس کے شاہانہ حکم سے نہیں.تو اس کو سزا کا نہ اختیار ہے نہ حق حاصل ہے.لہذا ایسا کمر ور اپنا خدا بناتا اور اس سے زمین پر رہ کر کسی کاروائی کی امید رکھنا حماقت ہے کیونکہ ابھی اس کی زمین پر بادشاہی نہیں.لیکن سورہ فاتحہ کی دعا ہمیں سکھلاتی ہے کہ خدا کو زمین پر ہر وقت وہی اقتدار حاصل ہے جیسا کہ اور عالموں پر اقتدار حاصل ہے.اور سورہ فاتحہ کے سرپر خدا کے ان کامل اقتداری صفات کا ذکر ہے جو دنیا میں کسی دوسری کتاب نے ایسی صفائی سے ذکر نہیں کیا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ رحمان ہے.وہ رحیم ہے

Page 436

۴۱۸ پر نظری.وہ مالک یوم الدین ہے.پھر اس سے دعامانگنے کی تعلیم کی ہے.اور دعا جو مانگی گئی ہے وہ مسیح کی تعلیم کردہ دعا کی طرح صرف ہر روزہ روٹی کی درخواست نہیں.بلکہ جو جو انسانی فطرت کو ازل سے استعداد بخشی گئی ہے اور اس کو پیاس لگا دی گئی ہے وہ دعا سکھلائی گئی ہے اور وہ یہ ہے.اِهْدِنَا الصراط المستقيم صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی اے ان کامل صفتوں کے مالک اور اے فیاض کہ ذرہ ذرہ تجھ سے پرورش پاتا ہے.اور تیری ر حمانیت اور رحیمیت اور قدرت جزا سزا سے تمتع اٹھاتا ہے.تو ہمیں گذشتہ ر است بازوں کا وارث بنا اور ہر ایک نعمت جو ان کو دی ہے.ہمیں بھی دے.اور ہمیں بچا کہ نافرمان ہو کر مورد غضب نہ ہو جائیں.اور ہمیں بچا کہ ہم تیری مدد سے بے نصیب رہ کر گمراہ نہ ہو جاویں.آمین اب اس تمام تحقیقات سے انجیل کی دعا اور قرآن کی دعا میں فرق ظاہر ہو گیا کہ انجیل تو خدا کی بادشاہت آنے کا وعدہ کرتی ہے.مگر قرآن بتلاتا ہے کہ خدا کی بادشاہت تم میں موجود ہے.نہ صرف موجود بلکہ عملی طور پر تم پر فیض بھی جاری ہیں.غرض انجیل میں تو صرف ایک وعدہ ہی ہے.مگر قرآن نہ محض وعدہ بلکہ قائم شدہ بادشاہت اور اس کے فیوض کو دکھلا رہا ہے.اب قرآن کی فضیلت اس سے ظاہر ہے کہ وہ اس خدا کو پیش کرتا ہے جو اسی زندگی دنیا میں راست بازوں کا منجی اور آرام دہ ہے.اور کوئی نفس اس کے فیض سے خالی نہیں.بلکہ ہر ایک نفس پر حسب اس کی ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت کا فیض جاری ہے.مگر انجیل اس خدا کو پیش کرتی ہے جو ابھی اس کی بادشاہت دنیا میں نہیں آئی.صرف وعدہ ہے.اب سوچ لو کہ عقل شمس کو قابل پیروی سمجھتی ہے.حافظ شیرازی نے سچ کہا ہے کہ مرید پیر مغانم زمن مریج اے شیخ چرا کہ وعدہ تو کر دی داد بجا آورد کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۹ تا ۴۴ ایسا ہی انجیل کی یہ تعلیم کہ بد نظری سے کسی عورت کو مت دیکھو جس کا ماحصل یہ ہے کہ پاک نظر سے بیشک دیکھ لیا کرو.یہ ایک ایسی تعلیم ہے کہ جو ایک بد نیت انسان کو بد نظری کا موقع دیتی ہے اور ایک نیک انسان کو امتحان میں ڈالتی ہے.کیونکہ اس فتوی سے بد نظری کی عادت والے کو پناہ ملتی ہے.اور ایک پرہیز گار کے دل کو بدی کے

Page 437

۴۱۹ سر چشمہ سے قریب ہونا پڑتا ہے.وہ یہ کہ ممکن ہے کہ ایک سادہ دل انسان ایک یہ شخص کے حسن و جمال کو دیکھ کر اس پر شیدا اور فریفتہ ہو جائے اور پھر ہر دم ناپاک خیال دل میں پیدا ہونے لگیں.پس اس تعلیم کی مثال ایسی ہے کہ جیسا کہ ایک عمارت مثلاً دریا کے اس رخ کی طرف بنائی جائے جس طرف وہ دریا بڑے زور اور سیلاب کے ساتھ قدم بڑھا رہا ہے.پس ایسی عمارت اگر دن کو نہیں گرے گی تورات کر ضرور گر جائے گی.اسی طرح اگر کوئی عیسائی اس تعلیم سے عقل اور حیا اور انسانیت کے نور کے ہوتے ہوئے جو دن سے مشابہت رکھتا ہے بدی میں نہیں پڑے گا.لیکن جوانی کی حالت اور جذبات نفس کے وقت میں خصوصاً جبکہ شراب کے پینے کی حالت میں شہوانی تاریکیوں کے ہجوم سے رات پڑ جائے.ایسی حالت میں اس بے قیدی کی نظر کے بد نتائج سے ہر گز نہیں بچ سکے گا.لیکن اس تعلیم کے مقابل پر وہ تعلیم جو قرآن شریف نے دی ہے وہ اس قدر اعلیٰ ہے جو دل بول اٹھتا ہے کہ ہاں یہ خدا کا کلام ہے.جیسا کہ قرآن شریف میں یہ آیت ہے - قُل لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَرِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ E یعنی مومنوں کو کہہ دے کہ نامحرم اور محل شہوت کے دیکھنے سے اپنی آنکھیں اس قدر بند رکھیں کہ پوری صفائی سے چہرہ نظر نہ آسکے اور نہ چہرہ پر کشادہ اور بے روک نظر پڑ سکے.اور اس بات کے پابند رہیں کہ ہر گز آنکھ کو پورے طور پر کھول کر نہ دیکھیں نہ شہوت کی نظر سے اور نہ بغیر شہوت سے کیونکہ ایسا کرنا آخر ٹھوکر کا باعث ہے یعنی بے قیدی کی نظر سے نہایت پاک حالت محفوظ نہیں رہ سکتی اور آخر ابتلا پیش آتا ہے اور دل پاک نہیں ہو سکتا جب تک آنکھ پاک نہ ہو.اور وہ مقام از کی جس پر طالب حق کے لئے قدم ملا نا مناسب ہے حاصل نہیں ہو سکتا.اور اس آیت میں یہ بھی تعلیم ہے کہ بدن کے ان تمام سوراخوں کو محفوظ رکھیں جن کی راہ سے بدی داخل ہو ہے.سوراخ کے لفظ میں جو آیت ممدوح میں مذکور ہے.آلات شہوت اور کان اور ناک اور منہ سب داخل ہیں.اب دیکھو کہ یہ تمام تعلیم کس شان اور پایہ کی ہے جو کسی پہلو پر نامعقول طور پر افراط یا تفریط سے زور نہیں ڈالا گیا.اور حکیمانہ اعتدال سے کام لیا

Page 438

۴۲۰ ۲۹۱ گیا ہے.اور اس آیت کا پڑہنے والا فی الفور معلوم کر لے گا.کہ اس حکم سے جو کھلے کھلے نظر ڈالنے کی عادت نہ ڈالو.یہ مطلب ہے کہ تالوگ کسی وقت فتنہ میں مبتلا نہ ہو چائیں.اور دونوں طرف مرد اور عورت میں سے کوئی فریق ٹھو کر نہ کھاوے.لیکن انجیل میں جو بے قیدی اور کھلی آزادی دی گئی اور صرف انسان کی مخفی نیت پر مدار رکھا گیا ہے.اس تعلیم کا نقص اہو خامی ایسا امر نہیں ہے کہ اس کی تصریح کی کچھ ضرورت ہو.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۶۳ تا ۱۶۵ نیز دیکھیں.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۸ ، ۲۹ عیسائیوں نے جو مسیح کو خدا بناتے ہیں باوجود خدا بنانے کے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے.اور باتوں کے علاوہ ایک نئی بات مجھے معلوم ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ تاریخ سے تعدد ازدواج معلوم ہوا ہے کہ جس یوسف کے ساتھ حضرت مریم کی شادی ہوئی اس کی ایک بیوی پہلے بھی موجود تھی.اب غور طلب یہ امر ہے کہ یہودیوں نے تو اپنی شرارت سے اور حد سے بڑھی ہوئی شوخی سے حضرت مسیح کی پیدائش کو ناجائز قرار دیا.اور انہوں نے یہ ظلم پر ظلم کیا کہ ایک تار کہ اور نذر دی ہوئی لڑکی کا اپنی شریعت کے خلاف نکاح کیا اور پھر حمل میں نکاح کیا.اس طرح پر انہوں نے شریعت موسوی کی توہین کی اور بائیں حضرت مسیح کی پاک پیدائش پر نکتہ چینی کی جس کو ہم سن بھی نہیں سکتے.ان کے مقابل پر عیسائیوں نے کیا کیا ؟ عیسائیوں نے حضرت مسیح کی پیدائش کو تو بیشک اعتقادی طور پر روح القدس کی پیدائش قرار دیا اور خود خدا ہی کو مریم کے پیٹ سے پیدا کیا مگر تعدد ازدواج کو ناجائز کہہ کر وہی اعتراض اس شکل میں حضرت مریم کی اولاد پر کر دیا.اور اس طرح پر خود مسیح اور ان کے دوسرے بھائیوں کی پیدائش پر حملہ کیا.واقعی عیسائیوں نے تعددازدواج کے مسئلہ پر اعتراض کر کے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے.ہم تو حضرت مسیح کی شان بہت بڑی سمجھتے ہیں.اور اسے خدا کا سچا اور برگزیدہ نبی مانتے ہیں.اور ہمارا ایمان ہے کہ آپ کی پیدائش باپ کے بدوں خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک نمونہ تھی.اور حضرت مریم صدیقہ تھیں.یہ قرآن کریم کا احسان ہے حضرت مریم پر اور حضرت مسیح پر جو ان کی تطہیر کرتا ہے اور پھر یہ احسان ہے اس زمانہ کے موعود

Page 439

۴۲۱ امام کا کہ اس نے از سر نو اس تعمیر کی تجدید فرمائی.الحکم- جلد۵ نمبر ۴۱ صفحه ۳ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۱ء کثرت ازدواج پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے بہت عورتوں کی اجازت دی راندن ہے.ہم کہتے ہیں کہ کیا کوئی ایسا دلیر اور مرد میدان معترض ہے جو ہم کو یہ دکھلا سکے.کہ تعدد از رواج قرآن کہتا ہے ضرور ضرور ایک سے زیادہ عورتیں کرو.ہاں یہ ایک سچی بات ہے اور بالکل طبعی امر ہے کہ اکثر اوقات انسان کو ضرورت پیش آجاتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ عورتیں کرے.مثلاً عورت اندھی ہو گئی یا کسی اور خطرناک (مرض) میں مبتلا ہو کر اس قابل ہو گئی کہ خانہ داری کے امور سر انجام نہیں دے سکتی.اور مرد از راہ ہمدردی یہ بھی نہیں چاہتا کہ اسے علیحدہ کرے.یار خم کی خطرناک بیماریوں کا شکار ہو کر مرد کی طبعی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتی.تو ایسی صورت میں اگر نکاح ثانی کی اجازت نہ ہو تو بتلاؤ کیا اس سے بدکاری اور بد اخلاق کو ترقی نہ ہوگی ؟ پھر اگر کوئی مذہب و شریعت کثرت ازدواج کو روکتی ہے تو یقیناً وہ بدکاری اور بداخلاقی کی مؤید ہے.لیکن اسلام جو دنیا سے بد اخلاقی اور بدکاری کو دور کرنا چاہتا ہے اجازت دیتا ہے کہ ایسی ضرورتوں کے لحاظ سے ایک سے زیادہ بیویاں کرے.ایسا ہی اولاد کے نہ ہونے پر جب کہ لاولد کے پس مرگ خاندان میں بہت سے ہنگامے اور کشت و خون ہونے کی نوبت پہنچ جاتی ہے ایک ضروری امر ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں کر کے اولاد پیدا کرے.بلکہ ایسی صورت میں نیک اور شریف بیبیاں خود اجازت دے دیتی ہیں.پس جس قدر غور کرو گے یہ مسئلہ صاف اور روشن نظر آئے گا.عیسائی کو تو حق ہی نہیں پہنچتا کہ اس مسئلہ پر نکتہ چینی کرے.کیونکہ ان کے مسلمہ نبی اور ملہم بلکہ حضرت مسیح علیہ السّلام کے بزرگوں نے سات سات سو اور تین تین سو بیبیاں کیں.اور اگر وہ کہیں کہ وہ فاسق فاجر تھے.تو پھر ان کو اس بات کا جواب دینا مشکل ہو گا کہ ان کے الہام خدا کے الہام کیونکر ہو سکتے ہیں.عیسائیوں میں بعض فرقے ایسے بھی ہیں جو نبیوں کی شان میں ایسی گستاخیاں جائز نہیں رکھتے.علاوہ ازیں انجیل میں صراحت سے اس مسئلہ کو بیان ہی نہیں کیا گیا.لنڈن کی عورتوں کا زور ایک باعث ہو گیا کہ دوسری عورت نہ کریں.پھر اس کے نتائج خود دیکھ لو کہ لنڈن اور پیرس میں عفت اور تقوی کی کیسی قدر ہے.

Page 440

۴۲۲ الحکم جلد ۳ نمبر ا صفحه ۸ مورخه ۱۰ جنوری ۱۸۹۹ء بائیل اور سائنس کی آپس میں ایسی عداوت ہے جیسی کہ دو سو کنیں ہوتی ہیں.بائیل میں لکھا ہے کہ وہ طوفان ساری دنیا میں آیا اور کشتی تین سو ہاتھ لمبی اور بائبل اور سائنس پچاس ہاتھ چوڑی تھی.اور اس میں حضرت نوح نے ہر قسم کے جانوروں میں سے سات جوڑے اور ناپاک میں سے دو جوڑے ہر قسم کے کشتی میں چڑہائے.حلانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں.اول تو اللہ تعالیٰ نے کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کیا جب تک پہلے رسول کے ذریعہ سے اس کو تبلیغ نہ کی ہو.اور حضرت نوع کی تبلیغ ساری دنیا کی قوموں پر کہاں پہنچی تھی جو سب غرق ہو جاتے.دوم اتنی چھوٹی سی کشتی میں جو صرف ۳۰۰ ہاتھ لمبی اور ۵۰ ہاتھ چوڑی ہو.ساری دنیا کے جانور بہائم چرند پرند سات سات جوڑے یا دو دو جوڑے کیونکر سما سکتے ہیں.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کتاب میں تحریف ہے اور اس میں بہت سی غلطیاں داخل ہو گئیں ہیں.تعجب ہے کہ سادہ لوح علماء اسلام نے بھی ان باتوں کو اپنی کتابوں میں درج کر لیا ہے.مگر قرآن شریف ہی ان بے معنی باتوں سے پاک ہے.اس پر ایسے اعتراض وارد نہیں ہو سکتے.اس میں نہ تو کشتی کی لمبائی چوڑائی کا ذکر ہے اور نہ ساری دنیا پر طوفان آنے کا ذکر ہے.بلکہ صرف الارض یعنی وہ زمین جس میں نوح نے تبلیغ کی.صرف اس کا ذکر ہے.اراراٹ جس پر نوح کی کشتی ٹھہری اصل اری ریت ہے.جس کے معنی ہیں.میں پہاڑ کی چوٹی کو دیکھتا ہوں.ریت پہاڑ کی چوٹی کو کہتے ہیں.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے لفظ جو دی رکھا ہے.جس کے معنی ہیں میرا جود و کرم یعنی وہ کشتی میرے جود و کرم پر ٹھہری.ملفوظات.جلد ۲ صفحہ ۳۲۲، ۳۲۳ مذہب کا خلاصہ دوہی باتیں ہیں.اور اصل میں ہر مذہب کا خلاصہ ان دو ہی باتوں پر آکر ٹھیرتا ہے یعنی حق اللہ اور حق العباد.مذہب کا خلاصہ ، عیسائیوں نے ان دونوں حقوق الله و حقوق اصولوں میں سخت بیہودہ بین ظاہر کیا ہے.حق اللہ میں تو دیکھ لیا.کہ انہوں نے اس خدا کو چھوڑ دیا جو موسیٰ اور دیگر راست بازوں اور پاکیزہ لوگوں پر ظاہر ہوا تھا اور ایک عاجز انسان کو خدا بنا لیا اور حقوق العباد کی وہ مٹی پلید کی کہ کسی طرح وہ درست ہونے میں نہیں

Page 441

آتے.انجیل کی ساری تعلیم ایک ہی طرف جھکی ہوئی ہے اور انسان کی کل قوتوں کی مرتی نہیں ہو سکتی.اول تو کفارہ کا مسئلہ مان کر پھر حقوق العباد کے اختلاف سے بچنے کے لئے کوئی وجہ ہی نہیں مل سکتی ہے.کیونکہ جب یہ مان لیا گیا ہے کہ مسیح کے خون نے گناہوں کی نجاست کو دور کر دیا ہے اور دھو دیا ہے.حالانکہ عام طور پر بھی خون سے کوئی نجاست دور نہیں ہو سکتی ہے تو پھر عیسائی بتائیں کہ وہ کونسی بات ہے جو حقیقت میں انہیں روک سکتی ہے کہ وہ دنیا میں فساد نہ کریں اور کیونکر یقین کریں.چوری کرنے.بیگانہ مال لینے.ڈاکہ زنی.خون کرنے.جھوٹی گواہی دینے پر کوئی سزا ملے گی.اگر باوجود کفارہ پر ایمان لانے کے بھی گناہ گناہ ہی ہیں تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کفارہ کے کیا معنی ہیں.اور عیسائیوں نے کیا پایا.غرض حقوق العباد کو پورے طور پر ادا کرنے اور بجالانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف قوتوں کا ملک بنا کر بھیجا تھا اور اس سے منشا ہی تھا کہ اپنے محل پر ہم ان قوتوں سے کام لے کر نوع انسان کو فائدہ پہنچائیں.مگر انجیل کا سلر از ور علم اور نرمی ہی کی قوت پر ہے حالانکہ یہ قوت بعض موقعوں پر زہر قاتل کی تاثیر رکھتی ہے.اس لئے ہماری یہ تمدنی زندگی جو مختلف طبائع کے اختلاط اور ترکیب سے بنی ہے.اپنی ترکیب اور صورت ہی میں بالطبع یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے تمام قولی کو محل اور موقعہ پر استعمال کریں.لیکن انجیل محل اور موقعہ شناسی کو تو پس پشت ڈالتی ہے اور اندھا دھند ایک ہی امر کی تعلیم دیتی ہے.کیا ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینا عملی صورت میں بھی آسکتا ہے.اور کرتہ مانگنے والے کو چغہ دینے والے آپ نے بھی دیکھے ہیں اور کیا کوئی آدمی جو انجیل کی تعلیم کا عاشق زار ہو کبھی گوارا کر سکتا ہے کہ کوئی شریر اور نابکار انسان اس کی بیوی پر حملہ کرے تو وہ لڑکی بھی پیش کر دے ؟ ہر گز نہیں.جس طرح پر ہم کو اپنے جسم کی صحت اور صلاحیت کے لئے ضرور ہے کہ مختلف قسم کی غذائیں موسم اور فصل کے لحاظ سے کھائیں اور مختلف قسم کے لباس پہنیں ویسے ہی روح کی صلاحیت اور اس کی قوتوں اور خواص کے نشوو نما کے واسطے لازم ہے کہ اس قاعدہ کو مد نظر رکھیں.جسمانی تمدن میں جس طرح پر گرم سرد - نرم سخت.حرکت و سکون کی رعایت رکھنی ضروری ہے.اسی طرح پر روحانی صحت کے لئے مختلف قوتوں کا عطا مسلم سلام

Page 442

۲۹۵ اسرار و رموز اور ہونا ایسی صاف دلیل اس امر کی ہے کہ روح کی بھلائی کے لیئے ان سے کام لینا ضروری ہے اور اگر ان مختلف قوتوں سے ہم کام نہیں لیتے یانہ لینے کی تعلیم دیتے ہیں تو ایک خدا ترس اور غیور انسان کی نگاہ میں ایسا معلم خدا کی توہین کرنے والا ٹھہرے گا کیونکہ وہ اپنے اس طریق سے یہ ثابت کرتا ہے کہ خدا نے یہ قوتیں لغو پیدا کی ہیں.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۱۱۹ تا ۱۲۱ پھر اسرار کی طرف نگاہ کرو.جس قدر اسرار ورموز قرآن شریف میں ہیں تو رات اور انجیل میں وہ کہاں ؟ پھر قرآن شریف تمام امور کو صرف دعوی ہی کے رنگ میں بیان فصاحت و بلاغت نہیں کرتا جیسے کہ توریت یا انجیل جو دعوی ہی دعوی کرتی ہیں.بلکہ قرآن شریف استدلالی رنگ رکھتا ہے.کوئی بات وہ بیان نہیں کرتا جس کے ساتھ اس نے ایک قولی اور مستحکم دلیل نہ دی ہو.جیبی قرآن شریف کی فصاحت و بلاغت اپنے اندر جذب رکھتی ہے.جس طرح پر اس کی تعلیم میں معقولیت اور کشش ہے ویسے ہی اس کے دلائل موثر ہیں.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۲۴۳، ۲۴۴ ہمارا خدا لَم يلد ہے اور کس قدر خوشی کا اور شکر کا مقام ہے کہ جس خدا کو ہم نے مانا اور اسلام نے پیش کیا ہے وہ ہر طرح کامل اور قدوس ہے اور کوئی نقص اس حسن و احسان میں نہیں.دو خوبیاں کامل طور پر اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں.اور ساری صفات ان کو بیان کرتی ہیں.چنانچہ اول یہ کہ اس میں ذاتی حسن ہے اور اس کے متعلق تشي فرمایا.اور کہا کہ وہ الصمد فرمایا.قُلْ هُوَ الله ہے، بے نیاز ہے، نہ وہ کسی کا بیٹا ہے نہ اس کا کوئی بیٹا ہے.نہ اس کا کوئی ہمتا اور ہمسر ہے.قرآن شریف کو غور سے پڑ ہو تو معلوم ہو گا کہ جابجا اس کا حسن دکھایا گیا ہے.پھر دوسری کشش احسان کی ہے.عیسائیوں نے خدا کے احسان کا کیا نمونہ دکھایا نہیں کہ

Page 443

۴۲۵ اپنے بچہ کو پھانسی دے دیا.مولوی صاحب کا ذکر کیا کرتے ہیں کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو کہہ رہا تھا کہ خدا نے اس جہان کو کیسے پیار کیا.اپنا بیٹا پھانسی دے دیا.لڑکا یہ سن کر ڈر گیا.اور بھاگ گیا.اور جب اس سے ڈرنے کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے یہی کہا کہ جب خدا نے یہ حرکت کی تو تجھ سے کیا امید ہو سکتی ہے.انسان خدا سے محبت کرتا ہے تو پھر اس کو سب سے مقدم کر لیتا ہے.ہزاروں بھیڑ بکریاں موجود ہیں.اگر محبت کا یہی نشان ہے اور مارنے والے عزیز ہوتے ہیں تو کیا یہ چیزیں خدا کو انسان سے عزیز ترین ہوتی ہیں؟ مگر ایسا نہیں.لاکھوں چیزیں انسان کے لئے وہ ہلاک کرتا ہے.پانی میں کیڑے رکھتے ہوتے ہیں.یہ بھی خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کیونکہ بسیط چیزیں ہلاک کر دیتی ہیں.غرض یہ اصل صحیح نہیں ہے جو سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ جس سے پیار کرتا ہے اس کو ہلاک کرتا ہے.سچا خدا جس سے پیار کرتا ہے اس کی تائید کرتا ہے کیونکہ وہ خدا فرماتا ہے كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَتْ أَنا وَرُسُلى عیسائی اپنے خدا کی نسبت ایسا نمونہ پیش نہیں کرتے اور حقیقت میں نہیں ہے.کیونکہ مسیح کا اپنا نمونہ یہ ہے کہ دشمنوں کے ہاتھوں میں سخت ذلیل ہوئے اور اس وقت وہ اگر خدا تھے یا خدا کے بیٹے تھے تو دشمنوں کو خطرناک ذلت پہنچنی چاہئے تھی مگر بظاہر دشمن کامیاب ہو گئے اور انہوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھا دیا.لیکن ہمارا خدا ایسا نہیں ہے اس نے اپنے رسولوں کی ہر میدان میں نصرت کی اور کامیاب کیا.اب دوسرے مذہب اس کا نمونہ کہاں سے لائیں.یہ یاد رکھو کہ ہمارا خدا کسی کو پھانسی دینا نہیں چاہتا.جس قدر کام کریں گے اس میں عزت پائیں گے.اس نے ہمارے قوی کو بیکار نہیں رکھا.بقول سعدی.حقا که با عقوبت دوزخ برابر است رفتن بہائے مردی ہمسایہ در بہشت.خدا نے چاہا ہے کہ تم زمانہ سیرت نہ ہو بلکہ مرد بنو.اب کیسی بات ہے.کیسے احسان کئے ہیں کہ ہم پر حقائق و معارف کے خزانے کھولے ہیں.کسی کے سامنے اس حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ امسیح اول رضی اللہ عنہ مراد ہیں.(مرتب)

Page 444

۴۲۶ ۱۲۹۷ عفو و در گذر کی تعلیم کی وجہ نے ہم کو شرمندہ نہیں کیا.عیسائی کیسے شرمندہ ہوتے ہیں.الغرض انسان یا حسن کا گرویدہ ہوتا ہے یا احسان کا.کامل طور پر یہ اسلام نے اللہ تعالیٰ کی نسبت بیان کئے ہیں.سورۂ فاتحہ میں پہلے حسن و احسان ہی کو دکھایا ہے.ملفوظات.جلد ۴ صفحه ۴۴۶ ، ۴۴۷ یہ بھی میں نے بیان کیا ہے کہ یہ تعلیم جو قرآن شریف نے دی ہے کسی اور کتاب نے نہیں دی.اور ایسی کامل ہے کہ کوئی نظیر اس کی پیش نہیں کر سکتا.یعنی جزا و ا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا الآیۃ اس میں عفو کے لئے یہ شرط رکھی ہے کہ اس میں اصلاح ہو.یہودیوں کے مذہب نے یہ کیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت.ان میں انتقامی قوت اس قدر بڑھ گئی تھی اور یہاں تک یہ عادت ان میں پختہ ہو گئی تھی کہ اگر باپ نے بدلہ نہیں لیا تو بیٹے اور اس کے پوتے تک کے فرائض میں یہ امر ہوتا تھا کہ وہ بدلہ لے.اس وجہ سے ان میں کینه توزی کی عادت بڑھ گئی تھی اور وہ بہت سنگدل اور بے درد ہو چکے تھے.عیسائیوں نے اس تعلیم کے مقابل یہ تعلیم دی کہ ایک گال پر کوئی طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیر دو.ایک کوس بیگار لے جاوے تو دو کوس چلے جاو وغیرہ.اس تعلیم میں جو نقص ہے وہ ظاہر ہے کہ اس پر عمل در آمد ہی نہیں ہو سکتا.اور عیسائی گورنمنٹوں نے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ تعلیم ناقص ہے.کیا یہ کسی عیسائی کی جرات ہو سکتی ہے کہ کوئی خبیث طمانچہ مار کر دانت نکال دے تو وہ دوسری گل پھیر دے کہ ہاں اب دوسرا دانت بھی نکال دو.وہ خبیث تو اور بھی دلیر ہو جائے گا.اور اس سے امن عامہ میں خلل واقع ہو گا.پھر کیونکر ہم تسلیم کریں کہ یہ تعلیم عمدہ ہے.یا خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہو سکتی ہے.اگر اس پر عمل ہو تو کسی ملک کا بھی انتظام نہ ہو سکے.ایک ملک ایک دشمن چھین لے تو دوسرا خود حوالے کرنا پڑے.ایک افسر گرفتار ہو جاوے تو دس اور دے دیئے جاویں.یہ نقص ہیں جو ان تعلیموں میں ہیں.اور یہ صحیح نہیں.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ یہ احکام بطور قانون مختصق الزمان جب وہ زمانہ گزر گیا.تو دوسرے لوگوں کے حسب حال وہ رہی.یہودیوں کا وہ زمانہ تھا کہ وہ چار سو برس تک غلامی میں رہے اور اس غلامی کی زندگی تعلیم نہ

Page 445

۴۲۷ کی وجہ سے ان میں قساوت قلبی بڑھ گئی اور وہ کینہ کش ہو گئے.اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس بادشاہ کے زمانہ میں کوئی ہوتا ہے اس کے اخلاق بھی اسی قسم کے ہو جاتے سکھوں کے زمانہ میں اکثرلوگ ڈاکو ہو گئے تھے.انگریزوں کے زمانہ میں تہذیب اور تعلیم پھیلتی جاتی ہے اور ہر شخص اس طرف کوشش کر رہا ہے.غرض بنی اسرائیل نے فرعون کی ماحستی کی تھی.اس وجہ سے اس میں ظلم بڑھ گیا تھا.اس لئے توریت کے زمانہ میں عدل کی ضرورت مقدم تھی.کیونکہ وہ لوگ اس سے بے خبر تھے اور جابرانہ عادت رکھتے تھے.اور انہوں نے یقین کر لیا تھا کہ دانت کے بدلے دانت کا توڑ نا ضروری ہے اور یہ ہمارا فرض ہے.اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھایا کہ عدل تک ہی بات ں رہتی بلکہ احسان بھی ضروری ہے.اس سبب سے مسیح کے ذریعہ انہیں یہ تعلیم دی گئی کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دو.اور جب اسی پر سارا زور دیا گیا تو آخر اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اس تعلیم کو اصل نکتہ پر پہنچادیا.اور وہ یہی تعلیم تھی کہ بدی کا بدلہ اس قدر بدی ہے.لیکن جو شخص معاف کر دیے اور معاف کرنے سے اصلاح ہوتی ہو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور اجر ہے.عضو کی تعلیم دی ہے مگر ساتھ قید لگائی کہ اصلاح ہو بے محل عفو نقصان پہنچاتا ہے.پس اس مقام پر غور کرنا چاہئے کہ جب توقع اصلاح کی ہو تو عفوہی کرنا چاہئے.جیسے دو خدمتگار ہوں ایک بڑا شریف الاصل اور فرمانبردار اور خیر خواہ ہو لیکن اتفاقا اس سے کوئی غلطی ہو جائے اس موقعہ پر اسے معاف کرنا ہی مناسب ہے.اگر سزا دی جاوے تو ٹھیک نہیں.لیکن ایک بد معاش اور شریر ہے.ہر روز نقصان کرتا ہے اور شرارتوں سے باز نہیں آتا.اگر اسے چھوڑ دیا جاوے تو وہ اور بھی بیباک ہو جائیگا.اس کو سزا ہی دینی چاہئے.غرض اس طرح پر محل اور موقعہ شناسی سے کام لو.یہ تعلیم ہے جو اسلام نے دی ہے اور جو کامل تعلیم ہے.اور اس کے بعد اور کوئی نئی تعلیم اور شریعت نہیں آ سکتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم انہییں ہیں اور قرآن خاتم الکتب.اب کوئی اور کلمہ یا اور نماز نہیں ہو سکتی.جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کر کے دکھایا.لیکچر لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۸۴، ۲۸۵ نیز دیکھیں.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۲۷ تا ۴۳۶ بقیه حاشیه در حاشیه ۳

Page 446

۴۲۸ ۲۹۸ می بعض نا واقف عیسائی بوجہ اپنی نہایت سادہ لوحی کے کبھی کبھی یہ دعوی ن کر بیٹھتے ہیں کہ انجیل بھی اپنی تعلیم کے رو سے بے مثل و مانند ہے.یعنی انسان اس کی مثل بنانے پر قادر نہیں.پس اس سے ثابت ہے کہ تعلیم اس کی خدا کا کلام ہے اور انجیل کی تعلیم کا بے مثل و مانند ہوتا اس طرح پر بیان کرتے ہیں کہ اس میں عفو اور در گذر اور نیکی اور خود در گذری تعلیم احسان کے لئے بہت سی تاکید ہے.اور ہر یک جگہ شر کے مقابلہ سے منع کیا ہے.بلکہ کا مطلب یہ نہیں کہ انجیل بے محل مانند بدی کے عوض نیکی کرنا لکھا ہے.اور ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری گال بھی پھیر دینے کا حکم ہے.پس اس دلیل سے ثابت ہو گیا کہ وہ بے مثل و مانند اور انسانی طاقتوں سے برتر ہے.لاحول ولاقوق - اے حضرات ! یہ منطق آپ کہاں سے لائے.جس ہے آپ یہ سمجھ بیٹھے کہ جن نصیحتوں میں علم اور در گذر کی تاکید مزید ہوہ بے نظیر ہو جایا کرتی ہیں.اور قومی بشریہ ایسی نصیحتوں کے بیان کرنے سے قاصر ہوتی ہیں.یہی تو سمجھ کا پھیر ہے کہ اب تک آپ کو یہ بھی خبر نہیں کہ بے مثل و مانند کا لفظ کسی شے کی نسبت صرف انہیں حالتوں میں بولا جاتا ہے کہ جب وہ شے اپنی ذات میں ایسے مرتبہ پر واقعہ ہو کہ جس کی نظیر پیش کرنے سے انسانی طاقتیں عاجز رہ جائیں.آپ اپنے دعوی میں بار بار اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ انجیل میں ہر جگہ اور ہر موقعہ میں عفو اور در گذر کرنے کے لئے تاکید ہے.اور ایسی تاکید کسی دوسری کتاب میں نہیں.بھلا بہت خوب یوں ہی سہی.مگر کیا اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ اس قدر تاکید انسان نہیں کر سکتا.اور انسانی قوتیں ان تاکیدوں کے بیان کرنے سے قاصر ہیں.کیارحم اور عفو کی تاکید بت پرستوں کے پستکوں میں کچھ کم ہے.بلکہ سچ پوچھو تو آریہ قوم کے بت پرستوں نے رحم کی تاکید کو اس کمال تک پہنچایا ہے کہ بس حد ہی کر دی.ان کے ایک شاستر کا اشلوک اس وقت ہم کو یاد آیا انجیل کی اس تعلیم ہے.جس پر تقریباً سارے ہندووں کا عمل ہے اور وہ یہ ہے.اہنسا برمو سے بڑھ کر مندیوں دھرما.یعنی اس سے بڑا دھرم اور کوئی نہیں کہ کسی جاندار کو تکلیف نہ دی جائے.اسی میں نرمی کی تعلیم اشلوک کے رو سے ہندو لوگ کسی جاندار کو آزار دینا پسند نہیں کرتے.یہاں تک کہ سانیوں کے شر کا بھی مقابلہ نہیں کرتے.بلکہ بجائے ان کے شہر کے ان کو دودھ پلاتے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہیں.اس پوجا کا نام ان کے مذہب میں ناگ پو جا ہے بعض ہندو اس قدر رحم دل ہوتے ہیں کہ بالوں میں جوئیں جو پڑ جاتی ہیں.ان کو بھی اپنے بالوں سے نہیں نکالتے.بلکہ ان کے آرام کی نظر سے اپنے تمام بدن کے بال نہیں کٹاتے.اور ہے

Page 447

۴۲۹ آپ دکھ اٹھاتے ہیں.تا ان کے استھان میں صورت تفرقہ پیدا نہ ہو.اور بعض ہندو اپنے پر تھیلی چڑھا کر رکھتے ہیں اور پانی پین کر پیتے ہیں.تا کوئی جیوان کے مونہہ کے اندر نہ چلا جائے اور اس طرح پر وہ کسی جیو کھات کے موجب نہ ٹہریں.اب دیکھئے اس کمال کار حم اور عفو انجیل میں کہاں ہے.لیکن باوجود اس کے کوئی عیسائی یہ برائے ظاہر نہیں کر تا کہ ہندو شاست کی وہ تعلیم بے نظیر اور انسانی طاقتوں سے باہر ہے.پھر انجیل کی تعلیم کہ جو حلم اور عفو اور رحم کی تاکید میں اس سے کچھ بڑھ کر نہیں.کیونکر بے نظیر ہو سکتی ہے.افسوس حضرات عیسائی ذرا نہیں سوچتے کہ اخلاقی امور کو کسی قدر شد ومد سے بیان کرنا اس بات کو ملزم نہیں کہ انسان ایسی شدید سے بیان نہیں کر سکتا.اور اگر مستلزم ہے تو کوئی برہان منطقی اس پر قائم کرنی چاہئے تا اس برہان کے ذریعہ سے انجیل کی تعلیم اور ہندووں کی پستک بے نظیر بن جائیں مگر جب تک کوئی دلیل بیان نہ ہو تب تک ہم کیونکر ایسی تعلیموں کا بے نظیر ہونا تسلیم کریں جن کے استخراج کے لئے صریحا انسان کے نفس میں قوت پاتے ہیں.کیا ہم مراد علی کسی دلیل کے بغیر تسلیم کر لیں.یا ایک امر بدیہی البطلان کو حق محض مان لیں.کیا کریں ؟ تو اب ظاہر ہے کہ یہ کیسا نکما جھگڑا اور کس درجہ کی نادانی ہے کہ ایک بے اصل اور بے ثبوت بات پر اصرار کرتے ہیں.اور جو راستہ سیدھا اور صاف نظر آتا ہے اس پر قدم رکھنا نہیں چاہتے.براہین احمدیہ - روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۹۵ تا ۴۰۸ بقیه حاشیه در حاشیہ نمبر ۳ ۲۹۹ انجیل کی تعلیم کامل بھی نہیں چہ جائیکہ اس کو بے نظیر کہا جائے.تمام محققین کا اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اخلاق کا کامل مرتبہ صرف اس میں منحصر نہیں ہو سکتا کہ ہر جگہ و ہر محل میں عفو اور در گذر کو اختیار کیا جائے.اگر انسان کو صرف عفو اور در گذر کا ہی حکم قوتوں کا علی محلہ دیا جاتا تو صدہا کام کہ جو غضب اور انتقام پر موقوف ہیں فوت ہو جاتے.انسان کی صورت فطرت کہ جس پر قائم ہو جانے سے وہ انسان کہلاتا ہے.یہ ہے کہ خدا نے اس کی سرشت میں جیسا عفو اور درگزر کی استعداد رکھتی ہے.ایسا ہی غضب اور انتقام کی خواہش بھی رکھی ہے اور ان تمام قوتوں پر عقل کو بطور افسر کے مقرر کیا ہے.پس انسان اپنی حقیقی انسانیت تک تب پہنچتا ہے جب فطرقتی صورت کے موافق یہ دونوں طور کی

Page 448

م سے مقابلہ قوتیں عقل کے تابع ہو کر چلتی رہیں.یعنی یہ قوتیں مثل رعایا کے ہوں اور عقل مثل بادشاہ عادل ان کی پرورش اور فیض رسانی اور رفع تنازعہ اور مشکل کشائی میں مشغول مثلاً ایک وقت غضب نمودار ہوتا ہے اور حقیقت میں اس وقت حلم رہے.کے ظاہر ہونے کا موقعہ ہوتا ہے.پس ایسے وقت میں عقل اپنی فہمائش سے غضب کو فرو کرتی ہے اور حلم کو حرکت دیتی ہے.اور بعض وقت غضب کرنے کا وقت ہوتا ہے اور علم پیدا ہو جاتا ہے اور ایسے وقت میں عقل غضب کو مشتعل کرتی ہے اور علم کو درمیان سے اٹھا لیتی ہے.خلاصہ یہ کہ تحقیق عمیق سے ثابت ہوا ہے کہ انسان اس دنیا میں بہت سی مختلف قوتوں کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور اس کا کمال فطرتی یہ ہے کہ ہر ایک قوت کو اپنے اپنے موقعہ پر استعمال میں لاوے.غضب کی جگہ پر غضب - رحم کی جگہ پر رحم.یہ نہیں کہ نرا حکم ہی حکم ہو اور دوسری تمام قوتوں کو معطل اور بیکار چھوڑ دے.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۰۹ تا ۴۱۴ بقیه حاشیه در حاشیہ نمبر ۳ نیز دیکھیں.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۰ کیسی عظیم الشان بات ہے کہ آپ کو کوئی مقام ذلت کا کبھی نصیب نہیں ہوا.بلکہ ہر میدان میں آپ ہر طرح معزز و مظفر ثابت ہوئے ہیں.لیکن بالمقابل اگر مسیح کی حالت کو اجمل تعلیم کا قرآن دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کیسی ذلت پر ذلت نصیب ہوئی ہے.بسا اوقات ایک عیسائی شرمندہ ہو جاتا ہو گا.جب وہ اپنے اس خدا کی حالت پر غور کرتا ہو گا جو انہوں نے فرضی اور خیالی طور پر بتایا ہوا ہے.مجھے ہمیشہ تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ عیسائی اس تعلیم کو جو انجیل میں بیان ہوئی ہے اور اس خدا کو جس کے واقعات کسی قدر انجیل سے ملتے ہیں.رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اسے ترجیح کیونکر دیتے ہیں.مثلا یہی تعلیم ہے کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دو.اب اس کے تمام پہلووں پر غور کرو تو صاف نظر آجائے گا کہ یہ کیسی بودی اور علمی تعلیم ہے.بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان سے بچے خوش ہو جاتے ہیں.بعض سے متوسط درجے کے لوگ اور بعض سے اعلی درجے کے لوگ.انجیل کی تعلیم صرف بچوں کا کھلونا ہے جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں.کیا اللہ تعالیٰ

Page 449

نے جو انسان کو اس قدر قومی عطا فرمائے ہیں ان سب کا موضوع و مقصود یہی ہے ہے کہ وہ طمانچے کھایا کرے ؟ انسان انسان تب ہی بنتا ہے کہ وہ سارے قومی کو استعمال کرے.مگر انجیل کہتی ہے سارے قولی کو بیکار چھوڑ دو اور ایک ہی قوت پر زور دیئے جاؤ.بالمقابل قرآن شریف تمام قوتوں کا مرتی ہے اور بر محل ہر قوت کے استعمال کی تعلیم دیتا ہے.غرض حفظ مراتب کا مقام قرآن شریف نے رکھا ہے کہ وہ عدل کی طرف لے جاتا ہے.تمام احکام میں اس کی یہی صورت ہے.مال کی طرف دیکھو.نہ ممسک بناتا ہے نہ مشرف.یہی وجہ ہے کہ اس امت کا نام ہی امةً وَسَطًا رکھ دیا گیا ہے.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۲۴۲،۲۴۱ انجیل انسان کی تمام قوتوں کی مرتی نہیں ہو سکتی.اور جو کچھ اس میں کسی قدر اخلاقی حصہ موجود ہے وہ بھی دراصل توریت کا انتخاب ہے.اس پر بعض عیسائیوں نے یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ ” خدا کی کتاب کے مناسب حال صرف اخلاقی حصہ ہوتا ہے اور جزا انجیل میں اخلاقی سزا کے قوانین خدا کی کتاب کے مناسب حال نہیں کیونکہ جرائم کی سزائیں حالات متبدلہ تعلیم توریت سے جواب) کی مصلحت کے رو سے ہونی چاہئیں اور وہ حالات غیر محدود ہیں اس لئے ان کے لئے انتخاب کی گئی ہے.صرف ایک ہی قانون سزا ہونا ٹھیک نہیں ہے ہر ایک سزا جیسا کہ وقت تقاضا کرے اور ایک اعتراض کا مجرموں کی تنبیہ اور سرزنش کے لئے مفید پڑ سکے دینی چاہئے.لہذا ہمیشہ ایک ہی رنگ میں ان کا ہونا اصلاح خلائق کے لئے مفید نہیں ہو گا اور اس طرح پر قوانین دیوانی اور فوجداری اور مال گذاری کو محدود کر دینا اس بد نتیجہ کا موجب ہو گا کہ جو ایسی نئی صورتوں کے وقت میں پیدا ہو سکتا ہے جو ان قوانین محدودہ سے باہر ہوں.مثلاً ایک ایسی جدید طرز کے امور تجارت پر مخالفانہ اثر کرے جو ایسے عام رواج پر مبنی ہوں جن سے اس گورنمنٹ میں کسی طرح گریز نہ ہو سکے.اور یا کسی اور طرز کے جدید معاملات پر موثر ہو اور یا کسی اور تمدنی حالت پر اثر رکھتا ہو.اور یا بد معاشوں کے ایسے حالات را سخہ پر غیر مفید ثابت ہو جو ایک قسم کی سزا کی عادت پکڑ گئے ہوں یا اس سزا کے لائق نہ رہے ہوں.مگر میں کہتا ہوں کہ یہ خیالات ان لوگوں کے ہیں جنہوں نے کبھی تدبر سے

Page 450

۳۲ نوم خدا کی کلام قرآن شریف کو نہیں پڑھا.! یں حق کے طالبوں کو سمجھاتا ہوں کہ قرآن شریف میں ایسے احکام جو دیوانی اور فوجداری اور مال کے متعلق ہیں دو قسم کے ہیں.ایک وہ جن میں سزا یا طریق انصاف کی تفصیل ہے.دوسرے وہ جن میں ان امور کو صرف قواعد کلیہ کے طور پر لکھا ہے اور کسی خاص طریق کی تعییں نہیں کی.اور وہ احکام اس غرض سے ہیں کہ تا اگر کوئی نئی صورت پیدا ہو تو مجتہد کو کام آویں.مثلاً قرآن شریف میں ایک جگہ تو یہ ہے کہ دانت کے بدلے دانت آنکھ کے بدلے آنکھ.یہ تو تفصیل ہے.اور دوسری جگہ یہ اجمالی عبارت ہے کہ جَزَاؤُا سَيِّئَةِ سَيِّئَةُ مِثْلُهَا پس جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ا جمالی عبارت توسیع قانون کے لئے بیان فرمائی گئی ہے.کیونکہ بعض صورتیں ایسی ہیں کہ ان میں یہ قانون جاری نہیں ہو سکتا.مثلاً ایک ایسا شخص کسی کا دانت توڑے کہ اس کے منہ میں دانت نہیں اور باعث کبر سنی یا کسی اور سبب سے اس کے دانت نکل گئے ہوں تو دندان شکنی کی سزا میں ہم اس کا دانت توڑ نہیں سکتے.کیونکہ اس کے تو منہ میں دانت ہی نہیں.ایسا ہی اگر ایک اندھا کسی کی آنکھ پھوڑ دے تو ہم اس کی آنکھ نہیں پھوڑ سکتے کیونکہ اس کی تو آنکھیں ہی نہیں.خلاصہ مطلب یہ کہ قرآن شریف نے ایسی صورتوں کو احکام میں داخل کرنے کے لئے اس قسم کے قواعد کلیہ بیان فرمائے ہیں پس اس کے احکام اور قوانین پر کیونکر اعتراض ہو سکے.اور اس نے صرف یہی نہیں کہا بلکہ ایسے قواعد کلیہ بیان فرما کر ہر ایک کو اجتہاد اور استخراج اور استنباط کی ترغیب دی ہے.مگر افسوس کہ یہ ترغیب اور طرز تعلیم توریت میں نہیں پائی جاتی اور انجیل تو اس کامل تعلیم سے بالکل محروم ہے.اور انجیل میں صرف چند چند اخلاق بیان کئے ہیں.وہ بھی کسی ضابطہ اور قانون کے سلسلہ میں منسلک نہیں ہیں.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۸۷، ۸۸ تعجب ہے کہ حضرت عیسی علیہ السّلام نے خود اخلاقی تعلیم پر پر عمل نہیں کیا.انجیر کے درخت کو بغیر پھل کے دیکھ کر اس پر بددعا کی اور دوسروں کو دعا کرنا سکھلایا.اور ت نے خود اس تعلیم دوسروں کو یہ بھی حکم دیا کہ تم کسی کو احمق مت کہو.مگر خود اس قدر بد زبانی میں بڑھ پر عمل نہیں کیا گئے کہ یہودی بزرگوں کو ولد الحرام تک کہہ دیا اور ہر ایک وعظ میں یہودی علماء کو سخت

Page 451

سخت گالیاں دیں اور برے برے ان کے نام رکھے.اخلاقی من کا فرض یہ ہے کہ آپ اخلاق کریمہ دکھلاوے.پس کیا ایسی تعلیم ناقص جس پر انہوں نے آپ بھی عمل نہ کیا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو سکتی ہے ؟ پاک اور کامل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو انسانی درخت کی ہر شاخ کی پرورش کرتی ہے.اور قرآن شریف صرف ایک پہلو پر زور نہیں ڈالتا بلکہ کبھی تو عفو اور در گذر کی تعلیم دیتا ہے مگر اس شرط سے کہ عفو کر ناقرین مصلحت ہو اور کبھی مناسب محل اور وقت کے مجرم کو سزا دینے کے لئے فرماتا ہے.پس در حقیقت قرآن شریف خدا تعالیٰ کے اس قانون قدرت کی تصویر ہے جو ہمیشہ ہماری نظر کے سامنے ہے.یہ بات نہایت معقول ہے کہ خدا کا قول اور فعل دونوں مطابق ہونے چاہئیں.یعنی جس رنگ اور طرز پر دنیا میں خدا تعالیٰ کا فعل نظر آتا ہے ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کی بچی کتاب اپنے فعل کے مطابق تعلیم کرے.نہ یہ کہ فعل سے کچھ اور ظاہر ہو اور قول سے کچھ اور ظاہر ہو.خدا تعالیٰ کے فعل میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ نرمی اور در گذر نہیں بلکہ وہ مجرموں کو طرح طرح کے عذابوں سے سزا یاب بھی کرتا ہے.ایسے عذابوں کا پہلی کتابوں میں بھی ذکر ہے.ہمارا خدا صرف حلیم خدا نہیں بلکہ وہ حکیم بھی ہے اور اس کا قہر بھی عظیم ہے.سچی کتاب وہ کتاب ہے جو اس کے قانون قدرت کے مطابق ہے اور سچاقول الہی وہ ہے جو اس کے فعل کے مخالف نہیں.ہم نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا کہ خدا نے اپنی مخلوق کے ساتھ ہمیشہ حلم اور در گذر کا معاملہ کیا ہو اور کوئی عذاب نہ آیا ہو.اب بھی ناپاک طبع لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ایک ع الشان اور ہیبت ناک زلزلہ کی خبر دے رکھی ہے جو ان کو ہلاک کرے گا.اور طاعون بھی ابھی دور نہیں ہوئی.پہلے اس سے نوح کی قوم کا کیا حال ہوا.لوط کی قوم کو کیا پیش آیا.؟ سو یقیناً سمجھو کہ شریعت کا حصل تخلق بأخلاق الله ہے.یعنی خدائے عزو جل کے اخلاق اپنے اندر حاصل کرنا.یہی کمال نفس ہے.اگر ایہ چاہیں کہ خدا سے بھی بڑھ کر کوئی نیک خلق ہم میں پیدا ہو تو یہ بے ایمانی اور پلید رنگ کی گستاخی ہے اور خدا کے اخلاق پر ایک اعتراض ہے..چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۴۶ تا ۳۴۷ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ہم نے اس جگہ انجیل کی تعلیم کا ذکر نہیں کیا کیونکہ فیصلہ ہو

Page 452

م کی اقبال انجیل کی تعلیم نا قتل چکا ہے کہ مسیح صرف اپنے خون کا فائدہ پہنچانے کے لئے آیا تھا.یعنی اس لئے کہ نا گناہ محل ہے کرنے والے اس کے مرنے سے نجات پاتے رہیں.ورنہ انجیل کی تعلیم ایک معمولی بات ہے جو پہلے سے بائیل میں موجود ہے.گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہنا کہ یہ صرف دکھانے کے دانت ہیں.اس پر عمل کرنا مقصود ہی نہیں.اور یہی سچ ہے.کیا عدالتیں اس پر عمل کرتی ہیں؟ کیا خود پادری صاحبان اس پر عمل کرتے ہیں ؟ کیا عوام عیسائی اس کے پابند ہیں ؟ ہاں کفارہ اور خون صحیح کے موافق ضرور عمل ہو رہا ہے.اور اس سے یورپ امریکہ دونوں فائدہ اٹھا رہے ہیں.علاوہ اس کے یہ بھی سخت غلطی ہے کہ انجیل کی تعلیم کو کامل کہا جائے.وہ انسانی فطرت کے درخت کی پورے طور پر آبپاشی نہیں کر سکتی.اور صرف ایک شاخ کو غیر موزون طور پر لمبی کرتی ہے اور باقی کو کاٹتی ہے.اور جن جن قوتوں کے ساتھ انسان اس مسافر خانہ میں آیا ہے.انجیل ان سب قوتوں کی مرتی نہیں ہے.انسان کی فطرت پر نظر کر کے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو مختلف قومی اس غرض سے دیئے گئے ہیں تاوہ مختلف وقتوں میں حسب تقاضا محل اور موقعہ کے ان قوی کو استعمال کرے.مثلاً انسان میں منجملہ اور خلقوں کے ایک خلق بکری کی فطرت کے مشابہ ہے.اور دوسرا خلق شیر کی فطرت سے مشابہت رکھتا ہے.پس خدائے تعالیٰ انسان سے یہ چاہتا ہے کہ وہ بکری بننے کے محل میں بکری بن جائے اور شیر بننے کے محل میں وہ شیر بن جائے.اور خدا تعالیٰ ہرگز نہیں چاہتا کہ وہ ہر وقت اور ہر محل میں بکری بنار ہے.اور نہ یہ کہ ہر جگہ وہ شیر ہی بنا ر ہے.اور جیسا کہ وہ نہیں چاہتا کہ ہر وقت انسان سوتا ہی رہے.یا ہر وقت جاگتا ہی رہے.یا ہر دم کھاتا ہی رہے.یا ہمیشہ کھانے سے منہ بند ر کھے.اسی طرح وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ انسان اپنی اندرونی قوتوں میں سے صرف ایک قوت پر زور ڈال دے.اور دوسری قوتیں جو خدا کی طرف سے اس کو ملی ہیں.ان کو لغو سمجھے.اگر انسان میں خدا نے ایک قوت حلم اور نرمی اور در گذر اور صبر کی رکھی ہے تو اسی خدا نے اس میں ایک قوت غضب اور خواہش انتقام کی بھی رکھی ہے.پس کیا مناسب ہے کہ ایک خداداد قوت کو تو حد سے زیادہ استعمال کیا جائے اور دوسری قوت کو اپنی فطرت میں سے نکلی کاٹ کر پھینک دیا جائے.اس سے تو خدا پر اعتراض آتا ہے کہ گویا اس نے بعض قوتیں انسان کو ایسی دی ہیں جو استعمال کے لائق نہیں.کیونکہ یہ مختلف قوتیں اسی نے تو انسان میں پیدا

Page 453

۴۳۵ کی ہیں.پس یادر ہے کہ انسان میں کوئی بھی قوت بری نہیں ہے.بلکہ ان کی بد استعمالی بری ہے.سوانجیل کی تعلیم نہایت ناقص ہے.جس میں ایک ہی پہلو پر زور دیا گیا ہے.علاوہ اس کے دعوی تو ایسی تعلیم کا ہے کہ ایک طرف طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دیں.مگر اس دعوے کے مطابق عمل نہیں ہے.مثلاً اگر ایک پادری صاحب کو کوئی طمانچہ مار کر دیکھ لے کہ پھر عدالت کے ذریعہ سے وہ کیا کاروائی کراتے ہیں.پس یہ تعلیم کس کام کی ہے جس پر نہ عدالتیں چل سکتی ہیں نہ پادری چل سکتے ہیں.اصل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو حکمت اور موقعہ شناسی پر مبنی ہے.مثلاً انجیل نے تو یہ کہا ہے کہ ہر وقت تم لوگوں کے طمانچے کھاو.اور کسی حالت میں سترہ کا مقابلہ نہ کرو.مگر قرآن شریف اس کے مقابل پر یہ کہتا ہے.جَزَ ا و ا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ یعنی اگر کوئی تمہیں دکھ پہنچاوے مثلاً دانت توڑ دے.یا آنکھ پھوڑ دے تو اس کی سزا اسی قدر بدی ہے جو اس نے کی.لیکن اگر تم ایسی صورت میں گناہ معاف کر دو کہ اس معافی کا کوئی نتیجہ پیدا ہو اور اس سے کوئی اصلاح ہو سکے.یعنی مثلاً مجرم آئندہ اس عادت سے باز آجائے تو اس صورت میں معاف کرنا ہی بہتر ہے اور اس اور اس معاف کرنے کا خدا سے اجر ملے گا.اب دیکھو.اس آیت میں دونوں پہلو کی رعایت رکھی گئی ہے اور عفو اور انتقام کو مصلحت وقت سے وابستہ کر دیا گیا ہے.سو یہی حکیمانہ مسلک ہے.جس پر نظام عالم کا چل رہا ہے.رعایت محل اور وقت سے گرم اور سرد دونوں کا استعمال کرنا نہیں عظمندی ہے.جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ہم ایک ہی قسم کی غذا پر ہمیشہ زور نہیں ڈال سکتے.بلکہ حسب موقعہ گرم اور سرد غذائیں بدلتے رہتے ہیں.اور جاڑے اور گرمی کے وقتوں میں کپڑے بھی مناسب حال بدلتے رہتے ہیں.تیس اسی طرح ہماری اخلاقی حالت بھی حسب موقع تبدیلی کو چاہتی ہے.ایک وقت رعب دکھلانے کا مقام ہوتا ہے.وہاں نرمی اور در گذر سے کام بگڑتا ہے.اور دوسرے وقت نرمی اور تواضع کا موقع ہوتا ہے.اور وہاں رعب دکھلانا سفلہ بین سمجھا جاتا ہے.غرض ہر ایک وقت اور ہر ایک مقام ایک بات کو چاہتا ہے.پس جو شخص رعایت مصالح اوقات نہیں کرتا.وہ حیوان ہے.نہ انسان.اور وہ وحشی ہے نہ مہذب.

Page 454

۴۳۶ دشمنوں سے پیار نیم دعوت - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۳۶ تا ۴۳۸ نیز دیکھیں.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۶۶ تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۶۲، ۱۶۳ چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۴۵ ملفوظات.جلد ۲ صفحہ ۴۰ ۴۱ قرآن انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو.بلکہ وہ کہتا ہے کہ چاہئے کہ نفسانی رنگ میں تیرا کوئی بھی دشمن نہ ہو اور تیری ہمدردی ہر ایک کے لئے عام ہو.مگر جو تیرے خدا کا دشمن.تیرے رسول کا دشمن اور کتاب اللہ کا دشمن ہے وہی تیرا دشمن ہو گا.سو تو ایسوں کو بھی دعوت اور دعا سے محروم نہ رکھ.اور چاہئے کہ توان کے اعمال سے دشمنی رکھے نہ ان کی ذات سے.اور کوشش کرے کہ وہ درست ہو جائیں.اور اس بارے میں فرماتا ہے.إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَنِ وَإِيتَابِي ذِي الْقُرْنَ یعنی خدا تم سے کیا چاہتا ہے.بس یہی کہ تم تمام نوع انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو.پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان سے بھی نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی.پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آو کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو.جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں.کیونکہ احسان میں ایک خود نمائی کا مادہ بھی مخفی ہوتا ہے.اور احسان کرنے والا بھی اپنے احسان کو جتلا بھی دیتا ہے.لیکن وہ جو ماں کی طرح طبیعی جوش سے نیکی کرتا ہے وہ کبھی خود نمائی نہیں کر سکتا.پس آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے جو ماں کی طرح ہو.اور یہ آیت نہ صرف مخلوق کے متعلق ہے بلکہ خدا کے متعلق بھی ہے.خدا سے عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یاد کر کے اس کی فرمانبرداری کرنا.اور خدا سے احسان یہ ہے کہ اس کی ذات پر ایسا یقین کر لینا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے.اور خدا سے اینا نو ذی القربی یہ ہے کہ اس کی عبادت نہ تو بہشت کے طمع سے ہو اور نہ دوزخ کے خوف سے.بلکہ اگر فرض کیا جائے کہ نه بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے.تب بھی جوش محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۰ ،۳۱

Page 455

۴۳۷ ۱۳۵ انجیلوں میں حلیموں.غریبوں.مسکینوں کی تعریف کی گئی ہے.اور نیز ان کی تعریف جو ستائے جاتے ہیں اور مقابلہ نہیں کرتے.مگر قرآن صرف یہی نہیں کہتا کہ تم ہر وقت مسکین بنے رہو اور نشتر کا مقابلہ نہ کرو.بلکہ کہتا ہے کہ حلم اور مسکینی اور غربت اور ترک مقابلہ اچھا ہے.مگر اگر بے محل استعمال کیا جائے تو بڑا ہے.پس تم محل اور موقعہ جلسوں، غریبوں اور کو دیکھ کر ہر ایک نیکی کرو.کیونکہ وہ نیکی بدی ہے جو محل اور موقعہ کے برخلاف مسکینوں کی تعریف ہے.جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ مینہہ کس قدر عمدہ اور ضروری چیز ہے.لیکن اگر وہ بے موقعہ ہو تو وہی تباہی کا موجب ہو جاتا ہے تم دیکھتے ہو کہ ایک ہی سرد غذا یا گرم غذا کی مداومت سے تمہاری صحت قائم نہیں رہ سکتی.بلکہ صحت تبھی قائم رہے گی جب موقعہ اور محل کے موافق تمہارے کھانے اور پینے کی چیزوں میں تبدیلی ہوتی رہے.پس درشتی اور نرمی اور عضو اور انتقام اور دعا اور پر دعا اور دوسرے اخلاق میں جو تمہارے لئے مصلحت وقت ہے.وہ بھی اس تبدیلی کو چاہتی ہے.اعلیٰ درجہ کے حلیم اور خلیق بنو.لیکن نہ بے محل اور بے موقعہ.اور ساتھ اس کے یہ بھی یاد رکھو کہ حقیقی اخلاق فاصلہ جن کے ساتھ نفسانی اغراض کی کوئی زہر پلی آمیزش نہیں.وہ اوپر سے بذریعہ روح القدس آتے ہیں.سو تم ان اخلاق فاصلہ کو محض اپنی کوشش سے حاصل نہیں کر سکتے جب تک تم کو اوپر سے وہ اخلاق عنایت نہ کئے جائیں.اور ہر ایک جو آسمانی فیض سے بذریعہ روح القدس اخلاق کا حصہ نہیں پاتا.وہ اخلاق کے دعوے میں جھوٹا ہے اور اس کے پانی کے نیچے بہت سا کچڑ ہے اور بہت سا گوہر ہے.جو نفسانی جوشوں کے وقت ظاہر ہوتا ہے.سو تم خدا اسے ہر وقت قوت مانگو جو اس کیچڑ اور اس گوبر سے تم نجات پاؤ.اور روح القدس تم میں کچی طہارت اور لطافت پیدا کرے.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۴، ۴۵ انجیل متی ۵ باب میں ہے کہ " تم سن چکے ہو کہ کہا گیا.آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت.پر میں تمہیں کہتا ہوں کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا اس تعلیم پر دو عیسائیوں میں ایک صاحب خیر الدین نام عیسائی نے ڈرتے ڈرتے اعتراض کیا ہے کہ ایسے احکام اس طبیعی قانون خود حفاظتی کے بر خلاف ہیں جو جمیع حیوانات بلکہ پرندوں اور کیڑوں میں بھی نظر آرہا ہے.اور ثابت نہیں ہو سکتا کہ کسی زمانہ میں باستثناء ذات مسیح کے احکام پر کسی محاکمه

Page 456

شخص نے عمل بھی کیا ہے.چنانچہ یہ سوال ان کا نور افشاں ۲۰ر دسمبر ۱۸۹۵ء میں درج ہوچکا ہے.در حقیقت یہ سوال خیر الدین صاحب کا نہایت عمدہ اور کامل اور ناقص تعلیم کے لئے ایک معیار تھا.مگر افسوس کہ پرچہ نور افشاں ۳ جنوری ۱۸۹۶ء میں پادری ٹھا کر داس نے قابل قدر اور بیش قیمت سوال کا ایسا نکما اور بیہودہ جواب دیا ہے جس سے ایک محقق طبع انسان کو ضرور ہنسی آئے گی.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ سوال اور جواب کی کچھ حقیقت محاکمہ کے طور پر ظاہر کر کے ان لوگوں کو فائدہ پہنچاوں جو حقیقی سچائیوں کے بھوکے اور پیاسے ہیں.واضح ہو کہ پادری ٹھاکر داس صاحب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انجیل میں جانی یا مالی ضرر کی حالت میں ترک مقابلہ کے یہ معنی ہیں کہ ظالم سے انتقام حکومت ہی لیوے آپ مقابلہ نہ کریں.مطلب یہ کہ اگر کوئی ظالم کسی جان کو ضرر پہنچادیوے یا مال کو لے لیوے تو انجیل کا منشاء یہ ہے کہ بتوسط حاکم چارہ جوئی کی جائے.اب غور سے سوچنا چاہئے کہ انجیل متی کی اصل عبارت جس کے یہ معنی کئے گئے ہیں یہ ہے کہ ”تم سن چکے ہو کہ کہا گیا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت.پر میں تمہیں کہتا ہوں کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرتا." اس جگہ غور طلب یہ امر ہے کہ ترک مقابلہ کے کیا معنی ہیں ؟ کیا صرف یہی کہ اگر کوئی ظالم آنکھ پھوڑ دے ، یا دانت نکال دے تو بتوسط حکام اس کو سزا دلانی چاہئے.خود بخود اس کی آنکھ نہیں پھوڑنی چاہئے.اور نہ دانت نکالنا چاہئے.اگر یہی معنی ہیں تو توریت پر زیادت کیا ہو گی.کیونکہ توریت بھی تو یہی ہدایت دیتی ہے کہ ظالموں کو قاضیوں کی معرفت سزا ملے.خروج ۲۱ باب میں خدا موسیٰ کو کہتا ہے کہ تو جان کے بدلے جان لے اور آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے ، دانت.اور توریت بتلا رہی ہے کہ یہ تمام سزائیں قاضیوں کی تجویز کے موافق عمل میں آویں.مگر پادری ٹھاکر داس صاحب کہتے ہیں کہ انجیل کی تعلیم میں توریت پر یہ زیادت ہے کہ ایک مظلوم حکام کی معرفت انتقام لیوے یعنی یہودیوں کو تو اختیار تھا کہ ظالم کو بغیر توسط حکام کے خود سزا دے دیں.مگر انجیل نے قاضیوں اور حاکموں کے سوا کسی کو سزا دینے کے لئے مجاز قرار نہیں دیا.گویا قاضیوں کے عہدے تجویز کرنے والی انجیل ہی ہے.توریت میں اس کا کچھ ذکر نہیں.مگر ظاہر ہے کہ ایسا خیال صریح خلاف واقعہ ہے.اور پادری صاحب نے بھی کوئی ایسی آیت توریت کی پیش نہیں کی جس سے یہ سمجھا ۴۳۸

Page 457

۴۳۹ جائے کہ توریت ہر ایک کہ سزا دینے کا اختیار دیتی ہے.بلکہ یہ بات تو ہر ایک توربیت پڑہنے والے کو معلوم ہے کہ توریت کی تمام سزائیں اور حدود قاضیوں کی معرفت عمل میں آتی تھیں.اور جرائم پیشہ کی پاداش کا توریت میں بھی انتظام تھا کہ قاضیوں کے ذریعہ سے ہر ایک مجرم سزا پاوے.اور اگر اس تقریر سے پادری صاحب کا یہ مطلب ہے کہ گوتوریت میں قاضیوں کے ذریعہ سے سزائیں ہوتی تھیں مگر خود حفاظتی کے لئے جس قدر مقابلہ کی ضرورت تھی یہودی لوگ اس مقابلہ کے لئے مجاز تھے.اب انجیل میں کمال یہ ہے کہ عیسائی اس مقابلہ سے مجاز نہیں ہیں بلکہ حکم ہے کہ ظالم کا منشاء پورا ہونے دیں.مثلاً اگر کوئی ظالم ایک عیسائی کی آنکھ پھوڑنا چاہے تو عیسائی کو چاہئے کہ بخوشی اس کو پھوڑنے دے اور پھر کانا یا اندھا ہونے کے بعد عدالت میں جاکر تائش کر دے.تو ہم نہیں سمجھ سکتے کہ یہ کس قسم کی اخلاقی تعلیم ہے اور ایسے اخلاق سے نفسانی جذبات پر کس قسم کا اثر پڑے گا.بلکہ ایسا انسان نہایت بد بخت انسان ہے کہ اپنی آنکھ ناحق ضائع کرا کر پھر صبر نہ کر سکا اور اپنی قوت انتقام کو حکام کے ذریعہ سے اپنے وقت میں عمل میں لایا جو اس کو کچھ نفع نہیں دے سکتا تھا.ایسے عیسائی سے تو یہودی ہی اچھا رہا جس نے خود حفاظتی کو کام میں لا کر اپنی آنکھ کو بچالیا.شاید پادری ٹھاکر داس صاحب کہیں کہ ترک مقابلہ اس حالت میں ہے جب کہ کوئی شخص تھوڑی تکلیف پہنچانا چاہے.لیکن اگر بچ بچ آنکھ پھوڑنے یادانت نکالنے کا ارادہ کرے تو پھر خود حفاظتی کے لئے مقابلہ کرنا چاہئے.تو یہ خیال پادری صاحب کا انجیل کی تعلیم کے مخالف ہو گا.متی باب ۵ آیت ۳۸ میں صریح یہ عبارت ہے کہ " تم چکے ہو کہ کہا گیا آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت.۳۹.پر میں تمہیں کہتا ہوں کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو تیری داہنی گال پر طمانچہ مارے دوسری بھی اس کی طرف پھیر د.اور ظاہر ہے کہ اگر کسی کے منہ پر ایک زور آور کے ہاتھ سے ظالمانہ ارادہ سے ایک زور کا طمانچہ لگے تو اس ایک ہی طمانچہ سے دانت بھی نکل سکتے ہیں.اور آنکھ بھی پھوٹ سکتی ہے.اور یسوع صاحب فرماتے ہیں کہ ایک گال پر طمانچہ تھا کر دوسری بھی پھیر دے تو اس سے ان کا بھی یہی مطلب معلوم ہوتا ہے کہ تا دوسری طرف کے بھی دانت نکلیں اور آنکھ بھی پھوٹے اور اندھا ہو جائے نہ صرف کانار ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ

Page 458

م سوم دشمن ظالم کا پر زور طمانچہ مادر مہربان کی طرح نہیں ہو گا بلکہ وہ تو ایک ہی طمانچہ سے ایک ہی ضرب سے دانت بھی نکال ڈالے گا اور آنکھ بھی.پس اس تعلیم سے تو یہی ثابت ہوا کہ اگر بچے عیسائی ہو تو دانت اور آنکھ نکالنے دو اور مقابلہ نہ کرو.اور اپنی آنکھ اور دانت کو مت بچاؤ.سو اس وقت وہی اعتراض انجیل پر ہو گا جو خیر الدین صاحب نے پیش کیا ہے.اور اس آیت کا یہ بھی مطلب ہے کہ اگر کوئی ظالم تمہاری آنکھ نکال دے یا دانت توڑ دے تو یہ کوشش بھی مت کرو کہ اس کی آنکھ بھی پھوڑی جائے یا اس کا دانت بھی نکال دیا جائے.یعنی نہ آپ انتقام لو اور نہ حکام کے ذریعہ سے انتقام کی خواہش کرو.کیونکہ اگر انتقام ہی لینا ہے تو پھر ایسی تعلیم کو توریت پر کیا فوقیت ہے.آپ سزا دینا یا حکام سے سزا دلوانا ایک ہی بات ہے.اور اگر کوئی عیسائی کسی ظالم کو حکام کے ذریعہ سے سزا دلائے، تو اسے یادرکھنا چاہئے کہ توریت بھی تو ایسے موقعہ پر یہ اجازت نہیں دیتی کے ایسے مجرم کی شخص مظلوم آپ ہی آنکھ پھوڑ دے یا دانت نکال دے بلکہ ہدایت کرتی ہے کہ ایسا شخص حکام کے ذریعہ سے چارہ جوئی کرے.پس اس صورت میں مسیح کی تعلیم میں کونسی زیادتی ہوئی.یہ تعلیم تو پہلے ہی سے توریت میں موجود تھی.اس جگہ ہم صفائی بیان کے لئے پادری صاحب سے دریافت کرتے ہیں کہ اگر مثلا کسی موقعہ پر کوئی ایسا اتفاق ہو جائے کہ کوئی ظالم آپ کی آنکھ پھوڑ دے یا آپ کا ایک دانت نکال دے تو انجیل کی رو سے آپ ایسے ظالم سے کس طرح پیش آئیں گے.اگر کہو کہ اس وقت ہم بدی کا بدی کے ساتھ مقابلہ نہیں کریں گے مگر عدالت کے ذریعہ سے انتقام لیں گے.تو یہ کاروائی انجیلی تعلیم کا ہر گز منشاء نہیں ہے.کیونکہ اگر آنکھ کے بدلے ضرور آنکھ کو پھوڑتا ہے.اور کسی قاضی یا حاکم کی طرف رجوع کرنا ہے تو یہ توریت کی تعلیم ہے جو آپ کے یسوع صاحب کے وجود سے بھی پہلے بنی اسرائیل میں رائج تھی اور اب بھی کمزور اور ضعیف لوگ کب شریروں کا مقابلہ کرتے ہیں.وہ بھی تو فوجداری اور مالی مقدمات میں عدالتوں کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں.مگر متی کے پانچ باب میں جس طرز بیان کو آپ کے یسوع صاحب نے اختیار کیا ہے یعنی توریت کے احکام پیش کر کے جابجا کہا ہے کہ انگلوں سے یہ کہا گیا ہے مگر میں تمہیں یہ کہتا ہوں.اس طرز سے صاف طور پر ان کا یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ وہ توریت کی تعلیم

Page 459

۴۴۱ i سے کچھ علاوہ بیان کرنا چاہتے ہیں.پھر اگر مقام متنازعہ فیہ میں توریت سے زیادہ کوئی بات نہیں بلکہ جیسا کہ ایک یہودی کسی ظالم کے ہاتھ سے ظلم اٹھا کر عدالت سے چارہ جوئی کرنا چاہتا ہے یہی انجیل کی بھی تعلیم ہے تو پھر صبح کا یہ دعوی کہ پہلی کتاب میں تو یہ کہا گیا ہے مگر میں یہ کہتا ہوں محض لغو ٹھہرتا ہے سوال تو یہ ہے کہ مسیح نے جو توریت کی تعلیم آنکھ کے بدلے آنکھ ، دانت کے بدلے دانت بیان کر کے پھر اپنی ایک نئی تعلیم بتلائی جو اس سے بہتر ہے وہ کیا ہے.اب جب کہ نئی تعلیم کوئی بھی ثابت نہ ہو سکی تو یہ کہنا پڑے گا کہ مسیح نے صرف دھوکہ دیا ہے اور پاوری ٹھاکر داس صاحب یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے یسوع صاحب کا ظالم کے مقابلہ سے اپنے چیلوں کو منع کرنا صرف چھوٹی چھوٹی باتوں تک محدود ہے اور کہتے ہیں کہ ترک مقابلہ سے یہ مطلب ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتیں جیسے یہ مثلاً گال پر طمانچہ کھانا بدلہ لینے کا محل نہیں ہے بلکہ ایسی حالتوں میں برداشت کرنا فرض ہے.مگر وہ اپنے اس بیان سے ثابت کرتے ہیں کہ انجیل کی منشاء سے وہ کیسے ناواقف ہیں.اے صاحب آپ نے کہاں سے اور کس سے سن لا کہ ظلم کا منہ پر طمانچہ مارنا چھوٹی باتوں میں داخل ہے.شاید اب تک آپ نے کسی زبر دست کا طمانچہ نہیں کھایا.افسوس کہ موسیٰ کا طمانچہ بھی آپ کو یاد نہ رہا کہ اس کا کیا نتیجہ تھا.اگر اس جگہ طمانچہ سے صرف ایک پیار اور محبت کا طمانچہ ہے جس میں آنکھ یا دانت کے نکلنے کا خطرہ نہیں تو آپ کے یسوع صاحب ایک نادان اور ژولیدہ زبان ٹھہریں گے.جن کا کلام غیر منظم اور پریشان ہے کہ تعلیمی مقابلہ دکھلانے کے وقت آنکھ اور دانت کے مقابل پر گال کے طمانچہ کا ذکر کرتے ہیں جو محض ایک بے تعلق امر ہے.ظاہر ہے کہ اگر گال کے طمانچہ میں آنکھ اور دانت کا ذکر کچھ بھی ملحوظ نہیں تو یہ عبارت سخت بے جوڑ اور منقطع ہو گی.اور سابق اور لاحق کا کچھ بھی باہم ربط نہ ہو گا.اگر یسوع صاحب کا وہی منشاء تھا جو پادری صاحب نے سمجھا ہے تو یوں کہنا چاہئے تھا کہ تم سن چکے ہو کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت نگر میں تمہیں کہتا ہوں کہ آنکھ اور دانت کے عوض تو تم ظالم کا مقابلہ کر ولیکن اگر کوئی ہلکا سا طمانچہ مارے جس سے نہ آنکھ پھوٹے اور نہ دانت نکلے تو اس کی برداشت کر لو.مگر آپ کے یسوع صاحب نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے تو آنکھ اور دانت کا ذکر کر کے پھر اپنی تعلیم کی فوقیت دکھلانے کے لئے ایسے عضو کا ذ کر کیا جس پر ایک زور کا طمانچہ لگنے سے آنکھ

Page 460

اور دانت دونوں نکل سکتے ہیں.ظاہر ہے کہ ایک نبی کا کلام بے ربط اور دیوانوں کی طرح نہیں ہونا چاہئے.آپ جانتے ہیں کہ یسوع صاحب کا مدعاتو ہی تھا کہ موسیٰ کی کتاب میں آنکھ نکالنے کی سزا آنکھ لکھی ہے مگر میری تعلیم اخلاقی صورت میں اس سے بڑھ کر ہے.ہیں یسوع صاحب کے قول کے اس جگہ وہ معنی کئے جاویں جن سے موسیٰ اور یسوع کی تعلیم ایک ہی بن جائے تو پھر ان کا اصل مقصد جو اخلاقی تعلیم کا زیادہ نمونہ دکھلانا ہے بالکل فوت ہو جاتا ہے.ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کی توریت میں کسی جگہ یہ نہیں لکھا کہ تم ہلکے ہلکے طمانچے کھا کر ان کے عوض بھی طمانچے مارا کرو اور ذرہ ذرہ سی باتوں میں مقدمے بناؤ بلکہ توریت میں صرف ایسی باتوں کو قانون قصاص میں داخل کیا ہے جن کو ایک متوسط العقل آدمی مواخذہ کے لائق سمجھتا ہے جیسے آنکھ پھوڑنا، دانت نکالنا، جان سے مارنا وغیرہ وغیرہ.کیونکہ اگر ایسے ایسے شدید حملوں کو نہ روکا جائے تو بنی آدم کی زندگی ایک دن بھی ممکن نہیں.یہ نہیں کہ اگر کوئی ذرہ جسم پر انگلی بھی لگا دے تو اس پر بھی مقابلہ کے طور پر انگلی لگادینی چاہئے.یہ تو وحشیانہ حرکات ہیں اور نبیوں کی تعلیمیں ایسی رزیلانہ مقابلہ کی ہر گزر غبت نہیں دیتیں کہ جس میں اخلاقی حالت کا بالکل ستیا ناس ہو جائے اور انسان ان نادان بچوں کی طرح بن جائے جو ذرہ ذرہ سی بات میں ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں.پھر پادری ٹھاکر داس صاحب نے جب دیکھا کہ انجیل کی یکطرفہ تعلیم پر در حقیقت عقل اور قانون قدرت کا سخت اعتراض ہے تو نا چار ایک غرق ہونے والے کی طرح قرآن شریف کو ہاتھ ملا ہے تا کوئی سہارا ملے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ قرآن جیسی کتاب میں بھی اس کے یعنی اس انجیل کے حکم کی تعریف کی گئی ہے یہ اور پھر ایک آیت کا غلط ترجمہ پیش کرتے ہیں کہ اگر بدلہ دو تو اس قدر بدلہ دو جس قدر تمہیں تکلیف پہنچے اور صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے.اور اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ گویا یہ انجیلی تعلیم کے موافق ہے.مگر یہ کچھ تو ان کی غلطی اور کچھ شرارت بھی ہے.غلطی ا یه کلمه که قرآن جیسی کتاب میں بھی، ایک تحقیر کا کلمہ ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کی بزرگ اور مقدس کتاب کی نسبت پادری صاحب نے استعمال کیا ہے.ہمیں بڑا تعجب ہے کہ یہ مردہ پرست قوم اللہ جل شانہ کے پاک کلام سے اس قدر کیوں بغض رکھتی ہے.منہ

Page 461

اس وجہ سے کہ یہ لوگ علم عربیت سے محض ناواقف اور بے بہرہ ہیں.اس لئے ان کو کچھ بھی استعداد نہیں کہ قرآن کے الفاظ سے اس کے صحیح معنے سمجھ سکیں اور شرارت یہ کہ یہ آیت صریح بتلا رہی ہے کہ اس میں انجیل کی طرح صرف ایک ہی پہلو در گذر اور عفو پر زور نہیں دیا گیا بلکہ انتقام کو تو حکم کے طور پر بیان کیا گیا ہے.اور عفو کی جگہ صبر کا لفظ ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے جو سزا دینے میں جلدی نہیں چاہتے.اور عفو کرنے کے لئے کوئی حکم نہیں دیا.مگر پھر بھی ٹھاکر داس صاحب نے دانستہ اپنی آنکھ بند کر کے خواہ نخواہ قرآن شریف کی کامل تعلیم کو انجیل کی ناقص اور علمی تعلیم کے ساتھ مشابہت دینا چاہا ہے.ناظرین یا درکھیں کہ قرآن شریف کی آیت جس کا غلط ترجمہ ٹھاکر داس صاحب نے پیش کیا ہے، یہ ہے.وَإِنْ عَاقَتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُو قِبْتُم بِهِ وَلَبِن صَبَرتُم لَهُوَ خَيْرُ للصف بِرين یعنی اگر تم ایذاء کے بدلے ایزاد و تو اسی قدر دو جس قدر تم کو ایزاد یا گیا اور اگر صبر کرو تو صبر کرنا ان کے لئے بہتر ہے جو سزا دینے میں دلیر ہیں اور اندازہ اور حد سے گذر جاتے ہیں اور بدر فتار ہیں یعنی محل اور موقعہ کو شناخت نہیں کر سکتے.الصابرین میں جو صبر کا لفظ ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ بے تحقیق اور بے محل سزا دینا.اسی وجہ سے آیت میں خدائے تعالیٰ نے یہ نہ فرمایا لهو خير لكم بلکہ فرمایا لهو خير للصباب میں تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اس جگہ لفظ صبر کے وہ معنی نہیں ہیں جو پہلے لفظ میں ہیں.اور اگر وہی معنی ہوتے تو بجائے لکم کے للصبریں رکھنا بے معنی اور بلاغت کے برخلاف ہوتا.لغت عرب میں جیسا کہ صبر رو کنے کو کہتے ہیں.ایسا ہی بیجا دلیری اور بدرفتاری بے تحقیق کسی کام کرنے کو کہتے ہیں.اب ناظرین سوچ لیں کہ اس آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ ہر ایک مومن پریہ بات فرض کی گئی ہے کہ وہ اسی قدر انتقام لے جس قدر اس کو دکھ دیا گیا ہے.لیکن اگر وہ صبر کرے یعنی سزا دینے میں جلدی نہ کرے تو ان لوگوں کے لئے صبر بہتر ہے جن کی عادت چالاکی اور بدرفتاری اور بد استعمالی ہے یعنی جو لوگ اپنے محل پر سزا نہیں دیتے بلکہ ایسے لوگوں سے بھی انتقام لیتے ہیں کہ اگر ان سے احسان کیا جائے تو وہ اصلاح پذیر م م

Page 462

بوم سلام سلام ہو جائیں یا سزا دینے میں ایسی جلدی کرتے ہیں کہ بغیر اس کے جو پوری تحقیق اور تفتیش کریں ایک بے گناہ کو بلا میں گرفتار کر دیتے ہیں ان کو چاہئے کہ صبر کریں یعنی سزا دینے کی طرف جلدی نہ دوڑیں.اول خوب تحقیق اور تفتیش کریں اور خوب سوچ لیں کہ سزا دینے کا حل اور موقعہ بھی ہے یا نہیں.پھر اگر موقعہ ہو تو دیں ورنہ رک جائیں.اور یہ مضمون صرف اسی آیت میں نہیں بیان کیا گیا بلکہ قرآن شریف کی اور کئی آیتوں میں بھی بیان ہے چنانچہ ایک جگہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَجَزَاؤُ أَسَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ یعنی بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص عفو کر ہے اور ایسی عفو ہو کہ اس سے کوئی اصلاح مقصود ہو تو وہ خدا سے اپنا اجر پائے گا.یعنی بے محل اور بے موقعہ عفونہ ہو جس سے کوئی بد نتیجہ نکلے اور کوئی فساد پیدا ہو بلکہ ایسے موقعہ پر عفو ہو جس سے کسی صلاحیت کی امید ہو اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بنی آدم کی طبیعتیں یکسان واقعہ نہیں ہوئیں اور ر گناہ کرنے والوں کی عادتیں اور استعداد میں ایک طور کی نہیں ہوا کرتیں بلکہ بعض تو سزا کے لائق ہوتے ہیں اور بغیر سزا کے ان کی اصلاح ممکن نہیں اور بعض عفو اور در گذر سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور سزا دینے سے چڑ کر اور بھی بدی پر مستحکم ہو جاتے ہیں.غرض یہ تعلیم وقت اور موقعہ بنی کی قرآن شریف میں جابجا پائی جاتی ہے اگر ہم تفصیل سے لکھیں تو ایک بڑار سالہ بن جاتا ہے.یہ بات یادر رکھنے کے لائق ہے کہ جیسا کہ توریت میں آیا ہے کہ ” خدا مینا سے آیا اور سعیر سے طلوع کیا اور فاران مجید کے پہاڑ سے ان پر چمکا.اسی طرح حقیقی چمک ہر ایک تعلیم کی اسلام سے ہی پیدا ہوئی ہے.خدا کے کام اور خدا کی کلام کا کامل معالقہ قرآن نے ہی کرایا ہے.توریت نے سزاؤں پر زور دیا تھا اور چونکہ انجیل ایسے وقت میں نازل ہوئی جبکہ یہود میں انتقام کشی کی عادتیں اور کینہ اور بغض حد سے بڑھ گیا تھا اس لئے انجیل کلید فاران عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں دو بھاگنے والے اور مصدر اس کا فرار ہے.چونکہ حضرت اسمعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ مطہرہ صدیقہ ہاجرہ رضی اللہ عینا سارہ کی بدخوئی اور ظلم کے ہاتھ سے تنگ آگر الہام الہی سے مکہ معظمہ کی زمین میں بھاگ آئے اس لئے اس زمین کا نام فاران ہوا یعنی دو بھاگنے والے.منہ

Page 463

۴۴۵ كي عفولور در گذر کی تعلیم ہوئی.مگر یہ تعلیم نفس الامر میں عمدہ نہ تھی بلکہ نظام الہی کی ی تھی.لہذا حقیقی تعلیم کا تلاش کرنے والا انجیل کی تعلیم پر بہت ہی شک کرے گا اور ممکن ہے ایسے معلم کو ایک نادان اور سادہ لوح قرار دے.چنانچہ یورپ کے محققوں نے ایسا ہی کیا.مگر یادر ہے کہ اگر چہ انجیل کی تعلیم بالکل علمی اور سراسر پیچ ہے لیکن حضرت مسیح اس وجہ سے معذور ہیں کہ انجیل کی تعلیم ایک قانون دائمی اور مستمر کی طرح نہیں تھی بلکہ اس محدود ایکٹ کی طرح تھی جو مختص المقام اور مختف الزمان اور مختص القوم ہوتا ہے.یورپ کے وہ روشن دماغ محقق جنہوں نے یسوع کو نہایت درجہ کا نادان اور سادہ لوح اور علیم و حکمت سے بے بہرہ قرار دیا ہے.اگر وہ اس عذر پر اطلاع پاتے تو یقین تھا کہ وہ اپنی تحریروں میں کچھ نرمی کرتے.لیکن مخلوق پرست لوگوں نے اور بھی اہل تحقیق کو بیزار کیا.عزیز و یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ اس زمانہ کے محقق اور آزاد طبیعت ایک مردہ خوار کو ایسابرا اور قابل لعن و طعن اور حقیر نہیں مجھے جیسا کہ ایک مردہ پرست مشرک کو.غرض انجیل کی ناقص اور مکتی اور بیہودہ تعلیم اگر چہ اہل تحقیق کے نزدیک نہایت ہی بد بودار اور قابل نفرت ہے لیکن چونکہ اس وقت کے یہود بھی ایک گری ہوئی حالت میں ا تھے اور خدائے تعالیٰ جانتا تھا کہ اس تعلیم کو جلد تر نیست و نابود کیا جائے گا.لہذا ایک مختصیر زمانہ کے لئے جو چھ سو برس سے زیادہ نہ تھا یہ تعلیم یہودیوں کو دی گئی.مگر چونکہ فی الواقع حق اور حکمت پر مبنی نہیں تھی اس لئے خدائے تعالی کی کامل کتاب نے جلد نزول فرما کر دنیا کو اس بے ہودہ تعلیم سے نجات بخشی.یہ بات بدیہی اور صاف ہے کہ انسان اس دنیا میں بہت سے قوئی لے کر آیا ہے اور تمام حیوانات کے متفرق قوئی کا مجموعہ انسان میں پایا جاتا ہے اس لئے وہ دوسروں کا سردار بنایا گیا.پس انسان کی تکمیل کے لئے وہی تعلیم حقیقی تعلیم ہے جو اس کی تمام قوتوں کی تربیت کرے نہ کہ اور تمام شاخوں کو کاٹ کر صرف ایک ہی شاخ پر زور ڈال دے.تعلیم سے مطلب تو یہ ہے کہ انسان اپنی تمام قوتوں کو حد اعتدال پر چلا کر حقیقی طور پر انسان بن جائے اور اس کی تمام قوتیں خدائے تعالیٰ کے آستانہ پر کامل عبودیت کے ساتھ سر رکھ دیں اور اپنے محل اور موقعہ پر چلیں.اور ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ انسان میں کوئی قوت بڑی نہیں.صرف ان کی بد استعمالی بری ہے.مثلاً حسد کی قوت کو بہت ہی برا سمجھا جاتا ہے کیونکہ ایک حاسد دوسرے

Page 464

کی نعمت کا زوال چاہتا ہے اور وہ نعمت اپنے لئے پسند کرتا ہے.لیکن در حقیقت غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ حسد کا اصل مفہوم بر انہیں.کیونکہ اصل مفہوم اس قوت کا جو بد استعمالی سے بری شکل پیدا کر لیتا ہے صرف اس قدر ہے کہ سب سے بڑھ کر آگے قدم رکھے اور اچھی باتوں میں سب سے سبقت لے جائے اور پیش قدمی کا ایسا جوش ہو جو کسی کو اپنے برابر دیکھ نہ سکے.پس چونکہ حاسد میں سبقت کرنے کا مادہ جوش مارتا ہے لہذا ایک شخص کو ایک نعمت میں دیکھ کر یہ چاہتا ہے کہ یہ نعمت میرے لئے ہو اور اس سے دور ہو جائے تا اس طرح پر اس کو سبقت حاصل ہو.سو یہ اس پاک قوت کی بد استعمالی ہے.ورنہ مجرد سبقت کا جوش اپنے اندر برا نہیں ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ فاستبقوا الخیرات.یعنی خیر اور بھلائی کی ہر ایک قسم میں سبقت کرو اور زور مار کر سب سے آگے چلو.سوجو شخص نیک و سائل سے خیر میں سبقت کرنا چاہتا ہے وہ در حقیقت حسد کے مفہوم کو پاک صورت میں اپنے اندر رکھتا ہے.اسی طرح تمام اخلاق رذیلہ اخلاق فاضلہ کی مسخ شدہ صورتیں ہیں خدائے تعالیٰ نے انسان میں تمام نیک قوتیں پیدا کیں.پھر بد استعمالی سے وہ بد نما ہو گئیں.اسی طرح انتقام کی قوت بھی در حقیقت بُری نہیں ہے.فقط اس کی بد استعمالی بُری ہے.اور انجیل نے جو انتقامی قوت کو بر اقرار دیا اگر وہ عذر نہیں یاد نہ ہو تا جو ابھی ہم لکھ چکے ہیں تو ہم ایسی تعلیم کو شیطانی تعلیم قرار دیتے.مگر اب کیونکر قرار دیں کیونکہ خود حضرت مسیح اپنی تعلیم کے علمی اور ناقص ہونے کا اقرار کر کے اپنے حواریوں کو کہتے ہیں کہ.بہت سی باتیں ہیں کہ ابھی تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب فاز خلط آئے گا تو وہ تمام باتیں تمہیں سمجھادے گا ؟ یہ اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ میری تعلیم علمی اور ناقص ہے اور آنے والا نبی کامل تعلیم لائے گا.عیسائیوں کا یہ عذر بالکل جاہلانہ عذر ہے کہ یہ پیش گوئی اس روز پوری ہوئی جب حواریوں نے طرح طرح کی زبانیں بول تھیں کیونکہ طرح طرح کی زبانیں بولنا کوئی نئی تعلیم نہیں ہو سکتی.وہ زبانیں تو عیسائیوں نے محفوظ بھی نہیں رکھیں بولنے کے ساتھ ہی معدوم ہو گئیں.ہاں اگر عیسائیوں کے ہاتھ میں کوئی ایسی نئی تعلیم ہے جو حضرت مسیح کے اقوال میں نہیں پائی جاتی تو اسے پیش کرنا چاہئے تا دیکھا جائے کہ وہ اس عفو اور در گزر کی تعلیم کو کیونکر بدلاتی ہے.

Page 465

۴۴۷ اگر عیسائیوں میں انصاف ہوتا تو حضرت مسیح کا اپنی تعلیم کو نا قص قرار دینا اور ایک آنے والے نبی کی امید دلانا ہمارے مولیٰ خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت کے لئے بڑا قرینہ تھا تھا خصوصا اس حالت میں کہ خود انجیل کی ناقص تعلیم ایک کامل کتاب کو چاہتی تھی.پھر ایک یہ بھی بڑا قرینہ تھا کہ حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ تم میں ان باتوں کی بر داشت نہیں.اس میں صریح اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تمہاری استعدادیں اور تمہاری فطرتیں اس تعلیم کے مخالف پڑی ہیں پھر جب کہ فطرت میں تبدیلی ممکن نہیں اور نہ حضرت مسیح کے وقت میں وہ فطرتیں مبدل ہو سکیں تو پھر کسی دوسرے وقت میں ان کی تبدیلی کیونکر ممکن ہے.پس یہ صاف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ وہ تعلیم تمہیں نہیں دی جائے گی بلکہ تمہاری ذریت اس تعلیم کا زمانہ پائے گی اور ان کو وہ استعداد میں دی جائیں گی جو تمہیں نہیں دی گئیں.یہ تو ہم نے پادری ٹھاکر داس صاحب کی نسبت وہ باتیں لکھی ہیں جن کا انصاف کی رُو سے لکھنا مناسب تھا لیکن خیر الدین صاحب کی یہ غلطی ہے کہ وہ گمان کرتے ہیں کہ یسوع انجیلی تعلیم کا پابند تھا.انہیں سمجھنا چاہئے کہ اگر یسوع اس کی تعلیم کا پابند ہوتا تو فقیہوں فریسیوں کو بد زبانی سے پیش نہ آتا.یسوع کے ہاتھ میں صرف زبان تھی سو خوب چلائی.کسی کو حرام کار کسی کو سانپ کا بچہ کسی کوست اعتقاد قرار دیا.اگر کچھ اختیار ہوتا تو خدا جانے کیا کرتا.ہم اس کے ظلم اور عفو کے بغیر امتحان کے کیونکر قائل ہو جائیں اور کیوں یہ بات بیچ نہیں کہ ستر بی بی از بیچادری " کہاں یسوع کو یہ موقعہ ملا کہ وہ یہود کے سزا دینے پر قادر ہوتا اور پھر در گذر کرتا.ہاں یہ اخلاق فاضلہ ہمارے سید و مولی افضل الانبیاء خیر الاصفیاء محمد مصطفے خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت ہیں کہ آپ نے جب مکہ فتح والوں پر فتح پائی، جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ستایا تھا اور صدہا نا حق کے خون کئے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ اپنی خونریزیوں کے عوض میں ٹکڑے ٹکڑے کئے جاویں گے ان سب کو بخش دیا اور کہا کہ جاؤ میں نے سب کو آزاد کر دیا.عیسائیوں کی اگر نیک قسمت ہے تو اب بھی اس آفتاب صداقت کو شناخت کریں اور مردہ پرستی سے باز آئیں.والسلام على من اتبع الهدي غلام احمد قادیانی مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۳۲ تا ۲۴۳) مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان

Page 466

۴۴۸ پھر آپ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ مسلمان لوگ خدا کے ساتھ بھی بلا غرض محبت نہیں کرتے.ان کو یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ خدا اپنی خوبیوں کی وجہ سے محبت کے لائق ہے.اما الجواب.پس واضح ہو کہ یہ اعتراض در حقیقت انجیل پر وارد ہوتا ہے نہ قرآن خدا تعالیٰ سے محبت پر.کیونکہ انجیل میں یہ تعلیم ہر گز موجود نہیں کہ خدا سے ذاتی محبت رکھنی چاہئے اور کے بارہ میں تعلیم محبت ذاتی سے اس کی عبادت کرنی چاہئے.مگر قرآن تو اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے.قرآن کے لحاظ سے انجیل نے صاف فرما دیا ہے.موازنه ایک اعتراض فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ ءَابَاءَ كُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا جواب ) وَالَّذِينَ ءَامَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ یعنی خدا کو ایسا یاد کرو جیسا کہ اپنے باپوں کو بلکہ اس سے بہت زیادہ.اور مومنوں کی یہی شان ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر خدا سے محبت رکھتے ہیں یعنی ایسی محبت نہ وہ اپنے باپ سے کریں اور نہ اپنی ماں سے اور نہ اپنے دوسرے پیاروں سے.اور نہ اپنی جان سے.اور پھر فرمایا.حبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَنَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ یعنی خدا نے تمہارا محبوب ایمان کو بنا دیا.اور اس کو تمہارے دلوں میں آراستہ کر دیا اور پھر فرمایا.إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَنِ وَإِيتَاي ذِي الْقُرْنَ یہ آیت حق اللہ اور حق العباد پر مشتمل ہے اور اس میں کمال بلاغت یہ ہے کہ دونوں پہلو پر اللہ تعالیٰ نے اس کو قائم کیا ہے.حق العباد کا پہلو تو ہم ذکر کر چکے ہیں.اور حق اللہ کے پہلو کی رو سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ انصاف کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی اطاعت کر.کیونکہ جس نے تجھے پیدا کیا اور تیری پرورش کی اور ہر وقت کر رہا ہے.اس کا حق ہے کہ تو بھی اس کی اطاعت کرے.اور اگر اس سے زیادہ تجھے بصیرت ہو تو نہ صرف رعایت حق سے بلکہ احسان کی پابندی سے اس کی اطاعت کر.کیونکہ وہ محسن ہے اور اس کے احسان اس قدر ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے.اور ظاہر ہے کہ عدل کے درجہ سے بڑھ کر وہ درجہ ہے.جس میں اطاعت کے وقت احسان بھی ملحوظ رہے اور چونکہ ہر وقت مطالعہ اور ملاحظہ احسان کا محسن کی شکل اور شمائل کو ہمیشہ نظر کے سامنے لے آتا ہے

Page 467

۴۴۹.اس لئے احسان کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ ایسے طور سے عبادت کرے کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے.اور خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے در حقیقت تین قسم پر منقسم ہیں.اول وہ لوگ جو باعث محبوبیت اور رویت اسباب کے احسانِ الہی کا اچھی طرح ملاحظہ نہیں کرتے اور نہ جوش ان میں پیدا ہوتا ہے جو احسان کی عظمتوں پر نظر ڈال کر پیدا ہوا کرتا ہے.اور نہ وہ محبت ان میں حرکت کرتی ہے جو محسن کی عنایات عظیمہ کا تصور کر کے جنبش میں آیا کرتی ہے.بلکہ صرف ایک اجمالی نظر سے خدا تعالیٰ کے قوق خالقیت وغیرہ کو تسلیم کر لیتے ہیں اور احسان الہی کی ان تفصیلات کو جن پر ایک باریک نظر ڈالنا اس حقیقی محسن کو نظر کے سامنے لے آتا ہے ہر گز مشاہدہ نہیں کرتے.کیونکہ اسباب پرستی کا گر دو غبار مستبد حقیقی کا پورا چہرہ دیکھنے سے روک دیتا ہے.اس لئے ان کو وہ صاف نظر میسر نہیں آتی.جس سے کامل طور پر معطی حقیقی کا جمال مشاہدہ کر سکتے.سوان کی ناقص معرفت رعایت اسباب کی کدورت سے ملی ہوئی ہوتی ہے اور بوجہ اس کے جو وہ خدا کے احسانات کو اچھی طرح دیکھ نہیں سکتے.خود بھی اس کی معدوم ہو کر ذاتی محبت اس کی اندر پیدا ہو جاتی ہے.اور یہ وہ مرتبہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے لفظ ایتاء ذی القربیٰ سے تعبیر کیا ہے.اور اسی کی طرف خدا تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے.فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ ءَابَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا غرض آیت إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَنِ وَإِيتَاي ذِي الْقُرْنَ کی یہ تفسیر ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے تینوں مرتبے انسانی معرفت کے بیان کر دیئے اور تیسرے مرتبہ کو محبت ذاتی کا مرتبہ قرار دیا اور یہ وہ مرتبہ ہے جس میں تمام اغراض نفسانی جل جاتے ہیں اور دل ایسا محبت سے بھر جاتا ہے جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے.اس مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے.وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشَرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفُ بِالْعِبَادِ یعنی بعض مومن لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ اپنی جانیں رضاء الہی کے عوض میں بیچ دیتے ہیں اور خدا ایسوں پر مہربان ہے.اور پھر فرمایا

Page 468

بلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنُ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفُ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ یعنی وہ لوگ نجات یافتہ ہیں جو خدا کو اپنا وجود حوالہ کر دیں اور اس کی نعمتوں کے تصور سے اس طور سے اس کی عبادت کریں کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہیں سو ایسے لوگ خدا کے پاس سے اجر پاتے ہیں.اور نہ ان کو کچھ خوف ہے اور نہ وے کچھ غم کرتے ہیں.یعنی ان کا مد عا خدا اور خدائی محبت ہو جاتی ہے اور خدا کے پاس کی نعمتیں ان کا اجر ہوتا ہے اور پھر ایک جگہ فرمایا وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينَا وبتيما وَأَسِيرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور قیموں اور قیدیوں کو روٹی کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روٹی کھلانے سے تم سے کوئی بدلہ اور شکر گزاری نہیں چاہتے.اور نہ ہماری کچھ غرض ہے.ان تمام خدمات سے صرف خدا کا چہرہ ہمارامطلب ہے.اب سوچنا چاہئے کہ ان تمام آیات سے کس قدر صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف نے اعلیٰ طبقہ عبادت الہی اور اعمال صالحہ کا یہی رکھتا ہے کہ محبت الہی اور رضا الہی کی طلب سچے دل سے ظہور میں آوے.مگر اس جگہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمدہ تعلیم جو نہایت صفائی سے بیان کی گئی ہے انجیل میں بھی موجود ہے.ہم ہر یک کو یقین دلاتے ہیں کہ اس صفائی اور تفصیل سے انجیل نے ہر گز بیان نہیں کیا.خدا تعالیٰ نے تو اس دین کا نام اسلام اس غرض سے رکھا ہے کہ تا انسان خدا تعالیٰ کی عبادت نفسانی اغراض سے نہیں بلکہ طبعی جوش سے کرے.کیونکہ اسلام تمام اغراض کو چھوڑ دینے کے بعد رضا بقضا کا نام ہے.دنیا میں حجر اسلام ایسا کوئی مذہب نہیں جس کے یہ مقاصد ہوں.بیشک خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت کے جتلانے کے لئے مومنوں کو انواع اقسام کی نعمتوں کے وعدے دیئے ہیں.مگر مومنوں کو جو اعلیٰ مقام کے خواہشمند ہیں یہی تعلیم دی ہے کہ وہ محبت ذاتی سے خدا تعالیٰ کی عبادت کریں.اگر کہو کہ انجیل نے یہ سکھلا کر کہ خدا کو باپ کہو محبت ذاتی کی طرف اشارہ کیا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا خیال سراسر غلط ہے کیونکہ انجیلوں پر غور کرنے سے معلوم ۴۵۰

Page 469

۴۵۱ ہوتا ہے کہ مسیح نے خدا کے بیٹے کا لفظ دو طور سے استعمال کیا ہے.(۱) اول تو یہ کہ مسیح کے وقت میں یہ قدیم رسم تھی کہ جو شخص رحم اور نیکی کے کام کرتا.اور لوگوں سے مروت اور احسان سے پیش آتا تو وہ واشگاف کہتا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں.اور اس لفظ سے اس کی یہ نیت ہوتی تھی کہ جیسے خدا نیکوں اور بدوں دونوں پر رحم کرتا ہے اور اس کے آفتاب اور ماہتاب اور بارش سے تمام برے بھلے فائدہ اٹھاتے ہیں ایسا ہی عام طور پر نیکی کرنا میری عادت ہے لیکن فرق اس قدر ہے کہ خدا تو ان کاموں میں بڑا ہے.اور میں چھوٹا ہوں.سوانجیل نے بھی اس لحاظ سے خدا کو باپ ٹھہرایا کہ وہ بڑا ہے اور دوسروں کو بیٹا ٹھہرایا یہ نیت کر کے کہ وہ چھوٹے ہیں.مگر اصل امر میں خدا سے مساوی کیا یعنی کمیت میں کمی بیشی کو مان لیا مگر کیفیت میں بیٹا باپ ایک رہے.اور یہ ایک مخفی شرک تھا.اس لئے کامل کتاب یعنی قرآن شریف نے اس طرح کی بول چال کو جائز نہیں رکھا.یہودیوں میں جو ناقص حالت میں تھے جائز تھا اور انہیں کی تقلید سے یسوع نے اپنی باتوں میں بیان کر دیا.چنانچہ انجیل کے اکثر مقامات میں اسی قسم کے اشارے پائے جاتے ہیں کہ خدا کی طرح رحم کرو.خدا کی طرح دشمنوں سے بھی ایسی ہی بھلائی کرو جیسا دوستوں سے تب تم خدا کے فرزند کہلاو گے.کیونکہ اس کے کام سے تمہارا کام مشابہ ہو گا.صرف اتنا فرق رہا کہ وہ بڑا منزلہ باپ خدا اور تم چھوٹے منزلہ بیٹے کے ٹھہرے.سو یہ تعلیم در حقیقت یہودیوں کی کتابوں سے لی گئی تھی.اس لئے یہودیوں کا اب تک یہ اعتراض ہے کہ یہ چوری اور سرقہ ہے.بائبل سے چرا کر یہ باتیں انجیل میں لکھ دیں.بہر حال یہ تعلیم ایک تو ناقص ہے اور دوسرے اس طرح کا بیٹا محبت ذاتی سے کچھ تعلق نہیں رکھتا.(۲) دوسری قسم کے بیٹے کا انجیل میں ایک بیہودہ بیان ہے جیسا کہ یوحنا باب ۱۰ آیت ۳۴ میں ہے.یعنی اس درس میں بیٹا تو ایک طرف ہریک کو خواہ کیساہی بد معاش ہو خدا بنا دیا ہے.اور دلیل یہ پیش کی ہے کہ نوشتوں کا باطل ہونا ممکن نہیں.غرض انجیل نے شخصی تقلید سے اپنی قوم کا ایک مشہور لفظ لے لیا.علاوہ اس کے یہ بات خود غلط ہے کہ خدا کو باپ قرار دیا جاوے اور اس سے زیادہ تر نادان اور بے ادب کون ہو گا کہ باپ کا لفظ خدا تعالیٰ پر اطلاق کرے.چنانچہ ہم اس بحث کو بفضلہ تعالیٰ کتاب من الر حمان

Page 470

۴۵۲ میں تفصیل بیان کر چکے ہیں.اس سے آپ پر ثابت ہو گا کہ خدا تعالیٰ پر باپ کا لفظ اطلاق کرنا نہایت گندہ اور ناپاک طریق ہے.اسی وجہ سے قرآن کریم نے سمجھانے کے لئے یہ تو کہا کہ خدا تعالیٰ کو ایسی محبت سے یاد کرو جیسا کہ باپوں کو یاد کرتے ہو.مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ حقیقت میں خدا تعالیٰ کو باپ سمجھ لو.اور انجیل میں ایک اور نقص یہ ہے کہ اس نے یہ تعلیم کسی جگہ نہیں دی کہ عبادت کرنے کے وقت اعلیٰ طریق عبادت یہی ہے کہ اعراض نفسانیہ کو درمیان سے اٹھا دیا جلوے بلکہ اگر کچھ سکھلایا تو صرف روٹی مانگنے کی دعا سکھلائی.قرآن شریف نے تو ہمیں یہ دعا سکھلائی کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی ہمیں اس راہ پر قائم کر جو نبیوں اور صدیقوں کی اور عاشقان انہی کی راہ ہے.مگر انجیل یہ سکھلاتی ہے کہ ہماری روزینہ کی روٹی آج ہمیں بخش.ہم نے تمام انجیل پڑھ کر دیکھی ہے اس میں اعلیٰ تعلیم کا نام و نشان نہیں ہے.نور القرآن حصہ دوم.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۳۶ تا ۴۴۳ خدا کو راضی کرنے والی اس سے زیادہ کوئی قربانی نہیں کہ ہم در حقیقت اس کی راہ میں موت کو قبول کر کے اپنا وجود اس کے آگے رکھ دیں.اسی قربانی کی خدا نے ہمیں تعلیم رآن کریم زادوں کو دی ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے لن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ یں کھانے کے یعنی تم حقیقی نیکی کو کسی طرح پا نہیں سکتے جب تک تم اپنی پیاری چیزیں خدا کی راہ میں عيسى لئے تیار ہے خرچ نہ کرو.یہ راہ ہے جو قرآن نے ہمیں سکھائی ہے اور آسمانی گواہیاں بلند آواز سے پکار رہی ہیں کہ یہی راہ سیدھی ہے.اور مقتل بھی اس پر گواہی دیتی ہے.پس جو امر گواہوں کے ساتھ ثابت ہے اس کے ساتھ وہ امر مقابلہ نہیں کھا سکتا.جس پر کوئی گواہی نہیں.یسوع ناصری نے اپنا قدم قرآن کی تعلیم کے موافق رکھا اس لئے اس نے خدا سے انعام پایا.ایسا ہی جو شخص اس پاک تعلیم کو لنار ہبر بنائے گاوہ بھی یسوع کی مانند ہو جائے گا.یہ پاک تعلیم ہزاروں کو عیسی مسیح بنانے کے لئے تیار ہے اور لاکھوں کو بنا چکی

Page 471

ہے.۴۵۳ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جوابات روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۴۷، ۳۴۸ پس ہم قرآن کو چھوڑ کر اور کس کتاب کو تلاش کریں اور کیونکر اس کو نا کامل سمجھ لیں.خدا نے ہمیں تو یہ بتلایا ہے کہ عیسائی مذہب بالکل مر گیا ہے اور انجیل ایک مردہ اور قرآن کریم کامل کہ نا تمام کلام ہے.پھر زندہ کو مردہ سے کیا جوڑ...آج آسمان کے نیچے بجز عیسی مسیح بنا دیا فرقان حمید کے اور کوئی کتاب نہیں.آج سے بائیس برس پہلے براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میری نسبت یہ الہام درج ہے جو اس کے صفحہ ۲۴۱ میں پاؤ گے اور وہ یہ ہے.ولن ترضى عنك اليهود ولا النصارى وخر قواله بنين وبنات بغير علم - قل هو الله احد الله الصمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا احد - ويمكرون ويمكر الله والله خير الماكرين - الفتنة ههنا قاصر كما صبر اولوا العزم وقل رب ادخلني مدخل صدق یعنی تیرا اور یہود و نصاری کا کبھی مصالحہ نہیں ہو گا اور وہ کبھی تجھ سے راضی نہیں ہوں گے.(نصاری سے مراد پادری اور انجیلوں کے حامی ہیں.اور پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے ناحق اپنے دل سے خدا کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تراش رکھی ہیں.اور نہیں جانتے کہ ابن مریم ایک عاجز انسان تھا.اگر خدا چاہے تو عیسی ابن مریم کی مانند کوئی اور آدمی پیدا کر دے یا اس سے بھی بہتر جیسا کہ اس نے کیا.مگر وہ خدا تو واحد ولا شریک ہے جو موت اور توکد سے پاک ہے اس کا کوئی ہمسر نہیں.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عیسائیوں نے شور مچارکھا تھا کہ مسیح بھی اپنے قرب اور وجاہت کے رو سے واحد ولا شریک ہے.اب خدا بتلاتا ہے کہ دیکھو میں اس کا ثانی پیدا کروں گا جو اس سے بھی بہتر ہے.جو غلام احمد ہے یعنی احمد کا غلام.زندگی بخش جام احمد ہے کیا ہی پیارا یہ نام احمد ہے لاکھ ہوں انبیاء مگر بخدا سب سے بڑھ کر مقام احمد ہے باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا میرا بستاں کلام احمد ہے

Page 472

۴۵۴ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں اور اگر تجربہ کے رو سے خدا کی تائید مسیح ابن مریم سے بڑھ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں.خدا نے ایسا کیا نہ میرے لئے بلکہ اپنے نبی مظلوم کے لئے.دافع البلاء - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۴۰، ۲۴۱ قرآن شریف نے ہی کامل تعلیم عطا کی ہے اور قرآن شریف کا ہی ایسا زمانہ تھا جس میں کامل تعلیم عطا کی جاتی.پس یہ دعوی کامل تعلیم کا جو قرآن شریف نے کیا یہ اسی قرآن شریف نے ہی کا حق تھا اس کے سوا کسی آسمانی کتاب نے ایسا دعوی نہیں کیا جیسا کو دیکھنے والوں کامل تعلیم عطا کی پر ظاہر ہے کہ توریت اور انجیل دونوں اس دعوے سے دست بردار ہیں.کیونکہ بت میں خدا تعالیٰ کا یہ قول موجود ہے کہ میں تمہارے بھائیوں میں سے ایک نبی قائم کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو شخص اس کے کلام کو نہ سنے گا میں اس سے مطالبہ کروں گا.پس صاف ظاہر ہے کہ اگر آئندہ زمانہ کی ضرورتوں کی رو سے توریت کا سننا کافی ہوتا تو کچھ ضرورت نہ تھی کہ کوئی اور نہیں آتا اور مواخذہ الہیہ سے مخلصی پانا اس کلام کے سننے پر موقوف ہوتا جو اس پر نازل ہوتا.ایسا ہی انجیل نے کسی مقام میں دعوی نہیں کیا کہ انجیل کی تعلیم کامل اور جامع ہے بلکہ صاف اور کھلا کھلا اقرار کیا ہے کہ اور بہت سی باتیں قابل بیان تھیں مگر تم برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب فارقلیط آئیگا تو وہ سب کچھ بیان کرے گا.اب دیکھنا چاہئے کہ حضرت موسیٰ نے اپنی توریت کو ناقص تسلیم کر کے آنے والے نبی کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی ایسا ہی حضرت عیسی نے بھی اپنی تعلیم کا نا مکمل ہونا قبول کر کے یہ عذر پیش کر دیا کہ ابھی کامل تعلیم بیان کرنے کا وقت نہیں ہے لیکن جب فار قلیط آئے گا تو وہ کامل تعلیم بیان کر دے گا.مگر قرآن شریف نے توریت اور انجیل کی طرح کسی دوسرے کا حوالہ نہیں دیا بلکہ اپنی کامل تعلیم کا تمام دنیا میں اعلان کر دیا اور فرمایا کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَنتُ عليكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلَامَ دِيناً

Page 473

۴۵۵ اس سے ظاہر ہے کہ کامل تعلیم کا دعوی کرنے والا صرف قرآن شریف ہی ہے.براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴ ، ۵ - *

Page 474

۴۵۶

Page 475

باب تنم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح علیہ السلام (موازنه ) وَمَا يَنطِقُ عَنِ الهَوى المهم إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى يُوحَى مَا عَلَمَهُ شَدِيدُ الْقَوَى الله ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى مَا وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى ثُمَّ دَنَا فَنَدَلَّى ال فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى ما سورة التحية

Page 476

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت اس قدر زبر دست ہے کہ روح القدس کو بھی انسانیت کی طرف کھینچ لائی.پس تم ایسے برگزیدہ نبی کے تابع ہو کر کیوں ہمت ہارتے ہو.کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۸۳ تا ۸۵

Page 477

۴۵۹ ! اس نقطہ مرکز کو جو برز الله وبين المخلق الخلق ہے یعنی نفسی نقطہ حضرت سیدنا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو مجرد کلمتہ للہ تک محدود نہیں کر سکتے جیسا کہ مسیح کو اس نام سے تنظہ میہ غال طور پر محدود کیا گیا ہے کیونکہ یہ نقطہ محمدیہ علی طور پر مستجمع جميع مراتب الوہیت ہے.اسی سے یہ جمیع مراب مستجمع وجہ سے تمثیلی بیان میں حضرت مسیح کو ابن سے تشبیہ دی گئی ہے باعث اس نقصان کے جو الوہیت ہے، حقیقت عیسویه مظہر اتم صفات ان میں باقی رہ گیا ہے.کیونکہ حقیقت عیسویہ مظہر اتم صفات الوہیت نہیں ہے بلکہ اس ہی میں " کی شاخوں سے ایک شاخ ہے بر خلاف حقیقت محمدیہ کے کہ وہ جمیع صفات الہیہ کا اتم و اکمل مظہر ہے جس کا ثبوت عقلی و نقلی طور پر کمال درجہ پر پہنچ گیا ہے سو اسی وجہ سے تمشیلی بیان میں کلی طور پر خدائے قادر و ذو الجلال سے آنحضرت کو آسمانی کتابوں میں تشبیہ دی گئی ہے جو ابن کے لئے بجائے اب ہے.اور حضرت مسیح علیہ السّلام کی تعلیم کا اضافی طور پر ناقص ہونا اور قرآنی تعلیم کا سب الہامی تعلیموں سے اکمل واتم ہوتاوہ بھی در حقیقت اسی بناء پر ہے کیونکہ ناقص پر ناقص فیضان ہوتا ہے اور اکمل پر اکمل.سرمه چشم آریہ - روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۷۲ تا ۲۷۴ حاشیه ۱۲ قابل غور بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہا لہ علیہ وسلم کے تقریب کو دیکھنا چاہئے یہ قاعدہ کی بات ہے کہ بادشاہ کے دل کی بات تو بادشاہ ہی جانتا ہے.مگر جس پر وہ اسرار ظاہر آنحضرت کا بلند مقام کرتا ہے یا اپنی رضامندی کے آثار جس پر دکھاتا ہے ضروری ہے کہ ہم اس کو مقرب اور حضرت مسیح سے کہیں.اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ہم دیکھتے ہیں تو آپ کے قرب کا مقابلہ مقام وہ نظر آتا ہے جو کسی دوسرے کو کبھی نصیب نہیں ہوا.وہ عطایا اور نعماء جو آپ کو دیئے گئے ہیں سب سے بڑھ کر ہیں.اور جو اسرار آپ پر ظاہر ہوئے اور کوئی اس حد تک پہنچ ہی نہیں.قرآن شریف ہی کو دیکھ لو کہ جس قدر عظیم الشان پیش گوئیاں اس میں

Page 478

| | ہوں موجود ہیں.حضرت مسیح کا مجھے بارہا خیال آتا ہے کہ یہ نادان عیسائی کس شیخی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا مقابلہ کرنے بیٹھتے ہیں.حضرت مسیح کا تو دعوی ہی بجائے خود محدود ہے.وہ صاف کہتے ہیں کہ میں بنی اسرائیل کی بھیڑوں کے لئے آیا ضربت عليهم الذلة الآمیہ کی مصداق آپ کی دعوت کی مخاطب قوم تھی.یہ دعوی تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی نمبرداری پاپتی داری کا دعونی کرے.اب ان کی ہمت استقلال اور توجہ اسی دعوی کی نسبت ہوئی چاہئے.دوسری طرف ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قُلْ يَتَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا اب اس ہمت اور بلند نظری اور توجہ کامقابلہ کرو.کیا ہی خدائی کی شان ہے کہ یہودیوں کے چار گھروں کے سوا اور کسی کی اصلاح کے لئے بھی نہیں آئے.خدا کے حسب حال تو ہونا چاہئے تھا کہ آپ کی دعوت کا میدان بڑا وسیع ہوتا.خیرینی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کے لئے ہی دعوت ہی.مگر اب یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ اس میں کامیابی کیا ہوئی.غور کیا جاوے اور انجیلی واقعات پر نگاہ کی جاوے تو یہ راز بھی کھل جاتا ہے کہ آپ کو ہر میدان میں ذلیل ہونا پڑا.دشمنوں پر کامیابی نہ ملی.انہوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑہا دیا اور قصہ پاک ہوا.اس خدا کا مقابلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا جاتا ہے.آپ ہر میدان میں مظفر و منصور ہوئے.آپ کے دشمن آپ پر کبھی قابو اور غلبہ نہ پاسکے.اور آپ کے سامنے ہی ہلاک ہوئے.آپ کو بھیجا ایسے وقت میں گیا جب کہ زمانہ آپ کی ضرورت کو خود ثابت کرتا تھا.اور اٹھائے ایسے وقت گئے.جب کہ کامل اصلاح ہو چکی اور آپ اپنے فرض منصبی کو پوری کامیابی کے ساتھ ادا کر چکے اور اليوم اكملت لكم دينكم کی آواز آپ نے سن لی.پھر مسیح کی طرف دیکھو آپ صلیب پر چڑھے ہوئے ہیں اور ایلی اپلی لما سبقتنی کی فریاد کرتے ہیں.یہودا اسکر یوطی میں روپیہ پر اپنے پاک استاد کو پکڑوا چکا ہے اور پطرس صاحب لعنت بھیج رہے ہیں.مسیح کے لئے وہ نظارہ کیسا مایوسی بخش ہے.دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ آپ کے جانگر رفیق کس طرح پر اپنی جانیں آپ کے قدموں پر قربان کر رہے ہیں.ایسے وفادار اور فرمانبردار

Page 479

اصحاب اور رفیق کس کو ملے اور یہ وفاداری اور اطاعت میں فنا کہ اپنی جانوں تک کے دے پینے میں دریغ نہ کیا.آپ کی ذاتی قوت قدمی کا ثبوت ہے جو مقابلہ کرنے ا سے مسیح میں کچھ بھی نظر نہیں آتی.لمفوظات.جلد ۳ صفحه ۲۴۲ ، ۲۴۳ جو لوگ حضرت عیسی کے اتباع کے مدعی ہیں.ان کا یہ بیان ہے کہ جب حضرت عیسی آسمان پر اٹھائے گئے تو ساتھ ہی ان کے وہ برکت بھی اٹھائی گئی جس عیسائیت کا نور محدود سے حضرت ممدوح مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے.ہاں عیسائی یہ بھی کہتے ہیں کہ زمانہ کے لئے تھا حضرت عیسی کے باراں حواری بھی کچھ کچھ روحانی برکتوں کو ظاہر کیا کرتے تھے.لیکن ان کا یہ بھی تو قول ہے کہ وہی عیسائی مذہب کے باراں امام آسمانی نوروں اور الہاموں کو اپنے ساتھ لے گئے.اور ان کے بعد آسمان کے دروازوں پر پکے قفل لگ گئے اور پھر کسی عیسائی پر وہ کبوتر نازل نہ ہوا کہ جو اول حضرت مسیح پر نازل ہو کر پھر آگ کے شعلوں کا بہروپ بدل کر حواریوں پر نازل ہوا تھا.گویا ایمان کا وہ نورانی دانہ کہ جس کے شوق میں وہ آسمانی کبوتر اترا کرتا تھا انہیں کے ہاتھ میں تھا اور پھر بجائے اس دانہ کے عیسائیوں کے ہاتھ میں دنیا کمانے کی بھائی رہ گئی جس کو دیکھ کر وہ کبوتر آسمان کی طرف اڑ گیا.غرض بجز قرآن شریف کے اور کوئی ذریعہ آسمانی نوروں کی تحصیل کا موجود نہیں.اور خدا نے اس غرض سے کیہ حق اور باطل میں ہمیشہ کے لئے ما بہ الامتیاز قائم رہے.اور کسی زمانہ میں جھوٹ سچ کا مقابلہ نہ کر سکے.امت محمدیہ کو انتہا زمانہ تک یہ دو معجزے یعنی اعجاز کلام قرآن اور اعجاز اثر کلام قرآن عطا فرمائے ہیں جن کے مقابلہ سے مذاہب باطلہ ابتداء سے عاجز چلے آتے ہیں.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۹۲ ، ۲۹۳ بقیه حاشیه در حاشیہ نمبر ا پھر اپنی صاحب فرماتے ہیں کہ کس بی پر مشکل جسم کبوتر کے روح القدس پازل ہوا.میں کہتا ہوں کہ اگر روح القدس کسی تعظیم الجثہ جانور کی شکل پر جیسے ہاتھی یا روح القدس کا نزول

Page 480

۴۶۲ ۳۱۵ موازنہ اونٹ حضرت مسیح پر نازل ہوتا تو کچھ ناز کی جگہ تھی لیکن ایک چھوٹے سے پر ناز کرنا اور اس کو بے مثل کہنا بے محل ہے.دیکھو حواریوں پر بقول ان کے روح القدس بطور آگ شعلوں کے نازل ہوا اور شعلہ کبوتر پر غالب ہے کیونکہ اگر کبوتر شعلہ میں پڑے تو جل جاتا ہے.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۵۰ ، ۲۵۱ روح القدس کبھی کسی نبی پر کبوتر کی شکل پر ظاہر ہوا اور کبھی کسی نبی یا اوتار پر گائے کی روح القدس کے شکل پر ظاہر ہوا.اور کسی پر کچھ یا چھ کی شکل پر ظاہر ہوا.اور انسان کی شکل کا وقت نہ آیا نزول کے لحاظ سے جب تک انسان کامل یعنی ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث نہ ہوا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو گئے تو روح القدس بھی آپ پر پوجہ کامل انسان ہونے کے انسان کی شکل پر ہی ظاہر ہوا اور چونکہ روح القدس کی قومی مجلی تھی جس نے زمین سے لے کر آسمان کا افق بھر دیا تھا اس لئے قرآنی تعلیم شرک سے محفوظ رہی.لیکن چونکہ عیسائی مذہب کے پیشوا پر روح القدس نہایت کمزور شکل میں ظاہر ہوا تھا یعنی کبوتر کی شکل.اس لئے ناپاک روح یعنی شیطان اس مذہب پر فتح یاب ہو گیا اور اس نے اپنی عظمت اور قوت اس قدر دکھلائی کہ ایک عظیم الشان اثر دہاکی طرح حملہ آور ہوا.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے عیسائیت کی ضلالت کو دنیا کی سب ضلالتوں سے اول درجہ پر شمار کیا ہے اور فرمایا.کہ قریب ہے آسمان و زمین پھٹ جائیں اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں کہ زمین پر ایک بڑا گناہ کیا گیا کہ انسان کو خدا اور خدا کا بیٹا بنایا.اور قرآن کے اول میں بھی عیسائیوں کارو اور ان کا ذکر ہے.جیسا کہ آیت إِيَّاكَ نَعْبُدُ اور وَلَا الضَّالِّينَ سے سمجھا جاتا ہے اور قرآن کے آخر میں بھی عیسائیوں کار ڈ ہے جیسا کہ سورة قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدُ اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ سے سمجھا جاتا ہے.اور قرآن کے درمیان میں بھی عیسائی مذہب کے فتنہ کا ذکر ہے جیسا کہ آیت تَكَادُ السَّمَوَاتُ يَنْفَطَرْنَ مِنْهُ سے سمجھا جاتا ہے.اور قرآن سے ظاہر ہے کہ جب سے کہ دنیا ہوئی.مخلوق پرستی اور دجل کے طریقوں پر ایسا زور بھی نہیں دیا گیا.اسی وجہ سے مباہلہ کے لئے بھی عیسائی ہی بلائے گئے تھے نہ کوئی اور

Page 481

مشرک.اور یہ جو روح القدس پہلے اس سے پرندوں یا حیوانوں کی شکل پر ظاہر ہوتا رہا.اس میں کیا نکتہ تھا.سمجھنے والا خود سمجھ لے.اور اس قدر ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت اس قدر زبر دست ہے کہ روح القدس کو بھی انسانیت کی طرف کھینچ لائی.پس تم ایسے برگزیدہ نبی کے تابع ہو کر کیوں ہمت ہارتے ہو.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۸۳ تا ۸۵ عیسائی مذہب اسی دن سے تاریکی میں پڑا ہوا ہے جب سے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام کو خدا تعالی کی جگہ دی گئی.اور جب کہ حضرات عیسائیوں نے ایک بچے اور کامل اور مقدس نبی افضل الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا.اس لئے میں عیسائی مذہب تاریکی یقیناً جانتا ہوں کہ حضرات عیسائی صاحبوں میں سے یہ طاقت کسی میں بھی میں پڑا ہوا ہے نہیں کہ اسلام کے زندہ نوروں کا مقابلہ کر سکیں.میں دیکھتا ہوں کہ وہ نجات اور حیات ابدی جس کا ذکر عیسائی صاحبوں کی زبان پر ہے.وہ اہل اسلام کے کامل افراد میں سورج کی طرح چمک رہی ہے.اسلام میں یہ ایک زبر دست خاصیت ہے کہ وہ ظلمت سے نکال کر اپنے نور میں داخل کرتا ہے.جس نور کی برکت سے مومن میں کھلے کھلے آشیر قبولیت پیدا ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا شرف مکالمہ میتر آجاتا ہے.اور خدا تعالیٰ اپنی محبت کی نشانیاں اس میں ظاہر کر دیتا ہے.سو میں زور سے اور دعوے سے کہتا ہوں کہ ایمانی زندگی صرف کامل مسلمان کو ہی ملتی ہے اور یہی اسلام کی سچائی کی نشانی ہے.جمعتہ الاسلام - روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۵۶، ۵۷ کچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ اس مذہب کی تعلیم سے ایسے راست باز پیدا ہوتے رہیں جو محدث کے مرتبہ تک پہنچ جائیں.جن سے خدا تعالیٰ آمنے سامنے کلام کرے کے مذہب کی نشانی اور اسلام کی حقیقت اور حقانیت کی اول نشانی یہی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایسے راست باز جن سے خدا تعالیٰ ہم کلام ہو پیدا ہوتے ہیں.تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا سو یہی معیار حقیقی بچے اور زندہ اور مقبول مذہب کی ہے.اور ہم جانتے ہیں کہ یہ نور م

Page 482

صرف اسلام میں ہے عیسائی مذہب اس روشنی سے بے نصیب ہے یقیناً سمجھو کہ عیسائی مذہب کے بطلان کے لئے یہی دلیل ہزار دلیل سے بڑھ کر ہے کہ مردہ ہر گز زندہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ اندھا سو جاکھے کے ساتھ پورا اتر سکتا ہے.حجتہ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۳ ہ ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاح نہایت وسیع اور عام اور مسلم الطوائف ہے.اور یہ مرتبہ اصلاح کا کسی گذشتہ نبی کو نصیب نہیں ہوا.اور اگر اصلاح کے لحاظ سے کوئی عرب کی تاریخ کو آگے رکھ کر سوچے تو اسے معلوم ہو گا کہ اس وقت کے بت پرست موازنہ اور عیسائی اور یہودی کیسے متعصب تھے اور کیونکر ان کی اصلاح کی صدہا سال سے نومیدی ہو چکی تھی.پھر نظر اٹھا کر دیکھئے کہ قرآنی تعلیم نے جو ان کے بالکل مخالف تھی کیسی نمایاں تاثیریں دیکھلائیں اور کیسی ہریک بد اعتقاد اور ہریک بدکاری کا استیصال کیا.شراب کو جو ام الخبائث ہے دور کیا.قمار بازی کی رسم کو موقوف کیا.دختر کشی کا استیصال کیا اور جو انسانی رحم اور عدل اور پاکیزگی کے برخلاف عادات تھیں سب کی اصلاح کی.ہاں مجرموں نے اپنے جرموں کی سزائیں بھی پائیں جن کے پانے کے وہ سزاوار تھے.پس اصلاح کا امر ایسا امر نہیں ہے جس سے کوئی انکار کر سکے.اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ اس زمانہ کے بعض حق پوش پادریوں نے جب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے اس قدر عام اصلاح ہوئی کہ اس کو کسی طرح چھپا نہیں سکتے.اور اس کے مقابل پر جو مسیح نے اپنے وقت میں اصلاح کی وہ بیچ ہے تو ان پادریوں کو فکر پڑی کہ گمراہوں کو رو با صلاح کرنا اور بدکاروں کو نیکی کے رنگ میں لانا جو اصل نشانی تجے نبی کی ہے.وہ جیسا کہ اکمل اور اتم طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ظہور میں آئی.مسیح کی اصلاح میں کوئی بھی اس کی نسبت نہیں پائی جاتی تو انہوں نے اپنے دجالی فریبوں کے ساتھ آفتاب پر خاک ڈالنا چاہا تو نا چار جیسا کہ پادری جیمس کیرن لیس نے اپنے لیکچر میں شائع کیا ہے جاہلوں کو اسی طرح پر دھوکہ دیا کہ وہ لوگ پہلے سے صلاحیت ہونے کے لئے مستعد تھے.اور بت پرستی اور شرک ان کی نگاہوں میں حقیر ٹھہر چکا تھا.لیکن اگر ایسی رائے ظاہر کرنے والے اپنے اس خیال میں بچے ہیں تو انہیں لازم ہے

Page 483

۴۶۵ کہ اپنے اس خیال کی تائید میں ویساہی ثبوت دیں جیسا کہ قرآن کریم ان کے مخالف ثبوت دیتا ہے یعنی فرماتا ہے کہ أَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا اور ان سب کو مردے قرار دے کر ان کا زندہ کیا جاتا محض اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور جابجا کہتا ہے کہ وہ ضلالت کی زنجیروں میں پھنسے ہوئے تھے.ہم نے ہی ان کو رہائی دی وہ اندھے تھے ہم نے ہی ان کو سو جا کھا کیا.وہ تاریکی میں تھے ہم نے ہی نور بخشا اور یہ باتیں پوشیدہ نہیں تھیں بلکہ قرآن ان سب کے کانوں تک پہنچا اور انہوں نے ان بیانات کا نگر نہ کیا.اور کبھی یہ ظاہر نہ کیا کہ ہم تو پہلے ہی مستعد تھے قرآن کا ہم پر کچھ احسان نہیں.پس اگر ہمارے مخالفوں کے پاس کوئی مخالفانہ تحریر اپنے بیان کی تائید میں ایسی ہو جو قرآن کریم کے ہم پہلو تیرہ سو برس سے چلی آتی ہے تو وہ پیش کر دیں ورنہ ایسی باتیں صرف عیسائی سرشت کا افتراء ہے اس سے زیادہ نہیں.یہ تو جیمس کا قول ہے جو کتاب مذاہب عالم میں شائع ہوئی ہے.مگر بعض عیسائی پادریوں نے اس سے بھی بڑھ کر حقیقت فہمی کا جوہر دکھلایا ہے.وہ کہتے ہیں کہ در حقیقت اصلاح کچھ چیزہی نہیں اور نہ کبھی کسی کی اصلاح ہوئی.توریت کی تعلیم اصلاح کے لئے نہیں تھی.بلکہ اس ایما کے لئے کہ گناہگار انسان خدا کے احکام پر چل نہیں سکتا اور انجیل کی تعلیم بھی اسی مدعا سے تھی.ورنہ طمانچہ کھا کر دوسری کال کبھی پھیر دیا نہ کبھی ہوانہ ہو گا.اور کہتے ہیں کہ کیا مسیح کوئی جدید تعلیم لے کر آیا تھا.اور پھر آپ ہی جواب دیتے ہیں کہ انجیل کی تعلیم تو پہلے ہی سے توریت میں موجود تھی.اور بائبل کے متفرق مقامات جمع کرنے سے انجیل بن جاتی ہے.پھر مسیح کیوں آیا تھا؟ اس کا جواب دیتے ہیں کہ صرف خود کشی کے لئے.مگر تعجب کہ خود کشی سے بھی مسیح نے جی چرایا اور ایلی ایلی نما سبقتی منہ پر لایا.پھر یہ بھی تعجب ہے کا مقام کہ زید کی خود کشی سے بکر کو کیا حاصل ہو گا.اگر کسی کا کوئی عزیز اس کے گھر میں بیمار ہو اور وہ اس کے غم سے چھری بارلے تو کیا وہ عزیز اس نابکار حرکت سے اچھا ہو جائے گا.یا اگر مثلاً کسی کے بیٹے کو درد قولنج ہے تو اس کا باپ اس کے غم میں اپنا سر پتھر سے پھوڑ لے تو کیا اس احمقانہ حرکت سے بیٹا اچھا ہو جائے گا.اور یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ زید کوئی گنہ کرے اور بکر کو اس کے عوض سولی پر کھینچا جائے.یہ عدل ہے یار تم.کوئی عیسائی ہم کو بتلا دے ہم اس کے اقراری ہیں کہ خدا کے

Page 484

بندوں کی بھلائی کے لئے جان دینا یا جان دینے کے لئے مستعد ہونا ایک اعلیٰ اخلاقی حالت ہے لیکن سخت حماقت ہوگی کہ خود کشی کی بے جا حرکت کو اس مد میں داخل کیا جائے.ایسی خود کشی تو سخت حرام ہے اور نادانوں اور بے صبروں کا کام ہے.ہاں جاں فشانی کا پسندیدہ طریق اس کامل مصلح کی لائف میں چمک رہا ہے جس کا نام محمد مصطفے صلی وسلم ہے.اللہ علیہ و نور القرآن.حصہ اول.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۶۴ تا ۳۶۸ حاشیه عرب اور دنیا کی حالت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے کسی سے پوشیدہ نہیں.بالکل وحشی لوگ تھے کھانے پینے کے سوا کچھ نہ جانتے تھے.نہ حقوق العباد سے تاثیرات تعلیم کے لحاظ آشنانہ حقوق اللہ سے آگاہ چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایک جگہ ان کا نقشہ کھینچ کر بتلایا.کہ ت يَأكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَمُ.پھر رسول اللہ صلی اللہ سے موازنہ (۱) علیہ وسلم کی پاک تعلیم نے ایسا اثر کیا يَبيثُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيما کی حالت ہو گئی.یعنی اپنے رب کی یاد میں راتیں سجدے اور قیام میں گزار دیتے تھے اللہ اللہ کس قدر فضیلت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب سے ایک بینظیر انقلاب اور عظیم الشان تبدیلی واقع ہو گئی.حقوق العباد اور حقوق اللہ دونوں کو میزان عتدال پر قائم کر دیا اور دار اور اور مرد و کوی کالی اور ایک زندہ اور پاکیزہ قوم بنا دیا.دونوں ہی خوبیاں ہوتی ہیں.علمی یا عملی.عملی حالت کا تو یہ حال ون لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَما اور علمی کا یہ حال کہ اس قدر کثرت سے تصنیفات کا سلسلہ اور توسیع زبان کی خدمت کا سلسلہ جاری ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.دوسری طرف جب عیسائیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے حیران ہی ہونا پڑتا ہے کہ حواریوں نے یائی ہو کر کیاتری کی.یہودا اسکر یوطی وسیع کا خزانچی تھا.کبھی کبھی تلک بھی کر لیا کرتا تھا.اور تمہیں روپے لے کر استاد کو پکڑوانا تو اس کا ظاہر ہی ہے.یسوع کی تھیلی میں دو ہزار روپے رہا کرتے تھے.ایک طرف تو ان کا یہ حال ہے کہ بالمقابل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حال ہے کہ بوقت وفات پوچھا کہ گھر میں کچھ ہے.جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ایک دینار ہے.حضور نے فرمایا کہ اسے تقسیم کر دو.کیا یہ ہو سکتا

Page 485

ہے کہ اللہ کا رسول خدا تعالیٰ کی طرف سفر کرے اور گھر میں ایک دینار چھوڑ جاوے.ملفوظات.جلدا صفحه ۲۷۵،۲۷۴ یہ قرآن وہ حکمت ہے جو اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہے اور تمام الہی کتابوں پر حاوی م ہے اور تمام معارف دینیہ کا اس میں بیان موجود ہے.وہ ہدایت کرتا ہے کہ اور ہدایت تاثیرات تعلیم کے لحاظ پر دلائل لاتا ہے اور پھر حق کو باطل سے جدا کر کے دکھلا دیتا ہے.اور وہ پرہیز گاروں کو عرة سے موازنہ (۲) ان کی نیک استعدادیں جو ان میں موجود ہیں یاد دلا دیتا ہے اور اس کی تعلیم یقین کے مرتبہ پر ہے اور وہ غیب گوئی میں بخیل نہیں ہے یعنی اس میں امور غیبیہ بہت بھرے ہوئے ہیں اور پھر صرف اتنا نہیں کہ اپنے اندر ہی امور غیبیہ رکھتا ہے بلکہ اس کا سچا پیرو بھی منجانب اللہ الہام پاکر امور غیبیہ کو پا سکتا ہے اور یہ فیض اسی کتاب کا ہے جو بخیل نہیں ہے.اور دوسری کتا ہیں اگر چہ منجانب اللہ بھی ہوں مگر اب وہ بخیل کا ہی حکم رکھتی کتابیں اگرچہ ہیں.جیسے انجیل اور توریت کہ اب ان کی پیروی کرنے والا کوئی نور حاصل نہیں کر سکتا بلکہ انجیل تو عیسائیوں سے ایک ٹھٹھا کر رہی ہے کیونکہ جو عیسائی ایمانداروں کی علامتیں انجیل نے ٹھہرائی ہیں کہ وہ نا قابل علاج بیماروں یعنی مادر زاد اندھوں اور مجذوموں اور لنگڑوں اور بہروں کو اچھا کریں گے اور پہاڑوں کو حرکت دے دیں گے اور زہر کھانے سے نہیں مریں گے یہ علامتیں عیسائیوں میں نہیں پائی جاتیں بلکہ حضرت عیسی نے یہ بات کہہ کر اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی تم میں ایمان ہو تو یہ تمام کام جو میں کرتا تم کرو گے بلکہ مجھ سے زیادہ کرو گے.اس بات پر مہر لگادی کہ تمام عیسائی بے ایمان ہیں اور جب بے ایمان ہوئے تو ان کو یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ کسی سے سچائی دین کے بارے میں بحث کریں جب تک پہلے اپنی ایمانداری ثابت نہ کرلیں.کیونکہ ان کی حالت یہ گواہی دے رہی ہے کہ بوجہ نہ پائے جانے قرار داده علامتوں کے یا تو وہ بے ایمان ہیں اور یادہ شخص کا ذب ہے جس نے ایسی علامتیں ان کے لئے قرار دیں جو ان میں پائی نہیں جاتیں اور دونوں طور کے احتمال کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسائی لوگ سچائی سے بکلی دور و مہجور وبے نصیب ہیں مگر قرآن کریم نے اپنے پیروؤں کے لئے جو علامتیں قرار دی ہیں وہ صدہا مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں جس سے ثابت ہو گیا ہے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا بر حق کلام

Page 486

ہے.لیکن اگر عیسائیوں کو ایماندار مان لیا جاوے تو ساتھ ہی ملنا پڑے گا کہ انجیل موجودہ کسی ایسے شخص کا کلام ہے کہ جو جھوٹی پیش گوئیوں کے سہارے سے اپنے گروہ کو قائم رکھنا چاہتا ہے.مگر یاد رہے کہ اس تقریر سے حضرت مسیح علیہ السلام پر ہمارا کوئی حملہ نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر یہ باتیں حضرت مسیح کی طرف سے ہیں تو انہوں نے ایمان داروں کی یہ نشانیاں لکھ دیں.پھر اگر کوئی ایمانداری کو چھوڑ دے تو حضرت مسیح کا کیا قصور.بلکہ حضرت مسیح نے ان علامات کے لباس میں عیسائیوں کے بے ایمان ہو جانے کے زمانہ کی ایک پیش گوئی کر دی ہے.یعنی یہ کہہ دیا ہے کہ جب اے عیسائیو تمہارے پر ایسا زمانہ آوے کہ تم میں یہ علامتیں نہ پائی جاویں تو سمجھو کہ تم بے ایمان ہو گئے اور ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی تم میں ایمان نہ رہا.اس میں شک نہیں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے عیسائیوں کے بعض خواص افراد میں یہ علامتیں پائی جاتی تھیں اور خوارق ان سے ظہور میں آتے تھے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ بعثت میں جب وہ لوگ بہ باعث نہ قبول کرنے اس آفتاب صداقت کے بے ایمان ہو گئے اور ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان نہ رہا.تب عموماً بے ایمانی کی علامتیں ان میں ظاہر ہو گئیں.مسلمانوں کو لازم ہے کہ جب تک عیسائی اقاموا التوراة والانجيل کا اپنے تئیں مصداق ثابت نہ کریں یعنی ایمانداری کی علامتیں نہ دکھلائیں تب تک بار بار ان سے یہی مواخذہ کریں کہ وہ ان علامات قرار دادہ انجیل کے رو سے اپنا ایماندار ہونا ہمیں دکھلا دیں.ان سے پوچھنا چاہئے کہ تم کس دین کی طرف بلاتے ہو.آیا اس انجیلی دین کی طرف جس کے کی محمول کرنے والوں کی یہ علامتیں لکھتی ہیں کہ روح القدس ان کو ملتی ہے اور ایسے ایسے خوارق وہ دکھاتے ہیں اگر وہی دین ہے تو بہت خوب وہ علامتیں دکھلاؤ.اور اول اپنے تیں ایک ایماندار عیسائی مالیت کرو.اور پھر اس روشن اور مدلل ایمان کی طرف دوسروں کو بلاؤ اور جب کہ اس ایمان کی علامتیں ہی موجود نہیں تو نجات جس کا ملنا اسی ایمان پر مبنی ہے اسی طرح باطل ہوگی جیسا کہ تمہارا ایمان باطل ہے اور جھوٹے ایمان کا ثمرہ بچی نجات نہیں ہو سکتی بلکہ جھوٹی نجات ثمرہ ہوگی جو جہنم سے بچا نہیں سکتی.غرض کوئی عیسائی بحیثیت عیسائی ہونے کے بحث کرنے کا حق نہیں رکھتا جب تک انجیلی نشانیوں کے ساتھ اپنے تئیں سچا عیسائی ثابت نہ کرے.وائی نہم ذلک.۴۶۸

Page 487

۴۷۹ کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلدے صفحہ ۵۴ تا۵۶ سے موازنہ قرآن کریم نے اپنے کلام اللہ ہونے کی نسبت جو ثبوت دیتے ہیں.اگر چہ میں اس وقت ان ثبوتوں کو تفصیل دار نہیں لکھ سکتا.لیکن اتنا کہتا ہوں کہ منجملہ ان ثبوتوں کے بیرونی دلائل جیسے پیش از وقت نبیوں کا خبر دینا جو انجیل میں بھی لکھا ہوا آپ پاؤ کملات تعلیم کے لحاظ گے.دوسرے ضرورت حقہ کے وقت قرآن شریف کا آنا یعنی ایسے وقت پر جب کہ عملی حالت تمام دنیا کی بگڑ گئی تھی اور نیز اعتقادی حالت میں بھی بہت اختلاف آگئے تھے اور اخلاقی حالتوں میں بھی فتور آگیا تھا.تیسرے اس کی حقانیت کی دلیل اس کی تعلیم کامل ہے کہ اس نے آکر ثابت کر دکھایا کہ موسیٰ کی تعلیم بھی ناقص تھی جو ایک شق سزا دہی پر زور ڈال رہے تھے اور مسیح کی تعلیم بھی ناقص تھی جو ایک شق عفو اور در گذر پر زور ڈال رہی تھی اور گویا ان کتابوں نے انسانی درخت کی تمام شاخوں کی تربیت کا ارادہ ہی نہیں کیا تھا صرف ایک ایک شاخ پر کفایت کی گئی تھی لیکن قرآن کریم انسانی درخت کی تمام شاخوں یعنی تمام قومی کو زیر بحث لایا اور تمام کی تربیت کے لئے اپنے اپنے محل و موقعہ پر حکم دیا.جس کی تفصیل ہم اس تھوڑے سے وقت میں کر نہیں سکتے.انجیل کی کیا تعلیم تھی جس پر مدار رکھنے سے سلسلہ دنیا کا ہی بگڑتا ہے اور پھر آکر یہی عفو و در گذر عمدہ تعلیم کہلاتی ہے.تو جین مت والے کئی نمبر اس سے بڑھے ہوئے ہیں جو کیڑے مکوڑوں اور جیووں اور سانپوں تک آزار دینا نہیں چاہتے.قرآنی تعلیم کا دوسرا کمال کمال تقسیم ہے یعنی اس نے ان تمام راہوں کو سمجھانے کے لئے اختیار کیا ہے جو تصور میں آسکتے ہیں اگر ایک عامی ہے تو اپنی موٹی سمجھ کے موافق فائدہ اٹھاتا.اور اگر ایک فلسفی ہے تو اپنے دقیق خیال کے مطابق اس سے صداقتیں حاصل کرتا ہے اور اس نے اصول ایمانیہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے دکھلایا ہے اور آیت تعالوا إلى كَلِمَةٍ ۳۱۵ میں اہل کتاب پر یہ حجت پوری کرتا ہے کہ اسلام وہ کامل مذہب ہے کہ زوائد اختلافی جو تمہارے ہاتھ میں ہیں یا تمام دنیا کے ہاتھ میں ہیں ان زوائد کو نکال کر باقی اسلام ہی رہ جاتا ہے اور پھر قرآن کریم کے کمالات میں تیسرا حصہ اس کی تاثیرات ہیں.اگر حضرت مسیح کے حواریوں اور ہمارے نبی صلعم کے صحابہ کا ایک نظر صاف سے مقابلہ کیا جائے تو ہمیں کچھ بتلانے کی حاجت نہیں اس مقابلہ سے صاف

Page 488

۴۷۰ ۳۲۲ موازنه معلوم ہو جائے گا کہ کسی تعلیم نے قوتِ ایمانی کو انتہا تک پہنچا دیا ہے.یہاں تک کہ لوگوں نے اس تعلیم کی محبت سے اور رسول کے عشق سے اپنے وطنوں کو بڑی خوشی سے چھوڑ دیا.اپنے آراموں کو بڑی راحت کے ساتھ ترک کر دیا.اپنی جانوں کو فدا کر دیا.اپنے خونوں کو اس راہ میں بہا دیا اور کس تعلیم کا یہ حال ہے.اس رسول کو یعنی حضرت مسیح کو جب یہودیوں نے پکڑا تو واری ایک منٹ کے لئے بھی نہ ٹھہر سکے اپنی اپنی راہ لی اور بعض نے تیس روپیہ لے کر اپنے نبی مقبول کو بیچ دیا.اور بعض نے تین دفعہ انکار کی اور انجیل کھول کر دیکھ لو کہ اس نے لعنت بھیج کر اور قسم کھا کر کہا کہ اس شخص کو نہیں جانتا.پھر جب کہ ابتدا سے زمانہ کا یہ حال تھا.یہاں تک کہ تجہیز و تکفین تک میں بھی شریک نہ ہوئے.تو پھر اس زمانہ کا کیا حال ہو گا جب کہ حضرت مسیح آن میں موجود نہ رہے.مجھے زیادہ لکھانے کی ضرورت نہیں.اس بارہ میں بڑے بڑے علماء عیسائیوں نے اسی زمانہ میں گواہی دی ہے کہ حواریوں کی حالت صحابہ کی حالت سے جس وقت ہم مقابلہ کرتے ہیں تو ہمیں شرمندگی کے ساتھ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حواریوں کی حالت ان کے مقابل پر ایک قابل شرم عمل تھا.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ ۲۸۹ ، ۲۹۰ خدا نے پانی کو پیاس بجھانے کے لئے پیدا کیا اس لئے آگ اس کے قائم مقام معرفت کے لحاظ سے نہیں ہو سکتی.انسانی سرشت بہت سی شاخوں پر مشتمل ہے.اور کئی مختلف قوتیں خدا نے اس میں رکھتی ہیں.لیکن انجیل نے صرف ایک ہی قوت عفو اور در گذر زور دیا ہے.گویا انسانی درخت کی صدہا شاخوں میں سے صرف ایک شاخ انجیل کے ہاتھ میں ہے.پس اس سے حضرت عیسی کی معرفت کی حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ وہ کہاں تک ہے.لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت انسانی فطرت کے انتہا تک پہنچی ہوتی ہے.اس لئے قرآن شریف کامل نازل ہوا.اور یہ کچھ پرا ماننے کی بات نہیں.اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ فَضَّلْنَا بَعضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ یعنی بعض نبیوں کو ہم نے بعض پر فضیلت دی ہے.پر

Page 489

حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۶ طحال بمقابلہ مسیح کے یہ کیسی بدیہی اور صاف بات ہے کہ ایک طبیب اگر نا قابل علاج مریضوں کو اچھا کر دے تو اس کو طبیب حاذق ماننا پڑے گا.اور جو اس پر بھی اس کی حذاقت کا اقرار نہ کرے اس کو بجز احمق اور نادان کے اور کیا کہیں گے.اسی طرح پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لاکھوں مریضانِ گناہ کو اچھا کیا.حالانکہ ان مریضوں میں آنحضرت کی قوت سے ہر ایک بجائے خود ہزار ہا قسم کی روحانی بیماریوں کا مجموعہ اور مریض تھا.جیسے کوئی قدسیہ کا کمال بیمار کہے.سردرد بھی ہے.نزول ہے.استقاء ہے.وجع المفاصل ہے.ہے وغیرہ وغیرہ تو جو طبیب ایسے مریض کا علاج کرتا ہے اور اس کو تندرست بنا دیتا ہے.اس کی تشخیص اور علاج کو صحیح اور حکمی ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے.ایسا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو اچھا کیا.ان میں ہزاروں روحانی امراض تھے.جس جس قدر ان کی کمزوریوں اور گناہ کی حالتوں کا تصور کر کے پھر ان کی اسلامی حالت میں تغیر اور تبدیلی کو ہم دیکھتے ہیں.اسی قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور قوت قدسی کا اقرار کرنا پڑتا ہے.ضد اور تعصب ایک الگ امر ہے جو اپنی تاریکی کی وجہ سے سچائی کے نور کو دیکھنے کی قوت کو سلب کر دیتا ہے.لیکن اگر کوئی دل انصاف سے خالی نہیں اور کوئی سر عقل صحیح سے حصہ رکھنے والا ہے تو اس کو صاف اقرار کرنا پڑے گا کہ آپ سے بڑھ کر عظیم الشان پاکیزگی کی طرف تبدیلی کرا دینے والا انسان دنیا میں نہیں گزرا.اللہم صل علی محمد و آلہ اب بالمقابل ہم پوچھتے ہیں کہ مسیح نے کس کا علاج کیا ؟ انہوں نے اپنی روحانیت اور عقید ہمت اور قوت قدسی کا کیا کرشمہ دکھایا ؟ زبانی باتیں بنانے سے تو کچھ فائدہ نہیں جب تک عملی رنگ میں ان کا نمونہ نہ دکھایا جاوے.جب کہ اس قدر مبالغہ ان کی شان میں کیا گیا ہے کہ بائیں ضعف و ناتوانی ان کو خدا کا منصب دے دیا گیا ہے.تو چاہئے تو یہ تھا کہ ان کی عام رحمت اپنا اثر دکھاتی اور اقتداری قوت کوئی نیا نمونہ پیش کرتی کہ گناہ کی زندگی پر دنیا میں موت آجاتی اور فرشتوں کی زندگی بسر کرنے والوں سے دنیا معمور ہو جاتی.مگر یہ کیا ہو گیا کہ چند خاص آدمی بھی جو آپ کی صحبت میں ہمیشہ رہتے تھے.درست نہ ہو

Page 490

! سکے.انصاف اور ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مسیح کو بالکل ناکامیاب ملنا پڑتا ہے.کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قسیم کا موقعہ ملا ہے مسیح کو نہیں ملا ہے.اور یہ ان کی ہے.یہی وجہ ہے کہ مسیح کو کامل نمونہ ہم کہہ ہی نہیں سکتے.انسان کے ایمان کی تکمیل کے دو پہلو ہوتے ہیں.اول یہ دیکھنا چاہئے کہ جب وہ مصائب کا تختہ مشق ہو اس وقت وہ خدا تعالیٰ سے کیسا تعلق رکھتا ہے ؟ کیا وہ صدق اخلاص ، استقلال اور سچی وفاداری کے ساتھ ان مصائب پر بھی انشراح صدر سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو تسلیم کرتا اور اس کی حمد و ستائش کرتا ہے یا شکوہ شکایت کرتا ہے.اور دوسرے جب اس کو عروج حاصل ہو اور اقبال اور فروغ ملے.تو کیا اس اقتدار اور اقبال کی حالت میں وہ خدائے تعالے کو بھول جاتا ہے اور اس کی حالت میں کوئی قابل اعتراض تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے یا اسی طرح خدا سے تعلق رکھتا اور اس کی حمد وستائش کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو عفو کرتا اور ان پر احسان کر کے اپنی عالی ظرفی اور بلند حوصلگی کا ثبوت دیتا ہے.مثلاً ایک شخص کو کسی نے مارا ہے اگر وہ اس پر قادر ہی نہیں ہوا کہ اس کو سزا دے سکے اور اپنا انتقام لے.پھر بھی وہ کہے کہ دیکھو میں نے اس کو کچھ بھی نہیں کہا تو یہ بات اخلاق میں داخل نہیں ہو سکتی اور اس کا نام بردباری اور تحمل نہیں رکھ سکتے.کیونکہ اسے قدرت ہی حاصل نہیں ہوئی.بلکہ ایسی حالت ہے کہ گالی کے صدمہ سے بھی رو پڑے تو یہ تو ستر بی بی از بے چادری کا معاملہ ہے.اس کو اخلاق اور بردباری سے کیا تعلق !!! - مسیح کے اخلاق کا نمونہ اسی قسم کا ہے.اگر انہیں کوئی اقتداری قوت ملتی اور اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کی توفیق انہیں ہوتی پھر اگر وہ اپنے دشمنوں سے پیار کرتے اور ان کی خطائیں بخش دیتے تو بیشک ہم تسلیم کر لیتے کہ ہاں انہوں نے اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھایا.لیکن جب یہ موقعہ ہی ان کو نہیں ملا تو پھر انہیں اخلاق کا نمونہ ٹھہرانا صریح بے حیائی ہے.جب تک دونوں پہلو نہ ہوں خلق کا ثبوت نہیں ہو سکتا.اب مقابلہ میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو.کہ جب مکہ والوں

Page 491

۴۷۳ نے آپ کو نکلا اور تیرہ برس تک ہر قسم کی تکلیفیں آپ کو پہنچاتے رہے.آپ کے صحابہ کو سخت سخت تکلیفیں دیں.جن کے تصور سے بھی دل کانپ جاتا ہے.اس وقت جیسے صبر اور برداشت سے آپ نے کام لیا ، وہ ظاہر بات ہے.لیکن جب خدا تعالیٰ کے حکم سے آپ نے ہجرت کی اور پھر فتح مکہ کا موقعہ ملا تو اس وقت ان تکالیف اور مصائب اور سختیوں کا خیال کر کے جو مکہ والوں نے تیرہ سال تک آپؐ پر اور آپؐ کی جماعت پر کی تھیں آپ کو حق پہنچتا تھا کہ قتل عام کر کے مکہ والوں کو تباہ کر دیتے اور اس قتل میں کوئی مخالف بھی آپ پر اعتراض نہیں کر سکتا تھا.کیونکہ ان تکالیف کے لئے وہ واجب القتل ہو چکے تھے.اس لئے اگر آپ میں قوت غضبی ہوتی تو وہ بڑا عجیب موقع انتقام کا تھا کہ وہ سب گرفتہ ہو چکے تھے.مگر آپ نے کیا کیا ؟ آپ نے ان سب کو چھوڑ دیا اور کہا لاتثریب علیکم اليوم - یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے.مکہ کی مصائب اور تکالیف کے نظارہ کو دیکھو کہ قوت و طاقت کے ہوتے ہوئے کس طرح پر اپنے جانستاں دشمن کو معاف کیا جاتا ہے.یہ ہے نمونہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا جس کی نظیر دنیا میں پائی نہیں جاتی.اب ہمیں پادری بتائیں کہ مسیح کے اس خلق کہ ہم کہاں ڈھونڈیں؟ ان کی زندگی میں آپ کا نمونہ کہاں سے لائیں جب کہ وہ ان کے عقیدے موافق ماریں ہی کھاتا رہا.اور جس کو سر رکھنے کی جگہ بھی نہ ملی (اگر چہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ ہم خدا کے ایک نبی اور مامور کی نسبت یہ گمان کریں کہ وہ ایسا ذلیل اور مفلوک الحال تھا) انسان کا سب سے بڑا نشان اس کا خلق ہے لیکن ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینے کی تعلیم دینے والے معلم کی عملی حالت میں اس خلق کا ہمیں کوئی پتہ نہیں دوسروں کو کہتا ہے گالی نہ دو مگر یہودیوں کے مقدس فریسیوں اور فقیہوں کو حرامکار.سانپ اور سانپ کے بچے آپ ہی کہتا ہے.یہودیوں میں بالمقابل اخلاق پائے جاتے ہیں.وہ اسے نیک استاد کہہ کر پکارتے ہیں اور یہ ان کو حرامکار کہتے ہیں اور کتوں اور سوڑوں سے تشبیہ دیتے ہیں باوجودیکہ وہ فقیہہ اور فریسی نرم نرم الفاظ میں کچھ پوچھتے ہیں اور وہ دنیوی وجاہت کے لحاظ سے بھی رومی گورنمنٹ میں کرسی نشین تھے.ان کے مقابلہ میں ان کے سوالوں کا جواب تو بہت ہی نرمی سے دینا

Page 492

۴۷۴ صحابہ کے لحاظ سے موازنه چاہئے تھا اور خوب ان کو سمجھانا چاہئے تھا.حلانکہ یہ بجائے سمجھانے کے گالی پر گالی دیتے چلے جاتے ہیں.کیا اس کا نام اخلاق ہے.میں بار بار کہتا ہوں کہ اگر قرآن شریف نہ ہوتا اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ آئے ہوئے ہوتے تو صیح کی خدائی اور نبوت تو ایک طرف شاید کوئی دانشمندان کو کوئی عالی خیال اور وسیع الاخلاق انسان ماننے میں بھی قاتل کرتا.یہ قرآن شریف کا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان عام ہے تمام نبیوں پر اور خصوصاً مسیح پر کہ اس نے ان کی نبوت ملفوظات جلد ۳ صفحه ۱۵۹ تا ۱۶۴ کا ثبوت خود دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں میں وہ جوش عشق الہی پیدا ہوا اور توجہ قدسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تاثیر ان کے دلوں میں ظاہر ہوئی کہ انہوں نے خدا کی راہ میں بھیڑوں اور بکریوں کی طرح سر کٹائے.کیا کوئی پہلی امت میں ہمیں دکھا سکتا ہے یا نشان دے سکتا ہے کہ انہوں نے بھی صدق اور صفا دکھلایا به.حضرت مسیح کے صحابہ کا حال سنو کہ ایک نے تو جس کا نام یہودا اسکر یوطی تھا تمیں روپیہ لے کر حضرت مسیح کو گرفتار کرا دیا اور پطرس حواری جس کو بہشت کی کنجیاں دی گئی تھیں اس نے حضرت مسیح کے روبروان پر لعنت بھیجی اور باقی جس قدر حواری تھے وہ مصیبت کا وقت دیکھ کر بھاگ گئے.اور ایک نے بھی استقامت نہ دکھلائی اور ثابت قدم نہ رہے اور بزدلی ان پر غالب آگئی.اور ہمارے نبي صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے تلواروں کے سایہ کے نیچے وہ استقامتیں دکھلائیں اور اس طرح مرنے پر راضی ہوئے جن کی سوانح پڑھنے سے رونا آتا ہے.پس وہ کیا چیز تھی جس نے ایسی عاشقانہ روح ان میں پھونک دی.اور وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے ان میں اس قدر تبدیلی کر دی.یا تو جاہلیت کے زمانہ میں وہ حالت ان کی تھی کہ وہ دنیا کے کپڑے تھے اور کوئی معصیت اور ظلم کی قسم نہیں تھی جو ان سے ظہور میں نہیں آئی تھی.اور یا اس نبی کی پیروی کے بعد ایسے خدا کی طرف کھینچے گئے کہ گویا خدا ان کے اندر سکونت پذیر ہو گیا.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ وہی توجہ اس پاک نبی کی تھی جو ان لوگوں کو سفلی زندگی سے ایک پاک زندگی کی طرف کھینچ کر لے آئی اور

Page 493

۴۷۵ جو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اس کا سبب تلوار نہیں تھی بلکہ وہ اس تیرہ سال کی آہ وزاری اور دعا اور تضرع کا اثر تھا.حقیقة الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۱ ، ۱۰۲ حاشیه نیز دیکھیں.ملفوظات.جلد ۳ صفحہ ۱۵۷، ۲۵۸ و - ملفوظات.جلد ۴ صفحہ ۱۰۷ ۳۲۵ بہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقابلہ میں حواریوں کو پیش کرتے ہوئے شرم آجاتی ہے.حواریوں کی تعریف میں ساری انجیل میں ایک بھی فقرہ ایسا نظر نہ آئے گا.کہ انہوں نے میری راہ میں جان دے دی.بلکہ بر خلاف اس کے ان کے اعمال جان فدا کرنے کے بارہ میں ساری انجیل ایسے ثابت ہوں گے جس سے معلوم ہو کہ وہ حد درجہ کے غیر مستقل مزاج، غدار اور میں حواریوں کی بے وفا اور دنیا پرست تھے اور صحابہ کرام نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی راہ میں وہ تعریف میں ایک بھی صدق دکھلایا کہ انہیں رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کی آواز فقرہ نہیں آگئی.یہ اعلیٰ درجہ کا مقام ہے جو صحابہ کو حاصل ہوا.یعنی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے.اس مقام کی خوبیاں اور کمالات الفاظ میں ادا نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ سے راضی ہو جاتاہر شخص کا کام نہیں بلکہ یہ توکل تبتل اور رضاو تسلیم کا اعلیٰ مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان کو کسی قسم کا شکوہ شکایت اپنے مولیٰ سے نہیں رہتی اور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ سے راضی ہونا یہ موقوف ہے بندے کے کمال صدق و وفاداری اور اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی اور طہارت اور کمال اطاعت پر.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے معرفت اور سلوک کے تمام مدارج طے کر لئے تھے.اس کا نمونہ حواریوں میں اگر تلاش کریں تو ہر گز نہیں مل سکتا.پس مرے سلب امراض پر خوش ہو جاتا یہ کوئی دانشمندی نہیں ہے اور روحانی کمالات کا شیدائی ان باتوں پر خوش نہیں ہو سکتا اس لئے میں تمہارے لئے نہیں پسند کرتا ہوں کہ تم اپنے دل کو پاک کرو کہ مولیٰ کریم تم سے راضی ہو جاوے اور تم اس سے راضی ہو جاو.پھر وہ تمہارے جسم میں تمہاری باتوں میں ایسی برکت رکھ دے گا.جو سلب امراض والے بھی انہیں دیکھ کر حیران اور شرمندہ ہوں گے.ملفوظات جلد ۸ صفحه ۱۳۹ ، ۱۴۰

Page 494

قرآن شریف کے ایک مقام پر غور کرتے کرتے رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بڑی عظمت اور کامیابی معلوم ہوئی جس کے مقابل میں حضرت مسیح بہت ہی کمزور ثابت ہوتے ہیں.سورہ مائدہ میں ہے کہ نزول مائدہ کی درخواست جب حواریوں نے کی تو وہاں صاف لکھا ہے کہ قَالُو انْرِيدُ أَن تَأْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا آنحضرت اور آپ کے وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّهِدِينَ محلہ کی فضیلت مسیح اور ان کے حواریوں ۱۳۲۷ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جس قدر معجزات مسیح کے بیان کئے جاتے ہیں اور جو حواریوں نے دیکھے تھے ان سب کے بعد ان کا یہ درخواست کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ ان کے قلوب پہلے مطمئن نہ ہوئے تھے.ورنہ یہ الفاظ کہنے کی ان کو کیا ضرورت تھی.وَتَطْمَئِنَ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنَا مسیح کی صداقت میں بھی اس سے پہلے کچھ شک ہی ساتھا.اور وہ اس جھاڑ پھونک کہ معجزہ کی حد تک نہیں سمجھتے تھے.ان کے مقابلہ میں صحابہ کرام ایسے مطمئن اور قومی الایمان تھے کہ قرآن شریف نے ان کی نسبت رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ فرمایا.اور یہ بھی بیان کیا کہ ان پر سکینت نازل فرمائی.یہ آیت مسیح علیہ السلام کے معجزات کی حقیقت کھولتی ہے.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت قائم کرتی ہے.صحابہ کا کہیں ذکر نہیں.کہ انہوں نے کہا کہ ہم اطمینان قلب چاہتے مایه کایہ حال پر سکینت نازل ہوئی.اور یہود کا ان حال يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَ هُمْ أَبْنَاءَهُمْ ان کی حالت بتائی.یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت یہاں تک کھل گئی تھی کہ وہ اپنے بیٹوں کی طرح شناخت کرتے تھے اور نصاری کا یہ حال کہ ان کی آنکھوں سے آپ کو دیکھیں تو آنسو جاری ہو جاتے تھے.یہ مراتب مسیح کو کہاں نصیب ! ملفوظات.جلد ۳ صفحہ ۳۲۲، ۳۲۳ معصوم ہونے کے اسباب اور معصوم بنانے کے اسباب جس قدر ہمارے نبی صلی معصوم ہونے کے لحاظہ اللہ علیہ وسلم کو میسر آئے تھے وہ کسی نبی کو کبھی نہیں ملے.اسی لئے عصمت کے مسئلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس مقام اور درجہ پر ہیں وہاں اور کوئی نہیں ہے.خود کوئی سے موازنہ

Page 495

کبھی معصوم نہیں بن سکتا.بلکہ معصوم بناتا خدات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا کا بہت بڑا فضل تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وكان فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا اور اصل یہ ہے کہ انسان بچتا بھی فضل سے ہی ہے.پس جس شخص پر خدا تعالیٰ کا فضل عظیم ہو.اور جس کو کل دنیا کے لئے مبعوث کیا گیا ہو اور جو رحمۃ للعالمین ہو کر آیا ہو اس کی عصمت کا اندازہ اسی سے ہو سکتا ہے.عظیم الشان بلندی پر جو شخص کھڑا ہے ایک نیچے کھڑا ہوا اس سے مقابلہ کیا کر سکتا ہے.مسیح کی ہمت اور دعوت صرف بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں تک محدود ہے.پھر اس کی عصمت کا درجہ بھی اس حد تک ہونا چاہئے.لیکن جو شخص کل عالم کی نجات اور رستگاری کے واسطے آیا ہے.ایک دانشمند خود سوچ سکتا ہے کہ اس کی تعلیم کیسی عالمگیر صداقتوں پر مشتمل ہوگی اور اسی لئے وہ اپنی تعلیم اور تبلیغ میں کس درجہ کا معصوم ہو گا.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۳۶۴، ۳۶۵ ۱۳۲۸ قرآن شریف اور احادیث میں جو حضرت عیسی کے نیک اور معصوم ہونے کا ذکر ہے.اس سے یہ مطلب نہیں کہ دوسرا کوئی نیک یا معصوم نہیں.بلکہ قرآن شریف اور قرآن میں مسیح کی حدیث نے ضرور تا یہود کے منہ کو بند کرنے کے لئے یہ فقرے بولے ہیں کہ یہود نعوذ معصومیت کے ذکر کی باللہ مریم کو زنا کار عورت اور حضرت عیسی کو ولد الزنا کہتے تھے.اس لئے قرآن شریف نے ان کاذب کیا ہے کہ وہ ایسا کہنے سے باز آویں.ملفوظات جلد ۳ صفحه ۲۷۱ سیح نے تو امام حسین علیہ السّلام جتنا حوصلہ بھی نہ دکھلایا کیونکہ ان کو مفتر کی گنجائش وجو تھی.اگر چاہتے تو جاسکتے تھے مگر جگہ سے نہ ہلے اور سینہ سپر ہو کر جان دی اور مسیح کو تو مفر نام حسین اور مسیح ہی کوئی نہ تھا.یہودیوں کی قید میں تھے حوصلہ کیا دکھلاتے.ملفوظات جلد ۴ صفحه ۱۰۷ ۱۰ جنوری ۱۸۹۶ء پر چہ نور افشل میں کسی نادان عیسائی نے

Page 496

اپنے یسوع کو مصداق قول الفقر فخری کا ٹھیرایا.سو انہیں یاد رہے کہ فقر قابل چپل تحسین فقر تحسین وہ ہے جس میں صاحب فقر کی سخاوت اور ایثار کا ثبوت ملے یعنی اس کو دنیا دی جائے مگر وہ دنیا کے مال کو دنیا کے محتاجوں کو دے دے.جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہ لکھوکھا روپیہ پایا اور محتاجوں کو دے دیا.ایک مرتبہ ایک کافر کو اونٹوں اور بکریوں کا پہاڑ بھرا ہوا بخش دیا.آپ کے یسوع کا کسی محتاج کو ایک روٹی دینا بھی ثابت نہیں.سویسوع نے دنیا کو نہیں چھوڑا بلکہ دنیا نے یسوع کو چھوڑا.ان کو کب مال ملا جس کو لے کر انہوں نے محتاجوں کو دے دیا.وہ خود تو بار بار روتے ہیں کہ میرے لئے سر رکھنے کی جگہ نہیں.ایسے فقر کے رنگ میں تو دنیا میں ہزار ہالنگوٹی پوش موجود ہیں جن کو داؤد نبی نے مورد غضب الہی قرار دیا ہے.اور ایسے نظر کے لئے یہ حدیث ہے.الفقر سواد الوجه في الدارين مجموعہ اشتہارات - جلد ۲ صفحہ ۲۳۸ اسلامی تعلیم سے ثابت ہے کہ شیاطین بھی ایمان لے آتے ہیں.چنانچہ ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے.غرض ہر ایک شیطان پر غلبہ انسان کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے.اور مطہر اور مقرب انسان کا شیطان ایمان لے آتا ہے.مگر افسوس کہ یسوع کا شیطان ایمان نہیں لا سکا.بلکہ الٹا اس کو گمراہ کرنے کی فکر میں ہوا اور ایک پہاڑی پر لے گیا اور دنیا کی دولتیں دکھلائیں اور وعدہ کیا کہ سجدہ کرنے پر یہ تمام دولتیں دے دوں گا.اور شیطان کا یہ مقولہ حقیقت میں ایک بڑی پیش گوئی تھی اور اس بات کی طرف اشارہ بھی تھا کہ جب عیسائی قوم اس کو سجدہ کرے گی تو دنیا کی تمام دولتیں ان کو دی جاویں گی.سو ایسا ظہور میں آیا.جن کے پیشوا نے خدا کہلا کر پھر شیطان کی پیروی کی یعنی اس کے پیچھے ہو لیا.ان کا شیطان کو سجدہ کرنا کیا بعید تھا.غرض عیسائیوں کی دولتیں در حقیقت اسی سجدہ کی وجہ سے ہیں جو انہوں نے شیطان کو کیا اور ظاہر ہے کہ شیطانی وعدہ کے موافق سجدہ کے بعد عیسائیوں کو دنیا کی دولتیں دی گئیں.معیار المذاہب.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۷۶،۴۷۵ حاشیه

Page 497

آج کل کے یورپین فلاسفر باوجود عیسائی ہونے کے اس بات کو نہیں مانتے کہ در حقیقت یسوع کو شیطان پھسلا کر ایک پہاڑی پر لے گیا تھا.کیونکہ وہ لوگ شیطان کے ستم کے قائل نہیں بلکہ خود شیطان کے وجود سے ہی منکر ہیں.لیکن در حقیقت علاوہ خیالات ان فلاسفروں کے ایک خیال تو ضرور ہوتا ہے کہ اگر یہ واقعہ شیطان کی رفاقت کا مسیح کو شیطان کے یہودیوں کے پہاڑوں اور گذر گاہوں میں ہوتا تو تو ضرور تھا کہ نہ صرف یسوع بلکہ کئی پھلانے والے واقعہ یہودی بھی اس شیطان کو دیکھتے.اور کچھ شک نہیں کہ شیطان معمولی انسانوں کی طرح پر جمع و تنقید نہیں ہو گا.بلکہ ایک عجیب و غریب صورت کا جاندار ہو گا جو دیکھنے والوں کو تعجب میں ڈالتا ہو گا پس اگر در حقیقت شیطان یسوع کو بیداری میں دکھائی دیا تھا تو چاہئے تھا کہ اس کو دیکھ کر ہزار ہا یہودی اس جگہ جمع ہو جاتے اور ایک مجمع اکٹھا ہو جاتا لیکن ایسا وقوع میں نہیں آیا.اس لئے یورپین محقق اس کو کوئی خارجی واقع قبول نہیں کر سکتے.بلکہ وہ ایسے بیهوده تخیلات کی وجہ سے جن میں سے خدائی کا دعوی بھی ہے.انجیل کو دور سے سلام کرتے ہیں.چنانچہ حال ہی میں ایک اور چین عالم نے عیسائیوں کی انجیل مقدس کی نسبت یہ رائے ظاہر کی ہے کہ میری رائے میں کسی دانشمند آدمی کو اس بات کے یقین ولانے کو کہ انجیل انسان کی بناوٹ بلکہ وحشیانہ ایجاد ہے.صرف اسی قدر ضرورت ہے کہ وہ انجیل کو پڑھے.پھر صاحب بہادر یہ فرماتے ہیں کہ تم انجیل کو اس طرح پڑھو جیسے کہ تم کسی اور کتاب کو پڑھتے ہو اور اس کی نسبت ایسے خیالات کرو جیسے کہ اور کتابوں کی نسبت کرتے ہو.اپنی آنکھوں تعظیم کی پٹی نکال دو اور اپنے دل سے خوف کے بھوت بھگا دو.اور دماغ اوہام سے خالی کرو.تب انجیل مقدس پڑھو تو تم کو تعجب ہو گا کہ تم نے ایک لحظہ کے لئے بھی کیونکر اس جہالت اور ظلم کے مصنف کو عظمند اور نیک اور پاک خیال کیا تھا.ایسا ہی اور بہت سے فلاسفر سائنس کے جانے والے جو انجیل کو نہایت ہی کراہت سے دیکھتے ہیں.وہ انہیں ناپاک تعلیموں کی وجہ سے متنفر ہو گئے.جن کو وہ مانا ایک عقلمند کے لئے در حقیقت نہایت درجہ جائے عار ہے.مثلاً یہ ایک جھوٹا قصہ کہ ایک باپ ہے جو سخت مغلوب الغضب اور سب کو ہلاک کرنا چاہتا ہے.اور ایک بیٹا ہے جس نے باپ کے مجنونانہ غضب کو اس طرح لوگوں سے ٹال دیا ہے کہ آپ سولی پر چڑھ گیا.اب بیچارے محقق یورپین ایسی بیہودہ باتوں کو کیونکر مان لیں.ایسا ہی عیسائیوں کی یہ سادہ لوحی کے خیال کہ خدا کو تین جسم پر منقسم کر دیا.ایک وہ جسم جو آدمی

Page 498

کی شکل میں ہمیشہ رہے گا جس کا نام ابن اللہ ہے.دوسرے وہ جسم جو کبوتر کی طرح ہمیشہ گا.جس کا نام روح القدس ہے.تیسرے وہ جسم جس کے رہنے ہاتھ بیٹا جا بیٹھا.اب کوئی عقلمند ان اجسام ثلاثہ کو کیونکر قبول کرے.لیکن شیطان کی ہمراہی کا الزام یورپین فلاسفروں کے نزدیک کچھ کم نفسی کا باعث نہیں.بہت کوششوں کے بعد یہ تاویلیں پیش ہوتی ہیں.کہ یہ حالات یسوع کے دماغی قوئی کے اپنے تخیلات تھے اور اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ تندرستی اور صحت کی حالت میں ایسے مکرہ تخیلات پیدا نہیں ہوسکتے.بہتوں کو اس بات کی ذاتی تحقیقات ہے کہ مرگی کی بیماری کے مبتلا کثر شیاطین کو اسی طرح دیکھا کرتے ہیں.وہ بعینہ ایسا ہی بیان کیا کرتے ہیں کہ ہمیں شیطان فلاں فلاں جگہ لے گیا اور یہ یہ عجائبات دکھلائے.غرض یسوع کا یہ واقعہ شیطان کے ہمراہ کا مرض صرع پر صاف دلیل ہے اور ہمارے پاس کئی وجوہ ہیں جن کے مفضل لکھنے کی ابھی ضرورت نہیں اور یقین ہے کہ محقق عیسائی جو پہلے ہی ہماری اس رائے سے اتفاق رکھتے ہیں، انکار نہیں کریں گے اور جو نادان پادری انکار کریں تو ان کو اس بات کا ثبوت دینا چاہئے کہ یسوع کا شیطان کے ہمراہ جانا در حقیقت بیداری کا ایک واقع ہے ہے.اور صرع وغیرہ کے لحوق کا نتیجہ نہیں مگر ثبوت میں معتبر گواہ پیش کرنے چاہئیں جو رویت کی گواہی دیتے ہوں اور معلوم ہوتا ہے کہ کبوتر کا تر نا اور یہ کہنا کہ تو میرا پیارا بیٹا ہے در حقیقت یہ بھی ایک مرگی کا دورہ تھا.جس کے ساتھ ایسے تخیلات پیدا ہوئے.اور ایک مرتبہ یسوع کے چاروں حقیقی بھائیوں نے اس وقت کی گورنمنٹ میں درخواست بھی دی تھی کہ یہ شخص دیوانہ ہو گیا ہے اس کا کوئی بندوبست کیا جائے یعنی عدالت کے جیل خانہ میں داخل کیا جلوے تاکہ وہاں دستور کے موافق اس کا علاج ہو تو یہ درخواست بھی صریح اس بات پر دلیل ہے کہ یسوع در حقیقت بوجہ بیماری مرگی کے دیوانہ ہو گیا تھا.معیارا لمذاہب.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۸۱ تا ۴۸۴ حاشیه حضرت مسیح ایک انجیر کی طرف دوڑے گئے تا اس کا پھل کھائیں اور روح القدس سوال یہ ہے کہ شیطان کو کس کس نے یسوع کے ساتھ دیکھا تھا.منہ ۴۸۰

Page 499

۴۸۱ آنحضرت کے دس ساتھ ہی تھا مگر روح القدس نے یہ اطلاع نہ دی کہ اس وقت انجیر پر کو ت انجیر پرکوئی پھل نہیں.بائیں لاکھ کے قریب قبل و ہمہ یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ شاذ و نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے پس جس حالت فعل میں سراسر خدائی کا میں ہمارے سید و مولی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دس لاکھ کے قریب قول و فعل می جلی نظر آتا ہے میں سراسر خدائی کا ہی جلوہ نظر آتا ہے اور ہر بات میں حرکات میں سکنات میں اقوال میں افعال میں روح القدس کے چمکتے ہوئے انوار نظر آتے ہیں تو پھر اگر ایک آدھ بات میں بشریت کی بھی بُو آوے تو اس سے کیا نقصان.بلکہ ضرور تھا کہ بشریت کے تحقق کے لئے کبھی کبھی ایسا بھی ہو تا تالوگ شرک کی بلا میں مبتلا نہ ہو جائیں.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۱۰، ۱۱۶ - حضرت مسیح ایک بار چھوڑ ہزار بار کہیں کہ میں خدا ہوں لیکن کون ان کی خدائی کا اعتراف کر سکتا ہے جبکہ انسانیت کا اقبال بھی اس کے وجود میں نظر نہیں آتا.دشمنوں گورنمنٹ کا سلوک اور کے نرغہ میں آپ پچھن جاتے ہیں اور ان سے طمانچے کھاتے ہوئے صلیب پر لٹکائے ربانی رعب جاتے ہیں باوجودیکہ وہ طعن کرتے ہیں کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو صلیب سے اتر آ.عمر آپ خاموش ہیں اور کوئی خدائی کا کرشمہ نہیں دکھاتے.برخلاف اس کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف خسرو پرویز نے منصوبہ کیا اور آپ کو گرفتار کر کے قتل کرنا چاہا.مگر اس رات خود ہی ہلاک ہو گیا.اور ادھر حضرت مسیح کو ایک معمولی چپراسی پکڑ کر لے جاتا ہے.تائید الہی کا کوئی پتہ نہیں ملا.لمفوظات جلد ۳ صفحه ۳۶۵ جب ہم حضرت مسیح اور جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بات میں مقابلہ کرتے ہیں کہ موجودہ گورنمنٹوں نے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور کس قدر ان کے ربانی حکومت وقت کا برتاؤ رعب اور یا تائید الہی نے اثر دکھایا.تو ہمیں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح میں بمقابلہ اور ربانی رحب و تائید الہی میں موازنہ جناب مقدس نبوی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی خدائی تو کیا نبوت کی شان بھی پائی نہیں جاتی.جناب مقدس نبوی کے جب پادشاہوں کے نام فرمان جاری ہوئے تو قیصر روم نے آہ کھینچ کر کہا کہ میں تو عیسائیوں کے پنجہ میں مبتلا ہوں.کاش اگر مجھے اس جگہ سے نکلنے کی گنجائش ہوتی تو میں اپنا فخر سمجھتا کہ خدمت میں حاضر ہو جاؤں اور غلاموں کی

Page 500

طرح جناب مقدس کے پاؤں دھویا کروں.مگر ایک خبیث اور پلید دل باد ایران کے فرمانروا نے غصہ میں آکر آپ کے پکڑنے کے لئے سپاہی بھیج دیئے.وہ شام کے قریب پہنچے اور کہا کہ ہمیں گرفتاری کا حکم ہے.آپ نے اس بیہودہ بات سے اعراض کر کے فرمایا تم اسلام قبول کرو اس وقت آپ صرف دو چار اصحاب کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے مگر ربانی رعب سے وہ دونوں بید کی طرح کانپ رہے تھے.آخر انہوں نے کہا کہ ہمارے خداوند کے حکم یعنی گرفتاری کی نسبت جناب عالی کا کیا جواب ہے کہ ہم جواب ہی لے جائیں.حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا کل تمہیں جواب ملے گا.صبح کو جو وہ حاضر ہوئے تو آنجناب نے فرمایا کہ وہ جسے تم خداوند خداوند کہتے ہو.وہ خداوند نہیں ہے خداوند وہ ہے جس پر موت اور فتاطاری نہیں ہوتی.مگر تمہار ا نداوند آج رات کو مارا گیا.میرے بچے خداوند نے اس کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلط کر دیا.سودہ آج رات اس کے ہاتھ سے قتل ہو گیا اور یہی جواب ہے.یہ بڑا معجزہ تھا.اس کو دیکھ کر اس ملک کے ہزار ہا لوگ ایمان لائے.کیونکہ اسی رات در حقیقت خسرو پرویز یعنی کسری مارا گیا تھا.اور یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بیان انجیلوں کی بے سروپا اور بے اصل باتوں کی طرح نہیں بلکہ احادیث صحیحہ اور تاریخی ثبوت اور مخالفوں کے اقرار سے ثابت ہے.چنانچہ ڈیونیورٹ صاحب بھی اس قضیہ کو اپنی کتاب میں لکھتا ہے لیکن اس وقت کے بادشاہوں کے سامنے حضرت مسیح کی جو عزت تھی وہ آپ پر پوشیدہ نہیں.وہ اوراق شاید اب تک انجیل میں موجود ہوں گے جن میں لکھا ہے کہ ہیرودیس نے حضرت مسیح کو مجرموں کی طرح پلا طوس کی طرف چلان کیا.اور وہ ایک مدت تک شاہی حوالات میں رہے.کچھ بھی خدائی پیش نہیں گئی.اور کسی بادشاہ نے یہ نہ کہا کہ میرا نخر ہو گا اگر میں اس کی خدمت میں رہوں.اور اس کے پاؤں دھویا کروں.بلکہ پلاطوس نے یہودیوں کے حوالہ کر دیا.کیا یہی خدائی تھی.عجیب مقابلہ ہے.دو شخصوں کو ایک ہی قسم کے واقعات پیش آئے اور دونوں نتیجہ میں ایک دوسرے سے بالکل ممتاز ثابت ہوتے ہیں.ایک شخص کے گرفتار کرنے کو ایک متکبر جبار کا شیطان کے وسوسہ سے برا انگیخته ہوتا اور خود آخر لعنت الہی میں گرفتار ہو کر اپنے بیٹے کے ہاتھ سے بڑی ذلت کے ساتھ قتل کیا جاتا اور ایک دوسرا انسان جسے قطع نظر اپنے اصلی دعووں کے غلو کرنے والوں نے ۴۸۲

Page 501

۴۸۳ آسمان پر چڑ ہار کھا ہے.سچ سچ گر فتار ہو جاتا.چالان کیا جاتا اور عجیب ہیبت کے ساتھ ظالم پولیس کی حوالت میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں منتقل کیا جاتا.افسوس یہ عقل کی ترقی کا زمانہ اور ایسے بیہودہ عقائد.شرم ! شرم ! شرم! اگر یہ کہو کہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ قیصر روم نے یہ تمناکی کہ اگر میں جناب مقدس نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پہنچ سکتا تو میں ایک ادنی خادم بن کر پاؤں دھویا کرتا.اس کے جواب میں آپ کے لئے اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری کی عبارت لکھتا ہوں.ذرا آنکھیں کھول کر پڑ ہو اور وہ یہ ہے.وقد كنت أعلو انه خارج ولم اكن اظن انه منكم فلو الى اعلم اني اخلص اليه لتجشمت لقارة ولوكنت عندها لغسلت عن قدميه ( دیکھو ص٢) یعنی یہ تو مجھے معلوم تھا کہ نبی آخر الزمان آنے والا ہے.مگر مجھ کو یہ خبر نہیں تھی کہ وہ تم میں سے ہی (اے اہل عرب ) پیدا ہو گا.پس اگر میں اس کی خدمت میں پہنچ سکتا تو میں بہت ہی کوشش کرتا.کہ اس کا دیدار مجھے نصیب ہو.اور اگر میں اس کی خدمت میں ہوتا تو میں اس کے پاؤں دھویا کرتا.اب اگر کچھ غیرت اور شرم ہے تو مسیح کے لئے یہ تعظیم کسی بادشاہ کی طرف سے جو اس کے زمانہ میں تھا پیش کرو اور نقد ہزار روپیہ ہم سے لے لو.اور کچھ ضرورت نہیں کہ انجیل سے ہی بلکہ پیش کرو.اگر چہ کوئی نجاست میں پڑا ہو اور ق ہی پیش کر دو.اور اگر کوئی بادشاہ یا امیر نہیں تو کوئی چھوٹا سا نواب ہی پیش کر دو.اور یا درکھو کہ ہر گز پیش نہ کر سکو گے.پس یہ عذاب بھی جہنم کے عذاب سے کچھ کم نہیں کہ آپ ہی بات کو اٹھا کر پھر آپ ہی ملزم ہو گئے.نور القرآن.حصہ دوم.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۸۴ تا ۳۸۷ ہمارے سیند و مولیٰ جناب مقدس نبوی کی تعلیم کا علیٰ نمونہ اس جگہ ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جس توریہ کو آپ کا یسوع شیر مادر کی طرح تمام عمر استعمال کرتا رہا.آنحضرت حضرت مسیح کا توریہ اور صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی الوسع اس سے مجتنب رہنے کا حکم کیا ہے.تا مفہوم کلام کا آنحضرت کی شجاعت اپنی ظاہری صورت میں بھی کذب سے مشابہ نہ ہو.مگر کیا کہیں اور کیا لکھیں کہ آپ کے یسوع صاحب اس قدر التزام سچائی کا نہ کر سکے.جو شخص خدائی کا دعوی کرے وہ تو شیر

Page 502

۴۸۴ سے موازنہ بیبر کی طرح دنیا میں آنا چاہئے تھا نہ کہ ساری عمر توریہ اختیار کر کے اور تمام باتیں کذب کے ہم رنگ کہہ کر یہ ثابت کر دیوے.کہ وہ ان افراد کاملہ میں سے نہیں ہے جو مرنے سے لاپرواہ ہو کر دشمنوں کے مقابل پر اپنے تئیں ظاہر کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں.اور کسی مقام میں بزدلی نہیں دکھلاتے.مجھے توان باتوں کو یاد کرتے رونا آتا ہے کہ اگر کوئی ایسے ضعیف القلب یسوع کی اس ضعف حالت اور توریہ پر جو ایک قسم کا کذب ہے اعتراض کرے تو ہم کیا جواب دیں.جب میں دیکھتا ہوں کہ جناب سید المرسلین جنگ اللہ میں اکیلے ہونے کی حالت میں برہنہ تلواروں کے سامنے کہہ رہے تھے.میں محمد ہوں.میں نبی اللہ ہوں.میں ابن عبد المطلب ہوں.اور پھر دوسری طرف دیکھتا ہوں کہ آپ کا یسوع کانپ کانپ کر اپنے شاگردوں کو یہ خلاف واقعہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی سے نہ کہنا کہ میں یسوع میں ہوں.حالانکہ اس کلمہ سے مسیح سے کوئی اس کو قتل نہیں کرتا تو میں دریائے حسرت میں غرق ہو جاتا ہوں کہ یا الہی یہ شخص بھی نبی ہی کہلاتا ہے.جس کی شجاعت کا خدا کی راہ میں یہ حال ہے.نور القرآن.حصہ دوم.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۰۶، ۴۰۷ علاج کی چار صورتیں تو عام ہیں.دوا سے.غذا سے.عمل ہے.پرہیز سے علاج کیا جاتا ہے.ایک پانچویں قسم بھی ہے جس سے سلب امراض ہوتا ہے وہ توجہ سلب امراض کے لحاظ ہے.حضرت مسیح علیہ السّلام اسی توجہ سے سلب امراض کیا کرتے تھے.اور یہ سلب امراض کی قوت مومن اور کافر کا امتیاز نہیں رکھتی.بلکہ اس کے لئے نیک چلن ہونا بھی ضروری نہیں ہے.نبی اور عام لوگوں کی توجہ میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ نبی کی توجہ کسی نہیں ہوتی.وہی ہوتی ہے.آج کل ڈوئی جو بڑے دعوے کرتا ہے.یہ بھی وہی سلب امراض ہے.توجہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس سے سلب ذنوب بھی ہو جاتا ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اور مسیح علیہ السلام کی توجہ میں یہ فرق ہے کہ مسیح کی توجہ سے سلب امراض ہو تا تھا.مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ سے سلب ذنوب ہو تا تھا.اور اس وجہ سے آپ کی قوت قدسی کمال کے درجہ پر پہنچی ہوئی تھی.دعا بھی توجہ ہی کی ایک قسم ہ سہو ہے یہ واقعہ غزوہ حنین کا ہے.مرتب

Page 503

۴۸۵ ہوتی ہے.توجہ کا سلسلہ کڑیوں کی طرح ہوتا ہے.جو لوگ حکیم اور ڈاکٹر ہوتے ہیں.ان کو اس فن میں مہارت پیدا کرنی چاہئے.مسیح کی توجہ چونکہ زیادہ تر سلب امراض کی طرف تھی اس لئے سلب ذنوب میں وہ کامیابی نہ ہونے کی وجہ یہی تھی.کہ جو جماعت انہوں نے طیار کی وہ اپنی صفائی نفس اور تزکیہ باطن میں ان مدارج کو پہنچ نہ سکی جو جلیل الشان صحابہ کو ملی.اور یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی باشر تھی کہ آج اس زمانہ میں بھی تیرہ سوبرس کے بعد سلب ذنوب کی وہی قوت اور تاثیر رکھتی ہے جو اس وقت میں رکھتی تھی.مسیح اس میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گز مقابلہ نہیں کر سکتے.ملفوظات.جلد ۳ صفحه ۳۶۸ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے زمانہ میں ایرانی لوگ مشرک تھے اور قیصر روم جو کہ عیسائی تھا دراصل موحد تھا اور مسیح کو ابن اللہ نہیں مانتا تھا.اور جب اس کے سامنے مسیح کا وہ ذکر جو قرآن میں درج ہے پیش کیا گیا تو اس نے کہا میرے نزدیک مسیح کا آنحضرت کے ملب امراض کا نمونہ صحابہ درجہ اس سے ذرہ بھی زیادہ نہیں جو قرآن نے بتلایا ہے.حدیث میں بھی اس کی گواہی ہیں بخاری میں موجود ہے.کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ وہی کلام ہے جو توریت میں ہے.اور اس کی حیثیت نبوت سے بڑھ کر انہیں ہے.اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّنْ بَعْدِ علَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَيَوْمَذِ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ یعنی روم اب مغلوب ہو گیا ہے مگر تھوڑے عرصہ میں (۹سال میں) پھر غالب ہو گا.عیسائی لوگ نہایت شرارت سے کہتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دونوں طاقتوں کا اندازہ کر لیا تھا اور پھر فراست سے یہ پیش گوئی کر دی تھی.ہم کہتے ہیں که اسی طرح مسیح بھی بیماروں کو دیکھ کر اندازہ کر لیا کرتا تھا جو اچھے ہونے کے قابل نظر آتے تھے ان کا سلب امراض کر دیتا.اس طرح تو سارے معجزات ان کے ہاتھ سے جاتے ہیں.يَومَذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ اس دن مومنوں کو دو خوشیاں ہوں گی.ایک

Page 504

۴۸۲ تو جنگ بدر کی فتح.دوسرے روم والی پیش گوئی کے پورا ہونے کی.منتر جنتر بھی سلب امراض ہی ہے مگر بڑا خبیث کام ہے اس لئے اسلام میں اس کی بجائے خدا پر توقع کا حکم دیا گیا ہے.اور صرف روحانی امراض کے لئے سلب رکھا گیا ہے جیسے قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّنها حضرت مسیح تو روحانی امراض کا سلب نہ کر سکے اس لیئے گالیاں دیتے چلے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سلب امراض کا نمونہ صحابہ ہیں.ملفوظات.جلد ۴ صفحہ ۱۱۱ کیا حضرت مسیح نے مردوں کو زندہ کیا ؟ بمراد ازالہ و ہم نور افشال ۱۳؍ اکتوبر ۱۸۹۲ء انجیل یوحنا ا ا باب ۲.آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا یہ قول لکھا ہے کہ قیامت اور زندگی میں ہی ہوں جو مجھ پر ایمان لاوے اگر چہ وہ مرگیا ہو تو بھی بنے گا.یعنی گناہ اور نافرمانی اور غفلت اور کفر کی موت سے نجات پاگر اطاعت الہی کی روحانی زندگی حاصل کر لے گا.انجیل کے اس فقرہ پر ایڈیٹر نور افشاں نے اپنے پرچہ ۱۳ اکتوبر ۱۸۹۲ء میں کم فہمی کی راہ سے لکھا ہے کہ آدم سے تا ایں دم کوئی شخص دنیا کی تواریخ میں ایسا نہیں ہوا جس نے ایسا بھاری دعوی کیا ہو اور اپنے حق میں ایسے الفاظ استعمال.کئے ہوں کہ قیامت اور زندگی میں ہوں اور اگر کوئی ایسا کہتا تو اس کے مطابق ثابت کر دینا غیر ممکن ہوتا.لیکن خداوند مسیح نے جیسا دعوی اپنے حق میں کیا ویسا ہی اس کو ثابت بھی کر دکھلایا.فقط ایڈیٹر صاحب کا یہ مقولہ جس قدر راستی اور صداقت سے دور ہے کسی حقیقت شناس پر پر مخفی نہیں رہ سکتا.واقعی امر یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح علیہ السّلام ایساد علوی کرتے کہ زندگی اور قیامت میں ہوں.تو چونکہ وہ نیچے نبی تھے.اس لئے ضرور تھا کہ اس دعوی کی سچائی ظاہر ہو جاتی.اور حضرت مسیح کی زندگی میں اور بعد ان کے روحانی حیات دنیا میں بذریعہ ان کے پھیل جاتی.لیکن جس قدر حضرت مسیح الہی صداقت اور ربانی تو حید کے پھیلانے سے ناکام رہے شاید اس کی نظیر کسی دوسرے نبی کے واقعات میں بہت ہی کم

Page 505

۴۸۷ ملے گی.ہمارے اس زمانہ میں یہ شہادت بڑے بڑے پادری صاحبان بھی دے چکے ہیں.کہ مسیح کی تعلیم خود ان کے شاگردوں کی پست خیالی اور کم فہمی اور دنیا طلبی کو دور کر سکی.اور مسیح کی گرفتاری کے وقت جو کچھ انہوں نے بزدلی اور بد اعتقادی اور بے وفائی دکھلائی.بلکہ بعض کی زبان پر بھی جو کچھ اس آخری وقت میں لعن طعن کے الفاظ حضرت مسیح کی نسبت جاری ہوئے یہ ایک ایسی بات ہے کہ بڑے بڑے اور اعلیٰ درجہ کے فاضل مسیحیوں نے حواریوں کی ان بیج حرکات کو مسیحیوں کے لئے سخت قابل شرم قرار دیا ہے.پھر یہ خیال کرنا کہ حضرت مسیح روحانی قیامت تھے.اور ان میں داخل ہو کر روحانی مردے زندہ ہو گئے کس قدر دور از صداقت ہے.جو کچھ حضرت مسیح کے پیروؤں نے آپ کی زندگی کے وقت اپنی استقامت اور ایمانداری کا نمونہ دکھلا یادہ تو ایک ایسا بد نمونہ ہے کہ ضروران مسیحیوں پر جو بعد میں اب تک دنیا میں آتے گئے اس کا بد اثر پڑا ہو گا.کیونکہ ہر یک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر حضرت مسیح سے در حقیقت معجزات ظہور میں آتے اور اعلیٰ درجہ کے عجائب کام ان سے ظاہر ہوتے تو ان کے حواریوں کا جو ایمان لا چکے تھے ایسا بد انجام ہر گز نہ ہوتا کہ بعض چند درم رشوت لے کر ان کو گر فتار کراتے اور بعض ان کو گرفتار ہوتے دیکھ کر بھاگ جاتے.اور بعض اُن کے روبروان پر لعنت بھیجتے.جن کے دلوں میں ایمان رچ جاتا ہے اور جن کو نئی زندگی حاصل ہوئی ہے.کیا ان کے یہی آثار ہوا کرتے ہیں.اور کیا وہ اپنے مخدوم اپنے آقا اپنے رہبر سے ایسی ہی وفاداریاں کیا کرتے ہیں.اور حضرت مسیح کے الفاظ بھی جو انجیلوں میں درج ہیں دلالت کر رہے ہیں کہ آپ کے حواری اور آپ کے دن رات کے دوست اور رفیق اور ہم پیالہ اور ہم نوالہ بجلی روحانیت سے خالی تھے.اسی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام نے بعض کو ان میں سے ست اعتقاد کے لفظ سے پکارا ہے.اور بعض کو شیطان کے لفظ سے یاد کیا ہے.اور اگر ہم حواریوں کو الگ رکھ کر ان عیسائیوں کے حالات پر نظر ڈالیں جوان بعد ان کے وقتاً فوقتاً آج تک پیدا ہوتے رہے تو ہمیں ایک بھی ان میں سے نظر ا نہیں آتا جو دنیا اور نفس کی قبر سے نکل کر نئی زندگی کی قیامت میں برانگیختہ ہو گیا ہو بلکہ وہ تمام نفسانیت کی تنگ و تاریک قبروں میں مرے ہوئے اور سڑے ہوئے نظر آرہے ہیں.اور روحانی حیات کی ہوا ان کو چھو بھی نہیں گئی وہ جانتے بھی نہیں کہ خدا کون ہے.اور اس کی عظمت اور قدرت کیا شے ہے اور کیونکر وہ پاک دلوں کو پاک زندگی

Page 506

قسم کی موت تا اور ان سے قریب ہو جاتا ہے.وہ تو ایک عاجز انسان کو خدا قرار دے کر اور بے وجہ اس پر دوسروں کے گناہوں کا بوجھ لاد کر خوش ہورہے ہیں.جانا چاہئے کہ موت چار عیسائی مذہب میں چار قسم کی ہوتی ہے.غفلت کی موت، گناہ کی موت، شرک کی موت، کفر کی موت.سوریہ چاروں قیموں کی موت عیسائی مذہب میں موجود ہے.غفلت کی موت اس لئے کہ ان کی تمام قوتیں دنیا کی آرائشوں اور جمعیتوں کے لئے خرچ ہو رہی ہیں اور خدا تعالیٰ میں اور ان میں جو حجاب ہیں ان کے دور کرنے کے لئے ایک ذرہ بھی انہیں فکر نہیں.اور گناہ کی موت اگر دیکھنی ہو تو یورپ کی سیر کرو اور دیکھو کہ ان لوگوں میں عفت اور پرہیز گاری اور پاک دامنی کس قدر باقی رہ گئی ہے.اور شرک کی موت خود دیکھتے ہو کہ انسان کو خدا بنا دیا اور خدا تعالیٰ کو بھلا دیا.اور کفر کی موت یہ کہ بچے رسول سے منکر ہو گئے.اب اس تمام تقریر سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کی نسبت یہ گمان کرنا کہ انہوں نے روحانی مردوں کے زندہ کرنے میں قیامت کا نمونہ دکھلایا.سراسر خیال محال اور دعوی بے دلیل ہے بلکہ یہ قیامت کا نمونہ روحانی حیات کے بخشنے میں اس ذات کامل الصفات نے دکھایا جس کا نام مردوں کو زندگی نامی محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم.سارا قرآن اول سے آخر تک یہ شہادت دے رہا ہے کہ آنحضرت نے بخشی یہ رسول اس وقت بھیجا گیا تھا کہ جب تمام قوتیں دنیا کی روح میں مرچکی تھیں اور فساد روحانی نے بر و بحر کو ہلاک کر دیا تھا.تب اس رسول نے آکر نئے سرے سے دنیا کو زندہ کیا اور زمین پر توحید کا دریا جاری کر دیا.اگر کوئی منصف فکر کرے کہ جزیرہ عرب کے لوگ اول کیا تھے اور پھر اس رسول کی پیروی کے بعد کیا ہو گئے.اور کیسی ان کی وحشیانہ حالت اعلیٰ درجہ کی انسانیت تک پہنچ گئی اور کس صدق و صفا سے انہوں نے اپنے ایمان کو اپنے خونوں کے بہانے سے اور اپنی جانوں کے فدا کرنے اور اپنے عزیزوں کو چھوڑنے اور اپنے مالوں اور عزتوں اور آراموں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں لگانے سے ثابت کر دکھلایا تو بلاشبہ ان کی ثابت قدمی اور ان کا صدق اپنے پیارے رسول کی راہ میں ان کی جاں فشانی ایک اعلیٰ درجہ کی کرامت کے رنگ میں اس کو نظر آئیگی.وہ پاک نظر ان کے وجودوں پر کچھ ایسا کام کر گئی کہ وہ اپنے آپ سے کھوئے گئے اور انہوں نے فنافی اللہ ہو کر صدق اور راست بازی کے وہ کام دکھلائے جس کی نظیر کسی قوم میں ملنا مشکل ہے اور جو کچھ انہوں نے عقائد کے طور پر حاصل کیا تھا وہ یہ تعلیم نہ تھی کہ کسی عاجز انسان کو خداماتا جائے یا خدا تعالیٰ کو بچوں کا محتاج ٹھہرایا جائے بلکہ انہوں نے حقیقی خدائے ذوالجلال جو ہمیشہ سے غیر

Page 507

۴۸۹ متبدل اور حی و قیوم اور ابن اور اب ہونے کی حاجات سے منزہ اور موت اور پیدائش سے پاک ہے بذریعہ اپنے رسول کریم کے شناخت کر لیا تھا اور وہ لوگ سچ سچ موت کے گڑھے سے نکل کر پاک حیات کے بلند مینار پر کھڑے ہو گئے تھے اور ہر ایک نے ایک تازہ زندگی پالی تھی اور اپنے ایمانوں میں ستاروں کی طرح چمک اٹھے تھے.سو در حقیقت ایک ہی کامل انسان دنیا میں آیا جس نے ایسے اتم اور اکمل طور پر یہ روحانی قیامت دکھلائی اور ایک زمانہ دراز کے مردوں اور ہزاروں برسوں کے عظیم ر میم کو زندہ کر دکھلایا.اس کے آنے سے قبریں کھل گئیں اور بوسیدہ ہڈیوں میں جان پڑ گئی اور اس نے ثابت کر دکھلایا کہ وہی حاشر اور وہی روحانی قیامت ہے جس کے قدموں پر ایک عالم قبروں میں سے نکل آیا.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۱۹۹ تا ۲۰۷ نیز دیکھیں.ملفوظات.جلد ۳ صفحہ ۱۷۱، ۱۷۲ MO اب پھر ہم پر چہ نور افشاں کے بے بنیاد دعوی کے ابطال کی غرض سے لکھتے ہیں کہ اگر اس محرف و مبدل انجیل کی نسبت جو عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے خاموش رہ کر اس فقرہ کو مردوں کو زندگی دینے صحیح بھی سمجھا جائے کہ حضرت مسیح نے ضرور یہ دعوی کیا ہے کہ قیامت اور زندگی میں ہوں کی تحصیل تو اس سے کچھ حاصل نہیں کیونکہ ایساد علوی جو اپنے ساتھ اپنا ثبوت نہیں رکھتا کسی کے لئے موجب فضیلت نہیں ہو سکتا.اگر ایک انسان ایک امر کی نسبت دعوی نہ کرے مگر وہ امر کر دکھائے تو اس دوسرے انسان سے بدرجہا بہتر ہے کہ دعوی تو کرے مگر اثبات دعوی سے عاجز رہے انجیل خود شہادت دے رہی ہے کہ حضرت مسیح کار علوی اوروں کی نسبت تو کیا خود حواریوں کی حالت پر نظر ڈالنے سے ایک معترض کی نظر میں سخت قابل اعتراض ٹھہرتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح اپنے حواریوں کو بھی نفسانی قبروں میں ہی چھوڑ گئے اور جب ہم حضرت مسیح کے اس دعولی تو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی سے مقابلہ کرتے ہیں تو اس دعوی اور اس دعوی میں ظلمت اور نور کا فرق دکھائی دیتا ہے.حضرت مسیح کا دعوی عدم ثبوت کے ایک تنگ و تاریک گڑھے میں گرا ہوا ہے اور کوئی نور اپنے ساتھ نہیں رکھتا.لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی آفتاب کی طرح چمک رہا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جاودانی زندگی پر

Page 508

۴۹۰ یہ بھی بڑی ایک بھاری دلیل ہے کہ حضرت ممدوح کا فیض جاودانی جاری ہے.اور جو کا شخص اس زمانہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے وہ بلاشبہ قبر میں سے اٹھایا جاتا ہے اور ایک روحانی زندگی اس کو بخشی جاتی ہے نہ صرف خیالی طور پر بلکہ آثار صادقہ اس کے ظاہر ہوتے ہیں اور آسمانی مردیں اور سماوی برکتیں اور روح القدس کی خارق عادت تائیدیں اس کے شامل حال ہو جاتی ہیں اور وہ تمام دنیا کے انسانوں میں سے ایک متفرد انسان ہو جاتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اس سے ہم کلام ہوتا ہے اور اپنے اسرار خاصہ اس پر ظاہر کرتا ہے.عیسائیوں کی یہ سراسر بیہودہ باتیں ہیں کہ مسیح روحانی قیامت تھا اور میسیج میں ہو کر ہم جی اٹھے.حضرات عیسائی خوب یادرکھیں کہ مسیح علیہ السلام کا نمونہ قیامت ہوتا سر موثابت نہیں اور نہ عیسائی جی اٹھے بلکہ مردہ اور سب مردوں سے اول درجہ پر اور تنگ و تاریک قبروں میں پڑے ہوئے اور شرک کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں نہ ایمانی روح ان میں ہے نہ ایمانی روح کی برکت بلکہ ادنیٰ سے ادنی درجہ توحید کا جو مخلوق پرستی سے پر ہیز کرنا ہے وہ بھی ان کو نصیب نہیں ہوا.اور ایک اپنے جیسے عاجز اور ناتوان کو خالق سمجھ کر اس کی پرستش کر وحید کے تین دو رہ رہے ہیں.یادر ہے کہ توحید کے تین درجے ہیں.سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ اپنے جیسی مخلوق کی پرستش نہ کریں.نہ پتھر کی.نہ آگ کی.نہ آدمی کی.نہ کسی ستارہ کی..دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسباب پر بھی ایسے نہ گریں کہ گویا ایک قسم کا ان کو ربوبیت کے کارخانہ میں مستقل دخیل قرار دیں.بلکہ ہمیشہ مستدب پر نظر رہے نہ اسباب پر.تیسرا درجہ توحید کا یہ ہے کہ تجلیات الہیہ کا کامل مشاہدہ کر کے ہر یک غیر وجود کو کالعدم قرار دیں اور ایسا ہی اپنے وجود کو بھی.غرض ہر یک چیز نظر میں فانی دکھائی دے بجز اللہ تعالیٰ کی میں روحانی زندگی ہے ذات کامل صفات کے.یہی روحانی زندگی ہے کہ یہ مراتب ثلاثہ توحید کے حاصل ہو که مراتب ثلاثه توحید کے حاصل ہو جائیں جائیں.اب غور کر کے دیکھ لو کہ روحانی زندگی کے تمام جاودانی چشمے محض حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی طفیل دنیا میں آئے.یہی امت ہے کہ اگر چہ نبی تو نہیں مگر نبیوں کی مانند خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہو جاتی ہے.اور اگر چہ رسول نہیں مگر رسولوں کی مانند خدا تعالیٰ کے روشن نشان اس کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں اور روحانی زندگی کے دریا پر اس میں بہتے ہیں اور کوئی نہیں کہ اس کا مقابلہ کر سکے.کوئی ہے جو برکات اور نشانوں کے دکھلانے کے لئے مقابل میں کھڑا ہو کر ہمارے اس دعوی کا جواب دے ! ! !

Page 509

۴۹۱ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۰ تا ۲۲۴ حضرت عیسی کی اس دعا کا قبول نہ ہونا جو ایسی سخت بے قراری کی حالت میں کی گئی جس کی نسبت وہ آپ کہتا ہے کہ میرا دل نہایت غمگین ہے بلکہ میری موت کی سی حالت ہے.ایک ایسا امر ہے جس سے یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ وہ ہر گز خدا نہ تھا بلکہ انظروری حالت کی دعا ایک عاجز اور ضعیف انسان تھا جو دعا کرتا کرتا مارے غم کے موت تک پہنچ گیا.مگر خدائے غنی بے نیاز نے دعا کو قبول نہ کیا.اگر کہو کہ وہ دعا انسانی روح سے تھی نہ خدائی روح سے اس واسطے منظور نہ ہو سکی.تو ہم کہتے ہیں کہ تمام پاک انبیاء انسان ہی تھے خدائی کا کس کو دعوی تھا.تاہم ان کی دعائیں اضطراب کے وقت منظور ہوتی رہیں.اور کوئی ایک نبی بھی بطور نظیر پیش نہیں ہو سکتا جس نے ایسے وقت میں ایسے اضطراب کے ساتھ جو موت کی سی حالت ہو دعا کی ہو اور قبول نہ ہوئی ہو.ہمارے سید و مولی خیر الرسل محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مکہ معظمہ میں جب دشمنوں نے قتل کرنے کے لئے چاروں طرف سے آپ کے گھر کو گھیر لیا تھا ایسا ہی اضطراب پیش آیا تھا اور آپ نے دعا بھی نہیں کی تھی بلکہ راضی برضا مولی ہو کر خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا تھا.پھر دیکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے کیسا بچالیا.دشمنوں کے بیچ میں سے گذر گئے اور ان کے سر پر خاک ڈال گئے مگر ان کو نظر نہ آسکے.پھر مخالف لوگ برد ایک سراغ شناس کے اس غار تک پہنچے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخفی تھے.مگر اس جگہ بھی خدا تعالیٰ نے دشمنوں کو اندھا کر دیا اور وہ دیکھ نہ سکے.پھر ایک نے ان میں ایسے وقت میں خبر پا کر تعاقب کیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی راہ میں جارہے تھے.مگر وہ اور اس کا گھوڑا ایسے طور سے زمین پر گرے کہ وہ سمجھ گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حق پر ہیں اور خدا ان کے ساتھ ہے.ایسا ہی خسرو پرویز نے جب آپ کو گرفتار کرنا چاہا تو ایک ہی رات میں گرفتار پنجہ اجل ہو گیا.اور ایسا ہی بدر کی لڑائی میں جب کہ مخالف پوری تیاری کر کے آئے تھے اور اس طرف سراسر بے سلمانی تھی خدا تعالیٰ نے وہ نمونہ تائید دکھلایا جس نے روئے زمین پر اسلام کی بنیاد جمادی.اب جب کہ یہ قاعدہ مسلم الثبوت ہے کہ بچے نبیوں کے سخت اضطرار کی ضرور دعا قبول ہو جاتی ہے اور بار بار

Page 510

یہی اعتراض پیش ہو گا کہ اگر مسیح سچا نبی تھا تو اس کی دعا ایسے اضطراب کے وقت میں جس سے موت کی سی حالت اس پر طاری تھی کیوں قبول نہ ہوئی اور اس عذر کا بیہودہ ہوتا تو ظاہر ہو چکا کہ مسیح نے الہی روح کے ساتھ دعا نہیں کی تھی بلکہ انسانی روح کے ساتھ کی تھی اس لئے رو ہو گئی.مسیح نے تو باپ باپ کر کے بہتیرا پکارا اور اپنا بیٹا ہوتا جتلایا مگر باپ نے اس طرف رخ نہ کیا.اگر شک ہو تو آپ انجیل متی کھول کر ۳۹۲ میں یہ آیت پڑھ لو.اور کچھ آگے بڑھ کے منہ کے بل گرا اور دعا مانگتے ہوئے کہا اے میرے باپ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے گذر جائے.عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح خدا تعالیٰ کو الہی روح کے لحاظ سے باپ کہتا تھا.پس اس سے ثابت ہوا کہ یہ دعا اقنوم ابن کی طرف سے تھی تبھی تو باپ کر کے پکار انگر باپ نے پھر بھی منظور نہ کی.تعجب کہ مسیح کا انجیل میں یہ بھی ایک قول ہے کہ مجھے کل اختیار دیا گیا.مگر کیا خاک اختیار دیا گیا.ایک دعا بھی تو منظور نہ ہوئی.اور جب مسیح کی اپنی ہی دعا منظور نہ ہوئی تو اس کا شاگردوں کو یہ کہنا کہ تمہاری دعائیں منظور ہوتی رہیں گی اور کوئی بات انہونی نہ ہوگی کس قدر بے معنی معلوم ہوتی ہے.بعض کہتے ہیں کہ مسیح نے خدا تعالیٰ کی تقدیر کو منظور کر لیا اس لئے دعا منظور نہ ہوئی.یہ بالکل بیہودہ جواب ہے.مسیح نے تو سولی پر چڑھ کر بھی یہی کہا کہ ایلی ایلی لما سبقتنی یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.یہ اس کی طرف اشارہ تھا کہ تو نے میری خواہش کے مطابق کیوں نہ کیا اور میری دعا کیوں قبول نہ کی.اور یہ سوال کہ آخری وقت میں مسیح نے ایلی اپلی کیوں کہا ابی ابی کیوں نہ کہا.اس کا یہی جواب ہے کہ وہ کلمہ محبت کا تھا اور یہ کلمہ خوف کا.اسلئے اس وقت مسیح مارے خوف عظمت الہی کے ابی ابی بھول گیا اور ایلی ایلی یاد آگیا اور بے نیازی الہی کی ایک متجلی دیکھی اور عاجزی شروع کر دی.انسان بے بنیاد کی یہی حالت ہے.جلالی تجلیات کی برداشت نہیں کر سکتا.مسیح کا راضی بقضا ہوتا اس وقت تسلیم کیا جاتا کہ جب اس کو موت اور زندگی کا اختیار دیا جاتا اور یہ کہا جاتا کہ ہماری مرضی تو یہ ہے کہ تجھ کو سولی دے دیں.لیکن اگر تو چاہے تو تجھ کو بچائیں.لیکن یہ واقعہ تو ایسا نہیں ہے بلکہ مسیح نے اپنے افعال سے ظاہر کر دیا کہ وہ بدل و جان یہی چاہتا تھا کہ وہ سولی سے بچ جائے.اس نے دعا کرنے میں کوئی کسر نہ کی اور کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھا اور سولی ۴۹۲

Page 511

۴۹۳ کے خوف سے اس کا دل نہایت غمگین ہوا.یہاں تک کہ اس کی موت کی سی حالت ہو گئی.تمام رات جاگتا رہا دعا کرتا رہا.سجدے کرتا رہا.روتا رہا بلکہ دوسروں سے بھی دعا کر اتا رہا کہ شاید میری نہیں تو انہیں کی دعا منظور ہو جائے.اپنی عزیز جان بچانے کے لئے کیا کچھ بے قراریاں کیں اور اس چند روزہ زندگی کے لئے کس قدر بیتابی ظاہر کی.آخر جب دیکھا کہ بات بنتی نظر نہیں آتی تو کہہ دیا کہ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے گذر جائے، تو بھی میری خواہش نہیں بلکہ تیری خواہش کے مطابق مگر مارے سخت بے قراری کے اس رضا جوئی کے فقرہ پر بھی قائم نہ رہ سکا.آخر موت کے وقت رب جلیل کی شکایت شروع کر دی اور کہا کہ اے میرے خدا، اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.اب دیکھو کہاں گئی وہ رضا جوئی.اگر مسیح باوجود ایسی دعا کے جو جان کی گدازش سے کی گئی تھی پھر بھی در حقیقت سولی مل گیا تو ایسا شخص کسی طور سے نبی نہیں ہو سکتا.حاشا و کلا کیونکہ تمام نبی اضطرار کے وقت میں مستجاب الدعوات ہوتے ہیں.یہ کیسا نبی تھا کہ اضطرار کے وقت اس کی دعاسنی نہ گئی.اور اگر وہ سولی نہیں ملا تو سچا نبی ہے اور ایسے ہی کی قرآن کریم نے تصدیق کی ہے اور توریت بھی یہی ظاہر کرتی ہے.بہر حال اگر مسیح کی وہ دعا منظور ہو گئی ہے اور وہ صلیب سے بچ گیا ہے تو اعتقاد صلیب اور کفارہ باطل.اور اگر ایسے اضطرار کے وقت کی دعا بھی منظور نہیں ہوئی اور صلیب نصیب ہو گئی تو نبوۃ باطل.تعجب کہ بائبل میں یہ قصہ موجود ہے کہ ایک بادشاہ کی پندرہ دن عمر رہ گئی تھی اور جب نبی کی معرفت اس کو خبر دی گئی تو وہ تمام رات دعا کر تا رہا تو خدا تعالیٰ نے اپنی تقدیر کو اس کے لئے بدل دیا اور دعا کو منظور کر لیا اور پندرہ دن کو پندرہ سال کے ساتھ بدل دیا.مگر مسیح کی تمام رات کی دعا باوجود اس قدر دعوؤں کے منظور نہ ہوئی.تعجب کہ کسی پادری صاحب کو سچی حقیقت کی طرف توجہ نہیں اور ان کا کا ئنننس ایک دم کے لئے بھی ان کو ملزم نہیں کرتا کہ وہ شخص جس کی دعا کی حالت ایک بادشاہ کی دعا کی حالت سے بھی گری ہوئی ہے وہ کیونکر سچا نبی ٹھہر سکتا ہے اور اس کی حقیقت تو اس قصہ سے بدیہی طور پر معلوم ہو چکی.حاشیہ اشتہار ۲۷ مئی ۱۸۹۴ ء.مجموعہ اشتہارات - جلد ۲ صفحه ۹ تا ۱۳

Page 512

۴۹۴ موازنه ہمارے سید و مولی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے تو آپ دنیا سے جانے کے لئے دعاکی الحقني بالرفيق الاعلیٰ مگر آپ کے خدا صاحب نے دنیا کی چند روزہ زندگی سے ایسا پیار کیا کہ ساری رات زندہ رہنے کے لئے دعائیں کرتا رہا.بلکہ سولی پر بھی رضا اور تسلیم کا کلمہ منہ سے نہ نکلا.اور اگر نکلا تو یہ نکلا کہ ایلی ایلی نما سبقتی.اے دنیا سے جانے کے لئے دعا کے بلہ میں میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں ترک کر دیا اور خدا نے کچھ جواب نہ دیا کہ اس نے ترک کر دیا.مگر بات تو ظاہر ہے کہ خدائی کا دعوی کیا تکبر کیا گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے آخر وقت میں خیر کیا کہ اگر چاہو تو دنیا میں رہو اور اگر چاہو تو میری طرف آو.آپ نے عرض کیا کہ اے میرے رب اب میں یہی چاہتا ہوں کہ تیری طرف آوں اور آخری کلمہ آپ کا جس پر آپ کی جان مطہر رخصت ہو گئی.یہی تھا بالرفيق الاعلیٰ یعنی اب میں اس جگہ رہنا نہیں چاہتا میں اپنے خدا کے پاس جانا چاہتا ہوں.اب دونوں کلموں کو وزن کرو.آپ کے خدا صاحب نے نہ فقط ساری رات زندہ رہنے کے لئے دعا کی.بلکہ صلیب پر بھی چلا چلا کر روئے کہ مجھے موت سے بچا دعاکی.ئے.مگر کون سنتا تھا.لیکن ہمارے موٹی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے لئے ہر گز دعا نہیں کی.اللہ تعالیٰ نے آپ مختار کیا کہ اگر زندگی کی خواہش ہے تو یہی ہو گا.مگر آپ نے فرمایا کہ اب میں اس دنیا میں رہنا نہیں چاہتا.کیا یہ خدا ہے جس پر بھروسا ہے نور القرآن.حصہ دوم.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۱۰، ۴۱۱ تصویر یسوع مسیح علیہ السلام کی زندگی پر نظر کرو.ساری رات خود دعا کرتے رہے.دوستوں سے کراتے رہے.آخر شکوہ پر اتر آئے.اور ایلی ایلی لما بتقتنی بھی کہہ دیا.یعنی اے میرے خدا.تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.اب ایسی حسرت بھری حالت کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ مامور من اللہ ہے.جو نقشہ پادریوں نے مسیح کی آخری حالت کا جماکر دکھایا ہے وہ تو بالکل مایوسی بخشتا ہے.لائیں تو اتنی تھیں کہ خدا کی پناہ اور کام کچھ بھی نہ کیا ساری عمر میں کل ایک سو بیس آدمی تیار کئے اور وہ بھی ایسے پست خیال اور کم فہم جو خدا کی بادشاہت کی باتوں کو سمجھ ہی نہ سکتے تھے.اور سب سے بڑا مصاحب جس کی بابت یہ فونی تھا کہ جو زمین پر کرے آسمان پر ہوتا ہے اور بہشت کی کنجیاں جس کے ہاتھ میں تھیں.اسی نے سب سے پہلے لعنت کی.اور وہ جو امین اور خزانچی بنایا ہوا تھا.جس کو چھاتی پر

Page 513

۴۹۵ لٹاتے تھے اس نے تمھیں ورم لے کر پکڑوا دیا.اب ایسی حالت میں کب کوئی کہہ سکتا ہے کہ مسیح نے واقعی ماموریت کا حق ادا کیا.اور اس کے مقابل ہمارے نبی کریم کا کیا پکا کام ہے.اس وقت سے جب سے کہا کہ میں ایک کام کرنے کے لئے آیا ہوں.جب تک یہ سن نہ لیا ك الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ آپ دنیا سے نہ اٹھے.جیسے دعوی کیا تھا کہ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا اس دعوے کے مناسب حال ضروری تھا کہ کل دنیا کے مگر و مکائد متفق طور پر آپ کی مخالفت میں کئے جاتے.آپ نے کس حوصلہ اور دلیری کے ساتھ مخالفوں کو مخاطب کر کے کہا کہ فكيدوني جميعا یعنی کوئی دقیقہ مکر کا باقی نہ رکھو.سارے فریب مکر استعمال کرو.قتل کے منصوبے کرو.اخراج اور قید کی تدبیریں کرو مگر یاد رکھو ويُولُونَ الدبر آخر فتح میری ہے ود والحمد سيهزم الجمع.تمہارے سارے منصوبے خاک میں مل جائیں گے.تمہاری جماعتیں منتشر اور پراگندہ ہو جاویں گی اور پیٹھ دے نکلیں گی.جیسے وہ عظیم الشان دعوی إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعاً کسی نے نہیں کیا اور جیسے نگیدونی جمیعا کہنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی.یہ بھی کسی کے منہ سے نہ سهرة الجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ نکلا.سيهزم یہ الفاظ اسی منہ سے نکلے جو خدا تعالیٰ کے سائے کے نیچے الوہیت کی چادر میں لپٹا ہوا پڑا تھا غرض ان وجوہات پر ایک اجنبی آدمی بھی نظر ڈالے تو اس کو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے صاف اور واضح طور پر کتاب اللہ کومستحکم فرمایا ہے.اگر کوئی قانون قدرت پر نظر کرتا ہے تو قول اور فعل الہی کو باہم مطابق پاتا ہے.پھر اگر خوارق پر نظر کرتا ہے.تو اس قدر کثرت سے ہیں کہ حد شمار سے باہر ہیں.یہاں تک کہ آپ کا قول فعل اور حرکات و سکنات سب خوارق ہیں.قوت قدسیہ کو دیکھتا ہے.تو صحابہ کرام کی پاک تبدیلی حیرت میں ڈالتی ہے پھر کامیابی کو دیکھتا ہے تو دنیا بھر کے ماموروں اور مرسلوں سے بڑھ کر تھے لملفوظات.جلد ۲ صفحه ۶۱ تا ۶۳ تصویرنی

Page 514

۴۹۶ ر فطرت پادریوں نے اپنی تالیفات میں اس طرح ہمارے سید و مولیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کھینچ کر دکھلائی ہے کہ گویاوہ ایک شخص ہے جس کی خونی صورت ہے اور غصہ سے بھرا ہوا کھڑا ہے اور ایک تلوار ہاتھ میں ہے اور بعض غریب اور سے بھرا آنحضرت پر پادریوں عیسائیوں وغیرہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے.لیکن اگر ان لوگوں کو کچھ انصاف اور کا بے بنیاد الزام ایمان میں سے حصہ ہوتا تو اس تصویر سے پہلے موسیٰ کی تصویر کھینچ کر دکھلاتے اور اس طرح کھینچتے کہ گویا ایک نہایت سخت دل اور بے رحم انسان ہاتھ میں تلوار لے کر شیر خوار بچوں کو ان کی ملوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے اور ایسا ہی یشوع بن نون کی تصویر پیش کرتے اور اس تصویر میں دکھلاتے.کہ گویا اس نے لاکھوں بے گناہ بچوں کو ان کی ملوں کے سمیت ٹکڑے ٹکڑے کر کے میدان میں پھینک دیا.اور چونکہ ان کے عقیدہ کے موافق یسوع خدا ہے.اور یہ ساری بے رحمی کی کاروائیاں اس کے حکم سے ہوئی ہیں.اور وہ مجسم خدا ہے جیسا کہ بیان ہو چکا.تو اس صورت میں نہایت ضروری تھا کہ سب سے پہلے اس کی تصویر کھینچ کر اس کے ہاتھ میں کم سے کم تین تلواریں دی ن جاتیں.پہلی وہ تلوار جو اس نے موسی کو دی اور بے گناہ شیر خوار بچوں کو قتل کروایا.دوسری وہ تلوار جو یشوع بن نون کو دی.تیسری وہ تلوار جو داود کو دی.افسوس ! کہ اس حق پوش قوم نے بڑے بڑے ظلموں پر قم باندھ رکھی ہے.انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۳۷،۳۶ دوسری نصیحت اگر پادری صاحبان سنیں تو یہ ہے کہ وہ ایسے اعتراض سے پر ہیز آنحضرت کی جنگیں کریں جو خود ان کی کتب مقدسہ میں پایا جاتا ہے.مثلاً ایک بڑا اعتراض جس ور اسرائیل انیمیا کی سے بڑھ کر شاید ان کی نظر میں اور کوئی اعتراض پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ہے جنگوں میں سیرت وہ لڑائیاں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باذن اللہ ان کفار سے کرنی پڑیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں تیرہ برس تک انواع اقسام کے ظلم کئے اور ہر یک طریق سے ستایا اور دکھ دیا اور پھر قتل کا ارادہ کیا.جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معہ اپنے اصحاب کے مکہ چھوڑنا پڑا اور پھر بھی باز نہ آئے اور تعاقب کیا اور ہریک بے ادبی اور تکذیب کا حصہ لیا اور جو مکہ میں ضعفاء مسلمانوں میں سے رہ گئے تھے ان کو غایت درجہ دکھ دینا شروع کیا.لہذاوہ لوگ خدا تعالیٰ کی نظر میں اپنے ظالمانہ

Page 515

۴۹۷ کاموں کی وجہ سے اس لائق ٹھہر گئے کہ ان پر موافق سنت قدیمہ الہیہ کے کوئی عذاب نازل ہو اور اس عذاب کی وہ قومیں بھی سزاوار تھیں جنہوں نے مکہ والوں کو مدد دی اور نیز وہ قومیں بھی جنہوں نے اپنے طور سے ایذا اور تکذیب کو انتہا تک پہنچایا.اور اپنی طاقتوں سے اسلام کی اشاعت سے مانع آئے.سو جنہوں نے اسلام پر تلوار میں اٹھائیں وہ اپنی شوخیوں کی وجہ سے تلواروں سے ہی ہلاک کئے گئے.اب اس صورت کی لڑائیوں پر اعتراض کرنا اور حضرت موسیٰ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کی ان لڑائیوں کو بھلا دینا جن میں لاکھوں شیر خوار بچے قتل کئے گئے.کیا یہ دیانت کا طریق ہے یا نا حق کی شرارت اور خیانت اور فساد انگیزی ہے.اس کے جواب میں حضرات عیسائی یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائیوں میں بہت ہی نرمی پائی جاتی ہے کہ اسلام لانے پر چھوڑا جاتا تھا اور شیر خوار بچوں کو قتل نہیں کیا.اور نہ عورتوں کو اور نہ بڑھوں کو اور نہ فقیروں اور مسافروں کو مارا.اور نہ عیسائیوں اور یہودیوں کے گر جاؤں کو مسماد کیا.لیکن اسرائلی نبیوں نے ان سب باتوں کو کیا.یہاں تک کہ تین لاکھ سے بھی کچھ زیادہ شیر خوار بچے قتل کئے گئے.گویا حضرات پادریوں کی نظر میں اس نرمی کی وجہ - اسلام کی لڑائیاں قابل اعتراض ٹھہریں کہ ان میں وہ سختی نہیں جو حضرت موسیٰ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کی لڑائیوں میں تھی.اگر اس درجہ کی سختی پر یہ لڑائیاں بھی ہوئیں تو قبول کر لیتے کہ در حقیقت یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.اب ہر یک عقلمند کے سوچنے کے لائق ہے کہ کیا یہ جواب ایمانداری کا جواب ہے.حلانکہ آپ ہی کہتے ہیں کہ خدار تم سے اور اس کی سزار جسم سے خالی نہیں.پھر جب موسیٰ کی لڑائیاں باوجود اس تختی کے قبول کی گئیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ٹھہریں تو کیوں اور کیا وجہ کہ یہ لڑائیاں جو الہی رحم کی خوشبو ساتھ رکھتی ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوئیں.اور ایسے لوگ کہ ان باتوں کو بھی خدا تعالیٰ کے احکام سمجھتے ہیں کہ شیر خوار بچے ان کی ماؤں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں اور ماؤں کو ان کے بچوں کے سامنے بے رحمی سے مارا جاوے.وہ کیوں ان لڑائیوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھیں جن میں یہ شرط ہے کہ پہلے مظلوم ہو کر پھر ظالم کا مقابلہ کرو.آریہ دھرم - روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۸۱ تا ۸۳ حاشیه

Page 516

۴۹۸ حضرت مسیح کے حواریوں کی حالت خود انجیل سے ظاہر ہے حاجت تصریح نہیں اور یہ بات کہ یہودی جن کے لئے حضرت مسیح نبی ہو کر آئے تھے کس قدران کی زندگی میں ہدایت پذیر ہو گئے تھے.یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ کسی پر پوشیدہ نہیں.بلکہ اگر حضرت مسیح کی نبوت حضرت مسیح پر قرآن کو اس معیار سے جانچا جائے تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی نبوت اس کریم کا احسان معیار کی رو سے کسی طرح ثابت نہیں ہو سکتی.کیونکہ اول نبی کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت آوے کہ جب فی الواقعہ اس امت کی حالت دینداری تباہ ہو گئی ہو جس کی طرف وہ بھیجا گیا ہے.لیکن حضرت مسیح یہود کو ایسا الزام کوئی بھی نہیں دے سکے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ انہوں نے اپنے اعتقاد بدل ڈالے ہیں یا وہ چور اور زناکار اور قمار باز وغیرہ ہو گئے ہیں.یا انہوں نے توریت کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کی پیروی اختیار کرلی ہے بلکہ خود گواہی دی کہ فقیہ اور فریسی موٹی کی گدی پر بیٹھے ہیں.اور نہ یہود نے اپنے بد چلن اور بد کار ہونے کا اقرار کیا.پھر دوسرے بچے نبی کی سچائی پر بھاری دلیل ہوتی ہے کہ وہ کامل اصلاح کا بھاری نمونہ دکھلا دے.پس جب ہم اس نمونہ کو حضرت مسیح کی زندگی میں غور کرتے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے کو نبی اصلاح کی اور کتنے لاکھ یا ہزار آدمی نے ان کے ہاتھ پر توبہ کی تو یہ خانہ بھی خالی پڑا ہوا نظر آتا ہے.ہاں باراں حواری ہیں.اعمال تو.مگر جب ان کا اعمال نامہ دیکھتے ہیں تو دل کانپ اٹھتا ہے اور افسوس آتا ہے کہ یہ لوگ کیسے تھے کہ اس قدر اخلاص کا دعوی کر کے پھر ایسی ناپاکی دکھلاویں جس کی نظی دنیا میں نہیں.کیا میں روپے لے کر ایک بچے نبی اور پیارے رہنما کو خونیوں کے حوالہ کرنا حواری کہلانے کی یہی حقیقت تھی کیا لازم تھا کہ پطرس جیسا حواریوں کا سردار حضرت مسیح کے سامنے کھڑے ہو کر ان پر لعنت بھیجے اور چند روزہ زندگی کے لئے اپنے مقتدا کو اس کے منہ پر گالیاں دے.کیا مناسب تھا کہ حضرت مسیح کے پکڑے جانے کے وقت میں تمام حواری اپنا اپنا راہ لیں اور ایک دم کے لئے بھی صبر نہ کریں جن کا پیارا نہی قتل کرنے کے لئے پکڑا جائے ایسے لوگوں کے صدق و صفا کے یہی نشان ہوا کرتے ہیں جو حواریوں نے اس وقت دکھلائے.ان کے گذر جانے کے بعد مخلوق پرستوں نے باتیں بنائیں اور آسمان پر چڑہا دیا.مگر جو کچھ انہوں نے اپنی زندگی میں اپن ایمان دکھلایا وہ باتیں تواب تک انجیلوں میں موجود ہیں.غرض وہ دلیل جو نبوت اور رسالت کے مفہوم سے ایک

Page 517

۴۹۹ نچے نبی کے لئے قائم ہوتی ہے وہ حضرت مسیح کے لئے قائم نہیں ہو سکی.اگر قرآن ان کی نبوت کا بیان نہ کرتا تو ہمارے لئے کوئی بھی راہ کھلی نہیں تھی کہ ہم ان کو بچے نبیوں کے سلسلہ میں داخل کر سکیں.کیا جس کی یہ تعلیم ہو کہ میں ہی خدا ہوں اور خدا کا بیٹا اور بندگی اور فرمانبرداری سے آزاد اور جس کی عقل اور معرفت صرف اس قدر ہو کہ میری خود کشی سے لوگ گناہ سے نجات پا جائیں گے.ایسے آدمی کو ایک دم کے لئے بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ دلنا لور اور است پر ہے.مگر الحمد للہ کہ قرآنی تعلیم نے ہم پر یہ کھول دیا کہ ابن مریم پر یہ سب جھوٹے الزام ہیں.انجیل میں تثلیث کا نام و نشان نہیں.ایک عام محاورہ لفظ ابن اللہ کا جو پہلی کتابوں میں آدم سے لے کر اخیر تک ہزار ہا لوگوں پر بولا گیا تھا وہی عام لفظ حضرت مسیح کے حق میں انجیل میں آگیا.پھر بات کا بتنگڑ بنایا گیا.یہاں تک کہ حضرت مسیح اسی لفظ کی بنیاد پر خدا بھی بن گئے.حالانکہ نہ کبھی مسیح نے خدائی کا دعوی کیا اور نہ کبھی خود کشی کی خواہش ظاہر کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ایسا کر تا تو راست بازوں کے دفتر سے اس کا نام کاٹا جاتا.یہ بھی مشکل سے یقین ہوتا ہے کہ ایسے شرمناک جھوٹ کی بنیاد حواریوں کے خیالات کی بر کشتگی نے پیدا کی ہو کیونکہ سوان کی نہیبت جیسا کہ انجیل میں بیان کیا گیاہے یہ صحیح بھی ہو کہ وہ موٹی عقل کے آدمی اور جلد تر غلطی کھانے والے تھے.لیکن ہم اس بات کو قبول نہیں کر سکتے کہ وہ ایک نبی کے صحبت یافتہ ہو کر ایسے بیہودہ خیالات کی جنس کو اپنی ہتھیلی پر لئے پھرتے تھے.مگر انجیل کے حواشی پر نظر کرنے سے اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ساری چالبازی حضرت پولس کی ہے.جس نے پولیٹیکل چالبازوں کی طرح عمیق مکروں سے کام لیا ہے.غرض جس ابن مریم کی قرآن نے ہم کو خبر دی ہے وہ اسی ازلی ابدی ہدایت کا پابند تھا جو مریم نے ہم وہ تھاجو ابتداء سے بنی آدم کے لئے مقرر کی گئی ہے.لہذا اس کی نبوت کے لئے قرآنی ثبوت کافی ہے گوانجیل کی رو سے کتنے ہی شکوک و شبہات اس کی نبوت کے بارے میں پیدا ہوں..نور القرآن حصہ اول.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۳۶۹ تا ۳۷۲ ان پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بڑے احسانات ہیں کہ آپ نے ہر طرح کے الزامات سے ان کو بری کیا جو کہ یہودی لوگ ان پر لگاتے تھے.ورنہ وہ تو بیچارے جس انة آنحضرت کے مبیع پر احسانات

Page 518

۵۰۰ دن سے پیدا ہوئے اسی دن سے لوگوں کی لعنت کے مورد ہوئے.کیا یہودیوں نے ان کے ساتھ تھوڑی کی ہے.ابتدا بھی ان کی لعنت سے ہے اور انتہا بھی لعنت سے ہے دراصل تو ان کا مصدق کوئی نظر نہیں آتا.یہود تو لعنت کرتے ہی تھے جو حواری تھے وہ بھی لعنت کرتے تھے.ایک نے ان میں سے تین بار لعنت کی.پھر چھوڑ کر چلے گئے.صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ان کے مصدق بنے کہ ہر ایک عیب سے ان کی برتیت کی.بھلا اس سے بڑھ کر کیا احسان ہو سکتا ہے کہ بجائے لعنت کے رحمت کا خطاب ان کو دلایا.اب کروڑوں مسلمان رحمتہ اللہ کا لفظ ان کے لئے بولتے ہیں.ملفوظات.جلد ۴ صفحہ ۱۷۷ - حاشیہ یہ صحیح نہیں ہے کہ صحابہ حضرت مسیح کی اس شان کے قائل تھے جو خدائی کی ناواقف مسلمانوں نے ان کی بنارکھی ہے.اگر وہ مسیح کو اسی شان سے مانتے کہ وہ حقیقی مردے مسیح آنحضرت نے ہی کا زندہ کرتے تھے اور حتی وقیوم تھے تو ایک بھی مسلمان نہ ہوتا.اور اگر رسول اللہ صلی اللہ تمریہ کیا وسلم سے بڑھ کر ان کی صفات کو یقین کرتے تو وہ اخلاص اور وفاداری ان میں پیدانہ حضرت عیسی علیہ السلام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا احسان ہے کہ آپ نے ان کا تبریہ کیا اور ان الزاموں سے پاک کیا جوان پر نا پاک یہودی لگاتے تھے.جو یہودی مسلمان ہو تا تھا کتنی بڑی بات ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی رسالت کا اسے پہلے اقرار کرنا پڑتا عیسائی مذہب ایسا ہے کہ اس کو پیدا ہوتے ہی صدمہ پہنچا جیسے کوئی لڑکی پیدا ہوتے ہی اندھی ہو.ایسا ہی اس مذہب کا حال ہے.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر احسان کیا اور اس کو پاک کیا.ملفوظات.جلد ۴ صفحہ ۱۷۶، ۱۷۷ اب خدا تعالیٰ کا یہی ارادہ ہے کہ تمام قوموں کو جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ایک قوم بنا پیغام کی وسعت کے دے اور ہزار ہا برسوں کے بچھڑے ہوؤں کو پھر باہم ملادے.اور یہ خبر قرآن شریف میں موجود ہے اور قرآن شریف نے ہی کھلے طور پر دعوی کیا ہے کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کے لحاظ سے موازنہ

Page 519

۵۰۱ لئے آیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے يَاتِهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا یعنی تمام لوگوں کو کہہ دے کہ میں تم سب کے لئے رسول ہو کر آیا ہوں.اور پھر فرماتا ہے.وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ یعنی میں نے تمام عالموں کے لئے تجھے رحمت کر کے بھیجا ہے.اور پھر فرماتا ہے.لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا یعنی ہم نے اس لئے بھیجا ہے کہ تمام دنیا کو ڈراوے.لیکن ہم بڑے زور سے کہتے ہیں کہ قرآن شریف سے پہلے دنیا کی کسی الہامی کتاب نے یہ دعوی نہیں کیا بلکہ ہر ایک نے اپنی رسالت کو اپنی قوم تک ہی محدود رکھا یہاں تک کہ جس نبی کو عیسائیوں نے خدا قرار دیا اس کے منہ سے بھی یہی نکلا کہ میں اسرائیل کی بھیٹروں کے سوا اور کسی طرف نہیں بھیجا گیا.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۷۶ وہ تمام باتیں جس سے مسیح کو زندہ آسمان پر چڑہایا گیا اور فقط اسی کو زندہ رسول اور معصوم رسول میں شیطان سے پاک اور ہزاروں مردوں کو زندہ کرنے والا اور بے شمار آنحضرت کے محلد پرندوں کو پیدا کرنے والا اور قریباً نصف میں خدا کا شریک سمجھا گیا تھا.اور علیہ آفتاب کی طرح دوسرے تمام نبی مردے اور عاجز اور متش شیطان سے آلودہ سمجھے گئے تھے جنہوں نے چمک اٹھے ایک لکھتی بھی پیدا نہ کی.یہ تمام افتراء اور جھوٹ کے طلسم خدا نے مجھے مبعوث فرما کر ایسے توڑ دیئے کہ جیسے ایک کاغذ کا تختہ لپیٹ دیا جائے اور خدا نے عیسی بن مریم سے تمام زوائد کو الگ کر کے معمولی انسانی درجہ پر بٹھادیا اور اس کو دوسرے نبیوں کے افعال اور خوارق کی نسبت ایک ذرہ خصوصیت نہ رہی اور ہر ایک پہلو سے ہمارے سید و مولیٰ نبی الوری محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد عالیہ آفتاب کی طرح چمک اٹھے.اے خدا! ہم تیرے احسانوں کا کیونکر شکر ادا کریں کہ تو نے ایک تنگ و تاریک قبر سے اسلام اور مسلمانوں کو باہر نکالا اور عیسائیوں کے تمام فخر خاک میں ملا دیئے اور ہمارا قدم جو محمدی گروہ ہیں ایک بلند اور نہایت اونچے مینار پر رکھ دیا.ہم نے تیرے نشان جو محمدی

Page 520

رسالت پر روشن دلائل ہیں اپنی آنکھوں سے دیکھے.تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۲۳۹ ۵۰۲

Page 521

باب دہم حضرت مسیح علیہ السلام کے : نشانات ، معجزات اور پیش گوئیاں أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِنَايَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الدِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأَخِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ في بيوتكم إن في ذاكَ لآيَة لَكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ سورة ال عمران

Page 522

خدائے تعالی اپنے اذن اور ارادہ سے کسی شخص کو موت اور حیات اور ضرر اور نفع کا مالک نہیں بناتا نہی لوگ دعا اور تضرع سے معجزہ مانگتے ہیں.معجزہ نمائی کی ایسی قدرت نہیں رکھتے جیسا کہ انسان کو ہاتھ پیر ہلانے کی قدرت ہوتی ہے.غرض معجزہ کی حقیقت اور مرتبہ سے یہ امر بالاتر اور ان صفات خاصہ خدا تعالی میں سے ہے جو کسی حالت میں بشر کو مل نہیں سکتیں.معجزہ کی حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالی ایک امر خارق عادت یا ایک امر خیال اور گمان سے باہر اور امید سے بڑھ کر ایک اپنے رسول کی عزت اور صداقت ظاہر کرنے کے لئے اور اس کے مخالفین کی بجز اور مغلوبیت جتلانے کی غرض سے اپنے ارادہ خاص سے یا اس رسول کی دعا اور درخواست سے آپ ظاہر فرماتا ہے مگر ایسے طور سے جو اس کی صفات وحدانیت و تقدس و کمال کے منافی و مغائر نہ ہو اور کسی دوسرے کی وکالت یا کار سازی کا اس میں کچھ دخل نہ ہو.ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۶۰ ، ۲۶۱ حاشیه

Page 523

۵۰۵ قرآن شریف میں حضرت مسیح ابن مریم کے معجزات کا ذکر اس غرض سے مجربات زیادہ ہوئے ہیں بلکہ اس غرض سے ہے کہ یہودی اس کے معجزات سے قطعا منکر تھے اور قرآن شریف نے اس کو فریبی اور مکار کہتے تھے پس خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہودیوں کے دفع سود ہوں گے دفع اعتراض کے لئے مسیح ابن مریم کو صاحب معجزہ قرار دیا.اعتراض کے لئے مسیح ابن مریم کو صاحب نیم دعوت صفحه ۱۶/۱۵ مور قرار دیا ۳۵۲ مجربات تین قسم کے ہوتے ہیں.دعائیہ، ارہا صیہ اور قوت قدسیہ کے مجرات.ارہا میہ میں دعا کو دخل نہیں ہوتا.قوت قدسیہ کے مجربات ایسے ہوتے ہیں.جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی میں انگلیاں رکھ دی تھیں اور لوگ پانی پیتے چلے جوتے تین قسم کے گئے.یا کنویں میں لب گراد یا اور اس کا پانی میٹھا ہو گیا مسیح کے معجزات اس قسم کے بھی ہوتے ہیں تھے.خود ہم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۴ مورخه ۲۶ جولائی ۱۹۰۸ء صفحه ۳ ۱۳۵۳ پھر میں دعوت حق کی غرض سے دوبارہ اتمام حجت کرتا ہوں کہ یہ حقیقی نجات اور حقیقی نجات کے برکات اور ثمرات صرف انہیں لوگوں میں موجود ہیں جو حضرت محمد اللہ تعالی صرف نشان مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے اور قرآن کریم کے احکام کے بچے تا بعدار دکھانے کا وعدہ دیتا ہیں اور میراد علوی قرآن کریم کے مطابق صرف اتنا ہے کہ اگر کوئی حضرت عیسائی صاحب ہے اس نجات حقیقی کے منگر ہوں جو قرآن کریم کے وسیلہ سے مل سکتی ہے تو انہیں اختیار ہے کہ وہ میرے مقابل پر نجلت حقیقی کی آسمانی نشانیاں اپنے مسیح سے مانگ کر پیش

Page 524

۵۰۶ کریں مگر رعا لراب بالخصوص رعایت شرایط بحث کے لحاظ سے میرے مخاطب اس بارہ میں ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب ہیں.صاحب موصوف کو چاہئے کہ انجیل شریف کی علامات قرار دادہ کے موافق سچا ایماندار ہونے کی نشانیاں اپنے وجود میں ثابت کریں اور اس طرف میرے پر لازم ہو گا کہ میں سچا ایماندار ہونے کی نشانیاں قرآن کریم کے رو سے اپنے وجود میں ثابت کروں.مگر اس جگہ یادر ہے کہ قرآن کریم ہمیں اقتدار نہیں بخشا بلکہ ایسے کلمہ سے ہمارے بدن پر لرزہ آتا ہے.ہم نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کا نشان دکھلائے گاوہی خدا ہے سوا اس کے اور کوئی خدا نہیں ہاں یہ ہماری طرف سے اس بات کا عہد پختہ ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ نے میرے پر ظاہر کر دیا ہے کہ ضرور مقابلہ کے وقت میں فتح پاؤں گا.مگر یہ معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کس طور سے نشان دکھلائے گا اصل مدعا تو ہے کہ نشان ایسا ہو کہ انسانی طاقتوں سے بڑھ کر ہو یہ کیا ضرور ہے کہ ایک بندہ کو خدا ٹھرا کر اقتدار کے طور پر اس سے نشان مانگا جائے ہمارا یہ مذہب نہیں اور نہ ہمارا یہ عقیدہ ہے اللہ جل شانہ ہمیں صرف عموم اور کلی طور پر نشان دکھلانے کا وعدہ دیتا ہے.ا اس میں میں جھوٹا نکلوں تو جو سزا آپ تجویز کریں خواہ سزائے موت ہی کیوں نہ ہو مجھے منظور ہے.لیکن اگر آپ حد اعتدال و انصاف کو چھوڑ کر مجھ سے ایسے نشان چاہیں گے جس طرز سے حضور مسیح بھی دکھلا نہیں سکتے بلکہ سوال کرنے والوں کو ایک دو گالیاں سناویں تو ایسے نشان دکھلانے کا دم مارنا بھی میرے نزدیک کفر ہے.جنگ مقدس روحانی خز آئن جلد ۶ صفحه ۱۵۶ ۱۵۷ یہ بھی یادر کھنا چاہئے کو جو کچھ عجائب و غرائب اہل حق پر منکشف ہوتے ہیں اور جو کچھ برکات ان میں پائے جاتے ہیں وہ کسی طالب پر تب کھونے جاتے ہیں کہ جب وہ طالب حضرت مسیح نے موجود کمال صدق اور اخلاص سے بہ نیت ہدایت پانے کے رجوع کرتا ہے اور جب وہ ایسے طور دکھانے سے انکار کیا سے رجوع کرتا ہے تو تب جس قدر اور جس طور سے انکشاف مقدر ہوتا ہے وہ بارادہ خالص الہی ظہور میں آتا ہے مگر جس جگہ سائل کے صدق اور نیت میں کچھ فتور ہوتا ہے اور سینہ خلوص سے خالی ہوتا ہے تو پھر ایسے سائل کو کوئی نشان دکھلایا نہیں جاتا.یہی عادت خداوند تعالیٰ انبیاء کرام سے ہے جیسا کہ یہ بات انجیل کے مطالعہ سے نہایت ظاہر ہے کہ کئی مرتبہ یہودیوں نے مسیح سے کچھ معجزہ دیکھنا چاہا.تو اس نے معجزہ دکھلانے سے

Page 525

۵۰۷ صاف انکار کیا اور کسی گزشتہ معجزہ کا بھی حوالہ نہ دیا.چنانچہ مرقس کی انجیل کے آٹھ باب اور باراں آیت میں بھی اس کی تصریح ہے اور عبارت مذکوریہ ہے.تب فریسی نکلے اور اس سے (یعنی مسیح سے) حجت کر کے اس کے امتحان کے لئے آسمان سے کوئی نشان چاہا.اس نے اپنے دل میں آہ کھینچ کر کہا اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جائے گا.سو اگر چہ بظاہر دلالت عبارت اسی پر ہے کہ مسیح سے کوئی معجزہ صادر نہیں ہوا لیکن اصلی معنے اس کے یہی ہیں کہ اس وقت تک مسیح سے کوئی معجزہ ظہور میں نہیں آیا تھاتب ہی اس نے کسی گزشتہ متجزہ کا حوالہ نہیں دیا کیونکہ یہود میں صاحب صدق اور اخلاص تم تھے تاکسی کے حسن ارادت کے لحاظ سے کوئی معجزہ ظہور میں آتا.لیکن اس کے بعد جب لوگ صاحب صدق اور ارادت پیدا ہو گئے اور طالب حق بن کر مسیح کے پاس آئے تو وہ معجزات دیکھنے سے محروم نہیں رہے چنانچہ یہودا اسکر یوطی کی خراب نیت پر مسیح کا مطلع ہو جاتا یہ اس کا ایک معجزہ ہی تھا جو اس نے اپنے شاگردوں اور صادق الاعتقاد لوگوں کو دکھلایا.اگرچہ اس کے دوسرے سب عجیب کام باعث قصہ حوض اور بوجہ آیت مذکورہ بالا کے مخالف کی نظر میں قابل انکار اور محل اعتراض ٹھر گئے اور اب بطور حجت مستعمل نہیں ہو سکتے.لیکن معجزہ مذکورہ بالا منصف مخالف کی نظر میں بھی ممکن ہے کہ ظہور میں آیا ہو.غرض منجزات اور خوارق کے ظہور کے لئے طالب کا صدق اور اخلاص شرط ہے.اور صدق اور اخلاص کے یہی آثار و علامات ہیں کہ کینہ اور مکابرہ درمیان نہ ہو.اور صبر اور ثبات اور غربت اور تذکل سے بہ نیت ہدایت پانے کے کوئی نشان طلب کیا جائے اور پھر اس نشان کے ظہور تک صبر اور ادب سے انتظار کیا جائے تا خداوند کریم وہ بات ظاہر کرے جس سے طالب صادق یقین کامل کے مرتبہ تک پہنچ جائے.براہین احمدیہ - روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۵۲،۴۵۱ بقیه حاشیه در حاشیہ نمبر ۳ ۳۵۵ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام سے کئی معجزات دیکھے مگر ان سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا اور انکار کرنے کے لئے ایک دوسرا پہلو لے لیا کہ ایک شخص کی بعض پیش گوئیاں سچ کے بھوت سے پوری نہیں ہوئیں جیسا کہ باراں تختوں کی پیش گوئی جو حواریوں کے لئے کی گئی تھی.ان یہود نے قائم نہ اٹھایا نے فائدہ

Page 526

۵۰۸ میں سے ایک مرتد ہو گیا.یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا دعوی بے بنیاد ثابت ہوا اور پھر تاویل کی گئی کہ میری مراد اس سے آسمانی بادشاہت ہے.اور یہ بھی پیش گوئی حضرت مسیح نے کی تھی کہ ابھی اس زمانہ کے لوگ زندہ ہوں گے کہ میں پھر دنیا میں آؤں گا.مگر یہ پیش گوئی بھی صریح طور پر جھوٹی ثابت ہوئی.اور پھر پہلے نبیوں نے مسیح کی نسبت یہ پیش گوئی کی تھی کہ وہ نہیں آئے گا جب تک کہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہ آجائے مگر الیاس نہ آیا.اور یسوع ابن مریم نے یو انہی مسیح موعود ہونے کا دعوی کر دیا حالانکہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہ آیا.اور جب پوچھا گیا تو الیاس موعود کی جگہ یوحنا یعنی بھی نبی کو الیاس ٹہرا دیا.تا کسی طرح مسیح موعود بن جائے حالانکہ پہلے نبیوں نے آنے والے الیاس کی نسبت ہر گز یہ تاویل نہیں کی اور خود یوحنا نبی نے الیاس سے مراد وہی الیاس مراد رکھا جو دنیا سے گذر گیا تھا.مگر مسیح نے یعنی یسوع بن مریم نے اپنی بات بنانے کے لئے پہلے نبیوں اور تمام راست بازوں کے اجماع کے بر خلاف الیاس آنے والے سے مراد یوتا اپنے مرشد کو قرار دے دیا اور عجیب یہ کہ یوحنا اپنے الیاس ہونے سے خود منکر ہے مگر تاہم نیسوع ابن مریم نے زبر دستی اس کو الیاس شہر اہی دیا.اب سوچنے کی بات ہے کہ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے نشانوں سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا اور اب تک کہتے ہیں کہ اس سے کوئی معجزہ نہیں ہوا صرف مکرو فریب تھا.اسی لئے حضرت مسیح کو کہنا پڑا کہ اس زمانہ کے حرامکار مجھ سے معجزہ مانگتے ہیں انہیں کوئی معجزہ دکھایا نہیں جائے گا.در حقیقت معجزات کی مثال ایسی ہے جیسے چاندنی رات کی روشنی جس کے کسی حصہ میں کچھ بادل بھی ہو مگر وہ شخص جو شب کو ر ہو جو رات کو کچھ دیکھ نہیں سکتا اس کے لئے یہ معجزات سے فائدہ کون چاندنی کچھ مفید نہیں.ایسا تو ہر گز نہیں ہو سکتا اور نہ کبھی ہوا کہ اس دنیا کے مجربات اسی رنگ سے ظاہر ہوں جس رنگ سے قیامت میں ظہور ہو گا.مثلاً دو تین سو مردے زندہ ہو جائیں اور بہشتی پھل ان کے پاس ہوں اور دوزخ کی آگ کی چنگاریاں بھی پاس رکھتے ہوں اور شہر شہر دورہ کریں اور ایک نبی کی سچائی پر جو قوم کے درمیان ہو گواہی دیں اور لوگ ان کو شناخت کرلیں کہ در حقیقت یہ لوگ مر چکے تھے اور اب زندہ ہو گئے ہیں اور وعظوں اور لیکچروں سے شور مچادیں کہ در حقیقت یہ شخص جو نبوت کا دعوی کرتا ہے سچا ہے.سویا درہے کہ ایسے معجزات کبھی ظاہر نہیں ہوئے اور نہ آئندہ قیامت سے سے اٹھا سکتا ہے

Page 527

۵۰۹ پہلے کبھی ظاہر ہوں گے.اور جو شخص دعوی کرتا ہے کہ ایسے معجزات کبھی ظاہر ہو چکے ہیں وہ محض بے بنیاد قصوں سے فریب خوردہ ہے اور اس کو سنت اللہ کا علم نہیں اگر ایسے منتجات ظاہر ہوتے تو دنیا دنیا نہ رہتی اور تمام پر دے کھل جاتے اور ایمان لانے کا ایک ذرہ بھی ثواب باقی نہ رہتا.براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۲ تا ۴۴ حضرت عیسی علیہ السّلام کے حواریوں میں ہی دیکھو کہ یہودا اسکریوطی کیونکر اول سے اخیر تک صحبت میں رہ کر صرف تیس روپیہ کے لالچ سے مرتد ہو گیا پطرس نے بھی معجزات ، تین مرتبہ لعنت کی.باقی سب بھاگ گئے شاید حواریوں کی بد اعتقادی کا موجب وہی صورت ہی کی باتوں اور حواریوں کی اصلاح واقعات ہوں گے جو انجیل متی کے چھبیس باب میں بتفصیل درج ہیں.کیونکہ حضرت نہ کر سکے عوالي عیسی تمام رات جاگتے رہے اور اپنی رہائی کے لئے دعا مانگی اور حواریوں کو بھی کہا کہ تم بھی دعا مانگو مگر وہ قبول نہیں ہوئی.اور جس قدر تکلیف مقدر تھی پہنچ گئی.اس دعا میں حضرت مسیح نے یہ بھی کہا کہ میرا دل نہایت غمگین ہے بلکہ میری موت کی سی حالت ہے مگر دعا کے نہ قبول ہونے حواری بدظن ہو گئے اور یہ امر قابل بحث کہ حضرت عیسی نے نبی ہو کر اپنی جان بچانے کے لئے اس قدر کیوں اضطراب کیا.حاصل کلام یہ کہ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کے حواری اکثر مرتد ہوتے رہے اور اس آخری واقعہ سے پہلے بھی ایک جماعت کثیر مرتد ہو گئی تھی بلکہ ایک اور مقام میں حضرت عیسی و پیش گوئی کے طور پر فرماتے ہیں کہ بعض میرے پر ایمان لانے والے پھر مرتد ہو جائیں گے.اور خود حضرت عیسی علیہ السّلام کے تحقیقی بھائی ہی ان سے راہ راست پر نہ آسکے.چنانچہ جان ڈیون پورٹ صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے بھائی ان سے ہمیشہ بگڑے ہی رہے بلکہ ایک دفعہ انہوں نے قید کرانے کے لئے گورنمنٹ میں درخواست بھی کر دی تھی.پھر جب کہ وہ لوگ جو اسی ماں کے پیٹ سے نکلے تھے جس پیٹ سے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نکلے تھے حضرت عیسی " سے درست نہ ہو سکے تو پھر عوام کی سرسری بیعتوں کی بناء پر کیوں اعتراض کیا جائے.حضرت عیسی کے بھائی سمجھنے والوں کے لئے ایک نہایت عمدہ نمونہ ہے کہ ایک بھائی تو پیغمبر اور چار حقیقی بھائی بے دین بلکہ دشمن دین اور وہ بھائی باوجود دن رات کے تعلقات کے ایسے سخت منکر رہے کہ ان سے

Page 528

۵۱۰ یہ بھی نہ ہو سکا کہ کسی نشان کے ہی قائل ہو جائیں.تعجب کہ کسی اعجوبہ کے بھی قائل نہ ہوئے اور نہ اس بات کے قائل کہ حضرت عیسی کی نسبت پہلی کتابوں میں کوئی پیش گوئی ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ وہی پرانا الزام تالاب معجزہ نما کا جواب تک حضرت عیسی کے سر پر وارد ہوتا چلا آیا ہے ان کے دلوں میں خوب راسخ تھاور نہ یہ کیا غضب آگیا کہ حقیقی بھائی ہو کر اس قدر بھی قابل نہ ہوں کہ یہ آدمی اچھا اور بھلا مانس ہے ایسے حقیقی خویشوں کو جو اندرونی حال اور دن رات کے واقعات معلوم ہوتے ہیں دوسروں کو ان سے کیا اطلاع.تمام یہودی بھی در حقیقت دور نزدیک کے رشتہ دار تھے.انہوں نے کئی معجزے حضرت مسیح سے مانگے اور آپ نے ان کو حرام کار کہ کر ٹال دیا مگر معجزہ نہ دکھلایا.سچ ہے آپ کے اختیار اور اقتدار میں منجزات نہیں تھے.پھر کہاں سے دکھلاتے.یہودی بیوقوف جانتے تھے کہ کسی انسان کے اختیار میں معجزہ نمائی ہے.مگر در حقیقت معجزه خدا تعالیٰ کا فعل ہے.پھر عجیب تریم کہ جس کو حضرت عیسی نے بہشت کی کنجیں دی تھیں اسی نے برابر کھڑے ہو کر لعنتیں کیں.اشتہار ۲۷ مئی ۱۸۹۴ء مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۹ تا ۱۲ کیا ایسے عیسائی جو ایک عاجز کمزور ناتوان نامراد انسان کو خدا بناتے ہیں کوئی کامیابی کسی کو دے سکتے ہیں جس کی اپنی ساری رات کی دعائیں اکارت اور بے سود گئی ہیں وہ دوسروں کوئی عیسائی نہی جو یہ کی دعاؤں پر کون سے ثمرات مرتب کر سکتا ہے جو خود ایل ایلی لما سبقنی کہہ کر اقرار کرتا دکھا سکے کہ اس کا ہے کہ خدا نے اسے چھوڑ دیاوہ دوسروں کو کب خدا سے ملا سکتا ہے؟ تعلق آسمان سے دیکھو اور غور سے سنو! یہ صرف اسلام ہی ہے جو اپنے اندر برکات رکھتا ہے اور انسان کو مایوس اور نامراد ہونے نہیں دیتا.اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ میں اس کے برکات اور زندگی اور صداقت کے لئے نمونہ کے طور پر کھڑا ہوں.کوئی عیسائی نہیں جو یہ دکھا سکے کہ اس کا کوئی تعلق آسمان ہے ہے.وہ نشانات جو ایمان کے نشان ہیں اور مومن عیسائی کے لئے مقرر ہیں.کہ اگر پہاڑ کو کہیں تو جگہ سے ٹل جاوے.اب پہاڑ تو پہاڑ کوئی عیسائی نہیں جو ایک الٹی ہوئی جوتی کو سیدھا کر دکھلاوے.مگر میں نے اپنے پر زور نشانوں سے دکھایا ہے اور صاف صاف دکھایا ہے کہ زندہ برکات اور زندہ نشانات صرف اسلام کے لئے ہیں.میں نے بے شمار اشتہار دئے ہیں اور ایک مرتبہ سولہ ہزار اشتہار

Page 529

۵۱۱ شائع کیئے.اب ان لوگوں کے ہاتھ میں بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ جھوٹے مقدمات کئے اور قتل کے الزام دیئے.ملفوظات جلد ۲ صفحه ۴۳ لکھا تو انجیل میں یہی ہے کہ میری پیروی سے تم پہاڑ کو بھی ہلا سکو گے مگر اب وہ جوتی بھی سیدھی نہیں کر سکتے.لکھا ہے کہ میرے جیسے معجزات دکھاؤ گے مگر کوئی کچھ نہیں دکھا سکتا.لکھا ہے کہ زہریں کھالو گے تو اثر نہ کریں گی مگر اب سانپ ڈستے اور کتنے [YDA کاٹتے ہیں اور وہ ان زہروں سے ہلاک ہوتے ہیں اور کوئی نمونہ وہ دعا کا نہیں دکھا سکتے.ہمسائی کوئی نمونہ دھاگا نہیں دکھا سکتے ان کا وہ نمونہ دعا کی قبولیت کا نہ دکھا سکنا ایک سخت حربہ اور حجت ہے.عیسائی مذہب کے ابطال پر کہ اس میں زندگی کی روح اور تاثیر نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ انہوں نے نبی کا طریق چھوڑ دیا.ملفوظات جلد ۳ صفحه ۶۰ ایسا اقتداری معجزه به نسبت دوسرے الہی کاموں کے بلا واسطہ اللہ جل شانہ سے ظہور میں آتے ہیں ضرور کچھ نقص اور کمزوری اپنے اندر موجو در کھتا ہو گا تا سرسری نگاہ والوں کی نظر میں تشابہ فی الخلق واقع نہ ہو.اسی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا باوجود معجزات میں نقص اور اس کے کئی دفعہ سانپ بنا لیکن آخر عصا کا عصاہی رہا.اور حضرت مسیح علیہ السلام کی کمزوری کا پایا جاتا تاکہ چڑیاں باوجودیکہ معجزہ کے طور پر ان کا پرواز قرآن کریم سے ثابت ہے مگر پھر بھی مٹی کی تاب فی العلی نہ ہو مٹی ہی تھے.اور کہیں خدا تعالٰی نے یہ نہ فرمایا کہ وہ زندہ بھی ہو گئیں.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۸ اگر قرآن کریم کی کسی قرائت میں اس موقعہ پر فیکون حیا کا لفظ موجود ہے یا تاریخی طور پر ثابت ہے کہ در حقیقت وہ زندہ ہو جاتے تھے اور انڈے بھی دیتے تھے اور اب تک ان کی نسل (سے) بھی بہت سے پرندے موجود ہیں تو پھر ان کا ثبوت دینا چاہئے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ اگر تمام دنیا چاہے کہ ایک مکھی بنا سکے تو نہیں بن سکتی کیونکہ اس سے تشبہ فی خلق اللہ لازم آتا ہے.اور یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ نے آپ ان کو خالق ہونے

Page 530

کا اذن دے رکھا تھا یہ خدا تعالیٰ پر افترا ہے کلام الہی میں تناقض نہیں خدا تعالیٰ کسی کو ایسے ازن نہیں دیا کرتا.اللہ تعالیٰ نے سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مکھی بنانے کا بھی اؤن نہ دیا.پھر مریم کے بیٹے کو یہ اذن کیونکر حاصل ہوا.خدا تعالیٰ سے ڈرو اور مجاز کو حقیقت پر حمل نہ کرو.شہادت القرآن صفحہ ۷۹،۷۸ پھر ان (حضرت مسیح علیہ السلام ) کا جانور بناتا ہے سو اس میں بھی ہم اس بات کے تو قابل ہیں کہ روحانی طور سے معجزہ کے طور پر درخت بھی ناچنے لگ جاوے تو ممکن ہے مگر یہ کہ انہوں نے چڑیاں بنا دیں اور انڈے بچے دیدئے اس کے ہم قائل نہیں ہیں اور نہ قرآن شریف سے ایسا ثابت ہے.ہم کیا کریں ہم اس طور پر ان باتوں کو مان ہی نہیں سکتے جس طرح پر ہمارے مختلف کہتے ہیں کیونکہ قرآن شریف صریح اس کے خلاف ہے.اور وہ ہماری تائید میں کھڑا ہے الحکم جلد نمبر ۱۶ مورخه ۳۰ اپریل ۱۹۰۳ صفحه ۸ چڑیاں کیا تے ہیں ہم تو یہ بھی مانتے ہیں کہ ایک درخت بھی ٹاپنے لگے مگر پھر بھی وہ خدا کی چڑیوں کی طرح ہر گز نہیں ہو سکتی کہ جس سے تشابہ فی الخلق لازم آجاوے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء صفحه ۱۱۶ خلق طيور.پر ہمارا یہ ایمان نہیں ہے کہ اس سے ایسے پرندے مراد ہیں جن کا ذبح کر کے گوشت بھی کھایا جا سکے بلکہ مراد یہ ہے کہ خلق طیور اس قسم کا تھا کہ حد اعجاز تک پہنچا ہوا تھا.البدر جلد ۲ نمبر ۴۷ مورخه ۱۶ دسمبر ۱۹۰۳ صفحه ۳۷۴ حضرت عیسی کا خلق طیور کا مسئلہ بعینہ موسیٰ علیہ السلام کے سوئے والی بات ہے دشمنوں کے مقابلہ کے وقت وہ اگر سانپ بن گیا تھا تو دوسرے وقت میں وہی سوٹے کا سوٹا تھا.نہ یہ کہ وہ کہیں سانپوں کے گروہ میں چلا گیا تھا.پس اسی طرح حضرت عیسی ۵۱۲ " ١٣٦٣

Page 531

۵۱۳ کے وہ طیور بھی آخر مٹی کی مٹی ہی تھے بلکہ حضرت موسیٰ کا سوٹا تو چونکہ مقابلہ میں آگیا تھا اور مقابلہ میں غالب ثابت ہوا تھا اس واسطے حضرت عیسی کے طور سے بہت بڑھا ہوا ہے کیونکہ وہ طیور تو نہ کسی مقابلے میں آئے اور نہ ان کا غلبہ ثابت ہوا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۶ مورخه ۲ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۴ یہ بات اس جگہ یا درکھنے کے لائق ہے کہ اس قسم کے اقتداری خوارق گو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتے ہیں مگر پھر بھی خدا تعالیٰ کے ان خاص افعال سے جو بلا توسط ارادہ غیری ظہور میں آتے ہیں کسی طور سے برابری نہیں کر سکتے اور نہ برابر ہونا ان کا مناسب ہے اسی وجہ سے جب کوئی نبی یا ولی اقتداری طور پر بغیر توسط کسی دعا کے کوئی ایسا امر خالق عادت دکھلاوے جو انسان کو کسی حیلہ اور تدبیر اور علاج سے اس کی قوت نہیں دی گئی تو نبی ه فعل خدا تعالیٰ کے ان افعال سے کم رتبہ پر رہے گا جو خود خدا تعالیٰ علانیہ اور بالجہر اپنی قوتِ کاملہ سے ظہور میں لاتا ہے یعنی ایسا اقتداری منجزه به نسبت دوسرے الہی کاموں گے جو بلاواسطہ اللہ جل شانہ سے ظہور میں آتے ہیں ضرور کچھ نقص اور کمزوری اپنے اندر موجود رکھتا ہو گا تا سرسری نگاہ والوں کی نظر میں تشابہ فی الخلق واقع نہ ہو.اسی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا عصا باوجود اس کے کہ کئی دفعہ سانپ بنالیکن آخر عصا کا عصا ہی رہا.اور حضرت مسیح کی چڑیاں باوجودیکہ معجزہ کے طور پر ان کا پرواز قرآن کریم سے ثابت ہے مگر پھر بھی مٹی کی مٹی ہی تھے.اور کہیں خدا تعالٰی نے یہ نہ فرمایا کہ وہ زندہ بھی ہو گئیں اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداری خوارق میں چونکہ طاقت الہی سب سے زیادہ بھری ہوئی تھی کیونکہ وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تجلیات الہیہ کے لئے اتم و اعلیٰ وارفع و اکمل نمونہ تھا اس لئے ہماری نظریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداری خوارق کو کسی درجہ بشریت پر مقرر کرنے سے قاصر ہیں مگر تا ہم ہمارا اس پر ایمان ہے کہ اس جگہ بھی اللہ جل شانہ اور اس کے رسول کریم کے فعل میں مخفی طور پر کچھ فرق ضرور ہو گا.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۷، ۶۸ جن لوگوں نے منقولی معجزات کو جو تصرف عقل سے بالا تر ہیں مشاہدہ کیا ہے ان کے

Page 532

۵۱۴ ا ا ا ا ا اور اس لئے بھی وہ تسلی تام کا موجب نہیں ٹھر سکتی کیونکہ بہت سے ایسے عجائبات بھی ہیں کہ کا تجزیہ ارباب شعبدہ بازی ان کو دکھلاتے پھرتے ہیں.گو وہ مکر اور فریب ہی ہیں مگر اب مخالف بد اندیش پر کیونکر ثابت کر کے دکھلاوں کہ انبیاء سے جو عجائبات اس قسم کے ظاہر ہوئے ہیں کہ کسی نے سانپ بنا کر دکھلا دیا اور کسی نے مردہ کو زندہ کر کے دکھلا دیا.یہ اس قسم کی دست بازیوں سے منزہ ہیں جو شعبدہ باز کیا کرتے ہیں یہ مشکلات کچھ ہمارے ہی زمانہ میں پیدا نہیں ہوئیں بلکہ ممکن ہے کہ انہیں زمانوں میں یہ مشکلات پیدا ہو گئی ہوں.مثلاً جب ہم یوحنا کی انجیل کے پانچویں باب کی دوسری آیت سے پانچویں آیت تک دیکھتے ہیں تو اس میں یہ لکھا ہوا پاتے ہیں اور اور تسلیم میں باب الضان کے پاس ایک حوض ہے جو عبرانی میں بیت خدا کہلاتا ہے.اس کے پانچ اسدے ہیں ان میں ناتوانوں اور اندھوں اور لنگڑوں اور پر مردوں کی ایک بڑی بھیٹر پڑی تھی جو پانی کے ملنے کی منتظر تھی کیونکہ ایک فرشتہ بعض وقت اس حوض میں اتر کر پانی کوہلا تا تھا اور پانی بہنے کے بعد جو کوئی کہ پہلے اس میں اترتا کیسی ہی بیماری میں کیوں نہ ہو اس سے چنگا ہو جاتا تھا اور وہاں ایک شخص تھا کہ جو اکھلیس برس سے بیمار تھا یسوع نے جب اسے پڑے ہوئے دیکھا اور جاتا کہ وہ بڑی مدت سے اس حالت میں ہے.تو اس سے کہا کہ کیا تو چاہتا ہے کہ چنگا ہو جائے بیمار نے اسے جواب دیا کہ اے خداوند مجھے پاس آدمی نہیں کہ جب پانی پہلے تو مجھے اس میں ڈال دے اور جب تک میں آپ سے آؤں دوسرا مجھ سے پہلے اتر پڑتا ہے.اب ظاہر ہے کہ وہ شخص جو حضرت عیسی کمی نبوت کا منکر ہے اور ان کے معجزات کا انکاری ہے جب یوحنا کی یہ عبارت پڑھے گا اور ایسے حوض کے وجود پر اطلاع پائے گا کہ جو حضرت عیسی " کے ملک میں قدیم سے چلا آتا تھا اور جس میں قدیم سے یہ خاصیت تھی کہ اس میں ایک ہی غوطہ لگانا ہر یک قسم کی بیماری کو گو وہ کیسی ہی سخت کیوں نہ ہو دور کر دیتا تھا تو خواہ نخواہ اس کے دل میں ایک قومی خیال پیدا ہو گا کہ اگر حضرت مسیح نے کچھ خوارق عجیبہ دکھلائے ہیں تو بلاشبہ ان کا یہی موجب ہو گا کہ حضرت ممدوح اسی حوض کے پانی میں کچھ تصرف کر کے ایسے ایسے خوارق دکھلاتے ہوں گے کیونکہ اس قسم کے اقتباس کی ہمیشہ دنیا میں بہت سی نظیریں پائی گئی ہیں اور اب بھی ہیں اور عند العقل یہ بات نہایت صحیح اور قرین قیاس ہے کہ اگر حضرت عیسی کے ہاتھ سے اندھوں لنگڑوں وغیرہ کو شفا حاصل ہوئی ہے تو بالیقین یہ نسخہ حضرت مسیح نے اسی حوض سے اڑایا ہو گا اور پھر

Page 533

۵۱۵ نادانوں اور سادہ لوحوں میں کہ جو بات کی تہ تک نہیں پہنچتے اور اصل حقیقت کو نہیں شناخت کر سکتے یہ مشہور کر دیا کہ ایک روح کی مدد سے ایسے ایسے کام کرتا ہوں.بالخصوص جب کہ یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت مسیح اسی حوض پر اکثر جایا بھی کرتے تھے تو اس خیال کو اور بھی قوت حاصل ہوتی ہے.غرض مخالف کی نظر میں ایسے مجرموں ہے کہ جو قدیم سے حوض دکھلاتا رہا ہے حضرت عیسی کی نسبت بہت سے شکوک اور شبہات پیدا ہوتے ہیں اور اس بات کے ثبوت میں بہت سی مشکلات پڑتی ہیں کہ یہودیوں کی رائے کے موافق مسیح مکر اور شعبدہ باز نہیں تھا اور نیک چلن آدمی تھا جس نے اپنے عجائبات کے دکھلانے میں اس قدیمی حوض سے کچھ مدد نہیں لی اور سچ سچ معجزات ہی دکھائے ہیں.اور اگر چہ قرآن شریف پر ایمان لانے کے بعد ان وساوس سے نجات حاصل ہو جاتی ہے.مگر جو شخص ابھی قرآن شریف پر ایمان نہیں لا یا اور یہودی یا ہندویا عیسائی ہے وہ کیونکر ایسے وساوس سے نجات پاسکتا ہے اور کیونکر اس کا دل اطمینان پکڑ سکتا ہے کہ باوجود ایسے عجیب حوض کے جس میں ہزاروں لنگڑے اور لولے اور مادر زاد اندھے ایک ہی غوطہ مار کر اچھتے ہو جاتے تھے اور جو صد ہا سال سے اپنے خواص عجیبہ کے ساتھ یہودیوں اور اس ملک کے تمام لوگوں میں مشہور اور زبان زد ہورہاتھا اور بے شمار آدمی اس میں غوطہ مارنے سے شفا پاچکے تھے اور ہر روز پاتے تھے اور ہر وقت ایک میلہ اس پر لگارہتا تھا.اور مسیح بھی اکثر اس حوض پر جایا کرتا تھا اور اس کی ان عجیب و غریب خاصیتوں سے باخبر تھا.مگر پھر بھی مسیح نے ان معجزات کے دکھلانے میں جن کو قدیم سے حوض دکھلارہا تھا اسی حوض کی مٹی یا پانی سے کچھ مدد نہیں لی اور اس میں کچھ تصرف کر کے اپنا یا نسخہ نہیں نکالا.بلاشبہ ایسا خیال بے دلیل بات ہے کہ جو مختلف کے روبرو کارگر نہیں اور بلار سیب اس حوض عجیب الصفات کے وجود پر خیال کرنے مسیح کی حالت پر بہت سے اعتراضات عاید ہوتے ہیں جو کسی طرح اٹھ نہیں سکتے اور جس قدر غور کرواسی قدر دار و گیر بڑھتی ہے اور مسیحی جماعت کے لئے کوئی راستہ مخلصی کا نظر نہیں آتا کیونکہ دنیا کی موجودہ حالت کو دیکھ کر یہ وساوس اور بھی زیادہ تقویت پکڑتے ہیں اور بہت سی نظیریں ایسے ہی مکروں اور فریبوں کے اپنی ہی قوت حافظہ پیش کرتی ہے بلکہ ہر یک انسان ان مکروں کے بارے میں چشم دید باتوں کا ایک ذخیرہ رکھتا ہے.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۱۵ تا۵۴۶

Page 534

۵۱۶ فرضی معجزات کے ساتھ جس قدر حضرت عیسی علیہ السلام متہم کئے گئے ہیں اس کی نظیر کسی اور نبی میں نہیں پائی جاتی.یہاں تک کہ بعض جاہل خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السّلام نے ہزاروں بلکہ لاکھوں مردے زندہ کر ڈالے تھے یہاں تک کہ انجیلوں میں بھی یہ مبلغہ آمیز باتیں لکھتی ہیں کہ ایک مرتبہ تمام گورستان جو ہزاروں مردہ زندہ کرنا برسوں سے چلا آتا تھا سب کا سب زندہ ہو گیا تھا اور تمام مردے زندہ ہو کر شہر میں آگئے تھے.اب عقلمند قیاس کر سکتا ہے کہ باوجودیکہ کروڑہا انسان زندہ ہو کر شہر میں آگئے اور پنے بیٹوں پوتوں کو اگر تمام قصے سنائے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی سچائی کی تصدیق کی مگر پھر بھی یہودی ایمان نہ لائے اور اس درجہ کی سنگدلی کو کون باور کرے گا.اور در حقیقت اگر ہزاروں مردے زندہ کرنا حضرت عیسی کا پیشہ تھا تو جیسا کہ عقل کے رو سے سمجھا جاتا ہے وہ تمام مردے بہرے اور گونگے تو نہیں ہوں گے.اور جن لوگوں کو ایسے معجزات دکھلائے جاتے تھے کوئی ان مردوں میں سے ان کا بھائی ہو گا اور کوئی باپ اور کوئی بیٹا اور کوئی ماں اور کوئی دادی اور کوئی دادا اور کوئی دوسرا قریبی اور عزیز رشتہ دار.اس لئے حضرت عیسی علیہ السّلام کے لئے تو کافروں کو مومن بنانے کی ایک وسیع راہ کھل گئی تھی.کئی مردے یہودیوں کے رشتہ داران کے ساتھ ساتھ پھرتے ہوں گے.اور حضرت عیسی علیہ السّلام نے کئی شہروں میں ان کے لیکچر دلائے ہوں گے.ایسے لیکچر نہایت پر بہار اور شوق انگیز ہوتے ہوں گے جب ایک مردہ گھڑا ہو کر حاضرین کو سناتا ہو گا کہ اے حاضرین ! آپ لوگوں میں بہت ایسے اس وقت موجود ہیں جو مجھے شناخت کرتے ہیں جنہوں نے مجھے اپنے ہاتھ سے دفن کیا تھا.اب میں خدا کے منہ سے سن کر آیا ہوں کہ عیسی مسیح سچا ہے اور اس نے مجھے زندہ کیا تو عجب لطف ہوتا ہو گا.اور ظاہر ہے کہ ایسے مردوں کے لیکچروں سے یہودی قوم کے لوگوں کے دلوں پر بڑے بڑے اثر ہوتے ہوں گے اور ہزاروں لاکھوں یہودی ایمان لاتے ہوں گے.پر قرآن شریف اور انجیل سے ثابت ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السّلام کو رد کر دیا تھا.اور اصلاح مخلوق میں تمام نبیوں سے ان کا گرا ہوا نمبر تھا اور تقریبا تمام یہودی ان کو ایک مکار اور کاذب خیال کرتے تھے.اب عظمند سوچے کہ کیا ایسے بزرگ اور فوق العادت مجرت کا یہی نتیجہ ہونا چاہئے

Page 535

۵۱۷ تھا جبکہ ہزاروں مردوں نے زندہ ہو کر حضرت عیسی علیہ السلام کی سچائی کی گواہی بھی دیدی اور یہ بھی کہہ دیا کہ ہم بہشت کو دیکھ آئے ہیں اس میں صرف عیسائی ہیں جو حضرت عیسی کے ماننے والے ہیں اور دوزخ کو دیکھا تو اس میں یہودی ہیں جو حضرت عیسیٰ کے منکر ہیں تو ان سب باتوں کے بعد کس کی مجال تھی کہ حضرت عیسی کی سچائی میں ذرا بھی شک کرتا اور اگر کوئی شکت کرتا تو ان کے باپ دادا جو زندہ ہو کر آئے تھے ان کو جان سے مارتے کہ اے ناپاک لوگو! ہماری گواہی اور پھر بھی شک.پس یقینا سمجھو کہ ایسے معجزات محض بناوٹ ہے.معجزہ سے نفس امر میں شک نہیں مگر وہ اسی قدر ہوتا ہے جیسا کہ آگے ہم تفصیل سے بیان کریں گے.اس جگہ مسلمانوں پر نہایت افسوس ہے کہ وہ حضرت عیسی علیہ السّلام کی طرف ایسے مجربات منسوب کرتے ہیں جو قرآن شریف کی بیان کردہ سنت کے مخالف ہیں اور وہ راہ چلتے ہیں جس کا آگے کوچہ ہی بند ہے.اور نہ صرف اس قدر کہ حضرت علیمی کی نسبت عیسائیوں کی پرانی کہانیوں پر ایمان لائے ہوئے ہیں بلکہ آئندہ کے لئے تمام دنیا سے الگ کسی وقت آسمان سے ان کا نازل ہونا مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آئندہ آخری زمانہ میں ( حالانکہ عمر دنیا کے رو سے جو سات ہزار ہے یہی آخری زمانہ ہے ( حضرت عیسی " آسمان سے فرشتوں کے ساتھ نازل ہوں گے اور ایک بڑا تماشا ہو گا اور لاکھوں آدمیوں کا ہجوم ہو گا اور آسمان کی طرف نظر ہوگی اور لوگ دور سے دیکھ کر کہیں گے کہ وہ آئے وہ آئے.اور دمشق میں ایک سفید مینڈ کے قریب اتریں گے.مگر تعجب کہ وہ غریب اور عاجز انسان جو اپنی نبوت ثابت کرنے کے لئے الیاس نبی کو دوبارہ دنیا میں نہ لاسکا یہاں تک کہ صلیب پر لٹکایا گیا.اس کی نسبت ایسے ایسے کرشمے بیان کئے جاتے ہیں.اگر یہ باتیں قبول کے لائق ہیں تو پھر کیوں حضرت سید عبد القادر جیلانی کی یہ کرامت جو لوگوں میں بہت مشہور ہو رہی ہے قبول نہیں کی جاتی کہ ایک کشتی جو مع برات دریا میں ڈوب گئی تھی انہوں نے بارہ برس کے بعد نکالی تھی اور سب لوگ زندہ تھے اور نقارے اور باجے ان کے ساتھ بج رہے تھے.ایسا ہی یہ دوسری کرامت کہ ایک مرتبہ فرشتہ ملک الموت ان کے کسی مرید کی روح بغیر اجازت نکال کر لے گیا تھا انہوں نے اڑ کر آسمان پر اسکو جا پکڑا اور اس کی ٹانگ پر لاٹھی ماری اور ہڈی توڑ دی.اور اس روز کی جس قدر رو میں نکالی گئی تھیں سب چھوڑ دیں اور وہ دوبارہ زندہ ہو گئیں.فرشتہ روتا ہوا خدا تعالیٰ کے پاس گیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عبد

Page 536

۵۱۸ جو زندہ ہوا ہو القادر محبوبیت کے مقام میں ہے اس کے کام کی نسبت کوئی دست اندازی نہیں ہوگی اگر وہ تمام گزشتہ مردے زندہ کر دیتا تب بھی اس کا اختیار تھا.اب جس حالت میں ایسی مشہور شدہ کرامات کو قبول نہیں کیا گیا جن کے قبول کرنے میں چنداں حرج نہ تھاتو پھر کیوں ایسے شخص کی طرف وہ باتیں منسوب کی جاتی ہیں جو نہ صرف قرآن شریف کی منشا کے بر خلاف ہیں بلکہ عیسی پرستی کے شرک کو اس سے مدد ملتی ہے جس نے چالیس کروڑ انسانوں کو خدائے تعالیٰ کی توحید سے محروم کر دیا ہے میں نہیں سمجھ سکتا کہ حضرت عیسی بن مریم کو اور نیتوں پر کیا زیادتی اور کیا خصوصیت ہے.پھر اس کو ایک خصوصیت دینا جو شرک کی جڑ ہے کس قدر کھلی کھلی ضلالت ہے جس سے ایک بڑی قوم تباہ ہو چکی ہے.براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۷ تا ۵۰ نیز ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۳۴ عیسائی بار بار حضرت مسیح کے مردے زندہ کرنے کے معجزات پیش کرتے ہیں مگر ثبوت ایک کا بھی نہیں.نہ کسی مردے نے آکر عالم آخرت کی سرگذشت سنائی یا کسی مردہ کا ثبوت میں بہشت دوزخ کی حقیقت ظاہر کی یادوسرے جہان کے چشم دید عجائبات کے بارے میں کوئی کتاب شائع کی یا اپنی شہادت سے فرشتوں کے وجود کا ثبوت دیا.بلکہ مردوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو روحانی یا جسمانی طور پر مردوں کی مانند تھے.پھر گویا دعا کے ذریعہ سے نئی زندگی پائی.یہی حال حضرت عیسی کے پرندے بنانے کا ہے.اگر وہ سچ سچ پرندے بناتے تو ایک دنیا ان کی طرف الٹ پڑتی اور پھر کیوں صلیب تک نوبت پہنچتی اور کیا ممکن تھا کہ عیسائی لوگ جو حضرت عیسی کے خدا بنانے پر حریص ہیں وہ ایسے بڑے خدائی نشان کو چھوڑ دیتے بلکہ وہ تو ایک تنکہ کا پہاڑ بنا دیتے.اس سے ظاہر ہے کہ یہ واقعہ جو قرآن شریف میں مذکور ہے اپنے ظاہری معنوں پر محمد نہیں بلکہ اس سے کوئی خفیف امر مراد ہے جو بہت وقعت اپنے اندر نہیں محمول رکھتا.حقیقة الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۵ میرے متعلق یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ مسیح نے مردے زندہ کئے تھے انہوں

Page 537

۵۱۹ کرنا نے کتنے گئے ہیں؟ میں اس کا کیا جواب دوں.پہلے یہ تو معلوم کر لیں کہ مسیح نے حقیقی مردے زندہ کتنے مردے زندہ کئے تھے ؟ پھر اس کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مجھے سے پہلے ہے میں تو آپ کا ایک خادم ہوں.آپ کے پاس ایک مردہ کی بابت کہا گیا جس کو سانپ نے کان تھا اور کہا کہ اس کی نئی شادی ہوئی ہے.آپ اسے زندہ کر دیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بھائی کو دفن کرو.اگر حقیقی مردے زندہ ہو سکتے تو سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معجزہ دیا جاتا.ہاں یہ سچ ہے کہ بعض اوقات سخت امراض میں مبتلا اور ایسی حالت میں کہ اس میں آثارِ حیات مفقود ہوں اللہ تعالیٰ اپنے ماموروں اور مرسلوں کی دعاؤں کی وجہ سے انہیں شفا دے دیتا ہے.اس قسم کا احیاء ہم مانتے ہیں اور یہاں بھی ہوا ہے اور اس کے سوا دوسری حیات روحانی حیات ہے.غرض یہ دو قسم کا احیاء موتی ہم مانتے ہیں.روحانی طور پر مسیح کا اثر بہت کم ہوا.کیونکہ یہودیوں نے مانا نہیں اور جنہوں نے مانا ان کی تکمیل نہ ہوئی.ایک نے لعنت بھیج دی، دوسرے نے پکڑوا دیا اور باقی بھاگ گئے.ہاں جسمانی طور پر بعض کے لئے دعائیں کیں اور وہ مریض اچھے ہو گئے، اب بھی ہو رہے ہیں.ملفوظات جلد ۸ صفحه ۶۹، ۷۰ حضرت عیسی " کے معجزے تو ایسے ہیں کہ اس زمانہ میں وہ بالکل معمولی سمجھے جا سکتے ہیں اکمہ سے مراد شب کو رہے.اب ایسا بیمار معمولی کلیجی سے بھی اچھا ہو سکتا ہے.احیاء موتی سے مراد بھی خطرناک مریضوں کا تندرست ہوتا ہے پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں یہ باتیں کچھ بھی نہیں.بدر جلد ۶ نمبر ۶ صفحہ ۴ مورخہ ۷ فروری ۱۹۰۷ اگر مسیح واقعی مردوں کو زندہ کرتے تھے تو کیوں پھونک مار کر ایلیا کو زندہ نہ کر دیا ١٣٧٠ بالکل معمولی معجزے تا یہود ابتلاء سے بچ جاتے اور خود مسیح کو بھی ان تکالیف اور مشکلات کا سامنا نہ ہوتا جو احیاء موتی ایلیا کی تاویل سے پیش آئیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۲ صفحه ۳

Page 538

۵۲۰ احیاء موتی ر" رہا حضرت عیسی کا احیاء موتی.اس میں روحانی احیاء موتی کے تو ہم بھی قائل ہیں اور ہم مانتے ہیں کہ روحانی طور پر مردے زندہ ہوا کرتے ہیں اور اگر یہ کہو کہ ایک شخص مر گیا اور پھر زندہ ہو گیا یہ قرآن شریف یا احادیث سے ثابت نہیں ہے اور ایسا ماننے سے پھر قرآن شریف اور احادیث نبوی گویا ساری شریعت اسلام ہی کو ناقص ماننا پڑے گا.کیونکہ رد الموتی کے متعلق مسائل نہ قرآن شریف میں ہیں نہ حدیث نے کہیں ان کی صراحت کی ہے اور نہ فقہ میں کوئی بات اس کے متعلق ہے غرض کسی نے بھی اس کی تشریح نہیں کی.اس طرح پر یہ مسئلہ بھی صاف ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۶ مورخہ ۳۰ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۸ ہم اعجازی احیاء کے قائل ہیں مگر یہ بات بالکل ٹھیک نہیں ہے کہ ایک مردہ اس طرح زندہ ہوا ہو کہ وہ پھر اپنے گھر میں آیا اور رہا اور ایک عمر اس نے بسر کی اگر ایسا ہوتا تو قرآن احیاء موتی ناقص ٹھرتا ہے کہ اس نے ایسے شخص کی وراثت کے بارے میں کوئی ذکر نہ کیا.سے یہ البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء صفحه ۱۱۶ اصل میں احیاء موتی پر ہمارا یہ ایمان نہیں ہے.نہ احیائے موتی یہ مطلب ہے کہ حقیقی مردہ کا احیاء کیا گیا احیائے موتی کے معنی یہ ہیں احیاء موتی که (۱) روحانی زندگی عطا کی جاوے (۲) یہ کہ بذریعہ دعا ایسے انسان کو شفادی جاوے کہ وہ گویا مردوں میں شمار ہو چکا ہو جیسا کہ عام بول چال میں کہا جاتا ہے کہ فلاں تو مر کر جیا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۴۷ مورخه ۱۶ دسمبر ۱۹۰۳ صفحه ۳۷۴ اگر کوئی کہے کہ حضرت عیسی علیہ السّلام مردے زندہ کرتے تھے یہ کتنا بڑ انشان ان مردے زندہ کرنے کو دیا گیا.اس کا جواب یہ ہے کہ واقعی طور پر مردہ کا زندہ ہونا قرآن شریف کی تعلیم کے بر خلاف ہے ہاں جو مردہ کے طور پر بیمار تھے اگران کو زندہ کیا تو اس جگہ بھی ایسے مردے زندہ ہو چکے ہیں اور پہلے نبی بھی کرتے رہے ہیں جیسا الیاس نبی.مگر عظیم الشان نے سے مراد اور ہیں جن کو خدا دکھلا رہا ہے اور دکھلائے گا.

Page 539

۵۲۱ حقیقة الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۵ حاشیه عیسائیوں نے جو شور مچایا تھا کہ عیسی مردوں کو زندہ کر تا تھا اور وہ خدا تھا اس واسطے غیرت الہی نے جوش مارا کہ دنیا میں طاعون پھیلائے اور ہمارے مقام کو بچائے تا طاعون سے عیسائیوں کہ لوگوں پر ثابت ہو جائے کہ امت محمدی کا کیا شان ہے کہ احمد کے ایک غلام کی اس قدر پر جت عزت ہے.اگر عیسٹی مردوں کو زندہ کرتا تھا تو اب عیسائیوں کے مقامات کو اس بلا سے بچائے.اس وقت غیرت الہی جوش میں ہے تاکہ عیسی کی کسر شان ہو جس کو خدا بنایا گیا ہے چه خوش ترانه زد ایں مطرب مقام شناس که درمیان غربی قول آشنا آورد ملفوظات جلد ۳ صفحه ۲۷۱ ایک مچھر پر غور کر کے خدا کا پتہ لگ سکتا ہے اور ایک پستو کو دیکھ کر صانع حقیقی کی طرف ہمار از من منتقل ہو سکتا ہے مگر ایسے مذہب سے ہمیں کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں مسیح کے معجزات محض ہو سکتا کہ جو اپنے پیٹ میں صرف قصوں اور کہانیوں کا ایک مردہ بچہ رکھتا ہے.ہمیں تھے کہانیاں ہیں جبرا کہا جاتا ہے کہ تم ان باتوں کو مان لو کہ کسی زمانہ میں یسوع نے کئی ہزار مردے زندہ کر دئے تھے اور اس کی موت کے وقت بیت المقدس کے تمام مردے شہر میں داخل ہو گئے تھے.لیکن در حقیقت یہ ایسی ہی باتیں ہیں جیسا کہ ہندوؤں کی پستکوں میں ہے کہ کسی زمانہ میں مہادیو کی لٹوں سے گنگا بہ نکلی تھی.اور راجہ رام چندر نے پہاڑوں کو انگلی پر اٹھا لیا تھا اور راجہ کرشن نے ایک تیر سے اتنے لاکھ آدمی مارے تھے.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۶۱ بڑی خصوصیت اقتداری معجزات کی ہوتی ہے لیکن یسوع کی لائف میں اقتداری مجرات کا پتہ نہیں ملتا اور اگر عیسائیوں کے بیان کے موافق بعض مان بھی لیں تو پھر ہم دعوی سے کہتے ہیں کہ اسی رنگ کے اقتداری مجربات یسوع کے معجزات سے کہیں بڑھ سی کے پاس اقتداری معجمات نہیں چڑھ کر پہلے نبیوں کے بائبل میں موجود ہیں.پھر خصوصیت کیا رہی ؟ وہ کیا بات تھی

Page 540

جس پر اسے خدا مان لیا گیا.اگر ایک مجلس میں اللہ تعالیٰ کے صفات بیان کئے جاویں اور اس میں آریہ، عیسائی اور مسلمان موجود ہوں تو اگر کسی کا ضمیر مر نہیں گیا تو بجز مسلمان کے ہر ایک خدا تعالیٰ کے صفات بیان کرنے سے شرمندہ ہو گا.مثلاً آریہ کیا یہ بیان کر کے خوش ہو گا کہ میں ایسے خدا پر ایمان لاتا ہوں جس نے دنیا کا ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا.وہ میری روح اور جسم کا خالق نہیں.مجھے جو کچھ ملتا ہے میرے اپنے اعمال اور افعال کا ثمرہ ہے.خدا تعالیٰ کا کوئی عطیہ اور کرم نہیں.میرا خدا مجھے کبھی ہمیشہ کی نجات نہیں دے سکتا.میرے لئے لازمی ہے کہ میں جونوں کے چکر میں آکر کپڑے مکوڑے بنا یا کیا عیسائی صاحب یہ بیان کر کے راضی ہو گا کہ میں ایک ایسے خدا پر ایمان لاتا ہوں جو ناصرہ بستی میں یوسف نجار کے گھر معمولی بچوں کی طرح پیدا ہوا تھا.وہ معمولی بچوں کی طرح رونا چلاتا اور کبھی اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ماں باپ سے تھپڑ بھی کھاتا تھا.اسے اتنی بھی خبر نہ تھی کہ وہ انجیر کے پھل کے موسم کا علم رکھتا.وہ ایسا غصہ ور تھا کہ درختوں تک کو بد دعائیں دیتا تھا.وہ آخر میرے گناہوں کی وجہ سے صلیب پر لعنتی ہوا.اور تین دن ہاویہ میں رہا.بتاؤ کیا وہ یہ باتیں خوشی کے ساتھ بیان کرے گا یا اندر ہی اندر اس کا دل کھایا جائے گا.لیکن ایک مسلمان بڑی جرات اور دلیری سے کہے گا کہ میں اس خدا پر ایمان لایا ہوں جو تمام صفاتِ کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں اور نقائص سے منزہ ہے وہ رب ہے بلا مانگے دینے والا رحمان ہے.سچی محنتوں کے ثمرات ضائع نہ کرنے والا ہے.وہ حی و قیوم، ارحم الراحمین خدا ہے.وہ ہمیشہ کی نجات دیتا ہے.اس کی عطاء غیر مجذوذ ہے.پس جب مسلمان اپنے خدا کی صفات بیان کرے گاتو ہرگز شرمندہ نہیں ہو گا اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو ہم پر ہے.ایسا ہی اور بہت سی باتیں ہیں.ء.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مان کر ہم کبھی کسی کے سامنے شرمندہ نہیں ہو سکتے.مجربات مسیح کی حقیقت ڈوئی نے خوب کھولی ہے وہ دعوی کرتا ہے کہ میں بھی سلب امراض کرتا ہوں.اسی طرح پر جس طرح یسوع مسیح کیا کرتا تھا.اور عجیب تریہ بات ہے کہ جہاں کوئی شخص اچھا نہیں ہوتا وہاں وہ شرمندہ نہیں ہو تا بلکہ کہہ دیتا ہے کہ یسوع مسیح سے بھی فلاں شخص اچھا نہیں ہوا.سلب امراض فی الحقیقت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر ناز کیا جاسکے.یہودی بھی اس ۵۲۲

Page 541

۵۲۳ زمانہ : سب امراض کرتے تھے اور ہندوستان میں بھی بہت لوگ اس قسم کے ہوئے ہیں اور آج کل تو ہزاروں ہزار دہریے اور محمد بھی ایسے ہیں جو سلب امراض کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ایک فن اور مشق ہے جس کے لئے یہ بھی ضرور نہیں کہ اس فن کا عامل خدا تعالیٰ پر یقین رکھتا ہو یا نیک چلن ہو.جس طرح پر دوسرے علوم کے حصول کے لئے نیک چلنی اور خدا پرستی شرط نہیں ہے اس کے لئے تبھی نہیں.یعنی اگر کوئی شخص ریاضی کے قواعد کی مشق کرے تو قطع نظر اس کے کہ وہ دہریہ ہے یا موحد خدا پر ست، وہ قواعد اس کے لئے کوئی روک پیدا نہیں کریں گے.برخلاف اس کے وہ روحانی کمالات جو اسلام سکھاتا ہے ان کے لئے ضروری ہے کہ اعمال میں پاکیزگی اور صدق اور وفاداری ہوتے بغیر کے ہو.اس کے وہ باتیں حاصل ہی نہیں ہو سکتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ سب امراض والے مسیح کے اچھے کئے ہوئے مرگئے لیکن قد أفلح من زكنها کی تعلیم دینے والے کے زندہ کئے ہوئے آج تک بھی زندہ ہیں اور ان پر کبھی فنا آہی نہیں ملفوظات جلد ۸ صفحه ۱۳۷ تا ۱۳۹ ينى نیز ملفوظات جلد ۴ صفحه ۱۱۰، ۱۱۱.اب عیسائیوں کے عقائد اور مذہب کو اس معیار پر بھی آزما کر دیکھ لو.کہ ان میں بجز بوسیدہ ہڈیوں اور مردہ باتوں کے اور کیا رکھا ہے.بلا تفاق وہ مانتے ہیں کہ ان میں آج ایک آزمائش عیسائیت میں بھی ایسا شخص نہیں جو اپنے مذہب کی صداقت اور خون مسیح کی سچائی پر اپنے نشانات کی مہر کوئی زندہ نشان نہیں لگا سکے.یہ تو بڑی بات ہے میں کہتا ہوں کہ انجیل کے قرار داده نشانوں کے موافق تو شاید ایمان دار ہونا بھی ایک امر محال ہو گا.اچھا.زندہ نشانات کو تو جانے دو عیسائی جو اپنے تائیدی نشانوں کے لئے مسیح کی قبر کا پتہ دیتا ہے کہ اس نے فلاں قبر سے مردہ اٹھایا تھا وہ بجز قصوں کے اور کیا وقعت رکھ سکتے ہیں.اسی لئے میں نے بار ہا کہا ہے کہ یہ سلب امراض کے انجو ہے جو بعض ہندو سنیاسی بھی کرتے ہیں.اور اس ترقی کے زمانہ میں مسمریزم والے بھی دکھاتے ہیں.آج کوئی معجزات کے رنگ میں نہیں مان سکتا اور پیش گوئی ہی ایک ایساز بر دست نشان ہے جو ہر زمانہ میں قابل عزت سمجھا جاتا ہے مگر ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسیح کی جو پیش گوئیاں انجیل میں درج ہیں وہ ایسی نہیں کہ ان کو پڑھ کر ہنسی آتی ہے کہ قحط پڑیں گے.

Page 542

۵۲۴ زلزلے آئیں گے مرغ بانگ دے گا وغیرہ.اب ہر ایک گاؤں میں جا کر دیکھو کہ ہر وقت مرغ بانگ دیتے ہیں یا نہیں.اور قحط اور زلزلے بالکل معمولی باتیں ہیں.جو آجکل کے مدیر تو اس بھی بڑھ کر بتا دیتے ہیں کہ فلاں وقت طوفان آئے گا.فلاں وقت بارش شروع ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کو دیکھو کہ کس طرح پر چھ سو سال پہلے کہا کہ ایک آگ نکلے گی جو سبزہ کو چھوڑے گی.اور پتھر کو گلائے گی اور پوری ہوئی.اس تم کی درخشاں پیش گوئیاں تو پیش کریں.میں نے ایک ہزار روپیہ کا انعام کا اشتہار مسیح کی پیش گوئیوں کے لئے دیا تھا مگر آج تک کسی عیسائی نے ثابت نہ کیا کہ مسیح کی پیش گوئیاں ثبوت کی قوت اور تعداد میں میری پیش گوئیوں سے بڑھ کر ہیں جن کا گواہ سلا جہان ہے.مسیح کے مجربات جو قصص کے رنگ میں ہیں ان سے کوئی فوق العادت تائید الہی کا پتہ نہیں لگتا جب کہ آج اس سے بڑھ کر طلبتی کرشمے اور عجائبات دیکھے جاتے ہیں خصوصاً ایسی حالت میں کہ خود انجیل میں ہی لکھا ہے کہ ایک تالاب تھا جس میں ایک وقت پر غسل کرنے والے شفا پا لیتے تھے.اور اب تک یورپ کے بعض ملکوں میں ایسے چشمے پائے جاتے ہیں.اور ہمارے ہندوستان میں بھی بعض چشموں یا کنووس کے پانی میں ایسی تاثیر ہوتی ہے.تھوڑے دن ہوئے.اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ ایک کنوئیں کے پانی سے جذامی اچھے ہونے لگتے ہیں.الحکم جلد نمبر ۴ صفحہ ۴.۶ پرچہ ۳۱ جنوری ۱۹۰۲ء لملفوظات جلد ۳ صفحہ ۱۱۷ ، ۱۱۸ سیح کی پہلی زندگی کے مجربات جو طلب کئے جاتے ہیں اس بارے میں ابھی بیان کر چکا میچ کے مجموعات اور ہوں کہ احیاء جسمانی کچھ چیز نہیں احیاء روحانی کے لئے یہ عاجز آیا ہے اور اس کا ظہور پیش گوئیوں پر جو ہو گا ما سوا اس کے اگر مسیح کے اصلی کاموں کو ان حواشی سے الگ کر کے دیکھا جائے جو کسی اور نبی کے معجزات ے اس سے ہمیں محض افترا کے طور پر یاغلط فہمی کی وجہ سے گھڑے گئے ہیں توکوئی امجو بہ نظر نہیں آتا بلکہ مسیح وغیرہ پر پیدا نہیں کے منجزات اور پیش گوئیوں پر جس قدر اعتراضات اور شکوک پیدا ہوتے ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ کسی اور نبی کے خوارق یا پیش خبریوں میں کبھی ایسے شبہات پیدا ہوئے شکوک پیدا ہوتے ہوتے

Page 543

۵۲۵ ہوں.کیا تالاب کا قصہ مسیحی معجزات کی رونق دور نہیں کرتا؟ اور پیش گوئیوں کا حال اس بھی زیادہ تر ابتر ہے کیا یہ بھی کچھ پیش گوئیاں ہیں کہ زلزلے آئیں گے مری پڑے گی لڑائیاں ہوں گی قحط پڑیں گے اور اس سے زیادہ تر قابل افسوس یہ امر ہے کہ جس قدر حضرت مسیح کی پیش گوئیاں غلط نکلیں اس قدر صحیح نہیں نکل سکیں.انہوں نے یہودا اسکر یوطی کو بہشت کے بارہ تختوں میں سے ایک تخت دیا تھا جس سے آخر وہ محروم رہ گیا اور پطرس کو نہ صرف تخت بلکہ آسمان کی سنجیاں بھی دیدی تھیں اور بہشت کے دروازے کسی پر بند ہونے یا کھلنے اس کے اختیار میں رکھے تھے مگر پطرس جس آخری کلمہ کے ساتھ حضرت مسیح سے الوداع ہوا وہ یہ تھا کہ اس نے مسیح کے روبرو مسیح پر لعنت بھیج کر اور قسم کھا کر کہا کہ میں اس شخص کو نہیں جانتا.ایسی ہی اور بھی بہت سی پیش گوئیاں ہیں جو صحیح نہیں نکلیں.مگر یہ بات الزام کے لائق نہیں کیونکہ امور اخبار یہ کشفیہ میں اجتہادی غلطی انبیاء سے بھی ہو جاتی ہے.حضرت موسیٰ کی بعض پیش گوئیاں بھی اس صورت پر ظہور پذیر نہیں ہوئیں جس صورت پر حضرت موسیٰ نے اپنے دل میں امید باندھ لی تھی.غایت مافی الباب یہ ہے کہ حضرت مسیح کی پیش گوئیاں اور وں سے زیادہ غلط نکلیں یہ غلطی نفس الہام میں نہیں بلکہ سمجھ اور اجتہاد کی غلطی ہے چونکہ انسان تھے اور انسان کی رائے خطا اور صواب دونوں کی طرف جا سکتی ہے اس لئے اجتہادی طور پر یہ لغزشیں عمرية پیش آگئیں.اس مقام میں زیادہ تر تیب یہ ہے کہ حضرت مسیح معجزہ نمائی سے صاف انکار کر کے کہتے ہیں کہ میں ہر گز کوئی معجزہ دکھا نہیں سکتا مگر پھر بھی عوام الناس ایک انبار معجزات کا ان کی طرف منسوب کر رہے ہیں.نہیں دیکھتے کہ وہ تو کھلے کھلے انکار کئے جاتے ہیں.چنانچہ میر وولیس کے سامنے حضرت مسیح جب پیش کئے گئے تو ہیرودیس میسیج کو دیکھ کر بہت خوش ہوا کیونکہ اسے اس کی کوئی کرامت دیکھنے کی امید تھی.پر ہیرودیس نے ہر چند اس بارہ میں مسیح سے بہت درخواست کی لیکن اس نے کچھ جواب نہ دیا تب ہیرودیس اپنے تمام مصاحبوں کے سمیت اس سے بے اعتقاد ہو گیا اور اسے ناچیز ٹھرایا.دیکھو لوقا باب ۲۲ - اب خیال کرنا چاہئے کہ اگر حضرت مسیح میں اقتداری طور پر جیسا کہ عیسائیوں کا خیال ہے معجزہ نمائی کی قوت ہوتی تو ضرور حضرت مسیح ہیرودیس کو جو ایک خوش اعتقاد آدمی اور

Page 544

۵۲۶ ان کے وطن کا بادشاہ تھا کوئی معجزہ دکھاتے مگر وہ کچھ بھی دکھانہ سکے.بلکہ ایک مرتبہ فقہوں اور فریسیوں نے جن کی قیصر کی گورنمنٹ میں بڑی عربت تھی حضرت مسیح سے مجزه ما نگاتو حضرت مسیح نے انہیں مخاطب کر کے پر اشتعال اور پر غضب الفاظ سے فرمایا کہ اس زمانہ کے بد اور حرامکار لوگ نشان ڈھونڈھتے ہیں.پر یونس نبی کے نشان کے سوائے کوئی نشان انہیں دکھایا نہیں جائے گا.دیکھو متی باب ۱۲ آیت ۳۹ اور حضرت مسیح نے یونس نبی کے نشان کی طرف جو اشارہ فرمایا تو اس سے حضرت مسیح کا یہ مطلب تھا کہ یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں ہلاک نہیں ہوا بلکہ زندہ رہا اور زندہ نکل آیا ایسا ہی میں بھی صلیب پر نہیں مروں گا اور نہ قبر میں مردہ داخل ہوں گا.ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰۵ تا ۱۰۸ بعض لوگ موحدین کے فرقہ میں سے بحوالہ آیات قرآنی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح ابن مریم انواع و اقسام کے پرندے بنا کر اور ان میں پھونک مار کر زندہ کر دیا معجزات ک کے بموت محل کرتے تھے.چنانچہ اسی بنا پر اس عاجز پر اعتراض کیا ہے کہ جس حالت میں قبیل مسیح العرب کے ذریعہ ہوتے تھے ہونے کا دعوی ہے تو پھر آپ بھی کوئی مٹی کا پرندہ بنا کر پھر اس کو زندہ کر کے دکھلائیے.کیونکہ جس حالت میں حضرت مسیح کے کروڑہا پر مند ہے بنائے ہوئے اب تک موجود ہیں جو ہر طرف پرواز کرتے نظر آتے ہیں تو پھر سٹیل مسیح بھی کسی پرندہ کا خالق ہونا چاہئے.ان تمام اوہام باطلہ کا جواب یہ ہے کہ وہ آیات جن میں ایسا لکھتا ہے متشابہات میں سے ہیں اور ان کے یہ معنے کرنا کہ گویا خدا تعالیٰ نے اپنے ارادہ اور اذن سے حضرت عیسی کو صفات خالقیت میں شریک کر رکھتا ہے صریح الحاد اور سخت بے ایمانی ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ اپنی صفات خاصہ الوہیت بھی دوسرے کو دے سکتا ہے تو اس سے اس کی خدائی باطل ہوتی ہے اور موحد صاحب کا یہ عذر کہ ہم ایسا اعتقاد نہیں رکھتے کہ اپنی ذاتی طاقت سے حضرت عیسی خالق طیور تھے بلکہ ہمار ا عقیدہ یہ ہے کہ یہ طاقت خدائے تعالیٰ نے اپنے اذن اور ارادہ سے ان کو دے رکھی تھی اور اپنی مرضی سے ان کو اپنی خالقیت کا حصہ دار بنادیا تھا.اور یہ اس کو اختیار ہے کہ جس کو چاہے اپنا مثیل بنا دیوے قادر مطلق جو ہوا.یہ سراسر مشرکانہ باتیں ہیں اور کفر سے بدتر.اس موحد کو یہ بھی کہا گیا کہ کیا تم

Page 545

۵۲۷ ساری اب شناخت کر سکتے ہو کہ ان پرندوں میں سے کون سے ایسے پرندے ہیں جو خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں اور کون سے ایسے پرندے ہیں کو ان پرندوں کی نسل ہیں جن کے حضرت عیسی خالق ہیں؟ تو اس نے اپنے ساکت رہنے سے یہی جواب دیا کہ میں شناخت نہیں کر سکتا.اب واضح رہے کہ اس زمانہ کے بعض موحدین کا یہ اعتقاد کہ پرندوں کے نوع میں سے کچھ تو خدا تعالیٰ کی مخلوق اور کچھ حضرت عیسی کی مخلوق ہے.سراسر فاسد اور مشرکانہ خیال ہے اور ایسا خیال رکھنے والا بلاشبہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور یہ عذر کہ ہم حضرت عیسی کو خدا تو نہیں مانتے بلکہ یہ مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بعض اپنی خدائی کی صفتیں ان کو عطا کر دی تھیں نہایت مکروہ اور باطل عذر ہے.کیونکہ اگر خدا تعالیٰ اپنے اذن اور ارادہ سے اپنی خدائی کی صفتیں بندوں کو دے سکتا ہے تو بلا شبہ وہ اپنی صفتیں خدائی کی ایک بندے کو دے کر پورا خدا بنا سکتا ہے.پس اس صورت میں مخلوق پرستوں کے کل مذاہب سچے شہر جائیں گے.اگر خدا تعالیٰ کسی بشر کو اپنے اذن اور ارادہ سے خالقیت کی صفت عطا کر سکتا ہے پھر تو وہ اس طرح کسی کو اذن اور ارادہ سے اپنی طرح عالم الغیب بھی بنا سکتا ہے اور اس کو ایسی قوت بخش سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرح ہر جگہ حاضر ناظر ہو اور ظاہر ہے کہ اگر خدائی کی صفتیں بھی بندوں میں تقسیم ہو سکتی ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کا وحدہ لا شریک ہونا باطل ہے.جس قدر دنیا میں مخلوق پرست ہیں وہ بھی یہ تو نہیں کہتے کہ ہمارے معبود خدا ہیں بلکہ ان موحدوں کی طرح ان کا بھی در حقیقت یہی قول ہے کہ ہمارے معبودوں کو خدا تعالیٰ نے خدائی کی طاقتیں دے رکھی ہیں.رب اعلیٰ و بر تر تو وہی ہے اور یہ صرف چھوٹے چھوٹے خدا ہیں.تعجب کہ یہ لوگ یارسول اللہ کہنا شرک کا کلمہ سمجھ کر منع کرتے ہیں لیکن مریم کے ایک عاجز بیٹے کو خدائی کا حصہ دار بنا رہے ہیں.بھائیو آپ لوگوں کا دراصل یہی مذہب ہے کہ خدائی بھی مخلوق میں تقسیم ہو سکتی ہے اور خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی صفت خالقیت در از قیت و عالمیت و قادر تیت وغیرہ میں ہمیشہ کے لئے شریک کر دیتا ہے تو پھر آپ لوگوں نے اپنے بدعتی بھائیوں سے اس قدر جنگ و جدل کیوں شروع کر رکھی ہے وہ بیچارے بھی تو اپنے اولیاء کو خدا کر کے نہیں مانتے صرف یہی کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے اذن اور ارادہ سے کچھ کچھ خدائی طاقتیں انہیں دے رکھتی ہیں.اور انہیں طاقتوں کی وجہ سے جو باذن الہی ان کو حاصل ہیں وہ کسی کو بیٹا دیتے ہیں اور کسی کو بیٹی.اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں نذریں نیاز میں لیتے

Page 546

۵۲۸ حضرت مسیح کا معجزہ ہیں اور مرادیں دیتے ہیں اب اگر کوئی طالب حق یہ سوال کرے کہ اگر ایسے عقائد سراسر بائل اور مشرکانہ خیالات ہیں تو ان آیات فرقانیہ کے صحیح معنے کیا ہیں جن میں لکھا ہے کہ مسیح ابن مریم مٹی کے پرندے بنا کر پھونک ان میں مارتا تھا وہ باذن الہی پرندے ہو جاتے تھے.سو واضح ہو کہ انبیاء کے معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں (1) ایک وہ جو محض سیماوی امور ہوتے ہیں.جن میں انسان کی تدبیر اور عقل کو کچھ دخل نہیں ہوتا جیسے شق القمر جو ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا اور خدا تعالیٰ کی غیر محدود قدرت نے ایک راست باز اور کامل نبی کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے اس کو دکھایا تھا.(۲) دوسرے عقلی معجزات ہیں جو اس خارق عادت عقل کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو الہام الہی سے ملتی ہے جیسے حضرت سلیمان کا وہ معجزہ جو صرح محمد مین قواریر ہے جس کو دیکھ کر بلقیس کو ایمان نصیب ہوا.اب جاننا چاہئے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت مسیح کا معجزہ حضرت سلیمان حضرت سلیمان گئے کے معجزے کی طرح صرف عقلی تھا تاریخ سے ثابت ہے کہ ان دنوں میں ایسے امور کی معجوہ کی طرح متقی تھا طرف لوگوں کے خیالات جھکے ہوئے تھے کہ جو شعبدہ بازی کی قسم میں سے اور دراصل بے سود اور عوام کو فریفتہ کرنے والے تھے.وہ لوگ جو فرعون کے وقت میں مصر میں ایسے ایسے کام کرتے تھے جو سانپ بنا کر دکھلا دیتے تھے اور کئی قسم کے جانور طیار کر کے ان کو زندہ جانورں کی طرح چلا دیتے تھے.وہ حضرت مسیح کے وقت میں عام طور پر یہودیوں کے ملکوں میں پھیل گئے تھے.اور یہودیوں نے ان کے بہت سے ساحرانہ کام سیکھ لئے تھے جیسا کہ قرآن کریم بھی اس بات کا شاہد ہے.سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور سے ایسے طریق پر اطلاع دے دی ہو جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے یا اگر پرواز نہیں تو پیروں سے چلتا ہو کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کا کام بھی کرتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بڑھئی کا کام در حقیقت ایک ایسا کام ہے جس میں گلوں کے ایجاد کرنے اور طرح طرح کی صنعتوں کے بنانے میں عقل تیز ہو جاتی ہے اور جیسے انسان میں قوئی موجود ہوں انہیں کے موافق اعجاز کے طور پر بھی مدد ملتی ہے جیسے ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ

Page 547

۵۲۹ وسلم کے روحانی قولی جو دقائق اور معارف تک پہنچنے میں نہایت تیز و قوی تھے.سوانی کے موافق قرآن شریف کا معجزہ دیا گیا.جو جامع جميع دقائق و معارف الہیہ ہے.پس اس سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح نے اپنے داد سلیمان کی طرح اس وقت کے مخالفین کو یہ عقلی معجزہ دکھلایا ہو اور ایسا معجزہ دکھلانا عقل سے بعید بھی نہیں کیونکہ حال کے زمانہ میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ اکثر مناع ایسی چڑیاں بنالیتے ہیں کہ وہ بولتی بھی ہیں اور ہلتی بھی ہیں اور دم بھی ہلاتی ہیں اور میں نے سنا ہے کہ بعض چڑیاں کل کے ذریعہ سے پرواز بھی کرتی ہیں.ہمینی اور کلکتہ میں ایسے کھلونے بہت بنتے ہیں اور یورپ اور امریکہ کے ملکوں میں بکثرت ہیں اور ہر سال نئے نئے نکلتے آتے ہیں.اور چونکہ قرآن شریف اکثر استعارات سے بھرا ہوا ہے اس لئے ان آیات کے روحانی طور پر معنی بھی کر سکتے ہیں کہ مٹی کی چڑیوں سے مراد وہ اُمی اور نادان لوگ ہیں جن کو حضرت عیسی نے اپنا رفیق بنایا گویا اپنی صحبت میں لے کر پرندوں کی صورت کا خاکہ کھینچا پھر ہدایت کی روح ان میں پھونک دی جس سے وہ پرواز کرنے لگے.ما سوا اس کے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز طریق عمل الترب یعنی مسمریز می طریق سے بطور لہو و لعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں کیونکہ عمل الترب میں جس کو زمانہ حال میں مسمریزم کہتے ہیں ایسے ایسے عجائبات ہیں کہ اس میں پوری پوری مشق کرنے والے اپنی روح کی گرمی دوسری چیزوں پر ڈال کر ان چیزوں کو زندہ کے موافق کر دکھاتے ہیں.انسان کی روح میں ایسی خاصیت ہے کہ وہ اپنی زندگی کی گرمی ایک جماد پر جو بالکل بے جان ہے ڈال سکتی ہے تب جماد سے وہ بعض حرکات صادر ہوتی ہیں جو زندوں سے صادر ہوا کرتی ہیں.راقم رسالہ ہذا نے اس علم کے بعض مشق کرنے والوں کو دیکھا ہے جو انہوں نے ایک لکڑی کی تپائی پر ہاتھ رکھ کر ایسا حیوانی روح سے اسے گرم کیا کہ اس نے چار پایوں کی طرح حرکت کرنا شروع کر دیا اور کتنے آدمی گھوڑے کی طرح اس پر سوار ہوئے اور اس کی تیزی اور حرکت میں کچھ کمی نہ ہوئی.سو یقینی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اگر ایک شخص اس فن میں کامل مشق رکھنے والا مٹی کا ایک پرندہ بنا کر اس کو پرواز کرتا ہو بھی دکھاوے تو کچھ بعید نہیں کیونکہ کچھ اندازہ نہیں کیا گیا کہ اس فن کے کمال تھی کہاں تک انتہاء ہے.اور جبکہ تم بچشم خود دیکھتے ہیں کہ اس فن کے ذریعہ سے ایک جماد میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ جانداروں کی طرح چلنے لگتا ہے تو

Page 548

پھر اگر اس میں پرواز بھی ہو تو بعید کیا ہے.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ایسا جانور جو مٹی یا لکڑی وغیرہ سے بنایا جاوے اور عمل الترب سے اپنی روح کی گرمی اس کو پہنچائی جاوے وہ در حقیقت زندہ نہیں ہو تا بلکہ بدستور بے جان اور جماد ہوتا ہے صرف عامل کے روح کی گر می بارود کی طرح اس کو جنبش میں لاتی ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان پرندوں کا پرواز کرنا قرآن شریف سے ہر گز ثابت نہیں ہو تا بلکہ ان کا ہلنا اور جنبش کرنا بھی پایہ ثبوت نہیں پہنچتا اور نہ در حقیقت ان کا زندہ ہو جانا ثابت ہوتا ہے.اس جگہ یہ بھی جانا چاہئے کہ سب امراض کرنا یا اپنی روح کی گرمی جہاد میں ڈال دینا در حقیقت یہ سب عمل الترب کی شاخیں ہیں.ہریک زمانہ میں ایسے لوگ ہوتے رہتے ہیں اور اب بھی ہیں جو اس روحانی عمل کے ذریعہ سے سلب امراض کرتے رہے ہیں اور مفلوج، مبروص، مدقوق وغیرہ ان کی توجہ سے اچھے ہوتے رہے ہیں.جن لوگوں کے معلومات وسیع ہیں وہ میرے اس بیان پر شہادت دے سکتے ہیں کہ بعض فقراء نقشبندی و سہروردی وغیرہ نے بھی ان مشقوں کی طرف بہت توجہ کی تھی اور بعض ان میں یہاں تک مشاق گذرے ہیں کہ صدہا بیماروں کو اپنے بیمین و یسار بٹھا کر صرف نظر سے اچھا کر دیتے تھے اور محی الدین ابن عربی صاحب کو بھی اس میں خاص درجہ کی مشق تھی.اولیاء اور اہل سلوک کی تواریخ اور سوانح پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کاملین ایسے عملوں سے پر ہیز کرتے رہے ہیں مگر بعض لوگ اپنی ولایت کا ایک ثبوت بنانے کی غرض سے یا کسی اور نیت سے ان مشغلوں میں مبتلا ہو گئے تھے.اور اب یہ بات قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم باذن و حکم الہی الیسع نبی کی طرح اس عمل الترب میں کمال رکھتے تھے گو الیسع کے درجہ کاملہ سے کم رہے ہوئے تھے کیونکہ الیسع کی لاش نے بھی معجزہ دکھلایا کہ اس کی ہڈیوں کے لگنے سے ایک مردہ زندہ ہو گیا مگر چوروں کی لاشیں مسیح کے جسم کے ساتھ لگنے سے ہر ے ہر گز زندہ نہ ہو سکیں.یعنی وہ دو چور جو مسیح کے ساتھ مصلوب ہوئے تھے.بہر حال مسیح کی یہ تربی کاروائیاں زمانہ کے مناسب حال بطور خاص مصلحت کے تھیں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں.جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں.اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے امید قوی رکھا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا.لیکن مجھے وہ روحانی طریق پسند ہے جس پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۵۳۰

Page 549

۵۳۱ قدم مارا ہے اور حضرت مسیح نے بھی اس عمل جسمانی کو یہودیوں کے جسمانی اور پست خیالات کی وجہ سے جو ان کی فطرت میں مرکوز تھے باذن و حکیم الہی اختیار کیا تھا ورنہ دراصل مسیح کو بھی یہ عمل پسند نہ تھا.واضح ہو کہ اس عمل جسمانی کا ایک نہایت پر اخاصہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے تئیں اس مشغولی میں ڈالے اور جسمانی مرضوں کے رفع دفع کرنے کے لئے اپنی دلی و دماغی طاقتوں کو خرچ کرتا رہے وہ اپنی ان روحانی تاثیروں میں جو روح پر اثر ڈال کر روحانی بیماریوں کو دور کرتی ہیں بہت ضعیف اور نکما ہو جاتا ہے اور امر تنویر باطن اور تزکیہ نفوس کا جو اصل مقصد ہے اس کے ہاتھ بہت کم انجام پذیر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ گو حضرت مسیح جسمانی بیماروں کو اس عمل کے ذریعہ سے اچھا کرتے رہے مگر ہدایت اور توحید اور دینی استقامتوں کے کامل طور پر دلوں میں قائم کرنے کے بارے میں ان کی کاروائیوں کا نمبر ایسا کم درجہ کار ہا کہ قریب قریب نا کام کے رہے.لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ ان جسمانی امور کی طرف توجہ نہیں فرمائی اور تمام زور اپنی روح کا دلوں میں ہدایت پیدا ہونے کے لئے ڈالا اسی وجہ سے تکمیل نفوس میں سب سے بڑھ کر رہے اور ہزار ہا بندگان خدا کو کمال کے درجہ تک پہنچادیا اور اصلاح خلق اور اندرونی تبدیلیوں میں وہ ید بیضا دکھلایا کہ جس کی ابتدائے دنیا سے آج تنگ نظیر نہیں پائی جاتی.حضرت مسیح کے عمل الترب سے وہ مردے جو زندہ ہوتے تھے یعنی وہ قریب الموت آدمی جو گویا نئے سرے زندہ ہو جاتے تھے وہ بلا توقف چند منٹ میں مرجاتے تھے کیونکہ بذریعہ عمل التراب روح کی گرمی اور زندگی صرف عارضی طور پر ان میں پیدا ہو جاتی تھی مگر جن کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندہ کیا وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے.اور یہ جو میں نے مسمریز می طریق کا عمل التراب نام رکھا جس میں حضرت مسیح بھی کسی درجہ تک مشق رکھتے تھے یہ الہامی نام ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ عمل الترب ہے اور اس عمل کے عجائبات نسبت بھی الہام ہوا.هذا هو التراب الذي لا يعلمون یعنی یہ وہ عمل الترب ہے جس کی اصل حقیقت کی زمانہ حال کے لوگوں کو کچھ خبر نہیں.ورنہ خدا تعالیٰ اپنی ہر یک صفت میں واحد لاشریک ہے اپنی صفات الوہیت میں کسی کو شریک نہیں کرتا.فرقان کریم کی آیات بینات میں اس قدر اس مضمون کی تائید پائی جاتی ہے جو کسی پر مخفی نہیں جیسا کہ وہ عزاسمہ فرماتا ہے.

Page 550

الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يكن لشريك في الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَى فَقَدْرَهُ تَقْدِيرًا وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ وَالِهَةً لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَوةً وَلَا نُشُورًا یعنی خداوہ خدا ہے جو تمام زمین و آسمان کا اکیلا ملک ہے کوئی اس کا حصہ دار نہیں اس کا کوئی بیٹا نہیں اور اور نہ اس کے ملک میں کوئی اس کا شریک اور اسی نے ہر ایک چیز کو اکیا اور پھر ایک حد تک اس کے جسم اور اس کی طاقتوں اور اس کی عمر کو محدود کر دیا اور مشرکوں نے بجز اس خدائے حقیقی کے اور اور ایسے ایسے خدا مقرر کر رکھے ہیں جو کچھ بھی کر سکتے بلکہ آپ پیدا شدہ اور مخلوق ہیں اور اپنے ضرر اور نفع کے مالک نہیں ہیں اور نہ موت اور زندگی اور جی اٹھنے کے مالک ہیں.اب دیکھو خدائے تعالیٰ صاف صاف طور پر فرمارہا ہے کہ بجز میرے کوئی اور خالق نہیں بلکہ ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ تمام جہان مل کر ایک لکھی بھی پیدا نہیں کر سکتا.اور صاف فرماتا ہے کہ کوئی شخص موت اور حیات اور ضرر اور نفع کا مالک نہیں ہو سکتا.اس جگہ ظاہر ہے کہ اگر کسی مخلوق کو موت اور حیات کا مالک بنا دینا اور اپنی صفات میں شریک کر دینا اس کی عادت میں داخل ہوتا تو وہ بطور استثناء ایسے لوگوں کو ضرور باہر رکھ لیتا اور ایسی اعلیٰ تو حید کی ہمیں ہر گز تعلیم نہ دیتا.اگر یہ وسواس دل میں گذرے کہ پھر اللہ جل شانہ نے مسیح ابن مریم کی نسبت اس قصہ میں جہاں پرندہ بنانے کا ذکر ہے تخلق کا لفظ کیوں استعمال کیا جس کے بظاہر یہ معنے ہیں که تو پیدا کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ حضرت عیسیٰ کو خالق قرار دینا بطور استعادہ ہے جیسا کہ اس دوسری آیت میں فرمایا ہے فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَلِقِينَ.بلاشبہ حقیقی اور سچا خالق خدا تعالیٰ ہے اور جو لوگ مٹی بالکڑی کے کھلونے بناتے ہیں وہ بھی خالق ہیں مگر جھوٹے خالق.جن کے فعل کی اصلیت کچھ بھی نہیں.اور اگر یہ کہا جائے کہ کیوں بطور معجزہ جائز نہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام اذن اور ۵۳۲

Page 551

۵۳۳ ارادہ الہی سے حقیقت میں پرندے بنالیتے ہوں اور وہ پرندے ان کی اعجازی پھونک سے پرواز کر جاتے ہوں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے اذن اور ارادہ سے کسی شخص کو موت اور حیات اور ضرر اور نفع کا مالک نہیں بناتا ہی لوگ دعا اور تضرع سے معجزہ مانگتے ہیں.معجزہ نمائی کی ایسی قدرت نہیں رکھتے جیسا کہ انسان کو ہاتھ پیر ہلانے کی قدرت ہوتی ہے.غرض معجزہ کی حقیقت اور مرتبہ سے یہ امر بالاتر اور ان صفات خاصہ خدا تعالیٰ میں سے ہے جو کسی حالت میں بشر کو مل نہیں سکتیں.معجزہ کی حقیقت یہ ہے کہ خداتعالی ایک امر خارق عادت یا ایک امر خیال اور گمان سے باہر اور امید سے بڑھ کر ایک اپنے رسول کی عزت اور صداقت ظاہر کرنے کے لئے اور اس کے مخالفین کی بجز اور مغلوبیت جتلانے کی غرض سے اپنے ارادہ خاص سے یا اس رسول کی دعا اور درخواست سے آپ ظاہر فرماتا ہے مگر ایسے طور سے جو اس کی صفات وحدانیت و تقدیس و کمال کے منافی و مغائر نہ ہو اور کسی دوسرے کی وکالت یا کار سازی کا اس میں کچھ دخل نہ ہو.اب ہر یک دانشمند سوچ سکتا ہے کہ یہ صورت ہرگز معجزہ کی صورت نہیں کہ خدا تعالی دائمی طور پر ایک شخص کو اجازت اور اذن دیدے کہ تو مٹی کے پرندے بنا کر پھونک مارا کر وہ حقیقت میں جانور بن جایا کریں گے اور ان میں گوشت اور ہڈی اور خون اور تمام اعضاء جانوروں کے بن جائیں گے.ظاہر ہے کو اگر خدا تعالیٰ پرندوں کے بنانے میں اپنی خالقیت کا کسی کو وکیل گھر اسکتا ہے تو تمام امور خالقیت میں وکالت تامہ کا عہدہ بھی کسی کو دے سکتا ہے.اس صورت میں خدائے تعالیٰ کی صفات میں شریک ہونا جائز ہو گا گو اس کے حکم اور اذن سے ہی سہی اور نیز ایسے خالقوں کے سامنے اور فتشابه الخلق عَلَيْهِمْ کی مجبوری سے خالق حقیقی کی معرفت مشتبہ ہو جائے گی.غرض یہ اعجاز کی صورت نہیں یہ تو خدائی کا حصہ دار بناتا ہے.بعض دانشمند شرک سے بچنے کے لئے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح جو پرندے بناتے تھے وہ بہت دیر تک جیتے نہیں تھے ان کی عمر چھوٹی ہوتی تھی تھوڑی مسافت تک پرواز کر کے پھر گر کر مر جاتے تھے.لیکن یہ عذر بالکل فضول ہے اور صرف اس حالت میں ماننے کے لائق ہے کہ جب یہ اعتقاد ر کھا جائے کہ ان پرندوں میں واقعی اور حقیقی حیات پیدا نہیں ہوتی تھی بلکہ صرف ظلی اور مجازی اور جھوٹی حیات جو عمل الترب

Page 552

کے ذریعہ سے پیدا ہو سکتی ہے ایک جھوٹی جھلک کی طرح ان میں نمودار ہو جاتی تھی پس اگر اتنی ہی بات ہے تو ہم اس کو پہلے سے تسلیم کر چکے ہیں ہمارے نزدیک ممکن ہے کہ عمل الترب کے ذریعہ سے پھونک کی ہوا میں وہ قوت پیدا ہو جائے جو اس دخان میں پیدا ہوتی ہے جس کی تحریک سے غبارہ اوپر کو چڑھتا ہے.صانع فطرت نے اس مخلوقات میں بہت کچھ خواص مخفی رکھے ہوئے ہیں.ایک شریک صفات باری ہونا ممکن نہیں اور کونسی صنعت ہے جو غیر ممکن ہے ؟ اور اگر یہ اعتقاد ر کھا جائے کہ ان پرندوں میں واقعی اور حقیقی حیات پیدا ہو جاتی تھی اور سچ مچ ان میں ہڈیاں گوشت پوست خون وغیرہ اعضاء بن کر جان پڑ جاتی تھی تو اس صورت میں یہ بھی مانا پڑے گا کہ ان میں جاندار ہونے کے تمام لوازم پیدا ہو جاتے ہوں گے اور وہ کھانے کے بھی لائق ہوتے ہوں گے اور ان کی نسل بھی آج تک کروڑہا پرندے زمین پر موجود ہوں گے اور کسی بیماری سے یا شکاری کے ہاتھ سے مرتے ہوں گے تو ایسا اعتقاد بلاشبہ شرک ہے.بہت لوگ اس وسوسہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اگر کسی نبی کے دعا کرنے کوئی مردہ زندہ ہو جائے یا کوئی جہاد جاندار بن جائے تو اس میں کون سا شرک ہے ایسے لوگوں کو جاننا چاہئے کہ اس جگہ دعا کا کچھ ذکر نہیں اور دعا کا قبول کرنا یا نہ کرتا اللہ جل شانہ کے اختیار میں ہوتا ہے اور دعاپر جو فعل مترتب ہوتا ہے وہ فعل الہی ہوتا ہے نبی کا اس میں کچھ دخل نہیں ہوتا اور نبی خواہ دعا کرنے کے بعد فوت ہو جائے نبی کے موجود ہونے یا نہ ہونے کی اس میں کچھ حاجت نہیں ہوتی.غرض نبی کی طرف سے صرف دعا ہوتی ہے جو کبھی قبول اور کبھی رو بھی ہو جاتی ہے لیکن اس جگہ وہ صورت نہیں.اناجیل اربعہ کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح جو جو کام اپنی قوم کو دکھلاتا تھاوہ دعا کے ذریعہ ہر گز نہیں تھے اور قرآن شریف میں بھی کسی جگہ یہ ذکر نہیں کہ مسیح بہاروں کے چنگا کرنے یا پرندوں کے بنانے کے وقت دعا کر تا تھا بلکہ وہ اپنی روح کے ذریعہ سے جس کو روح القدس کے فیضان سے برکت بخشی گئی تھی ایسے ایسے کام اقتداری طور پر دکھاتا تھا چنانچہ جس نے کبھی اپنی عمر میں غور سے انجیل پڑھی ہو گی وہ ہمارے اس بیان کی یہ یقین تمام تصدیق کرے گا اور قرآن شریف کی آیات بھی بآواز بلند ہی پکار رہی ہیں کہ مسیح کے ایسے عجائب کاموں میں اس کو طاقت بخشی گئی تھی اور خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ وہ ایک فطرتی طاقت تھی جو ہر یک فرد بشر کی فطرت میں موقع ہے مسیح سے اس کی ۵۳۴

Page 553

۵۳۵ کچھ خصوصیت نہیں.چنانچہ اس بات کا تجربہ اسی زمانہ میں ہورہا ہے.مسیح کے مجربات تو اس تالاب کی وجہ سے بے رونق اور بے قدر تھے جو مسیح کی ولادت سے بھی پہلے مظہر عجائبات تھا جس میں ہر قسم کے بیمار اور تمام مجزوم مفلوج مبروص وغیرہ ایک ہی غوطہ مار کر اچھے ہو جاتے تھے لیکن بعد کے زمانوں میں جو لوگوں نے اس قسم کے خوارق دکھلائے اس وقت تو کوئی تالاب بھی موجود نہیں تھا.غرض یہ اعتقاد بالکل غلط اور فاسد اور مشرکانہ خیال ہے کہ مسیح مٹی کے پرندے بنا کر اور ان میں پھونک مار کر انہیں سچ سچ کے جانور بنا دیتا تھا.نہیں بلکہ صرف عمل الترب تھا جو روح کی قوت سے ترقی پذیر ہو گیا تھا.یہ بھی ممکن ہے کہ مسیح ایسے کام کے لئے اس تالاب کی مٹی لاتا تھا جس میں روح القدس کی تاثیر رکھی گئی تھی.بہر حال یہ معجزہ صرف ایک کھیل کی قسم میں سے تھا اور وہ مٹی در حقیقت ایک مٹی ہی رہتی تھی.جیسے سامری کا گوساله فتدبر فانه نكتة جليلة مايلة بها الأذو حظ عظيم -.ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۵۱ تا ۲۶۳ حاشیه یسوع مسیح کے نشانوں کا اس راقم کے نشانوں سے یسوع مسیح کے نشانوں کا مقابلہ اور ایک پادری صاحب کا جواب اس راقم کے نشانوں سے مقابلہ اور ایک جواب کچھ دن ہوئے ہیں کہ اس راقم نے حضرات پادری صاحبوں کو مخاطب کر کے یہ اشتہار پادری صاحب کا شائع کیا تھا کہ اگر حضرات موصوفین یسوع کے نشانوں کو میرے نشانوں سے قوت ثبوت اور کثرت تعداد میں بڑھے ہوئے ثابت کر سکیں تو میں ان کو ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا.ہزار روپیہ کے انعام کا اشتہار میں اس وقت ایک مستحکم وعدہ کے ساتھ یہ اشتہار شائع کرتاہوں کہ اگر کوئی صاحب عیسائیوں میں سے یسوع کے نشانوں کو جو اس کی خدائی کی دلیل سمجھے جاتے ہیں میرے

Page 554

۵۳۶ اس اشتہار کے جواب میں جو کچھ بعض پادری صاحبوں نے لکھا ہے وہ اخبار عام ۲۳ فروری ۱۸۹۷ء میں بحوالہ کر چین ایڈووکیٹ چھپ گیا ہے.چنانچہ مجیب صاحب نے اول انجیل کی عبارت لکھ کر اس بات پر زور دیا ہے کہ جھوٹے رسول اور جھوٹے مسیح بھی ایسے بڑے نشان دکھلا سکتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو بر گزیدوں کو بھی گمراہ کریں.لیکن ظاہر ہے کہ یہ عبارت انجیل جو صاحب راقم نے پیش کی ہے ان کے مدعا کو کچھ فائدہ بخش نہیں بلکہ اس سے وہ خود زیر الزام آتے ہیں کیونکہ جس حالت میں اس قسم کے نشانوں پر بھروسہ کر کے یسوع کو خدا بنا دیا گیا ہے تو یہ بڑا ظلم ہو گا کہ دوسرا شخص ایسے ہی نشان بلکہ بقول یسوع بڑے بڑے نشان بھی دکھلا کر ایک سچا ملہم بھی نہ ٹھر سکے.یہ منطق تو ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ یسوع کی ذات کے لئے وہ نشان ایسے سمجھے جائیں جس سے اس کی الوہیت بپایہ ثبوت پہنچ جائے اور اسکے خدا ہونے میں کچھ بھی کسر نہ رہے.پھر جب وہی نشان بلکہ بقول یسوع ان سے بھی کچھ بڑھ چڑھ کر کسی دوسرے مدعی الہام سے صادر ہوں تو اس بے چارے کا علم ہونا بھی ان سے ثابت نہ ہو سکے یہ کس قسم کا اصول اور قاعدہ ہے؟ کیا کوئی سمجھ سکتا ہے؟ پھر مسیحیوں کو اس پر بھی اصرار ہے کہ یسوع کے نشان اقتداری نشان ہیں.تبھی تو وہ خدا ہے! بہت خوب! لیکن ذرا شہر کر سوچو کہ اگر جھوٹے نبی سے نشان ظاہر ہوں تو وہ نشانوں اور فوق العادۃ خوارق سے قوت ثبوت اور کثرت تعداد میں بڑھے ہوئے ثابت کر سکیں تو میں ان کو ایک ہزار روپیہ بطور انعام دوں گا.میں سچ سچ اور حلفاً کہتا ہوں کہ اس میں تختلف نہیں ہو گا.میں ایسے ثالث کے پاس یہ روپیہ جمع کراسکتا ہوں جس پر فریقین کو اطمینان ہو.اس فیصلہ کے لئے غیر مذاہب والے منصف ٹھیرائے جائیں گے.درخواستیں جلد آنی چاہئیں.الراقم عیسائی صاحبوں کا دلی خیر خواہ میرزا غلام احمد قادیانی تعداد اشاعت ۵۲۰۰ مطبع ضیاء الاسلام قادیان میں چھپا ۲۸ جنوری ۱۸۹۷ء یه اشتہار ۱۸ × ۲۲ کے نصف صفحہ پر ہے مجموعه اشتہارات جلد ۲ صفحه ۱۷ بقیه حاشیه

Page 555

۵۳۷ اقتداری ہی ی کہلائیں گے نہ اور کچھ.کیونکہ جھوٹا خدا سے دعا نہیں کرتا اور نہ خدا سے کچھ میل رکھتا ہے.سو اگر وہ کوئی نشان دکھلاوے تو اس میں کیا شک ہے کہ اپنے اقتدار سے ہی دکھلائے گا نہ خدا سے.پس ایسے اقتداری نشانوں سے اگر خدائی ثابت ہو سکتی ہے تو ایک کاذب کی خدائی یسوع کی خدائی سے باعتبار ثبوت کے اول درجہ پر ہے.یسوع کے اقتداری نشانوں میں شبہ بھی ہو سکتا ہے.کیونکہ وہ راست باز تھا.ممکن ہے کہ اس نے نشانوں کے دکھلانے میں خدا سے مدد پائی ہو لیکن کاذب کے اقتداری نشانوں میں اس شبہ کا ذرہ دخل نہیں کیونکہ وہ راست باز نہیں اور نہ خدا سے کچھ مدد پا سکتا ہے اور نہ خدا اس سے کچھ جوڑ اور تعلق رکھتا ہے پس اس مسیحی اصول کے موافق اگر کاذب بڑے بڑے نشان دکھلاوے تو نبوت کیا اس کی تو خدائی بھی نہایت صفائی سے ثابت ہو سکتی ہے.نیچے نشانوں کے امکان صدور کے لئے مسیح کا سرٹیفکیٹ کافی ہے.پھر ایک کذاب کے خدابن جانے میں کیا مشکلات ہیں میں حیران ہوں کہ عیسائی صاحبوں نے ان عبارتوں کو کیوں پیش کر دیا ان کو تو مخفی رکھنا چاہئے تھا.اب تو وہی بات ہوئی کہ تبر خویش بر پائے خویش دوسرا جواب مجیب صاحب نے یہ دیا ہے کہ یسوع مسیح مردوں کو زندہ کرتا اور جذامیوں وغیرہ کو صاف کرتا تھا.لیکن افسوس کہ صاحب راقم نے اس جواب کے وقت میرے اشتہار کے اس فقرہ کو نہیں پڑھا کہ قوت ثبوت میں موازنہ کیا جائے گا.افسوس انہوں نے یہ کیسی جلدی کی کہ قصوں اور کہانیوں کو پیش کر دیا.صاحبو! اسیح کا مردوں کو زندہ کرنا وغیرہ امور یہ سب ایسے قصے ہیں کہ جن کو خود یورپ کے محقق بنظر استہزاء دیکھتے ہیں.ان کا نام ثبوت رکھنا اگر سادہ لوحی نہ ہو تو اور کیا ہے.اور اگر ثبوت اسی کو کہتے ہیں تو پھر دوسری قوموں کا کیا قصور ہے کہ ان کے خداؤں کو قبول نہیں کیا جاتا.کیا ان کے دفتروں اور کتابوں میں اس قسم کے قصے بکثرت بھرے ہوئے نہیں ہیں؟ دنیا میں اکثر یہی فساد بہت پھیل رہا ہے کہ لوگ دعوی اور دلیل میں فرق نہیں کرتے کون اس بات کو نہیں جانتا کہ یہود جن کے لئے یسوع بھیجا گیا تھاوہ سب اس کے معجزات سے صاف منکر ہیں.اب تک ان کی پرانی کتابوں سے لے کر آخری تالیفات تک میں یہی واویلا ہے کہ اس سے کوئی بھی معجزہ نہیں ہوا چنانچہ بعض تاریخی کتابیں ان کی میرے پاس بھی موجود ہیں.پس کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ جس قوم کو مردے زندہ کر کے

Page 556

دکھلائے گئے اور ان کے جذامی اچھے کئے گئے اور ان کے مادر زاد اندھوں کی آنکھیں کھولی گئیں.وہ قدیم سے قطعا ان باتوں سے منکر چلے آویں اور کوئی فرقہ ان میں قاتل نہ ہو.بھلا اگر اور نہیں تو سنا تو چاہئے تھا کہ جن کے باپ دادوں پر یہ احسان ہوا وہی شکر کے طور پر مانتے چلے آتے سواب اگر عیسائیوں کی انجیل یہ بیان کرتی ہے کہ مردے زندہ طور پر سوپ چیز ہوئے تو اسکے بر خلاف یہودیوں کی بہت سی کتابیں بیان کرتی ہیں کہ ایک ٹڈی بھی زندہ نہیں ہوئی اور نہ اور کوئی نشان ظاہر ہوا.تو اب کون فیصلہ کرے کہ ان دونوں میں سے حق پر کون ہے بلکہ تین دلیل سے بظاہر یہود حق پر معلوم ہوتے ہیں.(۱) اول یہ کہ عادت اللہ نہیں ہے کہ بار بار قبریں پھٹیں اور مردے دنیا میں آویں.(۲) دوم یہ کہ یسوع نے انجیل میں آپ بھی مجربات دکھلانے سے انکار کیا ہے بلکہ غصہ میں آکر معجزات مانگنے والوں کو حرامکار کہہ دیا ہے.(۳) تیسرے یہود کی طرف سے یہ حجت ہے کہ اگر یسوع میں مردہ زندہ کرنے کی طاقت ہوتی تو وہ اپنی نبوت کے ثابت کرنے کے لئے ضرور اس طاقت کو استعمال کرتا.لیکن جب اس پوچھا گیا تھا کہ مسیح سے پہلے ایلیاء کا دوبارہ دنیا میں آنا ضروری ہے.اگر تو مسیح موعود ہے تو دکھلا کہ ایلیا کہاں ہے تو اس نے اس وقت تاویل سے کام لیا اور کہا کہ یو حنابن ذکریا کو ایلیا سمجھ لو اور اسی وجہ سے یہود کے علما اس کو قبول نہ کر سکے.پس اگر اس کو زندہ کرنے کی قدرت تھی تو اس پر فرض تھا کہ وہ فی الفور ایلیا کو دکھلا دیتا اور تاویلوں میں نہ پڑتا.غرض ایسے بیہودہ قصے ثبوت میں داخل نہیں ہیں بلکہ خود ثبوت کے محتاج ہیں.پھر کیا مناسب تھا کہ ثبوت رؤیت کے مقابلہ پر ایسے قصوں کو پیش کیا جاتا.اگر کہو کہ قرآن شریف میں عیسی علیہ السّلام کے معجزات کا ذکر آیا ہے.سو واضح رہے کہ قرآن شریف کوئی تاریخی کتاب نہیں اور نہ اس نے کسی تاریخی کتاب سے ان قصوں کو نقل کیا ہے بلکہ اس کی تمام باتیں اس کی الہامی سچائی کی بنیاد پر مانی جاتی ہیں.سو وہ جس الہام کے ذریعہ سے حضرت عیسی کے معجزات کا ذکر کرتا ہے اسی الہام کے ذریعہ سے یہ بھی بیان کرتا ہے کہ عیسیٰ صرف انسان تھا.خدا نہیں تھا اور آنے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مصدق تھا مکذب نہیں تھا.پس اگر ۵۳۸

Page 557

۵۳۹ قرآن کی وحی پر اعتماد اور ایمان ہے تو پھر کوئی جھگڑا نہیں ہم قرآن کی الہامی گواہی سے مانتے ہیں کہ عیسی بن مریم ایک صالح آدمی اور پیغمبر تھا.اس نے کبھی خدا ہونے کا دعوی نہیں کیا اور آنے والے رسول پر اس کو ایمان تھا اور وہ صاحب مجربات تھا.مگر یادر ہے کہ یہ گواہی الہامی ہے نہ تاریخی جو شخص قرآن کے الہام کو نہیں مانتا اس کے نزدیک یہ سب گواہی کالعدم ہے.اور جو مانتا ہے وہ قرآن کے سارے بیان کو مانتا ہے.اگر ایمان نہیں تو یہ حوالہ بیکار ہے.پس جو شخص قرآن کی وحی سے انکار کرتا ہے وہ قرآن کی شہادت سے کچھ نفع نہیں اٹھا سکتا.ہم نے جیسا کہ قرآن کی اس وحی کو قبول کیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السّلام سے معجزات ظاہر ہوئے ایسا ہی اس وحی کو بھی قبول کیا ہے کہ وہ محض بندے اور خدا کے رسول اور ہمارے نبی کے مصدق تھے اور قرآن کی شہادت کی قدر و قیمت اس وقت تک ہے کہ جب اس کو خدا کی وحی سمجھی جاوے.پس جو شخص اس کو وحی مانتا ہے وہ اس کی ساری باتیں مانتا ہے وحی کے ایک حصہ کو ماننا اور دوسرے جو رد کرنا دیانتداروں کا کام نہیں.ہمارا جھگڑا اس یسوع کے ساتھ ہے جو خدائی کا دعوی کرتا ہے نہ اس برگزیدہ نبی کے ساتھ جس کا ذکر قرآن کی وحی نے معہ تمام لوازم کے کیا ہے.برانم خاکسار غلام احمد قادیانی ۲۸ فروری ۱۸۹۷ء یہ اشتہار ضمیمه اخبار مخبر دکن مدراس کے ایک صفحہ پر ہے ) مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۲۸ تا ۳۳۲ ٣٨٣ حضرت موسی اور ہوئیں حضرت موسیٰ کی توریت میں یہ پیش گوئی تھی کہ وہ بنی اسرائیل کو ملک شام میں جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں پہنچائیں گے مگر یہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی حضرت موسیٰ بھی راہ میں فوت ہوئے اور بنی اسرائیل بھی راہ میں مرگئے صرف اولاد ان کی وہاں گئی.حضرت مسیح کی جائیں ایسا ہی حضرت عیسی کی پیش گوئی کہ بارہ ۱۲ تخت ان کے حواریوں کو ملیں گے وہ پیش گوئیاں پوری نہیں کوئی بھی غلط نکلی.اب موسیٰ اور عیسی دونوں کی نبوت سے دستبردار ہو جاؤ.سید عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں قديو عد ولا یوفی یعنی کبھی وعدہ دیا جاتا ہے اور اس کا ایفاء نہیں ہوتا.پھر وعید کی شرطی پیش گوئیوں پر اس قدر شور مچانا کس قدر بے علمی پر دلالت کرتا ہے.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۸۳ حاشیه

Page 558

۵۴۰ دگوت رومانی آرام جو خدا کے وصال سے ملتا ہے اسکے بارے میں تو میں خدا کی دو ہائی دیکر کہتا ہوں کہ یہ تو اس سے بالکل بے نصیب ہے.انکی آنکھوں پر کر دے اور نین نمائی کے لئے ان کے دل مردہ اور تاریخی میں پڑے ہوئے ہیں.یہ لوگ سچے خُدا سے بالکل غافل ہیں.اور ایک عاجز انسان کو جو ہستی ازلی کے آگے کچھ بھی نہیں ناحق خدا بنا رکھا ہے.ان میں برکات نہیں.ان میں دل کی روشنی نہیں.ان کو سچے عمدا کی محبت نہیں بلکہ اس سچے خدا کی معرفت بھی نہیں.ان میں کوئی بھی نہیں ہاں ایک بھی نہیں جس میں ایمان کی نشانیاں پائی جاتی ہوں.اگر ایمان کوئی واقعی برکت ہے تو بیشک اس کی نشانیاں ہونی چاہئیں گر کہاں ہے کوئی ایسا عیسائی جسمیں میسوع کی بیان کردہ نشانیاں پائی جاتی ہوں ؟ پس یاتو انجیل جھوٹی ہے اور یا عیسائی جھوٹے ہیں.دیکھو قرآن کریم نے جو نشانیاں ایمانداروں کی بیان فرمائیں وہ ہر زمانہ میں پائی گئی ہیں.قرآن شریف فرماتا ہے کہ ایماندار کو الہام ملتا ہے.ایماندار خُدا کی آواز سنتا ہے.ایماندار کی دعائیں سب سے زیادہ قبول ہوتی ہیں.ایماندار پر غیب کی خبر میں ظاہر کی جاتی ہیں.ایماندار کے شامل حال آسمانی تائیدیں ہوتی ہیں.سو جیسا کہ پہلے زمانوں میں یہ نشانیاں پائی جاتی تھیں اب بھی بدستور پائی جاتی ہیں.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن خدا کا پاک کلام ہے اور قرآن کے وعدے خدا کے وعدے ہیں.اُٹھو عیسائیو اگر کچھ طاقت ہے تو مجھ سے مقابلہ کرو اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے بیشک ذبیح کرد و.ورنہ آپ لوگ خدا کے الزام کے نیچے ہیں.او تراقيم ميرزا غلام احمد رزق قادتان ضلع گورداس پوره ۱۲ جون ۹۶ مایم سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جوابات.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۷۴

Page 559

۵۴۱ ۱۳۸۵ خدا تعالیٰ پر فرض نہیں کہ تمام شرائط اپنے وجی اور الہام کے شخص ملہم پر کھول دے بلکہ جہاں کوئی ابتلاء منظور ہوتا ہے بعض شرائط کو مخفی رکھ لیتا ہے جس طرح حضرت یونس کے قصّہ میں رکھا.اس میں کیا شک ہے کہ حضرت یونس کی پیش گوئی ایک معرکہ کی پیش ہوئی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے ایمان کی شرط کو حضرت یونس پر ظاہر نہ کیا جس سے ان کو بڑا ابتلا پیش آیا.اور اس ابتلا سے حضرت مسیح بھی باہر نہ رہے کیونکہ جس پیش گوئی سابقہ پران خدا تعالی کا طریق کی صحت نبوت کا مدار تھا وہ پیش گوئی اپنی ظاہری صورت کے ساتھ پوری نہ ہوئی.یعنی ایلیا نبی کا دوبارہ دنیا میں آنا اور آخر حضرت مسیح نے تاویلات سے کام لیا مگر تاویلات میں نہایت مشکل امر یہ تھا کہ وہ تاویلات علماء یہود کیا جماع سے بالکل بر خلاف تھیں اور ایک بھی ان کے ساتھ متفق نہیں تھا.حضرت مسیح نے کہا کہ ایلیا سے مراد بھی ہے اور ایلیا کے صفات بیٹی میں اتر آئے ہیں گویا ایلیا ہی نازل ہو گیا.مگر یہ تاویل نہایت سختی سے رد کی گئی اور حضرت مسیح کو نعوذ باللہ ملحد قرار دیا گیا کہ پہلی کتابوں اور نصوص صریحہ کے الٹے معنی کرتا ہے.اس لئے عیسائی یا ایک مسلمان کے لئے ادب سے دور ہے کہ اگر کسی پیش گوئی کو اپنی صورت پر پوری ہوتی نہ دیکھے توفی الفور ملہم کو کاذب کہہ دے حضرت مسیح کی بعض پیش گوئیاں اپنے وقت پر بھی پوری نہیں ہوئیں یعنی وقت کوئی بتلایا گیا.اور ظہور ان کا کسی اور وقت میں ہوا.جیسے دن سے مراد سال لیا گیا.انوار الاسلام - روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۴ ١٣٨٦ ނ اجتهادی غلطی کوئی نبی نہیں جس نے کبھی نہ کبھی اپنے اجتہاد میں غلطی نہ کھائی ہو.مثلاً حضرت مسیح علیہ السلام جو خدا بنائے گئے ان کی اکثر پیش گوئیاں غلطی.پر ہیں.مثلاً یہ دعوی کہ مجھے داؤد کا تخت ملے گا بجز اس کے ایسے دعوی کے کیا معنے تھے کہ کسی مجمل الہام پر بھروسہ کر کے ان کو یہ خیال پیدا ہوا کہ میں بادشاہ بن جاؤں گا.داؤد کی اولاد سے تو تھے ہی اور بگھتن شہزادہ.اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو تخت اور بادشاہت کی بہت خواہش تھی اور اس طرف یہود بھی منتظر تھے کہ کوئی ان میں سے پیدا ہو کہ تا ان کی دوبارہ بادشاہت قائم کرے اور رومیوں کی اطاعت سے ان کو چھڑا دے.سو در حقیقت ایساد علوی که داؤد کا تخت پھر قائم ہو گا یہودیوں کی عین مراد تھی اور

Page 560

۵۴۲ ابتدا میں اس بات سے خوش ہو کر بہت سے یہودی آپ کے پاس جمع ہو گئے تھے.مگر بعد اس کے کچھ ایسے اتفاق پیش آئے کہ یہودیوں نے سمجھ لیا کہ یہ شخص اس بخت اور قسمت کا آدمی نہیں اس لئے ان سے علیحدہ ہو گئے اور بعض شریر آدمیوں نے گورنمنٹ رومی کے گورنر کے پاس بھی یہ خبر پہنچادی کہ یہ شخص داؤد کے تخت کا دعویدار ہے.تب حضرت مسیح نے فی الفور پہلو بدل لیا اور فرمایا کہ میری بادشاہت آسمانی ہے زمین کی نہیں.مگر یہودی اب تک اعتراض کرتے ہیں کہ اگر آسمانی بادشاہت تھی تو آپ نے حواریوں کہ یہ حکم دیا تھا کہ کپڑے بیچ کر ہتھیار خرید لو.پس اس میں شک نہیں کہ حضرت مسیح کے اجتہاد میں غلطی تھی اور ممکن ہے کہ یہ شیطانی وسوسہ ہو جب کے بعد آپ نے رجوع کر لیا کیونکہ انبیاء غلطی پر قائم نہیں رکھتے جاتے.اور میں نے شیطانی وسوسہ محض انجیل کی تحریر سے کہا ہے کیونکہ انجیل سے ثابت ہے کہ کبھی کبھی آپ کو شیطانی الہام بھی ہوتے تھے ہیں.مگر آپ ان الہامات کو رد کر دیتے تھے اور خدا تعالیٰ میں شیطان سے آپ کو بچالیتا تھا جیسا کہ اسلام کی حدیثوں میں آپ کی یہ صفت لکھی ہیں اور آپ ہمیشہ محفوظ رہے.کبھی آپ نے شیطان کی پیروی نہیں کی.اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۳۳ جس تمسخر کو آپ نے میری پیش گوئیوں میں تلاش کرنا چاہا اور نامراد رہے اگر حضرت عیسی کی ان پیش گوئیوں میں تلاش کرتے تو بغیر کسی محنت کے فی الفور آپ کو س کی پیش گوئیوں سے مل جاتا.اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ حضرت عیسی نے زلزلہ کا نام زلزلہ ہی رکھا کوئی ان کی نبوت ملیت نہیں ہوتی تاویل نہیں کی.کیا آپ مجھے حضرت عیسی کا کوئی فقرہ دکھلا سکتے ہیں جس میں لکھا ہو کہ ان پیش گوئیوں میں زلزلہ سے مراد در حقیقت زلزلہ ہے کوئی استعادہ نہیں اور بغیر حضرت عیسی کی سند کے صرف آپ کا قول کیونکر قبول کیا جائے کیونکر حضرت عیسی کی پیش گوئیوں پر نظر ڈال کر ثابت ہو چکا ہے کہ وہ سب کی سب استعارہ کے رنگ لی نوٹ: جرمن کے تین پادریوں نے شیطان کے مکالمہ کے جس کا انجیل میں ذکر ہے یہی معنے کئے ہیں.منہ

Page 561

۵۴۳ میں ہیں جیسا کہ حضرت عیسیٰ نے دعوی کیا تھا کہ میں یہود کا بادشاہ ہوں اور اس دعوی پر روم کی گورنمنٹ میں مخبری ہوئی کہ یہود تو سلطنت رومیہ کے ماتحت ہیں مگر یه شخص دعوی کرتا ہے کہ یہود میری رعایا ہیں اور میں ان کا بادشاہ ہوں.اس پر جب گورنمنٹ رومی نے جواب طلب کیا تو آپ نے فرمایا کہ میری بادشاہی اس جہان کی نہیں بلکہ بادشاہی سے مراد آسمان کی بادشاہت ہے.اب دیکھئے کہ ابتداء میں خود حضرت عیسی کا خیال تھا کہ مجھے زمین کی بادشاہت ملے گی اور اسی خیال پر ہتھیار بھی خریدے گئے تھے مگر آخر کار وہ آسمان کی بادشاہت نکلی پس کیا بعید ہے کہ زلزلہ سے مراد بھی ان کی کوئی آسمانی امر ہی ہو.ورنہ زمین شام میں تو ہمیشہ زلزلے آتے ہی ہیں.ایسی زمین کے متعلق زلزلہ کی پیش گوئی کرنا ایک مخالف کی نظر میں تمسخر کی جگہ ہے.ایسا ہی حضرت عیسی نے فرمایا تھا کہ میرے بارہ حواری بارہ تختوں پر بہشت میں بیٹھیں گے.یہ پیش گوئی بھی انجیل میں موجود ہے مگر ایک ان حواریوں سے یعنی یہودا اسکر یوطی مرتد ہو کر مر گیا.اب بتلاؤ باراں تختوں کی پیش گوئی کس طرح صحیح ہو سکتی ہے اگر کوئی جوڑ توڑ آپ کر سکتے ہیں تو ہمیں بھی سمجھادیں ہم ممنون ہوں گے.یہاں تو کسی استعارہ کی بھی کچھ پیش نہیں جاتی.ایسا ہی حضرت عیسی نے فرمایا تھا کہ اس زمانہ کے لوگ ابھی گزر نہیں جائیں گے کہ میں واپس آؤں گا.پس جو لوگ ان کو آسمان پر چڑھائے بیٹھے ہیں کیا نصاری اور کیا مسلمان.اس بات کا جواب ان کے ذمہ ہے کہ انیس صدیاں تو گذر گئیں مگر ابھی تک حضرت عیسی واپس نہیں آئے اور انہیں صدیوں تک جو لوگ عمریں پوری کر چکے تھے وہ سب خاک میں مل گئے لیکن اب تک کسی نے حضرت عیسی کو آسمان سے اتر تے نہ دیکھا.پھر وہ وعدہ کہاں گیا کہ اس زمانہ کے لوگ ابھی زندہ ہوں گے کہ میں واپس آجاؤں گا.غرض ایسی پیش گوئیوں پر جس نے ناز کرتا ہے بیشک کر بے ہم تو قرآن شریف کے فرمودہ کے مطابق حضرت عیسی کو سچا نبی مانتے ہیں ورنہ اس انجیل کی رو سے جو موجود ہے ان کی نبوت کی بھی خیر نہیں.عیسائی تو ان کی خدائی کو روتے ہیں مگر ہمیں ان کی نبوت ہی ثابت کر نا بجز ذریعہ قرآن شریف کے ایک غیر ممکن امر معلوم ہوتا ہے.براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۶۲ تا ۲۶۴ نیز دیکھیں.نسیم دعوت روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۸۱، ۳۸۲

Page 562

۵۴۴ بصره حال میں ایک یہودی کی تالیف شائع ہوئی ہے جو میر اس وقت موجود ہے گویا وہ محمد حسین یا ثناء اللہ کی تالیف ہے وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اس شخص یعنی عیسی سے ایک معجزہ بھی ظہور میں نہیں آیا اور نہ کوئی پیش گوئی اس کی بچی نکلی.وہ کہتا تھا مسیح کی پیش گوئیوں پر کہ داؤد کا تخت مجھے ملے گا.کہاں ملا.وہ کہتا تھا کہ بارہ حواری بہشت میں بارہ سخت پائیں ایک یہودی مصنف کا گے کہاں بارہ کو وہ تخت ملے.یہودا اسکر یوطی تیس روپیہ لیکر اس سے برگشتہ ہو گیا اور حواریوں میں سے کاٹا گیا.اور پطرس نے تین مرتبہ اس پر لعنت بھیجی کی وہ تخت کے لائق رہا.اور نیز کہتا تھا کہ اس زمانہ کے لوگ ہنوز نہیں مریں گے کہ میں واپس آ جاؤں گا کہاں واپس آیا.اور پھر یہ یہودی لکھتا ہے کہ اس شخص کے جھوٹا ہونے پر یہی کافی ہے که ملاکی نبی کے صحیفہ میں ہمیں خبر دی گئی تھی کہ سچا مسیح جو یہودیوں میں آنیوالا تھا وہ ہر گز نہیں آئے گا جب تک الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہ آجائے.پس کہاں الیاس آسمان سے نازل ہوا.اور پھر اس جگہ بہت شور مچاتا ہے اور لوگوں کے سامنے اپیل کرتا ہے کہ دیکھو ملا کی نبی کی کتاب میں پیش گوئی تو یہ تھی کہ خود الیاس دنیا میں دوبارہ آجائیگا اور یہ شخص یوحنا کو (جو مسلمانوں میں بجلی کے نام سے مشہور ہے ) الیاس بتاتا ہے.گویا اس کا تقلیل قرار دیتا ہے.مگر خدا نے تو ہمیں متیل کی خبر نہیں دی.اس نے تو صاف فرمایا تھا کہ خود الیاس دوبارہ آجائے گا اور ہم قیامت کو اگر پوچھے بھی جائیں تو یہی کتاب خدا کے سامنے پیش کر دیں گے کہ تو نے کہاں لکھا تھا کہ تکمیل الیاس قبل مسیح موعود بھیجا جائے گا.اور ان تحریرات کے بعد حضرت مسیح کی نسبت سخت بد زبانی کرتا ہے.کتاب موجود ہے جو چاہے دیکھ لے.پیش گوئیوں میں اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۱۰، ۱۱۱ حضرت مسیح کی پیش گوئی میں نہ کسی خارق عادت زلزلہ کا ذکر ہے اور نہ کسی خارق عادت مری یا طاعون کا.اس صورت میں کوئی عظمند ایسی پیش گوئیوں کو عظمت اور خوارق نہیں وقعت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۶۳

Page 563

باب یاز دہم پولوس اور عیسویت صالح وَإِذْ قَالَ اللهُ يَعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَ أَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُتِيَ إِلَهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَنَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أقول ما ليس لي بحق إن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَه تَعْلَمُ مَا فِي ما نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنتَ عَلَمُ الْغُيُوبِ لهم ما قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّي وَرَبِّكُمْ وَكُنتُ عليهم شهيدا ما دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرقيب عَلَيْهِمْ وَأَنتَ عَلى كل متى وشَهِيدٌ من شَيْءٍ شی سورة المائدة

Page 564

یہ مذہب جو عیسائی مذہب کے نام سے شہرت دیا جاتا ہے.دراصل پولوسی مذہب ہے ، نہ مسیحی.کیونکہ حضرت مسیح نے کسی جگہ تثلیث کی تعلیم نہیں دی اور جب تک وہ زندہ رہے خدائے واحد ولا شریک کی تعلیم دیتے رہے.اس مذہب میں تمام خرابیاں پولوس سے پیدا ہوئیں.حضرت مسیح تو وہ بے نفس انسان تھے جنہوں نے یہ بھی نہ چاہا کہ کوئی ان کو نیک انسان کہے مگر پولوس نے ان کو خدا بنا دیا.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۷۵،۳۷۴

Page 565

۵۴۷ میرے نزدیک تو راست باز وہی فرقہ تھا جو حضرت مسیح اور ان کے حواریوں کا تھا.اس کے بعد تو اس مذہب کی مرمت شروع ہو گئی اور کچھ ایسی تبدیلی شروع ہوئی کہ حضرت مسیح کے وقت کی عیسویت اور موجودہ عیسویت میں کوئی تعلق ہی نہیں راست باز فرقه رہا.ملفوظات جلدی صفحه ۲۴۱ فرمایا.جیسا کہ یہودی فاضل نے اپنی کتاب میں لکھتا ہے.یہ بات صحیح ہے کہ موجودہ مذہب نصاری جس میں شریعت کا کوئی پاس نہیں.اور سٹور کھانا اور غیر موجودہ عیسائی مذہب مختون رہنا وغیرہ تمام باتیں شریعت موسوی کے مختلف ہیں.یہ باتیں اصل میں در حقیقت پولوسی پولوس کی ایجاد ہیں.اور اس واسطے ہم اس مذہب کو عیسوی مذہب نہیں کہ سکتے بلکہ مذہب ہے دراصل یہ پولوسی مذہب ہے اور ہم تعجب کرتے ہیں کہ حواریوں کو چھوڑ کر اور ان کر رائے کے بر خلاف کیوں ایسے شخص کی باتوں پر اعتبار کر لیا گیا تھا.جس کی ساری عمر یسوع کی مخالفت میں گزری تھی.مذہب عیسوی میں پولوس کا ایسا ہی حال ہے جیسا کہ بادا ناتک صاحب کی اصل باتوں کو چھوڑ کر قوم سکھ گورو گوبند سنگھ کی باتوں کو پکڑ بیٹھی ہے کوئی سند ایسی مل نہیں سکتی جس کے مطابق عمل کر کے پولوس جیسے آدمی کے خطوط اناجیل اربعہ کے ساتھ شامل کئے جاسکتے تھے.پولوس خواہ مخواہ معتبر بن بیٹھا تھا.ہم اسلام کی تاریخ میں کوئی ایسا آدمی نہیں پاتے جو خواہ مخواہ صحابی بن بیٹھا ہو..الحکم جلد ۶ نمبر ۱۶ صفحه ۷ پرچه ۳۰ ر ا پریل ۱۹۰۲ء نیز ملفوظات جلد ۳ صفحه ۲۷۷، ۲۷۸

Page 566

۵۴۸ باقی رہا پولوس کا اجتہاد یا اس کے اقوال.جن لوگوں نے پولوس کے چال چلن پر غور کی ہے اور جیسا کہ اسکے بعض خطوط کے فقرات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر مذہب والے کے رنگ میں ہو جاتا تھا.تمہیں خوب معلوم ہے اور اس کے حالات میں آزاد خیال لوگوں نے لکھا ہے کہ اچھے چال چلن کا آدمی نہ تھا.بعض تاریخوں پولوس کا اجتہاد اور سے پایا جاتا ہے کہ وہ ایک کاہن کی لڑکی پر عاشق تھا اور ابتدا میں اسنے بڑے بڑے یسوع کی عاجزی دکھ عیسائیوں کو دئے اور بعد میں جب کوئی راہ اسے نہ ملی اور اپنے مقصد میں کامیابی کا کوئی ذریعہ اسے نظر نہ آیا تو اس نے ایک خواب بنا کر اپنے آپ کو حواریوں کا جمعدار بنالیا.خود عیسائیوں کو اس کا اعتراف ہے کہ وہ بڑا سنگدل اور خراب آدمی تھا اور یونانی بھی پڑھا ہوا تھا.میں نے جہاں تک غور کی ہے.مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ وہ ساری خرابی اس لڑکی ہی کے معاملہ کی تھی اور عیسائی مذہب کے ساتھ اپنی دشمنی کامل کرنے کے لئے اس نے یہ طریق آخری سوچا کہ اپنا اعتبار جمانے کے لئے ایک خواب سنادی اور عیسائی ہو گیا.اور پھر یسوع کی تعلیم کو اپنے طرز پر ایک نئی تعلیم کے میں ڈال دیا.میں کہتا ہوں کہ عیسائی مذہب کی خرابی اور اس کی بدعتوں کا اصل بانی یہی شخص ہے اور اسکے سوا میں کہتا ہوں کہ اگر یہ شخص ایسا ہی عظیم الشان تھا اور واقعی یسوع کا رسول تھا اور اس قدر انقلاب عظیم کا موجب ہونیوالا تھا کہ خطرناک مخالفت کے بعد پھر یسوع کا رسول ہونے کو تھا تو ہمیں دکھاؤ کہ اسکی بابت کہاں پیش گوئی کی گئی ہے کہ ان صفات والا ایک شخص ہو گا اور اس کا نام و نشان دیا ہو اور یہ بھی بتایا ہو کہ وہ یسوع کی خدائی ثابت کرے گا.ورنہ یہ کیا اندھیر ہے کہ پطرس کے لعنت کرنے اور یہودا اسکر یوطی کے گرفتار کرانے کی پیش گوئی تو یسوع صاحب کر دیں اور اتنے بڑے عیسوی مذہب کے مجتہد کا کچھ بھی ذکر نہ ہو.اس لئے اس شخص کی کوئی بات بھی قابل سند نہیں ہو سکتی ہے اور جو کچھ اس نے کہا ہے وہ کون سے دلائل ہیں.وہ بجائے خود نرے دعوے ہی دعوے ہیں.میں بار بار نہیں کہتا ہوں اور اس لئے مکر رسہ کر ر اس بات کو بیان کرتا ہوں کہ آپ سمجھ لیں کہ انجیل ہی کو یسوع کی خدائی کے رو کرنے کے لئے آپ پڑھیں.وہ خود ہی کافی طور پر اس کی تردید کر رہی ہے.ملفوظات جلد ۳ صفحه ۱۳۹،۱۳۸

Page 567

۵۴۹ یادر ہے کہ پولوس حضرت عیسی علیہ السّلام کی زندگی میں آپ کا جانی دشمن تھا اور پھر آپ کی وفات کے بعد جیسا کہ یہودیوں کی تاریخ میں لکھا ہے اس کے عیسائی ہونے کا موجب اس کے اپنے بعض نفسانی اغراض تھے جو یہودیوں سے وہ پورے نہ ہو سکے.اس لئے وہ ان کو خرابی پہنچانے کے لئے عیسائی ہو گیا.اور ظاہر کیا کہ مجھے کشف کے طور پولوس کے کارنامے حضرت مسیح ملے ہیں اور میں ان پر ایمان لایا ہوں اور اس نے پہلے پہل تثلیث کا خراب بوده دمشق میں لگایا.اور یہ پولوسی تثلیث دمشق سے ہی شروع.صاف ظاہر ہے کہ اگر پولوس حضرت مسیح کے بعد ہوئی.ایک رسول کے رنگ میں ظاہر ہونے والا تھا جیسا کہ خیال کیا گیا ہے تو ضرور حضرت مسیح اس کی نسبت کچھ خبر دیتے خاص کر کے اس وجہ سے تو خبر دینا نہایت ضروری تھا کہ جب کہ پولوس حضرت عیسی کی حیات کے تمام زمانہ میں حضرت عیسی س سے سخت برگشتہ رہا.اور ان کے دکھ دینے کے لئے طرح طرح کے منصوبے کر تا رہا.تو ایسا شخص ان کی وفات کے بعد کیونکر امین سمجھا جا سکتا ہے.بجز اس کے کہ خود حضرت مسیح کی طرف سے اس کی نسبت کھلی کھلی پیش گوئی پائی جائے اور اس میں صاف طور پر درج ہو کہ اگر چہ پولوس میری حیات میں میرا سخت مخالف رہا ہے اور مجھے دکھ دیتارہا ہے لیکن میرے بعد وہ خدا تعالیٰ کار سول اور نہایت مقدس آدمی ہو جائے گا.بالخصوص جبکہ پولوس ایسا آدمی تھا کہ اس نے موسیٰ کی توریت کے بر خلاف اپنی طرف سے نئی تعلیم دی.سور حلال کیا.ختنہ کی رسم تو توریت میں ایک مؤکد رسم تھی اور تمام نبیوں کا ختنہ ہوا تھا اور خود حضرت مسیح کا بھی ختنہ ہوا تھا.وہ قدیم حکم الہی منسوخ کر دیا.اور توریت کی توحید کی جگہ تثلیث قائم کر دی اور توریت کے احکام پر عمل کرنا غیر ضروری ٹھرایا اور بیت المقدس سے بھی انحراف کیا.تو ایسے آدمی کی نسبت جس نے موسوی شریعت کو زیر و زبر کر دیا ضرور کوئی پیش گوئی چاہئے تھی.پس جب کہ انجیل میں پولوس کے رسول ہونے کے بارے میں خبر نہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے اس کی عداوت ثابت اور توریت کے ابدی احکام کا وہ مخالف تو اس کو کیوں اپنا مذہبی پیشوا بنایا گیا؟ کیا اس پر کوئی دلیل ہے ؟ چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۷۶ تا ۳۷۸ پولوس جس کی باتوں سے خدائی نکالی جاتی ہے وہ اپنے چال چلن کے لحاظ سے بجائے

Page 568

Page 569

حضرت عیسی بے باپ پیدا ہوئے تھے اور ان کا بے باپ پیدا ہونا ایک نشان تھا اس بات پر کہ اب بنی اسرائیل کے خاندان میں نبوت کا خاتمہ ہوتا ہے.کیونکہ ان کے ساتھ وعدہ تھا کہ بشرط تقوی نبوت بنی اسرائیل کے گھرانے سے ہو گی.لیکن جب تقوی نہ رہا تو یہ نشان دیا گیا تا کہ دانشمند سمجھ لیں کہ اب آئندہ اس سلسلہ کا انقطاع ہو گا.الحکم- جلد ۵ نمبر ۱۴ مور خد ۱۷ اپریل ۱۹۰۱ ء - صفحه ۶۵

Page 570

Page 571

۵۵۳ ہم مسیح کو بن باپ پیدا ہوا مانتے ہیں اور ہماری کتابوں ، رسالوں اور اخبار کی بہت ۱۳۹۷ سی تحریروں میں لکھا جا چکا ہے.اور ہم اس بات کو کیا کریں کہ یہ تاریخی غلطی مسیح بن باپ تھا مسلمانوں میں پیدا ہوئی ہے.جو صحیح تاریخ سے ثابت ہے کہ مریم کا یوسف کے ساتھ نکاح ہو گیا تھا اور پھر اس سے اولاد بھی ہوئی تھی.ہم نے تو اس اولاد کا ذکر کیا ہے.اور اسی قسم کی غلطی واقعہ صلیب کے متعلق ہے.مسیح کو صلیب دئے جانے کے دردناک قصّے موجود ہیں.اور ان علماء کے نزدیک وہ چھت پھاڑ کر اُڑ گئے.اب اس میں کس کا قصور ہے.یہ تو ان کو بالکل خدا بنانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں که بشریت ان کے پاس نہ آجاوے.اور ایسا ہی مریم کو ساری عمر بتول ٹھہراتا کہ انہوں نے نکاح نہیں کیا.بڑی غلطی ہے.ان تاریخی امور سے ہم انکار نہیں کر سکتے.مسیح کی نسبت ہمارا یہی مذہب ہے کہ وہ بن باپ پیدا ہوئے.ملفوظات جلد ۳ صفحه ۳۷۷، ۳۷۸ یحی اور عیسیٰ علیہ السّلام کے قصہ کو ایک جا جمع کرنا اس امر پر دلالت کرتا ہے خوارق کی بھی ہے بھی کہ جیسے یحی علیہ السّلام کی سی کا حال بیان کر کے مسیح کی پیدائش کا حال بیان کیا پیدائش کا قصہ ایک پھریحی علیہ السلام کی ہے.یہ ترتیب قرآتی بتلاتی ہے کہ ادبی حالت کی طرف سے اعلیٰ حالت کی طرف حکمت ترقی کی ہے.یعنی جس قدر معجز نمائی کی قوت بھٹی کی پیدائش میں ہے اس سے بڑھ کر مسیح کی پیدائش میں ہے.اگر اس میں کوئی معجزانہ بات نہ تھی تو بیٹی کی پیدائش کا ذکر کر کے کیوں ساتھ ہی مریم کا ذکر چھیڑ دیا اس سے کیا فائدہ تھا.یہ اسی لئے کہ تاویل

Page 572

۵۵۴ کی گنجائش نہ رہے.ان دونوں بیانوں کا ایک جاذکر ہونا اعجازی امر کو ثابت کرتے ہیں.اگر یہ نہیں ہے تو گویا قرآن تنزل پر آتا ہے جو اس کی شان کے برخلاف ہے.البدر - جلد ۲ نمبر ۱۶.مورخہ ۸ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲۲ - وہ (سیح علیہ السّلام ) بن باپ پیدا ہوئے اس کا زبر دست ثبوت یہ ہے کہ بیٹی اور عیسی کا قصہ ایک ہی جگہ بیان کیا ہے.پہلے بجلی کا ذکر کیا.جو بانجھ سے پیدا مزید تفصیل ہوئے.دوسرا قصہ مسیح کا اس کے بعد بیان فرمایا.جو اس سے ترقی پر ہونا چاہئے تھا.اور وہ یہی ہے کہ وہ بن باپ ہوئے.اور یہی امر خارق عادت ہے.اگر بانجھے سے پیدا ہونے والے) بچی کے بعد باپ سے پیدا ہونے والے کا ذکر ہوتا تو اس میں خارق عادت کی کیا بات ہوئی.الحکم- جلد نمبر ۴۲.مورخہ ۳۰ نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲۱ قرآن شریف سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے اور قرآن شریف پر ہم ایمان لاتے ہیں پھر قانونِ قدرت میں ہم اس کے بر خلاف ہم کوئی دلیل نہیں پاتے.کیونکہ سینکڑوں قانون قدرت میں ہم اس کے بر خلاف کوئی کیڑے مکوڑے پیدا ہوتے رہتے ہیں جو نہ باپ رکھتے ہیں اور نہ ماں.قرآن شریف دلیل نہیں پاتے میں جہاں اس کا ذکر ہے وہاں خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کے دو عجائب نمونوں کا ذکر کیا ہے.اول حضرت زکریا کا ذکر ہے کہ ایسی پیرانہ سالی میں جہاں کہ بیوی بھی بانجھ تھی.خدا نے بیٹا پیدا کیا.اور اس کے ساتھ ہی یہ دوسرا واقعہ ہے جو خدا تعالیٰ کی ایک اور قدرت عجیبہ کا نمونہ ہے اس کے ماننے میں کونسا ہرج پیدا ہوتا ہے.قرآن مجید کے پڑھنے سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح بن باپ ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ نے کمثل آدم جو فرمایا اس سے بھی ظاہر ہے کہ اس میں ایک عجوبہ قدرت ہے جس کے واسطے آدم کی مثال کا ذکر کرنا پڑا.بدر جلد نمبر ۲۰ مورخہ ۱۶ مئی ۱۹۰۷ ء صفحہ ۳ ہمارا ایمان اور اعتقاد یہی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بن باپ تھے اور اللہ تعالیٰ

Page 573

۵۵۵ کو سب طاقتیں ہیں.نیچری جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کا باپ تھا وہ ہیں.ایسے لوگوں کا خدا مردہ خدا ہے اور ایسے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی جو یہ غلطی ہے خاندان سے گئی خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بے باپ پیدا نہیں کر سکتا.ہم ایسے آدمی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ تمہاری حالتیں ایسی رہی ہو گئی ہیں کہ اب تم میں کوئی اس قابل نہیں جو نبی ہو سکے یا اس کی اولاد میں سے کوئی نبی ہو سکے.اسی واسطے آخری خلیفہ موسوی کو اللہ تعالیٰ نے بے باپ پیدا کیا اور ان کو سمجھایا کہ اب شریعت تمہارے خاندان سے گئی.الحکم- جلد ۵ - نمبر ۲۳ مورخه ۲۴ جون ۱۹۰۱ء صفحه ۱۱ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ مسیح بن باپ پید ہوئے اور قرآن شریف سے یہی ثابت ہے.اصل بن باپ پیدائش، یهود بات یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام یہود کے واسطے ایک نشان تھے جو ان کی شامت کے واسطے ایک نشان اعمال سے اس رنگ میں پورا ہوا زبور اور دوسری کتابوں میں لکھا گیا تھا کہ اگر تم نے اپنی عادت کو نہ بگاڑا تو نبوت تم میں رہے گی مگر خدا تعالیٰ کے علم میں تھا کہ یہ اپنی حالت کو بدل لیں گے اور شرک و بدعت میں گرفتار ہو جائیں گے.جب انہوں نے اپنی حالت کو بگاڑا تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق یہ سنیہی نشان ان کو دیا اور مسیح کو بن باپ پیدا کیا.اور بن باپ پیدا ہونے کا ستر یہ تھا کہ چونکہ سلسلہ نسب کا باپ کی طرف سے ہوتا ہے تو اس طرح گویا سلسلہ منقطع ہو گیا اور اسرائیلی خاندان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی.کیونکہ وہ پورے طور سے اسرائیل کے خاندان سے نہ مبَشِّرًا بِرَسُولِ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ وَ أَحْمَدُ وَ رہے.میں بشارت ہے اس کے دو ہی پہلو ہیں.یعنی ایک تو آپ کا وجود ہی بشارت تھا کیونکہ بنی اسرائیل سے نبوت کا خاتمہ ہو گیا.دوسرے زبان سے بھی بشارت دی یعنی آپ کی پیدائش میں بھی بشارت تھی اور زبانی بھی انجیل میں بھی مسیح نے باغ کی تمثیل میں بھی اس امر کو بیان کر دیا ہے اور اپنے آپ کو مالک باغ کے بیٹے کی جگہ ٹھہرایا ہے.بیٹے کا محاورہ انجیل اور بائیل میں عام ہے.اسرائیل کی نسبت آیا ہے کہ

Page 574

اسرائیل فرزند من بلکه نخست زاده من است.آخر اس تمثیل میں بتایا گیا ہے کہ بیٹے کے بعد وہ مالک خود آکر باغبانوں کو ہلاک کر دے گا اور باغ دوسروں کے سپرد کر دے گا یہ اشارہ تھا اس امر کی طرف کہ نبوت ان کے خاندان سے جاتی رہی.پس مسیح کا بن باپ پیدا ہونا اس امر کا نشان تھا.البدر - جلد اول نمبر ۱۰.مورخہ ۲ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۷۵ ۵۵۶

Page 575

Page 576

باب سیزدهم بائیل اور اناجیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں پیش گوئیاں الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النبي الأتى الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَنهُمْ عنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الخَبيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَعْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ، وَعَزَرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِى أُنزِلَ مَعَهُ أَوْ لَيْكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ 10A سورة الأعراف

Page 577

Page 578

۵۶۰ قریب المرگ ہو گئے تو خدا تعالیٰ نے ایک نئی شریعت ان پر نازل کی اور یہ اس آیت میں اشارہ ہے غرض یہ پیش گوئی ہے جس کی طرف پہلے کسی نے توجہ نہیں کی.ملفوظات جلد ۲ صفحه ۳۸۶٬۳۸۵ اب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توریت کی پیش گوئیوں پر نظر ڈالیں کہ رطیکہ حضرت موی کی پیش اگر چہ توریت کے دو مقام میں ایسی پیش گوئیاں ملتی ہیں کہ جو غور کرنے والوں پر بشرط گوئی (1) منفی کہ صلی منصف بھی ہوں ظاہر کرتے ہیں کہ در حقیقت وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں لکھی گئی ہیں.لیکن حج بحثی کے لئے ان میں گنجائش بھی بہت ہے.مثلاً توریت میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو کہا کہ خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی قائم کرے گا.اس پیش گوئی میں مشکلات یہ ہیں کہ اسی توریت کے بعض مقامات میں بنی اسرائیل کو ہی بنی اسرائیل کے بھائی لکھا ہے اور بعض جگہ بنی اسمعیل کو بھی بنی اسرائیل کے بھائی لکھا ہے ایسا ہی دوسرے بھائیوں کا بھی ذکر ہے.اب اس بات کا قطعی اور بدیہی طور پر کیونکر فیصلہ ہو کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے مراد فقط بنی اسماعیل ہی ہیں بلکہ یہ لفظ کہ ”تیرے ہی درمیان سے لکھا ہے زیادہ عبارت کو مشتبہ کرتا ہے اور کو ہم لوگ بہت سے دلائل اور قرائن کو ایک جگہ جمع کر کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ میں جو مماثلت ہے بہا یہ ثبوت پہنچا کر ایک حق کے طالب کے لئے نظری طور پر یہ بات ثابت کر دکھاتے ہیں کہ در حقیقت اس جگہ پیش گوئی کا مصداق بجز ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی شخص نہیں لیکن یہ پیش گوئی ایسی صاف اور بدیہی تو نہیں کہ ہر ایک اجہل اور احمق کو اسکے ذریعہ سے ہم قائل کر سکیں.بلکہ اس کا سمجھنا بھی پوری عقل کا محتاج ہے اور پھر سمجھانا بھی پوری عقل کا محتاج.اگر خدائے تعالیٰ کو ابتلاء خلق اللہ کا منظور نہ ہوتا اور ہر طرح سے کھلے کھلے طور پر پیش گوئی کا بیان کرنا ارادہ الہی ہوتا تو پھر اس طرح پر بیان کرنا چاہئے تھا کہ اے موسیٰ میں تیرے بعد بائیسویں صدی میں ملک عرب میں بنی اسماعیل میں سے ایک نبی پیدا کروں گا جس کا نام محمد صلی اللہ علیہ ہو گا اور ان کے باپ کا نام عبد اللہ اور دادا کا نام عبد المطلب اور والدہ کا نام آمنہ ہو گا.اور وہ مکہ شہر میں پیدا ہوں گے اور ان کا یہ حلیہ ہو گا.اب ظاہر ہے کہ اگر ایسی کوئی و

Page 579

۵۶۱ پیش گوئی توریت میں لکھی جاتی تو کسی کو چون و چرا کرنے کی حاجت نہ رہتی اور تمام شریروں کے ہاتھ پیر باندھے جاتے.لیکن خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا.ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۴۲،۲۴۱.پادریوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے بارہ میں اس وجہ سے فکر پڑی کہ توریت کتاب استثنا باب هژدهم (۱۸) آیت بست و دوم (۲۲) میں نیچے نبی کی حضرت موسی کی پیش یہ نشانی لکھی ہے کہ اس کی پیش گوئی پوری ہو جائے.سو جب پادریوں نے دیکھا کہ کوئی (۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزار ہا خبریں قبل از وقوع بطور پیش ھوئی فرمائی ہیں اور اکثر پیش گوئیوں سے قرآن شریف بھی بھرا ہوا ہے اور وہ سب پیش گوئیاں اپنے وقتوں پر پوری بھی ہو گئیں تو ان کے دل کو یہ دھڑ کا شروع ہوا کہ ان پیش گوئیوں پر نظر ڈالنے سے نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بدیہی طور پر ثابت ہوتی ہے اور یا یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو کچھ توریت میں یعنی کتاب استثنا ۱۸ باب ۲۱ ۲۲ آیت میں سچے نبی کی نشانی لکھی ہے وہ نشانی صحیح نہیں ہے سو اس بیچ میں آکر نہایت ہٹ دھرمی سے ان کو یہ کہنا پڑا کہ وہ پیش گوئیاں اصل میں فراستیں ہیں کہ اتفاقاً پوری ہو گئی ہیں لیکن چونکہ جس درخیت کی بیخ مضبوط اور طاقتیں قائم ہیں وہ ہمیشہ پھل لاتا ہے.اس جہت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش گوئیاں اور دیگر خوارق صرف اسی زمانہ تک محدود نہیں تھے بلکہ اب بھی ان کا برابر سلسلہ جاری ہے.اگر کسی پادری وغیرہ کو شک و شبہ ہو تو اس پر لازم و فرض ہے کہ وہ صدق اور ارادت سے اس طرف توجہ کرے پھر دیکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیاں کس قدر اب تک بارش کی طرح برس رہی ہیں لیکن اس زمانہ کے متعصب پادری اگر خود کشی کا ارادہ کریں تو کریں مگر یہ امید ان پر بہت ہی کم ہے کہ وہ طالب صادق بن کر کمال ارادت اور صدق سے اس نشان کے جو یاں ہوں.براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۴۸٬۶۴۷ بقیہ حاشیہ نمبر 11 کئی مقام قرآن شریف میں اشارات و تصریحات سے بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی حضرت موسی کی پیش اللہ علیہ و سلم مظہر اتم الوہیت ہیں اور ان کا کلام خدا کا کلام اور ان کا ظہور خدا کا ظہور اور کسی کی داسی کی گوئی (۳)

Page 580

۵۶۲ ان کا آنا خدا کا آتا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں اس بارے میں ایک یہ آیت بھی ہے.وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَطِلَ كَانَ زَهُوقًا کہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل نے بھا گنا ہی تھا.حق سے مراد اس جگہ اللہ جل شانہ اور قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور باطل سے مراد شیطان اور شیطان کا گروہ اور شیطانی تعلیمیں ہیں.سو دیکھو اپنے نام میں خدائے تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیونکر شامل کر لیا اور آنحضرت کا ظہور فرمانا خدا تعالیٰ کا ظہور فرمانا ہو ایسا جلالی ظہور جس سے شیطان معہ اپنے تمام لشکروں کے بھاگ گیا اور اس کی تعلیمیں ذلیل اور حقیر ہو گئیں اور اس کے گروہ کو بڑی بھاری شکست آئی.اسی جامعیت تامہ کی وجہ سے سورۃ آل عمران جزو تیسری میں مفصل یہ بیان ہے کہ تمام نبیوں سے عہد و اقرار لیا گیا کہ تم پر واجب و لازم ہے کہ عظمت و جلالیت شان ختم الراسل پر جو محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ایمان لاؤ اور ان کی اس عظمت اور جلالیت کی اشاعت کرنے میں بدل و جان مدد کرو.اسی وجہ سے حضرت آدم صفی اللہ سے لے کر تا حضرت مسیح کلمہ اللہ جس قدر نبی ورسول گذرے ہیں وہ سب کی سب عظمت و جلالیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کرتے آئے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے توریت میں یہ بات کہہ کر کہ خدا سینا سے آیا اور سعیر سے طلوع ہوا اور فران کے پہاڑ سے ان پر چمکا صاف جتلا دیا کہ جلالیت الہی کا ظہور فاران پر آکر اپنے کمل کو پہنچ گیا.اور آفتاب صداقت کی پوری پوری شعائیں فاران پر ہی آکر ظہور پذیر ہوئیں اور وہی توربیت ہم کو یہ بتلاتی ہے کہ فاران مکہ معظمہ کا پہاڑ ہے جس میں حضرت ماعیل علیہ السّلام جدا مجد آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سکونت پذیر ہوئے اور یہی بات جغرافیہ کے نقشوں سے بپایہ ثبوت پہنچتی ہے اور ہمارے مخالف بھی جانتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں سے بجز آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی رسول نہیں اٹھا سود یکھو حضرت موسیٰ سے کیسی صاف صاف شہادت دی گئی ہے کہ وہ آفتاب صداقت جو فار ان کے پہاڑ سے ظہور پذیر ہو گا اس کی شعائیں سب سے زیادہ تیز ہیں اور سلسلہ ترقیات نور صداقت اسی کی ذات جامع بابر کات پر ختم ہے.پیش ضرت والد کی نہیں اسی طرح حضرت داؤد علیہ السّلام نے آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالیت و کوئی

Page 581

۵۶۳ عظمت کا اقرار کر کے زبور پینتالیس میں یوں بیان کیا ہے (۲) تو حسن میں بنی آدم سے کہیں زیادہ ہے.تیرے لبوں میں نعمت بنائی گئی ہے اسی لئے خدا نے تجھ کو ابد تک مبارک کیا.(۳) اے پہلوان تو جاہ و جلال سے اپنی تلوار حمائل کر کے اپنی ران پر لٹکا.(۴) امانت اور علم اور عدالت پر اپنی بزرگواری اور اقبال مندی سے سوار ہو کہ تیرا داہنا ہاتھ تجھے ہیبت ناک کام دکھائے گا.(۵) بادشاہ کے دلوں میں تیرے تیر تیزی کرتے ہیں لوگ تیرے سامنے گر جاتے ہیں.(1) اے خدا تیرا تخت ابد الالباد ہے ( یہ فقرہ اسی مقام جمع سے ہے جو قرآن شریف میں کئی مقام میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بولا گیا ہے ) تیری سلطنت کا عصار استی کا عصا ہے.(۷) تو نے صدق سے دوستی اور شر سے دشمنی کی اسی لئے خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تر تجھے معطر کیا.بادشاہوں کی بیٹیاں تیری عزت والی عورتوں میں ہیں.اسی طرح حضرت یسعیا نبی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالیت و عظمت و ہر تمام الوہیت ہونے کے بارے میں اپنے صحیفہ کے باب بیالیس (۴۲) میں بطور حضرت اسماء کی پیش گوئی وحی پاکر یوں بیان کیا ہے.دیکھو میرا بندہ جسے میں سنبھالوں گا میرا بر گزیدہ پیش گوئی جس سے میراجی راضی ہے.میں نے اپنی روح اس پر رکھی وہ قوموں پر راستی ظاہر کرے گا.وہ نہ گھٹے گا اور نہ تھکے گا جب تک راستی کو زمین پر قائم نہ کرے.بیابان اور اس کی بستیاں کیدار (یعنی عرب) کے آباد دیہات ( جس سے مکہ معظمہ وغیرہ مراد ہیں) اپنی آواز بلند کریں.خداوند ایک بہادر کی مانند نکلے گا.(خداوند سے مراد علی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کیونکہ وہ مظہر ا تم الوہیت اور درجہ سوم قرب پر ہیں جیسا کہ کئی دفعہ ہم بیان کر چکے ہیں) وہ اپنے تئیں اپنے دشمنوں پر قومی دکھلائے گا.قدیم سے میں خاموش رہا ہوں اور ستایا اور آپ کو روکے گیا پر اب میں اس عورت کی طرح جو دردِ زہ میں ہو چلاؤں گا میں پہاڑوں اور ٹیلوں کو ویران کر ڈالوں گا.اور اندھوں کو اس راہ سے جسے وے نہیں جانتے لے جاؤں گا.

Page 582

۵۶۴ گوئی حضرت بھی کی پیش ایسا ہی یوحنانی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جا مد علیہ وسلم کی حلالیت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے بطور پیش گوئی گواہی دی جو انجیل متی باب سوم میں اس طرح پر درج ہے (۱۱) میں تو تمہیں تو بہ کے لئے پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں لیکن وہ جو میرے بعد آتا ہے مجھ سے قوی تر ہے کہ میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے لائق نہیں وہ تمہیں روح مقدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا.اس پیش گوئی میں محض نادانی کی راہ سے عیسائی لوگ خصومت کرتے ہیں کہ یہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں ہے مگر یہ دعوی سراسر باطل و بے بنیاد ہے اول تو حضرت مسیح حضرت یوجنا کے ہمعصر تھے نہ کہ بعد میں آنے والے یا بعد میں اہنیت کا لقب پانے والے.ماسوا سا کے ہر یک شخص آزما سکتا ہے کہ دائمی طور پر بچے طالبوں کو روح قدس اور آتش محبت سے بپتسما دینے والا آسمان کے نیچے صرف ایک ہی ہے یعنی جناب سید ناو مولانا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم جس کے جلال نام کا حضرت مسیح اپنی پیش گوئیوں میں آپ اقرار کرتے ہیں.اور اسی روح کے بپتسما کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں اشارہ تبھی فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَايَّدَهُم بِرُوا مِنْهُ یعنی خدائے تعالٰی مومنوں کو روح قدس سے تائید کرتا ہے اور پھر فرماتا ہے.صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِن مِـ اللَّهِ صِبْغَةً یعنی یہ خدا کا بپتسما ہے اور کون سا بپتسما اس سے بڑھ کر خوبصورت ہے.اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو قوم روح القدس سے کسی وقت تائید دی گئی ہے وہ اب بھی دی جاتی ہے کیونکہ اب بھی وہی خدا ہے جو پہلے تھا اور قوم بھی وہی ہے جو پہلے تھی سواگر حضرات عیساؤں کو اس بات میں کچھ شک ہو کہ اس پیش گوئی کا مصداق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں حضرت مسیح نہیں ہیں تو نہایت صاف اور سہل طریق فیصلہ کرنے کا یہ ہے کہ چالیس دن تک کوئی ایسے پادری صاحب جو اپنی قوم میں نہایت بزرگ اور روح قدس کا بپتسمہ پانے کے لائق خیال کئے جاتے ہیں اور ان کی بزرگواری اور خدار سیدہ ہونے پر اکثر عیسائیوں کو اتفاق ہو وہ اس امر کی آزمائش و مقابلہ کے لئے کہ روح قدس کی تائیدات سے کونسی قوم عیسائیوں اور مسلمانوں میں سے فیضیاب ہے کم سے کم چالیس دن تک اس عاجز کی رفاقت اور مصاحبت اختیار کریں پھر اگر کسی کرشمہ روح القدس کے دکھلانے میں وہ غالب آجائیں تو ہم اقرار کرلیں گے کہ یہ پیش گوئی حضرت مسیح علیہ

Page 583

۵۶۵ السّلام کے حق میں ہے.اور نہ صرف اقرار بلکہ اس کو چند اخباروں میں چھپوا بھی دیں گے لیکن اگر ہم غالب آگئے تو پادری صاحب کو بھی ایسا ہی اقرار کرنا پڑے گا اور چند اخباروں میں چھوا بھی دینا ہو گا کہ وہ پیش گوئی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نکلی مسیح کو اس سے کچھ علاقہ نہیں بلکہ اس تصفیہ کے لئے ہماری صحبت میں بھی رہنا کچھ ضروری نہیں.یہ عاجز عنقریب اس رسالہ کے بعد رسالہ سراج منیر کو انشاء اللہ القدیر چھپوانے والا ہے وہ سب مضمون پروح القدس کی تائید سے ہی بہم پہنچا ہے سوا کوئی ایسا عیسائی جو قوم میں بزرگ وار اور واقعی نیک بخت ہو اس کا مقابلہ کر کے دکھاوے ورنہ کون داتا ہے جو بے امتحان ان کی روح القدس کے بپتسما کا قائل ہو گا.چوں گمان کنم اینجا مدد روح قدس که مرا در دل شاں دیو نظر می آید این مددهاست در اسلام چه خورشید عیاں: کہ بہر عصر مسیحائی دگر می آید سرمه چشم آریہ - روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۷۸ تا ۲۸۷ حاشیہ.برنباس ) شان جلیل و عظیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو مظہر اتم الوہیت ہے جیسے تمام نبی ابتدا سے بیان کرتے آئے ہیں ایسا ہی حضرت مسیح علیہ السّلام نے اس شان عالی کا اقرار کیا حضرت مسیح کی پیش ہے یہ اقرار جابجا انجیلوں میں موجود ہے بلکہ اسی اقرار کے ضمن میں حضرت مسیح علیہ السّلام کوئی (1) (انجیل اقرار کرتے ہیں کہ میری تعلیم ناقص ہے کیونکہ ہنوز لوگوں کو کامل تعلیم کی برداشت نہیں مگروه روح راستی جو نقصان سے خالی ہے.(یعنی سید نا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس کا قرآن شریف میں بھی ہم حق آیا ہے ) وہ کامل تعلیم لائے گا اور لوگوں کو نئی باتوں کی خبر دے گا.انجیل برنباس میں تو صریح نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو محمد ہے درج ہے اور اس کے ٹالنے کے لئے یہ ناکارہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے کسی زمانہ میں یہ نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کتاب برنباس میں درج کر دیا ہو گا یا خود کتاب تالیف کر دی ہوئی گویا مسلمان لوگ کسی رات کو اتفاق کر کے مسیحی کتب خانوں میں جا گھسے اور اپنی طرف سے برنباس کی انجیلوں میں جا بجا محمد نبی نام درج کر دیا.یا خود یونانی یا عبرانی زبانوں میں اپنی طرف سے انجیل برنباس بنا کر اور کئی ہزار نسخے اس کے لکھ کر پوشیدہ طور پر جبکہ عیسائی سوتے تھے وہ کتابیں ان کے کتب خانوں میں رکھ آئے لیکن ایک انگریز فاضل عیسائی جس نے کچھ تھوڑا عرصہ ہوا قرآن شریف کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے

Page 584

ں اس تقریب کے بیان میں کہ انجیل برنباس میں پیش گوئی حضرت تہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں موجود ہے یہ قصہ تحریر کیا ہے کہ برنباس کی انجیل پوپ پنجم کے کتب خانہ میں تھی اور ایک راہب جو اس پوپ کا دوست تھا اور مدت سے اس انجیل کی تلاش میں تھا.وہ پوپ کی الماری میں جبکہ پوپ سویا ہوا تھا اس انجیل کو پاکر بہت خوش ہوا اور کہا کہ یہ میری وہ مراد ہے جو مدت کے بعد پوری ہوئی اور اس انجیل کو اپنے دوست پوپ کی اجازت سے لے گیا اور نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یعنی محمد رسول اللہ علیہ وسلم کھلا کھلا لکھا ہوا دیکھ کر مسلمان ہو گیا پس اس فاضل انگریز کی اس تحریر سے جو ہمارے پاس موجود ہے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ یہ کتاب یویوں کے کتب خانوں میں چاروں انجیلوں میں شامل کر کے عزت کے ساتھ رکھی جائی تھی تبھی تو ایسے ایسے بزرگ اور فاضل راہب اس انجیل کو پڑھ کر مسلمان ہوتے تھے.پادری صاحبوں نے مدت تک اپنی کتابوں میں جو ہندوستان میں آکر اردو میں تالیف کیں اس انجیل کا کسی کتاب میں تذکرہ نہیں کیا اور مسلمانوں اور ہندوؤں میں سے ایسے لوگ بہت کم ہوں گے جن کو یہ معلوم ہو گا کہ عیسائیوں کے پاس ان چار انجیلوں کے علاوہ پانچویں انجیل بھی ہے جس کو پڑھ کر بڑے بڑے فاضل اور خدا ترس راہب مسلمان ہوتے رہے ہیں.لیکن اب پادری صاحبوں نے اس قدر اپنے منہ سے اقرار کرنا شروع اس انگریز کا نام جارج سیل صاحب ہے جوا کا بر علما عیسائیوں سے ہے ان کا ترجمہ قرآن شریف جو ان کی طرف سے شائع ہو کر مطبع لنڈن فریڈرک دارن اینڈ کمپنی میں چھپا ہے اس کے پہلے دیباچہ میں مولف موصوف نے یہ عجیب تذکرہ کہ ایک بزرگ راہب انجیل برنباس پڑھ کر اور اس میں پیش گوئی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کھلے کھلے طور پر پاکر مسلمان ہو گیا تھا اس طور سے (جو نیچے لکھا جاتا ہے ) بیان کیا ہے.فرا میرینو جو ایک عیسائی مانگ یعنی ایک بزرگ راہب تھا وہ بیان کرتا ہے کہ اتفاقیہ مجھے کو ایک تحریر آبرنس صاحب کی ( جو ایک فاضل مسحوں میں سے ہے) منجملہ اس کی اور تحریروں کے جن میں وہ پولوس کے بر خلاف ہے نظر سے گذری اس تحریر میں آبرنس صاحب ( جو پولوس عیسائی کے مخالف ہیں ) اپنے بیان کی صداقت کی بابت ۵۶۶

Page 585

۵۶۷ ! | کر دیا ہے کہ محمد صاحب کا نام ہماری انجیل برنباس میں لکھا ہوا تو ضرور ہے مگر خیال کیا جاتا ہے کہ کسی مسلمان نے لکھ دیا ہو گا.چنانچہ پادری ٹھاکر نے بھی اپنی اظہار عیسوی کے صفحہ ۳۳۲ میں کسی قدر عبارت انجیل برنباس کی جس میں نام آں حضرت نا اللہ یعنی محمد رسول اللہ ایک پیش گوئی حضرت مسیح میں لکھا ہوا ہے نقل کر کے آخر میں یہی ناکارہ اور فضول عذر پیش کر دیا ہے کہ یہ یا تو کسی عیسائی کا اور یا کسی مسلمان کا جعل ہے لیکن اب تک عیسائی لوگ مسلمانوں کے ان سوالات کے مدیون ہیں کہ وہ جعل کس مسلمان نے کیا اور کب کیا اور کس کس کے روبرو کیا.اور کیوں جعلی کتابیں یویوں کے متبرک کتب خانوں میں الہامی کتابوں کے ساتھ بعرت تمام تر رکھی گئیں اور کیوں بڑے بڑے راہب اور فاضل پادری ان کتابوں کو پڑھ کر اور فی الحقیقت سچ سمجھ کر دین اسلام قبول کرتے رہے.اگر در خانه کس است حرفی بس است وہ ایک بڑی پیش گوئی حضرت مسیح علیہ السلام کی جو انجیل متی باب ۲۱ میں لکھی ہے حضرت مسیح کی پیش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالیت تامہ اور مظہر تام الوہیت ہونے میں ان کوئی (۲) لوگوں کے لئے بڑا قوی ثبوت ہے جو ذرہ آنکھیں کھول کر اس پیش گوئی کو پڑھیں کیونکہ اس پیش گوئی میں جو آیت ۳۳ سے شروع ہوتی ہے ان تینوں قسموں کے قرب کی خوب ہی تصریح کی گئی ہے جن کا ثابت کرنا اس حاشیہ کا اصلی مدعا ہے.حضرت مسیح علیہ السّلام نے ان نبیوں کو جو شریعت موسوی کی حمایت کے لئے ان - سو انجیل برنباس کا حوالہ دیتے ہیں.تب میں اس بات کا شائق ہوا.کہ انجیل برنباس کو میں بھی دیکھیں.اور اتفاقا تقریب یہ نکل آئی کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے پوپ جم کا مجھ سے اتحاد و دوستانہ کر دیا.ایک روز جب کہ پوپ موصوف کے کتب خانہ میں ہم دونوں اکٹھے تھے اور پوپ صاحب سو گئے تھے میں نے دل بہلانے کو ان کی کتابوں کا ملاحظہ کرنا شروع کیا سو سب سے پہلے جس کتاب پر میرا ہاتھ پڑا وہ وہی انجیل برنباس تھی جس کا میں متلاشی تھا.اس کے مل جانے سے مجھے نہایت درجہ کی خوشی پہنچی اور میں نے یہ نہ چاہا کہ ایسی نعمت کو آستین کے نیچے چھپارکھوں.تب میں پوپ صاحب کے جاگنے پر ان سے رخصت ہو کر وہ آسمانی خزانہ اپنے ساتھ لے گیا جس کے پڑھنے

Page 586

سے پہلے آئے تمثیلی طور پر قرب کے دوئم درجہ کا اشارہ کر کے بیٹے کے لفظ سے اپنے اس مقام قرب کو ظاہر فرمایا ہے.اور پھر تیسرا درجہ قرب کا جو مظہر اتم الوہیت ہے وہ شخص قرار دیا جو بیٹے کے مارے جانے کے بعد آئے گا جو باغ کا ملک اور نوکروں کا آقا اور اس بیٹے کا باپ مجازی طور پر ہے یہ بات نہایت صاف طور پر ظاہر ہے کہ جس طرح نوکروں کے آنے اور بیٹے کے آنے سے مراد وہ نبی تھے جو وقتا فوقتا آتے گئے اسی طرح اس تمثیل میں مالک باغ کے آنے سے بھی مراد ایک بڑا نبی ہے جو نوکروں اور بیٹے سے بڑھ کر ہے جس پر تیسرا درجہ قرب کا ختم ہوتا ہے وہ کون ہے ؟ وہی نبی ہے جس کا اسی انجیل متی میں فرقلیط کے لفظ سے وعدہ دیا گیا ہے اور جس کا صاف اور صریح نام محمد رسول اللہ انجیل برنباس میں موجود ہے.یہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ مسیح جیسا ایک نبی قرب کے تینوں درجوں کے بیان کرنے میں صرف دو ٹکڑے اس میں سے بیان کر کے رہ جائے اور تیسرے ٹکڑہ کے مصداق کی طرف کچھ بھی اشارہ نہ کرے.بے شک ہر یک عاقل اس پیش گوئی پر غور کر کے یہ یقین کامل سمجھ لے گا پہلے ہر کہ یہ تین تمثیلیں تینوں قسم کے نبیوں کی طرف اشارات ہیں اور خود تین قسم کا قرب سے مجھے دین اسلام نصیب ہوا.دیکھو صفحہ دہم سطر چهارم ترجمہ قرآن شریف جارج سیل صاحب پھر صفحہ ۵۸ سطر ۲۴.اسی ترجمہ میں جارج سیل صاحب اپنے عیسائی تعصب کے جوش سے یہ بے دلیل اور مہمل رائے لکھتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ انجیل برنباس میں لفظ پیری قلیط (جس کا ترجمہ محمد ہے ) مسلمانوں نے داخل کر دیا ہو گا مگر یقین کیا جاتا کتاب اصلی جعل مسلمانوں کا نہیں.یعنی مسلمانوں نے اس میں صرف اس قدر جعل کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی پیش گوئی بتصریح نام اس میں لکھ دی ہے اور جعل یہ اس لئے ٹھرا کہ یہ پیش گوئی صریح صریح اس میں موجود ہے جس کا ماننا حضرات عیسائیوں کو کسی طرح سے منظور ہی نہیں اور لطف یہ کہ آپ ہی اقراری ہیں کہ اس پیش گوئی کو پڑھ کر بڑے بڑے نیک بخت اور فاضل راہب مسلمان ہوتے رہے ہیں.فتد تر.منہ حاشیه در حاشیه متعلق صفحه ۲۴۰ سرمه چشم آریه ۵۶۸

Page 587

۵۶۹ ایک ایسی ضروری اور شان دار صداقت ہے کہ بجز اس خاص شخص کے کس کی عقل کو طوفان تعصب بکلی تحت الثر میں لے گیا ہو ہریک فرقہ اور قوم کا آدمی معاف یقنیہ سے سمجھتا ہے.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۸۷ تا ۲۹۳ حاشیه حضرت عیسی نے اپنے بعد فارقلیط کے آنے کی پیش گوئی کی تھی.عیسائیوں نے اس سے روح القدس مراد لی.حالانکہ اس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد تھے.یہ لفظ حضرت مسیح کی پیش فل فلیط فارق اور لیٹ سے مرکب ہے.لیط شیطان کو کہتے ہیں.غرض یہ بڑی کوئی (۳) خطر ناک غلطی ہے جو انبیا علیہم السلام کی بعثت کے وقت لوگ کھاتے ہیں کہ استعارات کو حقیقت پر اور حقیقت کو استعارات پر محمول کر لیتے ہیں.ملفوظات جلد ۲ صفحه ۴۰۵

Page 588

۵۷۰

Page 589

باب چہاردہم متفرق قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدُ اللهُ الصَّمَدُ ما لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ لق

Page 590

فرمایا: صلیب بھی خطا کار ہے کہ وہ اوّل یسوع پر غالب آئی اور اس کو مردہ ساکر دیا اور پھر اس کی امت پر غالب آئی اور اس کو اپنا پرستار بنایا.اس واسطے صلیب بھی اس قابل ہے کہ توڑی جاوے.ملفوظات جلد ۸ صفحه ۴۳۷

Page 591

۵۷۳ مامور اگر ان امور کی جو اس پر کھولے جاتے ہیں.اشاعت نہ کرے.تو میں سچ سچ امپور کہتا ہوں کہ وہ مخلوق پر ظلم کرتا ہے اور خود اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دہ فرض کو انجام نہیں ماہور کا ایک یہ بھی دیتا.مامور کا ایک یہ بھی نشان ہے کہ وہ اشاعت حق سے نہیں رکھتا.اور ہمیں افسوس نشان ہے کہ وہ رکھتا ہوتا ہے جب انجیل میں ایسے فقرات دیکھتے ہیں.جن میں مسیح اپنے آپ کو چھپانے اور اشاعت حتی سے نہیں کسی پر ظاہر نہ کرنے کی تعلیم اپنے شاگردوں کو دیتا ہے.مامور من اللہ میں ایک مشجاعت ہوتی ہے اس لئے وہ کبھی بھی اپنے پیغام پہنچانے اور اشاعت حق میں نہیں ڈرتا.شہادت حقہ کا چھپانا سخت گناہ ہے.ملفوظات جلد ۳ صفحه ۳۱۱،۲۱۱ پھر اس امر پر تذکرہ ہوتا رہا کہ قدیم اور اصل لفظ عیسی ہے یا یسوع.حضور نے فرمایا يوع پرانا نام عیسی ہی ہے.تمام عرب میں عیسی کا لفظ ہے.یسوع کا ذکر پرانے جیسی اصل ہے یا عرب اشعار میں بھی نہیں پایا جاتا.چونکہ عیسیٰ نبی تھے اس لئے مصلحت انہوں نے کسی موقعہ پر عیسی کو بدل کر یسوع بنا لیا ہو.یہ بھی تعجب ہے کہ آج تک کسی اور نبی کا نام نہیں الٹا.صرف انہی کا الٹا اور مذہب انہیں کا الٹا.ایسا ہی کسی کا شعر ہے.نہو کیونکر ہمارا کام الٹا.ہم الٹے بات الٹی یار الٹا اس کے بعد حکیم نور الدین صاحب نے عرض کیا کہ ساری اناجیل میں کہیں عیسی کا نام نہیں آیا یسوع کا آیا ہے.ملفوظات جلد ۴ صفحه ۱۹۰

Page 592

۵۷۴ وعا ۱۲۱۱ مجھے خیال آتا ہے کہ حضرت مسیح نے جب دیکھا کہ صلیب کا واقعہ ٹلنے والا نہیں تو ان کو اس امر کا بہت ہی خیال ہوا کہ یہ موت لعنتی موت ہوگی پس اس موت سے بچنے کے لئے انہوں نے بڑی دعا کی.دل بریاں اور چشم گریاں سے انہوں نے دعا کرنے میں مسیح مسیح کی اول اور میں آخری کوئی کسی نہیں چھوڑی.آخر وہ دعا قبول ہو گئی چنانچہ لکھتا ہے نسمع لتقوا.ہم کہتے ہیں کہ جیسے پہلے مسیح کی دعاسنی گئی ہماری بھی سنی جاوے گی مگر ہماری دعا اور مسیح کی دعائیں فرق ہے.اس کی دعا اپنی موت سے بچنے کے لئے تھی اور ہماری دعا دنیا کو موت سے بچانے کے لئے.ہماری غرض اس دعا سے اعلائے کلمۃ الاسلام ہے.احادیث میں بھی آیا ہے کہ آخر مسیح ہی کی دعا سے فیصلہ ہو گا.بینہ کے وقت پانی کا استعمال ۴۱۳ ملفوظات جلد ۶ صفحه ۳۲۸،۳۲۷.پھر عیسائیوں کے بپتسمہ دینے کے وقت جو پانی وغیرہ چھیڑ کا جاتا ہے اور بعض ان کے فرقے اس وقت نئے دیندار کو ایک چھوٹے سے حوض میں دھکا دیدیتے ہیں.اس کے ذکریر حضرت اقدس نے فرمایا کہ: پانی کا لحاظ تو ہر ایک نے رکھتا ہے.ان لوگوں نے تالاب وغیرہ رکھا ہے اور قرآن نے گریہ و بکا کا پانی رکھا ہے وہ ظاہر پر گئے ہیں اور قرآن شریف حقیقت پر کیا ہے جیسے تَرَى أَعْيُنَهُم تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ - ملفوظات جلد ۴ صفحه ۱۰۶,۱۰۵ حضرت صاحب زادہ مبارک احمد سلمہ اللہ الاحد کے ایک کبوتر کو بلی نے پکڑا جو ذبح عیسائیوں کا خدا ابج کر لیا گیا.فرمایا کہ: ہوتا اور کھایا جاتا ہے اس وقت میرے دل میں تحریک ہوئی کہ گویا عیسائیوں کے خدا کو ہم نے ذبح کر کے کھالیا ہے، پھر فرمایا کہ انگریز بھی کبوتر کا شکار کرتے ہیں.یا اور بنی اسرائیل کی قربانیوں میں بھی شاید اس کا تذکرہ ہے بہر حال کبوتر ہمیشہ کھائے جاتے ہیں.یا دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ عیسائیوں کے خدا ذبح ہوتے ہیں.کیا یہ بھی کفارہ تو نہیں ہے.ملفوظات جلد ۳ صفحه ۳۳۱ یہ ذکر جو انجیل متی باب پچیس (۲۵) آیت ۳۱ سے ۴۴ تک ہے.جب ابن آدم

Page 593

۵۷۵ حضرت مسیح علیہ السلام اپنے جلال سے آوے گا اور سیب پاک فرشتے اس کے ساتھ ہوں گے یہ در حقیقت اس کی حضرت مسیح موعود دنیا سے متعلق نہیں بلکہ اس قسم کا آنا اس دنیا کے قطع سلسلہ کے بعد ہے جو حشر اجساد کے بارہ میں پیش گوئی کے بعد وقوع میں آوے گا.جب ہر یک مقدس نبی اپنے جلال میں ظہور کرے گا اور اپنی امت کے راست بازوں کو خوشخبری دے گا اور نافرمانوں کو ملزم کرے گا لیکن انہی آیات میں مسیح نے بتلادیا کہ میرا آنا غریبی کی حالت میں بھی ہو گا.جیسا کہ انجیل کی چوستیسویں آیت میں لکھا ہے.اے میرے باپ کے مبارک لوگو ! اس بادشاہت کو جو دنیا کی بنیاد ڈالنے سے تمہارے لئے تیار کی گئی میراث میں لو.کیونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایامیں پیا سا تھا تم نے مجھے پانی پلایا میں پردیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں اتارا نگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا.بیمار تھا تم نے میری عیادت کی.قید میں تھا تم میرے پاس آئے.راست باز سے جواب میں کہیں گے.اے خداوند کب ہم نے تجھے بھوکا دیکھا اور کھاناکھلایا یا پیا س اور پانی پلایا.کب ہم نے تجھے پر دیسی دیکھا اور اپنے گھر میں اتارا یا نگا تھا اور کپڑا پہنایا.ہم کب تجھے بیمار اور قید میں دیکھ کر تجھ پاس آئے.تب بادشاہان سے جواب میں کہے گا.میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جب تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے ایک کے ساتھ کیا تو میرے ساتھ کیا.تب وہ بائیں طرف والوں سے بھی کہے گا.اے ملعونو! میرے سامنے سے اس ہمیشہ کی آگ میں جاؤ جو شیطان اور اس کے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی ہے.کیونکہ میں بھو کا تھا پر تم نے مجھے کھانے کو نہ دیا.پیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہ پلایا.پر دیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں نہ اتارا.نگا تھا تم نے مجھے کپڑا نہ پہنایا.بیمار اور قید میں تھا تم نے میری خبر نہ لی.تب وے بھی جواب میں اسے کہیں گے اے خداوند کب ہم نے تجھے بھو کایا یا سایا پر دیسی یا نگ یا بیمار یا قیدی دیکھا اور تیری خدمت نہ کی.تب وہ انہیں جواب میں کہے گا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے ایک کے ساتھ نہ کیا تو میرے ساتھ بھی نہ کیا.اور وہ ہمیشہ کے عذاب میں جائیں گے پر راست باز ہمیشہ کی زندگی میں.اب غور کرنا چاہئے کہ ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ مسیح نے اپنے بعض چیلوں کا ذکر کر کے ان کا دنیا میں آتا اور تکلیف اٹھانا گویا اپنا آنا اور تکلیف اٹھانا قرار دیا ہے اور چھوٹے بھائیوں سے مراد بجران کے اور کون لوگ ہو سکتے ہیں جو کسی قدر مسیح کے منصب

Page 594

اور مسیح کی طبیعت اور مسیح کے درجہ سے حصہ لیں اور اس کے نام پر مامور ہو کر آویں.عیسائی تو نہیں کہہ سکتے کہ ہم مسیح کے بھائی ہیں.اور کچھ شک نہیں کہ محدث نبی کا چھوٹا بھائی ہوتا ہے اور تمام انبیا علاقی بھائی کہلاتے ہیں.اور یہ نہایت لطیف اشارہ ہے جو مسیح نے ان کا آنا اپنا آنا قرار دیا ہے.اور یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ یہ آنا اس عاجز کا نسبتی طور پر جلالی آنا بھی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے توحید کی اشاعت کے لئے یہ بڑی بڑی کامیابیوں کی تمہید ہے.اور جلالی آنے سے مراد اگر طریق سیاست رکھا جاوے تو یہ درست نہیں.یہ بات انصاف سے بعید ہے کہ کوئی شخص غافلوں کے جگانے کے لئے مامور ہو کر آوے اور آتے ہی زدو کوب اور قتل اور منفک دماء سے کام لیوے جب تک پورے طور سے اتمام حجت نہ ہو خدائے تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا.غرض مسیح کا جلالی طور پر آنا جن معنوں سے عیسائی بیان کرتے ہیں وہ اس دنیا سے متعلق نہیں.اس دنیا میں جو مسیح کے آنے کا وعدہ ہے اس وعدے کو ایسے جلالی طور سے کچھ علاقہ نہیں.عیسائیوں نے بات کو کہیں کا کہیں ملا دیا ہے اور حق الامر کو اپنے پر مشتبہ کر دیا ہے.چنانچہ متی کی آیات مذکورہ بالا تو صاف بیان کر رہی ہیں کہ یہ جلالی طور کا آنا اس وقت ہو گا کہ جب حشر اجساد کے بعد ہریک کا حساب ہو گا کیونکہ بجز حشر اجساد کامل طور پر شریروں اور راست بازوں کی جماعتیں جو فوت ہو چکی ہیں کیونکر ایک جگہ اکٹھی ہو سکتی ہیں.لیکن پر خلاف اس مضمون کے متی کے پچیس (۲۵) بلب آیات مذکورہ بلا سے ظاہر ہوتا ہے متی کے چوبیسویں باب سے اسی دنیا میں مسیح کا آنا بھی سمجھا جاتا ہے اور دونوں قسم کے بیانات میں تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ آخرت میں جو حشر اجساد کے بعد آئے گاوہ خود مسیح ہے لیکن دنیا میں مسیح کے نام پر آنے والا قبل مسیح ہے جو اس کا چھوٹا بھائی اور اسی کے قول کے مطابق اس کے وجود میں داخل ہے دنیا میں آنے کی نسبت مسیح" نے صاف کہ دیا کہ پھر مجھے نہیں دیکھو گے پس وہ کیونکر دنیا میں آسکتا ہے حالانکہ وہ خود کہہ گیا کہ پھر مجھے نہیں دیکھو گے.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کے قبول کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ اسی وقت قبول کر لیوے.دنیا ہمیشہ آہستہ آہستہ مانتی ہے.ان لوگوں کا ہونا بھی تو ضروری ہے کہ جو ایمان نہیں لائیں گے مگر مسیح کے دم کی ہوا سے مریں گے.دم کی ہوا سے مرنا حجت قاطعہ سے مرنا ہے.انجیلوں میں بھی تو لکھا ہے کہ مسیح کے ۵۷۶

Page 595

022 نزول کے وقت بعض پکڑے جائیں گے اور بعض چھوڑے جائیں گے یعنی بعض پر عذار نازل کرنے کے لئے حجت قائم ہو جائے گی گویاوہ پکڑے گئے اور بعض نجات پانے کے لئے استحقاق حاصل کر لیں گے گویا نجات پاگئے.ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۴۰ تا ۳۴۲ ۴۱۵ وإني رأيت عيسى عليه السلام مراراً في المنام، ومراراً في الحالة كالكشفية.وقد أكل معي على مائدة واحدة ورئيته مرة واستفسرته مما وقع قومه فيه فاستوى عليه الدهش وذكر عظمة الله وطفق يسبح ويقدس وأشار إلى الأرض وقال إنما أنا حضرت مع كوريا ميں تُرابي وبري مما يقولون.فرأيته كالمنكسرين المتواضعين ورأيته مرة أخرى عیسائیت کے موجودہ فتنہ سے بیزار دیکھا قائما على عتبة بابي وفي يده قرطاس كصحيفة فألقى قلبي أن فيها أسماء عباد يحبون الله ويحبهم وبيان مراتب قربهم عند الله فقرءتها، فإذا في آخرها مكتوب من الله تعالى في مرتبتي عند ربي هو مني بمنزلة توحيدي وتفريدي.فكاد أن يعرف بين الناس هذا ما رأيت ويكفيك إن كنت من الطالبين.لا يقال ترجمہ :- اور میں نے بارہا عیسی علیہ السّلام کو خواب میں دیکھا اور بارہا کشفی حالت میں ملاقات ہوئی اور ایک ہی خوان میں میرے ساتھ اس نے کھایا اور ایک دفعہ میں نے اس کو دیکھا اور اس فتنہ کے بارے میں پوچھا جس میں اس کی قوم مبتلا ہو گئی ہے پس اس پر دہشت غالب ہو گئی اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا اس نے ذکر کیا اور اس کی تسبیح اور تقدیس میں لگ گیا اور زمین کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ میں تو صرف خاکی ہوں اور ان تہمتوں سے بری ہوں جو مجھ پر لگائی جاتی ہیں پس میں نے اس کو ایک متواضع اور کسر نفسی کرنے والا آدمی پایا.اور ایک مرتبہ میں نے اس کو دیکھا کہ میرے دروازہ کی دہلیز پر کھڑا ہے اور ایک کاغذ خط کی طرح اس کے ہاتھ میں ہے سو میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس خط میں ان لوگوں کے نام درج ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کو دوست رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ انہیں دوست رکھتا ہے اور اس میں ان کے مراتب قرب کا بیان ہے جو عند اللہ ان کو حاصل ہیں پس میں نے اس خط کو پڑھا سو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے آخر میں میرے مرتبہ کی نسبت خدا تعالیٰ کی طرف سے

Page 596

۴۱۶ أنها رؤيا وكشف ومن المحتمل أن يتمثل الشيطان في مثل هذه الواقعات فإن الشيطان لا يتمثل بصورة الأنبياء هذا السر الجليل ولا تقبل ما قيل.(نور الحق، روحاني خزائن ص ٥٦ إلى ٥٧) آؤ عیسائیو !!! ادھر آؤ!!! نور حق دیکھو ! راه حق پاؤ! عیسائیوں سے خطاب جس قدر خوبیاں ہیں قرآن میں کہیں انجیل میں تو دکھلاؤ ! خالق ہے اس کو یاد کرو یونہی مخلوق کو نہ بہکاو ! کب تلک جھوٹ سے کرو گے پیار کرو گے پیار کچھ تو سچ سے بھی سے بھی کام فرماؤ ! کچھ تو خوف خدا کرو لوگو کچھ تو لوگو خدا سے شرماؤ ! عیش دنیا سدا نہیں پیارو اس جہاں اس جہاں کو بقا نہیں پیارو تو رہنے کی جا نہیں پیارو کوئی اس میں رہا نہیں پیارو اس خرابہ سے کیوں لگاؤ دل ہاتھ سے اپنے کیوں جلاؤ دل کیوں نہیں تم کو دین حق کا خیال ہائے سو سو اٹھے ہے دل میں ابال کیوں نہیں دیکھتے طریق صواب؟ کس بلا کا پڑا ہے دل میں حجاب؟ اس قدر کیوں ہے کین و استکبار ؟ کیوں خدا یاد سے گیا یک بار؟ تم نے حق کو بھلا دیا ہیہات دل کو پتھر بنا دیا ہیہات اے عزیزو! سنو کہ بے قرآن حق کو پاتا نہیں کبھی انساں جن کو اس نور کی خبر ہی نہیں ان پہ اس یار کی نظر ہی نہیں یہ فرقاں میں اک عجیب اثر کہ بناتا ہے عاشق دلبر ہے یہ لکھا ہوا ہے کہ وہ مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید اور عنقریب وہ لوگوں میں مشہور کیا جائے گا.یہ ہے جو میں نے دیکھا اور یہ تجھے کفایت کرتا ہے اگر تو حق کا طالب ہے.یہ کہنا بے جا ہے کہ یہ تو ایک خواب یا کشف ہے اور ممکن ہے کہ ایسے واقعات میں شیطان متمثل ہو کر ظاہر ہو کیونکہ شیطان انبیا کی صورت پر متمثل نہیں ہوتا پس اس بزرگ بھید کو قبول کر اور جو کچھ اس کے مختلف کہا گیا اس کو مت قبول کر.نور الحق روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۵۷،۵۶

Page 597

05 بحر حکمت ہے وہ کلام تمام ہے جام جس کا ہے نام قادر اکبر قادر اکبر اس کی ہستی کی دی ہے پختہ خبر کوئے دلبر میں کھینچ لاتا ہے پھر تو کیا کیا نشاں دکھاتا دل میں ہر وقت نور بھرتا ہے سینہ کو خوب صاف کرتا ہے اس کے اوصاف کیا کروں میں بیاں وہ تو دیتا ہے جاں کو.اور اک جاں تو چکا ہے نیر اکبر اس سے انکار ہو سکے کیونکر وہ ہمیں دلستاں تلک لایا اس کے پانے سے یار کو پایا! عشق حق کا پلا رہا ہے یاد سے ساری خلق جاتی ہے سینہ میں نقش حق جماتی ہے دل سے غیر خدا اٹھاتی ہے درد مندوں کی ہے دوا وہی ایک ہے خدا سے خدا نما وہی ایک ہم نے پایا خوری برای وہی ایک ہم نے دیکھا ہے دلربا وہی ایک اس کے منکر جو بات کہتے ہیں یوں ہی اک واہیات کہتے ہیں؟ بات جب ہو کہ میرے پاس آویں میرے منہ پر وہ بات کہہ جاویں مجھ سے اس دلستاں کا حال سنیں مجھ سے وہ صورتِ جمال سنیں آنکھ پھوٹی تو خیر کان ہی بات جب اس کی یاد آتی ہی یوں ہی امتحان ہی براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد اول خور بمعنی روشنی یا مینار ۵۷۹

Page 598

01.

Page 599

باب پانز دہم توحید کی فتح إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهُ وَيَحِدُ فَمَن كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ، فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَلِحَا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا.

Page 600

فیں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتا اگر میرامول اور میرا اور تاتا جسے تسلی نہ دیا کہ آخر توحید مجھے اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا.اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا.اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہو گا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے درواز ہے بند ہیں.اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی.محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گانہ کند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی بچی توحید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا.لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اتارنے سے.تب یہ باتیں جو میں کہتا ہو سمجھ میں آئیں گی.تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحه ۸

Page 601

۵۸۳ یہ دلائل اور حقائق اور معارف ہیں جو عیسائی مذہب کے باطل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر ثابت کئے.جن کو میں نے اپنی تالیفات میں بڑے لبسط سے لکھا ہے.اور ظاہر ہے کہ ان روشن دلائل کے بعد نہ عیسائی مذہب قائم رہ سکتا ہے اور نہ اس کا کفارہ ٹھہر سکتا ہے بلکہ اس ثبوت کے ساتھ یہ عمارت یک دفعہ کرتی ہے.کیونکہ جب کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا مصلوب ہوتا ہی ثابت نہ ہوا تو کفارہ کی تمام امیدیں خاک میں مل گئیں.اور یہ وہ فی تعظیم ہے جو حدیث کسر صلیب کی منشاکو کامل طور پر پورا کرتی ہے اور وہ کام جو مسیح موعود کو کرنا چاہئے یہی کام تھا کہ ایسے دلائل واضح سے عیسائی مذہب کو گرا دے.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۴۵ اسلام کی پاک تاثیروں کو روکنے کے لئے جس قدر پیچیدہ افتراء اس عیسائی قوم میں استعمال کئے گئے اور ہر مکر و حیلے کام میں لائے گئے اور ان کے پھیلانے میں جان توڑ کر اور مال کو پانی کی طرح بہا کر کوششیں کی گئیں.یہاں تک کہ نہایت شرمناک ذریعے بھی جن کی تصریح سے اس مضمون کو منزہ رکھنا بہتر ہے اسی راہ میں ختم کئے گئے.یہ کر سمجھن قوموں اور تثلیث کے حامیوں کی جانب سے وہ ساحرانہ کاروائیاں ہیں کہ جب تک ان کے اس سحر کے مقابل پر خدا تعالیٰ وہ پر زور ہاتھ نہ دکھلاوے جو معجزہ کی قدرت اپنے اندر رکھتا ہو، اور اس معجزہ سے اس طلسم کو پاش پاش نہ کرے تب تک اس جادوئے فرنگ سے سادہ لوح دلوں کو مخلصی حاصل ہونا بالکل قیاس اور گمان سے باہر ہے.سو خدا تعالیٰ نے اس جادو کو باطل کرنے کے لئے اس زمانہ کے بچے مسلمانوں کو یہ منجزہ دیا کہ اپنے اس بندہ کو اپنے الہام اور کلام اور اپنی برکات خاصہ سے مشرف کر کے اور اپنی راہ کے

Page 602

بار یک علوم سے بہرہ کامل بخش کر مخالفین کے مقابل پر بھیجا اور بہت سے آسمانی تحائف اور علوی عجائبات اور روحانی معارف و دقائق ساتھ دیئے تا اس آسمانی پتھر کے ذریعہ سے وہ موم کا بت توڑ دیا جائے جو سحر فرنگ نے تیار کیا ہے.سواے مسلمانو ! اس عاجز کا ظہور ساحرانہ تاریکیوں کے اٹھانے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ ہے.کیا ضرور نہیں تھا کہ سحر کے مقابل پر معجزہ بھی دنیا میں آتا.سخت اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲،۵ میں خدا تعالیٰ کی تائیوں اور نصر توں کو دیکھ رہا ہوں جو وہ اسلام کے لئے ظاہر کر رہا ہے اور میں اس نظارہ کو بھی دیکھ رہا ہوں جو موت کا اس صلیبی مذہب پر انے کو ہے.اس مذہب کی بنیاد محض لعنتی لکڑی پر ہے جس کو دیمک کھا چکی ہے اور یہ بوسیدہ لکڑی اسلام کے زبر دست دلائل کے سامنے اب ٹھہر نہیں سکتی.اس عمارت کی بنیاد میں کھو کھلی ہو چکی ہیں.اب وقت آتا ہے کہ یکدم یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوگی.اور وہ اس مردہ پرستی کے مذہب سے بیزار ہو کر حقیقی مذہب اسلام کو اپنی نجات کا ذریعہ یقین کریں گے.ملفوظات.جلد ۸ صفحه ۱۳۶ اگر عیسائیوں میں کوئی فرقہ دینی تحقیق کا جوش رکھتا ہے تو ممکن ہے کہ ان ثبوتوں پر اطلاع پانے سے وہ بہت جلد عیسائی مذہب کو الوداع کہیں اور اگر اس تلاش کی آگ یورپ کے تمام دلوں میں بھڑک اٹھے تو جو گروہ چالیس کروڑ انسان کا انیس سو برس میں طیار ہوا ہے ممکن ہے کہ انیس ماہ کے اندر دست غیب سے پلٹا کھا کر مسلمان ہو جائے.ر از حقیقت - روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۲۶ حاشیه یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی ۵۸۴

Page 603

۵۸۵ آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا پھر اولاد کی اولاد مرے گی.اور وہ بھی ابن مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بو یا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۷ مجھ سے پہلے ایک غریب انسان مریم کے بیٹے سے یہودیوں نے کیا کچھ نہ کیا اور کس طرح اپنے گمان میں اس کو سولی دے دی.مگر خدا نے اس کو سولی کی موت سے بچایا.اور یا تو وہ زمانہ تھا کہ اس کو ایک مکتر اور کذاب خیال کیا جاتا تھا اور یا وہ وقت آیا کہ اس قدر ں کی عظمت دلوں میں پیدا ہو گئی کہ اب چالیس کروڑ انسان اس کو خدا کر کے مانتا ہے.اگر چہ ان لوگوں نے کفر کیا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا مگر یہ یہودیوں کا جواب ہے کہ نے کفر عاجزانسان جس شخص کو وہ لوگ ایک جھوٹے کی طرح پیروں کے نیچے کچل دینا چاہتے تھے وہی یسوع مریم کا بیٹا اس عظمت کو پہنچا کہ اب چالیس کروڑ انسان اس کو سجدہ کرتے ہیں.اور بادشاہوں کی گردنیں اس کے نام کے آگے جھکتی ہیں.سو میں نے اگر چہ یہ دعاتی ہے کہ یسوع ابن مریم کی طرح شرک کی ترقی کا میں ذریعہ نہ شہرایا جاؤں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی بنے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے

Page 604

گا.بہت سی رو کیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سوائے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو.اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا.تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۸ تا ۴۱۰.سنو اب وقتِ توحید اتم ہے ستم اب مائل ملک عدم ہے خدا نے روک ظلمت کی اٹھا دی فَسُبْحَانَ اللَّذِي أَحْرَى الأَعَادِي ۵۸۶

Page 605

انڈیکس

Page 606

Page 607

۵۸۹ عنوان صفحه اقتباس 14 ☆ مکاشفہ کی شہادت حمد باب اول.....کسر صلیب باب دوم....رو الوہیت مسیح د عوالی الوہیت سے مسیح ابن مریم پاک ہیں.عیسائیت کے ابطال کے چار گولہ.عیسائیت میں خدا شناسی کے تینوں ذرائع مفقود ہیں.دعوی الوہیت اور قرآن کریم کی کسوٹی توریت کی وہ پیش گوئیاں جو الوہیت مسیح کے ثبوت کے لئے پیش کی جاتی ہیں، کیا یہود کو ان کی سمجھ نہیں آئی ؟ کبھی کسی نبی ، راہب یا عابد نے نہ لکھا کہ خدا انسان کے جامہ میں آئے گا.توریت نے غیر معبودوں کی پرستش سے منع کیا.خدا ایک ہی ہے.یونٹی ٹیرین فرقہ الوہیت مسیح کا منکر ہے.یہودیوں میں ایسے خدا کا کوئی ذکر نہیں.توریت کی ان پیش گوئیوں کا تجریہ جو الوہیت مسیح کے بارہ میں پیش کی جاتی ہیں.وہ پیش گوئیاں خود حضرت مسیح نے اپنے پر چسپاں نہیں کیں یہودیوں نے ان پیش گوئیوں کے وہ معافی نہیں کئے جو موجودہ عیسائی کرتے ہیں.دعوئی اور افعال میں متناقض.اس امر پر یہودیوں کا متفق ہونا کیوں ضروری ہے.توریت کی پیش گوئیاں حضرت مسیح کو خدا ثابت نہیں کرتیں.11 ۱۵

Page 608

صفحہ اقتباس ۲۹ ۳۲ ۱۴ ۳۳ ۱۵ 14 عنوان رد الوهیت مسیح بدلیل استقراء از قرآن کریم سلسلہ تبلیغ اور کلام الہی کے لئے ہمیشہ انسان ہی مرتبہ رسالت حاصل کرتے رہے نہ کہ کبھی خدا کا بیٹا آیا.مسیح اگر خدا کا بیٹا ہو تو ایسی والدہ سے تولد کا محتاج نہ ہو.کھانا کھانے سے انسان کا بدن تحلیل ہوتا ہے کیا خدا کا جسم بھی تحلیل ہوتا رہتا ہے؟ دلیل استقراء بسلسلہ رو الوہیت مسیح کی مزید وضاحت.مسیح میں اگر روح انسان کی تھی تو وہ خدا نہ ہوئے اور اگر خدا کی روح تھی تو انسان نہ ہوئے.صفات الوہیت سے نہیں مگر الہ.حضرت مسیح عالم الغیب نہیں.عالم الغیب ہونا خدا تعالیٰ کی عظیم الشان صفت ہے.حضرت مسیح میں کوئی اقتداری قوت نہ تھی.عیسائیوں کا خدا قادر نہیں.خدا کے بندے تین دن تک بغیر خدا جیتے رہے.غیر متکلم، غیر قادر اور بے بس خدا.عیسائیوں کا خدا قیوم الاشیاء نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ کی کوئی صفت مفعول کے صیغے میں نہیں.بے گناہ ہونا کوئی خوبی نہیں.وہ ناطق خدا ہیں یا غیر ناطق دعا کی عدم قبولیت.کوئی اس خدا سے کیا پائے گا جو خود مانگتا ہے مگر دیا نہیں جاتا ؟ حوائج بشریہ الوہیت کے مقام کے منافی ہیں.انسانی کمزوریاں اور لاعلمی وغیرہ الوہیت کے منافی ہیں.خواص بشریہ مانع الوہیت ہیں.عیسائیوں کے خدا کی حالت.مسیح کا بجز و اضطرار عیسائیوں کے لئے باعث ندامت ہے.1 ۳۴ ۳۵ 19 ٣٦ ۲۱ ۲۲ ۳۷ ۳۴ ۳۸ ۳۹ ۲۱ ۵۹۰

Page 609

۵۹۱ ۴۳ اقتباس ۲۹ ٣٠ ۳۱ }}}} لام السلام ۳۹ عنوان کیا شیطان خدا کی بھی آزمائش کر سکتا ہے.آزمائشیں انسان کو آتی ہیں.حضرت مسیح دوسرے مشرکوں کے مصنوعی خداؤں کی طرح ہیں.کئی قوموں نے اپنے پیشواوں کو خدا مانا ہے پھر مسح کی کیا خصوصیت ہے کہ یہ تو خدا ہوں اور باقی نہ ہوں ؟ خدایا خدا ک بیٹا ہونے کے دعوے تو پیش کئے جاتے ہیں لیکن دلیل نہیں دی جاتی.یہود کے اعتراض پر وہ پیش گوئیاں کیوں نہ پیش کیں جو ثبوت کے طور پر آج پیش کی جارہی ہیں ؟ مسیح خدا ہیں تو ان کی صفات خالقیت و الوہیت کا ثبوت دیں.عیسائیوں کے پاس الوہیت مسیح کے ثبوت کے لئے کوئی دلیل نہیں.صرف دعوی ہی دعوی ہے خدائی طاقتیں ساتھ نہیں.حضرت مسیح کی خستہ حالت اور ایک پہلو سے بابا نانک سے موازنہ.توریہ بچے ایمانداروں کا کام نہیں.انجیل کی رو سے حضرت مسیح کو عظیم الشان انسانوں کی فہرست میں شامل کرنا ہی مشکل ہے.حضرت میں ہمیں کوئی غیر معمولی خوبی نہ تھی.حضرت مسیح سے کئی انبیاء افضل تھے.بجز خدا کے کسی اور انسان کو سجدہ مت کر.آپ میں کوئی بھی ایک ایسی خاص طاقت علیت نہیں ہوتی جو دوسرے انبیاء میں پائی نہ جائے.بعض صفات میں بیٹل.صفت خلق کیا تھی.مردے زندہ کرنا دلیل الوہیت نہیں.آنحضرت کا مردے زندہ کرنا علت ہے.حضرت موسیٰ کا مردے زندہ کرنا اہلیت ہے.مردے دوبارہ دنیا میں نہیں آتے.۵۲ t E é à à Ar ۵۲ ۴۲ QA

Page 610

اقتباس ۵۹ ۵۹۲ } وقف کیے گئے لانے کے گانے شام مجھے ۵۲ ۵۳ AX ۵۵ } عنوان معجزات میں عمومیت.مسیح کے معجزات کی حقیقت.خوارق سے انسان خدا نہیں بن سکتا.حضرت مسیح کے مجربات پر داغ.مجموعات کے ضمن میں قرآن کریم کا حضرت مسیح پر احسان ہے.سلب صفات خدائی.مجازی کلام.عیسائی مذہب اور اسلام میں خدا کا جدا گانہ تصور.اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسی آدمی سے کچھ بھی زیادہ نہیں.باپ پیدا ہونا دلیل الوہیت نہیں.بن باپ پیدائش کے بارہ میں یونانی ، مصری اور ہندی طبیبوں کی رائے.پیدائش کے لحاظ سے حضرت آدم سے مشابہت.عیسائیوں کے خدا سے تو آدم ہی اچھا رہا.نہ خدائی کی دلیل رہی نہ چار فوق العادت خصوصیتیں می کی پیدائش بھی کوئی ایسا امر نہیں کہ جس سے ان کی خدائی کا استنباط ہو سکے.پیدائش کے لحاظ سے حضرت یحییٰ کا نشان بہت صاف رہا.عورت کا بچہ خدا ! جس پیٹ سے ایک بچہ خدا پیدا ہوا اس سے دیگر بچے بھی خدا ہی پیدا ہونے چاہئیں.سیح کے بھائیوں کو کیوں خدانہ کہا جائے ؟ مسیح کو ان کی والدہ یا بھائی خدا نہیں کہتے تھے.کیا عیسائیوں کو اس خدا پر ناز ہے ؟ قرآن کریم حضرت عیسی کو الہ نہیں مانتا.مسیح آیتہ اللہ تھا.حضرت مسیح کے لئے لفظ روح کا استعمال انہیں خدا نہیں بتاتا.۵۶ ۵۷ ۵۸ ۵۹ F ۶۴ 수스

Page 611

صفحه اقتباس У 352 AT ۶۶ 46 ۶۸ ۶۹ 60 Aч M CA ۸۹ <9 A.عنوان روح میند، سے تو حضرت آدم کا مقام زیادہ بلند ثابت ہوتا ہے.قرآن مجید میں مسیح کو روح حسین اللہ کہنے کی وجہ.خدا اور موت دو متضاد فقرے ہیں.انسان کو انسانی نمونے کی ضرورت ہے نہ کہ خدائی نمونے کی.مسیح کی پیش گوئیوں کا حال اور اس کی الوہیت کی تردید.بہت خدا مل جائیں گے تو طاقت زیادہ ہو گی.مسیح کی خدائی خدا تعالیٰ کی غیرت کے خلاف ہے.انجیل کے ذریعہ کسی ملک میں توحید نہیں پھیلی.مسیح کی خدائی پر زد.ہدایت کے اسباب و وسائل تین ہیں.اگر مسیح خدا ہیں تو کسی ایک شہر کو طاعون سے بچا کر دکھائیں.اگر مسیح خدا ہے تو اس سے میرے مقابل پر نشان طلب کریں.اگر مسیح خدا ہے تو نشان نمائی میں میرا مقابلہ کرو.اشتہار انعامی ایک ہزار روپیہ.اسلام کا خدا قادر مطلق اور خالق کل ہے.جھوٹی خدائی بہت جلد ختم ہونے والی ہے.حمید باب سوم......رو ا بنيت صحیح M ۸۲ ۹۴ AY ۹۶ AV پہلے مشرکوں کی نقل.بیٹا بھی ایسا ناقص بیٹا جس کو باپ سے کچھ بھی مناسبت نہیں.خدا تعالی کی ذات میں کونسی کسر رہ گئی تھی جو بیٹے کے وجود سے پوری ہو میں گئی.حضرت مسیح علیہ السلام کے نزدیک ابن اللہ کے معنے.۸۵ مسیح نے عام اصطلاح یہود کے مطابق خود کو ابن اللہ قرار دیا.96 AM ۹۸ دعوی ابن اللہ اور الوہیت پر یہود کی طرف سے تکفیر کا جواب کیا ہوتا چاہئے تھا.۵۹۳

Page 612

صفحه اقتباس ۱۰۲ ۸۷ M ۸۹ ٩٠ ۱۰۵ ۹۱ 1.4 ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵ 1.9 ۹۶ ፡፡ 96 ۱۱۳ ۹۸ ११ عنوان یہود کے سوال پر ابن اللہ ہونے کا ثبوت دینا چاہئے تھا.ابن اللہ ہونے کے ثبوت کے لئے پیش گوئیاں پیش کرنی چاہئیں تھیں.بائیل میں بہت سے لوگوں کو خدا کے بیٹے قرار دیا گیا ہے.پہلی کتابوں میں کامل راست بازوں کو خدا کے بیٹے قرار دیا گیا ہے.خدا کی اولاد سے کیا مراد ہے.مسیح ابن اللہ ہے یا اقنوم ثانی ؟ جب اقنوم ثمانی اس کے وجود کا عین ہو گیا اور اقوم ثانی خداہے تو نتیجہ مسیح خدا بن گیا.حضرت آدم کو بطریق اول خدا تعالیٰ کا بیٹا ہونا چاہئے.انا جیل کے لحاظ سے تو خدا کا پہلا بیٹا آدم ہے.بدھ مت والے اپنے افتراء اور اختراع میں ان سے اچھے رہے.ابی ابی کر کے کیوں نہ پکارا ؟ لفظ "اب " کی حقیقت.خدا تعالیٰ کو باپ کہنا سوء ادب اور ہجو میں داخل ہے.پہلی کتابوں نے ”اب“ کا لفظ کیوں استعمال کیا ؟ باپ اور فادر کے مفہوم میں محبت کے معنے ماخوذ نہیں.نصاری کا ابتلاء.خدا کے لئے بیٹا تجویز کرنا گویا خدا تعالیٰ کی موت کا یقین کرنا ہے.ہلا باب چهارم....رو تثلیث 川 ۱۰۲ 114 ایک تین اور تین ایک.اوروں کے لئے بھی امکان.احتیاج اقنوم مثلاثہ کا خاصہ ہے.۱۰۳ اقایم ملالہ پر تبصرہ.۵۹۴

Page 613

اقتباس عنوان ۵۹۵ ۱۲۰ ۱۰۵ ۱۲۲ ۱۲۴ ۱۲۷ ۱۲۸ ۱۳۰ تین ممبران کمیٹی.تثليث يا تخميس ؟ ۱۰ اگر مسیح خدا ہے تو اسے مظہر اللہ کہنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ناموں کی تفریق چاہتی ہے کہ کسی صفت کی کمی و بیشی ہو.باوجود حقیقی تفریق کے اتحاد ماہیت کیونکر.۱۰۸ کیا شیخ کی روح اور اس کا جسم مخلوق ہیں؟ کیا مسیح مظہر اللہ ہیں ؟ 16 1-9 # 5 = ۱۱۲ ۱۱۴ ١٣١ ۱۱۵ 114 ۱۳۲ 114 ۱۳۳ کیا مظہر اللہ نزول روح القدس سے قبل تھے یا بعد میں ہوئے ؟ مظہریت دائمی تھی یا اتفاقی ؟ خدا تعالیٰ مسیح کے ساتھ بھی موجود ہے لہذا مسیح اپنی ماہیت میں دوسرے اقنوم ہوئے.ایک کامل اقنوم جو جمیع صفات کاملہ پر محیط ہے ، کے ہوتے ہوئے دوسرے اقنوموں کی کیا ضرورت ہے ؟ تینوں اقنوموں کے جمع ہونے سے طاقت میں اضافہ نہ ہوا.ہر ایک نبوت کے سلسلہ میں تین جزوں کا ہونا ضروری ہے.تثلیث عقل و نقل سے ثابت نہیں.توحید کے نقوش انسانی فطرت میں مرکوز ہیں.لفظ الوہیم سے صرف تین شخص ہی کیوں مراد لئے جاتے ہیں ؟ تین چیزیں تین تین سیر فرض کی جائیں تو وہ سب مل کر 9 سیر ہوں گی.عیسویت کی ابتداء میں تثلیث کا عقیدہ نہ تھا.تثلیث کی تاریخ توحید کی فتح.عیسی پرستی ، بہت پرستی اور رام پرستی سے کم نہیں.یہودی نہ تثلیث کے قائل ہیں نہ جسمانی خدا کے.توریت میں تسلیت کا ذکر نہیں.باطنی شریعت میں اس کا کوئی نمونہ نہیں.

Page 614

صفحه اقتباس ۱۱۸ ۱۳۴ 119 ۱۳۷ ۱۲۰ ۱۴۰ ۱۲۱ ۱۴۲ ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۴۳ ۳۴ ۱۴۷ WA ۱۲۵ عنوان عناصر میں کرویت تثلیث کو رد کرتی ہے.تثلیث عقل اور منطق کے خلاف ہے.تثلیث خلاف تعلیم توریت ہے.تثلیث یونانی عقیدہ سے لی گئی ہے.تثلیث پولوی مذہب ہے.صحیح توحید کی تعلیم دیتے رہے.تثلیث پر محاکمه لفظ الوہیم سے تثلیث ثابت نہیں ہوتی.جب تینوں خدا اس کے اندر تھے تو وہ چو تھا خدا کون تھا جس کی جناب میں اس نے رو رو کر ساری رات دعا کی تھی ؟ وضع عالم میں کرومیت کا فلسفہ.نظائر قدرت سے ثابت ہے کہ خدا ایک ہی ہے.تثلیث لا نخل عقدہ ہے.باب پنجم رو کفاره اس خیال سے ہمارا بدن کانپتا ہے.۱۲۶ کچی تو بہ اور بچی قربانی.توبہ ۱۲۷ کفارہ کے بارہ میں جامع بیان.کفارہ کا عقیدہ ہندووں اور یونانیوں کی نقل ہے.خدا قدیم سے ہے مگر بیٹے کو سولی دینے کا خیال اسے اب آیا.اس آدم سے پہلی مخلوق کے گناہ کی معافی کا کیا بندوبست تھا.اگر صلیب کے بغیر گناہوں کی معافی نہیں تو عیسائیوں کے خدا کے ان گنت بیٹے ہوں گے.شیاطین کے گناہوں کا کیا علاج ہے.سلیب پر کھینچے جانے کا کوئی ثمرہ بپایہ ثبوت نہیں پہنچتا.کفارہ کسی کو نفسانی جذبات سے بچانہ سکا.۵۹۶

Page 615

۵۹۷ اقتباس عنوان مسیح کی ذات کو بھی کفارہ سے کوئی فائدہ نہ پہنچا.حواریوں پر کیا اثر ہوا.اب تک گناہ رک نہ سکا.کفارہ کا شہتیر لعنت ہے.تین دن کے لئے ہادیہ میں یسوع جہنم میں نصیحت کے لئے گیا.یسوع کا جہنم میں جاتا.(نعوذ باللہ ) بیٹے کو سزا صرف تین دن اور دوسروں کو ابدی.خدا کی لعنت اور کسر صلیب.لعنت کا مفہوم اور تشریح.کیا نور کسی زمانہ میں تاریکی ہو گیا تھا.گناہ سے لعنت آئی اور لعنت سے صلیب ہوئی.لعنت کا مفہوم.لعنت ہے ایسی نجات پر.دو قسم کی تتلیت کیا اس لعنتی قربانی کی تعلیم یہود کو بھی دی گئی تھی ؟ نجات کے بارہ میں توریت کی تعلیم قرآن کے مطابق ہے.لعنتی قربانی کو قبول کرنے والوں کو فائدہ کیا ہوا ؟ اگر گناہ رک نہیں سکتے تو کیا اس لعنتی قربانی سے ہمیشہ گناہ بخشے جاتے ہیں؟ یسوع دوبارہ مصلوب نہیں ہو سکتا.دوسرا گناہ قابل معافی نہیں.اگر پولوس نے غلطی کھائی تو ایسا مذہب ناپاکی پھیلانے والا ہے.حضرت مسیح لعنتی موت کے لئے راضی نہ تھے.اگر یہ خدا کی مرضی تھی تو پھر وہ یہود پر ناراض کیوں ہوا؟ مصلوب ہو نا مرضی سے تھا یا خلاف مرضی؟ ۱۲۸ ۱۵۳ ۱۲۹ ها ۱۳۰ ۱۳۱ ۱۳۲ 104 ۱۳۳ ۱۳۴ 109 ۱۳۵ 141 ۱۳۶ ۱۳۷ ۱۶۵ ۱۳۸ 14A ۱۳۹

Page 616

صفحه 149 اقتباس ۱۴۱ ۱۴۲ 16.عنوان جو خود لعنتی ہو گیاوہ دوسروں کا شفیع کیسے ہو سکتا ہے؟ یہودی رفع روحانی کے منکر تھے.قرآن کریم نے حضرت میلے کا رفع روحانی ثابت کیا اور لعنت کے مفہوم سے بچایا.۱۴۳ مسیح کے متعلق افراط و تفریط.۱۷۲ ۱۴۴ ۱۷۳ ۱۷۵ 164 166 169 ملکہ معظمه (وکٹوریہ ) سے مسیح سے لعنت کا مفہوم دور کرنے کی درخواست- قیصر روم کی طرح فرقہ موحدین اور مشرکین میں مباحثہ کرانے کی درخواست- ۱۲۵ گناہ سے بچنے کاطریق اور یسوع سے لعنتوں کا دفع.۱۴۶ کیا موت آدم کے گناہوں کا پھل ہے؟ حوا کے چار گناہ تھے.آدم معذور سمجھا گیا.کن خدا تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حوا کی برتیت ظاہر نہیں فرمائی.جس شخص کی پیدائش میں نر کا حصہ نہیں وہ کمزور ہے.آدم گناہ سے نہیں مرا بلکہ مرنا ابتداء سے انسانی بناوٹ کا خاصہ ہے.حضرت آدم کبھی شرک میں مبتلا نہیں ہوئے.شرک عورت سے شروع ہوا.۱۵۰ یسوع موروثی اور کیسی گناہ سے پاک نہ تھا ۱۵۱ حضرت مسیح دکھ ، درد میں مبتلا ہوئے.ملک صدق سالم ہر طرح کے گناہ سے پاک تھا.شفاعت کے لئے صرف معصوم ہوتا ہی ضروری نہیں بلکہ ابنیت بھی ضروری ہے.۱۵۲ مسیح شہر قصور اور خطا سے پاک نہیں تھے.IMI ۱۵۳ ۱۵۴ ۱۸۵ نہ عدل باقی رہا نہ رحم خدا کو عدل کی کچھ پرواہ نہیں.عدل بھی تو ایک رحم ہے.۵۹۸

Page 617

۵۹۹ صفحه اقتباس ۱۵۵ JAY ۱۵۶ WAL ۱۵۷ ۱۸۹ ۱۵۸ 191 109 ۱۹۳ 19.۱۹۴ 141 ۱۹۵ ۱۹۵ 144 194 عدل اور رحم میں کوئی جھگڑا نہیں.عدل، عقل اور قانون عطا کرنے کے بعد آتا ہے لیکن رحم کے لئے عقل اور قانون شرط نہیں.نومیدی کی وجہ سے نجات کی نئی راہ نکالی گئی.انصاف اور رحم دونوں کا خون.جب تک علت موجود ہے تب تک معلول کی نفی کیونکر ہو سکتی ہے ؟ رحم بلا مبادله کیا حضرت مسیح نے اخلاق الہی کے مختلف تعلیم دی؟ ہمیشہ ٹیکوں کی شفاعت سے بدوں کے گناہ بخشے گئے.کیا خدا تعالیٰ کو یہ طریق معافی صد ہا برس سوچ سوچ کر یاد آیا؟ حضرت موسیٰ کی شفاعت سے بھی گناہ بخشے گئے.نبیوں کی شفاعت عیسائی مذہب میں نجات کا طریق کیا ہے اور کیا اس کے ذریعہ نجات حاصل کی جا سکتی ہے ؟ قرآن مجید کا پیش کردہ طریق نجات.کیا مسیح کی زبان سے کوئی طریق نجات بیان ہوا ؟ نجات اعمال سے ملتی ہے اور نیکی بدی کا کفارہ ٹھہرتی ہے.نیکی بجالانے والا وارث نجات ہے.گناہوں سے چھڑانے کے لئے ہلاک ہونے والا خدا ہے تو خدائی کا انتظام سخت خطرہ میں ہے.جو خود اقرار کرتا ہے کہ نیک نہیں وہ دوسروں کو کیونکر نیک بنا سکتا ہے؟ جس کی اپنی دعا بے اثر گئی وہ دوسروں کے لئے کیسے شفیع ہو سکتا ہے ؟ شفاعت اور کفارہ میں فرق نجات کی نشانیاں عیسائیوں میں مفقود ہیں.

Page 618

صفحه اقتباس ۱۹۹ عنوان ۱۶۵ کیا مسیح کے کفارہ پر ایمان لا کر کوئی شخص خاص طور کی تبدیلی پاسکتا ہے.اگر کفارہ کے ذریعہ آپ کو نجات اور حقیقی ایمان حاصل ہو گیا ہے تو حقیقی ایمان کی علامات آپ میں کیوں نہیں؟ اسلام کے نشانات اور کفارہ ۱۶۷ کفارہ گناہ پیدا کرتا ہے.۲۰۰ ٢٠٢ ۱۶۸ 149 کفارہ سے فائدہ کیا ہوا؟ ۱۶۹ مسیح کے خون اور گناہ کے علاج میں کوئی رشتہ نہیں ١٠ ۲۰۴ 161 گناہوں سے بچنے کی فطری خواہش کو کفارہ نے کہاں تک پورا کر کفارہ کے ذریعہ گناہوں سے نجات کیا ہوئی یہ علاج گناہ خود گناہ پیدا کرتا ہے.۱۷۲ کفارہ گناہ پر دلیر کرتا ہے ( نظائر ) کفارہ کے نتیجہ میں گناہ ۲۰۵ ۱۷۳ ۲۰۶ ۱۷۴ کفارہ کے عقیدہ سے پہلے اور بعد والوں کی حالت ۱۷۵ یہ طریق گناہ پر دلیر کرتا ہے.۲۰۷ K24 ۲۰۹ በሬ / ۱۷۸ ۲۱۱ 169 ۲۱۲ ۱۸۰ ۲۱۲ IM ۲۱۳ ۲۱۴ کفارہ کے نتیجہ میں گناہ سے پاک ہونے کا کوئی ثبوت نہیں.ناہ کیا ہے ؟ اس کو دور کرنے کا طریق یقین سے گناہ ترک ہوتے ہیں.کفارہ گناہ ترک نہیں کر سکتا.اگر نجات مسیح سے ہے تو مسیح لطاعون سے نجات دلا دیں.ایک کی موت دوسرے کی زندگی کا ذریعہ کیونکر ٹھہر سکتی ہے ؟ یہ ہنسی کی بات ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے سردرود پر رحم کر کے اپنے سر پر پھر ترے ۱۸۲ مسیح نے اپنی رضامندی سے صلیب کو منظور نہیں کیا ۱۸۳ کیا کسی کی خود کشی سے دوسروں کے گناہ بخشے جاسکتے ہیں ؟ اس تعلیم کو قرآن شریف نے قبول نہیں کیا.JAY IAQ ۲۱۵ JAY ۱۸۷ ۲۱۶ توبه و استغفار سے گناہ معاف ہوتے ہیں خود کشی کی بجائے وعظ و نصیحت سے کام کرتے تو زیادہ مفید تھا خون مسیح کے بعد اعمال کی کیا ضرورت ہے ؟ کمالات مجاہدات سے حاصل ہوتے ہیں نہ کہ کسی کے خون سے ۲۰۰

Page 619

صفحه اقتباس عنوان ۱۸۸ گناہ سے بچنے کی قرآنی تعلیم ۱۸۹ خداتعالی رحیم ہے مگر بیٹے کی پھانسی ضروری ہے.بہت سے بیٹے چاہئیں ۲۱۷ ۲۱۸ 19.۲۱۹ 191 ۱۹۲ ۱۹۳ ٢٢٠ نجات کے لئے ہر زمانہ میں نئے خدا اور اس کے بیٹوں کا آنا مانا پڑے لے ہر زمانہ میں.گا ایک بار کی صلیب کا کوئی فائدہ نہیں جب قانون نازل ہو گا تو خدا تعالیٰ کی کتاب وعدوں کے مطابق عمل در آمد کرے گی اس صورت میں ایک بیٹا نہیں ہزار بیٹے بھی صلیب پر کھینچے جاویں تو بھی وعدہ میں تخلف نہیں ہو گا.۱۹۳۴ کیا کفارہ وعدوں کو توڑ سکتا ہے؟ باپ اور بیٹے کے عجیب کام ۲۲۱ ۱۹۵ 194 ۲۳۴ 196 ۱۹۸ ۲۲۵ کیا خداتعالی بیٹے کو پھانسی دیتے وقت تورات کی تعلیم بھول گیا تھا؟ بیٹے نے جنوں کے لئے کیا کفارہ سوچا؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ باپ کا کوئی اور بیٹا ہو جو جنوں کے لئے صلیب دیا گیا ہو نضرت مسیح کے ذریعہ کس شیطان نے نجات یافتہ ہونے کی خوشخبری پائی؟ منیج کی خصوصیت، کفارہ ، آسمان پر جانے اور بے باپ پیدا ہونے سے ← یہ قانون قدرت کے خلاف ہے کہ ادنی کو بچانے کے لئے اعلی کو مارا جائے ۱۹۹ اونی، اعلیٰ پر قربان کیا جاتا ہے.اگر خدا کی روح نہیں بلکہ جسم مرا تھا تو کفارہ باطل ہے 199 ۲۰۰ ۲۰۱ ۲۰۳ ۲۲۷ کفارہ کے لئے خدا کو قربان ہونا چاہئے تھا نہ کہ مسیح کی انسانیت کو سارے حرام ، حلال ہو گئے ہیں ورنہ کفارہ باطل ہے اس قربانی کا اثر ۲۰۳ کفارہ پر اعتقاد رکھنے والوں کی مثل

Page 620

* صفحه اقتباس ۲۰۴ ۲۴۱ ۲۰۵ ۲۴۳ ۲۰۷ عنوان باب ششم حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیب سے نجات اور ہجرت عیسائی مذہب پر غلبہ پانے کا طریق حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیب سے نجات اور پھر ہجرت کا اجمالی خاکہ سچائی کے لئے صلیب سے پیار پھر یسوع کے واقعہ کو اسحاق م کے واقعہ سے کیا مشابہت ہے ؟ نبیوں اور ولیوں پر مرتبہ موت کے خوف کی وجہ عیسائیوں اور یہودیوں کا حضرت مسیح کے قتل سے متعلق عدم یقین صلیب سے نجات کے بارہ میں ایک جامع بیان صلیبی موت سے نجات کے بارہ میں انجیلی شہادتیں ۲۰۸ ٢٠٩ ۲۴۴ ۲۱۰ ۲۴۵ ۲۱۱ ۲۵۴ ۳۱۳ ۲۵۶ " ۲۱۳ " ۲۱۴ ۲۵۸ " ۲۱۵ " " ۲۱۶ " ۲۱۷ ۲۶۳ " " ۲۱۸ ۲۶۴ " ۲۱۹ it " ۲۲۰ ۲۷۰ ۲۲۱ " " ۲۷۵ ۲۲۲ ۲۷۹ صلیبی موت سے نجات کے بارہ میں قرآن شریف اور احادیث صحیحہ ۲۲۳ ۲۸۴ کی شہادتیں کی کمر " "1 ۲۲۴ ۲۲۵

Page 621

صفحه اقتباس ۳۲۶ ۲۹۱ 호 ۲۲۷ ۲۹۹ کی کم ۲۲۸ ۳۵ ۲۲۹ ۳۲۵ عنوان صلیبی موت سے نجات کے بارہ میں طبابت کی کتابوں کی شہادتیں فہرست ان طبی کتابوں کی جن میں مرہم عیسی کا ذکر ہے اور یہ بھی ذکر ہے کہ وہ مرہم حضرت عیسی کے لئے یعنی ان کے بدن کے زخموں کے لئے بنائی گئی تھی.صلیبی موت سے نجات کے بارہ میں تاریخی کتابوں کی شہادتیں پہلی فصل: اسلامی کتب دوسری فصل: بدھ مذہب کی کتب تیسری فصل: ان تاریخی کتب کی شہادتیں جو اس بات کو ثابت کرتی یں کہ میں علیہ السلام کا ملک پنجاب اور اس کی مضافات میں آنا ضرور متفرق شہادتیں ۲۳ ۳۳۹ ۲۳۱ ۳۴۳ کر کو ۲۳۲ ۳۴۴ کریں ۳۳۳ ۳۳۸ " ۲۳۴ Mog حمد باب محترف و مبدل کتب قرآن اور بائبل کی مثال.۲۳۵ ۳۵۳ ۲۳۶ ۳۵۵ قرآن توحید اور احکام میں نئی چیز کونسی لایا جو توریت میں نہ تھی.۲۳۷ انجیل پہلے نبیوں کی کتب سے چرائی گئی ہے.۲۳۸ ۳۵۶ ۳۵۷ توریت بستکوں سے کانٹ چھانٹ کر بنائی گئی ہے..آپ مسیح سے بہتر ٹھہر جاویں گے.۲۳۹ اناجیل کی تعلیم سرقہ ہے.۲۴۰ حضرت مسیح توریت سبقاً سبقاً پڑھا کرتے تھے.یہ قرآن شریف کا حضرت مسیح پر احسان ہے جو ان کی نبوت کا اعلان فرمایا.Yor

Page 622

صفحه اقتباس ۲۴۲۱ ۳۵۹ ۲۴۲ ۲۴۳ ۲۴۴ ۲۴۵ ۳۹۳ ۳۶۴ ۲۴۷ ۲۴۸ ۳۶۵ ۲۴۹ ۲۵۰ ۲۵۱ ۲۵۲ ۳۷۱ ۲۵۳ عنوان انا جيل الہی کلام کی نشانیوں سے بے بہرہ ہیں.انا جیل عقلی دلائل اور آسمانی نشانوں سے بے نصیب ہیں.انجیل میں نا معقول اور محال باتوں پر جمے رہنے کی تاکید پائی جاتی ہے.انا جیل کے جعلی ہونے کے بارہ میں بعض محققین کی آراء.اناجیل محرف و مبدل ہیں.جب انجیل ہی ان کے ہاتھ میں نہیں ہے تو کیوں یہ امر قرین قیاس نہ مانا جائے کہ اس میں تحریف کی گئی ہے.میری انجیل! اناجیل میں جھوٹ سے بہت کام لیا گیا ہے.اناجیل میں یسوع کی بعثت سے پہلے کی زندگی کے بارہ میں جھوٹ ہے.انا جیل کا الہامی ہونا ثابت نہیں.انجیل نویسوں میں وقائع نویسی کی شرائط مفقود ہیں.انا جیل کے غیر مستند ہونے کی بعض اندرونی شہادتیں.انا جیل میں غلطیاں.(اندرونی شہادتیں) دین صرف ان چند بے سروپا باتوں کا نام نہیں جو انجیل میں درج ہیں.۲۵۴ ۲۵۵ ۳۷۵ ۲۵۶ ۲۵۷ TOA ۳۷۹ ۲۵۹ ۳۸۰ ۲۶۰ ☆ کوئی عبرانی انجیل عیسائیوں کے پاس نہیں.موجودہ انجیل.الحاقی قصہ، الحلاقی بلب عیسائی انا جیل کو نہ اصلی کہہ سکتے ہیں نہ جعلی.آنے والا فارقلیط اس نقصان کا تدارک کرے گا.مصدق کے معنی.قرآن شریف انجیل کی تصدیق قول سے نہیں بلکہ فعل سے کرتا ہے.باب ہشتم: تعلیم (موازنه )

Page 623

है صفحه اقتباس ٣٨٣ ۲۶۲ YAN عنوان سچائی کی تخم ریزی اور اس کا کمال توحید کے لحاظ سے ناقص ۲۶۳ انجیل کی تعلیم کو مسیح نے خود ناقص قرار دیا.۲۶ ۲۸۷ ۲۶۵ ۳۸۸ ۲۶۶ ۲۹۱ ۲۶۷ ۳۹۲ اگر مسیح مو کے قول پر ایمان نہیں تو قرآن شریف اور انجیل کا مقابلہ کریں.تاثیرات روحانیہ اور امور غیبیه و برکات سماویہ کے لحاظ سے مقابلہ کریں.انجیل عام اصلاح سے قاصر ہے.تور بیت اور انجیل مختص الزمان والقوم ہیں.قرآن کریم آفاقی ہے.جین مت کی تعلیم سے بہت کم توریت اور انجیل خاص قوم تک محدود ہیں.انجیل کا لانے والا روح القدس کبوتر کی شکل میں ظاہر ہوا.عیسائیت کی تعلیم بگڑ گئی.۲۶۹ قرآن کریم نے یہود و نصاری کے اختلاف کو دور کیا.توریت اور انجیل کے ہوتے ہوئے قرآن کی ضرورت تادیار ۲۷۰ ۳۹۴۷ ۳۹۸ ۲۷۲ ۳۹۹ ۲۷۳ ۲۷۱۳ کیا قرآن شریف، توریت اور انجیل کی نقل ہے.اگر قرآن شریف توریت اور انجیل کی نقل ہے تو کیوں یہودیوں اور عیسائیوں نے اس قدر اسلام کو مغائرت کی نظر سے دیکھا؟ مذہب کا تصرف انسانی قوی پر ہے؟ قرآن شریف نے گناہ سے نفرت دلائی ہے گناہ دور کرنے کے بارہ میں تعلیم ۲۵ کیا قرآن کریم نجات کے لئے لعنتی قربانی تجویز کرتا ہے ۲۰۵ ۲۷ ۴۰۶ ۲۷۸ ۲۷ ۲۷۹ عدل کے بارہ میں تعلیم جھوٹ انجیل نے توریت کے دو بنیادی حکم توڑ دیئے خلاف شریعت توریت عمل

Page 624

4.4 صفر اقتباس عنوان ۳۸۰ YAI عیسائیوں پر ایک سوال شراب بیوی کی بد چلنی 3 لعنت کرنے والے کے بارہ میں تعلیم نیک کاموں کے بارہ میں تعلیم.۲۸۳ ۲۸۴ ۴۹ ۲۸۵ ۲۸۶ ۲۸۷ ۲۸۸ ۲۸۹ ۲۹۰ ۴۱۸ ۲۹۱ ۲۹۲ ۲۹۳ ۴۲۲ ۲۹۴ ۲۹۵ ۴۲۴ ۲۹۶ ۲۹۷ ۴۲۶ ۲۹۸ ۲۲۸ دعا، پوشیدہ کرنے کے بارہ میں تعلیم دعا کا طریق دعا کا طریق.مزید تفصیل بد نظری تعدد ازدواج تعدد ازدواج بائبل اور سائنس مذہب کا خلاصہ، حقوق اللہ و حقوق العباد اسرار ورموز اور فصاحت و بلاغت حسن و احسان عفو و در گذر کی تعلیم کی وجہ عفو و در گذر کی تعلیم کا مطلب یہ نہیں کہ انجیل بے مثل و مانند ہے ۳۰۱ FE ۲۹۹ ۴۲۹ ۴۳۰ انجیل کی اس تعلیم سے بڑھ کر ھندووں میں نرمی کی تعلیم ہے قوتوں کا علی محلہ استعمال انجیلی تعلیم کا قرآن سے مقابلہ انجیل میں اخلاقی تعلیم توریت سے انتخاب کی گئی ہے.(ایک اعتراض کا جواب) ۳۰۲ ۴۳۲ ۴۳۳ ۳۴ ۴۳۶ مسیح مانے خود اس تعلیم پر عمل پر عمل نہیں کیا.۳۰۳ انجیل کی تعلیم نا قابل عمل ہے دشمنوں سے پیار

Page 625

صفحه اقتباس ۳۰۵ ۴۳۷ ۳۶ ۴۴۸ عنوان حلیموں، غریبوں اور مسکینوں کی تعریف دو عیسائیوں میں محاکمہ خدا تعالی سے محبت کے بارہ میں تعلیم کے لحاظ سے انجیل سے موازنہ.( ایک اعتراض کا جواب ) ۳۸ ۴۵۳ ٣٩ ۴۵۳ ۳۱۰ ۲۵۴ ۴۵۹ E ۳۱۲ ۳۱۳ ۳۱۴ ۲۱۵ ۴۶۲ ۴۶۳ ۳۱۸ ۳۱۹ ۳۲۰ ۳۲۱ ۳۳۲ ۳۲۳ ۴۷۱ قرآن کریم ہزاروں کو عیسی مسیح بنانے کے لئے تیار ہے قرآن کریم کا کمال کہ عیسی مسیح مسیح بنا دیا قرآن شریف نے ہی کامل تعلیم عطا کی باب تم...آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح علیہ السلام....( موازنه ) نقطه محمدیه ظلی طور پر مستجمع جميع مراتب الوہیت ہے ، حقیقت عیسویہ مظہر اتم صفات الوہیت نہیں آنحضرت کا بلند مقام اور حضرت مسیح سے مقابلہ عیسائیت کا نور محدود زمانہ کے لئے تھا روح القدس کا نزول روح القدس کے نزول کے لحاظ سے موازنہ عیسائی مذہب تاریکی میں پڑا ہوا ہے بچے مذہب کی نشانی اصلاح کے لحاظ سے موازنہ تاثیرات تعلیم کے لحاظ سے موازنہ (۱) تاثیرات تعلیم کے لحاظ سے موازنہ (۲) کمالات تعلیم کے لحاظ سے موازنہ معرفت کے لحاظ سے موازنہ بمقابلہ مسیح کے آنحضرت کی قوت قدسیہ کا کمال صحابہ کے لحاظ سے موازنہ 4+2

Page 626

صفحو اقتباس ۳۲۵ ۲۷۵ عنوان جان فدا کرنے کے بارہ میں ساری انجیل میں حواریوں کی تعریف میں ایک بھی فقرہ نہیں آنحضرت اور آپ کے صحابہ کی فضیلت مسیح اور ان کے حواریوں پر معصوم ہونے کے لحاظ سے موازنہ ۳۲۷ ۳۲۸ ۳۲۹ ۳۳ قرآن میں مسیح کی معصومیت کے ذکر کی وجہ امام حسین اور مسیح قابل تحسین فقر اسوس شیطان پر غلبہ مسیح کو شیطان کے پھلانے والے واقعہ پر جرح و تنقید ۳۳۲ ۴۷۹ ۳۸۰ آنحضرت کے دس لاکھ کے قریب قول و فعل میں سراسر خدائی کا ہی جلوہ نظر آتا ہے گورنمنٹ کا سلوک اور ربانی رعب ۳۳۴ ۲۸۱ ۳۳۵ ۳۳۶ ۴۸۳ ۳۳۷ ۳۸۴ ۳۳۸ ۴۸۵ ۴۸۶ حکومت وقت کا برتاو اور ربانی رعب و تائید الہی میں موازنہ حضرت مسیح کا تور یہ اور آنحضرت کی شجاعت سلب امراض کے لحاظ سے موازنہ آنحضرت کے سلب امراض کا نمونہ صحابہ ہیں ۳۳۹ کیا حضرت مسیح نے مردوں کو زندہ کیا؟ عیسائی مذہب میں چار قسم کی موت مردوں کو زندگی آنحضرت نے بخشی ۳۴۰ ۴۸۹ مردوں کو زندگی دینے کی تفصیل توحید کے تین درجے میں روحانی زندگی ہے کہ مراتب ثلاثہ توحید کے حاصل ہو جائیں ۳۴۱ ۴۹۱ ۳۴۲ ۴۹۴ ۳۴۳ اضطراری حالت کی دعا دنیا سے جانے کے لئے دعا کے بارہ میں موازنہ تصویر یسوع " تصویر نبی ۳۴۴ ۴۹۶ آنحضرت پر پادریوں کا بے بنیاد الزام

Page 627

۶۹ I | اقتباس آنحضرت کی جنگیں اور اسرائیلی انبیاء کی جنگوں میں سیرت حضرت مسیح پر قرآن کریم کا احسان آنحضرت کے مسیح پر احسانات آنحضرت نے مسیح کا تبریہ کیا ۳۴۵ ۴۹۸ ۳۲۷ ۴۹۹ ۳۴۸ ۵۰۰ ۳۴۹ پیغام کی وسعت کے لحاظ سے موازنہ ۳۵۰ ۵۰۱ ۵۰۵ آنحضرت کے محلد عالیہ آفتاب کی طرح چمک اٹھے باب دہم : حضرت مسیح علیہ السّلام کے نشانات معجزات اور پیش گوئیاں ۳۵۱ قرآن شریف نے یہودیوں کے دفع اعتراض کے لئے مسیح ابن مریم کو ۳۵۲ ۳۵۳ ۳۵۴ ۵۰۶ ۳۵۵ ۵۰۷ صاحب معجزہ قرار دیا معجزات تین قسم کے ہوتے ہیں اللہ تعالی صرف نشان دکھانے کا وعدہ دیتا ہے حضرت مسیح نے معجزہ دکھانے سے انکار کے معجزات سے یہود نے فائدہ نہ اٹھایا گیا.معجزبات سے فائدہ کون اٹھا سکتا ہے ۳۵۷ مجربات مسیح بھائیوں اور حواریوں کی اصلاح نہ کر سکے ۳۵۷ کوئی عیسائی نہیں جو یہ دکھا سکے کہ اس کا تعلق آسمان سے ہے عیسائی کوئی نمونہ دعا کا نہیں دکھا سکتے مجربات میں نقص اور کمزوری کا پایا جاتاتا کہ تشابہ فی الخلق نہ ہو خلق طیور کی حقیقت 600 ۵۱۰ ۳۵۸ ۳۵۹ ۳۶۰ ۵۱۲ " ۳۶۲ " " ۳۶۵ ۵۱۳

Page 628

صفحه اقتباس عنوان حوض والا معجزہ اور اس کا تجزیہ مردہ زندہ کرنا کسی مردہ کا ثبوت نہیں جو زندہ ہوا ہو حقیقی مردے زندہ کرنا بالکل معمولی معجزے کیوں پھونک مار کر ایلیا کو زندہ نہ کر دیا احیاء موتی احیاء موتی احیاء موتی مردے زندہ کرنے سے مراد ۵۶ ۳۶۸ QIA ۳۶۹ ٣٧٠ ۵۱۹ ۳۷۲ ۵۲۰ ۳۷۳ ۳۷۵ ۵۲۱ طاعون سے عیسائیوں پر حجت ۳۷۷ مسیح کے معجزات محض قصے کہانیاں ہیں ۳۷۸ مسیح کے پاس اقتداری مجربات نہیں آزمائش عیسائیت میں کوئی زندہ نشان نہیں ۳۷۹ ۵۲۳ ۵۲۴ ۵۲۶ ۳۸۰ مسیح کے معجزات اور پیش گوئیوں پر جو شکوک پیدا ہوتے ہیں کسی اور نبی کے معجزات وغیرہ پر پیدا نہیں ہوتے ۳۸۲ ۵۳۵ مسیح کے معجزات عمل الشرب کے ذریعہ ہوتے تھے حضرت مسیح کا معجزہ حضرت سلیمان کے معجزہ کی طرح عقلی تھا یسوع مسیح کے نشانوں کا اس راقم کے نشانوں سے مقابلہ اور ایک پادری صاحب کا جواب حضرت موسی اور حضرت مسیح کی پیش گوئیاں پوری نہیں ہوئیں نشان نمائی کے لئے دعوت خدا تعالی کا طریق اختمہاری غلطی بج کی پیش گوئیوں سے ان کی نبوت ثابت نہیں ہوتی مسیح کی پیش گوئیوں پر ایک یہودی مصنف کا تبصرہ پیش گوئیوں میں خوارق نہیں ۵۳۹ ۳۸۶ ۵۲۰ ۳۸۵ ۵۴۱ ۳۸۶ ۳۸۷ ۵۴۲ ۳۸۸ ۳۸۹ 41°

Page 629

± صفحه اقتباس عنوان باب یاز و ہم.....پولوس اور عیسویت راست باز فرقه موجودہ عیسائی مذہب در حقیقت پولوی مذہب ہے ۳۹۰ ۵۴۷ ۳۹۱ ۳۹۲ ۵۴۸ ۳۹۳ ۵۵ پولوس کا اجتہاد اور یسوع کی عاجزی پولوس کے کارنامے ۳۹۴ پولوس کے لئے مسیح علیہ السلام کی کوئی پیش گوئی نہیں ۳۹۵ پولوس کو سرٹیفکیٹ ملا کہاں سے تھا ۳۹۶ پولوس لکڑی پر لٹکایا گیا ۳۹۹ ۴۰۰ :- باب دواز دہم...حضرت مسیح علیہ السلام کی بن باپ پیدائش مسیح بن باپ تھا یحی اور عیسیٰ کی پیدائش کا قصہ ایک جگہ بیان کرنے میں حکمت مزید تفصیل قانون قدرت میں ہم اس کے بر خلاف کوئی دلیل نہیں پاتے اب شریعت تمہارے خاندان سے گئی بن باپ پیدائش، یہود کے واسطے ایک نشان باب سیز و هم بائیل اور اناجیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں پیش گوئیاں بائیل میں آنحضرت کے متعلق پیش گوئی (کتاب پیدائش) ۵۵۹ ۵۵۵

Page 630

۶۱۲ اقتباس عنوان حضرت موسیٰ کی پیش گوئی (۱) حضرت موسیٰ کی پیش گوئی (۲) ۴۰۴ 84.۲۰۵ ۴۰۶ حضرت موسی کی پیش گوئی (۳) 040 م حضرت داؤد کی پیش گوئی حضرت یسعیاہ کی پیش گوئی حضرت بھی پکی پیش گوئی ۴۷ حضرت مسیح کی پیش گوئی (1)...(انجیل برنباس) حضرت مسیح کی پیش گوئی (۲) حضرت مسیح کی پیش گوئی (۳) ۲۸ حميد باب چہار دہم : متفرق ۵۳ ۴۱۰ ۴۱۱ ۵۷۴ ۲۱۲ ۴۱۳ ۴۱۴ ۴۱۵ ۴۱۲ ACA BAI...مامور کا ایک یہ بھی نشان ہے کہ وہ اشاعت حق سے نہیں رکتا عیسام اصل ہے یا یسوع مسیح اول اور مسیح آخر کی دعا بپتسمہ کے وقت پانی کا استعمال عیسائیوں کا خدا ذبح ہوتا اور کھایا جاتا ہے حضرت مسیح علیہ السلام کی حضرت مسیح موعود کے بارہ میں پیش گوئی حضرت مسیح کو رویا میں عیسائیت کے موجودہ فتنہ سے بیزار دیکھا عیسائیوں سے خطاب عليه باب پانزدہم توحید کی فتح و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين

Page 631

شکریہ احباب کتاب ہذا کی ترتیب و تالیف کے سلسلہ میں خاکسار کی بہت سے مہربان دوستوں اور بزرگوں نے مدد اور راہنمائی کی.خاکسار دل کی گہرائیوں سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہے فجزاهم اللہ احسن الجزاء - محترم غلام احمد خادم صاحب مبلغ سلسلہ سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ الار و انجیر یانے اس کتاب کی پروف ریڈنگ کا کام بڑی محبت، محنت اور خوش اسلوبی سے سرانجام دیا.مکرم عبادہ بر بوش صاحب نے عربی اقتباسات ٹائپ کئے، برادرم مکرم ارشد علی چوہدری صاحب نے انڈیکس کی تیاری میں معاونت کی اور مکرم و محترم لیق احمد طاہر صاحب مبلغ سلسلہ نے ایک حصہ کی ٹائپنگ کر کے اس کتاب کو بر وقت مکمل کرنے میں خاکسار کی مدد فرمائی.مکرم صفدر حسین عباسی صاحب جنرل منیجر رقیم پریس نے کتاب کی طباعت کے لئے تیاری کے سلسلہ میں نہ صرف فنی لحاظ سے نہایت مفید مشوروں سے نواز ابلکہ اس سلسلہ میں خاکسار کی ہر ضرورت کا خیال بھی رکھا.اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزاء دے خاکسار کا دل ان سب کے لئے جذبات تشکر سے معمور ہے.خاکسار اپنی اہلیہ محترمہ کا تہ دل سے مشکور ہے.اس کتاب کی تیاری میں ان کی معاونت کا بہت بڑا حصہ ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اپنے خاص فضلوں اور دائمی خوشیوں سے بڑا نوازے.علاوہ ازیں بہت سے دوست ہیں جنہوں نے اس کار خیر میں عملاً و قولاً خاکسار کا ساتھ دیا، خاکسار ان سب کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ سب کو اجر عظیم عطا کرے.خاکسار المولف ہادی علی چوہدری مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ ۶۱۳

Page 632

نام کتاب مؤلّفه ہادی علی چوہدری طبع اول اگست 12 41969 مقام اشاعت مطبع اسلام آباد ٹفرڈ کرے ان ون پریس یو کے Printed by: UNWIN BROTHERS LIMITED The Gresham Press, Old Woking, Surrey A Member of the Martins Printing Group

Page 632