Language: UR
چھوٹے بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بانی اسلام حضرت محمد ﷺ کی سیرت وسوانح پر آسان زبان میں کتب کی تیاری کے سلسلہ میں زیر نظر مختصر کتاب حضرت محمد ﷺ کی مکہ میں نوجوانی کے ایام میں مشاغل تجارت اور حضرت خدیجہ ؓ کا اسباب تجارت لیکر جانا اور پھر حضرت خدیجہ ؓ سے شادی کے واقعات پر مشتمل ہے جو مکرمہ امت الباری ناصر صاحبہ کی مرتب کردہ ہے۔ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن نظارت نشر واشاعت قادیان کا شائع کردہ ہے۔
سيرة وسوانح حضرت محمد مصطفى من الله مشاغل تجارت اور حضرت خدیجہ سے شادی
EX3 EGER سیرت و سواخ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ ولم مشاغل تجارت اور الله حضرت خیلی سے شادی شائع کردہ: نظارت نشر و اشاعت قادیان 16 1435 ضلع گورداسپور.( پنجاب ) بھارت
نام کتاب مرتبہ : مشاغل تجارت اور حضرت خدیجہ سے شادی امہ الباری ناصر سن اشاعت تعداد شائع کردہ مطبع قیمت 00 : 2008 3000 نظارت نشر واشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان - 143516 ضلع گورداسپور.پنجاب.بھارت فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان 20 روپے ISBN: 978-81-7912-183-2
پیش لفظ لجنہ اماءاللہ کراچی پاکستان نے صد سالہ جشن تشکر کے موقعہ پر احباب جماعت کی معلومات اور بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے کم از کم سو کتب شائع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس کے تحت مختلف افراد کی طرف سے مرتب کردہ یا تصنیف کردہ کتب شائع کی گئیں.یہ کتب نہایت آسان اور عام فہم سادہ زبان میں لکھی گئیں تا کہ ہر کوئی آسانی سے اسے سمجھ سکے.ان میں سے کتا بچہ ” مشاغل تجارت اور حضرت خدیجہ سے شادی خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی سال میں سیدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ کی وو 66 منظوری سے شعبہ نشر و اشاعت کے تحت شائع کیا جارہا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے مبارک کرے اور نافع الناس بنائے.برہان احمد ظفر (ناظر نشر و اشاعت قادیان)
红 بِسْمِ اللّهِ الرّحمن الرّحِيمُ پیش لفظ بفضلہ تعالی الجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کو جشن تشکر نے سلسلے کی تریسٹھویں کتاب سیرت و سوانح حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم مشاغل تجارت اور حضرت خدیجہ امنی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی ، پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے.بچوں کے لئے سیرت نبوی کے ایک ایک پہلو کو آسان اور سادہ الفاظ میں شائع کرنے کے سلسلے میں پیش رفت : مباری ہے.دعا ہے کہ بچے سیرت پاک سے آگاہی حاصل کر کے بچپن ہی سے نیک نقوش قدم پر چلنے کی کوشش کریں تا کہ وہ بچے متبع رسول بن کہ دین و دنیا میں اپنا نام روشن کر سکیں.اس طرح وہ ایسا روشنی کا بیتار بن جائیں گے جو دوسروں کی رہنمائی کا ذریعہ بنے گا.انشاء الله اس چھوٹی سی کتاب میں آپ نے بچپن سے نکل کر جوانی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے دین و دنیا کے جو مشاغل اختیار فرمائے اور جو افعال دکمہ دار آپ سے ظاہر ہوئے.ان کا ذکر نہایت دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے.اپنے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے امین، وصادق کہلائے اور عہدوں کی پاسداری کے نتیجہ میں اہل وفا ٹھہرے اس طرح معززین کی نظروں میں معززہ ترین ثابت ہوئے.قرآنی آیت إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عظیم میں اللہ تعالیٰ نے خود آپ کے بلند ترین مرتبہ کا اعلان فرمایا.
آپ کی شان والا صفات کی خوشبو پھیلی تو کس طرح مکہ کی معزز و محترم خاتون حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالی عنھا اس سے مسحور ہوئیں.اس کی تفصیل جاننے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ہر چھوٹے بڑے کے لئے مفید اور دلچسپ ہوگا.ہم عزیزہ امتہ الباری ناصر صاحبہ سیکر ٹری اشاعت کے ممنون ہیں جنہوں نے یہ کتاب نہایت ہی دلچسپ انداز میں لکھی.اللہ تعالیٰ اُن کو اور ان کی معاونات کو اجر عظیم سے نوازے جو نہایت محنت اور لگن سے علمی خزانے قارئین تک پہنچاتی ہیں.جزاهن الله تعالى احسن الجزاء
9 صحرائے عرب کے رہنے والے قدیم باشندے سادہ مزاج کے لوگ تھے ہو تو انین فطرت کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے.عام طور پر بھیڑ بکریاں اونٹ گھوڑے خچر اور گدھے پالتے.بھیروں کی اُون سے موٹا ٹاٹ نما کپڑا بن کر خیمے بنا لیتے.یہ جیسے اُن کے مکان تھے.جہاں کہیں جانوروں کے لئے چراگاہ ملتی وہیں اپنے خیمے لگا لیتے اور رہنے لگتے جب کسی اور جگہ بہتر چراگاہ کا علم ہوتا خیمے اکھاڑ کہ وہاں پہلے جاتے.جانوروں کے گوشت، دودھ اور کھجوروں پر گزارا کرتے.قدرتی چراگاہوں کی آپ نے کھیتی باڑی کی طرف مائل کیا.محنتی لوگ تھے کھیتی باڑی سے ضرورت کا سامان کچھ زیادہ میسر آنے لگا تو تجارت کرنے لگے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑدادا ہاشم کے زمانے میں تجارت کو خوب ترقی ہوئی.تجارت کا طریق یہ تھا کہ قریبی شہروں تک اونٹوں پر مال لاد کہ قافلوں کی صورت میں لے جاتے اپنا مال فروخت کرتے اور اُن شہروں سے اپنے علاقے کی ضرورت کا مال تمدید لاتے.گرمیوں کے موسم میں یہ تجارتی قافلے شام کی طرف اور سردیوں میں مین کی طرف سفر کرتے.ان سفروں
کی وجہ سے مکہ کے لوگوں کے رہن سہن کے انداز میں بہت تبدیلی آئی ، مالی حالات بہتر ہوئے قریبی علاقوں کی خبریں مکہ میں آنے لگیں اور مکہ کے متعلق واقفیت کا دائرہ پھیلنے لگا.شام کے علاقوں میں زیادہ تر عیسائی آباد تھے جبکہ یمین کی طرف زیادہ تر یہودی رہتے تھے.مین شام اور مکہ کے علاقوں کے لوگوں کا میل جول بڑھا، آپس میں گفتگو اور تعلقات سے پرانے قصے دہرائے جاتے.مکہ والے بتاتے کہ صدیوں سے سُنتے آئے ہیں کہ ہمارے علاقے ہیں ایک عظیم الشان نبی پیدا ہو گا.ایسے ہی وعدے عیسائی اور یہودی بھی دہراتے تھے.اپنے بزرگوں سے سُن سُن کر کچھ نشانیاں اُنھیں بھی یاد تھیں کہ موعود نبی کو کیسے پہچاننا ہے ہم نے پڑھا ہے کہ بچپن میں جب ابو طالب کے ساتھ پیارے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم شام کے سفر پر تشریف لے گئے تھے تو بحیر در آب ملا نے آپ کو پہچان لیا تھا کہ آپ ہی وہ موعود نبی ہیں جن کی بشارت میں دی گئی ہیں.یہ سب خدا تعالیٰ کے خاص انتظام کے تحت ہو رہا تھا تا کہ آپ کی آمد کی نشانیاں لوگوں کے علم میں آئیں اور وہ آپ کو پہچان لیں.آپ جب تجارتی سفروں پر اپنے چچا کے ساتھ جاتے تھے تو آپ کو ایک نظر دیکھنے والے آپ کی محبت میں گرفتار ہو جاتے.آپ نے بچپن سے تجارتی قافلے آتے جاتے دیکھے تھے.اپنے چچا سے تجارت ہی سیکھی تھی.اس لئے جب جوان ہوئے تو تجارت ہی کو بطور پیشہ اختیار فرمایا ابو طالب کی مالی حالت اچھی نہ تھی.عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے زیادہ کام نہیں کر سکتے تھے.آپ باقاعدہ تجارتی قافلوں کے ساتھ سامان تجارت لے کر جانے لگے.یہ سامان تجارت آپ کا ذاتی نہیں ہوتا تھا.
11.دوسرے امیر لوگوں کا ہوتا تھا.آپ کو اپنی محنت کا معاوضہ مل جاتا.شام مین اور بحرین کی طرف جانے والے تجارتی قافلوں میں شامل ہو کہ آپ نے ان علاقوں کے سفر کئے (سنن ابو داؤد جلد ۲ صحت (۳۱) لوگوں سے میل جول ہوا تو آپ ا کی پیاری عادتوں اور حسن معاملہ کا چرچا ہونے لگا.آپؐ کی امانت داری اور سچائی لوگوں میں اتنی مشہور ہوئی کہ آپ کو امین اور صادق کہا جانے لگا.اگر کوئی صرف یہ کہتا کہ امین آرہے ہیں ، تو سب کو علم ہوتا کہ محمد مراد ہیں یا صادق آ رہے ہیں" سے بھی علم ہوتا کہ محمد مراد ہیں.یہی دو خوبیاں رکھنے والا تاجر سب سے کامیاب ہوتا ہے.چنانچہ آپ بحیثیت ایک کامیاب تاجر جانے پہچانے جانے لگے.آپ میں وعدہ پورا کر نے کی خوبی بھی تھی اور لوگ آپ کے اس وصف کے واقعات کو دہرایا کرتے تھے.اُس زمانے کے ایک تاجر نے بنو بعد میں مسلمان ہوئے گواہی دی.عبد اللہ ابی الحماء بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں نے کوئی کاروباری معاملہ کیا اور آپ کا کچھ حساب میرے ذمے رہ گیا جس پر میں نے آپؐ سے کہا آپ یہیں ٹھہرے رہیں میں ابھی آتا ہوں.اتفاقا میں بھول گیا تین دن کے بعد یاد آیا میں فوراً اس طرف گیا دیکھا تو انحصرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ موجود تھے.آپ نے مجھے دیکھ کہ صرف اتنا فرمایا " تم نے مجھے تکلیف دی ہے میں تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں.“ اس سے غالباً یہ مراد ہوگی کہ آپؐ مناسب اوقات میں کئی کئی بار اس جگہ جا کہ دیر تک عبد اللہ کا انتظار فرماتے ہوں گے تاکہ عبد اللہ کو آپ کی تلاش میں کسی قسم
۱۲ کی تکلیف کا سامنا نہ ہو.ایک دوسرے واقعے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے حسن اخلاق کی یادیں کتنی گہری تھیں.ایک صحابی سائی یہ ہے سلمان ہوئے تو بعض لوگوں نے پیارے آقا کے سامنے اُن کی تعریف کی.آپ نے فرمایا میں ان کو تم سے زیادہ جانتا ہوں.“ سائی نے عرض کی " میرے ماں باپ آپؐ پہ قربان ہوں.آپ ایک دفعہ تجارت میں میرے شریک تھے اور آپؐ نے ہمیشہ نہایت صاف (سنن ابو داؤد جلد ۲ ص ۳۱ ) معاملہ رکھا تھا.حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا مکہ کی ایک مال دار خاتون تھیں.ان کا تعلق مشہور قبیلہ قریش بنو اسد سے تھا.کنیت ام ہند تھی.والدہ کا نام فاطمہ نبت زائدہ اور والد کا نام خویلد تھا.آپ نے ۵۵ و ر میں پیدا ہوئیں یعنی آپ سے پندرہ سال بڑی تھیں بہت سمجھدار خاتون تھیں.پاکیزگی کی وجہ سے آپنے کا لقب طاہرہ مشہور ہو گیا.آپ کی تین دفعہ شادی ہوئی مگر تینوں مرتبہ شوہر کی وفات کی وجہ سے بیوہ ہو گئیں.(طبقات ابن سعد حالات خدیجه) اسی زمانہ میں عرب میں ایک جنگ "حرب الفجار" چھڑ گئی جس میں آپؐ کے والد خویلد مارے گئے.شوہر اور والد کی وفات کے بعد تجارت کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ رہا.آپ اپنے عزیزوں کو سامان تجارت دے کہ بھیجتیں اور اچھا معاوضہ دیتیں.آپ خطر تا سخی اور فیاض تھیں اپنا مال غریبوں مسکینوں ہیموں اور بیواؤں میں دل کھول کر تقسیم کر دیتیں.(سیرة الصحابيات (۳) (٣٣٤)
اللہ تعالی کی خاطر مال دینے سے تجارت میں خوب منافع ہوتا حتی کہ آپ مکہ کی مالدار ترین خاتون ہو گئیں.آپ کی دولتمندی فیاضی اور پاکیزگی کی شہرت دُور دُور پھیلی.امین و صادق محمد اور آپ کے چچا کی خواہش تھی کہ حضرت خدیجہ کا مال آپ شام سے کہ جائیں.خدیجہ طاہرہ کو علم ہوا تو فوراً پیغام بھیجا کہ مجھے آپ پر بھروسہ ہے اگر آپ مالِ تجارت شام لے جائیں تو میں اوروں کی نسبت آپ کو دوگنا معاوضہ پیش کروں گی.آپ حضرت خدیجہ کا سامان تجارت لے کہ بصری تشریف لے گئے.اس تجارت میں حضرت خدیجہ کو اتنا نفع ہوا کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا آپ حضرت خدیجہ کے سامان تجارت کے ساتھ دو مرتبہ جرش تشریف لے گئے جو مین میں ہے اور ہر دفعہ حضرت خدیجہ نے آپ کو معاوضے کے ساتھ تحفے میں ایک اونٹ دیا.( نور النبراس فی شرح ابن سید الناس) حضرت خدیجہ ناسمجھدار خاتون تھیں.خوب جانتی تھیں کہ تجارت ہیں غیر معمولی نفع کے پیچھے اس ہونہار نوجوان کی محنت ہے.پھر بھی اپنے غلام میسرہ سے جو تجارتی سفروں میں آپ کے ساتھ جاتا تھا نفع کا سبب پوچھا تو اس نے تایا " یہ اس شخص کی برکت ہے.باقی لوگ جاتے ہیں تو نفع و الاسود ا دیکھ کر اپنی تجارت کر لیتے ہیں لیکن انہوں نے ایسا کام نہیں کیا جہاں نفع کی صورت ہوتی وہاں آپ کا مال لگا دیتے اور پھر پہلے تو ہم کھا پی بھی لیتے تھے اس دفعہ انہوں نے نہیں نا جائزنہ طور پر کھانے بھی نہیں دیا اور خود بھی نہیں کھایا.یہ کہتے تھے کہ مال سب مالک کا ہے اور جتنا خرچ تمہارے لئے مقرر ہے اس سے زیادہ -
۱۴ میں نہیں دوں گا اس کا قدرتی طور پر یہ نتیجہ ہوا کہ نفع زیادہ آیا ہے ( تفسیر کبیر دہم (ص۳۳۲) میسرہ نے سفر کے دوران پیش آنے والے بعض غیر معمولی واقعات بھی بیان کئے.اُس نے بتایا کہ.ایک روز آپ ایک درخت کے سایہ میں ایک راہب کے صومعہ کے قریب جلوہ افروز تھے کہ اس راہب نے مجھ سے پوچھا " یہ کون شخص ہیں جو اس درخت کے نیچے تشریف رکھتے ہیں ؟ میں نے کہا قبیلہ قریش کے ایک شخص ہیں اور اہل حرم میں سے ہیں.راہب نے کہا : " اس درخت کے نیچے پیغمبر کے سوا اور کوئی نہیں بیٹھتا اس سفر میں میں نے دیکھا کہ جس وقت سخت گرمی ہوتی تھی دو فرشتے اپنے کر وں سے آپ پر سایہ کرتے تھے.(سیرت ابن ہشام ملا ) حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ میں واپسی کے وقت حضرت خدیجہ نے بھی مشاہدہ کیا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر تشریف لا رہے ہیں اور دو فرشتے حضور پر سایہ کئے ہوئے ہیں آپؐ نے دوسری عورتوں کو بھی یہ منظر دکھایا وہ بھی حیران رہ گئیں (طبقات ابن سعد، خصائص الكبرى للسيوطى) حضرت خدیجہ نے یہ سب مشاہدات اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل سے بیان کئے وہ عیسائی عالم تھے انہوں نے حضرت خدیجہ سے کہا اگر یہ باتیں
۱۵ حق ہیں تو اے خدیجہ ! محمد ضرور اس اُمت کے نبی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ضرور اس اُمت میں نبی ہونے والا ہے اور یہی زمانہ اس کے ظہور کا ہے مگر دیکھئے کس وقت ظہور ہوتا ہے میں اُس بنی کا انتظار کرتا ہوں.ورقہ بن نوفل نے کچھ اشعار کے جن کا ترجمہ درج ذیل ہے.اے خدیجہ تم سے اوصاف پہ اوصاف سُن کر مجھے اُن کے ظہور کا شدید انتظار ہے.مجھے امید ہے کہ تمہارے قول کے مطابق مکہ یا طائف سے ضرور اُس نبی کا ظہور ہوگا.گوشہ نشین عالم کے قول کی جو تو نے ہم کو خبر دی ہے مجھے اچھا نہیں لگتا کہ اس میں دیر یا غلطی ہو.وہ خبر یہ ہے کہ محمد عنقریہ یہ ہم میں سردار ہوں گے اور اپنے مقابل کو زیر کریں گے.تمام شہروں میں نور کی روشنی ہوگی اور خلقت اُس نور کے ساتھ حق اور راستی پر قائم ہوگی.جو شخص اُن سے مقابلہ کرے گا نقصان اُٹھائے گا اور جو اُن سے فرمانبرداری اور صلح سے پیش آئے گا آسائش حاصل کرے گا.پس کاش اس واقعہ کے وقت میں موجود ہوں اور میں سب سے زیادہ اُن کی پیروی کروں.اور اگر میں مرگیا تو جو شخص کہ جوان ہے عنقریب کچھ عرصے کے بعد
14 اُن کا خروج دیکھے گا.را ابن هشام ۲۳ اردو ترجمہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور) ان غیر معمولی باتوں کا حضرت خدیجہ پر بڑا اثر ہوا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ میں اس نوجوان سے شادی کر لوں.آپ نے اپنی سہیلیوں سے مشورہ کیا.انہوں نے بھی یہی کہا کہ تعریف تو اُس کی بہت سنی ہے آپ شادی کر لیں تو کوئی حرج نہیں.اس کے بعد آپ نے اپنی ایک سہیلی (نفیسہ) کو ابو طالب کے پاس بھیجا.اُس نے آپؐ سے جا کہ کہا کہ اگر خدیجہ کے ساتھ آپ کے بھتیجے کی شادی ہو جائے تو کیا آپ راضی ہیں ابو طالب نے کہا.جہ سے میرے بھتیجے کی شادی ہو جائے ! یہ ناممکن بات ہے.وہ مالدار عورت ہے اور میرے بھتیجے کے پاس کچھ بھی نہیں.بھلا اس سے خدیجہ کی شادی کیسے ہو سکتی ہے ؟ خدیجہ کی سہیلی نے کہا.- اگر شادی ہو جائے تو پھر ابو طالب نے کہا اگر ہو جائے تو بڑی اچھی بات ہے." پھر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور کہا آپ کی اگر خدیجہ سے شادی ہو جائے تو کیا آپ راضی ہیں.آپ نے فرمایا :
16 جوڑ ہے.تیار ہیں." وہ تو مالدار عورت ہے اور میں ایک غریب آدمی ہوں میرا اور اُس کا کیا حضرت خدیجہ کی سہیلی نے کہا اگر وہ خود شادی کی خواہش کرے تو کیا آپ اس سے شادی کرنے کے لئے آپؐ نے فرمایا اگمہ اُسے خود خواہش ہو تو مجھے منظور ہے.(تفسیر کبیر جلد دہم ص۳۳۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے ابو طالب سے مشورہ کے بعد رشتہ بھول کر دیا چنانچہ آپ کے رشتہ دار اور خدیجہ کے قریبی رشتہ دار جمع ہوئے اور ابو طالب نے ۵۰۰ درہم کا نکاح پڑھ ریہ خدیجہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و دیا.اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۲۵ سال کی تھی اور حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال کی تھی....آپ کے والد فوت ہو چکے تھے اس لئے آپ کی طرف سے چچا عمر بن اسد نے شرکت کی.16 این سعد و روض الانف جلد ) (ص ۱۲۳ یہ با برکت شادی جمادی الاول / ستمبر 290 ء میں ہوئی ۵۹ آپ کو اللہ تعالیٰ نے حسن سیرت اور حسن صورت دونوں سے بھر اور نوازا تھا.آپؐ کو دیکھنے والوں کا دل خوش اور آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی تھیں.آپ بار عیب اور وجیہہ شکل وصورت کے مالک تھے.چہرہ مبارک یوں چمکتا تھا گویا چودھویں کا چاند - میانہ قد یعنی پستہ قامت سے دراز اور طویل القامت سے کسی قدر چھوٹا.
۱۹ IA سر بڑا.بال خم دار اور گھنے ہو کانوں کی کو تک پہنچتے تھے.مانگ نمایاں رنگ کھلتا ہوا سفید، پیشانی کشادہ ، ابر ولیے باریک اور بھرے ہوئے ہو یا ہم ملے ہوئے نہیں تھے.بلکہ درمیان میں سفید سی جگہ نظر آتی تھی جو غصہ کے وقت نمایاں ہو جاتی تھی.ناک باریک میں پر اور جھلکتا تھا.جو سرسری دیکھنے جس والے کو اٹھی ہوئی نظر آتی تھی.ریش مبارک گھنی ، رخسار نرم اور ہموار ، دین کشادہ.دانت ریخدار اور چمکیلے.آنکھوں کے کوٹے باریک - گردن صراحی دار چاندی کی طرح شفاف خیس پر سرخی جھلکتی تھی.معتدل الخلق - بدن کچھ قریہ.لیکن بہت موزوں بشکم دسینہ ہموار.صدر چوڑا اور فراخ ، جوڑ مضبوط اور بھرے ہوئے جلد چمکتی ہوئی نازک اور ملائم ، چھاتی اور پیٹ بالوں سے صاف سوائے ایک باریک سی دھاری کے جو سینے سے ناف تک چلی گئی تھی.کہنیوں تک دونوں ہاتھوں اور کندھوں پر کچھ کچھ بال پہنچے لیے بہتھیلیاں چوڑی اور گوشت سے بھری ہوئی.انگلیاں لمبی اور سڈول ، پاؤں کے تلوے قدر سے بھرے ہوئے ، قدم نرم اور چکنے کہ پانی بھی اُن پر سے پھیل جائے جب قدم اُٹھاتے تو پوری طرح اُٹھاتے.رفتار باوقار لیکن کسی قدر تیز جیسے بلندی سے اُنہ رہے ہوں.جب کسی کی طرف رُخ پھیرتے تو پورا رُخ پھیرتے.نظر ہمیشہ نیچی رہتی.یوں لگتا جیسے فضا کی نسبت زمین پر آپ کی نظر زیادہ پڑتی ہے.آپ اکثر نیم وا آنکھوں سے دیکھتے.اپنے صحابہ کے پیچھے پیچھے چلتے اور ان کا خیال رکھتے.ہر ملنے والے کو سلام میں پہل فرماتے " ر شمائل ترمندی باب فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )
۱۹ حضرت عبد اللہ اور حضرت آمنہ کا در تیم اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان سے صورت و سیرت میں بے مثال جوان بن کے دولہا بنا.شادی ہوئی تو ابو طالب کے مکان سے حضرت خدیجہ کے مکان میں منتقل ہو گئے.اس زمانے میں مٹی گارے یا پتھروں سے مکان بننے تھے جن کا صحن حاجیوں کی سہولت کے لئے بہت وسیع رکھا جاتا.مکان میں دروازہ لگانے کا رواج نہ تھا.بلکہ ٹاٹ وغیرہ کا قديم پردہ لگالیا جاتا.حضرت خدیجہ کا مکان درب المحجر میں واقع تھا شادی کو ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ حضرت خدیجہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میں ایک تجویز پیش کرنا چاہتی ہوں اگر آپ اجازت دیں تو پیش کروں.آپؐ نے فرمایا وہ کیا تجویز ہے حضرت خدیجہ نے کہا میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی ساری دولت اور اپنے سارے غلام آپ کی خدمت میں پیش کر دوں اور یہ سب آپ کا مال ہو جائے.آپ قبول فرما لیں تو میری بڑی خوش قسمتی ہو گی.آپ نے جب یہ تجویز سنی تو آپ نے فرمایا :- خدیجہ کیا تم نے سوچ سمجھ لیا ہے ؟ اگر تم سارا مال مجھے دے دوگی تو مال میرا ہو جائے گا تمہارا نہیں رہ حضرت خدیجہ نے عرض کیا.گا." : میں نے سوچ کر ہی یہ بات کی ہے اور میں نے سمجھ لیا ہے کہ آرام سے زندگی گذارنے کا بہترین ذریعہ ہی ہے.آپ نے فرمایا
٢٠ پھر سورچ لون حضرت خدیجہ نے عرض کیا.ہاں ہاں.میں نے خوب سوچ لیا ہے، آپ نے فرمایا.اگر تم نے سوچ لیا ہے اور سارا مال اور سارے غلام مجھے دے دیئے ہیں تو میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میرے جیسا کوئی دوسرا انسان میرا عظام کہلائے ، میں سب سے پہلے غلاموں کو آزاد کر دوں گا.رضو حضرت خدیجہہؓ نے عرض کیا.اب یہ آپ کا مال ہے جس طرح آپ چاہیں کریں ، آپ یہ سُن کر بے انتہا خوش ہوئے.آپ باہر نکلے خانہ کعبہ میں آئے اور آپ نے اعلان فرمایا کہ خدیجہ نے اپنا سارا مال اور اپنے سارے غلام مجھے دے دیئے ہیں میں اُن سب غلاموں کو آزاد کرتا ہوں ،......رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ اعلان فرمایا کہ میں تمام غلاموں کو آزاد کر تا ہوں تو اس پر اور تو سب غلام چلے گئے.صرف زید بن حارثہ جو بعد میں آپ کے بیٹے مشہور ہو گئے تھے.وہ آپ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا.آپ نے تو مجھے آزاد کر دیا ہے مگر میں آزاد نہیں ہونا چاہتا ہیں آپ کے پاس ہی رہوں گا.آپ نے اصرار کیا کہ وطن جاؤ اور اپنے رشتہ داروں سے ملو
۲۱ اب تم آزاد ہو مگر حضرت زید نے عرض کیا ہو محبت اور اخلاص میں نے آپ میں دیکھا ہے اس کی وجہ سے آپ مجھے سب سے زیادہ پیارے ہیں.زید ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن چھوٹی عمر میں اُن کو ڈاکو اٹھا لائے اور انہوں نے آپ کو آگے بیچ دیا اس طرح پھرتے پھراتے وہ حضرت خدیجہ کے پاس آگئے.آپ کے باپ اور چا کو بہت فکر ہوا اور وہ آپ کی تلاش میں نکلے.....وہ آپ کے پاس آئے اور آگہ کہا کہ ہم آپ کے پاس آپ کی شرافت اور سخاوت سن کر آئے ہیں.آپ کے پاس ہمارا بیٹا غلام ہے.اس کی قیمت جو کچھ آپ مانگیں دینے کو تیار ہیں آپ اُسے آزاد کر دیں اُس کی ماں بڑھیا ہے اور وہ جدائی کے صدمہ کی وجہ سے رو رو کر اندھی ہو گئی ہے آپ کا بڑا احسان ہو گا اگہ آپ منہ مانگی قیمت لے کر اُسے آزاد کر دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.آپ کا بیٹا میرا غلام نہیں ہے میں اُسے آزاد کر چکا ہوں.پھر آپ نے زید کو بلایا اور فرمایا تمہارے ابا اور چھا تمہیں لیتے آئے ہیں تمہاری ماں بڑھیا ہے اور رو رو کر اندھی ہوگئی ہے میں تمہیں آزاد کر چکا ہوں تم میرے غلام نہیں ہو تم ان کے ساتھ جا سکتے ہو.حضرت زید نے جواب دیا.
۲۲ آپ نے تو مجھے آزاد کر دیا ہے مگر میں تو آزاد ہوتا نہیں چاہتا میں تو اپنے آپ کو آپ کا غلام ہی سمجھتا ہوں (تفسیر کبیر جلد دہم ص۳۳۲، ۳۳۵) اس طرح زید آپ کے ساتھ رہے.غلاموں کو آزاد کرنے کے علاوہ حضرت خدیوید نو کے گھر کا سب قیمتی مال و اسباب غرباء میں بانٹ دیا.آپ کسی کی محرومی نہیں دیکھ سکتے تھے.مخلوق خدا سے خاص طور پر محروم طبقے سے ہمدردی اور محبت آپ کے اندر خدا تعالیٰ نے خود پیدا فرمائی ہوئی تھی.جسمانی غرباء اور یتیم جو اس وقت پائے جاتے تھے اُن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو تڑپ پائی جاتی تھی اور جس قدر ہمدردی اور محبت آپ کے قلب میں اُن کے متعلق موجود تھی اُس کی مثال دنیا میں اور کہیں نظر نہیں آسکتی.بے انتہا تڑپ ، بے انتہا ہمدردی ، اور بے انتہا محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں قوم کے غرباء اور یتامی کے متعلق پائی جاتی تھی آپ اُن کے حالات کو دیکھتے تو بے تاب ہو جاتے.آپ کے دن بے چینی میں اور راتیں اضطراب میں کشتی محض اس وجہ سے کہ غرباء کا کوئی سہارا نہ تھا.تیامی کو کوئی پوچھنے والا نہ تھا.مساکین کی طرف کوئی توجہ کہنے والا نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے جو آپ کے دل کے اسرار سے آگاہ تھا.اُس نے جب آپ کی بے انتہا اور غیر معمولی
۲۳ تڑپ کو دیکھا تو آپ کی ان پاکیزہ خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اُس نے حضرت خدیجہ نو کے دل میں یہ تحریک پیدا فرما دی کہ میں اپنا سب مال رسول کریم کیلئے وقف کر دوں.....رسول کریم صلی اللہ علیہ دستم بے شک خود غریب تھے مگر چونکہ غرباء کو دیکھ دیکھ کہ آپ کا دل دکھتا تھا اور آپ اُن کی غربت کو دور کرنے کے لئے اپنے پاس کوئی سامان نہ پاتے تھے اس لئے حضرت خدیجہ نے اپنا سارا مال آپؐ کے قدموں پہ نثار کر دیا تو آپ کو اپنی خواہشات کے بلانے اور آرزوں کو پورا کرنے کا موقع میسر آ گیا.حضرت خدیجہ کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف ہزاروں روپیہ رکھنے والی خاتون نہیں تھیں بلکہ لاکھ پنتی خاتون تھیں مستقل طور پر اُن کی طرف سے متعدد قافلے تجارت کے لئے شام کی طرف آتے جاتے تھے اور یہ وسیع کاروبار وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنے پاس لاکھوں روپیہ رکھتا ہو.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ کی اس عدیم المثال قربانی کے نتیجہ میں دولت کے ڈھیروں ڈھیر مل گئے تو آپ نے وہ تمام مال قوم کے غرباء اور تیامی و مساکین میں تقسیم کر کے اپنے دل کر ٹھنڈا کر لیا." (تفسیر کبیر جلد نهم ص۱۰۵ ۱۰۶) (1-461-6 آپ نے حضرت خدیجہ سے شادی تک اس طرح وقت گزارا تھا کہ کسی گھر کو آپ کا گھر نہیں کہا جا سکتا تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والد کی طرف سے کوئی
۲۴ قابل ذکر ترکہ نہ پایا تھا.چند یکریاں یا ایک دو اونٹ (طبقات ابن سعد) دست نگری کا نما نہ تھا اور اس طرح کی رہائش میں خاندان کے سربراہ کے طور طریق پر چلنا ہوتا ہے.مگر اب ایسا خاندان بنا جس کے سربراہ آپ تھے.اس گھر میں آپ کا طور طریق رواج پایا جس میں جذبوں کی سچائی کا انتہائی حسن نکھر کر سامنے آیا.یہ گھر سکون کی دولت - اطمینان کی راحت ور خدا کی رضا کی جنت کا نمونہ تھا.آپ اپنے گھر تشریف لاتے تو چہرے پر ہم ہوتا.آپ کے ساتھ گھر میں جمہ :: دیرکت آتی آپؐ نہایت تحمل اور نرمی سے پیش آتے آپ ان لوگوں کی طرح تھے جو گھر سے باہر تو لوگوں کے ساتھ بڑے خوش اخلاق اور خوش گفتار ہوتے ہیں اور گھر میں آتے ہی بیوی پر بے جا رعب سختی درشتی غصہ اور چودھراہٹ دکھاتے ہیں.آپؐ کا چہرہ اپنے اہل خانہ کو دیکھ کر کھل جاتا.آپ گھر کو پرسکون کھنے کے لئے بیوی کے جذبات کا خیال رکھتے.کام کاج میں ہاتھ بٹاتے حضرت مدیر سالن پکا رہی ہوتیں تو آپ چولھے میں کڑیاں آگے کر کے آگ جلاتے ہے.اس طرح ہر چھوٹے چھوٹے کام خوش طبعی میں مل جل کر کرواتے.کپڑوں ہی پیوند لگا لیتے.اپنا جوتا خود مرمت کر لیتے.عام رہن سہن اور لباس در ہائش میں کوئی تکلف نہ ہوتا.اشد ضروری سامان کے علاوہ کوئی سامان یا سامانِ آرائش ، گھر میں نہ ہوتا.چٹائی پر سورہتے.بائی پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتے.سامنے رکھے ہوئے کھانے میں کبھی عیب نہ نکالتے س ہوتا اُس میں سے بس اس قدر نوش جان فرماتے جس سے بھوک ٹل ما.یہ کبھی زندگی بھر پیٹ بھر کر کھانا نہ کھایا.(نسائی)
۲۵ سختی کی زندگی کوکی و صدق سے قبول تا تم پہ ہو ملائکہ عرش کا نزول گھر میں سادگی کا یہ عالم تھا کہ روایت ہے حضور جب وضو فرماتے تو اپنے چادر کے پلو سے چہرہ پونچھ لیتے.(ترمذی) آپ کو اللہ تعالی نے جون ۹ہ ربیع الاول کے مہینے میں پہلا بیٹا عطا فرمایا.اس محبت بھرے گھر میں پہلا پھول کھلا آپ کو اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا فرمایا.بیٹے کا نام قاسم رکھا.حضرت خدیجہ کے تو پہلے بچے بھی تھے مگر آپ کی یہ پہلی اولاد تھی عرب کے رواج کے مطابق بیٹے کے نام کی نسبت سے آپ کو ابوالقاسم کہا جانے لگا.قاسم کے بعد پھر بیٹا پیدا ہوا جس کا نام طیب رکھا گیا اور تیسرے بیٹے کا نام طاہر تھا.رضوان اللہتعالیٰ علیہم اجعین، مگر یہ بیٹے کم سنی میں فوت ہو گئے اسی زمانے میں آپ کو یہ خیال آیا کہ چا ابو طالب ضعیف العمر ہیں اور قحط کی وجہ سے بڑے کنبے کا پیٹ پالنا مشکل ہو رہا ہے.آپ نے اسی گھر میں پرورش پائی تھی چی فاطمہ بنت اسد کی شفقتیں بھی یاد تھیں.آپ نے طے کیا کہ چچا کا ہاتھ بٹایا جائے آپ دوسرے چچا عباس کے پاس تشریف لے گئے اور اپنا خیال ظاہر فرمایا کہ چچا کے ایک بیٹے کی کفالت آپ قبول کر لیں اور ایک کو میں اپنے پاس لے آتا ہوں چچا عباس متفق ہو گئے دونوں مل کر چھا ابو طالب کے پاس گئے اور اپنا خیال ظاہر کیا.آپ کے متفق ہونے پر معفر بن ابو طالب کو چچا عباس ساتھ لے گئے اور آپ چھ سات سال کے علی کو اپنے گھر لے آئے اس طرح اس گھر میں رونق
۲۶ آگئی.آپ اور حضرت خدیجہ نے نتھے علی کو بیٹوں کی طرح رکھا آپ اس پیارے بچے کو اپنے ساتھ سلاتے گود میں لئے رکھتے خود جا کر کھاتا نرم کرنے توالہ کھلاتے.آپ کو نسیم بھی دلائی.حضرت علی رضہ آپ سے اتنا مانوس ہو گئے تھے کہ آپ جدھر تشریف لے جاتے علی مجھے پیچھے ہوتے جیسے اونٹنی کے پیچھے اس کا بچہ لگا رہتا ہے.حضرت علی اپنی شادی تک بھائی کے ساتھ ہی رہے.حضرت خدیجہ کے بطن سے آپ کی چار بیٹیاں پیدا ہوئیں.آپ کی سب ۶۰۳ سے بڑی بیٹی سیدہ زینب جون نشر ربیع الثانی میں پیدا ہوئیں.سیدہ رقیہ ستہ میں اور سنہ سیدہ ام کا روم کہ میں پیدا ہوئیں.حضرت فاطیہ کی ولادت شدہ میں ہوئی.ان دنوں اہل قریش خانہ کعبہ کی تمیز می مصروف تھے.آپا نے فاطمہ نام رکھا مگر بعد میں اپنے پیارے اوصاف کی وجہ سے زہرا، یعنی ترو تازہ پھول کی طرح حسین و جمیل - بتول، اللہ کی سچی بے لوث ہندی سیدۃ النساء عالمین اور جنت کی سب عورتوں کی سردار کہلائیں.حضرت خدیجہ سے آپ کی سب اولاد دعوی نبوت سے پہلے پیدا ہوئی.آپ کے اس حقہ عمر کا ایک واقعہ خانہ کعبہ کی تعمیر ہے خانہ کعبہ کی تعمیر کی ضرورت یوں پیش آئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تعمیر کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عارات کچھ نہ کچھ کمزور ہوتی گئی.مکہ میں کبھی کبھی سیلاب بھی آتے تھے اُن سے نقصان ہوتا تھا پھر آگ لگنے کے حادثے بھی ہو جاتے ہیں کعبہ کے رکھوالے کئی دفعہ خانہ کعبہ کی مرمت کر تے یا گیا کہ دوبارہ تعمیر کرتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی قریش نے کعبہ کو گرا کر دوبارہ تعمیر کیا آپ کے بچپن کے واقعات
۲۷ میں ہم نے پڑھا تھا کہ آپ خانہ کعبہ کی تعمیر کے لئے پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے تھے جس سے آپ کا تہہ بند کچھ کھل گیا تو آپ شرم کے مارے بہوش ہو گئے.تعمیر کے اس منصوبے کا سلسلہ لمبا چلا مقدس گھر کو گرانے اور عمارتی سامان مہیا کرنے میں وقت لگا.ایک دفعہ کعبہ کے نیچے تہہ خانے میں دفن خزانے میں چوری ہو گئی تو قریش کو خیال آیا کہ تعمیر کا کام تیزی سے مکمل کیا جائے.ایک بات اور بھی ہوئی.خانہ کعبہ کی دیواروں پر بالعموم ایک موٹا سانپ پھرتا رہتا تھا.ایک دن ایک بڑا سا پرندہ اس سانپ کو دبوچ کرلے گیا ( ابر مشام) قریش نے اس واقعے سے یہ اندازہ لگایا کہ اب اللہ تعالیٰ اس کام کو مکمل کروانا چاہتا ہے اس لئے سانپ والی روک خود دور کر دی ہے.کام کو تیز کرنے کا محرک بننے والا ایک اور خدائی سامان یوں ہوا کہ ایک بڑی تجارتی کشتی جدہ کے ساحل سے ٹکہ اکمر ٹوٹ گئی.اس کے بڑے بڑے تختے عمارت کے لئے بہت موزوں تھے وہ خرید لئے گئے اس طرح عمارتی لکڑی مل گئی اس کشتی کا ایک رومی مسافر با قوم ، ماہر تعمیرات انجنیئر تھا اُس سے کام کی نگرانی کے لئے کہا گیا اس طرح ایک انجینیٹرس گیا جس نے کام شروع کر وایا کعبہ سے محبت کرنے والے سب قبیلے اس با برکت کام میں ذوق و شوق سے شامل ہوئے.عمارت بنتے بنتے جب حجر اسود کو اپنی جگہ پر رکھنے کا وقت آیا تو اس سعادت کو حاصل کرنے کے لئے قبیلوں میں جھگڑا شروع ہو گیا.ہر قبیلے نے اس کو اپنی عزت اور انا کا مسئلہ بنا لیا.بیچی قسمیں کھائی گئیں کہ جان کی بازی لگا دیں گے مگر اپنا حق نہیں چھوڑیں گے.قدیم دستور کے مطابق پیالوں میں خون ڈال
٢٨ کہ اُس میں انگلیاں ڈبو ڈبو کر لڑ لڑ کر جان دینے کی قسمیں کھائیں.عربوں میں تو بات بات پر جنگیں شروع ہو جاتی تھیں.بات بڑھتے دیکھ کہ ایک عمر رسیدہ نیک دل شخص ابو امیہ بن مغیرہ نے معاملے کو سلجھانے کے لئے ایک رائے دی جس پر سب متفق ہو گئے.رائے یہ تھی کہ آپس میں جھگڑا نہ کرو سب بیٹھ کر انتظار کرو جو شخص سب سے پہلے داخل ہو اسے منصف بنا لو اور جو وہ فیصلہ کہ سے اُس پر عمل کر و.یہ رائے ایسی تھی جس میں اتفاق کا پہلو نمایاں تھا جیسے پر قرعہ اندازی میں کسی کا بھی قرعہ نکلے تو فریقین مان جاتے ہیں.سب حرم کے دروازے کی طرف نظریں لگائے بیٹھ گئے.کیا دیکھتے ہیں کہ پہلا شخص جو داخل ہوا وہ الہی نور سے منور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے.اپنی اخلاقی پاکیزگی اور شان محبوبی کے ساتھ حرم میں داخل ہوئے اس شخص کو دیکھتے ہی سب بیک زبان پکارے امین امین ہم اس کے فیصلے پر راضی ہیں.اُس وقت آپ کی عمر مبارک پینتی (۳۵) سال تھی.قریش کے سارے تجربہ کار عمر رسیدہ لوگ وہاں جمع تھے.اللہ تعالیٰ تھے ان کی زبان سے اقرار کرایا کہ یہ وہ ہستی ہے جو تم سب میں ہر لحاظ سے بہتر ہے.کسی نے بھی آپ کی ثالثی ماننے سے انکار نہ کیا.آپ معاملہ کی اہمیت کو سمجھ گئے جسن تدبیر سے کام لیتے ہوئے اپنی چادر بچھائی اُس پر حجر اسود رکھا اور فرمایا کہ سب قبائل کے نمائندے کناروں سے پکڑ کہ اس چادر کو اٹھائیں.سب نے ایسا ہی کیا جب حجر اسود مناسب عیدی پر آ گیا تو آپ نے اپنے دست مبارکہ سے حجر اسود اُٹھا کہ اس کی جگہ پر رکھ دیا.نہ کوئی جھگڑا ہوا نہ اختلاف رائے بلکہ سب نے آپ کی معاملہ فہمی کی
۲۹ داد دی اور خوب خوب چرچا کیا کہ محمد نے ایسا فیصلہ کیا جو اور کسی کو نہ سوجھا تھا.یہ خدائی انتظام تھا اپنے پیارے کو مرکزہ توجہ بنانے کے لئے کہ یہ امین وصادق معاملہ فہمی اور قوت فیصلہ میں سب عرب کا چاند ہے جس کے طلوع کا وقت قریب آرہا..فداه لفسی وایی (دامی اللهُمَّ صَلَّ عَلى محمد وَبَارِك وَسلم إِنَّكَ حميد مجيد
i ۳۰ کُتب جن سے استفادہ کیا گیا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی رض - تفاسیر - روحانی خزائن کتب حضرت اقدس مسیح موعود ۴ رض حضرت حکیم نور الدین خلیفہ السیح الاول انو حقائق الفرقان تفسیر از -۴- سیرت خاتم النبیین جلد اول حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کو ۱۹۶۶) الناشر الشرکت الاسلامیہ لمیٹیڈ ریوہ -۵ سیرت النبی حصہ اول (طبع چهارم تالیف حضرت علامہ شبلی نعمانی -4 مکرم سید سلیمان ندوی صاحب (۱۹۱۸ء) سیرت النبی ( کامل ) ابن ہشام اردو ترجمه کرم سید سلین علی سی نظامی دہلوی صاحب حسنی - تجرید بخاری - A -9 ٠١٠ ناشر ادارہ اسلامیات انار کلی ۱۹۰ لاہور ترجمه غلام حسین بن مبارک زیدی دارالاشاعت کراچی عہدنبوی کا قمری نومسی کیلنڈر مکرم دوست محمدشاہد صاحب (مورخ احمدیت) احمد کی می دیده سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی اند حضرت محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم غلام باری سیلیف اره مکه مکرمه -11 محمد عبد المعبود -۱۴ سیرت سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم شیخ عبد القادر فاضل الفضل و دیگر جماعتی اخبارات در سائل ۱۴- نقوش و دیگر رسائل
MASHAAGHIL-E-TIJAARAT AUR HAZRAT KHADIJA SE SHAADI BY AMTUL BAARI NASIR IN URDU LANGUAGE 9 788179 121832 Price Rs.20/-