Mashal-e-Rah Volume 5 (Part 4)

Mashal-e-Rah Volume 5 (Part 4)

مشعل راہ ۔ جلد پنجم (حصہ چہارم)

Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

مشعل راه جلد پنجم (حصہ چہارم ) ارشادات رنا حضرت خلیفة ا یکم مئی 2006ء تا30 را پریل 2007 }

Page 2

تاریخ مشعل راہ جلد پنجم (حصہ چہارم)..اوّل جولائی 2007ء

Page 3

مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم vii ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 5 مئی 2006ء سے اقتباسات کو اللہ کا ذکر لغویات سے بچاتا ہے ذکر الہی سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے حمد دعوت الی اللہ کے مؤثر ذرائع کو خواتین بھی دینی علوم حاصل کریں غیروں سے رشتہ ناطہ کے نقصانات 1 نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ نیوزی لینڈ کے ساتھ میٹنگ.......7 نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ جاپان کے ساتھ میٹنگ............خطبه جمعه فرموده 12 مئی 2006ء سے اقتباسات حمد دعوت الی اللہ کے ساتھ اپنی اصلاح بھی کریں ہ بچوں کو بھی نمازی بنا ئیں خطبه جمعه فرموده 26 مئی 2006ء سے اقتباسات حسد اور بدظنی سے عیب لگانے سے پر ہیز کریں ہر احمدی خطبات کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھے حسد کی بجائے رشک کریں عیب اور الزام نہ لگائیں عیب اور بدظنی سے بچیں ہا ہے محمود غزنوی اور ایاز کا ایک واقعہ کو اس واقعہ سے اہم سبق خطبه جمعه فرموده 9 جون 2006ء سے اقتباسات.12 14 16 16

Page 4

مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم خلافت کی اطاعت نہایت اعلیٰ درجہ کی ہو viii ہو جماعتی نظام ایک اعلیٰ انتظام ہے بعض نادانوں کے اعتراضات کے عہدیدار اپنے آپ کو عقل کل نہ سمجھیں ہر کمیشن تقوی شعار لوگوں پر مشتمل ہونا چاہیے عہد یدار خلیفہ وقت کی اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کریں جماعتی اور ذیلی عہد یداران اطاعت کا معیار بڑھائیں مربیان کرام کو قیمتی ہدایات خلیفہ وقت کی فوری اطاعت کرنی چاہیے ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جماعت احمدیہ جرمنی کے احمدی طلبہ کے ساتھ میٹنگ احمدی طلبہ کا بنیادی فرض قرآن کا ترجمہ اور پنجگانہ نماز کی پابندی لا جماعت کی بدنامی کا باعث نہ بنیں حمد مضامین اختیار کرتے ہوئے بھیڑ چال نہ ہو ہر طلبہ کے ساتھ سوال و جواب واقفين نوجرمنی کے ساتھ میٹنگ واقفین اپنی دلچسپی کے شعبوں میں جائیں واقفین تجدید وقف کریں کہ روزانہ تلاوت با ترجمہ کریں کتب مسیح موعود اور نوافل کی ادائیگی کی طرف توجہ کریں موبائیل فون اور کھیل کے بارہ ہدایت واقفین کو جامع نصائح 32 45 سالانه اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی سے اختتامی خطاب......50

Page 5

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم اجتماعات میں کھیل رکھنے کے مقاصد علمی مقابلے علم کی جاگ لگانے کے لئے ہیں ح نو جوانی میں زیادہ عبادات کریں ہر حالت میں سچائی پر قائم رہیں ہی جھوٹ اور فتنہ پردازی سے پر ہیز کریں جنت میں جانے کا گر پردہ کی پابندی کرنی اور کروانی چاہیے حمد عاملہ صحت کا خیال رکھے حمد ایک ضروری وضاحت ix ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نیشنل عامله ، ریجنل قائدين وقائدين مجالس جرمنی کے ساتھ میٹنگ 60 کا شعبہ (دعوت الی اللہ ) عمیر کن خطوط پر دعوت الی اللہ کریں رابطے پر کھتے رہا کریں دیہات میں بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام بنائیں حمد طلبہ کن خطوط پر دعوت الی اللہ کریں؟ شعبه تربیت ہے سور اور شراب کا کاروبار نہ کریں خطبه جمعه فرموده 16 جون 2006ء سے اقتباسات دعوت الی اللہ کے لئے نیک نمونے قائم کریں ایک دلچسپ واقعہ نیشنل مجلس عامله خدام الاحمدیہ ہالینڈ کے ساتھ میٹنگ خطبه جمعه فرموده 30 جون 2006ء سے اقتباس حميد حضور انور کی وقف عارضی کا واقعہ 68..70 10 72

Page 6

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم X ارشادات حضرت خلیہ اسی الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 14 جولائی 2006ء سے اقتباسات حمد خلافت ثانیہ میں تائیدات الہیہ خلافت ثالثہ میں تائید و نصرت کو خلافت رابعہ میں ترقیات انتخاب خلافت خامسہ کے وقت نصرت الہی کو خلافت رابعہ میں ترقیات انتخاب خلافت خامسہ کے وقت نصرت الہی خطبه جمعه فرموده 11/اگست 2006ء سے اقتباسات ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ پر انحصار کریں فی زمانہ دعاؤں کی بہت ضرورت ہے حد جماعت کے لئے بہت دعا کریں 73 76.پیغام بر موقع جلسه سالانه جماعت احمدیہ جرمنی 6 0 0 2ء سے اقتباس 80 اطاعت سے انقلاب عظیم برپا ہوسکتا ہے سالانه اجتماع خدام الاحمديه UK سے اختتامی خطاب.عمیر نو جوانی میں نفس امارہ کا اہتمام کریں نوجوانی میں شیطانی حملے بہت ہوتے ہیں و گناہ سے بچنے اور سچی توبہ کے لئے تین باتیں واقفین نو ماحول سے پاک صاف ہو کر نکلیں چاہیے سائنس کے میدان میں آگے آئیں حميد انٹرنیٹ کا منفی استعمال نہ کریں خدام الاحمدیہ سمپوزیم یا سیمینار منعقد کرے خطبه جمعه فرموده 22 / ستمبر 2006ء سے اقتباسات.81 91

Page 7

ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 94 98..104 112 xi مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم اولاد کی خواہش صالح اولاد کے لئے خود اپنی اصلاح کریں حمد اولاد کے لئے دعا خطبه جمعه فرموده 6 اکتوبر 2006 ء سے اقتباسات.تقوی شعار، بے نفس ترقی کر جاتے ہیں مخالفین کے شر سے بچنے کے لئے ایک دعا ایک دعا غیر ضروری سوالات سے بچنے کے لئے خطبه جمعه فرموده 13 اکتوبر 2006ء سے اقتباسات.متفرق دعائیں ہیر واقفین نو کے والدین کا فرض اولاد کی اصلاح کے لئے دعا والدین کے احسانات کا بدلہ نہیں اتارا جا سکتا حمد اگر تمام ادعیۃ الرسول یا دنہ ہوں تو خطبه جمعه فرموده 20/اکتوبر 2006ء سے اقتباسات.جمعہ پر جلدی آ ئیں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ایک بات چاہیے جمعہ پر نہ آنے والوں کے لئے انذار تجارت اور کھیل کو جمعہ میں حائل نہ ہونے دیں ی قبولیت دعا کی ایک اہم گھڑی خطبه جمعه فرموده 3/نومبر 2006ء سے اقتباس عد سادہ زندگی کی طرف توجہ کریں و دشمن کے لٹریچر کا جواب تیار کیا جائے

Page 8

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 116 131 مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ☆ وقف بعد از ریٹائر منٹ نوجوان بیکار نہ رہیں خطبه جمعه فرموده 10 نومبر 2006ء عائلی جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے نصائح حمد غلط فہمیاں مل کر دور کریں کی بیویوں کے مال پر قبضہ نہ کریں ی معمولی باتوں پر بدنی سزا نہ دیں دلوں میں کینے نہ پالو xii تنازعات حکمت کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش کرو شادی ہو جائے تو ایک دوسرے کو برداشت کرو حضرت خلیفہ اول کا بیان فرمودہ واقعہ لڑکیوں پر ظلم کرنے والے دو طرح کے لڑکے ہیں بغیر کسی جائز وجہ کے مشترکہ خاندانی نظام نہ اپنا ئیں قرآنی دلیل ہ بعض لوگ بچے چھین کر لے جاتے ہیں والدین کے اخراج یک صورت میں وقف نو بچہ وقف میں نہیں رہتا ظلم کو ختم کرنا سب پر فرض ہے حمد بچہ چھین کر ایک دوسرے کو دکھ نہ دیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط خطبه جمعه فرموده 15 دسمبر 2006ء سے اقتباس خدمت خلق کی تحریک ڈاکٹر ز کو وقف کی تحریک

Page 9

ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 132 134....138.141 142 144 145 xiii مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم خطبه جمعه فرموده 22 دسمبر 2006ء سے اقتباس محمد داعیان الی اللہ کی خصوصیات نیشنل مجلس عامله خدام الاحمدیہ جرمنی کے ساتھ میٹنگ.خطبه عيد الاضحية فرموده 31 دسمبر 2006ء (خلاصه) ہیر واقفین نو کے والدین کو قیمتی نصائح خطبه جمعه فرموده 12 جنوری 2007ء سے اقتباس.نظام جماعت کو اخراجات کے بارہ احتیاط کرنی چاہیے حمد چندہ پر معترض لوگ ہیے چندوں کی تحریک ہمیشہ ہوتی رہے گی خطبه جمعه فرموده 19/جنوری 2007ء سے اقتباس.ی دنیا کو تباہی سے بچانے کانسخہ خطبه جمعه فرموده 26 جنوری 2007 ء سے اقتباس ی سزا اصلاح احوال کے لئے ہوتی ہے خدام واطفال کو بزرگوں کے ادب کی ہدایت خطبه جمعه فرموده 9 فروری 2007ء سے اقتباس روحانیت میں اضافہ کے لئے استغفار بہت ضروری ہے خطبه جمعه فرموده 16 فروری 2007ء سے اقتباسات.حمد ہجرت کے پر معارف معانی مغربی ممالک میں ہجرت کرنے والوں کی ذمہ داریاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقاء کی قربانیوں کو یا درکھیں حضرت عمر کے زمانہ کا ایک معروف واقعہ رفقاء کرام کی اولادوں کی ذمہ داری

Page 10

ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 150 155 166 مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم xiv خطبه جمعه فرموده 23 فروری 2007ء سے اقتباس حمد ہالینڈ کی پارلیمنٹ کا دین حق ) پر حملہ اور ہماری ذمہ داری حمد ممبر پارلیمنٹ کے اعتراضات کے پر معارف جوابات حمد سیرت رسول کریم کو لوگوں تک پہنچائیں ہالینڈ کو انتباہ اجتماع خدام الاحمديه ھارٹلے پول سے خطاب.حد اجتماعات کے مقاصد حمید تمام سعادتوں کی کنجی نماز میں ہے حمید قرآن کریم پڑھیں اور سمجھ کر پڑھیں قرآن کریم میں دینی اور دنیاوی علوم کے خزانے ہیں برے ماحول اور بری دوستیوں سے پر ہیز کریں ہ شریفانہ لباس زیب تن کریں جو داڑھی رکھنا بھی سنت ہے با اخلاق بنیں گے تو با خدا بنیں گے نصائح پر عمل بھی کریں دعوت الی اللہ سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں خطبه جمعه فرموده 16 مارچ 2007ء سے اقتباس.اس دنیا میں بھی جزا سزا کا عمل جاری ہے حمد شراب کے نقصانات حمد ایڈز بظاہر چھوٹی چھوٹی برائیوں سے بھی بچیں

Page 11

ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 170 174 180 مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم XV خطبه جمعه فرموده 23 مارچ 2007ء سے اقتباسات ہم اب خدا تعالیٰ کی منشا کیا ہے ایم ٹی اے العربیہ کا آغاز عرب قوم کو دعوت حق خطبه جمعه فرموده 6 اپریل 2007ء سے اقتباس ☆ امام اپنی رعیت کا نگران ہے دعاؤں سے خلیفہ المسیح کی مدد کریں عہد یداران بھی امام کے نمائندہ ہیں و دیانتدار عہدیداران کا انتخاب کریں محمد گھر کے سربراہ کی ذمہ داری حمد بیوی کی ذمہ داری ہیں اپنے پیشے سے انصاف کریں خطبه جمعه فرموده 13 اپریل 2007ء سے اقتباس.نماز با جماعت میں صفیں سیدھی رکھیں حرم خواتین کو بطور خاص نصیحت حی خطبہ نماز جمعہ کا حصہ ہے حمد و عبادات کا خلافت سے گہرا تعلق ہے میں اہل ربوہ ایک نمونہ بنیں مالی قربانی کی طرف توجہ کریں حد جماعت میں نظام زکوۃ رائج ہے خلافت نبوت کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے

Page 12

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ☆ ناجائز کاروبار بھی نہ کریں xvi افریقین ممالک چندوں کے شعبہ میں بہتری پیدا کریں خطبه جمعه فرموده 20 /اپریل 2007ء سے اقتباس.ام و اصلاح نفس کے متعلق ایک نصیحت ☆ ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 188

Page 13

مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم 1 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 5 مئی 2006ء سے اقتباسات ہمیں صبح شام اللہ کے ذکر میں مشغول رہنا اور اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہمارے دن ڈرتے ڈرتے بسر ہونے چاہئیں یعنی یہ فکر ہو کہ اللہ ہماری کسی زیادتی کی وجہ سے ہم سے ناراض نہ ہو جائے اور جب یہ فکر ہوگی تو یقینا اللہ تعالیٰ کا خوف بھی دل میں رہے گا اور اس کی یاد بھی دل میں رہے گی.اس کا ذکر بھی زبان پر رہے گا اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش بھی رہے گی.اس کی مخلوق سے اچھے تعلقات رکھنے کی طرف توجہ بھی رہے گی.نظام جماعت سے تعلق بھی رہے گا.خلافت سے وفا کا تعلق بھی رہے گا.تو یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوں گی.اللہ کا ذکر لغویات سے بچاتا ہے.پھر آپ نے فرمایا ہے کہ تمہاری راتیں بھی اس بات کی گواہی دیں کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی.جب راتوں کو تقویٰ سے گزارنے کا خیال رہے گا تو ہر قسم کی لغویات اور بیہودگیوں سے انسان بچا رہے گا.آج کی دنیا میں ہزار قسم کی برائیاں اور آزادیاں ہیں اور ایسی دلچسپیوں کے سامان ہیں جو اللہ کے ذکر سے غافل رکھتے ہیں.پس یہ جو آج کل نام نہاد سمجھی ہوئی Civilized دنیا یا سوسائٹی میں چیزیں ہیں جس کو سوسائٹی میں بڑا رواج دیا جا رہا ہے اور بڑا پسند کیا جاتا ہے عورتوں مردوں کا میل ملاپ ہے ، آپس میں گھلنا ملنا ہے، اٹھنا بیٹھنا ہے، نوجوانوں کا رات گئے تک مجلسیں لگانا ہے یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو اللہ کے ذکر سے دور کرنے والی ہیں.پس ہر احمدی کو ہر وقت ایسی لغویات سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا چاہئے.ہر ایسی چیز جو آپ کے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے میں روک ہو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہ چیزیں کبھی ذہنی سکون نہیں دے سکتیں.انسان سمجھتا ہے کہ شاید یہ دنیا کی مادی چیز میں حاصل کر کے اس کو ذہنی سکون مل جائے گا حالانکہ ان دنیاوی چیزوں کے پیچھے جانے سے انہیں مزید حاصل کرنے کی حرص بڑھتی ہے اور کیونکہ

Page 14

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 2 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہر کوئی ہر چیز حاصل نہیں کرسکتا، اس کوشش میں بے سکونی بڑھتی چلی جاتی ہے.ذکر الہی سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے پس ہر احمدی کو ہر وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اس کے دل کا اطمینان اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی ضمانت بھی دی ہے.دنیا میں بہت ساری چیزیں بیچنے والے ، مارکیٹ کرنے والے، دنیاوی چیزیں بنانے والے بڑے بڑے اشتہار دیتے ہیں کہ ہماری فلاں چیز خرید و تو 100 فیصدی سکون یا satisfaction مل جائے گی تسلی ہوگی لیکن کبھی ہوتی نہیں.جتنا بڑا چاہے کوئی دعوی کرے.لیکن اللہ تعالیٰ یہ ضمانت دیتا ہے کہ میرا ذکر کرنے والوں کو حقیقی طور پر میرا ذکر کرنے والوں کو ، ان حکموں پر عمل کرنے والوں کو میں اطمینان قلب دوں گا.دل کو چین اور سکون ملے گا.جیسا کہ فرمایا {الَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ } (الرعد: 29 ) یعنی پس سمجھ لو کہ اللہ کی یاد سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں.اور یہ ذکر نمازوں کے علاوہ بھی ہونا چاہئے.جیسا کہ میں نے بتایا ہر وقت اللہ کی یاد یہ ذکر ہی ہے.اگر اللہ کا خوف دل میں رہے تو آدمی مختلف دعا ئیں مختلف وقتوں میں پڑھتارہتا ہے.کئی کام نہیں کرتا کہ اللہ کا خوف آ جاتا ہے تو اس بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ اللہ کا ذکر صرف نمازوں میں نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی ہے.ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا چاہئے.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ {الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُوْدًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ } ( آل عمران: 191 ) یعنی عقلمند انسان اور مومن وہی ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے بھی اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں.ہر وقت ان کے دل میں اللہ کی یاد ہوتی ہے.یہ صحیح مومن کی نشانی ہے کیونکہ اس ذکر سے ایمان بھی بڑھتا ہے اور انسان میں جرات بھی پیدا ہوتی ہے.ایک اور جگہ اس بارے میں فرماتا ہے کہ {يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ (الانفال: 46) یعنی اے مومنو! جب تم کسی گروہ کے، کسی فوج کے مقابلہ پر آؤ تو قدم جمائے رکھو.اللہ کو بہت یاد کیا کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.پس کسی برائی کے مقابلے پر کھڑا ہونے کے لئے ، دل میں جرات پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے.شیطان بھی انسان کا بہت بڑا دشمن ہے.آج کی دنیا میں دجل کے مختلف طریقے ہیں.دجل مختلف قسم کی فوجوں کے ساتھ حملہ آور ہورہا ہے اور ہمارے ترقی پذیر یا کم ترقی

Page 15

3 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم یافتہ ملکوں کے لوگ ان ترقی یافتہ ملکوں میں آ کر بھی اور اپنے ملک میں بھی ان کے حملوں کی وجہ سے ان کے زیر اثر آ جاتے ہیں.اور اس نام نہاد Civilized Society کی برائیاں فوراً اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں.پس اُن کے حملوں سے بچنے کے لئے اور ہر قسم کے کمپلیکس (Complex) سے، احساس کمتری سے اپنے آپ کو آزا در کھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ذکر انتہائی ضروری ہے.اسی سے دلوں میں جرات پیدا ہوگی ، پاک تبدیلی پیدا ہوگی....دعوت الی اللہ کے موثر ذرائع پس ہمیشہ یادرکھیں کہ احمدی ہونے کے بعد اپنے نیک نمونے قائم کرنا اور احمدیت کے پیغام کو پہنچانا ہر احمدی کا کام اور اس کا فرض ہے.یہاں آپ میں سے اکثریت نبی سے آئے ہوئے احمدیوں کی ہے.چند فیملیاں پاکستان سے بھی آئی ہوئی ہیں.یادرکھیں جوبھی نجین یا پاکستانی یہاں ہیں سب کا کام اس پیغام کو پہنچانا ہے.لیکن نجی کے حوالے سے میں بات کرتا ہوں کہ نجی میں احمدیت کوئی چالیس پچاس سال پہلے آئی تھی اور جماعت کے وہ بزرگ جن کو جماعت میں شمولیت کی توفیق ملی انہوں نے اپنے اندر تبدیلیاں بھی پیدا کیں.جماعت کی خاطر قربانی بھی دی اور احمدیت یعنی حقیقی (دین حق) کے پیغام کو اپنے ہم قوموں تک بھی پہنچایا.اور پھر دیکھ لیں تھوڑے عرصے میں انہوں نے کافی بیعتیں کروائیں.اب جبکہ اُس وقت کے مقابلے میں آپ کی تعداد بھی کافی ہے، سہولتیں بھی زیادہ ہیں نجی میں بھی اور دوسری جگہوں میں بھی.لیکن اس توجہ کے ساتھ بیعت میں کروانے کی طرف کوشش نہیں ہو رہی جو پہلوں نے کی.یہاں سے نبی والے بھی سن رہے ہیں، اتفاق سے وقت بھی ایک ہے.تو جونجی میں رہتے ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ اپنی ( دعوت الی اللہ ) کی کوششوں کو تیز کریں اور اپنے عملی نمونے دکھا ئیں اپنے اندر ( دین حق کی صحیح روح پیدا کریں.آپ لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں آپ بھی اس کوشش میں رہیں.اس پیغام کو آگے پہنچا ئیں.اپنے عملی نمونے بھی دکھائیں.یہاں ( دعوت الی اللہ ) کے لئے مختلف جگہوں پر جا کر جائزہ لیں ، چھوٹی چھوٹی جگہوں پر جائیں.گزشتہ سالوں میں دو تین دفعہ میں اس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ چھوٹی جگہوں پر پیغام پہنچانے اور قبولیت کے امکانات عموماً زیادہ ہوتے ہیں ، خاص طور پر تیسری دنیا میں.ان کی مخالفت اگر ہوتی ہے تو لاعلمی کی وجہ سے ہوتی ہے.دنیاداری کی وجہ سے عموما نہیں ہوتی.پھر مختلف قوموں کے لوگ ہیں، نجی میں بھی اور یہاں بھی ہیں.آسٹریلیا میں بھی ہیں.یہ جوسارا علاقہ ہے ان تک پہنچیں.اُن کی زبان میں اُن کو لٹریچر دیں، ان سے مسلسل رابطے رکھیں.تعلقات

Page 16

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 4 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی بڑھائیں.پھر آپ کے اپنے اندر جو آپ کی اپنی طبیعتیں ہیں، رویے ہیں اگر ان میں بھی پاک تبدیلیاں ہوں گی تو آپ لوگ ان کو دوسروں سے مختلف نظر آئیں گے.اور جیسا کہ میں نے کہا، جب یہ چیزیں ان کو نظر آ رہی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی آپ کی زبانوں پر ہو گا تو یہ جو مسلسل رابطے اور تعلق ہیں وہ دوسروں کو آپ کے قریب لائیں گے.پھر ان ملکوں میں ہمارے چند بچھڑے ہوئے احمدی بھائی بھی ہیں جو لاہوری کہلاتے ہیں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو صرف مجدد مانتے ہیں اور خلافت کو نہیں مانتے.ان میں سے بھی بعض پہلے مختلف جگہوں پہ مجھے ملے ہیں، شاید یہاں بھی ہوں، اور بعض بڑے اچھے طریقے سے ، شرافت سے ملے.تو ان سے بھی اگر مسلسل رابطے کے ذریعے سے ان کو بتاتے رہیں اور ان کے لئے دعائیں بھی کرتے رہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے دل بدلنے پر قادر ہے.بہر حال یہ سب کچھ کرنے کے لئے یعنی ( دعوت الی اللہ کے ) میدان میں آنے کے لئے ایک تو جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا اور اس کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر رکھنا ضروری ہے.دوسرے اس پاک تبدیلی کے ساتھ جس حد تک اپنے دینی علم کو بڑھا سکیں ، ہر عمر اور ہر طبقے کے لحاظ سے اس علم کے حاصل کرنے کے لئے مختلف معیار ہوں گے تو کوشش کر کے یہ حاصل کرنا چاہئے.خواتین بھی دینی علوم حاصل کریں پھر بعض بنیادی چیزیں ہیں جو میں نے نوٹ کی ہیں.یہاں تو ابھی جائزہ نہیں لیا لیکن پیچھے لیتا آیا ہوں.جماعت کے متعلق ، ( دین حق) کے متعلق جن کو بنیادی چیزیں پتہ نہیں ہیں ان کو سیکھنی چاہئیں.عورتوں اور نو جوانوں کو بھی اس میں ہمیں شامل کرنا ہوگا.بعض احمدی ہیں لیکن یہ نہیں پتہ کہ احمدیت کیا چیز ہے.کیوں احمدی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں کیا پیشگوئیاں فرمائی تھیں.کیا کیا پوری ہو گئیں اور اس طرح کے مختلف سوال ہیں.اور جب تک ہمارے سارے طبقے بشمول عورتیں، کیونکہ عورتوں کو ساتھ لے کے چلنا بھی ضروری ہے ان کو ساتھ لے کر نہیں چلیں گے تو مکمل کامیابیاں نہیں ہوسکتیں.گاؤں کی رہنے والی عورتوں کو عموماً اس بارے میں علم نہیں ہوتا کہ ہم احمدی کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ اور اس وجہ سے پھر وہ اپنی اگلی نسلوں کو بھی نہیں

Page 17

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 5 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سنبھال سکتیں.نہ (دعوت الی اللہ) کر سکتی ہیں.گاؤں میں رہنے والوں کی مثال تو میں نے نجی کی دی ہے یہ میرا وہاں کا جائزہ تھا.یہاں نسبتاً پڑھی لکھی عورتیں آئی ہیں لیکن یہاں آ کر حالات بہتر ہونے کی وجہ سے ان عورتوں کی دلچسپیاں نہ بدل جائیں.ایمان میں مضبوطی تبھی پیدا ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو.اور پھر یہ ہے کہ اپنے دینی علم میں اضافہ کرنے کی کوشش ہو.پس عورتوں کو بھی دینی علم سیکھنے کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے.خاص طور پر ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقے میں دینی علم سکھانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اور پھر ایک مہم کی صورت میں ہر مرد ، عورت، جوان، بوڑھا احمدیت کا پیغام پہنچانے کی کوشش میں لگ جائے اس سے جہاں آپ کی اپنی حالت بہتر ہوگی، اپنی تربیت کی طرف توجہ پیدا ہوگی وہاں (دعوت الی اللہ ) کے لئے بھی نئے نئے راستے کھلتے جائیں گے.وہاں بعض خاندانوں کے یہ مسائل بھی حل ہوں گے جو احمدی بچوں کے دوسرے مذاہب میں رشتے کی وجہ سے، شادیوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.کیونکہ پھر علم ہونے کی وجہ سے اور اس علم کو پھیلانے کی وجہ سے خلاف تعلیم رشتوں کی طرف زیادہ رجحان نہیں رہے گا.اور پھر اس کے ساتھ ساتھ قربانی کے معیار بھی بڑھ رہے ہوں گے.غیروں سے رشتہ ناطہ کے نقصانات میں رشتوں کی بات کر رہا تھا.ضمنا یہاں یہ بھی بتا دوں کہ مجھے پتہ ہے رشتوں کے بڑے مسائل ہیں خاص طور پر لڑکیوں کے رشتوں کے کیونکہ میں نے عموماً دیکھا ہے شاید چھوٹی جگہوں پر بھی ہوں.نجی وغیرہ میں ماشاء اللہ لڑ کیاں پڑھی لکھی ہیں.یہاں بھی رشتے ہیں.آسٹریلیا میں بھی اور جگہوں پر بھی ہیں.اس کے لئے ایک تو جماعت کا رشتہ ناطہ کا نظام ہے اس کو فعال ہونا چاہئے.اور ویسے اگر پتہ لگے تو باہر بھی کوشش ہو سکتی ہے.اس لئے یہ جو آپ کے یہاں چار پانچ ملک ہیں ان میں با قاعدہ اس کا ہر جگہ ریکارڈ رکھا جانا چاہئے....تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے، جائزہ لیں تو یہ 100 فیصد حقیقت نظر آئے گی کہ ان ملکوں میں بعض خاندان اس لئے بھی ابتلا میں پڑ گئے کہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ غیروں میں شادیاں کرنے سے نسلیں برباد ہو جاتی ہیں اور دین سے دور چلی جاتی ہیں.کئی ایسے دور ہٹے ہوئے ہیں جن کو اب ہٹنے کا احساس ہو رہا ہے.یہاں جو خاندان آئے ہیں ان کے حالات اپنے پہلے ملک کی نسبت

Page 18

6 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم بہر حال بہتر ہیں.یہ بہتری آپ کو دین سے دور لے جانے والی اور اپنی قدروں اور اپنی تعلیم اور اپنی روایات کو بھلانے والی نہیں ہونی چاہئے.بعض دفعہ وہ جو غلطی کرتے ہیں پھر نظام جماعت کی طرف سے بعض دفعہ کوئی سختی ہوتو پھر نظام کو الزام دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوگی یا جماعت سے نکال دیا گیا یا ہماری بدنامی کی گئی.اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہوگا اور دین کا علم ہوگا تو یہ صورتحال کبھی پیدا نہیں ہوگی.پس خود بھی اور اپنے بیوی بچوں کا بھی جماعت سے اور خلافت سے تعلق جوڑے رکھیں....الفضل انٹر نیشنل 26 مئی تا01 جون 2006 ء )

Page 19

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 7 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ نیوزی لینڈ کے ساتھ میٹنگ (مورخہ 7 مئی 2006 ء ) دس بجے نیشنل مجلس عاملہ مجلس خدام الاحمدیہ نیوزی لینڈ کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کروائی.حضور انور نے خدام الاحمدیہ کے تمام شعبوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور ہدایات سے نوازا.حضور انور نے معتمد خدام الاحمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ اپنی ماہانہ کارگزاری رپورٹ براہ راست مجھے بھجوایا کریں اور اس میں باقاعدگی ہونی چاہئے.حضور انور نے فرمایا کہ آپ کی مجلس عاملہ جائزہ لے کہ ایک مجلس کافی ہے یا مزید مجالس کی ضرورت ہے.مہتم تعلیم سے حضور انور نے ان کے پروگرام کے بارہ میں دریافت فرمایا.مہتم تعلیم نے بتایا کہ خدام کو نماز سکھائی جارہی ہے.دعائیں یاد کر وار ہے ہیں.اسی طرح نصاب میں احادیث رکھی ہیں اور حضرت اقدس مسیح موعود کی کتب سے اقتباسات رکھے ہیں.خدام سے اس کا امتحان لیا جاتا ہے.حضور انور نے مہتم تربیت سے ان کے شعبہ کے تحت ہونے والے کاموں کے بارہ میں دریافت فرمایا.حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو علم ہونا چاہئے کہ کتنے خدام پانچوں نمازیں پڑھتے ہیں اور کتنے خدام با جماعت نماز ادا کرتے ہیں.کتنے خدام قرآن کریم پڑھتے ہیں اور کتنے خدام روزانہ تلاوت قرآن کریم کرتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ اصل چیز یہ ہے کہ نماز پڑھو، قرآن کریم پڑھو.حضور انور نے فرمایا کہ تربیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود کی کتب میں سے اقتباسات مختلف مواضیع پر منتخب کر کے خدام کو دیں.ماں باپ کے حقوق ہیں، ہمسائے کے حقوق ہیں، خدمت خلق کے کام ہیں، نماز ، قرآن کریم، مالی قربانی ، سچ بولنا، غصہ میں نہ آنا، امانت داری ہے.فرمایا اس طرح مختلف مواضیع پر انتخاب کر کے خدام کو دیں.تربیتی اجلاسات میں پڑھے جائیں اور ان کے تعلیمی نصاب کے طور پر بھی ہوں.

Page 20

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 8 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ علی حضور انور نے فرمایا ملک کی جماعتی انتظامیہ کا اپنا کام ہے ان کے اپنے پروگرام ہیں.خدام کا اپنا کام ہے اور اپنے پروگرام ہیں.اسی طرح انصار اور لجنہ کے اپنے اپنے پروگرام ہیں.حضور انور نے فرمایا آپ نے خدام کے مختلف عمروں کے لحاظ سے جو گروپس بنائے ہیں ان کے مطابق ان کے پروگرام بنا ئیں.حضور انور نے فرمایا بحیثیت مبر جماعت آپ نیشنل صدر کے ماتحت ہیں اور بحیثیت ممبر خدام الاحمدیہ آپ براہ راست خلیفتہ امسیح کے تحت ہیں.حضور انور نے فرمایا جب کوئی جماعتی پروگرام ہو اور انہی دنوں میں خدام کا اپنا کوئی پروگرام ہو تو خدام کو اپنا پروگرام بدل دینا چاہئے اور دوسرے دنوں میں رکھ لینا چاہئے.حضور انور نے فرمایا بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ Joint پروگرام بن جاتے ہیں یہ بھی ٹھیک ہے لیکن ہر پروگرام اکٹھا نہیں ہونا چاہئے.ذیلی تنظیموں کے اپنے انفرادی پروگرام ہونے چاہئیں.حضور انور نے مہتم تربیت کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلے سارا جائزہ تیار کریں کہ کتنے خدام کو نماز سادہ اور باترجمہ آتی ہے اور قرآن کریم آتا ہے.اس جائزہ کے تیار ہونے کے بعد پھر آپ تربیت کر سکتے ہیں اور بہتر پروگرام بنا سکتے ہیں.حضور انور نے فرمایا بعض لڑکے غیر احمدی لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں.اسی طرح بعض احمدی لڑکیاں بھی باہر شادی کر لیتی ہیں.دونوں صورتوں میں نسل خراب ہوتی ہے.اس لئے شعبہ تربیت کو بہت زیادہ فعال ہونا چاہئے.حضور انور نے فرمایا کہ ساری مصروفیات کے باوجو دنماز یں تو پانچ پڑھنی ہی ہیں.فرمایا جو آدمی پانچ نمازیں پڑھنے والا ہوگا اس کی تربیت ہو جائے گی اور جو قرآن کریم کی تلاوت کرے گا اس کی بھی تربیت ہو جائے گی.اسی طرح جو آپ کے اجلاسات پر باقاعدہ آئے گا ( بیت الذکر ) سے اس کا رابطہ ہو گا اس کی تربیت بھی ہو جائے گی.حضور انور نے فرمایا کہ مہینے میں قرآن کریم، حدیث اور حضرت مسیح موعود کے اقتباس پر مشتمل ایک دو ورقہ شائع کر کے خدام کو دے دیا کریں.اس میں مختلف موضوعات پر تربیتی مضامین بھی شامل ہوں اور اس کے مطابق حضرت مسیح موعود کی کتب سے اقتباس منتخب کر لیا کریں.حضور انور نے فرمایا: جو خادم پیچھے ہٹا ہوا ہے اور اس کا رابطہ نہیں ہے اس کے کسی دوست کے ذریعہ اس

Page 21

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 9 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کو قریب لائیں.ضروری نہیں کہ عہدیدار ہی جائے اور اس سے رابطہ کرے.اصل غرض یہ ہونی چاہئے کہ وہ جماعتی نظام میں شامل ہو جائے اور بیت الذکر ) سے اس کا رابطہ ہو جائے.حضور انور نے فرمایا: قربانی دیئے بغیر دنیا میں کوئی ترقی نہیں کر سکتا.قربانی کریں گے تو ترقی کریں گے اور آپ کو قربانی کرنی پڑے گی.پروگرام بنائیں اور کام کریں.عاملہ سر جوڑے اور حل نکالے کہ کس طرح کیا جائے.مسلسل رابطہ کرنا پڑے گا.پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا سے تعلق جوڑیں.نمازوں کی عادت ڈالیں.قرآن کریم کی تلاوت کی عادت ڈالیں.حضور انور نے فرمایا: جب تک ہر ایک اپنی اپنی ذمہ داری نہیں سنبھالے گا اکیلا صدر کچھ نہیں کر سکتا.حضرت مصلح موعود نے ذیلی تنظیمیں اس لئے بنائی تھیں تا کہ جماعت کا ہر طبقہ Active ہو سکے.مہتمم مال سے حضور انور نے خدام کے بجٹ کے بارہ میں دریافت فرمایا اور فی کس چندہ کے معیار کا جائزہ لیا اور ہدایت دی کہ اپنا کوئی سسٹم بنائیں.جو خدام کماتے ہیں اور جو نہیں کماتے اور جو طالبعلم ہیں سب سے برابر ایک جیسا چندہ وصول کرتے ہیں یہ تو صحیح نہیں ہے.فرمایا جو خادم اپنی مجلس کا چندہ کسی وجہ سے کم دینا چاہتا ہے تو اس سے لےلیا کریں.حضور انور نے فرمایا جو جماعت کا سیکرٹری مال ہے وہ جماعتی چندہ وصول کرے گا.خدام کا چندہ مہتم مال وصول کرے گا.ان کے لئے علیحدہ رسید بک جاری ہونی چاہیئے.مہتم اصلاح وارشاد کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اپنی سکیم بنائیں اور عاملہ میں رکھیں اور منظوری لیں اور کام کریں.حضور انور نے فرمایا کہ پمفلٹ تقسیم کرنا اور بک سٹال لگانا روایتی کام ہے.دعوت الی اللہ کے لئے مختلف قوموں کی پاکٹ میں وہاں جائیں.ٹیمیں بنائیں اور مختلف جگہوں پر جائیں اور رابطے کریں.ان کو لٹریچر دیں اور پھر Follow Up کریں.ریگولر جائیں اور مہینے میں دو تین مرتبہ جائیں.جب تک مسلسل رابطہ نہیں ہو گا.اس وقت تک Contact نہیں ہوگا.اس طرح سکیم بنا کر کام کریں اور مختلف قوموں کو ان کی زبان میں لٹریچر دیں اور اپنے پروگرام کو وسیع کریں.حضور انور نے فرمایا ( دعوت الی اللہ ) کے لئے مختلف مسائل پر مشتمل بر وشر بنالیں.دہریوں کو پہلے خدا کے بارہ میں بتائیں.وہ خدا کو مانیں گے تو پھر مذہب کو مانیں گے.یہ ساری چیز میں آپ کو محنت سے کرنی

Page 22

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 10 ارشادات حضرت خلیلہ اسی الخامس ایدہ اللہ تعالی پڑیں گی.مہتم اطفال سے حضور انور نے اطفال کی تعلیم و تربیت کے پروگراموں کے بارہ میں دریافت فرمایا.حضور انور نے فرمایا اگر آپ لوگ اپنے بچوں کو سنبھال لیں تو آپ کی انگلی جزیشن آپ کے ہاتھ میں رہے گی.اطفال کو نماز ، اس کا ترجمہ ، قرآن کریم اور اس کا ترجمہ سکھائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود کی کتابوں سے باتیں سکھائیں.آئندہ نسل پکی احمدی ہوگی تو رشتوں کے مسائل نہیں ہوں گے.دنیا داری کے پیچھے نہیں پڑیں گے.تربیت اس طرح کریں کہ نمازوں کے عادی بن جائیں.مہتم اشاعت نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ خدام کا رسالہ سال میں دو بار شائع ہوتا ہے.حضور انور نے فرمایا اس میں اطفال کے لئے بھی ایک حصہ رکھ لیں.اطفال کی دلچسپی کی چیزیں ہونی چاہئیں.حضور انور نے فرمایا رسالہ میں قرآن کریم کی آیت اور اس کی تشریح ہو، حدیث ہو، حضرت مسیح موعود کا اقتباس ہو.خطبات جمعہ کا خلاصہ دے دیا کریں.مہتم صحت جسمانی سے حضور انور نے خدام کے لئے کھیلوں کے پروگرام کے بارہ میں دریافت فرمایا.حضور انور کو بتایا گیا کہ ریگولر کھیلوں میں خدام ٹیبل ٹینس اور کرکٹ کھیلتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ ایسی کھیلیں ہونی چاہئیں کہ مستقل سنٹر میں آنے کی طرف توجہ پیدا ہو.مہتم خدمت خلق کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا.ہسپتالوں میں خون دینے کے لئے خدام کی ٹیم تیار کریں جو احمد یہ یوتھ آرگنائزیشن کے نام سے رجسٹر ڈ ہو.جب ان کو ضرورت پڑے آپ کو بلا لیں.بلڈ بینک ہوتے ہیں وہاں آپ کی رجسٹریشن ہو.اس طرح آپ کے رابطے بڑھیں گے اور (دعوت الی اللہ ) کے لئے راہ کھلے گی.حضور انور نے فرمایا Old People's Home ہیں وہاں جائیں.بوڑھوں اور مریضوں کا حال پوچھیں.ان کے لئے پھل وغیرہ ساتھ لے جائیں.مریضوں سے اور بوڑھوں سے دو باتیں کر لیں تو یہ خوشی محسوس کرتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ مختلف قوموں کے غریب لوگ ہیں ان کی پاکٹس میں جائیں ، ان کو دیکھیں.یہاں کے مقامی باشندوں موریوں (Mori) کے پاس جائیں ان کی بھی ضرورت کا جائزہ لیں اور مددکریں.

Page 23

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 11 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الامس ایدہ اللہ تعالی Remote ایریا میں جائیں، ان کی مدد کریں، جو بیمار ہوں ان کی مدد وغیرہ کریں.ادویات دیں، ہومیو پیتھک دوائی دی جاسکتی ہے.حضور انور نے صدر صاحب خدام الاحمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ مہتم امور طلباء کا تقرر بھی کریں.احمدی طلباء کی فہرستیں تیار ہوں.احمدی طلباء آگے آئیں.آگے بڑھیں.یو نیورسٹیوں میں جائیں اور مزید تعلیم حاصل کریں.پڑھائی چھوڑ نہ دیں.نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ نیوزی لینڈ کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ میٹنگ سوا گیارہ بجے ختم ہوئی.میٹنگ کے آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت خدام عاملہ کے ممبران کو قلم عطا فرمائے اور عاملہ خدام الاحمدیہ نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت بھی حاصل کی.الفضل اند نیشنل 30 جون تا 6 جولائی 2006 ء )

Page 24

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 12 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نیشنل مجلس عامله خدام الاحمدیہ جاپان کے ساتھ میٹنگ مورخہ 11 مئی 2006ء کو نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ جاپان کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میٹنگ ہوئی.حضور انور نے دعا کروائی.حضور انور نے صدر مجلس خدام الاحمدیہ اور معتمد خدام سے فرمایا کہ آپ کی طرف سے رپورٹ نہیں آتیں.اگر آپ خود کام نہیں کرتے تو آپ کی بات کون سنے گا.اس لئے آپ کے کاموں میں بے برکتی ہوتی ہے.حضور انور نے فرمایا: عہدوں کا خیال دل سے نکال دیں.یہ عہدہ نہیں خدمت ہے.عہدہ کو فضل الہی سمجھیں نہ کہ اپنے لئے فخر کا ذریعہ بنالیں.اب مجھے باقاعدہ آپ کی طرف سے ہر ماہ رپورٹ آنی چاہئے.مہتم خدمت خلق کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ بلڈ ڈونیشن کے لئے خدام کی ایک ٹیم بنائیں اور یہاں کے ہسپتالوں ، بلڈ بینک میں احمدیہ یوتھ آرگنا ئزیشن کے نام سے رجسٹر ڈ کروائیں.ان کے پاس آپ کے ناموں کی فہرست ہو.جب بھی ان کو ضرورت پڑے آپ کو بلالیں.حضور انور نے فرمایا اس خدمت سے ( دعوت الی اللہ ) کے رستے بھی کھلتے ہیں اور آسانیاں پیدا ہوتی ہیں.حضور انور نے فرمایا اسی طرح ہسپتالوں میں جائیں.بوڑھوں ، مریضوں سے ملیں ، ان کا حال پوچھیں ان کے لئے ساتھ پھول پھل وغیرہ لے جائیں.فرمایا یہاں غریب تو ہے نہیں لیکن لوگوں کے جذبات ، احساسات کا خیال رکھنا یہی خدمت خلق ہے.یہاں Old People's Home میں جائیں اور وہاں لوگوں سے ملیں.باتیں کریں.اس طرح آپ کے تعلقات بنیں گے اور ( دعوت الی اللہ ) کے لئے راہیں کھلیں گی.مہتم اطفال سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ٹوکیو اور نا گویا دونوں جگہ اطفال کی جو

Page 25

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 13 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الامس ایدہ اللہ تعالی خا کلاسز ہوتی ہیں اس کی رپورٹ آپ کو لینی چاہئے.حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے پاس یہ سارا جائزہ تیار ہونا چاہئے کہ کتنے بچوں کو نماز آتی ہے اور کتنے بچے قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں.جو نہیں جانتے ان کو سکھانے کا انتظام ہونا چاہئے.شعبہ ( دعوت الی اللہ ) سے حضور انور نے گزشتہ تین سال میں ہونے والی بیعتوں کے بارہ میں دریافت فرمایا اور مہتم تربیت سے خدام کے تربیتی پروگراموں کے بارہ میں دریافت فرمایا اور دریافت فرمایا کہ کیا خدام کو حضرت اقدس مسیح موعود کی کتب مطالعہ کے لئے دی گئی ہیں.ان کو سلیبس دیا گیا ہے.کیا ان کا امتحان لیا جاتا ہے.کتنے ہیں جو نماز باجماعت ادا کرتے ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں.جن کو قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا ان کے بارہ میں کیا پروگرام بنایا ہے.حضورانور نے فرمایا خدام الاحمدیہ کی طرف سے ہر مہینے مجھے رپورٹ آنی چاہئے جس مہینے کوئی کام نہ ہوا ہو تو اپنی رپورٹ میں لکھیں کہ اس مہینہ میں کوئی کام نہیں ہوا.حضور انور نے ( دعوت الی اللہ ) کے ضمن میں ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ ( دعوت الی اللہ ) کے لئے ذاتی رابطے کریں.آپ لوگ اپنے کاموں پر جاتے ہیں وہاں انہیں بتائیں کہ خدا تعالیٰ کیا چیز ہے.خدا کے بارہ میں بتائیں.جوارد گرد چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہیں وہاں جائیں اور دعوت الی اللہ کریں.آپ کے مسلسل رابطے ہونے چاہئیں.جو احمدی ہوتے ہیں ان سے مسلسل رابطہ ہونا چاہئے یہ نہیں کہ ایک دفعہ رابطہ کیا پھر توڑ دیا.دعوت الی اللہ تو مسلسل رابطہ اور ذاتی تعلق سے ہوتی ہے.پہلے ایک جگہ پر پلان کر کے جائیں پھر دوسری جگہ پر ، پھر تیسری جگہ پر پھر جائزہ لیں کہ کن کن کو دلچسپی ہے پھر وہاں زور لگائیں اور با قاعدہ پروگرام بنا کر کام کریں.الفضل انٹر نیشنل 30 جون تا 06 جولائی 2006 ء )

Page 26

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 14 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 12 مئی 2006ء سے اقتباسات دعوت الی اللہ کے ساتھ اپنی اصلاح بھی کریں ہر احمدیکو چاہئے کہ صرف اس بات پر ہی انحصار نہ کریں کہ (مربیان ) یہ کام کریں گے بلکہ خود اپنے آپ کو اس کام میں ڈالیں لیکن ( دعوت الی اللہ ) کے کام میں ڈالنے سے پہلے خود اپنے جائزے لیں کہ کس حد تک خود اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں.اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں.خود اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑیں ، خود اپنی زندگیوں کو ( دین حق) کی تعلیم کے مطابق ڈھالیں، جنہوں نے یہاں کی عورتوں سے شادیاں کی ہوئی ہیں ان کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں.ان کے عزیزوں، رشتہ داروں کو ( دین حق ) کی خوبصورت تعلیم کا پیغام پہنچا ئیں.آپ کے اپنے عملی نمونے ہی ہیں جو ان لوگوں کی توجہ آپ کی طرف کھینچنے کا باعث بنیں گے.اگر صرف دنیا داری ہی آپ کے سامنے رہی اور دنیا داری کی طرف ہی جھکے رہے تو پھر کس منہ سے آپ ( دین حق کی طرف بلانے والے بنیں گے.پس یہ عملی نمونے قائم کرنے کی کوشش کریں اور یہ تبدیلی آپ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے سب سے پہلا کام اس کے آگے جھکنا، اس کی عبادت کرنا اس کی طرف توجہ کرنا ہے، اور یہ تعلق جوڑنے کے لئے سب سے اہم بات جو آپ نے کرنی ہے اور جس کے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے وہ اپنی عبادتوں کی طرف توجہ اور اپنی نمازوں کی حفاظت ہے اور اس کے بغیر ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑا جا سکے.یہی نمازوں کی حفاظت ہے جو آپ میں اور آپ کے بیوی بچوں میں اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کا باعث بنے گی.یہی ہے جو آپ کو احمدیت یعنی حقیقی (دین حق) کی خوبیوں کو دوسروں تک پہنچانے اور اس کے بہترین پھل حاصل کرنے کا باعث بنے گی.اور یہی چیز ہے جس سے آپ کی دنیاوی ضروریات بھی خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق پوری فرمائے گا.پس اپنی نمازوں میں با قاعدگی اختیار کریں اور اس کے مقابلے پر ہر چیز کو نیچ سمجھیں ، اور یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہر چیز سے زیادہ تمہارے دل میں میری یاد کی اہمیت ہونی چاہئے اور یہ بھی ہو سکتا ہے

Page 27

15 مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جب تم ہمیشہ میرے احسانوں کو یاد کرتے رہو، میرے شکر گزار بندے بنے رہو.اور جب اس طرح شکر گزار بنو گے تو پھر سمجھا جائے گا کہ تمہاری نمازیں ، تمہاری عبادتیں ، میری رضا حاصل کرنے کے لئے ہیں.اپنی عبادت کا حکم دیتے ہوئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ {إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي.وَاَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى ( ہ :15 ) یقینا میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کئی معبود نہیں.پس میری عبادت کر اور میرے ذکر کے لئے نماز کو قائم کر..بچوں کو بھی نمازی بنائیں...چھ بچوں کو نمازوں کی عادت ڈالنے کے بارے میں حکم ہے.اکثر کو یہ حکم یاد بھی ہوگا، سنتے بھی رہتے ہیں لیکن عمل کی طرف بہت کم توجہ ہے.ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو نمازیں پڑھنے کی عادت ڈالیں.صرف فرض پورا کرنے کے لئے عادت نہ ڈالیں بلکہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت راسخ کر دیں تا کہ وہ یہ سمجھ کر نماز پڑھنے والے ہوں کہ یہ ہمارے فائدے کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہی ہماری دنیا و آخرت کی بقا ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک آپ والدین خود بھی اللہ تعالیٰ سے خالص تعلق نہ جوڑیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سات سال کی عمر کے بچے کو نماز پڑھنے کی تلقین کرنے کی تاکید فرمائی ہے اور فرمایا کہ جب بچے دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پرسختی کرو اور فرمایا اس عمر میں بچوں کو اکٹھے ایک بستر پر بھی نہ سلاؤ.تو نماز نہ پڑھنے پرسختی آپ لوگ اس وقت کر سکتے ہیں جب کہ خود آپ کے عمل ہی ایسے ہوں جو بچوں کے لئے نمونہ ہوں.نما زیں اللہ تعالیٰ کے لئے پڑھی جانے والی ہوں نہ کہ دنیاوی اغراض کے لئے.اور جب اس طرح نمازیں پڑھی جائیں گی تو وہ جہاں آپ کو اور آپ کے بچوں کو اللہ کا قرب دلانے والی ہوں گی اور دنیا و آخرت سنوار نے والی ہوں گی وہاں معاشرے میں بھی اس پاک تبدیلی کا اثر نظر آئے گا.آپ کے دلوں کے کینے اور بغض بھی نکلیں گے.اور اس طرح سے ہر ایک کو جماعت کے وقار کو اونچا کرنے کی بھی فکر رہے گی.معاشرے میں بھی نیک اثر قائم ہوگا.جن لوگوں نے یہاں جاپانی عورتوں سے شادیاں کی ہوئی ہیں ان کے خاندانوں میں بھی احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملے گی جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں.اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کے نیک اثر بھی قائم ہوں گے.الفضل انٹر نیشنل 2 تا 8 جون 2006ء)

Page 28

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 16 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 26 مئی 2006 ء سے اقتباسات حسد اور بدظنی سے عیب لگانے سے پر ہیز کریں بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں سے کسی ناراضگی یا کسی غلط فہمی یا بدظنی کی وجہ سے اس حد تک اپنے دلوں میں کینے پالنے لگ جاتے ہیں کہ دوسرے شخص کا مقام اوروں کی نظر میں گرانے کے لئے ، معاشرے میں انہیں ذلیل کرنے کے لئے ، رسوا کرنے کے لئے.ان کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر کے پھر اس کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں اور اس بات سے بھی دریغ نہیں کرتے کہ یہ من گھڑت اور جھوٹی باتیں مجھے پہنچائیں تا کہ اگر کوئی کارکن یا اچھا کام کرنے والا ہے تو اس کو میری نظروں میں گرا سکیں.اور پھر یہی نہیں بلکہ بڑے اعتماد سے بعض لوگوں کے نام گواہوں کے طور پر بھی پیش کر دیتے ہیں اور جب ان گواہوں سے پوچھو، گواہی لو تحقیق کرو تو پتہ چلتا ہے کہ گواہ بیچارے کے فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ کوئی ایسا واقعہ ہوا بھی ہے یا نہیں جس کی گواہی ڈلوانے کے لئے کوشش کی جارہی ہے.اور پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ مجھے مجبور کیا جاتا ہے کہ میں ان جھوٹی باتوں پر یقین کر کے جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے ضرور اسے سزا بھی دوں.گویا یہ شکایت نہیں ہوتی ایک طرح کا حکم ہوتا ہے.بہت سی شکایات درست بھی ہوتی ہیں.لیکن اکثر جو ذاتی نوعیت کی شکایات ہوتی ہیں وہ اس بات پر زور دیتے ہوئے آتی ہیں کہ فلاں فلاں شخص مجرم ہے اور اس کو فوری پکڑیں.ان باتوں پر میں خود بھی کھٹکتا ہوں کہ یہ شکایت کرنے والے خود ہی کہیں غلطی کرنے والے تو نہیں، اس کے پیچھے دوسرے شخص کے خلاف کہیں حسد تو کام نہیں کر رہا.اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ حسد کی وجہ سے یہ کوشش کی جارہی ہوتی ہے کہ دوسرے کو نقصان پہنچایا جائے.یہ حسد بھی اکثر احساس کمتری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ سے تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.اس خیال کے دل میں نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ خدا جھوٹے اور حاسد کی مدد نہیں کرتا.اور حسد

Page 29

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 17 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی کی وجہ سے یا بدظنی کی وجہ سے دوسرے پر الزام لگانے میں بعض لوگ اس حد تک گر جاتے ہیں کہ اپنی عزت کا بھی خیال نہیں رکھتے.آج کل کے معاشرے میں یہ چیزیں عام ہیں اور خاص طور پر ہمارے برصغیر پاک و ر ہند کے معاشرے میں تو یہ اور بھی زیادہ عام چیز ہے.اور اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی بعض دفعہ ایسی گھٹیا سوچ رکھ رہے ہوتے ہیں اور دنیا میں یہ لوگ کہیں بھی چلے جائیں اپنے اس گندے کیریکٹر کی کبھی اصلاح نہیں کر سکتے یا کرنا نہیں چاہتے.اور آج کل کے اس معاشرے میں جبکہ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے، غیروں سے گھلنے ملنے کی وجہ سے ان برائیوں میں جن کو ہمارے بڑوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر ترک کیا تھا بعضوں کی اولادیں اس سے متاثر ہو رہی ہیں.ہمارے احمدی معاشرہ میں ہر سطح پر یہ کوشش ہونی چاہئے کہ احمدی نسل میں پاک اور صاف سوچ پیدا کی جائے.اس لئے ہر سطح پر جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کے نظام کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے کہ خاص طور پر یہ برائیاں، حسد ہے، بدگمانی ہے، بدظنی ہے، دوسرے پر عیب لگانا ہے اور جھوٹ ہے اس برائی کو ختم کرنے کے لئے کوشش کی جائے، ایک مہم چلائی جائے.ہراحمدی خطبات کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھے کچھ عرصہ ہوا ہر برائی کو لے کر میں نے ایک ایک خطبہ بڑی تفصیل سے اس بارے میں دیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے اچھے نتائج بھی نکلے تھے لیکن انسان کی فطرت ہے کہ اگر بار بار یاددہانی نہ کرائی جائے تو بھول جاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں فَذَکر کا حکم دیا ہے.اس یاد دہانی سے جگالی کرنے کا بھی موقع ملتا رہتا ہے اور بہت سے ایسے ہیں جن کو اگر اصلاح کے لئے ذرا سی توجہ دلا دی جائے تو اصلاح کی کوشش بھی کرتے ہیں.ان کو صرف ہلکی سی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے.ہاں بعض ایسے بھی ہیں جو کوئی نصیحت سن کر یا کوئی خطبہ سن کر جو کبھی میں نے کسی خاص موضوع پر دیا یہ کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں نہیں بلکہ فلاں کے بارے میں ہے اور پھر بڑی ڈھٹائی سے خطبے کا حوالہ دے کر مجھے بھی لکھتے ہیں کہ آپ نے فلاں خطبہ دیا تھا اس کے حوالے سے میں آپ کو لکھ رہا ہوں کہ فلاں عہد یدار یا فلاں احمدی ان حرکتوں میں ملوث ہے، ان برائیوں میں گھرا ہوا ہے اس کی اصلاح کی طرف آپ توجہ دیں.اور جیسا کہ میں نے کہا اگر تحقیق کرو تو پتہ چلتا

Page 30

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 18 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہے کہ سب سے زیادہ اس برائی میں وہ شکایت کنندہ خود گرفتار ہے.پس ہر احمدی کو چاہئے کہ جب بھی کوئی نصیحت سنے یا خلیفہ وقت کی طرف سے کسی معاملے میں توجہ دلائی جائے تو سب سے پہلا مخاطب اپنے آپ کو سمجھے.اگر اپنی اصلاح کرنی چاہتے ہیں ، اگر معاشرے سے گند ختم کرنا چاہتے ہیں، اگر خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنا چاہتے ہیں تو یہ تمام برائیاں ایسی ہیں.ان کو اپنے دلوں سے نکالیں.اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ہمیں توجہ دلائی ہے.پس یہ اہم بیماریاں ہیں جو انسان کے اپنے اندر سے بھی روحانیت ختم کرتی ہیں اور پھر شیطانیت کی دلدل میں دھکیل دیتی ہیں اور معاشرے کا امن وسکون بھی برباد کرتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی پاکیزہ کتاب میں ان سے بچنے کی طرف توجہ دلائی ہے تا کہ ایک مومن ہرلمحہ پاکیزگی اور روحانیت میں ترقی کرتا چلا جائے.اس مقصد کے لئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تا کہ روحانیت میں ترقی کی طرف ہمیں لے کر چلیں اور ایک احمدی نے آپ سے عہد بیعت باندھا ہے.اگر اس عہد بیعت کے بعد بھی برائیوں میں مبتلا ر ہے اور معاشرے میں فتنہ و فساد پیدا کرتے رہے تو پھر اس عہد بیعت کا کیا فائدہ ہے.پس ہر ایک کو پہلے اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے ، نیکی کے جو احکامات ہیں ان کی جگالی کرتے رہنا چاہئے اور جب اپنے آپ کو ہر طرح سے پاک وصاف پائیں تو پھر دوسرے پر الزام لگانا چاہئے.حسد کی بجائے رشک کریں.....حسد کرنے والے کی حالت ایسی ہے جیسے جہنم کی پیپ پینے والے کی.اللہ تعالیٰ پر جو ایک مومن کا ایمان ہے، حسد اس کو ضائع کرنے کا بھی باعث بنتا ہے.یا حسد کرنا جو ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جہنم میں لے جانے والی چیز ہے.پس یہ انتہائی خوف کا مقام ہے.یہ حسد کرنے والے دوسرے کو عارضی اور وقتی طور پر جو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اس کا تو مداوا ہو جاتا ہے لیکن یہ اس حسد کی وجہ سے اپنے ایمان کو ضائع کر کے پھر جہنم اپنے اوپر سمیٹر رہے ہوتے ہیں.اس لئے کسی کی ترقی دیکھ کر کسی کا خلافت کے ساتھ زیادہ قرب دیکھ کر کسی پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش دیکھ کر حسد کرنے کی بجائے اس پر رشک کرنا چاہئے اور خود وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پہ یہ بات بھی ہر احمدی کو اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے.آپس کے سلام محبت پیدا کرنے کے لئے

Page 31

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 19 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہیں.یہ نہیں ہے کہ اوپر سے تو سلام کر رہے ہوں اور اندر سے بغض اور کینے اور حسد کی وجہ سے دوسروں کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کر رہے ہوں.شکایت کے جھوٹے پلندوں کی بھر مار ہو رہی ہو.اگر دل اس دو عملی سے پاک اور صاف نہیں ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ دل پاک نہیں ہے اور اس میں کامل ایمان بھی نہیں ہے.عیب اور الزام نہ لگائیں پھر بغیر سوچے سمجھے دوسرے پر عیب لگانے کی عادت ہے ، الزام لگانے کی عادت ہے.ایسے لوگوں کو جو دوسرے پر عیب لگاتے ہیں خدا تعالیٰ نے فاسق اور ظالم کہا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے کہ {وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ } (الحجرات: 12) اور اپنے لوگوں پر عیب مت لگایا کرو اور ایک دوسرے کو نام بگا ڑ کر نہ پکارا کرو، ایمان کے بعد فسوق کا داغ لگ جانا بہت بری بات ہے.اور جس نے توبہ نہ کی تو یہی وہ لوگ ہیں جو ظالم ہیں.پس ہر احمدی کو جس نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے اس کو اپنے ایمان کی حفاظت کرنی چاہئے اور اپنے آپ کو اس بُرے نام یعنی فاسق ہونے سے بچانا چاہئے.فاسق وہ شخص ہے جو نیکی سے ہٹا ہوا ہواور بدکار ہو.پس کسی دوسرے پر بدکاری کا یا کوئی اور الزام لگانے یا عیب تلاش کرنے کی بجائے ، اس کے پیچھے پڑ جانے کی بجائے اور اس وجہ سے خود اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس بات کا مجرم ٹھہرنے کی بجائے ، ہر ایک کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے اور اس ظلم سے باز آنا چاہئے.بدظنی سے بچیں....پھر ایک برائی بدگمانی ہے، بدظنی ہے، خود ہی کسی کے بارے میں فرض کر لیا جاتا ہے کہ فلاں دو آدمی فلاں جگہ بیٹھے تھے اس لئے وہ ضرور کسی سازش کی پلاننگ کر رہے ہوں گے یا کسی برائی میں مبتلا ہوں گے.اور پھر اس پر ایک ایسی کہانی گھڑ لی جاتی ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا.اور پھر اس سے رشتوں میں بھی دراڑیں پڑتی ہیں.دوستوں کے تعلقات میں بھی دراڑیں پڑتی ہیں.معاشرے میں بھی فساد پیدا ہوتا ہے.اس لئے قرآن کریم میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس برائی سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے.فرمایا {يَايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا } (سورة الحجرات آیت ۳۱)

Page 32

20 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخام ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم کہ اے ایمان والوں بہت سے گمانوں سے بچتے رہا کرو، کیونکہ بعض گمان گناہ بن جاتے ہیں اور تجسس سے کام نہ لیا کرو.پس اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اس سے ذاتی تعلقات میں بہتری کی بنیاد قائم رہے گی اور اسی سے معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہوگا.بعض لوگ بعض کے بارے میں بدظنیاں صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ذلیل کیا جائے اور دوسروں کی نظروں سے گرایا جائے اور اگر کسی جماعتی عہدیدار سے یا خلیفہ وقت سے اس کا خاص تعلق ہے تو اس تعلق میں دُوری پیدا کی جائے اور اکثر پیچھے ذاتی عناد ہوتا ہے.جب بدظنیاں شروع ہوتی ہیں تو پھر تجسس بھی بڑھتا ہے اور پھر ہر وقت یہ بدظنیاں کرنے والے اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ کسی طرح دوسرے کے نقائص پکڑیں اور اس کی بدنامی کریں.محمود غزنوی اور ایاز کا ایک واقعہ ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک بادشاہ محمود غزنوی کا ایک خاص جرنیل تھا.بڑا قریبی آدمی تھا.اس کا نام ایاز تھا.انتہائی وفادار تھا اور اپنی اوقات بھی یادر کھنے والا تھا.اس کو پتہ تھا کہ میں کہاں سے اٹھ کر کہاں پہنچا ہوں.اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد کرنے والا تھا اور بادشاہ کے احسانوں کو بھی یادر کھنے والا تھا.ایک دفعہ ایک معر کے سے واپسی پر جب بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ جارہا تھا تو اس نے ایک جگہ پڑاؤ کے بعد دیکھا کہ ایاز اپنے دستے کے ساتھ غائب ہے.تو اس نے باقی جرنیلوں سے پوچھا کہ وہ کہاں گیا ہے تو ارد گرد کے جو دوسرے لوگ خوشامد پسند تھے اور ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ کسی طرح اس کو بادشاہ کی نظروں سے گرایا جائے اور ایاز کے عیب تلاش کرتے رہتے تھے تو انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا کہ بادشاہ کو اس سے بدظن کریں.اپنی بدظنی کے گناہ میں بادشاہ کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے.انہوں نے فوراً ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں جس سے بادشاہ کے دل میں بدظنی پیدا ہو.بادشاہ کو بہر حال اپنے وفادار خادم کا پتہ تھا.بدظن نہیں ہوا.اس نے کہا ٹھیک ہے تھوڑی دیر دیکھتے ہیں.آ جائے گا تو پھر پوچھ لیں گے کہ کہاں گیا تھا.اتنے میں دیکھا تو وہ کمانڈر اپنے دستے کے ساتھ واپس آ رہا ہے اور اس کے ساتھ ایک قیدی بھی ہے.تو بادشاہ نے پوچھا کہ تم کہاں گئے تھے.اس نے بتایا کہ میں نے دیکھا کہ آپ کی نظر بار بار سامنے والے پہاڑ کی طرف اٹھ رہی تھی تو مجھے خیال آیا ضرور کوئی بات ہو گی مجھے چیک کر لینا چاہئے ، جائزہ لینا چاہئے ، تو جب میں گیا تو میں نے دیکھا کہ یہ شخص جس کو میں قیدی بنا کر لایا ہوں ایک پتھر کی اوٹ میں چھپا بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں تیر کمان تھی تا کہ

Page 33

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 21 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جب بادشاہ کا وہاں سے گزر ہو تو وہ تیر کا وار آپ پر چلائے.تو جو سب باقی سردار وہاں بیٹھے تھے جو بدظنیاں کر رہے تھے اور بادشاہ کے دل میں بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ سب اس بات پر شرمندہ ہوئے.اس واقعہ سے اہم سبق تو اس واقعہ سے ایک سبق بدظنی کے علاوہ بھی ملتا ہے کہ ایاز ہر وقت بادشاہ پر نظر رکھتا تھا.ہر اشارے کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا.پس یہ بھی ضروری ہے کہ جس سے بیعت اور محبت کا دعویٰ ہے اس کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے اور اس کے ہر اشارے اور حکم پر عمل کرنے کے لئے ہر احمدی کو ہر وقت تیار رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہر حکم کو ماننے کے لئے بلکہ ہر اشارے کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے.خلیفہ وقت کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں تو ان باتوں پر بھی عمل کرنے کی کوشش کریں جن کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو سبھی بیعت کا حق ادا ہوسکتا.ہے.الفضل انٹر نیشنل 16 تا 22 جون 2006ء )

Page 34

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 22 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 09 جون 2006ء سے اقتباسات يا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأَوْلَى الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُوْلِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ إِلَّا خِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (سورة النساء آیت:60) جماعت احمدیہ میں خلافت کی اطاعت اور نظام جماعت کی اطاعت پر جو اس قدر زور دیا جاتا ہے یہ اس لئے ہے کہ جماعتی نظام کو چلانے کے لئے یک رنگی پیدا ہونی ضروری ہے اور اس زمانے کے لئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہے کہ مسیح موعود کے آنے کے بعد جو خلافت قائم ہوتی ہے وہ عَلى مِنْهَاجِ النُّبُوَّة ہونی ہے اور وہ دائمی خلافت ہے اور جس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے.کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.پھر آپ نے فرمایا کہ: ”خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں.ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں“.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309) خلافت کی اطاعت نہایت اعلیٰ درجہ کی ہو پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس دائمی قدرت کے ساتھ وابستہ رہنے کے لئے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے جُڑے رہنے اور خلافت سے وابستہ رہنے کے لئے ، اطاعت کے وہ معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے جو اعلیٰ درجہ کے ہوں جن سے باہر نکلنے کا کسی احمدی کے دل میں خیال تک پیدا نہ ہو.بہت سارے مقام آسکتے ہیں جب نظام جماعت کے خلاف شکوے پیدا ہوں.ہر

Page 35

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 23 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ایک کی اپنی سوچ اور خیال ہوتا ہے اور کسی بھی معاملے میں آراء مختلف ہو سکتی ہیں، کسی کام کرنے کے طریق سے اختلاف ہوسکتا ہے.لیکن نظام جماعت اور نظام خلافت کی مضبوطی کے لئے جماعتی نظام کے فیصلہ کو یا امیر کے فیصلہ کو تسلیم کرنا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت نے اس فیصلے پر صاد کیا ہوتا ہے یا امیر کو اختیار دیا ہوتا ہے کہ تم میری طرف سے فیصلہ کر دو.اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ یہ فیصلہ غلط ہے اور اس سے جماعتی مفاد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے تو خلیفہ وقت کو اطلاع کرنا کافی ہے.پھر خلیفہ وقت جانے اور اس کا کام جانے.اللہ تعالیٰ نے اس کو ذمہ دار اور نگران بنایا ہے اور جب خلیفہ، خلافت کے مقام پر اپنی مرضی سے نہیں آتا بلکہ خدا تعالیٰ کی ذات اس کو اس مقام پر اس منصب پر فائز کرتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ اس کے کسی غلط فیصلے کے خود ہی بہتر نتائج پیدا فرما دے گا.کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ خلافت کی وجہ سے مومنوں کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا.مومنوں کا کام صرف یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے احکامات کی بجا آوری کریں اور اس کے رسول کے حکموں کی پیروی کرنے کی کوشش کریں اور کیونکہ خلیفہ نبی کے جاری کردہ نظام کی بجا آوری کی جماعت کو تلقین کرتا ہے اور شریعت کے احکامات کو لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے اس کی اطاعت بھی کرو اور اس کے بنائے ہوئے نظام کی اطاعت بھی کرو.اور افراد جماعت کی یہ کامل اطاعت اور خلیفہ وقت کے اللہ کے آگے جھکتے ہوئے ، اس سے مدد مانگتے ہوئے کئے گئے فیصلوں میں اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے اور اپنے بنائے ہوئے خلیفہ کو دنیا کے سامنے رسوا ہونے سے بچانے کے لئے برکت ڈال دے گا.کمزوریوں کی پردہ پوشی فرمادے گا اور اپنے فضل سے بہتر نتائج پیدا فرمائے گا اور من حیث الجماعت اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو ہمیشہ بڑے نقصان سے بچالیتا ہے اور یہی ہم نے اب تک اللہ تعالیٰ کا جماعت سے اور خلافت احمدیہ سے سلوک دیکھا ہے اور دیکھتے آئے ہیں.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ {يَا يُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأَوْلِي الأمْرِ مِنْكُمْ.} (سورۃ النساء آیت: 60) اے وہ لوگو! جوایمان لائے ہو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی.اور اگر تم کسی معاملہ میں اولوالامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو.اگر فی الحقیقت تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو.یہ بہت بہتر طریق ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے.یعنی تمہارا کام

Page 36

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 24 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اطاعت کرنا ہے اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پوری پیروی کرو.پہلے اپنے آپ کو دیکھ کہ تم اللہ کے حکموں کی پیروی کر رہے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے جو احکامات اتارے ہیں، پہلے تو ان کا فہم و ادراک حاصل کرو، کیا وہ تمہیں حاصل ہو گیا ہے.اور جب مکمل طور پر حاصل ہو گیا ہے تو پھر اُن احکامات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ اور جب ایک شخص خود اس پر عمل کرنے لگ جائے گا اور اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر بھی عمل کر رہا ہوگا تو پھر وہ شاید اپنے خیال میں یہ کہنے کے قابل ہو سکتا ہے کہ ہاں اب میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں.لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی ، یہ آیت ہمیں کچھ اور بھی کہتی ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم علمی اور عملی لحاظ سے احکام شریعت کے بہت پابند ہیں اور علم رکھنے والے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جو غیب کا علم بھی رکھتا ہے اور حاضر کا علم بھی رکھتا ہے اور جو آئندہ ہونے والا ہے اس کا علم بھی رکھتا ہے اس کو پتہ تھا کہ اگر صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا کہ دیا تو کئی نام نہاد علماء اور بزم خویش سنت رسول پر چلنے والے پیدا ہوں گے اور جو جماعت کی برکت ہے وہ نہیں رہے گی اور ہر ایک نے اپنی ایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہوگی اور اپنے محدود علم کوہی انتہا مجھیں گے اور آج ہم مسلمانوں میں دیکھتے ہیں تو یہی کچھ نظر آتا ہے.لیکن یہ جو زعم ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے حکم پر عمل کر رہے ہیں، اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہلوا کر ختم کر دیا کہ مسیح موعود کے آنے کے بعد اس کو مانا ضروری ہے اور پھر اس کے بعد جو خلافت على مِنْهَاجِ النُّبُوَّة قائم ہوتی ہے اس کی اطاعت بھی ضروری ہے.ورنہ یہ دعوی ہے کہ ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کر لی.اور پھر اس سے آگے اللہ تعالیٰ نے نظام جماعت میں یکرنگی پیدا کرنے کے لئے اور اس نظام کی حفاظت کے لئے یہ بھی فرما دیا کہ اولوالامر کی بھی اطاعت کرو.صرف مسیح موعود کو جو مان لیا اس کے بعد جو نظام مسیح موعود کی جماعت میں، نظام خلافت کے قائم ہونے سے قائم ہوا ہے اس کی بھی اطاعت کرو.جماعتی نظام ایک اعلیٰ انتظام ہے آج ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اور ہم اس نظام میں پروئے گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کی طرف توجہ دلا تار ہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف بھی توجہ دلاتا رہتا ہے اور ہم دوسرے مسلمان فرقوں کی طرح بکھرے ہوئے نہیں بلکہ خلافت کی برکت کی وجہ سے ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور یہ بھی

Page 37

25 ارشادات حضرت خلیفہ اسی الخامس ایدہ اللہ عالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے وعدے کے مطابق علوم ظاہری و باطنی سے پر ، ذہین اور فہیم، ایسا موعود بیٹا عطا فرمایا جس نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے ہم میں چھوٹی سے چھوٹی سطح سے لے کر ملکی اور پھر مرکزی سطح پر ایک ایسا جماعتی ڈھانچہ بنا کر دے دیا جس میں نہ صرف جماعت کے انتظامی معاملات بلکہ تربیتی ( دعوت الی اللہ کے ) تعلیمی ، تمام قسم کے معاملات جو ہیں ،سب کا ایک اعلیٰ انتظام موجود ہے.پھر جماعت کے ہر طبقے کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرنے کے لئے ، ہر طبقے کے ہر شخص کو جماعتی معاملات میں شامل کرنے اور اس کو اس کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے ذیلی تنظیموں ،خدام، اطفال، لجنہ ، ناصرات، انصار کا قیام فرمایا.آج یہی وجہ ہے کہ جماعت کا ہر وہ شخص، ہر وہ بچہ اور جوان اور عورت جس کا اپنی تنظیموں سے ابتدائی عمر سے رابطہ ہے وہ ان تنظیموں میں شمولیت کی وجہ سے جماعتی ڈھانچے اور اطاعت کے مضمون کو سمجھتے ہیں.ان تنظیموں میں ابتداء سے حصہ لینے والے کو علم ہے کہ ان کی حدود کیا ہیں، اس کی ذیلی تنظیموں کی حدود کیا ہیں جماعتی نظام کی اہمیت کیا ہے اور خلیفہ وقت کی اطاعت کس طرح کرنی ہے.بعض نادانوں کے اعتراضات لیکن بعض دفعہ دنیا داری کی وجہ سے اپنی اہمیت اور انا کی وجہ سے بعض لوگوں کی آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے اور باوجود اس اہمیت کا علم ہونے کے کہ اطاعت میں کتنی برکت ہے بعض ایسی باتیں کر جاتے ہیں جس سے اگر جماعتی نظام متاثر نہ بھی ہو تو پھر بھی بعض کمزور ایمان والوں یا نئے آنے والوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن جاتے ہیں.مثلاً اگر کوئی کمیشن کسی بارے میں قائم ہوا ہے کہ تحقیق کر کے بتا ئیں ، بعض لوگوں کے بعض معاملات کی رپورٹ دیں یا بعض دفعہ کوئی معاملہ خلیفہ وقت کی طرف سے بھجوایا جاتا ہے کہ اس بارے میں جائزہ اور رپورٹ دیں تو تحقیق کرنے کے بعد یا جائزہ لینے کے بعد جور پورٹ بھجوائی جاتی ہے اگر خلیفہ وقت اس کے مطابق کوئی فیصلہ نہ کرے تو اور کچھ نہیں کہہ سکتے تو جماعت میں یا کم از کم اس طبقے میں یہ بات کہہ کر بے چینی پیدا کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو یوں لکھا تھا پتہ نہیں نیشنل امیر نے یا مرکزی عاملہ نے رپورٹ بدل کر بھیج دی ہے یاخلیفہ وقت نے اس کے الٹ فیصلہ دیا ہے.بہر حال ہم نے تو یہ رپورٹ نہیں دی تھی.تو یہ ایسی بات ہے جو یقیناً جماعت میں فتنے کا باعث بن سکتی ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ایسی باتوں سے احتراز

Page 38

26 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم کرنا چاہئے.اگر کسی سطح پر آپ لوگوں کو خدمت کا موقع دیا گیا ہے تو اس کو فضل الہی سمجھیں اور اُن حدود کے اندر ہی رہیں جو مقرر کی گئی ہیں اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں.بعض لوگ بیوقوفی اور کم علمی کی وجہ سے ایسی باتیں کرتے ہیں، بعض اپنی انا کی وجہ سے.اور مختلف ملکوں میں ایسے معاملات اکا دکا اٹھتے رہتے ہیں اور توجہ دلانے پر پھر احساس بھی ہو جاتا ہے اور معافی بھی مانگتے ہیں.عہد یدار اپنے آپ کو عقل کل نہ سمجھیں لیکن آج میں خطبے میں اس بات کا ذکر اس لئے بھی کر رہا ہوں کہ یہ سب کو بتا دوں کہ جو فتنے کے لئے یہ باتیں کرتے ہیں ان کے علم میں آجائے کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کافی میچور (Mature) ہو چکی ہے.اپنی بلوغت کو پہنچ چکی ہے اور ایسے لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے خدمت کا موقع دے دیا ہے وہ بھی اپنی نظر اور سوچ کو اپنی ذات کے محور سے نکالیں.پھر بعض لوگ اپنی رائے اور عقل کو سب سے بالا سمجھتے ہیں وہ بھی اس خول سے نکلیں.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں عقل رکھنے والے بھی بہت ہیں.علم رکھنے والے بھی بہت ہیں، تقویٰ پر چلنے والے بھی بہت ہیں تعلق باللہ والے بھی ہیں، اس لئے ہر خدمت گزار جس کو کسی بھی سطح پر خدمت کا موقع ملتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہوئے اور کامل اطاعت کے ساتھ اس خدمت کی برکات سے فیض اٹھائیں ورنہ اگر کوئی بھی عہدیدار کسی بھی سطح پر کھلے دل سے اور بغیر کوئی خیال دل میں لائے خلیفہ وقت کی اطاعت نہیں کرے گا تو اس کے عہدے کی حدود میں اس سے نیچے کام کرنے والے بھی اس کی اطاعت نہیں کریں گے.اور کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ایک وقت تک ایسے لوگوں کو موقع دیتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا خدمت کو اللہ کا فضل سمجھیں، ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ ایسے لوگوں کی وہاں تک پردہ پوشی ہوتی ہے یا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے جب تک کہ ان کی خدمت جماعت کے مفاد میں رہے.یہاں میں خطبہ دے رہا ہوں اس لئے یہ واضح کر دوں کہ صرف یہاں نہیں بلکہ بعض دوسرے ملکوں میں بھی بعض عہد یدار اپنے آپ کو عقل گل سمجھتے ہیں اور وہ بھی اپنے تکبر اور انانیت میں پڑے ہوئے ہیں.ان کو بھی اپنے خول سے باہر آنا چاہئے.کیونکہ یہی عادت بن چکی ہے کہ جہاں خطبہ دیا جارہا ہوں، لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی مخاطب ہیں.بلکہ جہاں جہاں بھی یہ بیماریاں یا برائیاں ہیں اور ہر جگہ کے وہ لوگ، لوگوں کے

Page 39

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 27 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطوط کے ذریعہ سے میرے علم میں آتے رہتے ہیں ، ہر اس جگہ پر جہاں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے ذہنوں میں خناس سمایا ہوا ہے ان کو اس سے باہر نکلنا چاہئے اور استغفار کرنی چاہئے.ہر کمیشن تقوی شعار لوگوں پر مشتمل ہونا چاہیے دوسرے نیشنل امراء سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب کسی بھی قسم کی تحقیق کے لئے کمیشن بناتے ہیں تو تلاش کر کے تقویٰ شعار لوگوں کے سپرد یہ کام کیا کریں.یا اگر میرے پاس کسی کمیشن کے بنانے کی تجویز دی جاتی ہے تو ایسے لوگوں کے نام آیا کریں جو تقویٰ پر چلنے والے ہوں اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں اور اطاعت کے اعلیٰ معیار کے حامل ہوں.کسی بھی فریق سے ان کا کسی بھی قسم کا تعلق نہ ہو.عہد یدار خلیفہ وقت کی اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کریں اسی طرح امراء اور مرکزی عہدیداران کو بھی میں کہتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ جماعت کے تعاون اور اطاعت کے معیار بڑھیں تو خود خلیفہ وقت کے فیصلوں کی تعمیل اس طرح کریں جس طرح دل کی دھڑکن کے ساتھ نبض چلتی ہے.یہ معیار حاصل کریں گے تو پھر دیکھیں کہ ایک عام احمدی کس طرح اطاعت کرتا ہے کیونکہ ایک احمدی کے لئے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے اور اس یقین پر قائم ہے کہ اب یہ سلسلۂ خلافت چلنا ہے انشاء اللہ اور جیسا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ دائگی اور ہمیشہ رہنے والا سلسلہ ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان میں ترقی کرنے والے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرنے والے ہوں گے، تو احمدی کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد سب سے زیادہ اطاعت اولوالامر کے طور پر خلیفہ وقت کی اطاعت ہے.پھر مرتبے کے لحاظ سے ہر سطح پر جماعتی نظام کا ہر عہد یدار قابل اطاعت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نظام اور اولوالامر کی اطاعت یہ معیار بنے گی تمہارے ایمان کی حالت کی اور اس بات کی کہ حقیقت میں تم یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو.اس یقین پر قائم ہو کہ مرنے کے بعد خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہاں یہ سوال بھی ہونا ہے کہ تم نے اپنی بیعت کے بعد اپنی اطاعت کے معیار کو کس حد تک بڑھایا ہے.وہاں غلط بیانی ہو نہیں سکتی.کیونکہ جسم کے ہر عضو نے گواہی دینی ہے اور اس دن کسی کا کوئی

Page 40

28 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم عضو بھی اس کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہوگا اس کی اپنی بات نہیں مانے گا بلکہ وہی کہے گا جو حق ہے، حقیقت ہے اور بیچ ہے.پس اگر آخرت پر یقین ہے اور بہتر انجام چاہتے ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ اولوالامر کے ہر حکم کو بھی مانو.اس کی کسی بات کو تخفیف کی نظر سے نہ دیکھو.کیسے ہی حالات ہوں اطاعت کا دامن کبھی نہ چھوڑو.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اس سے دنیاوی حاکم بھی مراد ہیں.ان کی اطاعت کرنا بھی فرض ہے اور سوائے اس کے کہ وہ کوئی غیر شرعی حکم دیں تم نے اطاعت کرنی ہے.تو یہ عمومی حکم ہر ایک کے لئے ہے.عہد یداروں کے لئے بھی ہے اور عام احمدی کے لئے بھی ہے.بلکہ اللہ اور رسول کی طرف لوٹنے کا حکم اس لئے ہے کہ اگر کوئی دنیاوی حاکم کوئی ایسا حکم دے جو غیر شرعی ہوتو اللہ اور رسول سے رہنمائی لو، قرآن اور سنت سے رہنمائی لو.جماعتی نظام میں تو تمہیں یہ حکم نہیں ملنا جو خلاف شریعت ہو.نہ خلیفہ وقت کی طرف سے شریعت کے خلاف کوئی حکم دیا جائے گا.دنیاوی حاکموں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : "اگر حاکم ظالم ہو تو اس کو برا نہ کہتے پھرو، بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو.خدا اس کو بدل دے گا یا اسی کو نیک کر دے گا.جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بد عملیوں کے سبب آتی ہے.ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا ستارہ ہوتا ہے.مومن کے لئے خدا تعالیٰ آپ سامان مہیا کر دیتا ہے.میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو.خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو.الحکام جلد 5 نمبر 19 مورخہ 24 مئی 1901 صفحہ 9) تو ہر احمدی کو یہ سوچنا چاہئے کہ حکم عمومی طور پر ہر ایک کے لئے ہے.اس نے تو بہر حال اپنے نظام اور جو بھی عہدیدار ہے اس کی اطاعت کرنی ہے کیونکہ وہ خلیفہ وقت کا قائم کردہ نظام ہے.لیکن عہد یداروں کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ انہوں نے اگر اطاعت کے معیار بڑھانے ہیں تو خود بھی اطاعت کے اعلیٰ نمونے قائم کریں..پس میداطاعت کے معیار ہیں جو ایک احمدی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اسی سے توحید کا قیام ہونا ہے.پس اس کے لئے ہر احمدی کو، ہر مرد کو، ہر عہدیدار کو، ہر نمبر جماعت کو ، ہرمربی اور (مربی) کو کوشش کرنی چاہئے تا کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے توحید کے قیام کا جو کام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ

Page 41

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 29 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الامس ایدہ اللہ تعالی والسلام کے سپر دفرمایا ہے اس کو ہم آگے سے آگے لے جاسکیں.انشاء اللہ.جماعتی اور ذیلی عہد یداران اطاعت کا معیار بڑھائیں پس جیسا کہ میں نے کہا سب سے پہلے اس کے لئے عہد یدار یا کوئی بھی شخص جس کے سپر د کوئی بھی خدمت کی گئی ہے اپنا جائزہ لے اور اطاعت کے نمونے قائم کرے کیونکہ جب تک کام کرنے والوں میں اطاعت کے اعلیٰ معیار پیدا کرنے کی روح پیدا نہیں ہوگی، افراد جماعت میں وہ روح پیدا نہیں ہوسکتی.پس ہر لیول پر جو عہد یدار ہیں چاہے وہ مقامی عاملہ کے ممبر یا صدر جماعت ہیں، ریجنل امیر ہیں یا مرکزی عاملہ کے ممبر یا امیر جماعت ہیں اپنی سوچ کو اس سطح پر لائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقرر فرمائی ہے کہ اپنی ، اپنے نفس کی خواہشات کو ، اناؤں کو ذبح کرو.اور جب یہ مقام حاصل ہوگا تو پھر دل اللہ تعالیٰ کے نور سے بھر جائے گا اور روح کو حقیقی خوشی اور لذت حاصل ہوگی ایسا مومن جو کام بھی کرے گا وہ یہ سوچ کر کرے گا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کر رہا ہے اور یہی ایک مومن کا مقصد ہونا چاہیئے.پس جہاں جماعتی عہدیداران یہ روح اپنے قول و فعل سے جماعت میں پیدا کرنے کی کوشش کریں وہاں مربیان اور ) کا بھی کام ہے کہ اپنے قول و فعل کے اعلیٰ نمونے قائم کرتے ہوئے جماعت کی اس نہج پر تربیت کریں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چاہتے ہیں.ذیلی تنظیمیں اپنی اپنی مجالس میں اس طریق پر اپنی متعلقہ تنظیموں کے ممبران کی تربیت کریں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش ہے.اور جب اطفال اور ناصرات کے لیول سے یہ تربیتی اُٹھان ہورہی ہوگی تو بہت سے معاشرتی اور اخلاقی مسائل جو اس معاشرے میں پیدا ہورہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور ہور ہے ہوں گے.ہمارے بچے معاشرے کے غلط اثرات سے بیچ رہے ہوں گے.اس وجہ سے گھروں کا امن اور سکون پہلے سے بڑھ کر قائم ہورہا ہوگا.پس اس اطاعت کے معیار کو بڑھانے کے لئے ہر سطح پر کوشش کریں، ہر سطح پر ، ہر عہد یدار اپنے سے بالا عہدیدار کی اطاعت کرے.احباب جماعت اپنے عہد یداران کی اطاعت کریں اور سب مل کر خلافت سے بچے تعلق اور اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھا ئیں.......مر بیان کرام کو قیمتی ہدایات یہاں میں مربیان ) کو ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایک تو جیسا کہ میں نے کہا

Page 42

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 30 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی کہ جہاں جہاں بھی وہ ہیں اپنے اعلیٰ نمونے دکھاتے ہوئے امراء کی اطاعت کے نمونے دکھائیں اور اگر امیر میں یا عہد یدار میں کوئی ایسی بات دیکھیں جو جماعتی روایات کے خلاف ہو تو عہدیداران کو اور امیر کو علیحدگی میں توجہ دلائیں.حدیث میں یہی آیا ہے کہ اگر کسی امیر میں گناہ دیکھو تو تب بھی تم اس کی اطاعت کرو.توجہ دلاؤ اور اس کے لئے دعا کرو، اور اگر وہ عہدیدار اور امیر پھر بھی اپنی بات پر زور دیں اور آپ یہ سمجھتے ہوں کہ جماعتی مفاد متاثر ہورہا ہے تو پھر خلیفہ وقت کو اطلاع کر دیں لیکن یہ تاثر کبھی بھی جماعت میں نہیں پھیلنا چاہئے کہ مربی اور امیر کی آپس میں صحیح انڈرسٹینڈنگ (Understanding) نہیں ہے یا آپس میں تعاون نہیں ہے.دوسرے یہ بھی مربیان کو خیال رکھنا چاہئے کہ مربی کے لئے کبھی بھی جماعت کے کسی فرد کے ذہن میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ فلاں مربی یا ) کے فلاں شخص سے بڑے قریبی تعلقات ہیں اور اگر کوئی معاملہ اس کے سامنے پیش کیا جائے تو فلاں مربی یا ) یا واقف زندگی اس کی ناجائز طرفداری کرے گا.مربی.....) یا کسی بھی مرکزی عہدیدار کا یہ کام ہے کہ اپنے آپ کو ہر مصلحت سے بالا رکھ کر، ہر تعلق کو پس پشت ڈال کر جماعتی مفاد کے لئے کام کرنا ہے اور جماعت کے افراد کے لئے عمومی طور پر بھی اور بعض معاملات اٹھنے پر خاص طور پر بھی ، ایسا رویہ رکھیں اور تربیت کریں کہ فریقین ہمیشہ اطاعت کے دائرے میں رہیں.یہ مربیان کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جماعت میں اطاعت کی روح پیدا کر دیں.کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دینی علم سے بھی نوازا ہوا ہے.پس اس طرف خاص توجہ دیں.جماعت میں جماعت کی روح پیدا کرنے کے لئے بنیادی چیز ہی یہ ہے کہ جماعت کے ہر فرد میں اطاعت کا جذبہ اور روح پیدا کر دیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اطاعت کی طرف بہت توجہ دلائی ہے.جیسا کہ میں نے جو آیت تلاوت کی تھی اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اطاعت کرنے والوں کا ہی انجام اچھا ہے.بہت سے لوگ لکھتے ہیں کہ دعا کریں کہ انجام بخیر ہو، تو انجام بخیر کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک بہت اہم راستہ ہمیں دکھا دیا ہے کہ اللہ اور رسول اور اولوالامر کی اطاعت کرو اور اپنے اوپر یہ لازم کر لوتو اللہ تم پر رحم فرماتے ہوئے پھر تمہارا انجام بخیر کرے گا...خلیفہ وقت کی فوری اطاعت کرنی چاہیے عمومی طور پر ہر بات جو اس زمانے میں اپنے اپنے وقت میں خلفاء وقت کہتے رہے ہیں.جو خلیفہ

Page 43

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 31 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی وقت آپ کے سامنے پیش کرتا ہے، جو تربیتی امور آپ کے سامنے رکھے جاتے ہیں.ان سب کی اطاعت کرنا اور خلیفہ وقت کی ہر بات کو ماننا یہ اصل میں اطاعت ہے اور یہ نہیں ہے کہ تحقیق کی جائے کہ اصل حکم کیا تھا؟ یا کیا نہیں تھا ؟ اس کے پیچھے کیا روح تھی ؟.جو سمجھ آیا اس کے مطابق فوری طور پر اطاعت کی جائے تبھی اس نیکی کا ثواب ملے گا.ہاں اگر کوئی کنفیوژن ہے تو بعد میں اس کی وضاحت لی جاسکتی ہے.پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے اطاعت کے معیار ایسے بلند کرے اور اس تعلیم پر چلنے کی پوری کوشش کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دی ہے.جوں جوں جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل ہورہے ہیں.لیکن بہت سے نئے آنے والے کم تربیت کی وجہ سے بعض نئی باتیں لے آتے ہیں.اس لحاظ سے پرانے احمدی، معاشرے کے زیر اثر آرہے ہیں اور جو بنیادی حکم ہے اس کو بھول جاتے ہیں.اس لئے استغفار کا حکم ہے اور استغفار ہر ایک کو بہت زیادہ کرنی چاہئے.استغفار کی بہت ضرورت ہے اور یہی اللہ کا حکم ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ ترقی کے دنوں میں تم استغفار بہت کرو.کیونکہ یہ استغفار ایمانوں کو بھی مضبوط کرتی رہے گی اور اطاعت کے معیار بھی بڑھاتی رہے گی اور اس سے برائیاں دور ہوں گی.ہمیں ہر وقت یا درکھنا چاہئے کہ ہمارے اندر نہ کسی خاندان کی چھاپ نظر آئے ، نہ کسی کلچر کی چھاپ نظر آئے ، نہ کسی ملک کا باشندہ ہونے کی چھاپ نظر آئے.اگر کوئی چھاپ نظر آئے تو اس اسوہ حسنہ کی چھاپ نظر آئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اور ہمارے سامنے ہے اور جسے نکھار کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آج ہمارے سامنے پیش فرمایا.اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے تو حید کے لئے صحابہ کی سی وحدت اپنے اندر پیدا کریں اور ہر احمدی پہلے سے بڑھ کر اطاعت کے معیار دکھانے کی کوشش کرے.یہی چیز ہے جو جماعت کا وقار بلند کرنے والی ہے اور جماعت کی ترقی کا باعث بننے والی ہے اور انشاء اللہ بنے گی.اللہ ہر احمدی کو توفیق دے کہ وہ جماعت کے وقار اور تقدس کی خاطر اپنی اناؤں کو ختم کرتے ہوئے اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا ہو، نہ کہ اپنے آپ کو جماعت سے کاٹ کر جاہلیت کی موت مرنے والا ہو.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہر ایک پہ اپنا فضل فرمائے.آمین الفضل انٹر نیشنل 30 جون تا 6 جولائی 2006 ء )

Page 44

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 32 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جماعت احمد یہ جرمنی کے احمدی طلبہ کے ساتھ میٹنگ * مورخہ 19جون 2006ء کو نیشنل اجتماع خدام الاحمدیہ جرمنی کے موقع پر طلباء کی ایک میٹنگ حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ساتھ منعقد ہوئی.یہ میٹنگ تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوئی جس کے بعد مکرم مود ود احمد صاحب مہتم امور طلباء مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی نے ایک رپورٹ حضورانور کی خدمت اقدس میں رکھی.بعد ازاں حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے طلباء کو ہدایات سے نوازتے ہوئے فرمایا: احمدی طلبہ کا بنیادی فرض احمدی اسٹوڈنٹس کو ہر وقت یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اور اس بارے میں میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہتا رہتا ہوں ، آپ کی احمدیت جو ہے اس کی ایک انفرادیت ہونی چاہیے.اس ملک میں جہاں یونیورسٹیز میں یا کالجز میں اسکولز میں پڑھ رہیں مختلف قومیتوں کے لوگ، اب یہاں اس ملک میں آگئے ہیں، بھی داخل ہوں گے، مسلمان بھی ان میں ہیں.اکثریت عیسائیت کی ہوگی اور عیسائیوں میں سے ایسے ہیں اکثریت نئی نسل جو ہے وہ مذہب کے لحاظ سے لاتعلق ہو گئی ہے.ان کو کوئی احساس نہیں کہ مذہب کیا چیز ہے مادیت کی طرف رجحان زیادہ ہو گیا ہے.ان کے خیال میں مذہب ایک ثانوی چیز ہے ہر شخص کا اپنا ایک معاملہ ہے اس کا قومی ترقی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.جب کہ ایک مسلمان کا ، ایک احمدی کا یہ نظریہ ہونا چاہئے اور ہے کیونکہ (دین حق) کی خوبصورت تعلیم جو ہے وہ ایسی ہے حسین تعلیم ہے جو زندگی کے ہر پہلوکو گور (Cover) کرتی ہے اس لئے ( دین حق) نے ، جو اخلاق پیدا کرنے اور اخلاق کو بڑھانے کے لئے ہے ، وہ صرف اس کی ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ معاشرے کا بھی احاطہ کرتی ہے.معاشرے کو بھی کور کرتی ہے اور ہر شخص جو با اخلاق ہے اس سے معاشرے میں بہتری پیدا ہوتی ہے.اس لئے اپنا یہ کردار ادا کرنے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو ( دین حق کا صحیح نمونہ بنائیں.( دین حق کی تعلیم تو وہ ہے کہ اگر چودہ سو سال پہلے جائیں ، وہ عرب کے

Page 45

33 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم جو لوگ تھے مذہب سے جن کو کوئی دلچسپی نہیں تھی.زنا ،شراب ، حرام خوری، جوا، ہرقسم کی برائی جو تھی اُس کے وہ لوگ عادی تھے.یہاں تک کہ بعض خاندانوں قبیلوں میں اگر کوئی شخص فوت ہو جا تا تھا تو اُس کا بیٹا، اس کی جو بیوی تھی جو اس بچے کی سوتیلی ماں تھی اُس سے بھی شادی کرنا جائز سمجھتے تھے.بالکل اخلاق باختہ، اخلاق سے گرے ہوئے لوگ تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن میں وہ انقلاب پیدا کیا ایک ایسی تعلیم دی جن سے وہ مذہبی اور سیویلا ئیز ڈلوگ کہلانے کے قابل ہوئے اور پھر اس سے بڑھ کر ان کی روحانیت میں اُن کو اتنی ترقی دی کہ ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو گیا.تو آپ لوگ یا ہم لوگ تو اس نبی کے ماننے والے ہیں جس نے ایسی قوم میں انقلاب پیدا کر دیا.جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ اس میں کوئی انقلاب آسکتا ہے.ان میں ایسی تبدیلیاں آسکتی ہیں اور وہی لوگ تھے جو یا تو شراب اور جوئے کے رسیا، اُس میں ڈوبے ہوئے اور وہی لوگ تھے جنہوں نے حکم ملتے ہی شراب کے جو جار تھے، مٹکے تھے اور گھڑے تھے تو ڑ دیئے، وہی لوگ تھے جو اپنی گردنیں کٹانے کے لئے اسلام کی خاطر تیار ہو گئے.وہی لوگ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم پر مر مٹنے کے لئے تیار ہو گئے.تو یہ جو ہم تاریخ پڑھتے ہیں یا واقعات سنتے ہیں یا ہمیں بتائے جاتے ہیں وہ اس لئے نہیں کہ کہانیاں تھیں ہم نے سنیں اور مزا لیا اور اُن کی جو قربانیاں تھیں اُن لوگوں کی اُن کی تعریف کی اور واہ واہ کر کے خاموش ہو گئے.ان لوگوں کو تو آپ کی تعریف کی کوئی ضرورت نہیں ہے.اُن لوگوں کو تو اللہ اور ان کے رسول نے جنت کی خبریں دے دی تھیں.اللہ تعالیٰ نے اُن کو اپنی رضا کی خبر دے دی تھی.وہ صحابہ جو تھے اُن سے تو اللہ تعالیٰ راضی ہو گیا ہے.لیکن یہ باتیں ہمیں اس لئے بتائی جاتی ہیں اور ہم اس لئے سنتے ہیں یا ہمیں اس لئے پڑھنی چاہئیں اور سنی چاہئیں کہ ہم اپنی زندگیوں میں بھی وہ انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ویسا بننے کی کوشش کریں.ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسا ما حول میسر فرما دیا کہ ایک تعلیمی ماحول بھی میسر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے، ایک جماعتی ماحول بھی میسر ہے جہاں ہر طبقے کا، ہر عمر کے لڑکے کا ، ہر بچے کا ایک ذیلی تنظیم کے ساتھ بھی تعلق ہے جہاں اگر وہ چاہے تو تربیت کے جتنے بھی پروگرام ہیں اُن سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.اپنی روحانی اور اخلاقی تربیت کے جتنے بھی پروگرام ہیں اُن سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.اپنی روحانی اور اخلاقی تربیت میں بہتری پیدا کر سکتا ہے.

Page 46

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 34 ارشادات حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی قرآن کا ترجمہ اور پنجگانہ نماز کی پابندی پھر ہمیں جس زبان کو ہم سمجھ سکتے ہیں اُس زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ میسر آ گیا.تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ یہ نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیں اور اس شکرانے کے طور پر اپنی جو پیدائش کا مقصد ہے اُس کو یاد رکھنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میری عبادت کرو.یہ تمہارا مقصد ہے.پانچ وقت جو نمازوں کا مقرر ہوا ہے، کوشش یہ کرنی چاہیے کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کریں.اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جو لوگ نمازیں پڑھنے والے ہوں گے اور با قاعدہ نمازیں پڑھنے والے ہوں گے.نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے.سمجھ کر نمازیں پڑھنے والے ہوں گے، اُن کی میں ہر طرح سے حفاظت کروں گا اور وہ جو دنیا کی گندگیاں ہیں، بے حیائیاں ہیں ، لغویات ہیں، بے ہودگیاں ہیں ، ان سب سے بچا کے رکھوں گا.تو اللہ تعالیٰ کے اس وعدے سے فائدہ اُٹھانا چاہیے ہم احمدی طلباء کو.ہمارے باپ دادا کا بڑا احسان ہے ہم پر ، جو انہوں نے احمدیت کو قبول کیا تو اُس احسان کا بھی یہ تقاضا ہے اور اس احسان کا بدلہ ہم اسی صورت میں اتار سکتے ہیں، کہ جس دین کو انہوں نے مجھے سمجھ کر اختیار کیا اور حقیقت وہ صحیح دین بھی ہے.اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی آخری شریعت بھی ہے اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے جو امام الزمان بنا کر بھیجا ہے مسیح و مہدی بنا کر بھیجا ہے ہماری ہدایت کے لئے ، ہماری اصلاح کے لئے ، اس کو بھی ماننے کا موقع مل گیا تو یہ تقاضا ہے اس چیز کا کہ ہم وہ نمونے قائم کریں جو ایک احمدی کو قائم کرنے چاہئیں.اور جب آپ لوگ یہ نمونے قائم کر لیں گے تو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا خود وعدہ ہے، میں نے پہلے بھی بتایا ، اس معاشرے کی برائیوں سے، بے ہودگیوں سے، جن کا ذکر بھی رپورٹ میں کیا ہے آپ لوگ محفوظ رہیں گے.لیکن اگر اپنی نمازوں کے حفاظت نہیں کریں گے ، قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ نہیں دیں گے، اس بات کا احساس نہیں کریں گے کہ ہم احمدی ہیں اور احمدی طالب علم ، ایک احمدی شخص ، ایک احمدی لڑکا، ایک احمدی نوجوان کا اپنا ایک مقام ہے جس کو اُس نے قائم رکھنا ہے اور اُس کی بدنامی صرف اس کی ذات کی بدنامی نہیں ہے.بلکہ جو ہر ملک میں، ہر معاشرے میں ایک احمدی کا تعارف ہے.وہ جماعت احمدیہ کے نام سے ہے اور جماعت احمد یہ کو عموماً جہاں جہاں بھی ، جس علاقے میں، جس معاشرے میں، جس سوسائٹی میں بھی متعارف ہے جماعت احمدیہ.وہاں ایک

Page 47

35 ارشادات حضرت خلیفة لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم با اخلاق، باکردار، قانون کی پابند ، محنت کرنے والے لوگ اور اُن لوگوں کی جماعت سمجھا جاتا ہے.تو اگر آپ لوگوں کی کسی بھی حرکت سے جو غلط حرکت ہو، معاشرے پر جو اثر پڑتا ہے وہ جماعت کو بدنام کرنے والا ہوتا ہے اور پھر جماعت کے ساتھ آپ کے خاندان کو بدنام کرنے والا ہوتا ہے.اس لئے ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے جب تک آپ احمدی ہیں یا تو احمدیت سے انکاری ہو جائے کوئی ، جب احمدی ہیں اور جماعت کے ساتھ تعلق قائم کیا ہے تو احمدی ہونے کی حیثیت سے آپ کا ایک مقام ہے اور اُس کی آپ نے ہر صورت حفاظت کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے حفاظت کرنی ہے.اُس کے آگے جھکتے ہوئے اس کی حفاظت کرنی ہے.جماعت کی بدنامی کا باعث نہ بنیں تو یہ چیز ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ بہت ساری حرکتیں جو ہیں انسان کر جاتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ کوئی مجھے دیکھ نہیں رہا.لیکن اگر آپ کے ذہن میں یہ رہے گا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جس کی ہر جگہ نظر ہے وہ دلوں کا بھی حال جانتا ہے وہ ایک رات کے اندھیرے میں بھی کسی شخص کو دیکھ رہا ہے جو پرائیویٹ مجلس میں بھی آپ کی ساری باتوں کا علم رکھنے والا ہے.جو آپ دو شخص اگر اکٹھے بیٹھے ہیں اُن کی باتوں کو بھی جاننے والا ہے اگر کسی مجلس میں کوئی باتیں ہورہی ہوں اُن کو بھی جاننے والا ہے.ہر فعل اور ہر قول جو آپ کا ہے.ہر عمل جو آپ کا ہے، اُس کو وہ دیکھنے والا ہے تو آپ لوگوں کو احساس رہے گا کہ ایک ذات جو مجھے دیکھ رہی ہے اور اُس نے ان ان چیزوں سے مجھے منع کیا ہے.بڑی کھول کے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ نے برائیاں بھی سامنے رکھ دیں قرآن کریم میں، آگے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں ان برائیوں کا ذکر بھی فرما دیا.پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مزید کھول کے ان کی وضاحت فرما دی ، تو ان سب برائیوں سے ہم نے بچنا ہے.اور ان تمام نیکیوں کو اختیار کرنا ہے.تا کہ معاشرے میں ایک اہم کردار جو ہے ہم وہ ادا کر سکیں.لغویات میں پڑنے والے تو بہت سارے لوگ ہیں.لیکن معاشرے میں بہتر کردارادا کرنے والے بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور ایک احمدی نے تو پھر باریک سے باریک گہرائی میں جا کے بھی جو چھوٹی سے چھوٹی برائی اُس کو بھی چھوڑنا ہے ، تاکہ وہ جماعت کے لئے بھی نیک نامی کا باعث ہو اور اپنے کردار کو بنانے میں بھی وہ مددگار ہوں.تو ان باتوں کو ہمیشہ ذہن نشین رکھیں کہ تعلیم جو آپ حاصل کر رہے ہیں

Page 48

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 36 ارشادات حضرت خلیفة لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اس نے آپ کو دنیا کی برائیوں میں مبتلا نہیں کرنا بلکہ مزید روشن خیال بنا کر دین کو سیکھنے کی طرف بھی توجہ دلوانی ہے، اللہ سے اپنے تعلق کو قائم کرنے کی طرف بھی توجہ دلانی ہے.جماعت احمدیہ کے ساتھ جوابستگی ہے اس کا بھی احساس آپ کو دلانا ہے.آپ کو آپ کے خاندان کا جو نام ہے اس کی نیک نامی کا باعث بنانے کی طرف بھی توجہ دلانی ہے اور پھر آپ نے معاشرے میں ایک ایسا کردار بھی ادا کرنا ہے جس سے اس معاشرے میں رہنے والے ہر شخص کا جب ہاتھ اٹھے جب انگلی اٹھے، اشارہ کرتے ہوئے، تو یہ کہتے ہوئے اٹھے یہ لوگ ایسے با اخلاق اور باکردار لوگ ہیں جنہوں نے جوانی میں بھی برائیوں سے اپنے آپ کو بچایا اور جو اپنا مقصد تھا، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا اُس کو حاصل کرنے کی کوشش کی.اور پھر اپنے ملک اور معاشرے کی خدمت کے لئے جو تعلیم تھی اس میں بھی اہم کردار ادا کیا.اس کو حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ ایک مفید وجود بن سکیں معاشرے کے لئے اور ان لوگوں کی وجہ سے ہی اب ہمارے ملکوں کی ترقی ہے اور ہمارے ملکوں کی ترقی کا دارو مدار ہے.اگر احمدی طلباء اس نہج سے سوچ رکھنے والے ہوں تو آپ دیکھیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ایک تو آپ کی توجہ رہے گی اور ان دعاؤں کی وجہ سے، نمازوں کی وجہ سے، آپ لوگوں کے لئے جو مشکل مضامین ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ آسان کر دے گا.بہت ساری لغویات کی طرف آپ کی توجہ نہیں جائے گی اور معاشرے کی برائیوں سے بھی آپ محفوظ رہیں گے.تو اللہ کرے کہ آپ لوگ اس چیز کو سمجھنے والے ہوں اور ہر ایک اس نہج پر چلتے ہوئے خود اپنی تربیت کرنے والا ہو.جب تک خود آپ کے دل میں اپنی تربیت کا احساس پیدا نہیں ہوگا.کیونکہ اب آپ میچور ہو چکے ہیں سولہ سترہ اٹھارہ سال کی عمر ایسی عمر ہے.جب انسان کو ہوش و حواس میں آ جانا چاہیے.پتا ہوتا ہے برا کیا ہے، بھلا کیا ہے.تو جب آپ برے بھلے کی تمیز کرنے لگ جائیں گے.اپنے کردار کی اور اپنی پہچان کر لیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ پھر ہمیشہ آپ لوگ ان طلباء میں شامل ہوں گے جو ترقی کرنے والے ہوتے ہیں اور جو ملک و قوم کے لئے مفید وجود بننے والے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ آپ لوگ سب اس پر عمل کرنے والے ہوں.مضامین اختیار کرتے ہوئے بھیڑ چال نہ ہو اگرا اور کوئی بات کرنی ہے تو اب بتائیں.سوال بعضوں کے ذہنوں میں ہوتے ہیں اپنے مضامین سے متعلق.مجھے نہیں معلوم، پہلے میں نے کہا تھا.ویسے پچھلی دفعہ تو یہی بتایا گیا تھا.جماعت کی تعلیم کے نظام کے

Page 49

37 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم جو سیکرٹری ہیں اُن کی طرف سے کہ با قاعدہ کونسلنگ کا نظام یہاں جاری ہے.اب انہوں نے جور پورٹ میں بتایا کہ 80-70 سٹوڈنٹس یو نیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں.جن میں ڈاکٹر ز بھی ہیں اور دوسرے مضامین کے بھی، تو یہ بھی دیکھ لیں ایک تو آپ کی دلچسپی کا مضمون ہو.صرف بھیڑ چال نہ ہو کہ فلاں نے یہ مضمون لیا ہوا ہے یا فلاں آسان مضمون ہے تو میں بھی پڑھ لوں بلکہ یہ دیکھیں کہ اس کا معاشرے کو کیا فائدہ ہے.آپ کو کیا فائدہ ہے.زندگی میں اس کا کیا فائدہ ہے اور معاشی لحاظ سے بھی اس کا فائدہ پہنچ رہا ہو آپ لوگوں کو اور علمی لحاظ سے بھی اس کا فائدہ پہنچ رہا ہو ایسے مضامین لینے چاہئیں.خاص طور پر جو یو نیورسٹی کے طلباء ہیں یا یو نیورسٹی میں جو جانے والے ہیں اُن کو چاہئے کہ وہ سلیکشن بڑے مشورے سے کیا کریں با قاعدہ جائزے لے کے.کونسلنگ ہونی چاہئے جماعت کی طرف سے بھی یا ویسے بھی بعض ادارے ہوتے ہیں ہر ملک میں، ہر تعلیمی ادارے میں وہ سٹوڈنٹ کی کونسلنگ اور گائیڈ نیس کرتے ہیں ان سے مشورہ کر لیا کریں.طلبہ کے ساتھ سوال وجواب ☆ بعد ازاں طلباء کو سوالات کا بھی موقع عطا فرمایا اور تعلیمی میدان میں مختلف لائینز اختیار کرنے کے سلسلہ میں ان کی راہنمائی فرمائی.اس سوال و جواب کو قدرے تفصیل کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے.ایک طالب علم نے بتایا کہ میں انشاء اللہ اکتوبر میں یونیورسٹی میں پڑھنا شروع کروں گا.جس پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیر نے فرمایا ” انشاء اللہ.پھر طالب علم نے دریافت کیا کہ کیا میں آپ سے سلیکشن کے بارے میں کچھ پوچھ سکتا ہوں؟ میرا انٹریسٹ ٹیکنیکل میں ہے میں نے دو فیلڈز میں اپلائی کیا ہے حضور انور نے پوچھا کہ یہ ٹیکنکل کیا یہ انجینئر نگ سائیڈ ہے؟ اور یہ بتانے پر کہ یہ انجینئر نگ سائیڈ ہے حضور انور نے پوچھا کہ الیکٹریکل انجینئر نگ میں الیکٹرونکس بھی آ جاتی ہے یا الیکٹرونکس علیحدہ برانچ ہے.بتایا گیا کہ بعد میں اس کے لئے اسپیشلائزیشن چن سکتے ہیں.حضور کے دریافت فرمانے پر کہ آپ کا اپنا انٹریسٹ کس میں ہے زیادہ.بتایا گیا کہ ٹیکنیکل میں.جس پر فرمایا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا الیکٹریکل انجینئر نگ ہویا مکینیکل ہو.اس میں آپ اسپیشیلا ئز کر سکتے ہیں اور الیکٹریکل میں میرا خیال ہے کہ بعد میں الیکٹرونکس میں بھی جا سکتے ہیں.مکینکل میں تو زیادہ تر مشینری وغیرہ یہ جرمنی میں خاص طور پر.یہاں تو ویسے ہی جو لوکل ہیں

Page 50

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 38 ارشادات حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ان کو پہلے ایڈ جسٹ کریں گے اپنی انڈسٹری میں.الیکٹرونکس میں آپ باہر بھی نکل سکتے ہیں.اس لئے میرا خیال ہے کہ الیکٹریکل میں جائیں اور اس میں بھی الیکٹرونکس کی طرف زیادہ کریں اسپیشلائزڈ.فرمایا کہ الیکٹریکل میں تو بہت ساری چیزیں آجائیں گی.اس میں سولر انرجی بھی آ جاتی ہے.ونڈ انرجی بھی آجاتی ہے اور بہت ساری دوسری انرجیز بھی.ہائیڈرو اور تھرمل انرجی بھی آجائے گی.اس میں پھر الیکٹرونکس میں بھی امکان ہوسکتا ہے.الیکٹریکل انجینئر نگ میں اچھا ہے.ہم بھی آپ سے فائدہ اٹھا لیں گے.اگر کسی انرجی کی ☆ لائن اختیار کریں گے.ایک طالب علم نے بتایا کہ میں اسپیس انجینئر نگ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں.فرمایا اچھا! ماشاء اللہ.طالب علم نے دریافت کیا کہ کچھ مضامین ایسے ہیں جن کا خالصتا ریسرچ سے تعلق ہے مثال کے طور پر اسرو سپیس لے لیں، اسٹرونومی اور فزکس کے کچھ مضامین ایسے ہیں، اس میں بھی ہمارے سٹوڈنٹس کو جانا چاہئے؟ حضور نے فرمایا.ایر و سپیس انجینئر نگ جو ہے اس میں ایوی ایشن وغیرہ بھی آجاتی ہے اس میں صرف ریسرچ تو نہیں رہتی.اس میں فیلڈ بھی ہیں.ایوی ایشن میں آئل کمپنیاں بھی بہت ساری بھرتی کرتی ہیں ایرو سپیس اسپیشیلائزڈ والوں کو.جب آپ پی ایچ ڈی کر لیں گے تو پھر تو ٹھیک ہے ریسرچ میں چلے جائیں گے.لیکن ماسٹرز کرنے کے بعد تو جاب وغیر ہل جاتے ہیں.مڈل ایسٹ میں بہت سارے لوگوں کو جاب مل رہی ہیں اس میں.اور اس کی یہ صرف دیکھنی چاہئے کہ مارکیٹ کیا ہے اس وقت.اس وقت ڈیمانڈ کیا ہے اور کس حد تک مارکیٹ کی ڈیمانڈ ہے.اگلے پانچ سال یا دس سال میں، ڈیٹا تو آج کل کمپیوٹر میں ہر چیز کامل جاتا ہے کہ کیونکہ یو نیورسٹیز اپنے طور پر دیکھ رہی ہوتی ہیں دنیا میں کتنی یو نیورسٹیز ہیں اور ہر برانچ میں کتنے اسٹوڈنٹس پڑھ رہے ہیں اور کتنے ان کے مزید سٹوڈنٹس داخل ہوں گے اور کتنے ہر سال وہ پروڈیوس کریں گی یو نیورسٹیاں اور ڈیمانڈ اس کے حساب سے کتنی ہوگی.اور کتنی کھپت ہوگی.تو اس میں جن لوگوں کی تو بہت انٹریسٹ ہو اور فر در اسٹڈی کر کے، ہائر اسٹڈی کر کے پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہوں وہ تو ایک علیحدہ چیز ہے.لیکن جاب کے لئے بہر حال یہ ساری انفارمیشن اکٹھی کر کے دیکھنا چاہیے.ہماری کونسلنگ اس طرح ہونی چاہئے بچوں کی، کہ کتنی ریکوائرمنٹ ہونی ہے آگے دس سالوں میں اور کتنا سٹف مہیا ہو سکے گا ان کو.اور بیچ

Page 51

39 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم میں بیلنس کوئی رہتا ہے کہ نہیں رہتا.جب ہمارے بچے نکلیں گے آیا وہ اس میں سرکولیٹ ہو چکا ہوگا سارا کچھ یا نہیں.یا مزید جاب کے مواقع ہیں کہ نہیں.یہ سارا جائزہ لینے کے بعد پھر بچوں کو توجہ دلانی چاہئے.لیکن اس وقت موجودہ صورتحال میں میرے خیال میں ابھی کافی گنجائش موجود ہے اس لائن میں بھی.لیکن یہ مزید انفارمیشن آپ کو مل جاتی ہے نکالیں تو ، جو کونسلنگ کرنے والے ادارے ہیں ان سے لیں.باقی ریسرچ تو آپ کر رہے ہیں ریسرچ کرنا تو اچھی بات ہے کریں.ایسے لڑکے بھی ہونے چاہئیں جو ریسرچ میں جانے والے ہوں.کیونکہ ریسرچ میں بہت کم جاتے ہیں.زیادہ پیسے کی تلاش میں ہو جاتے ہیں ریسرچ میں اتنا زیادہ پیسہ نہیں ملتان.اس میں مواقع کم ہوتے ہیں کچھ آئل کمپنیز میں جاسکتے ہیں یا ائیر لائنز میں.وہاں بھی کسی حد تک ڈیمانڈ ہے اور اگر دنیا تیسری جنگ عظیم سے بچ گئی تو پھر ان چیزوں کی ہونی ہے نہیں تو وہیں ڈنڈے اور لکڑی کے اوپر آ جانا ہے آپ لوگوں نے.ایک طالب علم نے بتایا کہ انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے کیمسٹری میں ماسٹر کیا ہے اور یہاں جرمنی میں بائیو میٹریلز میں ماسٹر کرنے کے لئے اپلائی کیا تھا اور جاب کے لئے بھی اپلائی کیا.دونوں طرف سے کال آگئی ہے.انہوں نے حضور انور سے درخواست کی کہ مجھے مشورہ دیں کہ میں جاب کروں یا پی ایچ ڈی.حضور نے فرمایا کہ آپ پی ایچ ڈی کر لیں.پیسے ابھی ہیں نا؟ یہاں تو اسکالرشپ ملے گا نا؟.دوبارہ فرمایا کہ میرا خیال ہے پی ایچ ڈی پہلے کر لیں اور جاب انشاء اللہ تعالیٰ مل جائے گا.آپ پڑھنے لکھنے والے لگ رہے ہیں مجھے.☆ ☆ ایک اور طالب علم نے کہا کہ میرا سوال یہ ہے کہ جو طلباء پاکستان سے ہائر ایجوکیشن کے حصول کے لئے یہاں آتے ہیں تو ان سے بزرگ یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ آیا کہ یہیں رہیں گے یا پاکستان چلے جائیں گے تعلیم حاصل کرنے کے بعد.حضور خاکسار آپ کی رائے معلوم کرنا چاہتا ہے.حضور انور کے یہ دریافت کرنے پر کہ آپ پاکستان سے ہائر ایجوکیشن کے لئے آئے ہیں یہاں.تو حضوار نور کو بتایا گیا کہ جی حضور.اسی طرح انہوں نے بتایا کہ ابھی کیمسٹری میں پی ایچ ڈی شروع کی ہے.فزیکل کیمسٹری میں اسپیشلا ئیز کر رہے ہیں.

Page 52

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 40 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الامس ایدہ اللہ تعالی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ جرمنی رہیں یا نہ رہیں یہ آپ کی اپنی مرضی ہے.لیکن پاکستان نہ جائیں، ابھی فی الحال چند سالوں کے لئے.میں یہ نہیں کہتا کہ نیشنلٹی لے لیں.کچھ سال ابھی دیکھیں پی ایچ ڈی مکمل کریں.پھر دوبارہ پوچھ لیں.ٹھیک ہے! ☆ جرنلزم کے ایک طالب علم نے بتایا کہ ابھی چند ہفتے قبل کورس شروع کیا ہے یو نیورسٹی میں.میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے کچھ طالب علم جرنلسٹ ہیں جو پرنٹ میڈیا میں جارہے ہیں میں چاہتا ہوں کہ ٹیلی کمیونیکیشن میں جاؤں تو میرا سوال ہے کہ جماعت کو زیادہ فائدہ کس میں ہے.حضور انور نے فرمایا کہ بیچلر کرنے کے بعد ماسٹر کریں.ماسٹر کرنے کے بعد آپ کی ایمپورٹینس بڑھ جائے گی ڈیمانڈ بڑھ جائے گی اور پھر جو میڈیا ہے اس میں جائیں.آپ اپنے آپ کو یہاں کا جو سٹم ہے ملکی میڈ یایا پر لیس یا ٹیلیویژن یا جو بھی ہے، اس میں رکھیں کچھ عرصہ کے لئے ابھی فوری طور پر وقف کی ضرورت نہیں یہاں اپنے پنجے مضبوط کریں.یہی ایک دفعہ میں نے کہا بھی تھا کہ جرنلزم میں لڑکوں کو جانا چاہئے.تا کہ جو ( دین حق ) کے متعلق بے ہودہ گوئیاں ہوتی ہیں آپ اپنے ان لوگوں میں مکس ہوں گے تو وہاں آپ ان کو صحیح صورت حال بتا سکتے ہیں.ایک تو آپ خود اپنے پروگرام ایسے پروڈیوس کر سکتے ہیں.لکھنے والے ہیں آرٹیکل لکھ سکتے ہیں.( دین حق) کے بارے میں بھی.اور اگر کوئی سوال اٹھاتا ہے تو جو اپنی ایک کمیونٹی ہوتی ہے جرنلسٹ کی ، اس میں آپ صحیح صورتحال لکھ سکتے ہیں تا کہ یہ لکھنے والوں کو کبھی پھر جرات نہ ہو اور کم از کم (دین ☆ حق) کی صحیح صورتحال کے بارے میں علم ہو جائے.وہ بھی ایک ( دعوت الی اللہ ) ہے.ایک طالب علم نے بتایا کہ میں نے فیصل آباد زرعی یونیورسٹی پاکستان سے ماسٹرز کیا تھا وٹی پتھیالوجی میں.حضور انور نے فرمایا ”اچھا ماشاء اللہ.طالب علم نے دریافت کیا کہ یہاں مجھے ڈیڑھ سال ہو گیا ہے جرمنی میں آئے ہوئے.اس عرصہ میں پی ایچ ڈی کے لئے بہت کوشش کرتا رہا ہوں لیکن پی ایچ ڈی کے لئے کوئی کامیابی نہیں ہو رہی تھی اب جیسا کہ حضور آپ نے فرمایا ہے کہ اپنی انٹریسٹ کا مضمون چننا چاہئے لیکن میرا انٹریسٹ بائیوٹیکنالوجی میں تھا میں نے اس کے لئے بھی کوشش کی ہے.حضور نے فرمایا خلاصہ یہ کہ ابھی کچھ نہیں ہوا ؟ تو طالب علم نے بتایا کہ ابھی پچھلے مہینے میرا کارڈیالوجی میں داخلہ ہوا ہے.حضور کے استفسار پر بتایا گیا کہ یہاں ویٹنی میڈیسن اور میڈیسن کو ایک ہی سمجھتے ہیں.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ

Page 53

41 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم نے بتایا کہ اس دفعہ جب میں نیوزی لینڈ گیا ہوں ہمارے ایک منسٹر وہاں کے تھے ملے.ہیں وہ پاکستانی اور یجن کے.وہ اتفاق سے یونیورسٹی بھی پڑھے ہیں فیصل آباد.پھر وہاں گئے اور میں چالیس سال سے وہاں ہیں.پہلے یہاں سے بھی پی ایچ ڈی کی تھی یو کے سے.وہ یونیورسٹی میں پروفیسر رہے اور بعد میں پولیٹک میں آگئے اب وہاں منسٹر ہیں.انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ لوگوں کے واقف کار پاکستان میں ہوتے ہیں اگر ان کو گائیڈ کرنا ہوتو بتا ئیں.حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ ویسے تو میں نے نظارت تعلیم کو بھی کہا ہے.باتوں میں انہوں نے بتایا کہ نیوزی لینڈ نے ایک نئی پالیسی شروع کی ہے کہ جو پی ایچ ڈی ہے نا، اس میں جو فارن سٹوڈنٹس بھی ہے، اُس کو بھی وہ لوکل کی طرح ٹریٹ کریں گے اور اُس کی فیس نہیں ہوگی.وہ ہے بھی انگلش میڈیا میں سارا.تو جنہوں نے پی ایچ ڈی کرنے جانا ہو وہ نیوزی لینڈ بھی ٹرائی کریں.نیوزی لینڈ کی جو آک لینڈ یو نیورسٹی ہے اور دوسری جو یونیورسٹیز ہیں وہ کافی ریکگنا ئزڈ ہیں دنیا میں.تو وہاں بھی جا سکتے ہیں ہمارے سٹوڈنٹس.جو پاکستان سے آتے ہیں اور داخلہ یہاں نہیں ملتا.وہاں کا ویزہ وغیرہ بھی مل جائے گا آسانی سے حضور انور نے اس طالب علم سے فرمایا کہ اب آپ کو تو ( ویزہ مل گیا ہے چلیں ٹھیک ہے.حضور انور نے فرمایا کہ اب ٹھیک ہے داخلہ آپ کو مل گیا ہے اس سے زیادہ اب آپ کو اور کیا چاہیئے.حضور انور نے پوچھا کہ کارڈیالوجی میں تو آپ ریسرچ کریں گے نا ، جو ماڈرن ٹیکنیک اس میں ریسرچ کریں گے.کوئی ڈاکٹر وغیرہ تو نہیں بن سکتے ؟ انہوں نے بتایا کہ جی حضور.حضور اقدس نے فرمایا کہ آج کل نئی نئی ریسر چز آرہی ہیں پہلے تو وہ تھی انجو پلاسٹری، انجوگرافی وغیرہ اب ایک ریسرچ ہورہی ہے پلا ز ماسیل کے لئے ہیل پلازما کے ذریعے سے ہارٹ ٹریٹمنٹ کی.اُس میں وہ انجیکٹ کرتے ہیںstamm سیل لے کے.یہاں جرمنی میں بھی ہو رہی ہے اس میں کام ہو رہا ہے امریکا میں بھی ہو رہا ہے.یو.کے میں ابھی نہیں ہوا اور اُس سے پھر جو بلاک ہو جاتی ہیں خون کی نالیاں وہ ڈیلیٹ کر دیتی ہے اس انجکشن سے.وہ جو بند ہو جاتی ہیں خون کی نالیاں.اس ٹیکنالوجی میں اب اُن کی ریسرچ کافی ہو رہی ہے ان کو یہ پتا نہیں کہ stamm cell کی کتنی Quantity ہے جو انجیکٹ کرنی چاہئے.تو یہ بھی ایک نئی ٹیکنالوجی اس میں آ رہی ہے اور اس طرح آتی رہتی ہیں تو اس ریسرچ میں جب آپ جائیں گے تو اس میں پیسے کے لحاظ سے کافی فائدہ ہے علاوہ انسانیت کی خدمت کے.

Page 54

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ☆ 42 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ایک طالب علم نے بتایا کہ میں نے دو سال پہلے گریجوایشن کی تھی اس کے بعد میں نے میڈیکل میں داخلہ لینے کی کوشش کی لیکن وہ ابھی مجھے نہیں ملا.فی الحال میں اپریشن تھیٹر میں جاب کر رہا ہوں.میں نے پوچھنا تھا کہ میں آگے کوشش کرتا رہوں؟ حضور انور نے فرمایا کہ اگر تو کوئی امکان ہے داخلہ ملنے کا تو پھر کوشش کریں نہیں تو اپنے فیلڈ میں جس میں انٹرسٹ ہے اس ٹیکنیشن کے جاب میں کوالیفائی کر لیں اور اس دوران ٹرائی کرتے رہیں اگر میڈیسن میں داخلہ مل گیا تو وہاں سونچ اوور ہو جائیں.وقت ضائع نہ کریں پڑھائی ساتھ ساتھ کرتے رہیں.اچھا ہے ہمیں بن جائے گی..ایک طالب علم نے بتایا کہ میرا شوق ہے انجینئر نگ میں جانے کا.میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک خواب دیکھا کہ میں اور آپ اوپر ایک لفٹ میں جارہے ہیں اور آپ نے مجھے کہا کہ میں اکانومی کی فیلڈ میں جاؤں.حضور انور نے پوچھا کہ اکانومی سے آپ کی کیا مراد ہے بتایا گیا کہ اکنامکس.لیکن اس کا کبھی میں نے سوچا نہیں تھا.حضور انور نے پوچھا آپ کو دلچسپی ہے اس میں؟ انہوں نے بتایا کہ نہیں ہے.حضور انور نے پوچھا کہ آپ کو کس فیلڈ میں دلچسپی ہے انہوں نے بتایا کہ انجنئیر نگ میں.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انجینئر نگ کریں اور اس میں آپ اتنی ترقی کر جائیں کہ آپ کسی وقت میں بہت بڑے انڈسٹریل بن جائیں.وہ بھی اکنامکس ہی ہے نا.چلیں ٹھیک ہے یہی کریں.☆ ایک دوسرے طالب علم کے سوال پر کہ حضور میرا شوق ہے کہ آرکیٹیکٹ بنوں.آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟ فرمایا بڑا اچھا شوق ہے ضرور کریں تا کہ ہم آئندہ جو ( بیوت الذکر ) ہیں جومشن ہاؤسز ہیں جو اسکولز ہیں اور جو ہاسپیٹلز ہیں.آپ سے ڈیزائن کروایا کریں.☆ ایک طالب علم نے بتایا کہ میں نے پچھلے سال گریجویشن کی ہے.میں ڈیسائیڈ نہیں کر سکتا کہ میں کون سا مضمون لوں.حضور انور نے پوچھا کہ اچھا کیا کیا ہیں بتایا گیا کہ Mathametical processing Engineering, Biological processing Engineering

Page 55

43 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم حضور انور نے استفسار فرمایا کہ یہ پروسیسنگ انجینئر نگ کیا ہے، کیا ہوتا ہے اس میں کوئی انگریزی دان بتائے مجھے اسکا.یہ کیا ہے کیا سبجیکٹ بنتا ہے.اس پر ایک طالب علم نے حضورانور کو بتایا کہ وہ جو کھانے کے بڑے بڑے ٹینکر ہوتے ہیں اُس میں پروسیسنگ ہوتی ہے.اس پر حضور انور نے سوال کرنے والے طالب علم سے پوچھا کہ آپ مجھے بتائیں کہ Mathametics میں کتنے نمبر آئے تھے.جس پر انہوں نے گول مول سا جواب دیا.حضور انور نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ پروسیسنگ انجینئر نگ میں کر لیں.اس میں آپ جنرل پروسیسنگ میں بھی جا سکتے ہیں اور دوسری پروسیسنگ میں بھی جا سکتے ہیں.ٹھیک ہے! اور اس میں جاب اپر چونٹی بھی میرا خیال ہے بہتر ہوں گی.ایک طالب علم نے بتایا کہ میں اس وقت ڈپلومہ تھیس کر رہا ہوں.ہارڈ ویئر ڈیویلپمنٹ میں.الیکٹریکل انجینئر نگ میں.حضور آپ کا کیا خیال ہے کہ آگے پڑھنا چاہیے یا جاب کر لینا زیادہ مناسب ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ اگر آپ پڑھ سکتے ہیں تو ڈپلومہ کی بجائے آپ ڈگری کیوں نہیں کرتے؟ اس کے بعد آپ ماسٹرز کر سکتے ہیں حضور انور نے پوچھا کہ یہ سرٹیفیکیٹ ہے یا ڈگری ہے حضور انور نے بتایا کہ ڈگری ہے.فرمایا تو پھر میرا خیال ہے آپ ماسٹر ز کریں دو سال اور.بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض کمپنیز امپلائی کر لیتی ہیں اور اجازت دیتی ہیں کہ اس کے ساتھ انسان فر در اسٹڈی کر لے.اگر اس طرح کی صورتحال ہے تو کر لیں تا کہ وہ جو آپ کی فنانشل پرابلم ہے وہ بھی حل ہوتی رہے ساتھ ساتھ.اگر کوئی ہے تو !! اگر افورڈ کر سکتے ہیں یا پھر یہ صورتحال ہوتی ہے کہ کچھ عرصہ دو تین سال جاب کریں.پھر اسٹڈی کر لیں یہاں تو یہ بھی ہوتا ہے.موقعے ملتے رہتے ہیں.لیکن ماسٹر ز کم از کم کرنی چاہئے جو پڑھ سکتے ہیں لڑکے.اب یہ زمانہ ایسا نہیں ہے کہ ماسٹرز سے کم پر گزارا ہو سکے.حضور انور نے مزید فرمایا کہ الیکٹریکل انجینئرنگ میں بیچلر یا ڈگری بھی کر لیں گے تو وہ کافی ہو جاتی ہے.لیکن آپ کی جو لائن ہے نا.ہارڈ ویئر ڈیویلپمنٹ تو کمپیوٹر سے ریلیٹڈ ہو جائے گی.اس میں اگر آپ اور کر لیں تو اچھا ہے آج کل کمپنیاں چھوٹی ڈگری کو کنسیڈ نہیں کرتیں زیادہ تر.اس میں کر لیں تو اچھی بات ہے ماسٹرز کر لیں.ٹھیک ہے!! میں جو سمجھتا ہوں.باقی اپنے حالات تو آپ خود جانتے ہیں.طالب علم کے یہ پوچھنے پر کہ فارن کنٹریز کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس میں جہاں تک فارن سٹوڈنٹس کے لئے انڈرگریجویشن یا پوسٹ گریجویشن ماسٹرز کا جہاں تک تعلق سوال ہے وہاں کافی زیادہ فیسیں ہوتی

Page 56

44 ارشادات حضرت خلیفة لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ہیں.بلکہ باقی کورسز کے لئے بھی ہوتی ہیں.لیکن نیوزی لینڈ نے ایک نئی سکیم شروع کی ہے اس میں جو پی ایچ ڈی ہے اس کے لئے انہوں نے کافی سہولتیں مہیا کی ہیں سٹوڈنٹس کے لئے.فارن سٹوڈنٹس کے لئے پی ایچ ڈی اگر کرنی ہے تو وہاں جاسکتے ہیں.نہیں تو پیسے بہت لگتے ہیں یہاں سے دگنے پیسے لگیں گے آپ کے.بہت مہنگی پڑھائی ہے وہاں.حمد ایک طالب علم نے حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ وہ سول انجینئر نگ کر رہے ہیں اور اکنامکس کی لائن لینا چاہتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ ماسٹر ز میں آپ اکنامکس میں کیوں جانا چاہتے ہیں؟ اس میں خدمت خلق کا بھی کوئی چانس نہیں ہے اور فنانشلی بھی کوئی فائدہ نہیں ہونا.حضور انور نے فرمایا کہ یا تو آپ آرکیٹیکٹ میں جائیں یا پھر کنسٹرکشن سائیڈ میں جائیں ایک طالب علم نے حضور انور کو بتایا کہ یہاں جرمنی میں خاص طور پر ماسٹر ز بالکل مفت ہے اور اگر ہیں بھی تو اتنی کم ہیں ان کو ہر کوئی افورڈ کر سکتا ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جن کو داخلہ مل جاتا ہے بڑی اچھی بات ہے وہ کریں.جن کو نہیں ملتا اور جن کے واقف کار پاکستان میں ہوں وہ ان کو کہہ سکتے ہیں وہ وہاں چلے جائیں (نیوزی لینڈ ).باقی اگر اس طرح یہاں مفت ہے تو یہ انفارمیشن آپ ان کو بھجوائیں ربوہ پاکستان میں بھی اور قادیان میں بھی نظارت تعلیم کو.تا کہ وہاں ہمارے احمدی لڑکے جو ہیں جنہوں نے آگے فر در اسٹڈی ( مزید تعلیم حاصل کرنی ہے.وہ یہاں آ کے کر سکیں.اسی طرح انہوں نے حضور انور کو بتایا کہ یہاں پی ایچ ڈی میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور دیتے ہیں کم از کم اتنا ضرور دیتے ہیں کہ انسان گزارا کر سکے بلکہ بعض اوقات زیادہ بھی دے دیتے ہیں.حضور انور کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ اسٹنٹ شپ کی جو پے منٹ ہوتی ہے وہ دے دیتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ یہ آپ بتا ئیں انفارمیشن اچھی بات ہے.نورالدین جرمنی شمارہ نمبر 2006،4ء)

Page 57

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 45 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی واقفین نو جرمنی کے ساتھ میٹنگ * سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی پر جرمنی کے خوش نصیب واقفین نو کی میٹنگ حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ساتھ مورخہ 9 جون 2006ء کو ہوئی.تلاوت قرآن کریم کے بعد حضور انور نے واقفین نو کا جائزہ لیتے ہوئے مختلف سوالات دریافت فرمائے کہ سارے واقفین نو ہیں؟ پندرہ سال سے سب او پر ہیں؟ کتنے ہیں جو جامعہ میں جانا چاہتے ہیں؟ اس سال کون کون جانے والے ہیں یا ارادہ رکھتے ہیں؟.اس کے علاوہ باقی کون ہیں جو ڈاکٹر ز بننے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ واقفین اپنی دلچسپی کے شعبوں میں جائیں فرمایا کہ واقفین نو میں سے کچھ کو سوچنا چاہئے کہ ڈاکٹر بھی بن جائیں.جو ہوشیار ایسے لڑکے ہیں، گو کہ جامعہ میں جانے والے بھی ہوشیار ہی ہونے چاہئیں.لیکن جن کو سائنس سے دلچسپی ہے بیالوجی سے دلچسپی ہے میڈیسن سے کوئی دلچسپی ہے.لیکن صرف وہ اپنے دوستوں کے کہنے کی وجہ سے یا اپنے ماں باپ کے کہنے کی وجہ سے یا اپنے مشنریز کے کہنے کی وجہ سے جامعہ میں جانا چاہ رہے ہیں.وہ دوبارہ سوچ لیں کیونکہ کسی کو بھی پابند نہیں کیا جاسکتا.نیز واقفین نو سے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے کہ انہوں نے جامعہ میں جانا ہے؟ حضور انور نے فرمایا کہ اگر جامعہ احمدیہ میں اتنے زیادہ طلباء کی گنجائش نہ ہو یا کوئی جامعہ احمدیہ میں داخلہ کے معیار پر پورا نہ اتر سکے تو پھر جامعہ کے علاوہ سوچنا چاہیے کہ کن مضامین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے.یعنی اگر کسی نے یونیورسٹی میں اعلی تعلیم حاصل کرنی ہے تو اس نے مختلف مضامین کا تعین کیا ہوتا ہے کہ اگر فلاں مضمون میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ نہ ملاتو میں دوسرے مضمون میں اپنی تعلیم مکمل کر لوں گا.حضور انور نے فرمایا کہ پندرہ سال سے اوپر کے واقفین نو کی سوچ بہت پختہ ہونی چاہیئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بعض واقفین سے ان کے مستقبل اور تعلیمی صورتحال اور جرمنی

Page 58

46 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم کے معیار تعلیم کے متعلق دریافت فرمایا کہ جرمنی میں تعلیم کے مختلف معیار ہیں.جن میں ,Hauptschule Realschule, Gesamtschule اور Gymnasium شامل ہیں اور Gymnasium سب سے اعلیٰ معیار گنا جاتا ہے.لہذا زیادہ سے زیادہ واقفین نو کو اس میعار کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے.اسی طرح حضور انور نے جرمنی میں سکولز کے نتائج کا طریقہ کار دریافت فرمایا کہ مختلف مضامین میں جو نمبر ملتے ہیں ان کا کیا طریقہ کار ہے.جس پر حضور انور کو بتایا گیا کہ جرمنی میں مضامین میں 1 سے 6 تک نمبر ملتے ہیں اور 1 نمبر سب سے بہتر متصور کیا جاتا ہے.حضورانور نے دریافت فرمایا کہ جرمنی سے واقفین اگر جامعہ احمدیہ کینیڈا میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جانا چاہیں تو اس میں کوئی قانونی روک تو نہیں؟ اس پر بتایا گیا کہ جن کے پاس جرمن شہریت ہے ان کے لئے کوئی روک نہیں.حضور انور نے فرمایا کہ گذشتہ سال ایک لڑکے کو ویزہ کے مسائل کی وجہ سے کینیڈا سے واپس جرمنی آنا پڑا.جس پر محترمی مشنری انچارج صاحب نے بتایا کہ اس کو نیشنیلٹی ملنے کے چانسز ہو گئے ہیں اور وہ حضورانور سے اس معاملہ میں راہنمائی لینا چاہتا ہے.کیونکہ تین سے چھ ماہ میں اس کو جرمنی کی شہریت مل جائے گی اور اس کی خواہش ہے کہ وہ اب جامعہ احمد یہ برطانیہ میں اپنی تعلیم کو آگے بڑھائے.واقفین تجدید وقف کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو کو ایک نہایت ضروری امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جو پندرہ سال کے ہو گئے ہیں ان کو چاہیے کہ خود تجدید وقف کریں.بعد ازاں حضور انور نے واقفین کا تربیتی جائزہ لیتے ہوئے سب سے پہلے نماز پنجوقتہ کی ادائیگی کے متعلق دریافت فرمایا کہ کتنے ایسے ہیں جو روزانہ پانچ وقت کی نماز میں اپنے وقت پر پڑھتے ہیں؟ پانچ نمازیں پانچ وقتوں پر پڑھتے ہیں.آج کل اگر مغرب عشاء جمع ہوتی ہیں تو چار نماز ہیں.آج کل ، چار نمازوں سے مراد یہ چا را وقات لیکن نمازیں پانچ ، نماز میں چھٹی نہیں ہے.روزانہ تلاوت با ترجمہ کریں اسی طرح تلاوت قرآن کریم کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ تلاوت قرآن کریم کے ساتھ ساتھ اس کا

Page 59

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 47 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ترجمہ بھی تمام واقفین کو پڑھنا چاہیے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کتنے ہیں جو ایک رکوع کا روزانہ ترجمہ پڑھتے ہیں ذرا ہاتھ کھڑا کریں؟ بعد ازاں فرمایا کہ کم از کم ایک رکوع روزانہ مع ترجمہ پڑھنا چاہیے.اور ترجمہ کو غور سے پڑھا کریں، چاہے جامعہ میں جائیں یا نہ جائیں لیکن قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے ترجمہ کو با قاعدگی سے پڑھنے اور اس کا مطلب سمجھنے کی طرف ضرور کوشش کریں.کتب مسیح موعود اور نوافل کی ادائیگی کی طرف توجہ کریں حضور انور نے حضرت مسیح موعود کی کتب کے مطالعہ کی توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جو واقفین اردو پڑھ سکتے ہیں (حضور کو بتایا گیا کہ سارے واقفین اردو پڑھ لیتے ہیں ) ان کو چاہیے کہ حضرت مسیح موعود کی تحریر کردہ چھوٹی چھوٹی کتب کو اپنے زیر مطالعہ رکھیں اور روزانہ ایک صفحہ پڑھا کریں.ہے؟ حضور انور نے واقفین سے دریافت فرمایا کہ کون روزانہ حضرت مسیح موعود کی کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا ایک وقف نو نے بتایا کہ وہ کشتی نوح کا مطالعہ کر رہا ہے.جس پر حضور انور نے فرمایا: کشتی نوح پڑھ رہے ہوا چھا، ماشاءاللہ.بعد ازاں فرمایا کہ حضور علیہ السلام کی ایسی کتب جو آسان اردو میں ہیں ان کا مطالعہ کریں اور جہاں مشکل الفاظ آ جائیں تو وہاں نشان لگا لیں.یوں جامعہ احمدیہ میں داخلہ سے پہلے آپ لوگوں کی نوٹس بنانے کی عادت بھی بن جائے گی اور علم میں اضافہ کے ساتھ ساتھ علمی لحاظ سے بنیاد بھی بن جائے گی.حضور انور ایدہ اللہ نے خطبات جمعہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام واقفین نو کو خطبات جمعہ با قاعدگی سے اور اس نیت کے ساتھ سننے چاہئیں کہ انہوں نے ہر نصیحت پر عمل کرنا ہے.حضور انور نے فرمایا کہ جو واقفین پندرہ سال سے اوپر ہو گئے ہیں انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ وہ فجر کی نماز سے پہلے اٹھا کریں، فجر سے پہلے کم از کم دو نفل پڑھا کریں، اور عشاء کی نماز کے بعد بھی اگر وتر پڑھ کر سوتے ہیں تو اس سے پہلے دونفل پڑھا کریں.انٹرنیٹ کے استعمال کے بارہ ہدایت حضور انور ایدہ اللہ نے انٹرنیٹ کے استعال کے متعلق واقفین نو کو ہدایات سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ

Page 60

48 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم جو واقفین نو انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور چیٹنگ کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ ان کی چیٹنگ زیادہ کھلی نہیں ہونی چاہیے.لڑکوں کے رابطے صرف لڑکوں سے ہی رہنے چاہئیں، اگر کہیں غلطی سے کسی لڑکی سے رابطہ بھی ہو جائے تو انٹر نیٹ وہیں بند کر دو، اور یہ بتا کے بند کریں کہ ہم احمدی ہیں اور واقف نو ہیں اور ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ ہم نے لڑکوں سے ہی رابطہ رکھنا ہے.حضور انور نے مزید فرمایا کہ اول تو ضرورت ہی نہیں بلا وجہ بیٹھ کے چیٹنگ کر کے اپنا وقت ضائع کیا جائے.موبائیل فون اور کھیل کے بارہ ہدایت اسی طرح حضور انور نے موبائل فون کے استعمال پر ہدایات سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ آج کل یورپ میں موبائل فون پر sms کا بڑا رواج ہے.خصوصاً تیرہ چودہ سال کی عمر کے ہر بچے نے فون ہاتھ میں رکھا ہوتا ہے اور ٹیکسٹ کر رہے ہوتے ہیں.آہستہ آہستہ پھر یہ دوستیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں ، اس سے بھی بچنے کی کوشش کریں.آہستہ آہستہ یہ چیزیں انسان کو لغویات کی طرف لے جاتی ہیں.حضور انور ایدہ اللہ نے کھیلوں کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ واقفین نو کوروزانہ کوئی نہ کوئی کھیل کھیلنی چاہیے جس کا دورانیہ کم از کم ایک گھنٹہ ہو.مزید فرمایا کہ کھیل سے صحت ٹھیک رہے گی.لہذا کھیل کو اپنا معمول بنائیں.واقفین کو جامع نصائح آخر پر حضور انور نے واقفین نو سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ نماز کوئی نہیں چھوڑنی ، با قاعدہ ادا کرنی ہے، کوشش یہ کرنی ہے کہ باجماعت ادا کریں، جہاں نماز سینٹر دور ہیں اپنے اپنے گھروں میں اپنے بہن بھائیوں کو ماں باپ کو اکٹھا کر کے باجماعت نماز پڑھوائیں ، جو پڑھا سکتے ہیں.قرآن کریم کی تلاوت روزانہ کریں اور تلاوت کے ساتھ روزانہ کچھ نہ کچھ ترجمہ اس کا پڑھیں اور اس پر غور کریں.حضرت مسیح موعود کی کوئی کتاب اپنے زیر مطالعہ رکھیں اور اس طرح چھوٹی چھوٹی کتا ہیں، ان کو پڑھنا شروع کریں، ایک آدھ صفحہ روزانہ بے شک پڑھیں لیکن پڑھ کر سوئیں اور عشاء کے بعد یا صبح اگر جلدی اٹھ سکتے ہیں ، نیند زیادہ گہری نہیں ہے تو دو نفل ضرور پڑھیں اور پھر آہستہ آہستہ اس کو بڑھاتے جائیں اور جو جامعہ میں نہ جاسکیں بالفرض کسی مجبوری کی وجہ سے وہ مایوس نہ ہوں بلکہ جس مضمون میں ان کو دلچسپی ہے، اس میں اعلی تعلیم حاصل کریں.

Page 61

49 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ہو سکتا ہے کہ تمام واقفین کا جامعہ احمدیہ میں داخلہ نہ ہوا اگر چہ وہ شدید خواہش رکھتے ہوں ، ان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان میں بھی پانچ سات سولڑ کے آتے ہیں جامعہ میں داخلہ کے لئے اور ان میں سے ستر یا استنی کو داخلہ ملتا ہے.جن کو داخلہ نہیں مل سکتا وہ دوسرے مضامین میں تعلیم حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں.لہذا اگر کسی کو جامعہ میں داخلہ نہ ملے تو کسی ایسی فیلڈ میں اعلی تعلیم حاصل کریں جس کا مستقبل میں جماعت کو فائدہ پہنچے.مثال کے طور پر واقفین نوکو ڈاکٹرز، ٹیچر مختلف زبانوں میں مہارت اور آرکیالوجی جیسی فیلڈز اختیار کرنی چاہئیں.(اس کے بعد حضور انور نے از راہ شفقت تمام واقفین نو کو شرف مصافحہ بخشا اور قلم بطور انعام دیے اسی طرح دوران مصافحہ اکثر واقفین نو سے ان کے خاندان کے متعلق دریافت کیا اور تمام واقفین نو نے انفرادی طور پر دعا کی درخواست بھی کی ) (نورالدین جرمنی شمارہ نمبر 4، 2006ء)

Page 62

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 50 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی سے اختتامی خطاب * حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 11 جون 2006ء کو سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ جرمنی سے خطاب کرتے ہوئے تشھد ، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اجتماعات میں کھیل رکھنے کے مقاصد آج آپ کا یہ اجتماع اس وقت اختتام کو پہنچ رہا ہے.یہ اجتماعات جو ہیں ذیلی تنظیموں کے اس لئے منعقد کئے جاتے ہیں تا کہ مختلف پروگراموں میں حصہ لے کر خدام اپنی دینی علمی ، روحانی معیاروں کو بہتر کر سکیں اور بہتر کرنے کی طرف توجہ دے سکیں اور ساتھ ہی مختلف کھیلوں کے پروگرام ترتیب دے کر اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ جسم کا جو حق ہے وہ بھی ادا کیا جائے کیونکہ صحت مند جسم ہوگا تو جو اصل مقصد ہے زندگی کا ، یعنی عبادت ، اُس کا بھی حق ادا ہو سکتا ہے اور پھر کھیلوں کے پروگراموں سے ذہنی تفریح بھی ہو جاتی ہے شائقین کی بھی اور Players کی بھی.اس لئے ہماری کھیلوں کے پروگراموں میں یہ مقصد اصل میں مدنظر ہوتا ہے.ہارنے یا جیتنے پر ان لوگوں کی طرح رد عمل ظاہر نہیں ہوتے جو کھیل کو اپنی انا اور زندگی اور موت کا سوال بنا لیتے ہیں.پھر ہارنے جیتنے پر بعض اوقات ٹیموں کی آپس میں لڑائیاں بھی ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ ریفری کے فیصلوں پر بھی لڑائیاں ہو جاتی ہیں.ایک دوسرے کی ٹیم کے کھلاڑیوں کو شدید نقصان پہنچایا جاتا ہے یا اس کی کوشش کی جاتی ہے.پھر شائقین بھی جو جس ٹیم کی طرف ہوتے ہیں ہارنے جیتنے پر نعرہ بازی کرتے ہوئے ایک دوسرے سے الجھ جاتے ہیں، گراؤنڈز میں آجاتے ہیں، سر پھٹول ہونی شروع ہو جاتی ہے.تو کھیل میں یہ لغوحرکات اور لغویات جو ہیں یہ ہماری روایات میں نہیں ہیں اور کبھی بھی نہیں رہیں.ہم تو صحت مند جسم کے لئے صحت مند تفریح کرتے ہیں.اور زیادہ سے زیادہ کوشش یہ کی جاتی ہے کہ کھیلیں اس مقصد کے لئے ہوں اور اسی واسطے، اسی لئے ہمارے گیمز میں Sportsmen spirit کا اعلی مظاہرہ ہوتا ہے اور نظر

Page 63

51 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم آنا چاہیے.یہی وسیع حوصلگی اور کھیل کو کھیل کی طرح سمجھنا یہی اصل مقصد ہے.کھیل بھی کھیلی جائے اور جسم کا حق بھی ادا کیا جائے.اور اصل مقصد یہی ہے انسان کا کہ اُس کو جماعت کے لئے کارآمد وجود بنایا جائے.عبادت کے لئے کارآمد وجود بنایا جائے.اس لئے ہمارے اگر کوئی ایسی حرکت ہو جائے کہ کھیل میں نامناسب رویہ اختیار کیا ہو کسی نے ، تو بڑی سخت سزا بھی دی جاتی ہے.تو نئے نئے نو جوانوں کو میں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیشہ ذہن میں یہ بات رکھیں کہ جو اُن کا مقصد ہے وہ اُن کے مدنظر ہونا چاہیے.جوانی کے جوش میں کبھی اپنی روایات کو بھول نہ جائیں.اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ صحت مند تفریح صحت مند جسم کے لئے ہے.اور صحت مند جسم اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کے لئے ضروری ہے.حضرت مصلح موعود نے جہاں مختلف طبقات کی تربیت کی طرف توجہ کی اور ہر پہلو سے اُن کو اُن کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا وہاں خدام الاحمدیہ کی بھی راہنمائی فرمائی ہے.جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ ” قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی.اس لئے آپ نے خدام کی روحانی، اخلاقی اور دینی تربیت کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر بھی فٹ رکھنے کے لئے اُن کو پروگرام دئے.دنیا میں ہر جگہ خدام الاحمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اجتماعوں میں ایسے پروگرام بناتی ہے.اطفال کے لئے بھی پروگرام بنتے ہیں تا کہ ہمارے بچے بھی ہر لحاظ سے تربیت یافتہ ہو کر نو جوانی کی عمر کو پہنچیں اور نو جوان بھی صحیح طور پر تربیت حاصل کر کے اپنے نفس کے جذبات کو ، اپنے نفس کو کنٹرول میں رکھیں اور اس طرح اپنے ذہنوں کو مزید جلا بخشیں ، اپنی سوچوں کو گہرا اور بالغ کرنے کی کوشش کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان کر سکیں.یہی راز تھا حضرت مصلح موعود کا خدام کو یہ نعرہ دینے کا کہ قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی.کہ نوجوان اپنی تربیت کر کے اپنے آپ کو اتنا چپکالیں کہ ہر خادم ہر احمدی نوجوان احمدیت کا ایک چمکتا ستارہ بن جائے اور پھر آگے جماعت کی ذمہ واریاں سنبھالنے کے قابل ہو سکے.پس یہ کھیلوں کے پروگرام یا علمی پروگراموں کے مقابلے اس لئے نہیں ہوتے کہ آپ مقابلے کے لئے تھوڑی بہت تیاری کرلیں اور مقابلہ جیت کر انعام لے لیں اور بعد میں نعرہ لگ جائے کہ فلاں ریجن زندہ باد فلاں ریجن زندہ باد.بلکہ یہ مقابلے اس لئے ہیں کہ جو کھیلیں ہیں یہ آپ میں صحت، تفریح کا احساس پیدا کریں اور نوجوان گھر میں بیٹھ کرٹی.وی پر فلمیں دیکھنے کی بجائے اپنی صحت

Page 64

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 52 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کا خیال رکھیں تا کہ اُن کے صحت مند جسم سے جماعت فائدہ اٹھا سکے.علمی مقابلے علم کی جاگ لگانے کے لئے ہیں اور اس طرح علمی مقابلے ہیں.وہ بھی اسی لئے کئے جاتے ہیں کہ آپ کے ذہنوں میں علم کی جاگ لگائی جائے.قرآن کریم میں سے مختلف مقابلے کروا کر آپ کو اس روحانی مائدے سے یہ روحانی غذا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اتاری ہے اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اسپر غور کریں اور اس کے علم کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.اُس طرف مزید توجہ دیں کیونکہ آج یہی ایک کتاب اور شریعت ہے جس کے احکامات پر عمل کر کے ہم اپنی اصلاح کر سکتے ہیں اور اصلاح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہیں جو ایک عقل مند انسان ایک مومن انسان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہیے.پھر ان احکامات پر عمل کے طریقے کیا ہیں؟ کس طرح ان پر عمل کرنا ہے؟ کیا معیار ہیں جو حاصل کرنے ہیں؟ اس کے لئے ہمارے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اسوہ پیش فرمایا ہے.جس کے بارے میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ اگر اپنی اصلاح چاہتے ہو، اگر ملک وقوم کا نام روشن کرنا چاہتے ہو، اگر جماعت کی نیک نامی چاہتے ہو، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو جو میری تعلیم قرآن کریم میں دی گئی ہے اس پر عمل کرنے کے طریقے اور سلیقے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے حاصل کرو کیونکہ یہ تمام ترقیات اب وابستہ ہیں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سب سے بڑا اور پہلا نمونہ ہمارے سامنے قائم فرمایا وہ عبادتوں کے اعلیٰ معیار کا ہے.نو جوانی میں زیادہ عبادات کریں کیونکہ یہ عبادتیں ہی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل نے تمہیں باقی تعلیمات پر عمل کرنے کے قابل بنانا ہے.آپ کی عبادتوں کے معیار کیا تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے نو جوانی کی عمر میں بھی کس طرح غار حرا میں جا کر عبادت کیا کرتے تھے.کئی کئی دن وہاں رہتے تھے اور عبادت میں مشغول رہتے تھے.اس لئے یہ جو نعرہ یہاں لکھا ہوا یہ جو حضرت مصلح موعود کا کہ اصل میں تو جوانی کی عمر ہی وہ زمانہ ہے جس میں تہجد دعا اور ذکر الہی کی طاقت ہوتی ہے.پس اس زمانے تو عمربی زمانہ دعا اور ذکر کی.

Page 65

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 53 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سے فائدہ اٹھانا چاہیے بجائے اس کے اس کو لغویات میں ضائع کیا جائے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر فائز ہونے کے بعد تو ایسی حالت تھی عبادت کی کہ ان کو الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جاسکتا.تبھی تو حضرت عائشہ نے کہا تھا جب آپ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت اور نوافل کے بارے میں کسی نے پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ وہ اتنی لمبی اور پیاری اور حسین ہوا کرتی تھیں کہ اس نماز کی لمبائی اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھو یعنی الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی وہ چیز یہ تھا نمونہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا کہ ”میں نے جن وانس کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.اس کے بعد کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا یہ انسان کامل اُس سے لمحہ بھر بھی غافل رہتا یا ادھر ادھر ہوتا.آپ کے اس طرح اللہ تعالیٰ کی یاد اور اُس کے ذکر میں ہر وقت ڈوبے رہنے کی تعریف اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے.آپ سے یہ اعلان کروایا ہے.کہ تو کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لے ہے.جو تمام جہانوں کا رب ہے.“‘ پس یہ اعلان کروا کر ایک معیار اور نمونہ ہمارے سامنے رکھ دیا ہے کہ جس کو تم نبی مانتے ہو، جس کو نبی مانے کا تمھارا دعویٰ ہے،اس کی تو یہ حالت ہے.تم بھی اپنا سب کچھ اللہ کی خاطر کرنے کی کوشش کرو.اللہ کوہی اپنا رب سمجھو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور یہاں تک پہنچایا ہے.اگر ہر ایک اپنی پہلی حالت پر غور کرے اور پھر دیکھے کہ ہمارے رب کے ہمارے اوپر کتنے احسانات ہیں تو اس کے احسانوں کے آگے جھکتے چلے جائیں گے.اور پھر ہماری عبادتیں بھی خالص اللہ کے لئے ہو جائیں گی.ورنہ اگر دنیا کی چیزوں کو ، اپنے کاروبار کورب سمجھتے رہے اور اپنی نمازوں کی حفاظت نہ کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کر دیتا ہے.پس ہر احمدی کی ہر خادم کی اصلاح تب ہوگی ، اس کا خدا سے تعلق تب پیدا ہوگا ، دنیا کے کاروبار اور مصروفیتوں کے بت تب ٹوٹیں گے جب آپ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے بنیں گے.ورنہ اللہ اکبر کے نعرے بھی کھو کھلے ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے جو دعوے ہیں وہ بھی کھو کھلے ہیں.ہر احمدی کو چاہیے کہ اس کی حفاظت کی کوشش کرے اور ہر خادم کو چاہیے کہ اس کی حفاظت کی کوشش کرے.پہلے سے بڑھ کر اپنے نمازوں کے معیار کو بڑھائیں.ہر حالت میں سچائی پر قائم رہیں پھر سچائی ہے.ہر حالت میں سچائی پر قائم رہنا ہے.اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا

Page 66

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 54 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اسوۂ حسنہ کیا تھا.آپ کی سچائی کا معیار کیا تھا.وہ بلند مقام تھا کہ جو بدترین دشمن ابو جہل جو سب سے بڑا دشمن تھا آپ کا اس نے بھی یہ گواہی دی کہ ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے اور نہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ آج تک ہم نے آپ کی ذات میں جھوٹ نہیں دیکھا.لیکن جس کو اللہ ہدایت نہ دے اس کو تو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا نہ وہ ہدایت پاسکتا ہے کہ کہنے کے باوجود کہ ہم نے کبھی جھوٹ نہیں دیکھا.یہی اس نے کہا کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے.تمہاری سچائی کے قائل ہونے کے باوجود یہ ماننے کو تیار نہیں کہ آپ جو تعلیم لے کر آئے ہیں وہ سچی ہے.اس کو ہم جھوٹا ہی کہیں گے اور کبھی نہیں مانیں گے اور اس لئے بد انجام بھی ہوا ہے.اسی طرح اور بہت سے واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دشمن بھی ہمیشہ نبوت کے دعوے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی آپ کی سچائی کے قائل رہے.آپ اپنے ماننے والوں کے سچائی کے معیار کیا دیکھنا چاہتے تھے.اس بارے میں ایک روایت بیان کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ ' بڑے گناہ یہ ہیں اللہ کا شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا اور ایک روایت میں آپ نے فرمایا ” جھوٹی قسم ، جس کے ذریعہ سے انسان کسی مسلمان کا حق مارے، کھا نا سب سے بڑے گناہ ہیں.اب یہ دیکھیں آج کل بعض لوگ اپنا نا جائز طور پر حق لینے کے لئے یا کسی کا حق مارنے کے لئے کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لئے غلط بیانی کر جاتے ہیں.بعض دفعہ بعض احمدی بھی کر جاتے ہیں چاہے اکاڈ کا ہی کیس ہوں.آپ نوجوان اور بچے اس بات کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے اس لئے ہمیشہ سچائی پر قائم ہوں اور سچ بولیں.اور یہ سچائی کا وصف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں اس حد تک پیدا کرنا چاہتے تھے کہ آپ نے ایک دفعہ ایک عورت کو اپنے بچے کو اپنے پاس یہ کہ کر بلانے پر کہ ادھر آؤ میں تمہیں ایک چیز دوں گی.فرمایا کہ اگر تم اس کو کوئی چیز نہ دیتی تو یہ جھوٹ بولنے والی بات تھی.اور پھر اس طرح بچہ بھی جھوٹ سیکھتا.جھوٹ اور فتنہ پردازی سے پر ہیز کریں پس آپ جو نو جوان ہیں ہمیشہ یادرکھیں کہ ذراسی بھی غلط بیانی اگر خود کرتے ہیں یا جن کے چھوٹے بچے ہیں وہ اپنے بچوں کے سامنے کریں گے تو جھوٹ سکھانے والے بن جائیں گے.پھر ایک بیماری ہے، زبان کے چسکے کے لئے مزے لینے کے لئے ہر سنی سنائی بات مجلسوں میں یا اپنے دوستوں میں بیان کرنے لگ

Page 67

55 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم جاتے ہیں کہ فلاں شخص نے یہ بات کی تھی فلاں عہدیدار نے یہ بات کی تھی اور اس کی اور فلاں قائد کی یا مہتم کی یا فلاں ریجنل امیر کی بڑی آج کل ٹھنی رہتی ہے.حالانکہ بات کچھ بھی نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ اس سے فتنہ پیدا ہو کچھ حاصل نہیں ہوتا.دوسرے شخص کی یا اشخاص کی جن کے متعلق باتیں کی جاری رہی ہیں صرف بدنامی ہورہی ہوتی ہے.اس بیہودگی کو روکنے کے لئے آنحضرت نے فرمایا کہ کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے.پھر ایک بیماری ہے کسی بات کو دو آدمیوں کے درمیان اس طرح بیان کرنا جس سے دو مومنوں کے درمیان رنجش پیدا ہو یا پیدا ہونے کا خطرہ ہو.اور کئی دفعہ ایسے واقعات ہوتے ہیں جس سے ایک شخص اپنی بدفطرتی کی وجہ سے دو خاندانوں میں پھوٹ ڈال دیتا ہے، فتنہ پیدا کر دیتا ہے.پہلے کہا جاتا تھا کہ عورتیں ایسی باتیں کرتی ہیں لیکن اب تو مردوں میں بھی یہ بیہودگی اور لغویات پیدا ہو چکی ہیں.بعض میں تو بہت زیادہ.جس سے دو خاندانوں کے تعلقات ختم ہو جاتے ہیں.لیکن اب تو اس حد تک یہ بڑھ چکی ہے کہ بعض دفعہ فکر پیدا ہو جاتی ہے.میاں بیوی میں پھوٹ ڈال دی جاتی ہے.تو ایسے فتنہ پیدا کرنے والے شخص کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ آدمی بدترین ہے جس کے دومنہ ہوں، یعنی ایک کے پاس جا کے کوئی بات کی دوسرے کے پاس جا کے کچھ بات کی تا کہ فتنہ پیدا ہو.اور بڑا منافق اور چغل خور ہے ایسا شخص پس ہمیشہ ایسی باتوں سے بچنا چاہئے.یہ عمر ہے بچوں کی بھی نو جوانوں کی بھی، جو جوانی میں داخل ہورہے ہیں اُن کی بھی اور جونو جوان ہیں ابھی ان کی بھی کہ اس عمر میں اپنے آپ کو جتنی عادت ڈال لیں گے برائیوں سے بچنے کی اتنی زیادہ اصلاح کی طرف قدم بڑھتا چلا جائیگا.جنت میں جانے کا گر ہماری اصلاح کے لئے جو حکم ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھو اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.اور صحابہ اپنی اصلاح کے لئے ہر وقت انسان کامل صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کے راستے پوچھا کرتے تھے.جو بہت قریب رہنے والے تھے وہ تو آپ کے عمل کو دیکھ کر اپنی اصلاح کر لیا کرتے تھے.جو زیادہ قریب نہیں ہوتے تھے وہ جب مجلس میں آتے تھے تو آ کر آپ سے سوال پوچھا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے کوئی ایسا گر بتائیں جو سیدھا مجھے جنت میں لے

Page 68

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 56 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ علی جائے.یہ نہیں تھا کہ مجھے کوئی ایسا گر بتائیں جس سے میری مالی حالت بہتر ہو جائے یا میرے خاندان کا وقار بلند ہو جائے.فکر تھی اپنی عاقبت کی.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز باجماعت پڑھو، زکوۃ دو اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو اور حسن سلوک کرو.اب رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور حسن سلوک میں تمام رشتے آ جاتے ہیں.بعض نوجوان شادیوں کے بعد اپنی بیویوں یا اُنکے ماں باپ یا بہن بھائی سے حسن سلوک نہیں کرتے.بعض لڑکوں کے ماں باپ کی طرف سے پابندیاں لگ جاتی ہیں.تو ایسے نو جوانوں کو اپنے ماں باپ کو بھی سمجھانا چاہیے کہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس کام کے کرنے سے جنت کی بشارت دے رہے ہیں.آپ ہمیں اُس سے روک رہے ہیں.تو جہاں اللہ اور اُس کے رسول کے حکموں پر صحیح عمل نہ ہو رہا ہو وہاں ادب کے دائرے میں رہ کر بڑوں کو سمجھانا بھی ضروری ہے.کوئی سمجھانے میں حرج بھی نہیں ہے.صرف اللہ کی رضا کی خاطر اور دعا کر کے جب آپ اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لئے اس طرح سمجھا ئیں گے تو اللہ تعالیٰ اُس میں برکت عطا فرمائے گا.تو یہ باتیں تو بہت سی ہیں جو آپ نے ہمارے سامنے پیش فرمائی ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اور جن کو چھوڑنے کی ہمیں تلقین فرمائی ہے.اور ان اوامر و نواہی کے اعلیٰ نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قائم فرمائے اور مختلف وقتوں میں صحابہ کو بھی نصیحت فرمائی اور فرمایا کرتے تھے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا.تو سب تو اس وقت بیان کرنا ممکن نہیں ہے.آپ میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ قرآن کریم کو پڑھیں.ان احکامات کو سمجھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے اُن کے نمونے دیکھیں.آپ نے اپنی مجالس میں اپنے ماننے والوں کو جو بتایا ہے اس کو سنیں اور پڑھیں اور زندگیوں کا حصہ بنائیں.درسوں میں ، تقریروں میں، خطبات میں جو مختلف مسائل سنتے ہیں.یہاں اجتماع پر بھی آپ اس لئے اکٹھے ہوئے تھے کہ علمی اور روحانی پیاس بھی بجھانے کی کوشش کریں.ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ انسانی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس سے ایک مومن کی زندگی کی اصلاح ہو سکتی ہو اور اللہ تعالیٰ نے اُس کو بیان نہ فرمایا ہو.اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں ہمارے سامنے اُس کی وضاحت نہ فرمائی ہو.یہ ہماری بدقسمتی ہوگی اگر ہم اتنا کچھ میسر آنے کے بعد بھی اُس پر عمل نہ کریں.پردہ کی پابندی کرنی اور کروانی چاہیے ایک بات اور ہے جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں جس کا تعلق گو کہ براہ راست عورتوں سے ہے

Page 69

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 57 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی لیکن مرد بھی اپنے کسی complex یا کمزوری کی وجہ سے حصہ دار بن رہے ہیں اُس میں اور وہ ہے پردہ.پردے کا حکم تو ویسے عورت مرد دونوں کو ہے نظر کا پردہ کرنے کا.لیکن عورت کے لئے کچھ اس سے زائد بھی ہے.جیسا کہ میں نے کہا پر دے کا تعلق براہ راست عورت کے ساتھ ہے لیکن مردوں کا تعلق اس طرح بنتا ہے کہ جب بہت ساری بچیاں بیاہ کر آتی ہیں یہاں.کچھ تو یہاں پیدا ہوئیں ہیں، پلی بڑھیں ہیں اور بیاہ کر یہیں دوسرے گھروں میں جاتی ہیں.اُن کے پردوں کے بارے میں تو اُن کے ماں باپ کو چاہیے تھا کہ جب وہ اُن کے گھروں میں تھی تو ان کی صحیح تربیت کرتے اور پردہ کی اہمیت کے بارے میں بتاتے.لیکن اب حجاب اور پردہ کی پابندی کے بارے میں شادی کے بعد خاوندوں کا فرض ہے کہ انہیں پیار سے سمجھائیں تا کہ وہ اس حکم کی تعمیل کرنے والی ہوں.لیکن جو میں نے پہلے کہا تھا کہ پاکستان سے بیاہ کر آنے والی یا ہندوستان سے بیاہ کر آنے والی وہ پاکستان میں تو برقع پہنتی آئی ہیں لیکن یہاں آکر ان کے برقعے اتر جاتے ہیں.اور پردہ بھی نام کا ہی رہ جاتا ہے.صرف ہلکا سا دوپٹہ ایک رہ جاتا ہے گلے میں اور عموماً پتا کرنے پر یہی راز کھلتا ہے کہ مردوں کی عقل پر اصل میں پردہ پڑا ہوا ہے.اور اُس وجہ سے یہ حال ہوا ہے.پتا نہیں لڑکوں کو نو جوانوں کو یا مردوں کو اس کا کیا Complex ہے.یہ بھی شکایات ملتی ہیں کہ مرد اور نو جوان لڑکیوں کو کہتے ہیں اور بیویوں کو کہتے ہیں اپنی کہ اگر باہر ہمارے ساتھ جانا ہے تو پھر نقاب اتار کر چلوScarf باندھ لو یا دو پٹہ باندھ لو.چادر کی حد تک بھی مناسب ہوتا ہے.لیکن دو پٹہ سے تو بالکل ہی آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا ہے حجاب.لوگ کیا کہیں گے یہ تو بڑا Backward آدمی ہے ایسا Backward ہونے پر تو آپ کو فخر ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک حکم کی تعمیل کرنے والے ہیں تعمیل کرنے والے بن رہے ہیں.اگر لڑکیاں یہاں آ کر خود بھی یا تارتی ہیں پردے تو لڑکوں کا مردوں کا کام ہے کہ ان کو کہیں کہ پردے کی کی پابندی کرو.بہت سے دوسرے کام تو زبر دستی کردار ہے ہوتے ہیں.عورتوں پر بچیوں پر غلط قسم کی سختیاں کر رہے ہوتے ہیں.اگر اسلامی تعلیم پر عمل کروانے کے لئے بھی سختی کر دیں گے تو اس کا تو ثواب ہی مل رہا ہوگا.پردہ کے معیار ہیں مختلف جگہوں پر.ایک نواحمدی ہے جو مسلمان نہیں ہے عیسائیت سے احمدی ہوئی ہے لڑکی یا بچی وہ اگر حجاب لیتی ہے Scarf باندھتی ہے کوٹ کھلا پہنتی ہے وہ اس کے لئے پردہ ہے.لیکن پردے کے معیار تو بڑھنے چاہئیں آہستہ آہستہ جس طرح ایمان بڑھتا ہے.نہ یہ کہ جو پہلے معیار پردے کے بڑھے ہوئے تھے وہ کم ہونے شروع ہو جائیں تو

Page 70

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 58 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی بہر حال یہ میں کہہ رہا تھا کہ اور معاملوں میں جو سختی کرتے ہیں تو یہاں بھی سختی ہو سکتی ہے.لیکن سختی سے میرا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس بات پر کہ ہمیں چلو ا جازت مل گئی ہے مارنا پیٹنا شروع کر دیں اپنی بیویوں کو.بعضوں کا یہ بھی حال شروع ہو جاتا ہے کہ چلو ہمیں چھٹی مل گئی.یہ مارنا پیٹنا تو ویسے ہی منع ہے.اس لئے اس کے بہانے کبھی تلاش نہ کریں اور اصل مقصد جو ہے اصلاح کا وہ اصلاح کی کوشش کریں اور اصلاح پیار و محبت سے ہی ہوتی ہے.کیونکہ بعض دفعہ یہ جونا جائز قسم کی سختیاں شروع ہو جاتی ہیں اور مارنا پیٹنا جو ہے اس سے اولا دیں بربادہور ہی ہوتی ہیں.اس لئے اپنی اولادوں کا بھی خیال رکھیں.یہ بچے آپ کے بچے نہیں بلکہ جماعت کے بھی بچے ہیں اس لئے اس لحاظ سے بھی ان کی تربیت کرنی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی ہر قسم کی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ لوگ اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے جو اس زمانے کے امام کے ساتھ کیا ہے ہر ایک احمدی نے حقیقی معنوں میں ہر رنگ میں اپنی اصلاح کرتے ہوئے اپنے پیدا کرنے والے خدا سے تعلق جوڑنے والے ہوں اور اس کے حقیقی عبد بننے والے ہوں.عاملہ صحت کا خیال رکھے بات ہو رہی تھی صحت جسمانی کی شروع میں میں نے کی تھی صحت مند جسم کے لئے.ایک تو خدام الاحمدیہ مرکز یہ کی عاملہ کے ضمن میں آخر میں میں کہنا چاہتا ہوں کہ آج کی جو رسہ کشی میں نے کروائی زبر دستی ان سے اُس سے یہ پتا لگ گیا کہ مرکزی عاملہ کی صحت بہت کمزور ہے.اس لئے ان کو اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ ان کے سپر دزیادہ ذمہ داریاں ہیں اور خدام الاحمدیہ کی ایک بات میں اللہ کا شکر گزار بھی ہوں ان کا بھی شکر یہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے جو وعدہ کیا تھا خدام الاحمدیہ نے ( بیوت الذکر ) کے لئے 1,1 ملین کا تقریباً پورا کر دیا ہے.الحمد للہ.پہلے چند ہزار کی کمی تھی لیکن ابھی جوLatest رپورٹ انہوں نے دی ہے اُس کے مطابق جو وعدہ کیا تھا اس سے بڑھ گئے ہیں.ایک ضروری وضاحت دوسرے ایک میں وضاحت کردوں بعض طبیعتوں میں، طبائع مختلف ہوتی ہیں ذہنوں میں خیال آ جاتا ہے خدام الاحمدیہ نے ایک پروگرام رکھا تھا اسٹوڈنٹس کے لئے سرٹیفیکیٹ ایشو کرنے کا.یہ اصل میں ایک جو نظام ہے وہ جماعتی نظام ہے مرکزی اس کے زیر انتظام ہونا چاہیے.اس لئے میں نے اس کو روک دیا تھا.میرا

Page 71

59 ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم پہلے خیال تھا کہ شاید سیکرٹری تعلیم کی طرف سے یہ ہورہا ہے جماعت کے لیکن بعد میں پتہ لگا مجھے وضاحت ہوئی کہ خدام الاحمدیہ کی طرف سے ہو رہا ہے تو جماعت میں جو نظام ہے ہر نظام کو اُس کا پابند رہنا چاہیے.اس لئے آج جو یہاں سرٹیفیکیٹ ایشو ہونے تھے اچھی کارکردگی دکھانے والے اسٹوڈنٹس جو تھے مختلف مضامین اور یو نیورسٹیز اور کالجز کے اُن کو میں نے اب ختم کر دیا ہے کہ وہ جلسہ پر دیں.اس لئے میں نے امیر صاحب کو بتا دیا ہے کہ جلسے پر یہ انتظام ہوگا جس طرح سرٹیفیکیٹ دیے جاتے ہیں وہ دیے جائیں گے.اور اس دفعہ ہوسکتا ہے کہ جرمنی کے جلسہ پر میں شاید نہ آؤں اور کسی اور ملک میں جانا پڑے.تو اس صورت میں پھرا میر صاحب سرٹیفیکیٹ اور میڈلز دے دیں اور یا اگر اسٹوڈنٹس چاہتے ہوں کہ انہوں نے میرے ہاتھ سے لینے ہیں تو پھر اگلے وزٹ تک انتظار کریں گے آئندہ مل جائیں گے.دعا کر لیں.(نورالدین جر منی شمارہ نمبر 4.2006ء )

Page 72

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 60 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نیشنل عامله، ریجنل قائدین و قائدین مجالس جرمنی کے ساتھ میٹنگ * مورخہ 11 جون 2006ء کو نیشنل مجلس عاملہ، ریجنل قائدین و قائدین مجالس جرمنی کی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں حضور انور نے عہدیداران خدام الاحمدیہ جرمنی کو از راہ شفقت قیمتی نصائح سے نوازا.حضور اقدس نے اس میٹنگ میں شعبہ ( دعوت الی اللہ ) اور شعبہ تربیت کے کاموں کا گہرائی سے جائزہ لیا اور راہنمائی فرمائی.شعبہ (دعوت الی اللہ ) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سال کے (دعوت الی اللہ کے ) ٹارگٹ کے بارہ میں دریافت فرمایا نیز ارشاد فرمایا کہ آپ صرف طلباء کے لئے پروگرام نہ بنا ئیں.خدام الاحمدیہ میں تو چالیس سال کی عمر تک کے خدام شامل ہیں.آپ 15-20، 20-25 سال کے سٹوڈنٹس کے حساب سے پروگرام بنارہے ہیں.باقی ساروں کو کیوں نہیں involve کرتے.صرف %16 کے لئے آپ نے (دعوت الی اللہ کا پروگرام بنایا ہوا ہے تو باقی جو %84 ہے یا %83 ہے اُس کو آپ نے چھوڑا ہوا ہے.اُس%83 کو کام میں ہی نہیں لا رہے تو ( دعوت الی اللہ ) کس طرح کریں گے آپ.پروگرام بنائیں، ساروں کو involve کریں.میں نے پچھلے سال خطبے میں کہا تھا کہ اب دو داعیان الی اللہ یا چار داعیان الی اللہ یا دس ہم نے بنالئے ، اُس کا وقت نہیں ہے.اب ہر ایک کو involve کرنا پڑے گا، اپنے اپنے ماحول میں.ہر ایک سے رپورٹ لیں کہ وہ کسی نہ کسی کو ( دعوت الی اللہ ) کرتا ہو.کن خطوط پر دعوت الی اللہ کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ریجنل قائد صاحب بائرن سے دریافت فرمایا کہ ان کا ( دعوت الی اللہ ) کا کیا پروگرام ہے؟ ریجنل قائد صاحب کے بتانے پر کہ 103 کی کل تجنید میں سے 35 داعیان الی اللہ ہیں جو ( دعوت الی اللہ ) کرتے ہیں تو حضور اقدس نے ارشاد فرمایا کہ تقریباً 30, 33 فیصد ہیں.تو اس

Page 73

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 61 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی میں سے داعیان الی اللہ کا نتیجہ کیا ہے؟ نام کے تو داعیان الی اللہ نہیں ؟ رپورٹ تو پیش ہو جاتی ہے.ہم نے یہ پروگرام بنایا، یہ پروگرام بنایا، یہ پروگرام بنایا.ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے.لیکن آپ کو یہ فکر کھانی چاہیے کہ جو پروگرام دیا ہے اُس کا نتیجہ کیا نکلا؟ حملہ آپ نے کہا ( دعوت الی اللہ کا ) پروگرام بنانا ہے.دس سٹال لگانے ہیں مثلاً 1:.اُن دس سٹالوں میں سے کتنے لگے؟ 2:.اُن دس سٹالز میں کتنے لوگ آئے؟ 3:.اُن دس سٹالز کا لٹریچر کتنا تقسیم ہوا ؟ 4:.اُن دس سٹالز میں کس کس قومیت کے لوگ آئے؟ 5:.کتنا کتنا لٹریچر کس کس زبان کا نکلا ؟ پھر ( دعوت الی اللہ ) کے جو انفرادی پروگرام ہیں ، اُن داعیان الی اللہ کے کتنوں کے ساتھ رابطے 1.وہ رابطے کس حد تک پہنچے ہوئے ہیں؟ 2 - کس کس قوم کے ہیں؟ 3: کتنی قومیتیں آکے آباد ہو چکی ہیں؟ 4: کس کس قومیت کے ساتھ آپ کے رابطے ہیں؟ اور ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ 5: کسی قسم کے سوال وہ پوچھنے والے لوگ ہیں؟ 6:.ابھی اُن سے مذہبی گفتگو شروع ہوئی ہے یا صرف ابھی تعارف ہی ہورہا ہے؟ 7: کس قسم کا لٹریچر اُن کو چاہیے؟ 8:.اُن کے خاص particular,specific کوئی سوالات ہیں؟ 9:.اُن سوالات کے لئے جواب دینے کے لئے ہمیں کس قسم کا مواد چاہیے؟ 10: کس قسم کے علماء سے گفتگو کرانے کی ضرورت ہے؟ 11:.اگر ہر داعی الی اللہ کا ایک ایک آدمی سے رابطہ ہے تو کس سٹیج پر اب تک وہ رابطہ پہنچا ہوا ہے؟ کتنی تو قعات ہیں ان میں سے پھل حاصل کرنے کی؟

Page 74

62 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 12:.پھر کون سی پاکٹس ہیں جہاں ہم جاسکتے ہیں.ترکوں کو ( دین حق ) کو سمجھانے کے لئے کیا کیا ضروریات ہیں ، کیا کیا اعتراضات ہیں جو ہم دور کر سکتے ہیں.اس کے بعد ان میں نفوذ ہو سکتا ہے احمدیت کا.کیونکہ بڑی پاکٹ ہے جرمنی میں ترکوں کی.پھر عرب ملکوں کے ، مراکش اور دوسرے تیسرے ملکوں کے یہاں آئے ہوئے ہیں.ان کے ساتھ کس سلسلے میں بات گفتگو ہو سکتی ہے.کیا کیا اُن کے سوالات ہیں؟ کس طرح مطمئن کیا جاتا ہے.پھر Eastern Europe کے جولوگ یہاں آ کر آباد ہورہے ہیں، یورپین کمیونٹی میں شامل ہونے کی وجہ سے بھی یہاں آرہے ہیں تو یہاں better اُن کے لئے کام کی oppertunities ہیں.اُن میں کس قسم کا لٹریچر چاہیے؟ یہ بہت سارا کام ہے جو ہونے والا ہے.اگر آپ اس پر کام کر رہے ہیں تو مجھے بتائیں کہ اُس کا کیا رزلٹ نکلا اور اگر نہیں کر رہے تو پھر اس کو پلان کرنا چاہیے.اس طرح کا جائزہ لیں اور باریکی میں جائزہ لیں.ہر ریجن کا قائد اور مہتمم صاحب (دعوت الی اللہ ) بھی.تو پھر آپ کو یہ پتہ لگے گا کہ کہاں کہاں ہماری کمیاں ہیں.صرف پروگرام بنا کے دے دینے سے ٹارگٹ حاصل نہیں ہوا کرتے.رابطے پر کھتے رہا کریں نیز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ بیعت کا سوال تو بعد میں ہے.پہلے یہ بتائیں کہ داعیان الی اللہ کے رابطے کتنوں سے ہیں.اُن میں سے کتنے active ہیں جو ( دعوت الی اللہ ) کا کام کرتے ہیں.صرف نام ہی لکھوا کے شامل ہوئے ہیں؟ جن سے رابطے ہیں ان میں سے کس کس قومیت کے لوگ ہیں؟ ان کے سوال کیا ہیں جو ان کو اٹھتے ہیں ، انقباض جو دل میں پیدا کرتے ہیں کہ کیوں مانیں.اور پھر یہ کہ کئی تو rigid ہوتے ہیں، پتھر ہیں اُن کے ساتھ آپ سر ٹکراتے رہیں، ان کو فرق کوئی نہیں پڑتا.وہ سوال میں سے سوال حجتیں کرنے کے لئے نکالتے رہتے ہیں.اُن کو بے شک سوالوں کے جواب دیتے جائیں کیونکہ بعد میں وہ یہ بدنامی بھی کرتے ہیں کہ دیکھو جی یہ ہمارے سوالوں کے جواب نہیں دے سکے.لیکن یہ نہ سمجھیں کہ اُن پہ ( دعوت الی اللہ ) کا اثر ہو جائے گا.دیہات میں بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام بنا ئیں شہروں میں سٹال لگانے سے ایک روایتی کام تو ہوتا رہے گا لیکن میں نے کہا تھا کہ چھوٹے دیہاتوں

Page 75

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 63 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی میں ( دعوت الی اللہ ) کا پروگرام بنائیں.یہ داعیان الی اللہ جو آپ کے ہیں انہوں نے اپنے اپنے شہروں سے باہر نکل کے چھوٹی جگہوں پہ قصبوں میں گاؤں میں جا کے ( دعوت الی اللہ کے ) رابطے کئے ہیں کہ نہیں؟ اگر نہیں کئے تو ان کو کروانے چاہئیں.اگر کئے ہیں تو کس قسم کے رابطے ہیں اور کس حد تک وہ پہنچے ہیں اب تک ؟ ان کا رزلٹ کیا ہے؟ ان کا فیڈ بیک بھی آپ کو آنا چاہیے؟ م یہ دیکھیں کہ اپنا جو روایتی لٹریچر ہے اُس سے باہر نکل کے ہمیں کیا چیز چاہیئے ؟ آپ لوگ جو فیلڈ میں کام کر رہے ہوتے ہیں، آپ بہت سارا feedback کر سکتے ہیں جماعت کے لئے.خدام الاحمدیہ کے وساطت سے انفارمیشن پھر جماعت کو مل جاتی ہے، انصار اللہ کی وساطت سے جماعت کو مل جاتی ہے، لجنہ کی وساطت سے جماعت کو انفارمیشن مل جاتی ہے اور جماعت کے اپنے نظام سے جماعت کو انفارمیشن مل جاتی ہے.اس سے یہ ہوتا ہے کہ ان کو بھی ایک line of action ترتیب کرنے میں آسانی رہتی ہے.یہ پتا ہوتا ہے کہ کس قسم کے لوگ ہوتے ہیں، کس قسم کے سوالات ہیں کس قسم کے لٹریچر ہیں، کس عمر اور کس طبقے کے لوگوں نے کس قسم کے سوال کرنے ہیں.کیونکہ جماعت مجموعی طور پر اتنی active نہیں role play کر رہی ہوتی جتنی ذیلی تنظیمیں کر سکتی ہیں.طالبہ کن خطوط پر دعوت الی اللہ کریں؟ پھر سٹوڈنٹس کے لئے پروگرام بنایا ہے کہ وہ ( دعوت الی اللہ ) کریں.اُس کے لئے ریجنز میں کیا پروگرام بن رہا ہے؟ کتنے سٹوڈنٹس ہیں جو یونیورسٹی میں جانے والے ہیں؟ یو نیورسٹی جو ہے اس میں کتنے سیمینار ( دعوت الی اللہ ) کے لئے منعقد کئے گئے ہیں؟ اور کتنے پر وفیسرز کے ساتھ تعارف کروایا گیا ہے؟ چلتے چلتے جماعت کا لٹریچر دے دیا تھوڑا سا یا ( دین حق) کے بارے میں تعارف بھی کروایا گیا.یونیورسٹی میں جتنا میں نے دیکھا ہے، لڑکیوں میں بھی ،لڑکوں میں بھی.سٹوڈنٹس جتنے ہیں وہ اپنے پڑھے لکھے ماحول میں ( دین حق ) کو متعارف کروادیں تو آہستہ آہستہ ایک لابی بنی شروع ہو جاتی ہے.جو ( دین حق ) کا ہر طبقے میں تعارف کروادے گی.یونیورسٹیز میں بعض پروفیسروں کو interest ہوتا ہے.سٹوڈنٹ ہی ہیں مثلاً chirstian

Page 76

64 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ہیں، jews ہیں پھر دوسرے مسلمان ہیں.ہر ایک کو کہیں اپنے اپنے مذہب کے مطابق اپنی تعلیم بتاؤ کہ کیا چیز ہے.ایک سیمینار، دو تین لیکچر ہوجائیں.20 - 25 منٹ کا ہی سہی،اس میں پڑھے لکھے لوگ ایسی generation اکٹھی ہو جائے.اُس سے بڑا فائدہ ہوگا آپ کو ، کہ ہر طبقے میں تعارف ہو جائے گا.کیونکہ (دعوت الی اللہ ) کے سلسلہ میں جماعت کا جو نظام ہے وہ اُن تک نہیں پہنچ سکتا.آپ اپنی واقفیت کی وجہ سے، دوستی کی وجہ سے،personal contacts کی وجہ سے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جاسکتے ہیں.جبکہ جماعت جب جائے گی تو وہ کہیں گے مذہبی تنظیم آگئی یہ تو ہمارے اندر پھوٹ ڈالنے آ گئے ہیں.یہ نہیں کر سکتے وہ کام جو آپ کر سکتے ہیں.آپ لوگوں کو fingertips کے اوپر well informed ہونا چاہیے کہ یہ یہ ہمارے داعیان ہیں، یہ یہ کام کر رہے ہیں.یہ فیڈ بیک ہر مہینے مل رہا ہو.ریجنل قائد کو اپنے ریجن میں پتا ہونا چاہیے.مہتم (دعوت الی اللہ ) کو پورے ملک کا پتا ہونا چاہیے.آیا اس نہج پہ کام ہو رہا ہے؟ ہورہا ہے تو مجھے بتائیں کہ ( دعوت الی اللہ کے ) رابطوں سے کتنوں کی توقع ہے بیعتیں ہونے کی؟ آپ کو data collect کرنا پڑے گا.آج کل تو بہت سارے پڑھے لکھے لڑکے ہیں، اپنے سسٹم بنوائیں تو لڑ کے کام جانتے ہیں کمپیوٹر کا بھی ، پڑھے لکھے بھی ہیں.وہ آپ کو پروگرام بھی ایسا بنا کے دے دیں گے جس سے آپ (دعوت الی اللہ ) کے لئے صحیح scientific approach کرسکیں.شعبه تربیت حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ خدام الاحمدیہ کی تجنید میں سے کتنے شادی شدہ ہیں؟ تجنید کی انفارمیشن ہونی چاہیئے کہ شادی شدہ کتنے ہیں؟ اُن میں سے کتنے ایسے ہیں جو کام کر رہے ہیں؟ نیز فرمایا کہ یہ جو شادی شدہ ہیں بچے، نوجوان خدام الاحمدیہ، ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو اپنے گھر والوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک رکھے ہوئے ہیں؟ مجھے تو لگتا ہے بہت زیادہ جھگڑے ہوتے ہیں.قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کی بھی تلقین کرنی ہے.اس کے اوپر میٹنگ ہونی چاہیے.کتنے لوگ ہیں جو قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں با قاعدہ؟ ہ نمازیں کتنے لوگ با قاعدہ پانچوں وقت پڑھتے ہیں؟ کتنے نہیں پڑھتے؟ کیونکہ ملاقاتوں میں

Page 77

مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم 65 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ عالی جو random سوال لوگوں سے کرتا ہوں، اُن میں سے %50 ایسے ہیں جو پانچ نمازیں نہیں پڑھتے.تو کیوں نہیں پڑھتے ؟ اس کے لئے کیا کوشش کی جارہی ہے؟ اور جو کوشش کی جارہی ہے اس کا نتیجہ کیا بر آمد ہورہا ہے.نتیجہ بھی نکل کے آنا چاہیے آپ کے پاس.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب جو اردو پڑھ سکتے ہیں اُن کو کوئی مہیا کریں.جو ایک طرف تعلیم کے مہتم کرتے ہیں نا اپنے امتحان لینے کے لئے ، اس کے علاوہ جو ہیں مطالعہ کے لئے رکھا کریں کوئی.یہ بھی تربیت کا ایک حصہ ہے.تعلیم میں مدد ہو جائے گی اُس کی کوئی حرج نہیں.توجہ دلائیں.پھر یہ ہے کہ ان کے جھگڑوں وغیرہ کی طرف توجہ دلائیں.بعض لوگ باہر بہت اچھے ہوتے ہیں اور بڑی خدمت کر رہے ہوں گے اور وقار عمل کے لئے بلائیں گے تو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کریں گے.گھر جائیں گے تو بیوی بچوں پر ہاتھ جھاڑنے لگ جاتے ہیں.ایسے لوگوں پر بھی نظر رکھنی چاہیئے.پتا تو ساروں کو پہلے ہی ہے کہ کیا حکم ہے.اس کا فائدہ تب ہو گا جب ایسے لوگوں کو اصلاح کرنے کے لئے یہ دیکھیں کہ کون لوگ ہیں جو اُن کی اصلاح کر سکتے ہیں؟ اور اس کا طریقہ کیا ہے؟ ایک شخص کسی عہدیدار کی بات نہیں مانتا تو ضروری نہیں کہ اس کو annoy کرنے کے لئے ، اس کو چڑانے کے لئے ، اُس کو تنگ کرنے کے لئے عہد یدار کو ہی بار بار اس کے پاس بھیجا جائے.منتظم تربیت ہی وہاں جائے یا ناظم تربیت ہی اس کے پاس جائے یا مہتم تربیت اس کے پاس جائے یا جماعت کا سیکرٹری تربیت جائے.بلکہ اس کے بجائے یہ دیکھیں کہ کس سے اچھے تعلقات ہیں دوستوں میں سے، اور ان دوستوں میں سے بہتر کون ہے اپنی تربیت کے لحاظ سے.اُس کے سپرد کریں اُس کی تربیت کرنا.اُس کو نمازوں کی طرف لانا، اُس کو قرآن کریم پڑھانے کی طرف توجہ دلانا ، اُس کو اپنے گھریلو مسائل کو ٹھیک رکھنے کی طرف توجہ دلانا.یہ تمہاری ذمہ داری ہے تم کرو.اس طرح کی بھی ایک ٹیم تیار ہونی چاہیے جو بیک گراؤنڈ میں رہنے والے، خدمت کرنے والے ہوں اور ان کو پتا ہو ( یعنی ) صدر صاحب کو اور مرکزی عاملہ کو appriciate کیا جائے ان کی کوشش کو اگر کامیاب ہوتی ہے تو.بعض لوگوں کا مزاج ہوتا ہے کہ وہ عہدیداروں کی بات سن کے اور زیادہ چڑتے ہیں اور عہد یداروں کا بھی مزاج بن گیا ہوا ہے کہ ہم نے بات کرنی ہے اُن سے ذرا رعب ڈال کے.خدام الاحمدیہ میں نہیں اتنا ہوتا لیکن بعض دفعہ ماحول کا اثر ہو بھی جاتا ہے.تو اس لحاظ سے اکثر کوشش یہ ہے کہ ہمارے لوگوں

Page 78

66 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم کی اصلاح ہو اور زیادہ سے زیادہ کو جو نظام کا سسٹم ہے اس میں پرویا جائے.پھر بعض لوگ اچھے بھلے نظام میں پروئے بھی ہوئے ہیں لیکن اپنے مسائل کو حل نہیں کرتے.تو اس کے لئے کوشش ہونی چاہیے.جماعتی سطح پر اس طرح کی coordination ہو کہ پتا لگ جائے کہ فلاں خادم ہے اس کی انفارمیشن لجنہ سے ملی ہے کہ اس کا اپنے گھر والوں سے، بیوی بچوں سے اچھا سلوک نہیں.تو بعض دفعہ وہ جماعتی عہد یدار کی بات نہیں مانتے تو خدام الاحمدیہ کے ذریعہ سے اسے اپنے ہم عمروں کے ذریعہ سے کہلوایا جاسکتا ہے.سمجھایا جاسکتا ہے.پیار سے، محبت سے، دوستانہ ماحول میں.اور بہت ساری برائیاں ہیں ان کے بارے میں تربیت کی ضرورت ہے.سوراور شراب کا کاروبار نہ کریں پھر بہت سارے لوگ ایسے کاروبار کر رہے ہیں، حالانکہ چھوڑ بھی سکتے ہیں وہ کاروبار، جس میں سور وغیرہ کھلانے کا کام، گوشت کاٹنے کا کام ہے وہ چھوڑ کے کوئی شریفانہ کام بھی کر سکتے ہیں.کہتے یہی ہیں کہ ہم کوشش کر رہے ، ہمیں کام نہیں ملتا اس لئے ہم یہ کام کر رہے ہیں، بڑی مجبوری ہے.حالانکہ سب سے اچھا کام یہاں ان ملکوں میں ابھی بھی ہے وہ ٹیکسی کا ہے، گو مشکل ہے لائسنس لینا، زبان بھی شاید آنی چاہیے اور بہت سارے قواعد بھی آنے چاہئیں، قانون کا پتا ہونا چاہیئے.لیکن اس کے علاوہ بھی کام تلاش کئے جاسکتے ہیں.اپنے کام بعض کر سکتے ہیں.تو یہ جو اس قسم کے کام جو کر رہے ہیں ناریسٹورنٹ میں جہاں ما لک کو کہا جاسکتا ہے کہ اس کا ؤنٹر پر نہیں مجھے فلاں جگہ رکھ لو فلاں کام کے لئے رکھ لو تو مان جاتے ہیں.جس سے ان کے یہ غلط قسم کے کام جو ہیں یہ ختم ہو جائیں.پھر یوں آہستہ آہستہ وہ حس مر جاتی ہے گو کہ اس طرح واضح حکم تو نہیں ہے شراب کے بارے میں کہ کشید کرنے والا ، پلانے والا ، بنانے والا ، رکھنے والا، بیچنے والا ہر قسم کے لوگ جہنمی ہیں لیکن یہ تو حکم ہے نہ کہ ناجائز ہے.اس کا گوشت کھانا حرام ہے اور اس میں سے گندگی آتی ہے تو ایسے کام جن کو ناپسند کیا گیا ہے، کراہت کا اظہار بھی کیا گیا ہے اُس سے باقی اضطراری حالت ایسی کوئی ہوتی نہیں کہ بھو کا کوئی مر رہا ہے جس کی وجہ سے وہ کام کر رہا ہے.اگر ایسی حالت ہو تو خاص حالات ہیں جو تربیت کے شعبے کو پتا ہونے چاہئیں کہ اس کے ایسے حالات ہیں اور ان کے لئے اس حد تک اُس کو اجازت دی جاسکتی ہے کہ اس عرصہ میں اپنا کام تلاش کرو.گو کہ بعض باتیں لوگوں کی ذاتی اور پرسنل باتیں ہوتی ہیں لیکن اس

Page 79

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 67 ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کاindirectily جماعت کے مزاج پر اثر پڑ رہا ہوتا ہے، اُن کے گھر میں بچوں کی تربیت پر اثر پڑ رہا ہوتا ہے اس لئے وہ ذاتی پھر نہیں رہتیں وہ جماعتی بن جاتی ہیں.اس لحاظ سے ہمیں کوشش کرنی چاہیے لیکن کوشش کے بھی طریقے ہیں.ڈانگ سوٹے سے کوشش نہیں کرنی بلکہ پیار محبت سے.نور الدین“ جرمنی شمارہ نمبر 2006،4)

Page 80

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 68 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 16 جون 2006ء سے اقتباسات دعوت الی اللہ کے لئے نیک نمونے قائم کریں...دوسری اہم چیز یہی ہے کہ (دعوت الی اللہ ) کی طرف کوشش ہو.اس کے لئے اپنی حالتوں کو درست کرنے کے بعد، اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کے بعد، اپنی ( بیوت الذکر ) کو پیار ومحبت کا نشان بنانے کے بعد ، جس سے اللہ تعالیٰ کی توحید کے پیغام کے ساتھ پیار و محبت کا پیغام ہر طرف پھیلانے کا نعرہ بلند ہو، احمدیت یعنی حقیقی (دین حق) کے پیغام کو اپنے علاقے کے ہر شخص تک پہنچادیں.یہی پیغام ہے جو اللہ تعالیٰ کی پسند ہے.اور یہی پیغام ہے جس سے دنیا کا امن اور سکون وابستہ ہے.یہی پیغام ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونا ہے.آج روئے زمین پر اس خوبصورت پیغام کے علاوہ کوئی پیغام نہیں جو دنیا کو امن اور محبت کا گہوارہ بنا سکے اور بندے کو خدا کے حضور جھکنے والا بنا سکے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.کہ {وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ } ( حم سجدہ:34).یعنی اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوگی جو کہ اللہ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے اور کہے کہ میں یقیناً کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں.پس یہ کامل فرمانبرداری جس کی ہر احمدی سے توقع کی جاتی ہے اس وقت ہوگی جب نیک ، صالح عمل ہو رہے ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی ہو رہی ہوگی.اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں گے اور پھر ایسے لوگ جب دعوت الی اللہ کرتے ہیں رہے تو ان کی سچائی کی وجہ سے لوگ بھی ان کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.اور ان نیک کاموں کی وجہ سے ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے بھی منظور نظر ہو جاتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی مدد بھی فرماتا ہے.( دعوت الی اللہ کے ) میدان میں ان کی روکیں دور ہو جاتی ہیں.وہی مخالفین جو ( بیوت الذکر) کی تعمیر میں روکیں ڈال رہے ہوتے

Page 81

69 ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ہیں وہی جو ( مومنوں ) کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہی جو برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کے علاقے میں ( مومن ) عبادت کی غرض سے جمع ہوں جب آپ کے عمل دیکھیں گے، آپ کی عبادتیں دیکھیں گے، آپ کی پیشانیوں پر ان لوگوں کو نشان نظر آئیں گے جن سے مومن کی پہچان ہوتی ہے.ایسے ظاہری نشان نہیں جیسے آجکل دکھاوے کے لئے لگا لئے جاتے ہیں.ایک دلچسپ واقعہ مجھے کسی نے بتایا کہ کراچی میں وہ جائے نماز خریدنے کے لئے گیا تو جس دکاندار سے جائے نماز خریدی اُس نے چند پڑیاں بھی لا کر دیں.انہوں نے کہا یہ کیا ہے.اس نے کہا یہ مصالحے ہیں اس کو رگڑو گے تو ماتھے کی جلد پر ایسا نشان پڑے گا اور یہ مصالحہ لگاؤ گے تو ماتھے کی جلد پر ایسا نشان ڈل جائے گا.تو یہ ہیں ان لوگوں کے نشانات.ایسے لوگوں کے بارے میں ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کی نمازیں بھی الٹا کر ان کے منہ پر ماری جاتی ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں سے پھر اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرماتا ہے کہ تم ایسے کام کرو گے اور تم اپنا ہر فعل خدا کی خاطر کرو گے اور کامل فرمانبردار بن جاؤ گے تو پھر تمہاری ان کوششوں کو اللہ تعالیٰ اس طرح پھل لگائے گا کہ جو تمہارے دشمن ہیں وہ بھی تمہارے دوست بن جائیں گے.جیسا کہ فرماتا ہے.{ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ } ( حم سجدہ: 35 ) کہ ایسی چیز سے دفاع کر جو بہترین ہو.تب ایسا شخص جس کے اور تیرے درمیان دشمنی تھی وہ گویا اچانک ایک جاں نثار دوست بن جائے گا.پس بہترین دفاع ( دین حق ) کی خوبصورت تعلیم سے، اور اس تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے سے ہوگا.یہ سب الزامات جو آج ( دین حق ) پر لگائے جاتے ہیں اُن کو عملی نمونے کے ساتھ دھونے کے لئے ، اس پیغام کو پہنچانا بہت ضروری ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ تعلیم اس لئے تھی کہ اگر دشمن بھی ہو تو اس نرمی اور حسن سلوک سے دوست بن جائے اور ان باتوں کو آرام اور سکون کے ساتھ سمجھ لے...الفضل انٹر نیشنل 7 تا 13 جولائی 2006 ء ) |

Page 82

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 70 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ ہالینڈ کے ساتھ میٹنگ مورخہ 17 جون 2006ء) نیشنل عامله مجلس خدام الاحمدیہ ہالینڈ کی ”بیت النور میں حضور انور کے ساتھ میٹنگ ہوئی.حضور نے دعا کروائی اور پھر ہیتمین سے ان کے کام کا جائزہ لیتے ہوئے حسب حالات انہیں ہدایات سے نوازا.☆ حضور نے فرمایا کہ مجالس سے رپورٹس لیا کریں اور اس پر معتمد یا ہتمین کے تبصرے انہیں بھجوایا کریں اور جب قائدین کی میٹنگ ہو تو ان مجالس کی مثال دیا کریں جن کی کارکردگی اچھی ہے.شعبہ نو مبایعین کو ہدایت فرمائی کہ نو مبایعین کے ساتھ روزانہ نہیں تو ہر ہفتے رابطہ ہونا چاہیے.حضور نے تحریک جدید کے چندے بڑھانے کی طرف بھی توجہ دلائی اور فرمایا کہ خدام کو جماعت کے چندے کا 1/3 حصہ دینا چاہیے.اس کے لیے کوشش کریں.مکرم محاسب صاحب سے حضور انور نے ان کے کام کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ ایک محاسبہ کمیٹی بنا ئیں جس کے ممبران میں محاسب مہتم مال ، معتمد اور کوئی ایک مہتمم شامل کر لیا جائے اور دیکھتے رہیں کہ کسی مد کے بجٹ سے اس کا خرچ زائد نہ ہو.اور اگر ضرورت کے مطابق خرچ بڑھے تو صدر صاحب کو بتا کر متفرق ، ریز رو یا کسی دوسری مد سے ٹرانسفر کروالیں.جو اخراجات صدر صاحب کے ذریعہ کئے گئے ہوں ان پر مہتم مال کے دستخط کے بعد محاسب کے دستخط بھی ہونے چاہئیں.☆ ☆ مکرم محاسب صاحب جو مراکش سے تعلق رکھتے ہیں حضور انور نے انہیں ( دعوت الی اللہ ) کی طرف بھی توجہ دلائی اور فرمایا : آپ عربوں اور مختلف قومیتوں میں نفوذ کریں اور ( دعوت الی اللہ ) کے لئے Crash Programme بنائیں.ان میں جائیں ، ان کے ساتھ سوال و جواب رکھیں ،انہیں لٹریچر دیں.آپ تو ان کی نفسیات بھی سمجھتے ہوں گے ان کے حالات کے مطابق انہیں پیغام حق پہنچائیں.

Page 83

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ☆ 71 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی حضور انور نے صدر مجلس خدام الاحمدیہ کو نصیحت فرمائی کہ ( دعوت الی اللہ ) کے کام کو منظم کریں.داعیان کی لسٹ بنائیں اور زیادہ لوگوں کو (دعوت الی اللہ ) کے کام میں Involve کریں.( دعوت الی اللہ کے ) سٹالز کے ساتھ ساتھ سیمینارز اور میٹنگز بھی کریں.(مربیوں) کے ساتھ سوال و جواب کی مجالس رکھوائیں.☆ حضور انور نے ممبران مجلس عاملہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ کی جماعت چھوٹی سی ہے اور چھوٹے ماحول کو زیادہ منظم کیا جاسکتا ہے.اس لئے سستیاں چھوڑیں اور اپنے کام کو مثالی بنا ئیں.حضور نے مشن ہاؤس کی تزئین کی طرف بھی توجہ دلائی اور فرمایا کہ ہالینڈ میں جتنا پھولوں کا رواج ہے آپ لوگوں نے اس سلسلہ میں بہت کم کام کیا ہے اس طرف بھی توجہ کریں.یہ میٹنگ 20:05 پر ختم ہوئی.مجلس عاملہ کی درخواست پر حضور انور نے اپنے ساتھ انہیں گروپ فوٹو کا موقع عطا فرمایا.الفضل انٹر نیشنل 14 تا 20 جولائی 2006 ء ) |

Page 84

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 72 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جون 2006ء سے اقتباس.اگر دل صاف نہ ہو تو کثرت اعجاز بھی اثر نہیں کرتی.لیکن جن کو خدا ہدایت دینا چاہے وہ ان پڑھ اور جنگلوں میں بھی رہتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہدایت دے دیتا ہے.حضور انور کی وقف عارضی کا واقعہ بہت پرانی بات ہے.غالباً 1966ء کی.میں سرگودھا کے علاقے میں وقف عارضی پر گیا تو ایک دور دراز گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا.وہاں ایک بہت بوڑھی عورت ملیں.جب ہم نے اپنا تعارف کرایا کہ ربوہ سے آئے ہیں، احمدی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں بھی احمدی ہوں اور ہم لوگ چاند سورج گرہن کو دیکھ کر اس زمانے میں احمدی ہوئے تھے.یہ کہتی ہیں میں چھوٹی تھی اور میرے والدین اس وقت ہوتے تھے تو اس علاقے میں بالکل جنگل میں، دیہات میں، دیہاتی ان پڑھ لوگ بھی چاند سورج گرہن کا نشان دیکھ کر احمدی ہو گئے.تو اللہ نے بہت سوں کو اس زمانے میں بھی اس نشان سے ہدایت دی تھی.پھر جیسا کہ میں نے کہا بعض ایسے نشانات ہیں جن کا ظہور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید میں زمین پر ہوا اور ہوتا چلا جا رہا ہے.اور وہ ہیں زلزلے اور طاعون.یہ ثابت شدہ حقیقت ہے اور اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد سے زلزلوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے.اس طرح طاعون نے بھی آپ کے زمانے میں تباہی مچائی اور آج کل ایڈزبھی طاعون کی ایک قسم ہے تو ہر سال اس سے بھی لاکھوں افراد موت کی لپیٹ میں آ رہے ہیں.الفضل انٹرنیشنل 21 تا 27 جولائی 2006 ء ) |

Page 85

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 73 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 14 جولائی 2006ء سے اقتباسات خلافت ثانیہ میں تائیدات الہیہ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کی جماعت کے ساتھ جماعتی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے نشانات دکھائے جو افراد جماعت کے ازدیاد ایمان کا باعث بنے.جماعتی طور پر تو ہم دیکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد مخالفین کو یہ خیال ہو گیا کہ اب یہ جماعت گئی کہ گئی لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ: ” سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے“.ہم نے دیکھا کہ یہ بات کس طرح سچ ثابت ہوئی اور حضرت خلیفہ امسیح الاول کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کی ردا پہنا کر مخالفین کی خوشیوں کو پامال کر دیا اور مومنین پھر ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو گئے.پھر خلافت ثانیہ کے وقت میں ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی کس طرح مدد و نصرت فرمائی.اندرونی اور بیرونی مخالفین کی کوششوں اور خواہشوں کو پامال کر کے احمدیت کی کشتی کو اس بالکل نوجوان لیکن اولوالعزم پسر موعود کی قیادت میں آگے بڑھاتا چلا گیا اور جماعت کو ترقیات پر ترقیات دیتا چلا گیا.اور دنیا کے بہت سے ممالک میں اللہ تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت کی وجہ سے احمدیت کا جھنڈ ا خلافت ثانیہ میں لہرایا گیا.خلافت ثالثہ میں تائید و نصرت پھر خلافت ثالثہ میں انتہائی سخت دور آیا اور دشمن نے جماعت کو، افراد جماعت کو مایوس اور مفلوج کرنے کی کوشش کی اور اپنے زعم میں جماعت کے ہاتھ کاٹ دیئے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت و فضل سے جماعت

Page 86

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 74 ارشادات حضرت خلیفة لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹنے دیا.یہ قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا بلکہ ایک دنیا نے دیکھا کہ مخالفین کے نہ صرف ہاتھ کٹے بلکہ گردنیں بھی اڑا دی گئیں اور یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے بلکہ خالصتا اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہیں.خلافت رابعہ میں ترقیات پھر خلافت رابعہ کے دور میں مخالفین نے خیال کیا کہ اب ہم نے ایسا داؤ استعمال کیا ہے یا مخالفین کے ایک سرغنہ نے خیال کیا کہ اب میں نے ایسا دا و استعمال کیا ہے کہ اب جماعت احمد یہ ہر طرف سے بندھ گئی ہے، اس کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے اور یہ اپنی موت آپ مر جائے گی.لیکن جیسا کہ بے شمار الہامات سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا تھا کہ میں تیری مدد کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس خلیفہ راشد کی بھی اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور دشمن اپنی تمام تر تدبیروں اور مکروں کے باوجود نظام خلافت کو مفلوج اور ختم کرنے میں ناکام و نامراد ہوا.بلکہ اپنے وعدے کے مطابق کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اللہ تعالیٰ نے ایسے راستے کھلوائے اور اس طرح مدد فرمائی کہ دشمن بیچاره دانت پیستا رہ گیا.اور ہم سب جانتے ہیں کہ آج کل ( دعوت الی اللہ ) کا ایک بہت بڑا ذریعہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہے.انتخاب خلافت خامسہ کے وقت نصرت الہی پھر حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد مخالفین اس امید پر تھے کہ شاید اب یہ انتہا ہو چکی ہے اس لئے شاید اب جماعت کا زوال شروع ہو جائے لیکن بے وقوفوں کو یہ پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے منصوبے کیا ہیں.اللہ تعالیٰ نے جس مسیح الزمان کو اپنی تائید و نصرت کے وعدوں کے ساتھ اس زمانے میں بھیجا ہے وہ نصرت نہ مخالفین کی خواہشوں سے ختم ہونی ہے، نہ ان کی کوششوں سے ختم ہوتی ہے، انشاء اللہ.اور نہ کسی وقت یا کسی خاص فرد کے ساتھ یہ نصرت وابستہ ہے.یہ نصرت کے وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیاری جماعت سے وابستہ ہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس میں روک نہیں بن سکتی.

Page 87

75 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم اللہ تعالیٰ کی نصرت کے وعدے ہر قدم پر، ہر روز ہم دیکھتے ہیں.اس طرح جماعتی لحاظ سے اللہ تعالیٰ سارا سال اور ہر روز جو نصرت ہمیں دکھاتا ہے اس کا تذکرہ تو انشاء اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ پر ہوگا.اس کی تفصیل تو اس وقت میں یہاں بیان نہیں کر رہا.اس وقت میں نے تمہیداً یہ بتایا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ مخالفوں کی خوشیوں کو پامال کرتا رہا.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ انفرادی طور پر بھی اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنی مدد کے نظارے دکھاتا ہے.جس کا اس نے ہم لوگوں سے وعدہ کیا ہوا ہے جو اس کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والے ہیں.اور جن کو اپنے نمونے قائم کرنے کی اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے اور حکم دیا ہے کہ نمازوں کو قائم کرو، مالی قربانیوں میں آگے بڑھوا اور اللہ تعالیٰ کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اللہ اور رسول اور نظام خلافت کی مکمل اطاعت کرو.تو پھر دیکھو گے کہ تمہیں بھی اللہ تعالیٰ ہر قدم پر اپنی تائید و نصرت کے نظارے دکھائے گا.اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور پھر آپ کے خلفائے راشدین کے زمانے میں ہمیں تاریخ یہ نمونے دکھاتی ہے، بتاتی ہے.مسیح محمدی کے ماننے والوں میں بھی انتہائی کڑے وقتوں میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے نظارے ہم دیکھتے ہیں.الفضل انٹر نیشنل 28 جولائی تا 10 اگست 2006ء )

Page 88

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 76 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 11 راگست 2006ء سے اقتباسات هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الذِيْنَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ (المومن : 66) أَمَّنْ يُجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ءَ إِلهُ مَّعَ اللَّهِ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ (سورة النمل آیت :63) ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ پر انحصار کریں پس اس زمانے میں ہمیں زمانے کے امام کے ساتھ جڑ کر دعاؤں کی قبولیت کا بھی فہم و ادراک حاصل ہوا.اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھنے کا بھی فہم حاصل ہوا.اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے کا بھی ادراک حاصل ہوا کیونکہ زمانے کے امام کے ساتھ چمٹنے سے اللہ تعالیٰ ان ماننے والوں کو بھی ہر ایک کے اپنے تعلق کے معیار کے مطابق جو اس کا خدا تعالیٰ سے ہے، اپنی صفات کے جلوے دکھاتا ہے.پس قرآن کریم کا یہ دعویٰ صرف دعوی نہیں کہ اسلام کا خدا زندہ خدا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پس اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اسے پکارو، کامل تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے بلکہ عملاً اس کے نمونے بھی دکھاتا ہے.پس اس اعلان سے اگر فائدہ اٹھانا ہے تو اس شرط پر عمل کرنا ہوگا کہ صرف اور صرف وہی معبود ہو اور اس کو حاصل کرنے کے لئے باقی سب کچھ چھوڑنا ہوگا.اور جب دنیا کے تمام ذرائع خدا کے مقابلے پر پیچ سمجھ کر چھوڑیں گے اور خالصہ اسی کے ہو کر اس کو پکاریں گے پھر وہ ان پکارنے والوں کی پکار سنے گا، نوازے گا اور قبول کرے گا.ہمیشہ ہمارے ذہن میں دعا کرتے ہوئے یہ بات ہونی چاہئے کہ وہ ایک ہی ہمارا رب ہے.جب اس نے بغیر مانگے ہمارے لئے اتنے انتظامات کئے ہوئے ہیں تو جب ہم خالص ہو کر اس کی رضا حاصل

Page 89

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 77 ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کرنے کے لئے اس کی عبادت کریں گے ، اس کے احکامات پر عمل کریں گے تو کس قدر وہ پیارا خدا جو اپنے بندوں سے بے انتہا پیار کرتا ہے، ہماری طرف توجہ کرتے ہوئے اپنے انعاموں اور فضلوں سے ہمیں نوازے گا.اللہ تعالیٰ نے تو خود کہہ دیا ہے کہ میں دعائیں سنتا ہوں، مجھے پکارو تا کہ میں تمہاری سنوں تو پھر کس قدر بد قسمتی ہے کہ ہم ضرورت کے وقت دوسری چیزوں پر زیادہ انحصار کریں، دوسروں پر زیادہ انحصار کریں اور اپنے پیارے رب کو پکارنے کی طرف کم توجہ ہو.دوسری آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یا پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا کو قبول کرتا ہے، جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے.کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو.اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود کی سب سے بڑی دلیل یہ دی ہے کہ اس کی طاقتیں لامحدود ہیں صرف اور صرف وہی ذات ہے جو بے قرار کی دعا کو سنتا ہے.لیکن پھر بھی اکثر لوگ اس بات کو بھول کر اس طرف جھکتے ہیں، اُن کو خدا سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو خدا کی مخلوق ہیں.پس یہ اعلان ہی اصل میں (دین حق ) کی بنیاد ہے کہ مجھے پکارو، میں سنوں گا.اور ایمان میں مضبوطی تبھی پیدا ہوتی ہے جب ایک سچا مسلمان اس بات کا خود تجربہ کرتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے شرائط رکھی ہیں.اس نے بھی بندوں کو کچھ راستے دکھائے ہیں کہ ان پر چل کر میرے پاس آؤ.تو ان راستوں کو اختیار کرنا بھی ضروری ہے.تبھی وہ ہمیں زمین کے وارث بنائے گا.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس زمانے میں ان راستوں کی واضح پہچان ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کروائی ہے.پس اس تعلیم پر مکمل طور پر عمل کرنا بھی ہمارا فرض ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے اور جس کی وضاحت اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے پیش فرمائی ہے.اپنے قرب کی پہچان اور اپنے بندوں کی پکار کو سنے کا اعلان اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ یوں فرمایا ہے کہ {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ لیکن فرمایا کہ تم بھی اس بات پر عمل کرو کہ {فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ } (البقرة: 187) - یعنی چاہئے کہ وہ بھی میری عبادت کریں.اللہ کے بندے بھی میری عبادت کریں، میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں.پس دعاؤں کی قبولیت کے لئے ایسا ایمان ضروری شرط ہے جو تمام

Page 90

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 78 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الامس ایدہ اللہ تعالی دنیاوی ذریعوں کو پیچھے پھینک دے اور اللہ تعالیٰ پر مضبوط ایمان ہو، اس کے احکامات پر مکمل عمل ہو.فی زمانہ دعاؤں کی بہت ضرورت ہے.پس ہم خوش قسمت ہیں، جیسے کہ میں نے کہا ، کہ زمانے کے امام نے دعا کی فلاسفی کو کھول کر ہمارے سامنے رکھا اور واضح فرمایا.اللہ تعالیٰ کی صفت مجیب کا صحیح فہم وادراک عطا فرمایا.پس آج ہم نے نہ صرف اپنی بقا کے لئے ، اپنی ذات کی بقا کے لئے ، اپنے خاندان کی بقا کے لئے ، جماعت احمدیہ کی ترقیات کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہے بلکہ امت مسلمہ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر پوری انسانیت کی بقا کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ کرنی ہے جس کی آج بہت ضرورت ہے.پس ہر احمدی کو ان دنوں میں ( ان دنوں سے میری مراد ہے ہمیشہ ہی ) اور آج کل خاص طور پر جب حالات بڑے بگڑ رہے ہیں، بہت زیادہ اپنے رب کے حضور جھک کر دعائیں کرنی چاہئیں.مضطر کی طرح اسے پکاریں.بے قرار ہو کر اسے پکاریں.آج امت مسلمہ جس دور سے گزر رہی ہے اور مسلمان ممالک جن پر یشانیوں میں مبتلا ہیں اس کا حل سوائے دعا کے اور کچھ نہیں.اور دعا کے اس محفوظ قلعے میں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فر مایا آج احمدی کے سوا اور کوئی نہیں.پس امت مسلمہ کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اندرونی اور بیرونی فتنوں سے نجات دے.ان کو اس پیغام کو سمجھنے کی توفیق دے جو آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم امت کو دیا تھا.یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا سے ظلم ختم کرے.انسان اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف رجوع کرے.اسے پہچان کر اپنی ضدوں اور اناؤں کے جال سے باہر نکلے.خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کو آواز نہ دے بلکہ اس کی طرف جھکے اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو سمجھنے والا ہو، اس بات کو سمجھنے والا ہو کہ میری طرف آؤ ، خالص ہو کر مجھے پکارو تا کہ میں تمہاری دعاؤں کو سن کر اس دنیا کو جس کو تم سب کچھ سمجھتے ہو، جو کہ حقیقت میں عارضی اور چند روزہ ہے، تمہارے لئے امن کا گہوارہ بنا دوں تا کہ پھر نیک اعمال کی وجہ سے تم لوگ میری دائمی جنت کے وارث بنو.جیسا کہ میں نے کہا ہم احمدی تو صرف دعا ہی کر سکتے ہیں اور درددل کے ساتھ ظالم اور مظلوم دونوں کے لئے دعا کر سکتے ہیں اور اپنے خدا سے یہ عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ اس امت پر رحم فرما اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کے صدقے رحم فرماتے ہوئے ان لوگوں کو عقل اور سمجھ عطا فرما، ان کو

Page 91

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 79 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی دوست اور دشمن کی پہچان کی توفیق عطا فرما، ان کو اس زمانے کے امام کو پہچاننے کی تو فیق عطافرما.پھر جیسا کہ میں نے کہا اس دنیا کے لئے ، انسانیت کے لئے بھی دعا کریں.دنیا بڑی تیزی سے اپنی اناؤں اور ضدوں کی وجہ سے تباہی کے گڑھے کی طرف جارہی ہے.اپنے خدا کو بھلا چکی ہے اور نتیجہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو آواز دے رہی ہے.ظلم اتنا بڑھ چکا ہے کہ اسے انصاف کا نام دیا جارہا ہے، اللہ ہی ان لوگوں پر رحم کرے.جماعت کے لئے بہت دعا کریں پہلے بھی میں نے کہا ہے اپنے لئے بھی اور جماعت کے لئے بھی بہت دعا کریں.اللہ تعالیٰ احمدیت کے مخالفین اور دشمنوں کو ناکام و نامراد کر دے.جیسا کہ ہمیشہ سے الہی جماعتوں سے ہوتا آیا ہے کہ مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ تو چلتا چلا جائے گا اور یہ ہوتا رہا ہے تبھی ترقیات بھی ہوتی ہیں.یہ بھی ایک سچائی کی دلیل ہے کہ جب دلیل دوسرے کے پاس نہ ہو تو پھر وہ سختیاں کرتا ہے.تو ان مخالفتوں سے نہ تو احمدی ڈرتے ہیں اور نہ انشاء اللہ ڈریں گے.یہی چیز ایمان میں ترقی اور جماعت کی ترقی کا باعث بنتی ہے اور یہ مخالفتیں ہمیشہ کھاد کا کام دیتی ہیں لیکن اس مخالفت کی وجہ سے مخالفین کا جو بد انجام ہونا ہے، انسانی ہمدردی کے ناطے ہم ایسے لوگوں کے لئے بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور یہ اپنے بد انجام سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اس سے بچ سکیں.اور اپنے لئے بھی یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں کی وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کے ان انعاموں سے محروم نہ رہ جائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر فرمائے ہوئے ہیں.دشمن کا ہر شر اور ہر کوشش ہمارے ایمان میں ترقی اور خیر کے سامان لانے والی ہو.ہم میں سے ہر ایک استقامت دکھانے والا ہو.ہماری نیک تمنائیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں اور اس کی وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی تمام ان نیک صفات کی پناہ میں لے لے جن کا ہمیں علم ہے یا نہیں اور اپنی مخلوق کے ہر شر سے ہمیں بچائے.آمین...الفضل انٹر نیشنل یکم تا 7 ستمبر 2006 ء )

Page 92

مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم 80 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2006 سے اقتباس اطاعت سے انقلاب عظیم برپا ہوسکتا ہے *...پس آپ لوگ قرب الہی کے حصول کے لئے جہاں نمازوں کے قیام کی طرف توجہ دیں وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھ لیں.آپ کی اطاعت سے کسی لمحہ بھی باہر نہ ہوں.اس میں آپ کے لئے یہ بھی سبق ہے کہ نظام جماعت کی اطاعت کی جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی.پس نظام جماعت کو معمولی نہ سمجھیں.خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں اطاعت کے مضمون سے گزر کر جاتی ہیں.اس لئے نظام جماعت کی اطاعت کو اپنا شعار بنائیں.ہر صورت میں آپ نے اطاعت کرنی ہے اور نظام جماعت کا احترام کرنا ہے.اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر بچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور پیدا ہوتا ہے اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.مجاہدات کی اتنی ضرورت نہیں جتنی کہ اطاعت کی.اطاعت سے عظیم انقلاب برپا ہو سکتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا ہے.کہ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے.مگر ہاں شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو تو یہی ایک مشکل امر ہے.” زندگی سے اسقدر پیار نہ کرو کہ ایمان ہی جاتا رہے.حقوق اخوت کو کبھی نہ چھوڑو‘ ( ملفوظات جلد نمبر 7 صفحہ 352) (ماہنامہ اخبار احمد یہ جرمنی جلسہ سالانہ نمبر 2006ء)

Page 93

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 81 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ UK سے اختتامی خطاب مورخہ 17 ستمبر 2006ء کو سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ UK سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- نو جوانی میں نفس امارہ کا اہتمام کریں نو جوانی کی عمر ایسی عمر ہے جس میں اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہو اور اس کا رحم شامل حال نہ ہو تو ایک نوجوان بہت سی برائیوں میں مبتلا ہوسکتا ہے.اللہ تعالیٰ سے دوری کے علاوہ بعض ایسی برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو اس کی اپنی زندگی کو روگ لگا دیتی ہیں.اس کے خاندان کو اس وجہ سے مشکلات میں مبتلا کر دیتی ہیں.پھر بعض برائیاں معاشرے میں فساد کا باعث بن رہی ہوتی ہیں.پس یہ عمر ایک ایسی عمر ہے جس میں ایک شخص اپنی زندگی کے سنوارنے اور بگاڑنے کے ساتھ ساتھ قوم کی زندگی کے سنوارنے اور بگاڑنے کا کردار بھی ادا کر رہا ہوتا ہے.اس وجہ سے حضرت مصلح موعود خلیفہ اسی الثانی (نوراللہ مرقدہ) نے فرمایا تھا کہ قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی.“ پس یہ ایک ایسا فقرہ ہے، یہ ایک ایسا نعرہ ہے کہ اس فقرہ کا دل میں ہر وقت احساس پیدا ہوتے رہنا اور جماعت کو اس کی جگالی کرتے رہنا، دہراتے رہنا ایک ایسا کام ہے جو جماعت احمدیہ کے شاندار مستقبل کی ضمانت ہے.اس لئے ہمیشہ اس فقرہ پر، اس نعرہ پر غور کرتے رہیں.یہ کوئی معمولی نعرہ نہیں ہے.یہ نعرہ آپ کو اپنے جائزے لیتے رہنے کی طرف توجہ دلاتا رہے گا اور اس کا احساس کہ ہمارے ہر عمل پر جماعت کی ترقی کا انحصار ہے آپ کو ان باتوں کی طرف مائل کرتا رہے گا جن کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ان برائیوں سے روکتا رہے گا جن سے رکنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے.ہر نیکی جو آپ کریں گے وہ آپ کیلئے اس وجہ سے خوشی اور راحت کا باعث بن رہی ہوگی کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی خاطر اس زمانہ کے امام سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کا

Page 94

82 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم جو عہد کیا ہوا ہے اس کو پورا کرنے والے ہیں اور اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کی پرواہ کئے بغیر ہم ایک اعلیٰ مقصد کی طرف بڑھ رہے ہیں.ہر برائی جو آپ ترک کریں گے ، چھوڑیں گے وہ آپ کو اس بات کی خوشی پہنچا رہی ہوگی کہ اس زمانہ میں جب ہر طرف برائیوں اور لغویات کی بھر مار ہے، جگہ جگہ پر برائیوں اور بے ہودگیوں کے گندے اور کانٹوں سے پُر جھاڑیوں والے راستے ہیں جن سے بچنا محال ہے، جو قدم قدم پر راستے میں روک بن رہے ہیں.لیکن ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے ان برائیوں سے بچ رہے ہیں.لیکن یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان برائیوں سے بچنے کیلئے بھی تمہیں میری ضرورت ہے.میری مدد کے بغیر نہ تم نیکیوں کی تو فیق پاسکتے ہو اور نہ برائیوں سے بچ سکتے ہو.اس لئے اللہ تعالیٰ نے استغفار کا حکم دیا ہے تا کہ نیکیوں کے کرنے کی توفیق بھی ملتی رہے اور برائیوں سے بچنے کی توفیق بھی ملتی رہے.کیونکہ انسان کے اندر جو بدی کا مادہ ہے، جس کو شیطان ہر وقت ابھارنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، جس کیلئے اس نے ایک چیلنج کیا ہوا ہے کہ اے اللہ سوائے تیرے چند خاص بندوں کے میں تمام انسانوں کو ایسے ایسے دل لبھا دینے والے نظارے دکھاؤں گا جن کو دیکھ کر تیرے پیدا کئے ہوئے اس آدم کی اولاد تجھے بھول کر میرے پیچھے چلے گی.پس اس زمانہ میں تو خاص طور پر اس بات کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستوں پر چلنے کیلئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی جائے.اگر اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ جس کو اللہ تعالیٰ بچپن سے ہی رؤیا ء صادقہ سے نوازتا رہا ، بچپن سے ہی اس کی طبیعت میں نیکی رکھ دی، اللہ تعالیٰ نے اس کو نبی بنانے کا فیصلہ فرمایا، اس کو جب شیطانی حربوں نے بدی کرنے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تو اس نے بے اختیار اپنے اللہ کو پکار کر کہا کہ: وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَارَحِمَ رَبِّي طَ إِنَّ رَبِّي غفور رحيم (يوسف : 54) اور میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتا.یقینا نفس تو بدی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم کرے.یقیناً میرا رب بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.تو باقی عام انسانوں کو کس قدر اللہ تعالیٰ کی مدد اور رحم کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور رحم اس کے حضور استغفار سے ہی آتا ہے.پس ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگیں کیونکہ اس کے

Page 95

83 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم بغیر اپنے نفس کی بدی کے جوش کو دبا نہیں سکتے اور جب تک نفس کی بدی کا جوش نہ دبے، نہ ہی نیکیاں کرنے کی توفیق مل سکتی ہے اور نہ ہی برائیوں سے بچنے میں کوئی کامیابی حاصل کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة والسلام فرماتے ہیں کہ:.امارہ کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوشوں کو سنبھال نہیں سکتا اور اندازہ سے نکل جاتا ہے ) ( ملفوظات جلد اول جدید ایڈیشن صفحہ 64) اور امارہ جیسے کہ میں نے آیت کے ترجمے میں بھی بتایا ہے بدی کا حکم دینے والے جذبات ہیں.پس ان کو اگر قابو میں کرنا ہے تو بہت زیادہ استغفار کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : "استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے ے.ریویو آف ریلیجنز مئی 1902ء جلد نمبر 1 صفحہ 188,187 ) پس جب تک آپ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ درخواست کرتے رہیں گے کہ ہماری کمزوریوں کی پردہ پوشی فرما اور باوجود ہماری کمزور حالت کے اپنی تمام تر قدرتوں اور طاقتوں کے صدقے ہماری ایسی حالت بنادے کہ ہماری کمزوریوں کی طرف اور برائیوں کی طرف مائل ہونے والی فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے کر ہمیں نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جا، کیونکہ تو وہ قادر وتوانا اور طاقتور ہستی ہے جس کے سہارے پر کھڑے ہوئے بندے بھی مضبوط بن جاتے ہیں اور ان کو شیطانی حملے اور حربے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے.نوجوانی میں شیطانی حملے بہت ہوتے ہیں پس یہ حالت پیدا کرنے کی کوشش کریں ، خاص طور پر جب ایسی عمر میں پہنچتے ہیں، نو جوانی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں، 16 سال سے 18 سال تک کی ، 20 سال تک کی عمر بلکہ اس سے بھی اوپر، تو شیطان کے حملے بھی بڑی تیزی سے شروع ہو جاتے ہیں.خاص طور پر جو 15, 16, 17 سال کی عمر ہے بہت خطرناک ہے.ہر ایک کو سکول میں، کالج میں جذبات کو ابھارنے والے، برائیوں کی طرف مائل کرنے والے نئے نئے حالات کا سامنا رہتا ہے.لڑکوں لڑکیوں کی Mix Gathering ہوتی ہے.ان میں جب کھلے عام مختلف

Page 96

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 84 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی عنوانات پر مختلف Topics پر، موضوعات پر آزادی اظہار کا نام دے کر گفتگو ہورہی ہو تو ایسی صورت میں، ان حالات میں ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جب نفس امارہ بڑی تیزی سے اپنا اثر دکھاتا ہے.شیطان بڑا Active ہو کر انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ نا شروع ہو جاتا ہے.دنیاوی رنگ میں اس کی مثال یہ ہے، کہتے ہیں کہ ملیریا بخار جب ہو جائے اور ایسے علاقوں میں جہاں مچھروں کی بہتات ہو، بار بار بخار ہوتا ہواگر بخار اتر بھی جائے اور ان علاقوں سے انسان دوسری جگہ منتقل بھی ہو جائے تب بھی ملیر یا پیراسائٹ جو ہیں وہ انسان کے جگر میں جگہ بنا کر بیٹھے رہتے ہیں اور جب بھی انسان کمزور ہو، کسی بیماری کا حملہ ہو تو فوراًحملہ کرتے ہیں.عموماً افریقہ میں رہنے والوں یا پاکستان کے ایسے علاقوں میں یا دوسرے علاقوں میں جہاں مچھروں کی بہتات ہے، رہنے والوں کو کوئی بھی بیماری ہو تو ساتھ ملیر یا ضرور ہوتا ہے.تو شیطان بھی اسی طرح دل میں جگہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے اور جب بھی دل میں ٹیڑھ پیدا ہو، انسان کی دینی حالت میں کوئی کمزوری آئے یہ نفس امارہ کو ابھارتا ہے بلکہ یہ تو ملیر یا پیرا سائٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ تو خون کے ساتھ جسم میں مستقل دوڑ رہا ہے.پس جب نفس امارہ برائیوں کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرے تو شیطان کی جو گردش ہے وہ خون میں اور بھی زیادہ تیز ہو جاتی ہے اور آنافا نا اپنی لپیٹ میں لے کر برائیاں کروا دیتی ہے اور بعض دفعہ بعض لوگوں کو ایسی Temptation ہو جاتی ہے، یہ اس طرح جذبات کو قابو میں کرتی ہے کہ انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہو جاتی ہے اور پھر اگر کوئی نیکی ہو تو بعض دفعہ برائی کرنے کے بعد خیال آتا ہے کہ اوہو یہ کیا ہو گیا.میں کس گند میں پھنس گیا.پس اس Temptation سے بچنے کیلئے ، شیطان کو دبائے رکھنے کیلئے استغفار کی ضرورت ہے تا کہ وہ کسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر مزید کمزوریوں میں مبتلا کرنے کیلئے حملہ نہ کر دے.پس یہ استغفار صرف گناہ سے معافی مانگنا نہیں ہے بلکہ گناہ سے بچنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے.میں نے Students کو مخاطب کر کے کہا ہے لیکن یہی حال ان مغربی ملکوں میں نئے آنے والوں کا ہے جو پاکستان سے یا ہندوستان وغیرہ یا دوسرے ملکوں سے آئے ہیں.اس نام نہاد آزادی کی فضا میں قدم رکھتے ہی بعض برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اس لئے اس سے بچنے کی کوشش کریں اور اگر کوئی غلطیاں ہوگئی ہیں تو پھر بھی اللہ تعالی کی پناہ میں آنے کیلئے استغفار کریں.سچی توبہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا ہے ، بخشنے والا ہے، آئندہ نیکیوں کی تو فیق دینے والا ہے.

Page 97

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 85 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی گناہ سے بچنے اور کچی تو بہ کے لئے تین باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گناہ سے بچنے اور بچی تو بہ کے لئے تین باتیں بیان فرمائی ہیں جن کو خلاصہ میں یہاں بیان کرتا ہوں.پہلی بات تو آپ نے برائی کو چھوڑنے کیلئے یہ فرمائی کہ اپنے دل میں اور دماغ میں ان چیزوں کے بارہ میں ، جن سے برے خیالات دل میں پیدا ہورہے ہیں، انتہائی گندا، غلیظ اور بھیانک تصور پیدا کریں.اگر حقیقی معنوں میں استغفار کرتے ہوئے یہ کراہت کا تصور پیدا کریں گے ، ان سے نفرت کا تصور پیدا کریں گے تو دل صفائی کی طرف مائل ہو گا.دوسرے یہ کہ دل میں شرمندگی اور ندامت کے جذبات پیدا کریں.یہ سوچیں کہ آج جوانی کی عمر میں میرے سے جو غلط کام ہورہے ہیں ان سے مجھے کیا فائدہ ہوگا.ہر ایک یہ سوچے کہ یہ برائی جو میں کر رہا ہوں یہ میرے خاندان کو بدنام کرے گی ، یہ برائی جماعت کے نام کو بدنام کرے گی.میں نے تو ایک عہد کیا ہوا ہے، اس سے مجھے دور لے جانے والی ہوگی.تو یہ احساس شرمندگی اور یہ جوسوچ ہے یہ برائیوں سے روکنے میں پھر اپنا ایک کردارادا کرتا ہے اور جب شرمندگی کی یہ حالت ہو جائے تو پھر یہ پکا ارادہ کریں کہ اب پھر ان برائیوں کے قریب بھی نہیں جانا اور جب دعا کر کے اپنی حالت حقیقت میں ایسی بنالیں گے اور ہر شخص اپنی حالت ایسی بنانے کی کوشش کرے گا، جب اس طرح بچنے کی کوشش کرے گا تو جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ تمام قوتوں کا مالک ہے، پھر ایسے لوگوں کے دلوں میں مضبوطی پیدا کرے گا.رحم کرتے ہوئے مغفرت کے سامان پیدا فرمائے گا نفس امارہ کو مزید پھیلنے سے بچائے گا اور انسان اس طرح پھر ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قَدْ فَلَحَ مَنْ زَكَهَا ( الشمس: 10 ) یعنی یقینا وہ کامیاب ہو گیا جس نے تقوی کو پروان چڑھایا.پس ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ نیکی حاصل کرنے والے بہنیں جس سے فلاح پانے والے ہو جائیں.وہ نفس مطمئنہ حاصل کرنے والے ہو جائیں جس سے ہمیشہ نیکیوں میں آگے بڑھتے چلے جانے والے بنتے چلے جائیں اور یہی نیکیاں ہیں جو پھر آپ میں اور دوسروں میں تمیز کریں گی.یہ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور برائیوں سے بچنا ہی ہے جو آپ کے اپنے اندر بھی اصلاح کا باعث ہوگا اور دوسروں کو بھی آپ کی طرف کھینچنے کا ذریعہ بنے گا.آپ کے اعلیٰ اخلاق اور برائیوں سے بچنا آپ کیلئے ( دعوت الی اللہ )

Page 98

86 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم کے میدان کھولے گا.یہ اجتماعات اور جلسے انہیں تبدیلیوں کو دل میں پیدا کرنے کا احساس دلانے کیلئے منعقد کئے جاتے ہیں.علمی اور دینی پروگراموں کے ساتھ کھیلوں کے اور دوسرے تفریحی پروگرام جسم کو اور دماغ کو صحت مند بنانے کیلئے بنائے جاتے ہیں.پس ان مقابلوں سے جو تفریحی مقابلے ہوتے ہیں، یہ نہ سمجھ لیں کہ ہمارا کام صرف کھیلنا اور انعام جیتنا ہے ، باقی علمی اور دینی کام دوسرں نے کرنا ہے.نہیں بلکہ ہر ایک نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو ، اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے گزارنا ہے.اگر یہ سوچ پیدا ہورہی ہے کہ ہمارا کام صرف کھیلنا ہے اور دوسروں کا کام ہے کہ دین کے دوسرے کام کریں، تو پھر ان کھیلوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:.” ہماری جماعت میں شہ زور اور پہلوانوں کی طاقت رکھنے والے مطلوب نہیں.بلکہ ایسی قوت رکھنے والے مطلوب ہیں جو تبدیل اخلاق کیلئے کوشش کرنے والے ہوں.“ فرمایا کہ:.یہ ایک امر واقعی ہے کہ وہ شہ زور اور طاقت والا نہیں جو پہاڑ کو جگہ سے ہٹا سکے نہیں نہیں.اصلی بہادر وہی ہے جو تبدیل اخلاق پر مقدرت پاوے.پس یا درکھو کہ ساری ہمت اور قوت تبدیل اخلاق میں صرف کرو کیونکہ یہی حقیقی قوت اور دلیری ہے.“ ( ملفوظات جلد اوّل جدید ایڈیشن صفحہ 89,88) یہی بہادری ہے کہ آدمی اپنے اخلاق تبدیل کرے.پس جب تمام قسم کی نیکیوں کو کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی تو اعلیٰ اخلاق میں قدم آگے بڑھے گا اور پھر آپ دوسروں کے لئے نمونہ بن کر اس تعلیم کو دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں جس کے پہنچانے کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے اور یہ معیار حاصل کرنے کیلئے جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے ، اس سے مغفرت طلب کرتے ہوئے اس سے ایک زندہ تعلق پیدا کر لیں گے نفس امارہ کو بہت پیچھے چھوڑ جائیں گے اور آپ کا کوئی فعل ایسا نہ ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہو تو ایسی حالت میں پھر آپ کی ( دعوت الی اللہ کی ) کوششیں بھی بہت بڑھ کر پھل لانے والی ہوں گی.پس اس طرف بہت توجہ دیں اور اس کا احساس دل میں پیدا کریں.جماعت

Page 99

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 87 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی کی آئندہ ذمہ داریاں آپ پر پڑنے والی ہیں.اس چیز کا احساس ہونا چاہیے.ہر شخص اپنی جگہ ایک اہمیت رکھتا ہے، ہر نوجوان اپنی جگہ ایک اہمیت رکھتا ہے، ہر احمدی بچہ اپنی جگہ ایک اہمیت رکھتا ہے.واقفین نو ماحول سے پاک صاف ہو کر نکلیں واقفین نو بچوں سے میں خاص طور پر کہتا ہوں کہ اس ماحول میں آپ نے اپنے آپ کو یوں پاک صاف نکالنا ہے جس طرح ایک چھوٹا بچہ جس کو دنیا کا کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا ، پاک صاف ہوتا ہے.ایک بچہ جو نیا نیا پیدا ہوتا ہے بالکل دنیا کا کچھ نہیں جانتا ، اس طرح دنیا میں ہوتے ہوئے ، دنیا کو جانتے ہوئے اپنے آپ کو ان برائیوں سے پاک صاف رکھنا ہے.ان بچوں میں یہ احساس ہونا چاہیے.14,13 سال کی جو عمر ہے، بڑی سوچنے سمجھنے کی عمر ہو جاتی ہے.اب تو بڑی عمر کے بھی واقفین نو بچے آگئے ہیں.سوچیں اور غور کریں کہ ہم واقفین نو کیوں ہیں؟ سوچیں اور غور کریں کہ ہم میں اور دوسرے بچوں میں کیا امتیازی خصوصیت ہونی چاہیے، کیا امتیاز ہونا چاہیے، کیا فرق ہونا چاہیے؟ یہ سوچیں کہ ہمارے ماں باپ نے اور اب اس عمر کو پہنچ کر ہم نے اپنے آپ کو دین کیلئے وقف کیا ہے تو ہمارا اپنے پیدا کرنے والے خدا سے کس قسم کا تعلق ہونا چاہیے؟ ( دین حق ) اور احمدیت کا پیغام دنیا میں پھیلانے کیلئے ہمیں اپنی طبیعتوں میں، اپنی زندگیوں میں کس قسم کا انقلاب لانا چاہیے؟ ہماری نمازیں کیسی ہونی چاہئیں؟ ہماری تلاوت قرآن کریم روزانہ کیسی ہونی چاہیے؟ ہمیں قرآن کو مجھنے کی کیا کوشش کرنی چاہیے؟ قطع نظر اس کے کہ آپ نے کیا بننا ہے یا کیا بننا چاہتے ہیں.اگر (مربی ) سلسلہ نہیں بھی بن رہے تو ایک واقف نو جو کسی بھی میدان میں جارہا ہے کچھ وقفہ کے بعد ، کچھ عرصہ کے بعد اپنا جائزہ لیتا رہے کہ میں نے گزشتہ تین مہینے میں یا گزشتہ چھ مہینے میں کیا ترقی کی ہے؟ جس طرح ایک واقف نو نو جوان کو ہونا چاہیے اس طرف میرے قدم بڑھا رہے ہیں کہ نہیں؟ ہر احمدی نو جوان یہ غور کرے کہ جس طرح احمدی نوجوان کو ہونا چاہیے اس طرف میرے قدم بڑھ رہے ہیں کہ نہیں؟ کیا میں نے کھویا ہے اس عرصہ میں اور کیا میں نے پایا ہے؟ تو جو کچھ کھویا ہے اور جو پایا ہے جب اس کا مقابلہ کریں گے تو خود بخود پتہ لگ جائے گا کہ ترقی کی طرف قدم بڑھ رہا ہے یا پیچھے ہٹ رہا ہے یا وہیں کھڑا ہے.

Page 100

88 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ایک بات میں واقفین نو سے اور احمدی بچوں سے بھی واقفین نو سے خصوصاً اور دوسرے احمدی نوجوانوں سے عموماً کہتا ہوں کہ آج کل میڈیا کو، دنیا کو ( دین حق ) کی صحیح تصویر دکھانے کیلئے تا کہ ان کے فضول اور لغواعتراضات کا جواب دیا جائے احمدی بچوں کو میڈیا میں آنے کی کوشش کرنی چاہیے.اس کیلئے جرنلزم بڑا اچھا مضمون ہے.اس کے علاوہ پھر احمدی بچے چاہے وہ وقف نو میں ہیں یا غیر واقف ہیں ہمیشہ اپنے سامنے یہ پیش نظر رکھیں کہ انہوں نے تعلیمی میدان میں ترقی کرنی ہے.آج کل مثلاً یہاں کے مقامی لوگوں میں سائنس کے مضامین پڑھنے کی طرف بہت کم رجحان ہے، ریسرچ کی طرف جانے کا بہت کم رجحان ہے اور اس کا اظہار اخباروں میں بھی ہورہا ہے اور بڑی فکرمندی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں اگر یہی صورتحال رہی تو ہمیں آئندہ ریسرچ کیلئے سائنسدان نہیں ملیں گے.اس لئے میں احمدی بچوں کو کہتا ہوں کہ اپنی پڑھائی کی طرف خاص طور پر توجہ دیتے ہوئے سائنس کے میدان میں بھی آگے بڑھیں اور یہ چیز ایسی ہے جس سے یہ لوگ، یہ تو میں ، یہ مغرب مجبور ہوگا کہ اس مضمون کی اہمیت کی وجہ سے جو آپ نے پڑھا ہوا ہے آپ کو اپنے اندر جذب کرے.اس مضمون میں اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی وجہ سے جس کو آپ پڑھ رہے ہیں یا جس کے آپ ماہر بن رہے ہیں یا جسکے آپ ماہر بن چکے ہیں.ملازمتوں میں بھی آپ کو زیادہ مواقع ملیں گے اور پھر اس کے علاوہ (دین حق کے بارہ میں اس وقت جو یہ تصور ہے کہ یہ لوگ جاہل ہیں، اس کی Background مغرب کی خود ساختہ ہے.یہ جاہل ہونے کا جو تصور ہے اس کو بھی اپنے ذہنوں سے یہ لوگ نکالیں گے.سائنس کے میدان میں آگے آئیں پس آج آپ طلباء اگر یہ ارادہ کر لیں کہ سائنس کے میدان میں اتنا آگے بڑھنا ہے کہ آئندہ اس ملک کی سائنسدانوں کی جو ضرورت ہے وہ آپ نے پوری کرنی ہے تو یہ دین حق ) کے نام کو روشن کرنے والا ایک ایسا کام ہوگا جس سے جیسا کہ میں نے کہا یہ تو میں مجبور ہوں گی کہ پھر ( دین حق ) کے خلاف کوئی بات نہ کر سکیں.حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جو بلی کے سال میں فرمایا تھا، کچھ سائنسدانوں کی تعداد بتائی تھی، میرا خیال ہے سو یا کتنی کہ مجھے احمدی بچوں میں سے ایسے سائنسدان چاہئیں جو ڈاکٹر سلام صاحب کا

Page 101

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 89 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الامس ایدہ اللہتعالی خا مقام حاصل کریں.تو ابھی تک تو ہم وہ حاصل نہیں کر سکے.تو آپ لوگ جوان ملکوں میں پڑھ رہے ہیں ،ان ملکوں میں رہ رہے ہیں.پڑھائی کی سہولتیں ہیں، مواقع میسر ہیں، اس سے فائدہ اٹھائیں اور آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.انٹرنیٹ کا منفی استعمال نہ کریں اگلی بات جو میں کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ برائیوں سے اپنے آپ کو بچائیں.میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں برائیوں سے مراد ہے انٹر نیٹ کی برائیاں.برائیوں کا تو پہلے ذکر کر آیا ہوں.یہ بھی ایک بہت بڑی برائی ہے اور اس بارہ میں پہلے بھی میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ یہ ایک ایسی برائی ہے جو بعض اوقات بڑے خوفناک نتائج سامنے لارہی ہے اور گھروں کو برباد کر رہی ہے.بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ بعض صورتوں میں یہ نفس کو برائیوں کی طرف لانے کا بہت بڑا ذریعہ ثابت ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی بچہ کو اور ہر احمدی جوان کو ان برائیوں سے بچائے.اپنے فارغ وقت کو انٹرنیٹ کی جو بعض اوٹ پٹانگ Sites ہیں ان میں ضائع کرنے کی بجائے ، اپنے آپ کو ان چیزوں میں الجھانے کی بجائے (دعوت الی اللہ ) کی طرف زیادہ توجہ دیں.خدام الاحمدیہ سمپوزیم یا سیمینار منعقد کرے خدام الاحمدیہ بحیثیت مجموعی، بحیثیت مجلس ایسے پروگرام بنائے کہ مختلف چھوٹے شہروں میں سمپوزیم یا سیمینار منعقد کرے.یہاں تو کچھ عرصہ ہوتا رہا پھر بعض وفود بھی جاتے رہے لیکن اس طرح کریں کہ پڑھے لکھے طبقہ تک پہنچنے کے لئے کالجوں تک Approach کرنے کیلئے ، یونیورسٹیوں میں جانے کیلئے وہاں اس طرح کے سیمینار منعقد کریں ، بے شمار چھوٹی بڑی یونیورسٹیاں ہیں، کالج ہیں ان میں جائیں.جن ملکوں میں اس بات پر عمل ہو رہا ہے، جہاں یہ پروگرام شروع ہو چکے ہیں وہاں یہ پروگرام جماعت کی اور (دین حق) کی بڑی نیک نامی کا باعث بن رہے ہیں.لوگوں کا اظہار ہو رہا ہے کہ ہمیں آج پتہ لگا ہے کہ ( دین حق ) کیا چیز ہے.ابھی تک تو وہ ان چیزوں کو شدت پسند مذہب ہی سمجھتے جارہے ہیں.چھوٹی جگہوں پر جانے سے مقامی لوگوں کی توجہ پیدا ہوگی.اس جگہ کے پڑھے لکھے لوگ جو ہیں ان میں ( دین حق کی صحیح تعلیم پہنچے گی اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ( دین حق) کے بارہ میں غلط نظریات کے ردکو سنے کا ان لوگوں کو موقع ملے گا.یہیں مغربی ممالک میں سے جہاں جہاں یہ پروگرام ہوئے ہیں وہاں بعض جگہوں پر تو مقامی پادریوں

Page 102

90 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم نے اور پڑھے لکھے طبقہ نے جیسا کہ میں نے کہا اس کو بہت پسند کیا ہے اور پھر مقامی میڈیا نے بھی اس کو اچھی Coverage دی ہے.برطانیہ تو اتنا چھوٹا ملک ہے کہ اگر یہاں پر چھوٹے شہر میں، پڑھے لکھے لوگوں میں اس طرح کے سیمینار کریں تو ( دین حق ) کے بارہ میں بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی اور ( دعوت الی اللہ ) کے راستے کھلیں گے.آپ لوگوں کی، نوجوانوں کی جو توجہ ہے وہ ہے گی.آپ کی ترجیح میں تبدیل ہو جائیں گی.کیونکہ یہ کام اللہ کی خاطر کر رہے ہوں گے تو نفس کی بہت سی بیماریوں سے بھی بیچ رہے ہوں گے اور یوں نیکی سے نیکی کی جاگ لگتی چلی جائے گی.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کام کی تو فیق عطا فرمائے اور حقیقی معنوں میں احمدیت کا وہ معیار حاصل کرنے والے ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں.آخر پہ میں یہ ایک اعلان کرنا چاہتا ہوں.کل صدر مجلس خدام الاحمدیہ UK کا انتخاب عمل میں آیا تھا.اس کے مطابق موجودہ صدر مرزا فخر احمد کے ہی ووٹ سب سے زیادہ ہیں.اس لئے آئندہ دو سال کیلئے میں انہیں کو صدر خدام الاحمدیہ مقرر کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی احسن رنگ میں، پہلے سے بڑھ کر کام کرنے کی توفیق دے اور آپ لوگوں کو توفیق دے کہ پہلے سے بڑھ کر ان سے تعاون کرنے والے ہوں (اب دعا کرلیں) (ماہنامہ خالد فروری 2007ء)

Page 103

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 91 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 22 رستمبر 2006ء سے اقتباسات اولاد کی خواہش پھر فرمایا کہ انسان کو سوچنا چاہئے کہ اسے اولاد کی خواہش کیوں ہوتی ہے؟ کیونکہ اس کو محض طبعی خواہش ہی تک محدود نہ کر دینا چاہئے کہ جیسے پیاس لگتی ہے یا بھوک لگتی ہے لیکن جب ایک خاص اندازہ سے گزر جاوے تو ضرور اس کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا جیسا کہ فرمایا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : 57 ) اب اگر انسان خود مومن اور عبد نہیں بنتا ہے اور اپنی زندگی کے اصل منشاء کو پورا نہیں کرتا ہے اور پورا حق عبادت ادا نہیں کرتا بلکہ فسق و فجور میں زندگی بسر کرتا ہے اور گناہ پر گناہ کرتا ہے تو ایسے آدمی کی اولاد کے لئے خواہش کیا نتیجہ رکھے گی ؟ صرف یہی کہ گناہ کرنے کے لئے وہ اپنا ایک اور خلیفہ چھوڑ نا چاہتا ہے.خود کونسی کمی ہے جو اولاد کی خواہش کرتا ہے.پس جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو اور خدا تعالیٰ کی فرمانبردار ہو کر اس کے دین کی خادم بنے ، بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے اور باقیات صالحات کی بجائے اس کا نام باقیات سییات رکھنا جائز ہوگا.صالح اولاد کے لئے خود اپنی اصلاح کریں لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعوی ہی دعوئی ہو گا.جب تک کہ وہ اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے.اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے کہ میں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اس دعوی میں کذاب ہے.جھوٹا ہے.”صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بناوے تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہوگی اور ایسی اولاد حقیقت

Page 104

92 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم میں اس قابل ہوگی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں.لیکن اگر یہ خواہش صرف اس لئے ہو کہ ہمارا نام باقی رہے اور ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہو یا وہ بڑی ہی نامور اور مشہور ہو، اس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 560-561 جدید ایڈیشن) پھر فرمایا کہ " غرض مطلب یہ ہے کہ اولاد کی خواہش صرف نیکی کے اصول پر ہونی چاہئے.اس لحاظ سے اور خیال سے نہ ہو کہ وہ ایک گناہ کا خلیفہ باقی رہے.اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مجھے کبھی اولاد کی خواہش نہیں ہوئی تھی.حالانکہ خدا تعالیٰ نے پندرہ یا سولہ برس کی عمر کے درمیان ہی اولاد دے دی تھی.یہ سلطان احمد اور فضل احمد قریباً اس عمر میں پیدا ہو گئے تھے.اور نہ کبھی مجھے یہ خواہش ہوئی کہ وہ بڑے بڑے دنیا دار نہیں اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر مامور ہوں.اولاد کے لئے دعا فرمایا: پھر ایک اور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں.نہ کبھی اُن کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مد نظر رکھتے ہیں.میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولا د اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا.بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولادکو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں.ابتداء میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں توان کو تنبیہ نہیں کرتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں.66 فرمایا: ” لوگ اولاد کی خواہش تو کرتے ہیں مگر نہ اس لئے کہ وہ خادم دین ہو.بلکہ اس لئے کہ دنیا میں ان کا کوئی وارث ہو.اور جب اولاد ہوتی ہے تو اس کی تربیت کا فکر نہیں کیا جا تا.نہ اس کے عقائد کی اصلاح کی جاتی ہے اور نہ اخلاقی حالت کو درست کیا جاتا ہے.یہ یاد رکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہوسکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا.یعنی قریبی تعلقات اور رشتوں کو نہیں سمجھتا.” جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی

Page 105

93 مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی امید اس سے کیا ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا (الفرقان آیت : 75 ) یعنی خدا تعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرمادے اور یہ تب ہی میسر آ سکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عبادالرحمن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں.اور آگے کھول کر کہہ دیا وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اولا دا گر نیک اور متقی ہو تو ان کا امام ہی ہو گا.اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے“.(الحکم جلد 5 نمبر 35 مورخہ 24 ستمبر 1901 صفحہ 10-12 - ملفوظات جلد اول صفحہ 562-563 جدید ایڈیشن) پس یہ ہیں وہ معیار جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہر احمدی میں اس کی اولاد کے بارے میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے آپ نے اس قرآنی حکم کے مطابق اولاد کو ڈھالنے کے لئے تربیت اور دعا پر بہت زور دیا تھا.اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے اس کے لئے ہر کوئی پہلے اپنی حالت بدلے ورنہ یہ دعا اپنے نفس کو دھوکہ ہے اور جھوٹ ہے.اپنے نفس کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں.فرمایا کہ متقی اولاد کے لئے پہلے خود صالح اعمال بجالانے ہوں گے.دعا کی قبولیت کے لئے اپنی وہ حالت بنانی ہوگی جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا ہے.جب یہ حالت بن جائے گی تو پھر انشاء اللہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، دعائیں قبول ہوں گی.پس ہر احمدی بچہ عمومی طور پر جماعت کی امانت ہے اور ہر وہ احمدی جس نے اپنے بچے وقف نو میں دیئے ہوئے ہیں کہ وہ دین کے خادم بنیں ، وہ اس گروہ میں شامل ہوں جو نیا کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والا گروہ ہے، وہ ایسے بچوں کے باپ ہیں جنہوں نے ایک عمر کو پہنچنے کے بعد اسماعیل کی طرح اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کیا ہے.ایسی صورت میں اُن باپوں کو بھی تو وہ نمونہ دکھانا ہوگا جو حضرت ابراہیم کا نمونہ ہے.الفضل انٹر نیشنل 13 اکتو بر تا 19 اکتوبر 2006ء)

Page 106

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 94 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 6 اکتوبر 2006ء سے اقتباسات تقوی شعار، بے نفس ترقی کر جاتے ہیں...یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دین کے بارے میں کسی قسم کا استحقاق نہیں ہوتا.جو اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق جوڑے گا ، جو تقوی پر قدم مارنے والا ہو گا، جو بے نفس ہو کر جماعت کی خدمت کرنے والا ہوگا اور پھر جن پر اللہ تعالیٰ اپنا خاص فضل فرمائے گا ان کو خدمت دین کی زیادہ تو فیق ملتی ہے.وہ آگے آنے والوں میں بھی ہوتے ہیں ، ان کو دیکھ کر دوسروں میں حسد اور کینے کے جذبات پیدا نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ایسے لوگوں پر رشک آنا چاہئے.ان جیسا بننے کے لئے کوشش کرنی چاہئے.اپنی حالتوں کو بھی بدلنا چاہئے اور اپنے لئے بھی دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں جیسا بنا جو اللہ کا قرب پانے والے ہیں، یا تقویٰ پر چلنے والے ہیں ، جو بے نفس ہو کر جماعتی خدمات کرنے والے ہیں، جو تیرے ایسے بندے ہیں جو خالصتا تیری رضا پر چلنے والے ہیں، جن پر تیرے فضلوں کی بارش برستی نظر آ رہی ہے.جب اس طرح دعا مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور رحم بھی اس وقت جوش میں آئیں گے اور پھر قبولیت دعا کے نظارے بھی دیکھیں گے.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں.کیونکہ جب پاک ہو کر سب کے لئے بخشش کی دعا کر رہے ہوں گے، سب کینے اور بغض اور رنجشیں دلوں سے نکل رہی ہوں گی، جب دلوں کے کینے ختم ہور ہے ہوں گے اور ایک پاک اور محبت کرنے والا معاشرہ جنم لے گا، جہاں ایک دوسرے سے محبت اور بھائی چارے کی فضا نظر آ رہی ہوگی تو پھر یہ دعائیں کرنے والے اللہ تعالیٰ کی بخشش کو مزید حاصل کرنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے....مخالفین کے شر سے بچنے کے لئے ایک دعا...پھر مخالفین کے شرسے بچنے کے لئے اور مغفرت کے لئے اور قوم کے سیدھے راستے پر چلنے کے لئے

Page 107

95 ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم بھی ایک دعا ہے.فرمایا رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ آنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةٌ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَاغْفِرْ لَنَارَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيمُ ( امتحنة : 5-6).اے ہمارے رب تجھ پر ہی ہم تو کل کرتے ہیں اور تیری طرف ہی ہم جھکتے ہیں اور تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے.اے ہمارے رب ہمیں ان لوگوں کے لئے ابتلاء نہ بنا جنہوں نے کفر کیا اور اے ہمارے رب ہمیں بخش دے.یقیناً تو کامل غلبے والا اور صاحب حکمت ہے.رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَافِسَةً لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا فرما کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اے اللہ تیری باتوں اور حکموں پر عمل نہ کر کے ہم کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھیں جس سے احمدیت اور ( دین حق ) کمزور ہو اور اس وجہ سے مخالفین اور کفار کو موقع ملے کہ وہ اسلام پر حملہ کریں.دیکھیں آج کل یہی ہو رہا ہے، جس کو موقع ملتا ہے اسلام پر حملہ کرنے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے.پس اس دُعا کی فی زمانہ بہت ضرورت ہے اور جہاں اپنے لئے دعا کریں وہاں ان دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی دعا کریں جو کفار کو، غیر مسلموں کو یہ موقع فراہم کر رہے ہیں کہ وہ اسلام پر حملے کریں.مسلمانوں کو نعرے لگانے اور توڑ پھوڑ کی حد تک تو فکر ہے، ذرا سی کوئی بات ہو جائے تو توڑ پھوڑ شروع ہو جاتی ہے نعرے شروع ہو جاتے ہیں، جلوس نکل آتے ہیں.اس کے علاوہ اور کوئی فکر نہیں.یہ کرنے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ مقصد پورا ہو گیا.اسی وجہ سے اور ان کے انہی عملوں کی وجہ سے پھر مخالفوں کو مختلف طریقوں سے اسلام پر حملے کرنے کا مزید موقع ملتا ہے اور جو جری اللہ ان حملوں سے اسلام کو بچا رہا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا یہ مسلمان اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور اللہ اور رسول کا حکم نہ مان کر کافروں کے لئے اسلام کے خلاف فتنے کے سامان پیدا کر رہے ہیں اور نتیجہ پھر اللہ تعالیٰ کی بخشش سے بھی محروم ہورہے ہیں.پس یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ جو غالب اور حکمت والا ہے ہمیں اور تمام امت کو اپنی اس صفت سے متصف کرتے ہوئے حکمت عطا فرما تا کہ ایسی باتوں سے باز رہیں جو ( دین حق ) کو نقصان پہنچانے والی ہیں اور ہم جلد تیرے دین کے غلبے کے دن ہم جلد دیکھیں.ایک دعا غیر ضروری سوالات سے بچنے کے لئے پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دعا غیر ضروری سوالات سے بچنے کے لئے سکھائی ہے.وہ دعا یہ ہے کہ

Page 108

96 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الامس ایدہ اللہتعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم رَبِّ إِنِّي أَعُوْذُبِكَ اَنْ اَسْتَلَكَ مَا لَيْسَ لِى بِهِ عِلْمٌ وَالَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُنْ مِّنَ الخسِرِينَ (هود: 48 ) کہ اے میرے رب یقیناً میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ تجھ سے وہ بات پوچھوں کہ جس کے مخفی رکھنے کی وجہ کا مجھے کوئی علم نہیں ہے.اور اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا.یہ دعا سکھا کر اس امر سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پر حکمت کاموں کے بارے میں کوئی شکوہ نہ کیا جائے.مثلاً دعا ہے.ایک آدمی دعا کرتا ہے تو اس کے بارے میں بھی شکوے ہو جاتے ہیں کہ میں نے تو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق دعا کی تھی پھر بھی اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول نہیں کی.اللہ سے شکوے ہوتے ہیں کہ اے اللہ کیوں میری دعا قبول نہیں کی.اگر اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر غور کر رہے ہیں تو یہ بات سامنے رہے گی کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے.اس کو تمام آئندہ آنے والی باتوں کا بھی علم ہے.اس کو یہ بھی علم ہے کہ ہر ایک کے دل میں کیا ہے.اس کو یہ بھی پتہ ہے کہ کیا چیز میرے بندے کے لئے ضروری اور فائدہ مند ہے اور کیا نقصان دہ ہے.اس لئے کسی قسم کے شکوے کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے.وہ اپنے بندے کی بعض باتوں کو اس لئے رد کرتا ہے کہ وہ انہیں اس کے لئے بہتر نہیں سمجھتا.بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بعض وعدے بھی کرتا ہے، ان کو بعض باتیں سمجھا دیتا ہے لیکن اجتہادی غلطی کی وجہ سے بندہ سمجھ نہیں سکتا.کیونکہ الفاظ واضح نہیں ہوتے اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے اور اس کی تاویل یا تشریح کچھ اور ہو رہی ہوتی ہے.یہ دعا حضرت نوح کی ہے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنے میں غلطی کی.اللہ تعالیٰ نے ان کے اہل کو بچانے کا وعدہ کیا تھا لیکن جب حضرت نوح نے بیٹے کو ڈوبتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ اے اللہ میاں ! میرا بیٹا تو میرے اہل میں ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں مجھے سب پتہ ہے کہ کون اہل میں ہے اور کون نہیں اور اس کی تعریف کیا ہے.کیونکہ اس کے دل میں نہ موجودہ حالت میں ایمان ہے اور نہ اس کی آئندہ ایمانی حالت ہونی ہے اس لئے وہ تیرے اہل میں شمار نہیں ہو سکتا اس لئے یہ دعا نہ مانگ.پس یہ جواب سن کے حضرت نوح نے نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے اس کی بخشش اور اس کا رحم مانگا.تو یہ واقعہ اور دعا سکھا کر ہمیں بھی توجہ دلائی ہے کہ تمہارے ساتھ زندگی میں ایسے واقعات پیش آسکتے ہیں.پس کبھی شکوہ نہ کرنا.جس طرح میرے اس نیک بندے نے فورا اللہ کے پیغام کو سمجھتے ہوئے استغفار کی ، اگر کبھی کسی قسم کا امتحان یا ابتلاء

Page 109

97 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ عالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم آئے تو شکوے کی بجائے استغفار کرو، اس کا رحم مانگو.تمہارا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عمل کرو، صدقہ دو اور دعا کرو اور پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑو اور پھر یہ دعا بھی ساتھ کرتے رہو کہ اے اللہ میں تیرے سامنے فضول سوال کرنے کی بجائے ہمیشہ تیری رضا پر راضی رہنے والا بنوں.کیونکہ یہ حالت اللہ کے فضل سے ملتی ہے اس لئے فضول سوالوں سے بچنے کی بڑی ضروری دعا ہے تا کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کی نظر اپنے بندے پر پڑتی رہے اور بندہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے.ورنہ یہ شکوے اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والے ہوتے ہیں اور آخر کار بندے کو نقصان پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ کا تو کچھ نہیں جاتا.اس لئے ایسی حالت میں خاص طور پر جب انتہائی مایوسی اور صدمے کی حالت ہو اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ جھکنا چاہئے تا کہ ہر قسم کے شرک سے ، انتشار ذہن سے بندہ محفوظ رہے.الفضل انٹر نیشنل 27 را کتوبر تا02 /نومبر 2006ء)

Page 110

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 98 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی متفرق دعائیں خطبہ جمعہ فرمود 130 /اکتوبر 2006ء سے اقتباسات میں آج متفرق دعائیں آپ کے سامنے رکھوں گا، چند دعائیں پیش کرتا ہوں.جو سب سے پہلی دعامیں نے لی ہے وہ نیک اعمال بجالانے کی توفیق حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کی دعا ہے.رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَ عَلَى وَالِدَيَّ أَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَ اَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِيْنَ (سورة النمل: 20) اے میرے رب ! مجھے توفیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کی اور میرے ماں باپ پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جو تجھے پسند ہوں اور تو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر.انسان نیکیوں کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی پاسکتا ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر بھی اس کی دی ہوئی توفیق سے ہی ملتا ہے.جن لوگوں کو دعاؤں کا فہم و ادراک نہیں ، جن لوگوں کو خدا کی قدرتوں کا صحیح فہم نہیں وہ اگر کوئی کامیابی حاصل کر لیں تو وہ اس کو اپنی صلاحیتوں پر محمول کرتے ہیں، اپنے ہنر یا اپنی کوشش یا اپنے علم کی طرف منسوب کرتے ہیں.لیکن ایک نیک بندہ ہمیشہ ہر انعام پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اے اللہ یہ تیرا فضل ہے جس کی وجہ سے مجھے انعام ملا ہے اور اس پر میں تیرا شکر گزار ہوں اور اس شکر گزاری کے اظہار کے طور پر مزید تیرے آگے جھکتا ہوں، تو مجھے توفیق دے کہ ہمیشہ تیرا شکر گزار رہوں اور کبھی میرے سے کوئی ایسا فعل سرزدنہ ہو جو تجھے پسند نہ ہو.میرا شمار ہمیشہ نیکو کارلوگوں میں ہو، نیک کام کرنے والے لوگوں میں ہو، ایسے احمدیوں میں ہو جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان کو دیکھ کر دوسروں کو خدا یاد آ جائے.دوسروں کو بھی توجہ پیدا ہو کہ نیکیاں کمانے کے لئے ، خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے وہ

Page 111

99 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم نمونے حاصل کرنے چاہئیں، وہ طریق اختیار کرنے چاہئیں جو ایسے احمدی کے ہیں جن کو دیکھ کر لوگوں کو خدا یاد آتا ہے.ایک احمدی پر اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان اور انعام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کی تصدیق کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونا بھی ہے اور پھر آپ کی جماعت میں شامل ہو کر ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس انعام سے بھی نوازا ہے جس کا گزشتہ پندرہ سو سال سے مسلمان انتظار کر رہے ہیں اور جس کی عدم موجودگی کی وجہ سے، جس کے مسلمانوں میں قائم نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے، تفرقہ پڑا ہوا ہے اور وہ آپس میں بکھرے ہوئے ہیں.باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے پاس حکومتیں بھی ہیں، تیل کی دولت بھی ہے، دوسرے قدرتی وسائل بھی ہیں لیکن غیروں نے ان کو اپنا زیرنگیں کیا ہوا ہے.ہر ملک کا دوسرے ملک کے خلاف ایسا رویہ ہوتا ہے کہ جس طرح دو دشمنوں کا ہے، رنجشیں ہیں، مسلمان ملکوں میں آپس میں رنجشیں بڑھتی چلی جارہی ہیں، ہر فرقہ دوسرے فرقے کی گرد نہیں مارنے پر ہر وقت تیار بیٹھا ہے، ایک دوسرے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، علماء مسلمانوں کی غلط رہنمائی کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ( دین حق ) میں اتنی خوبصورت تعلیم دی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی یہ حالت کیوں بنی ہوئی ہے؟ صرف اس لئے کہ آنے والے مسیح و مہدی کے انکاری ہیں.پس ایک احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر شکر گزار ہونا چاہئے کہ آج دنیا میں ایک احمدی کی پہچان مختلف رنگ میں ہے.احمدی جہاں بھی، جب بھی شرفاء میں تعارف حاصل کرتا ہے اور ( دین حق کی تعلیم کے صحیح پہلو سامنے رکھتا ہے تو ہر جگہ اس کی عزت کی جاتی ہے.پس اس عزت اور اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر احمدی کو شکر گزار ہونا چاہئے اور یہ شکر گزاری اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر مزید نیکیوں کی توفیق بھی دیتی ہے اور نیک اعمال پھر اللہ تعالیٰ کے قرب کے معیار مزید بڑھانے میں مدد دیتے ہیں اور اس طرح ایک بچے احمدی کا محور صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات رہ جاتا ہے جو انسان کی پیدائش کا مقصد ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو نیک اعمال بجالانے اور شکر گزاری کی توفیق عطا فرمائے.پھر دوسری دعا جو میں نے لی ہے یہ اولاد کے بارے میں ہے.ہر مرد عورت کی جب شادی ہوتی ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے اولاد ہو.اگر شادی کو کچھ عرصہ گزر جائے اور اولاد نہ ہو تو بڑی پریشانی کا اظہار ہورہا ہوتا ہے.مجھے بھی احمدیوں کے کئی خط روزانہ آتے ہیں جن میں اس پریشانی کا اظہار ہوتا ہے، دعا

Page 112

100 ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم کے لئے کہتے ہیں.لیکن ایک احمدی کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اولاد کی خواہش ہمیشہ اس دعا کے ساتھ کرنی چاہئے کہ نیک صالح اولا دہو جو دین کی خدمت کرنے والی ہو اور اعمال صالحہ بجالانے والی ہو.اس کے لئے سب سے ضروری بات والدین کے لئے یہ ہے کہ وہ خود بھی اولاد کے لئے دعا کریں اور اپنی حالت پر بھی غور کریں.بعض ایسے ہیں جب دعا کے لئے کہیں اور ان سے سوال کرو کہ کیا نمازوں کی طرف تمہاری توجہ ہوئی ہے، دعائیں کرتے ہو؟ تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح توجہ ہونی چاہئے اس طرح نہیں ہے.میں اس طرف بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ اولاد کی خواہش سے پہلے اور اگر اولاد ہے تو اس کی تربیت کے لئے اپنی حالت پر بھی غور کرنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ جب اولاد سے نوازے یا جو او لا دموجود ہے وہ نیکیوں پر قدم مارنے والی ہو اور قرۃ العین ہو.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک دعا حضرت ذکریا کے حوالے سے ہمیں سکھائی ہے کہ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيْعُ الدُّعَاءِ ) سورة آل عمران: 39 ) کہ اے میرے رب مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ ذریت عطا کر یقینا تو بہت دعا سننے والا ہے.ایسی پاک نسل عطا کر جو تیری رضا کی راہوں پر چلنے والی ہو.اور جب انسان یہ دعا کر رہا ہو تو خود اپنی حالت پر بھی غور کر رہا ہوتا ہے کہ کیا میں ان سارے حکموں پر عمل کر رہا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دیئے ہیں؟ پھر ایک جگہ حضرت ابراہیم کی اس دعا کا ذکر ہے، فرمایا رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِيْنَ (سورة الصفت : 101) اے میرے رب مجھے صالحین میں سے وارث عطا کر، مجھے نیک صالح اولا د عطا فرما.پس جو والدین اولاد کے خواہش مند ہوں انہیں نیک اولاد کی خواہش کرنی چاہئے اور پھر اولاد کی تربیت بھی اس کے مطابق ہو اور جیسا کہ میں نے کہا اولاد کی تربیت کے لئے سب سے پہلے اپنے نمونے قائم کرنے چاہئیں.واقفین نو کے والدین کا فرض واقفین نو بچوں کے جو والدین ہیں انہیں خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے جس انعام سے نوازا تھا اس نے تو قربانی کا بھی اعلی معیار قائم کر دیا.پس جو والدین اپنے بچوں کو وقف نو میں شامل کرتے ہیں انہیں خصوصاً اور دوسروں کو بھی، عام طور پر ہر احمدی کو دعا کرتے رہنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرتے ہوئے انہیں ایسی اولاد سے نوازے جو حقیقت میں دین کی خادم بنے والی ہو، جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں کو تلاش کرنے والی ہواور صالحین میں شمار ہو.

Page 113

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم اولاد کی اصلاح کے لئے دعا 101 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اولاد کی اصلاح کے ضمن میں ایک اور قرآنی دعا اَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ( سورة الاحقاف: 16 ) که میرے بچوں کی بھی اصلاح فرما، کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولا د اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے ان کی وجہ سے بھی اکثر انسان پر مصائب شدائد آ جایا کرتے ہیں بڑی سخت مصیبتیں آجایا کرتی ہیں تو اولاد کے لئے بہت دعا کرنی چاہئے.فرمایا ” تو ان کی اصلاح کی طرف بھی پوری توجہ کرنی چاہئے اور ان کے واسطے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے.“ (احکام جلد 12 نمبر 16 مورخہ 2 مارچ 1908 صفحہ 6، ملفوظات جلد پنجم صفحہ 456 جدید ایڈیشن) والدین کے احسانات کا بدلہ نہیں اتارا جا سکتا پھر والدین کا وجود ہے، یہ ایسا وجود ہے کہ انسان تمام عمر بھی ان کے احسانوں کا بدلہ نہیں اتار سکتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ وہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ سلوک کریں، تمہارے سے سختی کریں، نرمی کریں، تم نے ہر حال میں ان سے نرمی اور محبت کا سلوک کرنا ہے.تم نے ان کی کسی بری لگنے والی بات پر بھی اُف تک نہیں کہنی.صبر سے ہر چیز کو برداشت کرنا ہے.ہمیشہ ان سے نرمی اور پیار کا معاملہ رکھنا ہے کیونکہ تمہارے بچپن میں ان کی جو تمہارے لئے قربانیاں ہیں تم ان کا احسان نہیں اتار سکتے.اور یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے لئے اس طرح دعا کیا کرو کہ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا ( سورة بنی اسرائیل: 25) کہ اے میرے رب ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی تھی.حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مٹی میں ملے اس کی ناک مٹی میں ملے اس کی ناک.یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ دہرائے.یعنی ایسا شخص قابل مذمت ہے، بڑا بد بخت اور بدقسمت ہے.لوگوں نے عرض کی کونسا شخص؟ تو آپ نے فرمایا وہ شخص جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوسکا.(مسلم کتاب البر والصلۃ باب رغم انف من ادرک ابویه ) ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ جس نے رمضان پایا اور اپنے گناہ نہ بخشوائے اور والدین کو پایا اور

Page 114

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 102 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اپنی بخشش کے سامان نہ کروائے.(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب قول رسول اله رغم انف رجل) آپ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ نے فرمایا تیری ماں.پھر پوچھنے والے نے پوچھا، سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ نے فرمایا تیری ماں.پھر تیسری دفعہ پوچھا آپ نے فرمایا تیری ماں اور چوتھی دفعہ پوچھنے پرفرمایا تیرا باپ.( بخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبة ) تو اس بات کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ماں باپ کے احسانوں کا ایک انسان بدلہ نہیں اتار سکتا لیکن دعا اور حسن سلوک ضروری ہے.اس سے کچھ حد تک آدمی اپنے فرائض کو ادا کر سکتا ہے اور اسی سے بخشش ہے.اس ضمن میں ایک بات یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ جب معاشرے میں برائیاں پھیلتی ہیں تو پھر ہر طرف سے متاثر ہور ہے ہوتے ہیں.بعض دفعہ ماں باپ کی طرف سے بھی شکائتیں ہوتی ہیں.بعض لوگ خود تو ماں باپ کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں جو بڑی اچھی بات ہے، کرنی چاہئے.لیکن اپنے بچوں کو اس طرح ان کی ماں کی خدمت کی طرف توجہ نہیں دلا رہے ہوتے جس کی وجہ سے پھر آئندہ نسل بگڑنے کا احتمال ہوتا ہے.تو آپ بھی ماں باپ کی خدمت کریں اور بچوں کی بھی اس طرح تربیت کریں کہ وہ اپنی ماؤں کی خدمت کرنے والے ہوں.اور بعض دفعہ جب ایک انسان بچوں کے سامنے اپنی بیوی سے بدسلو کی کر رہا ہو گا، اس کی بے عزتی کر رہا ہوگا تو عزت قائم نہیں رہ سکتی.اس لئے ماؤں کی عزت قائم کروانے کے لئے اور بچوں کی تربیت کے لئے یہ انتہائی ضروری چیز ہے کہ اپنی بیویوں کی ، اپنے بچوں کی ماؤں کی عزت کریں.اگر تمام ادعیۃ الرسول یاد نہ ہوں تو حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کثرت سے دعائیں کیں کہ ہم کو ان میں سے کچھ بھی یاد نہ رہا.چنانچہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یارسول اللہ! آپ نے بہت سی دعائیں کی ہیں مگر ہمیں تو ان دعاؤں میں سے کچھ بھی یاد نہیں رہا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تم لوگوں کو ایک ایسی دُعا نہ بتا دوں جو ان سب دعاؤں کی جامع ہے.پھر فرمایا کہ تم لوگ یہ دعا کیا کرو اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ وَ نَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ وَ اَنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَ عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَلَا

Page 115

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 103 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ ( سنن ترمذی کتاب الدعوات باب فی عقد التسبیح بالید ) اے اللہ ! ہم تجھ سے اس خیر کے طالب ہیں جس خیر کے طالب تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ہم ہر اس شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں جس سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ سے پناہ طلب کی تھی اور اصل مددگار تو ہی ہے اور تجھ ہی سے ہم دعائیں مانگتے ہیں اور اللہ کی مدد کے بغیر نہ تو ہم نیکی کرنے کی طاقت پاتے ہیں اور نہ ہی شیطان کے حملوں سے بچنے کی قوت...الفضل انٹر نیشنل 03 تا 09 نومبر 2006ء)

Page 116

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 104 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 20/اکتوبر 2006ء سے اقتباسات * يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْأَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوْا إِلَيْهَا وَتَرَكُوْكَ قَائِماً قُلْ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّزِقِيْنَ (سورة الجمعة 10 تا 12) ی آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، جب جمعہ کے دن کے ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو.یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.پھر اگلی آیت میں فرمایا: پس جب نماز ادا کی جاچکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.پھر فرماتا ہے: اور جب وہ کوئی تجارت یا دل پہلا وہ دیکھیں گے تو اس کی طرف دوڑ پڑیں گے اور تجھے اکیلا چھوڑ دیں گے.تو کہہ دے کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ دل بہلا دے اور تجارت سے بہت بہتر ہے اور اللہ رزق عطا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے.جمعہ پر جلدی آئیں تو دیکھیں کتنا واضح حکم ہے، کوئی ابہام نہیں ہے کہ کون سے جمعہ کی طرف بلایا جائے؟ صرف حکم ہے تو یہ کہ جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کی طرف بلایا جائے تو اس پیارے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے دوڑو.یہ خیال دل میں نہ لاؤ کہ تھوڑا سا یہ کام رہتا ہے اسے پورا کر لوں پھر جاتا ہوں.یہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ خطبہ شروع ہونے کے وقت اس (بیت الذکر ) کا ہال نصف سے بھی کم بھرا ہوتا ہے اور اس کے بعد آہستہ آہستہ

Page 117

105 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم لوگ آنا شروع ہوتے ہیں اور جگہ بھرتی چلی جاتی ہے.صرف یہاں نہیں، باقی دنیا میں بھی یہی حال ہے بلکہ بعض لوگ خطبہ ثانیہ کے دوران آرہے ہوتے ہیں.بعض کو تو کام سے رخصت کی مجبوریاں ہیں ، بعض کو بعض دفعہ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے لیکن بعض عادی بھی ہوتے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ جتنا دیر سے جا سکیں ، جتنا لیٹ جاسکیں جایا جائے تاکہ نماز میں شامل ہو کر فوری واپس آجائیں یا تھوڑا سا خطبے کا حصہ سن لیں تو یہی کافی ہے.حالانکہ حدیث میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ سب سے پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور پہلے آنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اونٹ کی قربانی کرے.پھر بعد میں آنے والا اس کی طرح ہے جو گائے کی قربانی کرے، پھر مینڈھا یعنی بھیڑ بکرا، پھر مرغی اور پھر انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح، پھر جب امام منبر پر آ جاتا ہے تو وہ اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں اور ذکر کو سننا شروع کر دیتے ہیں.( بخاری کتاب الجمعة باب الاستماع الى الخطبة يوم الجمعة ) تو دیکھیں جمعہ کے لئے جلدی آنے کی اہمیت کس طرح واضح فرمائی.جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بعض کام کرنے والے لوگ ایسے ہیں جن کو مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن ایک ایسی تعداد بھی ہے جس میں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ جمعہ پر وقت پر جانا ہے.اکثر یہاں بہت سارے لوگ میرے سامنے ( بیت الذکر ) کے اگلے حصے میں بیٹھے ہوتے ہیں، تقریباً نوے فیصد شاید وہی چہرے ہوتے ہیں اور آج بھی وہی ہیں.ان میں سے بعض کو میں جانتا ہوں وہ کام بھی کرتے ہیں اور عموماً یہاں اکثر لوگ اپنے کام کر رہے ہیں، کوئی ٹیکسی چلا رہا ہے کوئی دوسرے کام کر رہا ہے.تو یہ جلدی آنے والے بھی اور لیٹ آنے والے بھی اور نہ آنے والے بھی ، ان کے کاموں کی نوعیت تقریبا ایک جیسی ہوتی ہے، تو وقت پر نہ آنا صرف نفس کا بہانہ ہے.آخر جو وقت پر آکر بیٹھ جاتے ہیں، یہ بھی تو اپنے کام کا حرج کر کے آ رہے ہوتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو یا درکھیں کہ جمعہ کی نماز پر جلدی آؤ اور اپنی تجارت ، اپنے کاروبار اور اپنے کام چھوڑ دیا کرو اور ہمیشہ یاد رکھو کہ رزق دینے والی ذات خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اگر اس کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ، بظاہر نقصان اٹھاتے ہوئے بھی جمعہ کے لئے آؤ گے تو خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرما دے گا کہ جس نقصان سے تم ڈر رہے ہو وہ نہیں ہوگا اور اگر بالفرض کہیں کوئی تھوڑی بہت کمی رہ بھی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس

Page 118

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 106 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی وجہ سے تمہیں اور ذریعوں سے برکتوں سے بھر دے گا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے.جمعہ پر تم جو ستی دکھاتے ہو اور بے احتیاطی کرتے ہو یہ اپنی بے علمی کی وجہ سے کرتے ہو.اگر تمہیں علم ہو کہ اس کے کتنے فوائد ہیں اور اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے فضلوں سے نوازے گا تو اتنی سستیاں اور بے احتیا طیاں کبھی نہ ہوں اور سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کبھی یہ بے احتیاطی ہو بلکہ ہمیشہ اس کوشش میں رہو گے کہ اونٹ یا گائے کی قربانی کا ثواب حاصل کرو.پس ہر احمدی کو ہمیشہ جمعہ کی اہمیت کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور چھوٹے چھوٹے بہانے تراش کر یا تلاش کر کے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حکم عدولی نہیں کرنی چاہئے.جمعہ کا خطبہ اور نماز آنے جانے سمیت زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو گھنٹے کا معاملہ ہے.اور بعض لوگ جو دوسرے کام ہیں ان میں بغیر کام کے ہی بے تحاشا وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ایک بات مکرم حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ایک بات مجھے یاد آئی ، یہیں کہیں کسی مغربی ملک میں ان کا غیروں میں لیکچر تھا، جگہ کوئی تھی یہ تو مجھے پوری طرح مستحضر نہیں لیکن بہر حال وہاں انہوں نے ( دین حق کی ) عبادات کا ذکر فرمایا اور جمعہ کی مثال بھی دی کہ ہفتے بعد جمعہ ایک لازمی عبادت ہے، اس کے متعلق حکم ہے کہ ضرور پڑھو.بعض لوگوں کے نزدیک یہ بہت بڑا بوجھ ہے.انہوں نے فرمایا کہ اس میں کتنا وقت لگ جاتا ہے؟ پھر انہوں نے وقت کی مثال اس طرح دی کہ جتنا وقت دو برج (Bridge) کھیلنے والے اپنی اس برج کی کھیل کو ختم کرنے میں لگاتے ہیں اس سے کم وقت اس میں لگتا ہے.یہ برج جو ہے یہ بھی تاش کھیلنے کی ایک قسم ہے.تو لہو و لعب کی طرف تو توجہ ہو جاتی ہے، جمعہ کی طرف توجہ نہیں ہوتی.پس دنیا داروں کو سمجھانے کے لئے انہوں نے اس کی مثال دی تھی.اسی طرح دوسری بے فائدہ کھیلیں ہیں ، بعض گپیں ہانکنے میں وقت لگا دیتے ہیں ، بیٹھے رہتے ہیں لیکن جمعہ پر آنے کے لئے سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اتنا وقت ہوگا ، جائیں گے، بیٹھنا پڑے گا، خطبہ لمبا ہو گیا تو کیا کریں گے.جماعت پر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی نہ کوئی ضرور نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے.بعض عورتیں اور لڑکیاں بڑی فکر سے اپنے خاوندوں کے بارے میں دعا کے لئے لکھتی ہیں کہ ہمارے میاں کو جمعہ پر جانے کی عادت نہیں اور اکثر بہانے بنا کر جمعہ ضائع کر رہے ہوتے ہیں، کوئی وجہ نہیں ہوتی.دعا کریں کہ جمعہ پر جانے کی عادت پڑ جائے.

Page 119

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 107 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جمعہ پر نہ آنے والوں کے لئے انذار ایک حدیث میں جمعہ ضائع کرنے والوں کے بارے میں آتا ہے، جس میں جمعہ کی اہمیت اور جمعہ نہ پڑھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ذکر ہے.حضرت ابو جعد ضمری روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے تساہل کرتے ہوئے لگا تار تین جمعے چھوڑے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کر دیتا ہے.(سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب التشد دفی ترک الجمعة ) اب دیکھیں کس قدرا نذار ہے، جمعہ چھوڑنے کے کس قدر بھیانک نتائج پیدا ہورہے ہیں.ایسے لوگوں کے دل پھر اللہ تعالیٰ سخت کر دیتا ہے اور ان کے اپنے عمل کی وجہ سے یہ چیز پیدا ہو رہی ہوتی ہے، جمعہ سے لا پرواہی کی وجہ سے یہ چیز پیدا ہورہی ہوتی ہے.دیکھ لیں کہ یہاں لگا تار تین جمعے چھوڑنے پر انذار کیا ہے، رمضان کا آخری جمعہ چھوڑنے کا یہاں ذکر نہیں ہے.یعنی جو لگا تارتین جمعے چھوڑے گا اس کا دل سخت ہو جاتا ہے، اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے.یہ نہیں کہا گیا کہ جو رمضان کا آخری جمعہ چھوڑتا ہے یا لگا تار تین رمضان آخری جمعہ پر نہ جائے تو اس کا دل سخت ہو گا.اس لئے جمعہ کی اہمیت کو بہت زیادہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور اس کے علاوہ اپنی ہر قسم کی عبادتوں کو زندہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ جو بہت زیادہ بخشتہار ہے،اس سے اپنے گناہوں کے بخشوانے اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے والے اور اس کے لئے کوشش کرنے والے ہوں.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر انسان کبائر گناہ سے بچے تو پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ اور رمضان سے اگلا رمضان ان دونوں کے درمیان ہونے والی لغزشوں کا کفارہ بن جاتا ہے.(الترغیب والترھیب کتاب الجمعة باب الترغيب في صلاة الجمعة و السعى اليها ) یعنی اگر انسان بڑے بڑے گناہوں سے بچتارہے تو ان چھوٹی موٹی غلطیوں سے اور لغزشوں سے اور گناہوں سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے اس عمل کی وجہ سے صرف نظر فرماتا رہے گا جو وہ اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے، اپنی نمازوں کی طرف توجہ دیتے ہوئے اور جمعہ پر با قاعدگی اختیار کرتے ہوئے اور پھر رمضان کے روزے رکھتے ہوئے کرتا ہے.ہر نماز پڑھنے کے بعد جب اگلی نماز کا انتظار ہو اور انگلی نماز انسان پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس دوران کی غلطیاں معاف فرما دیتا ہے، پھر ہفتے کے دوران جو غلطیاں ہوں وہ جمعہ کے

Page 120

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 108 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جمعہ معاف فرما دیتا ہے.اسی طرح اگر سال کے دوران کچھ غلطیاں ہیں تو رمضان میں اللہ تعالیٰ بخشش کے دروازے کھولتا ہے اور معاف فرما دیتا ہے.تو دیکھیں یہاں صرف جمعہ کا یاجمعتہ الوداع کا ذکر نہیں بلکہ روزانہ نمازوں کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.پھر ہر جمعہ کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.یہاں یہ نہیں لکھا ہوا، جس طرح بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قضائے عمری پڑھ لی تو گناہ معاف ہو گئے ، اسی طرح جمعۃ الوداع پڑھ لیا تو گناہ معاف ہو گئے.بلکہ ہر جمعہ جو ہے وہ اگلے جمعہ تک کی غلطیوں کا کفارہ بنتا ہے.پھر جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ جمعہ پر آنے جانے اور خطبہ سننے میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو گھنٹے لگتے ہیں کیونکہ جو ( بیوت الذکر ) کے قریب کے لوگ ہیں وہی آئے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تھوڑا سا وقت ہے، جب تم جمعہ ادا کر چکو تو بے شک اپنے کاموں پر چلے جاؤ اور جو اپنے دنیاوی کام ہیں وہ سارے کرو اور اللہ کا فضل تلاش کرو.اللہ تعالیٰ نے یہ دنیاوی نعمتیں اور یہ کاروبار جو صحیح کاروبار ہیں تمہیں اپنے فضل سے ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے عطا کئے ہوئے ہیں.پس اس فضل سے فائدہ اٹھاؤ.اس میں اس طرف بھی اشارہ ہو گیا کہ ناجائز کاروبار، دھوکہ دہی کے کاروبار جو ہیں ان سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے جو نواہی ہیں اس سے بچ کر ہی اللہ تعالیٰ کے فضل کے وارث بن سکتے ہو، ان کو کر کے نہیں.پس اپنی ملازمتوں میں، اپنے کاروباروں میں جائز اور نا جائز کے فرق کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھو.یہ نہیں کہ ان لوگوں کی طرح ناجائز کاروبار کر کے اور کالا دھن کما کر اور سمگلنگ کر کے پھر حج پر چلے گئے اور سمجھ لیا کہ ہم پاک ہو گئے ہیں اور ہمارے پچھلے گناہ بخشے گئے.جیسا کہ اس حدیث میں جو میں نے پڑھی تھی آتا ہے کہ جمعہ کفارہ ہے، یہ اس صورت میں کفارہ بنتا ہے جب انسان بڑے گنا ہوں سے بچے ، جب کہائر سے بچے.اور پھر ان سے بچنے کے لئے اس آیت میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بچنے کا ایک ذریعہ ہے.اللہ کا ذکر کرنے والے ایک تو اللہ کا خوف رکھیں گے، ناجائز کام نہیں کریں گے اور یہ ذکر تمہارے دلوں کو اطمینان بھی بخشے گا.ناجائز منافع خوری اور ناجائز کاروبار کی طرف جو توجہ ہے وہ نہیں رہے گی ، قناعت پیدا ہوگی.اور ذکر ، پھر اس طرف بھی توجہ دلا رہا ہے کہ جمعہ پڑھ کر پھر نمازوں سے چھٹی نہیں ہوگی بلکہ اس کے بعد عصر کی نماز بھی ہے پھر مغرب کی نماز ہے پھر عشاء کی نماز ہے.اور یہ سلسلہ پھر اسی طرح چلنا ہے، اس طرف بھی ہر ایک کی توجہ رہنی چاہئے.اور اس ”ذکر“ سے پھر فضل بڑھتے چلے جائیں گے اور چھوٹی موٹی غلطیوں اور کوتاہیوں کا کفارہ بھی ہوتا چلا جائے گا.پس ہمیشہ اس طرف توجہ رکھو

Page 121

109 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم کہ ”ذکر“ کرنا ہے.پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ جن کے دل ہر وقت دنیاوی چیزوں کی طرف مائل رہتے ہیں ، جھکے رہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے والے نہیں.ان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کا فہم اور ادراک ہی نہیں.انہوں نے اپنی تجارتوں کو ہی اپنا خدا بنالیا ہوا ہے.اپنے کاروباروں کو اپنا خدا بنالیا ہوا ہے.عبادتوں کی بجائے کھیل کود میں ان کا دل زیادہ لگا ہوا ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ تاش کھیلنے والے گھنٹوں تاش کھیلتے رہیں تو انہیں وقت کے ضائع ہونے کا احساس نہیں ہوتا، تو فرمایا کہ جن کے دل ایمان سے خالی ہیں یا ایمان صرف منہ کی جمع خرچ ہے وہ عبادت کی طرف توجہ دینے والے نہیں ہیں، قربانیاں کرنے والے نہیں ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو صحابہ قربانیاں کرنے والے تھے.انہوں نے مال، جان ، وقت اور عزت ہر چیز کو ( دین حق) کی خاطر قربان کر دیا تھا.سوائے چند ایک منافقین کے جو جان بچاتے تھے، ان کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ نے کر دیا ہے.تجارت اور کھیل کو جمعہ میں حائل نہ ہونے دیں پس جو تجارت اور کھیل کود کی طرف توجہ دینے والے ہیں یہ اس زمانے کے لوگ ہیں جبکہ مختلف طریقوں سے، دلچسپیوں سے شیطان ان کو اپنی طرف بلاتا ہے اور ان دلچسپیوں کے بے تحاشا سامان پیدا ہو گئے ہیں.اس سورۃ جمعہ میں اس زمانے میں مسیح موعود کے آنے کا بھی ذکر ہے.یہ لوگ جو کھیل کود اور تجارتوں میں مشغول ہیں، مسیح موعود کی آواز پر بھی کان نہیں دھرتے اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سنے کو تیار نہیں، اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے.لیکن وہ لوگ جو صحیح مومن ہیں ، جنہوں نے مسیح موعود کو مانا ہے ان کو تو یہ حکم ہے کہ تمہارا کام تو عبادتوں کو زندہ رکھنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر رکھنا ہے.اگر حضرت مسیح موعود کو ماننے کا انعام حاصل کرنے کے باوجود ذکر الہی کی طرف توجہ نہیں دو گے تو یا د رکھو کہ اللہ اور اس کے رسول اور مسیح موعود کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے کیونکہ تمہاری بیعت سے تو ان کو کوئی غرض نہیں.تمام قسم کی نعمتیں جو تم حاصل کر رہے ہو ان کا سر چشمہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، ہر قسم کے رزق تو اس سے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو نعمتیں ہیں وہ ان دل بہلاوے کی چیزوں سے اور تجارتوں سے بہت بہتر ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں کرو گے تو پھر ان نعمتوں سے بھی محروم رہو گے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر احمدی کو اس بات کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ

Page 122

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 110 ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کے فضلوں کو جذب کرنے والا بنائے.کبھی یہ نہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے لا پرواہی برتنے والا ہو.ایک حدیث میں آتا ہے ، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس پر جمعہ کے دن جمعہ پڑھنا فرض کیا گیا ہے.سوائے مریض ، مسافر ، عورت، بچے اور غلام کے.جس شخص نے لہو ولعب اور تجارت کی وجہ سے جمعہ سے لا پرواہی برتی اللہ تعالیٰ بھی اس سے بے پرواہی کا سلوک کرے گا.یقینا اللہ تعالیٰ بے نیاز اور حمد والا ہے.(سنن دار قطنی کتاب الجمعة باب من تجب عليها الجمعة ) پس فکر کے ساتھ جمعوں کی ادائیگی کرنی چاہئے اور جو استثناء ہیں ان کا اس حدیث میں ذکر ہو گیا کہ مریض کی مجبوری ہوتی ہے نہیں جاسکتا.پھر مسافر ہے ، بعض دفعہ مجبوری سے سفر کرنے پڑتے ہیں اس لئے مسافر کے بارے میں بھی آگیا کہ اگر کوئی مسافر ہے.لیکن جو عمداً بغیر کسی وجہ کے جبکہ وقت بدلا جا سکتا ہے جمعہ کے دن سفر کرتے ہیں ، ان کی کوئی مجبوری نہیں ہے، ان کو بہر حال بچنا چاہیئے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے سفر کو پسند فرماتے تھے تا کہ جمعہ سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جائیں.اسی طرح عورت کے لئے ضروری نہیں کہ وہ جمعہ پر ضرور آئے ، عید پر آنا ہر عورت کے لئے ضروری ہے.جو بھی ہوش وحواس رکھنے والی عورت ہے اس کے لئے عید پر آنا تو بہر حال ضروری ہے، ہر حالت میں آنا ضروری ہے.لیکن جمعہ پر آنا ہر عورت کے لئے ضروری نہیں ہے اس لئے یہ استثناء ہے.اسی طرح غلاموں کو بھی مجبوریاں ہوتی ہیں ، ان کو بھی چھوٹ دی گئی ہے.بعض حالات میں وہ مجبور ہوتے ہیں ، ان کو کوئی گناہ نہیں.پھر جمعہ کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کا ذکر فرمایا کہ جمعے کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں مسلمان اللہ تعالیٰ سے نماز پڑھتے ہوئے جو بھی بھلائی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ وہ اس کو عطا کر دیتا ہے.حدیث کے الفاظ ہیں وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلَّی.( بخاری کتاب الجمعة باب الساعة التي في يوم الجمعة ) قبولیت دعا کی ایک اہم گھڑی بعض اور روایات ہیں اور حدیثوں کی جو مختلف تشریح کرنے والے ہیں وہ اس پر یہ کہتے ہیں کہ صرف نماز پڑھنے کے دوران ہی نہیں بلکہ خطبہ جمعہ بھی جمعہ کا حصہ ہے یہ بھی اسی طرح اس میں آ جاتا ہے، صرف

Page 123

111 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم کھڑے ہونا نہیں.اور بعض اس سے زیادہ وقت دیتے ہیں کہ یہ وقت شام تک چلتا ہے.تو بہر حال اس حدیث میں یہ ہے کہ مسلمان نماز پڑھتے ہوئے جو بھی بھلائی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ وہ اس کو عطا کر دیتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ گھڑی بہت مختصر ہے، بہت تھوڑی ہے.پس اس موقع سے ہر ایک کو فائدہ اٹھانا چاہئے ، اپنے لئے بھی دعائیں کریں، جماعت کے لئے بھی دعائیں کریں.کسی کو کیا پتہ کہ وہ گھڑی کسی وقت آنی ہے، اس لئے پہلے وقت میں آنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ تو بہر حال واضح ہے کہ جمعہ کا خطبہ نماز کا حصہ ہے.الفضل انٹر نیشنل 10 نومبر تا 16 نومبر 2006ء)

Page 124

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 112 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی...خطبہ جمعہ فرموده 03 نومبر 2006ء سے اقتباس حضرت خلیفہ المی الثانی صلح موعودور اللہ مرقدہ نے جب تحریک جدید کا آغاز فرمایا تواس وقت بھی اور اس کے بعد بھی مختلف سالوں میں اس تحریک جدید کے بارے میں جماعت کی رہنمائی فرماتے رہے کہ اس کے کیا مقاصد ہیں اور کس طرح ہم ان مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں.اس وقت شروع میں آپ نے جماعت کے سامنے 19 مطالبات رکھے اور پھر بعد میں مزید بھی رکھے.یہ تمام مطالبات ایسے ہیں جو تربیت اور روحانی ترقی اور قربانی کے معیار بڑھانے کے لئے بہت ضروری ہیں اور آج بھی اہم ہیں ، جماعتوں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے.سادہ زندگی کی طرف توجہ کریں مثلاً پہلا مطالبہ سادہ زندگی کا ہے.آج جب مادیت کی دوڑ پہلے سے بہت زیادہ ہے اس طرف احمدیوں کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.کیونکہ سادگی اختیار کر کے ہی دین کی ضروریات کی خاطر قربانی دی جا سکتی ہے.بعض لوگوں کو بلا ضرورت گھروں میں بے تحاشا مہنگی سجاوٹیں کرنے کا شوق ہوتا ہے، سجاوٹ تو ہونی چاہئے ، صفائی بھی ہونی چاہئے ، خوبصورتی بھی ہونی چاہئے لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سجاوٹ صرف مہنگی چیزوں سے ہی ہوتی ہے.تو بہت سارے ایسے بھی ہیں جو پیسے جوڑتے ہیں تا کہ سجانے کی فلاں مہنگی چیز خریدی جائے، بجائے اس کے کہ یہ پیسے جوڑیں کہ فلاں کام کے لئے چندہ دیا جائے.پھر شادیوں، بیاہوں پر فضول خرچیاں ہوتی ہیں.اگر یہی رقم بچائی جائے تو بعض غریبوں کی شادیاں ہوسکتی ہیں، (بیوت الذکر ) کی تعمیر میں دیا جا سکتا ہے ، اور کاموں میں دیا جا سکتا ہے، مختلف تحریکات میں دیا جاسکتا ہے.دشمن کے لٹریچر کا جواب تیار کیا جائے پھر آپ نے اس وقت ایک یہ مطالبہ بھی کیا کہ دشمن کے گندے لٹریچر کا جواب تیار کیا جائے.آجکل بھی

Page 125

113 ارشادات حضرت خلیفہ اسی الخامس ایدہ اللہ عالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم اسلام پر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے ہورہے ہیں.اکثر ملکوں میں خدام الاحمدیہ کے ذریعہ سے مجلس سلطان القلم اچھی آرگنا ئز ہے، لیکن ابھی بھی اس میں بہتری کی گنجائش ہے.پھر آجکل مغربی معاشرے میں نام نہاد صوفی ازم بہت چلا ہوا ہے اس سے متاثر ہو کر مغرب میں نوجوان غلط راہوں پر چل پڑے ہیں.مغربی معاشرے میں خدا تعالیٰ کی ذات کو بھی بہت نشانہ بنایا جا رہا ہے.پچھلے دنوں کسی نے ایک کتاب بھی لکھی جو کرسمس سے پہلے آئی اور یہاں کی بہترین کتاب بیسٹ سیلر (Best Seller) کتاب کہلاتی ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے وجود کی نفی اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی نفی کرنے کی کوشش کی گئی ہے.خدا تعالیٰ کے وجود سے انکار بھی یہاں مغرب میں فیشن بنتا جا رہا ہے.تو جماعتی پروگرام کے تحت بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اس چیز پر نظر رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اپنے بچے، لڑکے، نوجوان بچیاں ان چیزوں سے متاثر نہ ہوں.اس کے جواب کے پروگرام بنائیں.صرف یہ کہنا کہ نہیں ، فضول ہے اس کی بجائے با قاعدہ دلیل کے ساتھ جواب تیار ہونے چاہئیں.جو مختلف سوال اٹھ رہے ہیں وہ یہاں مرکز میں بھی بھجوائیں، مجھے بھی بھجوائیں تاکہ ان کے ٹھوس جواب بھی تیار کئے جائیں.وقف بعد از ریٹائر منٹ پھر ایک مطالبہ وقف عارضی کا ہے اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.باہر کی دنیا میں باہر سے مراد یورپ اور مغربی ممالک ، افریقہ وغیرہ) اگر آر گنائز کر کے اس مطالبے پر سارے نظام پر کام کیا جائے تو اپنوں کی تربیت کے لحاظ سے بھی اور ( دعوت الی اللہ ) کے لحاظ سے بھی بہت بہتری پیدا ہوگی ، جماعتیں اس طرف بھی توجہ کریں.پھر وقف بعد از ریٹائر منٹ ہے.ان مغربی ممالک میں بھی جماعتی ضروریات بڑھ رہی ہیں اور یہاں کیونکہ حکومت کی طرف سے، اداروں کی طرف سے سہولتیں ملتی ہیں اس لئے جو احمدی ریٹائر منٹ کے بعد یہ سہولیات لے رہے ہیں ان کو اپنے آپ کو جماعتی خدمات کے لئے پیش کرنا چاہئے.جماعت سے مالی مطالبہ نہ ہو کیونکہ ان کی ضروریات تو ان سہولتوں سے جو وہ حکومت سے یا اداروں سے لے رہے ہیں یا پینشن وغیرہ سے جو رقم ملی ہے اس سے پوری ہو رہی ہیں.بعض لوگ تو ریٹائر منٹ کے بعد دوبارہ کام تلاش کرتے ہیں کیونکہ بعض ایسی ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن کو پورا کرنا ہوتا ہے، بچے وغیرہ ابھی پڑھ رہے ہوتے ہیں.تو

Page 126

114 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم بہر حال جن کی ذمہ داریاں ایسی نہیں ہیں اور اگر صحت اچھی ہے تو ان کو اپنے آپ کو جماعتی خدمات کے لئے رضا کارانہ طور پر پیش کرنا چاہئے.لیکن بعض دفعہ ذہنوں میں یہ بات آ جاتی ہے کہ شاید ہم رضا کارانہ کام کر کے جماعت پر کوئی احسان کر رہے ہیں، تو اگر اپنے آپ کو پیش کرنا ہو تو اس سوچ کے ساتھ آئیں کہ اگر ہم سے کوئی جماعتی خدمت لے لی جائے تو جماعت اور خدا تعالیٰ کا ہم پر احسان ہوگا.نوجوان بیکار نہ رہیں ایک مطالبہ نو جوانوں کا بریکاری کی عادت ختم کرنے کا تھا.یہ بھی بڑی خطرناک بیماری ہے اور بڑھتی جا رہی ہے.پاکستان میں بعض بے کار نوجوان اس لئے بے کار ہیں کہ یا تو ان کے جو رشتہ دار، والدین ، بھائی وغیر ہ باہر ہیں وہ باہر سے رقم بھیج دیتے ہیں اس لئے ذمہ داری کا احساس نہیں.یا اس امید پر بیٹھے ہیں کہ باہر جانا ہے.اب باہر جانا بھی اتنا آسان نہیں رہا، ان لوگوں کو بھی غلط امیدوں پر نہیں بیٹھنا چاہئے.اور جو آتے ہیں ان کے بھی یہاں اتنی آسانی سے کیس پاس نہیں ہوتے.اس لئے بلا وجہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے اور دھو کے میں نہ رہیں.اپنے نفس کو دھوکہ نہ دیں اور اپنے آپ کو سنبھالیں.جماعت اور ذیلی تنظیموں کو بھی اس بارے میں معین پروگرام بنانا چاہئے اور نو جوانوں کو سنبھالنا چاہئے.یہ لوگ جو فارغ بیٹھے ہیں، فارغ بیٹھے یہ مطالبے کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا کسی طرح باہر جانے کا انتظام ہو جائے ، بعض لڑکوں کے ماں باپ لکھ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے حالات خراب ہیں باہر بلوالیں.باہر بلوانا کون سا آسان ہے.یا ہماری شادی باہر کروا دیں یا جو بھی ذریعہ ہو.اور ایسے لوگوں میں سے جب کسی کی شادی یہاں ہو جاتی ہے اور یہاں آ جاتے ہیں تو جب ان ملکوں میں ان کا Stay پکا ہو جاتا ہے تو پھر بیویوں پر ظلم کرنے شروع کر دیتے ہیں یا چھوڑ دیتے ہیں.یہ بھی ایک غلط رو خاص طور پر پاکستان میں اور ہندوستان میں چل پڑی ہے.ایسے نو جوانوں کو میں کہتا ہوں کہ اپنے ملک میں محنت کی عادت ڈالیں اور محنت کر کے کھائیں.اس دوران میں اگر باہر کا کوئی انتظام ہو جاتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن صرف اس لئے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھے رہنا کہ باہر جانا ہے ، اس سے بہت ساری غلط مقتم کی عادتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور بہت ساری برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور پھر وہ برائیاں معاشرے میں ، اس ماحول میں پھیلنی شروع ہو جاتی ہیں.اسی طرح بعض ایسے ہیں جو یہاں آ کر بھی ہنر نہیں سیکھتے ، زبان نہیں سیکھتے ، اور ذراسی کوئی تکلیف : ہو

Page 127

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 115 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جائے تو بیماری کا بہانہ کر کے گھر بیٹھ جاتے ہیں.کیونکہ مددمل جاتی ہے اس لئے کام نہیں کرتے.بریکاری کی عادت کے خلاف ایسی مہم یہاں بھی چلانے کی بہت ضرورت ہے.الفضل انٹر نیشنل 24 تا 30 نومبر 2006 ء )

Page 128

مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم 116 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 10 /نومبر 2006ء تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ﴿يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَّ نِسَاءَ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَ لُوْنَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا) (النساء : (2) عائلی جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے نصائح آجکل پھر عائلی جھگڑوں کی شکایات بہت زیادہ ہوگئی ہیں.میاں بیوی کے جو معاملات ہیں، آپس کے جھگڑے ہیں ان میں بعض دفعہ ایسے ایسے بیہودہ اور گھناؤ نے معاملات سامنے آتے ہیں جن میں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بھی ہوتی ہیں یا مردوں کی طرف سے یا سسرال کی طرف سے ایسے ظالمانہ رویے ہوتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہواور اللہ تعالیٰ کا حکم ذکر سامنے نہ ہو کہ نصیحت کرتے رہو، نصیحت یقینا فائدہ دیتی ہے تو انسان مایوس ہو کر بیٹھ جائے کہ ان بگڑے ہوؤں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، یہ سب حدیں پھلانگ چکے ہیں.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مسیح و مہدی کی غلامی اور نمائندگی میں نصیحت کرنے کے فرمان الہی کے مطابق نصیحت کرتے چلے جانے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے یقیناً ان میں شرافت کا کوئی بیج تھا جس سے یہ نیکی کا شگوفہ پھوٹا ہے کہ احمدیت قبول کر لی اور اس پر قائم ہیں.پس اللہ کے حکم کے مطابق اور جو کام ذمہ لگایا گیا ہے اس کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہ نصیحت کرو یقیناً اللہ برکت ڈالے گا ، میں اللہ تعالیٰ کے اس برکت ڈالنے کے سلوک کی امید کرتے ہوئے آج پھر اس بارے میں کچھ سمجھانے کی کوشش کروں گا.اللہ تعالیٰ میرے الفاظ میں اثر پیدا کر دے کہ اجڑتے ہوئے گھر جنت کا گہوارہ بن جائیں گو کہ میں گزشتہ خطبات میں اشارہ بھی اس طرف توجہ دلاتا رہا ہوں لیکن

Page 129

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 117 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی آج ذرا کچھ وضاحت سے یہ فرض ادا کرنے کی کوشش کروں گا.جیسا کہ میں نے کہا آجکل بذریعہ خطوط یا بعض ملنے والوں سے سن کر طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ ہمارے مقاصد کتنے عظیم ہیں اور ہم ذاتی اناؤں کو مسائل کا پہاڑ سمجھ کر کن چھوٹے چھوٹے لغو مسائل میں الجھ کر اپنے گھر کی چھوٹی سی جنت کو جہنم بنا کر جماعتی ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے منفی کردار ادا کر رہے ہیں.ان مسائل کو کھڑا کرنے میں جو بھی فریق اپنی اناؤں کے جال میں اپنے آپ کو بھی اور دوسرے فریق کو بھی اور نظام جماعت کو بھی اور پھر آخر کار بعض اوقات مجھے بھی الجھانے کی کوشش کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اسے عقل دے اور وہ اس مقصد کو سمجھے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا.آپ فرماتے ہیں کہ وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کو دوبارہ قائم کروں.“ پھر آپ فرماتے ہیں ”خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں.انسان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے دلائل اس کو ملیں جن کے رو سے اس کو یقین آجائے کہ خدا ہے.پس یہ بڑا مقصد ہے جس کے پورا کرنے کی ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اس کو جستجو رہنی چاہئے.اور کوئی احمدی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کی مدد نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنی اناؤں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا ان پاک ہدایتوں پر عمل نہیں کرتا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دی ہیں.اگر ہمارے اپنے گھروں میں نرمی اور اعلیٰ اخلاق کے نظارے نظر نہیں آ رہے تو ہم نے گم گشتہ اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ کیا دکھانا ہے؟ ہم تو خودان گم گشتہ لوگوں میں شامل ہیں، ہم تو خود اپنی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں.پس ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے ، اپنے گھر کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم قرآنی تعلیم سے ہٹے ہوئے تو نہیں ہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے لاشعوری طور پر دور تو نہیں چلے گئے؟ اپنی اناؤں کے جال میں تو نہیں پھنسے ہوئے؟ اس بات کا جائزہ لڑکے کو بھی لینا ہوگا اور لڑکی

Page 130

118 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم کو بھی لینا ہوگا ، مرد کو بھی لینا ہوگا، عورت کو بھی لینا ہوگا، دونوں کے سسرال والوں کو بھی لینا ہوگا کیونکہ شکایت کبھی لڑکے کی طرف سے آتی ہے، کبھی لڑکی کی طرف سے آتی ہے، کبھی لڑکے والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، کبھی لڑکی والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں لیکن اکثر زیادتی لڑکے والوں کی طرف سے ہوتی ہے.یہاں میں نے گزشتہ دنوں امیر صاحب کو کہا کہ جو اتنے زیادہ معاملات آپس کی ناچاقیوں کے آنے لگ گئے ہیں اس بارے میں جائزہ لیں کہ لڑکے کس حد تک قصور وار ہیں، لڑکیاں کس حد تک قصور وار ہیں اور دونوں طرف کے والدین کس حد تک مسائل کو الجھانے کے ذمہ دار ہیں.تو جائزے کے مطابق اگر ایک معاملے میں لڑکی کا قصور ہے تو تقریباً تین معاملات میں لڑکا قصور وار ہے، یعنی زیادہ مسائل لڑکوں کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں اور تقریباً 30-40 فیصد معاملات کو دونوں طرف کے سرال بگاڑ رہے ہوتے ہیں.اس میں بھی لڑکی کے ماں باپ کم ذمہ دار ہوتے ہیں اور لڑکے کے ماں باپ اپنی ملکیت کا حق جتانے کی وجہ سے ایسی باتیں کر جاتے ہیں جس سے پھر لڑکیاں ناراض ہو کر گھر چلی جاتی ہیں.یہ بھی غلط طریقہ ہے ، لڑکے کا کام ہے کہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرے لیکن بیویوں کو بھی ان کا حق دے.جب ایسی صورت ہوگی تو پھر بیویاں عموماً خاوند کے ماں باپ کی بہت خدمت کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایسی بھی بہت ساری مثالیں ہیں کہ ساس سر کو اپنے بچوں سے زیادہ اپنی بہوؤں پر اعتماد ہوتا ہے.یہ نہیں کہ خدانخواستہ جماعت میں نیکی اوراخلاق رہے ہی نہیں، بالکل ختم ہی ہو گئے ہیں، اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیکی پر قائم ہے.مگر جو مثالیں سامنے آتی ہیں وہ پریشان کرتی ہیں کہ یہ اتنی بھی کیوں ہیں؟ جو جائزہ میں نے یہاں لیا ہے اگر کینیڈا میں، امریکہ میں یا یورپ کی جماعتوں میں لیا جائے تو وہاں بھی عموماً یہی تصویر سامنے آئے گی.پس شعبہ تربیت کو ہر جگہ، ہر لیول (Level) پر جماعتی اور ذیلی تنظیموں میں فعال ہونے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.( دین حق) نے ہمیں اپنے گھر یلو تعلقات کو قائم رکھنے اور محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کے لئے کتنی خوبصورت تعلیم دی ہے.ایسے لوگوں پر حیرت اور افسوس ہوتا ہے جو پھر بھی اپنی اناؤں کے جال میں پھنس کر دو گھروں ، دوخاندانوں اور اکثر اوقات پھر نسلوں کی بربادی کے سامان کر رہے ہوتے ہیں.اللہ رحم کرے.( دین حق کے ) نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مرد و عورت جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جارہے ہوتے ہیں ، نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان

Page 131

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 119 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ارشادات الہی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں.ان آیات قرآنی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں.اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو.تو نکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہوتے ہیں ، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے.کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا ، اس پیارے رب کا پیار اور خوف رہے گا جس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضا کے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہرو گے.میاں بیوی جب ایک عہد کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا تو پھر یہ دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں.یادرکھیں کہ جب خود ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہوں گے ، عزیزوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھ رہے ہوں گے، ان کی عزت کر رہے ہوں گے، ان کو عزت دے رہے ہوں گے تو رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کے لئے پھونکیں مارنے والوں کے حملے ہمیشہ ناکام رہیں گے کیونکہ باہر سے ماحول کا بھی اثر ہورہا ہوتا ہے.آپ کی بنیاد کیونکہ تقویٰ پر ہوگی اور تقویٰ پر چلنے والے کو خدا تعالیٰ شیطانی وساوس کے حملوں سے بچاتا رہتا ہے.جب تقویٰ پر چلتے ہوئے میاں بیوی میں اعتماد کا رشتہ ہوگا تو پھر بھڑ کانے والے کو چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو یا اس کا بہت زیادہ اثر ہی کیوں نہ ہو اس کو پھر یہی جواب ملے گا کہ میں اپنی بیوی کو یا بیوی کہے گی میں اپنے خاوند کو جانتا ہوں یا جانتی ہوں، آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ، ابھی معاملہ صاف کر لیتے ہیں.اور ایسا شخص جو کسی بھی فریق کو دوسرے فریق کے متعلق بات پہنچانے والا ہے اگر وہ سچا ہے تو یہ کبھی نہیں کہے گا کہ اپنے خاوند سے یا بیوی سے میرا نام لے کر نہ پوچھنا، میں نے یہ بات اس لئے نہیں کہی کہ تم پوچھنے لگ جاؤ.بات کر کے پھر اس کو آگے نہ کرنے کا کہنے والا جو بھی ہو تو سمجھ لیں کہ وہ رشتے میں دراڑیں ڈالنے والا ہے، اس میں فاصلے پیدا کرنے والا ہے اور جھوٹ سے کام لے رہا ہے.اگر کسی کو ہمدردی ہے اور اصلاح مطلوب ہے، اصلاح چاہتا ہے تو وہ ہمیشہ ایسی بات کرے گا جس سے میاں بیوی کا رشتہ مضبوط ہو.

Page 132

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم غلط فہمیاں مل بیٹھ کر دور کریں 120 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی پس مردوں،عورتوں دونوں کو ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ تقویٰ سے کام لینا ہے، رشتوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے دعا کرنی ہے، ایک دوسرے کے عزیزوں اور رشتہ داروں کا احترام کرنا ہے، ان کو عزت دینی ہے اور جب بھی کوئی بات سنی جائے ، چاہے وہ کہنے والا کتنا ہی قریبی ہو میاں بیوی آپس میں بیٹھ کر پیار محبت سے اس بات کو صاف کریں تا کہ غلط بیانی کرنے والے کا پول کھل جائے.اگر دلوں میں جمع کرتے جائیں گے تو پھر سوائے نفرتوں کے اور دوریاں پیدا ہونے کے اور گھروں کے ٹوٹنے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا.پہلے بھی میں ذکر کر آیا ہوں کہ کیونکہ تقویٰ پر نہیں چل رہے ہوتے ، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں نہیں ہوتا اس لئے بعض دفعہ دوسروں کی باتوں میں آ کر یا ماحول کے اثر کی وجہ سے اپنی بیوی پر بڑے گھناؤ نے الزام لگاتے ہیں یا دوسری شادی کے شوق میں، جو بعض اوقات بعضوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے بڑے آرام سے پہلی بیوی پر الزام لگا دیتے ہیں.اگر کسی کو شادی کا شوق ہے ، اگر جائز ضرورت ہے اور شادی کرنی ہے تو کریں لیکن بیچاری پہلی بیوی کو بدنام نہیں کرنا چاہئے.اگر صرف جان چھڑانے کے لئے کر رہے ہو کہ اس طرح کی باتیں کروں گا تو خود ہی خلع لے لے گی اور میں حق مہر کی ادائیگی سے (اگر نہیں دیا ہوا) تو بچ جاؤں گا تو یہ بھی انتہائی گھٹیا حرکت ہے.اول تو قضاء کو حق حاصل ہے کہ ایسی صورت میں فیصلہ کرے کہ چاہے ضلع ہے حق مہر بھی ادا کرو.دوسرے یہاں کے قانون کے تحت، قانونی طور پر بھی پابند ہیں کہ بعض خرچ بھی ادا کرنے ہیں.بیویوں کے مال پر قبضہ نہ کریں اب میں بعض عمومی باتیں بتا تا ہوں.اگر علیحدگی ہوتی ہے تو بعض لوگ یہاں قانون کا سہارا لیتے ہوئے بیوی کے پیسے سے لئے ہوئے مکان کا نصف ، اپنے نام کرا لیتے ہیں.قانون کی نظر میں تو شاید وہ حقدار ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک کھلے کھلے گناہ کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اگر تم نے بیوی کو ڈھیروں مال بھی دیا ہے تو واپس نہ لو، کجا یہ کہ بیوی کے مال پر بھی ڈاکے ڈالنے لگ جاؤ، اس کی چیزیں بھی قبضے میں کرلو.معمولی باتوں پر بدنی سزانہ دیں پھر بعض دفعہ بہانہ جو مردوں کی طرف سے ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ نا فرمان ہے، بات نہیں

Page 133

121 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم مانتی، میرے ماں باپ کی نہ صرف عزت نہیں کرتی بلکہ ان کی بے عزتی بھی کرتی ہے، میرے بہن بھائیوں سے لڑائی کرتی ہے، بچوں کو ہمارے خلاف بھڑکاتی ہے، یا گھر سے باہر محلے میں اپنی سہیلیوں میں ہمارے گھر کی باتیں کر کے ہمیں بدنام کر دیا ہے.تو اس بارے میں بڑے واضح احکام ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالبَنی تَخَافُوْنَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا ( النساء : 35 ) اور وہ عورتیں جن سے تمہیں باغیانہ رویے کا خوف ہوان کو پہلے تو نصیحت کرو، پھر ان کو بستروں میں الگ چھوڑ دو پھر اگر ضرورت ہو تو انہیں بدنی سزا دو.یعنی پہلی بات یہ ہے کہ سمجھاؤ، اگر نہ سمجھے اور انتہا ہوگئی ہے اور اردگرد بدنامی بہت زیادہ ہو رہی ہے تو پھر سختی کی اجازت ہے لیکن اس بات کو بہانہ بنا کر ذرا ذراسی بات پر بیوی پر ظلم کرتے ہوئے اس طرح مارنے کی اجازت نہیں کہ اس حد تک مارو کہ زخمی بھی کر دو، یہ انتہائی ظالمانہ حرکت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے ، آپ نے فرمایا کہ اگر کبھی مارنے کی بھی ضرورت پیش بھی آ جائے تو مار اس حد تک ہو کہ جسم پر نشان نظر نہ آئے.یہ بہانہ کہ تم میرے سامنے اونچی آواز میں بولی تھی ، میرے لئے روٹی اس طرح کیوں پکائی تھی ، میرے ماں باپ کے سامنے فلاں بات کیوں کی ، کیوں اس طرح بولی ، عجیب چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں، ان باتوں پر تو مارنے کی اجازت نہیں ہے.پس اللہ کے حکموں کو اپنی خواہشوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کریں اور خدا کا خوف کریں.دلوں میں کینے نہ پالو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری بیوی نے ایک انتہائی قدم جو اٹھایا اور اس پر تمہیں اس کو سزا دینے کی ضرورت پڑی تو یا درکھو کہ اب اپنے دل میں کینے نہ پالو.جب وہ تمہاری پوری فرمانبردار ہو جائے ، اطاعت کر لے تو پھر اس پر زیادتی نہ کرو.فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا ( النساء: 35).پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر تمہیں ان پر زیادہ کا کوئی حق نہیں ہے.یقینا اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے.یادرکھو اگر تم اپنے آپ کو عورت سے زیادہ مضبوط اور طاقتور سمجھ رہے ہوتو اللہ تعالیٰ تمہارے سے بہت بڑا ، مضبوط اور طاقتور ہے.عورت کی تو پھر تمہارے سامنے کچھ حیثیت ہے بلکہ برابری کی ہی حیثیت ہے لیکن تمہاری تو خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے، اس لئے اللہ کا خوف کرو اور اپنے آپ

Page 134

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم کو ان حرکتوں سے باز کرو.122 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تنازعات حکمت کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش کرو پھر یہ معاملات بھی اب سامنے آنے لگے ہیں کہ شادی ہوئی تو ساتھ ہی نفرتیں شروع ہو گئیں بلکہ شادی کے وقت سے ہی نفرت ہوگئی.شادی کی کیوں تھی؟ اور بدقسمتی سے یہاں ان ملکوں میں یہ تعداد بہت زیادہ بڑھ رہی ہے، شاید احمد یوں کو بھی دوسروں کا رنگ چڑھ رہا ہے حالانکہ احمدیوں کو تو اللہ تعالیٰ نے خالص اپنے دین کا رنگ چڑھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی تھی.پس ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر مرضی کی شادی نہیں ہوئی تب بھی پہلے اکٹھے رہو، ایک دوسرے کو سمجھو، اس نصیحت پر غور کرو جس کے تحت تم نے اپنے نکاح کا عہد و پیمان کیا ہے کہ تقویٰ پر چلنا ہے، پھر سب کچھ کر گزرنے کے بعد بھی اگر نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو کوئی انتہائی قدم اٹھاؤ اور اس کے لئے بھی پہلے یہ حکم ہے کہ آپس میں حکمنین مقرر کرو، رشتہ دار ڈالو، سوچو، غور کرو.دونوں طرف کے فریقوں کو مختلف قسم کے احکام ہیں.شادی ہو جائے تو ایک دوسرے کر برداشت کرو افسوس کی بات یہ ہے، گو بہت کم ہے لیکن بعض لڑکیوں کی طرف سے بھی پہلے دن سے ہی یہ مطالبہ آ جاتا ہے کہ ہماری شادی تو ہو گئی لیکن ہم نے اس کے ساتھ نہیں رہنا.جب تحقیق کرو تو پتہ چلتا ہے کہ لڑکے یا لڑکی نے ماں باپ کے دباؤ میں آکر شادی تو کر لی تھی ورنہ وہ کہیں اور شادی کرنا چاہتے تھے.تو ماں باپ کو بھی سوچنا چاہئے اور دو زندگیوں کو اس طرح برباد نہیں کرنا چاہئے.لیکن لڑکوں کی ایک خاص تعداد ہے جو پاکستان ، ہندوستان وغیرہ سے شادی ہو کر ان ملکوں میں آتے ہیں اور یہاں آ کر جب کاغذات پکے ہو جاتے ہیں تو لڑکی سے نباہ نہ کرنے کے بہانے تلاش کرنے شروع کر دیتے ہیں، اس پر ظلم اور زیادتیاں شروع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوْا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا (النساء: 20) کہ ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو اگر تم انہیں نا پسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کونا پسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے.پس جب شادی ہوگئی تو اب شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں، نیک سلوک کریں، ایک دوسرے کو سمجھیں، اللہ کا تقویٰ اختیار کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ کی بات مانتے ہوئے ایک دوسرے سے حسن

Page 135

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 123 ارشادات حضرت خلیفة لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سلوک کرو گے تو بظاہر ناپسندیدگی ، پسند میں بدل سکتی ہے اور تم اس رشتے سے زیادہ بھلائی اور خیر پاسکتے ہو کیونکہ تمہیں غیب کا علم نہیں اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھتا ہے اور سب قدرتوں کا مالک ہے.وہ تمہارے لئے اس میں بھلائی اور خیر پیدا کر دے گا.حضرت خلیفہ اقول کا بیان فرمودہ واقعہ حضرت خلیفہ مسیح الاول نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک لڑکے کے بارے میں پتہ چلا کہ اس کا اپنی بیوی سے نیک سلوک نہیں ہے، بلکہ بڑی بداخلاقی سے پیش آتا ہے.کہتے ہیں کہ ایک دن وہ مجھے راستے میں مل گیا، میں نے اس کو اس آیت کی روشنی میں سمجھایا.وہ وہاں سے سیدھا اپنے گھر گیا اور اپنی بیوی کو کہا کہ تم جانتی ہو کہ میں نے تمہارے سے بڑا دشمنوں والا سلوک کیا ہے لیکن آج حضرت مولانا نورالدین صاحب نے میری آنکھیں کھول دی ہیں ہمیں اب تم سے حسن سلوک کروں گا.حضرت خلیفہ المسح الاول فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے اللہ تعالیٰ نے اس کو انعامات سے نوازا اور اس کے ہاں چار بڑے خوبصورت بیٹے پیدا ہوئے اور جنسی خوشی رہنے لگے.اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق عمل کرو تو اللہ تعالیٰ یہ انعامات دیتا ہے.لڑکیوں پر ظلم کرنے والے دو طرح کے لڑکے ہیں پس جولڑ کے پاکستان وغیرہ ملکوں سے یہاں آ کر پھر چند روز بعد اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں ہے یا بعض لڑکے پاکستان سے اپنے ماں باپ کے کہنے پر یہاں لڑکیاں لے آتے ہیں اور بعد میں جب یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں آئی ہم نے ماں باپ کے کہنے پر مجبوری سے یہ شادی کر لی تھی تو وہ ذرا اپنے جائزے لیں.جیسا کہ میں نے کہا یہ لڑکے جن کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوتے ہیں دو قسم کے ہیں، ایک تو یہاں کے رہنے والے، شادی کر کے لائے اور یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ عرصہ دیکھیں گے، طبیعت ملتی ہے کہ نہیں ملتی ، کیونکہ یہاں کے ماحول میں یہی سوچ ہو گئی ہے کہ پہلے دیکھو طبیعت ملتی ہے کہ نہیں اور اگر طبیعت نہیں ملتی تو ٹھوکر مار کے گھر سے نکال دو اور یہ لوگ پھر فوری طور پر یہاں اپنی شادیاں اور نکاح رجسٹر بھی نہیں کراتے کہ لڑکی کو کوئی قانونی تحفظات حاصل نہ ہو جائیں اور یہاں رہ کر ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کر سکے.اور ایسے معاملات میں والدین بھی برابر کے قصور وار ہوتے ہیں.بہر حال پھر جماعت

Page 136

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 124 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ایسی بچیوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ان کے یہ عمل ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ کسی طرح بھی جماعت میں رہنے کے حقدار نہیں ہیں.دوسری قسم کے لڑکے وہ ہیں جو باہر سے آکر یہاں کی لڑکیوں سے شادیاں کرتے ہیں اور فوری طور پر نکاح رجسٹر کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب نکاح رجسٹر ہو جائے اور ان کو ویزا وغیر ہل جائے تو پھر ان کو لڑکیوں میں برائیاں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر علیحدگی اور اپنی مرضی کی شادی.تو یہ دونوں قسم کے لوگ تقویٰ سے ہٹے ہوئے ہیں.اپنی جانوں پر ظلم نہ کریں ، جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں اور تقویٰ پر قائم ہوں، تقویٰ پر قدم ماریں ، تقویٰ پر چلیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے ظلم کرنے والوں کو یا درکھنا چاہئے کہ ان پر بھی ایک بالا ہستی ہے جو بہت طاقتور ہے.بغیر کسی جائز وجہ کے مشترکہ خاندانی نظام نہ اپنا ئیں پھر ایک بیماری جس کی وجہ سے گھر برباد ہوتے ہیں، گھروں میں ہر وقت لڑائیاں اور بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے وہ شادی کے بعد بھی لڑکوں کا تو فیق ہوتے ہوئے اور کسی جائز وجہ کے بغیر بھی ماں باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہنا ہے.اگر ماں باپ بوڑھے ہیں، کوئی خدمت کرنے والا نہیں ہے، خود چل پھر کر کام نہیں کر سکتے اور کوئی مددگار نہیں تو پھر اس بچے کے لئے ضروری ہے اور فرض بھی ہے کہ انہیں اپنے ساتھ رکھے اور ان کی خدمت کرے.لیکن اگر بہن بھائی بھی ہیں جو ساتھ رہ رہے ہیں تو پھر گھر علیحدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے.آجکل اس کی وجہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں.اکٹھے رہ کر اگر مزید گنا ہوں میں پڑنا ہے تو یہ کوئی خدمت یا نیکی نہیں ہے.گزشتہ دنوں جماعت کے اندر ہی کسی ملک میں ایک واقعہ ہوا، بڑا ہی درد ناک واقعہ ہے کہ اسی طرح سارے بہن بھائی ایک گھر میں اکٹھے رہ رہے تھے کہ جائنٹ فیملی (Joint Family) ہے.ہر ایک نے دو دو کمرے لئے ہوئے تھے.بچوں کی وجہ سے ایک دیورانی اور جٹھانی کی آپس میں ان بن ہو گئی.شام کو جب ایک کا خاوند گھر میں آیا تو اس نے اس کے کان بھرے کہ بچوں کی لڑائی کے معاملے میں تمہارے بھائی نے اور اس کی بیوی نے اس طرح باتیں کی تھیں.اس نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ بندوق اٹھائی اور اپنے تین بھائیوں کو مار دیا اور اس کے بعد خود بھی خود کشی کر لی.تو صرف اس وجہ سے ایک گھر سے چار جنازے ایک وقت میں اٹھ

Page 137

مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم 125 ارشادات حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تو یہ چیز کہ ہم پیار محبت کی وجہ سے اکٹھے رہ رہے ہیں، اس پیار محبت سے اگر نفرتیں بڑھ رہی ہیں تو یہ کوئی حکم نہیں ہے، اس سے بہتر ہے کہ علیحدہ رہا جائے.تو ہر معاملہ میں جذباتی فیصلوں کی بجائے ہمیشہ عقل سے فیصلے کرنے چاہئیں.قرآنی دلیل اس آیت کی تشریح میں کہ لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَنْ تَأْكُلُوْا مِنْ بُيُوتِكُمْ اَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُؤْتِ أُمَّهَتِكُمْ أَوْبُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ اَوْ بُيُوتِ اَخَوَاتِكُمْ (النور:62) کہ اندھے پر کوئی حرج نہیں ، لولے لنگڑے پر کوئی حرج نہیں، مریض پر کوئی حرج نہیں اور نہ تم لوگوں پر کہ تم اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے کھانا کھاؤ ، حضرت خلیفتہ امسیح الاول فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھروں میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں.اگر قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو.فرماتے ہیں دیکھو ( یہ جو کھانا کھانے والی آیت ہے ) اس میں ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں ، ماں کا گھر الگ اور شادی شدہ لڑکے کا گھر الگ تبھی تو ایک دوسرے کے گھروں میں جاؤ گے اور کھانا کھاؤ گے.تو دیکھیں یہ جولوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم ماں باپ سے علیحدہ ہو گئے تو پتہ نہیں کتنے بڑے گناہوں کے مرتکب ہو جائیں گے اور بعض ماں باپ بھی اپنے بچوں کو اس طرح خوف دلاتے رہتے ہیں بلکہ بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں کہ جیسے گھر علیحدہ کرتے ہی ان پر جہنم واجب ہو جائے گی.تو یہ انتہائی غلط رویہ ہے.میں نے کئی دفعہ بعض بچیوں سے پوچھا ہے، ساس سسر کے سامنے تو یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے رہ رہے ہیں بلکہ ان کے بچے بھی یہی کہتے ہیں لیکن علیحدگی میں پوچھو تو دونوں کا یہی جواب ہوتا ہے کہ مجبوریوں کی وجہ سے رہ رہے ہیں.اور آخر پر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بہو ساس پر ظلم کر رہی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ساس بہو پر ظلم کر رہی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو محبتیں پھیلانے آئے تھے.پس احمدی ہو کر ان محبتوں کو فروغ

Page 138

126 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم دیں اور اس کے لئے کوشش کر یں نہ کہ نفرتیں پھیلائیں.اکثر گھروں والے تو بڑی محبت سے رہتے ہیں لیکن جو نہیں رہ سکتے وہ جذباتی فیصلے نہ کریں بلکہ اگر توفیق ہے اور سہولتیں بھی ہیں، کوئی مجبوری نہیں ہے تو پھر بہتر یہی ہے کہ علیحدہ رہیں.حضرت خلیفتہ امسیح الاول کا یہ بہت عمدہ نکتہ ہے کہ اگر ساتھ رہنا اتنا ہی ضروری ہے تو پھر قرآن کریم میں ماں باپ کے گھر کا علیحدہ ذکر کیوں ہے؟ ان کی خدمت کرنے کا، ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا، ان کی کسی بات کو برا نہ منانے کا، ان کے سامنے اُف تک نہ کہنے کا حکم ہے، اس کی پابندی کرنی ضروری ہے.بیوی کو خاوند کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے ، اس کی پابندی بھی ضروری ہے اور خاوند کو بیوی کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہیئے ، اس کی پابندی بھی ضروری ہے.یہ بھی نکاح کے وقت ہی بنیادی حکم ہے.بعض لوگ بچے چھین کر لے جاتے ہیں پس اصل چیز یہ ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے اور ظلم جس طرف سے بھی ہورہا ہوختم کرنا ہے اور اس کے خلاف جہاد کرنا ہے.جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ بعض مرد اس قدر ظالم ہوتے ہیں کہ بڑے گندے الزام لگا کر عورتوں کی بدنامی کر رہے ہوتے ہیں ، بعض دفعہ عورتیں یہ حرکتیں کر رہی ہوتی ہیں.لیکن مردوں کے پاس کیونکہ وسائل زیادہ ہیں، طاقت زیادہ ہے، باہر پھر نا زیادہ ہے اس لئے وہ اس سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ اپنے زعم میں جو بھی فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں اپنے لئے آگ کا انتظام کر رہے ہوتے ہیں.پس خوف خدا کریں اور ان باتوں کو چھوڑیں.بعض تو ظلموں میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ بچوں کو لے کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے اور پھر بھی احمدی کہلاتے ہیں.ماں بیچاری چیخ رہی ہے چلا رہی ہے.ماں پر غلط الزام لگا کر اس کو بچوں سے محروم کر دیتے ہیں.حالانکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ فائدہ اٹھانے کے لئے غلط الزام نہ لگاؤ.اور پھر اس مرد کے، ایسے باپ کے سب رشتہ دار اس کی مدد کر رہے ہوتے ہیں.ایسے مرد اور ساتھ دینے والے ایسے جتنے رشتہ دار ہیں ان کے متعلق تو جماعتی نظام کو چاہئے کہ فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے ان کے خلاف تعزیری کارروائی کی سفارش کرے.یہ دیکھیں کہ قرآنی تعلیم کیا ہے اور ایسے لوگوں کے کرتوت کیا ہیں.؟ افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بعض عہدیدار بھی ایسے مردوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں اور کہیں سے بھی تقویٰ

Page 139

127 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم سے کام نہیں لیا جارہا ہوتا.تو یہ الزام تراشیاں اور بچوں کے بیان اور بچوں کے سامنے ماں کے متعلق باتیں، جو انتہائی نامناسب ہوتی ہیں، بچوں کے اخلاق بھی تباہ کر رہی ہوتی ہیں.ایسے مرد اپنی اناؤں کی خاطر بچوں کو آگ میں دھکیل رہے ہوتے ہیں اور بعض مردوں کی دینی غیرت بھی اس طرح مرجاتی ہے کہ ان غلط حرکتوں کی وجہ سے اگر ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے اور اخراج از نظام جماعت ہو گیا تو تب بھی ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی ، اپنی انا کی خاطر دین چھوڑ بیٹھتے ہیں.والدین کے اخراج کی صورت میں وقف نو بچہ وقف میں نہیں رہتا وقف نو کے حوالے سے یہاں ضمنا میں یہ بھی ذکر کر دوں کہ اگر ان کا بچہ واقف نو ہو تو والدین کے اخراج کی صورت میں اس کا بھی وقف ختم ہو جاتا ہے.اس لئے جماعتیں ایسی صورت میں جہاں جہاں بھی ایسا ہے خود جائزہ لیا کریں.پاکستان میں تو وکالت وقف نو اس بات کا ریکارڈ رکھتی ہے لیکن باقی ملکوں میں بھی امیر جماعت اور سیکر ٹریان وقف نو کا کام ہے کہ اس چیز کا خیال رکھیں.اور پھر معافی کی صورت میں ہر بچے کا انفرادی معاملہ خلیفہ وقت کے سامنے علیحدہ پیش ہوتا ہے کہ آیا اس کا دوبارہ وقف بحال کرنا ہے کہ نہیں ؟ اس لئے ریکارڈ رکھنا بھی ضروری ہے.ظلم کو ختم کرنا سب پر فرض ہے بہر حال جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اصل کام ظلم کو ختم کرنا ہے اور انصاف قائم کرنا ہے اور خلافت کے فرائض میں سے انصاف کرنا اور انصاف کو قائم کرنا ایک بہت بڑا فرض ہے.اس لئے جماعتی عہدیدار بھی اس ذمہ داری کو سمجھیں کہ وہ جس نظام جماعت کے لئے کام کر رہے ہیں وہ خلیفہ وقت کی نمائندگی میں کام کر رہا ہے.اس لئے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا ان کا اولین فرض ہے.یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے.خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر ہر ایک کو یہ ذمہ داری نبھانی چاہئے.فیصلے کرتے وقت، خلیفہ وقت کو سفارش کرتے وقت ہر قسم کے تعلق سے بالا ہو کر سفارش کیا کریں.اگر کسی کی حرکت پر فوری غصہ آئے تو پھر دودن ٹھہر کر سفارش کرنی چاہئے تاکہ کسی بھی قسم کی جانبدارانہ رائے نہ ہو.اور فریقین بھی یا درکھیں کہ بعض اوقات اپنے حق لینے کے لئے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں یا یہ کہنا چاہئے کہ نا جائز حق مانگتے ہیں.( تو انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے )

Page 140

128 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم پس جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ نکاح کے وقت کی قرآنی نصائح کو پیش نظر رکھیں ، تقویٰ سے کام لیں، قول سدید سے کام لیں تو یہ چیزیں کبھی پیدا نہیں ہوں گی.آپ جو نا جائز حق لے رہے ہیں وہ جھوٹ ہے اور جھوٹ کے ساتھ شرک کے بھی مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میرے سے ناجائز فیصلہ کروالیتے ہو تو اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہو.تو تقویٰ سے دور ہوں گے تو پھر یقیناً شرک کی جھولی میں جاگریں گے.پس استغفار کرتے ہوئے اللہ سے اس کی مغفرت اور رحم مانگیں، ہمیشہ خدا کا خوف پیش نظر رکھیں.بچہ چھین کر ایک دوسرے کو دکھ نہ دیں جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ بعض ماں باپ بچوں کو دوسرے ملک میں لے گئے یا انہیں چھپالیا یا کورٹ سے غلط بیان دے کر یا دلوا کر بچے چھین لئے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والدہ کو اس کے بچے کی وجہ سے دکھ نہ دیا جائے ، اور نہ والد کو اس کے بچے کی وجہ سے دکھ دیا جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ سے کام نہیں لو گے اور ایک دوسرے کے حق ادا نہیں کرو گے تو یا درکھو اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز جانتا ہے.وہ جانتا بھی ہے اور دیکھ بھی رہا ہے.اور اللہ پھر ظالموں کو یوں نہیں چھوڑا کرتا.پس اللہ سے ڈرو، ہر وقت یہ پیش نظر رہے کہ جس طرح آپ پر آپ کی ماں کا حق ہے اسی طرح آپ کے بچوں پر ان کی ماں کا بھی حق ہے.جیسا کہ میں نے کہا اور جائزہ میں بھی سامنے آیا عموماً با پوں کی طرف سے یہ ظلم زیادہ ہوتے ہیں.اس لئے میں مردوں کو توجہ دلا رہا ہوں کہ اپنی بیویوں کا خیال رکھیں.ان کے حقوق دیں.اگر آپ نیکی اور تقویٰ پر قدم مارنے والے ہیں تو الا ماشاء اللہ عموماً پھر بیویاں آپ کے تابع فرمان رہیں گی.آپ کے گھر ٹوٹنے والے گھروں کی بجائے، بننے والے گھر ہوں گے جو ماحول کو بھی اپنے خوبصورت نظارے دکھا رہے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک (رفیق) کونصیحت کا ایک خط لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:.باعث تکلیف دہی ہے کہ میں نے بعض آپ کے بچے دوستوں کی زبانی جو درحقیقت آپ سے تعلق اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں سنا ہے کہ امور معاشرت میں جو بیویوں اور اہل خانہ سے کرنی چاہئے کسی قدر آپ مدت رکھتے ہیں.یعنی غیظ و غضب کے استعمال میں بعض اوقات اعتدال کا اندازہ ملحوظ نہیں رہتا.

Page 141

129 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم میں نے اس شکایت کو تعجب کی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ اول تو بیان کرنے والے آپ کی تمام صفات حمیدہ کے قائل اور دلی محبت آپ سے رکھتے ہیں.اور دوسری چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قسام ازلی نے دے رکھی ہے اور ذرہ ذرہ ہی باتوں میں تادیب کی نیت سے یا غیرت کے نقاضا سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں.مگر چونکہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت حلم اور برداشت کی تاکید کی ہے.اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ جیسے رشید اور سعید کو اس تاکید سے کسی قدر اطلاع کروں.اللہ جلشانہ فرماتا ہے عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ یعنی اپنی بیویوں سے تم ایسے معاشرت کرو جس میں کوئی امر خلاف اخلاق معروفہ کے نہ ہو اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو.بلکہ ان کو اس مسافرخانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ خَيْرُ كُمُ لاَ هَلِهِ یعنی تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جو بیوی سے نیکی سے پیش آوے اور حسن معاشرت کے لئے اس قدر تاکید ہے کہ میں اس خط میں لکھ نہیں سکتا.عزیز من، انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالے کر دیا.اور وہ دیکھتا ہے کہ ہر یک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے.نرمی برتنی چاہئے اور ہر ایک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہئے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمانداری بجالاتا ہوں.اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے مجھے اس پر کون سی زیادتی ہے.خونخوار انسان نہیں بننا چاہئے.بیویوں پر رحم کرنا چاہئے.اور ان کو دین سکھلانا چاہئے.اور در حقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے.میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرا درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صدہا کوس سے میرے حوالہ کیا ہے شاید معصیت ہوگی کہ مجھ سے ایسا ہوا.تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دعا کرو کہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرما دیں.اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں.سومیں امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے.ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدرا اپنی بیویوں سے حلم کرتے تھے.زیادہ کیا لکھوں.والسلام“.(الحکم جلد 9 نمبر 13 مورخہ 17 اپریل 1905 صفحہ 6)

Page 142

مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم 130 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا پر چلاتے ہوئے ان خوبصورت اعمال کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتائے.الفضل انٹر نیشنل یکم تا 07 دسمبر 2006ء )

Page 143

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 131 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرمودہ 15 دسمبر 2006ء سے اقتباس خدمت خلق کی تحریک خدمت خلق کے سلسلے میں ضمنا بات آ گئی ہے تو کہہ دوں کہ جماعت میں غریبوں کی شادیوں کے سلسلہ میں ، علاج کے سلسلے میں تعلیم کے سلسلے میں ایک نظام رائج ہے.بچوں کی شادیوں کے لئے حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مریم فنڈ جاری فرمایا تھا.یہ بڑی اچھی، بہت بڑی خدمت خلق ہے، جماعت کے افراد کو اس طرف توجہ دینی چاہئے.پھر مریضوں کا علاج ہے، خاص طور پر غریب ملکوں میں، پاکستان میں بھی افریقن ممالک میں بھی اور دوسرے غریب ممالک میں بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے.اس فنڈ میں خدمت خلق کے جذبہ سے پیسے دیں، چندہ دیں صدقات دیں تو اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو اپنانے کی وجہ سے اس کی رحمانیت سے بھی زیادہ سے زیادہ فیض پائیں گے.پھر اسی طرح تعلیم ہے، بچوں کی تعلیم پر بڑے اخراجات ہوتے ہیں، بڑی مہنگائی ہے.اس کے لئے جن کو توفیق ہے ان کو دینا چاہئے.ڈاکٹر ز کو وقف کی تحریک اسی طرح بات چلی ہے تو میں ذکر کر دوں پاکستان میں بھی ، ربوہ میں بھی اور افریقہ میں بھی جماعت کے ہسپتال ہیں، وہاں ڈاکٹروں کی ضرورت ہوتی ہے.ان کو گو کہ تنخواہ بھی مل رہی ہوتی ہے اور ایک حصہ بھی مل رہا ہوتا ہے لیکن شاید باہر سے کم ہو.تو بہر حال خدمت خلق کے جذبے کے تحت ڈاکٹروں کو بھی اپنے آپ کو وقف کرنا چاہئے.چاہے تین سال کے لئے کریں، چاہے پانچ سال کے لئے کریں یا ساری زندگی کے لئے کریں.لیکن وقف کر کے آگے آنا چاہئے اور یہی چیزیں ہیں جو پھر ان کو اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کریں گی اور ان پر اتنے فضل ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ان پر جلوہ گر ہوگی.الفضل انٹر نیشنل 105 تا 11 جنوری 2007ء)

Page 144

مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم 132 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 22 دسمبر 2006ء سے اقتباس داعیان الی اللہ کی خصوصیات...( دعوت الی اللہ ) کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لئے ، اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بیان فرما دیا کہ صالح اعمال بجالانے والے ہو اور مکمل طور پر فرمانبردار ہو.نظام جماعت کا احترام ہو اور اطاعت کا مادہ ہو تبھی دعوت الی اللہ بھی کر سکتے ہو اور تم اس کا پیغام جو پہنچاؤ گے وہ اثر رکھنے والا بھی ہوگا.کیونکہ پھر اللہ تعالیٰ کی مدد بھی حاصل ہوگی.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی باتوں کو پسند کرتا ہے جو ان خوبیوں کے مالک ہوتے ہیں.فرماتا ہے کہ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ المُسلمين ( حم سجده : 34) یعنی اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوگی جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلاتا اور نیک اعمال بجالاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں.پس اپنی حالتوں کو سب سے پہلے اس تعلیم کے مطابق ڈھالنا ہوگا جس کی آپ (دعوت الی اللہ ) کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ ہوگی تو پھر نتائج بھی نکلیں گے کیونکہ کوئی دعوت الی اللہ ، کوئی ( دعوت الی اللہ ، کوئی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی، اس وقت تک ثمر آور نہیں ہوسکتی جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے کے لئے اس کے حضور خالص ہو کر جھکنا اور تمام وہ حقوق جو اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق ہیں ادا کرنا ضروری ہے.تمام ان باتوں پر ، ان حکموں پر عمل کرنا ضروری ہے جن کی اللہ تعالیٰ نے تلقین فرمائی ہے.خدا تعالیٰ سے ہر قسم کا معاملہ صاف رکھنا ضروری ہے.بندوں کے حقوق ادا کرنے ضروری ہیں.رحمی رشتوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے اور ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی بھی ضروری ہے اور اپنے ماحول کے حقوق کی ادائیگی بھی ضروری ہے.جہاں جہاں ، جس وقت، کوئی احمدی جہاں کھڑا ہے اس کے اردگرد جو بھی اس سے مدد کا طالب ہے اس کی مدد کرنا ضروری ہے.

Page 145

133 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم اگر (دعوت الی اللہ ) کرنے والے کے، پیغام پہنچانے والے کے اپنے عمل تو یہ ہوں کہ اس کے ماں باپ اس سے نالاں ہیں، بیوی بچے اس سے خوفزدہ ہیں، عورتیں ہیں تو اپنے فیشن کی ناجائز ضروریات کے لئے اپنے خاوندوں کو تنگ کر رہی ہیں ، ہمسائے ان کی حرکتوں سے پناہ مانگتے ہیں، ذراسی بات پر غصہ آ جائے تو ماحول میں فساد پیدا ہو جاتا ہے تو یہ نیک اعمال نہیں ہیں.ایسے لوگوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا.اپنے نمونے بہر حال قائم کرنے ہوں گے.اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ، انشاء اللہ ، برکت ڈالے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی ادائیگی کرنے والے ہیں اور نیک نمو نے قائم کرنے والے ہیں اور کامل اطاعت کرنے والے ہیں تو اس وجہ سے پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بنیں گے.....الفضل انٹر نیشنل 12 تا 18 جنوری 2007 ء )

Page 146

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 134 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نیشل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ جرمنی کے ساتھ میٹنگ (25 دسمبر 2006ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کی نیشنل عاملہ کے ساتھ میٹنگ فرمائی، تمام شعبہ جات کا جائزہ لیا ، تمین سے ان کے کام کی تفصیل دریافت فرمائی اور درج ذیل ہدایات سے نوازا.1.جن مجالس کی طرف سے رپورٹس نہیں آتیں، ان سے ہر ماہ رابطہ ہونا چاہئے.2.جن لڑکوں کے شادی کے بعد میاں بیوی کے درمیان تنازعات شروع ہو جاتے ہیں ، ایسے لڑکوں کو سمجھانے کیلئے شعبہ تربیت کے تحت پروگرام بننے چاہئیں.ایسے لڑکوں کی موٹی موٹی تین اقسام ہیں.ایک وہ جو پاکستان سے لڑکیاں بیاہ کر لاتے ہیں اور پھر یہاں آکر پسند نا پسند کا مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں.دوسرے جو یہاں رشتے ہو رہے ہوتے ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد ختم ہو جاتے ہیں اور تیسرے وہ لڑ کے جو پاکستان وغیرہ سے آکر یہاں شادی کرتے ہیں، ایسے لڑکے زیادہ تر کام نکل جانے کے بعد دوڑ جانے والے ہوتے ہیں.ان تمام لڑکوں کو سنبھالیں ، ان کے مسائل کی وجوہات معلوم کر کے انہیں سمجھانے کی کوشش کریں.3- خدام الاحمدیہ یو کے کے اجتماع پر میں نے توجہ دلائی تھی اور کل انصار اللہ کی میٹنگ میں بھی انہیں کہا ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث کی خواہش تھی کہ جو بلی کا سال جب آئے تو جماعت احمدیہ کو ڈاکٹر عبد السلام صاحب جیسے سوسائنسدان چاہئیں تو ایسی صلاحیت رکھنے والے طلباء کو تلاش کریں، ان کی راہنمائی کریں اور انہیں سائنس کے مختلف مضامین میں ریسرچ کرنے کی طرف توجہ دلائیں.4.میں نے جماعتی اداروں اور ذیلی تنظیموں کو ہدایت دی ہوئی ہے کہ رسائل وغیرہ کے ٹائٹل پر آئندہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی تصاویر شائع نہ کی جائیں.5.جماعتی بلڈنگز میں خدام الاحمدیہ کو پھول پھلواڑیاں لگانے کا کام سنبھالنا چاہئے ، جیسا کہ میرے توجہ

Page 147

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 135 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی دلانے پر خدام الاحمدیہ یو کے نے اسلام آباد میں گھاس کی کننگ اور پھول پودوں کا انتظام سنبھالا ہوا ہے.6.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اطفال اور ناصرات کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ وقف جدید کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں، اس لئے انہیں زیادہ سے زیادہ وقف جدید میں حصہ لینا چاہئے.اطفال اور ناصرات کے چندوں کے اعتبار سے اول، دوم اور سوم معیار مقرر کریں.ننھے مجاہد کیلئے بیس یورو چندہ کم ہے اس کا معیار کم از کم پچاس یورو ہونا چاہئے.بچوں کے کھانے پینے اور جیب خرچ کا حساب کر کے جائزہ لیں کہ بچے کتنا ادا کر سکتے ہیں.7.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی نہ کوئی کتاب یا حضور اقدس کے کچھ اقتباس تعلیم کے نصاب میں ضرور رکھیں اور اس کورس کو امتحان میں بھی شامل کریں.8.جو افراد وصیت کرتے ہیں، ان سے مل کر یہ جائزہ لیں کہ اس نظام میں شمولیت کے بعد ان کی طبیعت، تربیت اور جماعتی تعاون میں کیا فرق پڑا ہے.پھر ان باتوں سے دوسرے خدام کو آگاہ کر کے انہیں بھی اس نظام میں شامل کرنے کی کوشش کریں.9 کسی خادم کو فارغ نہیں رہنا چاہئے ، پڑھائی کرے یا کام کرے خواہ مثال ہی لگائے ، بہر حال کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہئے.10.جس طرح مختلف کمپنیاں اپنے اشتہارات کمپیوٹر کے ذریعہ بھجواتی ہیں اور وہ خود بخود آپ کے پرنٹر میں پرنٹ ہو کر نکل آتے ہیں، جائزہ لے کر جماعتی تعلیمات اور جماعت کا تعارف لوگوں تک پہنچانے کیلئے اس قسم کے پروگرام بنائیں.اس بارہ میں اچھی طرح معلومات حاصل کر لیں کہ آپ کا بھجوایا ہوا جماعتی لٹریچر رد و بدل سے محفوظ رہے نیز یہ کام خلاف قانون نہ ہوتا جماعت کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ ہو سکے.11.دنیا میں پڑھنے کا رواج کم ہو چکا ہے اس لئے جماعتی تعلیمات پر مبنی سی ڈی وغیرہ تیار کریں جو لوگ سفر کے دوران اپنی گاڑیوں میں سن سکیں یا اپنے گھروں میں سن سکیں.12.جو خدام نمازیں نہیں پڑھتے تھے، توجہ دلانے پر پڑھنے لگے، اس کے نتیجہ میں ان میں جو تبدیلی آئی، جو انقلاب آیا، طبیعت میں جو فرق پڑا اور اس کا جو فائدہ ہوا، اس سے دوسرے خدام کو آگاہ کریں تا کہ

Page 148

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 136 ارشادات حضرت خلیفہ اسی الخامس ایدہ اللہ تعالی انہیں بھی نمازوں کی طرف توجہ پیدا ہو.13.چندہ میں سے مرکز کا حصہ سال بعد کی بجائے چھ ماہ بعد مرکز کو بھجوایا کریں.14.جب بھی کسی کو کوئی عہدہ ملے وہ اس شعبہ سے متعلق سابقہ ریکارڈ کا اچھی طرح مطالعہ کرے، پھر اپنی سکیم تیار کرے اور آنے والے کیلئے ایک اچھار یکارڈ چھوڑ کر جائے.15.جو خطابات اور خطبات آپ سنتے ہیں، ان میں جو باتیں آپ کے شعبہ کے متعلق ہوں ان کو الگ نوٹ کر کے اس کے مطابق اپنے پروگرام بنایا کریں اور ہر شعبہ میں آپ کا قدم پہلے سے آگے ہونا چاہئے.16.شعبہ اطفال اس بات کا جائزہ لیتا رہے کہ جو بچے اطفال سے خدام میں جا رہے ہیں، وہ پوری طرح تیار ہو کر جائیں.شعبہ اطفال کو اگر آپ اچھی طرح سنبھال لیں گے تو خدام الاحمدیہ کے بہت سے مسائل کم ہو جائیں گے.خدام الاحمدیہ میں آنے کے بعد بچے خود کو کچھ آزاد خیال کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اٹھارہ سال کے بعد جب ان ملکوں میں آزادیاں ملتی ہیں تو وہ بہت کھل جاتے ہیں.اس لئے انہیں سمجھا ئیں کہ خدام الاحمدیہ میں جانے کے بعد بھی تم نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے احکامات کا پابند رکھنا ہے.ہر ایک کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کر کے انہیں سمجھا ئیں.اس مقصد کے پیش نظر جماعت میں چھوٹی سطح پر تربیتی نظام قائم ہے.جب بچپن سے ہی انہیں جماعت سے منسلک کر لیں گے تو پھر ہر سطح پر وہ جماعت سے وابستہ رہتے ہیں.پس عہد یداران کو فعال ہونے اور بچوں کے ساتھ ذاتی رابطے بنانے کی ضرورت ہے.اگر نچلی سطح تک عہد یداران فعال ہو جائیں تو بچوں کو سنبھالا جا سکتا ہے.تو بات صرف یہ ہے کہ کام کریں، کام، کام اور کام.( دعوت الی اللہ کے ) کام کو بھی آپ نے بہت زیادہ سنبھالنا ہے، اسے سنبھالیں.میٹنگ کے اختتام پر عاملہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ گروپ فوٹو بنوانے کی سعادت پائی نیز مکرم صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کی درخواست پر حضور انور نے تمام ممبران عاملہ کو از راہ شفقت مصافحہ کا شرف عطا فرمایا.الفضل اند نیشنل 19 تا 25 جنوری 2007 ء )

Page 149

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 137 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ عید الاضحیة فرموده 31 / دسمبر 2006ء (خلاصه) * حضور انور نے واقفین نو کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تک جماعت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال پر اخلاص و وفا کے نمونے قائم ہیں، جماعت کے افراد انہیں پیش کرتے رہیں گے اور قیامت تک جو بھی خلیفہ ہوگا وہ اس کی طرف توجہ دلاتا رہے گا اور جماعت وفا دکھاتی رہے گی تو انشاء اللہ جماعت ہمیشہ ترقی میں بڑھتی جائے گی.واقفین نو کے والدین کو قیمتی نصائح واقفین نو کے والدین کو نصیحت کرتے ہوئے حضور انور نے حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہا السلام کی قربانی کا ذکر کر کے فرمایا کہ حضرت اسماعیل کا جواب ماں باپ کی تربیت کا نتیجہ تھا.پس ان بچوں کے والدین بھی یہی نمونہ دکھا ئیں اور اپنا جائزہ لیتے رہیں کہ وہ کہیں وقتی جوش سے تو اپنے بچوں کو وقف نہیں کر رہے، بلکہ اس کے پیچھے ایک پاک اور مستقل جذبہ ہونا چاہئے جس میں حضرت ہاجرہ اور حضرت ابراہیم کی قربانی کی جھلک نظر آئے.اگر ایسا نہیں تو پھر یہ تقویٰ سے گری ہوئی قربانیاں ہیں ، جن میں پھر بعض اوقات بچے کہہ دیتے ہیں کہ میں نے وقف نہیں کرنا یا بچہ کا معیار اتنا گرا ہوتا ہے کہ جماعت اسے نہیں لیتی بعض بچے بازاری لڑکوں کے سے حلیے بنالیتے ہیں اور پوچھنے پر بعض یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے سنگر بننا ہے.اب ان باتوں کا وقف سے کیا تعلق لیکن اگر تقویٰ کے نمونے قائم کریں گے اور اس کے مطابق تربیت کریں گے تو پھر اسماعیلی جواب ملے گا.پہلے دن سے ہی بچوں کو قربانیوں کی اہمیت بتا ئیں اور اپنے پاک نمو نے ان کے سامنے رکھیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بچوں میں دینی علم اور قربانی کے جذ بہ کا معیار کم ہوتا جاتا ہے، قرآن کریم بھی ٹھیک پڑھنا نہیں آتا.اس حوالہ سے میں تمام جامعہ کے طلباء کو کہتا ہوں کہ جب آپ نے خود کو وقف کیا ہے تو پھر اعلیٰ معیار حاصل کریں.اگر آدھا دین اور آدھی دنیا کے چکر میں رہنا ہے تو پھر وقف کا کوئی فائدہ نہیں.اللہ تعالیٰ سب کو وقف کی روح کو سمجھتے ہوئے اس کے تقاضے پورے کرنے والا بنائے.الفضل انٹر نیشنل 2 تا 8 فروری 2007ء)

Page 150

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 138 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 12 جنوری 2007ء سے اقتباس نظام جماعت کو اخراجات کے بارہ احتیاط کرنی چاہیے جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوشش کرتی ہے کہ کم از کم وسائل کو زیر استعمال لاکر زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے.یہ معاشیات کا سادہ اصول ہے.اور دوسری دنیا میں تو پتہ نہیں اس پر عمل ہو رہا ہے کہ نہیں لیکن جماعت اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور کرنی چاہئے.جو بھی جماعتی عہد یدار منصوبہ بندی کرنے والے یا کام کرنے والے یار تم خرچ کرنے والے مقرر کئے گئے ہوں ان کو ہمیشہ اس کے مطابق سوچنا چاہئے اور منصوبہ بندی کرنی چاہئے.بعض دفعہ بے احتیاطیاں بھی ہو جاتی ہیں اس لئے جیسا کہ میں نے کہا کہ جو ذمہ دار افراد ہیں وہ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کریں کہ جماعت کا ایک ایک پیسہ با مقصد خرچ ہونا چاہئے.جماعت میں اکثریت ان غریب لوگوں کی ہے جو بڑی قربانی کرتے ہوئے چندے دیتے ہیں اس لئے ہر سطح پر نظام جماعت کو اخراجات کے بارے میں احتیاط کرنی چاہئے کہ ہر پیسہ جو خرچ ہو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ ہو اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی پر خرچ ہو.جب تک ہم اس روح کے ساتھ اپنے اخراجات کرتے رہیں گے، ہمارے کاموں میں اللہ تعالیٰ بے انتہا برکت ڈالتا رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ.ابھی تک جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہے کہ جہاں کسی کام پر دوسروں کا ایک ہزار خرچ ہو رہا ہو وہاں جماعت کو ایک سو خرچ کر کے وہ مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں.تو جب تک اس طرح جماعت احتیاط کے ساتھ خرچ کرتی رہے گی، برکت بھی پڑتی رہے گی.جہاں قربانیاں کرنے والے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی قربانیاں تمام قسم کی بدظنیوں سے بالا ہو کر پیش کریں گے اور جماعت کے افراد اسی سوچ کے ساتھ کرتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ خرچ کرنے والے احتیاط سے خرچ کرنے والے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے.

Page 151

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم چندہ پر معترض لوگ 139 ارشادات حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بعض لوگ ایسے بھی ہیں ، چند ایک ہی ہیں، جو مالی لحاظ سے بہت وسعت رکھتے ہیں لیکن چندے اس معیار کے نہیں دیتے اور یہ باتیں کرتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ جماعت کے پاس تو بہت پیسہ ہے اس لئے جماعت کو چندوں کی ضرورت نہیں ہے، جو ہم دے رہے ہیں ٹھیک ہے.جماعت کے پاس بہت پیسہ ہے یا نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے پیسے میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ برکت بہت زیادہ ہے.اس لئے معترضین اور مخالفین کو بھی یہ بہت نظر آتا ہے.معترضین تو شاید اپنی بچت کے لئے کرتے ہیں اور مخالفین کو اللہ تعالیٰ ویسے ہی کئی گنا کر کے دکھا رہا ہوتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.برکت ڈالتا ہے اور بے انتہا برکت ڈالتا ہے.میں نے یہاں بعض اپنوں کا ذکر کیا تھا جو کہتے ہیں کہ پیسہ بہت ہے اس لئے یہ بھی ہونا چاہئے اور یہ بھی ہونا چاہئے اور خود ان کے چندوں کے معیار اتنے نہیں ہوتے.عموماً جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی منصوبہ بندی سے خرچ کرتی ہے.اس لئے ایسی باتیں کرنے والے بے فکر رہیں اور چندہ نہ دینے کے بہانے تلاش کرنے کی بجائے اپنے فرائض پورے کریں.چندوں کی تحریک ہمیشہ ہوتی رہے گی چندوں کی تحریک تو ہمیشہ جماعت میں ہوگی ، ہوئی اور ہوتی رہے گی کہ ایمان میں مضبوطی کے لئے یہ ضروری ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہمیں بتایا ہے.دنیا کی تمام منصوبہ بندیوں میں مال کی ضرورت پڑتی ہے، اس کا بہت زیادہ دخل ہے اور یہ منصوبہ بندی جس میں مال دین کی مضبوطی کے لئے خرچ ہورہا ہو اور جس کے خرچ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ یہ ضمانت دے رہا ہو کہ تمہارے خوف بھی دور ہوں گے اور تمہارے غم بھی دور ہوں گے اور اجر بھی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اتنا اجر ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں تو اس سے زیادہ مال کا اور کیا بہتر استعمال ہوسکتا ہے.ہر دینے والا جب اس نیت سے دیتا ہے کہ میں دین کی خاطر دے رہا ہوں تو اس نے اپنا ثواب لے لیا.کس طرح خرچ کیا جا رہا ہے، اول تو صحیح طریقے سے خرچ ہوتا ہے.اور اگر کہیں تھوڑی بہت کمزوری ہے بھی تو چندہ دینے والے کو بہر حال ثواب مل گیا.اس لئے ہمیشہ ہر وہ احمدی جس کے دل میں کبھی انقباض پیدا ہو وہ اپنے اس انقباض کو دور کرے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے.

Page 152

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 140 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بڑی بڑی سلطنتیں بھی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتیں زور سے ٹیکس لگا کر وصول کرتی ہیں اور یہاں ہم رضا اور ارادے پر چھوڑتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ بندے کی مرضی پر چھوڑ کر پھر اس کا اجر بھی بے حساب دیتا ہے.پابند نہیں کر رہا کہ اتنا ضرور دینا ہے.چھوڑ بھی بندے کی مرضی پر رہا ہے، ساتھ فرمارہا ہے جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا اجر بھی دوں گا.صرف یہ ہے کہ خرچ کرنے والے کی نیت نیک ہونی چاہئے.اس سے زیادہ ستا اور عمدہ سودا اور کیا ہو سکتا ہے." الفضل انٹر نیشنل 02 فروری تا 08 فروری 2007 ء )

Page 153

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 141 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرموده 19 جنوری 2007ء سے اقتباس دنیا کو تباہی سے بچانے کا نسخہ دنیا کو تباہی سے بچانے کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ لوگ رحمن خدا کو سمجھیں ورنہ رحمن خدا کے احسانوں کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے ایسے عذابوں میں مبتلا ہوں گے جو کبھی بیماریوں کی صورت میں آتا ہے.کبھی ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کی صورت میں آتا ہے.کبھی ایک قوم دوسری قوم پر ظالمانہ رنگ میں چڑھائی کر کے ان سے ظالمانہ سلوک کر کے عذاب کو دعوت دیتی ہے.کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمینی اور سماوی عذاب آتے ہیں.پس دنیا کو ان عذابوں سے بچانے کی کوشش کرنا ہمارا کام ہے، جس کا بہترین ذریعہ جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا ہے.پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑنا ہے کیونکہ مردوں کو زندگی دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.پس یہ ایک بہت بڑا فرض ہے جو احمدیت میں شامل ہونے کے بعد ہم پر عائد ہوتا ہے.اپنے اپنے ماحول میں، اپنے عمل سے بھی اور دوسرے ذرائع سے بھی رحمن خدا کا یہ پیغام پہنچائیں.اس انعام کا دوسروں کے سامنے بھی اظہار کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور یہ کرنے سے ہی پھر ہم بھی رحمن خدا سے ڈرنے والوں میں شمار ہوں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہی اللہ تعالیٰ کا ایسا خوف جو اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے ہو، اس کا یہ پیغام پہنچارہے ہوں گے.الفضل اند نیشنل 09 / تا 15 فروری 2007 ء )

Page 154

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 142 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 26 جنوری 2007ء سے اقتباس سزا اصلاح احوال کے لئے ہوتی ہے لیکن یہاں ایک وضاحت کر دوں کیونکہ عموماً اس مضمون پر کوئی بات کروں تو اکثر ایسے لوگ جو سزا یافتہ ہیں ان کے خطوط آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ کہتے تو رحم کے بارے میں ہیں لیکن ہم پر رحم نہیں ہوتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام تعلقات میں ایک دوسرے کو رحم کی تلقین فرمائی ہے.اسی طرح عام معاملات میں عمومی صرف نظر نظام جماعت کے لئے بھی ہے، خلیفہ وقت کے لئے بھی ہے، لیکن جو لوگ کسی چیز پر اصرار کرنے والے ہوں، جس کا میں نے پہلے ذکر کر دیا.ان کو پھر اگر سزامل جائے تو وہ سزا ہے، اس کو بھی لینا چاہیئے.اب دیکھیں جب ایک جنگ میں بعض صحابہؓ صحت ہونے کے باوجود شامل نہیں ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قطع تعلقی کر لی اور پھر ان کی بیویوں کو بھی حکم دیا کہ اُن سے کوئی تعلق نہیں رکھنا.اُن میں سے ایک ایسے بھی تھے جن کی عمر زیادہ تھی لیکن اس سزا کی وجہ سے سارا دن روتے تھے اور بستر پر پڑے رہتے تھے اور اتنے کمزور ہو گئے تھے کہ ان کی بیوی نے کہا کہ ان کی تو یہ حالت ہے.کیا مجھے اتنی اجازت ہے کہ میں کھانا وغیرہ پکا کر ان کو دے سکوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے.تو یہ حالت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں آگئی کہ چار پائی سے اٹھ نہیں سکتا.سارا دن استغفار پڑھ رہا ہے.روتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود آپ نے یہ نہیں کہا کہ معاف کرتا ہوں آپ کو.رحمتہ للعالمین تھے.رحم کا جذ بہ تو اندر تھا لیکن ایک سزا تھی جو اصلاح کے لئے ضروری تھی.تو جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش کا اعلان نہیں ہو گیا اس وقت تک انہوں نے سزا کاٹی.اس لئے سزا لینے والے جولوگ ہیں ایک تو یہ ہے کہ ان کو ویسے بھی یہ احساس کرنا چاہئے کہ بات پر اصرار نہیں کرنا چاہئے.اگر غلطی کی ہے تو اس غلطی کا پھر مداوا ہونا چاہئے.

Page 155

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 143 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی پھر یہ نہیں ہے کہ اس پر اصرار کرتے چلے جائیں.اور جب اصرار کریں گے تو بہر حال پھر تعزیر ہوگی اور جب تعزیر ہو جاتی ہے تو پھر اس پر یہ حوالے نہیں دینے چاہئیں کہ رحم کا سلوک ہونا چاہئے.سزا کی وجہ سے بعض دفعہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنا ہوتی ہے.تو جن کے حقوق مارے ہوتے ہیں وہ تو بہر حال ادا کرنے ہوتے ہیں.بعض دفعہ نظام جماعت کے تعلق میں بے قاعد گیاں ہوئی ہوتی ہیں ان بے قاعد گیوں کا جب تک مداوا نہ ہو جائے تو بہر حال ایک سزا تو ہے اور سزا اصلاح کے لئے ہوتی ہے.اس لئے اس میں اور رحم میں ہر ایک کو فرق سمجھنا چاہئے.بہر حال یہ ضمنا بات آ گئی.خدام واطفال کو بزرگوں کے ادب کی ہدایت پھر ہمیں نصیحت کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، زربی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بوڑھا آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لئے آیا.لوگوں نے اسے جگہ دینے میں سستی سے کام لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بزرگوں کی عزت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے.( ترمذی کتاب البر والصلۃ باب فی رحمۃ الصبیان ) تو جہاں بڑی مجلس ہو ، جمعوں پہ، جلسوں پر گھروں میں بھی بعض دفعہ یہ ہوتا ہے.انصار اللہ کے اجتماع پر بھی میں نے ایک دفعہ خدام اطفال کو کہا تھا جبکہ بڑی عمر کے لوگ کھڑے اور چھوٹی عمر کے بیٹھے ہوئے تھے تو ان کو جگہ دینی چاہئے.تو یہ خلق بھی ایسا ہے جو ہر احمدی میں، بچے میں ، جو ان میں ، مرد میں عورت میں نظر آنا چاہئے جس سے پھر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں سے بھی حصہ لے رہے ہوں گے.آپ نے فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے.تو جو ہم میں سے نہیں ہوگا وہ دعاؤں سے حصہ کیسے لے گا.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں سے حصہ لینے کے لئے جو آپ نے امت کے لئے کیں، ہر ایک کو ہر عمل کی کوشش کرنی چاہئے.اور اس کے علاوہ پھر معاشرے میں بھی محبت اور پیار کی فضا پیدا ہوتی ہے..الفضل انٹر نیشنل 16 تا 22 فروری 2007 ء

Page 156

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 144 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 09 فروری 2007ء سے اقتباس روحانیت میں اضافہ کے لئے استغفار بہت ضروری ہے....پس س زمانے میں ایک احمدی کو اس رحیم خدا کی رحیمیت سے حصہ لینے کے لئے اس طرح بھی سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمانیت کے صدقے احمدی گھرانوں میں پیدا کیا یا نئے شامل ہونے والے جولوگ ہیں ان کو ، ان کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اپنی رحیمیت کے صدقے احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانے کی توفیق دی.تو ان فضلوں اور نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہم شکر گزاری کریں.اللہ اور اس کے رسول کی کامل اور مکمل اطاعت کریں.اعمال صالحہ بجالائیں.اس کی بخشش کے ہر وقت طلبگار رہیں.تمام دنیاوی اور دینی نعمتوں کو اپنے سامنے رکھیں اور دیکھیں کہ کونسا فضل ہے جو اُس نے ہم پر نہیں کیا.ہر طرح کے انعامات سے ہمیں نوازا ہے اور پھر ہمیں یہ بھی راستہ دکھا دیا کہ میری بخشش مانگتے رہو کیونکہ ان چیزوں پر یعنی نیکیوں پر قائم رہنے کے لئے اور ان کے معیار بلند کرنے کے لئے استغفار بہت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کے انعام کی وجہ سے علم و عرفان میں یا نیکیوں میں یا روحانیت میں ترقی کے لئے عاجزی کا اظہار اور استغفار بہت ضروری ہے.ورنہ تکبر کا خناس جو ہے اچھے بھلے لوگوں کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے.اوپر جاتے جاتے نیچے کی طرف چلنا شروع ہو جاتے ہیں اور اس وقت وہ نیکی اور علم کچھ کام نہیں آ رہا ہوتا.پس رحیم خدا کی رحیمیت کے ساتھ استغفار بہت ضروری ہے.اور اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں رحیم کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں اکثر جگہ پر صفت غفور کے ساتھ رحیم کو استعمال کیا گیا ہے.پس صفت رحیمیت سے فیض پانے کے لئے اعمال صالحہ اور استغفار انتہائی بنیادی چیزیں ہیں.الفضل انٹرنیشنل 02 تا 08 / مارچ 2007ء )

Page 157

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 145 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 16 فروری 2007ء سے اقتباسات ہجرت کے پُر معارف معانی....اس فساد کے زمانے میں جس میں سے آج دنیا گزررہی ہے اللہ تعالیٰ کا ہم احمدیوں پر یہ کس قدر احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ کے اس احسان اور انعام کا کبھی بھی بدلہ نہیں اتارا جا سکتا لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ بھی احسان ہے، احسانوں پر احسان کرتا چلا جاتا ہے کہ فساد نہ کرنے والوں اور اس کی عبادت کرنے والوں کو محسنین میں شمار فرما رہا ہے اور ان کی دعائیں سنے کی تسلی فرما رہا ہے.پس یہ جو اتنا بڑا اعزاز ہمیں مل رہا ہے، یہ کوئی عام محسنین والا اعزاز نہیں ہے بلکہ وہ لوگ ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں اور اسی طرح اس کی بجا آوری کرتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں یا کم از کم خدا تعالیٰ انہیں دیکھ رہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کی حالت میں بھی تمہاری یہ حالت ہونی چاہئے کہ تم اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے اسے دیکھ رہے ہو یا کم از کم یہ احساس ہو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے.پس جب یہ حالت ہوگی تو اللہ تعالیٰ کی ہر قسم کی رحمت کے دروازے ایک مومن پر کھلیں گے.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے راستے میں جہاد کرنے والے، میری خاطر قربانیاں کرنے والے اور میری خاطر ہجرت کرنے والے، یہ بھی ایسے لوگ ہیں جو میرے قریبیوں میں سے ہیں جو میری رحمت سے وافر حصہ پانے والے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا وَجَهَدُوْا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَوْلَئِكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللَّهِ وَاللَّهُ غَفُوْرٌ رَّحِيمٌ (البقرة : 219 ) یقیناوہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.

Page 158

146 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ایمان کے ساتھ ہجرت کی اور جہاد کی شرط رکھی ہے اور یہ چیز پھر ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید دلاتی ہے.یہاں ہجرت سے مراد صرف ایک جگہ کو چھوڑنا ہی نہیں ہے کہ ہمیں اس لئے اسے چھوڑنا پڑا کیونکہ ان نیکیوں کو بجالانے میں کسی خاص جگہ پر ،یا کسی شہر میں یا ملکوں میں رکاوٹ پیدا ہورہی تھی جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نفس کی خواہشوں کو چھوڑنے والے لوگ بھی اس زمرہ میں شامل ہیں جو اپنے نفس کو قربان کرنے والے ہیں، اپنی برائیوں کو ختم کر کے نیکیوں پر قائم ہونے والے ہیں.مغربی ممالک میں ہجرت کرنے والوں کی ذمہ داریاں پس ان مغربی ممالک میں آنے والے افراد کو بھی اس طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ اگر حالات کی وجہ سے اپنے ملکوں کو چھوڑنا پڑا ہے تو صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ باہر آ کر ہمارے حالات اچھے ہو گئے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ لینے کے لئے اپنی حالتوں کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے.اپنے نفس کی بدیوں کو باہر نکال کر ان میں نیکیوں کو داخل کرنے کی ضرورت ہے.تب یہ ہجرت مکمل ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے جو موقع دیا ہے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے.اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کے لئے اُس جہاد میں شامل ہونے کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس پاک دین کا پیغام پہنچا کر ہم نے کرنا ہے.اس جہاد کے لئے مالی قربانیوں کی ضرورت ہے اور یہ مالی قربانیوں کا جہاد ہر احمدی کا جہاں بھی دنیا میں ہے ہمیشہ طرہ امتیاز رہا ہے.یہاں آ کر کشائش پیدا ہو جانے کے بعد اس طرف سے بے پرواہ نہیں ہو جانا چاہئے.پس اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی کو جو جسمانی ہجرت کا موقع عطا فرمایا ہے اسے اس ہجرت کی وجہ سے اپنے نفس کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے والے بن سکیں اور فی زمانہ جماعت کو جب ضرورت پڑتی ہے اور وقت اور مال کی قربانی کی طرف بلایا جاتا ہے تو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقاء کی قربانیوں کو یا درکھیں ہمیشہ یاد رکھیں یہ ان مومنین کی قربانیاں ہی تھیں جنہوں نے قرون اولیٰ میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو سمیٹنے کے لئے

Page 159

147 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ( رفقاء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوشش کی ، ملک بدر ہوئے ، مالی نقصانات برداشت کرنے پڑے، جہاد کرنا پڑا، سب کچھ ہوا.اور پھر ان قربانیوں کو ایسے پھل لگے کہ آج ہم دیکھ کر حیران ہوتے ہیں.انہوں نے اپنے نفس کی بھی اصلاح کی ، اپنی برائیوں کو ترک کیا، نیکیوں کو اختیار کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو پہنچانے کے لئے اعلیٰ قربانیاں دیں.پس ہم میں سے آج بھی وہی لوگ خوش قسمت ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والے ہیں جو اس اصول کو سمجھے ہوئے ہیں.پس اللہ تعالیٰ جیسا کہ فرماتا ہے، وہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اگر ہم اپنی غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے اس کے آگے جھکنے والے اور اس کے دین کی سر بلندی کے لئے قربانی اور کوشش کرنے والے ہوں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ پانے والے ہوں گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسی کوشش کو کبھی ضائع نہیں کرتا جو نیک نیتی سے اس کی خشیت دل میں رکھتے ہوئے اس کی خاطر کی جائے.حضرت عمر کے زمانہ کا ایک معروف واقعہ یہاں سورۃ بقرہ کی جو یہ آیت ہے إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا وَجَهَدُوْا فِي سَبِيْلِ الله...اس ضمن میں یاد آیا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی ایک حدیث کا واقعہ لکھا ہے لیکن مجھے اس سے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ( رفقاء) کو بھی جماعت میں بہت مقام تھا اور جو ( رفقاء) کی اولاد ہیں، جب بھی کبھی کوئی تعارف کرانے لگے تو ضرور کراتے ہیں کہ میرے نانایا دادا ( رفیق) تھے.تو یہ جو اُن کا ( رفیق) ہونا تھا یہ اُن اولادوں کو یہ احساس دلانے والا ہونا چاہئے کہ جس طرح اُنہوں نے اپنے نفس کو بھی کچلا، ہجرت کا حق بھی ادا کیا، اپنے گھر بار کو بھی چھوڑا ، قربانیاں بھی کیں.اُس مقام کو ہم نے قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے.جس واقعہ کا میں ذکر کر رہا ہوں یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ حج پر گئے.تو وہاں کچھ نوجوان جو بعد میں مسلمان ہوئے تھے، قریب بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تشریف لائے ، حضرت عمرؓ نے ان نوجوانوں کو فرمایا ذرا پیچھے ہٹ جاؤ کہ یہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.خیر وہ پیچھے ہٹ گئے تھوڑی دیر کے بعد ایک اور صحابی تشریف لائے ، حضرت عمر نے ان نو جوانوں کو پھر

Page 160

148 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم پیچھے ہٹا دیا، ہوتے ہوتے وہ دُور جوتیوں کے پاس چلے گئے.اور جب وہاں پہنچے تو وہ سارے اچھے خاندانوں کے تھے ، ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ ہمارے ساتھ یہ ذلت کا سلوک ہوا ہے، اور باہر نکل گئے.باہر جا کر باتیں کرنے لگے کہ یہ تو ہمارے ساتھ آج بہت برا ہوا ہے.ان میں سے ایک زیادہ بہتر ایمان لانے والوں میں سے تھا.اس نے کہا کہ جو بھی ہوا یہ ہمارے باپ دادا کا قصور ہے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانا اور آج ان کی وجہ سے ہمیں ذلت اٹھانی پڑی.بہر حال صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مقام ہے.تو خیر انہوں نے کہا اس کا کیا علاج کیا جائے.انہوں نے کہا کہ حضرت عمرؓ سے ہی پوچھتے ہیں.تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اور کہا کہ آج ہم سے یہ سلوک ہوا ہے.حضرت عمرؓ نے کہا میں مجبور تھا.میں تمہارے خاندانی حالات اور وجاہت سب کچھ جانتا ہوں لیکن صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے اتنی قربانیاں دی ہوئی ہیں ، ہجرت بھی کی ، جہاد میں شامل ہوئے ان کے مقابلے میں تمہاری حیثیت نہیں ہے.وہ کہتے ہیں ہمیں سمجھ آگئی کہ یہی بات ہے لیکن اس کا اب علاج کیا ہے.حضرت عمر گوان سارے حالات کا پتہ تھا کہ بڑے اچھے خاندان کے یہ لوگ ہیں، ان کے باپ دادا نے بعض حالات میں مسلمانوں کی مدد بھی کی ہوئی ہے.حضرت عمر بھی بڑے جذباتی ہو گئے.آپ سے بولا نہیں گیا.آپ نے شام کی طرف اشارہ کر کے کہا.ادھر جاؤ.وہاں اُس زمانے میں جنگ ہو رہی تھی تو بہر حال وہ سات نوجوان تھے چلے گئے اور اس جنگ میں شامل ہوئے.ملک سے ہجرت بھی کی اور جہاد بھی کیا اور شہادت حاصل کی.تو وہ مقام پایا جس کا اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر فرمایا ہے.رفقاء کرام کی اولادوں کی ذمہ داری پس جو ( رفقاء ) کی اولادیں ہیں میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے قربانیاں دیں تو انہوں نے مقام پایا.اب ہم میں ( رفقاء) میں سے تو کوئی نہیں ہے صرف اتنا کہہ دینا کہ ہم (رفیق) کی نسل میں سے ہیں ، کافی نہیں ہوگا.اگر اس زمانے میں بعد میں آنے والے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے جہاد بھی کریں گے اور ہجرت بھی کریں گے تو وہ آپ لوگوں سے کہیں آگے نہ بڑھ جائیں.اس لئے اس طرف توجہ رکھیں اور آپ کے بڑوں نے جو قربانیاں کیں اور جس مقام کو پایا اس کو اگلی نسلوں میں بھی قائم رکھنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے دل میں اس کی کچی طلب اور اس کے احکامات پر

Page 161

149 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم عمل کرنے کی ہمیشہ نہ صرف خواہش پیدا ہوتی رہے بلکہ عمل کرنے کی بھی توفیق ملے.اپنے نفسوں کے خلاف جہاد کرنے والے بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کے لئے قربانیاں کرنے والے بھی ہوں تا کہ اس کی رحیمیت سے ہمیشہ فیض اٹھاتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.الفضل انٹر نیشنل 09 / تا 15 / مارچ 2007 ء )

Page 162

مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم 150 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 23 فروری 2007ء سے اقتباس ہالینڈ کی پارلیمنٹ کا ( دین حق ) پر حملہ اور ہماری ذمہ داری.آج آئے دن مغرب کے کسی نہ کسی ملک میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مختلف طریقوں سے غلط پرو پیگنڈا کر کے آپ کے مقام کو گرانے کی کوشش کی جاتی ہے.گزشتہ دنوں ہالینڈ کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے ایک ہرزہ سرائی کی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی تعلیم اور قرآن کریم کے بارے میں انتہائی بیہودہ اور ظالمانہ الفاظ کا استعمال کیا.جہاں بھی اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس قسم کی بیہودہ گوئی کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں ، اس ملک میں ، جماعت احمد یہ جواب دیتی ہے.ہالینڈ والوں کو بھی میں نے کہا تھا کہ اخباروں میں بھی لکھیں اور ( دین حق ) کی خوبصورت تعلیم کا تصور ان کے ذہنوں میں پیدا کریں تا کہ عوام کے ذہنوں سے اس اثر کو زائل کیا جائے.دراصل ( دین حق ) ہی ہے جو اس زمانے میں مذہب اور خدا کا عقلی اور حقیقی تصور پیش کرتا ہے.اس طرح اگر تو یہ لوگ جو ( دین حق ) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس قسم کی لغو اور بیہودہ باتیں لاعلمی یا کم علمی کی وجہ سے کرتے ہیں تو ان کو بتائیں کہ ( دین حق) کی خوبصورت تعلیم کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ زندگی کے ہر شعبے میں کیا ہے.مخلوق خدا سے ہمدردی کس طرح آپ کے پاک دل میں بھری ہوئی ہے تا کہ ان کے ذہن صاف ہوں.لیکن اگر ان کے دل صرف بغض اور کینے سے بھرے ہوئے ہیں اور کچھ سننے کے لئے تیار نہیں تو پھر اتمام حجت ہو جائے گا.بہر حال آج یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو ہر احمدی نے انجام دینا ہے.ممبر پارلیمنٹ کے اعتراضات کے پر معارف جوابات ہالینڈ کے ممبر آف پارلیمنٹ جس کا میں نے ذکر کیا ، اس کا جہاں تک تعلق ہے، لگتا ہے اس کے دل میں

Page 163

151 مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم اور مسلمانوں کے لئے بغض اور کینہ انتہا کو پہنچا ہوا ہے.جس کا اظہار اس نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کیا تھا.ان صاحب کا نام ہے خیرت ولڈرز (Geert) (Wilders.کیتھولک گھر میں یہ پیدا ہوا لیکن رپورٹ کے مطابق مذہب سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے.ان لوگوں کو بھی جب اپنے مذہب میں سکون نہیں ملتا اور سمجھ نہیں آتی.خدا تک تو پہنچ نہیں سکتے تو پھر اسلام کو بھی برا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں، اس پر الزام تراشی شروع ہو جاتی ہے.بہر حال یہ صاحب کافی پرانے اسلامی تعلیم پر اعتراض کرنے والے ہیں.برقع کے خلاف بھی جو سب سے پہلے ہالینڈ میں مسئلہ اٹھا تھا، یہی اس میں پیش پیش تھا.بظاہر مذہب سے لاتعلق ہے لیکن اسلام کے خلاف بغض کی وجہ سے عیسائیت اور یہودیت کو بقول اس کے اسلام سے بہتر سمجھتا ہے.سمجھے لیکن اگر عقل رکھتا ہے تو اس زمانے میں جب مغربی ممالک کو تہذیب یافتہ ہونے کا دعویٰ ہے اور یہ صاحب اپنے آپ کو پڑھا لکھا بھی کہتے ہیں، ممبر آف پارلیمنٹ بھی ہے، تو پھر دوسرے مذاہب کے بارے میں بیہودہ گوئی کرنے کا ان لوگوں کو حق نہیں پہنچتا.چند افراد کے ذاتی فعل سے اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی باتیں کرے کہ کوئی بھی عقلمند اور پڑھا لکھا انسان نہیں کر سکتا.مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتا ہے کہ اگر وہ آج ہالینڈ میں ہوتے تو نعوذ باللہ دہشت گرد قرار دے کر ملک سے نکالتا.تم نے کیا نکالنا ہے تم تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ زمانہ دیکھنے والے ہو جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواؤں کی اکثریت ہر جگہ دیکھو گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی سے لے کر آج تک کیا کیا کوششیں ہیں جو آپ کے مخالفین نے نہیں کیں.کیا وہ کامیاب ہو گئے ؟ آج دنیا میں ہر جگہ، ہر ملک میں ، چاہے وہاں مسلمانوں کی تعداد تھوڑی ہے یا زیادہ ہے روزانہ پانچ وقت بلند آواز سے اگر کسی نبی کا نام پکارا جاتا ہے تو وہ اس رحمتہ للعالمین کا نام ہے.جس کا دل با وجود ان مخالفتوں اور مخالفین کی گھٹیا حرکتوں کے انسانیت کا حق ادا کرنے کے ناطے ہر وقت ہر ایک کے لئے ہمدردی کے جذبات سے پر تھا.پھر کہتا ہے کہ قرآن کے احکامات ایسے ہیں کہ نعوذ باللہ آدھا قرآن پھاڑ کر علیحدہ کر دینا چاہئے.ان صاحب سے کوئی پوچھے کہ تم عملا تولا مذہب ہو لیکن جن مذاہب کو اسلام سے بہتر سمجھتے ہو، ان کی تعلیم کا قرآن کریم کی تعلیم سے مواز نہ تو عقل کی آنکھ سے کر کے دیکھو.تعصب سے پاک نظر کر کے پھر قرآن کا مطالعہ کرو

Page 164

152 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم اور پھر سمجھ نہ آئے تو ہم سے سمجھو کہ جہلاء کو اس پاک کلام کی سمجھ نہیں آ سکتی.قرآن کریم کا تو دعوی ہے کہ پہلے اپنے دلوں اور اپنے دماغوں کو پاک کرو تو پھر اس پاک تعلیم کی سمجھ آئے گی ورنہ تمہارے جیسے جہلاء تو پہلے بھی بہت گزر چکے ہیں جو اعتراض کرتے چلے گئے.وہ بھی ابوالحکم کہلاتا تھا جس کا نام قرآن نہ سمجھنے کی وجہ سے ابو جہل پڑا.اور وہ غریب مزدور ، وہ غلام جو دنیا کی نظر میں عقل اور فراست سے عاری تھے اس قرآن کو سمجھنے کی وجہ سے علم وعرفان پھیلانے والے بن گئے.پس ہم تمہیں اتمام حجت کے لئے اس رؤف اور رحیم نبی کے حوالے سے توجہ دلاتے ہیں کہ وہ تم جیسے لوگوں کو بھی آگ کے عذاب سے بچانے کے لئے بے چین رہتا تھا.اس کی باتوں کو غور اور تدبر سے پڑھو اور دیکھو، پرکھو، سمجھو اور سمجھ نہ آئے تو ہم سے پوچھو اور اپنے آپ کو اُس درد ناک عذاب سے بچاؤ جو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے تیار کیا ہوا ہے.جو حد سے بڑھنے والوں کے لئے مقدر ہے.اللہ کرے کہ اس قسم کی باتیں کرنے والے، یہ لوگ عقل کے ناخن لینے والے ہوں اور سمجھنے والے ہوں.سیرت رسول کریم کو لوگوں تک پہنچائیں لیکن یہ احمدیوں کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس رؤف و رحیم نبی کی زندگی کے ہرحسین لمحے کی تصویر ان لوگوں تک پہنچا ئیں.یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، جسے اللہ تعالیٰ نے رؤف و رحیم قرار دیا تھا، انہوں نے دہشت گردی کی تعلیم دی ہے.ان کو بتائیں کہ اسلام کی جنگوں میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں کے ساتھ کیا نرمی اور احسان اور رحم کے سلوک کی اسلام کی تعلیم ہے.جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا رحم کی تعلیم ہے.اپنے آپ کو مشقت میں ڈال کر قیدیوں کے لئے رحم کے جذبات تھے.وہ قیدی جو جنگی قیدی تھے، جو جنگ میں اس غرض سے شریک تھے کہ مسلمانوں کا قتل کریں ان سے شفقت اور رحم کا سلوک ہے کہ آپ بھوکے رہ کر یا روکھی سوکھی کھا کر ان کو اچھا کھلایا جارہا ہے.آج اس سرا پار افت اور رحم پر یہ الزام لگانے والے یہ بتائیں کہ جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرا کر جو وہاں کی تمام آبادی کو جلا کر بھسم کر دیا تھا، بچے بوڑھے ،عورتیں ، مریض، سب کے سب چشم زدن میں راکھ کا ڈھیر ہو گئے تھے بلکہ ارد گرد کے علاقوں میں بسنے والے بھی اس کی وجہ سے سالوں بلکہ اب تک بہت ساری خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں، نئے پیدا ہونے والے بچے اپانچ پیدا ہو رہے ہیں.کیا یہ ہیں اعلیٰ اخلاق؟ جن کے انجام دینے والوں کو یہ لوگ امن پسند اور امن قائم کرنے والا کہتے

Page 165

153 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخام ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ہیں.عراق میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو یہ لوگ کیا نام دیتے ہیں.تم لوگ یاد رکھو کہ ان تمام زیادتیوں کے با وجود اسلام کا خدا جس نے اپنے پیارے نبی ، جو ہر ایک کے لئے رؤف و رحیم تھے، پر جو تعلیم اتاری ہے، جو قرآن کریم کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، وہ اتنی خوبصورت تعلیم ہے کہ اگر وہ سمجھنے والے ہوں تو سمجھ جائیں.ایک آیت کا میں ذکر کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے گناہگاروں کو بھی بخشنے کے سامان فرمائے ہوئے ہیں.فرماتا ہے.إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيَا تِهِمْ حَسَنَتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوْرًا رَّحِيمًا (الفرقان:71) سوائے اس کے جو تو بہ کرے اور ایمان لائے ، نیک عمل بجا لائے.پس یہی وہ لوگ ہیں جن کی بدیوں کو اللہ تعالیٰ خوبیوں میں بدل دے گا.اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.پس اس ارشاد کی روشنی میں ان لوگوں کو اپنے آپ کو دیکھنا چاہئے.مسلمانوں کی دلآزاری کرنے کی بجائے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے.خودان میں کتنی نیکیاں ہیں؟ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کی ہتک کرنے کی بجائے اپنے اندر جھانکنا چاہئے.آج مغرب میں جو بے شمار برائیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ اپنے گریبان میں نہ جھانکنے کی وجہ سے ہیں.تمہارے گھروں کے چین اور سکون جو برباد ہوئے ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ نہ کرنے کی وجہ سے ہیں.اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ اب بھی اپنے خدا کو پہچان لو اور اس کے پیاروں کے بارے میں بیہودہ گوئیوں سے باز آ جاؤ اور رحیم خدا کو پکارو کہ وہ بخش دے.احمدیوں سے میں پھر یہ کہتا ہوں کہ اپنے اوپر ( دین حق کی تعلیم لاگو کرتے ہوئے ان عقل کے اندھوں یا کم از کم ان لوگوں کو جو ان کے زیر اثر آ رہے ہیں اور خدا کے پیاروں سے ہنسی ٹھٹھے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ، ان کو سمجھائیں کہ اگر تم لوگ باز نہ آئے تو نہ تمہاری بقا ہے اور نہ تمہارے ملکوں کی بقا ہے.کوئی اس کی ضمانت نہیں.پس اگر اپنی بقا چاہتے ہو تو اس محسن انسانیت اور اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملے بند کرو، اس سے تعلق پیدا کرو.اگر تعلق نہیں بھی رکھنا تو کم از کم شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ خاموش رہو.ہالینڈ کو انتباہ جنگوں کے علاوہ موسمی تغیرات کی وجہ سے بھی آجکل دنیا تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے.ہالینڈ تو وہ ملک

Page 166

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 154 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہے جس میں اس لحاظ سے بھی شرک بڑھا ہوا ہے کہ یہاں کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ باقی دنیا کو تو خدا نے بنایا ہے لیکن ہالینڈ کو ہم نے بنایا ہے.سمندر سے کچھ زمین نکال لینے کی وجہ سے ان کے دماغ الٹ گئے ہیں.یہ نہیں سمجھتے کہ ملک کا اکثر حصہ سطح سمندر سے نیچے ہے.جب طوفان آتے ہیں، جب آفات آتی ہیں ، اللہ تعالیٰ کے عذاب آتے ہیں تو پھر وہ پہاڑوں کو بھی غرق کر دیتے ہیں.پس ان لوگوں کو بھی اور دنیا میں ہر جگہ انسانیت کو اس حوالے سے خدا کے قریب لانے کے لئے احمدی کی ذمہ داری ہے.اپنی ذمہ داری کو بھی سمجھیں اور خود بھی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلتے ہوئے رحم کے جذبے کے تحت انسانیت کو بچانے کی فکر کریں.دنیا کو ایک خدا کی پہچان کروائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تو بہ کرنے والے، ایمان لانے والے اور پھر ایمان پر قائم رہتے ہوئے صالح عمل کرنے والے ہی ہیں جن کی بخشش ہوسکتی ہے.پس یہ پیغام عام کر دیں ورنہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ دنیا اللہ تعالیٰ کے پیارے پر ظالمانہ حملے کر کے عذاب کو دعوت دے رہی ہے.اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ارضی و سماوی آفات کی خبر اپنی صداقت کے طور پر بھی دی ہے.اس لئے بڑے خوف کا مقام ہے اور دنیا کو بڑی شدت سے متنبہ کرنے کی ضرورت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ان پر واضح کرنے کی ضرورت ہے.اس نور کو دکھانے کی ضرورت ہے جس نے اُجڑ اور جاہل عرب کو اس زمانے میں مہذب ترین اور با خدا بنا دیا تھا.الفضل انٹر نیشنل 16 تا 22 / مارچ 2007ء )

Page 167

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 155 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اجتماع خدام الاحمدیہ ہارٹلے پول سے خطاب مورخہ 11 / مارچ 2007ء کو اجتماع خدام الاحمدیہ ہارٹلے پول سے خطاب کرتے ہوئے تشہد تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اجتماعات کے مقاصد آج آپ کا اجتماع ہو رہا ہے بلکہ اب اختتام کو پہنچ رہا ہے یہ ایک دن کا یا ڈیڑھ دن کا اجتماع جو تھا اس میں آپ نے مختلف پروگرام کئے.مختلف Events ہوئے کھیلوں کے بھی اور علمی مقابلوں کے بھی.انعامات بھی لئے آپ نے.تو یہ اجتماعات جو منعقد کئے جاتے ہیں.یہاں خدام اور اطفال کو جمع کیا جاتا ہے.ریجنل لیول پر بھی اور اس کے بعد National Level پر ان کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی روحانی اور جسمانی تربیت ہو.احمدی نوجوان جو ہے اس کی اس طرز پر تربیت کی جائے کہ اس میں اور غیر میں ایک فرق محسوس ہو آج دنیا مختلف برائیوں میں پڑی ہوئی ہے.اپنے خدا کو بھول گئی ہے.خدا تعالیٰ کا وجود ہونے نہ ہونے پر بخشیں کی جاتی ہیں کتابیں لکھی جاتی ہیں.تمام سعادتوں کی کنجی نماز میں ہے اخباروں میں لکھا جاتا ہے اس بات کو سوچنے کے لئے بہت بڑی تعداد تیار نہیں اور ان میں بہت سارے لوگ شامل بھی ہوتے چلے جارہے ہیں.جو اس بات کے قائل ہوں کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے یا کوئی خالق ہونا چاہیے.لیکن ایک احمدی جس نے حضرت مسیح موعوڈ کی بیعت کی ہے آپ کی بیعت میں شامل ہونے کے بعد ان تمام لغویات سے بچنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اس بات کا علم حاصل کرے کہ خدا ہے اور یقینا ہے.اس کائنات کا کوئی مالک ہے اور یقینا ہے.ایک احمدی اس بات پر قائم

Page 168

156 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ہے کہ یقینا آ نحضرت اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی اور رسول ہیں.جنہوں نے ہمیں خدا تک پہنچنے کا راستہ دکھایا جن کے ساتھ جڑنے سے ہی اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس زمانے کے امام ہیں جن کے سپر د اس زمانے کی اصلاح کی گئی ہے جنہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ میں اپنے آقا حضرت محمد مصطفی کی لائی ہوئی شریعت کو دنیا میں دوبارہ اس کی اصل خوبیوں کے ساتھ قائم کرنے کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہوں تاکہ بندے اور خدا کا حقیقی تعلق قائم ہو پس ہم میں سے ہر ایک جو عقل اور شعور رکھتا ہے اس کو یہ جائزہ لینا چاہیے کہ کیا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر آپ کے اس مقصد کو سمجھا ہے اور اس مقصد کو پورا کرنے میں آپ کا مددگار ہورہا ہوں یا نہیں.پس جب آپ میں سے ہر ایک اپنا اس رنگ میں جائزہ لے گا تو اس مقصد کی طرف توجہ پیدا ہوگی جو انسان کے اس دنیا میں آنے کا مقصد ہے جو کہ اس پیدا کرنے والے خدا کی عبادت کرنا ہے.پس یہ عبادت کا مقصد اس وقت حاصل ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اس طرف توجہ دیں گے.اور وہ طریق ہے پانچ وقت کی نمازیں.اس عمر میں نو جوانی کی عمر میں ماحول کے زیر اثر بے شمار برائیوں کے خیال شیطان انسان کے دل میں ڈالتا ہے، نو جوانوں کے دل میں ڈالتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم حقیقی رنگ میں نمازوں کی طرف توجہ دو گے تو یہ تمہاری نمازیں تمہاری برائیوں کے اور تمہارے درمیان روک بن جائیں گی.شیطان تمہارے دل میں وسوسے اور برائیاں نہیں ڈال سکے گا.اگر حقیقی رنگ میں تم نمازیں ادا کرنے والے ہو.اور برائیوں کا اور ماحول کی بیہودگیوں کا تم پر قبضہ نہیں ہوگا پس پہلی بنیادی چیز یا درکھیں کہ اپنی نمازوں کی آپ نے حفاظت کرنی ہے.وقت پر اور توجہ سے ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”نماز پڑھو.نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے.“ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہونے کا فائدہ تبھی ہو گا جب آپ کی اس تعلیم پر آپ عمل کریں گے اس چابی کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جس سے آپ کی سعادت کا پتہ لگے.آپ کو مزید سعادتیں.سعادتوں کے رستے نظر آئیں.جب آپ تمام سعادتوں کی کنجی یعنی نماز کی حفاظت کرنے والے ہوں گے.تو یہی کنجی ہے جس سے آپ کے دل کے دروازے پھر باقی نیکیوں کے لئے بھی

Page 169

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 157 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کھلتے جائیں گے اور وہ نیکیاں بھی آپ کے اندر داخل ہوں گی.قرآن کریم پڑھیں اور سمجھ کر پڑھیں پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سمجھنے کے لئے قرآن کریم کا پڑھنا اور سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے تبھی آپ کو ان احکامات کا پتہ چلے گا جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دیئے ہیں تبھی ان نیک اعمال کی طرف توجہ پیدا ہوگی جن کے کرنے کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی ہے.ہر ماحول، ہر طبقے، ہر طبیعت اور ہر عمر کے لوگوں کے لئے قرآن کریم میں احکامات موجود ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یا درکھو قرآن کریم میں 500 کے قریب حکم ہیں اور اس میں تمہارے ہر ایک عضو اور ہر ایک قوت یعنی انسان کے جتنے اعضاء ہیں ، ہاتھ ، پاؤں، آنکھ ، کان ، ناک منہ ہر ایک عضو اور ہر ایک قوت کے لئے جتنی بھی طاقتیں دی گئی ہیں اور ہر یک وضع اور ہر یک حالت اور ہر ایک عمر اور ہر یک مرتبہ فہیم یعنی جتنا جتنا انسان کی عقل کا لیول ہے اور مرتبہ فطرت جو اس کی فطرت کی فطرت ہے اس کے مطابق اور مرتبہ سلوک جو اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی توجہ ہے اور مرتبہ انفراد اور اجتماع کے لحاظ سے روحانی دعوت تمہاری کی ہے.یعنی ہر لیول پہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں احکامات دیئے ہیں.نصیحت کی ہے اور ارشادات فرمائے ہیں اور یہی دعوت ہے ان پر عمل کریں گے تو یہی روحانی غذا ہے.جس سے آپ کی روحانی ترقی ہوگی.تو جتنی جتنی کسی میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنے کی صلاحیت ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے اس کے حضور جھکتے ہوئے اس سے ان باتوں کو جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں.سمجھنے کی مدد مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عقل اور روحانی تعلق اور علم کے مطابق ان باتوں اور احکامات کو سمجھنے کا اس کو فہم عطا کرتا ہے اس کو عقل عطا کرتا ہے.قرآن کریم میں دینی اور دنیاوی علوم کے خزانے ہیں پس قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور اس کو سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی ہمارے نو جوانوں کو عادت ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیے.تمام دینی اور دنیاوی علوم کے خزانے اس میں محفوظ ہیں.اسی میں رہنمائی ہے دنیاوی تعلیم کے لئے بھی ہمارے نوجوان جو پڑھ رہے ہیں یو نیورسٹیوں میں یا ہائی کلاسز میں انہیں قرآن کریم سے رہنمائی لینی چاہیے.یہی بات ہمارے طلباء کو دوسروں سے ممتاز کرے گی.ان میں اور غیروں میں فرق

Page 170

158 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخام ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ڈالے گی.یہاں اس ریجن میں بہت سارے کا روباری لوگ بھی ہیں.مثلاً بریڈ فورڈ میں ہیں اور جگہوں پر بھی ہیں.تو نو جوان جو ہیں ان لوگوں کی اولادا اپنی تعلیم سیکنڈری تک مکمل کر کے یا پھر A لیول تک کر کے چھوڑ نہ دیں بلکہ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ حضرت مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد علم و معرفت میں ترقی کرنی ضروری ہے.مختلف میدانوں میں ہم آگے بڑھیں گے تو جماعت کا ان دنیا داروں کی نظر میں بھی ایک وقار قائم ہوگا اور آپ اس میں حصہ دار بن رہے ہوں گے.حضرت مسیح موعودؓ کے مددگار بن رہے ہوں گے.آپ کے ماحول کو وسعت ملے گی.مزید آپ کے تعلقات وسیع ہوں گے.نئے لوگوں سے نئے طبقوں سے رابطے ہوں گے.اور یوں ( دین حق) کی ( دعوت الی اللہ ) کے مواقع بڑھیں گے اس کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرنے کی آپ کو توفیق ملے گی اور یوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں گے جیسا کہ میں نے کہا.پس جو پڑھنے کی عمر کے خدام ہیں انہیں پڑھائی کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.پھر اگر اس کے بعد آتی ہے معاشرے میں ماحول کے زیراثر یہاں کا ماحول بڑا بگڑا ہوا ماحول ہے نوجوانوں کے ہمارے نوجوانوں کے بھی بگڑنے کا احتمال بہت رہتا ہے.اس لئے بڑی توجہ سے اس طرف آپ کی نظر ہونی چاہیے.اس کی ضرورت ہے کہ پندرہ سولہ سال کی عمر کے بچے جو آزادی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اس عمر کو پہنچتے ہیں.برے ماحول اور بری دوستیوں سے پر ہیز کریں جب ان کے خیال میں تھوڑا تھوڑے ماحول کی وجہ سے باغیانہ روش پیدا ہونا شروع ہوتی ہے.ماں باپ کی باتوں کو صیح نہیں سمجھ رہے ہوتے.یا بعض دفعہ ماں باپ بھی اپنا حق پوری طرح ادا نہیں کر رہے ہوتے جس کی وجہ سے بچے بگڑتے ہیں.تو آپ لوگوں کو یہ خیال رہنا چاہیے کہ ہم احمدی نوجوان ہیں اور اصل مقصد ہمارا یہ نہیں کہ فلاں کی نقل کرنی ہے یا فلاں کی کرنی ہے بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کی ہم نے کس طرح مدد کرنی ہے اس لئے کبھی یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ اس عمر کو ہم پہنچ گئے.ماحول کی وجہ سے تو اب ہم آزاد ہوگئے یہاں کا قانون ہمیں آزادی دیتا ہے اب جو مرضی ہم چاہیں کریں کوئی ہمیں روکنے والا نہیں جیسے مرضی دوستوں سے تعلق رکھیں جس طرح مرضی جس طرح کے مختلف قسم کے دوستوں سے رابطے رکھیں دوستیاں نبھا ئیں دوستیاں بڑھا ئیں یہ نہیں بلکہ ایسے دوست بنائیں جو لائق ہیں پڑھائی کی طرف توجہ دینے والے ہیں

Page 171

159 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم اور نسبتاً اس ماحول کے زیر اثر نہیں ہیں جو آج کل یہاں عام طور پہ جس کی مثالیں ہر جگہ نظر آتی ہیں.یہ دیکھیں کہ جن سے ہم دوستیاں کر رہے ہیں وہ مختلف قسم کی برائیوں میں تو ملوث نہیں ہیں.تو اگر ہیں تو آپ نے ان لوگوں کی صحبت کو بھی چھوڑنا ہے.ان لوگوں کی دوستیوں کو بھی ختم کرنا ہے ایسی سوسائٹی سے اپنے آپ کو بچانا ہے تا کہ آپ خود بھی بچ سکیں.حضرت مسیح موعود کی خدمت میں ایک سکھ لڑکے نے لکھا کہ میں خدا کا قائل تھا.اب میرے دماغ سے وہ خیالات میرے بدلتے جارہے ہیں.میں خدا تعالیٰ کے وجود کا قائل نہیں رہا.یا اس میں جس شدت سے پہلے تھا اس میں کمی آرہی ہے.تو حضرت مسیح موعود نے اسے فرمایا کہ تم کالج میں پڑھ رہے ہو تو جس اپنے طالب علم کے ساتھ بیٹھتے ہو جو Student تمہارے ساتھ بیٹھتا ہے اس جگہ کو چھوڑ دو اپنی جگہ بدل لو چنانچہ اس نے جب جگہ بدل لی تو اس کے خیالات پھر صاف ہونے شروع ہو گئے تو لاشعوری طور پر بھی ، غیر محسوس طریقے سے بھی بعض دفعہ اثر ہورہا ہوتا ہے.اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کی دوستیاں ایسے لوگوں سے ہوں، ایسے دوستوں سے ہوں، ایسے لڑکوں سے ہوں ، شرافت کی طرف جن کا رجحان ہو، پڑھائی کی طرف جن کا رجحان ہو.غیروں میں عیسائیوں میں دوسروں میں بہت سارے لڑکے ہیں جو اپنے مطلب سے مطلب رکھتے ہیں جن کا صرف یہ کام ہے کہ ہم نے پڑھائی کرنی ہے اور اس کے لئے وہ بڑی محنت کرتے ہیں.تو یہ جو لاشعوری طور پر برائیاں اثر انداز ہوتی ہیں جیسا کہ میں نے کہا ان کا اخلاق پر بہت اثر ہوتا ہے.شریفانہ لباس زیب تن کریں پھر اسی طرح اوٹ پٹانگ قسم کے لباس ہیں.یہاں قسم قسم کے لباس نکل آئے ہیں.ایک احمدی کا لباس میں بھی ایک شریفانہ اظہار ہونا چاہیے.اس قسم کے اوٹ پٹانگ لباس پہننے والوں کے ساتھ اگر آپ کی دوستیاں ہوں گی تو وہی آہستہ آہستہ آپ بھی اختیار کرلیں گے.پھر بال ہیں وہ عجیب و غریب طرح کے بنائے ہوتے ہیں بعض لڑکوں نے یہاں کے فیشن کے تحت.یہ دیکھیں کہ آپ میں اور دوسرے میں فرق کیا ہے؟ آپ کیوں احمدی ہیں؟ اور ایک احمدی کا کیا نمونہ ہونا چاہیے؟ تو اس لئے ہر معاملے میں اپنے نمونے دکھا ئیں یہ جو فیشن ہیں چھوٹے چھوٹے یہ بھی اثر انداز ہوتے ہیں.داڑھی رکھنا بھی سنت ہے پھر داڑھیاں رکھتے ہیں.داڑھی رکھنا بھی سنت ہے.لیکن سنت کی پیروی میں داڑھی نہیں رکھی جارہی

Page 172

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 160 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہوتی بعض لوگ ایسے ہیں لڑکے عموماً عام طور پہ بلکہ فیشن کے طور پر داڑھی رکھی جاتی ہے تو اس کا تو کوئی فائدہ نہیں.یہاں مناسب داڑھیاں بھی لوگ رکھتے ہیں.اگر آپ سنت پر عمل کرتے ہوئے داڑھی رکھنے کی کوشش کریں گے تو فیشن بھی آپ کا ہو جائے گا اور سنت بھی پوری ہو جائے گی.نیت اگر نیک ہو تو لیکن اگر صرف داڑھیاں اس لئے رکھ لیں کہ فیشن کرنا ہے تو اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے.عجیب و غریب طریقے سے ڈیزائن بنائے ہوتے ہیں چہرے پر لگتا ہے کہ کوئی نقشے بنائے ہوئے ہیں ایسی داڑھیاں رکھنے کا کیا فائدہ ہے.تو یہ باتیں پھر اخلاق پر اثر انداز ہوتی ہیں.کیونکہ کہیں نہ کہیں آپ کو اپنی حد بندی کرنی ہوگی.کوئی روک بنانی ہوگی کہ یہ ہماری حد ہے یہ ہماری روک ہے یہ ہماری Limits ہیں ان سے ہم نے آگے نہیں بڑھنا.تو اگر فیشن نہیں تو پھر جس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ان لوگوں کی طرح بھی بڑھتے چلے جائیں گے.با اخلاق بنیں گے تو با خدا بنیں گے پس اپنی پڑھائی کی طرف اور اس سے بڑھ کر روحانی حالت کی بہتری کی طرف اس عمر میں توجہ دیں پھر بات چیت کے انداز میں بھی چھوٹی چھوٹی بظاہر باتیں ہیں بڑوں اور چھوٹوں سے بات کرنے کا طریق ہے نرمی سے آرام سے چھوٹوں سے بات کرنی ہے بڑوں سے ادب سے بات کرنی ہے یہ چیزیں اپنائیں گے تو یہ بھی آپ کے اخلاق پر اچھا اثر ڈالنے والی ہوں گی.کیونکہ اس طرح پھر عادت پڑ جاتی ہے.اور جب بڑے ہوتے ہیں عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو یہی چیزیں جو ہیں پھر کیونکہ اکھڑ مزاجی بے لحاظی شروع میں پیدا ہو چکی ہوتی ہے تو عملی زندگی میں بھی یہی چیز ہو رہی ہوتی ہے.پھر اسی سے لڑائیاں بڑھتی ہیں ایک دوسرے کی عزت کا خیال نہیں رہتا.اور پھر جہاں مرضی دیکھا پبلک مقام پر کھڑے ہیں (بیت الذکر ) میں بیٹھے ہیں جہاں بھی ہوا بغیر کسی کی عزت نفس کا خیال کئے جو منہ میں آتا ہے بول دیتے ہیں.دوسرے کے خلاف تو ابھی سے اگر آپ عادت ڈالیں گے تو بڑے ہوکر ان چیزوں سے بچ سکیں گے پس اس طرف توجہ دیں اللہ تعالی نے جو احکامات دیئے ہیں وہ اسی لئے دیئے ہیں.ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے بظاہر کہ با اخلاق بنیں اور جب با اخلاق بنیں گے تو پھر باخدا بنیں گے.پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہوگی.پس بہت توجہ کی ضرورت ہے اس طرف اللہ تعالیٰ

Page 173

161 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخام ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم نے معاشرے کی برائیوں سے بچنے کی لئے ایک راستہ ہمیں بتایا کہ استغفار کرو اور پھر اس کے ساتھ نیک اعمال بھی کرو جو انسان کو خدا کے قریب کرتے ہیں.پس اپنی حالتوں کو بدلنے کے لئے استغفار کریں اور پھر نیک عمل کرنے کی طرف توجہ دیں بہت زیادہ کیونکہ نیک اعمال ہیں جو پھر تو بہ پر قائم رکھتے ہیں لیکن انسان ایک غلط کام کرتا ہے اور اس کے بعد تو بہ کرتا ہے لیکن کل کو پھر وہی کام کر کے پھر اسی حالت میں آجاتا ہے تو جب تو بہ کریں تو ساتھ یہ بھی عہد کریں کہ میں نے وہ کام دوبارہ نہیں کرنا تبھی آپ کی حالت بدلے گی اور پھر اللہ تعالیٰ کے آپ فضلوں کے وارث ٹھہریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں انہی کی طرف توجہ دیتا ہوں جو نیک اعمال بجالاتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں اور تو بہ کرتے ہوئے میری طرف رجوع کرتے ہیں.پس نیک اعمال کے بغیر حقیقی تو یہ نہیں ہو سکتی.اس بات کو ہمیشہ یادرکھیں.اور نیک اعمال نیک صحبت سے ہی ملنے کی توفیق ملتی ہے.اس لئے جو جماعتی پروگرام ہیں اجلاس ہیں.میٹنگز ہیں، ( بیت الذکر ) سے تعلق ہے، ( بیت الذکر ) میں آنا ہے نمازوں کے لئے اجتماعوں پر آنا ہے پھر MTA کے پروگرام سننے ہیں آج کل اللہ تعالیٰ نے یہ انعام بھی دیا ہوا ہے آپ کو تو ان چیزوں سے آپ کا رابطہ رہے گا.تو نیک اعمال کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی رہے گی.پھر جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اچھی فطرت والے جو ہیں ان کو دوست بنا ئیں نہ کہ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے والوں کو ، اوٹ پٹانگ فیشن کرنے والوں کو، عجیب وغریب حلیے رکھنے والوں کو.تو یہ باتیں ہیں جو حقیقی احمدی بنانے اور قرآن کریم کے حکموں پر عمل کرنے اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے میں مددگار ہوتی ہیں.ان مجلسوں کی ایک قسم جو آپ کے اخلاق پر اثر انداز ہوتی ہے، ایسی مجالس ہیں جہاں بظاہر بڑے سلجھے ہوئے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، لباس بھی اچھے ہیں، بڑے سو بر نظر آ رہے ہوتے ہیں بیٹھے ہوئے.وضع قطع بڑی اچھی ہوتی ہے.رکھ رکھاؤ.اگر بولیں نہ تو لگتا ہے بہت انتہائی شریف لوگ ہیں لیکن اپنی پرائیویٹ مجلسوں میں دوسروں پر ہنسی ٹھٹھا کر رہے ہوتے ہیں.مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں.یہ پلاننگ کر رہے ہوتے ہیں کہ کس کو کس طرح نیچے گرانا ہے.یا فلاں نے یہ بات کی تو میں نے ضرور اس کا جواب دینا ہے، فلاں جگہ جا کے پبلک جگہ پر.تو ان چیزوں سے آپ خدام کو بچنے کی کوشش کرنی چاہیے.اگر دیکھیں بھی دوسروں کو بڑوں کو چاہیئے وہ احمدی ہو تو آپ بچیں کہ میرا فرض یہ ہے کہ میں نے اپنے آپ کو اس سے

Page 174

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 162 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بچانا ہے.کیونکہ میں وہ بنا چاہتا ہوں جو حضرت مسیح موعود ہمیں بنانا چاہتے ہیں پس یا درکھیں کہ خدام نے اپنی اصلاح اگر کر لی جو اس وقت موجود خدام ہیں تو نئے شامل ہونے والے بھی اور اطفال بھی آپ کے نیک نمونوں پر چلیں گے.اگر نہیں تو پھر آئندہ لوگوں کو خراب کرنے میں جو قصور وار آپ لوگ بھی ہوں گے اس لئے اپنے اس مقصد کو سمجھتے ہوئے اس طرف بہت غور کریں تا کہ آئندہ آنے والی جو Leadership ہے جو آپ میں سے ابھرنی ہے اس کی ضمانت ہو کہ وہ نیک اور صالح عمل کرنے والے لوگوں کی Leadership ہے اور اس طرح پھر انشاء اللہ تعالیٰ آپ حضرت مسیح موعود کے کام میں مددگار ہو کر جماعت کی ترقی میں کارآمد ہوں گے مرد ہوں گے.معاون ہوں گے.پس ہمیشہ یہ دل میں رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آج تک اس عمر تک آپ کو حضرت مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہونے کی جو تو فیق عطا فرمائی ہے.تو شکرانے کے طور پر اپنے عہد بیعت کو بھی آپ نے نبھانا ہے اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کی عبادت اور توبہ کرتے ہوئے اس کی طرف جھکنا ہے اور عمل صالح جو انتہائی ضروری چیز ہے اس کو اختیار کرنا ہے اور اس پر قائم رہنا ہے ورنہ گو دل میں آپ حضرت مسیح موعود کی جماعت میں شامل سمجھ رہے ہوں اپنے آپ کو لیکن عملاً نہیں ہوں گے حضرت مسیح موعودؓ نے ہم سے بڑی تو قعات وابستہ کی ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ سواے میرے پیارے بھائیو.کوشش کرو تا متقی بن جاؤ.بغیر عمل کے سب باتیں بیچ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں.سوتقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بیچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھاؤ اور پر ہیز گاری کی باریک راہوں کی رعائت رکھو سب سے اول اپنے دلوں میں انکساری اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو.اپنے دلوں کوصاف کرو عاجزی ہونیکی ہو.اور سچ مچ دلوں کے حلیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ یہ صرف با تیں نہ ہوں بلکہ تمہارے دل اس بات کی گواہی دے رہے ہوں.اور دنیا بھی اس بات کا اظہار کر رہی ہو کہ تم نیک فطرت لوگ ہو ہر یک خیر اور شر کا پیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو زبان بھی شر سے خالی ہوگی اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء ہر یک نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہو جاتا ہے.سو اپنے دلوں کو ہر دم ٹولتے رہو.پھر آپ فرماتے ہیں کہ اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو اور جس طرح اور جس خیال یا عادت یا ملکے کو ردی پاؤ اسے کاٹ کر باہر پھینکو.ایسا نہ ہو کہ تمہارے

Page 175

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 163 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سارے دل کو نا پاک کر دیوے.اور پھر تم کاٹے جاؤ اس سے پہلے کہ تمہارا دل نا پاک ہو جائے عادتیں پکی ہو جائیں یہ نو جوانی کی عمر ہی ہے اس میں اپنے آپ کو صاف کر لوستھرا کر لو نیک بنالو اور ان اخلاق کو اختیار کرو جن کی حضرت مسیح موعود ہم سے توقع کرتے ہیں.قرآن کریم کے احکامات کی روشنی میں ورنہ آپ نے فرمایا کہ تم کاٹے جاؤ اگر اس دنیا میں نہیں تو پھر پتہ نہیں اللہ تعالیٰ نے بھی تو حساب لینا ہے.اس لئے نیکیوں کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کرو.پس یہ نصیحت جو ہے اس کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ دلوں کو ٹولنا ہے اپنے جائزے لینے ہیں.اس نیت سے لینے ہیں کہ ہم نے اپنے عہد کو پورا کرنا ہے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہی نشانی بتائی ہے کہ وہ نصیحت سننے کے بعد اسے بھول نہیں جاتے بلکہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.فرماتا ہے کہ وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِايَتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمَّا وَعُمْيَانًا اور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے رب کی آیات یاد کرائی جاتی ہیں.تو ان پر وہ بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں دیکھیں اللہ کی باتیں سنیں اور گونگے اور بہرے بن جائیں بلکہ یاد رکھتے ہیں اس لئے یادر کھتے ہیں کہ ان پرعمل کرسکیں.پس یہ باتیں جو یں بتارہا ہوں اس کو یہی نہ سمجھیں کہ اجتماع پر گئے تھے باتیں سنیں تقریریں سنیں ، تقریریں کیں، کھیل کود کی خلیفہ امسیح کے ہاتھوں انعام حاصل کرلیا.اور تقریرین لی بلکہ ترقی کرنے والی قو میں جو ہیں.اپنی اصلاح کرنے والی قو میں جو ہیں.ان نصائح پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہیں.ان راستوں پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں جو ان کو اونچالے جانے والی راہیں ہیں.نصائح پر عمل بھی کریں مجھے امید ہے کہ آپ لوگ ان نصیحتوں پر جو کی گئی ہیں اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گریں گے اور آئندہ بھی جو صیحتیں کی جاتی رہیں گی ان پر بھی اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گریں گے بلکہ سمجھ اور شعور کے ساتھ ان سب پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے.اور اپنے عملی نمونوں سے ( دین حق ) اور احمدیت کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں گے.دنیا کو بتائیں گے کہ حقیقی (دین حق) کیا ہے؟ اس علاقے میں ایشینز اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تعصب بہت زیادہ ہے.آئے دن کوئی نہ کوئی خبر آئی رہتی ہے صحیح ہے یا غلط ہے پس اس

Page 176

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 164 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے.لیکن ہمارے عملی نمونے صحیح ہوں گے.تو یہ تعصب خود بخو دز ائل ہو جائے گا،ختم ہو جائے گا.نوجوانوں کے ذریعے جو نمونے قائم ہوں گے وہ زیادہ پرکشش ہوتے ہیں.وہ زیادہ دوسروں کو Attract کر رہے ہوتے ہیں کہ جن کے نوجوان اس قسم کے نمونے دکھانے والے ہوں اس جماعت کی حالت کیا ہوگی تو آپ اپنے عملوں سے اس طرح پھر آنحضرت گا اسوہ پیش کر رہے ہوں گے.تو تمام شکوے جو ہیں ان لوگوں کے وہ آہستہ آہستہ دور ہو جائیں گے چند ایک نسل پرست جو ہیں یہاں وہ تو ہوتے ہی ہیں ہر جگہ ان کے علاوہ عمومی طور پر فضا کو امن اور محبت سے بھرنے میں آپ کا کردار سب سے زیادہ ہوگا.پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ عہد کو پورا کرتے ہوئے.بغیر تھکے ایک تسلسل کے ساتھ ایک توجہ کے ساتھ اپنی زندگیوں میں تبدیلیاں پیدا کریں.دعوت الی اللہ سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں پہلے سے بڑھ کر عبادت کی طرف توجہ دیں ان نیک اعمال کو بجالانے کی کوشش کریں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حکم فرمایا ہے اور پھر اس کے ذریعہ سے (دین حق ) کی خوبصورت تعلیم کو اس علاقے میں پھیلائیں.ان لوگوں میں بہت سارے ایسے ہیں جو لوگ آنحضرت اور ( دین حق ) کے خلاف باتیں لاعلمی کی وجہ سے کرتے ہیں.جب آپ کے عمل یہ ہوں گے تو وہ غلط فہمیاں بھی دور ہوں گی.ان کو علم بھی ہوگا.اور کئی جگہ ایسا تجربہ ہوا ہے کہ جب ان کو صحیح ( دین حق کی تعلیم دی گئی، ان کو بتایا گیا تو انہوں نے اعتراف کیا لوگوں نے کہ آج ہمیں (دین حق) کا صحیح پتہ لگا ہے.اس لئے نوجوان ہی ہیں جنہوں نے ان اعلیٰ اخلاق کو اپنانا ہے اور (دین حق کی صحیح تعلیم کو دنیا میں پھیلانا ہے.اپنے ماحول میں پھیلانا ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا اس بارے میں ایک تسلسل سے یہ کوشش کبھی نہ تھکنے کا خیال بھی دل میں لاتے ہوئے کرتے چلے جائیں آپ نے تو خدام الاحمدیہ میں بھی یہ عہد کیا ہے کہ جان ، مال ، وقت کی قربانی دیں گے.تو ان نمونوں کو پیش کرنے کے لئے پھر آپ کو قربانیاں بھی دینی پڑیں تو دینی ہوں گی.تبھی آپ عہد نبھانے والے ہوں گے اور انشاء اللہ پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کے عملی نمونے آپ کی قربانیاں آپ کو ( دعوت الی اللہ کے ) میدان میں بھی کامیاب کرتی ہیں.ایک خاموش ( دعوت الی اللہ ) بھی ہو رہی ہوگی.اور جب آپ عملی طور پر ( دعوت الی اللہ ) کریں گے تو تب بھی آپ کی ( دعوت الی اللہ ) میں مدگار بن رہے

Page 177

165 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ہوں گے آپ کے وہ عمل اور آپ کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوں گے.اور اس مقصد کو حاصل کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مقصد بیان فرمایا ہے.پس اس چیز کو ہمیشہ سامنے رکھیں اور حضرت مسیح موعودؓ کی اس امید پر پورا اترنے کی کوشش کریں جس میں آپ فرماتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ وہ لوگ جو حقیقی طور پر میری جماعت میں داخل ہیں.ان کے دل خدا تعالیٰ نے ایسے رکھے ہیں کہ وہ طبعا بدی سے متنفر اور نیکی سے پیار کرتے ہیں.اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کا بہت اچھا نمونہ لوگوں کے لئے ظاہر کریں گے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.

Page 178

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 166 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرموده 16 / مارچ 2007ء سے اقتباس اس دنیا میں بھی جزا سزا کا عمل جاری ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے.وہ مالک گل ہے ، تمام کائنات اس کے اشارے پر چل رہی ہے.وہ اس دنیا میں بھی تمہارا مالک ہے اور مرنے کے بعد بھی.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے حکموں پر عمل کرو تا کہ اس دنیا میں بھی میری خوشنودی حاصل کر سکو اور اگلے جہان میں بھی جب تمہارے متعلق آخری جزا سزا کا فیصلہ ہوگا، میری رضا کے حصول کے لئے کئے گئے اعمال کی وجہ سے میری جنتوں کے وارث ٹھہر سکو.پس یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ جیسا کہ اکثر اللہ تعالیٰ کی ہستی کو نہ ماننے والے سمجھتے ہیں کہ اگلے جہان میں تو پتہ نہیں کیا ہونا ہے یا کچھ ہونا بھی ہے کہ نہیں، سوال جواب بھی ہونے ہیں کہ نہیں، جزا سزا بھی ملنی ہے کہ نہیں، کچھ ہے بھی کہ نہیں ، اس لئے دنیا میں جو دل چاہتا ہے کئے جاؤ.اگر یہ لوگ غور کریں تو دیکھیں گے کہ اس دنیا میں بھی ہزاروں آفات ایسی ہیں جن سے ہر روز لوگ گزرتے ہیں اور اس دنیا میں بھی اس کی وجہ سے جزا سزا حاصل کرتے ہیں.یہی نہیں، یہ چیزیں یہ بتاتی ہیں کہ جب اس دنیا میں جزا سزا ہے تو برائیوں میں یا ان اعمال کے کرنے کی وجہ سے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور ان پر اصرار کرنے کی وجہ سے اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ عذاب دے سکتا ہے اور وہ اس کے سزا وار ٹھہر سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ملِكِ يَوْمِ الدِّين (الفاتحہ: 4) خدا مالک ہے جزا سزا کے دن کا، ایک رنگ میں اسی دنیا میں بھی جزا سزا ملتی ہے.ہم روز مرہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ چور چوری کرتا ہے.ایک روز نہ پکڑا جاوے گا، دوروز نہ پکڑا جاوے گا، آخر ایک روز پکڑا جائے گا اور زندان میں جائے گا.یعنی قید میں ڈالا جائے گا اور اپنے کئے

Page 179

167 ارشادات حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم کی سزا بھگتے گا.یہی حال زانی ،شراب خور اور طرح طرح کے فسق و فجور میں بے قید زندگی بسر کرنے والوں کا ہے کہ ایک خاص وقت تک خدا کی شان ستاری ان کی پردہ پوشی کرتی ہے.آخر وہ طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور دکھوں میں مبتلا ہو کر ان کی زندگی تلخ ہو جاتی ہے اور یہ اس اُخروی دوزخ کی سزا کا نمونہ ہے.اسی طرح سے جو لوگ سرگرمی سے نیکی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اور فرمانبرداری ان کی زندگی کا اعلیٰ فرض ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ ان کی نیکی کو بھی ضائع نہیں کرتا اور مقررہ وقت پر ان کی نیکی بھی پھل لاتی اور بار آور ہوکر دنیا میں ہی ان کے واسطے ایک نمونے کے طور پر مثالی جنت حاصل کر دیتی ہے.غرض جتنے بھی بدیوں کا ارتکاب کرنے والے فاسق فاجر ، شراب خور اور زانی ہیں ان کو خدا کا اور روز جزا کا خیال آنا تو در کنار ، اسی دنیا میں ہی اپنی صحت ، تندرستی، عافیت اور اعلی قومی کھو بیٹھتے ہیں اور پھر بڑی حسرت اور مایوسی سے ان کو زندگی کے دن پورے کرنے پڑتے ہیں.سل ، دق ، سکتہ اور رعشہ اور اور خطرناک امراض ان کے شامل حال ہوکر مرنے سے پہلے ہی مر رہتے اور آخر کا ر بے وقت اور قبل از وقت موت کا لقمہ بن جاتے ہیں“.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 641-642 جدید ایڈیشن) شراب کے نقصانات اس زمانے میں دیکھیں کتنے ہیں جو ان غلطیوں اور گناہوں کی وجہ سے سزا بھگت رہے ہوتے ہیں.بعض تو ان میں سے ایسے ہوتے ہیں، کوئی نہ کوئی ان میں نیکی کی رگ ہوتی ہے، جن کو خیال آ جاتا ہے، اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور اس دنیا کی سزا کے نمونے سے ہی عبرت حاصل کرتے ہیں اور تو بہ کرتے ہیں تو اخروی سزا سے بچ جاتے ہیں.لیکن جو لوگ برائیوں پر اصرار کرنے والے ہیں انہیں ان برائیوں کا اصرار لے ڈوبتا ہے.اپنی دنیا بھی خراب کرتے ہیں اور آخرت بھی خراب کرتے ہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا شرابی ہیں، شراب کی وجہ سے اپنی طاقتیں ضائع کر دیتے ہیں، دماغی صلاحیتیں کھو دیتے ہیں.یہ شراب پینے والے جب شراب پی رہے ہوتے ہیں ان کے دماغ کے ہزاروں لاکھوں خلیے اور سیل (Cell) ہیں جو ساتھ ساتھ ضائع ہو رہے ہوتے ہیں اور یہ سب اس لئے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑنے والے ہیں.ایڈز پھر اس زمانے میں جو ایڈز (Aids) کی بیماری ہے، یہ بھی بہت بڑی تباہی پھیلا رہی ہے.جب انسان

Page 180

168 مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اپنی پیدائش کے اصل مقصد کو بھول کر جانوروں کی طرح صرف نفسانی خواہشات کا غلام ہو جائے تو پھر وہ جو مالک ہے جس نے انسان کے اور حیوان کے درمیان فرق کے لئے حدود قائم کی ہوئی ہیں وہ اپنی صفت مالکیت کے تحت اس دنیا میں بھی سزا دے دیتا ہے اور آخرت میں ان حدود کو توڑنے کی وجہ سے کیا سلوک ہونا ہے وہ بہتر جانتا ہے.پس انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اس کو یہ سوچنا چاہئے کہ اپنے پیدا کرنے والے کے قانون پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے وہ کس قدر تباہی کی طرف جا رہا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے یہاں تو آتا ہی ہے آئندہ جہان میں بھی آسکتا ہے.اس لئے صرف یہ سوچ کر کہ اگلا جہان پتہ نہیں ہے بھی کہ نہیں اور اس میں کوئی سزا ملنی بھی ہے کہ نہیں ، غلاظتوں اور گناہوں میں پڑ جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو پھر غلط کاریوں اور گناہوں کی وجہ سے اس دنیا میں بھی سزا ملتی ہے.لیکن اگر احساس ہو کہ سزا ہے تو پھر آدمی اصلاح کی کوشش بھی کرتا ہے.بعض لوگوں کی تو یہ حس ہی ختم ہو جاتی ہے.جانور پن پوری طرح حاوی ہو جاتا ہے اور باوجود اس سزا سے گزرنے کے یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ ہم کن غلاظتوں میں پڑے ہوئے ہیں.پس ہر عقلمند انسان کو اپنے ماحول کے نمونوں کو دیکھ کر عبرت پکڑنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جو جزا سزا کے دن کا مالک ہے انسان کی غلطیوں کی وجہ سے بعض کو اس دنیا میں بھی سزا کے جو نمونے دکھاتا ہے تو یہ بات ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والی اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے.بظاہر چھوٹی چھوٹی برائیوں سے بھی بچیں ان ملکوں میں بعض برائیاں ایسی ہیں جن سے بچنے کے لئے خاص طور پر نو جوانوں کو بہت کوشش کرنی چاہئے.شروع شروع میں بعض چھوٹی چھوٹی برائیاں ہوتی ہیں پھر بڑی برائیوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور پھر اگر ان حرکتوں کے بدنتائج اس دنیا میں بھی ظاہر ہو جائیں تو یہ جہاں ایسے لوگوں کے لئے سزا ہے وہاں ان کے ماں باپ عزیزوں رشتہ داروں خاندان کو بھی معاشرے میں شرمسار کرنے والے ہوتے ہیں.ان کو بھی معاشرے کی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے.پس ان چیزوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں قائم کرتے ہوئے ، اس بات کا احساس کرتے ہوئے کہ وہ گناہوں سے بچانے والا بھی ہے اور گنا ہوں کو معاف

Page 181

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 169 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کرنے والا بھی ہے، نیکیوں کی توفیق دینے والا بھی ہے اور نیکیوں کا بہترین اجر دینے والا بھی ہے،اس کے سامنے جھکے رہنا چاہئے ، اس سے مدد مانگنی چاہئے.ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلهُ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُصْرَفُوْنَ (الزمر: 7) یہ ہے اللہ تمہارا رب اسی کی بادشا ہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں.پس تم کہاں الٹے پھرائے جاتے ہو.توجہ کرو اپنے خدا کی طرف کہ اُسی کی طرف جانا ہے.پس اپنے پیدائش کے مقصد کو سمجھ کر اس کے بتائے ہوئے احکامات کی نافرمانی نہ کرو.ہر ایک عقلمند انسان کو پتہ ہونا چاہئے کہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے.الفضل انٹر نیشنل 6 تا 12 اپریل 2007 ء )

Page 182

مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم 170 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مارچ 2007ء سے اقتباسات...حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں، کیا یورپ اور کیا ایشیا ، ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں.توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کیلئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے“.( الوصیۃ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306-307 مطبوعہ لندن) اب خدا تعالیٰ کی منشا کیا ہے پس یہ خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ اب دنیا میں اپنے اس پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم کرے.گو آجکل دنیا کے حالات دیکھتے ہوئے یہ بات بظاہر بڑی مشکل نظر آتی ہے لیکن اگر غور کریں تو وہ شخص جو قادیان ( جو پنجاب کی ایک چھوٹی سی بستی ہے ) میں اکیلا تھا.اس مسیح و مہدی کی زندگی میں ہی لاکھوں ماننے والے اس کو اللہ تعالیٰ نے دکھا دیئے.بلکہ یورپ و امریکہ تک آپ کے نام اور دعوے کی شہرت ہوئی اور آپ کو ماننے والے پیدا ہوئے.ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دن جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر چڑھتا ہے وہ ہمیں ترقی کی نئی راہیں دکھاتا ہوا چڑھتا ہے.آج 185 ممالک میں آپ کی جماعت کا قیام اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آپ ہی وہ مسیح و مہدی ہیں جس نے اس زمانے میں تمام دنیا کو دین واحد پر جمع کرنا تھا.دنیا کے تمام براعظموں کے اکثر ملکوں میں اللہ تعالیٰ کے منشاء کی عملی صورت ہمیں بیعتوں کی شکل میں نظر آ رہی ہے.آج بھی اگر کوئی ( دین حق ) کا دفاع کر رہا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے فیضیاب ہو کر آپ کو ماننے والا ہی کر رہا ہے.آج عرب دنیا بھی اس بات کی گواہ ہے کہ عیسائیت کے ہاتھوں گزشتہ چند سالوں سے عرب مسلمان

Page 183

171 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم کس قدر زچ ہو رہے تھے ، کتنے تنگ تھے.اللہ کے اس پہلوان کے تربیت یافتوں نے ہی عرب دنیا میں عیسائیت کا ناطقہ بند کیا.کیونکہ آج اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت سے وہ دلائل قاطعہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی دیئے گئے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کیا جاسکتا ہے اور دنیا کے غلط عقائد کا منہ بند کیا جاسکتا ہے.آج اتنی آسانی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برہان کی روشنی سے عقائد باطلہ کا جورڈ کیا جارہا ہے، مختلف وسائل استعمال ہوتے ہیں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس الہام کی صورت میں فرمایا تھا کہ ”میں تیری کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.یہ پیغام جو اتنی آسانی سے ہم دنیا کے کناروں تک پہنچا رہے ہیں یہ بھی اس بات کی دلیل اور تائید ہے.ایک چھوٹی سی غریب جماعت جس کے پاس نہ تیل کی دولت ہے نہ دوسرے دنیاوی وسائل ہیں اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آج کل کی اس دنیا کے ماڈرن ذرائع اور وسائل استعمال کر کے ( دعوت الی اللہ ) کی جاسکتی ہے.جیسا کہ میں نے کہا یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیل ہے.آج ہم اللہ تعالیٰ کے آپ سے کئے گئے وعدوں کو نئے سے نئے رنگ میں پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں.آج اللہ تعالیٰ کے اس الہام کو ایک اور شان کے ساتھ بھی پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.ایم ٹی اے العربیہ کا آغاز اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو آج ایک نئے سیٹلائٹ کے ذریعہ سے جو عرب دنیا کیلئے خاص ہے ایک نئے چینل 3 mta العَرَبِيَّة جاری کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے جو 24 گھنٹے عربی پروگرام پیش کرے گا تا کہ عرب دنیا کی پیاسی روحیں ، نیک فطرت اور سعید روحیں اُن خزائن سے فیضیاب ہوسکیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقسیم فرمائے تھے.اس چینل کی وجہ سے مخالفت بھی شروع ہے.وہاں عرب میں بھی جماعت کے مخالفین ہیں.اس کمپنی کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں جس سے سیٹلائٹ کا یہ معاہدہ ہوا ہے.لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: خدا چاہتا ہے کہ اب یہ پیغام پہنچے ، اس لئے اب یہ خدا کے منشاء کے مطابق پہنچے گا اور کوئی اس کو روکنے والا نہیں.انشاء اللہ.دعا بھی کریں اللہ تعالیٰ ان مدد کرنے والوں کو بھی ہر شر سے محفوظ رکھے، جو اس پیغام کو پہنچانے میں مدد کر رہے ہیں اور انہیں اپنے معاہدوں پر قائم رہنے کی بھی توفیق دے.اور سعید روحوں کو اس روحانی مائدہ

Page 184

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 172 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالی سے فیض پانے کی بھی توفیق دے.ہمیں اس بارے میں تو ذرا بھی شک نہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت انشاء اللہ تعالیٰ اس پیغام کو قبول کرے گی.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ ہے.ایک الہام ہے." إِنِّي مَعَكَ يَا ابْنَ رَسُوْلِ الله - سب مسلمانوں کو جوڑ دئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلَى دِيْنٍ وَاحِدِ“.( تذکرۃ صفحہ 490.ایڈیشن چہارم 2004 ء مطبوعہ ربوہ + ملفوظات جلد 8 صفحہ 266 مطبوعہ لندن نومبر 1984ء) | جو پہلا حصہ ہے اس کا عربی ترجمہ ہے، میں تیرے ساتھ ہوں اے رسول اللہ کے بیٹے.اس کے متعلق آپ فرماتے ہیں:.دو یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو.عَلی دِيْنِ وَاحِدٍ.یہ ایک خاص قسم کا امر ہے.فرمایا کہ احکام اور امر دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نماز پڑھو، زکوۃ دو، خون نہ کرو.وغیرہ اس قسم کے اوامر میں ایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض ایسے بھی ہوں گے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے.غرض یہ امر شرعی ہے.دوسرا امر گونی ہوتا ہے اور یہ احکام اور امر قضاء وقدر کے رنگ میں ہوتے ہیں جیسے قُلْنَا يَنَارُ كُوْنِی بَرْدًا وَّسَلَمًا اور وہ پورے طور پر وقوع میں آ گیا.( جب آگ کو ٹھنڈے ہونے کا حکم ملا تو وہ ٹھنڈی ہوگئی ) اور یہ امر جو میرے اس الہام میں ہے یہ بھی اسی قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانان روئے زمین عَلَى دِيْنِ وَاحِدٍ جمع ہوں اور وہ ہو کر رہیں گے.ہاں اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں کوئی کسی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے.اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایسا ہوگا جو قابل ذکر اور قابل لحاظ نہیں“.( الحکم جلد 9 نمبر 42 مورخہ 30 نومبر 1905 ء صفحہ 2 - ملفوظات جلد 8 صفحہ 266-267 مطبوعہ لندن نومبر (1984 اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جلد اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے دین واحد پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنی زندگیوں میں یہ نظارے دیکھیں.عرب قوم کو دعوت حق...پس اے سرزمین عرب کے باسیو! آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نمائندے کی حیثیت سے خدائے رب العالمین کے نام پر تم سے درخواست کرتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم

Page 185

173 مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کے اس روحانی فرزند کی آواز پر لبیک کہو جس کی تعلیم اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کی چند باتیں یا مثالیں میں نے پیش کی ہیں اگر اس مسیح و مہدی کے کلام میں ڈوب کر دیکھو تو خدائے واحد و یگانہ سے تعلق اور پیار اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور آپ کیلئے غیرت کے جذبات کے علاوہ اس میں اور کچھ نظر نہیں آئے گا.صاف دل ہو کر اگر دیکھو گے تو جماعت احمدیہ کی 100 سال سے زائد کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جماعت کی زندگی کا ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھتارہا ہے.آج اس سیٹیلائٹ کے ذریعہ سے آپ تک وسیع پیمانے پر یہ پیغام پہنچنا بھی اس تائید و نصرت کی ایک کڑی ہے.اللہ تعالیٰ نے آج یہ انتظام فرما دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کو ماننے والی ایک چھوٹی سی غریب جماعت، پیسہ پیسہ جوڑ کر ، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس زمانے کے امام کا پیغام تمہیں سیٹلائٹ کے ذریعہ سے پہنچانے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.پس بدظنی سے بچتے ہوئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس جری اللہ کی تائید و نصرت کیلئے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کھڑے ہو جاؤ اور مخالفت پر کمر بستہ ہونے کی بجائے اس مسیح و مہدی کی آواز پر کان دھرو جسے خدا تعالیٰ نے (دین حق) کی نشاۃ ثانیہ کیلئے اپنے وعدے کے مطابق جو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا مبعوث فرمایا ہے.پس آؤ اور اس مسیح و مہدی کے منکرین میں شامل ہونے کی بجائے اس کے دست راست بن جاؤ کہ آج اُمت مسلمہ بلکہ تمام دنیا کی نجات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کا ہاتھ بٹانے میں ہی ہے.اے عرب کے رہنے والو!ادلوں میں خوف خدا پیدا کرتے ہوئے ،خدا کیلئے اس درد بھری آواز پر کان دھرو اور اس درد کو محسوس کرو جس کے ساتھ یہ مسیح و مہدی تمہیں پکار رہا ہے.آؤ اور اس کے سلطان نصیر بن جاؤ.یاد رکھو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اُس سے وعدہ ہے کہ اُسے دنیا پر غالب کرے گا.تم نہیں تو تمہاری نسلیں اس برکت سے فیض پائیں گی اور پھر وہ یقینا اس بات پر تأسف اور افسوس کریں گی کہ کاش ہمارے بزرگ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو سمجھتے ہوئے اس عاشق رسول اللہ ا اور مسیح و مہدی کے معین و مددگار بن جاتے اور اس کی جماعت میں شامل ہو جاتے.اللہ کرے کہ تم لوگ آج اس حقیقت کو سمجھ لو.اللہ تعالیٰ ہماری یہ عاجزانہ دعائیں قبول فرمائے.الفضل ان نیشنل 13 تا 19 اپریل 2007ء)

Page 186

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 174 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 06 را پریل 2007ء سے اقتباس امام اپنی رعیت کا نگران ہے.....آج میں بعض احادیث کا صفت مالکیت کے لحاظ سے ذکر کروں گا.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے.امام نگران ہے اور وہ اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے.آدمی اپنے گھر والوں پر نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا.عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا.خادم اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا.( بخاری کتاب الاستقراض واداء الد یوان.باب العبد راع في مال سیدہ ولا يعمل الا باذنه ) اس حدیث میں چار لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے.ایک امام کو کہ وہ اپنی رعیت کا خیال رکھے.ایک گھر کے سر براہ کو کہ وہ اپنے بیوی بچوں یا اگر اپنے خاندان کا سر براہ ہے تو اس کا خیال رکھے.ایک عورت جو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے ان کا خیال رکھے.ایک خادم جو اپنے مالک کے مال کا نگران ہے.پھر آخر میں فرمایا کہ یہ سب لوگ جن کے سپرد یہ ذمہ داری کی گئی ہے، یہ سب یا درکھیں کہ جو مالک گل ہے، جو زمین و آسمان کا مالک ہے جس نے یہ ذمہ داریاں تمہارے سپرد کی ہیں وہ تم سے ان ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھے گا کہ صیح طرح ادا کی گئی ہیں یا نہیں کی گئیں.جس دن وہ مالک یوم الدین جزا اور سزا کے فیصلے کرے گا اس دن یہ سب لوگ جوابدہ ہوں گے.اس لئے کوئی معمولی بات نہیں ہے.دل دہل جاتا ہے ہر اس شخص کا جو جزا سزا پر یقین رکھتا ہے.پس سب سے پہلے فرمایا کہ امام پوچھا جائے گا اور یہ چیز تو ایسی ہے جس سے میرے تو رونگٹے کھڑے ہو

Page 187

175 ارشادات حضرت خلیہ مسیح الامس ایدہ اللہ علی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داری سپرد کی ہے اس کی ادائیگی میں سستی نہ ہو جائے اور یہ ذمہ داری ایسی ہے کہ جو نہ کسی ہوشیاری سے ادا ہو سکتی ہے ، نہ صرف علم سے ادا ہوسکتی ہے ، نہ صرف عقل سے ادا ہوسکتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو ایک قدم بھی نہیں چلا جا سکتا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دعاؤں کے ذریعہ ہی جذب کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے.دعاؤں سے خلیفہ المسیح کی مددکریں پس سب سے پہلے تو میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ دعاؤں کے ذریعہ سے میری مدد کریں اور میں ہر وقت آپ کے لئے دعا گور ہوں کیونکہ جماعت اور خلافت لازم وملزوم ہیں.اللہ تعالیٰ مجھے اپنی ذمہ داریاں اُس طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس طرح وہ چاہتا ہے.جب سب مل کر خلافت احمد یہ اور خلیفہ وقت کے لئے دعا کر رہے ہوں گے تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کو کھینچنے والی ہوگی کیونکہ امام اور جماعت کی دعائیں ایک سمت میں چل رہی ہوں گی، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اللہ تعالیٰ سے مانگ رہی ہوں گی.تو جب ایک سمت میں چل رہی ہوں گی تو دعائیں کرنے والوں کی سمتیں بھی ایک طرف چلتی رہیں گی.ان کو بھی یہ خیال رہے گا کہ جب ہم دعا کر رہے ہیں تو ہمارے عمل بھی ایسے ہونے چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوں، اس سمت میں جا رہے ہوں جہاں خلیفہ وقت اور اللہ اور رسول کے حکموں کے مطابق ہمیں جانا چاہئے یا خلیفہ وقت اللہ اور رسول کے حکموں کے مطابق ہمیں لے جانا چاہتا ہے.اگر اس احساس کے ساتھ دعا کر رہے ہوں گے تو اپنی اصلاح کی بھی ساتھ ساتھ تو فیق ملتی رہے گی اور امام کے لئے نگرانی کا کام بھی آسان ہورہا ہوگا.پس اس نکتہ کو ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے کہ جہاں امام کی ذمہ داری ہے کہ انصاف قائم کرے اور اللہ اور رسول کے حکموں کے مطابق جماعت کی تربیت کی طرف توجہ دے، ان کی تکلیفوں کو دور کرنے کی کوشش کرے، ان کے لئے دعائیں کرے وہاں افراد جماعت کو بھی اس احساس کو اپنے اندر قائم کرنا ہوگا کہ اگر ہمیں خلافت سے محبت ہے تو ہم بھی اپنی حالتوں کو دیکھیں اور ان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی زندگی کو اس نہج پر چلانے کی کوشش کریں جس پر خدا اور رسول کے حکموں کے مطابق ہماری زندگی چلنی چاہئے یا جس طرف ہمیں خلیفہ وقت چلانا چاہتا ہے.

Page 188

176 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم دیکھیں جب ماں باپ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیتے ہیں تو بعض اوقات بچوں میں یہ احساس بھی پیدا کرتے ہیں اور ان کے اس احساس کو بیدار کرتے ہیں کہ تم ہماری عزت اور ہمارے خاندان کی عزت کی خاطر یہ یہ بُری باتیں چھوڑ دو اور نیک عمل کرو.ایسی باتیں نہ کرو جس سے دوسروں کے سامنے ہماری سبکی ہو.نگران کا ان کے ان جذبات کو ابھارنا بھی ان کی اصلاح کا ایک حصہ ہے، ایک کام ہے.پس ہر فرد جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی طرف منسوب ہوتا ہے یہ بات یاد رکھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہو کر آپ کو بدنام نہیں کرنا.اس بات کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود بھی اظہار فرمایا ہے.مفہوم یہی ہے جو میں نے بیان کیا، الفاظ ذرا مختلف ہیں.عہد یداران بھی امام کے نمائندہ ہیں اسی طرح امام کی نگرانی کے ضمن میں یہ بات بھی کرتا چلوں کہ آجکل یا یوں کہنا چاہئے جماعت میں امام یا خلیفہ وقت کی نمائندگی میں جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں، عہد یداران متعین ہیں ، ان کا بھی فرض ہے کہ حقیقی رنگ میں انصاف کو قائم رکھتے ہوئے اگر کبھی کسی موقع پر اپنے پر یا اپنے عزیزوں پر بھی زد پڑتی ہو تو اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس نمائندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں جو آپ کے سپرد کی گئی ہے تا کہ اس نگرانی میں خلیفہ وقت کی بھی احسن رنگ میں مدد کر سکیں ، تا کہ جزا سزا کے دن اس کو سرخرو کر وانے والے بھی ہوں.ہر عہد یدار کے عمل جہاں براہ راست اس کو جوابدہ بناتے ہیں اور ہر عہد یدار اپنے دائرے میں جہاں نگران ہے وہ ضرور پوچھا جائے گا.یادرکھیں کہ خلیفہ وقت کی نمائندگی میں آپ اس لحاظ سے بھی ذمہ دار ہیں ، اس لئے کبھی یہ نہ سوچیں کہ کسی معاملے میں خلیفہ وقت کو اندھیرے میں رکھا جا سکتا ہے.ٹھیک ہے، رکھ سکتے ہیں آپ لیکن خدا تعالیٰ جو جزا سزا کے دن کا مالک ہے، اس کو اندھیرے میں نہیں رکھا جاسکتا.پس ہر عہدیدار کی دوہری ذمہ داری ہے، اس کو ہر وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہئے اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا دعا ہی ہے جوسید ھے راستے پر چلانے والی ہے اور چلا سکتی ہے کہ اپنے ذمہ داری کو دعاؤں کے ساتھ نبھانے کی کوشش کریں.جہاں تک میری ذات کا سوال ہے.میں جہاں اپنے لئے دعا کرتا ہوں، عہد یداروں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ انصاف پر قائم رکھتے ہوئے سیدھے راستے پر چلائے.کبھی ان سے کوئی

Page 189

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 177 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ایسا عمل سرزد نہ ہو جس کا اثر پھر آخر کار یا نتیجتا مجھ پر بھی پڑے.دیانتدار عہدیداران کا انتخاب کریں یہاں جماعت کو بھی یہ توجہ دلا دوں کہ آپ لوگ بھی اپنی ذمہ داری کا صحیح حق ادا نہیں کر رہے ہوں گے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ خادم مالک کے مال کا نگران ہے، اگر آپ اس ذمہ داری کا حق ادا کرتے ہوئے اُسے ادا نہیں کر رہے جو خلیفہ وقت نے آپ کے سپرد کی ہے.اس کی صحیح ادائیگی نہ کر کے آپ بھی اس مال کی نگرانی نہ کرنے کے مرتکب ہورہے ہوں گے.جب خلیفہ وقت نے آپ سے مشورہ مانگا ہے تو اگر آپ صحیح مشورہ نہیں دیتے تو خیانت کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں.اگر انصاف سے کام لیتے ہوئے ان لوگوں کو منتخب نہیں کرتے جو اس کام کے اہل ہیں جس کے لئے منتخب کیا جارہا ہے، اگر ذاتی تعلق، رشتہ داریاں اور برادریاں آڑے آ رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بھی نافرمانی کر رہے ہیں کہ تؤدوا الامانات الى اهلها یعنی تم امانتیں ان کے مستحقوں کے سپر د کر وجو ہمیشہ عدل پر قائم رہنے والے ہوں.اور اس اصول پر چلنے والے ہوں کہ جب بھی فیصلہ کرنا ہے تو اس ارشاد کو بھی پیش نظر رکھنا ہے کہ تَحْكُمُوا بِالْعَدْل کہ انصاف سے فیصلہ کرو.جو ذ مہ داریاں سپرد کی گئی ہیں ان کو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا کرو.اگر نہیں تو یہ نہ سمجھو کہ یہاں داؤ چل گیا تو آگے بھی اسی طرح چل جائے گا.اللہ کا رسول کہتا ہے کہ جزا سزا کے دن تم پوچھے جاؤ گے.پس جماعت کا بھی کام ہے کہ ایسے عہدیداروں کو منتخب کریں جو اس کے اہل ہوں اور ذاتی رشتوں اور تعلقات اور برادریوں کے چکر میں نہ پڑیں.اور اسی طرح خلیفہ وقت کی نمائندگی میں عہد یداروں کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے اور ان افراد جماعت کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے (جیسا کہ میں نے پہلے کہا ) جن پر اعتماد کرتے ہوئے بہترین عہدیدار منتخب کرنے کا کام سپرد کیا گیا ہے اور مالک کے مال کی نگرانی یہی ہے جو ہر فر د جماعت نے ، جس کو رائے دینے کا حق دیا گیا ہے کرنی ہے.یہ سال جماعتی انتخابات کا سال ہے.بعض جگہوں سے بعض شکایات آتی ہیں، ہر جگہ سے تو نہیں ، اس لئے میں اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ایسی جگہیں جہاں بھی ہیں ، جو بھی ہیں اور جہاں یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے ان کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں.جیسا کہ میں نے کہا کہ ہر کام دعا سے کریں اور دعائیں کرتے ہوئے

Page 190

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 178 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اپنے عہدیدار منتخب کریں اور ہمیشہ دعاؤں سے آئندہ بھی اپنے عہدیداروں کی مدد کریں اور میری بھی مدد کریں.اللہ مجھے بھی آپ کے لئے دعائیں کرنے کی توفیق دیتا رہے اور جو کام میرے سپرد ہے اس کو ادا کرنے کی احسن رنگ میں توفیق دیتار ہے.گھر کے سربراہ کی ذمہ داری دوسری اہم بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ گھر کے سربراہ کی ہے.گھر کا سر براہ ہو یا بعض اوقات ( جیسا کہ میں نے کہا ) بعض خاندانوں نے بھی اپنے سر براہ بنائے ہوئے ہوتے ہیں ان کو بھی یا درکھنا چاہئے کہ اپنے بچوں یا خاندان کی تربیت کی ذمہ داری ان کی ہے.ان کے اپنے عمل نیک ہونے چاہئیں.ان کی اپنی ترجیحات ایسی ہونی چاہئیں جو دین سے مطابقت رکھتی ہوں، نظام جماعت اور نظام خلافت سے گہری وابستگی ہو.اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پابندی کی طرف پوری توجہ اور کوشش ہو بھی صحیح رنگ میں اپنے زیر اثر کی بھی تربیت کر سکیں گے.خود نمازوں کی طرف توجہ ہوگی تو بیوی بچوں کو نمازوں کی طرف توجہ دلا سکیں گے.خود نظام جماعت کا احترام ہوگا تو اپنے بیوی بچوں کو اور خاندان کو نظام جماعت کا احترام سکھا سکیں گے.خود خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہنے والے اور اس کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں گے تو اپنے بیوی بچوں اور اپنے زیرنگیں کو اس طرف توجہ دلا سکیں گے.پس خاندان کے سربراہ کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے ، ورنہ یا درکھیں کہ جزا سزا کا دن سامنے کھڑا ہوا ہے.بیوی کی ذمہ داری پھر بیوی کو توجہ دلائی کہ خاوند کے گھر کی ، اس کی عزت کی ، اس کے مال کی اور اس کی اولاد کی صحیح نگرانی کرے.اس کا رہن سہن ، رکھ رکھاؤ ایسا ہو کہ کسی کو اس کی طرف انگلی اٹھانے کی جرات نہ ہو.خاوند کا مال صحیح خرچ ہو.بعضوں کو عادت ہوتی ہے بلا وجہ مال لوٹاتی رہتی ہیں یا اپنے فیشنوں یا غیر ضروری اشیاء پر خرچ کرتی ہیں ان سے پر ہیز کریں.بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں ہو کہ انہیں جماعت سے وابستگی اور خلافت سے وابستگی کا احساس ہو.اپنی ذمہ داری کا احساس ہو.پڑھائی کا احساس ہو.اعلیٰ اخلاق کے اظہار کا احساس ہو تا کہ خاوند کبھی یہ شکوہ نہ کرے کہ میری بیوی میری غیر حاضری میں ( کیونکہ خاوندا کثر اوقات اپنے کاموں کے سلسلہ میں گھروں سے باہر رہتے ہیں ) اپنی ذمہ داریاں صحیح ادا نہیں کر رہی.اور پھر یہی نہیں، اللہ تعالیٰ کے

Page 191

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 179 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خاوند کا شکوہ یا زیادہ سے زیادہ اگر سزا بھی دے گا تو یہ تو معمولی بات ہے.یہ تو سب یہاں دنیا میں ہو جائیں گی لیکن یا درکھو تم جزا سزا کے دن بھی پوچھی جاؤ گی.اور پھر اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا سلوک ہونا ہے.اللہ ہر ایک پر رحم فرمائے.اپنے پیشہ سے انصاف کریں اور پھر فرمایا ما لک کے مال کی نگرانی کے بارے میں بھی ہر شخص پوچھا جائے گا.اس کی کچھ مثال تو میں نے پہلے دے دی ہے، ایک تو ظاہری طور پر جو کسی کی ذمہ داریاں ہیں اگر وہ ادا نہیں کر رہا تو مال کی نگرانی نہیں کر رہا.ہر پیشہ کا آدمی اگر اپنے پیشہ سے انصاف نہیں کر رہا تو اس کے سپر دحکومت کی طرف سے یا جماعت کی طرف سے یا معاشرے کی طرف سے جو ذمہ داری کی گئی ہے اس نے اس کی ادائیگی نہیں کی اور وہ جہاں دنیاوی قانون اور قواعد کے لحاظ سے اس دنیا میں محکمانہ طور پر اس کا جوابدہ ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی جوابدہ ہے.یا پھر روحانی نظام میں، جماعت کے نظام میں عہدیداران اور بڑے پیمانے پر امام تک بات پہنچتی ہے کہ جماعت کے افراد جو اللہ کا مال ہیں ان کی تربیت کی طرف توجہ نہ دے کر صحیح طرح نگرانی نہیں کی اگر دنیاوی حکومتیں بھی یہ سمجھیں، دنیا کی نظر سے اگر دیکھیں تو ان کو بھی یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جس مال کا بہترین مصرف بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رعایا کو، ملک کی آبادی کو تمہارے سپرد کیا تھا، ان کی ذمہ داریاں نہ نبھا کر، ان کے حقوق ادا نہ کر کے، ان کے تعلیمی اور دوسرے ترقیاتی مسائل پر توجہ نہ دے کر جو مالک کل ہے اس کی طرف سے ودیعت کردہ ذمہ داری کا حق ادا نہیں کیا.اس لحاظ سے وہ بھی جوابدہ ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے احساس ذمہ داری کے ساتھ دعاؤں کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ سب کو ، ہر ایک کو اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے...الفضل انٹر نیشنل 27 را پریل تا 03 مئی 2007ء )

Page 192

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 180 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اپریل 2007ء سے اقتباس نماز با جماعت میں صنفیں سیدھی رکھیں نماز باجماعت کے ضمن میں ہی ایک اہم بات یہ ہے کہ ( بیت الذکر) میں آ کے ہم نماز پڑھتے ہیں تو ( بیت الذکر ) کے کچھ آداب ہیں جسے ہر (بیت الذکر ) میں آنے والے کو یاد رکھنا چاہیئے.نماز باجماعت جب کھڑی ہوتی ہے تو آداب میں سے ایک بنیادی چیز صفوں کو سیدھا رکھنا ہے اور اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی اہمیت دی ہے کیونکہ اس سے ایک وحدت کی شکل پیدا ہوتی ہے.حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں کی صفوں کو سیدھا کرنے کے لئے ہمارے کندھوں پر ہاتھ رکھتے اور فرماتے صفیں سیدھی بناؤ اور آگے پیچھے نہ ہو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف بھر جائے گا.میرے قریب زیادہ علم والے سمجھدار لوگ کھڑے ہوں پھر وہ لوگ جو رتبے میں ان سے قریب ہوں.پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہوں.(مسلم کتاب الصلوۃ باب لتسوية الصفوف).تو صفیں سیدھی کرنے کی بڑی اہمیت ہے.آپس میں تعلقات کے لئے بھی اور ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے کے لئے بھی.خواتین کو بطور خاص نصیحت صفیں سیدھی کرنے کے ضمن میں یہاں میں آج عورتوں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں، یہ عمومی شکایت عورتوں کی طرف سے آتی ہے، یہاں بھی اور مختلف ممالک میں جب بھی میں دورے پر جاؤں عموماً عورتیں جمعہ پر اور جمعہ کے علاوہ بھی ( بیت الذکر) میں بعض دفعہ نماز پڑھنے آ جاتی ہیں.لیکن شکایت یہ ہوتی ہے کہ عورتیں صفیں سیدھی نہیں رکھتیں اور لجنہ کی انتظامیہ بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتی.بلکہ بعض دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ عہدیداران خود بھی ٹیڑھی میڑھی صفوں میں کھڑی ہوتی ہیں، بیچ میں فاصلہ ہوتا ہے ، خاص طور پر جلسے

Page 193

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 181 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الامس ایدہ اللہ تعالی کے دنوں میں یا کسی مار کی وغیرہ میں اگر صفیں بن رہی ہوں.بلکہ بعض دفعہ جب یہاں ہال میں عورتیں نمازیں پڑھتی ہیں تو یہاں بھی اب عموماً یہ شکایت ہوتی ہے کہ بعض بیمار اور بڑی عمر کی عورتیں کرسیاں صفوں کے بیچ میں رکھ کر بیٹھ جاتی ہیں.کرسی پر بیٹھنے والیاں جن کو مجبوری ہے وہ یا تو ایک طرف کرسی رکھا کریں یا جس طرح یہاں انتظام ہے کہ پیچھے کرسیاں رکھی جاتی ہیں.کیونکہ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ نماز کے آداب میں سے صفوں کو سیدھا رکھنا انتہائی ضروری چیز ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا بڑا اہتمام فرماتے تھے.خطبہ نماز جمعہ کا حصہ ہے پھر یہ بھی یا درکھیں کہ خطبہ جمعہ بھی نماز کا حصہ ہے.بعض عورتیں اور بچیاں جو شاید سکولوں میں چھٹیوں کی وجہ سے آجکل ( بیت الذکر ) میں آجاتی ہیں لگتا ہے کہ وہ نماز کی بجائے اس نیت سے اس میں آتی ہیں کہ سہیلیوں اور دوستوں سے ملاقات ہو جائے گی اور یہ جومیں نے کہا ہے کہ ملاقات ہو جائے گی تو وہ اس غرض سے اس میں آتی ہیں.یہ میں بدظنی نہیں کر رہا بلکہ بعضوں کے عمل اس بات کا ثبوت ہیں.مثلاً گزشتہ جمعہ کی یہاں کی رپورٹ مجھے ملی کہ بعض بچیاں خطبے کے دوران اپنے اپنے موبائل پر یا تو ٹیکسٹ میسجز (Text) (Messages بھیج رہی تھیں اور یا با تیں کر رہی تھیں اور اس طرح دوسروں کا خطبہ جمعہ بھی خراب کر رہی تھیں جو وہ سن نہیں سکیں.یہی شکایت بعض چھوٹے بچوں کے بارے میں آتی ہے.آجکل ہر ایک کو ماں باپ نے موبائل پکڑا دیئے ہیں.حکم تو یہ ہے کہ اگر خطبہ کے دوران کوئی بات کرے اور اسے روکنا ہو تو ہاتھ کے اشارے سے روکو کیونکہ خطبہ بھی نماز کا حصہ ہے.یہ بظاہر چھوٹی باتیں ہیں لیکن بڑی اہمیت کی حامل ہیں اس لئے ان کا خیال رکھنا چاہئے.اگر کسی نے اتنی ضروری پیغام رسانی کرنی ہے یا فون کرنا ہے کہ جمعہ کے تقدس کا بھی احساس نہیں اور ( بیت الذکر) کے تقدس کا بھی احساس نہیں تو پھر گھر بیٹھنا چاہئے ، دوسروں کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہئے.عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا اس بات سے زیادہ بہتر ہے کہ ( بیت الذکر ) آ کر دوسروں کی نمازیں خراب کی جائیں.نماز با جماعت کا اصل مقصد دلوں کی کمی دور کرنا اور آپس میں محبت پیدا کرنا ہے ، اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک ہو کر جھکنا ہے تا کہ ایک ہو کر واحد خدا کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں ، نہ کہ دلوں میں نفرتیں بڑھیں اور دوسروں کی تکلیف کا باعث بنیں.پس یاد رکھیں جہاں ایک مومن کے لئے نماز کا قیام انتہائی اہم ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والا ہے وہاں ( بیت الذکر ) کا تقدس بھی بڑا اہم ہے.

Page 194

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 182 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی عبادات کا خلافت سے گہراتعلق ہے نمازوں کے حوالے سے ہی میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں ہمیشہ یاد رکھیں کہ خلافت کے ساتھ عبادت کا بڑا تعلق ہے.اور عبادت کیا ہے؟ نماز ہی ہے.جہاں مومنوں سے دلوں کی تسکین اور خلافت کا وعدہ ہے وہاں ساتھ ہی اگلی آیت میں اقِیمُوا الصَّلوة کا بھی حکم ہے.پس تمکنت حاصل کرنے اور نظام خلافت سے فیض پانے کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ نماز قائم کرو، کیونکہ عبادت اور نماز ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہوگی.ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس انعام کے بعد اگر تم میرے شکر گزار بنتے ہوئے میری عبادت کی طرف توجہ نہیں دو گے تو نافرمانوں میں سے ہو گے.پھر شکر گزاری نہیں ناشکر گزاری ہوگی اور نافرمانوں کے لئے خلافت کا وعدہ نہیں ہے بلکہ مومنوں کے لئے ہے.پس یہ انتباہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اپنی نمازوں کی طرف توجہ نہیں دیتا کہ نظام خلافت کے فیض تم تک نہیں پہنچیں گے.اگر نظام خلافت سے فیض پانا ہے تواللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرو کہ يَعْبُدُونَنِی یعنی میری عبادت کرو.اس پر عمل کرنا ہوگا.پس ہر احمدی کو یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لینی چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا، جو خلافت کی صورت میں جاری ہے، فائدہ تب اٹھا سکیں گے جب اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے.اہل ربوہ ایک نمونہ بنیں گزشتہ دنوں پاکستان سے آنے والے کسی شخص نے مجھے لکھا کہ میں ربوہ گیا تھا وہاں فجر اور عشاء پر ( بیوت الذکر ) میں حاضری بہت کم لگی.یہ وہاں والوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے.ربوہ تو ایک نمونہ ہے اور گزشتہ چند سالوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس طرف بہت توجہ ہو گئی تھی.آنے جانے والوں کی بھی بڑی رپورٹس آتی تھیں کہ ربوہ میں ( بیوت الذکر ) کی حاضری بڑھ گئی ہے بلکہ بازاروں میں بھی کاروبار کے اوقات میں دکانیں بند کر کے نمازیں ہوا کرتی تھیں.گو کہ مجھے اس شخص کی بات پر اتنا یقین تو نہیں آیا.میں تو ربوہ کے بارے میں حسن ظن ہی رکھتا ہوں لیکن اگر اس میں سستی پیدا ہورہی ہے تو وہاں کے رہنے والوں کو اس طرف خود توجہ کرنی چاہئے.ایک کوشش جو آپ نے کی تھی ، نیکیوں کو اختیار کرنے کا جو ایک قدم بڑھایا تھا وہ قدم اب آگے بڑھتا چلا جانا چاہئے.اللہ کرے کہ میرا حسن ظن ہمیشہ قائم رہے.

Page 195

183 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم اسی طرح عمومی طور پر پاکستان میں بھی اور دنیا کی ہر جماعت میں جہاں جہاں بھی احمدی آباد ہیں، نمازوں کے قیام کی خاص طور پر کوشش کریں.ہمیشہ یاد رکھیں کہ افراد جماعت اور خلیفہ وقت کا دوطرفہ تعلق اُس وقت زیادہ مضبوط ہو گا جب عبادتوں کی طرف توجہ رہے گی.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو پاک نمونے پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے....مالی قربانی کی طرف توجہ کریں...دوسری بات جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے نمازوں کے ساتھ مالی قربانیوں کی طرف توجہ ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً احمدی مالی قربانی کی طرف توجہ دیتے ہیں.لیکن اس میں بھی یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جو قربانیاں کرنے والے ہیں بار بار ہر مالی قربانی میں وہی لوگ حصہ ڈالتے چلے جاتے ہیں.لیکن ایک طبقہ جن کی کشائش بہت زیادہ ہے، جن کی استطاعت زیادہ ہے، وہ اس کے مطابق اپنے چندوں کی ادائیگی نہیں کرتے.میں نے نماز کے سلسلے میں ذکر کیا تھا کہ جہاں اللہ تعالیٰ خلافت کے ذریعہ تمکنت عطا کرنے کا وعدہ فرماتا ہے ، وہاں اسے اپنی عبادت سے مشروط کرتا ہے اور اگلی آیت میں عبادت کی وضاحت کی کہ نماز کو قائم کرنے والے لوگ ہوں گے.لیکن جہاں یہ ذکر ہے کہ نماز کو قائم کرنے والے ہوں گے وہ صرف نماز کے بارے میں ہی نہیں فرمایا، بلکہ ساتھ ہی فرمایا کہ وا تو الزکوۃ کہ زکوۃ ادا کرو.زکوۃ اور مالی قربانی بھی استحکام خلافت اور تمہارے اس انعام پانے کا ذریعہ ہے.اور پھر آگے فرمایا وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْ حَمُوْنَ اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے مسیح و مہدی کو مانا جس کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کی دائمی خوشخبری فرمائی تھی.جماعت میں نظام زکوۃ رائج ہے پس خلافت کا نظام بھی اطاعت رسول کی ایک کڑی ہے اور اس دور میں اگر دین کی ضروریات کے لئے مالی تحریکات کی جاتی ہیں جو اگر زکوۃ سے پوری نہ ہو سکیں تو یہ عین اللہ اور رسول کی منشاء کے مطابق ہے.خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زکوۃ سے بڑھ کر جو اخراجات ہوتے تھے ان کے لئے چندہ لیا جاتا تھا.یہ ٹھیک ہے کہ زکوۃ کی اپنی ایک اہمیت ہے.قرآن کریم میں اس کا ذکر آتا ہے.لیکن ساتھ ہی بہت سی

Page 196

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 184 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ضروریات کے لئے مالی قربانی کا بھی ذکر آتا ہے.اس لئے ایک تو میں یہ واضح کرنا چاہتا تھا کہ جماعت میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زکوۃ کا نظام رائج نہیں اور ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے.جماعت میں زکوۃ کا نظام رائج ہے اور جن پر زکوۃ فرض ہے ان کو ادا کرنی چاہئے.بعض منافق طبع یا کمزور لوگ یالا علم کہنا چاہئے ، بعض دفعہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بعض ذہنوں میں یہ سوال ڈالتے ہیں اور نئے شامل ہونے والے احمدی اس سے بعض دفعہ ٹھو کر بھی کھاتے ہیں کہ جماعت چندے کے اسلامی طریق کو رائج کرنے کی بجائے اپنا نظام چلاتی ہے.ایک تو زکوۃ ہر ایک پر فرض نہیں ہے، اس کی کچھ شرائط ہیں جن کے ساتھ یہ فرض ہے اور دوسرے اس کی شرح اتنی کم ہے کہ آجکل کی ضروریات یہ پوری نہیں کر سکتی.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی زائد ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ، زکوۃ کے علاوہ زائد چندے لئے جاتے تھے.زکوۃ کی اہمیت اور فرضیت سے کسی کو انکار نہیں.اس لئے جن پر زکوۃ فرض ہے، ان کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ زکوۃ دینی لازمی ہے وہ ضرور دیا کریں اور خاص طور پر عورتوں پرتو یہ فرض ہے جوز یور بنا کر رکھتی ہیں.سونے پر زکوۃ فرض ہے.خلافت نبوت کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے دوسرے جیسا کہ میں نے کہا کہ خلافت نبوت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اس زمانے میں خلافت علی منہاج النبوۃ کی پیشگوئی ہے.اس لئے خلفاء کے مقرر کردہ چندے اور تحریکات اللہ تعالیٰ اور رسول کے حکم کے مطابق ہیں اس لئے ان کی ادائیگی کی طرف توجہ ہونی چاہئے.بعض لوگوں کو شرح پر اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں شرح نہیں تھی ، بعد میں مقرر کی گئی تو ضرورت کے مطابق مقرر کی گئی.پس خلافت کے ساتھ وابستہ ہو کر جہاں قیام نماز ہوگا، زکوۃ کی ادائیگی ہوگی نمونے ہوں گے جس سے دین کی تمکنت قائم ہو، وہاں اللہ اور رسول کے حکموں پر عمل کر کے ایک مومن اللہ تعالیٰ کے رحم کا وارث بھی بن رہا ہوگا.ان دنوں میں بعض جماعتوں کو اپنے چندہ عام کے بجٹ پورے کرنے کی فکر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ پریشانی کا اظہار کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ کا جماعت پر ہمیشہ فضل رہا ہے اور افراد جماعت کو قربانی کے جذبے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ توفیق ملتی رہی ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو احسن رنگ میں پورا کرنے والے

Page 197

185 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ عالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم بنے رہے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احباب جماعت نے اپنی ذمہ داری کو احسن رنگ میں پورا کرتے ہوئے عہدیداران کی پریشانیوں کو غلط ثابت کیا ہے.اس سال بھی انشاء اللہ تعالیٰ ایسا ہی ہوگا.اس کی تو مجھے فکر نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے کہ ایک طبقہ ایسا ہے جو اپنے اس فرض کی طرف صحیح طور پر توجہ نہیں دیتا.وہ سمجھتے ہیں کہ پوری شرح سے چندہ دینے سے ان کی آمد میں کمی آجائے گی.یہ خدا تعالیٰ پر بدظنی ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارا ایمان مضبوط ہے اور تقویٰ کی راہوں پر چلنے والے ہو اور عبادت کی طرف توجہ دینے والے ہو تو اللہ تعالیٰ پر یہ بدظنی نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی تمہارے لئے رزق کی راہیں کھولنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : ”جو خدا کے آگے تقویٰ اختیار کرتا ہے، خدا اس کے لئے ہر ایک تنگی اور تکلیف سے نکلنے کی راہ بتا دیتا ہے اور فرمایا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْتُ لا يَحْتَسِبْ وہ متقی کو ایسی راہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے رزق آنے کا خیال و گمان بھی نہیں ہوتا.یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں، وعدوں کو سچا کرنے میں خدا سے بڑھ کر کون ہے.پس خدا پر ایمان لاؤ، خدا سے ڈرنے والے ہرگز ضائع نہیں ہوتے.يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ایک وسیع بشارت ہے ہم تقویٰ اختیار کر وخدا تمہارا کفیل ہوگا.اس کا جو وعدہ ہے وہ سب پورا کر دے گا“.( تفسیر حضرت مسیح موعود تفسیر سورۃ الطلاق جلد چہارم صفحہ 402) نا جائز کاروبار کبھی نہ کریں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم جو کام کر رہے ہیں وہ جائز ہیں یا نا جائز ہیں، ان کو چھوڑ نا بڑا مشکل ہے.وہ اللہ تعالیٰ کو رازق نہیں سمجھتے.کچھ عرصہ ہوا میں نے کہا تھا کہ جو لوگ سور کے گوشت پکانے یا بیچنے یا براہ راست اس کے کاروبار میں ملوث ہیں، اس سے منسلک ہیں ، وہ یہ کام نہ کریں یا اگر کرنا ہے تو پھر ایسے لوگوں سے چندہ نہیں لیا جائے گا.جس پر جرمنی کی جماعت نے ماشاء اللہ بڑی سختی سے عمل کیا ہے.باقی جگہ دوسرے ملکوں میں بھی یہ ہونا چاہئے.لیکن مجھے بعض لوگوں نے جو ایسی جگہوں پر کام کرتے تھے لکھا کہ ہماری تو روزی ماری جائے گی، یہ ہو جائے گا اور وہ ہو جائے گا.تو میں نے کہا جو بھی ہوگا اگر براہ راست اس کام میں ملوث ہو تو پھر تم سے چندہ نہیں لیا جائے گا.تم نے یہ روزی کھانی ہے تو کھاؤ ، اللہ کے مال میں اس کا حصہ نہیں ڈالا جائے گا.

Page 198

186 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم اگر تمہاری اضطراری کیفیت ہے تو اپنے پر لاگو کر لو، اس کو استعمال کر لو لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت پر کوئی ایسی اضطراری کیفیت نہیں ہے.اللہ جماعت کی ضروریات کو پوری کرتا ہے اور ہمیشہ کرتا چلا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں انشاء اللہ کی نہیں آنے دوں گا.حسب ضرورت انشاء اللہ جس طرح ضرورت ہوتی ہے اللہ پوری فرماتا ہے تو جماعت کو بھی میری اس بات سے بڑی فکر تھی کہ بہت سارے لوگوں سے اس طرح چندہ لینا بند ہو جائے گا.لیکن اب مجھے سیکرٹری صاحب مال نے وہاں سے لکھا ہے کہ اس دفعہ جو بجٹ آئے ہیں وہ اتنے اضافے کے ساتھ آئے ہیں کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے، پہلے کبھی اتنا اضافہ ہوا ہی نہیں.تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِب.پس اللہ تعالیٰ دے گا اور وہم و گمان سے بڑھ کر دے گا اور دیتا ہے لیکن تقویٰ پر قائم رہنے کی ضرورت ہے.عمومی طور پر دنیا میں ہر جگہ چندہ عام میں اضافہ ہورہا ہے اور یہی مدہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے اخراجات پورے کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے.افریقین ممالک چندوں کے شعبہ میں بہتری پیدا کریں لیکن افریقن ممالک کو میں توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ ان میں جس طرح اس طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے تھی ، توجہ پیدا نہیں ہو رہی.افریقن ممالک میں نائیجیریا میں جماعت کے ہر شعبہ میں ترقی نظر آ رہی ہے اور اسی طرح چندوں میں بھی ہے، مجھے امید ہے کہ چندہ عام کی طرف بھی ان کی توجہ ہوگی کیونکہ باقی تحریکات میں بہت زیادہ ہے.نائیجیریا میں عمومی طور پر ملکی ترقی میں انحطاط ہے، باوجود ان کے وسائل ہونے کے ان کے پاس تیل کی دولت ہونے کے، کرپشن اتنی زیادہ ہے کہ وہاں ترقی نہیں ہورہی بلکہ ملک گرتا چلا جار ہا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہی لوگ جو جماعت میں شامل ہوئے ہیں ان کے مزاج بالکل بدل گئے ہیں.اللہ کرے یہ پاک تبدیلی ان میں بڑھتی چلی جائے اور دوسرے افریقن اور غریب ممالک کے احمدی بھی، احمدیت کے اونچے معیاروں کی طرف توجہ کرنے والے ہوں، اپنی مالی قربانیوں کی طرف توجہ کرنے والے ہوں اور یہ احساس ان میں پیدا ہو کہ ہم نے اپنے نفس کی پاکیزگی کے لئے یہ مالی قربانیاں کرنی ہیں.حُسبُ الْوَطَنِ مِنَ الِايْمَانِ ، وطن کی محبت بھی ایمان کا حصہ ہے اس پر عمل کرتے ہوئے ہر احمدی کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے، روحانیت میں بڑھتے چلے جانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اعلیٰ اخلاق میں

Page 199

187 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے ، قربانیوں میں ترقی کرتے چلے جانے کی کوشش کرنی چاہئے.امیر ملکوں کے احمدی بھی اور غریب ملکوں کے احمدی بھی، اس بات پر عمل کرتے ہوئے کہ وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے جہاں اپنے ہم وطنوں کے لئے دعائیں کریں، وہاں یہ کوشش بھی کریں کہ ان میں بھی اخلاقی اور روحانی تبدیلیاں پیدا کرنے والے ہوں تا کہ اپنے اپنے ملکوں میں ایک انقلاب لاسکیں.پس ہر احمدی اس بات کی طرف خاص توجہ کرے کہ اس نے اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہے، اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے معیار کو بھی بلند کرنا ہے تبھی دنیا میں حقیقی انقلاب لانے والے بن سکیں گے اور اپنے آپ کو بھی اس معیار پر لانے والے بن سکیں گے جس پر اللہ تعالیٰ ہمیں لانا چاہتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.....الفضل انٹر نیشنل 04 / تا 10 مئی 2007 ء )

Page 200

مشعل راه جلد پنجم حصہ چہارم 188 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 20 را پریل 2007ء سے اقتباس اصلاح نفس کے متعلق ایک نصیحت.یہاں میں حضرت خلیفہ اسی الاول کی نصیحت کا بھی ذکر کر دیتا ہوں جو اس حوالے سے آپ نے جماعت کو کی.اور بڑی اہم اور پیاری نصیحت ہے جسے ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ چاہے پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ ہے، امیر ہے یا غریب ہے ، مرد ہے یا عورت ہے اپنے پلے باندھے کہ اصلاح نفس کے لئے بڑی ضروری ہے اور اس سے عبادت کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی اور مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی.آپ فرماتے ہیں کہ : ” جو ان پڑھ ہیں انہیں کم از کم یہی چاہئے کہ وہ اپنے چال چلن سے خدا کی تنزیہ کریں.یعنی اپنے طرز عمل سے دکھائیں کہ قدوس خدا کے بندے، پاک کتاب کے ماننے والے، پاک رسول کے متبع اور اس کے خلفاء اور پھر خصوصاً اس عظیم الشان مجد د کے پیرو ایسے پاک ہوتے ہیں“.حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 372-373 مطبوعہ ربوہ ) یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیرو ایسے ہوتے ہیں.اپنے اندر یہ تبدیلی پیدا کریں.پس خدا تعالیٰ کو ہر عیب سے، ہر خرابی سے پاک سمجھنا اس وقت صحیح ہو گا جب ہم اپنے ہر قول وفعل سے اس کا اظہار کر رہے ہوں گے.آپ فرماتے ہیں اس کے لئے وسیع اور بہت علم کی ضرورت نہیں ہے.ان پڑھ سے ان پڑھ احمدی کو بھی پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کیا احکامات ہیں.خطبات میں تقریروں میں اور درسوں میں سنتا ہے کہ کن باتوں کے کرنے کا حکم ہے اور کن باتوں سے روکا گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کیا نمونے قائم کر کے دکھائے ہیں.ایک احمدی سے خدا تعالیٰ کی قدوسیت کی صفت پر یقین کا اظہار اسی وقت ہوگا جب وہ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے اور پاک ہو، تو تبھی اس زمانے کے امام کو ماننے کا فائدہ ہے.الفضل انٹر نیشنل 11 تا 17 مئی 2007ء )

Page 200