Mashal-e-Rah Volume 5 (Part 3)

Mashal-e-Rah Volume 5 (Part 3)

مشعل راہ ۔ جلد پنجم (حصہ سوم)

Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

مشعل راه جلد پنجم (حصہ سوم) ارشادات حضرت خلیفہ الم یکم مئی 2005 ء تا 30 اپریل 2006 }

Page 2

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی دیباچه آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آپ کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھے.ان کے دلوں کی نالیاں اطاعت کے پانی سے اس طرح لبریز ہو کر بہہ نکلیں تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارے پر وہ اپنا سب کچھ آپ کے قدموں پر نچھاور کر دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے.ایک نظام کے تابع ہونے کی وجہ سے ان میں اطاعت کی روح حد کمال کو پہنچی ہوئی تھی.انہوں نے اپنی زندگیوں میں اطاعت کے ایسے عظیم الشان نمونے دکھائے جن کی مثال نہیں ملتی.لیکن تاریخ اسلام کے اوراق میں ایک واقعہ ایسا بھی ملتا ہے جب غزوہ اُحد کے موقع پر چند صحابہ نے اپنے ذاتی اجتہاد سے کام لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم سے صرف نظر کی ، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو سخت نقصان اُٹھانا پڑا.کئی قیمتی جانیں قربان ہو گئیں.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی زخم آئے.کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ وہ صحا بہ جواپنے جان و مان اور عزت و آبرو کو تھیلی پر رکھ کر اس انتظار میں کھڑے رہتے تھے کہ کب اشارہ ہو اور ہم اپنا سب کچھ قربان کر دیں.ان سے ایسی غلطی کیونکر سرزد ہو گئی ! اس میں ہر زمانہ کے لئے ایک سبق ہے.اور اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ سے مومنوں کو اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ جب بھی تم امام کی اطاعت سے سرِ مو بھی انحراف کرو گے اُس کی نصرت تمہارے شاملِ حال نہیں رہے گی اور تم تمام برکتوں سے محروم کر دیئے جاؤ گے.تم در بدر کی ٹھوکریں کھاؤ گے اور کوئی تمہارا پرسان حال نہیں ہوگا.پس ہر ایک کامیابی امام کی اطاعت ہی سے وابستہ ہے.اطاعت وحدت قومی کی علامت ہے.اگر اطاعت ہوگی تو ساری قوم ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو کر ترقی کی طرف رواں دواں ہوگی اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ٹھہرے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے.اس میں یہی تو ستر ہے.اللہ تعالیٰ تو حید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد دوم صفحہ 247)

Page 3

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ii ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اطاعت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپ مزید فرماتے ہیں:- اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے.مگر ہاں یہ شرط ہے کے سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے.اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے.بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد دوم صفحہ 246) جب کوئی شخص بیعت کر کے الہی جماعت میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ اس نے اپنے نفس کو بیچ دیا ہے.اب وہ اپنے ہوائے نفس کی پیروی نہیں کرے گا بلکہ اپنے تمام ارادوں اور خواہشات کو امام کے تابع کر دے گا.یہی معنی اطاعت کا ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعو دفرماتے ہیں:.یا درکھو ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے.ہزار دفہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود پر ایمان لاتا ہوں، ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں.خدا کے حضور اس کے ان دعوؤں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں ( دین حق ) قائم کرنا چاہتا ہے.جب تک جماعت کا ہر شخص پاگلوں کی طرح اس کی اطاعت نہیں کرتا اور جب تک اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ بسر نہیں کرتا اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہو سکتا.الفضل 15 نومبر 1946 صفحہ 6) اللہ تعالیٰ نے عبادات میں سب سے زیادہ زور نماز با جماعت پر دیا ہے.اس میں کیا حکمت ہے؟ دن میں پانچ مرتبہ تمام مقتدیوں کو اپنے امام کے ساتھ رکوع و سجود کا حکم دیا گیا ہے.گویا توحید کے عملی قیام کی تربیت دی گئی ہے، ایک آواز پر اٹھنے اور بیٹھنے کی ٹریننگ دی گئی ہے.جمعہ اور عید کے موقع پر تمام چھوٹی (بیوت الذکر ) کے امام بھی جمعہ اور عید کے امام کی اقتداء میں رکوع و سجود کرتے ہیں.اس طرح سے اللہ تعالیٰ ہماری تربیت کر رہا ہے کہ تم نے ایک امام کی پیروی کرنی ہے اور مسیح موعود کے وقت جب

Page 4

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم !!! ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ تمام دنیا نے امت واحدہ بننا ہے اس وقت خلافت علی منھاج النبوۃ قائم ہوگی ، اس وقت تم سب نے اللہ کے بنائے ہوئے خلیفہ کی اطاعت کرنی ہے.یہی وجہ ہے کہ نماز کا امام جوصرف چند مقتدیوں کا امام ہوتا ہے اس کے بارہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:." کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے ڈرتا نہیں کہ جب وہ اپنا سر امام سے پہلے اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کا سر بنادے یا اس کی شکل گدھے کی شکل بنا دے.“ ( بخاری کتاب الاذان باب اثم من رفع رأسه قبل الامام ) اگر دنیا کے بنائے ہوئے چند مقتدیوں کے امام سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے والے کو گدھے کے سر والا قرار دیا گیا ہے تو وہ امام جسے خدا نے بنایا ہو اور وہ تمام دنیا کا امام ہو، جس کے ہاتھ پر سب نے بیعت کی ہو اس کی اطاعت کتنی ضروری سمجھی جائے گی اور اس کی نافرمانی کرنے والا کتنا بڑا گناہ گار ہوگا.ہمارے پیارے امام سید نا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیں خلافت سے وابستگی اور اس کی اطاعت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:.آپ میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ دعاؤں پر بہت زور دے اور اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھے اور یہ نقطہ ہمیشہ یادر کھے کہ اس کی ساری ترقیات اور کامیابیوں کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی ہے.وہی شخص سلسلے کا مفید وجود بن سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں.جب تک آپ کی عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت رہیں گی اور آپ اپنے امام کے پیچھے پیچھے اُس کے اشاروں پر چلتے رہیں گے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت آپ کو حاصل رہے گی.“ (روز نامه الفضل 30 مئی 2003ء صفحہ 2) پس آج ہم سب کا فرض ہے کہ ہم سب اپنے پیارے امام حضرت خلیفتہ المسح الخامس کے دائیں بھی لڑیں اور بائیں بھی لڑیں اور آگے بھی لڑیں اور پیچھے بھی لڑیں.ہم طلحہ کا ہاتھ بن کے خلافت احمدیہ کی طرف بڑھنے والے ہر تیر کو اپنے ہاتھوں پر لے لیں.اور کوئی دشمن آنکھ ،کوئی دشمن دل اور کوئی دشمن

Page 5

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم iv ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کوشش خلافت احمدیہ کا بال بھی بیکا نہ کر سکے.ہم دلی بشاشت سے لذت وسرور محسوس کرتے ہوئے اپنے امام کی ہر بات کو ماننے والے ہوں.ہم ایسی اطاعت کرنے والے ہوں کہ ہمارے دلوں کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کے بہت نکلیں.ہم اپنے امام کی ہر امر میں اس طرح پیروی کرنے والے ہوں جس طرح نبض حرکت قلب کی پیروی کرتی ہے.ہم اپنے آپ کو اپنے امام کے ہاتھ میں اس طرح دینے والے ہوں جس طرح میت غستال کے ہاتھ میں.ہم اپنے امام سے اس طرح وابستہ ہوں جس طرح گاڑیاں انجن کے ساتھ.ہم خلافت احمدیہ کی خاطر اپنی جان، مال ، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار ہوں اور اپنی اولاد در اولاد کو خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے کی تلقین کرنے والے ہوں.خلافت کی محبت اور اطاعت ہمارے چہروں سے اس طرح جھلک رہی ہو کہ دیکھنے والا ہر دشمن جا کے اس بات کی گواہی دے کہ تم لوگ خلافت احمدیہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس کے چاہنے والے انسان نہیں موتیں ہیں جو خلافت کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہیں.اسی طرح حضرت مصلح موعود کے یہ الفاظ ہمیشہ مد نظر ر ہیں کہ :- خلافت زندہ رہے اور اس کے گرد جان دینے کے لئے ہر مومن آمادہ کھڑا ہو.صداقت تمہارا زیور ، امانت تمہارا حسن، تقویٰ تمہارا لباس ہو.خدا تعالیٰ تمہارا ہو اور تم اُس کے ہو.آمین !“

Page 6

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم V ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا بہت ہی فضل و احسان ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس خلفاء کی راہنمائی ہمہ وقت اور ہمہ جہت میسر رہی ہے یہ مجلس اپنے قیام کے آغاز سے لے کر آج تک خلفاء عظام کی نگرانی اور دعاؤں کے سایہ تلے اپنی ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اور پھولتی ، پھلتی اور پھیلتی جارہی ہے.الحمد للہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے خلفائے کرام کے اُن فرمودات وارشادات کو جو خدام الاحمدیہ کی تنظیمی، تربیتی ، اخلاقی اور روحانی بہتری کے لئے بیان فرمائے گئے ہیں ، کتابی شکل میں مدون کر کے مشعل راہ کے نام سے شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے.حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ کے فرمودات پر مبنی مشعل راہ جلد اول، حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کے ارشادات پر مشتمل مشعل راہ جلد دوم ، حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطابات پر مبنی کتاب مشعل راہ جلد سوم کے نام سے موسوم ہے.مشعل راہ جلد چہارم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے اطفال سے متعلقہ ارشادات دیے گئے ہیں.خلافت خامسہ کے آغاز میں ہی کام کی وسعت اور ہمہ گیری کے پیش نظر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے یہ فیصلہ کیا کہ سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات و فرمودات پر مبنی مشعل راہ ہر سال شائع کی جایا کرے گی.اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشعل راہ جلد پنجم ( حصہ اول ) اور مشعل راہ جلد پنجم (حصہ دوم ) شائع ہو چکی ہیں.زیر نظر جلد مشعل راہ جلد پنجم (حصہ سوم) میں یکم مئی 2005 ء سے 30 اپریل 2006 ء تک کے ارشادات و فرمودات جمع کئے گئے ہیں.اس جلد میں حضور انور کے مطبوعہ خطبات وخطابات اور مجلس خدام الاحمدیہ سے میٹنگز کی رپورٹس شامل کی گئی ہیں.بعض خطابات جو غیر مطبوعہ ہیں وہ انشاء اللہ مشعل راه جلد پنجم (حصہ چہارم ) کی زینت بنیں گے.اس جلد کی تیاری میں خاکسار کے ساتھ مکرم سہیل احمد ثاقب صاحب اور مکرم میرانجم پرویز صاحب نے

Page 7

vi ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم بہت محنت سے ابتدائی کام کیا.پھر ایک کمیٹی نے اس کے تمام حوالہ جات اور متن اصل سے چیک کیے ، پروف ریڈنگ کی اور اپنے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کو مشعل راہ جلد پنجم حصہ سوم کی صورت میں مدون کرنے کی سعادت پائی.کمیٹی میں مکرم عبد الحق بدر صاحب، مکرم طارق محمود بلوچ صاحب اور مکرم محمد عباس احمد صاحب شامل تھے.فجز اھم اللہ احسن الجزاء اس کتاب کی تیاری اور اشاعت میں مکرم نصیر احمد قمر صاحب ایڈیشنل وکیل الاشاعت وایڈیٹر الفضل انٹرنیشنل اور مکرم حفیظ احمد شاہد صاحب ہمکرم عبدالسمیع خان صاحب ایڈیٹر الفضل ربوہ اور مکرم فخر الحق شمس صاحب نے خصوصی تعاون فرمایا ہے.اس کے علاوہ مکرم اقبال احمد زبیر صاحب ، مکرم طارق محمود صاحب پانی پتی ، مکرم موید ایاز صاحب، مکرم محمد صادق ناصر صاحب و عملہ خلافت لائبریری اور لقمان احمد صاحب لائبریرین مدرستہ الظفر کا بھی بھر پور تعاون حاصل رہا ہے.فجز اھم اللہ احسن الجزاء اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں خلافت احمدیہ کے ہمیشہ حقیقی وفادار خادم بنائے رکھے.آمین

Page 8

ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی 11 1 6 13 15 16 vii مشعل راہ جلد پنجم حصہ سوم مجلس عامله خدام الاحمدیہ کینیا کے ساتھ میٹنگ خطبه جمعه فرموده 6 مئی 2005ء سے اقتباسات.دعوت الی اللہ کا ایک گر بعض معاشرتی برائیاں ہ سے اظہار حق میں بزدلی نہیں دکھانی غیبت سے معاشرے میں نفرتیں جنم لیتی ہیں جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے ہے عہد بیعت ایک امانت ہے خطبه جمعه فرموده 13 مئی 2005ء سے اقتباسات.ہ متقی کے مال میں برکت کا اصل مفہوم خطبه جمعه فرموده 20 مئی 2005ء سے اقتباسات حمد حقیقی استغفار کا طریق مجلس عامله خدام الاحمدیہ یوگنڈا کے ساتھ میٹنگ خطبه جمعه فرموده 27 مئی 2005ء سے اقتباسات ہ اللہ کی فعلی شہادت ہمارے ساتھ ہے ایک فتنہ خلافت کی خوشخبری صالحین کے لئے ہے ایک معترض کا بودا اعتراض خلافت تا قیامت رہے گی چالاکیاں دکھانے کی بجائے صالح بنو

Page 9

ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی 32 37 39 40 مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ہیر احمدیوں کی خلافت سے محبت چند شبہات کا ازالہ انتخاب خلافت خامسہ کے وقت خدائی تحریک خلافت ملوکیت میں نہیں بدلے گی حيح حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا تبصرہ عہد خلافت جو بلی پر دعاؤں کی تحریک viii خطبه جمعه فرموده 3 جون 2005ء سے اقتباسات ضرورت مند خلیفہ وقت سے چندہ کی تخفیف کروائیں چندہ بقایا نہ رہنے دیں حمد شادیوں پر اسراف نہ کریں کھانے اور شادی کارڈ میں سادگی اختیار کریں طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے لئے مالی قربانی کی تحریک خطبه جمعه فرموده 10 جون 2005ء سے اقتباس حمد مقام ابراہیم پر فائز ہونے کے لئے ذمہ داریاں خطبه جمعه فرموده 7 1 جون 2005ء سے اقتباس.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اصل تعویذ ہے خطبه جمعه فرموده 24 جون 2005ء سے اقتباسات نمازوں کی حفاظت کی طرف توجہ کریں نمازوں میں با قاعدگی غلاظتوں اور گندگیوں سے بچائے گی نماز وقت مقررہ پر ادا کریں عبادتوں کے ساتھ ساتھ بنتیں بانٹنا بھی سیکھیں میاں بیوی کے معاملات میں تلخی کی وجوہات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک رفیق کا واقعہ

Page 10

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم عہد یدار عبادتوں اور اخلاق میں نمونہ بنیں حمد جلسہ کے دن دعاؤں میں گزاریں ix ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مجلس عامله خدام الاحمدیہ USA کے ساتھ میٹنگ خطبه جمعه فرموده یکم جولائی 2005 ء سے اقتباسات و کسی فتنہ کو چھوٹا نہ سمجھیں ہر احمدی کی متعلقہ امیر اور عہد یدار تک پہنچ ہونی چاہیے عہد یدار خدمت کے لئے مقرر کئے گئے ہیں عہدیدار خلیفہ وقت کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائیں خلیفہ وقت کو ایک ایک بات پہنچائیں اللہ کے حکموں پر عمل کرنے والوں کا خلافت اور نظام سے تعلق گہرا ہے نظام سلسلہ مظلوم احمدی عورتوں کی مدد کرے مجلس عامله خدام الاحمدیہ کینیڈا کے ساتھ میٹنگ خطبه جمعه فرموده 15 جولائی 2005 ء سے اقتباسات......ہیں امانت و دیانت اور عہد کی پابندی حمد میاں بیوی کے باہمی تعلقات بھی امانت ہیں حضور انور کا جماعت احمدیہ عالمگیر کے نام پیغام نظام وصیت کا قیام نظام وصیت کا نظام خلافت سے گہرا تعلق ہے خطبه جمعه فرموده 29 جولائی 2005ء سے اقتباسات مہمان اطلاع دے کر میزبان کے ہاں جایا کریں دعوتوں پر بر وقت جائیں نامناسب شاپنگ سے پیدا ہونے والے مسائل 48 51 58 62 65 69

Page 11

ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 73 82 87 91 95 X مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم خطبه جمعه فرموده 26 اگست 2005ء سے اقتباسات قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ حبل اللہ ہیں رسول کریم ﷺ آخری صاحب شریعت نبی حمد احمدیوں کو نصیحت خلافت تا قیامت رہے گی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت اللہ کی رسی ہیں کیا حقوق العباد کے اعلیٰ معیار قائم کریں باہمی اخوت سے ایک رعب پیدا ہوتا ہے حمد باہمی عزت و احترام کو رواج دیں پردہ پوشی مگر کس حد تک؟ رنجشوں کو لمبا نہ کریں احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن جرمنی کے ساتھ میٹنگ خطبه جمعه فرموده 2 ستمبر 2005ء سے اقتباسات.حمید صرف نسبی تعلق کام نہیں آئے گا قضائی فیصلوں کا احترام نہ کرنے کے نقصانات زبان کا غلط استعمال ایمان سے محروم کر دیتا ہے.چاہیے بہت زیادہ محبت سے بھی ٹھوکر لگتی ہے احمدی ٹھنڈے دل سے فیصلوں کو تسلیم کریں مجلس عامله خدام الاحمدیہ جرمنی کے ساتھ میٹنگ خطبه جمعه فرموده 9 ستمبر 2005ء سے اقتباسات.حمد جمعۃ المبارک کی اہمیت نفس کے جہاد کا وسیع مفہوم

Page 12

ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی 99 103 106 111 114 مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم حمد وصیت کی طرف خصوصی توجہ کریں حمد نوجوان گند اور بے حیائی سے بچیں xi عہدیدار اپنے عہد اور امانتوں کا جائزہ لیتے رہیں مجلس عامله خدام الاحمدیہ ڈنمارک کے ساتھ میٹنگ مجلس عامله خدام الاحمدیہ سویڈن کے ساتھ میٹنگ خطبه جمعه فرموده 16 ستمبر 2005ء سے اقتباسات.شرک کی ظاہری اور مخفی راہیں قرآن کریم کا پڑھنا اور اُس پر عمل کرنا ضروری ہے سب روزانہ تلاوت کی عادت ڈالیں غرائب کیا ہیں؟ تقوی سے عاری علم کی اللہ کوکوئی پرواہ نہیں کی نرمی اور پیار سے بات کیا کریں مجلس خدام الاحمدیہ ناروے کے ساتھ میٹنگ جامعه احمدیه برطانیه کی افتتاحی تقریب سے خطاب.فی الحال UK کا جامعہ پورے یورپ کے لئے ہے واقفین نو کی تعداد لاکھوں ہو جائے گی حمد جامعہ احمدیہ کا طرہ امتیاز ہمیشہ دعائیں کرتے رہیں عمل ہر روزنئی اور پاک تبدیلی ہونی چاہیے طلبہ جامعہ کے لئے اہم نصائح حمد جامعہ کا اپنا ایک تقدس ہے

Page 13

ارشادات حضرت خلیفة لمسیح الخامس ایدہ اللہتعالی 120 127 128 130 134 xii مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم مجلس خدام الاحمدیه UKکے سالانہ اجتماع سے خطاب.اجتماعات کے مقاصد و فوائد بعض اوقات ستی کو احتیاط کا نام دے دیا جاتا ہے قوموں کی زندگی صرف ایک نسل کی زندگی نہیں ہوتی حمد عہد یداروں کی ذمہ داری حمد اپنے عہد پورے کریں حمد سچ کو نہیں چھوڑنا ترقی کے لئے محبت واتفاق ضروری ہے قوم کی اصلاح آپ کی اصلاح سے وابستہ ہے احمدی طالب علم کو زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہیے خطبه جمعه فرموده 7/اکتوبر 2005ء سے اقتباس ع میں دوسروں کے عیوب تلاش نہ کریں خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 2005ء سے اقتباسات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پاکیزہ نمونہ زلزلہ کے موقع پر ہے ہر احمدی آفات سے پناہ مانگے خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 2005ء سے اقتباسات تلاوت قرآن کریم کے سنہرے اصول ہو حضور انور کا تلاوت کا طریق قرآن کریم کو ایک مہجور کی طرح نہ چھوڑیں خطبه عيد فرموده 4 نومبر 2005 ء سے اقتباسات.نماز کا چھوڑ نا شرک کے قریب کر دیتا ہے جو والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں

Page 14

ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 141 143 149 مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم xiii قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی کریں ہو یتامی سے احسان کا سلوک کریں مساکین سے شفقت اور احسان کریں عید اور باقی خوشیوں میں بھی محتاجوں کو یا درکھیں ہیے ہمسایوں سے نیک سلوک کریں عورتیں پڑوسیوں سے حقارت آمیز سلوک نہ کریں ہیں اردگرد کے لوگوں سے نیک سلوک کریں م ماتحتوں سے ہمدردی اور احسان کریں خطبه جمعه فرموده 1 1 نومبر 2005ء سے اقتباس حمد کھانے پینے میں اسراف سے بچیں خطبه جمعه فرموده 18 نومبر 2005ء سے اقتباسات.ماپ تول میں کمی ڈاکہ مارنے کے مترادف ہے ماپ تول میں کمی والا فسادی اور فتنہ پرداز بن جاتا ہے کہ اللہ کی پکڑ اب بھی آرہی ہے ہ ہو مسلمانوں کی تجارتیں نہ پھیلنے کی وجہ امانتوں میں خیانت کرنے والا مومن نہیں کو قرض واپسی کی نیت سے لیں خطبه جمعه فرموده 25 نومبر 2005ء سے اقتباسات شادی کے موقع پر گانے بجانے کی حدود جماعتی وقار مجروح کرنے والوں کے خلاف کارروائی ذیلی تنظیموں اور نظام کی ذمہ داری ی جماعت احمدیہ میں شادی کا طریق آنحضرت ﷺ کی خوبصورت مثال

Page 15

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم نظام سلسلہ سے ناجائز مطالبہ نہ کریں حمد مریم شادی فنڈ میں شمولیت کی تحریک ☆ ا حق مہر کا مسئلہ محکمہ قضا کے لئے ایک ضروری ہدایت حق مہر کا بخشنا ہ حق مہر کے متعلق ایک فتویٰ حمد یورپ میں حق مہر کے متعلق ہدایت عی حق مہر کے متعلق نظام سلسلہ کا اختیار حمید شادی پر کھانا دینے کا مسئلہ حمد شادیوں پر کھانے کا ضیاع نہ کریں حميد احساس کمتری کا شکار نہ ہوں xiv حمد ربوہ کے کاروباری حضرات کے لئے ارشادات ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مجلس عامله خدام الاحمديه ماریشس کے ساتھ میٹنگ خطبه جمعه فرموده 16 دسمبر 2005ء سے اقتباس عمله معافی کے بعد پھر غلطی نہ دہرائیں خطبه جمعه فرموده 23 دسمبر 2005ء سے اقتباسات.چاہیے جلسہ کے کارکنان کو بیش قیمت نصائح حمير افسران وسعت حوصلہ سے کام لیں حمد افسران اپنے شعبوں کے ذمہ دار ہیں خطبه جمعه فرموده 6 0 جنوری 2006ء سے اقتباسات ی مالی قربانی اصلاح نفس اور قرب الہی کا ذریعہ عمیر نو مبائعین کو مالی نظام کا حصہ بنائیں بخل قوموں کو ہلاک کر دیتا ہے 162 165 166 169

Page 16

ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم موقف جدید کی ذمہ داری کہ ہر جگہ مربی یا معلم ہونا چاہیے XV مجلس عامله خدام الاحمدیہ بھارت کے ساتھ میٹنگ خطبه جمعه فرموده 20 جنوری 2006ء سر اقتباس حمید احمدی کے صبر و حوصلہ کی اصل وجہ خطبه جمعه فرموده 3 فروری 2006ء سے حمد دعوت الی اللہ ہر ایک کو کریں اقتباس خطبه جمعه فرموده 10 فروری 2006ء سے اقتباسات آنحضرت ﷺ کی سیرت کو پھیلائیں احمدی جرنلزم میں آئیں دنیا کو خبر دار کریں آنحضرت ﷺ سے عشق و محبت کی آگ دلوں میں لگائیں و بکثرت درود شریف پڑھیں خطبه جمعه فرموده 17 فروری 2006ء سے اقتباسات.ہد آزادی رائے کی حدود و قیود حمد احمدیوں کا مومنانہ رد عمل صحیح عادلانہ رد عمل و عیسی مسیح کر دے گا جنگوں کا التواء خطبه جمعه فرموده 4 2 فروری 2006ء سے اقتباسات دشمن مسلمانوں کی حرکتوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں و اپنی دعاؤں کو درود میں ڈھال دیں 173 178 179 181 183 187

Page 17

ارشادات حضرت خلیفة لمسیح الخامس ایدہ اللہتعالی 190 193 195 207 مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم xvi خطبه جمعه فرموده 10 مارچ 2006ء سے اقتباسات.میثاق مدینہ کی بعض اہم شرائط اہل نجران کے امان نامہ کی بعض شقیں خطبه جمعه فرموده 17 مارچ 2006ء سے اقتباس جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو خدا تعالیٰ کی لاٹھی چلتی ہے خطبه جمعه فرموده 4 2 مارچ 2006ء.شوری نظام خلافت کا مددگا را دارہ ہے مشورہ کن سے لینا چاہیے حمد نمائندگان شوری کے انتخاب کے تقاضے کے نمائندگان شوری کے فرائض فیصلوں کے بعد عملدرآمد میں سستی کا مظاہرہ نمائندگان حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھیں حمد خلیفہ وقت کی اطاعت حمد رائے سوچ سمجھ کر دیں خلیفہ وقت کا دست و بازو بن کر عمل درآمد میں بہت جائیں خطبه جمعه فرموده 1 3 مارچ 2006ء سے اقتباسات مالی قربانی مالی کشائش کے مطابق کریں مالی قربانیوں کا جہاد موصیان کو تمام تحریکات میں چندہ دینا چاہیے کا ہر نومبا ئعین کو مالی نظام میں شامل کریں زکوۃ کی ادائیگی ضرور کریں

Page 18

ارشادات حضرت خلیفة لمسیح الخامس ایدہ اللہتعالی 211 212 216 218 225 229 230 xvii مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم خطبه جمعه فرموده 7 / اپریل 2006ء سے اقتباس حیا ایمان کا حصہ ہے عامله خدام الاحمدیه ،سنگاپور، ملائشیا اور انڈونیشیاسے میٹنگ.خطبه جمعه فرموده 14 اپریل 2006ء سے اقتباس آسٹریلیا کا نظام وصیت میں ایک اعزاز حمد تمام عہدیدار نظام وصیت میں شامل ہوں مجلس عامله خدام الاحمدیه آسٹریلیا کے ساتھ میٹنگ خطبه جمعه فرموده 21/اپریل6 0 0 2ء سے اقتباسات ید غصہ سے پر ہیز کرنا چاہیے پر ہیں صرف نظر کس حد تک کرنا چاہیے؟ زبان کا صحیح استعمال کریں غیر پاکستانی احمدیوں کی شکایات کے ازالہ کی بابت بنیادی ہدایات ذیلی تنظیموں کو جائزہ لینا چاہیے کہ شکوے کیوں پیدا ہوتے ہیں خطبه جمعه فرموده 8 2 اپریل 2006ء سے اقتباس حمد نظام خلافت کی برکت مجلس عامله خدام الاحمدیہ فجی کے ساتھ میٹنگ

Page 19

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کینیا کے ساتھ میٹنگ * (3 مئی 2005 ء ) دس بجے صبح مجلس خدام الاحمدیہ کینیا کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میٹنگ کا آغاز ہوا.اس کے بعد مجلس عاملہ کے ممبران کا تعارف شروع ہوا.اس ملک میں صدر کو چیئر مین کہتے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ نے ہدایت فرمائی کہ ٹرمینالوجی وہی استعمال ہوگی جو کانسٹی ٹیوشن میں ہے.صدر، صدر ہوگا.اگر کسی وجہ سے چیئر مین لکھنا ہے تو ساتھ بریکٹ میں لکھیں.اسی طرح جو صو بائی / ریجنل قائد ہیں وہ قائد علاقہ کہلائیں گے.پھر ضلع کی مجالس میں لوکل قائد ہیں.پھر آگے حلقہ جات میں زعیم ہوتے ہیں اور پھر ان کے تحت سائقین کا نظام ہے.حضور انور نے بڑی تفصیل کے ساتھ خدام الاحمدیہ کا یہ سارا نظام ان کو سمجھایا.صدر صاحب نے بتایا کہ تین صد سے زائد جماعتوں میں قائدین موجود ہیں.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جو جماعتی نظام ہے اس کے تحت جماعتیں ہونی چاہئیں لیکن ذیلی تنظیموں میں جماعتوں کی بجائے ” مجالس کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس لئے آئندہ سے مجالس کا لفظ استعمال کریں.حضور نے فرمایا کہ معتمد کا یہ کام ہے کہ دفتر کا انتظام سنبھالنا ہے.دوسرے معنوں میں اس کا کام جنرل سیکرٹری کا ہے.فرمایا: روز مرہ کا کام کرنا، مجالس سے ماہانہ رپورٹس لینا ، ان کو بار بار یاد دہانی کروانا اور ہر کام کو Up date رکھنا یہ معتمد کی ذمہ داری ہے.حضور انور نے بڑی تفصیل کے ساتھ معتمد کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.حضور انور نے فرمایا کہ صدر / معتمد اور سب مہتمین کا مجالس کے قائدین سے ذاتی رابطہ ہونا چاہئے.جب تک آپ کا رابطہ گراس روٹ لیول پر نہ ہو اور آپ کو صورتحال کا پوری طرح علم نہ ہو آپ کوئی پروگرام بنا نہیں سکتے ،کوئی فیصلہ کر نہیں سکتے.

Page 20

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 2 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ حضور نے صدر مجلس خام مالم یہ توجہ دلائی کہ آپ براہ راست خلیفہ اسے کور پورٹ دینے کے پابند ہیں.ذیلی تنظیمیں براہ راست خلیفہ امیج کے ماتحت ہیں.آپ کی طرف سے ماہانہ رپورٹ آنی چاہئے.یہ نہیں کہ اکٹھی دو چار ماہ کی یا اکٹھی سال کی رپورٹ بھجوادی.یہ طریق غلط ہے.فرمایار پورٹس میں نمازوں کے بارہ میں ، چندہ کے بارہ میں ، قرآن کریم ناظرہ، ترجمہ پڑھنے کے لحاظ سے اور دوسرے تعلیمی و تربیتی پروگراموں اور اجلاسات کا ذکر ہونا چاہئے.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ ہر قائد کو علم ہونا چاہئے کہ اس کے تحت کتنے خدام ہیں اور کہاں رہ رہے ہیں.اس کی اپنی تجنید ہر لحاظ سے مکمل ہونی چاہئے.صدر صاحب نے بتایا کہ پہلے بارہ ریجن میں خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہوتا ہے پھر سالانہ اجتماع ہوتا ہے.اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ کیا آپ کے اجتماعات میں نئے چہرے شامل ہوتے ہیں؟ یہ جائزہ لیا کریں کہ ہر اجتماع میں کتنے لوگ آئے ہیں.اپنے اجتماعات میں نو مبایع خدام کو شامل کریں.پھر حضور انور نے ماہانہ میٹنگ کے بارہ میں دریافت فرمایا اور اس بارہ میں ان کو توجہ دلائی.حضور انور نے صدر صاحب کو فرمایا : آپ اپنے نائب صدر کے سپر د خاص کام کریں کہ وہ تمام مجالس سے ماہانہ رپورٹس اکٹھی کریں اور وہ اس کے ذمہ دار ہوں.معتمد کے ذریعہ خطوط لکھوائیں اور بار بار یاد دہانی کروائیں.حضور انور نے مجلس خدام الاحمدیہ کے چندوں کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا اور فرمایا کہ خدام کو مالی نظام میں شامل کرنا بے حد ضروری ہے اور اس کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے.اس لحاظ سے تو آپ کی کوشش کا ابھی آغاز ہوا ہے.فرمایا کہ اس بارہ میں مجالس کو مہتم مال کی طرف سے بار بار یاد دہانی کے خطوط جانے چاہئیں.حضور انور نے ان کے بجٹ کا تفصیلی جائزہ لیا اور فرمایا کہ آپ کی اس طرح رپورٹ تیار ہونی چاہئے کہ کمانے والے ممبرز کتنے ہیں اور کتنے ہیں جو طلباء ہیں.اور کتنے ایسے ہیں جو کمانے والے نہیں ہیں.فرمایا سارے ملک میں سے یہ Data اکٹھا کریں.اگر آپ باقاعدہ سنجیدگی سے کام کریں گے اور اس کام کے لئے وقت دیں گے تو آپ کا چندہ بہت بڑھ سکتا ہے.حضور نے مہتم (اصلاح وارشاد) کو ہدایت فرمائی کہ آپ سارے ملک کے لئے مہتم ( اصلاح وارشاد ))

Page 21

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 3 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہیں اس لئے صرف کسی ایک شہر میں (دعوت الی اللہ کے ) پروگرام نہیں بنانے بلکہ سارے ملک میں بنائیں.اس بارہ میں سب قائدین مجالس کو Active کریں اور مسلسل رابطے رکھیں اور رپورٹس لیں اور خود بھی دورہ پر جائیں.ذاتی رابطہ رکھیں تو بہتر کام ہوگا.حضور انور نے مہتم اشاعت کو جو خدام الاحمدیہ کا ماہانہ رسالہ ”خادم“ نکالتے ہیں ہدایت فرمائی کہ اپنے رسالہ کا آغاز قرآن کریم کی آیت اور اس کا ترجمہ اور تشریح سے کریں.پھر اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ترجمہ اور تشریح کے ساتھ درج کریں اور اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی اقتباس دیا جائے.اس کے بعد خلیفہ وقت کے خطبہ جمعہ، تقاریر سے کوئی حصہ لیا کریں.فرمایا : مشعل راہ سے بھی اقتباس لے کر شائع کیا کریں.مہتمم صنعت و تجارت کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ ایسے خدام کی فہرست تیار کریں جو بریکار ہیں اور گھروں میں بیٹھے ہیں.ان کو کام میں Involve کریں.کوشش کر کے ان کو کسی کام پر لگائیں.یہ نو جوان فارمنگ شروع کریں اور مختلف نوعیت کے کام کریں.اس غرض کے لئے آپ کے بجٹ میں کچھ رقم مخصوص ہو.اور یہ پروگرام ہو کہ بیکار خدام کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے.بیکاری ختم کئے بغیر آپ اپنے ملک کو اس لیول پر نہیں لا سکتے کہ آپ Independent ہو سکیں.امیر امیر تر ہو رہا ہے اور غریب، غربت میں بڑھتا جارہا ہے.آپس میں فاصلے بڑھ رہے ہیں اس لئے آپ کو اس سلسلہ میں بہت محنت کرنا ہوگی.مہتمم اطفال کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ بچوں کی تربیت کی طرف بہت توجہ دیں.جلسہ پر بچے آئے تھے لیکن نمازوں میں ان کی حالت ایسی نہیں تھی جو احمد یوں والی ہوتی ہے اس لئے ان کو نماز سکھائیں اور با قاعدہ تربیت کریں اور اطفال کی تنظیم کا حصہ بنائیں.فرمایا اطفال کی تربیت پر بہت زیادہ توجہ دیں.شعبہ تعلیم و تربیت کے بارہ میں حضور انور نے فرمایا کہ یہ دونوں شعبے علیحدہ علیحدہ ہیں اس لئے ان کے علیحدہ علیحدہ مہتم ہونے چاہئیں.حضور انور نے تعلیمی کلاسز، قرآن کریم کی کلاسز اور پھر نصاب مقرر کر کے امتحان لینے کی طرف توجہ دلائی.حضور انور نے فرمایا امتحان میں مجلس عاملہ کے تمام ممبران شامل ہوں.تربیت کے حوالہ سے ہی حضور نے فرمایا کہ با قاعدہ سب مجالس میں تربیتی کلاسز ہونی چاہئیں.خدام کو قرآن کریم پڑھنا سکھایا جائے.نماز ، اس کا ترجمہ سکھایا جائے.دینی معلومات کا علم ہو.نمازوں کی ادائیگی کی

Page 22

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ طرف توجہ ہو.فرمایا اپنی تربیتی کلاسز میں ( مربیان ) اور معلمین سے مد دلیا کریں.حضور انور نے مہتم تجنید کو ہدایت فرمائی کہ اپنی تجنید مکمل کریں.اس سلسلہ میں بار بار قائدین کو یاد دہانی کروائیں.تجنید کی تکمیل کے لئے (مربیان ) معلمین اور مستعد قائدین سے رابطہ کر کے ان کی بھی مدد لیں.یہ Remote ایریا میں جائیں اور Data اکٹھا کریں.شعبہ وقار عمل کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ تمام مجالس سے وقار عمل کی رپورٹ لیا کریں.( بیوت الذکر) اور اس کے اردگرد کے علاقہ میں صفائی ہو.دیہاتوں میں گلیوں کو بھی صاف کریں.حضور انور نے فرمایا کہ میں نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بھی اس بارہ میں ہدایات دی تھیں.فرمایا سب مجالس میں وقار عمل ہونے چاہئیں اور اس کی با قاعدہ رپورٹ لیا کریں.مہتم صحت جسمانی کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ تمام مجالس میں خدام کے لئے سہولیات حاصل ہوں.ہر مجلس کے خدام کے لئے کھیلوں کے پروگرام بنائیں اور پھر با قاعدہ اس کی رپورٹ کریں.حضور انور نے فرمایا مہتم عمومی کے لئے کسی ایسے خادم کو مقرر کر میں جو اس کام کے لئے موزوں اور مناسب ہو.فرمایا: ڈیوٹی لگانا سیکیورٹی کا انتظام کرنا، جلسہ سالانہ پر سیکیورٹی ڈیوٹیز اور ایمر جنسی وغیرہ یہ سب شعبہ عمومی کے کام ہیں.حضور انور نے مہتم امور طلباء اور مہتم تحریک جدید مقرر کرنے کی بھی ہدایت فرمائی اور ان کے شعبوں اور کام کے بارہ میں تفصیل سے سمجھایا.حضورانور نے فرمایا کہ اطفال الاحمدیہ کو وقف جدید کے نظام میں شامل کرنا یہ مہتم اطفال الاحمدیہ کا کام ہے.انہیں چاہئے کہ اس کا انتظام کریں اور اطفال کو چندہ وقف جدید کے نظام میں شامل کریں.حضور انور نے مجلس عاملہ کے ممبران کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اب پروگرام بنا ئیں اور مستعدی سے کام کریں.گزشتہ عرصہ میں جو کمیاں ، خامیاں رہ گئی ہیں ان کو سامنے رکھیں اور دور کریں.اور اپنے کام کی با قاعدہ ہر ماہ مجھے رپورٹ بھجوائیں.حضور نے فرمایا کہ سکیم بنا کر کام ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس پر عملدرآمد کروانا ہوتا ہے.اور وہ بھی معین مدت کے اندر جو اس غرض کے لئے مقرر کی گئی ہے.حضور نے فرمایا: آپ اپنے سب قائدین کو Active کریں تو پھر آپ کا جو ٹا رگٹ ہوگا وہ آپ حاصل

Page 23

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 5 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کرلیں گے.اگر آپ کے قائدین گراس روٹ لیول سے Active نہ ہوں تو پھر آپ سب کچھ ضائع کر دیں گے.اس لئے سائفین سے لے کر اوپر تک اپنے نظام کو مستعد اور مضبوط کریں اور فعال بنائیں.آخر پر حضور انور نے ممبران مجلس عاملہ کو خدام الاحمدی تنظیم کے اغراض و مقاصد کے بارہ میں تفصیل سے بتایا.حضور نے فرمایا کہ اگر جماعتی نظام بھی مضبوط اور مستحکم ہو اور ذیلی تنظیمیں بھی مستعد اور فعال ہوں تو پھر جماعت کی ترقی غیر معمولی رفتار سے ہوگی.انشاء اللہ العزیز.گیارہ بج کر 55 منٹ پر یہ میٹنگ ختم ہوئی.آخر پر مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کینیا کے ممبران نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت حاصل کی.الفضل انٹرنیشنل 20 تا 26 مئی 2005ء)

Page 24

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 6 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرموده 6 مئی 2005 ء سے اقتباسات دعوت الی اللہ کا ایک گر * اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لئے ، جماعت کو مضبوط کرنے کے لئے اچھی باتوں کو اپناؤ اور پھر آگے پہنچاؤ.اور جب ایسے عمل نیکیوں پر چلتے ہوئے اور برائیوں سے بچتے ہوئے انجام پا رہے ہوں گے تو پھر ( دعوت الی اللہ ) میں آسانی ہوگی.اور جماعت کے اندر بھی بہترین تربیت ہو رہی ہوگی.کیونکہ نیکیوں کو رائج کیا جارہا ہو گا اور برائیوں سے روکا جارہا ہوگا.یہ نیک باتیں اور اچھی باتیں بے شمار ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے.مثلاً رشتہ داروں سے حسن سلوک ہے، امانت ہے، دوسروں کی خاطر قربانی ہے، انسانی ہمدردی ہے، دوسروں کے متعلق اچھے خیالات رکھنے کی تعلیم ہے، سچ بولنا ہے، دوسروں کو معاف کرنا ہے،صبر کرنا ہے، انصاف سے کام لینا ہے، دوسروں پر احسان کرنا ہے، اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہے، ہر طرح کے گند ، ذہنی بھی اور جسمانی بھی، سے اپنے آپ کو پاک رکھنا ہے.ذہنی گند یہ ہے کہ دماغ میں دوسرے کو نقصان پہنچانے یا اخلاق سے گری حرکتیں کرنے کا خیال دل میں آئے.پھر اچھی باتوں میں معاشرے میں آپس میں محبت اور پیار کو بڑھانا ہے.رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا ہے، ہمسایوں سے، اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے اچھا سلوک کرنا ہے.خوش اخلاقی ہے، پھر جو اچھی حیثیت کے ہیں یعنی مالی لحاظ سے بہتر حیثیت کے ہیں ان کو خود بھی غریبوں کا خیال رکھنا چاہئے اور اس تعلیم کو پھیلانا بھی چاہئے.اسی طرح بیشمار برائیاں ہیں جن سے انسان کو خود بھی رکنا چاہئے اور دوسروں کو بھی اس طرف توجہ دلانی چاہئے کیونکہ نیکیاں اختیار کرنے کے لئے برائیاں چھوڑنا از حد ضروری ہے.بعض معاشرتی برائیاں ان برائیوں میں سے بعض کی مثال دیتا ہوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مومن میں

Page 25

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 7 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ یہ برائیاں نہیں ہونی چاہئیں.مثلاً کنجوسی کی عادت ہے یعنی دوسروں کی ضرورت کو دیکھ کر با وجود تو فیق ہونے کے اس کی مدد نہ کرنا یا جماعتی چندوں میں ہاتھ روک کر رکھنا.پھر بدظنی کرنا ہے، دوسروں پر بلا وجہ الزام لگانا ہے، لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے، حسد کرنا ہے، لغو اور بیہودہ باتیں ہیں جن سے اپنے آپ کو اور جماعت کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان ہورہا ہوتا ہے.کسی کی غیبت کرنا ہے.جھوٹ بولنا ہے.جھوٹ بھی ایک بہت بڑی لعنت ہے جو انسان کو دوسرے گناہوں میں مبتلا کر دیتی ہے.خیانت کرنا ہے، اس میں آنکھ کی خیانت بھی ہے ، مرد کا عورت کو بری نیت سے دیکھنا.کسی کی امانت میں خیانت بھی ہے.اس میں اور بھی بہت سی باتیں آجاتی ہیں.مثلاً اپنا کام صحیح طرح نہ کرنا.ہر ایک احمدی (مومن) جس کو نیکی کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے کا حکم ہے اسے سب سے پہلے اپنے آپ کو ہی برائیوں سے پاک کرنا ہوگا اور نیکیوں کو اختیار کرنا ہوگا.تبھی وہ دوسروں کو حکم دے سکتا ہے.ورنہ اگر ہم یہ نہیں کرتے تو ہم منافقت اور دوغلی باتوں کے مرتکب ہوتے ہیں.اور ایسے لوگوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا سخت انذار فرمایا ہے.اور فرمایا ہے کہ ایسے لوگ جہنمی ہیں جن کے قول وفعل میں تضاد ہوتا ہے..اگر یا نذار سن کر کسی کو یہ خیال آئے کہ پھر تو بہتر ہے کہ میں خاموش رہوں اور کبھی نیکیوں کی تعلیم نہ دوں اور نہ بری باتوں سے روکوں جب تک کہ میں خود اس قابل نہیں ہو جاتا.اگر یہ خیال آئے گا تو انسان اپنی اصلاح سے بے پرواہ ہو جاتا ہے.اس لئے یہ تعلیم دینا بھی ضروری ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے.پس ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ وہ نیکیوں کی تعلیم بھی دے اور ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ بھی کرتا رہے، اپنا جائزہ بھی لیتا رہے کہ میری اصلاح ہورہی ہے کہ نہیں.یہ انتہائی ضروری امر ہے.اظہار حق میں بزدلی نہیں دکھانی ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ حق کے اظہار کے لئے کبھی بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا کیونکہ جرات سے نیکیوں کو پھیلانا ، ان کے کرنے کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ہی ایک معیار ہے جس سے مومن ہونے کا پتہ چلتا ہے.لیکن مومن کا عمل بھی اس کے مطابق ہونا چاہئے.جب اپنا عمل بھی ہو گا تب ہی اثر بھی قائم ہو گا.اور جب عمل ہوگا تو پھر سختی کی ضرورت نہیں رہے گی.ایسے آدمی کی تلقین کا بھی لوگ نیک اثر لیں گے جن کے اپنے

Page 26

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 8 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی عمل بھی اچھے ہوں گے.آپ نے یہی تلقین فرمائی ہے کہ اگر سمجھانے والے کے دل میں تقویٰ ہے، سمجھانے والے کے دل میں نیکی ہے، سمجھانے والے کے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف ہے تو موقع کے مطابق اگر بات کرو گے تو نیک بات کا اثر ہوگا.لیکن موقع محل کے حساب سے تلقین کرنا ضروری ہے.اگر کسی کی برائی دیکھ کر لوگوں کے سامنے ہی اس کو سمجھانے لگ جاؤ گے اور زبان میں تیزی پیدا کرو گے تو پھر دوسرا شخص جس کو تم سمجھا رہے ہو گے نیک اثر نہیں لے گا.بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے سے بڑھ کر ضد میں آ کر برائی کرے.پس سمجھانے کے لئے بھی موقع اور وقت اور عمل اور تقویٰ ضروری ہے.اگر اس طرح عمل ہوں گے تو خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اس کے رحم کے بھی یقیناً حقدار ہوں گے.کیونکہ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو یہ نیک عمل کر رہے ہوں گے میں ان پر ضرور رحم کروں گا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے.غیبت سے معاشرے میں نفرتیں جنم لیتی ہیں....مثلاً غیبت ہے.کسی کا اس کے پیچھے برے الفاظ میں ذکر کر نا قطع نظر اس کے کہ وہ برائی اس میں ہے یا نہیں.اگر اس کی کسی برائی کا اس کے پیچھے ذکر ہوتا ہے اور باتیں کی جاتی ہیں تو یہ غیبت ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بیعت لیا کرتے تھے تو اس بات پر خاص طور پر بیعت لیا کرتے تھے کہ غیبت نہیں کروں گا.تو کتنی اہمیت ہے اس بُرائی کی کیونکہ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے.ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پیدا ہوتی ہیں.اور پھر یہ بعض دفعہ جماعت میں فتنے کا باعث بنتی ہیں.اور اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس برائی کے متعلق بہت زور دے کر سمجھایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ”ہماری جماعت کو چاہئے کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعا کریں.لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دُور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں.کون سا ایسا عیب ہے جو کہ دُور نہیں ہوسکتا.اس لئے ہمیشہ دعا کے ذریعے سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہئے“.آپ نے فرمایا کہ: ” ایک صوفی کے دو مرید تھے.ایک نے شراب پی اور نالی میں بیہوش ہو کر گرا.دوسرے نے صوفی سے شکایت کی.اس نے کہا تو بڑا بے ادب ہے کہ اس کی شکایت کرتا ہے اور جا کر اٹھا نہیں لاتا.وہ اُسی وقت گیا اور اسے اٹھا کر لے چلا.وہ بزرگ ” کہتے تھے کہ ایک نے تو بہت شراب پی لیکن دوسرے نے کم پی کہ اسے اٹھا کر لے جارہا ہے“.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ”صوفی کا یہ مطلب تھا کہ تو

Page 27

مشعل راه جلد پنجم حصه سوم 9 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بھائی کی غیبت کیوں کی“.آپ فرماتے ہیں کہ : "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کا حال پوچھا تو فرمایا کہ کسی کی سچی بات کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے برا لگے غیبت ہے.اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے اور تو بیان کرتا ہے تو اس کا نام بہتان ہے.جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے...پھر ایک برائی ہے جھوٹ ، کوئی شخص اگر ذراسی مشکل میں بھی ہو تو اس سے بچنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لے لیتا ہے.اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جھوٹ کو برائی نہیں سمجھا جاتا.حالانکہ جھوٹ ایسی برائی ہے جو سب برائیوں کی جڑ ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک برائی سے چھٹکارہ پانے کی درخواست کرنے والے کو یہی فرمایا تھا کہ اگر ساری برائیاں نہیں چھوڑ سکتے تو ایک برائی کو چھوڑ دو اور وہ ہے جھوٹ.اور یہ عہد کرو کہ ہمیشہ سچ بولو گے.اب بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ صرف اتنا ہے کہ عدالت میں غلط بیان دے دیا.اگر چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے تو جھوٹ بول کر اپنی جان بچانے کی کوشش کی.اگر کوئی غیر اخلاقی حرکت کی تو جھوٹ بول دیا.یا کسی کے خلاف جھوٹی گواہی دے دی اور بلاوجہ کسی کومشکل میں مبتلا کر دیا.یقیناً یہ سب باتیں جھوٹ ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی غلط بیانیاں کرنا بھی جھوٹ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے ہمیں اس کی ایک مثال دی ہے.جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جھوٹ کی تعریف کیا ہے.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی چھوٹے بچے کو کہا آؤ میں تمہیں کچھ دیتا ہوں اور اسے دیتا کچھ نہیں تو یہ جھوٹ میں شمار ہوگا.یہ جھوٹ کی تعریف ہے.اب اگر ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے تو پتہ چلے گا کہ ہم روزانہ کتنی دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھوٹ بول جاتے ہیں.مذاق مذاق میں ہم کتنی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جھوٹ ہوتی ہیں.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اگر ہم اس بارے میں گہرائی میں جا کر توجہ کریں گے.تب ہم اپنے اندر سے اور اپنے بچوں کے اندر سے جھوٹ کی لعنت کو ختم کر سکتے ہیں.عہد بیعت ایک امانت ہے پس ہم جو احمدی ( مومن ) ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی ہے کہ

Page 28

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 10 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہم اللہ اور رسول کے حکموں پر چلیں گے اور سب برائیوں کو چھوڑیں گے اور تمام نیکیوں کو اختیار کریں گے.ہمیں ہر برائی کو چھوڑنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے.اگر انسان کا ارادہ پکا ہو،اور اللہ تعالیٰ سے فضل مانگ رہے ہوں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ برائیاں نہ چھٹیں اور آپ اس قابل نہ ہوسکیں کہ دوسروں کو نیکیوں کی تلقین کرنے والے بنیں.سچ کو مان کر پھر انسان جھوٹ کس طرح بول سکتا ہے اور امانت کی ادائیگی کا عہد کر کے پھر کس طرح خیانت ہوسکتی ہے.پس ہر احمدی جو بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوا ہے اس کا بیعت کا عہد بھی ایک امانت ہے.اور کبھی کسی احمدی کو احمدیت کی تعلیم پر عمل نہ کر کے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہ کر کے خیانت کا مرتکب نہیں ہونا چاہئے.پس ہر احمدی اس پر سختی سے عمل کرے کہ نہ تو ذاتی طور پر اور نہ جماعتی طور پر خیانت کا مرتکب ہوگا.اگر کسی کے سپر دکوئی جماعتی خدمت ہے تو وہ اسے نہایت ایمانداری سے ادا کرے گا.اگر کسی کو جماعتی اموال کا نگران بنایا گیا ہے تو وہ اس کی نہایت ایمانداری سے حفاظت کرے گا اور کبھی کسی خیانت کا مرتکب نہیں ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ تم اپنی امانت کی ادائیگی کے معیاروں کو اس قدر بلند کرد که اگر دنیاوی معاملات میں بھی کوئی شخص تمہارے ساتھ خیانت سے پیش آچکا ہے تو پھر بھی تم اس سے خیانت نہ کرو.اگر اس کی کوئی امانت تمہارے پاس ہے تو اس کو لوٹا دو.تو پھر دین کے معاملے میں اس کا کس قدر احساس ہمیں رکھنا چاہئے....الفضل انٹر نیشنل 20 تا 26 مئی 2005ء)

Page 29

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 11 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمود 0 13 مئی 2005 ء سے اقتباسات متقی کے مال میں برکت کا اصل مفہوم * اللہ تعالیٰ اپنے در پر آنے والوں اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے متعلق یہ بھی فرماتا ہے کہ میں ان کے رزق میں بھی برکت ڈالتا ہوں.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بے تحاشا مال ہونا بھی رزق میں برکت ہے.ٹھیک ہے اگر کسی نیک آدمی کے پاس مال ہے تو یہ اُس پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس سے وہ اپنے ساتھ اپنے بھائیوں کی ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے.لیکن یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی مال میں برکت اس طرح بھی ڈالتا ہے کہ ایک بندے کو بہت سی لغویات اور گناہوں سے بچا کر رکھتا ہے.مثلاً جوا، شراب، زنا وغیرہ سے بچایا ہوا ہے.اور اسی رقم سے جہاں ایک احمدی اپنے بیوی بچوں کے خرچ بھی برداشت کرتا ہے اور چندے بھی دیتا ہے وہاں اتنی رقم سے لغویات اور گناہوں میں مبتلا شخص کے گھر میں ہر وقت دنگا فساد اور بے برکتی ہی رہتی ہے اور غلاظت اور پھٹکار ہی ہر وقت ایسے گھروں میں پڑی رہتی ہے.غرض ایک برکت جو ایک متقی کے پیسے میں ہے وہ غیر متقی کے پیسے میں نہیں.پھر ضروریات زندگی کے لئے اللہ تعالیٰ بعض دفعہ متقی شخص کے لئے ایسے ذرائع سے رقم کا انتظام کر دیتا ہے جو اس کے وہم و خیال میں بھی نہیں ہوتا.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.{وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبْ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ } (الطلاق:4) یعنی متقی کو اللہ تعالیٰ وہاں سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا اس کو خیال بھی نہیں ہوگا.اور جو کوئی اللہ پر تو کل کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہے.تو جب اس حد تک تقویٰ بڑھ جائے گا کہ انسان اس پر تو کل کرتے ہوئے غیر اللہ کے سامنے نہ جھکے تو پھر وہ خدا تعالیٰ کے دینے کے نظارے بھی دیکھتا ہے.دنیادار بیچارے کو یہی فکر رہتی ہے کہ کہیں ان کا پیسہ ضائع نہ ہو جائے.آج کل مختلف قسم کی بیماریاں بھی ایسے لوگوں کو ہیں جو عموما متقیوں کو نہیں ہوتیں.متقی انسان کو اگر کوئی فکر ہوتی ہے تو وہ اس غم میں گھلتا ہے کہ

Page 30

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 12 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کہیں خدا تعالیٰ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے.لیکن دنیا دار کی دولت ذراسی بھی ضائع ہو جائے تو اس کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں.پھر وہ اور مختلف قسم کی عیاشیوں میں پڑا ہوتا ہے جس سے مختلف قسم کی بیماریوں کا حملہ ہوتا ہے.بعض لوگ اپنی دولت کے حساب میں ساری ساری رات جاگتے ہیں اور اسی وجہ سے بیمار ہو جاتے ہیں.بہر حال اگر کسی کے پاس دولت ہے اور تقویٰ نہیں ہے تو یہ دولت بھی ایک وبال ہے.الفضل انٹر نیشنل 27 مئی تا 2 جون 2005ء)

Page 31

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 13 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ 20 مئی 2005 ء سے اقتباسات * وَانِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ ۖ وَ إِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِير» (سورة هود آيت نمبر4) یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: اور یہ کہ تم اپنے رب سے استغفار کرو، پھر اس کی طرف تو بہ کرتے ہوئے جھکوتو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہترین معیشت عطا کرے گا.اور وہ ہر صاحب فضیلت کو اس کے شایان شان فضل عطا کرے گا.اور اگر تم پھر جاؤ تو یقینا میں تمہارے بارے میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.حقیقی استغفار کا طریق تو دیکھیں فرمایا کہ استغفار کرو اور جو استغفار نیک نیتی سے کی جائے ، جو تو بہ اس کے حضور جھکتے ہوئے کی جائے کہ اے اللہ! یہ دنیاوی گند، یہ معاشرے کے گند، ہر کونے پر پڑے ہیں.اگر تیرا فضل نہ ہو ، اگر تو نے مجھے مغفرت کی چادر میں نہ ڈھانپا تو میں بھی ان میں گر جاؤں گا.میں اس گند میں گرنا نہیں چاہتا.میری چھلی غلطیاں، کوتاہیاں معاف فرما، آئندہ کے لئے میری توبہ قبول فرما.تو جب اس طرح استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ پچھلے گناہوں کو معاف کرتے ہوئے ، توبہ قبول کرتے ہوئے ، اپنی چادر میں ڈھانپ لے گا.اور پھر اپنی جناب سے اپنی نعمتوں سے حصہ بھی دے گا.دنیا سمجھتی ہے کہ دنیا کے گند میں ہی پڑ کر یہ دنیاوی چیز میں ملتی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو تو بہ کرنے والے ہیں، جو استغفار کرنے والے ہیں ، ان کو میں ہمیشہ کے لئے دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازتا رہوں گا.اُن کی زندگی میں بھی ان کے لئے اس دنیا کے دنیاوی سامان ہوں گے اور ان پر فضلوں کی بارش ہوگی.اور اُن کے یہ استغفار اور اُن کے نیک عمل آئندہ زندگی میں بھی اُن کے کام آئیں گے.اور یہی استغفار ہے جس سے شیطان کے تمام حربے فنا ہو جائیں گے.

Page 32

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 14 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ایک حدیث میں آتا ہے حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ گناہ سے بچی تو بہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں.(رساله قشيرية باب التوبة) جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو گناہ اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کے محرکات اُسے بدی کی طرف مائل نہیں کر سکتے.واضح ہو کہ یہ مطلب نہیں کہ گناہ کرتے چلے جاؤ، جان بوجھ کر گند میں گرتے چلے جاؤ اور مجھو کہ میں نے استغفار کر لی ہے اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ گناہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف ہے.مطلب یہی ہے کہ اس کو بدی کی طرف، برائی کی طرف کوئی رغبت نہیں ہوتی.پھر حضور نے یہ آیت پڑھی کہ {انَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ } - اللہ تعالیٰ تو بہ قبول کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! تو بہ کی علامت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ندامت اور پشیمانی علامت تو بہ ہے.تو دیکھیں علامت یہ بتائی کہ ندامت ہو، پشیمانی ہو اور اس کی وجہ سے پھر آئندہ ان سے بچتا بھی رہے.کیونکہ جس بات کی ندامت ہو اور پشیمانی ہو اس بات کو انسان دوبارہ جان بوجھ کر نہیں کرتا.الفضل انٹر نیشنل 3 تا 9 جون 2005 ء )

Page 33

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 15 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ یوگنڈا کے ساتھ میٹنگ * (22 مئی 2005 ء 4:30 بجے نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ یوگنڈا کی حضور انور کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی.میٹنگ کے آغاز میں حضور انور نے دعا کروائی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے باری باری تمام شعبوں کے کام کا جائزہ لیا اور پروگراموں کے بارہ میں دریافت فرمایا اور ہر شعبہ کو ہدایات سے نوازا.حضور انور نے مجلس خدام الاحمدیہ کے چندوں کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا اور فرمایا سب خدام کو مالی نظام میں شامل کریں.حضور انور نے تفصیل کے ساتھ خدام الاحمدیہ کو ان کا سارا نظام سمجھایا اور فرمایا کہ اب پروگرام بنائیں اور مستعدی سے کام کریں اور اپنی خامیاں دور کریں اور گراس روٹ لیول سے اپنے قائدین کو Active کریں.حضور انور نے فرمایا آپ سب نے جماعت کے لئے وقت دینا ہے.جتنا زیادہ وقت دیں گے اتنی زیادہ برکتیں ملیں گی.شعبہ تجنید کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ آپ کی تجنید ہر سال Revise ہونی چاہئے.کیونکہ کئی خدام انصار میں جارہے ہوں گے اور کئی اطفال خدام میں شامل ہور ہے ہوں گے.حضور انور نے صدر خدام الاحمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ ہر ماہ با قاعدگی سے رپورٹ حضور انور کی خدمت میں آنی چاہئے.آخر پر حضور انور نے ممبران مجلس عاملہ کو خدام الاحمدیہ کی تنظیم کے اغراض و مقاصد کے بارہ میں تفصیل سے بتایا.حضور انور نے فرمایا اگر جماعتی نظام بھی مضبوط اور فعال ہوں تو پھر جماعت کی ترقی انشاء اللہ غیر معمولی رفتار سے ہوگی.پانچ بجکر 50 پر یہ میٹنگ ختم ہوئی.آخر پر مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ یوگنڈا کے ممبران نے حضورانور کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت حاصل کی.الفضل انٹر نیشنل یکم تا7 جولائی 2005ء)

Page 34

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 16 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ 27 مئی 2005 ء سے اقتباسات * وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا.يَعْبُدُ وَنَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ ﴾ ( سورة النور آیت نمبر 56) آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی تاریخ کا وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود کی جماعت میں شامل لوگوں کی ، آپ کی وفات کے بعد، خوف کی حالت کو امن میں بدلا.اور اپنے وعدوں کے مطابق جماعت احمدیہ کو تمکنت عطا فرمائی یعنی اس شان اور مضبوطی کو قائم رکھا جو پہلے تھی.اور اللہ تعالیٰ نے اپنی فعلی شہادت سے یہ ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور نبی تھے.اور آپ وہی خلیفہ اللہ تھے جس نے چودھویں صدی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی شریعت کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنا تھا اور آپ کے بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کا سلسلہ خلافت تا قیامت جاری رہنا تھا.اللہ کی فعلی شہادت ہمارے ساتھ ہے پس آج 7 9 سال گزرنے کے بعد جماعت احمدیہ کا ہر بچہ ، جوان، بوڑھا، مرد اور عورت اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی اس بارے میں فعلی شہادت گزشتہ 97 سال سے پوری ہوتی دیکھی ہے اور دیکھ رہا ہوں.اور نہ صرف احمدی بلکہ غیر از جماعت بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں.گزشتہ مثالیں تو بہت ساری ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد، پھر حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد، پھر مصلح موعود کی وفات کے بعد.لیکن جیسے کہ میں پہلے بھی ایک دفعہ بتا چکا ہوں کہ خلافت خامسہ کے حضرت

Page 35

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 17 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ انتخاب کی کارروائی دیکھ کر ، جو ایم ٹی اے پر دکھائی گئی تھی ہمخالفین نے یہ اعتراف کیا کہ تمہارے بچے ہونے کا تو ہمیں پتہ نہیں لیکن یہ بہر حال پتہ لگ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ ہے.تو بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر بہت بڑا احسان ہے اور اس کی نعمت ہے جس کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے.اور یہ شکر ہی ہے جو اس نعمت کو مزید بڑھاتا چلا جائے گا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.{ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ یعنی اگر تم شکر گزار بنے رہو تو میں اور بھی زیادہ دوں گا.اس نعمت کے جو افضال ہیں ان سے میں تمہیں بھرتا چلا جاؤں گا.ایک فتنہ بہر حال ایک تو اس دن کی اہمیت کی وجہ سے ، آج 27 مئی ہے، اور دوسرے جو اس خطبے کا محرک بنا ہے وہ ایک مضمون ہے جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا تھا لیکن آج کل اس کو کوئی شخص مختلف لوگوں کو بھیج رہا ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے تو خلافت کا مقام واضح کرنے کے لئے لکھا تھا اور اس کی وضاحت میں اپنے ذوق کے مطابق اس بات کا بھی ذکر فرمایا تھا کہ خلافت جماعت احمدیہ میں کب تک چلے گی یا اس کی کیا صورت ہوگی.لیکن یہ بات بہر حال واضح ہے اور اس میں رتی بھر بھی شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ جماعت میں کسی وقت بھی کسی انتشار کا پھیلانا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ذہن میں نہیں تھایا.مقصد نہیں تھا.لیکن اس شخص نے جو آج کل مختلف لوگوں کو یہ مضمون بھیج رہا ہے اس کے عمل سے یہ لگتا ہے کہ جماعت خلافت کے بارے میں شکوک وشبہات میں گرفتار ہو.مثلاً اس سے لگتا ہے کہ اس کی نیت نیک نہیں ہے کہ بذریعہ ڈاک جن کو بھی مضمون فوٹو کاپی کر کے بھجوایا گیا اس پر لکھا گیا ہے، ایک مہر لگائی ہے کہ ایک احمدی بھائی کا تحفہ.اب اگر نیک نیت تھا تو نام کے ساتھ بلکہ نظام جماعت سے یا مجھ سے پوچھ کر بھیج سکتا تھا کہ اس طرح اس مضمون کی میں اشاعت کرنا چاہتا ہوں.بڑی ہوشیاری دکھائی ہے کہ مضمون انہیں الفاظ میں بھیجا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.خلیفہ معزول نہیں کیا جاسکتا وغیرہ کی وضاحتیں بھی اس میں ہیں.لیکن حضرت میاں صاحب کے اس نظریے کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ ایک وقت میں خلافت کی جگہ ملوکیت لے لے گی یعنی بادشاہت آجائے گی.تو بہر حال یہ حضرت میاں صاحب کا اپنا ایک ذوقی نظریہ تھا.اور حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے اُس وقت اس کا علم ہونے کے بعد اس نظریے کی تردید میں ایک وضاحت بھی شائع فرمائی تھی.

Page 36

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 18 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ آگے وضاحت میں کچھ باتیں کھولوں گا.تو ان صاحب کی حرکت سے لگتا ہے جیسے وہ یہ بات ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پہلے چار خلفاء کی خلافت تو ٹھیک تھی لیکن اب خلافت نہیں رہی.بہر حال اس بارے میں اسی مضمون سے دکھاؤں گا جو حضرت میاں صاحب کا ہے کہ یہ ان صاحب کی عقل کا قصور ہے اور جن کو یہ مضمون بھیجے گئے ہیں ان میں سے بھی اگر کسی کے دل میں کوئی شک کوئی شبہ ہے تو وہ بھی دور ہو جائے.خلافت کی خوشخبری صالحین کے لئے ہے لیکن اس سے پہلے جو میں نے آیت تلاوت کی ہے اس کی کچھ وضاحت کروں گا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ، تم میں سے جولوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا.اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نا فرمان ہیں.یعنی خلافت قائم رکھنے کا وعدہ ان لوگوں سے ہے جو مضبوط ایمان والے ہوں اور نیک اعمال کر رہے ہوں.جب ایسے معیار مومن قائم کر رہے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق خلافت کا نظام جاری رکھے گا.نبی کی وفات کے بعد خلیفہ اور ہر خلیفہ کی وفات کے بعد آئندہ خلیفہ کے ذریعہ سے یہ خوف کی حالت امن میں بدلتی چلی جائے گی.اور یہی ہم گزشتہ 100 سال سے دیکھتے آرہے ہیں.لیکن شرط یہ ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہوں اور دنیا کے لہو ولعب ان کو متاثر کر کے شرک میں مبتلا نہ کر رہے ہوں.اگر انہوں نے ناشکری کی ، عبادتوں سے غافل ہو گئے ، دنیا داری ان کی نظر میں اللہ تعالیٰ کے احکامات سے زیادہ محبوب ہوگئی تو پھر اس نافرمانی کی وجہ سے وہ اس انعام سے محروم ہو جائیں گے.پس فکر کرنی چاہئے تو ان لوگوں کو جو خلافت کے انعام کی اہمیت نہیں سمجھتے.یہ خلیفہ نہیں ہے جو خلافت کے مقام سے گرایا جائے گا بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خلافت کے مقام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے فاسقوں میں شمار ہوں گے.تباہ وہ لوگ ہوں گے جو خلیفہ یا خلافت کے مقام کو نہیں سمجھتے ہنسی ٹھٹھا کرنے والے ہیں.پس یہ وارننگ ہے، تنبیہ ہے ان کو جو اپنے آپ کو ( مومن ) کہتے ہیں.یا یہ وارنگ ہے ان کمزور احمدیوں کو جو خلافت کے قیام و استحکام کے حق میں

Page 37

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 19 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی دعائیں کرنے کی بجائے اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کہاں سے کوئی اعتراض تلاش کیا جائے.ایک معترض کا بودا اعتراض اب مثلاً ایک صاحب نے مجھے لکھا، شروع کی بات ہے، کہ تم بڑی پلاننگ کر کے خلیفہ بنے ہو.پلاننگ کیا تھی؟ کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی وفات کا اعلان الفضل اور ایم ٹی اے پر تمہاری طرف سے ہوتا تھا تا کہ لوگ تمہاری طرف متوجہ ہوں.انا للہ.یہ میری مجبوری تھی اس لئے کہ حسب قواعد مجھے ناظر اعلی ہونے کی حیثیت سے یہ کرنا تھا.بہر حال جرات اس شخص میں بھی نہیں جس نے یہ لکھا کیونکہ یہ بے نام خط تھا.تو ایسا شخص تو خود منافق ہے.اگر خلافت پر اعتماد نہیں تو پھر احمدی رہنے کا بھی فائدہ نہیں.اور اگر پھر بھی ایسا شخص اپنے آپ کو احمدی ثابت کرتا ہے تو وہ منافق ہے.مختصر ابتا دوں کہ اس وقت میرا تو یہ حال تھا کہ جب نام پیش ہوا تو میں ہل کر رہ گیا تھا اور یہ دعا کر رہا تھا کہ کسی کا بھی ہاتھ میرے حق میں کھڑا نہ ہو.اور اس تمام کارروائی کے دوران جو میری حالت تھی وہ میں جانتا ہوں یا میرا خدا جانتا ہے.یہ تو بے وقوفوں والی بات ہے کسی کا یہ سوچنا کہ خلافت کے لئے کوئی اپنے آپ کو پیش کرے.عموماً غیر مجھ سے پوچھتے ہیں تو اُن کو میں ہمیشہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا یہ جواب دیا کرتا ہوں ، ان سے بھی کسی نے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو پتہ تھا کہ آپ خلیفہ منتخب ہو جائیں گے.تو ان کا جواب یہ تھا کہ کوئی عقلمند آدم یہ بھی سوچ بھی نہیں سکتا.تو یہ صاحب لکھنے والے یا تو مجھے بیوقوف سمجھتے ہیں اور اپنی بات کی یہ خود ہی تردید بھی کر رہے ہیں ( جس سے لگتا ہے کہ یہ بیوقوف نہیں سمجھتے ) کیونکہ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ تم نے بڑی ہوشیاری سے اپنا نام پیش کروایا.بہر حال مختلف وقتوں میں شیطان اپنی چالیں چلتا رہتا ہے.خلافت تا قیامت رہے گی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد سلسلہ خلافت کو ہمیشہ کے لئے قرار دیا ہے.جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہے.اب میں اس طرف آتا ہوں، وہ منی باتیں تھیں، کہ خلافت جماعت احمدیہ میں ہمیشہ قائم رہنی ہے.حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر وہ اس کو اٹھالے گا اور خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے

Page 38

20 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم گا اس نعمت کو بھی اٹھالے گا.پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذاء رساں بادشاہت قائم ہوگی.جب یہ دور ختم ہوگا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی جب تک اللہ چاہے گا.پھر اللہ اسے بھی اٹھا لے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی.اور یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے.(مشکوۃ.باب الانذار والتحذیر) اور یہ جو دوبارہ قائم ہوئی تھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی قائم ہوئی تھی.پس یہ خاموش ہونا بتا تا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جو سلسلہ خلافت شروع ہونا ہے یا ہونا تھا.یہ دائگی ہے.اور یہ الہی تقدیر ہے.اور الہی تقدیر کو بدلنے پر کوئی فتنہ پرداز بلکہ کوئی شخص بھی قدرت نہیں رکھتا.یہ قدرت ثانیہ یا خلافت کا نظام اب انشاء اللہ تعالیٰ قائم رہنا ہے.اور اس کا آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے زمانہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اگر یہ مطلب لیا جائے کہ وہ تہیں سال تھی تو وہ تمہیں سالہ دور آپ کی پیشگوئی کے مطابق تھا.اور یہ دائی دور بھی آپ ہی کی پیشگوئی کے مطابق ہے.قیامت کے وقت تک کیا ہونا ہے یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.لیکن یہ بتا دوں کہ یہ دور خلافت آپ کی نسل در نسل در نسل اور بے شمار نسلوں تک چلے جانا ہے، انشاء اللہ تعالی ، بشرطیکہ آپ میں نیکی اور تقویٰ قائم رہے.اسی لئے اس پر قائم رکھنے کے لئے میں پہلے دن سے ہی مسلسل تربیتی مضامین پر اپنے خطبات وغیرہ دے رہا ہوں.یہ وعدہ یا خر جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی اس کی تجدید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دے کر بھی اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: غرض ( خدا تعالیٰ ) دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.دوسرے ایسے وقت جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا.اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے.جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت مجھی گئی اور بہت سے باد یه نشین نادان مرتد ہو گئے.( یعنی ان پڑھ، جاہل، گاؤں کے رہنے والے صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ

Page 39

21 مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا { وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا } یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جمادیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا.جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا دیں، فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم بر پا ہوا.“ پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ”سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دوقدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں“.فرماتے ہیں: لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے.وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے.پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو.اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آ جائے گی.اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک

Page 40

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 22 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں“.اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک وقت میں بہت سارے ہوں گے اس کا مطلب ہے کہ مختلف وقتوں میں آتے رہیں گے.” خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا.ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو“.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304 تا 307) تو دیکھیں کہ کتنا واضح ہے کہ خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں تیرے ماننے والے ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.یہ غلبہ تو حید کے قیام اور ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کی وجہ سے ہوگا.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ میں کسی خاص خاندان میں سے یا کسی خاص ملک میں سے ایسے لوگ کھڑے کروں گا جو دین کے استحکام کے لئے کوشش کریں گے بلکہ فرمایا کہ صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعاؤں میں لگے رہو.“ چالاکیاں دکھانے کی بجائے صالح بنو پس بجائے ہوشیار یاں، چالاکیاں دکھانے کے صالح بنو اور دعاؤں میں لگے رہوتا کہ یہ خلافت کا انعام تم میں ہمیشہ جاری رہے.جیسا کہ میں نے کہا یہ اعزاز قائم رکھنے کے لئے ،اگر یہ گزشتہ 97 سال سے کسی خاص ملک کے لوگوں کے حصے میں آ رہا ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے حصے میں آ رہا ہے تو اس کو قائم رکھنے کے لئے ، دعاؤں اور نیک اعمال کی ضرورت ہے.ورنہ کوئی قوم بھی جوا خلاص اور وفا اور تقویٰ میں بڑھنے والی ہوگی اس حکم کو بلند کرنے والی ہوگی.کیونکہ یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یہ قدرت دائگی ہے.اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن دائمی قدرت کے ساتھ شرائط ہیں.اعمال صالحہ.احمدیوں کی خلافت سے محبت اب افریقہ کے دورے میں گزشتہ سال کی طرح اس دفعہ بھی مختلف ملکوں میں جا کر میں نے احمدیوں

Page 41

23 مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے اخلاص و وفا کے جو نظارے دیکھے ہیں ان کی ایک تفصیل ہے.بعض محسوس کئے جاسکتے ہیں، بیان نہیں کئے جا سکتے.تنزانیہ کے ایک دور دراز علاقے میں جہاں سڑکیں اتنی خراب ہیں کہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچنے میں چھ سات سو کلو میٹر کا سفر بعض دفعہ آٹھ دس دن میں طے ہوتا ہے.ہم اس علاقہ کے ایک نسبتاً بڑے قصبے میں جہاں چھوٹا سا ائر پورٹ ہے، چھوٹے جہاز کے ذریعہ سے گئے تھے تو وہاں لوگ اردگرد سے بھی ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے.ان میں جوش قابل دید تھا.بہت جگہوں پر وہاں ایم ٹی اے کی سہولت بھی نہیں ہے.اس لئے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ایم ٹی اے دیکھ کر اور تصویریں دیکھ کر یہ تعلق پیدا ہو گیا تھا.یہ جوش بتا تا تھا کہ خلافت سے ان نیک عمل کرنے والوں کو ایک خاص پیار اور تعلق ہے.جن سے مصافحے ہوئے ان کے جذبات کو بیان کرنا بھی میرے لئے مشکل ہے.ایک مثال دیتا ہوں.مصافحے کے لئے لوگ لائن میں تھے ایک شخص نے ہاتھ بڑھایا اور ساتھ ہی جذبات سے مغلوب ہو کر رونا شروع کر دیا.کیا یہ تعلق، یہ محبت کا اظہار، ملوک یا بادشاہوں کے ساتھ ہوتا ہے یا خدا کی طرف سے دلوں میں پیدا کیا جاتا ہے.ایک صاحب پرانے احمدی جو فالج کی وجہ سے بہت بیمار تھے،ضد کر کے 40-50 کلومیٹر یا میل کا فاصلہ طے کر کے مجھ سے ملنے کے لئے آئے.اور فالج سے ان کے ہاتھ مڑ گئے تھے، ان مڑے ہوئے ہاتھوں سے اس مضبوطی سے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا کہ مجھے لگا کہ جس طرح شکنجے میں ہاتھ آ گیا ہے.کیا اتنا تر دو کوئی دنیا داری کے لئے کرتا ہے.غرض کہ جذبات کی مختلف کیفیات تھیں.یہی حال کینیا کے دور دراز کے علاقوں کے احمد یوں میں تھا اور یہی جذبات یوگنڈا کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے احمدیوں کے تھے.جور پورٹس شائع ہوں گی ان کو پڑھ لیں خود ہی پتہ چل جائے گا کہ خلافت کے لئے لوگوں میں کس قدرا خلاص ہے.اور انشاء اللہ تعالیٰ یہی نیک عمل اور اخلاص جماعت احمدیہ میں ہمیشہ استحکام اور قیام خلافت کا باعث بنتا چلا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : یادر ہے کہ اگر چہ قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیں جو اس امت میں خلافت دائگی کی بشارت دیتی ہیں.اور احادیث بھی اس بارہ میں بہت سی بھری پڑی ہیں.لیکن بالفعل اس قدرلکھنا اُن لوگوں کے لئے کافی ہے جو حقائق ثابت شدہ کو دولت عظمی سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور اسلام کی نسبت اس سے بڑھ کر اور کوئی بداندیشی نہیں کہ اس کو مردہ مذہب خیال کیا جائے اور اس کی برکات کو صرف قرنِ اوّل تک محدود رکھا

Page 42

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 24 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جاوے.(شہادۃ القرآن.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 355) پس اس کے بعد کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ ہم ان بحثوں میں پڑیں کہ خلافت کب تک رہنی ہے اور کب ملوکیت میں بدل جاتی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ نیک اعمال کرنے والے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے اور خلافت کا سلسلہ ہمیشہ چلتا چلا جائے گا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی بداندیشی نہیں کہ اسلام کو مردہ مذہب خیال کیا جاوے اور برکات کو صرف قرن اول تک محدود رکھا جائے.شروع سالوں تک جو اسلام کے ابتدائی سال تھے ان تک محد و در کھا جائے.اسی طرح یہ بھی بداندیشی ہے کہ یہ کہا جائے کہ پہلی چار خلافتوں کے مقابل پر چار خلافتیں آگئیں اور بس.اللہ تعالیٰ میں صرف اتنی قدرت تھی کہ پہلی خلافت راشدہ کے عرصہ کو تقریباً تین گنا کر کے خلافت کے انعام سے نوازے اور اس کے بعد اس کی طاقتیں ختم ہو گئیں.انا للہ.اور جیسا کہ میں حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس سے دکھا آیا ہوں کہ اگر کسی کی ایسی سوچ ہے تو غلط ہے.اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے ہاں تم میں سے ہر ایک اپنے عملوں کی فکر کرے.چند شبہات کا ازالہ اب میں مختصراً ان صاحب کی طرف آتا ہوں جنہوں نے بڑی ہوشیاری سے مضمون پھیلا کر بعض لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.اپنی طرف سے ایسے لوگوں کو آلۂ کار بنانے کی کوشش کی ہے جو شاید اس سوچ میں پڑ جائیں لیکن انہیں پتہ نہیں کہ جماعت کی اکثریت خلافت سے بچی وفا اور محبت رکھنے والی ہے اور وہ جن کو یہ مضمون بھجوائے گئے ہیں انہوں نے نظام کو یا مجھے اس سے آگاہ کر دیا، ہمیں بھجوادیے.شیطان نے ایک چال چلی تھی لیکن وہ ناکام ہو گیا.لیکن جماعت کو بتانا میرا فرض ہے کہ وہ آئندہ محتاط رہیں.ان صاحب نے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی اس بات کو انڈر لائن کیا ہے کہ کسی نبی کے بعد خلافت متصلہ کا سلسلہ دائمی طور پر نہیں چلتا بلکہ صرف اس وقت تک چلتا ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ نبوت کے کام کی تکمیل کے لئے ضروری خیال فرمائے اور اس کے بعد ملوکیت کا دور آ جاتا ہے یعنی تسلسل قائم نہیں رہتا.ایک کے بعد دوسرا خلیفہ نہیں آتا.روحانی طور پر سلسلہ ختم ہو جائے گا.لیکن یہاں بھی واضح ہو کہ کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مشن تھا مکمل ہو گیا ہے؟ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ حضرت میاں صاحب

Page 43

25 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم کا اپنا نظریہ تھا اور اس بارے میں ایک دو اور جگہ اس مضمون میں جو میں نے الفاظ پڑھے ہیں اس سے ملتے جلتے الفاظ ہیں لیکن یہ صاحب حضرت میاں صاحب کے اُسی مضمون میں یہ الفاظ بھی پڑھ لیں کہ بچے خلفاء کی علامات کیا ہیں.آپ اس بارہ میں لکھتے ہیں کہ پہلی اور ظاہری علامت یہ ہے کہ مومنوں کی جماعت کسی شخص کو اتفاق رائے یا کثرت رائے سے خلیفہ منتخب کرے.انتخاب خلافت خامسہ کے وقت خدائی تحریک اب یہ صاحب بتائیں کہ کیا خلافت خامسہ کے انتخاب میں یہ نہیں ہوا.مجلس انتخاب میں تو بہت سے ایسے ممبران تھے جو مجھے جانتے بھی نہیں تھے لیکن الہی تقدیر کے ماتحت انہوں نے میرے حق میں رائے دی اور اکثر نے یہ کہا کہ ہمارے دل میں یہ خدائی تحریک پیدا ہوئی ہے.اور اس بات کی وضاحت بھی حضرت میاں صاحب نے مضمون میں کی ہوئی ہے.بہر حال میں میاں صاحب کے حوالوں سے اس لئے بات کر رہا ہوں کہ ان کے مضمون میں ہی جواب موجود ہیں.اور یہ بھی کہ تم جلد بازی نہ کرو.پھر آپ لکھتے ہیں.دوسری علامت یہ ہے جو باطنی علامتوں میں سے ہونے کی وجہ سے کسی قد رغور اور مطالعہ چاہتی ہے.وہ ہے قرآن شریف کی آیت استخلاف یعنی {وَلَيْمَكِنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا } کہ اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.آپ لکھتے ہیں کہ ہر خلیفہ کی وفات کے بعد عموماً جماعت میں ایک زلزلہ وارد ہوتا ہے.جماعت کے لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں.ایسے وقت میں خدا کی سنت ہے کہ وہ اپنے مقرر کردہ خلیفہ کے ذریعہ انہیں اطمینان اور تمکنت عطا فرماتا ہے.اب آپ میں سے ہر کوئی گواہ ہے بلکہ دنیا کا ہر احمدی گواہ ہے، ہر بچہ گواہ ہے کہ کیا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ للہ تعالیٰ کی وفات کے بعد جو ایک خوف کی حالت تھی اسے اللہ تعالیٰ نے سکینت میں نہیں بدل دیا ؟ اگر ان صاحب کے لئے یہ دلیل کافی نہیں تو اللہ ہی رحم کرے.اور تیسری علامت حضرت میاں صاحب نے اپنی ذوقی علامت بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں نبی پر ظاہر کر دیتا ہے کہ کون آئندہ ہونا ہے.بہر حال اس کا تعلق تو نبی سے ہے.ضروری نہیں کہ ہر جگہ نبی کی طرف سے اظہار بھی ہو.تو ان صاحب سے میں حضرت میاں صاحب کے الفاظ میں یہی کہتا ہوں کہ اس زمانے کی قدر کو پہچانو اور اپنے پیچھے آنے والوں کیلئے نیک نمونہ چھوڑو تا کہ

Page 44

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 26 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بعد کی نسلیں تمہیں محبت اور فخر کے ساتھ یاد کریں، اور تمہیں احمدیت کے معماروں میں یاد کریں نہ کہ خانہ خرابوں میں.خلافت ملوکیت میں نہیں بدلے گی بہر حال یہ بتا دوں کہ جب یہ مضمون شائع ہوا تھا.جیسا کہ میں نے شروع میں یہ ذکر کیا تھا کہ حضرت خلیفة امسیح الثانی نے اس کا جواب بھی لکھا تھا.تو میرے والد صاحب صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے حضرت خلیفہ المسح الثانی کی خدمت میں لکھا تھا کہ حضرت میاں صاحب کا جو یہ مضمون ہے اس میں جو ملوکیت والا حصہ ہے اس سے مجھے اتفاق نہیں ہے.حضرت مسیح موعود کی تحریرات اور بعض الہامات سے تو یہ ثابت نہیں ہوتا.ضمناً بتا دوں کہ یہ خط جو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خدمت میں میرے والد صاحب نے لکھا تھا وہ خط بھی میں نے پڑھا ہوا ہے.پرانے کاغذات ایک دن میں دیکھ رہا تھا ان میں سے مجھے مل گیا.اور اس میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا نوٹ بھی تھا کہ تمہارا خیال ٹھیک ہے.( کیونکہ اس کو پڑھے ہوئے کافی دیر ہوگئی ) مجھے یاد پڑتا ہے آپ نے یہ بھی لکھا تھا کہ احمدیت کی خلافت ملوکیت میں نہیں بدلے گی.بہر حال پھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے الفضل میں ایک پیغام شائع کروایا جو میں پڑھ دیتا ہوں تا کہ جن ذہنوں میں غلط فہمی ہے وہ دور ہو جائے.اور یہ بھی اتفاق کہہ لیں، جیسے میں نے بتادیا، یا الہی تقدیر کہ میرے والد صاحب کے ذریعہ ہی اُس وقت خلیفہ وقت کو اس طرف توجہ پیدا ہوئی اور آپ نے وضاحت فرمائی.حضرت خلیفہ السیح الثانی کا تبصرہ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ : " عزیزم مرزا منصور احمد نے میری توجہ ایک مضمون کی طرف پھیری ہے جو مرزا بشیر احمد صاحب نے خلافت کے متعلق شائع کیا ہے.اور لکھا ہے کہ غالبا اس مضمون میں ایک پہلو کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی جس میں مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریر کیا ہے کہ خلافت کا دور ایک حدیث کے مطابق عارضی اور وقتی ہے.میں نے اس خط سے پہلے یہ مضمون نہیں پڑھا تھا.اس خط کی بنا پر میں نے اس مضمون کا وہ حصہ نکال کر سنا تو میں نے بھی سمجھا کہ اس میں صحیح حقیقت خلافت کے بارے میں پیش نہیں کی گئی.مرز ابشیر احمد صاحب نے جس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ خلافت کے بعد حکومت ہوتی ہے.اس حدیث میں قانون نہیں بیان کیا گیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے حالات کے متعلق پیشگوئی کی

Page 45

27 مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ گئی ہے اور پیشگوئی صرف ایک وقت کے متعلق ہوتی ہے.سب اوقات کے متعلق نہیں ہوتی.یہ امر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت نے ہونا تھا اور خلافت کے بعد حکومت مستبد ہ نے ہونا تھا اور ایسا ہی ہو گیا.اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہر مامور کے بعد ایسا ہی ہوا کرے گا.قرآن کریم میں جہاں خلافت کا ذکر ہے وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خلافت ایک انعام ہے.پس جب تک کوئی قوم اس انعام کی مستحق رہتی ہے وہ انعام اسے ملتا رہے گا.پس جہاں تک مسئلہ اور قانون کا سوال ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی ہے اور وہ خلافت اس وقت تک چلتی چلی جاتی ہے جب تک کوئی قوم خود ہی اپنے آپ کو خلافت کے انعام سے محروم نہ کر دے.لیکن اس اصل سے ہرگز یہ بات نہیں نکلتی کہ خلافت کا مٹ جانا لازمی ہے.حضرت عیسی کی خلافت اب تک چلی آ رہی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ پوپ صحیح معنوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کا خلیفہ نہیں لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی تو مانتے ہیں کہ امت عیسوی بھی صحیح معنوں میں مسیح کی امت نہیں.پس جیسے کو تیسا تو ملا ہے مگر ضرور ہے بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے موسیٰ کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی لیکن حضرت عیسی کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں سال تک قائم رہی.اس طرح گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت محمد یہ تو اتر کے رنگ میں عارضی رہی لیکن مسیح محمدی کی خلافت مسیح موسوی کی طرح ایک غیر معین عر صے تک چلتی چلی جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلے پر بار بار زور دیا ہے کہ مسیح محمدی کو مسیح موسوی کے ساتھ ان تمام امور میں مشابہت حاصل ہے جو امور کی تعمیل اور خوبی پر دلالت کرتے ہیں.سوائے ان امور کے جن سے بعض ابتلاء ملے ہوتے ہیں.ان میں علاقہ محمد بیت، علاقہ موسویت پر غالب آ جاتا ہے اور نیک تبدیلی پیدا کر دیتا ہے.جیسا کہ مسیح اول صلیب پر لٹکایا گیا لیکن مسیح ثانی صلیب پر نہیں لٹکایا گیا.کیونکہ مسیح اول کے پیچھے موسوی طاقت تھی اور مسیح ثانی کے پیچھے محمدی طاقت تھی.خلافت چونکہ انعام ہے.ابتلاء نہیں.اس لئے اس سے بہتر چیز تو احمدیت میں آ سکتی ہے جو کہ مسیح اول کو ملی لیکن وہ ان نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتی جو کہ مسیح اول کی امت کو ملیں.کیونکہ مسیح اول کی پشت پر موسوی برکات تھیں اور مسیح ثانی کی پشت پر محمدی برکات ہیں.پس جہاں میرے نزدیک یہ بحث نہ صرف یہ کہ بیکار ہے بلکہ خطرناک ہے کہ ہم خلافت کے عرصے سے متعلق بحثیں شروع کر دیں وہاں یہ امر ظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصے تک چلے گی جس کا قیاس بھی اس وقت نہیں کیا جاسکتا.( یعنی اس لمبے عرصے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا یہ کہاں تک ہے؟ ) اور اگر خدانخواستہ بیچ میں کوئی وقفہ پڑے بھی تو وہ حقیقی وقفہ نہیں ہوگا

Page 46

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 28 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بلکہ ایسے ہی وقفہ ہو گا جیسے دریا بعض دفعہ زمین کے نیچے گھس جاتے ہیں اور پھر باہر نکل آتے ہیں.کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرون اولیٰ میں ہوا وہ ان حالات سے مخصوص تھا وہ ہر زمانے کے لئے قاعدہ نہیں تھا.“ الفضل 3 اپریل 1952 ء ) تو حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی یہ وضاحت میرے خیال میں کافی ہے کیونکہ آپ کو بہرحال اللہ تعالی کی طرف سے رہنمائی ملی تھی.ایسے خلیفہ تھے، مصلح موعود تھے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ظاہری و باطنی علوم سے پُر کئے جانے کے بارے میں بتایا تھا.اور بہر حال خلیفہ کے مقابل پر کوئی شخص بھی چاہے وہ کتنا ہی عالم ہو کم حیثیت رکھتا ہے.کیونکہ جماعت کی رہنمائی اور بہتری کے لئے اللہ تعالیٰ خلیفہ سے ایسے الفاظ نکلوا دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق ہوں.پس ہر ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ جیسا کہ پہلے بھی ذکر آچکا ہے کہ لغویات اور فضولیات میں نہ پڑیں اور استحکام خلافت کے لئے دعائیں کریں تا کہ خلافت کی برکات آپ میں ہمیشہ قائم رہیں.جہاں تک میرا سوال ہے، میری غلطیاں اگر نظر آتی ہیں تو مجھے بتائیں لیکن ہر جگہ بیٹھ کر یا خاص دوستوں میں بیٹھ کر بعض جگہ سے ایسی رپورٹیں مل جاتی ہیں ) کسی کو باتیں کرنے کا حق نہیں ہے کہ اس میں یہ کی ہے یا یہ کمزوری ہے.اگر نیک نیت ہیں تو مجھے بتائیں.حضرت مصلح موعود ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت احمد یہ ایمان بالخلافت پر قائم رہی اور اس کے قیام کے لئے صحیح جد و جہد کرتی رہی تو خدا تعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلۂ خلافت قائم رہے گا اور کوئی شیطان اس میں رخنہ اندازی نہیں کر سکے گا.پس ہر احمدی کو اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھتے ہوئے دعاؤں کے ذریعہ سے ان فضلوں کو سمیٹنا چاہئے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا ہے.اپنے بزرگوں کی اس قربانی کو یاد کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ انہوں نے جو قیام اور استحکام خلافت کے لئے بھی بہت قربانیاں دیں.آپ میں سے بہت بڑی تعداد جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں یا جو میری زبان میں میری باتیں سمجھ سکتے ہیں اپنے اندر خاص تبدیلیاں پیدا کریں.پہلے سے بڑھ کر ایمان و اخلاص میں ترقی کریں.ان لوگوں کی طرف دیکھیں جو باوجود زبان براہ راست نہ سمجھنے کے باوجود بہت کم رابطے کے، بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ کسی خلیفہ کو دیکھا ہو گا اخلاص و وفا میں

Page 47

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 29 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بڑھ رہے ہیں.مثلاً یوگنڈا میں ہی جب ہم اترے ہیں اور گاڑی باہر نکلی تو ایک عورت اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے ، دواڑھائی سال کا بچہ تھا، ساتھ ساتھ دوڑتی چلی جارہی تھی.اس کی اپنی نظر میں بھی پہچان تھی ، خلافت اور جماعت سے ایک تعلق نظر آ رہا تھا ، وفا کا تعلق ظاہر ہو رہا تھا.اور بچے کی میری طرف توجہ نہیں تھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا منہ اس طرف پھیر تی تھی کہ دیکھو اور کافی دور تک دوڑتی گئی.اتنارش تھا کہ اس کو دھکے بھی لگتے رہے لیکن اس نے پرواہ نہیں کی.آخر جب بچے کی نظر پڑ گئی تو بچہ دیکھ کے مسکرایا.ہاتھ ہلایا.تب ماں کو چین آیا.تو بچے کے چہرے کی جو رونق اور مسکراہٹ تھی وہ بھی اس طرح تھی جیسے برسوں سے پہچانتا ہو.تو جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی جن کی گود میں خلافت سے محبت کرنے والے بچے پروان چڑھیں گے اس وقت تک خلافت احمد یہ کوکوئی خطرہ نہیں.تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ تو کسی کا رشتہ دار نہیں ہے.وہ تو ایسے ایمان لانے والوں کو جو عمل صالح بھی کر رہے ہوں، اپنی قدرت دکھاتا ہے اور اپنے وعدے پورے کرتا ہے.پس اپنے پر رحم کریں، اپنی نسلوں پر رحم کریں اور فضول بحثوں میں پڑنے کی بجائے یا ایسی بخشیں کرنے والوں کی مجلسوں میں بیٹھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اور وعدے پر نظر رکھیں اور حضرت مسیح موعود کی جماعت کو مضبوط بنائیں.جماعت اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت پھیل چکی ہے اس لئے کسی کو یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ ہمارا خاندان ، ہمارا ملک یا ہماری قوم ہی احمدیت کے علمبر دار ہیں.اب احمدیت کا علمبر دار وہی ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہے اور خلافت سے چمٹا ر ہنے والا ہے.خلافت جو بلی پر دعاؤں کی تحریک تین سال کے بعد خلافت کو 100 سال بھی پورے ہورہے ہیں.جماعت احمدیہ کی صد سالہ جو بلی سے پہلے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جماعت کو بعض دعاؤں کی طرف توجہ دلائی تھی تحریک کی تھی.میں بھی اب ان دعاؤں کی طرف دوبارہ توجہ دلاتا ہوں.ایک تو آپ نے اس وقت کہا تھا کہ سورۃ فاتحہ روزانہ سات بار پڑھیں.تو سورۃ فاتحہ کو غور سے پڑھیں تا کہ ہر قسم کے فتنہ و فساد سے اور دجل سے بچتے رہیں.پھر رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِيْنَ کی دعا بھی بہت دفعہ پڑھیں.

Page 48

30 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم اور اس کے ساتھ ہی ایک اور دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو پہلوں میں شامل نہیں تھی کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْهَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّاب.یہ بھی دلوں کو سیدھا رکھنے کے لئے بہت ضروری اور بڑی دعا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے خواب میں یہ دیکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود آئے ہیں اور فرمایا ہے کہ یہ دعا بہت پڑھا کرو.پھر اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِ هِمْ پڑھیں.چاہئے.پھر استغفار بہت کیا کریں.اَسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلَّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ إِلَيْهِ - پھر درود شریف کافی پڑھیں.ورد کریں.آئندہ تین سالوں میں ہر احمدی کو اس طرف بہت توجہ دینی پھر جماعت کی ترقی اور خلافت کے قیام اور استحکام کے لئے ضرور روزانہ دو نفل ادا کرنے چاہئیں.ایک نفلی روزہ ہر مہینے رکھیں اور خاص طور پر اس نیت سے کہ اللہ تعالی خلافت کو جماعت احمدیہ میں ہمیشہ قائم رکھے.اس کے بعد اب میں پھر یہی کہتا ہوں کہ اگر کسی کے دل میں شر ہے تو استغفار کرے اور اسے نکال دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت اس قدر پھیل چکی ہے اور ایمان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے کہ باوجود رابطوں کی سہولیات نہ ہونے کے انشاء اللہ تعالیٰ خلافت سے دور ہٹانے کی کوئی سکیم، کوئی منصو بہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.ضمناً یہ بتا دوں کہ گو میں مشرقی افریقہ کے تین ملکوں کا دورہ کر کے آیا ہوں اور وہاں اندرون ملک غریب جماعتوں تک پہنچنے کی کوشش بھی کی ہے.لیکن بعض دوسرے ممالک مثلاً ایتھوپیا، صومالیہ، برونڈی ، کانگو، موزمبیق ، زیمبیا، زمبابوے وغیرہ کے لوگ بھی وفود کی شکل میں آئے ہوئے تھے اور ان سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں.بعض لوگ تو سفر کی سہولتیں نہ ہونے اور کچی سڑکیں ہونے کے باوجود دو اڑھائی ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر کے آئے تھے.اور غربت کے باوجود اپنے خرچ کر کے آئے تھے.ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی.دنیاوی لیڈروں اور بادشاہوں کے لئے بھی لوگ جمع ہو جاتے ہیں لیکن بعض جگہ ان کو گھیر کے لایا جاتا ہے.پاکستان

Page 49

31 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم وغیرہ میں تو اکثر اسی طرح ہوتا ہے ، لے کر آجاتے ہیں اور جانے کے لئے پھر بیچاروں کے پاس پیسے نہیں ہوتے لیکن وہ اپنے ملک کے لوگ ہیں ان کے لئے اکٹھے بھی کر لیتے ہیں.لیکن ایک ایسا شخص جو نہ ان کی قوم کا ہے ، نہ ان کی زبان جانتا ہے ، نہ اور کوئی چیز کا من ہے اگر مشترک ہے تو ایک چیز کہ وہ احمدی ہیں اور خلافت سے تعلق رکھنے والے ہیں.تو اسی لئے وہ اس قدر تردد کر کے آئے تھے اور یقیناً ان کو خلافت سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے.اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش کی وجہ سے انہوں نے یہ اتنی تکلیفیں اٹھا ئیں.پس جب تک ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ان تمام نعمتوں سے حصہ لیتی رہے گی جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے.اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں جن کے بارہ میں بتایا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر احمدی کو اخلاص و وفا اور اعمال صالحہ میں بڑھاتا چلا جائے اور ہمیشہ وہ خلافت سے جڑے رہیں....الفضل انٹر نیشنل 10 تا 16 جون 2005ء)

Page 50

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 32 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جون 2005 ء سے اقتباسات * ضرورت مند خلیفہ وقت سے چندہ کی تخفیف کروائیں...پس ہر احمدی کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اپنی مالی قربانیوں کو با قاعدہ رکھے تاکہ ساتھ ساتھ تزکیہ نفس بھی ہوتا رہے.خلافت ثانیہ کے ابتدا میں جب سے چندہ عام کی ایک شرح مقرر ہو چکی ہے یعنی 1/16 کے لحاظ سے.تو ہر احمدی کو اس کے مطابق چندہ دینا چاہئے اور چندہ دیتا ہے.لیکن اگر مالی حالات اجازت نہ دیں تو اسی اجازت کے ماتحت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے چھوٹ مل سکتی ہے لیکن ہمیشہ ہر احمدی کو یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی تو فیقوں کو جانتا ہے.اس لئے تقویٰ پر چلتے ہوئے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو اپنے چندوں میں کمی کرنی چاہئے تو بے شک کریں لیکن اس کے لئے جماعت میں طریق ہے کہ خلیفہ وقت سے اجازت لے لیں کہ میرے حالات ایسے ہیں جس کی وجہ سے میں پوری شرح سے چندہ نہیں دے سکتا، ادائیگی نہیں کر سکتا لیکن اپنے آپ کو مکمل طور پر مالی قربانی سے فارغ نہ کریں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار جگہ اس طرف توجہ دلائی ہے اور ابتدا میں ہی ( سورۃ بقرہ میں ) متقیوں کی نشانی یہ بتائی ہے کہ نماز پڑھنے والے ، عبادتیں کرنے والے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں جو متقی ہیں.پس جب آپ استحکام خلافت اور استحکام جماعت کے لئے دعا مانگتے ہیں اور تقویٰ پر قائم رہنے کے لئے دعائیں مانگتے ہیں تو ان حکموں پر عمل بھی کرنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان دعاؤں کا وارث بننے کے لئے دیئے ہیں.چندہ بقایا نہ رہنے دیں پس ہر احمدی فکر سے اپنے بقایا جات صاف کرنے کی کوشش کرے.یہ جو چھ مہینے تک بقایا دار کی شرط ہے جماعت کا یہ قاعدہ ہے کہ یہ نہ ہو.تو یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو زمیندارہ کرتے ہیں ، زمیندار ہیں جن کی فصلوں کی آمد چھ مہینے کے بعد ہوتی ہے.یا جو ایسے کاروباری ہیں جن کو کسی وقفے کے بعد یا کچھ عرصے کے بعد

Page 51

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 33 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ منافع ملتا ہے.ملازم پیشہ اور تاجر پیشہ جو لوگ ہیں جن کی ماہوار آمد ہے ان کو تو فکر کے ساتھ ہر ماہ چندوں کی ادا ئیگی کرنی چاہئے اور جماعت میں ہزاروں ایسے ہیں جو اس فکر کے ساتھ ادا ئیگی کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اپنے پیسوں میں برکت کے بیشمار نظارے دیکھتے ہیں.یہ جو حدیث بیان کی جاتی ہے کہ ایک زمیندار کو اللہ تعالی اس طرح نوازتا تھا کہ اس کو جب پانی کی ضرورت ہوتی تھی تو با دل کو حکم ہوتا تھا کہ فلاں جگہ برس اور اس کی ضرورت پوری کر.تو اس زمیندار کی یہی خوبی تھی کہ اپنی آمد میں سے وہ ایک حصہ علیحدہ کر کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے کے لئے رکھ لیتا تھا.تو کیا یہ قصہ روایتوں میں اس لئے بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے لوگوں سے یا پرانے لوگوں سے ایسا سلوک کرتا تھا اب اس کی یہ قدرت بند ہوگئی ہے!؟ اب اس کو یہ قدرت نہیں رہی ؟ نہیں، بلکہ آج بھی وہ زندہ اور قائم خدا یہ نظارے بے شمار احمد یوں کو دکھاتا ہے.پس اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کی راہ میں کی گئی قربانیوں کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے.وہ لا محدود قدرتوں کا مالک ہے.وہ دیتا ہے تو اتنا دیتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا.اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا لیکن تقویٰ اور نیک نیتی شرط ہے.شادیوں پر اسراف نہ کریں بعض صاحب حیثیت لوگوں میں بے تحا شا نمود و نمائش اور خرچ کرنے کا شوق ہوتا ہے.شادیوں پر بے شمار خرچ کر رہے ہوتے ہیں.کئی کئی قسم کے کھانے پک رہے ہوتے ہیں جو اکثر ضائع ہو جاتے ہیں.یہاں سے جب خاص طور پر پاکستان میں جا کر شادیاں کرتے ہیں اگر سادگی سے شادی کریں اور بچت سے کسی غریب کی شادی کے لئے رقم دیں تو وہ اللہ کی رضا حاصل کر رہے ہوں گے.کھانے اور شادی کارڈ میں سادگی اختیار کریں کھانوں کے علاوہ شادی کارڈوں پر بھی بے انتہا خرچ کیا جاتا ہے.دعوت نامہ تو پاکستان میں ایک روپے میں بھی چھپ جاتا ہے.یہاں بھی بالکل معمولی سا پانچ سات پیس ( Pens) میں چھپ جاتا ہے.تو دعوت نامہ ہی بھیجنا ہے کوئی نمائش تو نہیں کرنی.لیکن بلا وجہ مہنگے مہنگے کارڈ چھپوائے جاتے ہیں.پوچھو تو کہتے ہیں کہ بڑا سستا چھپا ہے.صرف پچاس روپے میں.اب یہ صرف پچاس روپے جو ہیں اگر کارڈ پانچ سو کی تعداد میں چھپوائے گئے ہیں تو یہ پاکستان میں پچیس ہزار روپے بنتے ہیں اور چھپیں ہزار روپے اگرکسی غریب کو

Page 52

34 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل را و جلد پنجم حصہ سوم شادی کے موقع پر ملیں تو وہ خوشی اور شکرانے کے جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے.تو اس طرح بے شمار جگہیں ہیں جہاں بچت کی جاسکتی ہے.اور جن کو اتنی توفیق ہے کہ وہ کہیں کہ ہم بچیوں کی شادیوں میں بھی مدد کر سکتے ہیں اس لئے ہمیں اس قسم کی چھوٹی بچت کی ضرورت نہیں ہے تو پھر ایسے لوگوں کو کم از کم جو خرچ وہ اپنے بچوں کی شادی پر کرتے ہیں اس کا ایک فیصد تو غریب کی شادی کی مدد کے لئے چندہ دینا چاہئے.پاکستان میں بھی بہت سے لوگ ہیں جو بڑی فضول خرچی کرتے ہیں.کچھ باہر سے جا کر کر رہے ہوتے ہیں اور کچھ وہاں رہنے والے کر رہے ہوتے ہیں.یا جو فضول خرچی نہیں بھی کرتے ان کی ایسی توفیق ہوتی ہے کہ بچوں کی شادی میں مدد کر سکیں.ان سب کو آگے آنا چاہئے اور اس نیک کام میں حصہ لینا چاہئے.عموماً ایک غریبانہ شادی بھیس میں ہزار روپے کی مدد سے ہو جاتی ہے.کچھ نہ کچھ تو انہوں نے خود بھی کیا ہوتا ہے.اتنی مدد ہو جائے تو لوگوں کی بڑی مدد ہو جاتی ہے.تو پھر یہ غریب آدمی کے لئے سکون کا باعث بن رہی ہوتی ہے اور آپ کو دعاؤں کا وارث بنارہی ہوتی ہے.بہر حال ہر ایک کو حسب توفیق اس فنڈ میں ضرور حصہ لینا چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے...طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے لئے مالی قربانی کی تحریک.میں آج ایک تحریک کرنا چاہتا ہوں خاص طور پر جماعت کے ڈاکٹر ز کو اور دوسرے احباب بھی عموماً، اگر شامل ہونا چاہیں تو حسب توفیق شامل ہو سکتے ہیں، جن کوتو فیق ہو، گنجائش ہو.یہ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے مالی قربانی کی تحریک ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ربوہ میں خلافت رابعہ کے شروع میں یہ خواہش تھی کہ یہاں ایک ایسا ادارہ ہو جو اس علاقے میں دل کی بیماریوں کے علاج کے لئے سہولت میسر کر سکے.اس دور میں کچھ بات چلی بھی تھی لیکن پھر اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا.بہر حال میرا خیال ہے کہ آخری دنوں میں حضور کی اس طرف دوبارہ توجہ ہوئی تھی لیکن خلافت خامسہ کے شروع میں اس پر کام شروع ہوا.ایک ہمارے احمدی بھائی ہیں انہوں نے اپنے والدین کی طرف سے خرچ اٹھانے کی حامی بھری.پھر امریکہ کے ایک احمدی ڈاکٹر بھی اس میں شامل ہوئے.انہوں نے خواہش کی کہ میں بھی شامل ہونا چاہتا ہوں.بہر حال نقشے وغیرہ بنائے گئے اور بڑی خوبصورت ایک چھ منزلہ عمارت تعمیر کی جارہی ہے جو اپنی تعمیر کے آخری مراحل میں ہے اور اس فیلڈ کے ڈاکٹر ماہرین کے مشوروں سے یہ سارا کام ہوا ہے.وہ اس میں شامل ہیں.خاص طور

Page 53

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 35 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ پر ڈاکٹر نوری صاحب سے مشورہ لیا گیا ہے.ایک ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے کیسی کیسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.ڈاکٹر صاحب مرکزی کمیٹی میں شامل بھی ہیں.مستقل وقت دیتے ہیں ماشاء اللہ.پھر جو نقشے انہوں نے بنوانے تھے جیسا کہ میں نے کہا وہ چھ منزلہ عمارت کے تھے جس میں تمام متعلقہ سہولتیں رکھی گئی تھیں جو دل کے ایک ہسپتال کے لئے ضروری ہیں.تو اس وقت انہوں نے جو تخمینہ دیا تھا ، جو اندازہ خرچ دیا تھا اس وقت بھی اس رقم سے زیادہ تھا جس کی ان دو صاحبان نے (جن کا میں نے ذکر کیا ) دینے کی حامی بھری تھی.تو انتظامیہ کچھ پریشان تھی.میں نے انہیں کہا کہ یہ نقشے جو بنائے گئے ہیں جن کی میں نے منظوری دی تھی اسی کی منظوری دیتا ہوں.اللہ کا نام لے کر اسی کے مطابق کام کریں.انشاء اللہ اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا، فضل فرمائے گا.پھر کچھ اور لوگ بھی اس میں شامل ہوتے رہے اور اب جہاں تک عمارت کا تعلق ہے وہ قریباً مکمل ہو چکی ہے، جلد چند مہینوں میں ہو جائے گی.اس تعمیر میں ( بتا چکا ہوں ) کچھ لوگوں نے حصہ بھی لیا.اور فضل عمر ہسپتال کی انتظامیہ نے بڑی محنت سے اور ہر جگہ پر جہاں بچت ہو سکتی تھی جہاں ضرورت تھی ، انہوں نے بچت کرائی اور تعمیر کر وانے میں احتیاط کی.خاص طور پر ڈاکٹر نوری صاحب کے ٹیکنیکل مشورے بھی باقاعدہ ہر قدم پر ملتے رہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.لیکن اب جوا یکو پمنٹ (Equipment) اور سامان وغیرہ ہسپتال کا آنا ہے وہ کافی قیمتی ہے.میں نے انہیں کہا ہے کہ جیسے جیسے رقم کا انتظام ہوتا جائے گا یہ فیز (Phases) میں خریدیں.لیکن ابتدائی کام کے لئے بھی کافی بڑی رقم کی ضرورت ہے.اس لئے میں احمدی ڈاکٹروں سے خصوصاً کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں پر بڑا فضل فرمایا ہے اور خاص طور پر امریکہ اور یورپ کے جو ڈاکٹر صاحبان ہیں.اسی طرح پاکستان میں بھی بعض ایسے ڈاکٹر ز ہیں جو مالی لحاظ سے بہت اچھی حالت میں ہیں.اگر آپ لوگ خدا کی رضا حاصل کرنے اور غریب انسانیت کی خدمت کے لئے اس ہارٹ انسٹیٹیوٹ کو مکمل کرنے میں حصہ لیں تو یقینا آپ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن کو خدا بے انتہا نوازتا ہے اور ان کے اس فعل کا اجر اس کے وعدوں کے مطابق خدا کے پاس بے انتہا ہے.کوشش کریں کہ جو وعدے کریں انہیں جلد پورا بھی کریں.اس ادارے کو مکمل کرنے کی میری بھی شدید خواہش ہے.کیونکہ میرے وقت میں شروع ہوا اور انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ سے امید ہے وہ خواہش پوری کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتا آیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو یہ موقع دے رہا ہے کہ اس نیک کام میں ،اس

Page 54

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 36 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کارخیر میں حصہ لیں اور شامل ہو جائیں اور اس علاقے کے بیمار اور دکھی لوگوں کی دعائیں لیں.آجکل دل کی بیماریاں بھی زیادہ ہیں.ہر ایک کو علم ہے کہ ہر جگہ بے انتہا ہو گئی ہیں اور پھر علاج بھی اتنا مہنگا ہے کہ غریب آدمی تو افورڈ (Afford) کر ہی نہیں سکتا.ایک غریب آدمی تو علاج کروا ہی نہیں سکتا.پس غریبوں کی دعائیں لینے کا ایک بہترین موقع ہے جو اللہ تعالیٰ آپ کو دے رہا ہے.اس سے فائدہ اٹھا ئیں.الفضل انٹر نیشنل 17 تا 23 جون 2005ء)

Page 55

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 37 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جون 2005ء سے اقتباس مقام ابراہیم پر فائز ہونے کے لئے ذمہ داریاں حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں شرک کے خلاف ایک عظیم جہاد کیا تھا اور مخالفین نے اس وجہ سے ان کو آگ میں بھی ڈالا تھا.لیکن خدا تعالیٰ اپنے پیاروں کو اس طرح ضائع نہیں کرتا.چنانچہ وہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکی.ہمیں بھی اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ ایک طرف تو ہم اپنے آپ کو ابراہیم کی برکات کا حصہ دار بنانا چاہتے ہیں.ہم اس زمانے کے ابراہیم کو مان کر ہر قسم کے شرک سے بے زاری کا اظہار کرنے کا نعرہ لگاتے ہیں.لیکن مثلاً نمازوں کے اوقات ہیں.چھوٹے چھوٹے بت اور خدا، نوکری کے، کاروبار کے سستیوں کے ہم نے بنائے ہوئے ہیں ان کے پنجے سے نکلنا نہیں چاہتے.یا اس طرح نکلنے کی کوشش نہیں کرتے جس طرح کوشش کرنی چاہئے.صرف منہ سے یہ کہ دینا کہ اے اللہ ہمیں مقام ابراہیم پر فائز کر دے، کوئی فائدہ نہیں دے گا جب تک کہ وہ محبت اپنے دل میں پیدا نہ کریں جو ابراہیم علیہ السلام کو اپنے خدا سے تھی.جب تک ہم اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا تعالیٰ کے احکامات کے سپرد نہ کر دیں.جب تک ہم اپنے تمام معاملات خدا پر نہ چھوڑ دیں اور عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے ساتھ ساتھ جھوٹی اناؤں کو نہ چھوڑ دیں.جب تک ہم اپنے خاندانوں اور برادری کی بڑائی کے تکبر سے باہر نہ نکلیں.جب تک ہم اس چکر میں رہیں گے کہ میں سید ہوں یا مغل ہوں یا پٹھان ہوں یا جاٹ ہوں یا آرائیں ہوں، ان لفظوں سے جب تک باہر نہیں نکلیں گے جب تک ہم اپنے معیار اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق تقومی کو نہ بنالیں کوئی فائدہ نہیں.تو جب ہم یہ ساری چیزیں کرلیں گے تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم مقام ابراہیم پر قدم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں.تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس مقام پر قدم رکھتے ہوئے اپنے تمام معاملات خدا تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں.تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں.تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم وفاداروں

Page 56

38 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم میں ہیں.اور اس زمانے کے ابراہیم سے جو عہد بیعت ہم نے باندھا ہے اس کو پورا کرنے والے ہیں.پس جب ہم یہ معیار حاصل کر لیں گے یا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تب ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیاروں میں شامل سمجھے جائیں گے.اگر نہیں، تو پھر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت وجود کی سرسبز شاخیں نہیں سمجھے جاسکتے بلکہ ایک سوکھی ٹہنی کی طرح جس کو کوئی بھی باغبان برداشت نہیں کرتا ، کاٹ کر پھینک دیئے جائیں گے کیونکہ ہم اس مقام کی پیروی نہیں کر رہے ، اس مقام پر کھڑے نہیں ہو رہے جس مقام پر کھڑے ہونے کا امت محمدیہ کو حکم دیا گیا ہے.پس اس زمانے کے ابراہیم کو مان کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق صادق اور غلام صادق بھی ہے ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی.اپنے دلوں میں ابرا نہیمی صفات پیدا کرنی ہوں گی.اپنے عملوں کو بھی، اپنی عبادتوں کو بھی اس تعلیم کے مطابق ڈھالنا ہوگا جس کا ہمیں خدا نے حکم دیا ہے.اپنی (بیوت الذکر ) سے خدا کی وحدانیت کے نعروں کے ساتھ ساتھ پیار اور محبت اور اُلفت کے نعرے بھی لگانے ہوں گے تاکہ مقام ابراہیم پر کھڑا ہونے والے کہلا سکیں.ور نہ یہ بیعت کے دعوے کھوکھلے دعوے ہیں....الفضل انٹر نیشنل 24 تا 30 جون 2005ء)

Page 57

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 39 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرموده 17 جون 2005ء سے اقتباس * حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اصل تعویذ ہے بعض لوگ آتے ہیں کہ ہمیں کوئی خاص دعا بتا ئیں یا کوئی وظیفہ بتا ئیں جس سے ہماری مشکلات دور ہو جائیں.یہ باتیں بعض احمد یوں میں صرف اس لئے رائج ہیں کہ وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور پوری طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو تعلیم ہے اس کا علم نہ ہونے کی وجہ سے یا توجہ نہ دینے کی وجہ سے بعضوں میں فہم اور ادراک نہیں رہتا.یا بعض نئے احمدی ہوئے ہوتے ہیں ان میں بھی یہ باتیں ہوتی ہیں.اس معاشرے کے زیر اثر آ جاتے ہیں، ورنہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد صحیح طور پر اس تعلیم پر عمل کرنے والے بن جائیں تو یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی جو ادائیگی ہے وہی ان کے لئے تعویذ کا کام دے گی.یہ ایک ایسی چیز ہے جو بظاہر کہنے میں بہت چھوٹی ہے، جب حقوق اللہ ادا کرنے کی کوشش کریں اور باریکی میں جا کر حقوق العباد ادا کرنے کی کوشش کریں، اپنے نفس کا جائزہ لیتے رہیں تو تب پتہ لگے گا کہ یہ چھوٹی باتیں نہیں ، بہت بڑی باتیں ہیں.عبادتوں کا حق ادا کرنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی نظر حاصل کرنے والے ہو جائیں گے.اور بندوں کے حق ادا کرنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے ہو جائیں گے.اور جب اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہو جائے تو پھر وہ کون سی چیز رہ جاتی ہے جس کا انہیں ورد کرنے کی ضرورت ہو.وہ کون سا تعویذ ہے پھر جس کی انہیں ضرورت ہو.پس اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھائیں اپنی عبادتوں کے معیار بڑھائیں.اور جب یہ حاصل کر لیں گے تو اللہ کے پیاروں میں شمار ہوں گے.اور جب اللہ تعالیٰ کے پیاروں میں شمار ہوں گے تو اس کے فضلوں سے حصہ پانے والے ہوں گے اور وہ اپنی قدرت کے نظارے دکھائے گا.الفضل انٹر نیشنل 01 تا 7 جولائی 2005ء)

Page 58

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 40 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 2005ء سے اقتباسات * نمازوں کی حفاظت کی طرف توجہ کریں میں نے بعض دفعہ ملاقاتوں میں جائزہ لیا ہے کہ نمازوں کی طرف با قاعدگی سے متعلق اگر پوچھو کہ توجہ ہے کہ نہیں تو اکثر یہ جواب ہوتا ہے کہ کوشش کرتے ہیں یا پھر کوئی گول مول سا جواب دے دیتے ہیں.حالانکہ نمازوں کے بارے میں تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز کو قائم کرو.باجماعت ادا کرو.اور نماز کو وقت مقررہ پر ادا کرو.جیسا کہ فرمایا {إِنَّ الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتبًا مَّوْقُوْتًا } (النساء:104) - یقیناً نماز مومنوں پر وقت مقررہ کی پابندی کے ساتھ فرض ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: دو میں طبعاً اور فطرتا اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جاوے اور نماز مَوْقُوتَہ کے مسئلہ کو بہت ہی عزیز رکھتا ہوں“.(الحکم جلد نمبر 6 نمبر 35 مورخہ یکم اکتوبر 1902ء صفحہ 14.بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد نمبر 2 صفحہ 264).ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو وقت مقررہ تو علیحدہ رہا، نمازوں میں اکثر ستی کر جاتے ہیں.کیا ایسا کر کے ہم اس حکم پر عمل کر رہے ہیں کہ حفظوا على الصَّلَواتِ وَالصَّلوةِ الْوُسْطَى وَقُوْمُوْا لِلَّهِ قَنِتِينَ } (البقرة:239 ) تو نمازوں کا اور خصوصاً درمیانی نماز کا پورا خیال رکھو.اور اللہ کے فرمانبردار ہو کر کھڑے ہو جاؤ.پس ہر احمدی کو اپنی نمازوں کی حفاظت کی طرف توجہ دینی چاہئے اور انہیں وقت مقررہ پر ادا کرنا چاہئے.اگر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں لے کر آنا ہے، اگر تو حید کو قائم کرنے کا دعویٰ کرنے والا بنا ہے تو اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے ہوں گے.اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہوگی.کاموں کے عذر کی وجہ سے دو پہر کی یا ظہر کی نماز اگر آپ چھوڑتے ہیں تو نمازوں کی حفاظت کرنے والے نہیں کہلا سکتے.بلکہ خدا کے

Page 59

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 41 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مقابلے میں اپنے کاموں کو ، اپنے کاروباروں کو اپنی حفاظت کرنے والا سمجھتے ہیں.اور اگر فجر کی نماز تم نیند کی وجہ سے وقت پر ادا نہیں کر رہے تو یہ دعویٰ غلط ہے کہ ہمارے دلوں میں خدا کا خوف ہے اور ہم اس کے آگے جھکنے والے ہیں.اسی طرح کوئی بھی دوسری نماز اگر عادتا یا کسی جائز عذر کے بغیر وقت پر ادا نہیں ہو رہی تو وہی تمہارے خلاف گواہی دینے والی ہے کہ تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم خدا کا خوف رکھنے والے ہیں لیکن عمل اس کے برعکس ہے.اور جب یہ نمازوں میں بے تو جنگی اسی طرح قائم رہے گی اور نمازوں کی حفاظت کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو پھر یہ رونا بھی نہیں رونا چاہئے کہ خدا ہماری دعائیں نہیں سنتا.نمازوں میں با قاعدگی غلاظتوں اور گندگیوں سے بچائے گی نمازوں کی حفاظت اور نگرانی ہی اس بات کی ضامن ہوگی کہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو گنا ہوں اور غلط کاموں سے پاک رکھے.ہماری نمازوں میں با قاعدگی یقینا ہمارے بچوں میں بھی یہ روح پیدا کرے گی کہ ہم نے بھی نمازوں میں با قاعدہ ہونا ہے.اس کی اسی طرح حفاظت کرنی ہے جس طرح ہمارے والدین کرتے ہیں.اور جب یہ بات ان بچوں کے ذہنوں میں راسخ ہو جائے گی، بیٹھ جائے گی کہ ہم نے نمازوں میں با قاعدگی اختیار کرنی ہے تو پھر والدین کو یہ چیز اس فکر سے بھی آزاد کر دے گی کہ اس مغربی معاشرے میں جہاں ہزار قسم کے کھلے گند اور برائیاں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں، ہر وقت والدین کو یہ فکر رہتی ہے کہ ان کے بچے اس گند میں کہیں گر نہ جائیں.دعا کے لئے لکھتے ہیں، کہتے بھی ہیں اور خود کوشش بھی کرتے ہوں گے ، دعا بھی کرتے ہوں گے.اگر اپنے بچوں کو ان گندگیوں اور غلاظتوں میں گرنے سے بچانا ہے تو سب سے بڑی کوشش یہی ہے کہ نمازوں میں با قاعدہ کریں.کیونکہ اب ان غلاظتوں اور اس گند سے بچانے کی ضمانت ان بچوں کی نماز یں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق دے رہی ہیں.جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ { إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ } (العنکبوت:46).یعنی یقیناً نماز بدیوں اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.گویا ان نمازوں کی حفاظت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان نمازوں کے ذریعہ سے ضمانت دے دی ہے کہ خالص ہو کر میرے حضور آنے والے اب میری ذمہ داری بن گئے ہیں کہ میں بھی اس دنیا کی گندگیوں اور غلاظتوں سے ان کی حفاظت کروں اور ان کو نیکیوں پر قائم رکھوں ، تقویٰ پر قائم رکھوں.ایسے لوگوں میں شامل کروں جو تقویٰ پر قائم ہوں، جو میرے پاکباز لوگ ہیں.ایسے لوگوں میں شامل کروں جو

Page 60

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 42 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ میرا انعام پانے والے لوگ ہیں.پس یہ سب سے بنیادی چیز ہے جس کی ٹرینینگ اور جس کے کرنے کا عزم آپ نے ان جلسے کے دنوں میں کرنا ہے.جو نمازوں میں کمزور ہیں انہوں نے ان دنوں میں اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس میں با قاعدگی اور پابندی اختیار کرنے کی کوشش کرنی ہے.نماز وقت مقررہ پر ادا کریں لیکن یہ بات واضح ہو کہ ان دنوں میں جلسے کی وجہ سے یا میرے دورہ کی وجہ سے، دوسری مصروفیات کی وجہ سے چند دنوں کے لئے نمازیں جمع کر کے پڑھائی جاتی ہیں.تو بچوں کے ذہنوں میں یا نو جوانوں کے ذہنوں میں یا بعض ست لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات نہ رہ جائے کہ یہ نمازیں جمع کر کے پڑھنا ہی ہماری زندگی کا مستقل حصہ ہے بلکہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نمازیں وقت مقررہ پر ادا کرو تو اس کے مطابق ادا ہونی چاہئیں.سوائے اس کے کہ مسافر ہوں یا دوسری جائز ضرورت ہو، جس طرح مثلاً آج کل یہاں بعض شہروں میں سورج سوا نو بجے یا ساڑھے نو بجے یا بعض جگہ پونے دس بجے غروب ہوتا ہے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھالی جاتی ہیں.لیکن جب وقت بدل جائیں گے تو پھر وقت پر ادا ہونی چاہئیں.تو بہر حال دین میں آسانی ہے اس لئے سہولت میسر ہے لیکن فکر کے ساتھ نمازیں ادا کرنا بہر حال ضروری ہے.اور یہ ہمیشہ ذہن میں ہونا چاہئے کہ یہ آسانی دنیا داری یا ستی کی وجہ سے نہ ہو.عبادتوں کے ساتھ ساتھ محبتیں بانٹنا بھی سیکھیں.اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کے بعد آپ ہی وہ قوم ہیں جن پر دنیا کی اصلاح کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے.اس لئے اگر اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعوی ہے، اگر اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کی خواہش ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی چاہتے ہیں تو پھر اللہ کی مخلوق سے محبت بھی اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے اور اپنے انجام بخیر کے لئے اور اس کے سایہ رحمت میں جگہ پانے کے لئے کرنی ہوگی.اور جلسے کے یہ دن اس بات کی طرف توجہ پیدا کرنے کے لئے ٹرینگ کے طور پر ہیں.اس کی ابتدا آج سے ہی ہو جانی چاہئے.آج سے ہی ہر دل میں یہ ارادہ ہونا چاہئے کہ ہم نے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں، اپنے معیار اونچے کرنے ہیں.جو ناراض ہیں وہ ایک دوسرے کو گلے لگا ئیں، جو روٹھے ہوئے ہیں وہ ایک دوسرے کو منائیں.جنہوں نے گلے شکوے دلوں میں بٹھائے ہوئے ہیں وہ ان گلوں شکووں کو اپنے

Page 61

43 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم دلوں سے نکال کر باہر پھینکیں.اور ان دنوں میں عبادتوں کے ساتھ ساتھ محبتیں بانٹنے کی بھی ٹریننگ حاصل کریں.یہ عہد کریں کہ پرانی رنجشوں کو مٹا دیں گے.ایک دوسرے کے گلے اس نیت سے لگیں کہ پرانی رنجشوں کا ذکر نہیں کرنا.ایک دوسرے سے کی گئی زیادتیوں کو بھول جانا ہے.کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی بلکہ حقیقی مومن بن کر رہنا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی گئی عبادتیں بھی قبولیت کا درجہ پائیں.اور اللہ کی خاطر اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے کی گئی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگیاں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ پا ئیں.میاں بیوی کے معاملات میں تعلمی کی وجوہات مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کینیڈا میں بڑی تیزی کے ساتھ شادیوں کے بعد میاں بیوی کے معاملات میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں.اور میرے خیال میں اس میں زیادہ قصور لڑکے، لڑکی کے ماں باپ کا ہوتا ہے.ذرا بھی ان میں برداشت کا مادہ نہیں ہوتا.یا کوشش یہ ہوتی ہے کہ لڑکے کے والدین بعض اوقات یہ کر رہے ہوتے ہیں کہ بیوی کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ (Understanding) نہ ہو.اور ان کا آپس میں اعتماد پیدا نہ ہونے دیا جائے کہ کہیں لڑکا ہاتھ سے نہ نکل جائے.یا پھر اس لئے بھی رشتے ٹوٹتے ہیں کہ بعض پاکستان سے آنے والے لڑکے، باہر آنے کے لئے رشتے طے کر لیتے ہیں اور یہاں پہنچ کر پھر رشتے توڑ دیتے ہیں.کچھ بھی ایسے لوگوں کو خوف نہیں ہے.ان لڑکوں کو کچھ تو خدا کا خوف کرنا چاہئے.ان لوگوں نے ، جن کے ساتھ آپ کے رشتے طے ہوئے ، آپ پر احسان کیا ہے کہ باہر آنے کا موقع دیا تعلیمی قابلیت تمہاری کچھ نہیں تھی.ایجنٹ کے ذریعے سے آتے تو 15 - 20 لاکھ روپیہ خرچ ہوتا.مفت میں یہاں آگئے.کیونکہ اکثر یہاں آنے والے لڑکے ٹکٹ کا خرچہ بھی لڑکی والوں سے لے لیتے ہیں.تو یہاں آ کر پھر یہ چالاکیاں دکھاتے ہیں.یہاں آکر رشتے تو ڑ کر کوئی اپنی مرضی کا رشتہ تلاش کر لیتا ہے یا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق بعض رشتے ہو جاتے ہیں.اور بعض دوسری بیہودگی میں پڑ جاتے ہیں.اور پھر ایسے لڑکوں کے ماں باپ بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں، چاہے وہ یہاں رہنے والے ہیں یا پاکستان میں رہنے والے ماں باپ ہیں.پھر بعض مائیں ہیں جو لڑکیوں کو خراب کرتی ہیں اور لڑکے سے مختلف مطالبے لڑکی کے ذریعے کرواتی ہیں.کچھ خدا کا خوف کرنا چاہئے ایسے لوگوں کو.پھر بعض لڑکے لڑکیوں کی جائیدادوں کے چکر میں ہوتے

Page 62

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 44 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہیں.بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی بجائے اس کے کہ بچوں کی خاطر قربانی دیں قانون سے فائدہ اٹھا کر علیحدگی لے کر جائیداد ہڑپ کرتے ہیں.اور اگر بیوی نے بیوقوفی میں مشتر کہ جائیداد کر دی تو جائیداد سے فائدہ اٹھایا اور پھر بچوں اور بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے.کچھ مردغلط اور غلیظ الزام لگا کر بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو کسی طرح بھی جائز نہیں.ایسے لوگوں کا تو قضا کو کیس سنا ہی نہیں چاہئے جو اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں.ان کو سیدھا انتظامی ایکشن لے کر امیر صاحب کو اخراج کی سفارش کرنی چاہئے.غرض کہ ایک گند ہے جو کینیڈا سمیت مغربی ملکوں میں پیدا ہو رہا ہے.اور پھر اس طبقے کے لوگ ایک دوسرے کو تکلیف پہنچا کر خوش ہوتے ہیں.بعض بچیوں کے جب دوسری جگہ رشتے ہو جاتے ہیں تو ان کو تڑوانے کے لئے غلط قسم کے خط لکھ رہے ہوتے ہیں.کوئی خوف نہیں ایسے لوگوں کو.اللہ تعالیٰ کے عظمت و جلال کی ان کو کوئی بھی فکر نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے سایہ رحمت سے دور رہنے کی ان کو کوئی بھی پروانہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ کے رسول کے حکم کے خلاف چلتے ہیں اور بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کریں اور اس تکلیف پر ایک جسم کی طرح، جس طرح جسم کا کوئی عضو بیمار ہونے سے تکلیف ہوتی ہے اُسے محسوس کریں، بے چینی کا اظہار کریں وہ بے حسی میں بڑھ جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مومنوں کو یہ فرمارہے ہیں کہ ایک لڑی میں پروئے جانے کے بعد تم ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرو.میاں بیوی کا بندھن تو اس سے بھی آگے قدم ہے.اس سے بھی زیادہ مضبوط بندھن ہے.یہ تو ایک معاہدہ ہے جس میں خدا کو گواہ ٹھہرا کر تم یہ اقرار کرتے ہو کہ ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں گے.تم اس اقرار کے ساتھ ان کے لئے اپنے عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہو کہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ہم ہر وقت اس فکر میں رہیں گے کہ ہم کن کن نیکیوں کو آگے بھیجنے والے ہیں.وہ کون سی نیکیاں ہیں جو ہماری آئندہ زندگی میں کام آئیں گی.ہمارے مرنے کے بعد ہمارے درجات کی بلندی کے کام بھی آئیں.ہماری نسلوں کو نیکیوں پر قائم رکھنے کے کام بھی آئیں.اللہ تعالیٰ کی اس وارننگ کے نیچے یہ عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خبیر ہے.جو کچھ تم اپنی زندگی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرو گے یا کر رہے ہو گے دنیا سے تو چھپاسکتے ہو لیکن خدا تعالیٰ کی ذات سے نہیں چھپا سکتے.وہ تو ہر چیز کو جانتا ہے.دلوں کا حال بھی جاننے والا ہے.دنیا کو دھوکا دے سکتے ہو کہ میری بیوی نے یہ کچھ کیا تھا یا بعض اوقات بیویاں خاوند یہ الزام لگا دیتی

Page 63

45 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ہیں لیکن (اکثر صورتوں میں بیویوں پر ظلم ہورہا ہوتا ہے) لیکن خداتعالی کو دھوکا نہیں دے سکتے.اکثر یہی دیکھنے میں آیا ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ مرد عورت کو دھوکا دیتے ہیں.لڑکیاں بھی بعض اس زمرے میں شامل ہیں لیکن ان کی نسبت بہت کم ہے.اور پھر عہدیدار بھی غلط طور پر مردوں کی طرفداری کی کوشش کرتے ہیں.عہد یداروں کو بھی میں یہی کہتا ہوں کہ اپنے رویوں کو بدلیں.اللہ نے اگر ان کو خدمت کا موقع دیا ہے تو اس سے فائدہ اٹھا ئیں.یہ نہ ہو کہ ایسے تقویٰ سے عاری عہدیداروں کے خلاف بھی مجھے تعزیری کارروائی کرنی پڑے.مرد کو اللہ تعالیٰ نے قوام بنایا ہے، اس میں برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے.اس کے اعصاب زیادہ مضبوط ہوتے ہیں.اگر چھوٹی موٹی غلطیاں، کوتاہیاں ہو بھی جاتی ہیں تو ان کو معاف کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک رفیق کا واقعہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں ایک (رفیق) کی اپنی بیوی سے سختی کی باتوں کا ذکر ہورہا تھا.جو ( رفقاء) پاس بیٹھے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس بات پر اس قدر رنج اور غصہ تھا کہ ہم نے کبھی ایسی حالت میں آپ کو نہیں دیکھا.ایک اور ( رفیق ) اس مجلس میں بیٹھے تھے جو اپنی بیوی سے اسی طرح سختی سے پیش آیا کرتے تھے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے تھے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ حالت دیکھ کر اس مجلس سے اٹھے، بازار گئے ، بیوی کے لئے کچھ تحفے تحائف لئے اور گھر جا کر اپنی بیوی کے سامنے رکھے اور بڑے پیار سے اس سے باتیں کرنے لگے.بیوی حیران پریشان تھی کہ آج ان کو ہو کیا گیا ہے.یہ کا یا کس طرح پلٹ گئی ، اس طرح نرمی سے باتیں کر رہے ہیں.آخر ہمت کر کے پوچھ ہی لیا، پہلے تو جرات نہیں پڑتی تھی.کہنے لگے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بیویوں پرسختی کرنے کی وجہ سے بہت غصے کی حالت میں دیکھا ہے.اس سے پہلے کہ میری شکایت ہوئیں اپنی حالت بدلتا ہوں.تو دیکھیں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نمونہ بنیں.ان (رفیق) نے فوراً تو بہ کی اور نمونہ بنے کی کوشش کی.آج آپ میں سے اکثریت بھی جو یہاں بیٹھی ہوئی ہے یا کم از کم کافی تعداد میں یہاں لوگ ایسے ہیں جو ان ( رفقاء) کی اولاد میں سے ہیں جنہوں نے بیعت کے بعد نمونہ بنے کی کوشش کی اور بنے.آپ بھی اگر اخلاص کا تعلق رکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں داخل

Page 64

46 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ نیکیاں اختیار کریں.آج عہد کریں کہ ہم نے نیکی کے نمونے قائم کرنے ہیں.اپنی بیویوں کے قصور معاف کرنے ہیں.اور جولڑ کی والے ہیں زیادتی کرنے والے، وہ عہد کریں کہ لڑکوں کے قصور معاف کرنے ہیں.تو ان جھگڑوں کی وجہ سے جو مختلف خاندانوں میں، معاشرے میں جو تلخیاں ہیں وہ دور ہو سکتی ہیں.اگر ایسی چیز میں ختم کر دیں اگر ان عائلی جھگڑوں میں ، میاں بیوی کے جھگڑوں میں علیحدگی تک بھی نوبت آ گئی ہے تو ابھی سے دعا کرتے ہوئے ، اس نیک ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دعاؤں پر زور دیتے ہوئے ، ان پھٹے دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں.اور اسی طرح بعض اور وجوہ کی وجہ سے معاشرے میں تلخیاں پیدا ہوتی ہیں.جھوٹی اناؤں کی وجہ سے جو نفرتیں معاشرے میں پنپ رہی ہیں یا پیدا ہورہی ہیں ان کو دور کریں.ایک دوسرے کی غلطیوں اور زیادتیوں اور کوتاہیوں سے پردہ پوشی کو اختیار کریں.ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ان کی برائیاں مشہور کرنے کی بجائے پردہ پوشی کا راستہ اختیار کریں.ہر ایک کو اپنی برائیوں پر نظر رکھنی چاہئے.اللہ کا خوف کرنا چاہئے.عہد یدار عبادتوں اور اخلاق میں نمونہ بنیں للہ تعالیٰ نے اگر کسی کو موقع دیا ہے کہ وہ جماعتی عہد یدار بنایا گیا ہے اس پر خدا کا شکر کریں، نہ کہ اس وجہ سے گردنیں اکٹر جائیں اور تکبر اور رعونت پیدا ہو جائے.جماعتی عہد یداران کو اپنی عبادتوں میں بھی اور اعلیٰ اخلاق میں بھی ایک نمونہ ہونا چاہیئے.عاجزی اور انکساری کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے چاہئیں.عدل اور انصاف کے بھی تمام تقاضے پورے کرنے چاہئیں.پس جہاں ایک عام احمدی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے، صبر سے کام لے، ایک دوسرے کے قصوروں کو معاف کرنے کی عادت ڈالے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق جماعت کا فرد بنے تا کہ دشمن کے ہنسی ٹھٹھا سے بھی بچے.کیونکہ جب احمدی اتنے دعووں کے بعد ایسی غلطیاں کرتا ہے تو دشمن کے لئے جماعت پر انگلیاں اٹھانے کا باعث بنتا ہے، مخالفین کے لئے جماعت پر انگلیاں اٹھانے کا باعث بنتا ہے.اور کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کی غیرت رکھتا ہے ایسی حرکتوں کی وجہ سے وہ احمدی جس نے دشمن کو ہنسی کا موقع دیا اللہ تعالیٰ کے قرب سے گر جاتا ہے.تو جب ایک عام احمدی کی ایسی حرکتوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا تو جو عہد یدار ہیں وہ تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں زیادہ ہیں.اس لئے ان کو اور زیادہ استغفار کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو

Page 65

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 47 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اس کا اہل بنائے کہ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرسکیں.جلسہ کے دن دعاؤں میں گزاریں اور یہ جلسے کے جو دن ہمیں میسر آئے ہیں ان کو کھیل کو داور گپیں لگانے اور مجلسیں لگانے میں ضائع کرنے کی بجائے دعاؤں اور اپنی اصلاح کی کوشش میں گزار ہیں.جلسے کے تمام پروگرام کسی نہ کسی رنگ میں علم اور روحانیت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں.اس لئے اس سے بھر پور فائدہ اٹھا ئیں.اس سوچ میں نہ رہیں کہ فلاں مقر را چبھی تقریر کرتا ہے اس کی تقریر سنی ہے اور فلاں کی نہیں سنی ، بلکہ تمام پروگرام سنیں.خواتین بھی اپنی گپوں کی محفلوں کی بجائے ان دنوں کو روحانیت بڑھانے میں صرف کریں کیونکہ ان کی مجلسیں زیادہ لمبی ہوتی ہیں.دعاؤں میں وقت گزار ہیں.اپنے لئے ، اپنے بچوں کے لئے ، جماعت کے لئے دعائیں کریں.اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لئے دعائیں کریں.اس سے بھی تعلق اور محبت کا رشتہ قائم ہوتا ہے اور بڑھتا ہے.جن کے خلاف ایک دوسرے کو شکوے شکائیتیں ہیں، ان کے لئے بھی دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ قادر ہے.دعاؤں کو سننے والا بھی ہے.قبول کرنے والا بھی ہے.آپ کی نیک نیتی سے کی گئی دعاؤں کی وجہ سے ہو سکتا ہے ان لوگوں میں تبدیلی پیدا ہو جائے اور جن کے خلاف آپ کو شکوے اور شکایتیں ہیں وہ دور ہو جائیں اور ان کی اصلاح ہو جائے.اس لئے دعائیں کرنی چاہئیں.اور جب نیکی نیتی سے ہر ایک دوسرے کے لئے دعائیں کر رہا ہو گا تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کو قبولیت کا درجہ دے گا اور آپ کی اس سوچ کی وجہ سے یقیناً رحمت کی بارش نازل فرمائے گا.پس میں پھر کہتا ہوں کہ ان دنوں کو عبادتوں اور ذکر الہی میں گزاریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اللہ تعالیٰ کے قرب کے نمونے بھی قائم کریں اور اعلیٰ اخلاق کے نمونے بھی قائم کریں.اور دشمن کو شماتت کا موقع دینے کی بجائے ہنسی ٹھٹھا کا موقع دینے کی بجائے اس جلسے کو اپنے اندر پاک تبدیلیوں کا ایک نشان بنا دیں اور دنیا پر ثابت کر دیں کہ وہ مسیح جس نے اس دنیا میں آ کر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی تھیں اور پاک نمو نے قائم کرنے تھے ہم ہیں جو اس کے مصداق ٹھہرے ہیں اور اب ہم کبھی اپنے اندر سے ان پاک تبدیلیوں کو مرنے نہیں دیں گے.انشاء اللہ.اللہ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل 8 تا 14 جولائی 2005ء)

Page 66

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 48 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ USA کے ساتھ میٹنگ * (27 جون 2005ء) کینیڈا میں سوا بارہ بجے نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ USA کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی.حضور انور نے دعا کروائی.تین نائب صدر ان کے کام کے بارہ میں حضور انور نے دریافت فرمایا.اس پر صدر صاحب نے بتایا کہ ہماری 55 مجالس ہیں اور آٹھ ریجن ہیں.بہت بڑا امریا ہے اس لئے تینوں نائب صدر ان کے تحت مختلف شعبہ جات تقسیم کئے ہوئے ہیں.نا ئب صدر ان کے کام کے طریق کے بارہ میں حضور انور نے تفصیل سے جائزہ لیا.حضور انور نے معتمد سے دریافت فرمایا کہ آپ کو کتنی مجالس رپورٹ بھجواتی ہیں، کیا با قاعدہ بھجواتی ہیں اور رپورٹس کیسے ملتی ہیں.حضور انور نے فرمایا.خواہ رپورٹس ای میل کے ذریعہ ملیں لیکن تمام مجالس کو اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ صدر صاحب ان کی تمام Activity سے باخبر ہیں.مہتمم خدمت خلق نے اپنی رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ تین صد پچاس سے زیادہ خدام نے گزشتہ سال خون کا عطیہ دیا ہے.حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا خدام اور ان کے خون کا گروپ وغیرہ رجسٹر ڈ ہیں کہ جب ضرورت ہوان کو بلایا جا سکے.اس پر بتایا گیا کہ ہاں رجسٹر ڈ ہیں.ہم نے اکٹھا خون بھی دیا ہے اور جب ان کو ضرورت ہو تو بلا لیتے ہیں.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ یہ تعداد کم ہے اس میں زیادہ خدام کو شامل ریں.مہتمم صنعت و تجارت کے کام کا بھی حضور انور نے جائزہ لیا اور ہدایات سے نوازا.مہتم تربیت نو مبائعین سے حضور انور نے نو مبائعین کی تعداد اور ان سے رابطوں اور ان کی تربیت کے بارہ میں تفصیل سے جائزہ لیا اور اس سلسلہ میں ہدایات دیں.حضور انور نے فرمایا جن سے ابھی آپ کے رابطے نہیں ہوئے ان سے رابطے بحال کریں اور ان کو با قاعدہ اپنے نظام کا حصہ بنائیں.

Page 67

49 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم مہتم تربیت کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جن خدام سے آپ کا رابطہ اور تعلق نہیں ہے ان سے رابطہ کرنے کے لئے پلان بنائیں.فرمایا ان خدام کا data اکٹھا کریں جو ( بیت الذکر نہیں آتے اور رابطہ نہیں رکھتے.فرمایا اس طرح خدام کو اپنے قریب کر کے ساتھ ملائیں.حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ خدام کو ( بیت الذکر ) میں لانے کے لئے Attraction مہیا کریں.اس پر حضور انور کو بتایا گیا کہ ملک میں کل 60 جماعتیں ہیں اور چالیس میں با قاعدہ جماعتی سنٹرز موجود ہیں.جہاں کھیلوں وغیرہ کے پروگرام رکھے جاتے ہیں.مہتم تعلیم کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ خدام الاحمدیہ پاکستان کا جو سلیبس ہے وہ منگوا کر اس کا انگریزی ترجمہ کریں اور پھر اس پر عمل کریں.مہتم عمومی کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جہاں ہمارے سنٹرز اور ( بیوت الذکر ) ہیں وہاں جمعہ کی نماز وغیرہ میں حفاظت کی ڈیوٹیاں ہونی چاہئیں.مہتم اشاعت نے اپنی رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ خدام الاحمدیہ کے ماہانہ رسالہ کے علاوہ مختلف امور پر اخبارات کو 90 خطوط لکھے گئے جن میں سے چالیس خطوط شائع ہوئے.اس طرح ہم ( دین حق ) پر اعتراضات کا میڈیا میں جواب دے رہے ہیں.حضور انور نے خدام کے چندوں اور بجٹ کا بھی جائزہ لیا.حضور انور نے خدام کے ( دعوت الی اللہ کے ) پروگراموں کا بھی جائزہ لیا اور اس بارہ میں شعبہ (اصلاح و ارشاد) کو ہدایات دیں.مہتم امور طلبا کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ سکول ، کالجز اور یو نیورسٹی میں جانے والے خدام کی باقاعدہ آپ کے پاس لٹیں ہونی چاہئیں.فرمایا اس کو آر گنائز کریں.حضور انور نے مہتم وقار عمل کو (بیوت الذکر ) رمشن ہاؤسز کی صفائی کی طرف توجہ دلائی.مہتم تحریک جدید کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جو خدام اس وقت چندہ تحریک جدید دے رہے ہیں آپ ان کی تعداد کو دو گنا کر سکتے ہیں.اس طرف توجہ دیں.حضور انور کو بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ یوایس اے کے تمام ممبران موصی ہیں.اس پر حضور انور نے اظہار خوشنودی فرمایا.

Page 68

50 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم حضور انور نے مہتمم تعلیم کے کام کا جائزہ لیا اور ہدایات سے نوازا م مہتم تعلیم نے بتایا کہ ہمارے خدام میں سے پچاس فیصد طلباء ہیں.حضور انور ان کے لئے کوئی نصیحت فرمائیں.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ میرے خطبات طلباء کے لئے گائیڈ نیس ہیں.آخر پر حضور انور نے مجلس عاملہ کے ممبران کو فرمایا کہ اپنی مجالس میں ( دعوت الی اللہ ) کے لئے گروپس بنا ئیں جو شہروں سے باہر دیہاتوں میں ( دعوت الی اللہ ) کے لئے جائیں.نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کے ساتھ یہ میٹنگ ایک بج کر ۲ ۵ منٹ پر ختم ہوئی.اس کے بعد حضور انور نے ( بیت الذکر ) بیت الاسلام میں ظہر و عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے.کی الفضل انٹر نیشنل 12 تا 18 اگست 2005ء)

Page 69

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 51 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرمودہ یکم جولائی 2005 ء سے اقتباسات کسی فتنہ کو چھوٹا نہ سمجھیں *.یاد رکھیں جہاں محبت کرنے والے دل ہوتے ہیں وہاں فتنہ پیدا کرنے والے شیطان بھی ہوتے ہیں جو اس تعلق کو توڑنے یا اس تعلق میں رخنے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.پس ایسے لوگوں سے بھی آپ کو ہوشیار رہنا چاہئے.اپنے ماحول پر نظر رکھنی ہے.کہیں سے بھی کوئی ایسی بات سنیں جو جماعتی وقار یا خلافت کے احترام کے خلاف ہو تو فوری طور پر عہدیداران کو بتائیں، امیر صاحب کو بتا ئیں، مجھے بتائیں.کیونکہ بعض دفعہ بظاہر بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن اندر ہی اندر پکتی رہتی ہیں اور پھر بعض کمزور طبائع کو خراب کرنے کا باعث بنتی ہیں.عہدیداران بھی اپنے اندر یہ عادت پیدا کریں کہ جب ایسی باتیں سنیں تو سن کر سرسری طور پر دیکھنے کی بجائے اس کی تحقیق کر لیا کریں، یا کم از کم نظر رکھا کریں.ایک دفعہ اگر سنی ہے تو ذہن میں رکھیں اور اگر دوبارہ سنیں تو بہر حال اس پر توجہ دینی چاہئے.امیر صاحب کو بتا ئیں پھر مجھے بھی بتا ئیں اسی واسطے سے بعض دفعہ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ چھوٹی سی بات لگ رہی ہوتی ہے اس لئے کہ ہر ایک کو اس کے پس منظر کا ، بیک گراؤنڈ کا پتہ نہیں ہوتا.اس کی جڑیں کسی اور جگہ ہوتی ہیں.اس لئے کسی فتنے کو کبھی چھوٹا نہ سمجھیں، اگر کوئی ایسی بات ہے جو وقتی ہے، آپ کے نزدیک سطحی سی بات ہے، اور غصے میں کسی نے کہہ دی ہے تو اس کا پتہ چل جاتا ہے.اور ان وقتی شکایتوں اور شکووں کو دور کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے.اور عہد یداروں کی طرف سے بھی کی جانی چاہئے.ہر احمدی کی متعلقہ امیر اور عہدیدار تک پہنچ ہونی چاہیے عہد یداروں کو اس بات کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور ایسی باتیں سنی چاہئیں تا کہ توجہ نہ دینا فرد جماعت اور عہد یداروں میں دوری پیدا کرنے کا باعث نہ بن جائے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا جب بھی کسی

Page 70

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 52 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بات کا مجلسوں میں ذکر ہورہا ہے اور پھر شرارت پھیلانے کی غرض سے ذکر ہو رہا ہے تو اس کا پتہ چل جاتا ہے.بہر حال ہر صورت میں جب بھی آپ کوئی ایسی بات سنیں جس میں ذراسی بھی نظام کے خلاف کسی بھی قسم کی بو آتی ہو تو اس طرف توجہ دینی چاہئے.اس لئے یہاں سمیت تمام دنیا کے عہدیداران بھی اور امراء بھی جہاں جہاں بھی ہیں، ان سے میں کہوں گا کہ اپنے آپ کو ایک حصار میں ، ایک شیل (Shell) میں بند کر کے یا محصور کر کے نہ رکھیں، جہاں صرف ایسے لوگ آپ کے ارد گرد ہوں جو سب ٹھیک ہے کی رپورٹ دینے والے ہوں.بلکہ ہر ایک احمدی کی ہر متعلقہ امیر اور عہدیدار تک پہنچ ہونی چاہئے تا کہ ہر طبقے اور ہر قسم کے لوگوں سے آپ کا براہ راست تعلق ہو.بعض دفعہ، بعض نوجوان بھی ایسی معلومات دیتے ہیں اور ایسی عقل کی بات کہہ دیتے ہیں جو بڑی عمر کے لوگ یا تجربہ کار لوگوں کے ذہن میں نہیں آتی.اس لئے کبھی بھی کسی بھی نوجوان کی یا کم پڑھے لکھے کی بات کو تخفیف یا کم نظر سے نہ دیکھیں.وقعت نہ دیتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ہر بات کو توجہ دینی چاہئے.پھر بعض دفعہ نو جوانوں کے ذہنوں میں بعض سوال اٹھتے ہیں اور اس معاشرے میں اور آج کل کے نوجوانوں کے ذہن میں بھی باتیں اٹھتی رہتی ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ اور ایسا کیوں نہیں ہے؟.اس لئے خدام الاحمدیہ کو بھی لجنہ اماءاللہ کو بھی اور جماعتی عہدیداران کو بھی ایسے نوجوانوں کی تسلی کرانی چاہئے ، ان کو تسلی بخش جواب دینے چاہئیں تا کہ کسی فتنہ پرداز کوان کو استعمال کرنے کا موقع نہ ملے.عہد یدار خدمت کے لئے مقرر کئے گئے ہیں پھر عہد یداران جو جماعتی نظام میں عہدیداران ہیں وہ صرف عہدے کے لئے عہد یدار نہیں ہیں بلکہ خدمت کے لئے مقرر کئے گئے ہیں.وہ نظام جماعت ، جو نظام خلافت کا ایک حصہ ہے، کی ایک کڑی ہیں.ہر عہد یدار اپنے دائرے میں خلیفہ وقت کی طرف سے ، نظام جماعت کی طرف سے تفویض کئے گئے ، ان کے سپرد کئے گئے اس حصہ فرض کو صحیح طور پر سر انجام دینے کا ذمہ دار ہے.اس لئے ایک عہد یدار کو بڑی محنت سے، ایمانداری سے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے کام کو سرانجام دینا چاہئے.اور ان عہد یداروں میں اپنے آپ کو شمار کرنا چاہئے جن سے لوگ محبت رکھتے ہوں.جس کا ایک حدیث میں یوں ذکر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے بہترین سردار وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں.تم ان کے لئے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں.(مسلم کتاب الا مارة )

Page 71

53 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم تو اگر تقویٰ پر چلتے ہوئے تمام عہدیدار اپنے فرائض نبھا ئیں اور جب فیصلے کرنے ہوں تو خالی الذہن ہو کر کیا کریں، کسی طرف جھکاؤ کے بغیر کیا کریں.جیسا کہ پہلے بھی میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تقویٰ یہی ہے کہ اگر اپنے خلاف یا اپنے عزیز کے خلاف بھی گواہی دینی ہو تو دے دیں.لیکن انصاف کے تقاضے پورے کریں تو پھر ایسے عہدیدار اللہ کے محبوب بن رہے ہوں گے جیسا کہ ایک حدیث میں ذکر آتا ہے.حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو لوگوں میں سے زیادہ محبوب اور ان سے زیادہ قریب انصاف پسند حاکم ہوگا اور سخت ناپسندیدہ اور سب سے زیادہ دور ظالم حاکم ہوگا.( ترمذی ابواب الا حکام باب فی الا مام العادل ) یہاں حاکم تو نہیں ہیں لیکن عہدے بہر حال آپ کے سپرد کئے گئے ہیں ، ایک ذمہ واری آپ کے سپرد کئی گئی ہے.ایک دائرے میں آپ نگران بنائے گئے ہیں.پس یہ جو خدمت کے مواقع دیئے گئے ہیں یہ حکم چلانے کے لئے نہیں دیئے گئے بلکہ خلیفہ وقت کی نمائندگی میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے ہیں.خلیفہ وقت کے فرائض کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں یہ فرما دیا ہے کہ {فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللهِ } (ص:27 ) یعنی پس تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلے کر اور اپنی خواہش کی پیروی مت کر.وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی.عہد یدارخلیفہ وقت کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچا ئیں پس جب عہدیداران پر خلیفہ وقت نے اعتماد کیا ہے اور اُن سے انصاف کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے کی امید رکھی ہے.کیونکہ ہر جگہ تو خلیفہ وقت کا ہر فیصلہ کے لئے پہنچنا مشکل ہے، ممکن ہی نہیں ہے.تو اگر عہد یداران ، جن میں قاضی صاحبان بھی ہیں، دوسرے عہدیداران بھی ہیں اپنے فرائض انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا نہیں کرتے تو پھر اللہ کی گرفت کے نیچے آتے ہیں.میرے نزدیک وہ دو ہرے گناہگار ہو رہے ہوتے ہیں.دوہرے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں.ایک اپنے فرائض صحیح طرح انجام نہ دے کر ، دوسرے خلیفہ وقت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر خلیفہ وقت کے علم میں صحیح صورت حال نہ لا کر.

Page 72

مشعل راه جلد پنجم حصه سوم 54 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خلیفہ وقت کو ایک ایک بات پہنچائیں نمائندے کی حیثیت سے جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، عہدیداران کا یہ فرض بنتا ہے کہ خلیفہ وقت کو ایک ایک بات پہنچائیں.بعض دفعہ بیوقوفی میں بعض لوگ یہ کہہ جاتے ہیں، ان میں عہد یدار بھی شامل ہیں، کہ ہر بات خلیفہ وقت تک پہنچا کر اسے تکلیف میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے.عام لوگ بھی جس طرح میں نے کہا کہہ دیتے ہیں کہ اپنی تکلیفیں زیادہ نہ لکھو جو مسائل ہیں وہ نہ لکھو.وہ کہتے یہ ہیں کہ پہلے تھوڑے معاملات ہیں؟ پہلے تھوڑی پریشانیاں ہیں؟ جماعتی مسائل ہیں جو ان کو اور پریشان کیا جائے.تو یاد رکھیں، میرے نزدیک یہ سب شیطانی خیال ہیں، غلط خیال ہیں.اللہ تعالیٰ کا براہ راست حکم خلیفہ کے لئے ہے اور کیونکہ کام کے پھیل جانے کی وجہ سے ، کام بہت وسیع ہو گئے ہیں، پھیل گئے ہیں، خلیفہ وقت نے اپنے نمائندے مقرر کر دیئے ہیں تا کہ کام میں سہولت رہے.لیکن بنیادی طور پر ذمہ داری بہر حال خلیفہ وقت کی ہے.اور جب اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے تو پھر اس کی مدد کے لئے وہ تیار رہتا ہے.کیونکہ خلیفہ بنایا بھی اُس نے ہے تو یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ خلیفہ بنائے بھی خود، ذمہ داری بھی اس پر ڈالے اور پھر اپنی مدد اور نصرت کا ہاتھ بھی اس پر نہ رکھے.اس لئے یہ تصور ہی غلط ہے کہ خلیفہ وقت کو تکلیف نہ دو.خلیفہ کی جو برداشت ہے اور تکلیف دہ باتیں سننے کا جس قدر حوصلہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہوتا ہے یا خلافت کے انعام کے بعد جس طرح اس کو بڑھاتا جاتا ہے کسی اور کو نہیں دیتا.اس لئے یہ ساری ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس سے ادا کروانی ہوتی ہے.بہر حال وہ حوصلہ بڑھا دیتا ہے.اس لئے یہ تصور غلط ہے کہ تکلیف نہ دو.کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور تکلیف پہنچانا اس حد تک جائز ہے بلکہ ہر ایک کا فرض ہے.پس اس تصور کو عہد یداران جن کے ذہنوں میں یہ بات ہے کہ خلیفہ وقت کو تکلیف کیا دینی ہے، وہ ذہن سے یہ بات نکال دیں اور مجھے بھی گناہگار ہونے سے بچائیں اور خود بھی گناہگار ہونے سے بچیں.اگر اصلاح کی خاطر کسی بڑے آدمی کے خلاف بھی کارروائی کرنی پڑے تو کریں اور اس بات کی قطعاً کوئی پرواہ نہ کریں کہ اس کے کیا اثرات ہوں گے.اگر فیصلے تقویٰ پر مبنی اور نیک نیتی سے کئے گئے ہیں تو یا درکھیں اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمیشہ آپ کے شامل حال رہے گی.ورنہ یاد رکھیں اگر جماعت احمد یہ الہی جماعت ہے اور یقینا الہی جماعت ہے تو پھر اس کی رہنمائی بھی اللہ تعالیٰ ہی فرماتا ہے، فرماتا رہے گا.ایک حد تک تو بعض

Page 73

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 55 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ عہد یداران سے صرف نظر ہوگی لیکن پھر یا تو خلیفہ وقت کے دل میں اللہ تعالیٰ ڈال دے گا یا کسی اور ذریعہ سے اس عہد یدار سے خدمت کا موقع چھین لے گا، اس کو خدمت سے محروم کر دے گا.پس تمام عہدیداران تقوی سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ اپنے فرائض منصبی ادا کریں.اور آپ کا کبھی کوئی فیصلہ کبھی کوئی کام نفسانی خواہشات کے زیراثر نہ ہو.اللہ سب کو اس کی توفیق دے.اللہ کے حکموں پر عمل کرنے والوں کا خلافت اور نظام سے تعلق گہرا ہے اللہ تعالی نے خلافت کے انعام سے فیض پانے والے ان لوگوں کو قرار دیا ہے جو نیک اعمال بھی بجا لانے والے ہوں.پس خلافت سے تعلق مشروط ہے نیک اعمال کے ساتھ.خلافت احمدیہ نے تو انشاء اللہ تعالی قائم رہنا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.لیکن نظام خلافت سے تعلق انہیں لوگوں کا ہوگا جو تقویٰ پر چلنے والے اور نیک اعمال بجالانے والے ہوں گے.اگر جائزہ لیں تو آپ کو نظر آ جائے گا کہ جن گھروں میں نمازوں میں بے قاعدگی نہیں ہے، ان کا نظام سے تعلق بھی زیادہ ہے.جو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے ہیں ان کا خلافت اور نظام سے تعلق بھی زیادہ ہے.اور جن گھروں میں نمازوں میں بے قاعدگیاں ہیں، جن گھروں میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے میں وہ شدت نہیں ہے احمدی ہونے کے باوجود نظام جماعت کا احترام نہیں ہے، لوگوں کے حقوق صحیح طور پر ادا نہیں کرتے وہی لوگ ہیں جن کے گھروں میں بیٹھ کر خلیفہ وقت کے بارہ میں بعض منفی تبصرے بھی ہو رہے ہوتے ہیں.تو اپنے آپ کو نظام جماعت اور جماعتی عہدیداران سے بالا بھی وہاں سمجھا جارہا ہوتا ہے.ایسے لوگ تبصرے شروع کرتے ہیں عہد یداروں سے اور بات پہنچتی ہے خلیفہ وقت تک.جب نظام جماعت کی طرف سے ان کے خلاف کوئی فیصلہ آتا ہے تو اس پر بجائے استغفار کرنے کے اعتراض ہورہے ہوتے ہیں.حالانکہ نظام جماعت میں تو خلافت کی وجہ سے یہ سہولت میسر ہے کہ اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ کوئی فیصلہ کسی فریق کی طرفداری میں کیا گیا ہے تو خلیفہ وقت کے پاس معاملہ لایا جاسکتا ہے.اگر پھر بھی بعض شواہد یا کسی کی چرب زبانی کی وجہ سے فیصلہ کسی کے خلاف ہوتا ہے تو اس کو تسلیم کر لینا چاہئے اور بلا وجہ نظام پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے.کیونکہ یہ اعتراض تو بڑھتے بڑھتے بہت اوپر تک چلے جاتے ہیں.ایسے موقعوں پر اس حدیث کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے ، پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی اپنی چرب زبانی کی وجہ سے میرے سے فیصلہ اپنے حق میں کروالیتا ہے

Page 74

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 56 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ حالانکہ وہ حق پر نہیں ہوتا تو وہ آگ کا گولہ اپنے پیٹ میں ڈال رہا ہوتا ہے.یعنی اس وجہ سے وہ اپنے پر جہنم واجب کر رہا ہوتا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس فعل کی وجہ سے اس دنیا میں بھی اذیت میں مبتلا رکھے.اس کو کئی قسم کے صدمات پہنچ رہے ہوں مختلف طریقوں سے.مختلف وجوہات سے وہ مشکلات میں گرفتار ہو جائے.تو بہر حال جیسا کہ میں پہلے عہدیداران سے بھی کہہ آیا ہوں کہ انہیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں.لیکن فریقین سے بھی میں یہ کہتا ہوں کہ آپ بھی حسن ظنی رکھیں اور اگر فیصلے خلاف ہو جاتے ہیں تو معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں.اور جیسا کہ حدیث میں آیا ہے دوسرے فریق کو آگ کا گولہ پیٹ میں بھرنے دیں.اور لڑائیوں کو طول دینے اور نظام جماعت سے متعلق جگہ جگہ باتیں کرنے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تعلیم پر عمل کریں کہ بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرو.اللہ تعالیٰ سب میں یہ حوصلہ پیدا فرمائے اور ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والا بن جائے.نظام سلسلہ مظلوم احمدی عورتوں کی مدد کرے لیکن یہاں میں عہدیداران خاص طور پر امراء کے لئے ایک بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ان مغربی ممالک میں جیسا کہ میں اپنے جلسے کی تقریر میں ذکر کر چکا ہوں عائلی یا میاں بیوی کے جھگڑوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے.اور یہ جھگڑے ایسی نوعیت اختیار کر جاتے ہیں کہ علم ہونے اور ہمدردی ہونے کے باوجود نظام جماعت بعض پابندیوں کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتا.کیونکہ بعض صورتوں میں ملکی قانون ایک فریق کو حق پر نہ ہونے کے باوجود اس کے شرعی حقوق کی وجہ سے بعض حق دے دیتا ہے.اس لئے ایسے مرد جو ظلم کر کے اپنی بیویوں کو گھروں سے نکال دیتے ہیں.یہ بھی نہیں دیکھتے کہ موسم کی شدت کیا ہے.پھر ایسے ظالم باپ ہوتے ہیں کہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اس موسم کی شدت میں ماں کی گود میں چند ماہ کا بچہ ہے.تو ایسے لوگوں کے خلاف نظام جماعت کو عورت کی مدد کرنی چاہئے.پولیس میں بھی اگر کیس رجسٹر کروانا پڑے تو کروانا چاہئے.یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ہم جماعت میں فیصلہ کر لیں گے اور باہر نہ نکلیں.بعد میں اگر فیصلہ جماعت کے اندر کیا جا سکتا ہو تو کریں، کیس واپس لیا جا سکتا ہے.لیکن ابتدائی طور پر ضرور رپورٹ ہونی چاہئے.اور پھر جو لاوارث اور بے سہارا عورتیں ہیں، ان ملکوں میں آکر لاوارث بن جاتی ہیں کیونکہ والدین یہاں نہیں ہوتے ،مختلف غیروں کے گھروں میں رہ رہی ہیں ان کو بھی جماعت کو سنبھالنا چاہئے ، ان کی رہائش کا بھی

Page 75

57 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم جماعت بندوبست کرے، ان کے لئے وکیل کا انتظام کرے.(اور پھر ظاہر تو ہو جاتا ہے، پردہ پوشی کی جائے تو الگ بات ہے ).ایسے ظالم خاوندوں کے خلاف جماعتی تعزیر کی سفارش بھی مجھے کی جائے.تو اس کے لئے فوری طور پر امریکہ اور کینیڈا کے امراء ایسی فہرستیں بنائیں ، بعض دوسرے مغربی ممالک میں بھی ہیں، لجنہ کے ذریعہ سے بھی پتہ کریں اور ایسی عورتوں کو ان کے حق دلوائیں.اور جن عورتوں کے حقوق ادا نہیں ہور ہے اور نظام جماعت بھی اس بارے میں حرکت میں نہیں آرہا تو یہ عورتیں مجھے براہ راست لکھیں.الفضل انٹر نیشنل 15 تا 21 جولائی 2005ء)

Page 76

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 58 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کینیڈا کے ساتھ میٹنگ * (5 جولائی 2005 ء) چار بج کر پچیس منٹ پر نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کینیڈا کی حضور انور کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی.حضور انور نے دعا کروائی.مہتم تعلیم نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ خدام کا امتحان لیا گیا ہے.حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کس علاقہ کے خدام زیادہ Active ہیں.بتایا گیا کہ کیلگری جماعت کے خدام زیادہ مستعد ہیں.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ کیلگری کے خدام تو مختلف مقامات پر بکھرے ہوئے ہیں اور آپس میں فاصلے ہیں جبکہ Peace Village اور Ahamdiyya Abode of Peace کے خدام تو ایک جگہ پر اکھٹے ہیں ان کو زیادہ Active ہونا چاہئے.فرمایا آپ کی عاملہ کے ممبران بھی یہاں ہیں اس لئے یہاں خدام کی مجالس کو زیادہ مستعد اور فعال ہونا چاہئے.ہر ایک سے رابطہ کرنا آسان ہے یہاں کی مجالس سے امتحان دینے والے خدام کی تعداد زیادہ ہونی چاہئے.حضور انور نے فرمایا نماز سادہ، نماز با ترجمہ ، قرآن کریم ناظرہ کتنے خدام کو آتا ہے اس کا بھی جائزہ لیں.گزشتہ سال کی آخری رپورٹ سے آپ کا موازنہ ہونا چاہئے کہ اس میں دوران سال کتنا اضافہ ہوا ہے.مہتمم ( اصلاح وارشاد) کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ آپ کے ( دعوت الی اللہ کے ) رابطے کم ہیں اس طرف توجہ دیں.آپ نے دوران سال جو بیعتیں حاصل کی ہیں ان کی تعداد بھی بہت کم ہے.حضور انور نے فرمایا اتنی تھوڑی بیعتیں دیکھ کر آپ نے سوچا نہیں کہ کس طرح زیادہ تعداد میں حاصل کرنی ہیں.اگر آپ کا طریق کارایسا ہے جو اثر نہیں کر رہا تو اس کے متبادل کے لئے کیا سوچا ہے؟ ( دعوت الی اللہ ) کے لئے نئی نئی راہیں تلاش کریں.مہتمم اطفال کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جب بچے خدام میں جانے والے ہوتے ہیں تو اس وقت

Page 77

59 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ان میں تبدیلی آتی ہے اس وقت ان کی تربیت بہت ضروری ہے.حضور انور نے بچوں کو چندہ وقف جدید کے نظام میں شامل کرنے کی ہدایت فرمائی اور اطفال کے ماہانہ چندوں اور بجٹ کا جائزہ لیتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ اگر ایک طفل اپنا کوک کا ایک ٹن اور ایک چاکلیٹ قربان کرے تو آپ کا چندہ مجلس اور وقف جدید دو گنا ہوسکتا ہے.حضور انور نے فرمایا بچوں کو نماز کے ساتھ ساتھ چندہ کی عادت بھی ڈالیں.پہلی چیز نماز ہے پھر اس کے ساتھ مالی قربانی کا ذکر ہے.اگر آپ ان کو نماز اور چندہ کی عادت ڈال دیں گے تو وہ بڑے ہو کر بھی چندہ ادا کرتے رہیں گے.بڑے ہو کر جب بوجھ ڈالا جاتا ہے تو مشکل محسوس ہوتی ہے اس لئے بچوں کو شروع سے ہی اچھی طرح سمجھائیں.نائب صدر اور معاون صدر سے بھی حضور انور نے ان کی ذمہ داریوں اور کام کے بارہ میں دریافت فرمایا.مہتم تربیت کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ کھیلوں میں جولڑائیاں ہوتی ہیں ایسے خدام کی تربیت کی طرف توجہ ہونی چاہئے.فرمایا کھیل کھیل ہے اس کو زندگی اور موت کا سوال نہیں بننا چاہئے.فرمایا کھیل سے پہلے ہی نظر ہونی چاہئے بجائے اس کے کہ کوئی لڑائی کا واقعہ ہو جائے.حضور انور نے اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ کتنے خدام با قاعدہ خطبہ جمعہ سنتے ہیں اور کتنے بے قاعدہ سننے والے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو نہیں سنتے.اس بارہ میں بھی حضور انور نے ہدایات سے نوازا.نمازوں کی ادائیگی کے بارہ میں بھی حضور انور نے جائزہ لیا اور ہدایات سے نوازا.مہتمم مال سے حضور انور نے خدام کے بجٹ اور چندہ دینے والے خدام کی تعدا د اور چندہ کے معیار کا جائزہ لیا.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جو خادم جماعت کا لازمی چندہ نہیں دے رہا اس سے آپ نے خدام کا چندہ نہیں لینا.فرمایا نظام کی پابندی کی عادت ڈالنی ہے.تربیت اور اصلاح ضروری ہے.پیسے اکٹھے کرنا مقصد نہیں ہے.حضور انور نے فرمایا کہ اخراجات کے بعد سال کے آخر پر جو رقم بچتی ہے وہ ریزرو میں جائے گی.گودہ خدام الاحم یہ کینیڈا کی رقم ہے لیکن وہ خرج خلیفہ مسیح کی اجازت سے ہوگی.حضور انور نے فرمایا: ذیلی تنظیموں نے مل کر جو مشتر کہ ہال بنانا ہے جس کی تجویز ہے اس سے آپ سب

Page 78

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 60 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کس طرح استفادہ کریں گے.کھیلیں ہیں ، دوسرے اجلاسات اور تربیتی وتعلیمی پروگرام ہیں اس لئے پہلے اس کا اچھی طرح سے جائزہ لے لیں.کی.مہتم صحت جسمانی نے کھیلوں کے پروگراموں کے بارہ میں حضور انور کی خدمت میں اپنی رپورٹ پیش مہتم اشاعت نے بتایا کہ خدام الاحمدیہ اپنا رسالہ النداء“ شائع کر رہی ہے.حضور انور نے فرمایا رسالہ ”خالد بھی منگوایا کریں اور کافی تعداد میں منگوائیں مہتمم صنعت و تجارت کو حضور انور نے فرمایا جو بھی معلومات آپ کے پاس ہوں ان کو نوٹس بورڈ پر بھی لگایا کریں تا کہ خدام کو علم ہوتا ر ہے.مہتم تعلیم نے بھی اپنی رپورٹ اور یو نیورسٹیوں میں سیمینار کے انعقاد کی رپورٹ حضور انور کی خدمت میں پیش کی.مہتم سمعی و بصری کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ ڈاکو منٹری پروگرام تیار کریں.بعض انتظامی امور سے متعلق بھی حضور انور نے ہدایات سے نوازا.مہتم تربیت نو مبائعین کو حضور انور نے نو مبائعین سے رابطہ رکھنے کی ہدایت فرمائی.فرمایا ان سے مستقل رابطہ رکھیں.جب آپ کا رابطہ اور تعلق ختم ہوتا ہے تو پھر یہ لوگ غائب ہو جاتے ہیں.مہتم مجنید کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ اپنے طور پر خدام کی علیحدہ تجنید تیار کریں اور ہر سال آپ کی تجنید تیار ہونی چاہئے.کئی اطفال خدام میں آرہے ہوتے ہیں اور خدام انصار میں جار ہے ہوتے ہیں.مہتم عمومی کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ ( بیوت الذکر ) میں اور سنٹرز میں نماز جمعہ وغیرہ پر با قاعدہ ڈیوٹی ہونی چاہئے.مہتمم وقار عمل کو حضور انور نے فرمایا کہ (بیوت الذکر) /سنٹرز وغیرہ کی باقاعدہ صفائی ہوتی رہنی چاہئے.فرمایا کئی جگہ جماعت کی زمینیں ہیں.شعبہ صنعت و تجارت کے ساتھ مل کر فارم وغیرہ ہی بنادیں.مہتم تحریک جدید سے حضور انور نے خدام کے وعدوں کا جائزہ لیا.مہتم خدمت خلق نے رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ خدام خون کا عطیہ دیتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ خون دینے والے خدام کو ایک انتظام کے تحت رجسٹر کروائیں تا کہ اگر ایمر جنسی میں ضرورت پڑے تو ان

Page 79

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 61 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو بلالیا جائے.فرمایا ہر جگہ خدام الاحمدیہ کینیڈا کے نام پر رجسٹر کروائیں.جماعت کے تعارف کا ایک ذریعہ ہے.فرمایا جتنا صاف خون احمدی کا ہے اتنا کسی کا نہیں ہوگا.حضور انور نے آخر پر خدام الاحمدیہ کو ایک اصولی ہدایت فرمائی کہ آپ نے اگر کوئی فنڈ اکھٹا کرنا ہوتو خود نہیں کرنا بلکہ خلیفہ مسیح سے اس کی اجازت لینی ہے.اسی طرح از خود براہ راست کینیڈا اسے باہر کہیں بھی رقم نہیں بھجوانی.مجلس خدام الاحمدیہ کے ساتھ یہ میٹنگ چھ بجے ختم ہوئی اس کے بعد مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کینیڈا نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف حاصل کیا.الفضل انٹر نیشنل 19 تا 25 اگست 2005ء)

Page 80

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 62 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 2005ء سے اقتباسات * امانت و دیانت اور عہد کی پابندی آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اسوہ کے جس پہلو کا میں ذکر کرنے لگا ہوں وہ ہے امانت و دیانت اور عہد کی پابندی.یہ ایک ایسا خلق ہے جس کی آج ہمیں ہر طبقے میں، ہر ملک میں، ہر قوم میں کسی نہ کسی رنگ میں کمی نظر آتی ہے اور اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے.بظاہر جو ایماندار نظر آتے ہیں، عہدوں کے پابند نظر آتے ہیں، جب اپنے مفاد ہوں تو نہ امانت رہتی ہے نہ دیانت رہتی ہے، نہ عہدوں کی پابندی رہتی ہے.دو معیار اپنائے ہوئے ہیں لیکن ہمارے ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے، اپنے اسوہ سے، اپنی امت کو ان باتوں کی پابندی کرتے ہوئے عمل کرنے کی نصیحت فرمائی ہے اور امانت و دیانت اور عہدوں کی پابندی کے اعلیٰ معیار قائم کئے ہیں.اب وہی معیار ہیں جن پر چل کر انسان اللہ تعالیٰ کا قرب پاسکتا ہے.اس سے باہر کوئی چیز نہیں.ایک جنگ کے دوران کا ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی حالت میں، جبکہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح دشمن کو ایسی حالت میں لایا جائے جس سے وہ مجبور ہو کر ہتھیار ڈال دے، آپ نے امانت و دیانت کے کیا اعلیٰ نمونے دکھائے اور تاریخ اس کی گواہ ہے.جب اسلامی فوجوں نے خیبر کو گھیرا تو اس وقت وہاں کے ایک یہودی سردار کا ایک ملازم، ایک خادم، ایک جانور چرانے والا جانوروں کا نگران جانوروں سمیت اسلامی لشکر کے علاقے میں آ گیا اور مسلمان ہو گیا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں تو اب مسلمان ہو گیا ہوں، واپس جانا نہیں چاہتا، یہ بکریاں میرے پاس ہیں، ان کا اب میں کیا کروں.ان کا مالک یہودی ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان بکریوں کا منہ قلعے کی طرف پھیر کر ہانک دو.وہ خود اس کے مالک کے پاس

Page 81

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 63 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ پہنچ جائیں گی.چنانچہ اس نے ایسے ہی کیا اور قلعہ والوں نے وہ بکریاں وصول کر لیں، قلعے کے اندر لے گئے تو دیکھیں یہ ہے وہ امانت و دیانت کا اعلیٰ نمونہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا.کیا آج کوئی جنگوں میں اس بات کا خیال رکھتا ہے.نہیں، بلکہ معمولی رنجشوں میں بھی ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی ، ایک دوسرے کا پیسہ مارنے کی اگر کسی نے کسی سے لیا ہوتو ، کوشش کی جاتی ہے.یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی احساس تھا کہ اس حالت میں بھی جبکہ دشمن کے مال پر قبضہ مل رہا تھا، اس طرح کے قبضے کونا جائز سمجھا.اس محاصرے کی وجہ سے، اس گھیرے کی وجہ سے جو قلعے کا تھا، باہر سے تو خوراک اندر جا نہیں سکتی تھی اور یہ بکریاں جو تھیں یہ قلعے والوں کے لئے کچھ عرصے کے لئے خوراک کا سامان مہیا کر سکتی تھیں.محاصرہ لمبا بھی ہو سکتا تھا، لڑائی لمبی بھی ہو سکتی تھی لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ برداشت نہ کیا کہ ایک شخص جو کسی کے مال کا امین بنایا گیا ہے اور اب مسلمان ہو چکا ہے وہ مسلمان ہو کر کسی خیانت کا مرتکب ہو.اور اس شخص کو اسلام لاتے ہی پہلا سبق یہ دیا کہ امانت میں کبھی خیانت نہیں کرنی چاہئے.جیسے بھی حالت ہو تم نے خدا تعالیٰ کے اس حکم کی ہمیشہ تعمیل کرنی ہے کہ اپنی امانتوں کی نگرانی کرو.ان کو واپس لوٹاؤ.اس نگرانی سے کبھی بے پرواہ نہ ہو.پس یہ ہے ایسے حالات میں آپ کا امانت و دیانت کا اعلیٰ معیار.اس وقت جب جنگ ہورہی تھی شاید مسلمانوں کو بھی خوراک کی ضرورت ہو اور وہ بکریاں ان کے کام آ سکتی تھیں اور بعضوں کے نزدیک شاید یہ جائز بھی ہو کہ یہ مال غنیمت کے زمرہ میں آتا ہے.لیکن آپ نے فرمایا: نہیں یہ نا جائز ہے، خیانت ہے.اور ناجائز اور خیانت سے لیا ہوا مال مسلمان پر حرام ہے.میاں بیوی کے باہمی تعلقات بھی امانت ہیں پھر آپ نے جہاں امانت و دیانت کے یہ اعلیٰ نمونے دکھائے وہاں اُمت کو بھی نصیحت کی کہ اس کی مثالیں قائم کرو.اور پھر چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی اس کا خیال رکھو.مثلاً میاں بیوی کے تعلقات ہیں.اس میں بھی آپ نے نصیحت فرمائی کہ یہ تعلقات امانت ہوتے ہیں ان کا خیال رکھو.حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی خیانت یہ شمار ہوگی کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے تعلقات قائم کرے.پھر وہ بیوی کے پوشیدہ راز لوگوں میں بیان کرتا پھرے.(سنن ابی داؤد.کتاب الادب باب في نقل الحدیث)

Page 82

64 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم آج کل کے معاشرے میں میاں بیوی کی جو آپس کی باتیں ہوتی ہیں وہ لوگ اپنے ماں باپ کو بتا دیتے ہیں اور پھر اس سے بعض دفعہ بدمزگیاں پیدا ہوتی ہیں.لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں.بعض دفعہ ماں باپ کو خود عادت ہوتی ہے کہ بچوں سے کرید کرید کے باتیں پوچھتے ہیں.پھر یہی جھگڑوں کا باعث بنتی ہیں.اس لئے آپ نے فرمایا: میاں بیوی کی یہ باتیں خواہ کسی بھی قسم کی باتیں ہوں نہ ان کا حق بنتا ہے کہ دوسروں کو بتائیں اور نہ دوسروں کو پوچھنی چاہئیں اور سنی چاہئیں.اگر اس نصیحت پر عمل کرنے والے ہوں تو بہت سارے جھگڑے میرے خیال میں خود بخود ختم ہو جائیں.الفضل انٹر نیشنل 29 جولائی تا 11 اگست 2005ء)

Page 83

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 65 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ حضور انور کا جماعت احمد یہ عالمگیر کے نام پیغام پیارے احباب جماعت احمد یہ عالمگیر.* السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ الحمد للہ کہ الفضل انٹر نیشنل الوصیت نمبر شائع کر رہی ہے.اللہ کرے کہ اس کے ذریعے سے جماعت کے ہر فرد کو نظام وصیت کی اہمیت اور برکات کا علم ہو جائے اور ان کے اندر نیک اور پاک تبدیلیاں پیدا ہوں.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے ذریعہ ایک ایسی جماعت قائم ہو جو صرف دنیا پر ہی نہ ٹوٹی پڑے بلکہ اس کو آخرت کی بھی فکر ہو کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے.اس لیے ایسے اعمال بجالائے جائیں جو خاتمہ بالخیر کی طرف لے جانے والے ہوں.آپ نے اپنی ساری زندگی اس اہم کام میں صرف کی اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے مخلصین کی ایک جماعت تیار کی.نظام وصیت کا قیام دسمبر 1905ء میں جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بار بار یہ خبر دی کہ قَرُبَ اَجَلُكَ الْمُقَدَّرُ اور آپ کو ایک قبر دکھلائی گئی جو چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اس کی تمام مٹی چاندی کی تھی اور بتایا گیا کہ یہ آپ کی قبر ہے، نیز آپ کو ایک اور جگہ دکھلائی گئی جس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا تو الہی اشاروں پر آپ کے ذہن میں ایک ایسے قبرستان کی تجویز آئی جو جماعت کے ایسے پاک دل لوگوں کی خوابگاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور جنہوں نے دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لیے ہو گئے اور نیکیوں پر قدم مارنے والے بن گئے اور ایسی پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کانمونہ دکھلایا.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ:.تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیت کرے جو اس کی موت کے بعد

Page 84

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 66 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ دسواں حصہ اس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت ( دین حق ) اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہوگا.اس طرح آپ نے مالی قربانی کا ایک ایسا اہم نظام جاری فرمایا جو آپ کے ماننے والوں کے لیے تزکیہ نفس کا بھی ذریعہ ہو.اس سے اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت بھی ہو اور حقوق العباد کے سامان بھی ہوں.جیسا کہ آپ نے فرمایا: ان اموال میں ان یتیموں اور مسکینوں اور ( نو مبایعین ) کا بھی حق ہو گا جو کافی طور پر وجوہ معاش نہیں رکھتے اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں.“ (الوصیت ) آپ نے اپنی جماعت کے افراد کو اس مالی نظام میں شامل ہونے کی یوں تلقین فرمائی کہ تم اس وصیت کی تکمیل میں میرا ہاتھ بٹاؤ.وہ قادر خدا جس نے پیدا کیا ہے دنیا اور آخرت کی مرادیں دے دے گا.پھر آپ نے فرمایا: بلاؤں کے دن نزدیک ہیں اور ایک سخت زلزلہ جو زمین کو تہہ و بالا کر دے گا قریب ہے.پس وہ جو معائنہ عذاب سے پہلے اپنا تارک الدنیا ہونا ثابت کر دیں گے اور نیز یہ ثابت کر دیں گے کہ کس طرح انہوں نے میرے حکم کی تعمیل کی خدا کے نزدیک حقیقی مومن وہی ہیں اور اس کے دفتر میں سابقین اولین لکھے جائیں گے میں یہ نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مال لوں اور اپنے قبضہ میں کرلوں بلکہ تم اشاعت دین کے لیے ایک انجمن کے حوالے اپنا مال کرو گے اور بہشتی زندگی پاؤ گے.“ نیز فرمایا.خدا کی رضا کو تم کسی طرح پاہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر، اپنی لذات چھوڑ کر، اپنی عزت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اٹھا لو گے ( یعنی اس نظام وصیت میں شامل ہو جاؤ گے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی دل و جان سے کوشش کرتے رہو گے ) تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے، ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں.وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں.ان کے

Page 85

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 67 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ لیے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں.“ پس میرا تمام دنیا کے احمدیوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ حضرت مسیح موعود کے ان ارشادات کی روشنی میں، آپ کی خواہشات کے تابع ، آگے بڑھیں اور مالی قربانی کے اس نظام میں شامل ہو جائیں.اپنی اصلاح کی خاطر اور اپنے انجام بالخیر کی خاطر اللہ تعالی کی رضا کے لیے قدم آگے بڑھا ئیں اور اس کی جنتوں کے وارث بنیں.حضرت مسیح موعود کو ان برگزیدہ لوگوں کی قبریں بھی دکھائی گئیں جو اس نظام میں شامل ہو کر بہشتی ہو چکے ہیں.خدا نے آپ کو فرمایا کہ " یہ بہشتی مقبرہ ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ اُنْزِلَ فِيْهَا كُلُّ رَحْمَةٍ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اتاری گئی ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا ہے اس نظام میں پوری مستعدی کے ساتھ شامل ہوں.جو خود شامل ہیں وہ اپنے بیوی بچوں کو اور دوسرے عزیزوں کو بھی اس میں شامل کرنے کی کوشش کریں اور خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کریں.میں اپنی اس خواہش کا اظہار پہلے بھی ایک موقع پر کر چکا ہوں کہ 2008ء میں جب خلافت احمدیہ کو قائم ہوئے انشاء اللہ سو سال پورے ہو جائیں گے تو دنیا کے ہر ملک میں ، ہر جماعت میں جو کمانے والے افراد ہیں جو چندہ دہند ہیں اُن میں سے کم از کم پچاس فی صد ایسے ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس عظیم الشان نظام میں شامل ہو چکے ہوں اور یہ افراد جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک حقیر سا نذرانہ ہوگا جو جماعت خلافت کے سوسال پورے ہونے پر شکرانے کے طور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہوگی.نظام وصیت کا نظام خلافت سے گہرا تعلق ہے یہ بھی یا درکھیں کہ نظام وصیت کا نظام خلافت کے ساتھ ایک گہراتعلق ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات کی خبروں پر جہاں جماعت کی تربیت کی فکر پیدا ہوئی اور آپ نے مالی قربانی کے نظام کو جاری فرمایا وہاں آپ نے جماعت کو یہ خوشخبری بھی دی کہ میری وفات کی خبروں سے غمگین مت ہو کیونکہ خدا تعالی اس سلسلہ کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ ایک دوسری قدرت کا ہاتھ سب کو تھام لے گا.آپ نے فرمایا: تم میری اس بات سے غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے

Page 86

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 68 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا“.پس رساله الوصیت میں نظام خلافت کی پیشگوئی فرمانا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان دو نظاموں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور جس طرح نظام وصیت میں شامل ہو کر انسان تقویٰ کے اعلیٰ معیار اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے اسی طرح خلافت احمدیہ کی اطاعت کا جو آگردن پر رکھنے سے اس کی روحانی زندگی کی بقا ممکن ہے.مالی قربانی کا نظام بھی خلافت کے بابرکت سائے میں ہی مضبوط ہو سکتا ہے.پس جب تک خلافت قائم رہے گی جماعت کی مالی قربانیوں کے معیار بڑھتے رہیں گے اور دین بھی ترقی کرتا چلا جائے گا.پس میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان دونوں نظاموں سے وابستہ رکھے.جو ابھی تک نظام وصیت میں شامل نہیں ہوئے اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس میں حصہ لے کر دینی اور دنیوی برکات سے مالا مال ہو سکیں اور اللہ کرے کہ ہر احمدی ہمیشہ نظام خلافت سے اخلاص اور وفا کا تعلق قائم رکھے اور خلافت کی بقا کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے اور اپنی تمام تر ترقیات کے لئے خلافت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور ان کو پورا کرنے کی توفیق دے اور سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلاتے ہوئے ہم سب کا انجام بالخیر فرمائے.آمین.والسلام خاکسار ( دستخط ) مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس الفضل انٹر نیشنل 29 جولائی تا 11 اگست 2005ء)

Page 87

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 69 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 2005ء سے اقتباسات * مہمان اطلاع دے کر میزبان کے ہاں جایا کریں جہاں مومن کو یہ حکم ہے کہ مہمان کا خیال رکھو، اُس کو اُس کا حق دو، وہاں مہمانوں کو بھی ہدایات دی گئی ہیں کہ تم نے اپنے مہمان ہونے کے حقوق کس طرح استعمال کرنے ہیں اور فرائض کس طرح ادا کرنے ہیں.تم نے مہمان بن کر گھر میں کس طرح جانا ہے، کب جانا ہے اور مقصد پورا کرنے کے بعد ، کام پورا ہو جائے تو پھر واپس آ جانا ہے.گھر والوں کے لئے تنگی کے سامان نہیں کرنے.اگر مہمان ان باتوں کو مد نظر رکھیں تو معاشرے کے ہر طبقے میں مختلف حالات میں جو تعلقات ہیں ان کی وجہ سے جو بے چینیاں پیدا ہورہی ہوتی ہیں وہ ختم ہو جائیں.عموماً معاشرے میں، خاص طور پر ہمارے ملکوں میں یہ ہوتا ہے کہ اچانک بہت سے مہمان آگئے.گھر والے پریشان ہیں کہ کیا کریں.بعض دفعہ ایسے حالات نہیں ہوتے کہ ان کی اچھی طرح خدمت کر سکیں اس لئے فرمایا کہ { لَا تَدْخُلُوْا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلَى أَهْلِهَا } (النور: 28 ) کہ اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو یہاں تک کہ تم اجازت لے لو، ان کے رہنے والوں پر سلام بھیجو.اجازت کے جو طریقے سکھائے گئے ہیں یہ گھر پہنچ کر ہی نہیں بلکہ آج کل کے زمانے میں تو دور بیٹھ کر بھی اجازت لی جاسکتی ہے.جب اجازت مل جائے ، گھر والے بھی تیار ہوں ان کو پتہ ہو کہ ہمارے مہمان فلاں تاریخ کو آرہے ہیں تو ٹھیک ہے پھر اس گھر میں جائیں.یہاں جلسے پر جو مہمان آتے ہیں دوسرے ملکوں سے، ان کو تو خیر باہر سے آنا ہوتا ہے، جہاز پر آنا ہوتا ہے اطلاع بھی ہوتی ہے تاکہ کوئی ریسیو (Recieve) کرنے والا بھی مل جائے اور پھر سواری بھی میسر آ جائے اور رہائش گاہوں میں یا گھروں میں لایا بھی جاسکے.لیکن چونکہ مہمان نوازی کا عموماً ذکر ہو رہا ہے اس لئے میں یہاں یہ بھی ذکر کر دوں کہ عام طور پر ہمارے ملکوں میں جو نفسیات ہے، ہمارے ملکوں میں لوگوں کو یہ عادت ہے کہ اچانک کسی

Page 88

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 70 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے گھر پہنچ جاتے ہیں.پاکستان میں اکثر ایسا ہوتا ہے.اور یہ عادت چونکہ اب مہمانوں اور میز بانوں دونوں کا مزاج بن چکا ہے اس لئے عموماً دونوں فریق زیادہ محسوس نہیں کرتے.اس صورت میں اگر کھانے وغیرہ میں دیر ہو جائے تو بعض اوقات بعض مہمان شکوہ کرتے ہیں کہ دیکھو دو پہر کا کھانا ہمیں شام کو جا کر دیا.گو کہ پاکستان میں ہمارے دیہاتوں میں یہ عادت بھی ہے کہ وہ اطلاع دے کر بھی جائیں تب بھی پہنچنے کے بعد ہی کھانا پکانا شروع کرتے ہیں.تو بہر حال یہ چھوٹے چھوٹے شکوے پھر بڑے شکوے بننے شروع ہو جاتے ہیں.اور خاص طور پر ان رشتوں میں جو بڑے نازک رشتے ہوتے ہیں.بچوں کے سسرال والوں کا معاملہ آ جاتا ہے تو اس طرح پھر دلوں میں دوریاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.یہ پاکستان کی جومیں مثال دے رہا ہوں یہ پاکستان کی یا کسی خاص طبقے کی مثال نہیں ہے.ان مغربی ممالک میں بھی میرے سامنے ایسی مثالیں ہیں کہ بغیر اطلاع کے بے وقت کسی کے گھر پہنچ گئے خواہ اپنے کسی عزیز کسی رشتے دار کے گھر ہی پہنچے اور گھر والے نے سمجھا کہ اس وقت آئیں ہیں تو کھانا کھا کے ہی آئے ہوں گے اور جب گھر والے نے کچھ دیر کے بعد چائے پانی وغیرہ کے متعلق پوچھا تو یہ شکوے پیدا ہوئے کہ مجھے کھانے کے بارہ میں کیوں نہیں پوچھا، بڑا بداخلاق ہے، یہ ہے ، وہ ہے.تو یوں رشتوں میں پھر دراڑیں پڑنی شروع ہو جاتی ہیں اور دوریاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.آجکل کے زمانے میں جس طرح میں نے کہا، رابطے کا نظام بہت تیز ہے، اطلاع کرنے کا نظام بڑا تیز ہے.فون کر کے اطلاع کرنی چاہئے ، پوچھنا چاہئے کہ فلاں وقت میں آ رہا ہوں یا میں آنا چاہتا ہوں اگر مصروفیت نہ ہو اور وقت دے سکو تو میں آجاؤں.تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ آداب اس وقت سکھا دیے جب کسی کو ان آداب کا پتہ ہی نہیں تھا.دعوتوں پر بر وقت جائیں پھر ایک جگہ حکم ہے کہ دعوت پر اگر بلایا جائے تو پھر جاؤ اور وقت پر جاؤ.اور پھر جب دعوت سے فارغ ہو جاؤ تو واپس آ جاؤ.بعض تو بڑی کھلی دعوتیں ہوتی ہیں شادی بیاہ وغیرہ کی.ساری ساری رات ہو ہا ہوتی رہتی ہے ،شور شرابے ہوتے رہتے ہیں.ہماری جماعت میں تو کم ہے مگر غیروں میں بہت زیادہ ہوتے ہیں.وہاں تو وقت کی پابندی نہیں ہوتی لیکن بعض سنجیدہ مجلسیں بھی ہوتی ہیں، جماعتی دعوتیں بھی ہوتی ہیں.یا ایسی دعوتیں ہوتی ہیں جو جماعتی جگہوں پر کی جارہی ہوتی ہیں.تو ان میں ان سب آداب کا خیال رکھنا چاہئے جو ان دعوتوں

Page 89

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 71 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کے لئے مہمانوں کو ادا کرنے ضروری ہیں.انہوں نے وقت پر جانا بھی ہے اور فارغ ہو کر اٹھ کر واپس آ جانا بھی ہے.نامناسب شا پنگ سے پیدا ہونے والے مسائل بعض مہمان کہتے ہیں کہ ہم دوسرے ملک سے آئے ہوئے ہیں یا پاکستان سے آئے ہوئے ہیں پتہ نہیں دوبارہ موقع ملتا ہے کہ نہیں ملتا ہم شاپنگ کرنا چاہتے ہیں، ہمیں شاپنگ کے لئے لے کر جاؤ.پھر شا پنگ کے لئے اس بیچارے میزبان کا خرچ بھی کروا دیتے ہیں.کچھ تو وہ شرم میں ایسے مہمانوں کو ساتھ لے جا کر تحفہ دے دیتا ہے کچھ یہ کہہ کر اس سے شاپنگ کروا لیتے ہیں کہ اس وقت پونڈ میں پیسے نہیں ہیں، واپس جا کر پیسے ادا کر دیں گے یا اگر یورپ میں جرمنی وغیرہ میں ہیں تو یورو میں واپس جا کر دے دیں گے.یہ ان ملکوں میں جب بھی آتے ہیں تو اسی طرح ہوتا ہے بعض کی طرف سے، عموماً نہیں، ایسے چند ایک ہی ہوتے ہیں.اُس سے پھر اس طرح شاپنگ کی ادائیگی بھی کروا دیتے ہیں.تو اس سے احتیاط کرنی چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا گو اس قسم کے شاپنگ کروانے والے زبر دستی کرنے والے یا بے جھجک ہو کر شاپنگ کروانے والے چند ایک ہی ہوتے ہیں لیکن یہ چند ایک ہی بعض دفعہ بدنامی کا باعث بن جاتے ہیں.گھر والا بیچارہ ان مہمانوں کو رکھ کے تو مشکل میں پڑ جاتا ہے کہ چند دنوں کے لئے اپنے گھر سے بھی باہر ہوا، اپنے وقت کا بھی ضیاع کر دیا اور زبر دستی کا ادھار بھی دینا پڑ گیا.شاپنگ بھی کروانی پڑ گئی.تو بعض عجیب طبیعتیں ہوتی ہیں اور بعض لوگوں کی قریبی رشتہ داری اور تعلق بھی نہیں ہوتا پھر بھی یہ مطالبے کر رہے ہوتے ہیں.تو ان پر تو پنجابی کی مثال ہے وہی اصل میں صادق آتی ہے ایسے مہمانوں پر کہ کیا دیوتے لردیو، تے لدن والا نال دیو کہ سامان بھی دو، اٹھا کے پہنچاؤ بھی اور ہمارے ساتھ کوئی بھیجو بھی جو گھر تک چھوڑ کے بھی آئے.کیونکہ بعض دفعہ اتنی زیادہ شاپنگ ہو جاتی ہے کہ اپنی ٹکٹ کے مطابق تو وزن کی اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ سامان لے جاسکیں اور پیچھے چھوڑ جاتے ہیں کہ ہمارا سامان بھجوا بھی دینا.ہر ایک جانے والے کا اپنا اپنا سامان ہوتا ہے.بھجوانے میں دیر بھی لگ جاتی ہے کبھی کوئی ایسا نہیں ملتا جو خالی ہاتھ جارہا ہو جو سامان لے جا سکے اور جب عرصہ گزر جاتا ہے اور کچھ وقت لگ جاتا ہے تو پھر شکوے شروع ہو جاتے ہیں کہ جی بڑا غیر ذمہ دار آدمی ہے.میں وہاں اپنا سامان چھوڑ کے آیا تھا اس نے ابھی تک مجھے پہنچایا نہیں.تو ان باتوں سے ہمیں بچنا چاہئے.ایک بھی مثال جماعت میں ایسی نہیں

Page 90

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 72 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہونی چاہئے جو ایسی حرکتیں کرنے والے ہوں.اور یہاں آنے کے لئے جلسے پر آنے کا جو اصل مقصد ہے اس کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں.جلسے کی برکات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں سے جھولیاں بھر کر جائیں بجائے سامان کی شاپنگ کرنے کے.اس سے اعلیٰ کوئی سامان نہیں جو آپ حاصل کریں گے.الفضل انٹر نیشنل 19 تا 25 اگست 2005ء)

Page 91

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 73 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرمودہ 26 /اگست 2005ء سے اقتباسات * وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ الله لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (سورة آل عمران آیت نمبر 104) اس کا ترجمہ ہے کہ: اور اللہ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچالیا.اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ شاید تم ہدایت پا جاؤ.اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں بیشمار احکامات دے کر ان پر عمل کرنے کی ہدایت فرمائی ہے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کے ترجمہ میں جیسا کہ میں نے ابھی پڑھا ہے.ہم دیکھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ایک ہو کر رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ یہ اللہ کی رشتی تم پر ایک انعام ہے.اللہ کی اس رہتی کو پکڑنے کی وجہ سے تم پر اللہ کے فضل نازل ہوئے اور اس کے انعاموں سے تم نے حصہ پایا.تمہارے معاشرے کے تعلقات بھی خوشگوار ہوئے اور تمہاری آپس کی رشتہ داریوں میں بھی مضبوطی پیدا ہوئی.قرآن کریم اور رسول کریم اللہ حبل اللہ ہیں ہم سب جانتے ہیں کہ وہ رشی کون سی تھی یا کون سی ہے جس کو پکڑ کر ان میں اتنی روحانی اور اخلاقی طاقت پیدا ہوئی، قربانی کا مادہ پیدا ہوا، قربانی کے اعلیٰ معیار قائم ہوئے.جس نے ان میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے انہیں اس حد تک اعلیٰ قربانیاں کرنے کے قابل بنادیا.وہ رہتی تھی اللہ تعالیٰ کی آخری شرعی

Page 92

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 74 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کتاب قرآن کریم، جو احکامات اور نصائح سے پُر ہے.جس کے حکموں پر سچے دل سے عمل کرنے والا خدا تعالیٰ کا قرب پانے والا بن جاتا ہے.وہ رسی تھی نبی کریم ﷺ کی ذات کہ آپ کے ہر حکم پر قربان ہونے کے لیے صحابہ ہر وقت منتظر رہتے تھے.ان صحابہ نے اپنی زندگی کا یہ مقصد بنالیا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے باہر نہیں نکلنا.اور پھر آنحضرت ﷺ کے بعد آپ کے پہلے چار خلفاء جو خلفاء راشدین کہلاتے ہیں، خلفاء، ان کے توسط سے مسلمانوں نے اُس ریشی کو پکڑا جو اللہ کی رسّی اور اس کی طرف لے جانے والی ریتی تھی.اور جب تک مسلمانوں نے اس رستی کو پکڑے رکھا وہ صحیح راستے پر چلتے رہے.اور جب فتنہ پردازوں نے ان میں پھوٹ ڈال دی اور انہوں نے فتنہ پردازوں کی باتوں میں آکر اس ریشی کو کاٹنے کی کوشش کی تو ان کی طاقت جاتی رہی.مسلمانوں کو وقتا فوقتا مختلف جگہوں میں اس کے بعد کامیابیاں تو ملتی رہیں لیکن اجتماعی قوت اور رعب جو تھا وہ جاتا رہا.وہ قوت جو تھی وہ پارہ پارہ ہوگئی.آپس میں بھی لڑائیاں ہوئیں.ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوا.اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا انکار کیا تھا....رسول کریم آخری صاحب شریعت نبی لیکن کیونکہ خدا تعالیٰ جس نے آنحضرت ﷺ کو آخری شرعی نبی بنا کر دنیا میں بھیجا تھا اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق آپ کی شریعت نے رہتی دنیا تک نہ صرف قائم رہنا تھا بلکہ پھیلنا تھا.اپنے وعدے کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ان عملوں کی وجہ سے اس دین کو صفحہ ہستی سے مٹا تو نہیں دینا تھا.مسلمانوں کے بگڑنے کی وجہ سے اور ناشکری کی وجہ سے جو ایسی حرکتوں کے منطقی نتائج نکلتے ہیں اور نکلنے چاہئیں وہ تو نکلے.لیکن اللہ تعالیٰ کا آنحضرت ﷺ سے یہ بھی وعدہ تھا کہ آخرین میں سے تیری امت میں سے تیری لائی ہوئی شریعت کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے میں مسیح و مہدی کو مبعوث کروں گا تا کہ پھر وہ احکامات لاگو ہوں ، تاکہ پھر اللہ کی ریتی کی قدر کا احساس پیدا ہو، تاکہ پھر اس مسیح و مہدی کو ماننے والے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ سکیں.اس آیت کے آخر میں جو یہ فرمایا ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ شاید تم ہدایت پا جاؤ.یہ مسلمانوں کو پھر ایک حکم ہے، ایک وارننگ ہے کہ اللہ کے احکامات پر عمل کرو،

Page 93

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 75 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے بعد ضد نہ کرو اور مسیح و مہدی کو مان لو.جو تمہارے ساتھ ہو چکا اس سے سبق حاصل کرو.اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرو.اور اب تمہاری بقا اسی میں ہے کہ اس رستی کو مضبوطی سے پکڑو.احمد یوں کو نصیحت لیکن اس میں ہم احمدیوں کے لیے بھی نصیحت ہے بلکہ اوّل مخاطب اس زمانے میں ہم احمدی ہیں کہ ایک انقلاب آج سے چودہ سو سال پہلے آیا تھا اور دشمن کو بھائی بھائی بنا گیا تھا اور ایک انقلاب اس زمانے میں اس نبی امی کی قوت قدسی کی وجہ سے، اس کے عاشق صادق کے ذریعہ سے برپا ہوا ہے جس نے تمہیں پھر سے اکٹھا کیا ہے.اس لئے اب پہلی باتیں جو تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں، یہ تاریخ کا حصہ بننے کے لیے تھیں ان پر غور کرو اور اس مسیح و مہدی کو ماننے کے بعد ہمیشہ اس تعلیم پر عمل کرو جو تمہیں دی گئی ہے.ورنہ جو عمل نہیں کرے گا وہ اپنے آپ کو آگ کے گڑھے میں گرانے والا ہوگا.خلافت تا قیامت رہے گی پہلے زمانے کے لئے آنحضرت یا اللہ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ خلافت راشدہ کا زمانہ تھوڑا ہو گا اور اسی کے مطابق ہوا.لیکن اس زمانے کے لئے آنحضرت ﷺ نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ میرے غلام صادق کے آنے کے بعد جو خلافت قائم ہوگی وہ علی منہاج نبوت ہوگی اور اس کا دور قیامت تک چلنے والا دور ہوگا.خلافت کے قیامت تک قائم رہنے کے بارے میں بعض لوگ اس کی اپنی وضاحت اور تشریح بھی کرتے ہیں.ہم میں سے بھی بعض لوگ بعض دفعہ باتیں کرتے رہتے ہیں.تو آج جو یہ باتیں کرتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رسی کو کاٹنے کی باتیں کرتا ہے کہ قیامت تک اس نے رہنا ہے یا نہیں یا اس کی کیا تشریح ہے، کیا نہیں ہے.اگر کوئی دلیل ان کے پاس اس چیز کی ہے بھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعریف کے بعد ہر چیز باطل ہو چکی ہے.وہ دلیل اپنے پاس رکھیں اور جماعت میں فساد کی کوشش نہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت اللہ کی رسی ہیں بہر حال واضح ہو کہ اب اللہ کی رسی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود ہی ہے ، آپ کی تعلیم پر عمل کرنا ہے.اور پھر خلافت سے چھٹے رہنا بھی تمہیں مضبوط کرتا چلا جائے گا.خلافت تمہاری اکائی ہوگی اور

Page 94

76 مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خلافت تمہاری مضبوطی ہوگی.خلافت تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آنحضرت ﷺ کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے جوڑنے والی ہوگی.پس اس رسی کو بھی مضبوطی سے پکڑے رکھو.ورنہ جو نہیں پکڑے گا وہ بکھر جائے گا.نہ صرف خود بر باد ہوگا بلکہ اپنی نسلوں کی بربادی کے سامان بھی کر رہا ہوگا.اس لئے ہر وہ آدمی جس کا اس کے خلاف نظریہ ہے وہ ہوش کرے.تین سال کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو قائم ہوئے سو سال کا عرصہ ہو جائے گا اور جماعت اس جو بلی کو منانے کے لیے بڑے زور شور سے تیاریاں بھی کر رہی ہے.اس کے لئے دعاؤں اور عبادات کا ایک منصوبہ میں نے بھی دیا ہے.ایک تحریک دعاؤں کی ، نوافل کی میں نے بھی کی تھی.تو بہت بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پر عمل بھی کر رہی ہے.حقوق العباد کے اعلیٰ معیار قائم کریں لیکن اگر ان باتوں پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں حقوق العباد کے اعلیٰ معیارا دا کرنے کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی تو یہ روزے بھی بریکار ہیں، یہ نوافل بھی بیکار ہیں ، یہ دعا ئیں بھی بیکار ہیں.ہم جماعت کے عہدیداروں کو یہ رپورٹ تو دے دیں گے کہ خلیفہ وقت کو بتا دو کہ جماعت کے اتنے فیصد افراد نے روزے رکھے یا نوافل پڑھے یا دعا ئیں کر رہے ہیں اور اس پر عمل کر رہے ہیں.لیکن جب آپس کے تعلقات نبھانے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ، ایک دوسرے کی خاطر قربانیاں دینے اور قربانیوں کے وہ نمونے قائم کرنے ، جن کی میں نے مثال دی ہے، کے بارے میں پوچھا جائے گا تو پتہ چلے گا کہ اس طرف تو توجہ ہی نہیں ہے.یا اگر توجہ پیدا ہوئی بھی ہے تو اس حد تک ہوئی ہے جس حد تک اپنے حقوق متاثر نہیں ہوتے.اس وقت تک حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے جب تک اپنی ذات کی قربانی نہ دینی پڑے.اس وقت تک توجہ پیدا ہوئی ہے جب تک اپنے مال کی قربانی نہ دینی پڑے.اگر تو آپ کی توجہ صرف اس حد تک پیدا ہوئی ہے جہاں تک اپنے قریبیوں کے حقوق متاثر نہیں ہوتے.اپنے اور اپنے قریبیوں کے مفاد حاصل کرنے کے لیے اگر غلط بیانی اور نا جائز ذرائع استعمال کر رہے ہوں اور اگر اس کو بھی کوئی عار نہ سمجھتے ہوں تو پھر حبل اللہ کو پکڑنے کے دعوے جھوٹے ہیں.پھر تو خلافت احمد یہ کے احترام اور استحکام کے نعرے کھو کھلے ہیں.پھر تو خلیفہ وقت کے لئے بھی فکر کی بات ہے.نظام جماعت

Page 95

77 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم کے لیے بھی فکر کی بات ہے اور ایک پکے اور بچے احمدی کے لیے بھی فکر کی بات ہے.کیونکہ ان راہوں پر نہ چل کر جن پر چلنے کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے، آگ کے گڑھے کی طرف بڑھنے کا خطرہ ہے.پس آج ہر احمدی کو حبل اللہ کا صحیح ادراک اور فہم حاصل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.صحابہ کی طرح قربانیوں کے معیار قائم کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے.ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے.قرآن کریم کے تمام حکموں پر عمل کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے.اگر ہرفرد جماعت اس گہرائی میں جا کر حبل اللہ کے مضمون کو سمجھنے لگے تو وہ حقیقت میں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے ایک جنت نظیر معاشرے کی بنیاد ڈال رہا ہوگا.جہاں بھائی بھائی کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں گے ، میاں بیوی کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں گے، ساسوں ، بہوؤں کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں گے.دوست دوست کے حق ادا کرتے ہوئے اس کی خاطر قربانی دے رہا ہوگا.جماعت کا ہر فر د نظام جماعت کی خاطر قربانی دینے کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہو گا.غرض کہ ایک ایسا معاشرہ قائم ہو گا جو مکمل طور پر خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والا معاشرہ ہوگا.جس میں وہ لوگ بستے ہوں گے جو اس قرآنی آیت پر عمل کرنے والے ہیں.فرمایا {الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ } (آل عمران : 135) یعنی وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصہ دیا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.باہمی اخوت سے ایک رعب پیدا ہوتا ہے...یہاں اس ملک میں آکر آپ میں سے بہتوں کے جو معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں اس بات سے آپ کے دلوں میں ایک دوسرے کی خاطر مزید نرمی آنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے آگے سر مزید جھکنا چاہئے کہ اس نے احسان فرمایا اور اس احسان کا تقاضا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رسی کو مزید مضبوطی سے پکڑتے ہوئے اس کے حکموں پر عمل کیا جائے.اپنے بھائیوں کے حقوق ادا کئے جائیں اور یوں اللہ کا پیار بھی حاصل کیا جائے.اور جہاں ہم اس طرح اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر رہے ہوں گے وہاں آپس کی محبت اور پیار اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی وجہ سے آپس میں مضبوط بندھن میں بندھ رہے ہوں گے.اور جب ہم اس طرح بندھے ہوں

Page 96

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 78 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ گے اور اللہ کی رسی کو تھامے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کر رہے ہوں گے تو ہمارا ایک رعب قائم ہوگا جو مخالفین کے ہر حملے سے ہمیں محفوظ رکھے گا.ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا جماعتی وقار بھی جاتا رہے گا اور تمہارے اندر بزدلی بھی پیدا ہو جائے گی.جیسا کہ فرمایا {وَاَطِيْعُوا اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ } (الانفال: 47 ) اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور آپس میں مت جھگڑ اور نہ تم بزدل بن جاؤ گے اور تمہارا رعب جاتا رہے گا.اور صبر سے کام لو.یقینا اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.باہمی عزت و احترام کو رواج دیں پس ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر ایسے مواقع آبھی جائیں جس میں کسی کی طرف سے زیادتی ہوئی ہو تو صبر اور حوصلے سے اس کو برداشت کرنا چاہئے.آپس کے چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں پڑ کر اپنی اناؤں کے سوال پیدا کر کے اپنی طاقتوں کو کم نہ کریں.ہر بھائی دوسرے بھائی کی عزت کا خیال رکھے.ہر بہن دوسری بہن کی عزت کا خیال رکھے.اپنے بچوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے احترام پیدا کریں.عہد یدار افراد جماعت کی عزت نفس کا خیال رکھیں اور افراد جماعت عہد یداروں کی عزت کریں، ان کے وقار کا خیال رکھیں.پھر آپس میں عہدیدار ایک دوسرے کی عزت اور احترام کریں.ذیلی تنظیموں کے عہد یدار دوسری ذیلی تنظیموں کے عہدیداروں کا احترام اپنے اندر اور اپنی تنظیم کے اندر پیدا کریں.پھر تمام ذیلی تنظیموں کے عہدیدار جماعتی عہدیداروں کا احترام اپنے دل میں پیدا کریں.آپس میں تمام عہدیدار ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھیں.عہد یداروں سے میں کہتا ہوں کہ جب یہ چیز عہد یداروں کی سطح پر اعلیٰ معیار کے مطابق پیدا ہو جائے گی.تو جماعت کے اندر ایک روحانی تبدیلی خود بخود پیدا ہوتی چلی جائے گی.جس طرح آپ تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کر رہے ہوں گے.اسی طرح افراد جماعت ایک دوسرے کا احترام کر رہے ہوں گے اور خیال رکھ رہے ہوں گے.ضرورتیں پوری کر رہے ہوں گے.قربانی دینے کا شوق پیدا ہورہا ہو گا.پس اس بات کو چھوٹی نہ سمجھیں.یہی باتیں آپ کو اعلیٰ اخلاق کی طرف لے جانے والی ہیں اور انہیں باتوں کے اپنانے سے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے سے، اپنے اوپر لاگو کرنے سے، ہم جماعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہوں گے.

Page 97

مشعل راه جلد پنجم حصه سوم پردہ پوشی مگر کس حد تک؟ 79 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی...ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص بھی کسی کی بے چینی اور اس کے کرب کو دور کرتا ہے.اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے کرب اور اس کی بے چینی کو دور کرے گا.اور جو شخص کسی تنگ دست کے لیے آسانی مہیا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی اور آرام کا سامان بہم پہنچائے گا اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے.اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا.اللہ تعالی اس شخص کی مدد کر تار بہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کے لیے کوشاں رہتا ہے.( ترمذی کتاب البر والصلۃ باب فی الستر على المسلمين ) پس یہ آسانیاں پیدا کرنا بھی محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے.خاص طور پر ایک دوسرے کی پردہ پوشی کی طرف بہت توجہ دیں.لیکن یہاں ایک وضاحت بھی کر دوں.اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ غلاظت کو معاشرے میں پلنے اور بڑھنے دیا جائے اور جو غلط حرکات ہو رہی ہوں ان سے اس طرح پردہ پوشی کی جائے کہ جو معاشرے پر برا اثر ڈال رہی ہو.اس کی اطلاع عہدیداران کو دینی ضروری ہے.مجھے بتا ئیں لیکن آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرنا یا کسی کے متعلق باتیں سن کے آگے پھیلانا یہ غلط طریق کار ہے.اس معاملے میں پردہ پوشی ہونی چاہئے.لیکن اصلاح کی خاطر بتانا بھی ضروری ہے.لیکن ہر جگہ بات کرنے سے پر ہیز کرنا چاہئے.یہ برائیاں اگر کوئی کسی میں دیکھتا ہے تو ایک احمدی کو بے چین ہو جانا چاہئے ، اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.بے چینی سے اس کی غلطیوں کو لوگوں پر ظاہر نہیں کرنا.بے چینی اصلاح کے لئے ہونی چاہئے اور وہیں بات کرنی چاہئے جہاں سے اصلاح کا امکان ہو.اگر خود اصلاح نہیں کر سکتے تو جس طرح میں نے کہا ہے پھر عہدیداروں کو بتائیں، مجھے بتائیں.اور پھر یہ عہدیدار رحم اور محبت کے جذبات کے ساتھ اس شخص کی اصلاح کی طرف توجہ کریں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عامر کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ اللہ نے فرمایا تو مومنوں کو ان کے آپس کے رحم محبت و شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا.جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے.اس کا سارا جسم اس کے لئے بے خوابی اور بخار میں مبتلا رہتا ہے.( بخاری کتاب الادب.باب رحمۃ الناس بالبهائم )

Page 98

80 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم پس معاشرے کو تکلیف سے بچانے کے لیے اپنے آپ کو اس بیماری سے بچانے کے لیے پاک دل ہوکر اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے ، دعا کرنی چاہئے.یہ رویے اگر ہوں گے تو یقینا یہ ایسے رویے ہیں جو معاشرے کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے والے ہوں گے.رنجشوں کو لمبانہ کریں پھر آپس کے تفرقہ کو دور کرنے کے لیے، آپس میں محبت کرنے کے لیے آنحضرت ﷺ نے ایک نہایت خوبصورت اصل ہمیں بتادیا.روایت میں آتا ہے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق رکھے اور یہ کہ وہ راستے میں ایک دوسرے سے ملیں تو منہ پھیر لیں.ان دونوں میں سے بہترین وہ ہے جو سلام میں پہل کرے.( صحیح بخاری صحیح مسلم.سنن ابی داؤ د کتاب الادب ) پس آپس کی رنجشوں کو لمبا نہیں کرنا چاہئے اس سے تفرقہ پیدا ہوتا ہے اور بڑھتے بڑھتے جماعتی وقار کو نقصان پہنچاتا ہے.غیر اس سے فائدہ اٹھاتا ہے.کئی خط آتے ہیں لوگ لکھتے ہیں کہ فلاں شخص کے ساتھ ناراضگی تھی ، آپ کے کہنے پر جب میں اس کے پاس گیا اور اس سے اپنی غلطی کی معافی مانگی تو اس نے سختی سے مجھے جھڑک دیا.وہ بات کرنے کا روادار نہیں ، سلام کرنے کا روادار نہیں.یہاں جرمنی میں کئی ایسے واقعات ہیں.تو جیسا کہ میں نے کہا یہ بڑا غلط طریقہ ہے.صلح کی بنیاد ڈالنی چاہئے.اول تو ہر ایک کو پہل کرنی چاہئے.یہ نظارے نظر آنے چاہئیں کہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دوڑے آئیں.ایک دوسرے کومعاف کرنے کی عادت ڈالیں.اور پہلے صلح کی بنیاد ڈال کر بہترین مومن ) بنیں اور ( دین حق ) اور احمدیت کی مضبوطی کا باعث بنیں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم ہے نے فرمایا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے عمارت کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچارہا ہوتا ہے.پھر آپ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں خوب اچھی طرح سے

Page 99

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 81 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ پیوست کر کے ( یوں بنا کر ) بتایا کہ ایک حصہ دوسرے کے لیے اس طرح تقویت کا باعث ہوتا ہے.(صحیح بخاری صحیح مسلم ) تو دیکھیں کیا توقعات ہیں آنحضرت ﷺ کو ہم سے.اس زمانے میں احمدی ہو کر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر یہ عہد کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اقوال کو اپنا دستور العمل بناؤں گا.ایک فکر کے ساتھ اگر ان اقوال پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے بن جائیں گے.معاشرے کو حسین بنانے والے بن جائیں گے.الفضل انٹر نیشنل 16 تا 22 ستمبر 2005 ء )

Page 100

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 82 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن جرمنی کے ساتھ میٹنگ * ( 26 اگست 2005 ء) سوا آٹھ بجے شام احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی حضور انور ایدہ اللہ کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی.حضور انور ایدہ اللہ نے طلبا اور طالبات سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ میں چند باتیں آپ سے کروں گا بلکہ بعض سوالات آپ سے پوچھوں گا.حضور انور نے منتظمین سے دریافت فرمایا کہ طلبا اور طالبات کو جو آپ نے سرٹیفیکیٹ اور میڈلز وغیرہ دینے ہیں اس کے لئے آپ نے کیا معیار بنایا ہے.یونیورسٹی یا بورڈ جو سرٹیفکیٹ دیتا ہے اس کا کیا معیار ہے.حضور انور نے فرمایا کہ O Level اور اس سے اوپر کے Level کے طلبا کو جنہوں نے امتیازی پوزیشن لی ہے سرٹیفکیٹ دینے چاہئیں تا کہ ان میں پڑھائی کا شوق پیدا ہو.حضور انور نے طالبات سے دریافت فرمایا کہ کتنی ہیں جو Phd ( یا MSc سے آگے تعلیم حاصل کر رہی ہیں اس پر چند بچیوں نے ہاتھ کھڑے کئے.پھر حضور انور نے طلباء سے دریافت فرمایا.کہ کتنے طلباء ایسے ہیں جو MSc سے آگے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس پر طلباء نے اپنے ہاتھ کھڑے کئے جس پر حضور انور نے فرمایا کہ لڑکوں میں یہ تعدا دزیادہ ہے.شکر ہے کہ لڑکوں میں پڑھائی کارجحان پیدا ہوا ہے.یو نیورسٹی لیول میں جہاں لڑکیوں کی کافی تعداد ہے وہاں لڑکوں کی بھی کافی تعداد ہے.پھر حضور انور نے باری باری طلباء اور طالبات سے بھی یہ دریافت فرمایا کہ کتنی تعداد ایسی ہے جن کو اردو نہیں آتی.اس پر بھی بعض طلبا اور طالبات نے اپنے ہاتھ کھڑے کئے.حضور انور نے طلباء کو ہدایت فرمائی کہ آپ اپنی سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کو اچھی طرح آرگنائز کریں.اسی طرح لڑکیوں کی طرف سے لجنہ کی طرف سے ان کو آر گنائز کرنا چاہئے.حضور انور نے طالبات سے فرمایا.

Page 101

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 83 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی آپ اپنا علیحدہ گروپ بنا ئیں.آپ لڑکوں کے گروپ کی ممبر نہیں ہوں گی.آپ کی علیحدہ Identity ہونی چاہئے.حضور انور نے فرمایا کہ اب ماشاء اللہ آپ لوگوں میں پڑھنے کا رجحان پیدا ہوا ہے.صرف ایک بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو نوبل انعام ملا تھا.اس وقت حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انگلی صدی میں جماعت احمدیہ کے پاس اتنے سائنسدان ہونے چاہئیں جو ان کے نقش قدم پر چلیں.حضور انور نے فرمایا اگلی صدی کو کئی سال ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک کوئی ایسا سائنسدان نظر نہیں آتا جوان کے نقش قدم پر ہو.حضور انور نے فرمایا واقفین نو بچے بڑی امید دلاتے ہیں کہ وہ یہ یہ بنیں گے لیکن اس میں ابھی بہت وقت درکار ہے.حضور انور نے فرمایا اب یہاں جرمنی میں جو رجحان پیدا ہوا ہے اور سیکرٹری صاحب تعلیم نے رپورٹ دی ہے کہ اب اتنے طلبا یو نیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں.یہاں فیس بھی کم ہے اور تعلیم سنتی ہے اس لئے اس موقع سے آپ سب کو فائدہ اٹھانا چاہیے.حضور انور نے فرمایا کہ لڑکیاں تو محنت کر کے پڑھائی کر لیتی ہیں لیکن لڑکوں میں جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے رجحان کم ہے.لازمی تعلیم کے حصول کے بعد کوئی ہنر سیکھنے کی طرف چلے جاتے ہیں.اس تعلیمی ماحول میں جہاں فیس اور تعلیمی اخراجات کم ہیں یہ ناشکری ہوگی اگر ہمارے طلبا تعلیم کی طرف توجہ نہ دیں.حضور انور نے فرمایا کہ احمدی سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا لجز اور یونیورسٹی کے طلبا کو آر گنائز کرے.آپ فہرستیں بنائیں کہ لازمی تعلیم کے حصول کے بعد کتنے ایسے ہیں جو آگے مزید تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو تعلیم چھوڑ رہے ہیں.خدام الاحمدیہ اپنے طور پر فہرستیں تیار کرے گی اس طرح مواز نہ ہو جائے گا.اسی طرح لڑکیاں علیحدہ اپنی فہرستیں تیار کریں.حضور انور نے فرمایا اس سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کتنے ہیں جنہوں نے پڑھائی کے لئے آگے داخلہ لیا ہے اور یو نیورسٹی یا کالجز میں داخلہ لیا ہے.

Page 102

84 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم حضور انور نے فرمایا پھر طلبا کی کونسلنگ کا بھی انتظام ہونا چاہئے.طلبا کو بعض دفعہ یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کونسا مضمون لیا جائے.فرمایا طلبا کا رجحان دیکھ کر ان کو گائیڈ کر لیں.نیز فرمایا آپ کے ہاں ڈاکٹر نعیم طاہر صاحب جیسے پڑھے لکھے موجود ہیں.کچھ اور بھی مل جائیں گے.یہ لوگ طلبا کو گائیڈ کریں کہ کونسی لائن لینی ہے، کونسا مضمون ان کے لئے بہتر ہے.حضور انور نے فرمایا کہ عمومار جحان یہ ہو گیا ہے کہ آسان سا مضمون لیا جائے اور جلدی پڑھائی کوختم کیا جائے.فرمایا میرے نزدیک یہ بھی نہیں ہے.کمپیوٹر میں بھی جاتے ہیں تو کمز ور شعبہ میں جاتے ہیں ، گرافکس میں جاتے ہیں.اس کا اتنا فائدہ نہیں ہے.کمپیوٹر انجنیئر نگ میں جانا چاہئے.فرمایا اس طرح طلبا کی Proper کونسلنگ ہونی چاہئے تاکہ ان کے لئے بہتر مضمون کا انتخاب ہو سکے.حضور انور نے فرمایا یہاں جرمنی میں دو چار لڑکوں نے مل کر جلسہ سالانہ کے لئے کارڈ بنائے ہیں اور پھر ان کا چیکنگ کا بہت اچھا سسٹم ہے.اس طرح کے لوگوں کو دوسروں کو بھی گائیڈ کرنا چاہیئے.حضور انور نے فرمایا مختلف شعبہ جات کے ماہرین کو بلوائیں جو لیکچر دیں، غیروں کو بھی بلوا سکتے ہیں.ان کی کونسلنگ سے علم ہو گا کہ کونسا شعبہ ہے جو آگے دنیا اور مستقبل میں کام آنے والا ہے.فرمایا اس لحاظ سے با قاعدہ کونسلنگ ہونی چاہئے.اپی محدود سوچ رکھ کر نہیں کرنی اپنی سوچ کو وسیع کرنا ہوگا.تو امید ہے انشاء اللہ اس سوچ سے آپ کریں گے تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کی خواہش تھی کہ ہمیں اتنے سائنسدان میسر آجائیں.تو وہ جرمنی سے ہی میسر آجائیں.خدا تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے.آمین حضور انور نے فرمایا ایک احمدی طالبعلم کو اپنا کام دعا سے شروع کرنا چاہئے.پڑھائی کریں اور دعا کریں.امتحانات ہوتے ہیں تو پرچہ شروع کرنے سے پہلے دعا کریں.یہ دوسروں کے لئے آپ کی انفرادیت ہوگی کہ آپ ہاتھ اٹھا کر پر چہ شروع ہونے سے قبل دعا کرتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ Phd کرنے کے لئے طلباء کی رہنمائی کریں.طلبا اس لئے Phd کی طرف نہیں جاتے کہ وہ جلدی کوئی کام شروع کرنا چاہتے ہیں تا کہ پیسے کمانے لگ جائیں.فرمایا کچھ لوگ ایسے نکلنے چاہئیں اور سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کو ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا چاہئے جن میں اتنا پوٹینشل ہے کہ وہ آگے مزید

Page 103

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 85 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تعلیم حاصل کریں اور Phd کریں.حضور انور نے فرمایا اگر Phd میں اخراجات کی کمی کی وجہ سے روک ہے، کوئی مالی روک ہے تو مجھے بتائیں.بچیوں کی طرف سے اس سوال کے جواب پر کہ مزید تعلیم کے حصول میں بعض دفعہ والدین کی طرف سے روک ہوتی ہے.حضور انور نے فرمایا کہ بچیاں خود اپنے ماں باپ کو تسلی کروائیں کہ ہم یونیورسٹی جائیں گی تو اپنا وقار قائم رکھیں گی.احمدیت کا وقار قائم رکھیں گی.اپنے لباس اور پردے کا خیال رکھیں گی.فرمایا آپ کو اپنے ماں باپ کو تسلی کروانی ہوگی.حضور انور فرمایا بعض ایسی لائنیں ہیں جن میں نہیں جانا چاہئے.فرمایا : اگر ماں باپ سمجھتے ہیں تو وہ اپنی بچیوں کو بہتر جانتے ہیں لیکن عموماً بہت کم ہوتے ہیں جو روکتے ہیں.حضور انور نے فرمایا.آپ اپنی اپنی یونیورسٹیوں میں سیمینار منعقد کروا سکتے ہیں.مذاہب کا تعارف ہو.اپنا ( دینی ) نظریہ پیش کریں.یہودی اپنا نظریہ پیش کریں اور عیسائی اپنا نظریہ پیش کریں.اس نہج پر آپ کو سیمینار کرنے چاہئیں.ہر ماہ کروائیں.اس طرح پڑھے لکھے طبقہ تک آپ کا تعارف ہو جائے گا.طالبات کی طرف سے ایک سوال کے جواب پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر مزید تعلیم کے حصول کے لئے اپلائی کرنے کے بعد دو سال انتظار کرنا پڑ رہا ہے تو اگر رشتہ مل جائے تو شادی کر لینی چاہیے.شادیوں کے بعد بھی بعض بچیوں نے پڑھائی کی ہے اور اپنے خاوندوں کو بھی پڑھایا ہے.ایک سوال کے جواب پر حضور انور نے فرمایا کہ صحت کو برقرار رکھنے کے لئے مختلف کھیلیں کھیانی چاہئیں.فرمایا کھیل کو اپنا پیشہ بنانے کے لئے نہ کھیلیں جیسے یہاں لڑکوں میں رواج ہو جاتا ہے.حضور انور نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ جماعت کو تو ہر فیلڈ میں سائنسدان چاہئیں.فزکس میں ، Mathematics میں، اسی طرح آرکیالوجی ہے، کمپیوٹر سائنس اور انجنیئر نگ میں بھی آپ جا سکتے ہیں.حضور انور نے فرمایا جب سکول کی تعلیم ختم ہو جاتی ہے تو طلبا کو بتایا جائے کہ اس وقت دنیا میں اس اس مضمون کی اہمیت ہے، اس کام کی اہمیت ہے.حضور انور نے ایک طالبعلم کے سوال پر فرمایا کہ نصرت جہاں سکیم کے تحت ڈاکٹر ز اور ٹیچر ز جن کو انگریزی آتی ہے وہ ضرور وقف کریں.فرمایا ہمیں ڈاکٹرز کی زیادہ ضرورت ہے.زبان کا مسئلہ نہیں

Page 104

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 86 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہے.فریج ممالک میں بھیجیں تو بول چال کے فقرات جلد سیکھ لیتے ہیں.ایک بچی کے سوال پر حضور انور نے فرمایا کہ علم حاصل کر کے اگر ملازمت کرنا چاہتی ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے.ملازمت ایسی کریں جس میں احمدی عورت کا تقدس مجروح نہ ہو رہا ہو.احمدی عورت کا مقام اور انفرادیت متاثر نہ ہو رہی ہو.اپنے لباس اور پردہ کا خیال رکھتے ہوئے ملازمت کریں.احمد یہ سٹودنٹس ایسوسی ایشن کے ساتھ یہ میٹنگ ساڑھے نو بجے تک جاری رہی.میٹنگ کے اختتام پر حضور انور نے دعا کروائی.الفضل انٹر نیشنل 7 تا 13 اکتوبر 2005ء)

Page 105

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 87 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرموده 2 ستمبر 2005 ء سے اقتباسات صرف نسبی تعلق کام نہیں آئے گا * آپ کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے نور سے منور کیا ہے.اکثریت جو یہاں بیٹھی ہے، یا جرمنی میں آئی ہوئی ہے ان کے بزرگوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق بخشی.ملاقات میں آتے ہیں تو اکثر یا بعض لوگ تعارف تو یہی بتاتے ہیں کہ ہمارے نانا یا داد یا پڑ دادا یا پڑ نانا ( رفیق) تھے.الحمد للہ یہ بڑا اعزاز ہے لیکن یہ اعزاز اس وقت تک ہے جب تک آپ خود بھی ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نیک اور اعلیٰ اور پاک نمونے قائم کرنے والے ہوں گے.دین کی اہمیت اپنے اندر اور اپنی نسلوں کے دلوں میں قائم کرنے والے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر آپ کی تو قعات کے مطابق عمل کرنے والے ہوں گے.بعض خواتین اپنے تعارف تو ( رفقاء) کے حوالے سے کروا رہی ہوتی ہیں لیکن لباس اور پردے کی حالت اور فیشن سے لگتا ہے کہ دین پر دنیا غالب آ رہی ہے.جماعت سے ایک تعلق تو ہے ، ایک پرانا تعلق ہے، خاندانی تعلق ہے ایک معاشرے کا تعلق ہے لیکن ظاہری حالت جو معاشرے کے زیر اثر اب بن رہی ہے وہ دینی لحاظ سے ترقی کی طرف جانے کی بجائے نیچے کی طرف جارہی ہے.اور پھر یاد رکھیں کہ ظاہری حالت کا تعلق دل کی کیفیت سے بھی ہوتا ہے.اس کا دل پر بھی اثر ہوتا ہے.آہستہ آہستہ دل بھی اس ظاہری کیفیت کے زیر اثر آ جاتا ہے.اس لئے صرف اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہئے ، یہی فخر کا مقام نہیں ہے کہ ہم (رفیق) کی اولاد ہیں.مرد ہو یا عورت، جب تک آپ اپنے اندر خود پاک تبدیلیاں پیدا نہیں کریں گے باپ دادا کا (رفیق) ہونا کوئی فائدہ نہیں دے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو فرمایا تھا کہ تمہیں میری بیٹی ہونا کوئی فائدہ نہیں دے گا

Page 106

مشعل را و جلد پنجم حصہ سوم جب تک تمہارے اپنے عمل نیک نہیں ہوں گے.88 قضائی فیصلوں کا احترام نہ کرنے کے نقصانات ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی.قضاء میں بعض معاملات آتے ہیں اگر فیصلہ مرضی کے مطابق نہ ہو، ایک فریق کے حق میں نہ ہو تو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں.ہوش و حواس میں نہیں رہتے.صاف جواب ہوتا ہے کہ جو کرنا ہے کر لو.اور پھر جب تعزیر ہو جاتی ہے، سزامل جاتی ہے تو پھر معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے معافی مانگتے ہیں کہ غلطی ہوگئی ، ہمیں معاف کر دیں اور پھر فیصلہ پر بھی عملدرآمد کر دیں گے.تو یہ تو وہی حساب ہو جاتا ہے ان کا کہ سو پرج جو تیاں بھی کھالیں اور سو پیاز بھی کھالئے.لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ، جھوٹی اناؤں نے انہیں اپنے قبضے میں لیا ہوتا ہے.اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اطاعت کرنی ہے.ویسے اگر اپنے اوپر کوئی بات نہ ہو، اپنا مسئلہ نہ ہو تو دعوے یہ ہوتے ہیں کہ نظام جماعت پر، خلیفہ وقت پر ہماری تو جان بھی قربان ہے.لیکن اپنے خلاف فیصلہ ہو جائے تو پھر وہ نہیں مانتے.اور پھر نہ صرف مانتے نہیں بلکہ جماعت کے خلاف اعتراض بھی کرنے شروع ہو جاتے ہیں.تو ایسے جو لوگ ہیں وہ اس زمرے میں شمار ہوتے ہیں جن کے دل آہستہ آہستہ مستقل ٹیڑھے ہو جاتے ہیں.جھوٹی اناؤں کی خاطر، چندایکڑ زمین کی خاطر وہ اپنادین بھی گنوا بیٹھتے ہیں.لیکن ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کے عزیز جومجلس لگاتے ہیں یا ان کو اپنی مجلسوں میں بلاتے ہیں یا بعض دفعہ پاس بٹھا کر کھانا کھلا لیتے ہیں کہ جی مجبوری ہو گئی تھی.بعض دفعہ یہ بہانے بن رہے ہوتے ہیں کہ فلاں عزیز کی وفات پر وہ آیا تھا اس لئے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیا.تو ایسے لوگ بھی اس مجرم کی طرح بن رہے ہوتے ہیں.نظام جماعت کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہوتی.خلیفہ وقت کے فیصلوں کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہوتی.جماعت کی تعزیر جو ایک معاشرتی دباؤ کے لئے دی جاتی ہے، اس کو اہمیت نہ دیتے ہوئے چاہے ایک دفعہ ہی سہی اگر کسی ایسے سزایافتہ شخص کے ساتھ بیٹھتے ہیں جس کی تعزیر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زبانِ حال سے یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ سزا تو ہے لیکن کوئی حرج نہیں، ہمارے تمہارے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے تعلقات قائم ہیں.سوائے بیوی بچوں یا ماں باپ کے.ان کے تعلقات بھی اس لئے ہوں کہ سزا یافتہ کو سمجھانا ہے.اور قریبی ہونے کی وجہ سے ان میں درد زیادہ ہوتا ہے اس لئے ایک درد سے سمجھانا ہے.ان کے لئے دعائیں کرنی ہیں.اس کے علاوہ اگر کوئی شخص کسی جماعتی تعزیر یافتہ

Page 107

مشعل راه جلد پنجم حصه سوم 89 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سے تعلق رکھتا ہے تو میرے نزدیک اسے نظام جماعت کا کوئی احساس نہیں ہے.اور خاص طور پر عہدیداران کو یہ خاص احتیاط کرنی چاہئے.زبان کا غلط استعمال ایمان سے محروم کر دیتا ہے.پھر بعض دفعہ بعض لوگ غصے میں ایسے الفاظ کہہ جاتے ہیں جو ہر مخلص احمدی کو برے لگتے ہیں.مثلاً لڑائی ہوئی یا گھریلو ناچاقیاں ہوئیں.بیوی سے تعلقات خراب ہوئے تو کہ دیا کہ جو تم نے کرنا ہے کر لو.خلیفہ وقت بھی کہے گا تو میں نہیں مانوں گا.تو ایسے لوگ پھر آہستہ آہستہ جماعت سے بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں.لیکن جن کے سامنے یہ باتیں ہوتی ہیں وہ پریشانی کے خط لکھتے ہیں کہ دیکھیں جی اس کو خلیفہ وقت کا بھی احترام نہیں ہے اس کو سزاملنی چاہئے.ایسے لوگوں کو سزا دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے.اگر ان کے اندر جماعت سے تعلق کا کوئی ہلکا سا بھی شائبہ ہے تو جب تعزیز ہوگی یا فیصلہ ہوگا تو ان کو احساس ہوگا کہ ہمیں مان لینا چاہئے.اور اگر نہیں مانیں گے تو کسی حق کے ادا کرنے کے لئے سزا ہوگی اور سزا سے علیحدگی ہو ہی جاتی ہے.سزا اس لئے نہیں ہوگی کہ اس نے خلیفہ وقت کو کیوں کچھ کہا.خلیفہ وقت کو کہنے کے لئے تو سزا کی ضرورت ہی نہیں ہے.اس نے تو خود اعلان کر دیا کہ میں نظام جماعت میں شامل نہیں ہوں، میں بیعت میں شامل نہیں ہوں اس لئے اس کی فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے.وہ تو خود علیحدہ ہو رہا ہے.پھر وہ جانے اور اس کا خدا جانے.بہت زیادہ محبت سے بھی ٹھوکر لگتی ہے پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ بہت زیادہ محبت ہو تو اس وجہ سے ٹھو کر لگتی ہے.بعض دفعہ اس طرح ہوتا ہے کہ بچے کو سزا ملی ہے تو اس سے محبت کی وجہ سے مغلوب ہو جاتے ہیں.بچے کی محبت غالب آ جاتی ہے اور نظام جماعت کے خلاف ماں باپ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ، بہن بھائی ایک دوسرے کی محبت غالب آنے کی وجہ سے نظام کے فیصلوں پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں.اس طرح بعض دوسرے رشتے بھی ہیں.تو بہر حال محبت اور غضب کی وجہ سے یعنی ان دونوں میں شدت کی وجہ سے یہ برائیاں عموماً پیدا ہوتی ہیں.احمدی ٹھنڈے دل سے فیصلوں کو تسلیم کریں پس ہر احمدی کو یہ بھی ہر وقت ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جب بھی ایسے معاملات ہوں اونچ نیچ ہو جاتی

Page 108

90 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ہے، نظام جماعت سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں ، قضاء سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں.لیکن ہمیشہ ٹھنڈے دل سے ان فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہئے.اگر کوئی اپیل کا حق ہے تو ٹھیک نہیں تو جو فیصلہ ہوا ہے اس کو مانا چاہئے.کوئی رشتہ، کوئی تعلق نظام جماعت اور نظام خلافت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی محبت پر غالب نہیں آنا چاہئے.نہیں تو یہ عہد کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے یہ دعوے کھو کھلے ہیں.پس اگر اس دعوے کو سچا ثابت کرنا ہے تو ہر تعلق کو خالصتا اللہ بنانا ہے.اپنی عبادتوں کے بھی حق ادا کرنے ہیں.ایک دوسرے کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور نظام کا بھی احترام کرنا ہے.تو پھر ان دعاؤں کے وارث بنیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے کیں اور اُن تو قعات پر پورا اتریں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں سے رکھی ہیں.اگر ہم بچے اور پکے احمدی ہیں تو ہمیں ہمیشہ ان توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے.ان راستوں پر چلنا چاہئے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے لئے متعین کئے ہیں.الفضل انٹر نیشنل 23 تا 29 ستمبر 2005ء)

Page 109

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 91 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ جرمنی کے ساتھ میٹنگ * (3 ستمبر 2005ء)بعد از سہ پہر پانچ بجے نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمد یہ جرمنی کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی.حضور نے دعا کروائی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے باری باری تمام تعمین سے ان کے کام کا جائزہ لیا اور آئندہ کے پروگراموں اور لائحہ عمل کے بارہ میں دریافت فرمایا اور ساتھ ساتھ ہدایات سے نوازا.ایک نائب صدر کے پاس مہتم اطفال اور ایک نائب صدر کے پاس مہتم اشاعت کے عہدے بھی تھے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ یہ دو دو عہدے کیوں ہیں.بحیثیت مہتم ہی بہت زیادہ کام ہے اس لئے یہ دونوں اب نائب صدر نہیں ہیں.صرف مہتمم اطفال اور مہتمم اشاعت ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا نا ئب صدر صرف نائب صدر ہی ہونا چاہئے.اس کا بہت کام ہوتا ہے.تمام مہتممین نے اپنے اپنے شعبوں کے کارڈ آویزاں کئے ہوئے تھے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دونوں نائب صدران کو ہدایت فرمائی کہ آپ نائب صدر والا کارڈ اتار دیں جس کی فوری تعمیل کی گئی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صدر صاحب خدام الاحمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ جس عہد یدار کی بھی منظوری حاصل کرنی ہو اس کے بارہ میں لکھا کریں کہ اس کے پاس پہلے کون کون سے عہدے ہیں.فرمایا اب با قاعدہ نائب صدران کی منظوری حاصل کریں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مہتمم اطفال سے ، اطفال کی تجنید اور ان کے چندہ کا جائزہ لیا اور ہدایت فرمائی کہ جو مبر شپ کا چندہ ہے اس کا حساب علیحدہ رکھیں اور جو ان کے اجتماع کا چندہ ہے اس کا ریکارڈ علیحدہ رکھیں.

Page 110

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 92 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مہتم اشاعت کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ کا جو سہ ماہی رسالہ نورالدین “ شائع ہوتا ہے اس کا جر من حصہ بھی ہونا چاہئے.مضامین کا جرمن ترجمہ ہونا چاہئے.حضور انور نے فرمایا "مشعل راہ کے اقتباسات زیادہ کریں اور ان کا جرمن ترجمہ بھی دیں.فرمایا آپ کے ستر فیصد تو طلباء جرمن جانتے ہیں.ایک نائب صدر نے بتایا کہ وہ سالانہ اجتماع کے موقع پر ناظم اعلیٰ ہوتے ہیں.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ناظم اعلیٰ تو کوئی مستقل شعبہ نہیں ہے.سو ( بیوت الذکر ) کے چندہ کی وصولی کا ذکر ہونے پر فرمایا یہ پیشل کام ہے یہ معاون صدر کے سپر د کریں.یہ مستقل کام ہے ایک ملین یورو کا آپ کا وعدہ ہے.فرمایا ( بیوت الذکر ) کے لئے چندہ وصول کرتے ہوئے چندہ عام ہرگز متاثر نہیں ہونا چاہئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا چندہ دینے والے سے پہلے پوچھا جائے کہ چندہ عام ادا کیا ہوا ہے یا نہیں؟ اگر ادا نہیں کیا تو پھر یہ چندہ جو ( بیوت الذکر) کے لئے دے رہا ہے چندہ عام میں ڈالا جائے کیونکہ چندہ عام کی ادائیگی بہر حال ضروری اور لازمی ہے.معتمد صاحب سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجالس سے موصول ہونے والی ماہانہ رپورٹس کے بارہ میں دریافت فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ جو مجالس رپورٹ بھجوانے میں ست ہیں ان کو بار بار یاد دہانی کروائیں اور اپنی رپورٹس کی وصولی کو سو فیصد بنا ئیں.مہتم تجنید کوحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت فرمائی کہ تجنید میں گنجائش ہے.اس کو مکمل کرنے کے لئے مستقل کوشش کرتے رہیں.شعبہ تعلیم کے کام کا جائزہ لیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت فرمائی کہ سال میں ایک کی بجائے دو امتحان لئے جا سکتے ہیں.فرمایا کوشش کرنی چاہئے کہ تمام خدام امتحانوں میں شامل ہوں.مہتم تربیت کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ امسال آپ نے مرکزی سطح پر جو تر بیتی کلاس رکھی ہے اس میں تمام مجالس سے نمائندگی ہونی چاہئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ریجنل

Page 111

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 93 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ لیول پر بھی تربیتی کلاسز ہونی چاہئیں.حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے پاس یہ جائزہ ہونا چاہئے کہ کتنے خدام کم از کم ایک نماز باجماعت ادا کرتے ہیں.کتنے ہیں جو قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے ہیں.جمعہ پڑھنے والے کتنے ہیں.MTA دیکھنے والے کتنے ہیں.گزشتہ سالانہ اجتماع پر آپ کی کتنی حاضری تھی.فرمایا آپ کی انفارمیشن پوری ہونی چاہئے.مہتمم ( اصلاح وارشاد) کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ خدام جو بیعتیں کرواتے ہیں آپ کے ریکارڈ میں ہونی چاہئیں.داعیان الی اللہ سے آپ کا رابطہ ہونا چاہئے.سیکرٹریان ( دعوت الی اللہ ) سے بھی آپ کا رابطہ قائم رہنا چاہئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جو خدام کے گروپ کے نومبائعین ہیں ان کا نام اور ایڈریسز اور پورا ریکارڈ مہتم تربیت نو مبائعین کو دیں جو ان سے مستقل رابطے رکھے اور مقامی مجالس کا ان سے باقاعدہ مستقل رابطہ ہو.فرمایا مقامی خدام کی ڈیوٹی لگائیں کہ ان سے رابطہ رکھیں، نماز سکھائیں اور ان کی تربیت کریں.مہتم تربیت نو مبائعین کو بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نو مبائعین کو سنبھالنے اور ان کی تربیت سے متعلق ہدایات دیں.فرمایا با قاعدہ پلان بنائیں، ان کی فہرستیں تیار کریں اور ان کی تربیت کر کے اپنے نظام میں شامل کریں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مہتم امور طلباء کو ہدایت فرمائی کہ یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ ہمارے طلباء تعلیم کے اعلیٰ معیار میں جائیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا یونیورسٹیوں میں سمپوزیم منعقد کریں ، سیمینار کریں.فرمایا یونیورسٹیوں میں دوسرے مذاہب کے طلباء عیسائیوں وغیرہ کے گروپ بنا ئیں وہ سیمینار کا انتظام کریں اور احمد یوں کو Invite کریں.مہتم صحت جسمانی نے مجالس کے مابین مقابلہ جات اور کھیلوں کی رپورٹ پیش کی.اسی طرح مہتم وقار عمل نے جلسہ سالانہ کے انتظامات کے لئے خدام نے جو وقار عمل کیا ہے اس کی رپورٹ پیش کی.مہتم صنعت و تجارت کو حضور انور نے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ جو خدام فارغ ہیں اور کام نہیں کر رہے ان کی لسٹ بنا کر ان کو کام میں شامل کریں.فرمایا مارکیٹوں میں کام کر سکتے ہیں.فرمایا انٹرنیٹ سے

Page 112

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 94 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ملازمتیں تلاش کریں کہ کہاں کہاں جاب نکل رہی ہے.فرمایا فارغ رہنا، کوئی کام نہ کرنا اور گورنمنٹ کی طرف سے خرچ لے کر کھانا یہ تو صدقہ ہے.اضطراری حالت میں کھانا چاہئے.ایک احمدی کو چاہئے اپنی عزت نفس کا خیال رکھے ،خود کام کرے اور کما کر کھائے.اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں، فرمایا لسٹ بنا ئیں.صدر صاحب کو دیں، ایک کمیٹی بنا ئیں اور کام کریں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا بہت سی بیماریاں فارغ بیٹھنے سے پیدا ہورہی ہیں.خدام الاحمدیہ کو اس کام میں مستعد ہونا چاہئے.مہتم عمومی کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ سیر کے دوران جو خدام میرے ساتھ ہوتے ہیں ان کو سمجھائیں کہ ٹریفک روکا نہ کریں.خصوصاً جو میرے ساتھ ہوتے ہیں ان کو زیادہ احتیاط کرنی چاہئے.جب میں خود کھڑا ہو جاتا ہوں تو پھر روکنے کی ضرورت نہیں ہوتی.شعبہ مال سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان کے بجٹ اور چندوں کا جائزہ لیا.حضور انور نے فرمایا ایڈیشنل مہتم مال کا کام یہ ہوتا ہے کہ جو بقایا دار ہے اس سے چندہ وصول کریں اور یاد دہانیاں کروائیں.مہتمم مقامی کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت فرمائی کہ آپ کی فرنکفرٹ کی ۳۱ مجالس ہیں آپ کے پاس خدام بھی ہیں آپ اپنی تجنید مکمل کر سکتے ہیں.مجلس خدام الاحمدیہ کے ساتھ یہ میٹنگ سوا چھ بجے تک جاری رہی.آخر پر نیشنل مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبران نے حضور انور کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت حاصل کی.الفضل انٹر نیشنل 7 تا 13 اکتوبر 2005ء)

Page 113

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 95 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرموده 9 ستمبر 2005 ء سے اقتباسات * جمعۃ المبارک کی اہمیت حدیث میں آتا ہے کہ اگر انسان ایک جمعہ نہیں پڑھتا تو دل کا ایک حصہ سیاہ ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ جمعے چھوڑتے چلے جانے سے پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے.تو جمعوں کی اہمیت، جمعہ پڑھنے کی اہمیت ہر احمدی کے دل میں ہونی چاہئے.اور کوئی پروگرام، کوئی کھیل کو د کوئی کام یا کاروبار جمعہ کی نماز کی ادائیگی میں حائل نہیں ہونا چاہئے.اس دن کے بابرکت ہونے کا ، دعاؤں کی قبولیت کا اندازہ آپ اس حدیث سے کر سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جب مسلمان کو اس میں ایسا وقت ملتا ہے اور جب وہ کھڑا ہو کے نماز پڑھ رہا ہو، تو جو دعا وہ کرے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمالیتا ہے.آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے بتایا کہ وہ چھوٹا سا وقت ہوتا ہے، بہت مختصر وقت ہوتا ہے، اس لئے جو لوگ مختصر وقت کے لئے ، آخری وقت میں جب خطبہ ختم ہونے والا ہو، جمعہ پڑھنے آتے ہیں کہ جلدی جلدی نماز سے فارغ ہو کر اپنے کام پر چلے جائیں گے یا اپنی کھیل کود کو چھوڑ کر تھوڑی دیر کے لئے بے دلی سے ( بیت الذکر ) میں آتے ہیں کہ جلدی جلدی فارغ ہو کر چلے جائیں گے.تو ان کو بھی یا درکھنا چاہئے کہ حدیث میں آتا ہے کہ جو خطبہ ہے یہ بھی نماز کا حصہ ہے.اس لئے جمعہ کی نماز کی دورکعتیں کی گئی ہیں.ان کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت یاد رکھنی چاہئے.اس خوشخبری سے فائدہ اٹھانا چاہئے کہ دعاؤں کا وقت میسر آتا ہے اور کس کو دعاؤں کی ضرورت نہیں ہوتی.اس لئے جمعہ کی نماز پر بڑی توجہ سے، پابندی سے آنا چاہئے.اس پابندی سے آئیں گے، اس کوشش سے آئیں گے تو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کر رہے ہوں گے.آپ کی دعائیں بھی قبولیت کا شرف پا رہی ہوں گی.اور دنیاوی فوائد بھی آپ کو حاصل ہو رہے ہوں گے.پس ہر

Page 114

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 96 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی احمدی کو یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جو فرائض اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں ان کو ادا کرنے کی کوشش کرے.نفس کے جہاد کا وسیع مفہوم آج کل نفس کا جہاد یہی ہے کہ دنیاوی فوائد بھی اگر ہورہے ہوں تو یا درکھو کہ یہ عارضی فوائد ہیں اس لئے دین کی خاطر ان عارضی فوائد کی پرواہ نہیں کرنی.پھر نفس کے جہاد میں تمام قسم کی برائیوں کو چھوڑنے کا جہاد ہے.حقوق العباد ادا کرنے کے لئے جہاد ہے.تب کہا جا سکتا ہے کہ ہم ایمان لانے والے ہیں، ہم اس زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں.عہد تو ہم یہ کرتے ہیں کہ اے مسیح موعود! (علیہ السلام ) تیری جماعت میں شامل ہونے کے بعد خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے لیکن ہمارے عمل اس کے الٹ ہوں ، ہماری برادریاں، ہماری رشتہ داریاں، ہماری دوستیاں، ہم پر جماعتی وقار سے زیادہ حاوی ہو جائیں ، ہماری انائیں جماعتی عزت پر حاوی ہو جائیں اگر یہ باتیں ہم میں ہیں تو یہ سب دعوے اور یہ سب عہد جھوٹے ہیں.پس ہر احمدی گہرائی میں جا کر اپنا جائزہ لے کہ کیا وہ اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہے؟ اور فی زمانہ اپنی جان قربان کرنے کا مطلب اپنے نفس کی قربانی ہے.اور نفس کی قربانی جماعت کا وقار قائم کرنے کے لئے بھی دینی ہوگی.اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے کے لئے بھی دینی ہوگی.جھوٹی اناؤں اور عزتوں کو ختم کرنے کے لئے بھی دینی ہوگی.پھر مال کا جہاد ہے، مالی قربانی ہے.ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ جو مالی کشائش اللہ تعالیٰ نے آپ میں پیدا کی ہے کیا اس کے مطابق چندوں کی ادائیگی کر رہے ہیں؟ دنیاوی خواہشیں تو کبھی ختم نہیں ہوتیں.ایک کے بعد دوسری خواہش تیار ہوتی ہے.لیکن اگر ہر احمدی، کمانے والا احمدی ، اپنے اوپر فرض کر لے کہ میری آمد کا سولہواں حصہ میرا نہیں ہے بلکہ جماعت کا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر میں نے جماعت کو دینا ہے تو مجھے یقین ہے آپ کے بجٹ یہاں بھی کئی گنا بڑھ سکتے ہیں.وصیت کی طرف خصوصی توجہ کریں الحمد للہ کہ وصیت کرنے کی تحریک کے بعد سے آپ کے موصی صاحبان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے.چار گنا تقریباً.بارہ سے چوالیس ہو گئے ہیں.چھوٹی سی جماعت ہے ( مراد کو پن بیگن ڈنمارک).گواتنی چھوٹی بھی نہیں.ابھی بہت گنجائش باقی ہے.لیکن میرا خیال ہے یہ اضافہ بھی بالکل نو جوانوں اور عورتوں کی وجہ سے

Page 115

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 97 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہوا ہے.ابھی میں نے جائزہ نہیں لیا، جب جائزہ لیا جائے گا تو پتہ لگ جائے گا کہ صورت حال کیا ہے.تو بڑی عمر کے اور اچھا کمانے والے جو لوگ ہیں ان کو بھی وصیت کی طرف توجہ کرنی چاہئے.الحمد للہ یہ بات مجھے نظر آئی ہے کہ نو جوان بچے اور بچیاں احمدیت سے رشتے اور تعلق میں زیادہ بڑھ رہے ہیں.اللہ ان کے ایمان میں مزید ترقی دے لیکن بعض دفعہ بعض بڑوں کی حرکتوں کی وجہ سے نو جوانوں کو ٹھو کر بھی لگ سکتی ہے.اس لئے نوجوانوں کے اس تعلق اور اخلاص میں بڑھنے کی وجہ سے جماعت کے بڑوں پر اور زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ان کو اور زیادہ فکر سے اپنے نمونے قائم کرنے چاہئیں تا کہ کبھی کسی کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں.اپنے نفس کی قربانیوں میں اور زیادہ ترقی کریں.اپنی مالی قربانیوں میں اور زیادہ ترقی کریں.اپنے بزرگوں کے نمونوں کو بھی دیکھیں ، اپنے پہلے حالات پر بھی نظر رکھیں اور اپنے موجودہ حالات پر بھی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں.اور شکر ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جہاں اپنے پر اظہار ہو رہا ہو وہاں اللہ تعالیٰ کی خاطر دینے کا بھی اظہار ہورہا ہو.اور ہر قسم کی قربانی میں پہلے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اپنی انگلی نسل کے لئے بھی نیک نمونے قائم کریں.یہی باتیں ہیں جو آپ کے ایمان میں ترقی کا بھی باعث بنیں گی اور احمدیت کی نوجوان نسل کے جماعت کے ساتھ بہتر تعلق اور نیکیوں میں بڑھنے کا بھی باعث بنیں گی.نوجوان گند اور بے حیائی سے بچیں نو جوانوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ آپ لوگ جو اپنے ہوش وحواس کی عمر میں ہیں.جماعت سے اپنے تعلق کو مزید پختہ کریں.اپنے نمونے قائم کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بتائی ہوئی تعلیم پرعمل کریں.اگر برائی کسی میں دیکھتے ہیں تو اس پر اعتراض شروع کر کے اس پر ٹھوکر نہ کھائیں.اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں.اس معاشرے میں جہاں قدم قدم پر گند اور بے حیائی ہے اپنے آپ کو اس سے بچائیں.اللہ کے حضور جھکنے والے بنیں.اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے بنیں.کیونکہ یہی چیز ہے جس سے آپ کا خدا تعالیٰ سے مزید پختہ تعلق پیدا ہو گا.مزید مضبوط تعلق پیدا ہو گا.اور جب اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھے گا تو پھر نیکیوں میں قدم آگے بڑھے گا.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا مزید فہم اور ادراک پیدا ہوگا.ایمان میں مزید ترقی ہوگی.صرف اس بات پر ہمیں خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مان لیا ہے اور بس کافی ہے.یہ تو ماننے کے بعد ایک پہلا قدم ہے.ایمان میں ترقی ہوگی تو مومن کہلائیں گے.ورنہ اللہ تعالیٰ نے

Page 116

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 98 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی بعض ان پڑھ جاہل لوگوں کو یہ جواب دیا تھا کہ ٹھیک ہے تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور تم مسلمان ہو گئے لیکن ایمان کے اعلیٰ معیار تمہیں حاصل نہیں ہوئے.ابھی بہت گنجائش ہے.پکے مومن تب کہلاؤ گے جب ایمان میں ترقی کرو گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے پہلے دن بھی ان بدوؤں پر بہت اثر ڈالا لیکن تب بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ابھی بہت گنجائش ہے.تو آجکل تو اور بھی زیادہ گنجائش ہے.عہد یدارا اپنے عہد اور امانتوں کا جائزہ لیتے رہیں پھر عہدیداروں کے عہد ہیں.ان کے سپر د امانتیں ہیں.وہ جائزے لیں کہ کہاں تک وہ اپنے عہد اور اپنی امانتیں پوری طرح ادا کر رہے ہیں.ان کی حفاظت کر رہے ہیں.جائزہ لیں کہ اپنے کام، اپنے فرائض کا حق ادا نہ کر کے وہ کہیں گناہگار تو نہیں ہو رہے.وہ اپنے ایمانوں میں ترقی کرنے کی بجائے ، ایمانی پودے کی حفاظت اور آبیاری کی بجائے اس کو سکھا تو نہیں رہے.کیونکہ ایمان کی مضبوطی کے لئے ہر پہلو پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.اس لئے جائزہ لیں کہ کوئی پہلو ایسا تو نہیں رہ گیا جس سے میرا ایمان وہیں رک گیا ہو.مجھے تو حکم ہے کہ تم نے نیکیوں میں ترقی کرنی ہے.جہاں نیکیوں میں ترقی رکی وہاں ایمان کی ترقی بھی رک جائے گی.غرض یہ عہد اور امانتیں اس قدر ہیں کہ جس کی انتہا نہیں ہے.ایک عہد سے دوسرا عہد سامنے آتا چلا جاتا ہے.اور ایک امانت کی ادائیگی کے بعد دوسری امانت کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.چاہے وہ ایک عام احمدی کی طرف سے ہو، عہد یداروں کی طرف سے ہو یا کسی ذمہ دار کی طرف سے ہو.اور یہیں پر بس نہیں ہے.بلکہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد جو تم نے ایمان کے درخت کو مضبوط کیا ہے اس پر بھی ابھی پھل نہیں لگے گا جس سے تم بھی فیض پا سکو اور دوسرے بھی فیض اٹھا ئیں.اس کے لئے اور طاقتیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے.غرض یہ ایک مسلسل عمل ہے جس کو تا زندگی جاری رکھنا ہو گا.اور جب ان نیکیوں میں اور ایمان کو مضبوط کرنے کی کوشش میں با قاعدگی آجائے گی پھر ایمان ایسی حالت میں پہنچ جائے گا کہ جب ہر فعل خود بخود خدا کی رضا حاصل کرنے والا فعل ہو گا.پس ہر احمدی کو اپنے ہر فعل سے خدا کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے.(الفضل انٹر نیشنل 30 ستمبر تا 16اکتوبر 2005ء)

Page 117

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 99 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ ڈنمارک کے ساتھ میٹنگ * (10 ستمبر 2005ء) بارہ بجکر دس منٹ پر نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمد یہ ڈنمارک کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ (بیت الذکر ) نصرت جہاں میں میٹنگ شروع ہوئی.حضور انور نے دعا کروائی.حضور انور نے مہتم مال سے خدام کے بجٹ اور چندہ ادا کرنے والے خدام کا تفصیلی جائزہ لیا اور بجٹ بنانے کا طریق بتایا.حضور انور نے فرمایا خدام کی ایک لسٹ بنائیں آپ کو پتہ چلے گا کہ کمانے والے کتنے ہیں اور نہ کمانے والے کتنے ہیں.اسی طرح طلباء کتنے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہاں کی انکم ( آمدنی) اور خدام کے حالات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ اپنا بجٹ صحیح کریں.اس میں ابھی بہت آگے بڑھنے کی گنجائش ہے.چھوٹی جماعتوں میں قائدین بنائیں ، زعماء بنائیں اور اپنے نظام کو آرگنائز کریں.مہتمم اشاعت کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ آپ خدام کی تربیت کے لئے رسالہ شائع کر سکتے ہیں.اس کا جائزہ لیں.مہتم اطفال سے حضور انور نے اطفال کی تجنید کا جائزہ لینے کے بعد ہدایت فرمائی کہ اپنی تجنید ہر لحاظ سے مکمل کریں ابھی کافی گنجائش ہے.فرمایا شروع سے ہی اطفال کی تربیت کریں اور ان کی ایسی تعلیم و تربیت کریں کہ یہ برائیوں میں نہ پڑیں.ان کے والدین کو بھی اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دلاتے رہیں.اگر بچپن میں صحیح تربیت نہ ہو تو بعد میں بڑے ہو کر بعض گھروں سے چلے جاتے ہیں.اس لئے شروع سے ہی ان کو سمجھا نا ضروری ہے.معتمد مجلس خدام الاحمدیہ سے اس کے شعبہ کا جائزہ لیتے ہوئے حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ خدام الاحمدیہ کی ماہانہ رپورٹ براہ راست حضور انور کو آنی چاہئے.فرمایا خدام کو اور اپنی مجالس کو آر گنائز کریں اور

Page 118

مشعل راه جلد پنجم حصه سوم 100 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اپنے نظام کو مضبوط کریں.مہتم تربیت نو مبائعین کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ نومبائعین کو بیعت کرنے کے بعد تین سال کے اندر اندر جماعت کے نظام میں آجانا چاہئے اس کے بعد وہ نو مبائعین نہیں رہیں گے.مہتم تجنید کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ خدام کی تجنید مکمل کریں.جن جن علاقوں میں فیملیز آباد ہیں وہاں پہنچیں اور تجنید بھی مکمل کریں اور مجالس بھی قائم کریں.جو خدام گھروں کو چھوڑ کر علیحدہ رہ رہے ہیں ان کی فہرست مکمل کر یں.ان سے رابطہ رکھیں اور ان کی تربیت کریں اور ان کے نام اپنی تجنید میں شامل کریں اور جائزہ لیں کہ کس طرح ان کو واپس لایا جا سکتا ہے.مہتم تعلیم کے کام کا جائزہ لیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت فرمائی کہ طلباء کی فہرستیں بنائیں ،سکول کے طلباء، پھر یونیورسٹی جانے والے طلباء کی فہرستیں ہوں.فرمایا آپ کی مجلس عاملہ میں مہتم امور طلباء ہونا چاہئے.حضور انور نے فرمایا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی چھوٹی کتاب مقرر کریں اور سال میں ایک دو مرتبہ خدام سے اس کا امتحان لیں.حضور انور نے فرمایا جن کتب کے انگریزی زبان میں ترجمے ہو چکے ہیں ان میں سے بھی رکھی جا سکتی ہیں تا کہ جوار دو نہیں پڑھ سکتے وہ انگریزی زبان میں پڑھیں اور پھر امتحان دیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کتاب ” شرائط بیعت اور ایک احمدی کی ذمہ داریاں“ کو بھی آپ لے سکتے ہیں اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہوا ہے باری باری ایک ایک شرط کو لے سکتے ہیں.حضورانور نے مہتم تربیت کو ہدایت فرمائی کہ ہر ویک اینڈ پر کلاسز لیا کریں.تربیتی کلاسز ہونی چاہئیں.تربیتی کلاسز کے لئے مزید سنٹر بنا ئیں.مہتم صحت جسمانی کے پروگراموں کا جائزہ لیتے ہوئے حضورانور نے ہدایت فرمائی کہ کھیلوں کے ذریعہ آپ خدام کو اپنے قریب لا سکتے ہیں.ان ڈور کھیلوں کے پروگرام بنا ئیں.خدام آئیں گے.(بیت الذکر ) سے رابطہ رہے گا.نمازیں پڑھیں گے اس طرح کھیلوں کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی ہوگی.مہتم و قادر عمل کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت فرمائی کی (بیت الذکر ) کی صفائی کو

Page 119

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 101 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اب Maintain رکھنا ہے..مہتم خدمت خلق کے کام کا جائزہ لیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ یہاں بھی ہیومینٹی فرسٹ کو رجسٹر کروائیں.فرمایا ہسپتالوں میں اور اولڈ پیپلز ہوم میں جائیں.بوڑھوں سے ملیں ان کا حال پوچھیں.مریضوں کی عیادت کریں ، پھل پھول وغیرہ ساتھ لے جائیں.حضور انور نے فرمایا بلڈ بنک بنائیں.خدام بلڈ Donate کریں.خدام با قاعدہ احمدیہ ( بیت الذکر ) کے نام سے رجسٹر ہوں.پتہ لگے کہ آپ ملک کی خدمت کر رہے ہیں.حضور انور نے فرمایا مہتم امور طلباء کا کام ہے کہ لازمی ایجوکیشن کے بعد احمدی طلباء مزید آگے بڑھیں.یونیورسٹی میں جائیں.ان کی کونسلنگ کی جائے، ان کو گائیڈ کیا جائے.حضورانور نے فرمایا یونیورسٹیوں میں سمپوزیم ہوں آپ وہاں جا کر ( دین حق ) کی خوبیاں بیان کریں.حضور انور نے فرمایا جو خدام گھروں سے دور ہیں.جماعت سے تعلق نہیں ہے ان کو پیار سے سمجھائیں سخت رویہ اختیار نہیں کرنا.پیار ومحبت سے لائیں گے تو آجائیں گے.فرمایا خود سوچیں اور راستے نکالیں کہ ان کو کس طرح واپس لانا ہے.فرمایا والدین اپنے بچوں کو سنبھالیں اور قریب لائیں.فرمایا آپ سختی کریں گے تو یہ مزید دور ہٹ جائیں گے.فرمایا باقی ہر مہتم کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹی ادا کرنی چاہئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اب ایک بہت بڑا Break Through ہوا تھا.میڈیا میں غیر معمولی طور پر ذکر آیا ہے اب اس کو Maintain رکھیں.حضور انور نے فرمایا آپ اپنے نمونہ سے مثال قائم کریں گے تو آگے نمونے بنیں گے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا.بجائے اس کے یہ دیکھیں کہ فلاں میں کیا برائی ہے.یہ دیکھیں کہ مجھے خدا نے جو پوٹینشیل دیا ہے اس سے میں جماعت کی کیا خدمت کر سکتا ہوں.حضور انور نے فرمایا: نا کسو و جماعت کے جو احمدی ہیں اب وہ نو مبائع نہیں رہے ان کو با قاعدہ نظام جماعت کا حصہ بنائیں.تین سال کے بعد نو مبائع نہیں رہتا اس کو باقاعدہ جماعت کے نظام کا حصہ بنانا چاہئے.

Page 120

مشعل راه جلد پنجم حصه سوم 102 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ مشعل راہ کی جو جلدیں چھپ چکی ہیں وہ سب منگوا ئیں.نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ حضور انور کی یہ میٹنگ ایک بجے دوپہر ختم ہوئی.آخر پر مجلس عاملہ کے ممبران نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت حاصل کی.الفضل انٹر نیشنل 21 تا 27 اکتوبر 2005ء)

Page 121

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 103 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ سویڈن کے ساتھ میٹنگ * (14 ستمبر 2005ء) پانچ بجکر ۵۳ منٹ پر نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کی حضورانور کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی.حضور انور نے دعا کروائی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے باری باری تمام متمین سے ان کے شعبوں کا تعارف حاصل کیا اور ان کے کام کا جائزہ لیا اور آئندہ کے لئے ان کے پروگراموں کے بارہ میں دریافت فرمایا.مہتم (اصلاح وارشاد) سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ دعوت الی اللہ ) کے لئے وفود بھیجنے کا کیا پروگرام ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہر نیا مہتم جو آتا ہے اس کو گزشتہ سال کا ریکارڈ دیکھنا چاہئے اور اس کی بنیادوں پر کام کو آگے بڑھانا چاہئے.اگر گزشتہ سال کمزوریاں رہ گئی ہیں تو ان کا پتہ چل جائے گا.ان کی اصلاح ہو جائے گی.فرمایا با قاعدہ پلان بنا کر کام کریں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صدر صاحب مجلس کو ہدایت فرمائی کہ معتمد علیحدہ بنائیں.یہ شعبہ صدر کے پاس نہیں ہونا چاہئے.مہتم صحت جسمانی کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت فرمائی کہ یہاں (بیت الذکر ) کے قریب خدام کی ان ڈور گیم کا انتظام ہونا چاہئے.اس طرح خدام کا (بیت الذکر ) سے رابطہ رہے گا.نمازوں کی حاضری بڑھ جائے گی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کھیلوں کا ایک مقصد یہ ہے کہ صحت اچھی ہو اور دوسرا یہ کہ تربیت ہو.مہتم مال سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خدام کے ماہانہ چندہ ، کمانے والے خدام کی تعداد اور چندہ دینے والے خدام کی تعداد کا تفصیلی جائزہ لیا اور فرمایا اپنی مجلس شوری میں چندہ کے معیار پر نظر ثانی کریں آپ کے خدام کے چندہ کا معیار کم ہے.شوری اگر چندہ بڑھانے میں راضی ہوتی ہے تو بڑھا

Page 122

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 104.ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی لیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ کے اجتماع میں ہر شعبے کے اخراجات کا بجٹ علیحدہ ہونا چاہئے اور سیکرٹری مال کو اس کا علم ہونا چاہئے.مہم تعلیم کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ خدام کا نصاب مقرر کر کے با قاعدہ امتحان لیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ اس ملک میں رہ رہے ہیں.سویڈش زبان استعمال کریں.آپ کے اجتماعات اور اجلاسات میں سویڈش زبان میں بھی تقاریر ہوں.فرمایا اجتماع میں تلقین عمل کا پروگرام رکھا کریں.علماء کی تقاریر رکھا کریں.(مربی) کی تقریر بھی ہو جو سویڈش زبان میں ہو.مہتم تربیت کو فرمایا نمازوں کی حاضری کی طرف توجہ دیں آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ کتنے خدام ایسے ہیں جو نماز پڑھتے ہیں اور قرآن کریم پڑھنے والے کتنے ہیں.جو ( بیت الذکر ) نہیں آتے ان کو پیار سے سمجھا ئیں.آپ کے پاس سارا Data اکٹھا ہونا چاہئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جو آپ کی بات نہیں مانتے ان کے کسی دوست کی ڈیوٹی لگائیں کہ وہ اس سے رابطہ کرے اور اس کا ( بیت الذکر ) سے رابطہ قائم کروائے.شعبہ اشاعت کو حضور انور نے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ خدام کے رسالہ کا نام جو ” الطارق ہے یہ اسی طرح رسالہ پرلکھیں اور بریکٹ میں اس کا ترجمہ دے دیا کریں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا رسالہ میں مواد سویڈش زبان میں ہونا چاہئے.فرمایا اس رسالہ کو email کرنے کے علاوہ با قاعدہ پرنٹ بھی کریں اور خدام کو بھجوائیں.اس میں قرآن کریم کی آیت اُس کی تشریح، حدیث نبوی اور اس کی تشریح اور حضرت مسیح موعو علیہ السلام کا اقتباس دیں.اسی طرح خلیفہ وقت کے خطبات میں سے مواد لے کر ترجمہ کر کے دیا کریں.مہتمم اطفال کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: سٹاک ہالم کی ( بیت الذکر ) کو بھی مستعد کریں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا خدام کی نیشنل عاملہ کے ممبران گوتھن برگ کے علاوہ حسب ضرورت دوسری مجالس ، مالمو اور سٹاک ہالم وغیرہ سے بھی لئے جا سکتے ہیں.آجکل بذریعہ فون اور email بآسانی رابطے ہو جاتے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مہتمم اطفال کو ہدایت فرمائی کہ آپ اپنا نائب مہتمم اطفال

Page 123

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 105 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی Malmo میں بنا سکتے ہیں اور دوسرے سیکرٹریان بھی لے سکتے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صدر صاحب خدام الاحمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ مہتم امور طلباء بھی بنائیں.مہتمم ( اصلاح وارشاد) کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت فرمائی کہ ( دعوت الی اللہ ) کی ایسی پاکٹ تلاش کریں جہاں دوسرے ممالک سے آنے والے لوگ آباد ہیں.فرمایا یہاں کے لوگوں میں بھی ( دعوت الی اللہ ) کریں.فرمایا ( دعوت الی اللہ ) کے لئے ذاتی رابطے ہونے ضروری ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا عربوں کو عربی زبان میں لٹریچر دیں شروع میں چھوٹا لٹر پچر دیں.زیادہ دیپسی رہے تو پھر بڑی کتب مطالعہ کے لئے دیں.حضور انور نے صدر صاحب خدام الاحمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ اگر عاملہ کے ممبران میں کوئی سویڈش بھی ہے تو پھر عاملہ کے اجلاس میں اس کے لئے سویڈش ترجمہ کا انتظام ہونا چاہئے.اگر ساری عاملہ کو سویڈش آتی ہے تو پھر مجلس عاملہ کی کارروائی سویڈش زبان میں ہو.نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کی حضورانور کے ساتھ میٹنگ ۶ بجکر ۲ ۵ منٹ تک جاری رہی.میٹنگ کے آخر پر عاملہ کے ممبران نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت حاصل کی.الفضل انٹرنیشنل 28 اکتوبر تا 3 نومبر 2005ء)

Page 124

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 106 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرمودہ 16 ستمبر 2005ء سے اقتباسات شرک کی ظاہری اور مخفی راہیں * کسی سے بھی ضرورت سے زیادہ محبت یا اپنے کسی کام میں بھی ضرورت سے زیادہ غرق ہونا اس حد تک Involve ہو جانا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہوش ہی نہ رہے ، یہ شرک ہے.کاروباری آدمی ہے یا ملازمت پیشہ ہے.اگر نمازوں کو بھول کر ہر وقت صرف اپنے کام کی ، پیسہ کمانے کی فکر ہی رہے تو یہ بھی شرک ہے.نوجوان اگر کمپیوٹر یا دوسری کھیلوں وغیرہ یا مصروفیات میں لگے ہوئے ہیں جس سے وہ اللہ کی عبادت کو بھول رہے ہیں تو یہ بھی شرک ہے.پھر گھروں میں بعض ظاہری شرک بھی غیر محسوس طریقے سے چل رہے ہوتے ہیں، اس کا احساس نہیں ہوتا.ایک طرف تو احمدی کہلاتے ہیں گو یہ بہت کم احمدی گھروں میں ہے جبکہ دوسرے لوگوں میں بہت زیادہ ہے لیکن پھر بھی ایک آدھے گھر میں بھی کیوں ہو.ایسے گھروں میں بعض دفعہ ایسی فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں جن میں گندا اور غلاظت کے علاوہ دیویوں اور دیوتاؤں کی پوجا کو دکھایا جا رہا ہوتا ہے.پھر ان مورتیوں کو جو پوجنے والے ہیں یہ لوگ اپنے گھروں میں ان چیزوں کو رکھتے ہیں،شیلفوں میں سجا کر رکھا ہوتا ہے یا بعض خاص جگہ پر رکھا ہوتا ہے.تو ڈراموں میں دیکھ دیکھ کر ان کے دیکھا دیکھی بعض اپنے گھروں میں بھی ان مورتیوں کو سجا لیتے ہیں.بازار میں ملنے لگ گئی ہیں کہ سجاوٹ کر رہے ہیں.اپنے گھروں میں ڈرائنگ رومز وغیرہ میں شیلفوں میں رکھ لیتے ہیں.تو پھر ان فلموں کو دیکھنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ احساس ختم ہو جاتا ہے.ان مورتیوں کو گھروں میں رکھنے کی وجہ سے، چاہے سجاوٹ کے طور پر ہی ہوں، احساس مر جاتا ہے.اور اگر کسی گھر میں عبادتوں میں ستی ہے، نمازوں میں سستی ہے تو ایسے گھروں میں پھر بڑی تیزی سے گراوٹ کے سامان پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پس ہر احمدی کو نہ صرف ان لغویات سے پر ہیز کرنا ہے بلکہ اپنی عبادتوں کے معیار کو بھی اوپر لے کر جانا ہے.ہم ہر نماز میں {ایاک

Page 125

107 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْن } کی دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں یا تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں کہ ہمیں عبادت کرنے والا بنا.اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہے یقیناً اس کو ہر قسم کے شرک سے پاک ہونا چاہئے.پس اس لحاظ سے بھی ہر احمدی کو اپنے دل کو ٹولنا چاہئے کہ ایک طرف تو ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بننے کی خدا تعالیٰ سے دعا مانگ رہے ہیں دوسری طرف دنیا داری کی طرف ہماری نظر اس طرح ہے کہ ہم اپنی نمازیں تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن اپنے کام کا حرج نہیں ہونے دیتے.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں رازق ہوں اور اپنی عبادت کرنے والوں کے لئے رزق کے راستے کھولتا ہوں لیکن ہم منہ سے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے، حق ہے لیکن ہمارے عمل اس کے الٹ چل رہے ہیں.اُس وقت جب ایک طرف نماز بلا رہی ہو اور دوسری طرف دنیا کا لالچ ہو، مالی منفعت نظر آ رہی ہو تو ہم میں سے بعض رالیں ٹپکاتے ہوئے مال کی طرف دوڑتے ہیں.اس وقت یہ دعوے کھو کھلے ہوں گے کہ ہم ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں.پس جماعت کے ہر طبقے ، عورت، مرد، بچے ، بوڑھے، جوان ، ہر ایک کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر کیا روحانی تبدیلی ہم میں پیدا ہوئی ہے.کیا ہماری عبادتوں کے معیار بڑھے ہیں یا وہیں کھڑے ہیں یا گر رہے ہیں، کہیں کمی تو نہیں آ رہی.جب ہر کوئی خود اس نظر سے اپنے جائزے لے گا تو انشاء اللہ عبادتوں کے معیار میں یقیناً بہتری پیدا ہوگی.قرآن کریم کا پڑھنا اور اُس پر عمل کرنا ضروری ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ } (البقرۃ).یہ وہ کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں ، ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو.پس جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے.اپنے رب کی عبادت کرو تو تقویٰ میں بڑھو گے.اور تقویٰ میں بڑھنے کے لئے قرآن کریم جو خدا کا کلام ہے اس کو بھی پڑھنا ضروری ہے ، اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.پس تقویٰ اس وقت تک مکمل نہیں ہو گا جب تک قرآن کریم کو پڑھنا اور اس پر عمل کرنا زندگیوں کا حصہ نہ بنالیا جائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ جلشانہ نے قرآن کریم کے نزول کی علت عالَى { هُدًى لِلْمُتَّقِین قرار دی ہے.یعنی اس کا مقصد متقیوں کے لئے ہدایت ہے اور قرآن

Page 126

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 108 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کریم سے رشد ہدایت اور فیض حاصل کرنے والے با تخصیص متقیوں کو ہی ٹھہرایا ہے.“ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۹۳۱) یعنی خاص طور پر جو تقویٰ میں بڑھنے والے ہوں گے وہی قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کریں گے.سب روزانہ تلاوت کی عادت ڈالیں ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بھی کوئی قوم قرآن کریم پڑھنے کے لئے اور ایک دوسرے کو پڑھانے کے لئے خدا تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اکٹھی ہوتی ہے تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کے گرد حلقے بنا لیتے ہیں.(سنن ابی داؤد.کتاب الوتر باب في ثواب قرآة القرآن) پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے اور فرشتوں کے حلقے میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن کریم پڑھے اور اس کو سمجھے ، اپنے بچوں کو پڑھائیں ، انہیں تلقین کریں کہ وہ روزانہ تلاوت کریں.اور یاد رکھیں کہ جب تک ان چیزوں پر عمل کرنے کے ماں باپ کے اپنے نمونے بچوں کے سامنے قائم نہیں ہوں گے اس وقت تک بچوں پہ اثر نہیں ہو گا.اس لئے فجر کی نماز کے لئے بھی اٹھیں اور اس کے بعد تلاوت کے لئے اپنے پر فرض کریں کہ تلاوت کرنی ہے پھر نہ صرف تلاوت کرنی ہے بلکہ توجہ سے پڑھنا ہے اور پھر بچوں کی بھی نگرانی کریں کہ وہ بھی پڑھیں، انہیں بھی پڑھائیں.جو چھوٹے بچے ہیں ان کو بھی پڑھایا جائے.غرائب کیا ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قرآن کریم پڑھنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے، کس طرح پڑھنا ہے.آپ نے فرمایا کہ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر صاف صاف پڑھو اور اس کے غرائب پر عمل کرو.(مشکوۃ المصابیح) غرائب سے مراد اس کے وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور وہ احکام ہیں جن کو کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے.جب قرآن کریم اس طرح ہر گھر میں پڑھا جا رہا ہوگا، غور ہو رہا ہوگا، ہر حکم جس کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اس پر عمل ہو رہا ہو گا اور ہر وہ بات جس کے نہ کرنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم

Page 127

109 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ہے اس سے بیچ رہے ہوں گے، اس سے رک رہے ہوں گے تو ایک پاک معاشرہ بھی قائم کر رہے ہوں گے.عبادتوں کے معیاروں کے ساتھ ساتھ آپ کے اخلاق کے معیار بھی بلند ہور ہے ہوں گے.آپس کی رنجشیں دور کرنے کی بھی کوشش ہور ہی ہوگی.جھوٹی اناؤں اور عزتوں سے بھی بچ رہے ہوں گے.تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بھی آپ کوشش کر رہے ہوں گے.تقویٰ سے عاری علم کی اللہ کوکوئی پرواہ نہیں اگر ایک شخص بظاہر نمازیں پڑھنے والا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو قرآن کریم میں احکامات دیئے ہیں ان پر عمل نہیں کر رہا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ایسے نمازیوں کی نمازوں کو ان کے منہ پر مارتا ہے.یہی نمازیں ہیں جو نمازیوں کے لئے لعنت بن جاتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے بھی ان عبادتوں کا ذکر کیا ہے جو تقویٰ میں بڑھاتی ہیں.اور تقویٰ بڑھتا ہے ان احکامات پر عمل کرنے سے جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں.جن کی تعداد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پانچ سو یا سات سو بتائی ہے.اور آپ نے فرمایا کہ جوان حکموں پر عمل نہیں کرتا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے.پس یہ ہوشیاری یا چالا کی کسی کام نہیں آئے گی.بعض لوگوں کو اپنی علمیت پہ بڑا نا ز ہوتا ہے اور دوسروں کے علم کا استہزاء کر رہے ہوتے ہیں.یاکسی اور بات کا بڑا فخر ہے اس پر استہزاء ہورہا ہوتا ہے مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں.تو چاہے وہ قرآن کریم کا علم ہو یا کوئی اورعلم ہو کیونکہ یہ علم جو ہے یہ تقویٰ سے عاری ہوتا ہے اس لئے اس علم کی بھی اللہ تعالی کو کوئی پرواہ نہیں جو اس نے حاصل کیا ہے.بے فائدہ علم ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ان احکامات پر عمل کرو.اگر صرف پڑھ لیا دوسروں کو بتا دیا اور خود عمل نہ کیا تو ایسے لوگوں کو قرآن ہدایت نہیں دیتا.ہدایت بھی تقویٰ کے ساتھ مشروط ہے اور عبادت کرنے کا بھی اس لئے حکم دیا تا کہ تم تقویٰ میں ترقی کرو.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ تقویٰ کے حصول کے لئے عبادت کرے اور تقویٰ کے حصول کے لئے ہی قرآن کریم پڑھے اور پڑھائے ، قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنے والا بنے.نرمی اور پیار سے بات کیا کریں اب مثلاً قرآن کریم کا ایک حکم آپس میں محبت اور پیار کی فضا پیدا کرنا ہے اور دوسروں کو اچھی بات کہنا ہے، نرمی اور پیار سے بات کرنا ہے.چھتی ہوئی اور کڑوی بات نہ کرنے کا حکم ہے جس سے دوسروں کے

Page 128

110 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم جذبات کو تکلیف ہو.جیسا کہ فرمایا ہے {قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا } یعنی لوگوں سے نرمی اور پیار سے بات کیا کرو.ایسے طریقے سے جن سے کسی کے جذبات کو تکلیف نہ پہنچے.معاشرے میں اکثر جھگڑے زبان کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں.اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ اس عضو کو سنبھال لو تو جہنم سے بچ جاؤ گے.یہ بھی جہنم میں لے جانے کا ایک ذریعہ ہے.بعض لوگ بڑے نرم انداز میں باتیں کر دیتے ہیں جو کسی کی برائی ظاہر کر دے.یا بڑے آرام سے نرم الفاظ میں کوئی چھنتی ہوئی بات کر دی.اور کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو بڑے آرام سے بات کی تھی.دوسرا شخص ہی بھڑک گیا ہے.اس کو پتہ نہیں کیا تکلیف ہوئی.تو یہ چالاکیاں بھی کسی کے سامنے کہو گے تو شاید دنیا کے فیصلہ کرنے والوں کی نظر سے تو بچالیں گی لیکن اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اس کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.پس ایک احمدی کو باریکی میں جا کر اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.اگر آپ یہ کر لیں گے تو ان ملکوں میں بھی اور دنیا میں ہر جگہ جہاں احمدیوں کے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے ہوتے ہیں ، رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، دلوں میں بغض اور کینے پلتے بڑھتے ہیں ان کی اصلاح ہو جائے گی.پس اپنی اصلاح کے لئے قرآن کریم کو غور سے پڑھیں اور اس کے احکامات کو زندگیوں کا حصہ بنائیں ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انذار کے نیچے بھی آسکتے ہیں.الفضل ان نیشنل 7 تا 13 اکتوبر 2005ء)

Page 129

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 111 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس خدام الاحمدیہ ناروے کے ساتھ میٹنگ * (24 ستمبر 2005ء) ساڑھے سات بجے نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ ناروے کی حضور انور کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی.حضور انور نے دعا کروائی.حضور انور نے معتمد سے دریافت فرمایا کہ آپ کی کتنی مجالس آپ کو رپورٹ بھجواتی ہیں.فرمایا تمام مجالس سے رپورٹ لیا کریں اور ہر ماہ باقاعدگی سے اپنی ماہانہ رپورٹ مجھے بھجوایا کریں.فرمایا جس ماہ کوئی کام نہ ہوا ہو لکھ دیا کریں کہ کام نہیں ہوا.لیکن رپورٹ با قاعدہ بھجوانی ہے.مہتم مال سے حضور انور نے خدام الاحمدیہ کے سالانہ بجٹ ، چندہ دینے والے خدام کی تعداد اور چندہ کے معیار کا جائزہ لیا اور ہدایت دی کہ آپ کے چندہ کا معیار بہت کم ہے.اس بارہ میں سوچیں.کوئی Base ہونی چاہئے.صرف پیسے لینا مقصد نہیں ہے بلکہ قربانی کا مادہ پیدا کرنا مقصد ہے اور دیکھنا ہے قربانی کا مادہ کتنا پیدا کیا ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جتنا چندہ بھی لینا ہے روح ہونی چاہیئے کہ میں قربانی کرنی ہے.فرمایا تربیت کا بھی کام ہے اور شعبہ مال کا بھی کام ہے کہ وہ مل کر کوشش کریں.مہتمم اطفال سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اطفال کی مجموعی تعداد ، معیار صغیر اور معیار کبیر کے اطفال اور ان کے چندوں اور سالانہ بجٹ کا جائزہ لیا.مہتم تجنید کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ آپ کے پاس جو اطفال کی تجنید ہے وہ اطفال کو دے دیں اور اپنا بوجھ ہلکا کریں مہتم اطفال کی اپنی مجلس عاملہ ہوتی ہے.اطفال کی تجنید کا ریکارڈ رکھنا ان کی اپنی ذمہ داری ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مہتم مجنید کو ہدایت فرمائی کہ اپنی تجنید ہر لحاظ سے مکمل

Page 130

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 112 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کریں.نئے احمدیوں کو تجنید میں شامل کریں.مہتم تربیت نو مبائعین کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ خدام کی عمر کے جو نو مبائعین ہیں ان کی فہرست جماعت کے سیکرٹری نو مبائعین سے حاصل کریں، سیکرٹری ( دعوت الی اللہ ) سے حاصل کریں اور ان کی تربیت کریں اور اپنے نظام میں شامل کریں.مہتم تربیت کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ ہر ماہ جو تربیتی کلاس ہوتی ہے وہ علیحدہ ہو.اس کے علاوہ سال میں ایک کلاس کیوں نہیں لگاتے.حضور انور نے فرمایا آپ کے پاس یہ ریکارڈ ہونا چاہئے کہ کتنے خدام نمازیں پڑھتے ہیں.کتنے باجماعت پڑھتے ہیں.کتنے ہیں جو قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں.کتنے ہیں جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں.یہ ریکارڈ آپ کے پاس ہو اور خدام کی مزید تربیت کریں اور جو برائیاں ہیں وہ ختم کریں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب، خلفاء کی کتب سے اقتباسات نکال کر دیں.وہ پڑھیں.فرمایا وقت دیا کریں.آپ مہتم تربیت ہیں.مہتم خدمت خلق کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ خدام خون کا عطیہ دیں.احمد یہ یوتھ آرگنائزیشن کے نام پندرہ ہیں خدام رجسٹرڈ کروائیں.جب ضرورت ہو خون دے سکتے ہیں.جماعت کا امیج قائم ہوتا ہے.حضور انور نے فرمایا.ہر وہ کام اختیار کرنا چاہئے جس سے جماعت کا تعارف ہوتا ہو.حضور انور نے فرمایا Old Peoples 's Home میں جایا کریں.پھل وغیرہ ساتھ لے جایا کریں.اس طرح آپ کے رابطے ہوں گے اور تعلقات بڑھیں گے.حضورانور نے خدام الاحمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ جو کام بھی آپ کے سپرد ہے اہم کام ہے.کسی چیز کو بھی چھوٹا نہ سمجھیں.جو بھی ڈیوٹی ہو ، جہاں بھی لگائی جائے پوری ذمہ داری سے ادا کریں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جنگ احد کا واقعہ محفوظ کر دیا ہے.ہر کام ذمہ داری کے ساتھ کریں.حضور انور نے مہتم (اصلاح و ارشاد) اور مہتم امور طلباء کو ہدایت فرمائی کہ دونوں مل کر یو نیورسٹیوں میں سمپوزیم کے پروگرام بنائیں.طلباء کے ذریعہ پروگرام بنائیں مختلف مذاہب کو بلائیں ، تبادلہ خیال ہو.اس سے کافی باتیں کھل جاتی ہیں.جماعت کا تعارف ہوجاتا ہے اور رابطے بڑھتے ہیں.حضور انور نے فرمایا ( دعوت الی اللہ ) کے لئے مختلف پاکٹس تلاش کریں.عرب آبادیاں ہیں وہاں

Page 131

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 113 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جائیں اور کام کریں.( دعوت الی اللہ ) کے لئے نئے راستے نکالیں اور چھوٹی جگہوں پر جا کر ( دعوت الی اللہ ) رابطے کریں.مہتم صحت جسمانی کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ (بیت الذکر ) میں ان ڈور کھیلوں کا پروگرام بنا ئیں.لجنہ کے لئے بھی علیحدہ پروگرام ہو.مہتم صنعت و تجارت کو حضور انور نے فرمایا جن نوجوانوں نے تعلیم چھوڑ دی ہے ان کو ٹیکنیکل سائیڈ کی طرف گائیڈ کریں.مہتم و قارعمل کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ نئی ( بیت الذکر ) کی تعمیر میں وقار عمل کرنا ہے خدام اور صف دوم کے انصار کام کریں.وقار عمل کے ذریعہ ایک بڑی رقم کی بچت ہو سکتی ہے.نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ ناروے کی حضور انور کے ساتھ یہ میٹنگ ساڑھے آٹھ بجے تک جاری رہی.الفضل انٹر نیشنل 11 تا 17 نومبر 2005ء)

Page 132

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 114 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جامعہ احمدیہ برطانیہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب * ہفتہ یکم اکتوبر 2005ء وہ تاریخی دن ہے جب سیدنا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جامعہ احمدیہ برطانیہ کا افتتاح فرمایا.یہ براعظم یورپ کا پہلا جامعہ احمدیہ ہے جس میں یورپ بھر سے واقفین زندگی منتخب طلباء کو داخلے کی سعادت حاصل ہوئی ہے.الفضل انٹر نیشنل سے اس کی رپورٹ پیش ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ الحمد للہ ، آج UK کے جامعہ احمدیہ کا آغاز ہورہا ہے.ویسے تو دو دن سے باقاعدہ طلباء آچکے ہیں لیکن Formal Opening آج ہو رہی ہے.فی الحال UK کا جامعہ پورے یورپ کے لئے ہے فی الحال تو یہ جامعہ صرف یو کے کا جامعہ نہیں ہے بلکہ تمام یورپین ممالک کا جامعہ ہے.کیونکہ اس میں مختلف ممالک سے آکر طلبہ داخل ہوئے ہیں.اور جب تک کسی اور یورپین ملک میں جامعہ شروع نہیں ہو جاتا یہ ایک لحاظ سے جامعہ احمدیہ پورے یورپ کے لئے ہی ہے.کیونکہ اس جامعہ احمدیہ نے ہی اس علاقہ کے واقفین نو نو جوانوں کو جنہوں نے اپنے آپ کو (مربی) بننے کے لئے پیش کیا ہے ، ان کو سنبھالنا ہے.سوائے جرمنی کے باقی یورپین ممالک میں تو جماعت کی تعداد بہت تھوڑی ہے.اور اگر اس کے بعد کبھی جامعہ کھلا تو ہو سکتا ہے کہ جرمنی کا نمبر ہی دوسرا ہو کیونکہ واقفین نو کی تعداد کے لحاظ سے اور وسائل کے لحاظ سے بھی وہی اس قابل ہے کہ جو جامعہ چلا سکتا ہے.اور ہو سکتا ہے کہ جب جرمنی میں جامعہ کھل جائے تو یورپ کے جو اُس کے قریب کے بہت سارے ممالک کے طلباء ہیں وہ وہاں جا کر داخلے لیں.والدین نو کی تعداد لاکھوں ہو جائے گی حضور انور نے فرمایا کہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے جب وقف نو کی تحریک فرمائی تھی تو فرمایا تھا کہ ہمیں

Page 133

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 115 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی لاکھوں واقفین نو چاہئیں.اب تک تو واقفین نو کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن جس طرح جماعت کی تعداد بڑھ رہی ہے اور جس طرح والدین کی اس طرف توجہ پیدا ہورہی ہے، انشاء اللہ تعالیٰ لاکھوں کی تعداد ہو جائے گی.اور پھر ظاہر ہے کہ ہر ملک میں جامعہ احمد یہ کھولنا پڑے گا.اور یہ انشا اللہ تعالیٰ ایک دن ہوگا.جامعہ احمدیہ کا طرہ امتیاز حضورانور نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ جو طلبا مختلف ممالک سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں آئے ہیں، اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے تحت آئے ہیں کہ دین کا علم حاصل کرو.آپ اس گروہ میں شامل ہوئے ہیں جنہوں نے دوسروں کو دین سکھانے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام دنیا میں پہنچانے کا عہد کیا ہے،اس کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہے.دنیا میں بہت سے مسلمان فرقوں اور حکومتوں نے دینی علم سکھانے کے لئے مدارس کھولے ہوئے ہیں جن کو بہت زیادہ فنڈز بھی مہیا ہوتے ہیں ، بہت ساری سہولتیں بھی میسر ہیں جو جماعت احمدیہ کے لحاظ سے جہاں بھی جامعہ احمدیہ ہیں وہاں مہیا نہیں کی جاسکتیں.اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہاں جہاں بھی یہ دینی علم دیا جاتا ہے ان کو کافی علم ہوتا ہے.جو بھی علم ہے حضرت مسیح موعود کی آمد سے پہلے تفسیر کا، حدیث کا ، فقہ کا، وہ سب ان کے پاس ہے.ہندوستان میں بھی ایک مدرسہ قائم ہے دارالعلوم دیو بند میں.بڑے بڑے علماء وہاں سے نکلے.پھر الا زھر یو نیورسٹی ہے.جامعتہ الازھر بھی ایک بہت بڑا ادارہ سمجھا جاتا ہے.لیکن یہ تمام ادارے اور ان میں تعلیم حاصل کر کے باہر آنے والے باوجود اس کے کہ وہ سب دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اس لحاظ سے بے علم اور بدقسمت ہیں کہ وہ اس زمانے کے امام کو نہیں پہچان سکے.آنحضرت ﷺ کے ارشاد کو سمجھنے کا اُن کو ہم وادراک حاصل نہیں ہو سکا.بجائے اس کے کہ علم ان کے دل و دماغ کو روشن کرتا ، ان میں عاجزی پیدا کرتا، اس علم نے ان میں تکبر پیدا کیا جس کی وجہ سے انہوں نے نہ صرف یہ کہ زمانے کے امام کو پہنچانا نہیں بلکہ اکثریت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بڑی غلیظ زبان بھی استعمال کی اور اپنے آپ کو علمی لحاظ سے بہت بلند سمجھا.اس زمانے کے حکم اور عدل کو، آنحضرت ﷺ کے روحانی فرزند کو ماننے سے انکار کیا.لیکن آپ لوگ ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جن کے والدین کو آبا ؤ اجداد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق ملی.اور پھر اس پر یقین میں اس حد تک بڑھے کہ خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے بچوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کر دیا.اور اللہ تعالیٰ کے

Page 134

116 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم حضور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نیک اولاد کی دعا کی تا کہ اسے اللہ کے حضور پیش کر سکیں.بہت سی ماؤں نے حضرت مریم علیہالسلام کی یہ دعا کی کہ جو کچھ بھی میرے پیٹ میں ہے، اے اللہ ! اسے میں تجھے پیش کرتی ہوں.اور یہ بھی صرف اسی وجہ سے ہے کہ ان کو حضرت مسیح موعود سے ایک سچا تعلق ہے.اسی لئے اُن میں اپنے بچوں کو وقف نو میں پیش کرنے کی خواہش پیدا ہوئی اور اکثر جو خط آتے ہیں وقف نو کی اولاد کے لئے کہ ہمارے بچوں کو وقف نو میں شامل کریں، اکثریت ان میں سے احمدی ماؤں کے خط ہوتے ہیں.تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس زمانے میں کہ جب مائیں چاہتی ہیں کہ بچے ہوں اور ان کے ذریعے سے دنیاوی خواہشیں پوری ہوں.(احمدی مائیں) انہیں دین کی خاطر وقف کرتی ہیں.ہمیشہ دعائیں کرتے رہیں حضور انور نے طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ پس آپ خوش قسمت ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسے ماں باپ عطا کئے جو اپنے بچوں کو خدا کی راہ میں پیش کرنے کے لئے ، دین کی خاطر وقف کرنے کے لئے ، خوشی سے تیار ہو گئے.پس جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اپنے ماں باپ کے لئے بھی دعا کریں کہ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا ( یعنی ان دونوں پر بھی رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی ، اور میں باوجود دنیا کی چکا چوند کے، اس معاشرے میں رہتے ہوئے جہاں ہر طرف غلاظتیں ہیں بلوغت کی عمر کو پہنچ کر، اس تربیت اور دعا کی وجہ سے جو میرے والدین نے کی ،اے اللہ ! آج میں تیرے دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اس ادارے میں داخل ہورہا ہوں.ہمیشہ یہ دعا کریں کہ اے اللہ ہمیشہ مجھے اپنے والدین کا بھی عہد پورا کرنے کی توفیق دے اور مجھے اپنا عہد پورا کرنے کی بھی توفیق دے اور ہر موقع پر، ہر تکلیف میں، ہر امتحان میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ہی جواب دینے والے ہوں کہ تو مجھے انشاء اللہ صبر کرنے والوں اور ایمان پر قائم رہنے والوں میں سے پائے گا.اگر آپ اس طرح اپنے عہد نبھاتے رہے تو تب ہی آپ وقف کے میدان میں کامیاب اور اللہ کا پیار حاصل کرنے والے ہوں گے.اور اس طرح اللہ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے والے ہوں گے.اور ہر موقعہ پر اللہ تعالیٰ خود آپ کو اپنا ہاتھ رکھ کر ہر مشکل سے نکالے گا.ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر آپ پر ہوگی.لیکن ہر قربانی کے لئے تیار ہونا اور ہر قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو اس روح کو قائم رکھتے ہوئے اپنے

Page 135

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 117 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ماں باپ کا اور اپنا عہد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہر روز نئی اور پاک تبدیلی ہونی چاہیے حضور انور نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں جو چند سال آپ نے گزارنے ہیں ( تقریباً سات سال) ان میں ہر دن آپ میں انقلاب لانے والا دن ثابت ہونا چاہئے.اپنے عہد کا پاس کرنے والا دن نظر آنا چاہئے.آپ کے اساتذہ کو بھی، آپ کے گھر والوں کو بھی ، آپ کے ماحول کو بھی اور آپ کو خود بھی اپنے اندر ہر روز ایک نئی اور پاک تبدیلی پیدا ہوتی نظر آنی چاہئے.آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق روز بروز بڑھنا چاہئے.ہمیشہ یہ ذہن میں رہے کہ میں واقف زندگی ہوں.اب میرا اپنا کچھ بھی نہیں، میری ذات اب خدا کے لئے اور خدا کے مسیح کی جماعت کے لئے ہے.جامعہ کے ان سالوں میں مکمل طور پر پڑھائی کی طرف توجہ دیں.بعض مضمون آپ کو مشکل لگیں گے.دعا کے ساتھ محنت کرتے ہوئے اپنے اساتذہ کی رہنمائی میں ان کو سمجھنے کی کوشش کریں.چھوٹی موٹی تکلیفوں اور بیماریوں کی کبھی پرواہ نہ کریں، وہ تو آتی رہتی ہیں.بعض بچے بڑے نازک ہوتے ہیں، ذراسی بھی سر درد ہوئی تو لیٹ جاتے ہیں.تو اپنے آپ کو سخت جانی کی عادت ڈالیں، ایک ایک لمحہ آپ کا قیمتی ہے.رات کو سوتے ہوئے اپنا جائزہ لینے کی عادت ڈالیں کہ دن کے دوران کوئی لمحہ بھی ایسا تو نہیں جو میں نے ضائع کیا ہو.جب آپ اسی طرح اپنا جائزہ لے رہے ہونگے تو ابھی سے آپ کو اپنے وقت کی قدر کا احساس بھی پیدا ہو جائے گا، وقت کے صحیح استعمال کی عادت بھی پڑ جائے گی.جب یہاں سے فارغ ہوں گے، مربی بن کر، (مربی) بن کر نکلیں گے تو اپنی زندگی ہرلمحہ اور ہر سیکنڈ دین کی خاطر گزارنے والے ہوں گے.اور جب اس طرح وقت گزاریں گے تو تبھی آپ اپنے عہد کو پورا کرنے والے کہلا سکیں گے.طلبہ جامعہ کے لئے اہم نصائح حضور انور نے طلبہ کو روزمرہ کے پروگرام کے حوالہ سے بھی اہم نصائح فرمائیں.چنانچہ فرمایا کہ ایک بات اور یاد رکھیں کہ یہاں جو بھی کلاسوں میں پڑھیں جامعہ کے وقت کے بعد اُس کی دُہرائی ضرور کریں.جب اپنے کمروں میں جائیں جو روز پڑھا ہو، روز کا روز دُہرا لیا کریں تا کہ جو بھی پڑھا ہے وہ آپ کے ذہن میں بیٹھ جائے.اس کے علاوہ بعض آپ میں سے ایسے بھی ہوں گے جن کو اردو پڑھنی نہیں آتی تو جب تک اُردو پڑھنی نہیں آتی اس وقت تک حضرت مسیح موعود کی کوئی بھی کتاب جس کا انگلش میں ترجمہ ہو چکا ہو کیونکہ

Page 136

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 118 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ انگلش تو تقریباً ساروں کو آتی ہے، اُس کو پڑھیں یا بعض حصوں کے ترجمے ہو چکے ہیں اُن کو روزانہ پڑھنے کی عادت ڈالیں.پھر اُس کو سمجھنے کی عادت ڈالیں اور یا درکھیں کہ ہر صورت میں آپ نے زائد مطالعہ کرنا ہے.(یعنی) جو جامعہ کا پڑھنا ہے اُس کی دہرائی کرنی ہے اور اُس کے علاوہ زائد مطالعہ بھی کرنا ہے.قرآن کریم کی تلاوت روزانہ کرنا آپ کی تعلیم کا حصہ ہے اور پابندی ہوگی ہوٹل میں رہنے والوں کے لئے کہ نماز کے بعد تلاوت کیا کریں.لیکن اس کی تلاوت اور اس کو سمجھنا اس لئے بھی اپنے اوپر لازم کر لیں کہ ہم نے اپنی زندگی پر اس تعلیم کولاگو کرنا ہے.اس پر عمل کرنا ہے.اُن علماء کی طرح نہیں ہونا جو دوسروں کے لئے تو علم سیکھ لیتے ہیں لیکن اپنے پر عمل کرنے کی ان کو توفیق نہیں ہوتی.جب وقت آئے تو سو بہانے تراشتے ہیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزانہ اخبار کا مطالعہ بھی ہونا چاہیے.دوسرے رسالوں کا مطالعہ بھی ہونا چاہئے.پھر کھیلیں ہیں اُس میں بھی آپ کو ضرور حصہ لینا چاہیے.اس بات کو اپنے پر فرض کر لیں کہ سوائے ان چھ سات گھنٹے کے جو آپ نے سونا ہے، باقی وقت بالکل مصروف رہنا چاہیے.یاد رکھیں کہ آپ کو اس جامعہ کا ابتدائی طالب علم بننے کا موقعہ مل رہا ہے.یہ بہت بڑا اعزاز ہے اور ایک ذمہ داری بھی ہے.طلباء کا بھی اپنا ایک مزاج ہوتا ہے جو پھر اس ادارے کا مزاج بن جاتا ہے اور پھر آئندہ آنے والے بھی عموماً اُسی پر چلتے ہیں.اگر پہلے طلباء اچھے ہوں تو انتظامیہ کو بعد کے طلباء پر بھی زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی اور طلباء کے اچھے ہونے کی وجہ سے ہی ادارہ مشہور ہوتا ہے.بعض دفعہ اچھی لاٹ آجاتی ہے طلباء کی ، وہ کالج اُن کی وجہ سے بڑا مشہور ہو جاتا ہے حالانکہ پروفیسر یا ٹیچر یا پڑھانے والے اُسی طرح محنت کر رہے ہوتے ہیں.اس لئے آپ لوگوں نے خود بھی خاص طور پر توجہ سے اچھا بننا ہے.جامعہ کا اپنا ایک تقدس ہے حضور انور نے فرمایا کہ جامعہ احمدیہ کا اپنا ایک تقدس بھی ہے.اگر آپ اُس پر پورا نہیں اتریں گے تو ہوسکتا ہے کہ انتظامیہ ایسے طلباء کے خلاف کوئی کارروائی بھی کرے جو اس تقدس اور معیار کا خیال نہیں رکھ رہے کیونکہ بُری مثالیں تو بہر حال اس ادارہ میں قائم نہیں کرنی.یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو جماعت احمدیہ کا خالص دینی تعلیم سکھانے والا ادارہ ہے.خالص وہ لوگ یہاں داخل ہونگے جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کی ہیں.تو اس لحاظ سے بہر حال پھر انتظامیہ کو دیکھنا بھی پڑتا ہے.لیکن آپ لوگوں سے میں یہ

Page 137

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 119 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کہتا ہوں کہ اگر آپ جو طلباء آئے ہیں، ہر لحاظ سے اعلیٰ مثالیں قائم کر لیں تو جامعہ کی تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا.ہمیشہ آپ کو اس نام سے یاد کیا جائے گا کہ یہ ایسے طلباء تھے جن سے بعد میں آنے والوں نے بھی راہنمائی حاصل کی.کیونکہ لمبی کلاسیں چلنی ہیں، ہر سال داخلے ہوں گے تو ظاہر ہے وہ آپ کے نمونے بھی دیکھ رہے ہوں گے.آخر میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کے ساتھ اپنا خطاب مکمل فرمایا کہ اللہ تعالی آپ کو اپنی تعلیم مکمل کرنے ،نیکیوں میں بڑھتے چلے جانے اور اپنے وقف کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.ہمیشہ آپ کو اس بات پر فخر رہے اور یہ فخر عاجزی میں بڑھائے کہ ہم خدا کے مسیح کی فوج کے سپاہی ہیں جنہوں نے آنحضرت کے جھنڈے کو تمام دنیا میں گاڑنا ہے.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.“ الفضل انٹر نیشنل 28 اکتوبر تا 3 نومبر 2005ء)

Page 138

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 120 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس خدام الاحمدیہ UK کے سالانہ اجتماع سے خطاب * 2 اکتوبر 2005ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجلس خدام الاحمدیہ UK کے سالانہ اجتماع کے آخری روز حاضرین سے خطاب فرمایا.اس کی الفضل انٹر نیشنل سے رپورٹ پیش ہے.اجتماعات کے مقاصد و فوائد حضور انور نے فرمایا کہ اس وقت جیسا کہ آپ صدر صاحب کی رپورٹ میں سن چکے ہیں یہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کا آخری سیشن ہے اور اب اختتام کو پہنچ رہا ہے.اس اجتماع میں بہت سے پروگرام ہوئے ہو نگے اور کچھ رپورٹ میں انہوں نے پیش بھی کی ہیں باتیں.علمی اور تربیتی پروگرام بھی ہوئے ہونگے کچھ تقاریر بھی ہوئی ہوگی.تو ان اجتماعوں کے منعقد کرنے کا مقصد یہی ہے کہ افرادِ جماعت کے کانوں میں نیکی کی باتیں مسلسل پہنچتی رہیں.ابھی دو مہینے پہلے ہی آپ کا جلسہ سالانہ ختم ہوا ہے.اُس میں بھی بہت سے علمی اور تربیتی خطاب ہوئے جو بہت سے سنے والوں کے لئے فائدے کا باعث بنے ہو نگے.بہت سے خدام کو بھی ان تقاریر کو سننے اور پروگراموں میں شامل ہونے کے بعد اپنی اصلاح کی توفیق ملی ہوگی ، اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہوگی.لیکن جب جماعت کی مختلف ذیلی تنظیمیں اپنے اجتماعات منعقد کرتی ہیں تو اس میں، قدرتی طور پر، خاص طور پر توجہ پیدا ہوتی ہے.لجنہ کو اپنی انفرادیت کا احساس پیدا ہوتا ہے،انصار کو اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے، خدام کو اپنی اہمیت کا احساس ہورہا ہوتا ہے اور وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم بھی جماعت کا ایک اہم حصہ ہیں.جس نے اپنے علیحدہ پروگرام بنا کر عمر اور مزاج کے لحاظ سے مختلف پروگرام تشکیل دیے جاتے ہیں)، ان پروگراموں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت کا ایک فعال حصہ بننا ہے.اطفال الاحمدیہ میں اپنی ایک انفرادیت اور اہمیت کا احساس ہوتا ہے.بچے اپنے پروگرام کر رہے ہوتے ہیں اور بالکل نو جوان خدام جو ہیں چھوٹی عمر کے پندرہ اور میں سال کے قریب ان کو اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور ہونا چاہیے.کیونکہ جب

Page 139

121 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم تک کسی قوم کے ہر طبقے کو اور ہر فرد کو اپنی اہمیت کا احساس نہ ہو جائے کہ ہم جماعت کا ایک حصہ ہیں جس کے ساتھ جماعت کی ساکھ اور ترقی وابستہ ہے، اس وقت تک وہ ترقی کی روح نہیں پیدا ہوتی.ترقی کی روح تب ہی پیدا ہوتی ہے جب قوم کے ہر طبقے میں یہ احساس ہو جائے کہ ہماری ایک اہمیت ہے.پھر تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی منازل طے کرتی چلی جاتی ہیں.وہ ترقی کی منازل طے کرتی چلی جانے والی قومیں ہوتی ہیں.اس لئے حضرت مصلح موعود نے جنہوں نے جماعت کی تمام ذیلی تنظیموں کی بنیاد ڈالی تھی وہ فرمایا کرتے تھے کہ جس جماعت کی ذیلی تنظیمیں بھی فعال ہوں اور جماعتی نظام بھی فعال ہو، اس جماعت کی رفتار ترقی کی رفتار کئی گنا ہو جاتی ہے.بعض اوقات ستی کو احتیاط کا نام دے دیا جاتا ہے اور پھر یہ بھی فائدہ ہے کہ ان تمام تنظیموں کا کہ اگر کہیں جماعتی نظام میں ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا ہو جائے کیونکہ بعض دفعه بعض جماعتوں کے عہدیدار بڑی عمر کے ہونے کی وجہ سے احتیاطوں اور می ور مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں.ٹھیک ہے احتیاطیں اور مصلحتیں بھی ہونی چاہئیں کیونکہ مومن کا ہر قدم عقل سے اٹھنے والا قدم ہونا چاہیے لیکن بعض دفعہ بستیوں کو بھی احتیاطوں کا نام دیدیا جاتا ہے.تو بہر حال اگر کہیں مرد سست ہیں تو عورتیں بعض دفعہ بالجنہ بعض دفعہ active ہو جاتی ہے اور کچھ نہ کچھ ترقی تو ہوتی رہتی ہے.کہیں عورتیں اور بوڑھے سُست ہوں تو وہاں نوجوان active ہوتے ہیں، خدام active ہوتے ہیں اور جماعت میں ترقی کی رفتار نظر آتی رہتی ہے.کہیں ذیلی تنظیمیں اگر سُست ہوں اور جماعتی نظام یعنی صدر جماعت، امیر جماعت وغیرہ چست ہوں تو وہاں بھی جماعتی ترقی ہوتی رہتی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا جماعتی مرکزی نظام یعنی اس جگہ کا جو جماعتی نظام ہے اور ذیلی تنظیمیں یہ سب فعال ہوں، ایک دوسرے سے تعاون کر رہی ہوں ہل جُل کر بھی اور اپنے دائرے میں بھی رہ کر اپنی تنظیموں کے تحت بھی تربیتی علمی اور (دعوت الی اللہ کے ) پروگرام بنا رہی ہوں تو وہاں جماعت کی رفتار کئی گنا ہو جاتی ہے.اب دوروں پہ جب بھی میں جاتا ہوں تو اسی نظر سے جب جائزہ لیتا ہوں تو سو فیصد یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ وہی جماعتیں ہر لحاظ سے ترقی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جہاں ہر طبقے کا جماعتی نظام فعال ہے اور اپنا اپنا کردارادا کر رہا ہے.پس اس لحاظ سے انصار بھی ذمہ دار ہیں اور پوچھے جائیں گے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں یا

Page 140

122 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصه سوم نہیں.لجنہ بھی اپنے دائرے میں ذمہ دار ہے اور پوچھی جائے گی کہ اُس نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں یا نہیں.اور خدام بھی ذمہ دار ہیں اور پوچھے جائیں گے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں یا نہیں.اور خدام میں کیونکہ نو جوان لڑکے اور مرد شامل ہوتے ہیں جن میں زیادہ طاقت بھی ہوتی ہے اور صحت بھی اچھی ہوتی ہے، صلاحیت بھی ہوتی ہے اس لئے جماعتی ترقی کے لئے خدام کی بہترین تربیت اور فعال ہونا اور تمام پروگراموں میں حصہ لینا، تمام اُن باتوں پر عمل کرنا جو خلیفہ وقت کی طرف سے وقتا فوقتا کی جاتی ہیں، زیادہ ضروری ہے.خدام ہی ہیں جنہوں نے مستقبل کی نسل کے باپ بننا ہے اور خدام ہی ہیں جن میں آئندہ نسل کے باپ موجود ہیں.جو شادی شدہ ہیں اور بچوں والے ہیں وہ آئندہ نسل کے باپ ہیں.اور ایک باپ کی اسی اہمیت کے پیش نظر آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں ہے جو باپ اپنی اولا دکو دیتا ہے.پس یہ تربیت بھی انگلی نسل کی تب ہی ہوگی جب آپ لوگ خود بھی اپنی تربیت کی طرف توجہ دے رہے ہونگے.قوموں کی زندگی صرف ایک نسل کی زندگی نہیں ہوتی خدام الاحمدیہ میں 30-25 سال کی عمر سے لے کر 40 سال تک کے خدام اگر اپنی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنی تربیت کی طرف توجہ دے رہے ہونگے، اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کر رہے ہو نگے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہونگے تو وہ نہ صرف یہ کہ اپنی اولادوں کی نیک تربیت ، بچپن سے کرنے کا ذریعہ بن رہے ہونگے بلکہ جو بالکل نوجوان خدام ہیں جو ان کے چھوٹے بھائیوں کا درجہ رکھتے ہیں ان کے سامنے وہ مثالیں قائم کر رہے ہونگے اور غیر محسوس طریق پر ان کی تربیت میں بھی حصہ لے رہے ہونگے.یاد رکھیں کہ قوموں کی زندگی صرف ایک نسل کی زندگی نہیں ہوتی بلکہ ترقی کرنے والی قو میں، دنیا کو اپنے زیراثر لانے والی قومیں، ایک کے بعد دوسری نسل میں وہ روح پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں جن سے اُن کی ترقی کی رفتار کم نہ ہو اور جماعت احمد یہ تو یہ دعوی کرتی ہے کہ اُس نے آنحضرت ﷺ کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا ہے.پس اپنی اصلاح اور تربیت کی طرف توجہ دیں گے تو اس اہم کام کو پورا کرنے والے بھی ہونگے.اگر اس فکر سے آزاد ہونا ہے کہ قوم اصلاح کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہر دن یہ خوش خبری دینے والا دن ہے.ہر دن اس خوش خبری کے ساتھ طلوع ہورہا ہے کہ روحانی اور اخلاقی لحاظ سے قوم ترقی پذیر ہے تو اُس کا بہترین حل یہ

Page 141

123 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ہے کہ نوجوان نسل کا ہر قدم روحانی اور اخلاقی لحاظ سے ترقی کی طرف اٹھنے والا قدم ہو.اسی لئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی.پس یہ نعرہ صرف اور صرف بینر پر لکھ کر لٹکانے کے لئے نہیں ہے یہ نعرہ لگانے کے لئے نہیں ہے یا خدام الاحمدیہ کے پروگراموں کے اوپر پرنٹ کرنے کے لئے نہیں ہے.بلکہ خدام الاحمدیہ کی انتظامیہ کے لئے بھی ایک چیلنج ہے کہ تم اپنے مقصد میں تب ہی کامیاب ہو سکتے ہو جب تم اپنے اور اپنے ساتھیوں کے قدم روحانی اور اخلاقی ترقی کی طرف لے جارہے ہو گے.ورنہ یہ عہدے اور یہ سرگرمیاں، یہ Activities ، یہ پروگرام، یہ سب بے فائدہ ہیں.عہد یداروں کی ذمہ داری اس لئے عہدیداروں کو نیشنل عاملہ کے عہدے دار ہوں یا ریجنل عاملہ ہو یا مقامی عاملہ ہو یا مختلف دوسرے عہدے دار ہوں، ہر لیول کے عہدیداروں کے اپنے معیار بھی بلند ہونے چاہئیں تا کہ دوسرے بھی اُن سے سبق حاصل کریں.لیکن یہ نعرہ عام خادم کے لئے بھی ایک ٹارگٹ مہیا کر رہا ہے کہ تم اپنے آپ کو معمولی نہ سمجھو.تم نے اس زمانے کے امام کو مان کر ایک عہد کیا ہے اور اب اس کو پورا کرو.اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی کی طرف توجہ کرو تمہارا ہر قدم نیکی کی طرف اٹھنے والا قدم ہو.کیونکہ اب تمہاری ترقی سے تمہاری اصلاح سے جماعت کی ترقی وابستہ ہے.چھوٹی عمر کے خدام یہ نہ سمجھیں کہ ہماری عمرا بھی پندرہ سولہ سال کی عمر ہے، کھیلنے کھولنے کی عمر ہے، کچھ بڑے ہونگے تو اس طرف توجہ کر لیں گے.یہ عمر ایسی ہے جس میں پختہ اور میچور (Mature) سوچیں پیدا ہو جانی چاہیں.اس لئے ہر خادم کو اپنے مقام اور اہمیت کو سمجھنا چاہئے.اپنے عہد پورے کریں حضور انور نے خدام سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے عہد پورے کرنے اور اپنے عہد نبھانے کے بارے میں بہت زور دیا ہے.فرمایا کہ ہر عہد کے متعلق ایک نہ ایک دن جواب طلبی ہوگی، پوچھا جائے گا.اور آپ ہر اجلاس میں، اجتماع میں کئی دفعہ یہ عہد دہراتے ہیں.تو اس میں آپ دینی قومی اور ملتی مفاد کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہنے کا عہد کرتے ہیں.یہ عہد صرف منہ سے الفاظ نکالنے کے لئے نہیں ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر عہد کرتے ہیں.پس اس عہد کو پورا کرتے ہوئے دین، قوم اور ملت کے لئے اپنی اصلاح کرتے ہوئے تمام نیک اخلاق کو اپنانا چاہیے.ہر خادم کو اپنی نمازوں میں باقاعدگی اختیار کرتے

Page 142

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 124 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہوئے ، اپنے لئے ، اپنے دین کے لئے ، اپنی قوم کے لئے ، ملک کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں.سچ کو نہیں چھوڑنا پھر دوسرے اخلاق ہیں جن کو اختیار کرنے کا مومن کو حکم ہے.اس میں سب سے بڑھ کر ایک حکم جو ہے بہت ضروری حکم ہے میرے نزدیک جس پر اگر ہر خادم قائم ہو جائے تو ہر بُرائی سے بچنے اور اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.اور وہ ہے سچائی کو اختیار کرنا اور ہر حالت میں سچ کا دامن پکڑے رکھنا.گزشتہ چند سالوں میں دوسری جگہوں سے احمدی بھی آئے ہیں، پاکستان سے بھی اور یورپ سے بھی دوسرے ملکوں سے.ان میں خدام بھی ہیں اور مختلف پیشوں سے منسلک ہیں کچھ اسائکم سیکر (۲ سیکر (Asylum Seeker) بھی ہیں.تو جہاں جہاں بھی احمدی خادم ہے اُسے ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سچ کو نہیں چھوڑنا.مختلف طبقوں اور مزاجوں کے لوگ جب اکٹھے ہوں تو بعض دفعہ بظاہر چھوٹی چھوٹی بُرائیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں لیکن وہ چھوٹی نہیں ہوتیں ان کے نتائج بڑے خطرناک ہوتے ہیں.اس لئے خدام الاحمدیہ کے شعبہ تربیت کو ہر لیول پر فعال کرنے کی ضرورت ہے کہ سچ کو کسی بھی موقع پر چھوڑنا اور جھوٹ کا سہارا لینا ایک بہت بڑی بُرائی ہے جو بہت سی بُرائیوں کے پیدا ہونے کا ذریعہ بنتی ہے.جھوٹ بولنے والے کی عبادتیں بھی بریکار جاتی ہیں کیونکہ جھوٹ کو اللہ تعالیٰ کے مقابل پر رکھ رہا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پر ہیز کرو.یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے.سوجھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے.پس جھوٹ کو چھوٹی موٹی برائی نہیں سمجھنا چاہیے.جیسے بھی حالات ہوں ، اگر سچ پر قائم رہنے کی کوشش کریں گے تو اپنی اصلاح کی بھی کوشش کر رہے ہو نگے اور معاشرے کی اصلاح کی بھی کوشش کر رہے ہونگے.ترقی کے لئے محبت واتفاق ضروری ہے پھر ایک اعلیٰ خلق محبت واتفاق ہے.کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے یہ بہت ضروری ہے.بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر رنجشیں پیدا ہو جاتی ہیں اور پھر ناراضگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں.خاندان کے دوسرے لوگ بھی پھر ناراضگیوں میں شامل ہو جاتے ہیں.تو یہ کوئی بہادری نہیں ہے کہ غصہ میں آکر فورالڑائی شروع کر دی بلکہ حدیث میں ہے کہ اصل بہادر وہ ہے جو غصہ دبانے والا ہے.پھر ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت

Page 143

125 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم کے دن فرمائے گا کہ جو لوگ میری خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اُن کو میں اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دونگا.پس اپنی ناراضگیوں کو بڑھا کر اللہ کی رحمت سے دُور جانے کی بجائے آپس میں محبت اور اتفاق سے رہ کر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.قوم کی اصلاح آپ کی اصلاح سے وابستہ ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ خدام پر اپنے آپ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے.آپ پر بھی اُن کی بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ آپ کی اصلاح سے قوم کی اصلاح وابستہ ہے.اس لئے ہر پہلو میں آپ لوگوں کو احتیاط کرنی چاہیے.ہر نیکی کو تلاش کر کے اختیار کرنا چاہیے اور ہر برائی کو بیدار ہوکر ترک کرنا چاہیے.یہاں بہت سے ایسے بھی ہیں جیسا کہ میں نے کہا اسائکم کی تلاش میں آئے ہیں.دنیاوی حالات بھی بہتر ہوں اس لئے بھی آئے ہیں یا روزگار کی تلاش میں آئے ہیں.تو یاد رکھیں یہ دنیا کمانا، یہ بھی آپ کے دین کے لئے ہی ہو.دنیا داری میں اتنے نہ بڑھ جائیں کہ دل میں صرف دنیا کی محبت ہی رہ جائے اور خدا کا خانہ خالی ہو جائے.اپنی ذمہ داری کا احساس مٹ جائے.یہ نہ ہو کہ دنیا صرف آپ کی زندگی کا مقصد بن جائے بلکہ یہ بہتر حالات اور یہ بہتر سہولتیں آپ کو اللہ تعالیٰ کے مزید قریب کرنے کا باعث بنیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کی طرف لے جانے والی ہوں.احمدی طالب علم کو زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہیے حضور انور نے مزید فرمایا کہ آپ میں سے بہت سے سٹوڈنٹس بھی ہیں یہاں کا لجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں سکولوں میں پڑھ رہے ہیں جو چھوٹے خدام ہیں اُن کی شکر گزاری اس صورت میں ہوگی جب وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم پر بھی توجہ دے رہے ہونگے.اس ملک میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو موقع فراہم کیا ہے کہ جس طرح چاہیں جتنی محنت کریں اتنے ہی تعلیم کے اعلیٰ درجے حاصل کر سکتے ہیں.اس لئے بجائے اس کے کہ بنیادی تعلیم حاصل کر کے O-Levelیا A-Level زیادہ سے زیادہ کر کے کام کی تلاش شروع کر دیں اور عام معمولی کام کریں، ہر احمدی طالب علم کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہیے.ہر شعبے میں احمدی طالب علم کو آگے آنا چاہیے.عموماً احمدی بچیاں زیادہ پڑھ جاتی ہیں.ہمارے نو جوانوں کو بھی اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے.آپ کا اعلیٰ تعلیم حاصل

Page 144

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 126 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کرنا جہاں آپ کے لئے فائدہ مند ہوگا وہاں جماعت کے وقار کو بلند کرنے والا بھی ہوگا.اور آپ کی اگلی نسلوں کے اعلی علمی مستقبل کی بھی ضمانت ہوگا.یاد رکھیں یہ بھی آپ کی ایک ذمہ داری ہے ہر احمدی طالب علم کی.اُس کو ابھی سے اس بارہ میں سوچنا چاہیے.کیونکہ ایک احمدی نے علم ومعرفت کے میدان میں سب سے آگے بڑھنا ہے.ذراسی محنت کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود سے یہ وعدہ ہے کہ آپ کے فرقہ کے لوگ علم و معرفت میں ترقی کریں گے.تو اس کا بھی فائدہ اٹھانا چاہیے ہمارے ہر طالب علم کو.اور جب کوشش کریں گے تو اللہ تعالی مددفرمائے گا.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.ہر طبقے اور ہر عمر کا جو خادم ہے اپنے آپ کو ایسا وجود سمجھے کہ جس نے ہر جگہ جماعت کا نام روشن کرنا ہے اور اپنے اس عمل سے احمدیت اور ( دین حق) کی ( دعوت الی اللہ ) کا ذریعہ بنا ہے.اللہ کرے کہ ہر خادم میں یہ احساس ذمہ داری کا پیدا ہو جائے اور آپ لوگ جماعت کا ایک فعال رکن بننے والے ہوں.آمین.“ الفضل انٹر نیشنل 9 تا 15 دسمبر 2005ء)

Page 145

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 127 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ 7اکتوبر 2005ء سے اقتباس دوسروں کے عیوب تلاش نہ کریں * ایک اور روایت میں آتا ہے کہ روزہ ڈھال ہے اور آگ سے بچانے والا مضبوط قلعہ ہے.پس یہ ڈھال تو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرما دی لیکن اس کو استعمال کرنے کا طریقہ بھی آنا چاہئے.اس کے بھی کچھ لوازمات ہیں جنہیں پورا کرنا چاہئے.تبھی اس ڈھال کی حفاظت میں تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق ملے گی.یہ ڈھال اس وقت تک کارآمد رہے گی جب روزہ کے دوران ہم سب برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں گے.جھوٹ نہیں بولیں گے، غیبت نہیں کریں گے، اور ایک دوسرے کی حق تلفی نہیں کریں گے، اپنے جسم کے ہر عضو کو اس طرح سنبھال کر رکھیں گے کہ جس سے کبھی کوئی زیادتی نہ ہو.ہر ایک، ایک دوسرے کے عیب دیکھنے کی بجائے اپنے عیب تلاش کر رہا ہوگا.ایک دوسرے کی برائیاں تلاش کرنے کی بجائے اپنی برائیوں، کمیوں، کمزوریوں اور خامیوں کو ڈھونڈ رہا ہوگا.میں حیران ہوتا ہوں بعض دفعہ یہ سن کر بعض لوگ بتاتے بھی ہیں اور لکھ کر بھی بھیجتے ہیں کہ آپ کے فلاں خطبے پر مجھ سے فلاں شخص نے کہا یہ تمہارے بارے میں خطبہ آیا ہے اس لئے اپنی اصلاح کر لو.حالانکہ چاہئے تو یہ کہ ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے اور دوسرے کی آنکھ کے تنکے تلاش نہ کرے.تو جب روزوں میں اس طرح اپنے جائزے لے رہے ہوں گے ، کان، آنکھ ، زبان ، ہاتھ سے دوسرے کو نہ صرف محفوظ رکھ رہے ہوں گے بلکہ اس کی مدد کر رہے ہوں گے تو پھر روزے تقوے میں بڑھانے والے ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بے انتہا اجر پانے والے ہوں گے.پس اس لحاظ سے بھی ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے.اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے.(الفضل انٹرنیشنل 28 اکتو برتا3 نومبر 2005ء)

Page 146

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 128 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرموده 14اکتوبر 2005ء سے اقتباسات * حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پاکیزہ نمونہ زلزلہ کے موقع پر.....جب 100 سال پہلے 1905ء میں کانگڑہ کا زلزلہ آیا تو قادیان میں بھی اس کے جھٹکے لگے تھے.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں روایت میں آتا ہے کہ آپ سب گھر والوں اور دوستوں کو لے کر بڑی دیر تک نفلوں اور دعاؤں سجدوں اور رکوع میں پڑے رہے.اور روایت میں آتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بے نیازی سے سخت لرزاں و ترساں تھے.بڑا سخت خوف تھا.خشیت طاری تھی.اور پھر کہتے ہیں اس وقت بھی تھوڑے تھوڑے وقفے سے زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے رہتے تھے.اس لئے آپ کا سب خدام کو لے کر تین منزلہ عمارت میں رہنا بہتر نہیں تھا، قادیان میں جو آپ کا باغ تھا وہاں چلے گئے اور خیمے لگا کر وہاں رہے تھے.تو اس بات کو بھی ہر ایک احمدی کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہر آفت جو آتی ہے اس سے بہت زیادہ اپنے آپ کے محفوظ رہنے کے لئے بھی اور قوم کے محفوظ رہنے کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں.اور ان دعاؤں میں ، ان سجدوں میں یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اپنی ان دعاؤں میں اور ان سجدوں میں قوم کے لئے بھی دعائیں کر رہے ہوں گے، بلکہ قوم کے لئے ہی کر رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عذاب سے بچائے.ہر احمدی آفات سے پناہ مانگے اس لئے ہر احمدی کو ان آفات سے پناہ مانگنی چاہئے.اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے پناہ مانگنی چاہئے.جو دعائیں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات کے ذریعہ پہنچی ہیں وہ بھی مانگیں اور اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگیں.استغفار بھی بہت کثرت سے کرنی چاہئے.اپنی قوم کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں جیسا کہ میں نے کہا ہے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے

Page 147

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 129 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی حالت میں دعا کرنے کا جو طریق سکھایا ہے اس کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.آپ فرماتے ہیں کہ : ” جماعت کے سب لوگوں کو چاہئے اُس وقت کے زلزلے کی کیفیت کی یہ دعا آپ نے بتائی ہے کہ اپنی حالتوں کو درست کریں.توبہ واستغفار کریں اور تمام شکوک و شبہات کو دور کر کے اور اپنے دلوں کو پاک وصاف کر کے دعاؤں میں لگ جائیں اور ایسی دعا کریں کہ گویا مر ہی جائیں تا کہ خدا ان کو اپنے غضب کی ہلاکت کی موت سے بچائے.بنی اسرائیل جب گناہ کرتے تھے تو حکم ہوتا تھا کہ اپنے تئیں قتل کرو.اب اس امت مرحومہ سے وہ حکم اٹھ گیا ہے مگر یہ اس کے بجائے ہے کہ دعا ایسی کرو کہ گویا اپنے آپ کو قتل ہی کر دیا.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ دعاؤں کے یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آجکل رمضان کا بابرکت مہینہ بھی ہے اور اس میں قبولیت دعا کے بھی خاص مواقع ملتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ عطا فرمایا ہوا ہے.اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر دنیا کی ہدایت اور تباہی سے بچنے کے لئے ہر احمدی کو دعا کرنی چاہئے.اور اپنے آپ کو بھی ہر آفت سے محفوظ رکھنے کے لئے دعا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو دعا کرنے کی توفیق بھی دے اور محض اور محض اپنے فضل سے ان دعاؤں کو قبول بھی فرمائے.الفضل انٹر نیشنل 4 تا 10 نومبر 2005ء)

Page 148

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 130 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرموده 21اکتوبر 2005ء سے اقتباسات * تلاوت قرآن کریم کے سنہرے اصول اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فجر کے وقت کی تلاوت کی اہمیت بیان فرمائی ہے کہ {وَقُرْآنَ الْفَجْر } اور قرآن اور فجر کی تلاوت کو اہمیت دو.اور پھر فرمایا {اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا } (بى اسرائیل: 79) کہ یقینا فجر کو قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اس کی گواہی دی جاتی ہے.پس یہ صبح کے وقت کی تلاوتیں ہر مومن کے لئے گواہ بن رہی ہوں گی.لیکن کیا صرف پڑھ لینا ہی کافی ہے.ہماری دنیا و آخرت سنوار نے کے لئے اور ہمارے حق میں گواہی دینے کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں بلکہ جو تلاوت کی ہے اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے.تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ کوفرمایا تھا میں نے ضمنا پہلے بھی ذکر کیا تھا لیکن تفصیلی حدیث یہ ہے.آپ نے فرمایا: قرآن کریم کی تلاوت ایک ماہ میں مکمل کیا کرو.( بخاری کتاب فضائل القرآن باب في كم يقرا القرآن) تا کہ آہستہ آہستہ جب پڑھو گے، غور کرو گے، سمجھو گے تو گہرائی میں جا کر اس کے مختلف معانی تم پر ظاہر ہوں گے.لیکن جب انہوں نے کہا کہ میرے پاس وقت بھی ہے اور اس بات کی استعدا دبھی رکھتا ہوں کہ زیادہ پڑھ سکوں تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے پھر ایک ہفتہ میں ایک دور مکمل کر لیا کرو اس سے زیادہ نہیں.تو آپ صحابہ کو سمجھانا چاہتے تھے کہ صرف تلاوت کر لینا، پڑھ لینا کافی نہیں ہے.انسان جلدی جلدی پڑھنا شروع کرے تو دس گیارہ گھنٹے میں پورا قرآن پڑھ سکتا ہے لیکن اس میں سمجھ خاک بھی نہیں آئے گی.بعض تراویح پڑھنے والے حفاظ اتنا تیز پڑھتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا الفاظ پڑھ رہے ہیں.جماعت میں تو میرے خیال میں اتنا تیز پڑھنے والا شاید کوئی نہ ہو لیکن غیر از جماعت کی مساجد میں تو 18-20 منٹ میں یا زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں ایک پارہ بھی پڑھ لیتے ہیں اور دس گیارہ رکعت نفل بھی پڑھ لیتے ہیں.

Page 149

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 131 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی تو اتنی جلدی کیا خاک سمجھ آتی ہوگی؟ تلاوت کرنے کی بھی ہر ایک کی اپنی استعداد ہوتی ہے اور انداز ہوتا ہے.کوئی واضح الفاظ کے ساتھ زیادہ جلدی بھی پڑھ سکتا ہے.کچھ زیادہ آرام سے پڑھتے ہیں لیکن ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ تلاوت سمجھ کر کرو.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.{وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا } (المرز مل : 4 ) کہ قرآن کو خوب نکھار کر پڑھا کرو.اب جس نے 20-18 منٹ میں یا آدھے گھنٹے میں نماز پڑھانی ہے اور قرآن کریم کا ایک پارہ بھی ختم کرنا ہے، اس نے کیا سمجھنا ہے اور کیا نکھارنا ہے.حضور انور کا تلاوت کا طریق ایک دفعہ میں وقف عارضی پر کسی کے ساتھ گیا ہوا تھا.تو ایک دن صبح کی نماز کے بعد ہم تلاوت سے فارغ ہوئے تو وہ مجھے کہنے لگے کہ میاں تم سے مجھے ایسی امید نہیں تھی.میں سمجھا پتہ نہیں مجھ سے کیا غلطی ہوگئی.میں نے پوچھا ہوا کیا ہے.کہنے لگے کہ میں دو تین دن سے دیکھ رہا ہوں کہ تم تلاوت کرتے ہو تو بڑی ٹھہر ٹھہر کے تلاوت کرتے ہو.اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اٹکتے ہو تمہیں ٹھیک طرح قرآن کریم شریف پڑھنا نہیں آتا.تو میں نے ان کو کہا کہ اٹکتا نہیں ہوں بلکہ مجھے اسی طرح عادت پڑی ہوئی ہے.ہر ایک کا اپنا اپنا طریق ہوتا ہے.اس حدیث کا حوالہ تو نہیں پتہ تھا.قرآن کی یہ آیت میرے ذہن میں نہیں آئی.لیکن میں نے کہا مجھے تیز پڑھنا بھی آتا ہے بے شک تیز پڑھنے کا مقابلہ کر لیں لیکن بہر حال جس میں مجھے مزا آتا ہے اسی طرح میں پڑھتا ہوں ، تلاوت کرتا ہوں.تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض لوگ اپنی علمیت دکھانے کے لئے بھی سمجھتے ہیں کہ تیز پڑھنا بڑا ضروری ہے حالانکہ اللہ اور اللہ کے رسول کہہ رہے ہیں کہ سمجھ کے پڑھوتا کہ تمہیں سمجھ بھی آئے اور یہی مستحسن ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا ہر ایک کی اپنی اپنی استعداد ہے.ہر ایک کی اپنی سمجھنے کی رفتار اور اخذ کرنے کی قوت بھی ہے تو اس کے مطابق بہر حال ہونا چاہئے اور سمجھ کر قرآن کریم کی تلاوت ہونی چاہئے.قرآن کریم کا ادب بھی یہی ہے کہ اس کو سمجھ کر پڑھا جائے.اگر اچھی طرح تر جمہ آتا بھی ہو تب بھی سمجھ کر ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھنا چاہئے تاکہ ذہن اس حسین تعلیم سے مزید روشن ہو.پھر جب انسان سمجھ لے، ہر ایک کا اپنا علم ہے اور استعداد ہے جس کے مطابق وہ سمجھ رہا ہوتا ہے جیسا کہ میں نے کہا لیکن قرآن کریم کا فہم حاصل کر کے اس کو بڑھانا بھی مومن کا کام ہے.ایک جگہ ہی یہ تعلیم محدود نہیں ہو جاتی.

Page 150

132 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصه سوم تو جتنی بھی سمجھ ہے ، بعض تو بڑے واضح احکام ہیں، سمجھنے کے بعد ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.کسی بھی اچھی بات کا یا نصیحت کا فائدہ تبھی ہوسکتا ہے جب وہ نصیحت پڑھ یا سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہو گی.کیونکہ تلاوت کا ایک مطلب پیروی اور عمل کرنا بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرما دیا ہے کہ یہ قرآن میں نے تمہارے لئے ، ہر اس شخص کے لئے جو تمام نیکیوں اور اچھے اعمال کے معیار حاصل کرنا چاہتا ہے اس قرآن کریم میں یہ اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے تمام اصول اور ضابطے مہیا کر دیئے ہیں.ہر قسم کے آدمی کے لئے ، ہر قسم کی استعدا در کھنے والے کے لئے ، اور نہ صرف یہ کہ جیسا کہ میں نے کہا کسی خاص آدمی کے لئے نہیں رکھے ہیں بلکہ ہر طبقے اور ہر معیار کے آدمی کے لئے رکھے ہیں.اور اس میں ہر آدمی کے لئے نصیحت ہے وہ اپنی استعداد کے مطابق سمجھ لے.فرمایا کہ {وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مدكر (القمر: 18 ).اور یقینا ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنادیا ہے.پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا.اب یہ ہمارے پر ہے کہ ہم اس تعلیم کو کس حد تک اپنے اوپر لاگو کرتے ہیں اور اس کی تعلیمات سے نصیحت پکڑتے ہیں.قرآن کریم کو ایک مہجور کی طرح نہ چھوڑیں پس آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس رمضان میں اس نصیحت سے پر کلام کو، جیسا کہ ہمیں اس کے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے، اپنی زندگیوں پر لا گوبھی کریں.اس کے ہر حکم پر جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کریں.اور جن باتوں کی مناہی کی گئی ہے، جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے رکیں، ان سے بچیں، اور کبھی بھی ان لوگوں میں سے نہ بنیں جن کے بارے میں خود قرآن کریم میں ذکر ہے.فرمایا کہ { وَقَالَ الرَّسُوْلُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا } (الفرقان: 31) اور رسول کہے گا اے میرے رب ! یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے.یہ زمانہ اب وہی ہے جب اور بھی بہت ساری دلچسپیوں کے سامان پیدا ہو گئے ہیں.پڑھنے والی کتابیں بھی اور بہت سی آچکی ہیں.اور بہت ساری دلچسپیوں کے سامان پیدا ہو گئے ہیں.انٹرنیٹ وغیرہ ہیں جن پر ساری ساری رات یا سارا سارا دن بیٹھے رہتے ہیں.اس طرح ہے کہ نشے کی حالت ہے اور اس طرح کی اور بھی دلچسپیاں ہیں.خیالات اور نظریات اور فلسفے بہت سے پیدا ہو چکے ہیں.جو انسان کو مذہب سے دور لے

Page 151

133 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم جانے والے ہیں اور مسلمان بھی اس کی لپیٹ میں ہیں.دنیا میں سارا معاشرہ ہی ایک ہو چکا ہے.قرآنی تعلیم کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کی تعلیمات پر ہر جگہ عمل ہو رہا ہے.یہی زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے.اسی زمانے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ قرآن کو متروک چھوڑ دیا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی اس متروک شدہ تعلیم کو دنیا میں دوبارہ رائج کرنا ہے اور آپ نے یہ رائج کرنا تھا بھی اور آپ نے یہ رائج کر کے دکھایا بھی ہے.آج ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآنی تعلیم پر نہ صرف عمل کرنے والا ہو، اپنے پر لاگو کرنے والا ہو بلکہ آگے بھی پھیلائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے بڑھائے.اور کبھی بھی یہ آیت جو میں نے اوپر پڑھی ہے کسی احمدی کو اپنی لپیٹ میں نہ لے.ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فقرہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ جولوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.ہم ہمیشہ قرآن کے ہر حکم اور ہر لفظ کو عزت دینے والے ہوں.اور عزت اس وقت ہو گی جب ہم اس پر عمل کر رہے ہوں گے.اور جب ہم اس طرح کر رہے ہوں گے تو قرآن کریم ہمیں ہر پریشانی سے نجات دلانے والا اور ہمارے لئے رحمت کی چھتری ہوگا.جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ {وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا يَزِيدُ الظَّلِمِيْنَ إِلَّا خَسَارًا } (بنی اسرائیل : 83).اور ہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا اور کسی چیز میں نہیں بڑھا تا.الفضل انٹر نیشنل 11 تا 17 نومبر 2005ء)

Page 152

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 134 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ عید فرموده 4 نومبر 2005ء سے اقتباسات * وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهِ شَيْئًا وَّ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتْمَى وَالْمَسْكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا﴾ (سورة النساء : 37) نماز کا چھوڑنا شرک کے قریب کر دیتا ہے پہلی بات جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور نہ صرف عبادت کرنی ہے بلکہ شرک سے پاک عبادت ہو.دنیاوی مسائل اور مجبوریاں اور دوسری بعض دلچسپیاں جو ہیں عبادت کے وقتوں سے آگے پیچھے کرنے والی نہ ہو جائیں.ورنہ یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے جو ایک انسان کے اندر ہوتا ہے.ایک حدیث میں آتا ہے حضرت جابر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو کفر اور شرک کے قریب کر دیتا ہے.پس ہم میں سے ہر ایک کو ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے ، اس بات کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ میں نماز میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی کرنے والا تو نہیں.والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں والدین کے ساتھ احسان کرو لیکن احسان کے لفظ سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میں اس احسان کا بدلہ اتار رہا ہوں جو انہوں نے بچپن میں مجھ پر کیا ہے.اس احسان کا مطلب ہے کہ ان سے ہمیشہ اچھا سلوک کرو.دوسری جگہ فرمایا ہے کہ {فَلَا تَقُل لَّهُمَا اُتِ } (بنی اسرائیل :24) یعنی کبھی بھی کسی بات پر بھی، ناپسندیدگی پر بھی ان کو اُف نہ کہنا.احسان جتانے والا تو احسان جتا دیتا ہے.یہاں فرمایا کہ احسان جتانا تو ایک طرف رہا تم نے اُف بھی نہیں کہنا.ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے تین دفعہ یہ الفاظ دہرائے کہ ”مٹی میں ملے اس کی ناک“،

Page 153

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 135 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی دومٹی میں ملے اس کی ناک“.صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ کس کی ناک مٹی میں ملے ، کون شخص قابل مذمت اور بد قسمت ہے.آپ نے فرمایا: ” وہ شخص جس نے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوا.انسان اپنے ماں باپ کے احسان کا جو انہوں نے اس پر بچپن میں کئے ہیں، کا بدلہ اتا رہی نہیں سکتا.اس لئے قرآن کریم نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے، اولا د کو یہ دعا سکھائی ہے کہ والدین کے لئے دعا کرو کہ {وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا } بنی اسرائیل : 25 ) کہ اے میرے رب ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی.والدین کے لئے یہ جو دعا ہے، یہ دعا کے ساتھ ساتھ بچپن میں والدین کے بچوں پر جو احسان ہوتے ہیں اُن کی بھی یاد دلاتی ہے کہ انسان احسان یاد کر کے دعا کر رہا ہوتا ہے.قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی کریں پھر فرمایا کہ قریبی رشتہ داروں سے بھی شفقت اور احسان کا سلوک کرو.ایک حدیث میں آتا ہے آنحضرت نے فرمایا کہ جو شخص رزق کی فراخی چاہتا ہے یا خواہش رکھتا ہے کہ اس کی عمر اور ذکر خیر زیادہ ہو، لوگ اس کو اچھا سمجھیں.اسے صلہ رحمی کا خلق اختیار کرنا چاہئے.رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے.قریبی رشتہ داروں میں، رحمی رشتہ داروں میں، جہاں ماں باپ کے سگے رشتے ہیں یا اپنے سگے رشتے ہیں وہاں بیوی کی طرف سے بھی سگے رشتے ہوتے ہیں.تو فرمایا کہ ان قریبی رشتوں کا خیال رکھو.اُن کے حقوق ادا کرو بلکہ ان سے احسان کا سلوک کرو.اگر کوئی تکلیف دے تب بھی اس سے نیک سلوک کرنے سے ہاتھ نہیں کھینچنا.ایک صحابی نے آنحضرت کی خدمت میں عرض کی کہ میں اپنے رشتہ داروں سے بنا کر رکھوں تب بھی وہ تعلق توڑتے ہیں.حسن سلوک کروں تو بدسلوکی سے پیش آتے ہیں.نرمی کروں تو جہالت سے پیش آتے ہیں.آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ پھر یہ حسن سلوک نہ کرو.آپ نے فرمایا کہ جو تو کہ رہا ہے اگر سچ ہے تو ان پر تیرا احسان ہے.اور جب تک تو اس حالت میں ہے اللہ ان کے خلاف تیری مدد کرتا رہے گا.ان کی بدسلوکیاں تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی.اللہ کا فضل حاصل ہوتا رہے گا.تم نیکی کرتے جاؤ.پس رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے رہنا چاہئے.رمضان کے دنوں میں دل نرم ہوتے ہیں.انسان رشتہ داروں سے بہتر سلوک کرنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ بعض دفعہ احسان کے رنگ میں بھی سلوک کر رہا ہوتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے

Page 154

136 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم فرمایا کہ یہ رنگ جاری رکھو اور جب اللہ تعالیٰ کی خاطر یہ احسان کر رہے ہو گے تو اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرے گا.ہو سکتا ہے اس سلوک کی وجہ سے ہی اُن کی اصلاح ہو جائے.ایک خاندان تمہارے حسن سلوک کی وجہ سے ہی راہ راست پر آ جائے.وہ بھی اپنے اندر تبدیلی پیدا کر لے.اگر نہیں تو کم از کم جیسا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کر رہے ہو گے، اس کا فضل حاصل کر رہے ہو گے.یتامی سے احسان کا سلوک کریں...یتیموں سے بھی احسان کا سلوک کرو.یتیم بھی معاشرے کا ایک ایسا حصہ ہیں جن کی مدد کرنا ہر ایک کا فرض ہے.ان کو معاشرے کا فعال حصہ بنانا چاہئے.آنحضرت نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے آپ نے اپنی انگلیاں سامنے کر کے دکھا ئیں.تو یہ کہتے ہوئے آپ نے انگلیاں ذرا سا فاصلہ دے کر جیسا کہ میں نے کہا ر کھیں.(اس موقع پر حضور انور نے بھی اپنی انگلیوں سے ایسے ہی کر کے دکھایا ).تو یہ ہے یتیم کی پرورش کرنے والے کا مقام.جیسا کہ میں نے کہا رمضان کے دنوں میں عموماً دل نرم ہوئے ہوتے ہیں.اس لئے اس طرف بھی توجہ ہوتی ہے.گزشتہ دنوں پاکستان میں جو ایک خوفناک زلزلہ آیا، جس سے بہت سارے بچے یتیم ہو گئے ، کئی لوگوں نے مجھے لکھا کہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ بچے اپنا لیں، ہم پیشکش کرتے ہیں کہ اتنے بچے سنبھالیں گے.بہر حال وہ تو حکومت کی پالیسی ہے، کیا بنتی ہے.لیکن کچھ تازہ تازہ واقعہ کی وجہ سے، کچھ رمضان کی وجہ سے، عبادتوں کی وجہ سے ، اس طرف توجہ بھی تھی تو اگر لے نہیں سکتے تو کم از کم مستقل توجہ دینی چاہئے.جماعت میں قیموں کی پرورش کا نظام رائج ہے اس میں اللہ کے فضل سے لوگ رقمیں جمع کرواتے ہیں.تو جن کو اس نیکی کی توفیق ہے کہ وہ اس پرورش کے لئے دے سکیں ان کو اب اس میں با قاعدگی اختیار کرنی چاہئے.بعض اور ادارے بھی ہیں اگر قابل اعتبار ہوں تو وہاں بھی رقمیں دی جاسکتی ہیں.دنیا میں ہر جگہ جماعت میں بہت سے قیموں کی پرورش کی جاتی ہے.تو یہ جاری نیکیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی ہوتی ہیں.مساکین سے شفقت اور احسان کریں پھر فرمایا مسکینوں سے بھی احسان اور شفقت کا سلوک کرو.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ اگرتو چاہتا ہے کہ تیرا دل نرم ہو جائے تو مساکین کوکھانا کھا اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھے.اب یہ عید کا دن

Page 155

137 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم بھی آپ کو اس نیکی کے بجالانے والا ، اس طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے جو نیکی آپ نے رمضان میں غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلا کر ان کے روزے کا سامان کر کے کی تھی.رمضان میں تو بہت سے دل نرم ہو جاتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا غریبوں کا، ضرورت مندوں کا ، روزہ رکھنے والوں کا خیال رکھنے والے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں.جماعت میں تو ایسے نہیں لیکن دوسروں میں ایسے بھی ہیں جو خود چاہے عبادت کریں یا نہ کریں، روزے رکھیں نہ رکھیں، قرآن پڑھیں نہ پڑھیں لیکن عموماً دوسرے مذاہب والوں کو بھی کم از کم اس نیکی کا خیال آ جاتا ہے.تو عید کے دنوں میں بھی مسکینوں کی خوشیوں میں شامل ہونا چاہئے.غریبوں کی خوشیوں میں بھی شامل ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے {وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا ويَتِيماً و أَسِيرًا } (الدهر : 9) اور وہ کھانے کو اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے بھی مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں.تو اپنی ضروریات کے ہوتے ہوئے بھی اپنے مال میں سے خرچ کر کے مسکینوں یتیموں کا خیال رکھنا نیکی ہے کیونکہ یہ نیکی خدا کی خاطر کی جارہی ہوتی ہے.پس جس طرح گزشتہ دنوں میں اس نیکی کے کرنے کی توفیق ملی تھی ، اب بھی یہ نیکی جاری رہنی چاہئے.عید اور باقی خوشیوں میں بھی محتاجوں کو یا درکھیں اور اس عید کی خوشی میں تو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے.جماعت تو حتی الوسع ضرورت مندوں کو عید کے دن ضروریات مہیا کرتی ہے، ان کا خیال رکھتی ہے.کچھ نہ کچھ انتظام ہوتا ہے اور اللہ کے فضل سے صاحب حیثیت اس میں رقوم بھی بلکہ بعض اچھی رقوم بھجواتے ہیں.لیکن انفرادی طور پر بھی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس نیکی کو جاری کرے اور صرف اس عید پر ہی یہ خیال نہ رکھے بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ ایسا ذریعہ اختیار کرنا چاہئے کہ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری ہوتی رہے.اور جن کو مدد دے کر پاؤں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے، ان کو کھڑا کیا جائے.پھر عید کے علاوہ بھی بعض خوشیاں ہیں، شادیاں ہیں، بیاہ ہیں.ضرورتمندوں کی شادی کروانا بھی بہت ثواب کا کام ہے.اس کے لئے جماعت میں ایک فنڈ قائم ہے.حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی جو سکیم ہے مریم شادی فنڈ اس میں بھی رقم دی جاسکتی ہے.حضرت مسیح موعود نے اس ہمدردی کو اس حد تک لے جانے کی اپنی جماعت کو تلقین کی ہے اور خواہش ظاہر کی ہے.آپ نے فرمایا کہ تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو.یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کر و اور بلا تمیز ہر ایک

Page 156

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 138 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے.ہمسایوں سے نیک سلوک کریں...پھر ہمسایوں سے چاہے ان کو جانتے ہو یا نہیں جانتے نیک سلوک کرو.اس کا حکم ہے.عموماً رمضان میں نیکیاں کرنے کی طرف طبیعت ذرا مائل ہوتی ہے.بہت سے آپس کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں.تو اس نیکی کو عید کے دن خاص طور پر پہلے سے بڑھ کر جاری کرنا چاہئے اور پھر اس نیکی کو مستقل اپنا لینا چاہئے.جو تعلقات ٹوٹے ہوئے ہیں، بگڑے ہوئے ہیں ان کو بحال کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود نے جو ہمسائے کی تعریف کی ہے وہ اتنی وسیع ہے کہ آپ کی تعریف کے مطابق کوئی اس سے باہر رہ ہی نہیں سکتا.فرمایا کہ سوکوس تک یعنی سو میل تک بھی تمہارے ہمسائے ہیں.اس لحاظ سے تو کوئی بھی کسی احمدی سے بے فیض نہیں رہ سکتا.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں میں سے وہ ساتھی اچھا ہے جو اپنے ساتھیوں کے لئے اچھا ہے.اور پڑوسیوں میں سے وہ پڑوسی اچھا ہے جو اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرے.کسی نے پوچھا کہ مجھے کس طرح پتہ چلے کہ میں اچھا پڑوی ہوں یا نہیں.تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہارے پڑوسی تمہاری تعریف کریں تو سمجھ لو کہ تم اچھے پڑوسی ہو.اگر وہ تمہاری برائیاں کر رہے ہوں تو پھر سمجھ لو کہ تم برے پڑوسی ہو.عورتیں پڑوسیوں سے حقارت آمیز سلوک نہ کریں پھر آپ نے خاص طور پر عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ کوئی عورت اپنی پڑوسن سے حقارت آمیز سلوک نہ کرے.اب یہ عورتوں کا خاص ذکر کیوں ہے؟ یہ بھی اس لئے کہ عورتوں میں عموماً تفاخر اور تکبر زیادہ ہوتا ہے.اپنی نیکی یا پیسے یا اور چیز جو پاس ہو اور دوسرے کے پاس نہ ہواس کا اظہار زیادہ ہوتا ہے.مثلاً زیور کپڑے وغیرہ ہی ہیں.فرمایا کہ: عورتیں دوسری عورتوں پر جو ان سے مالی لحاظ سے کمزور ہیں ان سے حقارت آمیز سلوک نہ کریں.بلکہ اپنے اس رویے کو بہتر کرنے کے لئے تھے بھیجو، چاہے چھوٹی سے چھوٹی سے چیز ہی ہو.حدیث میں ہے چاہے بکری کا پایہ ہی ہو.اس سے تمہارے اندر دوسرے کے لئے حقارت کا جذبہ بھی کم ہوگا.تم بھی دین میں اس کو اپنی بہن سمجھو گی.تمہارے دل میں انسانیت کے ناطے اس کے لئے ایک عزت قائم ہوگی

Page 157

مشعل راه جلد پنجم حصه سوم 139 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ انسانیت کے ناطے احترام قائم ہوگا.پس یہ عید عورتوں کو بھی خاص طور پر اپنی بہنوں سے، اپنی پڑوسنوں سے، محلے والیوں سے پیار محبت سے منانی چاہئے.اور پھر اس نیکی کو جاری رکھنا چاہئے.یہی نیکیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی ہیں.اردگرد کے لوگوں سے نیک سلوک کریں پھر فرمایا کہ اپنے ساتھ بیٹھنے والوں، اپنے ساتھیوں، اپنے ساتھ دفتر میں کام کرنے والوں بلکہ جوسفر میں اکٹھے ہوں ان سے بھی نیک سلوک کرو.اس سے جہاں نیک سلوک کرنے والے کے اخلاق بہتر ہورہے ہوں گے.وہاں وہ اللہ تعالیٰ سے ثواب بھی حاصل کر رہا ہوگا اور پھر ایک احمدی کے لئے تو اس طرح ( دعوت الی اللہ ) کے راستے مزید کھل رہے ہوں گے.اب عید کے دن ہیں مختلف لوگوں کے دفتر میں کام کرنے والی جگہوں پر، ہمسائے وغیرہ ہیں، ان مغربی ممالک میں اگر ایسے ہمسایوں کو عید کے حوالے سے تحفے وغیرہ بھجوائے جائیں، چاہے چھوٹی سی کوئی چیز ہو، چاہے مٹھائی وغیرہ یا کچھ اس قسم کی چیز.اور پھر اس طرح تعارف بڑھائیں اور ذاتی تعلق قائم ہوں تو دعوت الی اللہ بھی کر رہے ہوں گے.اب یہیں UK میں مثلاً اگر دو ہزار گھر ہیں احمدیوں کے، شاید اس سے زیادہ ہوں گے.وہ اپنے ہمسایوں کو یا اپنے کام کرنے کی جگہ کے ساتھیوں کو کوئی چھوٹا ساتحفہ ہی بھیجیں.حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ سوکوس تک ہمسائیگی ہے تو سوکوس نہ سہی اگر پانچ چھ گھر تک بھی جاری رکھیں اور ایک دو کام کرنے والی جگہوں کے ساتھیوں کو چن لیں تو دس سے پندرہ ہزار گھروں تک ایک تعارف حاصل ہو جاتا ہے.اس حوالے سے پھر احمدیت کی (دعوت الی اللہ ) کی طرف رستے کھلتے ہیں.ذاتی رابطے جو ہیں یہی کارآمد ہوتے ہیں.پھر یہ تعداد بڑھ سکتی ہے.اسی طرح باقی دنیا کے ممالک ہیں.مغربی ممالک میں خاص طور پر آپ ایسے رابطے کریں جہاں آپ خوشیاں منا رہے ہوں گے وہاں دعوت الی اللہ کا حق بھی ادا کر رہے ہوں گے اس کے بھی میدان حاصل کر رہے ہوں گے.کچھ لوگ اس طرح کرتے بھی ہوں گے.میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی نہیں کرتا لیکن اگر با قاعدہ بڑی تعداد میں اس طرف توجہ دی جائے تو تعارف بہت بڑھ سکتا ہے.محلے میں، علاقے میں جو اسلام کے خلاف بعض دفعہ اظہار ہورہا ہوتا ہے، مسلمانوں کے خلاف اظہار ہو رہا ہوتا ہے، ایشین سوسائٹی کے خلاف اظہار ہورہا ہوتا ہے.تو چاہے وہ ایشین ہوں، افریقن ہوں، یورپین ہوں ، جب آپس میں اس طرح تعلقات بڑھائیں گے اور احمدی کی حیثیت

Page 158

140 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم سے بڑھا ئیں گے تو ہر جگہ ایک احمدی کا تصور ابھر رہا ہو گا.اور جہاں کہیں بھی ایسی باتیں ہوں گی اس تعلق کی وجہ سے اور ایک دوسرے سے ہمدردی کی وجہ سے انہیں لوگوں میں سے ایسے لوگ ان محلوں میں، جگہوں میں، علاقوں میں پیدا ہو جائیں گے جو آپ کی طرف داری کر رہے ہوں گے، آپ کے ساتھ ہمدردی کر رہے ہوں گے اور آپ کی طرف سے جواب دے رہے ہوں گے.ماتحتوں سے ہمدردی اور احسان کریں پھر حکم ہے کہ جو تمہارے ماتحت ہیں جو تمہارے ملازم ہیں جو مالی حیثیت میں کم طبقہ ہے تمہارے زیر نگیں ہیں ان کا بھی خیال رکھو.ان سے بھی ہمدردی اور احسان کا سلوک کرو.تو یہ نیکیاں جو تم کر رہے ہو گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہو گے.اس عاجزی اور نیکی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے ہو گے.پس ابھی رمضان کے بعد ہر ایک کے دل میں تازہ تازہ عبادتوں اور نیکیوں کا اثر قائم ہے اس کو ہمیشہ تازہ رکھیں اور عید کے دن سے ہی تازہ رکھیں.نمازوں میں، تلاوت قرآن کریم میں ، اعلیٰ اخلاق میں کبھی کمی نہ آنے دیں.اصل نیکی یہ ہے کہ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھیں اور صرف اپنے حقوق پر زور نہ دیں.کیونکہ بڑی نیکی یہی ہے کہ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھا جائے نہ کہ اپنے حقوق کا خیال رکھا جائے.بلکہ کوشش یہ ہو کہ اپنے ذمہ کسی کا حق نہ رہے.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہونا چاہئے کہ صرف اپنے غموں کو ہی نہ روتے رہیں ، اپنی تکلیفوں اور پریشانیوں کو ہی نہ روتے رہیں، بلکہ دوسروں کے غموں دکھوں اور تکلیفوں کو بھی محسوس کریں.جب ہم اس طرح کر رہے ہوں گے تو نہ صرف یہ ایک دن کی عید منا رہے ہوں گے بلکہ ہمارا ہر دن الفضل انٹر نیشنل 25 نومبر تا یکم دسمبر 2005ء) روز عید ہوگا.

Page 159

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 141 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرموده 11 نومبر 2005ء سے اقتباس * يبَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْا تِكُمْ وَرِيْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ.ذلِكَ مِنْ ايَتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ (سورة الاعراف (27) بنِي آدَمَ خُذُوا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلّ مَسْجِدٍ وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (سورة الاعراف: 32) کھانے پینے میں اسراف سے بچیں اسی آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے.زینت اور لباس تقوی کے ذکر کے بعد فرمایا کہ کھاؤ اور بیولیکن حد سے تجاوز نہ کرو.ایک تو اس کا یہ مطلب ہے کہ کیونکہ خوراک کا بھی انسانی ذہن پر اثر پڑتا ہے طبیعت پر اثر پڑتا ہے.خیالات میں سوچوں پر اثر پڑتا ہے اس لئے پاکیزہ ،صاف اور حلال غذا کھاؤ تا کہ کسی بھی لحاظ سے تمہارے سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو تمہیں تقویٰ سے دور لے جانے والا ہو.جن چیزوں کے کھانے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان کے کھانے سے رک جاؤ.جن چیزوں کے پینے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان کے پینے سے رک جاؤ.کیونکہ ان کا کھانا اور پینا اس حکم کے تحت نا جائز ہے.اگر کھاؤ پیو گے تو اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرو گے.اسراف کا ایک مطلب گھن لگنا بھی ہے.آج کل دیکھ لیں بہت سی بیماریاں جو پیدا ہو رہی ہیں اس خوراک کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں.ٹھیک ہے اور بہت سے عوامل بھی ہیں لیکن جب علاج ہورہا ہوتو ڈاکٹروں کی تان دوائیوں کے علاوہ خوراک پہ بعض دفعہ آ کے ٹوٹتی ہے.اور اس زمانے میں جبکہ انسان بہت زیادہ تن آسان ہو گیا ہے سنتی اور آرام کی اتنی زیادہ عادت پڑ گئی ہے یہ خوراک ہی ہے جو کئی بیماریاں پیدا کرتی ہے.یہاں یورپ میں بھی کہتے ہیں کہ جو برگر وغیرہ زیادہ کھانے والے لوگ ہیں ان کو انتڑیوں کی بعض

Page 160

مشعل راه جلد پنجم حصه سوم 142 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بیماریاں ہو جاتی ہیں.پھر چاکلیٹ کھانے والے بچوں کو کہتے ہیں کہ زیادہ چاکلیٹ نہ کھاؤ دانت خراب ہو جاتے ہیں، کیڑا لگ جاتا ہے.اور جب انسان پہ بیماریاں آجائیں تو پھر یکسوئی سے عبادت بھی نہیں ہو سکتی.اس لئے حکم ہے کہ مومن کو بھوک چھوڑ کر اور اعتدال سے کھانا چاہئے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: مومن ایک آنت سے کھاتا ہے جبکہ کافرسات آنتوں سے کھاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض دوسری چیزیں مثلاً شراب وغیرہ اور دوسری نشہ آور چیزیں جو استعمال کرتے ہیں ان کا بھی اسی وجہ سے مذہب سے کوئی تعلق نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ سے بھی دور چلے جاتے ہیں.تو اس لئے فرمایا کہ کھانے پینے میں حدود سے تجاوز نہ کرو ورنہ ایسی قباحتیں پیدا ہوں گی، ایسی حالت پیدا ہوگی، ایسی تکلیفیں ہوں گی جو گھن کی طرح تمہاری صحت کو کھالیں گی اور نیکیوں، عبادتوں سے محروم ہو جاؤ گے...الفضل انٹر نیشنل 2 تا 8 دسمبر 2005ء)

Page 161

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 143 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرموده 18 نومبر 2005ء سے اقتباسات * أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِيْنَ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيْمِ.وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَ هُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (الشعراء: 182-184) ماپ تول میں کمی ڈاکہ مارنے کے مترادف ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی حضرت شعیب کی قوم کا ذکر کیا ہے ان کو یہ نصیحت فرمائی کہ ماپ تول پورا دیا کرو کم تولنے کے لئے ڈنڈی مارنے کے طریقے اختیار نہ کرو کیونکہ تمہاری یہ بدنیتی ملک میں فساد اور بدامنی پھیلانے کا باعث بنے گی.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں یہ بھی اسی مضمون کی ہیں.ان کا ترجمہ ہے کہ پورا پورا ماپ تو لو اور ان میں سے نہ بنو جو کم کر کے دیتے ہیں.اور سیدھی ڈنڈی سے تو لا کرو.اور لوگوں کے مال ان کو کم کر کے نہ دیا کرو.اور زمین میں فسادی بن کر بدامنی نہ پھیلاتے پھرو.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: اور کسی طور سے لوگوں کو ان کے مال کا نقصان نہ پہنچاؤ اور فساد کی نیت سے زمین پر مت پھرا کرو.یعنی اس نیت سے کہ چوری کریں یا ڈاکہ ماریں یا کسی کی جیب کتریں یا کسی اور ناجائز طریق سے بیگانہ مال پر قبضہ کریں.تقریر جلسہ مذاہب.بحوالہ تفسیر بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الشعراءزیر آیت 184) تو یہ ماپ تول پورا نہ کرنا یا ڈنڈی مارنا، دیتے ہوئے مال تھوڑا تول کر دینا اور لیتے ہوئے زیادہ لینے کوشش کرنا یہ تمام باتیں چوری اور ڈاکے ڈالنے کے برابر ہیں.اس لئے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ کوئی بات نہیں تھوڑ اسا کاروباری دھوکہ ہے کوئی ایسا بڑا گناہ نہیں.بڑے واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ خبر دار رہو، ہن لو کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے.

Page 162

144 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصه سوم پھر بعض لوگ دوسرے کے مال پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی بات نہیں اس کو تو پتہ نہیں چل رہا کہ فلاں چیز کی کیا قدر ہے ، اس کو دھوکے سے بیوقوف بنا لو کوئی فرق نہیں پڑتا.کچھ اپنی جیب میں ڈال لو، کچھ اصل مالک کو دے دو.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ بات یہ عمل بھی اسی زمرے میں آتے ہیں جو فساد پیدا کرنے والے عمل ہیں.اس قسم کے لوگ جو اس طرح کا مال کھانے والے ہوتے ہیں یہ لوگ دوسروں کے مال کھا کر آپس میں لڑائی جھگڑوں اور فساد کا باعث بن رہے ہوتے ہیں.دوسرے فریق کو جب پتہ چلتا ہے کہ اس طرح میرا مال کھایا گیا تو ان کے خلاف کارروائی کرتا ہے اور اس طرح آپس کے تعلقات میں دراڑیں پڑتی ہیں.تعلقات خراب ہوتے ہیں، مقدمے بازیاں ہوتی ہیں.دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی ہیں.لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں.اور اگر دوسرا فریق صبر کرنے والا ہو، حوصلہ دکھانے والا ہو تو پھر تو بچت ہو جاتی ہے ورنہ جیسا کہ میں نے بیان کیا یہ لڑائی جھگڑے، فساد، فتنہ یہی صورتحال سامنے آتی ہے.اور روزمرہ ہم ان باتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں.ماپ تول میں کمی والا فسادی اور فتنہ پرداز بن جاتا ہے پھر لوگوں کا مال کھانے والا ، کم تول کرنے والا اس حرام مال کی وجہ سے جو وہ کھارہا ہوتا ہے طبعا فسادی اور فتنہ پرداز بن جاتا ہے.دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے والا نہیں ہوتا.نیکی اور امن کی بات کی اس سے توقع نہیں کی جاسکتی.اس کی ہر بات اور ہر کام میں سے برکت اٹھ جاتی ہے.اور یہ کاروباری بددیانتی یا کسی بھی وجہ سے دوسرے کا مال کھانا یہ ایسے فعل ہیں جن کی وجہ سے جیسا کہ اس آیت میں آیا کہ فساد نہ کرو، پہلی قوموں پر تباہی بھی آئی ہے، یہ بھی ایک وجہ تباہیوں کی بنتی رہی ہے.تو یہ واقعات جو قرآن کریم میں ہمیں بتائے گئے ہیں صرف ان پرانے لوگوں کے قصے کے طور پر نہیں تھے بلکہ یہ سبق ہیں آئندہ آنے والوں کے لئے بھی کہ دیکھو اللہ تعالیٰ سے کسی کی رشتہ داری نہیں ہے.اگر اس تعلیم سے دور ہٹو گے تو اس کے عذاب کے مورد بنو گے.ورنہ پہلی قومیں بھی یہ سوال کر سکتی ہیں کہ ہماری ان غلطیوں کی وجہ سے تو ہمیں عذاب نے پکڑا لیکن بعد میں آنے والے بھی یہی گناہ کرتے رہے اور آزادانہ پھرتے رہے اور عیش کرتے رہے.یہ ٹھیک ہے اللہ تعالی مالک ہے جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا دے لیکن جن واقعات کی خدا تعالیٰ نے خود اطلاع دے دی، یہ اطلاع اس لئے ہے کہ پہلی قوموں میں یہ یہ برائیاں تھیں جن کی وجہ سے ان کو یہ

Page 163

مشعل راه جلد پنجم حصه سوم 145 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سزائیں ملیں ہم اگر سزا سے بچنا چاہتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو اور ان فساد کی باتوں سے رک...اللہ کی پکڑ اب بھی آ رہی ہے.پس آج یہ پیغام ہمیں ہر اس شخص تک اور ہر اس قوم کے لیڈروں تک پہنچانا چاہئے اور ہر اس قوم تک پہنچانا چاہئے جوان تجارتی دھو کے بازیوں میں مبتلا ہیں کہ تم ان دھوکوں سے امن اور اپنی بالا دستی حاصل نہیں کر سکتے ، اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر ایمان لانا ضروری ہے ورنہ پرانی قوموں کی تباہیاں تمہارے سامنے ہیں.یہ عذاب جنہوں نے پہلی قوموں کو تباہ کیا اب بھی آ سکتے ہیں.اگر ہوش کی آنکھ ہو تو دیکھیں کہ آ رہے ہیں.دنیا میں ہر جگہ جو آفتیں اور تباہیاں آ رہی ہیں امریکہ میں بھی، ایشیا میں بھی اور دوسری جگہوں میں بھی اور اب موسم کی سختیوں کے بارے میں بھی پیشگوئیاں کی جارہی ہیں تو ان آفتوں کی وجہ بہت ساری برائیاں جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں.تو ان سے بچنے کا ایک ہی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرو.ہر احمدی کو یہ پیغام اپنے اپنے دائرے میں اور اپنے حلقے میں پہنچانا چاہئے ، قرآن کریم کے اندار کو سامنے رکھنا چاہئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کو پیش کرنا چاہئے.مسلمانوں کی تجارتیں نہ پھیلنے کی وجہ مسلمانوں کو بھی سمجھانا چاہیئے کہ سب سے اول یہ حکم تمہارے لئے ہے کہ اس تعلیم پر عمل کرو.کیونکہ ہمارے مسلمان ملکوں میں سے جس کسی کا بس چلتا ہے انفرادی طور پر ماپ تول اور لین دین میں تقریباً سبھی ڈنڈی مارنے والے ہیں، دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں.عیسائی مغربی ممالک کم از کم چھوٹی اور انفرادی تجارت میں کافی حد تک ایمانداری سے اپنی چیزیں بیچتے ہیں اور لین دین کرتے ہیں اور عموماً اسی اعتماد پر ان سب کے کاروبار بھی چل رہے ہوتے ہیں.لیکن مسلمان ملکوں میں اس کی بہت زیادہ کمی ہے.کئی ملکوں سے تجارت ہوتی ہے اور مغربی ممالک سے بڑے بڑے آرڈر ملتے ہیں.لیکن آہستہ آہستہ بعض کا روباری مسلمان بھائی کاروبار میچ نہیں رکھتے اور دھوکے کی وجہ ہے وہ تجارتیں بجائے پھیلنے کے کم ہوتی چلی جاتی ہیں.اور سمجھتے یہ ہیں کہ ہم نے دوسرے کو دھوکہ دے کر تیر مار لیا.جبکہ بعد میں وہ نقصان اٹھا رہے ہوتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو انذار فرمایا ہے یعنی جو اس کا علم رکھنے والے اور اس کتاب کو ماننے والے ہیں کہ یہ سب سے زیادہ اس کے نیچے آتے ہیں.اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان بحیثیت قوم ترقی نہیں کر پا رہے.کیونکہ ہمیں تو اللہ

Page 164

مشعل را و جلد پنجم حصہ سوم 146 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے بڑا واضح طور پر کھول کر ان پرانی قوموں کے واقعات بتائے ہیں اور احکامات بھی دیئے ہیں کہ یہ یہ باتیں تم نے نہیں کرنی اور یہ یہ کرتی ہیں.اس لئے ہم بہر حال جب تک اس پر عمل نہیں کرتے ، ترقی نہیں کر سکتے.دوسروں کو تو ڈھیل زیادہ لمبا عرصہ ہوسکتی ہے لیکن مسلمانوں کو نہیں.پس آج دنیا کو ہر مصیبت ، آفت اور پریشانی سے بچانے کے لئے ہر قسم کے اعلیٰ خلق پر عمل اور اس کی ( دعوت الی اللہ ) کرنا ہر احمدی کا فرض ہے.اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے کیا اسوہ قائم فرمایا.کس طرح آپ تجارت اور لین دین اور اس کے معاہدے کیا کرتے تھے، کس طرح اپنے عہد پورے کیا کرتے تھے، کس طرح قرضے اتارا کرتے تھے آپ نے اپنی امت کو بھی نصیحتیں فرمائیں کہ کس طرح لین دین کیا کرو.اور یہ سب تعلیم آپ نے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق دی...امانتوں میں خیانت کرنے والا مومن نہیں پھر ہمیں آپس کے لین دین کے بارے میں امانتوں کی ادائیگی کے بارے میں آپ تنصیحت فرماتے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی تمہارے پاس کوئی چیز امانت کے طور پر رکھتا ہے اس کی امانت اسے لوٹا دو اور اس شخص سے بھی ہر گز خیانت سے پیش نہ آؤ جو تم سے خیانت سے پیش آچکا ہے.(ابوداؤد کتاب البیوع - باب في الرجل يا خذ حق......پھر صرف یہی نہیں کہ امانت لوٹا دو بلکہ فرمایا کہ وہ شخص مومن ہی نہیں کہلا سکتا جو امانتوں میں خیانت کرتا ہے، جو دوسروں کے حق مارتا ہے، جو کسی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے، جو اپنے عہد کو صحیح طور پر نہیں نبھاتا.اس بارے میں ایک اور روایت ہے.حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطاب کرتے ہوئے ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ لَا إِيْمَانَ لِمَنْ لَّا أَمَانَةَ لَهُ وَلَا دِيْنِ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ یعنی جو شخص امانت کا لحاظ نہیں رکھتا اس کا ایمان کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کا پاس نہیں رکھتا اس کا کوئی دین نہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 135 مطبوعہ بیروت) اب امانت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ کسی نے کوئی چیز یار تم کسی کے پاس رکھوائی تو وہ اس طرح واپس کر دی.یہ تو ہے ہی لیکن کوئی بھی شخص جو بھی کام کر رہا ہے اگر وہ اس کا حق ادا نہیں کر رہا، چاہے کام میں ستی

Page 165

147 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم کر کے حق ادا نہیں ہورہایا کاروباری آدمی کا اپنے کاروبار میں دوسرے کو دھو کے دینے کی وجہ سے اس سے انصاف نہیں ہو رہا، حق ادا نہیں ہو رہا تو یہ خیانت ہے کیونکہ کاروبار میں، لین دین میں مثلاً اگر کسی نے کسی دوسرے پر اعتبار کیا ہے تو اس کو امین سمجھ کر ہی اس کو امانتدار سمجھ کر ہی اس سے کاروبار یا لین دین کا معاہدہ کیا ہے.اگر اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے تو یہ خیانت ہے.پھر ہمارے ملکوں میں سودے ہوتے ہیں.لوگ چیزیں بیچتے ہیں تو اس میں ملاوٹ کر دیتے ہیں.یہ خیانت ہے.امانت کا صحیح طرح حق ادا کرنا نہیں ہے، کسی کا حق مارنا ہے.تو یہ سب باتیں ایسی ہیں جو ایمان میں کمزوری کی نشانی ہیں.وعدوں کا پاس کرنا ہے.اگر اپنے عہد نہیں نبھارہے تو عہد توڑنے کے گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں اور عہد توڑنے کے ساتھ ساتھ خیانت بھی کر رہے ہیں.تو ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ بے ایمان اور بے دین لوگ ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں امانت، دیانت اور لین دین میں اعلیٰ معیار قائم کرنے کا جو احساس پیدا کیا، جو تربیت کی اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بعض دفعہ صحابہ سودے میں اس بات پر بحث کیا کرتے تھے کہ مثلاً لینے والا یا خرید نے والا کسی چیز کی قیمت زیادہ بتا رہا ہے اور دینے والا اس کی قیمت کم بتا رہا ہے.قرض واپسی کی نیت سے لیں...ایک بہت بڑی بیماری جو دنیا میں عموماً ہے اور جس کی وجہ سے بہت سارے فساد پیدا ہوتے ہیں وہ ہے کاروبار کے لئے یا کسی اور مصرف کے لئے قرض لینا اور پھر ادا کرتے وقت ٹال مٹول سے کام لینا.بعض کی تو نیت شروع سے ہی خراب ہوتی ہے کہ قرض لے لیا پھر دیکھیں گے کہ کب ادا کرنا ہے.اور ایسے لوگ باتوں میں بھی بڑے ماہر ہوتے ہیں جن سے قرض لینا ہو ان کو ایسا باتوں میں چراتے ہیں کہ وہ بیوقوف بن کے پھر رقم ادا کر دیتے ہیں یا کاروباری شراکت کر لیتے ہیں.بہر حال ایسے ہر دو قسم کے قرض لینے والوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے لوگوں سے واپس کرنے کی نیت سے مال قرض پر لیا اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا ئیگی کے سامان کر دے گا.اور جو شخص مال ہڑپ کرنے کی نیت سے قرض لے گا اللہ تعالیٰ اسے تلف کر دے گا“.

Page 166

148 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم اکثر مشاہدہ میں آتا ہے ایسے لوگ جو بد نیتی سے قرض لیتے ہیں ان کے کاموں میں بڑی بے برکتی رہتی ہے.مالی لحاظ سے وہ لوگ ڈوبتے ہی چلے جاتے ہیں اور خود تو پھر ایسے لوگ بر باد ہوتے ہی ہیں ساتھ ہی اس بے چارے کو بھی اس رقم سے محروم کر دیتے ہیں جس سے انہوں نے باتوں میں چرا کر رقم لی ہوئی ہوتی ہے.جو بعض دفعہ اس لالچ میں آکر قرض دے رہا ہوتا ہے، پیسے کاروبار میں لگا رہا ہوتا ہے کہ مجھے غیر معمولی منافع ملے گا.وہاں عقل اور سوچ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بس وہ منافع کے چکر میں آ کر اپنے پیسے ضائع کر دیتے ہیں اور بظاہر اچھے بھلے عقلمند لوگوں کی اس معاملے میں عقل ماری جاتی ہے اور ایسے دھو کے بازوں کو رقم دے دیتے ہیں.تو قرض جب بھی لینا ہو نیک نیتی سے لینا چاہئے.جیسا کہ آپ نے فرمایا اللہ پھر اس کی مدد کرتا ہے.اور ایک احمدی کا یہی نمونہ ہونا چاہئے اور قرض کی واپسی بھی بڑے اچھے طریقے سے ہونی چاہئے جیسا کہ پہلے بھی ذکر آچکا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی ایک اور روایت میں بیان کرتا ہوں.ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سال کا اونٹ لینا تھا وہ آیا اور تقاضا کرنے لگا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے دے دو.جس کو بھی آپ نے کہا تھا انہوں نے طلب کرنے والے کے تقاضے کے مطابق اونٹ تلاش کیا تو اس عمر کا یعنی ایک سال کا اونٹ انہوں نے نہیں پایا.بڑی عمر کا اونٹ تھا جو زیادہ قیمتی تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو دے دو.اس پر جس کو دینا تھا اس نے کہا آپ نے میرا قرض بہتر طور پر پورا کیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو بہتر دے.بہر حال وہ اس کی دعا تھی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرض ادا کرنے کے لحاظ سے بہتر ہو.( بخاری کتاب الوکالۃ باب وكالة الشاهد والغائب جائزة......تو یہ قرض کی ادائیگی کے نیک طریق کے نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دکھائے ہیں.احمدیوں نے اگر دنیا سے فساد کو دور کرنا ہے تو آپس میں جو بھی لین دین یا قرض لیتے ہیں ان کی اس طرح حسن ادائیگی ہونی چاہئے.آپس میں کاروباری معاملات خوبصورتی سے طے ہونے چاہئیں.اور کوئی دھو کہ اور کسی قسم کی بھی بد نیتی شامل نہیں ہونی چاہئے.( الفضل انٹرنیشنل 9 تا 15 دسمبر 2005ء)

Page 167

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 149 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرموده 25 نومبر 2005ء سے اقتباسات الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيُّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُوْنَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَ هُمْ فِي التَّوْرَةِ وَأَلا نُحِيْلِ يَا مُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْههُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْاَ غْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِيْنَ آمَنُوْا بِهِ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوْا التَّوْرَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَةً.أَوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (الاعراف: 158) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ جو اس رسول نبی امی پر ایمان لاتے ہیں جسے وہ اپنے پاس تو رات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور انہیں بُری بات سے روکتا ہے.اور ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے اور ان پر ناپاک چیزیں حرام قرار دیتا ہے اور اُن سے اُن کے بوجھ اور طوق اتار دیتا ہے جو اُن پر پڑے ہوئے تھے.پس وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے اور اسے عزت دیتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اور اُس نور کی پیروی کرتے ہیں جو اس کے ساتھ اتارا گیا یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.شادی کے موقع پر گانے بجانے کی حدود دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک کے رہنے والوں کے بعض رسم و رواج ہوتے ہیں اور اُن میں سے ایک قسم جو رسم و رواج کی ہے وہ ان کی شادی بیاہوں کی ہے چاہے عیسائی ہوں یا مسلمان یا کسی اور مذہب کے ماننے والے.ہر مذہب کے ماننے والے کا اپنے علاقے ، اپنے قبیلے کے لحاظ سے خوشی کی تقریبات اور شادی بیاہ کے موقع پر خوشی کے اظہار کا اپنا اپنا طریقہ ہے.اسلام کے علاوہ دوسرے مذہب والوں نے تو ایک طرح ان رسم ورواج کو بھی مذہب کا حصہ بنالیا ہے.جس جگہ جاتے ہیں، عیسائیت میں خاص طور پر ، ہر جگہ ہر علاقے کے لوگوں کے مطابق ان کے جو رسم ورواج ہیں وہ تقریباً حصہ ہی بن چکے ہیں.یا بعض ایسے بھی ہیں جو رسم و

Page 168

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 150 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی رواج کی طرف سے آنکھ بند کر لیتے ہیں.لیکن اسلام جو کامل اور مکمل مذہب ہے، جو باوجود اس کے کہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ خوشی کے مواقع پر بعض باتیں کر لو.جیسے مثلاً روایت میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ نے ایک دفعہ ایک عورت کو دلہن بنا کر ایک انصاری کے گھر بھجوایا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ اے عائشہ رخصتانہ کے موقع پر تم نے گانے بجانے کا انتظام کیوں نہیں کیا؟ حالانکہ انصاری شادی کے موقع پر اس کو پسند کرتے ہیں.ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ نکاح کا اچھی طرح اعلان کیا کرو اور اس موقع پر چھانٹی بجاؤ.یہ دف کی ایک قسم ہے.لیکن اس میں بھی آپ نے ہماری رہنمائی فرما دی ہے اور بالکل مادر پدر آزاد نہیں چھوڑ دیا.بلکہ اس گانے کی بھی کچھ حدود مقرر فرمائی ہیں کہ شریفانہ حد تک ان پر عمل ہونا چاہئے اور شریفانہ اہتمام ہو، ہلکے پھلکے اور اچھے گانوں کا.ایک موقعہ پر آپ نے خود ہی خوشی کے اظہار کے طور پر شادی کے موقع پر بعض الفاظ ترتیب فرمائے کہ اس طرح گا یا کرو کہ آتَيْنَاكُمْ آتَيْنَا كُمْ فَحَيَّانَا فَحَيَّاكُمْ.یعنی ہم تمہارے ہاں آئے ہمیں خوش آمدید کہو.تو ایسے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہر قسم کی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرو، شادی کا موقعہ ہے کوئی حرج نہیں، ان کی غلط سوچ ہے.بعض دفعہ ہمارے ملکوں میں شادی کے موقعوں پر ایسے ننگے اور گندے گانے لگا دیتے ہیں کہ ان کو سن کر شرم آتی ہے.ایسے بے ہودہ اور لغو ور گندے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ پتہ نہیں لوگ سنتے کس طرح ہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ احمدی معاشرہ بہت حد تک ان لغویات اور فضول حرکتوں سے محفوظ ہے لیکن جس تیزی سے دوسروں کی دیکھا دیکھی ہمارے پاکستانی ہندوستانی معاشرہ میں یہ چیزیں راہ پا رہی ہیں.دوسرے مذہب والوں کی دیکھا دیکھی جنہوں نے تمام اقدار کو بھلا دیا ہے اور ان کے ہاں تو مذہب کی کوئی اہمیت نہیں رہی.شرابیں پی کر خوشی کے موقع پر ناچ گانے ہوتے ہیں،شورشرابے ہوتے ہیں، طوفان بدتمیزی ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ اس معاشرے کے زیر اثر احمدیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے بلکہ بعض اکا ڈ کا شکایات مجھے آتی بھی ہیں.تو یاد رکھیں کہ احمدی نے ان لغویات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے اور بچنا ہے.بعض ایسے بیہودہ گانے گائے جاتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا یہ ہندو اپنے شادی بیاہوں پر تو اس لئے گاتے ہیں کہ وہ دیوی دیوتاؤں کو پوجتے ہیں.مختلف مقاصد کے لئے مختلف قسم کی مورتیاں انہوں نے بنائی ہوتی ہیں جن کے انہوں نے نام رکھے ہوئے ہیں ان سے مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں.اور ہمارے لوگ بغیر

Page 169

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 151 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سوچے سمجھے یہ گانے گا رہے ہوتے ہیں یا سن رہے ہوتے ہیں.اس خوشی کے موقعہ پر بجائے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو طلب کرنے کے کہ اللہ تعالیٰ یہ شادی ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے ، آئندہ نسلیں ( دین حق ) کی خادم پیدا ہوں ، اللہ تعالیٰ کی کچی عباد بننے والی نسلیں ہوں، غیر محسوس طور پر گانے گا کر شرک کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں.جماعتی وقار مجروح کرنے والوں کے خلاف کارروائی پس جو شکایات آتی ہیں ایسے گھروں کی ان کو میں تنبیہ کرتا ہوں کہ ان لغویات اور فضولیات سے بچیں.پھر ڈانس ہے ، ناچ ہے لڑکی کی جور و فقیں لگتی ہیں اس میں یا شادی کے بعد جب لڑکی بیاہ کرلڑکے کے گھر جاتی ہے وہاں بعض دفعہ اس قسم کے بیہودہ قسم کے میوزک یا گانوں کے اوپر ناچ ہورہے ہوتے ہیں اور شامل ہونے والے عزیز رشتہ دار اس میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دی جا سکتی.بعض گھر جو د نیا داری میں بہت زیادہ آگے بڑھ گئے ہیں ان کی ایسی رپورٹس آتی ہیں اور کہنے والے پھر کہتے ہیں کہ کیونکہ فلاں امیر آدمی تھا اس لئے اس پر کارروائی نہیں ہوئی.یا فلاں عہد یدار کا رشتہ دار عزیز تھا اس لئے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ، اس سے صرف نظر کیا گیا.غریب آدمی اگر یہ حرکتیں کرے تو اسے سزا ملتی ہے.بہر حال یہ تو بعض دفعہ لوگوں کی بدظنیاں بھی ہیں لیکن جب اس طرح صرف نظر ہو جائے چاہے غلطی سے ہو جائے اور پتہ نہ لگے تو یہ بدظنیاں پیدا ہوتی ہیں.اس بارے میں واضح کر دوں کہ ایسی حرکتیں جو جماعتی وقار کی اور (دینی) تعلیم اور اقدار کی دھجیاں اڑاتی ہوں اگر مجھے پتہ لگ جائے تو ان پر میں بلا استثنا، بغیر کسی لحاظ سے کارروائی کروں گا اور کی بھی جاتی ہیں اس لئے یہ بدخلنیاں دور ہونی چاہئیں.بعض لوگ اکثر مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد اپنے خاص مہمانوں کے ساتھ علیحدہ پروگرام بناتے ہیں اور پھر اسی طرح کی لغویات اور ہلڑ بازی چلتی رہتی ہے گھر میں علیحدہ ناچ ڈانس ہوتے ہیں چاہے لڑکیاں لڑکیاں ہی ڈانس کر رہی ہوں یا لڑکے لڑکے بھی کر رہے ہوں لیکن جن گانوں اور میوزک پر ہورہے ہوتے ہیں وہ ایسی لغو ہوتی ہیں کہ وہ برداشت نہیں کی جاسکتیں.ذیلی تنظیموں اور نظام کی ذمہ داری اس لئے آج میں خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان اور اس معاشرے کے لوگوں کو جہاں ہندووانہ رسم

Page 170

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 152 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ورواج تیزی سے راہ پارہے ہیں، داخل ہورہے ہیں، ان کے احمدیوں کو کہتا ہوں کہ اس سلسلہ میں اپنی اصلاح کرلیں اور جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کا نظام جو ہے یہ بھی ان بیاہ شادیوں پر نظر رکھے اور جہاں کہیں بھی اس قسم کی بیہودہ فلموں کے ناچ گانے یا ایسے گانے جو سراسر شرک پھیلانے والے ہوں دیکھیں تو ان کی رپورٹ ہونی چاہئے.اس بارے میں قطعاً کوئی ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی کس خاندان کا ہے اور کیا ہے؟ آج کل پاکستان میں کیونکہ شادیوں کا سیزن ہے تو جیسا کہ میں نے کہا اکا دُکا یہ شکایات پیدا ہو جاتی ہیں اس لئے چند مہینے خاص طور پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.ویسے تو جب بھی اور جہاں بھی اس قسم کی حرکتیں ہورہی ہوں فوری نوٹس لینا چاہئے لیکن ان دنوں میں جیسا کہ میں نے کہا شادیوں کی کثرت کی وجہ سے ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی بھی ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں.جماعت احمدیہ میں شادی کا طریق حالانکہ غیروں کو جب ہم اپنی شادیوں پر بلاتے ہیں تو ان کی اکثریت جو ہے وہ ہماری شادی کے طریق کو پسند کرتی ہے کہ تلاوت کرتے ہیں، دعائیہ اشعار پڑھتے ہیں، دعا کرتے ہیں اور بچی کو رخصت کرتے ہیں.اور یہی طریق ہے جس سے اس جوڑے کے ہمیشہ پیار محبت سے رہنے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں اور اس کی آئندہ نسل کے لئے اولاد کے لئے بھی نیک صالح ہونے کی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں.ہاں جیسا کہ میں نے کہا کہ لڑکی کی شادی کے وقت دعائیہ اشعار کے ساتھ خوشی کے اظہار کے لئے شریفانہ قسم کے دوسرے شعر بھی پڑھے جا سکتے ہیں اور یہ ہر علاقے کے رسم و رواج کے مطابق جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ انصار پسند کرتے ہیں تو یہ نہیں فرمایا کہ ضرور ہونا چاہئے بلکہ فرمایا کہ انصار پسند کرتے ہیں.یہ خاص خاص لوگ ہیں جو پسند ہیں اور اس میں کیونکہ کوئی شرک کا اور دین سے ہٹنے کا اور کسی بدعت کا پہلو نہیں تھا اس لئے آپ نے فرمایا کہ اس طرح کرنا چاہئے کوئی حرج نہیں ہے.یہ نہیں فرمایا کہ ہر ایک، ہر قبیلہ ، ضرور دف بجایا کرے اور یہ ضروری ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے رواج کے مطابق ایسے رواج جو دین میں خرابیاں پیدا کرنے والے نہ ہوں ان کے مطابق خوشی کا اظہار کر لیا کرو یہ ہلکی پھلکی تفریح بھی ہے اور اس کے کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں.لیکن ایسی حرکتیں جن سے شرک پھیلنے کا خطرہ ہو ، دین میں بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہو اس کی بہر حال اجازت نہیں دی جاسکتی.شادی بیاہ کی رسم

Page 171

153 مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جو ہے یہ بھی ایک دین ہی ہے جبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تم شادی کرنے کی سوچو تو ہر چیز پر فوقیت اس لڑکی کو دو، اس رشتے کو دو، جس میں دین زیادہ ہو.اس لئے یہ کہنا کہ شادی بیاہ صرف خوشی کا اظہار ہے خوشی ہے اور اپنا ذاتی ہمارا افعل ہے.یہ غلط ہے.یہ ٹھیک ہے جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ آیا ہوں اسلام نے یہ نہیں کہا کہ تارک الدنیا ہو جاؤ اور بالکل ایک طرف لگ جاؤ.لیکن اسلام یہ بھی نہیں کہتا کہ دنیا میں اتنے کھوئے جاؤ کہ دین کا ہوش ہی نہ رہے.اگر شادی بیاہ صرف شور وغل اور رونق اور گانا بجانا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ شروع ہو کر اور پھر تقویٰ اختیار کرنے کی طرف اتنی توجہ دلائی ہے کہ توجہ نہ دلاتے.بلکہ شادی کی ہر نصیحت اور ہر ہدایت کی بنیاد ہی تقویٰ پر ہے.پس اسلام نے اعتدال کے اندر رہتے ہوئے جن جائز باتوں کی اجازت دی ہے اُن کے اندر ہی رہنا چاہئے اور اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے.حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے کہ دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے.اس لئے ہمیں ہمیشہ یا درکھنا چاہئے کہ ایک مومن کے لئے ایک ایسے انسان کے لئے جو (مومن) ہونے کا دعویٰ کرتا ہے شادی نیکی پھیلانے ،نیکیوں پر عمل کرنے اور نیک نسل چلانے کے لئے کرنی چاہئے.اور یہی بات شادی کرنے والے جوڑے کے والدین، عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھی یاد رکھنی چاہئے.ان کے ذہنوں میں بھی یہ بات ہونی چاہئے کہ یہ شادی ان مقاصد کے لئے ہے نہ کہ صرف نفسانی اغراض اور اہو ولعب کے لئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شادیاں کی تھیں اور اسی غرض کے لئے کی تھیں اور یہ اسوہ ہمارے سامنے قائم فرمایا کہ شادیاں کرو اور دین کی خاطر کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے ہر اس چیز سے بچنا ہوگا جو دین میں برائی اور بدعت پیدا کرنے والی ہے.اس برائی کے علاوہ بھی بہت سی برائیاں ہیں جو شادی بیاہ کے موقعہ پر کی جاتی ہیں اور جن کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں.اس طرح معاشرے میں یہ برائیاں جو ہیں اپنی جڑیں گہری کرتی چلی جاتی ہیں اور اس طرح دین میں اور نظام میں ایک بگاڑ پیدا ہورہا ہوتا ہے.اس لئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، اب پھر کہ رہا ہوں کہ دوسروں کی مثالیں دے کر بچنے کی کوشش نہ کریں، خود بچیں.اور اب اگر دوسرے احمدی کو یہ کرتا دیکھیں تو اس کی بھی اطلاع دیں کہ اس نے یہ کیا تھا.

Page 172

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 154 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اطلاع تو دی جاسکتی ہے لیکن یہ بہانہ نہیں کیا جاسکتا کہ فلاں نے کیا تھا اس لئے ہم نے بھی کرنا ہے تا کہ اصلاح کی کوشش ہو سکے، معاشرے کی اصلاح کی جاسکے.ناچ ڈانس اور بیہودہ قسم کے گانے جو ہیں ان کے متعلق میں نے پہلے بھی واضح طور کہہ دیا ہے کہ اگر اس طرح کی حرکتیں ہوں گی تو بہر حال پکڑ ہو گی.لیکن بعض برائیاں ایسی ہیں جو گو کہ برائیاں ہیں لیکن ان میں یہ شرک یا یہ چیزیں تو نہیں پائی جاتیں لیکن لغویات ضرور ہیں اور پھر یہ رسم ورواج جو ہیں یہ بوجھ بنتے چلے جاتے ہیں.جو کرنے والے ہیں وہ خود بھی مشکلات میں گرفتار ہو رہے ہوتے ہیں اور بعض جو ان کے قریبی ہیں، دیکھنے والے ہیں ، ان کو بھی مشکل میں ڈال رہے ہوتے ہیں ان میں جہیز ہیں، شادی کے اخراجات ہیں، ویسے کے اخراجات ہیں ،طریقے ہیں اور بعض دوسری رسوم ہیں جو بالکل ہی لغویات اور بوجھ ہیں.ہمیں تو خوش ہونا چاہئے کہ ہم ایسے دین کو ماننے والے ہیں جو معاشرے کے، قبیلوں کے، خاندان کے رسم و رواج سے جان چھڑانے والا ہے.ایسے رسم و رواج جنہوں نے زندگی اجیرن کی ہوئی تھی.نہ کہ ہم دوسرے مذاہب والوں کو دیکھتے ہوئے ان لغویات کو اختیار کرنا شروع کر دیں.آنحضرت ﷺ کی خوبصورت مثال...نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا مثال ہمارے سامنے قائم فرمائی.آپ کی لاڈلی بیٹی کی شادی ہوئی سب جانتے ہیں پہلے بھی کئی دفعہ سن چکے ہیں، کس طرح سادگی سے ہوئی؟ اگر دینا چاہتے تو بہت کچھ دے سکتے تھے.لوگ تو قرض لے کر جہیز بناتے ہیں.آپ کے صحابہ تو آپ پر بہت کچھ نچھاور کر سکتے تھے.کئی صاحب حیثیت تھے، چیزیں مہیا کر سکتے تھے لیکن سادگی سے ہی آپ نے رخصت کیا.ایک روایت میں آتا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور ام المومنین حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم حضرت فاطمہ کو تیار کریں اور ان کو حضرت علی کے پاس لے جائیں.اس سے پہلے انہوں نے اپنے کمرے کی تیاری کی جس کا نقشہ کھینچا کہ ہم نے کمرے میں مٹی سے لپائی کی پھر دو تکئے تیار کئے جن میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی.پھر ہم نے لوگوں کو کھجور اور انگور کھلائے اور انہیں میٹھا پانی پلایا اور ہم نے ایک لکڑی لی جس کو ہم نے کمرے کے ایک طرف لگا دیا تا کہ اس کو کوئی کپڑا لٹکانے اور مشکیزہ لٹکانے کے لئے استعمال کیا جاسکے.پس ہم نے حضرت فاطمہ کی شادی سے زیادہ اچھی شادی اور کوئی نہیں دیکھی.(سنن ابی ماجہ کتاب النکاح باب الولیمہ )

Page 173

155 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم یہ نقشہ تو صرف کھینچا ہے انہوں نے شادی کا.اس وقت کے لحاظ سے جو سادگی تھی آپ نے اس کے اعلیٰ معیار قائم کئے اور اپنی بیٹی کو یہ بھی بتایا کہ اصل چیز یہ سادگی ہی ہے اور خدا کی رضا ہے جس کو حاصل کرنے کی ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے.بعد میں بھی ایک موقعہ پر جب انہوں نے غلام کی درخواست کی کہ ہاتھ میں چھالے پڑ گئے ہیں تو آپ نے یہی فرمایا تھا کہ خود ہاتھ سے کام کرو اور بہت سارے مسلمان ہیں جن کو تمہارے سے زیادہ ضرورت ہے.تو بہر حال اپنے گھر سے ہی انہوں نے سادگی کی تعلیم دی اور تلقین کی.میں یہ نہیں کہتا کہ اس طریقے کے مطابق دو سکئے دینے چاہئیں لیکن ایک مثال ہے سادگی کی سادہ رہنا چاہئے اور بلا وجہ بوجھ ڈال کر اپنی گردنوں پر قرضوں کے طوق نہیں ڈالنے چاہئیں.سادگی اور وسائل کے اندر رہتے ہوئے جو میسر ہو، جو رسم و رواج ہیں اس وقت کے اس کے مطابق یہ فرض پورا کرنا چاہئے.شادی کا بھی حق ادا کرنا چاہئے اور مہمانوں کی مہمان نوازی کا بھی حق ادا کرنا چاہئے لیکن اپنے وسائل کے اندر رہ کے.نظام سلسلہ سے ناجائز مطالبہ نہ کریں اس ضمن میں یہ ذکر کر دوں کہ اللہ کے فضل سے مریم شادی فنڈ سے بہت سی بچیوں کی شادیاں کی جاتی ہیں لیکن بعض دفعہ جن کی مدد کی جاتی ہے ان کا یہ بار بار مطالبہ بھی ہوتا ہے کہ ہمیں فلاں چیز بھی بنا کر دی جائے اور فلاں چیز بھی بنا کے دی جائے یا اتنی رقم ضرور دی جائے ، اس سے کم نہیں.تو جو چند ایک تنگ کرنے والے ہیں بعض دفعہ ضد کرنے والے، ان لوگوں کو میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے آپ کو معاشرے کے رسم و رواج کے بوجھ تلے نہ لائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ کو آزاد کروانے آئے تھے اور آپ کو ان چیزوں سے آزاد کیا اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر آپ اس عہد کو مزید پختہ کرنے والے ہیں.جیسا کہ چھٹی شرط بیعت میں ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا.یعنی کوشش ہوگی کہ رسموں سے بھی باز رہوں گا اور ہوا و ہوس سے بھی باز رہوں گا.تو قناعت اور شکر پر زور دی.یہ شرط ہر احمدی کے لئے ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب ہو.اپنے اپنے وسائل کے لحاظ سے اس کو ہمیشہ ہر احمدی کو اپنے مدنظر رکھنا چاہئے.مریم شادی فنڈ میں شمولیت کی تحریک اس ضمن میں امراء کو میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اب بھی یہ کہتا ہوں، دوبارہ تحریک کر دیتا ہوں کہ مریم

Page 174

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 156 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ شادی فنڈ میں ضرور شامل ہوا کریں اور خاص طور پر جو صاحب حیثیت ہیں اور جب ان کے بچوں کی شادیاں ہوتی ہیں اس وقت یہ ضرور ذہن میں رکھا کریں کہ کسی نہ کسی غریب کی شادی کروانی ہے.حق مہر کا مسئلہ پھر شادی بیاہوں میں مہر مقرر کرنے کا بھی ایک مسئلہ ہے.یہ بھی رہتا ہے ہر وقت.اور اگر کبھی خدانخواستہ کوئی شادی ناکام ہو جائے تو پھر لڑکے کی طرف سے اس بارے میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پھر ان کے خلاف ایکشن بھی ہوتا ہے.اس لئے پہلے ہی سوچ سمجھ کر مہر رکھنا چاہئے دنیا دکھاوے کے لئے نہ رکھنا چاہئے بلکہ ایسا ہو جو ادا ہو سکے.ایسا مہر مقرر نہ ہو ، جیسا کہ میں نے کہا ،صرف دکھاوے کی خاطر ہو اور پھر معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والا ہو.حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے انصار کی ایک عورت کو شادی کا پیغام بھجوایا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کوئی چیز ہوتی ہے.اس نے کہا میں نے اسے دیکھ لیا ہے.آپ نے فرمایا تو مہر کیا رکھ رہے ہو؟ اس نے کہا چار اوقیہ چاندی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا چار اوقیہ؟.سوال کیا.چار اوقیہ گویا تم اس پہاڑ کے گوشے سے چاندی کھود کر اسے دو گے.ہمارے پاس اتنا نہیں ہے جو ہم تجھے دیں لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ ہم تمہیں کسی مہم پر بھجوا دیں وہاں سے تم کچھ مال غنیمت حاصل کر لو.پھر آپ نے ایک دستہ بنی عبس کی طرف بھجوایا تو اس شخص کو اس میں شامل کیا.(مسلم کتاب النکاح.باب ندب من اراد نکاح امرأة الى ان ينظر الى وجها و کفیھا قبل خطبتها) تو دیکھیں مہر کے بارے میں بھی آپ نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ طاقت سے بڑھ کر ہو.جو اس کی حیثیت کے مطابق نہیں تھا تو کہا یہ بہت زیادہ ہے.اور پھر یہ بھی پتہ تھا کہ آپ سے مانگے گا، نظام سے درخواست کرے گا.آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا کہ مہم پر جاؤ مال غنیمت مل گیا تو اس سے اپنا مہر ادا کر دینا اور یہی بات ہے کہ مہر جو ہے سوچ سمجھ کر رکھنا چاہئے جتنی توفیق ہو جتنی طاقت ہو.مہر ایک ایسا معاملہ ہے جس کی وجہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں.قضاء میں بہت سارے کیس آتے ہیں.ایسے موقعوں پر تو بڑی عجیب صورت پیدا ہو جاتی ہے.شادی سے پہلے لڑکی والے لڑکے کو باندھنے

Page 175

157 مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی غرض سے زیادہ مہر لکھوانے کی کوشش کرتے ہیں اور شادی کے بعد اگر کہیں جھگڑے کی صورت پیدا ہو جائے ،طلاق کی صورت ہو جائے ، تو لڑ کے بہانے بنا کر اس کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر نظام کے لئے اور میرے لئے اور بھی زیادہ تکلیف دہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں سزا بھی دینی پڑتی ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے واضح ارشادات فرمائے ہیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کسی نے پوچھا مہر کے متعلق کہ اس کی تعداد کس قدر ہونی چاہئے.آپ نے فرمایا کہ مہر تراضی طرفین سے ہو، آپس میں جو فریقین ہیں ان کی رضامندی سے ہو جس پر کوئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقرر کی گئی ہے.کوئی حد نہیں ہے مہر کی بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مروجہ مہر سے ہوا کرتی ہے.ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہوتی ہے اور محض نمود کے لئے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے.صرف ڈراوے کے لئے یہ لکھا جایا کرتا ہے کہ مرد قابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں.نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہوتی ہے نہ خاوند کی دینے کی.جیسا کہ فرمایا : مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب لڑائی جھگڑے ہوں.فرمایا کہ میرا مذہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنازع آ پڑے تو جب تک اس کی نیت ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا ورغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقرر شدہ ہے تب تک مقر ر مہر نہ دلایا جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مد نظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیونکہ بدنیتی کی اتباع نہ شریعت کرتی ہے اور نہ قانون.محکمہ قضا کے لئے ایک ضروری ہدایت تو اس بارے میں جو معاملات آتے ہیں اس کو بھی قضاء کو دیکھنا چاہئے.اتنا ہی نظام کو یا قضا کو بوجھ ڈالنا چاہئے جو اس کی حیثیت کے مطابق ہو اور اس کے مطابق حق مہر کا تعین کرنا چاہئے.ایسے موقعوں پر بڑی گہرائی میں جا کر جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے.حیثیت کا تعین کرنے کے لئے فریقین کو بھی قول سدید سے کام لینا چاہئے.نہ دینے والا حق مارنے کی کوشش کرے اور نہ لینے والا اپنے پیٹ میں انگارے بھرنے کی کوشش کرے.حق مہر کا بخشنا حق مہر کی ادائیگی کے بارے میں ایک اور مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ ایک عورت اپنا مہر نہیں بخشتی.شادی کر کے اس کو کہتے ہیں کہ بخش

Page 176

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 158 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بھی دو.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ عورت کا حق ہے.اسے دینا چاہئے اول تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے ورنہ بعد ازاں ادا کر دینا چاہئے.پنجاب اور ہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر ، یعنی عورتوں کی یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر ، خاوند کو اپنامہر بخش دیتی ہیں.یہ صرف رواج ہے.(فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 148) ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک (رفیق) نے عرض کیا کہ میری بیوی نے مجھے مہر بخش دیا ہے، معاف کر دیا ہے.تو آپ نے فرمایا تم نے اس کے ہاتھ پر رکھا تھا.انہوں نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا جاؤ پہلے ہاتھ پر رکھو پھر اگر وہ بخش دے، معاف کر دے تو پھر ٹھیک ہے.تو جب واپس آئے کہتے ہیں میں نے تو اس کے ہاتھ پر رکھا اور وہ دینے سے انکاری ہے.فرمایا یہی طریقہ ہے، اصل طریقہ بھی یہی ہے پہلے ہاتھ پر رکھو پھر معاف کرواؤ.اس لئے جو کوشش کرتے ہیں ناں مقدمہ لانے سے پہلے کہ جو ہم نے یہ کہہ دیا وہ کہہ دیا ان کو سوچنا چاہئے.حق مہر کے متعلق ایک فتویٰ اور پھر اسی ضمن میں ایک اور بات بھی بیان کر دوں کیونکہ کل ہی بنگلہ دیش سے ایک نے خط لکھ کر پوچھا تھا کہ میری بیوی فوت ہو گئی ہے اور مہر میں نے ادا نہیں کیا تھا تو ایسی صورت میں اب مجھے کیا کرنا چاہئے.تو اسی قسم کا ایک سوال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش ہوا تھا کہ میری بیوی فوت ہوگئی ہے میں نے نہ مہر اس کو دیا ہے نہ بخشوایا ہے.اب کیا کروں.تو آپ نے فتویٰ دیا، فرمایا کہ مہر اس کا ترکہ ہے اور آپ کے نام قرض ہے.آپ کو ادا کرنا چاہئے اور اس کی یہ صورت ہے کہ شرعی حصص کے مطابق اس کے دوسرے مال کے ساتھ تقسیم کیا جاوے.جس میں ایک حصہ خاوند کا بھی ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے نام پر صدقہ دیا جاوے.(فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 148) یورپ میں حق مہر کے متعلق ہدایت تو بعض لوگ جو یہ سمجھتے ہیں یہاں یورپ میں بعض دفعہ ایسے جھگڑے آ جاتے ہیں کہ ملکی قانون جو ہے وہ حقوق دلوا دیتا ہے طلاق کی صورت میں وہ کافی ہے حق مہر نہیں دینا چاہئے.ایک تو یہ ہے کہ وہ حقوق بعض دفعہ اگر بچے ہوں تو بچوں کے ہوتے ہیں.دوسرے کچھ حد تک اگر بیوی کے ہوں بھی تو وہ ایک وقت تک کے لئے

Page 177

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 159 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہوتے ہیں اس لئے بعد میں یہ مطالبہ کرنا کہ حق مہر نہ دلوایا جائے اور حق مہر میں اس کو ایڈ جسٹ کیا جائے یہ میرے نزدیک جائز نہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلی تو بات یہ کہ دیکھ کرحق مہر مقرر کیا جائے.حیثیت سے بڑھ کر نہ ہو.اس کا تعین قضا کر سکتی ہے کتنا ہے.اور جب تعین ہو گیا ہے تو فرمایا کہ یہ تو ایک قرض ہے اور قرض کی ادائیگی بہر حال کرنی ضروری ہے اس لئے یہ بہانے نہیں ہونے چاہئیں کہ حق مہر ادا نہیں کیا.تو یہ قرض جو ہے وہ قرض کی صورت میں ادا ہونا چاہئے اس کا ان حقوق سے کوئی تعلق نہیں جو ملکی قانون دلواتے ہیں.حق مہر کے متعلق نظام سلسلہ کا اختیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ جس کی حیثیت دس روپے کی ہے اس کا مہر ایک لاکھ کس طرح مقرر ہو سکتا ہے.اس لئے حیثیت کے مطابق حق مہر مقرر کرنے کا حق یا تبدیل کرنے کا حق نظام جماعت کو ہے.غیر احمدیوں نے تو عجیب عجیب ایسی رسمیں بنالی ہیں یعنی دین کو بھی بالکل تمسخر بنا دیا ہے.بیہودہ قسم کے رسم و رواج جو ہیں وہ بیچ میں ڈال دیئے ہیں مثلاً برصغیر میں ہندوستان ، پاکستان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی رواج تھا وہیں سے میں نے مثال دی ہے کہ مثلا حق مہر دومن مچھر کی چربی.اب نہ اتنی چربی اکٹھی ہو اور نہ حق مہر ادا ہو.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تو بالکل غلط طریق کا رہے.ہمیں شکر کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہم نے مان لیا جنہوں نے ان بے عمل علماء کے فیصلوں اور فتووں سے ہمیں بچا لیا.پس اس بات کا شکرانہ بھی اس بات میں ہے کہ شادی کرنے والے جوڑے بھی ہمیشہ قول سدید اور تقویٰ سے کام لیں اور ان کے عزیز رشتہ دار بھی.شادی پر کھانا دینے کا مسئلہ ایک خرچ جو آجکل شادی بیاہوں پر بہت بڑھ گیا ہے اور کم طاقت رکھنے والے اس خرچ کو پورا کرنے کے لئے مطالبہ بھی کرتے ہیں ، مدد کی درخواست بھی کرتے ہیں وہ کھانے کا خرچ ہے.لڑکی والے بھی اسراف سے کام لے رہے ہوتے ہیں اور لڑکے والے بھی گو کہ اب پاکستان میں قانون بن گیا ہے کھانا نہیں کھلانا اور ایسی دعوت نہیں کرنی لیکن پھر بھی کچھ لوگ اس کام کو کرتے ہیں اور پھر مختلف طریقے نکال لئے ہیں.جب کہا

Page 178

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 160 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جائے کہ اخراجات تو تو فیق اور حیثیت کے مطابق ہونے چاہئیں تو جواب یہی ہوتا ہے کہ صرف ایک کھانا پکایا تھا.سوال یہ ہے کہ کیا یہ دھوکا نہیں ہے.اگر توفیق نہیں تو نہیں کرنا چاہئے یہ کام.پھر قانون کے مطابق عمل ہونا چاہئے.یا گھر میں سادہ سا جو بھی توفیق ہو اس کے مطابق اتنے آدمیوں کو بلا کرکھلایا جائے.شادیوں پر کھانے کا ضیاع نہ کریں اسی طرح بعض صاحب حیثیت جو ہیں وہ اپنی شادیوں پر بلاوجہ کھانوں کا ضیاع کر رہے ہوتے ہیں.آٹھ دس قسم کے سالن تیار کئے ہوتے ہیں جو کھائے تو جاتے نہیں ، ضائع ہو رہے ہوتے ہیں.ان میں بہت سے یہاں یورپ سے جانے والے بھی شامل ہیں جو جا کر اپنی شادیاں کرتے ہیں یا اپنے عزیزوں کی شادیاں کرتے ہیں دکھاوے کی خاطر کہ ہم یورپ سے آ رہے ہیں.اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ کھانا پھر بچ جاتا ہے وہ غریبوں میں بھی تقسیم نہیں ہوسکتا کہ چلو کسی غریب کے کام آجائے تب بھی کوئی بات ہے.اس لئے بہتر یہی ہے کہ اگر اتنی کشائش ہے کہ اتنے کھانے پکا سکتے ہیں اور خرچ بھی کر سکتے ہیں تو جیسا کہ میں نے کہا تھا غریبوں کی شادیوں پر خرچ کرنے کے لئے چندہ دے دیں.احساس کمتری کا شکار نہ ہوں پھر عام طور پر غیر معمولی سجاوٹیں کی جاتی ہیں اس کے لئے کوشش ہورہی ہوتی ہے.بعض لوگ ربوہ میں شادی کرنے والے اس احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں.یہاں سے، باہر سے جانے والے بھی اور ربوہ کے رہنے والے بھی شاید ہوں، رہنے والوں کے پاس تو کم ہی پیسہ ہوتا ہے اس لئے وہ تو اس طرح نہیں کرتے ایک آدھ کے علاوہ، کہ شادی کا انتظام کرنے کے لئے جو لوگ موجود ہیں، جو کاروبار کرتے ہیں ان سے کام کروانے کی بجائے یا ان سے کھانے پکوانے کی بجائے ، باہر سے، لا ہور وغیرہ سے منگوائے جاتے ہیں کہ زیادہ اعلیٰ انتظام ہوگا.ٹھیک ہے ہر ایک کی اپنی اپنی پسند ہے اس کے مطابق کریں.لیکن کسی احساس کمتری کے تحت یہ کام نہیں ہونا چاہئے.احمدی میں اس قسم کا دکھاوے کے لئے احساس کمتری بالکل نہیں ہونا چاہئے بلکہ کسی قسم کا بھی احساس کمتری نہیں ہونا چاہئے.یہی طوق ہیں جو گر دنوں کو جکڑے ہوئے ہیں.ربوہ کے کاروباری حضرات کے لئے ارشادات دوسرے یہ بھی ہے کہ ربوہ میں جو شادی بیاہ کے انتظامات کا کام کرنے والے ہیں.ان کا بھی خیال رکھنا

Page 179

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 161 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ چاہئے اب وہاں تمام سہولتیں میسر ہیں.ربوہ میں جو لوگ اس کاروبار میں بیٹھے ہوئے ہیں یا اور دوسرے جو کاروباری لوگ ہیں ان کی مدد کرنی چاہئے.چھوٹا سا ایک شہر ہے.وہاں یہ کاروباری لوگ اس سہولت کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں تا کہ احمدیوں کو سہولت میسر آ جائے تو احمدی کو بہر حال احمدی کا خیال رکھنا چاہئے.اور یہ جو کاروباری لوگ ہیں ربوہ میں ، ان کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ اپنی چیزوں کے اعلیٰ معیار قائم کریں.اپنی سروسز کے اعلیٰ معیار قائم کریں تا کہ کسی قسم کی کمی نہ رہے ان کا بھی دوسروں سے مقابلہ ہونا چاہئے.اپنی قیمتوں کو بھی مناسب رکھیں تا کہ یہ شکوہ نہ ہو کہ زیادہ قیمتیں لیتے ہیں اس لئے ہم نے کام نہیں کروایا.تو یہی کا روبار کا گر ہے.حضرت مصلح موعود نے جب ربوہ قائم فرمایا، بنیاد ڈالی تو اس وقت جو دکانداروں کو نصیحت فرمائی تھی وہ بھی یہی تھی کہ ایک تو اشیاء کے معیارا چھے رکھو دوسرے کم سے کم منافع لو.کاروبار اس سے چھکے گا.کاروبارکسی دھوکے سے کامیاب نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے کہ اس کے مطابق عمل کریں.الفضل انٹر نیشنل 16 تا 22 دسمبر 2005ء)

Page 180

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 162 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ ماریشس کے ساتھ میٹنگ * 10 دسمبر 2005 ء) بارہ بج کر 35 منٹ پر نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ ماریشس کی حضورانور کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی.حضور انور نے دعا کروائی.معتمد سے حضور انور نے مجالس کی تعداد اور مجالس کی طرف سے موصول ہونے والی رپورٹس کے بارہ میں دریافت فرمایا.اور فرمایا کتنی مجالس ایسی ہیں جو باقاعدگی سے رپورٹ بھجواتی ہیں.حضور انور نے مجالس اور جماعت ( برانچ) میں فرق سمجھایا اور بتایا کہ ملک میں امیر یا صدر کے تحت جو جماعتی نظام ہے اس میں یہ مختلف برانچز جماعتیں، کہلاتی ہیں اور ذیلی تنظیموں میں یہی جماعتیں مجالس کہلاتی ہیں.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ ہر ماہ اپنی تمام جماعتوں سے رپورٹ حاصل کیا کریں.یہ رپورٹس صدر صاحب دیکھیں اور اپنے Comments دیں.جوان مجالس کے قائدین کو بھجوائے جائیں.اسی طرح تمام همین ا مین اپنے اپنے شعبہ کی رپورٹ دیکھیں اور اس پر اپنا تبصرہ متعلقہ مجالس کو بھجوائیں.فرمایا جو مجالس با قاعدہ رپورٹس نہیں بھجواتیں ان کو یاد دہانی کروائیں اور Follow Up کریں.حضور انور نے فرمایا: ہر ماہ آپ کی طرف سے مجھے با قاعدہ رپورٹ آنی چاہئے.مہتمم اطفال کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ آپ نائب صدر بھی ہیں جبکہ مہتم اطفال کا بہت زیادہ کام ہوتا ہے.آپ کا اپنا شعبہ بڑا اہم ہے اور آپکا دفتر بہت اہمیت کا حامل ہے.حضور نے فرمایا: یہ ضروری نہیں ہے کہ نائب صدر کے پاس کوئی عہدہ ضرور ہو.حضور انور نے اطفال کی تجنید کا جائزہ لیا اور فرمایا کہ نئی تجنید بنائیں.نیز حضور انور نے فرمایا کہ اپنی عاملہ بھی بنا ئیں اور جو سیکرٹری تجنید ہوگا وہ تجنید کا مکمل ریکارڈرکھے.حضور نے اطفال کے چندوں کا اور چندہ کے معیار کا بھی جائزہ لیا اور اطفال کو خصوصی طور پر چندہ وقف جدید میں شامل کرنے کے بارہ میں توجہ دلائی.فرمایا: اطفال نمازوں کی طرف توجہ دیں.قرآن کریم کی

Page 181

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 163 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تلاوت با قاعدگی سے کریں.ان کی تعلیمی و تربیتی کلاسز لگا ئیں.ہماری مستقبل کی نسل تربیت یافتہ ہو.حضور انور نے مہتمم اطفال کو فرمایا: آپ کی ڈیوٹی بہت اہم ہے.آپ اطفال کو سنبھالیں.نوازا.مہتم اشاعت اور مہتم تجنید سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کام کا جائزہ لیا اور ہدایات سے مہتم ( اصلاح وارشاد ) کو حضور اور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مخاطب ہو کر فرمایا جس طرح میں نے خطبہ جمعہ میں بتایا ہے اس کے مطابق لمبے عرصہ کے لئے مستقل بنیادوں پر ( دعوت الی اللہ کے ) پروگرام بنائیں ، اپنی سکیم بنائیں اور مجھے مطلع کریں.مہتم تربیت کو حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے پاس اس لحاظ سے خدام کا جائزہ ہونا چاہئے کہ کتنے ہیں جو پانچوں نمازیں پڑھتے ہیں.نماز باجماعت ادا کرتے ہیں اور روزانہ تلاوت قرآن کریم کرتے ہیں.حضور نے فرمایا: جو خدام کچھ نہیں کر رہے اُن کے لئے کیا پروگرام بنایا ہے.حضور نے فرمایا: جب خدام نمازوں میں با قاعدہ ہوجائیں گے توان میں بڑی تبدیلی ہوگی.کوشش کریں کہ ان کی بُری عادتیں دور ہوں.خلافت کی اہمیت کے بارہ میں بتائیں.خلیفتہ اسیح سے رابطہ اور تعلق رکھیں.( جماعتی ) ویب سائٹ کے ذریعہ ای میل بھیج سکتے ہیں، خطوط بھجوا سکتے ہیں.بے شک آپ مجھے ڈاک میں ان کے خط بھجوائیں.میں ہر ایک کو جواب دوں گا.مہتم صنعت و تجارت کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ نو جوانوں کو ہنر سکھائیں ،ان کو ٹریننگ دیں.کمپیوٹر کی ٹرینگ دیں.آج کل یہ اہم ہے.مختلف کمپنیوں سے رابطہ کر کے جاب دیکھیں اور جن کے پاس کوئی کام نہیں ہے ان کو ٹرینگ دیں اور کوئی ہنر سکھائیں تا کہ وہ مصروف ہوسکیں.فارغ انسان کو بُرے خیالات آتے ہیں اس لئے ضرور کام کرنا چاہئے.مہتم خدمت خلق اور مہتم وقار عمل کو حضور نے ارشاد فرمایا کہ ( بیت الذکر ) اور اس کے اردگرد کے ماحول کو صاف رکھا کریں.حضور انور نے فرمایا: یہاں جو بلڈ بنک ہیں ہسپتال میں وہاں خدام خون کا عطیہ دیا کریں.فرمایا: ایک ٹیم بنائیں.خدام کو آرگنا ئز کریں اور آپ کی یہ ٹیم با قاعدہ خدام الاحمدیہ کے نام پر رجسٹرڈ ہو.چالیس پچاس خدام کے نام رجسٹر ڈ ہوں.جب ان کو خون کی ضرورت ہو اور وہ بلائیں تا جائیں اور خون

Page 182

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 164 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ دیں.خون دینے والے تمام خدام کو صحت مند ہونا چاہئے.مہتمم مقامی اور مہتم عمومی کے شعبہ اور کام کا بھی حضور انور نے جائزہ لیا.مہتم تعلیم سے حضور انور نے قرآن کریم کی کلاسز کے بارہ میں دریافت فرمایا.حضور انور نے فرمایا قرآن کریم کی کلاسز کے بارہ میں ہر مجلس میں خاص کوشش کریں اور اس سلسلہ میں (مربی) سے بھی مدد لیں.شمشیر سوکیہ صاحب ہمارے پرانے (مربی) ہیں ان سے بھی مدد لیں.حضور انور نے اردو کلاسز کا بھی جائزہ لیا.حضور انور نے فرمایا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی چھوٹی سی کتاب یا بڑی کتاب کا کوئی حصہ منتخب کر کے مجالس کو دیں.تین یا چھ ماہ کے بعد امتحان لیں.ہر خادم امتحان دے.جو خادم پوری طرح تیار نہ ہوں ان کو کہیں کہ کتاب کو دیکھ کر جواب لکھ دیں.مہتم مال اور مہتم تحر یک جدید سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بجٹ اور چندہ دہندگان کی تعداد اور چندہ کے معیار کا جائزہ لیا اور فرمایا جو بھی معیار رکھیں قربانی کی روح قائم رہنی چاہئے.مہتم تربیت نو مبائعین کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ نو مبائعین سے مستقل رابطہ رکھیں اور خصوصاً ملک کے جنوبی حصہ میں جونو مبائعین ہیں ان سے رابطہ رکھیں اور ان کی تربیت کریں.جب تک وہ مستقل طور پر ٹرینڈ نہیں ہو جاتے اس وقت تک ان سے مستقلاً رابطہ رکھنا ضروری ہے.مہتمم صحت جسمانی نے بتایا کہ بعض جگہوں پر ان ڈور کھیلوں کا انتظام موجود ہے.حضور انور نے فرمایا: کوئی ذمہ دار ہونا چاہئے جو ان کھیلوں کا انچارج ہو.حضور انور ایدہ اللہ نے صدر مجلس خدام الاحمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ محاسبہ کمیٹی بنا ئیں.نیز ہدایت فرمائی کہ اپنے نائب بھی تیار کریں.سیکنڈ لائن ہر شعبہ میں تیار ہونی چاہئے جو بعد میں آگے آسکے.تمام شعبوں میں ٹرینڈ کریں.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جو چندہ عام ادا نہیں کرتا اس سے ذیلی تنظیموں کا چندہ نہ لیا جائے.جور تم وہ دے رہا ہے اس کو واضح طور پر بتا دیا جائے کہ جو رقم تم دے رہے ہو یہ خدام کا چندہ نہیں ہے بلکہ چندہ عام ہے.یہ رقم اس شخص کے چندہ عام کے طور پر سیکرٹری مال کو دے دی جائے.الفضل انٹر نیشنل 6 تا 12 جنوری 2006ء)

Page 183

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 165 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرمودہ 16 دسمبر 2005ء سے اقتباس * معافی کے بعد پھر غلطی نہ دہرائیں پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم برائیاں کرنے کے بعد کسی غلطی کے سرزد ہونے کے بعد اس درد کے ساتھ توبہ و استغفار کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں؟ استغفار کے ساتھ {إِيَّاكَ نَسْتَعِين } کے مضمون کو بھی سامنے رکھتے ہیں؟ کمزوری سے اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس سوچ کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے گناہوں اور غلطیوں کی معافی مانگ رہے ہیں؟ اور پھر اس کے ساتھ اس عہد پر قائم ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے بھی حالات ہو جائیں یہ غلطیاں نہیں دوہرائیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر آگ میں بھی ڈالا جائے تب بھی وہ بدی نہیں کرے گا.لیکن آگ میں ڈالنا تو علیحدہ بات ہے.معمولی سا دنیاوی لالچ یا ذاتی مفاد بھی بعض لوگوں کو وہی غلطیاں کرنے پر مجبور کر دیتا ہے.کئی لوگوں کو جب بعض غلطیوں پر جماعتی نظام کے تحت سزا ہوتی ہے، تعزیر ہوتی ہے تو معافی مانگتے ہیں.اور معافی کے بعد پھر وہی چیز دوہراتے ہیں.پھر سزا ہوتی ہے پھر دوبارہ وہی حرکت کر لیتے ہیں.تو ایسے لوگوں کو تو اگر دوبارہ سزا کے بعد معافی ہو بھی جاتی ہے تو بعض دفعہ مشروط معافی ہوتی ہے.بعض دفعہ کا رکن یا عہد یدار ہوں تو معافی تو ہوگئی لیکن عہدوں یا کام پر نہیں لگایا گیا.اس پر خطوط کے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں، نظام کے متعلق شکایات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.تو ایسے لوگوں کو پہلے اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر ، آپ کی بستی میں وقت گزار کر پھر بھی اگر اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو پھر ان کا معاملہ نظام جماعت سے نہیں یا خلیفہ وقت سے نہیں بلکہ خدا سے ہو الفضل اند نیشنل 6 تا 12 جنوری 2006) جاتا ہے..

Page 184

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 166 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرموده 23 دسمبر 2005ء سے اقتباسات * جلسہ کے کارکنان کو بیش قیمت نصائح یہاں بھارت کے رہنے والے ہیں جن میں آگے پھر قسمیں ہیں.معاشرے اور روایات کے لحاظ سے فرق ہے.ایک تعداد تو یہاں قادیان کے رہنے والوں کی ہے.یہ باوجود مختلف قومیتوں کے ہونے کے کم و بیش ایک مزاج کے ہیں.ان پر ماحول نے کچھ اثر ڈالا ہوا ہے.ان میں جامعہ وغیرہ کے طلباء بھی ہیں ان پر بھی خاص ماحول کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ وہ واقف زندگی ہیں اور خدا کی رضا کے حصول کے لئے انہوں نے اپنی زندگیاں گزارنے کا عہد کیا ہے.کچھ تربیت اور ٹریننگ کا اثر ہوتا ہے ان کے مزاج بدلتے ہیں.اور ہر اس طالب علم کا جس نے اپنی زندگی وقف کی ہے بلکہ ہر واقف زندگی کا مزاج بدلنا چاہئے.دوسرے کچھ کارکنان ہندوستان کے جنوب سے یا کشمیر سے آنے والے ہیں.یہی مجھے زیادہ نظر آئے ہیں ، جب میں دو تین جگہ پر گیا ہوں.ان کے رہن سہن میں، معاشرے میں بہت فرق ہے.اس لئے بعض دفعہ مزاجوں کے خلاف بات ہو جائے یا کسی وجہ سے غلط فہمی ہو جائے تو آپس میں رنجشیں پیدا ہو جاتی ہیں.پھر جیسا کہ میں نے کہا باہر سے آنے والوں کی دوسری قسم خاص طور پر پاکستان سے آنے والے کارکنان بھی ہیں جو شوق سے ڈیوٹیاں دے رہے ہیں.تو یا د رکھیں کہ آپ جس جذبے کو لے کر آئے ہیں اس جذبے کے ساتھ خدمت کر سکتے ہیں.آپ کو بعض مجبوریوں کی وجہ سے وہاں موقع نہیں ملتا.بعض کے لئے یہ بالکل نیا کام ہے اس لئے بعض کو شاید کام کرنے میں دقت بھی ہو، سمجھ نہ بھی آتی ہو کہ کیا کرنا ہے.لیکن اگر بے لوث خدمت کے جذبے سے اور اپنے افسر کی اطاعت کے جذبے سے کام کریں گے تو آپ خدمت کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں گے اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی ہوں گے.تو دونوں قسم کے کارکنان یہ یاد رکھیں کہ یہاں آپ کسی جگہ کے خاص شہری ہونے یا کسی خاص قبیلے یا علاقے کے ہونے کی وجہ سے کام نہیں کر رہے بلکہ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے کر رہے

Page 185

167 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ہیں اور کیونکہ ہم نے اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کیا ہے اس لئے ایک احمدی کا نمایاں وصف چاہے وہ کہیں کا بھی شہری ہو یہ ہونا چاہئے کہ اس نے اپنے جذبات پر کنٹرول رکھتے ہوئے خدمت کرنی ہے، اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے خدمت کرنی ہے، اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدمت کرنی ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا ہر وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کر رہے ہیں تبھی آپ کا یہ جذ بہ ہر وقت بیدار رہے گا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس نبی کے غلام ہیں جس نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے کو مہمان کی عزت اور تکریم کرنے کے لئے حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ تین دن تک اس کی مہمان نوازی کرو.اس طرف خاص توجہ دلائی ہے.اللہ اور یوم آخرت پر ایمان سے مہمان نوازی کو باندھا ہے.تو اس حدیث میں یہ تین دن کی مہمان نوازی کی جو ہدایت ہے یہ تو مہمان کو احساس دلانے کے لئے ہے کہ میزبان پر بوجھ نہ پڑے.لیکن اگر نظام جماعت کی طرف سے زائد عرصہ کی میز بانی ہورہی ہے تو آپ لوگوں نے جو اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کیا ہے تو آپ سب کو ، تمام کارکنوں کو اتنا عرصہ خوش دلی سے میزبانی کرنی چاہئے.افسران وسعت حوصلہ سے کام لیں پھر بعض دفعہ افسران قومیت کے کمپلیکس (Complex) کی وجہ سے اپنے ماتحت افسران سے بلاوجہ چڑ جاتے ہیں.یہ ساری عملی باتیں ہیں جو سامنے آتی ہیں جن کو میں بیان کر رہا ہوں اور میں دیکھ چکا ہوں.اس سے کام پر بہت برا اثر پڑتا ہے.معاونوں اور مزدوروں کے کاموں پر بھی اثر پڑ رہا ہوتا ہے اس لئے افسران صیغہ جات بھی اپنے ماتحتوں اور دوسرے شعبے کے افسران کے متعلق وسعت حوصلہ سے کام لیا کریں.افسران شعبہ جات تو بہر حال یہیں کے رہنے والے ہیں، اکثریت ان میں سے قادیان کی ہے یا شاید مربیان بھی ہوں گے.باہر سے آنے والے کارکنان مکمل طور پر ان سے تعاون بھی کریں اور ان کی اطاعت بھی کریں، کسی قسم کا شکوہ نہ پیدا ہونے دیں.لیکن بہر حال دونوں طرف سے ایک دوسرے کی خاطر بعض چیزیں برداشت کرنی پڑتی ہیں.افسران اپنے شعبوں کے ذمہ دار ہیں ناظمین یا افسران شعبہ یا شعبوں کے جو انچارج ہیں وہ بھی یہ یاد رکھیں کہ بحیثیت نگران آپ کی تمام تر

Page 186

168 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصه سوم ذمہ داری ہے کہ شعبے کا کام صحیح طور پر اور صحیح نہج پر چل رہا ہو.اگر پاکستان سے آئے ہوئے کارکنان یا کسی دوسرے ملک سے آئے ہوئے کارکنان یا کوئی بھی کارکنان جو آپ کی مدد کے لئے لگائے گئے ہیں، وہ صرف آپ کی مدد کے لئے لگائے گئے ہیں چاہے وہ کسی بھی عمر یا لیول (Level) کے ہوں.اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ یہاں کے جو افسران اور انچارج بنائے گئے ہیں ان کی ذمہ داری ختم ہو گئی ہے.بلکہ کسی بھی شکایت یا بے قاعدگی کی صورت میں جوابدہ شعبہ کا افسر ہوگا.اس لئے کبھی آپ لوگوں کا یہ جواب نہ ہو کہ فلاں شخص جو پاکستان سے آیا تھا یا فلاں شخص جو فلاں ملک سے آیا تھا اور جس کو انتظامیہ نے اس کے تجربے کی وجہ سے ہمارے ساتھ لگا دیا تھا اس کی وجہ سے بعض خرابیاں پیدا ہوئی ہیں.جس کی بھی کوتا ہی ہو چاہے وہ معاون کی ہو افسران شعبہ یا نگران صیغہ جات کی جو بھی ہوں جو قادیان یا بھارت کے رہنے والے ہیں وہی ذمہ دار ہیں.اور بحیثیت افسر وہ اپنے سب کارکنوں کے نگران ہیں.اور یہی اصول ہمیں بتایا گیا ہے کہ نگران ہی اپنی زیر نگرانی کام کرنے والوں کے لئے یا اپنی رعایا کے عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا.الفضل انٹر نیشنل 13 تا 19 جنوری 2006ء)

Page 187

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 169 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرموده 06 جنوری 2006ء سے اقتباسات * مالی قربانی اصلاح نفس اور قرب الہی کا ذریعہ مالی قربانی اصلاح نفس اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بہت ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا کئی جگہ ذکر فرمایا ہے، مختلف پیرایوں میں اس کی اہمیت بیان فرمائی ہے.پس جماعت احمدیہ میں جو مختلف مالی قربانی کی تحریکات ہوتی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے اور دلوں کو پاک کرنے کی کڑیاں ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے راستے میں خرچ کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَمَالَكُمُ الَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ ﴾ (الحدید : 11) اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے.پس اپنی زندگیوں کو سنوارنے کے لئے مالی قربانیوں میں حصہ لینا انتہائی ضروری ہے بلکہ یہ بھی تنبیہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں.جیسے کہ فرماتا ہے.{وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ } (البقرة - 196).اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو.پس جیسا کہ میں نے کہا یہ مالی تحریکات جو جماعت میں ہوتی ہیں، یا لازمی چندوں کی طرف جو توجہ دلائی جاتی ہے یہ سب خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہیں.پس ہر احمدی کو اگر وہ اپنے آپ کو حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی طرف منسوب کرتا ہے اور کرنا چاہتا ہے، اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخلصین کی ایک بہت بڑی جماعت اس قربانی میں حصہ لیتی ہے لیکن ابھی بھی ہر جگہ بہت زیادہ گنجائش موجود ہے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی حکم فرمایا ہے کہ اگر آخرت کے عذاب سے بچنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں کے وارث بننا ہے تو مال و جان کی قربانی کرو.اس زمانے میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 188

170 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم نے آکر تلوار کا جہاد ختم کر دیا تو یہ مالی قربانیوں کا جہاد ہی ہے جس کو کرنے سے تم اپنے نفس کا بھی اور اپنی جانوں کا بھی جہاد کر رہے ہوتے ہو.یہ زمانہ جو مادیت سے پُر زمانہ ہے ہر قدم پر روپے پیسے کا لالچ کھڑا ہے.ہر کوئی اس فکر میں ہے کس طرح روپیہ پیسہ کمائے چاہے غلط طریقے بھی استعمال کرنے پڑیں کئے جائیں...نومبائعین کو مالی نظام کا حصہ بنائیں یہ جومیں بار بار زور دیتا ہوں کہ نو مبائعین کو بھی مالی نظام کا حصہ بنائیں یہ انگلی نسلوں کو سنبھالنے کے لئے بڑا ضروری ہے کہ جب اس طرح بڑی تعداد میں نو مبائعین آئیں گے تو موجودہ قربانیاں کرنے والے کہیں اس تعداد میں گم ہی نہ ہو جائیں اور بجائے ان کی تربیت کرنے کے ان کے زیر اثر نہ آجائیں.اس لئے نو مبائعین کو بہر حال قربانیوں کی عادت ڈالنی پڑے گی اور نو مبائع صرف تین سال کے لئے ہے.تین سال کے بعد بہر حال اسے جماعت کا ایک حصہ بننا چاہئے.خاص طور پر نئی آنے والی عورتوں کی تربیت کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.بخل قوموں کو ہلاک کر دیتا ہے...پھر ایک روایت میں ہے عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا الفح یعنی بجنل سے بچو.یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی قوموں کو ہلاک کیا تھا.( مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحه 159 مطبوعہ بیروت) پس اللہ تعالیٰ کی راہ میں بخل کا بالکل سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بڑا ہی انذار ہے اس میں.پہلی قوموں کی ہلاکت اس لئے ہوئی تھی کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تھے.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پرانے احمدیوں کی بہت بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیوں کی اہمیت کو جھتی ہے لیکن اگر نئے آنے والوں کو اس کی عادت نہ ڈالی اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے لیت ولعل سے کام لیتے رہے تو پھر جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت خوفناک انذار فرمایا ہے.پس اس انعام کی قدر کریں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانے کی جو تو فیق دی ہے اس کا شکر بجالائیں اور آپ کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی کرنے سے بھی دریغ نہ کریں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

Page 189

171 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم اُس کا پیغام تو پھیلنا ہی ہے یہ تقدیر الہی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں.لیکن اگر تم نے کنجوسی کی تو اپنی کنجوسی کی وجہ سے تم لوگ ختم ہو جاؤ گے جس طرح کہ حدیث میں ذکر بھی ہے اور لوگ آجائیں گے.جیسا کہ فرمایا ہے {وَمَنْ يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهِ } (محمد: 39) اور جو کوئی بخل سے کام لے وہ اپنی جان کے متعلق بخل سے کام لیتا ہے.پھر فرمایا { وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْا أَمْثَالَكُمْ } (محمد: 39) کہ اگر تم پھر جاؤ تو وہ تمہاری جگہ ایک اور قوم کو بدل کر لے کر آئے گا پھر وہ تمہاری طرح ستی کرنے والی نہیں ہوگی.پس یہ مالی قربانیاں کوئی معمولی چیز نہیں ہیں ان کی بڑی اہمیت ہے.ایمان مضبوط کرنے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہونے کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے.صحابہ کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح پھل لگائے جس کا روایات میں کثرت سے ذکر آتا ہے.شروع میں یہی صحابہ جو تھے بڑے غریب اور کمزور لوگ تھے ، مزدور یاں کیا کرتے تھے.لیکن جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کسی بھی قسم کی کوئی مالی تحریک ہوتی تھی تو مزدوریاں کر کے اس میں چندہ ادا کیا کرتے تھے.حسب توفیق بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کیا کرتے تھے تا کہ اللہ اور اس کے رسول کا قرب پانے والے بنیں ، ان برکات سے فیضیاب ہونے والے ہوں جو مالی قربانیاں کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقدر کی ہیں، جن کے وعدے کئے ہیں....وقف جدید کی ذمہ داری.....حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک کچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے.اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے.سوئیں اس لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدا تعالیٰ نے اس کو وسعت و طاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے.اور میں پھر جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے ان علوم و برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں“.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 516)

Page 190

172 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصه سوم آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا یہ پیغام گاؤں گاؤں، قریہ قریہ، اس ملک میں بھی اور پاکستان میں بھی اس کے پھیلانے کا کام وقف جدید کے سپرد ہے.پس ہر احمدی کو اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے مالی قربانی کا فعال حصہ بننا چاہئے.چاہے نئے آنے والے ہیں یا پرانے احمدی ہیں.اگر مالی قربانیوں کی روح پیدا نہیں ہوتی تو ایمان کی جو مضبوطی ہے وہ پیدا نہیں ہوتی.کوئی یہ نہ دیکھے کہ معمولی تو فیق ہے، غریب آدمی ہوں اس رقم سے کیا فائدہ ہوگا.اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کے جذبے اور خلوص سے دیئے ہوئے ایک پیسے کی بھی بڑی قدر ہوتی ہے...ہر جگہ مربی یا معلم ہونا چاہیے...پھر جہاں لوگ مالی قربانیاں دیں وہاں جو معلمین اور (مربیان) ہیں وہ اپنی پوری پوری استعدادوں کو استعمال کریں.یہاں ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی.جیسا کہ میں نے کہا یہ تصور ہماری انتظامیہ کے ذہن میں بھی کئی جگہ پر آ گیا ہے.جماعتی عہد یداران کے اندر بھی موجود ہے کہ ہمارے، مربیان کی ہمعلمین کی جو تعداد ہے وہ کافی ہے.یہ سی نہیں ہے.اب زمانہ ہے کہ ہر گاؤں میں، ہر قصبہ میں اور ہر شہر میں اور وہاں کی ہر ( بیت الذکر) میں ہمارا مربی اور معلم ہونا چاہئے.اب اس کے لئے بہر حال جماعت کو مالی قربانیاں کرنی پڑیں گی تبھی ہم مہیا کر سکتے ہیں.پھر جماعت کے افراد کو اپنی قربانیاں کرنی پڑیں گی.اپنے بچوں کی قربانیاں کرنی پڑیں گی کہ ان کو اس کام کے لئے پیش کریں، وقف کریں.اور یہ سب ایسے ہونے چاہئیں کہ وہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر بھی قائم ہوں.ہم نے صرف آدمی نہیں بٹھانے بلکہ تقویٰ پر قائم آدمیوں کی ضرورت ہے.آئندہ سالوں میں انشاء اللہ واقفین نو بھی میدان عمل میں آجائیں گے لیکن جو ان کی تعداد ہے وہ بھی یہ ضرورت پوری نہیں کر سکتے.یہ کام وسیع طور پر ہمیں کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آدمیوں کی ضرورت بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے.اللہ تعالیٰ تقویٰ پر چلنے والے مربیان اور معلمین ہمیں مہیا فرما تار ہے....الفضل انٹر نیشنل 27 جنوری تا 02 فروری 2006ء)

Page 191

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 173 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ بھارت کے ساتھ میٹنگ * (7 جنوری 2006ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایوان خدمت تشریف لے گئے جہاں گیارہ بج کر چالیس منٹ پر مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ بھارت کی حضورانور کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی.حضور انور نے دعا کروائی.پھر حضور انور نے باری باری مختلف شعبہ جات کے کام کا جائزہ لیا اور ساتھ ساتھ ہدایات سے نوازا.معتمد مجلس خدام الاحمدیہ سے حضور انور نے مجالس کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا.اور فرمایا کہ کتنی مجالس ہیں جو باقاعدہ رپورٹس بھجواتی ہیں اور کتنی بے قاعدہ بجھوانے والی ہیں.حضورانور نے فرمایا: آپ کی جونٹی مجالس ہیں ان کو اب نظام کا فعال حصہ بن جانا چاہئے.یہ اب پرانی ہو چکی ہیں اور پرانی مجالس میں ان کو شمار ہونا چاہئے.حضور انور نے فرمایا: اپنے نظام کو فعال کریں اور اپنی تجنید درست کریں.حضور انور نے ذیلی تنظیموں کے قیام کے مقصد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مصلح موعود نے جب ذیلی تنظیموں کا قیام فرمایا تھا تو اس کا مقصد یہ تھا کہ جہاں جماعتی نظام کمزور ہو وہاں ذیلی تنظیموں کا کام آگے بڑھتا رہتا ہے اور حرکت جاری رہتی ہے.جہاں ذیلی تنظیمیں کمزور ہوں وہاں جماعتی نظام میں حرکت رہتی ہے.جہاں یہ دونوں Active ہوں وہاں ترقی کی رفتار کئی گنا آگے بڑھ جاتی ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے صدر مجلس کو ہدایت فرمائی کہ مشعل راہ کی پانچوں جلدیں ایک ہی وقت میں شائع کریں اور ہر مجلس میں اس کی کا پی پہنچنی چاہئے.باقی خدام کو کہیں وہ خرید میں اور ان کو پڑھیں.نائب صدر نے رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ دفتری اموران کے سپرد ہیں.حضور نے فرمایا: دفتری امور پورٹوں کا جائزہ اگر آپ نے لینا ہے تو پھر معتمد کیا کرے گا.معتمد کے پاس رپورٹس آتی ہیں اور وہ جائزہ لیتا ہے.

Page 192

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 174 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ حضور انور نے صدر مجلس کو فرمایا کہ بعض شعبے تو سپر د کر سکتے ہیں.لیکن ساری رپورٹس ان کے سپرد نہیں کر سکتے.جو شعبے زیادہ توجہ دینے والے ہیں وہ ان کے سپر د کریں.مہتم اطفال کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو سب مجالس کی طرف سے رپورٹس آنی چاہئیں.اطفال کے تحت بہت زیادہ کام ہونے والا ہے.اپنے کام کو منظم اور آر گنائز کریں.صرف میٹنگ میں بیٹھ کر باتیں کرنے سے کام نہیں ہو جاتا.کام ہونا چاہئے اور اس کے لئے محنت سے کوشش کریں.اور پوری توجہ دیں.حضور انور نے اطفال کے چندہ مجلس کا بھی جائزہ لیا اور چندہ کے معیار کا بھی جائزہ لیا اور ہدایات سے نوازا.حضورانور نے مہتم مجنید کو ہدایت فرمائی کہ آپ کی مجالس کی تجنید درست معلوم نہیں ہوتی.اس کا مزید جائزہ لیں ، دورے کریں ، مقامی قائدین سے رابطہ کریں ،Follow Up کریں اور ہر لحاظ سے اپنی تجنید مکمل کریں.مہتم اشاعت نے بتایا کہ خدام الاحمدیہ بھارت اپنا رسالہ ”مشکوۃ نکالتی ہے.حضور انور نے فرمایا کمپیوٹر سے تصویریں نکال کر دیتے ہیں اور اکٹھا ایک جھمکنا بنا دیتے ہیں یہ غلط طریق ہے.ہماری اپنی روایات ہیں اس کے مطابق ہی تصاویر شائع ہونی چاہئیں.حضور انور نے فرمایا مشعل راہ کی تمام جلدیں شائع کریں.اسی طرح خدام کے دینی نصاب کی جو کتب ہیں وہ بھی شائع کریں.کامیابی کی راہیں ایک جلد میں شائع کریں.مہتمم مال سے حضور انور نے خدام الاحمدیہ کے سالانہ بجٹ ، چندہ دہندگان اور چندہ کے معیار کا جائزہ لیا اور فرمایا: اس سال کم از کم 12 ہزار خدام کا ٹارگٹ رکھیں.اتنے لوگوں کو شامل کریں.اگر ان کو مالی قربانی کا پتہ نہیں لگے گا تو ان کے ایمان کا پتہ نہیں لگے گا.حضور انور نے فرمایا: آپ افریقن سے غریب نہیں ہیں.وہ بھی بے چارے اپنا پیٹ کاٹ کر چندہ دیتے ہیں.عاملہ میں ایک عہدہ وقف جدید کا بھی تھا.حضور انور نے فرمایا یہ خدام الاحمدیہ کا عہدہ نہیں ہے.یہ اطفال کے سپر د ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اطفال کے سپر د کیا تھا.آپ اطفال پر ذمہ داری ڈالیں اور ننھے مجاہدین کی بھی لسٹ بنائیں اور مجھے بتائیں.

Page 193

175 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم مہتم " خدمت خلق نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پانچ بڑی مجالس میں دانتوں کے علاج کے لئے فری میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں.پورے بھارت میں ”ہفتہ خدمت خلق کے انعقاد کا پروگرام ہے.ہومیو پیتھک علاج کے کیمپ لگانے کا بھی پروگرام ہے.حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ بڑے شہروں میں بلڈ ڈونر کی ایک ٹیم بنائیں.100 صحتمند خدام لیں اور ہسپتال میں رجسٹر کروائیں.خدام الاحمدیہ کے نام سے رجسٹر ہوں.گورنمنٹ ہسپتالوں میں بلڈ بینک میں آپ کا نام موجود ہو.جب ضرورت پڑے آپ کو بلا لیں.حضور انور نے فرمایا: اسی طرح قادیان میں بھی ایک ٹیم بنا ئیں.” نور ہسپتال والوں کو پتہ ہو کہ کون کون سے خدام ہیں اور کون سا خون کا گروپ ہے.اسی طرح امرتسر میں رجسٹر کروالیں.بنگال، کیرالہ ، اڑیسہ، دہلی میں بھی کریں.یہ بہت بڑا کام ہے اور اس کو آر گنائز کریں.مہتم تعلیم کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ کتاب ” کامیابی کی راہیں کا سال میں دومرتبہ امتحان لیا کریں.یہ کتاب شائع کروائیں اور تمام جماعتوں کو بھجوائیں.حضور انور نے فرمایا : خداما لا احمدیہ کی عاملہ سے بھی امتحان لیں.عاملہ کے سب ممبران امتحان میں شامل ہوں.مہتم (اصلاح وارشاد) کو حضور انور نے (دعوت الی اللہ کے ) پروگراموں کی طرف توجہ دلائی اور دریافت فرمایا کہ رابطوں کے لئے کیا طریق کار وضع کیا ہے.مہتم تربیت سے حضور انور نے نو مبائعین کی تربیت کے بارہ میں دریافت فرمایا.حضور انور نے فرمایا پہلے جلد ان کی فہرستیں مکمل کریں پھر پروگرام بنائیں کہ کس طرح ان کو سنبھالنا ہے.حضور انور نے فرمایا: آپ کی ایسی ٹریننگ ہونی چاہئے کہ آپ کے بلانے پر ہر جگہ آجائیں.حضور انور نے فرمایا: گزشتہ دو تین سالوں کی فہرستیں مہیا کریں ، پھر دیکھیں کتنوں سے رابطے ہیں اور کتنوں سے ختم ہوچکے ہیں.جو ختم ہوئے ہیں ان کو کس طرح واپس لانا ہے.کس طرح نظام کا حصہ بنانا ہے.حضور انور نے فرمایا کہ صرف تعداد بڑھانا مقصد نہیں ہے.وہ تبدیلی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیدا کرنا چاہتے تھے اگر پیدا نہیں ہوتی تو پھر بیعتیں کروانے کا کیا فائدہ؟

Page 194

176 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم حضور نے فرمایا: گزشتہ تین سالوں کی بیعتوں میں سے کتنوں سے رابطے ہیں.اگر خدام کی عمر ہیں تو خدام کو ایسے نو مبائعین کی فہرست مہیا ہونی چاہئے.اسی طرح انصار کی انصار کو اور لجنہ کی لجنہ کو اطفال ہیں تو اطفال کو فہرست مہیا ہونی چاہئے.حضور نے فرمایا: یہ بھی ریکارڈ ہونا چاہئے کہ یہ فلاں جماعت کی بیعت ہے.اگر بیعت کروانے والا کسی دوسری مجلس کا ہے تو اس کے ساتھ کون شخص یا کونسی مجلس رابطہ رکھے گی.مہتم عمومی" کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ جمعوں پر (بیوت الذکر ) میں، جہاں جہاں جماعت کی (بیوت الذکر ) ہیں خدام کی ڈیوٹی ہونی چاہئے.جلسہ کے دنوں میں ٹرینیں وغیرہ آتی ہیں وہاں بھی ڈیوٹی ہونی چاہئے.قادیان میں تو ڈیوٹیاں ہوتی ہیں.بہشتی مقبرہ کی ڈیوٹیاں با قاعدہ ہوتی رہنی چاہئیں.حضور نے فرمایا کہ اپنے شعبہ کے کام کے بارہ میں دوسری مجالس سے بھی رپورٹ لیا کریں.مہتم تحریک جدید سے حضور انور نے چندہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد کا جائزہ لیا.مہتم وقار عمل کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ ( بیوت الذکر ) کو اور ان کے ماحول کو صاف کر دیں تو بہت بڑی بات ہے.دہلی ( بیت الذکر ) کے باہر کے ماحول کو صاف کریں.وہاں با قاعدہ ہر ہفتہ صفائی ہونی چاہئے.جہاں جہاں (بیوت الذکر مشن ہاؤسز ہیں ان کی صفائی کا خیال رکھیں.پبلک جگہوں پر خاص موقع پر وقار عمل ہوں.قادیان کی صفائی کا بھی خیال رکھیں.شجر کاری کریں ، پھول پودے لگائیں.حضور انور نے فرمایا: سفیدہ نہ لگائیں ، جڑیں خراب کرتی ہیں، پانی زیادہ استعمال ہوتا ہے.مہتمم صنعت و تجارت کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ یہاں کمپیوٹر وغیرہ سے کام میں کافی Skill ہے.اور بعض دوسری چیزوں میں بھی خدام کو ہنر وغیرہ سکھائے جاسکتے ہیں اور کام مہیا کئے جاسکتے ہیں.فرمایا: بہت سارے کام ہو سکتے ہیں.مہتم تربیت کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا: آپ نے اپنی آٹھ صد مجالس کی تربیت کرنی ہے.اپنے پروگراموں کا جائزہ لیں.اپنے تربیتی لائحہ عمل کا جائزہ لیں.حضور انور نے فرمایا: جائزہ لیں کہ کتنے خدام میں جو نماز پڑھتے ہیں.فرمایا: آپ کی مجالس کی رپورٹ میں شعبہ تربیت کے تحت اس کا ذکر ہونا چاہئے اور ر پورٹ آنی چاہئے.

Page 195

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 177 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ حضور انور نے فرمایا : فجر اور عشاء کی نماز میں کتنے خدام آتے ہیں.مجالس سے اس کی بھی رپورٹ منگوائیں.پانچوں نمازیں کتنے پڑھتے ہیں، کتنے ( بیت الذکر ) میں آ کر پڑھتے ہیں.تلاوت قرآن کریم کتنے کرتے ہیں اور نظام وصیت میں کتنے شامل ہیں.آپ کے پاس یہ سب رپورٹ ہونی چاہئے.مہتمم صحت جسمانی سے حضور انور نے خدام کی کھیلوں کے پروگرام کے بارہ میں دریافت فرمایا.مہتم مقامی سے بھی حضور انور نے ان کے کام کے بارہ میں جائزہ لیا.مہتم امور طلباء کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ طلباء کی فہرستیں مکمل کریں.کتنے خدام ہیں جواس وقت تعلیم حاصل کر رہے ہیں.18 سال کی عمر کے خدام میں سے اس وقت کتنے طلباء ہیں.جو نہیں پڑھ رہے ان کے تعلیم نہ حاصل کرنے کی وجوہات کیا ہیں.کتنوں نے میٹرک کر لیا ہے.اگر میٹرک نہیں کیا تو کیا کر رہے ہیں.کیا کام کرتے ہیں.حضور نے فرمایا: پھر یو نیورسٹیوں کے طلباء کا بھی جائزہ لیں.کتنے ہیں جو یو نیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کس کی یونیورسٹی میں ہیں.کس حد تک فعال ہیں اور جماعت سے رابطہ ہے.حضور انور نے فرمایا: بڑے شہروں میں جہاں جماعت کی تعداد زیادہ ہے وہاں احمد یہ سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے نام سے ایسوسی ایشن بنا ئیں.یونیورسٹیز میں سیمینار ہوں.ان سیمینارز کو آر گنائز کریں.غیر احمدیوں کو بھی مدعو کیا جائے.اس سے تعلق بڑھے گا.رابطے بڑھیں گے.جماعت سے تعلق پیدا ہوگا.محاسب“ کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ محاسبہ کمیٹی بنی ہوگی.فرمایا: اخراجات کو چیک کیا کریں.رسید پر صدر خدام کے دستخط ہونے چاہئیں.اخراجات بجٹ کے اندر ہیں یا نہیں.اگر کسی مد میں زائد خرچ ہورہا ہے تو اس کی منظوری صدر نے مجلس عاملہ نے دی ہے یا نہیں.مجلس خدام الاحمدیہ کے ساتھ یہ میٹنگ بارہ بج کر چالیس منٹ تک جاری رہی.میٹنگ کے آخر پر حضور انور نے مجلس عاملہ خدام الاحمد یہ بھارت کے ممبران کو رومال اور قلم عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل 3 تا 9 مارچ 2006ء)

Page 196

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 178 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جنوری 2006ء سے اقتباس احمدی کے صبر و حوصلہ کی اصل وجہ ہم نے تو انشاء اللہ تعالیٰ دنیا کے ہر کونے میں، ہر ملک میں ان زیادتی کرنے والوں کو معاف کرتے رہنا ہے اور یہ معافی ہم کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ( دین حق ) کی جو صحیح تعلیم ہمیں دی ہے اس پر عمل کرتے ہوئے کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے جو اُسوہ رکھا ہے اس کے مطابق کرتے ہیں.اگر نظر آ سکے، یہ مخالفین کبھی احمدیوں کا دل چیر کر دیکھیں کہ کس طرح احمدی ایسے حالات میں صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں.پس ہمیشہ ہر احمدی کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ یہ صبر کا نمونہ انہوں نے دکھانا ہے اور دکھاتے چلے جانا ہے اور ہمیشہ یہ آپ کا طرہ امتیاز ہونا چاہئے کہ قانون کو کبھی اپنے ہاتھ میں نہیں لینا لیکن اگر قانون لاگو کرنے والے کبھی یہ کہیں کہ خود سنبھال لو تو احمدی اللہ کے فضل سے ان فتنوں کو ایک منٹ میں ختم بھی کر سکتا ہے.تو یہ غلط فہمی نہ ہمارے دل میں ہے اور نہ کبھی مخالفین کے دل میں ہونی چاہئے کہ ہم کسی کمزوری کی وجہ سے صبر کرتے ہیں.الفضل انٹر نیشنل 10 تا 16 فروری 2006ء)

Page 197

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 179 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرموده 3 فروری 2006ء سے اقتباس * دعوت الی اللہ ہر ایک کو کریں ہوئے سنا کہ: حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے اللہ تعالی علم کولوگوں سے یکدم نہیں چھینے گا بلکہ عالموں کی وفات کے ذریعے علم ختم ہو گا جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ انتہائی جاہل اشخاص کو اپنا سردار بنالیں گے.اور ان سے جا کر مسائل پوچھیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے.پس خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے.( بخاری کتاب العلم باب کیف يقبض العلم ) اس حدیث سے علماء وقت جنہوں نے ابھی تک مسلمانوں کو غلط رہنمائی کر کے مسیح و مہدی کی تلاش سے دور رکھا ہوا ہے، اس کو پہچاننے سے دُور رکھا ہوا ہے یا جو دُور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں.ان کا حال تو حدیث میں ظاہر ہو گیا.لیکن ان کے اس حال کا قرآن کریم میں بھی ذکر ہے.پس یہ حال ان علماء کا دیکھ کر ہمیں خاموش نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ کوشش کر کے ہر مسلمان کو ان کا یہ حال بتانا چاہئے کہ انہوں نے تو اللہ و رسول کی بات نہ مان کر اس انجام کو پہنچنا ہے جہاں اللہ کی ناراضگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے.لیکن اے مسلمانو! اگر تم اللہ کی رضا چاہتے ہو، دنیا، دین اور آخرت بچانا چاہتے ہو تو اس وقت اس زمانے کے حالات پر غور کرو اور تلاش کرو کہ یہ زمانہ کہیں مسیح موعود کا زمانہ تو نہیں ہے اور مسلمانوں کی یہ بے چارگی کی حالت اور یہ آفات وغیرہ بے وجہ کی دلوں کی سختی کا نتیجہ تو نہیں ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا تھا اس زمانے میں مسیح موعود کی آمد کے بارے میں حدیث میں اور قرآن میں نشانیاں بھی ملتی ہیں چند ایک کا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے ذکر کروں گا.یہ تو ہم نے دیکھ لیا کہ بعد کے علماء نے بھی اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قریب

Page 198

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 180 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے زمانے کے تھے، انہوں نے بھی، سب نے یہ تسلیم کر لیا کہ اسلام کی اور مسلمانوں کی حالت نہایت ابتر ہے.لیکن ہم سے وعدہ تو جیسا کہ میں نے کہا، یہ تھا کہ ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بھیجے گا جو ایمان کو واپس لے کر آئے گا.اس پر ابھی تک عمل نہیں ہوا.لیکن بہر حال یہ جواللہ تعالیٰ کے وعدہ پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ ابھی تک یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ نہیں آرہا....الفضل انٹر نیشنل 24 فروری تا 3 مارچ 2006ء)

Page 199

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 181 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرموده 10 فروری 2006ء سے اقتباسات * آنحضرت ﷺ کی سیرت کو پھیلائیں..ہر ملک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے.خاص طور پر جو اسلام کے بارے میں جنگی جنونی ہونے کا ایک تصور ہے اس کو دلائل کے ساتھ رد کرنا ہمارا فرض ہے.پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ اخباروں میں بھی کثرت سے لکھیں.اخباروں کو، لکھنے والوں کو سیرت پر کتا بیں بھی بھیجی جاسکتی ہیں.احمدی جرنلزم میں آئیں پھر یہ بھی ایک تجویز ہے آئندہ کے لئے، یہ بھی جماعت کو پلان (Plan) کرنا چاہئے کہ نوجوان جرنلزم (Journalism) میں زیادہ سے زیادہ جانے کی کوشش کریں جن کو اس طرف زیادہ دلچسپی ہوتا کہ اخباروں کے اندر بھی ان جگہوں پر بھی ، ان لوگوں کے ساتھ بھی ہمارا نفوذ ر ہے.کیونکہ یہ حرکتیں وقتا فوقتا اٹھتی رہتی ہیں.اگر میڈیا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وسیع تعلق قائم ہوگا تو ان چیزوں کو روکا جاسکتا ہے، ان بیہودہ حرکات کو روکا جاسکتا ہے.دنیا کو خبر دار کریں.پس دنیا کو آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے.دنیا کو ہمیں بتانا ہو گا کہ جو اذیت یا تکلیف تم پہنچاتے ہو اللہ تعالیٰ اس کی سزا آج بھی دینے کی طاقت رکھتا ہے.اس لئے اللہ اور اس کے رسول کی دل آزاری سے باز آؤ لیکن جہاں اس کے لئے اسلام کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے بارے میں دنیا کو بتانا ہے وہاں اپنے عمل بھی ہمیں ٹھیک کرنے ہوں گے.کیونکہ ہمارے اپنے عمل ہی ہیں جو دنیا کے منہ بند کریں گے اور یہی ہیں جو دنیا کا منہ بند کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں.

Page 200

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 182 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی آنحضرت ﷺ سے عشق و محبت کی آگ دلوں میں لگائیں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل اور سمجھ دے لیکن میں احمدیوں سے یہ کہتا ہوں کہ ان کو تو پتہ نہیں یہ عقل اور سمجھ آئے کہ نہ آئے لیکن آپ میں سے ہر بچہ، ہر بوڑھا، ہر جوان، ہر مرد اور ہر عورت بیہودہ کارٹون شائع ہونے کے ردعمل کے طور پر اپنے آپ کو ایسی آگ لگانے والوں میں شامل کریں جو کبھی نہ بجھنے والی آگ ہو، جو کسی ملک کے جھنڈے یا جائیدادوں کو لگانے والی آگ نہ ہو جو چند منٹوں میں یا چند گھنٹوں میں بجھ جائے.اب بڑے جوش سے لوگ کھڑے ہیں (پاکستان کی ایک تصویر تھی) آگ لگا رہے ہیں جس طرح کوئی بڑا معرکہ مار رہے ہیں.یہ پانچ منٹ میں آگ بجھ جائے گی ، ہماری آگ تو ایسی ہونی چاہئے جو ہمیشہ لگی رہنے والی آگ ہو.وہ آگ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کی آگ جو آپ کے ہر اسوہ کو اپنانے اور دنیا کو دکھانے کی آگ ہو.جو آپ کے دلوں اور سینوں میں لگے تو پھر لگی رہے.یہ آگ ایسی ہو جو دعاؤں میں بھی ڈھلے اور اس کے شعلے ہر دم آسماں تک پہنچتے رہیں.بکثرت درود شریف پڑھیں پس یہ آگ ہے جو ہر احمدی نے اپنے دل میں لگانی ہے اور اپنے درد کو دعاؤں میں ڈھالنا ہے.لیکن اس کے لئے پھر وسیلہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بننا ہے.اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھینچنے کے لئے ، دنیا کی لغویات سے بچنے کے لئے ، اس قسم کے جو فتنے اٹھتے ہیں ان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دلوں میں سلگتا ر کھنے کے لئے ، اپنی دنیاو آخرت سنوارنے کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بے شمار درود بھیجنا چاہئے.کثرت سے درود بھیجنا چاہئے.اس پرفتن زمانے میں اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ڈبوئے رکھنے کے لئے اپنی نسلوں کو احمدیت اور ( دین حق ) پر قائم رکھنے کے لئے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے کہ {إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِمُوْا تَسْلِيمًا } ( الاحزاب : 57) کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجا کرو کیونکہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں.الفضل انٹر نیشنل 3 تا 9 مارچ 2006ء)

Page 201

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 183 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرموده 17 فروری 2006ء سے اقتباسات * آزادی رائے کی حدود و قیود جہاں ہم دنیا کو بجھاتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کے بارے میں کسی بھی قسم کا نازیبا اظہار خیال کسی بھی طرح کی آزادی کے زمرے میں نہیں آتا.تم جو جمہوریت اور آزادی ضمیر کے چیمپئن بن کر دوسروں کے جذبات سے کھیلتے ہو یہ نہ ہی جمہوریت ہے اور نہ ہی آزادی ضمیر ہے.ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور کچھ ضابطہ اخلاق ہوتے ہیں.جس طرح ہر پیشے میں ضابطہ اخلاق ہیں، اسی طرح صحافت کے لئے بھی ضابطہ اخلاق ہے اور اسی طرح کوئی بھی طرز حکومت ہو اس کے بھی قانون قاعدے ہیں.آزادی رائے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسرے کے جذبات سے کھیلا جائے ، اس کو تکلیف پہنچائی جائے.اگر یہی آزادی ہے جس پر مغرب کو ناز ہے تو یہ آزادی ترقی کی طرف لے جانے والی نہیں ہے بلکہ یہ تنزل کی طرف لے جانے والی آزادی ہے.مغرب بڑی تیزی سے مذہب کو چھوڑ کر آزادی کے نام پر ہر میدان میں اخلاقی قدریں پامال کر رہا ہے اس کو پتہ نہیں ہے کہ کس طرح یہ لوگ اپنی ہلاکت کو دعوت دے رہے ہیں.ابھی اٹلی میں ایک وزیر صاحب نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ یہ بیہودہ اور غلیظ کارٹون ٹی شرٹس پر چھاپ کر پہنے شروع کر دیئے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی کہا ہے میرے سے لو.سنا ہے وہاں نیچے بھی جارہے ہیں.کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا علاج یہی ہے.تو ان لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ تو ہمیں نہیں پتہ کہ مسلمانوں کا یہ علاج ہے یا نہیں لیکن ان حرکتوں سے وہ خدا کے غضب کو بھڑ کانے کا ذریعہ ضرور بن رہے ہیں.جو کچھ بیوقوفی میں ہو گیا، وہ تو ہو گیا لیکن اس کو تسلسل سے اور ڈھٹائی کے ساتھ کرتے چلے جانا اور اس پر پھر مصر ہونا کہ ہم جو کر رہے ہیں ٹھیک ہے.یہ چیز اللہ تعالیٰ کے غضب کو ضرور بھڑکاتی ہے.احمدیوں کا مومنانہ رد عمل تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا تھا باقی مسلمانوں کا رد عمل تو وہ جانیں، لیکن ایک احمدی (مومن) کا

Page 202

184 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم رد عمل یہ ہونا چاہئے کہ ان کو سمجھائیں، خدا کے غضب سے ڈرائیں.جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں اور اپنے قادر و مقتدر خدا کے آگے جھکیں اور اس سے مدد مانگیں.اگر یہ لوگ عذاب کی طرف ہی بڑھ رہے ہیں تو وہ خدا جو اپنی اور اپنے پیاروں کی غیرت رکھنے والا ہے، اپنی قہری تجلیات کے ساتھ آنے کی بھی طاقت رکھتا ہے.وہ جو سب طاقتوں کا مالک ہے، وہ جو انسان کے بنائے ہوئے قانون کا پابند نہیں ہے، ہر چیز پر قادر ہے، اس کی چکی جب چلتی ہے تو پھر انسان کی سوچ اس کا احاطہ نہیں کر سکتی ، پھر اس سے کوئی بچ نہیں سکتا.پس احمدیوں کو مغرب کے بعض لوگوں کے یا بعض ملکوں کے یہ رویے دیکھ کر خدا تعالیٰ کے حضور مزید جھکنا چاہئے.خدا کے مسیح نے یورپ کو بھی وارننگ دی ہوئی ہے اور امریکہ کو بھی وارننگ دی ہوئی ہے.یہ زلزلے، یہ طوفان اور یہ آفتیں جودنیا میں آرہی ہیں یہ صرف ایشیا کے لئے مخصوص نہیں ہیں.امریکہ نے تو اس کی ایک جھلک دیکھ لی ہے.پس اے یورپ ! تو بھی محفوظ نہیں ہے.اس لئے کچھ خوف خدا کرو اور خدا کی غیرت کو نہ للکار و لیکن ساتھ ہی میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ممالک یا مسلمان کہلانے والے بھی اپنے رویے درست کریں.ایسے رویے اور ایسے رد عمل ظاہر کریں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو ، آپ کے حسن کو دنیا کے سامنے رکھیں ، ان کو دکھا ئیں.تو یہ وہ صیح رد عمل ہے جو ایک مومن کا ہونا چاہئے.صحیح عادلانہ رد عمل اب آجکل جو بعض حرکتیں ہو رہی ہیں یہ کون سا اسلامی رد عمل ہے کہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کو مار دیا ، اپنی ہی جائیدادوں کو آگ لگادی.اسلام تو غیر قوموں کی دشمنی میں بھی عدل کو ، انصاف کو ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا، عقل سے چلنے کا حکم دیتا ہے، کجا یہ کہ پچھلے دنوں میں جو پاکستان میں ہوا یا دوسرے اسلامی ملکوں میں ہورہا ہے.بہر حال ان اسلامی ممالک میں چاہے وہ غیر ملکیوں کے کاروبار کو یاسفارتخانوں کو نقصان پہنچانے کے عمل ہیں یا اپنے ہی لوگوں کو نقصان پہنچانے کے عمل ہیں یہ سوائے اسلام کو بدنام کرنے کے اور کچھ نہیں.پس مسلمانوں کو چاہئے ، مسلمان عوام کو چاہئے کہ ان غلط قسم کے علماء اور لیڈروں کے پیچھے چلنے کی بجائے ، ان کے پیچھے چل کر اپنی دنیا و آخرت خراب کرنے کی بجائے ، عقل سے کام لیں.آج مسلمانوں کی بلکہ تمام دنیا کی صحیح سمت کا تعین کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق

Page 203

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 185 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی صادق کو بھیجا ہے.اس کو پہچانیں، اس کے پیچھے چلیں اور دنیا کی اصلاح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے اس مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہوں کہ اب کوئی دوسرا طریق ، کوئی دوسرا رہبر ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے اور چلانے والا نہیں بنا سکتا.( دین حق ) کی شان وشوکت کو بحال کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس کو مسیح و مہدی کی جماعت نے ہی قائم کرنا ہے اور کروانا ہے انشاء اللہ.....د عیسی مسیح کر دے گا جنگوں کا التواء پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مزید وضاحت فرمائی.فرمایا کہ: حديث لَامَهْدِيَّ إِلَّا عِیسی جو ابن ماجہ کی کتاب میں جو اسی نام سے مشہور ہے اور حاکم کی کتاب مستدرک میں انس بن مالک سے روایت کی گئی ہے اور یہ روایت محمد بن خالد الجہنی نے ابان بن صالح سے اور ابان بن صالح نے حضرت حسن بصری سے اور حسن بصری نے انس بن مالک سے اور انس بن مالک نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے اور اس حدیث کے معنے یہ ہیں کہ بجز اس شخص کے جو عیسی کی خو اور طبیعت اور طریق پر آئے گا اور کوئی بھی مہدی نہیں آئے گا.یعنی وہی مسیح موعود ہوگا اور وہی مہدی ہو گا جو حضرت عیسی علیہ السلام کی خو اور طبیعت پر طریق تعلیم پر آئے گا.یعنی بدی کا مقابلہ نہ کرے گا اور نہ لڑے گا.اور پاک نمونہ اور آسمانی نشانوں سے ہدایت کو پھیلائے گا.اور اسی حدیث کی تائید میں وہ حدیث ہے جو امام بخاری نے صحیح بخاری میں لکھی ہے جس کے لفظ یہ ہیں کہ يَضَعُ الْحَرْبَ.یعنی وہ مہدی جس کا دوسرا نام سیح موعود ہے دینی لڑائیوں کو قطعاً موقوف کر دے گا.اور اس کی یہ ہدایت ہوگی کہ دین کے لئے لڑائی مت کرو بلکہ دین کو بذریعہ سچائی کے نوروں اور اخلاقی معجزات اور خدا کے قرب کے نشانوں سے پھیلاؤ.سومیں سچ سچ ، کہتا ہوں کہ جو شخص اس وقت دین کے لئے لڑائی کرتا ہے یا کسی لڑنے والے کی تائید کرتا ہے یا ظاہر یا پوشیدہ طور پر ایسا مشورہ دیتا ہے یا دل میں ایسی آرزوئیں رکھتا ہے وہ خدا اور رسول کا نافرمان ہے.یعنی اگر مسلمان دین کے نام پر لڑائی کریں تو ان کی وصیتوں اور حدود اور فرائض سے باہر چلا گیا ہے“.(حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 429-432) اب دیکھ لیں آجکل مسلمانوں کے حالات اس کی تائید کر رہے ہیں.اگر یہ جنگیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے

Page 204

186 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم مطابق ہوتیں تو اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ {وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ } اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر فرض ٹھہرتا ہے.پس جب اللہ تعالیٰ کی تائید نہیں مل رہی تو سوچنا چاہئے.اگر جنگیں لڑنے کا زیادہ ہی شوق ہے تو پھر اسلام کے نام پر تو نہ لڑی جائیں.اس زمانے میں مسلمانوں کا دوسری قوموں سے شکست کھانا یہ بھی اس بات کی خدا تعالیٰ کی طرف سے فعلی شہادت ہے کہ جو مسیح آنے کو تھا وہ آ گیا ہے.اور يَضَعُ الحزب کے تحت دینی جنگوں کا جو حکم ہے یہ موقوف ہو چکا ہے.ہاں اگر جہاد کرنا ہے تو دلائل سے کرو، براہین سے کرو.اب مسلمانوں کی اسلام کے نام پر لڑی جانے والی جنگوں کے نتائج تو جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کے مطابق مسلمانوں کے خلاف ہیں اور ہر آنکھ رکھنے والے کو نظر آ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کا تو وعدہ ہے کہ میں مومن کی مدد کرتا ہوں اگر مومن ہو تو.تو دوہی باتیں ہیں یا یہ کہ یہ مسلمان مومن نہیں ہیں.یا یہ جنگوں کا وقت غلط ہے اور زمانہ ختم ہو چکا ہے.لیکن یا درکھیں ان لوگوں میں یہ دونوں باتیں ہی ہیں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ مان کر پھر مومن تو نہیں رہ رسکتے.اور مسیح اور مہدی کے دعوے کے بعد، اس کی بات نہ مان کر اللہ تعالیٰ کی مدد کے حقدار نہیں ٹھہر سکتے.پس اس زمانے میں مسیح و مہدی کا جو دعویٰ کرنے والا ہے وہ یقینا سچا ہے.الفضل انٹر نیشنل 10 تا 16 مارچ 2006ء)

Page 205

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 187 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ 24 فروری 2006ء سے اقتباسات * دشمن مسلمانوں کی حرکتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں یہ جومسلمانوں کی حرکتیں ہیں ان سے مسلمانوں کے دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں اور مسلمان کی طاقت کم کرتے چلے جارہے ہیں اور ان مسلمانوں کو عقل نہیں آ رہی.بہر حال یہ تو ظاہر و باہر ہے کہ یہ عقل ماری جانا اور یہ پھٹکار اس لئے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نہیں مانا اور نہ ہی مان رہے ہیں نہ اس طرف آتے ہیں اور آپ کے مسیح و مہدی کی تکذیب کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہی ہے اور وہ ہر احمدی کو کرنی چاہئے.اس طرف پہلے بھی میں نے توجہ دلائی تھی کہ خدا ان کو عقل اور سمجھ دے اور یہ منافقین اور دشمنوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر اسلام کو بدنام کرنے والے اور ایک دوسرے کا گلا کاٹنے والے نہ بنیں.بہر حال جو کچھ بھی ہے جب اسلام کے دشمن ان مسلمانوں کو کسی نہ کسی ذریعے سے ذلیل ورسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو احمدی بہر حال درد محسوس کرتا ہے.کیونکہ یہ لوگ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہیں یا منسوب ہونے کا دعوی کرتے ہیں.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان بھٹکے ہوئے مسلمانوں میں سے ایک بہت بڑی تعداد کم علمی کی وجہ سے ان لیڈروں اور علماء کی باتوں میں آکرایسی نامناسب حرکتیں اور کارروائیاں کر جاتی ہے جس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں سنتے ہوئے ان لوگوں کو، ان نام نہاد علما کے چنگل سے چھڑائے اور یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے انجانے میں یا بیوقوفی میں اور اسلام کی محبت کے جوش میں آکر جو اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں وہ نہ بنیں.اللہ تعالیٰ ان کو سیدھی راہ بھی دکھائے، کیونکہ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے دشمن کو اسلام پر گندا اچھالنے کا موقعہ ملتا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بھی توہین آمیز حملے کرنے کا موقع ملتا ہے.

Page 206

188 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصه سوم پس ہر احمدی کو آجکل دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ عالم اسلام اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے انتہائی خوفناک حالت سے دو چار ہے.اگر ہمارے اندر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچا عشق اور محبت ہے تو ہمیں امت کے لئے بھی بہت زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں.اپنی دعاؤں کو درود میں ڈھال دیں...پس جہاں ایسے وقت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے یقینا اللہ تعالیٰ کے فرشتے آپ پر درود بھیجتے ہوں گے بھیج رہے ہوں گے ، بھیج رہے ہیں.ہمارا بھی کام ہے جنہوں نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور امام الزمان کے سلسلے اور اس کی جماعت سے منسلک کیا ہوا ہے کہ اپنی دعاؤں کو درود میں ڈھال دیں اور فضا میں اتنا در و د صدق دل کے ساتھ بکھیریں کہ فضا کا ہر ذرہ درود سے مہک اٹھے اور ہماری تمام دعا ئیں اس درود کے وسیلے سے خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں.یہ ہے اس پیار اور محبت کا اظہار جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہونا چاہئے اور آپ کی آل سے ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو بھی عقل دے، سمجھ دے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے کو پہچانیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کی جماعت میں شامل ہوں جو صلح، امن اور محبت کی فضا کو دوبارہ دنیا میں پیدا کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو بلند کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کے با وجود آج پھر دیکھ لیں چودہ سو سال کے بعد بھی اسی مہینے میں جب محرم کا مہینہ ہی چل رہا ہے اور اسی سرزمین میں پھر مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے مگر سبق کبھی بھی نہیں سیکھا اور ابھی تک خون بہاتے چلے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور اس عمل سے باز آئیں اور اپنے دل میں خدا کا خوف پیدا کریں اور ( دین حق ) کی سچی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں.یہ سب کچھ جو یہ کر رہے ہیں زمانے کے امام کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ہورہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انکار کی وجہ سے ہورہا ہے.پس آج ہر احمدی کی ذمہ داری ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جس نے اس زمانے کے امام کو پہچانا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جذبے کی وجہ سے بہت زیادہ درود پڑھیں ، دعائیں کریں، اپنے لئے بھی اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی تا کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو تباہی سے بچالے.

Page 207

189 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی دعاؤں میں امت مسلمہ کو بہت جگہ دیں.غیروں کے بھی ارادے ٹھیک نہیں ہیں.ابھی پتہ نہیں کن کن مزید مشکلوں اور ابتلاؤں میں اور مصیبتوں میں ان لوگوں نے گرفتار ہونا ہے اور ان مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے.اور کیا کیا منصوبے ان کے خلاف ہورہے ہیں.اللہ ہی رحم کرے.الفضل اند نیشنل 17 تا 23 مارچ 2006ء )

Page 208

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 190 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرمودہ 10 مارچ 2006ء سے اقتباسات * میثاق مدینہ کی بعض اہم شرائط مدینہ میں ایک معاہدہ ہوا تھا.اس معاہدے کے تحت آنحضرت ﷺ نے جو شقیں قائم فرمائی تھیں، جو روایات پہنچی ہیں ان کا میں ذکر کرتا ہوں کہ کس طرح اس ماحول میں جا کر آپ نے رواداری کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اُس معاشرے میں امن قائم فرمانے کیلئے آپ کیا چاہتے تھے؟ تاکہ معاشرے میں بھی امن قائم ہوا اور انسانیت کا شرف بھی قائم ہو.مدینہ پہنچنے کے بعد آپ نے یہودیوں سے جو معاہدہ فرمایا اس کی چند شرائط یہ تھیں کہ مسلمان اور یہودی آپس میں ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف زیادتی یا ظلم سے کام نہ لیں گے.اور باوجود اس کے کہ ہمیشہ اس شق کو یہودی توڑتے رہے مگر آپ احسان کا سلوک فرماتے رہے یہاں تک کہ جب انتہا ہو گئی تو یہودیوں کے خلاف مجبوراً سخت اقدام کرنے پڑے.دوسری شرط یہ تھی کہ ہر قوم کو مذہبی آزادی ہوگی.باوجود مسلمان اکثریت کے تم اپنے مذہب میں آزاد ہو.تیسری شرط یہ تھی کہ تمام باشندگان کی جانیں اور اموال محفوظ ہوں گے اور ان کا احترام کیا جائے گا سوائے اس کے کہ کوئی شخص جرم یا ظلم کا مرتکب ہو.اس میں بھی اب کوئی تفریق نہیں ہے.جرم کا مرتکب چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو اس کو بہر حال سزا ملے گی.باقی حفاظت کرنا سب کا مشتر کہ کام ہے ، حکومت کا کام ہے.پھر یہ کہ ہر قسم کے اختلاف اور تنازعات رسول اللہ کے سامنے فیصلے کیلئے پیش ہوں گے اور ہر فیصلہ خدائی حکم کے مطابق کیا جائے گا.اور خدائی حکم کی تعریف یہ ہے کہ ہر قوم کی اپنی شریعت کے مطابق.فیصلہ بہر حال آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش ہونا ہے کیونکہ اس وقت حکومت کے مقتدر اعلیٰ آپ تھے.اس

Page 209

191 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم لئے آپ نے فیصلہ فرمانا تھا لیکن فیصلہ اس شریعت کے مطابق ہوگا اور جب یہودیوں کے بعض فیصلے ایسے ہوئے ان کی شریعت کے مطابق تو اس پر ہی اب عیسائی اعتراض کرتے ہیں یا دوسرے مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ جی ظلم ہوا.حالانکہ ان کے کہنے کے مطابق ان کی شرائط پر ہی ہوئے تھے.پھر ایک شرط یہ ہے کہ کوئی فریق بغیر اجازت رسول اللہ ﷺ کے جنگ کیلئے نہ نکلے گا.اس لئے حکومت کے اندر رہتے ہوئے اس حکومت کا پابند ہونا ضروری ہے.اب یہ جو شرط ہے یہ آجکل کی جہادی تنظیموں کیلئے بھی رہنما ہے کہ جس حکومت میں رہ رہے ہیں اس کی اجازت کے بغیر کسی قسم کا جہاد نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ اس حکومت کی فوج میں شامل ہو جائیں اور پھر اگر ملک لڑے یا حکومت تو پھر ٹھیک ہے.پھر ایک شرط ہے کہ اگر یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف کوئی قوم جنگ کرے گی تو وہ ایک دوسرے کی امداد میں کھڑے ہوں گے.یعنی دونوں میں سے کسی فریق کے خلاف اگر جنگ ہوگی تو دوسرے کی امداد کریں گے اور دشمن سے صلح کی صورت میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں کو اگر صلح میں کوئی منفعت مل رہی ہے، کوئی نفع مل رہا ہے، کوئی فائدہ ہو رہا ہے تو اس فائدے کو ہر ایک حصہ رسدی حاصل کرے گا.اسی طرح اگر مدینے پر حملہ ہو گا تو سب مل کر اس کا مقابلہ کرینگے.پھر ایک شرط ہے کہ قریش مکہ اور ان کے معاونین کو یہود کی طرف سے کسی قسم کی امداد یا پناہ نہیں دی جائے گی کیونکہ مخالفین مکہ نے ہی مسلمانوں کو وہاں سے نکالا تھا.مسلمانوں نے یہاں آکر پناہ لی تھی اس لئے اب اس حکومت میں رہنے والے اس دشمن قوم سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں کر سکتے اور نہ کوئی مددلیں گے.ہر قوم اپنے اخراجات خود برداشت کرے گی.یعنی اپنے اپنے خرج خود کریں گے.اس معاہدے کی رو سے کوئی ظالم یا گناہگار یا مفسد اس بات سے محفوظ نہیں ہو گا کہ اسے سزا دی جاوے یا اس سے انتقام لیا جاوے.یعنی جیسا کہ پہلے بھی آچکا ہے کہ جو کوئی ظالم ہوگا، گناہ کرنے والا ہو گا غلطی کرنے والا ہوگا.بہر حال اس کو سزا ملے گی ، پکڑ ہوگی.اور یہ بلا تفریق ہوگی ، چاہے وہ مسلمان ہے یا یہودی ہے یا کوئی اور ہے.پھر اسی مذہبی رواداری اور آزادی کو قائم رکھنے کیلئے آپ نے نجران کے وفد کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی اور انہوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے اپنی عبادت کی.جبکہ صحابہ کا خیال تھا کہ نہیں کرنی چاہئے.آپ نے کہا کوئی فرق نہیں پڑتا.

Page 210

مشعل راه جلد پنجم حصه سوم 192 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اہل نجران کے امان نامہ کی بعض شقیں پھر اہل نجران کو جو امان نامہ آپ نے دیا اس کا بھی ذکر ملتا ہے اس میں آپ نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری قبول فرمائی کہ مسلمان فوج کے ذریعہ سے ان عیسائیوں کی (جو نجران میں آئے تھے ) سرحدوں کی حفاظت کی جائے گی.ان کے گرجے ان کے عبادت خانے ، مسافر خانے خواہ وہ کسی دور دراز علاقے میں ہوں یا شہروں میں ہوں یا پہاڑوں میں ہوں یا جنگلوں میں ہوں ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے.ان کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ہوگی اور اُن کی اس آزادی عبادت کی حفاظت بھی مسلمانوں پر فرض ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیونکہ اب یہ مسلمان حکومت کی رعایا میں اس لئے اس کی حفاظت اس لحاظ سے بھی مجھ پر فرض ہے کہ اب یہ میری رعایا بن چکے ہیں.پھر آگے ہے کہ اسی طرح مسلمان اپنی جنگی مہموں میں انہیں (یعنی نصاری کو ) ان کی مرضی کے بغیر شامل نہیں کریں گے.ان کے پادری اور مذہبی لیڈر جس پوزیشن اور منصب پر ہیں وہ وہاں سے معزول نہیں کئے جائیں گے.اسی طرح اپنے کام کرتے رہیں گے.ان کی عبادت گاہوں میں مداخلت نہیں ہوگی وہ کسی بھی صورت میں زیر استعمال نہیں لائی جائیں گی.نہ سرائے بنائی جائیں گی نہ وہاں کسی کو ٹھہرایا جائے گا اور نہ کسی اور مقصد میں ان سے پوچھے بغیر استعمال میں لایا جائے گا.علماء اور راہب جہاں کہیں بھی ہوں ان سے جزیہ اور خراج وصول نہیں کیا جائے گا.اگر کسی مسلمان کی عیسائی بیوی ہوگی تو اسے مکمل آزادی ہوگی کہ وہ اپنے طور پر عبادت کرے.اگر کوئی اپنے علماء کے پاس جا کر مسائل پوچھنا چاہے تو جائے.گرجوں وغیرہ کی مرمت کیلئے آپ نے فرمایا کہ اگر وہ مسلمانوں سے مالی امداد لیں اور اخلاقی امداد لیں تو مسلمانوں کو مدد کرنی چاہئے کیونکہ یہ بہتر چیز ہے اور یہ نہ قرض ہوگا اور نہ احسان ہوگا بلکہ اس معاہدے کو بہتر کرنے کی ایک صورت ہوگی کہ اس طرح کے سوشل تعلقات اور ایک دوسرے کی مدد کے کام کئے جائیں.تو یہ تھے آپ ﷺ کے معیار مذہبی آزادی اور رواداری کے قیام کیلئے.اس کے باوجود آپ پر ظلم کرنے اور تلوار کے زور پر اسلام پھیلانے کا الزام لگانا انتہائی ظالمانہ حرکت ہے.الفضل انٹر نیشنل 31 مارچ تا 6 اپریل 2006 ء )

Page 211

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 193 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرمودہ 17 مارچ 2006ء سے اقتباس * جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو خدا تعالیٰ کی لاٹھی چلتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کیونکہ تمام دنیا کے لئے ہے، صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ہے اس لئے غیر مسلموں کے لئے بھی ہمیں دعا کرنی چاہئے.یہ امیر ملک بھی اگر غریب ملکوں کو اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے لئے یا اپنے مفاد کو پورا کرنے کے لئے اپنا ز رنگیں کرنا چاہتے ہیں یا کر رہے ہیں تو یہ ظلم ہے.اور حدیث میں آیا ہے کہ ظالم کی بھی مدد کرو.اور ظالم کی مدد اس کے ظلم کے ہاتھ کو روک کر کی جاتی ہے.تو ہاتھ سے تو ہم روک نہیں سکتے ، دعا کا ہی ذریعہ ہے.اور دعا کی طاقت ہمارے پاس ہے لیکن یہ دعا کا بہت بڑا ہتھیار ہے اور اس کو ہمیں استعمال کرنا چاہئے اور جہاں تک ہوسکتا ہے ہمیں استعمال کرنا چاہئے.تمام انسانیت کے لئے دعا کرنی چاہئے.پھر رابطوں سے، ( دعوت الی اللہ ) سے اور اس کے بھی آج کل کے زمانے میں مختلف ذرائع ہیں ان لوگوں کو بتائیں کہ جن راستوں کی طرف تم جارہے ہو.تمہاری حکومتیں تمہیں لے کر جا رہی ہیں یہ تباہی کے راستے ہیں.جتنے اخراجات گولوں اور تباہی پھیلانے پر کئے جاتے ہیں اگر غریب ملکوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور صلح صفائی کی کوشش کے لئے کئے جائیں تو اگر تمہاری نیست نیک ہے اور حقیقت میں دنیا میں امن قائم کرنا چاہتے ہو جیسا کہ دعوی ہے تو اس سے آدھے اخراجات میں بھی شاید تم اپنے مقاصد حاصل کر لو.امن کا نفرنسیں ذاتی مفاد کے لئے نہ ہوں بلکہ اصلاح کے لئے اور حقیقی امن قائم کرنے کے لئے ہوں.خدا کرے کہ ان لوگوں کو عقل آجائے اور ان ملکوں کے عوام میں یہ احساس قائم ہو جائے کہ وہ اپنے ملکوں کے سربراہوں کو ، سیاستدانوں کو ان ظلموں سے روکیں ، باز رکھیں جو انہوں نے غیر ترقی یافتہ ملکوں سے، چھوٹے ملکوں سے روا رکھا ہوا ہے.امن قائم کرنے کے بارے میں حضرت مصلح موعود نے ایک بڑا خوبصورت نکتہ بیان فرمایا ہے.دنیا

Page 212

194 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصه سوم جب تک حُبّ الوطنی اور محب الانسانیت کے گر کو نہیں سمجھے گی اور یہ دونوں جذبات ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں، اس وقت تک امن نہیں ہو سکتا.جب انسانیت کی فکر ہوگی اور صرف اپنے ملک کے مفاد نہیں ہوں گے بلکہ گل انسانیت کی فکر ہوگی تبھی امن قائم ہو گا اور اس کے لئے نیک نیت ہونا ضروری ہے.اللہ کرے کہ ان کو اس کی توفیق ملے ورنہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو خدا تعالیٰ کی لاٹھی چلتی ہے اور آفتوں اور طوفانوں اور بلاؤں کی صورت میں پھر اپنا کام دکھاتی ہے.اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ وارننگ تمام دنیا کو دی ہوئی ہے جو بھی خدا تعالیٰ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرے گا وہ اس کی پکڑ میں آئے گا.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہمیں یہ آفتوں کے نظارے نہ دکھائے بلکہ ہمیں وہ دن دکھائے جب تمام ملک ، تمام قومیں ایک ہو کر اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان کرتے ہوئے ایک جھنڈے کے نیچے آ جائیں جو اسلام کا جھنڈا ہو.اللہ ہمیں بھی توفیق دے کہ اپنے عمل اور دعا سے اس بارے میں بھر پور کوشش کرنے والے ہوں......الفضل انٹر نیشنل 7 تا 13 اپریل 2006 ء )

Page 213

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 195 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ 24 مارچ 2006ء * تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں.فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ (سورة آل عمران آیت (160) الْمُتَوَكِّلِينَ آج سے پاکستان میں وہاں کی مجلس شوری شروع ہو رہی ہے.ان دنوں میں اور ملکوں میں بھی سالانہ مجلس مشاورت ہو رہی ہوتی ہیں، آج کل شروع ہو جاتی ہیں.اس لئے شوری کے نمائندگان اور عہد یداران کے حوالے سے چند باتیں کہوں گا.شوری نظام خلافت کا مددگا را دارہ ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں جماعت میں مجلس شوریٰ کا ادارہ نظام جماعت اور نظام خلافت کے کاموں کی مدد کے لئے انتہائی اہم ادارہ ہے.اور حضرت عمر کا یہ قول اس سلسلہ میں بڑا اہم ہے کہ لَا خِلَافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَة کہ بغیر مشورے کے خلافت نہیں ہے.اور یہ قول قرآن کریم کی ہدایت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے عین مطابق ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے ہر اہم کام میں مشورہ لیا کرتے تھے لیکن جیسا کہ آیت سے واضح ہے مشورہ لینے کا حکم تو ہے لیکن یہ حکم نہیں کہ جو اکثریت رائے کا مشورہ ہوا سے قبول بھی کرنا ہے.اس لئے وضاحت فرما دی کہ مشورہ کے بعد مشورہ کے مطابق یا اُسے رد کرتے ہوئے ، اقلیت کا فیصلہ مانتے ہوئے یا اکثریت کا فیصلہ مانتے ہوئے جب ایک فیصلہ کر لو ، کیونکہ بعض دفعہ حالات کا ہر ایک کو پتہ نہیں ہوتا اس لئے مشورہ رڈ بھی کرنا پڑتا ہے.تو پھر یہ ڈرنے یا سوچنے کی ضرورت نہیں کہ ایسا نہ ہو جائے ، ویسا نہ ہو

Page 214

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 196 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جائے.پھر اللہ پر توکل کرو اور جس بات کا فیصلہ کر لیا اس پر عمل کرو.اس کے ساتھ ہی قرآن کریم نے اس حوالے سے اُس ماحول کی بھی نشاندہی کر دی اور ہمیں وہ طریقہ بھی بتا دیا جو جماعت کا ہونا چاہئے.یہاں مخاطب گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن مرا دامت سے ہے.جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں خاص طور پر اس زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کے بعد خلافت نے دائی طور پر قائم ہونا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حکم دیا گیا یا جوارشاد فرمایا گیا ہے، اصل میں تو یہ جماعت کے لئے ہے اُمت کے لئے بھی ہے لیکن جماعت کے افراد کے لئے بھی ہے.ان کو یہ یاد رکھنا چاہئے اس میں عہدیداران بھی آجاتے ہیں.سب سے بڑا مخاطب خلیفہ وقت ہوتا ہے کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نرمی ہے اسی طرح خلیفہ وقت کے دل میں بھی نرمی ہوتی ہے اور جب تک خلافت کا نظام علی منہاج نبوت رہے گا اور خلافت کا نظام علی منہاج نبوت کا یہ نظام اللہ تعالی کے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق قائم ہو چکا ہے اور جب تک یہ نظام رہے گا خلیفہ وقت کے دل میں افراد جماعت کے لئے نرمی بھی رہے گی، انشاء اللہ تعالیٰ.اور جیسا کہ میں نے کہا یہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق قائم ہو گیا ہے اور یہ ایک دائمی نظام ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ سب کچھ کسی کی کوششوں سے نہیں ہوگا یا اپنی طبیعتوں میں خود بخود تبدیلی پیدا نہیں ہوگی بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی خاص رحمت اور فضل سے ہوتا ہے اور ہوگا.اور خلافت کا یہ نظام اور پھر جماعت کا نظام، یہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں سے چلتا رہے گا.اور افراد جماعت کا بھی خلافت کے ساتھ جو تعلق ہے وہ بھی اس نظام خلافت کے چلنے کی وجہ سے جاری رہے گا اور یہ تعلق بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہی جماعت کے افراد کے اندر پیدا کیا ہوا ہے.خلافت سے جو جوش اور محبت جماعت کو ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں میں سے ہے.یہ دو طرفہ بہاؤ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی وجہ سے جماعت میں قائم ہے.یعنی خلیفہ وقت کو یہ حکم ہے کہ دین کے اہم کاموں میں امت کے لوگوں سے مشورہ لو.نرم دل رہو اور دعا کرو.مشورہ کن سے لینا چاہیے لوگوں کو یہ حکم ہے کہ جب مشورہ مانگا جائے تو نیک نیت ہو کر تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے مشورہ دو.اس لئے حکم ہے کہ جن سے مشورہ لیا جائے وہ نیک ہوں اور تقویٰ پر چلنے والے ہوں ہر ایک سے مشورہ لینے کا حکم

Page 215

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 197 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے.اس بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ شَاوِرُوا الْفُقَهَاءَ وَالْعَابِدِيْن کہ سمجھدار اور عبادت گزارلوگوں سے مشورہ کرو.اس لئے جماعت میں یہ طریق رائج ہے کہ ایسے لوگ جو بظاہر نظام جماعت کے پابند بھی ہوں، مالی قربانی کرنے والے بھی ہوں، عبادتیں کرنے والے بھی ہوں وہ مرکزی شوری کے لئے اپنے میں سے نمائندے چنتے ہیں جو مجلس شوریٰ میں بیٹھ کر تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے مشورے دیتے ہیں یا دینے چاہئیں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جب {شَاوِرْهُمْ فِي الأمر } کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چہ اللہ اور اس کا رسول اس سے مستغنی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے میری اُمت کے لئے رحمت کا باعث بنایا ہے.پس ان میں سے جو مشورہ کرے گا وہ رشد و ہدایت سے محروم نہیں رہے گا.پس یہ مشورے امت کے لئے رحمت کا باعث ہیں اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے رُشد و ہدایت پر چلانے والے ہیں.لیکن اس پہلی حدیث کے مطابق اگر مشورہ دینے والے اپنی عقل اور سمجھ کے ساتھ ساتھ اپنے کسی خاص کام میں مہارت کے ساتھ ساتھ عبادت گزار بھی ہوں اور نیکیوں پر قدم مارنے والے بھی ہوں، تقویٰ پر قائم ہوں تبھی ایسے مشورے ملیں گے جو قوم کے مفاد میں ہوں گے.اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والے ہوں گے.اور ان مشوروں میں برکت بھی پڑے گی اور بہتر نتا ئج بھی بر آمد ہوں گے.نمائندگان شوری کے انتخاب کے تقاضے پس یہاں ممبران جماعت پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ صرف اپنی دوستی اور رشتہ داری یا تعلق داری کی وجہ سے ہی شوری کے نمائندے منتخب نہیں کرنے بلکہ ایسے لوگ جو تقویٰ پر چلنے والے ہوں، کیونکہ تم جس ادارے کے لئے یہ نمائندگان منتخب کر کے بھجوا رہے ہو یہ بڑا مقدس ادارہ ہے اور نظام خلافت کے بعد نظام شوری کا ایک نقدس ہے.اس لئے بظاہر سمجھدار اور نیک لوگ جو عبادت کرنے والے اور تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں اُن کو منتخب کرنا چاہئے اور جب ایسے لوگ چنو گے تبھی تم رحمت کے وارث بنو گے ورنہ دنیا دار لوگ تو پھر ویسے ہی اخلاق دکھا ئیں گے جیسے ایک دنیا دار دنیاوی اسمبلیوں میں ، پارلیمنٹوں میں دکھاتے

Page 216

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 198 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہیں.پس افراد جماعت کی طرف سے اس امانت کا حق جو ان کے سپرد کی گئی ہے اس وقت ادا ہو گا جب تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے شوری کے نمائندے منتخب کریں گے.پاکستان میں تو اب جماعتوں کی طرف سے اس ادا ئیگی امانت کا وقت گزر چکا ہے.کیونکہ نمائندے منتخب کر لئے ہیں آج شوری ہو رہی ہے.لیکن جن ملکوں میں ابھی نمائندے چنے جانے ہیں ان کو یہ بات ہمیشہ مد نظر رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ {تُؤدُّوا الا منتِ إِلَى أَهْلِهَا } (سورة النساء آيت: 59) کہ امانتوں کو ان کے مستحقوں کے سپرد کرو کیونکہ وہ نمائندے خلیفہ وقت کو مشورہ دینے کے لئے چنے جاتے ہیں.آپ اپنی جماعتوں سے نمائندے چن کے اس لئے بھیج رہے ہیں کہ خلیفہ وقت کو مشورہ دیں.اس لحاظ سے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے.جو لوگ کھلی آنکھ سے ظاہراً نا اہل نظر آ رہے ہوں ان کو اگر آپ چنیں گے تو وہ پھر شوری کی نمائندگی کا حق بھی ادا نہیں کر سکتے.یا ایسے لوگ جو بلا وجہ اپنی ذات کو ابھار کر سامنے آنے کا شوق رکھتے ہیں وہ بھی جب شوری میں آتے ہیں تو مشوروں سے زیادہ اپنی علمیت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں.تو جماعتیں جب انتخاب کرتی ہیں تو اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگوں کو نہ چنیں.تو یہ ہے شوری کے ضمن میں ذمہ داری افراد جماعت کی کہ تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اپنے نمائندگان شوری چنیں نہ کہ کسی ظاہری تعلق کی وجہ سے اور جس کو چنیں اس کے بارے میں اچھی طرح پر کھ لیں.اس کو آپ جانتے ہوں، آپ کے علم کے مطابق اس میں سمجھ بوجھ بھی ہواور علم بھی ہو اور عبادت گزار بھی ہو.اور تقویٰ کی راہوں پر چلنے والا بھی ہو.نمائندگان شوری کے فرائض اب میں نمائندگان سے بھی چند باتیں کہنا چاہتا ہوں.شوری کی نمائندگی ایک سال کے لئے ہوتی ہے.یعنی جب شوری کا نمائندہ منتخب کیا جاتا ہے تو اس کی نمائندگی انگلی شوری تک چلتی ہے جب تک نیا انتخاب نہیں ہو جاتا.صرف تین دن یا دو دن کے اجلاس کے لئے نہیں ہوتی.شوریٰ کے نمائندگان کے بعض کام مستقل نوعیت کے اور عہدیداران جماعت کے معاون کی حیثیت سے کرنے والے ہوتے ہیں اس لئے مستقلاً اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا جماعت کو اپنے نمائندے ایسے لوگوں کو چنا چاہئے جوان کے نزدیک ایک تو سمجھ بوجھ رکھنے والے ہوں.ہر میدان میں ہر ایک ماہر نہیں ہوتا، کوئی کسی معاملے میں

Page 217

199 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم زیادہ صائب رائے رکھنے والا ہوتا ہے یا مشورہ دے سکتا ہے، کوئی کسی معاملے میں.دوسری اہم بات یہ ہے کہ عبادت گزار ہونا چاہئے اور حقیقی عبادت گزار ہمیشہ تقویٰ پر قدم مارنے والا ہوتا ہے.کیونکہ وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرے.اور جہاں قرآن اور سنت کے مطابق واضح ہدایات نہ ملتی ہوں وہاں وہ اپنی سمجھ اور علم کو خدا سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کہنے کا یہ مطلب ہے کہ جب نمائندگان کو افراد جماعت اس حسن ظنی کے ساتھ منتخب کرتے ہیں تو جو نمائندگان شوریٰ ہیں ان پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.وہ ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنی اس ذمہ داری کو دا کریں.ہمیشہ یاد رکھیں کہ جماعت کے افراد نے آپ پر حسن ظن رکھتے ہوئے قرآن کریم کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہوئے آپ کو منتخب کیا ہے کہ تُؤدُّوا الا منتِ إِلَى أَهْلِهَا } (سورة النساء آیت : 59) كه امانتیں ان کے اہل کے سپر د کرو.خدا کرے کہ اکثریت نمائندگان جو وہاں شوری میں آئے ہوئے ہیں ان کا انتخاب اسی سوچ کے ساتھ ہوا ہو اور کسی خویش پروری یا ذاتی پسند کی وجہ سے نہ ہوا ہو.لیکن اگر بالفرض بعض ایسے نمائندگان بھی آگئے ہیں جو ذاتی تعلق کی وجہ سے منتخب ہوئے ہیں تو میں امید رکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے نمائندگان کو سمجھ بوجھ کے ساتھ تقویٰ پر چلتے ہوئے مشورے دینے والا بنائے اور کبھی مجھے ایسے مشیر نہ ملیں جو دنیا کی ملونی اپنے اندر رکھتے ہوئے مشورے دینے والے ہوں.تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ اگر بعض نمائندگان اس معیار کو مد نظر رکھے بغیر بھی چنے گئے ہیں وہ بھی اب میری یہ بات سن کر استغفار کرتے ہوئے اپنے آپ کو تقویٰ پر چلاتے ہوئے اس امانت کی ادائیگی کا اہل بنانے کی کوشش کریں.یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اس لئے اس پر چلتے ہوئے اگر آپ عمل کریں گے تو اپنی ذات کو بھی فائدہ پہنچارہے ہوں گے.پس ہمیشہ یہ یا درکھنا چاہئے کہ یہ ایک امانت ہے جس کی ادائیگی کا آپ کو حق ادا کرنا ہے.اس نمائندگی کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں کہ تین دن کے لئے ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں کچھ باتیں سن لیں کچھ دوستوں سے مل لئے اور بس صرف اتنا کام نہیں ہے ، ان کا بڑا وسیع کام ہے.پھر نمائندگان یہ بھی یا درکھیں کہ جب مجلس شوری کسی رائے پر پہنچ جاتی ہے اور خلیفہ وقت سے منظوری حاصل کرنے کے بعد اس فیصلے کو جماعتوں میں عملدرآمد کرنے کے لئے بھجوادیا جاتا ہے.تو یہ نمائندگان کا بھی

Page 218

200 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم فرض ہے کہ اس بات کی نگرانی کریں اور اس پر نظر رکھیں کہ اس فیصلے پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں ہورہا اور اس طریق کے مطابق ہو رہا ہے جوطریق وضع کر کے خلیفہ وقت سے اس کی منظوری حاصل کی گئی تھی.یا بعض جماعتوں میں جا کر بعض فیصلے عہد یدار ان کی سستیوں یا مصلحتوں کا شکار ہورہے ہیں.اگر تو ایسی صورت ہے تو ہر نمائندہ یا تو شوری اپنے علاقے میں ذمہ دار ہے کہ اس پر عملدرآمد کروانے کی کوشش کرے اپنے عہدیداران کو توجہ پر دلائے ، جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کے معاون کی حیثیت سے کام کرے.ایک کافی بڑی تعداد عہدیداران کی نمائندہ شوری بھی ہوتی ہے.وہ اگر کسی فیصلے پر عمل ہوتا نہیں دیکھتے تو اپنی عاملہ میں اس معاملے کو پیش کر کے اس پر توجہ دلائیں.نمائندگان شوریٰ چاہے وہ انتظامی عہدیدار ہیں یا عہد یدار نہیں ہیں اگر اس سوچ کے ساتھ کئے گئے فیصلوں کی نگرانی نہیں کرتے اور وقتا فوقتا مجلس عاملہ میں نتائج کے حاصل ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ نہیں لیتے تو ایسے نمائندگان اپنا حق امانت ادا نہیں کر رہے ہوتے.اور اگر یہاں اس دنیا میں یا نظام جماعت کے سامنے،خلیفہ وقت کے سامنے اگر بہانے بنا کر بچ بھی جائیں گے تو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ ضرور پوچھے جائیں گے جو اپنی امانتوں کا حق ادا نہیں کرتے.پس اس اعزاز کو کسی تفاخر کا ذریعہ نہ سمجھیں.بلکہ یہ ایک ذمہ داری ہے اور بہت بڑی ذمہ داری ہے.اگر با وجود توجہ دلانے کے پھر بھی مجلس عاملہ یا عہدیداران توجہ نہیں دیتے اور اپنے دوسرے پروگراموں کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے اور شوریٰ کے فیصلوں کو درازوں میں بند کیا ہوا ہے، فائلوں میں رکھا ہوا ہے تو پھر نمائندگان شوری کا یہ کام ہے کہ مجھے اطلاع دیں.اگر مجھے اطلاع نہیں دیتے تو پھر بھی امانت کا حق ادا کرنے والے نہیں ہیں، بلکہ اس وجہ سے مجرم بھی ہیں.جب بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ کسی وجہ سے، کسی رنجش کی بنا پر کوئی فرد جماعت اگر کوئی خط لکھتا ہے تو پھر جب بات سامنے آتی ہے اور جب بعض کاموں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، یا تحقیق کی جاتی ہے تو پھر یہی عہدیداران اور نمائندگان لمبی لمبی کہانیوں کا ایک دفتر کھول دیتے ہیں.امانت کی ادائیگی کا تقاضا تو یہ تھا کہ جب کوئی غلط بات پاستی دیکھی تو فورا اطلاع کی جاتی.اور اگر مقامی سطح پر یہ باتیں حل نہیں ہو رہی تھیں تو اُس وقت آپ باتیں پہنچاتے.جماعت کی ترقی کی رفتار تیز کرنے کا یہ ایک مسلسل عمل ہے.بعض لوگ اس خوف سے کہ ہم پر ذمہ داری نہ آ پڑے ذمہ داری سے بچنے کے لئے خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں.تو اگر اپنا جائزہ لینے کی ، اپنا محاسبہ کرنے

Page 219

201 مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہر عہد یدار کو ہر نمائندہ شوریٰ کو عادت ہوگی اور یہ خیال ہو گا کہ مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے خلیفہ وقت کو مشورہ دینے کے لئے چنا گیا ہے اور پھر تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے مشورہ دینے کے بعد میری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ میں یہ جائزہ لیتا ہوں کہ کس حد تک ان فیصلوں پر عمل ہوا ہے یا ہو رہا ہے تو مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے کاموں میں ایک واضح تبدیلی پیدا ہوگی.جیسا کہ میں نے کہا یہ ایک مسلسل عمل ہے کام کرنے کا اور جائزے لیتے رہنے کا.تبھی ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے.اور جماعتوں میں ایک واضح بیداری پیدا ہوگی اور نظر آ رہی ہوگی.فیصلوں کے بعد عملدرآمد میں سستی کا مظاہرہ اب اس دفعہ بھی پاکستان کی شوریٰ میں پیش کرنے کے لئے جماعتوں نے بعض تجویزیں رکھیں اور یہ دوسرے ملکوں میں بھی ہوتا ہے لیکن ان تجویزوں کو انجمن یا ملکی مجلس عاملہ شوری میں پیش کرنے کی سفارش نہیں کرتی کہ یہ تجویز گزشتہ سال یا دو سال پہلے شوریٰ میں پیش ہو چکی ہے اور حسب قواعد تجویز تین سال سے پہلے شوری میں پیش نہیں ہوسکتی.تو اس تجویز کے آنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کم از کم اس جماعت میں جس کی طرف سے یہ تجویز آئی ہے وہاں اس فیصلے پر جو ایک سال یا دو سال پہلے ہوا تھا، شوری نے کیا تھا اور پھر منظوری لی تھی، اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا.اور یہ بات واضح طور پر اس جماعت کے عہد یداران اور نمائندگان شوری کی سنتی اور نا اہلی ثابت کرتی ہے.اور یہ واضح ثبوت ہے اس بات کا کہ خود ہی کسی کام کو کرنے کے بارے میں ایک رائے قائم کر کے اور پھر اس پر آخری فیصلہ خلیفہ وقت سے لینے کے بعد اس فیصلے کو جماعت نے کوئی اہمیت نہیں دی.یہ ستی صرف اس لئے ہے کہ جس طرح ان معاملات کا پیچھا کرنا چاہئے ، مرکز نے بھی پیچھا نہیں کیا، نظارتوں نے بھی پیچھا نہیں کیا یاملکی سطح پرملکی عاملہ پیچھا نہیں کرتی.ترجیحات اور اور رہیں.اس طرح مرکزی عہدیداران بھی جب یہ توجہ نہیں دے رہے ہوتے تو وہ بھی اپنی امانت کا حق ادا نہیں کر رہے ہوتے.اس کے لئے مرکزی عہدیداران کو بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور مقامی جماعت کے عہد یداران اور نمائندگان شوری کو بھی اپنا محاسبہ کرنا ہوگا اور جائزہ لینا ہوگا اور وجوہات تلاش کرنی ہوں گی کہ کیوں سال دو سال پہلے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ملکی انتظامیہ کی طرف سے یا انجمنوں کی طرف سے اس بنا پر کہ تھوڑا عرصہ پہلے کوئی تجویز پیش ہوچکی ہے ، پیش نہ کئے جانے کی سفارش آتی

Page 220

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 202 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہے.ٹھیک ہے شوریٰ میں پیش تو نہ ہو لیکن اپنے جائزے اور محاسبہ کے لئے کچھ وقت ان تجاویز کی جگالی کے لئے ضروری ہے.یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ عملدرآمد نہیں ہوا.اگر تو 70-80 فیصد جماعتوں میں عمل ہو رہا ہے اور 30-20 فیصد جماعتوں میں نہیں ہو رہا تو پھر تو جائزے کی ضرورت نہیں ہے.لیکن اگر 70-80 فیصد جماعتوں میں گزشتہ فیصلوں پر عمل نہیں ہو رہا ہے تو لمحہ فکریہ ہے.اس طرح تو اعلیٰ مقاصد حاصل نہیں کئے جاتے.تو میں سمجھتا ہوں کہ شوریٰ میں اس کے لئے بھی مخصوص وقت ہونا چاہئے تا کہ دیکھا جائے اپنا جائزہ لیا جائے.یہ ٹھیک ہے کہ کج بحثی نا پسندیدہ فعل ہے لیکن بحث سے بچنے کے لئے ، اپنے جائزے لینے کے لئے، آنکھیں بند کر لینا بھی اس سے زیادہ ناپسندیدہ فعل ہے.اس جائزہ میں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جن جماعتوں نے خاص کوشش کی ہے زیادہ اچھا کام کیا ہے ان کا طریقہ کا ر کیا تھا.انہوں نے کس طرح اس پر عملدرآمد کروایا.اس طرح پھر جب ڈسکشن (Discussion) ہوگی تو پھر دوسری جماعتوں کو بھی اپنی کارکردگی بہتر کرنے کا موقع مل جائے گا.لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے اس کارروائی یا بحث میں بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی ذات پر تبصرے شروع ہو جاتے ہیں.کسی کی ذات پر تبصرہ نہیں کرنا بلکہ صرف شعبے کا جائزہ ہو.اس فیصلے پر جس پر پوری طرح عمل نہیں ہو رہا، اس کا جائزہ لیا جائے کہ کہاں کمیاں ہیں اور کیوں کمیاں ہیں.بہر حال ہمیں کوئی ایسا طریق وضع کرنا ہوگا جس سے قدم آگے بڑھنے والے ہوں.یہ نہیں ہے کہ ایک فیصلہ کیا اور تین سال اس پر عمل نہ کیا یا اتنا کم عمل کیا کہ نہ ہونے کے برابر ہو، اکثر جماعتوں نے سستی دکھائی اور پھر تین سال کے بعد وہی معاملہ دوبارہ اس میں پیش کر دیا کہ شوری اس کے لئے لائحہ عمل تجویز کرے.تو یہ تو ایک قدم آگے بڑھانے اور تین قدم پیچھے چلنے والی بات ہوگی.نمائندگان حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھیں پھر شوری کے نمائندگان اور عہدیداران کو چاہے وہ مقامی جماعتوں کے ہوں یا مرکزی انجمنوں کے ہوں ایک بات یہ بھی یادرکھنی چاہئے کہ جماعت کی نظر میں آپ جماعت کا ایک بہترین حصہ ہیں جن کے سپرد جماعت کی خدمت کا کام کیا گیا ہے.اور آپ لوگوں سے یہ امید اور توقع کی جاتی ہے کہ آپ کا معیار ہر لحاظ سے بہت اونچا ہوگا اور ہونا چاہئے.چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ہو، عبادت کرنے

Page 221

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 203 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دینے کے بارے میں ہو، یا بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ہو یا خلیفہ وقت سے تعلق اور اطاعت کے بارے میں ہو.اس لئے نمائندگان اور عہدیداران کو اس لحاظ سے بھی اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ وہ کس حد تک اپنی عبادتوں کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں.جیسا کہ میں بتا آیا ہوں کہ عبادت ایک بنیادی چیز ہے جس کو نمائندگی دیتے ہوئے مد نظر رکھنا چاہئے اور ایک عام مسلمان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ عبادت گزار ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس دین میں عبادت نہیں وہ دین ہی نہیں ہے.تو ایک عام احمدی کے لئے جب نمازوں کی ادائیگی فرض ہے تو عہدیدار جو ہر لحاظ سے افراد جماعت کے لئے نمونہ ہونا چاہئیں ان کے لئے تو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی کوئی نماز بغیر جماعت کے نہ ہو سوائے کسی اشد مجبوری کے.پس ہمیشہ یادرکھیں کہ یہ جو دو تین دن شوری کے لئے آتے ہیں اور آئے ہیں، ان میں صرف یہی نہیں کہ ان دنوں میں ہی یہیں نمازیں پڑھنی ہیں اور دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہے بلکہ ہر نمائندے کو ، ہر عہدیدار کو، با قاعدہ نماز با جماعت کا عادی ہونا چاہئے.خود اپنے جائزے لیں، اپنا محاسبہ کریں، دین کی سر بلندی کی خاطر آپ کے سپر د بعض ذمہ داریاں کی گئی ہیں.اگر ان میں دین کے بنیادی ستون کی طرف ہی توجہ نہیں ہے تو خدمت کیا کریں گے اور مشورے کیا دیں گے.جو دل عبادتوں سے خالی ہیں ان کے مشورے بھی تقویٰ کی بنیاد پر نہیں ہو سکتے.پھر بندوں کے حقوق ہیں.نمائندگان اور عہدیداران کو اپنے دلوں کو ہر قسم کی برائیوں اور رنجشوں سے پاک کرنا ہوگا، لین دین کے معاملے میں بھی ان کے ہاتھ بالکل صاف ہونے چاہئیں.ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں بھی ان کے ہاتھ بالکل صاف ہونے چاہئیں.ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمسائے سے حسن سلوک کا خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس کی یہاں تک تاکید فرمائی ہے کہ صحابہ کو خیال ہوا کہ شاید یہ ہمارے ورثہ میں حصہ دار بننے والے ہیں.تو جب اتنی تاکید ہے ہمسائے سے حسن سلوک کی تو یہ کس طرح برداشت کیا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ جن کے سپر د جماعتی ذمہ داریاں کی گئی ہیں وہ اپنے ہمسایوں کے لئے دکھ کا باعث ہوں اور ہمسائے ان کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا ہوں.

Page 222

204 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم یا درکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمسائے کی تعریف یہ کی ہے کہ تمہارے دینی بھائی بھی تمہارے ہمسائے ہیں.یعنی ہر احمدی ہمسایہ ہے.عہد یداروں کو یادرکھنا چاہئے کہ ہر احمدی ان کا ہمسایہ ہے اور اگر کسی احمدی کو آپ کی وجہ سے کوئی تکلیف یاد کھ پہنچتا ہے تو یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے.ایک عام احمدی جب دوسرے احمدی کے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے تو گو یہ بھی بڑی تکلیف والی بات ہے لیکن وہ معاملہ ان دو اشخاص کے درمیان رہتا ہے لیکن جب ایک ذمہ دار جماعت کی خدمت کرنے والے سے کسی کو دکھ پہنچتا ہے یا تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ایک عام احمدی کو بعض اوقات دین سے دور لے جانے والی بھی بن جاتی ہے وہ اس کی ٹھوکر کا باعث بن رہا ہوتا ہے.اسی طرح اور بھی بہت سارے بنیادی اخلاق ہیں جو جماعتی خدمتگاروں کے لئے چاہے وہ نمائندگان شوری ہوں یا عہدیدار ہوں یا واقفین زندگی ہوں، سب کو ان کے اعلیٰ نمونے دکھانے کی طرف توجہ ہونی چاہئے.بعض باتیں چونکہ نمائندگان شوری کے علاوہ بھی خدمت گاروں کے لئے ضروری تھیں اس لئے میں نے سب کو توجہ دلائی ہے کیونکہ یہ عہدیداروں کے اچھے نمونے ہیں جن کو دیکھ کر پھر جماعت میں بھی اچھے نمونے قائم ہوں گے.خلیفہ وقت کی اطاعت پھر ایک اور بات جس کی طرف نمائندگان شوری اور دوسرے کارکنان کو توجہ دلانی چاہتا ہوں ، وہ خلیفہ وقت کی اطاعت ہے.جیسا کہ میں پہلے بھی بتا آیا ہوں کہ شوریٰ کے فیصلوں پر عملدرآمد کروانا نمائندگان شوری اور عہد یداران کا کام ہے.اور کیونکہ یہ فیصلے خلیفہ وقت سے منظور شدہ ہوتے ہیں اس لئے اگر ان پر عملدرآمد کروانے کی طرف پوری توجہ نہیں دی جا رہی تو غیر محسوس طریقے پر خلیفہ وقت کے فیصلوں کو تخفیف کی نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں.اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اطاعت کے دائرے کے اندر نہیں رہ رہے ہوتے جبکہ جن کے سپر د ذمہ داریاں کی گئی ہیں ان کو تو اطاعت کے اعلیٰ نمونے دکھانے چاہئیں جو کہ دوسروں کے لئے باعث تقلید ہوں ، نمونہ ہوں.پس یہ جو خدمت کے موقعے ملے ہیں ان کو صرف عزت اور خوشی کا مقام نہ سمجھیں کہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے اور بڑی عزت کی بات ہے ہمیں خدمت کا موقع مل گیا.اس کے ساتھ جب تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم ہوں گے تب یہ عزت اور خوشی کی بات ہوگی اور تب یہ عزت اور خوشی کے مقام بنیں گے.

Page 223

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم رائے سوچ سمجھ کر دیں 205 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ایک بات میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں ، شوری کے ممبران کے لئے دوبارہ یاددہانی کروارہا ہوں کہ شوری کی بحث کے دوران جب اپنی رائے دینا چاہتے ہیں تو رائے دینے سے پہلے اس تجویز کے سارے اچھے اور برے پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے اپنی رائے دیں نہ کہ کسی دوسرے رائے دینے والے کے فقرہ کو اٹھا کر جوش میں آجائیں.سمجھ بوجھ رکھنے والی شرط بھی اسی لئے رکھی گئی ہے کہ ہوش وحواس میں رہتے ہوئے رائے دیں.اور دوسری بات یہ کہ اظہار رائے کے وقت کسی کے جوش خطابت سے متاثر ہو کر اس طرف نہ جھک جائیں.یا اپنی کسی پسندیدہ شخصیت کی رائے سن کر اس پر صاد نہ کر دیں، اس کی بات نہ مان لیں.بلکہ رائے کو پرکھیں اور اگر معمولی اختلاف ہو تو بلا وجہ کج بحثی کی ضرورت نہیں ہوتی.لیکن اگر واضح فرق ہو، آپ کے پاس زیادہ مضبوط دلیلیں ہوں یا دوسرے کی دلیل زیادہ اچھی ہو تو ضروری نہیں وہاں کسی رائے دینے والے سے تعلق کا اظہار کیا جائے.خلیفہ وقت کا دست و بازو بن کر عملدرآمد میں جت جائیں بہر حال آخر میں پھر یہی کہتا ہوں کہ جب شوری میں بحثوں کے بعد آپ ایک رائے قائم کر لیتے ہیں اور اس پر خلیفہ وقت کا فیصلہ لے لیتے ہیں چاہے وہ آپ لوگوں کی رائے مان لینے کی صورت میں ہو یا کسی تبدیلی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی صورت میں.جب یہ جماعتوں کو عملدرآمد کے لئے بھجوا دیا جاتا ہے تو امانت کا حق اور تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ خلیفہ وقت کا دست و بازو بن کر اس پر عملدرآمد میں جت جائیں ، نہ سستیاں دکھائیں اور نہ تو جیہیں نکالنے کی کوشش کریں.اگر اس طرح کریں گے تو پھر آپ کے فیصلوں میں کبھی برکت نہیں پڑے گی.اور عہدیداران کی دوسری باتیں بھی بے برکت ہو جائیں گی.پھر میں کہتا ہوں کہ اپنی ذمہ داریوں کے احساس کو اجاگر کریں، اس کو سمجھیں اور خدا سے مدد مانگتے ہوئے شوری کے دنوں میں اپنے اجلاس کے اوقات میں بھی اور فارغ اوقات میں بھی دعاؤں میں گزاریں.اور جب اپنی جماعت میں جائیں تو وہاں بھی آپ میں اس تبدیلی کا اثر مستقل نظر آتا ہو.یاد رکھیں کہ ہوشیاری ، چالا کی یا علم سے نہ احمدیت کا غلبہ ہوتا ہے، نہ کوئی انقلاب آتا ہے.اگر دنیا میں کوئی تبدیلی پیدا ہونی ہے تو وہ دعاؤں سے اور تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے ہونی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہوگی.

Page 224

مشعل راه جلد پنجم حصه سوم 206 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ { يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ يُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ } (الأنفال: 30) { وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُوْرًا تَمْشُونَ بِهِ } (الحدید : 29) یعنی اے ایمان والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور غیر میں فرق رکھ دے گا.اور فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی راہوں پر چلو گے یعنی وہ نو ر تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قومی اور حواس میں آ جائے گا.تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا ، تمہاری ایک انکل کی بات میں بھی نور ہو گا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت و سکون میں نور ہوگا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی“.پس یہ معیار ہیں جن پر تقویٰ کے ساتھ چلنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں خوشخبری دی ہے.جیسا کہ آپ نے فرمایا تقویٰ پر چلنے سے ہی سب کچھ ملے گا.اور اگر نمائندگان شوری اور تمام عہد یداران اور تمام خدمت گزار یہ حالت اپنے اندر پیدا کر لیں تو جماعت کے تقویٰ کے معیار بھی خود بخود بڑھنے شروع ہو جائیں گے انشاء اللہ.اور پھر ہر فیصلہ جو کیا جائے گا اور ہر فیصلہ جس کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلائی جائے گی، اس پر عملدرآمد بھی ہو گا اور اس میں برکت بھی پڑے گی.اور یہ شکوے بھی انشاء اللہ ختم ہو جائیں گے کہ اتنی کوششوں کے باوجود بھی ہمارے پروگراموں کے نتائج سامنے نہیں آئے.اللہ سب کو تقویٰ کی راہوں پر چلاتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام وہ لوگ جن کو کسی بھی رنگ میں جماعت کی خدمت کا موقع مل رہا ہے خلیفہ وقت کے دست راست بن کر رہیں.الفضل انٹر نیشنل 14 تا 20 اپریل 2006ء)

Page 225

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 207 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرمودہ 31 مارچ 2006ء سے اقتباسات * مالی قربانی مالی کشائش کے مطابق کریں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی استعداد میں زیادہ تھیں انہوں نے اس کے مطابق قربانی دی، دوسرے ان کو اللہ تعالیٰ کے اپنے ساتھ اس سلوک کا بھی علم تھا، ان کو پتہ تھا کہ میں آج اپنے گھر کا سارا سامان بھی اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنی دماغی صلاحیت دی ہے اور تجارت میں اتنا تجربہ ہے کہ اس سے زیادہ مال دوبارہ پیدا کرلوں گا اور تو کل بھی تھا ، یقین بھی تھا اور یقیناً اس میں اعلیٰ ایمانی حالت کا دخل بھی تھا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا جائزہ لیتے ہوئے گھر کا نصف مال پیش کر دیا اور اسی طرح باقی صحابہؓ نے اپنی استعدادوں کے مطابق قربانیاں کیں اور کرتے چلے گئے.تو ہمیں اس ارشاد کہ {لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا } (البقرہ: 287) کو اپنے بہانوں کے لئے ستعمال نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے ، خود اپنے آپ کو دیکھنا چاہئے کہ مالی قربانی کی میرے اندر کس حد تک صلاحیت ہے، کتنی گنجائش ہے.کم آمدنی والے لوگ عموماً زیادہ قربانی کر کے چندے دے رہے ہوتے ہیں بہ نسبت زیادہ آمدنی والے لوگوں کے.زیادہ پیسے کو دیکھ کر بعض دفعہ بعض کا دل کھلنے کی بجائے تنگ ہو جاتا ہے.بلکہ بعض دفعہ ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ موصی بھی بہت کم آمدنی پر چندے دیتے ہیں اور ایسے راستے تلاش کر رہے ہوتے ہیں جن سے ان کی آمدنی کم سے کم ظاہر ہو.حالانکہ چندہ تو خدا تعالیٰ کی خاطر دینا ہے.ایسے لوگوں کا پھر پتہ تو چل جاتا ہے، پھر وصیت پر زد بھی آتی ہے.پھر معذرتیں کرتے ہیں اور معافیاں مانگتے ہیں.تو چاہے موصی ہو یا غیر موصی جب بھی مالی کشائش پیدا ہو اس مالی کشائش کو انہیں قربانی میں بڑھانا چاہئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہماری استعدادوں کو ، کشائش کو اس لئے بڑھایا ہے کہ آزمائے جائیں.یہ دیکھا جائے کہ بیعت کے دعوی میں

Page 226

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 208 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کس حد تک بچے ہیں.{ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا } (البقرہ: 287) کے ارشاد کے بعد اس ارشاد کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ { لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ } (البقرہ: 287) یعنی نیک کام کا ثواب بھی ملے گا اور اگر ٹال مٹول کر رہے ہو گے تو نقصان بھی ہوگا.بہر حال اگر دل میں ذرا سا بھی ایمان ہو تو ایسے لوگ جن کی غلطیوں کی وجہ سے ان سے چندہ نہیں لیا جاتا جب ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ان کی وصیت پر زد پڑتی ہے یا دوسرے لوگوں کے چندوں پر.تو کیونکہ احمدی ہیں، دل میں نیکی ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے، پھر ان کے دل بے چین ہو جاتے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا پھر معافیاں مانگتے ہیں اور ان کے لئے بات بڑی سخت تکلیف دہ بن رہی ہوتی ہے.تو جب نظام جماعت نے یہ اجازت دی ہوئی ہے کہ بعض آدمی مجبوریوں کی وجہ سے شرح کے مطابق چندہ نہیں دے سکتے تو رعایت لے لیں تو سچائی کا تقاضا یہ ہے کہ رعایتی شرح کی منظوری حاصل کر لی جائے ، بجائے اس کے کہ غلط بیانی سے کام لیا جائے.اور میں اس بارے میں کئی دفعہ کہہ بھی چکا ہوں کہ ایسے لوگوں کو بغیر کسی سوال جواب کے رعایت شرح مل جائے گی.تو ایک تو جو لوگ اپنی آمد غلط بتاتے ہیں وہ غلط بیانی کی وجہ سے گناہگار ہورہے ہوتے ہیں.دوسرے اس غلط بیانی کی وجہ سے اپنے پیسے میں بھی بے برکتی پیدا کر رہے ہوتے ہیں.ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ جس خدا نے اپنے فضل سے حالات بہتر کئے ہیں وہ ہر وقت یہ طاقت رکھتا ہے کہ ایسے لوگوں کو کسی مشکل میں گرفتار کر دے.پس خدا تعالیٰ سے ہمیشہ معاملہ صاف رکھنا چاہئے.مالی قربانیوں کا جہاد بی زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے اس میں ایک جہاد مالی قربانیوں کا جہاد بھی ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ اسلام کے دفاع میں لٹریچر شائع ہوسکتا ہے، نہ قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہو سکتے ہیں، نہ یہ ترجمے دنیا کے کونے کونے میں پہنچ سکتے ہیں.نہ مشن کھولے جا سکتے ہیں ، نہ مربیان، تیار ہو سکتے ہیں اور نہ مربیان...جماعتوں میں بھجوائے جا سکتے ہیں.نہ ہی ( بیوت الذکر ) تعمیر ہوسکتی ہیں.نہ ہی سکولوں، کالجوں کے ذریعہ سے غریب لوگوں تک تعلیم کی سہولتیں پہنچائی جاسکتی ہیں.نہ ہی ہسپتالوں کے ذریعہ سے دکھی انسانیت کی خدمت کی جاسکتی ہے.پس جب تک دنیا کے تمام کناروں تک اور ہر کنارے کے ہر شخص تک ( دین حق ) کا پیغام نہیں پہنچ جاتا اور جب تک غریب کی ضرورتوں کو مکمل طور پر پورا

Page 227

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 209 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ مالی جہاد جاری رہنا ہے.اور اپنی اپنی گنجائش اور کشائش کے لحاظ سے ہر احمدی کا اس میں شامل ہونا فرض ہے.پس جو چندے کے معاملے میں سستیاں دکھانے والے ہیں وہ اپنے جائزے لیں اور جو جماعتی عہد یدار نئے شامل ہونے والوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں کرتے وہ بھی ذمہ دار ہیں.پس جہاں دین کی نصرت کے لئے آسمان پر شور ہے وہاں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.ان ذمہ داریوں کو بھی ہمیں نبھانا ہوگا.اور ہم ہلاکت سے اس صورت میں بچ سکتے ہیں جب اَحْسِنُوا پر عمل کرتے ہوئے اپنے فرائض عمدگی سے ادا کرنے والے ہوں اور اس کے نتیجہ میں خدا کی رضا حاصل کرنے والے ہوں...موصیان کو تمام تحریکات میں چندہ دینا چاہیے.چندوں کے بارہ میں بعض جماعتوں کے بعض استفسار ہوتے ہیں جو بعض لوگوں کی طرف سے ہوتے ہیں جن کے بارے میں سمجھتا ہوں کہ وضاحت کر دوں.ایک تو یہ کہ آج کل وصیت کی طرف بہت توجہ ہے.اور وصیت کی طرف توجہ تو ہوگئی ہے لیکن تربیت کی کافی کمی ہے.اس لئے بعض موصیان یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ ہم نے وصیت کی ہوئی ہے اس لئے ہم صرف وصیت کا چندہ دیں گے باقی ذیلی تنظیموں کے چندے یا مختلف تحریکات کے چندے ہم پر لاگو نہیں ہوتے.تو یہ واضح ہو، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اگر تو حالات ایسے ہوں کہ تمام چندے نہ دے سکتے ہوں تو اس کی اجازت لے لیں.ورنہ توقع ایک موصی سے یہ کی جاتی ہے کہ ایک موصی کا معیار قربانی دوسروں کی نسبت، غیر موصی کی نسبت زیادہ ہونا چاہئے.تو اگر وصیت کا صرف کم سے کم 1/10 حصہ سے دے کر باقی چندے نہیں دے رہے تو ہو سکتا ہے غیر موصی دوسرے چندے شامل کر کے موصیان سے زیادہ قربانی کر رہے ہوں.تو اس لحاظ سے واضح کر دوں کہ کوئی بھی چندہ دینے والا ، چاہے وہ موصی ہیں یا غیر موصی ہیں اگر توفیق ہے تو تمام تحریکات میں چندے دینے چاہئیں کیونکہ ہر تحریک اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے بڑی اہم ہے.پھر ایک چیز یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ اصل مقصد چندوں کا اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے، نہ کہ پیسے اکٹھے کرنا.اس لئے بالکل صحیح طریق سے بغیر کسی چیز کو، اپنی آمد کو چھپائے بغیر، اپنے بجٹ بنوانے چاہئیں جو

Page 228

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 210 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کہ سال کے شروع میں جماعتوں میں بنتے ہیں.اور بجٹ بہر حال صحیح آمد پہ بننا چاہئے.اس کے بعد اگر توفیق نہیں تو چندوں کی چھوٹ لی جاسکتی ہے.نومبائعین کو مالی نظام میں شامل کریں پھر ایک اور بات ہے جس کی طرف میں عرصے سے توجہ دلا رہا ہوں کہ نو مبائعین کو مالی نظام میں شامل کریں.یہ جماعتوں کے عہدیداروں کا کام ہے.جب نو مبائعین مالی نظام میں شامل ہو جائیں گے تو جماعتوں کے یہ شکوے بھی دور ہو جائیں گے کہ نو مبائعین سے ہمارے رابطے نہیں رہے.یہ رابطے پھر ہمیشہ قائم رہنے والے رابطے بن جائیں گے اور یہ چیز ان کے تربیت اور ان کے تقویٰ کے معیار بھی اونچے کرنے والی ہوگی.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ قرآن کریم میں مالی قربانیوں کے بارے میں بے شمار ہدایات ہیں.تو اللہ تعالیٰ جو بھی فضل فرماتا ہے ان کو اس میں بھی شامل کرنا چاہئے.زکوۃ کی ادائیگی ضرور کریں پھر ز کوۃ کی ادائیگی کے بارے میں بعض سوال ہوتے ہیں.یہ بنیادی حکم ہے.جن پر زکوۃ واجب ہے ان کو ضرور ادا کرنی چاہئے اور اس میں بھی کافی گنجائش ہے.بعض لوگوں کی رقمیں کئی کئی سال بنکوں میں پڑی رہتی ہیں اور ایک سال کے بعد بھی اگر رقم جمع ہے تو اس پر بھی زکوۃ دینی چاہئے.پھر عورتوں کے زیورات ہیں ان پر زکوۃ دینی چاہئے.جو کم از کم شرح ہے اس کے مطابق ان زیورات پر زکوۃ ہونی چاہئے.پھر بعض زمینداروں پر زکوۃ واجب ہوتی ہے ان کو اپنی زکوۃ ادا کرنی چاہئے.تو یہ ایک بنیادی حکم ہے اس پر بہر حال توجہ دینے کی ضرورت ہے.الفضل انٹرنیشنل 21 تا 27 اپریل 2006 ء )

Page 229

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 211 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرمودہ 7 اپریل 2006ء سے اقتباس حیا ایمان کا حصہ ہے * ایک حکم ہے حیا کا، عورت کو خاص طور پر پردے کا حکم ہے.مردوں کو بھی حکم ہے کہ غض بصر سے کام لیں، حیاد کھائیں.عورت کے لئے اس لئے بھی پردے کا حکم ہے کہ معاشرے کی نظروں سے بھی محفوظ رہے اور اس کی حیا بھی قائم رہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے.اب آج کل کی دنیا میں، معاشرے میں، ہر جگہ ہر ملک میں بہت زیادہ کھل ہو گئی ہے.عورت مرد کو حدود کا احساس مٹ گیا ہے.Mix Gatherings ہوتی ہیں یا مغرب کی نقل میں لباس پوری طرح ڈھکا ہوا نہیں ہوتا ، یہ ساری اس زمانے کی ایسی بے ہودگیاں ہیں جو ہر ملک میں ہر معاشرے میں راہ پا رہی ہیں.یہی حیا کی کمی آہستہ آہستہ پھر مکمل طور پر انسان کے دل سے، پکے (مومن ) کے دل سے، حیا کا احساس ختم کر دیتی ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے ایک چھوٹے سے حکم کو چھوڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ حجاب ختم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر بڑے حکموں سے بھی دوری ہوتی چلی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے بھی دوری بھی ہو جاتی ہے.اور پھر انسان اسی طرح آخر کار اپنے مقصد پیدائش کو بھلا بیٹھتا ہے.اس لئے اس زمانے میں خاص طور پر نو جوان نسل کو بہت احتیاط کرنی چاہئے.ہر وقت دل میں یہ احساس رکھنا چاہئے کہ ہم اس شخص کی جماعت میں شمار ہوتے ہیں جو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق بندے کو خدا کے قریب کرنے کا ذریعہ بن کر آیا تھا.پس اگر اُس سے منسوب ہونا ہے تو پھر اُس کی تعلیم پر بھی عمل کرنا ہوگا اور وہ تعلیم ہے کہ قرآن کریم کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کی بھی تعمیل کرنی ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ وہ اس پر عمل کرنے والا بن الفضل انٹرنیشنل 28 اپریل تا 4 مئی 2006ء) جائے.

Page 230

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 212 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ سنگا پور، ملائشیا اور انڈونیشیا سے میٹنگ * 9 اپریل 2006ء کو نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ سنگا پور، ملائشیا اور انڈونیشیا کی اجتماعی میٹنگ حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ساتھ ہوئی.اس کی رپورٹ روز نامہ الفضل ربوہ سے پیش ہے.حضورانور نے سب سے پہلے نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحد یہ انڈونیشیا کے عہدیداران کا تعارف حاصل کیا اور ان کے کام کا جائزہ لیا اور ساتھ ساتھ ان کی رہنمائی فرمائی اور ہدایات سے نوازا.مہتمم ( اصلاح وارشاد) سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ گزشتہ سال میں خدام الاحمدیہ انڈونیشیا نے کتنی بیعتیں کروائی ہیں.حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ جو بیعتیں ہوئی ہیں ان سے مستقل رابطہ رکھیں.مہتم تربیت سے حضور انور نے فرمایا کہ تربیت کا کیا پروگرام بنایا ہے.حضور انور نے فرمایا کہ اپنے خدام کی ٹریننگ اور ان کی تربیت کے لئے پروگرام بنائیں، تربیتی کلاسز کا انعقاد کریں.جائزہ لیں کہ کتنے خدام جمعہ پر آتے ہیں.نمازوں کے لئے بیت میں کتنے خدام آتے ہیں.روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کتنے خدام کرتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے پاس یہ سب فگرز (Figures) ہونے چاہئیں.حضور انور نے فرمایا نماز با جماعت کی ادائیگی سب سے بنیادی بات ہے.اس طرف بہت زیادہ توجہ دیں.پھر گزشتہ سالوں کے سب نو مبائعین سے رابطہ بھی کریں.مہتم اشاعت سے حضور انور نے خدام الاحمدیہ کے رسالہ کے بارہ میں دریافت فرمایا.انڈونیشیا میں خدام الاحمدیہ کا ماہانہ رسالہ با قاعدگی سے نکلتا ہے.اس کے بعد نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ سنگا پور کے ہیتمین سے حضور انور نے ان کے کام کی رپورٹ حاصل کی اور ساتھ ساتھ ہدایات سے نوازا.حضورانور نے صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ سنگا پور سے خدام کی تعداد دریافت کی اور معتمد کو ہدایت

Page 231

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 213 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمائی کہ اپنی ماہانہ ر پورٹ با قاعدگی سے مجھے بھجوایا کریں.مہتم مال سے حضور انور نے خدام کے بجٹ، چندہ دہندگان کی تعداد اور چندہ کے معیار کا جائزہ لیا.حضور انور نے فرمایا جو خدام چندہ ادا نہیں کر رہے ان سے ذاتی رابطہ کر کے ان کو توجہ دلائیں.مہتم ( اصلاح وارشاد) سے حضور انور نے دریافت فرمایا، دعوت الی اللہ کا کیا پروگرام ہے.اپنا پروگرام کس طرح بناتے ہیں.حضور انور نے بیعتوں کے بارہ میں بھی دریافت فرمایا مہتم (اصلاح وارشاد ) نے بتایا کہ خدام اپنے دوستوں سے رابطہ کر کے دعوت الی اللہ کرتے ہیں.مہتمم تربیت سے حضور انور نے رپورٹ طلب فرمائی کہ کتنے خدام نمازوں پر آجاتے ہیں.مغرب وعشاء میں خدام کی کیا حاضری ہوتی ہے.حضور انور نے فرمایا اگر خدام بیت سے دور رہتے ہیں تو ان کے علاقوں میں نماز سنٹر قائم کریں تا کہ یہ نماز باجماعت میں شامل ہوں.حضور انور نے فرمایا کہ سنگا پور ایک چھوٹا ملک ہے.اگر آپ یہاں جذبہ سے، جوش سے اور ولولہ سے خدمت دین کریں تو سارے ملک کو احمدیت میں لا سکتے ہیں.مہتم اطفال سے حضور انور نے اطفال کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا اور یہ بھی دریافت فرمایا کہ اطفال کی میٹنگ مہینہ میں ایک یا دو مرتبہ کر لیتے ہیں.حضور انور نے اطفال کی باقاعدہ میٹنگ کرنے کی ہدایت فرمائی.مہتم اشاعت سے حضور انور نے خدام کے رسالہ کے بارہ میں دریافت فرمایا.مہتم خدمت خلق کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ خدام ہسپتالوں کا وزٹ کیا کریں، بوڑھوں کا حال پوچھیں اور ان کو تحفہ وغیرہ دے دیا کریں.اس طرح رابطہ اور تعلق بڑھتا ہے.مہتم وقار عمل سے حضور انور نے فرمایا کہ اب واپس جانے کے بعد بیت کا امیر یا صاف کریں گے اور سارا سامان وغیر ہ ہمیں گے.مہتم صحت جسمانی سے حضور انور نے خدام کی کھیلوں کے بارہ میں دریافت فرمایا.نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ سنگا پور سے میٹنگ کے بعد نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ ملائشیا کے عہدیداران سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی میٹنگ شروع ہوئی.حضور انور نے صدر صاحب ملائشیا سے ملک میں خدام کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا اور اسی طرح

Page 232

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 214 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اطفال کی تجنید کے بارہ میں بھی رپورٹ طلب فرمائی.معتمد اور مہتم تجنید سے حضور انور نے خدام کی مجالس کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا اور ہدایت دی کہ اپنی ماہانہ ر پورٹ با قاعدگی سے مجھے بھجوایا کریں.مہتم صنعت و تجارت کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ خدام کو بزنس میں جانے کی بجائے مزید تعلیم کے حصول کے لئے یو نیورسٹی میں جانا چاہئے.اس بارہ میں جائزہ لیں اور با قاعدہ پلان بھجوائیں.قائد سبا (Saba) سے حضور انور نے سباء کی مجالس اور خدام کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا.مہتم تعلیم و مہتم تربیت کا عہدہ ایک ہی خادم کے پاس تھا.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ تعلیم اور تربیت دونوں علیحدہ علیحدہ عہدے ہیں اور یہ علیحدہ علیحدہ افراد کے پاس ہونے چاہئیں.حضور انور نے دریافت فرمایا کہ تربیت کے تحت تربیتی کلاسز کا انتظام کرتے ہیں.کتنے خدام نماز پڑھتے ہیں.کتنے خدام روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں.آپ کو ملک کی تمام مجالس سے رپورٹ حاصل کرنی چاہئے.حضور انور نے فرمایا کہ خدام کو پانچوں نمازیں با قاعدہ پڑھنی چاہئیں اور کوشش یہی ہوتی چاہئے کہ باجماعت پڑھی جائیں.حضور انور نے فرمایا اگر کسی جگہ بیت نہیں ہے اور دو تین خدام ہیں تو باجماعت نماز پڑھیں.حضور انور نے شعبہ تعلیم کے حوالہ سے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب یا جماعتی کتب کا خدام سے امتحان لیں.باقاعدہ نصاب مقرر ہو جس کا امتحان ہو.خدام کو پرچہ بھجوائیں اور ان سے جوابات حاصل کر لیں.مہتم ( اصلاح وارشاد) سے حضور انور نے خدام کے تحت ہونے والی بیعتوں کی رپورٹ طلب فرمائی.حضور انور کو بتایا گیا کہ ایک نو مبائع سنگا پور آئے تھے اور حضور انور سے ملاقات بھی کی ہے.حضور انور نے فرمایا آپ کے جو نو مبائعین فلپائن گئے ہیں ان کے Contact فلپائن کی جماعت کو بھجوا دیں.حضور انور نے فرمایا آپ کے جن نومبائعین سے رابطے ختم ہوئے ہیں وہ اس لئے ختم ہوئے ہیں کہ آپ ان کے ساتھ Contact میں نہیں تھے.آپ نے ان سے رابطہ نہیں رکھا.فرمایا تمام نو بائعین سے مضبوط رابطہ رکھیں.شادیوں کے اس ذکر پر کہ بعض احمدی نوجوان غیر احمدی لڑکیوں سے شادی کے خواہشمند ہوتے ہیں.

Page 233

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 215 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ حضور انور نے فرمایا کہ آپ احمدی نوجوانوں میں یہ روح پیدا کریں کہ ان عورتوں سے شادی کر کے اپنی Progeny (نسل) ضائع نہ کریں.حضور انور نے فرمایا آپ کا خدام سے مضبوط رابطہ اور Contact ہونا چاہئے.مشن اور بیت سے مضبوط تعلق اور رابطہ ہو.متینوں ممالک کی ذیلی تنظیم مجلس خدام الاحمدیہ کی مجالس عاملہ کے ساتھ یہ میٹنگ ساڑھے سات بجے تک جاری رہی.میٹنگ کے اختتام پر حضور انور نے تمام ممبران کو قلم عطا فرمائے اور تینوں مجالس عاملہ نے علیحدہ علیحدہ حضورانور کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت حاصل کی.پونے آٹھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بیت طہ میں مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ ہوٹل Grand Mercure Roxy تشریف لے گئے.“ روزنامه الفضل 22 اپریل 2006 ء

Page 234

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 216 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرموده 14 را پریل 2006ء سے اقتباس * آسٹریلیا کا نظام وصیت میں ایک اعزاز اللہ تعالی کے فضل سے دسمبر 2005ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نظام وصیت کو جاری ہوئے 100 سال پورے ہو گئے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا اور 2004 ء کے جلسہ UK میں میں نے تحریک کی تھی کہ 2005ء میں 100 سال پورے ہوں گے تو کم از کم 50 ہزار مومیان ہونے چاہئیں.تو جیسا کہ میں جلسہ سالا نہ قادیان میں اعلان کر چکا ہوں کہ اللہ کے فضل سے یہ تعداد پوری ہو چکی ہے بلکہ اس تعداد سے بہت آگے جاچکے ہیں.اب تو جماعتیں اپنا اگلا ٹارگٹ پورا کرنے کی کوشش میں ہیں.لیکن یہاں آپ لوگوں کی دلچسپی کے لئے میں جو بات بتانے لگا ہوں وہ یہ ہے کہ یہاں کی جو تاریخ مرتب ہوئی ہے اس کے مطابق حضرت صوفی صاحب ( مراد حضرت صوفی حسن موسیٰ خان صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ بیرون ہندوستان نظام وصیت میں شامل ہونے والے اولین موصی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب وصیت کا اعلان فرمایا تو اس کے تین مہینے کے بعد ہی انہوں نے وصیت کر دی تھی اور اس طرح آپ کی وصیت مارچ 1906 ء کی ہے.پھر اس لحاظ سے اس ملک میں یعنی اس بر اعظم ( آسٹریلیا ) میں نظام وصیت کے پہلے پھل کو بھی 100 سال ہو گئے ہیں.یہ اپریل کا مہینہ ہے.صرف ایک مہینہ ہی اوپر ہوا ہے.حضرت صوفی صاحب نے یقیناً ایک تڑپ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس دروازے میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی.اور یقیناً یہ کامیاب کوشش تھی، کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں انجام بخیر ہونے کی خبر الہاما دی تھی.اور آپ یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے بھی وارث بنے جو آپ نے اس نظام میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں اور بے شمار دعائیں ہیں جو آپ نے کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تقوی میں ترقی دے،

Page 235

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 217 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ایمان میں ترقی دے، نفاق سے پاک کرے تو یہ صرف اتفاق نہیں ہے.اب میں سمجھتا ہوں 100 سال کے بعد بیرون ہندوستان کے پہلے موصی کے ملک ( مراد آسٹریلیا ) میں یہ میرا دورہ ہے اور اس سے پہلے میں وصیت کرنے کی تحریک بھی کر چکا ہوں.یہاں آنے سے پہلے مجھے علم بھی نہیں تھا کہ یہاں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نظام وصیت کا پہلا پھل آج سے 100 سال پہلے لگ چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں یہ پھل لگا اور آج سے پورے 100 سال پہلے ایک ایسا کامیاب پھل تھا جس کی اللہ تعالیٰ نے تسلی بھی کروائی کہ تمہارا انجام بھی بخیر ہوگا.تو کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ بیرون پاکستان اور ہندوستان نظام وصیت کی طرف توجہ اس ملک کے احمدیوں کو اس لحاظ سے بھی خاص طور پر کرنی چاہئے کہ وہ ایک شخص تھا یا چند ایک اشخاص تھے جو یہاں رہتے تھے ان میں سے ایک نے لبیک کہتے ہوئے فوری طور پر وصیت کے نظام میں شمولیت اختیار کی.آج آپ کی تعداد سینکڑوں، ہزاروں میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل بھی بہت زیادہ ہیں اور 100 سال بعد اور تقریباً اس تاریخ کو 100 سال بھی پورے ہو چکے ہیں اس لئے اس لحاظ سے آپ لوگوں کو جو کمانے والے لوگ ہیں جو اچھے حالات میں رہنے والے لوگ ہیں ان کو اس نظام میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے.تمام عہدیدار نظام وصیت میں شامل ہوں اور سب سے پہلے عہدیداران اپنا جائزہ لیں اور امیر صاحب بھی اس بات کا جائزہ لیں کہ 100 فیصد جماعتی عہد یداران اس نظام میں شامل ہوں، چاہے وہ مرکزی عہدیداران ہوں یا مرکزی ذیلی تنظیموں کے عہد یداران ہوں یا مقامی جماعتوں کے عہدیداران ہوں یا مقامی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ہوں.گو کہ اللہ کے فضل سے مجھے بتایا گیا کہ یہاں مومیان کی تعداد کافی اچھی ہے لیکن حضرت صوفی صاحب کے حالات پڑھ کر جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ یہاں کا ہر احمدی موصی ہو اور تقویٰ پر قدم مارنے والا ہو.یہ ایسا با برکت نظام ہے جو دلوں کو پاک کرنے والا نظام ہے.اس میں شامل ہو کے انسان اپنے اندر تبدیلیاں محسوس کرتا ہے.الفضل اند نیشنل 5 تا 11 مئی 2006 ء )

Page 236

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 218 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ آسٹریلیا کے ساتھ میٹنگ * (18اپریل 2006ء) نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ آسٹریلیا کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی.حضور انور نے دعا کروائی.حضور انور نے تمام شعبوں کا باری باری جائزہ لیا اور ہدایات سے نوازا.معتمد صاحب نے بتایا کہ خدام الاحمدیہ کی آٹھ مجالس ہیں.حضور انور نے فرمایا آٹھ مجالس کے ساتھ کام کرنے اور رابطہ وغیرہ کرنے میں دقت تو نہیں ہے.کیا آپ کا سب سے رابطہ صحیح ہے.حضور انور کے دریافت کرنے پر معتمد صاحب نے بتایا کہ سات مجالس با قاعدگی سے اپنی رپورٹ بھجواتی ہیں.صرف ایک مجلس با قاعدہ نہیں ہے.حضور انور نے فرمایا کہ اس مجلس کو بھی ریگولر کریں اور اپنی رپورٹ ہر ماہ با قاعدگی سے مرکز کو بھی بھجوایا کریں.مہتم تعلیم نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب الوصیت خدام کے مطالعہ کے لئے مقرر کی گئی ہے.حضور انور نے فرمایا آپ سال میں خدام سے دو امتحان کیوں نہیں لیتے.آپ خدام سے دو امتحان لیں اور مزید کتب مطالعہ کے لئے رکھیں اور اس کے علاوہ آپ کا جو نصاب ہے قرآن کریم کی دعائیں وغیرہ ان کو یاد کروانی ہیں وہ کرائیں.حضور انور نے فرمایا کہ خلافت جوبلی منصوبہ کے تعلق میں جو دعائیں ہیں وہ بھی سب کو یاد کروائیں.فرمایا ان کو اچھے طریق سے خوبصورت کارڈ کی شکل میں تیار کر کے اور گھروں میں دیں فرمایا یہ دعائیں بھی تمام خدام کو روزانہ پڑھنی چاہئیں.حضور انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب جو آپ کے نصاب کا حصہ ہیں اس کے علاوہ اپنے ریگولر نصاب کے لئے کتب مرکز سے منگوا ئیں اور خدام کو پڑھنے کے لئے دیں.مہتم مجنید سے حضور انور نے خدام کی تجنید کے بارہ میں دریافت فرمایا اور ہدایت دی کہ اپنی مجالس کو

Page 237

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 219 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کہیں کہ اچھی طرح جائزہ لے لیں کوئی خادم رہ نہ گیا ہو.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو بتایا گیا کہ صرف چھ خدام ایسے ہیں جو رابطہ نہیں کرتے اور جماعتی پروگراموں میں بھی شامل نہیں ہوتے.حضور انور نے فرمایا آپ ان کو کہیں کہ ہم اجازت دیتے ہیں تم چندہ نہ دو لیکن تربیتی پروگراموں میں تو شامل ہوں.حضور انور نے فرمایا جب شامل ہوں گے، نمازیں پڑھیں گے تو چندہ دینے کی عادت بھی پڑ جائے گی.نائب صدر صاحب نے بتایا کہ صدر مجلس جو کام ان کے سپرد کرتے ہیں وہ اس کو انجام دیتے ہیں.مہتم تربیت سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ خدام کی مجموعی تعداد میں سے کتنے پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں اور کتنے ہیں جو باجماعت پڑھتے ہیں.حضور انور نے دریافت فرمایا کہ ہر مجلس میں مرکز کے علاوہ بھی نما ز سنٹر ہے.حضور انور نے ہدایت فرمائی جو خدام کمزور ہیں اور نمازوں پر نہیں آتے ان کمزوروں کو ساتھ لانے کے لئے مضبوط خدام ان کے ساتھ لگائیں.ایسے خدام ہوں جو ان کو نمازی بنانے والے ہوں.ایسے نہ ہوں کہ خود بھی ان کے ساتھ مل کر بے نمازی ہو جائیں.حضور انور نے مہتم تربیت سے دریافت فرمایا کہ کتنے خدام ایسے ہیں جو MTA پر خطبہ سنتے ہیں.حضور انور نے جائزہ لینے کے بعد فرمایا جو خطبہ نہیں سنتے ان کے لئے پلان بنا ئیں.پھر حضور انور نے دریافت فرمایا.قرآن کریم پڑھنے والے خدام کی تعداد کیا ہے، جو تلاوت قرآن کریم میں با قاعدہ نہیں ہیں.ریگولر نہیں ہیں ان کی تعداد کیا ہے.جو مہینہ میں پندرہ دن تلاوت کرنے والے ہیں ان کی تعداد کیا ہے.حضور انور نے فرمایا جو تلاوت نہیں کرتے وہ پندرہ دن تو کرنے والے ہوں.جب مہینہ میں پندرہ دن تلاوت کریں گے تو ان کو مستقل عادت پڑ جائے گی.حضور انور نے مہتم تربیت سے دریافت فرمایا کہ آپ کا تربیتی پلان کیا ہے.بتایا گیا کہ دوتر بیتی کلاسز اس سال منعقد ہورہی ہیں اور یہ کوشش کر رہے ہیں کہ خدام وصیت کے نظام میں شامل ہوں.حضور انور نے اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا اور فرمایا بھی بہت کام ہونے والا ہے.حضور انور نے خدام کی مرکزی مجلس عاملہ میں سے بھی نماز باجماعت ادا کرنے والوں کا جائزہ لیا اور فرمایا جو عاملہ کا مبر کم از کم ایک نماز با جماعت نہیں پڑھتا وہ دوسروں کو کیا کہے گا.حضور انور نے عاملہ کے ممبران سے دریافت فرمایا کہ روزانہ تلاوت کرنے والے کتنے ہیں.حضور انور نے فرمایا روزانہ تلاوت کی عادت

Page 238

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 220 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ڈالیں.حضور انور نے فرمایا جو خدام دور ہٹے ہوئے ہیں ان کو ان کے دوستوں کے ذریعہ قریب لانے کی کوشش کریں.مہتمم اشاعت سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا خدام الاحمدیہ کا کوئی علیحدہ رسالہ ہے.فرمایا اپنا نیوز بلیٹن نکالیں.جس میں خدام کا پروگرام ہو، اعلانات ہوں تعلیم و تربیت کے پروگرام ہوں.تربیتی کلاسز کے پروگرام ہوں.خواہ دو ورقہ ہی ہو آپ کا اپنا بلیٹن ہونا چاہئے.شائع کریں اور سب خدام کے گھر میں بھجوائیں.مہتم اطفال سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا اپنی عاملہ بنائی ہوئی ہے.اطفال کی تربیت کے لئے کیا پروگرام بنائے ہیں.مہتمم اطفال نے بتایا کہ بعض مجالس میں اتوار کو اطفال کی کلاسز ہوتی ہیں اور بعض مجالس میں جمعہ کے دن ہوتی ہیں.باقاعدہ سیلبس بنایا گیا ہے.نماز سادہ اور باترجمہ سکھائی جاتی ہے.حدیثیں اور قصیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دین حق کی تاریخ وغیرہ سکھانے کا بھی پروگرام ہے.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ باقاعدہ مجالس سے رپورٹ لیتے رہا کریں.حضور انور نے اطفال کے بجٹ اور فی کس چندہ کے معیار کا بھی جائزہ لیا.کلاسز میں اطفال کی حاضری کا بھی جائزہ لیا اور Active مجالس کو علم انعامی اور شیلڈ وغیرہ دینے کے بارہ میں بھی دریافت فرمایا.مہتم تحریک جدید سے حضور انور نے چندہ تحریک جدید میں شامل خدام کی تعدا د دریافت فرمائی اور خدام کی طرف سے تحریک جدید کے وعدہ کے بارہ میں بھی دریافت فرمایا.حضور انور نے فرمایا کوشش کریں کہ باقی خدام بھی چندہ میں شامل ہوں.ہر ایک اپنے اپنے حالات کے مطابق دے کوئی کم یا کوئی زیادہ حضور انور نے فرمایا آپ دیکھ لیا کریں کہ حالات کے مطابق دے رہا ہے.پیار سے سمجھا دیا کریں.مہتم امور طلبہ سے حضور انور نے فرمایا جو خدام فارغ ہو کر بیٹھے رہتے ہیں.ان کے لئے کوئی کام وغیرہ دیکھیں.کہاں کہاں یہ کام کر سکتے ہیں.بعض لوگ پڑھ لکھ کر ایسی جاب کر رہے ہیں جو ان کے تعلیمی معیار اور قابلیت سے ہٹ کر ہوتی ہے.ایسے لوگوں کے لئے ان کی تعلیم کے مطابق Job دیکھیں.اگر آپ کے پاس سب انفارمیشن ہوں تو آپ ان کو گائیڈ کر سکتے ہیں.حضور انور نے ان خدام کے ریزیڈینشل سٹیٹس کے بارہ میں بھی دریافت فرمایا جن کے پاس اس وقت

Page 239

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 221 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جاب نہیں ہے.حضور انور نے فرمایا جن کا ابھی ریزیڈینٹل سٹیٹس نہیں ہے وہ حکومت کے اداروں اور بعض دوسرے اداروں میں بھی لیگل طریق سے کام نہیں کر سکتے.چاہئے.مہتم عمومی کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جمعہ کے دوران ہر جگہ اور ہر سنٹر میں خدام کی ڈیوٹی ہونی مہتمم صحت جسمانی سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کھیلوں کے کیا پروگرام ہیں جس پر حضور انور کو بتایا گیا کہ بیت الذکر کے احاطہ میں گراؤنڈ ز تیار کی گئی ہیں.فٹ بال، کرکٹ اور والی بال وغیرہ کھیلتے ہیں.حضور انور نے فرمایا آپ کے پاس یہ انفارمیشن ہونی چاہئیں کہ دوسری مجالس کے سنٹرز میں کتنے خدام کھیلنے کے لئے آتے ہیں اور کتنے خدام کلب میں جا کر کھیلتے ہیں.مہتم مال سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے چندہ مجلس کے بجٹ اور چندہ دینے والے خدام کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا اور چندہ کے معیار کا جائزہ لیا.حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کتنے فیصد ہیں جو کمانے والے ہیں.جو Job نہیں کرتے ان کو بھی حکومت کی طرف سے بینیفٹس ملتے ہیں.حضور انور نے فرمایا جن خدام کے پاس ملازمت وغیرہ نہیں ہے اور ان کو کہیں سے کوئی رقم وغیرہ بھی نہیں ملتی ان پر ایسا بوجھ نہ ڈالیں کہ وہ بھاگ جائیں.مہتم مال نے بتایا کہ سوائے چھ سات خدام کے باقی سب چندہ دینے والے ہیں.حضور انور نے فرمایا آپ لوگ ٹیکس بچاتے ہیں.ٹیکس نہ بچائیں تو زیادہ برکت پڑ جائے گی.گورنمنٹ آپ کو اتنا دے رہی ہے تو جو گورنمنٹ کا حق ہے وہ آپ کو دینا چاہئے.حضور انور نے فرمایا ایک طالبعلم پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں.جو کمانے والا ہے اس سے لیں.اگر وہ کسی وجہ سے زیادہ نہیں دینا چاہتا تو اس پر بوجھ نہ ڈالیں.جتنا بھی خوشی سے دیتا ہے اس سے لے لیں.لیکن یہ بتائیں کہ آمد کے بارے میں غلط بیانی سے کام نہ لیں.محاسب سے حضور انور نے حسابات چیک کرنے کے بارہ میں دریافت فرمایا.مہتم وقار عمل نے بتایا کہ بیت الذکر کے احاطہ میں، اردگر دو قار عمل کئے جاتے ہیں اور جلسہ سالانہ کی تیاری کے لئے بھی بہت سا کام وقار عمل کے ذریعہ کیا گیا ہے.

Page 240

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 222 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مہتمم خدمت خلق سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا بلڈ ڈونیشن کی ٹیم بنائی ہوئی ہے.جس پر حضور انور کو بتایا گیا کہ اس سال 80 خدام نے خون کا عطیہ دیا ہے.حضور انور نے فرمایا گورنمنٹ میں احمدیہ یوتھ آرگنائزیشن کے نام سے رجسٹر کروائیں اور پھر اس کے تحت خدام خون کے عطیات دیں.اس سے فائدہ ہوتا ہے.غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور مومنوں کے بارہ میں تاثر اچھا ہوتا ہے کہ یہ بھی خدمت کرنے والے ہیں.جب آپ رجسٹر ڈ ہوں گے اور ریگولر ڈونر ہوں گے تو آپ کو ضرورت پڑنے پر وہ بلالیا کریں گے.آپ کے خون دینے والے خدام کی فہرست ان کے پاس ہونی چاہئے.یہ سب رجسٹر ڈ ہوں.جب ان کو ضرورت پڑے آپ کو بلالیں.حضور انور نے فرمایا ہسپتال کے بھی بلڈ بینک ہوتے ہیں اور بعض چیریٹی آرگنا ئزیشن کے بھی بلڈ بینک ہوتے ہیں.انفارمیشن لے لیں اور اپنے آپ کو رجسٹر کروائیں.میراتھن واک ( Marathon Walk) کے بارہ میں حضور انور نے فرمایا.آپ جس علاقہ میں میراتھن واک کریں وہاں کی چیریٹیز کو زیادہ رقم دے دیا کریں اور رقوم کے چیک با قاعدہ ایک تقریب کا انتظام کر کے دیئے جائیں جس میں پریس وغیرہ کے نمائندے بھی شامل ہوں.حضور انور نے فرمایا پھر جو خدام اپنی آنکھوں کا عطیہ دے سکتے ہیں ان کو دینا چاہئے اس طرح مرنے کے بعد یہ آنکھیں کسی دوسرے کے کام آسکتی ہیں.حضور انور نے فرمایا خدام کو اولڈ پیپلز ہاؤس (Old People's House) جانا چاہئے.وہاں جاتے ہوئے پھول، پھل وغیرہ ساتھ لے جایا کریں اور ان کو بیت الذکر بھی لے کر آیا کریں.اس طرح رابطہ اور تعلق بڑھے گا.حضور انور نے فرمایا ہسپتالوں میں بھی جا کر مریضوں کا حال پوچھ لیا کریں.بعض غریب اور ضرورتمند ہوتے ہیں.حضور انور نے فرمایا اس سے رابطہ اور تعلق پیدا ہوتا ہے اور دعوت الی اللہ کے مواقع بھی ملتے ہیں.دین حق کے بارہ میں جو غلط تاثر پیدا ہوتا ہے وہ زائل ہوتا ہے.مہتمم ( اصلاح وارشاد) سے حضور انور نے ان کے پروگراموں اور گزشتہ سالوں میں ہونے والی بیعتوں کی رپورٹ طلب فرمائی.حضور انور نے فرمایا یہاں مختلف ممالک سے آکر لوگ آباد ہیں.عرب ممالک

Page 241

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 223 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے، انڈونیشیا سے اور فارایسٹ سے آئے ہوئے ہیں.ان لوگوں میں نفوذ کریں ، رابطے کریں.ان کے بعض اپنے علاقے ہوں گے.اپنی آبادیاں ہوں گی وہاں جائیں اور رابطے کریں اور پیغام پہنچا ئیں.چھوٹے علاقوں میں لوگ زیادہ سن لیتے ہیں.حضور انور نے فرمایا اپنا ٹریچر تقسیم کرنے کا اور شہروں میں بک سٹال لگانے کا روایتی طریقہ بیشک رکھیں لیکن آپ کی دعوت الی اللہ کی ٹیمیں بنی چاہئیں تو شہروں سے باہر مختلف آبادیوں اور چھوٹی جگہوں پر جائیں اور رابطے کریں اور پیغام پہنچائیں.جائے.حضور انور نے فرمایا ایک جگہ پر جانے کی بجائے دو جگہوں پر چلے جائیں تین تین خدام پر مشتمل ٹیم چلی حضور انور نے فرمایا کہ مختلف زبانوں میں اپنی ضرورت کے مطابق لٹریچر منگوایا جاسکتا ہے.حضور انور نے فرمایا اگر آپ جماعت کی کتب لائبریریوں میں رکھوائیں تو اس سے تعارف تو ہو جائے گا لیکن بیعتیں نہیں ملیں گی.بیعتیں یا تو شادیوں کے ذریعہ ہوتی ہیں یا رابطوں کے ذریعہ لیکن شادیوں والی بیعتیں رہا نہیں کرتیں.حضور انور نے مجلس عاملہ کے ممبران کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ لجنہ میں پردے کی جو کمی ہے اس میں خدام کا، ان کے خاوندوں کا بھی حصہ ہوتا ہے.وہ اس معاشرہ میں شرمارہے ہوتے ہیں کہ پردہ کے ساتھ بیوی کو باہر لے کر جائیں گے تو لوگ ہم کو کس طرح دیکھیں گے.کئی بچیاں یہ الزام دیتی ہیں کہ ہمارے خاوندوں نے ہم سے پردہ چھڑوایا ہے.حضور انور نے فرمایا خاوند اور معاملہ میں تو بیویوں پرختی کرتے ہیں.پردہ کے معاملہ میں کیوں نہیں کرتے.غیر ضروری چیزوں پر سختی کی بجائے ان احکام کی پابندی کروائیں جن کا قرآن کریم نے حکم دیا ہے.یہ نہیں کہ بیت الذکر میں اور پردہ ہو اور بازار میں اور پردہ ہو.حضور انور نے فرمایا خدام اگر ٹھیک ہو جائیں تو لجنہ کی تربیت میں فرق پڑ جائے گا.پس اس کو اپنی تربیت کے پروگرام میں رکھیں.دعوت الی اللہ کے بارہ میں ہدایات دیتے ہوئے حضور انور نے مزید فرمایا کہ آپ جہاں بھی رابطے کرتے ہیں وہاں پر ریگولر رابطہ ہونا چاہئے.وہاں با قاعدہ جاتے رہنا چاہئے.جو احمدی ہوتے ہیں ان کو اپنے نظام میں شامل کریں.

Page 242

224 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم ایک تربیتی معاملہ کے بارہ میں حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ جو پاکستانی احمدی ہیں ان کو یہ عادت ہوتی ہے کہ خود آپس میں بیٹھ کر بولتے رہیں گے.غیر مقامی آدمیوں کو اپنے ساتھ شامل نہیں کرتے.اس کو بھی اب اپنی تربیت کا حصہ بنائیں.ایسی جگہ جہاں زبان دوسرے کو نہ آتی ہو وہی زبان استعمال کرنی ہے جوCommon ہو.یہ تربیت کے لئے ضروری ہے.نومبائعین کو احمدیت پر قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے.حضور انور نے فرمایا نو بائعین سے ریگولر رابطہ ہونا چاہئے.ہر ہفتہ نہیں تو دو تین ہفتہ بعد ضرور ہونا چاہئے پھر ہی فائدہ ہوتا ہے.نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کے ساتھ یہ میٹنگ دو پہر ایک بجے اپنے اختتام کو پہنچی.میٹنگ کے آخر پر مجلس عاملہ کے ممبران نے حضورانور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف حاصل کیا.روزنامه الفضل ربوه 6 مئی 2006)

Page 243

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 225 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ 21 اپریل 2006ء سے اقتباسات غصہ سے پر ہیز کرنا چاہیے * اللہ تعالی تو فرماتا ہے کہ اپنے غصے کو ٹھنڈا کرو اور نہ صرف ٹھنڈا کرو بلکہ دوسرے کو معاف بھی کرو.اور نہ صرف معاف کرو بلکہ احسان کا سلوک بھی کرو.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم غصے میں ہو اور اگر کھڑے ہونے کی حالت میں غصہ آیا ہے تو بیٹھ جاؤ.بیٹھے ہوئے ہو تو لیٹ جاؤ تا کہ تمہارا غصہ ٹھنڈا ہو.منہ اور سر پر پانی کے چھینٹے ڈالو.وضو کر و.تو جب غصے ٹھنڈے کرنے کی کوشش کریں گے تو کینے بھی ختم ہوں گے اور حسد بھی ختم ہوگی.جو لوگ کام کرنے والے ہیں جو لوگ دین کا علم رکھنے والے ہیں وہ اگر اپنے رویے نہیں بدلیں گے تو دوسروں کو کیا کہہ سکتے ہیں.کام کرنے والوں سے میری مراد جماعتی خدمات کرنے والے ہیں.دوسروں کو کیا کہیں گے.کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اپنے نفس کو شیطان سے محفوظ رکھو.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جو کام تم نہیں کرتے اس کے بارے میں دوسرے کو بھی نہ کہو.پہلے اپنے گریبان میں جھانکو پہلے اپنا محاسبہ کرو، پہلے اپنی اصلاح کرو پھر دوسروں کی اصلاح کی طرف توجہ دو.پس ہر احمدی کو، ہر بڑے کو، ہر عہد یدار کو، ہر ذمہ دار کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے تبھی محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم ہوگی.اور تبھی جماعت کی ترقی کے سامان پہلے سے بڑھ کر پیدا ہوں گے.صرف نظر کس حد تک کرنا چاہیے؟...اگر غلطیاں سرزد ہو جائیں تو صرف نظر سے کام لینا چاہئے.اور اگر کوئی حد سے تجاوز کر گیا ہے برداشت سے باہر ہو چکا ہے اور اس میں جماعت کی بدنامی کا بھی امکان ہے تو پھر متعلقہ بڑے نظام کو، نظام جماعت کو یا خلیفہ وقت کو اطلاع دے کر پھر خاموش ہو جانا چاہئے.دوسروں کو غیروں کو یا کسی بھی تیسرے شخص کو یہ احساس کبھی پیدا نہ ہو کہ فلاں شخص یا فلاں فلاں عہد یدار ایک دوسرے کے خلاف بغض وعناد رکھتے ہیں.

Page 244

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 226 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی غلطیاں ہر ایک سے ہوتی ہیں.آج زید سے غلطی ہوئی ہے تو کل بکر سے بھی ہوسکتی ہے اس لئے کینے دلوں میں رکھتے ہوئے کبھی کسی بات کے پیچھے نہیں پڑ جانا چاہئے.ہر ایک میں کئی خوبیاں اور اچھائیاں بھی ہوتی ہیں وہ تلاش کرنے کی کوشش کریں.یہی چیز ہے جس سے محبت اور پیار کی فضا پیدا ہوگی.پس ہر ایک کو اپنے نمونے قائم کرنے کی ضرورت ہے چاہے وہ عہدیدار ہے یا عام احمدی ہے، مرد ہے یا عورت ہے.اپنے اعلیٰ اخلاق کے نمونے قائم کریں.جب غیر معمولی مثالی نمونے ہر جگہ قائم ہوں گے تو جماعت کی ( دعوت الی اللہ کے لحاظ سے بھی ترقی ہوگی اور تربیتی لحاظ سے بھی ترقی کرے گی.آئندہ نسلیں بھی احمدیت کی تعلیم پر حقیقی معنوں میں قائم ہونے والی پیدا ہوں گی بلکہ یہ نسلیں جماعت کا ایک قیمتی اثاثہ بنیں گی.زبان کا صحیح استعمال کریں زبان ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے محبتیں بھی پنپتی ہیں اور قتل و غارت بھی ہوتی ہے.اس کا صحیح استعمال بھی انتہائی ضروری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کے سوال پر اسلام کی یہ خوبی بیان فرمائی کہ وہ لایعنی باتوں کو چھوڑ دے.بلا مقصد کی بے تکی باتوں کو چھوڑ دے ایسی باتوں کو چھوڑ دے، جن سے دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنیں.غیر پاکستانی احمدیوں کی شکایات کے ازالہ کی بابت بنیادی ہدایات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے بلکہ چند ایک جو احمدی ہوئے ہیں ان کی شکایت بھی ہے کہ یہاں ( مراد آسٹریلیا) اکثریت کیونکہ پاکستانیوں کی ہے یہ ہمیں اپنے اندر جذب نہیں کرتے.اجلاس وغیرہ میں بھی ایسی زبان ہونی چاہئے کہ جو یہاں کی زبان ہے یعنی انگریزی میں کارروائی ہوتا کہ جو یہاں جزائر سے آئے ہوئے احمدی ہیں وہ بھی سمجھ سکیں.گوا کثر کو اردو بھی آتی ہے لیکن انگریزی میں زیادہ آسانی ہے.یہاں کے رہنے والے بھی ہیں جو بچے یہاں پلے بڑھتے ہیں ان کو بھی انگریزی زبان زیادہ سمجھ آجاتی ہے.سوائے چند ایک بڑی بوڑھیوں کے یا بوڑھوں کے یا ان پڑھوں کے، جن کو سمجھ نہیں آتی ان کے لئے ترجمے کا انتظام ہوسکتا ہے.یا مختصراً اُردو میں کوئی پروگرام ہو سکتا ہے.تو بہر حال غیر پاکستانی احمدیوں کے یہ شکوے دور ہونے چاہئیں کہ ہم یہاں آکر یوں محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم جماعت کا حصہ نہیں ہیں یہ بہت خطرناک صورت ہوسکتی ہے.ان نئے آنے والوں سے کام بھی لیں ، ان کے شکوے دور کریں.میں نے جائزہ لیا ہے، ان نئے

Page 245

227 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم آنے والوں کے لئے بعض سے میں نے یہ پوچھا ہے یہ کس حد تک صحیح ہے، بہر حال مجھے ان سے جو معلومات ملی ہیں یہی ہیں کہ یہاں ان کو باقاعدہ کوئی سکھانے کا انتظام نہیں ہے.عورتوں کے لئے دینی تربیت کا تعلیم کا انتظام لجنہ کرے.مردوں کے لئے ذیلی تنظیمیں انتظام کریں، مجموعی طور پر جماعت جائزہ لے.اگر اس سلسلے میں ذیلی تنظیمیں پوری طرح فعال نہیں تو جماعتی نظام کے تحت انتظام ہو اور نگرانی ہو.اور جو ذیلی تنظیمیں ست ہیں ان کے بارے میں مجھے اطلاع بھی دیں.تو جب اس طرح کام کریں گے تبھی ہر احمدی کو جماعت کا فعال حصہ بنائیں گے.جیسا کہ میں پہلے بھی کہ چکا ہوں بعض فجین احمدیوں کو بھی شکوہ ہے کہ بعض دفعہ یہاں آکر وہ اپنے آپ کو اوپر محسوس کرتے ہیں.تو ان سے میں کہتا ہوں اس کا ایک یہ بھی علاج ہے.وہ احمدی ہوئے ہیں انہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے اور سمجھا ہے وہ اپنے آپ کو اتنا زیادہ جماعتی کاموں میں لگائیں کہ انتظامیہ ان سے کام لینے پر مجبور ہو.( دعوت الی اللہ ) کا بہت بڑا میدان خالی پڑا ہے.ہر احمدی کے لئے کھلا ہے.اس میں آگے بڑھیں ذاتی رابطے کر کے اور طریقے اپنا کر ( دعوت الی اللہ ) کا کام کریں.اس کام کو زیادہ سے زیادہ وسعت دیں.مردوں میں تو میں نے دیکھا ہے اللہ کے فضل سے نوجوانوں میں دوسری قوموں کے بھی کافی لڑکے کام کرنے والے ہیں.بعض عورتوں اور بڑی عمر کے لوگوں کو اور عورتوں کو خاص طور پر چاہئے اپنی استعدادوں کے مطابق اور اپنے دائرے کے مطابق ( دعوت الی اللہ ) کے میدان میں آگے آئیں.ذیلی تنظیموں کو جائزہ لینا چاہیے کہ شکوے کیوں پیدا ہوتے ہیں بہر حال انصار اللہ کی تنظیم اور لجنہ اماءاللہ ی تنظیم اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم ان سب کو جائزے لینے چاہئیں کہ کیوں یہ شکوے پیدا ہوتے ہیں.چاہے وہ دو چار کی طرف سے ہی ہوں.لیکن شکوے رکھنے والے بے چینی پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں.انصار اللہ کے صدر بھی شاید نجی کے رہنے والے ہیں.وہ آسانی سے اپنے لوگوں کی نفسیات دیکھ کر پروگرام بنا سکتے ہیں.لجنہ کو بھی جائزے لینے کی ضرورت ہے.غیر پاکستانی احمد یوں کی یا ایسے نوجوان پاکستانیوں کی جو لمبے عرصہ سے ملک سے باہر ہیں اور ان کا معاشرہ بالکل بدل چکا ہے ان کی فہرست بنائیں اور پھر دیکھیں کہ ان کو کس طرح جماعت کا فعال حصہ بنایا جاسکتا ہے.اپنی کوشش کریں تا کہ ان کے شکوے دور ہو جائیں.بہر حال اس کے لئے جس طرح میں پہلے کہہ چکا ہوں دونوں طرف سے دلوں

Page 246

228 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم کو کھولنے اور بلند حو صلے دکھانے کی ضرورت ہے.ہر طبقے کو اپنے تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ اس کے بغیر وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا.ہر ایک کو یا درکھنا چاہئے کہ جماعت کا ایک نظام ہے اور یہ خلیفہ وقت کے ماتحت ہے اس لئے نظام کی اطاعت بھی فرض ہے..الفضل انٹر نیشنل 12 تا 18 مئی 2006ء)

Page 247

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 229 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرموده 28 را پریل 2006ء سے اقتباس نظام خلافت کی برکت * اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار جگہ نمازوں کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ مالی قربانی کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.آج اگر آپ دیکھیں تو بحیثیت جماعت صرف جماعت احمد یہ ہے جو ز کوۃ کے نظام کو بھی قائم رکھے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر مالی قربانیاں کرنے والی بھی ہے.اور اس میں خلافت کا نظام بھی رائج ہے.پس اس نظام کی برکت سے آپ سبھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب حقیقی معنوں میں مکمل طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہوں گے.اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے اور عاشق صادق کی تعلیم پر عمل کرنے والے بھی ہوں گے.آپ نے بیعت کر کے ایک معاملے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر لی، آپ کے اس حکم کو مان لیا کہ جب میرا اسیح ومہدی ظاہر ہو تو اگر تمہیں برف کی سلوں پر بھی چل کر جانا پڑے تو اس کے پاس جانا اور میرا اسلام کہنا.اللہ نے فضل فرمایا یہاں آپ تک یہاں احمدیت کا پیغام پہنچا اور آپ نے احمدیت کو قبول کر لیا لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اتنا کر لینا ہی کافی نہیں ہے کہ ہم نے مان لیا اور سلام کہہ دیا.بلکہ اپنے اندر تبدیلیاں بھی پیدا کرنی ہیں.خلافت اور نظام جماعت سے تعلق بھی قائم کرنا ہے.اور اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق بندوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش بھی کرنی ہے.“ الفضل انٹر نیشنل 19 تا 25 مئی 2006ء)

Page 248

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 230 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ نبی کے ساتھ میٹنگ * (30 اپریل 2006ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ مجلس خدام الاحمدیہ کی میٹنگ بیت فضل عمرصودا میں ہوئی.جس کی رپورٹ روز نامہ الفضل ربوہ سے پیش ہے:.حضور انور نے دعا کروائی.حضور انور نے تمام ہمین سے ان کے کا م کا جائزہ لیا اور ساتھ ساتھ ان کی رہنمائی فرمائی اور ہدایات سے نوازا.معتمد سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ کی مجالس کتنی ہیں اور کتنی مجالس آپ کو باقاعدہ رپورٹس بھجواتی ہیں.جو نہیں بھجوا تیں ان کے بارہ میں آپ نے کیا کارروائی کی ہے.حضور انور نے فرمایا آپ کی ماہانہ رپورٹ با قاعدگی کے ساتھ مرکز کو ہر ماہ آنی چاہئے.خواہ کام ہو یا نہ ہور پورٹ با قاعدہ بھجوایا کریں اور اپنی مجالس سے بھی باقاعدہ رپورٹ لیا کریں.مہتم اشاعت سے حضور انور نے فرمایا اگر آپ کا اپنا رسالہ نہیں ہے تو کیا جماعتی رسالہ میں آپ کا خدام سیکشن ہے.فرمایا رسالہ میں خدام کی طرف سے آرٹیکل شائع ہونے چاہئیں.مہتم صحت جسمانی سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ خدام کے کھیلوں کا کیا انتظام ہے.Indoor گیم کا کیا انتظام ہے.فرمایا ہر جلس میں خدام کے لئے کھیلوں کا انتظام ہونا چاہئے اور آپ اپنے سیکرٹری صحت جسمانی سے ہر مجلس کی رپورٹ لیا کریں.مہتم وقار عمل نے اپنے وقار عمل کے پروگراموں کی رپورٹ پیش کی.فرمایا جہاں جماعتی جائیداد میں ہیں وہاں وقار عمل کیا کریں.مہتم خدمت خلق سے حضور انور نے فرمایا جو خدام اچھی صحت والے ہیں انہیں اپنا خون دینے والی ٹیم میں شامل کریں اور احمد یہ یوتھ آرگنائزیشن کے نام پر گورنمنٹ کے ہسپتالوں میں رجسٹرڈ کروائیں اور جب ان کو ضرورت ہو وہ آپ کو بلا لیں.اس طرح ان لوگوں کو علم ہوگا کہ جماعت یہ خدمت کر رہی ہے.فرمایا میں

Page 249

231 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم چھپیں خدام رجسٹرڈ کروالیں، خدمت خلق بھی ہوگی اور دعوت الی اللہ کا کام بھی ہو جائے گا.فرمایا با قاعدہ بلڈ بینک کے لئے اپنی رجسٹریشن کروائیں.حضور انور نے فرمایا خدمت خلق کے تحت ہسپتالوں میں وزٹ کریں اور غریبوں کی ضروریات پوری کریں.عید وغیرہ کے موقع پر فنڈز اکٹھا کیا کریں اور غریبوں کو دیا کریں.Old People's Home میں جا کر بوڑھوں کا حال وغیرہ پوچھ لیا کریں.ساتھ پھل وغیرہ لے جایا کریں اس سے اچھے رابطے بھی بن جائیں گے.حضور انور نے فرما یاریموٹ ایریا میں میڈیکل کیمپ لگائیں.مریضوں کو دیکھیں اور خدمت کریں.مہتم مال سے حضور انور نے خدام کے بجٹ اور فی کس چندہ کے معیار کا جائزہ لیا اجتماع کے چندہ کا بھی جائزہ لیا اور دریافت فرمایا کہ کیا اجتماع کے اخراجات کا باقاعدہ بجٹ بناتے ہیں.فرمایا آپ کے اخراجات کا باقاعدہ بجٹ بننا چاہئے.مرکز کا حصہ مرکزی فنڈ میں جمع کروانے کے بارہ میں بھی حضور انور نے دریافت فرمایا.مہتم تجنید سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ تسلی بخش ہے.آپ نے کن مجالس کا دورہ کیا ہے.حضور انور نے مہتم تجنید کو ہدایت فرمائی کہ خود دورہ کریں اور جائزہ لیں.مہتمم اطفال سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ ان کے لئے آپ نے کیا پروگرام بنایا ہے.مہتم اطفال نے بتایا کہ لجنہ اطفال کی بھی کلاسز لیتی ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ لجنہ کیوں لیتی ہیں.آپ اپنی کلاسز لیا کریں اور ہر ماہ اپنی ریگولر رپورٹ بھجوایا کریں.لجنہ اور ناصرات کا اپنا کام ہے.آپ کا اپنا کام ہے.حضور انور نے فرمایا یہ سب شعبے اس لئے بنائے گئے ہیں کہ ہر ایک میں آگے بڑھنے کی روح پیدا ہو.حضور انور نے فرمایا خدام کے اپنے کام ہیں اپنے پروگرام بنا ئیں اور کلاسیں لیں.آپ مہتمم اطفال ہیں.آپ کو اطفال کی کلاسز کا انتظام کرنا چاہئے.حضور انور نے فرمایا اطفال کے لئے مربی بھی ہونا چاہئے.آپ کا یہ مربی انصار میں سے ہونا چاہئے.حضور انور نے اطفال کے چندہ کے بارہ میں بھی دریافت فرمایا.مہتم (اصلاح وارشاد) سے حضور انور نے گزشتہ سالوں کی بیعتوں کے بارہ میں دریافت فرمایا اور فرمایا آپ کے پاس سارا ریکارڈ ہونا چاہئے.فرمایا اپنا ریکارڈ مکمل کریں.سب سے آپ کے رابطے ہونے چاہئیں.جو خدام نو مبائعین ہیں ان سب سے آپ کا مستقل رابطہ ہوان کو اپنے نظام کا حصہ بنائیں.مہتم تعلیم سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ نے کیا نصاب بنایا ہے مہتم تعلیم نے بتایا کہ ہم نے

Page 250

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 232 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے نصاب میں قرآن کریم کی آیات ، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات رکھتے ہیں جن کا ہم امتحان لیں گے.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ کتاب ” کامیابی کی راہیں“ بھی منگوائیں.انگریزی کی ٹرانسلیشن ہوئی ہے وہ منگوائیں.مہتم تربیت سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کتنے خدام نمازیں پڑھتے ہیں.کتنے خدام با جماعت نماز ادا کرتے ہیں.کتنے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں.آپ کو اس کا پتہ ہونا چاہئے.جو نہیں پڑھتے ان کو پیار سے آرام سے سمجھا ئیں اور تربیت کا کام مکمل کریں، خدام کی تربیت کا کام آپ مکمل کرلیں گے تو آئندہ جنریشن یکی احمدی ہوگی.دعوت الی اللہ کے تعلق میں ہدایات دیتے ہوئے حضور انور نے مزید فرمایا کہ دعوت الی اللہ کے لئے ذاتی رابطے کریں اور وہاں دعوت الی اللہ کریں جہاں دین کی طرف زیادہ رجحان ہوتا ہے.حضور انور نے فرمایا دعوت الی اللہ کے لیے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کریں اور لوگوں کو آپ کے عمل سے پتہ چلے کہ آپ دوسروں سے مختلف لوگ ہیں.فرمایا چھوٹا سا جزیرہ ہے کام کریں اور اس کو احمدی بنائیں.فرمایا خدام نئے عزم اور ولولہ سے کام کریں.حضور انور نے فرمایا کہ امور طلباء کا بھی شعبہ ہونا چاہئے.جس کے پاس طلباء کے بارہ میں سارا ریکارڈ ہو کہ کتنے طلباء ہیں، کتنے ہائی سکول میں جاتے ہیں اور پھر ڈراپ کر جاتے ہیں.کیوں سکول چھوڑتے ہیں، کیا وجہ ہے.یہ سب باتیں آپ کے علم میں ہونی چاہئیں.پھر جو طلباء یو نیورسٹی جارہے ہیں ان کا جماعت سے تعلق ، تعاون کیسا ہے یا یو نیورسٹی میں جا کر جماعتی تعلق اور رابطہ کم تو نہیں ہو گیا.حضور انور نے فرمایا یونیورسٹی میں ہمارے جو طلباء پڑھتے ہیں.وہ وہاں جا کر سیمینار آرگنائز کریں.اس سے بھی تعلق بڑھتا ہے اور دعوت الی اللہ کے لئے راستہ کھلتا ہے.طلباء اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں ایسے پروگرام کر سکتے ہیں.حضور انور نے فرمایا جو سکول کے بعد یو نیورسٹی نہیں جاسکتے تو کیا ان کا کوئی مالی مسئلہ ہے.اگر ذہین طالبعلم ہے اور مالی مسئلہ ہے تو پھر یہ مالی کمی اس کی تعلیم کی راہ میں روک نہیں ہونی چاہئے.حضور انور نے فرمایا آپ کے پاس محاسب اور تعلیم القرآن کے شعبے نہیں ہیں یہ بھی بنا ئیں.جن خدام کو پڑھنا نہیں آتا ان کی کلاسز لگائیں.فرمایا ان کو ابتدائی تعلیم دیں کہ احمدیت کیا ہے.دین حق کیا چیز ہے.

Page 251

مشعل راه جلد پنجم حصہ سوم 233 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ کیا ہے.نمازیں پڑھنی کتنی ضروری ہیں.قرآن پڑھنا کتنا ضروری ہے.اسی طرح اپنی عاملہ کا بھی جائزہ لیں.حضور انور نے فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ کتب جو تر جمہ ہو چکی ہیں خدام کو دیں.حضور انور نے امیر صاحب جزائر فجی کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ ذیلی تنظیموں کا حساب علیحدہ ہونا چاہئے.آپ کے جماعتی اکاؤنٹ میں ان کا چندہ بطور امانت رہے.ان کے اپنے چندے اور اخراجات کا حساب رکھنا ان کا اپنا کام ہے.حضور انور نے فرمایا جماعت کے سیکرٹری مال کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ذیلی تنظیموں کا چندہ بھی وصول کرے.خدام کا سیکرٹری مال اپنا چندہ لے گا.اسی طرح انصار اپنا چندہ لیں گے اور لجنہ کی سیکرٹری مال اپنا چندہ وصول کرے گی.حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ سیکر ٹریان کی سیکنڈ لائن اور تھر ڈلائن بھی تیار کرنی چاہئے.حضورانور نے فرمایا آپ کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں.آپ کی تنظیم اس لئے بنائی گئی تھی کہ آپ فعال (Active) ہوں.اگر سب ذیلی تنظیمیں فعال (Active) ہو جائیں.تو جماعت بہت ترقی کرے گی.حضور انور نے فرمایا سب سے پہلے عاملہ کے ممبران اپنا جائزہ لیں.نمازوں کی عادت ڈالیں روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی عادت ہونی چاہئے.اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور کام کریں.حضور انور نے فرمایا افسر بن کر کام نہیں ہوگا بلکہ ایک مزدور بن کر کام کرنا ہوگا.حضور انور نے فرمایا کہ صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ اپنی مجالس کا دورہ کیا کریں.سال میں ہر مجلس کے تین دورے آپ کے ہونے چاہئیں.اگر خود نہیں جاسکتے تو اپنے نائب صدر کو بھیجا کریں.میٹنگ کے اختتام پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے عاملہ کے ممبران کو از راہ شفقت قلم عطا فرمائے اور عاملہ کے ممبران نے حضور انور کے ساتھ گروپ فوٹو بنوانے کی سعادت بھی حاصل کی.(روز نامہ الفضل ربوہ 19 مئی 2006ء)

Page 251