Mashal-e-Rah Volume 5 (Part 2)

Mashal-e-Rah Volume 5 (Part 2)

مشعل راہ ۔ جلد پنجم (حصہ دوم)

Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

مشعل راه جلد پنجم (حصہ دوم) ارشادات سید نا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

Page 2

مشعل راه جلد پنجم (حصہ دوم) طبع :.تاریخ.......مارچ 2006ء

Page 3

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی دیباچه اللہ تعالیٰ کے احسانات ہم پر اس قدر ہیں کہ اُس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے.اس کے بے پایاں احسانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُس نے محض اپنے فضل سے ہمیں امام آخر الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے اور آپ پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی.اور پھر آپ علیہ السلام کے بعد آپ کی جماعت میں قدرت ثانیہ یعنی خلافت حقہ کا نظام قائم فرمایا اور نہ صرف ہمیں بیعت خلافت کی توفیق عطا فرمائی بلکہ خلافت کے خدمت گزاروں میں شامل فرمایا.الحمد للہ.اللہ تعالیٰ کا مزید احسان یہ ہے کہ اُس نے خلافت کے دائگی اور قیامت تک کے لئے منقطع نہ ہونے کی بشارت بھی دی تا کہ ہم خود بھی اور ہماری آئندہ آنے والی نسلیں بھی خلافت کے ذریعہ جاری ہونے والے فیوض و برکات سے ہمیشہ ہمیش کے لئے بہرہ مند اور فیضیاب ہوتی رہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے.اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیر وہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفا دار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.“ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305-306) اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ اور بشارت کے بعد کسی احمدی کو کبھی کوئی مایوسی کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے بلکہ اپنے آپ کو خلافت کے ساتھ وابستہ و پیوستہ کر کے اس کے استحکام اور ترقی کے لئے کوشاں

Page 4

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی رہنا چاہیے.ہر وقت مستعد اور سرگرم عمل رہنا چاہیے اور یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذمہ داری کو کما حقہ بجالانے کی توفیق عطا فرمائے.لیکن ہم استحکام خلافت کی اہم ذمہ داری سے اس وقت تک عہدہ برآ نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم اپنے آپ کو کلیۂ خلافت سے وابستہ نہ کریں اور خلیفہ وقت کے ہر حکم کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم نہ کر لیں.یہاں تک کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہر عمل خلیفہ وقت کے ارشادات کے تابع ہو جائے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اٹھاتا ہے اس کے پیچھے اٹھاتا ہے، اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے، اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے، اپنے ارادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے، اپنی آرزوؤں کو اس کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتا ہے.اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہو جائیں تو ان کیلئے کامیابی اور فتح یقینی ہے.(الفضل 4 ستمبر 1937ء) 66 اسی طرح آپ فرماتے ہیں:.خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ،سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم ، وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں (الفضل 31 جنوری 1936ء) ناکام ہیں.“ ہماری تمام ترقیات اور کامیابیوں کا دارو مدار خلافت سے وابستگی اور اس کی سچی اطاعت میں ہی پنہاں ہے.جب تک ہم خلیفہ وقت کی اطاعت کا جو اپنی گردنوں میں نہیں ڈالیں گے ہم اس مقصد عظیم کو حاصل نہیں کر سکتے جس کے لئے اس سلسلے کو قائم کیا گیا ہے.اور وہ مقصد یہی ہے کہ دین حق کو تمام ادیان پر غالب کر دیا جائے اور ساری دنیا کو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ کے جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :- ” ہم اور ہماری آنے والی نسلیں ، ہمارے بوڑھے اور ہمارے بچے چین نہیں لیں گے جب

Page 5

!!! ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم تک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تاج ظالموں کے سروں سے نوچ کر واپس حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش نہیں کر دیتے.وہی ہمارے لئے طمانیت کا وقت ہے، وہی ہمارے لئے چین اور آرام جان ہے.اسی کی خاطر ہم مرتے ہیں اور اسی خاطر ہم مرتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ( دین حق ) کا جھنڈا جلد از جلد دنیا کی تمام بڑی سے بڑی سلطنتوں کے بڑے سے بڑے ایوانوں پر لہرایا جائے.ایک ہی جھنڈا ہو اور وہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہو.ایک ہی اعلان ہو اور وہ نعرہ تکبیر کا اعلان ہو کہ کوئی خدا نہیں سوائے اس خدا کے جو ایک خدا ہے.اور کوئی اور رسول باقی نہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو آخری صاحب شریعت اور صاحب حکم رسول ہیں.“ خطبه جمعه فرموده 26 اپریل 1985 ) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں خلافت احمدیہ سے اخلاص اور وفا کے ساتھ وابستہ و پیوستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے.خلیفہ وقت کی رضا ہماری رضا ہو جائے اور امام وقت کی خوشنودی ہمارا مطمح نظر ہو جائے.نیز خلافت کی نعمت عظمی تا بہ ابد ہمارے سروں پر قائم و دائم رہے.آمین

Page 6

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم iv ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی پیش لفظ اللہ تعالی کا بہت ہی فضل و احسان ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس خلفاء کی راہنمائی ہمہ وقت اور ہمہ جہت میسر رہی ہے.یہ مجلس اپنے قیام کے آغاز سے لے کر آج تک خلفاء عظام کی نگرانی اور دعاؤں کے سایہ تلے اپنی ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اور پھولتی پھلتی اور پھیلتی جارہی ہے.الحمد للہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے خلفائے کرام کے اُن فرمودات وارشادات کو جو خدام الاحمدیہ کی تنظیمی، تربیتی، اخلاقی اور روحانی بہتری کے لئے بیان فرمائے گئے ہیں ، کتابی شکل میں مدون کر کے مشعل راہ کے نام سے شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے.حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ کے فرمودات پر مبنی مشعل راہ جلد اول، حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ کے ارشادات پر مشتمل مشعل راہ جلد دوم ، حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطابات پر مبنی کتاب مشعل راہ جلد سوم کے نام سے موسوم ہے.مشعل راہ جلد چہارم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے اطفال سے متعلقہ ارشادات دیے گئے ہیں.خلافت خامسہ کے آغاز میں ہی کام کی وسعت اور ہمہ گیری کے پیش نظر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت سیدنا خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات و فرمودات پر مبنی مشعل راہ ہر سال شائع کی جایا کرے گی.چنانچہ پچھلے سال مشعل راہ جلد پنجم حصہ اول جس میں 22 اپریل 2003 ء سے 30 اپریل 2004 ء تک کے ارشادات شامل کئے گئے تھے ، شائع ہوئی.زیر نظر جلد میں یکم مئی 2004 ء سے 30 اپریل 2005 ء تک کے ارشادات و فرمودات جمع کئے گئے ہیں.اس کے علاوہ اس جلد میں ایک ضمیمہ بھی دیا جا رہا ہے جس میں وہ خطابات دیئے جا رہے ہیں جو مشعل راه جلد پنجم حصہ اول میں شامل ہونے تھے لیکن اُس وقت یہ میسر نہ آسکے چنانچہ اب یہ مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم کی زینت بن رہے ہیں.اس جلد کی تیاری میں مکرم سہیل احمد ثاقب صاحب نے بہت محنت سے ابتدائی کام کیا.پھر ایک

Page 7

ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم کمیٹی نے اس کے تمام حوالہ جات اور متن اصل سے چیک کیے، پروف ریڈنگ کی اور اپنے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کو مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم کی صورت میں مدون کرنے کی سعادت پائی.کمیٹی میں مکرم عبد الحق بدر صاحب، مکرم طارق محمود بلوچ صاحب ،مکرم محمد عباس احمد صاحب اور مکرم میرا نجم پرویز صاحب شامل تھے.ان کے علاوہ مکرم عامر سہیل صاحب ، مکرم سالک احمد صاحب ، مکرم کا شف عدیل صاحب، مکرم طاہر احمد مختار صاحب اور مکرم فراست احمد صاحب نے بھی بہت محنت اور محبت سے کام کیا.فجز اھم اللہ احسن الجزاء اس کتاب کی تیاری اور اشاعت میں مکرم نصیر احمد قمر صاحب ایڈیشنل وکیل الاشاعت وایڈیٹر الفضل انٹرنیشنل ہمکرم عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر ، مکرم نصیر احمد شاہ صاحب چیئر مین ایم ، ٹی اے نے خصوصی تعاون فرمایا ہے.اس کے علاوہ مکرم شاہد محمود احمد صاحب، مکرم اقبال احمد زبیر صاحب ، مکرم طارق محمود صاحب پانی پتی ، مکرم موید ایاز صاحب، مکرم محمد صادق ناصر صاحب اور عملہ خلافت لائبریری کا بھی بھر پور تعاون حاصل رہا.فجز اھم اللہ احسن الجزاء اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں خلافت احمدیہ کے ہمیشہ حقیقی وفادار خادم بنائے رکھے.آمین

Page 8

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم vi ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی دوسرے نیشنل وقف نواجتماع برطانیہ سے خطاب (غير مطبوعه)......1 نمازوں کی پابندی کریں مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولیں ایک دوسرے سے لڑائی نہ کریں ماں باپ کا کہنا ما نہیں نماز میں اپنے لئے دعا کریں مختلف شعبوں میں واقفین نو بچوں کی ضرورت ہے خطبه جمعه فرموده 21 مئی 2004ء خلافت کا سلسلہ دائمی ہے خلافت اولی میں فتنہ بازوں کا انجام خلافت ثانیہ میں اٹھنے والے فتنوں کا انجام خلافت ثانیہ میں ہونے والی ترقیات خلیفہ وہی ہے جسے خدا نے بنایا خلافت ثالثہ میں ہونے والی ترقیات کا ذکر 1974ء کے فسادات کا ذکر خلافت رابعہ میں دشمنوں کی ناکامی خلافت خامسہ کے آغاز پر غیروں کے تاثرات خلافت سے محبت اللہ کی پیدا کردہ ہے خدا ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا خطبه جمعه فرموده 28 مئی 2004ء سے اقتباسات قرض لے کر قربانی کرنے والے موصیان کو خصوصی نصیحت کاروباری لوگوں کے چندہ دینے کا طریق بلا وجہ بقایا دار نہ بنیں عہدیداران افراد جماعت کے رازوں کی حفاظت کریں کسی صورت میں بے کار نہ رہیں 50 22

Page 9

ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 28..32.35..43.vii مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم خدام الاحمدیہ جرمنی کی ایک قابلِ تقلید مثال زکوۃ کی ادائیگی کی تلقین ماہوار چندہ کی شرح خلافت ثانیہ میں مقرر ہوئی خطبه جمعه فرموده 4 جون 2004 ء سے اقتباسات دعوت الی اللہ کے لئے عارضی وقف کی تحریک دعوت الی اللہ کا طریق دعوت الی اللہ کا کام ایک مستقل کام ہے عمل صالح کی اہمیت احمدی سب کے لئے نمونہ بنیں خطبه جمعه فرموده 1 1 جون 2004 ء سے اقتباسات اپنے بچوں سے دوستی پیدا کریں بچوں کے دوستوں کا بھی پتہ ہونا چاہیے دوست سوچ سمجھ کر بنائیں کتب مسیح موعوڈ پڑھنے کی خصوصی تاکید خطبه جمعه فرموده 18 جون 2004 ء سے اقتباسات.کتب حضرت مسیح موعود علم قرآن عطا کرتی ہیں علم سکھانا ایک صدقہ جاریہ ہے اساتذہ کی عزت کریں اور اساتذہ بھی نیک نمونہ دکھائیں احمدی طلبہ سٹرائیکس (Strikes) میں حصہ نہ لیں اجتماعات اور کتب حضرت مسیح موعود کے بارہ میں ارشاد واقفین نو زبانیں بھی سیکھیں واقفین نو مختلف شعبوں میں آئیں ہر ملک میں راہنمائی کے شعبہ کو فعال کریں واقفین نو کے والدین بھی علوم سیکھیں جامعه احمدیه کینیڈا سے خطاب پہلی کلاس ہونے کے ناطے علمی واخلاقی معیار بلند کریں نوجوانی کی عبادت ہی اعلیٰ درجہ کی عبادت ہوتی ہے خدمت دین کے لئے صحت ضروری ہے استاد کا احترام کریں

Page 10

ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 46..52.54 66 viii مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم خطبه جمعه فرموده 2 جولائی 2004 ء سے اقتباسات مرد بیوی بچوں کے تمام حقوق ادا کرے بیویوں سے حسن سلوک کی تاکید صلہ رحمی کریں بیویوں پر ظلم نہ کریں بعض لوگوں کا بیویوں کے متعلق تکلیف دہ رویہ لوگوں بیویوں کا خیال رکھیں ساس سسر کا رویہ اپنے بچوں کی عزت کریں بیٹیوں کی پیدائش پر جنت کی بشارت متقی خاندان بننے کے لئے نمازوں کی پابندی کریں اور کروائیں خطبه جمعه فرموده 9 جولائی 2004 ء سے اقتباس سور کے گوشت والے ہوٹلوں پر ملازمت یا کاروبار نہ کریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اہم ارشاد احمدیوں کو ایک نصیحت خطبه جمعه فرموده 6 1 جولائی 2004 ء سے اقتباسات جانوروں میں خود حفاظتی نظام مجالس کے آداب مشورے مرکز کی اطاعت میں ہوں لغو مجالس میں شریک نہ ہوں سلامتی والی مجالس مجالس کے بعض بنیادی اور اہم آداب جلسوں میں ذکر الہی کرتے رہیں مجالس امانت ہیں خطبه جمعه فرموده 30 جولائی 2004ء سے اقتباسات جلسہ سالانہ کے مقاصد جلسہ سالانہ کے ایام ٹریننگ کے لئے ہیں جلسہ سالانہ کی برکات جلسہ کی کارروائی غور سے سنیں

Page 11

ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 78 82.83 92 97 ix مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم نظام کی پابندی نہ کرنے والوں کے لئے تنبیہ جلسہ کے لئے متفرق اہم ہدایات اپنے ماحول پر گہری نظر رکھیں جلسہ سالانہ برطانیہ کے اختتامی خطاب سے اقتباسات.2005 ء تک کم از کم پچاس ہزار وصایا ہو جائیں 2008ء تک چندہ دہندگان میں سے کم از کم پچاس فیصد موصی ہو جائیں خدام الاحمدیہ، انصار اللہ صف دوم اور لجنہ اماءاللہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں خطبه جمعه فرموده 6 اگست 2004ء سے اقتباس.نظام خلافت اور نظام وصیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے خطبه جمعه فرموده 20 اگست 2004ء سے اقتباسات لغویات تقویٰ میں روک بنتی ہیں لغو کی تشریح جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے بغیر پوچھے مشورہ نہ دیا جائے انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے بچیں مخالف ویب سائٹس پر کئے جانے والے اعتراضات کے جواب خود نہ دیں چیٹنگ (Chatting) سے پر ہیز کریں غلط صحبتوں سے بچو سگریٹ نوشی سے جان چھڑا میں نشہ کرنے والوں کا انجام.خطبه جمعه فرموده 27 اگست 2004ء سے اقتباسات.نظام کی اطاعت تنگی ہو یا آسانی نظام جماعت کی اطاعت کریں اطاعت میں برکت ہے عہد یدار کسی کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں خطبه جمعه فرموده 3 ستمبر 2004ء سے اقتباسات.بچوں میں سلام کی عادت ڈالیں گھروں میں اجازت لے کر داخل ہوں احمدی آبادیوں میں سلام کو رواج دیں

Page 12

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم سلام کہنے پر مقدمہ کرسی سے اٹھ کر ملیں ، مصافحہ کریں عورتیں مردوں سے مصافحہ نہ کریں X خطبه جمعه فرموده 17 ستمبر 2004ء سے اقتباس سزایافتہ شخص کی ناجائز حمایت نہ کریں فیصلہ منوانے کے لئے دباؤ ڈالیں ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی سالانه اجتماع خدام الاحمديه U K سے اختتامی خطاب دنیاوی تنظیموں اور ہماری تنظیموں میں ایک بنیادی فرق ہے نو جوانوں کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی ہوگی نو جوانوں کو دیانتدار ہونا چاہیے.جھوٹ نہ بولنا احمدی خادم اور طفل کی نشانی ہو وعدے پورے نہ کرنا بھی جھوٹ ہے ہمیشہ پاک اور صاف زبان استعمال کریں جھوٹ کے خلاف ایک مہم چلائیں معروف فیصلہ“ کی تعریف فجر کی نماز بر وقت پڑھیں کھیلوں کا بھی انتظام کریں خدام الاحمدیہ کے شعبہ تربیت کو درسوں کی حاضری لکھنی چاہیے احمدی نو جوانو اور بچو! اپنی عبادت اور اخلاق کے معیار بلند کرو سالانه اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کے موقع پر پیغام.101 104 114..عبادت کا قیام خلافت کا احترام خطبه جمعه فرموده 4 2 ستمبر 2004ء سے اقتباسات قرآن کریم پڑھنے کی تلقین ترجمہ اور تفسیر بھی پڑھیں ذیلی تنظیمیں تعلیم القرآن کے حوالے سے کوشش کریں خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر 2004 ء سے اقتباس پہلے اپنے گھروں میں عبادت کو رائج کریں 118 120

Page 13

مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم xi خطبه جمعه فرموده 22/اکتوبر 2004ء سے اقتباس نام نہاد دعا گو بزرگوں سے بچیں خطبه جمعه فرموده 5 نومبر 2004ء سے اقتباسات.دفتر اول کے مجاہدین کے کھاتوں کو زندہ رکھیں بچوں کو بھی چندے دینے کی عادت ڈالیں نو مبائعین کو ابتدا سے چندہ کی عادت ڈالیں تحریک جدید نظام وصیت کا ارہاص ہے ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبه جمعه فرموده 12 نومبر 2004ء سے اقتباسات.جمعہ کی اہمیت و فرضیت جمعۃ الوداع کے دن کا عہد خطبه جمعه فرموده 19 نومبر 2004ء سے اقتباس آپس میں پیار محبت سے رہو ایک دوسرے کی کمزوریاں تلاش نہ کریں میں ستاری اختیار کریں برائیوں کی تشہیر نہ کریں جماعتی مفاد کے خلاف اطلاع متعلقہ عہد یدار کو دیں خطبه جمعه فرموده 3 دسمبر 2004ء سے اقتباسات.عبادت النبی کیوں ضروری ہے.ذیلی تنظیمیں دور ہٹے نو جوانوں کو قریب لائیں - خطبه جمعه فرموده 31 دسمبر 2004ء خلیفہ وقت کے پاس کسی عہدیدار کی شکایت کرنے کا طریق عہدیداران کی مکمل اطاعت کریں امانتیں حقداروں کے سپر د کریں جماعتی عہدہ کسی کا پیدائشی حق نہیں ہے منتخب عہدیداران کی ذمہ داری ذمہ داریاں نبھانے کے لئے دعا کرتے رہیں عہد یداران کا رویہ کس قسم کا ہونا چاہیے عہد یداران خدا کے حضور جوابدہ ہیں عہدہ کی خواہش معیوب امر ہے 121 123.129..131.134 136

Page 14

مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم Xii ضدیں ، انا ئیں اور قسمیں جماعتی مفاد میں حائل نہ ہونے دیں واقفین اور مربیان کا احترام کریں عہد یدار پیار اور محبت کے پر پھیلائیں امراء ایک وقت مقررہ پر دفاتر میں حاضر ہوں افراد جماعت اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھائیں ہر حالت میں اطاعت کریں جماعت کے دشمنوں کی کارروائیاں ایک صاحب کے سوال کا نہایت شاندار جواب جماعت کو نصیحت خطبه جمعه فرموده 7 جنوری 2005ء سے اقتباس بچوں کو وقف جدید میں شامل کریں خطبه جمعه فرموده 28 جنوری 2005ء سے اقتباس سپین میں وقف عارضی کی تحریک خطبه جمعه فرموده 1 1 فروری 2005ء سے اقتباس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کارڈ کریں ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی.خطبه جمعه فرموده 18 فروری 2005ء سے اقتباس.ذیلی تنظیمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مہم کا جواب دیں اطفال ریلی برطانیہ سے خطاب (غیر مطبوعه) چھوٹی عمر سے ہی نیکی اور برائی کی تمیز ہونی چاہیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں نمازیں سوچ سمجھ کر پڑھیں والدین کا ادب اور ان کے لئے دعا ایک احمدی بچے کو بہت زیادہ بیچ پر قائم ہونا چاہیے غلطی کو چھپانا نہیں چاہیے محنت کی عادت ڈالیں روزانہ قرآن کریم پڑھیں اور کلاسوں میں شامل ہوں لڑائی جھگڑوں سے بچیں خطبه جمعه فرموده 15 اپریل 2005ء سے اقتباس ذیلی تنظیمیں خدمت خلق کے شعبہ کے تحت مریضوں کی عیادت کیا کریں 154.155 156 158 160 167.

Page 15

مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم xiii ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ضمیمه اس ضمیمہ میں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے وہ خطابات دیے جارہے ہیں جو مشعل راہ جلد پنجم حصہ اول میں شامل ہونے تھے مگر اُس وقت مہیا نہ ہونے کی وجہ سے اب مشعل راہ جلد ہم حصہ دوم کی زینت بن رہے ہیں.یہ تمام خطابات غیر مطبوعہ ہیں.پھلے نیشنل وقف نواجتماع برطانیہ سے خطاب.وقف نو بچے دین کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں وقف نام ہے قربانی کا بچپن سے ہی بیچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہو بچوں میں خوش مزاجی ہو آپ کے اخلاق اچھے ہونے چاہئیں مجلس شوری خدام الاحمدیہ برطانیہ سے خطاب نظام شوری کی اہمیت حتمی فیصلہ خلیفہ کا ہوتا ہے مشورہ کرنے کے فوائد نظام خلافت کے بعد اہم ترین نظام شوری کا ہے شوری کی کارروائی کے دوران خاص احتیاط نمائندگان شوری کا ایک اہم فرض خلیفہ المسح کو رپورٹ کرتے وقت بہت زیادہ احتیاط کریں اس خطاب کا انگریزی متن صفحہ نمبر 1988 پر ملاحظہ فرمائیں } نیشنل تربیتی کلاس برطانیہ سے خطاب تربیتی کلاس کا مقصد دین کا علم سیکھنا ہے علم سکھانے والے کا عزت واحترام کریں دین سیکھنا بہت بڑی نیکی ہے.سیکھے ہوئے دین پر عمل کرنے کی کوشش کریں قرآن مجید کا ترجمہ سیکھیں بچپن سے ہی سچ کی عادت ڈالیں سے ہی بچی کی ہر بچہ خدمت خلق کرے محنت کے ساتھ پڑھائی کرنی چاہیے ہمیشہ ماں باپ کی فرمانبرداری کریں 168 172 177

Page 16

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 1 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی دوسرے نیشنل وقف نو اجتماع برطانیہ سے خطاب * حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2 مئی 2004ء کو دوسرے نیشنل وقف نو اجتماع برطانیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :- وقت چونکہ پہلے ہی انہوں نے کافی لگا لیا ہے اس لیے تھوڑی مختصری بات کرتے ہیں.یہ دوسری وقف نو کلاس ہے؟ دوسرا اجتماع.تین دن کا.جو بچے دس سال سے بڑی عمر کے ہیں وہ ذرا ہاتھ کھڑا کریں.کافی ہیں.اچھی Percentage( شرح فیصد ) ہے.ٹھیک ہے.نیچے رکھو.نمازوں کی پابندی کریں چند باتیں میں کہوں گا تمہیں.پچھلے اجتماع میں بھی میں نے انہی باتوں پر زور دیا تھا بعض بنیادی چیزیں ہیں.سب سے پہلی بات ہے نمازوں کی پابندی.اور آپ لوگ جو دس سال سے اوپر کی عمر کے ہو گئے ہیں.ان کو خاص طور پر اس چیز کا خیال رکھنا ہے کہ اب نمازیں آپ پر فرض ہو گئی ہیں.ٹھیک ہے؟ پانچوں نمازیں با قاعدہ پڑھیں.سکول میں اگر سردی کے موسم میں وقت تھوڑا ہوتا ہے، لیٹ ہو جاتے ہیں تو جو بر یک (Break) ہوتی ہے اس میں کوئی وقت تلاش کریں کہ نماز میں پڑھ سکیں.ظہر ، عصر کی.تو جو بچے با قاعدہ نماز پڑھتے ہیں وہ ذرا ہا تھ کھڑے کریں.سارے ہی پڑھتے ہیں.ماشاء اللہ.اچھا ٹھیک.اب مجھے یہ بتائیں کہ قرآن کریم کی تلاوت کون روز کرتے ہیں.جو تو وہاں چلڈرن کلاس میں آتے ہیں ، وقف نو کلاس میں آتے ہیں، ان سے تو میں پوچھتا رہتا ہوں.امید ہے کرتے ہوں گے.یہاں باہر سے بھی کافی بچے آئے ہوئے ہیں، مجھے لگتا ہے.اچھا ٹھیک ہے.مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولیں اب ایک بات میں نے گذشتہ سال بھی کہی تھی خاص زور دے کے، اب دوبارہ کہتا ہوں اور یہ بڑی

Page 17

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 2 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی تو ضروری چیز ہے کہ کوئی بھی بچہ کوئی احمدی بچہ، وقف نو کا تو بہت اونچا معیار ہے ان سے Expect(امید) نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کبھی جھوٹ بولیں گے، کسی بھی احمدی بچے کو کبھی بھی مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا.تو اس لیے آپ لوگ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ اپنے ساتھیوں سے کھیل رہے ہوں یا کوئی غلطی کرتے ہیں اور امی ابا آپ کے پوچھیں کہ فلاں کام تم نے تو نہیں کیا تو کبھی سزا کے ڈر سے بھی جھوٹ نہیں بولنا اور کبھی مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا.ایک دوسرے سے لڑائی نہ کریں پھر ایک بات میں نے کہی تھی گذشتہ سال بھی دوبارہ یاد کرا دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے لڑائی نہیں کرنی.کبھی بھی.کھیل کھیل میں بعض دفعہ لڑائیاں ہو جاتی ہیں.آپ لوگ جواب سات سال سے بڑی عمر کے بچے ہیں ان کو کافی ہوش آگئی ہے یا درکھیں کہ لڑنا نہیں ہے.ایک دوسرے کے ساتھ کھیل میں اور اگر کوئی آپ کو کچھ مار دیتا ہے یا شرارت کر دیتا ہے تو معاف کرنے کی عادت ڈالیں.ماں باپ کا کہنا مانیں تیسری یا جو بھی نمبر ہے اگلا کہ ماں باپ کا ، امی ابا کا آپ نے کہنا مانا ہے.جو وہ کہیں اس کے مطابق کرنا ہے.ضد نہیں کبھی کرنی.نہ کھانے پینے کے معاملے میں.نہ کپڑے پہننے کے بارے میں.جس طرح وہ کہیں اسی طرح ان کی بات ماننی ہے نماز میں اپنے لیے دعا کریں اور پھر ایک چیز یا درکھیں کہ آپ لوگ وہ جن سے میں نے ہاتھ کھڑے کروائے ہیں دس سال کی عمر کے کافی بچے ہو چکے ہیں.چند ایک چودہ پندرہ سال، پھر سولہ سال کی عمر کے بھی ہیں ، اب مستقل یہ عادت ڈال لیں کہ نماز میں اپنے لیے خاص طور پر دعا کرنی ہے.ہر نماز میں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح وقف نو بنائے.آپ کے ماں باپ نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق کہ جو بھی بچہ اللہ میاں مجھے دے گالڑ کی ہو یا لڑ کا.میں اسے تیری راہ میں وقف کروں گا یا کروں گی.انہوں نے وقف کیا آپ کو.اب آپ کا کام ہے جو نیک سوچ ان کی تھی.جو وعدہ اللہ تعالیٰ سے انہوں نے کیا، اس کو آپ نے پورا کرنا ہے.ٹھیک.اور اس کے لیے دعا کرنی ہے خاص طور پر.کیونکہ دعا کی عادت اب دس سال کی عمر میں آپ کو پڑ جانی چاہیے، نماز میں پڑھنے کی اور خاص

Page 18

3 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم طور پر دُعا مانگنے کی.اور اللہ میاں کا بھی یہ حکم ہے.قرآن شریف میں بھی آیا ہے کہ بچوں کو ماں باپ کے لیے دعا مانگنی چاہیے.خاص طور پر یہ شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ انعام دیا.اچھی صحت دی.اچھی پر زندگی دی.اچھے ماں باپ دیئے اور ہمیں اس جماعت میں شامل کیا جس نے انشاء اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانا ہے.اور ہمیں ان بچوں میں شامل کیا جنہوں نے بڑے ہوکر اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کی ہوئی ہے، گزارنی ہے.اور وقف کی روح سے گزارنی ہے انشاء اللہ تعالی.اور پھر یہ کہ بنیادی باتیں ہیں بعض جو واقفین نو کو بہت زیادہ آنی چاہئیں.مثلاً اب سارے بچے یہاں صبح سے بیٹھے بیٹھے تھک گئے ہیں.کافی ان کو نیند بھی آرہی ہے.کچھ بیٹھے ہوئے ہیں انگڑائیاں لے رہے ہیں کچھ جمائیاں لے رہے ہیں.اور ہاتھ منہ پر رکھے بغیر منہ کھول دیتے ہیں، یہ منع ہے.حدیث میں آیا ہے کہ جب آپ کو نیند آئے اور منہ کھول کر جمائی (Yawning) کرتے ہیں تو آپ ہاتھ سامنے منہ پر رکھیں.یہ چیز بھی بڑی ضروری ہے.(اب میں کہہ رہا ہوں اس بچے کا ہاتھ نہیں منہ کے سامنے.تو یہ چیزیں بنیادی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں.یہ ہر واقف نو نیچے کو یا درکھنی چاہئیں.بڑی باتیں تو آپ سیکھ جائیں گے لیکن بنیادی اخلاق آپ کو سیکھنے بہت ضروری ہیں.اور اُن میں سے یہی ہے.نمازوں کی با قاعدگی، قرآن شریف پڑھنے کی توجہ، ماں باپ کا کہنا مانا اور ضد نہیں کرنی.اپنے ہم عمر بچوں سے لڑائی نہیں کرنی.کھانا کھانا ہے تو آداب سے کھانا ہے.مجلس میں بیٹھنا ہے تو مجلس میں بیٹھنا آنا چاہیے.ادھر ادھر ملنے کی بجائے تھوڑا سا صبر کریں.پھر اگر تھکاوٹ ہے اور اباسی ( جمائی ) آتی ہے تو ہاتھ رکھ کر منہ کھولنا ہے.منہ اس طرح ہی نہیں کھول دینا.بھیڑیے کی طرح.مختلف شعبوں میں واقفین نو بچوں کی ضرورت ہے اس کے علاوہ اب رہ گئی چیز کہ ہمیں واقفین نو میں (انہوں نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ فلاں فلاں شعبے کے لیے بچے بھی تیار ہورہے ہیں) سب سے پہلے اب میں افریقہ کا دورہ کر کے آیا ہوں.ہمیں وہاں ڈاکٹر ز کی ضرورت ہے.ٹیچرز کی ضرورت ہے.تو اپنی Preference ( ترجیحات) میں یہ شامل کریں کہ ہمیں ڈاکٹر چاہئیں اور ہمیں ٹیچر چاہئیں.کل کو ہو سکتا ہے ہم وہاں کوئی میڈیکل کالج بھی کھولیں تو جب آپ لوگ بڑے ہوں گے تو جاکے اس لیول کے ڈاکٹر بھی چاہئیں جو پڑھا سکیں.سکولوں کے لیول کے.یونیورسٹی کے لیول کے بھی ٹیچر چاہئیں.پھر لڑکیوں میں وکیل بن سکتی ہیں.I.T ( آئی ٹی) میں کام لڑکے لڑکیاں دونوں کر سکتے ہیں.میڈیسن میں بھی لڑکے لڑکیاں دونوں آسکتے ہیں.ٹیچنگ(Teaching) میں بھی دونوں

Page 19

4 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم آسکتے ہیں.تو ہر میدان میں ایک طرح ہمیں ضرورت ہے دونوں طرف کے لوگ.اکثر فیلڈ (Field) ایسے ہیں جس میں دونوں طرح کے بچے شامل ہو چکے ہیں.اس لیے مجھے یہ بتائیں کہ مجھے اگلے دس سال میں فکر ہے کہ کافی ہمیں ڈاکٹرز اور ٹیچرز کی ضرورت ہے.پہلے وہ بچے ہاتھ کھڑا کریں جن کو یہ دلچسپی ہے کہ وہ ڈاکٹر بنیں.%25 ٹھیک ہے وہ لوگ جو ٹیچر بنا چاہتے ہیں؟ کوئی بھی نہیں.اگر ہاتھ نہیں کھڑے کریں گے تو مجھے زبر دستی بنانا پڑے گا ساروں کو.ان بچوں میں سے مجھے Teaching Line کے بچے بھی چاہئیں.سمجھ آئی؟ اس لیے وہ بھی دلچسپی پیدا کریں جن کو دلچسپی ہو.اور وکیل کتنے بننا چاہتے ہیں؟ Lawyer (وکیل) کتنے بننا چاہتے ہیں؟ اچھا.(مربی) کتنے بننا چاہتے ہیں؟ ہاں یہ تسلی ہوگئی تھوڑی سی.اچھا شاباش.جتنے ڈاکٹر ہیں اتنے ہی (مربی) ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں وقف نو کی طرف بچوں کو بھیجنے کی طرف کافی توجہ پیدا ہورہی ہے اور میں، انچارج جو ہیں وقف نو کے، کل ہی ان سے بات کر رہا تھا کہ اس ایک سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے ان کو یہی کہا تھا مکمل پوری Figures مجھے بتا ئیں.میرا اندازہ ہے جو درخواستیں میرے پاس آئی ہیں.ماں باپ نے جو بچے اپنے وقف کیے ہیں وہ تقریباً دو ہزار سے ڈھائی ہزار تک ہیں جو ایک سال میں وقف ہوئے ہیں.اس طرح انشاء اللہ تعالیٰ یہ تعداد تو بڑھے گی اور ضرورت پوری ہوتی رہے گی.لیکن آپ لوگ، آپ بچے جو دس سال کی عمر تک پہنچ چکے ہیں.اور دس سال کی عمر ایک ایسی عمر ہے جس میں بچوں کو سوچ لینا چاہیے.اپنی سوچ Mature ( پختہ ) کرنی شروع کر دینی چاہیے.کیونکہ نماز پڑھنی بھی یہاں فرض ہوگئی ہے، حکم دے دیا گیا ہے.تو یہ چند باتیں میں کرتا ہوں اب اور جو فرسٹ آئے ہیں وہ بے چین ہوں گے اپنا انعام لینے کے لیے.اپنے اپنے انعام لے لیں.اور اس کے بعد دعا ہو گی پھر آپ فارغ ہیں.اب ہم دعا کریں گے سب بچے دعا میں شامل ہو جائیں.اور جو بچے چلڈرن کلاس میں یا وقف نو کلاس میں آتے ہیں.خاص طور پر وقف نو کلاس کو.میں نے بچوں کو کہا تھا کہ اگر آپ لوگوں نے زیادہ Prize( انعامات) نہ لیے تو میں کلاس بند کر دوں گا.لیکن شکر ہے کہ اکثریت انہی بچوں کی ہے جنہوں نے انعام لیے ہیں.اچھا اب دعا کر لیں.(آمین ) { یہ خطاب غیر مطبوعہ ہے }

Page 20

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 5 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 21 مئی 2004 ء تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:- وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنَا يَعْبُدُونَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الفسقُونَ (سورة النور : 56) اس کا ترجمہ ہے : کہ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان سے اللہ تعالیٰ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لیے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لیے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے، یہی وہ لوگ ہیں جو نا فرمان اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے خلافت کا وعدہ کیا ہے لیکن ساتھ شرائط عائد کی ہیں کہ ان باتوں پر تم قائم رہو گے تو تمہارے اندر خلافت قائم رہے گی.لیکن اس کے باوجود خلافت راشدہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں صرف تیس سال تک قائم رہی.اور اس کے آخری سالوں میں جس طرح کی حرکات مسلمانوں نے کیں اور جس طرح خلافت کے خلاف فتنے اٹھے اور جس طرح خلفاء کے ساتھ بیہودہ گوئیاں کی گئیں اور پھر ان کو شہید کیا گیا.اس کے بعد خلافت راشدہ ختم ہوگئی اور پھر ملوکیت کا دور ہوا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرما دیا تھا اور اس ارشاد کے مطابق ہی تھا کہ اگر تم ناشکری کرو گے تو فاسق ٹھہرو گے.اور فاسقوں اور نافرمانوں کا اللہ تعالیٰ مددگار نہیں ہوا کرتا تو بہر حال

Page 21

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 6 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی اسلام کی پہلی تیرہ صدیاں مختلف حالات میں اس طرح گزریں جس میں خلافت جمع ملوکیت رہی پھر بادشاہت رہی پھر اس عرصہ میں دین کی تجدید کے لیے مجددبھی پیدا ہوتے رہے.یہ ایک علیحدہ مضمون ہے،اس کا ویسے تو میں ذکر نہیں کر رہا.خلافت کا سلسلہ دائمی ہے لیکن جو بات میں نے کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خوشخبریاں دی تھیں اور جو پیشگوئیاں آپ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اپنی امت کو بتائی تھیں اس کے مطابق مسیح موعود کی آمد پر خلافت کا سلسلہ شروع ہونا تھا اور یہ خلافت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق دائمی رہنا تھا اور رہنا ہے انشاء اللہ.جیسا کہ حدیث میں آتا ہے حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافة على مِنْهَاج النُّبُوَّة قائم ہوگی.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا.پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہوگی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے.پھر جب یہ دور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی اور یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے.(مسند احمد بن حنبل - مشكوة باب الانذار والتحذير) پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس دور میں اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں اور اس دائمی خلافت کے عینی شاہد بن گئے ہیں بلکہ اس کو ماننے والوں میں شامل ہیں اور اس کی برکات سے فیض پانے والے بن گئے ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت ایک مبارک امت ہے.یہ نہیں معلوم ہو سکے گا کہ اس کا اول زمانہ بہتر ہے یا آخری زمانہ ، یعنی دونوں زمانے شان و شوکت والے ہوں گے.اس آخری زمانے کی بھی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرما دی کہ وہ کیا ہے.حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ پر سورۃ

Page 22

7 مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی جمعہ نازل ہوئی جب آپ نے اس کی آیت وَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ﴾ پڑھی جس کے معنے یہ ہیں کہ کچھ بعد میں آنے والے لوگ بھی ان صحابہ میں شامل ہوں گے جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے.تو ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے.تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا جواب نہ دیا.اس آدمی نے تین دفعہ یہ سوال دہرایا.راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی ہم میں بیٹھے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا یعنی زمین سے اٹھ گیا تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ واپس لے آئیں گے.یعنی آخرین سے مراد وہ زمانہ ہے جب مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور اس پر ایمان لانے والے ، اس کا قرب پانے والے، اس کی صحبت پانے والے صحابہ کا درجہ رکھیں گے.پس جب ہم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور یہ زمانہ پانے کی توفیق عطا فرمائی جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کا درجہ دیا ہے.تو یہ بھی ضروری تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق خلافت علی منہاج نبوت بھی قائم رہے.یہاں یہ وضاحت کر دی ہے جیسا کہ پہلے حدیث ( کی روشنی ) میں میں نے کہا کہ مسیح موعود کی خلافت عارضی نہیں ہے بلکہ یہ دائمی خلافت ہوگی.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں اس آیت کی کچھ وضاحت کرتا ہوں ، آپ فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ) دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے، دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جوا خیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے.جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک

Page 23

8 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا.وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا﴾ ( النور : 56 ).یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا ویں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم بر پا ہوا.جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰ کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے.ایسا ہی حضرت عیسی" کے ساتھ معاملہ ہوا اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا.ہے فرمایا: ” سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا تا مخالفوں کی دوجھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لیے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے.اور اس کا آنا تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ دائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لیے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے.اور یہ وعدہ بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اس لیے اس وقت تک ہے جولوگ نیک اعمال بجالاتے رہیں گے وہ ہی خلافت سے چمٹے رہیں گے.اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفا دار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا

Page 24

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 9 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہے.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو.اور چاہیے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہوا اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر ہے ، اپنی موت کو قریب سمجھو.تم نہیں جانتے کہ کسی وقت وہ گھڑی آ جائے گی“.اور فرمایا کہ: ”چاہیے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کئی کھڑے ہو جائیں بیعت کرنے کے لیے بلکہ مختلف اوقات میں ایسے آتے رہیں گے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا.ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لیے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو.مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو“.خلافت اولی میں فتنہ بازوں کا انجام (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304-307) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں خوشخبریاں بھی دے دی تھیں کہ آپ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے انشاء اللہ خلافت دائمی رہے گی اور دشمن دو خوشیاں کبھی نہیں دیکھ سکے گا کہ ایک تو وفات کی خبر اس کو پہنچے اور اس پر خوش ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر ایسے بھی تھے جنہوں نے خوشیاں منائیں اور پھر یہ کہ وہ جماعت کے ٹوٹنے کی خوشی وہ دیکھ سکیں گے، یہ کبھی نہیں ہو گا.دشمن نے بڑا شور مچایا، بڑا خوش تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ تھا کہ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنَا کا ہمیں نظارہ بھی دکھایا.اور بعض لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت خلیفہ مسیح الاول اب کافی عمر رسیدہ ہو چکے ہیں،

Page 25

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 10 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی طبیعت کمزور ہو چکی ہے اور شاید اس طرح خلافت کا کنٹرول نہ رہ سکے اور شاید وہ خلافت کا بوجھ نہ اٹھا سکیں اور انجمن کے بعض عمائدین کا خیال تھا کہ اب ہم اپنی من مانی کر سکیں گے.کیونکہ عمر کی وجہ سے بہت سارے معاملات ایسے ہیں جو اگر ہم حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی خدمت میں نہ بھی پیش کریں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا اور ان کو پتہ نہیں چلے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے دشمن کی یہ تمام اندرونی اور بیرونی جو بھی تدبیریں تھیں ان کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور اندرونی فتنے کو بھی دبا دیا اور دنیانے دیکھا کہ کس طرح ہر موقع پر حضرت خلیفہ امسیح الاول نے اس فتنہ کو دبایا اور کتنے زور اور شدت سے اس کو دبایا اور کس طرح دشمن کا منہ بند کیا.آپ فرماتے ہیں: چونکہ خلافت کا انتخاب عقل انسانی کا کام نہیں، عقل نہیں تجویز کر سکتی کہ کس کے قومی قوی ہیں کس میں قوت انسانیہ کامل طور پر رکھی گئی ہے.اس لیے جناب الہی نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ وعد الله الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ خلیفہ بنانا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ - حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ 255 ) فرمایا کہ: ” مجھے نہ کسی انسان نے ، نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا ء کو مجھ سے چھین لے“.(الفرقان ، خلافت نمبر مئی جون 1967 ، صفحہ (28) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھا دینا اور یا پھر بیعت لے لینا ہے.یہ کام تو ایک ملاں بھی کر سکتا ہے اس کے لیے کسی خلیفے کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں.بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے“.پھر دنیا نے دیکھا کہ آپ کے ان پر زور خطابات سے اور جو آپ نے اس وقت براہ راست انجمن پر بھی ایکشن لیے، جتنے وہ لوگ باتیں کرنے والے تھے وہ سب بھیگی بلی بن گئے ، جھاگ کی طرح بیٹھ ( الفرقان ، خلافت نمبر مئی جون 1967 ، صفحہ 28)

Page 26

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 11 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی گئے.اور وقتی طور پر ان میں کبھی کبھی ابل آتا رہتا تھا اور مختلف صورتوں میں کہیں نہ کہیں جا کرفتہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے لیکن انجام کا رسوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ملا.پھر حضرت خلیفتہ اسیح الاول کی وفات ہوئی.خلافت ثانیہ میں اٹھنے والے فتنوں کا انجام اس کے بعد پھر انہیں لوگوں نے سراٹھایا اور ایک فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی ، جماعت میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور بہت سارے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنی طرف مائل بھی کرلیا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر خلافت کا انتخاب ہوا تو حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد کوہی جماعت خلیفہ منتخب کرے گی.اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نوراللہ مرقدہ نے اس فتنہ کو ختم کرنے کے لیے ان شور مچانے والوں کو ، انجمن کے عمائدین کو یہ بھی کہہ دیا کہ مجھے کوئی شوق نہیں خلیفہ بننے کا تم جس کے ہاتھ پر کہتے ہو میں بیعت کرنے کے لیے تیار ہوں.جماعت جس کو چنے گی میں اسی کو خلیفہ مان لوں گا.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ان لوگوں کو پتہ تھا کہ اگر انتخاب خلافت ہوا تو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہی خلیفہ منتخب ہوں گے.اس لیے وہ اس طرف نہیں آتے تھے اور یہی کہتے رہے کہ فی الحال خلیفہ کا انتخاب نہ کروایا جائے.ایک، دو، چار دن کی بات نہیں ، چند مہینوں کے لیے اس کو آگے ٹال دیا جائے ، آگے کر دیا جائے اور یہ بات کسی طرح بھی جماعت کو قابل قبول نہ تھی.جماعت تو ایک ہاتھ پراکٹھا ہونا چاہتی تھی.آخر جماعت نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو خلیفہ منتخب کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.اور اس وقت بھی مخالفین کا یہ خیال تھا کہ جماعت کے کیونکہ پڑھے لکھے لوگ ہمارے ساتھ ہیں اور خزانہ ہمارے پاس ہے اس لیے چند دنوں بعد ہی یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی رحمت کا ہاتھ رکھا اور خوف کی حالت کو پھر امن میں بدل دیا اور دشمنوں کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا اور ان کی ساری کوششیں نا کام ہو گئیں.پھر خلافت ثانیہ میں 1934ء میں ایک فتنہ اٹھا اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دبا دیا اور جماعت کو مخالفین کوئی گزند نہیں پہنچا سکے.ان کا دعویٰ تھا کہ ہم پتہ نہیں کیا کر دیں گے.پھر 1953ء میں فسادات اٹھے.جب پاکستان بن گیا اس وقت دشمن کا خیال تھا کہ اب ہماری حکومت ہے یہاں انگریزوں کی حکومت نہیں رہی اب یہاں انصاف تو ہم نے ہی دینا ہے اور ان لوگوں کو انصاف کا پتہ ہی کچھ نہیں تھا

Page 27

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 12 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی اس لیے اب تو جماعت ختم ہوئی کہ ہوئی.لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو ان سخت حالات اور خوف کی حالت سے ایسا نکالا کہ دنیا نے دیکھا کہ جو دشمن تھے وہ تو تباہ و برباد ہو گئے ، وہ تو ذلیل وخوار ہو گئے لیکن جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نئی شان کے ساتھ پھر آگے قدم بڑھاتی ہوئی چلتی چلی گئی.خلافت ثانیہ میں ہونے والی ترقیات غرض کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) کی خلافت کا دور 52 سال رہا اور ہر روز ایک نئی ترقی لے کر آتا تھا.کئی زبانوں میں آپ کے زمانے میں تراجم قرآن کریم ہوئے.بیرونی دنیا میں مشن قائم ہوئے افریقہ میں ، یورپ میں مشنز قائم ہوئے اور بڑی ذاتی دلچسپی لے کر ذاتی ہدایات دے کر.اس زمانے میں دفاتر کا بھی نظام اتنا نہیں تھا.خود ( مربیان ) کو براہ راست ہدایات دے دے کر اس نظام کو آگے بڑھایا اور پھر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ہندو پاکستان میں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی اور خاص طور پر افریقہ میں لاکھوں کی تعداد میں سعید روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوئیں.پھر دیکھیں آپ نے کس طرح انتظامی ڈھانچے بنائے.صدر انجمن احمدیہ کا قیام تو پہلے ہی تھا اس میں تبدیلیاں کیں ، رد و بدل کی.اس کو اس طرح ڈھالا کہ انجمن اپنے آپ کو صرف انجمن ہی سمجھے اور کبھی خلافت کے لیے خطرہ نہ بن سکے.پھر ذیلی تنظیموں کا قیام ہے، انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ آپ کی دور رس نظر نے دیکھ لیا کہ اگر میں اس طرح جماعت کی تربیت کروں گا کہ ہر عمر کے لوگوں کو ان کی ذمہ واری کا احساس دلا دوں اور وہ یہ سمجھنے لگیں کہ اب ہم ہی ہیں جنہوں نے جماعت کو سنبھالنا ہے اور ہر فتنے سے بچانا ہے.اپنے اندر نیک تبدیلی اور پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے.اگر یہ احساس پیدا ہو جائے قوم کے لوگوں میں تو پھر اس قوم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.تو دیکھ لیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے ہر ملک میں یہ ذیلی تنظیمیں قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے فعال ہیں اور آج جرمنی کی خدام الاحمد یہ بھی اسی سلسلے میں اپنا اجتماع کر رہی ہے.تو یہ بھی ایک بہت بڑی انتظامی بات تھی جو حضرت مصلح موعود ( نور اللہ مرقدہ) نے جماعت میں جاری فرمائی.پھر تحریک جدید کا قیام ہے، جب دشمن یہ کہ رہا تھا کہ میں قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا

Page 28

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 13 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی اس وقت آپ نے تحریک جدید کا قیام کیا اور پھر بیرون ممالک میں مشن قائم ہوئے.پھر وقف جدید کا قیام ہے جو پاکستان اور ہندوستان کی دیہاتی جماعتوں میں ( دعوت الی اللہ ) کے لیے تھا.اب تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں پھیل گئی.غرضیکہ اتنے کام ہوئے ہیں اور اسی شخص کو جس کو اپنے زعم میں بڑے پڑھے لکھے اور عظمند اور جماعت کو چلانے کا دعویٰ کرنے والے سمجھتے تھے کہ یہ بچہ ہے اس کے ہاتھ میں خلافت کی باگ ڈور ہے اور یہ کچھ نہیں کر سکتا اسی بچے نے دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا.اور تمام دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کو بھی پورے کرنے والے ہو گئے کہ میں تیری ( دعوت الی اللہ ) کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.خلیفہ وہی ہے جسے خدا نے بنایا حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں کہ : جو خلیفہ مقرر کیا جاتا ہے اس میں دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کل خیالات کو یکجا جمع کرنا ہے.اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے.ممکن ہے کسی ایک بات میں دوسرا شخص اس سے بڑھ کر ہو.ایک مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کے لیے صرف یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ پڑھا تا اچھا ہے کہ نہیں یا اعلیٰ ڈگری پاس ہے یا نہیں.ممکن ہے کہ اس کے ماتحت اس سے بھی اعلیٰ ڈگری یافتہ ہوں.اس نے انتظام کرنا ہے، افسروں سے معاملہ کرنا ہے، ماتحتوں سے سلوک کرنا ہے یہ سب باتیں اس میں دیکھی جاویں گی.اسی طرح سے خدا کی طرف سے جو خلیفہ ہو گا اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے گا.خالد بن ولید جیسی تلوار کس نے چلائی ؟ مگر خلیفہ ابوبکر ہوئے.اگر آج کوئی کہتا ہے کہ یورپ میں میری قلم کی دھاک بچی ہوئی ہے تو وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا.خلیفہ وہی ہے جسے خدا نے بنایا.خدا نے جس کو چن لیا اُس کو چن لیا.خالد بن ولید نے 60 آدمیوں کے ہمراہ 60 ہزار آدمیوں پر فتح پائی.عمر نے ایسا نہیں کیا.( حضرت عمر نے ' مگر خلیفہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہوئے.حضرت عثمان کے وقت میں بڑے جنگی سپہ سالار موجود تھے، ایک سے ایک بڑھ کر جنگی قابلیت رکھنے والا ان میں موجود تھا.سارے جہان کو اس نے فتح کیا، مگر خلیفہ عثمان ہی ہوئے.پھر کوئی تیز مزاج ہوتا ہے، کوئی نرم مزاج ، کوئی متواضع ، کوئی منکسر المزاج ہوتے ہیں، ہر ایک کے ساتھ سلوک کرنا ہوتا ہے جس کو وہی سمجھتا ہے.جس کو معاملات ایسے پیش آتے ہیں.خطبات محمود جلد 4 صفحہ 73-72)

Page 29

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 14 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی پھر آپ فرماتے ہیں کہ : میں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر کھڑا ہو جائے گا تو اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکرلیں گی وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی.(خلافت حقہ صفحہ 18 ) چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جس بھی حکومت نے ٹکر لی اس کے اپنے ٹکڑے ہو گئے.اور پھر خلافت رابعہ میں بھی یہی نظارے ہمیں نظر آئے.ایک اور جگہ حضرت خلیفہ ثانی نے چھٹی ساتویں خلافت تک کا بھی ذکر کیا ہوا ہے.تقف تفصیل تو میں آگے بتا تا ہوں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرماتے ہیں کہ یہ سب لوگ مل کر جو فیصلہ کریں گے وہ تمام جماعت کے لیے قبول ہوگا.یعنی انتخاب خلافت کمیٹی کے بارے میں.اور جماعت میں سے جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ باغی ہو گا اور جب بھی انتخاب خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے میں اس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہو گا ، اور جو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہوگا ، وہ بڑا ہو یا چھوٹا ذلیل کیا جائے گا اور تباہ کیا جائے گا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں نا کام ( خطبہ جمعہ 24 جنوری 1936 ء مندرجہ الفضل 31 جنوری 1936ء) ہیں.خلافت ثالثہ میں ہونے والی ترقیات کا ذکر پھر خلافت ثالثہ کا دور آیا.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی وفات کے بعد پھر اندرونی اور بیرونی دشمن تیز ہوا.لیکن کیا ہوا ؟ کیا جماعت میں کوئی کمی ہوئی ؟ نہیں، بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق پہلے سے بڑھ کر ترقیات کے دروازے کھولے.مشنوں میں مزید توسیع ہوئی.افریقہ میں بھی ، یورپ

Page 30

15 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم میں بھی اور پھر افریقہ کے دورے کے دوران حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں سکیم کا اجرا فرمایا.اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، ایک رؤیا کے مطابق.ہسپتال کھولے گئے.سکول کھولے گئے، ہسپتالوں میں اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں مریض شفا پا چکے ہیں.گورنمنٹ کے بڑے بڑے ہسپتالوں کو چھوڑ کر ہمارے چھوٹے چھوٹے دور دراز کے دیہاتی ہسپتالوں میں لوگ اپنا علاج کرانے آتے ہیں.بلکہ سرکاری افسران بھی اس طرف آتے ہیں.کیوں؟ اس لیے کہ ہمارے ہسپتالوں میں جو واقفین زندگی ڈاکٹر ز کام کر رہے ہیں وہ ایک جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں.اور ان کے پیچھے خلیفہ وقت کی دعاؤں کا بھی حصہ ہے.اور اللہ تعالیٰ اپنے خلیفہ کی لاج رکھنے کے لیے ان دعاؤں کو سنتا ہے اور جہاں بھی کوئی کارکن اس جذبے سے کام کر رہا ہو کہ میں دین کی خدمت کر رہا ہوں اور میرے پیچھے خلیفہ وقت کی دعائیں ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی اس میں بے انتہا برکت ڈالتا ہے.پھر سکولوں میں ہزاروں لاکھوں طلباء اب تک پڑھ چکے ہیں بڑی بڑی پوسٹ پر قائم ہیں.ہمارے گھانا کے ڈپٹی منسٹر آف انرجی جو ہیں انہوں نے احمد یہ سکول میں شروع میں کچھ سال تعلیم حاصل کی.پھر ایک سکول سے دوسرے سکول میں چلے گئے وہ بھی احمد یہ سکول ہی تھا.اور آج ان کو اللہ تعالیٰ نے بڑا رتبہ دیا ہوا ہے.اسی طرح اور بہت سارے لوگ ہیں.افریقن ملکوں میں جائیں تو دیکھ کر پتہ لگتا ہے.یہ سب جو فیض ہیں اس وجہ سے ہیں کہ ڈاکٹر ہوں یا ٹیچر، ایک جذبے کے تحت کام کر رہے ہیں اور یہ سوچ ان کے پیچھے ہوتی ہے کہ ہم جو بھی کام کر رہے ہیں ایک تو ہم نے دعا کرنی ہے، خود اللہ تعالیٰ سے فضل مانگنا ہے اور پھر خلیفتہ امیج کو لکھتے چلے جانا ہے تا کہ ان کی دعاؤں سے بھی ہم حصہ پاتے رہیں.اور یہ جو افریقن ممالک میں ہمارے سکول اور کالج ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ( دعوت الی اللہ ) کا بھی ذریعہ بنے ہوئے ہیں.کل ہی سیرالیون کی رہنے والی خاتون بچوں کے ساتھ مجھے ملنے آئیں.وہ کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں تو خاندان میں (دین حق ) کا پتہ ہی کچھ نہیں تھا.احمد یہ سکول میں میں نے تعلیم حاصل کی اور وہیں سے مجھے احمدیت کا پتہ لگا اور بڑے اخلاص اور وفا کا اظہار کر رہی تھیں.وہ بڑی مخلص احمدی خاتون ہیں.اسی طرح اور بہت سے ہزاروں ، لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہیں جو ہمارے ان سکولوں سے تعلیم حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں شامل ہوئے اور اس کی برکات سے فائدہ اٹھا ر ہے ہیں.1974ء کے فسادات کا ذکر پھر خلافت ثالثہ میں ہی آپ دیکھ لیں ، 74 ء کا فساد ہوا اس وقت ان کا خیال تھا کہ اب تو احمدیت ختم

Page 31

16 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم ہوئی کہ ہوئی، ایک قانون پاس کر دیا کہ ہم ان کو غیر مسلم قرار دے دیں گے تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا.کئی شہید کئے گئے ، جانی نقصان کے ساتھ ساتھ مالی نقصان بھی پہنچایا گیا.کاروبارلوٹے گئے ، گھروں کو آگئیں لگا دی گئیں، دکانوں کو آگیں لگا دی گئیں، کارخانوں کو آگئیں لگا دی گئیں.لیکن ہوا کیا ؟ کیا احمدیت ختم ہو گئی.پہلے سے بڑھ کر اس کا قدم اور تیز ہو گیا، باپ کو بیٹے کے سامنے قتل کیا گیا، بیٹے کو باپ کے سامنے قتل کیا تو کیا خاندان کے باقی افراد نے احمدیت چھوڑ دی؟.ان میں اور زیادہ ثبات قدم پیدا ہوا، ان میں اور زیادہ اخلاص پیدا ہوا.ان میں اور زیادہ جماعت کے ساتھ تعلق پیدا ہوا.دشمن کی کوئی بھی تدبیر کبھی بھی کارگر نہیں ہوئی اور کبھی کسی کے ایمان میں لغزش نہیں آئی.اور پھر اب دیکھیں کہ ان نیکیوں پر قائم رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو جو جانی نقصان ہوا یا جن خاندانوں کو اپنے پیاروں کا جانی نقصان برداشت کرنا پڑا، اگلے جہان میں تو اللہ تعالیٰ نے جزا دینی ہے اللہ نے اُن کو اس دنیا میں بھی بے انتہا نوازا ہے.مالی لحاظ سے بھی اور ایمان کے لحاظ سے بھی.جو پاکستان میں رہے ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے کاروباروں میں برکت دی.کئی لوگ ملتے ہیں جن کے ہزاروں کے کاروبار تھے اب لاکھوں میں پہنچے ہوئے ہیں.جن کے لاکھوں کے کاروبار تباہ کئے گئے تھے ان کے کاروبار کروڑوں میں پہنچے ہوئے ہیں اور آپ لوگ بھی جو یہاں نکلے، اسی وجہ سے نکلے ، آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی لیے نکلنے کا موقع دیا کہ جماعت پر پاکستان میں تنگیاں اور سختیاں تھیں اور یہاں آ کے اگر نظر کریں پچھلے حالات میں اور اب کے حالات میں تو آپ کو خود نظر آ جائے گا کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کے کتنے فضل ہوئے ہیں.مالی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے کتنا آپ کو مضبوط کر دیا ہے.اب اس کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ لوگ اس کے آگے مزید جھکیں اور اس کے عبادت گزار بنتے چلے جائیں.اپنی نسلوں میں بھی یہ بات پیدا کریں کہ سب کچھ جو تم فیض پارہے ہو یہ اس سختی اور تگی کا فیض ہے جو جماعت پہ پاکستان میں تھی اور آج ہم اس کی وجہ سے کشائش میں بیٹھے ہوئے ہیں.کیونکہ یہ ہمیشہ یادرکھیں کہ نیک اعمال بجالانے کی شرط قائم ہے اور ہر وقت قائم ہے.خلافت رابعہ میں دشمنوں کی ناکامی پھر خلافت رابعہ کا دور آیا.پھر دشمن نے کوشش کی کسی طرح فتنہ و فساد پیدا کیا جائے لیکن جماعت ایک ہاتھ پر اکٹھی ہوگئی.اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا.انتخاب خلافت کے ان حالات کے بعد جو بڑی سختی کے چند دن یا ایک آدھ دن تھے دشمن نے جب وہ سکیم ناکام ہوتی دیکھی تو پھر دو

Page 32

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 17 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی سال بعد ہی خلافت رابعہ میں 1984ء میں، پھر ایک اور خوفناک سکیم بنائی کہ خلیفہ امسیح کو بالکل عضو معطل کی طرح کر کے رکھ دو.وہ کوئی کام نہ کر سکے.اور جب وہ کوئی کام نہیں کر سکے گا تو جماعت میں بے چینی پیدا ہوگی اور جب جماعت میں بے چینی پیدا ہوگی تو ظاہر ہے وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوتی چلی جائے گی، اس کا شیرازہ بکھرتا چلا جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی تدبیر پر اپنی تدبیر کو کیسے حاوی کیا.ان کی ہر تد بیر کو کس طرح الٹا کے مارا کہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے وہاں سے نکلنے کے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ چھپ کے نکلے.کھلے طور پر نکلے اور سب کے سامنے نکلے اور کراچی سے دن کے وقت یا صبح شروع وقت کی ہی وہ فلائیٹ تھی.بہر حال وہاں کوشش بھی کی گئی کہ روکا جائے لیکن وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور وہ نہیں پہچان سکے.جماعت میں اس سے بڑی سچائی کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے ہجرت کی ہے تو جو اس وقت سلوک ہوا تھا اس سلوک کی کچھ جھلکیاں ہم نے اس ہجرت کے وقت بھی دیکھیں اور جس سے ہمارے ایمانوں کو مزید تقویت پہنچی ہمارے ایمان مزید مضبوط ہوئے.پھر یہاں پہنچ کر بیرونی ممالک میں جماعتوں کو مشنوں کو منظم کرنے کا کام بہت وسعت اختیار کر گیا.اور اسی طرح دعوت الی اللہ کا کام بھی بہت وسیع ہو گیا.اور پھر لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں جماعت میں داخل ہونا شروع ہوگئے، پھر ایم ٹی اے کا اجراء ہوا، ایک ملک میں تو پلان تھا کہ یہاں خلیفہ مسیح کی آواز کو روک دیا جائے لیکن ایم نیاے نے تمام دنیا میں وہ آواز پہنچادی اور دشن کی تد بیر یں پھر نا کام ہوکر ان پر لوٹ گئیں.پہلے تو ( بیت ) اقصیٰ ربوہ میں خلیفہ مسیح کا خطبہ سنتے تھے اب ہر شہر میں، ہر گاؤں میں، ہر گھر میں یہ آواز پہنچ رہی ہے.پھر افریقہ میں خدمت انسانیت کے کام کو اس دور میں بڑی وسعت دی گئی.غرض کہ ایک انتہائی ترقی کا دور تھا اور ہر روز جو دن چڑھ رہا تھا وہ ایک نئی ترقی لے کر آ رہا تھا.دشمن خیال کرتا ہے یا انسان اپنی سوچ سے بعض اوقات سوچتا ہے کہ یہاں انتہاء ہوگئی اور اب اس سے زیادہ ترقی کیا ہو گی.لیکن اللہ تعالیٰ ایسے نظارے دکھاتا ہے کہ انسان کی سوچ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی.خلافت خامسہ کے آغاز پر غیروں کے تاثرات پھر آپ کی وفات کے بعد دشمنوں کا خیال تھا کہ اب تو یہ جماعت گئی کہ گئی اب بظاہر کوئی نظر نہیں

Page 33

18 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم آتا کہ اس جماعت کو سنبھال سکے.لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے سب نے دیکھے.بچوں نے بھی اور نو جوانوں نے بھی ، مردوں نے بھی اور عورتوں نے بھی اپنے ایمانوں کو مضبوط کیا.حتی کہ غیر از جماعت بھی کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان سب نے ہی یہ نظارے دیکھے کیونکہ ایم ٹی اے کے ذریعے یہ ہر جگہ پہنچ رہے تھے.لندن میں مجھے کسی نے بتایا کہ ایک سکھ نے کہا کہ ہم بڑے حیران ہوئے آپ لوگوں کا یہ سارا نظام دیکھ کر اور پھر انتخاب خلافت کا سارا نظارہ دیکھ کر.پاکستان میں ہمارے ڈاکٹر نوری صاحب کے پاس ایک غیر از جماعت بڑے پیر ہیں یا عالم ہیں وہ آئے ( مریض تھے اس لیے آتے رہے ) اور ساری باتیں پوچھتے رہے کہ کس طرح ہوا، کیا ہوا اور پھر بتایا کہ میں نے بھی ایم ٹی اے پر دیکھا تھا.دشمن بھی وہ جس طرح کہتے ہیں نہ کہ کھلے طور پر تو نہیں دیکھتے لیکن چھپ چھپ کر ایم ٹی اے دیکھتے ہیں.یہ سارے نظارے دیکھے اور ڈاکٹر صاحب کو کہنے لگے کہ یہ ایسا نظارہ تھا جو حیرت انگیز تھا.اور باتوں میں ڈاکٹر صاحب نے کہا ٹھیک ہے آپ کو پھر تسلیم کرنا چاہیے کہ جماعت احمد یہ بچی ہے.کہتے ہیں کہ یہ تو میں نہیں کہتا ، یہ مجھے ابھی بھی یقین ہے کہ جماعت احمد یہ بچی نہیں ہے لیکن یہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت آپ کے ساتھ ہے.تو جب اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہمارے ساتھ ہوگئی تو پھر اور کیا چیز رہ گئی.یہ آنکھوں پر پردے پڑے ہونے کی بات ہے اور دلوں پر پردے پڑے ہونے کی بات ہی ہے.اب اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو خلافت کے منصب پر فائز کیا کہ اگر دنیا کی نظر سے دیکھا جائے تو شاید دنیا کے لوگ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں.اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کریں لیکن خدا تعالیٰ دنیا کا محتاج نہیں ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ: خوب یا درکھو کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جھوٹا ہے وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کا مقرر کردہ ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اسی مولوی نورالدین صاحب اپنی خلافت کے زمانے میں چھ سال متواتر اس مسئلے پر زور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے، نہ انسان.اور در حقیقت قرآن شریف کو غور سے مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی گئی بلکہ ہر قسم کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ انہیں ہم بناتے ہیں.(انوار العلوم جلد 2 صفحہ 11)

Page 34

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 19 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی پھر آپ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانے کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے اگر وہ احمق ، جاہل اور بیوقوف ہوتا ہے.پھر فرمایا کہ: ” اس کے یہ معنی ہیں کہ خلیفہ خود خدا بناتا ہے اس کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جب کسی کو خدا خلیفہ بناتا ہے تو اسے اپنی صفات بخشتا ہے.اور اگر وہ اسے اپنی صفات نہیں بخشتا تو خدا تعالیٰ کے خود خلیفہ بنانے کے معنی ہی کیا ہیں“.(الفرقان.مئی جون ۱۹۶۷ء صفحہ ۳۷) میں جب اپنے آپ کو دیکھتا ہوں، اپنی نا اہلی اور کم مائیگی کو دیکھتا ہوں اور میرے سے زیادہ میرا خدا مجھے جانتا ہے کہ میرے اندر کیا ہے تو اس وقت ہر لمحے اللہ تعالیٰ کی قدرت یاد آ جاتی ہے.مکرم میر محمود احمد صاحب نے ایک شعر کہا مجھ کو بس ہے میرا مولیٰ، میرا مولیٰ مجھ کو بس کیا خدا کافی نہیں ہے کی شہادت دیکھ لی اس کی بیک گراؤنڈ جو میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک تو کیا خدا کافی نہیں، کی شہادت الیس اللہ کی انگوٹھی ہے جو خلیفتہ امسیح کو ملتی ہے.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین انگوٹھیاں تھیں جو آپ کے تین بیٹوں کو ملیں.اور جو مولی بس کی انگوٹھی تھی (ایک انگوٹھی جس پر مولی بس، کا الہام کندہ تھا ) وہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے حصہ میں آئی تھی اور یہ میں نے پہنی ہوئی ہے.اس کے بعد میرے والد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو ملی اور ان کی وفات کے بعد میری والدہ نے مجھے دے دی.میں تو اس کو بڑی سنبھال کے رکھتا تھا ، پہنتا نہیں تھا لیکن انتخاب خلافت کے بعد میں نے یہ پہنی شروع کی ہے.تو مولی بس کے نظارے اور کیا خدا کافی نہیں ہے کے نظارے مجھے تو ہر لحہ نظر آتے ہیں کیونکہ اگر ویسے میں دیکھوں تو میری کوئی حیثیت نہیں ہے.خلافت سے محبت اللہ کی پیدا کردہ ہے لوگوں کے دلوں میں محبت اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے.کوئی انسان محبت پیدا نہیں کر سکتا.جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھا دے.تو مخالفوں کی خوشیوں کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح پامال کیا.اب بھی بعض مخالفین شور مچاتے ہیں، منافقین بھی بعض باتیں کر جاتے ہیں.وہ چاہے جتنا مرضی شور مچالیں، جتنا مرضی زور لگالیں ، خلافت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے اور جب

Page 35

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 20 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی تک اللہ چاہے گا یہ رہے گی اور جب چاہے گا مجھے اٹھا لے گا اور کوئی نیا خلیفہ آ جائے گا.لیکن حضرت خلیفہ اول کے الفاظ میں میں کہتا ہوں کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ ہٹا سکے یا فتنہ پیدا کر سکے.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط ہے اور ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہے.افریقہ میں بھی میں دورہ پر گیا ہوں ایسے لوگ جنہوں نے کبھی دیکھا نہیں تھا اس طرح ٹوٹ کر انہوں نے محبت کا اظہار کیا ہے جس طرح برسوں کے بچھڑے ملے ہوتے ہیں یہ سب کیا ہے؟ جس طرح ان کے چہروں پر خوشی کا اظہار میں نے دیکھا ہے، یہ سب کیا ہے؟ جس طرح سفر کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کر کے وہ لوگ آئے ، یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا دنیا دکھاوے کے لیے یہ سب خلافت سے محبت ہے جو ان دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے.تو جس چیز کو اللہ تعالیٰ پیدا کر رہا ہے وہ انسانی کوششوں سے کہاں نکل سکتی ہے.جتنا مرضی کوئی چاہے، زور لگا لے.عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں کو با قاعدہ میں نے آنسوؤں سے روتے دیکھا ہے.تو یہ سب محبت ہی ہے جو خلافت کی ان کے دلوں میں قائم ہے.بچے اس طرح بعض دفعہ دائیں بائیں سے نکل کے سیکیورٹی کو توڑتے ہوئے آکے چمٹ جاتے تھے.وہ محبت تو اللہ تعالیٰ نے بچوں کے دل میں پیدا کی ہے، کسی کے کہنے پہ تو نہیں آسکتے.اور پھر ان کے ماں باپ اور دوسرے ارد گر دلوگ جو ا کٹھے ہوتے تھے ان کی محبت بھی دیکھنے والی ہوتی تھی.پھر اس بچے کو اس لیے وہ پیار کرتے تھے کہ تم خلیفہ وقت سے چمٹ کے اور اس سے پیار لے کر آئے ہو.یہ سب باتیں احمدیت کی سچائی کی دلیل ہیں.اگر کسی کی نظر ہود یکھنے کی تبھی دیکھ سکتا ہے.چند لوگ اگر مرتد ہوتے ہیں یا منافقانہ باتیں کرتے ہیں تو ان کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے.ایک بدفطرت اگر جاتا ہے تو جائے، اچھا ہے خس کم جہاں پاک.وہ اپنے بد انجام کی طرف قدم بڑھا رہا ہے وہی اس کا انجام مقدر تھا جس کی طرف جا رہا ہے.لیکن جب اس کے مقابل پر ایک جاتا ہے تو اللہ تعالی سینکڑوں سعید روحوں کو احمدیت میں داخل کرتا ہے.خدا ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا یا درکھیں وہ سچے وعدوں والا خدا ہے.وہ آج بھی اپنے پیارے مسیح کی اس پیاری جماعت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے.وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا.وہ آج بھی اپنے مسیح سے کئے ہوئے وعدوں کو اسی طرح پورا کر رہا ہے جس طرح وہ پہلی خلافتوں میں کرتا رہا

Page 36

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 21 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس اید و اللہ تعالی ہے.وہ آج بھی اسی طرح اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نواز رہا ہے جس طرح پہلے وہ نوازتا رہا ہے اور انشاء اللہ نوازتا رہے گا.پس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ کہیں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کر کے خود ٹھو کر نہ کھا جائے.اپنی عاقبت خراب نہ کر لے.پس دعائیں کرتے ہوئے اور اس کی طرف جھکتے ہوئے اور اس کا فضل مانگتے ہوئے ہمیشہ اس کے آستانہ پر پڑے رہیں اور اس مضبوط کڑے کو ہاتھ ڈالے رکھیں تو پھر کوئی بھی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل 4 تا 10 جون 2004ء) آمین.

Page 37

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 22 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مئی 2004ء سے اقتباسات قرض لے کر قربانی کرنے والے.اللہ تعال کے فضل سے جماعت میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے ہیں جو خرچ کرنے والے سخی کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے اخراجات کم کریں اور اپنے معیار قربانی کو بڑھا ئیں اور عموماً کم آمدنی والے لوگ قربانی کے یہ معیار حاصل کرنے کی زیادہ کوشش کرتے ہیں.میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ اندازے سے بجٹ لکھوا دیتے ہیں خاص طور پر ہماری جماعت میں زمیندار طبقہ ہے ان کو صحیح طرح پتہ نہیں ہوتا اور خاص طور پر پاکستان میں زمینداری کا انحصار نہری علاقوں میں جہاں جاگیرداروں اور وڈیروں نے پانی پر مکمل طور پر قبضہ کیا ہوتا ہے اور اپنی زمینیں سیراب کر رہے ہوتے ہیں پانی کو آگے نہیں جانے دیتے اور چھوٹے زمیندار بیچارے پانی نہ ملنے کی وجہ سے نقصان اٹھارہے ہوتے ہیں.( آپ میں سے اکثر یہاں زمینداروں میں سے بھی آئے ہوئے ہیں خوب اندازہ ہو گا.تو نتیجہ ان کی فصلیں بھی اچھی نہیں ہوتیں لیکن ایسے مخلصین بھی ہیں کیونکہ بجٹ لکھوا دیا ہوتا ہے اس لیے قرض لے کر بھی اس کی ادائیگی کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور جب ان کو کہا جائے کہ رعایت شرح لے لو کیونکہ اگر آمد نہیں ہوتی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تو کہتے ہیں کہ اگر قرض لے کر ہم اپنی ذات پر خرچ کر سکتے ہیں تو قرض لے کر اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدے کو پورا کیوں نہیں کر سکتے.اور ان کا یہی نقطہ نظر ہوتا ہے کہ شاید اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ہماری آئندہ فصلوں میں برکت ڈال دے.لیکن بعض لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے.بہر حال یہ تو ہر ایک کا اللہ تعالیٰ سے معاملہ ہے، تو کل کا معاملہ ہے، ہر ایک کا اپنا اپنا معیار ہوتا ہے اس لیے میں یہ تو نہیں کہتا کہ قرض لے کر اپنے چندے ادا کرو.طاقت سے بڑھ کر بھی اپنے اوپر تکلیف وارد دنہیں کرنی چاہیے ، اپنے آپ کو تکلیف میں نہیں ڈالنا چاہیے.لیکن جہاں تک اخراجات میں

Page 38

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 23 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی کمی کر کے اپنے اخراجات کو ، ایسے اخراجات کو جن کے بغیر بھی گزارا ہو سکتا ہے جو ملتوی کئے جا سکتے ہوں ان کو ٹالا جا سکتا ہو ان کو ٹال کر اپنے چندے ضرور ادا کرنے چاہئیں.موصیان کو خصوصی نصیحت خاص طور پر موصی صاحبان کے لیے میں یہاں کہتا ہوں ، ان کو تو خاص طور پر اس بارے میں بڑی احتیاط کرنی چاہیے.اس انتظار میں نہ بیٹھے رہیں کہ دفتر ہمارا حساب بھیجے گا یا شعبہ مال یاد کر وائے گا تو پھر ہم نے چندہ ادا کرنا ہے.کیونکہ پھر یہ بڑھتے بڑھتے اس قدر ہو جاتا ہے کہ پھر دینے میں مشکل پیش آتی ہے.چندے کی ادائیگی میں مشکل پیش آتی ہے.پھر اتنی طاقت ہی نہیں رہتی کہ یکمشت چندہ ادا کر سکیں.اور پھر یہ لکھتے ہیں کہ کچھ رعایت کی جائے اور رعایت کی قسطیں بھی اگر مقرر کی جائیں تو وہ چھ ماہ سے زیادہ کی تو نہیں ہوسکتیں.اس طرح خاص طور پر موصیان کی وصیت پر زد پڑتی ہے تو پھر ظاہر ہے ان کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور پھر اس تکلیف کا اظہار بھی کرتے ہیں.تو اس لیے پہلے ہی چاہیے کہ سوچ سمجھ کر اپنے حسابات صاف رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کریں.اور جب بھی آمد ہو اس آمد میں جو حصہ بھی ہے نکالیں ، موصی صاحبان بھی اور دوسرے کمانے والے بھی جنہوں نے چندہ عام دینا ہے، 1/16 حصہ، اپنا چندہ اپنی آمد میں سے ساتھ کے ساتھ ادا کرتے رہا کریں...کاروباری لوگوں کے چندہ دینے کا طریق آج کل بھی کئی لوگوں کا یہ طریق ہے، کئی کاروباری لوگوں نے بتایا کہ وہ روزانہ کی آمد یا ماہوار آمد میں سے جو بھی ہو چندہ نکال کر الگ رکھ دیتے ہیں یا جب بھی وہ اپنے آمد و خرچ کا حساب کرتے ہیں اور اپنے منافع کو الگ کرتے ہیں تو ساتھ ہی وہ چندہ بھی علیحدہ کر دیتے ہیں.بعض ماہوار خرچ کے لیے اپنے کاروبار سے رقم لیتے ہیں اس میں سے چندہ ادا کر دیتے ہیں اور سال کے آخر میں جب آخری فائنل حساب کر رہے ہوتے ہیں تو پھر اگر کوئی بچت ہو تو اس میں سے وہ چندہ ادا کر دیتے ہیں.تو اس طرح ایک تو ان پر زائد بوجھ نہیں پڑتا کہ سال کے آخر میں چندہ یا چند مہینوں بعد یہ چندہ کس طرح ادا کیا جائے.انسان پر ایک بوجھ ہوتا ہے.کیونکہ پھر اس صورت میں بڑی رقم نکالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے.دوسرے بقایا دار ہونے کی فکر نہیں رہتی کہ بقایادار ہوں گے تو جماعت میں بھی اور مرکز میں بھی سبکی ہوگی.اور تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے

Page 39

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 24 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی کاروبار میں بھی بے انتہاء برکت ڈالتا ہے.اور بعض بتاتے ہیں کہ ان کو یہ فائدہ ہے کہ بے انتہا برکتیں ہوتی ہیں کہ ان کو خود بھی حیرت ہوتی ہے کہ یہ روپیہ آ کہاں سے رہا ہے، یہ کمائی آ کہاں سے رہی ہے.بہر حال یہ تو اللہ تعالیٰ کے دینے کے طریقے ہیں انسان بھلا کہاں اللہ تعالیٰ کی دین تک پہنچ سکتا ہے.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے تم میری راہ میں خرچ کرو تو میں تمہیں سات سو گنا تک بڑھ کر دیتا ہوں بلکہ فرمایا کہ ﴿ وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يشَاءُ کہ اللہ جسے چاہے جتنا چاہے بڑھا کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ میں سات سو گنا سے بھی زیادہ بڑھا کر دینے کی طاقت ہے.اللہ تعالیٰ تو پابند نہیں ہے کہ صرف سات سو گنا تک ہی بڑھائے.اس کے تو خزانے محدود نہیں ہیں.اس لیے ہمیشہ اپنے چندوں کے حساب کو صاف رکھنا چاہیے اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کس طرح نازل ہوتے ہیں، کس طرح برستے ہیں.بلا وجہ بقایا دار نہ بنیں اب بعض لوگوں میں یہ غلط تصور ہے کہ کیونکہ قواعد میں یہ شرط ہے کہ کسی بھی عہدے کے لیے یا ویسے عام طور پر پوچھا جاتا ہے تو تب بھی کہ چھ مہینے سے زیادہ کا بقایا دار نہ ہو اس لیے ضروری ہے کہ چھ مہینے کے بعد ہی چندہ ادا کرنا ہے، بلا وجہ چھ چھ مہینے تک چندہ ادا نہیں کرتے تو یہ چھ مہینے کی جو شرط ہے صرف زمینداروں کے لیے ہے جن کی آمد کیونکہ زمیندارے پر ہے اور عموماً چھ ماہ کے بعد ہی زمیندار کو آمد ہوتی ہے.اس لیے یہ رعایت ان سے کی جاتی ہے.ماہوار کمانے والے ہوں ملازم پیشہ یا کاروباری لوگ، ان کو تو ماہوار ادا ئیگی کرنی چاہیے تاکہ بعد میں پھر بوجھ نہ رہے جیسا کہ میں نے کہا، بلاوجہ کی سیکی کا بھی احساس رہتا ہے.اور سب سے بڑا چندہ ادا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے رہتے ہیں.تو بہر حال اگر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پوری شرح یعنی 1/16 سے چندہ عام ادا نہیں کر سکتے تو اس رعایت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.یہ ان کے لیے ہے کہ وہ کم شرح سے بھی چندہ دے سکتے ہیں لیکن بہر حال غلط بیانی نہیں ہونی چاہیے اور بقایا دار نہیں ہونا چاہیے.عہد یداران افراد جماعت کے رازوں کی حفاظت کریں اور یہاں میں جو جماعتی عہدیداران ہیں ، صدر جماعت یا سیکرٹریان مال ، ان کو بھی یہ کہتا ہوں کہ ہر فرد جماعت کی کوئی بھی بات ہر عہدیدار کے پاس ایک راز ہے اور امانت ہے اس لیے اس کو با ہر نکال کر امانت میں

Page 40

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 25 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی خیانت نہیں کرنی چاہیے ، یا مجلسوں میں بلاوجہ ذکر کر کے امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیے.رعایت یا معافی چندہ کوئی شخص لیتا ہے تو یہ باتیں صرف متعلقہ عہد یداران تک ہی محدود رہنی چاہئیں.یہ نہیں ہے کہ پھر اس غریب کو جتاتے پھریں کہ تم نے رعایت لی ہوئی ہے اس لیے اس کو حقیر سمجھا جائے.بہر حال ہر ایک کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، اول تو اکثر میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ رعایت لیتے ہیں ان میں سے اکثریت کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ جتنی جلد ہو سکے اپنی رعایت کی اجازت کو ختم کروا دیں اور چندہ پوری شرح سے ادا کریں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ جلد ہی دوبارہ اس نظام میں شامل ہو جائیں جہاں پوری شرح پر چندہ دیا جا سکے.ایسے لوگ بہت سارے ہیں اور جو نہیں ہیں ان کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے.ہر ایک شخص کا خود بھی فرض بنتا ہے کہ اپنا جائزہ لیتا رہے تا کہ جب بھی توفیق ہو اور کچھ حالات بہتر ہوں جتنی جلدی ہو سکے شرح کے مطابق چندہ دینے کی کوشش کی جائے ، اللہ تعالیٰ سب کی توفیق میں اضافہ کرے.کسی صورت میں بیکار نہ رہیں بعض دفعہ ایسے حالات آ جاتے ہیں کہ مثلاً ملازمت چھوٹ گئی یا کوئی اور وجہ بن گئی ، زمینداروں کی مثال میں پہلے دے آیا ہوں، کاروباری لوگوں کے بھی کاروبار مندے ہو جاتے ہیں یا بعض دفعہ ایسے حالات پیش آ جاتے ہیں کہ کاروبار کو فروخت کرنا پڑتا ہے، بیچنا پڑتا ہے، ختم کرنا پڑتا ہے.تو گو یہ ساری باتیں انسان کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہی ہو رہی ہوتی ہیں.اس کا نتیجہ انسان بھگتا ہے، یہ تو ایک علیحدہ مضمون.ہے.بہر حال ایسے حالات سے بھی مایوس ہو کر بیٹھ نہیں جانا چاہیے بلکہ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے ، ہاتھ پیر مارتے رہنا چاہیے، چاہے چھوٹا موٹا کام ہی ہو، انسان کو کسی بھی کام کو ضرور کرنا چاہیے.کئی لوگ ایسے ملتے ہیں جو بہت زیادہ مایوس ہو جاتے ہیں اور پریشانی کا شکار ہوتے ہیں ، ان کو بھی اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے.اور اس سے مدد مانگتے ہوئے جو بھی چھوٹا موٹا کوئی کام ملے یا کاروبار ہو اس کو دوبارہ نئے سرے سے شروع کرنا چاہیے.اور کسی کام کو بھی عار نہیں سمجھنا چاہیے.اگر اس نیست سے یہ کام شروع کریں گے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ چندے دینے ہیں پھر چندے پورے کرنے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان چھوٹے کا روباروں میں بھی بے انتہا برکت ڈالتا ہے.میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے، بالکل معمولی کاروبار شروع کیا ، وسیع ہوتا گیا اور دکانوں کے مالک ہو گئے چھابڑی

Page 41

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 26 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی لگاتے لگاتے.تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں جو ہوتے ہیں اگر نیت نیک ہو اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کے ارادے سے ہو.تو پھر وہ برکت بھی بے انتہا ڈالتا ہے.خدام الاحمدیہ جرمنی کی ایک قابل تقلید مثال...الحمد للہ کہ اس طرح دل کھول کر خرچ کرنے کے نظارے جماعت میں بے شمار نظر آتے ہیں.اب خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر میں نے سو ( بیوت الذکر) کی تعمیر میں سنتی جو عموماً جماعت میں نظر آ رہی ہے، خدام الاحمدیہ کو صرف توجہ دلائی تھی ، عمومی طور پر جماعت کو بھی میں نے یہی کہنا تھا کہ اس طرف توجہ دیں.تو اگلے روز ہی خدام الاحمدیہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال کے اپنے وعدے اور وصولی کے لیے ایک ملین یورو(Euro) کا، دوسری دنیا میں ہمارے ملکوں میں سمجھ نہیں آتی اس لیے 10 لاکھ یورو (Euro) کا وعدہ کر دیا اور پہلے جبکہ یہ وعدہ ڈھائی لاکھ یوروکا تھا.اور ابھی جو انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ تقریباً جو پہلا وعدہ تھا اتنی تو اب ایک ہفتے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وصولی بھی ہو چکی ہے.دل کھول کر چندے دینے کے اور روپوؤں کی تھیلیوں کو کھول کر رکھنے کے یہ نظارے ہمیں جماعت میں بے انتہا نظر آتے ہیں.بلکہ ایک مخلص نے تو یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ زمین کی خرید سمیت ایک (بیت الذکر ) کا مکمل خرچ ادا کریں گے.میں آج لازمی چندہ جات کی بات کر رہا ہوں اس لیے یہ واضح کر دوں کہ یہ جو چندہ جات ہیں ان تحریکات کی ادائیگیوں کا اثر آپ کے لازمی چندہ جات پر نہیں ہونا چاہیے...زکوۃ کی ادائیگی کی تلقین ایک اہم چندہ جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ زکوۃ ہے.زکوۃ کا بھی ایک نصاب ہے اور معتین شرح ہے عموماً اس طرف توجہ کم ہوتی ہے.زمینداروں کے لیے بھی جو کسی قسم کا ٹیکس نہیں دے رہے ہوتے ان پر زکوۃ واجب ہے.اسی طرح جنہوں نے جانور وغیرہ بھیڑ ، بکریاں ، گائے وغیرہ پالی ہوتی ہیں ان پر بھی ایک معین تعداد سے زائد ہونے پر یا ایک معین تعداد ہونے تک پر زکوۃ ہے.پھر بنگ میں یا کہیں بھی جو ایک معین رقم سال بھر پڑی رہے اس پر بھی زکوۃ ہوتی ہے.پھر عورتوں کے زیوروں پر زکوۃ ہے.اب ہر عورت کے پاس کچھ نہ کچھ زیور ضرور ہوتا ہے.اور بعض عورتیں بلکہ اکثر عورتیں جو خانہ دار خاتون ہیں، جن کی کوئی کمائی نہیں ہوتی وہ لازمی چندہ جات تو نہیں دیتیں، دوسری

Page 42

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 27 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی تحریکات میں حصہ لے لیتی ہیں.لیکن اگر ان کے پاس زیور ہے، اس کی بھی شرح کے لحاظ سے مختلف فقہاء نے بحث کی ہوئی ہے.باون تولے چاندی تک کا زیور ہے یا اس کی قیمت کے برابر اگر سونے کا زیور ہے تو اس پر زکوۃ فرض ہے ، اور اڑھائی فی صد اس کے حساب سے زکوۃ دینی چاہیے اس کی قیمت کے لحاظ سے.اس لیے اس طرف بھی عورتوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہیے اور زکوۃ ادا کیا کریں.بعض جگہ یہ بھی ہے کہ کسی غریب کو پہننے کے لیے زیور دے دیا جائے تو اس پر زکوۃ نہیں ہوتی لیکن آج کل اتنی ہمت کم لوگ کرتے ہیں کسی کو دیں کہ پتہ نہیں اس کا کیا حشر ہو.اس لیے چاہیے کہ جو بھی زیور ہے، چاہے خود مستقل پہنتے ہیں یا عارضی طور پر کسی غریب کو پہننے کے لیے دیتے ہیں احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر زکوۃ ادا کر دیا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو حضرت اماں جان کے بارے میں فرمایا کہ وہ با وجود اس کے کہ غرباء کو بھی زیور پہننے کے لیے دیتی تھیں لیکن پھر بھی زکوۃ ادا کیا کرتی تھیں.تو احمدی خواتین کو زکوۃ ادا کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہیے.اور جب عورتوں کی کوئی آمد نہیں ہوتی اور اکثر عورتوں کی آمد نہیں ہے تو ظاہر ہے پھر اس زکوۃ کی ادائیگی میں مردوں کو مدد کرنی ہوگی.ماہوار چندہ کی شرح خلافت ثانیہ میں مقرر ہوئی ماہوار چندے کی شرح خلافت ثانیہ میں مقرر ہوئی جب با قاعدہ ایک نظام قائم ہوا اور چندہ عام کی شرح 1/16 اس وقت سے قائم ہے.لیکن حضرت مصلح موعود نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ارشاد سے استنباط کر کے یہ شرح مقرر کی تھی.تو بہر حال جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ماہوار چندے کے علاوہ اپنی وسعت کے لحاظ سے اکٹھی رقم بھی تم دے سکتے ہو اور اس کے لیے جماعت میں مختلف تحریکات ہوتی رہتی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ اس میں حصہ لیتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا، پہلے بھی کہا ہے کہ اس نیت سے اور اس ارادے سے ہر ادا ئیگی ، ہر چندہ اور ہر وعدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے نہ کہ کسی بناوٹ کی وجہ سے.اور ہمیشہ جب بھی خرچ کریں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں ہر نئی تحریک میں حصہ لینے کی توفیق دی یا فرض ماہوار چندہ کو ادا کرنے کی توفیق دی، بجٹ پورا کرنے کی توفیق دی.الفضل اند نیشنل 11 تا 17 جون 2004ء)

Page 43

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 28 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 4 جون 2004ء سے اقتباسات * وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ﴾ (سورة تم سجدہ: 34) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجالائے اور کہے کہ میں یقیناً کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں.دعوت الی اللہ کے لیے عارضی وقف کی تحریک د نیا میں ہر احمدی اپنے لیے فرض کر لے کہ اس نے سال میں کم از کم ایک یا دو دفعہ ایک یا دو ہفتے تک اس کام کے لیے وقف کرنا ہے.یہ میں ایک یا دو دفعہ کم از کم اس لیے کہ رہا ہوں کہ جب ایک رابطہ ہوتا ہے تو دوبارہ اس کا رابطہ ہونا چاہیے اور پھر نئے میدان بھی مل جاتے ہیں.اس لیے اس بارے میں پوری سنجیدگی کے ساتھ تمام طاقتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہر ایک کو پیش کرنا چاہیے.چاہے وہ ہالینڈ کا احمدی ہو یا جرمنی کا ہویا بیلجیئم کا ہو یا فرانس کا ہو یا یورپ کے کسی بھی ملک کا ہو یا دنیا کے کسی بھی ملک کا ہو چاہے گھانا کا ہوا فریقہ میں یا بورکینا فاسو کا ہو، کینیڈا کا ہو یا امریکہ کا ہو یا ایشیائی کسی ملک کا ہو، ہر ایک کو اب اس بارے میں سنجیدہ ہو جانا چاہیے اگر دنیا کو تباہی سے بچانا ہے.ہر ایک کو ذوق اور شوق کے ساتھ اس پیغام کو پہنچا ئیں ، اپنے ہم وطنوں کو اپنے اس پیغام کو پہنچا ئیں ، اور جیسا کہ میں نے کہا دنیا کو تباہی سے بچائیں کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے بغیر کوئی قوم بھی محفوظ نہیں.اس لیے اب ان کو بچانے کے لیے داعیان الی اللہ کی مخصوص تعداد یا مخصوص ٹارگٹ حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے.یا اسی پر گزارا نہیں ہو سکتا.بلکہ اب تو جماعتوں کو ایسا پلان کرنا چاہیے، جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ہر شخص ، ہر احمدی اس پیغام کو پہنچانے میں مصروف ہو جائے.اور آپ لوگ جہاں اس کام سے دنیا کو

Page 44

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 29 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی فائدہ پہنچا رہے ہوں گے ان کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کر رہے ہوں گے وہاں آپ کو بھی فائدہ ہوگا.اپنے آپ کو بھی فائدہ پہنچارہے ہوں گے اور ثواب بھی حاصل کر رہے ہوں گے.دعوت الی اللہ کا طریق جس سے بھی آپ کا رابطہ ہورہا ہے جس کو بھی آپ نے ( دعوت الی اللہ ) کرنی ہے اس سے ذاتی تعلق ہوا اور پھر یہ ذاتی تعلق اور ذاتی رابطہ مستقل رابطے کی شکل میں قائم رہنا چاہیے.اور موقع کے لحاظ سے موقع پا کر کبھی کبھی بات چھیڑ دینی چاہیے جس سے اندازہ ہو کہ یہ لوگوں پر اثر کرے گی.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے یا تو بزدلی دکھا دی یا پھر جوش میں پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں اور موقع ومحل کا بھی لحاظ نہیں رکھتے.اس سے جو تھوڑا بہت تعلق پیدا ہوا ہوتا ہے وہ بھی ختم ہو جاتا ہے.اور جس کو آپ ( دعوت الی اللہ ) کر رہے ہیں ، اس کو بالکل ہی پرے دھکیل دیتے ہیں.اور دوسری بات یہ ہے کہ بعض طبیعتیں ہوتی ہیں جن کا ذاتی میلان یا رجحان ہی دین کی طرف نہیں ہوتا.ان کو اگر شروع میں ہی ( دعوت الی اللہ ) شروع کر دی جائے تو ان کا تو اس سے کوئی تعلق ہی نہیں وہ تو لا مذہب لوگ ہیں ، وہ تو بعض خدا پر بھی یقین کرنے والے نہیں ہوتے.اپنے مذہب سے جو ان کا بنیادی مذہب ہے اس سے بھی دور ہٹے ہوئے ہوتے ہیں اور مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تو وہ ہماری بات کیسے سنیں گے.پہلے تو بات یہ ہے کہ ان کو مذہب پر یقین پیدا کروانا ہوگا ، پہلے ان کو خدا کی پہچان کروانی ہوگی.جب اس طرز پر باتیں ہوں گی تو نہ صرف ایک شخص جس کو آپ ( دعوت الی اللہ ) کر رہے ہیں اس پر اثر ہوگا بلکہ ماحول پر بھی اثر ہورہا ہوگا.اور ماحول میں بھی یہ اظہار ہورہا ہو گا کہ یہ شخص خدا کا خوف رکھنے والا ہے اور خدا کی خاطر ہر کام کرنے والا ہے اور خدا کی خاطر خدا کی طرف بلانے والا ہے.اس میں ایک درد ہے کہ خدا تعالیٰ کے بندے اس کے آگے جھکیں اور یہ کسی ذاتی مفاد کے لیے کام نہیں کر رہا.اس بات سے کہ جو کچھ بھی ہے خدا تعالیٰ کی خاطر ہے اس کا ماحول پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے اور دعوت الی اللہ کے اور بھی مواقع میسر آ جاتے ہیں اور اس میں مزید آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں.دعوت الی اللہ کا کام ایک مستقل کام ہے...دعوت الی اللہ کا کام ایک مستقل کام ہے، مستقل مزاجی سے لگے رہنے والا کام ہے اور یہ نہیں

Page 45

30 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم ہے کہ ایک رابطہ کیا یا سال کے آخر میں دو مہینے اپنے ٹارگٹ پورے کرنے کے لیے وقف کر دیئے.بلکہ سارا سال اس کام پر لگے رہنا چاہیے اور اس طرف توجہ دیتے رہنا چاہیے.اور جس آدمی کو پکڑیں اس کا پتہ لگ جاتا ہے کس مزاج کا ہے.جو بھی آپ کے رابطے ہوتے ہیں پھر مسلسل اس سے رابطہ ہو.آخر ایک وقت ایسا آئے گا یا تو آپ کو اس کے بارے میں پتہ لگ جائے گا کہ اس کا دل سخت ہے اور وہ ایسی زمین ہی نہیں جس پہ کوئی چھینٹا بارش کا اثر کر سکے، کوئی نیکی کا اثر اس پر ہو، تو اس کو تو آپ چھوڑیں.لیکن بہت سارے ایسے ہیں جو آپ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اس لیے اس عمل کو مسلسل جاری رہنا چاہیے اور سو نہیں جانا چاہیے کہ جی کام سال کے آخر میں کر لیں گے.عمل صالح کی اہمیت پھر جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہیں ان میں ایک بہت بڑی خوبی جس کی ضرورت ہے اور جس کے بغیر نہ جوش کام آ سکتا ہے نہ ( دعوت الی اللہ ) کے لیے کسی قسم کا کوئی شوق کام آ سکتا ہے، نہ ( دعوت الی اللہ ) کے طریقوں میں حکمت، دانائی اور علم کام آ سکتا ہے وہ جو سب سے ضروری چیز ہے وہ ہے عمل.اس لیے میں نے جو پہلی آیت تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے کی تعریف کر کے یہ بھی فرمایا کہ صرف وہ نیکی کی طرف بلاتے ہی نہیں ہیں بلکہ نیک اعمال خود بھی بجالانے والے ہیں.ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے.یہ نہیں کہ وہ خود کچھ کر رہے ہوں اور لوگوں کو کچھ کہہ رہے ہوں.اور جب ان کا قول و فعل ایک جیسا ہوگا تو تبھی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ بات کہنے کے بھی حقدار ہوں گے کہ ہم کامل فرمانبرداروں میں سے ہیں.تو اللہ تعالیٰ تو غیب کا علم جانتا ہے.وہ تو ہمارے سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کا خوب علم رکھتا ہے.ہر بات اس کے علم میں ہے.اگر ہمارے قول وفعل میں تضاد ہوگا تو وہ فرمائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو تم کامل فرمانبرداروں میں نہیں ہو کیونکہ تمہارے قول و فعل میں تضاد ہے.کہتے کچھ ہو کرتے کچھ ہو.اس لیے ایمان لانے والوں کو دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت فرمائی کہ یايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ أَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ (الصف: 3-2 ).کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم کیوں وہ کہتے ہو جو کرتے نہیں.اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں.تو اللہ تعالیٰ کو تو دھوکا نہیں

Page 46

31 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم دیا جا سکتا.لوگوں کی آنکھوں میں تو دھول جھونکی جاسکتی ہے.اپنی ظاہری پاکیزگی کا اظہار کر کے لوگوں سے تو واہ واہ کروائی جا سکتی ہے.لوگوں کو تو علم نہیں ہوتا ، نیکی کا ظاہری تاثر لے کر وہ کسی کو عہد یدار بنانے کے لیے ووٹ بھی دے دیتے ہیں اور عہدیدار بن بھی جاتے ہیں.پھر بڑھ بڑھ کر داعیان میں اپنے نام بھی لکھوا لیتے ہیں.لیکن اس کا فائدہ کیا ہوگا.کیونکہ تمہارے قول و فعل میں تضاد ہوگا اس وجہ سے تم اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں گنہگار ہو گے.فائدہ کی بجائے الٹا نقصان ہے.اس لیے ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے.کام میں برکتیں بھی اس وقت پڑتی ہیں جب نیتیں صاف ہوں.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بالنيات.احمدی سب کے لیے نمونہ بنیں ہر داعی الی اللہ کو، ہر ( دعوت الی اللہ ) کرنے والے کو ، ہر واقف زندگی کو ، ہر عہدیدار کو اور کیونکہ دنیا کی نظر ایک جماعت کی حیثیت سے جماعت کے ہر فرد پر ہے.اس لیے ہر احمدی کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا ایک نمونہ بننے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ دعوت الی اللہ کے میدان میں بھی ہماری مدد فرمائے اور ہماری زندگیوں میں بھی اس کے فضل کے آثار ظاہر ہوں.جب یہ عملی نمونے ہم دکھانے شروع کر دیں گے اور دکھانے کے قابل ہو جائیں گے اور ہر شخص خواہ وہ کسی عمر کا ہو اور کسی پیشے سے تعلق رکھتا ہو، اپنے ماحول میں اس پاک تبدیلی کے ساتھ ( دعوت الی اللہ ) میں بجت جائے گا تو تب ہی ہم اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والوں میں شمار ہو سکتے ہیں.اور احمدیت کے جھنڈے کو جلد از جلد دنیا میں گاڑ سکتے ہیں......الفضل انٹر نیشنل 18 تا 24 جون 2004ء)

Page 47

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 32 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرموده 11 جون 2004ء سے اقتباسات * اپنے بچوں سے دوستی پیدا کریں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ” انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے.یعنی دوست کے اخلاق کا اثر انسان پر ہوتا ہے.اس لیے اسے غور کرنا چاہیے کہ وہ کسے دوست بنا رہا ہے.(سنن ابی داؤد.کتاب الادب ـ باب من يومر ان مجالس) تو والدین کو بھی نگرانی رکھنی چاہیے اور یہ نگرانی سختی سے نہیں رکھنی چاہیے.بلکہ بچوں سے بے تکلف ہوں، کئی دفعہ پہلے بھی میں اس بارے میں کہہ چکا ہوں.اکثر کہتا رہتا ہوں کہ اس مغربی معاشرے میں بلکہ آجکل تو مغرب کا اثر ، دجالی قوتوں کا اثر ، شیطان کے حملوں کا اثر ، رابطوں میں آسانی یا سہولت کی وجہ سے ہر جگہ ہو چکا ہے، تو میں یہ کہ رہا ہوں شیطان کے ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے والدین کو اپنے بچوں سے ایک دوستانہ ماحول پیدا کرنا ہوگا اور پیدا کرنا چاہیے خاص طور پر ان ملکوں میں جو نئے آنے والے ہوتے ہیں.وہ شروع میں تو نرمی دکھاتے ہیں اس کے بعد زیادہ سخت ہو جاتے ہیں.وہ تصور نہیں ہے کہ بچوں سے بھی دوستی پیدا کی جاسکتی ہے تو ان کو پھر یہ احساس دلانا چاہیے یہ ماحول پیدا کر کے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے؟ بچے کو بچپن سے پتہ لگے پھر جوانی میں پتہ لگے.ایک عمر میں آکے والدین خود بچوں سے باتیں کرتے ہوئے جھجکتے ہیں.یہ بھی غلط ہے.ان کو دین کی طرف لانے کے لیے، دین کی اہمیت ان کے دلوں میں پیدا کرنے کے لیے انہیں خدا سے ایک تعلق پیدا کروانا ہوگا.اس کے لیے والدین کو دعاؤں کے ساتھ ساتھ بڑی کوشش کرنی چاہیے.اور اس وقت تک یہ کام نہیں ہوگا جب تک والدین کا شمار خود صادقوں میں نہ ہو.

Page 48

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 33 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بچوں کے دوستوں کا بھی پتہ ہونا چاہیے پھر یہ بھی نظر رکھنی چاہیے کہ بچوں کے دوست کون ہیں بچوں کے دوستوں کا بھی پتہ ہونا چاہیے.کئی دفعہ سمجھانے کے باوجود ، ابھی بھی والدین کی یہ شکایات ملتی رہتی ہیں کہ انہوں نے سختی کر کے یا پھر بالکل دوسری طرف جا کر غلط حمایت کر کے بچوں کو بگاڑ دیا.ایک بچہ جو پندرہ سولہ سال کی عمر تک بڑا اچھا ہوتا ہے جماعت سے بھی تعلق ہوتا ہے ، نظام سے بھی تعلق ہوتا ہے ، اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں بھی حصہ لے رہا ہوتا ہے.جب وہ پندرہ سولہ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو پھر ایک دم پیچھے ہٹنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر ہٹتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ ایسی بھی شکایتیں آئیں کہ ایسے بچے ماں باپ سے بھی علیحدہ ہو گئے.اور پھر بعض بچیاں بھی اس طرح ضائع ہو جاتی ہیں.جن کا بہر حال افسوس ہوتا ہے.تو اگر والدین شروع سے ہی اس بات کا خیال رکھیں تو یہ مسائل پیدا نہ ہوں.دوست سوچ سمجھ کر بنا ئیں پھر بچوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ اپنے دوست سوچ سمجھ کر بناؤ.یہ نہ سمجھو کہ والدین تمہارے دشمن ہیں یا کسی سے روک رہے ہیں بلکہ سولہ سترہ سال کی عمر ایسی ہوتی ہے کہ خود ہوش کرنی چاہیے، دیکھنا چاہیے کہ ہمارے جو دوست ہیں بگاڑنے والے تو نہیں ، اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والے تو نہیں ہیں.کیونکہ جو اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والے ہیں وہ تمہارے خیر خواہ نہیں ہو سکتے.تمہارے ہمدرد نہیں ہو سکتے ،تمہارے بچے دوست نہیں ہو سکتے.اور ایک احمدی بچے کوتو کیونکہ صادقوں کی صحبت سے فائدہ اٹھانا ہے اس لیے یا درکھیں کہ یہ گروہ شیطان کا گروہ ہے صادقوں کا گروہ نہیں اس لیے ایسے لوگوں میں بیٹھ کے اپنی بدنامی کا باعث نہ بنیں، ایسے بچوں یا نو جوانوں سے دوستی لگا کے اپنے خاندان کی بدنامی کا باعث نہ بنیں اور ہمیشہ نظام سے تعلق رکھیں.نظام جو بھی آپ کو سمجھاتا ہے آپ کی بہتری اور بھلائی کیلیے سمجھا تا ہے.نمازوں کی طرف توجہ دیں.قرآن پڑھنے کی طرف توجہ دیں اللہ تعالیٰ ہمارے ہر بچے کو ہر شیطانی حملے سے بچائے...کتب مسیح موعوڈ پڑھنے کی خصوصی تاکید....دعاؤں کے ساتھ ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود کی تفاسیر اور علم کلام سے فائدہ اٹھانا

Page 49

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 34 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی چاہیے.اگر قرآن کو سمجھنا ہے یا احادیث کو سمجھنا ہے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کی طرف توجہ کرنی چاہیے.یہ تو بڑی نعمت ہے ان لوگوں کیلیے جن کو اردو پڑھنی آتی ہے کہ تمام کتابیں اردو میں ہیں.اکثریت اردو میں ہیں، چند ایک عربی میں بھی ہیں.پھر جو پڑھے لکھے نہیں ان کے لیے ( بیوت الذکر ) میں درسوں کا انتظام موجود ہے ان میں بیٹھنا چاہیے اور درس سننا چاہیے.پھر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ایم ٹی اے والوں کو بھی مختلف ملکوں میں زیادہ سے زیادہ اپنے پروگراموں میں یہ پروگرام بھی شامل کرنے چاہیں جن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات کے تراجم بھی ان کی زبانوں میں پیش ہوں.جہاں جہاں تو ہو چکے ہیں اور تسلی بخش تراجم ہیں وہ تو بہر حال پیش ہو سکتے ہیں.اور اسی طرح اُردو دان طبقہ جو ہے، ملک جو ہیں، وہاں سے اردو کے پروگرام بن کے آنے چاہیں.جس میں زیادہ سے زیادہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس کلام کے معرفت کے نکات دنیا کو نظر آئیں اور ہماری بھی اور دوسروں کی بھی ہدایت کا موجب بنیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو بے انتہا لوگوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق مل رہی ہے ، کروڑوں میں احمدیت داخل ہو چکی ہے ان کی تربیت کیلیے بھی ضروری ہے کہ ان تک بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے الفاظ پہنچانے کی کوشش کی جائے اور یہ چیز تربیت کے لحاظ سے بڑی فائدہ مند ہوگی.تربیت کے شعبوں کیلیے بھی بہت فائدہ مند ہوگی.پس دعاؤں کے ساتھ اس طرف توجہ کرنی چاہیے اور جماعت کو ہر ملک میں جہاں جہاں شعبہ تربیت ہیں ان کو اس طرف توجہ دینی چاہیے.اور اس سے فائدہ اٹھانا الفضل انٹر نیشنل 25 جون تا یکم جولائی 2004ء) چاہیے.

Page 50

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 35 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جون 2004ء سے اقتباسات * کتب حضرت مسیح موعود علم قرآن عطا کرتی ہیں...آج یہ ذمہ داری ہم احمدیوں پر سب سے زیادہ ہے کہ علم کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کریں ، زیادہ سے زیادہ کوشش کریں.کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی قرآن کریم کے علوم و معارف دیئے گئے ہیں.اور آپ کے ماننے والوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں انہیں علم و معرفت اور دلائل عطا کروں گا.تو اس کے لیے کوشش اور علم حاصل کرنے کا شوق اور دعا کہ اے میرے اللہ ! اے میرے رب ! میرے علم کو بڑھا، بہت ضروری ہے.گھر بیٹھے یہ سب علوم و معارف نہیں مل جائیں گے.اور پھر اس کے لیے کوئی عمر کی شرط بھی نہیں ہے.تو سب سے پہلے تو قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کے لیے، دینی علم حاصل کرنے کے لیے ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو بے بہا خزانے مہیا فرمائے ہیں ان کو دیکھنا ہو گا.ان کی طرف رجوع کریں ، ان کو پڑھیں کیونکہ آپ نے ہمیں ہماری سوچوں کے لیے راستے دکھا دیئے ہیں.ان پر چل کر ہم دینی علم میں اور قرآن کے علم میں ترقی کر سکتے ہیں اور پھر اسی قرآنی علم سے دنیا وی علم اور تحقیق کے بھی راستے کھل جاتے ہیں.اس لیے جماعت کے اندر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھنے کا شوق اور اس سے فائدہ اٹھانے کا شوق نوجوانوں میں بھی اپنی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہونا چاہیے.بلکہ جو تحقیق کرنے والے ہیں ، بہت سارے طالب علم مختلف موضوعات پر ریسرچ کر رہے ہوتے ہیں، وہ جب اپنے دنیاوی علم کو اس دینی علم اور قرآن کریم کے علم کے ساتھ ملائیں گے تو نئے راستے بھی متعین ہوں گے ، ان کو مختلف نہج پر کام کرنے کے مواقع بھی میسر آئیں گے جو اُن کے دنیا دار پر و فیسران کو شاید نہ سکھا سکیں.اسی طرح جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بڑی عمر کے لوگوں کو بھی یہ

Page 51

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 36 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی نہیں سمجھنا چاہیے کہ عمر بڑی ہو گئی اب ہم علم حاصل نہیں کر سکتے.ان کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھیں اس بارے میں پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں یہ سوچ کر نہ بیٹھ جائیں کہ اب ہمیں کس طرح علم حاصل ہوسکتا ہے.اب ہم کس طرح اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں حافظہ بڑی عمر میں کمزور ہو جاتا ہے.مجھے یاد ہے ہمارے ایک استاد ہوتے تھے ، انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد قرآن کریم حفظ کیا اور ربوہ میں سائیکل کے ہینڈل پر قرآن کریم رکھا ہوتا تھا اور چلتے ہوئے پڑھتے رہتے تھے.لیکن آج کل ربوہ میں رکشے اتنے ہو گئے ہیں اب اس طرح نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پھر بزرگ ہسپتال پہنچے ہوں گے.علم سکھانا ایک صدقہ جاریہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کے بارے میں مختلف پیرائے میں جو ہمیں فرمایا وہ احادیث پیش کرتا ہوں ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم حاصل کرے.اب مسلمانوں میں جو علم حاصل کرنے کی نسبت ہے وہ دوسروں کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے.اور حکم ہمیں سب سے زیادہ ہے.پھر ایک روایت میں ہے، ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اچھا صدقہ یہ ہے کہ ایک مسلمان علم حاصل کرے پھر اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے.( سنن ابن ماجه كتاب الايمان باب ثواب معلم الناس الخير ) - تو یہ علم حاصل کرنے کی اہمیت ہے.اور پھر اس کو سکھانے کی کہ یہ ایک صدقہ ہے اور صدقہ بھی ایسا ہے جو صدقہ جاریہ ہے کہ دوسروں کو علم سکھاؤ تو تمہاری طرف سے ایک جاری صدقہ شروع ہو جاتا ہے.اساتذہ کی عزت کریں اور اساتذہ بھی نیک نمونہ دکھائیں اسی لیے اساتذہ کی عزت کا بھی اتنا حکم ہے کہ اگر ایک لفظ بھی کسی سے سیکھو تو اس کی عزت کرو.اساتذہ کا بڑا معزز پیشہ ہے.لیکن پاکستان وغیرہ میں اس کو بھی صرف آمدنی کا ذریعہ بنالیا گیا ہے اور یہ پیشہ بھی بدنام ہو رہا ہے.ٹھیک ہے جائز طور پر ایک ملازم یہ پیشہ اختیار کرتا ہے اس کو تنخواہ ملتی ہے، کمانا چاہیے یا پھر ٹیوشن بھی لی جاسکتی ہے لیکن وہاں آج کل ہوتا یہ ہے کہ سکولوں میں پڑھانے کی طرف توجہ

Page 52

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 37 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی نہیں دیتے ، اور طالب علم کو کہہ دیا کہ تم میرے گھر آنا اور ٹیوشن پڑھو اور پھر ٹیوشن بھی اتنی لیتے ہیں کہ جو بعضوں کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے.امیر آدمی سے تو چلو لے لی لیکن بیچارے غریبوں کو بھی نہیں بخشتے اور اگر ٹیوشن نہ پڑھیں تو امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں وہ پہلے ہی کہہ دیتے ہیں کہ اگر امتحان میں پاس ہونا ہے تو ٹیوشن پڑھو اور پھر بیچارے بعض لوگ ( ایسے طالب علم یا ان کے والدین ) اسی ٹیوشن کی وجہ سے مقروض ہو جاتے ہیں احمدی اساتذہ کو اس سے پر ہیز کرنا چاہیے اپنا ایک نمونہ دکھانا چاہیے اور جو علم اور فیض انہوں نے حاصل کیا ہے اس کو دوسروں تک پہنچانے میں کنجوسی اور بخل سے کام نہیں لینا حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم حاصل کرو، علم حاصل کرنے کے لیے وقار اور سکینت کو اپناؤ.اور جس سے علم سیکھو اس کی تعظیم تکریم اور ادب سے پیش آؤ.(الترغيب والترهيب جلد نمبر ۱ صفحه ۷۸ باب الترغيب فى اكرام العلماء واجلا لهم وتوقيرهم) تو اس میں طلبہ کے لیے نصیحت ہے کہ اپنے استاد کی عزت کرو، ایک وقار ہونا چاہیے.احمدی طلبہ سٹرائکس (Strikes) میں حصہ نہ لیں آج کل مختلف ممالک میں طلبہ کی ہڑتالیں ہوتی ہیں تو ڑ پھوڑ ہوتی ہے، مطالبے منوانے کے لیے گلیوں میں نکل آتے ہیں ، مطالبہ یونیورسٹی یا کالج کا ہوتا ہے اور توڑ پھوڑ سڑکوں پر سٹریٹ لائٹس کی یا حکومت کی پراپرٹی کی یا عوام کی جائیدادوں کی ہو رہی ہوتی ہے ، دکانوں کو آ گئیں لگ رہی ہوتی ہیں.تو یہ انتہائی غلط اور گھٹیا قسم کے طریقے ہیں.اسلام کی تعلیم تو یہ نہیں ہے، طالبعلم علم حاصل کرتا ہے اس کے اندر تو ایک وقار پیدا ہونا چاہیے.اور ادب اور احترام پیدا ہونا چاہیے اساتذہ کے لیے بھی ، اپنے بڑوں کے لیے بھی ، نہ کہ بد تمیزی کا رویہ اپنایا جائے.پھر بعض دفعہ ہمارے احمدی اساتذہ کو سامنا کرنا پڑتا ہے یہ تو خیر میں ضمناً ذکر کر رہا ہوں کہ غیر احمدی طلبہ نے خود پڑھائی نہیں کی ہوتی فیل ہو جاتے ہیں اگر ان کا احمدی ٹیچر ہے یا احمدی استاد ہے تو فوراً اس کے خلاف وہاں ہڑتالیں شروع ہو جاتی ہیں.اس لحاظ سے بھی پاکستان میں بعض اساتذہ بڑی مشکل میں ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ بھی ایسے طلباء کو عقل دے اور احمدی طلباء کو بھی چاہیے کہ ایسی سٹرائکس (Strikes) میں جو یو نیورسٹیوں اور کالجوں میں ہوتی ہیں ،کبھی

Page 53

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 38 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی حصہ نہ لیں اور اپنے وقار کا خیال رکھیں.احمدی طالب علم کی اپنی ایک انفرادیت ہونی چاہیے.اجتماعات اور کتب حضرت مسیح موعود کے بارہ میں ارشاد اجتماعوں اور جلسوں کے وقت ، جب اجتماعات یا جلسوں پہ آتے ہیں تو وہاں ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے.اور صرف یہی مقصد ہونا چاہیے کہ ہم نے یہاں سے اپنی علمی اور روحانی پیاس بجھانی ہے.اور ان جلسوں کا جو مقصد ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے.اگر جلسوں پر آ کے پھر دنیاوی مجلسیں لگا کر بیٹھنا ہے اور ان سے پورا استفادہ نہیں کرنا تو پھر ان جلسوں پر آنے کا فائدہ کیا ہے؟ یہ میں پہلے بھی کہ چکا ہوں کہ آج کل کے زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کو بھی پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے یہ بھی قرآن کریم کی ایک تشریح و تفسیر ہے جو ہمیں آپ کی کتب سے ملتی ہے.اس طرف توجہ دینی چاہیے اور یہ کتب ضرور پڑھنی چاہئیں.اور انہیں کتب سے آپ کو دلائل میسر آ جاتے ہیں لوگوں کے اعتراضوں کے جواب دینے کے اور یہی آج کل طریقہ ہے آپ کی مجلسوں سے فیضیاب ہونے کا ، آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کا کہ پہلے بھی میں کہتا رہا ہوں کہ آپ کی کتب پڑھنے کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے اور اس سے ہمیں مخالفین کے اعتراضوں کے جواب بھی ملیں گے اور قرآن کریم کے علوم کی بھی معرفت ہمیں حاصل ہوگی.واقفین نو زبانیں بھی سیکھیں وہ واقفین نو جو شعور کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور جن کا زبانیں سیکھنے کی طرف رجحان بھی ہے اور صلاحیت بھی ہے.خاص طور پر لڑ کیاں.وہ انگریزی ، عربی ، اردو اور ملکی زبان جو سیکھ رہی ہیں جب سیکھیں تو اس میں اتنا عبور حاصل کر لیں، (میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں میں زبانیں سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے ) کہ جماعت کی کتب اور لٹریچر وغیرہ کا ترجمہ کرنے کے قابل ہوسکیں تبھی ہم ہر جگہ نفوذ کر سکتے ہیں.واقفین نو بچے جو تیار ہو رہے ہیں، توجہ ہونی چاہیے تا کہ خاص طور پر ہر زبان کے ماہرین کی ایک ٹیم تیار ہو جائے.بہت سے بچے ایسے ہیں جواب یو نیورسٹی لیول تک پہنچ چکے ہیں ، وہ خود بھی اس

Page 54

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 39 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی طرف توجہ کریں جیسا کہ میں نے کہا اور جو ملکی شعبہ واقفین نو کا ہے وہ بھی ایسے بچوں کی لسٹیں بنائیں اور پھر ہر سال یہ فہرستیں تازہ ہوتی رہیں کیونکہ ہر سال اس میں نئے بچے شامل ہوتے چلے جائیں گے.ایک عمر کو پہنچنے والے ہوں گے.واقفین نو مختلف شعبوں میں آئیں اور صرف اسی شعبے میں نہیں بلکہ ہر شعبے میں عموماً جو ہمیں موٹے موٹے شعبے جن میں ہمیں فوراً واقفین زندگی کی ضرورت ہے وہ ہیں (مربیان ) ، پھر ڈاکٹر ہیں ، پھر ٹیچر ہیں ، پھر اب کمپیوٹر سائنس کے ماہرین کی بھی ضرورت پڑ رہی ہے.پھر وکیل ہیں، پھر انجینئر ہیں ، زبانوں کے ماہرین کا میں نے پہلے کہہ دیا ہے پھر ان کے آگے مختلف شعبہ جات بن جاتے ہیں، پھر اس کے علاوہ کچھ اور شعبے ہیں.تو جو تو ( مربی ) بن رہے ہیں ان کا تو پتہ چل جاتا ہے کہ جامعہ میں جانا ہے اور جامعہ میں جانا چاہتے ہیں اس لیے فکر نہیں ہوتی پتہ لگ جائے گالیکن جو دوسرے شعبوں میں یا پیشوں میں جار ہے ہوں ان میں سے اکثر کا پتہ ہی نہیں لگتا.اب دوروں کے دوران مختلف جگہوں پر میں نے پوچھا ہے تو ابھی تک یا تو بچوں نے ذہن ہی نہیں بنایا ہوا 16-17 سال کی عمر کو پہنچ کے بھی ، یا پھر کسی ایسے شعبے کا نام لیتے ہیں جس کی فوری طور پر جماعت کو شاید ضرورت بھی نہیں ہے.مثلاً کوئی کہتا ہے کہ میں نے پائلٹ بننا ہے.پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں تو کھیلوں سے دلچسپی ہے، کرکٹر بنا ہے یا فٹ بال کا پلیئر (Player) بننا ہے.یہ تو پیشے واقفین نو کے لیے نہیں ہیں.صرف اس لیے کہ بچوں کی صحیح طرح کونسلنگ (Councling) ہی نہیں ہو رہی ان کی رہنمائی نہیں ہو رہی ، اور اس وجہ سے ان کو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ ان کا مستقبل کیا ہے.تو ماں باپ بھی صرف وقف کر کے بیٹھ نہ جائیں بلکہ بچوں کو مستقل سمجھاتے رہیں.میں یہی مختلف جگہوں پر ماں باپ کو کہتا رہا ہوں کہ اپنے بچوں کو سمجھاتے رہیں کہ تم وقف نو ہو، ہم نے تم کو وقف کیا ہے تم نے جماعت کی خدمت کرنی ہے اور جماعت کا ایک مفید حصہ بننا ہے اس لیے کوئی ایسا پیشہ اختیار کرو جس سے تم جماعت کا مفید وجود بن سکو.پھر ایسے بچے بھی ملے ہیں کہ بڑی عمر کے ہونے کے باوجود ان کو یہ نہیں پتہ کہ وہ واقف نو ہیں اور وقف نو ہوتی کیا چیز ہے.ماں باپ کہتے ہیں کہ وقف نو میں ہیں.پھر بعض یہ کہتے ہیں کہ ماں باپ نے وقف کیا ہے لیکن ہم کچھ اور کرنا چاہتے ہیں تو جب ایسی فہرستیں تیار ہوں گی سامنے آ رہی ہوں گی ، ہر ملک

Page 55

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 40 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی میں جب تیار ہو رہی ہوں گی تو ہمیں پتہ لگ جائے گا کہ کتنے ایسے ہیں جو بڑے ہو کر جھڑ رہے ہیں اور کتنے ایسے ہیں اور کس ملک میں ایسے ہیں جہاں سے ہمیں (مربی) ملیں گے اور کتنے ایسے ہیں جن میں سے ہمیں ڈاکٹر ملیں گے، کتنے انجینئر ملیں گے یا ٹیچر ملیں گے وغیرہ پھر جو ڈاکٹر بنتے ہیں ان کی ڈاکٹری کے شعبے میں بھی دلچسپیاں ہر ایک کی الگ ہوتی ہیں تو اس دلچسپی کے مطابق بھی ان کی رہنمائی کی جاسکتی ہے.اس کے لیے بھی ملکوں کو مرکز سے پوچھنا ہوگا تا کہ ضرورت کے مطابق ان کو بتایا جائے.بعض دفعہ ہوتا ہے کہ کسی نے ڈاکٹر بننا ہے.صرف ایک شعبے میں دلچسپی نہیں ہوتی ، دو تین میں ہوتی ہے تو ضرورت کے مطابق رہنمائی کی جا سکتی ہے کہ فلاں شعبے میں جانا ہے تو اب تو اس عمر کو دوسری تیسری کھیپ پہنچ چکی ہے شاید چوتھی بھی پہنچ رہی ہو جہاں مستقبل کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے.تو اس لیے ہر سال با قاعدہ اس کے مطابق نئے سرے سے فہرستیں بنتی رہنی چاہئیں، نئے جو شامل ہونے والے ہیں ان کو شامل کیا جانا چاہیے، جو جھڑنے والے ہیں ان کو علیحدہ کیا جانا چاہیے.اس لحاظ سے اب شعبہ وقف نو کو کام کرنا ہوگا.پھر جو پڑھ رہے ہیں ان کے بارے میں بھی علم ہونا چاہیے کہ ان میں درمیانے درجے کے کتنے ہیں اور یہ کیا کیا پیشے اختیار کر سکتے ہیں، ان کو کیا کام دیئے جا سکتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا اس کام کو اب بڑے وسیع پیمانے پر دنیا میں ہر جگہ کرنے کی ضرورت ہے.اور واقفین نو کے شعبے کو میں کہوں گا کہ یہ فہرستیں کم از کم ایسے بچے جو پندرہ سال سے اوپر کے ہیں ان کی تیار کر لیں اور تین چار مہینے میں اس طرز پر فہرست تیار ہونی چاہیے.کیونکہ میرے خیال میں میں نے جو جائزہ لیا ہے جو رپورٹ کے اصل حقائق ہیں ، زمینی حقائق جسے کہتے ہیں وہ ذرا مختلف ہیں اس لیے ہمیں حقیقت پسندی کی طرف آنا ہوگا.ہر ملک میں رہنمائی کے شعبہ کو فعال کریں کچھ شعبہ جات تو میں نے گنوا دیئے ہیں تو یہ ہی نہ سمجھیں کہ ان کے علاوہ کوئی شعبہ اختیار نہیں کیا جاسکتا یا ہمیں ضرورت نہیں ہے.بعض ایسے بچے ہوتے ہیں جو بڑے ٹیلینڈ (Talented) ہوتے ہیں، غیر معمولی ذہین ہوتے ہیں ریسرچ کے میدان میں نکلتے ہیں جس میں سائنس کے مضامین بھی آتے ہیں، تاریخ کے مضامین بھی ہیں یا اور مختلف ہیں تو ایسے بچوں کو بھی ہمیں گائیڈ کرنا ہوگا وہی بات ہے جو میں نے کہی کہ ہر ملک میں کونسلنگ یا رہنمائی وغیرہ کے شعبہ کو فعال کرنا ہوگا.اور جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ

Page 56

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 41 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے تو اس کمال کے لیے کوشش بھی کرنی ہوگی.پھر انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ کے فضل بھی ہوں گے.بہر حال بچوں کی رہنمائی ضروری ہے چند ایک ایسے ہوتے ہیں جو اپنے شوق کی وجہ سے اپنے راستے کا تعین کر لیتے ہیں، عموماً ایک بہت بڑی اکثریت کو گائیڈ کرنا ہوگا اور جیسا کہ میں نے کہا گہرائی میں جا کر سارا جائزہ لینا ہوگا...واقفین نو کے والدین بھی علوم سیکھیں تو ہم نے واقفین نو بچوں کو پڑھا کے نئے نئے علوم سکھا کے پھر دنیا کے منہ دلائل سے بند کرنے ہیں.اور اس تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اصل قرآن کا علم اور معرفت دی ہے، اللہ کرے کہ واقفین نو کی یہ جدید فوج اور علوم جدیدہ سے لیس فوج جلد تیار ہو جائے.پھر واقفین نو بچوں کی تربیت کے لیے خصوصاً اور تمام احمدی بچوں کی تربیت کے لیے بھی عموماً ہماری خواتین کو بھی اپنے علم میں اضافے کی ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی وقت دینے کی طرف توجہ دینی چاہیے.اور اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اجلاسوں میں اجتماعوں میں، جلسوں میں آ کر جو سیکھا جاتا ہے وہیں چھوڑ کر چلے نہ جایا کریں، یہ تو بالکل جہالت کی بات ہوگی کہ جو کچھ سیکھا ہے وہ وہیں چھوڑ دیا جائے.تو عورتیں اس طرف بہت توجہ دیں اور اپنے بچوں کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دیں.کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ جن واقفین نو یا عمومی طور پر بچوں کی مائیں بچوں کی طرف توجہ دیتی ہیں اور خود بھی کچھ دینی علم رکھتی ہیں ان کے بچوں کے جواب اور وقف نو کے بارے میں دلچسپی بھی بالکل مختلف انداز میں ہوتے ہیں اس لیے مائیں اپنے علم کو بھی بڑھائیں اور پھر اس علم سے اپنے بچوں کو بھی فائدہ پہنچائیں.لیکن اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ باپوں کی ذمہ داریاں ختم ہو گئی ہیں یا اب باپ اس سے بالکل فارغ ہو گئے ہیں یہ خاوندوں کی اور مردوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ ایک تو وہ اپنے عملی نمونے سے تقوی اور علم کا ماحول پیدا کریں پھر عورتوں اور بچوں کی دینی تعلیم کی طرف خود بھی توجہ دیں.کیونکہ اگر مردوں کا اپنا ماحول نہیں ہے ، گھروں میں وہ پاکیزہ ماحول نہیں ہے، تقویٰ پر چلنے کا ماحول نہیں.تو اس کا اثر بہر حال عورتوں پر بھی ہوگا اور بچوں پر بھی ہو گا.اگر مرد چاہیں تو پھر عورتوں میں چاہے وہ بڑی عمر کی

Page 57

42 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم بھی ہو جائیں تعلیم کی طرف شوق پیدا کر سکتے ہیں کچھ نہ کچھ رغبت دلا سکتے ہیں.کم از کم اتنا ہو سکتا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں اس لیے جماعت کے ہر طبقے کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.مرد بھی عورتیں بھی.کیونکہ مردوں کی دلچسپی سے ہی پھر عورتوں کی دلچسپی بھی بڑھے گی اور اگر عورتوں کی ہر قسم کی تعلیم کے بارے میں دلچسپی ہوگی تو پھر بچوں میں بھی دلچسپی بڑھے گی.ان کو بھی احساس پیدا ہو گا کہ ہم کچھ مختلف ہیں دوسرے لوگوں سے.ہمارے کچھ مقاصد ہیں جو اعلیٰ مقاصد ہیں.اور اگر یہ سب کچھ پیدا ہو گا تو تبھی ہم دنیا کی اصلاح کرنے کے دعوے میں بچے ثابت ہو سکتے ہیں.ورنہ دنیا کی اصلاح کیا کرنی ہے.اگر ہم خود توجہ نہیں کریں گے تو ہماری اپنی اولادیں بھی ہماری دینی تعلیم سے عاری ہوتی چلی جائیں گی.کیونکہ تجربہ میں یہ بات آچکی ہے کہ کئی ایسے احمدی خاندان جن کی آگے نسلیں احمدیت سے ہٹ گئیں صرف اسی وجہ سے کہ ان کی عورتیں دینی تعلیم سے بالکل لاعلم تھیں.اور جب مرد فوت ہو گئے تو آہستہ آہستہ وہ خاندان یا ان کی اولادیں پرے ہٹتے چلے گئے کیونکہ عورتوں کو دین کا کچھ علم ہی نہیں تھا ، تو اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی اکٹھے ہو کر کوشش کرنی ہوگی تاکہ ہم اپنی اگلی نسل کو بچا سکیں.(الفضل انٹرنیشنل 2 تا 8 جولائی 2004ء) بچاسکیں

Page 58

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 43 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی جامعہ احمدیہ کینیڈا سے خطاب * حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 30 جون 2004 ء کو جامعہ احمدیہ کینیڈا سے خطاب فرمایا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:.پہلی کلاس ہونے کے ناطے علمی و اخلاقی معیار بلند کر یہ میرا فارمل (Formal) خطاب نہیں ہے.چند باتیں ہیں جو میں آپ لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں.آپ یا درکھیں کہ آپ جامعہ کی پہلی کلاس کے طلبہ ہیں.آپ کی یہ کلاس تاریخ کا حصہ بننے والی ہے.جس طرح ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ ہمارے پرانے (مربی) افریقہ میں گئے ، یورپ میں گئے ، فارایسٹ میں گئے ، مدرسہ احمدیہ کی پہلی کلاس کا ذکر آتا ہے یا جامعہ احمدیہ کی پہلی کلاس کا ذکر آتا ہے.فرمایا: جوسب سے پہلے کسی ملک میں پہنچے اس ملک کی احمدیت کی تاریخ میں ان کا ہمیشہ پہلے (مربی) کے طور پر ذکر ہوگا.اسی طرح کینیڈا (جماعت) کی تاریخ میں لکھا جائے گا کہ فلاں فلاں جامعہ کی پہلی کلاس کے طلبہ تھے.اس لحاظ سے آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.جو روایات آپ پیدا کریں گے وہی آگے چلیں گی.طلباء ایک دوسرے کی نقل کرتے ہیں ،شعوری اور لاشعوری دونوں طور پر.اس لیے آپ جامعہ احمدیہ کی تاریخ میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیں.جب آپ ( تربیت پا کر اور تعلیم مکمل کر کے ) فیلڈ میں جائیں گے تو بھی دنیا کی نظر آپ پر رہے گی کہ آپ پہلی کلاس کے (مربیان ) ہیں.اس لحاظ سے آپ اپنی ٹرینینگ کریں کہ ہم اس فوج میں شامل ہیں جس نے یہ عہد کیا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے ( دین حق ) کی جس خوبصورت تعلیم سے ہمیں روشناس کرایا ہے اور جسے دنیا بھول چکی تھی ہم نے ساری دنیا کو اس تعلیم سے روشناس کرانا ہے.علمی لحاظ سے تو کرنا ہی ہے،اخلاقی لحاظ سے بھی اپنا معیار بلند کریں.نوجوانی کی عبادت ہی اعلیٰ درجہ کی عبادت ہوتی ہے حضورانور نے فرمایا کہ ان ملکوں میں آزادی کی فضا ہے.جوانی کی عمر میں کسی نہ کسی قسم

Page 59

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 44 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی کی Temptation (بدی کی طرف میلان) ہو جاتی ہے، آپ نے اس سے بچنا ہے.آپ نے استغفار اور اللہ تعالیٰ کی عبادت پر زور دینا ہے.نوجوانی کی عبادت ہی اعلیٰ درجہ کی عبادت ہوتی ہے.تہجد کی عادت ڈالیں.حضورا نور نے فرمایا کہ قادیان میں جب مدرسہ احمدیہ شروع ہوا تو ایک دفعہ رپورٹ ہوئی کہ مدرسہ میں طلباء نماز کے لیے نہیں اٹھتے.چونکہ مجلس میں ذکر ہوا تھا اس لیے ناظر صاحب تعلیم نے کہا کہ میں صبح چیک کرنے آؤں گا.جو طالبعلم جاگ رہا ہوگا اور جان بوجھ کر نہیں اٹھ رہا ہو گا اس کا پتہ چل جائے گا.کیونکہ جو شخص سویا ہوا ہو اس کے پاؤں کا انگوٹھا ہل رہا ہوتا ہے.وہ انگلی صبح گئے تو کئی طلباء کے انگو ٹھے ہل رہے تھے.آپ کے انگوٹھے تو نہیں ملنے چاہیں.اگر نماز میں ذوق پیدا ہو جائے تو پھر دوسری باتوں کی طرف سے توجہ ہٹ جاتی ہے.پھر قرآن کریم کی تلاوت با قاعدگی سے ہونی چاہیے.آپ ابھی سے قرآن کریم پر غور اور تدبر کرنے کی عادت بنالیں.ایسے نکات نکالیں جو نئے ہوں.سکول میں آپ نے سائنس پڑھی ہے اس کی روشنی میں دیکھیں کہ ہم نے ( دین حق ) کی تشریح کیسے کرنی ہے.مگر ایسا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیے ہوئے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے کرنا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا پڑھنا ضروری ہے.نصاب کے طور پر تو آپ کچھ کتابیں پڑھتے ہی ہیں.نصاب کی کتب کے علاوہ حضرت مسیح موعود کی دوسری کتب بھی پڑھنی چاہئیں.آپ یہ نہ سمجھیں کہ مطالعہ ختم ہو جاتا ہے، یہ تو ہمیشہ زندگی بھر جاری رہتا ہے.خدمت دین کے لیے صحت ضروری ہے حضور نے فرمایا کہ یہ تو علمی Activities تھیں.گیمز (Games) کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے.یہ نہیں کہ صرف مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے کی سنجیدہ شکل ہی بن جائے.جب Game کا وقت آئے تو پورا وقت اسے دیں.تھکاوٹ وغیرہ کے بہانے سے اسے ترک نہ کریں.ویسے آپ کی صحتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہیں.یادرکھیں دین کی خدمت کے لیے صحت ضروری ہے.اس لیے Games اور Exercise کریں.اس لیے نہیں کہ جامعہ نے کہا ہے بلکہ اپنی خوشی سے کریں.

Page 60

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم استاد کا احترام کریں 45 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی اساتذہ کی آپ نے تعریف کی ہے، یاد رکھیں کہ استاد کی عزت بہت ضروری ہے.کسی سے ایک لفظ بھی پڑھا ہو تو وہ استاد بن جاتا ہے.یہ چند بنیادی چیزیں ہیں.اللہ تعالیٰ سے کو لگائیں.قرآن اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود کے مطالعہ کی عادت ڈالیں.اپنی صحت کا خیال رکھیں اور اساتذہ کی عزت کریں.آپ انگلی کلاسوں کے لیے نمونہ ہیں.یہ نہ ہو کہ جماعت کی بدنامی کا باعث بنیں.مجھے امید ہے کہ آپ حقیقی رنگ میں ( دین حق ) کے ( داعی ) اور حضرت مسیح موعود کی فوج کے ایسے سپاہی بنیں گے جو مثالی رنگ رکھتے ہوں.الفضل انٹر نیشنل 23 تا 29 جولائی 2004ء )

Page 61

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 46 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جولائی 2004ء سے اقتباسات * مرد بیوی بچوں کے تمام حقوق ادا کرے عموماً اب یہ رواج ہو گیا ہے کہ مرد کہتے ہیں کیونکہ ہم پر باہر کی ذمہ داریاں ہیں، ہم کیونکہ اپنے کاروبار میں اپنی ملازمتوں میں مصروف ہیں اس لیے گھر کی طرف توجہ نہیں دے سکتے اور بچوں کی نگرانی کی ساری ذمہ داری عورت کا کام ہے.تو یا درکھیں کہ بحیثیت گھر کے سربراہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول پر بھی نظر رکھے، اپنی بیوی کے بھی حقوق ادا کرے اور اپنے بچوں کے بھی حقوق ادا کرے، انہیں بھی وقت دے ان کے ساتھ بھی کچھ وقت صرف کرے چاہے ہفتہ کے دو دن ہی ہوں ، ویک اینڈز (weekends) پر جو ہوتے ہیں.انہیں (بیت الذکر ) سے جوڑے، انہیں جماعتی پروگراموں میں لائے ، ان کے ساتھ تفریحی پروگرام بنائے ، ان کی دلچسپیوں میں حصہ لے تا کہ وہ اپنے مسائل ایک دوست کی طرح آپ کے ساتھ بانٹ سکیں.بیوی سے اس کے مسائل اور بچوں کے مسائل کے بارے میں پوچھیں، ان کے حل کرنے کی کوشش کریں.پھر ایک سربراہ کی حیثیت آپ کو مل سکتی ہے.کیونکہ کسی بھی جگہ کے سربراہ کو اگر اپنے دائرہ اختیار میں اپنے رہنے والوں کے مسائل کا علم نہیں تو وہ تو کامیاب سر براہ نہیں کہلا سکتا.اس لیے بہترین نگران وہی ہے جو اپنے ماحول کے مسائل کو بھی جانتا ہو.یہ قابل فکر بات ہے کہ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے اپنی نگرانی کے دائرے سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں یا آنکھیں بند کر لیتے ہیں.اور اپنی دنیا میں مست رہ کر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں.تو مومن کو، ایک احمدی کو ان باتوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہیے.مومن کے لیے تو یہ حکم ہے کہ دنیا داری کی باتیں تو الگ رہیں ، دین کی خاطر بھی اگر تمہاری مصروفیات ایسی ہیں ، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے تم نے منتقلاً اپنا یہ معمول بنالیا ہے، یہ روٹین بنالی

Page 62

47 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم ہے کہ اپنے گرد و پیش کی خبر ہی نہیں رکھتے ، اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتے ، اپنے ملنے والوں کے حقوق ادا نہیں کرتے ، اپنے معاشرے کی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے تو یہ بھی غلط ہے.اس طرح تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم نہیں ہوتے.بلکہ یہ معیار حاصل کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کر و اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو...بیویوں سے حسن سلوک کی تاکید بعض ایسی شکایات بھی آتی ہیں کہ ایک شخص گھر میں کرسی پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے، پیاس لگی تو بیوی کو آواز دی کہ فریج میں سے پانی یا جوس نکال کر مجھے پلا دو.حالانکہ قریب ہی فریج پڑا ہوا ہے خود نکال کر پی سکتے ہیں.اور اگر بیوی بیچاری اپنے کام کی وجہ سے یا مصروفیت کی وجہ سے یا کسی وجہ سے لیٹ ہو گئی تو پھر اس پر گر جنا، برسنا شروع کر دیا.تو ایک طرف تو یہ دعوی ہے کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور دوسری طرف عمل کیا ہے ، ادنیٰ سے اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کرتے.اور کئی ایسی مثالیں آتی ہیں جو پوچھو تو جواب ہوتا ہے کہ ہمیں تو قرآن میں اجازت ہے عورت کو سرزنش کرنے کی.تو واضح ہو کہ قرآن میں اس طرح کی کوئی ایسی اجازت نہیں ہے.اس طرح آپ اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے قرآن کو بدنام نہ کریں....آج کل دیکھیں ذرا ذرا سی بات پر عورت پر ہاتھ اٹھا لیا جاتا ہے حالانکہ جہاں عورت کو سزا کی اجازت ہے وہاں بہت سی شرائط ہیں اپنی مرضی کی اجازت نہیں ہے.چند شرائط ہیں ان کے ساتھ یہ اجازت ہے.اور شاید ہی کوئی احمدی عورت اس حد تک ہو کہ جہاں اس سزا کی ضرورت پڑے.اس لیے بہانے تلاش کرنے کی بجائے مرد اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور عورتوں کے حقوق ادا کریں.صلہ رحمی کریں...ایک انسان میں جو خصوصیات ہونی چاہئیں خاص طور پر ایک مرد میں جن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے جس سے پاک معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے وہ یہی ہے....کہ صلہ رحمی اور حسن سلوک ، رشتہ داروں کا خیال ، ان کی ضروریات کا خیال ، ان کی تکالیف کو دور کرنے کی کوشش.اب صلہ رحمی بھی بڑا وسیع لفظ ہے اس میں بیوی کے رشتہ داروں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مرد کے اپنے رشتے داروں کے

Page 63

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 48 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہیں.ان سے بھی صلہ رحمی اتنی ہی ضروری ہے جتنی اپنوں سے.اگر یہ عادت پیدا ہو جائے اور دونوں طرف سے صلہ رحمی کے یہ نمونے قائم ہو جائیں تو پھر کیا کبھی اس گھر میں تو تکار ہوسکتی ہے؟ کوئی لڑائی جھگڑا ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں.کیونکہ اکثر جھگڑے ہی اس بات سے ہوتے ہیں کہ ذراسی بات ہوئی یا ماں باپ کی طرف سے کوئی رنجش پیدا ہوئی یا کسی کی ماں نے یا کسی کے باپ نے کوئی بات کہہ دی، اگر مذاق میں ہی کہہ دی اور کسی کو بری لگی تو فوراً ناراض ہو گیا کہ میں تمہاری ماں سے بات نہیں کروں گا ، میں تمہارے باپ سے بات نہیں کروں گا.میں تمہارے بھائی سے بات نہیں کروں گا پھر الزام تراشیاں کہ وہ یہ ہیں اور وہ ہیں تو یہ زودرنجیاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ، یہی پھر بڑے جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں.بیویوں پر ظلم نہ کریں معاشرے میں عورتیں اور مرد زیادہ مکس اپ (Mixup) ہونے لگ گئے ہیں.اس سے کوئی یہ مطلب نہ لے لے کہ عورتوں کی مجلسوں میں بھی بیٹھنے کی اجازت مل گئی ہے اور بیویوں کی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھنے کی بھی کھلی چھٹی مل گئی ہے.خیال رکھنا بالکل اور چیز ہے اور بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ دوستانہ کر لینا بالکل اور چیز ہے.اس سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں.کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ پھر بیوی تو ایک طرف رہ جاتی ہے اور سہیلی جو ہے وہ بیوی کا مقام حاصل کر لیتی ہے.مرد تو پھر اپنی دنیا بسا لیتا ہے لیکن وہ پہلی بیوی بیچاری روتی رہتی ہے.اور یہ حرکت سراسر ظلم ہے اور اس قسم کی اجازت اسلام نے قطعا نہیں دی.کہ دیتے ہیں کہ ہمیں شادی کرنے کی اجازت ہے یہاں ان معاشروں میں خاص طور پر احتیاط کرنی چاہیے.اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں ، اُس بیوی کا بھی خیال رکھیں جس نے ایک لمبا عرصہ تنگی ترشی میں آپ کے ساتھ گزارا ہے.آج یہاں پہنچ کر اگر حالات ٹھیک ہو گئے ہیں تو اس کو دھتکار دیں ، یہ کسی طرح بھی انصاف نہیں ہے.بعض لوگوں کا بیویوں کے متعلق تکلیف دہ رویہ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے اور ایسے معاملات سن کر بڑی تکلیف ہوتی ہے ،طبیعت بعض دفعہ بے چین ہو جاتی ہے کہ ہم میں سے بعض کس طرف چل پڑے ہیں.بیوی کی ساری قربانیاں بھول جاتے ہیں حتی کہ بعض تو اس حد تک کمینگی پر آتے ہیں کہ بیوی سے رقم لے کر اس پر دباؤ ڈال کر اس کے ماں باپ سے رقم وصول کر کے کاروبار کرتے ہیں یا ز بر دستی بیوی کے پیسوں سے خریدے ہوئے مکان میں

Page 64

49 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم اپنا حصہ ڈال لیتے ہیں اور پھر اس کو مستقل دھمکیاں ہوتی ہیں.اور بعض دفعہ تو حیرت ہوتی ہے کہ اچھے بھلے شریف خاندانوں کے لڑکے بھی ایسی حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں.ایسے لوگ کچھ خوف خدا کریں اور اپنی اصلاح کریں.ورنہ یہ واضح ہو کہ نظام جماعت ، اگر نظام کے پاس معاملہ آ جائے تو کبھی ایسے بیہودہ لوگوں کا ساتھ نہیں دیتا، نہ دے گا.اور پھر یہی نہیں کہ لڑکے خود کرتے ہیں بلکہ ایسے لڑکوں کے ماں باپ بھی ان پر دباؤ ڈال کے ایسی حرکتیں کرواتے ہیں.وہ بھی یا درکھیں کہ ان کی بھی بیٹیاں ہیں اور ان سے بھی یہی سلوک ہو سکتا ہے.اور اگر بیٹیاں نہیں ہیں جن کی تکلیف کا احساس ہو، بعضوں کے بیٹے ہوتے ہیں اس لیے ان کو بیٹیوں کی تکلیف کا پتہ ہی نہیں لگتا.تو یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ کو تو جان دینی ہے، اس کے حضور تو حاضر ہونا ہے.بیویوں کا خیال رکھیں آج کل بعض لوگ صرف اس خیال سے بیویوں کا خیال نہیں رکھتے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ بیوی کا غلام ہو گیا ہے.بلکہ حیرت ہوتی ہے بعض لڑکوں کے، مردوں کے بڑے بزرگ رشتہ دار بھی بچوں کو کہہ دیتے ہیں کہ بیوی کے غلام نہ بنو.بجائے اس کے کہ آپس میں ان کی محبت اور سلوک میں اضافہ کرنے کا باعث بنیں.اپنے لیے کچھ اور پسند کر رہے ہوتے ہیں ، دوسروں کے لیے کچھ اور پسند کر رہے ہوتے ہیں.ساس سسر کا رویہ بعض دفع گھروں میں چھوٹی موٹی چپقلشیں ہوتی ہیں ان میں عورتیں بحیثیت ساس کیونکہ ان کی طبیعت ایسی ہوتی ہے وہ کہ دیتی ہیں کہ بہو کو گھر سے نکالو لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب سر بھی ، مرد بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہوئی ہے اپنی بیویوں کی باتوں میں آکر یا خود ہی بہوؤں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں حتی کہ بلاوجہ بہوؤں پہ ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں.پھر بیٹوں کو بھی کہتے ہیں کہ مارو اور اگر مرگئی تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور بیوی لے آئیں گے.اللہ عقل دے ایسے مردوں کو.ان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ الفاظ یا درکھنے چاہئیں کہ ایسے مرد بزدل اور نا مرد ہیں.

Page 65

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 50 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی اپنے بچوں کی عزت کریں....ایک روایت ہے ، حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بچوں کے ساتھ عزت سے پیش آؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو.ابن ماجه ابواب الادب باب بر الوالد) تو اپنے بچوں میں عزت نفس پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی عزت کی جائے اس کو آداب سکھائے جائیں اس کی ایسے رنگ میں تربیت ہو کہ وہ دوسروں کی بھی عزت اور احترام کرنے والا ہو.اس طرح نہ اس کی تربیت کریں کہ اس عزت کی وجہ سے جو آپ اس کی کر رہے ہیں وہ خود سر ہو جائے ، بگڑنا شروع ہو جائے ، اپنے آپ کو دوسروں سے بالا سمجھنے ، دوسروں سے زیادہ سمجھنے لگ جائے اور دوسرے بچوں کو بھی اپنے سے کم تر سمجھے اور بڑوں کا احترام بھی اس کے دل میں نہ ہو.تو تربیت ایسے رنگ میں کی جانی چاہیے کہ اعلیٰ اخلاق بھی بچے کو ساتھ ساتھ آئیں.تو یہ صاحب بھی جو وقف نو بچے کے باپ ہیں اپنی بھی اصلاح کریں تبھی ان کا بچہ وقف نو کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے.(بخاری کتاب الادب) بیٹیوں کی پیدائش پر جنت کی بشارت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو لڑکیوں کے ذریعہ آزمائش میں ڈالے اور وہ ان سے بہتر سلوک کرے وہ اس کے لیے جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی.تو دیکھیں کس قدر خوشخبری ہے ان لوگوں کے لیے جن کی لڑکیاں ہیں.انسان تو گناہگار ہے ہزاروں لغزشیں ہو جاتی ہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے بھی قسم قسم کے راستے بخشش کے رکھے ہیں.تو لڑکیوں پر افسوس کرنے کی بجائے ، جن کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں، ان کو شکر کرنا چاہیے اور ان کی نیک تربیت کرنی چاہیے اور ان کے لیے نیک نصیب کی دعا مانگنی چاہیے لیکن بعض دفعہ ایسے تکلیف دہ واقعات سامنے آتے ہیں کہ بعض لوگ اپنی بیویوں کو صرف اس لیے طلاق دے دیتے ہیں کہ تمہارے ہاں صرف لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں.تو خوف خدا کرنا چاہیے.کیا پستہ انگلی شادی میں بھی لڑکیاں ہی پیدا ہوں.

Page 66

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 51 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی متقی خاندان بننے کے لیے نمازوں کی پابندی کریں اور کروائیں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور رات کو نماز تہجد کی ادائیگی کے لیے اٹھتے اور عبادت کرتے تھے جب طلوع فجر میں تھوڑا سا وقت باقی رہ جاتا تو مجھے بھی جگاتے اور فرماتے تم بھی دور کعت ادا کرلو.(بخاری کتاب الصلوة باب الصلوة خلق القائم ) تو مردوں کی ایک سربراہ کی حیثیت سے یہ بھی ذمہ داری ہے کہ متقی بنے اور متقی خاندان کا سر براہ بننے کے لیے خود بھی نمازوں کی پابندی کریں.رات کو اٹھیں یا کم از کم فجر کی نماز کے لیے تو ضرور اٹھیں، اپنی بیوی بچوں کو بھی اٹھا ئیں.جو گھر اس طرح عبادت گزار افراد سے بھرے ہوں گے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی برکات کو سمیٹنے والے ہوں گے.لیکن یا درکھیں کہ کوشش بھی اس وقت بار آور ہوگی ، اس وقت کامیابیاں ملیں گی کہ جب دعا کے ساتھ یہ کوشش کر رہے ہوں گے.صرف اٹھا کے اور ٹکریں مار کے نہیں بلکہ دعائیں بھی مسلسل کرتے رہیں اپنے لیے، اپنے بیوی بچوں کے لیے.اس لیے اپنی نمازوں میں بھی اپنی بیوی بچوں کے لیے بہت دعائیں کر یں....الفضل اند نیشنل 16 تا 22 جولا ئی 2004ء)

Page 67

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 52 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 9 جولائی 2004ء سے اقتباس * سور کے گوشت والے ہوٹلوں پر ملازمت یا کاروبار نہ کریں...گزشتہ کسی خطبہ میں ، میرا خیال ہے شاید دو ہفتے پہلے، میں نے ایسے لوگوں کو جو ایسی جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں سور کے گوشت کا استعمال ہوتا ہے کہا تھا کہ ایک تو ایسی جگہوں پر کھانے کی احتیاط ہونی چاہیے اور دوسرے ایسے لوگ یہ کام چھوڑ کر کوئی اور کام تلاش کر یں.اس پر ایک شخص نے مجھے لکھا کہ میں نے بعض ریسٹورنٹ لیے ہیں یا ایک ریسٹورنٹ لیا ہے بہر حال اس کے مطابق کیونکہ اس علاقے میں اگر کھانوں میں سور کا گوشت استعمال نہ کیا جائے پھر تو دو کا نداری نہیں چلے گی اور کاروبار نہیں چلے گا اور مختلف صورتوں میں یہ چربی کا گوشت استعمال ہوتا ہے.تو اس نے لکھا اب تو میں یہ خرید بیٹھا ہوں اگر یہ کاروبار میں اس طرح نہ چلاؤں تو اتنا نقصان ہو گا اس لیے اجازت دی جائے.تو جہاں تک اجازت کا سوال ہے وہ تو نہیں میں دے سکتا.باقی یہ بھی ان کا وہم ہے کہ کاروبار نہیں چلے گا ، پکری نہیں ہوگی.اگر نہیں بھی ہوتی تو اس کا روبار کو بیچ کر کوئی اور کاروبار تلاش کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ رزق دینے والا ہے، نیک نیتی سے چھوڑیں گے تو کسی بہتر کام کے سامان پیدا فرما دے گا اور کام میسر آ جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اہم ارشاد اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا واضح ارشاد بلکہ فتوی کہنا چاہیے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس کے بعد میرے خیال میں پھر کوئی عذر نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک مجلس میں امریکہ و یورپ کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر ہورہا تھا، یہ لکھنے والے لکھتے ہیں، تو اسی میں یہ ذکر بھی آ گیا کہ دودھ اور شور بہ وغیرہ جو ٹینوں میں بند ہو کر ولایت سے آتا ہے بہت ہی نفیس اور صاف ستھرا ہوتا ہے اور ایک خوبی ان میں یہ ہوتی ہے کہ ان کو بالکل ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا

Page 68

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 53 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی دودھ تک بھی بذریعہ مشین دوہا جاتا ہے.اس پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: چونکہ نصاری اس وقت ایک قوم ہو گئی ہے جس نے دین کی حدود اور اس کے حلال و حرام کی کوئی پرواہ نہیں رکھی اور کثرت سے سور کا گوشت ان میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر خدا کا نام ہر گز نہیں لیتے بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سر جیسا کہ سنا گیا ہے علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں.اس لیے شبہ پڑسکتا ہے کہ بسکٹ اور دودھ وغیرہ جو ان کے کارخانوں کے بنے ہوئے ہوں ان میں سور کی چربی اور سور کے دودھ کی آمیزش ہو اس لیے ہمارے نزدیک ولایتی بسکٹ اور اس قسم کے دودھ اور شور بے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلاف تقویٰ اور نا جائز ہیں.احمدیوں کو ایک نصیحت اس ضمن میں یہ بتادوں کہ یہاں ہر چیز پر Ingredients لکھے ہوتے ہیں، بعض اوقات چاکلیٹ یا بسکٹ لیتے وقت لوگ احتیاط نہیں کرتے ، یا جیم (Jam) یا اس قسم کی چیزیں لیتے وقت احتیاط نہیں کرتے حالانکہ اس میں واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ اس میں الکوحل ملی ہوئی ہے یا اس میں سور کی چربی ملی ہوئی ہے یا اور کوئی چیز ملی ہوئی ہے، تو پڑھ کے لیا کریں.چونکہ مجھے تجربہ ہوا ہے بعض لوگ تھنے میں بعض دفعہ لے آتے ہیں ، میں احتیاط کرتا ہوں اور میں نے پڑھا تو اس میں الکوحل ملا ہوا تھا، ہر احمدی کو احتیاط کرنی الفضل انٹر نیشنل 23 تا 29 جولائی 2004ء) چاہیے.

Page 69

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 54 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 16 جولائی 2004ء سے اقتباسات * يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ وَتَنَاجَوْا بالبرِّ وَالتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ (سورة المجادله: 10 ) انسان اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی مخلوق ہے جو معاشرتی زندگی گزارے بغیر نہیں رہ سکتی.معاشرتی زندگی کا صرف یہی مطلب نہیں کہ ایک گروہ اور ایک جتھہ اور خاندان بنا کر رہ لینا تا کہ اپنے گروہ یا خاندان کی پہچان ہو جائے.اس طرح کے گروہ تو دوسرے جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں ان میں بھی یہ احساس ہے کہ اگر ا کٹھے رہیں گے جتھہ بنا کر رہیں گے تو دوسرے جانوروں سے بھی محفوظ رہیں گے.اپنے بچوں اور کمزوروں کی حفاظت کے لیے بعض جانور بڑی پلاننگ (Planning) سے ، چلتے ہیں.جانوروں میں خود حفاظتی نظام میں جب گھانا میں تھا وہاں جماعت کا ایک فارم تھا جو کہ جنگل کے اندر دریا کے کنارے واقع تھا اور جنگل کی کچھ صفائی کر کے وہ شروع کیا گیا تھا.وہاں مختلف قسم کے جانور بھی رہتے تھے.ایک دن میں جب فارم پر گیا تو جو ہمارے وہاں کام کرنے والے تھے، کارندے تھے ، انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم صبح صبح فارم کی طرف جارہے تھے جب ہم جنگل کے سرے پہ پہنچے جہاں سے فارم شروع ہوتا ہے تو دیکھا کہ چیمپینز یز ( بندروں کی ایک قسم ہے ) ان کا ایک گروہ، بہت بڑا غول وہاں کنارے پر بیٹھا تھا اور جب انہوں نے آدمیوں کی آواز میں سنیں تو دوڑ لگائی اور جب دوڑنے لگے تو پتہ لگا کہ ان میں سے کچھ کمزور بھی ہیں کچھ بڑی عمر کے بوڑھے بھی لگ رہے تھے اور کچھ بچے بھی ، تو کیونکہ ان کو اگلے جنگل میں پہنچنے کے لیے میدان سے گزرنا پڑتا تھا یعنی فارم سے تو ان کو بڑا گر وہ نظر آیا تو انہوں نے بھی دیکھا کہ یہ کھلے عام ہیں اور ڈر کے دوڑے ہیں تو پھر آدمی میں بھی تھوڑی سی جرات پیدا ہو جاتی ہے، چار پانچ آدمی تھے

Page 70

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 55 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی ان کے ساتھ ایک کتا تھا، انہوں نے پیچھے دوڑ لگائی تو کہتے ہیں کہ جب وہ کتا جو ان سے آگے آگے دوڑ رہا تھا ان بندروں کے قریب پہنچ گیا تو ان میں سے ایک صحتمند اور پہلوان قسم کا بندر تھا جو اس گروہ کے پیچھے چل رہا تھا جو شاید ان کی حفاظت کے لیے لگایا گیا ہو تو اس نے جب دیکھا کہ اتنے قریب کتا پہنچ گیا ہے تو وہ آرام سے بیٹھ گیا جس طرح ایک پہلوان بیٹھتا ہے، ٹانگوں پہ ہاتھ رکھ کے اور باقی گروہ دوڑتا چلا گیا.تو جب کتا اس کے قریب آیا تو اس نے اس زور کا اور جچا تلا انسان کی طرح اس کے تھپڑ مارا ہے کہ وہ کتا چیختا ہوا کئی لڑھکنیاں کھاتا چلا گیا.پھر اس نے انتظار کیا کہ کوئی اور بھی آئے جب اس نے دیکھ لیا کہ میرے لوگ محفوظ ہو گئے ہیں تو پھر وہ بھی اس گروہ میں شامل ہو گیا.تو یہ حفاظت کا یا اپنی خود حفاظتی کا جو نظام ہے اللہ تعالیٰ نے ہر جانور میں رکھا ہوا ہے ، اپنے اپنے لحاظ سے جو ہر ایک کی سمجھ بوجھ ہے کچھ ایسے جانور بھی ہیں جو سکھائے بھی جاتے ہیں لیکن بہر حال ان کا ایک محدود دائرہ ہے.اور اسی کے اندر وہ رہ سکتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں رکھا ہے اس حد تک ہی وہ کام کر سکتے ہیں ان میں کوئی آداب یا تمیز یا اس قسم کی دوسری یعنی اخلاق وغیرہ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی.انہوں نے تو وہی کچھ کرنا ہے جیسا کہ میں نے کہا جو ان کی فطرت میں ہے.لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے.کہ معاشرے میں رہو، اکٹھے ہو کے رہو مختلف قوموں اور خاندانوں میں تقسیم بھی کیا ہے لیکن ساتھ ہی فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرو اور اس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کر و.اخلاق کے اعلیٰ معیار بھی قائم کرو اور ان میں ترقی کرتے چلے جاؤ.کیونکہ ایک وسیع میدان ہے جو کھلا ہے.اسی طرح روحانیت میں بھی ترقی کرو اپنے دماغوں کو بھی استعمال کرو اور پھر اس کے ذریعے سے ان کو محنت کے ذریعے مزید چمکاتے چلے جاؤ.تو بہر حال اس معاشرے میں رہنے کے لیے اپنے ساتھی انسانوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم نے جن اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے ان میں سے ایک خلق مجالس کے حقوق بھی ہیں.مجالس کے آداب ایک احمدی کو روحانیت سے بھی حصہ ملا ہے اسے اس خلق کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر بہت توجہ دینی چاہیے.پھر مجالس کی بھی کئی قسمیں ہیں کچھ مجلسیں دنیا داری کے لیے لگتی ہیں اور کچھ مجلسیں دین کی

Page 71

مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم 56 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی خاطر ہوتی ہیں.لیکن ایک مومن کے لیے دنیا وی مجالس بھی اگر وہ اللہ تعالیٰ کے خوف ، خشیت اور تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے لگائی جائیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی بن جاتی ہیں.قرآن کریم میں مجلسیں لگانے والوں کے لیے مختلف انداز میں نصیحت کی گئی ہے.کہیں فرمایا کہ تمہاری مجلسیں دینی غرض کے لیے ہوں یا دنیاوی غرض کے لیے ہوں، دنیاوی منفعت کے لیے ہوں ، جو بھی مجالس ہوں ، ہمیشہ یادرکھو ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھو.اگر تم میرے بندے ہو تو تمہارے منہ سے صرف اچھی بات ہی نکلنی چاہیے.ہمیشہ يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَن کا ہی حکم ہے.کیونکہ اگر یہ نہیں کرو گے تو تمہارے معاشرے میں، تمہاری مجالس میں ہمیشہ شیطان فساد پیدا کرتا رہے گا.اور یا درکھو کہ شیطان کی فطرت میں ہے کہ اس نے تمہاری دشمنی کرنی ہی کرنی ہے.اس لیے تمہیں چاہیے کہ اپنے گھر میں، اپنی بیوی بچوں کے ساتھ مجلس لگا کر بیٹھے ہو یا اپنے خاندان کے کسی فنکشن (Function) میں اکٹھے ہو یا کاروباری مجلس میں ہو یا دینی مجلس میں ہو.ذیلی تنظیموں کے اجلاسوں میں ہو یا اجتماعات میں ہو، جہاں بھی تم ہو کوئی ایسی بات کرو گے جو دل کو جلانے والی ہو ، کسی بھی قسم کی طنزیہ بات ہو یا تم اس مجلس کے آداب اور اصولوں کی پابندی نہیں کر رہے تو ضرور وہاں فساد پیدا ہو گا.اور شیطان یہی چاہتا ہے.اس لیے اگر تم صحیح مومن ہو تو اپنی زبان سے اور اپنے عمل سے اس فساد سے بچنے کی کوشش کرتے رہو.مشورے مرکز کی اطاعت میں ہوں شیطان کیونکہ مومنوں پر مختلف طریقوں سے حملہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے.اس لیے جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں فرمایا کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو جب تم باہم خفیہ مشورے کرو تو گناہ ،سرکشی اور رسول کی نافرمانی پرمبنی مشورے نہ کیا کرو، ہاں نیکی اور تقویٰ کے بارے میں مشورے کیا کرو اور اللہ سے ڈرو جس کے حضور تم اکٹھے کئے جاؤ گے.دیکھیں اس میں مخاطب مومنوں کو کیا گیا ہے کہ انسان اپنے مسائل کے حل کے لیے ایک دوسرے سے مشورے لیتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں.پھر اپنی رائے میں مضبوطی پیدا کرنے کے لیے اور لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں تو فرمایا کہ اس صورت میں یہ ہمیشہ یاد رکھو کہ تمہارے مشورے چاہے تمہارے حقوق کی حفاظت کے لیے ہوں یا تمہارے خیال میں نظام میں درستی کے لیے، ان میں کبھی گناہ ، سرکشی اور رسول کی نافرمانی کرنے والے مشورے نہ ہوں ،

Page 72

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 57 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں کہ شیطان اس کوشش میں ہوتا ہے کہ کوئی فساد پیدا کرے اس لیے بعض دفعہ بعض لوگ اس لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور آپس میں بیٹھ کر مشورے شروع ہو جاتے ہیں کہ جماعت کا یہ کام اس طرح نہیں ہونا چاہیے جس طرح امیر کہہ رہا ہے یا مرکزی عاملہ کہ رہی ہے یا بعض دفعہ مرکز کہہ رہا ہے بلکہ اس طرح ہونا چاہیے جس طرح ہم کہہ رہے ہیں کیونکہ ہم موقع پر موجود ہیں ، ان لوگوں کو کیا پتہ کہ یہ کام کس طرح کرنا ہے تو یہ جو مشورے ہیں، یہ جومجلسیں ہیں جہاں اس قسم کی باتیں ہو رہی ہیں چاہے تم بد نیتی سے نہیں بھی کر رہے تو تب بھی یہ خدا اور رسول کی نافرمانی کے زمرے میں آئیں گی اس لیے کہ جب نظام نے تمہیں واضح طور پر ایک لائن دے دی کہ ان پر چل کر کام کرنا ہے تو تمہارا فرض بنتا ہے کہ ان پر چل کر ہی کام کرو اس کے بارے میں اب علیحدہ بیٹھ کر چند آدمیوں کو لے کر مجلسیں بنا کر باتیں کرنے اور امیر کے احکامات سے روگردانی کرنے کا اب کوئی حق نہیں پہنچتا.اگر نقص دیکھو تو امیر کو یا متعلقہ شعبہ کو یا خلیفہ وقت کو اطلاع کر دو اور بس.اس کے بعد ایک عام احمدی کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے.پھر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کاموں میں برکت ڈالے تا کہ نظام جماعت پر کوئی زدنہ آئے.اور مشورے کرنے ہیں تو اس بات پر کریں کہ اس میں جو سقم ہے ان کو اس دیئے ہوئے دائرے کے اندر جو ان لوگوں کو دیا گیا ہے کس طرح سقم دور کر سکتے ہیں اور جماعت کی بہتری کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں.اگر اس طرح نہیں کر رہے تو پھر سمجھیں کہ شیطان کے قبضے میں آگئے ہیں اور تقوی سے دور ہو گئے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس بارے میں پوچھے جاؤ گے.تو یہاں بعض دفعہ نظام بھی ایکشن لیتا ہے ایسے لوگوں کے خلاف ، اور اگلے جہان کے بارے میں تو اللہ میاں نے کہہ دیا کہ مجھ سے ڈرو....لغو مجالس میں شریک نہ ہوں تو یہاں بھی مختلف قسم کے لوگ ہیں مختلف ملکوں سے آئے ہوئے ہیں ان یورپین ممالک میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی آجکل تو معاشرہ اتنا مکس اپ (Mixup) ہو گیا ہے، آپ سے تعلق بھی بنتے ہیں، رابطے بھی ہوتے ہیں تو ایسے رابطوں کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ایسی دوستیاں اب قائم ہو جائیں اور دوستیاں بڑھانے کی خاطر ان لوگوں کی ہر قسم کی فضول مجلسوں میں بھی شامل ہوا جائے.جیسا کہ حدیث میں آیا کہ جہاں مزاج کے مطابق بات نہ ہو.اس مجلس سے اٹھ جانا چاہیے.جہاں صرف شور شرابا اور بہو ہا ہورہا

Page 73

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 58 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی ہے.بلا وجہ غل غپاڑا مچایا جارہا ہے.یہاں نوجوانوں میں اکثر بلا وجہ شور مچانے کی عادت ہے.پھر غلط قسم کی لڑکوں اور لڑکیوں کی دوستیاں ہیں تو ان سے ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ بچیں ان لوگوں میں تو یہ عادت اس وجہ سے بھی ہے کہ ان کو دین کا پتہ کچھ نہیں، ان کا دین کا خانہ خالی ہے.ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مزے کا نہیں پتہ، اس لیے وہ اپنی باتوں میں، اس شور شرابے میں ، سکون اور سرور تلاش کر رہے ہوتے ہیں.مگر ہمارے نو جوانوں کو ہمارے لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ سے ملنے کے راستے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانے میں سکھا دیئے ہیں.اس لیے ہمیشہ ایسی مجلسیں جو لہو ولعب کی مجلسیں ہوں، فضول قسم کی مجلسیں ہوں اور تاش اور ناچ گانے وغیرہ کی مجلسیں ہوں ، شراب وغیرہ کی مجلسیں ہوں ، ان سے بچتے رہنا چاہیے.اگر انسانیت کی ہمدردی ہے تو یہ کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ ان لوگوں کو بھی ان چیزوں سے بچانے کے لیے صحت مند کھیلوں کی طرف لائیں.لیکن ان سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں.جن دو مجالس کا میں نے ذکر کیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ کس قسم کی مجالس ہیں جن میں ہمیں بیٹھنا چاہیے.اور مجالس کے حقوق کیا ہیں اور آداب کیا ہیں.ایک روایت میں آتا ہے، ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجالس تین قسم کی ہوتی ہیں.سلامتی والی ، غنیمت والی یعنی زائد فائدہ دینے والی اور ہلاک کرنے دینے والی مجالس“.(مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری) تو جیسا کہ پہلے بھی ذکر گزر چکا ہے کہ ایسی مجلسوں سے ہمیشہ بچنا چاہیے جو دین سے دور لے جانے والی ہوں ، جو صرف کھیل کود میں مبتلا کرنے والی ہوں.ایسی مجلسیں جو اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی مجلسیں ہیں وہ یہی نہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ سے دور لے جاتی ہیں بلکہ بعض دفعہ مکمل طور پر، بعض دفعہ کیا یقینی طور پر انسان کی ہلاکت کا سامان پیدا کر دیتی ہیں.اس لیے ہمیشہ ایسی مجالس کی تلاش رہنی چاہیے جہاں سے امن وسکون اور سلامتی ملتی ہو.سلامتی والی مجالس تو سلامتی والی مجالس کیسی ہیں.اس بارے میں ایک روایت ہے.حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم نشیں کیسے ہوں.کن لوگوں کی مجلس میں ہم

Page 74

59 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم بیٹھیں.اس پر آپ نے فرمایا مَنْ ذَكَرَكُمُ اللَّهَ رُؤْيَتُهُ وَزَادَ فِي عِلْمِكُمْ مَنْطِقُهُ وَذَكَّرَ كُمْ بِالآخِرَةِ عَمَلُهُ ، یعنی ان لوگوں کی مجلس میں بیٹھو جن کو دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے اور جن کی گفتگو سے تمہارا دینی علم بڑھے اور جن کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے.(ترغیب) تو ایسی مجالس سے ہی سلامتی ملتی ہے جہاں ایسے لوگ ہوں جہاں خدا کا ذکر ہورہا ہو، اس کے دین کی عظمت کی باتیں ہورہی ہوں.ایسے مسائل پیش کئے جار ہے ہوں اور ایسی دلیلیں دی جارہی ہوں جن سے انسان کا اپنا دینی علم بھی بڑھے اور دعوت الی اللہ کے لیے دلائل بھی میسر آئیں.اور قرآن کریم کا عرفان بھی حاصل ہورہا ہو.اور ایسی باتیں ہوں جن سے صرف اس دنیا کی چکا چوند ہی نہ دکھائی دے بلکہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس دنیا کو چھوڑ کر بھی جاتا ہے.اس لیے ایسے عمل ہونے چاہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہوں.مجالس کے بعض بنیادی اور اہم آداب پھر ایک روایت میں آتا ہے.ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی قوم مسجد میں کتاب اللہ کی تلاوت اور باہم درس و تدریس کے لیے بیٹھی ہو تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے.رحمت باری ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے جلو میں لے لیتے ہیں.(سنن الترمذى كتاب القراء ت باب ما جاء ان القرآن انزل على سبعة أحرف) تو ایسی نیک مجالس ہیں جو سلامتی کی مجلسیں ہیں.ان میں عام گھریلو مجالس ، اجتماعات ، اور جلسے بھی ہو سکتے ہیں.جلسوں میں ذکر الہی کرتے رہیں جماعت احمد یہ خوش قسمت ہے کہ اس میں ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کی وجہ سے اس قسم کے مواقع میسر آتے رہتے ہیں.اب انشاء اللہ تعالیٰ یہاں کا جلسہ بھی آنے والا ہے اس سے بھی بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے تا کہ ہر طرف سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی بارش ہم پر پڑتی رہے.ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں اور وہاں ذکر الہی نہیں کرتے وہ اپنی اس مجلس کو قیامت کے روز حسرت سے دیکھیں گے.(مسند احمد مسند المكثرين من الصحابة)

Page 75

60 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم تو ایسے لوگ جن کو ایسے مواقع بھی مل جاتے ہیں سفر کر کے خرچ کر کے جلسے پر بھی آتے ہیں.لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنی مجلسیں جما کر ہنسی ٹھٹھے اور گپیں مار کر چلے جاتے ہیں.ان کو سوچنا چاہیے اور اس حدیث کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے اس لیے جو بھی جلسے پر آنے والے ہیں اس نیت سے آئیں کہ ان دنوں میں خاص طور پر اپنی زبانوں کو ذکر الہی سے تر رکھیں گے.پھر ایک روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کچھ لوگ اکٹھے ہوں اور بغیر اللہ کا ذکر کئے الگ ہو جائیں تو ضرور ان کا حال ایسا ہی ہے گویا کہ وہ مردہ گدھے کے پاس سے واپس آرہے ہیں.اور ان کی مجلس ان کے لیے افسوسناک بات بن جائے گی.(مسند احمد باقی مسند المكثرين باقی مسند السابق) گویا ایسی مجالس جو ہوں تو دینی اغراض کے لیے لیکن ان کی برکات سے فیضیاب نہ ہور ہے ہوں ، ان سے فائدہ نہ اٹھا ر ہے ہوں اور اپنی علیحدہ مجلسیں لگانے کی وجہ سے ان کا یہ حال ہورہا ہے کہ بجائے اس کے کہ ان دینی مجالس سے فائدہ اٹھائیں.جہاں اللہ اور رسول کا ذکر ہو رہا ہے الٹا مردار کی بد بولے کر واپس جا رہے ہوتے ہیں، یعنی بجائے فائدے کے نقصان اٹھا رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس سے بچائے.....پھر آجکل گرمیوں میں اب یہاں بھی کافی گرمی ہونے لگ گئی ہے، پسینہ کافی آتا ہے تو خاص طور پر یہ اہتمام ہونا چاہیے کہ ( بیوت الذکر ) میں یہاں کیونکہ قالین بھی بچھے ہوتے ہیں اس لیے جرابوں کی صفائی کا ضرور خیال رکھنا چاہیے.روزانہ دھلی ہوئی جراب پہنی چاہیے.تا کہ مجلس میں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ ( کئی قسم کی طبائع کے لوگ ہوتے ہیں ) بھی برا نہ منائیں.مجالس کے آداب کے ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ایک حدیث میں روایت اس طرح ہے یقینا اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو نا پسند کرتا ہے.پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو الحمد للہ کہے اور ہر وہ شخص جو الحمد للہ کی آواز سنے اسے چاہیے کہ وہ کہے يَرْحَمُكَ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے.جہاں تک جمائی کا تعلق ہے کہ جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے دبانے کی کوشش کرے، بعض لوگ تو نہیں دبا سکتے لیکن کوشش یہ کرنی

Page 76

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 61 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی چاہیے کہ دبائی جائے.لیکن کم از کم یہ ضرور ہو فر مایا کہ، منہ کھول کر ہاہا نہ کرے.کیونکہ جمائی شیطان کی طرف سے آتی ہے.یعنی ستی کا موجب ہوتی ہے اور وہ اس کے آنے پر ہنستا ہے.(ترمذی ابواب الاستیذان والادب باب ماجاء ان الله يحب العطاس ويكره التثاوب) تو بعض لوگ مجلس میں بیٹھے ہوتے ہیں، جمائی آگئی ، دبانا تو کیا منہ پر ہاتھ بھی نہیں رکھتے اور پھر ساتھ بازو پھیلا کے انگڑائی بھی ایسی لیتے ہیں کہ بعض دفعہ باز وجو پھیلتا ہے تو ساتھ والے شخص کے کہیں نہ کہیں ناک منہ پر لگ جاتا ہے اور بچے بڑوں کی یہ عادت دیکھتے ہیں تو بچے بھی ( وقف نو کلاس میں میں نے ذکر بھی کیا تھا) اس کا خیال نہیں رکھتے.ہمیشہ منہ پہ ہاتھ رکھیں اور ضروری نہیں کہ ساتھ انگڑائی بھی لی جائے.اور بعض لوگ تو میں نے دیکھا ہے ( بیت الذکر ) میں نماز پڑھتے ہوئے ایسی زور سے جمائی لیتے ہیں تو آوازیں نکالتے ہیں.یہاں تو ہاہا ہے لیکن وہ تو ہائے وائے کی آوازیں نکل رہی ہوتی ہیں.بعض دفعہ شک پڑ جاتا ہے کہ کسی کو کچھ ہو نہ گیا ہو.تو نماز پڑھتے وقت کم از کم احتیاط کرنی چاہیے.مجالس کے آداب اور اس کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ جب مجلس میں بیٹھیں تو مجلس میں اگر بات کر رہے ہیں تو اس طرح کریں کہ سب سن رہے ہوں.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو افراد اپنے تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر آپس میں کھسر پھر نہ کریں کیونکہ ایسا کرنا تیسرے شخص کو رنجیدہ کر دے گا.تو بعض دفعہ یہ رنجیدگی بعض طبائع کی وجہ سے لڑائیوں اور جھگڑوں کی وجہ بن جاتی ہے.بدظنیوں کی وجہ بن جاتی ہے تو ہمیشہ مجلسوں میں اس طرح کرنے سے بچنا چاہیے اور اگر کسی سے انتہائی ضروری بات کرنی بھی ہے تو جو ساتھ بیٹھا ہوا شخص ہے اس سے اجازت لے کر کہ میں فلاں شخص سے فلاں ضروری بات کرنا چاہتا ہوں ایک طرف لے جا کے کرنی چاہیے تا کہ کسی بھی قسم کی بدظنی پیدا نہ ہو کیونکہ شیطان جو ہے ہر وقت اس تاک میں ہے کہ کسی طرح فساد پیدا کرے.ایک روایت میں آتا ہے ایسے لوگوں کے بارے میں جو رستوں پر مجلسیں جما کے بیٹھ جاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رستوں پر بیٹھنے سے بچو، اس پر صحابہ نے عرض کی کہ ہمیں رستوں پر مجلسیں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں، وہاں بیٹھ کر ہم باتیں کرتے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ابو داؤد کتاب الادب)

Page 77

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 62 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی نے فرمایا اگر تم راستوں پر نہ بیٹھنے سے انکار کرتے ہو یعنی اس کے علاوہ کوئی چارا نہیں ہے تو پھر رستے کو اس کا حق دو.اس پر صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! راستے کا کیا حق ہے.تو آپ نے فرما یا غفض بصر سے کام لینا.پھر اپنی آنکھیں نیچی رکھو، ہر ایک کو دیکھتے نہ رہو.اور تکلیف دہ چیزوں کو دور کرنا.وہاں بیٹھے ہوئے بازار میں کوئی تکلیف دہ چیز دیکھو یا سڑک پر تو اس کو ہٹانے کی کوشش کر وہ بعض لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں ان میں بھی صلح و صفائی کرانے کی کوشش کرو.پھر سلام کا جواب دینا، نیک باتوں کا حکم دینا.اگر کہیں بری بات دیکھو تو پیار سے سمجھاؤ.اور نا پسندیدہ باتوں سے منع کرنا.(ابوداؤد کتاب الادب ) راستے کی مجلسیں لگانے والوں کو فرمایا کہ اگر ایسی مجبوری ہے کہ تم اس کو چھوڑ نہیں سکتے تو یہ جو باتیں گنوائی گئی ہیں اس حدیث میں تو ان کی طرف توجہ دو اور یہ راستے کے حق ہیں اور ان کو ادا کر و تب تم راستے میں مجلس لگانے کا حق ادا کر رہے ہو گے.نہیں تو پھر کوئی حق نہیں پہنچتا کہ مجلسیں لگاؤ.پھر مجلس میں بیٹھنے کے آداب ہیں بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اس طرح بیٹھے ہیں ایسا زاویہ ہوتا ہے کہ دائیں بائیں ( اگر کہیں رش ہے تو ) کوئی دوسرا بیٹھ نہ سکے ، باوجود اس کے کہ جگہ ہوسکتی ہے.تو ایسی مجالس میں جہاں رش کا زیادہ امکان ہو ہمیشہ اس طریق سے بیٹھنا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے جگہ بنا سکے، اس سے وسعت قلبی بھی پیدا ہوتی ہے اور ایک مومن کی یہی شان ہے کہ اپنے دل کو وسیع کرے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین مجالس وہ ہیں جو کشادہ ہوں“.(ابوداؤ د کتاب الادب ) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تو ہر فعل اور آپ کا ہر خلق قرآن کریم کے مطابق تھا تو یہ بھی تَفَسَّحُوْا فِي الْمَجَالِسِ کی ہی تشریح ہے کیونکہ اگر یہ کشادگی پیدا ہوگی اور خوش دلی سے جگہ کو کشادہ کرو گے تو آپس میں محبت اور اخوت بھی بڑھے گی.اور اس وجہ سے شیطان تمہارے اندر رنجشیں پیدا نہیں کر سکے گا بلکہ تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہو گے.مجالس میں بیٹھنے کے ضمن میں ایک روایت میں آتا ہے کہ تم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے اس غرض سے نہ اٹھائے کہ تا وہ خود اس جگہ بیٹھے.وسعت قلبی سے کام لو اور کھل کر بیٹھو.چنانچہ ابن عمر کا طریق تھا کہ جب کوئی آدمی آپ کو جگہ دینے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھتا تو آپ اس کی جگہ پر نہ بیٹھتے.(بخاری کتاب الاستيذان باب اذا قيل لكم تفسحوا في المجالس)

Page 78

63 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم خود تو ہر مومن کو یہی چاہیے کہ دوسرے کا خیال رکھے اور اپنے بھائی کو بیٹھنے کے لیے جگہ دے لیکن کسی دوسرے آنے والے کا حق نہیں بنتا کہ زبر دستی کسی کو اٹھائے کہ یہ جگہ میرے لیے خالی کرو.یہ بھی مجلس کے آداب کے خلاف ہے اور اس بیٹھنے والے کے حق کے خلاف ہے سوائے اس کے کہ جہاں اجازت ہے، ایسی مجالس میں جہاں مجبوری ہو اٹھانے کے لیے کہا جائے.وہ تو قرآن شریف میں بھی حکم آیا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اگر مجلسوں میں تمہیں کہا جائے کہ کشادہ ہو کر بیٹھو یعنی دوسروں کو جگہ دو تو جلد جگہ کشادہ کر دوتا دوسرے بیٹھیں اور کہا جائے کہ تم اٹھ جاؤ تو بغیر چون و چرا کے اٹھ جاؤ.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد نمبر ۱۰ صفحه ۳۳۶) تو جہاں قرآن کریم میں یہ کشادگی کا حکم ہے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ اگر مجلس سے اٹھایا جائے اور انتظامیہ اگر کہے کسی وجہ سے کہ یہاں سے بعض لوگ چلے جائیں ، اٹھ جائیں، تو اٹھ جایا کرو.کیونکہ بعض مجالس مخصوص ہوتی ہیں ان میں ہر ایک کو بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی.تو یہاں بھی ہر احمدی کو کھلے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے.بعض دفعہ شکایات آجاتی ہیں کہ فلاں عہدیدار نے فلاں مجلس میں مجھے اٹھا دیا یا میرے فلاں بزرگ کو اٹھا دیا.تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر شکوہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ نظام ہے اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے.مومن کا شیوہ نہیں ہے کہ ایسی باتوں کا شکوہ کرے.پھر بعض مجالس ایسی ہیں مثلاً انتخاب وغیرہ میں بھی بعض لوگ حسب قواعد نہیں بیٹھ سکتے ، ان میں بعض کمیاں ہوتی ہیں تو اس پر شکوے بھی نہیں کرنے چاہییں.بڑی خاموشی سے چلے جانا چاہیے.یا پھر جو ذمہ داریاں ہیں ان کو پورا ادا کرنا چاہیے.وہ قواعد جن کی پابندی ضروری ہے اور جماعت نے مقرر کئے ہیں وہ کرنے چاہیں.اگر قواعد پر عمل نہیں کیا پھر شکوے بھی نہ کریں.یہ بھی اس مجلس کا حق ہے کہ اگر اٹھایا جائے تو اٹھ جائیں.مجلس میں جگہ دینے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر خیال فرماتے تھے.اس کا اظہار ایک روایت سے ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا ، حضور علیہ السلام اسے جگہ دینے کے لیے اپنی جگہ سے کچھ ہٹ گئے.وہ شخص کہنے لگا حضور جگہ بہت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں تکلیف فرماتے ہیں.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان کا

Page 79

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 64 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی حق ہے کہ اس کے لیے اس کا بھائی سمٹ کر بیٹھے اور اسے جگہ دے.بیهقی فی شعب الايمان - مشکواۃ باب القيام) تو دیکھیں جب ہمارے آقا و مطاع اپنے عمل سے یہ دکھا رہے ہیں تو ہمیں کس قدر ان باتوں پر عمل کرنا چاہیے.بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مجلس میں آجائے تو بعض لوگ اور زیادہ چوڑے ہو کے اور پھیل کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہمارے بیٹھنے میں تنگی نہ ہو.جلسے کے دنوں میں خاص طور پہ جو مہمان آرہے ہیں اور یہاں والے بھی سن رہے ہیں، انشاء اللہ بہت سارے لوگ ہوں گے اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ بعض دفعہ جگہ کی تنگی ہو جاتی ہے.انتظامیہ کے اندازے بالکل ختم ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں دوسروں کو ضرور جگہ دینی چاہیے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا جب کوئی آدمی جلسہ گاہ یا مسجد وغیرہ کے لیے اپنی جگہ سے اٹھے تو واپس آنے پر وہ اس جگہ کا زیادہ حق دار ہوتا ہے.(صحیح مسلم کتاب السلام باب اذا قام من مجلسه ثم عاد فهو احق به) تو بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے، وہ اس تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ فلاں جگہ اگر خالی ہو تو میں جا کر بیٹھوں یا بعض دفعہ کسی مجلس میں کسی کی کوئی پسندیدہ شخصیت یا کوئی دوست وغیرہ ہو تو اس کے اردگرد اگر جگہ نہیں ہوتی تو اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے بھی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح حاصل کیا جائے.تو جب بھی موقع ملے کوئی جگہ خالی ہو چاہے کوئی عارضی طور پر پانی پینے کے لیے وہاں سے اٹھا ہو، کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہاں پہ بیٹھ جایا جائے.اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ چاہے یہ دینی مجالس ہیں یا دعوتوں وغیرہ پر آپ اکٹھے ہوئے ہوئے ہیں یا کہیں بھی بیٹھے ہوتے ہیں.جو کسی کام سے عارضی طور پر اٹھ کر اپنی جگہ سے گیا ہے تو یہ اُسی کی جگہ ہے کسی دوسرے کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کی جگہ پر بیٹھ جائے.یہ بڑی غلط چیز ہے.اور اگر وہ واپس آئے اور آپ ایک دومنٹ کے لیے بیٹھ بھی گئے ہیں تو فوراً اٹھ کر اس کو جگہ دینی چاہیے.ایک روایت میں آتا ہے ابن عبدہ اپنے والد اور دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص مجلس میں آکر دو افراد کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے.(ابوداؤد کتاب الادب)

Page 80

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 65 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی یہ بھی ایک بہت بری عادت ہے کہ جہاں جگہ دیکھی فوراً آ کے بیٹھ گئے.اول تو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اگر تین کرسیاں پڑی ہیں تو جو ساتھ جڑی ہوئی کرسیاں ہیں ان پر بیٹھیں تا کہ تیسر الشخص بھی آئے بیٹھ سکے.اور اگر کسی وجہ سے خالی پڑی ہے تو آنے والے کو پوچھنا چاہیے.تو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو بنیادی اخلاق ہیں اور ہر احمدی میں ان کا موجود ہونا ضروری ہے.مجالس امانت ہیں مجالس کے بارے میں یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ مجالس امانت ہوتی ہیں.یعنی جس مجلس میں بیٹھے ہیں اگر وہ پرائیویٹ ہے یا کسی خاص قسم کی مجلس ہے تو اس میں ہونے والی باتوں کو باہر نکالنے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا.وسیع مجلس یا جلسہ وغیرہ کی اور بات ہے.جو پرائیویٹ مجالس ہیں اگر کوئی خاص باتیں ہو رہی ہیں تو سننے والوں کو انہیں باہر نہیں نکالنا چاہیے.اسی طرح دفتری عہدیداران کو بھی یا کارکنوں کو بھی دفتر میں ہونے والی باتوں کو کبھی باہر نہیں نکالنا چاہیے.پھر مختلف ذیلی تنظیمیں ہیں ، جماعتی کارکنان ہیں ان کو بھی اپنے رازوں کو راز رکھنا چاہیے.یہ بھی مجلس کا حق ہے اور ایک امانت ہے.اس کو کسی طرح بھی باہر نہیں نکلنا چاہیے.الفضل انٹرنیشنل 30 جولائی تا 12 اگست 2004ء)

Page 81

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 66 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جولائی 2004ء سے اقتباسات * آج سے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمد یہ انگلستان کا 38 واں جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.آپ سب لوگ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاطر یہ تین دن گزار نے کے لیے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں.اللہ کرے کہ آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق اُن مقاصد کو حاصل کرنے والے ہوں جو ان جلسوں کے ہیں.جلسہ سالانہ کے مقاصد پہلی بات تو یہ یا درکھو کہ میری بیعت میں داخل ہو کر تمہارے اندر سے، تمہارے دل میں سے دنیا کی صحبت نکل جانی چاہیے.اگر یہ نہ نکال سکو تو تمہارا بیعت کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوا.اگر دنیا کے کارو بار تمہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے روکتے ہیں.تمہاری ملازمتیں تمہاری تجارتیں حقوق اللہ کی ادائیگی میں روک ہیں.تمہارے کا روبارہ تمہاری انائیں تمہاری دنیاوی عزتیں ، شہر تیں ،تمہارے پر جو اللہ کی مخلوق کے حقوق ہیں ان کی راہ میں روک بن رہی ہیں تو پھر تمہارا میری جماعت میں شامل ہونے کا مقصد پورا نہیں ہوتا.پھر اللہ تعالیٰ کی محبت ، حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایک اہم تبدیلی جو تمہیں اپنے اندر پیدا کرنی ہوگی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے، آپ سے محبت دنیا کی تمام محبتوں سے بڑھ کر ہونی چاہیے کیونکہ اب اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے تمام راستے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فنا ہونے سے ہی ملیں گے ، آپ کے پیچھے چلنے سے ہی ملیں گے ، آپ کے احکام پر عمل کرنے سے ہی ملیں گے، آپ کی سنت پر عمل کرنے سے ہی ملیں گے.اس لیے اس محبت کو اپنے پر غالب کرو کیونکہ فرمایا کہ میں تو خود اس محبوب کا عاشق ہوں.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ تم میری بیعت میں شامل

Page 82

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 67 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی ہونے والے شمار ہوا اور پھر میرے پیارے سے تمہیں محبت نہ ہو، وہ محبت نہ ہو جو مجھے ہے یا جس طرح مجھے ہے.پھر فرمایا کہ دنیا کی اس چکا چوند سے تمہیں کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے.تمہارے یہ مقاصد ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لیے اللہ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرو.اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرو.اللہ کی مخلوق کے حقوق ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی ادائیگی میں اس قدر کھوئے جاؤ کہ تمہیں یہ احساس ہو کہ یہ سب کچھ تم اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں کر رہے ہو.جب یہ حالت ہوگی تو تم ان لوگوں کی طرح کف افسوس نہیں مل رہے ہو گے جو بستر مرگ ،موت کے بستر پر بڑی بیچارگی اور پریشانی سے یہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں کہ کاش ہم نے بھی زندگی میں کوئی نیک کام کیا ہوتا ، اللہ تعالیٰ کی عبادت ، خالص اس کی عبادت کرتے ہوئے کی ہوتی.بہت سے لوگ بیعت کرنے کے بعد اپنے کاروبار زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں اور کاروبار زندگی میں مصروف ہونا بھی منع نہیں بلکہ ضروری ہے کہ انسان اپنے اور اپنے بیوی بچوں کی جائز ضروریات پوری کرنے کے سامان پیدا کرے.لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیشہ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ہی تمام کام کرنے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنے کے لیے بھی کوشش کرنی ہے تا کہ، جیسا کہ پہلے ذکر کر آیا ہوں ، بیعت کے مقاصد بھی حاصل ہوں.جلسہ سالانہ کے ایام ٹریننگ کے لیے ہیں تو ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے، ٹرینگ کے لیے سال میں تین دن جماعت کے افراد ا کٹھے ہوتے ہیں اور سوائے کسی اللد مجبوری کے تمام احمدی اس میں شامل ہونے کی کوشش کریں.یہی آپ کا منشا تھا.کیونکہ ٹریننگ بھی بہت ضروری چیز ہے.اس کے بغیر تو تربیت پر زوال آنا شروع ہو جاتا ہے، تربیت کم ہونی شروع ہو جاتی ہے ، کمی آنی شروع ہو جاتی ہے دیکھ لیں دنیا میں بھی اپنے ماحول میں نظر ڈالیں تو ہر فیلڈ میں ترقی کے لیے کوئی نہ کوئی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ، ٹریننگ لینے کے بعد پھر بھی ریفریشر کورسز بھی ہو رہے ہوتے ہیں، سیمینارز وغیرہ بھی ہو رہے ہوتے ہیں تا کہ جو علم حاصل کیا ہے اسے مضبوط کیا جائے ، مزید اضافہ کیا جائے.ٹریننگ کے لیے کمپنیاں بھی اپنے ملازمین کو دوسری جگہوں پر بھجواتی ہیں.ملک کی فوجیں سال میں ایک دفعہ عارضی جنگ کے ماحول پیدا کر کے اپنے جوانوں کی

Page 83

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 68 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ٹریڈنگ کرتی ہیں.یہ اصول ہر جگہ چلتا ہے تو دین کے معاملے میں بھی چلنا چاہیے.اس لیے اپنی دینی حالت کو سنوارنے کے لیے جلسوں پر ضرور آئیں اس سے روحانیت میں بھی اضافہ ہوگا اور دوسرے متفرق فوائد بھی حاصل ہوں گے..پس تمہاری ٹریننگ کے لیے، تمہارے علم میں اضافے کے لیے اور جو جانتے ہیں یا جن کو یہ خیال ہے کہ ان کو پہلے ہی کافی علم ہے ان کے بھی علم کو تازہ کرنے کے لیے ایسے طرز پر یہ ٹریننگ کورس ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے عرفان کے بارے میں تمہارے اضافے کا باعث بنے گا ، اس کے رسول اور اس کی کتاب کی حکمت کی باتوں کے بارے میں تمہیں معرفت حاصل ہو گی بہت سے نئے زاویوں کا تمہیں پتہ چل جائے گا کیونکہ ہر شخص ہر بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا.جلسہ سالانہ کی برکات حضرت مسیح موعود یہ معرفت کی باتیں خود ہی بیان کر دیا کرتے تھے اور اُس زمانے میں حقائق بھی پتہ چلتے رہتے تھے لیکن اب بھی جو ارشادات آپ نے بیان فرمائے انہیں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، انہیں کو سمجھتے ہوئے ، انہیں تفسیروں پر عمل کرتے ہوئے ماشاء اللہ علماء بڑی تیاری کر کے جہاں جہاں بھی دنیا میں جلسے ہوتے ہیں اپنی تقاریر کرتے ہیں، خطابات کرتے ہیں اور یہ باتیں بتاتے ہیں.تو آج بھی ان جلسوں کی اس اہمیت کو سامنے رکھنا چاہیے.وہی اہمیت آج بھی ہے اور تقاریر جب ہو رہی ہوں تو ان کے دوران تقاریر کو خاموشی سے سننا چاہیے.پھر آپ نے فرمایا کہ شامل ہونے والوں کے لیے دعائیں کرنے کی بھی توفیق ملتی ہے.تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعائیں آج بھی شاملین جلسہ کے لیے برکت کا باعث ہیں کیونکہ آپ نے اپنے ماننے والوں کے لیے جو نیکیوں پر قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی سچی محبت دل میں رکھتے ہیں، قیامت تک کے لیے دعائیں کی ہیں.پھر یہاں آ کر ایک دوسرے کی دعاؤں سے بھی حصہ لیتے ہیں.یمنی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں.ایک دوسرے کی پہچان ہو جاتی ہے ، حالات کا پتہ لگ جاتا ہے.اب تو دنیا یوں اکٹھی ہوگئی ہے ، فاصلے اتنے کم ہو گئے ہیں کہ تمام دنیا کے لوگ کم از کم نمائندگی کی صورت میں یہاں اکٹھے ہو جاتے ہیں جس سے ایک دوسرے کے حالات کا پتہ چلتا ہے، ان کے لیے دعائیں کرنے کی توفیق ملتی ہے.پھر آپس میں اس طرح گھلنے

Page 84

69 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم ملنے سے، اکٹھے ہونے سے محبت واخوت بھی قائم ہوتی ہے.آپس میں تعلق اور پیار بھی بڑھتا ہے اور بعض دفعہ حقیقی رشتہ داریاں بھی قائم ہو جاتی ہیں کیونکہ بہت سے تعلق پیدا ہوتے ہیں.رشتہ ناطے کے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں.اور اس سے جماعت میں جو مضبوطی پیدا ہونی چاہیے وہ پیدا ہوتی ہے اور اجنبیت بھی دور ہوتی ہے.ایک دوسرے کے لیے بغض و کینے کم ہوتے ہیں اور جب ایسی باتوں کا ، آپس میں لوگوں کی رنجشوں کا پتہ لگتا ہے تو ان کے لیے پھر دعائیں کرنے کا بھی موقع ملتا ہے.اور پھر جو دوران سال وفات پاگئے ہیں ان کی مغفرت کے لیے بھی دعا کرنے کا موقع ملتا ہے.جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والی باتوں کے سنانے کا شغل رہے گا.جلسہ کی کارروائی غور سے سنیں لیکن جلسوں پر آنے والے صرف میلے کی صورت میں اکٹھے ہو جانے کا تصور لے کر نہ یہاں آئیں.جب یہاں آئیں تو غور سے ساری کارروائی کو سنا چاہیے.اگر اس بارے میں سستی کرتے ہیں تو پھر تو یہاں آ کر بیٹھنا اور تقریریں سننا کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا.اس لیے باہر سے آنے والے بھی جو خرچ کر کے آئے ہیں اور یہاں کے رہنے والے بھی جلسے کی تقریروں کے دوران پورا پورا خیال رکھیں اور بڑے غور اور دلجمعی سے جلسے کی کارروائی کو نہیں....بعض دفعہ لوگ جلسے کے دوران باہر آ جاتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ فلاں مقر ر کا جو انداز ہے، جس طرح وہ بیان کر رہا ہے میں تو اس طرح نہیں سن سکتا اس لیے باہر آ گیا ہوں.یہ بھی ایک طرح کا تکبر ہے.اور چاہے کوئی مقرر دھواں دار تقریر کرتا ہے یا نہیں، چاہے وہ اپنے الفاظ اور آواز کے جادو سے آپ کے جذبات کو ابھارتا ہے یا نہیں، تقریریں سنیں اور ان میں علمی اور روحانی نکتے تلاش کریں اور پھر ان سے فائدہ اٹھائیں.فرمایا کہ جو صرف آواز اور الفاظ کے جادو سے متاثر ہونے والے ہوتے ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرتے کیونکہ وقتی اثر ہوتا ہے اور مجلس سے اٹھ کر جاؤ تو اثر ختم ہو گیا.اور یہی بات ایک احمدی میں نہیں ہونی چاہیے...

Page 85

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 70 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی نظام کی پابندی نہ کرنے والوں کے لیے تنبیہ.اس بات کا کوئی فائدہ نہیں کہ جلسہ پر آئیں وقتی جوش پیدا ہو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اور جلسہ ختم ہوتے ہی باہر جائیں تو جذبات پر اتنا سا بھی کنٹرول نہ رہے کہ دوسرے کی کوئی بات ہی برداشت کر سکیں.اگر یہ حالت ہی رکھنی ہے تو بہتر ہے کہ پھر جلسے پر نہ آئیں.یہاں کئی واقعات ایسے ہو جاتے ہیں جن کو اپنے آپ پر کوئی کنٹرول نہیں رہتا.صحیح طور پر نہ خود جلسہ سنتے ہیں اور نہ ہی دوسرے کو سننے دیتے ہیں اور ذرا ذراسی بات پر پھر سر پٹول بھی ہو رہی ہوتی ہے.تو ایسے لوگ پھر وہی لوگ ہیں جیسے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ کان رکھتے ہیں اور سنتے نہیں اور دل رکھتے ہیں اور سمجھتے نہیں.ذرا غور کریں یہ کون لوگ ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے یہ ان لوگوں کی نشانی بتائی ہے جو انبیاء کا انکار کرنے والے ہیں.جب اس طرح کے رویے اختیار کرنے ہیں تو پھر جب نظام جماعت ایکشن لیتا ہے پھر یہ شکایت ہوتی ہے کہ کارکنان نے ہمارے ساتھ بدتمیزی کی ہے اور ہمیں یہ کہا اور وہ کہا.یہ ٹھیک ہے میں نے کارکنان کو بھی بڑی دفعہ یہ سمجھایا ہے کہ براہ راست ان کو کچھ نہیں کہنا ، ایسے لوگوں کو جو اپنے عمل سے خود کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نظام کو کچھ نہیں سمجھتے ، جلسے کے تقدس کو کچھ نہیں سمجھتے تو پھر ان کا ایک ہی علاج ہے کہ اس تکبر کی وجہ سے ان کو پولیس میں دے دیا جائے.گزشتہ سال بھی ایسے ایک دو واقعات ہوئے تھے.تو اگر اس سال بھی کوئی اس نیت سے آیا ہے کہ بجائے اس کے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت واخوت پیدا کرے، یہ نیت ہے کہ فساد پیدا کرے تو پھر جلسے پر نہ آنا ہی بہتر ہے اور اگر آئے ہوئے ہیں تو بہتر ہے کہ چلے جائیں تا کہ نظام جماعت کے ایکشن پر پھر شکوہ نہ ہو.گزشتہ جمعہ میں میں نے کارکنان کو اور یہاں کے رہنے والوں کو جو لندن یا اسلام آباد کے ماحول میں رہ رہے ہیں ، یہ کہا تھا کہ مہمان نوازی کے بھی حق ادا کریں.لیکن آنے والے مہمانوں کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ڈیوٹی پر مامور کارکنوں کو ابتلاء میں نہ ڈالیں اور جو نظام ہے اس سے پورا پورا تعاون کریں.اس لیے جہاں خدمت کرنے والے کارکنان مہمانوں کی خدمت کے لیے پوری محنت سے خدمت انجام دے رہے ہیں وہاں مہمانوں کا بھی فرض ہے کہ مہمان ہونے کا حق بھی ادا کریں اور جس مقصد کے لیے آئے ہیں اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں.

Page 86

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 71 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی جلسہ کے لیے متفرق اہم ہدایات اب بعض متفرق باتیں جو جلسہ کے تعلق میں ہیں میں کہنا چاہتا ہوں جو مہمانوں ، میز بانوں ، ڈیوٹی والوں ہر ایک کے لیے ہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ (بیت الذکر ) میں اور ( بیت الذکر ) کے ماحول میں اس کے آداب اور تقدس کا خیال رکھیں.( بیت ) فضل میں جب یہاں سے جائیں گے وہاں بھی کافی رش ہوتا ہے.جلسہ کے دنوں میں یہ مار کی بھی ( بیت الذکر ) کا ہی متبادل ہے بلکہ یہ پورا علاقہ یعنی جلسہ گاہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق وہی نظارے نظر آنے چاہئیں جو ایک ایسے پاکیزہ مقدس ماحول میں ہونے چاہئیں.جہاں صرف اللہ اور اس کے رسول کی باتیں ہو رہی ہوں ، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی باتیں ہو رہی ہوں.جلسہ کے ایام ذکر الہی اور درود شریف پڑھتے ہوئے گزاریں اور التزام کے ساتھ بڑی با قاعدگی کے ساتھ توجہ کے ساتھ نماز با جماعت کی پابندی کریں.نمازوں اور جلسے کی کارروائی کے دوران بچوں کی خاموشی کا بھی انتظام ہونا چاہیے.ڈیوٹی والے بھی اس چیز کا خاص خیال رکھیں اور مائیں اور باپ بھی اس کا بہت خاص خیال رکھیں اور ڈیوٹی والوں سے اس سلسلے میں تعاون کریں.جو جگہیں بچوں کے لیے بنائی گئی ہیں وہاں جا کے چھوٹے بچوں کو بٹھا ئیں تا کہ باقی جلسہ سننے والے ڈسٹرب نہ ہوں.جلسہ کے دوران اگر کسی غیر از جماعت مہمان کی تقریر آپ سنیں ، اس میں سے آپ کو کوئی بات پسند آئے اور اس کو خراج تحسین دینا چاہتے ہوں تو اس کے لیے تالیاں بجانے کی بجائے جو ہماری روایات ہیں اللہ اکبر کا نعرہ لگانا.ماشاء اللہ وغیرہ کہنا ایسے کلمات ہی کہنے چاہئیں کیونکہ تالیاں بجانا ہمارا شعار نہیں ہے.ہماری اپنی بھی کچھ روایات ہیں اور ان کا خیال رکھنا چاہیے.یہاں پر بھی اور دنیا میں جہاں جہاں جلسے ہوتے ہیں انہیں روایات کا خیال رکھنا چاہیے.نعروں کے ضمن میں یا درکھیں کہ ہر کوئی اپنی مرضی سے نعرے نہ لگائے بلکہ انتظامیہ نے اس کے لیے پروگرام بنایا ہوا ہے، نعرے لگانا کچھ لوگوں کے سپر د کیا ہوا ہے.وہی جب نعرے لگانے کی ضرورت

Page 87

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 72 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی محسوس کریں گے تو نعرے لگا دیں گے.لیکن بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو اگر نعرے نہ لگے رہے ہوں تو تقریر کے دوران نیند آ جاتی ہے.ایسے لوگوں کے لیے پھر نعروں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بے وجہ نعرے لگاتے جائیں تو نظم یا تقریر جو ہورہی ہوتی ہے بعض دفعہ اس کا مزا نہیں رہتا.ایسے لوگ جن کو نیند آ رہی ہو خا موشی سے ساتھ والا ان کو ٹھو کا مار کر جگا دیا کرے.انگلستان کے احمدیوں کو ، بہت سارے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں شامل ہو چکے ہیں حضرت اقدس مسیح موعود کی خواہش تو تھی کہ ہر کوئی شامل ہو، تو خاص طور پر ذوق شوق سے جلسے میں شامل ہونا چاہیے.جو ابھی تک نہیں آئے وہ بھی کوشش کریں کہ کم از کم کل صبح جلسے کا سیشن شروع ہونے سے پہلے پہلے آ جائیں کیونکہ بغیر کسی جائز عذر کے جلسے سے غیر حاضر نہیں رہنا چاہیے.بعض دفعہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ صرف دو دن یا آخری دن ہی آجاتے ہیں.ان کو کوئی مجبوری نہیں ہوتی کیونکہ ہفتہ اتوار تقریباً ہر ایک کا فارغ ہوتا ہے.اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ جائیں گے آخری دن کچھ ملاقاتیں ہو جائیں گی کچھ لوگوں سے مل لیں گے.ٹھیک ہے آپ نے ایک مقصد تو پورا کر لیا لیکن صرف یہی مقصد ہی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت پیدا کرنا سب سے بڑا مقصد ہے.یہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ تقاریر کو با قاعدہ سنا کریں جس حد تک ممکن ہوسنا چاہیے اور اس میں ڈیوٹی والے کارکنان بھی ، اگر ان کی اس وقت ڈیوٹی نہیں ہے ان کو تقاریر سننے کی طرف توجہ دینی چاہیے.ان ایام میں پورے التزام سے نمازوں کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دیں.لنگر خانے یا جہاں جہاں بھی ڈیوٹیاں ہیں وہاں بھی کارکنان کی با قاعدہ نمازوں کی ادائیگی کا انتظام ہونا چاہیے.اور ان کے افسران کی ذمہ داری ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں.نمازوں کے دوران جو آپ مارکی کے اندر نمازیں پڑھنے کے لیے آتے ہیں تو نماز شروع ہونے سے پہلے ہی آ کے بیٹھ جایا کریں.کیونکہ یہاں لکڑی کے فرش ہیں گو اس کے اوپر پتلا سا قالین تو بچھا ہوا ہے لیکن چلنے سے اس قدر آواز اور شور آتا ہے کہ جب نماز شروع ہو جائے تو پھر نماز خراب ہو رہی ہوتی ہے.دوسروں تک جو نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں آواز ہی نہیں پہنچتی.کل بھی مغرب کی نماز کے

Page 88

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 73 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی وقت شور کا تسلسل تھا جو دوسری رکعت تک رہا.اس لیے نماز میں پہلے آ کر بیٹھا کریں.بعض لوگوں کو موبائل فون بڑے اہم ہوتے ہیں (اس وقت بھی شاید کسی کا فون بج رہا ہے ) اگر اتنے اہم فون آنے کا خیال ہو تو پھر وہ فون رکھیں جو اچھی قسم کے ہیں جن کی آواز کم کی جاسکتی ہے.جیب میں رکھیں اس کی وائبریشن (Vibration) سے آپ کو احساس ہو جائے کہ فون آیا ہے اور باہر جا کر سن لیں.کم از کم لوگوں کو نمازوں کے دوران جلسوں کے دوران اور تقریروں کے دوران ڈسٹرب نہ کیا کریں.جلسے کے دوران بازار بند رہنے چاہئیں اور آنے والے مہمان بھی سن لیں اور یہاں رہنے والے بھی سن لیں ، ڈیوٹیاں دینے والے بھی سن لیں.پہلے کہا جاتا تھا کہ اگر مجبوری ہوتو چند ضرورت کی چیزیں مہیا ہوسکتی ہیں.وہ دکانیں کھلی رہیں گی اور انتظامیہ جائزہ لیتی تھی کہ کون کون سی دکانیں کھلی رہیں یا نہ کھلی رہیں.لیکن کل بازار کا خود میں نے جو جائزہ لیا ہے اس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کوئی دکان کھولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.جلسے کے دوران تمام دکانیں بند رہیں گی اور دکاندار جنہوں نے سٹال لگائے ہوئے ہیں وہ سب جلسہ کی کارروائی سنیں اور کوئی گاہک بھی ادھر نہیں جائے گا کسی قسم کی خرید و فروخت نہیں ہونی چاہیے.کیونکہ اگر ایمر جنسی میں کسی چیز کی ضرورت ہو تو جو نظام ہے جلسہ سالانہ کا اس کے تحت وہ چیزیں مہیا ہو جاتی ہیں.اس لیے کسی قسم کی دکانیں کھولنے کی ضرورت نہیں.فضول گفتگو سے اجتناب کریں.آپس کی گفتگو میں دھیما پن اور وقار قائم رکھیں.سخت گفتگو، تلخ گفتگو سے پر ہیز کرنا چاہیے.کیونکہ محبت اور بھائی چارے کی فضا بھی اسی طرح پیدا ہو گی.بات چیت میں بھی ایک دوسرے کا خیال رکھیں.بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نو جوانوں میں تو تو میں میں شروع ہو جاتی ہے.اس.اجتناب کرنا چاہیے پر ہیز کرنا چاہیے ، بچنا چاہیے.ٹولیوں میں بعض دفعہ بیٹھے ہوتے ہیں اور قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں ، باتیں کر رہے ہوتے ہیں.یہ بھی اچھی عادت نہیں ہے.بعض دفعہ بہت سے غیر ملکی بھی یہاں آئے ہوئے ہیں ان لوگوں کی مختلف زبانیں ہیں.زبانیں نہیں سمجھتے جب آپ بات کر رہے ہوں اور کوئی قریب سے گزرنے والا بعض دفعہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ شاید میرے پہ کوئی تبصرہ ہو رہا ہے یا مجھ پر ہنسا جارہا ہے.تو ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لیے

Page 89

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم ان چیزوں سے بھی بچنا چاہیے.74 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی اسلام آباد کے ماحول میں بھی جو اسلام آباد میں سڑکیں آتی ہیں وہ بہت چھوٹی سڑکیں ہیں.یہاں بھی شور شرابے یا ہارن وغیرہ یا ہر قسم کی ایسی حرکت سے پر ہیز کرنا چاہیے کیونکہ یہاں کے لوگوں کو بعض دفعہ اعتراض پیدا ہوتا ہے.کل بھی کسی نے مجھے بتایا کہ یہاں اخبار میں خبر تھی کہ لوگوں کو اعتراض پیدا ہورہا ہے کہ شور ہوتا ہے اس لیے اس ماحول کا لحاظ کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا یہاں شور شرابہ نہیں ہونا چاہیے.گاڑیاں پارک کرتے ہوئے بھی خیال رکھیں کہ گھروں کے سامنے یا ممنوعہ جگہوں پر پارک نہ ہوں.ٹریفک کے قواعد کا بھی خیال رکھیں.جلسہ گاہ میں بھی جو پارکنگ کا شعبہ ہے منتظمین سے پورا تعاون کریں اور جہاں جہاں وہ کہتے ہیں وہیں گاڑیاں کھڑی کریں.د ڈرائیونگ کے دوران ملکی قانون کی پوری پابندی کریں کیونکہ یورپ میں بعض جگہوں پر بعض سڑکوں پر Speed Limit حد رفتار ) کوئی نہیں ہے یا سپیڈ لمٹ یہاں سے زیادہ ہے.یہاں کی سپیڈ لمٹ میں اور وہاں کی سپیڈ لمٹ میں فرق ہے.اس کا یورپ جرمنی وغیرہ سے آنے والے خاص طور پر خیال رکھیں.ویزے کی میعاد ختم ہونے سے پہلے پہلے آپ نے اپنی اپنی جگہوں پر اپنے ملکوں میں واپس چلے جانا ہے.جن کو خاص طور پر جلسے کا ویزا ملا ہے ان کو تو اس بات کی سختی سے پابندی کرنی چاہیے.اگر یہ پابندی نہیں کریں گے تو پھر جماعتی نظام بھی حرکت میں آ جاتا ہے.صفائی کے لیے خاص طور پر جہاں اتنا رش ہو، جگہ چھوٹی ہو اور تھوڑی جگہ پر عارضی انتظام کیا گیا ہو بہت ساری مشکلات پیش آتی ہیں.تو ہر کوئی یہ کوشش کرے کہ ٹائلٹ وغیرہ کی صفائی کا خاص طور پر خیال رکھیں.اگر کوئی کارکن نہیں بھی ہے اور کوئی جاتا ہے تو خود صفائی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے.آخر ایک دوسرے کی مدد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوا کرتا.آپس میں بھائی بھائی ہوں تو ایسے کام کر لینے چاہئیں.یہ نہیں ہے کہ کارکن آئے گا تب ہی صفائی ہوگی اور اس کی شکایت میں کروں گا اور انتظامیہ اس سے پوچھے گی تب ہی صفائی ہو گی.بلکہ چھوٹی موٹی اگر صفائی کی ضرورت ہو تو کر لینی چاہیے.کیونکہ صفائی کے بارے میں آتا ہے کہ یہ نصف ایمان ہے.خواتین بھی گھومنے پھرنے میں احتیاط اور پردے کی رعایت رکھیں.لیکن بعض دفعہ غیر خواتین

Page 90

75 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم بھی آئی ہوتی ہیں وہ تو ویسی پابندی نہیں کر رہی ہوتیں ، لوگ سمجھتے ہیں کہ جلسے پر آئی ہوئی ساری خواتین احمدی ہیں لیکن بعض غیر احمدی بھی ہوتی ہیں غیر از جماعت ہوتی ہیں تو وہ پابندی نہیں کر رہی ہوتیں.اس لیے انتظامیہ یہ خیال رکھے کہ عورتوں اور مردوں کے رش کے وقت راستے علیحدہ علیحدہ ہو جائیں.چھوٹے بچوں میں بھی ان دنوں میں خاص طور پر جماعتی روایات کا خیال رکھتے ہوئے ٹوپی پہننے کی عادت ڈالیں.ایسے بچے جو نمازیں پڑھنے کی عمر کے ہیں.اور اس طرح ایسی بچیاں جو اس عمر کی ہیں ان کو سر پر چھوٹا سا دوپٹہ بھی لے دینا چاہیے بجائے اس کے کہ یہاں کے لباس پہن کر پھر ہیں.بعض دفعہ شکایت آ جاتی ہے گو یہ بہت معمولی ہے ایک آدھ کیس ایسا ہوتا ہو گا کہ بعض لفٹ دینے والے مہمانوں سے پیسے کا مطالبہ کرتے ہیں.یہ نہیں ہونا چاہیے.تو مہمانوں کی عزت و اکرام اور خدمت کے بارے میں میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں اس کو خاص اہمیت دیں.محبت خلوص ایثار اور قربانی کے جذبے کے تحت ان کی خدمت کریں.یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں ان کے ساتھ نرم لہجہ اور خوشدلی سے بات کریں.تفصیلی ہدایت تو پہلے میں دے چکا ہوں.جو مہمان آرہے ہیں وہ بھی یہ خیال رکھیں کہ نظم وضبط کا خاص خیال رکھیں اور نت منتظمین جلسہ سے پورا پورا تعاون کریں.ان کی ہر طرح سے اطاعت کریں.بعض مائیں اپنے بچوں کی بڑی غیرت رکھتی ہیں کوئی ڈیوٹی والا اگر کسی کو کچھ کہہ دے تو لڑنے مارنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں وہ بھی سن لیں کہ اگر وہ تعاون نہیں کر سکتیں اور اتنی غیرت ہے تو پھر جلسے کے وقت اس دوران اس مار کی میں نہ آئیں.کھانا کھاتے وقت بھی بعض باتیں دیکھنے میں آتی ہیں.بعض دفعہ ضیاع ہو جاتا ہے.اب اس دفعہ انہوں نے کچھ انتظام بدلا ہے.کیونکہ پہلے ہی پیکنگ کر کے دے رہے ہیں اور میں نے دیکھا ہے اتنی مقدار ہے کہ امید ہے ضائع نہیں ہوگی عموماً ایک آدمی اتنا کھا ہی لیتا ہے لیکن بعض کو بعض چیز میں نہ کھانے کی عادت ہوتی ہے.یہاں اگر آلو نہیں بھی پسند تب بھی مجبوراً کھا لیں اور ضائع نہ کریں کیونکہ پھر یہاں ڈمپ کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے.بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتیں ایک دوسرے پر مذاق میں ہو رہی ہوتی ہیں وہ بھی بعض دفعہ بڑی

Page 91

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 76 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی لڑائیوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ان سے بھی پر ہیز کریں ، اجتناب کریں.اور زبان کی نرمی بڑی ضروری ہے.اور دونوں مہمان بھی اور میزبان بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ نرم زبان کا استعمال ہو اور کسی بھی قسم کی تختی دونوں طرف سے نہیں ہونی چاہیے.اور پیار سے، محبت سے ایک دوسرے سے ان دنوں پیش آئیں بلکہ ہمیشہ پیش آئیں اور خاص طور پر دعاؤں میں یہ دن گزاریں جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں.اور جلسے کی جو خاص برکات ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.بعض دفعہ جہاں کھانا کھایا جاتا ہے وہاں لوگ اپنی پلیٹیں چھوڑ جاتے ہیں یا انہوں نے جو پیک بنائے ہیں وہ چھوڑ جاتے ہیں تو ان کو اٹھا کے جہاں ڈسٹ بن بنائے گئے ہیں وہاں پھینکیں.حضرت مسیح موعود کے حوالے سے میں یہ پہلے بیان کر چکا ہوں کہ یہ جماعتی جلسہ ہے اس کو میلہ نہ سمجھیں کیونکہ آپس میں ملاقاتیں وغیرہ یا فیشن کا اظہار تو یہاں مقصود نہیں ہے.عورتیں اکٹھی ہوں تو باتیں شروع کر دیتی ہیں اور پھر ختم نہیں ہوتیں.ان کو بھی احتیاط کرنی چاہیے اور انتظامیہ اس کا خاص طور پر خیال رکھے اور نگرانی کرے.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں جہاں جہاں بھی جلسے ہوتے ہیں ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے.بعض باہر سے آنے والے یہاں شاپنگ کرنے کے لیے قرض لینے کی کوشش کرتے ہیں.یہ بات قناعت کی صفت کو گدلا کر رہی ہوتی ہے.قناعت کی صفت میں ایسا اظہار ہورہا ہوتا ہے جو لوگوں کو اچھا نہیں لگتا.تو اس سے بچنا چاہیے.اتنا ہی خرچ کریں جتنی توفیق ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ شاپنگ کرنے کے لیے جتنی ضرورت ہے رقم آپ کے پاس ہے اتنی شاپنگ کریں ، عزیزوں رشتہ داروں سے قرض نہ لیں.یہ بڑا غلط طریقہ ہے.جلسہ سننے کی غرض سے آتے ہیں تو جلسہ سننا چاہیے اور جو روحانی مائدہ یہاں تقسیم ہو رہا ہے اس سے ہر ایک کو اپنی جھولیاں بھرنی چاہئیں.گو کہ یہی کہا جاتا ہے کہ مہمان نوازی تین دن کی ہوتی ہے لیکن بعض لوگ دور سے آ رہے ہوتے ہیں خرچ کر کے آرہے ہوتے ہیں اور پھر یہ خیال ہوتا ہے کہ دوبارہ موقع مل سکے یا نہ مل سکے تو زیادہ ٹھہر نا چاہتے ہیں.اگر اپنے قریبی عزیزوں رشتہ داروں کے ہاں ٹھہر جائیں تو ان کو خوشی سے ٹھہرا لینے میں حرج نہیں ہے.اور بعض طبیعتیں بڑی حساس ہوتی ہیں ایسے مہمانوں کو مذاقا بھی احساس نہیں دلانا چاہیے جو مالی لحاظ سے ذرا کم ہوں یا

Page 92

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 77 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی قریبی عزیز ہوں کہ تین دن ہو گئے اور مہمان نوازی ختم ہوگئی.اس طرح اس سے دوریاں پیدا ہوتی ہیں.اپنے ماحول پر گہری نظر رکھیں حفاظتی طور پر بھی خاص نگرانی کا خیال رکھنا چاہیے اپنے ماحول پر گہری نظر رکھیں.یہ ہر ایک کا فرض ہے.اجنبی آدمی یا کوئی ایسا شخص آپ دیکھیں جس پر شک ہو تو متعلقہ شعبہ کو اطلاع دیں لیکن خود کسی سے اس طرح نہ پیش آئیں جس سے کسی قسم کا چھیڑ چھاڑ کا خطرہ پیدا ہو اور آگے لڑائی جھگڑے کا خطرہ پیدا ہو.لیکن اگر اطلاع کا وقت نہیں ہے پھر اس کا بہترین حل یہی ہے کہ آپ اس شخص کے آپ ساتھ ساتھ ہو جائیں ، اس کے قریب رہیں.تو ہر شخص اس طرح سیکیورٹی کی نظر سے دیکھتا رہے تو بہت سارا مسئلہ تو اسی طرح حل ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ بعض خبروں کی بنا پہ گزشتہ سالوں میں آتی رہی ہیں ، انتظامیہ بعض دفعہ چیکنگ سخت کرتی ہے.تو اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہو چیکنگ سخت ہو رہی ہو تو مکمل تعاون کرنا چاہیے خاص طور پر عورتوں کو وہ عام طور پر جلدی بے صبری ہو جاتی ہیں.اس لیے ہماری حفاظت کے نقطہ نظر سے ہی یہ سب کچھ ہورہا ہوتا ہے.اس لیے تعاون ہر ایک کا فرض ہے.پھر یہ کہ جو آپ کو کارڈ دیے گئے ہیں وہ اپنے پاس رکھیں اور اگر کسی کا کارڈ گم ہو گیا ہو تو متعلقہ شعبہ کو اطلاع کریں تا کہ ان کو بھی پتہ لگ جائے کون سا کارڈ گم ہوا ہے کس کا گم ہوا ہے تا کہ اگر کسی اور نے ایسا لگایا ہو وہ بھی پتہ لگ جائے اور آپ کو بھی کارڈ میسر آ جائے.قیمتی اشیاء اپنی نقدی یا پیسے وغیرہ کی حفاظت بھی آپ پر فرض ہے کہ خود کریں.کیونکہ یہاں بہت سے لوگ آئے ہوئے ہیں اور کھلی جگہیں ہیں ٹینٹ میں اجتماعی قیام گاہیں ہیں تو بعد میں شکایات نہیں ہونی چاہئیں.اس لیے آپ خود اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جو اس جلسہ کے لیے دعائیں ہیں وہ حاصل کرنے والے ہوں اور ان مقاصد کو پورا کرنے والے ہوں جس کے لیے آپ نے جلسوں کا اجراء فرما یا تھا اور ان دنوں میں ہمیں دعاؤں کی بھی توفیق ملے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی بھی توفیق ملے.الفضل اند نیشنل 20 تا 26 اگست 2004 ء )

Page 93

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 78 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی جلسہ سالانہ برطانیہ کے اختتامی خطاب سے اقتباسات * حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یکم اگست 2004ءکو جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر فرمایا:- 2005 ء تک کم از کم پچاس ہزار وصایا ہو جائیں بی وہ نظام ( وصیت.ناقل ) ہے جو اس زمانے میں خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی یقین دہانی کرانے والا نظام ہے.یہ وہ نظام ہے جو دین کی خاطر قربانیاں دینے والی جماعت کا نظام ہے.اور یہ وہ جماعت ہے جود نیا میں دکھی انسانیت کی خدمت کرتی ہے.پس ہر حدی غور کرے اور دیکھے کہ کس قدر فکر سے اور کوشش سے اس نظام میں شامل ہونا چاہیے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہماری نیکی کے معیار وہاں تک نہیں پہنچے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس معیار کی شرائط کو پورا کرسکیں.تو وہ سن لیں کہ یہ نظام ایک ایسا انقلابی نظام ہے کہ اگر نیک نیتی سے اس میں شامل ہوا جائے اور شامل ہونے کے بعد جیسا کہ آپ نے فرمایا اپنے اندر بہتری کی کوشش بھی کی جائے تو اس نظام کی برکت سے روحانی تبدیلی جو کئی سالوں کی مسافت ہے وہ دنوں میں اور دنوں کی گھنٹوں میں طے ہو جائے گی.پس اپنی اصلاح کی خاطر بھی اس نظام میں احمدیوں کو شامل ہونا چاہیے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس نظام میں شامل ہونے والوں کے لیے جو دعائیں ہیں اُن سے حصہ لینا چاہیے.$1905...اس نظام کو قائم کئے 2005ء میں انشاء اللہ تعالیٰ ایک سو سال ہو جائیں گے.میں آپ نے اسے جاری فرمایا تھا لیکن جیسا کہ متعدد جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس نظام وصیت میں شامل ہونے والوں کو خوشخبریاں دے چکے ہیں.آپ نے جماعت پرحسن ظن فرمایا ہے کہ ایسے مومنین ملتے رہیں گے اور ضرور ملتے رہیں گے جو اس طرح اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنی مالی قربانیاں پیش کرنے والے ہوں گے اور روحانیت میں بھی ترقی کرنے والے ہوں گے.لیکن جس رفتار سے جماعت کے افراد کو اس نظام میں

Page 94

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 79 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی شامل ہونا چاہیے تھا، نہیں ہور ہے.جس سے مجھے فکر بھی پیدا ہوئی ہے اور میں نے سوچا ہے کہ آپ کے سامنے اعداد و شمار بھی رکھوں تو آپ بھی پریشان ہو جائیں گے.وہ اعداد و شمار یہ ہیں کہ آج ننانوے سال پورے ہونے کے بعد بھی تقریباً 1905ء سے لے کر آج تک صرف اڑ میں ہزار کے قریب احمدیوں نے وصیت کی ہے.اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ وصیت کے نظام کو قائم ہوئے سو سال ہو جائیں گے.میری یہ خواہش ہے اور میں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ اس آسمانی نظام میں اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے لیے اپنی نسلوں کی زندگیوں کو پاک کرنے کے لیے شامل ہوں.آگے آئیں اور اس ایک سال میں کم از کم پندرہ ہزارنٹی وصایا ہو جائیں تا کہ کم از کم پچاس ہزار وصایا تو ایسی ہوں کہ جو ہم کہہ سکیں کہ سوسال میں ہوئیں.تو ایسے مومن نکلیں کہ کہا جاسکے کہ انہوں نے خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے.2008 ءتک چندہ دہندگان میں سے کم از کم %50 موصی ہو جائیں پھر بہت سے لوگوں کی طرف سے یہ تجویزیں بھی آئی ہیں کہ 2008ء میں خلافت کو بھی سو سال پورے ہو جائیں گے اس وقت خلافت کی بھی سو سالہ جو بلی منانی چاہیے تو بہر حال وہ تو ایک کمیٹی کام کر رہی ہے.وہ کیا کرتے ہیں، رپورٹس دیں گے تو پتہ لگے گا.لیکن میری یہ خواہش ہے کہ 2008ء میں جو خلافت کو قائم ہوئے انشاء اللہ تعالیٰ سو سال ہو جائیں گے تو دنیا کے ہر ملک میں ، ہر جماعت میں جو کمانے والے افراد ہیں ، جو چندہ دہند ہیں اُن میں سے کم از کم پچاس فیصد تو ایسے ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس عظیم الشان نظام میں شامل ہو چکے ہوں.اور روحانیت کو بڑھانے کے اور قربانیوں کے یہ اعلیٰ معیار قائم کرنے والے بن چکے ہوں.اور یہ بھی جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک حقیر سا نذرانہ ہو گا جو جماعت خلافت کے سو سال پورے ہونے پر شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہوگی.اور اس میں جیسا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ایسے لوگ شامل ہونے چاہئیں جو انجام بالخیر کی فکر کرنے والے اور عبادات بجالانے والے ہیں.خدام الاحمدیہ، انصار الله صف دوم اور لجنہ اماءاللہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں خدام الاحمدیہ، انصار اللہ صف دوم جو ہے اور لجنہ اماءاللہ کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے.کیونکہ ستر پچھتر سال کی عمر میں پہنچ کر جب قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہوں تو اُس وقت وصیت تو بچا کھچا ہی

Page 95

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 80 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہے جو پیش کیا جاتا ہے.امید ہے کہ احمدی نوجوان بھی اور خواتین بھی اس میں بھر پور کوشش کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کو خاص طور پر میں کہ رہا ہوں کہ اپنے ساتھ اپنے خاوندوں اور بچوں کو بھی اس عظیم انقلابی نظام میں شامل کرنے کی کوشش کریں.دنیاوی لحاظ سے بھی اگر اس نظام کی اہمیت کا اندازہ لگانا ہے تو آج سے ساٹھ سال پہلے حضرت مصلح موعود نے ایک تقریر فرمائی جلسے کے موقع پر نظام نو کے نام سے چھپی ہوئی کتاب ہے.اُسے پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو کہ آج کل دنیا کے ازموں اور مختلف نظاموں کے جو نعرے لگائے جارہے ہیں وہ سب کھو کھلے ہیں.اور اگر اس زمانے میں کوئی انقلابی نظام ہے جودنیا کی تسکین کا باعث بن سکتا ہے، جو روح کی تسکین کا باعث بن سکتا ہے، جو انسانیت کی خدمت کرنے کا دعوی حقیقت میں کر سکتا ہے تو وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا پیش کردہ نظام وصیت ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس نظام کی قدر نہ کرنے والوں کو انذار بھی بہت فرمایا ہے، ڈرایا بھی بہت ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ” بلا شبہ اُس نے ارادہ کیا ہے کہ اس انتظام سے منافق اور مومن میں تمیز کرے.اور ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ جو لوگ اس الہی انتظام پر اطلاع پا کر بلا توقف اس فکر میں پڑتے ہیں کہ دسواں حصہ گل جائیداد کا خدا کی راہ میں دیں بلکہ اس سے زیادہ اپنا جوش دکھلاتے ہیں وہ اپنی ایمانداری پر مہر لگا دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُوْلُوْا آمَنَّا وَهُمْ لا يُفْتَنُونَ (العنكبوت:2-3) کیا لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ میں اسی قدر پر راضی ہو جاؤں کہ وہ کہ دیں کہ ہم ایمان لائے اور ابھی اُن کا امتحان نہ کیا جائے؟ اور یہ امتحان تو کچھ بھی چیز نہیں.صحابہ کا امتحان جانوں کے مطالبہ پر کیا گیا اور انہوں نے اپنے سر خدا کی راہ میں دیے.پھر ایسا گمان کہ کیوں یونہی عام اجازت ہر ایک کو نہ دی جائے کہ وہ اس قبرستان میں دفن کیا جائے کس قدر دور از حقیقت ہے.اگر یہی روا ہو تو خدا تعالیٰ نے ہر ایک زمانہ میں امتحان کی کیوں بنیاد ڈالی؟ وہ ہر ایک زمانہ میں چاہتا رہا ہے کہ خبیث اور طیب میں فرق کر کے دکھلاوے اس لیے اب بھی اُس نے ایسا ہی کیا.“ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 327,328) فرمایا: ” یہ بھی یادر ہے کہ بلاؤں کے دن نزدیک ہیں اور ایک سخت زلزلہ جو زمین کو تہ و بالا کر دے گا قریب ہے.پس وہ جو معائنہ عذاب سے پہلے اپنا تارک الدنیا ہونا ثابت کر دیں گے اور نیز یہ بھی

Page 96

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 81 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ثابت کر دیں گے کہ کس طرح انہوں نے میرے حکم کی تعمیل کی خدا کے نزدیک حقیقی مومن وہی ہیں اور اُس کے دفتر میں سابقین اولین لکھے جائیں گے.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ زمانہ قریب ہے کہ ایک منافق جس نے دنیا سے محبت کر کے اس حکم کو ٹال دیا ہے وہ عذاب کے وقت آہ مار کر کہے گا کہ کاش میں تمام جائیداد کیا منقولہ اور کیا غیر منقولہ خدا کی راہ میں دیتا اور اس عذاب سے بچ جاتا.یاد رکھو! کہ اس عذاب کے معائنہ کے بعد ایمان بے سود ہوگا اور صدقہ خیرات محض عبث.دیکھو ! میں بہت قریب عذاب کی تمہیں خبر دیتا ہوں.اپنے لیے وہ زاد جلد تر جمع کرو کہ کام آوے.میں یہ نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مال لوں اور اپنے قبضہ میں کرلوں.بلکہ تم اشاعت دین کے لیے ایک انجمن کے حوالے اپنا مال کرو گے اور بہشتی زندگی پاؤ گے.بہتیرے ایسے ہیں کہ وہ دنیا سے محبت کر کے میرے حکم کو ٹال دیں گے مگر بہت جلد دنیا سے جدا کئے جائیں گے.تب آخری وقت میں کہیں گے هذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ“ (رساله الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 328 ، 329 ) پس غور کریں فکر کریں.جو بستیاں کو تا ہیاں ہو چکی ہیں اُن پر استغفار کرتے ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جلد از جلد اس نظام وصیت میں شامل ہو جائیں.اور اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنی نسلوں کو بھی بچائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی حصہ پائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل 10 تا 16 دسمبر 2004ء)

Page 97

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 82 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 6 اگست 2004 ء سے اقتباس * نظام خلافت اور نظام وصیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے...حضرت اقدس مسیح موعود نے رسالہ الوصیت میں دو باتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ایک تو یہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعد نظام خلافت کا اجراء اور دوسرے اپنی وفات پر آپ کو یہ فکر پیدا ہونا کہ ایسا نظام جاری کیا جائے جس سے افراد جماعت میں تقویٰ بھی پیدا ہو اور اس میں ترقی بھی ہو اور دوسرے مالی قربانی کا بھی ایسا نظام جاری ہو جائے جس سے کھرے اور کھوٹے میں تمیز ہو جائے اور جماعت کی مالی ضروریات بھی باحسن پوری ہو سکیں.اس لیے وصیت کا نظام جاری فرمایا تھا.تو اس لحاظ سے میرے نزدیک.....نظام خلافت اور نظام وصیت کا بڑا گہرا تعلق ہے اور ضروری نہیں کہ ضروریات کے تحت پہلے خلفاء جس طرح تحریکات کرتے رہے ہیں ، آئندہ بھی اسی طرح مالی تحریکات ہوتی رہیں بلکہ نظام وصیت کو اب اتنا فعال ہو جانا چاہیے کہ سو سال بعد تقویٰ کے معیار بجائے گرنے کے نہ صرف قائم رہیں بلکہ بڑھیں اور اپنے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں اور قربانیاں پیدا کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں.یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے پیدا ہوتے رہیں.اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے پیدا ہوتے رہیں.جب اس طرح کے معیار قائم ہوں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ خلافت حقہ بھی قائم رہے گی اور جماعتی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں گی.کیونکہ متقیوں کی جماعت کے ساتھ ہی خلافت کا ایک بہت بڑا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو اس کی توفیق دے اور ہمیشہ خلافت کی نعمت کا شکر ادا کرنے والے پیدا ہوتے رہیں اور کوئی احمدی بھی ناشکری کرنے والا نہ ہو.کبھی دنیا داری میں اتنے محو نہ ہو جائیں کہ دین کو بھلا دیں.الفضل انٹر نیشنل 20 تا 26 اگست 2004 ء

Page 98

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 83 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 20 اگست 2004 ء سے اقتباسات * قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ حَشِعُوْنَ.وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ لِلزَّكَوةِ فَعِلُوْنَ.وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَفِظُوْنَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ - فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَدُوْنَ.وَالَّذِيْنَ هُمْ لا مَنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُوْنَ.وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلَى صَلَواتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ أُوْلَئِكَ هُمُ الْوَرِثُوْنَ الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيْهَا خَلِدُوْنَ.....ان آیات میں بیان کیا گیا نیکیوں کو حاصل کرنے کا ہر درجہ کیونکہ ایک تفصیل چاہتا ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس کی بڑی تفصیل سے تفسیر بیان فرمائی ہے.ساروں کی تفصیل تو بیان نہیں ہو سکتی ، اس وقت میں نسبتاً ذرا تفصیل سے اس سیڑھی کے دوسرے درجے (سورة المومنون آیات (2 تا 12 یعنی { وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُون } کے بارے میں کچھ کہوں گا.لغویات تقویٰ میں روک بنتی ہیں لغو باتوں اور لغو حرکتوں اور لغویات میں ڈوبنے کی یہ بیماری آجکل کچھ زیادہ جڑ پکڑ رہی ہے.اور اسی وجہ سے یہ بیماری تقویٰ میں بھی روک بنتی ہے.اور اس طرح غیر محسوس طور پر اس کا حملہ ہو رہا ہے کہ اس بیماری کی گرفت میں آنے کے بعد بھی انسان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کس بیماری میں گرفتار ہے اور کیونکہ پورا معاشرہ ہر جگہ اور ہر علاقے میں ہر ملک میں اس بیماری میں مبتلا ہے اس لیے اس بیماری کے لپیٹ میں آ کر بھی پتہ نہیں لگتا کہ ہم اس بیماری میں گرفتار ہیں.بعض قریبی عزیزوں کو بھی اس وقت پتہ چلتا ہے جب ان لغویات کی وجہ سے ان کے حقوق متاثر ہو رہے ہوتے ہیں.بیویاں بھی اس وقت شور مچاتی ہیں جب ان کے اور ان کے بچوں کے حقوق مارے جا رہے ہوں.اس سے پہلے وہ بھی معاشرے

Page 99

84 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم کی روشنی کا نام دے کر اپنے خاوندوں کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہوتی ہیں.بلکہ بعض دفعہ خود بھی ان لغویات میں شامل ہورہی ہوتی ہیں تو اسی طرح ماں باپ ، دوست احباب اس وقت تک کچھ توجہ نہیں دیتے جب تک پانی سر سے اونچا نہیں ہو جاتا.نظام جماعت کو بھی پتہ نہیں لگ رہا ہوتا جب تک کسی دوست یا عزیز رشتہ دار کی طرف سے یہ نہ پتہ چل جائے کہ لغویات میں مبتلا ہے.بظاہر ایک شخص ( بیت الذکر ) میں بھی آ رہا ہوتا ہے اور جماعتی خدمات بھی بجالا رہا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بعض قسم کی غلط حرکتوں میں لغویات میں بھی مبتلا ہوتا ہے اس لیے یہ نہایت اہم مضمون ہے جس پر کچھ کہنا ضروری ہے.لغو کی تشریح جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ بعض لوگ بعض باتیں اور حرکتیں ایسی کر رہے ہوتے ہیں جو اُن کے نزدیک کوئی برائی نہیں ہوتی حالانکہ وہ لغویات میں شمار ہو رہی ہوتی ہیں اور نیکیوں سے دور لے جانے والی ہوتی ہیں.اور بعض دفعہ جائز بات بھی غلط موقع پر لغو ہو جاتی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الاول ( نور اللہ مرقدہ) فرماتے ہیں کہ : ” اللغو میں کل باطل ، کل معاصی ، لغو میں داخل ہیں ، تاش، گنجوفہ چوسر سب ممنوع ہیں.گئیں ہانکنا، نکتہ چینیاں وغیرہ.“ حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ (171) مشینیں یعنی ہر قسم کا جھوٹ غلط اور گناہ کی باتیں، تاش کھیلنا ، اس قسم کی اور کھیلیں.آجکل دکانوں پر مش پڑی ہوتی ہیں چھوٹے بچوں کو جوئے کی عادت ڈالنے کے لیے ، رقم ڈالنے کے بعد بعض نمبروں کی گیمیں ہوتی ہیں کہ یہ ملاؤ ، اتنے پیسے ڈالو تو اتنے پیسے نکل آئیں گے تو اس طرح جیتنے سے اتنی بڑی رقم حاصل ہو جائے گی، یہ سب لغو چیزیں ہیں.اسی طرح بیٹھ کر مجلسیں جمانا، گپیں ہانکنا، پھر دوسروں پر بیٹھ کے اعتراض وغیرہ کرنا یہ سب ایسی باتیں ہیں جو لغویات میں شامل ہیں.یہاں جلسوں پر آتے ہیں خطبہ جمعہ سنتے ہیں، نمازوں میں کبھی کبھی بڑا ذوق شوق بھی پیدا ہو جاتا ہے لیکن یہ جو لغو تعلقات ہیں یہ تمہارے گلے کا ہار بنے ہوئے ہیں.ان مجلسوں ، اجتماعوں اور نمازوں کے بعد تمہارے دل پر جو اثر ہوتا ہے اس کی وجہ سے تم نیکیوں کے راستے اختیار کرنا چاہتے ہو.لیکن یہ جو لغو تعلقات ہیں ، یہ فضول قسم کے جو لوگ ہیں اور فضول قسم کے لوگوں کی جو دوستیاں ہیں یہ تمہیں پھر واپس

Page 100

85 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم انہیں راستوں پر ڈال دیتی ہیں.جلسوں کے بعد اجتماعوں کے بعد ، جمعہ کے بعد دل پر بعض دفعہ بڑا گہرا اثر ہوتا ہے اور انسان ارادہ کرتا ہے کہ اب میں نے نیکی کی طرف ہی آگے قدم بڑھانا ہے.لیکن جب شام ہوتی ہے گھر سے نکلے بازار گئے ، کوئی کام کرنے کے لیے گئے ، کوئی دوست مل گیا بڑی محبت کا اظہار کیا بڑے طریقے سے بڑی خوبیاں گنوا کر کسی لاٹری کا تعارف کرا دیا.تمہارے پیسے بھی اس نے اس طرح ضائع کئے کہ لالچ تو یہ دیا کہ پیسے ضائع نہیں ہوں گے لیکن حقیقت میں پیسے ضائع ہو رہے ہوتے ہیں.اور وہ آپ کے پیسوں کے ساتھ اپنے پیسے بھی ضائع کر رہا ہوتا ہے.یا پھر رقمیں جیتنے کے لیے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ مختلف جگہوں پر بعض مشینیں لگی ہوتی ہیں بعض گیمز پڑی ہوتی ہیں خاص طور پر نو جوان اور بچے ، ویسے تو بڑے بھی اس میں کافی دلچسپی لیتے ہیں ، باتوں باتوں میں ہی ان کو کھیلنے میں لگا دیا.اس طرح وہ دوستوں کی باتوں میں آگئے.یا ایسے دوست جن کو سگریٹ پینے کی عادت ہوتی ہے ان کے ساتھ تعلق کی وجہ سے سگریٹ کی عادت پڑ جاتی ہے.پھر بڑھتے بڑھتے دوسری نشہ آور اشیاء بھی استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں.تو ایسے لوگ جو اس طرح بگاڑنے کی کوشش کریں غلط قسم کے بیہودہ اور لغولوگوں کے زمرے میں آتے ہیں، ان سے تعلقات ختم کرنے چاہئیں.جلسہ کے دنوں میں بھی بعض دفعہ بعض ایسے نوجوان یہاں آ جاتے ہیں جو نشے کے عادی ہوتے ہیں چاہے ایک آدھ ہی ہو.کیونکہ اتنی جرات کر کے وہی لوگ آتے ہیں جو نشہ کا کاروبار کرنے والوں کے بعض دفعہ ایجنٹ بھی ہوتے ہیں.اور یہاں آکر نوجوانوں کو باتوں باتوں میں لغویات میں ڈال دیتے ہیں.یہ جو لغویات ہیں ایک حد کے بعد یہ گناہ میں شمار ہونے لگ جاتی ہیں تو اس طرح آپ کو بعض لوگ گناہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.پھر لغو مجلسیں ہیں جہاں بیٹھ کر لوگوں کے متعلق باتیں ہو رہی ہوتی ہیں ، ہنسی ٹھیٹھا کیا جا رہا ہوتا ہے.یہ تمام مجالس بھی لغو مجالس ہیں ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے.خاص طور پر یہ دن جو جلسے کے دن ہیں یہ آپ کی اصلاح کے دن ہیں، ایک ٹریننگ کے لیے آپ یہاں اکٹھے ہوتے ہیں.ان دنوں میں اگر ان برائیوں سے بچنے کی کوشش کریں اور اپنے پہ فرض کر لیں کہ ہم نے صرف اور صرف جلسے کے پروگراموں سے ہی فائدہ اٹھانا ہے کسی بھی قسم کی فضول یا لغو باتوں میں نہیں پڑنا تا کہ ہمارے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوں ، تا کہ ہماری یہ کوشش ہو کہ ہم کامیابی کی

Page 101

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 86 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی سیڑھی کے اگلے قدم پر پاؤں رکھنے کے قابل ہو سکیں تو ایسے لوگوں کی دعوت پر جو برائی کی طرف بلانے کی دعوت دیتے ہیں قرآن کے حکم کے مطابق عمل کریں کہ {وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا } - یعنی جب وہ لغویات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزرتے ہیں.بغیر اس طرف توجہ دیئے گزر جاتے ہیں.تو جہاں یہ حکم ہے کہ لغو کے پاس سے وقار کے ساتھ منہ پرے کر کے گزر جاؤ وہاں اس آیت میں اس سے پہلے یہ حکم بھی ہے کہ {وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الرُّوْرَ } کہ ایسے تعلقات جولوگوں سے ہنسی ٹھٹھا کرنے والے ہیں جو لوگوں کے خلاف منصوبے بنانے والے ہیں وہ جھوٹے بھی ہوتے ہیں.کیونکہ کہیں بھی جھوٹی گواہی کی ضرورت پڑے تو وہ دریغ نہیں کرتے.اس لیے یاد رکھو کہ یہ لوگ تمہیں بھی جھوٹ بلوانے کی کوشش کریں گے.تمہارے سے بھی ایسی حرکات سرزد کر وائیں گے کہ تم بھی جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جاؤ.اس لیے جب کبھی ایسے لوگ تمہارے قریب آئیں تو یا د رکھو کہ شیطان تمہارے خلاف حرکت میں آ گیا ہے اب اپنی خیر منالو، اب تم جھوٹ بولنے کے لیے تیار ہو جاؤ اب تم بھی جرائم میں ملوث ہونے والے ہو.اس لیے بہتر ہے کہ اگر تم سچے ہو، بچے بنا چاہتے ہو، اپنا دامن بچانا چاہتے ہو تو ان لوگوں سے بیچ کر ر ہوتا کہ ہمیشہ سچ پر قائم رہو کیونکہ یہ سب لغو تعلقات والے لوگ ہیں.اس لیے بڑے وقار سے ان لوگوں سے پہلو بچاتے ہوئے پرے ہو جاؤ، ایک طرف ہو جاؤ.ان کی دوستی کی باتیں ،ان کی چکنی چپڑی باتیں تمہیں ان لغویات میں کہیں ملوث نہ کر دیں یہ بہت احتیاط کی ضرورت ہے.یاد رکھیں کہ یہ جنسی ٹھٹھے اور دوسروں کے جذبات کا خیال نہ رکھنے والی باتیں جب منہ سے نکلیں گی تو مزید برائیوں کی دلدل میں پھنساتی چلی جائیں گی.اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے ہی وارننگ دے دی ہے کہ جھوٹ جو سب برائیوں کی جڑ ہے اس سے پر ہیز کرو اس سے بچو تا کہ تمام لغویات سے بچے رہو.جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں.جب گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے، جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت سے کام لیتا ہے.(بخاری کتاب الادب.باب قول الله تعالیٰ یا ایها الذین امنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين)

Page 102

87 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم تو یہاں مزید کھول دیا کہ جھوٹ ایسی چھوٹی برائی نہیں ہے کہ کبھی کبھی بول لیا تو کوئی حرج نہیں.یہ ایک ایسی حرکت ہے جو منافقت کی طرف لے جانے والی ہے.ہر کوئی اپنا جائزہ لے تو بڑی فکر کی حالت پیدا ہو جاتی ہے کہ ذراذراسی بات پر بعض دفعہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے یا مذاق میں یا کوئی چیز حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں، غلط بیانی سے کام لے رہے ہوتے ہیں.پھر وعدہ خلافی ہے یہ بھی جھوٹ کی ہی ایک قسم ہے.قرض لے کر ٹال مٹول کر دیا وعدہ خلافی کرتے رہے، تو فیق ہوتے ہوئے بھی واپس کرنے کی نیت کیونکہ نہیں ہوتی اس لیے ٹالتے رہے.پھر اس کے علاوہ بھی روزمرہ کے ایسے معاملات ہیں کہ جن میں انسان اپنے وعدوں کا پاس نہیں رکھتا.پھر میاں بیوی کے بعض جھگڑے صرف اس لیے ہورہے ہوتے ہیں کہ بیوی کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ خاوند نے فلاں وعدہ کیا تھا پورا نہیں کیا.مثلاً یہ وعدہ کر لیا کہ جب میں اپنے کام سے واپس آ جاؤں تو فلاں جگہ جائیں گے.اس کو پورا نہیں کیا بلکہ واپس آ کے اپنے دوستوں کی مجلسوں میں گئیں مارنے کے لیے چلا گیا.یا اس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ آئندہ میرے ماں باپ سے حسن سلوک کرے گا یا کرے گی کیونکہ یہ عورت و مرد دونوں کی طرف سے ہوتا ہے اور پھر اس کو پورا نہیں کیا.تو یہی چھوٹی چھوٹی وجہیں ہیں جو جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں.جہاں تک اس کا تعلق ہے، ایک دوسرے کے رشتوں کا ، ماں باپ کا خیال رکھنا، یہ تو چیز ایسی ہے کہ یہ تو رحمی رشتوں کے زمرے میں آتا ہے.ان سے تو ویسے ہی حسن سلوک کرنے کا حکم ہے.وعدہ نہ بھی کیا ہو تو حکم ہے کہ حسن سلوک کرو.پھر امانت میں خیانت کرنے والے ہیں کچھ عرصہ تو ایمانداری دکھا کے اپنی ایمانداری کا کسی پر رعب جما لیتے ہیں، اور اس کے بعد پھر خیانت کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں تو یہ تمام باتیں جھوٹ ہی کی قسم ہیں اور لغویات میں شمار ہوتی ہیں کیونکہ ہر وہ چیز جو شیطان کی طرف لے جانے والی ہے وہ لغو ہے.بغیر پوچھے مشورہ نہ دیا جائے بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بلا وجہ دوسروں کو مشورے دینے لگ جاتے ہیں.کسی نے کوئی مشورہ نہ بھی پوچھا ہو تو عادتاً مشورہ دیتے ہیں یا بعض ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو کسی کی دل شکنی کا یا اس کے لیے مایوسی کا باعث بن جاتی ہے.مثلاً کسی نے کار خریدی، کہ دیا یہ کار تو اچھی نہیں فلاں زیادہ اچھی ہے.وہ بیچارہ پیسے خرچ کر کے ایک چیز لے آتا ہے اس پہ اعتراض کر دیا یا پھر اور اسی طرح کی چیز لی اس پہ اعتراض کر دیا.اس کی وجہ سے

Page 103

88 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم پھر دوسرا فریق جس پہ اعتراض ہورہا ہوتا ہے وہ پھر بعض دفعہ مایوسی میں چڑ بھی جاتا ہے اور پھر تعلقات پر بھی اثر پڑتا ہے.تو بلاضرورت کی جو باتیں ہیں وہ بھی لغویات میں شمار ہوتی ہیں.بعض دفعہ دو آدمی باتیں کر رہے ہیں تیسرا بلا وجہ ان میں دخل اندازی شروع کر دے، یہ بھی غلط چیز ہے لغویات میں اس کا شمار ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”رہائی یافتہ مومن وہ لوگ ہیں جو لغو کاموں اور لغو باتوں اور لغوحرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں سے اور لغو تعلقات سے اور لغو جوشوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں.( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم سورۃ انحل تاسورۃ یونس صفحه 359 ) تو یہ تمام لغویات جن کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نشان دہی فرمائی ہے یہ کیا ہیں؟ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا کسی پر الزام تراشی کرنا ، بغیر ثبوت کے کسی کو بلا وجہ بدنام کرنا، اس کے افسران تک اس کی غلط رپورٹ کرنا، عدالتوں میں بلاوجہ اپنی ذاتی انا کی وجہ سے کسی کو کھینچنا ، گھر میلو جھگڑوں میں میاں بیوی کے ایک دوسرے پر گندے اور غلیظ الزامات لگا نا پھر سینما وغیرہ میں گندی فلمیں گھروں میں بھی بعض لوگ لے آتے ہیں ) دیکھنا، تو یہ تمام لغویات ہیں.انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے بچیں پھر انٹرنیٹ کا غلط استعمال ہے یہ بھی ایک لحاظ سے آجکل کی بہت بڑی لغو چیز ہے.اس نے بھی کئی گھروں کو اجاڑ دیا ہے.ایک تو یہ رابطے کا بڑا سستا ذریعہ ہے پھر اس کے ذریعہ سے بعض لوگ پھرتے پھراتے رہتے ہیں اور پتہ نہیں کہاں تک پہنچ جاتے ہیں.شروع میں شغل کے طور پر سب کام ہو رہا ہوتا ہے پھر بعد میں یہی شغل عادت بن جاتا ہے اور گلے کا ہار بن جاتا ہے چھوڑ نا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کا نشہ ہے اور نشہ بھی لغویات میں ہے.کیونکہ جو اس پر بیٹھتے ہیں بعض دفعہ جب عادت پڑ جاتی ہے تو فضولیات کی تلاش میں گھنٹوں بلاوجہ، بے مقصد وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں.تو یہ سب لغو چیزیں ہیں.مخالف ویب سائٹس پر کئے جانیوالے اعتراضات کے جواب خود نہ دیں آجکل بعض ویب سائٹس ہیں جہاں جماعت کے خلاف یا جماعت کے کسی فرد کے خلاف گندے غلیظ پرا پیگنڈے یا الزام لگانے کا سلسلہ شروع ہوا ہوا ہے.تو لگانے والے تو خیر اپنی دانست میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں، اپنی عقل کے مطابق کہ یہ مغلظات بک کے وہ جماعت کو کوئی نقصان پہنچا رہے ہیں

Page 104

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 89 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی حالانکہ اُن کی اِن لغویات پر کسی کی بھی کوئی نظر نہیں ہوتی.جماعت کا شاید اعشاریہ ایک فیصد بھی طبقہ اس کو نہ دیکھتا ہو، اس کو شاید پتہ بھی نہ ہو.تو بہر حال یہ تمام لغویات ہیں اس لیے وہ جو ان گندے غلیظ الزاموں کے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ، بعض نوجوانوں میں یہ جوش پیدا ہو جاتا ہے تو اس جوش کی وجہ سے وہ جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ان کو بھی اس سے بچنا چاہیے.جماعت کی اپنی ایک ویب سائٹ ہے اگر کوئی اعتراض کسی کی نظر میں قابل جواب ہو کسی کی نظر سے گزرے تو وہ اعتراض انہیں بھیج دینا چاہیے.انٹرنیٹ پر بیٹھے ہوتے ہیں پتہ ہے اس کا پتہ کیا ہے.اور اگر کسی کے ذہن میں اس اعتراض کا کا کوئی جواب آیا ہو تو وہ جواب بھی بے شک بھیج دیں.لیکن وہاں پر خود کسی کے اعتراض کا جواب نہیں دینا.ہوسکتا ہے آپ کو جواب دینا صحیح نہ آتا ہو کیونکہ جہاں آپ بھیجیں گے خود ہی چیک کر لیں گے.پہلی بات تو یہ ہے کہ اس اعتراض کا جواب دینا بھی ہے کہ نہیں یا اس معاملے میں پڑ نا صرف لغویات یا صرف وقت کا ضیاع ہی ہے.کیونکہ اعتراض کرنے والے کی اصلاح تو ہونی نہیں ہوتی کیونکہ اگر ان کا یہ مقصد ہو، یہ نیت ہو کہ انہوں نے اپنی اصلاح کرنی ہے یا کوئی فائدہ اٹھانا ہے تو پھر اتنی غلیظ اور گندی زبان استعمال نہیں ہوتی ، شریفانہ زبان استعمال کی جاتی ہے.اور بعض اعتراضوں کے جواب کا تو دوسروں کو فائدہ بھی نہیں ہوتا.پھر جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اگر کسی کے پاس جواب ہو تو اس جماعتی نظام کے تحت جواب بھیج دیں خود ہی نظام اس کو دیکھ لے گا کہ آیا جو جواب آپ نے بھیجا ہے درست ہے یا اس سے بہتر جواب دیا جا سکتا ہے.تو بہر حال مقصد یہ ہے کہ جماعت کے کسی بھی فرد کا وقت بلا مقصد ضائع نہیں ہونا چاہیے اس لیے جس حد تک ان لغویات سے بچا جا سکتا ہے، بچنا چاہیے اور جو اس ایجاد کا بہتر مقصد ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے.علم میں اضافے کے لیے انٹرنیٹ کی ایجاد کو استعمال کریں.یہ نہیں ہے کہ یا اعتراض والی ویب سائٹس تلاش کرتے رہیں یا انٹرنیٹ پر بیٹھ کے مستقل باتیں کرتے رہیں.چیٹنگ(Chatting) سے پر ہیز کریں آجکل چیٹنگ (Chatting) جسے کہتے ہیں.بعض دفعہ یہ چیٹنگ مجلسوں کی شکل اختیار کر جاتی ہے اس میں بھی پھر لوگوں پہ الزام تراشیاں بھی ہو رہی ہوتی ہیں ، لوگوں کا مذاق بھی اڑایا جارہا ہوتا ہے تو یہ بھی ایک وسیع پیمانے پر مجلس کی ایک شکل بن چکی ہے اس لیے اس سے بھی بچنا چاہیے.

Page 105

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم غلط صحبتوں سے بچو 90 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی پھر غلط صحبتوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ بھی لغویات میں شمار ہوتی ہیں ان سے بھی بچو.اگر براہ راست ان مجلسوں اور ان صحبتوں میں نہیں بھی شامل ہو تو پھر بھی ایسی مجلسوں میں ایسے لوگوں کی صحبتوں میں بیٹھنا جہاں غیر تعمیری گفتگو یا کام ہورہے ہوں تمہیں بھی متاثر کر سکتا ہے.پھر بعض تعلقات ایسے ہوتے ہیں جو متاثر کر رہے ہوتے ہیں.کسی شخص کا تمہارے پر بڑا اچھا اثر ہے اس کی ہر بات کو بڑی اہمیت دیتے ہو لیکن اگر وہ نظام جماعت کے خلاف بات کرتا ہے یا امیر کے خلاف بات کرتا ہے یا کسی عہد یدار کے خلاف بات کرتا ہے تو اس پہ اعتماد کرتے ہوئے اس پر یقین کر لیتے ہو حالانکہ اس وقت اپنی عقل سے کام لینا چاہیے.یہ نہ سمجھو کہ جو کچھ بھی وہ کہہ رہا ہے وہ سچ اور حق بات ہی کہہ رہا ہے.بلکہ انصاف اور عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ نظام تک بات پہنچاؤ.یہ بات اس بات کرنے والے کو بھی کہو کہ اگر یہ بات ہے جس طرح تم کہہ رہے ہو تو امیر تک بات پہنچا ؤ یا بالا انتظام تک بات پہنچاؤ تا کہ اصلاح ہو جائے.تو جب آپ اس طرح کہیں گے تو آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ یہ شخص صحیح نہیں کیونکہ وہ نہ خود بات آگے پہنچانے پر راضی ہوگا اور نہ آپ کو اجازت دے گا کہ آپ بات آگے پہنچائیں ایسے لوگوں کا کام صرف باتیں کرنا اور فتنہ پھیلانا ہوتا ہے اس لیے ایسے تعلقات لغو تعلقات ہیں ان سے بھی بچیں.پھر فرمایا بعض دفعہ تمہارے جوش بھی لغو ہوتے ہیں.کہیں سے اڑتی اڑتی بات اپنے یا اپنے کسی عزیز کے بارے میں سن لی اور فوراً جوش میں آگئے اور جس کی طرف بات منسوب کی گئی ہے اس سے لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے.تو یہ تمام ایسی چیزیں ہیں جو لغویات ہیں.مومن کا کام یہ ہے کہ ہمیشہ ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرے اور ہمیشہ اس حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں.زبان ایک ایسی چیز ہے جس کا اچھا استعمال سب کو آپ کا گرویدہ بنا سکتا ہے اور اس کا غلط استعمال دوست کو بھی دشمن بنا سکتا ہے...سگریٹ نوشی سے جان چھڑائیں پھر آجکل کی لغویات میں سے ایک چیز سگریٹ وغیرہ بھی ہیں جیسا کہ مختصر سا میں پہلے ذکر کر آیا ہوں.نو جوانوں میں اس کی عادت پڑتی ہے اور پھر تمام زندگی یہ جان نہیں چھوڑتی سوائے ان کے جن

Page 106

91 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم کی قوت ارادی مضبوط ہو.اور پھر سگریٹ کی وجہ سے بعض لوگوں کو اور نشوں کی عادت بھی پڑ جاتی ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے امریکہ سے تمباکو نوشی سے متعلق اس کے بہت سے مجرب نقصان ظاہر کرتے ہوئے اشتہار دیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اشتہا ر سنایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ : " اصل میں ہم اس لیے اسے سنتے ہیں کہ اکثر نو عمر لڑ کے نو جوان تعلیم یافتہ بطور فیشن ہی کے اس بلا میں گرفتار ومبتلا ہو جاتے ہیں تا وہ ان باتوں کو سن کر اس مضر چیز کے نقصانات سے بچیں“.یعنی جو لوگ مبتلا ہوتے ہیں وہ یہ باتیں سنیں تو اس کے نقصانات سے بچیں.فرمایا: ”اصل میں تمبا کو ایک دھواں ہوتا ہے جو اندرونی اعضاء کے واسطے مضر ہے.اسلام لغو کاموں سے منع کرتا ہے اور اس میں نقصان ہی ہوتا ہے.لہذا اس سے پر ہیز ہی اچھا ہے.(ملفوظات جلد 3 صفحہ 110 جدید ایڈیشن) نشہ کرنے والوں کا انجام تو وہ لوگ جو اس لغو عادت میں مبتلا ہیں کوشش کریں کہ اس سے جان چھڑائیں اور والدین خاص طور پر بچوں پر نظر رکھیں کیونکہ آجکل بچوں کو نشوں کی با قاعدہ پلاننگ کے ذریعے عادت بھی ڈالی جاتی ہے.اور پھر آہستہ آہستہ یہ ہو جاتا ہے کہ بیچارے بچوں کے برے حال ہو جاتے ہیں.آپ یہاں بھی دیکھیں کس قدر لوگ ان نشوں کی وجہ سے اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں.ایک بہت بڑی تعداد ان ملکوں میں جن میں آپ رہ رہے ہیں ، آپ دیکھیں گے سگریٹ پینے کی وجہ سے حشیش یا دوسرے نشوں میں مبتلا ہوگئی.اور اپنے کاموں سے بھی گئے ، اپنی ملازمتوں سے بھی گئے ، اپنی نوکریوں سے بھی گئے ، اپنے کاروباروں سے بھی گئے ، اپنے گھروں سے بھی بے گھر ہوئے اور زندگیاں برباد ہوئیں.بیوی بچوں کو بھی مشکل میں ڈالا.خود پارکوں ، فٹ پاتھوں یا پلیوں کے نیچے زندگیاں گزار رہے ہیں.گندے غلیظ حالت میں ہوتے ہیں.لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہوتے ہیں.ڈسٹ بنوں (Dust Bins) سے گلی سری چیزیں چن چن کے کھا رہے ہوتے ہیں.تو یہ سب اس لغو عادت کی وجہ سے ہی ہے.اس لیے کسی بھی لغو چیز کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے.یہی چھوٹی چھوٹی باتیں پھر بڑی بن جایا کرتی ہیں.الفضل انٹر نیشنل 3 تا 9 ستمبر 2004ء )

Page 107

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 92 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 27 اگست 2004ء سے اقتباسات * يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ أُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَّ (سورة النساء آیت: 60) أَحْسَنُ تَأْوِيلًا.اس کا ترجمہ ہے اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی ، اور اگر تم کسی معاملے میں اُولُو الامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو.اگر فی الحقیقت تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو.یہ بہت بہتر طریقہ ہے اور اپنے انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے.نظام کی اطاعت......ہم سب پر فرض بنتا ہے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق قدرت ثانیہ کے اس جاری نظام کی بھی مکمل اطاعت کریں اور اپنی اطاعت کے معیاروں کو بلند کرتے چلے جائیں.لیکن یاد رکھیں کہ اطاعت کے معیاروں کو حاصل کرنے کے لیے قربانیاں بھی کرنی پڑتی ہیں اور صبر بھی دکھانا پڑتا ہے.پھر دنیاوی لحاظ سے بھی جو حا کم ہے اس کی دنیاوی معاملات میں اطاعت ضروری ہے.کسی بھی حکومت نے اپنے معاملات چلانے کے لیے جو ملکی قانون بنائے ہوئے ہیں ان کی پابندی ضروری ہے.آپ اس ملک میں رہ رہے ہیں یہاں کے قوانین کی پابندی ضروری ہے بشرطیکہ قوانین مذہب سے کھیلنے والے نہ ہوں، اس سے براہ راست ٹکر لینے والے نہ ہوں جیسا کہ پاکستان میں ہے.احمدیوں کے لیے بعض قوانین بنے ہوئے ہیں تو صرف اُن قوانین کی وہاں بھی پابندی ضروری ہے جو حکومت نے اپنا نظام چلانے کے لیے بنائے ہیں.جو مذہب کا معاملہ ہے

Page 108

93 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم وہ دل کا معاملہ ہے.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ قانون آپ کو کہے کہ نماز نہ پڑھو اور آپ نماز ہی پڑھنا چھوڑ دیں.تو بہر حال جو بھی نظام ہو، دنیاوی حکومتی نظام ہو یا جماعتی نظام یا مذہبی نظام اُن کی اطاعت ضروری ہے.سوائے جو قانون ، جیسا کہ میں نے کہا ، براہ راست اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے ٹکراتے ہوں.تو دینی لحاظ سے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا دوسرے مسلمانوں کو فکر ہو تو ہوا حمدی ( مومن ) کو کوئی فکر نہیں کیونکہ ہم نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنا بندھن جوڑ کر اپنے آپ کو اس فکر سے آزاد کر لیا ہے کہ کیا ہم خدا اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق عمل کرتے ہیں.اور جن امور کی وضاحت ضروری تھی کہ کون کون سے امور شریعت میں وضاحت طلب ہیں ان کی بھی ہمیں حضرت مسیح موعودؓ سے وضاحت مل گئی کیونکہ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک لائن بتا دی ، تمام امور کی وضاحت کر دی کہ اس طرح اعمال بجالاؤ تو یہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اختلافی معاملات کے حل کے لیے جب لوگ علماء ، مفسرین یا فقہاء سے رجوع کرتے رہے تو ہر ایک نے اپنے علم ، عقل اور ذوق کے مطابق ان امور کی تشریح کی.اپنے اپنے زمانے میں ہر ایک نے اپنے اپنے حلقے میں اپنی طرف سے نیک نیتی سے یہ تمام امور بتائے.مگر آہستہ آہستہ جن امور میں مفسرین اور فقہاء کا اختلاف تھا ان کے اپنے اپنے گروہ بنتے گئے اور یوں فرقے بندی ہو کر مسلمان آپس میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہے اور لڑ کی جھگڑے بھی ہوتے رہے اور اس تفرقہ بازی نے مسلمانوں کو پھاڑ دیا.لیکن اب اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت پا کر ہمارے لیے صحیح اور غلط کی تعیین کر دی ہے.پس احمدی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کریں تبھی وہ جماعت کی برکات سے فیضیاب ہو سکتے ہیں اور اس کے لیے جیسا کہ میں نے کہا قربانیاں بھی کرنی پڑتی ہیں اور صبر بھی دکھانا پڑتا ہے.کسی کے ایمان کے اعلیٰ معیار کا تو تبھی پتہ چلتا ہے جب اس پر کوئی امتحان کا وقت آئے اور وہ صبر دکھاتے ہوئے اور قربانی کرتے ہوئے اس میں سے گزر جائے.اس کی انا اس کے راستے میں روک نہ بنے.اس کا مالی نقصان اس کے راستے میں روک نہ بنے.اس کی اولا د اس کے اطاعت کے جذبے کو کم کرنے

Page 109

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 94 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی والی نہ ہو.جب یہ معیار حاصل کر لو گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ انفرادی طور پر تمہارے ایمانوں میں ترقی ہو گی اور جماعتی طور پر بھی مضبوط ہوتے چلے جاؤ گے.بعض لوگ ذاتی جھگڑوں میں نظام جماعت کے فیصلوں کا پاس نہیں کرتے یا ان فیصلوں پر عملدرآمد کے طریقوں سے اختلاف کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے چلے جاتے ہیں اور اپنا نقصان کر رہے ہوتے ہیں......حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا تھا.یہ وعدہ دیا ہوا ہے کہ نُصِرْتَ بِالرُّعْبِب.کہ آپ کے رعب کے قائم رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ خود ہی مدد کے سامان پیدا فرماتا رہے گا ، خود ہی مدد کرے گا.پس جو لوگ جماعت میں شامل رہیں گے، جماعت کے نظام کی اطاعت کریں گے ان کا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے چمٹے رہنے کی وجہ سے انشاء اللہ تعالیٰ رعب قائم رہے گا.پس ہمیشہ یادرکھیں کہ اطاعت میں ہی برکت ہے اور اطاعت میں ہی کامیابی ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے آسانی میں بھی اور تنگی میں بھی ، خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اولو الامر سے نہیں جھگڑیں گے.اور جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے حق پر قائم رہیں گے.اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے.(مسلم کتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء) تنگی ہو یا آسانی نظام جماعت کی اطاعت کریں تو پہلی بات تو یہی کہ جب بیعت کر لی تو پھر جو کچھ بھی احکام ہوں گے تو ہم کامل اطاعت کریں گے.یہ نہیں کہ جب ہماری مرضی کے فیصلے ہو رہے ہوں تو ہم مانیں گے، ہمارے جیسا اطاعت گزار کوئی نہیں ہوگا.اور اگر کوئی فیصلہ ہماری مرضی کے خلاف ہو گیا ہے جس سے ہم پر تنگی وارد ہوئی تو اطاعت سے باہر نکل جائیں ، نظام جماعت کے خلاف بولنا شروع کر دیں.نہیں، بلکہ جو بھی صورت ہوفر مایا کہ تنگی ہو یا آسانی ہو ہم نظام جماعت کے فیصلوں کی مکمل اطاعت کریں گے اور نظام سے ہی چھٹے رہیں گے......بعض لوگ ، لوگوں میں بیٹھ کر کہہ دیتے ہیں کہ نظام نے یہ فیصلہ کیا فلاں کے حق میں اور

Page 110

95 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید اللہ تعالی مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم میرے خلاف لیکن میں نے صبر کیا لیکن فیصلہ بہر حال غلط تھا.میں نے مان تو لیا لیکن فیصلہ غلط تھا.تو اس طرح لوگوں میں بیٹھ کر گھما پھرا کر یہ باتیں کرنا بھی صبر نہیں ہے.صبر یہ ہے کہ خاموش ہو جاتے اور اپنی فریاد اللہ تعالیٰ کے آگے کرتے.ہو سکتا ہے جہاں بیٹھ کر باتیں کی گئی ہوں وہاں ایسی طبیعت کے مالک لوگ بیٹھے ہوں جو یہ باتیں آگے لوگوں میں پھیلا کر بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس طرح نظام کے بارے میں غلط تاثر پیدا ہو.اور اس سے بعض دفعہ فتنے کی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے.اور پھر جو لوگ اس فتنے میں ملوث ہو جاتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ پھر وہ جاہلیت کی موت مرتے ہیں......اپنے وعدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور آپ نے ایک جماعت قائم فرمائی جس نے دنیا کی رہنمائی کا کام اپنے ذمہ لیا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے جو لوگ بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں داخل ہو گئے وہ گمراہی اور ضلالت پھیلانے کے لیے تو اکٹھے نہیں ہوئے بلکہ دنیا کو خدائے واحد کی پہچان کروانے کے لیے جمع ہوئے ہیں.اس لیے اس جماعت کے اندر بھی وہی رہ سکتے ہیں جو کامل وفا اور اطاعت کے نمونے دکھانے والے بھی ہوں.اور جب ایسے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو یقینا اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے.پس ہر ایک جو وفا اور اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم نہیں کرتا وہ خود اپنا نقصان کر رہا ہے.اطاعت میں برکت ہے اس لیے ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ برکت ہمیشہ نظام جماعت کی اطاعت اور اس کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہی ہے.اس لیے اگر کبھی کسی کے خلاف غلط فیصلہ ہو جاتا ہے، تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ، صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے، بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے.ہر ایک کی اپنی سمجھ ہے.قضاء نے اگر کوئی فیصلہ کیا ہے اور ایک فریق کے مطابق وہ صحیح نہیں ہے پھر بھی اس پر عمل درآمد کروانا چاہیے اور دعا کریں کہ قاضیوں کو اللہ تعالیٰ صحیح فیصلے کی توفیق دے.قاضیوں کو بھی غلطی لگ سکتی ہے لیکن ہر حالت میں اطاعت مقدم ہے.

Page 111

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 96 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی عہد یدار کسی کے لیے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں بعض لوگ اتنے جذباتی ہوتے ہیں کہ بعض فیصلوں کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے منسوب ہونے سے ہی انکاری ہو جاتے ہیں.تو یہ بدنصیبی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اپنے آپ کو آگ میں ڈال رہے ہوتے ہیں.دنیا کے چند سکوں کے عوض اپنا ایمان ضائع کر رہے ہوتے ہیں.جماعت میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شامل ہوئے ہیں، کسی عہدیدار کی جماعت میں تو شامل نہیں ہوئے کہ اس کی غلطی کی وجہ سے اپنا ایمان ہی ختم کر لیں.بہر حال عہد یداروں کو بھی احتیاط کرنی چاہیے اور کسی کمزور ایمان والے کے لیے ٹھوکر کا باعث نہیں بننا چاہیے.حدیث میں آیا ہے کہ عہدیدار بھی پوچھے جائیں گے اگر صحیح طرح سے وہ اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے، انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر رہے.حدیث میں تو ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے لیے جن کے سپر د کام ہوں اور وہ پوری ذمہ داری سے کام نہیں کر رہے ان کے لیے جنت حرام کر دیتا ہے.تو عہدیداران کے لیے تو یہ بہت بڑا انذار ہے تو جب خدا تعالیٰ خود ہی حساب لے رہا ہے تو پھر متاثرہ فریق کو کیا فکر ہے.آپ نیکی پر قائم رہیں تو دنیاوی نقصان بھی خدا تعالیٰ پورا فرما دے گا.الفضل اند نیشنل 10 تا 16 ستمبر 2004ء)

Page 112

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 97 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرموده 3 ستمبر 2004ء سے اقتباسات بچوں میں سلام کی عادت ڈالیں * اپنے بچوں کو سلام کہنے کی عادت ڈالنی چاہیے.یہ تو ٹرینگ کا ایک مستقل حصہ ہے، بچے کو سمجھاتے رہیں کہ وہ سلام کرنے کی عادت ڈالے، گھر سے جب بھی باہر جائے سلام کر کے جائے اور گھر میں جب داخل ہو تو سلام کر کے داخل ہو.پھر بچوں کو اس کا مطلب بھی سمجھائیں کہ کیوں سلام کیا جاتا ہے تو بہر حال بچوں ، بڑوں سب کو سلام کہنے کی عادت ہونی چاہیے.گھروں میں اجازت لے کر داخل ہوں بعض دفعہ بے تکلف دوستوں اور بے تکلف عزیزوں کے گھروں میں لوگ بے دھڑک چلے جاتے ہیں.یہاں یورپ میں تو اکثر گھروں میں باہر کے دروازوں کو کیونکہ تالا لگا ہوتا ہے یا اس طرح کا لاک (Lock) ہوتا ہے جو خود بخود بند ہو جاتا ہے یا باہر سے کھل نہیں سکتا اس لیے اس طرح جانہیں سکتے اور جن گھروں میں اس طرح کا نظام نہیں ہے یا اگر یہ نہ ہو اور گھر کھلے ہوں تو شاید ان گھروں میں گھنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے لیکن پاکستان ، ہندوستان وغیرہ میں بلکہ تمام تیسری دنیا جو کہلاتی ہے ان ملکوں میں یہی طریق ہے اور جب رو کو کہ اس طرح نہیں ہونا چاہیے تو پھر برا مناتے ہیں.یہ حکم عورتوں کے لیے بھی اسی طرح ہے جس طرح یہ مردوں کے لیے ہے.عورتوں میں بھی وہی قباحتیں پیدا ہو سکتی ہیں جس طرح مردوں میں پیدا ہوسکتی ہیں بلکہ بعض حالات میں عورتوں کے لیے زیادہ قباحتیں پیدا ہو جایا کرتی ہیں.اس لیے سلام کر کے ، اعلان کر کے، اجازت لے کر گھر کے جس فرد کے پاس بھی آئی ہوں وہاں جائیں تا کہ تمام گھر والوں کو بھی پتہ ہو کہ فلاں اس وقت ہمارے گھر میں موجود ہے.پھر پردہ دار عورت کے لیے اور بھی آسانی پیدا ہو جاتی ہے کہ اس اعلان کی وجہ سے جہاں وہ گھر میں موجود ہوگی وہاں مرد آسانی سے آجا

Page 113

98 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم نہیں سکیں گے یا آنے میں احتیاط کریں گے.پردہ کروا کر آئیں گے.تو اس طرح اور بھی بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن میں صرف سلام کہنے سے فائدہ ہوتا ہے.پھر یہ بھی فرمایا کہ گھر میں کوئی نہ ہوتو یہ نہیں کہ گھر یا کمرہ کھلا دیکھ کر وہاں جا کے بیٹھ جاؤ بلکہ اگر گھر میں کوئی نہیں تو تین دفعہ سلام کہو اور جب تین دفعہ سلام کہہ دیا اور کسی نے نہیں سنا تو واپس چلے جاؤ.اور پھر یہ کہ گھر میں اجازت ملے تو داخل ہونا ہے.اگر تم نے تین دفعہ سلام کیا اور اجازت نہیں ملی یا گھر میں کوئی نہیں ہے یا گھر والا پسند نہیں کرتا کہ تم اس وقت اس کے گھر آؤ تو واپس چلے جاؤ.اگر کوئی گھر والا موجود ہو اور کھل کر یہ کہہ بھی دے کہ اس وقت مجبوری کی وجہ سے میں مل نہیں سکتا تو پھر برا نہ مناؤ بلکہ جو کہا گیا ہے وہ کرو.اور وہ یہی کہا گیا ہے کہ واپس چلے جاؤ اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ واپس چلے جاؤ.سلام تو اس لیے پھیلا رہے ہو کہ سلامتی کا پیغام پھیلے، امن کا پیغام پھیلے، آپس میں محبت اور اخوت قائم ہو، تمہارے اندر پاکیزگی قائم ہو تو پھر اگر کوئی گھر والا معذرت کر دے یا ملنا نہ چاہے تو اس کے باوجود ملنے والا برا نہ منائے.اور گھر والے کی بات مان لے.تو یہ ہے (دینی) معاشرہ جو سلام کو رواج دے کر قائم ہوگا.احمدی آبادیوں میں سلام کو رواج دیں...پاکستان میں تو ہمارے سلام کہنے پر پابندی ہے، بہت بڑا جرم ہے.بہر حال ایک احمدی کے دل سے نکلی ہوئی سلامتی کی دعائیں اگر یہ لوگ نہیں لینا چاہتے تو نہ لیں اور تبھی تو یہ ان کا حال ہورہا ہے.لیکن جہاں احمدی اکٹھے ہوں وہاں تو سلام کو رواج دیں.خاص طور پر ربوہ، قادیان میں.اور بعض اور شہروں میں بھی اکٹھی احمدی آبادیاں ہیں ایک دوسرے کو سلام کرنے کا رواج دینا چاہیے.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ ربوہ کے بچوں کو کہا تھا کہ اگر بچے یاد سے اس کو رواج دیں گے تو بڑوں کو بھی عادت پڑ جائے گی.پھر اسی طرح واقفین نو بچے ہیں.ہمارے جامعہ نئے کھل رہے ہیں ان کے طلباء ہیں اگر یہ سب اس کو رواج دینا شروع کریں اور ان کی یہ ایک انفرادیت بن جائے کہ یہ سلام کہنے والے ہیں تو ہر طرف سلام کا رواج بڑی آسانی سے پیدا ہو سکتا ہے اور ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے.بعض اور دوسرے شہروں میں کسی دوسرے کو سلام کر کے پاکستان میں قانون ہے کہ مجرم نہ بن جائیں.احمدی کا تو چہرے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ احمدی ہے.اس لیے فکر کی یا ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے.اور مولوی

Page 114

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 99 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہمارے اند ر ویسے ہی پہچانا جاتا ہے.سلام کہنے پر مقدمہ پاکستان میں بھی عموماً لوگ شریف ہیں جس طرح حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ گونگی شرافت ہے.کچھ کہہ نہیں سکتے.اندر سے وہ بھی مولوی سے بڑے سخت تنگ ہیں.تھانیدار والا ہی حساب ہے کہ جب ایک دفعہ ایک احمدی پہ مقدمہ ہو گیا.سلام کہنے پر مولوی نے پرچہ درج کروایا.جب تھانیدار نے جرم دیکھا تو اس نے اس کو کہا کہ کیا اس نے تمہیں سلام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ جرم ہے اس نے کیوں مجھے سلام کیا ہے.اس نے کہا ٹھیک ہے اگر یہ جرم ہے اس احمدی کا تو وہ آئندہ سے تمہیں لعنت بھیجا کرے گا.احمدی لعنت کبھی نہیں بھیجتا.دوست ہو یا دشمن ہو احمدی نے تو ہمیشہ سلامتی کا نعرہ ہی لگانا ہے.کرسی سے اٹھ کر ملیں ، مصافحہ کریں ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتا اور آپ سے گفتگو کرتا ، آپ اس سے اپنا چہرہ مبارک نہ ہٹاتے.یہاں تک کہ وہ خود واپس چلا جائے اور جب کوئی آپ سے مصافحہ کرتا تو آپ اپنے ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہ چھڑاتے یہاں تک کہ وہ خود ہاتھ چھڑا لے.اور کبھی آپ کو اپنے ساتھ بیٹھنے والے سے آگے گھٹنے نکال کر بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا گیا.اس سے جہاں ہم سب کے لیے نصیحت ہے ، خاص طور پر جماعت کے عہد یداران کو بھی میں کہنا چاہتا ہوں ، ان کو بھی سبق لینا چاہیے کہ ملنے کے لیے آنے والے کو اچھی طرح خوش آمدید کہنا چاہیے.خوش آمدید کہیں ، ان سے ملیں ، مصافحہ کریں، ہر آنے والے کی بات کو غور سے سنیں.بعض لکھنے والے مجھے خط لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے بعض معاملات ہیں کہ آپ سے ملنا تو شاید آسان ہولیکن ہمارے فلاں عہدیدار سے ملنا بڑا مشکل ہے.تو ایسے عہدیداران کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ حسنہ کو یاد رکھنا چاہیے، ملنے والے سے اتنے آرام سے ملیں کہ اس کی تسلی ہو اور وہ خود تسلی پا کر آپ سے الگ ہو.پھر دفتروں میں بیٹھے ہوتے ہیں.ہر آنے والے کو کرسی سے اٹھ کر ملنا چاہیے، مصافحہ کرنا چاہیے.اس ابن ماجه کتاب الادب باب اکرام الرجل جليسه

Page 115

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 100 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی سے آپ کی عاجزی کا اظہار ہوتا ہے اور یہی عاجزی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی ہے.دیکھیں آپ بیٹھتے وقت بھی کتنی احتیاط کیا کرتے تھے.عورتیں مردوں سے مصافحہ نہ کریں مصافحے کے بارے میں یہاں ایک وضاحت کر دوں یہاں مغرب میں ہمارے معاشرے سے آئی ہوئی بعض خواتین کو بھی مردوں کے کہنے کی وجہ سے یا خود ہی کسی کمپلیکس(Complex) کی وجہ سے مردوں سے مصافحہ کرنے کی عادت ہو گئی ہے اور بڑے آرام سے عورتیں مردوں سے مصافحہ کر لیتی ہیں.مردوں اور عورتوں دونوں کو اس سے بچنا چاہیے.اگر آرام سے دوسرے کو سمجھا دیں کہ ہمارا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا تو لوگ سمجھ جاتے ہیں.نہ عورت مرد کو سلام کرتی ہے تو پھر نہ مرد عورت کو سلام کرے گا.دوسرے بعض معاشروں میں بھی تو مصافحے نہ کرنے کا رواج ہے وہ بھی تو نہیں کرتے.ہندو بھی ہاتھ جوڑ کر یوں کھڑے ہو جاتے ہیں.یہ وہاں ان کا سلام کا رواج ہے.اور معاشروں میں بھی اس طرح مختلف طریقے ہیں.اس لیے شرمانے کی ضرورت نہیں ہے.کسی قسم کے کمپلیکس میں آنے کی ضرورت نہیں ہے.مذہب بہر حال مقدم ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر بہر حال زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے..پس آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس شعار ( دین حق ) کو اتنا رواج دیں کہ یہ احمدی کی پہچان بن جائے.اس کے لیے خود بھی کوشش کریں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی کہیں ان دنوں میں، جلسہ کے دنوں میں دعاؤں کے ساتھ جہاں وقت گزار رہے ہوں گے، جلسے کی کارروائی سننے میں جہاں وقت گزار رہے ہوں گے، وہاں ہر ملنے والے کو سلامتی کی بھی دعا دیں تا کہ اس مجمع میں ، یہاں جو لوگ اکٹھے ہوئے ہیں ان میں جو دینی اور روحانی حالت کی بہتری کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں، یہاں جو آپ آپس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق رشتہ محبت واخوت قائم کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اس رشتے کی مضبوطی کے لیے سلامتی کی دعائیں بھی بھیجیں.دنیا میں ہر جگہ احمدی پاک دل کے ساتھ ایک دوسرے کو سلامتی کی دعائیں دینا شروع کر دیں تو بہت جلد اس پیجہتی اور دعاؤں کی وجہ سے انشاء اللہ تعالیٰ آپ احمدیت کی ترقی کو دیکھیں گے.(الفضل انٹر نیشنل 17 تا 23 ستمبر 2004ء)

Page 116

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 101 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرمودہ 17 ستمبر 2004ء سے اقتباس * وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوْا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَ هُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوْا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوْا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ (سورة الحجرات آيات 10-11) مومن کے لیے یہ حکم ہے کہ اول تو تم ان جھگڑوں سے بچو، اور اگر کبھی ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ یہ لڑائی جھگڑے آپس میں ہونے لگیں تو دوسرے مومن مل بیٹھیں اور ان کی آپس میں صلح کروائیں.دونوں کو قائل کریں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر یوں لڑنا اچھا نہیں ہے.کیوں اللہ تعالیٰ کے نافرمان بنتے ہو.آپس میں ایک دوسرے کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے، ایک دوسرے سے بدلے لینے کا کسی کو اختیار نہیں ہے.اگر سمجھانے سے وہ باز آجائیں اور صلح اور صفائی سے کسی فیصلے پر پہنچ جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ پھر جو فیصلہ نہیں مانتا اس کو پھر فرمایا کہ سزا دو.اس کو معاشرے میں کوئی مقام نہ دو، اس کے ہمدرد نہ بنو.سزا یافتہ شخص کی ناجائز حمایت نہ کریں اب بعض جھگڑوں کے فیصلے کے لیے لوگ جماعتی طور پر بھی قضاء میں آتے ہیں یا ثالثی کرواتے ہیں.اور جب ایک فیصلہ ہو جاتا ہے تو بعض ان میں سے فیصلہ ماننے سے انکار کرنے لگ جاتے ہیں.اور اس وجہ سے جب ان کو کوئی تعزیر ہوتی ہے، کوئی سزا ملتی ہے، کیونکہ جماعتی معاشرے کے اندر تو نظام جماعت کا فیصلہ نہ ماننے پر اظہار نا پسندیدگی ہو سکتا ہے.کوئی پولیس فورس تو جماعت کے پاس ہے نہیں.تو جب یہ سزا ملتی ہے تو فیصلہ نہ ماننے والوں کے عزیز یا دوست بجائے اس کے کہ ان پر دباؤ ڈالیں کہ

Page 117

102 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم برکت اسی میں ہے کہ فیصلہ مان لو، یہ کہنے کی بجائے ان کی ناجائز حمایت کرنا شروع کر دیتے ہیں.اس طرح کی ناجائز حمایت سے تو سزا یافتہ شخص کی اصلاح نہیں ہو سکتی.اس کو پتہ ہے میرا بھی ایک گروہ ہے میرے قریبی میرا برا نہیں مان رہے.میرا اٹھنا بیٹھنا جس معاشرے میں ہے اس میں اس چیز کو برائی نہیں سمجھا جارہا تو پھر اصلاح نہیں ہوتی.یا ہوتی ہے تو بڑا لمبا عرصہ چلتا ہے.اس لحاظ سے اصلاح کے لیے حکم ہے تو پورے معاشرے کو حکم ہے کہ جب کسی کے خلاف تعزیر ہو تو پورا معاشرہ اس پر دباؤ ڈالے، اس کی اصلاح کی کوشش کرے، نہ کہ ناجائز حمایت.فیصلہ منوانے کے لیے دباؤ ڈالیں تو فرمایا: ایسے لوگوں سے فیصلہ منوانے کے لیے ضروری ہے کہ ان پر دباؤ ڈالو.فیصلہ غلط ہے یا صحیح ہے جب اپیل کے بعد تمام حق ختم ہو گئے تو اب معاشرے کا کام ہے کہ فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈالے اور اگر معاشرہ صحیح طور پر دباؤ ڈال رہا ہو تو معاشرے کا دباؤ کوئی نہیں سہہ سکتا.تو چھوٹے معاشرے کی حد تک جماعت کے اندر جیسا کہ میں نے کہا اس حکم کی تعمیل کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ لڑ وان سے ، تو اس کا یہی مطلب ہے کہ ان پر معاشرے کا دباؤ ڈالو.رشتہ داریوں کا دباؤ ڈالو، دوستیوں کا دباؤ ڈالو تو جب یہ دباؤ پڑ رہے ہوں گے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی فیصلہ ماننے سے انکاری ہو جائے.اس طرح پورا معاشرہ نظام جماعت کی مدد کر رہا ہو گا.بلکہ میں تو کہوں گا کہ جب اس حکم کے تحت ایسا معاشرہ قائم ہو جائے گا تو ایک دو واقعات کے بعد ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کرے گا.یہ لڑائیاں ہی نہیں ہوں گی ، یہ فساد ہی نہیں ہوں گے اور فتنے ہی نہیں ہوں گے جماعت کے اندر.پھر فرمایا کہ جب اس دباؤ کی وجہ سے دوسرا فریق صلح پر راضی ہو جائے ، فیصلہ ماننے پر راضی ہو جائے تو پھر نہ ہی معاشرے کو لوگوں کو ، دوستوں کو ، نہ ہی نظام جماعت کو کسی قسم کی انا کا مسئلہ بنانا چاہیے بلکہ انہیں شرائط پر جو فیصلہ میں طے کی گئی تھیں ان کی تنفیذ ہونی چاہیے.اور پھر ہر فریق کو یہ بھول جانا چاہیے کہ کوئی مسئلہ ہوا تھا.خاص طور پر جس فریق کو حق ملنا ہے یا جن لوگوں نے تنفیذ کروانی ہے.پھر یہ نہیں کہ کچھ عرصے بعد اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کو یا د کر وایا جائے کہ تمہارے ساتھ یہ ہوا تھا، تمہاری

Page 118

103 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم تعزیر ہوئی تھی تمہارے ساتھ فلاں ہوا تھا.پھر اس چیز کو بھول جائیں.پھر فیصلہ پر عمل کرنے والے کو معاشرے میں وہی مقام دیں جو ایک عام آدمی کا ہے، جو سب کا ہے.پھر دوسرے فریق کو بھی یہ کہنا ہو گا، جس کا حق غصب کیا گیا جیسا کہ میں نے کہا کہ اب کیونکہ تمہیں تمہارا حق مل گیا ہے اس لیے آپس میں محبت اور پیار سے رہنا شروع کر دو، دلوں کے کینے نکال دو.اگر اس طرح معاشرہ عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کرے گا تو فرمایا پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے.اور جب اللہ تعالیٰ کسی سے محبت کرتا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے جو ایک مومن کو ملتی ہے.پھر اگلی آیت میں فرمایا ہے کہ مومن بھائی بھائی ہیں.اُن کو معاشرے میں صلح و صفائی سے رہنا چاہیے اور اگر کبھی رنجش پیدا ہو بھی جائے تو صلح کروانے کے طریق کو اختیار کرو.تمام معاشرہ ، ہر فرد جماعت ایک دوسرے کے حق کی حفاظت کرے اور اس کو حق دلوائے.یہی اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے.اس سے تم اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے حقوق العباد ادا کرنے والے کہلاؤ گے اور جب یہ حالت تمہیں حاصل ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ جو اسی انتظار میں رہتا ہے کہ اپنے بندوں پر رحم کرے وہ پیارا خدا تم پر رحم ( الفضل انٹرنیشنل یکم تا 7 اکتوبر 2004ء) کرے گا....

Page 119

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 104 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ UK سے اختتامی خطاب * حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 19 ستمبر 2004 ء کو سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ UK سے خطاب کرتے ہوئے تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج جیسا کہ آپ سب کو علم ہے خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ UK کا اجتماع ابھی اختتام کو پہنچ رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ رپورٹ میں صدر صاحب نے بتایا، بڑے کامیاب پروگرام ہوتے رہے بہت اچھے events ہوتے رہے اور آپ لوگوں نے علمی مقابلہ جات میں بھی حصہ لیا، تربیتی تقاریر بھی سنیں ، کھیلوں میں بھی حصہ لیا.جہاں علم میں اور روحانیت میں اضافہ کیا اپنی جسمانی صحت کا بھی خیال رکھا.تو مجلس خدام الاحمدیہ کو جب حضرت مصلح موعود نے قائم کیا تو اس وقت آپ کی دور رس نگاہ نے یہ خیال کیا ، جیسا کہ کئی جگہ آپ بیان فرما چکے ہیں کہ جماعت کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ نو جوانوں کو بھی جماعتی کاموں میں Involve کیا جائے.خواتین کو بھی Involve کیا جائے ، بوڑھوں کو بھی ، بچوں کو بھی ، تو تبھی جماعت کی ترقی کا قدم تیزی سے اُٹھ سکتا ہے.اور جہاں تربیتی لحاظ سے جماعت ترقی کرے گی اخلاقی لحاظ سے جماعت ترقی کرے گی، تقویٰ اور عبادت میں بھی جماعت ترقی کرے گی.دنیاوی تنظیموں اور ہماری تنظیموں میں ایک بنیادی فرق ہے آج کل دنیا میں بے انتہا تنظیمیں ہیں جولوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے یا بعض ایسی تنظیمیں ہیں جو اپنے پیشوں کے لحاظ سے اپنے ان پیشوں کے ماہرین کے مفاد کی خاطر پروگرام بناتی ہیں.کچھ تعلیمی معیار بلند کرنے کے لیے تنظیمیں بنی ہوئی ہیں.کچھ کا روباری حضرات کی اپنے کاروباروں کو بہتر بنانے کے لیے اور اپنی تجارت کو ترقی دینے کے لیے قائم ہیں.کچھ ملازمین کے حقوق قائم کرنے کے لیے قائم ہوئی ہوئی ہیں تنظیمیں.اور کچھ ان لوگوں کو حقوق دلوانے کے لیے قائم ہوئی ہوئی ہیں.لیکن ہر تنظیم جو ہے

Page 120

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 105 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی کسی کا بھی یہ مقصد نہیں ہے کہ آخری جو ان کی منزل ہے ، وہ اللہ تعالی کی طرف لے جانے والی ہو.تقویٰ پر قائم کرنے والی ہو.ان سب کے ذاتی مفاد ہوتے ہیں اس میں اور اس کی خاطر وہ کام کر رہے ہوتے ہیں.اور اگر کوئی نیک نیتی سے کر بھی رہا ہوتا ہے تو کچھ عرصہ کے بعد اس میں ان کی ذاتی اغراض شامل ہو جاتی ہیں، ذاتی دلچسپیاں شامل ہو جاتی ہیں یا ان تنظیموں کے کچھ لوگ ان کو اپنے ذاتی مفاد کی طرف موڑ لیتے ہیں.کیونکہ روحانیت کوئی نہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل کرنے کا اس کی رضا کو حاصل کرنے کا مقصد نہیں تو پھر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیا داری آڑے آ جاتی ہے.جنہوں نے بظاہر خدمت انسانیت کے پردے ڈالے ہوتے ہیں اپنی تنظیموں میں جیسا کہ میں نے کہا، اصل میں ان کا مقصد خدمت انسانیت اپنے نام و نمود کی وجہ سے ہوتا ہے.اندر جھانک کر دیکھیں اگر ان کے تو دنیا داری نظر آجاتی ہے.لیکن خدام الاحمدیہ کا مقصد یا جماعت احمدیہ کا مقصد یا جماعت کی کسی بھی ذیلی تنظیم کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے، اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے.یہ اجتماعات جہاں علمی اور روحانی ترقی کے لیے ہوتے ہیں ، جسمانی پروگرام بھی ہوتے ہیں لیکن جسمانی کھیلیں جسم کی صحت بنانے کے لیے اس لیے ہیں تا کہ دین کی خاطر زیادہ خدمت کر سکیں.نوجوانوں کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی ہوگی حضرت مصلح موعود جنہوں نے ان ذیلی تنظیموں کا قیام فرمایا تھا جیسا کہ میں نے کہا.انہوں نے فرمایا تھا کہ ہماری جماعت کو نیکی ، تقوی، عبادت گذاری، دیانت، راستی یعنی سیچ اور عدل وانصاف میں ایسی ترقی کرنی چاہیے کہ نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی اس کا اعتراف کریں.فرمایا کہ اس غرض کو پورا کرنے کے لیے میں نے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کی تحریکات جاری کی ہیں اور ان سب کا مقصد یا کام یہ ہے کہ نہ صرف اپنی ذات میں نیکی قائم کریں بلکہ دوسروں میں بھی نیکی پیدا کرنے کی کوشش کریں.اور جب تک حتمی طور پر جبر و ظلم تعدی یعنی حد سے بڑھا ہوا ظلم ، بددیانتی جھوٹ وغیرہ کو نہ مٹادیا جائے اور جب تک ہرا میر ، غریب اور چھوٹا اور بڑا اس ذمہ داری کو محسوس نہ کرے کہ اس کا کام یہی نہیں کہ خود عدل و انصاف قائم کرے بلکہ یہ بھی ہے کہ دوسروں سے بھی کروائے خواہ وہ افسر ہی کیوں نہ ہو.ہماری جماعت اپنوں اور دوسروں کے سامنے کوئی اچھا نمونہ نہیں قائم کر سکتی اگر آپ یہ باتیں نہیں

Page 121

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 106 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی کر رہے تو.تو یہ باتیں ہیں جو حضرت مصلح موعود کے ذہن میں تھیں کہ اگر جماعت نے ترقی کرنی ہے، اگر اس مقصد کو پورا کرنا ہے جس کے حاصل کرنے کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے تو ہمیں اپنے نوجوانوں میں تبدیلی پیدا کرنی ہوگی.نوجوانوں کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی ہوگی.اپنے بچوں میں تبدیلی پیدا کرنی ہوگی اور بچوں کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی ہوگی.اپنے بوڑھوں میں تبدیلی پیدا کرنی ہوگی اور عورتوں میں تبدیلی پیدا کرنی ہوگی تبھی ہم اس دعوی میں سچے ہو سکتے ہیں کہ ہم دنیا سے ظلم بھی ختم کریں گے اور جبر بھی ختم کریں گے.تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق رشتے داروں سے حسن سلوک بھی کریں گے جب اس نہج پر سوچیں گے.ماں باپ کے حقوق بھی ادا کریں گے اور بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا کریں گے، ماتحت کا حق بھی ادا کریں گے اور افسر کا حق بھی ادا کریں گے.نوجوانوں کو دیانتدار ہونا چاہیے بعض ما تحت بھی ایسے ہوتے ہیں جو اپنے افسروں پر ظلم کر جاتے ہیں اور ان پر ظلم یہ ہے کہ اگر اس نے کسی جائز بات پر بھی روکا ٹو کا ہے، کوئی قاعدہ قانون کی بات کی ہے اور اس کی وجہ سے پکڑ کی ہے تو اس کے خلاف عملہ میں مختلف قسم کی باتیں کر کے اکٹھا کر کے، ایک محاذ بنا لیتے ہیں اس افسر کے خلاف یا پھر موقع پاکر اس سے بالا افسر، اس سے اوپر کے افسر کو جھوٹی سچی شکایتیں کر دیتے ہیں.یہ جماعتی نظام میں بھی ہو سکتا ہے اور دنیا داری کے نظام میں بھی ہوتا ہے.اس طرح ماتحتوں پر بھی بعض دفعہ ظلم ہوتا ہے اور تعدی کی صورت اختیار کر جاتا ہے انتہائی ظلم کی صورت اختیار کر جاتا ہے، حد سے بڑھنے کی صورت اختیار کر جاتا ہے.کینے پیدا ہوتے ہیں اور اپنے ماتحتوں کے خلاف بھی ، اپنے ساتھیوں کے خلاف بھی اسی طرح باتیں ہورہی ہوتی ہیں ، دلوں میں کینے رکھے جارہے ہوتے ہیں جو پھر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے.غرض اگر آپ دیکھیں تو دنیا میں اسی طرح فساد کی صورت نظر آ رہی ہے ہر جگہ اور احمدی بھی کیونکہ اس معاشرے میں رہ رہا ہے.وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.کچھ نہ کچھ اثر احمدیوں پر بھی ہوتا ہے.پھر بدگمانی میں اتنا بڑھ جاتے ہیں کہ اگر کوئی نیک نیتی سے مشورہ بھی دے کسی قسم کا تو اس پر بھی بدظنی شروع ہو جاتی ہے.غرض بے شمار برائیاں ہیں جو اس حد سے بڑھے ہوئے ظلم کی وجہ سے پیدا ہوتی

Page 122

107 مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید واللہ تعالی ہیں.عیب لگا نا ، لوگوں کا مذاق اڑانا، ہنسی ٹھٹھا اڑانا ، انکو حقیر سمجھنا ، اپنے خاندان کی بڑائی اور امارت پر فخر کرنا ، حسد کرنا.یہ بھی سب چیزیں جو ہیں یہ بھی بد دیانتی ہے اور اس میں بعض دفعہ بہت بڑھ جاتے ہیں بددیانتی میں.اس لیے پھر یہ ہے کہ کسی کی بات کو توڑ مروڑ کر صحیح صورت میں نہ لوگوں تک پہنچانا یا پہنچانا تو توڑ مروڑ کر پہنچانا یا صیح صورت میں نہ پہنچانا.تو یہ ساری چیز میں بددیانتی کے زمرے میں آتی ہیں.اس لیے ہمیشہ خیال رہے کہ ہمارے نوجوانوں میں عمومی طور پر دیانت پیدا ہونی چاہیے، قومی دیانت پیدا ہونی چاہیے.یہ ایک بہت بڑی بنیادی چیز ہے، بہت بڑا اصل ہے جس سے ہم جلد از جلد ترقی کی منازل طے کرتے چلے جائیں گے اور ترقی تک پہنچیں گے.ہمارا ہر نوجوان جو ملازمت کر رہا ہے یا کاروبار کر رہا ہے اس کو دیانت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے چاہئیں.اپنے فرائض دیانت داری سے ادا کرنے والا ہونا چاہیے.کوئی افسر، کوئی ماتحت، کوئی کاروباری شریک یہ کہہ کر آپ پر انگلی نہ اٹھائے کہ یہ نوجوان ، یہ احمدی نوجوان بد دیانتی میں ملوث ہے.اخلاقی لحاظ سے بھی تمہارا شہرہ ایسا ہو کہ تمہیں لوگ اس طرح جانتے ہوں کہ ہر کوئی یہ کہے کہ ایسے اخلاق کا مالک کسی بھی لحاظ سے بددیانت نہیں ہو سکتا.اخلاقی لحاظ سے بھی ایسے اچھے ہونے چاہئیں ہم.کیونکہ اسی دیانت کی شہرت کی وجہ سے ہی آپ کے کاروبار بھی چمکیں گے اور ملازمتوں میں بھی آپ کو بہتر مواقع میسر آئیں گے.جھوٹ نہ بولنا احمدی خادم اور طفل کی نشانی ہو پھر جھوٹ ہے یہ اتنا عام ہو گیا ہے کہ باتیں کرتے ہوئے بعض لوگوں کو پتہ نہیں چلتا کہ جھوٹ کیا ہے اور بیچ کیا ہے.اور اس جھوٹ کی بیماری اتنی عام ہو گئی ہے کہ نو جوانوں اور بچوں کو اب ایک خاص مہم کے تحت اس سے بچانا ضروری ہو گیا ہے.جب مذاق میں بھی آپ ایک دوسرے کے ساتھ غلط بیانی کرتے ہیں تو وہ جھوٹ ہی ہے.کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں اس بارہ میں.لیکن سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے مذاق کیا ہے.مذاق میں بعض دفعہ بعض دوسرے لوگوں کو غلط قسم کے فون کر دیتے ہیں ، بعض ای میل بھیج دیتے ہیں اور بعض دفعہ ایسی حرکتوں سے لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ جانی نقصان بھی ہو جاتا ہے.لیکن بعض ایسے عادی ہو جاتے ہیں ان چیزوں میں اور اتنا اس کو انجوائے کر رہے

Page 123

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 108 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی ہوتے ہیں کہ ان کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ کیسے خطر ناک کام کر رہے ہیں، کیسے کیسے خطر ناک کھیل کھیل رہے ہیں.پھر بعض لوگ اپنی جان بچانے کے لیے یا یہ کہنا چاہیے اس کا مطلب ، محاورۃ میں نے کہا ہے.چھوٹی سی ناراضگی سے بچنے کے لیے جھوٹ بول جاتے ہیں ، غلط بیانی کر جاتے ہیں.آج کل جو بعض نوجوانوں میں جب میاں بیوی کے جھگڑے ہوں اس وقت یہ عام بیماری ہے ، غلط بیانی سے کام کرنا.حالانکہ اگر ہر وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ جھوٹ بولنا غلط بات ہے اور گناہ ہے.اور غلط بات کہنا کتنا بڑا جرم ہے اور کسی کے دل میں نیکی ہے تو وہ یہ سوچ کر ہی کانپ جاتا ہے کہ اُس نے جو غلط بات کہی یا جھوٹی بات کہی ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ کتنا بڑا گناہ ہے.اللہ تعالیٰ نے تو بتوں کی پلیدی کو شرک اور جھوٹ کو اکٹھا رکھا ہے.تو ہر احمدی کو ، چھوٹے بڑے کو اس سے بچنا چاہیے.اور خاص طور پر نو جوانوں کو بچوں کو بھی اس طرف خاص توجہ دے کر ایک مہم چلانی چاہیے کہ اپنے اندر سے ہلکا سا ، جو جھوٹ کا شائبہ کہتے ہیں ، وہ بھی نہ رکھیں باقی.اس کو بھی نکال کر باہر پھینک دیں اپنے اندر سے.ایک احمدی خادم کو ، ایک احمدی طفل کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی یہ نشانی ہو کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا، وہ کوئی غلط بات نہیں کہتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو منافق کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے.اور یہ کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ کوئی احمدی بچہ ، نوجوان، مرد، عورت منافق بھی ہو سکتا ہے.اس لیے کوشش سے اس بیماری کے اثر کو دور کریں.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار باتیں ایسی ہیں جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں اس میں سے ایک بات بھی پائی جائے تو اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے.پہلی بات یہ کہ جب وہ گفتگو کرتا ہے تو کذب بیانی سے کام لیتا ہے.یعنی جھوٹی بات کرتا ہے.دوسری بات یہ کہ جب معاہدہ کرتا ہے تو غداری کا مرتکب ہوتا ہے.معاہدے ہوتے ہیں ان کو پورا نہیں کرتے تو یہ غداری ہے.اس سے بھی نفاق پیدا ہوتا ہے.تیسری بات یہ کہ جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے.اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر وعدے ہورہے ہوتے ہیں ان کو پورا نہیں کرتے.لین دین کے معاملات میں وعدے ہو رہے ہوتے ہیں ان کو پورا نہیں کرتے.

Page 124

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 109 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی چوتھی بات یہ کہ جب جھگڑتا ہے تو گالی گلوچ سے کام لیتا ہے.تو یہ باتیں جو بیان کی گئی ہیں ان میں سب سے اوپر جھوٹ بولنا ہے اور بھی جو باقی باتیں ہیں وہ بھی ایک طرح سے جھوٹ سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں.تو بہت سے احمدی ہیں ، خدام میں ہیں کاروبار کرتے ہیں خدام میں سے بہت سے لوگ.تو یا درکھیں کہ کاروباروں میں برکت اللہ تعالیٰ نے دینی ہے.اور جب اللہ تعالیٰ نے برکت دینی ہے تو پھر آپ کی کسی ہوشیاری یا چالا کی سے آپ کے کاروبار میں ترقی نہیں ہوئی.اس کا کوئی دخل نہیں ہونا اس میں.اس لیے ہر وقت محنت سے اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے رہیں.محنت کریں اور دعا سے اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے رہیں.سچائی پر رہتے ہوئے کاروبار کریں، معاہدوں کی پابندی کریں تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق برکت عطا فرمائے گا.وعدے پورے نہ کرنا بھی جھوٹ ہے پھر وعدہ ہے دوسری چیز وعدہ ہے.وعدوں کو پورا نہ کرنا بھی جھوٹ ہے.کوئی بھی وعدہ کریں، کسی سے بھی کریں اس کو پورا کرنا چاہیے.اب مثلاً اطفال ہیں ، چھوٹی عمر کے خدام ہیں.سکولوں کالجوں میں پڑھتے ہیں.اکثر وعدہ کرنے کے معاملات سے ان کا بھی واسطہ رہتا ہے تعلق رہتا ہے.وعدہ کرتے رہتے ہیں ایک دوسرے سے کسی دوست سے، بہن بھائی سے، تو جب بھی کوئی وعدہ کریں تو اس کو پورا کریں اور اگر یہ پتہ ہو کہ پورا نہیں کر سکتے تو پھر اس طرح وعدہ کریں ، شرط لگا کے وعدہ کریں کہ اگر میں یہ وعدہ کرتا ہوں اس بات پہ کہ اگر اس طرح ہو گیا یا یہ کام میں نے کر دیا یا میرا فلاں کام ہو گیا یا میری فلاں جگہ سے فلاں چیز مل گئی تو پھر میں تمہارے اس وعدے کو پورا کروں گا.ورنہ پھر یہ وعدہ خلافی ہوگی اور وعدہ خلافی سے پھر جھوٹ کی عادت پڑے گی.اور یہ بہت بری عادت ہے.اس طرح وہ لوگ جن کے بچے ہیں.اگر بچوں سے وعدہ کرتے ہیں، بہت سارے نوجوان ہیں، شادی شدہ ہیں، ان کی اولادیں ہیں، اگر بچوں سے وعدہ کرتے ہیں تو ان کو پورا کریں.اگر وہ بچوں سے وعدہ پورا کرتے رہیں گے تو بچوں میں کبھی وعدہ پورا نہ کرنے کی عادت نہیں پڑے گی.ہمیشہ جب بھی بچوں کو پتہ ہوگا کہ یہ ایک نیکی ہے، جب بھی کوئی وعدہ کریں گے اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ بچے ہی یا درکھیں کہ ہماری آئندہ کی نسل ہیں.انہوں نے ہی آئندہ ہماری جماعت کی تنظیم کی باگ ڈور سنبھالنی ہے

Page 125

110 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم اور انہوں نے ہی جماعت کے نظام کو چلانا ہے.تو ان کو بچپن سے ہی اگر وعدہ پورا کرنے کی عادت نہ ڈالی گئی تو یہ آہستہ آہستہ ہر کام میں غیر سنجیدہ ہو جائیں گے.کوئی کام بھی ان کے نزدیک اہمیت نہیں رہے گی.اتنا زیادہ وعدہ پورا کرنے اور سچ بولنے کی عادت ڈالیں بچوں میں کہ بچپن سے ہی ایک احمدی بچے کا ایک خاص وصف ہو جائے.نظر آتا ہو کہ یہ احمدی بچہ ہے.ہمیشہ پاک اور صاف زبان استعمال کریں پھر منافق کی یہ نشانی بتائی اس حدیث میں کہ جب جھگڑتے ہیں تو گالی گلوچ سے کام لیتے ہیں.یاد رکھیں اگر کبھی کسی سے اختلاف ہو بھی جائے تو چاہے وہ اپنا ہو یا غیر ہوز بان پر ہرگز گالی نہیں آنی چاہیے.ایک احمدی کی زبان ہمیشہ پاک اور صاف ہونی چاہیے کیونکہ گالی آنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے.اپنی بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے جس کی وجہ سے غصہ میں آ کر گالی گلوچ شروع کر دی.اس لیے یہ گھٹیا طریق ہے جو کبھی بھی کسی احمدی کو اختیار نہیں کرنا چاہیے اور نو جوانوں کو ، بچوں کو خاص طور پر جو نو جوانی کی عمر میں داخل ہورہے ہیں اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے.اور ہر احمدی خادم کو ، ہر طفل کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے پاک زبان کا استعمال کرنا ہے.کبھی کسی سے کسی اختلاف کی صورت میں کسی اونچ نیچ کی صورت میں کبھی غلط بات منہ پر نہیں لانی.کسی قسم کی گالی اور غلیظ بات اس کے منہ سے نہیں نکلنی چاہیے.اور جب اس طرح ہو جائیں گے تو یہی آپ کے بچے ہونے کی نشانی ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ حقیقت میں جب تک انسان جھوٹ کو ترک نہیں کرتا وہ مطہر نہیں ہو سکتا یعنی پاک نہیں ہوسکتا.نابکار دنیا دار کہہ سکتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں.یہ دنیا داروں کا کام ہے کہ وہ کہیں کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں.یہ ایک بے ہودہ گوئی ہے.اگر سچ سے گزارہ نہیں ہوسکتا تو پھر جھوٹ سے ہرگز گزارہ نہیں ہوسکتا.افسوس کہ یہ بد بخت لوگ خدا تعالیٰ کی قدر نہیں کرتے.وہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے بدوں گزارہ نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا.وہ اپنا معبودا اور مشکل کشا جھوٹ کی نجاست کو ہی سمجھتے ہیں.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جھوٹ کو بتوں کی نجاست کے ساتھ وابستہ کر کے بیان فرمایا ہے.یقیناً سمجھو کہ ہم ایک قدم کیا ایک سانس بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں لے سکتے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 367)

Page 126

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 111 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی جھوٹ کے خلاف ایک مہم چلائیں پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ جھوٹ کے خلاف آپ لوگ ایک مہم چلائیں ، عمومی طور پر تمام جماعت لیکن خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمد یہ خاص طور پر اس طرف توجہ دیں.اور اپنی آئندہ نسلوں کی حفاظت کے لیے اس برائی کو جڑ سے اکھیڑ دیں.اور ہر خادم وطفل سو فیصد سچ بولنے والا ہو جائے.جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ وہ ہرگز پاک نہیں ہوسکتا جو جھوٹ کو ترک نہیں کرتا.جو جھوٹ کو نہیں چھوڑتا اور جو پاک نہیں وہ خدا تعالیٰ کا قرب نہیں پاسکتا.اگر خدا تعالیٰ کا قرب نہ پایا تو پھر احمدی ہونے کا یا احمدی کہلانے کا مقصد ہی فوت ہو گیا.کوئی فائدہ ہی کوئی نہیں.تو آپ نے فرمایا کہ ایسا آدمی اللہ تعالیٰ کو کس طرح پاسکتا ہے جو جھوٹ کو اپنا معبود سمجھتا ہے، جو جھوٹ کو خدا سمجھتا ہے.وہ تو پھر اللہ تعالیٰ کی بجائے جھوٹ کی عبادت کر رہا ہے.اگر ہم سو فیصد ہر معاملہ میں سچ بولنے کی عادت ڈالیں تو تمام بنیادی اخلاق ہمارے اندر خود بخود پیدا ہو جائیں گے اور ہوتے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.معروف فیصلہ“ کی تعریف پھر آپ نے ایک عہد کیا ہے، خدام الاحمدیہ نے ایک عہد کیا ہے.ہر اجلاس میں ، ہر اجتماع میں اس کو دہراتے ہیں کہ خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اس کی پابندی کرنا ضروری سمجھوں گا.یہ معروف فیصلہ کیا ہے؟ یہ معروف فیصلہ ہے کہ جو اللہ اور رسول کا حکم اور اس کی تعلیم ہے اس کو دنیا میں پھیلانا ، اپنی تربیت کرنا، اپنی روحانیت میں اضافہ کرنا.اور اس طرف میں کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دیں.فجر کی نماز بر وقت پڑھیں گزشتہ سال آپ کا یہی ایک تھیم (Theme) بھی تھا شاید خدام الاحمدیہ کا.اور اس میں کوشش بھی کی انہوں نے ، لیکن ( بیوت) میں، نماز سنٹروں میں جو نمازیوں کی حاضری ہونی چاہیے وہ نہیں ہوتی.نوجوانوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے.اور خاص طور پر فجر کی نماز میں.اگر رات دیر تک پڑھائی بھی کی ہے، مصروف رہے ہیں ، کالج یونیورسٹی میں کام کرتے رہے ہیں تب بھی آج کل ہر ایک کے پاس الارم کی گھڑیاں

Page 127

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 112 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی ہیں الارم لگا کر سونا چاہیے تا کہ نماز کے وقت اُٹھ سکیں.اپنے گھروں میں بڑوں کو کہیں کہ نمازوں کے لیے جگا دیں لیکن بعض بچے پھر بھی نہیں اٹھتے.پھر ان کو کہنا چاہیے کہ پانی کے چھینٹے ماریں پھر اٹھادیں.پھر جو بڑی عمر کے خدام ہیں.اب چالیس سال تک کی عمر کے خدام ہوتے ہیں.ان کو تو خود کوشش کر کے اٹھنا چاہیے.اپنے بچوں کو اٹھانا چاہیے کیونکہ ان کے تو بچے بھی ہوتے ہیں آگے اس عمر کے کہ ان پر نماز میں فرض ہو جاتی ہیں اکثر کے.پھر فجر کے علاوہ باقی نمازوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے.کھیلوں کا بھی انتظام کریں خدام الاحمدیہ نے پہلے بھی ان سنٹرز کے ساتھ کھیلوں کا انتظام کیا تھا.کچھ جگہوں پر کیا ہوا ہے اور جہاں ہوتی ہیں اور میرا خیال ہے جن مجالس نے انعامات لیے ہیں وہ وہی مجالس ہیں جہاں نمازوں کی حاضری بھی بہتر ہے اور وہاں خدام اکٹھے ہوتے ہیں کھیلوں کے لیے بھی ، اجلاسوں کے لیے بھی اور نمازوں کے لیے بھی.تو اگر اس طرح ہو جائے ہر جگہ ، امید ہے کچھ جگہ ہو گا بھی ، لیکن کچھ تھوڑی سی کوشش کی بھی ضرورت ہے تو مغرب اور عشاء کی نمازوں کی حاضری کافی بڑھ سکتی ہے.تو یہ تو صرف ایک ذریعہ ہے کھیلوں کا میں نے بتایا قریب لانے کا نمازوں کے لیے ، ( بیوت الذکر ) کی طرف لانے کے لیے، ور نہ ایک مومن کی تو شان یہ ہے کہ اس کو فکر کے ساتھ نمازوں کی طرف توجہ دینی چاہیے.پس اپنے اندر بھی ، اپنے بچوں کے اندر بھی یہ روح قائم کریں.خدام الاحمدیہ کے شعبہ تربیت کو درسوں کی حاضری لکھنی چاہیے پھر نمازوں کے بعد درس سنے کی بھی عادت ڈالیں پانچ چھ منٹ کے درس ہوتے ہیں.خود آپ بہت سی باتیں پڑھ نہیں سکتے.کچھ اُردو پڑھ نہیں سکتے ، اور کچھ کے پاس کتا بیں نہیں ہوتیں.یہ درس اسی لیے شروع کروائے گئے ہیں کہ قرآن ، حدیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام آپ تک پہنچے.آپ کے علم میں آئے.اگر یہ علم سیکھیں گے تو دنیاوی علم بھی آپ کے لیے کچھ فائدہ مند ہو گا اس کو بھی آپ اس کے ساتھ لگا کر اپنے روزمرہ کے معاملات میں بھی اپلائی (Apply) کر سکتے ہیں.اور جو پڑہنے لکھنے والے زیادہ نوجوان ہیں.ان کا یہ دینی علم اور قرآن کا علم سیکھنا بہت فائدہ مند ہوتا ہے.

Page 128

113.ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم پس خدام الاحمدیہ کو اپنے تربیت کے شعبہ کے تحت یہ بھی رپورٹ میں لکھنا چاہیے کہ باجماعت نمازوں کے ساتھ درسوں میں حاضری کی کیا صورت ہے.اور پھر ہر مہینہ اس میں کیا بہتری پیدا ہو رہی ہے.اگر یہ نہیں کرتے تو پھر آپ کے یہ عہد یہ دعوے اور یہ وعدے کس کام کے ہیں کہ خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اس کی پابندی کرنا ضروری سمجھوں گا اور یہ حکم اللہ تعالیٰ کا ہے.خلیفہ وقت تو اس حکم کو آگے پہنچانے کے لیے آواز استعمال کر رہا ہے اپنی.اور یہ بیعت کرتے وقت بھی آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ کیا ہوا ہے.پس غور کریں اور سوچیں کہ وعدہ پورا نہ کر کے جیسا کہ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کتنا ڈرایا ہے، کتنا انذار فرمایا ہے کہ ایسے شخص میں منافقت کی رگ ہے جو وعدہ پورا نہیں کرتا.اور یہ بات نہ کوئی احمدی پسند کرے گا اور نہ کسی احمدی کے بارے میں یہ بات پسند کی جاسکتی ہے.احمدی نو جوانو اور بچو! اپنی عبادت اور اخلاق کے معیار بلند کرو پس اس بارے میں بھی خاص کوشش کر کے اس طرف توجہ دیں.اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح معنوں میں خدام احمدیت بنائے.صرف نعرے اور ترانے اور وعدے ہی نہ ہوں صرف ، بلکہ حقیقت میں آپ میں وہ کچھ نظر آئے جو ایک احمدی خادم میں نظر آنا چاہیے اور اگر آئندہ کیونکہ بچوں نے بھی سنبھالنا ہے، چھوٹی عمر کے خدام ہیں انہوں نے سنبھالنا ہے، جوں جوں جماعت نے انشاء اللہ پھیلنا ہے، یہ تبدیلیاں نہ کیں تو پھر جماعت تو ترقی کرے گی انشاء اللہ تعالیٰ لیکن آپ کے اپنے حلقوں میں آپ کو محرومی کا احساس ہونے لگ جائے گا.کیونکہ آئندہ خدام الاحمدیہ کی ذمہ داریاں بھی بڑھنی ہیں ، جیسا کہ میں نے کہا ، جماعت کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ.پس اپنی اس ذمہ داری کو سمجھیں.اپنے مقام کو سمجھیں اور اگر آپ نے اپنے مقام کو سمجھ لیا، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ لیا تو پھر دشمن ہزار حربے استعمال کرے احمدیت کو ختم کرنے کے، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.دشمن جتنا مرضی زور لگالے وہ جماعت کو نقصان نہیں پہنچا سکتا.پس احمدی نو جوا نو اور بچو! اٹھو اپنی عبادتوں کے معیار بھی بلند کرو اور اپنے اخلاق کے معیار بھی بلند کرو.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق (ماہنامہ ” خالد نومبر 2004ء) عطا فرمائے.

Page 129

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 114 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کے موقع پر پیغام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 22 ستمبر 2004 ء کو مجلس خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ بھارت کے سالانہ اجتماع کے لیے اپنے پیغام میں فرمایا:- میرے پیارے خدام بھائیو ! ( قادیان - انڈیا ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ میرے لیے بہت خوشی کی بات ہے کہ تمہارا سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے.جو کچھ تربیتی ، اخلاقی اور روحانی امور کی بابت یہاں آپ نے سنا ان باتوں کو یاد رکھیں اور یہ سب نیک یادیں اپنے ساتھ لے کر جائیں اور جہاں بھی جائیں یہ یاد رکھیں کہ آپ ایک احمدی خادم ہیں.یہ ایک اعزاز ہے اور سعادت ہے جو خدا کے خاص فضل سے تمہارے حصہ میں آئی ہے.اس لیے اپنے اس مقام اور اعزاز کی ہمیشہ حفاظت کریں اور کبھی بھی نہ بھولیں کہ آپ کے اس نام اور مقام کے تقاضے کیا ہیں.عبادت کا قیام اس لیے اس اجتماع کے موقع پر میرا پیغام آپ سب خدام واطفال کے لیے یہ ہے کہ ان دو باتوں کو ہمیشہ مقدم رکھیں اول عبادت کا قیام اور دوم خلافت کا احترام اگر تم جانو تو تمہیں اس حقیقت کا علم ہو کہ انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد ہی عبادت ہے، اور اس عبادت کے دو حصے ہیں ایک خدا کا اور ایک خدا کی مخلوق کا، یعنی نمازوں کو بر وقت، با جماعت اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان کی ہمدردی میں ہمیشہ کوشاں رہنا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.

Page 130

115 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم ” جب تک انسان کامل طور پر تو حید پر کار بند نہیں ہوتا.اس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی.نماز کی لذت اور سرور سے حاصل نہیں ہو سکتا.مداراسی بات پر ہے کہ جب تک برے ارادے نا پاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوں انانیت اور شیخی دور ہو کر نیستی اور فروتنی نہ آئے خدا کا سچا بندہ نہیں کہلا سکتا اور عبودیت کا ملہ کے سکھانے کے لیے بہترین معلم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے.میں پھر تمہیں بتلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نماز پر کار بند ہو جاؤ اور ایسے کار بند بنو کہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری روح کے ارادے اور جذ بے سب کے سب ہمہ تن نماز ہو جائیں“.الحکم جلد 3 : 13 مورخہ 12 اپریل 1899 صفحہ 7) اسی طرح عبادت کی تفصیلات بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.اور عبادت کی فروع میں یہ بھی ہے کہ تم اس شخص سے بھی جو تم سے دشمنی رکھتا ہوا ایسی ہی محبت کرو جس طرح اپنے آپ سے اور اپنے بیٹوں سے کرتے ہو اور یہ کہ تم دوسروں کی لغزشوں سے درگزر کرنے والے اور ان کی خطاؤں سے چشم پوشی کرنے والے بنو اور نیک دل اور پاک نفس ہو کر پر ہیز گاروں والی صاف اور پاکیزہ زندگی گزار و اور تم بری عادتوں سے پاک ہو کر باوفا اور با صفا زندگی بسر کرو اور یہ کہ خلق اللہ کے لیے بلا تکلف و تصنع بعض نباتات کی مانند نفع رساں وجود بن جاؤ اور یہ کہ تم اپنے کبر سے اپنے کسی چھوٹے بھائی کو دکھ نہ دوا اور نہ کسی بات سے اس کے دل کو زخمی کرو بلکہ تم پر واجب ہے کہ اپنے ناراض بھائی کو خاکساری سے جواب دو اور اسے مخاطب کرنے میں اس کی تحقیر نہ کرو اور مرنے سے پہلے مرجاؤ اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کر لو اور جو کوئی ملنے کے لیے تمہارے پاس آئے اس کی عزت کرو خواہ وہ پرانے بوسیدہ کپڑوں میں ہو نہ کہ نئے جوڑوں اور عمدہ لباس میں اور تم ہر شخص کو السلام علیکم کہ خواہ تم اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو اور (لوگوں کی ) غمخواری کے لیے ہر دم تیار کھڑے رہو.( ترجمه از عربی عبارت.اعجاز اسح صفحہ 166 ) پس میرے پیارے نو جوانو ! عبادت کے رنگوں سے اپنی جوانیاں رنگین کرو کہ یہی مردوں کا زیور ہے اور یہ بھی خوب یا درکھو کہ ان عبادات اور مجاہدات کے لیے اصل عمر بھی یہی تمہاری عمر ہے ، بانی مجلس خدام الاحمدیہ حضرت مصلح موعود نے بھی آپ نو جوانوں سے یہی توقع کی تھی جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:.

Page 131

116 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو.دعاؤں پر خاص زور دو، اپنی اصلاح کی فکر کرو.جوانی میں تہجد پڑھنے والے اور جوانی میں دعائیں کرنے والے اور جوانی میں خوابیں دیکھنے والے بڑے نادر وجود ہوتے ہیں.ابدال درحقیقت وہی ہوتے ہیں جو جوانی میں اپنے اندر تغیر پیدا کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق پیدا کر لیتے ہیں کہ بڑھے بڑھے بھی آکر کہتے ہیں کہ حضور ہمارے لیے دعا کیجئے.تمہارے احمدیوں کے بڑھے تو اقطاب ہونے چاہئیں اور احمدیوں کے جوان ابدال ہونے چاہئیں“.(مشعل راه جلد اوّل صفحه 733 ) خلافت کا احترام اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی ساری عبادتوں ، اپنی ساری نیکیوں اور اپنے سارے کاموں کو با برکت انجام تک پہنچانا چاہتے ہو تو خلافت سے محبت اور اس کا ادب اور اس کا احترام اپنے ایمان کا جزو بنالو.اور یہ امر خوب یاد رکھو اور اپنی نسلوں کو ان کے خون کی رگوں میں یہ بات شامل کر دو کہ تمہاری تمام تر ترقیات اب صرف اور صرف خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں ، اس کے پیچھے پیچھے چلو، اس کے اشاروں کو حکم سمجھ کر چلو، تو تم دیکھو گے کہ فتوحات اور ترقیات کی منزلیں تمہارے قدم چومیں گی.ان شاء اللہ حضرت مصلح موعود کے اس ارشاد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں.جس میں آپ نے فرمایا کہ: خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ وقت کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کے طرف سے حکم ملا ہے جب تک یہ روح جماعت کے اندر پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں ، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام رہیں گی“.(الفضل 31 جنوری 1936ء) حضرت خلیفۃالمسیح الثالث" نے بھی اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا اور یہی دستو راور اصول ہے.آپ فرماتے ہیں: غرض ہر اچھا نظر آنے والا عمل.عمل صالح نہیں ہوتا.بلکہ عمل صالح وہ اچھا عمل ہے جو ایمان کے مطابق ہو.جہاں تک خدام الاحمدیہ کے کاموں کا تعلق ہے خدام الاحمدیہ کے وہی کام (دینی)

Page 132

117 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم اصطلاح کی رو سے اعمال صالحہ میں شمار ہوں گے جو خلیفہ وقت کی ہدایات کے مطابق کئے جائیں.اگر خلیفہ وقت نے ایک منصوبہ تیار کیا ہو اس نے بعض ہدایات دی ہوں اور ہم انہیں چھوڑ کر دوسری طرف چلے جائیں تو خواہ وہ کام جنہیں ہم نے کیا ظاہر بین نگاہ میں کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں وہ کام خدام الاحمدیہ کا ایک حلقہ کر رہا ہو تو بھی اور سارے خدام الاحمدیہ مل کر کر رہے ہوں تو بھی خدا تعالیٰ کی نگاہ میں عمل صالح نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کا ایک جزو یہ بتایا ہے کہ خلیفہ وقت کی اطاعت کی جائے قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی بشارت دی کہ اگر تم ایمان کے اوپر قائم رہے اور اگر تم بحیثیت جماعت اس مقام کو جانتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافت کی نعمت سے نوازا ہے اور نوازتا رہے گا تو پھر جو خلیفہ مقرر ہو اس کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرنا اس کو چھوڑ کر دوسری طرف نہ جانا کہ تمہارا ایسا کرنا فاسقانہ اعمال میں شمار ہو گا اعمال صالحہ میں شمار نہیں ہو گا.غرض خدام الاحمدیہ کا لائحہ عمل وہ ہے جو حضرت مصلح موعود نے جب مجلس خدام الاحمدیہ کو جاری فرمایا تو ابتداء میں مختلف وقتوں میں خدام الاحمدیہ کے سامنے رکھا یا وہ لائحہ عمل ہے جو میں اب تمہارے لیے بناؤں“.(مشعل راہ جلد 2 صفحہ 24-23) پس اے احمدی نو جوانوں ! اٹھو! اور اپنے سر کو عجز و انکسار اور متانت و وقار کے ساتھ اٹھا کر چلو کہ خدا کے پیار کے ہاتھ تمہارا ہاتھ تھامنے کو منتظر ہیں، دنیا کی قومیں تمہیں اپنا قائد و معلم بنانے کے لیے تمہارے انتظار میں ہیں.تم راتوں کے راہب بنو اور دن کو بنی نوع انسان کے خدمت کرنے والے میدانوں کے شیر بنو.خدا تمہارے ساتھ ہو.خدا تمہارے ساتھ ہو.والسلام خاکسار ( دستخط ) مرزا مسرور احمد خلیفہ ایسیح الخامس (مشکوۃ قادیان ، خدام الاحمدیہ نمبر ستمبر اکتوبر 2004ء)

Page 133

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 118 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرمود 240 ستمبر 2004ء سے اقتباسات قرآن کریم پڑھنے کی تلقین *...ایک احمدی کو خاص طور پر یہ یا درکھنا چاہیے کہ اس نے قرآن کریم پڑھنا ہے، سمجھنا ہے، غور کرنا ہے اور جہاں سمجھ نہ آئے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وضاحتوں سے یا پھر انہیں اصولوں پر چلتے ہوئے اور مزید وضاحت کرتے ہوئے خلفاء نے جو وضاحتیں کی ہیں ان کو ان کے مطابق سمجھنا چاہیے.اور پھر اس پر عمل کرنا ہے تب ہی ان لوگوں میں شمار ہو سکیں گے جن کے لیے یہ کتاب ہدایت کا باعث ہے.ورنہ تو احمدی کا دعوی بھی غیروں کے دعوے کی طرح ہی ہوگا کہ ہم قرآن کو عزت دیتے ہیں.اس لیے ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ یہ صرف دعوئی تو نہیں؟ اور دیکھے کہ حقیقت میں وہ قرآن کو عزت دیتا ہے؟ کیونکہ اب آسمان پر وہی عزت پائے گا جو قرآن کو عزت دے گا اور قرآن کو عزت دینا یہی ہے کہ اس کے سب حکموں پر عمل کیا جائے.قرآن کی عزت یہ نہیں ہے کہ جس طرح بعض لوگ شیلفوں میں اپنے گھروں میں خوبصورت کپڑوں میں لپیٹ کر قرآن کریم رکھ لیتے ہیں اور صبح اٹھ کر ماتھے سے لگا کر پیار کر لیا اور کافی ہو گیا اور جو برکتیں حاصل ہونی تھیں ہو گئیں.یہ تو خدا کی کتاب سے مذاق کرنے والی بات ہے.دنیا کے کاموں کے لیے تو وقت ہوتا ہے لیکن سمجھنا تو ایک طرف رہا، اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ ایک دور کوع تلاوت ہی کر سکیں.ترجمہ اور تفسیر بھی پڑھیں پس ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں.پھر ترجمہ پڑھیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر پڑھیں.یہ تفسیر بھی تفسیر کی صورت میں تو نہیں لیکن بہر حال ایک کام ہوا ہوا ہے کہ مختلف کتب اور خطابات سے ، ملفوظات سے حوالے اکٹھے کر کے ایک جگہ کر دیئے گئے ہیں اور یہ بہت بڑا اعلم کا خزانہ ہے.

Page 134

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 119 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی اگر ہم قرآن کریم کو اس طرح نہیں پڑھتے تو فکر کرنی چاہیے اور ہر ایک کو اپنے بارے میں سوچنا چاہیے کہ کیا وہ احمدی کہلانے کے بعد ان باتوں پر عمل نہ کر کے احمدیت سے دور تو نہیں جارہا.ذیلی تنظیمیں تعلیم القرآن کے حوالے سے کوشش کریں.پس بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھنے کی عادت ڈالیں اور خود بھی پڑھیں.ہر گھر سے تلاوت کی آواز آنی چاہیے.پھر ترجمہ پڑھنے کی کوشش بھی کریں.اور سب ذیلی تنظیموں کو اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہیے ، خاص طور پر انصار اللہ کو کیونکہ میرے خیال میں خلافت ثالثہ کے دور میں ان کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا.اسی لیے ان کے ہاں ایک قیادت بھی اس کے لیے ہے جو تعلیم القرآن کہلاتی ہے.اگر انصار پوری توجہ دیں تو ہر گھر میں با قاعدہ قرآن کریم پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی کلاسیں لگ سکتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں.قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے“.(الحام 31 اکتوبر 1901 ء ) پس ہر احمدی کو اپنی کامیابیوں کو حاصل کرنے کے لیے یہ نسخہ آزمانا چاہیے.دین بھی سنور جائے گا اور دنیاوی مسائل بھی حل ہو جائیں گے.آج دیکھ لیں مسلمانوں میں جو لڑائی جھگڑے اور دنیا کے سامنے ذلت کی حالت ہے وہ اسی لیے ہے کہ نہ قرآن پڑھتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرتے ہیں.جو پڑھتے ہیں وہ عمل نہیں کرتے ، سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تو ظاہر ہے پھر قرآن کو چھوڑنے کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جونکل الفضل انٹر نیشنل 8 تا 14 اکتوبر 2004ء) رہا ہے......

Page 135

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 120 ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرمودہ یکم اکتوبر 2004ء سے اقتباس پہلے اپنے گھروں میں عبادت کو رائج کریں * صرف یہی نہیں کہ خود ہی ( بیت الذکر ) میں آنا ہے بلکہ اپنی اولادوں کو بھی ( بیت الذکر ) میں لانا ہے اور ان کا بھی ( بیت الذکر ) سے تعلق پیدا کرنا ہے.ان کو بھی ایک خدا کی عبادت کی طرف توجہ پیدا کروانی ہے.ان کی بھی اس نہج پر تربیت کرنی ہے کہ ان کو بھی احساس ہو کہ ان کا اوڑھنا بچھونا نمازوں میں ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں ہے.اس معاشرے میں جہاں وہ رہ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان کی تربیت کرنی ہوگی ، ان کو برے بھلے کی تمیز سکھانی ہوگی.اگر اپنے گھر سے ہی نیکیوں کو پھیلانے اور نمازوں کو قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر تو کامیابی ہوگی.اگر نہیں کریں گے تو اس کا باہر بھی کوئی اثر نہیں ہو گا.کوئی دعوت الی اللہ بھی کارگر نہیں ہو گی.اگر ہر عہد یدار خواہ وہ جماعتی عہدیدار ہو یا ذیلی تنظیموں انصار ، خدام یا لجنہ کے عہدیدار ہوں.ان نیکیوں اور عبادتوں کو اپنے گھروں میں رائج نہیں کریں گے تو باہر بھی کوئی آپ کی بات نہیں سنے گا.انقلاب لانے والے پہلے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں.وہی قوم ترقی کرتی ہے جن کے لیڈروں کے اپنے نمونے اعلیٰ ہوں ، جن کے عہد یدار خود مثالیں قائم کرنے والے بہنیں.پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جماعت کے ہر فرد پر، ہر بچے پر ، ہر بڑے پر ، ہر عہدیدار پر کہ اللہ تعالیٰ کے انعام کی قدر کرتے ہوئے پاک نمونے دکھائیں.عبادتوں کے معیار قائم رکھیں تاکہ سب سے بڑی نعمت جو خلافت کی نعمت ہے وہ آپ میں ہمیشہ قائم رہے.الفضل اند نیشنل 15 تا 21 اکتوبر 2004ء )

Page 136

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 121 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اکتوبر 2004ء سے اقتباس * وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ نام نہاددُعا گو بزرگوں سے بچیں (سورة البقرة : 187)...حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ : ” پیر بنیں.پیر پرست نہ بنیں.یہاں یہ بھی بتا دوں کہ بعض رپورٹیں ایسی آتی ہیں ، اطلاعیں ملتی رہتی ہیں، پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں میں بھی ، بعض جگہ ربوہ میں بھی کہ بعض احمد یوں نے اپنے دعا گو بزرگ بنائے ہوئے ہیں.اور وہ بزرگ بھی میرے نزدیک نام نہاد ہیں جو پیسے لے کر یا ویسے تعویذ وغیرہ دیتے ہیں یا دعا کرتے ہیں کہ 20 دن کی دوائی لے جاؤ ، 20 دن کا پانی لے جاؤ یا تعویذ لے جاؤ.یہ سب فضولیات اور لغویات ہیں.میرے نزدیک تو وہ احمدی نہیں ہیں جو اس طرح تعویذ وغیرہ کرتے ہیں.ایسے لوگوں سے دعا کروانے والا بھی یہ سمجھتا ہے کہ میں جو مرضی کرتا رہوں ، لوگوں کے حق مارتا رہوں ، میں نے اپنے بزرگ سے دعا کر والی ہے اس لیے بخشا گیا، یا میرے کام ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ مومن کہلانا ہے تو میری عبادت کرو، اور تم کہتے ہو کہ پیر صاحب کی دعائیں ہمارے لیے کافی ہیں.یہ سب شیطانی خیالات ہیں ان سے بچیں.عورتوں میں خاص طور پر یہ بیماری زیادہ ہوتی ہے ، جہاں جہاں بھی ہیں ہمارے ایشین (Asian) ملکوں میں اس طرح کا زیادہ ہوتا ہے یا جہاں جہاں بھی Asians اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں وہاں بھی بعض دفعہ ہو جاتا ہے.اس لیے ذیلی تنظیمیں اس بات کا جائزہ لیں اور ایسے جو بدعات پھیلانے والے ہیں اس کا سد باب کرنے کی کوشش کریں.اگر چند ایک بھی ایسی سوچ والے لوگ ہیں تو پھر اپنے ماحول پر اثر ڈالتے رہیں گے.نہ صرف ذیلی تنظیمیں بلکہ جماعتی نظام بھی جائزہ لے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ چند ایک بھی اگر لوگ ہوں گے تو اپنا

Page 137

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 122 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی اثر ڈالتے رہیں گے.اور شیطان تو حملے کی تاک میں رہتا ہے.اللہ تعالیٰ کی بات ماننے والے بننے کی بجائے اس طرح بعض شرک میں پڑنے والے ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ سب کو اس سے محفوظ رکھے.لیکن میں پھر کہتا ہوں کہ یہ بیماری چاہے چند ایک میں ہی ہو، جماعت کے اندر برداشت نہیں کی جاسکتی.اللہ تعالیٰ تو یہ دعا سکھاتا ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں ہر ایک یہ دعا کرے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا.خلیفہ وقت بھی یہ دعا کرتا ہے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا.اور یہ پیر پرست طبقہ کہتا ہے کہ ہم جو مرضی عمل کریں ہمارے پیر صاحب کی دعاؤں سے ہم بخشے جائیں گے.اِنَّا لِلہ.یہ تو نعوذ باللہ عیسائیوں کے کفارہ والا معاملہ ہی آہستہ آہستہ بن جائے گا.وہی نظریہ پیدا ہوتا جائے گا.پس اس طرف چاہے یہ چھوٹے ماحول میں ہی ہو، بہت توجہ کی ضرورت ہے.ابھی سے اس کو دبانا ہوگا.اور ہر احمدی یہ عہد کرے کہ اس رمضان میں اپنے اندر انشاء اللہ تعالی انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں.ہر احمدی یہ کوشش کرے اور ہر احمدی خود ان دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے مزے چکھے بجائے اس کے کہ دوسروں کے پیچھے جائے.الفضل انٹر نیشنل 5 نومبر تا 11 نومبر 2004ء)

Page 138

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 123 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 5 نومبر 2004ء سے اقتباسات لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيْمٌ (آل عمران: 93) اس کا ترجمہ ہے کہ تم ہرگز نیکی کو نہیں پا سکو گے.یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کر وجن سے تم محبت کرتے ہوا اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقینا اللہ اس کو خوب جانتا ہے....دفتر اول کے مجاہدین کے کھاتوں کو زندہ رکھیں اور آج ہم جو دنیا کے مختلف ممالک میں احمدیت کی ترقی کے نظارے دیکھ رہے ہیں یہ ان پہلے لوگوں کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے.جماعتی ترقی کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انفرادی طور پر بھی اُن لوگوں کی قربانیوں کو ضائع نہیں کیا.اُن لوگوں نے اُس وقت جو چند آنوں اور روپوں کی قربانیاں دی تھیں ان میں سے اکثر کی اولادیں آج بڑی آسودہ حال اور بہتر حالات میں ہیں لاکھوں کما رہی ہیں.مالی لحاظ سے بڑی اچھی حالت میں ہیں.بعض ان میں سے شاید ایسے بھی ہوں گے جو تحریک جدید کے اس وقت کے بجٹ کے مطابق شاید آج کل انفرادی طور پر بھی چندہ دے دیتے ہوں.لیکن ان لوگوں کی قربانیاں بھلائی نہیں جاسکتیں.اسی لیے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اظہار کیا تھا کہ تحریک جدید کے جو شروع کی قربانی کرنے والے ہیں ان کے کھاتوں کو تا قیامت زندہ رکھا جائے ، ہمیشہ جاری رکھا جائے اور ان کی اولادیں یہ کام اپنے سپر دلیں، اس ذمہ داری کو اٹھا ئیں اور ان کے کھاتے کبھی مرنے نہ دیں.وہ پانچ ہزار مجاہدین جو تھے ان کے کھاتے کبھی نہ مریں.شروع میں وہ پانچ ہزار تھے اس کے لیے دو دفعہ حضرت خلیفۃ امسیح الرابع " نے تحریک کی کہ ایسے لوگوں کی اولادیں کچھ ہوش کریں اور آگے آئیں اور اپنے بزرگوں کے کھاتے جو فوت ہوگئے ، جنہوں نے قربانیاں دیں ، ان کھاتوں کو دوبارہ زندہ

Page 139

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 124 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی کریں.ان کے نام رجسٹروں میں رہنے چاہئیں.ان کے نام کا چندہ جاری رہنا چاہیے.چند روپے ہی تھے وہ لیکن ان کا نام بہر حال رہنا چاہیے.اور یہ تا قیامت رہنا چاہیے.آپ نے فرمایا تھا کہ اس وقت ان میں سے اکثریت یہ لوگ پانچ دس روپے ہی دینے والے تھے.ایسا مشکل کام نہیں ہے کہ یہ کھاتے دوبارہ زندہ نہ کئے جاسکیں.ان کے نام کے چندے دوبارہ جاری نہ کئے جاسکیں.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ بہتوں کے حالات اب ایسے ہیں کہ ان کے لیے یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے کہ اپنے بزرگوں کے چندے دوبارہ دینا شروع کر دیں.بہر حال دفتر تحریک جدید نے بھی حضور کے توجہ دلانے پر کوشش کی تھی اور ان پانچ ہزاری مجاہدین میں سے چونتیس سو کے کھاتے دوبارہ جاری ہو گئے تھے ، ان کے نام کے چندے دیئے جانے لگ گئے تھے.لیکن پھر لوگوں کی عدم توجہ کی وجہ سے یا کچھ لوگوں کے باہر نکل جانے کی وجہ سے یا اور کچھ وجوہات سے پھر اس طرف توجہ کم ہو گئی.ہو سکتا ہے کہ باہر آ کے کچھ لوگ چندے اپنے بزرگوں کے نام پہ دیتے بھی ہوں لیکن باہر کے ملکوں میں یہ ادائیگیاں ان کے بزرگوں کے نام میں شمار نہیں ہوتیں.اور اگر ہوتی بھی ہیں تو مرکز میں کیونکہ ریکارڈ ہے وہاں درج نہیں ہوتیں.اور ہوسکتا ہے کہ آپ اپنے بزرگوں کے نام پر ادائیگی کر رہے ہوں اور آپ کے نام پر یہ ادائیگی شامل کی جارہی ہو.تو جیسا کہ میں نے کہا کیونکہ ریکارڈ مرکز میں ہے اس لیے ایسے بزرگوں کی اولا دیں اپنے بزرگوں کے کھاتے اگر زندہ کرنا چاہتی ہیں تو وہ سہولت اسی میں ہے کہ مرکز ربوہ سے رابطہ کریں کہ ان کی کیا کیا رقم تھی یا وعدے تھے اور وہیں ادائیگی کی کوشش کریں تاکہ ریکارڈ درست رہے.کیونکہ اب جیسا کہ میں نے کہا یہ چونتیس سو جو کھاتے تھے ان میں سے بھی توجہ کم ہوتی چلی گئی ہے اور پھر یہ اب اکیس سو کے قریب رہ گئے ہیں.اس لیے بہت توجہ کی ضرورت ہے.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جن بزرگوں کے کھاتے کوئی زندہ نہیں کرتا ان کے حساب میں کوئی چندہ نہیں دیتا، ان کے اس وقت کے مطابق جو چند روپوں میں ادائیگی ہوتی تھی ، ( پانچ دس روپے میں) یا ویسے بھی ان کا نام زندہ رکھنے کے لیے ٹوکن کی صورت میں ہو سکتی ہے.فرمایا تھا کہ پانچ روپے کے حساب سے ایک ہزار کی میں ذمہ واری اٹھاتا ہوں.میں اپنے ذمے لیتا ہوں اگر ان کی اولادیں ان کے نام کے ساتھ چندہ نہیں دے سکتیں.آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اور

Page 140

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 125 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی اس طرح لوگ آگے آئیں اور ذمہ داری اٹھائیں.اور اپنے بارے میں یہ فرمایا کہ میرے بعد میری اولا دامید کرتا ہوں اس کام کو جاری رکھے گی.تو بہر حال آپ کو بھی دفتر نے توجہ نہیں دلائی یا ریکارڈ درست نہیں رکھا، ہوسکتا ہے کہ اپنے چندوں میں شامل کر کے آپ ان لوگوں کے لیے چندے دیتے رہے ہوں لیکن بہر حال ریکارڈ میں یہ بات نظر نہیں آرہی کہ آپ کا وعدہ تھا.اس لیے ان کی اس خواہش کی تکمیل میں ان کا جو اکیس سالہ دور خلافت تھا جس حساب سے بھی حضرت خلیفتہ المسیح الرابع ” نے فرمایا تھا، اپنے خطبے میں ذکر کیا تھا.اب دفتر تحریک جدید کو میں کہتا ہوں کہ یہ حساب مجھے بھجوا دیں.مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ان کی اولاد اس کی ادائیگی کر دے گی.جو بھی ان کا حساب بنتا ہے، ان ایک ہزار بزرگوں کا.بہر حال اگر اولاد نہیں بھی کرے گی تو میں ذمہ واری لیتا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ ادا کر دوں گا.اور اسی حساب سے دفتر ایسے تمام لوگوں کے کھاتوں کے بارے میں مجھے بتائے جن کے کھاتے ابھی تک جاری نہیں ہوئے تا کہ ان کی اولادوں کو توجہ دلائی جاتی رہے.لیکن جب تک ان کی اولادوں کی اس طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی ، اسی حساب سے جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ کھاتے ٹوکن کے طور پر زندہ رکھنے چاہئیں، ان لوگوں کی ادائیگی میں اپنے ذمے لیتا ہوں، انشاء اللہ تعالیٰ میں ادا کروں گا.اور جب تک زندگی ہے اللہ تعالیٰ توفیق دے ادا کرتا رہوں گا اس کے بعد اللہ میری اولا د کو تو فیق دے.لیکن یہ لوگ جن کی قربانیوں کے ہم پھل کھا رہے ہیں.ان کے نام بہر حال زندہ رہنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ ان سب کی اولادوں کو توفیق دے.بچوں کو بھی چندے دینے کی عادت ڈالیں پھر آپ ( حضرت مسیح موعود ) نے فرمایا کہ : ” قوم کو چاہیے کہ ہر طرح سے اس سلسلہ کی خدمت بجا لاوے.مالی طرح پر بھی خدمت کی بجا آوری میں کو تا ہی نہیں چاہیے.دیکھو دنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس امر کا خیال ضروری ہے.اگر یہ لوگ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دیویں تو بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے.ہاں اگر کوئی ایک پیسہ بھی نہیں دیتا تو اسے جماعت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے“.

Page 141

126 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم پھر فرمایا کہ: ” انسان اگر بازار جاتا ہے تو بچے کی کھیلنے والی چیزوں پر ہی کئی کئی پیسے خرچ کر دیتا ہے.تو پھر یہاں اگر ایک ایک پیسہ دے دیوے تو کیا حرج ہے؟ خوراک کے لیے خرچ ہوتا ہے، لباس کے لیے خرچ ہوتا ہے، اور ضرورتوں پر خرچ ہوتا ہے، تو کیا دین کے لیے ہی مال خرچ کرنا گراں گزرتا ہے.دیکھا گیا ہے کہ ان چند دنوں میں صدہا آدمیوں نے بیعت کی ہے مگر افسوس ہے کہ کسی نے ان کو کہا بھی نہیں کہ یہاں چندوں کی ضرورت ہے.خدمت کرنی بہت مفید ہوتی ہے.جس قدر کوئی خدمت کرتا ہے اسی قدر وہ راسخ الایمان ہو جاتا ہے.اور جو کبھی خدمت نہیں کرتے ہمیں تو ان کے ایمان کا خطرہ ہی رہتا ہے.چاہیے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک متنفس عہد کرے کہ میں اتنا چندہ دیا کروں گا کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے عہد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت دیتا ہے.پھر آپ نے فرمایا: ” بہت لوگ ایسے ہیں کہ جن کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ چندہ بھی جمع ہوتا ہے.ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہیے کہ اگر تم سچا تعلق رکھتے ہو تو خدا تعالیٰ سے پکا عہد کر لو کہ اس قدر چندہ ضرور دیا.کروں گا اور نا واقف لوگوں کو یہ بھی سمجھایا جاوے کہ وہ پوری تابعداری کریں.اگر وہ اتنا عہد بھی نہیں کر سکتے تو پھر جماعت میں شامل ہونے کا کیا فائدہ.نہایت درجہ کا بخیل ( کنجوس ) اگر ایک کوڑی بھی روزانہ اپنے مال میں سے چندے کے لیے الگ کرے تو وہ بھی بہت کچھ دے سکتا ہے.ایک ایک قطرہ سے دریا بن جاتا ہے.اگر کوئی چار روٹی کھاتا ہے تو اسے چاہیے کہ ایک روٹی کی مقدار اس میں سے سلسلہ کے لیے بھی الگ کر رکھے اور نفس کو عادت ڈالے کہ ایسے کاموں کے لیے اسی طرح سے نکالا کرے.چندے کی ابتدا اس سلسلہ سے ہی نہیں ہے بلکہ مالی ضرورتوں کے وقت نبیوں کے زمانوں میں بھی چندے جمع کئے گئے تھے.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 358-1 36 جدید ایڈیشن) پس جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ بچوں ، کھلونوں وغیرہ پر خرچ کر دیتے ہیں تو دین کے لیے کیوں نہیں کئے جاتے.تو اس وقت بھی جب بچوں پر خرچ کر رہے ہوتے ہیں اگر بچوں کو سمجھایا جاوے اور کہا جائے کہ تمہیں بھی مالی قربانی کرنی چاہیے اور اس لیے کہ جماعت میں بچوں کے لیے بھی ، جو نہیں کماتے ان کے لیے بھی ایک نظام ہے.تحریک جدید ہے ، وقف جدید ہے.تو اس لحاظ سے بچوں کو بھی مالی قربانی کی عادت ڈالنے کے لیے ان تحریکوں میں حصہ لینا چاہیے.اس کے

Page 142

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 127 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی لیے کہنا چاہیے، اس کی تلقین کرنی چاہیے.جب بھی بچوں کو کھانے پینے کے لیے یا کھیلنے کے لیے رقم دیں تو ساتھ یہ بھی کہیں کہ تم احمدی بچے ہو اور احمدی بچے کو اللہ تعالیٰ کی خاطر بھی اپنے جیب خرچ میں سے کچھ بچا کر اللہ کی خاطر، اللہ کی راہ میں دینا چاہیے.اب عید آ رہی ہے.بچوں کو عیدی بھی ملتی ہے تھنے بھی ملتے ہیں.نقدی کی صورت میں بھی.اس میں سے بھی بچوں کو کہیں کہ اپنا چندہ دیں.اس سے پھر چندہ ادا کرنے کی اہمیت کا بھی احساس ہوتا ہے اور ذمہ داری کا بھی احساس ہوتا ہے.بچہ پھر یہ سوچتا ہے اور بڑے ہو کر یہ سوچ پکی ہو جاتی ہے کہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر خرچ کروں ، قربانیاں دوں.نو مبائعین کو ابتدا سے چندہ کی عادت ڈالیں پھر نو مبائعین کے بارے میں فرمایا کہ بیعت کرتے ہیں اور وہ چندہ نہیں دیتے.ان کو بھی اگر شروع میں یہ عادت ڈال دی جائے کہ چندہ دینا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کے دین کی خاطر قربانی کی جائے تو اس سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے تو ان کو بھی عادت پڑ جاتی ہے.بہت سے نو مبائعین کو بتایا ہی نہیں جاتا کہ انہوں نے کوئی مالی قربانی کرنی بھی ہے کہ نہیں.تو یہ بات بتانا بھی انتہائی ضروری ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کا پھر ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے جو مالی قربانیاں نہیں کرتے.اب اگر ہندوستان میں ، انڈیا میں اور افریقن ممالک میں یہ عادت ڈالی جاتی تو چندے بھی کہیں کے کہیں پہنچ جاتے اور تعداد بھی کئی گنا زیادہ ہو سکتی تھی..آج سے دفتر پنجم کا آغاز ہوتا ہے انشاء اللہ تعالیٰ.اب آئندہ سے جتنے بھی نئے مجاہدین تحریک جدید کی مالی قربانی میں شامل ہوں گے وہ دفتر پنجم میں شامل ہوں گے.تحریک جدید نظام وصیت کا ارہاص ہے حضرت مصلح موعود ( نور اللہ مرقدہ) نے ایک وقت فرمایا تھا کہ تحریک جدید کا جو نظام ہے ،تحریک ہے ، یہ نظام وصیت کے لیے ارہاص کے طور پر ہے یعنی اس کی وجہ سے نظام وصیت بھی مضبوط ہوگا.یہ مالی قربانیوں کی عادت ڈالنے کی بنیاد ہوگی.یہ پیشرو ہے، یہ آگے چلنے والی چیز ہے ، اطلاع دینے والا جو ایک دستہ ہوتا ہے اس طرح ہے.لوگوں کو اطلاع دیتا چلا جائے گا کہ ایک عظیم نظام اس کے پیچھے آرہا

Page 143

128 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم ہے یہ نظام وصیت کہلائے گا.اور جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ نظام وصیت کے ساتھ نظام خلافت کا بھی بڑا گہرا تعلق ہے.اب اس نظام وصیت کے ساتھ ہی قربانیوں کے معیار بھی بڑھنے ہیں.تو پہلے قربانیوں کی عادت ڈالنے کے لیے تحریک جدید کا نظام ہی ہے.اور پھر ان قربانیوں کے معیار بڑہنے سے حقوق العباد کے ادا کرنے کے معیار بھی بڑھیں گے.پس جماعتیں اس طرف بھر پور توجہ دیں ، خاص طور پر توجہ دیں تا کہ آئندہ نظام وصیت بھی مضبوط بنیادوں پر اس قربانی کی وجہ سے قائم ہو....الفضل انٹر نیشنل 19 تا 25 نومبر 2004ء )

Page 144

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 129 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 12 نومبر 2004ء سے اقتباسات * يَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ - ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (سورۃ الجمعہ: آیت نمبر 11,10 ) ترجمہ : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو جب جمعہ کے دن کے ایک حصے میں نماز کے لیے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو.یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.پس جب نماز ادا کی جاچکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.آج احمدی کا یہ کام ہے کہ جمعہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہمیشہ جمعہ کی حاضری کو لازمی اور یقینی بنائیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی وجہ سے رحمان کے بندے بننے کی کوشش کریں.اور جب رحمان کے بندے بننے کی کوشش کر رہے ہوں گے تو صرف جمعوں کی حاضری کی فکر ہی نہیں ہوگی ہمیں، بلکہ پھر نمازوں کی حاضری کی بھی فکر ہوگی.اور ( بیوت الذکر ) کی آبادی کی بھی فکر ہوگی.اپنی غلطیوں ، کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی بھی فکر ہوگی.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.جمعہ کی اہمیت و فرضیت...عَلْقَمَہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ہمراہ جمعہ کے لیے گیا.انہوں نے دیکھا کہ ان سے پہلے تین آدمی مسجد پہنچ چکے تھے.انہوں نے کہا چوتھا میں ہوں.پھر کہا خیر چوتھا ہونے میں کوئی دوری نہیں.پھر کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور جمعوں میں آنے کے حساب سے بیٹھے ہوں گے یعنی پہلا ، دوسرا، تیسرا پھر

Page 145

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 130 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی انہوں نے کہا چوتھا اور چوتھا بھی اللہ تعالیٰ کے دربار میں بیٹھنے کے لحاظ سے کوئی دور نہیں ہے.(سنن ابن ماجه - كتاب اقامة الصلوة والسنة فيها باب ما جاء فی التهجير الى الجمعة) تو جمعہ پر جلدی آنے کے لیے صحابہ کی یہی کوشش ہوتی تھی اور یہ شوق ہوتا تھا.احمد یوں کو بھی اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہ سورہ جمعہ ہی ہے جس میں آخرین کا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کا پہلوں سے یعنی صحابہ سے ملنے کا ذکر ہے.تو یہ ملنا تو تبھی ملنا ہوگا جب ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کر رہے ہوں گے.پس جیسا کہ میں نے کہا ہے احمدیوں کو جمعہ کی حاضری اور اس کی حفاظت کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے.کیونکہ ایک تو اپنی ذات میں جمعہ کی ایک خاص اہمیت ہے.جو باتیں میں نے ابھی بتائی ہیں قرآن وحدیث سے بڑا واضح ہے.دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد جو ایک ہاتھ پر جمع ہو کر اپنے اوپر ہم نے ایک اور زیادہ ذمہ واری ڈال لی ہے کہ اکٹھے ہو کر دعائیں کرتے ہوئے ہم نے تمام دنیا کو ایک ہاتھ پہ جمع بھی کرنا ہے.تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کی جماعت میں شامل بھی کرنا ہے.اس ذمہ داری کو نبھانا ہے اس کے لیے کوششیں بھی بہت زیادہ کرنی ہوں گی.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.جمعۃ الوداع کے دن کا عہد جو آج جمعۃ الوداع میں شامل ہوئے ہیں، جمعہ میں شامل ہوئے ہیں جمعۃ الوداع سمجھ کر وہ اس عہد کے ساتھ اٹھیں اور وہ لوگ بھی جو کبھی کبھار جمعوں پر آتے ہیں تین چار جمعے Miss کرنے کے بعد ایک جمعہ پڑھ لیا وہ بھی اس عہد کے ساتھ اٹھیں کہ یہ جمعہ جو ہے ، جمعۃ الوداع نہیں ہے.بلکہ جس طرح دوڑ شروع ہونے سے پہلے ایک لائن بنائی جاتی ہے جس پر دوڑنے والے دوڑ شروع ہونے سے پہلے کھڑے ہوتے ہیں یہ جمعہ جو ہے یہ اس لائن کی طرح ہوا اور دل میں یہ عہد ہو کہ آج اس پوائنٹ سے ہم نے یا اس لائن سے ہم نے اپنی نیکیوں کی دوڑ شروع کر دینی ہے.اور نہ کوئی نماز قضاء کرنی ہے اور نہ کوئی جمعہ چھوڑنا ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے خاص کوشش ہمیشہ کرتے رہنا ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادتوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں.(الفضل انٹر نیشنل 26 نومبر تا 2 دسمبر 2004ء)

Page 146

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 131 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 19 نومبر 2004ء سے اقتباس * آپس میں پیار محبت سے رہو ( دین حق ) نے ہمیں (مومنوں کو ) آپس میں گھل مل کر رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ معاشرے میں اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے پر بہت زور دیا ہے.مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرو، آپس میں محبت اور پیار سے رہو، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو اور انسان سے کیونکہ غلطیاں اور کوتاہیاں ہوتی رہتی ہیں، اس لیے اپنے ساتھیوں، اپنے بھائیوں ، اپنے ہمسایوں یا اپنے ماحول کے لوگوں کے لیے ان کی غلطیاں تلاش کرنے کے لیے ہر وقت ٹوہ میں نہ لگے رہو، تجسس میں نہ لگے رہو کہ کسی طرح میں کسی کی غلطی پکڑوں اور پھر اس کو لے کر آگے چلوں.یہ بڑی لغو اور بیہودہ حرکت ہے.یہ غلطیاں پکڑنے والے یا پکڑنے کا شوق رکھنے والے لوگ عموماً یا تو کوئی غلطی پکڑ کر جس کی غلطی پکڑی ہو اس کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے کوئی کام لینے کوشش کرتے ہیں، کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں انفرادی طور سے لے کر ملکوں کی سطح تک یہ حرکتیں کی جاتی ہیں.اس کے لیے بڑے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں.اور اس طرح بعض لوگوں کو ان کے اپنے ملکوں کے خلاف بھی استعمال کر لیا جاتا ہے، جب ملکی سطح پر یہ کام ہور ہے ہوں.ایک دوسرے کی کمزوریاں تلاش نہ کریں پھر انفرادی طور پر برادریوں میں بعض لوگوں کو ایک دوسرے کی کمزوریاں تلاش کرنے کی عادت ہوتی ہے تا کہ ان کی بدنامی کی جائے.بعض ظالم تو اس طرح بعضوں کی کمزوریاں تلاش کر کے یا نہ بھی کمزوری ہو تو باتیں پھیلا کر بچیوں کے رشتے تڑوانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ، اس سے بھی باز نہیں آتے.دوسرے فریق کو جا کر بعض دفعہ جہاں رشتے کی بات چل رہی ہو اس طرح غلط بات کہہ دیتے ہیں کہ اگلا پھر فکر میں پڑ

Page 147

132 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم جاتا ہے کہ میں رشتہ کروں بھی کہ نہ.مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح لڑکی والوں کو تکلیف میں ڈالا جائے.بعض لوگ صرف عادتاً زبان کا مزہ لینے کے لیے ہنسی ٹھٹھے کے رنگ میں کسی کی کمزوری کو لے کر اچھالتے ہیں.اور آج کل کے معاشرے میں یہ تکلیف دہ صورتحال کچھ زیادہ ابھرتی ہوئی نظر آ رہی ہے.شاید اس لیے کہ آپس کے رابطے آسان ہو گئے ہیں.تو بہر حال کوئی خاص فائدہ اٹھانے کے لیے یا کسی کو بدنام کرنے کے لیے یا زبان کا مزہ لینے کے لیے دوسروں کی کمزوریوں اور غلطیوں کو اچھالا جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ ایسا موقع پیدا کیا جاتا ہے کہ کوئی غلطی کسی سے کروائی جائے اور پھر اس کو پکڑ کر فائدہ اٹھایا جائے.ستاری اختیار کریں تو ان حالات میں جیسا کہ میں نے کہا صرف ( دین حق ) اپنے ماننے والوں سے یہ کہتا ہے کہ ان بیہودگیوں اور ان لغویات سے بچو، اور اس زمانے میں، آج کل حقیقی (دین حق کا نمونہ دکھانے والا اگر کوئی ہے یا ہونا چاہیے تو وہ احمدی ہے.اس لیے ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ کسی کے عیب اور غلطیاں تلاش کرنا تو دور کی بات ہے اگر کوئی کسی کی غلطی غیر ارادی طور پر بھی علم میں آ جائے تو اس کی ستاری کرنا بھی ضروری ہے.کیونکہ ہر ایک کی ایک عزت نفس ہوتی ہے.اس چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے.دوسرے اگر کوئی برائی ہے، حقیقت میں کوئی ہے تو اس کے اظہار سے ایک تو اس کے لیے بدنامی کا باعث بن رہے ہوں گے دوسرے دوسروں کو بھی اس برائی کا احساس مٹ جاتا ہے، جب آہستہ آہستہ برائیوں کا ذکر ہونا شروع ہو جائے.اور آہستہ آہستہ معاشرے کے اور لوگ بھی اس برائی میں ملوث ہو جاتے ہیں.برائیوں کی تشہیر نہ کریں اس لیے ہمیں واضح حکم ہے کہ جو باتیں معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والی ہوں یا بگاڑ پیدا کرنے کا باعث ہو سکتی ہوں ، ان کی تشہیر نہیں کرنی ، ان کو پھیلانا نہیں ہے.دعا کرو اور ان برائیوں سے ایک طرف ہو جاؤ.اور اگر کسی سے ہمدردی ہے تو دعا اور ذاتی طور پر سمجھا کر اس برائی کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہی سب سے بڑا علاج ہے.جماعتی مفاد کے خلاف اطلاع متعلقہ عہدیدار کو دیں سوائے اس کے کہ ایسی صورت ہو کہ جس میں جماعتی خبر ہو یا جماعت کے خلاف کوئی بات سنیں ،

Page 148

133 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم جماعتی نقصان کا احتمال ہوا اور کوئی ایسی بات پتہ لگے جیسا کہ میں نے کہا، جس سے جماعتی نقصان ہونے کا خدشہ ہوتو پھر متعلقہ عہدیداروں کو ، یا مجھ تک یہ بات پہنچائی جاسکتی ہے.ادھر ادھر باتیں کرنے کا پھر بھی کوئی حق نہیں اور کوئی ضرورت نہیں.اس سے برائی پھیلتی ہے.اگر مثلا اس غلطی کرنے والے شخص کی اصلاح کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی یا جھوٹ بول کر غلط بیانی کر کے وقتی طور پر اس نے اپنی جان بچالی تو دوسرے بھی جن کی طبیعت میں کمزوری ہے وہ بھی بعض دفعہ ایسی باتیں کر جائیں گے، اپنی کمزوریاں ظاہر کرنے لگ جائیں گے.کیونکہ ان کے ذہنوں میں بھی یہ ہوتا ہے کہ فلاں شخص کی غلطی پکڑ کے اس عہد یدار نے یا اس شخص نے کیا کر لیا جو ہمارے خلاف ہو جائے گا.اس شخص کا کیا بگڑ گیا ہے.زبان کا مزہ لینے کے لیے بعض باتیں کر لو بعد میں دیکھی جائے گی.اس قسم کی باتیں برائیاں پھیلاتی ہیں ، حجاب اٹھ جاتے ہیں.تو بہر حال یہ تو ایسے لوگوں کی سوچ کا قصور ہے، تقویٰ کی کمی ہے لیکن جس شخص کو نظام کے خلاف کوئی بات پتہ چلے، اس کا بہر حال یہ فرض بنتا ہے کہ ایسی بات صرف نظام جماعت کو ہی بتائے اور ادھر ادھر نہ کرے.کیونکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ سننے والے کو کوئی غلطی لگ جاتی ہے.بعض دفعہ بات کرنے والا با وجود جماعتی اخلاص کے وقتی جوش میں کوئی ایسی بات کہہ جاتا ہے جس پر بعد میں اسے بھی شرمندگی ہوتی ہے اور ایک دفعہ بات سن کے آگے پھیلا دینا مزید شرمندگی کا باعث بنتا ہے.بعض دفعہ صحیح الفاظ کسی نے ادا نہیں کئے ہوتے تو اس وجہ سے اس بات کی بہت زیادہ بھیا نک شکل نظر آنے لگ جاتی ہے.تو بہر حال کوئی بھی ایسی کمزوری ہو یا تو اس کو علیحدگی میں سمجھا دیا جائے یا جماعتی عہد یدار کو بتا دیا جائے کہ اس طرح کی بات میں نے سنی ہے آپ تحقیق کر لیں.لیکن کسی کی کسی قسم کی بات کو کبھی بھی پھیلا نا نہیں چاہیے جس سے کسی کی عزت پر حرف آتا ہو.ہوسکتا ہے کسی وقت یہی غلطی آپ سے بھی ہو جائے اور پھر اس طرح چرچا ہونے لگے، بدنامی ہو تو کتنی تکلیف پہنچتی ہے.ہر ایک کو اس سوچ کے ساتھ اگلے کی بات کرنی چاہیے.الفضل انٹر نیشنل 3 تا 9 دسمبر 2004ء)

Page 149

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 134 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 3 دسمبر 2004ء سے اقتباسات * عبادت الہی کیوں ضروری ہے گزشتہ دنوں مجھے کسی نے امریکہ سے لکھا کہ بعض لوگ جو آج کل اس مغربی معاشرے سے متاثر لگتے ہیں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کروانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس سے یوں لگتا ہے گویا ( نعوذ باللہ ) خدا تعالیٰ کو بھی دنیا داروں کی طرح اپنے ماننے والوں یا اپنے احکامات پر عمل کرنے والوں کی ضرورت ہے یا ایسے لوگ چاہئیں جو ہر وقت اس کا نام جپتے رہیں اس کے آگے جھکے رہیں ، یہ تو خط میں واضح نہیں تھا کہ یہ خیالات رکھنے والے احمدی ہیں، غیر احمدی ہیں یا اس ماحول کے لڑکے ہیں یا کوئی اور.بہر حال مجھے اس سے یہ تاثر ملا تھا کہ شاید کچھ احمدی لڑکے بھی ہوں یا ان میں کچھ احمدی لوگ بھی ہوں ،صرف نو جوان ہی نہیں بڑی عمر کے بھی بعض اوقات ہو جاتے ہیں جو بعض دفعہ لا مذہبوں یا دوسروں سے متاثر ہوکر ایسی باتیں کر جاتے ہیں یا متاثر ہو رہے ہوتے ہیں.تو تاثر یہی تھا کہ یہ جو پانچ وقت کی نمازیں ہیں ، جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یہ جیسے کہ زائد بوجھ ہیں اور ان کی اس طرح پابندی کرنی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں ہے اور آج کل کے مصروف زمانے میں یہ بہت مشکل کام ہے بہر حال دہریت اور عیسائیت دونوں سے متاثر ہو کر ایسے لوگ ایسی باتیں کر سکتے ہیں.اور ان پر یہ باتیں اثر انداز ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ مغرب میں رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے ، إِلَّا مَا شَاءَ الله عموماً احمدی یہ تو ہو سکتا ہے کہ عبادت میں نمازوں میں ستی کر جائیں لیکن اس قسم کے نظریات نہیں رکھتے کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کروانے کی کیا ضرورت تھی.یا یہ زمانہ جو سائنس کا اور مشینی زمانہ ہے اس میں اس طرح عبادات نہیں ہو سکتیں ، پابندیاں نہیں ہوسکتیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ عموماً تو نہیں ہوتے لیکن

Page 150

135 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم اگر چند ایک بھی ایسے احمدی ہوں جن کا جماعت سے اتنا زیادہ تعلق نہ ہو تعلق سے میری مراد ہے جماعتی پروگراموں میں حصہ نہ لیتے ہوں یا جلسوں وغیرہ پر نہ آتے ہوں یا جن کا دینی علم نہ ہو، ایسے لوگ اپنے آپ کو بڑا پڑھا لکھا بھی سمجھتے ہیں، یہ لوگ ایسی باتیں کر جاتے ہیں.اپنے ماحول میں اس قسم کی باتوں سے برائی کا بیج بو سکتے ہیں.یا بعض دفعہ جیسا کہ میں نے کہا کہ جو لا مذہب قسم کے لوگ ہوتے ہیں وہ بھی ماحول پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں.اور کیونکہ برائی کے جال میں انسان بڑی جلدی پھنستا ہے اس لیے بہر حال فکر بھی پیدا ہوتی ہے کہ ایسے مغربی معاشرے میں جہاں مادیت زیادہ ہو، اس قسم کی باتیں کہیں اوروں کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں.یلی تنظیمیں دور ہٹے نو جوانوں کو قریب لائیں ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپنے ماحول میں جائزہ لیتے رہیں.عموماً جو احمدی کہلانے والے ہیں عموماً ان تک ان کی پہنچ ہونی چاہیے.جو نو جوان دُور ہٹے ہوتے ہیں ان کو قریب لانا چاہیے تا کہ اس قسم کی ذہنیت یا اس قسم کی باتیں ان کے ذہنوں سے نکلیں.الفضل انٹر نیشنل 17 تا 23 دسمبر 2004 ء )

Page 151

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 136 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 31 دسمبر 2004ء سے اقتباسات * تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:- إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيْعًا بَصِيرًا.(سورة النساء آیت : 59) یہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نظام خلافت جماعت میں جاری فرمایا اور اس نظام خلافت کے گرد جماعت کا محلہ کی سطح یا کسی چھوٹی سے چھوٹی اکائی سے لے کر شہری اور ملکی سطح تک کا نظام گھومتا ہے.یعنی کسی چھوٹی سے چھوٹی جماعت کے صدر سے لے کر ملکی امیر تک کا بلا واسطہ یا بالواسطہ خلیفہ وقت سے رابطہ ہوتا ہے.پھر ہر شخص انفرادی طور پر بھی رابطہ کر سکتا ہے.خلیفہ وقت کے پاس کسی عہدیدار کی شکایت کرنے کا طریق ہر فرد جماعت خلیفہ وقت سے رابطہ رکھتا ہے.لیکن اگر کسی جماعتی عہد یدار سے کوئی شکوہ ہو یا شکایت ہوا اور خلیفہ وقت تک پہنچانی ہو تو ہر ایک کے انفرادی رابطے کے باوجود اس کو یہ شکایت امیر کے ذریعے ہی پہنچانی چاہیے اور امیر ملک کا کام ہے کہ چاہے اس کے خلاف ہی شکایت ہو وہ اسے آگے پہنچائے اور اگر کسی وضاحت کی ضرورت ہے تو وضاحت کر دے تا کہ مزید خط و کتابت میں وقت ضائع نہ ہو.لیکن شکایت کرنے والے کا بھی کام ہے کہ اپنی کسی ذاتی رنجش کی وجہ سے کسی عہد یدار کے خلاف شکایت کرتے ہوئے اسے جماعتی رنگ نہ دے.تقویٰ سے کام لینا چاہیے.بعض دفعہ بعض کم علم یا جن میں دنیا کی مادیت نے اپنا اثر ڈالا ہوتا ہے ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جماعت کے وقار اور روایات کے خلاف ہوتی ہیں اس لیے ایسے کمزوروں یا کم علم رکھنے والوں کو سمجھانے کے لیے میں یہ بتا رہا ہوں کہ ایسی

Page 152

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 137 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی باتوں سے پر ہیز کرنا چاہیے.عہد یداران کی مکمل اطاعت کریں عہدیداروں کا چناؤ آپ انتخاب کے ذریعے سے کرتے ہیں.عموماً اسی طرح ہوتا ہے ، سوائے اس کے کہ بعض خاص حالات میں بعض جگہ نامزدگی کر دی جائے اور یہ جو نامزدگی ہے یہ بھی مرکز یا خلیفہ وقت کی منظوری سے ہوتی ہے.تو بہر حال جب یہ انتخاب اکثریت کی خواہش کے مطابق ہو جاتا ہے تو پھر جس نے منتخب عہدیدار کو ووٹ نہیں بھی دیا اس کا بھی کام ہے کہ مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ عہدیدار کے ساتھ رہے.پھر تمام جماعت اگر اس طرح رہے گی تو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح بن کے رہے گی ، بنیان مرصوص کی طرح بن کے رہے گی.یہ تمام باتیں میں اس لیے نہیں کہہ رہا کہ خدانخواستہ کہیں سے کوئی بغاوت کی بو آ رہی ہے یا کہیں کوئی مسئلہ کھڑا ہوا ہے.یہ اس لیے بتا رہا ہوں کہ بعض دنیا دار جیسا کہ میں نے کہا اپنی کم علمی یا بے وقوفی یا د نیا داری کی وجہ سے ایسی باتیں کر جاتے ہیں.اور بعض دفعہ جماعت میں نئے شامل ہونے والے ایسی باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں.اور اس کے علاوہ یہ نو بائعین کی اپنی تربیت کے لیے بھی ضروری ہے کہ ان کو نظام جماعت کے بارے میں ، عہد یداروں کی ذمہ داریوں کے بارے میں بتایا جائے.کیونکہ نئے آنے والوں کے ذہنوں میں سوال اٹھتے رہتے ہیں.بہر حال الہی وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں یہ نظام ، نظام خلافت کے ساتھ قائم رہنا ہے اور اب یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے.کوئی مخالف یا کوئی دشمن اب اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا انشاء اللہ.لیکن ہمیں اپنے ذہنوں میں بعض باتیں تازہ رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً ان باتوں کی جگالی کرتے رہنا چاہیے.تا کہ جو پرانے احمدی ہیں ان کے ذہنوں میں بھی یہ باتیں تازہ رہیں اور اس کے ساتھ ہی نو مبائعین بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں.اور کبھی کسی کے ذہن میں کسی قسم کی بے چینی پیدا نہ ہو.امانتیں حقداروں کے سپرد کریں سب سے پہلے تو ہم قرآن کریم سے رہنمائی لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا فرمایا ہے یا کیا فرما تا ہے کہ اپنے عہد یداروں کا چناؤ کس طرح کرو.جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا

Page 153

138 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم ہے کہ یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے در میان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو.یقیناً بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے یقیناً اللہ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے.پہلی بات تو یہ کہ عہدیدار چنے والوں کو فرمایا کہ عہدے اُن کو دو، اُن لوگوں کو منتخب کرو جو اس کے اہل ہوں.اس قابل ہوں کہ جس کام کے لیے انہیں منتخب کر رہے ہو وہ اس کو کر سکیں ، وقت دے سکیں.یہ نہیں کہ چونکہ تمہارے تعلقات ہیں ، اس لیے ضرور اس عہدے کے لیے اسی کو منتخب کرنا ہے یا ضرور اسی کو اس عہدے کے لیے ووٹ دینا ہے.اس میں ایک بہت بڑی ذمہ داری چناؤ کرنے والوں پر منتخب کرنے والوں پر ڈالی گئی ہے.اس لیے جو ووٹ دینے کے جماعتی قواعد کے تحت حقدار ہیں ، ہر ممبر تو ووٹ نہیں دیتا.جو بھی ووٹ دینے کا حقدار ہے ان کو ہمیشہ دعا کر کے فیصلہ کرنا چاہیے کہ جو بہتر ہو اس کو ووٹ دے سکے.یہاں ضمنا یہ بھی بتا دوں کہ بعض دفعہ بعض افراد پر کسی وجہ سے پابندی لگی ہوتی ہے کہ وہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے.اس لیے اس بارے میں ضد نہیں کرنی چاہیے کہ کیونکہ ہمارے نزدیک فلاں شخص ہی اس کام کے لیے موزوں تھا یا موزوں ہے اس لیے اسی کو ہم نے ووٹ دینا تھا اور اس کی اجازت دی جائے ورنہ ہم انتخاب میں شامل نہیں ہوتے.یہ غلط طریق ہے.اطاعت کا تقاضا یہ ہے اور نظام جماعت کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کوئی فیصلہ ہو گیا ہے کہ کسی شخص کو حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے تو پھر اس بارے میں اصرار نہیں کرنا چاہیے......میں نے آج اس مضمون کو لیا ہے تا کہ کمزوروں کی اصلاح بھی ہو جائے اور نو مبائعین کی تربیت بھی ہو جائے اور ساتھ ہی ان کمزور لوگوں کے لیے جماعت کے لوگ دعا بھی کر سکیں تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمانوں میں مضبوطی عطا فرمائے.تو بہر حال میں یہ بتا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام احباب جماعت پر جن کو حسب قواعد چناؤ کا انتخابات میں حق دیا گیا ہے یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ سوچ سمجھ کر اہل کو منتخب کرو.جماعتی عہدہ کسی کا پیدائشی حق نہیں ہے اور یہ بھی ذہن میں رہے منتخب کرنے والوں کے اور جو منتخب ہورہے ہیں ان کے بھی ، بعض دفعہ لمبا

Page 154

139 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم عرصہ کر کے بعض ذہنوں میں باتیں آجاتی ہیں کہ کوئی عہدہ جماعت میں کسی کا پیدائشی حق نہیں ہے، کوئی مستقل حق نہیں ہے.اس لیے جو خدمت کا موقع ملتا ہے وہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ کا فضل ہو تو اللہ تعالیٰ خود ہی خدمت کا موقع دے دیتا ہے.خود کبھی خواہش نہیں کرنی.اس لیے اشارہ بھی کبھی کسی قسم کا یہ اظہار نہیں ہونا چاہیے کہ مجھے عہد یدار بناؤ.نہ کسی کے دوست یا عزیز کو یہ حق حاصل ہے کہ کسی شخص کے حق میں ہلکا سا بھی اشارہ یا کنایہ اظہار کرے کہ اس کو ووٹ دیا جائے.اگر نظام جماعت کو پتہ چل جاتا ہے تو پھر جس کے حق میں پہلے پراپیگنڈہ کیا گیا ہے اس کو بھی اور جو پراپیگنڈہ کرنے والا ہے یا جس نے کوئی بات کسی کے لیے کہی ہو انتخابات سے پہلے، اس کو بھی انتخابات میں شامل ہونے سے روکا جا سکتا ، - ہے.اس حق سے محروم کیا جا سکتا ہے اور کر بھی دیا جاتا ہے.اس لیے یہ جو جماعت کے انتخاب ہیں ان کو خالصتا اللہ تعالیٰ کے لیے خدمت گزاروں کی ٹیم چنے والا تصور کر کے انتخاب کرنا چاہیے.منتخب عہدیداران کی ذمہ داری پھر اللہ تعالیٰ نے منتخب عہدیدار ان کی ذمہ داری بھی لگائی ہے کہ تمہیں جب منتخب کر لیا جائے تو پھر اس کو قومی امانت سمجھو.اس امانت کا حق ادا کرو.اپنی پوری استعدادوں کے ساتھ اس ذمہ داری کو نبھاؤ.اپنے وقت میں سے بھی اس ذمہ داری کے لیے وقت دو.جماعتی ترقی کے لیے نئے نئے راستے تلاش کرو.اور تمہارے فیصلے انصاف اور عدل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہونے چاہئیں.کبھی تمہاری ذاتی انا، رشتہ داریوں یا دوستیوں کا پاس انصاف سے دور لے جانے والا نہ ہو.کبھی کسی عہد یدار کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ فلاں شخص نے مجھے ووٹ نہیں دیا تھا.یا فلاں کا نام میرے مقابلے کے لیے پیش ہوا تھا اس لیے مجھے کبھی موقع ملا، کبھی کسی معاملے میں تو اس کو بھی تنگ کروں گا.یہ مومنانہ شان نہیں ہے بلکہ انتہائی گری ہوئی حرکت ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو تمہیں اللہ تعالیٰ نے نصیحت کی ہے یہ ایسی نصیحت ہے کہ تم دونوں، ووٹ دے کر منتخب کرنے والو اور عہدیدارو! دونوں ! کے لیے بڑی اعلیٰ نصیحت ہے کہ ووٹ دینے والا سوچ سمجھ کر ووٹ دے اور جو شخص منتخب ہو جائے وہ بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کرے.اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا

Page 155

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 140 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی کرے.اللہ تعالیٰ ہر عہدیدار کو چاہے وہ جماعتی عہدیدار ہوں یا ذیلی تنظیموں کے عہدیدار ہوں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ذمہ داریاں نبھانے کے لیے دعا کرتے رہیں پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا افراد جماعت کو بھی اور عہدیداران کو بھی یہ توجہ دلائی ہے کہ اس کے بعد بھی دعاؤں میں لگے رہو.ہر عہدیدارا انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ سے دعا مانگے کہ وہ اسے ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر فرد جماعت یہ دعا کرے کہ جو عہد یدار منتخب ہوئے ہیں وہ ہمیشہ اس امانت کے ادا کرنے کے حق کو اس کے مطابق ادا کرتے رہیں.اور کبھی کوئی مشکل نہ آئے کبھی کوئی ابتلاء نہ آئے جو عہدیدار اور افراد جماعت کے لیے کسی بھی قسم کی ٹھوکر کا باعث بنے.اگر اللہ تعالیٰ سمجھتا ہے کہ یہ عہد یدار جو انہوں نے منتخب کیا ہے وہ پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا نہیں کر رہا تو اللہ تعالیٰ خود ہی ایسے انتظامات فرمائے کہ اسے بدل دے تا کہ کبھی نظام جماعت پر بھی کوئی حرف نہ آئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اس طرح دونوں مل کر دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس نیک نیت سے کی گئی دعاؤں کو سنے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کے لیے اور دین کی خدمت کرنے والوں پر بڑی گہری نظر ہوتی ہے.وہ بڑی گہری نظر رکھتا ہے.وہ دیکھ رہا ہے ، وہ دلوں کا حال جانتا ہے.وہ اس درد کی وجہ سے جو تمہارے دل میں ہے ہمیشہ بہتری کے سامان پیدا فرما تا رہے گا اور ہمیشہ تمہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط رکھے گا.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہر قسم کی ٹھوکر سے بچائے.عہد یداران کا رویہ کس قسم کا ہونا چاہیے اب میں ذرا وضاحت سے عہدیداران کا احباب جماعت سے کس قسم کا رویہ یا سلوک ہونا چاہیے اس کے بارے میں کچھ بتاؤں گا.اور پھر احباب جماعت ، افراد جماعت عہد یداروں سے کیسا رویہ رکھیں.عہد یداروں کو تو ایک اصولی ہدایت قرآن نے دے دی ہے کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے ہیں.اگر کوئی غور کرے اور سوچے کہ انصاف کے کیا کیا تقاضے ہیں تو اس کے بعد کچھ بات رہ نہیں جاتی.لیکن ہر کوئی اس طرح گہری نظر سے سوچتا نہیں.اس طرح سوچا جائے جس طرح ایک تقویٰ

Page 156

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 141 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی کی باریک راہوں پر چلنے والا سوچتا ہے تو پھر تو اس کی یہ سوچ کر ہی روح فنا ہو جاتی ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں.لیکن نصیحت کیونکہ فائدہ دیتی ہے جیسا کہ میں نے کہا باتوں سے اور جگالی کرتے رہنے سے یاددہانی ہوتی رہتی ہے.بعض باتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ مزید ذرا وضاحت کھول کر کر دی جائے.پہلی بات تو یہ ہے کہ عہدیدار اس بات کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو یہ حکم فرمایا ہے کہ {وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ } (آل عمران : 135 ) یعنی غصہ دیا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہوں.تو اس کے سب سے زیادہ مخاطب عہد یداروں کو اپنے آپ کو سمجھنا چاہیے.کیونکہ ان کی جماعت میں جو پوزیشن ہے جو ان کا نمونہ جماعت کے سامنے ہونا چاہیے وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکمل طور پر اپنے آپ کو عاجز بنا ئیں.اگر اصلاح کی خاطر کبھی غصے کا اظہار کرنے کی ضرورت پیش بھی آ جائے تو علیحدگی میں جس کی اصلاح کرنی مقصود ہو ، جس کا سمجھانا مقصود ہو اس کو سمجھا دینا چاہیے.تمام لوگوں کے سامنے کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرنا چاہیے اور ہر وقت چڑ چڑے پن کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے.یا کسی بھی قسم کے تکبر کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے.اصلاح کبھی چڑنے سے نہیں ہوتی بلکہ مستقل مزاجی سے در در کھتے ہوئے اور دعا کے ساتھ نصیحت کرتے چلے جانے سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے.اور ایک آدھ دفعہ کی جو غلطی ہے، اگر کوئی عادی نہیں ہے تو اصلاح کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ عفو سے کام لیا جائے.معاف کر دیا جائے ، درگزر کر دیا جائے.اس لیے یہاں بھی ( مراد فرانس میں ) اور دنیا میں ہر جگہ جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں ، جماعتی عہدیدار بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیدار بھی اپنے رویوں میں ایک تبدیلی پیدا کریں.لوگوں سے پیارا اور محبت کا سلوک کیا کریں.خاص طور پر بعض جگہ لجنہ کی طرف سے شکایات زیادہ ہوتی ہیں اور ان میں بھی خاص طور پر بچیوں یا نوجوان بچیوں اور نئے آنے والیوں جنہوں نے نظام کو پوری طرح سمجھا نہیں ہوتا ، ان کے لیے تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اس لیے ان کے لیے بہت خیال رکھنا چاہیے.کیونکہ تربیت کرنے کی جیسی آپ چھاپ لگا دیں گے بچوں پر بھی اور نئے آنے والوں پر بھی.آئندہ نمونہ بھی ویسے ہی نکلیں گے ، آئندہ عہدیدار بھی ویسے ہی بنیں گے.تو خلاصہ یہ کہ غصے کو دبانا ہے

Page 157

142 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم اور عفو سے کام لینا ہے در گزر سے کام لینا ہے.لیکن یہ نرمی بھی اس حد تک نہ ہو کہ جماعت میں بگاڑ پیدا ہو جائے.ایسی صورت میں بہر حال اصلاح کی کوشش بھی کرنی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ جو عادی نہیں ہیں ان کو تو معاف کر کے بھی اصلاح ہو سکتی ہے لیکن اگر جماعت میں فتنے کا خطرہ ہو تو پھر معافی کی کوئی صورت نہیں ہوتی.اور پھر یہ ہے کہ اگر ایسی بات ہو تو نہ صرف مقامی طور پر اس کی اصلاح کرنی ہے بلکہ اس کی مرکز کو بھی اصلاح کرنی چاہیے.لیکن بختی ایسی نہ ہو، جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ جن کی اصلاح نرمی سے ہوسکتی ہے کہ وہ نو جوان اور نئے آنے والے دین سے ہی متنفر ہو جائیں.پھر عہد یداروں میں جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر اپنے خلاف ہی شکایت ہو تو سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے.ہمیشہ سچی بات کہنے سننے کرنے کی عادت ڈالیں.چاہے جتنا بھی کوئی عزیز یا قریبی دوست ہو اگر اس کی صحیح شکایت پہنچتی ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے.اگر یہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے تو بہتر ہے کہ معذرت کر دیں کہ فلاں وجہ سے میں اس کام سے معذرت چاہتا ہوں.کیونکہ کسی ایک شخص کا کسی خدمت سے محروم ہونا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ پوری جماعت میں یا جماعت کے ایک حصے میں بے چینی پیدا کی جائے.یادرکھیں جو عہدہ بھی ملا ہے چاہے وہ جماعتی عہدہ ہو یا ذیلی تنظیموں کا عہدہ ہو اس کو ایک فضل الہی سمجھیں.پہلے بھی بتا آیا ہوں اس کو اپنا حق نہ سمجھیں.یہ خدمت کا موقع ملا ہے تو حکم یہی ہے کہ جو لیڈر بنایا گیا ہے وہ قوم کا خادم بن کر خدمت کرے.صرف منہ سے کہنے کی حد تک نہیں.چار آدمی کھڑے ہوں تو کہہ دیا جی میں تو خادم ہوں بلکہ عملاً ہر بات سے ہر فعل سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ یہ واقعی خدمت کرنے والے ہیں اور اگر اس نظریے سے بات نہیں کہہ رہے تو یقیناً پوچھے جائیں گے.جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس کو پوری طرح ادا نہ کرنے کی وجہ سے یقیناً جواب طلبی ہوگی.عہدیداران خدا کے حضور جوابدہ ہیں ایک روایت میں آتا ہے حضرت معقل بن لیاڑ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران اور ذمہ دار بنایا ہے وہ اگر لوگوں کی نگرانی اور اپنے فرائض کی ادائیگی اور ان کی خیر خواہی میں کوتا ہی کرتا ہے تو اس کے مرنے پر اللہ تعالیٰ

Page 158

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 143 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی اس کے لیے جنت حرام کر دے گا.اور اسے بہشت نصیب نہیں کرے گا.(مسلم کتاب الايمان ـ باب استحقاق الوالى الغاش لرعية النار) اب دیکھیں اس انذار کے بعد کون ہے جو بڑھ بڑھ کر اختیارات کو حاصل کرنے کی خواہش کرے یا عہدے کو حاصل کرنے کی خواہش کرے.یہ تو ایسا خوف کا مقام ہے کہ اگر صحیح فہم اور ادراک ہو تو انسان ایک کونے میں لگ کے بیٹھ جائے.پس عہدیدار اس فضل الہی کی قدر کریں اور اپنی ذمہ داریاں ادا کریں.اپنی ذمہ داریوں کو نبھا ئیں.اللہ تعالیٰ کا غضب لینے کی بجائے اس کی محبت حاصل کرنے والے بنیں.ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو لوگوں میں سے زیادہ محبوب اور اس کے زیادہ قریب انصاف پسند حاکم ہوگا اور سخت ناپسندیدہ اور سب سے زیادہ دور ظالم حاکم ہوگا.(ترمذی ابواب الاحكام باب في الامام العادل) پس سب کو چاہیے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے محبوب بنیں.اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کے لیے وہ طریقے اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ کے رسول نے بتائے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے ابوالحسن بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن مرہ نے حضرت معاویہؓ سے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو امام حاجتمندوں ، ناداروں غریبوں کے لیے اپنا دروازہ بند رکھتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضروریات وغیرہ کے لیے آسمان کا دروازہ بند کر دیتا ہے.حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کو سننے کے بعد حضرت معاویہ نے ایک شخص کو مقرر کر دیا کہ لوگوں کی ضروریات اور مشکلات کا مداوا کیا کرے اور ان کی ضرورتیں پوری کرے.(ترمذی کتاب الاحکام باب فی امام الرعية) پس لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کریں ، اپنے بھائیوں سے ، بہنوں سے اس لیے پیارا اور محبت کا سلوک کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، اس کا محبوب بننا ہے.اور یا درکھیں امراء بھی ،صدران بھی اور عہدیداران بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیداران بھی کہ وہ خلیفہ وقت کے مقرر کردہ انتظامی نظام کا ایک حصہ ہیں اور اس لحاظ سے خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں.اس لیے ان کی سوچ اپنے کاموں کو اپنے فرائض کو انجام دینے کے لیے اسی طرح چلنی چاہیے جس طرح خلیفہ وقت کی.اور انہیں ہدایات پر

Page 159

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 144 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی عمل ہونا چاہیے جو مرکزی طور پر دی جاتی ہیں.اگر اس طرح نہیں کرتے تو پھر اپنے عہدے کا حق ادا نہیں کر رہے.جو اس کے انصاف کے تقاضے ہیں وہ پورے نہیں کر رہے.عہدہ کی خواہش معیوب امر ہے پھر عہدے کی خواہش کرنا ہے پہلے بھی میں نے کہا کہ یہ ایک ایسی بات ہے جو جماعت میں بڑی معیوب سمجھی جاتی ہے اور ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے جو اس بارے میں کوشش کرتا ہے.اس بارے میں ایک حدیث میں اس طرح آتا ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن سمرة رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ اے عبدالرحمن ! تو امارت اور حکومت نہ مانگ.اگر تجھے بغیر مانگے یہ عہدہ ملے تو اس ذمہ داری کے بارے میں تیری مدد کی جائے گی.یعنی خواہش نہ ہو اور پھر عہدہ مل جائے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرماتا ہے اور اپنے بندے کی مدد کرتا ہے.اور اگر تیرے مانگنے پر تجھے یہ عہدہ دیا گیا ہے تو تو پھر اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہوگا.ذراسی بھی غلطی ہوگی تو پکڑ بہت زیادہ ہوگی.ضدیں، انا ئیں اور قسمیں جماعتی مفاد میں حائل نہ ہونے دیں اور جب تو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے متعلق قسم کھائے اور پھر اس قسم سے برعکس تجھے بہتر بات نظر آئے تو وہ بہتر بات کر اور اپنی قسم کو توڑ دے اور اس کا کفارہ ادا کردے.(بخاری کتاب الاحکام.یہی ہے کہ عہدیداران کو بھی بعض دفعہ قسم تو نہیں کھاتے لیکن بعض ضد میں ہوتی ہیں کہ یہ کام اس طرح نہیں ہونا چاہیے تو اگر جماعت کے مفاد میں ہو تو پھر تمہاری ضدیں یا تمہاری قسمیں زیادہ اہم نہیں ہیں.ان کو ختم کرو.یہ جماعت کے مفاد میں حائل نہیں ہونی چاہئیں بلکہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اس طرح کام ہونا چاہیے جس طرح جماعت کے حق میں بہترین ہو.پھر ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسانی پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو.اور اچھی خبر ہی دیا کرو اور لوگوں کو بد کا یا نہ کرو.(صحيح البخارى كتاب العلم - باب ما كان النبى يتخولهم بالموعظة والعلم كي لا ينفروا)

Page 160

145 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم تو اصولی قواعد بھی اس لیے ہیں کہ صحیح سمت میں چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں پر چلتے ہوئے لوگوں کے لیے بہتری اور آسانی پیدا کی جائے.تمہاری ضدیں ، تمہاری قسمیں تمہاری انا ئیں کبھی بھی کسی بات میں حائل نہ ہوں جس سے لوگ تنگ ہوں.اگر کوئی قاعدہ بن بھی گیا ہے یا کوئی فیصلہ ہو بھی گیا ہے اگر اس سے لوگ تنگ ہورہے ہیں تو بدلا جا سکتا ہے.انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ لوگ ہمیشہ تمہارے پاس خوشی کی خبروں اور محبت اور پیار کے پیغاموں کے لیے اکٹھے ہوا کریں.نہ کہ تنگ ہونے کے لیے دور بھاگتے چلے جائیں.واقفین اور مربیان کا احترام کریں پھر دنیا میں ہر جگہ جماعتی عہدیداروں کی ایک یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ( مربیان ) یا جتنے واقفین زندگی ہیں ان کا ادب اور احترام اپنے دل میں بھی پیدا کیا جائے اور لوگوں کے دلوں میں بھی.ان کی عزت کرنا اور کروانا ، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ، حسب گنجائش اور توفیق ان کے لیے سہولتیں مہیا کرنا، یہ جماعت کا اور عہدیداران کا کام ہے تاکہ ان کے کام میں یکسوئی رہے.وہ اپنے کام کو بہتر طریقے سے کر سکیں.وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنے فرائض کی ادائیگی کرسکیں.اگر مربیان کو عزت کا مقام نہیں دیں گے تو آئندہ نسلوں میں پھر آپ کو واقفین زندگی اور مربیان تلاش کرنے بھی مشکل ہو جائیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی جاری کردہ واقفین نو کی تحریک کے تحت بہت سے واقفین نو بچے وقف کے میدان میں آ رہے ہیں.لیکن جتنا جائزہ میں نے لیا ہے میرے خیال میں جتنے (مربیان ) کی ضرورت ہے اتنے اس میدان میں نہیں آرہے دوسری فیلڈز (Fields) میں جا رہے ہیں.بہر حال جب مربی کو مقام دیا جائے گا، گھروں میں ان کا نام عزت واحترام سے لیا جائے گا ، ان کی خدمات کو سراہا جائے گا تو یقیناً ان ذکروں سے گھر میں بچوں میں بھی شوق پیدا ہوگا کہ ہم وقف کر کے مربی بنیں.تو اس لحاظ سے بھی عہدیداران کو خیال کرنا چاہیے.چھوٹے موٹے اختلافات کو ایشو ( Issue ) نہیں بنا لینا چاہیے جس سے دونوں طرف بے چینی پھیلنے کا اندیشہ ہو.لیکن واقفین زندگی اور مربیان سے بھی میں یہ کہتا ہوں کہ دنیا چاہے آپ کے مقام کو سمجھے یا نہ سمجھے لیکن اللہ کی راہ میں قربانی کا جو آپ نے عہد کیا ہے اور پھر اس کو نیک نیتی سے خدا کی خاطر نبھا رہے ہیں

Page 161

146 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم تو دنیا کے لوگوں کی ذرا بھی پرواہ نہ کریں.چاہے اپنوں کے چر کے ہوں یا غیروں کے چر کے ہوں جو بھی لگتے ہیں ان پر خدا کے آگے جھکیں.آپ جماعتی نظام میں تعلیم و تربیت کے لیے ، دنیا کو ( دین حق ) کا پیغام پہنچانے کے لیے، خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں.یہ آپ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے.خلیفہ وقت نے بہت سی ایسی باتوں پر آپ پر انحصار کیا ہوتا ہے جن پر بعض فیصلے ہوتے ہیں.اس لیے اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ہر دنیا وی اونچ نیچ کو دل سے نکال دیں اور یکسوئی سے وہ کام سرانجام دیں جو آپ کے سپرد کئے گئے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کی خاطر یہ چر کے برداشت کرتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ خود ہی آپ کی سہولت کیلیے سامان بھی پیدا فرماتا رہے گا.ذہنی کوفت کو دور کرنے کے لیے سامان بھی فرماتا رہے گا.مربیان کے گھروں میں بھی عہدیداروں کے رویوں کے متعلق بچوں کے سامنے کبھی باتیں نہیں ہونی چاہئیں.اپنی بیویوں کو بھی سمجھا ئیں کہ واقف زندگی کی بیوی بھی وقف زندگی کی طرح ہی ہوتی ہے یا ہونی چاہیے یا یہ سوچ رکھنی چاہیے.اس لیے ہر بات صبر اور حوصلے سے برداشت کرنی ہے.اور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑانا ہے، اس کے حضور جھکنا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ ضرور اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے گا.عہد یدار پیار اور محبت کے پر پھیلائیں اب عہدیداروں کو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ لوگوں کے لیے پیار اور محبت کے پر پھیلا ئیں.خلیفہ وقت نے آپ پر اعتماد کیا ہے.اور آپ پر اعتماد کرتے ہوئے اس پیاری جماعت کو آپ کی نگرانی میں دیا.ہے.ان کا خیال رکھیں.ہر ایک احمدی کو یہ احساس ہو کہ ہم محفوظ پروں کے نیچے ہیں.ہر ایک سے مسکراتے ہوئے ملیں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو.بعض عہد یدار میں نے دیکھا ہے بڑی سخت شکل بنا کر دفتر میں بیٹھے ہوتے ہیں یا ملتے ہیں.ان کو ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ پر عمل کرنا چاہیے جس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ملاقات سے منع نہیں فرمایا اور جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھتے تو مسکرا دیتے تھے.(بخاری کتاب الأدب باب التبسم والضحك ) _تو کوئی پابندی نہیں تھی جب بھی ملتے مسکرا کر ملتے.

Page 162

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 147 ارشادات حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالی امراء ایک وقت مقررہ پر دفاتر میں حاضر ہوں بعض عہد یداروں کے متعلق شکوہ ہے کہ لوگ کسی کام کے لیے عہدیداروں کے پاس اپنے کام کا حرج کر کے جاتے ہیں تو بعض عہدیدار امراء، بعض دفعہ مہینہ مہینہ نہیں ملتے.ہو سکتا ہے اس میں کچھ مبالغہ بھی ہو کیونکہ شکایت کرنے والے بعض دفعہ مبالغہ بھی کر جاتے ہیں لیکن دنوں بھی کسی سے کیوں چکر لگوائے جائیں.اس لیے امراء کو چاہیے کہ وقت مقرر کریں کہ اس وقت دفتر ضرور حاضر ہوں گے اور پھر اس وقت میں لوگوں کی ضروریات پوری کریں.بعض امراء یہ کرتے ہیں کہ اپنے نمائندے بٹھا دیتے ہیں اور ان نمائندوں کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ فلاں فیصلہ بھی کرنا ہے.اب اگر اس فیصلے کے لیے جانا پڑے تو پھر ان کو انتظار کرنا پڑتا ہے.اس لیے ضروری ہے کہ امراء خود جائیں یا پھر اپنے نمائندے کو پورے اختیار دیں کہ جو تم نے کرنا ہے کرو.سیاه وسفید کے مالک ہو.پھر امیر بنے کی ضرورت ہی نہیں ہے پھر تو اسی کو امیر بنادینا چاہیے.پھر مسکراتے ہوئے اور خوش دلی سے ملیں.جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص کا معیار بڑا اونچا ہے.ہر احمدی ، اگر امیر مسکرا کر ملتا ہے تو اس کی مسکراہٹ پر ہی خوش ہو جاتا ہے، چاہے کام ہو یا نہ ہو.اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا.معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو.اگر چہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنے کی نیکی ہو.(مسلم کتاب البر والصلة باب استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء) - تو مسکرا کر ملنا اور بھائی کے جذبات کا خیال رکھنا بھی نیکی ہے.تو نیکیوں کا پلڑا تو جتنا بھی بھاری کیا جائے اتنا ہی کم ہے.اس لیے عہدیداران کو ، امراء کو خاص طور پر توجہ دینی چاہیے.افراد جماعت اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھا ئیں اب میں افراد جماعت کو بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا نظام جماعت میں کیا کردار ہونا چاہیے.پہلی بات یا درکھیں کہ جتنے زیادہ افراد جماعت کے معیار اعلیٰ ہوں گے اتنے زیادہ عہد یداران کے معیار بھی اعلیٰ ہوں گے.پس ہر کوئی اپنے آپ کو دیکھے اور ان معیاروں کو اونچا کرنے کی کوشش کرے اور اپنے فرائض یعنی ایک فرد جماعت کے عہدیدار کے لیے کہ اطاعت کرنی ہے اس کے بھی اعلیٰ نمونے

Page 163

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 148 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی دکھا ئیں.یہ نمونے جب آپ دکھا رہے ہوں گے تو اپنی نسلوں کو بھی بچارہے ہوں گے.انہی نمونوں کو دیکھتے ہوئے آپ کی اگلی نسل نے بھی چلنا ہے اور انہیں نمونوں پر جونسلیں قائم ہوں گی وہ آئندہ جب عہد یدار بنیں گی تو وہ وہی نمونے دکھا رہی ہوں گی جو اعلیٰ اخلاق کے نمونے ہوتے ہیں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی.جس نے حاکم وقت کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی ، اور جو حاکم وقت کا نافرمان ہے وہ میرا نا فرمان ہے.(صحیح مسلم كتاب الامارة - باب وجوب طاعة الامراء في غير معصية وتحريمها في المعصیة).امیر کی اور نظام جماعت کی اطاعت کے بارے میں یہ حکم ہے.لوگ تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم خلیفہ کی اطاعت سے باہر نہیں ہیں مکمل طور پر اطاعت میں ہیں ، ہر حکم ماننے کو تیار ہیں.لیکن فلاں عہد یدار یا فلاں امیر میں فلاں فلاں نقص ہے اس کی اطاعت ہم نہیں کر سکتے.تو خلیفہ وقت کی اطاعت اسی صورت میں ہے جب نظام کے ہر عہدیدار کی اطاعت ہے.اور تب ہی اللہ کے رسول کی اور اللہ کی اطاعت ہے.ہر حالت میں اطاعت کریں پھر ایک روایت میں آتا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تنگدستی اور خوشحالی ، خوشی اور نا خوشی حق تلفی اور ترجیجی سلوک غرض ہر حالت میں تیرے لیے حاکم وقت کے حکم کوسننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے.( صحیح مسلم کتاب الامارۃ) فرمایا کہ جو حالات بھی ہوں تمہاری حق تلفی بھی ہو رہی ہو، تمہارے سے زیادتی بھی ہو رہی ہو تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہ بھی ہو اور دوسرے کے ساتھ بہتر سلوک ہو رہا ہو ، تب بھی تم نے کہنا ماننا ہے.سامنے لڑائی جھگڑے کے لیے کھڑے نہیں ہو جانا.کسی بات سے انکار نہیں کر دینا.بلکہ تمہارا کام یہ ہے کہ اطاعت کرو.یہ بہر حال نظام جماعت میں بھی حق ہے کہ اگر کوئی غلط بات دیکھیں تو خلیفہ وقت کو اطلاع کر دیں اور پھر خاموش ہو جائیں، پیچھے نہیں پڑ جانا کہ کیا ہوا ، کیا نہیں ہوا.اطلاع کر دی ، بس ٹھیک ہے.حضرت عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیعت کے

Page 164

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 149 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی وقت عہد لیا کہ تنگی ہو یا آسائش ، خوشی ہو یا نا خوشی ، ہر حال میں آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت اور فرمانبرداری کریں گے خواہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے.نیز ہم ان لوگوں سے جو کام کے اہل اور صاحب اقتدار ہیں ، مقابلہ نہیں کریں گے سوائے اس کے کہ ہم کھلا کھلا کفر دیکھیں اور ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی برہان آ جائے کہ حکام غلطی پر ہیں.نیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے بارے میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے اور حق بات کہیں گے.(صحیح مسلم کتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء).تو مطلب یہی ہے کہ اطاعت کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ حق بات کہنی ہے.سوائے شریعت کے واضح حکم کی کوئی خلاف ورزی کر رہا ہو تو پھر اطاعت نہ کریں جس طرح حکومت پاکستان نے احمدیوں پر پابندی لگا دی ہے کہ نمازیں نہیں پڑھنیں.تو یہ تو ہمارا ایک حق ہے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کرنا.اور شریعت کے قانون پر تو کوئی قانون بالا نہیں ہے اس لیے احمدی نمازیں پڑھتا ہے.اس کے علاوہ ہر ملکی قانون کی ہر طرح پابندی کی جاتی ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو اور اطاعت کرو.یہ جو دو الفاظ ہیں ان کو اپنا شعار بناؤ، یہی تمہارا طریق ہونا چاہیے.خواہ ایک حبشی غلام کو ہی کیوں نہ تمہارا افسر مقرر کر دیا جائے.کسی کو حقیر اور کمزور سمجھتے ہوا گر وہ بھی تمہارا امام ہے تو اطاعت کرو.( صحیح بخاری کتاب الاحكام باب السمع والطاعة للامام مالم تكن معصية) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی اپنے امیر میں کوئی بظاہر نا گوار یا کوئی بری بات دیکھے تو وہ صبر کرے اور کیونکہ جو شخص تھوڑا سا بھی جماعت سے الگ ہو جاتا ہے اور تعلق تو ڑ لیتا ہے وہ جہالت کی موت مرتا ہے.(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الامر بلزوم الجماعة عند ظهور الفتن وتحذير الدعاة الى الكفر).تو صبر سے مراد یہ ہے کہ امیر کی بری بات دیکھ کے یہ نہیں کہ پورے نظام کے خلاف ہو جاؤ.نظام سے وابستہ رہو اور وہ بات آگے پہنچا دو اور اس کے بعد صبر کرو.جماعت سے تعلق نہیں ٹوٹنا چاہیے.اگر تمہارا جماعت سے تعلق ٹوٹتا ہے تو یہ جہالت کی موت ہے.تو جن لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ہم برداشت نہیں کر سکتے اس لیے ہم ایک طرف ہو گئے نمازوں

Page 165

150 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم اور جمعوں پر بھی بعض نے آنا چھوڑ دیا تو فرمایا کہ یہ ایسی حرکتیں ہیں ، یہ جہالت کی حرکتیں ہیں.اتکا دکا کوئی واقعات ہوتے ہیں.اللہ کے فضل سے عموماً ایسا جماعت میں نہیں ہوتا.یہ جہالت کی حرکتیں جو ہیں ان سے ہمیشہ بچنا چاہیے.تمہارا کام یہ ہے کہ صبر کرو اور دعا کرو.جیسا کہ میں نے شروع میں بھی کہا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری یہ نیک نیتی سے کی گئی دعاؤں کو قبول میں کروں گا.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عوف بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تمہارے بہترین سردار وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں.تم ان کے لیے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں.تمہارے بدترین سردار وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں.تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں.راوی کہتا ہے کہ اس پر ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم ایسے سرداروں کو ان سے جنگ کر کے ہٹا کیوں نہ دیں.آپ نے فرمایا نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے ہیں اس وقت تک کوئی ایسی بات نہیں کرنی.(صحیح مسلم كتاب الامارة باب وجوب الانكار على الامراء فيما يخالف الشرع ).یعنی دینی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے.تو آنحضرت نے یہ حکم واضح طور پر دے دیا کہ اگر کوئی اس قسم کے بھی لوگ ہوں جو اتنا تنگ کر دیں کہ ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے لگ جاؤ تب بھی ان سے بغاوت نہیں کرنی.اللہ نہ کرے کہ کبھی جماعت کی یہ صورتحال ہو.لیکن یہ ایک انتہائی مثال ہے ایسی صورتحال ہو بھی جائے جیسا کہ بتایا گیا ہے تب بھی تم نے فرمانبرداری دکھانی ہے.دعا کرتے رہیں اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے جماعت اور نظام جماعت کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے.اگر افراد جماعت بھی اور عہدیدار بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر، جماعتی وقار کی خاطر ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ بھی ان پر اپنے خاص فضلوں کی بارش برساتا رہے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے.آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں میں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں گا.

Page 166

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 151 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی پس آج یہ ہر احمدی کا کام ہے کہ خدا کی عظمت اور جلال کو قائم کرے اور اللہ کی رضا کی خاطر ایک دوسرے سے پیار و محبت شفقت اور فرمانبرداری کے نمونے دکھائے.تا کہ اللہ تعالیٰ کے سایہ رحمت میں جگہ پائے.اللہ تعالیٰ اس کی سب کو تو فیق عطا فرمائے.آمین جماعت کے دشمنوں کی کارروائیاں جماعت کی جب ترقی ہوتی ہے تو حاسدوں کے حسد بھی بڑھ جاتے ہیں.وہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ مختلف حیلوں بہانوں سے جماعت میں بے چینی پیدا ہو، ہمدرد بن کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں.حالانکہ یہ لوگ مخالفین کے آلہ کار بنے ہوئے ہوتے ہیں.بعض دفعہ کسی عہدیدار کے متعلق کوئی بات کر کے بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، بعض دفعہ فرد جماعت کے دل میں کسی عہدیدار کے خلاف بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.بعض دفعہ مرکزی عہدیداران کے خلاف بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور بعض دفعہ مجھے ایسے خط لکھ دیں گے اور عموماً ایسے خط بغیر نام اور پتے کے ہوتے ہیں کہ گویا جماعت میں اخلاص و وفا کے نمونے نہیں رہے، نعوذ باللہ تمام عہدیدار بھی اور اکثریت جماعت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے دور ہٹ گئی ہے.یہ سب ان کے دلوں کی خواہش ہوتی ہے.ایک صاحب کے سوال کا نہایت شاندار جواب ایک صاحب نے مجھے لکھا اور ایسا بھیا نک نقشہ کھینچا کہ گویا اب جماعت نام کی رہ گئی ہے عمل ختم ہو گئے ہیں ، کوئی چیز باقی نہیں رہی ، اخلاص ختم ہو گیا ہے.اور پھر لکھتے ہیں اور آپ ہی اس کا جواب بھی دے دیا کہ مجھے پتہ ہے آپ یہی جواب دیں گے جو حضرت علی نے دیا تھا کہ پہلے خلفاء کے ماننے والے میرے جیسے لوگ تھے اور مجھے ماننے والے تم جیسے لوگ ہو.لیکن سن لیں میرا جواب یہ نہیں ہے.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت احمدیہ نے ہمیشہ قائم رہنا ہے اور وفا قائم کرنے والے اس میں ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے.میرا جواب یہ ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں لاکھوں ، کروڑوں ایسے ہیں جو حضرت علیؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اخلاص و وفا کے نمونے قائم کرنا جانتے ہیں.نظام جماعت اور نظام خلافت کے لیے قربانیاں کرنا جانتے ہیں.یہ خوف دلانا ہے تو کسی دنیا دار کو دلاؤ.میں تو روزانہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھتا ہوں.لوگوں کے اخلاص و وفا کے نظارے

Page 167

152 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم دیکھتا ہوں.مجھے تو یہ باتیں ڈرانے والی نہیں.اور انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدے کئے ہیں وہ انہیں پورا ہوتا ہمیں دکھا بھی رہا ہے اور ہمیشہ دکھاتا بھی رہے گا اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہماری نسلوں کو بھی دکھاتا رہے.جماعت کو نصیحت جماعت کو میں یہ کہتا ہوں کہ دعاؤں کے ساتھ ہر سطح پر اخلاص و وفا کے نمونے دکھاتے ہوئے اس (دینی) تعلیم پر عمل کرتے چلے جائیں جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتائی ہے.عاجزی اور وفا دکھاتے ہوئے اگر آپ چلتے رہیں گے تو کوئی خطرہ نہیں ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق جماعت سے چھٹے رہیں تو کوئی خطرہ نہیں ہے.اُن لوگوں کو خطرہ ہے جو ٹھو کر کھا کر شیطان کے بہکاوے میں آ کر جماعت کو چھوڑ دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو یا جماعت کے ساتھ چمٹے رہنے والوں کو کوئی خطرہ نہیں.اُن کی دنیا و آخرت دونوں سنوری ہوئی ہیں اور انشاء اللہ سنوری رہیں گی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ اپنی جماعت سے کیا امید رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کے مطابق سب کو چلنے کی توفیق دے.فرمایا کہ : ” میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہوگا کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی..نا پا کی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو.اور نیک دل، اور پاک طبع اور پاک خیال ہوکر زمین پر چلو اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں.اس لیے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفوا ور درگزر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات نفس کو دبائے رکھو.پھر فرمایا کہ: ” اگر کوئی جہالت سے پیش آ وے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اٹھ جاؤ“.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : " خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لیے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو.سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے.جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیز گاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے.کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے.اور یقینا وہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا.سو تم ہوشیار ہو

Page 168

153 ارشادات حضرت خلیقی امسح الخامس اید واللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا.(تبلیغ رسالت جلد ہفتم) تو یہ جو مجھے نصیحتیں کرنے والے ہیں ان کو سوچنا چاہیے کہ وہ جماعت میں نہیں رہ سکتے.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس تعلیم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے اور ہمیشہ جماعت کے ساتھ چمٹارہ کر نظام جماعت کی اطاعت کر کے دوسروں کے حقوق کا خیال رکھ کر ان فضلوں کے وارث بنیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا ہے.اللہ سب کو توفیق دے.آمین الفضل اند نیشنل 14 تا 20 جنوری 2005ء )

Page 169

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 154 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرموده 7 جنوری 2005ء سے اقتباس * بچوں کو وقف جدید میں شامل کریں...وقف جدید کے ضمن میں احمدی ماؤں سے میں یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں میں یہ قربانی کی عادت اس طرح بڑھ بڑھ کر اپنے زیور پیش کرنا آپ کے بڑوں کی نیک تربیت کی وجہ سے ہے.اور سوائے استثناء کے الا ماشاء اللہ ، جن گھروں میں مالی قربانی کا ذکر اور عادت ہو ان کے بچے بھی عموماً قربانیوں میں آگے بڑہنے والے ہوتے ہیں.اس لیے احمدی مائیں اپنے بچوں کو چندے کی عادت ڈالنے کے لیے وقف جدید میں شامل کریں.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں بچوں کے ذمہ وقف جدید کیا تھا.اور اُس وقت سے وہاں بچے خاص شوق کے ساتھ یہ چندہ دیتے ہیں.اگر باقی دنیا کے ممالک بھی اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کو خاص طور پر اس طرف متوجہ کریں تو شامل ہونے والوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ چندے میں بھی اضافہ ہوگا.اور سب سے بڑا مقصد جو قربانی کا جذبہ دل میں پیدا کرنا ہے وہ حاصل ہوگا.انشاء اللہ.اگر مائیں اور ذیلی تنظیمیں مل کر کوشش کریں اور صحیح طریق پر کوشش ہو تو اس تعداد میں ( جو موجودہ تعداد ہے ) آسانی سے دنیا میں 6لاکھ کا اضافہ ہوسکتا ہے، بغیر کسی دقت کے اور یہ تعداد آسانی سے 10 لاکھ تک الفضل انٹر نیشنل 21 تا 27 جنوری 2005ء) پہنچائی جاسکتی ہے.

Page 170

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 155 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 2005ء سے اقتباس * سپین میں وقف عارضی کی تحریک یورپ کے بہت سے احدی سیر کرنے بھی بہین جاتے ہیں یا مختلف جگہوں پر جاتے ہیں.اگر اِدھر اُدھر جانے کی بجائے سپین کی طرف رخ کریں تو زیادہ بہتر ہوگا.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ تحریک فرمائی تھی کہ پین میں وقف عارضی کے لیے جائیں.سیر بھی ہو جائے گی اور اللہ کا پیغام پہنچانے کا ثواب بھی مل جائے گا.تو اس طرف میں احمدیوں کو دوبارہ متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے ملکوں کے امراء کے ذریعے سے جو اس طرح وقف عارضی کر کے سپین جانا چاہتے ہوں ، امراء کی وساطت سے وکالت تبشیر میں اپنے نام بھجوائیں.الفضل ان نیشنل 11 تا 17 فروری 2005ء )

Page 171

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 156 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 11 فروری 2005ء سے اقتباس * آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کا رد کریں بعض لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک کے بارے میں بعض کتابیں لکھی ہیں اور وقتاً فوقتا آتی رہتی ہیں.اسلام کے بارے میں، اسلام کی تعلیم کے بارے میں یا آپ کی ذات کے بارے میں بعض مضامین انٹرنیٹ یا اخبارات میں بھی آتے ہیں، کتب بھی لکھی گئی ہیں.ایک خاتون مسلمان بن کے ان سائیڈ سٹوری (Inside Story) بتانے والی بھی آجکل کینیڈا میں ہیں.جب احمدی اس کو چیلنج دیتے ہیں کہ آؤ بات کرو تو بات نہیں کرتی اور دوسروں سے ویسے اپنے طور پر جو مرضی گند پھیلا رہی ہے.تو بہر حال آج کل پھر یہ ہم ہے.ہر احمدی کو اس بات پہ نظر رکھنی چاہیے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا تقاضا یہی ہے کہ آپ کی سیرت کے ہر پہلو کو دیکھا جائے اور بیان کیا جائے ، اظہار کیا جائے.یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی خلاف بات سنی ، جلوس نکالا ، ایک دفعہ جلسہ کیا، ایک دفعہ غصے کا اظہار کیا اور بیٹھ گئے.بلکہ مستقل ایسے الزامات جو آپ کی پاک ذات پر لگائے جاتے ہیں ان کا رڈ کرنے کے لیے، آپ کی سیرت کے مختلف پہلو بیان کئے جائیں.ان اعتراضات کو سامنے رکھ کر آپ کی سیرت کے روشن پہلو دکھائے جا سکتے ہیں.کوئی بھی اعتراض ایسا نہیں جس کا جواب موجود نہ ہو.جن جن ملکوں میں ایسا بیہودہ لٹریچر شائع ہوا ہے یا اخباروں میں ہے یا ویسے آتے ہیں وہاں کی جماعت کا کام ہے کہ اس کو دیکھیں اور براہ راست اگر کسی بات کے جواب دینے کی ضرورت ہے یعنی اس اعتراض کے جواب میں ، تو پھر وہ جواب اگر لکھنا ہے تو پہلے مرکز کو دکھائیں.نہیں تو جیسا کہ میں نے کہا سیرت کا بیان تو ہر وقت جاری رہنا چاہیے.یہاں بھجوائیں تا کہ یہاں بھی اس کا جائزہ لیا جا سکے اور اگر اس کے جواب دینے کی ضرورت ہو تو دیا جائے.جماعت کے افراد میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں جس طرح

Page 172

157 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم میں نے کہا مضامین اور تقاریر کے پروگرام بنائے جائیں.ہر ایک کے بھی علم میں آئے.نئے شامل ہونے والوں کو بھی اور نئے بچوں کو بھی.تا کہ خاص طور پر نوجوانوں میں، کیونکہ جب کالج کی عمر میں جاتے ہیں تو زیادہ اثر پڑتے ہیں.تو جب یہ باتیں سنیں تو نو جوان بھی جواب دے سکیں.پھر یہ ہے کہ ہراحمدی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے.تا کہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ یہ پاک تبدیلیاں آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کی وجہ سے ہیں جو چودہ صدیوں سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی اسی طرح تازہ ہے...الفضل انٹر نیشنل 25 فروری تا 3 مارچ 2005ء )

Page 173

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 158 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 18 فروری 2005ء سے اقتباس * ذیلی تنظیمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مہم کا جواب دیر ایسے لوگ جو یہ لغویات، فضولیات اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں.اس کے لیے گزشتہ ہفتے بھی میں نے کہا تھا کہ جماعتوں کو انتظام کرنا چاہیے.مجھے خیال آیا کہ ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کو بھی کہوں کہ وہ بھی ان چیزوں پر نظر رکھیں کیونکہ لڑکوں نوجوانوں کی آج کل انٹرنیٹ اور اخباروں پر توجہ ہوتی ہے، دیکھتے بھی رہتے ہیں اور ان کی تربیت کے لیے بھی ضروری ہے کہ نظر رکھیں اور جواب دیں.اس لیے یہاں خدام الاحمدیہ بھی کم از کم 100 ایسے لوگ تلاش کرے جو اچھے پڑھے لکھے ہوں جو دین کا علم رکھتے ہوں.اور اسی طرح لجنہ اپنی 100 نوجوان بچیاں تلاش کر کے ٹیم بنائیں جو ایسے مضمون لکھنے والوں کے جواب مختصر خطوط کی صورت میں ان اخبارات کو بھیجیں جن میں ایسے مضمون آتے ہیں یا خطوط آتے ہیں.آج کل پھر اخباروں میں مذہبی آزادی کے اوپر ایک بات چیت چل رہی ہے.اسی طرح دوسرے ملکوں میں بھی جہاں جہاں یہ اعتراضات ہوتے ہیں.وہاں بھی اخباروں میں یا انٹرنیٹ پر خطوط کی صورت میں لکھے جا سکتے ہیں.یہ خطوط گو ذیلی تنظیموں کے مرکزی انتظام کے تحت ہوں گے لیکن یہ ایک ٹیم کی Effort نہیں ہوگی بلکہ لوگ اکٹھے کرنے ہیں.انفرادی طور پر ہر شخص خط لکھے یعنی 100 خدام اگر جواب دیں گے تو اپنے اپنے انداز میں.خط کی صورت میں کوئی تاریخی واقعاتی گواہی دے رہا ہوگا اور کوئی قرآن کی گواہی بیان کر کے جواب دے رہا ہو گا.اس طرح کے مختلف قسم کے خط جائیں گے تو ( دین حق ) کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تصویر واضح ہوگی.ایک حسن ابھرے گا اور لوگوں کو بھی پتہ لگے گا کہ یہ لوگ کس حسن کو اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سے ماند کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ جو تصور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لیے مسلمانوں کے پاس دلیل نہیں ہے اس لیے جلد غصے میں آ جاتے ہیں.اس

Page 174

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 159 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی کو بھی اس سے رد کرنا ہوگا.ہمارے پاس تو اتنی دلیلیں ہیں کہ ان کے پاس اتنی اپنے دفاع کے لیے نہیں ہیں.لیکن کیونکہ مسلمان تمام انبیاء کو مانتے ہیں.اس لیے انبیاء کے خلاف تو کوئی بات کر نہیں سکتے اور یہ لوگ بے شرم ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیچڑ اچھالنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کے شر سے پناہ دے.الفضل انٹر نیشنل 4 تا 10 مارچ 2005ء)

Page 175

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 160 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی اطفال ریلی برطانیہ سے خطاب * حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 10 اپریل 2005ء کو اطفال ریلی برطانیہ سے خطاب کرتے ہوئے تشہد ، تعوذ اور تسمیہ کے بعد فرمایا:- چھوٹی عمر سے ہی نیکی اور برائی کی تمیز ہونی چاہیے آپ اطفال جو یہاں اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں.ان میں سے میرے خیال میں اکثر کی عمر ایسی ہے جو دس سال یا اس سے اوپر ہیں.تو یہ ایک ایسی عمر ہے جس میں بچوں میں اچھے اور برے کا فرق پیدا ہو جانا چاہیے کہ کیا چیز اچھی ہے اور کیا چیز بری ہے.اگر یہ احساس پیدا ہو جائے تو آپ لوگ بہت سی برائیوں سے بچ سکتے ہیں.اور برائیوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ نیکیاں کرنے کی کوشش بھی کریں گے.حضرت مصلح موعود ( نور اللہ مرقدہ) نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کو اس لیے جاری فرمایا اور اس کی عمر 7 سال سے 15 سال تک رکھی.اس میں چھوٹی عمر ر کھنے کی ایک وجہ تو یہ تھی جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جب بچہ 7 سال کا ہو جائے تو اس کو نماز کی طرف توجہ دلا ؤ اور جب دس سال کا ہو جائے تو اس پر سختی کرو کہ وہ ضرور نماز پڑھے اس لیے آپ میں سے وہ بچے جو دس سال یا اس سے اوپر کے ہیں ان کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ نمازوں کی طرف پوری توجہ دیں کیونکہ جب اللہ کے رسول نے ہمیں یہ حکم دیا کہ بچہ جب دس سال کا ہو جائے تو اس پر سختی کرو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسی عمر ہے جس میں یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ نیکی اور برائی کیا چیز ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا کیا چیز ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا کیوں ہمارے لیے ضروری ہے.ایک تو یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میری عبادت کرو میں نے تمہیں پیدا کیا.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں دوسرے دیکھیں کہ اللہ میاں جو رب العالمین ہے جو رب ہے ، ہمیں پالنے والا ہے ، پرورش کرنے

Page 176

161 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم والا ہے ، وہ ہمارے بہت سارے کام کرتا ہے بغیر ہمارے پتہ لگے کے، مثلاً جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس وقت اس نے یہ انتظام کیا ہوا ہے کہ آپ کے ماں باپ آپ کی پرورش کریں ، خیال رکھیں.جب بچہ خود کوئی کام نہیں کر سکتا، ہاتھ نہیں ہلا سکتا ، کھا پی نہیں سکتا اس وقت آپ کی ماں کتنی محنت سے آپ کی صفائی کا خیال رکھتی ہے.نہلاتی ہے، دھلاتی ہے، کپڑے پہناتی ہے، آپ کی Feed دیتی ہے.تو یہ اللہ تعالیٰ نے ایک انتظام کیا اس وجہ سے کہ وہ ربّ ہے.اس لیے ہمیشہ اپنے رب کو یا درکھیں اور اللہ تعالیٰ کی بہت ساری نعمتیں جو ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ پر کی ہیں، جو آپ کو دی ہیں ان کا شکر ادا کریں اور اس شکر ادا کرنے کے لیے اس کے آگے جھکیں.نمازیں پڑھیں ، نمازوں کی طرف توجہ دیں نمازیں سوچ سمجھ کر پڑھیں اور پھر صرف نمازیں جلدی جلدی نہ پڑھ لیں بلکہ سوچ سمجھ کے پڑھیں.ابھی سے یہ عادت ڈالیں کہ نماز میں آپ نے غور کرنا ہے کیونکہ دس سال کی عمر ایک ایسی عمر ہے جس میں بڑی اچھی طرح پتہ لگ جاتا ہے ہر بچے کو کہ وہ کیا نماز میں پڑھ رہا ہے.آپ نے مثلاً سورہ فاتحہ پڑھی ہے.یہ ا کثر بچوں کو یاد ہے اور اکثر بچوں کو سورہ فاتحہ کا ترجمہ بھی یاد ہے، تو اس میں دیکھیں کتنی دعائیں ہیں.اللہ تعالیٰ کی تعریف سے وہ شروع ہوتی ہے.اس کا شکر ادا کریں.اس کی تعریف کریں.کتنے احسان اس نے کئے ہیں کہ آپ کو صحت دی، آپ کو ماں باپ دیے جو آپ کی نگہداشت کرتے ہیں.آپ کو ایسا ماحول دیا جہاں دینی تربیت ہو سکتی ہے.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں پیدا کیا جہاں آپ صحیح طور پہ اللہ تعالیٰ کی پہچان کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کر کے اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتے ہیں.اپنی زندگیوں کو پاک بنا سکتے ہیں.صاف بنا سکتے ہیں.تو اسی بات پر اگر آدمی شکر ادا کرنے لگے اللہ تعالیٰ کا ، تو شکر ادا نہیں ہوسکتا.پھر دیکھیں بہت ساری چیزیں اسی دعا میں ہیں.اب اللہ نے بتایا کہ میں رحمان بھی ہوں رحیم بھی ہوں.بہت ساری باتیں آپ کے لیے اس نے پیدا کر دیں.رب ہونے کی وجہ سے اور بہت ساری چیزیں آپ کو دیتا ہے.بغیر مانگے آپ کو دیتا ہے، تو جب بغیر مانگے دے دیتا ہے تو جب آپ اچھے کام کریں اور اس سے مانگیں تو اور زیادہ آپ پر فضل کرے گا.برائیوں سے ہمیشہ بچنا چاہیے.گیارہ بارہ سال کی عمر یا چودہ پندرہ سال کی عمر کے بچے ایسی عمر کے

Page 177

162 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم بچے ہیں جن کو برائی اور نیکی کا بڑی اچھی طرح پتہ لگ جاتا ہے.پھر برائیوں سے بچنے کی اس میں دعا سکھائی ہے نماز میں سورہ فاتحہ میں آپ پڑھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے آپ دعا مانگتے ہیں کہ اللہ میاں ہمیں برائیوں سے بچا اور صحیح رستے پر چلا اور برائیوں سے بچنے کے لیے اور صحیح رستے پر چلنے کے لیے ہم تجھ سے تیر افضل ما نگتے ہیں.دعا کرتے ہیں ، تیرے آگے جھکتے ہیں.پھر نیک لوگوں کے رستے پر چلا ہمیں اور وہ نیک لوگوں کا رستہ کیا ہے وہ راستہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دکھایا اور اسی رستے پر چل کے ہمیں کامیابیاں مل سکتی ہیں.تو اس لیے جب آپ نماز پڑھتے ہیں تو غور سے پڑھیں سوچ سمجھ کر پڑھیں.یہ آپ کی بچپن کی عمر نہیں ہے.بہت سارے مضمون آپ کے ایسے ہیں جو آپ اپنے دوستوں میں بیٹھے ہوں.Discussion ہو رہی ہوتی ہے کسی Subject پر یا کسی کھیل پر جس میں دلچسپی ہے،Golf پر یا Cricket پر یا T.V کے کسی ڈرامے سے دلچسپی ہے تو ایسے بڑے بڑے تبصرے آپ کر رہے ہوتے ہیں کہ جس طرح پوری مہارت ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا دماغ ہے.اور اگر دماغ اس طرف چلانا چاہیں ، دین کی طرف تو ادھر بھی چل سکتا ہے.عبادتوں کی طرف لانا چاہیں تو ادھر بھی چل سکتا ہے.اس لیے تمام وہ بچے جو دس گیارہ سال کی عمر سے بڑے ہیں ان کو اب اپنے آپ کو بچہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اب وہ بڑے ہو چکے ہیں اس لیے نمازوں کی طرف مکمل غور کر کے نمازیں پڑھنے کی طرف توجہ دیں.والدین کا ادب اور اُن کے لیے دعا پھر اللہ میاں کا حکم ہے برائیاں جو بہت ساری ہیں ان سے رکنے کا اور اچھائیاں اختیار کرنے کا.ان میں سے ایک نیکی یہ ہے کہ اپنے ماں باپ کی عزت کرو، ان کا احترام کرو، اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہمیں دعا سکھائی ہے کہ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا کہ اے اللہ تو ان پر رحم کر، ان کا ہر دم محافظ ہو ، ہر وقت ان کی نگہداشت کر، ان پر رحم فرما، ان پر فضل فرما کیونکہ انہوں نے بچپن میں میرے ساتھ بڑا نیک سلوک کیا اور میری پرورش کی.تو اس لحاظ سے آپ لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ اپنے ماں باپ کے لیے بہت دعا کیا کریں اور یہ بھی اللہ کا حکم ہے.دیکھیں کتنے بڑے احسان ہیں ماں باپ کے بھی انہوں نے آپ کی تربیت کی جس طرح کہ میں نے پہلے بتایا.آپ بڑے ہوئے ، آپ کی پڑھائی کا خیال رکھا، آپ کی دینی تعلیم کا خیال رکھا، آپ کو جماعت کے ساتھ وابستہ رکھا اور اس کا نتیجہ ہے کہ آپ لوگ آج یہاں اجتماع کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں.

Page 178

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 163 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ایک احمدی بچے کو بہت زیادہ سچ پر قائم ہونا چاہیے پھر سچ بولنا ہے.یہ بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے اور اس وجہ سے آدمی میں اور نیکیاں کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہو جاتی ہے.یہ نہیں ہے کہ کسی بڑے کو آپ نے جھوٹ بولتے یا غلط بات کرتے دیکھ لیا تو آپ کہیں کہ غلط بات کرنا یا جھوٹ بولنا جائز ہے میں بھی کرلوں.ایک واقعہ کا ذکر آتا ہے شیخ عبدالقادر جیلانی کا شاید واقعہ ہے کہ وہ پڑھنے کے لیے نکلے، یہی عمر تھی چھوٹی ہی ان کی ، بارہ ، تیرہ، چودہ سال کی عمر تھی.گھر سے نکلے تو ان کی ماں نے ان کو نصیحت کی تھی کہ تم نے جھوٹ نہیں بولنا، جو مرضی حالات ہو جائیں.اب راستے میں چور اور ڈاکو تھے انہوں نے قافلے کو روک لیا ، ان سے بھی پوچھا ، انہوں نے کہا میرے پاس 80 درہم ہیں.وہ ان کی اس زمانہ کی کرنسی تھی.ڈاکوؤں نے کہا کہ یہ چھوٹا سا بچہ ہے اس کے پاس یہ اتنی رقم کہاں سے آگئی.خیر وہ سردار کے پاس لے کر گئے.انہوں نے کہا ! ہاں میری ماں نے کہا تھا جھوٹ نہیں بولنا اس لیے میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ میرے پاس ہیں اور میری قمیض کے اندر سے ہوئے ہیں.ڈاکوؤں کا سردار جو تھا اس بچہ کے سچ بولنے کو دیکھ کر اتنا متاثر ہوا کہ اس نے چوری اور ڈاکے اور سب برے کام ، گندے کام چھوڑ دیے.تو بچے بڑوں کے لیے نصیحت کا باعث بن جاتے ہیں.اس لیے آپ نے اپنا نمونہ دکھانا ہے.کبھی بری بات میں کسی کی نقل نہیں کرنی.اور جھوٹ جو ہے اس کے بارہ میں تو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ یہ شرک کے برابر ہے اور شرک بہت بڑا جرم ہے کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کے برابر سمجھنا.بچے بعض دفعہ چھوٹی سی غلطی کرتے ہیں ، گھروں میں ہی مثلاً غلطی کرتے ہیں.کوئی چیز تو ڑ دی یا کوئی اور نقصان کر دیا یا کسی سے لڑ پڑے یا کسی دوسرے بھائی بہن کو مارا تو ماں باپ جب پوچھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ نہیں ہم نے نہیں کیا.تو یہ جھوٹ جو ہے یہ آہستہ آہستہ پھر بڑے جھوٹ بولنے کی طرف لے جاتا ہے.اس لیے ہمیشہ یادرکھیں کہ سچ بولنا ہے کیونکہ اگر آپ اس طرح جھوٹ بولتے رہے تو آہستہ آہستہ پھر اللہ تعالیٰ کی جو قدر ہے آپ کے نزدیک کچھ نہیں رہے گی ، اللہ تعالیٰ کو آپ کچھ نہیں سمجھیں گے، کوئی value اس کی نہیں ہوگی بلکہ آپ سمجھیں گے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور جھوٹ بول کے اپنی جان بچا سکتا ہوں.اس کا مطلب ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے آپ یہ کہتے ہیں کہ اللہ میاں میرا رب ہے، مجھے پالنے والا ہے، میری پرورش کرنے والا ہے.مجھے ہر چیز دینے والا ہے لیکن یہاں جھوٹ بول کے آپ اللہ میاں کی بجائے سمجھ رہے ہیں کہ میرا جھوٹ جو ہے وہ مجھے

Page 179

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 164 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس اید و اللہ تعالی بچائے گا وہی میرے کام آئے گا اور اسی سے میں بچ سکتا ہوں.تو اس طرح پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ پر بھی یقین نہیں رہتا اور ایک احمدی بچے کو تو بہت زیادہ سچ پر قائم ہونا چاہیے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مضمون لکھا اور پریس میں بھیجا اور جو اس کا پیکٹ تھا جس میں وہ لفافہ انہوں نے ڈال کے بھیجا تھا اس میں ایک خط علیحدہ بھی رکھ دیا.تو وہاں پر یس والے شرارتی تھے ، قانون یہ تھا کہ دوسرا لفافہ اس کے اندر نہیں رکھا جا سکتا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کیس کر دیا اور اس کا جرمانہ بھی ہوسکتا تھا، سزا بھی ہو سکتی تھی.وکیلوں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کہ آپ کہہ دیں کہ میں نے یہ لفافہ اس پیکٹ میں نہیں رکھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جو مرضی ہو جائے.چاہے مجھے سزا ہو جائے.میں نے جھوٹ نہیں بولنا.تو آپ نے کورٹ میں جا کے ،عدالت میں جا کے یہ کہا کہ لفافہ میں نے رکھا ہے لیکن اس کو میں اس مضمون کا حصہ سمجھتا ہوں اس لیے رکھا ہے.تو عدالت نے آپ کو کہا ٹھیک ہے اور کوئی سزا نہیں دی بری کر دیا.تو ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ سچ جو ہے اس کی جیت ہوتی ہے اس لیے کبھی چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی آپ نے غلط بیانی سے کام نہیں لینا.غلطی کو چھپانا نہیں چاہیے پھر آج کل کے معاشرے میں یہاں لڑکوں میں چودہ پندرہ سال کی عمر میں سکول کے بچے ہیں ، دوستوں میں مل جل کے بعضوں کو سگریٹ پینے کی عادت ہو جاتی ہے یا سگریٹ پینے کے ساتھ بعض دفعہ دوسری نشہ آور چیز میں جو ہیں وہ بھی بعض دفعہ پلانے کی کوشش کرتے ہیں.بہت سارے اس قسم کے گروہ ہیں جو سکولوں میں جاتے ہیں اور بچوں کو عادت ڈالتے ہیں.تو اگر کبھی ایسا ہو جائے کہ کسی کے کہنے پر آپ سے غلطی ہو جائے اور ماں باپ کو پتہ لگ جائے تو کبھی چھپانا نہیں ہے.بتادیں کہ ہمارے سے یہ غلطی ہوگئی تھی اور تبھی آپ کی اصلاح ہو سکتی ہے اور اگر آپ چھپاتے رہے تو پھر آہستہ آہستہ عادتیں پڑ جائیں گی اور پھر بہت بڑے بڑے جرم بھی کرنے لگ جائیں گے.اتنی گندی عادتیں پڑ جائیں گی کہ جس کی کوئی انتہاء نہیں ہوگی.پھر آپ نہ جماعت کے کسی کام آسکیں گے نہ اپنی زندگی آپ کی سنور سکے گی اور بگڑتے چلے جائیں گے.آنحضرت سے جب ایک آدمی نے پوچھا کہ میں نے اپنی برائیاں چھوڑنی ہیں تو کس طرح چھوڑوں تو آپ نے فرمایا تھا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو.چنانچہ اس نے جھوٹ بولنا چھوڑا اور بہت ساری برائیاں ختم ہو گئیں.اس لیے یادرکھیں جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے.بہت بڑی برائی ہے.اگر کسی میں یہ ہے تو وہ اپنی زندگی برباد کر لے گا.

Page 180

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم محنت کی عادت ڈالیں 165 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی پھر محنت ہے، محنت کی عادت ڈالیں کیونکہ آپ نے بڑے ہونا ہے جماعت کی ساری ذمہ داریاں آپ پر پڑنے والی ہیں.اس لیے آپ کو چاہیے کہ محنت کریں تعلیم کے معاملے میں، دینی تعلیم میں بھی، دنیاوی تعلیم میں بھی.محنت کریں اور سیکھیں اور جب آپ کو محنت کی عادت پڑ جائے گی اور علم بھی اس وجہ سے حاصل ہو جائے گا.پھر آئندہ بڑے ہو کے آپ جماعت کے بھی اچھے کام کر سکتے ہیں.دنیاوی تعلیم کے لحاظ سے تو ہر ایک کی اپنی اپنی دلچسپی ہوتی ہے.کوئی ڈاکٹر بننا چاہے گا، کوئی انجنیئر بننا چاہے گا.کوئی وکیل بننا چاہے گا، کوئی ریسرچ میں جائے گا تو وہ بے شک تعلیم حاصل کریں لیکن ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی اسی محنت سے آپ کو حاصل کرنی چاہیے روزانہ قرآن کریم پڑھیں اور کلاسوں میں شامل ہوں اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم پڑھیں.قرآن کریم پڑھیں گے تو آپ کو پتہ لگے گا کہ ہم نے کیا کیا کچھ کرنا ہے، کیا کیا کچھ اللہ میاں نے ہمیں حکم دیئے ہیں، کیا تعلیم دی ہے.تو اس طرح آپ کو بہت سارے فائدے ہوں گے.مجھے امید ہے کہ اکثر بچے ہمارے جو دس سال سے اوپر کے ہیں با قاعدہ قرآن کریم پڑھتے ہوں گے.اگر نہیں پڑھتے تو پڑھنے کی عادت ڈالیں.روز کم از کم ایک رکوع پڑھا کریں اور کلاسوں میں بھی شامل ہوا کریں.خدام الاحمدیہ اگر کلاسیں لگاتی ہے تو بڑی اچھی بات ہے.نہیں لگاتی تو کلاسیں لگانی چاہئیں.تا کہ بچوں کو بتا ئیں تو جب آپ لوگ اس طرح تعلیم حاصل کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے لیے بہت مفید وجود بن جائیں گے ، جماعت کا ایک بہت مفید حصہ بن جائیں گے.لڑائی جھگڑوں سے بچیں پھر بعض بچوں میں عادت ہوتی ہے لڑائی جھگڑے کی.ایک احمدی بچے کو ان لڑائی جھگڑوں سے ہمیشہ بچنا چاہیے، ہمیشہ پیار سے ، محبت سے رہیں، اپنے اندر حوصلہ پیدا کریں، برداشت پیدا کریں کسی سے لڑنا نہیں اور ہمیشہ ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے.تو اگر آپ یہ تین چار باتیں پیدا کر لیں تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی میں ہمیشہ کام آئیں گی.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے.اچھا اب دعا کر لیں.{ یہ خطاب غیر مطبوعہ ہے }

Page 181

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 166 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 2005ء * ذیلی تنظیمیں خدمت خلق کے شعبہ کے تحت مریضوں کی عیادت کیا کریں...مر یضوں کی عیادت کرنا بھی خدا تعالیٰ کے قرب کو پانے کا ہی ایک ذریعہ ہے.ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے.خاص طور پر جو ذیلی تنظیمیں ہیں ان کو میں ہمیشہ کہتا ہوں.خدمت خلق کے جوان کے شعبے ہیں، لجنہ کے ، خدام کے ، انصار کے ایسے پروگرام بنایا کریں کہ مریضوں کی عیادت کیا کریں، ہسپتالوں میں جایا کریں.اپنوں اور غیروں کی ،سب کی عیادت کرنی چاہیے.اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ بھی ایک سنت کے مطابق ہے اور ہمیشہ اس کوشش میں رہنا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے ذریعے ہم اختیار کریں.الفضل انٹر نیشنل 29 اپریل تا 5 مئی 2005 ء )

Page 182

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 167 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی اس ضمیمہ میں حضرت خلیفہ المسح الامس ایدہ اللہ تعالی بصرہ العزیز کے وہ خطابات دیے جارہے ہیں جو مشعل راہ جلد پنجم حصہ اول میں شامل ہونے تھے مگر اس وقت مہیا نہ ہونے کی وجہ سے اب مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم کی زینت بن رہے ہیں.{ یہ تمام خطابات غیر مطبوعہ ہیں }

Page 183

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 168 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی سیا نیشنل وقف نو اجتماع برطانیہ سے خطاب * حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 17 مئی 2003ء کو نیشنل وقف نو اجتماع برطانیہ کے موقع پر ایک بچے سے ”وقف نو“ کا مطلب دریافت فرمانے کے بعد خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-.آپ نے ، بیا بھی جو بچہ آیا تھا، اس سے سنا کہ آپ لوگوں کو آپ کے والدین نے ، والدین سے مراد ہے ان کے امی ابو نے وقف کیا حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اس تحریک پر کہ آئندہ صدی کے لیے مجھے واقفین چاہئیں اور پہلے دن سے ہی ان کے کان میں یہ ڈالا جائے کہ آپ وقف ہیں اور جماعت کے لیے آپ نے اپنی زندگی صرف کرنی ہے اور آپ کی اپنی زندگی کوئی نہیں اور اسی طرح پہلے دن سے ہی ان کی یہ اٹھان کی جائے.اس پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کونے کونے سے ماں باپ نے اپنے بچے وقف کے لیے پیش کیے اور ابھی تک کرتے چلے جارہے ہیں.الحمد للہ وقف نو بچے دین کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہو جائیں یہ جذ بہ اور یہ اخلاص اور یہ قربانی کے معیار صرف آج کل ہمیں جماعت احمدیہ میں ہی نظر آتے ہیں کہ ماں باپ بجائے اس کے کہ یہ خواہش کریں کہ ہمارے بچے بڑے ہو کر دنیا کمائیں وہ یہ خواہش کر کے پیش کر رہے ہیں کہ ہمارے بچے بڑے ہو کر دین کی خدمت کریں.تو ماں باپ نے تو اپنی طرف سے قربانی پیش کر دی.اب آپ نے بھی، جو وقف نو کے بچے ہیں.اپنے آپ کو اس کام کے لیے تیار کرنا ہے.میرے خیال میں اکثریت کو اُردو سمجھ آجاتی ہے سو میری باتیں سمجھ رہے ہونگے.آپ نے اپنے آپ کو وقف کے لیے تیار کرنا ہے اور اس میں بنیادی چیز یہ ہے کہ آپ پہلے دن سے ہی جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ پہلے دن سے ہی اپنی تربیت کریں.یہ سمجھیں.

Page 184

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 169 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی جب آپ کو ہوش کی عمر آ جائے مثلاً سات سال کی عمر میں بچے کو نماز کے لیے کہنے کا حکم ہے.دس سال کی عمر میں نماز فرض ہو جاتی ہے.تو اس عمر سے اب بچے کو خود بھی احساس ہونا چاہیے اور والدین بھی ان کو یہ احساس دلوائیں کہ تم وقف ہو تم نے اپنی زندگی جماعت کے لیے پیش کی ہے.تمہاری جو خواہشات ہیں وہ اب تمہاری نہیں رہیں بلکہ جماعت جس طرح کہے گی وہ تم نے کرنا ہے.وقف نام ہے قربانی کا دوسرے ایک بہت بڑا جو ا حساس ہے وہ بچوں کو ماں باپ کی طرف سے یہ ڈالا جانا چاہیے کہ آپ نے وقف کیا ہے اور وقف نام ہے قربانی کا تو پہلے دن سے جب تک آپ اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے لیے قربانی نہیں دیں گے بڑے ہو کر آپ انسانیت کے لیے قربانی نہیں دے سکیں گے.تو یہ بڑی ضروری چیز ہے اس بارے میں میں والدین کے سامنے زیادہ یہ عرض کر رہا ہوں کہ بعض واقفین نو بچوں کو دوسرے بچوں سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں یا اس لیے کہ یہ جماعت کی پراپرٹی ہے ان کا زیادہ خیال رکھا جائے.لیکن بعض دفعہ اسی سے عادتیں خراب ہو جاتی ہیں.اس لیے والدین پہلے دن سے ہی بچوں کو سخت جانی کی ،Hardship کی عادت ڈالیں.بچپن سے ہی سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہو پھر جس طرح حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ بچپن سے ہی سچ سے محبت ہو اور جھوٹ سے نفرت ہو.ہلکا سا مذاق بھی، جو جھوٹ کی طرف لے جانے والا ہو بچوں سے نہیں کرنا چاہیے.مثلاً حضور نے اپنے خطبہ میں اس کی مثال بھی دی تھی کہ کبھی بچے سے یہ مذاق بھی نہ کریں کہ بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے یا میرے ہاتھ میں فلاں چیز ہے، اس ہاتھ میں ہے کہ اُس ہاتھ میں ہے.جبکہ دونوں ہاتھوں میں کچھ بھی نہ ہو تو بچے کو اس سے بھی جھوٹ بولنے کی عادت پڑ جاتی ہے.یہ ہلکا سا ادنی سا مذاق ہے.اس کو ادنی مذاق نہ سمجھیں.اس سے بھی تربیت پر برا اثر پڑتا ہے تو واقفین نو بچوں کی اٹھان ، والدین کا بھی فرض ہے کہ انہوں نے پہلے دن سے تو کرنی ہے، سات سال اور دس سال کی عمر کے بعد، بہت سارے بچے دس سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں ، اب آپ کا بھی فرض ہے کہ آپ کو جھوٹ سے بالکل نفرت ہو، ہلکا سا جھوٹ بھی برداشت نہ ہو سکے اور سچ سے ایسی محبت ہو جائے جیسی کسی بھی اچھی چیز سے آپ کو ہوسکتی ہے، ( جیسے ) ماں باپ سے.

Page 185

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 170 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بچوں میں خوش مزاجی ہو پھر ایک بہت بڑی بات بچوں کے لیے خوش مزاجی ہے.یعنی ہر وقت آپ کی جو طبیعت ہے اس میں خوشی رہے بعض بچے چڑ چڑے ہو جاتے ہیں تو ماں باپ بھی خیال رکھیں کہ کس طرح ان کی تربیت کرنی ہے.بلا وجہ بچوں کو ضدی نہ بنائیں اور ضدی بنایا جاتا ہے اس طرح کہ پہلے ایک بچہ کسی چیز کا مطالبہ کرتا ہے کوئی چیز مانگتا ہے تو انکار کر دیتے ہیں اور پھر جب وہ زیادہ ضد کرتا ہے تو تھوڑی سی سزا دے کر اس کی وہ ضد بھی پوری کر دیتے ہیں یا اس کے رونے دھونے کو دیکھ کر بغیر سزا کے ہی ضد پوری کر دیتے ہیں تو بچہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ اب ہر بات میں ، میں نے جو چیز لینی ہے وہ ضد کر کے اور روکر ہی لینی ہے اور اس سے پھر بد مزاجی پیدا ہو جاتی ہے تو اس طرف بھی ہمیں بہت توجہ کی ضرورت ہے.کیونکہ اس وقت والدین کی تعداد بھی ماشاء اللہ بچوں کی تعداد کے برابر ہی مجھے نظر آ رہی ہے اس لیے میں بڑوں کے لیے بھی ساتھ ساتھ باتیں کر رہا ہوں.تو ہمیشہ بچے جو دس سال کی عمر کو پہنچ گئے ہیں وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ انہوں نے اپنے ساتھی بچوں سے کبھی نہیں لڑنا.اگر بری بات ان میں دیکھتے ہیں تو خاموش ہو جائیں ، علیحدہ ہو جائیں.آپ کے اخلاق اچھے ہونے چاہئیں آپ کے اخلاق بہت اچھے اخلاق ہونے چاہئیں اس لیے اس کو ذہن میں رکھیں کہ اگر آپ کے اخلاق اچھے ہوں گے تو پھر بڑے ہو کر آپ کا مزاج بھی ایسا اچھا بنے گا کہ لوگ خود بخود آپ کی طرف آئیں گے.آپ میں دلچسپی لیں گے اور پھر اس طریقے سے آپ احمدیت کا پیغام لوگوں تک پہنچا سکیں گے لیکن اگر پہلے ہی رونے دھونے کی ، ایک دوسرے کو ماردھاڑ کی عادت پڑ گئی تو یہ عادت آہستہ آہستہ پکی ہوتی جائے گی اور بڑے ہو کر بھی یہی سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا حق لینا ہے، چاہے سختی سے یا کسی سے لڑ جھگڑ کے.تو یہی میں آپ سے کہتا ہوں کہ اسی سے تو پھر آپ لوگوں کو اپنے سے دور ہٹالیں گے.کوئی آپ کے قریب بھی نہیں آئے گا اور جب آپ کے قریب کوئی نہیں آئے گا تو پھر آپ احمدیت کا پیغام کس کو پہنچائیں گے؟ تو اس لیے ہمیشہ یہ عہد کر لیں آج وہ بچے جو میری بات سمجھ سکتے ہیں سات سال ، دس سال یا اوپر کے کہ ہم نے کسی سے نہیں لڑنا اپنے دوستوں سے بھی، کھیل کو د میں بھی نہیں لڑنا کھیل کے میدان میں بھی اگر

Page 186

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 171 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی کوئی، کوئی بات کہہ دیتا ہے تو جسے کہتے ہیں Sportsman Spirit وہ ہونی چاہیے اور کبھی زیادتی بھی ہو جائے تو اس کو برداشت کر لینا چاہیے اور وقت کیونکہ زیادہ ہو چکا ہے باتیں تو میں نے کافی نوٹ کی تھیں.اس لیے اب ہم اپنی اس مجلس کو یہیں ختم کرتے ہیں.ہم نماز پڑھیں گے.انشاء اللہ یہ وقف نو کا جو اجتماع انہوں نے کیا ہے ، امیر صاحب نے ، بہت سارے بچوں میں یہ احساس ہوگا کہ انہوں نے حصہ لینا تھا وہ نہیں لے سکے تو انشاء اللہ امید ہے کہ آئندہ بھی اس لیول پر نہ سہی چھوٹے لیول پر یا کچھ ریجنز (Regions) بنا کر کچھ نہ کچھ اجتماعات ہوتے رہیں گے اور پھر آپ سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں گی.اور انشاء اللہ ہم باتیں سنیں گے بھی اور کریں گے بھی.تو اب میں نماز سے پہلے گو وہ پروگرام کا حصہ تو نہیں ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ ہم پہلے دعا کر لیں تا کہ ہماری یہ مجلس بھی آج دعا کے ساتھ ختم ہو.اب دعا کر لیں.{ یہ خطاب غیر مطبوعہ ہے }

Page 187

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 172 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مجلس شوری خدام الاحمدیہ برطانیہ سے خطاب حضور انور نے 29 دسمبر 2003ء کو مجلس شوری خدام الاحمدیہ برطانیہ سے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا جس کا اُردو ترجمہ خلاصہ پیش ہے.یہ خطاب غیر مطبوعہ ہے اور آڈیو سے ٹرانسکرائب کیا گیا ہے:.اس خطاب کا انگریزی متن صفحہ نمبر 188 پر ملاحظہ فرمائیں) ابھی جو آیات تلاوت کی گئی ہیں میں ان میں سے پہلی آیت کے متعلق مختصراً کچھ بیان کروں گا جس میں شوری کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے.اس کے بعد میں آپ کو جماعت احمدیہ کی مجلس شورٹی کے حوالہ سے کچھ ضروری ہدایات دوں گا.نظام شوری کی اہمیت ( دین حق ) میں نظام شوری بہت اہمیت کا حامل ہے.یہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ( دین حق ) میں نظام خلافت.اس وضاحت سے آپ مجلس شوری کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں.اور آپ لوگوں کی اہمیت کا اندازہ بھی جو مجلس شوری کے ممبر ہیں.( دین حق ) دونوں کو یعنی انبیاء کو اور انبیاء کی وفات کے بعد ان کے جانشین یعنی خلفاء کو بنیادی اصولی تعلیم دیتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے متبعین سے جماعت کے اہم معاملات میں مشورہ طلب کریں.تاکہ مختلف طبقات اور مختلف معاشروں کے لوگوں کے متعلق علم حاصل کرسکیں.کیونکہ مختلف طبقات اور مختلف معاشروں سے لوگ ( دین حق ) میں آئے ہوئے ہیں.اب میں آپ کے سامنے مختصر بیان کرتا ہوں.خدا تعالیٰ نے مشورہ طلب کرنے کو لوگوں کے لیے رحم کا منبع قرار دیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ مشورہ طلب کرتے ہیں وہ انصاف کی راہ سے کبھی گمراہ نہیں ہوں گے حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے.حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہم معاملات میں دوسروں سے مشورہ لینے کے بارہ میں خصوصیت سے بہت خیال رکھا کرتے تھے.چونکہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 188

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 173 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی کی تعلیمات پر عمل کرنے والے ہیں اس حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ میں نظام شوری بھی بہت اہمیت کا حامل ہے.حتمی فیصلہ خلیفہ کا ہوتا ہے حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے جس سے آپ کو مجلس شوری کی اہمیت کا اندازہ ہوگا کہ شوریٰ کے بغیر خلافت کی کوئی اہمیت نہیں.یعنی ( دین حق) کے ضروری احکامات کے معاملہ میں اور دوسرے ضروری معاملات میں مشورہ طلب کرنا مذ ہبی اور دنیوی راہنماؤں یا امراء پر فرض ہے.اگر چہ وہ اس مشورہ کو مان لینے کے پابند نہیں ہیں جیسا کہ آپ نے ترجمہ میں یہ بات سن لی ہے کہ ” جب تو ارادہ کر لے تو خدا پر بھروسہ کر.اس لیے خلیفہ کو ہمیشہ بڑے اور بارسوخ (مومنوں ) سے مشورہ طلب کرنا چاہیے لیکن حتمی فیصلہ ہمیشہ خلیفہ کا ہی ہوتا ہے.وہ پابند نہیں ہوتا کہ کلی یا جزوی اکثریت کا دیا ہوا مشورہ ضرور مانے.کوئی شخص سوال یا اعتراض اٹھا سکتا ہے کہ اگر خلیفہ اکثریت کا مشورہ ماننے کا پابند نہیں تو پھر مشورہ لینے کی ضرورت ہی کیا ہے.یا وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اتنے زیادہ لوگوں کا رقم کثیر خرچ کر کے اکٹھا ہونا صرف اس واسطے کہ وہ کسی معاملہ میں اپنی رائے یا مشورہ دیں اور پھر ان کی رائے کو کلی یا جزوی طور پر نامنظور کر لیا جائے اس میں تو کوئی دانشمندی نہیں.اس آیت میں خلیفہ کو یہ حق حاصل ہے کہ مشورہ طلب کرے اور مشورہ مان لے اگر وہ اس بات پر قائل ہو جاتا ہے، مشورہ ماننا صرف اس صورت میں ہے کہ وہ قائل ہو جائے کہ ایسا کرنا جماعت یا معاشرہ کے مفاد میں ہے، خلیفہ کو کسی بھی فرد واحد کے مقابلہ میں جماعت کے بارہ میں زیادہ علم اور زیادہ درد ہے.اگر خلیفہ وقت محسوس کرے کہ مشورہ کا نا منظور کرنا جماعت کے مفاد میں ہے تو وہ ایسا ہی کرے گا کیونکہ خلیفہ وقت مجلس شوری کے ممبران کا مشورہ ذاتی وجوہ یا ذاتی مفادات کی وجہ سے نا منظور نہیں کرتا.اور بالعموم مجلس شوری کے ممبران کی آراء اور مشورہ جات منظور کر لیے جاتے ہیں.بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے جماعت کے ممبران کی اکثریت کی رائے کو یا تو جزوی طور پر یا کلی طور پر نا منظور کیا.یا بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ مومنین کی متفقہ رائے کو کلیتہ رد کر دیا گیا اور انہیں بعد میں احساس ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاء کا فیصلہ ہی درست تھا.

Page 189

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم مشورہ کرنے کے فوائد 174 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی اب میں آپ کو اجمالاً مشورہ کرنے کے فوائد بتا تا ہوں نمبر ایک یہ کہ خلیفہ یا امیر کو اپنے متبعین کی طرز فکر کا اندازہ ہو جاتا ہے اور جب اسے طرز فکر کا اندازہ ہو جائے تو وہ اس کے مطابق فیصلے کر سکتا ہے.دوسرے یہ کہ ان کی طرز فکر کا اندازہ ہو جانے سے اسے صحیح فیصلہ کرنے میں مدد ملتی ہے.تیسرے یہ کہ نمائندگان جماعت کو یہ موقع میسر آتا ہے کہ وہ جماعت کے اہم معاملات کے بارہ میں غور کریں اور ذاتی دلچسپی لیں.چوتھے یہ کہ خلیفہ وقت کو مختلف افراد کی ذہنی اور انتظامی صلاحیتوں کو پر کھنے کا موقع ملتا ہے جس سے وہ اس شخص کو وہی کام سونپ سکتا ہے جس کا وہ اہل ہو.پانچویں یہ کہ خلیفہ وقت جماعت کے مختلف افراد کے رویے تمنائیں اور رجحانات کے علاوہ ان کی اخلاقی اور روحانی حالتوں کے بارہ میں واقفیت حاصل کر سکتا ہے.اس سے افراد جماعت میں جہاں کہیں بھی ضرورت ہو بہتری لاسکتا ہے.نظام خلافت کے بعد اہم ترین نظام شوری کا ہے اب میں آپ کو کچھ اور اہم نکات جو ممبران شوری کے علم میں ہونا ضروری ہیں بتا تا ہوں.پہلی بات یہ کہ جیسا کہ میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ جماعت میں شوریٰ کا نظام، نظام خلافت کے بعد دوسرا اہم ترین اور مقدس ترین نظام ہے.پس مجھے امید ہے کہ یہ آپ کو اپنے آپ کو مجلس شوری کے ممبر ہونے کی اہمیت کا احساس دلائے گا اور جب آپ کو اس اہمیت کا اندازہ ہو جائے تو پھر آپ جماعت کی خاطر زیادہ اور بھر پورا خلاص کے ساتھ کام کریں گے.دوسری بات جو کہ پہلے بیان ہونی چاہیے تھی میں اسے اب آخر پر بیان کرتا ہوں کیونکہ یہ آئندہ مجلس شوریٰ میں آپ کے لیے بہت مفید ہوگی.شوری کی کارروائی کے دوران خاص احتیاط شوری کی کارروائی کے دوران یہ بات خصوصی طور پر یاد رکھیں کہ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ کو اپنی آراء اور مشورے دینے ہوتے ہیں لیکن وہ مشورے بحث ومباحثہ کا رنگ اختیار نہ کریں اور اور نہ ہی عوامی جلسوں اور دنیا کی پارلیمنٹس کی طرح شوری میں شریک باقی لوگوں کو مجبور کریں کہ وہ آپ کی رائے کو ضرور مانیں.اگر مجھے پہلے علم ہوتا تو میں مجلس شوری کی افتتاحی تقریب میں آتا اور زیر بحث موضوع

Page 190

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 175 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی کے تمام پہلو خواہ حق میں یا مخالف کے بارہ میں آگاہی حاصل کرتا.سب کمیٹیاں جو کہ آپ کی آئندہ شوری کے لیے بہت مفید رہیں گی اس سے مجلس شوری کے باقی اراکین کا وقت بھی بچتا ہے.مجھے علم نہیں کہ آپ یہاں سب کمیٹیاں تشکیل دیتے ہیں یا نہیں غالبا یہ یہاں بنائی جاتی ہیں.اس سے آپ مجلس شوری کے باقی اراکین کا وقت بچا سکتے ہیں.اور جو مجلس شوری کے تو رکن ہیں لیکن سب کمیٹی کے نہیں وہ زیر بحث موضوع کے حق اور مخالف دلائل جان لیں گے اس طرح وہ اپنی رائے دے سکتے ہیں.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ ساری مجلس شوریٰ اپنی آراء اپنا حتمی فیصلہ یا اپنے مشورے بہتر طور پر دیتے ہیں.یہ بھی یاد رکھیں کہ جب بھی آپ اپنی آراء اور مشورے دیں جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ مجلس شوری اپنا آخری فیصلہ اور مشورہ خلیفہ مسیح کی خدمت میں پیش کرتی ہے اور یہ ضروری نہیں کہ خلیفتہ امسح جوں کا توں ہی فیصلہ مان لیں.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ خلیفہ اسی کو یہ پورا حق حاصل ہے کہ وہ جزوی یا کلی طور پر آپ کا کوئی مشورہ قبول کرے یا نا منظور کرے.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ جب بھی ایسا ہو اور متعددبار یہ بات تجربہ میں آچکی ہے کہ جب بھی خلیفہ مسیح نے مجلس شوری کے کسی فیصلہ کو نا منظور کیا یا اس سے اتفاق نہ کیا اور انہوں نے اپنا کوئی فیصلہ صادر کیا تو ہمیشہ خدا تعالیٰ نے خلیفہ اسیح کے فیصلہ میں برکت رکھی.نمائندگان شوریٰ کا ایک اہم فرض ایک اور ضروری بات یہ ہے کہ آپ جو مجلس شوری کے نمائندگان ہیں آپ میں سے بعض عاملہ کے ممبران ہیں اور بعض قائدین علاقہ ہیں اور کچھ آپ میں سے اس شوری کے لیے منتخب نمائندے ہیں تو جو منتخب نمائندگان ہیں ان کا دورانیہ پورے ایک سال تک ہے جب تک کہ آئندہ شوری کے لیے نمائندگان کا انتخاب نہیں ہو جاتا.اس حوالہ سے آپ کا کام اس وقت ختم نہیں ہو جاتا جب آپ یہاں سے اپنے علاقوں میں اپنی مجالس میں واپس چلے جاتے ہیں آپ کا فرض ہے کہ آپ اپنے علاقوں میں گہری نظر رکھیں کیونکہ آپ مرکزی مجلس خدام الاحمدیہ کے نمائندہ ہیں اور جب بھی آپ کوئی کمزوری یا خدام الاحمدیہ کے بنیادی اصول اور قواعد سے انحراف دیکھیں یا جماعتی روایات کے خلاف کوئی بات دیکھیں تو آپ کو فوری طور پر صدر خدام الاحمدیہ کو آگاہ کرنا چاہیے.یادر ہے کہ آپ اس بات کے مجاز

Page 191

176 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم نہیں ہیں کہ آپ اپنی مجلس کے روز مرہ کے معاملات میں مداخلت کریں.جب بھی آپ کوئی غلط بات دیکھیں آپ صدر خدام الاحمدیہ کو اس سے آگاہ کر سکتے ہیں.آگے اس کا کام ہے کہ وہ اس کی کس طرح اصلاح کرتا ہے.جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے لیکن میں آپ کو دوبارہ بتا دیتا ہوں کہ جماعت احمد یہ کی تمام ذیلی تنظیمیں مثلاً لجنہ ، انصار اور خدام یہ تمام خلیفۃ المسیح کے براہ راست ما تحت ہیں.خلیفتہ اسیح کور پورٹ کرتے وقت بہت زیادہ احتیاط کریں صدر خدام الاحمدیہ براہ راست خلیفہ اسیح سے راہنمائی حاصل کرتا ہے.اس لیے اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ جب بھی کوئی رپورٹ کریں تو بہت زیادہ احتیاط کریں کیونکہ دراصل آپ خلیفہ امیج کو رپورٹ کر رہے ہوتے ہیں اور اگر آپ کوئی غلط معلومات فراہم کر رہے ہوں تو آپ خلیفہ اسی کو غلط راہ پر ڈال رہے ہوتے ہیں.اس لیے جب بھی آپ کوئی رپورٹ کریں تو ہمیشہ یادرکھیں ( میں اسے بار بار دہرا رہا ہوں ) کہ آپ کا کوئی کام کوئی رائے ، کوئی تبصرہ یا کوئی رپورٹ غلط تو نہیں.اس لیے آپ کو ہمیشہ رپورٹ کرنے کے معاملہ میں بہت محتاط ہونا چاہیے.اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کو خوب محنت سے کام کرنا چاہیے.اپنے ساتھی اراکین سے، اپنی مقامی مجلس عاملہ علاقوں اور حلقہ جات میں بھی یہ بات کہیں کہ انہیں بہت محنت کرنی چاہیے کیونکہ خلیفتہ امسیح ہماری رپورٹ پر اعتماد کرتے ہیں.وہ کسی بھی ملک کے صدر خدام الاحمدیہ کی رپورٹ کو اتنی ہی اہمیت کی نظر سے دیکھتے ہیں جتنی وہ کسی بھی ملک کے امیر کی رپورٹ کو دیکھتے ہیں.میرے خیال میں اتنا کافی ہے اور میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی راہنمائی کرے اور آپ کو اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطا فرمائے.اور آپ اپنے مجلس شوری کا نمائندہ ہونے کی اہمیت کو بھی پیش نظر رکھیں.اب آخر پر میں آپ سے درخواست کروں گا کہ میرے ساتھ دعا میں شامل ہو جائیں.آئیں دعا کر لیں.

Page 192

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 177 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی نیشنل تربیتی کلاس برطانیہ سے خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 31 دسمبر 2003ء کو نیشنل تربیتی کلاس برطانیہ سے خطاب کرتے ہوئے ، تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تربیتی کلاس کا مقصد دین کا علم سیکھنا ہے یہ تربیتی کلاسیں جو منعقد کی جاتی ہیں جماعت احمدیہ میں ان کا مقصد یہ ہے کہ آپ دین کا علم سیکھیں.دنیا کی تعلیم کے لیے تو سکولوں میں جاتے ہیں.چھ سات گھنٹے سکول میں رہتے ہیں، وہاں پڑھتے ہیں.پھر گھر آ کے بھی سکول کی پڑھائی کر رہے ہوتے ہیں.دین کی پڑھائی کی طرف کم توجہ ہوتی ہے.حالانکہ دنیا کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دین کی تعلیم سیکھنے کی طرف بھی باقاعدگی سے توجہ رہنی چاہیے.اس لیے پہلی چیز جو ہے، دین سکھانے کے لیے ایک احمدی بچے کے لیے، وہ ہے قرآن شریف کا پڑھنا.مجھے یہ بتا ئیں.ہاتھ کھڑے کریں وہ بچے جو روزانہ قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں.Thirty Percent (30 فیصد ) میرا خیال ہے.تو باقی بھی، دین سیکھنا جو ہے نا بہت ضروری چیز ہے اور اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑی خاص تاکید فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے.وہ تو ہے ہی کہ دین سیکھو اور دین کے معاملے میں سنجیدگی اختیار کرو.یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرنی ہے صرف اس لیے کہ امی ابو نے کہہ دیا ہے کہ ضرور صبح پڑھنا ہے یا میں نے کہہ دیا ہے کہ تلاوت کیا کریں پوچھا جائے گا.یا آپ کی جو تنظیم ہے جماعت والے پوچھتے ہیں خدام الاحمدیہ والے یا ناظم اطفال پوچھیں گے.تو بلکہ غور سے پڑھیں شوق سے پڑھیں اس لیے کہ ہم نے دین سیکھنا ہے اور اس میں سنجیدگی اختیار کریں، پھر یہاں جو آپ لوگوں نے تین چار دنوں میں سیکھا ہے ( چار دن کا ہی کورس تھا نا ؟) تو اس میں آپ کو قرآن شریف بھی پڑھایا گیا حدیث بھی پڑھائی گئی.اس کا

Page 193

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 178 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید و اللہ تعالی امتحان بھی ہوا اور دینی معلومات کا بھی امتحان ہوا.تو اس ساری چیزوں کو جو آپ نے یہاں سیکھیں ہیں وہ اس لیے تھی کہ آپ کو تھوڑی سی عادت ڈالی جائے.تاکہ شوق پیدا ہو اور گھر جا کے بھی آپ دین سیکھیں.علم سکھانے والے کا عزت واحترام کریں پھر آپ نے یہاں آداب سیکھے یا Etiquettes جنہیں کہتے ہیں.اس میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ کو کوئی بھی علم سکھانے والا.چاہے وہ دینی علم ہو یا دوسرا علم جو بھی آپ سیکھتے ہیں.جو بھی آپ کو سکھانے والے ہیں ان کا عزت واحترام کریں آپ کی جماعت میں آپ کی مجلس میں ناظم اطفال ہیں یا منتظم اطفال ہیں جو آپ کی دینی تربیت کی بھی کوشش کرتے ہیں ایک تنظیم کے تحت ان سے پورا پورا تعاون کریں.ان کی عزت کریں.ان کا احترام کریں.اسی طرح اپنے سکول میں ٹیچرز کا بھی احترام اور عزت کریں.اور ایک احمدی بچے کے لیے خاص نشان ہونا چاہئیے کہ وہ اپنے استادوں کی بہت عزت کرتے ہیں.دین سیکھنا بہت بڑی نیکی ہے پھر دین سیکھنا ایک اتنی بڑی نیکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے کوئی اچھی بات کا ارادہ کرتا ہے یہ چاہتا ہے کہ وہ شخص نیک بنے اور نیکیاں کرے اور اللہ میاں کا پیار حاصل کرے تو اس کے ذہن کو دین سکھانے کی طرف متوجہ کرتا ہے، اس طرف توجہ دلاتا ہے.اس کے اندر شوق پیدا ہوتا ہے کہ وہ دین سیکھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو یہ دین کی تعلیم جو ہے تقسیم کرنے کے لیے آیا ہوں.اور عطا کرنے والی ذات جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ہے، اس لیے جب بھی آپ لوگ دین سیکھ رہے ہوں، پڑھ رہے ہوں.قرآن شریف پڑھ رہے ہوں کسی سے بھی ، خود پڑھ رہے ہیں یا نیا نیا پڑہنا شروع کیا ہے یا قرآن شریف کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا ہے، اس کی Translation سیکھ رہے ہیں یا حدیث پڑھ رہے ہیں یا کوئی اور دینی کتاب پڑھ رہے ہیں تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا فضل ما نگیں اس سے دعا بھی کیا کریں کہ اللہ میاں آپ کو جو کچھ آپ پڑھ رہے ہیں اس کو سیکھنے کی اور سمجھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.کیونکہ دین سکھانے والی ذات جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.خود یہ نہ سمجھیں کہ کتابیں پڑھ کے صرف آپ کو خود ہی علم آ جائے گا.

Page 194

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 179 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سیکھے ہوئے دین پر عمل کرنے کی کوشش کریں پھر جو دین آپ سیکھیں اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کریں.مثلاً اگر آپ یہ سیکھتے ہیں کہ کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنی چاہیے، کھانا کھانے کے بعد دعا پڑھنی چاہیے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ.جوا بھی یہاں پڑھ کر سنائی ہے آپ کو یا اور بہت ساری دعائیں ہیں.تو صرف یہ یاد کرنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان پر عمل بھی کرنا ہے.ہر ایک بچہ یہ چھوٹی چھوٹی دعا ئیں جو ہیں سیکھے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے.نہیں تو وہ جس طرح حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال دی ہے، آپ کی مثال اسی طرح ہو جائے گی کہ جب بارش ہوتی ہے اگر اچھی زمین ہو تو اس بارش کو جذب کرتی ہے، وہاں اچھے پودے وغیرہ اُگتے ہیں.گرینری (Greenary) ہوتی ہے.گھاس اگتا ہے درخت اچھے ہوتے ہیں اور اگر زمین اچھی نہیں ہے چٹیل ہے یا ایسی (Rock) راک ہے وہاں تو بارش ہوتی ہے اور پانی بہہ جاتا ہے اس بارش کا اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا.اسی طرح اگر آپ لوگ صرف سیکھیں اور اس کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش نہ کریں (Absorb) ابز ورب کرنے کی کوشش نہ کریں، اس پر عمل کرنے کی کوشش نہ کریں تو اس کے سیکھنے کا فائدہ کوئی نہیں ہوگا.وہ سیکھنا اسی طرح ہے کہ سیکھا اور بھول گئے.قرآن مجید کا ترجمہ سیکھیں پھر قرآن شریف جب آپ پڑھیں پندرہ ، سولہ سال کی عمر کے جو بچے ہیں بلکہ چودہ سال کی عمر کے بھی.اب یہ بڑی عمر کے بچے ہیں، Mature ہو گئے ہیں، سوچیں اُن کی بڑی Mature ہونی چاہئیں.اس عمر میں آکے آپ لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں، Future کے بارے میں بھی سوچنا شروع کر دیتے ہیں.تو اس میں خاص طور پر یا د رکھیں کہ قرآن شریف جب آپ پڑھ رہے ہیں تو اس کا ترجمہ بھی سیکھنے کی کوشش کریں.کیونکہ یہ بھی ایک حدیث ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن شریف جو ہے اس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھ میں.یہی مطلب ہے کہ اگر تم لوگ اس کو پڑھو اور اس پر عمل کرو، اس کو سمجھو تو تم نیکیاں کرنے کی کوشش کرو گے اور جب تم نیکیاں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تک تم پہنچ سکو گے.دعائیں کرنے کا تمہیں موقع ملے گا.نمازیں پڑھنے کا تمہیں مزہ آئے گا اور پھر اللہ

Page 195

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 180 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی تعالیٰ کے جوحکم ہیں جو باتیں ہیں ان کو سمجھنے کی توفیق ملے گی.تو یہ جس طرح میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ صرف طوطے کی طرح یاد نہیں کرنا کہ زبانی یاد کر لیا اور بس کافی ہو گیا، جو سیکھنا ہے اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرنی ہے اور اسی طرح آپ لوگ جو پڑھائی کرتے ہیں اس میں بھی دنیاوی دوسری تعلیم جو سکول کی تعلیم ہے، اس میں بھی یہ چیز یا درکھیں کہ جو وہاں جو آپ سیکھ رہے ہیں اس کو دین کی تعلیم کے ساتھ ملا کے سیکھیں.تا کہ جو ایسے لوگ ہیں جن کو مذہب کا پتہ نہیں ایسے بچے آپ کو سکول میں آپ سے بحث کرتے ہیں ، بات کرتے ہیں بعض لوگ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتے تو ان کو سمجھانے کے لیے بھی دین سیکھیں اور دین کو اس تعلیم کے ساتھ ملائیں تا کہ آپ ان کو سمجھا سکیں کہ اللہ تعالیٰ کی بھی ایک ذات ہے اسی نے دنیا کو پیدا کیا ہے.اسی کی ہمیں خدمت کرنی چاہئیے اور اسی سے سب کچھ مانگنا چاہیے.بچپن سے ہی سچ کی عادت ڈالیں پھر ایک بہت بنیادی چیز ہے کہ سچ بولنا اس پر میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں.ہر احمدی کو تو کوشش کرنی چاہیے، ہر احمدی بچہ ہو بڑا ہو، ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئیے اور بچپن سے ہی اگر آپ یہ عادت ڈال لیں کہ آپ نے سچ بولنا ہے کسی بات میں بھی.مذاق میں بھی کسی سے غلط بات نہیں کرنی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ میری مٹھی میں کوئی چیز ہے اور وہ ہاتھ کھولو تو کوئی چیز نہ ہوتو یہ بھی جھوٹ ہے.اتنا بھی جھوٹ نہیں بولنا.تو بچپن میں ہی سچ بولنا سیکھیں پھر یہ بھی فرمایا کہ اگر تم لوگ جھوٹ بولنے کی عادت چھوڑ دو تو پھر کوئی برائی تمہارے اندر پیدا نہیں ہوسکتی.ہمیشہ سچ بولوتو ہمیشہ پھر تمہارے اندر نیکیاں ہی پیدا ہوں گی تو پھر کوئی بری بات پیدا نہیں ہوگی تمہارے دلوں میں.ہر بچہ خدمت خلق کرے پھر ایک ہمارا احمدیوں کا کام ہے، بہت بڑا ایک مذہب کا کام بھی ہے ( دین حق ) میں بھی اس کی تعلیم ہے اور احمدی اس پر عمل کرتے ہیں کہ لوگوں کی خدمت کرنا اسے کہتے ہیں خدمت خلق.وہ آپ بچے کس طرح خدمت خلق کر سکتے ہیں اب چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں.آپ سڑک پر جارہے ہیں وہاں کوئی بعض دفعہ (Footpath ) فٹ پاتھ پر ہی کوئی گند پڑا ہوا، کوئی پتھر پڑا ہوا نظر آ جاتا ہے.یہاں بھی نظر آ جاتے

Page 196

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 181 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہیں میں نے دیکھے ہیں.تو اٹھا کر اس کو ایک طرف کر دیں تا کہ کسی کو ٹھوکر نہ لگ جائے.پھر کوئی آدمی آپ کو راستہ پوچھتا ہے، بڑوں سے تو بچ کے رہیں کیونکہ بعض دفعہ غلط قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن وہیں کھڑے کھڑے اگر آرام سے رستہ سمجھا سکتے ہیں تو اس کو راستہ سمجھا دیں.یہ بھی خدمت خلق ہے.پھر اپنے سکولوں میں اگر کوئی بچہ آپ سے سوال پوچھتا ہے کہ مجھے سمجھا دو، سمجھ نہیں آئی اور آپ کو وہ سوال آتا ہے تو اس کو سمجھا دیں.یہ بھی خدمت خلق ہے.اس طرح چھوٹی چھوٹی باتیں خدمت خلق کی یہ سیکھیں اور یہ احمدی بچے کا کام ہونا چاہیے.محنت کے ساتھ پڑھائی کرنی چاہیے پھر جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں.آپ دنیاوی تعلیم تو حاصل کرتے ہیں اور اس کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں لیکن جو بچے پوری طرح محنت نہیں کرتے ان کو اپنے سکول کی پڑھائی میں بھی پوری محنت کرنی چاہیے اور دین سیکھنے کی طرف بھی پوری محنت کرنی چاہئیے.پوری توجہ سے دونوں قسم کی پڑہائیاں جاری رہنی چاہئیں تا کہ آپ کو دنیا کا علم بھی حاصل ہو بڑے ہو کر آپ دنیا کو بتا سکیں کہ ( دین حق ) کی صحیح تعلیم کیا ہے.اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے کیا اچھے طریق ہیں کیا صحیح طریق ہیں.اس لیے دونوں قسم کی تعلیم حاصل کرنا بہت ضروری ہے.ہمیشہ ماں باپ کی فرمانبرداری کریں آپ لوگوں کے لیے پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ماں باپ کا کہنا ماننا.بعض بچوں کی عادت ہوتی ہے بہت زیادہ ضد کرتے ہیں کسی چیز کی ضرورت ہوگی نہیں بڑی عمر کے بچے بھی میں نے دیکھ لیے ہیں ، تیرہ چودہ سال کی عمر میں بھی بعض دفعہ ضد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے فلاں قسم کے کپڑے ہی لینے ہیں.اس وقت گنجائش نہیں ہوتی یا نہیں خرید کے دے سکتے اماں ابا.تو پھر ضد نہیں کرنی چاہیے.ان کا ہمیشہ کہنا مانا چاہیے.ان کی خدمت کرنی چاہیے کبھی ان کو تکلیف نہ پہنچے آپ لوگوں سے.کیونکہ یہی حکم ہے ہیں کہ سب سے زیادہ خدمت جو ہے وہ دنیا میں اگر کسی کی کرنی ہے تو اپنے ماں باپ کی کرنی چاہیے اور ان کی ہر بات ماننی چاہیے جو نیکی کی بات ہو اور ہمیشہ نیک بات ہی مانی ہے سوائے اس کے کہ ( یہ بھی یہاں حکم ہے ) کہ ماں باپ کی کون سی بات نہیں مانتی؟ جہاں وہ ایسی بات کریں جو غیر شرعی ہو.جو

Page 197

مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم 182 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی شریعت کے خلاف ہو.اور کوئی احمدی ماں یا باپ غیر شرعی بات نہیں کر سکتا.یہ تو کوئی نہیں کہے گا آپ کے امی یا ابا آپ کو کہ نماز نہیں پڑھنی.تو سوائے اس قسم کے حکم ہوں جو کوئی احمدی ماں باپ نہیں کہہ سکتا.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات ان کی مانی ہے کہ اچھے کام کرو.اگر بعض معاملات میں وہ کہیں کہ نہیں اس طرح کرنا ہے تو اسی طرح کرو.ضد نہ کرو.ان کا کہنا مانو.اگر وہ کہتے ہیں کہ آج باہر کھیلنے نہیں جانا کسی وجہ سے تو نہ جاؤ.تو جو بھی باتیں آپ کے امی ابا آپ سے کریں ان کا کہنا ماننا ہے.اور ماں باپ کا کہنا مانا بہت ضروری ہے.یہی چند باتیں اب میں آپ سے کرتا ہوں.باقی آپ نے جو سیکھا ہے ان دنوں میں ، یہاں اس کا امتحان دیا ہے آپ نے.اس پر عمل بھی کرنا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے اور مزید نیکی میں بڑھنے کی توفیق دے اور علم میں بڑھنے کی توفیق دے.اب دعا کر لیں...{ یہ خطاب غیر مطبوعہ ہے }

Page 198

ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 188 مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم Address to Majlis-e-Shura, Khuddam-ul-Ahmadiyya U.K.(Delivered on 29th November 2003) The verses which were recited just now, I will explain one of the verses the first verse in brief.In which the importance of Shura is explained and later I will give you some necessary important points about the Majlis-e-Shura of Jamaat-e-Ahmadiyya.In Islam the institution of Shura is very important.One of the most important institution even certain to the institution of the Khilafat.So with this explanation you can feel the importance of Majlis-e-Shura and those who are the members of Majlis-e-Shura, yours importance also of being the member of Majlis-e-Shura.Islam lays down as a rule to both, the prophets and after the demise of the prophets, his successors, the khulafas to always consult the followers in the matters important for the community and the reason is that to know about the persons of different classes and different communities because in the fold of Islam people come from different communities and different classes.As I will just give you the brief description.God has made the seeking of advice the source of mercy for men.Those who hold consultation, God says that they will not astray away from the path of the justitude.A saying of the Holy Prophet SAW is narrated by Abu Hurrairah says that the Holy Prophet SAW was very much particular in consulting others in all matters of importance.So in view of that as we follow the teachings of the Holy Prophet SAW the institution of Majlis-e-Shura is also very much important in Jamaat-e-Ahmadiyya.Hazrat Umer used to say.You will

Page 199

ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 187 مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم just see how important the Majlis-e-Shura is; he used to say that there is no Khilafat without consultation.That's the holding of consultation in matters of consequences and important injunction of Islam and its binding on both spiritual and temporal chiefs and emirs.Though they are not bound to accept that consultation as the word you have listened to the translation also that "when thou art determined then put thy trust in Allah".So the Khalifa must seek the advice of leading Muslims but the final decision always rests with him.He is not bound to accept in full or in part the advice tended to him by the majority of them.One may raise a question or raise an objection that if a Khalifa is not bound to act upon the advice of the majority what is the use of seeking advice then? Or, he may say that it is completely unwise for gathering a number of people spending a lot of money and just asking them to give their advice, give their opinion and then later reject totally or partially the whole of their opinion, so in this verse, the verse gives to the Khalifa the right to get advice if he is convinced, the reason is that if he is convinced that it is in the interest of religion or the community to do so.Khalifa has the more pain and more knowledge about the community than any individual person.So if he sees that it is in the interest of the community to reject the opinion he will do so because Khalifa does not reject the opinion of the members of Majlis-e-Shura on personal grounds or on personal interests.And normally the opinions and advices of the members of Majlis-e-Shura is nearly normally welcomed.It so happened sometimes that the Holy.Prophet and after him his khulafa partially rejected the advice given by the majority or totally rejected the advice given by the majority of the members of the Jamaat of the

Page 200

ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 186 مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم community.Even sometimes it so happened that the unanimous opinion of the followers were rejected totally and later the members realized that the decision of the Holy Prophet SAW or the khulafa was correct.Now I will give you the brief of the advantages of the consultation that number one, the Khalifa or the Emir comes to know the views of his followers and when he knows the views he can take the decisions.As the result of their view the second is the same thing that he is helped in arriving at a correct decision.Number three, representative of the Jamaat get an opportunity to think about and take personal interest in important matters of the Jamaat.And number four, the Khalifa is enabled to judge the mental and administrative capabilities of different individuals which help him to assign the right work to the right man.And number five.It enables Khalifa to know the attitude, aspirations and tendencies as well as the moral and spiritual conditions of the different members of the community and thus becomes stable to effect an improvement where ever necessary among the members of the Jamaat.Now I will give you some other important points which the members of the Shura should know, that number one, as I had explained earlier that institution of Shura in the Jamaat is second most important and sacred institution after the institution of Khilafat.So I hope this can make you realize the importance of your being the member of Majlis-e-Shura.And when you will realize this importance you will work with full dedication for the cause of the Jamaat.Number two, this number two point.It had to be explained earlier but now in the closing also I should explain it to you because it can be useful for you in the next Majlis-e-Shura.That during the proceedings and

Page 201

ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 185 مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم delegations make it a point that this is the forum where you have to give your opinion and suggestions but not for the sake of arguing or for debating and don't press the house to accept your opinion as it is in the worldly parliaments or gatherings or meetings.And subcommittees which will also be useful for next Shura if I had known it earlier (I would have come here before the start of your Majlis-e-Shura) that subcommittees should discus the matter in detail and try to find out all aspects against and for of the subject under discussion.This will also help to save the time of the other members of the Majlis-e-Shura.I don't whether you also appoint subcommittees here or not.They are appointed perhaps.So by this you will save the time of members of Majlis-e-Shura, who are not the members of the subcommittee but they are members of Majlis-e-Shura.They can know the pros and cons of the point under discussion, and in view of that they can give their opinions and suggestions in a better way.And also keep in mind that whenever you are giving your suggestions and opinions as I have said earlier that the house is giving the views and their final decision or suggestion to Khalifatul Massih and it is not necessary that Khalifatul Massih accept the matter as it is or in the same shape.He has the right as I mentioned earlier that Khalifatul Massih has the right to accept part of it or total opinion or reject partially or totally your advices or opinions and as I have told if so happens when, and it has been experienced many a times that whenever Khalifatul Massih rejected or did not agree with the decision of the Majlis-e-Shura and he took his own decision on the matter.His decision was blessed always by Allah.And one more important point is that you who are the members of Majlis-e-Shura, those who are elected

Page 202

ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالٰی 184 مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم members of Majlis-e-Shura.Some of you are the executive members, regional Quaids, but some of you are elected members for this purpose.Your tenure is for one full year till the next election is held and the new members are elected.So in view of that your duty is not finished when you go to your respective places, respective Majlis, there you are also suppose to be the observer or the representative of Central Majlis Khuddam-ul-Ahmadiyya and whenever you see any short coming or any deviation from the basic rules and regulations of Khuddam-ul-Ahmadiyya or traditions of the Jamaat, you should report the matter immediately to Sadar Khuddam-ul-Ahmadiyya.But remember this that you are not allowed to interfere in day to day affairs of your respective Majlis.Whenever you sea anything wrong you can inform Sadar Khuddam-ul-Ahmadiyya.He will take this decision how to rectify it and as you know all, but I want to remind you again that all the auxiliary branches of Jamaat-e-Ahmadiyya like Lajna, Ansaar and Khudaam.They are directly under Khalifatul Massih.The Sadar Khuddam-ul-Ahmadiyya takes guidance direct from Khalifatul Massih.So in view of that you should be very careful that whenever you are giving any report you are taking any action, you are actually giving the information to Khalifatul Massih and if you give any wrong information, you are misguiding Khalifatul Massih.So whenever you do any report or make any report you always remember I am trying to repeat it again and again that always remember that any of your action or your opinion or your view or your report, may be a misleading.So therefore you should always be very careful about sending your reports and also at the same time you should

Page 203

ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 183 مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم be hard working and also ask your fellow members and respective executive committees.Majaalis-e-Aamla, or respective towns, halqas that they should work hard because Khalifatul Massih is relying on our report.As he considers the reports of the national Emirs in the same way he considers the report of Sadar Majlis Khuddam- ul-Ahmadiyya of the respective country.So I think this is enough and I pray that may Allah guide you and help you to discharge your duties fully well and keep in view the importance of yours, being members of the Majlis e Shura.So at the end now I will ask all of you to join me in silent prayer.Now we should pray.☆☆☆

Page 203