Mashal-e-Rah Volume 5 (Part 1)

Mashal-e-Rah Volume 5 (Part 1)

مشعل راہ ۔ جلد پنجم (حصہ اوّل)

Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

مشعل راه جلد پنجم (حصہ اوّل) ارشادات سید نا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

Page 2

نام کتاب مشعل راہ - جلد پنجم Jil.......طبع.اول تاریخ.جولائی 2004ء

Page 3

مشعل راه جلد پنجم ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی دیباچہ کسی جنگل میں کبھی ایک ریوڑ کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو.دو منظر سامنے آتے ہیں.ایک یہ کہ بھیٹر میں اپنی مرضی سے منہ اٹھائے کوئی کہیں چلی جا رہی ہیں اور کوئی کہیں.دور تا حد نظر بکھری ہوئیں.شیر اور بھیڑیئے تاک لگائے ہوئے ہیں اور جب چاہے جس کو چاہے اُچک لے جاتے ہیں اور وقت شام وہ اول تو ایک جگہ اکٹھی ہو ہی نہیں پاتیں جہاں سینگ سمائے پڑی رہتی ہیں اور اگر اکٹھی ہو بھی جائیں تو گفتی میں نہ جانے کتنی کم ہوتی ہوں انہیں تو کوئی گنے والا ہی نہیں.بغیر چرواہے کے یہی حشر ہوتا ہے.دوسری طرف ایک ریوڑ نظر آئے گا کہ ایک دائرے کے اندر آزادی سے، بے فکری سے، بھیڑیں آجارہی ہیں، چرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں.ان کی تاک میں اگر کوئی شیر یا بھیڑیا ہے بھی تو صبح سے لے کر شام تک وہ ناکام و نامراد رہتا ہے.دیکھنے والی آنکھ حیرت زدہ رہ جاتی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ بھی ایسی ہی بھیڑیں ہیں لیکن بے فکر اور آزادانہ گھوم پھر رہی ہیں اور شیروں اور بھیڑیوں کا بھی بس نہیں چل رہا.دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا ایک چرواہا ہے ، نگہبان ہے جو اونچی جگہ پر بیٹھے ہوئے سب پر نظر رکھے ہوئے ہے.اس کی اپنی بھیڑوں پر بھی نظر ہے اور ان کی تاک میں بیٹھے ہوئے درندوں پر بھی نظر ہے.بھیڑیں تو کھا پی کرسستا بھی رہی ہیں اور اونگھ بھی رہی ہیں لیکن وہ چاک و چوبند ان کی رکھوالی کر رہا ہے اور شام کو جب وہ ایک آواز پر جمع ہوتی ہیں تو تر و تازہ اور شمار میں بھی پوری یہ فرق آخر کیوں ہے؟ اور کیا فرق ہے؟ صرف یہ کہ یہ بغیر چرواہے کے نہیں ہیں ، ان کا ایک چرواہا ہے، ایک گلہ بان ہے ، ایک نگران اور نگہبان ہے جس کی وجہ سے یہ ساری حفاظت انہیں میسر آ رہی ہے.تو میں بھی بغیر نگہبان کے ایسی ہی ہوا کرتی ہیں اور نگہبانی بھی اگر خدا کی نیابت میں ہو کہ گویا خود خدا ہی زمین پر اتر آئے تو اس کے کیا کہنے.خلافت کی نگہبانی بھی کچھ ایسی ہی ہوا کرتی ہے.جس قوم کے سر پر خلیفہ کا ہاتھ ہو جو قوم خلیفہ کی نگہبانی اور نگرانی میں ہے اس کی قسمت اور اس کا نصیب تو قابل رشک ہے.اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر واحسان ہے کہ ہمیں خلافت کی اس نعمت سے اس نے سرفراز کیا.ایک خلیفہ دیا جو ہمارے لئے دعائیں کرتا ہے.ہم

Page 4

ii ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم سوتے ہیں وہ ہمارے لئے جاگتا ہے، ہم غافل ہوتے ہیں وہ ہمارے لئے چاک و چوبند رہتا ہے، ہم دُکھ میں ہوں تو اپنے سکھ ہمیں دے کر خود سارے دکھ اپنے سینے میں چھپا لیتا ہے.ہماری فکریں وہ لے کر ہمیں بے فکر کر دیتا ہے.باخدا وہ ہماری خاطر ایک قید قبول کرتا ہے تا ہمیں آزادی نصیب ہو.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:.” تمہارے لئے ایک شخص تمہارا در درکھنے والا تمہاری محبت رکھنے والا تمہارے دکھ کو اپنا دکھ مجھنے والا تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے..تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولا کے حضور تا پتاہے برکات خلافت ) حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے اس محبت کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا: - دنیوی لحاظ سے وہ تلخیاں جو دوستوں نے انفرادی طور پر محسوس کیں وہ ساری تلخیاں میرے سینے میں جمع ہوتی تھیں.ان دنوں میں مجھ پر ایسی راتیں بھی آئیں کہ میں خدا کے فضل اور رحم سے ساری ساری رات ایک منٹ سوئے بغیر دوستوں کے لئے دعا کرتا رہا ہوں“.دو (جلسہ سالانہ کی دعائیں صفحہ ۹۷) حضرت علیہ مسیح الرابع رحمانہ اپنے دل میں موجود اس صحت اور تعلق کا اظہار یوں فرماتے ہیں:.آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ آپ میں سے جو بھی تکلیف اٹھاتا ہے اس کی مجھے کتنی تکلیف پہنچتی ہے.یہی خلافت کا حقیقی مضمون ہے.ایک خلیفہ کے دل میں ساری جماعت کے دل دھڑک رہے ہوتے ہیں اور ساری جماعت کی تکلیفیں اس کے دل کو تکلیف پہنچا رہی ہوتی ہیں اور اسی طرح سب جماعت کی خوشیاں بھی اس کے دل میں اکٹھی ہو جاتی ہیں“ مشعل راه جلد سوم صفحه ۶۸۷) اور اس محبت کے نتیجہ میں احمدی بھی اپنے امام سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اصیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.”لوگوں کے دلوں میں محبت اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے.کوئی انسان محبت پیدا نہیں کر سکتا...تو جس چیز کو اللہ تعالیٰ پیدا کر رہا ہے.وہ انسانی کوششوں سے کہاں نکل سکتی ہے.جتنا مرضی کوئی

Page 5

مشعل راه جلد پنجم iii ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی چاہے زور لگالے.عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو با قاعدہ میں نے آنسوؤں سے روتے دیکھا ہے تو یہ محبت ہی ہے جو خلافت کی ان کے دلوں میں قائم ہے.( خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱ مئی ۲۰۰۴ ء ) ہماری خوش نصیبی ہے کہ دعاؤں اور محبتوں کا یہ دور اور لازوال خزانہ کبھی ہم سے دور نہیں ہوا، ایک چاند رخصت ہوتا ہے تو دوسرا ماہتاب اس کی جگہ لے لیتا ہے.چندلحوں کے لئے حیران و پشیمان ہوتے ہیں کہ محبت و شفقت کا ایک ہاتھ سینے کے سارے دکھوں کو فرحت میں بدل دیتا ہے اور لرزتے دلوں کو پر وقار سکینت بخش دیتا ہے.آج جو نگهبان وراہنما ہمیں خدا نے عطا کیا ہے، وہ خود مجسم دعا ہے دعا دعا وہ چہرہ ، حیا حیا وہ آنکھیں کی تصویر نظر آتا ہے.اس کا سب سے پہلا پیغام ہی دعا کا تھا.تحفہ بھی دعا کا تھا اور لائحہ عمل بھی دعا ہی کا تھا.ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ احمدی کبھی کسی بھی جگہ پر ہو اور کسی بھی تنظیم میں ہو.اس کو علم ہونا چاہیے کہ لائحہ عمل اور پروگرام وہی ہوتا ہے جو خلیفہ وقت دیا کرتا ہے اور ترقیات بھی ساری کی ساری خلافت کے ساتھ ہی وابستہ ہوا کرتی ہیں.یہ ترقی خواہ دینی ہو یا دنیاوی علمی ہو یا عملی ، اخلاقی ہو یا روحانی، با شمر ترقی صرف اور صرف خلیفہ وقت کے ساتھ وابستگی میں پوشیدہ ہے.اس کی اطاعت میں اس کے دیے ہوئے پروگراموں پر عمل کرنے میں، اس کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دینے میں.اس کی حکومت کو اپنے دل اور دماغ میں قائم کرنے میں.خلیفہ وقت کیا چاہتا ہے؟ وہ کیا فرما رہا ہے؟ ساری دنیا کے احمدی براہ راست ٹیلی ویژن پر سنتے بھی ہیں.امام وقت کے انہیں ارشادات کو ایک کتاب میں اکٹھا کر کے پیش کیا جار ہا ہے.کہ یہی ہمارے لئے مشعل راہ ہے.منزل تک پہنچنے کے لئے.صحیح سلامت منزل تک پہنچنے کے لئے کہ اب یہی محفوظ راہ ہے ایک محفوظ قلعہ ہے.یہ اسی کا جانشین ہے کہ جس نے فرمایا تھا کہ ؎ میں عافیت کا ہوں حصار اور یہ طے ہے اور یقینی بات ہے کہ اس خلافت کو اگر چھوڑا جائے تو ہیں درندے ہر طرف

Page 6

iv ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم خدا کرے کہ ہم حقیقی معنوں میں اس عافیت کے حصار میں آجائیں.پیارے آقا کی دعاؤں کے مورد بنیں اور اس کی آواز پر لبیک کہنے والے ہوں.وہ ہمارا ہو جائے اور ہم اس کے ہو جائیں.اس کے شانہ بشانہ ، قدم بقدم بھاگتے ہوئے اس کا ساتھ دیں وہ ہم سے خوش ہو ،تا ہمارا خدا ہم سے راضی ہو جائے.آمین

Page 7

مشعل راه جلد پنجم V ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا بہت ہی فضل و احسان ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس خلفاء کی راہنمائی ہمہ وقت اور ہمہ جہت میسر رہی ہے.یہ مجلس اپنے قیام کے آغاز سے لے کر آج تک خلفاء عظام کی نگرانی اور دعاؤں کے سایہ تلے اپنی ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اور پھولتی پھلتی اور پھیلتی جارہی ہے.الحمد للہ مجلس خدام الاحمدیہ کے بانی حضرت خلیفہ مسیح الثانی الصلح الموعود نور اللہ مرقدہ نے ابتدا سے ہی اس مجلس پر شفقت فرماتے ہوئے اس کی ہمیشہ رہنمائی فرمائی اور مختلف مواقع پر زریں ہدایات سے نوازا.جس سے اس مجلس کو اپنے ابتدائی خدو خال سنوارنے میں مدد ملی.پھر حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی ، جن کی عمر مقدس کا ایک بڑا حصہ اس پودے کی آبیاری میں صرف ہوا تھا، کی رہنمائی میسر آئی.بعد ازاں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس پودے کی غور و پرداخت اور نشو و نما کے لئے بیش قیمت ہدایات عطا فرماتے رہے اور مجلس ہر آنے والے دن میں بہتر سے بہتر کارکردگی کی راہ پر آگے بڑھتی رہی.اب اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نگرانی اور راہنمائی میں مجلس خدام الاحمدیہ اپنے ترقی اور عروج کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے اور ہر طلوع ہونے والی صبح ہمارے لئے بلندیوں اور رفعتوں کی پیامبر بن کر آ رہی ہے.الحمد للہ علی ذالک مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے خلفائے کرام کے اُن فرمودات وارشادات کو جو خدام الاحمدیہ کی تنظیمی، تربیتی ، اخلاقی اور روحانی بہتری کے لئے بیان فرمائے گئے ہیں ، کتابی شکل میں مدون کر کے مشعل راہ کے نام سے شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے.حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ کے فرمودات پر مبنی مشعل راہ جلد اول، حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کے ارشادات پر مشتمل مشعل راہ جلد دوم، حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطابات پر مبنی کتاب مشعل راہ جلد سوم کے نام سے موسوم ہے.مشعل راہ جلد چہارم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے اطفال سے متعلقہ ارشادات دیے گئے ہیں.حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات و خطابات پر مشتمل مشعل راہ

Page 8

مشعل راه جلد پنجم vi ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جلد باہم حصہ اول ایک نئی کاوش ہے.کام کی وسعت اور ہمہ گیری کے پیش نظر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ حضرت سیدنا خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات و فرمودات پر مبنی مشعل راہ ہر سال شائع کی جایا کرے گی.زیر نظر جلد میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے آغاز خلافت سے 30 اپریل 2004 ء تک کے ارشادات شامل کئے گئے ہیں.اس میں دورہ افریقہ کی کچھ رپورٹس بھی شامل ہیں.بعض ارشادات جو حضور انور نے افریقہ میں بطور خاص خدام الاحمدیہ کی میٹنگز میں ارشاد فرمائے ، ان کے حصول کی کوشش کی جارہی ہے، وہ بھی امید ہے کہ انشاء اللہ اگلی جلد میں شامل کر دیے جائیں گے.اس جلد کی تیاری میں مکرم احمد طاہر مرزا صاحب نے ابتدائی کام کیا.پھر ایک کمیٹی نے اس کے تمام حوالہ جات اور متن اصل خطبات سے چیک کیے، پروف ریڈنگ کی اور اپنے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کو مشعل راہ جلد پنجم حصہ اوّل کی صورت میں مدون کرنے کی سعادت پائی.کمیٹی میں مکرم سہیل احمد ثاقب صاحب، مکرم عبد الحق صاحب، مکرم ساجد محمود بٹر صاحب، مکرم شفیق احمد حجہ صاحب، مکرم طارق محمود بلوچ صاحب اور مکرم میرا نجم پرویز صاحب شامل تھے.ان تمام احباب نے بہت محنت اور محبت سے کام کیا.فجز اھم اللہ احسن الجزاء اس کتاب کی تیاری اور اشاعت میں استاذی المکرم سید مبشر احمد ایاز صاحب نائب ناظر اشاعت، مکرم فرید احمد ناصر صاحب، مکرم قائد صاحب ومجلس خدام الاحمدیہ ضلع اسلام آباد، مکرم اقبال احمد زبیر صاحب، مکرم طارق محمود پانی پتی صاحب ، مکرم خالد محمود پانی پتی صاحب، مکرم موید احمد صاحب، مکرم محمد صادق ناصر صاحب اور عملہ خلافت لائبریری کا بھی بھر پور تعاون حاصل رہا.فجز اھم اللہ احسن الجزاء اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں خلافت احمدیہ کے ہمیشہ حقیقی وفا دار خادم بنائے رکھے.آمین

Page 9

مشعل راه جلد پنجم حضور انور کا تاریخی خطاب.بہت دعائیں کریں vii ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 1.............………………………………………………………………………………….......دعائیں کرو، بس دعائیں کرو.ہمارے ہتھیار دعائیں ہیں دعا کے بغیر ہمارا گزارا ہو ہی نہیں سکتا احباب جماعت کے نام محبت بھراخصوصی پیغام ہماری ساری ترقیات کا دارو مدار خلافت سے وابستگی میں پنہاں ہے 2.......3 بکثرت دعائیں کریں اور ثابت کر دیں کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی قدرت ثانیہ اور جماعت ایک ہی وجود ہیں اور انشاء اللہ ہمیشہ رہیں گے خلافت کی اطاعت کے جذبہ کو دائمی بنائیں.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں نظام خلافت کی حفاظت کے لئے ہر دم تیار رہیں اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ سے خطاب حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کی ایک خواہش نماز بر وقت اور باجماعت ادا کریں خدام الاحمدیہ پر قیام نماز کی ذمہ داری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ایک عہد ڈرائیونگ کے بارہ میں ہدایات 6.........7..

Page 10

مشعل راه جلد پنجم viii ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی هر احمدی کا فرض ہے کہ وہ دین کے صحیح تصور کو پیش کرے......15 خطبه جمعه فرموده 27 جون 2003 ء سے اقتباس واقفین نو بچوں کی تربیت کے متعلق متفرق ہدایات اپنے بچوں کو وقف کرنا، انبیاء اور ابرار کی سنت پر عمل کرنا ہے جو اپنے بچوں کو قربان کرنے کے لئے پیش کر رہے ہیں، جہاد میں حصہ لے رہے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ یہی لوگ فتح یاب ہوں گے جن میں خلافت اور نظام قائم ہے بچوں کو پانچ وقت نمازوں کی عادت ڈالیں واقف نو کو بچپن سے ہی بیچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہیے واقفین نو کو نظام کا احترام سکھایا جائے وقف زندگی سے فی زمانہ بڑی کوئی اور چیز نہیں 17.........▪▪▪ واقفین نو کی اس نہج پر تربیت کریں کہ بچوں کو پتہ ہو کہ اکثریت ان کی (دعوت الی اللہ ) کے میدان میں جانے والی ہے 27ویں جلسہ سالانہ کینیڈا 2003ء کے موقع پر افتتاحی پیغام وحدت کے حصول کے لئے خلافت کے دامن سے ہمیشہ وابستہ رہیں 29 ---------- دین حق نے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے اعلیٰ اور حسین تعلیم دی ہے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اس لئے قائم فرمایا ہے کہ دین کی دلکش تعلیم کو از سرنو زندہ کرے اپنے تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو ترک کر دیں جہاد کی حقیقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ہدایات کو حرز جان بنائیں خطبه جمعه فرموده 4 جولائی 2003ء سے اقتباس ہمیشہ بچوں کے نیک صالح اور دیندار ہونے کی دعائیں کرتے رہنا چاہیے والدین حسن سلوک کے زیادہ مستحق ہیں تربیت اولاد کے سنہری اصول 35

Page 11

مشعل راه جلد پنجم ix ارشادات حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 18 جولائی 2003ء سے اقتباس با ہمی گفتگو میں دھیما پن اور وقار قائم رکھیں ٹریفک قوانین کی پابندی کریں ملکی قوانین کی بھی پوری پاسداری کریں، پوری پابندی کریں صفائی کے آداب کو ملحوظ رکھیں سرڈھانپنے کی عادت کو اچھی طرح سے رواج دیں مہمانوں کی عزت واحترام اور خدمت کو اپنا شعار بنائیں نظم وضبط کا خیال رکھیں وقف عارضی دین کی بھت بڑی خدمت ھے خطبه جمعه فرموده 8/ اگست 2003ء --------- امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے ہر پہلو سے اس کی ادائیگی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپردکرو امانت کے مضمون کو سمجھنے سے تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم ہوں گے عہدے داروں کے لئے زریں ہدایات زبان کی امانت سے کیا مراد ہے لوگوں کے معاملات آپ کے پاس امانت ہیں کسی کا کسی معاملے میں مشورہ کرنا بھی ایک امانت ہے عہدہ بھی ایک عہد ہے مجالس کے آداب 39 43...........45.----------- اگر اپنی زندگیوں کو خوش گوار بنانا ھے تو دعائوں پر زور دیں............57 احمدی کو تکبر سے بھی بچنا چاهیے.58.........

Page 12

مشعل راه جلد پنجم ارشادات حضرت خلیفة المسیح الامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 12 ستمبر 2003ء سے اقتباس..........غرباء کی عزت نفس کا خیال رکھیں 59.اپنے بھائیوں کی عیب پوشی کریں احمدی خدمت خلق اور خدمت انسانیت کے میدان میں ڈاکٹرز ، وکلاء اور ٹیچرز کے لئے وقف عارضی کی تحریک آئندہ نسلیں بھی خلافت سے محبت اور وفا کا تعلق لے کر پروان چڑھیں گی ربوہ کے اطفال کے نام پیغام فرموده 7 جون 2003ء.سلام کی عادت ڈالیں ہر گھر نمازیوں سے بھر جائے ربوہ کو Lush Green کردیں ہر گھر میں تین پھلدار پودے لگا ئیں اجتماع خدام الاحمدیه آسٹریلیا کے موقع پر پیغام نمازوں کی ادائیگی کی طرف خصوصی توجہ دیں بچپن ہی سے نماز کی طرف توجہ کریں دنیا کی فتح کی خوا ہیں لغو ہیں اگر ہم اپنے نفسوں پر فتح نہ پاسکیں سالانه اجتماع لجنه و ناصرات UK سے خطاب خوبصورت معاشرہ کیسے بنتا ہے 63.----------- 67..........………………………………………..بچوں کے دلوں میں ایمان اس حد تک بھر دو کہ انکا اوڑھنا بچھونا اللہ کی ذات ہو تقوی کی باریک راہیں اختیار کریں محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے خلافت اور نظام جماعت کے احترام کے تقاضے جب بچوں کو پیار سے سمجھایا جاتا ہے تو بچے سمجھ جاتے ہیں 71

Page 13

ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم xi قول سدید سے کام لیں بچوں سے بھی قول سدید سے کام لیں جماعت میں رہ کر اعلیٰ اخلاقی نمونے دکھانے ہوں گے ورنہ کوئی فائدہ نہیں غرباء سے عاجزی اور خاکساری کا مظاہرہ کریں اپنے اندر عاجزی پیدا کرنے کی خاص مہم چلائیں دوسروں کو کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ پہنچاتے رہیں پردہ کی اصل روح اور حقیقت یورپی معاشرہ میں بھی پردہ کا احترام کیا جاتا ہے Internet Chatting کے نقصانات خطبه جمعه فرموده 5 دسمبر 2003ء نظام جماعت بچپن سے ہر احمدی کو محبت کی لڑی میں پروکر رکھتا ہے ذیلی تنظیموں کے قیام کا مقصد خلیفہ وقت کے ساتھ ہر موقع پر ذاتی پیار اور محبت کا تعلق تمام عہدیداران خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں بغیر تحقیق کے ہرگز کسی کی رپورٹ نہ کریں سیکرٹری امور عامہ کے فرائض سیکرٹریان تعلیم کی ذمہ داریاں ہر احمدی بچے کو F.A ضرور کرنا چاہیے سیکرٹریان تربیت اور اصلاح وارشاد کی ذمہ داریاں بے چینی پیدا کرنے والی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے اپنی نسلوں میں بھی نظام جماعت کا احترام پیدا کریں عہد یداران دوسرے ماتحت عہد یداران یا کارکنان کا احترام کریں فیصلہ کرنے کا صحیح اصول ایک خصوصی دعا کی تحریک 89

Page 14

مشعل راه جلد پنجم xii خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 2003ء سے اقتباس جہاں احمدی آبادیاں ہیں ( بیوت الذکر ) کو آباد رکھنے کی کوشش کریں چاہیے کہ ہم سب مل کر دعائیں کریں خطبه جمعه فرموده 12 دسمبر 2003ء سے اقتباس انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے بچیں کاروبار اور لین دین کے معاملات میں دیانت داری سے کام لیں شیطانی خیالات اور اعمال سے بچنے کی جامع دعا کارکنان اور عہدیداران کے نقائص تلاش نہ کریں غلط افکاراور عریاں فلموں سے بچیں خطبه جمعه فرموده 26 دسمبر 2003ء سے اقتباس عمومی زندگی میں تجسس سے بچیں ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بچپن سے خدام اور اطفال میں یہ عادت ڈالیں کہ کسی کی برائی نہ کریں غیبت اور ٹوہ لینے سے باز رہیں پہلے اپنی اصلاح کریں 113.......--------------- برازیل کے دسویں جلسہ سالانہ 2003ء کے موقع پر پیغام..دعاؤں کی عادت ڈالیں اور یہی روح اپنی اولادوں میں پیدا کریں.117..121 اپنے بچوں کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ وہ ابھی سے دعاؤں کے عادی بن جائیں اور ان کے دلوں میں احمدیت اور خلافت کی محبت پیدا ہو جائے.خطبه جمعه فرموده 6 فروری 2004ء سے اقتباس ------- جھوٹ ایک بہت بڑی برائی ہے.اس کو چھوڑنے سے تمام قسم کی برائیاں چھٹ جاتی ہیں جو کام تم اللہ تعالیٰ کی خاطر کر رہے ہو اس میں ہمیشہ خلوص نیت ہونا چاہیے 125

Page 15

مشعل راه جلد پنجم Xiii ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جماعتی عہدے جو دئے جاتے ہیں انہیں نیک نیتی کے ساتھ بجالا وصرف عہدے رکھنے کی خواہش نہ رکھو عہدے کی وجہ سے تم یا تمہارے عزیز کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے والے نہ ہوں اپنے بھائیوں کے کام آؤ، ان کے حقوق ادا کرو احمدی کی پہچان تو یہ ہونی چاہیے کہ قرض اتارنے میں جلدی کریں مدد مانگنے والوں کو بھی عادت نہیں بنالینی چاہیے شکایت کرنے کا درست انداز بغیر نام کے کوئی درخواست کوئی شکایت کبھی بھی قابل پذیرائی نہیں ہوتی خطبه جمعه فرموده 20 فروری 2004ء سے اقتباس..............بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے آج کل کے معاشرے میں احمدی نے ہی اخلاق کے نمونے دکھانے ہیں اگر معاف کرنے سے اصلاح ہو سکتی ہے تو معاف کر دیں چھوٹی موٹی غلطیوں سے درگزر کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے آئندہ نسلوں کی تربیت کے تقاضے.خطبه جمعه فرموده 26 مارچ 2004ء سے اقتباس احمدی کے لئے ضروری ہے کہ جو نور ہدایت اس نے حاصل کیا ہے وہ اپنی نسلوں میں بھی جاری کرے اللہ کرے کہ ہماری نسلیں اللہ تعالیٰ کے احکامات سے دور جانے والی نہ ہوں احمديه......ریڈیو بوركينا فاسو پر خصوصی پیغام پہلی نصیحت میں آپ کو یہ کرتا ہوں کہ پنج وقتہ نماز کا اہتمام کریں ------------ 129 135 137 141 ------------ والدین نے اگر اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہ کی اور نمازوں کا عادی نہ بنایا تو آخرت میں وہ جوابدہ ہوں گے تعلیم حاصل کرنی لازمی ہے ہر احمدی خواہ وہ کسی میدان میں بھی ہوں وہ سچائی اختیار کرے ہر میدان میں احمدی دوسروں سے ممتاز نظر آئے

Page 16

مشعل راه جلد پنجم xiv ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 2 / اپریل 2004 ء سے اقتباس..........اپنی اولادوں میں بھی نیکی پیدا کریں نیک اولا دانسان کے لئے ایک طرح کا صدقہ جاریہ ہی ہے اچھی تربیت سے بڑھ کر اولاد کے لئے اور کوئی بہترین تحفہ نہیں بچوں کی تعلیم کا خیال رکھنا بھی والدین کے فرائض میں داخل ہے اگر کوئی بچہ مالی حالت کی کمزوری کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر رہا تو جماعت کو بتا ئیں عملی نمونے سے دعوت الی اللہ کریں احباب جماعت بینن سے خطاب فرموده 5 اپریل 2004ء آپ کا فخر صرف احمدی ہونے میں ہے آپ کے دلوں کی نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل فرمایا ہم سب احمدی ہیں اور احمدی ہونے کی حیثیت سے بھائی بھائی ہیں 143 147.................بینن میں چند سال قبل کوئی احمدی نہیں تھا اب خدا کے فضل سے یہاں ایک بڑی جماعت قائم ہو چکی ہے ہر قسم کی برائی کو اپنے اندر سے ختم کر دیں بینن میں مختلف وفود سے خطاب فرموده 6 اپریل 2004...حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد امام مہدی نے آکر دوبارہ جس تعلیم کو زندہ کیا ، اس پر عمل کریں ہر ضرورت کے لئے خدا کے حضور جھکنا چاہیے 151....گھر کا ہر فرد نماز ادا کرنے والا بن جائے.نمازوں کی ادائیگی کی اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی عادت ڈالنی ہے نماز سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے کے بعد اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی ضروری ہے احباب TOUI بینن سے خطاب فرموده 7 اپریل 2004ء آپ کو یہاں دیکھ کر اس وقت میرا دل خوشی کے جذبات سے لبریز ہے 155

Page 17

مشعل راه جلد پنجم XV ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی امام مہدی علیہ السلام کو سلام پہنچانے والے لوگ اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد اپنی عبادت قرار دیا ہے بیوت الذکر کو آباد کریں احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ لوگوں میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہونی چاہیے اعلیٰ اخلاق کے ساتھ احمدیت کا ایک طرہ امتیاز انسانیت کی خدمت بھی ہے اپنی مالی مجبوری کی وجہ سے والدین بچوں کو پڑھائی سے نہ روکیں عورتیں عبادت اور اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ کریں جلسه نائیجیریا کے موقع پر خطاب (خلاصه) ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں امام الزمان کی شناخت کی توفیق ملی نظام جماعت میں اطاعت کی اہمیت قوانین وضوابط کے مطابق کام کریں قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں طلباء جامعہ احمدیہ کی ذمہ داریاں جامعه احمدیه نائیجیریا کے لئے ریمارکس.------------…… 159 162 163.........▪▪▪ ماهنامه خالد سیدنا طاهر نمبر“ کے لئے خصوصی پیغام حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ کوہمیشہ ہی تڑپ رہتی کہ جماعت کا ہرفردخدا تعالیٰ سے پیار کر نیوالا بن جائے ہر احمدی خادم اور طفل پانچ وقت کا نمازی بن جائے آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے خطبه جمعه فرموده 23 اپریل 2004ء 167 اللہ تعالیٰ کا محبوب انسان اس وقت بنتا ہے جب تو بہ اور استغفار سے اپنی باطنی صفائی کا بھی ظاہری صفائی کے ساتھ اہتمام کرے ماحول کو صاف رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنے گھر کو صاف رکھنا

Page 18

مشعل راه جلد پنجم xvi ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اہل ربوہ خاص طور پر اپنے گھروں کے سامنے نالیوں کی صفائی کا بھی اہتمام کریں ربوہ کو غریب دلہن کی طرح سجادیں اپنے آپ کو بھی صاف ستھرارکھیں دانتوں کی صفائی کی اہمیت کھانا کھانے کے آداب نزلے سے بچنے کا ایک طریقہ خدام الاحمدیہ وقار عمل کر کے جماعتی عمارات کے ماحول کو بھی صاف رکھے جماعتی عمارات کے اردگرد خاص طور پر صفائی اور سبزہ نظر آتا ہو خطبه جمعه فرموده فرموه 30 / اپریل 2004ء سے اقتباس.................179 قناعت اور سادگی کو اپنا ئیں تو دین کی خدمت کے مواقع بھی میسر آئیں گے اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال نصف معیشت ہے دوسروں کی رقم بٹورنے والوں کو بھی خوف خدا کرنا چاہیے کھانے میں سادگی اپنا ئیں آجکل کے فیشن کی بجائے دائیں ہاتھ سے کھانا کھائیں واقفین زندگی کے لئے قیمتی نصائح

Page 19

مشعل راه جلد پنجم 1 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بہت دعائیں کریں حضور انور کا تاریخی خطاب 22 اپریل 2003ء کومسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد بیت الفضل لندن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب میں فرمایا:- احباب جماعت سے صرف ایک درخواست ہے کہ آج کل دعاؤں پر زور دیں، دعاؤں پر زور دیں، دعاؤں پر زور دیں.بہت دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ اپنی تائید و نصرت فرمائے اور احمدیت کا یہ قافلہ اپنی ترقیات کی طرف رواں دواں رہے.آمین الفضل انٹر نیشنل 25 اپریل تا یکم مئی 2003ء )

Page 20

مشعل راه جلد پنجم 2 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی دعائیں کرو، بس دعا ئیں کرو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 28 نومبر 2003ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: - ذاتی بھی اور جماعتی ترقی کا انحصار بھی دعاؤں پر ہے اس لئے اس میں کبھی ست نہ ہوں“ ہمارے ہتھیار دعائیں ہیں اسی طرح فرمایا: ” جتنی زیادہ تعداد میں ایسی دعائیں کرنے والے ہماری جماعت میں پیدا ہوں گے اتنا ہی جماعت کا روحانی معیار بلند ہوگا اور ہوتا چلا جائے گا.خلیفہ وقت کو بھی آپ کی دعاؤں سے مددملتی چلی جائے گی اور جب یہ دونوں مل کر ایک تیز دھارے کی شکل اختیار کریں گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ فتوحات کے دروازے بھی کھلتے چلے جائیں گے.پس ہمارے ہتھیار یہ دعائیں ہیں جن سے ہم نے فتح پانی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ معیار جلد سے جلد حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.“ دعا کے بغیر ہمارا گذارہ ہو ہی نہیں سکتا نیز فرمایا: ” آج پھر میں احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ جس طرح رمضان میں اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر ہم سب نے مل کر آہ وزاری کی ہے اس طرح اب بھی اسی ذوق اور اسی شوق کے ساتھ اس کے حضور جھکے رہیں اور ہمیشہ جھکے رہیں.اس کا فضل اور رحم مانگتے ہوئے ہمیشہ اس کی طرف جھکیں اور اس زمانہ کا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والوں کا ہتھیار ہی یہ دعا ہے کہ اس کے بغیر ہمارا گزارہ ہو ہی نہیں سکتا.“ الفضل انٹر نیشنل 23 تا 29 جنوری 2004ء)

Page 21

مشعل راه جلد پنجم 3 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی احباب جماعت کے نام محبت بھرا خصوصی پیغام 11 مئی 2003ء ہماری ساری ترقیات کا دارو مدار خلافت سے وابستگی میں پنہاں ہے بکثرت دعائیں کریں اور ثابت کر دیں کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی قدرت ثانیہ اور جماعت ایک ہی وجود ہیں اور انشاء اللہ ہمیشہ رہیں گے خلافت کی اطاعت کے جذبہ کو دائمی بنائیں.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں

Page 22

مشعل راه جلد پنجم 4 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جان سے پیارے احباب جماعت ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے اچا نک وصال پر ایک زلزلہ تھا جس نے سب احباب جماعت کو ہلا کر رکھ دیا ہے.ہماری آنکھیں اشکبار اور دل غمگین اور محزون ہیں مگر ہم اپنے رب کی رضا پر راضی اور اس کی تقدیر پر سر تسلیم خم کرتے ہیں.ہمارے دل کی آواز اور ہماری روح کی پکار إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ہی ہے.ہم سب خدا کی امانتیں ہیں اور اس کی طرف سے آنے والے اس بھاری امتحان کو قبول کرتے ہیں.ہمارا رب کتنا پیارا ہے جس نے اس زمانہ میں حضرت مسیح الزمان علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا کی اصلاح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے مبعوث فرمایا اور اس عظیم مقصد کو مستقل طور پر جاری رکھنے کے لئے ایک ایسی قدرت ثانیہ کا وعدہ فرمایا جو دائگی اور قیامت تک جاری رہنے والی ہے اور ہر خلیفہ کی وفات پر دوسرے خلیفہ کے ذریعہ مومنوں کے خوف کی حالت کو امن میں بدلنے والی ہے.سید نا حضرت اقدس مسیح علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:- سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.(الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ۳۰۶،۳۰۵) یہ خدا تعالیٰ کا بے شمار فضل اور احسان ہے کہ اس نے اپنے وعدہ کے موافق حضور رحمہ اللہ کی وفات پر جو خوف کی حالت پیدا ہوئی اس کو امن میں بدل دیا اور اپنے ہاتھ سے قدرت ثانیہ کو جاری فرما دیا.پس دعائیں کرتے ہوئے آپ میری مدد کریں کیونکہ ایک ذات اس عظیم الشان کام کا حق ادا نہیں کر سکتی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپر دفرمایا ہے.دعائیں کریں اور بکثرت دعائیں کریں اور ثابت کر دیں کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی

Page 23

مشعل راه جلد پنجم 5 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی قدرت ثانیہ اور جماعت ایک ہی وجود ہیں اور انشاء اللہ ہمیشہ رہیں گے.قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے.یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے.اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں.ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں.اگر قدرت ثانیہ نہ ہو تو دین حق کبھی ترقی نہیں کر سکتا.پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اور محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں اور خلافت کی اطاعت کے جذبہ کو دائمی بنا ئیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں.امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں.اور وہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں کے مقابلہ کے لئے ایک ڈھال ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود...فرماتے ہیں:.جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو.وہ کئی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو.اس طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکر وٹا.“ المصل پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں.ہماری ساری ترقیات کا دار و مدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے.اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور آپ کو خلافت احمدیہ سے کامل وفا اور وابستگی کی توفیق عطا فرمائے.والسلام خاکسار مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس لندن.امئی ۲۰۰۳ء الفضل انٹر نیشنل 23 تا 30 مئی 2003ء)

Page 24

مشعل راه جلد پنجم 6 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نظام خلافت کی حفاظت کے لئے ہر دم تیار رہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سالانہ اجتماع انصاراللہ جرمنی کے موقع پر اپنے پیغام میں ارشاد فرمایا:- ( دین حق)، احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرنی ہے اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا ہے.اور اپنی اولاد کو ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہنا ہے.اور ان کے دلوں میں خلیفہ وقت سے محبت پیدا کرنی ہے.یہ اتنا بڑا اور عظیم الشان نصب العین ہے کہ اس عہد پر پورا اتر نا اور اس کے تقاضوں کو نبھانا ایک عزم اور دیوانگی چاہتا ہے.پس اس بابرکت اجتماع کے موقع پر میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس اجتماع سے یہ عزم کر کے گھروں کولوٹیں کہ نظام خلافت کی حفاظت کے لئے ہر دم تیار رہیں گے اور خلافت احمدیہ کے خلاف ہر شرارت کا سر کچل کر رکھ دیں گے.“ (ماہنامہ الناصر جرمنی جون تا ستمبر 2003ء صفحہ 1)

Page 25

مشعل راه جلد پنجم 邀 7 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ سے خطاب فرمودہ 29 جون 2003ء حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمداللہ کی ایک خواہش نماز بر وقت اور باجماعت ادا کریں خدام الاحمدیہ پر قیام نماز کی ذمہ داری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ایک عہد ڈرائیونگ کے بارہ میں ہدایات

Page 26

مشعل راه جلد پنجم 8 * ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل قرآنی آیت کی تلاوت فرمائی:.اُتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَ اَقِمِ الصَّلوةَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ) (العنكبوت: ۴۶) پھر فرمایا:.آج کیونکہ جرمنی کا بھی اجتماع آپ کے ساتھ ہی اختتام کو پہنچ رہا ہے اس لئے آج کے میرے پیغام میں جرمنی والے بھی شامل ہیں.ابھی جو صدر صاحب نے رپورٹ پڑھی الحمد للہ بڑی خوش کن رپورٹ تھی.اللہ تعالیٰ اُس میں مزید اضافہ کرتا چلا جائے.آپ کی کوششوں کو بڑھاتا چلا جائے.اور نماز کے بارہ میں بھی انہوں نے اپنی کوششوں کا ذکر کیا ہے.خدا کرے کہ سو فیصد تک Goal اُن کو حاصل ہو جائے.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ کی وفات پر مختلف جماعتوں اور ذیلی تنظیموں ، انصار، خدام، لجنہ وغیرہ نے قرارداد تعزیت یا Resolution پاس کئے.جس میں اس بات کا اظہار کیا اور یہ اعادہ کیا کہ اے جانے والے! ہم تیرے کاموں کو زندہ رکھیں گے اور تیرے کاموں کو مکمل کرنے اور تیری خواہشات کی تکمیل کیلئے ہر قسم کی قربانی کریں گے.یہ وہ عہد اور وعدے ہیں جو کم و بیش ہر جگہ سے، ہر تنظیم سے، ہر جماعت سے مل رہے ہیں اور اس میں آپ بھی شامل ہیں، جرمنی کی خدام الاحمد یہ بھی شامل ہے، پاکستان کی خدام الاحمدیہ بھی شامل ہے اور دُنیا کے ہر ملک جہاں جہاں یہ جماعتیں قائم ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ سے یہی وعدے دیے جارہے ہیں اور یہی Resolution پاس ہو رہے ہیں کہ ہم تیری ہر خواہش کی تکمیل کریں گے، تیری ہر خواہش کو پورا کریں گے.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی ایک خواہش اس بارہ میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی صرف ایک خواہش کا میں یہاں ذکر کروں گا جو

Page 27

9 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم ( دین حق ) کا ایک بنیادی رکن بھی ہے.اور الحمد للہ کہ مجلس خدام الاحمدیہ K.ں نے پہلے ہی اس پر کام بھی شروع کر دیا ہے یعنی نماز کے قیام کی کوشش.نماز کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ وقت پر نماز ادا کرنا اور باجماعت نماز ادا کرنا اور اس بارہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنا نمونہ اس معیار کا دیا ہے اور اس معیار کا ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہ آپ دیکھیں گے جو یہاں رہنے والے ہیں انہوں نے نوٹ کیا ہوگا کہ سوائے آخری شدید بیماری کے عام بیماری کی کبھی پرواہ نہیں کی اور نماز کیلئے ( بیت الذکر ) تشریف لاتے رہے.حالانکہ بیماری کی حالت میں نماز گھر میں پڑھنے کی اجازت بھی ہے.اتنی سختی کیوں آپ نے کی؟ اس لئے اور صرف اس لئے کہ جماعت کو یہ احساس پیدا ہو کہ نماز با جماعت کی کتنی اہمیت ہے اور اس زمانے میں اور اس دور میں جب دُنیا مادیت پسند، مادیت پرست اور Materalist ہو چکی ہے.اللہ تعالیٰ کی اس کے حکم کے مطابق وقت پر عبادت کرنے کی کتنی اہمیت ہے اور یہ کتنا ضروری ہے اور جماعت میں عبادت کرنے والوں اور نمازیں پڑھنے والوں کا جو معیار یا جو Standard آپ دیکھنا چاہتے تھے اس کا آپ کو احساس تھا کہ اس تک ہم نہیں پہنچ پا رہے، بلکہ بہت کم معیار ہے اور اس کو اونچالے جانے کیلئے بہت زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے.اس بارہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں آپ کا درد میں اس وقت آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرماتے ہیں کہ: جہاں تک جماعت کے عمومی اخلاص کا تعلق ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابتلاء کے موجودہ دور میں جماعت کے اخلاص کا عمومی معیار بہت بلند ہوا ہے اور نیک کاموں میں تعاون کی روح میں ایک نئی چلا پیدا ہوگئی ہے.ایک آواز پر لبیک کہنے کیلئے کثرت کے ساتھ دل بے چین ہیں اور جب بھی جماعت کو نیکی کی طرف بلا یا جا تا ہے، جس طرح اخلاص کے ساتھ جماعت اس آواز پر لبیک کہتی ہے اس سے میرا دل حمد سے بھر جاتا ہے.لیکن یہ اخلاص فی ذاتہ کچھ چیز نہیں اگر اس اخلاص کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ سے ایک مستقل تعلق پیدا نہ ہو جائے.یہ اخلاص اپنی ذات میں محفوظ نہیں اگر اس اخلاص کو نماز کے اور عبادت کے برتنوں میں محفوظ نہ کیا جائے.اس لحاظ سے یہ اخلاص ایک آنے جانے والے موسم کی طرح شکل اختیار کر سکتا ہے.بعض دفعہ سخت گرمیوں کے بعد اچھا موسم آتا ہے، ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے چلتے ہیں.بعض دفعہ سخت سردی کے بعد خوشگوار موسم کے دور آتے ہیں.لیکن یہ چیز آنے جانے والی ہے، ٹھہر جانے والی

Page 28

مشعل راه جلد پنجم 10 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نہیں.عبادت کسی موسمی کیفیت کا نام نہیں.عبادت ایک مستقل زندگی کا رابطہ ہے.عبادت کی مثال ایسی ہے جیسے ہم ہوا میں سانس لیتے ہیں.کئی قسم کے زندہ رہنے کے لئے طریق ہیں جو انسان کو لازم کئے گئے ہیں.مگر ہوا اور انسان کا جو رشتہ زندگی سے ہے وہ ایسا مستقل، دائمی، لازمی اور ہرلمحہ جاری رہنے والا رشتہ ہے کہ اور کسی چیز کا نہیں.پس عبادت کو یہی رشتہ انسان کی روحانی زندگی سے ہے.یہ عبادت ذکر الہی کی صورت میں ہمہ وقت جاری رہ سکتی ہے.لیکن وہ نماز جو قرآن کریم نے ہمیں سکھائی اور سنت نے جسے ہمارے سامنے تفصیل سے پیش کیا یہ وہ کم از کم نماز ہے، کم سے کم ذکر الہی ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا.اس لئے میں خصوصیت کے ساتھ آج پھر جماعت کو نماز کی اہمیت کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.“ یہ تھا حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا پیغام اور آپ کی توقعات.اب آپ خود ہر ایک اپنا اندازہ لگا سکتا ہے اور اپنے آپ کو Access کر سکتا ہے کہ کس حد تک اس بات کو پورا کر رہے ہیں کہ ہم حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ للہ تعالی کے ہر کام اور ہر خواہش کو پورا کریں گے.نماز بر وقت اور باجماعت ادا کریں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ نماز تو ( دین حق ) کا ایک بنیادی رکن ہے.اللہ تعالیٰ نے صرف نماز پڑھنے اور جیسے تیسے اس کو پڑھنے کا نہیں کہا بلکہ پانچ وقت نماز پڑھنے کا کہا ہے اور باجماعت پڑھنے کیلئے کہا ہے.آج کل بعض جگہوں پر کام کرنے کی وجہ سے یہ مسئلہ بعض لوگوں کو رہتا ہے کہ باجماعت نماز کس طرح پڑھیں.ایک جگہ پر کام کر رہے ہیں اکیلے احمدی ہیں تو کہاں سے اور ڈھونڈیں جو جماعت ہو سکے.تو ایسی صورت میں اپنی نماز پڑھ لیں لیکن یہ نہ ہو کہ ظہر عصر کی نمازیں جمع ہو رہی ہوں اور مغرب عشاء کی نمازیں جمع ہو رہی ہوں.کام کے وقت میں اتنا وقفہ ملتا ہے کہ آپ ظہر کی نماز علیحدہ پڑھ سکیں اور عصر کی نماز علیحدہ پڑھیں.اور جہاں چندلوگ اکھٹے ہو سکتے ہوں وہاں باجماعت نماز پڑھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے.اور اس میں شرمانے والی کوئی بات نہیں ہے بلکہ آپ کا یہ عمل تو یقیناً دوسروں کو متاثر کرے گا اور وہ آپ کی طرف کھنچے آئیں گے اور دیکھیں گے کہ یہ کس طرح کے لوگ ہیں جو اس دور میں بھی ، اپنے کاموں کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہیں.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر نماز قائم کرو گے.

Page 29

مشعل راه جلد پنجم 11 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نماز با جماعت ادا کرو گے تو یقینا تمہارا اس طرح نمازیں پڑھنا تمہیں بے حیائی کے کاموں اور ہر نا پسندیدہ بات سے روکے گا.اب کس کا دل نہیں چاہتا کہ بے حیائی کی باتوں سے رکے حتی کہ جو برائیوں میں ڈوبے ہوئے لوگ ہیں کچھ وقت بعد ان کو بھی یہ احساس ہو جاتا ہے کہ ان کو ان بے حیائی کی باتوں اور برے کاموں سے باہر آ جانا چاہیے.کئی لوگ لکھتے بھی ہیں کہ دُعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں اس برائی سے بچالے اور اس گند سے نکالے.تو دعا کروانے سے پہلے خود دعا کیلئے کہنے والے کو بھی اپنے لئے دعا کرنی چاہیے.اور یہ کوشش کریں کہ نمازیں با قاعدہ پڑھیں نماز کی عادت ڈالیں.حضرت مصلح موعود ) نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ میں تو اس یقین پر قائم ہوں کہ اگر کوئی بے حیائی اور گناہ کی انتہاء تک بھی پہنچ جائے لیکن اگر وہ نمازیں پڑھنے والا ہے تو ایک وقت میں اللہ تعالیٰ اُس کو اس گند سے نکال دے گا.لیکن نمازیں پڑھنا بھی صرف ٹکریں مارنا نہیں.نماز کا حق ادا کر کے پڑھنے کو نمازیں پڑھنا کہا جاتا ہے.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش ہے.آپ فرماتے ہیں کہ :- نماز بھی گناہوں سے بچنے کا ایک آلہ ہے.نماز کی یہ صفت ہے کہ انسان کو گناہ اور بدکاری سے ہٹا دیتی ہے.سو تم ویسی نماز کی تلاش کرو اور اپنی نماز کو ایسی بنانے کی کوشش کرو.نماز نعمتوں کی جان ہے.اللہ تعالیٰ کے فیض اسی نماز کے ذریعہ سے آتے ہیں.سو اس کو سنوار کر ادا کرو تا کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کے وارث بنو.پھر حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کا ارشاد ہے کہ:.نماز ظاہری پاکیزگی اور ہاتھ منہ دھونے اور ناک صاف کرنے اور شرمگاہوں کو پاک کرنے کے ساتھ یہ تعلیم دیتی ہے کہ جیسے میں ان ظاہری پاکیزگی کو لوظ رکھتا ہوں، اندرونی صفائی اور پاکیزگی اور سچی طہارت عطا کر اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور سبحانیت ، قدوسیت ، وحدیت ، پھر ربوبیت، رحمانیت ، رحیمیت ، اور اس کے ملک در ملک میں تصرفات اور اپنی ذمہ داریوں کو یاد کر کے اس قلب کے ساتھ ماننے کو تیار ہوں.سینے پر ہاتھ رکھ کر تیرے حضور کھڑا ہوتا ہوں.اس قسم کی نماز جب پڑھتا ہے تو پھر اس میں وہ خاصیت اور اثر پیدا ہوتا ہے جو إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْكَرِ میں بیان ہوا ہے.پھر پاک کتاب کا کچھ حصہ پڑھے اور رکوع کرے اور غور کرے کہ

Page 30

12 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم میری عبودیت یعنی میرا بندہ ہونا اور غلام ہونا اور نیاز مندی کی انتہاء بجر بسجدہ کے اور کوئی نہیں.جب اس قسم کی نماز پڑھے تو وہ نیاز مندی اور سچائی جب اعضاء اور جوارح ( جوارح بھی اعضاء ہی ہیں ) پر اثر کر چکی اور جوش مار کر ترقی کرے گی اور اس کا اثر مال پر پڑے گا“.تو یہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ لوگوں کو نماز کی اہمیت کا اندازہ ہو.خدام الاحمدیہ پر قیام نماز کی ذمہ داری آپ جو خدام الاحمدیہ کی عمر کے ہیں یہ عمر کی ایک ایسی Range ہے یعنی پندرہ سے چالیس سال تک کی.جس میں باپ بھی ہیں، بھائی بھی ہیں، بیٹے بھی ہیں.تو بحیثیت باپ آپ کی ذمہ داری ہے کہ نئی نسل میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین پیدا کرنے کیلئے اپنے عمل سے اپنے بچوں کے سامنے یہ نمونہ پیش کریں کہ تمہاری فلاح اور تمہاری کامیابی اور تمہاری آئندہ کی ترقی خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرنے میں ہے اور خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ وقت پر نمازوں کی ادائیگی اور باجماعت نمازوں کی ادائیگی ہے.بھائی کی حیثیت سے بھی یہ ذمہ داری ہے کہ چھوٹے بہن بھائیوں کیلئے نیک نمونہ بنیں.یہاں پھر میں کہوں گا کہ ماں باپ کی اصل میں ذمہ داری ہے کہ وہ بڑے بچے کی خاص طور پر ایسی تربیت کریں.تو آپ میں سے بہت سارے ایسے ہیں جن کے بچے بھی اس عمر کو پہنچ گئے ہیں جن کی تربیت کی ضرورت ہوگی.عموماً جماعت کیلئے بھی میں عرض کر رہا ہوں کہ ایسی تربیت کریں بڑے بچے کی کہ چھوٹے بچے خود بخود اس سے نمونہ حاصل کریں اور پھر آپ کو تربیت میں زیادہ وقت نہیں لگے گا.اگر بڑا بچہ نمازوں کا عادی ہو جائے گا تو چھوٹا بچہ خود بخود اپنے ماحول کو دیکھ کر نمازیں پڑھنے لگ جائے گا.تو خدام الاحمدیہ جو بظا ہر نو جوانوں کی ایک تنظیم ہے لیکن عملاً اس میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ عمر کے فرق کی وجہ سے سیکھنے والے بھی موجود ہیں اور سکھانے والے بھی.اس میں متاثر کرنے والے بھی موجود ہیں اور اس میں متاثر ہونے والے بھی اور اس میں اچھائی اور برائی کا رنگ دینے والے بھی موجود ہیں اور رنگ پکڑنے والے بھی.پس اگر آپ میں سے ہر ایک اگر نیکی کو قائم کرنے والا اور برائی کو رد کرنے والا بن جائے اور نمازوں کو قائم کرنے والا بن جائے تو سمجھ لیں کہ آپ کامیاب ہو گئے.اور جس قوم کے نوجوانوں میں عباد الرحمن یعنی عبادت کرنے والے اُس کے حقیقی بندے پیدا ہوجائیں تو اس کو پھر دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی.پس اس طرز پر اپنی زندگی ڈھالیں اور اپنے چھوٹوں کی بھی تربیت کریں.

Page 31

مشعل راه جلد پنجم 13 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اب میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع حمہ اللہ تعالیٰ کا ایک اور اقتباس پیش کرتا ہوں جس میں آپ نے جماعت کے نماز کے معیار کے بارہ میں فکر کا اظہار فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ :- میں جانتا ہوں کہ اکثر وہ احباب جو اس وقت اس مجلس میں حاضر ہیں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نمازوں کے پابند ہیں.مگر میں حال کے موجودہ دور کی بات نہیں کر رہا ہوں میں مستقبل کی بات کر رہا ہوں.وہ لوگ جو آج نمازی ہیں جب تک ان کی اولادیں نمازی نہ بن جائیں، جب تک ان کی آئندہ نسلیں ان کی آنکھوں کے سامنے نماز پر قائم نہ ہو جائیں اُس وقت تک احمدیت کے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی.اُس وقت تک احمدیت کے مستقبل کے متعلق خوش آئند امنگیں رکھنے کا ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا.اس لئے بالعموم ہر فرد بشر ہر احمدی بالغ سے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو میں بڑے بجز کے ساتھ یہ استدعا کرتا ہوں.“ آپ فرمارہے ہیں کہ :- میں بڑے بجز کے ساتھ یہ استدعا کرتا ہوں کہ اپنے گھروں میں اپنی آئندہ نسلوں کی نمازوں کی حالت پر غور کریں، ان کا جائزہ لیں، ان سے پوچھیں اور روز پوچھا کریں کہ وہ کتنی نمازیں پڑھتے ہیں.یہ بھی معلوم کریں کہ وہ جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں اس کا مطلب بھی ان کو آتا ہے یا نہیں اور اگر مطلب آتا ہے تو غور سے پڑھتے ہیں یا اس انداز سے پڑھتے ہیں کہ جتنی جلدی یہ بوجھ گلے سے اُتار پھینکا جا سکے اتنی جلدی سے نماز سے فارغ ہو کر دنیا طلبی کے کاموں میں مصروف ہو جائیں.اس پہلو سے اگر آپ جائزہ لیں گے اور حق کی نظر سے جائزہ لیں گے ، سچ کی نظر سے جائزہ لیں گے تو مجھے ڈر ہے کہ جو جواب آپ کے سامنے اُبھریں گے وہ لوگوں کو بے چین کر دینے والے جواب ہوں گے“.تو یہ درد اور فکرتھی جماعت کے احباب کی نمازوں کے معیار کے بارہ میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع کو.اور ہم جو عہد کر رہے ہیں کہ ہم آپ کے کاموں کو پورا کریں گے تو یہ نمازیں باجماعت ادا کرنا سب سے پہلے اور سب سے بڑا عہد ہے اس کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.پس آئیں آج ہم یہ عہد کریں اور یہ عہد کر کے یہاں سے اُٹھیں کہ اے جانے والے! ہم تیری محبت کے صرف کھوکھلے دعوے کرنے والے نہیں بلکہ تیری خواہش کو ضرور پورا کریں گے اور ہر گھر میں نمازی پیدا کریں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ تیری خواہش کے مطابق ہر

Page 32

مشعل راه جلد پنجم 14 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی گھر نمازیوں سے بھر جائے گا.انشاء اللہ.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ایک عہد اور آنے والے سے بھی آپ اپنی محبت اور وفا کا اظہار کرتے ہیں Resolutions میں ، اور تسلیاں دیتے ہیں.تو سب سے بڑی تسلی تو یہ ہے کہ آپ یہ کہیں کہ ہم عہد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کریں گے اور خود بھی اور آئندہ نسلوں کو بھی خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے بنائیں گے.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.ڈرائیونگ کے بارہ میں ہدایات اب یہاں جو حاضری کا صدر صاحب نے ذکر کیا ہے ، ضمنا میں بیان کر دوں کہ جرمنی کا اجتماع بھی ہو رہا ہے اور وہاں بہر حال تعداد زیادہ ہے.اس وقت اُن کی حاضری شاید آپ سے دگنی سے بھی زیادہ ہو.اس لئے اُن کی خاطر بھی مجھے یہ باتیں جو ہیں وہ اُردو میں بھی کرنی پڑیں اور اب انشاء اللہ تعالیٰ اجتماع ختم ہورہا ہے.اس کے بعد تو اب دُعا ہو گی.لیکن اس سے پہلے چند ضروری باتیں ہیں کہ اجتماع کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ ب اپنے گھروں کو جائیں گے.اللہ تعالیٰ سب کو خیریت سے واپس لے جائے اور ہر آن آپ کا حافظ و ناصر ہو.لیکن ایک بات میں عرض کرنی چاہتا ہوں کہ نو جوانوں میں عموماً جلد بازی یا شوق میں تیز ڈرائیونگ کی بڑی عادت ہوتی ہے اس سے احتیاط کریں.Speed Limit کے اندر رہیں.اگر تھکے ہوئے ہیں نیند آرہی ہے تو رک کے اپنی نیند پوری کر لیں یا اپنے ساتھی سے ڈرائیو کر والیس اگر اُس کو آتی ہو.کیونکہ ذراسی غلطی کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہو جاتے ہیں اور پھر جو ہم سب کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں.اس لئے بہت احتیاط کریں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور احتیاط سے اور اپنی حفاظت میں آپ کو اپنے گھروں تک پہنچائے.اب دُعا کرلیں.(ماہنامہ "خالد" ستمبر 2003ء)

Page 33

مشعل راه جلد پنجم 15 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ دین کے صحیح تصور کو پیش کرے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 20 جون 2003 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: - آج ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ ( دین حق کی جو تصویر، جو تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھینچی ہے اور دی ہے اس کو لے کر ( دین حق) کے امن اور آشتی صلح اور صفائی کے پیغام کو ہر جگہ پہنچا دیں اور دنیا میں یہ منادی کریں کہ (دین حق ) تلوار سے نہیں بلکہ اپنی حسین تعلیم سے دنیا میں پھیلا ہے اور اپنوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اپنے آپ کو منسوب کر رہے ہیں یہ پیغام دیں کہ تم کس غلط راستے پر چل رہے ہو.ان کو سمجھا ئیں ، ان کے لئے دعائیں کریں کیونکہ یہ لوگ بھی إِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ کے زُمرے میں ہیں.دنیا کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ (دین حق ) کی ترقی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اس فانی فی اللہ کی دعاؤں کا نتیجہ تھی اور اس زمانہ میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے عاشق صادق اور غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور ( دین حق ) کے صحیح تصور کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے نتیجے میں ہوگی.انشاء الله الفضل انٹر نیشنل 15 تا 21 اگست 2003، صفحہ 7

Page 34

مشعل راه جلد پنجم 16 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 35

مشعل راه جلد پنجم 17 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرمودہ 27 جون 2003ء سے اقتباس واقفین نو بچوں کی تربیت کے متعلق متفرق ہدایات اپنے بچوں کو وقف کرنا، انبیاء اور ابرار کی سنت پر عمل کرنا ہے جو اپنے بچوں کو قربان کرنے کے لئے پیش کر رہے ہیں، جہاد میں حصہ لے رہے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ یہی لوگ فتح یاب ہوں گے جن میں خلافت اور نظام قائم ہے بچوں کو پانچ وقت نمازوں کی عادت ڈالیں واقف نو کو بچپن سے ہی بیچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہیے واقفین نو کو نظام کا احترام سکھایا جائے وقف زندگی سے فی زمانہ بڑی کوئی اور چیز نہیں واقفین نو کی اس نہج پر تربیت کریں کہ بچوں کو پتہ ہو کہ اکثریت ان کی ( دعوت الی اللہ ) کے میدان میں جانے والی ہے.

Page 36

مشعل راه جلد پنجم 18 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ آل عمران کی درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى دَمَ وَنُوحاً والَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَلَمِينَ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمُرْنَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّ رًا فَتَقَبَّلُ مِنِّى - إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:- (سورۃ آل عمران 34 تا 36 ) آج اس مسیح موعود کو ماننے والی ماؤں اور باپوں نے خلیفہ وقت کی تحریک پر انبیاء اور ابرار کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مسیح موعود کی فوج میں داخل کرنے کے لئے اپنے بچوں کو پیدائش سے پہلے پیش کیا اور کرتے چلے جارہے ہیں.اس بارہ میں حضرت خلیفتہ اسیح الرابع فرماتے ہیں کہ: جیسے حضرت مریم " کی خلیفۃالمسیح والدہ نے یہ التجا کی خدا سے { رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّ رًا فَتَقَبَّلُ مِنِّي ـ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ }.کہ اے میرے رب ! جو کچھ بھی میرے پیٹ میں ہے میں تیرے لئے پیش کر رہی ہوں.مجھے نہیں پتہ کیا چیز ہے.لڑکی ہے کہ لڑکا ہے.اچھا ہے یا برا ہے.مگر جو کچھ ہے میں تمہیں دے رہی ہوں.{فَتَقَبَّلُ مِنى } مجھ سے قبول فرما {إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ } تو بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے.یہ دعا خدا تعالیٰ کو ایسی پسند آئی کہ اسے قرآن کریم میں آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر لیا.اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اپنی اولاد کے متعلق اور دوسرے انبیاء کی دعائیں اپنی اولاد کے متعلق، یہ ساری قرآن کریم میں محفوظ ہیں.بعض جگہ آپ کو ظاہر طور پر وقف کا مضمون نظر آئے گا اور بعض جگہ نہیں آئے گا جیسا کہ یہاں آیا { مُحَرَّدًا } اے خدا! میں تیری پناہ میں اس بچے کو وقف کرتی ہوں.لیکن بسا اوقات آپ کو یہ دعا نظر آئے گی کہ اے خدا! جو نعمت تو نے مجھے دی ہے، وہ میری اولادکو بھی دے اور ان میں بھی انعام جاری فرما...پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو چلہ کشی کی تھی وہ بھی اسی مضمون کے تحت آتی ہے.آپ

Page 37

مشعل راه جلد پنجم 19 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی چالیس دن یہ گریہ وزاری کرتے رہے دن رات کہ اے خدا! مجھے اولاد دے اوروہ دے جو تیری غلام ہو جائے ، میری طرف سے ایک تحفہ ہو تیرے حضور.تو یہ ہے سنت انبیاء ،سنت ابرار.اور اس زمانہ میں اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے یہ ہے احمدی ماؤں اور باپوں کا عمل ، خوبصورت عمل ، جو اپنے بچوں کو قربان کرنے کے لئے پیش کر رہے ہیں، جہاد میں حصہ لے رہے ہیں لیکن علمی اور قلمی جہاد میں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی فوج میں داخل ہو کر.اور انشاء اللہ تعالیٰ یہی لوگ فتح یاب ہوں گے جن میں خلافت اور نظام قائم ہے.اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا طریق کامیاب ہونے والا نہیں.جس طرح دکھاوے کی نمازوں میں ہلاکت ہے اسی طرح اس دکھاوے کے جہاد میں بھی سوائے ہلاکت کے اور کچھ نہیں ملے گا.لیکن جن ماؤں اور جن باپوں نے قربانی سے سرشار ہوکر ، اس جذبہ سے سرشار ہو کر، اپنے بچوں کو خدمت ( دین حق ) کے لئے پیش کیا ہے ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں کیونکہ کچھ عرصہ بھی اگر توجہ نہ دلائی جائے تو بعض دفعہ والدین اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں اس لئے گو کہ شعبہ وقف نو توجہ دلاتا رہتا ہے لیکن پھر بھی میں نے محسوس کیا کہ کچھ اس بارہ میں عرض کیا جائے.اس ضمن میں ایک اہم بات جو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ کے الفاظ میں میں پیش کرتا ہوں.فرمایا:- اگر ہم ان واقفین نو کی پرورش اور تربیت سے غافل رہے تو خدا کے حضور مجرم ٹھہریں گے.اور پھر ہر گز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اتفاقیہ واقعات ہوگئے ہیں.اس لئے والدین کو چاہیے کہ ان بچوں کے اوپر سب سے پہلے خود گہری نظر رکھیں اور اگر خدانخوستہ وہ سمجھتے ہوں کہ بچہ اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے وقف کا اہل نہیں ہے تو ان کو دیانتداری اور تقوی کے ساتھ جماعت کو مطلع کرنا چاہیے کہ میں نے تو اپنی صاف نیت سے خدا کے حضور ایک تحفہ پیش کرنا چاہا تھا مگر بد قسمتی سے اس بچے میں یہ یہ باتیں ہیں.اگر ان کے باوجود جماعت اس کے لینے کے لئے تیار ہے تو میں حاضر ہوں ور نہ اس وقف کو منسوخ کر دیا جائے.(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 فروری 1989 ) والدین نے تو اپنے بچوں کو قربانی کے لئے پیش کر دیا.جماعت نے ان کی صحیح تربیت اور اٹھان کے لئے پروگرام بھی بنائے ہیں لیکن بچہ نظام جماعت کی تربیت میں تو ہفتہ میں چند گھنٹے ہی رہتا ہے.ان چند گھنٹوں میں اس کی تربیت کا حق ادا تو نہیں ہو سکتا اس لئے یہ بہر حال ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی تربیت پر توجہ دیں.اور اس کے ساتھ پیدائش سے پہلے جس خلوص اور دعا کے ساتھ بچے کو پیش کیا تھا اس دعا کا

Page 38

مشعل راه جلد پنجم 20 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سلسلہ مستقلاً جاری رکھیں یہاں تک کہ بچہ ایک مفید وجود بن کر نظام جماعت میں سمویا جائے.بلکہ اس کے بعد بھی زندگی کی آخری سانس تک ان کے لئے دعا کرتے رہنا چاہیے کیونکہ بگڑتے پتہ نہیں لگتا.اس لئے ہمیشہ انجام بخیر کی اور اس وقف کو آخر تک نبھانے کی طرف والدین کو بھی دعا کرتے رہنا چاہیے.واقفین نو میں وفا کا مادہ پیدا کریں چند باتیں جو تربیت کے لئے ضروری ہیں اب میں آگے واقفین نو بچوں کی تربیت کے لئے جو والدین کو کرنا چاہیے اور یہ ضروری ہے پیش کرتا ہوں.اس میں سب سے اہم بات وفا کا معاملہ ہے جس کے بغیر کوئی قربانی ،قربانی نہیں کہلا سکتی.بچوں کو پانچ وقت نمازوں کی عادت ڈالیں.اس کے علاوہ ایک اور اہم بات اور یہ بھی میرے نزدیک انتہائی اہم باتوں میں سے ایک ہے بلکہ سب سے اہم بات ہے کہ بچوں کو پانچ وقت نمازوں کی عادت ڈالیں.کیونکہ جس دین میں عبادت نہیں وہ دین نہیں.اس کی عادت بھی بچوں کو ڈالنی چاہیے اور اس کے لئے سب سے بڑا والدین کا اپنا نمونہ ہے.اگر خود وہ نمازی ہوں گے تو بچے بھی نمازی بنیں گے.نہیں تو صرف ان کی کھوکھلی نصیحتوں کا بچوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم اللہ فرماتے ہیں کہ: - بچپن سے تربیت کی ضرورت پڑتی ہے ، اچانک بچوں میں یہ عادت نہیں پڑا کرتی.اس کا طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھایا ہے کہ سات سال کی عمر سے اس کو ساتھ نماز پڑھانا شروع کریں اور پیار سے ایسا کریں.کوئی سختی کرنے کی ضرورت نہیں، کوئی مارنے کی ضرورت نہیں ہمحبت اور پیار سے اس کو پڑھاؤ ، اس کو عادت پڑ جاتی ہے.دراصل جو ماں باپ نمازیں پڑھنے والے ہوں ان کے سات سال سے چھوٹی عمر کے بچے بھی نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں.ہم نے تو گھروں میں دیکھا ہے اپنے نواسوں وغیرہ کو بالکل چھوٹی عمر کے ڈیڑھ ڈیڑھ ، دو دو سال کی عمر کے ساتھ آکے تو نیت کر لیتے ہیں اور نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں.اس لئے کہ ان کو اچھا لگتا ہے دیکھنے میں ، خدا کے حضور اٹھنا، بیٹھنا، جھکنا ان کو پیارا لگتا ہے اور وہ ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں.مگر وہ نماز نہیں محض ایک نقل ہے جو اچھی نقل ہے.

Page 39

21 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم لیکن جب سات سال کی عمر تک پہنچ جائے تو پھر اس کو با قاعدہ نماز کی تربیت دو.اس کو بتاؤ کہ وضوکرنا ہے، اس طرح کھڑے ہونا ہے، قیام وقعود، سجدہ وغیرہ سب اس کو سمجھاؤ.اس کے بعد وہ بچہ اگر دس سال کی عمر تک، پیار ومحبت سے سیکھتار ہے، پھر دس اور بارہ کے درمیان اس پر کچھ پختی بے شک کرو.کیونکہ وہ کھلنڈری عمر ایسی ہے کہ اس میں کچھ معمولی سزا، کچھ سخت الفاظ کہنا یہ ضروری ہوا کرتا ہے بچوں کی تربیت کے لئے.تو جب وہ بلوغ کو پہنچ جائے ، بارہ سال کی عمر کو پہنچ جائے پھر اس پر کوئی سختی کی اجازت نہیں.پھر اس کا معاملہ اللہ کا معاملہ ہے اور جیسا چاہے وہ اس کے ساتھ سلوک فرمائے“.تو انسانی تربیت کا دائرہ یہ سات سال سے لے کر بلکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پہلے سے بھی شروع ہو جاتا ہے، بارہ سال کی یعنی بلوغت کی عمر تک پھیلا ہوا ہے.اس کے بعد بھی تربیت تو جاری رہتی ہے مگر وہ اور رنگ ہے، انسان اپنی اولا دکا ذمہ دار بارہ سال کی یعنی بلوغت کی عمر تک ہے.کھانا کھانے کے آداب ضرور سکھانے چاہئیں بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو کہنے میں چھوٹی ہیں لیکن اخلاق سنوارنے کے لحاظ سے انتہائی ضروری ہیں مثلاً کھانا کھانے کے آداب ہیں یہ ضرور سکھانا چاہیے.اب یہ ایسی بات ہے جو گھر میں صرف ماں باپ ہی کر سکتے ہیں یا ایسے سکول اور کالجز جہاں ہوٹل ہوں اور بڑی کڑی نگرانی ہو وہاں یہ آداب بچوں کو سکھائے جاتے ہیں لیکن عموماً ایک بہت بڑی تیسری دنیا کے سکولوں کی تعداد ایسی ہے جہاں ان باتوں پر اس طرح عمل نہیں ہوتا اس لئے بہر حال یہ ماں باپ کا ہی فرض بنتا ہے.لیکن یہاں میں ضمنا یہ ذکر کرنا چاہوں گا.ربوہ کی ایک مثال ہے مدرستہ الحفظ کی جہاں پانچویں کلاس پاس کرنے کے بعد بچے داخل ہوتے ہیں.مختلف گھروں سے مختلف خاندانوں سے مختلف ماحول سے، دیہاتوں سے شہروں سے بچے آتے ہیں لیکن وہاں میں نے دیکھا ہے کہ ان کی تربیت ما شاء اللہ ایسی اچھی ہے اور ان کی ایسی اعلی نگرانی ہوتی ہے اور ان کو ایسے اچھے اخلاق سکھائے گئے ہیں حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ.اتنے سلجھے ہوئے طریق سے بچے کھانا کھاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.باوجود مختلف قسم کے بچوں کے ماحول ہے کہ مثلاً یہی ہے کہ بسم اللہ پڑھ کے کھائیں.اپنے سامنے سے کھائیں ، ڈش میں سے سالن اگر اپنی پلیٹ میں ڈالنا ہے تو اتنی مقدار میں ڈالیں جو کھایا جائے.دوبارہ

Page 40

مشعل راه جلد پنجم 22 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ضرورت ہو تو دوبارہ ڈال دیا جائے.دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا ہے.کھانا ختم کرنے کے بعد کی دعا.تو یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں.تو بہر حال بچپن سے ہی وقف نو بچوں کو تو خصوصاً اور عموماً ہر ایک کو سکھانی چاہئیں.تو بہر حال یہ جو مدرستہ الحفظ کی میں نے مثال دی ہے اللہ کرے کہ یہ سلسلہ جو انہوں نے تربیت کا شروع کیا ہے جاری رہے اور والدین بھی اپنے بچوں کی اسی نہج پر تربیت کریں.کھانا کھانے کے بعد بھی ہاتھ دھونے کی عادت ڈالیں پھر یہ ہے کہ بعض بچوں کو بچپن میں عادت ہوتی ہے اور یہ ایسی چھوٹی سی بات ہے کہ بعض دفعہ والدین اس پر نظر ہی نہیں رکھتے کہ کھانا کھانے کے بعد گندے ہاتھوں کے ساتھ بچے مختلف چیزوں پر ہاتھ لگا دیتے ہیں اسے بھی ہلکے سے پیار سے سمجھا ئیں.تو یہ ایسی عادتیں ہیں جو بچپن میں ختم کی جاسکتی ہیں اور بڑے ہوکر یہ اعلیٰ اخلاق میں شمار ہو جاتی ہیں.واقف نو کو سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہیے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بچوں میں اخلاق حسنہ کی آبیاری کی اہمیت کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ:.ہر وقف زندگی بچہ جو وقف نو میں شامل ہے بچپن سے ہی اس کو بیچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہیے.اور یہ نفرت اس کو گو یا ماں کے دودھ سے ملنی چاہیے.جس طرح ریڈی ایشن کسی چیز کے اندر سرایت کرتی ہے ، اس طرح پرورش کرنے والے باپ کی بانہوں میں سچائی اس بچے کے دل میں ڈوبنی چاہیے.اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو پہلے سے بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا.واقفین نو بچوں کے والدین کو یہ نوٹ کرنے والی بات ہے کہ والدین کو پہلے سے بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا.ضروری نہیں کہ سب واقفین زندگی کے والدین سچائی کے اس اعلی معیار پر قائم ہوں جو اعلیٰ درجہ کے مومنوں کے لئے ضروری ہے.اس لئے اب ان بچوں کی خاطر ان کو اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی.اور پہلے سے کہیں زیادہ احتیاط کے ساتھ گھر میں گفتگو کا انداز اپنانا ہوگا اور احتیاط کرنی ہوگی کہ لغو باتوں کے طور پر مذاق کے طور پر بھی وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولیں گے.کیونکہ یہ خدا کی مقدس امانت اب آپ کے گھر میں پل رہی ہے اور اس مقدس امانت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو بہر حال آپ نے پورا کرنا ہے.اس لئے ایسے گھروں کے ماحول سچائی کے لحاظ سے نہایت صاف

Page 41

مشعل راه جلد پنجم ستھرے اور پاکیزہ ہو جانے چاہئیں“.واقفین بچوں کو قانع بنانا چاہیے پھر آپ فرماتے ہیں کہ :- 23 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی قناعت کے متعلق میں نے کہا تھا اس کا واقفین سے بڑا گہرا تعلق ہے.بچپن ہی سے ان بچوں کو قانع بنانا چاہیے اور حرص و ہوا سے بے رغبتی پیدا کرنی چاہیے.عقل اور فہم کے ساتھ اگر والدین شروع سے تربیت کریں تو ایسا ہونا کوئی مشکل کام نہیں ہے.غرض دیانت اور امانت کے اعلیٰ مقام تک ان بچوں کو پہنچانا ضروری ہے.علاوہ ازیں بچپن سے ایسے بچوں کے مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی چاہیے.ترش روئی وقف کے ساتھ پہلو بہ پہلو نہیں چل سکتی.ترش رو واقفین زندگی ہمیشہ جماعت میں مسائل پیدا کیا کرتے ہیں اور بعض دفعہ خطرناک فتنے بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں.اس لئے خوش مزاجی اور اس کے ساتھ حمل یعنی کسی کی بات کو برداشت کرنا یہ دونوں صفات واقفین بچوں میں بہت ضروری ہیں.اس کے علاوہ واقفین بچوں میں سخت جانی کی عادت ڈالنا، نظام جماعت کی اطاعت کی بچپن سے عادت ڈالنا، اطفال الاحمدیہ سے وابستہ کرنا، ناصرات سے وابستہ کرنا ، خدام الاحمدیہ سے وابستہ کرنا بھی بہت ( اقتباسات خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جنوری 1989ء) ضروری ہے.اب یہ ایسی چیزیں ہیں بعض واقفین نو بچے سمجھتے ہیں کہ صرف ہماری علیحدہ کوئی تنظیم ہے.جو جماعت کی باقاعدہ ذیلی تنظیمیں ہیں ان کا حصہ ہیں واقفین نو بچے بھی.پھر بچپن سے ہی کردار بنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور رحمہ اللہ فرماتے ہیں.میں اس لئے حوالے حضور کے بھی ساتھ دے رہا ہوں کہ یہ تحریک ایک بہت بڑی تحریک تھی جو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جاری فرمائی.اور اس کے فوائد تو اب سامنے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور آئندہ زمانوں میں انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ کس کثرت سے اور بڑے پیمانہ پر اس کے فوائد نظر آئیں گے.انشاء اللہ والدین کو اپنا کر دار قول و فعل کے مطابق کرنا ہوگا فرمایا کہ بچپن میں کردار بنائے جاتے ہیں.دراصل اگر تاخیر ہو جائے تو بہت محنت کرنی پڑتی ہے.محاورہ ہے کہ گرم لو ہا ہو تو اس کو موڑ لینا چاہیے.لیکن یہ بچپن کا لوہا ہے کہ خدا تعالیٰ ایک لمبے عرصہ تک نرم ہی رکھتا

Page 42

24 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم ہے اور اس نرمی کی حالت میں اس پر جو نقوش آپ قائم کر دیتے ہیں وہ دائی ہو جایا کرتے ہیں.اس لئے وقت ہے تربیت کا اور تربیت کے مضمون میں یہ بات یادرکھیں کہ ماں باپ جتنی چاہیں زبانی تربیت کریں اگر ان کا کرداران کے قول کے مطابق نہیں تو بچے کمزوری کو لے لیں گے اور مضبوط پہلوکو چھوڑ دیں گے.یہاں پھر والدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے.یہ دو نسلوں کے رابطے کے وقت ایک ایسا اصول ہے جس کو بھلانے کے نتیجہ میں قومیں بھی ہلاک ہو سکتی ہیں اور یادر کھنے کے نتیجہ میں ترقی بھی کر سکتی ہیں.ایک نسل اگلی نسل پر جواثر چھوڑا کرتی ہے اس میں عموما یہ اصول کارفرما ہوتا ہے کہ بچے ماں باپ کی کمزوریوں کو پکڑنے میں تیزی کرتے ہیں اور ان کی باتوں کی طرف کم توجہ کرتے ہیں.اگر باتیں عظیم کردار کی ہوں اور بیچ میں سے کمزوری ہوتو بچہ بیچ کی کمزوری کو پکڑے گا.اس لئے یا درکھیں کہ بچوں کی تربیت کے لئے آپ کو اپنی تربیت ضروری کرنی ہوگی.ان بچوں کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچو! تم سچ بولا کر وہ تم نے (مربی) بننا ہے.تم بد دیانتی نہ کیا کرو تم نے (مربی) بننا ہے.تم غیبت نہ کیا کرو تم لڑا نہ کرو تم جھگڑا نہ کیا کرو کیونکہ تم وقف ہو اور یہ باتیں کرنے کے بعد فرمایا کہ پھر ماں باپ ایسا لڑیں، جھگڑیں، پھر ایسی مغلظات بکیں ایک دوسرے کے خلاف ،ایسی بے عزتیاں کریں کہ وہ کہیں بچے کو تو ہم نے نصیحت کر دی اب ہم اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں، یہ نہیں ہو سکتا.جوان کی اپنی زندگی ہے وہی بچے کی زندگی ہے.جو فرضی زندگی انہوں نے بنائی ہوئی ہے کہ یہ کرو، بچے کوکوڑی کی بھی اس کی پروا نہیں.ایسے ماں باپ جو جھوٹ بولتے ہیں وہ لاکھ بچوں کو کہیں کہ جب تم جھوٹ بولتے ہو تو بڑی تکلیف ہوتی ہے، تم خدا کے لئے سچ بولا کر وہ سچائی میں زندگی ہے.بچہ کہتا ہے کہ ٹھیک ہے یہ بات لیکن اندر سے وہ سمجھتا ہے کہ ماں باپ جھوٹے ہیں اور وہ ضرور جھوٹ بولتا ہے.اس لئے دونسلوں کے جوڑ کے وقت یہ اصول کار فرما ہوتا ہے اور اس کو نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں آپس میں خلا پیدا ہو جاتے ہیں.اقتباسات از خطبه جمعه فرموده 8 ستمبر 1989ء) تو واقفین نو بچوں کے والدین کو اس سے اپنی اہمیت کا اندازہ بھی ہو گیا ہو گا کہ اپنی تربیت کی طرف کس طرح توجہ دینی چاہیے.پھر جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے حضور کے الفاظ میں.اپنے گھر کے ماحول کو ایسا پر سکون اور محبت بھرا بنا ئیں کہ بچے فارغ وقت گھر سے باہر گزارنے کے بجائے ماں باپ کی صحبت میں گزارنا پسند کریں.ایک دوستانہ ماحول ہو.بچے کھل کر ماں باپ سے سوال بھی کریں اور ادب کے دائرہ میں رہتے

Page 43

مشعل راه جلد پنجم 25 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہوئے ہر قسم کی باتیں کرسکیں.اس لئے ماں باپ دونوں کو بہر حال قربانی دینی پڑے گی.جو عہد اپنے رب سے والدین نے باندھا ہے اس عہد کو پورا کرنے کے لئے بہر حال والدین نے بھی قربانی دینی ہے.اور یہ آپ پہلے بھی سن چکے ہیں اور حضور نے یہی نصیحت فرمائی ہے والدین کو بھی.میں بھی یہی کہتا ہوں.بعض دفعہ بعض والدین اپنے حقوق تو چھوڑتے نہیں بلکہ ناجائز غصب کرنے کی کوشش کرتے ہیں.لیکن زور یہ ہوتا ہے کہ چونکہ ہمارے بچے وقف نو میں ہیں اس لئے ہم نے اگر کوئی غلطی کر بھی لی ہے تو ہم سے نرمی کا سلوک کیا جائے.یہ تو نہیں ہوسکتا.پھر یہ بات واضح کروں کہ کسی بھی قسم کی برائی دل میں تب راہ پاتی ہے جب اس کے اچھے یا برے ہونے کی تمیز اٹھ جائے.بعض دفعہ ظاہر ہر قسم کی نیکی ایک شخص کر رہا ہوتا ہے.نمازیں بھی پڑھ رہا ہے، ( بیت الذکر ) جارہا ہے، لوگوں سے اخلاق سے بھی پیش آرہا ہے لیکن نظام جماعت کے کسی فرد سے کسی وجہ سے ہلکا سا شکوہ بھی پیدا ہو جائے یا اپنی مرضی کا کوئی فیصلہ نہ ہو تو پہلے اس عہد یدار کے خلاف دل میں ایک رنجش پیدا ہوتی ہے.پھر نظام کے بارہ میں کہیں ہلکا سا کوئی فقرہ کہ دیا، اس عہد یدار کی وجہ سے..پھر گھر میں بچوں کے سامنے بیوی سے یا کسی اور عزیز سے کوئی بات کر لی تو اس طرح اس ماحول میں بچوں کے ذہنوں سے بھی نظام کا احترام اٹھ جاتا ہے.اس احترام کو قائم کرنے کے لئے بہر حال بہت احتیاط کی ضرورت ہے.واقفین نو کو نظام کا احترام سکھایا جائے حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں یہ نصیحت آپ تک پہنچا تا ہوں :- بہت ضروری ہے کہ ( واقفین نو کو نظام کا احترام سکھایا جائے.پھر اپنے گھروں میں کبھی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے نظام جماعت کی تخفیف ہوتی ہو یا کسی عہد یدار کے خلاف شکوہ ہو.وہ شکوہ اگر سچا بھی ہے پھر بھی اگر آپ نے اپنے گھر میں کیا تو آپ کے بچے ہمیشہ کے لئے اس سے زخمی ہو جائیں گے.آپ تو شکوہ کرنے کے باوجود اپنے ایمان کی حفاظت کر سکتے ہیں لیکن آپ کے بچے زیادہ گہرا زخم محسوس کریں گے.یہ ایسا زخم ہوا کرتا ہے جس کو لگتا ہے اس کو کم لگتا ہے ، جو قریب کا دیکھنے والا ہے اس کو زیادہ لگتا ہے.اس لئے اکثر وہ لوگ جو نظام جماعت پر تبصرے کرنے میں بے احتیاطی کرتے ہیں ان کی اولادوں کو کم و بیش ضرور نقصان پہنچتا ہے.اور بعض ہمیشہ کے لئے ضائع ہو جاتی ہیں.

Page 44

مشعل راه جلد پنجم 26 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی واقفین بچوں کو سمجھانا چاہیے کہ اگر تمہیں کسی سے کوئی شکایت ہے ، خواہ تمہاری تو قعات اس کے متعلق کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہوں، اس کے نتیجہ میں تمہیں اپنے نفس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے.ان کو سمجھائیں کہ اصل محبت تو خدا اور اس کے دین سے ہے.کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے خدائی جماعت کو نقصان پہنچتا ہو.آپ کو اگر کسی کی ذات سے تکلیف پہنچی ہے یا نقصان پہنچا ہے تو اس کا ہر گز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ کو حق ہے کہ اپنے ماحول ، اپنے دوستوں ، اپنے بچوں اور اپنی اولاد کے ایمانوں کو بھی آپ زخمی کرنا شروع کریں.اپنے زخم حوصلے کے ساتھ اپنے تک رکھیں اور اس کے اند مال کے جوذ رائع با قاعدہ خدا تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں ان کو اختیار کریں.“ اپنے بچوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کریں (خطبہ جمعہ فرمودہ 10 فروری 1989ء) پھر ایک عام بات ہے جس کی طرف والدین کو توجہ دینی ہوگی.وہ ہے اپنے بچوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کریں.انہیں متقی بنا ئیں.اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک والدین خود متقی نہ ہوں یا متقی بننے کی کوشش نہ کریں.کیونکہ جب تک عمل نہیں کریں گے منہ کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا.اگر بچہ دیکھ رہا ہے کہ میرے ماں باپ اپنے ہمسایوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ، اپنے بھائیوں کے حقوق غصب کر رہے ہیں.ذرا ذراسی بات پر میاں بیوی میں، ماں باپ میں ناچاقی اور جھگڑے شروع ہورہے ہیں.تو پھر بچوں کی تربیت اور ان میں تقویٰ پیدا کرنا بہت مشکل ہو جائے گا اس لئے بچوں کی تربیت کی خاطر ہمیں بھی اپنی اصلاح کی بہت ضرورت ہے.بچوں میں تقویٰ کس طرح پیدا کیا جائے.اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:- واقفین نو بچوں کو بچپن ہی سے متقی بنا ئیں اور ان کے ماحول کو پاک اور صاف رکھیں.ان کے ساتھ ایسی حرکتیں نہ کریں جن کی وجہ سے ان کے دل دین سے ہٹ کر دنیا کی طرف مائل ہونے لگ جائیں.پوری توجہ ان پر اس طرح دیں جس طرح ایک بہت ہی عزیز چیز کو ایک بہت ہی عظیم مقصد کے لئے تیار کیا جارہا ہوا اور اس طرح ان کے دل تقویٰ سے بھر جائیں پھر یہ آپ کے ہاتھ میں کھیلنے کے بجائے خدا کے ہاتھ میں کھیلنے لگیں اور جس طرح ایک چیز دوسرے کے سپرد کر دی جاتی ہے تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ آپ یہ بچے شروع ہی سے خدا کے سپر د کر سکتے ہیں اور درمیان کے سارے واسطے ، سارے مراحل ہٹ

Page 45

مشعل راه جلد پنجم 27 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جائیں گے.رسمی طور پر تحریک جدید سے بھی واسطہ رہے گا یعنی وکالت وقف نو سے.اور نظام جماعت سے بھی واسطہ رہے گا.مگر فی الحقیقت بچپن ہی سے جو بچے آپ خدا کی گود میں لا ڈالیں خدا ان کو سنبھالتا ہے، خود ہی ان کا انتظام فرماتا ہے.خود ہی ان کی نگہداشت کرتا ہے.جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدا نے نگہداشت فرمائی.آپ لکھتے ہیں:.ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کئے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار پس ایک ہی راہ ہے اور صرف ایک راہ ہے کہ ہم اپنے وجود کو اور اپنے واقفین کے وجود کو خدا کے سپرد کریں اور خدا کے ہاتھوں میں کھیلنے لگیں.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر 1989ء) وقف زندگی سے فی زمانہ بڑی کوئی اور چیز نہیں پھر بچوں میں یہ احساس بھی پیدا کریں کہ تم واقف زندگی ہو اور فی زمانہ اس سے بڑی کوئی اور چیز نہیں.اپنے اندر قناعت پیدا کرو، نیکی کے معاملہ میں ضرور اپنے سے بڑے کو دیکھو اور آگے بڑھنے کی کوشش کرو لیکن دنیا وی دولت یا کسی کی امارت تمہیں متاثر نہ کرے بلکہ اس معاملہ میں اپنے سے کمتر کو دیکھو اور خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دین کی خدمت کی توفیق دی ہے.اور اس دولت سے مالا مال کیا ہے.کسی سے کوئی توقع نہ رکھو.ہر چیز اپنے پیارے خدا سے مانگو.ایک بڑی تعداد ایسے واقفین نو بچوں کی ہے جو ماشاء اللہ بلوغت کی عمر کو پہنچ گئے ہیں.ان کو خود بھی اب ان باتوں کی طرف توجہ دینی چاہیے.ضمناً یہ بات بھی کردوں کہ حضور رحمہ اللہ نے بھی ایک دفعہ اظہار فرمایا تھا کہ واقفین نو بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد جو ہے ان کی تربیت ایسے رنگ میں کرنی چاہیے اور ان کے ذہن میں یہ ڈالنا چاہیے کہ انہیں ( مربی ) بننا ہے.اور آئندہ زمانے میں جو ضرورت پیش آنی ہے (مربیان ) کی بہت بڑی تعداد کی ضرورت ہے اس لئے اس نہج پر تربیت کریں کہ بچوں کو پتہ ہو کہ اکثریت ان کی ( دعوۃ الی اللہ ) کے میدان میں جانے والی ہے اور اس لحاظ سے ان کی تربیت ہونی چاہیے.الفضل انٹر نیشنل 22 تا 28 اگست 2003 صفحه 5-8 )

Page 46

مشعل راه جلد پنجم 28 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 47

مشعل راه جلد پنجم 29 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 27 ویں جلسہ سالانہ کینیڈا 2003ء کے موقع پر افتتاحی پیغام وحدت کے حصول کے لئے خلافت کے دامن سے ہمیشہ وابستہ رہیں دین حق نے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے اعلیٰ اور حسین تعلیم دی ہے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اس لئے قائم فرمایا ہے کہ دین کی دلکش تعلیم کو از سرنو زندہ کرے اپنے تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو ترک کر دیں جہاد کی حقیقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ہدایات کو حرز جان بنائیں

Page 48

مشعل راه جلد پنجم 30 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی پیارے احباب جماعت کینیڈا بھائیو، بہنوں اور بچوں! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مجھے محترم امیر صاحب کینیڈا کے اس خط کو پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ آج آپ ۲۷ جلسہ سالانہ کے لئے اکھٹے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کا یہ اجتماع بے حد مبارک فرمائے اور اس جلسہ سے وابستہ روحانی فیوض اور برکات سے آپ کے گھر بار کو بھر دے اور آپ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کی راہوں پر چلنے کی تو فیق پاتے رہیں.( دین حق ) ایک بہت ہی پیارا حسین مذہب ہے اور اس نے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے بڑی پاک اور اعلیٰ اور حسین تعلیم دی ہے.( دین حق ) کی تعلیمات کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس رنگ میں محبت کی جائے کہ انسان اس میں کھویا جائے اور دوسرے مخلوق خدا سے بے انتہا ہمد دری، محبت اور شفقت کا سلوک کیا جائے.مخلوق خدا کی تکالیف کو دور کرنے کے لئے کوشش کی جائے.بڑوں کا احترام چھوٹوں سے محبت ہر انسان خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو کسی بھی رنگ ونسل سے ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ( دین حق) نے بار بار تا کید فرمائی ہے.ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق خدا سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ ان کی ہدایت کے لئے خدا کے حضور گریہ وزاری سے روروکر دعائیں کیا کرتے تھے حتی کہ اپنے جانی دشمنوں کے لئے دعائیں کرنا سنت نبوی سے ثابت ہے.اہل مکہ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مار مار کر شدید زخمی کر دیا تھا، ان کے لئے بھی اپنے مولا کریم سے دعا کی تو یہی کی.رَبِّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ - یہ ( دین حق ) کی نہایت ہی پیاری تعلیم ہے جسے بد قسمتی سے آج کے مسلمان مولویوں نے گدلا کر دیا ہے اور دنیا کے سامنے ایسا نمونہ پیش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا میں ( دین حق ) کو متشدد اور دہشت گرد مذہب تصور کیا جارہا ہے حالانکہ ( دین حق ) تو محبت اور پیار کی تعلیم دیتا ہے.

Page 49

مشعل راه جلد پنجم جماعت احمد یہ کے قیام کی غرض وغایت 31 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اس لئے قائم فرمایا ہے کہ دین حق ) کی اس دلکش تعلیم کو از سرنو زندہ کریں اور دنیا کو بتائے کہ ( دین حق ) حقیقتاً امن اور آشتی کا مذہب ہے.اور ( دین حق ) ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اعلان کرتا ہے کہ ساری مخلوق خدا تعالیٰ کی عیال ہے اور خدا کے نزدیک وہی شخص محبوب ہے جو اس کی عیال سے محبت حسن سلوک بجالاتا ہے.بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو یہی تعلیم دی ہے کہ بنی نوع سے ہمددری اور پیار کا سلوک کیا جائے آپ فرماتے ہیں:.”ہمارا یہ اصول ہے کل بنی نوع کی ہمددری کروا گر کوئی شخص ہندو ہمسائے کو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی ہے اور یہ نہیں اٹھتا کہ آگ کو بجھانے میں مدد دے تو میں سچ سچ کہتا ہوں مجھ سے نہیں.اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں دیکھتا کہ ایک عیسائی کوکوئی قتل کرتا ہے اور اس کو چھڑانے کے لئے مدد نہیں کرتا تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم سے نہیں.میں حلفاً کہتا ہوں سچ کہتا ہوں کہ مجھے کسی قوم سے دشمنی نہیں ہاں جہاں تک ممکن ہو ان کے عقائد کی اصلاح چاہتا ہوں (سراج منیر صفحہ ۱۸) قرآن کریم میں جو جہاد کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے معنی کو غلط رنگ دے کر جاہل مولویوں نے لوٹ مارا اور قتل وغارت کے ایسے منصوبے عوام کو سکھائے جن کا اسلامی تعلیمات سے دور کا بھی تعلق نہیں یہ اسلامی جہاد نہیں بلکہ نفس امارہ کے جوشوں کے تابع سرزد ہونے والی ناجائز حرکات ہیں جو مسلمانوں میں پھیل گئی ہیں.اور جو اپنے گھناؤنے پن کی وجہ سے اسلام کے حسین چہرے پر ایک داغ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس ضمن میں فرماتے ہیں:.موجودہ طریق غیر مذہب کے لوگوں پر حملہ کرنے میں جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے جس کا نام وہ جہاد رکھتے ہیں یہ شرعی جہاد نہیں بلکہ صریحاً خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مخالف اور سخت معصیت ہے.اسلام ہرگز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ مسلمان رہزنوں اور ڈاکوؤں کی طرح بن جائیں اور جہاد کے بہانہ سے اپنے نفس کی خواہش پوری کریں“ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد صفحہ ۱۷ - ۱۸) پھر اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:.

Page 50

مشعل راه جلد پنجم 32 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جا ئیں دلوں کو پاک کریں اپنی انسانی رحم کو ترقی دیں اور درمندوں کے ہمدرد بنیں.زمیں پر صلح پھیلا گورنمٹ انگریزی اور جہاد صفحہ ۱۵) دیس پس اے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیاری جماعت اور آپ کے درخت وجود کی سرسبز شا خو!! آپ نے اپنے پیارے آقا کی اطاعت میں ہر شر اور ہر فتنہ کی بات سے دور رہنا ہے.آپ سے کوئی ایسی بات سرزد نہیں ہونی چاہیے جو ( دین حق) کی عزت کو داغ دار بنادے.اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کریں آپ نے اپنے نیک اخلاق اور پاک نمونے سے دنیا کے دل ( دین حق ) کے لئے فتح کرنے ہیں.اس لئے اپنے تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو ترک کر دیں خدا کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھائیں.آپ خدا کی آخری جماعت ہیں اس لئے وہ عمل نیک دکھلائیں جو اپنی کمال میں انتہائی درجہ پر ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں.”اے عزیز و! تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا ہے جس کے دیکھنے کے لئے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی اس لئے اب اپنے ایمانوں کو خوب مضبوط کرو اور اپنی راہیں درست کرو.اپنے دلوں کو پاک کرو اور اپنے مولیٰ کو راضی کرو..اپنی اخلاقی حالتوں کو بہت صاف کر وکینہ اور بغض اور نخوت سے پاک ہو جاؤ اور اخلاقی معجزات دنیا کو دکھلاؤ.اپنی اخلاقی قوتوں کا حسن اور جمال دکھلاؤ.چاہیے کہ تم میں خدا کی مخلوق کیلئے عام ہمددری ہو اور کوئی چھل اور دھوکا تمہاری طبیعت میں نہ ہو تم اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مظہر ہو.سو چاہیے دن رات خدا کی حمد وثناء تمہارا کام ہو اور خادمانہ حالت جو حامد ہونے کے لئے لازم ہے اپنے اندر پیدا کرو.(اربعین ۲ صفحه ۴۲۴ تا صفحه ۴۲۶) آج جو لوگ اس جلسہ میں شامل ہیں انہیں میری نصیحت ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ان ہدایات کو حرز جان بنا ئیں اور جو کچھ سنا اور سیکھا ہے اس کو اپنی زندگیوں میں جاری کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت کی نعمت سے نوازا ہے جو تمام قسم کی ترقیات کے لئے ایک بابرکت راہ ہے.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں.وحدت اور یک جہتی کے قیام کے لئے اور کامیابیوں کے حصول کے

Page 51

مشعل راه جلد پنجم 33 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی لئے خلافت کے دامن سے ہمیشہ وابستہ رہیں اور نسل در نسل اپنی اولا دوں کو بھی اس نعمت عظمی سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہیں.ہمیشہ اس کی سر بلندی اور مضبوطی کے لئے کوشاں رہیں اور اس راہ میں در پیش ہر قربانی کے لئے مستعد رہیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ان دعاؤں کا وراث بنائے جو آپ نے ایسے لگی جلسوں میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں.میری دعائیں بھی آپ کے ساتھ ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو ( دین حق ) کا نیک نمونہ اہل کینیڈا کے سامنے پیش کرنے کو توفیق دے.آپ ان کے دل ( دین حق ) احمدیت کے لئے جیتنے والے ہوں.اللہ آپ کے ساتھ ہو.خیر و برکت سے آپ کی جھولیاں بھر دے.اللہ کرے آپ کی تمام زندگی خدا کی رضا اور خوشنودی کے تحت گذرے.آمین.والسلام خاکسار مرزا مسرور احمد خلیفہ المسیح الخامس اخبار نیو کینیڈا جلد 16 نمبر 12 مورخہ 18 جولائی 2003ء)

Page 52

مشعل راه جلد پنجم 34 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 53

مشعل راه جلد پنجم 35 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرمودہ 4 جولائی 2003ء سے اقتباس ہمیشہ بچوں کے نیک صالح اور دیندار ہونے کی دعائیں کرتے رہنا چاہیے والدین حسن سلوک کے زیادہ مستحق ہیں تربیت اولاد کے سنہری اصول

Page 54

مشعل راه جلد پنجم 36 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: -.یہاں میں ضمناً ذکر کر دوں.گو ضمنا ہے مگر میرے نزدیک اس کا ایک حصہ ہی ہے کہ اگر والدین کی دعا اپنے بچوں کے لئے اچھے رنگ میں پوری ہوتی ہے تو وہاں ایسے بچے جو والدین کے اطاعت گزار نہ ہوں ان کے حق میں برے رنگ میں بھی پوری ہو سکتی ہے.تو ماں باپ کی ایسی دعا سے ڈرنا بھی چاہیے.بعض بچے جائیداد یا کسی معاملے میں والدین کے سامنے بے حیائی سے کھڑے ہو جاتے ہیں.مختلف لوگ لکھتے رہتے ہیں اس لئے یہ عجیب خوفناک کیفیت بعض دفعہ سامنے آجاتی ہے.اس لحاظ سے ایسے بچوں کو اس تعلیم کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ماں کے لئے تو خاص طور پر حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے.اور یہ فرمایا ہے کہ تمہارے سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق ماں ہے.یہ جو قرآن حکیم کا حکم ہے کہ والدین کو اف نہ کہو یہ اس لئے ہے کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے اور تم سمجھتے ہو کہ تمہاراحق مارا جا رہا ہے یا تمہارے ساتھ ناجائز رویہ اختیار کیا ہے ماں باپ نے.تب بھی تم نے ان کے آگے نہیں بولنا اور نہ کسی کا دماغ تو نہیں چلا ہوا کہ ماں باپ کے فیض بھی اٹھارہا ہو اور ماں باپ اس بچے کی ہر خواہش بھی پوری کر رہے ہوں تو ان کی نافرمانی کرے یا کوئی نامناسب بات کرے...تو جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے بہت سے ماں باپ اپنے بچوں کی نافرمانیوں کا ذکر کرتے ہیں اپنے خطوط میں.اس ضمن میں والدین کا جہاں فرض ہے اور سب سے بڑا فرض ہے کہ پیدائش سے لے کر زندگی کے آخری سانس تک بچوں کے نیک فطرت اور صالح ہونے کے لئے دعائیں کرتے رہیں اور ان کی جائز اور ناجائز بات کو ہمیشہ مانتے نہ رہیں اور اولاد کی تربیت اور اٹھان صرف اس نیت سے نہ کریں کہ ہماری جائیدادوں کے مالک بنیں جیسا کہ میں آگے چل کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات میں اس کا ذکر کروں گا.لیکن اس کے ساتھ ہی بچوں کو بھی خوف خدا کرنا چاہیے کہ ماؤں کے حقوق کا خیال رکھیں.باپوں کے حقوق کا خیال رکھیں.یہ نہ ہو کہ کل کو ان کے بچے ان کے سامنے اسی طرح کھڑے ہو جائیں کیونکہ آج اگر یہ نہ سمجھے اور اس امر کو نہ روکا تو پھر یہ شیطانی سلسلہ کہیں جا کر رکے گا نہیں اور کل کو یہی سلوک ان کے ساتھ بھی

Page 55

مشعل راه جلد پنجم 37 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہوسکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے اور احمدیت کی اگلی نسل پہلے سے بڑھ کر دین پر قائم ہونے والی اور حقوق ادا کرنے والی نسل ہو.الفضل انٹر نیشنل لندن 29 اگست تا 4 ستمبر 2003 صفحه 5)

Page 56

مشعل راه جلد پنجم 38 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 57

مشعل راه جلد پنجم 邀 39 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 18 / جولائی 2003ء سے اقتباس باہمی گفتگو میں دھیما پن اور وقار قائم رکھیں ٹریفک قوانین کی پابندی کریں ملکی قوانین کی بھی پوری پاسداری کریں، پوری پابندی کریں صفائی کے آداب کوملحوظ رکھیں سرڈھانپنے کی عادت کو اچھی طرح سے رواج دیں مہمانوں کی عزت واحترام اور خدمت کو اپنا شعار بنائیں نظم وضبط کا خیال رکھیں

Page 58

مشعل راه جلد پنجم 40 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :-....فضول گفتگو سے اجتناب کریں.باہمی گفتگو میں دھیما پن اور وقار قائم رکھیں.تلخ گفتگو سے اجتناب کریں، آپس میں ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں کسی بھی قسم کی تلخی پیدا نہیں ہونی چاہیے.نہ مہمانوں کی آپس میں نہ مہمانوں اور میز بانوں کی.اور نہ میز بانوں کی آپس میں.تو کسی بھی شکل میں کوئی تلخی نہ ہو.بلکہ ایک روحانی ماحول ہو جو ہر دیکھنے والے کو نظر آتا ہو.اور پھر یہ ہے کہ بعض لوگ بلند آواز سے عادتاً تو جو میں میں کر کے باتیں کر رہے ہوتے ہیں یا ٹولیوں کی صورت میں بیٹھ کر قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں.تو ان تین دنوں میں تمام چیزوں سے جس حد تک پر ہیز کر سکتے ہیں کریں.بلکہ مکمل طور پر پرہیز کرنے کی کوشش کریں.ویسے بھی یہ کوئی ایسی اچھی عادت نہیں.دوسرے مختلف قسم کے لوگ یہاں آئے ہوئے ہوتے ہیں.بعض اونچا سننے والے ہیں ، بعض زبان نہ سمجھنے والے ہیں تو دیکھنے والا بعض دفعہ باتیں کر رہا ہوتا ہے اور ان کی طرف دیکھ کر ہنس رہا ہوتا ہے جس سے بلا وجہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے.تو ان چیزوں سے بچنا چاہیے، پر ہیز کرنی چاہیے.ایک اور ضروری ہدایت یہ ہے کہ بازار بھی جلسہ کے دوران بندر ہیں گے.تو مہمان بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ بلا وجہ جن لوگوں نے دکانیں بنائی ہوئی ہیں یا سٹال لگائے ہیں ان کو مجبور نہ کریں کہ اس دوران دکانیں کھولیں یا آپ وہاں بیٹھے رہیں.اگر مجبوری ہو تو چند ضروری چیزیں مہیا ہو سکتی ہیں لیکن انتظامیہ اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ کس حد تک اجازت دینی ہے.ٹریفک قوانین کی پابندی کریں پھر ہے کہ اسلام آباد (ٹلفورڈ ) کے ماحول میں تنگ سڑکوں پر چلنے میں احتیاط اور شور وغل سے پر ہیز کریں.یہ باہر سے آنے والوں کے لئے خاص طور پر یہ بات یادر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس ماحول میں یہ نہ سمجھیں کہ آبادی نہیں ہے.تھوڑی بہت آبادی تو ہوتی ہے تو بلا وجہ شور وغل نہیں ہونا چاہیے.پھر گاڑیاں پارک

Page 59

مشعل راه جلد پنجم 41 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کرتے وقت خیال رکھیں کہ وہ لوگوں کے گھروں کے سامنے یا ممنوعہ جگہوں پر پارک نہ ہوں.نہ بیت الفضل کی سڑکوں پر اور نہ اسلام آباد میں.ٹریفک کے قواعد کو لوظ رکھیں اور جلسہ گاہ میں شعبہ پارکنگ کے منتظمین سے مکمل تعاون کریں.یہاں قیام کے دوران دوسرے ملکی قوانین کی بھی پوری پاسداری کریں ، پوری پابندی کریں ، اور بالخصوص ویزا کی میعاد ختم ہونے سے پہلے پہلے ضرور واپس تشریف لے جائیں.اور جو دوست جلسہ سالانہ کی نیت سے ویزا لے کر یہاں آئے ہیں انہیں بہر حال اس کی بہت سختی سے پابندی کرنی ہوگی.صفائی اور پردہ کے آداب پھر صفائی کے آداب ہیں.ٹائلٹ میں صفائی کو لوظ رکھیں.یادرکھیں کہ صفائی بھی ایمان کا حصہ ہے.پھر یہ ہے کہ خواتین کے لئے ہدایت ہے کہ خواتین گھومنے پھرنے میں احتیاط اور توجہ کی رعایت رکھیں.تاہم جو خواتین احمدی ( نہیں اور پردے کی ایسی پابندی نہیں کرتیں ان سے صرف پردے کی درخواست کرنا ہی کافی ہے.ہر گز کوئی زبردستی کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ہونی چاہیے.اگر کسی وجہ سے کسی احمدی کو بھی نقاب کی دقت ہو تو پھر ایسی خواتین میک اپ میں نہیں ہونی چاہئیں.سادہ رہیں کیونکہ میک اپ کرنا بہر حال مناسب نہیں.سرڈھانپنے کی عادت کو اچھی طرح سے رواج دیں.ایک ایسا ماحول پیدا ہو، خواتین کی طرف سے نظر آنا چاہیے کہ روحانی ماحول میں ہم یہ دن بسر کر رہے ہیں.پردہ نہ کرنے کے بہانے نہیں تلاش ہونے چاہئیں.اگر کوئی مجبوری ہے تو بہر حال جس حد تک حجاب ہے اس کو قائم رکھنا چاہیے اور یہ حکم بھی ہے.مہمانوں کی عزت و احترام اور خدمت کو اپنا شعار بنائیں پھر ایک ہدایت ان لوگوں کے لئے ہے جو بعض دفعہ عموماً تو یہ نہیں ہوتا لیکن بعض دفعہ بعض مقامی لوگ لفٹ دیتے ہیں مہمانوں کو اور پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں.تو بہر حال مہمان نوازی کے پیش نظر اس سے اجتناب کرنا چاہیے.پھر مہمانوں کی عزت و احترام اور خدمت کو اپنا شعار بنا ئیں اور محبت خلوص اور ایثار و قربانی کے جذبہ سے ان کی بے لوث خدمت کریں.یہ پہلے بھی میں کہہ آیا ہوں.کارکنان کو مہمانوں کے ساتھ نرم لہجہ اور خوش دلی سے بات کرنی چاہیے.....

Page 60

42 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم نظم وضبط کا خیال رکھیں اور منتظمین جلسہ سے بھر پور تعاون کریں اور ان کی ہر طرح سے اطاعت کریں.پھر ایک چیز یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ ان دنوں میں بعض دفعہ کھانے کا بہت ضیاع ہوتا ہے.کھانے کے آداب میں تو یہ ہے کہ جتنا پلیٹ میں ڈالیں اس کو مکمل ختم کریں.کوئی ضیاع نہیں ہونا چاہیے.بلا وجہ حرص میں آکر زیادہ ڈال لیا یا دیکھا دیکھی ڈال لیا.اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کریں کہ اس قسم کی کوئی حرکت نہیں ہونی چاہیے جس کا دوسروں پر برا اثر پڑ رہا ہو.اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کھانا جو ضائع ہورہا ہوتا ہے اکثر کارکنان کا یہ قصور نہیں ہوتا بلکہ لینے والے کا قصور ہوتا ہے.جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے اتنا ہی لیں جتنا آپ ختم کر سکیں لیکن کارکنان کے لئے بہر حال یہ ہدایت ہے کہ اگر کوئی مطالبہ کرتا ہے کہ مزید دو اور زیادہ لے لیتا ہے تو اسے نرمی سے سمجھائیں سختی سے کسی مہمان کو بھی انکار نہیں کرنا اور نہ یہ کسی کا رکن کا حق ہے.پیار سے کہہ سکتے ہیں کہ ختم ہو جائے تو دوبارہ آکر لے لیں.پھر صفائی کے متعلق پہلے بھی میں نے کہا تھا.غسل خانوں کی صفائی.یہاں یہ ہے کہ عمومی صفائی.کھانا جہاں آپ کھا رہے ہوں ان جگہوں پر بعض لوگ کھانا کھا کر خالی برتنوں کو وہیں رکھ جاتے ہیں اور ڈسٹ بن میں نہیں ڈالتے اور یہ معمولی سی بات ہے.ایک تو کارکنان کا کام بڑھ جاتا ہے.اس عرصہ میں وہ کوئی اور کام کر سکتے ہے.دوسرے گندگی پھیلتی ہے جو ویسے بھی حکم ہے کہ صفائی بھی ایمان کا حصہ ہے.تو جیسا کہ پہلے میں نے عرض کیا تھا کہ سڑکوں کی اور گراؤنڈز کی اور جلسہ گاہ کی صفائی کریں.تو ہر جگہ پورے ماحول کی صفائی کی ضرورت ہے.اور صفائی کا خاص طور پر خیال رکھیں.اس ماحول میں ظاہری صفائی کا بہت خیال رکھا جاتا ہے.تو بلا وجہ انتظامیہ کو بھی اعتراض کا موقع نہ دیں اور اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیں کہ صفائی کو ہر صورت میں آپ نے قائم رکھنا ہے.“ الفضل اند نیشنل 12 تا 18 ستمبر 2003 ، صفحہ 8)

Page 61

مشعل راه جلد پنجم 43 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی وقف عارضی دین کی بہت بڑی خدمت ہے حضور انور ایدہ اللہ نے جلسہ سالانہ برطانیہ 2003ء کے دوسرے روز کے خطاب میں فرمایا : - افریقہ میں جو ہمارے ہسپتال ہیں، ان میں ڈاکٹروں کی بہت ضرورت ہے.یہ بھی میں تحریک کرنا چاہتا ہوں ڈاکٹر صاحبان کو کہ اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کریں.اور کم از کم تین سال تو ضرور ہو.اور اگر اس سے اوپر جائیں چھ سال یا نو سال تو اور بھی بہتر ہے.اسی طرح فضل عمر ہسپتال ربوہ کے لئے بھی ڈاکٹر ز کی ضرورت ہے.تو ڈاکٹر صاحبان کو آج اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں عارضی وقف کی تحریک کرتا ہوں.اپنے آپ کو خدمت خلق کے اس کام میں جو جماعت احمد یہ سرانجام دے رہی ہے ، پیش کریں.اور یہ ایک ایسی خدمت ہے جس کے ساتھ دنیا تو آپ کما ہی لیں گے.دین کی بہت بڑی خدمت ہوگی.اور اس کا اجر اللہ تعالیٰ آپ کی نسلوں تک کو دیتا چلا جائے گا.انشاء الله الفضل اند نیشنل 12 تا 18 ستمبر 2003، صفحہ 3)

Page 62

مشعل راه جلد پنجم 44 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 63

مشعل راه جلد پنجم 45 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 8 /اگست 2003ء امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے ہر پہلو سے اس کی ادائیگی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپر د کرو امانت کے مضمون کو سمجھنے سے تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم ہوں گے عہدے داروں کے لئے زریں ہدایات زبان کی امانت سے کیا مراد ہے لوگوں کے معاملات آپ کے پاس امانت ہیں کسی کا کسی معاملے میں مشورہ کرنا بھی ایک امانت ہے عہدہ بھی ایک عہد ہے مجالس کے آداب

Page 64

مشعل راه جلد پنجم 46 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ النساء کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.إِنَّ اللَّهَ يَا مُرُكُمْ أَن تُؤدُّو الا منتِ إِلى اَهْلِهَا.وَ إِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ - إِنَّ اللَّهِ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا پھر فرمایا:- (سورة النساء:۵۹) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپر د کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو.یقیناً بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے.یقیناً اللہ بہت سننے والا ( اور ) گہری نظر رکھنے والا ہے.علامہ فخرالدین رازی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومنوں کو تمام امور میں امانتوں کو ادا کرنے کا ارشاد فرمایا ہے.خواہ وہ امور مذہب کے معاملات میں ہوں یا دنیوی امور اور معاملات کے بارہ میں ان کے نزدیک انسان کا معاملہ یا تو اپنے رب کے ساتھ ہوتا ہے یا بنی نوع انسان کے ساتھ یا اپنے نفس کے ساتھ اور ان تینوں اقسام میں امانت کے حق کی رعایت رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں.آپ اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے معاملات میں امانت کی رعایت کرنے کا تعلق ہے تو اس کا تعلق ان افعال کے ساتھ ہے جن کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے.یا جن افعال کے کرنے سے منع کیا گیا ہے ان کو ترک کرنے کے ساتھ.پھر کہتے ہیں کہ جہاں تک زبان کی امانت کا تعلق ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی زبان کو کذب بیانی ، غیبت، چغل خوری، نافرمانی، بدعت اور منش کے لئے نہ استعمال کرے.اور آنکھ کی امانت یہ ہے کہ انسان آنکھ کو حرام کی طرف دیکھنے میں استعمال نہ کرے اور کانوں کی امانت یہ ہے کہ انسان ان کو بیہودہ

Page 65

مشعل راه جلد پنجم 47 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کلامی اور ایسی باتوں کے سننے میں استعمال نہ کرے جن سے منع کیا گیا ہے.نیز نخش کلامی اور جھوٹی باتوں کے سننے سے پر ہیز کرے.پھر دوسری بات لکھتے ہیں کہ:- جہاں تک امانت کا تمام مخلوقات کو ادا کرنے کا تعلق ہے اس میں ماپ تول میں کمی کو ترک کرنا، اور یہ کہ لوگوں میں ان کے عیوب نہ پھیلائے جائیں اور امراء اپنی رعیت کے ساتھ عدل سے فیصلے کریں.عوام الناس کے ساتھ علماء کے عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ عوام کو باطل تعصبات پر نہ ابھاریں بلکہ وہ ایسے اعتقادات اور اعمال کے بارہ میں ان کی ایسی رہنمائی کریں جو ان کی دنیا اور آخرت میں ان کے لئے نفع رساں ہوں..اب آج کل کے علماء ہماری بات تو نہیں سنتے.علامہ فخر الدین رازی کی اس بات پر ہی غور کریں اور اس پر عمل کریں تو دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے.پھر تیسری بات لکھتے ہیں کہ جہاں تک امانت کا تعلق انسان کے اپنے نفس کے بارہ میں ہے تو وہ یہ ہے کہ انسان اپنے لئے صرف وہی پسند کرے جو زیادہ نفع رساں اور زیادہ مناسب ہو اس کے دین کے لئے اور دنیا کے لئے.اور یہ کہ وہ اپنی خواہشات کا تابع ہوکر یا غضبناک ہوکر کوئی ایسا فعل نہ کرے جو اس کو آخرت میں تکلیف پہنچائے.اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارہ میں دریافت کیا جائے گا.ارشاد الہی يَا مُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الا مُنْتِ إِلَى أَهْلِهَا میں یہ سب ( تفسیر کبیر رازی) باتیں داخل ہیں.اب اگر ہم دیکھیں تو یہ جو تین صورتیں بیان کی گئی ہیں ہر انسان کے معاملات میں تقریباً ان صورتوں کے گرد ہی اس کی زندگی گھوم رہی ہے.لیکن اس آیت کے آخر پر جو بات بیان ہوئی ہے اس کی میں پہلے وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس آیت کے آخر پر فرماتا ہے کہ جو میں تمہیں حکم دے رہا ہوں وہ انتہائی بنیادی حکم ہے.اگر تم اس پر عمل کرتے رہے تو کامیابیاں تمہاری ہیں.ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ جب خدا تعالی تمہیں کسی بات کا حکم دیتا ہے تو حکم کر کے چھوڑ نہیں دیتا بلکہ تم پر گہری نظر رکھنے والا بھی ہے.کہیں اس کے احکام کی ادائیگی میں تم خیانت تو نہیں کر رہے.اگر خیانت کر رہے ہو تو اس کے جو منطقی نتائج سامنے آنے

Page 66

مشعل راه جلد پنجم 48 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی چاہئیں جو نکلنے چاہئیں وہ تو نکلیں گے اور ساتھ ہی جو امانت تمہارے سپرد کی گئی ہے وہ بھی تم سے واپس لے لی جائے گی.تم خدمت سے محروم کر دیئے جاؤ گے.ایک اعزاز تمہیں ملا تھا وہ تم سے چھین لیا جائے گا کیونکہ جن کے تم نگران بنائے گئے ہو ان کی دعاؤں کو اگر وہ نیک اور متقی ہیں اللہ تعالی سنتا ہے اور اپنی مخلوق پر ظلم اور زیادتی کی تمہیں اجازت نہیں دے گا.تو جیسے کہ پہلے میں نے بیان کیا ہے کہ وہ نصیحت ہے کیا جس پر تم نے کار بند ہونا ہے.وہ باتیں ، وہ حکم ہے کیا جن پر ہم نے عمل درآمد کرنا ہے.تو پہلی بات تو یہ ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کے سپر د کر و.اب وہ کونسی امانتیں ہیں جو ہمارے پاس خدا تعالیٰ نے رکھی ہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے سپرد کرو جو کہ صحیح حقدار ہیں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ :- حکومت وقت کی اطاعت کی جائے.یہی رعایا کی لوگوں کی طرف سے ادائے امانت ہے اور پھر حکام کی طرف سے، افسران کی طرف سے امانت کا ادا کرنا، اپنی رعایا کی ، اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا ، ان کے حقوق کا خیال رکھنا ، حکام اور افسران کی طرف سے امانت کی صحیح ادائیگی ہے.ہمارے نظام جماعت میں عہد یداروں کا نظام مختلف سطحوں پر ہے.اس زمانے میں ہر احمدی جہاں، جس ملک میں رہتا ہے اس ملک میں دنیاوی سطح پر امانتیں اہل لوگوں کے سپر د کر نے کی کوشش کرتا ہے ، ان تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے.اور اس کا فرض ہے کہ اپنے اس فرض کی صحیح ادا ئیگی کرے اور حق دار لوگوں تک اس امانت کو پہنچائے وہاں نظام جماعت بھی ہر احمدی سے خواہ عہدیدار ہو یا عام احمدی اس سے یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی امانتوں کی صحیح ادا ئیگی کرے.امانت کا صحیح حق استعمال کریں اب سب سے پہلے تو افراد جماعت ہیں جو نظام جماعت چلانے کے لئے عہد یدار منتخب کرتے ہیں.ان کا کیا فرض ہے ، انہوں نے کس طرح جماعت کی اس امانت کو جوان کے سپرد کی گئی ہے صحیح حقداروں تک پہنچانا ہے.تو اس کے لئے جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں انتخابات سے پہلے قواعد بھی پڑھ کر سنائے جاتے ہیں، عموماً یہ جماعتی روایت ہے.دعا کر کے اپنے ووٹ کے صحیح استعمال کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر آپ کس کو ووٹ دیتے ہیں یا کم از کم یہی ایک متقی کی کوشش ہونی چاہیے کہ اس کو ووٹ دیا جائے جو آپ کے نزدیک سب

Page 67

مشعل راه جلد پنجم 49 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سے زیادہ اللہ کا خوف رکھنے والا.لا ہے.جس عہدے کے لئے منتخب ہو رہا ہے اس کا کچھ نہ کچھ علم بھی اس کو ہو.پھر جماعت کے کاموں کے لئے وقت بھی دے سکتا ہو.جس حد تک اس کی طاقت میں ہے وقت کی قربانی بھی دے سکتا ہو.پھر صرف اس لئے کسی کو عہدیدار نہ بنائیں کہ وہ آپ کا عزیز ہے یا دوست ہے.اور اتنا مصروف ہے کہ جماعتی کاموں کے لئے وقت نکالنا مشکل ہے.لیکن عزیز اور دوست ہونے کی وجہ سے اس کو عہد یدار بنانے کی کوشش کی جائے تو یہ ہے امانت کے حقدار کو امانت کو صحیح طرح نہ پہچانا.اس نیت سے جب انتخابات ہوں گے کہ صحیح حقدار کو یہ امانت پہنچائی جائے تو اس میں برکت بھی پڑے گی ، انشاء اللہ اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے والے، نہ کہ اپنے اوپر ناز کرنے والے، اپنے آپ کو کسی قابل سمجھنے والے عہدیدار او پر آئیں گے.اور جن کے ہر کام میں عاجزی ظاہر ہوتی ہوگی اور یہی لوگ آپ کے حقوق کا صحیح خیال رکھنے والے بھی ہوں گے.اور نظام جماعت کو صحیح نہج پر چلانے والے بھی ہوں گے.بعض دفعہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں عہد یدار بناؤ.ان کے بارہ میں یہ حدیث ہے جو حضرت خلیفہ المسح الاول نے حقائق الفرقان میں کوٹ (Quote) کی ہے کہ:- حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برود و شخص آئے کہ ہمیں کام سپر د کیجیے.ہم اس کے اہل ہیں.فرمایا : جن کو ہم حکم فرما دیں ، خدا ان کی مدد کرتا ہے ، جو خود کام کو اپنے سر پر لے، اس کی مددنہیں ہوتی.پس تم عہدے اپنے لئے خود نہ مانگو ( حقائق الفرقان جلد نمبر ۲ صفحه۳۰) لوگوں کے معاملات آپ کے پاس امانت ہیں پھر عہد یداران میں ان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے بلکہ جماعت کا ہر کارکن یہ بات یادر کھے کہ اگر کسی دفتر میں کسی عہدیدار کے پاس کوئی معاملہ آتا ہے یا کسی کارکن کے علم میں کوئی معاملہ آتا ہے چاہے وہ ان کی نظر میں انتہائی چھوٹے سے چھوٹا معاملہ ہو.وہ اس کے پاس امانت ہے اور اس کو حق نہیں پہنچتا کہ اس سے آگے یہ معاملہ لوگوں تک پہنچے.ایک راز ہے ، ایک امانت ہے، پھر کسی کی کمزوریوں کو اچھالنا تو ویسے بھی ناپسندیدہ فعل ہے اور منع ہے بڑی سختی سے منع ہے.اور بعض دفعہ تو یہ ہوتا ہے کہ کسی بات کا وجود ہی نہیں ہوتا اور وہ بات بازار میں گردش کر رہی ہوتی ہے.اور جب تحقیق کرو تو پتہ چلتا ہے کہ فلاں کارکن نے فلاں سے بالکل اور رنگ میں کوئی بات کی تو جو کم از کم نہیں تو سو سے ضرب کھا کر باہر گردش کر رہی ہوتی ہے.تو جس کے متعلق بات

Page 68

مشعل راه جلد پنجم 50 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کی جاتی ہے جب اس تک یہ بات پہنچتی ہے تو طبعی طور پر اس کے لئے تکلیف کا باعث ہوتی ہے.اول تو بات اس طرح ہوتی نہیں اور اگر ہے بھی تو تمہیں کسی کی عزت اچھالنے کا کس نے اختیار دیا ہے.کسی کا کسی معاملہ میں مشورہ کرنا بھی ایک امانت ہے پھر مشورے ہیں اگر کوئی کسی عہدیدار سے یا کسی بھی شخص سے مشورہ کرتا ہے تو یہ بالکل ذاتی چیز ہے، ایک امانت ہے.تمہارے پاس ایک شخص مشورہ کے لئے آیا تم نے اپنی عقل کے مطابق اسے مشورہ دیا تو تم نے امانت لوٹانے کا حق ادا کر دیا.اب تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ اس مشورہ لینے والے کی بات آگے کسی اور سے کرو.اور اگر کرو گے تو یہ خیانت کے زمرے میں آجائے گی.عہدیداران کو بھی ، کارکنان کو بھی اس حدیث کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرنا.سائل نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ان کے ضائع ہونے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: جب نااہل لوگوں کو حکمران بنایا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا.رض ( بخاری.کتاب الرقاق.باب رفع الامانة ) پھر طبرانی کبیر میں یہ روایت آئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میں امانت نہیں، اس میں ایمان نہیں ، جس کو عہد کا پاس نہ ہو اس میں دین نہیں، اس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے کسی بندے کا اس وقت تک دین درست نہ ہو گا جب تک اس کی زبان درست نہ ہو.اور اس کی زبان درست نہ ہوگی جب تک اس کا دل درست نہ ہوگا.اور جو کوئی کسی ناجائز کمائی سے کوئی مال پائے گا اور اس میں سے خرچ کرے گا تو اس کو اس میں برکت نہیں دی جائے گی ، اور اگر اس میں سے خیرات کرے گا تو قبول نہیں ہوگی اور جو اس میں سے بیچ رہے گا وہ اسے دوزخ کی طرف لے جانے کا موجب ہوگا.بری چیز بری چیز کا کفارہ نہیں بن سکتی، البتہ اچھی چیز اچھی چیز کا کفارہ ہوتی ہے.عہدہ بھی ایک عہد ہے (کنز العمال - جلد دوم صفحہ ۱۵.حیدرآباد) ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے عہدیداران کو ، کارکنان کو کہ عہدہ بھی ایک عہد ہے، خدمت بھی ایک عہد ہے جو خدا

Page 69

51 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم اور اس کے بندوں سے ایک کارکن ، ایک عہدیدار، اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے کرتا ہے.اگر ہر عہد یدار یہ سمجھنے لگ جائے کہ نہ صرف قول سے بلکہ دل کی گہرائیوں سے اس بات پر قائم ہو کہ خدمت دین ایک فضل الہی ہے.میری غلط سوچوں سے یہ فضل مجھ سے کہیں چھن نہ جائے تو ہماری ترقی کی رفتار اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے.ہم سب کے لئےلمحہ فکر یہ ہے، ایک سوچنے کا مقام ہے کہ امانت ایمان کا حصہ ہے ، اگر امانت کی صحیح ادا ئیگی نہیں کر رہے، اگر اپنے عہد پر میچ طرح کار بند ہیں، جو حدود تمہارے لئے متعین کی گئی ہیں ان میں رہ کر خدمت انجام نہیں دے رہے تو اس حدیث کی رو سے ایسے شخص میں دین ہی نہیں اور دین کو درست کرنے کے لئے اپنی زبان کو درست کرنا ہوگا.اور فرمایا کہ زبان اس وقت تک درست نہ ہوگی جب تک دل درست نہ ہوگا اور پھر ایک کڑی سے دوسری کڑی ملتی چلی جائے گی.تو حسین معاشرے کو قائم رکھنے کے لئے ان تمام امور کی درستگی ضروری ہے.ایک بات اور واضح ہو کہ صرف منہ سے یہ کہہ دینے سے کہ میرا دل درست ہے، کافی نہیں.ہر وقت ہم میں سے ہر ایک کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے.وہ ہماری پاتال تک سے واقف ہے.وہ سمیع و بصیر ہے اس لئے اپنے تمام قبلے درست کرنے پڑیں گے.تو خدمت دین کرنے کے مواقع بھی ملتے رہیں گے.تو یہ تقویٰ کے معیار قائم رہیں گے تو نظام جماعت بھی مضبوط ہوگا اور ہوتا چلا جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ.تقویٰ کے ساتھ کام کرنے والوں کے لئے بشارت ایسے عہد یدار جو پورے تقویٰ کے ساتھ خدمت سرانجام دیتے ہیں اور دے رہے ہیں ان کے لئے ایک حدیث میں جو میں پڑھتا ہوں ، ایک خوشخبری ہے.حضرت ابوموسی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- کہ وہ مسلمان جو مسلمانوں کے اموال کا نگران مقرر ہوا،اگر وہ امین اور دیانتدار ہے اور جو اسے حکم دیا جاتا ہے اسے صحیح صحیح نافذ کرتا ہے اور جسے کچھ دینے کا حکم دیا جاتا ہے اسے پوری بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ اس کا حق سمجھتے ہوئے دیتا ہے تو ایسا شخص بھی عملاً صدقہ دینے والے

Page 70

مشعل راه جلد پنجم 52 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کی طرح صدقہ دینے والا شمار ہوگا.(مسلم کتاب الزكوة ) تو دیکھیں نیکی سے کس طرح نیکیاں نکلتی چلی جارہی ہیں.خدا کی جماعت کی خدمت کا موقع بھی ملا، خدا کی مخلوق کی خدمت کا موقع بھی ملا حکم کی پابندی کر کے، امانت کی ادائیگی کر کے صدقے کا ثواب بھی کما لیا.بلاؤں سے بھی اپنے آپ کو محفوظ کرلیا، اور اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہوگئی.مجالس کے آداب پھر مجالس کی امانتیں ہیں.کسی مجلس میں اگر آپ کو دوست سمجھ کر، اپنا سمجھ کر آپ کے سامنے باتیں کر دی جائیں تو ان باتوں کو باہر لوگوں میں کرنا بھی خیانت ہے.پھر مجالس میں کسی کے عیب دیکھیں، کسی کی کوئی کمزوری دیکھیں تو اس کو باہر پھیلانا کسی طرح بھی مناسب نہیں.جب کہ کسی اور شخص کو بھی بتانا جس کا اس مجلس سے تعلق نہ ہو یہ بھی خیانت ہے.ایک بات اور واضح ہو اور ہر وقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر کسی مجلس میں نظام کے خلاف یا نظام کے کسی رکن کے خلاف باتیں ہورہی ہوں تو اس کو پہلے تو وہیں بات کرنے والے کو سمجھا کر اس بات کو ختم کر دینا زیادہ مناسب ہے اور وہیں اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے.اگر اصلاح کی کوئی صورت نہ ہو تو پھر بالا افسران تک اطلاع کرنی چاہیے.لیکن بعض دفعہ بعض کارکن بھی اس میں Involve ہو جاتے ہیں.پتہ نہیں آج کل کے حالات کی وجہ سے مردوں کے اعصاب پر بھی زیادہ اثر ہو جاتا ہے یا مردوں کو بھی بلا سوچے سمجھے عورتوں کی طرح باتیں کرنے کی عادت پڑ گئی ہے.اس میں بعض اوقات اچھے بھلے سلجھے ہوئے کارکن بھی شامل ہو جاتے ہیں اور ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں اور اس طرح غیر محسوس طور پر ایک کارکن دوسرے کارکن کے متعلق بات کر کے یا ایک عہدیدار دوسرے بالا عہد یدار کے متعلق بات کر کے یا اپنے سے کم عہد یدار کے متعلق بات کر کے لوگوں کے لئے فتنے کا موجب بن رہا ہوتا ہے.کمز ورطبیعت والے ایسی باتوں کا خواہ وہ چھوٹی باتیں ہی ہوں، برا اثر لیتے ہیں.اور ایسے کارکنوں کو بھی جو اپنے ساتھی عہدیداران کے متعلق باتیں کرنے کی عادت پڑ جائے تو منافق بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نظام بھی متاثر ہوتا ہے.اس لئے تمام کارکنان اور عہدیداران کو جو ایسی باتیں خواہ مذاق کے رنگ میں ہوں ، کرتے ہیں ان کو اپنے عہدوں اور اپنے مقام کی وجہ سے ایسی باتیں کرنے سے پر ہیز کرنا چاہیے.اور ایسی مجلسوں میں بیٹھنے

Page 71

مشعل راه جلد پنجم 53 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی والوں کے لئے یہاں اجازت ہے.اب ویسے تو مجلس کی باتیں امانت ہیں باہر نہیں نکلنی چاہئیں.لیکن اگر نظام کے خلاف باتیں ہورہی ہوں تو یہاں اجازت ہے کہ چاہے وہ اگر نظام کے متعلق ہے یا نظام کے کسی عہد یدار کے متعلق ہیں اور اس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اس میں کئی اعتراض کے پہلوا بھر سکتے ہیں ، نکل سکتے ہیں تو اس کو افسران بالا تک پہنچانا چاہیے.اور ایک حدیث میں اس کی اس طرح اجازت ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجالس کی گفتگو امانت ہے سوائے تین مجالس کے.ایسی مجالس جہاں خون بہانے والوں کے باہمی مشورہ کی مجلس ہو.پھر وہ مجلس جس میں بدکاری کا منصوبہ بنے.اور پھر وہ مجلس جس میں کسی کا مال ناحق دبانے کا منصوبہ بنایا جائے.تو جہاں ایسی سازشیں ہو رہی ہوں جس سے کسی کو نقصان پہنچے کا اندیشہ ہو، ایسی باتیں سن کر متعلقہ لوگوں تک یا افسران تک پہنچانا یہ امانت ہے.ان کو نہ پہنچانا خیانت ہو جائے گی.تو نظام کے متعلق جو باتیں ہیں وہ بھی اسی زمرہ میں آتی ہیں کہ اگر کوئی نظام کے خلاف بات کر رہا ہو اور بالا افسران تک نہ پہنچائیں.اعلیٰ اخلاق کے نمونے پیش کریں پھر بعض دفعہ عہد یدار ان کے خلاف شکایات پیدا ہوتی ہیں تو بعض اوقات یہ صرف غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں.یا بعض دفعہ کسی نے اپنے ذاتی بغض کی وجہ سے کسی عہد یدار کے ساتھ ہے اپنے ماحول میں بھی لوگ اس عہد یدار کے خلاف باتیں کر کے لوگوں کو اس کے خلاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ایسی صورت میں بھی آپ کو چاہیے کہ امانتیں ان کے صحیح حقداروں تک پہنچائیں.یعنی با تیں بالا افسران تک ،عہد یداران تک ، نظام تک پہنچائیں.لیکن تب بھی یہ کوئی حق نہیں پہنچتا بہر حال کہ ادھر ادھر بیٹھ کر باتیں کی جائیں.بلکہ جس کے خلاف بات ہورہی ہے مناسب تو یہی ہے کہ اگر آپ کی اس عہد یدار تک پہنچ ہے تو اس تک بات پہنچائی جائے کہ تمہارے خلاف یہ باتیں سننے میں آرہی ہیں.اگر صحیح ہیں تو اصلاح کر لو اور اگر غلط ہیں تو جو بھی صفائی کا طریقہ اختیار کرنا چاہتے ہوکرو.کسی کی پیٹھ پیچھے بات کرنا غیبت کے زمرہ میں آتا ہے پھر کسی کی پیٹھ پیچھے باتیں کرنے والوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ باتیں صحیح ہیں یا غلط یہ غیبت یا

Page 72

مشعل راه جلد پنجم 54 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جھوٹ کے زمرے میں آتی ہیں.اور غیبت کرنے والوں کو اس حدیث کو یا درکھنا چاہیے کہ اگلے جہان میں ان کے ناخن تانبے کے ہو جائیں گے جس سے وہ اپنے چہرے اور سینے کا گوشت نوچ رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.ہم اسی وقت سچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خداوند منعم نے ہمیں دیا ہے ہم اس کو واپس دیں یا واپس دینے کے لئے تیار ہو جائیں.ہماری جان اس کی امانت ہے اور وہ فرما تا ہے تُؤدُّوا الأمنتِ إِلى أَهْلِهَا " تغییر فرموده حضرت مسیح موعود" جلد دوم صفحه ۲۴۵، جدید ایڈیشن) آپ مزید فرماتے ہیں:.رکھتا.امانتوں کو ان کے حقداروں کو واپس دے دیا کرو.خدا خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں پھر آپ نے فرمایا:- مومن وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہیں یعنی ادائے امانت اور ایفائے عہد کے بارہ میں کوئی دقیقہ تقویٰ اور احتیاط کا باقی نہیں چھوڑتے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کا نفس اور اس کے تمام قومی اور آنکھ کی بینائی اور کانوں کی شنوائی اور زبان کی گویائی اور ہاتھوں اور پیروں کی قوت یہ سب خدا تعالیٰ کی امانتیں ہیں جو اس نے ہمیں دی ہیں اور جس وقت چاہے اپنی امانت کو واپس لے سکتا ہے.پس ان تمام امانتوں کی رعایت رکھنا یہ ہے کہ باریک در بار یک تقویٰ کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی خدمت میں نفس اور اس کے تمام قومی اور جسم اور اس کے تمام قومی اور جوارح سے لگایا جائے اس طرح پر کہ گویا یہ تمام چیزیں اس کی نہیں بلکہ خدا کی ہو جائیں.اور اس کی مرضی اس کی نہیں بلکہ خدا کی مرضی کے موافق ان تمام قومی اور اعضاء کا حرکت اور سکون ہو.اور اس کا ارادہ کچھ بھی نہ رہے بلکہ خدا کا ارادہ اس میں کام کرے اور خدا تعالی کے ہاتھ میں اس کا نفس ایسا ہو جیسا کہ مردہ زندہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے.اور یہ خودرائی سے بے دخل ہو ( یعنی اپنا وجود ہی نہ ہو).اور خدا تعالیٰ کا پورا تصرف اس کے وجود پر ہو جائے.یہاں تک کہ اسی سے دیکھے اور اسی سے سنے اور اسی سے بولے اور اسی سے حرکت یا سکون کرے.اور نفس کی دقیق در دقیق آلائشیں جو کسی خورد بین سے بھی نظر نہیں آسکتیں دور ہو کر فقط روح رہ جائے.غرض مہیمنت خدا کی اس کا احاطہ کر لے.( یعنی

Page 73

مشعل راه جلد پنجم 55 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی انسان خدا تعالیٰ کے مکمل طور پر قبضہ میں ہو ).اور اپنے وجود سے اس کو کھودے اور اس کی حکومت اپنے وجود پر کچھ نہ رہے اور سب حکومت خدا کی ہو جائے اور انسانی جوش سب مفقود ہو جائیں.اور تمام آرزوئیں اور تمام ارادے اور تمام خواہشیں خدا میں ہو جائیں.اور نفس امارہ کی تمام عمارتیں منہدم کر کے خاک میں ملا دی جائیں.اور ایک ایسا پاک محل تقدس اور تطہیر کا دل ہی دل میں تیار کیا جاوے جس میں حضرت عزت نازل ہو سکیں اور اس کی روح اس میں آباد ہو سکے.اس قدر تکمیل کے بعد کہا جائے گا کہ وہ امانتیں جو منعم حقیقی نے انسان کو دی تھیں وہ واپس کی گئیں تب ایسے شخص کو یہ آیت صادق آئے گی.وَالَّذِينَ هُمْ لا منتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ “.(مومنون: ٩) پھر آپ فرماتے ہیں:- انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حسن ہیں.ایک حسن معاملہ اور وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی تمام امانتوں اور عہد کے ادا کرنے میں یہ رعایت رکھے کہ کوئی عمل حتی الوسع ان کے متعلق فوت نہ ہو.جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں ” رَاعُونَ “ کا لفظ اسی طرف اشارہ کرتا ہے ایسا ہی لازم ہے کہ انسان مخلوق کی امانتوں اور عہد کی نسبت بھی یہی لحاظ رکھے یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد میں تقویٰ سے کام لے جو حسن معاملہ ہے.یا یوں کہو کہ روحانی خوبصورتی ہے“.آپ مزید فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے.چنانچہ {لبَاسُ التَّقْولی ) قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی انکے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقد ور کار بند ہو جائے“.فرمایا:- امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قومی اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے اور پھر انسان کامل برطبق آیت {إِنَّ اللَّهَ يَا مُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الأمنتِ إِلى اَهْلِهَا }.اس ساری امانت کو جناب الہی

Page 74

مشعل راه جلد پنجم 56 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کے راہ میں وقف کر دیتا ہے.اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید ، ہمارے مولیٰ ، ہمارے ہادی، نبی امی صادق اور مصدوق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۶۱ ۱۶۲) پس یا درکھیں کہ امانت کی بہت بڑی اہمیت ہے.اور جتنے زیادہ عہدیداران جماعت اور افراد جماعت گہرائی میں جا کر امانت کے مطلب کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اتنے ہی زیادہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم ہوتے چلے جائیں گے.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے اعلیٰ معیار قائم ہوں گے.نظام جماعت مضبوط ہوگا، نظام خلافت مضبوط ہوگا.آپ کی نظام سے وابستگی قائم رہے گی.خلافت کے نظام کو مضبوط کرنے کے لئے خلیفہ وقت کی تو ہمیشہ یہی دعا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے متقیوں کا امام بنائے.تو پھر ان دعاؤں کے مورد، ان کے حامل تو وہی لوگ ہوں گے جو اپنی امانتوں کا پاس کرنے والے، اپنے عہدوں کا پاس کرنے والے، اپنے خدا سے وفا کرنے والے ہوتے ہیں اور تقویٰ پر قائم رہنے والے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو یہ معیار قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.(ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل 3 تا 9 /اکتوبر 2003 صفحه 5 تا 7)

Page 75

مشعل راه جلد پنجم 57 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اگر اپنی زندگیوں کو خوش گوار بنانا ہے تو دعاؤں پر زور دیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 15 اگست 2003ء میں ارشاد فرمایا : - معاشرے میں آجکل بہت سارے جھگڑوں کی وجہ طبیعتوں میں بے چینی اور مایوسی کی وجہ سے ہوتی ہے.جو حالات کی وجہ سے پیدا ہوتی رہتی ہے.اور یہ مایوسی اور بے چینی اس لئے بھی زیادہ ہوگئی ہے کہ دنیا داروں اور مادیت پرستی اور دنیاوی چیزوں کے پیچھے دوڑنے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہوگئی ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات پر تو کل کم ہو گیا ہے.اور دنیاوی ذرائع پر انحصار زیادہ ہوتا جارہا ہے.اس لئے اگر اپنی زندگیوں کو خوشگوار بنانا ہے تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دعاؤں پر زور دیں اور اسی سے آپ کی دنیا اور عاقبت دونوں سنوریں گی.اور یہی تو کل جو ہے آپ کا آپ کی زندگی میں بھی اور آپ کی نسلوں میں بھی آپ کے کام آئے گا.“ الفضل انٹر نیشنل 10 تا 16 اکتوبر 2003، صفحہ 8

Page 76

مشعل راه جلد پنجم 58 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی احمدی کو تکبر سے بھی بچنا چاہیے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 29 اگست 2003ء بمقام شیورٹ ہالے فرینکفورٹ میں فرمایا :- تکبر آخر کار انسان کو خدا کے مقابل پر کھڑا کر دیتا ہے.جب خدا کا شریک بنانے والے کو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ معاف نہیں کروں گا.تو پھر جو خود خدائی کا دعویدار بن جائے اس کی کس طرح بخشش ہو سکتی ہے؟ تو یہ تکبر ہی تھا جس نے مختلف وقتوں میں فرعون صفت لوگوں کو پیدا کیا.اور پھر ایسے فرعونوں کے انجام آپ نے پڑھے بھی اور اس زمانہ میں دیکھے بھی.تو یہ بڑا خوف کا مقام ہے.ہر احمدی کو ادنی سے تکبر سے بھی بچنا چاہیے.کیونکہ یہ پھر پھیلتے پھیلتے پوری طرح انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ وارننگ دے دی ہے، واضح کر دیا ہے کہ یہ میری چادر ہے، میں رب العالمین ہوں ، کبریائی میری ہے، اس کو تسلیم کرو.عاجزی دکھاؤ.اگر ان حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کرو گے تو عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے.اگر رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہے تو عذاب تمہارا مقدر ہے.لیکن ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دے دی کہ اگر ذرہ بھر بھی تمہارے اندر ایمان ہے تو میں تمہیں آگ کے عذاب سے بچالوں گا.“ الفضل انٹر نیشنل 24 تا 30 اکتوبر 2003 صفحہ 6)

Page 77

مشعل راه جلد پنجم 59 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 12 ستمبر 2003ء سے اقتباس غرباء کی عزت نفس کا خیال رکھیں اپنے بھائیوں کی عیب پوشی کریں احمدی خدمت خلق اور خدمت انسانیت کے میدان میں ڈاکٹرز ، وکلاء اور ٹیچر ز کے لئے وقف عارضی کی تحریک آئندہ نسلیں بھی خلافت سے محبت اور وفا کا تعلق لے کر پروان چڑھیں گی

Page 78

مشعل راه جلد پنجم 60 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تشہد، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سید نا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:- غرباء کی عزت نفس کا خیال رکھیں بعض لوگ اپنے کسی ضرورت مند بھائی کی مدد کرتے ہیں تو احسان جتا کے کر رہے ہوتے ہیں بلکہ بعض تو ایسی عجیب فطرت کے ہیں کہ تھنے بھی اگر دیتے ہیں تو اپنی استعمال شدہ چیزوں میں سے دیتے ہیں یا پہنے ہوئے کپڑوں کے دیتے ہیں تو ایسے لوگوں کو اپنے بھائیوں ، بہنوں کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے بہتر ہے کہ اگر توفیق نہیں ہے تو تحفہ نہ دیں یا یہ بتا کر دیں کہ یہ میری استعمال شدہ چیز ہے اگر پسند کر و تو دوں پھر بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہم غریب بچیوں کی شادیوں کے لئے اچھے کپڑے دینا چاہتے ہیں جو ہم نے ایک آدھ دن پہنے ہوئے ہیں اور پھر چھوٹے ہو گئے یا کسی وجہ سے استعمال نہیں کر سکے تو اسکے بارے میں واضح ہو کہ چاہے ایسی چیزیں ذیلی تنظیموں، لجنہ وغیرہ کے ذریعہ یا خدام الاحمدیہ کے ذریعہ ہی دی جارہی ہوں یا انفرادی طور پر دی جا رہی ہوں تو ان ذیلی تنظیموں کو بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اگر ایسے لوگ چیزیں دیں تو غریبوں کی عزت کا خیال رکھیں اور اس طرح ، اس شکل میں دیں کہ اگر وہ چیز دینے کے قابل ہے تو دی جائے.یہ نہیں کہ ایسی اترن جو بالکل ہی نا قابل استعمال ہو وہ دی جائے.داغ لگے ہوں، پسینے کی بو آ رہی ہو کپڑوں میں سے.تو غریب کی بھی ایک عزت ہے اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور ایسے کپڑے اگر دیے جائیں تو صاف کروا کر ، دھلا کر ٹھیک کروا کر ، پھر دیے جائیں.اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہمارے ذیلی تنظیمیں بھی لجنہ وغیرہ بھی دیتی ہیں کپڑے.تو جن لوگوں کو یہ چیزیں دینی ہوں ان پر واضح کیا جانا چاہیے کہ یہ استعمال شدہ چیزیں ہیں.تاکہ جو لے اپنی خوشی سے لے.ہر ایک کی عزت نفس ہے.میں نے جیسے پہلے بھی عرض کیا ہے اس کا بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور بہت خیال رکھنا چاہیے.

Page 79

مشعل راه جلد پنجم اپنے بھائیوں کی عیب پوشی کریں 61 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اپنے بھائیوں کی پردہ پوشی کرو، ان کی غلطی کو پکڑ کر اس کا اعلان نہ کرتے پھرو.پتہ نہیں تم میں کتنی کمزوریاں ہیں اور عیب ہیں.جن کا حساب روز آخر دینا ہوگا.تو اگر اس دنیا میں تم نے اپنے بھائیوں کی عیب پوشی کی ہوگی ، ان کی غلطیوں کو دیکھ کر اس کا چرچا کرنے کی بجائے اس کا ہمد در بن کر اس کو سمجھانے کی کوشش کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ تم سے بھی پردہ پوشی کا سلوک کرے گا.تو یہ حقوق العباد ہیں جن کو تم ادا کرو گے تو اللہ تعالی کے فضلوں کے وارث ٹھہرو گے.احمدی خدمت خلق اور خدمت انسانیت کے میدان میں پھر فرمایا:- ’ یہ جماعت احمدیہ کا ہی خاصہ ہے کہ جس حد تک توفیق ہے خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے.اور جو وسائل میسر ہیں ان کے اندر رہ کر جتنی خدمت خلق اور خدمت انسانیت ہو سکتی ہے کرتے ہیں.انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی.تو احباب جماعت کو جس حد تک توفیق ہے بھوک مٹانے کے لئے ،غریبوں کے علاج کے لئے تعلیمی امداد کے لئے ،غریبوں کی شادیوں کے لئے ، جماعتی نظام کے تحت مدد میں شامل ہو کر بھی عہد بیعت کو نبھاتے بھی ہیں، اور نبھانا چاہیے بھی“.اللہ کرے ہم کبھی ان قوموں اور حکومتوں کی طرح نہ ہوں جو اپنی زائد پیداوار ضائع تو کر دیتی ہیں لیکن دُکھی انسانیت کے لئے صرف اس لئے خرچ نہیں کرتیں کہ ان سے ان کے سیاسی مقاصد اور مفادات وابستہ نہیں ہوتے یا وہ مکمل طور پر ان کی ہر بات ماننے اور ان کی Dictation لینے پر تیار نہیں ہوتے ،اور سزا کے طور پر ان قوموں کو بھوکا اور ننگا رکھا جا رہا ہے اور نگا رکھا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو پہلے سے بڑھ کر خدمت انسانیت کی توفیق عطا فرمائے.ڈاکٹر ز ، وکلاء اور ٹیچر ز کے لئے وقف عارضی کی تحریک یہاں ایک اور بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جماعتی سطح پر یہ خدمت انسانیت حسب توفیق ہو رہی ہے.مخلصین جماعت کو خدمت خلق کی غرض سے اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے وہ بڑی بڑی رقوم بھی دیتے ہیں جن

Page 80

مشعل راه جلد پنجم 62 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سے خدمت انسانیت کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ میں بھی اور ربوہ اور قادیان میں بھی واقفین ڈاکٹر اور اساتذہ خدمت بجالا رہے ہیں.لیکن میں ہر احمدی ڈاکٹر ، ہر احمدی ٹیچر اور ہر احمدی وکیل اور ہر وہ احمدی جو اپنے پیشے کے لحاظ سے کسی بھی رنگ میں خدمت انسانیت کر سکتا ہے، غریبوں اور ضرورت مندوں کے کام آ سکتا ہے، ان سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ضرور غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آنے کی کوشش کریں.تو اللہ تعالیٰ آپ کے اموال ونفوس میں پہلے سے بڑھ کر برکت عطا فرمائے گا انشاء اللہ.اگر آپ سب اس نیت سے یہ خدمت سر انجام دے رہے ہوں کہ ہم نے زمانے کے امام کے ساتھ ایک عہد بیعت باندھا ہے جس کو پورا کرنا ہم پر فرض ہے تو پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کی کس قدر بارش ہوتی ہے جس کو آپ سنبھال بھی نہیں سکیں گے.آئندہ نسلیں بھی خلافت سے محبت اور وفا کا تعلق لے کر پروان چڑھیں گی پھر فرمایا:- آخر میں میں جماعت احمدیہ جرمنی میں کام کرنے والے کارکنان کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.جرمنی میں خطبہ کے دوران میں کسی وجہ سے کہہ نہیں سکا تھا.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام کارکنان اور کارکنات نے انتہائی جوش اور جذبے سے مہمانوں کی خدمت کی ہے.اور جلسے کے ابتدائی انتظامات میں بھی اور آخر میں بھی جب کہ کام سمیٹنا ہوتا ہے اور کافی مشکل کام ہوتا ہے یہ بھی، بڑی محنت سے وقت کے اندر بلکہ وقت سے پہلے تمام علاقے کو صاف کر کے متعلقہ انتظامیہ کے سپرد کر دیا اور الحمدللہ کہ جہاں جہاں بھی جلسے ہوئے یہی نظارے دیکھنے میں نظر آرہے ہیں اور سب سے زیادہ خوشکن بات جو مجھے لگی اس جلسہ میں وہ یہ تھی کہ اس سال لجنہ کی خواتین کی حاضری مردوں سے زیادہ تھی اور کم و بیش دو ہزار عورتیں مردوں کی نسبت تعداد میں زیادہ تھیں.تو اس سے یہ تسلی بھی ہوئی کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کی آئندہ نسلیں بھی خلافت اور جماعت سے محبت اور وفا کا تعلق لے کر پروان چڑھیں گی.انشاء اللہ اللہ تعالیٰ تمام عہد یداران، کارکنان اور شاملین جلسہ کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے اور خلافت سے وفا اور تعلق بڑھا تا رہے اور اپنی جناب سے ان کو اجر دے.“ (الفضل انٹر نیشنل 7 تا 13 نومبر 2003 ، صفحہ 5-8)

Page 81

مشعل راه جلد پنجم 63 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ربوہ کے اطفال کے نام پیغام فرمودہ 7 جون 2003ء سلام کی عادت ڈالیں ہر گھر نمازیوں سے بھر جائے ربوہ کو Lush Green کردیں ہر گھر میں تین پھلدار پودے لگائیں

Page 82

مشعل راه جلد پنجم 64 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 7 جون 2003ء کی چلڈرن کلاس میں ربوہ کے اطفال کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:- ربوہ کے بچے ماشاء اللہ آپ لوگوں کی طرح بہت ہی پیارے بچے ہیں.ان کے بارے میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ احمدیوں کو سلام کو رواج دینا چاہیے یعنی ہر احمدی کو یہ عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ ہر ملنے والے کو سلام کہے اور اس کیلئے حضرت صاحب نے قادیان کی مثال دی تھی کہ وہاں ہر بڑا چھوٹا سلام کہتا تھا اور ایک بہت پیارا اور محبت والا ماحول تھا.تو عمومی طور پر حضرت صاحب نے سارے بچوں کو اور بڑوں کو یہ کہا تھا کہ جب آپس میں ملیں تو سلام کہیں ، خوش اخلاقی سے ملیں لیکن ربوہ کے بچوں کو خاص طور پر کہا تھا کہ وہاں کا ماحول ایسا ہے کہ سلام کی عادت ڈالیں.تو ربوہ کے بچوں کے لئے یہی میرا پیغام ہے کہ ربوہ کے ماحول کو ایسا بنا دیں کہ ہر طرف سے سلام سلام کی آوازیں آ رہی ہوں، بڑے بھی چھوٹے بھی بچے بھی.بعض دفعہ بڑوں سے سستیاں ہو جاتی ہیں تو بچے اس کی پابندی کریں کہ انہوں نے بہر حال ہر ایک کو سلام کہنا ہے اور سلام کرنے میں پہل کرنی ہے تو اس طرح ربوہ کے ماحول پر بڑا خوشگوار اثر پڑے گا.انشاء اللہ.ایک تو یہ بات ہے.دوسرے( بیوت الذکر ) کو آباد کرنے کے لئے جس طرح حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی خواہش تھی کہ بنی صدی میں ہر گھر نمازیوں سے بھر جائے تو یہاں بھی آپ نمازیں پڑھنے کی طرف توجہ دے رہے ہیں اور دیں.ربوہ کے ماحول میں جو خالصہ احمدیت کا ماحول ہے بچوں کو چاہیے کہ اپنے بڑوں کو بھی توجہ دلائیں اور خود بھی خاص توجہ کریں اور (بیوت الذکر) میں زیادہ سے زیادہ جائیں اور ( بیوت الذکر ) کو آباد کر لیں تا کہ احمدیت کی فتح کے نظارے جو دعاؤں کے طفیل ہمیں انشاءاللہ ملنے ہیں ، وہ ہم جلدی دیکھیں.ایک اور بات یہ ہے کہ یہاں پروگرام میں آپ نے سنا.(وہاں شائد بچوں کو زیادہ سمجھ نہ آئی ہو کیونکہ انگلش میں تھا ) حضرت مصلح موعود کی خواہش تھی کہ میں نے رویا میں دیکھا تھا.ربوہ کی زمین کے متعلق کہ باقی

Page 83

مشعل راه جلد پنجم 65 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جگہ تو یہی لگتی ہے لیکن یہاں سبزہ نہیں ہے ، Greenery نہیں ہے.وہ امید ہے انشاء اللہ ہو جائے گی.حضرت مصلح موعود نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بارے میں ربوہ کے لوگ بہت کوشش کر رہے ہیں.خاص طور پر اطفال اور خدام نے بہت کوشش کی ہے.انہوں نے وقار عمل کر کے، ربوہ کو آباد کرنے کی کوشش کی ہے.لوگ آ کے حیران ہوتے ہیں.آپ جیسی چھوٹی عمر کے بچوں نے وقار عمل کر کے وہاں پودے لگائے اور ان کو سنبھالا ہے.تو اب میری بچوں سے یہی درخواست ہے یہی میں کہوں گا یہی نصیحت ہے کہ جو پورے آپ نے لگائے ہیں ان کی حفاظت کریں اور مزید پودے لگائیں.درخت لگائیں، پھولوں کی کیاریاں بنائیں اور ر بوہ کو اس طرح سرسبز اور Lush Green ( شاداب) کردیں جس طرح حضرت مصلح موعود کی خواہش تھی.یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ان پر عمل کریں ایک تو یہ کہ ربوہ کے ماحول کو سرسبز کریں گے تو ماحول پر ایک خوشگوار اثر ہوگا.عمومی طور پر لوگوں کی توجہ ہوگی اور ایک نمونہ نظر آئے گا کہ یہاں کے بچے اور بڑے محنت سے اس شہر کو آباد کر رہے ہیں جبکہ پاکستان میں باقی جگہوں پہ جب تک حکومت نہ مدد کرے کوئی اتناسبزہ نہیں کر سکتا بلکہ باوجود مدد کے بھی نہیں کر سکتا.تو ربوہ کے بچوں کے لئے میری یہی نصیحت ہے کہ تین باتیں میں نے کہی ہیں.ایک سلام کو رواج دیں، ایک ( بیوت الذکر میں زیادہ جائیں اور اپنے بڑوں کو بھی لے کر جائیں.تیسری بات ربوہ میں مزید پودے لگا ئیں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی بھی خواہش تھی کہ ربوہ میں ہر گھر تین پھلدار پودے لگائے تو حضور کی اس خواہش پر بھی عمل ہونا چاہیے اور اس کے علاوہ گھروں سے باہر بھی حضرت مصلح موعود کی خواہش پر بھی عمل کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ربوہ کو سرسبز بنانے کی کوشش کرنی چاہیے.جزاکم اللہ الفضل ربوہ 10 جون 2003ء)

Page 84

مشعل راه جلد پنجم 66 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 85

مشعل راه جلد پنجم 67 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اجتماع خدام الاحمدیہ آسٹریلیا منعقدہ 3 تا5اکتوبر 2003ء کے موقع پر پیغام نمازوں کی ادائیگی کی طرف خصوصی توجہ دیں بچپن ہی سے نماز کی طرف توجہ کریں دنیا کی فتح کی خواہیں لغو ہیں اگر ہم اپنے نفسوں پر فتح نہ پاسکیں

Page 86

مشعل راه جلد پنجم 68 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی میرے پیارے خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ آسٹریلیا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ناظم صاحب اعلی مجلس خدام الاحمدیہ آسٹریلیا نے اطلاع دی ہے کہ آپ کا سالانہ اجتماع ۳ تا ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۳ ء سڈنی میں منعقد ہو رہا ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے با برکت فرمائے اور آپ روحانی تبدیلی کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کولوٹیں.یہ ایام ذکر الہی میں گزار ہیں اور اجتماع سے زیادہ سے زیادہ روحانی فائدہ حاصل کر کے جائیں.آپ کو میرا اس اجتماع کے موقع پر یہ پیغام ہے کہ نمازوں کی ادائیگی کی طرف خصوصی توجہ دیں اور اس کے لئے غیر معمولی محنت کریں.کیونکہ یہ مرکزی چیز ہے اور اگر یہ سنور جائے تو سب کچھ سنور جائے گا.اسی سے ساری ترقیاں وابستہ ہیں.خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ وہ مومن کامیاب ہو گئے جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں.اس لئے خدام اور اطفال کے لئے میرا یہ پیغام ہے کہ وہ بچپن سے ہی اس اہم فریضہ کی طرف توجہ دیں.بچپن میں اگر عادت پختہ ہو جائے گی تو پھر باقی زندگی میں آپ نمازوں کی حفاظت کرنے والے بن جائیں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے.اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو انسان کامیاب ہو گیا.اور اس نے نجات پالی.اگر یہ حساب خراب ہوا ہو تو وہ نا کام ہو گیا اور گھاٹے میں رہا.اللہ کرے آپ میں سے ہر خادم اور طفل میری اس نصیحت کو سینے سے لگائے.اور یہ عہد کر کے اس اجتماع سے واپس جائے کہ وہ نمازوں کی حفاظت کرے گا.نماز ہی ہے جس نے حقیقت میں اس دنیا کو ( دین حق) کے لئے فتح کرنا ہے.دنیا کی فتح کی خوا ہیں لغو ہیں اگر ہم اپنے نفسوں پر فتح نہ پاسکیں.اپنے نفسوں کو خدا کے حضور جھکا ئیں اور اس کی عبادت کے حق کو ادا کریں.اللہ آپ

Page 87

مشعل راه جلد پنجم 69 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کے ساتھ ہو.آپ پر اپنے بے شمار فضل اور رحمتیں نازل فرمائے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق بخشے.(آمین) والسلام خاکسار مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس الفضل انٹر نیشنل 23 تا 29 جنوری 2004ء ص 13)

Page 88

مشعل راه جلد پنجم 70 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 89

مشعل راه جلد پنجم 71 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سالانہ اجتماع لجنہ و ناصرات UK سے خطاب فرمودہ 19 /اکتوبر 2003 خوبصورت معاشرہ کیسے بنتا ہے بچوں کے دلوں میں ایمان اس حد تک بھر دو کہ انکا اوڑھنا بچھونا اللہ کی ذات ہو تنقوای کی باریک راہیں اختیار کریں محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے خلافت اور نظام جماعت کے احترام کے تقاضے جب بچوں کو پیار سے سمجھایا جاتا ہے تو بچے سمجھ جاتے ہیں قول سدید سے کام لیں بچوں سے بھی قول سدید سے کام لیں جماعت میں رہ کر اعلیٰ اخلاقی نمونے دکھانے ہوں گے ورنہ کوئی فائدہ نہیں غرباء سے عاجزی اور خاکساری کا مظاہرہ کریں اپنے اندر عاجزی پیدا کرنے کی خاص مہم چلائیں دوسروں کو کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ پہنچاتے رہیں پردہ کی اصل روح اور حقیقت یورپی معاشرہ میں بھی پردہ کا احترام کیا جاتا ہے Internet Chatting کے نقصانات

Page 90

مشعل راه جلد پنجم 72 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سورۃ احزاب کی آیت 36 کی تلاوت فرمائی.إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَ الْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّالِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمُ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيمًا اس کے بعد فرمایا: - یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں مسلمان اور مومن مردوں اور عورتوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ چند خصوصیات ہیں جو مسلمان اور مومن میں ہونی چاہیں.اگر یہ خصوصیات پیدا ہو جائیں تو خدا تعالیٰ تمہیں خوشخبری دیتا ہے کہ تمہارے سے نہ صرف مغفرت کا سلوک کرے گا بلکہ اجر عظیم سے بھی نوازے گا.اور وہ کیا باتیں ہیں.وہ باتیں یہ ہیں کہ فرمانبرداری کرنے والی بنوں.سچ کو اختیار کرنے والی بنوں، سچ بولنے والی ہوں ،صبر کرنے والی ہوں ، عاجزی اختیار کرنے والی ہوں ، صدقہ کرنے والی ہوں ، روزہ دار ہوں.آنکھ کان منہ اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والی ہوں.اور اللہ کا ذکر کرنے والی ہوں.خوبصورت معاشرہ کیسے جنم لیتا ہے اب یہ دیکھیں یہ ایسی باتیں ہیں اگر کسی میں پیدا ہو جا ئیں اور کسی معاشرہ میں اکثریت میں پیدا ہو جائیں تو ایسا خوبصورت معاشرہ جنم لے گا جس کی کوئی مثال نہیں ہوگی.اس بارہ میں اب میں مزید کچھ وضاحت کرتا ہوں.لیکن اس سے پہلے یہ بتاؤں گا کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ مسلمان اور مومن ، یہ الگ الگ کیوں کہا گیا ہے؟ اس بارہ میں خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: قَالَتِ الاَعْرَابُ امَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُوْلُوْآسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ

Page 91

مشعل راه جلد پنجم 73 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (الحجرات: ۱۵) یعنی بادیہ نشین وہ لوگ جو گاؤں میں دیہاتوں میں رہتے تھے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے تو کہہ دے کہ تم ایمان نہیں لائے لیکن صرف اتنا کہا کرو کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں.جبکہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.اور اگر تم اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال میں کچھ بھی کمی نہیں کرے گا.یقیناً اللہ انہیں بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.تو یہ بتا دیا کہ مسلمان ہونے میں اور مضبوط ایمان دلوں میں قائم ہونے میں بہت فرق ہے.مضبوط ایمان تو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب تمہارا ہر عمل ہر فعل ہر کام جو تم کرتی ہو خدا کی رضا کی خاطر کرو.اللہ کا خوف اور خشیت ہر وقت تمہارے ذہن میں رہے.تقویٰ کی باریک سے باریک راہیں ہمیشہ تمہارے مدنظر ر ہیں.اور تم ان پہ قدم مارے والی ہو.اپنے بچوں کے دلوں میں بھی ایمان اس حد تک بھر دو کہ انکا اوڑھنا بچھونا بھی صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہو.ہاں جو بڑے بڑے احکامات ہیں، فرائض ہیں، ان کو مان کر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں داخل ہو چکے ہو.یہ اطاعت تم کرتے رہو اس کا بھی اجر اللہ تعالیٰ تمہیں دے گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: اسلمنا ہمیشہ لاٹھی سے ہوتا ہے یعنی طاقت سے.جب لوگ دیکھتے ہیں کہ کثرت سے لوگ قبول کر رہے ہیں تو اس وقت قبول کر لیا جاتا ہے.اور امنا اس وقت ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ دل میں ڈال دے.ایمان کے لوازم اور ہوتے ہیں اور (دین حق ) کے اور.اسی لئے خدا تعالیٰ نے اس وقت ایسے لوازم پیدا کئے کہ جن سے ایمان حاصل ہو.پھر فرماتے ہیں ” مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال انکے ایمان پر گواہی دیتے ہیں جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے.اور جو اپنے خدا اور اسکی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے اور اسکی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسدا نہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب اپنے تئیں دور ہو جاتے ہیں.

Page 92

مشعل راه جلد پنجم 74 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تقوی کی باریک راہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس اقتباس سے اس بات کی مزید وضاحت ہوگئی کہ تقوی کی باریک راہوں پر جب چلنے لگو تو تب سمجھا جائے گا کہ تم مومن ہو اس میں سب سے پہلی چیز آپ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت سب سے زیادہ ہو اور اس کے مقابلہ میں کوئی دنیا وی رشتہ کوئی محبت روک نہ بنے پھر اخلاقی برائیاں ہیں ان میں علاوہ بڑی بڑی اخلاقی برائیوں کے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ہیں.مثلاً ہمسائیوں سے اچھا سلوک نہ رکھنا.آپس میں مل کر کسی کا مذاق اڑانا استہزاء کرنا ہنسی ٹھٹھا کرنا، اپنے بچوں سے بہت پیار کرنا اور دوسرے کے بچوں کو پرے دھکیلنا اللہ تعالیٰ کے احکامات جو اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں کہ وقت پر نماز پڑھو بڑوں سے ادب سے پیش آؤ چھوٹوں سے شفقت سے کرو.یہ نہ کرنا یہ برائیاں ہیں.تو پھر یہ ہے کہ اپنے عہدے داروں کی ہر بات کو غور سے سنا اور ماننا.یہ اگر پیدا ہو جائیں اخلاقی اچھائیاں ، تو پھر نظام ترقی کرتا ہے.اللہ کی خاطر نظام جماعت کی پابندی کریں پھر نظام جماعت کی پابندی کرنا.تو فرمایا کہ اگر یہ سب کام خدا کی خاطر کرو گی تو مومن کہلاؤ گی اور دن بدن ایمان مضبوط تر ہوتا جائے گا.اب یہ مومنانہ حالت پیدا کر لی ہے تو اس میں ایک اہم بات فرمانبرداری کی بھی ہے.اسی میں فرمایا گیا ہے کامل اطاعت اور فرمانبرداری دکھاؤ.اب یہ نہیں کہ کیونکہ فلاں عہدہ دار سے فلاں صدر سے یا فلاں عورت سے جو اس وقت سیکرٹری تربیت ہے، میری بنتی نہیں کیونکہ ایک موقع پر آج سے اتنے سال پہلے اس نے مجھے لوگوں کے سامنے ٹو کا تھا.یا میری بات نہیں مانی تھی یا میرے بچوں کو نماز کے وقت شرارتیں کرنے پر خاموش کیا تھا.تو اسلئے اب میں اسکی بات نہیں مانوں گی.یہ فرمانبرداری نہیں ہے اور جبکہ پھرانی ضد آ جاتی ہے.یہاں تک کہ بات اسلئے نہیں مانوں گی اب چاہے جو مرضی وہ کہے.چاہے مجھے یہ بھی تلقین کرے کہ نماز میں ٹیڑھی صفوں میں کھڑی عورتوں کو کہ رہی ہو کہ صفیں سیدھی کر لو.آپس کے فاصلے کم کرلو، خلا کم کرو.تو اس کی بات نہیں مانتیں اور پھر ہنسی ٹھٹھے میں اس بات کو اڑا دیتی ہیں.تو اس کی بات نہ مان کر تم اسکی فرمانبرداری سے باہر نہیں جارہی بلکہ نظام جماعت کے ایک کارکن کی بات نہیں مان رہی اور صرف نظام جماعت کو لا پرواہی کی نظر سے نہیں دیکھ رہی بلکہ خدا اور اس کے رسول صلی

Page 93

مشعل راه جلد پنجم 75 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اللہ علیہ وسلم کے ایک واضح حکم کی خلاف ورزی کر رہی ہو.اسکو کم نظر سے دیکھ رہی ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز پڑھتے وقت اپنی صفوں کو سیدھا رکھو کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تمہارے درمیان شیطان آکر کھڑا ہو جائے گا تو اس طرح اس عہدہ دار کی بات نہ مان کر اس کا تو کچھ ضائع نہیں ہو رہا آپ اپنے درمیان شیطان کو جگہ دے رہی ہیں.تو اس طرح سے ایک تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کر رہی ہیں.جبکہ دعویٰ یہ ہے کہ انسانوں میں سب سے زیادہ محبت ہمیں اپنے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے.تو محبت کے تقاضے تو اس طرح پورے نہیں ہوتے.محبت کرنے والے تو اپنے محبوب کی آنکھ کے اشارے کو بھی سمجھتے ہیں وہ تو ا سکے ایک ارشاد پر اپنی جانیں قربان کرنے والے ہوتے ہیں کجا یہ کہ اللہ کے گھر میں ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح حکم کی پابندی نہ کر رہے ہوں.اور یہ سمجھو کہ یہ بات یہیں ختم ہوگئی ! نہیں ، جب تمہارے بچے تمہارا یہ عمل دیکھیں گے وہ بھی یہی سمجھیں گے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور آہستہ آہستہ انکے دلوں میں سے نہ صرف کسی بھی اچھی بات کہنے والے کا احترام اٹھ جائے گا بلکہ نظام کے کارکنوں کی اور عہدہ داروں کی عزت بھی ختم ہو جائے گی.اور نہ صرف یہ کہ یہیں یہ سلسلہ رک جائے گا بلکہ اور آگے بڑھے گا اور ( دین حق) کی خوبصورت تعلیم سے بھی پرے ہٹنے والی ہو جائیں گی اولا دیں ، نام کے تو احمدی رہیں گے ایک احمدی گھرانہ میں پیدا ہوئے اس لئے احمدی ہیں.لیکن خلافت اور نظام جماعت کا احترام کچھ نہیں رہے گا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بھی سرسری نظر سے دیکھنے والے ہوں گے.اور جب بھی کوئی ایسی بات ہوگی کوئی حکم دیا جائے گا انکو شریعت کے بارے میں یا مذہب کے بارے میں یا جماعت کے بارے میں بتایا جائے گا تو ایسے بچے پھر منہ پرے کر کے گزر جانے والے ہوتے ہیں کوئی توجہ نہیں دے رہے ہوتے.مائیں بچوں کی تربیت کی نگرانی کریں یہاں میں یہ بھی واضح کر دوں کہ ایسی ماؤں کے بچے پھر ایک وقت میں ان کے ہاتھ سے بھی نکل جاتے ہیں اسکے کنٹرول میں بھی نہیں رہتے اور پھر ماؤں کونکر ہوتی ہے کہ ہمارے بچے بگڑ گئے تو ان کے بگڑنے کے

Page 94

مشعل راه جلد پنجم 76 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ذمہ دار تو تم خود ہو.اگر تم چاہتی ہو تو اپنے عمل سے اپنی اولاد کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکتی ہو.کل مجھے امیر صاحب کہنے لگے کہ یہاں بچوں کی تربیت کے بڑے مسائل ہیں بچے اسکول میں جاتے ہیں اور وہاں یہ سکھایا جاتا ہے کہ سوال کرو.اور جب انکو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ یہ کام کرو اور ( دین حق ) ہمیں یہ سکھاتا ہے تو سوال کرتے ہیں کہ پہلے ہمیں سمجھاؤ کہ کیوں؟ تو میں نے انہیں یہی کہا تھا کہ یہ بچوں کی تربیت کے مسائل نہیں ہیں یہ اچھی بات ہے انہیں سوال کرنے چاہیں یہ ماں اور باپ کی تربیت کے مسائل ہیں بچے سوال کرتے ہیں تو ماں باپ انکے سوالوں کے جوابات دیں اس بارہ میں میں پہلے بھی توجہ دلا چکا ہوں جلسہ پر کہ بچوں سے دوستی کا ماحول پیدا کریں.ان کو احساس ہو کہ ہمارے ماں باپ ہمارے ہمدردبھی ہیں ہمارے دوست بھی ہیں.اور جب آپ اپنے آپ میں اپنے خود میں دین کوٹ کوٹ کر بھرا ہو گا تو آپ ایک مضبوط ایمان والے ہوں گے اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں گے ، نظام کا احترام سکھانے والے ہوں گے.تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بچے آپکا کہا ماننے والے نہ ہوں جو سوال و جواب ہوگا اس سے بہر حال ان کی تسلی ہوگی.انکی Satisfaction ہوگی.اور جب تک یہ بچے اس شعور کی عمر کو پہنچیں کہ انکے دل میں مذہب کے بارے میں سوال پیدا ہونے شروع ہوں، تو قرآن حدیث پڑھ کر ، خلفاء کے خطبات سن کر ، علماء سے پوچھ کر، کتابیں پڑھ کر وہ خود اپنے سوالوں کا جواب تلاش کر لیں گے.جب بچوں کو پیار سے سمجھایا جاتا ہے تو بچے سمجھ جاتے ہیں یہ کئی دفعہ بات تجربہ میں آئی ہے کہ ماں بچوں کے سامنے کہ دیتی ہے کہ اب زمانہ بدل گیا ہے اب نہیں کوئی بچہ اس طرح بڑوں کا احترام کرتا، بڑا مشکل کام ہے.یہ غلط ہے بچوں پہ الزام ہے.جب بچے کو پیار سے سمجھایا جاتا ہے تو بچے وہیں ماں کے سامنے اعتراف کرتے ہیں کہ ٹھیک ہے کہ یہ بات مجھے یوں نہیں اس طرح کرنی چاہیے تھی جس طرح آپ نے سمجھایا تو بچوں سے یہاں میری مراد سولہ سترہ سال کی عمر کے بچے ہیں.لڑکے لڑکیاں، اور یہ نہیں ہے کہ یہ میرے سامنے اعتراف کیا ہے بچوں نے.جب ان کو سمجھایا گیا بلکہ جس نے بھی کسی عہدہ دار نے یا کسی بھی شخص نے جب بچوں کو سمجھایا اس کا فائدہ ہی ہوا ہے.پھر اس آیت میں فرمایا ہے کہ سچ بولو اور سچ بولنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.سچ سے برائیاں ختم کرنے اور نیکیاں کرنے کی توفیق ملتی ہے سچ ایک ایسی بنیادی چیز ہے کہ اگر یہ پیدا ہو جائے تو تقریباً تمام بڑی بڑی برائیاں ختم ہو جاتی ہیں اور

Page 95

مشعل راه جلد پنجم 77 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نیکیاں ادا کرنے کی توفیق ملنا شروع ہو جاتی ہے.تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب ایک شخص حاضر ہوا تھا اور اس نے عرض کی کہ میرے اندر اتنی برائیاں ہیں کہ میں تمام کو تو چھوڑ نہیں سکتا مجھے صرف ایک ایسی بیماری یا کمزوری یا برائی کے بارے میں بتائیں جسکو میں آسانی سے چھوڑ سکوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سب سے زیادہ انسان کی نفسیات اور فطرت کو سمجھنے والے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے.تم یوں کرو کہ صرف جھوٹ بولنا چھوڑ دو.وہ شخص بڑا خوش ہوا کہ چلو یہ تو بڑا آسان کام ہے اٹھ کر چلا گیا اور اس وعدے کے ساتھ اٹھا کہ آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گا.رات کو جب اس کو چوری کا خیال آیا کیونکہ وہ بڑا چور تھا اسکو خیال آیا کہ اگر چوری کرتے پکڑا گیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش ہوں گا اور اقرار کرتا ہوں تو سزا ملے گی، شرمندگی ہوگی اگر انکار کیا تو یہ جھوٹ ہے.تو جھوٹ میں نے بولنا نہیں کیونکہ وعدہ کیا ہوا ہے تو آخر اسی شش و پنج میں ساری رات گزرگئی اور وہ چوری پر نہ جاسکا.پھر زنا کا خیال آیا تو پھر یہی بات سامنے آگئی شراب نوشی اور دوسری برائیوں کا خیال آیا تو پھر یہی پکڑے جانے کا خوف اور جھوٹ نہ بولنے کا عہد یاد آتا رہا.آخر کار ایک دن وہ بالکل پاک صاف ہو کر حاضر ہوا اور کہا کہ اس جھوٹ نہ بولنے کے عہد نے میری تمام برائیاں دور کر دی ہیں تو یہ ہے بیچ کی برکت کہ صرف عہد کرنے سے ہی کہ میں سچ بولوں گا برائیاں دور ہوگئیں.تو جب کسی موقع پر آپ سچ بول رہی ہوں گی اور سچ کا پر چار کر رہی ہوں گی تو پھر اس میں کس قدر برکتیں ہوں گی بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ذاتی گھریلو بجشیں عہدہ داروں کے خلاف جھوٹی شکایتوں کی وجہ بن رہی ہوتی ہیں اور جب تحقیق کرو تو پتہ لگتا ہے کہ اصل معاملہ تو دیورانی جٹھانی کا یانند بھا بھی کا یا ساس بہو کا ہے نہ کہ جماعتی مسئلہ ہے اس لئے ہمیشہ سچ کو مقدم رکھیں سچ کو سب چیزوں سے زیادہ آپ کی نظر میں اہمیت ہونی چاہیے.کچی گواہی دیں.اپنے بچوں کو سچ بولنا سکھائیں.بچوں میں سچ بولنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے یہاں پر پھر میں وہی بات کہوں گا کہ بچوں کو سکولوں میں سچ بولنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے اس معاشرہ میں اور اس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے سکولوں میں بتایا جاتا ہے کہ سچ بولنا ہے.تو جب بچہ گھر آتا ہے تو ایسی مائیں یا باپ جن کو نہ صرف سچ بولنے کی آپ عادت نہیں ہوتی بلکہ بچوں کو بھی بعض دفعہ ارادہ یا غیر ارادی طور

Page 96

78 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم پر جھوٹ سکھا دیتے ہیں.مثلاً اسی طرح کہ گھر میں آرام کر رہے ہیں.کوئی عہدہ دار سیکرٹری مال یا صدر یا کوئی مرد آیا یا کوئی عورت لجنہ کی آگئی تو کسی کام کے لئے تو بچہ کو کہ دیا کہا چلو کہ دو جا کے کہ گھر میں نہیں ہے.یہ تو ایک مثال ہے.اس طرح کی اور بہت ساری چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں.چاہے یہ بہت تھوڑی ہی تعداد میں ہوں مگر ہمیں یہ بہت تھوڑی تعداد بھی برداشت نہیں جو سچ پر قائم نہ ہو.کیونکہ اس تھوڑی تعداد کے بچے اپنے گھر سے غلط بات سیکھ رہے ہوتے ہیں.ایک تو وہ خود مذہب سے دور جارہے ہوتے ہیں کہ سکول میں تو ہم کو سچ بولنا سکھا یا جارہا ہے اور گھر میں جہاں ہمارے ماں باپ ہمیں کہتے ہیں کہ مذہب اصل چیز ہے نمازیں پڑھنی چاہئیں نیک کام کرنے چاہئیں.اور اپنا عمل یہ ہے کہ ایک چھوٹی سے بات پر، کسی کو نہ ملنے کے لئے جھوٹ بول رہے ہیں.قول سدید سے کام لیں بچوں سے بھی قول سدید سے کام لیں سیدھی طرح صاف الفاظ میں یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ میں اس وقت نہیں مل سکتی.پھر ایسا بچہ اپنے ماحول میں بچوں کو بھی خراب کر رہا ہوتا ہے.کہ دیکھو یہ کیسی تعلیم ہے کہ ایک ذراسی بات پر میری ماں نے جھوٹ بولا ؟ یا میرے باپ نے جھوٹ بولا.تو جب یہ عمل اپنے ماں باپ کے بچہ دیکھتا ہے تو دور ہٹتا چلا جاتا ہے.تو اس لئے اپنی نسلوں کو بچانے کے لئے ان باتوں کو چھوٹی نہ سمجھیں اور خدا تعالیٰ کا خوف کریں.پھر فرمایا صبر کرنے والے بنو تمہارے اندر وسعت حوصلہ بھی ہونا چاہیے صبر بھی ہونا چاہیے برداشت کا مادہ بھی ہونا چاہے یہ نہیں کہ ذراسی بات کسی سے سن لی اور صبر کا دامن ہی ہاتھ سے چھوٹ گیا.فون اٹھایا اور لڑائی شروع ہوگئی.یا اجلاس میں یا اجتماع کے موقع پر ملیں تو لڑنا شروع کر دیا کہ تم نے میرے بارے میں یہ باتیں کی ہیں.یا میری بہن کے بارے میں یہ باتیں کی ہیں یا میرے بھائی کے بارے میں یہ باتیں کی ہیں.یا بچوں کے بارے میں فلاں بات کی ہے.تم ہوتی کون ہو! تو ایسی باتیں کرنے والی تم ہوتی کون ہو! میں تمہاری ایسی تیسی کر دوں گی ! جب بھی مجھے موقع ملا.تو یہ چیزیں جو ہیں اب یہاں یورپ کے ملکوں میں بھی مختلف طبقوں سے شہروں سے دیہاتوں سے ایشیا سے لوگ آئے ہیں مختلف مزاجوں کے لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں.تو بعض دفعہ اور پہلوں میں سے بھی بعض مثالیں ہیں.یہ صرف نہیں کہ نئے آنے والوں میں سے ہیں تو بعض دفعہ چاہے یہ تھوڑی تعداد میں ہی ہوں چند ایک

Page 97

مشعل راه جلد پنجم 79 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہی ہوں.ایسے لوگوں کو یہ یا درکھنا چاہے کہ اپنے ملک میں تو شاید آپ کی یہ برائیاں چھپ جائیں لیکن یہاں آ کر نہیں چھپ سکتیں.تو ان برائیوں کوختم کرنے کی کوشش کریں ہر وقت ذہن میں رکھیں کہ آپ اب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے منسوب ہو چکی ہیں.آپ کے اخلاقی معیار اب بہت بلند ہونے چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو ہمیشہ سامنے رکھیں.کہ اگر جماعت میں رہنا ہے تو اعلیٰ اخلاق بھی دکھانے ہوں گے ورنہ تو کوئی فائدہ نہیں.حضرت مسیح موعود نے اس کی مثال دی ہے اسکی ایسی مثال ہے جس طرح درخت کی سوکھی شاخ جس کو کوئی اچھا مالی یا مالک برداشت نہیں کرتا بلکہ اس سوکھی شاخ کو کاٹ دیتا ہے.پھر اسی لئے بے صبری کا مظاہرہ ہوتا ہے بعض دفعہ کوئی نقصان ہو جائے تو رونا دھونا اور پٹینا شروع ہو جاتا ہے یہ بھی سخت منع ہے.چاہے مالی نقصان ہو ، جانی نقصان ہو.بعض اکثر مائیں، الحمد للہ جماعت احمد یہ اپنے بچوں کے ضائع ہونے پر بڑے صبر کا مظاہرہ کرتی ہیں.جان جانے پر بھی بڑے صبر کا مظاہرہ کرتی ہیں.لیکن کچھ شور مچانے والی رونے پیٹنے والی بھی ہوتی ہیں تو انکو بھی بہر حال صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور یہ خوشجری دیتا ہے کہ میں صبر کرنے والوں کو بہت بڑا اجر دیتا ہوں پھر اس آیت میں فرمایا گیا ہے عاجزی کے بارے میں کہ عاجزی دکھا ؤ اب کہنے کو تو زبانی کہہ دیتے ہیں کہ میں تو بڑی عاجز ہوں مالی لحاظ سے اپنے سے بہتر یا برابر سے تو بڑی جھک جھک کر یا اس level پر باتیں کر رہی ہوتی ہیں کہ احساس نہیں ہوتا کہ کوئی تکبر یا غرور ہے لیکن پتہ تب چلتا ہے جب اپنے سے کم تر مالی لحاظ سے یا مرتبہ کے لحاظ سے کسی عورت سے باتیں کر رہی ہوں.غرباء سے عاجزی اور خاکساری کا مظاہرہ کریں اسوقت پھر بعض دفعہ ایسی عورتوں کو جن میں عاجزی نہیں ہوتی رعونت اور تکبر کا اظہار ہورہا ہوتا ہے یہ عاجزی نہیں ہے کہ امیروں سے تو عاجزی دکھا دی اور غریبوں سے عاجزی نہیں ہوئی.اب بعض دفعہ یہ اظہار صرف بات چیت سے نہیں ہو رہا ہوتا اب اگر غور کریں تو ایسی عورتوں کا پھر یا ایسے مردوں کا دونوں اس میں شامل ہیں، آنکھوں سے بھی تکبر ٹپک رہا ہوتا ہے.گردن پر فخر اور تکبر نظر آرہا ہوتا ہے یا چہرے پر تکبر کے آثار نظر آ رہے ہوتے ہیں تو منہ سے جتنا مرضی کوئی کہے کہ میں تو بڑا عا جز انسان ہوں زبان حال سے یہ پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ یہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہے.اور کوئی عاجزی نہیں اس میں.

Page 98

مشعل راه جلد پنجم تصنع اور بناوٹ سے بچیں 80 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی پھر گھروں میں مثلاً مثال ہے سجاوٹ کی کوئی چیز ہے پڑی ہوئی اس کی کوئی تعریف کر دیتا ہے تو بڑی عاجزی سے کہ رہی ہوتی ہیں کہ سنتی ہی ہے اور قیمت پوچھو تو پتہ چلتا ہے کہ صاف بناوٹ اور تصنع سے کام لیا جار ہا ہوتا ہے.تو یہ بناوٹ کی باتیں نہیں ہونی چاہیں احمدی معاشرہ ان سے بالکل پاک ہونا چاہیے حقیقی انکسار اور عاجزی دکھانی چاہے ہم تو ایک بہت بڑا مقصد لیکر کھڑے ہوئے ہیں اگر دنیا وی نام ونمود اور بناوٹ اور تصنع کے چکر میں پڑ گئے.تو پھر ان اہم کاموں کو کون سرانجام دے گا جو ہمارے سپرد کئے گئے ہیں.اپنے اندر عاجزی پیدا کرنے کی خاص مہم چلائیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ : - جتنا بڑا تمہیں مقام ملے اتنے ہی نیچے جھکتے جاؤ اور اس کے نتیجے میں خدا تمہیں اتنا ہی اونچا کرتا چلا جائے گا تو ایمان کا تو یہ مقام ہے کہ اللہ کی ذات پر ہی بھروسہ ہونا چاہیے نہ کہ بندوں پر اور جس شخص کو ہم نے اس زمانہ میں مانا اسکے سلسلہ بیعت میں شامل ہو کر اس کے ہر حکم کو بجالانے کا ہم عہد کرتے ہیں.اس کا عمل تو عاجزی کی اس انتہا تک پہنچا ہوا ہے، کہ خدا نے بھی خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں.پس ہر احمدی کو عمومی طور پر اور عہدہ داران کو خصوصی طور پر میں یہ کہتا ہوں کہ عاجزی دکھائیں ، عاجزی دکھائیں اور عاجزی کو اپنے اندر اور اپنی نمبرات اور اپنے ممبران کے اندر چاہے مرد ہوں یا عورتیں، پیدا کرنے کی خاص مہم چلائیں.اس سال اکثر جگہ ذیلی تنظیموں کے انتخابات ہو رہے ہیں آپ کا بھی کل ہو گیا.تو اس خوبصورت خلق کی طرف بھی توجہ دیں اور نئے عزم کے ساتھ توجہ دیں.لوگوں سے دعائیں بھی لیں عاجزی دکھا کر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور اجر عظیم کی ضمانت بھی لیں.پس دیکھیں خدا تعالیٰ تو کس کس طریقے سے اپنے بندوں کی بخشش کے سامان کر رہا ہے.کہ عاجزی دکھاؤ تب بھی تمہیں بخش دوں گا.اب ہم ہی ہیں جو ان باتوں کو نہ سمجھتے ہوئے ان سے دور بھاگ رہے ہیں.صدقہ کرنے والے اور نہ کرنے والوں میں فرق پھر فرمایا صدقہ کرنے والے ہوں.اب صدقہ ایسی نیکی ہے جس کو کرنے والے کا تو بیڑا پار ہو گیا.لیکن

Page 99

81 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم ایسے لوگ جو تو فیق ہوتے ہوئے ہاتھ روکے رکھتے ہیں ان کے لئے اللہ کے رسول نے بڑی سخت انذار کیا ہے اور تنبیہ کی ہے.جیسے کہ حدیث میں آتا ہے کہ ہر صبح دو فرشتے اٹھتے ہیں اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ خرچ کرنے والے سخی کو اور دے.اور اس جیسے اور پیدا کر.اور دوسرا کہتا ہے کہ روک رکھنے والے خرچ نہ کرنے والے صدقہ خیرات نہ کرنے والے کنجوس کو ہلاکت دے.اور اس کا سارا مال و متاع برباد کر دے.یہ دیکھیں کس قدر انذار ہے.دوسروں کو کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ پہنچاتے رہیں پھر پڑھی لکھیں عورتیں ہیں، بچیاں ہیں جو کسی بھی رنگ میں کوئی بھی کام کر سکتی ہیں کسی کام میں بھی مددکر سکتی ہیں، دوسروں کی تعلیم میں یا کوئی چیز سکھانے میں.تو یہ بھی ان کے لئے صدقہ ہے.تو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہر کوئی ہر دوسرے کو کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ پہنچا تا ر ہے تا کہ یہ حسین معاشرہ قائم ہو جائے.اور خدا تعالیٰ اس کے بدلہ میں اپنے بندوں سے مغفرت کا سلوک فرمانے کا وعدہ کرتا ہے.رمضان کے اثرات سارے سال پر محیط ہونے چاہئیں پھر فرمایا کہ روزہ رکھنے والیاں بھی میرے بہت قریب ہیں اب صرف روزہ رکھنا ہی کافی نہیں ہے.ٹھیک ہے اس کا بھی ثواب ہے.لیکن اس کا ثواب تب ہے جب اس کے پورے لوازمات بھی ادا کیے جائیں.اب رمضان کے مہینہ میں ایک مہینہ روزہ رکھنے سے صرف اجر عظیم کے وارث نہیں بن جائیں گے.فرمایا یہ جو تم نے روزے رکھنے کا مجاہدہ کیا ہے اس کے اثرات اب سارے سال پر محیط ہونے چاہیے.تمہاری راتیں عبادت میں زندہ دینی چاہیے قرآن شریف کے پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی خاطر تمہاری توجہ دینی چاہیے.پاک خیال اور پاک زبان کا لحاظ تمہیں ہر وقت رہنا چاہیے اب مثلا روزہ دار کو حکم ہے کہ تم کسی کو نقصان نہیں پہنچانا تم نے کسی سے نہیں لڑنا ورنہ تمہارے روزے بے فائدہ ہیں اگر تمہارے سے کوئی لڑے تمہیں کوئی غلط بات کہے تو کہہ دو کہ میں روزے دار ہوں اب یہ ہماری ٹریننگ کے لئے ہے کہ روزے میں یہ سب برائیاں چھوڑنی ہیں تا کہ آئندہ زندگی میں بھی تمہاری روز مرہ معمول تمہاری زندگی کا حصہ بن جائیں یہ نیکیاں اور یہ برائیاں چھٹ جائیں یہ نہیں کہ آج تو میں نے نہیں لڑنا.میں نے چغلی نہیں کرنی میں غیبت نہیں کرنی میں نے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا میں نے کسی کے مال پر قبضہ نہیں کرنا میں نے دودلوں میں پھوٹ

Page 100

82 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم نہیں ڈالنی کیونکہ میں روزے دار ہوں جب میرے روزے ختم ہوں گے تو پھر میں تمہیں بتاؤ گی اور جواب دوں گی یہ نہیں ہے کیونکہ جو تم نے میرے ساتھ سلوک کیا ہے روزے ختم ہونے کے بعد ہی یہ سارے سلوکوں کا جواب ملے گا.اب یہ تو تعلیم نہیں ہے یہ تو ہمیں ایک طریق سکھلایا گیا ہے ہماری تربیت کا کہ رمضان میں روزے کی حالت میں تم اپنی یہ برائیاں دور کرو اور پھر ان کو اپنی زندگی کا حصہ بنال تو اللہ تعالیٰ بھی تمہارے لئے مغفرت کے سامان پیدا فرمائے گا اس دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد بھی تمہیں اجر عظیم سے نوازے گا اور تمہاری اولا دوں پر بھی فضل فرمائے گا انشاء اللہ.اب انشاء اللہ تعالیٰ اس ضمن میں مزید کہنا چاہتا ہوں.رمضان میں اپنی برائیوں کو دور کرنے کا عزم کریں چند دنوں تک رمضان شروع ہونے والا ہے تو یہ عہد کریں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ایک یا دو برائیاں جو ہم میں ہیں.یا خود جائزہ لیں کہ کیا کیا برائیاں ہیں.ان کو ہم خود دور کریں گے اور ختم کریں گے.یہ بھی واضح کر دوں کہ کوئی اس وہم میں نہ رہے کہ اس میں کوئی برائی نہیں.اگر کوئی اس وہم میں ہے تو اس کو بہت زیادہ استغفار کرنے کی ضرورت ہے اللہ رحم کرے.پردے کی اصل روح اور حقیقت پھر اس میں یہ ایک حکم ایک ہمیں دیا گیا آیت میں.کہ شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والیاں بنو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آنکھ ، کان منہ وغیرہ بھی ہیں کیونکہ ان کی اگر تم نے ان کی حفاظت نہ کی تو یہ بھی برائی پھیلانے کا ایک ذریعہ ہیں کانوں سے بری باتیں سنو، منہ سے بری باتیں کرو تو یہ بھی ان کی حفاظت نہیں ہے آنکھوں سے غلط قسم کے نظارے دیکھو تو یہ بھی منع ہے بعض فلمیں دیکھی جاتی ہیں چاہے وہ گھر میں بیٹھ کر دیکھ رہے ہو یا باہر جا کر دیکھ رہے ہو جو اخلاق سوز قسم کی فلمیں ہیں وہ بھی اسی زمرہ میں آتی ہیں کہ تم نے اپنی آنکھوں کی حفاظت نہیں کی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ :- وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ یعنی جب وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع

Page 101

مشعل راه جلد پنجم 83 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کریں گے لغو سے اعراض کریں گے اور زکوۃ ادا کریں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں گے.کیونکہ جب ایک شخص دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے اور اپنے مال کو خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ کسی اور کے مال کو ناجائز طریقے سے کب حاصل کرنا چاہتا ہے.اور کب چاہتا ہے کہ میں کسی دوسرے کے حقوق کو بالوں اور جب وہ مال جیسی عزیز چیزوں کو خدا کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا.تو پھر آنکھ ، ناک، کان ، زبان وغیرہ کو غیر محل پر کب استعمال کرنے لگا ؟“ یعنی کہ جہاں ان کو استعمال نہیں کرنا چاہیے وہاں کس طرح استعمال کر سکتا ہے.کیونکہ یہ قاعدے کی بات ہے کہ جب ایک شخص اول درجہ کی نیکیوں کی نسبت اس قدر محتاط ہوتا ہے تو ادنی درجہ کی نیکیاں خود بخود عمل میں آتی جاتی ہیں.“ یعنی جب بڑی بڑی نیکیوں کے بارے میں محتاط ہو جاتا ہے تو چھوٹی چھوٹی نیکیاں جو ہیں خود بخو د ہونے لگ جاتی ہیں، اس شخص سے.پھر آپ نے فرمایا:- قرآن نے چونکہ کل مل اور فرقوں کو زیر نظر رکھ لیا تھا اور تمام ضرورتیں اس تک پہنچ کرختم ہو گئیں تھیں اس لئے قرآن نے عقائد کو بھی اور احکام عملی کو بھی مدلل کیا.یعنی تمام فرقوں اور قوموں کو پیش نظر تھا اللہ تعالیٰ کے.اس لئے ان سب کو مطابق حکم دیا گیا ہے.قرآن شریف میں اور عقائد کو بھی احکام عملی کو بھی جو ہماری ایسے حکم ہیں جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے دلیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے:.قُلْ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ يَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ - (النور: 31) یعنی مومنوں سے کہہ دے کہ کسی کے ستر کو آنکھ پھاڑ کر نہ دیکھیں اور باقی تمام فروج کی بھی حفاظت کریں.لازم ہے کہ انسان چشم خوابیدہ ہوتا ہو یعنی کہ پوری آنکھ نہ کھولے.بلکہ جھکی ہوئی نظر ہوتا کہ غیر محرم عورت کو دیکھ کرفتنہ میں نہ پڑے.کان بھی فروج میں داخل ہیں جو قصص سن کر فتنہ میں پڑ جاتے ہیں یعنی کہ کان جو ہیں یہ بھی فروج میں داخل ہیں.جو قصے سن کر باتیں سن کر پھر فتنے میں پڑ جاتے ہیں.کیونکہ جب آپ جھگڑے کی باتیں ساری جو سنی جاتی ہیں جس طرح کہ پہلے میں نے کہا کہ اس سے کوئی بات کی سنی اور پھر جا کر لڑنے پہنچ گئے.تو یہ بھی اسی زمرہ میں آتا ہے.اسی لئے عام طور پر فرمایا کہ تم مور یوں کی حفاظت رکھو.اور کہا

Page 102

مشعل راه جلد پنجم 84 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کہ بالکل بند رکھو.ذلک از کی لھم یہ تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے.اور یہ طریق اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی رکھتا ہے.جس کے ہوتے ہوئے بدکاروں میں نہ ہوگے.یورپی معاشرہ میں بھی پردہ کا احترام کیا جاتا ہے اب جہاں یہ فرمایا ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو مردوں کو کہ عورتوں کو نہ دیکھو ، وہاں عورتوں کے لئے بھی ہے کہ ایک تو اپنے نظریں نیچی رکھو اور مردوں کو نہ دیکھیں.دوسرے قرآن کریم کے حکم کے مطابق پردہ کریں.اب یہاں یہ بہانے بنائے جاتے ہیں کہ یورپ میں پردہ کرنا بہت مشکل ہے.یہ بالکل غلط بات ہے یہ ایک طرح کاComplex ہے میں سمجھتا ہوں اور عورتوں کے ساتھ مردوں کو بھی ہے ، تم اپنی تعلیم چھوڑ کر خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی بجائے معاشرے کو خوش کرنے کے بہانے تلاش کر رہے ہو.بلکہ اس معاشرے میں بھی سینکڑوں، ہزاروں ہیں جو پردہ کرتی ہیں عورتیں ، ان کو زیادہ عزت اور احترام سے دیکھا جاتا ہے بہ نسبت پردہ نہ کرنے والیوں کے اور معاشرتی برائیاں بھی ان میں اور ان کی اولادوں میں زیادہ پیدا ہو رہی ہیں جو پردہ نہیں کرتیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے.بہت ہی بعض دفعہ بھیا نک صورت حال سامنے آجاتی ہے.Internet Chatting کے نقصانات اب Internet کے بارے میں بھی میں کہنا چاہتا ہوں وہ بھی اسی زمرہ میں آتا ہے پردہ نہ کرنے کے کہ Chatting ہو رہی ہے یونہی نمبر جب آکے Open کر رہے ہوتے ہیں Internet پر بات چیت Chatting شروع ہوگئی اور پھر شروع میں تو بعض دفعہ یہ نہیں پتہ ہوتا کہ کون بات کر رہا ہے؟ یہاں ہماری لڑکیاں بیٹھیں ہیں دوسری طرف پتہ نہیں لڑکا ہے یالڑ کی ہے اور بعض لڑکے خود چھپاتے ہیں اور بعض لڑکیوں سے لڑکی بن کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں.اس طرح یہ بھی میرے علم میں آئی ہے یہ بات ، اور لڑکیاں سمجھ کر یہ تو بات چیت شروع ہوگئی جماعت کا تعارف شروع ہو گیا.اور لڑکی خوش ہورہی ہوتی ہے کہ چلو دعوت الی اللہ کر رہی ہوں یہ پتہ نہیں کہ اس لڑکی کی کیا نیت ہے آپ کی نیست اگر صاف بھی ہے تو دوسری طرف جو لڑکا بیٹھا ہوا ہے Internet پر.تو اس کی نیت کیا ہے.یہ آپ کو کیا پتہ؟ اور آہستہ آہستہ بات اتنی آگے بڑھ جاتی ہے کہ تصویروں کے تبادلے شروع ہو جاتے ہیں.اب تصویر میں دکھانا تو انتہائی بے پردگی کی بات ہے.اور پھر بعض جگہوں پہ رشتے بھی ہوئے

Page 103

مشعل راه جلد پنجم 85 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہیں.جیسے میں نے کہا کہ بڑے بھیانک نتیجے سامنے آئے ہیں.اور ان میں سے اکثر رشتے پھر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد نا کام بھی ہو جاتے ہیں.یا درکھیں کہ آپ نے اگر ( دعوت الی اللہ ) ہی کرنی ہے، دعوت الی اللہ کرنی ہے.لڑکیاں لڑکیوں کو ہی دعوت الی اللہ کریں.اور لڑکوں کو ( دعوت الی اللہ ) کرنے کی ضرورت نہیں.وہ کام لڑکوں کے لئے چھوڑ دیں.کیونکہ جیسے میں نے پہلے بھی کہا کہ یہ ایک ایسی معاشرتی برائی ہے جس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں.آج تو Internet ہے.آج سے پہلے بھی جہاں بھی وہ عورتیں جنہوں نے غیر از جماعت مردوں سے شادیاں کی ہیں اب پریشانی اور پشیمانی کا اظہار کرتی ہیں اور لکھتی ہیں.ہمارے سے یہ غلطی ہو گئی جو غیر از جماعت سے شادی کی.اول تو بچے باپ کی طرف زیادہ رحجان رکھتے ہیں غیر از جماعت باپ کی طرف اس لئے کہ اس میں آزادی زیادہ ہے اور اگر بعض بچیاں ماں کے زیر اثر کچھ نہ کچھ جماعت سے تعلق رکھ بھی رہی ہیں تو باپ مجبور کر رہا ہے کہ تمہاری شادی غیر از جماعت میں ہی ہوگی.تو بعض بچیاں باپوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں لکھتی ہیں کہ ہماری مدد کی جائے ہم نہیں شادی کرنا چاہتے غیر از جماعت میں لیکن اکثر مجبور بھی ہوتی ہیں.تو مائیں بھی اور باپ بھی اس بات پر نظر رکھیں کہ اس طرح کھلے طور پر یہ Internet کے رابطے نہیں ہونے چاہئیں.پیار سے سمجھا ئیں آرام سے سمجھا ئیں.لڑکیاں خود بھی جو شعور کی عمرکو پہنچی ہوئی ہیں.خود بھی ہوش کریں ورنہ یا درکھیں کہ احمدی ماؤں کی کوکھوں سے نکلنے والے بچے آپ غیروں کی گودوں میں دے رہی ہوں گی.کیوں اپنے آپ پر اور اپنی نسلوں پر ظلم کر رہے ہیں آپ لوگ.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھتا ہوں آپ فرماتے ہیں:.یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ذرا ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو.اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ھوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطر ناک ہوں گے بدنظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں

Page 104

86 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں.تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا.مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں.نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین دنیاوی لذات کو اپنا محبوب بنا رکھا ہے.پس سب سے اول ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی (جو آزادی کا نعرہ لگانے والے وہ سن لیں کہ آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو.اگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم از کم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات سے مغلوب نہ ہو سکیں تو اس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں ورنہ موجودہ حالات میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گویا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کسی بات کے نتیجے پر غور نہیں کرتے کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جاوے قرآن شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر حسب حال تعلیم دیتا ہے.کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے فرمایا:- قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ.که تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں.یہ وہ عمل ہے جس سے ان کے نفوس کا تزکیہ ہوگا فروج سے مراد شرمگاہ ہی نہیں.بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور ان میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جائے پھر یا درکھو کہ ہزار درہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے آخر کا ر انسان کو ان سے رکنا ہی پڑتا ہے“ پھر آخر میں فرمایا ہے اسی آیت کی اگلی تشریح میں کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والیاں بنوں.اس میں ایک تو پانچ وقت کی نمازوں کی طرف توجہ ہے کہ خود بھی نمازوں کو سنوار کر جو نماز پڑھنے کا حق ہے، اس حق کے ساتھ پڑھو.ٹھہر ٹھہر کر غور سے ہر لفظ جو تم پڑھتے ہو اس کو سمجھو.ذہن میں ہو کہ ہم اللہ کے حضور حاضر ہیں اور اس سے کچھ مانگنے آئی ہیں.وہی ہے جو ہمارا پیدا کرنے والا ہے.وہی ہے جو ہماری مشکلیں آسان کرنے والا ہے.وہی ہے

Page 105

مشعل راه جلد پنجم 87 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جس نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں.اور یہ باتیں اپنی اولادوں کے ذہنوں میں بھی ڈالیں.اپنے بچوں کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتی رہیں پھر ہر وقت یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ مختلف وقتوں میں ہم نے جو نمازیں پڑھی ہیں ان کا اثر اب ہمارے ذہنوں پر ہر وقت قائم رہنا چاہیے ہر کام کرتے وقت اللہ کے نام سے شروع کیا جائے.اللہ کے ذکر سے زبانیں تر رکھی جائیں درود شریف پڑھا جائے تو خدا تک پہنچنے کا راستہ اب رسول اللہ ” کے ذریعہ سے ہی ہے، بچوں کواس ما حول میں رکھیں.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا، ایک دفعہ عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہ.سکول بھجوانے کے لئے ویسے بھی جب مائیں اپنے بچوں کو تیار کر رہی ہوتی ہیں اس وقت بھی ساتھ ساتھ بچوں کے لئے دعائیں کرتی جائیں.تو اس سے ایک تو بچوں میں بھی دعائیں کرنے کی عادت پیدا ہو جائے گی دوسرے ان بچوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنا رہی ہوں گی آپ ان دعاؤں کے ذریعے سے اور یہ بچے جب بھی آپ سے جدا ہوں گے وقت گزاریں گے سکول کا یا جہاں بھی کھیلنے گئے ہیں تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں گے ان دعاؤں کے حصار میں ہوں گے جو آپ ان کے لئے ہر وقت کرتی رہتی ہیں پھر خاوندوں کو بھی توجہ دلائیں نمازوں کے لئے انہیں اٹھا ئیں خاوند بیوی کونماز کے لئے اٹھانا اور بیوی کا خاوند کو نماز کے لئے اٹھا نا دونوں کو حدیثوں میں آیا ہے کہ ثواب ہوتا ہے اس کا.ہمیشہ یا درکھیں کہ انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے.یہ دنیاوی چیز یں تو عارضی ہیں ختم ہو جائیں گی.ساٹھ ، ستر ، اسی سال کی عمر میں اللہ کے حضور حاضر ہونا ہی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان نیکیوں پر قائم کرے اور آپ سب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی ہوں اور جماعت کی تعلیم پر عمل کرنے والی ہوں.جماعت کا وقار بلند کرنے والی ہو اور اس اجتماع میں جو کچھ آپ نے حاصل کیا اس پر اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو عمل کرنے کی توفیق دے.

Page 106

مشعل راه جلد پنجم 88 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 107

مشعل راه جلد پنجم 89 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 5 دسمبر 2003ء نظام جماعت بچپن سے ہراحمدی کو محبت کی لڑی میں پروکر رکھتا ہے ذیلی تنظیموں کے قیام کا مقصد خلیفہ وقت کے ساتھ ہر موقع پر ذاتی پیار اور محبت کا تعلق تمام عہدیداران خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں بغیر تحقیق کے ہرگز کسی کی رپورٹ نہ کریں سیکرٹری امور عامہ کے فرائض سیکرٹریاں تعلیم کی ذمہ داریاں ہراحمدی بچے کو F.A ضرور کرنا چاہیے سیکرٹریان تربیت اور اصلاح وارشاد کی ذمہ داریاں بے چینی پیدا کرنے والی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے اپنی نسلوں میں بھی نظام جماعت کا احترام پیدا کریں عہدیداران دوسرے ماتحت عہد یداران یا کارکنان کا احترام کریں فیصلہ کرنے کا صحیح اصول ایک خصوصی دعا کی تحریک

Page 108

مشعل راه جلد پنجم 90 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورہ آل عمران کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرُلَهُمْ وَشَاوِرُ هُمُ فِى الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلُ عَلَى اللهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ اس کے بعد ارشاد فرمایا:- ( آل عمران: ۱۶۰) نظام جماعت بچپن سے ہر احمدی کو محبت کی لڑی میں پروکر رکھتا ہے.جماعت احمدیہ کا نظام ایک ایسا نظام ہے جو بچپن سے لے کر مرنے تک ہر احمدی کو ایک پیارا اور محبت کی لڑی میں پروکر رکھتا ہے.بچہ جب سات سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسے ایک نظام کے ساتھ وابستہ کر دیا جاتا ہے اور وہ مجلس اطفال الاحمدیہ کا ممبر بن جاتا ہے.ایک بچی جب سات سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو وہ ناصرات الاحمدیہ کی رکن بن جاتی ہے جہاں انہیں ایک ٹیم ورک کے تحت کام کرنے کی تربیت دی جاتی ہے.پھر انہی میں سے ان کے سائق بنا کر اپنے عہد یدار کی اطاعت کا تصور پیدا کیا جاتا ہے.پھر پندرہ سال کی عمر کو جب پہنچ جائیں تو بچے خدام الاحمدیہ کی تنظیم میں اور بچیاں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم میں شامل ہو جاتی ہیں اور ایک انتظامی ڈھانچے کے تحت بچپن سے تربیت حاصل کر کے اوپر آنے والے بچے اور بچیاں ہیں جب نوجوانی کی عمر میں قدم رکھتے ہیں تو ان نیک تنظیموں میں شامل ہونے سے جماعتی نظام اور طریقوں سے ان کو مزید واقفیت پیدا ہوتی ہے.اور عمر کے ساتھ ساتھ چونکہ اب یہ بچے اور بچیاں اس عمر کو پہنچ جاتے ہیں کہ جس میں شعور پیدا ہو جاتا ہے.اس لئے پندرہ سال کی عمر کے بعد یہ خود بھی اپنے میں سے ہی اپنے عہدیدار منتخب کرتے ہیں اور ان کے تحت ان کی تربیت ہو رہی ہوتی ہے اور انتظام چل رہا ہوتا ہے.ذیلی تنظیموں کے قیام کے مقاصد تو پندرہ سال کی عمر کے بعد جیسا کہ میں نے کہا کہ لجنہ یا خدام میں جا کر یہ لوگ اپنے عہد یدار اپنے میں

Page 109

91 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم سے منتخب کرتے ہیں اور پھر مرکزی ہدایات کی روشنی میں متفرق امور اور تربیتی امور خود سرانجام دے رہے ہوتے ہیں اور ان پر عمل بھی کرتے ہیں.تو بچپن سے ہی ایسی تربیت حاصل کرنے کی وجہ سے، ایسے پروگراموں میں شمولیت کی وجہ سے ان کو Training ہو جاتی ہے اور پھر یہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں اور جماعتی نظام میں پوری طرح سموئے جاتے ہیں تو جماعتی کاموں میں بھی زیادہ فائدہ مند اور مفید وجود ثابت ہوتے ہیں اور اُس نظام کا ایک حصہ بنتے ہیں.تو بہر حال انہیں ذیلی نظاموں کا حصہ بنتے ہوئے ہر بچہ ، جوان عورت ، مرد جب جماعتی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں تو گو جماعتی نظام پہلے ہے، مقدم ہے.لیکن اس میں ہر بچے اور نوجوان کی اس طرح مکمل Involvement نہیں ہوتی جس طرح کہ شروع میں ذیلی تنظیموں میں ہو رہی ہوتی ہے اور ہو بھی نہیں سکتی.اس لئے حضرت مصلح موعود کی دور رس نظر نے یہ ذیلی تنظیموں کا قیام کیا تھا اور یہ آپ کا ایک بہت بڑا احسان ہے جماعت پر اور اسی وجہ سے جیسا کہ میں نے کہا ابتدا سے ہی جماعت کے ہر بچہ کے ذہن میں جماعتی نظام کا ایک تقدس اور احترام پیدا ہو جاتا ہے اور اسی احترام اور تقدس کے تحت وہ پروان چڑھتا ہے.خلیفہ وقت کے ساتھ ہر موقع پر ذاتی پیار اور محبت کا تعلق اور چونکہ ابتدا سے ہی نظام کا تصور پیارا اور محبت اور بھائی چارے اور مل جل کر کام کرنے کی روح کے ساتھ وہ بچہ پروان چڑھ رہا ہوتا ہے اور پھر خلیفہ وقت کے ساتھ ہر موقع پر ذاتی پیار اور محبت کا تعلق اس ٹرینگ کی وجہ سے ہو رہا ہوتا ہے اور ہو جاتا ہے اس لئے ہر فردِ جماعت جب جماعت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہو اور اپنے عہدیداران کی اطاعت بخوشی کرتا ہے تو اس لئے کرتا ہے کہ بچپن سے نظام کے بارہ میں پڑنے والی آواز اور خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق اور پیار کی وجہ سے مجبور ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام جماعت کیونکہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے اور خلیفہ وقت کی براہِ راست اس پر نظر ہوتی ہے.اس لئے نئے شامل ہونے والے نو مبائعین بھی اُن احمدیوں کے علاوہ بھی جو پیدائشی احمدی ہوں بڑی جلدی نظام میں سموئے جاتے ہیں.لیکن جیسے جیسے یہ سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے نظام جماعت کو چلانے والے کارکنان اور عہدیداران کی ذمہ داریاں بھی زیادہ بڑھتی چلی جارہی ہیں، انہیں تسبیح اور استغفار کی طرف توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے.

Page 110

مشعل راه جلد پنجم 92 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ کا جو حکم ہے اس طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.اور یہی چیز ان کو زیادہ احساس دلا رہی ہے یا کم از کم احساس دلانا چاہیے کہ اپنی طبیعتوں میں نرمی پیدا کرنے کی طرف زیادہ توجہ دیں.اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دینے کے احساس کو زیادہ ابھارنے کی ضرورت ہے.نظامِ جماعت کی ذمہ داری ادا کرتے وقت اپنی اناؤں اور خواہشات کو مکمل ختم کر کے خدمت سرانجام دینے کی طرف توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اور پہلے سے بڑھ کر ضرورت ہے.ذرا ذراسی بات پر غصے میں آنے کی عادت کو عہد یداران کو ترک کرنا ہوگا اور کرنا چاہیے.جماعتی عہد یدار قوم کے سردار نہیں ، قوم کے خادم ہیں جماعت کے احباب سے پیار محبت کے تعلق کو بڑھانے ، ان کی باتوں کوغور سے سننے اور ان کے لئے دعائیں کرنے کی عادت کو مزید بڑھانا چاہیے.تبھی سمجھا جاسکتا ہے کہ عہد یداران اپنی ذمہ داریاں مکمل طور پر ادا کر رہے ہیں یا کم از کم ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.جماعت احمدیہ میں عہد یدار اسٹیجوں پر بیٹھنے یا رعونت سے پھرنے کے لئے نہیں بنائے جاتے بلکہ اس تصور سے بنائے جاتے ہیں کہ قوم کے سردار قوم کے خادم ہیں.تمام عہدیداران خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جماعت کو اکٹھا رکھنے کیلئے ایک رہنما اصول اس آیت میں بتا دیا ہے جو میں نے تلاوت کی ہے.تو اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوبی کی وجہ سے کہ آپ کے دل میں لوگوں کیلئے نرمی اور محبت کے جذبات تھے، لوگ آپ کے ارد گرد اکٹھے ہوتے تھے اور آپ کے پاس آتے تھے، تو پھر میں اور آپ ہم کون ہوتے ہیں جو محبت اور پیار کے جذبات لوگوں کے لئے نہ دکھا ئیں؟ اور امید رکھیں کہ لوگ ہماری ہر بات مانیں.ہمیں تو اپنے آقا کی اتباع میں بہت بڑھ کر سعاجزی، انکساری، پیار اور محبت کے ساتھ لوگوں سے پیش آنا چاہیے کیونکہ خلیفہ وقت کے لئے تو ہر ملک میں، ہر شہر میں یا ہر محلہ میں جا کر لوگوں کے حالات سے واقفیت حاصل کرنا مشکل ہے.یہ نظام جماعت قائم ہے جیسا کہ میں نے بتایا کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے.وہ تمام عہد یدار چاہے ذیلی تنظیموں کے عہد یدار

Page 111

مشعل راه جلد پنجم 93 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہوں ، چاہے جماعتی عہدیدار ہوں خلیفہ وقت کے نمائندے کے طور پر اپنے اپنے علاقے میں متعین ہیں اور ان سے یہی امید کی جاتی ہے اور یہی تصور ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں.بغیر تحقیق کے ہرگز کسی کی رپورٹ نہ کریں اگر وہ اپنے علاقے کے احمدیوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے، ان کی غمی خوشی میں شریک نہیں ہورہے ، ان سے پیار محبت کا سلوک نہیں کر رہے یا اگر خلیفہ وقت کی طرف سے کسی معاملے میں رپورٹ منگوائی جاتی ہے تو بغیر تحقیق کے مکمل طریق کے جواب دے دیتے ہیں یا کسی ذاتی عناد کی وجہ سے، جو خدا نہ کرے ہمارے کسی عہدیدار میں ہو، غلط رپورٹ دے دیتے ہیں تو ایسے تمام عہدیدار گناہ گار ہیں.ابھی گزشتہ دنوں بغیر مکمل تحقیق کے ایک رپورٹ چند احمدیوں کے بارہ میں مقامی جماعت کی طرف سے مرکز میں آئی کہ انہوں نے فلاں فلاں جماعتی روایات سے ہٹ کر کام کیا ہے اور جماعتی قواعد کے مطابق اس کی سزا اخراج از نظام جماعت تھی تو جب مرکزی دفتر نے مجھے لکھا اور ان اشخاص کو اخراج از نظام جماعت کی سزا ہوگی تو جن کو سزا ہوئی تھی انہوں نے شور مچایا کہ ہمارا تو اس کام سے کوئی واسطہ ہی نہیں.ہم بالکل معصوم ہیں اور کسی طرح بھی ہم ملوث نہیں ہیں.تو پھر مرکز نے نئے سرے سے کمیشن خود مقرر کیا اور تحقیق کی تو پتہ چلا کہ صدر جماعت نے بغیر مکمل تحقیق کے رپورٹ کر دی تھی اور اب صدر صاحب کہتے ہیں غلطی سے نام چلا گیا.یعنی یہ تو بچوں کا کھیل ہو گیا کہ ایک معصوم کو اتنی سخت سزا دلوا ر ہے ہیں اور پھر بھولے بن کر کہہ دیا کہ غلطی سے نام چلا گیا.تو ایسے غیر ذمہ دار صدر کو تو میں نے مرکز کو کہا ہے کہ فوری طور پر ہٹا دیا جائے اور آئندہ بھی جو کوئی ایسی غیر ذمہ داری کا ثبوت دے گا اس کو پھر تا زندگی کبھی کوئی جماعتی عہدہ نہیں ملے گا.ایسے شخص نے ہمیں بھی گناہگار بنوایا.اللہ تعالیٰ معاف فرمائے.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت معقل بن لیسار بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران اور ذمہ دار بنایا ہے وہ اگر لوگوں کی نگرانی اپنے فرض کی ادائیگی اور ان کی خیر خواہی میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کے مرنے تک اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت حرام کر دے گا اور اسے بہشت نصیب نہیں کرے گا.(مسلم کتاب الایمان باب استحقاق الوالى الغاش لرعیة النار )

Page 112

مشعل راه جلد پنجم 94 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی تمام لوگ اپنے اپنے دائرہ عمل میں نگران بنائے گئے ہیں پھر ایک حدیث میں ہے ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اس سے اپنی رعایا کے بارہ میں پوچھا جائے گا.امیر نگران ہے اور آدمی اپنے گھر کا نگران ہے عورت بھی اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے.اولاد کی نگران ہے پس تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی ذمہ داری کو کس طرح نبھایا ہے، تو تمام عہدیداران اپنے اپنے دائرہ عمل میں نگران بنائے گئے ہیں.میں نے پہلے بھی ذیلی تنظیموں کا بھی ذکر کیا ہے کہ بعض دفعہ بعض رپورٹیں ذیلی تنظیموں کی معلومات پر مبنی ہوتی ہیں ان کی طرف سے آ رہی ہوتی ہیں تو اگر ہر لیول Level پر اس نگرانی کا صحیح حق ادا نہیں ہور ہا ہوگا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرما دی ہے کہ اگر تم بطور نگران اپنے فرائض کی ادائیگی نہیں کر رہے تو تم پوچھے جاؤ گے.اللہ تعالیٰ کے حضور مجرم کی حیثیت سے حاضر ہونا اور پوچھے جانا بذات خود ایک خوف پیدا کرنے والی بات ہے.لیکن یہاں جو فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ تم پوچھے جاؤ گے اور شاید نرمی کا سلوک ہو جائے اور جان بچ جائے.بلکہ فرمایا کہ جنت ایسے لوگوں پر حرام کر دی جائے گی.پس بڑا شدید انذار ہے، خوف کا مقام ہے ، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر عہد یدار کوذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.رائے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ ذیلی تنظیموں کی عاملہ ہو، لجنہ ، انصار، خدام کی ، یا جماعت کی عاملہ کوکسی کے بارہ میں جب کوئی رائے قائم کرنی ہو اس بارہ میں جلدی نہیں کرنی چاہیے.چاہے اس شخص کے گزشتہ رویے کے بارے میں علم ہو کہ کوئی بعید نہیں کہ اس نے ایسی حرکت کی ہو اس لئے اس کو سزا دے دو یا سزا کی سفارش کر دو نہیں ! بلکہ جو معاملہ عاملہ کے سامنے پیش کیا ہے اس کی مکمل تحقیق کریں.اگر شک کا فائدہ مل سکتا ہے تو اس کو ملنا چاہیے جس پر الزام لگ رہا ہے.اگر وہ شخص مجرم ہے تو شاید اس کو یہ احساس ہو جائے کہ گو میں نے جرم تو کیا ہے لیکن شک کی وجہ سے مجھ سے صرف نظر کیا گیا ہے تو آئندہ اُس کی اصلاح بھی ہو سکتی ہے.یا کم از کم مجلس عاملہ یا ایسے عہد یدار اس حدیث پر تو عمل کرنے والے ہوں گے جو حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، بیان کرتی ہیں کہ :-

Page 113

مشعل راه جلد پنجم 95 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان کو سزا سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کرو.اگر اس کے بچنے کی کوئی راہ نکل سکتی ہو تو معاملہ رفع دفع کرنے کی سوچو.امام کا معاف اور درگزر کرنے میں غلطی کرنا سزا دینے میں غلطی کرنے سے بہتر ہے“.فرمایا:- (جامع ترمذی ابواب الحدود، باب ما جاء فی درء الحدود ) پھر ایک حدیث ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے "جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ہو اللہ اس کے حاجات اور مقاصد پورے نہیں کرے گا جب تک وہ لوگوں کی ضروریات پوری نہ کرے.(الترغیب والترہیب بحوالہ طبرانی و ترمذی ) تو اس حدیث میں یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ بحیثیت عہدیدار تم پر بڑی ذمہ داری ہے، بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اس لئے صرف یہ نہ سمجھو کہ عہد یدار بن کر صرف عاملہ میں بیٹھ کر جو معاملات لڑائی جھگڑے یا لین دین کے آتے ہیں ان کو ہی نمٹانا مقصود ہے.بلکہ ہر عہدیدار پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائے ہر سیکرٹری اپنے فرائض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے.سیکرٹری امور عامہ کے فرائض اب سیکرٹری امور عامہ کا صرف یہ کام ہی نہیں ہے کہ آپس کے فیصلے کروائے جائیں یا غلط حرکات اگر کسی کی دیکھیں تو انہیں دیکھ کر مرکز میں رپورٹ کر دی جائے.اس کا یہ کام بھی ہے کہ اپنی جماعت کے ایسے بے کار افراد جن کو روزگار میسر نہیں، خدمت خلق کا بھی کام ہے اور روزگار مہیا کرنے کا بھی کام ہے اس کے لئے روز گار کی تلاش میں مدد کرے.بعض لوگ طبعاً کاروباری ذہن کے بھی ہوتے ہیں.ایسے لوگوں کی فہرستیں تیار کریں.اگر ایسے افراد میں صلاحیت دیکھیں تو تھوڑی بہت مالی مدد کر کے معمولی کاروبار بھی ان سے شروع کر وایا جا سکتا ہے اور اگر ان میں صلاحیت ہوگی تو وہ کاروبار چمک بھی جائے گا اور آہستہ آہستہ بہتر کاروبار بن سکتا ہے.میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو پاکستان میں بھی سائیکل پر پھیری لگا کر یا کسی دوکان کے تھڑے پر بیٹھ

Page 114

96 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم کے ٹوکری رکھ کر یا چند کپڑے کے تھان رکھ کر اس وقت دکانوں کے مالک بنے ہوئے ہیں.تو یہ ہمت دلانا بھی توجہ دلانا بھی ایسے لوگوں کے پیچھے پڑ کر کہ کسی نہ کسی کام پر لگیں یہ بھی جماعتی نظام یا جماعتی نظام کے عہدیدار کا کام ہے، جس کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے یعنی سیکرٹری امور عامہ.سیکرٹریاں تعلیم کی ذمہ داریاں پھر سیکرٹری تعلیم ہے عموماً سیکرٹریان تعلیم جماعتوں میں اتنے فعال نہیں جتنی ان سے توقع کی جاتی ہے یا کسی عہد یدار سے توقع کی جاسکتی ہے اور یہ میں یونہی اندازے کی بات نہیں کر رہا.ہر جماعت اپنا اپنا جائزہ لے لے تو پتہ چل جائے گا کہ بعض سیکرٹریان پورے سال میں کوئی کام نہیں کرتے حالانکہ، مثلا سیکرٹری تعلیم کی مثال دے رہا ہوں.سیکرٹری تعلیم کا یہ کام ہے کہ اپنی جماعت کے ایسے بچوں کی فہرست بنائے جو پڑھ رہے ہیں، جو سکول جانے کی عمر کے ہیں اور سکول نہیں جا رہے.پھر وجہ معلوم کریں کہ کیا وجہ ہے کہ یہ سکول نہیں جا رہے؟ مالی مشکلات ہیں یا صرف نکما پن ہی ہے.اور ایک احمدی بچے کو تو توجہ دلانی چاہیے کہ اس طرح وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے.مثلاً پاکستان میں ہر بچے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی نے یہ شرط لگائی تھی کہ ضرور میٹرک پاس کرے.ہر احمدی بچے کو F.A ضرور کرنا چاہیے بلکہ اب تو معیار کچھ بلند ہو گئے ہیں اور میں کہوں گا کہ ہر احمدی بچے کو ایف.اے ضرور کرنا چاہیے.افریقہ میں جو کم از کم معیار ہے پڑھائی کا.سیکنڈری سکول کا یا جی سی ایس سی ، یہاں بھی ہے وہاں بھی.اسی طرح ہندوستان اور بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں میں، یہاں بھی میں نے دیکھا ہے یورپ کے امریکہ کے بعض لڑکے ملتے ہیں وہ پڑھائی چھوڑ بیٹھے ہیں تو یہ کم از کم معیار ضرور حاصل کرنا چاہیے.بلکہ یہاں تو تعلیمی سہولتیں ہیں بچوں کو اور بھی آگے پڑھنا چاہیے اور سیکرٹریان تعلیم کو اپنی جماعت کے بچوں کو اس طرف توجہ دلاتے رہنا چاہیے.اگر تو یہ بچے جس طرح میں نے پہلے کہا کسی مالی مشکل کی وجہ سے انہوں نے پڑھائی چھوڑی ہوئی ہے تو جماعت کو بتائیں.جماعت انشاء اللہ حتی الوسع ان کا انتظام کرے گی اور پھر یہ بھی ہوتا ہے بعض دفعہ کہ بعض بچوں کو عام روایتی پڑھائی میں دلچسپی نہیں ہوتی.اگر اس میں دلچسپی نہیں ہے تو پھر کسی ہنر کے سیکھنے کی طرف بچوں کو توجہ

Page 115

مشعل راه جلد پنجم 97 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی دلائیں.وقت بہر حال کسی احمدی بچے کا ضائع نہیں ہونا چاہیے.پھر ایسی فہرستیں ہیں جو ان پڑھے لکھوں کی تیار کی جائیں جو آگے پڑھنا چاہتے ہیں.Higher Studies کرنا چاہتے ہیں لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے نہیں پڑھ سکتے تو جس حد تک ہو گا جماعت ایسے لوگوں کی مدد کرے گی لیکن بہر حال سیکرٹریان تعلیم کو خود بھی اس سلسلے میں Active ہونا پڑے گا اور ہونا چاہیے.تو یہ چند مثالیں ہیں جو ذمہ داری ہے سیکرٹری تعلیم کی اور بھی بہت سارے کام ہیں اس بارے میں چند مثالیں میں نے دی ہیں.اگر محلے کے Level سے لے کر National Level تک سیکرٹریان تعلیم مؤثر ہو جائیں اور کام کرنے والے ہوں تو یہ تمام باتیں جو میں نے بتائی ہیں اور ان کے علاوہ بھی اور بہت ساری باتیں ہیں ان سب کا علم ہوسکتا ہے، فہرست تیار ہو سکتی ہے اور پھر ایسے طلباء کی مددکر کے پھر آگے پڑھایا بھی جاسکتا ہے.سیکرٹری تربیت اور اصلاح وارشاد کی ذمہ داریاں پھر سیکرٹری تربیت یا اصلاح وارشاد ہے ان کو بھی بہت فعال کرنے کی ضرورت ہے.اگر یہ سیکرٹریان تربیت یا اصلاح وارشاد بعض جگہوں پر کہلاتے ہیں اپنے معین پروگرام بنا کر نچلے سے نچلے Level سے لے کر مرکزی Level تک کام کریں جس طرح کام کرنے کا حق ہے تو امور عامہ کے مسائل بھی اس تربیت سے حل ہو جائیں گے تعلیم کے مسائل بھی کافی حد تک کم ہو جائیں گے ، رشتہ ناطہ کے مسائل بھی بہت حد تک کم ہو جائیں گے.یہ شعبے آپس میں اتنے ملے ہوئے ہیں کہ تربیت کا شعبہ فعال ہونے سے بہت سارے شعبے خود ہی فعال ہو جاتے ہیں اور جماعت کا عمومی روحانی معیار بھی بلند ہوگا.تو یہ جو حدیث ہے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے سے یہ مراد ہے کہ یہ عہدے تمہارے سپرد ہیں.ان عہدوں کی ذمہ داری کو سمجھو اور ان کو ادا کرو.جب اس طریق سے ہر عہدیدار اپنے اپنے شعبہ کی ذمہ داریاں ادا کرے گا تو لوگوں کے دلوں میں آپ کے لئے مزید عزت و احترام پیدا ہوگا اور جیسا کہ میں نے کہا جماعت کا عمومی معیار بھی بلند ہو گا.اس بارے میں حضرت مصلح موعود کا ایک اقتباس ہے وہ میں سناتا ہوں.فرمایا :- دنیا میں بہترین مصلح وہی سمجھا جاتا ہے جو تربیت کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں ایسی روح پیدا کر دیتا ہے کہ اس کا حکم ماننا لوگوں کے لئے آسان ہو جاتا ہے اور وہ اپنے دل پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم باقی الہامی کتب پر فضیلت رکھتا ہے اور الہامی کتابیں تو یہ

Page 116

مشعل راه جلد پنجم 98 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کہتی ہیں کہ یہ کرو اور وہ کرو مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ اس لئے کرو، اس لئے کرو.گویا وہ خالی حکم نہیں دیتا بلکہ اس حکم پر عمل کرنے کی انسانی قلوب میں رغبت بھی پیدا کر دیتا ہے.تو سمجھانا اور سمجھا کر قوم کے افراد کو ترقی کے میدان میں اپنے ساتھ لئے جانا، یہ کامیابی کا ایک اہم گر ہے اور قرآن کریم نے اس پر خاص زور دیا ہے.چنانچہ سورہ لقمان میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے جو نصیحتیں بیان کی گئی ہیں.ان میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ وَاقْصِدُ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِک (لقمان:۲۰) کہ تمہارے ساتھ چونکہ کمزور لوگ بھی ہوں گے اس لئے ایسی طرز پر چلنا کہ کمزور رہ نہ جائیں.بے شک تم آگے بڑھنے کی کوشش کرو مگر اتنے تیز بھی نہ ہو جاؤ کہ کمزور طبائع بالکل رہ جائیں.دوسرے جب بھی تم کوئی حکم دو محبت اور پیار اور سمجھا کر دو.اس طرح نہ کہو کہ ” ہم یوں کہتے ہیں ( تو قرآن شریف کی تعلیم تو یہ ہے کہ محبت اور پیار سے حکم دو نہ کہ آرڈر ہو.) بلکہ ایسے رنگ میں بات پیش کرو کہ لوگ اُسے سمجھ سکیں اور وہ کہیں کہ اس کو تسلیم کرنے میں تو ہمارا اپنا فائدہ ہے.وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ کے یہی معنی ہیں.گویا میانہ روی اور پر حکمت کلام یہ دو چیزیں مل کر قوم میں ترقی کی رُوح پیدا کیا کرتی ہیں اور پر حکمت کلام کا بہترین طریق یہ ہے کہ دوسروں میں ایسی روح پیدا کر دی جائے کہ جب انہیں کوئی حکم دیا جائے تو سننے والے کہیں کہ یہی ہماری اپنی خواہش تھی.یہی وقت ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کا قدم ترقی کی طرف سرعت کے ساتھ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے.“ (مشعل راه جلد اول صفحه 15) بے چینی پیدا کرنے والی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے پھر بعض اور بھی شکایات ہیں.بعض جگہ سے شکایت آ جاتی ہے کہ ہم نے اپنے حالات کی وجہ سے امداد کی درخواست کی جو مرکز سے مقامی جماعت میں تحقیق کے لئے آئی تو صدر جماعت بڑے غصے میں آئے اور کہا کہ تم نے براہ راست درخواست کیوں دی؟ ہمارے ذریعے کیوں نہ بھجوائی.لکھنے والے بھی لکھتے ہیں کہ ہم نے تو ان سے معافی مانگ لی.دوبارہ ان کے ذریعے سے درخواست بھجوائی گئی اور ایک لمبا عرصہ گزر گیا ہے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور پتہ بھی نہیں لگا.جو ہماری ضرورت تھی اسی طرح قائم ہے.ایک تو ڈانٹ ڈپٹ کی گئی، بے عزتی کر کے معافی منگوائی گئی، دوبارہ درخواست لکھوائی اور پھر کارروائی بھی نہیں کی.اگر کسی عہدیدار نے یا صدر جماعت نے یہ سمجھ کر کہ یہ درخواست لکھنے والا یا درخواست دہندہ اس قابل نہیں ہے کہ اس

Page 117

99 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم کی امداد کی جائے ایسے لوگوں کو پیار سے بھی سمجھایا جا سکتا ہے اور پھر اگر مدد نہیں کرنی تھی تو درخواست دوبارہ لکھوانے کی ضرورت ہی کیا تھی.تو یہ چیزیں ایسی ہیں کہ بلا وجہ عہدیدار کے لئے لوگوں کے دلوں میں بے چینی پیدا کرتی ہیں.ان چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے.امراء ہوں ،صدر ان ہوں ہر وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ وہ خلیفہ وقت کے نمائندے کے طور پر جماعتوں میں متعین کئے گئے ہیں اور اس لحاظ سے انہیں ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے.ابوالحسن بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن مرگا نے حضرت معاویہ سے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو امام حاجت مندوں ، ناداروں اور غریبوں کے لئے اپنا دروازہ بند رکھتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضروریات وغیرہ کے لئے آسمان کا دروازہ بند کر دیتا ہے.( جامع ترمذی ابواب الاحکام، باب فی امام الرعية ) حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کو سننے کے بعد حضرت معاویہؓ نے ایک شخص کو مقرر کر دیا کہ لوگوں کی ضروریات اور مشکلات کا مداوا کیا کرے اور ان کی ضرورتیں پوری کرے.تو جماعتی نظام جو ہے وہ اس لئے مقرر کیا گیا ہے.پھر حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہاں بھی تم ہو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.اگر کوئی بُرا کام کر بیٹھو تو اس کے بعد نیک کام کرنے کی کوشش کرو.یہ نیکی بدی کو مٹادے گی اور لوگوں سے خوش اخلاقی اور حسن سلوک سے پیش آؤ.(جامع ترمذی ابواب البر والصلۃ ، باب فی ما معاشرۃ الناس) ابو بردہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسی اور معاذ بن جبل کو یمن کی طرف والی بنا کر بھیجا آپ نے ہر ایک کو ایک ایک حصہ کا والی مقرر کر کے بھیجا ( یمن کے دوحصے تھے.) پھر فرمایا :- آسانی پیدا کرنا مشکلیں پیدا نہ کرنا.محبت اور خوشی پھیلانا اور نفرت نہ پہنے دینا.( بخاری کتاب المغازی، باب بعث ابی موسی و معاذ الی الیمن) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری اس کوٹھڑی میں فرمایا :- یا اللہ ! جو کوئی میری امت کا حاکم ہو پھر وہ اس پر سختی کرے تو تو بھی ان پر سختی کرنا اور جو کوئی میری امت کا حاکم ہو اور وہ اس پر نرمی کرے تو تو بھی اس سے نرمی فرمانا.( صحیح مسلم کتاب الامارۃ ، باب فضيلة الامام العادل.....

Page 118

مشعل راه جلد پنجم 100 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی اپنے اندر اور اپنی نسلوں میں بھی نظام جماعت کا احترام پیدا کریں اصل میں تو امراء صدران، عہدیداران یا کارکنان جو بھی ہیں ان کا اصل کام تو یہ ہے کہ اپنے اندر بھی اور لوگوں میں بھی نظام جماعت کا احترام پیدا کیا جائے.اور اسی طرح جماعت کے تمام افراد کا بھی یہی کام ہے کہ اپنے اندر بھی اور اپنی نسلوں میں بھی جماعت کا احترام پیدا کریں.نظام جماعت کا احترام پیدا کریں.حضرت مصلح موعود نے تو فرمایا تھا کہ جو نصائح میں عہدیداران کے لئے کرتا ہوں اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ صرف عہد یداران کے لئے ہیں.بلکہ تمام افرادِ جماعت مخاطب ہوتے ہیں اور ان کو بھی یہ نصائح ہیں.ہوسکتا ہے کہ کل کو ایک عہدیدار کے ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جانے کی وجہ سے یا بیمار ہو جانے کی وجہ سے یا بڑھاپے کی وجہ سے یا فوت ہو جانے کی وجہ سے، کوئی دوسرا شخص اس کے عہدے کے لئے مقرر کر دیا جائے.پھر انتخابات بھی ہوتے ہیں، عہدے بدلتے بھی رہتے ہیں تو ہر ایک کو اپنے ذہن میں یہ سوچ رکھنی چاہیے کہ جب بھی وہ عہد یدار بنیں گے وہ ایک خادم کے طور پر خدمت کرنے کے لئے بنیں گے.بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ عہد یدار بدلے بھی جاتے ہیں.خلیفہ وقت خود بھی اپنی مرضی سے بعض عہدوں کو تبدیل کر دیتے ہیں.تو بہر حال نئے آنے والے شامل ہوتے ہیں اور نئے آنے والوں کی بھی یہی سوچ ہونی چاہیے اور اگر بنیادی ٹرینگ ہوگی تو اس سوچ کے ساتھ جو عہدہ ملے گا ان کو کام کرنے کی سہولت بھی رہے گی.تو جیسا کہ میں نے کہا ہر شخص کو اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے کہ اس کو نظام جماعت کا احترام کرنا ہے اور دوسروں میں بھی یہ احترام پیدا کرنا ہے تو خلیفہ وقت کی تسلی بھی ہوگی کہ ہاں ہر جگہ کام کرنے والے کارکنان نظام کو سمجھنے والے کارکنان ، کامل اطاعت کرنے والے کارکنان میسر آ سکتے ہیں.تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ اصل کام نظام جماعت کا احترام قائم کرنا ہے اور اس کو صحیح خطوط پر چلانا ہے.تو اس کے لئے عہد یداران کو، کارکنان کو دو طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے.ایک تو وہ ہیں جو جماعت کے عام ممبر ہیں، جتنے زیادہ یہ مضبوط ہوں گے جتنا زیادہ ہر شخص کا نظام سے تعلق ہوگا، جتنی زیادہ ان میں اطاعت ہوگی.جتنی زیادہ قربانی کا ان میں مادہ ہوگا اتنا ہی زیادہ نظام جماعت مضبوط ہوگا اور یہ چیزیں ان میں کس طرح پیدا کی جائیں ؟ اس سلسلہ میں عہد یداران کے فرائض کیا ہیں؟ اس کا میں اوپر تذکرہ کر چکا ہوں.اگر وہ پیار، محبت کا سلوک رکھیں گے تو یہ باتیں لوگوں میں پیدا ہوتی

Page 119

101 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم چلی جائیں گی اور یہی آپ کا گروہ ہے.جتنا زیادہ اس کا تعلق جماعت سے اور عہدیداران سے مضبوط ہوگا اتنا ہی زیادہ نظام جماعت بھی آرام سے اور بغیر کسی رکاوٹ کے چلے گا، اتنا زیادہ ہی ہم دنیا کو اپنا نمونہ دکھانے کے قابل ہوسکیں گے.اتنی ہی زیادہ ہمیں نظام جماعت کی پختگی نظر آئے گی.جتنا جتنا تعلق افراد جماعت اور عہدیداران میں ہوگا.اور پھر خلیفہ وقت کی بھی تسلی ہوگی کہ جماعت ایسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکی ہے جن سے بوقت ضرورت مجھے کارکنان اور عہدیداران میسر آ سکتے ہیں.اگر کسی جگہ کچھ جماعتیں تو اعلیٰ معیار کی ہوں اور کچھ جماعتیں ابھی بہت پیچھے ہوں تو بہر حال یہ فکر کا مقام ہے.تو عہد یداران کو اپنے علاقے میں ، اپنے ضلع میں یا اپنے ملک میں اس نہج پر جائزے لینے ہوں گے کہ کہیں کوئی کمی تو نظر نہیں آرہی.اپنے کام کے طریق کا جائزہ لینا ہوگا.اپنی عاملہ کی مکمل Involvment کا یا مکمل ان کاموں میں شمولیت کا جائزہ لینا ہوگا.کہیں آپ نے عہدے صرف اس لئے تو نہیں رکھے ہوئے کہ عہدہ مل گیا ہے اور معذرت کرنا مناسب نہیں.اس لئے عہدہ رکھی رکھو اور اس سے جس طرح بھی کام چلتا ہے چلائے جاؤ.اس طرح تو جماعتی نظام کو نقصان پہنچ رہا ہوگا.اگر تو ایسی بات ہے تو یہ زیادہ معیوب بات ہے اور یہ زیادہ بڑا گناہ ہے بہ نسبت اس کے کہ عہدے سے معذرت کر دی جائے.اس لئے ایسے عہد یدار تو اس طرح جماعت کے نظام کو، جماعت کے وقار کو نقصان پہنچانے والے عہد یدار ہیں.عہدیداران دوسرے ماتحت عہد یداران یا کارکنان کا احترام کریں دوسرے یہ ذمہ داری ہے عہدیدار ان کی وہ عام لوگوں سے ہٹ کر اپنے دوسرے برابر کے عہد یداروں یا ما تحت عہد یداران یا کارکنان کا احترام ہے.یہ کوئی دنیاوی عہدہ نہیں ہے.جس طرح میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں کہ جو آپ کومل گیا ہے اور کوئی سمجھ بیٹھے کہ اب سب طاقتوں کا میں مالک بن گیا ہوں.یہاں بھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے امیر اپنی عاملہ کا احترام کریں، ان کی رائے کو وقعت دیں، اس پر غور کریں.اسی طرح اگر کوئی ماتحت بھی رائے دیتا ہے تو اس کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھیں، کم نظر سے نہ دیکھیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ مشورہ کریں تو ہم آپ تو بہت معمولی چیز ہیں.تو کسی کی رائے کو کبھی بھی تکبر کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے.اپنا ایک وقار عہدیدار کا ہونا چاہیے اور یہ نہیں کہ غصے میں مغضوب الغضب ہو کر ایک تو رائے کو رد کر دیا

Page 120

102 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم اور ( بیت الذکر ) میں یا میٹنگ میں تو تکار بھی شروع ہو جائے یا گفتگو ایسے لہجے میں کی جائے جس سے کسی دوسرے عہد یدار کا یا کسی شخص کے بارے میں جس سے استخفاف کا پہلو نکلتا ہو کم نظر سے دیکھنے کا پہلو نکلتا ہو.تو ہمارے عہد یداران اور کارکنان کو تو انتہائی وسعت حوصلہ کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کھلے دل سے تنقید بھی سنی چاہیے، برداشت بھی کرنی چاہیے اور پھر ادب کے دائرے میں رہ کر ہر شخص کی عزت نفس ہوتی ہے اس کا خیال رکھ کر دلیل سے جواب دینا چاہیے، یہ نہیں کہ میں نے یہ کہہ دیا ہے اس پر عمل نہیں ہورہا تو تم یہ ہو ، تم وہ ہو.یہ بڑا غلط طریق ہے.عہدیدار کا مقام جماعت میں عہدیدار کا ہے خواہ وہ چھوٹا عہد یدار ہے یا بڑا عہد یدار ہے.پھر قطع نظر اس کے کسی کی خدمت کو لمبا عرصہ گزر گیا ہے یا کسی کی خدمت کو تھوڑا عرصہ گزرا ہے.اگر کم عمر والے سے یا عہدے میں اپنے سے کم درجے والے سے بھی ایسے رنگ میں کوئی گفتگو کرتا ہے جس سے سبکی کا پہلو نکلتا ہو تو گو دوسرا شخص اپنے وسعت حوصلہ کی وجہ سے یعنی جس سے تلخ کلامی کی گئی ہے وہ اپنی وسعت حوصلہ کی وجہ سے اطاعت کے جذبہ سے برداشت بھی کرلے ایسی بات لیکن اگر ایسے عہد یدار کا معاملہ جو دوسرے عہدیداران یا کارکنان کا احترام نہیں کرتے میرے سامنے آیا تو قطع نظر اس کے کہ کتنا سینئر ہے اس کے خلاف بہر حال کارروائی ہوگی تحقیق ہوگی.اس لئے آپس میں ایک دوسرے کا احترام کرنا بھی سیکھیں اور مشورے لینا اور مشوروں میں ان کو اہمیت دینا اگر کوئی اچھا مشورہ ہے تو ضروری نہیں کہ چونکہ میں بڑا ہوں اس لئے میرا مشورہ ہی اچھا ہو سکتا ہے اور چھوٹے کا مشورہ اچھا نہیں ہوسکتا.اس کو بہر حال وقعت کی نظر سے دیکھنا چاہیے اس کو کوئی وزن دینا چاہیے.قضا کے بارہ میں پھر ہمارے ہاں قضا کا ایک نظام ہے.مقامی سطح پر بھی اور مرکزی سطح پر بھی ، جماعتوں میں بھی.تو قضا کے معاملات بھی ایسے ہیں جن میں ہر قاضی کو خالی الذہن ہو کر دعا کر کے پھر معاملہ کو شروع کرنا چاہیے.کبھی کسی بھی فریق کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ قاضی نے دوسرے فریق کی بات زیادہ توجہ سے سن لی ہے یا فیصلے میں میرے نکات پوری طرح زیر غور نہیں لایا اور دوسرے کی طرف زیادہ توجہ رہی ہے.گوجس کے خلاف فیصلہ ہو عموماً اس کو شکوہ تو ہوتا ہی ہے.لیکن قاضی کا اپنا معاملہ پوری طرح صاف ہونا چاہیے.حدیث میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی حاکم سوچ سمجھ کر پوری تحقیق کے بعد فیصلہ کرے، اگر اس کا فیصلہ صحیح ہے تو اسے دو ثواب ملیں گے اور اگر باوجود کوشش کے اس سے غلط فیصلہ ہو

Page 121

مشعل راه جلد پنجم 103 ارشادات حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی گیا تو اسے ایک ثواب اپنی کوشش اور نیک نیتی کا بہر حال ملے گا.فیصلہ کرنے کا صحیح اصول ( بخاری کتاب الاعتصام باب اجرالی کم اذا اجتهد فاصاب اواخطا) پھر حضرت معاذ بن جبل کے کچھ ساتھی جو حمص کے رہنے والے تھے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معادؓ کو یمن کا قاضی مقرر کر کے بھیجا تو معاذ سے پوچھا کہ:- جب کوئی مقدمہ تمہارے سامنے پیش ہو تو کیسے فیصلہ کرو گے؟ معاذ نے عرض کیا کہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا ، یعنی قرآن شریف کے مطابق فیصلہ کروں گا.آپ نے پوچھا اگر کتاب اللہ میں وضاحت نہ ملے تو پھر کیا کرو گے.معاذ نے عرض کی.اللہ تعالیٰ کے رسول کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا.آپ نے فرمایا.نہ سنت میں کوئی ہدایت پاؤ نہ کتاب اللہ میں تو پھر کیا کرو گے؟ تو معاذ نے عرض کی کہ اس صورت میں غور وفکر کر کے اپنی رائے سے فیصلہ کرنے کی کوشش کروں گا اور اس میں کسی سستی اور غفلت سے کام نہیں لوں گا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر معاذ کے سینے پر شاباش دینے کیلئے ہاتھ مار کر فرمایا.الحمد للہ ! خدا کا شکر ہے کہ اس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو یہ تو فیق دی اور وہ صحیح طریق کار سمجھا جو اللہ کے رسول کو پسند ہے.(ابوداؤد کتاب الاقضیۃ ، باب اجتهاد الرای فی القضاء) تو یہ ہے اصول فیصلہ کرنے کا کہ قرآن سے راہنمائی کی جائے.پھر سنت سے راہنمائی کی جائے.اگر خلفاء کے ارشادات ہیں اس بارے میں، ان سے راہنمائی کی جائے.پھر اگر کہیں سے بھی اس مخصوص امر کے لئے راہنمائی نہ ملے تو دعا کرتے ہوئے اللہ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے کسی بات کا فیصلہ کیا جائے ، جو بھی مقدمہ قاضیوں کے سامنے پیش ہو.ان کا فیصلہ کیا جائے.اب تو تقریباً تمام معاملات میں اصولی قواعد مرتب ہیں قاضیوں کو مل بھی جاتے ہیں.فقہی مسائل یا مسئلے بھی چھپے ہوئے موجود ہیں تو ان کی روشنی میں تمام فیصلے ہونے چاہئیں.حضرت عمرؓ کا ایک خط جو انہوں نے ابو موسیٰ اشعری کولکھا تھا.حضرت سعید بن ابو بردہ نے امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب کا ایک خط نکالا جو انہوں نے اپنے ایک والی حضرت ابو موسیٰ اشعری کو لکھا تھا.یہ روایت ہے اس کا مضمون یہ تھا قضا ایک محکم اور پختہ دینی فریضہ ہے

Page 122

مشعل راه جلد پنجم 104 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اور واجب الاتباع سنت ہے.جب کوئی مقدمہ یا کیس آپ کے سامنے پیش ہو تو معاملے کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو.کیونکہ صرف حق بات کہنا اور اس کے نفاذ کی کوشش نہ کرنا بے فائدہ ہے.کیا بلحاظ مجلس، کیا بلحاظ توجہ اور کیا بلحاظ عدل و انصاف، سب لوگوں کے درمیان مساوات قائم رکھو.سب سے ایک جیسا سلوک کروتا کہ کوئی با اثر تم سے ظلم کروانے کی امید نہ رکھے اور کسی کمزور کو تیرے ظلم وجور کا ڈر اور اندیشہ نہ ہو اور ثبوت پیش کر نا مدعی کا فرض ہے اور قسم منکر مد عاعلیہ پر آئے گی.مسلمانوں کے درمیان مصالحت کروانے کی کوشش کرنا اچھی بات ہے.ہاں ایسی صلح کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جس کی وجہ سے حرام حلال بن رہا ہو اور حلال حرام.یعنی خلاف شریعت صلح جائز نہ ہوگی.اگر تم کوئی فیصلہ کرو اور پھر غور وفکر کے بعد اللہ کی ہدایت سے دیکھو کہ فیصلے میں غلطی ہوگئی ہے صحیح فیصلہ اور طرح ہے تو اپنا کل کا فیصلہ واپس لینے اور اسے منسوخ کرنے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ محسوس یا شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے کیونکہ حق اور عدل ایک عظیم صداقت ہے اور حق اور سچ کو کوئی چیز باطل اور غلط نہیں بنا سکتی ہے.اس لئے حق کی طرف لوٹ جانا اور حق کو تسلیم کر لینا باطل میں پھنسے رہنے اور غلط بات پر مصر رہنے سے کہیں بہتر ہے.جو بات تیرے دل میں کھٹکے اور قرآن وسنت میں اس کے بارے میں کوئی وضاحت نہ ہو.تو اس کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو اور اس کی مثالیں تلاش کرو، اس سے ملتی جلتی صورتوں پر غور کرو.پھر اس پر قیاس کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کرنے کی کوشش کرو اور جو پہلو اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ پسندیدہ لگے اور حق اور سچ کے زیادہ مشابہ نظر آئے اسے اختیار کرو.مدعی کو ثبوت پیش کرنے کے لئے مناسب تاریخ اور وقت دو تا کہ وہ اپنے دعویٰ کے حق میں ثبوت اکٹھے کر سکے.اگر مقررہ تاریخ پر وہ ثبوت اور ہینہ پیش کر سکے فبہا ورنہ اس کے خلاف فیصلہ سنا دو.یہ طریق اندھے پن دور کرنے والا ہے اور بے خبری کے اندھیرے کو روشن کرنے والا یعنی اس سے الجھا ہوا معاملہ سلجھ جائے گا.اور ہر قسم کے عذر و اعتراض کا مؤثر جواب ہوگا.سب مسلمان برابر شاہد عادل ہیں.ایک دوسرے کے حق میں اور ایک دوسرے کے خلاف گواہی دے سکتے ہیں اور ان گواہیوں کے مطابق فیصلہ ہوگا سوائے اس کے کہ کسی کو حد کی سزامل چکی ہو یا اس کی جھوٹی شہادت دینے کا تجربہ ہو چکا ہو یا قرابت کے دعوئی میں اس پر کوئی تہمت لگی ہو یا اس کا اصل رشتہ کسی اور شخص یا قوم سے ہوا اور دعوی کسی اور کے رشتہ دار ہونے کا کرے یعنی حسب و نسب کے دعوئی میں جھوٹا ہو ایسے خفیف حرکت شخص کے سچا ہونے پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا.باقی سب مسلمان گواہ بننے کے اہل ہونے کے لحاظ سے برابر ہیں.کیونکہ کسی کے دل میں کیا ہے.اصل راز

Page 123

105 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم اور سچائی کیا ہے.اسے اللہ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے.اگر کوئی غلط بیانی کرے گا تو خدا اس کو اس کی سزا دے گا.اللہ تعالیٰ نے تمہیں بینات اور گواہیوں کے ذریعہ معاملات نپٹانے کا مکلف بنایا ہے.یہ بھی یادرکھو کہ تنگ پڑنے سے بچو.جلد گھبرا جانے اور لوگوں سے تکلیف اور دکھ محسوس کرنے اور فریقین مقدمہ سے تنفر اور اجنبی پن سے کبھی پیش نہ آؤ.حق اور سچ معلوم کرنے کے مواقع میں اس طرز عمل سے بچنا اور حق شناسی کی صحیح کوشش کرنا.اللہ اس کا ضرور اجر دے گا اور ایسے شخص کو نیک شہرت بخشے گا جو شخص اللہ کی خاطر خلوص نیت اختیار کرے گا.اللہ اُسے لوگوں کے شر سے بچائے گا اور جو شخص محض بناوٹ اور تصنع سے اپنے آپ کو اچھا ظاہر کرنے کی کوشش کرے گا.اللہ تعالیٰ کبھی نہ کبھی اس کا راز فاش کر دے گا اور اس کی رسوائی کے سامان پیدا کر دے گا.(سنن دارقطنی کتاب الا قضیہ والا حکام) عہد یداران کے متعلق عمومی ہدایات اس کے علاوہ عہد یدار ان کے متعلق بعض عمومی باتیں بھی ہیں ان کا میں ذکر کر دیتا ہوں.اللہ کے فضل سے جماعت میں عموماً عہدے کی خواہش کا اظہار کوئی نہیں کرتا اور جب عہدہ مل جاتا ہے تو خوف پیدا ہوتا ہے کہ میں ادا بھی کر سکتا ہوں یا نہیں.لیکن بعض سر پھرے بھی ہوتے ہیں.خط لکھ دیتے ہیں.ہمارے ضلع میں صحیح کام نہیں ہورہا.لکھنے والا لکھتا ہے گو میں جانتا ہوں کہ عہدے کی خواہش کرنا مناسب نہیں لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اگر میرے سپر د امارت یا فلاں عہدہ کر دیا جائے تو میں چھ مہینے یا سال میں اصلاح کر سکتا ہوں، تبدیلیاں پیدا کر دوں گا.تو بعض ایسے سر پھرے ہوتے ہیں جو کھل کر لکھ دیتے ہیں اور بعض بڑی ہوشیاری سے یہی مدعا بیان کر رہے ہوتے ہیں.تو ان پر میں یہ واضح کر دوں کہ ہمارے نظام میں ، جماعت احمدیہ کے نظام میں اگر کسی انتخاب کے وقت کسی کا نام پیش ہو جائے تو وہ اپنے آپ کو ووٹ دینے کا حق بھی نہیں رکھتا.اپنے آپ کو ووٹ دینا بھی اس بات کا اظہار ہے کہ میں اس عہدے کا حق دار ہوں.ایسے لوگوں کو یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہیے.حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور میرے ساتھ میرے دو چا زاد بھائی تھے.ان میں سے ایک بولا.یا رسول اللہ ! ہم کو ان ملکوں میں سے کسی ملک کا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیے ہیں امیر مقرر کر دیجیے اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا تو آپ نے فرمایا :-

Page 124

مشعل راه جلد پنجم 106 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اللہ کی قسم! ہم ولایت کی خدمت اس کے سپر دنہیں کرتے جو اس کی درخواست کرے یا اس کی حرص کرے.(مسلم کتاب الامارة ، باب النھی عن طلب الامارة والحرص عليها ) پھر عبدالرحمن بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- ”اے عبدالرحمن ! عہدہ اور حکومت کی درخواست مت کر.کیونکہ اگر درخواست سے تجھ کو ( عہدہ یا حکومت) ملے تو اس کا بوجھ تجھ پر ہوگا اور اگر بغیر سوال کے ملے تو خدا تعالیٰ کی نصرت شامل حال ہو گی.(مسلم کتاب الامارۃ ، باب النھی عن طلب الامارة والحرص عليها ) حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:- بعض لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے عہدے لینے کے لئے مجالس میں شامل ہوتے ہیں ایسے لوگ لعنت ہوتے ہیں اپنی قوم کے لئے ، اور لعنت ہوتے ہیں اپنے نفس کیلئے.وہ وہی ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ) الَّذِينَ هُمُ عَنْ صَلوتِهِمْ سَاهُونَ O الَّذِينَ هُمْ يُرَآءُ وَنَO ( الماعون ۵ تا ۷ ).ریا ہی ریا ان میں ہوتی ہے کام کرنے کا شوق ان میں نہیں ہوتا.(مشعل راہ جلد اول صفحه ۲۰-۲۱)." پھر حضرت مصلح موعود نے کارکنان کو ہدایات دیتے ہوئے ایک جگہ فرمایا کہ:- کارکنان کو چاہیے کہ تندہی سے کام کریں.یہ خواہش کہ ہمارا نام ونمود ہو.ایسا خیال ہے جو خراب کرتا ہے.اس خیال کے ماتحت بہت لوگ خراب ہو گئے ہیں، ہوتے ہیں، ہوتے رہیں گے.تم اللہ سے ڈرو اور اسی سے خوف کرو.اور اس بات کو مدنظر رکھو کہ اس کا کام کر کے اس سے انعام کے طالب ہو....اور لوگوں سے مدح اور تعریف نہ چاہو.اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں میں للہیت پیدا کرے.اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے اور مجھ پر بھی رحم کرے.آمین پھر آپ نے فرمایا کہ:- ( خطبات محمود جلدے خطبہ جمعه فرموده ۲۲ دسمبر ۱۹۲۲ء صفحه ۴۳۳) افسران سلسلہ کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خصوصیت سے اپنے اخلاق درست کریں.اگر ضدی لوگ آ جائیں تو ان کو بھی محبت اور پیار سے سمجھانے کی کوشش کیا کریں اور پوری محنت اور اخلاص سے کام کرنے کی عادت ڈالیں.اس امر کی طرف خدا تعالیٰ نے وَ النَّازِعَاتِ غَـرقـاً

Page 125

مشعل راه جلد پنجم 107 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی وَالنَّشِطَاتِ نَشَطًا میں اشارہ کیا اور بتایا ہے کہ مومن جب کام میں مشغول ہوتا ہے تو وہ ہمہ تن اس میں مستغرق ہوتا اور مشکلات پر قابو پالیتا ہے.ایسی صورت میں اگر مخالفین کی طرف سے اعتراض بھی ہو تو دعاؤں سے اس کا ازالہ کرنا چاہیے اور اعتراضات سے بھی گھبرانا نہیں چاہیے.“ (خطبات محمود جلد ۱۵ صفحه ۲۵۷) پھر آپ نے عہدیداران کو فرمایا کہ:- وو امراء اور پریذیڈنٹ اپنی اپنی جماعتوں میں قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا درس دیں.یہ محض وعظ نہیں ہوگا کیونکہ یہ اپنے اندر مشاہدہ رکھتا ہے قرآن کریم وعظ نہیں بلکہ وہ مشاہدات پر حاوی ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب مشاہدات پر مبنی اور مشاہدات پر حاوی ہیں.ایک عام واعظ تو یہ کہتا ہے کہ قرآن کریم میں اور احادیث میں یہ لکھا ہے.مگر خدا تعالیٰ کے انبیاء یہ نہیں کہتے کہ فلاں جگہ یہ لکھا ہے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل پر یہ لکھا ہے.ہماری زبان پر یہ لکھا ہے.ان کا وعظ ان کی سوانح عمری ہوتا ہے.اس لئے ان کی کتب پڑھنے سے واعظ والا اثر انسان پر نہیں پڑتا بلکہ مشاہدہ والا اثر پڑتا ہے.جس طرح دعا نماز کا مغز ہے اسی طرح انبیاء کی کتب میں نصیحت کا مغز ہوتا ہے.جو خدا تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے کلام میں پایا جاتا ہے.“ (خطبات محمود جلدا اصفحه ۲۸۳-۲۸۴) تو یہ درس کی طرف بھی بہت توجہ دینی چاہیے.یہ بھی تربیت کا حصہ ہے، اپنی بھی اور جماعت کی بھی.پھر آخر میں خلاصہ دوبارہ بیان کر دیتا ہوں کہ جو باتیں میں نے کہی ہیں عہد یداران کے لئے اور یہ خلفائے سلسلہ کہتے چلے آئے ہیں پہلے بھی.لیکن ایک عرصہ گزرنے کے بعد بعض باتیں یاد نہیں رہتیں یا نئے آنے والے عہد یداران ہوتے ہیں جو نہیں سمجھ رہے ہوتے صحیح طرح.اس لئے بار بار یاد دہانی کروانی پڑتی ہے.تو خلاصہ یہ باتیں ہیں: (1) عہدیداران پر خود بھی لازم ہے کہ اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھا ئیں اور اپنے سے بالا افسر یا عہدیدار کی مکمل اطاعت اور عزت کریں.اگر یہ کریں گے تو آپ کے نیچے جو لوگ ہیں افراد جماعت ہوں یا کارکنان ہوں آپ کی مکمل اطاعت اور عزت کریں گے.(2).....یہ ذہن میں رکھیں کہ لوگوں سے نرمی سے پیش آنا ہے.ان کے دل جیتنے ہیں.ان کی خوشی غمی

Page 126

مشعل راه جلد پنجم 108 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی میں ان کے کام آنا ہے.اگر آپ یہ فطری تقاضے پورے نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے عہد یدار کے دل میں تکبر پایا جاتا ہے.(3)....امراء اور عہد یداران یا مرکزی کارکنان یہ دعا کریں کہ ان کے ماتحت یا جن کا ان کو نگران بنایا گیا ہے شریف النفس ہوں.جماعت کی اطاعت کی روح ان میں ہو اور نظام جماعت کا احترام ان میں ہو.(4) کبھی کسی فرد جماعت سے کسی معاملہ میں امتیازی سلوک نہ کریں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ بعض لوگ بڑے ٹیڑھے ہوتے ہیں.مجھے علم ہے کہ امراء کے عہدیداران کے یا نظام جماعت کے ناک میں دم کیا ہوتا ہے ایسے لوگوں نے.لیکن پھر بھی ان کی بد تمیزیوں کو جس حد تک برداشت کر سکتے ہیں کریں اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر کسی قسم کا شکوہ نہ کریں.بدلہ لینے کا خیال بھی کبھی دل میں نہ آئے.ان کے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں.(5) پھر یہ کہ نظام جماعت کا استحکام اور حفاظت سب سے مقدم رہنا چاہیے اور اس کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہیے.پھر کبھی اپنے گرو جی حضوری کرنے والے یا خوشامد کرنے والے لوگوں کو اکٹھا نہ ہونے دیں.جن عہد یداران پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہو جاتا ہے.پھر ایسے عہدیداران سے انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی.ایسے عہدیدار پھر ان لوگوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن جاتے ہیں تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کی تلقین فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی بُرے مشیر میرے ارد گر دا کٹھے نہ کرے.(6) پھر یہ بھی یا درکھنے والی بات ہے جیسا کہ میں بیان بھی کر چکا ہوں کہ جہاں نظام جماعت کے تقدس پر حرف نہ آتا ہو.عفو اور احسان کا سلوک کریں.ان کے لئے مغفرت مانگیں جو ان کی اصلاح کا موجب بنے.یہ تو عہد یدار ان کے لئے ہے.لیکن آخر میں میں پھر احباب جماعت کے لئے ایک فقرہ کہہ دیتا ہوں کہ آپ پر بھی جو عہد یدار نہیں ہیں ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے وہ یہ ہے کہ آپ کا کام صرف اطاعت، اطاعت اور اطاعت ہے اور ساتھ دعا کرنا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.ایک خصوصی دعا کی تحریک آخر میں میں ایک دعا کی بھی تحریک کرنا چاہتا ہوں.بنگلہ دیش کے حالات کافی Tense ہیں بڑے

Page 127

مشعل راه جلد پنجم 109 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی عرصہ سے، بڑے خراب ہیں اور آج بھی مخالفین نے بڑی دھمکیاں دی ہوئی ہیں.( بیوت الذکر ) پر حملے کرنے کی.اللہ تعالیٰ ہر طرح سے محفوظ رکھے.جماعت کو ہر شر سے بچائے اور درس کے دوران بھی میں نے دعا کی ایک تحریک کی تھی.اب دوبارہ کرتا ہوں.یہ دعا خاص طور پہ اور دعاؤں کے ساتھ یہ بھی ضرور کیا کریں اور جیسا کہ میں نے کہا تھا ہر نئی خلافت کے بعد اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور وہ دعا یہ ہے حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کو خواب کے ذریعہ سے اللہ نے سکھائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خواب میں آئے تھے اور کہا تھا کہ یہ دعا جماعت پڑھے.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (آل عمران:۹) اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے.بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر.یقیناً تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے.یہ دعا بہت کیا کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے.) الفضل انٹر نیشنل لندن 30 جنوری تا 5 فروری 2004 ء

Page 128

مشعل راه جلد پنجم 110 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 129

مشعل راه جلد پنجم 111 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرموده 28 نومبر 2003ء سے اقتباس جہاں احمدی آبادیاں ہیں ( بیوت الذکر ) کو آبا در کھنے کی کوشش کریں چاہیے کہ ہم سب مل کر دعائیں کریں

Page 130

مشعل راه جلد پنجم 112 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بیوت الذکر کو آبا در کھنے کی کوشش کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا: - رمضان میں جس طرح دعاؤں کی توفیق ملی اس معیار کو قائم رکھیں تو کوئی چیز سامنے نہیں ٹھہر سکے گی.بہت سے باہر سے ربوہ جانے والوں نے بتایا اور لکھا کہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عبادت کرنے والوں سے بھری پڑی تھیں اور یہی حال دنیا میں ہر جگہ تھا یہاں بھی آپ نے دیکھا تو ( بیوت الذکر ) کی آباد کاری کا یہ انتظام اگر جاری رہے گا، اس میں سستی نہیں آئے گی.اب اس میں صرف ربوہ ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں احمدی آبادیاں ہیں، اپنی (بیوت الذکر ) کو آباد رکھنے کی کوشش کریں گی.اور ہماری ( بیوت الذکر ) تنگ پڑنی شروع ہو جائیں گی.اتنی حاضری ہوگی کہ ہر بچہ، ہر بوڑھا، ہر جو ان نمازوں کے دوران ( بیت الذکر ) کی طرف جائے گا.تو یہ کیفیت جب ہوگی تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ہماری دعاؤں کو بہت سنے گا.اسی طرح گھروں میں بھی خواتین نمازوں اور عبادات کا خاص اہتمام کریں.اور پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالی ، اللہ تعالیٰ کس طرح مدد کو آتا ہے.اسی طرح جب ہم سب مل کر دعائیں کریں گے، اللہ کے حضور جھکیں گے عبادات بجالانے کی کوشش کریں گے تو اس کی مثال اس تیز بہاؤ والے پانی کی طرح ہی ہے جب پہاڑی راستوں سے گزرتا ہوا جہاں دریا کا پاٹ تنگ ہوتا ہے یہ پانی گذر رہا ہوتا ہے تو اپنے راستے میں آنے والے پتھروں کو بھی کاٹ رہا ہوتا ہے اور انہیں بعض اوقات بہا بھی لے جاتا اور بڑے بڑے شہتیروں کے بھی ٹکڑے کر رہا ہوتا ہے.اس کی اتنی تیز رفتار ہوتی ہے کہ اس کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا.تو جب مل کر سب دعا ئیں کریں گے.اکٹھا کر کے جب دعائیں ہو رہی ہوں گی ساروں کی ،ایک طرف بہاؤ ہورہا ہوگا تو اس دریا کے پانی کی طرح اس کے سامنے جو بھی چیز آئے گی خس و خاشاک کی طرح اُڑ جائے گی.لیکن شرط یہ ہے کہ مستقل مزاجی اور باقاعدگی سے اس طرف توجہ رہے.رمضان گذر جانے کے بعد ہم ڈھیلے نہ پڑ جائیں، ہماری ( بيوت الذکر ) ویران نہ نظر آنے لگیں.(الفضل انٹر نیشنل لنڈن 23 تا 29 جنوری 2004، ص6)

Page 131

مشعل راه جلد پنجم 113 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 12 دسمبر 2003ء سے اقتباس انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے بچیں کاروبار اور لین دین کے معاملات میں دیانت داری سے کام لیں شیطانی خیالات اور اعمال سے بچنے کی جامع دعا کارکنان اور عہدیداران کے نقائص تلاش نہ کریں غلط افکار اور عریاں فلموں سے بچیں

Page 132

مشعل راه جلد پنجم 114 * ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:- انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے بچیں انٹرنیٹ کی مثال میں کئی دفعہ پہلے دے چکا ہوں.کئی گھر اس کی وجہ سے برباد ہوئے.تو اللہ تعالیٰ کی حدود سے جب تجاوز کریں گے، احکامات پر عمل نہیں کریں گے تو لاز ماشیطان حملہ کرے گا.کاروبار اور لین دین کے معاملات میں دیانت داری سے کام لیں پھر بے شمار برائیاں جو شیطان بہت خوبصورت کر کے دکھا رہا ہوتا ہے.اور جن سے اللہ کے فضل کے بغیر بچناممکن نہیں.مثلاً ایک اچھا بھلا شخص جو بظاہر اچھا بھلا لگتا ہے، کبھی کبھار ( بیت الذکر ) میں بھی آجاتا ہے، جمعوں میں بھی آتا ہوگا ، چندے بھی کچھ نہ کچھ دیتا ہے لیکن اگر کاروبار میں منافع کمانے کے لئے دھوکہ دیتا ہے تو وہ شیطان کے قدموں کے پیچھے چل رہا ہے اور شیطان اس کو مختلف حیلوں بہانوں سے لالچ دے رہا ہے کہ آج کل کاروبار کا یہی طریق ہے.اگر تم نے اس پر عمل نہ کیا تو نقصان اٹھاؤ گے اور وہ اس کہنے میں آکر ، ان خیالات میں پڑکر ، اس لالچ میں دھنستا چلا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ جو تھوڑی بہت نیکیاں بجالا رہا ہوتا ہے وہ بھی ختم ہو جاتی ہیں اور مکمل طور پر دنیا داری اسے گھیر لیتی ہے.اور ایسے لوگ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ شاید اب یہی ہے ہماری زندگی.شاید اب موت بھی نہیں آئی اور ہمیشہ اسی طرح ہم نے رہنا ہے.اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے حاضر نہیں ہونا.تو ایسے طریقے سے شیطان ایسے لوگوں کو اپنے قبضے میں لیتا (ہے) کہ بالکل عقل ہی ماری جاتی ہے.ایک دعا کی خصوصی ہدایت بعض چھوٹی چھوٹی بیماریاں جو ہیں ان کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے.مثلاً

Page 133

مشعل راه جلد پنجم 115 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کوئی جماعتی عہدیدار ہے، کارکن ہے یا کوئی شخص دنیاوی انتظامیہ میں ہے کہ عام روز مرہ کے تعلق والا بنا اور سب سے بڑی نعمت جو تو نے ہمیں دی ہے وہ ایمان کی نعمت ہے، ہمیشہ ہمیں اس پر قائم رکھ کبھی ہم اس سے دور جانے والے نہ ہوں.اور دعا پڑھتے رہیں.الْوَهَّابُ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ (آل عمران : ۹) اگر دعا کی طرف توجہ نہیں ہوگی تو شیطان مختلف طریقوں سے مختلف راستوں سے آکر ورغلاتا رہے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے بغیر نہیں بچا جا سکتا.جیسے کہ میں پہلے بیان کرتا آرہا ہوں.اللہ تعالیٰ اس سے ہی بات کرتا ہے جو پیشگی اس سے دعائیں مانگے اور جس پر اس کی رحمت ہو.اور یہ رحمت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہو جائے...کارکنان اور عہدیداران کے نقائص تلاش نہ کریں کوئی شخص اپنے زور بازو سے کبھی بھی پاک صاف نہیں ہوسکتا.اور واسطوں میں ہوتا ہے کہ اگر کسی کی کوئی خدمت کرنے کا موقع مل جائے، کسی کام پر مقرر کر دیا جائے تو مقرر ہونے کے بعد اپنے سے پہلے عہدیدار یا کارکن کے متعلق نقائص نکالنے شروع کر دے کہ دیکھو یہ کام میں نے کیسے اعلیٰ رنگ میں کر لیا ہے جب کہ مجھ سے پہلے عہد یدار یا کارکن سے ہو ہی نہیں سکایا اس میں اتنی لیاقت ہی نہیں تھی کہ وہ کر سکتا.جب کہ صحیح طریق تو یہ ہے کہ اگر کام ہو گیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے.اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اس نے مجھے یہ توفیق دی کہ یہ کام میرے ذریعہ سے ہو گیا ہے.اور یہ دعا کرے کہ اے اللہ! اب اس وجہ سے میرے دل میں کوئی بڑائی نہ آنے دینا اور میری اصلاح کر دینا.تو اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جو روز مرہ ہوتے رہتے ہیں.تو انسان کو ہمیشہ یہ مد نظر رکھنا چاہیے ورنہ شیطان کے راستے پر چل کر کم از کم جو اچھا کام بھی ہوا ہو، ان کاموں کو مکمل کرنے کے بعد یونہی اپنی نیکی کا اظہار کرنے کے بعد کہ دیکھو میں نے یہ کر دیا، وہ کردیا، اپنی نیکی کو بر باد کرنے والی بات ہے.غلط افکار اور عریاں فلموں سے بچیں جب اس نہج پر اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو یہی سلامتی کا راستہ ہے.انسان کی بچت اسی میں ہے کہ

Page 134

116 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم سلامتی کے راستے تلاش کرے.ورنہ پھر جیسا کہ فرمایا کہ تم روشنی سے اندھیروں کی طرف جاؤ گے.اور یہ شیطان کا رستہ ہے، روشنی سے اندھیروں کی طرف جانا ہے.اس لئے شیطان سے پناہ مانگتے رہو.اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو اور یہ دعا کرو کہ اے اللہ! ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا اور ہر قسم کی فواحش سے ہمیں بچا.چاہے وہ ظاہری ہوں ، چاہے وہ باطنی ہوں.اور ظاہری سے تو پھر بعض خوف ایسے ہوتے ہیں جو روکنے میں کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں.لیکن چھپی ہوئی فواحش جو ہیں یہ ایسی ہیں جو بعض دفعہ انسان کو متاثر کرتے ہوئے بہت دور لے جاتی ہیں.مثلاً بعض دفعہ غلط نظارے ہیں ، غلط فلمیں ہیں، بالکل عریاں فلمیں ہیں.اس قسم کی دوسری چیزوں کو دیکھ کر آنکھوں کے زنا میں مبتلا ہو رہا ہوتا ہے انسان.پھر خیالات کا زنا ہے، غلط قسم کی کتابیں پڑھنا یا سوچیں لے کر آنا.بعض ماحول ایسے ہیں کہ ان میں بیٹھ کر انسان اس قسم کی فحشاء میں جھنس رہا ہوتا ہے.پھر کانوں سے بے حیائی کی باتیں سننا.تو یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے اللہ! ہمارا عضو جو ہے اسے اپنے فضل سے پاک کر دے.اور ہمیشہ اسے پاک رکھ اور شیطان کے راستے پر چلنے والے نہ ہوں اور ہم سب کو شیطان کے راستے پر چلنے سے بچا.الفضل انٹرنیشنل لنڈن 6 تا 12 فروری 2004 ، ص 7)

Page 135

مشعل راه جلد پنجم 117) ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرموده 26 دسمبر 2003ء سے اقتباس عمومی زندگی میں تجسس سے بچیں بچپن سے خدام اور اطفال میں یہ عادت ڈالیں کہ کسی کی برائی نہ کریں غیبت اور ٹوہ لینے سے باز رہیں پہلے اپنی اصلاح کریں

Page 136

مشعل راه جلد پنجم 118 * ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی سید نا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.بعض لوگ اس لئے تجسس کر رہے ہوتے ہیں.مثلاً عمومی زندگی میں لیتے ہیں، دفتروں میں کام کرنے والے ، ساتھ کام کرنے والے اپنے ساتھی کے بارہ میں ، یا دوسری کام کی جگہ، کارخانوں وغیرہ میں کام کرنے والے، اپنے ساتھیوں کے بارہ میں کہ اس کی کوئی کمزوری نظر آئے اور اس کمزوری کو پکڑیں اور افسروں تک پہنچائیں تا کہ ہم خود افسروں کی نظر میں ان کے خاص آدمی ٹھہریں ، ان کے منظور نظر ہو جائیں.یا بعضوں کو یونہی بلا وجہ عادت ہوتی ہے، کسی سے بلاوجہ کا بیر ہو جاتا ہے اور پھر وہ اس کی برائیاں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں.تو یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے لوگوں کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کا کبھی بھی جنت میں دخل نہیں ہوگا، ایسے لوگ کبھی بھی جنت میں نہیں جائیں گے.تو کون عقلمند آدمی ہے جو ایک عارضی مزے کے لئے ، دنیاوی چیز کے لئے ، ذراسی باتوں کا مزا لینے کے لئے ، اپنی جنت کو ضائع کرتا بعض لوگ صرف باتوں کا مزا لینے کے لئے ایسی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں.شروع میں صرف سن رہے ہوتے ہیں اور ہنسی ٹھٹھے کی باتوں پر ہنس رہے ہوتے ہیں.اور پھر آہستہ آہستہ عادت پڑ جاتی ہے، ایسی باتوں کی.اور خود بھی ایسی باتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں.تو نو جوانوں کو خاص طور پر اس سے بچنا چاہیے.شروع میں ہی بچپن سے ہی ، اطفال میں بھی اور خدام میں بھی یہ عادت ڈالیں کہ کسی کی برائی نہیں کرنی...الحمد للہ کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہو کر بہت بڑی تعداد عورتوں کی اس بیماری سے پاک ہو گئی ہے.اور اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرتی ہیں اور بعض تو دین کی خدمت کے معاملے میں اور اس جذبے میں مردوں سے بھی آگے ہیں لیکن ابھی بھی بعض دیہاتوں میں ، بعض شہروں میں بھی جہاں عورتیں نہ دین کی خدمت کر رہی ہیں نہ کوئی اور اُن کو کام ہے، اس غیبت کی بیماری میں مبتلا ہیں.اسی طرح مردوں کی بھی شکایات آتی ہیں.مجلسوں میں بیٹھ کر لوگوں کے متعلق بات کر رہے ہوتے

Page 137

119 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم ں.تو ایسے بھی مرد ہیں.یہ وہی ہیں جن کو نکے بیٹھنے کی عادت ہوتی ہے.ایسے لوگوں کے بیوی بچے بیچارے کما کر گھر کا خرچ چلا رہے ہوتے ہیں.اور ایسے لوگوں کو شرم بھی نہیں آ رہی ہوتی.بہر حال یہ بیماری چاہے عورتوں میں ہو یا مردوں میں ، اس سے بچنا چاہیے.نظام جماعت کو بھی چاہیے خدام، لجنہ وغیرہ کو اس بارہ میں فعال ہونا چاہیے کیونکہ یہ بیماری دیہاتی ، ان پڑھ اور فارغ عورتوں میں زیادہ ہے.اس لئے لجنہ کو خاص طور پر دنیا میں ہر جگہ موثر لائحہ عمل اس کے لئے تجویز کرنا چاہیے.پھر ان باتوں کے علاوہ جن کی نشاندہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے یہ بھی بیماری پیدا ہوگئی ہے کہ فارغ وقت میں اسی طرح لوگوں کے گھروں میں بے وقت چلی جاتی ہیں اور اگر کسی غریب نے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا ہوا ہے کہ اس طرح اندر گھستی ہیں گھروں میں کہ ان کے کچن تک میں چلی جاتی ہیں.کھانوں کی ٹوہ لگاتی ہیں کہ کیا پکا ہے کیا نہیں پکا اور پھر بجائے ہمدردی کے یا ان کی مدد کرنے کے، یا کم از کم ان کے لئے دعا کرنے کے مجلسوں میں باتیں کی جاتی ہیں کہ پیسے بچاتی ہے ، سالن کی جگہ چٹنی بنائی ہوئی ہے یا پھر اتنا تھوڑ اسالن ہے، یا فلاں تھا، یہ تھا، وہ تھا، کنجوس ہے یا جو بھی ہے وہ اپنا گھر چلا رہی ہے جس طرح بھی چلا رہی ہے تمہارا کیا کام ہے کہ کسی کے گھر کے اندر گھس کر اس کے عیب تلاش کرو.اور پھر جب ایسے سفید پوش لوگوں کے گھروں میں بچیوں کے رشتے آتے ہیں تو پھر ایسی عورتیں Active ہو جاتی ہیں، بڑی فعال ہو جاتی ہیں اور جہاں سے کسی کا رشتہ یا پیغام آیا ہو وہاں پہنچ کر کہتی ہیں کہ ان کے گھر میں تو کچھ بھی نہیں ہے.وہاں سے تمہیں جہیز بھی نہیں مل سکتا.اس لڑکی میں فلاں نقص ہے.تو میں تمہیں بتاتی ہوں.فلاں جگہ ایک اچھا رشتہ ہے، یہاں نہ کرو.وہاں کرو.گو جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد انتہائی کم ہے.معمولی ہے، پھر بھی فکر کی بات ہے کیونکہ جس معاشرہ میں ہم رہ رہے ہیں وہ ایسا ہی ہے اور یہ معاشرہ بہر حال اثر انداز ہوتا ہے اور یہ باتیں بڑھنے کا خطرہ ہے.پہلے اپنی اصلاح کریں آج بھی دیکھ لیں چغل خور یا دوسروں کی غیبت کرنے والے، بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے والے خودان تمام برائیوں میں بلکہ ان سے بڑھ کر برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں جو وہ اپنے بھائی کے متعلق بیان کر رہے ہوتے ہیں.اور پھر ان کی بے شرمی کی یہ بھی انتہاء ہے کہ ان کی برائیوں کا کھلے عام بعض لوگوں کو علم بھی ہوتا ہے پھر بھی ان کو شرم نہیں آرہی ہوتی کہ ہم پہلے اپنی اصلاح کریں.بجائے اس کے کہ اپنے بھائی کی برائیاں

Page 138

مشعل راه جلد پنجم 120 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ اگر صحیح درد ہے معاشرے کا،معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں.صرف مزے لینے کے لئے اور لوگوں کی ٹانگیں کھینچنے کے لئے باتیں نہیں کہ ان کولوگوں کی نظروں سے گراؤں، افسروں کی نظروں سے گراؤں اور اپنی پوزیشن بناؤں.تو ایسے لوگ بھی جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ اس نصیحت پر عمل کرتے ہیں کہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تو اپنے کسی ساتھی کے عیوب بیان کرنا چاہے تو پہلے ایک نظر اپنے عیوب پر ڈال لئے ( احیاء علوم الدین جلد ۳ ص ۱۷۷) کسی کے عیب بیان کرنے سے پہلے اپنے عیبوں پر نظر ڈالو.اسی بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک شعر میں فرمایا کہ بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے مگر اپنی بدی سے بے خبر بے خبر ہے تو جب آپ اپنے عیب دیکھیں گے.جو بہت دل گردے کا کام ہے بہت کم ہیں جو اپنے عیبوں پر اس طرح نظر رکھتے ہیں.جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر آنا بہت مشکل ہوتا ہے.اپنی بڑی سے بڑی برائی بھی نظر نہیں آتی.اور وہ نظر آجائے گی تو بڑی اور چھوٹی برائیاں نظر آنا شروع ہو جائیں گی.اور دوسروں کی برائیاں کرنے سے پہلے ایسا شخص سوچے گا اور پھر نیک نیت ہو کر پہلے اپنی اصلاح کی کوشش کرے گا، پھر اپنے دوست کی اصلاح کی کوشش کرے گا تاکہ حسین اور پاک معاشرہ قائم ہو جائے.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اس کی توفیق دے کہ اپنے آپ پر نظر رکھیں.الفضل انٹر نیشنل لندن 20 تا 26 فروری 2004 ، ص 7)

Page 139

مشعل راه جلد پنجم 121 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی جماعت احمد یہ برازیل کے دسویں جلسہ سالانہ 2003ء کے موقع پر خصوصی پیغام دعاؤں کی عادت ڈالیں اور یہی روح اپنی اولادوں میں پیدا کریں.اپنے بچوں کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ وہ ابھی سے دعاؤں کے عادی بن جائیں اور ان کے دلوں میں احمدیت اور خلافت کی محبت پیدا ہو جائے.

Page 140

مشعل راه جلد پنجم 122 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی پیارے احباب جماعت احمد یہ برازیل السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ الحمد للہ کہ جماعت احمد یہ برازیل اپنا جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی توفیق پارہی ہے.اللہ تعالی آپ کے جلسہ کو ہر لحاظ سے کامیاب اور بابرکت بنائے اور آپ سب جو لہی سفر کر کے اس جلسہ کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں اللہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان تمام دعاؤں کا وارث بنائے جو ان جلسوں میں شامل ہونے والوں کیلئے آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہیں.اس موقع پر میں آپ سب افراد جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان ایام کو ذکر الہی میں گزار ہیں.نوافل ادا کریں اور جس قدر ہو سکے دعائیں کریں اور خوب دعائیں کریں کیونکہ حقیقی پاکیزگی حاصل کرنے اور خاتمہ بالخیر کیلئے خدا تعالیٰ نے جو طریق سکھلایا ہے وہ دعا ہی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ طریق تھا کہ جب لوگ آپ کی بیعت میں داخل ہوتے تو آپ ان کو تمام نصائح سے پہلے دعا کی تاکید فرماتے.پس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نمائندگی میں آپ کو اسی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ دعائیں کریں اور دعاؤں پر زور دیں.دعا بڑی دولت ہے اور طاقت ہے.اس سے دنیا میں روحانی انقلاب برپا ہوسکتا ہے.انسان کی بڑی سعادت اور اس کی حفاظت کا اصل ذریعہ دعا ہی ہے.یہی دعا انسان کیلئے پناہ ہے.پس دعاؤں کی عادت ڈالیں اور یہی روح اپنی اولادوں میں پیدا کریں.اپنے بچوں کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ وہ ابھی سے دعاؤں کے عادی بن جائیں اور ان کے دلوں میں ( دین حق ) احمدیت اور خلافت کی محبت پیدا ہو جائے.

Page 141

مشعل راه جلد پنجم 123.ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو.آپ کا نگہبان ہو.میری طرف سے تمام احباب جماعت کو محبت بھرا السلام علیکم.والسلام خاکسار مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس الفضل انٹرنیشنل 8 تا 14 اگست 2003، صفحه 16)

Page 142

مشعل راه جلد پنجم 124 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 143

مشعل راه جلد پنجم 125 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 6 فروری 2004ء سے اقتباس جھوٹ ایک بہت بڑی برائی ہے.اس کو چھوڑنے سے تمام قسم کی برائیاں چھٹ جاتی ہیں جو کام تم اللہ تعالیٰ کی خاطر کر رہے ہو اس میں ہمیشہ خلوص نیت ہونا چاہیے جماعتی عہدے جو تمہیں دئے جاتے ہیں انہیں نیک نیتی کے ساتھ بجالا و صرف عہدے رکھنے کی خواہش نہ رکھو عہدے کی وجہ سے تم یا تمہارے عزیز کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے والے نہ ہوں اپنے بھائیوں کے کام آؤ، ان کے حقوق ادا کرو احمدی کی پہچان تو یہ ہونی چاہیے کہ قرض اتارنے میں جلدی کریں مدد مانگنے والوں کو بھی عادت نہیں بنالینی چاہیے شکایت کرنے کا درست انداز بغیر نام کے کوئی درخواست کوئی شکایت کبھی بھی قابل پذیرائی نہیں ہوتی

Page 144

مشعل راه جلد پنجم 126 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی جھوٹ چھوڑنے سے تمام برائیاں چھٹ جاتی ہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :- وو حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن میں جھوٹ اور خیانت کے سوا تمام بری عادتیں ہوسکتی ہیں.(مسند احمد بن حنبل) اب جھوٹ ایک بہت بڑی برائی ہے.اس کو چھوڑنے سے تمام قسم کی برائیاں چھٹ جاتی ہیں.تو یہاں یہ فرمایا کہ خیانت بھی جھوٹ کی طرح کی برائی ہے.کیونکہ خائن ہمیشہ جھوٹا ہوگا.اور جھوٹا ہمیشہ خائن ہوگا.فرمایا کہ اصل میں تو یہ دو بڑی برائیاں ہیں اگر یہ نہ ہوں تو دوسری چھوٹی چھوٹی برائیاں ویسے ہی ختم ہو جاتی ہیں اور انسان خود بخو دان کو دور کر لیتا ہے.کام میں ہمیشہ خلوص نیت ہونا چاہیے جو کام تم اللہ تعالیٰ کی خاطر کر رہے ہو اس میں ہمیشہ خلوص نیت ہونا چاہیے.جماعتی عہدے جو تمہیں دئے جاتے ہیں انہیں نیک نیتی کے ساتھ بجالاؤ.صرف عہدے رکھنے کی خواہش نہ رکھو بلکہ اس خدمت کا جو حق ہے وہ ادا کرو.ایک تو خود اپنی پوری استعدادوں کے ساتھ اس خدمت کو سرانجام دو.دوسرے اس عہدے کا صحیح استعمال بھی کرو.یہ نہ ہو کہ تمہارے عزیزوں اور رشتہ داروں کے لئے اور اصول ہوں، ان سے نرمی کا سلوک ہوا اور غیروں سے مختلف سلوک ہو، ان پر تمام قواعد لاگو ہورہے ہوں.ایسا کرنا بھی خیانت ہے.عہدے کی وجہ سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے نہ ہوں پھر اس عہدے کی وجہ سے تم یا تمہارے عزیز کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے والے نہ ہوں.مثلاً یہ بھی ہوتا ہے کہ چندوں کی رقوم اکٹھی کرتے ہیں.تو بہتر یہی ہے کہ ساتھ کے ساتھ جماعت کے اکاؤنٹ میں بھجوائی جاتی رہیں.یہ نہیں کہ ایک لمبا عرصہ رقوم اپنے اکاؤنٹ میں رکھ کر فائدہ اٹھاتے رہے.اگر امیر نے یا مرکز نے

Page 145

127 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم نہیں پوچھا تو اس وقت تک فائدہ اٹھاتے رہے.یہ بالکل غلط طریقہ ہے.اور اگر کبھی مرکز پوچھ لے تو کہہ دیا کہ ہم نے یہ رقم ادا کرنی تھی مگر بہانے بازی کی کہ یہ ہو گیا اس لئے ادا نہیں کر سکے.تو غلط بیانی اور خیانت دونوں کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں.شیطان چونکہ انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے اس لئے ایسے مواقع پیدا ہی نہ ہونے چاہئیں اور ان سے بچنا چاہیے.اپنے بھائیوں کے کام آؤ ، ان کے حقوق ادا کرو پھر یہ ہے کہ اپنے بھائیوں کے کام آؤ، ان کے حقوق ادا کرو.پھر یہ بھی یا درکھو کہ نظام جماعت کے ساتھ ہمیشہ چمٹے رہو، نظام کی پوری پابندی کرو.کسی بات پر اعتراض پیدا ہوتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ وہ اعتراض انسان کو بہت دور تک لے جاتا ہے.اور پھر آہستہ آہستہ عہدے داروں سے بڑھ کر نظام تک اور پھر نظام سے بڑھ کر خلافت تک یہ اعتراض چلے جاتے ہیں.اس لئے اگر یہ کرو گے تو یہ بھی خیانت ہے.احمدی کی پہچان تو یہ ہونی چاہیے کہ قرض اتارنے میں جلدی کریں پھر بعض لوگ قرض لے لیتے ہیں.اور بعض لوگ تو عادی قرض لینے والے ہوتے ہیں.پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے وسائل اتنے نہیں کہ ہم یہ قرض واپس کر سکیں.لیکن پھر بھی قرض لیتے چلے جاتے ہیں کہ جب کوئی پوچھے گا کہہ دیں گے کہ ہمارے پاس تو وسائل ہی نہیں ، ہم تو دے ہی نہیں سکتے.اپنے اخراجات پر کنٹرول ہی کوئی نہیں ہوتا.جتنی چادر ہے اتنا پاؤں نہیں پھیلاتے اصل میں نیت یہی ہوتی ہے پہلے ہی کہ ہم نے کون سا دینا ہے.بے شرموں کی طرح جواب دے دیں گے.یہاں جو قرض دینے والے ہیں ان کو بھی بتا دوں کہ بجائے اس کے کہ بعد میں جھگڑے ہوں اور امور عامہ میں اور جماعت میں اور خلیفہ وقت کے پاس کیس بھجوائیں کہ ہمارے پیسے دلوائیں تو پہلے ہی سوچ سمجھ کر ، جائزہ لے کر ایسے لوگوں کو قرض دیا کریں.یا تو اس نیت سے دیں کہ ٹھیک ہے اگر نہ بھی واپس ملاتو کوئی حرج نہیں.یا پھر اچھی طرح جائزہ لے لیا کریں کہ اس کی اتنی استعداد بھی ہے، قرض واپس کر سکتا ہے کہ نہیں.تو احمدی کی پہچان تو یہ ہونی چاہیے کہ ایک تو قرض اتارنے میں جلدی کریں، دوسرے قرض دینے والے کے احسان مند ہوں کہ وہ ضرورت کے وقت ان کے کام آیا.

Page 146

مشعل راه جلد پنجم 128 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مدد مانگنے والوں کو بھی عادت نہیں بنالینی چاہیے تو یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایک تو یہ کہ قرض مقررہ میعاد کے اندر ادا کیا جائے جس کا دعدہ کیا گیا ہے.اور اگر پتہ ہے کہ واپس نہیں کر سکتے کیونکہ وسائل ہی نہیں ہیں اور غلط بیانی کر کے میعاد مقرر کر والی ہے تو پھر بہتر ہے کہ خائن بننے کی بجائے مدد مانگ لی جائے.لیکن جھوٹ اور خیانت کے مرتکب نہیں ہونا چاہیے.لیکن مد مانگنے والوں کو بھی عادت نہیں بنالینی چاہیے کیونکہ سوائے انتہائی اضطراری حالت کے اس طرح مدد مانگنا بھی منع ہے اور معیوب سمجھا گیا ہے.اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے سخت خلاف تھے.شکایت کرنے کا درست انداز اس حوالے سے مزید وضاحت کر دیتا ہوں.بعض عہدیداران کی شکایت کر دیتے ہیں کہ فلاں امیر ایسا ہے، فلاں امیر ایسا ہے، رویہ ٹھیک نہیں ہے یا فلاں عہدیدار ایسا ہے، کوئی کام نہیں کر رہا.اور کوئی معین بات بھی نہیں لکھ رہے ہوتے.اور پھر خط کے نیچے اپنا نام بھی نہیں لکھتے.تو یہ منافقت ہے.ایک طرف تو اس عہد کے سخت خلاف ہے کہ جان قربان کر دوں گا جماعت کیلئے اور عزت بھی قربان کر دوں گا جماعت کیلئے.اور دوسری طرف اپنا نام تک شکایت میں چھپاتے ہیں کہ امیر یا فلاں عہد یدار ہم سے ناراض نہ ہو جائے.اس کا مطلب یہ ہے وہ اس حدیث کی رو سے بدظنی بھی کر رہے ہیں اور تقویٰ سے بالکل عاری ہیں.اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ ایسا ہی ہے تو پھر وہ شکایت کرنے والا کونسا تقویٰ سے خالی نہیں ہے.کیونکہ اس کے دل میں امیر کا خوف اللہ تعالیٰ کے خوف سے زیادہ ہے.اور جس کے دل میں اللہ کا خوف نہیں ہے وہ مومن بہر حال نہیں ہو سکتا.اور اس کے علاوہ اندر ہی اندر لوگوں میں بھی شکوک پیدا کرتا ہے.خود بھی منافقت کر رہا ہوتا ہے اور خیانت کا بھی مرتکب ہو رہا ہوتا ہے.لوگوں کے ذہنوں کو بھی گندہ کر رہا ہوتا ہے.اس لئے اس بارہ میں میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ بغیر نام کے کوئی درخواست ، کوئی شکایت کبھی بھی قابل پذیرائی نہیں ہوتی.اور اب یہ دوبارہ بھی واضح کر دیتا ہوں.اس لئے اگر جماعت کا درد ہے.اصلاح مدنظر ہے تو کھل کر لکھیں اور اگر اس کی وجہ سے کوئی عہد یدار شکایت کرنے والے سے ذاتی عناد بھی رکھتا ہے ، مخالفت بھی ہو جاتی ہے تو یہ معاملہ خدا پر چھوڑیں اور دعاؤں میں لگ جائیں.اگر نیت نیک ہے تو اللہ تعالیٰ ہر شر سے محفوظ رکھے گا.بے نام لکھنے کا مطلب تو یہ ہے کہ لکھنے والا خود خائن ہے.الفضل انٹر نیشنل 16 تا 22 اپریل 2004ء)

Page 147

مشعل راه جلد پنجم 129 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 20 فروری 2004ء سے اقتباس بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے آج کل کے معاشرے میں احمدی نے ہی اخلاق کے نمونے دکھانے ہیں اگر معاف کرنے سے اصلاح ہو سکتی ہے تو معاف کر دیں چھوٹی موٹی غلطیوں سے درگزر کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے

Page 148

مشعل راه جلد پنجم 130 * ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:- الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِى السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران: ۱۳۵ ) وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ”معاشرے میں جب برائیوں کا احساس مٹ جائے تو ایسے معاشرے میں رہنے والا ہر شخص کچھ نہ کچھ متاثر ضرور ہوتا ہے اور اپنے نفس کے بارے میں ، اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ حساس ہوتا ہے اور دوسرے کی غلطی کو ذرا بھی معاف نہیں کرنا چاہتا، چنانچہ دیکھ لیں ، آج کل کے معاشرے میں کسی سے ذراسی غلطی سرزد ہو جائے تو ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے چاہے اپنے کسی قریبی عزیز سے ہی ہو.اور بعض لوگ کبھی بھی اس کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اور اسی وجہ سے پھر خاوند بیوی کے جھگڑے، بہن بھائیوں کے جھگڑے، ہمسایوں کے جھگڑے، کاروبار میں حصہ داروں کے جھگڑے، زمینداروں کے جھگڑے ہوتے ہیں.حتی کہ بعض دفعہ راہ چلتے نہ جان نہ پہچان ذراسی بات پہ جھگڑا شروع ہو جاتا ہے.مثلاً ایک را بگیر کا کندھارش کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے ٹکرا گیا، کسی پر پاؤں پڑ گیا تو فور دوسرا آنکھیں سرخ کر کے کوئی نہ کوئی سخت بات اس سے کہہ دیتا ہے.پھر دوسرا بھی کیونکہ اسی معاشرے کی پیداوار ہے، اس میں بھی برداشت نہیں ہے، وہ بھی اسی طرح کے الفاظ الٹا کے اس کو جواب دیتا ہے.اور بعض دفعہ پھر بات بڑھتے بڑھتے سر پھٹول اور خون خرابہ شروع ہو جاتا ہے.بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے پھر بچے کھیلتے کھیلتے لڑ پڑیں تو بڑے بھی بلا وجہ بیچ میں کود پڑتے ہیں اور پھر وہ حشر ایک دوسرے کا ہورہا ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ.اور اس معاشرے کی بے صبری اور معاف نہ کرنے کا اثر غیر محسوس طریق پر بچوں پر بھی ہوتا ہے.گزشتہ دنوں کسی کالم نویس نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ایک باپ نے یعنی اس کے دوست نے اپنے ہتھیار صرف اس لئے بیچ دیئے کہ محلے میں بچوں کی لڑائی میں اس کا دس گیارہ سال کا بچہ اپنے ہم عمر سے لڑائی

Page 149

131 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم کر رہا تھا.کچھ لوگوں نے بیچ بچاؤ کروادیا.اس کے بعد وہ بچہ گھر آیا اور اپنے باپ کا ریوالور یا کوئی ہتھیار لے کے اپنے دوسرے ہم عمر کوقتل کرنے کے لئے باہر نکلا.اس نے لکھا ہے کہ شکر ہے پستول نہیں چلا ، جان بچ گئی.لیکن یہ ماحول اور لوگوں کے رویے معاشرے پر اثر انداز ہو رہے ہیں.اور معاشرے کی یہ کیفیت ہے اس وقت کہ بالکل برداشت نہیں، معاف کرنے کی بالکل عادت نہیں ، اور یہ واقعہ جو میں نے بیان کیا ہے پاکستان کا ہے.لیکن یہاں یورپ میں بھی ایسے ملتے جلتے بہت سے واقعات ہیں جن کی مثالیں ملتی ہیں.بعض دفعہ اخباروں میں آجاتا ہے.تو جب اس قسم کے حالات ہوں تو سوچیں کہ ایک احمدی کی ذمہ داری کس حد تک بڑھ جاتی ہے.اپنے آپ کو ، اپنی نسلوں کو اس بگڑتے ہوئے معاشرے سے بچانے کے لئے بہت کوشش کرنے کی ضرورت ہے.اور ہمارے لئے کس قدر ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم قرآنی تعلیم پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کریں.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو آسائش میں خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی ، اور غصہ دیا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.اس میں احسان کرنے والوں کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ جب تم یہ نہیں دیکھو گے کہ تمہاری ضروریات پوری ہوتی ہیں کہ نہیں تمہیں مالی کشائش ہے یا نہیں اور ہر حال میں اپنے بھائیوں کا خیال رکھو گے تو نیکی کرنے کی روح پیدا ہوگی اور پھر فرمایا کہ ایک بہت بڑا خلق تمہارا غصے کو دبانا ہے.اور لوگوں سے عفو کا سلوک کرنا ہے اور ان سے در گزر کرنا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم لوگوں سے عفو کا سلوک کرو گے معاف کرنے کی عادت ڈالو گے اس لئے کہ معاشرے میں فتنہ نہ پھیلے ، اس لئے کہ تمہارے اس سلوک سے شاید جس کو تم معاف کر رہے ہو اس کی اصلاح ہو جائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں سے میں محبت کرتا ہوں.آج کل کے معاشرے میں احمدی نے ہی اخلاق کے نمونے دکھانے ہیں آج کل کے معاشرے میں جہاں ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے یہ خلق تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور بھی پسندیدہ ٹھہرے گا اور آج اگر یہ اعلیٰ اخلاق کوئی دکھا سکتا ہے تو احمدی ہی ہے.جنہوں نے ان احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لئے زمانے کے امام کے ہاتھ پر تجدید بیعت کی ہے.اللہ تعالیٰ نے عفو کے مضمون کی اہمیت کے پیش نظر مختلف جگہوں پر قرآن کریم میں اس بارے میں احکامات دیئے ہیں.مختلف معاملات کے بارے میں،

Page 150

مشعل راه جلد پنجم 132, ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مختلف سورتوں میں.میں ایک دو اور مثالیں پیش کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ دوسری جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے:- خُذِ الْعَفْوَ وَأَمُرُ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ (سورة الاعراف: ۲۰۰ ) یعنی عفو اختیار کر ، معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر.یہاں فرمایا معاف کرنے کا خلق اختیار کرو اور اچھی باتوں کا حکم دو اگر کسی سے زیادتی کی بات دیکھو تو درگزر کرو.فور أغصہ چڑھا کر لڑنے بھڑنے پر تیار نہ ہو جایا کرو اور ساتھ یہ بھی کہ جو زیادتی کرنے والا ہے اس کو بھی آرام سے سمجھاؤ کہ دیکھو تم نے ابھی جو باتیں کی ہیں مناسب نہیں ہیں اور اگر وہ باز نہ آئے تو وہ جاہل شخص ہے، تمہارے لئے یہی مناسب ہے کہ پھر ایک طرف ہو جاؤ چھوڑ دو اس جگہ کو اور اس کو بھی اس کے حال پر چھوڑ دو.دیکھیں کہ یہ کتنا پیار حکم ہے اگر کسی طرح عفوا ختیار کیا جائے تو سوال ہی نہیں ہے کہ معاشرے میں کوئی فتنہ وفساد کی صورت پیدا ہو.لیکن یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح تو پھر فتنہ پیدا کرنے والے اور فساد کرنے والوں کو کھلی چھٹی مل جائے گی، وہ شرفاء کا جینا حرام کر دیں گے.اور شریف آدمی پرے ہٹ جائے گا.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ فساد کرنے والے معاشرے میں رہیں اور فساد بھی کرتے رہیں، ان کی اصلاح بھی تو ہونی چاہیے اگر تمہارا معاف کرنا ان کو راس نہیں آتا تو پھر ان کی اصلاح کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو بھی چھوڑ نہیں ہے دوسری جگہ حکم فرمایا ہے کہ : - وَجَزَا وُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ ( سورة الشوری: ۴۱) الظَّلِمِينَ ) بدی کا بدلہ اتنی ہی بدی ہوتی ہے اور جو معاف کرے اور اصلاح کو مد نظر رکھے اس کا بدلہ دینا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوتا ہے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.اگر معاف کرنے سے اصلاح ہوسکتی ہے تو معاف کر دیں اب ہر کوئی تو بدی کا بدلہ نہیں لے سکتا کیونکہ اگر یہ دیکھے کہ فلاں شخص کی اصلاح نہیں ہورہی باز نہیں آرہا تو خود ہی اگر اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے گی.تو پھر تو اور فتنہ و فساد معاشرے میں پیدا ہو جائے گا.یہ تو قانون کو ہاتھ میں لینے والی باتیں ہو جائیں گی.اس کی وجہ سے ہر طرف لاقانونیت پھیل جائے گی.اس کے لئے بہر حال ملکی قانون کا سہارا لینا ہوگا، قانون پھر خود ہی ایسے لوگوں سے نبٹ لیتا ہے.اور اکثر دیکھا گیا ہے

Page 151

مشعل راه جلد پنجم 133 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کہ عام طور پر ایسے، اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے والے، لڑائی کرنے والے، فتنہ وفساد پیدا کرنے والے، لاقانونیت پھیلانے والے جب قانون کی گرفت میں آتے ہیں تو پھر صلح کی طرف رجوع کرتے ہیں، سفارشیں آرہی ہوتی ہیں کہ ہمارے سے صلح کرلو.تو فرمایا کہ اصل میں تو تمہارے مدنظر اصلاح ہے اگر سمجھتے ہو کہ معاف کرنے سے اس کی اصلاح ہوسکتی ہے تو معاف کردو لیکن اگر یہ خیال ہو کہ معاف کرنے سے اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی یہ تو پہلے بھی یہی حرکتیں کرتا چلا جارہا ہے اور پہلے بھی کئی دفعہ معاف کیا جا چکا ہے.لیکن اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ، نا قابل اصلاح شخص ہے تو پھر بہر حال ایسے شخص کو سزاملنی چاہیے.اور اس کے مطابق جماعتی نظام میں بھی تعزیر کا سرا کا طریق رائج ہے، جب اللہ تعالیٰ کے احکامات کو توڑو گے، جب دوسروں کے حقوق غصب کرو گے، جب بھائی کی زمین یا جائیداد پر قبضہ کرنے کی کوشش کرو گے، جب بیوی پر ظلم کرو گے تو نظام کی طرف سے تو سزا ملے گی.جس کو سزا ملی ہو وہ درخواستیں لکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ، فوراً معاف کرنے والا حکم ان کے سامنے آ جاتا ہے اور اس کے مفسر بن جاتے ہیں.اگلی بات بھول جاتے ہیں کہ اصلاح کی خاطر سزا دینا بھی اللہ کا حکم ہے.ہر احمدی کو ہر وقت یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر اس بھیانک معاشرے میں اس نے بھی اپنا رویہ ٹھیک نہ کیا تو پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق وہ جماعت سے کاٹا جائے گا.بہر حال اصلاح کی خاطر عفو سے کام لینا مستحسن ہے.لیکن اگر بدلہ لینا ہے تو ہر ایک کا کام نہیں ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے.یہ قانون کا کام ہے کہ اصلاح کی خاطر قانونی کارروائی کی جائے یا اگر نظام جماعت کے پاس معاملہ ہے تو نظام خود دیکھے گا ہر ایک کو دوسرے پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت بہر حال نہیں ہے.چھوٹی موٹی غلطیوں سے درگزر کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ چھوٹی موٹی غلطیوں سے درگزر کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے تاکہ معاشرے میں صلح جوئی کی بنیاد پڑے صلح کی فضا پیدا ہو.عموماً جو عادی مجرم ہوتے ہیں وہ درگزر کے سلوک سے عام طور شرمندہ ہو جاتے ہیں اور اپنی اصلاح بھی کرتے ہیں اور معافی بھی مانگ لیتے ہیں.اس ضمن میں حضرت مصلح موعود نے بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے.فرماتے ہیں کہ:-

Page 152

مشعل راه جلد پنجم 134 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مومنوں کو یہ عام ہدایت دی ہے کہ انہیں دوسروں کی خطاؤں کو معاف کرنا اوران کے قصوروں سے درگزر کرنا چاہیے مگر معاف کرنے کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے.بعض لوگ نادانی سے ایک طرف نکل گئے ہیں اور بعض لوگ دوسری طرف.وہ لوگ جن کا کوئی قصور کرتا ہے وہ کہتے ہیں کہ مجرم کو سزا دینی چاہیے تا کہ دوسروں کو عبرت ہو اور جو قصور کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ معاف کرنا چاہیے خدا خود بھی بندے کو معاف کرتا ہے.تو جب خدا بندے کو معاف کرتا ہے تم بھی بندوں کے حقوق ادا کرونا.وہی سلوک تمہارا بندوں کے ساتھ ہونا چاہے.مگر یہ سب خود غرضی کے فتوے ہیں.جو شخص یہ کہتا ہے کہ خدا معاف کرتا ہے تو بندے کو بھی معاف کرنا چاہیے وہ اس قسم کی بات اسی وقت کہتا ہے جب وہ خود مجرم ہوتا ہے.اگر مجرم نہ ہوتا تو ہم اس کی بات مان لیتے لیکن جب اس کا کوئی قصور کرتا ہے تب وہ یہ بات نہیں کہتا.اسی طرح جو شخص اس بات پر زور دیتا ہے کہ معاف نہیں کرنا چاہیے بلکہ سزا دینی چاہیے وہ بھی اسی وقت یہ بات کہتا ہے جب کوئی دوسرا شخص اس کا قصور کرتا ہے لیکن جب وہ خود کسی کا قصور کرتا ہے تب یہ بات اس کے منہ سے نہیں نکلتی.اس وقت وہ یہی کہتا ہے کہ خدا جب معاف کرتا ہے تو بندہ کیوں معاف نہ کرے.پس یہ دونوں فتوے خود غرضی پر مشتمل ہیں.اصل فتوی وہی ہو سکتا ہے جس میں کوئی اپنی غرض شامل نہ ہو اور وہ وہی ہے جو قرآن کریم نے دیا ہے کہ جب کسی شخص سے کوئی جرم سرزد ہو تو تم یہ دیکھو کہ سزاد دینے میں اس کی اصلاح ہوسکتی ( تفسیر کبیر جلد 6 صفحه 285) ہے یا معاف کرنے میں.“ ) الفضل انٹر نیشنل لنڈن 5 تا 11 مارچ 2004 ص 3-4)

Page 153

مشعل راه جلد پنجم 135 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی آئندہ نسلوں کی تربیت کے تقاضے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 5 مارچ 2004ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: - اس زمانے میں ہم احمدیوں پر عدل و انصاف کو قائم رکھنے کی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.کیونکہ ہم اس بات کے دعوے دار ہیں کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو پہنچانا اور اس کی بیعت میں شامل ہوئے.وہ امام جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم اور عدل کہا ہے.جہاں وہ امام ان خصوصیات کا حامل ہوگا ، وہاں اس کے ماننے والوں سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ عدل کے اعلیٰ معیار قائم کریں.....اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق اس دنیا میں امن صلح اور عدل کی فضا پیدا کرنے والے ہوں، قائم کرنے والے ہوں اور اس لحاظ سے اپنی نسلوں کی تربیت کرنے والے بھی ہوں.کیونکہ آئندہ دنیا کے جو حالات ہونے ہیں اس میں احمدی کا کردار ایک بہت اہم کردار ہوگا جو اس کو ادا کرنا ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.“ الفضل انٹر نیشنل لنڈن 19 تا 25 مارچ 2004، ص 8)

Page 154

مشعل راه جلد پنجم 136 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 155

مشعل راه جلد پنجم 137 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 26 مارچ 2004ء سے اقتباس احمدی کے لئے ضروری ہے کہ جونور ہدایت اس نے حاصل کیا ہے وہ اپنی نسلوں میں بھی جاری کرے اللہ کرے کہ ہماری نسلیں اللہ تعالیٰ کے احکامات سے دور جانے والی نہ ہوں

Page 156

مشعل راه جلد پنجم 138 * ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی سیدنا حضرت خلیفہ المسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا.اگلی بات یہ ہے کہ تقویٰ کے مطابق زندگیوں کو ڈھالنا اور اُسے صرف اپنی ذات تک محدود رکھنا کافی نہیں بلکہ اپنی نسلوں میں بھی یہ اعلیٰ وصف پیدا کرنا ہے.کیونکہ اگر ہم نے اپنی نسلوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق چلانے کی کوشش نہ کی تو ہمارا تقویٰ ہماری ذات تک ہی محدود رہ جائے گا.اور ہمارے مرنے کے بعد ہماری نسلوں میں جاری نہیں رہ سکے گا.اگر ہم نے اپنی نسلوں کی صحیح طرح تربیت نہ کی اور ان کو تقویٰ پر قائم نہ کیا تو پھر ہماری نسلیں بگڑ کر پہلے کی طرح ہو جائیں گی جن میں کوئی دین نہیں رہے گا.اس لئے ہر احمدی کے لئے ضروری ہے کہ جو نور ہدایت اس نے حاصل کیا ہے وہ اپنی نسلوں میں بھی جاری کرے تا کہ ہر آنے والی نسل پہلے سے بڑھ کر تقویٰ پر چلنے والی ہو....حضرت مسیح موعود علیہ السلام خاص طور پر ہم احمدیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خدا ترسی اور تقویٰ پر مبنی ہے دنیا کے اغراض کو ہرگز نہ ملاؤ.نمازوں کی پابندی کرو، اور توبہ واستغفار میں مصروف رہو، نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دکھ نہ دو، راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کر دے گا.عورتوں کو بھی اپنے گھروں میں نصیحت کرو کہ نماز کی پابندی کریں.اور ان کو گلہ شکوہ اور غیبت سے روکو.پاکبازی اور راستبازی ان کو سکھاؤ ( ظاہر ہے جب تک آپ خود اس پر عمل نہیں کریں گے سکھا بھی نہیں سکتے ) ہماری طرف سے صرف سمجھانا شرط ہے اس پر عملدرآمد کرنا تمہارا کام ( ملفوظات جلد ششم صفحہ 146) اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں تقویٰ پر قائم کرے، ہم اپنی نسلوں کی بھی اس طرح تربیت کریں کہ وہ بھی تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والی ہوں.اور کبھی ہم یا ہماری نسلیں اللہ تعالیٰ کے احکامات سے دور جانے والی نہ ہوں.ہم سب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نصائح پر عمل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کے ہے.

Page 157

139 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حضور جھکنے والے ہوں.اس کا فضل مانگنے والے ہوں.جس مقصد کے لئے یہاں ہم اس جلسے میں اکٹھے ہوئے ہیں اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں.سفروں میں اللہ تعالیٰ ہمیں خاص طور پر دعاؤں میں مشغول رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور روحانیت اور تقویٰ میں ترقی عطا فرمائے اور جب ہم اپنے گھروں میں پہنچیں تو ہم اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کر رہے ہوں تا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.الفضل انٹر نیشنل 16 تا 22 اپریل 2004 )

Page 158

مشعل راه جلد پنجم 140 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 159

مشعل راه جلد پنجم 邀 141 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی احمدیہ...ریڈیو بورکینافاسو پر خصوصی پیغام فرمودہ 31 مارچ 2004ء پہلی نصیحت میں آپ کو یہ کرتا ہوں کہ پنج وقتہ نماز کا اہتمام کریں والدین نے اگر اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہ کی اور نمازوں کا عادی نہ بنایا تو آخرت میں وہ جواب دہ ہوں گے تعلیم حاصل کرنی لازمی ہے ہر احمدی خواہ وہ کسی میدان میں بھی ہوں وہ سچائی اختیار کرے ہر میدان میں احمدی دوسروں سے ممتاز نظر آئے

Page 160

مشعل راه جلد پنجم 142 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی سید نا حضرت خلیفہ المسح انام اید اللہ تعلی بنصرہ العزیزنے اپنے پیغام میں فرمایا.آپ سب لوگ بہت خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو امام مہدی کو پہچاننے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.بیعت کے نتیجہ میں آپ کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہیں.پہلی نصیحت میں آپ کو یہ کرتا ہوں کہ پنج وقتہ نماز کا اہتمام کریں.مرد ( بیوت الذکر ) میں آکر با جماعت نماز ادا کریں.جو بچے دس سال سے زائد عمر کے ہیں وہ بھی (بیت الذکر ) میں آکر باجماعت نماز ادا کریں.اور والدین نے اگر اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہ کی اور نمازوں کا عادی نہ بنایا تو آخرت میں وہ جوابدہ ہوں گے.حضور نے فرمایا کہ ہر احمدی بچے کا یہ حق ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے اور کوئی بچہ اس وجہ سے تعلیم نہ چھوڑے کہ اس کے پاس مالی وسائل نہیں ہیں.اگر تعلیم کے حصول میں مالی روک ہو تو مجھے بتائیں.انشاءاللہ آپ کو مالی وسائل مہیا کئے جائیں گے.علم حاصل کرنے کی بڑی اہمیت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعلم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے“ فرمایا: مراد یہ ہے کہ چاہے مشکلات ہوں، پھر بھی تعلیم حاصل کرنی لازمی ہے.تعلیم حاصل کر کے آپ ملک کی خدمت کر سکتے ہیں.اور ( دعوت الی اللہ کا ) کام کر سکتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ ہر احمدی خواہ وہ کسی میدان میں بھی ہو وہ سچائی اختیار کرے.اور دوسروں سے اس میں ممتاز ہو.اگر وہ تاجر ہے تو وہ ایک سچا اور محنتی تاجر ہو.اگر وہ مزدور ہے تو وہ سچا اور محنتی مزدور ہو.غرضیکہ ہر میدان میں احمدی دوسروں سے ممتاز نظر آئے.حضور نے فرمایا کہ آپ سچے (مومن) اور ملک کے اچھے شہری بنیں.بچے (مومن) یعنی احمدی ہی حقیقی (دین حق ) ہے.بچے احمدی (مومن) بنیں از رپورٹ دورہ افریقہ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16 تا 22 اپریل 2004 ص 5)

Page 161

مشعل راه جلد پنجم 邀 143 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 2 را پریل 2004 ء سے اقتباس اپنی اولادوں میں بھی نیکی پیدا کریں نیک اولا دانسان کے لئے ایک طرح کا صدقہ جاریہ ہی ہے اچھی تربیت سے بڑھ کر اولاد کے لئے اور کوئی بہترین تحفہ نہیں بچوں کی تعلیم کا خیال رکھنا بھی والدین کے فرائض میں داخل ہے اگر کوئی بچہ مالی حالت کی کمزوری کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر رہا تو جماعت کو بتا ئیں عملی نمونے سے دعوت الی اللہ کریں

Page 162

مشعل راه جلد پنجم 144 * ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس اید واللہ تعالیٰ بنصرہ العلوم نے فرمایا:.جیسا کہ میں نے کہا صرف خود ہی نیک اور عبادت گزار نہیں بننا بلکہ اپنی اولادوں میں بھی یہ نیکی پیدا کرنی ہے.صحیح عبادت کرنے والا وہی ہے جو اپنی اولاد میں بھی یہی نیکی قائم رکھتا ہے.ایک روایت ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے.مگر تین قسم کے اعمال ایسے ہیں کہ ان کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے.ایک یہ کہ وہ صدقہ جاریہ کر جائے ، یا ایسا علم چھوڑ جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، تیسرے نیک لڑکا جو اس کے لئے دعا کرتا رہے.( صحیح مسلم) پس نیک لڑکا جو دعائیں کرنے والا ہوگا، وہ بھی اس کے لئے ایک طرح کا صدقہ جاریہ ہی ہے.ہر احمدی کو اپنی اولاد کی تربیت کی طرف بہت توجہ دینی چاہیے.پھر ایک روایت ہے حضرت ایوب اپنے والد اور پھر اپنے دادا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین اعلی تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولادکو دے سکتا ( ترمذی ابواب البر والصلۃ باب فی ادب الولد ) ہے.پھر ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کا اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنا اس کے لئے صدقہ دینے سے زیادہ بہتر ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پاکیزہ خوراک وہ ہے جو تم خود کما کر کھاؤ اور تمہاری اولا دبھی تمہاری عمدہ کمائی میں شامل ہے.( ترمذی ابواب الا حکام باب ان الوالد یا خذ من مال ولده) اولاد کی عمدہ کمائی سے مراد یہ ہے کہ ایسے رنگ میں تربیت کرو کہ وہ نیک ہوں عبادت گزار ہوں.جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں آیا کہ وہ تمہارے لئے دعائیں کرنے والے ہوں.تربیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے.ان کی تعلیم کا خیال رکھا جائے.بچوں کی تعلیم کا خیال رکھنا بھی

Page 163

مشعل راه جلد پنجم 145 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تمہارے فرائض میں داخل ہے.اگر کوئی بچہ مالی کمزوری کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر رہا تو جماعت کو بتا ئیں اگر کوئی بچہ مالی حالت کی کمزوری کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر رہا تو جماعت کو بتا ئیں.مجھے بتائیں انشاء اللہ کوئی بچہ مالی کمزوری کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہیں رہے گا.لیکن بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنا ان پر ظلم ہے.پھر ایک اور بات ہے جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں اس علاقے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمد یہ ریڈیو قائم ہے جو تقریباً 14/13 گھنٹے روزانہ چلتا ہے.اور اب انشاء اللہ اجازت ملنے پر 17 گھنٹے تک بھی اس کی نشریات ہو جائیں گی.تو احمدیت یعنی حقیقی (دین) کی تعلیم تو اس ذریعہ سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچ رہی ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ہی ہر احمدی کا عمل بھی ایسا ہو جائے کہ ہر ایک کو نظر آنے لگے کہ یہ صرف خوبصورت تعلیم ہی ہمیں نہیں دیتے بلکہ ان کے عمل بھی ایسے ہیں.ان کے مردوں میں بھی اور ان کی عورتوں میں بھی اور ان کے بچوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے والے لوگ موجود ہیں.عملی نمونے سے دعوت الی اللہ کریں اگر آپ کے عمل اس طرح ہوئے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی دعوت الی اللہ کئی گنا بڑھ جائے گی.لوگ آپ کا نمونہ دیکھ کر آپ کی طرف آئیں گے.کیونکہ حقیقی (دین حق ) ان کو آپ میں ہی نظر آئے گا.اپنے عملی نمونے کے ساتھ ان لوگوں کے لئے دعائیں بھی بہت کریں.آپ نے ایک چیز کو بہترین سمجھ کر اپنے لئے قبول کیا ہے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق جو چیز تم اپنے لئے بہترین سمجھتے ہو اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرو.تو جب احمدیت کو آپ نے بہترین سمجھتے ہوئے قبول کیا ہے تو لوگوں تک اس پیغام کو پہنچانا بھی آپ کا فرض بنتا ہے.اس لئے دعوت الی اللہ کے ساتھ ساتھ اپنے ہم قوموں کے لئے اور ساری دنیا کے بھٹکے ہوؤں کے لئے دعائیں بھی بہت کریں.(الفضل انٹر نیشنل 23 تا 29 را پریل 2004، صفحہ 10,9)

Page 164

مشعل راه جلد پنجم 146.ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 165

مشعل راه جلد پنجم 147 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی احباب جماعت بینن سے خطاب فرمودہ 5 را پریل 2004ء آپ کا فخر صرف احمدی ہونے میں ہے آپ کے دلوں کی نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل فرمایا ہم سب احمدی ہیں اور احمدی ہونے کی حیثیت سے بھائی بھائی ہیں بینن میں چند سال قبل کوئی احمدی نہیں تھا اب خدا کے فضل سے یہاں ایک بڑی جماعت قائم ہو چکی ہے ہر قسم کی برائی کو اپنے اندر سے ختم کر دیں

Page 166

مشعل راه جلد پنجم 148.* ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی حضور انور نے 5 اپریل 2004ء کو احباب جماعت ببینن سے فرمایا:.آپ لوگ مختلف قبیلوں اور مختلف نظریات رکھنے والے لوگوں میں سے شامل ہوئے ہیں.یقیناً آپ کے دلوں کی نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل فرمایا.بعض ایسے بھی ہیں جو بالکل لامذہب تھے، اللہ کے فضل سے احمدیت کو قبول کیا.بعض عیسائیت میں سے آئے اور احمدیت یعنی حقیقی (دین) کو قبول کیا.اور بعض مسلمانوں میں سے آئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے امام مہدی کو قبول کیا.اب آپ کا فخر نہ کسی قبیلہ کی حیثیت میں ہے اور نہ کسی امارت یا غربت میں ہے.اب آپ کا فخر صرف احمدی ہونے میں ہے.اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہے.ہم سب احمدی ہونے کی حیثیت سے بھائی بھائی ہیں ہم سب احمدی ہیں اور احمدی ہونے کی حیثیت سے بھائی بھائی ہیں.اور اسی جذبہ کے تحت ہم نے معاشرہ میں اپنی زندگیاں بسر کرنی ہیں اور اسی جذبہ کے تحت جماعت احمدیہ نے جو علم اٹھایا ہوا ہے اس کو بلند کرنا ہے.پس اب آپ نے احمدیت قبول کرنے کے بعد اور حقیقی (دین) کو پہچاننے کے بعد اللہ کی عبادت کرنی ہے اور اسی کے حضور جھکتا ہے اور ہمیشہ اسی کی عبادت کرنی ہے اور بھائی چارے کی فضا قائم رکھنی ہے.حضور نے فرمایا: یقینا آپ کے دلوں میں شرافت تھی ، ایک نور تھا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو موقع دیا کہ آپ نے احمدیت کو قبول کیا.اب اس کو نکھارنا، آگے بڑھانا آپ کا کام ہے.اللہ آپ کو اس کی توفیق دے.حضور ايده الله تعالیٰ پورٹونووو پھنچے.اس ریجن کی مختلف جماعتوں سے آئے ھوئے احباب جماعت کا تعارف حضور سے کروایا گیا.تعارف کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت سے مخاطب ہو کر فرمایا: اس وقت میں چند الفاظ آپ سے کہوں گا.آپ لوگوں کو اس وقت یہاں دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہو رہی

Page 167

149 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم ہے.بینن میں چند سال قبل کوئی احمدی نہیں تھا اب خدا کے فضل سے یہاں ایک بڑی جماعت قائم ہو چکی ہے.آپ لوگوں میں یقینا نیکی اور شرافت ہے جس کی وجہ سے خدا نے آپ کو توفیق دی کہ آپ لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا.ہزاروں میل سے ایک آواز اٹھی کہ آؤ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ اور ایک خدا کی عبادت کرو.آپ نے اپنی نیکی اور دلوں کے نور کی وجہ سے اس آواز کوسنا اور قبول کیا.لیکن یا درکھیں کہ مومن کا قدم ایک جگہ آکر ٹھہر نہیں جاتا بلکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے کے حکم کے مطابق آپ کو آگے بڑھنا چاہیے.آپ نے اپنی نیکیوں کو مزید نکھارنا ہے.مزید چمکانا ہے یہ بھی یا درکھیں کہ نیکیوں میں آگے بڑھنا خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتا ہے اور جب کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے اپنی شرافت کی وجہ سے احمدیت یعنی حقیقی (دین) قبول کر لیا ہے.اب آپ کا فرض ہے کہ اس سے مزید مدد مانگیں تا کہ وہ آپ کو آگے بڑھائے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اور زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بن جائیں.ہرقسم کی برائی کو اپنے اندر سے ختم کر دیں اور اس کے ساتھ ہی محنت کی بہت زیادہ عادت ڈالیں.آپ کی نیکی کے ساتھ ساتھ جب لوگ آپ کی وطن سے محبت اور نیکی کو دیکھیں گے تو آپ کے لئے دعوت الی اللہ کے اور مواقع پیدا ہوں گے.حضور نے فرمایا:- پڑھنے والے بچے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھیں اور کام کرنے والے لوگ اپنے اپنے فیلڈ میں سب سے آگے ہوں تعلیم کے بغیر کوئی ترقی نہیں.والدین اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف خاص توجہ دیں.کوئی بچہ ایسا نہ ہو جو تعلیم سے محروم رہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ وہ ہر میدان میں آگے بڑھنے والا ہو.جس پیار اور خلوص سے آپ لوگ یہاں اکٹھے ہوئے ہیں میں آپ کا بے حد ممنون ہوں.گواحمدیت کو اس ملک میں آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوالیکن آپ کے اخلاص اور محبت نے مجھے بہت متاثر کیا ہے.آپ کا یہاں اکٹھے ہونا اور خلافت سے محبت محض اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہترین جزا دے.اور آپ کو ہر پریشانی اور تکلیف سے محفوظ رکھے.اللہ تعالیٰ آپ کی نسلوں کو بھی اس پیار اور محبت میں بڑھاتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ آپ کو حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کہلانے والا بنائے اور آپ کی آئندہ نسلیں بھی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندوں میں شمار ہوں.آمین.الفضل انٹر نیشنل 23 تا 29 اپریل 2004 صفحہ نمبر 6,5)

Page 168

مشعل راه جلد پنجم 150 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 169

مشعل راه جلد پنجم 151 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی ببینن میں مختلف وفود سے خطاب فرمودہ 6 را پریل 2004 ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد امام مہدی نے آکر دوبارہ جس تعلیم کو زندہ کیا، اس پر عمل کریں ہر ضرورت کے لئے خدا کے حضور جھکنا چاہیے گھر کا ہر فرد نماز ادا کرنے والا بن جائے.نمازوں کی ادائیگی کی اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی عادت ڈالنی ہے نماز سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے کے بعد اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی ضروری ہے

Page 170

مشعل راه جلد پنجم 152 * ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 6 اپریل 2004ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مختلف جگہوں سے بینن آئے ہوئے وفود سے مخاطب ہوکر فرمایا:- میں آپ سب لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو سفر کی تکلیفیں برداشت کرتے ہوئے بڑی دور دور سے یہاں تشریف لائے.یہ سفر کی تکلیفیں اور پریشانیاں کیوں برداشت کیں.صرف اس لئے کہ آپ کو جماعت سے ایک تعلق اور محبت ہے اور خلیفہ وقت سے ایک تعلق اور محبت ہے اور یہ تعلق اور محبت آپ میں اس لئے قائم ہوا کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کو پورا کرتے ہوئے امام مہدی کو پہچانا اور قبول کیا.اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو اس لئے دنیا میں بھیجا کہ دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے.حضور نے فرمایا کہ اس لحاظ سے آپ وہ خوش قسمت لوگ ہیں جنہوں نے اس غرض کو پورا کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مانا.اب آپ کا فرض ہے کہ اس تعلیم کو جو بھلادی گئی تھی اور امام مہدی نے آکر دوبارہ اس تعلیم کو زندہ کیا ، اس پر عمل کریں.وہ تعلیم یہی ہے کہ ایک خدا کی عبادت کریں.اس کے مقابلہ میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، نہ ظاہری شرک ہو نہ چھپا ہوا شرک.انسانیت اپنے اندر پیدا کی جائے.ایک دوسرے کا لحاظ رکھا جائے ، خیال رکھا جائے.گھر کا ہر فرد نماز ادا کرنے والا بن جائے فرمایا: یا درکھیں کہ جو ہمارے کام ہیں جو ہماری ضروریات ہیں.وہ کسی بندے سے پوری نہیں ہو سکتیں.ہرضرورت کے لئے خدا کے حضور جھکنا چاہیے.اس کی عبادت کرنی چاہیے اور اپنی عبادت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ طریقہ سکھایا ہے کہ اس کے حضور حاضر ہوا جائے.

Page 171

مشعل راه جلد پنجم 153 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نمازیں ادا کی جائیں، پانچ وقت ( بیوت الذکر ) میں جا کر نماز میں ادا کی جائیں.مزدور اپنے کام پر نماز ادا کرے.اسی طرح جو لوگ مختلف کام کرتے ہیں نماز کا وقت آنے پر اپنے کام پر نماز ادا کریں.لیکن یاد رکھیں کہ وقت پر نماز ادا کرنا ضروری ہے.نمازوں کی ادائیگی آپ نے نہ صرف خود کرنی ہے بلکہ اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی عادت ڈالنی ہے.گھر کا ہر فرد نماز ادا کرنے والا بن جائے.اگر کسی سے نماز چھوٹ جائے تو اس کو بے چینی پیدا ہونی چاہیے کہ میں نماز ادا نہیں کر سکا.نماز سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ مجھے کوئی وظیفہ بتا ئیں، جو میں کروں.فرمایا: نماز سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں.پس نماز میں آپ کو ایسا لطف و سرور آنا چاہیے جو ہر چیز سے بڑھ کر ہو.نماز ایسے شوق سے ادا کرنی چاہیے.آپ کے رکوع و سجود ایسے ہونے چاہئیں کہ آپ خدا کے حضور گڑ گڑا رہے ہوں.شوق سے خشوع و خضوع سے آپ نمازیں پڑھیں گے تو خدا تعالیٰ انہیں قبول بھی فرمائے گا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو نمازوں میں وہ ذوق و شوق عطا کرے جو اس کے حضور مقبول ہو اور ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے.حضور نے فرمایا کہ بہت بڑی تبدیلی ہے جو ایک احمدی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے کے بعد اپنے اندر پیدا کرنی ضروری ہے.اگر یہ پیدا نہیں ہوئی تو پھر احمدی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں.حضور نے دعادی کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ایسا نیک نمونہ دکھانے کی توفیق دے کہ دوسرے بھی کہیں کہ احمدی ہونے کے بعد نیک تبدیلی پیدا ہوگئی ہے.اللہ آپ سب کو گھروں میں خیریت سے لے کر جائے.اور آپ کے اس خلوص ، جذبہ اور آپ جو خلیفہ اسیح سے ملنے کے لئے ایک جماعتی نظام کے تحت اکٹھے ہوئے ہیں اللہ آپ کو اس کی بہترین جزا دے.آمین.“ (الفضل انٹر نیشنل 23 تا 29 اپریل 2004، صفحہ 8,7)

Page 172

مشعل راه جلد پنجم 154 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 173

مشعل راه جلد پنجم 155 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی احباب T OUIبین سے خطاب فرمودہ 7 اپریل 2004 ء آپ کو یہاں دیکھ کر اس وقت میرا دل خوشی کے جذبات سے لبریز ہے امام مہدی علیہ السلام کو سلام پہنچانے والے لوگ اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد اپنی عبادت قرار دیا ہے بیوت الذکر کو آباد کریں احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ لوگوں میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہونی چاہیے اعلیٰ اخلاق کے ساتھ احمدیت کا ایک طرہ امتیاز انسانیت کی خدمت بھی ہے اپنی مالی مجبوری کی وجہ سے والدین بچوں کو پڑھائی سے نہ روکیں عورتیں عبادت اور اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ کریں

Page 174

مشعل راه جلد پنجم 156 * ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت Toui بینن سے مخاطب ہو کر فرمایا: - تمام روایتی بادشاہ ، معزز مہمان اور میرے پیارے بھائیو، بہنو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ لوگوں کو یہاں دیکھ کر اس وقت میرا دل خوشی کے جذبات سے لبریز ہے.آپ لوگوں میں یقیناً نیکی اور شرافت ہے جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو اس زمانہ کے امام حضرت مسیح موعود کو ماننے کی تو فیق عطا فرمائی ہے.اور آپ ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مہدی کو جو سلام پہنچایا تھا وہ آپ ان تک پہنچا سکیں اور جو ( دین حق ) میں داخل ہوئے ہیں ان کو بھی خدا نے توفیق دی کہ حضرت اقدس مسیح موعود کی غلامی کے ذریعہ احمدیت یعنی حقیقی (دین) میں آجائیں.پھر اللہ کا فضل ہی ہے کہ افریقہ کے ایک دور دراز ملک میں اور پھر شہروں سے ہٹ کر دور دراز جگہ کو خدا نے توفیق دی کہ ہزاروں میل دور جو ایک آواز اٹھی تھی کہ آؤ اور خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہو، آپ نے اُسے قبول کیا.حضورانور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد اپنی عبادت قرار دیا ہے.اس لئے آپ لوگ جو احمدیت یعنی حقیقی (دین) میں داخل ہو چکے ہیں آپ کا فرض ہے کہ پانچوں نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دیں.بچے ہوں یا بڑے ہوں، نوجوان ہوں یا بوڑھے ہوں سب کا کام ہے کہ اپنی (بیوت الذکر ) کو آباد کریں.آپ کے کام، آپ کی مصروفیات یا آپ کے شغل ،آپ کی عبادت اور آپ کی نمازوں میں روک نہ بنیں ورنہ یہ بھی ایک قسم کا مخفی شرک ہے اور خدا کو سخت نا پسند ہے.فرمایا: احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ لوگوں میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہونی چاہیے.عبادت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اخلاق کا اظہار کرنا بھی ایک احمدی کے لئے بہت ضروری ہے.کبھی بھی کسی قسم کے لڑائی جھگڑے، فتنہ وفساد میں شامل نہ ہوں بلکہ ہر ایک کو پتہ لگے کہ اگر کوئی شخص پہلے کسی قسم کے جھگڑوں میں ملوث تھا تو احمدیت قبول کرنے کے بعد مکمل تبدیل شدہ انسان ہو چکا ہے.بعض دفعہ فساد پیدا کرنے والے لوگ کوئی

Page 175

157 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم ایسی بات کہہ دیتے ہیں جس سے انسان کو غصہ آجاتا ہے.لیکن آپ کبھی بھی ایسے فساد پیدا کرنے والوں اور مخالفین کی باتوں کی پرواہ نہ کریں.بلکہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق اگر ایسی باتیں سنیں تو منہ پھیر کر گزر جایا کریں اور پرواہ نہ کیا کریں.یہی اعلی اخلاق ہیں جو ایک احمدی میں ہونے چاہئیں.یہی اعلی قسم کی باتیں ہیں جن کے کرنے کا ہمیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.یہی عبادت کے طریقے اور اعلیٰ اخلاق ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت میں دیکھنا چاہتے تھے اور انہی کو جاری کرنے کے لئے ، رائج کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے.حضور انور نے فرمایا: اعلیٰ اخلاق کے ساتھ احمدیت کا ایک طرہ امتیاز انسانیت کی خدمت بھی ہے.جس میں ایک سکیم کے تحت اس ملک میں کچھ ہسپتال کھولے گئے ہیں.ڈسپنسریاں کھولی گئی ہیں اور مزید کھولی جائیں گی.سکول بھی کھولے جائیں گے.اسی خدمت کے جذبے کے تحت انشاء اللہ پارا کو میں ایک ہسپتال کا قیام بھی عمل میں آئے گا جس کی میں آج بنیا درکھ کر آیا ہوں.حضورانور نے فرمایا: تعلیم حاصل کرنا ہمارے بچوں کا حق ہے.اس کے لئے جتنی کوشش کی جائے کم ہے.اس کے لئے میں والدین سے ماؤں سے، باپوں سے کہتا ہوں خواہ وہ پڑھے ہوئے ہوں یا ان پڑھ ہوں.بچوں کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دیں.آئندہ اس کے بغیر گزارہ نہیں.بچے صرف اس لئے نہیں ہونے چاہئیں کہ وہ بڑے ہو کر ہاتھ بٹائیں گے ،Farming میں ہماری مددکر یں گے.بلکہ بچوں کا جو حق ہے وہ ادا کریں کہ ان کی تربیت کریں اور تعلیم دلوائیں.فرمایا: اپنی مالی مجبوری کی وجہ سے والدین بچوں کو پڑھائی سے نہ روکیں.اگر مالی مجبوری کی وجہ سے بچے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تو مجھے بتائیں.کوئی بچہ اس وجہ سے پڑھائی سے محروم نہیں رہے گا.اس علاقہ میں جہاں نہ پانی نہ بجلی کی سہولت ہے اور نہ تعلیم کی ، میں چاہتا ہوں کہ اس علاقہ کے بچے اتنا پڑھ لکھ جائیں کہ ملک کے لیڈر بن سکیں.اس علاقہ کے لوگوں میں یقیناً ایک فراست ہے اور دلوں میں ایک روشنی ہے جس کی وجہ سے ان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ اس فراست کو مزید چپکائیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ تعلیم حاصل کریں.اس لئے میری آپ لوگوں سے یہی درخواست ہے کہ اپنے بچوں کو ضائع نہ کریں ، برباد نہ کریں.اگلی نسلوں کی اگر حفاظت نہیں کریں گے تو خدا تعالیٰ کے حضور پوچھے جائیں گے کہ کیوں اپنی نسلوں کی حفاظت نہیں کی.

Page 176

مشعل راه جلد پنجم 158 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی حضورانور نے فرمایا کہ میں عورتوں کو بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں.باوجود اس کے کہ ان میں تعلیم کی کمی ہے اور مصروفیت زیادہ ہے لیکن وہ بھی عبادت کی طرف توجہ دیں اور اپنے بچوں کی تربیت کی طرف بھی توجہ دیں.فرمایا: آخر میں ، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس پیار اور خلوص سے آپ لوگ یہاں اکھٹے ہوئے ہیں میں اس کا بہت ممنون ہوں اور شکریہ ادا کرتا ہوں.آپ کا یہاں اکھٹے ہونا اور خلافت سے محبت کا تعلق خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہے.اللہ آپکو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے.آپ کو اور آپ کی نسلوں کو اس پیار اور محبت میں بڑھاتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے اور ہر پریشانی سے محفوظ رکھے.آمین.الفضل انٹرنیشنل 23 تا 29 اپریل 2004، صفحہ 11

Page 177

مشعل راه جلد پنجم 159 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی جلسہ نائیجیریا کے موقع پر خطاب فرمودہ 11 اپریل 2004ء(خلاصہ ) ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں امام الزمان کی شناخت کی توفیق ملی نظام جماعت میں اطاعت کی اہمیت قوانین وضوابط کے مطابق کام کریں قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں طلباء جامعہ احمدیہ کی ذمہ داریاں

Page 178

مشعل راه جلد پنجم 160 * ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت نائیجیریا سے خطاب میں فرمایا:- ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے دیکھا اور ہمیں امام الزمان کی شناخت کی توفیق ملی جبکہ مختلف مذاہب کے لاکھوں پیروکار ابھی تک ایک ہادی کے منتظر ہیں.ہر احمدی کو سوچنا چاہیے کہ بیعت کے بعد اس میں کیا تبدیلی آئی ہے.اس سلسلہ میں پہلی بات خدا تعالیٰ کی شناخت، اس کی عبادت، اس کی تعلیمات کے مطابق پنج وقتہ نماز کا قیام ہے.خلافت اور نظام کی اطاعت نظام جماعت کی اطاعت اور خلیفہ وقت سے وفاداری کے تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگی.اور کوئی بھی ہماری ترقی میں روک نہیں بن سکے گا.انشاء اللہ.حضور انور نے احادیث کی روشنی میں نظام جماعت کی اطاعت کی اہمیت واضح فرمائی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی.جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.حضور نے فرمایا کہ امیر کی اطاعت ہر قسم کے حالات میں لازم ہے.اچھا نمونہ پیش کریں کسی بھی حد سے تجاوز نہ کریں.قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں حضور انور نے خدام الاحمدیہ کو ذاتی اصلاح کی طرف توجہ دلائی.حضرت مصلح موعود کے قول کے مطابق قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں احمدیت کی تعلیم پر عمل پیرا ہوں.معاشرے کے

Page 179

مشعل راه جلد پنجم 161 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی برے اثرات سے بچیں اور اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا کریں.تعلیمی میدان میں مقام پیدا کریں، اچھا سائنسدان ، ڈاکٹر ،انجینیئر اور ماہر زراعت احمدی نوجوانوں سے ملنا چاہیے.سخت محنت کی عادت ڈالیں، ستیاں ترک کر دیں، جہاں بھی کام کریں اس روح سے کام کریں تو کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا.نظام جماعت سے وفادار رہیں ، اپنے عہد کے مطابق ، جان و مال اور وقت کی قربانی کے لئے تیار رہیں.حضور انور نے مجلس خدام الاحمدیہ نائیجیریا کی کارکردگی پر اظہار خوشنودی فرمایا.طلباء جامعہ احمدیہ کی ذمہ داریاں طلباء جامعہ احمدیہ سے مخاطب ہوتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ آپ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں.اس مقصد کی وجہ سے آپ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اس ذمہ داری کو وفاداری اور محنت سے ادا کریں.اساتذہ کرام کا ادب واحترام کریں.جس سے ایک لفظ بھی سیکھا ہے اس کا احترام کریں.جو علم حاصل کریں وہ دوسروں تک پہنچائیں.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور ہمیشہ مددگار ہو.آمین.الفضل انٹر نیشنل 14 تا 20 مئی 2004 ، صفحہ 11,110 )

Page 180

مشعل راه جلد پنجم 162 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی جامعہ احمد بی نا پیر یا کے لئے ریمارکس 11 اپریل 2004 ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جامعہ احمدیہ نائیجیریا تشریف لے گئے.آپ نے جامعہ احمدیہ کا با قاعدہ معائنہ فرمایا اور ضروری ہدایات سے نوازا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جامعہ احمدیہ کی ریمارکس بک میں تحریر فرمایا :- May Allah make the students of Jamia Ahmadiyya true servants of the (true religion).May Allah exell them in knowledge and piety.May Allah make the students true lovers of Khilaft-e-Ahmadiyya.الفضل انٹر نیشنل 14 تا 20 مئی 2004 صفحہ 10 )

Page 181

مشعل راه جلد پنجم 163 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر کے لئے خصوصی پیغام 2004 ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کو ہمیشہ یہ تڑپ رہتی کہ جماعت کا ہر فر دخدا تعالیٰ سے پیار کرنے والا بن جائے ہر احمدی خادم اور طفل پانچ وقت کا نمازی بن جائے آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے

Page 182

مشعل راه جلد پنجم پیارے خدام احمدیت! 164 * ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان رسالہ خالد کا ظاہر نمبر شائع کر رہی ہے اور صدر صاحب مجلس نے مجھے اس کے لئے پیغام بھجوانے کے لئے کہا ہے.حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ کا وجود ایک نہایت ہی پیارا وجود تھا جو ہم سے جدا ہوا.انا للہ وانا الیہ راجعون حضرت صاحب رحمہ اللہ خدا تعالیٰ سے بہت ہی محبت اور پیار کرنے والے تھے اور ہمیشہ انہیں یہ تمنا اور تڑپ رہی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کا ہر فرد بھی خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والا بن جائے.آپ نے اپنی زندگی کا لمحہ لحہ اسی جہاد میں صرف کر دیا اور جماعت کو بار ہادعاؤں اور نمازوں کی نصیحت فرماتے رہے اور اس ضمن میں اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اپنا یہ اسوہ ہمارے سامنے پیش کیا کہ باوجود نہایت کمزوری اور ضعف اور بیماری کے باقاعدگی کے ساتھ وقت پر نمازوں کی ادائیگی کے لئے (بیت الذکر ) تشریف لاتے رہے.حضور رحمہ اللہ نے خاص طور پر جماعت کے نوجوانوں یعنی خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کو نماز باجماعت کے قیام کی بار بار تلقین کی اور بتایا کہ اگر آپ فلاح چاہتے ہیں تو ( دین حق ) کے اس بنیادی حکم پر قائم ہو جائیں.پس آج جو آپ یہ خاص نمبر نکال رہے ہیں تو اس کے ذریعہ میرا آپ کو یہی پیغام ہے کہ خالی خولی دعووں کا تو کوئی فائدہ نہیں نہ یہ دعوے آپ کی عاقبت کو سنوار سکیں گے.اس لئے اللہ کے ہاں مقبول بندوں میں شمار ہونا چاہتے ہیں.اگر آپ حضرت صاحب کی یادوں کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں.ان سے اپنے عہدوں کو ایفاء کرنا چاہتے ہیں اور ان کی رُوح کو اُس جہاں میں بھی خوش کرنا چاہتے ہیں تو نمازوں کے پابند ہو جائیں.ہر احمدی خادم اور طفل اس طرح پانچ وقت کا نمازی بن جائے کہ آپ کے ماحول کی ہر احمدی ( بیت الذکر ) نمازیوں سے رونق پکڑنے لگے.نماز آپ کی روح کی غذا بن جائے.جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اس طرح آپ کی حالت نماز کے بغیر ہو.یا د رکھیں کہ نماز کے بغیر آپ کی زندگی بے لطف

Page 183

مشعل راه جلد پنجم 165 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی اور بے حقیقت رہے گی.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے خلافت کی عظمت اور اس کے قائم رکھنے کی خاطر بھی انتقک محنت کی اور دعائیں کیں یہاں تک کہ ہر احمدی کے دل میں آپ نے خلافت کی محبت اور اس کا احترام اور اس کی اطاعت پیدا کر دی ہے.یہ خلافت کی ہی نعمت ہے جو جماعت کی جان ہے.اس لئے اگر آپ زندگی چاہتے ہیں تو خلافت احمدیہ کے ساتھ اخلاص اور وفا کے ساتھ چمٹ جائیں.پوری طرح اس سے وابستہ ہو جا ئیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے.ایسے بن جائیں کہ خلیفہ وقت کی رضا آپ کی رضا ہو جائے.خلیفہ وقت کے قدموں پر آپ کا قدم ہو اور خلیفہ وقت کی خوشنودی آپ کا مطمح نظر ہو جائے.آپ سب کے لئے دعائیں کرتے ہوئے اور آپ کو محبت بھرا سلام کہتے ہوئے اب میں اپنے اس مختصر سے پیغام کو ختم کرتا ہوں.آپ بھی دعاؤں پر بکثرت زور دیں.اللہ آپ کے ساتھ ہو اور ہر آن آپ کا نگہبان ہو.(آمین ) والسلام خاکسار مرزا مسر و ر احمد خلیفة المسیح الخامس (ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر مارچ اپریل 2004 ء )

Page 184

مشعل راه جلد پنجم 166 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی

Page 185

مشعل راه جلد پنجم 167 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 23 /اپریل 2004ء اللہ تعالیٰ کا محبوب انسان اس وقت بنتا ہے جب تو بہ اور استغفار سے اپنی باطنی صفائی کا بھی ظاہری صفائی کے ساتھ اہتمام کرے ماحول کو صاف رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنے گھر کو صاف رکھنا اہل ربوہ خاص طور پر اپنے گھروں کے سامنے نالیوں کی صفائی کا بھی اہتمام کریں ربوہ کو غریب دلہن کی طرح سجادیں اپنے آپ کو بھی صاف ستھرارکھیں دانتوں کی صفائی کی اہمیت کھانا کھانے کے آداب نزلے سے بچنے کا ایک طریقہ خدام الاحمدیہ وقار عمل کر کے جماعتی عمارات کے ماحول کو بھی صاف رکھے جماعتی عمارات کے ارد گر د خاص طور پر صفائی اور سبزہ نظر آتا ہو

Page 186

مشعل راه جلد پنجم 168 * ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:- ( دین حق ) ایک ایسا کامل اور مکمل مذہب ہے جس میں بظاہر چھوٹی نظر آنے والی بات کے متعلق بھی احکامات موجود ہیں.یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں انسان کی شخصیت کو بنانے اور کردار کو سنوارنے کا باعث بنتی ہیں.ان سے ظاہری طور پر بھی انسان کے مزاج کا پتہ چلتا ہے.اور اگر مومن ہے تو اللہ تعالیٰ سے تعلق کا بھی پتہ چلتا ہے، انہیں باتوں میں سے ایک پاکیزگی یا طہارت یا نظافت ہے اور ایک مومن میں اس کا پایا جانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو پاکیزگی اور صفائی پسند ہے اور اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (سورة البقره:٣٢٢) لیکن یہ بات واضح ہونی چاہیے جیسا کہ اس آیت میں فرمایا ہے کہ اصل اللہ تعالیٰ کا محبوب انسان اس وقت بنتا ہے جب تو بہ واستغفار سے اپنی باطنی صفائی کا بھی ظاہری صفائی کے ساتھ اہتمام کرے.ہم میں سے ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ ایمان کا دعوی کرنے کے بعد ہم اپنی ظاہری و باطنی صفائی کی طرف خاص توجہ دیں تا کہ ہماری روح و جسم ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنے والے ہوں.وو سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:- بے شک اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والے کو دوست رکھتا ہے.اور ان لوگوں سے جو پاکیزگی کے خواہاں ہیں پیار کرتا ہے.اس آیت سے نہ صرف یہی پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی تو بہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے.ہر قسم کی نجاست اور گندگی.الگ ہونا ضروری ہے ورنہ نری تو بہ اور لفظ کے تکرار سے تو کچھ فائدہ نہیں ہے.الحکم ۷ استمبر ۱۹۰۴ء جلد نمبر ۸ نمبر ۳۱ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحه ۷۰۵) پھر آپ فرماتے ہیں: "جو باطنی اور ظاہری پاکیزگی کے طالب ہیں ان کو دوست رکھتا ہوں، ظاہری پاکیزگی باطنی طہارت کی مد اور معاون ہے.اگر انسان اس کو چھوڑ دے اور پاخانہ پھر کر پھر طہارت نہ کرے تو اندرونی پاکیزگی پاس بھی نہ پھٹکے.پس یاد رکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے.اسی لئے

Page 187

169 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کونسل کرو، ہر نماز میں وضو کرو، جماعت کھڑی کرو تو خوشبو لگالو، عیدین اور جمعہ میں خوشبو لگانے کا جو حکم ہے وہ اسی بنا پر قائم ہے، اصل وجہ یہ ہے کہ اجتماع کے وقت عفونت کا اندیشہ ہے ( بد بو کا اندیشہ ہوتا ہے ) پس غسل کرنے اور صاف کپڑے پہنے اور خوشبو لگانے سے سمئیت اور عفونت سے روک ہوگی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی میں یہ مقرر کیا ہے ویسا ہی قانون مرنے کے بعد بھی رکھا ہے.( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحه ۷۰۵،۷۰۴) صفائی کے بارے میں چند احادیث پیش کرتا ہوں ، حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَلطَّهُورُ شَطْرُ الْإِيْمَانِ یعنی طہارت پاکیزگی اور صاف ستھرا رہنا ایمان کا ایک حصہ ہے“.(مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل الوضوء ) ابو مالک اشعری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاکیزگی اختیار کرنا نصف ایمان ہے“.(انجم الکبیر جلد۳) اب دیکھیں مومن کے لئے صفائی کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہے، اور یہ احادیث اکثر مسلمانوں کو یاد ہیں، کبھی ذکر ہو تو آپ کو فوراً حوالہ بھی دے دیں گے.لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس پر عمل کس حد تک ہے؟ یہ دیکھنے والی چیز ہے، اگر ایک جگہ صفائی کرتے ہیں تو دوسری جگہ گند ڈال دیتے ہیں اور بدقسمتی سے مسلمانوں میں جس شدت سے صفائی کا احساس ہونا چاہیے وہ نہیں ہے اور اسی طرح اپنے اپنے ماحول میں احمدیوں میں بھی جو صفائی کے اعلیٰ معیار ہونے چاہئیں وہ مجموعی طور پر نہیں ہیں.بجائے ماحول پر اپنا اثر ڈالنے کے ماحول کے زیر اثر آجاتے ہیں.پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک میں اکثر جہاں گھر کا کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کوئی با قاعدہ انتظام نہیں ہے، گھر سے باہر گند پھینک دیتے ہیں حالانکہ ماحول کو صاف رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنے گھر کو صاف رکھنا.ورنہ تو پھر اس گند کو باہر پھینک کر ماحول کو گندا کر رہے ہوں گے اور ماحول میں بیماریاں پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہوں گے.اس لئے احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے.کوئی ایسا انتظام کرنا چاہیے کہ گھروں کے باہر گند نظر نہ آئے.ربوہ میں ، جہاں تقریباً ۹۸ فیصد احمدی آبادی ہے، ایک صاف ستھرا ماحول نظر آنا چاہیے.اب ما شاء اللہ تزئین ربوہ کمیٹی کی طرف سے کافی کوشش کی گئی ہے.ربوہ کو سرسبز بنایا جائے اور بنا بھی رہے ہیں.کافی پودے، درخت گھاس وغیرہ سڑکوں کے کنارے لگائے گئے ہیں اور نظر بھی آتے ہیں.اکثر آنے والے ذکر کرتے ہیں.اور کافی تعریف کرتے ہیں.کافی

Page 188

170 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم سبزہ ربوہ میں نظر آتا ہے.لیکن اگر شہر کے لوگوں میں یہ حس پیدا نہ ہوئی کہ ہم نے نہ صرف ان پودوں کی حفاظت کرنی ہے بلکہ ارد گرد کے ماحول کو بھی صاف رکھنا ہے تو پھر ایک طرف تو سبزہ نظر آ رہا ہوگا اور دوسری طرف کوڑے کے ڈھیروں سے بدبو کے بھبھا کے اٹھ رہے ہوں گے.اس لئے اہل ربوہ خاص توجہ دیتے ہوئے اپنے گھروں کے سامنے نالیوں کی صفائی کا بھی اہتمام کریں اور گھروں کے ماحول میں بھی کوڑا کرکٹ سے جگہ کو صاف کرنے کا بھی انتظام کریں.تا کہ کبھی کسی راہ چلنے والے کو اس طرح نہ چلنا پڑے کہ گند سے بچنے کیلئے سنبھال سنبھال کر قدم رکھ رہا ہو اور ناک پر رومال ہو کہ بو آ رہی ہے.اب اگر جلسے نہیں ہوتے تو یہ مطلب نہیں کہ ربوہ صاف نہ ہو بلکہ جس طرح حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا تھا کہ دلہن کی طرح سجا کے رکھو.یہ سجاوٹ اب مستقل رہنی چاہیے.مشاورت کے دنوں میں ربوہ کی بعض سڑکوں کو سجایا گیا تھا.تزئین ربوہ والوں نے اس کی تصویریں بھیجی ہیں، بہت خوبصورت سجایا گیا لیکن ربوہ کا اب ہر چوک اس طرح سجنا چاہیے تا کہ احساس ہو کہ ہاں ربوہ میں صفائی اور خوبصورتی کی طرف توجہ دی گئی ہے اور ہر گھر کے سامنے صفائی کا ایک اعلیٰ معیار نظر آنا چاہیے.اور یہ کام صرف تزئین کمیٹی نہیں کر سکتی بلکہ ہر شہری کو اس طرف توجہ دینی ہوگی.اسی طرح قادیان میں بھی احمدی گھروں کے اندر اور باہر صفائی کا خاص خیال رکھیں.ایک واضح فرق نظر آنا چاہیے.گزرنے والے کو پتہ چلے کہ اب وہ احمدی محلے یا احمدی گھر کے سامنے سے گزر رہا ہے.اس وقت تو مجھے پتہ نہیں کہ کیا معیار ہے، 91ء میں جب میں گیا ہوں تو اس وقت شاید اس لئے کہ لوگوں کا رش زیادہ تھا، کافی مہمان بھی آئے ہوئے تھے لگتا تھا کہ ضرورت ہے اس طرف توجہ دی جائے اور میرے خیال میں اب بھی ضرورت ہوگی.اس طرف خاص توجہ دیں اور صفائی کا خیال رکھیں اور جہاں بھی نئی عمارات بن رہی ہیں اور تنگ محلوں سے نکل کر جہاں بھی احمدی کھلی جگہوں پر اپنے گھر بنا رہے ہیں وہاں صاف ستھرا بھی رکھیں اور سبزے بھی لگا ئیں، درخت پودے گھاس وغیرہ لگنا چاہیے اور یہ صرف قادیان ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ اور جماعتی عمارات ہیں ان میں خدام الاحمدیہ کو خاص طور پر توجہ دینی چاہیے کہ وہ وقار عمل کر کے ان جماعتی عمارات کے ماحول کو بھی صاف رکھیں اور وہاں پھول پودے لگانے کا بھی انتظام کریں اور صرف قادیان میں نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ جہاں بھی جماعتی عمارات ہیں ان کے ارد گرد خاص طور پر صفائی اور سبزہ اس طرح نظر آئے کہ ان کی اپنی ایک انفرادیت نظر آتی ہو.پہلے میں تیسری دنیا کی مثالیں دے چکا ہوں صرف یہ حال وہاں کا نہیں بلکہ یہاں یورپ میں بھی میں نے دیکھا ہے، جن گھروں میں بھی گیا ہوں پہلے کبھی یا اب، کہ جو

Page 189

171 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم بھی چھوٹے چھوٹے آگے پیچھے صحن ہوتے ہیں ان کی کیاریوں میں یا گھاس ہوتا ہے یا گند پڑا ہوتا ہے.کوئی توجہ یہاں بھی اکثر گھروں میں نہیں ہو رہی، چھوٹے چھوٹے صحن ہیں کیاریاں ہیں، چھوٹے سے گھاس کے لان ہیں اگر ذراسی محنت کریں اور ہفتے میں ایک دن بھی دیں تو اپنے گھروں کے ماحول کو خوبصورت کر سکتے ہیں.جس سے ہمسایوں کے ماحول پہ بھی خوشگوار اثر ہو گا اور آپ کے ماحول میں بھی خوشگوار اثر ہوگا.اور پھر آپ کو لوگ کہیں گے کہ ہاں یہ لوگ ذرا منفر د طبیعت کے لوگ ہیں، عام جو ایشیئنز (Asians) کے خلاف ایک خیال اور تصور گندگی کا پایا جاتا ہے وہ دُور ہو گا.مقامی لوگوں میں کچھ نہ کچھ پھر بھی شوق ہے وہ اپنے پودوں کی طرف توجہ دیتے ہیں جبکہ ہمارے گھر کا ماحول ان لوگوں سے زیادہ صاف ستھرا اور خوشگوار نظر آنا چاہیے اور یہاں تو موسم بھی ایسا ہے کہ ذراسی محنت سے کافی خوبصورتی پیدا کی جاسکتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر سڑکوں کی صفائی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: اگر سڑک پر جھاڑیاں یا پتھر اور کوئی گندی چیز ہو بلکہ آپ کا عمل یہ تھا کہ اگر کوئی گندی چیز ہوتی تو آپ اسے خود اٹھا کر ایک طرف کر دیتے اور فرماتے کہ جو شخص سڑکوں کی صفائی کا خیال رکھتا ہے خدا اس پر خوش ہوتا ہے اور اسے ثواب عطا کرتا ہے.(مسلم.کتاب البر والصلۃ ) اور یہاں تو گھر بھی اتنے چھوٹے چھوٹے ہیں کہ سڑکوں پر آئے ہوتے ہیں اس لئے جتنا آپ اپنے چھوٹے سے صحن کو صاف رکھیں گے سڑک کی صفائی بھی اس میں نظر آئے گی.اسی طرح آپ فرماتے تھے کہ رستے کو روکنا نہیں چاہیے، رستوں پر بیٹھنایا اس میں ایسی چیز ڈال دینا کہ مسافروں کو تکلیف ہو یا رستہ میں قضائے حاجت وغیرہ کرنا یہ خدا تعالیٰ کو نا پسند ہے.(مشکوۃ.کتاب الطہارة ) اسی طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ سڑک یا فٹ پاتھ پر تھوک دیتے ہیں جو بڑا کراہت والا منظر ہوتا ہے تو اگر ایسی کوئی ضرورت ہو بھی تو ایسے لوگوں کو چاہیے کہ ایک طرف ہو کر کنارے پر ایسی جگہ تھوکیں جہاں کسی کی کبھی نظر نہ پڑے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : {وَثِيَابَكَ فَطَهَرْ - وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ } (المدر : ۵-۶) اپنے کپڑے صاف رکھو، بدن کو، اور گھر کواور کو چہ کو اور ہر ایک جگہ کو جہاں تمہاری نشست ہو پلیدی اور میل کچیل اور کثافت سے بچاؤ یعنی غسل کرتے رہو اور گھر وں کو صاف رکھنے کی عادت

Page 190

مشعل راه جلد پنجم 172 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی پکڑو.(اسلامی اصول کی فلاسفی - صفحه ۲۳ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد نمبر ۴ صفحه ۴۹۶) جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ بدن کو بھی صاف رکھو، کپڑوں کو بھی صاف رکھو، اس طرف بھی توجہ کرنی چاہیے.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جتنا حلیہ خراب ہو اتنی بزرگی زیادہ ہوتی ہے حالانکہ (دینی) تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے.ایک روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے پر انعام کرتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ وہ اس نعمت کا اثر اس بندے پر دیکھئے“.(مسند احمد بن حنبل) پھر ایک روایت ہے، جو ابوالاحوص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے کہا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت میرے جسم کے کپڑے معمولی اور گھٹیا تھے.آپ نے پوچھا کیا تمہارے پاس مال ہے؟ میں نے کہا: ہاں.آپ نے پوچھا کس طرح کا مال ہے.میں نے کہا ہر طرح کا مال اللہ تعالیٰ نے مجھے دے رکھا ہے.اونٹ بھی ہیں، گائے بھی ہیں.بکریاں بھی ہیں گھوڑے بھی ہیں اور غلام بھی ہیں.تو آپ نے فرمایا ” جب اللہ نے مال دے رکھا ہے تو اس کے فضل اور احسان کا اثر ونشان تمہارے جسم پر ظاہر ہونا چاہیے.(مشکوۃ المصابیح) بعض لوگ تو طبعاً ایسے ہوتے ہیں کہ توجہ نہیں دیتے کہ صیح طرح کپڑے پہن سکیں اور بعض کنجوسی میں اپنا حلیہ بگاڑ کر رکھتے ہیں.تو بہر حال جو بھی صورت ہے اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تم پر فضل اور احسان کیا ہے اس کا اظہار تمہارے حلیے سے بھی ہونا چاہیے، تمہارے کپڑوں سے تمہارے لباس سے تمہارے گھروں سے ، اس لئے اپنا حلیہ درست رکھو اور اچھے کپڑے پہنا کرو.یہ نصیحت ان کو کی.ایک روایت میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ایک پراگندہ بال شخص کو دیکھا یعنی اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور فرمایا کہ ” کیا اس کے پاس بال بنانے کے لئے کوئی چیز نہیں ہے.اور ایک گندے کپڑے والے شخص کو دیکھ کر فرمایا کہ کیا اسے کپڑے دھونے کے لئے پانی میسر نہیں“.(سنن ابو داؤد.کتاب اللباس - باب فی نغسل الثوب ) مطلب یہ تھا کہ یہ شخص اس حالت میں کیوں ہے.اب بعض لوگ ہمارے ملکوں میں پاکستان وغیرہ میں گندے کپڑوں والے اور لمبے چونے پہنے ہوتے ہیں.گھنگرو اور کڑے پہنے ہوئے ایسے لوگوں کو دیکھ کر سمجھتے

Page 191

مشعل راه جلد پنجم 173 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ہیں کہ مانگ ہے، بڑا پہنچا ہوا بزرگ ہے حالانکہ یہ سراسر دینی ) تعلیم کے خلاف ہے.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جماعت ایسے لوگوں سے پاک ہے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عطاء ابن سیار بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص پراگندہ بال اور بکھری ڈاڑھی والا آیا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اشارہ سے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ سر اور داڑھی کے بال درست کرو.جب وہ سر کے بال ٹھیک ٹھاک کر کے آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ بھلی شکل (یعنی یہ خوبصورت شکل ) بہتر ہے یا یہ کہ انسان کے بال اس طرح بکھرے اور پراگندہ ہوں کہ وہ شیطان اور بھوت لگے.(موطا امام مالک.باب ما جاء فی الطعام والشراب واصلاح الشعر ) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے غلیظ حلیے والے لوگوں کو شیطان سے تشبیہ دی ہے.اور پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں ایسے حلیے کے لوگوں کو دیکھ کے ملنگ اور اللہ والے کہا جاتا ہے.تو یہ تقضا دیکھ لیں اور یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے اس زمانے کے امام کو نہیں مانا اور پہچانا.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا شخص جس کے دل میں ذرا سا بھی تکبر ہوگا.وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا.ایک شخص نے عرض کی کہ ہر شخص پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے خوبصورت ہوں.اس پر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے“.مسلم.کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ) اب اس حدیث سے یہ واضح ہونا چاہیے کہ صاف ستھرا رہنے یا اچھے کپڑے پہنے سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے اور یہ خیال دل میں نہیں آنا چاہیے کہ اپنے سے مالی لحاظ سے کم تر کسی شخص کے ساتھ نہ بیٹھوں.اگر یہ صورت ہوگی تو پھر تکبر ہے.ورنہ اچھے کپڑے پہننا اور صاف ستھرا رہنا، اچھے جوتے پہنا یہ تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اظہار ہے.اور اگر تکبر ہوگا تو تب فرمایا کہ ایسے شخص کے لئے پھر جنت کے دروازے بند ہیں.اس لئے مومن اور دنیا دار میں یہی فرق ہے کہ وہ صاف ستھرا رہتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا ہے اچھے جوتے پہنتا ہے اپنے گھر کو سجا کر رکھتا ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو خوبصورتی پسند ہے یعنی اس کا یہ ظاہری خوبصورتی کا اظہار بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے، اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہے اور کیونکہ مومن کا یہ اظہار اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہے.اس لئے غریب آدمی کے ساتھ مالی لحاظ سے اپنے سے کم بھائی کے

Page 192

مشعل راه جلد پنجم 174 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ساتھ بیٹھنا اٹھنا اس کا پاس لحاظ رکھنا یہ بھی اس کے لئے ایسا ہی ہے جیسا کسی مالدار شخص کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اس کا پاس لحاظ کرنا ہے.یہ ہے (دینی) تعلیم کہ تم خدا تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا اپنے ظاہری رکھ رکھاؤ سے اظہار بھی کرو لیکن اس کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ان غریبوں کا بھی خیال رکھو تا کہ ان کا ایک بھائی کی حیثیت سے حق پورا ادا ہو.حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے جب آئی سی ایس کا امتحان پاس کیا تو سول سروس میں گئے کیونکہ برصغیر میں عموماً افسر اپنے آپ کو عام آدمی سے بالا سمجھتے تھے اور اب بھی اکثر پاکستان وغیرہ میں جو بیوروکریٹ ہیں سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی ایسی شخصیت ہیں جو دوسروں سے بالا ہیں اور غریب آدمی کے وقت اور عزت کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی.حضرت میاں صاحب جب اپنے علاقے میں افسر بن کر گئے تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اور نصائح کے علاوہ ان کو ایک یہ بھی نصیحت کی تھی کہ تمہارے گھر کا کوئی قالین کا ٹکٹر یا ڈرائینگ روم کا صوفہ کسی غریب کو تمہارے گھر میں قدم رکھنے یا بیٹھنے سے نہ رو کے یا روک نہ بنے.بڑی پر حکمت نصیحت ہے.ایک تو یہ کہ غریب بھی تمہارے گھر میں بے جھجک آسکے، کوئی روک نہ ہو.دوسرے اس کو بھی وہی عزت دو جو کسی امیر کو دو.تو حضرت میاں صاحب نے ہمیشہ غریبوں کا بہت خیال رکھا اور اس نصیحت پر عمل کیا.ہمارے آج کل کے افسروں کو بھی اس نصیحت کو پلے باندھنا چاہیے.یہ نہیں کہ سفر کی وجہ سے کسی غریب کے کپڑے میلے ہیں تو اس کے صوفے پر بیٹھنے سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہو.پھر صفائی کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشبو لگانے کو بھی بہت پسند فرمایا ہے اور اس تھنے کو بھی بڑا پسند کیا کرتے تھے.ایک روایت میں ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں کوئی دوست بطور تحفہ خوشبو دے تو اسے قبول کرو اور اسے استعمال کرو.( مسندالامام الاعظم.کتاب الادب ) روایت آتی ہے کہ آپ کے جسم میں سے تو ہر وقت خوشبو آتی رہتی تھی.جیسے حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک دفعہ میرے گال پر ہاتھ پھیرا تو آپ کے ہاتھ سے میں نے ایسی اعلیٰ درجہ کی خوشبو محسوس کی جیسے وہ ابھی عطار کی صندوقچی سے باہر نکلا ہو.(مسلم.کتاب الفضائل باب طیب رائحتہ النبی) یعنی جو شخص عطر بناتا ہے اس کا جوڈ بہ جس میں عطر پڑے ہوتے ہیں جس طرح اس میں سے ہاتھ نکالا ہو.حضرت جابر ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس راستے سے گزرتے ، اس پر اگر کوئی

Page 193

مشعل راه جلد پنجم 175 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی آپ کے پیچھے جاتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوص خوشبو کی وجہ سے اسے پتہ چل جاتا تھا کہ حضور ا بھی یہاں سے گزر کر گئے ہیں.( تاریخ الکبیر للبخاری نمبر ۷۹۲۴) حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی جمعے کے دن غسل کرے اور جہاں تک صفائی کر سکتا ہے صفائی کرے اور تیل لگائے اور اپنے گھر میں موجود خوشبو میں سے کچھ لگائے ، پھر نماز کے لئے نکلے تو اس جمعے سے لے کر اگلے جمعے تک اس کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے.( بخاری.کتاب الصلوۃ باب الدهن للجمعة ) تو یہاں اس سے یہ مراد ہے کہ نیت یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ خوشبو لگا کر مسجد میں جاؤ تا کہ اس کے بندوں کو، ساتھ بیٹھے ہووں کو تکلیف نہ ہو.اللہ تعالیٰ کو بھی خوشبو اور صفائی پسند ہے.یہ نہیں کہ اس حکم کے مطابق تیار ہوکر جمعہ پڑھ لیا اور سارا ہفتہ اس کے بندوں کو تکلیف دیتے رہے تو گناہ بخشے گئے.عمل کا دارو مدار نیتوں پر ہے،اس حدیث کو بھی سامنے رکھنا ہوگا نیت نیک ہو تب ثواب بھی ملتا ہے.دانتوں کی صفائی کی اہمیت دانتوں کی صفائی کے بارے میں روایت ہے، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مسواک کرنے سے منہ کی صفائی ہوتی ہے.خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ آنکھ کی روشنی بڑھتی ہے.(بخاری.کتاب الصوم باب سواک الرطب واليابس للصائم ) پھر اسی بارے میں دوسری روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت کی یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ان کو یہ حکم دیتا کہ ہر نماز پر مسواک کیا کریں.( بخاری.کتاب الصلوۃ بالسواک یوم الجمعة ) اب بعض لوگوں کے منہ سے بو آتی ہے.ان کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے، لوگوں کی تکلیف کا احساس ہونا چاہیے.حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو بیدار ہوتے تھے تو مسواک سے اپنا منہ صاف کیا کرتے تھے.آج کل ڈاکٹر اپنی تحقیق کے مطابق یہ کہتے ہیں کہ صبح شام ضرور برش کرنا چاہیے.رات کو سونے سے پہلے اور صبح اٹھ کر.ورنہ بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے.بلکہ ایک تحقیق یہ بھی کہتی ہے کہ آدمی جب صبح اٹھتا ہے تو اس کے دانتوں پر چھ سومختلف سپیشیز (species) کے لا تعداد بیکٹیریا ہوتے ہیں.سپیشیز (species ) ہی چھ سو ہوتی ہیں جو دانتوں پر لگی ہوتی ہیں اور تعداد کتنی

Page 194

176 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم ہے، یہ پتہ نہیں.لیکن دیکھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ سو سال پہلے ہمیں بتادیا کہ سوکر اٹھو تو پہلے دانت صاف کرو.اب ان باتوں کو دیکھ کر آج کل کے ڈاکٹر اور سائنسدان کو خدا اور اسلام کی سچائی پر یقین ہونا چاہیے کہ جو باتیں اس زمانے کی تحقیق سے ثابت ہورہی ہیں اور اب پتہ لگ رہی ہیں وہ باتیں آج سے پندرہ سوسال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتا چکے ہیں.کھانا کھانے کے آداب کھانا کھانے سے پہلے بھی ہاتھ دھونے کا حکم آتا ہے.آپ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوتے تھے اور کلّی کرتے تھے بلکہ ہر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد کلی کرتے اور آپ کی ہوئی چیز کھانے کے بعد بغیر کلی کئے نماز پڑھنے کو نا پسند فرماتے تھے.( بخاری کتاب الاطعمہ ) کھانا کھا کرکلی بھی کرنی چاہیے اور ہاتھ بھی دھونے چاہئیں.اور اس سے پہلے بھی تا کہ ہاتھ صاف ہو جائیں.اور بعد میں اس لئے کہ سالن کی بُو منہ اور ہاتھوں سے نکل جائے.آج کل تو مصالحے بھی ایسے ڈالے جاتے ہیں کہ کھاتے ہوئے شاید اچھے لگتے ہوں لیکن اگر اچھی طرح ہاتھ منہ نہ دھویا ہو تو بعد میں دوسروں کے لئے کافی تکلیف دہ ہوتے ہیں.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ہاتھ دھو کر دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا چاہیے.( بخاری.کتاب الاطعمہ باب التسمية على الطعام والا کل بالیمین ) دوسری جگہ فرمایا گند وغیرہ کی صفائی کے لئے بایاں ہاتھ استعمال کرو.لیکن آج کل یہاں یورپ میں کیونکہ لوگوں کو احساس نہیں ہے دائیں اور بائیں کا ، اکثر دیکھا ہے گورے انگریز ، عیسائی بائیں ہاتھ سے ہی کھا رہے ہوتے ہیں.کبھی سڑک پہ جاتے ہوئے نظر پڑ جائے تو ہاتھ میں برگر ہوتا ہے ہمیشہ دیکھیں گے بائیں ہاتھ سے کھا رہے ہوں گے.چپس کا لفافہ دائیں ہاتھ میں ہوگا اور بایاں ہاتھ استعمال ہورہا ہوگا.بعض لوگ اس کی تقلید کرتے ہیں، اس سے بچنا چاہیے.کھانا بہر حال دائیں ہاتھ سے کھانا چاہئے.پھر ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس باتیں فطرت انسانی میں داخل ہیں.مونچھیں تراشنا، ڈاڑھی رکھنا ( خاص مردوں کے لئے ہے)، مسواک کرنا ، پانی سے ناک صاف کرنا ، ناخن کٹوانا ، انگلیوں کے پورے صاف رکھنا بغلوں کے بال لینا، زیر ناف بال لینا، استنجاء کرنا طہارت کرنا.راوی کہتا ہے کہ میں دسویں بات بھول گیا ہوں شاید وہ کھانے کے بعد کلی کرنا ہے.(مسلم.کتاب الطہارۃ باب خصال الفطرة )

Page 195

مشعل راه جلد پنجم 177 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نزلے سے بچنے کا ایک طریقہ یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو صفائی کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کے اصولوں کے لئے بھی ضروری ہیں.اب پانی سے ناک صاف کرنے کا جو حکم ہے یہ وضو کرتے وقت دن میں پانچ دفعہ ہے اور اگر ناک میں پانی چڑھا کر صاف کیا جائے تو کافی حد تک نزلے وغیرہ سے بھی بچا جا سکتا ہے.مجھے کسی نے بتایا کہ جرمنی میں کسی کو نزلہ ہو گیا اور ڈاکٹر کے پاس گئے تو اس نے کہا کہ تم لوگ جو ( مومن ) ہو، پانچ وقت وضو کرتے ہو تو ناک میں پانی چڑھاتے ہو، تم اگر اس طرح کرو تو کافی حد تک نزلے سے بچ سکتے ہو.یہ اس ڈاکٹر کی اپنی سوچ یا تحقیق تھی یا اس پر کوئی اور تحقیق ہو رہی ہے یا ہوئی ہے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو بہر حال اس میں حقیقت ہے.اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہے.ہر ایک کے لئے ناک میں پانی چڑھانا مشکل ہوگا کیونکہ ناک میں زور سے پانی چڑھانا ہوتا ہے.بعض دفعہ ذراسی تکلیف بھی ہوتی ہے لیکن میں نے تجربہ کر کے دیکھا ہے کہ اگر ناک میں پانی ٹھیک طرح چڑھایا جائے اور صاف کیا جائے تو نزلے میں کافی فرق پڑتا ہے.پھر ناخن کٹوانا ہے، اس میں ہزار قسم کے گند پھنس جاتے ہیں لیکن آج کل بعض مردوں میں لیکن عورتوں میں تو اکثریت میں یہ فیشن ہو گیا ہے کہ لمبے لمبے ناخن رکھو اور ان کو کوئی گندگی کا احساس بھی نہیں ہوتا.بہر حال یہ سب پر واضح ہو جانا چاہیے کہ ناخن کٹوانے کا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اور لمبے ناخن رکھنے کا نقصان ہی ہے فائدہ کوئی نہیں.جماعتی عمارات کے ماحول کو صاف رکھنے کی ذمہ داری صفائی کے ضمن میں ایک انتہائی ضروری بات جو جماعتی طور پر ضروری ہے وہ ہے جماعتی عمارات کے ماحول کو صاف رکھنا.اس کا پہلے میں ذکر کر چکا ہوں.اس کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے.اور خدام الاحمدیہ کو وقار عمل بھی کرنا چاہیے.اور اگر عمارت کے اندر کا حصہ ہے تو لجنہ کو بھی اس میں حصہ لینا چاہیے.اور اس میں سب سے اہم عمارات ( بیوت الذکر ) ہیں ( بیوت الذکر ) کے ماحول کو بھی پھولوں ، کیاریوں اور سبزے سے خوبصورت رکھنا چاہیے، خوبصورت بنانا چاہیے.اور اس کے ساتھ ہی ( بیت الذکر) کے اندر کی صفائی کا بھی خاص اہتمام ہونا چاہیے.چند سال پہلے حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بڑا تفصیلی خطبہ اس ضمن میں دیا تھا اور توجہ دلائی تھی.کچھ عرصہ تک تو اس پر عمل ہوا لیکن پھر آہستہ آہستہ اس پر توجہ کم ہو گئی.خاص

Page 196

مشعل راه جلد پنجم 178 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی طور پر پاکستان اور ہندوستان میں (بیت الذکر) کے اندر ہال کی صفائی کا بھی باقاعدہ انتظام ہو.تنکوں کی وہاں صفیں بچھی ہوتی ہیں.صفیں اٹھا کر صفائی کی جائے ، وہاں دیواروں پر جالے بڑی جلدی لگ جاتے ہیں، جالوں کی صفائی کی جائے.پنکھوں وغیرہ پر مٹی نظر آ رہی ہوتی ہے وہ صاف ہونے چاہئیں.غرض جب آدمی ( بیت الذکر ) کے اندر جائے تو انتہائی صفائی کا احساس ہونا چاہیے کہ ایسی جگہ آ گیا ہے جو دوسری جگہوں سے مختلف ہے اور منفرد ہے.اور جن ( بیوت الذکر ) میں قالین وغیرہ بچھے ہوئے ہیں وہاں بھی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے.لمبا عرصہ اگر صفائی نہ کریں تو قالین میں بو آنے لگ جاتی ہے ہمٹی چلی جاتی ہے.خاص طور پر جمعے کے دن تو بہر حال صفائی ہونی چاہیے.اور پھر حدیثوں میں آیا ہے کہ دھونی وغیرہ دے کر ہوا کو بھی صاف رکھنا چاہیے اس کا بھی باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے.لیکن ( بیت الذکر ) میں خوشبو کے لئے بعض لوگ اگر بتیاں جلا لیتے ہیں.بعض دفعہ اس کا نقصان بھی ہو جاتا ہے، پاکستان میں ایک ( بیت الذکر ) میں اگر بتی کسی نے لگادی اور آہستہ آہستہ الماری کو آگ لگ گئی نقصان بھی ہوا.ایک تو یہ احتیاط ہونی چاہیے کہ جب موجود ہوں تب ہی لگے.دوسرے بعض اگر بتیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں اتنی تیز خوشبو ہوتی ہے کہ دوسروں کے لئے بجائے آرام کے تکلیف کا باعث بن جاتی ہیں.اس سے اکثر کو سر درد شروع ہو جاتی ہے.تو ایسی چیز لگانی چاہیے یا دھونی دینی چاہیے جو ذرا ہلکی ہو.ایک حدیث میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو اس بات کی تحریک کرتے رہتے تھے کہ خاص طور پر اجتماعات کے دنوں میں جب لوگ اکٹھے ہو رہے ہوں مسجدوں کی صفائی کا خیال رکھا کریں اور ان میں خوشبو جلایا کریں تا کہ ہوا صاف ہو جائے.(مشکوۃ.کتاب الصلوۃ) ایک اور روایت ہے.آپ ہمیشہ صحابہ کونصیحت کرتے رہتے تھے کہ اجتماع کے موقع پر بد بودار چیزیں کھا کر مسجد میں نہ آیا کریں.جب نمازوں کے لئے مسجد میں آتے ہیں تو پیاز اور لہسن وغیرہ چیزیں کھا کر نہ آئیں.( بخاری.کتاب الاطعمہ ) اور اس کے ساتھ ہی بعض دفعہ جرابیں بھی کئی دنوں کی گندی ہوتی ہیں ان سے بھی بو آتی ہے وہ بھی پہن کے نہیں آنا چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں ظاہری اور باطنی صفائی کی طرف توجہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل 7 تا 14 مئی 2004ء)

Page 197

مشعل راه جلد پنجم 179 ارشادات حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرموده فرموہ 30 را پریل 2004 ء سے اقتباس قناعت اور سادگی کو اپنا ئیں تو دین کی خدمت کے مواقع بھی میسر آئیں گے اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال نصف معیشت ہے دوسروں کی رقم بٹورنے والوں کو بھی خوف خدا کرنا چاہیے کھانے میں سادگی اپنائیں آجکل کے فیشن کی بجائے دائیں ہاتھ سے کھانا کھائیں واقفین زندگی کے لئے قیمتی نصائح

Page 198

مشعل راه جلد پنجم 180 * ارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے ذیل کی آیت تلاوت فرمائی:.زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ - ذلِكَ مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَابِ اس کے بعد فرمایا: - ( سورة آل عمران : ۱۵) اس کا ترجمہ ہے کہ لوگوں کے لئے طبعاً پسند کی جانے والی چیزوں کی یعنی عورتوں کی اور اولاد کی اور ڈھیروں ڈھیر سونے چاندی کی اور امتیازی نشان کے ساتھ داغے ہوئے گھوڑوں کی اور مویشیوں اور کھیتیوں کی محبت خوبصورت کر کے دکھائی گئی ہے.یہ دنیوی زندگی کا عارضی سامان ہے اور اللہ وہ ہے جس کے پاس بہت بہتر لوٹنے کی جگہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا دار طبعا یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے پاس خوبصورت اور مالدار عورتیں ہوں ان کی زوجیت میں ، آجکل بھی دیکھ لیں مالدار لوگ یا پیسے والے لوگ یا اس کی سوچ کو رکھنے والے اکثر مالدار گھرانے میں اس لئے شادیاں کرتے ہیں کہ یا تو ان کی طرف سے کچھ مال مل جائے گا یا دونوں طرف کا مال اکھٹا ہو کر ان کے مال میں اضافہ ہوگا.اس بات کی پر واہ کم کی جاتی ہے کہ جن چار وجوہات کی بناء پر رشتہ کیا جانا چاہیے یعنی مال (جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ) ، خاندان، خوبصورتی یا دینداری.ان میں سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے زیادہ پسندیدہ دین ہے، اس کی پرواہ کم کی جاتی ہے.لیکن مال کی طرف سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے.اور پھر یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ اولاد کو اور اولاد میں بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ لڑکے ہوں.آجکل کے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی ، ترقی یافتہ زمانے میں بھی یہ سوچ ہے اور یہ سوچ بڑی کثرت سے پائی جاتی ہے کہ لڑکے پیدا ہوں اور باپ کی طرح دنیا داری کے کاموں میں باپ کے ساتھ کام کریں.پھر جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ مال ہو، ڈھیروں ڈھیر مال کی خواہش ہو اور جتنا مال آتا ہے اتنی زیادہ )

Page 199

181 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم حرص بڑھتی چلی جاتی ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ جس ذریعے سے بھی مال حاصل ہوسکتا ہے کیا جائے.دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کر کے بھی زمینیں بنائی جاسکیں تو بنائی جائیں، دوسروں کے پلاٹوں پر بھی قبضہ کیا جائے، کاروبار پھیلایا جائے ، کارخانہ لگائے جائیں، سواریوں کے لئے کاریں خریدی جائیں، ایک گاڑی کی ضرورت ہے تو تین تین چار چار گاڑیاں رکھی جائیں اور پھر ہر نئے ماڈل کی کار خرید نا فرض سمجھا جاتا ہے.تو فرمایا کہ یہ سب دنیوی زندگی کے عارضی سامان ہیں ایک مومن کی یہ شان نہیں ہے کہ ان عارضی سامانوں کے پیچھے پھرتا رہے.دنیا کے پیچھے پھرنا تو کافروں کا کام ہے، غیر مومنوں کا کام ہے ،تمہارا طمح نظر تو اللہ تعالیٰ کی رضا، اس کی عبادت اور اس کی مخلوق کی خدمت ہونا چاہیے.لیکن بدقسمتی سے اس خوبصورت اور پاکیز تعلیم کے باوجود مسلمانوں نے دنیا کوہی شطح نظر بنالیا ہے اور حرص اور ہوس انتہا تک پہنچ چکی ہے.دجال کے دجل کی ایک یہ بھی تدبیر تھی جس سے مقصد مسلمانوں کو دین سے پیچھے ہٹانا تھا اور اس میں وہ کامیاب بھی ہو گئے ہیں.اور قناعت اور سادگی کو بھلا دیا گیا ہے اور ہوا و ہوس کی طرف زیادہ رغبت ہے اور امیر سے امیر تر بنے کی دوڑ لگی ہے.موجودہ دور کے احمدیوں کی ذمہ داریاں پس ان حالات میں خاص طور پر احمد یوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ہر طبقہ کے احمدی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قناعت اور سادگی کو اپنا ئیں.تو دین کی خدمت کے مواقع بھی میسر آئیں گے، دین کی خاطر مالی قربانی کی بھی توفیق ملے گی، اپنے ضرورت مند بھائیوں کی خدمت کی بھی توفیق ملے گی ، ان کی خدمت کر کے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بھی توفیق ملے گی اور دنیا کے کاموں میں فنا ہونے سے بیچ کر اللہ تعالیٰ کی عبادات بجالانے کی بھی توفیق ملے گی.اور آخر کو انسان نے اللہ تعالیٰ کے حضور ہی حاضر ہونا ہے، اسی طرح زندگی چلتی ہے.ایک دن اس دنیا کو چھوڑنا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہی بہترین جگہ ہے اور یہ بہترین جگہ اس وقت حاصل ہوگی جب دنیا داری کو چھوڑ کر میری رضا کے حصول کی کوشش کرو گے اور میرے احکامات پر عمل کرو گے.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:- وَمَا هَذِهِ الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهُوٌوٌ لَعِبٌ.وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا

Page 200

مشعل راه جلد پنجم 182 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی يَعْلَمُونَ (العنکبوت : ۶۵) یعنی اور یہ دنیا کی زندگی غفلت اور کھیل تماشا کے سوا کچھ بھی نہیں اور یقیناً آخرت کا گھر ہی دراصل حقیقی زندگی ہے کاش کہ وہ جانتے.اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال نصف معیشت ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال نصف معیشت ہے.اور لوگوں سے محبت سے پیش آنا نصف عقل ہے اور سوال کو بہتر رنگ میں پیش کرنا نصف علم ہے.“ ( بیهقی فی شعب الایمان.مشکوۃ باب الحذر الثانی فی السور صفحه ۴۳۰) تو دیکھیں میانہ روی اور اپنے اخراجات کو کنٹرول کرنا اس حدیث کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو تمہارے حالات ہیں ان پر صرف کنٹرول کرنے سے ہی اور اعتدال کے ساتھ اخراجات کرنے سے ہی مالی لحاظ سے اپنی ضروریات کو نصف پورا کر لیتے ہو.پھر فرمایا، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ہی روایت ہے کہ :- " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاح پا گیا جس نے اس حالت میں فرمانبرداری اختیار کی جبکہ اس کا رزق صرف اس قدر ہو کہ جس میں بمشکل گزارا ہوتا ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے قناعت بخشی ہو.(ترمذی کتاب الزھد ) تو دیکھیں قناعت کرنے والوں کے لئے خوشخبری ہے.اس لئے کم پیسے والوں کے لئے بھی ایسی کوئی شرمندگی کی بات نہیں اگر شکر گزاری ہے تو فلاح بھی آپ کا مقدر ہے.حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:- ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی بھی ہو ( جو لوگ قناعت نہیں کرتے اور حرص میں رہتے ہیں ان کے بارے میں یہ ہے ).ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی بھی ہو تب بھی وہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس دوسری وادی بھی آجائے.اس کے منہ کو سوائے مٹی کے اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی.اور اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے“.(سنن الترمذی ابواب الزھد باب ما جاء لوکان لابن آدم وادیان من مال )

Page 201

183 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی مشعل راه جلد پنجم تو قناعت نہ کرنے والوں کا یہ نقشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھینچا ہے.حریص آدمی تو یہی کوشش کرتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اس کے پاس آجائے اور تب بھی اس کی حرص پوری نہیں ہوتی.اور جب تک وہ زندہ رہتا ہے یہی حرص اسے اس دنیا میں بھی جہنم میں مبتلا کئے رکھتی ہے.کیونکہ اتنی زیادہ حرص بہر حال تکلیف میں مبتلا رکھتی ہے.تو مومن کو ان چیزوں سے بچنا چاہیے اور اگر کبھی ایسی سوچ بن جاتی ہے تو اپنے آپ کو پاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور توجہ کرتے ہوئے جھکنا چاہیے.اگر انسان اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے جھکے، تو بہ استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے.اب بعض لوگ اچھے بھلے اپنے کاروبار ہونے کے باوجود دوسروں کے پیسوں پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں.اور کئی کم تجربہ کار اپنی بے عقلی سے زیادہ پیسہ کمانے کے لالچ میں ایسے لوگوں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور پھر اپنے پیسوں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور پھر نظام جماعت کو لکھتے ہیں یا مجھے لکھتے ہیں کہ فلاں احمدی کو ہم نے اس طرح اتنی رقم دی تھی وہ سب کچھ کھا گیا.اور اب ہم خالی ہاتھ ہو گئے ہیں تو ہماری مدد کی جائے اور رقم ہمیں واپس دلوائی جائے.تو ایسے لوگوں کو یہ پہلے سوچنا چاہیے کہ واقعی یہ کاروبار اس طرح ہو بھی ہوسکتا تھا کہ نہیں یا صرف کسی نے باتوں میں لگا کے، چکنی چپڑی سنا کے، بتا کے تمہارے سے پیسے اور رقم بٹور لی.اگر قناعت کرتے رہتے اور کم منافع پر بھی کماتے رہتے تو کم از کم ایسے حالات تو نہ پیدا ہوتے.بلکہ ہوسکتا ہے کہ آپ کا سرمایہ کئی گنا زیادہ ہو چکا ہوتا.اس کے بعد جور تم ضائع ہوگئی منافع تو کیا ملنا تھا تم بھی گئی اصل سرمایہ بھی گیا.لیکن ساتھ ہی میں ان احمدیوں کو بھی جو اس طرح کے کاروبار کا لالچ دے کر دوسروں کی رقم بٹورتے ہیں اور کاروبار میں بنکوں سے دوسرے شخص کی امانت پر رقم لے کر لگاتے ہیں ، دوسروں کے نام پر کاغذات بناتے ہیں ، غلط بیانی کرتے ہیں اور دوسروں کو ان کی جائیداد یا رقم سے محروم کر دیتے ہیں.ان کو میں کہتا ہوں ان کو بھی خوف خدا کرنا چاہیے.دنیا کی اتنی حرص کیا ہوگئی ہے.اگر قناعت کرتے ، اگر امیر سے امیر تر بننے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا خوف پیش نظر رکھتے تو ایسی حرکت کبھی نہ کرتے.جماعتی خدمات سے بھی محروم نہ ہوتے اور اپنے ماحول میں شرمندگی بھی نہ اٹھاتے.ہم با وجود اس بات کا علم ہونے کے کہ:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یا نصیحت کی ہے، ہر احمدی بچے کو بھی پتہ ہے احمدی ماحول میں اس کا ذکر ہوتارہتا ہے کہ ہمیشہ مالی معاملات یاد نیاوی معاملات میں اپنے سے اوپر نظر نہ رکھو بلکہ اپنے سے کم تر

Page 202

مشعل راه جلد پنجم 184 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ( مسنداحمد بن حنبل جلد 2 ص 254 بیروت ) کو دیکھو یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو اور شکر ادا کر سکو.کھانے میں سادگی اپنا ئیں قناعت کے یہ معیار ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائے.ہم آجکل عمدہ عمدہ کھانے کھانے کے بعد بھی یہ نخرے کر رہے ہوتے ہیں کہ اس میں نمک زیادہ ہے ،اس میں مرچ کم ہے یا اس میں مرچ زیادہ ہے، اس میں ہزاروں قسم کے نقص نکال رہے ہوتے ہیں.بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر کریں کہ اس زمانے میں ہمیں ایسی خوراک میسر ہے.آجکل یہ نہیں کہ صرف آدمی سر کہ ہی کھائے ، جیسا کہ میں نے پہلے کہا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ان سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن شکر ادا کرتے ہوئے اور شکر کے جذبات پہلے سے زیادہ بڑھنے چاہئیں.....بل ایک فیشن ہے چھری کانٹے سے کھانے کا وہ تو خیر کوئی حرج نہیں کھا لینا چاہیے لیکن اس فیشن میں کیونکہ یہاں کے لوگ بائیں ہاتھ سے کانٹا پکڑ کر کھاتے ہیں اس لئے بائیں ہاتھ سے کھایا جاتا ہے.اس بارے میں بھی احمدیوں کو جو ( دینی ) تعلیم ہے اس پر عمل کرنا چاہیے.رعب دجال میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں.واقفین زندگی کے لئے قیمتی نصائح...اب میں واقفین کے لئے حضرت مسیح موعود کا اقتباس پڑھتا ہوں.آج تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے حالات بہت بدل گئے ہیں اور واقفین زندگی کے لئے بھی جماعت وسائل کے لحاظ سے جس حد تک سہولتیں بہم پہنچا سکتی ہے پہنچانے کی کوشش کرتی ہے.لیکن واقفین زندگی اور اب واقفین نو بھی بعض اس عمر کو پہنچ گئے ہیں اور جامعہ میں بھی ہیں کچھ اور کالجوں میں پڑھ رہے ہیں ان کو حضرت مسیح موعود کے یہ الفاظ ہمیشہ پیش نظر رکھنے چاہیں جو میں پڑھوں گا.آپ فرماتے ہیں کہ :- ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر کچھ کر کے دکھانے والے ہوں ، علمیت کا زبانی دعویٰ کسی کام کا نہیں ہے.ایسے ہوں کہ نخوت اور تکبر سے بکلی پاک ہوں اور ہماری صحبت میں رہ کر یا کم از کم ہماری کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرنے سے ان کی

Page 203

مشعل راه جلد پنجم 185 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی علمیت کامل درجہ تک پہنچی ہوئی ہو.( دعوت الی اللہ کے ) سلسلہ کے واسطے ایسے آدمیوں کے دوروں کی ضرورت ہے، مگر ایسے لائق آدمی مل جاویں کہ وہ اپنی زندگی اس راہ میں وقف کر دیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی اشاعت اسلام کے واسطے دور دراز ممالک میں جایا کرتے تھے.یہ جو چین کے ملک میں کئی کروڑ مسلمان ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی صحابہ میں سے کوئی شخص پہنچا ہو گا.اگر اسی طرح ہیں یا تمہیں آدمی متفرق مقامات میں چلے جاویں.(اب تو اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ہزاروں دے دیے ہیں ) تو بہت جلدی ( دعوت الی اللہ ) ہو سکتی ہے.( سینکڑوں تو میدان میں ہیں اور ہزاروں پیچھے سے آرہے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ.مگر جب تک ایسے آدمی ہمارے منشاء کے مطابق اور قناعت شعار نہ ہوں تب تک ہم ان کو پورے پورے اختیارات بھی نہیں دے سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایسے قانع اور جفاکش تھے کہ بعض اوقات صرف درختوں کے پتوں پر ہی گزر کر لیتے تھے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 682.جدید ایڈیشن) الفضل انٹر نیشنل 14 تا 20 مئی 2004 ء )

Page 203