Mashal-e-Rah Volume 3

Mashal-e-Rah Volume 3

مشعل راہ جلد سوم

خدام الاحمدیہ سے متعلق خطبات و تقاریر کا مجموعہ
Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR

حضرت مرزا طاہر احمد، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے  خدام الاحمدیہ کے حوالہ سے ارشادات و فرمودات کا یہ مجموعہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کا مرتب کردہ ہے جو آپ کے خطبات و خطابات اور تقاریر سے ماخوذ ہے۔ یہ ہدایات اور نصائح اپنی جامعیت اور گہرائی کے اعتبار سے خدام الاحمدیہ کے ساتھ ساتھ مجلس اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ اور واقفین نو کے لئے بھی ہیں اور ان کا مطالعہ عہدیداران اور والدین کے لئے بھی غیر معمولی افادیت اور اہمیت کا حامل ہوگا۔ کتاب کی پیش کش نہایت دلکش اور مطالعہ میں سہولت پیدا کرنے والی ہے، آخر پر انڈیکس بھی موجود ہے۔


Book Content

Page 1

احمدی خدام کی تربیت کے لئے ﴾ قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہوسکتی“ المصلح الموعود خدام الاحمدیہ قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں“ مَشعَل راه جلد سوم حضرت خلیفة المسح الرابع رحمہ اللہ تعالی کے خدام الاحمدیہ سے متعلق فرمودات

Page 2

vi نمبر شمار 1 خطبہ جمعہ فهرست تفصیلی انڈیکس کتاب کے آخر پر ملاحظہ فرمائیں) عنوان 2 احمدی آرکیٹیکٹس اور انجینئر ز کے سالانہ کنونشن سے خطاب مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے افتتاحی خطاب 4 مجلس اطفال الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے افتتاحی خطاب مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے انتقامی خطاب 6 احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے تیسرے سالانہ کنونشن سے خطاب احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی دعوت عصرانہ سے خطاب خطبہ جمعہ سے اقتباس و خطبه جمعه 10 مجلس خدام الاحمدیہ سویڈن کے سالانہ اجتماع کے موقع پر خصوصی پیغام تاریخ صفحہ نمبر 20 اگست 1982 ء 1 14 اکتوبر 1982ء 25 41 198215 55 198216 17 اکتوبر 1982ء 69 91 198218 113 1982118 19 نومبر 1982ء 127 یکم اپریل 1983ء 135 151 198321 11 مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر خصوصی پیغام 6 اگست 1983ء 155 12 دورہ نجی کے دوران احباب سے گفتگو اور نصائح 13 دورہ نجی کے دوران قصبہ سو موسومو کے اسکول میں طلبہ وطالبات سے خطاب 14 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے افتتاحی خطاب 15 مجلس اطفال الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب 16 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کے اختتامی خطاب سے اقتباس 17 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے دیئے گئے استقبالیہ سے خطاب 18 آمین کی ایک تقریب سے خطاب 18 ستمبر 1983 ء 161 167 1983 179 1983121 191 1983122 205 1983123 217 1983123 229 198516

Page 3

vii نمبر شمار عنوان 19 مجلس خدام الاحمدیہ کے دوسرے سالانہ یورپین اجتماع کے موقع پر شائع ہونے والے سوونیئر کے لئے پیغام 20 خطبہ جمعہ 21 مجلس خدام الاحمدیہ ساؤتھ ریجن UK کے سالانہ اجتماع کے لئے پیغام 22 مجلس خدام الاحمدیہ کے تیسرے سالانہ یورپین اجتماع سے افتتاحی خطاب تاریخ صفحہ نمبر 235 $1985 8 نومبر 1985ء - 241 247 $1986 251 1986124 259 1986126 23 مجلس خدام الاحمدیہ کے تیسرے سالانہ یورپین اجتماع سے اختتامی خطاب 24 خطبہ جمعہ 25 خطبه جمعه 7 نومبر 1986 ء | 275 19 دسمبر 1986ء | 291 26 مجلس خدام الاحمدیہ کے چوتھے سالانہ یورپین اجتماع سے انتقامی خطاب 14 جون 1987ء 305 27 خطبہ جمعہ 28 خطبہ جمعہ 29 خطبہ جمعہ سے اقتباس 30 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1987ء 321 یکم جنوری 1988ء 341 22 اپریل 1988ء 363 375 198822 31 مجلس خدام الاحمدیہ کے پانچویں سالانہ یورپین اجتماع سے انتقامی خطاب (خلاصه) 19اکتوبر 1988ء 391 32 خطبہ جمعہ 33 خطبہ جمعہ 10 فروری 1989ء 397 17 فروری 1989ء 417 34 مجلس خدام الاحمدیہ کے چھٹے سالانہ یورپین اجتماع سے افتتاحی خطاب 427 198915 35 مجلس خدام الاحمدیہ کے چھٹے سالانہ یورپین اجتماع سے اختتامی خطاب 17 ستمبر 1989ء 439 36 خطبہ جمعہ 37 مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع سے افتتاحی خطاب مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب 24 نومبر 1989ء 457 473 199110 479 199112

Page 4

viii نمبر شمار عنوان 39 مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب 40 خطبہ جمعہ سے اقتباس 41 خطبہ جمعہ سے اقتباس 42 خطبہ جمعہ سے اقتباس 43 مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب 44 خطبہ جمعہ تاریخ صفحہ نمبر 501 199330 21اکتوبر 1994ء 515 4 نومبر 1994ء | 525 3 جنوری 1997ء 531 539 199725 20 جون 1997ء 563 45 خطبہ جمعہ 46 مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب 47 خطبہ جمعہ 48 خطبہ جمعہ سے اقتباس 49 خطبہ جمعہ سے اقتباس 50 خطبہ جمعہ سے اقتباس 589 1997 4 601 199824 5 جون 1998ء 617 637 1998 3 653 1998 10 14 اگست 1998 ء 659 51 مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب (خلاصہ) 27 ستمبر 1998 | 669 52 مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب 53 خطبہ جمعہ 673 199916 11 فروری 2000ء 689

Page 5

مشعل راه جلد سوم 1 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبہ جمعہ 20 اگست 1982ء یہ خدا کا فضل واحسان ہے کہ ابتلاء کے ہر دور کے بعد جماعت نے پہلے سے مختلف نظارہ دیکھا.جماعت کو اللہ تعالیٰ نے نیا استحکام بخشا نئی تمکنت عطا فرمائی جرمنی کے نوجوانوں کے لئے میرے دل میں خاص طور پر محبت کے جذبات موجزن ہیں جرمنی جماعت کی مالی قربانی کا جذبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی اور اس کا پیغام پس یا درکھیں یہی وہ طاقت ہے جس کے بل بوتے پر احمدیت نے دنیا میں ( دین حق ) کو غالب کرنا ہے دوست یہ عہد کریں کہ جہاں تک ممکن ہو........نمازیں اپنے وقت پرادا کیا کریں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے کبھی نہیں شرمانا چاہیے لندن میں New Years Day اور حضور انور نماز وقت پر اور باجماعت پڑھیں ☆ ☆ ☆

Page 6

مشعل راه جلد سوم 2 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 7

مشعل راه جلد سوم 3 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:.وَ سَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمواتُ وَالْأَرْضُ لا أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ لا الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَ الضَّرَّاءِ وَ الْكَظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ.اور پھر فرمایا:- (ال عمران آیات ۱۳۴ - ۳۵) جماعت احمدیہ پر مختلف ادوار ایسے آتے رہے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی آزمائشوں کا دور ہوتا تھا اور مخالفتوں کے ایسے ایسے خطر ناک زلزلوں اور ابتلاؤں میں سے جماعت گزرتی رہی کہ دشمن یہ سمجھتا تھا کہ یہ عمارت اب منہدم ہونے کو ہے.چنانچہ وہ لوگ جن کے چھوٹے دل اور سطحی نظریں تھیں انہوں نے خوشیوں کے شادیانے بجانے شروع کر دیے اور یہ سمجھنے لگے کہ یہ چند دن کی بات ہے اس کے بعد دنیا میں جماعت کا کوئی نشان نہیں ملے گا.یہ خدا کا فضل و احسان ہے کہ ابتلاء کے ہر دور کے بعد جماعت نے پہلے سے مختلف نظارہ دیکھا.دشمنوں کی جھوٹی خوشیاں پامال کی گئیں اور جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے نیا استحکام بخشا، نئی تمنت عطا فرمائی، نئے ولولے بخشے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے احباب جماعت کے دلوں میں نئی امنگیں ڈالی گئیں اور وہ نئی منزلوں کی طرف پہلے سے زیادہ تیز قدموں کے ساتھ روانہ ہوئے.یہ ایک ایسی تقدیر ہے جو ہر دور میں اسی طرح ظاہر ہوئی ہے اور ہمیشہ اسی طرح ظاہر ہوتی رہے گی.کوئی نہیں جو اس خدائی تقدیر کو بدل سکے.۱۹۷۴ء کا زمانہ کوئی دور کا زمانہ نہیں.آپ میں سے اکثر اس دور سے گزر کر یہاں پہنچے ہیں.آپ گواہ ہیں کہ احمدیوں پر کیسے کیسے خطرناک وقت آتے رہے ہیں.ایسے حالات میں اگر چہ ہمارے پیارے امام کا ہمیں یہی حکم تھا کہ مسکراتے چہروں کے ساتھ ان مصائب کو برداشت کر ولیکن حقیقت یہ ہے کہ چہرے

Page 8

4 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم مسکراتے تھے اور دل خون ہورہے ہوتے تھے لیکن مصائب و آلام کے اس پر آشوب دور میں جہاں تک دنیا کی آنکھ کا تعلق ہے وہ جماعت احمدیہ کے چہروں پر ایک کھلتی ہوئی مسکراہٹ ہی دیکھتی رہی.دنیا کی کوئی طاقت احمدیوں کی مسکراہٹوں کو ان سے چھین نہ سکی اور وہ مسکراہٹیں ہمارے لئے ایک ابدی رحمت اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کا نشان بن گئیں اور جس طرح پہلے بارہا جماعت ان مشکلات کے دور سے گزر کر ترقی کی راہوں پر گامزن ہوئی تھی ایک دفعہ پھر ہم نے اللہ کے فضلوں کا نظارہ دیکھا اور اُس نے اپنی رحمت سے.ڈولتے ہوئے دلوں کو سہارا دیا، گرتی ہوئی عمارتوں کی جگہ نئی بہتر اور زیادہ شاندار عمارتیں تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی، لٹتے ہوئے مالوں میں برکت بخشی، برباد ہوتی ہوئی تجارتوں کو از سر نو استحکام بخشا.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا ہم نے ایک نیا دور دیکھا جو پہلے دور سے کہیں زیادہ عظیم فضلوں والا اور پہلے دور سے کہیں زیادہ طمانیت اور تسکین بخش دور تھا.یہ سلسلہ خدا کے فضل سے جاری رہا ہے اور جاری رہے گا، اور جیسا کہ میں نے کہا ہے دنیا کا کوئی ہاتھ اس خدائی تقدیر کے لکھے کو مٹا نہیں سکتا.اس ضمن میں کچھ تقاضے ہم سے بھی ہیں ، یہ صبر وفا کے تقاضے ہیں، استقلال کے ساتھ اپنے رب کی را ہوں پر گامزن رہنے کے تقاضے ہیں، اس کی ہر رضا پر راضی رہنے کے تقاضے ہیں خواہ جنگی کی صورت ہو یا آسانی کی صورت ہر حال میں رب کریم کے حضور سر تسلیم خم کرنے کے تقاضے ہیں.اگر ہم یہ تقاضے پورے کرتے رہے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو ہمیشہ پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ ہمارے حق میں پورا کرتا رہے گا.جرمنی کی جماعت اس پہلو سے خدا کا ایک زندہ نشان ہے.اس سفر پر روانہ ہونے سے پہلے میں نے ۱۹۷۴ ء سے پہلے کا چندے کا ریکارڈ نکلوایا اور پھر ۱۹۷۴ء کے بعد کے چندے کا ریکارڈ دیکھا تو یوں معلوم ہوا کہ پہلے دور کو بعد کے دور سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے.یہ وہ ملک ہے جہاں کی جماعت احمدیہ بعض اوقات خود کفیل بھی نہیں ہوتی تھی اور جسے باہر کی جماعتوں کے ذریعہ مدددینی پڑا کرتی تھی اور جو تھوڑا سا چندہ آہستہ آہستہ بڑھتار ہاوہ بمشکل اس مقام تک پہنچا کہ یہ جماعت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے.پھر وہ زلزلے آئے جن کا میں نے ذکر کیا.پھر اللہ کی راہ کے مہاجرین اپنے ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اس ملک میں آکر اللہ کے فضلوں اور رحمتوں کے سہارے پر انہوں نے پناہ لی.خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا سایہ وہ اپنے ساتھ لے کر آئے تھے.نتیجہ یہ نکلا کہ دیکھتے دیکھتے اس ملک کی جماعت احمدیہ کی کایا پلٹ گئی.چنانچہ یہ جماعت جو بعض دفعہ اپنے کام چلانے کے لئے دوسری جماعتوں کی

Page 9

مشعل راه جلد سوم 5 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مرہون منت ہوا کرتی تھی نہ صرف خود کفیل ہو گئی بلکہ اس نے کئی دوسری جماعتوں کے بوجھ اٹھالئے اور آج خدا تعالیٰ کے فضل سے یورپ کی ان جماعتوں میں شمار ہوتی ہے جو اپنے بوجھ اٹھانے کے بعد باہر کی جماعتوں کے بوجھ بھی اٹھا رہی ہیں.چنانچہ جہاں کہیں بھی سلسلہ کو ضرورت پیش آتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی کی جماعت کے چندہ میں سے ایک خطیر رقم اُس طرف منتقل کر دی جاتی ہے.پس یہ ہے وہ الہی نشان اور اس کے فضلوں کا وہ پہلو جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ اپنے رب کے شکر گزار بندے بنیں.جرمنی کے نوجوانوں کے لئے محبت کے جذبات اس سلسلہ میں سب سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جرمنی کی جماعت کے اکثر نوجوان بڑی مشکلات میں سے گزر رہے ہیں اور گزرتے رہے ہیں.میرے دل میں ان کے لئے خاص طور پر محبت کے جذبات موجزن ہیں.اس لئے کہ انہوں نے پیش آمدہ مشکلات کے باوجود خدا کے حقوق ادا کئے اور سخت مشکلات میں سے گزرتے رہنے کے باوجود حمد باری سے ان کے سینے معمور اور یاد الہی سے ان کی زبانیں تر رہیں اور جب کبھی خدا کی خاطر ان سے مالی قربانی کی اپیل کی گئی تو انہوں نے اس بارہ میں کسی قسم کی کنجوسی نہیں دکھائی.بہت سے ایسے دوست بھی ہیں جو خدا کے فضل سے موصی ہیں جو شرح کے مطابق اپنے چندے ادا کرتے ہیں.ان کے حالات اپنے ملک میں ایسے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ واپس جا کر ان کا کیا بنے گا.بعض دوستوں کے حالات جرمنی میں ایسے ہیں کہ ان کا سارا مستقبل بظاہر مخدوش نظر آتا ہے لیکن جب خدا کی خاطر ان کو اپنے پاک مالوں سے جُدا ہونے کی اپیل کی جاتی ہے، جو انہوں نے بڑی محنت کے ساتھ پاکیزہ رزق کے طور پر کمائے ہوتے ہیں، تو بڑے کھلے دل کے ساتھ وہ خدا کی راہ میں ان عزیز مالوں سے جُدا ہوتے ہیں.وہ یہ سوچتے ہوں گے کہ ہمارا کیا بنے گا؟ میں ان کو بتا تا ہوں کہ ان کا وہی بنے گا جو ہمیشہ خدا کے بندوں کا بنا کرتا ہے.اللہ ہی ہے جو ان کا کفیل ہے.اللہ ہی تھا جو ان کا کفیل تھا اور اللہ ہی ہے جو آئندہ بھی ہمیشہ ان کا کفیل رہے گا.ان کی قربانیاں ان کے مستقبل کی ضمانتیں ہیں اور اس سے بہتر ضمانت دنیا میں اور کسی قوم کو نصیب نہیں ہوسکتی.وہ لوگ جو خدا کی راہ میں قربانیوں سے نہیں ڈرا کرتے اللہ خود ان کا نگہبان ہو جاتا ہے.وہ خود ان کا نگران بن جاتا ہے.جرمنی میں پریس کانفرنسز میں لوگوں کے پوچھنے پر میں ان کو بتا تارہا ہوں کہ یہ انگوٹھی ( جو حضور نے اس

Page 10

ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم وقت پہن رکھی تھی.مرتب) وہ انگوٹھی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں میں تھی.میں ایک گنہگار اور عاجز انسان ہوں.میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ مقدس انگوٹھی اس گنہ گار کی انگلی میں آئے گی لیکن خدا کی تقدیر نے یہی ظاہر فرمایا.اس انگوٹھی کا پیغام وہی پیغام ہے جو میں آپ کو دے رہا ہوں.ایک وقت تھا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے دنیوی معاملات کی کچھ بھی خبر نہیں تھی.کچھ پتہ نہیں تھا کہ جائیداد کیا ہے؟ کتنی ہے؟ کون قابض ہے؟ دنیا کے نظام کیسے چلتے ہیں؟ آپ اللہ کے لئے خالصہ وقف ہو چکے تھے.اس وقت ایک شام آپ کو یہ الہام ہواوَ السّماءِ وَ الطَّارِقِ کہ رات کو آنے والا ایک حادثہ ہے اور تمہیں کیا پتہ ہے کہ وہ حادثہ کیا ہے.یہ سنتے ہی آپ کی توجہ اپنے والد کی طرف منتقل ہوئی جو بہت بیمار تھے اور معا یہ خیال گذرا کہ خدا تعالیٰ مجھے یہ اطلاع دے رہا ہے کہ آج رات تمہارے والد اس جہانِ فانی سے کوچ کر جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں کہ اُس وقت میرے دل میں یہ وہم سا گذرا اور فکر کا ایک سایہ سا آیا کہ میرے والد ہی تو میرے کفیل تھے اور دنیا کی مجھے کچھ خبر نہیں.اپنے بھائیوں اور عزیزوں سے مجھے کوئی توقع نہیں.اب میرا کیا بنے گا؟ جب یہ خیالات آپ کے دل میں پیدا ہوئے تو معا بڑے زور اور شدت کے ساتھ اور خاص جلال کے ساتھ یہ الہام ہوا.أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں؟ اس الہام کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی پر ایک زلزلہ سا طاری ہو گیا اور طبیعت شدت کے ساتھ استغفار کی طرف مائل ہوئی لیکن جوں جوں وقت گذرتا چلا گیا معلوم یہ ہوتا چلا گیا کہ یہ ایک عظیم الشان خوشخبری تھی جو ہمیشہ ہمیش کے لئے آپ کے لئے بھی تھی اور آپ کے ساتھ کے درویشوں کے لئے بھی تھی.گویا اس الہام کے فیض سے جماعت احمد یہ ہمیشہ مستفیض ہوتی رہے گی اور گویا یہ اعلان تھا کہ آج دنیا میں ایک ہی تو ہے جو میرا بندہ کہلانے کا مستحق ہے.ماؤں کا لعل ہوتا ہے تو وہ اس کو نہیں چھوڑا کرتیں پھر تمہیں کیسے یہ وہم ہوا کہ میں اپنے بندہ کو اس دنیا میں اکیلا چھوڑ دوں گا.اگر تجھے چھوڑ دیا تو دنیا میں اور کون ہو گا جسے میں اپنا بنا سکوں.چونکہ آپ بندگی کا خلاصہ تھے اور آپ وہ تھے جن سے آگے عبادت کرنے والے پیدا ہونے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا.قبل ازیں خدا کی قدرت کا ایک زبر دست نظارہ دنیا نے جنگِ بدر میں دیکھا جس کی یاد آج بھی دلوں کو ایمان سے بھر دیتی ہے.جنگ بدر میں ۱۳ ۳ صحابہ جن میں بوڑھے بھی تھے اور بچے بھی.کمزور اور نحیف

Page 11

7 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم بھی تھے اور نہتے بھی.وہ سب کے سب ایسے حال میں اسلام کے دفاع کے لئے نکل کھڑے ہوئے کہ اُن کے پاس لڑنے کے سامان بھی پورے نہیں تھے بلکہ پہننے کے کپڑے بھی پورے نہیں تھے.کسی کے پاس تلوار تھی.کسی کے پاس محض جھنڈا تھا.کسی کے پاس لکڑی کی تلوار تھی مگر جو کچھ بھی کسی کے پاس تھا وہ لے کر خدا کے دین کی حفاظت کے لئے میدان میں حاضر ہو گیا.چنانچہ ایک جنگ اس میدان میں لڑی گئی جو بدر کا میدان تھا اور ایک اس خیمہ میں لڑی جا رہی تھی جہاں دراصل فتح و شکست کا فیصلہ ہونا تھا یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ.بے حد گریہ وزاری کے ساتھ روتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے حضور یہ عرض کر رہے تھے:.اللَّهُمَّ إِن تُهْلِكُ هَذِهِ العِصَابَةَ مِنْ اَهْلِ الْإِسْلَامِ فَلَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا (مسند احمد بن حنبل جلد ا صفحه ۳۰ صفحه ۳۲) کہ اے میرے اللہ! مجھے اور کچھ پرواہ نہیں.مجھے تو تیری ذات کے تقدس کی فکر ہے.اگر یہ عبادت گزار بندے اس میدان میں ہلاک کر دیے گئے تو پھر تیری عبادت نہیں کی جائے گی.یہ کوئی دھمکی کا رنگ اس لئے نہیں تھا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے عشق و محبت میں فنا ہو کر مجسم عجز وانکسار بن گئے تھے.یہ دراصل اظہار غم تھا، اظہار فکر تھا ، بے چینی کی ایک آواز تھی ، درد و کرب میں ڈوبی ہوئی ایک چیخ تھی کہ اے میرے رب ! میں نے تو ساری عمر کی محنت کے ساتھ تیرے عبادت گزار بندے تیار کئے تھے.اگر آج مشرکوں کے ہاتھوں یہ عبادت کرنے والے بھی ہلاک ہو گئے تو میرے بعد اور کون ہوگا جو تیرے عبادت گزار بندے پیدا کر سکے.مجھ سے بڑھ کر عبادت کا حق اور کون ادا کر سکتا ہے.میں نے خود ان کو دین سکھایا.ان کو عبادت کے اسلوب بتائے.ان کو راتوں کو جاگنے کی لذت بخشی.ان کو جاگتے ہوئے اور سوتے ہوئے اور لیٹتے ہوئے اور اٹھتے ہوئے اور بیٹھتے ہوئے ہمیشہ یاد الہی میں محور ہنے کی تعلیم دی.پس مجھے یہ غم نہیں ہے کہ یہ لوگ مارے جائیں گے.مجھے تو یہ غم ہے کہ اے میرے آقا! اگر یہ لوگ مارے گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا؟ کون لوگ ہوں گے جو تیری عبادت کے لئے اس دنیا میں آئیں گے؟ یہ ایک ایسی دعا تھی جس نے وہیں اس خیمہ میں اس جنگ کا فیصلہ کر دیا.مورخ حیران ہوتے ہیں اور حیران ہوتے رہیں گے کہ یہ کیسے ممکن تھا کہ بدر کے میدان میں ۳۱۳ بوڑھے اور بچے.کمزور اور نحیف لوگ عرب کے چوٹی کے لڑنے والوں پر فتح پاگئے.جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نظارہ کو دیکھ کر یہ فرمایا تھا کہ مکہ نے اپنے جگر گوشے اٹھا کر اس میدان میں ڈال دیے.وہ ایسے چوٹی کے لڑنے والے تھے

Page 12

8 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم جن پر سارا عرب فخر کیا کرتا تھا.اُن کی بہادریوں کے گیت گائے جاتے تھے.اُن کے مقابل پر جنگِ بدر کے میدان میں مسلمانوں کے لشکر میں ایسے بھی تھے جو بوڑھے تھے.بعض لنگڑے تھے.بعض ایسے تھے جن کے پاس تن ڈھانپنے کے پورے کپڑے نہیں تھے.ان میں سے بعض شہید ہوئے تو اُن کے کپڑے سے اوپر کا تن ڈھانکا جاتا تھا تو نیچے کا تن ننگا ہو جاتا تھا، نیچے کا ڈھانکا جاتا تھا تو اوپر کاتن نگا ہو جاتا تھا لیکن خدا کے ان عبادت گزار بندوں کو جب جہاد کے لئے بلایا گیا تو محض خدا کی عبادت کی خاطر اور اس کے نام کی بلندی کے لئے وہ میدانِ جنگ میں حاضر ہو گئے.یہ وہ لوگ تھے جن کے لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی اللهُمَّ اِنْ تُهلِكُ هَذِهِ العِصَابَةَ فَلَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا ان خوش قسمت لوگوں میں بعض بچے بھی تھے ایسے بچے جو شوق شہادت میں بڑا بنے کی کوشش کر رہے تھے اور ایڑیاں اٹھا اٹھا کر کھڑے ہوتے تھے تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو رڈ نہ فرماویں کیوں کہ آنحضور نے ارشاد فرمایا تھا کہ چھوٹی عمر کے بچوں کو واپس کر دیا جائے گا.میدان جنگ میں بالغ مردوں کی ضرورت ہے اور بالغ لوگوں پر ہی جہاد فرض ہے.بچوں کا کام نہیں ہے کہ وہ میدانِ جنگ میں پہنچیں.تاریخ بتاتی ہے کہ وہ بچے قطار میں اس طرح کھڑے تھے کہ ایڑیاں اونچی کر کے پنجوں کے بل کھڑے تھے اور گردنیں تان رکھی تھیں تا کہ قد اونچا نظر آئے.وہ اس لئے ایسا نہیں کر رہے تھے کہ ان کوکوئی تکبر تھا.وہ اس لئے ایسا کر رہے تھے کہ خدا کی راہ میں گردنیں کاٹی جائیں اس کے سوا ان کو گردنوں کو اونچا کرنے کا اور کوئی مقصد نہیں تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ نظارہ دیکھا تو مسکرا کر فرمایا.میں تمہیں جانتا ہوں.تم بچے ہو تمہیں واپس چلے جانا چاہیے.ایک بچے نے دوسرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یا رسول اللہ ! میری عمر اس سے زیادہ ہے.اس لئے مجھے اجازت دیدیں.چنانچہ اس کا شوق اور بے قراری دیکھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اجازت دے دی.دوسرا بچہ بیقرار ہوکر بولا یا رسول اللہ! کشتی کروا کر دیکھ لیں.میں اس کو گرا لیا کرتا ہوں.اگر اس کا حق شامل ہونے کا ہے تو میرا حق فائق ہے.چنانچہ حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی اجازت دے دی.تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہی وہ دو بچے تھے جو ایک مسلمان مجاہد کے دائیں اور بائیں کھڑے تھے.ان کی یہ روایت ہے کہ جب میں نے اپنی دائیں اور بائیں طرف دیکھا تو میں پریشان ہوا کہ میرے دونوں باز و کمزور ہو گئے کیوں کہ لڑنے والے سپاہی جانتے ہیں کہ اگر باز و مضبوط ہوں تو ان کو خدمت کا زیادہ موقع

Page 13

ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ملتا ہے.چنانچہ وہ کہتے ہیں ابھی میں اس فکر میں ہی تھا کہ اچانک ان کو ایک طرف سے کہنی پڑی.انہوں نے مڑ کر دیکھا ان میں سے ایک بچہ یہ پوچھ رہا تھا کہ چا! وہ ابو جہل کون ہے جو میرے آقا محمد مصطفیٰ کو گالیاں دیتا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ اس کی آواز میں ایسی بیقراری اور بے چینی تھی کہ گو یا غم کا مارا ہواوہ معصوم دل صرف اسی دُکھ میں مبتلا تھا کہ وہ ظالم ہے کون جو محد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کوگالیاں دیتا ہے؟ وہ بیان کرتے ہیں میں نے تعجب سے اس کو دیکھا کہ اتنے میں بائیں طرف سے میرے کہنی پڑی اور دوسرے بچے نے بھی یہی سوال کیا کہ چا! وہ ابو جہل کون ہے جو ہمارے آقا محمد مصطفی کو گالیاں دیتا ہے؟ ابھی لڑائی شروع نہیں ہوئی تھی.صف بندی کی جارہی تھی.انہوں نے میدان پر نظر ڈالی تو ابوجہل نظر آ گیا اس کی طرف انگلی اٹھائی اور کہا وہ ہے ، وہ ظالم جو محمد مصطفیٰ کو گالیاں دیتا ہے.وہ کہتے ہیں جس طرح عقاب پرندہ پر جھپٹتا ہے اس طرح وہ دونوں بچے بیقرار ہو کر دوڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ابو جہل کو جالیا اور وار پر وار کر کے اس کو زخمی کر دیا.میں نہیں جانتا کہ وہ بیچ کر واپس آئے یا نہیں.زخمی ہو کر زندہ بچے یا شہید ہو گئے لیکن تاریخ اسلام گواہ ہے کہ وہ دونوں بچے وہ پہلے مجاہد تھے جنہوں نے دشمن پر تلوار اٹھائی.یہ تھے حضرت محمد مصطفی کے ساتھی.اور ان سے خدا نے جو سلوک فرمایا وہ سب دنیا پر عیاں ہے.تاریخ دان اسے دیکھ کر حیران و ششدر رہ جاتا ہے.وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ یہ واقعہ ہوا تو کیسے ہوا.لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ واقعہ ان عبادت گزار بندوں کے ذریعہ رونما ہوا جن میں بوڑھے بھی تھے اور معصوم بھی.جوان بھی تھے اور بچے بھی.وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کے لئے تیار ہو گئے لیکن وہ عبادت گزار دل رکھتے تھے اور دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جو عبادت گزار دل ہوں.اللہ تعالیٰ انہیں ضائع فرمادے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے بھی یہی پیغام تھا.خدا نے فرمایا الیسَ اللَّهُ بِكَافٍ عبده کہ اے میرے بندے! آج تو تو ہے دنیا میں میری عبادت کا خلاصہ.تجھے وہم کیسے پیدا ہوا کہ میں تجھے مٹنے دوں گا.میں نے اپنے عبادت گزار بندوں سے تو کبھی بے وفائی نہیں کی.پس جرمنی کے احباب جماعت کے لئے بھی میرا یہی پیغام ہے کہ آپ اَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کا فیض اٹھاتے رہے ہیں، اب بھی اٹھا رہے ہیں اور انشاء اللہ ہمیشہ اٹھاتے رہیں گے لیکن اس کے ساتھ عبادت کا بھی تو حق ادا کیجئے کیونکہ اس الیس اللہ کی روح عبادت میں مخفی ہے الیسَ اللهُ بِكَافٍ عبدہ میں ایک پیغام ہے کہ جب تک دنیا میں خدا کی عبادت قائم رہے گی اور جب تک اللہ سے محبت کرنے والے دل دھڑکتے رہیں گے اللہ کے فضلوں کی ہمیشہ کے لئے ضمانت ہے اور اس ضمانت کو دنیا میں کوئی

Page 14

مشعل راه جلد سوم 10 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ تبدیل نہیں کر سکتا.پس جہاں خدا تعالیٰ نے آپ کو مالی قربانیوں کی توفیق بخشی ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں آپ نے اپنے عزیز مال فدا کرنے کی سعادت پائی ہے وہاں اس بات کو بھی فراموش نہ کریں.اگر آپ نے اس حقیقت کو فراموش کر دیا تو یہ رحمتیں اور یہ برکتیں عارضی ثابت ہوں گی.آپ کے ساتھ کچھ دیر چلیں گی پھر آپ کی اولادوں کے حصہ میں نہیں آئیں گی.اس لئے سب سے اہم اور بنیادی پیغام جومیں آپ کے لئے لے کر آیا ہوں وہ یہی ہے کہ خدا کی عبادت کو قائم کریں.ہر دل وہ عابد دل بن جائے، ہر شخص خدا کا ایسا عبادت گزار بندہ بن جائے کہ ہر ایک احمدی فرد کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خدا کے فرشتے یہ آواز بلند کر رہے ہوں کہ الَيسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ اليسَ اللَّهُ بِكَافِ عَبْدَهُ اليسَ اللهُ بِكَافِ عَبْدَهُ اليسَ اللهُ بِكَافِ عَبْدَهُ یہی ہے ہماری زندگی کا راز.اسی میں جماعت احمدیہ کی اجتماعی زندگی ہے.اسی میں ہم سب کی انفرادی زندگی ہے.اس لئے عبادت کی لذت حاصل کرنے کی کوشش کریں.ظاہری عبادت جو محض اُٹھنے اور بیٹھنے کی حد تک محدو درہنے والی عبادت ہے وہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی.یہ تو ایک برتن ہے اس برتن کو محبت سے بھرنا پڑے گا.کیونکہ خدا کی راہ میں خالی برتن قبول نہیں ہوا کرتے.اللہ کی راہ میں پیار اور عشق اور محبت کا وہ دودھ قبول ہوتا ہے جو ان برتنوں کے اندر ہوتا ہے.اس لئے اس کی فکر کریں.اپنی عبادت کا ظاہر بھی قائم کریں کیونکہ اگر ظاہر قائم نہ ہو یا مثلاً برتن نہ ہو تو دودھ کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا لیکن خالی برتن بھی کوئی معنی نہیں رکھتا.اس لئے عبادت کے سلسلہ میں دو باتوں کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کروانی چاہتا ہوں.اول یہ کہ پانچ وقت نماز کی عادت ڈالیں.یہ مومن کی زندگی کی حفاظت کے لئے ضروری ہے.دوسرے یہ کہ ہر نماز کو اللہ کی محبت کے رنگ سے بھرنے کی کوشش کریں.اگر ایک نماز بھی انسان کو ایسی نصیب ہو جائے جس میں اللہ تعالیٰ کا عشق موجزن ہو تو وہی نماز ہمیشہ کے لئے اس کی نجات کی ضمانت بن جایا کرتی ہے.چنانچہ لیلۃ القدر میں یہی راز ہے، پیغام ہے کہ بعض اوقات انسان کو ایک ایسی عبادت

Page 15

11 مشعل راه جلد سوم ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نصیب ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ ہمیشہ اس کی عبادت کی ضمانت مل جاتی ہے.انسان کو اس کی عبادت کی حفاظت کا پیغام ملتا ہے.اسی لئے ایسی نمازیں پڑھنے کی کوشش کریں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں وہ تمہیں اپنا بنالے.پس یا درکھیں یہی وہ طاقت ہے جس کے بل بوتے پر احمدیت نے دنیا میں ( دین حق ) کو غالب کرنا ہے.یہی وہ ذریعہ ہے جس سے احمدیت کی گاڑی رواں دواں رہے گی.اگر یہ گاڑی خدا نخواستہ اس طاقت سے خالی ہو گئی تو اس کی مثال تو ایسی ہو گی جیسے کوئی بہت اچھی کار ہو لیکن پٹرول مہیا نہ ہو.آپ لاکھ کوشش کریں اس کو دھکیلنا جان جوکھوں کا کام ہو گا.بعض لوگ ایسی گاڑیوں کو چھوڑ کر پیدل سفر کرنے لگتے ہیں.یہی حال ان مذہبی جماعتوں کا ہوا کرتا ہے جو اپنے اندر عبادت کی روح پیدا کرنے سے غافل ہو جاتی ہیں.پھر لوگ ان کو دھکیلتے دھکیلتے تھک جاتے ہیں یہاں تک کہ پھر ان کو چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی اپنی گھڑیاں اٹھا کر اپنی راہیں لیتے ہیں.مذہب کا یہی المیہ ہے جو ہمیشہ دیکھنے میں آتا رہا ہے.پس احمدیت کی اس گاڑی کو جسے خدا کے نام پر ( دین حق کی سربلندی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے خون سے سینچتے ہوئے اور اس میں اپنا خون بھر کر دنیا میں جاری فرمایا ہے اس کو اپنے خونوں سے بھری رکھیں یعنی محبت کے خون سے عشق کے خون سے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیوں کے خون سے.خدا تعالیٰ کی عبادت کے جذبہ سے یہ گاڑی آگے چلے گی.پس یہ وہ بنیادی حقیقت ہے جس سے بھی غافل نہ ہوں.عبادت کے دو پہلو جیسا کہ میں نے بتایا ہے.عبادت کے دو پہلو ہیں ایک ظاہری اور دوسرا باطنی.ظاہری پہلو بھی بہت اہم اور ضروری ہے.کیونکہ ظاہری پہلو کی اگر حفاظت نہ کی جائے تو محض وہ پٹرول رہ جائے گا جو کسی گاڑی کے چلانے کے کام آسکتا ہے.مگر گاڑی موجود نہیں ہوگی.تو ایسا پٹرول کسی کام کا نہیں.اس لئے دونوں باتیں ضروری ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں اور ایک دوسرے کے لئے لازم ہیں.پس ظاہر کی حفاظت بھی بہت ہی ضروری اور اہم ہے اور بنیادی حقیقت ہے.عموما یہ دیکھا گیا ہے کہ جب ظاہر کی طرف سے انسان غافل ہونا شروع ہو جائے تو رفتہ رفتہ باطنی لحاظ سے بھی انسان غافل ہونے لگ جاتا ہے.اس لئے ان ملکوں میں جن میں آپ بس رہے ہیں ان میں پہلی ضرورت ظاہر کی حفاظت کی ہے.وجہ یہ کہ آپ میں سے اکثر ایسے ہیں جو نماز کے مختلف اوقات کے دوران کام میں مصروف ہوتے ہیں اور نماز

Page 16

مشعل راه جلد سوم 12 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی پڑھنے کی یا تو وہ جگہ نہیں پاتے یا عام جگہوں پر نماز پڑھنے سے شرما جاتے ہیں یا ایسی جگہیں جہاں ( بیوت الذکر ) دور دور ہوں اور بہت کم مواقع ملیں (بیوت الذکر ) میں حاضری کے لئے وہاں باجماعت نماز کا تصور اُٹھ جاتا ہے.پھرا کیلی نماز بھی پوری نہیں رہتی.پھر موسم کے تقاضے ایسے ہوتے ہیں کہ انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ سورج کا نکلنا یا نہ نکلنا یہ تو عارضی نشانیاں ہیں.ہم جن ملکوں میں بس رہے ہیں اُن سے بالا ہیں.اس لئے جب آنکھ کھلے اس وقت نماز پڑھ لینی چاہیئے.یہ کمزور یاں رفتہ رفتہ بڑھنے لگتی ہیں.پھر نمازیں جمع کرنے کی طرف رجحان ہو جاتا ہے.پھر نمازیں جمع کرتے کرتے نمازیں MISS بھی ہونے لگ جاتی ہیں.یہ سارا ایک ایسا تکلیف دہ اور پر عذاب منظر ہے جو بعض ملکوں کا مقدر ہے اور وہاں جب تک ایک ذہین آدمی پوری بیدار مغزی کے ساتھ ان مصائب اور تکالیف کا ، جو نماز کی راہ میں پیش آتی ہیں، مقابلہ نہ کرے وہ پوری طرح نماز کا حق ادا نہیں کر سکتا.اس لئے میں خاص طور پر ان ملکوں کے احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے رب سے یہ عہد کریں کہ خدا کی عبادت سے غافل نہیں ہوں گے.یہ ان کی زندگی کا سرمایہ ہے.یہ ان کا زادِراہ ہے ان کی ذات کے لئے بھی اور جماعت کی اجتماعی حیثیت کے لحاظ سے بھی.یہ زاد راہ جتنا زیادہ ہو گا احمدیت یعنی حقیقی (دین حق کو اتنی ہی زیادہ قوت و طاقت اور شان و شوکت نصیب ہوگی.میں اس سلسلہ میں چند مشورے احباب جماعت کو دیتا ہوں.نمازیں وقت پر ادا کرنے کا عہد سب سے پہلے تو دوست یہ عہد کریں کہ جہاں تک ممکن ہو، سوائے ان ضروریات کے جن میں اللہ تعالیٰ اجازت دیتا ہے کہ نماز میں جمع نہ کی جائیں، نماز میں اپنے وقت پر ادا کیا کریں اور اس بات کی پرواہ نہ کیا کریں کہ کون آپ کو دیکھ رہا ہے اور کیا سمجھ رہا ہے یہ محض جھوٹی شرمیں ہیں اور ایسی حیائیں ہیں جو در حقیقت بے حیائی کا رنگ رکھتی ہیں یعنی اللہ سے شرمانے کی بجائے اگر کوئی شخص انسان سے شرمانے لگ جائے تو اسی کا نام بے حیائی ہے.جہاں شرم کا حق ہے وہاں یہ حق ادا ہونا چاہیے.میں نے دیکھا ہے کئی عورتیں جو بے پردہ ہونے لگیں تو وہ ایسا کرتی ہیں کہ جب کوئی واقف یا محرم مرد سا منے آجائے تو اس سے پردہ کر لیتی ہیں اور جب غیروں کے سامنے جاتی ہیں تو پردہ اُتار دیتی ہیں اور یہی بے حیائی ہے.اور عبادت میں بے حیائی یہ ہے کہ انسان دوسرے انسان سے شرمانے لگ جائے اور اللہ پر نظر نہ رکھے کہ خدا مجھے دیکھ رہا

Page 17

مشعل راه جلد سوم 13 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ ہے اور مجھ سے کیا توقع رکھتا ہے، دنیا کے ادنی آدمیوں سے جن سے میرا کچھ بھی واسطہ نہیں، نہ وہ مجھے کچھ دے سکتے ہیں اور نہ مجھ سے کچھ چھین سکتے ہیں، اُن سے شرما کر میں عبادت سے غافل ہورہا ہوں اور اپنے خالق و مالک سے بے وفائی کر رہا ہوں.غرض یہ ہے وہ جھوٹی شرم جوا کثر غیر ملکوں میں بسنے والوں کی راہ میں روک بن جایا کرتی ہے.خود مجھے اس کا تجربہ ہے.انگلستان میں جب میں تعلیم حاصل کرتا تھا تو بہت سے پاکستانی جو ویسے نماز پڑھتے تھے لیکن لوگوں کے سامنے نماز پڑھنے سے وہ شرماتے تھے.بعض احمدی بھی اس کمزوری کا شکار ہوئے چنانچہ ہم نے اُن کو سمجھایا.میرے ساتھ میر محمود احمد صاحب ناصر بھی پڑھا کرتے تھے.یو نیورسٹی میں ہمیں جب وقت ملتا تھا ہم وہاں دونوں مل کر نماز باجماعت ادا کیا کرتے تھے.شروع میں لوگوں نے تعجب کیا ہوگا مگر ہمیں کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہوئی لیکن رفتہ رفتہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض دفعہ پروفیسر کلاس روم یہ کہہ کر خالی کر دیا کرتے تھے کہ تمہاری نماز کا وقت ہو گیا ہے.تم یہاں نماز پڑھ لو.پس اللہ تعالیٰ کی راہ میں غیروں سے شرمانا یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے.اس لئے اس معاملہ میں اپنے دل کو خوب کھنگالیں اور صاف کریں اور یہ عزم کریں کہ خواہ سارا جر منی بھی آپ کی نماز پر قہقہے لگارہا ہو آپ ایک کوڑی کی پر واہ بھی نہیں کریں گے.احباب جانتے ہیں چند سال پہلے یورپ اور امریکہ کے لئے میں اپنے ذاتی سفر پر نکلا تھا اور اپنی بچیوں کو بھی ساتھ لے کر گیا تھا.میں نے اُن کی تربیت کی خاطر انہیں اس بات کا پابند کیا حالانکہ عورتوں پر نماز با جماعت فرض نہیں ہے کہ وہاں میلوں میں پھیلی ہوئی سفاری پارکس یا دوسری جگہوں پر جہاں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں، وہاں عین سب لوگوں کے درمیان ہم نماز باجماعت پڑھتے تھے.آگے میں کھڑا ہو جاتا تھا، پیچھے میری بچیاں اور کوئی احمدی دوست اگر ہوں تو وہ بھی ساتھ کھڑے ہو جاتے تھے.نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ لوگ ہمارے ارد گرد کھڑے ہو جاتے اور کچھ دیر تعجب سے دیکھتے اور پھر سوال کرتے تھے کہ یہ کیا ہو رہا تھا.جب ہم اُن کو بتاتے تھے تو ان کی ہنسیاں غائب ہو جاتی تھیں.اُن کے دل میں احترام کے جذبات پیدا ہو جاتے تھے اور اس سے ( دعوت الی اللہ ) کی کئی راہیں کھل جاتی تھیں.کئی لوگ ہمارا پتہ پوچھتے تھے.چنانچہ وہ ظاہری ندامت جس سے انسان کے دل میں جھوٹا خوف پیدا ہوتا ہے اس طرح سب کے سامنے نمازیں پڑھنے سے ہمیں وہ بھی نہیں پہنچی تھی.پہنچتی بھی تو کوئی پرواہ نہیں تھی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ خوف ہی سارا جھوٹا ہے اس کی حقیقت ہی کوئی نہیں.پس اللہ تعالیٰ کی عبادت سے کبھی نہیں شرمانا چاہیے.عبادت ہی میں انسان کی عظمت ہے.اس

Page 18

مشعل راه جلد سوم 14 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی عبادت ہی میں انسان کی عزت ہے.اسی میں اس کا وقار ہے.بھلا اپنے رب کے حضور جھکنے میں شرم والی کون سی بات ہے.لوگ دنیا والوں کے حضور جھکتے رہتے ہیں.یہاں تک کہ وہ اپنے دنیوی کام کے لئے چھوٹے چھوٹے اہل کاروں مثلاً پٹواریوں اور تھانیداروں کے سامنے جھک جاتے ہیں.بعض دفعہ ادنی ادنیٰ چیزوں کے لئے لوگ اپنے دشمن کو بھی باپ بنا لیتے ہیں لیکن احکم الحاکمین خدا کے حضور شرمانے لگ جاتے ہیں یہ انسانی کمزوری اور محض جھوٹا تصور ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں.اسی کا نام شرک ہے.اسی سے شرک کے مختلف پہلو آغاز پذیر ہوتے ہیں.میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے اور ذاتی طور پر دیکھا ہے کہ عبادت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی کوئی ذلت نہیں آتی بلکہ اس سے ہمیشہ انسانی وقار بڑھتا ہے.میں نے ایک واقعہ پہلے لکھا بھی ہے.مجھے وہ لمحہ بہت پیارا لگتا ہے جو ایک مرتبہ لندن میں New Year's Day کے موقع پر پیش آیا یعنی اگلے دن نیا سال چڑھنے والا تھا اور عید کا سماں تھا.رات کے بارہ بجے سارے لوگ ٹرائفلگر سکوائر میں اکٹھے ہو کر دنیا جہان کی بے حیائیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں کیونکہ جب رات کے بارہ بجتے ہیں تو پھر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی تہذیبی روک نہیں.کوئی مذہبی روک نہیں.ہر قسم کی آزادی ہے.اس وقت اتفاق سے وہ رات مجھے بوسٹن اسٹیشن پر لے آئی.مجھے خیال آیا کہ جیسا کہ ہر احمدی کرتا ہے اس میں میرا کوئی خاص الگ مقام نہیں تھا.اکثر احمدی اللہ کے فضل سے ہر سال کا نیادن اس طرح شروع کرتے ہیں کہ رات کے بارہ بجے عبادت کرتے ہیں.مجھے بھی موقع ملا.میں بھی وہاں کھڑا ہو گیا.اخبار کے کاغذ بچھائے اور دو نفل پڑھنے لگا.کچھ دیر کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی شخص میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا ہے اور پھر نماز بھی میں نے ختم نہیں کی تھی کہ مجھے سکیوں کی آواز آئی.چنانچہ نماز سے فارغ ہو کے میں نے دیکھا کہ وہ ایک بوڑھا انگریز ہے جو بچوں کی طرح پلک پلک کر رورہا تھا.میں گھبرا گیا.میں نے کہا پتہ نہیں یہ سمجھا ہے میں پاگل ہوں اس لئے شائد بے چارہ میری ہمدردی میں رورہا ہے.میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے تو اس نے کہا مجھے کچھ نہیں ہوا میری قوم کو کچھ ہو گیا ہے.ساری قوم اس وقت نئے سال کی خوشی میں بے حیائی میں مصروف ہے اور ایک آدمی ایسا ہے جو اپنے رب کو یاد کر رہا ہے اس چیز نے اور اس مواز نے نے میرے دل پر اس قدر اثر کیا ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکا.چنانچہ وہ بار بار کہتا تھا.God bless you.God bless you.God bless you.God bless you.پس حقیقت یہ ہے کہ اگر ساری دنیا بھی مذاق اڑائے تب بھی ایک احمدی نوجوان کو کوڑی کی پرواہ نہیں

Page 19

15 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہونی چاہیے.وہ آزاد مرد ہے.خدا کے سوا اس کی گردن کسی کے ہاتھ میں نہیں.یہی حقیقی آزادی ہے جو انسان کو ایمان کے نتیجہ میں نصیب ہوتی ہے.اگر وہ ان چیزوں کی کوڑی بھی پرواہ نہیں کرے گا تو دنیا اس کے سامنے جھکے گی.دنیا اس کی پہلے سے زیادہ عزت کرے گی.دنیا میں ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ خدا کی خاطر ذلتیں قبول کرنے والے دنیا میں کبھی ذلیل نہیں کئے گئے.ان کی عزتوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ اضافے ہوتے ہیں اور برکتیں ملتی ہیں.پس اس جھوٹے خیال کو دل سے نکال دیں.یہ مشرکانہ خیال ہے.کسی احمدی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ عبادت کرتے ہوئے دنیا کی طرف نگاہ رکھے اور شرمانے لگے کہ وہ مجھے کیا سمجھیں گے.نماز وقت پر اور باجماعت پڑھیں تیسری بات وقت پر نماز پڑھنے کے متعلق ہے.اس بارہ میں میں پہلے کہہ چکا ہوں.چوتھی بات نماز با جماعت کے متعلق ہے اس سلسلہ میں میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ لوگوں کو یہ وہم ہے کہ جب تک آٹھ دس آدمی اکٹھے نہ ہو جائیں.باجماعت نماز نہیں ہوسکتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دین عطا ہوا وہ ایک ایسا کامل اور عظیم الشان دین ہے کہ اس کی راہ میں کسی صورت میں کسی شکل میں کوئی مشکل بھی حائل نہیں ہوتی چنانچہ جہاں تک مسجد کی ضرورت کا تعلق ہے آپ نے یہی فرمایا کہ اگر مسجد میٹر ہو تو ضرور مسجد تک پہنچو.یہ تمہارا فرض ہے لیکن اگر مسجد مہیا نہیں تو آپ نے اپنی امت کو یہ عظیم الشان خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ نے ساری زمین میرے لئے مسجد بنادی ہے.صرف آپ ہی وہ نبی ہیں جن کے لئے دنیا کی ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے.کیونکہ آپ ساری دنیا کے لئے نبی بن کر تشریف لائے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ سہولت عطا فرمائی کہ کسی خاص عبادت گاہ کی بھی ضرورت نہیں ہے.تیرے غلاموں کو جہاں کہیں نماز کا وقت آ جائے تو وہیں نماز پڑھ لیں وہی جگہ اُن کے لئے مسجد بن جایا کرے گی.پس اس سے یہ مشکل حل ہو گئی کہ (بیت الذکر ) تک پہنچنا ضروری ہوتا ہے اور کوئی آدمی یہ عذر نہیں کر سکتا کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا کہ ہم ( بیت الذکر ) پہنچ نہیں سکتے، مجبوریاں ہیں.دوسرے جہاں تک ساتھیوں کا تعلق ہے.یہ مسئلہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کے لئے حل فرما دیا ایک صحابی نے جب دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باجماعت نماز پر بہت زور دیتے ہیں تو اس نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! میں تو ایک چرواہا ہوں، ایک مزدور ہوں ، لوگوں کے چند پیسوں پر بھیڑیں

Page 20

مشعل راه جلد سوم 16 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ پالنے کے لئے اکثر زندگی جنگل میں گذارتا ہوں اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بھی موجود نہیں ہوتا.میں تو با جماعت نماز کی ادائیگی سے محروم ہو جاؤں گا.میرے لئے کیا حکم ہے؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لئے بھی کوئی مشکل نہیں.جب بھی نماز کا وقت آیا کرے تم اذان دے دیا کرو.اگر کوئی مسافر دور سے گزرتا ہوا تمہاری آواز سُن لے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ڈال دے گا اور وہ آکر تمہارے ساتھ نماز میں شامل ہو جائے گا.پھر فرمایا اگر کوئی مسافر بھی نہ ہو اور کوئی آواز نہ سُن رہا ہو تو خدا آسمان سے فرشتے اتارے گا جو تمہارے پیچھے نماز کے لئے کھڑے ہو جائیں گے اور اس طرح تمہاری نماز باجماعت ہو جائے گی.کیسا عظیم الشان نبی ہے.کیسی عظیم الشان امت ہے اور ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والا کیسا عظیم الشان پیغام ہے.ہر مشکل کا حل اسلام میں موجود ہے ہر مشکل کو رحمت میں بدلنے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عطا ہو گیا.ہمارے لئے فکر کی کونسی بات ہے.پس اگر احباب جماعت اپنے آپ کو ان ملکوں میں مجبور سمجھتے ہیں تو کیلے بھی باجماعت نماز پڑھ لیا کریں.تکبیر کہا کریں اور باقاعدہ باجماعت نماز کی طرح نماز پڑھا کریں اور یقین رکھیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات ہرگز جھوٹی نہیں ہوسکتی.خدا کے فرشتے آسمان سے اتریں گے اور وہ آپ کے پیچھے نماز پڑھا کریں گے.آپ متقیوں کے امام بنائے جائیں گے.اگر آپ نماز کا حق ادا کرنا سیکھ جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل خود بخود نازل ہونے لگیں گے اور اس کثرت سے نازل ہوں گے کہ اُن کو سمیٹنے کے لئے آپ کا پیمانہ چھوٹا رہ جائے گا.خدا کے فضل آپ کے پیمانوں کے کناروں سے بہت نکلیں گے.بیوی بچوں کو نماز کی تلقین کریں آخری بات اس سلسلہ میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے بیوی بچوں کو بھی نماز پڑھنے کی تلقین کیا کریں.نماز قائم کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان خود نماز پڑھتا ہے.اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگوں کو بھی نماز پڑھنے کی تلقین کرتا ہے.پس آپ اپنے ماحول میں روز مرہ کا یہ اسلوب بنالیں ، زندگی کا یہ دستور بنالیں کہ اپنے دوستوں کو بھی تلقین کیا کریں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی تلقین کیا کریں.قرآن کریم میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کے متعلق آتا ہے.

Page 21

مشعل راه جلد سوم 17 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی وَ كَانَ يَأْمُرُ اَهلَهُ بالصَّلوةِ وَالزَّكوة (مریم: آیت 56) کہ وہ اپنے اہل و عیال کو نماز اور زکوۃ کی ادائیگی کی تاکید فرمایا کرتے تھے.خود بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اپنے اہل کو نماز کی تلقین کیا کرو.فرمایا :- وَأمُرُ أَهْلَكَ بِالصَّلوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ( :133) اور اس بات پر صبر کے ساتھ قائم رہ یعنی اے رسول! اس بات سے ہرگز نہ نہیں.نماز باجماعت کے لئے کہتے چلے جائیں، کہتے چلے جائیں.آخر ایک وقت ایسا آئے گا کہ تمہاری تذکیر سے اور تمہاری نصیحت سے بے نمازیوں کے دل بھی مغلوب ہو جائیں گے.اگر تم ان کو کہتے چلے جاؤ گے اور نہیں تھکو گے تو وہ ضرور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے.پس احباب جماعت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو، اپنے بچوں کو، اپنے ساتھیوں کو، اپنے دوستوں کو نماز با جماعت کی ہمیشہ تلقین کرتے رہیں.اگر یہ چیزیں آپ کریں تو پھر معاشرہ خواہ کیسا بُرا ہو، کیسا مخالفانہ ہواللہ تعالی کے فضل سے آپ کی نمازوں کی حفاظت ہوتی رہے گی ، ویسے بھی یہ سادہ سادہ اور چھوٹی سی باتیں ہیں کوئی بڑی قربانی نہیں ہے.بہت معمولی بات ہے لیکن فوائد کے اعتبار سے بہت بڑی بات ہے، اس کے نتیجہ میں نماز کے ظاہر کی حفاظت بھی ہو جائے گی.اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ ہے اپنی نمازوں کو اللہ کے پیار سے بھرنے کا.جب بھی نماز ادا کیا کریں سوچ کر اور سمجھ کر نماز ادا کیا کریں.سورہ فاتحہ اگر کسی کو ترجمہ کے ساتھ نہیں آتی تو ترجمہ سیکھے اور ترجمہ کے ساتھ پڑھا کرے کیونکہ یہ علم و معرفت کا ایک لامتناہی خزانہ ہے اس میں حق و حکمت پر مشتمل ایسی دعائیں ہیں جن کا فیض کبھی ختم نہیں ہو سکتا.اس کی بعض آیتیں ایسی ہیں جو ہر صورت حال پر اطلاق پا جاتی ہیں اور پھر کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی.ایک دفعہ ایک غیر از جماعت دوست نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ جماعت احمد یہ تو اس بات کی قائل ہی نہیں ہے کہ نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرے ( اور نماز کے اندر انہوں نے سمجھا کہ عربی الفاظ کے سوا ہم کچھ بول نہیں سکتے.) اس لئے آپ یہ بتائیں کہ جو لوگ نماز پڑھتے ہوں لیکن نماز کے بعد جن کو اجازت نہ ہودعا کرنے کی تو وہ کس وقت دعا کریں اور کس طرح کریں.میں نے ان سے کہا اول تو یہ مسئلہ ہی غلط ہے کہ نماز میں اپنی زبان میں دعا نہیں ہو سکتی.ہم تو اس کے قائل نہیں ہیں لیکن اس کے علاوہ نماز خود ایک کامل دعا ہے ایک پہلو بھی ایسا نہیں ہے جس کی انسان کو ضرورت پڑ سکتی ہوا اور اس کی دعا نماز میں موجود نہ ہو.

Page 22

18 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم یہ ایک بڑا لمبا مضمون ہے.میں اس میں اس وقت داخل نہیں ہو سکتا لیکن اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مرحوم والدین کے متعلق گزشتہ انبیاء کے متعلق ، ساری دنیا کے نیک انسانوں کے متعلق ، بنی نوع انسان کے متعلق اپنے لئے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے ،غرض دعا کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو نماز میں موجود نہ ہو.زندگی کا کوئی پہلو نہیں ہے جو نماز سے باہر رہ گیا ہو اور جس کے لئے نماز میں دعا نہ سکھائی گئی ہو.اس پہلو سے جب آپ نماز پر غور کرتے ہیں تو آپ کو ( دین حق ) کی حقانیت کی ایک دلیل ہاتھ آجاتی ہے.یہاں بیٹھے آپ کو غیروں کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع ملتا ہو گا اگر آپ اور دلیلیں نہیں دے سکتے تو صرف نماز ہی پیش کر دیا کریں.ساری دنیا کے مذاہب مل کر جو عبادت سکھاتے ہیں ان کی ساری دعائیں اکٹھی کر لی جائیں.تب بھی وہ انسانی زندگی پر ایسی حاوی نہیں ہیں جیسی نماز کے اندر یہ دعا ئیں حاوی ہو جاتی ہیں.سورۃ فاتحہ کی دعا تمام دعاؤں پر حاوی ہے چنانچہ ایک دوست نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ میں نماز میں اپنے بچوں کے لئے ، اپنے والدین کے لئے اور فلاں کے لئے اور فلاں کے لئے ، اپنی مالی مشکلات کے لئے اور اپنی فلاں باتوں کے لئے دعا کرنا چاہتا ہوں.اس کا کیا طریق ہے میں کس طرح دعا کروں؟ میں نے اس سے کہا تم نماز میں سورہ فاتحہ پڑھتے ہو.اس میں ایک آیت ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ اور ساتھ ہی ہے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اس کے مضمون کو آپ سمجھ لیں تو دنیا کا کوئی بھی امکانی پہلو نہیں ہے جس پر یہ دعا حاوی نہ ہولیکن اس کے مفہوم کو سمجھنا ضروری ہے.اس کے مفہوم کو نہ سمجھنا ایسے ہی ہے جیسے آپ ایک ایسی دولت کے مالک بن جائیں جس کے متعلق آپ کو یہ علم نہ ہو کہ میرے پاس ہے.یہ ایسی ہی بات ہے جس طرح بعض گھروں میں بعض خزانے دبے ہوتے ہیں.اب جن مکینوں کو پتہ ہی نہ ہو کہ ہمارے پاس خزانہ دیا ہوا ہے ان کو اس کا کیا فائدہ.جیسا خزانہ ہوا ویسا نہ ہوا.نماز کی دعاؤں کی بھی یہی کیفیت ہے.نماز کی دعائیں اور خصوصا سورۂ فاتحہ کی دعائیں ،ایک بہت بڑا خزانہ ہیں جن سے شعوری طور پر واقف ہونا چاہیے کہ یہ خزانہ ہے کیا ؟ کس طرح اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے؟ پھر اگر آپ نماز پڑھیں گے تو آپ کی نماز کا رنگ بدل جائے گا.وہ بات جو میں کہتا ہوں کہ اپنے اندر محبت الہی پیدا کریں وہ اس طرح نماز میں پیدا ہوگی کہ آپ نماز سے پہلے تعارف تو حاصل کریں کہ یہ کیا کہتی ہے، کیا اثر کرتی ہے، ہم سے کیا چاہتی ہے، ہمیں کس طرف لے کر جاتی ہے، کن کن مواقع پر

Page 23

19 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کام آتی ہے کس طرح کام آتی ہے میں نے ان کو سمجھایا کہ میں اس وقت إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِين کے دودو پہلو آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں اگر آپ ان کو سمجھ لیں تو یہی آپ کے لئے کفایت کر جائیں گے.إِيَّاكَ نَعْبُدُ میں ایک دعا کے رنگ میں یہ پیغام ہے کہ اے خدا! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں.اس کے اندر دونوں پہلو آ جاتے ہیں.نَعْبُدُ میں ایک مستقبل کا پہلو ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کریں گے ہم نے فیصلہ کر لیا ہے اور کسی کی عبادت نہیں کریں گے.یعنی ہم یہ چاہتے ہیں کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کریں.دوسرا پہلو ہے تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے.اس کے نتیجہ میں کیا ہوتا ہے؟ اس کے نتیجہ میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ عبادت کا حق تو ہم ادا نہیں کر سکتے ، ہم کمزور ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ عارفانہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ مومن کا دماغ اس طرف چلا جاتا ہے کہ یہ نماز تو ہم سے کھڑی نہیں ہوتی.کئی قسم کے تفکرات اور کئی قسم کے خیالات دل کو گھیر لیتے ہیں، کئی اور کام ہوتے ہیں جن کے کرنے کی جلدی ہوتی ہے توجہ اس طرف پھر جاتی ہے.کئی ظاہری دلچسپیاں ہیں جو بت بن کر سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں.انسان ایک مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ نماز میں توجہ کیسے قائم رکھے؟ تو معاً اس کا جواب یہ دیا ایاکَ نَستَعِينُ اے ہمارے آقا مد د بھی تو تجھ سے ہی چاہتے ہیں اور ہمیشہ تجھ سے ہی چاہیں گے، کسی اور کی طرف دھیان نہیں دیں گے اور مدد کے لئے نہیں پکاریں گے.اس لئے اگر ہم اپنے خلوص دل کے ساتھ تیری عبادت پر قائم ہونا چاہتے ہیں، تو پھر اے ہمارے معبود ! تو مالک اور با اختیار ہے.ہم تو مالک اور بااختیار نہیں.ہم ابھی کہہ آئے ہیں کہ تو ہی مالک ہے تیرے سوا کوئی مالک نہیں تو پھر اے خدا ہمیں عبادت کی توفیق عطا فرما.مدد بھی تجھ سے ہی مانگتے ہیں.تو ہماری گرتی ہوئی نمازوں کو کھڑا کر دے.تو ہمارے ڈوبتے ہوئے دلوں کو حوصلہ دے اور اپنی عبادت کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق بخش.ایساكَ نَعْبُدُ کی دعا کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم نے تو اب صرف تیری عبادت کرنی ہے.باقی سب جھوٹے خدا ہیں ، ہم نے ان کو چھوڑ دیا ہے.کوئی بت باقی نہیں رہنے دیا، کسی دوسری چیز کا کوئی سہارا نہیں ڈھونڈا.اب ہم جائیں تو کہاں جائیں.ہم تو مشکل میں پڑے ہوئے ہیں.ہمیں تو مصیبتیں لاحق ہیں.اب تیرے سوا ہمارا کون ہے؟ ہم تجھے چھوڑ کر کہاں جائیں؟ جب ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے سامنے جھکتے ہیں تو پھر ہماری ضرورتوں کو بھی تو ہی پورا فرما.اس کے لئے یہ دعا ساتھ ہی سکھا دی ایاک نَسْتَعِينُ ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.اب غور کریں کہ یہ دعا جب دوسری شکل اختیار کرتی ہے یعنی إِيَّاكَ نَعْبُدُ کے بعد اِيَّاكَ نَسْتَعِین میں ڈھل جاتی ہے تو زندگی کی کون سی مشکل

Page 24

مشعل راه جلد سوم 20 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ہے جس پر یہ دعا چسپاں نہیں ہوتی ؟ کوئی بیماری لاحق ہو، کوئی مشکل در پیش ہو، سفر میں حضر میں کوئی مصیبت پیش آجائے.مثلاً چلتے چلتے موٹر خراب ہو جائے تب بھی آپ ايَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی دعا کے ذریعہ مسائل حل کر اسکتے ہیں.کوئی عزیز بیمار ہو، ایمانی کمزوری کا ڈر ہو، مالی مشکلات کا سامنا ہو کسی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہوں، مقدمات کے مسائل دامن گیر ہوں، کئی قسم کی پریشانیاں ہیں جو ہزار رنگ میں انسان کو گھیر لیتی ہیں.غرض کوئی مشکل ہو یا مصیبت پیش آجائے ہر موقع پر ایک رنگ میں انسان کو گھیر لیتی ہیں.غرض کوئی مشکل ہو یا مصیبت پیش آجائے ہر موقع پر ایک عبادت گزار کی نجات کی راہ ایاک نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں موجود ہے.تا ہم اس دعا کے دو پہلو ہیں اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا کا حق دار انسان تب بنتا ہے جب وہ پہلے ایاک نَعْبُدُ کا حق ادا کرے.اگر یہ بات ہی جھوٹی ہو کہ ہم خدا کی عبادت کرتے ہیں تو پھر ايَّاكَ نَسْتَعِینُ کی دعا بھی جھوٹی ثابت ہو گی.ان دونوں کا آپس میں ایسا گہرا واسطہ ہے اور ان میں ایک ایسا گہرا ربط ہے اور ایسا پختہ تعلق ہے کہ ایک کی طاقت سے دوسری چیز طاقت پکڑتی ہے.اگر کوئی انسان عبادت واقعۂ خدا کی کرتا ہے اور کسی کی نہیں کرتا تو پھر وہ حقیقتاً غیر اللہ سے مستغنی ہو جاتا ہے.ایسی صورت میں پھر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایساكَ نَسْتَعِین کی دعا کبھی ناکام ہو جائے.یہ ناممکن ہے کہ ایسے انسان کی پکار سنی نہ جائے.یہ وہ بندے ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کہ ہاں میرے بندے تو میرا بندہ بن گیا.میں نے تجھے اپنا بندہ بنا لیا.اب تو میری مدد مانگتا ہے.تو تجھے میرا یہ جواب ہے کہ کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے.جب تو نے اپنے لئے مجھے کافی سمجھا تو میں بھی تیرے لئے کافی ہوکر بتاؤں گا.یہ وہ مقام ہے جس پر پہنچ کر انسان تمام قسم کے فکروں سے آزاد ہو جاتا ہے.تمام خوفوں سے بالا ہو جاتا ہے.وہ اہل اللہ بن کر خدا کے فضل کے ساتھ اور اس کی رحمت کے سایہ میں زندگی بسر کرنے لگ جاتا ہے اور انہی کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورة يونس : 63) جب کچھ بندے میرے دوست بن جاتے ہیں ، عبادت کے رستہ سے داخل ہوتے ہیں اور میری دوستی کی راہوں پر چلتے ہوئے مجھ تک پہنچ جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس وقت ان کو دعائیں کرنے یعنی ہر بات میں مجھے پکارنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی.اُن کا سارا وجود اور اُن کی ساری زندگی بکار بن چکی ہوتی ہے.فرمایا:-

Page 25

مشعل راه جلد سوم 21 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کسی حالت میں بھی کبھی ان پر خوف غالب نہیں آتا کیونکہ خوف بھی ایک غیر اللہ ہے.کسی حالت میں غم ان پر غالب نہیں آتا کیونکہ غم بھی غیر اللہ ہے اور وہ غیر اللہ سے پاک ہو چکے ہوتے ہیں.پس ہر عبادت کو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کرنے کا یہ مفہوم ہے جو سورہ فاتحہ ہمیں سکھاتی ہے.اس لئے جب سورہ فاتحہ کو آپ غور سے پڑھیں گے تو ان سات آیات میں صرف ایک مضمون نہیں بلکہ معرفت کے لامتناہی سکتے آپ پر کھلیں گے اور ایک نہ ختم ہونے والا روحانی خزانہ آپ کو مل جائے گا.اس لئے اسے غور سے پڑھیں، محبت کے ساتھ پڑھیں، پیار کے ساتھ پڑھیں، اسی کا نام الہی محبت ہے.اسی کے نتیجہ میں آپ کے دل خدا تعالیٰ کے فضل سے پاک اور صاف کئے جائیں گے.اسی کے نتیجہ میں آپ کو ابدی زندگی عطا ہوگی اور جنت ملے گی، جس کا ذکر ان آیات میں ہے جو میں نے اس خطبہ کے شروع میں پڑھی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وَ سَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَّبِّكُمُ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمواتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ.(ال عمران: 134 ) فرماتا ہے سَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِن رَّبِّكُم اپنے رب کی طرف سے نازل ہونے والی مغفرت کی طرف ہم تمہیں بلا رہے ہیں ، دوڑتے ہوئے چلے آؤ.اس مغفرت کے نتیجہ میں تمہیں کیا ملے گا؟ فرمایا ایسی جنت ملے گی عرضُهَا السَّمواتُ وَالاَرضُ جس کا محیط آسمانوں اور زمین کے محیط کے برا بر ہے کوئی حصہ اس سے باہر نہیں ہے، یہ ایک جنت ہے جو جغرافیائی قیود سے آزاد ہے، تم جس جگہ ہو جہاں جاؤ وہ جنت تمہارے ساتھ ساتھ چلے گی اور تم اس جنت کے سائے سے نکل ہی نہیں سکتے.یہ ہے پیغام اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے لئے کہ دوڑے آؤ مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس سے تم باہر نہیں جاسکتے.اس میں ایک مومن کے لئے کتنا عظیم الشان پیغام ہے جو بظاہر ایک ملک سے ہجرت کر کے کسی دوسرے ملک میں جاتا ہے جیسا کہ میں نے اس خطبہ کے شروع میں کہا تھا کہ آپ اپنی جنتیں ساتھ لے کر آئے تھے.جب خدا کی خاطر نکالے گئے تو یہ نہیں ہوا کہ اپنی جنتیں پیچھے چھوڑ کر آ گئے ہوں بلکہ خدا کی رحمت کی جنتیں آپ کے ساتھ چلتی ہیں اور یہ جنت ان معنوں میں ہے کہ اس کے بعد آپ کو مشکلات پیش نہیں آئیں گی اور اس جنت کی تشریح خدا تعالیٰ نے خود فرما دی ہے.فرماتا ہے یہ جنت کیا ہے؟ یہ جنت اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کی لذتیں حاصل کرنے کی جنت اور خدا تعالیٰ کی رضا میں مزہ اُٹھانے کی جنت ہے.ایسے

Page 26

مشعل راه جلد سوم 22 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ لوگوں پر آزمائشیں بھی آئیں تب بھی یہ جنت ان سے کوئی چھین نہیں سکتا.چنانچہ فرماتا ہے :- الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَ الضَّرَّاءِ وَ الكَظِمِينَ الغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ (ال عمران: 135 ) یہ وہ لوگ ہیں جن پر تنگی آئے یا آسائش آئے ، آسانی پیدا ہو یا مشکل پیش آجائے یہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے پر ایسا مزہ اٹھاتے ہیں کہ پھر اس مزہ کو چھوڑتے ہی نہیں.دنیا میں ہر قسم کی کیفیت سے گذر جائیں گے لیکن یہ جنت ان سے کوئی نہیں چھین سکتا کیونکہ وہ اللہ کی خاطر قربانی کرتے ہیں اور اسی کی رضا کی خاطر ہر دوسری چیز کو فدا کر دیتے ہیں.پس ایسے لوگ مشکل آئے تب وہ خدا سے راضی اور خدا ان سے راضی.آرام آئے تب بھی وہ خدا سے راضی اور خدا ان سے راضی.جیسا کہ حضرت مصلح موعودنو راللہ مرقدہ کے اس شعر سے ظاہر ہے جسے میں بار ہا پہلے بھی دوستوں کو سنا چکا ہوں.بہت ہی پیارا شعر ہے آپ اپنے رب سے عرض کرتے ہیں ؎ ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلا ہو راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو اب ہم تیرے وہ بندے بن چکے ہیں اور ہمیشہ کے لئے تجھ سے وابستہ ہو چکے ہیں.اب تو فضل لے کر آئے تب بھی ہم تجھ سے راضی ہیں اور کوئی ابتلا اور مشکل آئے تب بھی ہم راضی ہیں.یہ وہ جنت ہے جس كا ذكر عَرْضُهَا السَّموات والارض میں کیا گیا ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین پر محیط ہے.ایسے بندے ارضِ خاکی پر رہیں یا آسمانوں پر اُڑنے لگیں یہ جنت اب ان کا کبھی ساتھ نہیں چھوڑے گی.کوئی مشکل ان سے یہ جنت چھین نہیں سکے گی.کوئی آسانی ان سے یہ جنت چھین نہیں سکے گی.اس جنت کو پانے کے بعد پھر وہ ان لوگوں کو جنہوں نے ان کو دکھ دیئے ہوتے ہیں یا جن کے ہاتھوں انہوں نے مصائب اٹھائے ہوتے ہیں اُن کے متعلق بھی اُن کی رائے بدل جاتی ہے.اُن کے دل میں انتقام باقی نہیں رہتا اور کوئی نفرت کا جذ بہ نہیں رہتا.فرماتا ہے :- وَ الْكَظِمِينَ الْغَيْظَ وَ الْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ یہ اصحاب جنت ایک عظیم الشان انقلابی کیفیت پیدا کر جاتے ہیں اور وہ کیفیت یہ ہے وَ الْكَظِمِينَ الغَيْظ ان کو شدید غصہ آئے تو اس کو دبانے لگ جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں اے خدا! ہمیں تو مل گیا ہے تو اب شکوہ کس بات کا اور غصہ کس سے.اگر غیر نے ہمیں بتلائے مصیبت کیا اور اس کے نتیجہ میں ہمیں تو مل گیا

Page 27

23 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اور تیرا فضل نصیب ہو گیا تو پھر تظمین والی کیفیت تو ہمارے مقدر میں آگئی ، اب تو ہمیں غصہ برداشت کرنا پڑے گا.وَ الْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ جنہوں نے اُن کو دکھ دیے ہوتے ہیں اُن سب کو معاف کر دیتے ہیں.غالب کہتا ہے.سفینہ جب کہ کنارے پر آ لگا غالب خدا سے کیا ستم و جورِ ناخدا کہیے یہ ایک ناقص اظہار ہے اسی مضمون کا لیکن وہ ایک کامل اظہار ہے قرآن کریم کی آیت میں جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کروارہا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب یہ لوگ اپنے خدا کو پالیتے ہیں اور انہیں جنتیں نصیب ہو جاتی ہیں تو مصائب والم کی یادیں ان کے دلوں میں تلخی پیدا نہیں کرتیں.ان مشکل را ہوں کی یاد میں جن سے گذر کر یہ میری رضا کی جنت میں داخل ہوئے ہوتے ہیں ان کو بد دعائیں دینے پر آمادہ نہیں کیا کرتیں.وہ دعائیں دیتے ہیں ان لوگوں کو بھی جنہوں نے ان کو دکھ پہنچائے تھے اُن کے لئے بھی خیر کے سوا اُن کے دل سے کچھ نہیں نکالتا.اپنے ملک کی ترقی اور استحکام کے لئے دعائیں کریں پس آج کا پیغام میرا یہی ہے کہ ہمارا وہ ملک جس کے دکھوں کے ستائے ہوئے آپ لوگ یہاں آئے تھے جب خدا کی رضا آپ کو حاصل ہو گئی ، جب اللہ نے اپنے پیار کی جنت آپ کو عطا کر دی تو اس کی بخشش کے لئے ، اس کی ترقی کے لئے اور اُس کے استحکام کے لئے دعائیں کریں.اس کے سوا اپنے دل میں کچھ نہ رکھیں.کیونکہ خدا آپ سے یہ توقع رکھتا ہے کہ جب تم نے خدا کی رضا پالی تمہیں خدا کا پیارمل گیا تو پھر اس کے بعد کسی کا شکوہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.تم ان لوگوں کو معاف کر دو، ان سے محبت کا سلوک کرو.ان کے لئے دعائیں کرو اور دعا کرو کہ یہ محروم بھی تمہارے ساتھ مل کر الہی جنتوں میں داخل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم دکھ دینے والوں کو معاف کر دو گے تو میں تمہیں ضمانت دیتا ہوں وَ اللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ایسے احسان کرنے والوں سے اللہ بہت ہی محبت کرتا ہے تمہیں اللہ کی محبت کا مقام نصیب ہو جائے گا جو رضائے الہی کا بہت ہی پیارا اور آخری مقام ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں رہیں اور خدا کی محبت اور پیار کی نظریں ہم پر پڑتی رہیں ہم جس حال میں اور جس ملک میں رہیں رضائے باری اور محبت الہی کی جنت ہمیں حاصل رہے اور یہ جنت ہم سے کوئی چھین نہ سکے.مطبوعه روز نامه الفضل 31 اکتوبر 1983ء)

Page 28

مشعل راه جلد سوم 24 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 29

مشعل راه جلد سوم 25 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی احمدی آرکیٹکٹس اور انجینئر ز کے سالانہ کنونشن سے خطاب فرمودہ 14 اکتوبر 1982ء آپ احمدیت کی ایک علمی شاخ کا سرمایہ ہیں سبقت لے جانے کی کوشش اور عزم احمدی آرکیٹکٹس کو ایک لازوال دولت نصیب ہے حمدیانتداری اور تقویٰ کے معیار کو بلند کریں سائنس ، یورپ اور سچائی آپ آج اس سچائی کے نمائندے ہیں جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی ہے حمدی جماعت احمدیہ کو ہر علم کے میدان میں سینکڑوں عبدالسلام پیدا کرنے پڑیں گے ہے ہے دین کی غیرت آج صرف جماعت احمدیہ سے وابستہ ہے ماحول سے Ideas سیکھیں زندگی وقت کے ایک با مقصد مصرف کا نام ہے سائنسدانوں کے حالات پڑھیں

Page 30

مشعل راه جلد سوم 26 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 31

مشعل راه جلد سوم 27 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- احمدی آرکیٹکٹس اینڈ انجینئر زایسوسی ایشن کے ساتھ میرا جو تعلق ہے، وہ رپورٹ میں بیان کر دیا گیا ہے.ذاتی حیثیت سے ان معنوں میں کہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس ایسوسی ایشن کے آغاز ہی سے اس کے کاموں سے میرا تعلق پیدا کروا دیا تھا اور اس کو منظم کرنے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈالی تھی.اس کے بعد جب یہ سوال پیش ہوا کہ اس کا سر پرست کون ہوگا تو حضور نے میرا ہی نام بطور سر پرست منظور فرمایا.اس لئے مجھے یہ خوشی ہے کہ آپ سب کے ساتھ دوبارہ ملنے کا موقع مل رہا ہے.قبل ازیں جب بھی میں نے اجلاسوں میں آپ کے ساتھ شرکت کی ، میں آپ سے مل کر اور آپس میں تبادلہ خیالات کے نتیجہ میں بہت ہی لطف اندوز ہوتا رہا.آپ احمدیت کی ایک علمی شاخ کا سرمایہ ہیں کیونکہ احمدیت کی ایک علمی شاخ کا آپ سرمایہ ہیں.آپ کا ذہن اگر زیادہ بیدار اور متحرک ہوگا اور ایسی خدمت سرانجام دینے کی کوشش کرے جو فن کی بھی خدمت ہو اور دین کی بھی.ذات کی بھی خدمت ہو اور بحیثیت جماعت بھی کارآمد ثابت ہو تو زندگی کا ایک بہت بڑا مقصد آپ کو حاصل ہو جائے گا.یہی وہ اغراض تھیں جن کے لئے ہم مل جل کر ایک دوسرے کے مشورہ کے ساتھ بات کو آگے بڑھاتے رہے.بعض پہلوؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی خوشکن نتائج نکلے ہیں.مثلاً ہمارے انجینئر ز اور آرکیٹکٹس میں جذبہ اور خلوص تو ماشاء اللہ پہلے بھی تھا لیکن کوئی ایسی تنظیم نہیں تھی جس کی بدولت وہ اپنے فن کو دین کی خدمت میں پیش کر سکتے.چنانچہ اس تنظیم کی وساطت سے اب آپ کو یہ موقع ملا کہ جماعت میں جو کام بھی آپ کے فن سے تعلق رکھنے والے پیش آئے ان میں آپ نے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت ہی

Page 32

28 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم پُر خلوص حصہ لیا اور جس کی استعداد میں جو کچھ بھی تھا وہ اس نے بڑی خوشی اور بشاشت کے ساتھ پیش کیا اور جماعت کا یہ احسان سمجھا کہ اس نے اس خدمت کو قبول کیا.دین کی خدمت کی یہی وہ روح ہے جو قبول ہوتی ہے.اس روح کے سوا کوئی روح قبولیت کے لائق نہیں ہوتی.چنانچہ اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ انجینئر زایسوسی ایشن نے بہت ہی اعلیٰ اور پیاری روایات قائم کی ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ روایات پھیلتی چلی جائیں گی اور دوام بھی اختیار کریں گی.سبقت لے جانے کی کوشش کچھ اور پہلو ہیں جو ہم میں سے ہر ایک کے پیش نظر رہنے چاہئیں.ان میں سے ایک چیز انفرادی کوشش یعنی اس بات کی کوشش کہ میں اپنے فن کو خوب چمکاؤں گا اور اپنے دوسرے ساتھیوں پر خواہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم سبقت لے جاؤں گا.یعنی اپنے فن کے دوسرے ساتھیوں سے آگے نکلنے کی کوشش کروں گا.ایک یہ مقصد بھی تھا جس کو بار بارا جلاسوں میں پیش کیا جاتا رہا.اس پہلو سے کوئی نمایاں کام سامنے نہیں آیا اور کوئی نمایاں نام سامنے نہیں آیا.یعنی جد و جہد اس رنگ میں ہو کہ اپنے فن میں دوسرے ہمعصر ساتھیوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے.یہ وہ چیز ہے جو ہماری جماعت کا امتیازی نشان ہونا چاہیے اور اس کی طرف میں خود بھی جہاں تک میرا بس چلا بار بار توجہ دلا تارہا اور حضرت خلیفة المسیح الثالث نے اپنے خطابات میں بھی احمدی انجینئروں سے جو توقع ظاہر فرمائی وہ اسی نوعیت کی تھی اس لئے اس پہلو سے متعلق میں چند باتیں پھر آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں ہماری دولت ہیں احمدی انجینئر کو ایک ایسی دولت حاصل ہے جو دنیا کے کسی اور انجینئر کو حاصل نہیں.احمدی آرکیٹکٹ کو ایک ایسی دولت نصیب ہے جو دنیا کے اور کسی آرکیٹکٹ کو نصیب نہیں.اس دولت میں سرفہرست حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی دعائیں ہیں.آپ نے اپنے متبعین کے حق میں جود عائیں کیں اور جن نیک توقعات کا اظہار کیا اور اللہ تعالیٰ سے خوشخبریاں پا کر آئندہ آنے والوں کے لئے خوشخبریاں دیں، وہ اس نوعیت کی ہیں کہ احمدی کسی بھی فن سے تعلق رکھتا ہو، وہ ان دعاؤں کے سہارے اپنے باقی ساتھیوں سے

Page 33

مشعل راه جلد سوم 29 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی آگے بڑھنے کی طاقت رکھتا ہے.گو ہر شخص کی استعداد میں الگ الگ ہیں.اس میں کوئی شک نہیں لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ برابر استعدادوں کے باوصف اگر ایک احمدی کوشش کر رہا ہو اور اس کا ساتھی بھی کوشش کر رہا ہو تو احمدی ان دعاؤں کے طفیل اپنے ساتھی کی نسبت زیادہ قوت اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے کیونکہ دوسرے کے مقدر میں یہ خوش بختی ابھی نہیں آئی.دیانتداری اور تقویٰ کے معیار کو بلند کریں ا دوسرے میں پہلے بھی بار بار یہ اظہار کر چکا ہوں کہ اگر احمدی دیانتداری اور تقویٰ کے معیار کو بلند کرے اور جس جگہ بھی وہ متعین ہے وہاں اپنے فن میں دیانتداری کا مظاہرہ کرے اور اپنے انتظام میں دیانتداری کو مدنظر رکھے تو اس سے بھی اس کو ایک چلا ملے گی کیونکہ تقویٰ سے ایک نور پیدا ہوتا ہے.تقویٰ ہی روشنی کا دوسرا نام ہے.تقویٰ کے نتیجہ میں انسانی قومی میں عدل پیدا ہوتا ہے اور نشو ونما کے لئے قومی کا عدل ضروری ہے.سچائی اور انصاف کو ہم تقویٰ بھی کہہ سکتے ہیں.ان کا نام عدل بھی ہے اور جب بھی کوئی نظام اعتدال پر آجائے تو اس میں نشو ونما کی قو تیں پیدا ہو جاتی ہیں.چنانچہ سچائی کے نتیجہ ہی میں سائنس نے ترقی کی ہے.جھوٹا دماغ سائنس میں ترقی نہیں کرسکتا.سائنس کی بنیاد اور سائنسی ترقی کے دروازہ میں داخل ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان دنیا کے پیمانے میں متقی ہو جائے.دنیا کے پیمانے میں متقی کی تعریف بعض پہلوؤں سے تو مختلف ہوتی ہے لیکن بنیادی طور پر وہی ہے جو عام طور پر سمجھی جاتی ہے یعنی انسان سچ بولے.وہ خوش فہمیوں میں مبتلا نہ ہو.تصورات کی دنیا میں نہ رہے.کہانیوں میں بستا نہ ہو بلکہ واقعات اور سچائیاں اس کی انگلی پکڑ کر جس طرف لے جائیں خواہ طبیعت چاہے یا نہ چاہے وہ اس طرف چلا جائے.یہ عام انسانی تقوی کی تعریف ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اسی تعریف کو بالآخر ہدایت کا ذریعہ قرار دیا ہے.قرآن کریم میں تقویٰ کی جو پہلی تعریف ملتی ہے بلکہ اپنے مقام کے لحاظ سے بھی پہلی ہے.یہ ایسی تعریف ہے جو تمام انسانوں کے درمیان مشترک ہے.یعنی هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقره: 3) یہ ہدایت صرف متقیوں کے لئے ہے.اگر متقیوں سے مراد مذہبی تعریف لی جائے تو ان کے لئے ہدایت کا کیا مطلب ہے وہ تو پہلے ہی ہدایت یافتہ ہیں.پس اس کے معنی یہ ہیں کہ یہاں عام تقویٰ کی

Page 34

مشعل راه جلد سوم 30 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی تعریف مراد لی گئی ہے.یعنی وہ لوگ جو سچائی کی پیروی کرنا جانتے ہوں جن کا مزاج ایسا ہو کہ وہ جھوٹ کی پیروی نہ کریں گے.ظن کی پیروی نہیں کریں گے بلکہ سچائی کے پیچھے چلیں گے خواہ وہ ان کو کسی طرف لے جائے.اس پیروی کے نتیجہ میں ان کو کسی چیز کا کوئی خوف نہیں ہوگا.یہ متقی ہیں اور جو اس قسم کا متقی ہو اللہ تعالیٰ اس سے وعدہ کرتا ہے کہ اس کو دینی اصطلاح میں بھی منتقی بنایا جائے گا اور اس کے لئے تمام شکوک دور کئے جائیں گے اور تمام یقین کی راہیں اس کے لئے کھول دی جائیں گی.لَا رَيْبَ فِيهِ سے بھی اس تعریف کی تصدیق ہوتی ہے.ریب ظن کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے علم کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہوتا.تو فرمایا جو تقی ہیں وہ تو بات ہی علم کی بناء پر کرتے ہیں، سچائی کی پیروی کرتے ہیں.ان کے لئے ریب کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ریب والے تو وہ ہیں جو خیالی تصورات کی دنیا میں بسنے والے لوگ ہوتے ہیں ان کے لئے ہر طرف اندھیرے ہی اندھیرے ہیں اور شک ہی شک ہیں.پس یہ وہ بنیادی تعریف ہے جس کی طرف قرآن کریم ہماری راہ نمائی کرتا ہے اور اگر تقویٰ کی یہ تعریف احمدی کے اوپر صادق آجائے تو اس کا دماغ روشن ہو جاتا ہے.اسی تعریف میں اس سچائی کی خاطر قربانی کا مادہ بھی داخل ہو جاتا ہے.کیونکہ جو سچائی کی پیروی کرنا جانتا ہے وہ اس بات سے بے پرواہ ہو جاتا ہے کہ دنیا کیا کہے گی اور کیا سمجھے گی.اس کے نتیجہ میں اس کے اندر ایک جرات پیدا ہوتی ہے.کہانیوں میں بسنے والے کے دل میں کبھی جرات پیدا نہیں ہوتی.جو خود ظنوں میں مبتلا ہو وہ آخر کس بات کے لئے جرات کے ساتھ قربانی کرے گا.چنانچہ یورپ کی سائنس کی تاریخ کا آپ مطالعہ کریں تو پتہ لگتا ہے کہ وہ ساری کی ساری قرآن کریم کی اس ابتدائی آیت کی سچائی کی دلیل ہے.سائنس، یورپ اور سچائی احیائے نو کا وہ دور جس میں یورپ داخل ہوا اس میں سائنسدان وہی تھا جو سچ کو سچ کہنا جانتا تھا اور اس بات سے بے پرواہ ہو کر کہ دنیا کیا کہتی ہے وہ سچ کو سچ کہتا تھا.یورپ کی تاریخ میں ایسے کئی سائنسدان گزرے ہیں جن کو سچائی کے الزام میں آگ میں زندہ جلا دیا گیا.اس جرم میں کہ انہوں نے کائنات میں جو دیکھا وہی بیان کیا.نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح مذہبی طور پر Persecution یعنی ایذاء رسانی کی جاتی ہے اس طرح یورپ میں ایک لمبا عرصہ سائنسدان کی Persecution کی گئی ہے.اس کو خوفناک سزائیں دی گئیں.خواہ وہ عملی سائنس سے تعلق رکھتا تھا یا فلسفہ

Page 35

مشعل راه جلد سوم 31 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی سائنس سے تعلق رکھتا تھا اس کو اپنے نظریات کی بڑی بھاری قیمت دینی پڑی.اس میں تمام مذاہب کے ماننے والے مشترک تھے.یہ ایک عجیب تضاد تھا کہ اس وقت مذہب کے نام پر جھوٹ اکٹھا ہو گیا تھا اور لامذہبیت کے نام پر سچائی ایک طرف نظر کر الگ ہو گئی تھی اور اللہ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کیا کہ مذہب کے نام پر جھوٹ کو پنپنے نہیں دیا جائے گا.خواہ مذہب کا نام کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہو اور لامذہبیت کے نام پر سچ پرورش پائے گا.خواہ لامذہبیت کیسی ہی بُری کیوں نہ دکھائی دے.چنانچہ سچائی کی طاقت سے لامذہبیت وہاں جیتی ہوئی نظر آتی ہے اور مذہب شکست کھا تا ہوا نظر آتا ہے کیونکہ اہل مذہب دکھ دینے والے بن گئے اور بظاہر جولا مذہب کہلا رہے تھے وہ دکھ سہنے والے بن گئے تھے.چنانچہ یہودیوں نے بھی اس سلسلہ میں قربانیاں دیں ،عیسائیوں نے بھی دیں.سچائی کی خاطر صرف سائنٹسٹ کو قربانی نہیں دینی پڑی.ہر علم کے شعبہ کو قربانیاں دینی پڑیں.Spinoza ایک مشہور جرمن فلاسفر ہے اس نے جب یہ دیکھا کہ اس کے ایک ساتھی کو محض سچائی کے جرم میں دکھ دیا گیا یہاں تک کہ اس نے خود کشی کر لی تو اس نے واقعات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان باتوں کا اظہار شروع کر دیا جو اس کے نزدیک کچی تھیں.ان میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو یہودیت کے خلاف اور اسلام کے حق میں ہیں.چنانچہ اس نے ایسے بہت سے تصورات پیش کئے جن کا تعلق یہودیت سے ہے نہ عیسائیت سے بلکہ اسلام سے ہے لیکن اس بیچارے کو پتہ نہیں تھا کہ میں یہ کیوں کہ رہا ہوں اور کیا کہہ رہا ہوں.صرف متقی تھا اپنی تعریف کے اندر.چنانچہ اس نے اعلان کیا کہ یہ ناممکن ہے کہ خدا نے کسی ایک قوم کو فضلوں کے لئے چن لیا ہو اور باقی سب دنیا والوں کو اس سے محروم کر دیا ہو.گویا وہ إِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ - (الفاطر:25) کا ہی اعلان کر رہا تھا.وہ یہ اعلان بھی کر رہا تھا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ تجسم اختیار کر لے.خواہ وہ کسی شکل میں اس نے اختیار کیا ہو.تو یوں بیک وقت وہ عیسائیت کے خلاف بھی کھڑا ہوا اور یہودیت کے خلاف بھی لیکن خود نہیں جانتا تھا کہ میں کس کی تائید کر رہا ہوں.چنانچہ اس پر دہریت کا الزام لگایا گیا، کیونکہ دو خدا ہی وہ جانتے تھے.یا عیسائیت کا تجسم خدا اور یاوہ خدا جو بنی اسرائیل کو باقی سب لوگوں پر فوقیت دے رہا تھا اور سوائے ان کے کسی اور سے کلام ہی نہیں کرتا تھا.پس اس الزام میں اس کو بلایا گیا اور اس کو دھمکی دی گئی.یہودی بڑے لوگوں یعنی Synagogue کے نمائندوں نے اس کو بلایا اور اس کو کہا کہ اب تمہارے پاس دو ہی رستے کھلے ہیں یا -Ex

Page 36

32 مشعل راه جلد سوم ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ communication یعنی اخراج کی سزا قبول کر دیا تم ہمارے اندر رہو اور سچ بولنے سے باز رہو.اس نے جواب دیا میں سچ بولنے سے باز نہیں آسکتا اور کہا آپ جو مذہبی آدمی ہیں.آپ نے ایک مذہبی لفظ بولا ہے اس کا تلفظ غلط ہے.میں تو یہاں تک سچ بولوں گا کہ آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اپنا تلفظ درست فرمائیں.آپ کو بائبل کی اصطلاحوں کا تلفظ بھی نہیں آتا.اس پر وہ یہودی راہنما اتنے مشتعل ہوئے کہ اس کی نہایت خطرناک Ex-communication یعنی اخراج کی سزا کے آرڈر جاری کر دیئے.اس زمانہ میں یہودیت سے نکلنے کا مطلب یہ تھا کہ تمام دنیا میں یہ اعلان ہو جاتا تھا کہ اس کو ہماری ضمانت حاصل نہیں رہی.اس سے اب جو چاہو سلوک کرو.چنانچہ اسے انتہائی ظلموں کا نشانہ بنایا گیا.44 سال کی عمر میں وہ مر گیا لیکن ایک قدم پیچھے نہیں ہٹا.اس نے شدید مصیبتیں اٹھائیں لیکن سچائی کا جو جھنڈا اس نے ہاتھ میں پکڑا تھا اس کو تا دم آخر بلند رکھا.پس ابتدائی منزل میں سچائی ، دیانت اور تقویٰ ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں.ان کے نتیجہ میں جرات پیدا ہوتی ہے.چنانچہ یورپ کے سارے سائنسدانوں کی مثالیں بتا رہی ہیں.آخر کسی سچائی کی خاطر آگ میں زندہ جل جانا کوئی معمولی بات تو نہیں لیکن وہ جلائے گئے اور جل گئے.ایسے بھی سائنسدان ہوئے جن کو Guillotine کے اوپر چڑھا دیا گیا.فرانس میں ایک ایسا ہی سائنسدان تھا جس نے سچائی کا اظہار کیا اور اس زمانہ میں بظاہر وہ معمولی معمولی باتیں تھیں لیکن چرچ نے اس کے خلاف بڑا شور ڈالا اور اس کو کہا تم باز آجاؤ ورنہ مذہب تمہاری ان بے ہودگیوں کو برداشت نہیں کر سکتا.اس نے کہا نہیں برداشت کر سکتا تو تم اپنا کام کرو میں اپنا کام کرتا ہوں.تو اس کو Behead کیا گیا یعنی اس کا سر قلم کر دیا گیا.اس پر ان کے ایک ہمعصر شاعر نے لکھا.فرانسیسی نظم ہے.اس میں ایک شعر ہے.وہ کہتا ہے کہ صدیوں میں ایک سر پیدا ہوتا ہے.اس کو چند لھوں میں اڑا دیا گیا.اس صدی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے لیکن یہ ایک المیہ نہیں ہوا.ایسے بیسیوں المیے ایک ایک یورپین ملک میں ہوئے ہیں.غرض آپ (احمدی آرلیٹلٹس اور انجینئر ز ) کا مقام تو اس سے بہت بلند ہے.آپ تو آج اُس سچائی کی نمائندے ہیں جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچائی ہے.کسی عام سائنس دان کی سچائی نہیں.اس سچائی کے نمائندے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی سچائی ہے.اس لئے آپ کی جراتیں مختلف اور بلند ہونی چاہئیں.آپ کے اخلاق بلند ہونے چاہئیں.آپ کے اندر دیانت کے معیار بلند ہونے چاہئیں.یہ چیزیں حاصل ہو جائیں تو آپ کو ایک روشنی

Page 37

مشعل راه جلد سوم 33 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ملے گی.اس روشنی میں اگر آپ آگے بڑھیں گے تو یہ ناممکن ہے کہ آپ کا ہمعصر آپ کا مقابلہ کر سکے کیونکہ وہ سچائی کی اس روشنی سے محروم ہے جو آپ کو مل گئی ہے.لیکن عجیب بد قسمتی ہے انفرادی دوڑ میں اسلام کی طرف منسوب ہونے والے سارے فرقے پیچھے رہ گئے.ایک ہم تھے جن پر اسلام کو امید تھی.ایک عبد السلام تو پیدا کیا.لیکن ایک عبدالسلام سے تو بات نہیں بنتی.جماعت احمدیہ کو ہر علم کے میدان میں سینکڑوں عبدالسلام پیدا کرنے پڑیں گے.اس وقت دنیا نے علمی میدان میں اسلام کو دکھ پہنچا کر ہم پر جو مظالم ڈھائے ہیں اس کے انتقام کی کارروائی اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم ایک باغیرت قوم کی طرح علم کے ہر میدان میں آگے بڑھیں.( دین حق ) کی غیرت جماعت سے وابستہ ہے ( دین حق ) کی غیرت عملاً آج صرف جماعت احمدیہ سے وابستہ ہے.اگر آپ نے یہ داغ نہ دھوئے تو اور کوئی نہیں دھوئے گا.جاپان عملاً ایک دہر یہ ملک ہے.کوریا اعلانا بھی دہر یہ ہے.ہانگ کانگ ایک چھوٹی سی جگہ ہے اور یا وہ دہریہ ہے یا وہ ایسا بد مذہب ہے کہ اس کی کچھ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا چیز ہے لیکن تقویٰ کے پہلے مقام پر وہ ضرور قائم ہے.یعنی سچ کو دیکھتے ہیں، سچ کو سمجھتے ہیں، اس کی پیروی کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں انہیں کچھ حاصل ہو جائے.نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ بعد میں آئے لیکن یورپ کی علمی Monopoly (مناپلی یعنی اجارہ داری کو توڑ بیٹھے ہیں.ابھی میں یورپ کا سفر کر کے آیا ہوں.میں نے محسوس کیا کہ یورپ کو جاپان کی طرف سے شدید خطرات ہیں اور وہ جو مرضی کر لیں ان کی کوئی پیش نہیں جارہی.اسی طرح فارموسا بڑی تیزی سے آگے آرہا ہے.ہانگ کانگ بڑی تیزی کے ساتھ آگے آ رہا ہے اور یورپ اس کے سامنے خوفزدہ ہے کہ اب ہمارا کیا بنے گا.زیورچ سوئٹزر لینڈ میں Intelligenia دانشور طبقہ کی ایک مجلس تھی.اس میں بڑے بڑے مفکر مین اور اہل علم لوگ آئے ہوئے تھے.وہاں باتوں باتوں میں ضمناً کوئی سوال پیدا ہوا تو ایک آدمی نے کہا کہ ہماری فلاں گھڑی جاپانی گھڑیوں کے معیار کی ہے.میں نے اس کو کہا کہ یہی فرق ہے کہ اب آکر Equation بدلی ہے.ایک زمانہ تھا کہ جاپان کہا کرتا تھا کہ ہماری گھڑی سوئٹزر لینڈ کے مقابل کی ہے.اب تم یہ کہہ رہے ہو کہ ہماری گھڑی جاپان کے برابر کی ہے.لیکن اس کے باوجود قیمت اس کی زیادہ ہے.

Page 38

مشعل راه جلد سوم 34 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی جاپان والی کی قیمت کم ہے.غرض علم کے ہر میدان میں جہاں وہ داخل ہوئے ہیں وہ آگے بڑھ گئے ہیں.آج حکمت احمدیت کے سپرد ہوئی ہے پس احمدی کیوں یہ کام نہیں کرتا.نقالی علم میں بری چیز نہیں ہے.علم میں تو نقالی قابل تعریف ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ کے لیے یتعلیم دی ہے.الحِكْمَةُ ضَالَّةُ المُؤْمِن.حکمت تو مومن کی گمشدہ چیز ہے.وہ اس بات سے نہ شرمائے کہ میں کسی کی اچھی بات میں نقالی کیوں کروں.اچھی بات میں مومن نقالی کے لئے ہی پیدا کیا گیا ہے.وہ یہ سمجھے کہ یہ میری چیز تھی.کیسی عجیب تعلیم ہے.آگے بڑھنے کے لئے اکسیر کا حکم رکھتی ہے.ایسے پیارے رنگ میں انگیخت کیا.فرمایا کہ وہ حکمت تو تمہاری چیز تھی.خدا نے تو حکمت تمہارے ساتھ وابستہ کر دی تھی.تم سے کھوئی گئی ہے.تم بے پرواہ ہو گئے ہو.کسی اور قوم نے اختیار کر لی.شرمندگی جو ہے وہ تو ہے لیکن چونکہ تمہاری اپنی چیز تھی اس کو لے لو اس میں انقباض نہ کرنا یا تر و دنہ کرنا.پس آج حکمت احمدیت کے سپرد ہوئی ہے.آج اللہ کی آنکھ میں حکمت احمدیت کی لونڈی ہے.اگر یہ آپ کے ہاتھ سے نکلی ہے اور دنیا میں در بدر پھر رہی ہے تو جہاں ملتی ہے آپ اس کو حاصل کریں.یہ آپ کی ملکیت ہے.لیکن آئندہ پھر غافل نہیں ہونا.آئندہ اس کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا.پھر یہ ہو کہ لوگ آپ سے عاریہ حکمت مانگیں.آپ کی حکمت کی خیرات کھائیں کیونکہ جس کی ملکیت ہے وہ حق رکھتا ہے کہ آگے تقسیم کرے.یہ تو نہیں کہ ملکیت آپ کی ہے اور ساری ملکیت گم شدہ ہو اور آپ ویرانوں میں در بدرگھومتے پھرتے ہوں کہ کہیں سے میری گم شدہ چیز مل جائے.یہ نقشہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کھینچا تھا.نقشہ یہ تھا کہ تم مالک ہو.اکثر صورتوں میں حکمت تم سے پھوٹ رہی ہے.میں مان لیتا ہوں کہ کہیں ا گا دگا کوئی اور حکمت میں تم سے آگے نکل جائے تو وہاں بھی میں تمہیں بتاتا ہوں کہ یہ تمہاری چیز ہی تھی.غلطی ہو گئی ہے تم سے غفلت ہوگئی ہے کہ وہ کسی اور کے قبضہ میں چلی گئی ہے.غرض اگر احمدی انجینئر اپنے آپ کو اپنے دائرہ میں فعال کرے، احمدی آرکیٹکٹ اپنے دائرہ میں فعال کرے تو روز بروز اس کے سامنے نئے سے نئے نقشے کھلتے جائیں گے.سوچ کے نتیجہ میں نئی سے نئی چیزیں پیدا ہوتی ہیں.چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں ان میں نقالی شروع کریں.خود چیز میں بنائیں اس سے پھر

Page 39

مشعل راه جلد سوم 35 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ تجربہ حاصل ہوتا ہے.تجربہ سے پھر آہستہ آہستہ روشنی بڑھتی ہے.پھر حوصلہ پاکر آگے بڑھے گا.پھر نئی چیزیں ایجاد کرے گا.جتنا سامان پاکستان میں امپورٹ ہوتا ہے.اگر احمدی انجینئر اپنی ذمہ داری ادا کرے تو دوسرے ملکوں میں یہاں سے ایکسپورٹ ہونے لگے.کیا وجہ ہے، آخر جاپان کو آپ کے اوپر خدا نے کونسی فوقیت دی ہے کہ وہ نقالی کرے اور لوگوں کو اپنی نقالی پر مجبور کر دے.کور یا نقالی کرے اور پھر دنیا کو اپنی نقالی پر مجبور کر دے.لیکن آپ نقالی کی بھی جرات نہ کریں.قومی سطح پر یہ بہت خطرناک حالت ہے.ہمارے ایک انجینئر نے ایک چھوٹی سی چیز بنائی ہے آج اس کا نمونہ مجھے دکھایا.میرا دل بہت خوش ہوا.میں نے کہا چلو کسی نے آغا ز تو کیا.ہمارے خلیق عالم صاحب فاروقی یہاں بیٹھے ہوئے ہیں.انہوں نے Dimmer میں کسی کی نقل اتاری ہے.لیکن جس طرح جاپان کا شیوا تھا کہ نقالی کرتے تھے اور پہلے سے بہتر بنا لیتے تھے.ان کا بھی یہ دعوی ہے.خدا کرے کہ سچا ہو کہ ہے تو یہ نقالی لیکن جن کی نقالی کی گئی ہے ان سے اس لحاظ سے بہتر ہے کہ باقی فیوز ہو جاتے ہیں اور یہ فیوز نہیں ہوتا.Dimmer ایک بڑی مفید چیز ہے.جس کو توفیق ہو بلکہ جس کو توفیق نہ بھی ہو وہ ضرور لے.کیونکہ یہ خرچ بچاتا ہے پچپن روپے کا اگر Dimmer مل جائے اور دو تین سال چلے تو کئی پچپن روپے اخراجات میں بیچا جائے گا.اس سے دوطرح سے بچت ہوتی ہے.ایک تو یہ کہ مثلاً آپ کو پڑھنے کی لئے تیز بلب چاہیے.لیکن عام روز مرہ کے کام کے لئے تیز روشنی نہیں چاہیے.تو آپ اگر Dimmer لگا لیں گے تو اپنی آنکھوں کے مطابق جتنی روشنی چاہیں، وہ سہولت سے بنا سکتے ہیں.زیرو واٹ سے شروع کر کے 500 واٹ تک روشنی آپ کے قبضہ میں آجاتی ہے.بعض کھانا ہلکی روشنی میں کھانا پسند کرتے ہیں وہ ہلکی روشنی کر سکتے ہیں.بعض دفعہ گھر میں بیٹھے باتوں کے دوران چائے کی پیالی پیتے ہوئے ہلکی روشنی پسند کرتے ہیں وہاں ہلکی روشنی کر سکتے ہیں اور جب پڑھنا ہو تو اس کو تیز کر سکتے ہیں.جب سونا ہو تو اس کو زیرو پر لے جائیں وہی Night Light بن جاتی ہے.تو کتنے اخراجات کی کمی ہے.اور آج کل تو شاید اچھا بلب ہی 15-20 روپے کا آتا ہے.اور اس سے بلبوں کا فیوز ہو جانا بھی بند ہو جاتا ہے.اور اس کے علاوہ ،سوائے اس کے کہ کوئی خاص بلب پاکستان میں بنتے ہوں جنہوں نے ہر حالت میں فیوز ہونا ہے.ان کی تو کوئی ضمانت نہیں لیکن اگر دنیا کے نارمل بلب ہوں تو Dimmer سے ان کو فائدہ پہنچتا ہے.کیونکہ بجلی کی رو میں Fluctuation یعنی اتار چڑھاؤ کا بہت سارا بوجھ Dimmer اپنے اوپر لے لیتا ہے.تو بہت سے فوائد ہیں.یہ چیز چھوٹی سی ہے لیکن انشاء اللہ تعالیٰ جب عام ہوگی تو اس کا بہت فائدہ پہنچے گا.شکر ہے کہ ایک

Page 40

36 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم احمدی کو تو فیق ملی اور تھوڑ اسا قدم اٹھایا.تھوڑے قدم آگے برکتوں کا موجب بنتے ہیں.آپ کو یہ تو کوئی نہیں کہہ رہا کہ ایک دم موٹر کار بنانے لگ جائیں اور وہ بھی رولز رائس بنانی شروع کر دیں.کیونکہ اس پر بڑا وقت لگے گا.لیکن اگر آپ ایک ٹائر بنانا بھی سیکھ جائیں تو بڑی چیز ہے.لیکن کچھ نہ کچھ بنانا شروع کریں.شروع کئے بغیر منزل آگے طے نہیں ہوسکتی.جو گھر میں بیٹھا ہوا ہے اس بیچارے نے کیا کرنا ہے.جس نے Attempt یعنی ہمت اور کوشش کی ہو اس کو کچھ ملتا بھی ہے.اگر کوئی Attempt ہی نہ کرے تو اسے کیا حاصل ہوسکتا ہے.یہ تو ویسے ہی بات ہے جس طرح حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے ایک دفعہ واقعہ سنایا کہ میرے پاس عربی کے پرچے آیا کرتے تھے.ایک صاحب دس بارہ سال سے امتحان دے رہے تھے ، ہر دفعہ فیل ہو جاتے تھے.اور پر چہ میں ان کا پہچانتا تھا.پرچہ دیکھتے ہی مجھے پتہ لگ جا تا تھا کہ اس بیچارے کا پر چہ آ گیا ہے.کہتے ہیں آخری دفعہ جو پر چہ آیا اس پر اس نے ایک بہت ہی درد ناک کہانی لکھی اور اس نے کہا کہ خدا کے واسطے جس طرح بھی ہو صدقہ رسول کا دیتا ہوں جو مرضی کریں مگر مجھے اس دفعہ پاس ضرور کر دیں ورنہ میں گیا.تو حضرت میاں صاحب فرماتے تھے کہ میں نے سوچا کہ اب اگر اس کو میں پاس کروں.نمبر کھلے دے دوں.اور باقیوں کو نہ دوں تو پھر یہ نا انصافی ہو جائے گی.تو میں اس کی خاطر سارا ہاتھ کھلا کر لیتا ہوں.چنانچہ میں نے سب کے لئے ہاتھ کھلا کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے پرچہ کی نمبرنگ شروع کی.کمز ور بھی تھا اس کو 10/10 نمبر دینے شروع کیے.اب پاس ہونے کے لئے کل پچاس نمبر چاہئیں تھے اس نے 23 نمبر کا پرچہ Attempt کیا ہوا تھا.فرماتے ہیں بڑی مصیبت میں پڑ گیا کہ اب کروں تو کیا کروں.23 نمبر میں سے 50 تو میں نہیں دے سکتا تھا.پس ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کوشش ہی نہیں کرتے.ظاہر ہے جو آدمی Attempt ہی نہ کرے اس کے لئے آگے رستہ کیسے نکل سکتا ہے اس لئے آپ Attempt تو کریں.کوئی خراب چیز بنائیں.کچھ کمزور بنا ئیں.دوسروں سے ناقص بنالیں لیکن احمدی کی بنی ہوئی چیز ہو دیکھ کر مزا تو آئے.آپ نے بچوں کو نہیں دیکھا وہ اپنی روٹی پکاتے ہیں.جلی ہوئی بھی ہو تو بڑے شوق سے کھا لیتے ہیں اور ماں باپ کی اچھی پکی ہوئی روٹی میں کیڑے نکالتے ہیں اور ایسی روٹی بھی جو کچی ہو یا جلی ہوئی ہو عموماً ان کی ایسی ہی ہوتی ہے کچھ کچی ہوتی ہے کچھ جلی ہوئی ہوتی ہے اور ماں باپ منع کرتے رہتے ہیں کہ پیٹ میں درد ہو گا ) پھر بھی وہ کھاتے ہیں اور کہتے ہیں بہت اچھی پکی ہوئی ہے اور پھر زبر دستی ماں باپ کو بھی کھلاتے ہیں.تو آپ کچی یا جلی جیسی بھی ہو کچھ کریں تو سہی اور ساتھ مجھے بھی دکھا ئیں

Page 41

37 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم میں بھی آپ کے ساتھ لطف اٹھاؤں گا.بہر حال احمدیت کے قافلہ کو ہر منزل میں قدم آگے بڑھانے چاہئیں.ہر میدان میں آگے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے.پس ایک یہ لائن ہے جس میں قریباً صفر کے برابر حال ہے.کوئی اپنی لائن میں یا اپنے مضمون میں غیر دنیا پر سبقت لے جانے کی کوشش ہی نہیں کر رہا.اب مثلاً آرکیٹکٹ ہیں.میں نے بیرونی دنیا میں دیکھا ہے آرکیٹکٹ بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور ایسے ایسے عجیب نقشے بنا رہے ہیں کہ ان کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ پہلے دماغ میں یہ نقشہ کیوں نہیں آیا.Genius کی ایک بڑی اچھی تعریف یہ کی گئی ہے.ایک تعریف کے مطابق Genius اس کو کہتے ہیں جو Obvious بات کو محسوس کر رہا ہے ، جس کو دنیا کا کوئی آدمی محسوس نہ کرتا ہو.ہو Obvious لیکن اور کسی کو نہ پتہ لگے، اس کو پتہ لگ جائے.تو ایسی Obvious باتیں ہیں.بعض زاوئیے صرف بدلے ہیں.اس سے عمارت کی کیفیت ہی پلٹ گئی ہے.حیرت ہوتی ہے کہ انجینئر ز نے پہلے کیوں نہیں یہ زاویئے سوچ لئے.ماحول سے Ideas سیکھیں پس جس کا دماغ زندہ رہے گا تازہ تازہ مضمون اس میں پڑتے رہیں گے.وہی کامیاب ہوگا.لیکن اگر سو جائیں جس طرح بعض دوست تقریب میں اس سے پہلے جوانٹروڈکشن ہوئی تھی اس میں سورہے تھے تو ان بیچاروں کو کیا پتہ لگے گا کہ کیا اعداد وشمار پڑھے جا رہے ہیں اور کیا ہورہا ہے.اس لئے زندگی میں بھی باشعور رہیں.جاگتے ہوئے وقت گزار ہیں.ماحول کو دیکھیں اس سے Ideas سیکھیں.پھولوں کو دیکھیں ان سے حسن سیکھیں حسن کی ادائیں معلوم کریں حسن میں ایک رنگوں کا امتزاج ہے جو بہت بڑا کردارادا کرتا ہے تو آرکیٹکٹ رنگوں کی آمیزش کو پھولوں سے سیکھ سکتا ہے.تتلیوں سے سیکھ سکتا ہے.نئے نئے تجربے کر سکتا ہے.جرات ہونی چاہیے.نئے تجر بہ کے لئے دل میں لگن ہونی چاہیے پھر سب کچھ ممکن ہے.ہر مضمون میں جتنے بھی شعبے ہیں وہ سب میرے پیش نظر ہیں.ایسا لگتا ہے بس سوئے سوئے سے زندگی گذار رہے ہیں.اپنے دفتر میں روز مرہ کا کام کیا.گھر واپس آگئے اور سمجھ لیا کہ سارا کام ٹھیک ہو گیا.یہ زندگی نہیں ہے.

Page 42

مشعل راه جلد سوم 38 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی زندگی وقت کے ایک با مقصد مصرف کا نام ہے زندگی وقت کے ایک با مقصد مصرف کا نام ہے جب یہ زندگی میسر آ جائے تو انسان ہر طرف سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بن جاتا ہے اور خود لطف اٹھاتا ہے.چنانچہ نیوٹن کے نوکر نے نیوٹن کے متعلق بیان کیا کہ اس نے نیوٹن کو کبھی سوئے ہوئے نہیں دیکھا.لوگ اس کو ز بر دستی پکڑ کر کہیں تقریر کے لئے لے جائیں تو لے جائیں ورنہ وہ دن رات کام کرتا رہتا تھا.ہم رات کو سوتے تھے وہ جاگ رہا ہوتا تھا.صبح ہم اٹھتے تھے تو وہ اٹھا ہوا ہوتا تھا.یا کتا بیں تھیں یا تجربے تھے جن میں دن رات لگا رہتا تھا.تیسری چیز تو اس میں کو ئی تھی ہی نہیں.ایسا کیوں تھا.وہ محض محنت نہیں کر رہا تھا اس کو ان چیزوں میں مزہ آرہا تھا اور یہی زندگی کے بالذت ہونے کا نسخہ ہے.زندگی با مقصد ہو جائے اور اس مقصد کے تابع خرچ ہونے لگے تو لطف آنا شروع ہو جاتا ہے.دنیا بجھتی ہے کہ وہ مصیبت میں پڑا ہوا ہے، اتنا وقت دے رہا ہے تھک جائے گا.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس کو زندگی کے ہر اس لمحہ میں مزہ آ رہا ہوتا ہے جو زندگی کے اس مقصد کی پیروی میں خرچ کرتا ہے اس سے ہٹ کر جو زندگی کا لمحہ ہوتا ہے اس میں وہ بور ہورہا ہوتا ہے.اب لوگ مسجد میں جا کر بور ہو رہے ہوتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد سے نکل کر بور ہوتے تھے.بعض روایتوں میں آتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل مسجد میں انکا ہوتا تھا.بوریت کا یہی مطلب ہے.باہر دل نہیں لگتا تھا.جب وقت ملتا تھا کا موں سے فراغت ملتی تھی تو مسجد میں جا کر دل لگ جا تا تھا.تو یہ صرف زاویہ نظر کے اختلاف کی بات ہے.کام اپنی ذات میں لذت ہے اگر مقصد کے تابع ہو جائے.اس لئے مقصد بلند کریں اپنی ہمتوں کو بلند کریں.انفرادی طور پر بھی Productive ہوں اور مضامین کے سلسلہ میں بھی سرگرم ہوں.آپ کے جو رسالے نکل رہے ہیں ان میں بھی اور اپنی مجالس میں بھی آپ ایسے مضامین پڑھیں جود ماغوں کو انگیخت کریں.سائنسدانوں کے حالات پڑھیں مثلاً سائنسدانوں کی زندگیوں کے حالات ہیں یہ کیوں نہیں بار بار پڑھتے.میرا خیال ہے آپ میں سے اکثر ایسے ہوں گے جنہوں نے تعلیم سے فراغت کے بعد اس بات میں دلچسپی لینی چھوڑ دی کہ ہماری برادری کے سائنس دانوں پر کیا گزری کسی زمانہ میں کیا ہوا، کس طرح وہ آگے نکلے، ان کی

Page 43

39 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم کیا مشکلات تھیں.حالانکہ جب آپ ان کے حالات پڑھیں گے تو وہ حالات پڑھتے پڑھتے ہی اللہ تعالیٰ آپ کے ذہن کی کھڑکیاں بھی ساتھ ساتھ کھول رہا ہوگا.کئی جگہ آپ کی نظر وہاں سے ہٹ جائے گی اور خیال میں ایک اور فلسفہ جنم لینے لگ جائے گا.پس آپ اپنے فن سے اپنے آپ کو باتعلق رکھیں.اس کے بہت سے ذریعے ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ پرانے اور نئے سائنس دانوں کی زندگی کے حالات پڑھیں.اس کے علاوہ آج کل دنیا میں نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں، ان پر پیپر پڑھیں.آپس میں تبادلہ خیال کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.زندگی نام ہی کام کا ہے اس سلسلہ میں آپ کی مجلس عاملہ کا ایک بہت بڑا کردار ہے جو اس کو ادا کرنا چاہیے.مجلس عاملہ ایک سے زیادہ دفعہ اجلاس منعقد کرے اور یہ جائزہ لے کہ ہمارے انجینئر بھائی Active میں بھی یا نہیں اور بار بار ان کی نگرانی کی جائے.اسی طرح غیر ملکوں میں احمدیوں کی بہت بڑی تعداد آپ کی ایسوسی ایشن میں شامل نہیں ہے.رپورٹ میں کمپیوٹر کے سپیشلسٹ جو بتائے گئے ہیں وہ غالباً تین ہیں حالانکہ صرف انگلستان میں ان کی تعداد اس سے زیادہ ہے.میں ان سے مل چکا ہوں.Hardware میں بھی خدا کے فضل سے بہت ہیں.تین تو میں نے وہاں گئے تھے اور ابھی سارے مجھ سے مل بھی نہیں سکے تھے.چار یا پانچ Software کے سپیشلسٹ ہیں.غرض احمدی انجینئر ز کی بڑی بھاری تعداد ہے جو مختلف ملکوں میں آپ سے کٹ کر الگ بیٹھی ہوئی ہے.ان سب کو ایسوسی ایشن میں شامل کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.زندگی کے بہت بڑے کام ہیں.زندگی نام ہی کام کا ہے اس لئے آپ اس بات سے نہ گھبرائیں کہ ہمارے پاس پہلے ہی کام زیادہ ہیں اب ایک اور کام مل گیا.آپ کو تو یہ سوچنا چاہیے کہ دلچسپیاں کم تھیں ایک اور دلچسپی مل گئی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه 22 فروری 1983ء)

Page 44

مشعل راه جلد سوم 40 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 45

مشعل راه جلد سوم 41 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے افتتاحی خطاب فرمودہ 15 اکتوبر 1982ء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا کلام یا دکریں دین کی جان محبت اور عشق میں ہے کسی نوع کی بھی دل آزاری ہمارے احمدی خدام کی طرف سے ظاہر نہیں ہونی چاہیے ہو ہمیں اپنے وطن سے محبت ہے چاہیے ہم نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو پکڑا ہے...ایک لمحہ کے لئے بھی اس دامن کو نہیں چھوڑنا احمدیت مستقل قربانیوں کا ایک لائحہ عمل ہے

Page 46

مشعل راه جلد سوم 42 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 47

مشعل راه جلد سوم 43 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوّ ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- حال ہی میں مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ توفیق عطا ہوئی کہ بیت سپین کے تاریخی افتتاح کا اعلان کرتا.اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت بھی بخشی کہ ہر جگہ اس کے فضلوں کے بے شمار رنگ ظاہر ہوتے ہوئے دیکھے.جس طرح بارش میں قطرے گرتے ہیں اس طرح ہر طرف سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی برسات ہوتی ہوئی دیکھی.اس تصور سے دل حمد سے بھر جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جب دل حمد سے بھر جائے تو چھلکنے بھی لگتا ہے.اس کیفیت میں جب آج حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نظم سنی تو دل کی جو حالت ہوئی وہ نا قابل بیان ہے.کوئی الفاظ نہیں جن میں اس کیفیت کو بیان کیا جا سکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پاکیزہ منظوم کلام یا دکریں کیسی پیاری راہ حمد کی ہمارے لئے آپ نے معین کر دی ہے.انکساری اور عاجزی کی کیسی حسین شاہراہ ہمارے لئے کھول دی ہے.یہ وہی شاہراہ ترقی (دین حق ) ہے جس پر چل کر ہمیں فتوحات نصیب ہوں گی.یہ وہی رستہ ہے جس رستے سے خدا ملتا ہے.بے شمار رحمتیں ہوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر کہ جنہوں نے انانیت کی ساری راہیں بند کر دیں اور عاجزی کی ساری راہیں کھول دیں.ایک ایک شعر، ایک ایک مصرعہ، ایک ایک لفظ سچائی میں ڈوبا ہوا ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا کلام ہی آپ کی سچائی کی دلیل ہے.کوئی سعید فطرت انسان اگر اس کلام کو سنے تو ممکن نہیں ہے کہ وہ اس کلام کے کہنے والے کے حق میں اس کی سچائی کی گواہی نہ دے.حیرت انگیز طور پر پاکیزہ جذبات عشق میں ڈوبا ہوا یہ کلام سن کر روح پر وجد طاری ہو جاتا ہے.جب یہ کلام پڑھا جارہا تھا تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ احمدی نوجوان جو یہ کہتے ہیں کہ ہم دعوۃ الی اللہ

Page 48

مشعل راه جلد سوم 44 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کیسے کریں؟ ہمیں دلائل یاد نہیں ، ہمیں ملکہ نہیں کہ مناظرہ کر سکیں ، ہمیں عربی نہیں آتی ، ہمیں استدلال کا طریق معلوم نہیں، میں سوچ رہا تھا کہ انہیں اس سے زیادہ اور کس چیز کی ضرورت ہے کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود کا کلام یا دکریں اور درویشوں کی طرح گاتے ہوئے قریہ قریہ پھر میں اور اسی کلام کی منادی کریں اور دنیا کو بتائیں کہ وہ آگیا ہے جس کے آنے کے ساتھ تمہاری نجات وابستہ ہے.ایسا پر اثر کلام، ایسا پاکیزہ کلام ، ایسا حکمتوں پر مبنی کلام، خدا کی حمد کے گیت گا تا ہوا ایسا کلام جس کے متعلق بے اختیار یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ ؎ آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے حقیقت یہ ہے کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود نے یہ شعر کہا ہوگا تو یقینا اور لازماً آسمان پر ملائکہ بھی آپ کے ہم آواز ہو کر یہ شعر گارہے ہوں گے اور وہ ساری حمد آپ کے پیچھے پڑھ رہے ہوں گے جو خدا کی حمد میں آپ نے اظہار محبت اور عشق کیا.حقیقت یہ کہ ہے ( دین حق ) کی جان محبت ہے.دین کی حقیقت عشق ہے.وہ دین جو محبت اور عشق سے عاری ہے اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں.نہ وہ زندہ رہنے کے لائق ہے ، نہ وہ زندہ رکھنے کے قابل ہے.روح ہے زندگی کی اور ادیان کا فلسفہ اس بات میں مضمر ہے کہ خدا سے محبت کی جائے اور ایسی محبت کی جائے کہ دنیا کی ہر چیز پر وہ محبت غالب آ جائے.کوئی وجو د اس سے زیادہ پیارا نہ رہے.کوئی ساتھی اس سے زیادہ عزیز تر نہ ہو.یہ محبت جب زندگی کے ہر دوسرے جذبے پر غالب آجاتی ہے تو اس وقت وہ لوگ پیدا ہوتے ہیں جنہیں خدا نما وجود کہا جاتا ہے.یہی سب سے بڑا ہتھیار ہے جس سے دنیا کے قلوب فتح کئے جائیں گے.یہی وہ ہتھیار ہے جس نے بہر حال غالب آنا ہے.ہمارا پیغام محبت چنانچہ جب میں پین گیا تو ان لوگوں کے دل میں بھی کئی قسم کے توہمات تھے.وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید ہمیں Moors کی طرح جنہوں نے پہلے فتح کیا تھا، دوبارہ کسی قوت کے زور سے، کسی ہوشیاری سے، کوئی سکیم بنا کر فتح کرنے کے ارادے ہیں.اسی لئے میں نے اپنے پیغام میں اس بات کو خوب کھول دیا اور

Page 49

مشعل راه جلد سوم 45 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی واضح کر دیا کہ محبت کے سوا ہم اور کوئی پیغام لے کے نہیں آئے.ایک موقع پر ایک پریس کے نمائندے نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ آخر کیا کرنے آئے ہیں ؟ اس مقصد کو واضح تو کریں.میں نے ان سے کہا کہ ہم یہ کرنے آئے ہیں کہ تلوار نے جس ملک کو مسلمانوں سے چھینا تھا ، محبت سے ہم اس ملک کو دوبارہ فتح کر لیں.اس کے سوا ہما ر کوئی مقصد نہیں ہے.اور یہ پیغام ایسا ہے جس پیغام کا مقابلہ دنیا میں کسی طاقت کے بس کی بات نہیں.جب سے انسان دنیا میں پیدا ہوا ہے، مذاہب کی تاریخ پر آپ نظر ڈالیں ، محبت ہمیشہ جیتی ہے اور نفرت ہمیشہ ہاری ہے.یہ ناممکن ہے کہ اس اٹل تقدیر کو دنیا کی کوئی قوم بدل سکے.خدام احمدیت اس لئے خدام احمدیت بھی محبان احمدیت ہونے چاہئیں ، عاشقان احمدیت ہونے چاہئیں.ان کے دل میں ولولے ہوں پیار اور محبت اور عشق کے.کیونکہ اس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی طاقت نہیں اور اس کے سوا ہم دنیا کو فتح کرنے کا کوئی اور ذریعہ اپنے ہاتھ میں نہیں پاتے.ایک موقع پر بریڈ فورڈ (انگلستان) میں ایک اخباری نمائندے نے مجھ سے ایک سوال کیا.وہ ایسی نوعیت کا سوال تھا.خصوصاً اس پہلو سے اس نے اپنی مطلب براری چاہی کہ آپ محبت کا پیغام تو دیتے ہیں مگر آپ یہ بتائیں کہ جن لوگوں نے آپ پر مظالم کئے ہیں اور شدید مظالم کئے ہیں ان کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے؟ میں نے ان کو بتایا کہ ان کے لئے بھی ہمارے دل میں سوائے پیار اور محبت اور رحمت کے اور کوئی جذ بہ نہیں.جب میں یہ کہہ رہا تھا تو اس وقت مجھے ایک پرانی رؤیا یاد آئی جس میں بعینہ یہی مضمون بیان کیا گیا تھا.لیکن فی الحال اس وقت میں اس کو آپ کے سامنے بیان نہیں کروں گا.میں نے وہ رویا جب اس کے سامنے بیان کی تو اس کے چہرے پر اطمینان ظاہر ہوا اور بے اختیار سارے تر و داور شک کے بادل چھٹ گئے اور پوری طرح مطمئن ہو کر اس نے پھر مزید باتیں دریافت کیں اور رنگ بدل گیا اور شک کی بجائے اس کی آنکھوں میں بھی میں نے محبت کے آثار دیکھے.تو حقیقت یہ ہے کہ محبت ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے مقابل پر دنی نے کبھی کوئی ہتھیار نہ ایجاد کیا ہے، نہ کر سکتی ہے.اس نے لاز ما فتحیاب ہونا ہے.

Page 50

46 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم اس لئے ہم جو آج نفرتوں کی آندھیوں میں گھرے ہوئے ہیں، ہم جو آج ایسی کمزور حالت میں اپنے آپ کو پاتے ہیں کہ جو قدم ہم اٹھا ئیں وہ بغض اور نفرت پیدا کرنے کا موجب بن جاتے ہیں.جو نیکی ہم کریں وہ فتنہ و فساد شمار کی جاتی ہے.جو خدمت دین حق کے لئے ہم اقدام کریں اسے انتہائی حسد اور بغض کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.اس ساری صورت حال کا علاج بھی یہی ایک لفظ ”محبت ،، ہے.کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا نے ہمیشہ محبتوں سے نفرتوں پر فتح پائی ہے.اسے جتنی مرتبہ بھی میں بیان کروں کم ہے.میں یہ بات خاص طور پر اس لئے آج آپ کے سامنے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ( بیت الذکر ) سپین کا یہ با برکت اقدام جس کی توفیق اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطافرمائی محض اپنے فضل کے ساتھ.اس نے بھی بعض دلوں میں بغض اور نفرت پیدا کر دی.حیرت انگیز بات ہے.انسان بظا ہر سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک نیک کام کے نتیجے میں نفرت کیسے پیدا ہوسکتی ہے.رشک تو پیدا ہوسکتا ہے، یہ افسوس اور حسرت تو پیدا ہو سکتے ہیں کہ کاش! ہم یہ کام کرتے لیکن نیک کام کے نتیجے میں نفرت پیدا ہونا عقل انسانی کے خلاف ایک مظاہرہ ہے.یہ واقعات بھی ہم سے گزر رہے ہیں اور خطرہ ہے کہ نوجوان جو اپنے اندر گرم خون رکھتے ہیں وہ کسی وقت بے اختیار ہو جائیں اور ان منافرانہ جذبات سے مغلوب ہو کر وہ بھی کوئی ایسا کلمہ دل سے نہ نکال دیں جو اپنے اندر تلخی رکھتا ہو.اس لئے تمام نو جوانوں کو میں خصوصیت کے ساتھ یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ نے ہرگز کسی رنگ میں بھی دل آزاری نہیں کرنی.آپ کے عہد بیعت میں یہ الفاظ داخل ہیں کہ میں کسی کا دل نہیں دکھاؤں گا.اس لئے کسی نوع کی بھی دلآزاری ہمارے احمدی خدام کی طرف سے ظاہر نہیں ہونی چاہیے.جو بری بات کہتا ہے، جو تلخ بات کہتا ہے، جو نفرت کی نگاہ سے آپ کو دیکھتا ہے اس کے سامنے عجز کا اظہار کیجئے ، گر جائیے ، بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کیجئے ، معافی مانگیے.اس سے کہیں ہمارا مقصد ہرگز دل آزاری نہیں تھا.ہمیں اپنے وطن سے محبت ہے یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ملک کی فضا مختلف عوامل کی وجہ سے خراب ہوتی چلی جا رہی ہے.ہمیں اپنے وطن سے محبت ہے.ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہم اس محبت میں سب سے پیش پیش ہیں.قطع نظر اس کے کہ وطن ہم سے کیا سلوک کرے، ہم بہر حال اس وطن کے لئے ہر خطرے میں انشاء اللہ سب سے آگے کھڑے ہوں گے.ہر وہ تیر جو اس وطن کی طرف چلایا جائے گا احمدیوں کی چھاتیاں سب سے

Page 51

47 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم آگے ہوں گی ان تیروں کو لینے کے لئے.اس لئے کسی رنگ میں بھی احمدی نوجوان کو کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا جس کے نتیجے میں وطن کے سکون اور امن کی فضا کسی رنگ میں بھی خراب ہو.وہ تیر چلاتے ہیں تو آپ تیر چلنے دیں.کیونکہ وہ تیر آپ کی طرف نہیں بلکہ آپ کے دین کی طرف چلائے جارہے ہیں.تیر آپ کی طرف نہیں بلکہ اس خدا کی طرف چلایا جارہا ہے جس خدا کے آپ بندے ہیں.اس لئے ان تیروں کا نگہبان ہمارا خدا ہوگا ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں.ہمارا فیصلہ آسمان کے دربار میں ہے.ہمارا فیصلہ آسمانی دربار میں ہے اور خدا جو خیر الفاتحین ہے وہی یہ فیصلہ کرے گا کہ آج کی دنیا میں کون حق پر تھا اور کون باطل پر تھا.کس کا کردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کا سا کر دار تھا اور کس کا کردار محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کا سا کر دار تھا.اس لئے یہ فیصلہ ہم اپنے رب کے سپر د کر چکے ہیں.ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس کے بعد ہم پر کیا گزرتی ہے.ہم اپنے رب کے حوالے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ نعم المولیٰ اور نعم الوکیل ہے.اس سے بہتر نہ کوئی مولا ، نہ کوئی آتا ہے.نہ اس سے بہتر ہمارا کوئی نگران اور متوتی ہوسکتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں اپنی باگ ڈور پکڑا کر اس بات سے کلیۂ بے نیاز ہو جائیں کہ آپ پر کیا گرزتی ہے.حضرت مصلح موعود نے بڑے ہی پیارے رنگ میں ایسے ہی درد کے موقعوں پر نصیحتیں فرمائی ہیں.آپ فرماتے ہیں.وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں یہ کیا ہی سستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو تم دیکھو گے کہ انہیں میں سے قطرات محبت ٹپکیں گے بادل آفات و مصائب کے چھاتے ہیں اگر تو چھانے دو اس لئے یہ پیغام ہے آپ کو.اس کو ہرگز نہ بھلا ئیں.ایک لمحہ کے لئے بھی اس بات سے غافل نہ ہوں کہ ہم نے اپنا کوئی انتقام نہیں لینا.نہ بددعا کرنی ہے کیونکہ یہ بھی انتقام کا ایک ذریعہ ہے.سوائے خیر کی دعا کے ہمارے منہ سے کوئی کلمہ بھی قوم کے لئے نہیں نکلنا چاہیے.وہ جس حد تک زیادتی کرتے ہیں کرتے چلے جائیں، ان کا جو پیمانہ ہے زیادتی کا وہ بھرنے دیں اور چھلکنے دیں.لیکن جہاں تک ہماری ذات کا تعلق ہے ہم نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہی کا دامن پکڑا ہے اور اس دامن کو مضبوطی سے پکڑے

Page 52

مشعل راه جلد سوم 48 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ رہنا ہے ایک لمحہ کے لئے بھی اس دامن کو نہیں چھوڑنا.وہ دامن ہم سے کیا تقاضے کرتا ہے؟ وہ دامن ہمیں طائف کی یاد دلاتا ہے.کیسی حسین یاد ہے، کیسی پیاری یاد ہے ہر چند کہ درد سے بھری ہوئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک غلام کو لے کر ، مکہ سے مایوس ہو کر طائف کی بستی میں چلے جاتے ہیں.وہ ایک پہاڑی علاقہ ہے، پتھریلا ، سنگلاخ.لیکن جتنی وہ زمین سنگلاخ تھی اس سے زیادہ ان لوگوں کے دل سنگلاخ تھے جو وہاں بسا کرتے تھے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف امن کا پیغام لے گئے تھے، رحمت اور محبت کا پیغام لے گئے تھے ، کوئی دلآزاری کی بات آپ نے نہیں کی.ان کو خدائے واحد ویگانہ کی طرف آپ نے بلایا اور اس کے جواب میں آپ کو گالیاں دی گئیں ، آپ پر پتھر برسائے گئے.گلیوں کے اوباش اور لونڈے جھولیوں میں پتھر ڈال کر اس حال میں آپ کو وداع کہنے گئے کہ سر سے پاؤں تک آپ کا بدن لہولہان ہو چکا تھا.آپ کے جوتے خون سے بھر گئے تھے اور اس پھسلن کی وجہ سے چلنا دشوار ہورہا تھا.مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامل وقار کے ساتھ ، کسی جلدی میں نہیں ، بلکہ نہایت متانت کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے ، اس بستی کو دعائیں دیتے ہوئے اس حال میں باہر نکلے.باہر نکلے ، ایک تاکستان تھا اس کے کنارے آپ کستانے کے لئے بیٹھ گئے.دل کی عجیب کیفیت تھی.غم والم سے گداز دل تھا.ایسی حالت میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آسمان سے وہ فرشتہ نازل ہوا جو ملک الجبال تھا.یعنی وہ فرشتہ جسے پہاڑوں پر قدرت دی گئی تھی.اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! خدا آج بڑا غضبناک ہے.آپ کے ساتھ اس بہتی نے آج جو ظلم کا سلوک کیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ ایسا غضبناک ہے کہ اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر آج محمد مصطفی " چاہیں تو دو پہاڑوں کو جو بستی کے دائیں اور بائیں ہیں اس طرح ملا دوں کہ ہمیشہ کے لئے اس بستی کا نام ونشان مٹ جائے.وہ دل جس کے زخم ابھی تازہ تھے، جس کا خون ابھی بدن سے رس رہا تھا ، ابھی وہ خشک نہیں ہوا تھا، جب زخم تازہ ہوں وہ وقت ہوتا ہے انتقام کا، جب تازہ تازہ صدمہ پہنچا ہو وہ وقت ہوتا ہے بے صبری دکھانے کا.مگر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہماری جان ، ہمارے مال، ہمارے ماں باپ ، ہمارا سب کچھ فدا ہو، اس دکھ کی انتہائی حالت میں جب اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے، بغیر کسی بددعا کے ، اس قوم کو مٹانے کا فیصلہ فرمایا تو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ عرض کی کہ اے خدا! میں تو رحمت ہوں.مجھے تو بنی نوع انسان سے کوئی دشمنی نہیں.جو دکھ ہے وہ اپنی جان پر لوں گا.یہ آپ کی کیفیت تھی.عرض یہ کیا :- اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ نور اليقين في سيرة سيد المرسلین مولفہ محمد حضرتی بک ص 67)

Page 53

مشعل راه جلد سوم 49 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کہ اے میرے رب ! میری التجاء صرف یہ ہے کہ میری قوم کو ہدایت دے دے کیونکہ لاعلمی میں یہ سلوک کر رہے ہیں.ان کو یہ پتہ نہیں کہ کائنات کے مالک کا واحد نمائندہ آج ان کے پاس آیا ہوا ہے.ان کو معلوم نہیں کہ وہ آیا تھا جس کی خاطر دنیا کو بنایا گیا تھا.کسو لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الَّا فُلاكَ ( موضوعات کبیر ص 59) کے فلسفہ اور حقیقت سے یہ لوگ نا آشنا ہیں.کچھ پتہ نہیں کہ کس سے کیا سلوک کر رہے ہیں؟ اس لئے اے میرے اللہ ! جاہلیت کی باتیں ہیں تو ان کو معاف فرما.معاف ہی نہ فرما بلکہ ان کو ہدایت نصیب فرمادے اور ان کی نسلوں سے عبادت گزار بندے پیدا فرما.دیکھئے! دکھے دل کی دعا اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دکھے ہوئے دل کی دعا کیا رنگ لاتی ہے؟ چند سال کا عرصہ نہیں گزرتا کہ طائف کی ساری بستی مسلمان ہو جاتی ہے.وہ جو محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا خون بہانے والے تھے وہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک اسلام کی خاطر بہانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور پھر بھی وہ حسرتیں باقی رہ جاتی ہیں.وہ یا دحسرت بن کر دل میں کسکتی رہتی ہے کہ کیوں ہم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سلوک کیا؟ بڑی بڑی قربانیاں دیں ان لوگوں نے بعد میں.اسلام کی خاطر بے محابا اپنے خون بہائے ہیں لیکن وہ دھبہ پھر نہ مٹ سکا جو ظلم کا دھبہ تھا.اور قیامت تک طائف کے نام کے ساتھ اس ایک ظلم کی یاد وابستہ رہے گی جو ہزار ظلموں پر بھاری تھا.پس یہ ہیں ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.اے خدا! جب تک کائنات باقی ہے اور اس کے بعد بھی ، ہمیشہ ہمیش بے شمار در و داس رحمتہ للعالمین پر بھیجتارہ.بے شمار برکتیں آپ پر نازل فرماتا رہ.اپنے دکھ ہم برداشت کریں گے تیری خاطر اور تیرے اس محبوب کی خاطر جو ہمارا آقا ہے.اے اللہ ! تو اس قوم پر رحم فرما یہ نہیں جانتے کہ یہ کیا کر رہے ہیں.ہم تو سوائے ان کی بھلائی کے اور کچھ نہیں چاہتے.ان کے لئے رحمت کی دعاؤں کے سوا ہمارے قبضے میں کچھ نہیں ہے.ان کے ظلم کے نتیجے میں ہم سوائے اس کے کہ مغفرت کی دعائیں کریں اور کچھ نہیں چاہتے.تو ان کو ہدایت دے دے.مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کو شعار بنائیں صرف یہی نہیں بلکہ حضرت اقدس مسیح موعود کے اس شعر کو یاد کرتے ہوئے اپنے دل میں درد پیدا کر کے دعائیں کریں کہ ے

Page 54

مشعل راه جلد سوم 50 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کاخر کنند دعوى حب انوية حضرت اقدس مسیح موعود کو جب تکلیفیں پہنچائی گئیں اور انتہا کر دی گئی ایذاء رسانی کی اور دکھ پہنچانے کی.ہر قسم کی ، ہر نوعیت کی جذباتی جسمانی جو تکلیف بھی دشمن نے سوچی وہ آپ کو پہنچانے میں کمی نہ کی ،اس وقت اسی انتہائی دکھے ہوئے حال میں معلوم ہوتا ہے، آپ نے یہ شعر کہا ہے.دل جب دکھ سے بھر گیا تھا، جب چھلکنے کو تیار تھا، یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت جب انسان کے منہ سے بے اختیار بددعا نکل جاتی ہے، اس وقت ایک غالب ہاتھ نے ان جذبات کو روک دیا ہے اور آپ نے اپنے رب کے حضور یہ عرض کیا اور اپنے دل کو نصیحت کی کہ ے اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کاخر کنند دعوی م پیمبرم کہ یہ تو خیال کر کہ جس آقا کی محبت میں تو سرشار ہے، جس کے لئے تو سب کچھ فدا کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہے یہ اسی آقا کی محبت کا دعویٰ کرنے والی قوم ہے.اس آقا کی محبت کے صدقے ان کو معاف کر دے.اس آقا کی رحمت کے صدقے ان سے حسن سلوک فرما اور اس کے سوا ان کے لئے کسی بری بات کو کسی گوشہ میں جگہ دینے کا دھیان نہ کر کیونکہ تو محمد مصطفی " کے قدموں کا شار دل ہے جس میں رحمت کے سوا اور کوئی جذبہ نہیں پنپنا چاہیے.یہ وہ نصیحت ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنے دل کو کی اور اس کے نتیجے میں ایک دعا آپ کے دل سے نکلی.اس دعا کو ہر احمدی کو اپنا شعار بنانا چاہیے.حقیقت یہ ہے کہ دو مختلف ، متضاد دعویداران محبت آج دنیا میں پیدا ہو چکے ہیں.ایک وہ ہیں جو حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے ، اس محبت کے نتیجے میں ، اپنی دانست میں اتنا بڑھے ہوئے ہیں کہ یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لے.یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ حضرت محمد مصطفیٰ " کے نام کو بلند کرتے ہوئے کوئی انسان دنیا میں ( بیوت الذکر ) بنائے.یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو پھیلانے کے لئے تمام دنیا میں کوئی انسان دیوانوں کی طرح پھرتا چلا جائے اور سب کچھ شمار کرتا ہوا حضور

Page 55

51 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صداقت کا اعلان کرتار ہے.یہ عجیب محبت ہے.عجیب تقاضے ہیں اس محبت کے.ہمیں تو اس محبت کی کوئی سمجھ نہیں آتی.ہم تو اس محبت سے کلیہ نا آشنا ہیں.ہم تو یہ جانتے ہیں کہ اگر کسی سے محبت ہو تو دشمن بھی اس کی تعریف کرے تو دل اس دشمن پر فدا ہونے لگتا ہے.ہم تو صرف اس محبت سے واقف ہیں کہ اگر معاند سے معاند انسان بھی کسی کے محبوب کی تعریف کرنے لگ جائے تو دل اس پر نچھاور ہونے لگتا ہے اور اسے معاف کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے.آپ نے دیکھا نہیں کہ جب کوئی ماؤں سے معافی مانگنا چاہے تو بچوں پر نثار ہوا کرتا ہے.ان کے بچوں کو دعائیں دیتے ہیں فقیر.جانتے ہیں کہ ماں بچے سے سچی محبت کرتی ہے.اگر ہم نے اس کے بچے سے پیار کا اظہار کیا تو ماں کی منافرت پر ہماری یہ بچوں والی محبت غالب ہو جائے گی.کیونکہ ماں حقیقتاً اپنے بچے سے سچا پیار کرتی ہے.جو سچا پیار کرنے والا ہو وہ دوسرے کے پیار سے جلتا نہیں ہے.دوسرے کے پیارے سے دشمنی محسوس نہیں کرتا.دوسرے کے پیار کے نتیجے میں اپنی دشمنیاں بھلا دیا کرتا ہے.پس ہم تو صرف اس محبت سے آشنا ہیں.اس لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے اگر ہمیں سچی محبت ہے، اگر سچا پیار ہے تو اس کے نتیجے میں ہماری تو یہ کیفیت ہے کہ ان کو آتا ہے پیار پر غصہ ہم کو غصے پر پیار آتا ہے وہ اس بات پر نالاں ہیں، اس بات پر شکوہ کر رہے ہیں ، ناراض ہیں ہم سے ، معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ، کہتے ہیں قتل کردوان کو کہ محمد مصطفیٰ " کا نام محبت سے لے رہے ہیں.اس پیار پر ان کو غصہ آ رہا ہے کہ خدا کی خاطر یہ لوگ ( بیوت الذکر ) بنارہے ہیں.اپنے دل کی کیفیت یہ ہے کہ ہم کو غصے پہ پیار آتا ہے.اس غصے کو ہم پیار کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ بیچارے جاہل لوگ، نا سمجھ ، نافہم بظاہر جو کچھ بھی غلط کر رہے ہوں، دل میں یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر یہ کیا ہے.اس وجہ سے ہمیں ان پہ پیار آتا ہے.اسی وجہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا وہ شعر یاد آ جاتا ہے کہ اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کاخر کنند دعوى پیمبرم

Page 56

52 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کہ اے میرے دل ! بڑے ظلم ہوئے ہیں تجھ پر لیکن یہ بھی تو خیال کر کہ آخر میرے ہی محبوب محمد " کی محبت کے دعویدار ہیں یہ.اسی محمد " کی محبت کا دم بھر رہے ہیں یہ.اس لئے جو ظلم مجھ پر کرتے ہیں کر گزریں میں ان کو معاف کرتا چلا جاؤں گا.ی تعلیم ہے احمدیت کی.اس تعلیم پر ہم نے بہر حال قائم رہنا ہے.اس محبت کے اعلان میں جو محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا اعلان ہے، ہمیں اس بات کی کوئی بھی پرواہ نہیں کہ ہم پر دنیا کیا ظلم توڑتی ہے اور کیا کر گزرتی ہے.ہم وفادار رہیں گے اس محبت سے.قائم رہیں گے اس محبت پر.دائم اور ہمیشہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن سے چھٹے رہیں گے.کیونکہ یہ وہ محبوب ہے جس کی محبت کے بعد پھر دنیا کی کوئی پرواہ باقی نہیں رہتی.مستغنی ہو جاتا ہے انسان اس بات سے کہ دنیا کیا سلوک کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے اس محبت کے تقاضے پورے کرنے کی.یہ تقاضے بہت وسیع ہیں.یہ محض کوئی جذبات کا کھیل نہیں ہے.جہاں تک قربانیوں کا تعلق ہے میں جانتا ہوں اور پہلے بھی بارہا تاریخ اس بات کو آزما چکی ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن سے ، دنیا کا کوئی جبر اور کوئی استبداد، احمدی کا ہاتھ الگ نہیں کر سکتا.یہ اس قوت کے ساتھ محمد مصطفیٰ " کے قدموں پر پڑا ہوا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس ہاتھ کو جدا نہیں کر سکتی.لیکن جہاں تک مستقل قربانیوں کا تعلق ہے، مثبت رنگ کی قربانیوں کا تعلق ہے وہ ایک بالکل الگ مضمون ہے.محبت کے تقاضے وہاں بدل جاتے ہیں.وہاں انسان کو روز بروز اپنی زندگی میں تبدیلیاں پیدا کرنی پڑتی ہیں.وہ بہت مشکل مقام ہے.اس اول مقام پر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ ہمیشہ سے قائم ہے اور اس دوسرے مقام پر بھی بڑی شان کے ساتھ قائم رہی ہے.لیکن جہاں تک محبت کے دوسرے تقاضوں کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ کچھ کمزوریاں ظاہر ہونی شروع ہوگئی ہیں.محبت کے یہ تقاضے نماز کی طرف آپ کو بلاتے ہیں.محبت کے یہ تقاضے عبادت کا حق ادا کرنے کی طرف آپ کو بلاتے ہیں.محبت کے یہ تقاضے اس رنگ میں دعوۃ الی اللہ کی طرف آپ کو بلاتے ہیں جس رنگ میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ فرمائی.دن اور رات اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دین پر، اس کے پیغام پر فدا کرنے کی طرف آپ کو بلاتے ہیں.یہ ایسے تقاضے نہیں ہیں جو جذبات کے ایک ہنگامے میں انسان اپنی جان قربان کر دیا کرتا ہے.اپنے جذبات سے اتنا مغلوب ہو جاتا ہے بسا اوقات کہ

Page 57

53 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ایک لمحہ کی وہ قربانی اس کو کوئی دکھ نہیں دیتی.لیکن وہ قربانیاں اصل آزمائش ہیں محبت کی ، جو لمبا عرصہ، مستقل، زندگی کے ساتھ چمٹ جاتی ہیں.ہر ہر لمحہ انسان سے مطالبے کرتی ہیں اور تقاضے کرتی ہیں.یہ واقفین زندگی کی قربانیاں ہیں.یہ ان کی قربانیاں ہیں جو فیصلہ کر لیتے ہیں کہ آج کے بعد ہمارا کچھ نہیں.جو کچھ بھی ہے وہ دین محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہو چکا ہے.وہ اللہ کے حضور ہم پیش کر چکے ہیں.ان قربانیوں کے تقاضے جو اصل محبت کی کسوٹی ہے وہ بہت لمبے ہیں.اس وقت میں ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.وقت آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ، وقتاً فوقتاً میں آپ کے سامنے وہ تقاضے رکھتا رہوں گا.میں آج صرف اتنا کہتا ہوں کہ محبت کوئی محض جذبات کا کھیل نہیں ہے.یعنی مومن کے لئے محبت کوئی جذبات کا کھیل نہیں ہے.مومن کے لئے محبت ایک لمبی زندگی ، قربانیوں کی زندگی کا تقاضا کر رہی ہے جو ہمیشہ، ہر حال میں، ہر ہر سانس میں، ہر ہرلمحہ اس بات کا ثبوت پیش کر رہی ہوں کہ ہم بچے عاشق ہیں.یہ کیسے ثابت ہو، کس طرح ہمیں معلوم ہو کہ سچا عاشق کون ہوتا ہے؟ ان امور سے متعلق میں آئندہ انشاء اللہ کسی وقت آپ کے سامنے بیان کروں گا.اس وقت ذہنی طور پر آپ کو میں تیار کرنا چاہتا ہوں.احمدی نوجوان اس غلط فہمی کو دل سے نکال دے کہ احمدیت صرف وقتی جوش کی قربانیوں کا نام ہے.احمدی نوجوان اس بات کا خیال ہمیشہ کے لئے دل سے نکال دے کہ احمدیت صرف نعروں کی طرف بلاتی ہے اور ہنگاموں کی طرف بلاتی ہے.احمدیت ان دونوں میں سے کسی چیز کا نام نہیں.احمدیت مستقل قربانیوں کا ایک لائحہ عمل ہے اور باشعور قربانیوں کا لائحہ عمل ہے جو زندگیوں کے اندر انقلاب چاہتی ہیں.جب تک احمدی وہ انقلاب اپنی زندگی میں پیدا نہیں کرتا ، وہ آگے انقلاب پیدا کرنے کا اہل ہی نہیں.یہ وہ راز ہے جس کو سمجھے بغیر آپ کامیاب (مربی) نہیں بن سکتے.اس کے لئے آپ تیار ہو جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ عہد بیعت کے سارے تقاضے پورے کریں اور اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرمائے کہ میرے نازک اور کمزور کندھوں پر جو ذمہ داری خود اس نے ڈالی وہ خود اس بوجھ کو اٹھا لے کیونکہ میں اپنے اندر کوئی طاقت نہیں پاتا.اللہ تعالیٰ مجھے تو فیق عطا فرمائے کہ آپ کے حقوق ادا کروں اور آپ کے لئے دن رات دعائیں کروں.آپ کو زندہ کرنے میں اپنی زندگی پیش کر دوں تا کہ آپ زندہ ہوں تو ( دین حق ) زندہ ہو.( دین حق زندہ ہو تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہمیشہ کے لئے ساری دنیا میں زندہ رہے گا اور پھر کوئی اس نام کو منانہیں سکے گا.،، (ماہنامہ خالد نومبر، دسمبر 1982 صفحہ 5 تا 15 )

Page 58

مشعل راه جلد سوم 54 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 59

مشعل راه جلد سوم 55 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس اطفال الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے افتتاحی خطاب فرمودہ 16 اکتوبر 1982ء بچوں کی محبت سے تربیت کریں آپ کی یہ عمر اپنے رب سے محبت کرنے کی عمر ہے پس ہر گز کسی کوگالی نہیں دینا، زبان کو ہمیشہ پاک رکھنا ہے سچ کو اپنا شعار بنائیں آپ دین کے خادم بھی ہیں اور ساتھ ہی قوم کے خادم بھی ہیں دین وطن کی محبت بھی سکھاتا ہے ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ ☆

Page 60

مشعل راه جلد سوم 56 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 61

مشعل راه جلد سوم 57 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- الحمد لله و بفضلہ تعالیٰ احمدی بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد آج اجتماع میں شرکت کے لئے حاضر ہے.بیرونی مجالس سے بھی اور ربوہ سے بھی بفضلہ تعالیٰ بکثرت بچے اس اجلاس میں شریک ہیں.اللہ تعالیٰ آنے والوں کو جس خیر و خوبی سے لایا اسی طرح اپنی حفاظت میں خیر و خوبی اور برکت سے واپس لے کے جائے اور اپنے فضل سے ان چھوٹے چھوٹے معصوم دلوں کو اپنے لئے خالص کر لے اور اپنے لئے پاک کر لے اور اپنا غلام بنالے.اپنی ایسی محبت اسی عمر میں اُن کے دل میں ڈال دے کہ پھر وہ محبت کبھی ان کو نہ چھوڑے اور وہ کبھی اس محبت کو نہ چھوڑ ہیں.خدا کی محبت ایک پاکیزہ جذبہ خدا کی محبت ایک ایسا پاکیزہ جذبہ ہے، ایک ایسا با وفا جذبہ ہے جو دل میں ایک دفعہ داخل ہو جائے تو بڑھتا تو رہتا ہے، چھوڑتا کبھی نہیں اور اس کے لئے بہت ہی اچھی عمر، بہت ہی صحیح عمر بچپن کی عمر ہے.جن دلوں میں بچپن میں اللہ تعالیٰ کی محبت داخل ہو جائے وہ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں.کیونکہ پھر ساری زندگی یہ محبت وفا کرتی ہے.انسان کسی حالت میں بھی چلا جائے وہ اس محبت سے خالی نہیں رہ سکتا.اسی لئے یہی وہ عمر ہے جس میں آپ کو اپنے رب سے پیار کرنا چاہیے.اپنے رب سے محبت کے آداب سیکھنے چاہئیں اور ذاتی تعلق قائم کر لینا چاہیے.یہاں تک کہ ہر بچہ کے دل میں یہ یقین پیدا ہو جائے کہ میرا خدا میرا ہے اور میرے ماں باپ کا بھی واسطہ بیچ میں نہیں.میں براہ راست اپنے اللہ سے محبت رکھتا ہوں.اس سے ذاتی تعلق رکھتا ہوں.اس کا طریق یہ ہے کہ خدا سے دعائیں کریں.بچپن ہی میں اپنے رب سے مانگنا سیکھیں.جس طرح

Page 62

مشعل راه جلد سوم 58 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ماں سے بچہ مانگتا ہے اور ماں عطا کرتی ہے تو اس سے محبت پیدا ہوتی ہے.بچہ کی محبت کا آغاز اسی طرح ہوتا ہے کہ جب ماں اس پر رحم کرتی ہے، اس کی باتیں مانتی ہے تو اس سے محبت پیدا ہو جاتی ہے اور ماں کی محبت اس طرح بڑھتی ہے کہ اگر وہ نہ دے اور بچہ پھر بھی خوش رہے اور راضی رہے اور اس کے چہرہ پر کوئی غصہ نہ آئے.کوئی نفرت پیدا نہ ہو.کوئی انتقام کے آثار آنکھوں میں نہ آئیں (ایسے بھی بدقسمت بچے ہوتے ہیں جو اس طرح ماں سے سلوک کرتے ہیں ) تو ایسا بچہ جو ماں کے نہ دینے پر بھی راضی ہو جائے اس سے مائیں بے اختیار محبت کرنے لگ جاتی ہیں.پس دوطرفہ محبت کے سلسلہ میں، یک طرفہ نہیں آپ اپنے رب سے اس طرح محبت کرنا سیکھیں کہ جب اس سے مانگیں اور وہ عطا فرمادے تو اس وقت بھی اس کے حضور جھک جایا کریں اور بچھ جایا کریں.جب مانگیں اور نہ عطا کرے تو اس لئے خوش ہوا کریں کہ اس کے نتیجہ میں خدا اور بھی آپ سے محبت کرے گا اور تب بھی اس کا شکر ادا کیا کریں.تب بھی اس سے راضی رہا کریں تا کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا پیار آپ سے بڑھے.غرض دوطرفہ سلسلے ہوتے ہیں محبت کے اور یہ دونوں طرح بڑھنے چاہئیں.اس لئے خدا کبھی عطا کر دیتا ہے.کبھی نہیں بھی کرتا.وہ دیکھتا ہے کہ میرا بندہ مجھ سے پھر کیا سلوک کرتا ہے.وفا کے نتیجہ میں محبت بڑھتی ہے.بے وفائی سے محبت کو نقصان پہنچتا ہے.وفا ہے جو سیکھنی چاہیے.یعنی ہر حال میں اپنے رب سے راضی رہنا.وہ محبت کا اظہار کرے تب بھی راضی رہیں.اگر وہ کسی بچہ سے خدا نخواستہ ناراضگی یا بے اعتنائی کا سلوک فرمائے اور بچہ محسوس کرے کہ اس کی دعائیں قبول نہیں ہور ہیں اس پر بھی وہ راضی رہنا سیکھے اور نظریں جھکائے رکھے اور دل میں اپنے رب کریم کے لئے ادب پیدا کرے.یہ ہے آپ کی محبت کا آغاز.پھر جب آپ بڑے ہوں گے تو یہ سلسلے پھیلنے شروع ہو جائیں گے.پھر ایک ایسی کیفیت بھی آسکتی ہے کہ جس طرح مختلف دریا پہلے آہستہ آہستہ معمولی حالت میں چلتے ہیں اور پھیلتے ہوئے سمندر میں داخل ہو جاتے ہیں.پھر ان کا دوسرا کنارہ نظر نہیں آتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت جو ایک چھوٹے سے چشمے کی طرح آپ کے دل سے پھوٹے گی ، اگر آپ اس سے وفا کریں گے تو وہ بڑھنی شروع ہوگی.پھیلنی شروع ہوگی یہاں تک کہ آپ کی ساری زندگی پر محیط ہو جائے گی.آپ ایسے سمندر میں داخل ہو جائیں گے جس کا حقیقتاً کوئی کنارہ نہیں ہوگا.

Page 63

59 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم یہ چیز ، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، کامل رضا کے مضمون کو سمجھنے سے حاصل ہوتی ہے.آپ کے لئے میں آپ کی زبان میں باتیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں.فی الحال ایک مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس کے بعد دو تین اور چھوٹی چھوٹی باتیں آپ سے کروں گا.محمود اور ایاز کی کہانی محمود اور ایاز کی کہانی آپ نے سنی ہوگی.یہ کہانی بہت عام ہے اور بڑی مشہور ہے محمود آقا تھا اور ایاز غلام تھا.محمود بادشاہ تھا.ایاز اس کے دربار کا ایک نوکر اور اتنی محبت تھی ایاز کو اپنے محمود سے اور محمود کو اپنے ایاز سے کہ وہ اس زمانہ میں بھی ضرب المثل بن گئی اور آج تک ضرب المثل بنی چلی آرہی ہے.کہتے ہیں ہر محمود کا ایک ایاز ہوتا ہے.ہر ایاز کو ایک محمود ملتا ہے.یعنی محمود اور ایاز کی محبت اور وفا کا قصہ ایک قوم میں محدود نہیں رہا.کئی قوموں میں پھیل چکا ہے.اس محبت کی حقیقت کیا تھی ؟ اس کا راز ایک چھوٹے سے واقعہ سے ہمیں سمجھ آجاتا ہے.تمام درباری جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، جانتے تھے کہ ہم سب سے زیادہ اس غلام زادہ سے ہمارا آقا محبت کرتا ہے.وہ خود بڑے بڑے لیڈر، بڑے بڑے نواب اور بڑے بڑے سردار تھے اور کئی شاہی خاندانوں سے بھی تعلق رکھتے تھے.ان کی نسلوں میں پشتیں ایسی تھیں جو معززین کی پشتیں سمجھی جاتی تھیں.ان کے خون میں معزز خون شامل تھا.ان کی رگوں میں معزز خون دوڑ رہا تھا.اس شان کے وہ لوگ تھے.اگر چہ ان سے بھی حسن سلوک تھا.مگر جب محمود کی ایاز پر نظریں پڑتی تھیں تو محبت سے پگھل جایا کرتی تھیں.کیفیت ہی اور ہوتی تھی.وہ سمجھدار لوگ تھے.جانتے تھے کہ کیا قصہ ہے.وہ جلنے لگ جاتے تھے.کچھ پیش نہیں جاتی تھی.بڑی بڑی سکیمیں بناتے تھے.لیکن کوئی بس نہیں چلتا تھا.محمود کو بدظن کرنے کے لئے انہوں نے یہاں تک بھی کوششیں کیں کہ ایک دفعہ ایاز کے متعلق مشہور کر دیا کہ یہ رات کو چھپ کر کسی جگہ جاتا ہے.بادشاہ سے کہا.آپ تو سمجھتے ہیں بڑا دیانت دار ہے مگر ہے اتنا بد دیانت کہ ملک کی ساری دولت سمیٹ سمیٹ کر ایک جگہ چھپائے جا رہا ہے.اگر چھاپہ مار کر پتہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کی مدد کرتے ہیں.آپ کو ساتھ لے جائیں گے.یعنی بغض تو ہر وقت سکیمیں سوچتا ہے کہ کس طرح اس کو نیچا دکھاؤں.چنانچہ انہوں نے سکیم بنائی.ایاز واقعہ چھپ کر کہیں جایا کرتا تھا اور اس کمرے میں جہاں وہ جانتا تھا بڑے بڑے بھاری تالے پڑے ہوتے تھے.کسی اور کی جرات نہیں تھی.پہرے تھے.کوئی اور داخل نہیں ہوسکتا تھا.تو بادشاہ نے کہا.چلو میں چلتا ہوں.جو آزمائش چاہتے ہوئیں اُس میں اُس کو ڈالنے کے لئے

Page 64

مشعل راه جلد سوم 60 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی تیار ہوں.چنانچہ وہاں گئے.ایاز کو بھی ساتھ لیا.اس کو حکم دیا گیا کہ تالے کھولو.اس نے کوشش کی کہ صرف بادشاہ اندر آئے ، باقی نہ آئیں.لیکن بادشاہ نے کہا نہیں.ان کا الزام ہے.مجھے ان کو دکھانا پڑے گا کہ کیا واقعہ ہے.چنانچہ جب تالے کھولے گئے تو اس کمرہ میں سوائے پھٹے پرانے کپڑوں کے کچھ بھی نہیں تھا.بوسیدہ کپڑے، پھٹی ہوئی ٹوپی، ایک پرانی جوتی کے سوا کچھ نہیں تھا.سارے حیران رہ گئے کہ اس کو اتنے تالے لگانے کی کیا ضرورت تھی.کیا مصیبت پڑی تھی کہ راتوں کو چھپ کر ان چیزوں کی زیارت کے لئے یہ آیا کرے.تب بادشاہ نے کہا.میں تمہیں یہ حکم دیتا ہوں کہ اس کا راز بتاؤ.اس نے کہا.راز یہ ہے کہ آپ میرے بے حد مہربان آقا ہیں.آپ نے مجھ پر بے شمار احسانات کئے ہیں.میں ان احسانات میں کھو کر اپنی پرانی حیثیت نہیں بھولنا چاہتا تھا.میں ہمیشہ اپنے آپ کو یہ یاد کرانا چاہتا تھا کہ اسے ایاز ! تیرا یہی دوکوڑی مول ہی تو ہے.تو در بدر کی ٹھوکریں کھانے والا ایک عام آدمی ہی تو تھا.تیرے کپڑے پھٹے ہوئے تھے.جوتے پھٹے ہوئے تھے.ٹوپی بوسیدہ تھی.کئی کئی وقت تجھے فاقے بھی کرنے پڑتے تھے.پس یاد کر اس آقا محمود کے احسان کو.اس نے تجھے کہاں سے اٹھایا اور کہاں پہنچادیا.پس اس واقعہ کو بیان کر کے میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اللہ سے محبت کرنے کے لئے آپ کو ایا ز والے کپڑے بھی رکھنے پڑیں گے.یہ یادرکھنا پڑے گا کہ ہم کیا حقیر چیز ہیں.پھر بھی وہ خدا جو ساری کائنات کا مالک ہے ہم سے خود محبت کا سلوک فرماتا ہے.اپنی اصلیت کو کبھی نہ بھولنا پس تم نے اپنی اصلیت کو کبھی نہیں بھولنا.اور ہمیشہ یادرکھنا چاہیے کہ جب وہ انعام زیادہ کرے تو اور زیادہ جھکتے چلے جائیں اپنے رب کے حضور اور سوچیں کہ ہم تو اس قابل بھی نہیں تھے.اگر یہ سیکھ لیں گے تو پھر احسان کا بدلہ شکر کے طور پر ادا کرنا بھی سیکھ جائیں گے.اگر یہ راز سمجھیں گے تو احسان کے احساس کو نقصان پہنچے گا اور آپ کے شکر کی طاقت کمزور پڑ جائے گی.اگر انسان سمجھنے لگ جائے کہ ہاں مجھ پر بڑا احسان ہے مگر میں اس لائق ہوں، یہ میرا حق ہے.تو اس کے نتیجہ میں نفس دھوکا کھا جاتا ہے اور انسانی بڑائی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور شکر کا احساس کم ہو جاتا ہے.پس ایاز نے ہمیں یہ راز سکھایا کہ محبت اور وفا کا اولین تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی حیثیت کو کبھی نہ بھولے.تو جب آپ یہ سوچیں گے کہ ہم تو کوئی چیز ہی نہیں ہیں.اس ساری لامتناہی کائنات میں ہماری ایک ادنی حیثیت ہے.ہمارے ملک ہی کا کوئی مقام نہیں تو ہمارا کیا ہونا ہے.دنیا کی بڑی طاقتوں کے

Page 65

61 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم مقابل پر ایک معمولی سا ملک ہے اور کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا.اس کو کبھی دائیں سے اور کبھی بائیں سے مدد لینا پڑتی ہے.اس میں ایک چھوٹے سے قصبہ میں آپ ایک چھوٹے سے انسان ہیں.ایک چھوٹے سے باپ کے بیٹے ہیں.ایک چھوٹی سی ماں کے بیٹے ہیں اور دنیا کے نقشہ پر آپ کی کوئی حیثیت ہی نہیں.لیکن آپ پر آسمان کا خدا رحم کر کے اتر رہا ہے.یہ ہے مقام جس پر انسان کی فطرت کو یہ گیت گا نا چاہیے کہ کیٹری کے گھر نرائن آیا ، ہمارا آسمانی آقا ہم پر نازل ہو رہا ہے.اس لئے جب وہ دعا قبول کرے تو اس کے حضور جھک جانا چاہیے.نہ قبول کرے تو حق نہیں سمجھنا چاہیے.یہ سوچنا چاہیے کہ ہم حقدار کہاں کہ خدا ہم سے کلام کرے.ہم حقدار کہاں کہ وہ ہماری دعاؤں کو سنے محض اس کا رحم اور کرم ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کو سنتا اور قبول فرماتا ہے.تب آپ کے اندر کچی وفا پیدا ہوگی.تب آپ کے اندر سچی محبت پیدا ہوگی.تب خدا آپ کے دل میں اترے گا.ایازی کیفیت یہ وہ جذبہ ہے جس کے نتیجہ میں ایک اور ایازی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کو بھی میں ایاز ہی کی کہانی میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ آپ بچے کہانیوں کی زبان میں اس کیفیت کو زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں.وہ قصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ بادشاہ کے دربار میں ایک بہت ہی شاندار گر ما پیش کیا گیا.آپ جانتے ہیں گر ما ایک پھل ہے.اس کی قاشیں کاٹ کر کھایا جاتا ہے.بہت میٹھا ہوتا ہے.لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر خشک سالی ہو یا کوئی بیماری پڑ جائے تو بعض گرمے انتہائی کڑوے ہو جاتے ہیں.اتنے کہ بعض دفعہ نا قابل برداشت ہو جاتے ہیں.بہر حال گرما تھا.کسی نے بڑی محبت سے بادشاہ کو پیش کیا.اس نے قاش کائی اور پہلی قاش ایاز کو دے دی.ایاز نے اس مزے مزے سے وہ کھائی کہ درباری بھی بڑی بیقراری سے انتظار کرنے لگے کہ ہماری بھی باری آئے تو ہم بھی کھائیں.ان کے منہ میں بھی پانی آنے لگ گیا.بادشاہ بیٹھا دیکھتارہا اور مزے اٹھاتا رہا ایاز کے لطف کے.اس کے بعد اس نے بڑے تحمل سے دوسری قاش کائی اور اپنے وزیراعلیٰ کو دی.اس نے ایک لقمہ ہی کھایا تھا کہ وہیں تھوک دیا.اس سے برداشت نہیں ہوا.اس کے چہرے کا رنگ بگڑ گیا.اس قدر بُری حالت ہوئی.بادشاہ نے کہا تمہیں کیا ہو گیا ہے.اس نے کہا بادشاہ سلامت ! یہ اتنا کڑوا.اتنا بد مزہ ہے کہ گستاخی ہوگئی مجھ سے.یہ بھی نہیں ہوسکا کہ باہر جا کر تھوکوں.

Page 66

مشعل راه جلد سوم 62 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی برداشت ہی نہیں ہو سکا.ابھی منہ سے باہر نکل گیا.بادشاہ نے کہا.اب سمجھے ہوا یا ز کس کو کہتے ہیں؟ ساری قاش اس نے کھائی ہے میری محبت میں.ایک ایک کڑوا گھونٹ بھرا ہے میرے پیار میں.یہ جانتا تھا کہ میں اس پر احسان کرتا ہوں.اس کو میٹھی چیزیں بھی ملتی ہیں تو کڑوی بھی اس نے اسی محبت سے قبول کر لی اور ماتھے پر ذرا بل نہیں آیا.بلکہ یوں معلوم ہو رہا تھا کہ اتنی مزیدار چیز اس کو عطا ہوئی ہے کہ اس سے زیادہ مزیدار چیز دنیا میں ممکن ہی نہیں ہے.یہ فرق ہوا کرتا ہے ایک محبت کے عام دعویدار میں اور ایک حقیقی ایاز یعنی ایک سچے عاشق میں.اس لئے جب دعا کا مضمون آپ کو بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دعا قبول فرماتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بچوں پر بھی رحمت فرماتا ہے.لیکن وہ مالک ہے جب چاہے عطا فرماتا ہے، جب چاہے نہیں دیتا.کسی دوسری آزمائش میں مبتلا کرتا ہے زیادہ انعامات کی خاطر یہ نکتہ بھی سمجھنا چاہیے کہ دوسری آزمائش محض دنیا کی کوئی آزمائش نہیں ہے.بلکہ اس کے نتیجہ میں انعام نازل ہوتے ہیں جس طرح مال کی آزمائش کے نتیجہ میں انعام ملتے ہیں.میں نے بیان کیا تھا کہ جب ماں کوئی چیز نہیں دیتی اور بچہ ہنستا ہے، خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے.اماں ٹھیک ہے جس طرح آپ کی مرضی اس طرح میں بھی راضی ہوں.تو ماں کا دل بے اختیار چاہتا ہے کہ میں سب کچھ اس پر نچھاور کر دوں.اسی طرح اللہ تعالیٰ کو جذبات میں انسان سے مشابہ نہیں لیکن اس کا سلوک وہی ہے.کیونکہ اس نے اپنے سلوک کے مطابق فطرتیں عطا فرمائی ہیں.اس کے جذبات میں فانی انسانوں کی طرح ہیجان تو نہیں ہوتا لیکن اس کی صفات حسنہ اس طرح ہیں کہ اس نے تخلیق میں اپنی صفات کے رنگ رکھ دیئے ہیں اور اس نے اپنی محبت کے بہت سے رنگ ماں میں رکھے ہیں.چنانچہ اس میں یہی حکمت ہے کہ جب خدا کسی بات پر بچہ سے ہاتھ روک لیتا ہے اور وہ ختی میں مبتلا ہو جاتا ہے.مثلاً پاس ہونے کی دعا کر رہا ہے.بہت لیٹ (Late) اور گھبرا گھبرا کر کہتا ہے.اے اللہ! پڑھا تو میں نے نہیں.پاس ضرور کر دے.کبھی خدافضل بھی کر دیتا ہے.معجزہ بھی دکھا دیتا ہے.کبھی نہیں بھی دیکھا تا.یہ بتانے کے لئے کہ دیکھو! تمہارا یہ فرض ہے کہ تم محنتیں کرو.میں اس طرح کے (مومن) بچے نہیں چاہتا کہ سارا سال سوئے رہیں اور بعد میں دعا کر کے پاس ہو جائیں.سارا سال کام کرو.پھر دعا کے کرشمے دیکھو کہ میں تمہاری محنت سے کتنا زیادہ پھل دیتا ہوں.پس خدا یہ مضمون بھی سمجھانا چاہتا ہے اور کئی قسم کی وجوہات ہو سکتی ہیں.خدا کے لامتناہی راز ہیں.ہمیں نہیں پتہ.مگر کئی دفعہ دعا ئیں نہیں سنتا.قبول نہیں ہوتیں.جو لوگ اس وقت راضی

Page 67

مشعل راه جلد سوم 63 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی رہتے ہیں ان کو پہلے سے بھی زیادہ بڑھ کر نعمت ملتی ہے.یعنی دنیا کی نعمتیں قبولیت کے رنگ میں جو ملنی تھیں ان کے بدلہ میں اللہ کی محبت پہلے سے بڑھی ہوئی شکل میں مل جاتی ہے.تو آج میں آپ کو یہ مضمون سکھانا چاہتا ہوں کہ آپ کی یہ عمر اپنے رب سے محبت کرنے کی عمر ہے اور ان عادات کے پیدا کرنے کی عمر ہے جن کے ساتھ اپنے رب سے پیار کیا جاتا ہے.پس اپنے رب سے پیار کرنا شروع کریں.پھر دیکھیں کہ مستقبل میں احمدیت کے لئے کس طرح اولیاء اللہ پیدا ہوں گے.دوسری باتیں اس کے مقابل پر بظاہر بہت ادنی اور بالکل چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن میرے نزدیک بہت بڑی اہمیت رکھتی ہیں کیونکہ ان کا بھی درحقیقت اللہ کی محبت سے تعلق ہے.آپ نے عہد کیا ہے اور ہر دفعہ کرتے ہیں کہ میں کسی کو گالی نہیں دوں گا اور دیتے ہیں.یہ کیسا عہد ہے اور یہ عہد کرتے ہیں سچائی کے عہد کے بعد.اس سے پہلے ابھی یہ عہد کر چکے ہوتے ہیں کہ میں ہمیشہ سچ بولوں گا اور اچھا سچ بولتے ہیں کہ معاً بعد جو وعدہ کرتے ہیں اسی کو جھٹلا دیتے ہیں.یعنی نہ سچ بولنے والا وعدہ سچا اور نہ گالی نہ دینے والا وعدہ سچا.تو ایسے لوگوں سے تو پھر خدا محبت نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئے تو کچھ بنیادی صفات بھی ہونی چاہئیں.ان صفات میں سے ایک یہ ہے کہ اپنی زبان کو پاک رکھیں.اپنے دل کو پاک رکھیں.مہمان نے آنا ہوتا ہے تو گھر والے صفائی کیا کرتے ہیں.بعض بڑے گندے گھر ہوا کرتے ہیں.ان کو بھی مائیں دھو لیتی ہیں.صاف کر لیتی ہیں کہ کوئی بونہ آئے.معزز مہمان گھر میں آ رہا ہے.برات آتی ہے تو دیکھیں کیسے گھر سج جاتے ہیں.تو کیا اللہ ہی وہ مہمان ہے جس کے لئے گھر کو گندار کھا جائے اور پرواہ نہ کی جائے اور کہا جائے کہ پھر بھی تو داخل ہو.یہ ٹھیک ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کا حق ادا نہیں کر سکتے.ہم پھر بھی گندے کے گندے ہی رہیں گے.لیکن خلوص نیت کے ساتھ اپنی زبان ، اپنے دل کو پاک کرنے کی کوشش تو ضروری ہے.اسی زبان سے آپ ذکر الہی کریں گے.اسی زبان سے اللہ کا شکر ادا کریں گے.جو برتن کسی اچھے کام کے لئے استعمال کیا جائے اس کو گندے کام کے لئے تو استعمال نہیں کیا کرتے.کبھی کسی نا پاک برتن میں بھی کسی کو کھانا کھاتے دیکھا ہے؟ کتوں کے برتن الگ ہوتے ہیں.انسانوں کے برتن الگ ہوتے ہیں.گندگی کے لئے برتن الگ ہوتے ہیں.اچھے کاموں کے لئے برتن الگ ہوتے ہیں.تو جب ہر برتن ایک خاص مقصد کے لئے استعمال ہوتا ہے تو زبان کا برتن بھی جس سے ذکر الہی ہونا چاہیے اس کو صاف اور پاک رکھنا آپ کا فرض ہے.لیکن ایسی حیرت انگیز اور دکھ والی باتیں سامنے آتی ہیں کہ بعض دفعہ ربوہ کے محلوں میں بچے رستوں میں گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور غلیظ گالیاں دے رہے ہوتے ہیں.عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ

Page 68

مشعل راه جلد سوم 64 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی اس سرزمین میں یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ احمدی ماں کا بچہ گالی دے.بعد میں پتہ چلتا ہے کہ مائیں خود بد زبان ہیں.دراصل زہر کا یہی وہ چشمہ ہے جو بچوں کی بدقسمتی سے پھوٹا ہوتا ہے.ماؤں کو خدا نے رحمت کا چشمہ بنایا تھا لیکن بعض مائیں اپنی اولاد کے لئے زہر کا چشمہ بن جاتی ہیں.وہ دودھ پلانے کی بجائے بچوں کوسم پلاتی ہیں.اپنے بچوں کو سم یعنی زہر پلاتی ہیں.چنانچہ بیچارے ایسے ہی بچوں کی زبانیں خراب ہو جاتی ہیں.میں آپ بچوں سے کہتا ہوں کہ بھول جائیں ایسی ماؤں کو.اُن سے رحمت تو وصول کریں اگر وہ ملتی ہے.لیکن روک دیں اس زہر کو جو وہ پلانا چاہتی ہیں.یہاں ہے مقابلہ وقت کا.اس معنے میں مقابلہ کہ اپنی ماؤں سے کہیں کہ آپ ہمارے سامنے گالی نہ دیں.ہم آپ کے سامنے گالی نہیں دیں گے.ہم کہیں بھی گالی نہیں دیتے.اس لئے آپ بھی اپنی زبان کو پاک کریں.نصیحت کا رخ آپ کی طرف سے ماؤں کی طرف چلنا چاہیے.یہ بھی شکر کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے.بچوں پر ماؤں کا اتنا احسان ہے کہ جب آپ ان کو نیک بات کہیں گے تو آپ ان کے احسان کا بدلہ ادا کر رہے ہوں گے.کسی کو گالی نہ دیں پس ہر گز کسی کو گالی نہیں دینا.زبان کو ہمیشہ پاک رکھنا ہے.جب بھی منہ پر گالی آئے ، غصہ آئے تو تھوڑی دیر کے لئے رُک جائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب غصہ سے مغلوب ہونے لگیں تو بیٹھ جایا کریں.کھڑے ہونے کی حالت میں غصہ زیادہ تیزی دکھاتا ہے.تبھی بیٹھا ہوا آدمی ہو یا لیٹا ہوا ہوا سے غصہ آئے تو فوراً لپک کر کھڑا ہو جاتا ہے.تو غصہ کی حالت میں کھڑے ہونے سے ایک تعلق ہے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ایسی حالت میں بیٹھ جایا کرو، پانی پی لیا کرو، کچھ تھوڑی دیر برداشت کرو.ایسی حالت میں سوچا کریں کہ ہم رُک رہے ہیں.گالی دینے سے کیوں رک رہے ہیں.یہ سوچا کریں کہ ہمارے اللہ میاں نے حکم دیا ہے کہ اپنے آپ کو صاف اور پاک رکھو، گندے کلمے نہ بولو.اس لئے ہم اللہ کی خاطر یہ کر رہے ہیں.جب آپ خدا کا نام ذہن میں رکھ کر اس کی خاطر کوئی کام کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ آپ پر بہت پیار کا اظہار فرمائے گا.اول تو خود آپ کی ذات میں آپ کو ایک بدلہ مل گیا.پاک زبان رکھنا اپنی ذات میں ایک نعمت ہے.اس کا کوئی اور انعام نہ ہو یہ خود انعام ہے.اس سے عظمت کردار عطا ہوتی ہے اور اگر اس کے بعد مفت میں کوئی اور بدلہ بھی مل رہا ہو تو پھر اور کیا چاہیے.کہتے ہیں

Page 69

مشعل راه جلد سوم 65 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں.ایک آنکھ تو وہ مل گئی کہ عظمت کردار عطا ہوگئی.آپ کو خود اپنی ذات میں عزت مل جائے گی کہ میں صاف گوانسان ہوں.میں صاف کلام کرنے والا بچہ ہوں میرے کلام میں وقار ہے ، عظمت ہے.اگر کسی میں یہ احساس پیدا ہو جائے تو بڑے مزہ کا احساس ہے.دوسری آنکھ اس سے بھی روشن تر.یعنی آپ کو رحمت باری کی آنکھ مل جائے گی.اللہ تعالیٰ کا فضل عطا ہو جائے گا.تو اندھا کیا چاہے دو آنکھوں کا محاورہ اس سے زیادہ اور کس حالت پر صادق آسکتا ہے.سچ کو شعار بنائیں دوسرے سچ کو شعار بنا ئیں.حقیقت یہ ہے کہ سچائی کے بغیر کسی قوم کی تربیت ممکن نہیں.ہماری گلیوں میں، ہمارے گھروں میں بچے جھوٹ بولتے پھرتے ہیں.جھوٹے ڈراوے دیتے ہیں.جھوٹی کہانیاں سنتے ہیں.جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں.ایکسائٹ (Excite) کرنے کے لئے یعنی پھل کیا ہے کہ ایکسائیٹ ہو گئے.ذرا تھوری دیر کے لئے ہا ہا ہو گیا.اس نے کہا.جی فلاں ممانی گھر میں آگئیں.بچے دوڑے دوڑے واپس آئے کہ اوہو میں تو مذاق کر رہا تھا.تم پاگل بن گئے.میں نے پاگل بنا دیا.حالانکہ وہ خود پاگل بن رہا ہوتا ہے.ان لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يُخدِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا اَنْفُسَهُمُ (البقرة: ۱۰) لوگوں کو پاگل بنا رہے ہوتے ہیں.لیکن آپ پاگل بن رہے ہوتے ہیں.کہتے ہیں یہ بیوقوف لوگ ہیں جو مومن ہیں اور سچ بولنے والے ہیں.اَلَا اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِن لَّا يَعْلَمُونَ (سورة البقرة:14) بیچارے آپ بیوقوف ہیں.دوسرے کو کیا بیوقوف بنا سکتے ہیں.اُن کو پتہ نہیں کہ اصل قیمت کہاں ہے.کس چیز میں ہے.وہ سچائی میں ہے.پس جھوٹے مذاق بھی نہ کریں.بالکل برداشت نہ کریں.نہیں نہیں.کوئی بچہ جھوٹ بول کر مذاق اڑاتا ہے تو اسے کہیں کہ یہ تم نے کیا حرکت کی ہے.یہ کوئی مذاق ہے.یہ تو تم نے جھوٹ بولا ہے.گند کھایا ہے یعنی ہمیں لطف دینے کے لئے آپ گند کھا لیا.نہ تمہیں لطف آیا نہ ہمیں لطف آیا.کبھی کسی نے یہ مذاق کیا ہے کہ مہمان آیا ہے.اس کی خدمت کرنی ہے تو میں تھوڑا سا گند کھالیتا ہوں.مہمان بڑا خوش ہو جائے گا.جھوٹ پر منہ مارنا اور جھوٹ بول کر کسی کو ایکسائٹ کرنے کی کوشش کرنا بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ گند کھا کر گویا اپنے خیال میں دوسرے کو لذت پہنچا رہے ہیں.اگر اس میں ذرا بھی عقل ہوگی تو وہ اس گند سے لذت حاصل نہیں کرے گا.گندہ ہی ہوگا تو لذت حاصل کر یگا.اس لئے یہ باتیں آپ کی شان کے خلاف ہیں.

Page 70

66 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم آپ نے بہت بڑے بڑے کام کرنے ہیں.آپ نے ساری قوم کو سنبھالنا ہے.آپ ( دین حق ) کے خادم بھی ہیں اور ساتھ ہی قوم کے خادم بھی ہیں.( دین حق ) وطن کی محبت بھی سکھاتا ہے.اس وقت ساری قوم جھوٹ کے پیچھے چل پڑی ہے.لوگ اتنا جھوٹ بول رہے ہیں کہ اس کا کوئی حساب ہی باقی نہیں رہا ہے.بے حساب جھوٹ بولا جا رہا ہے.احمدیت کے متعلق ہی اندازہ کر لیں.جو اخبارات میں خبریں شائع ہوتی رہی ہیں ان میں بے حد جھوٹ بولا گیا اور آپ جانتے ہیں کہ کیا واقعات ہوئے ہیں.جس طرح ماں نے دودھ پلایا ہو اور انسان سمجھے کہ یہ میرے لئے سب سے پاکیزہ غذا ہے،اس طرح ماں کے دودھ کی طرح جھوٹ کو اپنی غذا بنالیا گیا ہے اور کوئی روکنے والا نہیں.کوئی ٹوکنے والا نہیں.کوئی سمجھانے والا نہیں کہ تم کیا کر رہے ہو.سب اسی میں لذت پاتے ہیں.ان بیچاروں کے مقدر میں یہی ہے.لیکن ہم نے ان کا مقدر بدلنا ہے.ہم اس لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ ان کے دکھ دور کریں.صرف اس بات پر راضی نہ ہوں کہ ہم سچے ہیں.اس بات پر دکھ اٹھا ئیں کہ یہ بچے کیوں نہیں ہیں.ان کے گند کی بھی تکلیف اٹھائیں.اب یہ ایک فطرتی بات ہے.دیکھ لیں اگر کوئی گند کھا رہا ہو تو کیا آپ کو تکلیف نہیں پہنچتی ؟ اگر آپ کی فطرت پاکیزہ ہے، کچی ہے تو آپ کے سامنے کوئی گند کھائے تو آپ کو کتنی کراہت آتی ہے.بعض بچوں کا ناک گرتا ہے تو سانس کو اوپر کھینچ کر کھا ہی جاتے ہیں.دوسرے بچے کھانا کھا رہے ہوں تو یہ دیکھ کران کوالٹی آ جاتی ہے.کہتے ہیں کہ کیسی غلیظ حرکت کی ہے.کیسا گندا کام کیا ہے.انگلی سے ناک سے چو ہے نکال رہے ہیں اور اسی طرح کھانا کھانے لگ جاتے ہیں.اس سے آپ کو مزہ تو نہیں آتا.آپ کی بھوک تو نہیں تیز ہو جاتی.منہ میں پانی تو نہیں بھر آتا.آپ یہ تو نہیں کہتے کہ چلو کوئی بات نہیں.میں تو اس طرح نہیں کر رہا.ایسا بچہ پاس بھی بیٹھا ہوگا تو آپ کا کھانا حرام ہو جائے گا.آپ کو تکلیف پہنچے گی.پس یہ ہے سچائی کے ساتھ سچا تعلق.جب قوم جھوٹی ہو رہی ہوا اور آپ نے اس کو ٹھیک کرنا ہو تو ان کے دکھ کو آپ حقیقتا محسوس کرتے ہیں.جس گندگی میں وہ مبتلا ہوتے ہیں اس کی کراہت آپ کو زیادہ تلخ محسوس ہوتی ہے.لیکن ان کو تو کوئی احساس ہی نہیں ہوتا.ان کو تو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں.اس لئے ہمارے مقدر میں ان کا دکھ اٹھانا بھی لکھا گیا ہے.اگر آپ ان کو صاف کریں گے تو گویا اپنا دکھ دور کریں گے.

Page 71

67 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم غرض آپ کا یہ اولین فرض ہے کہ اپنے دل کو دکھوں سے بچائیں چونکہ معاشرہ کا گند آپ کو دکھ پہنچاتا ہے اس لئے آپ کا فرض ہے کہ اس گند کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں.اپنے غیر از جماعت دوست بچوں کو بھی پاک تعلیم دیں.ان کو کہیں ہم بھی جھوٹ نہیں بولتے.تم بھی جھوٹ نہ بولو.اس میں کون سا اختلاف ہے.تو یہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم ہے.ہم دونوں دعویدار ہیں کہ ہم ان کے غلام ہیں.تم سمجھتے ہو کہ میں غیر مسلم ہوں تو بے شک سمجھتے رہو.لیکن سچا میں ہوں.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچائی میں بہر حال میں ہی غلام ہوں.کیونکہ تم جھوٹ بول رہے ہو.اس لئے یہ جھوٹ چھوڑ دو.یہ مجھے برا لگتا ہے.میرا تو دل چاہتا ہے کہ سارے ہی بچے غلام بنیں.پس اپنے معاشرہ کو بھی صاف کریں.جب اس طرح سچ بولتے ہوئے اور بیچ کی تعلیم دیتے ہوئے آپ بڑے ہوں گے تو خادمان ( دین حق) کی ایک عظیم الشان نسل تیار ہو جائے گی.اس لئے بچپن سے پاک زبان اختیار کرنے والے، سچائی سے چمٹ رہنے والے، اپنی زبان اور اپنے دل کو سچائی کے نور سے بھر دینے والے ایسے باوفا بچے بن جائیں کہ جن کے معصوم دلوں میں اللہ کی محبت اتر رہی ہو اور وہ اس سے وفا کر رہے ہوں.اس طرح جب مجاہدین ( دین حق ) کی ایک عظیم الشان نسل تیار ہو جائے گی تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ ساری دنیا کی تقدیر کو بدل کر رکھ دے گی.یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں.لیکن ان کے اندر بڑی عظمتیں ہیں.ان کو یا درکھیں اور ان پر عمل کریں.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.مطبوعه روزنامه الفضل ربوہ 16 جولائی 1983 ء)

Page 72

مشعل راه جلد سوم 68 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 73

مشعل راه جلد سوم 69 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب فرمودہ 17 اکتوبر 1982ء کبڈی کی ٹیم کے ایک کھلاڑی کا سچ سپین کا سفر اور افضال الہیہ سپین کا شاندار ماضی سپینش رومن کیتھولک بچوں کے منہ سے لا الہ الا اللہ کی آواز حیرت انگیز محبت فضلوں کی بارش عورت اور اسلام آپ بھی اس طرح شکرانہ ادا کریں کہ آسمان یہ ترانے گانے لگے لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ

Page 74

مشعل راه جلد سوم 70 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 75

مشعل راه جلد سوم 71 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تقسیم انعامات کے بعد اور تقریر سے قبل حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ ایک انعام میں اپنی طرف سے دینا چاہتا ہوں.حیدر آباد ڈویژن کی کبڈی کی ٹیم کے ایک نوجوان کھلاڑی تھے جن سے ریفری نے پوچھا تھا کہ تمہیں ہاتھ لگا ہے یا نہیں اور انہوں نے بتایا تھا کہ ہاں مجھے ہاتھ لگا ہے.وہ کہاں ہیں؟ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو سطیح پر آجائیں.ان کا نیلا جانگیہ تھا.قائد ضلع حیدر آبادان کو بلائیں.جب تک وہ سٹیج پر آتے ہیں میں وجہ بتا دیتا ہوں کہ میں ان کو کیوں بلا رہا ہوں.کبڈی کے میچ کا ویسے تو بڑا لطف آرہا تھا لیکن وہاں اخلاقی امتحان کا ایک ایسا میچ ہوا کہ مجھے ایسا مزہ آیا کہ میں کبڈی کا دوسرا سارا مزہ بھول گیا.ہمارے ربوہ کا ایک کھلاڑی آیا حیدر آباد ڈویژن کی طرف اور اس وقت برابر کے پوائنٹس (Points) چل رہے تھے.ایک دو پوائنٹس سے بھی پانسہ پلٹ سکتا تھا.اس نے ہاتھ لگانے کی کوشش کی.ایک لڑکے کو بہت خفیف سا ہاتھ لگا.میں نے محسوس کیا کہ ہاتھ لگ گیا ہے لیکن شک تھا.اتنے میں ایک اور آدمی نے اسے پکڑ لیا.اس نے کہا میرا ہاتھ لگ گیا تھا دوسرے کو.ساری ٹیم کے چہرہ سے ظاہر ہورہاتھا کہ بالکل گپ مار رہا ہے کوئی ہاتھ نہیں لگا.ریفری نے بڑے متر ڈ درنگ میں فرضاً اس نوجوان سے پوچھا کہ تمہیں ہاتھ لگا تھا؟ اس نے بڑی جرات سے کہا.ہاں لگا تھا.اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ ہمارے اصل مقابلے اخلاقی میدان کے مقابلے ہیں.کھیل کے میدان میں انہی کی تربیت دی جاتی ہے.اگر وہ کہتا نہیں لگا تھا تو کوئی آدمی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ لگا ہے.اس کے بعد ایک اور نظارہ دیکھا.وہیں ایک نوجوان اور تھے جن سے جب تعارف ہوا تو مجھے خیال ہوا کہ شاید یہ احمدی نہیں ہیں.چنانچہ میں نے ان سے پوچھا.یہ احمدی ہیں؟ تو پتہ لگا کہ ابھی ایک مہینہ ہوا ہے انہوں نے بیعت کی ہے.غرض کبڈی کے اس واقعہ کے بعد وہ ان سے لڑنے لگے کہ تم نے سچ بولا کیوں ہے اور ان پر ناراض ہو

Page 76

72 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم رہے تھے.لیکن انہوں نے بڑی متانت سے کہا کہ میں نے بالکل ٹھیک کیا ہے.مجھے ہاتھ لگا تھا.میں نے یہی کہنا تھا.آواز تو مجھے پوری نہیں پہنچ رہی تھی.ہلکی آواز میں گفتگو ہو رہی تھی.لیکن چہرہ کے آثار اور متانت سے جواب مجھے بہت پسند آیا اس لئے ان کو میں اپنی طرف سے انعام دینا چاہتا ہوں.یہ مطلب نہیں کہ آئندہ کے لئے آپ یہ سمجھ لیں کہ سچ بولنے کا انعام ہوتا ہے.سچ بولنے کا انعام تو اللہ دیتا ہے.صرف اس بات کو نمایاں کرنے کے لئے میں انعام دے رہا ہوں کہ ہمارے اصل مقابلے روحانی اور اخلاقی میدان کے مقابلے ہیں اور کھیلوں میں بھی ہمیشہ اس چیز کو پیش نظر رکھنا چاہیے.“ پھر تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- بیت بشارت چین اللہ تعالیٰ کا بے انتہا احسان ہے کہ اس نے ( بیت ) سپین کے افتتاح کو ہر لحاظ سے انتہائی با برکت فرمایا اور مختلف رنگ میں اپنے افضال کی بارش نازل فرمائی.اور اس سارے سفر میں ہم نے اس کی رحمتوں کے اور نصرتوں کے نشان دیکھے اور ہماری روحیں اس کی نصرت کے قدم چومتی رہیں.آپ خدام، خدام احمدیت بے قرار ہوں گے کہ اس سلسلہ میں کچھ بیان کروں.کیونکہ محض یہ کہنا تو کافی نہیں کہ فضلوں کی بارش نازل ہوئی.کیسے ہوئی.کچھ دل کو اطمینان بھی تو ہو کہ واقعہ بارش ہی تھی.کوئی مبالغہ آمیزی نہیں تھی.میرا فرض ہے کہ میں آپ کو بتاؤں.آپ کے ذہن کو بھی تسلی دوں اور آپ کے دل کو بھی تسلی دوں تا کہ جب آپ واپس جا کر ان یادوں میں کھو کر اپنے رب کی حمد کریں تو دل کی گہرائیوں سے آپ کی حمد اٹھے.ایک عارف کے دل کی طرح آپ کا دل حمد میں محو ہو جائے.محض ایک نظریاتی حمد نہ ہو بلکہ قلبی واردات سے تعلق رکھنے والی حمد ہو.لیکن اس سے پہلے کہ میں آگے کچھ بڑھوں میرا یہ مشورہ ہے کہ جو دوست کھڑے ہیں جہاں تک ممکن ہو وہ بیٹھ جائیں.سوائے اس کے کہ کوئی جگہ ایسی ہے جہاں بیٹھنا ناممکن ہو وہ بیٹھنے کی کوشش کریں.قناتیں اسی لئے ہٹائی گئی تھیں تا کہ جو بڑی دیر سے آکر اندر بیٹھے ہوئے ہیں ان کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے پہنچیں.بہت گرمی ہے اس لئے کنارے کے دوست اول تو ویسے ہی نسبتا ٹھنڈی جگہ کھڑے ہیں اوپر سے گھیر کر وہ اندر والوں کو گرمی پہنچا ئیں، یہ ٹھیک نہیں.دوست تشریف رکھیں اور اطمینان سے تقریر سنیں.

Page 77

مشعل راه جلد سوم سپین کا سفر اور افضال الہی 73 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی یہ سارا سفر مختلف رنگ میں خدا تعالیٰ کے فضلوں کا مظہر رہا.بارش ، موسلا دھار بارش کی علامت کیا ہوتی ہے.وہ جل تھل کو بھر دیتی ہے.خشکی کو بھی اور تری کو بھی اور مذہبی اصطلاح میں خشکی سے مراد غیر مذہبی دنیا ہوتی ہے اور تری سے مراد مذہبی دنیا ہوتی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس محاورہ کو استعمال کرتے ہوئے فرمایا:- ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :42) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے سے پہلے خشکی بھی فسق و فجور اور عصیان اور بدیوں سے بھر گئی تھی اور تری بھی بھر گئی تھی.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں یہ معنے سمجھائے کہ خشکی سے مراد غیر مذہبی دنیا ہے اور ترکی سے مراد مذہبی دنیا ہے.کل عالم ہی گندہ ہو چکا تھا جب حضرت اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے.تو ان معنوں میں میں یہ استعمال کر رہا ہوں.قرآنی محاورہ میں حقیقینا اللہ تعالیٰ کے فضلوں نے خشکی کو بھی بھر دیا اور تری کو بھی.خدا کے فضل حقیقت میں دلوں پر نازل ہوا کرتے ہیں اور یہ قلب سے تعلق رکھنے والا محاورہ ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ کے دلوں میں بھی ہم نے غیر معمولی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضلوں کی بارش برستے دیکھی اور غیر مذہبی دنیا جو بظاہر مذہب کی طرف منسوب ہوتی ہے لیکن حقیقت میں ان کی بھاری اکثریت خدا کی بھی قائل نہیں رہی.ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص قدرت کے ساتھ فرشتے نازل ہوتے دیکھے جنہوں نے ان دلوں کو ( دین حق) کے حق میں مائل کیا اور خوب کثرت کے ساتھ اور اس شدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہوئی ہے کہ آنکھیں اس نظارہ کو دیکھتی تھیں تو نمناک ہو جاتی تھیں.دل خدا کی حمد کے گیت گاتا تھا.یہ ایک لمبا مضمون ہے.یورپ کی جو جماعتیں ہیں، وہ ان حالات میں سے گزری ہیں.ان کو علم ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ ان کے دلوں کو مربوط فرمایا اور دیکھتے دیکھتے ان کے اخلاص میں ترقی دی.وہ چہرے جو پہلے خاموش خاموش چہرے تھے ان پر روحانیت کی نئی چمک آنی شروع ہوئی ، وہ آنکھیں جو خشک آنکھیں تھیں اللہ کی یاد سے تر ہونے لگیں اور خدا کی یاد میں آنسو بہانے لگیں.ایک ایسا عجیب نظارہ تھا، خدا کے فضلوں سے دلوں کے بھرنے اور پھر ان کے چھلک جانے کا کہ وہی

Page 78

74 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم لوگ اس سے پوری طرح لذت یاب ہو سکتے ہیں جو اس واردات میں سے گزرے ہوں اور جنہوں نے یہ واردات اپنے سامنے گزرتی دیکھی ہوں.اس کی تفصیلات یہاں بیان کرنے کا وقت نہیں.نمونہ وہ لوگ جو اعداد وشمار میں چانچنا چاہتے ہیں ان کے لئے مثال کے طور پر یہ بات رکھتا ہوں کہ بعض ملکوں میں جہاں جماعت خود کفیل نہیں تھی بلکہ تقریبا نصف کے قریب ان کو بیرونی دنیا سے مالی مدد دی جاتی تھی ، دو یا تین دن کے اندر اندر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس قدر قربانی کی طرف وہ لوگ مائل ہوئے کہ ہم ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچتے تھے تو پیچھے سے (مربی) کی اطلاع آجاتی تھی کہ یہ جماعت اب خود کفیل ہو چکی ہے.اب کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں رہی.پس یہ ہیں اللہ کے فضل جو قطروں کی طرح نہیں یقینا بارش کی طرح نازل ہوئے ہیں.غیر معمولی طور پر اللہ تعالیٰ نے ہر جہت سے، ہر روحانی جہت سے جماعت پر اپنے فضل فرمائے اور ان کے اخلاص میں غیر معمولی ترقی عطا فرمائی.یہ ایک بہت لمبی داستان ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا مجھے سپین کی باتیں کرنی ہیں اس لئے میں اس کو فی الحال چھوڑتا ہوں.ضمنا یہ بیان کر دوں کہ اس سارے سفر کے دوران غیر مذہبی دنیا میں بھی ہم نے اللہ تعالیٰ کے تصرفات کے عجیب نظارے دیکھے.وہ آنکھیں جو شروع میں خشونت رکھتی تھیں ، وہ نگاہیں جو شک سے دیکھ رہی تھیں ان کے اندر بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں.دشمنی کی نگاہیں دوستی میں بدلیں.دوستی کی نگاہیں محبت میں بدلیں اور پریس کانفرنسز کے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف فرمایا کہ ہر پریس کانفرنس ایک مذہبی ( دعوۃ الی اللہ ) کا ذریعہ بن گئی.اور پھر اس ( دعوۃ الی اللہ ) کو بہت سے اخبارات نے اپنے صفحات میں شائع بھی کیا.یہاں تک کہ بعض ایسے اخبارات نے بھی جو عیسائیت کے نمائندہ تھے.جن کے متعلق یہ کہا گیا تھا کہ یہ تو آئے ہیں صرف حاضری دینے کے لئے چونکہ عیسائی دنیا کے نمائندہ ہیں اس لئے مذہبی باتیں ( دین حق) کے حق میں تو یہ شائع کر ہی نہیں سکتے.اس لئے ان سے توقع نہ رکھی جائے.ایک ایسے ہی اخبار نے سب سے زیادہ شاندار الفاظ میں جماعت احمدیہ کی ( دعوۃ الی اللہ ) کی ہے اور ایسا بھر پور، پُر مغز مقالہ لکھا اور احمدیت کی طرف سے دلائل اس رنگ میں پیش کئے کہ جس سے لکھوکھا غیروں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک احسن رنگ میں ( دین حق ) کا پیغام ملا.اب آپ کہیں اور ذرا سوچیں کہ اس میں مبالغہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام اور ( دین حق ) کا پیغام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کی جھلکیاں عیسائی اخبار کے ذریعہ لکھوکھا انسانوں تک پہنچ

Page 79

مشعل راه جلد سوم 75 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی رہی ہوں.اسی کا نام تو بارش ہے.صرف اس پہلو سے آپ دیکھیں تو کروڑہا یورپ کے بسنے والوں نے اس آنکھ سے ( دین حق ) کو دیکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت کی آنکھ تھی.اس آنکھ سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کا نظارہ کیا جو عاشق صادق حضرت مرزا غلام احمد کی آنکھ تھی اور اس حسن کو محسوس کیا اور اس کی تپش اپنے سینے میں محسوس کی.یہی تو فضل ہیں اللہ تعالیٰ کے جن پر آپ کروڑوں اربوں روپے بھی خرچ کرتے تو اپنی قوت بازو سے اس کو حاصل نہیں کر سکتے تھے.دنیا میں ایسے ملک بھی ہیں جن میں جماعت ہزار ہا بلکہ لاکھوں روپیہ خرچ کر کے بطور اشتہار ہی یہ بات شائع کروانا چاہتی تھی کہ آپ ہمدردی میں نہ سہی پیسے لیجئے اور اشتہار کی قیمت سے دس گنا زیادہ پیسے لیجئے لیکن شائع تو کر دیں کہ سپین میں خدا کا ایک گھر بنایا جا رہا ہے سات آٹھ سوسال کے توقف کے بعد لیکن وہ اس کے لئے بھی تیار نہ ہوئے.اور کہاں یہ کہ بعض ایسے اخبارات جن کے چھپنے کی اتنی تعداد ہے کہ بعض بڑے بڑے پسماندہ ملکوں کے سارے اخباروں سے زیادہ اس ایک اخبار کی اشاعت ہوتی ہے.انہوں نے تمام اہل یورپ میں بڑی فراخدلی کے ساتھ ( دین حق) کی ( دعوۃ ) کی ہے بلکہ بعض اخبار تو ایسے تھے جو ساری دنیا میں جاتے ہیں.صرف یورپ میں نہیں بلکہ امریکہ میں بھی پڑھے جاتے ہیں اور بہت سی ایسی چیزیں تھیں جس کے نتیجہ میں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کے فضل بارش کے قطروں کی طرح بلکہ موسلا دھار بارش کے قطروں کی طرح برسے ہیں تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں.سپین کا شاندار ماضی اب میں سپین کی طرف آتا ہوں.سپین وہ ملک ہے جہاں آٹھ سو سال تک مسلمانوں نے حکومت کی.آٹھ سو سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا.اور ایسی شاندار حکومت کی کہ اس حکومت کے نتیجہ میں تمام سپین تمام مغرب کے لئے روشنی کا مینار بن گیا.عدل و انصاف کو قائم کیا.انسانی حقوق کو ادا کیا.مذاہب کے درمیان عدل اور توازن کو قائم کیا.اور ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ تلوار کے زور سے کسی کو مسلمان بنایا ہو.اخلاق حسنہ کے نتیجہ میں اور مواعظ حسنہ کے نتیجہ میں وہاں قبائل کے قبائل مسلمان ہو گئے.آٹھ سو سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں.اس عرصہ میں تو قوموں کی تاریخ بنتی بھی ہے، بگڑتی بھی ہے.پھر بنتی ہے اور پھر بگڑ جایا کرتی ہے.آپ ہندوستان کی گزشتہ آٹھ سو سال کی تاریخ کا مطالعہ کریں، کتنی حکومتیں آئیں.انہوں نے عروج پکڑا.پھر وہ مٹ گئیں.پھر ان کی جگہ دوسری آئیں.پھر انہوں نے

Page 80

76 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم عروج پکڑا اور مٹ گئیں اور یادگار کے طور پر اپنے کھنڈر چھوڑ گئیں.ایک کے بعد دوسری لہر آئی ہے اور انگریز نے جب حکومت کی ہے تو یوں لگتا تھا جس طرح ہزاروں سال سے یہ قوم ہم پر مسلط ہے حالانکہ ان کے پہلے دن کا آنا اور آخری دن کا جانا حکومت کا عرصہ نہیں.آغاز میں ان کا ادخال اور آخری انجام تین سو سال کے اندر اندر ختم ہو گیا.اس لئے آٹھ سو سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں ہے.لیکن پھر پین پر ایک ایسی ہیبت ناک رات طاری ہوئی ہے کہ سات ساڑھے سات سوسال تک اسلام کا نشان کلیۃ وہاں سے مٹا دیا گیا.نومسلموں پر اتنے شدید مظالم توڑے گئے اور باہر سے آنے والوں پر کہ کچھ کو تو دھکیل کر سمندر سے باہر یہ کہ کر بھجوایا گیا کہ سمندر کے رستے جہاں سے تم لوگ آئے تھے وہاں واپس چلے جاؤ اور ان جہازوں کو عین وسط سمندر میں ڈبو دیا گیا اور ایک بھی ان میں سے بیچ کر اپنے وطن کو واپس نہیں جاسکا اور پھر جو پیچھے تھے ان کو گھیر کر جس طرح پرانے زمانہ میں بادشاہ شکار کیا کرتے تھے ہرنوں کا ، یا جس طرح بابر نے شکار کیا.تزک بابری میں لکھا ہوا ہے.اور بھی ایسی کتابوں میں پرانے زمانے کے شکار کا ذکر ملتا ہے کہ فوج گھیرا ڈال کر ایسے کونوں میں شکار کو اکٹھا کر دیا کرتی تھی جہاں سے آگے نکل بھاگنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا تھا.پھر اچھے شکاری کی ضرورت نہیں ہے.جس طرف بھی گولی چلتی تھی کوئی نہ کوئی شکار اس کے نتیجہ میں پھڑک رہا ہوتا تھا.ویسا ہی حال مسلمانوں کا کیا گیا.مختلف قصبوں سے گھیر گھیر کر ان پر ان کی زمین تنگ کرتے چلے گئے اور ہر جگہ جہاں ان کا قبضہ ہوا وہاں سے انتہائی مظالم کے ساتھ مسلمانوں کو نکال کر دوسرے قصبوں میں دھکیلا گیا یہاں تک کہ جب وہ گھیرا اکمل ہو گیا اور سمندر کی لہروں کے سوا اور کوئی چیز ان کی نجات کے طور پر نہ رہی اس وقت انہوں نے ان کے ساتھ یہ دھوکا کیا کہ جو لڑنے والے بیرونی سپاہی تھے ان سے تو یہ کہا ہم تمہیں جان کی امان دیتے ہیں.یہ جہاز لو اور یہاں سے رخصت ہو جاؤ اور جو بقیہ ان کی قوموں کے نو مسلم لوگ تھے ان کو قتل و غارت کے ذریعہ بہیمانہ طریق پر اس طرح ختم کیا گیا کہ ایک بھی اسلام کا نام لینے والا نہیں رہا.ہزار ہا مساجد، یا ان کے کھنڈرات باقی رہ گئے ہیں.ان میں سے کچھ گر جوں بلکہ بیشتر گرجوں میں تبدیل ہو گئیں.اس کے باوجود آج تک مسلمانوں کی سینکڑوں مساجد پھیلی پڑی ہیں.سینکڑوں قلعے پھیلے پڑے ہیں جو خالی اور ویران ہیں اور کھنڈروں میں تبدیل ہو چکے ہیں.غرناطہ کے قلعہ کی سیر کی جائے جس کا نام الحمراء ہے تو ایک ایک قدم پر دکھ ہوتا ہے.اس طرح وہ پرانی یادوں سے بھرا پڑا ہے کہ وحشت ہونے لگتی ہے اسے دیکھ کر.ایک طرف اس میں بے پناہ حسن ہے جو نظر کو کھینچتا ہے اور دل کو جذب کرتا ہے.دوسری طرف اتنا دکھ اور درد ہے کہ اس سے انسان کا انگ انگ دکھنے

Page 81

77 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم لگتا ہے.صنعت کاری کے حیرت انگیز نمونے ہیں.اتنا عظیم الشان قلعہ ہے اور اتنی حیرت انگیز محنت کے ساتھ ایسی باریک نظر سے صنعت کاری کی گئی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ان لوگوں کو جرات کیسے ہوئی کہ اتنے باریک ہاتھ سے لکھی ہوئی عبارتیں ہیں جو کلیہ اللہ کے نام پر بنی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات پر مبنی ہیں.کوئی اور ذکر وہاں نہیں ملتا سوائے اس کے کہ وہاں بعض بادشاہوں کا نام ملتا ہے کہ ان کے زمانہ میں یہ لکھا گیا.الْقُدْرَةُ لِلهِ ، اَلْعِزَّةُ لِلَّهِ.قلعہ کی دیواروں کے چاروں طرف ارب ہا ارب دفعہ پتھروں میں باریک ہاتھوں سے یہ کھدائی کی گئی ہے اور ایسے خوبصورت رنگ جمائے گئے ہیں کہ آج تک امتداد زمانہ کے باوجود مٹے نہیں.وہاں مسلمانوں کے لئے دکھ کی یادیں ہیں اور اہل سپین کے لئے یہ خطرات کہ یہ یادیں کہیں دوبارہ عالم اسلام کو اس طرح نہ کھینچیں کہ یہ ہم سے انتقام لیں اور دوبارہ ہمیں فتح کرنے کے منصوبے بنائیں.پس جہاں وہ یادیں ایک طرف مسلمانوں کو کھینچی ہیں وہاں مسلمانوں کو ردکرنے کے لئے ایک مقابلا نہ لہر بھی اہل سپین کے دل میں پیدا کر رہی ہیں.خوف پیدا کر رہی ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں.کیوں آتے ہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ چین کو دوبارہ فتح کرنے کا منصوبہ بنا کر اہل اسلام چلے آئیں.ایک یہ پس منظر ہے.ایک اور پس منظر یہ ہے کہ چین عیسائی دنیا میں سب سے زیادہ متعصب فرقہ سے تعلق رکھنے والا ملک ہے.رومن کیتھولک عیسائی فرقہ نہایت متعقب فرقوں میں شمار ہوتا ہے یعنی ویسے تو رومن کیتھولکس سب سے زیادہ کٹر اور آرتھوڈوکس عیسائی ہیں لیکن پین کے رومن کیتھولکس پر بعینہ وہ مثال صادق آتی ہے کریلا اور نیم چڑھا.سپین وہ ملک ہے جہاں مذہبی تعصب نے اتنی شدت اختیار کی کہ دنیا میں سب سے زیادہ مذہب کے نام پر جہاں مظالم توڑے گئے ہیں وہ ملک سپین ہے.Inquisition کی انکوز یشن یعنی مذہب کی بناء پر مظالم توڑنے کا کارخانہ قائم کرنا، یہ پین کی ایجاد ہے اور پین کی یہ ایجاد غیر مذاہب کے لئے نہیں تھی خود عیسائیوں کے لئے تھی.یعنی مذہب میں ان کی شدت کا اندازہ کریں اور سخت دلی کے حال کا اندازہ کریں کہ جن یہود کو وہ ظالم کہا کرتے تھے ان سے اپنے مظالم میں کئی گنا زیادہ بڑھ گئے.یہود نے تو ایک صلیب دی تھی یہاں روزانہ ہزاروں صلیبیں اور اس سے بڑھ کر تکلیفیں دی جاتی تھیں.یہاں تک کیفیت تھی کہ جب میں انگلینڈ میں پڑھا کرتا تھا ہم نے مادام تساؤ میں پین کی Inquisition کے وہ آلات دیکھے جن کے ذریعہ وہ عیسائیوں کو دکھ دیا کرتے تھے اس جرم میں کہ انہوں نے مذہب کے خلاف یا کسی پادری کے خلاف یا کسی ظالم بشپ کے خلاف اظہار رائے کیا ہے.ایسے ایسے خوفناک آلے ایجاد ہو گئے تھے

Page 82

مشعل راه جلد سوم 78 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی کہ ان آلوں کو دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے.کئی عورتیں اور بچے جو دیکھتے تھے ان کی چیخیں نکل جاتی تھیں.ان کی راتوں کی نیند حرام ہو جاتی تھی.اتنا زور پڑا اس ادارے پر جس نے وہ آلے رکھے ہوئے تھے کہ آخر ان کو وہ آلے وہاں سے اٹھانے پڑے.اور اوپر بڑے بڑے بورڈ لگے ہوئے تھے کہ کمزور دل عورتیں اور بچے وہاں نہ جائیں.وہ اس قسم کے خوفناک آلے تھے.وہ تو لمبی کہانی ہے مثلاً آنکڑے کا پہیہ ہوتا تھا جس طرح ہمارے ہاں پرانے زمانہ میں کنوؤں سے پانی نکالنے کا انتظام ہوتا تھا ٹنڈیں لگی ہوئی تھیں.اس طرح اس کے اوپر آنکڑے لگے ہوئے ہوتے تھے.ان کے اوپر انسان کو الٹا کرگس دیا جاتا تھا اور اس کو آہستہ آہستہ اس طرح گھماتے تھے کہ وہ جب دائیں یا بائیں پانچے جاتے تھے تو سارا بوجھ اس آنکڑے کا جلد پر آجاتا تھا وہ اور اندر گھتے تھے اور زخمی جسم کو اور تکلیف پہنچاتے تھے اور مسلسل اس حالت میں وہ چکر دیتے چلے جاتے تھے.بڑی بڑی بوتلوں میں اس طرح بند کر دیا جا تا تھا کہ وہ ہاتھ اور پاؤں ٹیرھا کرنے کی بھی گنجائش نہیں پاتے تھے.صرف سانس کے لئے کارک میں سوراخ رکھا جاتا تھا تا کہ مر نہ جائے اور انتہائی اذیت میں وہاں وہ آدمی اسی طرح کھڑا رہتا تھا اور سسک سسک کر مدتوں کے بعد جان دیتا تھا اور جب تک وہ اس جرم کا اقرار نہیں کر لیتا تھا جو جرم اس نے نہیں کیا ہوتا تھا اس وقت تک اسے یہ سزا اس لئے ملتی تھی کہ Confess کرے.یعنی اقرار جرم کرے.اور جب وہConfess کر لیتا تھا تو کہتے تھے دیکھا جھوٹے اب سمجھ آئی تمہیں.اب تمہیں اس کی سزا ملے گی.یعنی پہلے زبردستی جھوٹ بلوا کر اس سے اس جرم کا اقرار کر وایا جاتا تھا جو اس نے کیا ہی نہیں تھا.پھر اس کے بعد اس جرم کی سزا دی جاتی تھی جواس بیچارے نے اس پہلے ظلم سے تنگ آکر مان لیا ہوتا تھا.حضور کی دعائیں اور اہل سپین کا والہانہ استقبال یہ وہ ملک تھا جہاں بیت احمدی...بنانے کے لئے پہلی مرتبہ حضرت خلیفہ المسح الثالث تشریف لے گئے.جب حضور پہلی دفعہ وہاں گئے تو اس وقت بھی ابھی پین میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی.ایسی شدید مذہبی حکومت وہاں قائم تھی کہ جس کے نتیجہ میں غیر عیسائی فرقوں کو بھی وہاں چرچ بنانے کی اجازت نہیں تھی.جہاں تک میرا علم ہے ابھی تک غالباً رومن کیتھولکس کے سوا اور دوسرے چرچ وہاں نہیں ملیں گے.وہاں حضور نے دعائیں کیں ، وہاں گریہ وزاری کی ، اللہ تعالیٰ سے التجائیں کہیں کہ اے اللہ تعالیٰ ! وہ پاک تبدیلی پیدا فرمادے کہ ہماری دیر یہ تمنائیں برآئیں.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے چند سال کے اندر

Page 83

مشعل راه جلد سوم 79 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی اندر حکومت میں انقلاب آیا اور پہلی دفعہ وہاں جمہوری حکومت قائم ہوئی جس نے مذہبی آزادی کا اعلان کر دیا.ان حالات میں وہاں سپین کی بیت بنی.لیکن جو لوگ صدیوں سے مذہبی تعصبات کا شکار ہوں وہ ایک یا دودن میں یا ایک یا دو سال میں تو نہیں بدل جایا کرتے.چنانچہ جب ہم وہاں (بیت الذکر ) کے افتتاح کے لئے گئے تو ہمارے یورپین احمدی بڑے فکر مند تھے.وہ کہتے تھے کہ حکومت نے اجازت تو دے دی ہے.افتتاح بھی ہوگا.لیکن اہل سپین کو ہم جانتے ہیں.ہم یورپین ہیں ہمیں ان کے مزاج کا پتہ ہے.وہ (دین حق) کے لئے اپنا دل نہیں کھول سکتے.یہ ماہر انسانوں کی رائے تھی.لیکن جب ہم وہاں گئے تو حیرت انگیز انقلاب دیکھا ہے.اتنا عظیم الشان استقبال ہوا ہے احمدیت کا کہ آپ کے یعنی ان کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا جو وہاں نہیں گئے.ہر احمدی جو وہاں جاتا تھا خواہ وہ امریکہ سے آیا ہو یا انڈونیشیا سے یا جاپان سے یا کسی اور ملک سے.اس کا چہرہ دیکھ کر پہچان لیتے تھے کہ یہ کس لئے آیا ہے.اور بڑی خوشی سے اس سے ملتے تھے اور کہتے تھے کہ تم پید رو و آباد ماسکی تا (Mazquita) جانے کے لئے آئے ہو.اور اس کے بعد وہ خوشی کا اظہار کرتے تھے.یہاں تک کہ بعض دفعہ جب ہمارے دوست سپینش بچوں کے پاس سے گزرتے تھے تو بچے محبت کے اظہار کے طور پر لا الہ الا اللہ پڑھنے لگ جاتے تھے.لا الہ الا اللہ کی آواز بڑی پیاری ہے.لیکن عیسائی مشرکین اور پھر رومن کیتھولک اور مشرکین پھر سپینش رومن کیتھولک بچوں کے منہ سے جب لا اله الا اللہ کی آواز آتی تھی تو ایسا سرور آتا تھا ، ایسا دل کھیل جاتا تھا نشے میں کہ اس کا کوئی تصور نہیں کر سکتا جس نے وہ آواز خود اپنے کانوں سے نہ سنی ہو.ہم تھوڑی دیر کے لئے وہاں ساتھ کا گاؤں پید رو آباد ہے وہ دیکھنے کے لئے گئے.چند منٹ کے لئے خیال تھا کہ نظر ڈال لیں وہ گاؤں کیسا ہے.تو وہاں ایک میلہ سا لگا ہوا تھا.جب ہم داخل ہوئے ہیں تو بہت سارے بچے جو زرق برق لباس میں ملبوس تھے انہوں نے ہمیں دیکھا اور سوال نہیں کیا.انہیں تو ہماری زبان آتی نہیں تھی.صرف ایک کلمہ لا الہ الا اللہ سیکھا ہوا تھا.تو انہوں نے کہا لا الہ الا الله ؟ یعنی تم وہی ہو لا اله الا اللہ والے؟ ہم نے کہا ہاں لا الہ الا اللہ.اس پر انہوں نے بڑی خوشی سے کہنا شروع کر دیا.لا اله الا الله لا اله الا الله عجیب کیفیت تھی.لیکن پیدر و آباد ایک چھوٹا سا قصبہ ہے.اس کے ارد گرد کے ماحول میں معمولی سی تبدیلی آنا تو آپ سمجھتے ہوں گے کہ تعجب کی بات نہیں.مگر سارے پین میں ، سارے اندلس میں یہ تبدیلی تھی.اندلس کے ہر شعبہ زندگی میں یہ تبدیلی تھی.سپین کی پولیس کسی زمانہ میں اپنی سختی میں مشہور تھی.اور مجھے بھی اس کا تجربہ ہوا تھا کہ یہاں جیب

Page 84

80 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم کترے ہیں.جیبیں کاٹی جاتی ہیں ، ڈاکومنٹس (Documents) چوری ہو جاتے ہیں.میں اپنا پاسپورٹ گھر جان کر چھوڑ کے آیا.انہوں نے ڈرا تو دیا یہ بتانا بھول گئے کہ یہاں پولیس اتنی سخت ہے کہ اگر پاسپورٹ کے بغیر پکڑا جائے تو اسی وقت اس کو قید کر دیتے ہیں.چنانچہ میں گاڑی میں ابھی بیٹھا ہی تھا میر محمود احمد صاحب بھی میرے ساتھ تھے.تو پولیس والا آیا ہمیں اس کی زبان تو آتی نہیں تھی.اس نے کہا کا شیح.کارڈ دکھاؤ.میں نے کہا میرے پاس تو کوئی نہیں ہے.اس نے کہا کہ اچھا آجاؤ پھر میرے ساتھ.اب اس بیچارے کو قید خانہ کوئی ملے نہ گاڑی میں اور چھ سات گھنٹے کا سفر تھا.اب وہ میرے ساتھ بیٹھ کر یہ سارا عرصہ خود پابند ہو کر نہیں گزارنا چاہتا تھا.وہ ذرا آرام طلب لوگ ہیں.ہم تو تھرڈ کلاس میں تھے.اس کو فرسٹ کلاس کا ایک خالی ڈبہ ملا.اسی میں اس نے مجھے قید کر دیا.میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ بڑی اچھی قید ہے.فرسٹ کلاس کی سیٹ پر میں نے بڑے مزہ سے سفر طے کیا.وہاں تھانے میں جا کر بیٹھ گئے.اس کو میں نے پھر آخر کہا بلاؤ تو کسی ترجمان کو.انہوں نے ایک ترجمان بلایا.ایک امریکن ہوٹل میں کام کرتا تھا.اس کو میں نے کہا تم لوگ بڑے عجیب ہو.ہم تو سمجھتے تھے بڑے مہمان نواز لوگ ہیں.اچھا تم نے ہمیں الحمراء دکھایا ہے کہ تھانے لا کر بٹھا دیا.تو تھانے دار نے یہ شفقت کی کہ میر محمود احمد صاحب سے کہا کہ تم اپنا پاسپورٹ چھوڑ جاؤ اور تم دونوں جا کر سیر کرو اور ہماری نگرانی بھی ہوئی اور ہم نے اسی نگرانی میں سیر کی.واپس آنے تک معاملہ صاف ہو گیا تھا.کرم الہی صاحب ظفر کو ہم نے پیغام بھیجا تھا انہوں نے وہاں منسٹری میں جا کر شور ڈالا تو بڑی سختی سے وہاں سے تھانیدار کو فون آیا اور چونکہ پولیس سٹیٹ تھی.پولیس کے افسروں سے خود پولیس بڑا سخت ڈرتی تھی.تو میں نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ فون پر ادھر سے کوئی افسر بڑی تیزی سے بول رہا تھا اور وہ تھانیدار صاحب ڈر کے مارے بار بار مجھے سلیوٹ کرتے جارہے تھے.حیرت انگیز محبت خیر ایک وہ وقت بھی تھا.ایک یہ وقت آیا کہ پین کی پولیس کو ہم نے ایک اور روپ میں دیکھا اور سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے دلوں میں وہ تبدیلی پیدا کی ہو یہ ناممکن ہے کہ ایک حکومت کی پولیس اس طرح غیر معمولی طور پر محبت کا اظہار کرے.جس وقت ہم وہاں پہنچے ہیں اس وقت سے لے کر آخر وقت تک پولیس کے افسران ہماری حفاظت کیلئے آگے بھی چل رہے تھے پیچھے بھی چل رہے تھے اور ایسا عجیب انتظام تھا کہ ایک ریاست سے جب دوسری میں جاتے تھے تو وہاں آگے پولیس کی کاریں کھڑی ہمارا

Page 85

81 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم انتظار کر رہی ہوتی تھیں.اور وہ Take over( ٹیک اوور ) کرتی تھیں اور سلام کر کے پھر پہلی پارٹی اجازت لیتی تھی اور ایک مستقل پارٹی ساتھ رہتی تھی.صرف یہ حفاظت نہیں کر رہے تھے.حیرت انگیز محبت کا اظہار تھا.جب ہم غرناطہ پہنچے ہیں تو دو واقعات ایسے ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں کیسی تبدیلی پیدا کر دی.ایک پولیس آفیسر صاحب جو ہمارے ساتھ تھے وہ موٹروں کے دروازے کھولتے تھے جس طرح ڈرائیور کھولتے ہیں اور رات کو جب ہم جدا ہوئے تقریبا بارہ ایک بج گئے تھے.غالباً ایک بجے کی بات ہے پریس کا نفرنس بھی ہوئی لمبا عرصہ ہو گیا تھا.وہ صاحب ہے ہی نہیں تھے میرے دروازے کے سامنے سے.میں نے اپنے ترجمان دوست کے ذریعہ اس کو کہلوایا کہ آپ تھک گئے ہوں گے.آپ واپس چلے جائیں.انہوں نے کہا کہ نہیں اس طرح نہیں جاؤں گا.پہلے مجھ سے وعدہ کریں کہ صبح الحمراء دیکھنے کے لئے اپنے کمرہ سے نہیں نکلیں گے جب تک میں نہ آجاؤں.اور مجھے وقت بتا دیں میں اسی وقت پہنچ جاؤں گا.میں نے وقت بتایا.اگلے روز دروازہ کھولا وہ باہر کھڑے تھے.ایسی حیرت انگیز محبت کا اظہار تھا.میں نے سمجھا یہ کوئی معمولی آدمی ہوگا.چھوٹے افسر بھی ہوتے ہیں.اس بیچارے کو شاید ہدایت ہو اس طرح کی.بعد میں پتہ لگا کہ اس شہر کے وہ اسسٹنٹ پولیس کمشنر تھے.آخر پر جب ہم جدا ہونے لگے اور پریس والوں نے میرے تاثرات پوچھے تو میں نے ان سے کہا کہ اس شہر کو میں نے دو دفعہ دیکھا ہے.دونوں دفعہ پولیس کسٹڈی (Police Custody) میں دیکھا ہے ایک دفعہ اس طرح دیکھا کہ پولیس مجھے مجرم سمجھ کر بیرونی دنیا کی مجھ سے حفاظت کر رہی تھی اور آج اللہ کے فضل سے اس طرح دیکھا ہے کہ دنیا کو مجرم سمجھ کر میری حفاظت ہورہی تھی ان سے میں نے کہا میں تو بحیثیت انسان وہی شخص ہوں.اسی طرح کا انسان ہوں.کوئی تبدیلی میرے اندر پیدا نہیں ہوئی.یعنی میرا نام بھی وہی ذات بھی وہی.مزاج بھی وہی تعلیم بھی وہی.کیا فرق پڑا ہے.صرف اور صرف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کی برکت ہے کہ جن کی نمائندگی میں میں اس دفعہ پین گیا تھا اور ایسی حیرت انگیز طور پر کایا پلٹ گئی.وہاں جب ہم غرناطہ پہنچے ہیں تو پریس کا حال یہ تھا کہ جاتے ہی پہلے ہمیں ہوٹل میں داخل ہوتے ہی آواز آئی.اَهْلًا وَّ سَهْلًا وَمَرْحَبًا.ہم نے حیرت سے پوچھا کہ یہ اهلا و سهلا کہنے والے کون ہیں.تو پتہ لگا کہ پریس کے نمائندے انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے یہ الفاظ سیکھے ہیں آپ کو خوش آمدید کہنے کے لئے.جب پریس انٹرویو شروع ہوا تو جس طرح ہمیں باقی پر یس کے ساتھ واسطہ پڑتا رہا ہے اور

Page 86

82 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم مختلف ملکوں میں پریس کا تصور مختلف ہے.بعض جگہ اچھے پریس کی علامت یہ ہے کہ سوفی صدی جھوٹ بولا جائے اور یہ علامتیں اور یہ تعریفیں بدلتی جاتی ہیں کہیں نوے فیصدی جھوٹ آجاتا ہے کہیں اسی فیصدی آ جاتا ہے کہیں ستر فیصدی.چنانچہ سپین میں جو دوسرا پریس انٹرویو ہوا اس میں انہوں نے ہمارے متعلق ایک لفظ جھوٹ نہیں بولا.ہر وہ بات نمایاں طور پر بیان کی جو کہ ( دین حق ) کی تائید میں تھی اور دوسرے دن کے پرچے دیکھ کر ہم حیران رہ گئے کہ اگر کوئی احمدی پریس نمائندہ ہوتا تو اس سے بہتر وہ ہمارے انٹرویو کو شائع نہیں کر سکتا تھا.غرناطہ سے لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونے والے اخباروں نے ہمارا چرچا کیا اور اس اعلان کی سرخیاں لگائیں کہ چین نے ( دین حق کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں.یہی نہیں بلکہ جب وہ انٹرویو لے کر رخصت ہوئے تو ضمناً انہوں نے ہم سے پوچھا کہ آپ کا پروگرام کیا ہے.آپ نے الحمراء بھی دیکھنا ہوگا.ہم نے کہا ہاں ضرور دیکھنا ہے.انہوں نے کہا انداز آ آپ کس وقت جائیں گے.ہم نے بتایا کہ فلاں وقت سے فلاں وقت تک وہاں ہوں گے.وہ پریس کے نمائندے پھر وہاں بھی پہنچے ہوئے تھے.اور اس طرح ساتھ ساتھ پھرتے رہے کہ ہمیں دیکھنے کے لئے جو ہجوم اکٹھے ہو جاتے تھے ان کو وہ ہماری ( دعوۃ الی اللہ ) کرتے رہے.وہ اپنی زبان میں ان کو بتاتے رہے کہ یہ کیا ہے.(دین حق ) کیا ہے.اور یہ کیا کہنے آئے ہیں اور کیا لے کر آئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے فضل کیا پہلے تو ہمارے پاس صرف ایک دو مترجم تھے یہ دو چار مترجم بھی ساتھ شامل ہو گئے.آخر پر جب ہم جدا ہونے لگے تو وہ کہنے لگے ہمیں بتا ئیں.آخری پیغام دیں.آپ کیا کہنا چاہتے ہیں.کوئی ایک فقرہ بتا ئیں جس میں یہاں آنے کی غرض کا خلاصہ آجائے.میں نے ان سے کہا کہ ایک فقرہ تو پھر میرے دل میں یہ آرہا ہے کہ جو چیز اہل سپین نے ( دین حق) سے تلوار کے زور سے چھینی تھی ہم محبت کے زور سے دوبارہ فتح کرنے کے لئے آگئے ہیں.چنانچہ دوسرے دن کے اخباروں میں یہی عنوان لگا ہوا تھا.انہوں نے نمایاں کر کے یہ اعلان لگایا کہ اہل سپین نے ( دین حق) سے جو تلوار کے زور سے چھینا تھا آج ( دین حق) کے نمائندے محبت کے زور سے دوبارہ اس کو واپس لینے کے لئے آگئے ہیں.دوسرے دن جب ہم واپس روانہ ہونے لگے تو ہمارا پروگرام یہ تھا کہ صبح جلدی روانہ ہوں گے.خیال یہ تھا کہ گیارہ ساڑھے گیارہ بجے تک قرطبہ پہنچ جائیں.وہاں مسجد بھی دیکھنی تھی.اس کے بعد تو پھر اتنی مصروفیت تھی ناممکن تھا باہر نکل کر ہم کوئی چیز دیکھ سکتے.تو خیال یہی تھا کہ پہلے دن غرناطہ دوسرے دن واپسی ر قرطبہ کی مسجد دیکھیں گے اور اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بے شمار وہاں کام تھے جو کر نے

Page 87

مشعل راه جلد سوم 83 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی والے تھے لیکن روانگی میں دیر ہورہی تھی.میں نے پتہ کیا یہ دیر کیوں ہورہی ہے تو مجھے یہ بتایا گیا کہ پولیس کہتی ہے کہ جس رستہ سے آپ نے گزرنا ہے اس رستہ پر رش بڑا ہوتا ہے اس لئے جب تک ہم وہاں کی ساری ٹریفک بند نہ کرالیں اور رستہ خالی نہ کر الیس ہم آپ کو لے کر نہیں چلیں گے.پس یہ جو حالات ہیں عقل میں آہی نہیں سکتے.کیونکہ ہر جگہ ہم نے انتہائی سچائی کے ساتھ اپنی حقیقت سے ان کو آگاہ کر دیا.کوئی چیز چھپا کر نہیں رکھی.ہر جگہ جاتے ہی جو پریس انٹرویو ہوا اس میں ہم نے اہل سپین کو بتایا کہ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے ملک کے نزدیک بھی مسلمان نہیں کہلاتے.ہم آئے تو ہیں ( دین حق ) کی نمائندگی میں لیکن کوئی لگی لپٹی نہیں رکھنا چاہتے.تمہارا سلوک ہم سے کیا ہو یہ تمہاری مرضی ہے.لیکن ہم سچائی کے اظہار سے باز نہیں آئیں گے.ہم وہ کمزور جماعت ہیں ، اتنی کمزور جماعت کہ جن کو اپنے ملک میں بھی آزادی ضمیر کا حق نہیں ہے.ہمیں اپنے آپ کو مسلمان کہنے کا حق نہیں دیا جا رہا.یہ نہ سمجھنا کہ بڑے بڑے اسلامی ممالک اور بڑے بڑے طاقتور ممالک کے نمائندے بن کر آئے ہیں اس لئے تم عزت کا سلوک کرو.ہم تو خاکسار لوگ ہیں.ہماری کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.ہم تو بے بس اور بے چارے لوگ ہیں.اس لئے یہ سمجھ کر ہم سے جو سلوک کرنا ہے وہ کرو.لیکن دنیاوی حکومتوں کا نمائندہ سمجھ کر کوئی سلوک نہ کرنا.ہم صرف اور صرف اپنے رب کے نمائندے ہیں اور صرف اور صرف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمائندے ہیں.پس یہ اسی رب کے جلوے تھے جس نے دلوں میں یہ پاک تبدیلی پیدا کی.اُسی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن تھا جس نے دل جیتے ہیں.ہمارا اس میں کوئی دخل نہیں.ہر جگہ پیار اور محبت کے آثار حیرت انگیز طور پر دیکھنے میں آئے یہاں تک کہ جو احمدی باہر سے ملنے آتے تھے وہ حیران اور ہکا بکا رہ جاتے تھے اور بیان کرتے کرتے بعض دفعہ درد کی وجہ سے ان کی آواز میں روندھی جاتی تھیں کہ ہمیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ ہم سے ہو کیا رہا ہے.افریقنوں نے یہی کہانی بیان کی.انڈونیشینز نے یہی کہانی بیان کی.جرمنوں نے یہی کہانی بیان کی.اور انگلستان سے آنے والوں نے یہی کہانی بیان کی.امریکہ سے آنے والوں نے.کینیڈا سے آنے والوں نے بھی.غرض جس نے بیان کیا یہی بیان کیا کہ جب سے ہم پہنچے ہیں ایسی محبت کا سلوک ہو رہا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم سے ہوا کیا ہے.گویا کہ ہم شاہی مہمان ہیں.ایک ہوٹل میں احمدی ٹھہرے ہوئے تھے وہاں کے دوست آئے.انہوں نے کہا ہمیں تو سمجھ نہیں آتی ہوا کیا ہے.ہوٹل والے نے اپنا سارا ساز و سامان نکال کر ہمارے سپر د کر دیا ہے.نہ کچن نہ اپنے کمرے رکھے.سب کچھ دے دیا ہے کہ تم مزے

Page 88

مشعل راه جلد سوم 84 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے رہو.اپنا گھر سمجھ کر رہو.تقریبات کا جو منظر ہے وہ تو نا قابل بیان ہے.خاصا گرم ملک ہے.اور اوپر سے شامیانے اور وہ دن خاص طور پر تھا بھی گرم.بے حد تکلیف میں لوگ بیٹھے ہوئے تھے.اوپر سے ایک لمبا پر وگرام جس میں پہلے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی تقریر اور پھر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی تقریر.اس سے پہلے لمبی تلاوت اور ایک لمبی نظم اور پھر ساتھ ساتھ ان کے ترجمے.یعنی جو دو گھنٹے کا پروگرام ہو وہ چار گھنٹے میں جا کر ختم ہو.اور پھر بیچ میں کرم الہی صاحب کی بھی تقریر.پھر آخر پر میری تقریرتھی.مجھے پر یہ تاثر تھا کہ جب تک میرے کچھ کہنے کی باری آئے گی صرف احمدی بیٹھے رہ جائیں گے باقی سب جاچکے ہوں گے.حقیقتا میں یہی سمجھ رہا تھا.لیکن میں اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھ رہا تھا.میں نے کہا اے خدا ! ان کو پیغام پہنچا نا ہے خواہ ظفر اللہ خاں کی زبان سے پہنچے یا ڈاکٹر سلام کی زبان سے پہنچے.پیغام ( دین حق ) تو پہنچ رہا ہے.میں اس پر بڑا راضی ہوں.لیکن حیرت کی انتہاء نہ رہی جب دیکھا کہ آخر وقت تک سب لوگ بیٹھے رہے اور اہل سپین کے مزاج کو جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ بے انتہاء باتیں کرنے والی قوم ہے اور زیادہ دیر بیٹھ ہی نہیں سکتے.وہ ادھر ادھر پھرنے لگ جاتے ہیں.خوب باتیں کرتے ہیں.پھر وہ بہت بیج کھاتے ہیں اور ہر وقت خربوزوں یا تربوز کے بیج کھاتے رہتے ہیں.ان کی توجہ زیادہ بیج کی طرف ہی رہتی ہے.وہاں سارے ہزاروں کے مجمع میں کسی نے بیچ نہیں کھایا.کسی نے باتیں نہیں کیں.اور اس خاموشی سے تقریر سنی ہے کہ تقریر کے دوران اگر کوئی بچہ بھی بولتا تھا تو ساتھ بیٹھا ہو آدمی اس کو خاموش کر دیتا تھا.اور بیت کا صحن بھر گیا.اس سے باہر شاہراہ تھی اس سے باہر لوگ کھڑے تھے.گاؤں امڈ آیا تھا.اور بہت دور دور سے بعض لوگ پہنچے ہوئے تھے.بعد میں جب ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہوئی ہے.آپ کس طرح تشریف لائے یعنی بعض احمدی دوستوں نے ان سے مل کر سوال کئے تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے تو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر یہ خبر یں سنی تھیں.ہمیں تو کوئی دعوت نامہ نہیں پہنچا.یعنی ریڈیو کا نظام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مسلسل پروپیگنڈا کر رہا تھا.باوجود اس کے کہ ہم ان کو یہ بتا چکے تھے کہ یہاں ہماری کل تعداد میں ہے.آپ اندازہ کریں ایک غیر ملک میں ، ایک عیسائی ملک میں تمہیں کی تعداد کا کوئی دعویدار ہو اس کے ساتھ یہ سلوک کہ بیت بشارت سپین کی افتتاحی تقریب کو تقریباً ایک ہفتہ تک سپینش ٹیلی ویژن دن میں تین تین بار دکھاتی رہی ہے.اپنے ہی خرچ پر انہوں نے باقی جو نظام ہیں یعنی دنیا کے ٹیلی ویژن کے نظام ہیں ان کو بھی بھجوائی.اس سے پہلے سوئٹزر لینڈ کے ایک احمدی نے مجھے یہ کہا کہ آپ کو پبلسٹی پر خرچ کرنا پڑے گا ورنہ ہماری

Page 89

85 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم تقریب کا کسی کو پتہ بھی نہیں لگنا.میں نے کہا ہمارے پاس تو پیسے نہیں ہیں.پہلے ہی بہت پیسے خرچ ہو چکے ہیں.اس لئے نہیں ہوتی پبلسٹی تو نہ ہو.اللہ تعالیٰ ذمہ دار ہے ہم کوئی ٹھیکیدار تو نہیں لگے ہوئے.جس کا کام ہے وہ جانے.وہ واقعہ میرے ذہن میں آیا کہ جب خانہ کعبہ پر حملہ کیا گیا.اصحاب فیل حملہ آور ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب عرب کے رؤساء میں سے وہ شخص تھے جن کو نمائندہ بنا کر ان کے پاس بھجوایا گیا.ابرہہ کے پاس نمائندگی کے طور پر ان کو بھجوایا گیا کہ وہ کسی طرح اس کو سمجھا بجھا کر باز رکھیں.یہ بڑی مقدس جگہ ہے.تم اس کی تحقیر نہ کرو.وہ گئے اور انہوں نے اپنے اونٹوں کی باتیں شروع کر دیں.یعنی خانہ کعبہ کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا.کہا تو بس یہ کہ میرے سو اونٹ تھے ان میں سے اتنے چوری ہو گئے ہیں.تمہارے لشکر والوں نے چوری کئے ہیں اور میں سردار ہوں اس لئے تم میرے اونٹ واپس کرواؤ.تم اچھے بادشاہ ہو جو پرانے سرداروں کی عزت کا کوئی خیال ہی نہیں کرتے.میرے اونٹ واپس کر و.وہ چپ کر کے بات سنتا رہا.اس کے بعد اس نے کہا کہ آج میں تم لوگوں سے بڑا ہی مایوس ہوا ہوں.تم ایسی بے غیرت قوم ہو کہ سارا وقت تمہیں اپنے اونٹوں کی فکر ہے حالانکہ اہل کعبہ کا نمائندہ بن کر آئے ہو.اور اس کعبہ کی کوئی فکر نہیں جس کو مسمار کرنے کے لئے میں اتنا بڑا لشکر لے کر آیا ہوں.اس نے کہا میں اسی سوال کا انتظار کر رہا تھا.دیکھو! میں اونٹوں کا مالک ہوں.تم نے اندازہ کر لیا ہے کہ مجھے اپنے اونٹوں کی کتنی فکر ہے.اس خانہ کعبہ کا میرا رب مالک ہے.وہ فکر کرے گا اپنے گھر کی.تو میں نے یہ دل میں سوچا کہ وہی رب ہمارا رب ہے جو خانہ کعبہ کا رب تھا.وہ پبلسٹی کی آپ فکر کرے گا.ہمیں کوئی ضرورت نہیں اس پر کسی قسم کے خرچ کرنے کی.چنانچہ انہوں نے اپنے خرچ پر وہ پبلسٹی اس طرح کی کہ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آئی کہ کیا واقعہ ہوا.ہمیں عرب ممالک سے خط آنے لگ گئے کہ ہم بیٹھے ہوئے ٹیلی ویژن دیکھ رہے تھے اچانک آپ کی تصویر آئی اور پتہ لگا کہ بیت بشارت کا افتتاح ہو رہا ہے.یعنی وہ عرب ممالک جہاں احمدیت ban کی ہوئی ہے وہاں ٹیلی ویژن پر بیت بشارت کا سپین کا افتتاح خدا تعالیٰ کے فرشتے دکھارہے تھے.اس لئے کون کہتا ہے کہ یہ مبالغہ ہے کہ آسمان سے ہم نے موسلا دھار بارش کی طرح خدا کے فضلوں کو برستے دیکھا ہے.خدا کی قسم یہ مبالغہ نہیں ہے.اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے.اس خدا کی قسم کھا کر میں کہتا ہوں جو خانہ کعبہ کا خدا ہے، جو محمد مصطفی کا خدا ہے کہ اس بات میں ایک لفظ بھی مبالغہ نہیں ہے.ہماری زبانیں بیان نہیں کر سکتیں اس کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوئے ہیں.

Page 90

86 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم یہ تقریب آئی اور گزرگئی اور ہماری طرف سے اس کی تفصیلی رپورٹیں بھیجنے کا کوئی مناسب انتظام ہی نہیں تھا.ہماری طاقت ہی نہیں تھی.لیکن حیرت انگیز طور پر یورپ کے سارے ممالک نے اس کو Cover کیا.کس طرح کیا.کیا واقعہ ہوا.مجھے تو سمجھ نہیں آیا بیسیم ملک باقی رہتا تھا.تقریب کے دوسرے دن میں بیٹھا ہوا تھا تو اچانک دیکھا کہ ایک تحکیم کا نمائندہ بھی پہنچ گیا ہے.انہوں نے کہا کہ میں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر یہ خبریں سنیں اور میں حیران رہ گیا کہ میں اس کو کس طرح miss کر گیا ہوں.اس لئے میں میڈرڈ سے صرف اس غرض آیا ہوں کہ آپ مجھے انٹرویو دیں اور میں اسے اپنے ریڈیو سے نشر کرواؤں.چنانچہ وہ خودانٹرویو لے کر گیا اور شائع کیا.آنے سے پہلے سوئٹزر لینڈ سے دو بڑی دلچسپ خبریں موصول ہوئیں.ایک یہ کہ جنیوا جہاں ہم نے کوئی پریس انٹرویو دیا ہی نہیں.واقف ہی نہیں وہاں کے پریس کے.وہاں کے سب سے زیادہ کثیر الاشاعت اخبار کی Cutting آئی.جس نے اتنی تفصیل سے ( بیت ) سپین پر اور احمدیت پر مضمون لکھا ہے کہ اس کو پڑھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے کہ اس کو کیا سوجھی ہے بیٹھے بٹھائے احمدیت پر اور بیت بشارت پر اتنا شاندار مضمون لکھ دیا ہے.اور وہ وہاں کا کثیر الاشاعت اخبار ہے.سوئس عیسائی کا قبول حق اور دوسری خبر جس سے دل باغ باغ ہو گیا وہ یہ تھی کہ ایک سوئس عیسائی جو گزشتہ کئی سال سے سپین میں آباد ہوا ہوا تھا وہ سوئٹزر لینڈ کے مشن میں پہنچا.پہلے خط کے ذریعہ رابطہ قائم کیا پھر خود پہنچ کر اس نے یہ واقعہ سنایا.اس نے کہا کہ میں پچھلے پانچ سال سے سوچ رہا تھا کہ ( دین حق ) اچھامذ ہب ہے.میں ( مومن ) ہونا چاہتا تھا.لیکن کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا کروں.میں نے بڑے بڑے مسلمان بادشا ہوں کو خط لکھے.شیعوں سے بھی رابطہ کیا.سنیوں سے بھی رابطہ کیا.مختلف ممالک کے علماء سے ملا.انہوں نے بھی از راہ شفقت اپنے علماء بھجوائے اور میری گفت و شنید ہوئی.لیکن مجھے یوں لگتا تھا کہ دل پر ایک تالا ہے جو کھلنے میں نہیں آتا.چند دن پہلے میں بیٹھا ٹیلی ویژن دیکھ رہا تھا تو اچانک بیت بشارت کا افتتاح شروع ہو گیا.اور دیکھتے دیکھتے مجھے یوں محسوس ہوا کہ آسمان سے کوئی ہاتھ آیا اور اس نے چابی سے تالا کھول دیا ہے.اس ہاتھ نے وہ تالا کھول دیا اور مجھے اسی وقت پوری طرح انشراح ہو گیا اور مجھے معلوم ہو گیا کہ خدا اسی لئے مجھے رو کے ہوئے تھا کہ یہ دین حق) ہے جس میں مجھے داخل ہونا چاہیے.چنانچہ وہ اسی وقت بیعت کر کے

Page 91

مشعل راه جلد سوم 87 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گیا.ایسے بے شمار واقعات ہیں جو بات کرو تو کھلتے چلے جاتے ہیں.بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے.یوں لگتا ہے جیسے کوئی نہ ختم ہونے والی کہانی ہے.جب میں آیا تھا بات شروع کرنے کے لئے میرا ذہن اس وقت بالکل خالی تھا.مگر مجھے علم تھا کہ یہ مضمون ہی ایسا ہے جب میں اس میں داخل ہوں گا تو اللہ تعالیٰ ایک کے بعد دوسری راہ کھولتا چلا جائے گا.میں پہلے پریس کے متعلق بیان کر رہا تھا.اس کے متعلق اب آخر پر ایک دلچسپ واقعہ سنا دیتا ہوں.چونکہ یہ مضمون تو ایک قسط میں ادا ہونے والا ہے ہی نہیں.آپ لوگوں نے واپس بھی جانا ہے اس لئے مجھے ختم کرنا چاہیے.پریس میں میں نے یہ محسوس کیا کہ جب وہ دیکھتے تھے کہ ( دین حق ) کی (دعوت الی اللہ ) شروع ہوگئی ہے اور اثر پڑنے لگ گیا ہے یعنی خود پریس والوں پر بھی ایسا نمایاں اثر پڑنے لگ جاتا تھا کہ وہاں ہاں میں ہاں ملانے لگ جاتے تھے.اور یہ عجیب بات تھی.تو ان میں سے بعض جو ( دین حق) کے خلاف کچھ تعصب رکھتے تھے وہ چاہتے تھے کہ رخ اس طرح پلئے کہ کسی طرح ( دین حق ) کے خلاف بات ہو جائے.ان کے پاس دو ہتھیار تھے.ایک یہ کہ ایران کے خلاف وہاں کے پریس نے اتنا شدید اور ظالمانہ پرو پیگنڈا کیا ہوا ہے کہ مجھے پتہ نہیں وہاں ایران میں کیا ہوتا ہے.لیکن جو تصویر وہاں کھینچ رکھی ہے وہ اتنی بھیانک ہے اور ( دین حق) کے ساتھ اس طرح باندھ رکھی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر خمینی صاحب کا نام لے کر سوال کیا جائے تو یہ لوگ پھنس جائیں گے.اگر مخالفت کریں گے تو ایک اسلامی سربراہ مملکت کی مخالفت کر رہے ہوں گے.اگر تائید کریں گے تو ہم کہیں گے دیکھو جی یہ وہی اسلام ہے.چنانچہ یہ ایک سوال ضرور ہوتا رہا.اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی جس رنگ میں جواب دیا وہ پھر کسی وقت بیان کروں گا.ورنہ میرے انصار بھائی کہیں گے ابھی ابھی انصار سے نکل کر آئے ہو ساری باتیں خدام کو بتا دیں ہمارے لئے کیا رکھا ہے.تو وہ فکر نہ کریں ان کو بتانے کے لئے بہت موجود ہیں.عورت اور اسلام دوسرا سوال تھا عورتوں کے متعلق کہ ( دین حق ) عورت پر ظلم کرتا ہے.عورت سے یہ سلوک کرتا ہے وہ سلوک کرتا ہے.اس کا جواب دینے کی بھی اللہ تعالیٰ اس رنگ میں توفیق دیتا تھا کہ بعض دفعہ عورت نمائندہ خود اقرار کرتی تھیں پریس کانفرنس میں کہ اسلام تو عورت کو مغربی سوسائٹی سے زیادہ عزت کا مقام دیتا ہے.

Page 92

مشعل راه جلد سوم 88 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ہم اب تک دھوکے میں رہے.اوسلو میں یہ واقعہ ہوا.وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجلس کے جو لوگ تھے وہ شہر کے بڑے اچھے معززین تھے.ان کے ایک گروہ کے اندر بڑی دلچسپ ( دعوۃ الی اللہ ) کا موقع مل گیا.اس سے پہلے صبح پر یس کا نفرنس تھی وہاں ایک عیسائی بہت ہی متعصب عورت نمائندہ آئی ہوئی تھی.اس کی کچھ پیش نہیں جاتی تھی.اس بیچاری نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح نیک اثر زائل ہو جائے لیکن نہیں ہو سکا.اس نے پھر یہ سوچا کہ میں دوبارہ جو معزز مہمان ہیں ان میں بیٹھ کر پھر کوئی ایسی بات کروں.چنانچہ جب ( دعوۃ الی اللہ ) ہو رہی تھی اس نے پھر یہی عورت کا سوال اٹھا دیا.جب میں نے جواب دیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارے مطمئن ہو گئے.اس وقت اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی.اس نے سوچا کہ یہ تو قابو نہیں آتا شاید اس کی بیوی قابو آ جائے.تو مجھے اس نے کہا آپ کی بیوی ساتھ آئی ہوئی ہیں.میں نے کہا ہاں آئی ہوئی ہیں.کہاں ہیں.میں نے کہا اوپر ہیں.کہا : ہمیں اجازت ہے ملنے کی.میں نے کہا آزادی ہے بے شک شوق سے ملیں.کوئی قید خانہ تھوڑا ہے ( دین حق) میں کہ عورتوں کو قید کر دینا ہے.جائیں جتنی دیر مرضی بیٹھیں.چنانچہ میں خود او پر جا کر ان کو چھوڑ آیا لیکن وقت نہیں ملا تعارف کروانے کا کہ یہ پریس کی نمائندہ ہیں ورنہ میری بیوی ذرا زیادہ ہوشیار ہوکر بیٹھتیں.اندر جا کر اس نے ایسی ہوشیاری کی کہ بہت ہی محبت اور پیار کا سلوک کر کے کہا.بچاری مظلوم عورت اچھی بھلی شکل، ٹھیک ٹھاک کپڑے اور قید ہوئی ہوئی ہے.تمہیں تو بڑی تکلیف ہوتی ہوگی یہاں پھر کے.یہ ساری دنیا آزاد پھر رہی ہے.تم نے برقع تمبوسا پہنا ہوا ہے اور اس میں پھر رہی ہو.اور دل چاہتا ہوگا میں اسے پھاڑ پھوڑ کے باہر نکل جاؤں اور دنیا میں جس طرح ہماری عورتیں آزاد ہیں اس طرح مزے لوں.جب وہ خوب تقریر کر چکی تو میری بیوی نے اس سے کہا کہ جو تم نے باتیں کی ہیں ان کی مجھے تو کوئی بھی تکلیف نہیں.میں بڑے مزے میں ہوں.( دین حق ) تو ہمیں بڑی پیاری زندگی دے رہا ہے.میں نے بڑی سیریں کی ہیں.جہاں میرا میاں جاتا ہے وہاں میں ساتھ جاتی ہوں اور جو وہ دیکھتا ہے وہ میں بھی دیکھتی ہوں اور ہم تو بڑا لطف اٹھا رہے ہیں.ایک تکلیف مجھے بڑی سخت ہے کہ تم لوگ اتنے گندے ہو، اتنے ننگے ہو، کوئی شرم حیا نہیں ہے.سارا عرصہ جو میں یہاں ٹھہری ہوں نظر اٹھاتی تھی تو واپس آجاتی تھی ، شرم کے مارے دیکھا نہیں جاتا تھا.وہ ایسی شرمندہ ہوئی کہ کہنے لگی دیکھو میں نے تو ٹھیک کپڑے پہنے ہوئے ہیں.اس انٹرویو کے جلد بعد میں نے وہاں سے اسے گھبرا کر نکلتے دیکھا ہے.مجھے نہیں پتہ تھا واقعہ کیا ہوا.انگریزی میں ایک محاورہ ہے کہ Bat out of the hell کہ جس طرح چنگا در گھبرا کر جہنم سے نکلتی ہے تو عجیب منظر ہوتا ہے.یہ ان کا تصویری زبان میں ایک محاورہ ہے

Page 93

89 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم کہ کوئی آدمی پر جھاڑ کر نکل رہا ہو کہیں سے.تو میں نے دیکھا کہ وہ بڑی گھبرا کر اوپر سے نیچے اتری ہے.کوئی بات تو اس نے نہیں کی.مگر جب میں نے پتہ کیا اپنی بیوی سے تو اس نے کہا وہ پریس کی نمائندہ تھی مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا.یہ واقعہ ہوا ہے میرے ساتھ.پس اللہ تعالیٰ ہر ایک کی مددفرما رہا تھا.یعنی سادہ آدمی کی بھی مددفرماتا تھا اور ہوشیار کی بھی مددفرماتا تھا.سارا عرصہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور سہارے کے طفیل یہ سفر گز را ہے ورنہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.جہاں یہ پریس کی نمائندہ اپنی کوشش کر رہی تھی کہ کسی طرح ( دین حق ) کا اثر مٹ جائے وہاں دو طالب علم بھی بیٹھے ہوئے تھے اور ایک پادری بھی بیٹھا ہوا تھا.وہ یونیورسٹی کے سینئر طالب علم تھے.اور ایک اچھا چوٹی کا پادری وہاں موجود تھا.جب ہم فارغ ہوئے ہیں تو ہمارے دوستوں نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ وہ یونیورسٹی کے دونوں لڑکے اپنے پادری کے پیچھے پڑ گئے کہ تم نے ہمیں ساری عمر دھوکے میں رکھا ہے.اصل عیسائیت کا تو ان کو پتہ ہے.تمہیں تو کچھ پتہ ہی نہیں.اور ( دین حق ) اتنا خوبصورت مذہب.اس کے متعلق آج ہمیں سمجھ آئی ہے.وہ ان سے بحث کرتا تھا.وہ اس کو جواب دیتے تھے اور اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے کہ تم نے اب تک ہم سے کیا ظلم برقرار رکھا تھا.بالکل جھوٹ بولتے رہے ہو.( دین حق ) سچا مذہب ہے.اس نے آخر شرم کے مارے ان سے کہا کہ مجھے تم چھوڑو.مجھے جلدی ہے.انہوں نے کہا جلدی ولدی کوئی نہیں.ہم نے تمہیں نہیں چھوڑنا.اس نے کہا اچھا پھر یہاں سے تو ہٹ جاؤ یہ لوگ دیکھ رہے ہیں.وہ چل کر دور جانے لگا.انہوں نے اسے گیٹ پر پھر پکڑ لیا.نہیں جانے دیا.گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ اس کے پیچھے پڑے رہے.پس یہ اللہ کے فرشتے تھے جو یہ کام کر رہے تھے.اس میں کسی انسانی طاقت کا بس نہیں تھا.ایسی شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش نازل ہوئی ہے کہ اس پر جو میں نے اپنے پیغام میں لکھا وہ بالکل صحیح تھا.حقیقت یہ ہے کہ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ ساری دنیا میں احمدی خدا کی راہ میں آنسو بہا رہے ہیں.ہر قطرہ جوگرتا ہے بھاپ بن کر آسمان پر اٹھتا ہے وہ فضلوں کی بارش بن کر دوبارہ ہم پر برسنے لگتا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمتوں کے یہ دور برقرار رکھے.ایک سے ایک اگلی منزل کی طرف ہم بڑھتے رہیں.اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور شکر کا حق ادا کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے :- لَئِنْ شَكَرُ تُم لَا زِيدَنَّكُمْ (ابراہیم : 8) جب تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور بھی بڑھاؤں گا.وہ واقعہ تو آپ نے سنا ہوا ہے کہ جو بادشاہ بھی شکر

Page 94

مشعل راه جلد سوم 90 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ گزار ہوتے ہیں وہ بھی اچھی بات کے نتیجہ میں زیادہ فضل عطا کیا کرتے ہیں.”زہ والا واقعہ آپ میں سے اکثر نے سنا ہوگا.بار بار بھی سناؤ تو اس کا مزہ ختم نہیں ہوتا.کہتے ہیں ایک بادشاہ سیر کے لئے نکلا.اس نے اپنے وزیر کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ جب بھی میں زہ کہوں کسی اچھی بات پر ، تو تم اشرفیوں کی ایک تھیلی عطا کر دیا کرنا.چنانچہ اشرفیوں کی کئی چھوٹی چھوٹی تھیلیاں ساتھ ہوا کرتی تھیں اس حال میں بادشاہ سیر کے لئے نکلتے تھے.ایک کسان بوڑھی عمر کا بیچارا استر اسی سال کا ، وہ کھجور کی گٹھلیاں لگا رہا تھا.بادشاہ نے اس سے تعجب سے پوچھا کہ اے کسان ! تم تو بوڑھے ہو گئے ہو قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھے ہو.یہ کھجور کیوں لگا رہے ہو.کیوں بریکار محنت کر رہے ہو.اس نے کہا ہمارے باپ دادا نے کھجور لگائے تھے ہم نے ان کا پھل کھایا اب ہم محنت کریں گے تو اگلے اس کا پھل پائیں گے.بادشاہ کو یہ بات ایسی پیاری لگی کہ اس کے منہ سے زہ نکل گیا.اسی وقت وزیر نے اشرفیوں کی ایک تھیلی اسے پکڑا دی.اس کسان نے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ تو کہتے تھے کہ تمہاری محنت کو پھل نہیں لگے گا.میری محنت کو تو ابھی پھل لگ گیا.بادشاہ کے منہ سے پھر بے اختیار نکل گیا زہ.اس وزیر نے دوسری تھیلی نکالی اور اس کو پکڑا دی.اس نے کہا بادشاہ سلامت مجھے اور بھی تعجب ہے کہ کھجور تو سال میں ایک دفعہ پھل دیتے ہیں.میرے کھجور نے تو دو دفعہ پھل دے دیا ہے.بادشاہ نے کہا زہ.اور وزیر نے ایک اور تھلی پکڑائی.تب بادشاہ نے کہا.بھا گو یہاں سے یہ بوڑھا تو ہمارے خزانے لوٹ لے گا.آپ بھی اسی طرح شکرانہ ادا کریں کہ آسمان یہ ترانے گانے لگے.لَئِنُ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ لَئِنُ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمُ اے میرے بندو ! تم شکر سے میرے حضور جھک رہے ہو میں تمہیں بڑھاتا چلا جاؤں گا.اور میرے خزانے اس بادشاہ کے خزانوں کی طرح نہیں ہیں.وہ نہ ختم ہونے والے خزانے ہیں.تم کو ٹتے چلے جاؤ.میں عطا کرتا چلا جاؤں گا.خدا کرے کہ ہم ایسے ہی نظارے دیکھیں.“ اجتماعی دعا کے بعد حضور نے فرمایا:- اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں آپ کو واپس لے کر جائے.اپنے فضلوں کا سایہ آپ کے سروں پر رکھے.اپنی محبت آپ کو عطا کرے.اس محبت کو وفا بخشے.آپ اس کے وفادار اور محبت کرنے والے بن جائیں.وہ وفاؤں کو قبول کرنے والا مہربان محبوب ثابت ہو.ہمیشہ خدا کے فضلوں کا سایہ آپ کے سر پر رہے.آپ کو خدمت دین کی پہلے سے بڑھ کر ہمیشہ ہر آن بڑھ کر اور بھی بڑھ کر تو فیق عطا ہوتی رہے.آمین (ماہنامہ خالد جنوری 1983 صفحہ 19 تا 38 )

Page 95

مشعل راه جلد سوم 91 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے تیسرے سالانہ کنونشن سے خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء ہیں ٹوپی پہننے کی غیر معمولی اہمیت ☆ ☆ ☆ ☆ دین حق کسی ایسے صوفی ازم کی تعلیم نہیں دیتا کہ ضرور اپنا حلیہ بگاڑ کر پھریں ہمیں تو ایسے ماہرین کی ضرورت ہے جو دونوں تینوں زبانیں بیک وقت جانتے ہوں......(اردو، عربی ، انگریزی) خدمت دین کے لئے نئی زبانیں سیکھنے کا عہد کریں وقف کئے بغیر خدمت دین احمدیہ کالجیٹ ایسوسی ایشن.....ساری دنیا میں وسیع کرنے کی ضرورت ہے خدام الاحمدیہ کے تحت اٹلی اور برازیل میں مشن کھولنے کی سکیم دینی اور دنیا وی علم میں توازن ضروری ہے مذہب اور سائنس کا رشتہ ٹوٹنے کا نقصان سائنس کی انتہا ء خدا کی ہستی کا اقرار.نظریہ ارتقاء اور اس پر مزید تحقیق...احمدی طلبہ کو نصیحت محنت اور لگن کی عادت ڈالیں لیکن زندگی میں انکساری اختیار کریں دلائل میں بلند معیار قائم کریں

Page 96

مشعل راه جلد سوم 92 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 97

مشعل راه جلد سوم 93 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- میں اس وقت آپ سے دو باتیں کہنا چاہتا ہوں.جو بنیادی نوعیت کی ہیں لیکن قبل اس کے کہ میں ان کے متعلق کچھ کہوں میں آپ کو ایک ضروری امر کی طرف توجہ دلا نا چاہتا ہوں.ٹوپی پہنے کی غیر معمولی اہمیت ابھی میری نظر نے جب ہال کا ایک سرسری جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اکثر سر ننگے ہیں اور ٹوپیوں کی عادت نہیں.اس پر ایک طرف تو مجھے اپنی ناکامی پر شرمندگی کا احساس ہوا کیونکہ جب میں آپ کا پیٹرن تھا تو آپ کو بار بار اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کرتا رہا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ زبان میں کوئی اثر نہیں تھا اس لئے باوجود کوشش کے کامیاب نہیں ہوسکا یا پھر دعا میں کمی رہ گئی.ٹوپی کے بغیر ننگے سراٹھنے بیٹھنے کو شاید آپ ایک چھوٹی سی بات سمجھتے ہوں گے مگر یہ چھوٹی بات نہیں ہے.یہ بہت بڑی بات ہے کیونکہ حقیقت میں وہ قو میں جنہوں نے انقلاب برپا کرنا ہوتا ہے ان کو بچپن ہی سے کچھ نہ کچھ انقلابی شان اختیار کرنی پڑتی ہے.یہ پختہ کردار کی ایک علامت ہے کہ انسان سمجھے کہ زمانہ کی رو جس طرف چلے گی، یہ ضروری نہیں کہ ہم بھی اس طرف چلیں.مثلاً سالن کے ماننے والوں نے اس قسم کی مونچھیں رکھ لیں.اسی طرح دنیا کے دیوانے مختلف امتیازی رنگ اختیار کر لیتے ہیں.مغرب زدہ نو جو ان آنکھیں بند کر کے ہر فیشن کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور اس میں شرم کی بجائے فخر محسوس کرتے ہیں.اگر گلے میں سنہری ہار ڈالنے شروع ہو گئے ہیں تو سنہری ہار گلے میں پڑنے شروع ہو جاتے ہیں بغیر دیکھے اور بغیر سوچے کہ ہم کیوں یہ کر رہے ہیں.احمدی نوجوان کو ہمیشہ ٹوپی پہننے کی عادت ڈالنی چاہیے اور یہ بات اپنے شعار میں داخل کرنی

Page 98

94 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم چاہیے.چونکہ اسلامی تہذیب کا جو تصور ہمارے ممالک میں پایا جاتا ہے، وہ مغربی تہذیب کے تصور سے بالکل برعکس ہے.وہاں سرنگا کرنا ادب اور تہذیب کی نشانی سمجھا جاتا ہے.یہاں بالکل الٹ معاملہ ہے.سر پر ٹوپی پہنا اور سرکوڈھانپنا، یہ احمدی نوجوان کی ہمیشہ سے عادت چلی آرہی ہے اور یہ چیز آپ کو ان کی سوسائٹی سے ممتاز کرتی ہے.اس طرح اگر آپ کو یہ شرم محسوس ہوگی کہ ہم اگلے وقتوں کے نو جوان شمار ہوں گے تو یہ شرم آپ کی اصلاح کا موجب بنے گی.آپ کے درجات کی بلندی کا موجب بنے گی کیونکہ شرم کے مقابل پر آپ کا کردار مضبوط ہوگا.اور صیقل ہوگا اور آپ سمجھیں گے کہ مجھے اس جھوٹی شرم کی کوئی بھی پرواہ نہیں.پس یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ان سے انحراف نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ کردار کو بنانے میں بہت بڑا کام کرتی ہیں.جس وقت تلاوت ختم ہوئی آپ نے دیکھا ہوگا تھوڑا سا وقفہ پڑا تھا میرے یہ کہنے میں کہ ”اب نظم شروع کی جائے.اس وقت میں ٹوپیاں گن رہا تھا اور مجھے یہ دلچسپ تجربہ ہوا کہ اصحاب الیمین ، اصحاب الشمال پر بازی لے گئے.سامنے کے بلاک میں بائیں طرف دس ٹوپیاں تھیں اور دائیں طرف ہیں ٹوپیاں تھیں.یہ اتفاق کی بات ہے دائیں طرف بیٹھنے والوں کی ٹوپیاں بائیں طرف بیٹھنے والے سے زیادہ تھیں.ویسے ہمارے اندران معنوں میں جن میں دنیا مراد لیتی ہے.Rightist اور Leftist کی تو کوئی تقسیم نہیں ہے مگر اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال کی ایک تقسیم ضرور ہے لیکن یہاں میری یہ مراد بھی نہیں ہے کہ بائیں طرف بیٹھنے والے قرآنی اصطلاح میں خدانخواستہ اصحاب الشمال ہیں.وہ تو ایک بڑی خطرناک اصطلاح ہے.ویسے ضمنا چونکہ ذہن اس طرف منتقل ہو گیا تو خیال آیا کہ حسن اتفاق سے دائیں طرف بیٹھنے والوں کی ٹوپیاں بائیں طرف والوں سے زیادہ ہیں.عظمت کردار پس ان امور کی طرف توجہ کریں آپ کو کوئی نہ کوئی امتیازی کردار اختیار کرنا پڑے گا اور وہ کردار آپ کی حفاظت کرے گا.باقی لوگوں سے جب آپ کو الگ کر کے دکھائے گا تو اس کے نتیجہ میں آپ کو طعنے بھی سننے پڑیں گے.آپ کو ذلیل بھی کیا جائے گا.آپ کو اپنے سے الگ کر کے ایک الگ نہج کی مخلوق قرار دیا جائے گا اور یہ ساری چیزیں آپ کے فائدہ کی ہیں اس کے نتیجہ میں آپ کے اندر عظمتِ کردار پیدا ہوگی اور اگر آپ یہ کام خدا کی خاطر کریں گے تو آپ کا یہ چھوٹا سا فعل بہت ہی عظیم الشان نیکی میں تبدیل ہو جائے گا.

Page 99

مشعل راه جلد سوم 95 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی اس لئے ضروری نہیں کہ آپ ایک ہی قسم کی ٹوپی پہنیں.آپ نئی ٹوپیاں کیوں نہیں ایجاد کرتے جو فیشن بھی بن جائے اور ٹوپی کی ضرورت بھی پوری ہو جائے.آپ کے اندر نو جوان خون ہے جس کا تقاضا ہے کہ آپ کی طرز زندگی میں دلچسپیاں پیدا ہوں.تنوع سے تو خدا نہیں روکتا.اچھے لباس سے تو خدانہیں روکتا.قرآن کریم تو فرماتا ہے.قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللهِ الَّتِى اَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيمَةِ (الاعراف:33) زینت حرام نہیں کہ اے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اعلان کر دے مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ کس نے حرام کر دیا ہے اس زینت کو اور زینت کی بہترین چیزوں کو.جو خدا نے اپنے بندوں کے لئے نکالی تھیں.قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا تو کہہ دے کہ یہ ایمان والے بندوں کی خاطر پیدا کی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کے لئے ہر نعمت پیدا کرتا ہے.عباد کا لفظ بول کر تو بہت ہی پیار کا رشتہ قائم فرمایا اور فرمایا وہ جو نیک بندے ہیں.ایمان لانے والے ہیں.جس طرح تم لوگ اپنے پیاروں کی مہمانیاں کرتے ہو.میں نے بھی اُن کی خاطر ا چھی چیزیں پیدا کی ہیں وَالطَّيِّـتِ مِنَ الرِّزْقِ - طَيِّبست میں یہ تشریح فرما دی کہ حرام کی چیزیں یا چھینی جھپٹی چیزیں مراد نہیں ہیں بلکہ زینت کی چیزیں ہوں اور سب طیبست ہوں یعنی رزق میں سے بھی طبت اور پہنے کی چیزوں میں سے بھی طیبت ہوں.ان میں بے حیائی کی جھلک نہ ہو.ان میں پاکیزگی ہو.ان کے اندر دنیا کی کوئی فیشن پرستی اور کھوکھلا پن نہ ہو ورنہ وہ طیبات نہیں رہیں گی.ان میں اگر اللہ کا رنگ پایا جاتا ہو اور خدا کی محبت جھلکتی ہو تو اس سے وہ طَيِّبت بنتی ہیں.پھر فرمایا هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الحيوةِ الدُّنْيَا اس دنیا میں بھی یہ مومنوں کے لئے پیدا کی گئی ہیں خَالِصَةً يَومَ القِيمَةِ اور قیامت کے دن صرف مومنوں کے لئے ہوں گی.یہاں تو ان کے طفیل غیر بھی شریک ہو گئے ہیں لیکن قیامت کے دن خالصہ مومنوں کے لئے ہوں گی.نیک بننے کے لئے گند الباس پس ( دین حق ) کسی ایسے صوفی ازم کی تعلیم نہیں دیتا کہ ضرورا پنا حلیہ بگاڑ کر پھریں.انسانوں

Page 100

96 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کے مزاج اور عادتوں کے فرق کی وجہ سے لباس کا فرق تو ہوتا رہتا ہے لیکن نیکی کے تصور میں گندا لباس پہننا ہرگز شامل نہیں ہے.قرآن کریم میں یا سنت نبوی میں کہیں بھی یہ مضمون نہیں ملتا کہ تم نیک تب بنو گے جب کیسے ہوئے کپڑے پہنو گے یا پھٹے ہوئے کپڑے پہنو گے.ہاں کاموں کی زیادتی کی وجہ سے ، اعلیٰ مقاصد میں انہماک کی وجہ سے بعض دفعہ کپڑے بالکل ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں.اس وقت عمد ا جان بوجھ کر ان کو نظر انداز نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی انسانی نظر میں کوئی قیمت یا اہمیت نہیں رہتی.تب لوگ کپڑوں کے رکھ رکھاؤ سے بالا ہو جاتے ہیں.یہ بالکل الگ مضمون ہے.اس صورت میں نعوذ باللہ خدا کی نعمت کا انکار نہیں ہورہا ہوتا بلکہ دوسری نعمتیں اتنی غلبہ پا جاتی ہیں کہ اس کے مقابل پر یہ چیزیں بے معنی اور حقیر دکھائی دیتی ہیں مگر اس لئے نہیں کہ زیادہ نیک بنیں بلکہ بالکل اور مقصد کے پیش نظر کپڑوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی.صاحب علم کی عظمت لباس میں نہیں یہی حال غیر قوموں میں بھی ہے مثلاً انگلستان کی یونیورسٹیوں میں میں نے دیکھا ہے کہ جو حقیقتا صاحب علم لوگ ہیں خواہ اساتذہ ہوں یا طلبہ ہوں، وہ کپڑوں کی نسبت کلینہ بے نیاز ہو جاتے ہیں.انہیں دیکھ کر کوئی سمجھ ہی نہیں آتی کہ انہوں نے کیا پہنا ہوا ہے.انہوں نے کھلے پہنے ہوں، تھیلے پہنے ہوں، ان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ دنیا کیا سمجھ رہی ہے بلکہ اسی لباس میں ان کے لئے ایک وقار پیدا ہو جاتا ہے.ایک عظمت پیدا ہو جاتی ہے.لوگ ان کو دیکھتے ہیں اور پہچان لیتے ہیں کہ یہ صاحب علم لوگ ہیں.اس لئے لباس کی زینت سے منع تو نہیں کیا گیا لیکن لباس پر اس طرح جھک جانا کہ اعلیٰ مقاصد کی راہ میں حائل ہو جائے، یہ منع ہے اور اس صورت میں وہ لباس طیب نہیں رہے گا.اس لئے آپ اگر سر کے لئے ٹوپی کے طور پر کوئی زینت اختیار کرنا چاہیں تو خوبصورت اور اچھی ٹوپیاں پہنیں نئی بی قسم کی ٹوپیاں ایجاد کر یں.کوئی اعتراض نہیں ہے مگر سر ڈھانپ کر پھریں تاکہ پتہ لگے کہ یہ احمدی نوجوان ہیں ان پر دوسری تہذیب کا قطعا کوئی اثر نہیں.یہ آزاد مر دہیں.ان کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ دنیا ہمیں کیا کہتی ہے اور کیا نہیں کہتی.غیر زبان جاننے والوں کی کمی دوسری بات جو اس لحاظ سے پہلی ہے کہ میں نے دو باتیں جو آپ سے کرنی تھیں ان میں سے یہ پہلی

Page 101

مشعل راه جلد سوم 97 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ ہے اور وہ یہ ہے کہ یورپ کے دورہ میں میں نے بڑی شدت سے یہ محسوس کیا کہ جماعت احمدیہ میں غیر زبانیں یعنی اُردو کے علاوہ دوسری زبانیں جاننے والے بہت کم لوگ موجود ہیں.اتنی شدت کے ساتھ یہ کی محسوس ہوئی کہ دل گھبرا جاتا تھا کہ ہم کیا کریں گے.فوری ضروریات ہیں اور بڑی شدید اور بڑی وسیع ضروریات ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لئے ہمارے پاس ایسے نوجوان نہیں ہیں جو مختلف زبانیں جانتے ہوں.انگریزی کے علاوہ اُردو اور عربی ضرور سیکھیں انگلستان میں ہماری جو نسل پیدا ہورہی ہے وہ بہت اچھی انگریزی دان ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن بد قسمتی سے ان کے ماں باپ نے ان کو اردو نہیں سکھائی اور عربی میں مہارت پیدا نہ کی.نتیجہ جس طرح غیر ملکوں میں ایسے نو جوان خدمت سے محروم ہیں جو اردو اور عربی تو جانتے ہیں لیکن انگریزی یا فارسی یالا طینی یا سپینش یا اٹالین یا فرنچ زبانیں نہیں جانتے اسی طرح وہ نوجوان بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گئے جو انگریزی تو جانتے ہیں لیکن اردو نہیں جانتے.ہمیں تو ایسے ماہرین کی ضرورت ہے جو دونوں تینوں زبانیں بیک وقت جانتے ہوں اور (دین حق ) کی خدمت کے لئے وہ اپنے آپ کو ابھی سے وقف کر دیں.ذہنی طور پر تیاری کریں کہ ہم خدا کی خاطر یہ زبان سیکھ رہے ہیں اور اس غرض سے اس میں مہارت پیدا کر رہے ہیں تا کہ جب بھی ہم تعلیم سے فارغ ہوں ، ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی بھی ہر رنگ میں خدمت کر سکیں.خدمت دین کے لئے نئی زبان سیکھنے کا عہد کریں اس سلسلہ میں مجھے آپ میں سے بھی نام آنے چاہئیں اور جو احمدی طلبہ کسی اور زبان کے سیکھنے کی سہولت رکھتے ہوں مثلاً کسی ایسی یونیورسٹی میں پڑھتے ہوں جہاں یہ سہولت مہیا ہے، ان کو چاہیے کہ وہ اپنے نام پیٹرن Patron کو بھجوا دیں.ناظر صاحب تعلیم اس وقت آپ کے پیٹرن ہیں ان کو بھجوا دیں اور معین کریں کہ ہم خدمت دین کی خاطر یہ زبان سیکھنا شروع کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ اردو میں بھی اور عربی میں بھی جہاں تک مقدور ہے، مہارت حاصل کرنے کی کوشش شروع کر رہے ہیں.پھر وہ ( یعنی پیٹرن ) ان کو وقتا فوقتا دینی کتب بھی مطالعہ کے لئے بھجوائی شروع کریں یا توجہ دلائیں کہ اب اس کے ساتھ یہ دینی کتاب پڑھنی چاہیے تا کہ جب وہ فارغ ہوں تو اس کے ساتھ ہی بنیادی مذہبی علم کا ایک پس منظر یا بنیا د تیار

Page 102

98 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہو چکی ہو.اس میں آگے بڑھنے کے پھر بہت سے مواقع پیدا ہوتے ہیں مگر بنیادی پلیٹ فارم بہر حال تعلیم سے فارغ ہونے سے پہلے پہلے تیار ہو جانا چاہیے.بغیر وقف کئے بھی خدمت دین کا عہد ایسے نوجوان آئندہ کئی طرح سے سلسلہ کے کام آسکتے ہیں مثلاً ایک تو یہ کہ آپ میں سے بہت سے ہوں گے جو انشاء اللہ زندگیاں وقف کریں گے.جب وقف کریں گے تو اگر کچھ ساتھ لے کر آئیں گے تو سلسلہ کوفائدہ پہنچے گا.کچھ زبانیں ساتھ کر لے کر آئیں گے.کچھ علم ساتھ لے کر آئیں گے تو ہم بہت جلدان کو تیار کر کے متعلقہ ممالک میں بھجوا سکتے ہیں اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر وقف نہ بھی کریں گے اور نیت یہ ہوگی کہ ہم عملاً اپنی زندگی کو خدا کے لئے وقف رکھیں گے تو پھر ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو یہ موقع عطا فرمائے کہ جو زبان آپ نے سیکھی ہوئی ہے اس ملک میں اپنے ذریعہ معاش کے حصول کی خاطر چلے جائیں اور جہاں جائیں وہاں ساتھ ساتھ دعوۃ الی اللہ شروع کر دیں.وہاں تراجم شروع کر دیں وہاں خدمت دین کے جو مواقع میسر ہوں ان میں حصہ لیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض اوقات بعض ممالک میں خاص ضرورت پڑتی ہے.تو عام تحریک کر دی جاتی ہے کہ جو نو جوان آگے آئیں وہ اپنے آپ کو وقف کریں بغیر اس کے کہ سلسلہ ان کو کچھ دے.یعنی سلسلہ ان کو با قاعدہ تنخواہ دار یا وظیفہ دار کارکن نہ رکھے بلکہ وہ اپنے طور پر نکل جائیں.ایسی تحریکیں بھی جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ہوتی رہی ہیں اور نو جوان بڑی بڑی قربانیاں پیش کرتے رہے ہیں.غلبہ دین کیلئے تیاری ضروری ہے پس جب آپ نے ایک عظیم الشان کام کا بیڑا اٹھایا ہے جب یہ عہد کر لیا ہے کہ ( دین حق ) کو ساری دنیا میں غالب کرنا ہے تو اس کی کچھ تیاری بھی تو ہونی چاہیے.تیاری کے بغیر کس طرح ( دین حق ) کو غالب کردیں گے جو بھی نیک مقصد ہوتا ہے آپ اس کی تیاری کرتے ہیں.امتحان دینے کے لئے آپ کو کتنی تیاری کرنی پڑتی ہے.تیاری کے بغیر تو امتحان نہیں دیے جاتے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح تعلیم دی ہے کہ دین کی خدمت کے لئے جتنی تمہاری استطاعت ہے تم اس کے مطابق تیاری جاری رکھو.جب وقت آئے گا، ضرورت پیدا ہوگی تو پھر اپنے آپ کو پیش کر دینا.اس لئے اس تیاری میں غیر ملکی

Page 103

مشعل راه جلد سوم 99 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی زبانوں میں مہارت کو خاص اہمیت حاصل ہونی چاہیے.ساری دنیا میں احمدی طلبہ کی تنظیمیں ناظر صاحب تعلیم کو اس ضمن میں تمام دنیا کی احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشنز کو ہدایت دینی چاہیے.ناظر تعلیم کی حیثیت سے نہیں بلکہ احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے پیٹرن کی حیثیت سے.یہ اس کی دوسری شاخ ہے جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی تک جماعت احمدیہ کی احمدیہ کالجیٹ ایسوسی ایشن عملاً پاکستان تک ہی محدود ہے.حالانکہ اس کو ساری دنیا میں وسیع کرنے کی ضرورت ہے.بحیثیت ناظر تعلیم تو وہ صدر انجمن احمدیہ کے نمائندہ ہیں جن کا دائرہ کار پاکستان تک محدود ہے لیکن ان کو آپ کا سر پرست بحیثیت ناظر تعلیم نہیں بنایا گیا بلکہ بحیثیت میاں غلام احمد صاحب اپنی ذاتی حیثیت سے وہ آپ کے پیٹرن ہیں اور اس حیثیت سے بطور (Patron) پیٹرن یا سر پرست ایسوسی ایشن اُن کا دائرہ کا رساری دنیا پر وسیع ہے.تمام دنیا میں احمدی طلبہ کی تنظیمیں قائم ہونی چاہئیں.یہاں اب ایک مضبوط Base یعنی بنیاد اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم ہو چکی ہے.نائیین کی تیاری ضروری ہے اور آپ کی تنظیم میں خدا کے فضل سے بڑے اچھے کام کرنے والے نوجوان آگے آچکے ہیں.مجھے امید ہے کہ وہ انشاء اللہ تعالیٰ اپنے نائین بکثرت ایسے تیار کریں گے کہ کسی وقت بھی یہ احساس پیدا نہ ہو کہ یہ ٹیم نکل گئی تو خلا پیدا ہو گیا، وہ ٹیم نکل گئی تو خلا پیدا ہو گیا.قومی زندگی میں اگر ایک ٹیم کے نکلنے سے خلا پیدا ہو تو اس ٹیم کی بد قسمتی ہے جس نے اپنے پیچھے آدمی تیار نہیں کئے.یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے کہ چندلڑ کے نکل گئے تو خلا پیدا ہو گیا.ان کے اوپر یہ ایک دھبہ ہے جنہوں نے اپنے پیچھے خلا چھوڑا ہے کیونکہ اچھے کارکن اپنے ہرگز خلا نہیں چھوڑا کرتے وہ دور کی نظر رکھتے ہیں.وہ اپنے پیچھے تیاریاں کرتے چلے جاتے ہیں.نسل کی نسل تیار کرتے چلے جاتے ہیں.اس لئے یہاں اچھے کارکنوں کا دائرہ بڑھائیں کیونکہ اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ بنیادی کام کرنے والے ماشاء اللہ بڑے اچھے اچھے نو جوان آپ میں موجود ہیں لیکن یہ آہستہ آہستہ نکلتے چلے جائیں گے.اس لئے پیچھے بھی اچھے کام کرنے والے آنے چاہئیں.

Page 104

مشعل راه جلد سوم خدمت دین کی ضروری شرائط 100 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی لیکن یہ تو ایک ضمنی بات تھی.اصل بات کی طرف میں توجہ دلا رہا تھا وہ یہ ہے کہ اب ساری دنیا میں احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشنز قائم ہونی چاہئیں اور ان سے بھی مطالبہ کیا جائے کہ آپ خدمت دین کے لئے کون سی مزید زبان سیکھنا چاہتے ہیں یا سیکھ سکتے ہیں اور اگر آپ سیکھیں گے تو شرط یہ ہوگی کہ آپ کو اردو میں بھی مہارت حاصل کرنی پڑے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لٹریچر بھی پڑھنا پڑے گا.احادیث نبویہ اور قرآن کریم کا مطالعہ بھی براہ راست کرنا پڑے گا.گویا عربی بھی سیکھنی پڑے گی.تو یہ تینوں چیزیں بیک وقت اکٹھی چلیں گی اور اس شرط کے ساتھ اگر آپ اپنے وقت کا کچھ حصہ وقف کریں تو اپنے نام لکھوائیں.ہر ملک سے جب یہ نام آئیں گے تو اس میں ہم معین طور پر معلوم کر سکیں گے کہ کس کس زبان کے لئے ہمیں مستقبل میں احمدی نو جوان مل رہے ہیں.فوری ضرورت کی زبانیں پھر ان زبانوں میں فوری ضرورت کی زبانیں ہیں.اٹالین ہسپینش اور پار چوگیز.یہ تین زبانیں ایسی ہیں جن میں فوری طور پر اقدامات کے بغیر ہمارے لئے کوئی چارہ ہی نہیں ہے.وجہ یہ ہے کہ ہم اٹلی میں زمین خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہاں مشن کے لئے نقشے بھی بنے ہوئے ہیں.بہت حد تک تیاری ہو چکی ہے لیکن باوجود کوشش کے ابھی تک وہاں اجازت نہیں مل سکی.اس پر مجھے خیال آیا کہ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ کے علم میں اس تاخیر میں بھی خیر کا کوئی پہلو ہو.چنانچہ جب میں نے سوچا تو معلوم ہوا کہ ہمارے پاس ایک بھی ایسا ( مربی ) نہیں جو اٹالین میں گفتگو کر سکے.اٹالین زبان میں کوئی لٹریچر نہیں ہے جس کو ہم وہاں تقسیم کر سکیں.تو وہ گورنمنٹ ہمیں فوراً اجازت دے دیتی اور ہم وہاں ایک مکان بنا کر بیٹھ جاتے تو وہاں کرتے کیا ؟ سوائے اس کے کہ ایک مجاور کی طرح (مربی) وہاں بیٹھ جاتا اور کوئی بھی فائدہ نہیں تھا.ہم Monuments یعنی یادگاریں بنانے کے لئے تو پیدا نہیں کئے گئے.ہم ایک با مقصد جماعت ہیں.جب ہم وہاں ایک ( بیت الذکر) بنائیں گے تو نمازی بنانے لازمی ہوں گے.یہ ہمارا فرض ہوگا کہ دعا کرتے ہوئے اللہ کی مدد سے وہاں نمازی پیدا کریں.( مومن ) پیدا کریں.تو اگر نہ زبان آتی ہو نہ لٹریچر موجود ہوتو نمازی کس طرح پیدا کریں گے.(مومن) کس طرح پیدا

Page 105

101 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم کریں گے.وہ تو ایک قسم کا ویسا ہی خانہ خدا بن جائے گا جیسے آجکل کئی دولتمند ملک جگہ جگہ بنارہے ہیں.سوائے اس کے کہ وہاں چند مجاور بیٹھے ہوں جو دکھا رہے ہوں یہ ( بیت الذکر ) ہے.اس طرح اس میں داخل ہوتے ہیں اور اس طرح اس میں بیٹھتے ہیں اس کے سوا ان کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.اٹالین زبان سیکھنے کی ضرورت پس اٹلی کے لئے ایسے احمدی نوجوانوں کی بہت شدید ضرورت ہے جو جلد از جلد اٹالین زبان سیکھیں.علاوہ ازیں جامعہ احمدیہ میں بھی اس بات کی طرف فوری توجہ کی جائے.اٹالین سکھانے کا انتظام جس طرح بھی ہو خواہ زیادہ خرچ بھی کرنا پڑا تب بھی کرنا چاہیے.جامعہ میں نہیں ہوسکتا تو یہاں سے دویا تین احمدی طلبہ باہر بھجوائے جائیں یا تین واقفین جو ہوشیار ہیں ان کو اٹالین زبان سیکھنے کے لئے بیرون ملک بھجوایا جائے.پرتگالی زبان پر توجہ یہی حال پارچوگیز کا ہے.جنوبی امریکہ میں انشاء اللہ تعالیٰ مشن کھولنے کا ارادہ ہے اور وہی سکیم ہے جو خدام الاحمدیہ کے تحت شروع ہوئی تھی.خدام الاحمدیہ نے دو مشنوں کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کی پیش کش کی تھی ایک اٹلی کیلئے اور برازیل کیلئے.برازیل جنوبی امریکہ کا ایک بہت بڑا ملک ہے جس میں زیادہ تر پار چوگیز بولی جاتی ہے کیونکہ وہ پرتگالی اثر کے نیچے ہے اس لئے وہاں ہمیں پرتگالی زبان میں ( دعوت الی اللہ ) کرنے والا آدمی چاہیے.انگریزی کے ساتھ تو وہاں گزارا نہیں ہوگا.پھر وہاں کی بعض لوکل زبانیں بھی ہیں.ہم اس پر تحقیق کروارہے ہیں اور ساری صورت حال کے متعلق معلومات منگوار ہے ہیں کہ کون کون رہے سے قبیلوں میں کون کون سی زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان کے سکھانے کا کیا انتظام ہے.اس لئے پار چوگیز زبان بھی ساتھ شامل کرنی پڑے گی.فرانسیسی زبان کا وسیع دائرہ فرانسیسی میں اگر چہ دو آدمی تیز ہیں لیکن فرانسیسی زبان کا بہت وسیع دائرہ ہے.یہ صرف فرانس ہی میں نہیں بولی جاتی.ماریشس میں اور افریقہ کے شمال اور شمال مغربی علاقوں میں بھی بڑی کثرت کے ساتھ بولی

Page 106

102 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جاتی ہے.اس طرح ان کی بعض اور نو آبادیات میں پھر مثلاً کوریا ہے وہاں بھی فرانسیسی بولنے والے موجود ہیں.انڈو چائنا میں بکثرت ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو فرانسیسی بولتے ہیں.یہ سارے علاقے خالی پڑے ہوئے ہیں.ان میں اس زبان کے ذریعہ ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں.جاپانی زبان میں دومر بیان کی تیاری چینی زبان میں ماہر ہمارے پاس بہت تھوڑے ہیں.Japanese یعنی جاپانی زبان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو آدمی تیار ہو گئے ہیں لیکن یہ بھی بہت کم ہیں.دو سے تو گزارا نہیں چل سکتا.اسی طرح اگر ہم اور زبانوں کو دیکھیں تو ان میں Preference Order یعنی ترجیحی لحاظ سے سپینش زبان ہے.اس کے متعلق تو میں اب یورپ ، خصوصا انگلستان میں ایک عام تحریک کر کے آیا ہوں کہ دوست سپینش سیکھنے کی طرف خصوصیت سے توجہ کریں.چنانچہ انگلستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے ایک بڑے طبقہ نے اس طرف فوری توجہ شروع کر دی ہے اور انہوں نے اپنے نام بھی پیش کر دیے ہیں.سپین میں دعوۃ الی اللہ کا منصوبہ سکیم یہ ہے کہ دوست اپنے طور پر سپینش زبان سیکھیں اور ہر سال کی چھٹیاں سپین کے مختلف علاقوں میں گزاریں اور وہاں ان کے سپرد ایک معین علاقہ کر دیا جائے.مثلاً یہ کہا جائے کہ فلاں دیہات فلاں دوست کے ذمہ ہو گئے ہیں اور فلاں دیہات فلاں دوست کے ذمہ ہو گئے ہیں.وہاں وہ تعلقات قائم کریں.ٹوٹی پھوٹی زبان جتنی بھی آتی ہے اس میں (دعوت الی اللہ کی ) گفتگو کریں اور پھر اپنے مشن کے ساتھ ان کا تعارف کروائیں اور اسی طرح یورپ کے دوسرے علاقوں کے متعلق بھی یہ تحریک کی گئی ہے کہ وہ بھی اُندلس کا کوئی نہ کوئی حصہ اپنے لئے چن لیں تو انشاء اللہ تعالیٰ اس طرح پر رضا کار ( مربی ) بکثرت تیار ہو جائیں گے.خدا تعالیٰ نے پین میں ( دین حق) کے حق میں جواہر چلائی ہے اس سے استفادہ کرنے کے لئے ہمیں آدمی چاہئیں.جب اللہ کے فضل کے ساتھ کسی کھیت میں پھل زیادہ لگتے ہیں تو زمیندار کیلا اپنی طاقت سے اس پھل کو سنبھال نہیں سکتا.مجبورا اس کو دوسرے ہاتھ کرایہ پر لینے پڑتے ہیں اور جب تک زیادہ ہاتھ نہ آئیں خواہ وہ کرایہ کے ہوں ، خواہ وہ طوعی خدمت کے طور پر ہوں ، اس وقت تک پھل نہیں سنبھالے جاتے.چنانچہ انگلستان اور امریکہ وغیرہ میں تو یہ رواج ہے کہ جب سٹرابریز Strawberries

Page 107

103 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم بڑی کثرت سے لگتی ہیں یا اسی طرح بعض اور پھل لگتے ہیں تو جگہ جگہ بورڈ لگ جاتے ہیں کہ ایک ڈالر میں ایک پونڈ میں تم آکر چن لو ہم تمہیں ایک ٹوکری دیں گے.اس میں جتنی مرضی بھر لو اور جتنی مرضی ساتھ کھا بھی جاؤ.اس طرح ان کی فصلیں سنبھالی جاتی ہیں.رحمتوں کے مزے لوٹنے کا موقع پس یہ نظام ہے جو ہمارے ہاں الٹا چلا ہوا ہے.ہم نے یہ کہا ہے کہ تم اس نعمت سے بھی جھولیاں بھرو اور بجائے اس کے کہ تم ہمیں ڈالر دو ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نصرتوں کے تمہارے ساتھ وعدے ہیں.تم ان پھلوں سے لطف اندوز بھی ہو.ان کو سنبھالو اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے مزے لوٹو.گویا بجائے اس کے ہم تم سے کچھ پیسے لیں.اُلٹا تمہیں انعام ملے گا.انگلستان میں وقف کی تحریک کے خوشکن نتائج پس یہ وہ تحریک ہے جس پر امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اچھی Response ہوگی.نوجوان کثرت کے ساتھ آگے آئیں گے کیونکہ انگلستان میں تو میں نے بتایا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی کے ساتھ ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے.لوگوں میں اس طرح توجہ پیدا ہوگئی ہے اور اب شیخ مبارک احمد صاحب جب با قاعدہ پروگرام کے تحت علاقے معین کر رہے ہیں.اسی طرح جرمنی میں بھی جب یہ تجویز پیش کی گئی بڑے جوش کا اظہار کیا گیا تھا.مگر جر من احمدی یعنی وہ پاکستانی جو جرمنی میں جا کر آباد ہوئے ہیں ان بیچاروں کی راہ میں کچھ دقتیں ہیں.ان کا جرمنی سے باہر نکلنا اور پھر واپس آنا بہت دقت طلب ہے باوجود اس کے کہ بہت مخلص اور فدائی نوجوان ہیں.مالی قربانی میں بھی پیش پیش ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے منظم ہیں مگر وہ مجبور ہیں.ان میں سے بہت تھوڑے اس تحریک میں حصہ لے سکیں گے.باقی ممالک میں جہاں جہاں بھی احمدی ہیں اُمید ہے وہ بھی اپنا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ڈالیں گے.کوئی ایک ملک چن لیں پس آپ بھی اسی نہج پر ابھی سے تیاری شروع کر دیں.اپنے ذہن میں کوئی ایک ملک چن لیں.جس میں ابھی تک ( دین حق ) کی ترویج نہیں ہوئی.( دین حق ) کے پودے نہیں لگے.اس ملک کو اپنی خوابوں کا

Page 108

104 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ملک بنالیں.آپ ان خوابوں میں اسی طرح بسیں جس طرح رومانوی لوگ اپنی خواہیں بنایا کرتے ہیں، یا رشوت کھانے والے لوگ تعمیر کی خواہیں بنایا کرتے ہیں کہ اس طرح کا ہم بنگلہ بنائیں گے، اس طرح کی نئی موٹر خریدیں گے تو خوابوں میں بسنا انسان کے لئے ضروری ہے.اس کے بغیر اس کو چین نصیب نہیں ہوتا.آپ بھی اپنے لئے اچھی خواہیں دیکھیں.اچھی خوا ہیں تعمیر کریں اور پھر آپ ان خوابوں میں بس جائیں.یہاں تک کہ دوسری دنیا کی ہوش نہ رہے.جب تک اس کی تعبیر پوری نہ ہو جائے آپ کو چین نہ آئے.یہ خواہیں بنائیں کہ ہم امریکہ کے فلاں ملک کو انشاء اللہ تعالیٰ ( دین حق) کے لئے فتح کریں گے.Iron Curtain یعنی اپنی پردہ کے پیچھے جو ممالک ہیں ان میں سے پولینڈ کو فتح کریں گے.یا روس کے کسی علاقے کو فتح کریں گے یا چین کے کسی علاقے کو ( دین حق) کے لئے فتح کریں گے.ان امیدوں کو اپنے دل میں پیدا کریں.ان کو پروان چڑھائیں.ان کو پیار کے ساتھ آگے بڑھائیں اور ساتھ ساتھ تیاری رکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے اور ساری دنیا میں احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن اس کام کو خصوصیت کے ساتھ اپنے ہاتھ میں لے.تاہم جہاں تک ( دعوۃ الی اللہ سکیم کی تفصیلات طے کرنے کا تعلق ہے یہ دوسری تنظیم کا کام ہے کہ اس کا ایسوسی ایشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.جہاں تک طلبہ میں جذبہ پیدا کرنے کا اور اپنے آپ کو پیش کرنے کا تعلق ہے اس کا ایسوسی ایشن سے تعلق ہے.اس لئے اس دائرہ کے اندر رہتے ہوئے ہمیں ساری دنیا سے زیادہ سے زیادہ نام ملنے چاہئیں.دینی اور دنیوی علم میں توازن ضروری ہے دوسری بات جو میں نے آپ سے کہنی تھی وہ بھی پہلے بار ہا مختلف رنگوں میں کہہ چکا ہوں.اب پھر کہتا ہوں کہ آپ اپنے دینی علم کی دنیاوی علم کے ساتھ مطابقت پیدا کریں اور دنیاوی علم کو بالکل الگ دائروں میں ایسے رستوں پر نہ ڈال دیں کہ جن کا دینی علم کے ساتھ کوئی جوڑ ہی نہ ہو یہ دونوں سڑکیں ہیں جو ایک دوسرے کے متوازی چل رہی ہوں لیکن وہ سڑکیں جن میں کوئی چوراہا ایسا نہ ملتا ہو جہاں ایک دوسرے کے ساتھ ٹریفک کا تبادلہ ہو سکے، وہ اُس طرح مفید نہیں ہوا کرتیں جس طرح وہ سڑکیں مفید ہوتی ہیں جہاں بار بار آپس میں تعلقات کے لئے چورا ہے بنائے جاتے ہیں، سڑکیں ایک دوسری کے ساتھ ضم ہوتی ہیں اور ایک سڑک کی ٹریفک دوسری سڑک کی طرف منتقل ہوسکتی ہے.

Page 109

105 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم پس ہیں تو یہ الگ الگ سڑکیں اس میں کوئی شک نہیں.بظاہر الگ الگ ہیں مگر چورا ہے ضروری ہیں اور قرآن کریم کا مطالعہ کریں تو آپ کو بکثرت یہی نظر آئے گا.دین کی گفتگو ہورہی ہے تو اچانک خدا تعالیٰ ذہن کو قانون قدرت کے کسی Phenomenon یعنی کسی جلوہ یا کسی اصول کی طرف منتقل کر دیتا ہے.قانون قدرت کی بات شروع کرتا ہے تو اچانک ذہن کو دین کی طرف منتقل کر دیتا ہے اور اس کثرت کے ساتھ ان دونوں میں چورا ہے موجود ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ گویا ان کا ایک دوسری کے ساتھ تانا بنا ہوا ہے اس کثرت سے اور بار بارسڑکیں ملتی ہیں کہ علیحدگی کا گمان مٹ جاتا ہے.اس کا جو نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے.وہی مومن کا نقشہ ہونا چاہیے.یہ تو نہیں کہ قرآن کا ئنات کا کوئی اور نقشہ بنارہا ہو اور ہم اپنا نقشہ کوئی اور بنا رہے ہوں.اس لئے دینی علم اور دنیاوی علم کا آپس کا انطباق کرنا بہت ضروری ہے.یعنی دینی Channels کی اس طرح بار بار اصلاح کرنا کہ ہر بات خود بخود ایک دوسرے کے ساتھ منطبق ہوتی چلی جائے.یہ بہت اہم اور ضروری کام ہے.چرچ اور سائنس میں چپقلش گزشتہ ایک دوصدیوں میں بہت بڑا ظلم ہوا ہے.سائنس جب یورپ میں بیدار ہوئی تو اس وقت چونکہ چرچ کے خلاف ایک بغاوت کا دور بھی تھا اور چرچ نے بھی سائنس کے خلاف بڑا ظالمانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا.اس لیے رفتہ رفتہ سائنس دانوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ سائنس بالکل الگ چیز ہے اور مذہب بالکل الگ چیز ہے.یعنی انہوں نے بغاوت کی راہ اختیار کرتے ہوئے مذہب کو نہ صرف ایک الگ چیز سمجھا بلکہ اسے ایک بوسیدہ اور بے معنی اور لغو اور بے دلیل چیز سمجھنے لگ گئے اور سائنس کو معقولات کی دنیا، دلائل کی دنیا، مشاہدات کی دنیا، تجارب کی دنیا محسوسات کی دنیا سمجھنے لگ گئے.سائنس اور مذہب کا رشتہ ٹوٹنے کا نقصان مذہب اور سائنس کے درمیان دوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ آہستہ آہستہ سائنس دہریت کا نام بن گیا اور مذہب ایسے خدائی تصورات کا جن کا حقیقت اور عقل سے کوئی تعلق نہ ہو چنانچہ مذہب اور سائنس کے آپس کے رشتہ ٹوٹنے سے بہت گہرا نقصان پہنچا ہے.اس نہج پر چلتے ہوئے رفتہ رفتہ مذہب اور سائنس آپس میں الگ ہوئے کہ مذہب گلیہ ایک نئی شکل اختیار کر گیا اور سائنس الگ ہو کر بالکل ایک نئی شکل اختیار کر گئی

Page 110

106 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم حتی کہ سائنس کا نام دہریت بن گیا اور مذہب کا نام حماقت.چنانچہ اسی شکل میں یورپ نے ایک لمبا سفر اختیار کیا.یہاں تک کہ اس عرصہ میں اگر کوئی سائنسدان کوئی ایسی بات دیکھتا تھا جس کے نتیجہ میں خدا کی طرف توجہ منتقل ہو سکتی تھی تو اگر وہ بات کر دیتا تھا تو وہ سائنس کی دنیا سے ایک قسم کا Ex-communicate ہو جا تا تھا.یعنی اس کا اخراج از جماعت ہو جاتا تھا.کہتے تھے یہ بڑا بیوقوف آدمی ہے.پاگل آدمی ہے.خدا کی باتیں کرتا ہے لیکن اب حالیہ رجحانات اس سے مختلف ہو چکے ہیں.یہ وہ دور ہے جس میں جب Analysis یعنی تجزیہ کیا گیا تو دنیا کے چوٹی کے ادارے جو امریکہ میں ہیں ان کے تجزیہ کی رپورٹ یہ ہے که اب ۲۵ فیصدی سائنسدان جرات کے ساتھ خدا کی بات کرنے لگ گیا ہے اور اس قسم کا پرانا تصور باقی نہیں رہا کہ خدا کی بات کرو گے تو تم غیر معقول سمجھے جاؤ گے اور ایک فیصد ایسا ہے جو اپنے علم کے ساتھ اللہ تعالی کی ہستی کے دلائل بھی دینے لگ گیا ہے.سائنسی تجارب سے ہستی باری تعالیٰ کا اقرار یہ عجیب بات ہے کہ گزشتہ دور میں بھی جب سائنس کا آغاز ہوا ہے تو اس وقت سائنسدانوں کی ایک قسم پیدا ہوئی تھی مگر اس بیچاری قسم کو سائنسدانوں نے بھی دبایا اور مذہب والوں نے بھی دبایا.مذہب کی طرف سے بھی وہ نکال دیے گئے اور سائنسی دنیا سے بھی نکالے گئے یا کم از کم ان سے یہ بدسلوک ہوا اور کہا گیا کہ تم بیچ میں جاہل پیدا ہو گئے ہو لیکن اب دوبارہ وہی دور آ گیا ہے لیکن پہلے سے زیادہ علمی ور یقینی پلیٹ فارم پر قائم ہے.اب وہ فرضی اور خیالی دور نہیں ہے بلکہ سائنسدان ان باتوں میں جن کی بناء پر وہ مذہب کا یا خدا کا انکار کر رہے تھے، جب مزید آگے بڑھے ہیں تو ان کو ایسے حیرت انگیز مشاہدات ہوئے جن کے نتیجہ میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب خدا کی طرف واپس جانے پر مجبور ہیں.گوا بھی یہ آواز دبی اٹھ رہی ہے لیکن اٹھ ضرور رہی ہے.سائنسدانوں کے دوطبقات چنانچہ دو طبقے پیدا ہو چکے ہیں.ایک وہ طبقہ ہے جو مشاہدات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ ہے تو حیرت انگیز لیکن اس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی.ممکن ہے کہ آئندہ وجہ سمجھ آ جائے اور ایک طبقہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ آئندہ وجہ سمجھ آ بھی جائے تب بھی یہ انگلی یقینی طور پر خدا کی طرف اٹھ رہی ہے.ہر سائنس کے شعبہ میں اس قسم کے دو طبقات پیدا ہو چکے ہیں.مثلاً کائنات کے آغاز کا ایک شعبہ ہے کہ کس طرح کائنات کا آغاز

Page 111

مشعل راه جلد سوم 107 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ہوا.یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس کا فلکیات سے بھی تعلق ہے اور فزکس سے بھی تعلق ہے.چنانچہ Big Bang کی جو تھیوری پیش کی گئی ہے.اب تک جتنے بھی شواہد ملے ہیں، وہ اس نظریہ کو مزید تقویت دے رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ یہ درست ہے.چنانچہ حال ہی میں جونئی ریسرچ ہوئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو فلیکسیز Recite کر رہی ہیں.وہ ٹھیک بگ بینگ تھیوری کی Calculation کے مطابق Recite کر رہی ہیں.اگر بگ بینگ والی یہ تھیوری درست ہے تو مثلاً دس ارب سال کے بعد اس کی یہ رفتار ہونی چاہیے.یہ ایک نظریاتی Calculation ہے.اب مثلاً انہوں نے نظریاتی لحاظ سے جو رفتار نکالی ہے وہ مثلاً سب سے دور کی جو گلیکسی ہے اس کی ۲۰ ہزار کلو میٹر رفتار ہونی چاہیے.اب انہوں نے Red-Shift کے ساتھ فارمولا Apply کر کے دیکھا ہے تو بعینہ یہی رفتار معلوم ہوئی ہے.یعنی وہ گلیکسی روشنی کی رفتار سے تقریبا ۲۰ فیصد رفتار کے ساتھ دنیا سے الگ ہورہی ہے.یہ تو گلیکسیز کی بات ہے ایسے Single Stars جو اس سے پہلے الگ ہو چکے ہیں، ان کی رفتار Calculation کے مطابق اس سے کئی گنا زیادہ ہونی چاہیے.چنانچہ Calculation نظریہ نے کی.اسکے مطابق جو ہونا چاہیے.ریڈ شفٹ کے حساب سے بعینہ وہی بات ثابت ہوئی اور وہ ریڈ شفٹ 2x6 بنتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ ہماری کائنات کے مرکز سے ۹۰ فیصدی روشنی کی رفتار کے ساتھ دور ہٹ رہے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ستارے قریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے پیچھے ہٹ رہے ہیں.سائنس کی انتہاء، خدا کی ہستی کا اقرار اب یہ نئی معلومات ثابت کر رہی ہیں کہ بگ بینگ کا نظریہ درست تھا اور اگر وہ درست ثابت ہو تو نوبل پرائز ونر یعنی نوبل انعام یافتہ سائنسدان نے اس نظریہ پر کام کیا ہے.(اب اس کے خلاف بھی سائنسدانوں کا ایک گروپ پیدا ہو گیا ہے کہ یہ مذہب کی طرف بات کو لے جا رہا ہے ).وہ یہ کہتا ہے کہ یہ نظریہ درست ہونے کے بعد ہماری یہ کیفیت ہے کہ ہم نے ایک زمانہ میں اہل مذہب کو بیٹھے ہوئے دیکھا اور ان سے باتیں ہوئیں تو انہوں نے کہا کہ خدا نے کائنات کو پیدا کیا ہے.اس کے سوا تمہیں کچھ اور نتیجہ نہیں ملے گا.آخر پر خدا تک ہی پہنچنا پڑے گا.ہم نے کہا یہ مذہب والے پاگل ہو گئے ہیں، بکواس کرتے ہیں، ان کو چھوڑ و جاہل لوگ ہیں.چنانچہ ہم ان کو چھوڑ کر سائنس کے سفر پر روانہ ہو گئے.دوسوسال کے طویل اور مشکل سفر کے بعد آخر ہم وہیں جا پہنچے جہاں وہی مذہبی بیٹھے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے.دیکھا ہم نہیں کہتے

Page 112

مشعل راه جلد سوم 108 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی تھے.آخر تم یہیں آجاؤ گے تو سائنسدان کہتے ہیں کہ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں رہا کہ یہ مان لیں کہ کوئی باشعور ہستی ہے، کوئی طاقت ایسی ہے جس نے اس کا ئنات کو پیدا کیا ہے.حسابی نظریہ سے خدا کی ہستی کا ثبوت یہ وہی بات ہے جو پہلے دور کے چوٹی کے فلاسفرز کہا کرتے تھے.جن کا آج کی دنیا میں بھی بڑا اونچا مقام ہے وہ بھی یہی کہا کرتے تھے.مثلاً سپائی نوزا Spinoza ایک مشہور جرمن فلاسفر ہے.اس نے سب سے پہلے Mathematical Calculation سے ثابت کیا تھا کہ خدا کا وجود ہے اور یقیناً ہے کیونکہ حسابی اندازہ یہی بتا تا ہے.اس کے سوا کوئی بات ہی نہیں بنتی.کائنات کا کوئی نقشہ ہی نہیں بنتا.اس نے بڑی زبر دست دلیل دی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ خدا ہے بھی واحد.کیونکہ اس کے سوا کوئی مخلوق ہمیں ایسی نہیں ملتی جس پر Mathematics کا یہ فارمولا پورا اترتا ہو.تو وہ ایک ہی ہے جو ہر انرجی کا Source یعنی منبع ہے اور غیر مبدل ہے.جذبات سے پاک ہے وغیرہ.جب میں یہ نقشہ پڑھ رہا تھا تو میں حیران رہ گیا کہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ دماغوں کو کیسی جلا بخشتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے صفات باری تعالیٰ پر جو بحث فرمائی ہے اس کے ایک حصہ کو سپائی نوزا) Spinoza اپنی عقلی چلا سے پا گیا.گو آخر تک نہیں پہنچ سکا بعد میں غلطیاں کر گیا لیکن اس کے حسابی نظریہ کو اب مشاہدات ثابت کر رہے ہیں کہ بنیادی طور پر وہ نظریہ درست تھا حالانکہ اس کے پاس شواہد پیش کرنے کے لئے اس وقت کوئی خاص چیز نہیں تھی صرف ایک حسابی نظریہ تھا.اب اس کو ثابت کرنے کے لئے شواہدل رہے ہیں.نظریه ارتقاء درست مگر ڈارون غلط اسی طرح نظریہ ارتقاءEvolution کو دیکھ لیجئے.شروع کے دور میں یہ نظریہ دنیا کو خدا سے کتنا دور لے گیا تھا لیکن اب موجودہ سائنسدانوں نے جب مزید تحقیق کی تو وہ واپس لوٹنا شروع ہوئے.ابھی تک ان میں سے بھی ایک بھاری اکثریت یہ نہیں مانتی کہ ہمیں ایک مادی چیز کا سہارا ڈھونڈنے کی ضرورت ہے مگر جو تشریحات وہ پیش کر رہے ہیں اس کا عقلی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ضرورت ہے.خواہ وہ اقرار کریں یا نہ کریں ان کا ایک طبقہ کھلم کھلا کہنے بھی لگ گیا.مثلاً ڈارون کے دور میں ارتقاء کا جو تصور پیش ہوا اس پر لوگوں نے یہ سمجھا کہ اب سارا معاملہ حل ہو گیا.مذہبی تصورات سارے باطل ہو گئے.ہمیں اس کی تو جیہات مل گئی ہیں لیکن

Page 113

109 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جب مزید تحقیق ہوئی تو ایسی بہت سی باتیں ثابت ہوئیں جن سے پتہ چلا کہ ارتقاء تو درست ہے مگر ڈارون کا نظریہ ارتقاء غلط ہے اور کوئی تو جید ایسی نہیں ہے جو اس کو صحیح ثابت کر سکے.نظریہ ارتقاء پر مذہبی نقطہ نگاہ سے تحقیق کے پہلو مجھے ایک تازہ مضمون دیکھ کر بہت خوشی ہوئی.چند سال پہلے میں نے احمدی طلبہ میں سے جو بائیولوجی (Biology) کے سٹوڈنٹس تھے ان میں سے بعض کو بلایا.میں نے ان سے کہا مجھے Evolution Theory یعنی نظریہ ارتقاء پر مذہبی نقطہ نگاہ سے جو اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ دو باتیں ایسی ہیں جن پر احمدی طلبہ کو خاص طور پر کام کرنا چاہیے.ایک یہ کہ آنکھ کی بناوٹ میں ارتقاء کا کوئی دخل ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اس میں Piccemeal یعنی مرحلہ وار ترقی ہو ہی نہیں سکتی.یہ ایک Compact Unit ہے.یعنی یہ ہر لحاظ سے ایک مربوط اور مکمل یونٹ ہے اور بحیثیت ایک یونٹ کے ہمیں ملتا ہے اس کے اندر نہ ارتقاء کی کوئی تاریخ مل رہی ہے نہ یہ نظریہ ارتقاء کے ذریعہ بن سکتی ہے.کسی پیمانے پر بھی اس کو Apply کر کے دیکھ لیں.یہ ارتقاء کی متحمل نہیں ہو سکتی.دوسرے میں نے یہ کہا کہ بیرونی تبدیلیوں کا Internal Chemistry سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس لئے یہ کہنا کہ Survival of the Fittest کے نتیجہ میں ارتقاء پیدا ہورہا ہے یہ غلط ہے کیونکہ Genes کے اندر کیریکٹر کی Fixation اور اندرونی تبدیلیوں کا بیرونی مواجہات کی تبدیلی سے کوئی بھی عقلی یا سائنٹیفک تعلق ہو ہی نہیں سکتا.یہ ناممکن ہے.کیا ارتقاء کا محض اتفاقی ہو نا ممکن ہے پی نہیں انہوں (احمدی طلبہ ) نے کام کیا یا نہیں مگر اب میں انگلستان میں تھا تو ایک سائنٹیفک رسالہ آیا اس میں بعینہ یہ دو چیزیں لکھی ہوئی ہیں اور پھر ڈائجسٹ پر میری نظر پڑی.یعنی ایک تو سائنٹیفک رسالہ میں اس پر بڑی تفصیل سے مضمون ہے اور ڈائجسٹ نے بھی اس مضمون کو لیا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ یہ دو اعتراضات ہیں جن کا ہمارے پاس قطعی طور پر کوئی جواب نہیں بنا.سو فیصدی شکست تسلیم کرتے ہیں کہ آنکھ کس طرح پیدا ہو گئی.ایولوشن Evolution کے ذریعہ اور Internal Chemistry میں تبدیلیاں کیسے آگئیں اور وہ اتنی گہری ہیں اور ان میں اتنی یک جہتی Direction ہے کہ ابھی جو حال ہی میں اس موضوع پر امریکہ میں ایک کانفرنس ہوئی ہے.اس میں ایک سائنسدان نے جو ماہر ریاضی ہے.اس نے ان

Page 114

110 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم سب باتوں پر غور کرنے کے بعد Blind Evolution کے خلاف ایک حسابی نظریہ پیش کیا ہے اس نے کہا اگر Blind Evolution کو مانا جائے تو ریاضی کے فارمولا کے ساتھ یہ شکل بنتی ہے یعنی Blind Evolution سے مراد یہ ہے کہ اتفاقاً کیمیکل Changes پیدا ہورہی ہیں ہزار قسم کی اور اتفاقا نئے کیریکٹر پیدا ہور ہے ہوں بعض Cells کے اندر.ان میں سے ۹۹۹ مر جائیں کیونکہ وہ زندہ رہنے کے لائق نہیں.ایک باقی رہے اور پھر اس ایک کے بعد آگے ہزار پیدا ہوں.پھر ان میں سے ایک اگلاDirectional ہو اگلے Step کا.وہ باقی رہے، سارے اور باقی ختم ہو جائیں.یہ ہے Blind Evolution یعنی اتفاقاً کوئی واقعہ ہو جائے.ارتقاء کے اتفاقی ہونے کے خلاف ایک مثال اسMathematician سائنسدان نے اس کا نفرنس میں حساب کا با قاعدہ ایک فارمولا پیش کیا.اس نے کہا.میں نے جب Evolution کے Steps دیکھے اور Generally Speaking اس تھیوری کو اس پر Apply کیا تو یہ شکل بنتی ہے کہ اگر ہزاروں صفحے کی بڑی جلدوں پر مشتمل ۲۵ کتابیں ہوں اور ان میں سے اول سے لے کر آخر تک نہایت ہی معقول، با معنی اور باربط مضامین چل رہے ہوں اور تھیوری یہ پیش کی جائے کہ یہ کتاب اس طرح بنی تھی کہ ایک آدمی نے جس طرح وہ ”گیٹیاں پھینکتے ہیں جن پر حرف لکھے ہوئے ہیں.ایک، دو، تین ، چار، پانچ اسی طرح وہ Dicc یعنی پانسہ پھینکا ہو اور اس میں سے حرف نکل آئیں تو ایک حرف اتفاقاوہ ایک جگہ لکھ دے.پھر دوسری دفعہ حرف نکالے تو وہ دوسری جگہ لکھ دے.تیسری دفعہ حرف نکالے تو تیسری جگہ لکھ دے اور ایسا ہی کرتا چلا جائے یہاں تک کہ اتفاقاً ایک بامعنی لفظ بن جائے.پھر وہ اگلے لفظ کے لئے یہی کوشش کرے اور پھر نہ صرف یہ کہ بامعنی لفظ بنے بلکہ اس سے اگلے قدم کا با معنی لفظ ملے اور اگر وہاں Verb چاہیے تو Verb بن جائے اور ایسا Verb جو بامعنی ہو اور جو اس کے ساتھ جوڑ کھا تا ہو اور اسی طرح پھر وہ فقرہ بنائے اور فقرہ بنا کر پھر اگلے حرف چنے اور پھر آگے فقرہ پر فقرہ بناتا چلا جائے.یہاں تک کہ ہزار ہا صفحے کی بڑی بڑی جلدوں کی نہایت معقول سائنٹیفک اور بامعنی فلسفیانہ مضامین پر مشتمل ۲۵ کتابیں لکھی جائیں.وہ کہتا ہے اگر حساب کی رُو سے یہ ممکن ہے تو پھر Blind Evolution بھی ممکن ہے.ورنہ اس کی کوئی شکل اب ہمیں نظر نہیں آرہی.

Page 115

مشعل راه جلد سوم 111 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی احمدی طلبہ کو نصیحت پس زمانہ اُس خدا کی طرف لوٹ رہا ہے جس کی طرف بلانے کے لئے ہم مقرر کئے گئے تھے.دہریے اس خدا کی طرف واپس آرہے ہیں اور احمدی طالب علم بے کار، ناواقف اور غافل بیٹھا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو چنا تھا.آپ کی ہدایت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث فرمائے گئے.حضور علیہ السلام نے یہ اعلان فرمایا اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے.اتنے وعدوں اور اتنی خوشخبریوں کے باوجوداگر آپ اپنے کام سے غافل ہوں یا اُس وقت اس کام میں دلچسپیاں لیں جب غیر آگے نکل چکا ہو.جو میدان آپ کے لئے قائم ہوئے تھے ان پر غیر قدم مار چکے ہوں اور پھر آپ یہ کہیں کہ اب اس بات کا کرنا فیشن ہے.اس سے پہلے خدا کی بات بے وقوفی کی بات تھی.تو یہ کیسی جہالت کی بات ہوگی.ابھی دیر نہیں گزری.اس لئے آپ میں سے ہر ایک کو لازما اپنے مضمون کا تعلق اپنی دینی معلومات کے ساتھ کرنا چاہیے.جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو دینی معلومات بڑھانی پڑیں گی.قرآن کریم سے پیار کرنا پڑے گا.اس سے محبت کرنی پڑے گی.محبت کے بغیر قرآن کریم اپنے معنی آپ کو نہیں دے گا.یہ ایک زندہ کتاب ہے.یہ کوئی مردہ کتاب تو نہیں.اور زندہ چیز یونہی بے وجہ مفت میں اپنی چیزیں نہیں لٹاتی پھرتی.جو اس سے پیار کرتا ہے اس کو فائدہ دیتی ہے.جو پیار نہیں کرتا اس کو نہیں دیتی.پس قرآن کریم کا اپنے پڑھنے والوں سے بھی یہی سلوک ہے.جو لوگ محبت کرتے ہیں قرآن ان کو نہ ختم ہونے والے تھے دیتا چلا جاتا ہے.جو سرسری نظر سے بیکار سمجھ کر تلاوت کرتے ہیں.ان بیچاروں کو کچھ بھی نہیں ملتا.صرف سرسری سی ملاقات ہی ہوتی ہے.اس لئے آپ قرآن کا با قاعدہ مطالعہ جاری رکھیں.اسی طرح اپنے مضمون کا بھی مطالعہ رکھیں اور اس موضوع پر آپس میں گفتگو کیا کریں اور اپنی مجالس میں پیپرز پڑھا کریں لیکن انکسار کے ساتھ.آپ ایسی تحدی نہ کیا کریں کہ جو ہم نے پالیا ہے وہ ضرور درست ہی ہے.یہ نہ ہو کہ سائنس کے لحاظ سے بھی آپ مُخرَج ہو جائیں اور مذہب کے لحاظ سے بھی مُخرج شمار ہونے لگ جائیں.نہ مذہب کا پورا علم ہو اور وہاں آپ دعوی کر بیٹھیں اور نہ سائنس کا پورا علم ہوا اور آپ وہاں دعوی کر بیٹھیں.اس لئے طمح نظر بلند رکھیں.محنت و لگن کی عادت ڈالیں لیکن عام زندگی میں انکساری اختیار کریں.دلائل میں بلند معیار قائم کریں اور اس میں آخری بات جو بہت ضروری ہے جس سے میں نے بہت فائدہ اٹھایا ہے وہ یہ ہے کہ اپنا

Page 116

112 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم Reasoning کا Threshold بہت بلند کریں.اپنے دل کو مطمئن کرنے کے لئے معیار اونچا کریں.یعنی چھوٹی سی بات جس کی طرف آپ کا ذہن منتقل ہوتا ہے اس پر فورا مطمئن نہ ہو جایا کریں کہ ضرور ٹھیک ہوگا.سب سے بڑی Criticism یعنی تنقید اپنے اوپر ہونی چاہیے.جب آپ سمجھ لیں کہ میرا دل واقعہ مطمئن ہو چکا ہے خواہ شروع میں وہ معاندانہ طریق اختیار کر رہا تھا کہ میں نے مطمئن نہیں ہونا ، لگا لوزور.جب اس پر فتح پائیں ، اس کو مطمئن کریں، دلائل سے قائل کر لیں.پھر آپ اس بات کے اہل ہوں گے کہ غیروں سے مخاطب ہوں اور ان کو بھی قائل کریں.اگر اپنا Thershold چھوٹا کر لیں گے.چھوٹی سی بات پر راضی ہو جائیں گے تو دنیا آپ پر ہنسے گی.اس سے زیادہ کوئی فائدہ نہیں ہوگا.آپ پر ہنسنے کا تو کوئی نقصان نہیں مگر احمدیت پر دنیا ہنسے گی.اسلام پر ہنسے گی کہ یہ اچھے سائنسدان ہیں کہ چھوٹی چھوٹی جاہلوں والی باتیں کرتے ہیں.دنیا کو منوا نہیں سکتے اور سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا تیر مارلیا.پس اس وقت تو آپ نے خدمت دین کی خاطر ایک پریکٹس کرنی ہے.پھر جو ماحصل ہے اسے پیپرز میں تبدیل کریں.اس کو دینی اور سائنسی احمدی علماء کے سامنے پیش کریں تا کہ وہ اس کو درست کریں.اگر کوئی خیالات کی غلطی ہے اور اگر اچھے خیالات ہیں تو وہ آپ کو یقین دلائیں کہ ہاں آگے بڑھو.اس میدان میں اور زیادہ فتوحات حاصل کرو.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور احمدی طالب علم کو عظمت کا وہ مقام عطا فرمائے جس کے لئے وہ پیدا کیا (روزنامه الفضل 4 مئی 1983ء) گیا ہے.

Page 117

مشعل راه جلد سوم 113 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی دعوت عصرانہ سے خطاب فرمودہ 18 اکتوبر 1982ء ایک احمدی بچی کا آکسفورڈ میں پردے کی پابندی کے ساتھ نمایاں کامیابی حاصل کرنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحم اللہ کاعلم کی طرف توجہ دلانا اور احمدی طلبہ کا علم کے میدان میں آگے آنا علم کا نور اور احمدی طلبہ کو ایک Advantage حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور غیر معمولی طور پر کثرت کے ساتھ علوم کی دریافت احساس کمتری کا عذاب اور ہندوستان و پاکستان کی قوم نئی زبان سیکھنے کی عمر اور طریق اپنے دماغ کی قدر کریں......زندگی کا مزاعلم میں ہے ربوہ میں زبا نہیں سکھانے کا منصوبہ ہے ہے

Page 118

مشعل راه جلد سوم 114 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 119

مشعل راه جلد سوم 115 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا:.آج سب سے پہلے تو آپ کو ایک خوشخبری سنانی ہے جو طلبہ کی زندگی سے تعلق رکھنے والی خاص خوشخبری ہے.ہماری ایک بچی امتہ المجیب صاحبہ جو مکرم اکرام اللہ صاحب آف ملتان کی بیٹی ہیں، آکسفورڈ میں پڑھ رہی تھیں اور ڈاکٹریٹ (doctrate) کر رہی تھیں، ان کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ انہوں نے solid state پر جو پیپرلکھا تھا وہ بھی اور viva یعنی زبانی امتحان بھی خدا کے فضل سے بہت ہی نمایاں کامیابی کے ساتھ پاس کیا ہے اور viva میں جو انٹرویو لینے والے تھے انہوں نے سب سے پہلے تو اس پر تعجب کا اظہار کیا کہ تم علم کے میدان میں یہاں تک پہنچی ہو اور برقع پہنا ہوا ہے.یہ کیا بات ہے؟ ہم تو سمجھتے تھے کہ skirt پینے کوئی ماڈرن سی لڑکی آئے گی.اس نے کہا میں نے تو برقع پہن کے ہی پڑھا ہے اور اب بھی برقع ہی پہنوں گی.یہ میرا (دینی) نشان ہے میں اس کو کس طرح چھوڑ سکتی ہوں.اس کے بعد انہوں نے viva یعنی زبانی امتحان لیا اور اللہ کے فضل سے وہ ہر سوال کا صحیح جواب دینے میں کامیاب ثابت ہوئی.آخر پر انہوں نے کہا ہم نے تمہارے پیپر بھی دیکھے ہیں.تم سے ایک مدد چاہیے اور وہ یہ کہ اگر تمہارے پیپر میں کوئی غلطی ہے تو خود بتا دو.کیونکہ ہمیں کہیں غلطی نہیں ملی.ہم نے بار بار توجہ کی ہے کہ کسی طرح کوئی ایک غلطی پکڑ لیں لیکن کہیں کوئی غلطی نظر نہیں آئی.احمدی طلبہ کا علمی میدان میں آنا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی طلبہ جس نے دور میں داخل ہور ہے ہیں یہ اس کی دوسری علامت ظاہر ہورہی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو علم کی طرف بہت توجہ تھی اور ان کی زندگی میں ہی پہلا پھل ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی شکل میں ظاہر ہوا.اس سے ایک عام وسیع پیمانے پر impact ہوا

Page 120

116 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہے.اس توجہ نے ایک خاص ماحول create کیا ہوا تھا.اس پر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ایک دم نمایا ہو کر باہر نکلے ہیں.وہ پہلے ہی چمکے ہوئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسی خوبصورت ٹائم سیٹنگ time (setting) کی کہ اس نے احمدی طلبہ میں ایک نیا impetus یعنی ولولہ پیدا کر دیا.اور یورپ میں جہاں جہاں بھی احمدی طلبہ مجھے ملے ہیں بڑے بھی اور چھوٹے بھی، جب میں ان سے بات کرتا تھا کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم تو ڈاکٹر سلام بنیں گے انشاء اللہ.بعض چھوٹے چھوٹے بچوں نے کہا کہ ہم نے ڈاکٹر سلام سے بھی آگے نکلنا ہے.یہ بلند حو صلے اور ارادے، یہ ستاروں پر کمندیں ڈالنا ، سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک خاص ماحول کی برکت ہے جس کا علمی میدان میں آغاز حضرت خلیفہ المسح الثالث نے کیا تھا.بہر حال practically ( عملاً) زور کے ساتھ یہ چیز اس وقت سامنے آئی.لیکن اس کے جو roots یعنی جڑیں ہیں وہ ماضی میں اس سے بھی گہری ہیں، بہت ہی گہری ہیں.باوجود اس کے کہ عرب جہالت کا گہوارہ تھا.ساری جہالتیں وہاں پنپ رہی تھیں، وہاں سے اللہ تعالیٰ نے ایک وجود کو کھڑا کیا اور اس کی بابت یہ اعلان فرمایا کہ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ (الجمعة : 3) گویا بتایا کہ معجزہ اس کو کہتے ہیں کہ وہ ملک جو ساری دنیا میں سب سے زیادہ جاہل ملک ہے اور جس کے بسنے والے امی محض ہیں.انہی میں سے میں ایک آدمی چتا ہوں اور اچانک تم دیکھتے ہو کہ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وہ انہیں تعلیم بھی دینے لگ گیا ہے اور پس پردہ حکمتیں اور فلسفے بھی بیان کرنے لگ گیا ہے.اس شان کا معلم ہمیں عطا ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کے حصول پر بہت زور دیا اور علم کے متعلق نصیحتیں فرما ئیں.اس وجہ سے صحابہ علم میں بہت دلچسپی لیتے تھے.آنحضور کی ہدایت پر صحابہ نے Greek یعنی یونانی اور دوسری زبانیں سیکھنی شروع کر دیں.چنانچہ مسلمانوں کے علمی دور کا آغاز آنحضور کے زمانہ سے ہوا ہے.پھر وہ ایک خاص مقام تک پہنچا اور عروج کے بعد پھر تنزل پذیر ہوا ہے اور پھر دنیا اس جہالت کے دور میں دوبارہ داخل ہوگئی جو عرب جہالت کا دور تھا یعنی قبل از اسلام جہالت کا دور.تب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو معبوث فرمایا.آپ نے نہ صرف یہ کہ دعائیں کیں بلکہ بڑی عظیم خوشخبریاں سنائیں اور بتایا کہ میرے ماننے والوں اور میرے غلاموں میں سے خدا ایسے لوگ پیدا کرے گا جو ہر علم اور ہر فلسفے میں بڑے بڑے دنیا دار علماء کے منہ بند کر دیں گے.حضرت مسیح

Page 121

مشعل راه جلد سوم 117 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اس مضمون کا بہت پُر شوکت کلام موجود ہے.تو آغا ز اصل میں وہاں سے ہوا ہے جس دن اسلام پیدا ہو رہا تھا اس دن دنیا کے علم بھی نئی پرورش پا رہے تھے اور نئی کروٹ لے کر بیدار ہو رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر مزید روشنی ڈالی.آپ نے فرمایا کہ در حقیقت جب خدا تعالیٰ کی طرف سے نور نبوت عطا ہوتا ہے تو اس کے چھینٹے دنیا کو بھی محروم نہیں کرتے اور ایک عام روشنی پیدا کر دیتے ہیں.اس روشنی کی مختلف تعبیر میں ہوتی ہیں.روحانی دنیا میں وہ روشنی روحانی نور میں ڈھل جاتی ہے اور غیر معمولی شدت کے ساتھ مذہبی فلسفہ بیدار ہوتا ہے، مذہبی اقدار زندہ ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوگوں کو توجہ پیدا ہوتی ہے.نور وہی ہے لیکن جب دنیا والوں پر اس کا پر تو پڑتا ہے تو اس نور کی روشنی میں وہ اس طرف اور زیادہ بڑھنے لگتے ہیں جس طرف ان کا رجحان ہے اور خدا تعالیٰ کے قانون کے راز معلوم کرنے میں اور ترقی کرنے میں علم کے فروغ کا ایک نیا era یعنی نیا دور شروع ہو جاتا ہے.یہ وہی نور نبوت ہے جو خاص مقصد کے لئے آسمان سے نازل ہوتا ہے اور اس کی انتشاری روشنی (diffused light) ساری دنیا کو ایک نئے علمی دور میں داخل کر دیتی ہے.انبیاء کے ساتھ نُور کا نزول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہر نبی کے وقت یہ واقعہ رونما ہوتا ہے چنانچہ نفیوشس کے ساتھ چین کا علم اس طرح مربوط ہو چکا ہے کہ ایک کے نام کے ساتھ دوسرا خود بخود ذہن میں آجاتا ہے.اسی طرح بہت سے ہندوستانی علوم ہندو رشیوں کے ساتھ وابستہ ہو چکے ہیں.بعد میں وہ ان کو خدا بنا لیں یا بت کہہ لیں جو مرضی کہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہے وہی phenomenon یعنی ظہور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا کہ ابنیاء کے ساتھ ایک نور نازل ہوتا ہے.جب وہی نور دنیا کے پہلو سے بھی ماننے والوں پر پڑتا ہے تو ان معنوں میں نور علی نور بن جاتا ہے کہ وہ دنیا کے نور سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور روحانی نور سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور دونوں جگہ لیڈر بن جاتے ہیں.کیونکہ جن کی عقلیں صیقل ہوں، جن کو تقویٰ نصیب ہو وہ زیادہ اہل ہیں اس بات کے کہ وہ سائنٹیفک سٹڈی (scientific study) کرسکیں.اس لئے احمدی کو اور بالخصوص احمدی طلبہ کو ایک (advantage) یعنی رعایت حاصل ہے کہ وہ بہت آگے کھڑے ہیں اور باقی دنیا اسی نور سے بالواسطہ فائدہ اٹھا رہی ہے جو اس دور میں نور نبوت کے طفیل

Page 122

مشعل راه جلد سوم نازل ہوا.118 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضرت مسیح موعود کی بعثت اور کثرت علوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش کے وقت سے لے کر آپ کے دعوے تک اور پھر دعوے سے وفات تک، یہ دو دور ہیں جن میں غیر معمولی طور پر کثرت کے ساتھ علوم دریافت ہوئے.علوم کی نئی شاخیں ایجاد ہوئیں ، چوٹی کے سائنسدان اس دور میں پیدا ہوئے اور پھر آپ کے وصال سے پہلے ان تمام ایجادات کا بیج بویا گیا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں.ان میں سے ہوائی جہاز کی ایجاد ہے.تو جو نیا دور ہے مثلاً Atomic concept by the turn of the present century it had come into an offing.یعنی اس سے پہلے ایٹم کے تصور کا دور مبہم سا تھا لیکن اس صدی کے آغاز میں ہی یہ Offing یعنی افق پر نظروں میں آچکا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں اس دور کی بنیاد میں قائم ہو گئی تھیں اور جو مزید ترقی ہو رہی ہے اس کا آغاز بھی دراصل آپ کے وقت میں ہو چکا تھا.اسی طرح ہر نبی کے دور کے ساتھ ایک علم پھیلا ہے.اس لئے آپ کو اس سے یہ سبق لینا چاہیے کہ یہ روشنی جس کے اول حقدار آپ ہیں جو حقیقت میں احمدیت کی برکت سے دنیا میں منتشر ہوئی ہے، یہ آخر احمدیت کی خدمت کے لئے انتشار پذیر ہوئی ہے، اس روشنی سے ہم کیوں محروم رہیں.ہمیں آگے بڑھنا چاہیے.بے وجہ احساس کمتری سب سے بڑی مصیبت جو ہماری راہ میں حائل ہے وہ ہے احساس کمتری.ایک عذاب ہے ہندوستان اور پاکستان کی قوم کے لئے کہ بے وجہ احساس کمتری میں مبتلا ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیزیں باہر ہو سکتی ہیں یہاں نہیں ہو سکتیں.یعنی ایجادیں سب باہر ہو سکتی ہیں، یہاں نہیں ہوسکتیں.ہمیں گویا دماغ ہی نہیں ملا کہ غور کر کے نئی نئی چیزیں نکال سکیں.اگر ہر مضمون میں Confidence یعنی خود اعتمادی پیدا ہو جائے تو چھوٹی عمر میں ہی انسان بڑے بڑے فاصلے طے کر لیتا ہے.بے وجہ اپنے آپ کوالیف.ایس.سی،

Page 123

مشعل راه جلد سوم 119 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی بی.ایس سی ، ایم.ایس سی کی قیود میں باندھ کر اگر آپ علمی سفر شروع کریں گے تو آپ کے پاؤں میں بیڑیاں پڑی رہیں گی.کیوں آپ ایف ایس سی میں ایم.ایس سی کی باتیں نہیں سوچ سکتے یا پڑھ سکتے.آپ کو پڑھنا چاہیے آپ پڑھ سکتے ہیں.انسانی دماغ کا مکمل استعمال آج تک نہیں ہوا اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنا عظیم الشان دماغ دیا ہے کہ سائنسدان جنہوں نے دماغ پر غور کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم دماغ کا ہزارواں حصہ بھی استعمال نہیں کر سکے Untapped Resources میں پڑے ہوئے ہیں.اس کی چھان بین کرنے والے شکست تسلیم کر چکے ہیں کہ آج تک ہم سب سے کم جس چیز کو سمجھ سکے ہیں وہ انسانی دماغ ہے اور بد قسمتی یہ ہے کہ اس کا اکثر حصہ بغیر استعمال کے ہی پڑا رہ جاتا ہے.جس طرح دنیا کے پسماندہ ممالک میں ان کے اکثر ذرائع اور وسائل بغیر استعمال کے پڑے رہ جاتے ہیں، اسی طرح ان بیچاروں کے دماغ بھی بغیر استعمال کے پڑے رہ جاتے ہیں.جن قوموں نے اپنے دماغ کو استعمال کرنے کی جرات کی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑے بڑے پھل دیئے ہیں.ایٹم بم کی کہانی امریکہ میں ایک نوجوان سائنس کا سٹوڈنٹ تھا جس نے ابھی ڈگری بھی حاصل نہیں کی تھی.اس کے پروفیسر نے باتوں باتوں میں ایٹم بم کا ذکر کیا.اس نے کہا کہ ایٹم بم تو میں بھی بنا سکتا ہوں.اس میں کون سی مشکل بات ہے پروفیسر نے کہا کہ تم کس طرح بنا سکتے ہو؟ تمہارے پاس نہ تو اسباب (Resources) ہیں، اور نہ تمہیں اتنا علم ہے.اس نے کہا جو باتیں آپ نے مجھے بتائیں ہیں ان کی رو سے، جس طرح باقی سائنسدان کرتے ہیں، لائبریریوں میں بیٹھ جاتے ہیں، یہ کتاب نکالی، وہ کتاب نکالی، اسی طرح جوڑ جاڑ کے میں بھی بنا سکتا ہوں.پروفیسر کو اس بات پر اتنا غصہ آیا کہ اس نے کہا تم میری کلاس سے نکل جاؤ.اگر تم اتنے قابل ہو تو تمہیں یہاں بیٹھنے کی کوئی ضرورت نہیں.اس نے کہا میں اس شرط پر نکلوں گا کہ میرے لیکچر شارٹ (Short) یعنی کم نہ ہوں.کیونکہ میں نے پاس بھی تو ہونا ہے.اس نے کہا اچھا! پھر تمہارے ساتھ یہ شرط ہوگی کہ اگر فلاں تاریخ تک جو امتحان کی تاریخ ہے، تم نے ایٹم بم کا خاکہ Blue Print بنادیا اور ہر پرزے کے متعلق مجھے بتا دیا کہ یہ اس طرح بنتا ہے تو میں یونیورسٹی کے بورڈ میں سفارش کروں گا کہ تمہیں بغیر

Page 124

120 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم امتحان کے ڈگری عطا کر دی جائے اور اگر ایسا نہ کیا تو تم فیل شمار ہو گے اور کالج سے نکال دیئے جاؤ گے.اس نے کہا مجھے یہ چیلنج منظور ہے.یہ کہا اور اٹھ کر باہر نکل گیا.جانے سے پہلے اس نے کہا کہ ایک شرط میری بھی ہے آپ میرے گائیڈ ہیں.مجھے گائیڈ لائن ضرور دیں.اگر میں کہیں پھنستا ہوں تو بیشک تھوڑا وقت ہے لیکن میں آپ سے پوچھا کروں گا کہ فلاں مضمون کہاں ملتا ہے، مجھے بتائیں.اس نے کہا یہ تو میں بتا دوں گا لیکن یہ کہ کس کس قسم کے پرزے کہاں کہاں سے مل سکتے ہیں ، اس میں میں تمہاری کوئی مدد نہیں کروں گا.خیر، یہ چیلنج قبول ہو گیا اور بات آئی گئی ہو گئی.اس نے تحقیق شروع کی.آخر وہ دن آپہنچا جب اس نے اپنا Thesis یعنی تحقیقی مقالہ پیش کرنا تھا.صرف ایک چیز اس کی اٹکی رہ گئی.ایک خاص قسم کا ایسا پرزہ تھا جو الیکٹرونک تھا اور Valve کا کام کرتا تھا.خاص کرنٹ کو Cutout ( منقطع ) کر کے کسی اور کرنٹ کو (جو بھی کرنٹ تھی ) Pass کرنے کی اجازت دیتا تھا.اس بیچارے کو یہ پرزہ نہیں مل رہا تھا اور شرط یہ تھی کہ خا کہ ہر طرح سے مکمل ہو.ایک جگہ بھی اٹک گئے تو سمجھا جائیگا کہ ایٹم بم نہیں بنا ساری کوششیں بریکار گئیں.اس بیچارے کو سوچتے سوچتے اچانک دماغ میں آگیا کہ Bell ٹیلیفون کی مشہور کمپنی ہے ان کے ہاں اس قسم کی کوئی چیز ضرور ہونی چاہیے.اس نے اُسی وقت Bell والوں کو فون کیا کہ اس قسم کا ایک پرزہ ہے جس کی یہ یہ خاصیتیں ہیں.اور وہ آپ کے پاس Available یعنی دستیاب ہے.اس نے کہا بہت اچھا! کیا نمبر ہے؟ اس کا نمبر اپنے Thesis میں نوٹ کیا اور ہانپتا کانپتا، سانس چڑھا ہوا وقت پر جا کر اس نے اپنا Thesis دے دیا.واپس آکے اس بیچارے کو خیال آیا کہ میں نے اپنی طرف سے تو ایٹم بم بنا دیا ہے پتہ نہیں نتیجہ کیا نکلتا ہے جب انعامات کی تقسیم کا وقت آیا اور ڈگریاں تقسیم ہوئی تھیں تو اس کی تلاش شروع ہوئی.یونیورسٹی کے پروفیسرز کا پورا بورڈ بیٹھا ہوا تھا.اس کو بلایا گیا.انہوں نے اس کو کہا کہ ہم تمہیں غیر معمولی اعزازی ڈگری عطا کرنا چاہتے ہیں اور امریکن قوم کی طرف سے تمہارا شکر یہ ادا کرنا چاہتے ہیں.ہم اس احساس کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ یہ چیز ہو ہی نہیں سکتی اس لئے بہت سے Documents جو Secret ہو جانے چاہیں تھے ان کو ہم نے لائبریریوں میں کھلا رکھا ہوا تھا.اب تمہارے اس مقالہ سے ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ یہ اتنی خطرناک چیز ہے کہ اب ہم نے ان Documents کومہر بند (Seal) کروا دیا ہے.اور اب یہ پبلک کے استعمال کے لئے نہیں ہوں گے.تو بی ایس سی کا ایک معمولی طالب علم ایٹم بم کا پورا اور مکمل Blue Print تیار کر لیتا ہے.اس لئے کہ اس کو پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنا بڑا دماغ دیا ہے کہ اگر میں اس کو استعمال کروں تو میرے لئے ترقی کے

Page 125

مشعل راه جلد سوم غیر متناہی رستے کھلے ہیں.نئی زبان سیکھنے کی صحیح عمر 121 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی آج صبح میں نے آپ کو Languages یعنی زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ دلائی تھی.زبانوں کے متعلق ریسرچ کہتی ہے کہ گیارہ سال کی عمر تک آپ جتنی چاہیں زبانیں سیکھیں.آپ کے اوپر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا.جتنی زیادہ آپ زبانیں سیکھیں گے اتنا زیادہ آپ کا دماغ اور زبانیں سیکھنے کے قابل ہو جائے گا.اور اگر گیارہ سال کی عمر تک ایک زبان بھی نہ سیکھی ہو تو پھر ناممکن ہے کہ آپ کوئی ایک زبان بھی سیکھ سکیں.اس کے بعد علمی ترقی ، زبان کے لحاظ سے ناممکن ہو جائے گی.Brain کا جو Right Hemisphere ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبانیں سکھائی جاتی ہیں.گیارہ سال تک وہ انتظار کرتارہتا ہے اور پھر وہ Barren یعنی نا کارہ ہو جاتا ہے اور اسے کچھ بھی یاد نہیں ہوتا.جس طرح بعض عورتیں یورپ وغیرہ میں پلاننگ کرتی رہتی ہیں.رحم بچے کا انتظار کرتا رہتا ہے.کچھ عرصہ بعد فلو پین ٹیوبز وغیرہ بند ہوکر بیکار ہو جاتی ہیں.اسی طرح دماغ کا یہ حصہ گیارہ سال تک انتظار کرتا ہے کہ اسے استعمال کیا جائے.جو لوگ استعمال نہیں کرتے وہ اسے ضائع کر دیتے ہیں.لیکن جو اپنے دماغ پر زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں وہ اسے معطل نہیں کرتے بلکہ اور زیادہ چپکا دیتے ہیں.زندگی کا مز العلم میں ہے پس آپ اپنے دماغ کی قدر کریں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت غیر معمولی قوتیں عطا فرمائی ہیں.آپ بیک وقت بہت سی چیزیں سیکھ سکتے ہیں بشرطیکہ علم میں مگن ہو جائیں.یہی زندگی کی لذت ہے.جو مزا علم میں ہے وہ گیوں میں ہے، نہ چالا کی میں ہے، اور نہ لباس وغیرہ میں ہے.پھر اس کے ساتھ کیریکٹر میں ایک Nobility ( عظمت) بھی پیدا ہو جاتی ہے.تفریح سے مراد کیا ہے تو جیسا کہ آپ سے میں نے کہا تھا زبانیں سیکھیں.جب آپ نیک نیتی سے سیکھیں گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی آپ کو حاصل ہوگی اور آپ پر کوئی ایسا بوجھ بھی نہیں پڑے گا جو آپ کی تعلیم میں حارج ہو.ہر طالب

Page 126

مشعل راه جلد سوم 122 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی علم کو جو زائد وقت ملتا ہے اس میں وہ یہ مشغلہ رکھ لے کہ کوئی زبان سیکھنی ہے.اس سے اس کو Relaxation یعنی تفریح بھی ہوگی.کیونکہ دلچسپی کو حاصل کرنے یا بوریت کو دور کرنے کا جو Phenomenon ہے وہ صرف یہ ہے کہ انسان تبدیلی چاہتا ہے کام سے.کام میں تبدیلی ہو تب بھی آدمی Relaxed یعنی سکون حاصل کر لیتا ہے چنانچہ انتہائی پریشر کے وقت جب چرچل نے Relaxed کرنا ہوتا تھا تو وہ ترکھان والا کوئی کام شروع کر دیتا تھا اور اگر ترکھان کام کر رہا ہو اور وہ تھک جائے تو وہ تو خیر اس وقت جرنیل نہیں بن سکتا.لیکن بہر حال اگر کوئی اور کام کر لے گا تو اس میں دلچسپی پیدا ہو جائے گی.تو تنوع جرنیل بن بہرحال اگر کرلے تو اسمیں پیدا.تو میں دلچسپی ہے.تبدیلی میں دلچسپی ہے یہ بھی آپ کی ایک علمی تبدیلی ہو جائے گی.آپ ایک نئی زبان سیکھنے لگ جائیں گے.اس موضوع پر ابھی میاں احمد ( محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم.اے) سے باتیں ہورہی تھیں.انہوں نے بتایا کہ Russia میں زبان پر ریسرچ ہوئی.وہ بعض زبانیں بعض طریقوں سے جلدی سکھا دیتے ہیں.میں نے ان سے کہا ہے کہ ساری دنیا سے Data ( کوائف ) اکٹھا کریں.زبان سیکھنے کے نئے طریقے اصل بات یہ ہے کہ زبان پر نئی نئی ریسرچ بہت سے ملکوں میں ہو رہی ہے اور اس کے متعلق مختلف ذرائع اختیار کئے جا رہے ہیں.مثلاً بنیادی طور پر یہ بات ہے کہ ترجمے کی بجائے براہ راست زبان سیکھی جائے.اس کے لئے شروع میں تصویری زبان میں بغیر ترجمے کے کتابیں آگئی تھیں.فرنچ میں ، اٹیلین وغیرہ ہر زبان میں یہ کتابیں ملتی ہیں.تصویر ہوتی ہے اور اس میں اشارہ ہوتا ہے کہ یہ فلاں چیز ہے.یہ فلاں چیز ہے.آہستہ آہستہ انسان نظری طور پر وہی پڑھنے لگتا ہے جس طرح بچہ سیکھتا ہے اسی طرح وہ سیکھتا ہے البتہ اس میں تلفظ کی کمزوری آجاتی ہے کیونکہ اچھا تلفظ آہی نہیں سکتا جب تک کہ انسان خود نہ سنے.اب Video System آگئے ہیں.ان کے ذریعے یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے اگر تحقیق کی جائے تو بہت سی ایسی وڈیو ریکارڈنگ مل سکتی ہیں جن میں ایک فریچ ٹیچر صحیح تلفظ کے ساتھ اور آہستہ آہستہ فریج پڑھا رہی ہے اور ساتھ تصویریں بھی آرہی ہیں اور وہ اشاروں سے بتا رہی ہے.اس طریق سے زبان آجاتی ہے.انسانی ذہن کی مختلف کیفیتیں پھر سائیکالوجی کی طرف سے مختلف ممالک میں جوریسر چ یعنی تحقیقات ہو رہی ہیں اس میں کئی تجربے

Page 127

123 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہوئے ہیں بلغاریہ ایک مشرقی یورپ کا ملک ہے.وہاں یہ تجربہ کیا گیا تھا کہ ایک میوزک ہال میں بہت ہی اعلیٰ اور آرام دہ کرسیاں بچائی گئیں.جس طرح Luxury کے لئے صوفے سیٹ بنائے جاتے ہیں اور بیک گراؤنڈ میں انہوں نے ایک نئی زبان بھر دی اور اس کے ترجمے اور گرائمر وغیرہ پڑھا رہے ہیں.فلور گراؤنڈ میں میوزک کا انتظام ہے.لیکن ہلکی سی آواز میں زبان بھی سنائی دے رہی ہے.توجہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ میوزک کی طرف دینی ہے، زبان کی طرف نہیں دینی.زبان بھول جاؤ تمہارے اوپر اس کا کوئی بوجھ نہیں پڑنا چاہیے یہ تجربہ اس نظریے کے تحت کیا گیا.کہ کا نفس برین یعنی ذہن بعض دفعہ با ہر ایک روک ڈال دیتا ہے اور اس سے ٹکرا کر بہت سے علوم واپس چلے جاتے ہیں اور ذہن کے اندر Penetrate (داخل) نہیں ہونے دیتا اور کانشنس برین یعنی شعوری ذہن میں ، ان کانشنس یا سب کانشنس برین یعنی غیر شعوری یا تحت الشعوری ذہن کی نسبت Storage Capacity یعنی الفاظ کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہے.مثلاً سب کانشنس ( تحت الشعور ) کے متعلق تو یہاں تک معلوم ہوا ہے کہ ایک بچی کو انگریزی کے سوا کوئی زبان نہیں آتی تھی ، دوسری زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتی تھی ، جب اس کے دماغ کا اپریشن ہونے لگا اور اس کے لئے ڈاکٹروں نے سوئیاں گزارنی شروع کیں تو ایک جگہ پہنچ کر وہ Fluent ( نہایت رواں ) زبان میں جرمن بولنے لگ گئی.( دماغ کا ایک حصہ Excite کر دیا گیا جس کے نتیجے میں وہ جرمن بولنے لگ گئی ) ڈاکٹر بڑے متعجب ہوئے کہ یہ کیا قصہ ہے اس کے ماں باپ سے سوال کیا انہوں نے کہا ہم نے تو اس کو کبھی جرمن نہیں سکھائی.پھر Cross Examination( کرید کر سوالات پوچھنے ) پر ماں کو یاد آ گیا کہ اصل میں بچپن میں اس کی دایہ ایک جرمن تھی اور اس کی عادت تھی Soliloquy یعنی وہ بیٹھی آپ ہی آپ منہ میں باتیں کیا کرتی تھی.اب یہ اس کے بچپن کا تھوڑا سا دور تھا.اس وقت کوئی Consciousness یعنی شعوری کیفیت اس کی ایسی نہیں تھی کہ جو وہ سیکھنا چاہتی تھی کانشنس برین، یا شعوری ذہن اس کو رد کر رہا تھا.بلکہ جو وہ سن رہی تھی دماغ اس کو Sink ( جذب) کرتا جارہا تھا.اس کے نتیجہ میں جب اس نے Consciously ( شعوری دور میں ) علم سیکھا تو وہ چیزیں سٹور ہو کے دب گئیں اور اس کو پتہ نہیں تھا کہ میرے اندر کیا قابلیت موجود ہے جب برقی آلوں نے دماغ کے اس حصے کو Excite کیا تو اچانک دوبارہ قوت بیدار ہوگئی اور پتہ لگا کہ انسان کے ذہن کی Storage Capacity (ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ) بہت زیادہ ہے اور وہ آپ ہی آپ علم کو Absorb (جذب) کرتا چلا جاتا ہے.

Page 128

مشعل راه جلد سوم 124 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی دماغ کے مختلف حصوں کی صلاحیتیں اس پر بہت ریسرچ ہو چکی ہے اور یہ پتہ چلا ہے کہ دماغ کے بے شمار ایسے حصے ہیں جن میں علم کے سٹور بھرے ہوئے ہیں.ہم نے کسی وقت کوئی چیز سیکھی تھی اور وہ وہاں محفوظ ہوگئی ہے ان کو Actively (مستعدی کے ساتھ ) استعمال کرنے کی طاقت ہم میں ہو یا نہ ہولیکن دماغ میں وہ چیزیں موجود ہیں.اس اصول پر انہوں نے یہ طریق سوچا کہ دماغ کو بتایا ہی نہ جائے کہ تم کچھ یاد کر رہے ہوتا کہ اس پر بوجھ نہ پڑے.جس طرح طالب علم امتحان سے پہلے جب Consciously یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بعض اوقات دس دس دفعہ پڑھ کر اس کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں لیکن کہانی کے طور پر وہی مضمون پڑھ جائے اور خیال بھی نہ ہو کہ میں نے یاد کرنا ہے تو بعض دفعہ پوری کتاب کا مضمون ذہن میں رہتا ہے اور خود بخود وقت پر یاد آ جاتا ہے.اس اصول پر انہوں نے زبان کا تجربہ کیا.لوگوں سے کہا کہ تم Relaxed ہوکر میوزک سنو اور تم محسوس کرو گے کہ زبان آپ ہی آپ ڈوب رہی ہے کہ ان کا دعوی یہ تھا کہ ایک مہینہ کے اندر ہم نے پہلی Proficiency (ابتدائی لیاقت پیدا کر دی ہے.یعنی زبان بولنے کی پہلی سٹیج Create کر دی اور ایک ہفتے کے بعد اچانک وہ لوگ زبان بولنے لگ گئے.جس طرح کہ ان کو پہلے ہی آتی تھی.اس طرح ان کو احساس ہوا.اس پر رشیا کی ایک سائنٹسٹ ٹیم کا پتہ لگا تھا کہ اس نے ریسرچ کی ہے اور وہ اس میں بڑی گہری دلچسپی لے رہے ہیں.اس لئے ہو سکتا ہے کہ میاں احمد صاحب کی جو انفارمیشن ہے وہ اسی مضمون سے متعلق ہو اور زبان سیکھنے کا یہی طریق ہو.کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ غیر معمولی طور پر تھوڑے وقت میں وہ زبانیں سکھاتے ہیں.زبان کے بارے میں ایک اور تجربہ ایک اور تجربہ بھی ہوا ہے جس کے متعلق بعض سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ بالکل نا کام ہے.لیکن بعض ابھی تک اصرار کر رہے ہیں کہ نہیں یہ مفید ہے اور Ordinarily یعنی بالعموم ہم میں سے ہر ایک کے یا ایک طبقے کے بس میں ہے وہ کہتے ہیں کہ مثلاً جو زبان تم سیکھنا چاہتے ہو وہ کیسٹ ریکارڈ کر لو.اس کے بعد وہ جو Repeat System ہوتا ہے (جیسے Toshiba میں اشتہار آ رہاتھا کہ ٹیپ ختم ہو تو وہیں سے دوبارہ چل

Page 129

125 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم پڑے) اس میں ریکارڈنگ ہوئی ہو تو رات ملکی آواز میں چلا کر خود سو جاؤ.ساری رات دماغ اس کو Catch کرتا رہے گا.ہو سکتا ہے کہ جب تھوڑی دیر کے لئے Deep Sleep( گہری نیند ) میں آجائے تو اس وقت نہ کرے.اس کی تفصیل میرے علم میں نہیں.لیکن جو میں نے پڑھا ہے وہ یہی ہے کہ ساری رات Sleep یعنی نیند کی کوئی سٹیج، منزل ہو، ذہن اس کو نوٹ کرتا چلا جاتا ہے.یہ بات تو درست ہے اور اس میں کوئی شک نہیں.کیونکہ جیسا کہ پہلا تجربہ میں نے بیان کیا ہے ہوسکتا ہے بلکہ غالب خیال یہی ہے کہ ذہن ضرور ریکارڈ کرتا ہوگا.لیکن اصل مشکل سوال یہ ہے کہ کیا کانشنس برین اس سب کا نشنس ریکارڈنگ سے استفادہ کر سکتا ہے یا نہیں اور اس کا کوئی کنکشن سٹم ہے یا نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سٹم ضرور ہے.ورنہ یہ سارا بے کار تھا اور اللہ تعالیٰ کوئی باطل اور بے کار چیز پیدا نہیں کرتا.چنانچہ پہلے دن بچے کے ایک کان میں اذان دینا اور دوسرے کان میں تکبیر یعنی اقامت کہنا یہ بھی ایک لغو فعل بن جاتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے اور حضوراکرم ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے اگر یہ لغو ہوتا.آپ کی زندگی کا ایک ذرہ بھی تعلیم قرآنی کے خلاف نہیں.اس پہلو سے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب کانشنس برین سے کانشنس برین کے استفادے کا کوئی نظام ضرور قائم کیا ہوگا.ممکن ہے بعض ذہنوں میں وہ کنکشن جلدی پیدا ہو جاتا ہو، بعض میں ذراست پڑ گیا ہو.اس لئے اگر آپ کے پاس توشیبا یا کوئی اور کیسٹ ریکارڈر ہو جس طرح موٹر کے ہوتے ہیں (اس میں اکثر ر پیسٹ سسٹم والے آتے ہیں.عام طور پر موٹر کے ریکارڈر ہیں ان میں ریکارڈ تو نہیں ہوسکتا ہے ) تو آپ میں سے اگر کوئی تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو تجربہ کر کے اس کے فوائد کوریکارڈ کریں.یہ تجربہ دو طریق سے ہونا چاہیے.ایک تو یہ کہ رات کو سونے کے بعد صرف سنا جائے یا کچھ حصہ Consciously سن لیا جائے اور پھر سو جائیں تا کہ دماغ سے اس کا ایک Link قائم ہو جائے اور مہینہ دو مہینے کے بعد دیکھیں کہ کسی قسم کی آپ میں Improvement ہوئی ہے کہ نہیں.دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس تجربے کے بعد اسی آواز کے ذریعہ پھر وہ زبان سیکھنے کی کوشش کریں اور پھر ایک ایسا کنٹرول گروپ ہو جو بغیر اس تجربے کے بعد میں اکٹھے زبان سیکھنے کی کوشش کریں.میں تھیں کا ایک کنٹرول گروپ بنالیں.اور ایک Experimental یعنی تجرباتی گروپ بنالیں.ان کے موازنے سے ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ واقعہ کوئی فائدہ ہے یا نہیں ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم میں جو فائدہ ہے ہم اس کے راز کو پاسکے ہیں کہ نہیں اور اس ذریعے سے اس کا کوئی تعلق ہے یا نہیں.

Page 130

مشعل راه جلد سوم 126 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی ربوہ میں زبانیں سکھانے کا منصوبہ بہر حال جو بھی نئے نئے ذرائع ہیں ان کو Import کر کے ان سے انشاء اللہ تعالیٰ ربوہ میں زبان سکھانے کا ایک ماڈل بنائیں گے جتنا بھی اس پر خرچ ہوگا اس کی کوئی پرواہ نہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمار فضل ہیں.باہر کی جماعتیں بھی اب بڑی بیدار ہیں اور کما رہی ہیں اور خدمت کا جذبہ رکھتی ہیں.ان کے اندر قربانی کے جذبے حیرت انگیز طور پر بیدار ہورہے ہیں.بڑی کثرت سے دوست یہ پیشکش کر رہے ہیں کہ ہمارا سب کچھ سو فیصدی دین کا ہے.روپیہ کوئی مشکل ہی نہیں ہے ایسی جماعت کے سامنے جو خالصہ اللہ ہو چکی ہو اور جو اپنا کچھ الگ سمجھے ہی نہ.افراد جماعت احمدیہ کی ٹوٹل پراپرٹی ٹوٹل جماعت احمدیہ کی پراپرٹی ہے.یہ شکل بن جاتی ہے.روپے کی کمی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے رستے میں روک نہیں بنے گی.اس لئے فہرستیں منگوائیں اور ساتھ ہی آرڈر دیتے چلے جائیں تاکہ یہاں نمونے آنے شروع ہو جائیں.پھر ایک بہت خوبصورت ماڈل یہاں Create ہو جائے خواہ جامعہ میں یا لائبریری میں.اگر الگ عمارت بنانی پڑے یا کمرہ وغیرہ Add کرنا پڑے تو وہ بھی کردیں گے انشاء اللہ.تو جتنی جلدی یہ انتظام ہو اتنا ہی بہتر ہے.پھر اس سے نمونے لے کر ہر ایسے بڑے شہر میں جہاں خاص تعداد میں احمدی طلبہ پڑھتے ہیں.چھوٹی چھوٹی Languages لیبارٹری بنادیں گے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اپنے آپ کو تیار کریں کمر ہمت کسیں اور یقین پیدا کریں کہ آپ علوم کی دنیا میں لوگوں کے لئے سردار بنائے گئے ہیں اور ان کی راہ نمائی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.غفلت کو Shake Off کر دیں.اپنے مقام کو سمجھیں اور دعائیں کر کے آگے بڑھنے کے لئے تیاری کریں.اللہ تعالیٰ بڑے بڑے علوم کے نئے نئے راستے آپ میں کھولے گا.آپ نئی نئی منزلیں طے کریں گے اور نئی نئی چوٹیاں سر کریں گے.خدا کرے کہ ہم جلد یہ دن دیکھیں.آمین (روز نامہ الفضل 4 مئی 1983ء)

Page 131

مشعل راه جلد سوم 127 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 19 نومبر 1982ء سے اقتباس حقوق اللہ اور حقوق العباد کی اہمیت ہر گھر اپنے بچوں کی نمازوں کی حفاظت کرے نماز کے بارے میں رفقاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمونہ اپنے گھروں کو عبادت اور ذکر الہی سے معمور کر دیں

Page 132

مشعل راه جلد سوم 128 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 133

مشعل راه جلد سوم 129 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ نے سورۃ مریم کی مندرجہ ذیل آیات تلاوت واذكر في الكتب اِسْمعِيْلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَبِيَّات وكَانَ يَأْمُرُ اهْلَهُ بِالصَّلوة والزكوة ، وَكَانَ عِنْدَرَتِهِ مَرْضِيّا (56-55:-) اور پھر فرمایا:- ان آیات میں خدا تعالیٰ نے اس نماز کا نقشہ کھینچا ہے جو دونوں جہات سے عاری ہے.نہ حقوق اللہ کو ادا کر رہی ہے اور نہ ہی حقوق العباد کو اور در حقیقت یہ ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں.یہاں پہنچ کر نماز مجمع الجرین ہو جاتی ہے.یعنی ایک پہلو سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ حقوق اللہ ہے اور دوسرے پہلو سے یہ حقوق العباد نظر آتی ہے تو فرمایا کہ یہ لوگ خدا کی یاد سے غافل ہو کر دکھاوے کی نماز پڑھتے ہیں اور جو خالق کی یاد سے غافل ہو کر نماز پڑھے وہ مخلوق کی ضروریات سے بھی غافل ہو جا تا کرتا ہے.وہ مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنے کا اہل نہیں رہتا.ایسی نماز تو بالکل بیکار اور بے فائدہ ہے جو برکتوں اور ثواب کی بجائے لعنتوں کا موجب بن جائے.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیے اور یہ حفاظت دو طرح سے کرنی ہوگی.ایک اس کے ظاہر کی حفاظت کرنی پڑے گی اور دوسرے اس روح کی حفاظت کرنی پڑے گی جس کے بغیر نماز باطل ہو جایا کرتی ہے ان دونوں پہلوؤں سے میں سمجھتا ہوں توجہ دلانے کی بہت گنجائش موجود ہے.میں یہ دیکھتا ہوں کہ ربوہ میں نماز کا وہ معیار نہیں رہاجو قادیان میں ہوا کرتا تھا اور گھروں میں تلقین نہیں رہی جس کے نتیجے میں کثرت کے ساتھ نمازی پیدا ہوتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم کی وہ آیات جو میں نے شروع میں تلاوت کی تھیں ان میں نماز کو قائم کرنے کا گر بتاتے ہوئے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی مثال پیش کی گئی ہے فرماتا ہے.کانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا وَكَانَ يَأْمُرُاهْلَهُ بِالصَّلوةِ وَالزَّكوةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيّاً ( سورة مريم:55-56) کہ اسمعیل کی ایک بہت پیاری عادت یہ تھی کہ وہ اپنے اہل کو نماز اور زکواۃ کی ادائیگی کی تعلیم دیا کرتا تھا اور خدا کو بہت پیارا لگتا تھا گانَ

Page 134

130 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا ( سورۃ مریم : ۵۶ ) اس کی یہ ادا ئیں اللہ کو بہت پسند تھیں کہ وہ ہمیشہ با قاعدگی کے ساتھ اپنے اہل وعیال کو نماز کا حکم دیتا تھا.اس میں یہ نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ نمازوں کا قیام اور ان کا استحکام گھروں سے شروع ہوتا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ب وأمر اهلك بالصلوة واصْطَبِرْ عَلَيْهَا، (طه (۱۳۳) کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تو بھی اپنے اہل کو نماز کا حکم دیا کر واضطَبِر عَلَيْهَا لیکن یہ ایسی بات نہیں ہے کہ ایک دفعہ کہنے سے اس پر پوری طرح عمل شروع ہو جائے گھروں میں اگلی نسلوں کو نماز کی عادت ڈالنی ہو تو مستقل مزاجی کے ساتھ تلقین کی عادت اختیار کرنی پڑتی ہے.ایک دو دفعہ یا ایک دو دن یا ایک دو ماہ یا چند سالوں کا کام نہیں.واضطبر عليها كا مطلب یہ ہے کہ جب تک تو زندہ رہے، جب تک تجھ میں طاقت ہے اس عادت پر صبر سے استقامت اختیار کر لے.اس عادت کو کبھی چھوڑنا نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ( رفقاء) میں ہم نے یہ چیز دیکھی کہ وہ اپنے اہل وعیال کو نمازوں کے متعلق تلقین کیا کرتے تھے اور کبھی کسی حالت میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے نماز کی تلقین کرنی چھوڑ دی ہو.میرے سامنے بہت سی مثالیں ہیں کہ جو اپنے بچوں کو نماز کے لیے اپنے ساتھ لے جاتے تھے وہ با قاعدگی کے ساتھ ایسا کرتے اور کبھی بھی اس طرف سے غافل نہیں ہوئے.نماز پڑھنے والوں کے بھی اور نماز پڑھانے والوں کے بھی بڑے بڑے پیارے نظارے نظر آیا کرتے تھے.چنانچہ جن ماں باپ نے اس نصیحت پر عمل کیا اور اپنے گھروں میں نمازوں کی تلقین کو دوام کے ساتھ اختیار کیا.یوں لگتا تھا کہ وہ گھر نمازیوں کی فیکٹریاں بن گئے ہیں اور انکی نسلوں میں آج بھی بکثرت نمازی نظر آتے ہیں.جو دوسرے خاندانوں کی نسبت زیادہ نماز پڑھنے والے ہیں.چنانچہ وہ ( رفقاء) جنہوں نے اس عادت میں نمایاں امتیاز حاصل کیا ان کی اولا د نسلاً بعد نسل نمازی بنتی چلی گئی.لیکن بعض دفعہ ایسا ہوا کہ ( رفقاء) کے اندر تو خد اتعالیٰ نے نماز کی حفاظت کا جذبہ پیدا کیا تھا مگر بیویاں عمل کے لحاظ سے کمزور تھیں.یا جس جگہ بچوں کی شادیاں ہوئیں وہاں کے بے نمازوں کے خون ان سے مل گئے اور وہ پانی گدلا ہو گیا.تو ایسی مثالیں بھی ملاتی ہیں کہ باقاعدگی سے نماز پڑھنے والے خاندانوں میں بے نماز شامل ہو گئے اور انہوں نے رفتہ رفتہ اس سارے پانی کو گدلا کرنا شروع کر دیا.لیکن جہاں ان کی شادیاں نمازیوں میں ہوئیں وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ایسی نسل ملی ہے جو نماز پر ہمیشہ قائم بھی رہتی ہے اور مداومت میں قرآنی الفاظ هُمْ عَلى صَلاتِهِمْ دَائِمُونَ (المعارج:۲۴) کا نقشہ پیش کرتی ہے.اسی طرح بعض گھروں میں

Page 135

131 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم بے نمازوں کی فیکٹریاں ملتی ہیں.یعنی جو بھی وہاں پیدا ہوتا ہے بے نمازی ثابت ہوتا ہے.تو سوال یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ یا دیگر تنظیمیں ان لوگوں کو کس طرح سنبھالیں؟ جب میں نے غور کیا تو معلوم ہوا که قرآن کریم پہلی ذمہ داری بیرونی تنظیموں پر نہیں ڈالتا بلکہ پہلی ذمہ داری گھروں پر ڈالتا ہے اور یہ ایک بڑا ہی گہرا اور پر حکمت نکتہ ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر گھر اپنے بچوں کی نماز کی حفاظت نہیں کریں گے تو بیرونی د نیالا کھ کوشش کرے وہ اس قسم کے نمازی پیدا نہیں کر سکتی جو گھر کی تربیت کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں.پس میں تمام گھروں کو یہ تلقین کرتا ہوں کہ وہ بڑی ہمت اور جدو جہد کے ساتھ نمازی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ہمارے ماضی میں جو نیک مثالیں ستاروں کی طرح چمک رہی ہیں ان کی پیروی کریں.بہت سی مثالوں میں سے میں ایک مثال اپنے چھوٹے پھوپھا جان حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب کی دیتا ہوں.ان کو نماز سے، بلکہ نماز با جماعت سے ایسا عشق تھا کہ لوگ بعض دفعہ بیماری کے عذر کی وجہ سے ( بیت الذکر ) نہ جانے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں، لیکن وہ بیماری کے باوجود ( بیت الذکر ) جانے کے بہانے ڈھونڈا کرتے تھے.دل کے مریض تھے اور ڈاکٹر نے بشدت منع کیا ہوا تھا کہ حرکت نہیں کرنی.لیکن اس کے باوجود آپ ایک Wheel Chair پر بیٹھ کر (پہیوں والی وہ کرسی جس پر بیٹھ کر مریض خود اپنے ہاتھوں سے اس کے پیسے گھماتا ہے ) رتن باغ لاہور میں جہاں نمازیں ہوتی تھیں (اس وقت ( بیت الذکر ) نہیں تھی.اس لئے رتن باغ کے صحن میں نمازیں ہوا کرتی تھیں) با قاعدگی کے ساتھ وہاں پہنچا کرتے تھے.جب ( بیت الذکر ) گھر سے دور ہوگئی تو اپنے گھر کو ( بیت الذکر ) بنالیا اور اردگرد کے لوگوں کو دعوت دی کہ تم پانچوں وقت نماز کے لئے میرے گھر آیا کرو اور ( بیت الذکر ) کے جس قدر حقوق عائد ہوتے ہیں، ان سب کو ادا کرتے تھے.یعنی جب انہوں نے یہ اعلان کیا کہ میرا گھر (بیت الذکر) ہے تو پانچوں نمازوں کے لئے آپ کے گھر کے دروازے کھلے رہتے تھے.صبح کے وقت نمازی آتا تھا تو دروازے کھلے ہوتے تھے.رات کو عشاء کی نماز کے لئے آتا تھا تب بھی دروازے کھلے ہوتے تھے اور دو پہر کو بھی دروازے کھلے رہتے تھے.پھر نمازیوں کے لئے وضو کا انتظام تھا اور دیگر سہولتیں بھی مہیا تھیں.یہ سب کچھ آپ اس لئے کرتے تھے کہ آپ کو نماز با جماعت سے ایک عشق تھا اور یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ کسی حالت میں بھی آپ کی کوئی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے سے رہ جائے.چنانچہ آپ کی اولاد میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز کی بڑی پابندی پائی جاتی ہے.یہ صرف ایک نمونہ ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے اسی قسم کے ہزار ہا نمونے قادیان میں رہنے والوں

Page 136

132 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کی یادوں میں بس رہے ہوں گے.نماز کا اتنا شوق پایا جاتا تھا اور اس کی اتنی تربیت تھی کہ قادیان کے پاگل بھی نمازی رہتے تھے.ایسے پاگل جو دنیا کی ہر ہوش گنوا دیتے تھے وہ نماز پڑھنے کے لئے اکیلے(بیوت الذکر) پہنچ جایا کرتے تھے.نماز پڑھنے کی عادت ان کی زندگی میں ایسی رچ بس گئی تھی کہ وہ اس سے الگ ہو ہی نہیں سکتے تھے.ایسے ہی ایک راجہ اسلم صاحب ہوا کرتے تھے.جب پاگل پن کی انتہاء ہوگئی تو بے چارے گھر سے باہر چلے گئے.پاگل پن میں جو بھی اندر نہ ہو وہ باہر آجاتا ہے.چونکہ ان پہ نیکی کا غلبہ تھا اس لئے ( آخری اطلاع کے مطابق ) ( دعوت الی اللہ ) کے جنون سے غالبا روس کی طرف چلے گئے تھے.پھر انہیں دوبارہ کبھی نہیں دیکھا گیا.اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان پر کیا گزری.لیکن پاگل پن کے انتہاء کے وقت بھی پانچوں نمازوں میں ( بیت الذکر ) میں آیا کرتے تھے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے ( رفقاء) کو خدا تعالیٰ نے عبادت کے قیام کی جو توفیق بخشی تھی وہ اگلی نسل یعنی تابعین تک بھی بڑی شدت کے ساتھ جاری رہی.اب ہم ایک ایسی جگہ پہنچے ہیں جہاں تابعین اور تبع تابعین کا جوڑ ہے اور اگر ہم نے اس وقت بشدت اپنی نمازوں کی حفاظت نہ کی تو خطرہ ہے کہ آگے بے نمازی پیدا ہونے نہ شروع ہو جائیں.اس لئے ہمیں غیر معمولی جہاد کی روح کے ساتھ نماز کے قیام کی کوشش کرنی چاہیے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ جہاد گھروں سے شروع ہوگا.اب جلسہ سالانہ کے ایام قریب آرہے ہیں اور ربوہ کے گھروں کو خدا تعالیٰ ایک غیر معمولی حیثیت عطا کرنے والا ہے وہ گھر جو نمازی گھر ہیں ان کا فیض دنیا کے کناروں تک پہنچ جائے گا.دور دور سے آنے والے جو لوگ ان کے ہاں ٹھہریں گے وہ ان سے نیک نمونہ پکڑیں گے اور ان آنے والوں میں سے اگر کوئی بے نمازی بھی ہوں گے تو یہ گھر ان کو نمازی بنا دیں گے.لیکن اس کے ساتھ ایک یہ خطرہ بھی ہے کہ اگر وہ گھر جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ٹھہرتے ہیں، بے نمازی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ میران مہمانوں کی عادتیں بھی بگاڑ دیں اور ان کو بھی نمازوں سے غافل کر دیں.اس طرح ان گھروں کی حالت بے نمازی بھی زمین کے کناروں تک پہنچ سکتی ہے.یعنی ایک طرف وہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں حاصل کر سکتے ہیں تو دوسری طرف ان رحمتوں سے محرومی کی بھی کوئی حد نہیں رہتی.پس خصوصیت کے ساتھ اپنے گھروں کو اس طرح بھی سجائیں کہ وہ عبادت اور ذکر الہی سے معمور ہو جائیں.جب مہمان آتے ہیں تو ان کے لئے گھروں کو سجایا جاتا اور انہیں زینت بخشی جاتی ہے.میں نے ایک خطبہ جمعہ میں اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ربوہ کو ایک غریب دلہن کی طرح سجانا چاہیے.لیکن مومن کی اصل سجاوٹ تو تقویٰ کی سجاوٹ ہے، نماز کی سجاوٹ ہے.خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ

Page 137

133 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم (الاعراف:32) میں یہی اشارہ کیا گیا ہے کہ اصل زینت تو وہ ہے جو نمازوں کے ساتھ پیدا ہوتی ہے.نمازیں سنوارو گے تو ( بیوت الذکر) بھی زینت اختیار کر جائیں گی.لیکن اگر بغیر سنوارے کے نمازیں پڑھو گے تو تمہاری (بیوت الذکر) بھی ویران ہو جائیں گی.پس اپنے گھروں کو زینت بخشو.مہمانوں کے استقبال کی تیاری کرو.اللہ کے ذکر کو گھروں میں بھی کثرت سے بلند کرو اور بار بار بچوں کو بھی اس کی تلقی کرو تا کہ ہر گھر خدا کے ذکر کا گہوارہ بن جائے.اور ہر مہمان جو آپ کے ہاں ٹھہرے، وہ اگر کمز ور بھی ہے تو آپ کی مثال سے طاقت پکڑے اور ذکر الہی کی طاقت لے کر یہاں سے واپس لوٹے.جمعہ پر حاضری کا رجحان تلقین جہاں تک میرا نظری جائزہ ہے میں سمجھتا ہوں ربوہ کی پوری آبادی جمعہ میں بھی حاضر نہیں ہوتی.ربوہ کی آبادی ہمیں معلوم ہے اور جتنے فیصد لوگوں کو (بیت الذکر ) میں پہنچنا چاہیے اتنے یہاں نظر نہیں آتے.چونکہ ہمارا موازنہ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا، دوسری سوسائٹیوں سے نہیں ہے بلکہ ہمارے معیار بہت بلند ہیں.ہماری ذمہ داریاں بہت وسیع ، بہت اہم ، بہت گہری اور بہت بھاری ہیں.اس لئے ان کی ادائیگی کے لئے بھی ہمیں اسی قسم کی تیاریاں کرنی پڑیں گی اور نماز کے قیام کے بغیر ہم دنیا کی تربیت کرنے کے اہل نہیں ہو سکتے.اس لئے جمعہ کی نماز میں بھی حاضری کو بڑھانا چاہیے اور اس کے لئے بھی گھروں میں تلقین کرنی پڑے گی.صدرانِ محلہ جات اور زعماء انصار اللہ کا فرض ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ صرف ( بیوت الذکر ) میں نماز کی تلقین اور یاد دہانی کا پروگرام بنا ئیں، اگر کوئی ایسے گھر ہیں جو ( بیت الذکر ) میں نہیں آتے تو گھروں میں جائیں اور گھر والوں سے ملیں اور ان کی منت کریں اور ان کو سمجھائیں کہ تمہارے گھر بے نور اور ویران پڑے ہیں.کیونکہ جو گھر ذکر الہی سے خالی ہے وہ ایک ویرانہ ہے اور جس گھر میں بے نمازی پیدا ہورہے ہیں وہ تو گویا آئندہ نسلوں کے لئے ایک نحوست کا پیغام بن گیا ہے.اس لئے ہوش کرو اور اپنے آپ کو سنبھالو.نمازوں کی طرف توجہ کرو.اس سے تمہاری دنیا بھی سنورے گی اور تمہارا دین بھی سنورے گا.کیونکہ عبادت میں ہی سب کچھ ہے.عبادت پر قائم رہو گے تو خدا کے حقوق ادا کرنے والے بھی بنو گے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی بنو گے.پس یہ نصیحت گھروں کے دروازوں تک پہنچانی پڑے گی اور بار بار واضطبز عليها کا نقشہ پیش کرنا پڑے گا.یعنی جو بھی یہ عہد کرے کہ میں گھروں میں نماز کا پیغام پہنچاؤں گا اور گھر والوں کو تاکید کروں

Page 138

134 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم گا اور ان کو ہوش دلاؤں گا کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کریں، اس کو یہ نیت بھی کرنی پڑے گی کہ میں پختہ عزم اور مستقل مزاجی کے ساتھ یہ کام کروں گا.کیونکہ ایسا کہنا تو آسان ہے لیکن اس پر عمل بہت مشکل ہو گا.وجہ یہ کہ چند دنوں کے بعد انسان پر غفلت غالب آجاتی ہے اور وہ اس کام کو جو اس نے شروع کیا ہوتا ہے چھوڑ بیٹھتا ہے.اس لئے اگر نتیجہ حاصل کرنا ہے تو واضطبز علما کے مضمون کو پیش نظر رکھنا ہوگا.جب تک خدا تعالیٰ کی اس واضح تلقین کو ہمیشہ مدنظر نہ رکھا جائے کہ نماز کی تلقین میں صبر اور دوام اختیار کرنا چاہیے اس وقت تک ہم اعلیٰ مقصد کو حاصل نہیں کر سکیں گے.پس خصوصیت کے ساتھ آج سے جلسہ سالانہ تک کے عرصہ کے دوران ہمیں بکثرت ایسے ناصحین کی اشد ضرورت ہے جو گھروں کے دروازے کھٹکھٹائیں اور گھر والوں کو ہوش دلائیں اور ان کو نماز کی تلقین کریں.اگر ربوہ کے سارے بالغ مرد جو باجماعت نماز پڑھنے کے اہل ہیں اور وہ سارے بچے جنہیں نماز پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے، (بیوت الذکر) میں پہنچنا شروع ہو جائیں تو میرا اندازہ ہے کہ ہماری موجودہ ( بیوت الذکر ) چھوٹی ہو جائیں گی اور پھر ان ( بیوت الذکر) کو بڑھانے کی طرف فوری توجہ پیدا ہو گی.اس طرح وَسعُ مَكَانَگ کا بابرکت دور نئے سرے سے شروع ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم نماز کے حقوق ادا کریں اور خدا کرے کہ نماز ہمارے حقوق ادا کرے اور وہ تمام فیوض جو بنی نوع انسان کے لئے نماز کے ساتھ وابستہ ہیں وہ دنیا میں سب سے زیادہ ہم ہی حاصل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین روزنامه الفضل ربوہ 26 فروری 83ء)

Page 139

مشعل راه جلد سوم 135 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1983ء نماز کی اہمیت اور مرکزی دفاتر اور ذیلی تنظیموں کی ذمہ داری مذہب کا اور ساری تعلیم کا خلاصہ سورۃ البقرۃ کی پہلی آیات میں مالی قربانی کے لئے جماعت کا غیر معمولی اخلاص کا مظاہرہ نماز کی طرف مسلسل اور غیر معمولی توجہ کی ضرورت تمام ذیلی اداروں اور انجمنوں کو نماز با جماعت کی طرف توجہ کرنے کی ہدایت ہم تبھی زندہ رہیں گے جب نظامِ جماعت عبادت کا غلام ہوگا سارے کارکنان کو نمازوں میں پیش پیش ہونا چاہیے اور دوسرے لوگوں کے لئے نمونہ بننا چاہیے جو لوگ اپنے بچوں کی عبادت کا خیال نہیں کرتے ان کی اولاد میں لازماً ہلاک ہو جایا کرتی ہیں سب سے پہلے اپنی عورتوں کی حفاظت کرو اور ان کو تربیت دو

Page 140

مشعل راه جلد سوم 136 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 141

مشعل راه جلد سوم 137 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعو ذاور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا: - ساری تعلیم کا خلاصہ قرآن کریم نے مذہب کا اور خود اپنا جو خلاصہ شروع میں پیش کیا ہے وہ تین لفظی ہے.سورۃ البقرہ کی پہلی آیت میں تو کتاب کا تعارف ہے اور اس کی تعلیم کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے.جیسا کہ فرمایا اسم ہ ذلک الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.اور اگلی آیت میں اس ساری تعلیم کا خلاصہ یہ بیان فرمایا.الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ.یعنی ایمان بالغیب، اقامت الصلوة اور انفاق فی سبیل اللہ.اگلی آیت یعنی وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أَنزَلَ إِلَيْكَ وَ مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ بِالْآخِرَةِ هُمُ يُوقِنُونَ میں پہلی آیت کی تفصیل بیان فرمائی کہ غیب کے کیا معنی ہیں ، مومن اقامت صلوٰۃ کی تعلیم کس سے لیتے ہیں، کس طرح اس کا حق ادا کرتے ہیں اور انفاق فی سبیل اللہ جو دراصل بنی نوع انسان کے حقوق کی ادا ئیگی ہے، وہ کیسے اختیار کرتے ہیں.چنانچہ فرمایا کہ مومن یہ سب باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھتے ہیں جیسا کہ آپ سے پہلے بھی خدا نے جو بزرگ بھیجے تھے ان سے لوگ سیکھتے رہے تھے اور آئندہ بھی بچی تعلیم وہی سکھائے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے خدا ہی سے پائے گا.پس اس نظام کا خلاصہ بیان فرما دیا جس کے ذریعے انسان ایمان بالغیب سیکھتا ہے اور یہ نظام خود ایمان بالغیب کا ہی حصہ ہے.پھر وہ اقامت صلوۃ یعنی حقوق اللہ کی تعلیم حاصل کرتا ہے اور پھر انفاق فی سبیل اللہ یعنی بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کے اسلوب سیکھتا ہے.الغرض پہلی تین باتیں جن کی طرف قرآن کریم مومن کو متوجہ کرتا ہے جن کے بغیر نہ وہ متقی بن سکتا ہے،

Page 142

138 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم نہ وہ شک سے پاک ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہدایت کی کوئی بھی منزل پاسکتا ہے، وہ ہیں ایمان بالغیب، قامت الصلوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ غیب کیا ہے؟ اس کی تفصیل جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اگلی آیت میں اشارہ کر کے یہ بیان فرمائی کہ جو غیب تم نے سیکھنا ہو، وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھ لو.ایمان بالغیب کیا ہے؟ اس کی تفصیل بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی بیان فرمائیں گے.لیکن چونکہ آج کے خطبے کا موضوع یہ حصہ نہیں ، اس لئے میں اس کو فی الحال چھوڑتا ہوں.جماعت کی زبر دست مالی قربانی اور اخلاص کا مظاہرہ آج کے خطبے کا موضوع اس تعلیم کا درمیانی حصہ یعنی اقامت صلوۃ ہے جو اللہ کے حقوق کی ادائیگی سے تعلق رکھتا ہے جہاں تک انفاق فی سبیل اللہ کا تعلق ہے گذشتہ متعد دخطبات میں اس کے متعلق مختلف پہلوؤں سے میں توجہ دلا تارہا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں اتنی غیر معمولی بیداری پائی گئی ہے کہ میرے تصور کی کوئی چھلانگ بھی یہ اندازہ نہیں کر سکتی تھی کہ مجھے اتنا نمایاں تعاون فی سبیل اللہ حاصل ہوگا.بعض جگہ تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ خدا کے فرشتے دلوں کو تبدیل کر کے زبر دستی مالی قربانی کی طرف متوجہ کر رہے ہیں اور بعض لوگوں نے رویا دیکھ کر اس طرف توجہ کی یعنی واضح طور پر ان کو ہدایت اور راہنمائی ملی اور پھر وہ مالی قربانیوں میں آگے بڑھے.اب میں جماعت کو خصوصیت کے ساتھ عبادت کی ادائیگی کی طرف بلانا چاہتا ہوں.اگر چہ بعض پہلے خطبات میں بھی میں نے اس کی طرف توجہ دلائی تھی لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جب تک بار بار اس کی طرف توجہ نہ دلائی جائے اس وقت تک نہ توجہ دلانے والا اپنے رب کے سامنے اپنی ذمہ داری ادا کر سکتا ہے، نہ وہ لوگ صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کو توجہ دلائی گئی ہو.ڈرگز کا مضمون ایک جاری و ساری مضمون ہے.اس لئے ہمیں بعض امور کی طرف بار بار توجہ دلاتے رہنا پڑے گا.خصوصاً نماز پر تو اس کا بہت ہی گہرا اثر پڑتا ہے.نماز کی طرف غیر معمولی توجہ کی ضرورت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف آیات کو محوظ رکھتے ہوئے نماز کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ یہ ہے کہ نماز ایسی چیز ہے جو اگر زور لگا کر اور توجہ کے ساتھ کھڑی نہ کی جائے تو گر پڑے گی.آپ فرماتے ہیں

Page 143

139 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم کہ یہ جو بار بار کہا گیا ہے کہ نماز کو کھڑا کرو، کھڑا کرو، کھڑا کرو، اور بڑی کثرت کے ساتھ مختلف طریق پر بیان کیا گیا، اس سے اس طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ نماز از خود کھڑی نہیں ہوا کرتی.جب بھی تم اس کی طرف سے غافل ہو گئے، یہ گر پڑے گی.جس طرح ٹینٹ یعنی خیمہ بانس کے سہارے کھڑا ہوتا ہے،اگر بانس نہیں رہے گا تو خیمہ زمین پر آپڑے گا، کمرے کی طرح کی چیز تو نہیں کہ از خود کھڑا رہے.اسی طرح عبادت بھی ایک ایسی چیز ہے جو از خود کھڑی نہیں ہوتی.اس کی طرف بار بار توجہ دلانے کی ضرورت ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ سورۃ فاتحہ کی آیت إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ اے خدا! ہم کمزور ہیں اور عبادت مشکل کام ہے ، ذرا بھی اس سے غافل ہوئے تو اس کا حق ادا کرنے کے اہل نہیں رہیں گے، اس لئے ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں التجا کرتے ہیں کہ ہمیں توفیق بخش کہ ہم نماز کا حق ادا کرسکیں.اس لئے خصوصیت کے ساتھ نماز کی طرف توجہ دلانا ہمارا اولین فرض ہونا چاہیے.سارا نظام اس چیز کو ہمیشہ اولیت دے.دوسرے اس لئے بھی اس طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کہ مذہب کا مقصد ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے.حقوق العباد اس کا دوسرا حصہ ضرور ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عبادت کے بغیر حقوق العباد کی ادائیگی کا جذ بہ بھی پیدا نہیں ہو سکتا.دنیا کی کسی قوم نے کبھی حقوق العباد نہیں سیکھے جب تک کہ اللہ نے نہ سکھائے ہوں، صحیح معنوں میں حقوق العباد کی آخری بنیاد میں مذہب میں ہی ملتی ہیں.اس کے سوا تو باقی سب کچھ چھینا جھپٹی اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنا ہے.حقوق العباد کے نام پر ظلم کی تعلیم تو دی گئی ہے لیکن انسان نے کسی کو حقوق العباد نہیں سکھائے.جتنی بھی دنیوی تعلیمات ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حقوق العباد حقیقت میں مذہب سے ہی نکلے ہیں اور وہی لوگ حقوق العباد ادا کر سکتے ہیں جو پہلے اللہ کی عبادت کا حق ادا کریں.جن کی عبادتیں کمزور پڑ جائیں وہ حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی کمزور پڑ جاتے ہیں.جو حقوق اللہ ادا نہیں کرتے ، وہ جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم حقوق العباد ادا کرتے ہیں.کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان خدا کی عبادت تو نہ کرتا ہو لیکن خدا کے بندوں کے حقوق ادا کر سکے.نماز کی بنیادی صفات چنانچہ قرآن کریم اس مضمون کو بہت کھول کر بیان کرتا ہے.فرماتا ہے:.فَوَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُون (الماعون: 6-5) کہ اگر چہ نماز انسان

Page 144

مشعل راه جلد سوم 140 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کے لئے زندگی اور اس کی بقا کا موجب ہے اور اس کو فلاح کی طرف لے جاتی ہے.لیکن کچھ نمازیں ایسی ہوتی ہیں جو ہلاکت کا پیغام دیتی ہیں.فَوَيْلٌ لِلْمُصَلّین ہلاک ہو جائیں ایسے لوگ ایسے نمازیوں پر لعنت ہو.الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُون جونمازیں تو پڑھتے ہیں لیکن غفلت کی حالت میں پڑھتے ہیں.اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ نماز کی ذمہ داریوں سے غافل رہتے ہیں.نماز جن تقاضوں کی طرف بلاتی ہے یا جن تقاضوں کی طرف بلانے کے لئے نماز پڑھی جاتی ہے ان سے غافل ہو جاتے ہیں یعنی نہ اللہ کی محبت ان کے دل میں پیدا ہوتی ہے، نہ محض اللہ کام کرنے کی عادت ان کو پڑتی ہے اور نہ وہ حقوق العباد ادا کرتے ہیں.یہ ساری چیزیں نماز کی بنیادی صفات ہیں.چنانچہ ہلاکت والی نماز ادا کرنے والوں کی یہ تعریف بیان فرمائی گئی الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ هِ الَّذِينَ هُمْ يُرَآءُ وُنَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ( الماعون : 6 تا 8 ) یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کے بنیادی مقاصد سے غافل ہیں.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ ریا کاری کی خاطر نماز پڑھنے لگتے ہیں.اپنے رب کی خاطر نہیں پڑھتے.اس طرح نماز کے بنیادی مقصد یعنی اللہ تعالیٰ سے تعلق کے قیام سے محروم رہ جاتے ہیں اور جو خدا کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں ان کی قطعی علامت یہ ہے کہ وہ خدا کے بندوں سے بھی کٹ جاتے ہیں.جو خدا کے حقوق ادا نہیں کرتے ، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ بندوں کے حقوق ادا کر سکیں چنانچہ فرمایا:- وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُونَ کہ یہ لوگ اتنے خسیس ، اتنے کم ظرف ہو جاتے ہیں کہ بنی نوع انسان کی معمولی معمولی ضرورتیں پوری کرنے سے بھی گریز کرنے لگ جاتے ہیں.ان کی حالت یہاں تک ہو جاتی ہے کہ اگر ان کے ہمسائے نے آگ مانگی ہے تو اس سے ان کو تکلیف پہنچتی ہے یا تھوڑی دیر کے لئے مثلاً ایک ہنڈیا طلب کی ہے تو اس سے بھی تکلیف پہنچتی ہے.یمنعون الماعون میں دونوں باتیں پائی جاتی ہیں.ایک یہ کہ خود بھی منع رہتے ہیں اور دوسرے یہ کہ اپنے بچوں کو اور اپنے ماحول کو بھی کہتے ہیں کہ اس نے یہ کیا رٹ لگارکھی ہے، ہمسائی بار بار مصیبت ڈالتی رہتی ہے کہ فلاں چیز دو اور فلاں بھی دو، اس کو یہ چیز ہر گز نہیں دینی.نماز اور عبادت کا خلاصہ یہ بیان فرمایا کہ اس کے بغیر نہ اللہ سے تعلق قائم ہوتا ہے، نہ اس کی مخلوق سے.اسی لئے بنی نوع انسان کے حقوق کا ذکر عبادت کے بعد کیا جو بیشتر حد تک مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ کی ذیل میں آ جاتے ہیں بلکہ اگر اس کی وہ تعریف کی جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے تو

Page 145

141 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم بیشتر کا لفظ کمزور ہے.حقیقت یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کے ہر قسم کے حقوق مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ کے تابع ادا ہوتے ہیں.اس کو عبادت کے بعد رکھا ہے اور یہ ترتیب بتا رہی ہے کہ در اصل عبادت ہی کے نتیجے میں بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا ہوتی ہے.پس جہاں تک اعمال کا تعلق ہے مذہب کا خلاصہ عبادت پر آکر ختم ہو جاتا ہے.غیب کا معاملہ تو ایمانیات سے تعلق رکھتا ہے اور ایمان نہ ہو تو عبادت کی توفیق بھی نہیں مل سکتی.یہ درست ہے.لیکن جہاں تک اعمال کا تعلق ہے ان کا خلاصہ نماز ہے.نماز قائم ہو تو حقوق اللہ بھی ادا ہوں گے اور حقوق العباد بھی ادا ہوں گے.لیکن اگر یہ نہ رہے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.تقویٰ کا خلاصہ بھی نماز بیان فرمایا گیا ہے.تقوی کی جو تعریف بیان فرمائی اس کا خلاصہ اگر نماز ہے تو متقیوں کی زندگی کا خلاصہ بھی نماز ہی بنتا ہے.اس لئے عبادت مومن کی زندگی اور اس کی جان ہے اور مذہب کے فلسفے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ انسان اپنے رب سے سچا تعلق عبادت کے ذریعے قائم کرے.اس پہلو سے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، کمزوریاں بھی آتی چلی جاتی ہیں.ایک دفعہ آپ زور لگاتے اور کوشش کرتے ہیں تو نماز میں حاضری کا معیار بڑھ جاتا ہے.پھر کچھ عرصے کے بعد نماز گرنے لگتی ہے.پھر زور لگاتے ہیں تو معیار بڑھنے لگتا ہے اور بعض دنوں میں جب زیادہ توجہ دی جاتی ہے تو خدا کے فضل سے بیوت الذکر کے متعلق احساس ہوتا ہے کہ چھوٹی رہ گئی ہیں.لیکن اس کے بعد پھر خالی برتن کی طرح خلخل کرتے ہوئے چند نمازی رہ جاتے ہیں اور بیوت الذکر قریباً خالی.اس لئے ہمیں اپنے نظام میں لازماًیہ بات داخل کرنی پڑے گی کہ سارا نظام بیدار ہو کر وقتاً فوقتاً نمازوں کی طرف توجہ دلائے ، ساری جماعت کو جھنجھوڑ دے اور بیدار کر دے اور اسے بتائے کہ نمازوں کے بغیر تم زندہ نہیں ہو اور نہ ہی زندہ رہ سکتے ہو.تمہیں لازماً عبادتوں کو قائم کرنا پڑے گا ورنہ تمہاری ساری کوششیں بیکار، بے معنی اور لغو ہوں گی.نماز کی حفاظت اور ادارے یہی وجہ ہے کہ میں نے آغاز خلافت ہی میں آج سے تقریباً چھ ماہ پہلے تمام انجمنوں کو جن میں مرکزی انجمنیں بھی شامل تھیں اور ذیلی انجمنیں بھی شامل تھیں، اکٹھا کر کے جو بنیادی ہدایت دی وہ یہ تھی کہ نماز کی حفاظت، جس کے لئے جماعت احمدیہ قائم کی گئی ہے، ہمارا اولین فرض ہے.ہمارے سارے نظام اس

Page 146

مشعل راه جلد سوم 142 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مرکزی کوشش کے لئے غلامانہ حیثیت رکھتے ہیں.اگر یہ نظام اوپر آجائیں اور یہ آقا یعنی عبادت کا مقام نیچے ہو جائے تو معاملہ بالکل الٹ ہو جائے گا پھر تو ویسی ہی بات ہو جائے گی کہ کشتی نیچے چلی جائے اور پانی او پر آ جائے.وہی چیز جو بچانے کا موجب ہوتی ہے وہ تباہی کا موجب بن جاتی ہے.حالانکہ پانی اور کشتی کا تعلق وہی رہتا ہے جو کشتی کے اوپر ہے وہ بھی پانی ہے اور جو کشتی کے نیچے ہے وہ بھی پانی ہے لیکن نسبت بدلنے سے نتیجہ الٹ نکل رہا ہے.یعنی اوپر کا پانی ہلاکت کا موجب بن جاتا ہے اور وہی پانی جب نیچے ہوتو بچانے کا موجب بن جاتا ہے.اس لئے نسبتوں کا درست ہونا ضروری ہے.عبادت نظام جماعت کی غلام نہیں ہوگی بلکہ نظام ، عبادت کا غلام ہوگا.ہم تبھی زندہ رہیں گے جب نظام جماعت عبادت کا غلام ہوگا.مرکز کی اہمیت پس میں نے ان تمام انجمنوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ آپ کے جتنے بھی کارکن ہیں ان کی طرف توجہ کریں.ہر انجمن کے سر براہ کا فرض ہے، اسی طرح ہر شعبے کے انچارج کا یہ فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ مرکزی نمائندگان سلسلہ اپنے حق اس رنگ میں ادا کر رہے ہیں کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ بنیں.تمام دنیا کی آنکھیں مرکز کی طرف لگی ہوئی ہیں اور مرکز میں بھی جو سلسلہ کے کارکنان ہیں وہ بڑے نمایاں طور پر لوگوں کی نظر کے سامنے نمونہ کے طور پر ہوتے ہیں.اگر یہ لوگ بداعمالیاں کریں تو ہلاکت کا موجب بن سکتے ہیں اور اگر نیک اعمال کریں تو ان کی نیکیاں عام انسانوں کی نیکیوں کے مقابل پر ان کو کئی گنازیادہ ثواب پہنچاسکتی ہیں.چنانچہ میں نے انہیں جو ہدایت دی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ توجہ کریں، میں آپ کو چھ مہینے دیتا ہوں، بار بار نصیحت کے ذریعے کوشش کریں کہ تمام کارکنان نماز کے فریضے کی ادائیگی سے پیچھے نہ رہیں سوائے اس کے کہ کوئی بیماری کی وجہ سے مجبور ہو.اسے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے.ٹانگوں کی بیماری ہے یا کمر کی تکلیف ہے یا اسی قسم کی اور کئی تکلیفیں ہو سکتی ہیں کہ انسان دفتر میں تو پہنچ جاتا ہے اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے فرائض بھی ادا کر دیتا ہے لیکن با جماعت نماز کی توفیق نہیں پاسکتا.اس لئے جہاں تک شرعی مجبوریوں کا تعلق ہے ہم ان میں دخل نہیں دے سکتے.لیکن واضح اور یقینی شرعی مجبوریوں کے سوا سلسلے کے سارے کارکنان کو نمازوں میں پیش پیش ہونا چاہیے اور دوسرے لوگوں کے لئے نمونہ بننا چاہیے.

Page 147

143 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم بہر حال میں نے ذمہ دار احباب سے کہا کہ چھ مہینے کے بعد آپ اپنے انتباہ میں نسبتاً زیادہ سنجیدہ ہو جائیں اور کارکنوں کو بلا کر سمجھائیں اور کہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں.ہم تمہیں نمازوں پر مجبور نہیں کر سکتے لیکن جبر نہ ہونے کے دو نقص ہیں.اگر تم پر جبر نہیں تو جماعت احمدیہ پر کیا جبر ہے کہ وہ ضرور بے نمازیوں کو ملازم رکھے.اس لئے دوطرفہ معاملہ چلے گا.صرف تم آزاد نہیں ہو.جماعتی نظام بھی آزاد ہے.وہ آزاد ہے اس معاملے میں کہ جس قسم کے کارکن چاہے رکھے اور جس قسم کے چاہے نہ رکھے.اس کو اختیار ہے.اس لئے ہم تمہیں موقع دیتے ہیں کہ تم اپنی نمازیں درست کر ولیکن چونکہ تم آزاد ہو، ہو سکتا ہے تم یہ فیصلہ نہ مانو.ہم داروغہ نہیں.داروغہ تو اصل میں خدا ہی ہے.تم نے بھی اسی کے حضور پیش ہونا ہے.اس لئے اگر تم یہ فیصلہ نہیں مان سکتے تو ہم تمہیں کوئی سزا نہیں دیں گے.جزا سزا کا معاملہ اللہ سے تعلق رکھتا ہے لیکن ہم بھی اس بات میں آزاد ہیں کہ تمہارے جیسے کارکنوں کو نہ رکھیں.ہماری بعض مجبوریاں ہیں.ہم نے ساری دنیا میں (دعوت الی اللہ ) کی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں اور ساری دنیا کے لیے نمونہ بننا ہے.اگر عبادت سے غافل کا رکن مرکز میں بیٹھے ہوں تو نہ وہ دعا ئیں کر سکیں گے ، نہ ان کے اندر تقویٰ کا اعلیٰ معیار ہوگا اور نہ ہی وہ صحیح نمونہ بن سکیں گے، بلکہ جماعت کے لئے ہزار مصیبتیں کھڑی کرتے رہیں گے.کجا کہ سارے مرکزی کارکنان عبادتوں کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ان کے مجموعی تقویٰ کے نتیجے میں ایک زبر دست طاقت پیدا ہوا ور کجا یہ کہ چند آدمی باقی تمام کارکنوں کا حق ادا کر رہے ہوں اور اکثریت غافل ہو اور جماعت پر بوجھ بنی ہوئی ہو.اس پہلو سے چھ مہینے کے بعد ذمہ دار افسران نے نماز سے غافل کارکنوں کو وارننگ دینی تھی.لیکن میں خاموشی سے دیکھتا رہا.میرے نزدیک اس کام میں غفلت کی گئی ہے.اس لئے سال کے بعد پکڑنے کی بجائے ابھی جو تین مہینے باقی ہیں ان میں ایسے کارکن فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے سلسلہ کی ملازمت کرنی ہے یا نہیں کرنی.یہ بات مجھے اس وقت سے یاد ہے جب میں نے انجمنوں کو اس بارے میں ہدایت دی تھی اور مسلسل یا درہی ہے اور جب بھی میں نمازیوں پر نگاہ ڈالتا ہوں تو یاد آتی رہتی ہے.اس لئے کوئی یہ خیال دل میں نہ لائے کہ میں اسے بھول چکا ہوں.یہ جو فیصلہ ہے اس پر بہر حال عملدرآمد ہوگا.اللہ تعالیٰ سلسلے کو بہتر کارکن دے دے گا.انشاء اللہ.مجھے قطعاً کوئی پرواہ نہیں کہ بے نمازی نکل جائیں گے تو ہمارے کام کون کرے گا؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بے نمازی نکلیں گے تو کام بہتر ہوں گے اور آپ کو یقین آئے نہ آئے مجھے اس بات پر کامل یقین ہے کیونکہ خدا کا کلام جھوٹا نہیں ہوسکتا.خدا کا کام خدا کی عبادت

Page 148

مشعل راه جلد سوم 144 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ کرنے والے ہی ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں.دوسروں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ یہ کام کریں اور اگر وہ اس کو کریں بھی تو احسن رنگ میں نہیں کر سکتے.اس لئے میں ساری انجمنوں کو دوبارہ اس امر کی طرف متوجہ کر رہا ہوں اور ساری جماعت کو سنانا چاہتا ہوں کیونکہ آج مشاورت کے لئے پاکستان کی اکثر جماعتوں کے نمائندے یہاں آئے ہوئے ہیں اسی طرح باہر کی دنیا سے بھی نمائندے پہنچے ہوئے ہیں.آپ سب کے سامنے یہ بات سنانے میں حکمت یہ ہے کہ آپ بھی اپنی اپنی جگہ اسی طرح جواب دہ ہوں گے.ہر جماعت کی مجلس عاملہ اور تنظیم خواہ وہ ذیلی انجمن کی ہو یا مرکزی انجمن کی ، بالکل اسی طرح ذمہ دار ہے جس طرح یا انجمنیں ذمہ دار ہیں.بعض دفعہ عجیب و غریب واقعات سامنے آتے ہیں کہ ایک جگہ خدام الاحمدیہ کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہو رہا ہوتا ہے اور نماز با جماعت کھڑی ہو جاتی ہے، لیکن عاملہ کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اتنے سنجیدہ اور اہم کام میں مصروف ہیں کہ اب ہم نماز سے بالا ہو گئے ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا جب پانی کشتی کے اوپر آئے گا تو ہلاک کر دے گا.کیونکہ کشتی میں یہ طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ پانی کو سنبھال سکے.اس لئے آپ نے عبادت کا غلام بننا ہے تو زندگی پانی ہے.اگر آپ عبادت کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کریں گے تو لازما ہلاک ہوں گے.اسی طرح بعض دفعہ امراء کے متعلق پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی میٹنگ میں بیٹھے ہوتے ہیں اور بعض اوقات سنجیدہ باتیں نہیں، بلکہ شغل کی باتیں چل رہی ہوتی ہیں اور ادھر نماز ہو رہی ہوتی ہے لیکن امراء کوئی پرواہ نہیں کرتے.پس جن باتوں کا مرکز پابند ہے انہیں باتوں کی جماعتیں ہر جگہ پابند ہیں.اس لئے آپ کو اس طرف توجہ دینی پڑے گی اور جماعت کے ذمہ دار دوستوں کو بہترین نمونے قائم کرنے پڑیں گے.جہاں تک نماز با جماعت کا تعلق ہے کجا یہ کہ انسان گھر میں بیٹھا ہوا ہو یا دفتر میں ہو اور ( بیت الذکر ) تک نہ جائے اور گجا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ اور آپ کی تعلیم کہ ایک اندھا جو دور سے اذان کی آواز سنتا ہے اس کو بھی گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دینے کے بعد اجازت واپس لے لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تمہیں جماعت کے بغیر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے.واقعہ یوں ہوا ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک نابینا حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ مدینہ کی گلیوں میں ٹھوکریں لگتی ہیں.مختلف حدیثوں میں مختلف تفاصیل ملتی ہیں.کہیں آتا ہے کہ

Page 149

مشعل راه جلد سوم 145 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی اس نے کہا رات کو جنگلی جانوروں کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور کہیں آتا ہے کہ مجھے ساتھ لے جانے والا کوئی نہیں ہے.اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ میں گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کروں.حضور نے اجازت فرما دی.جب وہ اٹھ کر جانے لگا اور ابھی قدم باہر رکھا ہی تھا تو حضور نے اسے واپس بلا یا کہ بات سُن جاؤ.اس نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیا بات ہے؟ حضور نے فرمایا هَلْ تَسْمَعُ البَدَاءَ بِالصَّلوة کہ کیا تمہیں نِدَاء بِالصَّلوة آتی ہے؟ اس سے مراد ا ذان لے لیں یا تکبیر لے لیں حضور کا مقصد یہ تھا کہ نماز کی طرف بلانے کی آواز تمہارے کان میں پڑتی ہے یا نہیں؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں آواز سنتا ہوں تو فرمایا پھر جواب دیا کرو.تمہیں یہ اجازت نہیں ہے کہ تمہارے کانوں میں آواز پڑے اور اس کے باوجود تم انکار کر دو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلیم دینے کا عجیب طریق تھا اور اتنا لطیف اور پیارا کہ آپ کی باتوں کی تہہ میں جائیں تو حسن ہی حسن نظر آتا ہے.اس نابینا آدمی کو یہ تعلیم دی کہ تم آنکھوں سے محروم ہو، لیکن کانوں کو تو اب سے کیوں محروم رکھتے ہو؟ جن اعضاء کے ذریعے تمہیں خدا کی طرف بلایا جارہا ہے وہاں سے تو لبیک کہہ دو.ایک بدقسمتی کے نتیجہ میں دوسری بد قسمتی کیوں مول لیتے ہو؟ یہ تھا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کا طریق.مسلم کی روایت ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ أَعْمَى فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ يَقُودُنِي إِلَى الْمَسْجِدِ فَسَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَخِّصَ لَهُ فَيُصَلِّي فِي بَيْتِهِ فَرَخَّصَ لَهُ فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ فَقَالَ هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلوةِ فَقَالَ نَعَمُ قَالَ فَاجِبْ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک نابینا حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا آدمی میسر نہیں جو مجھے ( بیت الذکر ) تک لے کر جایا کرے.اس لئے مجھے اجازت مرحمت فرمائی جائے کہ میں اپنے گھر میں ہی نماز ادا کر لیا کروں.چنانچہ حضور نے اجازت دے دی لیکن جب وہ اٹھ کر واپس جانے لگا تو حضور نے اسے بلایا اور دریافت فرمایا کیا تمہیں نماز کی طرف بلانے کی آواز آتی ہے؟ اس نے عرض کی ”ہاں، یا رسول اللہ.تو حضور نے فرمایا فَاجِب پھر جواب دیا کرو.یعنی نماز کے لئے ( بیت الذکر ) میں حاضر ہوا کرو.(مسلم کتاب الصلوۃ باب اتيان المسجد على من سمع النداء )

Page 150

مشعل راه جلد سوم 146 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی اذانوں کی آوازیں آرہی ہوں اور نمازوں کی طرف بلایا جا رہا ہو لیکن کارکنان سلسلہ یا مبران مجلس عاملہ یا سلسلہ کے دیگر کارکنان خاموشی سے سن رہے ہوں جیسے کسی اور کو بلایا جا رہا ہے.بہرے کی اور کیا تعریف ہے.صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (البقره: 19) کے روحانی معنی تو یہی ہیں کہ وہ سنتے ہیں اور نہیں سنتے.دیکھتے ہیں اور نہیں دیکھتے اور جو سننے اور دیکھنے کی طاقت سے محروم ہو جائے وہ ہر لحاظ سے بالکل بے معنی، جانور کی طرح زندگی بسر کرتا ہے.نہ اس کو بولنے کی طاقت ہے، نہ سمجھنے کی طاقت ہے.اس لئے عبادت کا حق ادا کرنا نہایت ہی اہم ہے.اب میں مضمون کی طرف واپس آتے ہوئے کارکنان سلسلہ سے کہتا ہوں کہ تین مہینے کے اندر اندر یہ فیصلہ کرلیں کہ سلسلہ کی ملازمت کرنی ہے یا نہیں.جہاں تک ان کے اس فیصلے کا تعلق ہے اس میں وہ آزاد ہیں.وہ جو فیصلہ بھی کریں ان کی مرضی ہوگی.لیکن اگر وہ عبادت کی خاطر عبادت کریں نہ کہ ملازمت کی خاطر اور اللہ سے تعلق قائم کرنے کی خاطر نماز پڑھیں تو یہی سب سے اچھا سودا ہے اور سلسلے کو ایسے ہی کارکنوں کی ضرورت ہے.لیکن اگر وہ کسی وجہ سے یہ فریضہ ادا نہیں کر سکتے تو ہمیں احسان کے ساتھ ان کو الگ کرنا ہوگا.ان کی فہرستیں بن جانی چاہئیں اور ان سے معاملہ طے ہو جانا چاہیے.جدائی میں احسان بہر حال ضروری ہے.اس لئے ان کے حقوق ان کو ادا ہونے چاہئیں.افہام و تفہیم کے ساتھ احسن رنگ میں ان کو کہا جائے کہ ہمیں مجبوری ہے کہ ہم تمہیں علیحدہ کر رہے ہیں.لیکن اس علیحدگی میں تمہیں ثواب ہوگا اس وقت تم سلسلے پر بار بنے ہوئے ہو، پھر سلسلے کا بوجھ ہلکا کر دو گے.پس محبت اور پیار سے سمجھائیں.لیکن کوشش کریں کہ ایک بھی آدمی ضائع نہ ہو.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سلسلے کو تو کارکن مل ہی جائیں گے، بلکہ بہتر ملیں گے.لیکن وہ کارکن جنہوں نے ایک لمبا عرصہ سلسلے سے تعلق رکھا ہے ہم ان کو کیوں ضائع ہونے دیں.ہمارا فرض ہے کہ پوری کوشش کریں اور ان کو بچائیں.ایک ایک احمدی بنانے کے لئے ہم کتنی محنت کرتے ہیں.تو جو پہلے سے موجود ہوں اور مرکز کے بہت قریب آئے ہوں اور جن کو سلسلہ کی خدمات کی توفیق ملی ہو ان کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے.اس لئے اس معاملے میں بے اعتنائی نہیں کرنی.ہر افسر کا فرض ہے کہ اگر کارکن اور ذرائع سے بات نہیں سنتا تو اپنے پاس بلائیں، محبت اور پیار کے ساتھ اس کو سمجھا ئیں اور جہاں تک ممکن ہو سلسلے کے ہر کارکن کو ضائع ہونے سے بچانے کی کوشش کریں.

Page 151

147 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسے کارکنان کی اولادیں نماز سے غافل ہو رہی ہیں.ہر صورت میں تو نعوذ باللہ ایسا نہیں ہے.لیکن اگر سلسلے کے دس فیصدی کارکن بھی ایسے ہوں جن کی اولادیں نماز سے غافل ہیں تو یہ بڑی خطرناک بات ہے اور میرے نزدیک ایسے کارکنان کے بچوں کی تعداد جو عملاً نماز سے غافل ہو چکے ہیں اس سے زیادہ ہے.اس لئے ان کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے.نظام جماعت کو ان کے بچوں کو سنبھالنے میں ایسے کارکنوں کی مدد کرنی چاہیے.لیکن اصل میں تو گھر ہی تربیت کا گہوارہ ہے اور گھر کے معاملے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ باپ اپنی اولاد کا ذمہ دار ہے.قرآن کریم نے مختلف رنگ میں بڑے ہی گہرے اثر کرنے والے انداز میں اس مضمون کو پھیر پھیر کر بیان فرمایا ہے.کہیں حضرت اسمعیل علیہ السلام کی مثال دی کہ وہ کس طرح صبح اٹھ کر با قاعدہ اپنے گھر والوں کو نماز کی تعلیم دیا کرتے تھے.وہ بڑے صبر کے ساتھ اس پر قائم رہے اور ساری زندگی اس کام سے تھکے نہیں.کہیں فرمایا :- لَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللَّهَ فَانسُهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (الحشر : 20) کہ دیکھو! ان بدقسمتوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے ایک دفعہ اللہ کو یاد کیا اور پھر اسے ہمیشہ کے لئے بھلا دیا.فَانسَهُمُ انْفُسَهُم پس اللہ نے ان کو خود اپنے آپ سے بھلوادیا.ان کو اپنے نفوس کی اور اپنے اموال کی خبر نہ رہی ان کو اچھے بُرے کی تمیز نہ رہی.انسان کے لئے سب سے بڑی ہلاکت یہ ہوا کرتی ہے کہ اسے اچھے بُرے کی تمیز نہ رہے.اس کو اپنے حقیقی مقصد اور فائدے کا علم نہ ہو اور اسی کا نام پاگل پن ہے.اس کے سوا پاگل پن کی کوئی اور تعریف بنتی ہی نہیں.ہر وہ شخص جو اپنے مفاد کے متعلق نہ جان سکے کہ میرا اصل مفادکس بات میں ہے، وہ ایسی باتیں کرتا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ پاگل ہو گیا ہے.کوئی اپنی جائیداد ضائع کر دے یا کوئی ایسی بات کرے کہ لوگ کہیں بیہودہ حرکت کر رہا ہے اور لوگوں کے سامنے بدنام ہو رہا ہو تو وہ بھی پاگل ہے.الغرض ہر بات میں پاگل پن کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مفاد سے بے خبر ہو جائے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَانسَهُمْ اَنْفُسَهُمْ وہ ان لوگوں کو پاگل کر دے گا ان کو اپنی بھی ہوش نہیں رہے گی.ان کو پتہ نہیں ہوگا کہ کس چیز میں ہمارا فائدہ ہے اور کس میں نہیں؟ اس لئے کہ اللہ جو ہر بات کا آخری Reference ہے اس کو انہوں نے بھلا دیا.اگر خدا سے تعلق جوڑ کر راہ نمائی حاصل نہ کی جائے تو

Page 152

148 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم نہ فردا اپنی رہنمائی کے اہل ہوتے ہیں، نہ قومیں اپنی رہنمائی کی اہل ہوتی ہیں.ساری دنیا میں تباہیوں کا جو نقشہ نظر آ رہا ہے اس کی وجہ خدا سے لا تعلقی ہے.حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کبھی کوئی قوم اپنی عقل پر انحصار کر کے زندہ نہیں رہ سکتی.محض عقل پر انحصار کر کے لوگ ایسی خوفناک غلطیاں کرتے ہیں کہ خود بھی ڈوبتے ہیں اور دوسروں کو بھی لے ڈوبتے ہیں.پس فرمایا فَانْسَهُمُ انْفُسَهُم جب بھی لوگ خدا سے غافل ہوئے اور اس کی عبادت کا حق ادا کرنا چھوڑ دیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ نے ان کو پاگل کر دیا، کیونکہ انہوں نے عقل اور رشد کے سرچشمے سے منہ موڑ لیا پاگل کر دیا“ کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ایسا فعل کیا جس کے نتیجہ میں وہ لازماً اپنی عقلوں کو کھو بیٹھے احمق بن گئے ، بیوقوف ہو گئے.بچوں کی تربیت کی ضرورت الغرض خدا کی عبادت سے غافل ہونے کی ایک یہ سزا ہے کہ جولوگ اپنے بچوں کی عبادت کا خیال نہیں کرتے ان کی اولاد میں لازماً ہلاک ہو جایا کرتی ہیں اس لئے وہ اس طرف توجہ کریں اور اپنی اولاد کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل نہ کریں.الغرض اللہ تعالیٰ نے مختلف رنگ میں نصیحت فرمائی ہے اور بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دلائی ہے.اس معاملے میں اگر چہ مردوں کو پابند کیا گیا ہے لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جب مرد باہر ہوتا ہے تو عورت اس کی جگہ لے لیتی ہے اور اس پر بھی تربیت کی ایک بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.مرد کو اس لئے ذمہ دار قرار دیا ہے کہ اسے عورت پر قوام بنایا گیا ہے.اگر عورت کو ذمہ دار بنایا جا تا تو مرداس ذمہ داری سے باہر رہ جاتے.مرد کو ذمہ دار بنایا تا کہ صرف بچے ہی اس کے تابع نہ رہیں بلکہ عورت بھی تابع رہے اور مرد اس کو بھی پابند کرے اور اس طرح سارا نظام تربیت کے دائرے کے اندر جکڑ جائے.اپنی عورتوں کی حفاظت کرو جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے میرا تاثر یہ ہے کہ جو مائیں بے نماز ہوتی ہیں، اگر باپ کوشش بھی کریں تب بھی ان کی کوشش اتنا اثر نہیں رکھتی جتنا اس صورت میں کہ جب مائیں نمازی ہوں.اسی لئے قرآن کریم مردوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ سب سے پہلے اپنی عورتوں کی حفاظت کرو اور ان کو تربیت دو.چنانچہ حضرت اسمعیل علیہ السلام والی مثال میں بچوں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ وہ اپنے خاندان کے ہر

Page 153

149 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم فرد کو نماز کی تعلیم دیتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی یہی طریق تھا کہ آپ اپنی بیویوں کو نماز کے لئے اٹھاتے تھے.پھر بچوں اور دامادوں کو بھی جگایا کرتے تھے.چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے متعلق آتا ہے کہ حضور ان کے ہاں گئے اور فرمایا اٹھونماز کا اور عبادت کا وقت ہو گیا ہے.پس ہمیں بھی اپنے گھروں میں یہی اسوہ زندہ کرنا پڑے گا.مردا اپنی بیویوں کو نماز کا پابند کریں اور ان سے یہ توقع رکھیں کہ جب وہ خود گھر پر نہ ہوں تو عورتیں ان کے نائب کے طور پر بچوں کی نمازوں کی حفاظت کریں گی.اگر گھروں میں نمازوں کی فیکٹریاں نہ بنیں تو پھر جماعتی تنظیم کی کوششیں پوری طرح کارآمد نہیں ہوسکتیں.خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو ان بچوں کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے جن کے والدین نماز سے غافل ہوتے ہیں.ہزار کوشش کے بعد ان کو وہ پھل ملتا ہے جو گھر میں والدین صرف چند کلمات کے ذریعہ حاصل کر سکتے ہیں.جب دیکھیں نماز کا وقت ہو گیا ہے تو بچے کو بتا ئیں اور نماز کے لئے کہیں چنانچہ لجنہ اماءاللہ کی طرف سے ماؤں کو تاکید ہونی چاہیے اور خاوندوں کی طرف سے بیویوں کو تاکید ہونی چاہیے کہ وہ اس کام میں مدد کریں اور اپنی اولاد کو بچانے کی کوشش کریں.اگر ہم ساری دنیا میں یہ کام کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور احمدیوں کی بھاری اکثریت نماز پر اس طرح قائم ہو جائے کہ جہاں باجماعت نماز پڑھی جاسکتی ہے وہاں لازماً باجماعت نماز پڑھی جارہی ہو اور جہاں باجماعت نما ز ممکن نہ ہو وہاں انفرادی نماز کا انتظام ہو، اس کو تمام شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے توجہ کے ساتھ اور سوز و گداز کے ساتھ ادا کیا جائے تو اس سے اتنی بڑی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اس جماعت کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی.کجا یہ کہ چند دھاگے اللہ تعالیٰ سے ملے ہوئے ہوں اور وہ جو طاقت حاصل کر رہے ہوں وہ ساری جماعت میں بٹ رہی ہو اور کجا یہ کہ ہر شجر کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوں اور ہر شجر کو براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کے پھل لگ رہے ہوں.بڑ کے درخت جب بوڑھے ہو جاتے ہیں.تو ان میں سے بعض کی شاخیں زمین کی طرف جھک جاتی اور جڑیں بن جاتی ہیں.اسی طرح جماعت احمدیہ کو عبادت کے معاملے میں بڑکا وہ درخت بن جانا چاہیے جس کی ہر شاخ سے جڑیں پھوٹ رہی ہوں اور زمین کی طرف جھک رہی ہوں اور براہ راست زمین سے طاقت لے کر آسمان کی رفعتوں میں اس طرح بلند ہو جائیں کہ ہر ایک کو ہمیشہ ہر حال میں اللہ کی رحمتوں کے، الہامات کے، کشوف کے اور وحی کے پھل لگ رہے ہوں اور ہر احمدی کو خدا کی تائید حاصل ہورہی ہو.یہ ایک عظیم الشان طاقت ہے.دُنیا اس کا مقابلہ کیسے کرسکتی ہے.یہ تو اتنی عظیم الشان طاقت ہے کہ نبی

Page 154

150 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جب اکیلا ہوتا ہے تو اللہ سے تعلق کے نتیجہ میں اس کو غالب کیا جاتا ہے اور خدا سے بے تعلق دنیا کو اس ایک کی خاطر مٹا دیا جاتا ہے.کجا یہ کہ دنیا میں خدا سے تعلق رکھنے والے ایک کروڑ آدمی پیدا ہو جا ئیں.ان میں سے ہر ایک اس بات کی ضمانت ہوگا کہ اس جماعت نے لازماً غالب آنا ہے اور تمام مخالفانہ طاقتوں نے لازماً شکست کھانی ہے.ان میں سے ایک ایک اس قابل بن جائے گا کہ اس کی خاطر ساری دنیا کو مٹادیا جائے گا اور اس کو زندہ رکھا جائے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: - آج سے انشاء اللہ مجلس مشاورت شروع ہو جائے گی.ایسے اہم دینی اجتماعات کے موقع پر چونکہ نمازیں جمع کرنے کی اجازت ہوتی ہے اس لئے سابقہ روایات کے مطابق آج بھی انشاء اللہ جمعہ کی نماز کے ساتھ عصر کی نماز جمع ہو جائیگی.مجلس شوری کے ممبران کو چاہیے کہ وہ چار بجے سے پہلے مقام شوری میں پہنچ کر اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ جائیں کیونکہ انشاء اللہ تعالیٰ ٹھیک چار بجے شوری کی کارروائی کا آغاز ہوگا.وہ سارے احمدی مردوزن جو ممبران نہیں ہیں وہ بھی دعاؤں کے ذریعے شوری کی کارروائی میں شامل ہو سکتے ہیں.اسی طرح جہاں جہاں بھی احمدی ہوں وہ ان ایام میں بکثرت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت کے ساتھ تمام ممبران کے ذہن روشن فرمائے ، خدا کی خاطر اور خدا کے دین کی بہبود کے لئے بہترین فیصلوں کی توفیق بخشے اور پھر ان فیصلوں پر با حسن رنگ عمل درآمد کی تو فیق عطا فرمائے.(روزنامه الفضل 20 جون 83ء)

Page 155

مشعل راه جلد سوم 151 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ سویڈن کے سالانہ اجتماع منعقدہ 22,21 مئی 1983ء کے موقع پر خصوصی پیغام ☆ ☆ آپ کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں یہ بتانا ہوگا کہ آپ کا طرز زندگی ان کے طرز زندگی سے بہتر ہے

Page 156

مشعل راه جلد سوم 152 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 157

مشعل راه جلد سوم 153 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی میرے پیارے خدام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ کی مجلس اپنا سالانہ اجتماع 21 ،22 مئی کو منعقد کر رہی ہے.میں اس کی کامیابی کے لئے دعا گو ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس اجتماع کا انعقاد خدام الاحمدیہ کی بلند روایات کے عین مطابق ہوگا.آپ ایک ایسے معاشرہ میں رہ رہے ہیں جو باوجود یکہ مادی ترقی یافتہ ہونے اور اپنے آپ کو تہذیب یافتہ کہلانے کے اخلاقی طور پر انتہائی خراب ہے جس میں ہر قسم کی برائیاں موجود ہیں کیونکہ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں انسان نے اللہ تعالیٰ سے، اپنے پیدا کرنے والے سے منہ موڑ لیا ہے.ان لوگوں کی حالت بہت ہی قابل رحم ہے ان کے طور طریق اور بُرے اطوار کے نتائج بھیا نک سے بھیا نک تر صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور وہ خود اس کے چشم دید گواہ ہیں.صرف اللہ تعالیٰ ہی ان کو اس حالت سے نجات دے سکتا ہے.ہمیں امید رکھنی چاہیے اور دعائیں کرنی چاہئیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے ہوں.یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں لیکن صرف آپ کے الفاظ نہ تو ان کو متاثر کرینگے اور نہ ہی وہ اس طرح سے اپنا طرز عمل بدلیں گے بلکہ ان کو ( دین حق ) کی طرف بلانے کے لئے یہ بتانا ہوگا کہ آپ کا طرز زندگی ان کے طرز زندگی سے بہت بہتر ہے.آپ کو انہیں نہ صرف باتوں سے بلکہ اپنے (دینی) طرز عمل سے یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ جو صرف خدائے واحد پر یقین رکھتے ہیں اور پھر اسی کو اپنا وجود سونپ دیتے ہیں حقیقت میں وہی نیکی کی زندگی گزار سکتے ہیں اور صرف نیکی کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے.

Page 158

مشعل راه جلد سوم 154 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے اندر (دینی) اقدار پیدا کرنے کی توفیق دے اور پھر آپ میں سے ہر ایک ( دین حق ) کی سچائی کا ایک زندہ ثبوت بن جائے.والسلام مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع الفضل 23 جون 1982 ء )

Page 159

مشعل راه جلد سوم 155 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ 6-7 راگست 1983ء کے موقع پر خصوصی پیغام ( دین حق ) کا مقصد کیا ہے؟ یہی کہ ہم اپنے خالق و مالک، حتی وقیوم اور قادر اور تو انا خدا کی شناخت کرلیں.رب سے رشتہ جوڑنے میں ہی اصل لذت ہے اس کے مقابل پر تمام لذات بپیچ اور بے کیف ہیں اس دنیا کی عارضی اور بے کیف لذات سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دیں.

Page 160

مشعل راه جلد سوم 156 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 161

مشعل راه جلد سوم 157 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مورخه 6-7 اگست بروز ہفتہ، اتوار بمقام ہیتھ لینڈ ہنسلو مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے پہلے روز یه پیغام محترم شیخ مبارک احمد صاحب مشنری انچارج برطانیہ نے خدام کو پڑھ کر سنایا.میرے عزیز خدام واطفال السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ مجالس خدام الاحمدیہ اور مجالس اطفال الاحمد یہ برطانیہ 6 اور 7.اگست کو ہانسلو میں اپنا نواں اجتماع منعقد کر رہی ہیں.خدا تعالیٰ اس اجتماع کو بہت برکت بخشے اور آپ سب کو جو اس میں شامل ہو رہے ہیں یہ تو فیق عطا فرمائے کہ آپ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں.مجھے امید ہے کہ اجتماع کے ان بابرکت ایام میں آپ دعاؤں پر بہت زور دیں گے اور خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے طالب ہوں گے.اس موقع پر میں برطانیہ میں بسنے والے تمام خدام اور اطفال کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ خالص اور حقیقی (دین) ایک بہت بڑی آسمانی دولت اور عظیم نعمت ہے ہم خوش نصیب ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بغیر ہمارے کسی استحقاق کے ہمیں اس عظیم آسمانی نعمت سے بہرہ ور ہونے کا موقع عطا فرمایا ہے خدا تعالیٰ ہمیں یہ تو فیق بھی بخشے کہ ہم اپنے رب کے اس عظیم احسان کا شکر بجالا سکیں اور اپنی زندگیوں میں قرآنی تعلیمات کو جاری کر کے دائمی خوشحالی اور ابدی نجات کے وارث ہوسکیں.( دین حق ) کا مقصد کیا ہے؟ یہی کہ ہم اپنے خالق و مالک ، حتی وقیوم اور قادر و توانا خدا کی شناخت کر لیں اور اس سے ایک زندہ اور زندگی بخش تعلق قائم کریں کہ یہی ہماری زندگی کا مقصود اور منتہا اور یہی ہماری پیدائش کی اصل غرض و غایت ہے.یہی وہ رشتہ ہے جسے جوڑنے کے لئے تمام مذاہب دنیا میں قائم ہوئے اور یہی وہ تعلق ہے جس کے قیام کے لئے تمام انبیاء علیہم اسلام دنیا میں بھیجے گئے حضرت مسیح موعود مہدی

Page 162

مشعل راه جلد سوم 158 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ معہود علیہ السلام فرماتے ہیں:.انبیاء علیہم السلام کے دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ تا لوگ خدا تعالیٰ کی شناخت کریں.اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 11) پھر اپنی بعثت کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.کروں ” وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ میں خدا اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم (لیکچر لاہور ) پس آپ جو مسیح آخر الزمان علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہیں اور خود کو آپ کے جانثار غلاموں میں شامل کرتے ہیں، اپنے نفوس کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آپ نے کس حد تک اس زندگی بخش تعلق کے قائم کرنے کے لئے کوشش کی ہے اور پیار اور محبت سے اخلاص کے اس رشتہ کو جوڑنے کے لئے آپ نے کیا سعی کی ہے.ہمیشہ یادرکھیں کہ ہمارا خدا وہ ہے جس نے اپنی کامل قدرت سے ہر ایک چیز کو بنایا.اس کی قدرت عجیب عظمت اپنے اندر رکھتی ہے.جس کے بغیر کوئی چیز وجود نہیں پکڑتی اور جس کے سہارے کے بغیر اس عالم کی کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی.ہمارا خدا بے شمار قدرتوں والا اور بے شمار حسن واحسان والا ہے.پس ہمیں چاہیے کہ ہم اس از لی اور ابدی خدا کے حضور جھکیں اور اپنے تمام ارادوں اور اپنی تمام خواہشات کو اس کی مرضی اور اس کے ارادہ کے تابع کر کے اس سے مدد اور نصرت کے طالب ہوں ، وہی ہے جو اپنی بارگاہ کی طرف ہماری راہ نمائی کر سکتا ہے اور اس کے اذن کے بغیر کوئی اس کے دربار میں رسائی حاصل نہیں کر سکتا.پس اس موقع پر میں آپ سب کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے خالق و مالک رب کی قدر پہچانیں اور اس کے ساتھ پیارا اور محبت ، اخلاص اور فدائیت اور صدق اور صفاء پر مبنی ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ جوڑیں.اس کی قدرتوں کے جلووں سے اپنی آنکھوں کو بینا اور اپنے دلوں کو منور کریں.اس کی صفات میں خود کو رنگین کرنے کی کوشش کریں وہی ہمای دولت ہے اور اسی میں ہماری بقا ہے.یا د رکھیں کہ اس سے ملنے اور اس کے ساتھ رشتہ جوڑنے میں ہی اصل لذت ہے.اس لذت کے

Page 163

159 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم مقابل پر دنیا اور اس کی تمام لذات بیچ اور بے کیف ہیں.پس اس دنیا کی عارضی اور بے کیف لذات سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دیں کہ یہ اصل حقیقی لذت سے غافل کر دیتی ہیں اور اپنے ذوق بلند کریں اور اپنے مذاق کی اصلاح کے لئے سعی کریں.ہر خوبی اور ہر بھلائی.ہر حسن اور ہر خوبصورتی ہمارے رب میں پائی جاتی ہے اور وہی تمام لذات کا سر چشمہ ہے.پس اسی میں اپنی لذات تلاش کریں.اس سے ملنے کے لئے اپنے جسم اور جان کی تمام قوت کے ساتھ کوشش کریں کیونکہ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ عمل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجو دکھونے سے حاصل ہو.والسلام مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع روزنامه الفضل 13 ستمبر 1983ء)

Page 164

مشعل راه جلد سوم 160 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 165

مشعل راه جلد سوم 161 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی دورہ نجی کے دوران احباب سے گفتگو اور نصائح 18 ستمبر 1983 ء خدام کی تجنید کی ضرورت اور اہمیت.خواہ وہ عملی طور پر کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں آپ ان کو بھی مجلس میں شامل کریں....خلیفہ خدا بناتا ہے.آدمی کے بنائے ہوئے اور خدا کے بنائے سسٹم میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.خلیفہ وقت بندوں کی بجائے خدا کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے.مسائل دراصل وہاں پیدا ہوتے ہیں جہاں مرکز سے دوری ہوتی ہے.میں بار بار جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ نفرت کی بجائے باہمی محبت پیدا کریں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارہ قائم کریں اور اخوت کی روح کو زندہ رکھیں.خلیفہ وقت آپ کے پروگرام کے تابع نہیں ہے آپ کو خلیفہ وقت کے پروگرام کے تابع ہونا چاہیے.مجلس شوریٰ جس میں خلیفہ وقت موجود ہوں وہ بہت غیر معمولی شوری ہوتی ہے.......اس لئے اس میں نو جوانوں کو زیادہ شامل کیا جائے.

Page 166

مشعل راه جلد سوم 162 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 167

مشعل راه جلد سوم 163 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خدام کی تجنید ضروری ہے مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھانے کے بعد حضور احباب جماعت میں تشریف فرما ہوئے.محترم امتیاز احمد صاحب نیشنل قائد خدام الاحمدیہ نبی سے خدام الاحمدیہ کی تعداد دریافت فرمائی.وہ فوری طور پر بتا نہ سکے تو مقامی قائد سے دریافت فرمایا.انہوں نے مجلس کے کاموں میں سرگرمی سے حصہ لینے والوں کا ذکر کیا اور جو مجلس سے تعاون نہیں کرتے ان کے بارے میں بتایا کہ ان کو ہم نے تنظیم میں شامل نہیں کیا اس پر حضور نے ان کو اپنے سامنے بٹھا کر بڑے پیار سے سمجھایا کہ وہ سب نوجوان جو احمدیت کی طرف منسوب ہوتے ہیں ان کی تجنید کریں.خواہ وہ عملی طو پر کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں آپ ان کو بھی مجلس میں شامل کریں اور پھر آہستہ آہستہ سب کو فعال خدام بنانے کی کوشش کریں.اسی طرح نیشنل پریذیڈنٹ صاحب کے ساتھ Collaborationship قائم ہونی چاہیے.آپ نے دریافت فرمایا کہ نیشنل پریذیڈنٹ کی حیثیت اور دائرہ کار کیا ہے.جب حضور کو اس کے متعلق بتایا گیا تو فرمایا یہ تو ایسے ہی ہے جیسے پاکستان میں نائب امیر ہوتا ہے.خلافت کا آسمانی نظام اختیارات کی بات چلی تو خلافت تک جا پہنچی.آپ نے فرمایا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.آدمی کے بنائے ہوئے اور خدا کے بنائے ہوئے System (نظام) میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.دنیوی امر کے لئے بالا اتھارٹی کے حکم کی ضرورت ہوتی ہے اور دنیوی معاملات میں وہ لوگوں کی آراء کا پابند ہوتا ہے لیکن خلیفہ وقت اس سے آزاد ہوتا ہے.وہ بندوں کی بجائے خدا کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے.سینکڑوں خوا ہیں اور بشارتیں اس کی تائید میں ظاہر ہوتی ہیں.خلیفہ وقت کو یہ بھی اختیار ہے کہ جس کو چاہے امیر مقرر کرے.

Page 168

مشعل راه جلد سوم فرمایا:- 164 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ خلافت کی قدرو قیمت نہ پہچانے کی وجہ سے یا اس کا System (نظام) صحیح طور پر نہ بجھنے کی وجہ سے اگر کوئی اپنے اختیارات سے تجاوز کرے تو اس کی خلیفتہ امسیح کے پاس رپورٹ کی جائے.حضور نے فرمایا کہ اگر احمدیت کو سمجھ لیا جائے تو اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ کسی عہد یدار کے بارے میں تادیبی کارروائی کی نوبت آئے.یہ مسائل دراصل وہاں پیدا ہوتے ہیں جہاں مرکز سے دوری ہوتی ہے.لوگوں کو مرکز سلسلہ میں جانے کا موقع نہیں ملتا.اس لئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ نظام سلسلہ کے طریق کار اور اس کی روح کو سمجھنے کی کوشش کرے.اسی طرح بیرونی جماعتوں کو بھی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے کیا کیا اختیارات ہیں.پھر اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے پورے جذبہ کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے اور کسی کو شکایت کا موقع نہیں دینا چاہیے.جو بھی امیر مقرر کیا جائے اس کے ہر معروف حکم کو ماننے کے لئے تیار رہنا چاہیے.اگر کوئی مشنری انچارج اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو مرکز میں اس کی رپورٹ کی جائے.جب تک مرکز کوئی کارروائی نہیں کر تا شکایت کنندہ خاموش رہے.اسی طرح اگر کوئی امیر اپنے اختیارات سے بڑھ جائے تو اس کی شکایت بھی کی جائے لیکن امیر کی معرفت کی جائے.اس طرح ایک تو امیر زیادہ محتاط ہو جائے گا دوسرے شکایت کرنے والا جب بھی امیر کی وساطت سے شکایت کرے گا تو زیادہ ذمہ داری اور احتیاط سے بات کرے گا.شکایت میں ذاتی تلخیوں کو داخل نہ کیا جائے.شکایت بر وقت ہو.ایسا نہ ہو کہ جماعتی نقصان ہورہا ہو اور دوست خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں.ایک اہم فیصلہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا نیشنل پریذیڈنٹ اور امیر کے درمیان Friction (اختلاف ) کی وجہ سے کبھی کبھی نیشنل پریذیڈنٹ کا عہدہ ختم کر دیا جاتا رہا ہے لیکن اب آئندہ کے لئے ایسا نہیں ہوگا.جو شخص Friction (اختلاف) پیدا کرتا ہے وہ قابل مواخذہ ہوگا اور اس کو معزول کیا جائے گا خواہ وہ امیر ہو یا نیشنل صدر ہو.فرمایا میں بار بار جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ نفرت کی بجائے باہمی محبت پیدا کریں.ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارہ کریں اور اُخوت کی روح کو زندہ رکھیں.جماعت ہائے احمد یہ منفی کی مجلس شوری کے پروگرام کے مطابق ۲۴ ستمبر بروز ہفتہ مقرر تھی لیکن حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بعض مصالح کے پیش نظر ہیں ستمبر کی تاریخ مقرر فرمائی اور اس روز ہونے والی پریس

Page 169

مشعل راه جلد سوم 165 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کا نفرنس کو ۲۴ ستمبر تک ملتوی کر دیا.اس پر ایک دوست نے عرض کیا کہ مجلس مشاورت کسی چھٹی والے دن رکھنی چاہیے.حضور نے فرمایا خلیفہ وقت آپ کے پروگرام کے تابع نہیں ہے.آپ کو خلیفہ وقت کے پروگرام کے تابع ہونا چاہیے.نیز فرمایا مجلس شوریٰ جس میں خلیفہ وقت موجود ہوں وہ بہت غیر معمولی شوری ہوتی ہے.ایک Ideal موقع ہوتا ہے جس میں نوجوانوں کی تربیت مقصود ہوتی ہے.اس لئے اس میں نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے.عہدیدار (Office Bearers) تو زیادہ تر بوڑھے ہوتے ہیں.نوجوانوں کو موقع دیں تا کہ وہ آگے چل کر ذمہ داریوں کے بوجھ اٹھانے کے اہل بنیں.وہ شوری کی کارروائی سنیں اور اس سے سبق سیکھیں.میں خدام کو بہت سے کاموں کا ذمہ دار بنانا چاہتا ہوں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ نو جوان شوری میں شریک ہو کر مشورے دیں.روزنامه الفضل 19 اکتوبر 1983 ، صفحہ 5-4)

Page 170

مشعل راه جلد سوم 166 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 171

مشعل راه جلد سوم 167 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی دورہ نجی کے دوران قصبہ سو موسومو (Somo Somo) کے اسکول میں طلبہ و طالبات سے خطاب.1983ء خدا تعالیٰ کو کیسے ڈھونڈیں.خدا تعالیٰ کو ملنے سے زندگی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کو پانے کے لئے خود خدا تعالیٰ سے دعا کی عادت ڈالیں.خدا تعالیٰ بچوں سے پیار کرتا ہے.بچپن سے دعا کی عادت ڈالیں.پہلے اپنے خدا سے تعلق جوڑمیں پھر اپنے ماں باپ سے.☆ ☆ ☆ ☆ ☆

Page 172

مشعل راه جلد سوم 168 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 173

مشعل راه جلد سوم 169 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ نے فرمایا :- بچوں سے آسان اردو میں باتیں مجھے اس وقت آپ سے کچھ باتیں کرنے کے لئے کہا گیا ہے.اس لئے میں آپ سے کچھ باتیں کروں گا آسان اردو زبان میں.تاکہ بچے بھی سمجھ سکیں اور جن لوگوں کو زیادہ اردو زبان نہیں آتی ان کو بھی پتہ لگ جائے کہ میں کیا کہ رہا ہوں.اور آسان انگریزی میں بھی.اگر چہ آپ میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اچھی انگریزی جاننے والے ہیں.لیکن کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کو اردو زبان نہیں آتی اور انگریزی بھی زیادہ نہیں جانتے.اس لئے میں کوشش کروں گا کہ جو میں کہنا چاہتا ہوں اسے آسان زبان میں بیان کروں تا کہ آپ لوگ سمجھ سکیں.زندہ خدا پر پختہ یقین میرا فرقہ جس سے میرا تعلق ہے وہ ایک مذہبی فرقہ ہے.ایک مذہبی جماعت ہے اور اس کا نام ہے احمدیہ () کمیونٹی.یعنی ( دین حق) کی احمد یہ جماعت.ہماری جماعت کو بہت سے مسلمان مسلمان نہیں سمجھتے.وہ کہتے ہیں تم اپنا نام جو مرضی رکھ دو ہم تمہارا مسلمان ہونا قبول نہیں کریں گے.اور اس وجہ سے بعض ملکوں نے بھی ہمیں ( دین حق) سے نکال رکھا ہے.اس کے باوجود ہم بڑے گہرے مذہبی ہیں اور اس بات پر بڑا پکا یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایک زندہ خدا ہے اور اسلام ایک سچاند ہے عقل مند انسان کا کام میں آپ کو تفصیل سے یہ نہیں بتاؤں گا کہ ہمارے اور دوسرے( مومنوں ) میں فرق کیا ہے کیونکہ اس کا

Page 174

مشعل راه جلد سوم 170 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی وقت نہیں ہے.میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم کون ہیں.ہمیں کیا سمجھا جاتا ہے.پھر جو میں باتیں کروں گا آپ کی مرضی ہے ان کو قبول کریں یا نہ کریں.اتنا ضرور کہوں گا کہ جو میری باتیں ہیں ان کے متعلق یہ دیکھیں کہ وہ درست ہیں یا غلط ہیں.یہ نہ سوچیں کہ کس کی طرف سے آئی ہیں.پس جو باتیں میں کہوں گا آپ یہ دیکھیں کہ وہ اچھی ہیں یا بری ہیں.اگر میں آپ سے اچھی باتیں کہتا ہوں تو آپ ان باتوں کو مان لیں.کیونکہ عقلمند انسان کا یہ کام ہے کہ یہ دیکھے کہ جو بات ہورہی ہے وہ اچھی ہے یا بری ہے.اچھی بات اگر مٹی میں سے ملے تو انسان کو چاہیے اس کو قبول کر لے.اور اگر گندگی ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر رکھی گئی ہو تب بھی اسے رد کر دے.یہ زندگی کا صحیح طریق ہے جسے آپ کو اختیار کرنا چاہیے.کا ئنات کو پیدا کرنے والا ایک خدا ہے میرا پیغام آپ کو یہ ہے کہ ہم سب ایک خدا کے بندے ہیں اور ہمارا مالک ایک ہے.وہ مذہب بھی جو ایک سے زیادہ خداؤں کی عبادت کرنے کی تلقین کرتے ہیں ان کا بھی عقیدہ یہی ہے.اس میں کوئی اختلاف نہیں.اس میں کوئی فرق نہیں.وہ سب مانتے ہیں کہ جہاں تک انسان کا تعلق ہے یا اس کائنات کا تعلق ہے اس کا پیدا کرنے والا بہر حال ایک ہے.وہ یہ نہیں کہتے کہ کچھ لوگوں کو کسی ایک خدا نے پیدا کیا اور کچھ دوسروں کو کسی دوسرے خدا نے پیدا کیا.اس لئے اگر ہم ایک جگہ اکٹھے ہونا چاہتے ہیں، اگر ہر انسان ایک دوسرے سے پیار کرنا چاہتا ہے تو اس طرف توجہ کرنی پڑے گی کہ ہم ایک خدا کے پیدا کردہ لوگ ہیں.کیونکہ اگر ایک خدا کے نہیں تو پھر ہمارے اکٹھے ہونے کا کوئی سامان نہیں ہوسکتا.اگر ہم ایک خدا کی مخلوق ہیں تو پھر جس طرح ایک ماں باپ کی اولاد آپس میں محبت کرتی ہے اسی طرح انسان کو لازماً ایک دوسرے سے محبت کرنی پڑے گی.ایک اہم سوال ہم جب یہ سمجھ چکے کہ ہمارا ایک ہی خدا ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا.فجین (Fijian) کو بھی اور ہندوستانیوں کو بھی.انگریزوں کو بھی اور امریکن کو بھی.تو کیوں پیدا کیا؟.یہ سوال پیدا ہوتا ہے.اس کے لئے ہمیں اپنے خدا کی طرف جانا پڑے گا.جس نے پیدا کیا وہی جانتا ہے کہ کیوں پیدا کیا اور وہی علم رکھتا

Page 175

مشعل راه جلد سوم 171 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے.اس لئے ہر انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے خدا کو تلاش کرے.خدا کو کیسے ڈھونڈیں یہ دو باتیں جب آپ سمجھ جاتے ہیں تو ایک تیسرا سوال پیدا ہوتا ہے جو بظاہر بڑا مشکل معلوم ہوتا ہے.یوں لگتا ہے کہ اس سوال کا جواب انسان نہیں دے سکے گا اور پھنس جائے گا.وہ سوال یہ ہے کہ ہم اس خدا کو کیسے ڈھونڈیں.کس مذہب کے ذریعہ خدا کو پائیں.لیکن اگر ہم غور کریں تو اس کے لئے ایک آسان رستہ بھی مل جاتا ہے.خالق سے ملانے کے دعویدار یہ سوال مشکل اس لئے ہے کہ دنیا میں سینکڑوں مذاہب ہیں اور ہر مذہب کا دعویٰ ہے کہ خدا میرے پاس ہے.ہر مذہب کا یہی اعلان ہے کہ اگر تم اپنے (Creator) خالق سے ملنا چاہتے ہوتو میرے پاس آؤ.اب انسان بڑی مشکل میں پڑ گیا.کہ ایک (Commodity) جنس ہے جو ہم نے لینی ہے اور سینکڑوں دکانیں ہیں.اور سب دکا نیں کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ہے.اور ہے کسی ایک کے پاس.یہ تو خطرہ ہے کہ شاید ان میں سے کسی کے پاس بھی نہ ہو.لیکن ان سب کے پاس نہیں ہوسکتی.کیونکہ ہر ایک الگ الگ رستہ بتا رہا ہے.یہ مشکل پڑ گئی.اس لئے میں نے کہا تھا کہ یہ سوال آپ کو بہت مشکل نظر آئے گا.بھوکے کو روٹی کی تلاش اب مشکل یہ ہے کہ یہ دکانیں جو میں بتا رہا ہوں جو کہتی ہیں خدا ہمارے پاس ہے ان کے متعلق تھوڑی دیر کے لئے سوچئے کہ وہ خدا کی بجائے روٹی دیتی ہیں اور آپ بھو کے ہیں اور ہر دکان میں بے شمار ڈبے پڑے ہوئے ہیں اور خود دکاندار کو پتہ نہیں کہ کس ڈبے میں روٹی ملے گی.اور وہ کہتا ہے کہ ٹھہرو میں تلاش کرتا ہوں اور وہ دیکھتا ہے اور آپ بھی دیکھتے ہیں کہ ہے بھی یا نہیں.گپ تو نہیں ماررہا، جھوٹ تو نہیں بول رہا.اور اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ اگر آپ دو یا تین دکانوں میں گھو میں اور روٹی تلاش کریں تو پیشتر اس کے کہ آپ کو روٹی ملے آپ بھوک سے مر جائیں.

Page 176

مشعل راه جلد سوم 172 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی سارے مذاہب کا مطالعہ امر محال میہ اس وقت دنیا کا حال ہے.اور حقیقت یہی ہے کہ بالکل یہی حال ہے.یہاں نجی میں اس تاوے یونی جزیرہ میں پیدا ہونے والا انسان یہ طاقت ہی نہیں رکھتا کہ ساری دنیا کی زبانیں سمجھے، ساری دنیا کے مذاہب کا مطالعہ کرے کہ خدا کہاں ہے.آپ کی تو نسلیں گزر جائیں گی.ایک کے بعد دوسری نسل پیدا ہو اور وہ بھی تحقیق کرے تب بھی ساری دنیا کے مذاہب کی زبانیں پڑھنا، ان کا مطالعہ کرنا ، پھر یہ مقابلہ کرنا کہ کون سچا ہے کون جھوٹا ہے.کس کے پاس دلیل ہے کس کے پاس نہیں ہے.یہ ناممکن ہے.خدا سے ملنے کا ڈھنگ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کا بہت آسان جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ جس مذہب کی بھی تم پیروی کرو گے آخر خدا تک پہنچ جاؤ گے.اس لئے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا.جہاں ہو وہیں بیٹھے رہو.جو چاہو کسی مذہب کے مطابق زندگی اختیار کر لو تم اپنے خدا سے مل جاؤ گے.یہ بڑا آسان جواب ہے اور سب کو خوشی ہوگی کہ اب کسی تحقیق کی ضرورت نہیں رہی.جس جگہ ہم پیدا ہوئے وہیں بیٹھے رہیں کافی ہے.ہمیں خدامل جائے گا.یہ آسان تو ہے لیکن معقول جواب نہیں ہے، بالکل معقول جواب نہیں.کیونکہ ہر چیز ہر جگہ اس لئے نہیں مل سکتی کہ ہر چیز کا اک نہ اک نشان ہوتا ہے.مثلاً کسی جگہ زمین میں سونا ہے تو وہ سونا اپنا اثر ظاہر کرتا ہے تبھی لوگوں کو پتہ لگتا ہے کہ یہاں سونا ہوگا.پھر وہ زمین کھودتے ہیں.کہیں کوئی پھول کھلا ہو اس کی خوشبو سے آپ معلوم کر لیتے ہیں کہ یہاں پھول ہے.اگر کہیں کسی اور دھات کا مادہ پایا جا تا ہے.مثلاً کہیں تانبا ہے، کہیں ہیرے ہیں تو سائنسدان معلوم کر لیتے ہیں.کیونکہ ان کو علم ہوتا ہے کہ ان دھاتوں کی یہ یہ نشانیاں ہیں اور وہ سطح زمین پر ظاہر ہو جاتی ہیں.ورنہ یہ کہنا کہ جس جگہ زمین کھو دو گے سونامل جائے گا، جہاں کھو دو گے تانبامل جائے گا.یہ ہے تو بڑا آسان طریقہ لیکن اس طرح ساری عمر کھودتے رہیں گے ملے گا کچھ نہیں.کیونکہ ملنے کے لئے طریقہ اور ڈھنگ ہونا چاہیے.اسی طرح خدا کی علامتیں بھی ہر جگہ ملنی چاہئیں اور جب تک یہ معلوم نہیں کریں گے کہ خدا سے ملنے کا ڈھنگ کیا ہے اس وقت تک آپ کو کامیابی حاصل نہیں ہوگی.آپ کی کوششیں بے کار جائیں گی.

Page 177

مشعل راه جلد سوم 173 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ہر مذہب خدا تک نہیں لے جاسکتا لیکن جب ہم مذاہب کو دیکھتے ہیں اور ان کی تعلیمات پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر مذہب میں خدامل ہی نہیں سکتا.کیونکہ مذاہب کا آپس میں بھی بہت گہرا اختلاف ہے.کوئی خدا کا کچھ تصور پیش کرتا ہے اور کوئی کچھ اور تصور پیش کرتا ہے.پھر بچے خدا کا سوال پیدا ہوگا وہ کہاں ہے.کیونکہ بعض مذاہب خدا کی طرف بات منسوب کر کے کہتے ہیں کہ گویا خدا کہتا ہے کہ میں ایک سے زیادہ ہوں.میں لاکھوں ہوں، تم لاکھوں چیزوں کی پوجا کر وتب تم مجھے ملو گے.ایک اور مذہب کہتا ہے کہ نہیں میں صرف ایک ہوں.لاکھوں نہیں ہوں.قانونِ قدرت دیکھو.ہر جگہ میں ہی نظر آؤں گا.میرے مظاہر نظر آئیں گے.دو خداؤں کی مخلوقات نظر نہیں آئیں گی.اس لئے میں اکیلا خدا ہوں، مجھے مانو.اب ظاہر ہے دونوں مذہب ایک وقت میں تو سچے نہیں ہو سکتے.ایک یہ کہے کہ میں لاکھوں خدا ہوں اور ایک کہے کہ میں ایک خدا ہوں.مثلاً یہودیت کہتی ہے ایک خدا ہے اور عیسائیت کہتی ہے نہیں، تین ہو گئے.شروع میں ایک خدا تھا.لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے آنے کے بعد تین خدا ہو گئے.یعنی باپ، بیٹا اور روح القدس.اب یہ باتیں ایک وقت میں تو بچی نہیں ہوسکتیں کہ خدا ایک بھی ہو اور تین بھی ہوں.ایک بھی ہو اور ہزار بھی ہوں.پھر تعلیم میں اتنا فرق پڑ جاتا ہے.مثلاً ایک مذہب کا خدا کہتا ہے.میں یہاں کے سوا کہیں نہیں ہوں.دوسرے مذہب کا خدا کہتا ہے کہ میں یہاں کے سوا اور کہیں نہیں ہوں.اب بتائیے ! آپ کو ہر مذہب میں خدا کہاں سے مل جائے گا؟ اس لئے یہ تو صحیح ہے کہ خدا ہر جگہ موجود ہے لیکن یہ کہنا غلط اور جھوٹ ہے کہ ہر مذہب خدا تک لے جاتا ہے.جائیں تو جائیں کہاں اب مشکل یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہر مذہب کا خدا الگ الگ باتیں کر رہا ہے.جب اپنے متعلق بات الگ الگ کرتا ہے اور جس خدا کو یہ بھی پتہ نہیں کہ میں کون ہوں وہ سچا خدا کہاں سے ہو گیا.یا ایک مذہب میں کہتا ہے میں ایک ہوں.دوسرے میں یہ کہتا ہے میں تین ہوں.تیسرے میں کہتا ہے میں پندرہ میں ہوں.چوتھے میں کہتا ہے میں کئی ہزار ہوں تو اب ہم کس کی بات مانیں.صاف پتہ لگا کہ ہر بات کچی نہیں ہے ایک ہی بچی ہوگی.اس لئے پھر وہی مشکل در پیش.ہمیں اس سوال کا کوئی حل تو نہ ملا.پھر ہم

Page 178

مشعل راه جلد سوم 174 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اسی مصیبت میں دوبارہ پھنس گئے.اب خدا سے ملنا ہے، مرنے سے پہلے ملنا ہے.اس لئے اسے کہاں سے ڈھونڈیں؟ خدا کے ملنے سے زندگی کا مقصد پورا ہوتا ہے ہر مذہب کی بات چھوڑیئے.فی الحال ہم واپس انسان کی طرف جاتے ہیں.دنیا کے پردے پر ہزاروں قسم کے انسان موجود ہیں اور ہر انسان سے خدا کہتا ہے کہ میں تمہارا مالک اور خالق ہوں.میں نے تمہیں پیدا کیا ہے.تم مجھ سے ملو گے تو تمہاری زندگی کا مقصد پورا ہوگا.میں تمہیں رہنا سکھاؤں گا.میں تمہیں جینا سکھاؤں گا.میں تمہیں بتاؤں گا کہ کس طرح میرے پاس لوٹنا ہے.واپس میرے پاس کیسے آنا ہے.اور مختلف قسم کے جو انسان ہیں ان میں بھاری تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کو لکھنا پڑھنا بھی نہیں آتا اور لکھنا پڑھنا سیکھنے کے لئے ان کے پاس کوئی طاقت نہیں کیونکہ غریب لوگ ہیں.ان کو یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ غیر ملکوں میں جائیں اور تحقیق کریں.خدا کو پانے کے لئے خود خدا سے دعا کریں پس یہ مسئلہ تو پھر وہیں کا وہیں رہا.جہاں سے بات شروع ہوئی وہیں جا ٹھہری.اس لئے سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس کا علاج کیا ہے.اس کا علاج میں آپ کو بتا تا ہوں.اس کے سوا کوئی علاج نہیں.علاج یہ ہے کہ خود خدا سے ہدایت پانے کی دعا کی جائے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مسئلے کا یہی حل پیش کیا ہے.قرآن کریم ہماری کتاب یعنی اسلام کی کتاب ہے اور کہتی ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے کہ اگر بندہ چاہے اور دعا کرے تو وہ اس کو ہدایت دے گا.پس ہدایت اللہ سے ملتی ہے.انسان جب کبھی اللہ سے ہدایت پانے کے لئے دعا کرتا ہے تو اللہ اس کی پکار سن کر جواب دیتا ہے.چنانچہ قرآن کریم کہتا ہے کہ سارے انسانوں کو خوشخبری ہو کہ خدا نے وعدہ کیا ہے کہ جب تم مجھے پکارو گے اور مجھے ڈھونڈو گے تو میں تمہیں ہدایت کی طرف رستہ دکھاؤں گا.فرماتا ہے:.وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: 70) پھر فرماتا ہے:

Page 179

مشعل راه جلد سوم 175 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ یہ جو دو آیتیں میں نے قرآن کی پڑھی ہیں ان میں اس سوال کا حل موجود ہے.قرآن کریم نے معقول حل پیش کیا ہے (البقره:187) اب آپ دیکھئے کہ آپ کے دل کو یہ حل پسند آتا ہے کہ نہیں.آپ کے دماغ کو اچھا لگتا ہے کہ نہیں.اگر اچھا لگتا ہے تو پھر اس بات کا کیا غصہ کہ یہ قرآن میں ہے جس کو ہم نہیں مانتے اس لئے ہم یہ حل نہیں مانیں گے.معقول آدمی کا تو کام ہے اگر سونے کی خواہش ہے تو جہاں سے سونا ملے اس کو قبول کرے.اچھا حل، اچھا جواب جہاں سے ملے اس کو لے لینا چاہیے اور میں یہ بتاتا ہوں کہ قرآن کریم میں اس سوال کا جواب موجود ہے اور ہے بھی بہت معقول اور بڑا اچھا.اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو مجھے تلاش کرنا چاہتے ہیں مجھ پر فرض ہے کہ میں ان کو اپنا رستہ دکھاؤں ، اپنا قرب عطا کروں.کیونکہ انسان تو کمزور ہے لیکن خدا اور خالق اور مالک اور God اور پر ماتما اور پرمیشور ( جو نام آپ اس کا رکھیں ) وہ تو کمزور نہیں.اس کو پتہ ہے میں کہاں ہوں.انسان اس کو ڈھونڈ ہی نہیں سکتا جب تک وہ خود نہ بتائے.اس لئے خدا نے اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی اپنے اوپر ذمہ داری ڈالی.چنانچہ خدا کہتا ہے کہ تم نے میرے پاس آنا ہے تو مجھ سے پوچھو.میں کہاں ہوں بجائے اس کے کہ لوگوں سے پوچھتے رہو.پنڈت کے پاس جاؤ، کبھی پادری کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ میں کہاں ہوں.تم کہاں کہاں دھکے کھاؤ گے، کس کس دروازے کی بھیک مانگو گے، کس کس دکان پر پہنچ کر تلاشیاں لو گے کہ خدا ہے یا نہیں.خدا فرماتا ہے تم مجھے آواز دو میں تمہاری آواز کو سنتا ہوں.میں ہر جگہ موجود ہوں.میں تمہاری آواز کا جواب دوں گا.میں تمہیں بتاؤں گا کہ میں کہاں ہوں اور کس طرح مل سکتا ہوں.میں تمہیں ہدایت دوں گا تم سے پیار شروع کر دوں گا.بچپن میں دعا کی عادت ڈالئے پس یہ تو بالکل الٹ قصہ نکلا.خدا کا پانا جتنا مشکل نظر آرہا تھا اتنا ہی یہ تو بہت ہی آسان ہو گیا کہ انسان کا کام ہے دعا کرے اور خدا سے پوچھے کہ اے خدا! تو کہاں ہے.خدا کہتا ہے اے میرے بندو! تم مجھے بلاؤ تو سہی میں تمہارے پاس ہوں گا اور تمہاری پکار کا جواب دوں گا.چنانچہ قرآن کریم سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ

Page 180

176 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم خدا بچوں سے بھی پیار کرتا ہے اور بوڑھوں سے بھی.کالوں سے بھی پیار کرتا ہے اور گوروں سے بھی.وہ سب کا خدا ہے.اس لئے یہ نسخہ میں آپ کو بتانے کے لئے آیا ہوں کہ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ اللہ کہاں ہے؟ اللہ سے پوچھنے کی عادت ڈالئے.اگر چھوٹے چھوٹے بچے بچپن میں ہی کسی چھوٹی بڑی مشکل یا مصیبت کے وقت خدا کو پکاریں.مثلاً کسی کی پنسل بھی گم ہو جائے اور وہ پیار سے، یقین سے دعا کرے کہ اے میرے خدا! مجھے تو کوئی طاقت نہیں.مجھے تو اپنی پنسل کا بھی پتہ نہیں کہاں گئی.تو میری مددفرما.پھر وہ دیکھے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے.وہ حیران ہو جائے گا کہ خدا کتنا پیار کرنے والا ہے.چھوٹے چھوٹے بچوں سے بھی پیار کرتا ہے.آسان ، یقینی اور معقول راستہ اسی طرح جب آپ بچپن سے اپنے خدا سے محبت کرنا سیکھ جائیں گے، پیار کرنا سیکھ جائیں گے اللہ تعالیٰ آپ سے محبت و پیار شروع کر دے گا.پھر یہ خدا کی ذمہ داری ہے کہ آپ کو مرنے نہ دے جب تک اپنا رستہ نہ دکھا دے.اس سے زیادہ آسان، اس سے زیادہ یقینی اور اس سے زیادہ معقول رستہ خدا تک پہنچنے کا کوئی نہیں.اس لئے میں آپ کو جس خدا کی طرف بلا رہا ہوں یہ صرف فرضی خدا نہیں ہے.خیالی خدا نہیں ہے.یہ ایسا خدا ہے جس سے مجھے واسطہ پڑ چکا ہے.اب بھی پڑتا ہے.بچپن میں بھی پڑا اور میں نے اس کو اسی طرح ہمیشہ محبت کرنے والا، پیار کرنے والا اور دعاؤں کو قبول کرنے والا پایا ہے.ہر مشکل کے وقت خدا کو پکاریں اور وہ بچوں کی دعاؤں کو بھی سنتا ہے.چنانچہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ اس بات کو تجربہ کر کے دیکھ لیجئے.میں نے اپنے بچوں کو بچپن سے یہی تربیت دی ہے کہ تم ہر مشکل کے وقت خدا کو کہا کرو اور اس سے دعا مانگا کرو لیکن ہمارا خدا تو ہماری پیدائش سے بھی پہلے موجود تھا اور اس پر تو کبھی موت نہیں آئے گی.اس لئے بچوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ پہلے اپنے خدا سے تعلق جوڑیں اور پھر اپنے ماں باپ سے.تب وہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل ان پر نازل ہوں گے.چنانچہ میرے بچوں نے جب بھی دعائیں کیں ایسے حیرت انگیز طور پر پوری ہوئیں کہ کئی دفعہ ان کو یقین نہیں آتا تھا کہ خدا تعالیٰ اتنی جلدی قبول فرمالے گا.

Page 181

مشعل راه جلد سوم 177 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی محبت الہی کے کرشمے پس اپنے خدا کو جاننا ہو تو اس سے دعا کریں.محبت اور پیار کے ذریعہ اس سے تعلق قائم کریں پھر وہ خود آپ کومل جائے گا.وہ آپ کو لے جائے گا اس مذہب کی طرف جو سچا مذ ہب ہے.وہ آپ کو روشنی عطا کرے گا.اس سے زیادہ نہ آپ کچھ کر سکتے ، ہیں نہ میں کچھ بتا سکتا ہوں.میں نے تو اسی کو سچائی پایا ہے اور یہی میں آپ کو بتانے کے لئے آج حاضر ہوا ہوں.(ماہنامہ تشخیذ الا ذہان.جنوری 1984 ء.صفحہ 10 تا18 )

Page 182

مشعل راه جلد سوم 178 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 183

مشعل راه جلد سوم ☆ 179 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے افتتاحی خطاب فرمودہ 21 /اکتوبر 1983ء ایک غلط رجحان کی اصلاح امام وقت سے اصل محبت اُس کے لئے دعا کرنا ہے نہ کہ نعرہ بازی اجتماع کی کامیابی پر حضور کا اظہار خوشنودی اپنے حوصلے بلند کریں، اپنی امیدوں کو بلند کریں مسیح موعود علیہ السلام کا انتظار کرنے والی کنواری اقوام میں سے ایک نجی قوم بھی ہے جو ( دین حق ) کے نقطہ نگاہ سے بالکل کنواری ہے اب زندگی بخش ساری قو تیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کر دی گئی ہیں آپ کی محنت کو پھل نہیں لگے گا جب تک آپ دعا ئیں نہیں کریں گے میرے اللہ کی برکت جس دم میں آجائے وہ دم مسیح بن جایا کرتا ہے ایک قدم، ایک چھلانگ اور ایک جھپٹا اور سارا منجی اللہ تعالیٰ کے فضل سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں پڑا ہوگا رہے ہے

Page 184

مشعل راه جلد سوم 180 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 185

مشعل راه جلد سوم 181 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- ایک غلط رجحان کی بر وقت اصلاح سب سے پہلی بات تو میں یہ کہنی چاہتا ہوں جس کا مجھے ابھی خیال آیا ہے کہ اگر چہ آپ کا جوان خون ہے اور جوان خون میں لازماً جوش اور ولولہ پایا جاتا ہے اور فلک شگاف نعرے لگانے کو دل بھی چاہتا ہے لیکن نئے نئے نعرے نہ ایجاد کیا کریں مثلاً ابھی ایک نعرہ لگایا گیا مثیل مصلح موعود‘ میں تو ایک عاجز انسان ہوں.یہ اللہ کا کام ہے کہ کسی کو کسی کا مثیل بنائے یا نہ بنائے.انسان کا نہ تو یہ مقام ہے کہ وہ اپنی طرف سے ایسی باتیں بنائے نہ اس کے کہنے کی کوئی قدر و قیمت ہے.حقیقت یہ ہے کہ انسان کے دیئے ہوئے القابات اگر شروع ہو جائیں تو ان کی کوئی حد ہی نہیں رہتی.ہندوستان میں پرانے زمانے میں جب نوابی قائم تھی تو نوابوں کو بہت بڑے بڑے القابات دیئے جاتے تھے.بے چارے دو کوڑی کی ریاست کے نواب ہوتے تھے اور پورا صفحہ ان کے نام کے ساتھ القابوں کا لگ جایا کرتا تھا.انسان کے دیئے ہوئے القاب کی قیمت بھی کوئی نہیں اور نہ صرف یہ کہ اس کی مثبت قیمت نہیں بلکہ اس کی منفی قیمت ہے.اس سے قوموں کے رجمان بگڑ جاتے ہیں.ان میں خود پسندی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ وہ مقام آجاتا ہے کہ پیر تو نہیں لیکن مرید سے خوب اڑاتے ہیں.میرا یہ فرض ہے کہ میں آپ کے اخلاق کی گہری نظر سے نگرانی کروں.اللہ تعالیٰ نے مجھے اس منصب پر فائز فرمایا ہے اس لئے پہلی نصیحت تو میں یہ کرتا ہوں کہ جذبات کا مناسب اظہار تو بہر حال جائز ہے اس سے آپ کو کوئی روک نہیں سکتا لیکن وہاں تک رہیں جہاں تک آپ کا دائرہ کار ہے اس سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کیا کریں.ہاں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ خدمت کی توفیق بخشے.یہ ہے اصل محبت ، نہ کہ نعرہ بازی.

Page 186

مشعل راه جلد سوم اجتماعات میں شریک ہو نیوالے خدام 182 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی اس کے بعداب میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ادا کرتا ہوں.پہلے بھی کر رہا تھا اب سورۃ فاتحہ کے دوران بھی خاص کر کیا اور اب پھر اس کا اظہار کرتا ہوں کہ ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ اجتماع بہت ہی کامیاب اور پر رونق نظر آ رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے ہر پہلو سے غیر معمولی ترقی عطا فرمائی ہے.گزشتہ سال جو اضافے ہوئے تھے خدام کی تعداد میں ، آپ کی مجالس کی تعداد میں، اور انصار کی حاضری اور مقامی دوستوں کی حاضری میں، اس کی وجہ سے دل میں ایک خیال سا پیدا ہوا تھا کہ اب آئندہ سال تو شاید تھوڑی سی گنجائش ہو لیکن میرے سامنے جو اعداد وشمار رکھے گئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حیرت انگیز ہیں.چنانچہ پہلے دن ہی ہر پہلو کے لحاظ سے غیر معمولی اضافہ نظر آ رہا ہے.۱۹۸۲ء میں پہلے دن خدام کی حاضری ۵۴۳۴ تھی اس کے مقابل پر آج ۱۹۸۳ء میں ۷۲۸۲ ہے اور ۱۸۴۸ خدام کا اضافہ ہوا ہے.گذشتہ سال ۴۱۸ مجالس پہلے روز شامل ہوئیں تھیں امسال خدا کے فضل سے اس وقت تک ۶۱۵ مجالس شامل ہو چکی ہیں.پچھلے سال زائرین کی حاضری پہلے دن افتتاح کے وقت ۲۰۰۰ تھی اور آج خدا کے فضل سے۲۵۸۰ ہے.خدا کا یہ وعدہ ہے کہ میں اس جماعت کو بڑھاؤں گا اسی طرح سائیکل سوار بھی مختلف علاقوں سے آئے ہیں اور بعض بڑی ہمت کر کے، پتھر کھا کے بھی پہنچے ہیں.انکی تعداد گذشتہ سال ۱۶۹ اتھی اس سال ۱۳۱۶ صرف خدام کی تعداد ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ بے انتہا احسان ہے کہ وہ ہر پہلو سے جماعت کو ترقی پر ترقی دیتا چلا جا رہا ہے.خدا کا یہ وعدہ تھا کہ میں اس جماعت کو بڑھاؤں گا چنانچہ ہم ہر روز بڑی شان کے ساتھ یہ پورا ہوتا دیکھتے ہیں.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے یہ پودا لگایا ہے اور اس کو پر روش دینا، اور اسے بڑھانا، اور اسے برکت دینا، یہ میرا کام ہے.پس یہ وعدہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ساتھ کیا گیا تھا یہ پوری شان کے ساتھ جماعت کی تمام تاریخ میں ہمیشہ پورا ہوتا نظر آتا ہے.پنڈال پہلے سے بہت بڑا بنایا گیا تھا اس خیال سے کہ جگہ تھوڑی ہو جاتی ہے اور باہر کھڑے ہونے والوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اب آپ دیکھ لیں کہ باہر کھڑے ہونے والے پھر بھی باہر کھڑے ہیں اور پنڈال بھرا ہوا ہے.

Page 187

مشعل راه جلد سوم 183 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خدام کو چاہئے کہ وہ اپنے حوصلے بلند کریں یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے وہ برکت پر برکت دیتا چلا جا رہا ہے.اس لئے خدام کو چاہیے کہ وہ اپنے حوصلے بلند کریں.اپنی امیدوں کو بلند کریں.خدا تعالیٰ پر اپنے حسن ظن کو بلند کریں اور وسیع کریں پھر دیکھیں کہ اللہ کس طرح یہ ظرف بھی بھرتا چلا جائے گا اور ظرف بڑھاتا بھی چلا جائے گا کیونکہ ہمارا محسن خدا دیتا تو ظرف کے مطابق ہے لیکن اسی کو یہ طاقت بھی ہے کہ ظرف بھی ساتھ بڑھا دے.چنانچہ آج میں نے خطبہ جمعہ میں جس آیت کی تلاوت کی تھی اس میں یہی وعدہ دیا گیا ہے إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِیمٌ کہ تم میری رضا ڈھونڈو میں تمہیں رضا عطا کروں گا لیکن ساتھ ہی تمہارا ظرف بھی بڑھاتا چلا جاؤں گا.وسعتیں پیدا کرتا چلا جاؤں گا تمہارے حوصلوں میں تاکہ میری زیادہ سے زیادہ رضا جذب کر سکو.دوسرا پہلو جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ جیسا کہ میں نے آج خطبہ جمعہ میں کہا تھا نجی کے دورے کے مزید حالات بیان کرنے سے متعلق ہے لیکن جب میں نے اجتماع کا پروگرام دیکھا تو مجھے خیال آیا کہ پہلے ہی خاصی دیر ہو چکی ہے.پروگرام کے مطابق سوا چار بجے اس افتتاحی خطاب کو ختم ہونا چاہیے اور کھیلوں کا پروگرام شروع ہونا چاہیے تھا لیکن چونکہ پروگرام کچھ تاخیر سے شروع ہوا ہے اس لئے کچھ وقت تو میں زائد لے سکتا ہوں لیکن بہر حال خدام نے کھیلوں میں حصہ لینا ہے.یہ بھی پروگرام کا حصہ ہے اس لئے اس حصے کو کلیۂ قربان نہیں کیا جاسکتا.اس لئے خوشخبریوں سے تعلق رکھنے والی ایک دو اہم باتیں بیان کرنے کے بعد میں انشاء اللہ افتتاحی دعا کروادوں گا پھر آپ اپنے پروگرام جاری رکھیں.آخری دن کی تقریر میں چونکہ نسبتا زیادہ وقت مل جاتا ہے اس وقت میں اس دورے کے بقیہ امور آپ کے سامنے رکھوں گا.سب سے پہلے تو ایک خوشخبری کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کا میں پہلے کراچی کی جماعت میں بھی ذکر کر چکا ہوں.لیکن خدام کے اس وسیع اجتماع میں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کو غیر معمولی خوشخبریاں عطا فرما رہا ہے.اس دورے پر روانہ ہونے سے ایک دن پہلے سندھ کے ایک گاؤں کے ایک دوست کا خط ملا جس میں انہوں نے اپنی ایک رؤیا لکھی تھی کہ میں نے دیکھا کہ الیس الله بِكَافٍ عَبدَہ کی ایک انگوٹھی ہے جس کے حروف میں سے شعاعیں نکل رہی ہیں.پھر وہ حروف باہر آ کر روشنی میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور فضا کو روشنی سے بھر دیتے ہیں.اس وقت مجھے یہ بتایا گیا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ہے.چنانچہ اس خواب سے میں یہی سمجھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ

Page 188

184 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وعدے پورے فرمائے ہیں اور ان وعدوں کا ایفاء ویسے تو جاری وساری ہے لیکن خاص طور پر ان وعدوں کا ایفاء ہوتا میں دیکھوں گا اور اس سفر میں اللہ تعالیٰ کئی طرح سے یہ جلوے دکھائے گا کہ میں اپنے بندے کے لئے کافی ہوں اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی اور حوصلہ ہوا.چنانچہ جب میں سفر پر گیا تو فجی میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک ایسی رؤیا دکھائی جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اس کا بھی دراصل اسی رؤیا سے تعلق تھا جو ہمارے لئے دکھائی گئی تھی.اس رویا میں میں نے دیکھا کہ ایک معزز اور بزرگ خاتون ہیں جن کو میں جانتا ہوں ان کا نام لینے کی ضرورت نہیں میری والدہ کے ساتھ اکٹھے انہوں نے دودھ پیا ہوا ہے وہ بچپن سے برص کی بیماری میں مبتلا ہوگئی تھیں اس لئے شادی بھی نہیں کی.معمر خاتون ہیں.میں نے ان کے متعلق کبھی رویا نہیں دیکھی.زندگی میں پہلی دفعہ ان کو رویا میں نجی میں دیکھا کہ وہ مادرانہ شفقت اور محبت سے مجھے گلے لگا رہی ہیں اور خواب میں میں بڑا تعجب کر رہا ہوں کہ انہوں نے پہلے تو کبھی اتنے پیار کا اظہار نہیں کیا تھا.باوجود اس کے کہ ان کے جسم پر ایک بیماری کا اثر ہے میں اس سے قطعا کسی قسم کا کوئی تر در محسوس نہیں کرتا اور اسی طرح ان کی محبت کا جواب دیتا ہوں.صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں یہ خواب بھول چکا تھا اور بالکل ذہن سے اتر چکی تھی.اب اس کا اگلا پہلو بہت دلچسپ ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس رویا کو یاد کروانے کا انتظام کیا.میرا طریق یہ تھا کہ صبح کی نماز کے بعد تھوڑ اسا آرام کر کے پھر میں ڈاک دیکھتا تھا پھر دفتر چلا جاتا تھا وہاں چوہدری حمید اللہ صاحب کو ڈاک کے متعلق مختلف ہدایات دیتا تھا کچھ ڈاک ان کے پاس پڑی ہوتی تھی وہ پھر میں وہاں دیکھتا تھا تو انہوں نے جو ڈاک دی اس میں ایک خط نکلا جو میری ہمشیرہ کی طرف سے تھا اور اس میں ان کا نام لے کر یہ لکھا ہوا تھا کہ ان کیلئے دعا کریں وہ بیمار ہیں.اور زندگی میں یہ پہلا واقعہ ہوا ہے کہ خط میں ان کا ذکر آیا ہو.اسی وقت میں سمجھ گیا کہ خدا تعالیٰ نے اس میں بھی ایک حکمت رکھی تھی کہ میں اس کو بھول جاؤں اور پھر خاص طور پر یاد کروایا جاؤں تا کہ میں یہ نہ سمجھوں کہ کوئی عام خواب ہے ورنہ ایسا انسان بعض دفعہ تاثر لے لیتا ہے کہ ایک عام خواب ہے.اتفاق سے خواب میں انسان اپنے کسی رشتے دار کو دیکھ بھی لیتا ہے.دراصل اس میں دو پیغام تھے جس کا اس خوشخبری سے تعلق ہے جو پاکستان میں ایک دوست کو خواب کے ذریعہ دی گئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کو روشن حروف میں دکھایا جارہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ پیشگوئی تھی جس کا بائیل میں ذکر ہے کہ کنواریاں اس کا انتظار کریں گی اور مسیح کے متعلق اس کی صفات میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ برص زدہ کو اچھا کرے گا تو اللہ

Page 189

185 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم تعالیٰ نے اس رویا میں دو خوشخبریاں عطا فرمائیں ایک یہ کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جن کنواریوں کو برکت بخشنے کی خوشخبری دی گئی ہے اس سفر میں انشاء اللہ ایسی کنواری قوموں سے ہمارا واسطہ پڑے گا.اور پھر برص دکھائی گئی جو سیح سے تعلق رکھتی ہے کہ مسیح جس بیماری کو شفاء بخشے گا اس میں سے ایک برص ہے.تو خدا تعالیٰ نے ان دونوں کو اکٹھا کر دیا ایک خاتون میں جو کنواری بھی ہیں اور جن کو برص بھی ہے اور ذاتی طور پر ان کے اندر نیکی پائی جاتی ہے.تو یہ بھی خوشخبری تھی کہ یہ بیماری سطحی ہے گہری نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کاموں میں سے جو یہ اہم کام ہے کہ قوموں کو ( دین حق) سے روشناس کرائے گا اس کا وقت آ پہنچا ہے.چنانچہ اس رؤیا کے بعد جب بھی قوم سے ہمارا تعارف ہوا تو معلوم یہ ہوا کہ نبی قوم بھی ان قوموں میں سے ایک قوم ہے جس کو خدا تعالیٰ نے بطور کنواری اور بیمار دکھایا.صورت یہ ہے کہ جب میں نے جائزہ لیا تو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ فجینز (Fijians) میں مسیحیت تو پھیلی ہے لیکن ( دین حق ) نہیں پھیلا اور ( دین حق) کے نقطہ نگاہ سے نجی قوم بالکل کنواری بیٹھی ہوئی ہے.حیرت کی بات ہے کہ ایک لمبے عرصے سے مسلمان بھی وہاں آباد ہیں اور عیسائی بھی آباد ہیں لیکن عیسائیوں کو تو توفیق ملی کہ وہ بنی قوم کو اپنے مذہب میں داخل کریں چنانچہ عیسائیت کی طرف سے بڑے وسیع پیمانے پر ان میں کام کیا گیا ہے لیکن بڑے دکھ کا موقع ہے اور بڑی تکلیف کا مقام ہے کہ عیسائیوں کی اس کوشش کو دیکھنے کے بعد بھی مسلمانوں کے دل میں یہ گد گدی نہیں اٹھی.ان کو یہ خیال نہیں آیا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا جاں بخش پیغام ان کو پہنچائیں کیونکہ اب مسیحیت میں زندہ کرنے کی کوئی طاقت باقی نہیں رہی.اب زندگی بخش ساری قو تیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کر دی گئی ہیں اسی لئے قرآن کریم فرماتا ہے اِستَجِيْبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (الانفال آیت (۲۵) آج ایک ہی آواز ہے جو تمہیں زندہ کرنے کے لئے اپنی طرف بلا رہی ہے اور وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز ہے.پس مجھے بڑا دکھ پہنچا یہ دیکھ کر کہ جہاں زندگی کا چشمہ تھا اس وقت تو بلانے والوں نے نہیں بلایا اور جہاں موت پھوٹ رہی تھی اور شرک بہہ رہا تھا.جہاں پانی کے اندر ایساز ہر ملا دیا گیا تھا کہ وہ پانی جو کسی زمانہ میں زندگی بخشتا تھا اب موت عطا کرنے والا پانی بن چکا تھا اس کی طرف لوگ بڑی کثرت کے ساتھ بلا رہے تھے اور نادان اس کی طرف جا بھی رہے تھے اور نقصان بھی اٹھا رہے تھے.غرض اس رؤیا نے مجھے متوجہ کر دیا کہ خاص طور پر نجی قوم میں (دعوۃ الی اللہ ) کیلئے کوشش کی جائے اور

Page 190

186 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم با قاعدی منصو بہ بنایا جائے اور اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کہ اس کے بعد جب ہم نے مختلف زاویوں سے حالات کا جائزہ لیا، نجی قوم کا گہری نظر کے ساتھ مطالعہ کیا اور بعض فجینز (Fijians) سے ملاقاتیں کیں تو معلوم ہوا کہ یہ قوم اللہ کے فضل سے قبول ( دین حق) کے لئے بالکل تیار بیٹھی ہے پس معمولی سی کوشش کی ضرورت ہے.شفاء بخشنے والا تو اللہ ہے، انسان تو کسی مبروص کو شفا نہیں دے سکتا.دم مسیح تو خواہ مخواہ مشہور ہے اصل تو میرے اللہ کی برکت تھی جس دم میں بھی آجائے وہ دم مسیح بن جایا کرتا ہے اس لئے ہم کمزوروں کے ہاتھوں اگر خدا نے یہ شفا مقدر فرمائی ہے تو یہ اس کا احسان ہے اور مجھے یقین ہے کہ ضرور شفا عطا فرمائے گا کیونکہ یہ رویا اس کے بغیر دکھائی نہیں جاسکتی تھی.چنانچہ اس واقعہ کے دوسرے یا تیسرے دن ہم ایک ایسے جزیرے میں بھی پہنچے جس کا نام Vanualevu (وبنوالیوہ) ہے لیکن اس کے صدر مقام کا نام لمباسا ہے وہاں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شیدائی کافی تعداد میں موجود ہیں وہاں جب ان سے ملاقاتیں ہوئی تو انہوں نے شام کو ایک پروگرام رکھا ہوا تھا جس میں بعض فجینز (Fijians) جو اس علاقہ کے معززین شمار ہوتے تھے ان کو بھی مدعو کیا ہوا تھا اور پروگرام تو یہ تھا کہ صرف سرسری ملاقات ہوگی، چند باتیں ہوں گی، ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنے کے بعد پھر ہمارا جماعت کا پروگرام شروع ہو جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے وہاں بھی غیر معمولی طور پر خود ہی یہ انتظام فرما دیا کہ (دینی) گفتگو چل پڑی.ایک ہندو دوست بھی آئے ہوئے تھے انہوں نے ایک سوال چھیڑ دیا.پھر سوال کے بعد ایک اور سوال، پھر اور سوال.اس طرح وہاں اچھی خاصی لمبی مجلس لگ گئی اور جو نجین (Fijian) دوست تھے وہ عیسائی تھے.اکثر تعلیم یافتہ محبین وہاں عیسائی ہیں.لیکن تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے گہری دلچسپی لینی شروع کر دی اور یہ دیکھ کر مجھے تعجب ہوا کہ با وجود اس کے کہ ایک چھوٹی سی مجلس لگی ہے ایک دم تو انسان کے خیالات نہیں بدلا کرتے لیکن ان میں میں نے یہ حوصلہ بھی دیکھا، یہ ذہانت دیکھی، یہ دل کی سچائی دیکھی کہ جب بات میں ان کو سمجھا تا تھا تو وہ تسلیم کرتے تھے.ساتھ کہتے تھے ہاں یہ ٹھیک ہے اور جتنے مسائل بھی ہوئے ہیں ایک کے متعلق بھی اختلاف پیدا نہیں ہوا یہاں تک کہ جو ہندو دوست شامل تھے انہوں نے بھی تائید شروع کر دی.اور بعد میں انہوں نے کہا کہ آج جو مجلس لگی ہے اس کی ساری باتوں سے ہمیں اتفاق ہے چنانچہ بیمحض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا اور اس نے اس رویا میں جو خوشخبری دی تھی ساتھ ہی اس کو پورا ہوتے دیکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائی اور یہ سمجھا دیا کہ ان کی بیماریاں صرف سطحی ہیں اگر ذرا بھی توجہ دی جائے گی تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ لوگ شفاپا جائیں گے.

Page 191

مشعل راه جلد سوم 187 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی بغیر تیاری کے کس طرح خدمت دین ہوگی علاوہ ازیں اور بھی کئی جگہ محبین (Fijian) سے رابطہ پیدا ہوا ہم نے ہر موقع پر ان کو اچھا دیا.جلدی متاثر ہوتے ہوئے دیکھا.چنانچہ ایک فحسین احمدی وہاں تشریف لائے ہوئے تھے ہمارے ساتھ ایک دن سیر پر بھی گئے.ان کو نہ پوری طرح انگریزی آتی نہ اردو آتی تھی.وہاں تو زبان یا اردو چلتی تھی یا انگریزی چلتی تھی لیکن اس کے باوجود بڑے ہی انہماک سے صبح سے رات تک مجلسوں میں بیٹھے رہتے تھے.سیر پر گئے تو وہ بھی ساتھ تھے.میں نے ان سے چند باتیں کیں.مقامی دوستوں نے ہمیں ایک دوسرے کو اپنا مفہوم سمجھانے میں کچھ مدددی.انہوں نے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ہے احمدیت گئی ہے اور چھ احمدی ہو چکے ہیں اور اگر آپ آدمی بھیجیں دوبارہ ، تو مجھے یقین ہے کہ تھوڑی دیر میں سارا گاؤں احمدی ہو جائے گا.اللہ کے فضل سے.چنانچہ جب میں نے جائزہ لیا کہ اب کس طرح دیہات میں ( دعوۃ الی اللہ ) کی جائے تو یہ کمزوری سامنے آئی کہ اکثر احمدی وہاں فحین (Fijian) زبان نہیں جانتے.یعنی ساری زندگی وہاں بسر ہوتی ہے، بچپن وہاں گزرتا ہے ، جوانی وہاں آتی ہے ، بڑھاپے تک بھی پہنچتے ہیں اور کئی نسلوں سے یہ ہو رہا ہے لیکن محین کی کاویتی زبان کی طرف توجہ نہیں کی.پہلے جب کہ انگریزی حکومت تھی اور عیسائی پادری آیا کرتے تھے انہوں نے ان کے کلچر کا مطالعہ کیا، ان کی مختلف عادات ، ان کے رہن سہن اور ان کے خیالات پر بڑی بڑی کتابیں لکھیں اور بڑی گہری تحقیق کی اور پھر ان کی زبانیں سیکھیں تب جا کر انہوں نے کام کیا ہے تو اب میں نے احمدی نوجوانوں کو خصوصیت سے متوجہ کیا ہے کہ آپ نے خدمت کے عہد کر رکھے ہیں اور اب میں آپ کے چہروں پر بڑا بھاری عزم بھی دیکھ رہا ہوں مجھے نظر آ رہا ہے کہ آپ جو کہتے ہیں سچ کہہ رہے ہیں.آپ کی خواہش ہے کہ ( دین حق ) کی خدمت کریں تو اس خدمت کی تیاری کی بھی تو کوشش کریں.بغیر تیاری کے کس طرح خدمت ہو جائے گی.اس لئے آپ اپنے بچوں کو شروع سے ہی اس نیت کے ساتھ نجی سکولوں میں داخل کرنا شروع کریں کہ وہ نجی زبان سیکھیں اور اس زبان کو صرف سیکھیں ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ تعلقات استوار کریں.بچپن سے ان کے خاندانوں میں داخل ہوں، ان سے میل جول رکھیں، ان کے دیہات میں پھر جانا شروع کریں.جو بڑے ہیں وہ بھی سیکھنا شروع کریں.چنانچہ اس کا انتظام کیا گیا ہے.وہاں ہمارے ایک سے زائد مشن ہاؤسز ہیں.( بیوت الذکر ) اور مشن کی عمارتیں ہیں وہاں با قاعدہ کلاس لگا کرے گی خدام کے لئے ، بڑوں کے لئے اور جہاں تک ممکن ہو عورتیں بھی سیکھیں گی

Page 192

188 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اور بچوں کو نجی سکولوں میں داخل کیا جائے گا.اور یہ بھی پتہ لگا کہ ایک احمدی بچی ہے جو اتفاق سے نجی سکول میں داخل کی گئی ، اصل میں اس کے والد بڑے مخلص اور فدائی احمدی ہیں اور ( دعوۃ الی اللہ ) کا بڑا جوش ہے چنانچہ ان کو یہ خیال آیا کہ میں اپنی بچی کو چین پڑھاؤں تا کہ نبی قوم کے ساتھ رابطہ بھی قائم ہو جائے اور پھر ( دعوۃ الی اللہ ) کے کام میں ترجموں کے کاموں میں آسانی پیدا ہو جائے ، قرآن کریم کی خدمت میں اس بچی کا علم کام آئے ، تو اس بچی کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ اپنے سکول میں نجی زبان میں اول آئی حالانکہ باقی سب محبین (Fijian) بچے تھے.تو اس سے مجھے امید اور بھی بڑھ گئی کہ اللہ تعالیٰ نے احمدی دماغ کو چمک عطا فرمائی ہوئی ہے غیر معمولی ذہانت بخشی ہوئی ہے.احمدی تھوڑی سی کوشش کریں گے تو اللہ کے فضل کے ساتھ بڑی جلدی اس زبان میں مہارت حاصل کر لیں گے.اس کا اب مکمل انتظام کیا جا چکا ہے اور وہاں جماعت نے وعدہ کیا ہے کہ نہ صرف ہم اپنے بچوں کو کا ویتی سکولوں میں داخل کرائیں گے بلکہ بڑے بھی سیکھیں گے اور اس کے علاوہ تعلقات کے دائرے بھی بڑھائیں گے بلکہ ان سب امور میں براہ راست آپ کو رپورٹ کریں گے کیونکہ آخر میں میں نے ان کو یہ تاکید کی تھی کہ ان باتوں میں صرف مجھے دفتری رپورٹ بھیج کر آپ تسلی نہ پایا کریں مجھے آپ کی براہ راست رپورٹ چاہیے کہ آپ نے کتنے بچوں کو با قاعدہ نجی سکولوں میں داخل کرا دیا ہے، کتنی جگہ کلاسیں شروع ہوگئی ہیں، کتنے بڑے با قاعدہ زبان سیکھ رہے ہیں.یہ عظیم لوگ ہیں جن کی وجہ سے سوسائٹی زندہ ہے اس کے علاوہ وہاں ایک بات میں نے محسوس کی جو بہت خوشکن تھی کہ تعداد کے لحاظ سے تو جماعت بہت تھوڑی ہے لیکن اثر کے لحاظ سے غیر معمولی اثر رکھتی ہے.یہاں تک کہ ہندو اور سکھ لیڈر جو ہماری مجالس میں آئے انہوں نے بڑے کھلے لفظوں میں جماعت کی تعریف کی اور کہا کہ یہ عظیم الشان لوگ ہیں.یہ اس زمانے کے قابل احترام وجود ہیں جن کی وجہ سے سوسائٹی زندہ ہے، ان کا ماحول پر نیک اثر ہے.ایسے لوگوں سے جو دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہوں اس قسم کی کھلے لفظوں میں تعریف کا سننا یہ ایک حوصلہ بڑھانے والی بات تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مجھے بہت ہی اطمینان نصیب ہوا ہے کہ جماعت کے اندر پھیلنے کا اور اثر قائم کرنے کا مادہ موجود ہے.پھر وہاں بعض ایسے اساتذہ ہیں جن کے ہاتھوں سے کئی نسلیں تعلیم

Page 193

مشعل راه جلد سوم 189 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ ر حاصل کرتی ہوئی نکلی ہیں.احمدی اساتذہ کی نیکی اور بچوں سے شفقت اور پیار اور سچی ہمدردی کا بڑا گہرا اثر پایا جاتا ہے وہاں کی سوسائٹی میں.چاروں طرف ان کے شاگرد پھیلے پڑے ہیں اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں.وہ اپنے اساتذہ کا بہت احترام کرتے ہیں.پس نبی کی جماعت میں اللہ کے فضل کے ساتھ کام کرنے کی بڑی صلاحیت موجود ہے اور وہ فیصلہ بھی کر چکے ہیں کہ وہ کام کریں گے.میں نے ان کو دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ دعاؤں میں یاد رکھوں گا چنانچہ مجھے جہاں تک توفیق ملتی ہے میں ان کو باقاعدہ دعاؤں میں یاد رکھتا ہوں.لیکن آپ کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ آپ بھی ان کے لئے بکثرت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ان کی توقعات سے بڑھ کر پھل عطا فرمائے ان کی عقلیں حیران رہ جائیں کہ اس طرح خدا تعالیٰ فضلوں کی بارش برسایا کرتا ہے.خدا کے فضل بارش کی طرح نازل ہونے والے ہیں حقیقت یہ ہے کہ نبی کوئی بڑی جگہ نہیں ہے چند دنوں کا قصہ ہے.بس ایک قدم ، اور ایک چھلانگ ،اور ایک جھپٹا مارنے کی دیر ہے سارا نجی اللہ تعالیٰ کے فضل سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں پڑا ہوگا اس لئے میں بڑا پر امید ہو کر لوٹا ہوں اور اپنے رب سے بہت ہی تو قعات وابستہ کر کے آیا ہوں لیکن میں جانتا ہوں.میں کیا اور میری توقعات کیا.میرے خدا کے فضل لا انتہا ہیں اور اس کی عطا کرنے کی قوتیں لا محدود ہیں.جب وہ فضل کرنے پر آئے گا، جب وہ رحم فرمائے گا تو میری تو قعات اس کے مقابل پر اس طرح لگیں گی جیسے کیری کا گھروندا ہو اور کوہ ہمالہ کے دامن میں پڑا ہوا ہو.کوئی بھی اس کی حیثیت نظر نہیں آئے گی.پس آپ بھی دعائیں کریں اور میں بھی دعائیں کروں گا ساری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا انتظار کرے کیونکہ میں دیکھ چکا ہوں، مجھے نظر آ رہا ہے کہ خدا کے فضل بارش کی طرح نازل ہونے والے ہیں اور ساری دنیا میں انشاء اللہ تعالیٰ ( دین حق ) کے پھیلنے کے دن قریب آگئے ہیں.(ماہنامہ خالد ربوہ جنوری 1984 صفحہ 25 تا 34)

Page 194

مشعل راه جلد سوم 190 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 195

مشعل راه جلد سوم 191 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس اطفال الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب فرمودہ 22 اکتوبر 1983ء بچوں کے اخلاق بگاڑنے کے ذرائع سے بچنا ضروری ہے مغربی ممالک کی ان آزاد سوسائٹیوں کے ظلم کے نتیجہ میں وہ نفسیاتی مریض بن کر بڑے ہوتے ہیں بچوں کے خیالات پر بُرے اثرات نہ پڑنے دیں حمید احمدی بچے خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑیں بچو یا در کھو بیچ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے کردار کو بناتی ہے ٹوپی پہننا قومی شعار ہے خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ کے شعبے کو چاہیے کہ وہ سارا سال اطفال کو تحریک کرتے رہیں کہ وہ ٹوپی پہنیں نظم خوانی کے پروگرام بنائے جائیں آئندہ نسلوں کی عظیم ذمہ داری آپ پر ہے

Page 196

مشعل راه جلد سوم 192 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 197

مشعل راه جلد سوم 193 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضرت خلیل اصبع الرابع رساللہ تعالی نے فرمایا.بچوں کے اخلاق بگاڑنے کے ذرائع دنیا میں شیطان نے اپنے دام میں انسان کو پھنسانے کے لئے مختلف قسم کے جو جال پھیلائے ہیں وہ زندگی کے ہر شعبہ پر پھیلائے جا رہے ہیں.ان سے صرف بڑے لوگ ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ چھوٹوں کو بھی متاثر کیا جا رہا ہے.چنانچہ اب ریڈیو کے ٹیلیویژن کے ذریعہ اور اس قسم کے نئے مواصلات کے ذریعہ اور کیسٹ اور وڈیو کیسٹ ریکارڈنگ کے ذریعہ بچوں کے مزاج کو بگاڑا جارہا ہے اور انہیں نت نئی گندگیوں کی طرف مائل کیا جاتا ہے.تا کہ جب وہ بڑے ہوں تو خدا کے نہ رہیں اور بلوغت تک پہنچتے پہنچتے اُن کے رجحانات ہی بالکل بدل جائیں.بچھو تم اس جگہ بیٹھے یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ دنیا میں شیطان نے کس طرح انسانی فطرت کو بگاڑنے کی زبر دست مهم شروع کر رکھی ہے اور کتنی مخرب اخلاق چیزیں ہیں جن میں بچوں کو بھی رفتہ رفتہ ملوث کیا جارہا ہے.اُن میں سے ایک چیز ہے جس کو pornography (پورنو گرافی ) کہتے ہیں.اس سے امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک اتنے زیادہ متاثر ہو چکے ہیں کہ اب وہ اس کے چنگل سے آزاد ہونا بھی چاہیں تو نہیں ہو سکتے اور یہ نہایت ہی مکر وہ خیال ہے اور ایسا بھیانک تصور ہے جو معصوم زندگیوں کو وسیع پیمانے پر تباہ و برباد کر رہا ہے.اس کے ذریعہ معصوم بچوں کو ایسی گندگی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا بیچارے تصور بھی نہیں کر سکتے.ابھی وہ بالغ ہوئے نہیں ہوتے لیکن بچپن ہی سے اُن کو گندگیوں میں ملوث کیا جا رہا ہے.ینگی تصویر میں کھینچ کر بھی اور دوسرے ذرائع سے بھی.یہاں تک کہ اب امریکہ میں بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو انسانی جذبات سے کلیۂ محروم ہو گئی ہے.

Page 198

194 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک کی ان آزاد سوسائٹیوں میں بچوں پر اتنا ظلم کیا جانے لگا ہے کہ اس کے نتیجہ میں وہ نفسیاتی مریض بن کر بڑے ہوتے ہیں اور ایک نہیں، دو نہیں بلکہ ایسے بچے لکھوکھہا کی تعداد میں ہیں جن کی زندگی سے انہوں نے ساری لذتیں چھین لی ہیں اور وہ بڑے ہو کر یا پاگل خانوں میں پہنچ جاتے ہیں یا ایسی زندگی بسر کرتے ہیں جس میں لذت یابی کی خاصیت ہی باقی نہیں رہتی.گندی تحریکات اور ان کا انسداد ان سارے امور پر نظر کرتے ہوئے میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ان گندی اور غلط تحریکات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے بڑوں کی تقریروں اور اُن کا تصنیف کردہ لڑ پچر کافی نہیں ہے.بلکہ ہمیں ایک مقابل کی تحریک چلانی چاہیے جو بچوں کی طرف سے جاری ہو اور ہمارے بچوں میں ان چیزوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت پیدا کی جائے اور اس کے لئے اگر چہ بڑے پروگرام بنا ئیں اور مضامین لکھ کر بچوں کی مدد کریں لیکن اس میں زیادہ تر ہمارے بچے حصہ لیں.مثلاً جب ہم بچوں کو نماز پڑھانے کا طریق بتاتے ہیں یا بچوں کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار کے قصے سناتے ہیں یا بچوں کو بتاتے ہیں کہ اس طرح پرانے زمانوں میں یا اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں کس طرح بچے چھوٹی عمر میں ہی خدا والے بن گئے تھے.تو یہ وہ باتیں ہیں جن کو بجائے اس کے کہ کوئی بڑا ان کو سُنائے بچوں کے پروگرام بنائے جائیں اور ان کی وڈیو ریکاڈنگ کی جائے اور پھر ان کو مختلف زبانوں میں ڈھال کر انگریز بچے انگریزی میں اور جرمن بچے جرمن میں اور چینی بچے چینی میں اور انڈونیشین بچے انڈو نیشین میں اپنی اپنی قوم کے بچوں کو سنبھالنے کا انتظام کریں اور وہ ان کو نمازیں پڑھنے کے طریق سکھائیں.نماز کے آداب بتائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند مقام کے متعلق بچوں کو آگاہ کریں تا کہ اگلی نسل کی پوری پوری تربیت ہو اور ہمارے احمدی بچے ساری دنیا کی رہنمائی کرنے لگیں.پاکستانی بچوں کی منفرد حیثیت اس سلسلہ میں سب سے پہلی ذمہ داری پاکستان کے بچوں پر عائد ہوتی ہے.کیونکہ پاکستان میں سلسلہ کا مرکز قائم ہے اور روحانی طور پر فائدہ اُٹھانے کا جتنا موقع یہاں کے بچوں کو حاصل ہے اتنا باہر کے بچوں کو تو میسر نہیں آسکتا.اس لیے مجلس خدام الاحمدیہ کے شعبہ اطفال کے تحت اب ایسے پروگرام بنے

Page 199

مشعل راه جلد سوم 195 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی چاہئیں کہ جن کے نتیجہ میں ساری دنیا میں نئی قسم کی دلچسپیوں کے پروگرام اور طریقے رائج کئے جائیں کیسٹس (Cassettes) سے فائدہ اُٹھایا جائے.بچوں کی معلوماتی فلموں سے بھی فائدہ اُٹھایا جائے اور وڈیو ریکاڈنگ سے بھی فائدہ اٹھایا جائے.بچوں کے خیالات پر بُرے اثرات بے چارے بچوں کو اس قدر پاگل بنایا جا رہا ہے کہ اب ان کے تصورات ہی بگڑ گئے ہیں.انسانی زندگی کے احساسات وغیرہ جن کا میں نے پہلے ذکر کیا تھا ان کے علاوہ میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں یعنی وہ تو محض گندگی ہے جس کو pormography (پورنوگرافی ) کہتے ہیں.بچوں کے عام خیالات بھی بگاڑے جارہے ہیں.چھوٹی چھوٹی اور ادنی ادنی چیزوں کی طرف بچوں کے میلان بڑھائے جارہے ہیں.مثلاً بے ہودہ حرکتیں ، خوشی کے لغو اظہار جن میں کوئی حکمت نہیں ہوتی ، کوئی معنی نہیں ہوتے.ٹیلی ویژن کے اشتہارات بھی بچوں میں نئے نئے خیالات پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں.یہاں تک کہ بچوں کا out look ( آؤٹ لک ) یعنی زندگی کا نظریہ ہی بدل گیا ہے.ان کے خیالات مسموم ہو چکے ہیں.ان کو پتہ نہیں سچی خوشی کس کو کہتے ہیں؟ بنی نوع انسان کے ساتھ تعلق میں اور غریب لوگوں کی خدمت میں کیا لذت محسوس ہوتی ہے.ان چیزوں سے وہ بالکل نا واقف ہو چکے ہیں.زندگی کو بچوں کا کھلونا بنا دیا گیا ہے اب تو یہ حال ہے کہ بچے کوئی اچھا چا کلیٹ دیکھیں، کوئی اچھی آئس کریم دیکھیں تو ان کو یہ پتہ ہے کہ کس طرح اچھلنا ہے، کس طرح شور مچانا ہے اور کس طرح منہ سے رالیس پیکانی ہیں اور ان کے اشتہار بھی ان کو یہی تربیت دے رہے ہیں.پاگلوں والی حرکتیں کر رہے ہیں اور ایسے ایسے لغو قصے ان کو بتائے جار ہے ہیں کہ جن سے بچوں کے ذہن اور تصور کی دنیا ہی بگڑ رہی ہے.مثلاً اب ان کو یہ بتایا جارہا ہے کہ کس طرح دوسری دنیا کے راکٹ آرہے ہیں اور ان کے ساتھ لڑائیاں ہو رہی ہیں اور بچے ان کو فتح کر رہے ہیں اور اسی طرح ایسے کھلونے ان کے لیے بنا دیئے گئے ہیں، ایسی کھیلیں ایجاد کر دی گئی ہیں جن کے ذریعہ بچے منٹوں کے اندر آسمان سے کلیکسیز کو ختم کرتے اور ستاروں کو زمین پر مار گراتے ہیں.ستاروں کی مخلوق تباہ کر دیتے ہیں اور اپنی طرف سے گویا ان کا دماغ بہت بلند کیا جارہا ہوتا ہے کہ دیکھو ہم کتنے بلند اور طاقتور ہیں.چنانچہ

Page 200

196 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ایک امریکن نے ایک رسالہ میں اس کا ذکر کیا ہے.میں نے خود پڑھا ہے.اس نے لکھا.میر اوہ چھوٹا سا بچہ جو بیٹھا ہوا ستاروں کے ستاروں کو تباہ کر رہا ہو بلکہ ستاروں کے جھرمٹ کو کھیلوں کے ذریعہ ہلاک کر رہا ہو اور بڑی بڑی آسمانی مخلوقات پر غلبہ پارہا ہو اس بچے کو میں کیسے بتاؤں کہ ذرا اپنا ناک تو صاف کرو.یعنی ناک سے گندگی بہہ رہی ہے اور کھیلیں یہ کھیل رہا ہے کہ وہ ساری دنیا کے بڑے بڑے ستاروں پر غلبہ پارہا ہے.یہ محض جہالت کے قصے ہیں اور رجحانات کو تباہ کرنے والی باتیں ہیں.یہ صرف کھیلیں ہیں جو چیزیں بیچنے والوں نے ایجاد کی ہیں تاکہ بچے ان میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لیں.سوائے مادی مقصد کے ان کا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا.ان کو کوئی پرواہ نہیں کہ قوم کے بچوں کی تربیت ہو رہی ہے کہ نہیں ہو رہی.ان میں اعلیٰ اخلاق پیدا ہور ہے ہیں کہ نہیں ہور ہے صرف اقتصادی دنیا ہے جس میں دولت کے حصول کے لیے ہر کوشش جائز ہو چکی ہے.اسی میں بچوں سے بھی کھیلا جا رہا ہے.اس میں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا.ایسے رسالے نکل رہے ہیں جو دنیا کو زیادہ گندگی کی طرف مائل کرتے چلے جارہے ہیں اور بچوں کو بھی آلہ کار بنایا جارہا ہے.احمدی بچے خدا سے تعلق جوڑیں پس ان چیزوں کے مقابل پر احمدی بچوں کو جنگ لڑنے کے لیے تیار ہونا چاہیے.اس کے لئے نئے آلات کے ذریعہ ایسی اعلیٰ تصویریں بنائی جائیں اور ایسے اچھے کردار پیش کئے جائیں کہ ان کو دیکھ کر احمدی بچے بھی سنبھلیں.ان کو بھی پتہ لگے کہ ہمارا رستہ اور ہے اور غیر بھی دیکھیں تو ان کو بھی محسوس ہو کہ احمدی بچے کے کیا افکار ہیں.اس کی کیا بلند پروازیاں ہیں.وہ محض تصور میں آسمان کے ستاروں کو سر نہیں کر رہا بلکہ ان ستاروں کے خدا سے تعلق جوڑنے کی سوچ اور فکر کر رہا ہے.وہ مخلوق کو فتح کرنے کے ہوائی منصوبے نہیں بنا رہا بلکہ خالق کی نظر میں محبوب اور مقرب بننے کی کوششیں کر رہا ہے.احمدی بچے کا یہ کتنا بلند تر مقام ہے دنیا کے اس بچے کے مقابل پر جس نے محض مادی تسخیر کواپنی زندگی کا مدعا بنالیا ہے.نظم خوانی کے پروگرام بنائے جائیں صرف یہی نہیں بلکہ احمدی بچوں کو مغربی تہذیب کی اچھی باتوں ، دلچسپ چیزوں اور سائنسی علوم سے آشنا کرنے کے لئے کوئی مناسب اور دلچسپ انتظام بھی ہمیں بہر حال کرنا چاہیے.مثلاً ایسی وڈیوریکارڈنگ

Page 201

197 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اور ایسی تصویریں جن میں سائنس کی ترقیات زندگی کے واقعات اور جانوروں کے حالات اور اس قسم کی دوسری چیز میں دکھائی جائیں جن کو دیکھ کر بچے لطف بھی اٹھاتے ہیں اور ان کا علم بھی بڑھتا ہے.اس قسم کی چیزوں کو رواج دینا چاہیے.ٹیلیویژن کے بے ہودہ کھیلوں اور گانوں کی بجائے ایسی وڈیو ریکارڈنگ تیار ہونی چاہیے جس میں بچہ نہایت ہی سریلی آواز سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام سنار ہا ہو یا اور نظمیں پڑھ رہا ہو.اسی طرح تلاوت بھی بچوں کی نہایت ہی سریلی آواز میں سنائی جائے اور سکھائی جائے.اس قسم کے بہت سے پروگراموں کی ہمارے پاس گنجائش موجود ہے.باہر سے بھی مطالبے ہورہے ہیں.چنانچہ میں جن ملکوں میں بھی گیا ہوں وہاں کی ہر جماعت کی طرف سے یہ مطالبہ بڑی شدت کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے کہ بچوں کو گندے ماحول سے بچانے کا انتظام کیا جائے.وہ کہتے ہیں ہم اپنے بچوں کو ایسے سکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں جہاں وہ مغربی تہذیب کی برائیوں سے متاثر ہوتے ہیں.ایسے اثرات کو مٹانے کے لئے جماعت ہماری مدد کرے.ورنہ اگر ان باتوں میں زیادہ دیر گزر گئی تو ہوسکتا ہے ہمارے بچے ہاتھ سے نکل جائیں.ان کے رجحانات بدل جائیں.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ احمدی بچوں میں ابھی سعادت اور نیکی کا مادہ موجود ہے.اس عمر میں ان کو سنبھالا جائے تو جلدی سنبھل سکتے ہیں.چنانچہ جہاں کہیں مجھے جانے کا موقع ملا میں نے دیکھا کہ جب ہم شروع میں جاتے تھے تو اُس ماحول کے پیدا ہوئے ہوئے بچوں کی آنکھوں میں عجیب اجنبیت پائی جاتی تھی.بچوں کی طرز زندگی ، اُن کا اُٹھنا بیٹھنا ہم سے بالکل مختلف ہوتا تھا.وہ سمجھتے تھے پتہ نہیں کس دنیا کے لوگ یہاں آگئے ہیں اور ہم سے کیا باتیں کریں گے.جب اُن کے والدین کبھی پیار سے سمجھا کر اور کبھی تھوڑا سا ڈانٹ کر مجالس میں لے کر آتے تھے اور بٹھاتے تھے اور اُن کو باتیں سُناتے تھے.پھر اُن کو کہتے تھے کہ تم اپنے سوال بھی کرو.چنانچہ بعض بچے اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے متعلق سوال بھی کرتے رہے.تو بلا استثنا ہم نے یہ دیکھا کہ تھوڑے عرصہ کے اندر اندر اُن بچوں کی یہ کیفیات بدل گئیں.اُن کے اندر غیر معمولی محبت اور پیار کا جذبہ پیدا ہو گیا.احمدیت کے ساتھ ایک گہرا تعلق قائم ہو گیا اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اُن کی نگاہوں کا اجنبی پن بالکل مٹ گیا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ اب باہر کی چیزیں نہیں بلکہ اندر کی چیزیں بن گئے ہیں.وہ جماعت کے وجود کا ایک حصہ بنتے نظر آرہے تھے.احمدی بچوں نے ساری دُنیا کے بوجھ اُٹھانے ہیں.پس اُن کا یہ مطالبہ تو درست ہے کہ ان کے بچوں کی تربیت کے لئے جماعت اُن کی مدد کرے.لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ مرکز کی طرف سے ایسے دورے ہوں

Page 202

مشعل راه جلد سوم 198 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ کہ گویا ساری دُنیا میں مرکز کا کوئی نہ کوئی آدمی ہر وقت موجود رہے.مربیان ہیں.اُنکی تعداد بھی تھوڑی ہے اور وہ ہر جگہ ہر ملک میں نہ تو موجود ہیں.جہاں موجود بھی ہیں وہاں احمدیوں کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی زیادہ ہے کہ سب بچوں کی تربیت کر ہی نہیں سکتے.اس لئے صرف لٹریچر کے ذریعہ اس طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ نئے آلات کے ذریعہ ہمیں تربیت کے پروگرام بنانے پڑیں گے اور میں بچوں سے یہ کہتا ہوں کہ اب آپ نے بڑے ہو کر ساری دُنیا کے بوجھ اٹھانے ہیں.اس لیے ابھی سے اپنی فکر کر ہیں.اس عمر میں اگر آپ کی صحیح تربیت ہو جائے تو پھر ہمیشہ کے لئے آپ کو ضمانت مل جائے گی.آج جو اچھی عادتیں آپ اپنے اندر پیدا کرلیں گے وہ آپ کو ساری زندگی میں کام دیں گی.آج کا بچہ کل کا احمدی نو جوان بن رہا ہو گا.پرسوں کا احمدی بوڑھا بن رہا ہو گا.اس لئے آج ہی اپنے اخلاق کی طرف توجہ کریں اپنی عادات کی طرف توجہ کریں.اپنے حالات کی طرف توجہ کریں اور اُن کو درست کرنے کی کوشش کریں.سچ بولیں اور جھوٹ سے نفرت کریں بچو ! آپ سے ایک چھوٹا سا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ آپ عہد کریں کہ ہمیشہ سچ بولیں گے اور گندی زبان استعمال نہیں کریں گے.لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کتنے احمدی بچے ہیں جو اس عہد کو خاص طور پر پورا کر رہے ہیں.(اس موقع پر بہت سے اطفال نے ہاتھ اُٹھا لئے تو حضور نے فرمایا ) ہاں ٹھیک ہے.میں نے ابھی ہاتھ اُٹھانے کے لیے نہیں کہا تھا خدا کرے یہ سارے بچے اپنے عہد کو پورا کر رہے ہوں.لیکن بعض دفعہ کوئی احمدی گالی دیتا ہے تو اس کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ میں گالی دے رہا ہوں.اس لئے اپنی طرف سے آپ نے سچائی سے بھی ہاتھ کھڑے کئے ہوں لیکن ابھی تک یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سارے بچے وہ ہیں جو بالکل گالی نہیں دیتے.جن کو گالی کی عادت پڑ گئی ہو ان کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ گالی دے رہے ہیں.قادیان میں ایک بزرگ ہوتے تھے جن کو لوگ ماٹا صاحب کہتے تھے.مانا صاحب مرحوم کے متعلق قصہ یہ مشہور ہے کہ ویسے تو وہ بڑے نیک آدمی تھے لیکن پیدائشی احمدی نہیں تھے.اُن کو بچپن سے گندی گالیاں دینے کی عادت پڑی ہوئی تھی.حضرت خلیفتہ امسیح الاول نور اللہ مرقدہ کے پاس کسی نے شکایت کی کہ حضور آپ ان کو سمجھا ئیں.آپ اس سے بڑا پیار کرتے ہیں.گو یہ اچھے نو جوان ہیں (اُس زمانہ میں تو یہ نو جوان تھے ) لیکن گندی گالیوں کی عادت ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الاول نور اللہ مرقدہ نے اُن کو بلایا اور بڑے پیار سے سمجھایا کہ دیکھیں آپ بڑے اچھے آدمی ہیں، نیک ہیں، نمازی ہیں لیکن یہ جو آپ لوگوں کو

Page 203

199 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم گندی گالیاں دیتے ہیں یہ ٹھیک نہیں.یہ بات آپ کو بجتی نہیں.اس پر وہ نہایت گندی گالی دے کر کہنے لگے کہ کس جھوٹے نے حضور کو بتایا ہے.میں تو گالی دیتا ہی نہیں.غرض بعض دفعہ پتہ بھی نہیں لگتا.اس لئے یہ نظام سلسلہ کا کام ہے کہ وہ بچوں پر نظر رکھے اور ان کو بتائے کہ تمہارے اندر یہ یہ بُرائیاں موجود ہیں.تم ان کو دور کرنے کی طرف توجہ دو اور اپنی اصلاح کی فکر کرو.بچو ! یا درکھو سچ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے کردار کو بناتی ہے.مگر اب سچ غائب ہوتا چلا جارہا ہے.اب تو بڑوں کی سوسائٹی میں بھی یہ ایک ایسا جانور بن گیا ہے جس کو شاید کہیں کہیں آپ دیکھیں.ورنہ عام طور پر یہ کہیں نظر ہی نہیں آتا اور بے چارے انسان کا عجیب حال ہے کہ دنیا کے جو عام جانور ہیں جب وہ کم ہونے شروع ہو جائیں تو اُس کو اُن کی فکر پڑ جاتی ہے اور کہتا ہے کہ ان کو بچانے کا انتظام کرو.چنانچہ آسٹریلیا میں ابھی لاکھوں کی تعداد میں کنگرو ہے.لیکن ان کو فکر پڑی ہوئی ہے کہ یہ جانور نظروں سے غائب نہ ہو جائے.یہ کم ہوتا چلا جارہا ہے.اس کی حفاظت کا انتظام کیا جائے.اسی طرح طوطوں کی حفاظت کا انتظام ہو رہا ہے.چیلوں کی حفاظت کا انتظام ہو رہا ہے.گدھوں کی حفاظت کا انتظام ہو رہا ہے.کو آلہ (Kuala) ایک جانور ہے.اس کی حفاظت کا انتظام ہو رہا ہے.غرض ان قوموں کو تو یہ فکر ہے کہ جانور بھی نظروں سے غائب نہ ہو جائیں.لیکن یہاں سچ غائب ہو رہا ہے اور کسی کو اس کی کوئی فکر نہیں.بلکہ کہتے ہیں سیچ غائب ہو ہی جائے تو اچھا ہے.جہاں بھی ظاہر ہوتا ہے مصیبت ہی ڈالتا ہے.مگر اسے بچو ! آپ نے اس کی حفاظت کرنی ہے.آپ احمدی بچے ہیں.آپ نے اس میدان کو جیتنا ہے.اگر آپ نے سچ کی حفاظت نہ کی تو پھر آئندہ کبھی کوئی اس کی حفاظت کرنے والا نظر نہیں آئے گا.یہ سچ کی عادت ہے جو انسان کے کام آیا کرتی ہے.اگر آج آپ کو خدانخواستہ جھوٹ کی عادت پڑ گئی تو پھر بڑے ہو کر آپ کو کوئی سچا نہیں بنا سکے گا.اگر بنا سکے تو اس پر بہت محنت کرنی پڑے گی.جھوٹ ایک ایسی گندی عادت ہے کہ وہ انسان کے اندر آہستہ آہستہ راسخ ہو جاتی ہے اور پھر جھوٹے کو بعض دفعہ پستہ بھی نہیں لگتا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے وہ جھوٹ بولتا چلا جاتا ہے.کہانیاں بنائے جاتا ہے.یہ اس کی عادت بن جاتی ہے.چنانچہ ہمارے جھنگ کے ماحول میں ایسے لوگ بڑی کثرت سے ملتے ہیں جن کو جھوٹ بولنے کی عادت ہے.اس ضلع میں بہت زیادہ کثرت کے ساتھ جھوٹ بولا جاتا ہے.جو لوگ جھوٹی باتیں کر رہے ہوتے ہیں اور نظر آرہا ہوتا ہے کہ جھوٹ بول رہے ہیں لیکن اُن کو پتہ ہی نہیں لگ رہا ہوتا.وہ بیٹھے بیٹھے جھوٹی کہانیاں بنائے جاتے ہیں.

Page 204

مشعل راه جلد سوم ترقی کا راز 200 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی پس اگر خدانخواستہ احمدی بچوں نے جھوٹ بھی بولنا شروع کر دیا تو پھر اس قوم کو سنبھالے گا کون؟ پھر تو یہ قوم ہمارے ہاتھ سے نکل گئی.کیونکہ یہ سچائی ہی ہے جو انسانی زندگی کے کام آتی ہے.سچائی سے ہی دنیا بنتی ہے اور سچائی سے ہی دین بنتا ہے.سچائی سے ہی مادی ترقیات نصیب ہوتی ہیں اور سچائی ہی کے ساتھ روحانی ترقیات نصیب ہوتی ہیں.جھوٹ کے تو نہ یہاں قدم سکتے ہیں.نہ وہاں قدم سکتے ہیں اس لئے اے بچو ! آپ کی دُنیاوی ترقی کا راز بھی اس بات میں مضمر ہے کہ آپ بچے ہو جائیں.آپ کی دینی ترقی کا راز بھی اس بات میں ہے کہ آپ بچے احمدی بن جائیں اور سچ کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کریں اور جھوٹی بات کو سننا بھی برداشت نہ کریں.اگر کوئی بچہ مذاق میں بھی جھوٹ بولتا ہے تو اُس کے جھوٹ پر بھی آپ بالکل نہ نہیں.بلکہ حیرت سے دیکھیں اور اُسے کہیں.یہ تم کیا بات کر رہے ہو.یہ مذاق کا قصہ نہیں ہے.مذاق کرنا ہے تو بچے مذاق کرو.ایک دوسرے کو لطیفے سناؤ اور اس قسم کی باتیں کرو جن سے حاضر جوابی کا مظاہرہ ہوتا ہو.جھوٹ بولنے سے مذاق کا کیا تعلق.یہ تو گندگی ہے.جہاں بھی جھوٹ دیکھیں وہاں اُس کو بائیں اور اُس کی حوصلہ شکنی کریں.بلکہ اگر آپ کے ماں باپ میں یہ عادت ہے تو اُن کو بھی ادب سے کہیں کہ ابا امی آپ نے تو ہمیں سچائی سکھانی تھی.یہ آپ کیا کر رہے ہیں یا کیا کہ رہے ہیں؟ احمدی والدین ہو کر جھوٹ بول رہے ہیں.یہ بات آپ کو بتی نہیں.پس اگر سارے بچے سچ بولنے کی عادت ڈالیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ اُن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتنی نعمتیں اور کتنے فضل نصیب ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ ان لوگوں ہی کو ملتا ہے جو بچے ہوں.اگر آپ بچے بن جائیں گے تو اس بچپن کی عمر میں بھی آپ کو خدامل جائے گا.اگر اس عمر میں جھوٹ بولنے کی عادت پڑ گئی تو بڑے ہو کر نہ خود خدا کے فضل حاصل کر سکو گے، نہ دنیا کو خدا کی طرف بلاسکو گے.اس لئے میں سب بچوں کو بہت تاکید کرتا ہوں کہ ہمیشہ سچ بولیں اور سچائی کو بڑی مضبوطی کے ساتھ پکڑیں.ٹوپی پہنا قومی شعار ہے بچو! اب آخر میں آپ سے ایک چھوٹی سی بات یہ کہتا ہوں کہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شاید میں نے گزشتہ سال بھی آپ سے یہ کہا تھا کہ مجالس میں ٹوپی پہنا کریں.احمدی مجالس میں ٹوپی پہن کر بیٹھنا چاہیے

Page 205

مشعل راه جلد سوم 201 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی لیکن اس وقت مجھے یہ نظر آ رہا ہے کہ اکثر بچے ننگے سر اس لئے بیٹھے ہیں کہ وہ گھر سے ٹوپی لے کر نہیں چلے.معلوم ہوتا ہے کہ ٹوپی پہنے کی عادت اتنی مٹ گئی ہے کہ انہوں نے ٹوپی کو زاد راہ میں شامل ہی نہیں کیا.اب یہاں پہنچ کر شریف بچے اپنے سر کے گرد چادر میں لپیٹ رہے ہیں.کوئی قمیص اونچی کر کے سر ڈھانک رہا ہے.کسی نے چادر سر پر رکھ لی ہے.کسی نے رومال لپیٹنا شروع کیا ہے.کسی نے مفلر باندھنا شروع کیا ہے.مگر بعضوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے.وہ بے چارے کیا کریں اب وہ قمیص اتار کرسر پر تو نہیں پہن سکتے.گو تھوڑی بہت شرم و حیادکھائی دیتی ہے.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ٹوپی پہنے کا تصور مٹتا جارہا ہے.حالانکہ یہ بہت اہم چیز ہے اور بچوں کے کردار سنوارنے میں اس کا بڑا دخل ہے.اس لیے بچے اس کو معمولی چیز نہ سمجھیں.اگر سارے بچے ایک ہی قسم کی ٹوپیاں پہن کر یہاں بیٹھے ہوتے ، اندازہ کریں یہ مجلس کتنی خوبصورت لگتی.اس وقت میرے سامنے جو بچے بیٹھے ہوئے ہیں وہ ٹوپیاں پہن کر آئے ہیں.ان کو دیکھیں ما شاء اللہ کتنے اچھے لگ رہے ہیں.ان کے اندر ذمہ داری کا احساس نظر آ رہا ہے.یہ بے ٹوپیوں والوں کی نسبت زیادہ پیارے لگ رہے ہیں اور زیادہ اچھے دیکھائی دے رہے ہیں.اس لئے میں ان بچوں سے جو ٹوپی نہیں پہنتے یہ کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی تہذیب کو کیوں اپناتے ہیں.وہ احمدی بچے ہیں.ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ احمدیت نے دنیا کو ایک نئی تہذیب دینی ہے اور اس تہذیب میں یہ بات داخل ہے کہ ہم اپنے سر ڈھانک کر رکھیں.اس سے ذمہ داری کا بہت بڑا احساس پیدا ہوتا ہے.اطفال الاحمدیہ کا امتیازی نشان پس اطفال الاحمدیہ کی مجالس میں آئندہ سے کوئی بچہ ننگے سر نظر نہیں آنا چاہیے.پس خدام الاحمدیہ یا اطفال الاحمدیہ کے شعبے کو چاہیے کہ وہ سارا سال اطفال کو تحریک کرتے رہیں کہ وہ ٹوپی پہنیں اور اگر ممکن ہو تو ایک ٹوپی ستی ہی لیکن خوبصورت ڈیزائن کی مجلس خدام الاحمدیہ تیار کر کے اس کو عام رواج دے اور وہ اطفال الاحمدیہ کی ٹوپی ہو جس پر مثلا کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ لکھا ہوا ہو.ٹوپی ہر احمدی بچے کا نشان بن جائے گا.بہت پیاری سی ٹوپی پر کلمہ طیبہ کی خوبصورت کی لہر بن جائے.آج کل بچوں میں جو کپڑے رائج کئے جاتے ہیں اُن پر عجیب اوٹ پٹانگ فقرے لکھے ہوئے ہوتے ہیں اور ایسی زبانوں میں لکھے ہوئے ہوتے ہیں جن کا بچوں کو کچھ پتہ ہی نہیں لگتا.بچے آنکھیں بند کر کے ان فیشنوں کے پیچھے چلتے رہتے ہیں.پس اپنے بچوں کو کوئی بہتر فیشن دینا پڑے گا تا کہ وہ بھی کوئی چیز دنیا کے سامنے پیش کریں ان

Page 206

مشعل راه جلد سوم 202 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ میں سے ایک یہ ٹوپی ہے.یہ ضروری نہیں کہ ٹوپی کے اوپر ضرور کچھ نہ کچھ لکھا ہوا ہو.یہ میرا مقصد نہیں.میں کوئی حکم نہیں دے رہا لیکن ایک خیال ظاہر کر رہا ہوں یہ تجربہ بھی کیا جاسکتا ہے اور نہیں تو آپ کا جو بیج تھا جس پر کلمہ لکھا ہوتا تھا اس کو ساتھ پہننے کا رواج ہے.میں نے دیکھا ہے پرانے زمانہ میں جب اطفال اجتماع پر آیا کرتے تھے تو اسی بیج کو وہ اپنی ٹوپی پر بھی ٹانک دیا کرتے تھے.یا بعض دفعہ اپنی قمیص یا کوٹ کے اوپر لکھا کرتے تھے.اچھے اخلاق اور قومی روایات کی حفاظت کریں پس یہ جو رواج ہیں یہ قوم کے اچھے اخلاق اور قومی روایات کی حفاظت کرتے ہیں.اس لئے ان کو معمولی سمجھ کر بھلا نہیں دینا چاہیے ورنہ آج جو ننگے سر بچے بڑے ہو رہے ہیں اُن کے متعلق اس بات کا زیادہ احتمال ہے کہ وہ مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر کئی قسم کی خرابیوں کا شکار ہو جائیں.پھر اگر مغربی تہذیب کہے گی کہ سرمنڈوانا شروع کرو اور اُسترے پھر واؤ اور Skin Head(سکن ہیڈ ) بن کر نکلو.وہی لوگ ہیں جنہوں نے بڑے ہو کر سر مونڈھنے ہیں.لیکن جن کو بچپن سے ٹوپی پہننے کی عادت ہوٹو پی اُن کی حفاظت کرے گی.اور ایسے بچے مغربی تہذیب سے اول تو متاثر نہیں ہوں گے.اگر ہوئے بھی تو بہت کم ہوں گے.اس لئے یہ بہت اہم چیزیں ہیں.ان کی طرف آپ کو بہت توجہ کرنی چاہیے.ایک نصیحت.ایک حقیقت اب ہم دُعا کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے احمدی بچوں کو عظیم کردار عطا کرے اور بڑے ہو کر ساری دنیا کی تربیت کی توفیق عطا فرمائے (اس موقع پر بچوں نے زور زور سے آمین کہنی شروع کر دی تو حضور نے فرمایا ) بچو! آہستہ دل میں آمین کہو.خدا کوئی بہرہ یا گونگا تو نہیں ہے نعوذ باللہ من ذالک.یا اُس کے کان خراب تو نہیں ہو گئے کہ جب تک آپ اُونچی آواز میں نہیں کہیں گے اُس کو سنائی نہیں دے گا.بعض دفعہ اونچی آمین کہنے کے نتیجہ میں دل ساتھ حرکت ہی نہیں کر رہا ہوتا.صرف زبان سے ہی آمین نکل رہی ہوتی ہے.اس لئے آمین کا مطلب سمجھیں.آمین کا مطلب ہے اے میرے اللہ ! میری اس دعا کو قبول فرما.تو اس آمین کہنے میں تو عاجزی ہونی چاہیے.مگر آپ کی آمین کہنے سے تو لگتا ہے کہ جس طرح آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے قبول کر لیا ہے.اس لئے آپ دل میں آمین کہیں.یہ خدا کی آواز ہے جو سب دنیا کی آوازوں

Page 207

مشعل راه جلد سوم 203 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ سے اونچی ہے اور ساری دنیا میں سنائی دیتی ہے.اگر وہ آپ کی دعا قبول کرتے ہوئے آپ پر فضل نازل فرمائے تو پھر تو مزہ آئے گا.لیکن آپ اونچی آمین کہہ رہے ہوں اور اللہ میاں توجہ ہی نہ کرے.کیونکہ دل سے آواز نہ اٹھ رہی ہو تو یہ اچھی بات نہیں ہے.اس لئے جب میں دعا کا کہتا ہوں تو میرا مطلب یہ ہے کہ دل میں دعا کریں اور اگر آمین کہنا ہوتو بالکل ہلکی آواز میں کہیں.یعنی منت اور عجز اور انکساری کے ساتھ دعا کے رنگ میں آمین کہیں.آئندہ نسلوں کی عظیم ذمہ داری آپ پر ہے میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ ہمارے احمدی بچوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگین ہو کر اخلاق فاضلہ سیکھیں ، ان کے اندر اعلیٰ کردار پیدا ہو، دنیا کو فتح کرنے والا کردار.احساس کمتری اُن کے دل سے مٹ جائے.اُن کو اس بات کا یقین ہو کہ وہ ایک اچھے معاشرہ کے محافظ ہیں اور دُنیا کو اچھی قدریں دینے کے لئے نکلے ہیں اُن کو یہ بھی پتہ ہو کہ وہ دُنیا کے رہنما بننے والے ہیں.دُنیا سے جھوٹ اور جھوٹی عزتوں کو مٹا کر اُنہوں نے ساری دُنیا کو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں داخل کرنا ہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.ہماری نسلیں صحیح تعلیم وتربیت پا کر بڑی ہورہی ہوں اور دُنیا کی خدمت و راہنمائی کی عظیم ذمہ داریوں کو کما حقہ اُٹھانے والی ہوں.اللہ کرے کہ ہم بھی وہ دن دیکھیں !‘ ( آمین ) ( مشعل راہ جلد چہارم صفحہ 338 تا 347)

Page 208

مشعل راه جلد سوم 204 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 209

مشعل راه جلد سوم 205 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کے اختتامی خطاب سے اقتباس فرموده 23 اکتوبر 1983ء ایک عظیم انقلاب اور ہماری ذمہ داریاں آپ جو خدام الاحمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں یہ آپ کا عبادت کا زمانہ ہے وہ لوگ جو جوانی میں عبادت نہیں کرنا جانتے ان کی بڑھاپے کی عبادتیں بھی بے کار ہوتی ہیں بنی نوع انسان کی ہمدردی اے احمدی نو جوانو ! اٹھو اور دنیا میں پھیل جاؤ اور خدا کی محبت کی وہ بنسیاں بجاؤ جو اس دور کے کرشن نے تمہیں عطا کی ہیں ☆ ☆ ☆

Page 210

مشعل راه جلد سوم 206 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 211

مشعل راه جلد سوم 207 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضور رحمہ اللہ نے دورہ نجی کے بعد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے جو خطاب فرمایا اُس کا متعلقہ حصہ پیش ہے:.ایک عظیم انقلاب اور ہماری ذمہ داری..........اب میں آخر پر آپ کو دو باتوں کی طرف خصوصیت سے توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس سارے سفر میں میں نے یہ محسوس کیا اور میں بار بار پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ ہماری مجموعی طاقت بھی اس لائق نہیں ہے کہ دنیا میں وہ عظیم انقلاب بر پا کر سکے جس کی ذمہ داری ہمارے نازک کندھوں پر ڈالی گئی ہے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کہ میں کسی نفس پر بوجھ ڈالتا ہی نہیں جب تک اس میں وسعت نہ ہوتو ہمارے تخمینے جو بھی کہیں یہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم میں کوئی نہ کوئی مخفی وسعتیں ضرور ہیں جن کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ہم پر یہ بوجھ ڈالا ہے.وہ وسعتیں کیا ہیں؟ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے نمونہ بنا کر بھجوایا اور ایک کامیاب نمونہ کے طور پر آپ نے زندگی گزاری اور حیرت انگیز ناممکن کام کر کے دکھا دیے تو خدا تعالیٰ نے ہمیں جو وسعت عطا کی ہے وہ غلامی کی وسعت ہے.راز کی بات یہ بنی جہاں جا کر تان ٹوٹتی ہے کہ اگر تم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچے غلام بن جاؤ گے تو میں تمہاری وسعتوں کو بڑھاتا چلا جاؤں گا.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت تو بہت تفصیلی مضمون ہے لیکن قرآن کریم نے اس کا دولفظوں میں خلاصہ بیان فرما دیا ہے کہ انسان کے تعلقات کے دو ہی رخ ہیں.ایک سمت خدا ہے اور ایک طرف مخلوق ہے.یا خدا سے تعلق ہے یا مخلوق سے.

Page 212

208 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم جہاں تک خدا تعالیٰ سے تعلق کا مضمون ہے سب سے زیادہ سب سے عظیم الشان جو القاب عطا فر مایا گیا وہ عبد اللہ کا ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے غلام، اللہ کے بندے تھے اور عبودیت کے تمام باریک سے باریک پہلوجو ممکن ہیں ، جو انسان سوچ سکتا ہے یا نہیں بھی سوچ سکتا ان سب پہلوؤں تک آپ کی رسائی اور آپ کی نظر تھی اور آپ نے انہیں اپنے عمل میں ڈھال لیا تو کامل عبد بن گئے.یعنی خدا تعالیٰ سے تعلق کے اظہار کا آخری نتیجہ یہ بنتا ہے کہ انسان اپنے مولیٰ کا غلام ہو جاتا ہے.غلام کن معنوں میں ہو جاتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَ نُسُكِي وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنِ (الانعام: 163 ) کہ اب میرا اپنا کچھ بھی نہیں رہا جو کچھ ہے وہ خدا کا ہو چکا ہے پس ان معنوں میں اگر ہم اپنے رب سے تعلق مضبوط کریں اور اللہ کے غلام بن جائیں، اللہ کی عبادت کے گر سیکھ جائیں تو ہمارا ایک پہلو بڑا مضبوط ہو جاتا ہے جب لڑائی کرنے والا لڑائی کے لئے جاتا ہے تو اس کے دو پہلو ہوتے ہیں تو دونوں پہلو مضبوط ہونے چاہئیں.ایک پہلو تو ہمارا بڑا مضبوط ہو جاتا ہے اور دوسرا پہلو کونسا ہے دوسرا پہلو بنی نوع سے تعلق ہے اس سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا یہ خلاصہ بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ رحمۃ للعالمین تھے.تمام بنی نوع انسان تمام جہانوں کے لئے آپ رحمت تھے.تو یہ دوگر ہیں انہیں آپ سیکھ جائیں اور ان پر عمل کرنا شروع کر دیں تو ساری دنیا آپ کے قدموں میں پڑی ہوگی پھر دنیا کی کوئی طاقت آپ کا مقابلہ نہیں کر سکے گی.کیونکہ خدا کے وہ بندے جو عبادت کے حقوق بھی ادا کرتے ہیں اور بنی نوع انسان پر رحمت اور شفقت کے ساتھ مائل ہوتے ہیں اور ان کے لئے قربانیاں کرتے ہیں خدا کے یہ بندے ہمیشہ فتح کے لئے پیدا کئے جاتے ہیں اور ان کے مقدر میں مغلوب ہونا نہیں لکھا جاتا.پس خدا کے عبادت کرنے والے بندے بنیں.عبادت کرنے کی طرف توجہ کریں عبادت میں جو بڑے وسیع مفہوم ہیں وہ انسانی زندگی کے ہر دائرہ پر حاوی ہیں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اور رحمتہ للعالمین میں جو مضامین ہیں وہ انسانی زندگی کے اس سارے دائرہ پر حاوی ہیں جس کا تعلق بنی نوع انسان سے ہے لیکن میں یہ دیکھتا ہوں کہ ابھی عبادت کی طرف جیسا کہ حق ہے پوری طرح

Page 213

مشعل راه جلد سوم 209 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی توجہ نہیں ہے.عبادت کے کئی مراحل ہیں اور آپ جو خدام الاحمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں یہ آپ کا عبادت کا زمانہ ہے وہ لوگ جو جوانی میں عبادت نہیں کرنا جانتے ان کی بڑھاپے کی عبادتیں بھی بے کار ہوتی ہیں سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کا فضل غیر معمولی طور پر کسی کو تو فیق عطا فرمائے.حقیقت یہ ہے کہ جوانی ہی وہ دور ہے جس میں عبادت کرنے کا مزہ بھی آتا ہے اور عبادت کرنے کی توفیق بھی زیادہ ملتی ہے بڑھاپے میں تو کمزوریاں اور بیماریاں ہیں ہڈیاں دکھتی ہیں انسان خواہش بھی کرتا ہے تو بعض دفعہ آنکھ نہیں کھلتی ، آنکھ کھلتی ہے تو دماغ سستی اور کمزوری کا شکار ہو چکا ہوتا ہے.طبیعت میں زور نہیں رہتا اور انسان اپنی عبادت میں جان نہیں ڈال سکتا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے استثناء ہیں، جو استثناء آپ کو نظر آئیں گے ان میں سے اکثر وہ لوگ نظر آئیں گے جنہیں جوانی میں عبادت کی عادت پڑی تھی وہی عبادتیں ہی جو پھر آگے بڑھاپے میں بھی ان کا ساتھ دیتی رہیں تو عبادت کی طرف توجہ کریں.اور بڑے اہتمام اور توجہ سے نماز با جماعت قائم کریں اور صرف نماز با جماعت ہی کو قائم نہ کریں بلکہ خدام کو بار بار یاد دہانی کروائیں کہ وہ نماز میں اللہ تعالیٰ کے تعلق کو ہمیشہ یادرکھا کریں اور زندہ رکھا کریں.اکثر نماز پڑھنے والے ایسے ہیں کہ وہ نماز پڑھنے کے عادی بھی ہیں لیکن غفلت کی حالت میں نماز ادا کرتے ہیں.سورۃ فاتحہ ایک ایسا بڑا خزانہ ہے جو نہ ختم ہونے والا ہے لیکن اس پر بھی پورا غور نہیں کرتے.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ عبادت قائم کریں تو مراد یہ ہے کہ عبادت کو اس کی کچی روح کے ساتھ قائم کریں.عورتیں بھی، بچے بھی ، مرد بھی ، بوڑھے اور جوان بھی.جہاں جہاں احمدی ہو وہ خدا کا سب سے زیادہ عبادت کرنے والا بندہ بن جائے اور عبادت کا جھنڈا اٹھا لے کیونکہ خدا تعالیٰ عبادت کرنے والوں کو کبھی ضائع نہیں کیا کرتا.ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ دنیا کے مقابل پر عبادت کرنے والوں کو ہلاک ہونے دے.اس لئے جتنی زیادہ مخالفت باہر سے ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ آپ کو عبادت کی ضرورت ہے.آپ جانتے ہیں کہ یہی وہ مرکزی نقطہ تھا جس کو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے دن دعا کے لئے اختیار فرمایا، جب ایسی نازک حالت تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ چند لمحوں کے اندر دشمن کی قوی فوج چند بیچارے نہتے اور کمزور اور ایسے مسلمانوں کو جن میں بوڑھے بچے اور بہت ہی کمزور، بیمار اور لنگڑے بھی شامل تھے، انہیں تہ تیغ کر کے رکھ دیں گے.ان کے ٹکڑے اُڑا دینگے اس وقت بظاہر تو یہی نظر آ رہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرفان نے آپ کو یہ گر سکھایا کہ آج سب سے زیادہ مقبول دعا وہ ہوگی جس میں عبادت کا حوالہ دیا جائے گا.اس دن آپ نے خدا کے حضور روتے ہوئے یہ عرض کیا کہ اے خدا! اگر آج تو نے اس

Page 214

210 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کمزوری جماعت کو ہلاک ہونے دیا، فَلَنْ تُعْبَدَ فِي الْاَرْضِ اَبَدًا.پھر کبھی قیامت تک تیری عبادت نہیں کی جائے گی کیونکہ عبادت کرنے والے تو میں نے تیار کئے ہیں اور میں نے عبادت کے گر تجھ سے سیکھے تھے.کبھی کسی عبادت کرنے والے نے تیری ایسی عبادت نہیں کی تھی.جیسی محبت اور پیار اورعشق کے ساتھ میں نے کی.یہ لوگ میرے پروردہ ہیں انہیں عبادت کے راز میں نے سکھائے ہیں.اے خدا! اگر آج تو انہیں مٹنے دے گا تو کون ہے پھر جو تیری عبادت کرے گا.اس میں دھمکی نہیں تھی ( نعوذ باللہ من ذالک) اس کا تصور بھی نہیں ہوسکتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گویا خدا کو دھمکی دے رہے ہیں.یہ بھی عشق کا اظہار تھا کہ میرا دل برداشت نہیں کر سکتا کہ دنیا تیری عبادت سے خالی ہو جائے.میری اتنی محنت ہے.میں نے اس رستہ میں اپنا خون بہایا.تیری راہ میں تکلیفیں اٹھائیں.کیوں؟ اس لئے کہ عبادت کرنے والے پیدا کردوں اور آج مجھے نظر آ رہا ہے کہ یہ بظاہر ایک طاقتور دشمن کے مقابل پر مغلوب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، اگر تیر افضل شامل نہ ہو.خدا نے اس دعا کو کس طرح سنا؟ ان چند لوگوں کو یہ قوت عطا فرمائی کہ انہوں نے سارے مکہ کے جگر کاٹ کر پھینک دیئے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ اہل مکہ نے اپنے جگر پیش کر دیے تھے.جنہیں مسلمانوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا.ان کے سارے غرور اس دن تو ڑ دیے گئے اور اسلام کی فتح کی داغ بیل اگر ڈالی گئی تھی تو بدر کے دن ڈالی گئی تھی.بہت ہی عظیم الشان وہ دن تھا لیکن عبادت کے زور پر جیتا گیا ہے کسی انسانی طاقت سے نہیں جیتا گیا.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی وہ عارفانہ دعا تھی جس نے اس دن کی کایا پلٹی ہے.ہماری سب سے بڑی دولت پس آج ہم اس ساری دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے نکلے ہیں آج تو ہماری وہ نسبت بھی نہیں ہے.۳۱۳ اور ایک ہزار میں تو کوئی نسبت ہو سکتی ہے لیکن ارب ہا ارب انسانوں کے مقابل پر ہم احمدیوں کی حیثیت ہی کیا ہے.ایک کروڑ کا اندازہ لگایا گیا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ پورا کروڑ ہو.کم و بیش بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کے مقابل پر کئی ارب آبادی ہے اور پھر ساری طاقتیں بھی ان لوگوں کے ہاتھ میں ہیں اور وہ لوگ دنیا کی طاقتوں کے سرچشموں پر بیٹھے ہوئے ہیں.سیاست ان کے ہاتھ میں ہے.دولتیں ان کے پاس ہیں.دنیا کے دیگر نظام فلسفہ، سائنس اور دیگر علوم ان سب کے سرچشموں پر وہ بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ حسب توفیق دنیا میں بانٹ رہے ہیں.اب احمدیوں کے پاس کیا ہے؟ اس دنیا کے مقابل پر تو کچھ بھی نہیں لیکن

Page 215

مشعل راه جلد سوم 211 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی ایک چیز ہے جو دنیا کے ہاتھ میں نہیں ہے.اس لحاظ سے دنیا تہی دست اور فقیر ہے خالی دامن لے کر بیٹھی ہوئی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے.پس اگر اس دولت سے بھی آپ ہاتھ دھو بیٹھیں، اگر اس دولت سے بھی بے اعتنائی کر جائیں.اجتماعوں میں حاضر ہوں اور یہاں پانچ نمازیں بھی پڑھیں اور تہجد بھی پڑھیں اور واپس جا کر یہ بوجھ اس طرح اتار کر پھینکیں جس طرح گدھا سفر کی صعوبت کے بعد جب گھر پہنچتا ہے تو اس کے بوجھ اتار کر پھینک دیے جاتے ہیں.تو پھر تو اس زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوگا.اس اجتماع کی رونق کا کوئی مقصد نہیں ہوگا.بالکل بے کار جائے گی.میری نظر میں اس کی کوئی بھی قیمت نہیں اس لئے کہ میرے خدا کی نظر میں اس کی کوئی قیمت نہیں ہے آپ عبادت سیکھنے کے لئے یہاں آئے ہیں.عبادت سیکھ کر جائیں اور اپنی عبادت میں روح بھر دیں اور اپنی عبادت میں خدا تعالیٰ کی محبت اور عشق کی چاشنی ملا دیں پھر دیکھیں آپ ایک بدلی ہوئی قوم ہوں گے.ایک نئی قوم کے طور پر دنیا میں ابھریں گے.خدا کی محبت اور پیار کی نظریں ہر اس جگہ پر پڑیں گی.جہاں خدا کی عبادت کرنے والا احمدی بس رہا ہو گا.پھر کیسے ممکن ہے کہ دنیا آپ کو شکست دے سکے.پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ نہ جیتیں اور دشمن جیت جائے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ؎ گڑھے میں تو نے سب دشمن اتارے ہمارے کر دیئے اونچے منارے تو عبادت کے منارے ہی تھے جو اونچے کئے جارہے تھے اور وہ خدا سے دوری کے گڑھے تھے جن میں وہ دشمن اتارے جارہے تھے.پس اس بلند و بالا مینار پر قدم رکھیں جو عبادت کا مینار ہے اور خدا کے حضور جھک جائیں اور اپنی روحوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیشہ سجدہ ریز رکھیں.عبادت کرنا سیکھیں اور لوگوں کو سمجھائیں اور اگر عبادت میں کچھ عرصہ گزر جائے اور آپ کی آنکھیں تر نہ ہوں آپ کے دل میں ہیجان پیدا نہ ہو تو اپنی فکر کریں.ایک جرمن احمدی کا واقعہ ایک جرمن احمدی دوست تھے جو اپنی بڑی عمر میں ہی احمدی ہوئے تھے اور احمدی ہوئے ابھی دو چار سال گزرے تھے تو وہ مجھے ملے.ان کی یہ بات مجھے بڑی پیاری لگی انہوں نے کہا کہ اگر ایک ہفتہ ایسا گزر جائے کہ جب اللہ کی راہ میں میری بدقسمت آنکھیں آنسو نہ بہائیں تو مجھے بڑی تکلیف پہنچتی ہے اور میں کہتا

Page 216

212 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہوں خاک ہے ان آنکھوں پر کیوں مجھے یہ آنکھیں ملی ہیں؟ جو اللہ کی راہ میں آنسو پہ آنسو نہیں بہانا جانتیں.اور پھر میرا دل اس غم سے ایسا بھر جاتا ہے کہ پھر عشق خدا ابھرا بھر کر اور اہل اہل کرمیری آنکھوں سے برسنے لگتا ہے.تو اگر آپ کو یہ توفیق نہ ملے تو اس قسم کی دردناک باتیں سوچا کریں جیسے اس جرمن کو خدا نے تو فیق عطا فرمائی.کوشش کریں اور بے شک مصنوعی طریق اختیار کریں لیکن محبت میں تصنع نہ ہو درد پیدا کرنے میں بے شک تصنع سے کام لیں.اگر یہ درد ایک دفعہ دل میں پیدا ہو جائے تو پھر وہ خود پکڑے گا اور آپ کی ساری ہستی پر یہ غالب آجائے گا.اس لئے خدا تعالیٰ کی عبادت اس طرح کریں کہ اس میں پیار اور محبت شامل ہو جائے.بنی نوع انسان کی ہمدردی جہاں تک دوسرے حصہ کا تعلق ہے یعنی بنی نوع انسان کی ہمدردی اس میں رحمۃ للعالمین کا خطاب جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فر ما یا وہ اس جنگ میں ہمارا دوسرا باز و مضبوط کر رہا ہے.آپ کی حفاظت کے لئے دائیں طرف عبادت کھڑی ہو جائے گی اور بائیں طرف بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی آپ کی حفاظت کر رہی ہوگی.اس ہمدردی کا راز یہ ہے اور رحمت قرار دینے میں حکمت یہ ہے کہ الہی جماعتوں کی شدید مخالفتیں ہوا کرتی ہیں اور الہی جماعتوں کے خلاف شدید نفرتیں پیدا کی جاتی ہیں اور بعض دفعہ کم حوصلہ لوگ رستہ میں ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور پھر نفرتوں کا جواب نفرت سے دینے لگ جاتے ہیں یا جہاں جہاں انہیں طاقت نصیب ہو وہاں وہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمارا حق ہے کہ نفرت کا جواب نفرت سے، پتھر کا جواب پتھر سے، جوتی کا جواب جوتی سے دیں.رحمتہ للعالمین ایک ایسی کیفیت ہے جو کسی وقت بھی نفرت میں تبدیل نہیں ہوتی کسی حال میں بھی انسان کو منتقم نہیں بناتی بلکہ بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی کی یہ کیفیت مسلسل زندہ رکھتی ہے.پس جماعت احمدیہ کے لئے یہ بہت ہی ضروری ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں رحمت بنے کی کوشش کریں.دنیا آپ کو لاکھ گالیاں دے آپ پر پتھراؤ کرے.آپ کے گھروں کو جلانے کے عزائم کرے.لاکھ سکیمیں بنائے اور دنیا کے ملک ملک میں آپ کے خلاف تحریکیں چلائے.آپ کے امن کو برباد کر دے لاکھ کوشش کرے کہ جڑوں سے اکھیڑ کر پھینک دے.ایک ایک احمدی کو اپنے گھروں میں اور پھر ان کے گھروں کو جلا کر خاکستر کر دے.نفرتیں جو بد شکل اختیار کر سکتی ہے وہ کر جائیں جو

Page 217

مشعل راه جلد سوم 213 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ بھیا نک صورتیں سچائی کی دشمنی اختیار کرسکتی ہے.جو روپ دھار سکتی ہے وہ روپ دھارلے اس کے باوجود رحمتہ للعالمین کی غلامی کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی رحمت پر آنچ نہ آئے اگر آپ کی رحمت پر آنچ نہیں آئے گی تو آپ کی ذات پر بھی آنچ نہیں آئے گی آپ کو ہر نفرت کا جواب محبت سے دینا پڑے گا.اپنے دلوں کو ٹول ٹول کر نفرت کے خیالات کو دلوں سے نکال کر باہر پھینک دینا ہوگا.پاک کریں اپنے دلوں کو اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے اسوہ سے رنگین کر لیں پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ آپ کو ہر مقام پر، ہر میدان میں ، ہر ملک میں، ہر براعظم میں کیسی عظیم الشان فتوحات عطا فرماتا چلا جائے گا.آج دنیا کو خدا تعالیٰ کی محبت کی ضرورت ہے.اللہ کی محبت اختیار کریں عبادت اور رحمت ان دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی محبت میں محو ہو جائے.سچی رحمت بھی خدا کی محبت سے ہی پھوٹتی ہے یہاں جا کر تو حید کا مضمون کامل ہوتا ہے کہ محد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جب خدا کے عابد بنے اور عبد بنے اور بنی نوع انسان کے لئے رحمت بنے تو یہ ایک ہی چیز کے دو نام تھے.اللہ ہی کی محبت ہے جو کبھی خدا کی عبادت کے رنگ اختیار کر جاتی ہے اور کبھی بنی نوع انسان کے لئے رحمت کا رنگ اختیار کر جاتی ہے پس آپ کو خدا کی محبت کے گیت گانے پڑیں گے.ساری دنیا میں وہ سرالا اپنے پڑیں گے جو ساری دنیا کو خدائے واحد کی طرف واپس کھینچ کر لے آئیں.فرانس کا ایک واقعہ آپ نے شاید وہ واقعہ سنا ہو یا نہ سنا ہو لیکن ایک کہانی کے طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ فرانس کے ایک قصبہ میں ایک دفعہ چوہوں کی وبا بہت پھیل گئی اور ان چوہوں کی وجہ سے اس قصبہ کے باشندوں کے لئے جینا عذاب ہو گیا.چوہے ان کی ہر غذا کھا جاتے تھے.بیماریاں پھیلاتے تھے.ان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے تھے.کسی طرح ان کی پیش نہیں جاتی تھی اور وہ بڑھے چلے جارہے تھے یہاں تک (قصہ میں یہ بیان ہوا ہے کہ) ایک دن انہوں نے دیکھا کہ ایک بنسی بجانے والا آیا جو کہ اجنبی تھا اور اس کے متعلق جو تحقیق ہوئی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کا ایک واقعہ ضرور ہوا ہے اور وہ بنسی بجانے والا آیا ضرور تھا اگر چہ بعد میں مبالغہ آرائی کر لی گئی لیکن وہ کسی ذریعہ سے ان کے بچوں کو جیسا کہ بعد میں کہانی بتاتی ہے.اغوا کرنے میں

Page 218

214 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم بھی کامیاب ہو گیا تھا یعنی اس کہانی کی جو آج کل تحقیق ہوئی ہے وہ ہمیں بتا رہی ہے.ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ وہ کہاں سے آیا.بہر حال اس نے کہا کہ مجھے اس طرح بنسی بجانی آتی ہے کہ آپ کے سارے چوہے میری جنسی کی لے پر میرے پیچھے چل پڑیں گے.مجھ سے سودا کرو مجھے اتنی قیمت دو تو میں تمہارے شہر کو چوہوں سے پاک کر دیتا ہوں.اہل شہر اتنے تنگ آئے ہوئے تھے کہ اس کی منہ مانگی مراد انہوں نے دینے کا وعدہ کر لیا.اس نے بنسی بجائی اور کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ اس کی لے پر ہر طرف سے چوہے اچھلتے کودتے ایک دوسرے کے اوپر گرتے پڑتے دوڑتے ہوئے اس کی طرف چلے آئے.بلوں سے نکل نکل کر چھتوں، پر چھتیوں سے اتر اتر کر دیواروں اور جنگلوں سے شہر کی گلیوں، کونوں کھدروں سے الغرض ہر طرف سے بے انتہاء چوہے نکلے وہ آگے آگے بنسی بجاتا ہوا چلا جا رہا تھا اور چو ہے اس کے پیچھے دوڑتے چلے آ رہے تھے یہاں تک کہ وہ ایک دریا کے کنارے پر پہنچا اور بنسی بجاتا ہوا دریا میں داخل ہو گیا اور وہ سرے چو ہے اس کے پیچھے چلتے ہوئے دریا میں داخل ہوئے اور غرق ہو گئے.چنانچہ وہ واپس آیا اور اہل شہر سے کہا کہ لاؤ اب میرا منہ مانگا انعام دو.انہوں نے کہا جاؤ جاؤ گھر بیٹھو جا کر.چوہوں کو دوبارہ لا سکتے ہو تو بے شک لے آؤ.اب وہ ڈوبے ہوئے چوہے تو بنسی کی آواز نہیں سن سکتے تھے.اس نے کہا بہت اچھا، اگر آپ ایسے بدعہد ہیں تو مجھے اس بنسی کی اور بھی سریں یاد ہیں.چنانچہ دوسرے دن اس نے ایک ایسی سر بنسی میں پھونکی کہ جس کے نتیجہ میں ان کے بچے اس کی محبت میں پاگل ہو گئے چھوٹے چھوٹے بچے ماؤں کی گودوں میں اچھلنے لگے کہ ہم اس آدمی کے پیچھے جانا چاہتے ہیں.ماؤں اور باپوں نے روکا مگر وہ ان کے ہاتھوں کی بندشیں اور جکڑیں تڑا تڑا کر اس کے پیچھے بھاگ پڑے اور سارے قصبہ کے بچے اس کے پیچھے چلے گئے.کہتے ہیں کہ ایک چٹان تک اسے جاتے دیکھا گیا پھر پتہ نہیں چلا کہ وہ بھی ان کے ساتھ ہی چٹان سے کود کر ہلاک ہوا یا صرف بچے ہی ہلاک ہوئے لیکن سارے کے سارے بچے اس چٹان سے کود گئے اور پھر اہل شہر کو ان کی کوئی خبر نہیں ملی.شیطان کی بنسی یہ ایک کہانی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ آج یورپ اور امریکہ اور مغربی دنیا اور ان کے زیر اثر ملکوں کا یہی حال ہے آج مغربیت کی لے پر شیطان بنسی بجا رہا ہے اور خدا کے بندے دھوکہ کھا کر لاعلمی میں اس جنسی کی سر اور دھن میں مسحور ہو کر ہلاکتوں کی طرف دوڑے چلے جارہے ہیں.ایک ایک ملک میں وہ بنسی

Page 219

مشعل راه جلد سوم 215 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ بجانے والا مغربیت کے نام پر ظاہر ہوتا ہے اور قوموں کی قوموں کو تباہ کرتا چلا جا رہا ہے.انسانیت کے ٹکڑے اڑا رہا ہے اور وہ آنکھیں کھول کر دیکھ رہے ہیں کہ ہم کدھر جا رہے ہیں لیکن بے بس اور بے اختیار ہیں.وہ شیطان ہلاکت کی چٹانوں کی طرف اس بنسی کی سر میں انہیں مسحور کر کے اور پاگل بنا کر لے جاتا ہے اور انہیں ہلاک کر کے پھر واپس لوٹتا ہے پھر اور نسلوں کو ہلاک کرنے کے لئے آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بنسی آپ اس کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ آپ کے پاس وہ کونسا جادو ہے جو اس بنسی کے اثر کو توڑ دے.وہ میں آپ کو بتا تا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے الہاماً بتا دیا ہے کہ وہ کون سا جادو ہے.ایک نبی ایسا تھا جو بنسی بجانے والا نبی تھا اس کا نام کرشن تھا.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دور کے غلام کو بھی کرشن کا نام عطا کیا گیا ہے وہ خدا کی محبت کی سریں الا پا کرتا تھا اور اسی وجہ سے اسے جنسی بجانے والا کرشن کنہیا کہا جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اس زمانہ کے امام کو کہ میں وہ راگ عطا کرنے والا ہوں.ایسے سر عطا کروں گا کہ ساری دنیا کے دل خدا کے لئے جیت لئے جائیں گے اور یہ بنسی جیتے گی اور شیطان کی بنسی اس کے مقابل پر ہار جائے گی اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی.اے احمدی نوجوانو! اٹھو! پس اے احمدی نوجوانو! اٹھو اور دنیا میں پھیل جاؤ اور خدا کی محبت کی وہ بنسیاں بجاؤ جو اس دور کے کرشن نے تمہیں عطا کی ہیں وہ بنسیاں جودنیا کی بنسیاں ہیں ان کے دن لکھے جاچکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ راگ وہ گاتے ہیں جن کو آسمان گاتا نہیں وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں برخلاف شہر یار تو اس یقین کے ساتھ آپ اٹھیں کہ ان کی بنسیوں کے دن گنے جاچکے ہیں یہ ماضی کا قصہ بننے والے راگ ہیں یہ وہ راگ الاپ رہے ہیں جو خدا نہیں گاتا.خدا نہیں سکھاتا اور شہر یار خدا کے ارادوں کے برخلاف راگ الاپ رہے ہیں.آپ کون سے گیت گائیں گے؟ آپ کو کونسی بنسی عطا ہوئی ہے جو ایسے سر الا پے جو خدا کی مرضی کے تابع ہوں.اس کے متعلق مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.

Page 220

مشعل راه جلد سوم 216 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے پس یہ مسیح موعود علیہ السلام کے عشق خدا اور عشق رسول کے گیت لے کر دنیا میں نکل جائیں اور پھر آپ کی لے پر فرشتے بھی آپ کے پیچھے یہ گیت گائیں گے اور ساری دنیا کو محبت اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق سے بھر دیں گے.آپ ہیں جن کی بنسیاں جیتیں گی.آپ ہی ہیں جن کے پیچھے دنیا کے دل موڑے جائیں گے اور وہ آپ کے پیچھے ہجوم در ہجوم اور جوق در جوق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا کی محبت کی جنت میں داخل ہونے کے لئے آجائیں گے مگر آج اس بنسی کی آواز مدھم ہے آپ کو اس آواز کو بلند کرنا پڑے گا.آپ کو جگہ جگہ پیار اور محبت کے گیت اتنے بلند سروں میں گانے پڑیں گے کہ دنیا کی بنسیوں کی آواز میں اس کے نیچے دیتی چلی جائیں.پس اے احمدی نوجوانو! اٹھو کہ تم سے آج دُنیا کی تقدیر وابستہ ہے تم نے حیات بخش نغمے گانے ہیں.تم نے خدا کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت عطا کر کے زندہ کرنا ہے.جاؤ اور پھیل جاؤ دنیا میں، جاؤ فتح ونصرت تمہارے قدم چومے گی، کیونکہ خدا کی یہ تقدیر ہے جو بہر حال پوری ہوگی.دنیا میں کوئی نہیں جو اس تقدیر کو بدل سکے.اب آئیں مل کر الحاح اور درد کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکیں اور دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ہمارے نیک ارادوں کو دوام بخشے اور ہماری توقعات سے بہت بڑھ کر پورا فرمائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی کچی محبت ایسی عطا کرے کہ جو ہمارے سارے وجود پر غالب آجائے.ہم اپنے رب کے لئے جئیں اپنے رب کے لئے مریں اس کے لئے ساری دنیا میں دیوانے بن کر خدا تعالیٰ کے سادھو بن جائیں.اس کرشن کے جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے ہمیں خدا کا تابع بنانے کے لئے ایک راگ الاپا ہے.خدا کرے کہ ہمیں یہ تو فیق ملے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ مجھے نظر آ رہا ہے کہ احمدیت کی فتح کے دن قریب سے قریب تر آ رہے ہیں اور میں اس کی چاپ سن رہا ہوں.خدا کی قسم! اس لئے آپ اپنے دل بدلیں.خدا کی تقدیر فیصلہ کر چکی ہے کہ آپ کو غالب کرے.الفضل جلسہ سالانہ نمبر 1983 صفحہ 7 تا 15 )

Page 221

مشعل راه جلد سوم 217 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے دیئے گئے استقبالیہ سے خطاب فرمودہ 23 اکتوبر 1983ء سپاسنامے پیش کرنے کی رسم کو توڑیں.جتنا آپ دور نبوت سے دور جاتے ہیں اتنا احتیاط زیادہ کرنی پڑتی ہے.منصب خلافت کی خاطر میری ہر چیز قربان ہے.تمام عہدیداران کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہر احمدی کے قربانی کے معیار کو بلند کیا جائے.تفسیر قرآن اگر کرنی ہے تو اس نے کرنی ہے جس کو اللہ تعالیٰ تو فیق عطا فرمائے گا.امن عالم کو در پیش خطرات سے کس طرح بچا جا سکتا ہے.ہمیشہ خلافت کے تابع رہیں.ہر حالت میں امام کے پیچھے چلیں.☆ ☆ ☆ ☆

Page 222

مشعل راه جلد سوم 218 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 223

مشعل راه جلد سوم 219 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:- اظہار تشکر کا مومنانہ طریق اس موقع پر کھانے کے بعد سب سے پہلے تلاوت قرآن کریم ہوئی جو محترم حافظ مظفر احمد صاحب نے کی.تلاوت کے لئے انہوں نے سورۃ کہف کے گیارھویں رکوع کا انتخاب کیا جو يَسْتَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ سے شروع ہوتا ہے.تلاوت کے بعد مکرم مرزا محمد الدین ناز صاحب نے سپاسنامہ پیش کرنا تھا.اس کے متعلق حضور نے فرمایا:- ”سپاسنامہ تو مناسب نہیں ہے کہ خواہ مخواہ بیٹھ کر میری تعریف شروع کر دیں.نعوذ باللہ من ذالک.یہ فضول رسم ہے.اگر ویسے سفر سے میری واپسی پر اللہ تعالی کے شکر کے اظہار کے طور پر کچھ کہنا چاہتے ہیں تو پھر بے شک کہیں.سپاسنامے پیش کرنے کی رسم کو توڑیں.اس بات کو ختم کریں.یہ فضول چیز ہے.اس سے بچیں.ہاں اس موقع پر دعائیہ کلمات کہہ دیئے جائیں تو اچھی بات ہے لیکن لمبے چوڑے سپاسنامے پیش کرنے سے پھر آہستہ آہستہ آپ غلط راستوں پر چل پڑیں گے.ایک وقت تک ہو گیا اگر ہوا ہے.بات حد کے اندر رہے تو ٹھیک رہتی ہے لیکن جتنا آپ دور نبوت سے دور جاتے ہیں اتنا احتیاط زیادہ کرنی پڑتی ہے ورنہ یہ چیزیں اگر شروع میں معصومیت میں بھی کی گئی ہوں تو آگے جا کر پھر ان سے بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے پھر خواہ مخواہ زمین و آسمان کے قلابے ملنے شروع ہو جاتے ہیں اس لئے میں ان چیزوں کو پسند نہیں کرتا.اب آپ نے کچھ کہنا ہے تو وہ جو مبالغہ آمیزیاں ہیں ان کو چھوڑ کر آپ بے شک کہیں.اگر اس میں

Page 224

مشعل راه جلد سوم 220 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی کوئی غلط بات ہوئی تو میں کہدوں گا کہ یہ غلط ہے.“ اس پر ناز صاحب نے سپاسنامہ پیش کیا.اور پھر تشہد تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور نے فرمایا :- میں مجلس خدام الاحمدیہ کے تمام اراکین کا مجلس عاملہ کا بھی اور مجالس عامہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس دعوت پر مجھے مدعو کیا اور اپنے اس خطاب میں جو ا بھی استقبالیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے اس میں جملہ خدام کی قربانی کے جذبات کو نہایت عمدہ لفظوں میں پیش کیا گیا ہے.نظریات کو واقعات کے ساتھ ہم آہنگ کرناضروری ہے یہ درست ہے کہ ہر احمدی کا دل اللہ تعالیٰ کی راہ میں فدا ہونا چاہیے اور یقیناً اس کے دل کے جذبات وہی ہوں گے جو پیش کئے گئے ہیں.یہ کہ جان.مال.عزت آبر و غرضیکہ زندگی کا ذرہ ذرہ خدا کے دین پر نچھاور کرنے کے لئے تیار رہیں گے.لیکن اگر آپ واقعاتی لحاظ سے حالات پر نظر ڈال کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ہمارے اندر بہت کمزوریاں پائی جاتی ہیں نظریاتی قربانیوں کا معیار اونچا ہے اور عملی قربانیوں کا معیار نیچا ہے اور ان کے درمیان پلیٹ فارمز کا فرق ہے.ایک اور پلیٹ فارم پر واقع ہے اور دوسری اور پلیٹ فارم پر واقع ہے.تاہم یہ مراد نہیں ہے کہ نعوذ باللہ سب کا یہ حال ہے.سب ایسے نہیں لیکن ایسے واقعات کثرت سے نظر آتے ہیں کہ جب ادنی ادنی ابتلاء آئیں تو لوگ گھبرا جاتے ہیں.چھوٹی قربانی کرنی پڑے تو بعض پیچھے ہٹ جاتے ہیں.قائد خدام الاحمدیہ بلانے کے لئے جاتا ہے تو اندر سے پیغام آجاتا ہے کہ ابا جان گھر پر نہیں ہیں.قائد مجلس کسی اجلاس کے لئے ان کو روکتا ہے تو کہتے ہیں ہمیں جلدی ہے ہم نے جانا ہے.ان کا نفس کئی بہانے بناتا ہے.ان واقعات کو دیکھ کر محض لفظوں پر دل کس طرح تسلی پاسکتا ہے اس لئے میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جذبات کے لحاظ سے یہ درست ہے کہ ہمیں تیار ہونا چاہیے لیکن نظریات کو جب تک واقعات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کریں گے.جب تک جذبات کو واقعیت عطا نہیں کریں گے اس وقت تک ہم بڑے انقلاب کے خواب نہیں دیکھ سکتے.دیکھ سکتے ہیں لیکن ان کی کوئی تعبیر نہیں ہوگی کیونکہ یہ بھی خواہیں ہیں اور وہ بھی خوا میں ہیں ان سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا.اس لئے میں آپ کو

Page 225

221 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم پھر نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں تک خلافت کے ساتھ محبت کا تعلق ہے اس کا اظہار بے شک کریں میں خود اس دور سے گذر چکا ہوں.میرا اپنا بھی یہی جذبہ تھا میری بھی یہی کیفیت تھی اور اب بھی ہے.جو آپ کی ہے.ان جذبات میں تو کوئی مبالغہ نہیں ہے یہی ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے جود نیا کو ایک لمبے عرصہ کی محرومی کے بعد دوبارہ عطا ہوا ہے.اس لئے اس کو ہرگز مبالغہ نہیں کہتا.خلافت سے محبت وعقیدت کے جذبات کو، مگر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ جذبات محبت کو حقیقت بھی تو بننا چاہیے.صرف دلوں کے ساتھ کھیلنے والے جذبات نہیں ہونے چاہئیں.خدام الاحمدیہ کا عہد اور اس کے تقاضے صرف نظریات میں بسنے والے جذبات نہیں ہونے چاہئیں بلکہ تمام عہدیداران کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہر احمدی کے قربانی کے معیار کو بلند کیا جائے اور جب اس کا دل کسی تقاضے سے گھبرائے تو اس کو کچوکا دیا کریں.ان کو جگایا کریں اس سے پوچھا کریں کہ تم یہ جو باتیں کرتے ہو کہ ہم یہ کریں گے وہ کریں گے اور ہر دفعہ عہد دہراتے ہوئے کہتے ہو کہ میں جان.مال.وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گا تو کیا یہ دم وہ دم نہیں ہے جس دم کے تم نے وعدے کئے تھے.کیا یہ عزت وہ عزت نہیں ہے.کیا یہ مال وہ مال نہیں ہے جسے قربان کرنے کے لئے تم نے عہد کیا تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ عزتوں کی قربانی میں بھی معیار بہت کمزور ہے کیونکہ بہت باتوں پر لوگ بڑی جلدی سیخ پا ہو کر شکایتیں بھیجتے رہتے ہیں کہ یوں ہماری عزت میں فرق پڑ گیا.فلاں نے اسطرح سے سلوک کیا.فلاں نے یوں کیا.حالانکہ زندگی کی یہ ساری باتیں ہمارے عہد کے اندر داخل ہیں.یہ باتیں ہوتی رہتی ہیں.اگر کسی عہد یدار کی غلطی سے کسی کی بظاہر بے عزتی بھی ہو جائے تب بھی جس نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ میرا رہا ہی کچھ نہیں سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان ہے شکایت تو بعد میں کر دے تاکہ زیادتی کرنے والے کی اصلاح ہو جائے لیکن اپنا صدمہ اس کو نہیں ہونا چاہیے.کیونکہ جس کے دل میں سچا ایمان اور خلوص ہوتا ہے وہ بہر حال اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ جتنا میں کسی کی غلطی سے گرایا گیا ہوں اتنا اللہ کی نظر میں اٹھایا گیا ہوں اور خدا کی نظر میں میرا مرتبہ بڑھ چکا ہے.یہ ہے وہ حقیقت حال جس کے ساتھ خدام کو زندہ رہنا چاہیے.

Page 226

مشعل راه جلد سوم 222 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حقائق کی دنیا میں رہنا سیکھیں دوسری بات میں یہ کہوں گا کہ اس وقت قرآن کریم کی تلاوت کے لئے جن آیات کا انتخاب کیا گیا ہے اس سے میرا ماتھا ٹھنکا تھا کہ کچھ اس قسم کی باتیں سپاسنامہ میں کریں گے چنانچہ سپاسنامہ کے بارہ میں میرا رد عمل اسی وجہ سے تھا.میں نے آپ کو بار ہا سمجھایا ہے.میرا فرض ہے میں آپ کو سمجھاؤں، آپ کے جذبات محبت کی قدر بھی کروں لیکن آپ کو حقائق کی دنیا میں رکھوں اور آپ کے دائرہ کار سے آپ کو باہر قدم نہ رکھنے دوں.قرآن کریم کی اس طرح کی تفسیر کر دینا کہ گویا ایک خلیفہ وقت نے پچھلے سال مغرب کا سفر کیا اور پھر اب مشرق کا سفر کیا تو گویا وہ ذوالقرنین بن گیا.صحیح نہیں ہے.یہ تو انسان کے بس کی باتیں نہیں ہیں نہ آپ کے ساتھ اس کا تعلق ہے.تفسیر قرآن اگر کرنی ہے تو اس نے کرنی ہے جس کو اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے گا.جس کو اس منصب پر مقرر کیا ہے اس کی جب راہنمائی فرمائے گا تو وہ تفسیر کرے گا لیکن ان باتوں میں اتنی جلدی فیصلے کر لینا اور ان کو قومی فیصلے بنالینا اور ان کو نعروں میں اتار لینا اور سپاسناموں میں پیش کرنا، یہ چیز مجھے پسند نہیں ہے اور اس لئے پسند نہیں ہے کہ یہ غلط طریق ہے.مجھے اس میں خطرات نظر آرہے ہیں.اگر اس رجحان کو بند نہ کیا جائے تو اس طرح قوم آہستہ آہستہ بگڑنے لگ جاتی ہے.پس اس کا ایک فائدہ تو ہو گیا کہ جو غلطی مجھے نظر آرہی تھی وہ کھل کر سامنے آگئی.پہلے اشاروں اشاروں میں باتیں ہورہی تھیں اور میں انتظار میں تھا کہ کہیں کھل کر باتیں ہوں تو میں پکڑوں.ذوالقرنین کے متعلق قرآن کریم میں جو مضمون بیان ہوا ہے ایک بہت وسیع مضمون ہے اس کو ایک چھوٹے سے دائرہ میں محدود کر کے بچگانہ ترجمہ کرنا صحیح نہیں ہے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم دور سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے جو کئی ٹکڑوں میں پھیلا ہوا ہے.یہ تو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے اور بجز کے ساتھ اس سے مانگا جائے کہ خدا موجودہ خلافت کے دور میں بھی اس کی بعض خوشکن صورتیں ظاہر فرما دے اور ہمیں اس کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ تو بڑی نیک خواہش ہے اس کے لئے دعا کرنی چاہیے نہ کہ نعرہ بازی کرنی چاہیے.پیشگوئی کا ایک پہلو اور فتنہ دجالیت کا قلع قمع حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ اس مضمون کی تفصیل میں جائیں تو پتہ لگتا ہے کہ مغرب میں جانے اور مشرق

Page 227

223 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم میں آنے کا اس سے کوئی تعلق نہیں البتہ اس کا ایک پہلو ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے تعلق ہے.مشرق اور مغرب کے سفر کی جو تمثیل ہے وہ اور رنگ میں پوری ہوئی ہے.اصل بات یہ ہے کہ خدا نے دنیا کو دورشتوں میں تقسیم کر رکھا تھا اور مغرب اور مشرق کے درمیان تقدیر الہی کی ایک دیوار حائل تھی.مشرق کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ موجزنی کرتے ہوئے مغرب پر حاوی ہو جائے یا مغرب موجزنی کرتے ہوئے مشرق پر حاوی ہو جائے.حیرت انگیز ہے قرآن کریم کا یہ کلام جو گزشتہ ساری تاریخ میں پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے.چنانچہ مشرق کی موجیں چلتی تھیں تو کبھی وہی آنا سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتی تھیں اور کبھی سپین تک پہنچتیں اور واپس آگئیں آگے بڑھ کر ان کو مغربی دنیا میں داخل ہونے کی توفیق نہیں ملی.مورخین یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں اور ان کو وجہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا بات ہے کہ مشرق سے ایک روچلتی ہے اور مغرب سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہے اور اسے مغرب میں داخل ہونے کی توفیق نہیں ملتی حالانکہ اس وقت مشرق طاقتور تھا.مشرق کو مغرب کی حفاظت کا ذریعہ بنایا گیا تھا کیونکہ خدا کی تقدیر نے مغرب کو اٹھانا تھا اور دجال نے وہاں سے پیدا ہونا تھا.پھر دجال کو روکنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مدد مانگی جانی تھی.آپ نے روحانی طور پر وہ انتظام فرمانے تھے جس کے نتیجہ میں دجال کے بداثرات سے قوموں کو بچایا جانا تھا.پس یہ تو تفسیر کا ایک پہلو ہے اس کے بعض پہلو بہت وسیع ہیں اور مختلف زبانوں میں ان کے مختلف حصے پورے ہوتے رہتے ہیں.محبت کے نتیجہ میں مبالغہ آمیزی سے احتراز ان چیزوں کے سوچنے کا یہ وقت نہیں ہے.پہلے آپ بلوغت تک تو پہنچیں.محبت ایک الگ اور بڑی قابل قدر چیز ہے.لیکن محبت کے نتیجہ میں آپ کے اعمال میں ٹھوس تبد یلیاں رونما ہونی چاہئیں جو آپ کی محبت کو سچا کر دکھا ئیں.محبت کے نتیجہ میں ساری قوم کو تیار رہنا چاہیے کہ جو کچھ وہ کہتی ہے جب وقت آئے تو عملاً سب کچھ پیش کر کے اپنے دعوی کو سچا کر دکھائے.لیکن محبت کے نتیجہ میں آپ کو مبالغہ آمیزیاں کرنے یا ان مسائل میں دخل اندازیاں کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں جو آپ کے لئے بنائے نہیں گئے.کیونکہ آپ کا دائرہ کار اور ہے ہاں اگر خدا تعالیٰ کسی خلیفہ کو خبر دے کہ میں تمثیلی طور پر تجھے فلاں بنا تا ہوں اور وہ یہ اعلان کرے تو ہر مومن احمدی کا دل خود بخود حمد سے بھر جائے گا اور وہ تسلیم کرے گا لیکن یہ آواز (masses) عوام الناس سے نہیں اٹھ کر اوپر جائے گی.یہ بالکل جھوٹا تصور ہے.اس طرح قو میں تباہ ہو جایا کرتی ہیں.

Page 228

224 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جب عوام الناس کسی کے مرتبے بڑھانے شروع کر دیتے ہیں.بعضوں کی زندگی میں شروع کر دیتے ہیں اور بعضوں کی موت کے بعد شروع کر دیتے ہیں.یہ تاریخ کا اتنا دردناک سبق ہے اور آپ اس کو بھول جاتے ہیں اس لئے اپنی فکر کریں اور حکمت کے ساتھ بات کیا کریں.جذبات کو الگ رکھیں عقل اور تقویٰ کے ساتھ جذبات کو قابو میں رکھیں.اگر چہ عقل بھی جذبات پر حاوی ہے لیکن سب سے بڑی چیز جو جذبات پر حاوی ہوتی ہے وہ تقویٰ ہے.پس جہاں تک آپ کی محبت اور خلوص کے جذبات کے اظہار کا تعلق ہے وہ مجھے قبول ہیں ان کے نتیجہ میں میرے دل میں بھی محبت کی جوابی لہریں اٹھ رہی ہیں میں آپ کو ان معنوں میں نہیں ڈانٹ رہا کہ میں آپ سے ناراض ہوں.آپ کو سمجھانا میرے فرائض میں شامل ہے اس لئے دعا کریں کہ ذوالقرنین کی پیشگوئی جو دراصل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے تعلق رکھتی ہے اس کے کچھ خوشکن پہلو اللہ تعالیٰ ہمارے ذریعہ بھی پورے فرما دے.میرے ذریعہ بھی اور آپ کے ذریعہ بھی لیکن جب وہ پورے ہوں گے تو دنیا کو نظر آئیں گے پھر آپ کو یہ نہیں بتانا پڑے گا کہ یہ واقعہ ہو گیا ہے.دنیا دیکھے گی.آپ کے دل حمد باری سے بھر جائیں گے اور آپ کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہے گی.ذوالقرنین کی پیشگوئی اور اس کا مظہر جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیوں دماغ میں یہ باتیں آنی شروع ہوئیں میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ جی کی وہ ڈیٹ لائن ہے جو مطلع الشمس بنتی ہے یہ تو ٹھیک ہے کہ وہ مطلع الشمس ہے لیکن وہ ظاہری معنوں میں مطلع الشمس ہے وہاں تک پہنچ کر اس لحاظ سے تو ہمارا دل ضرور ایمان سے بھر گیا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ خوشخبری دی تھی کہ زمین کے کناروں تک تمہارا پیغام پہنچاؤں گا اور مشرق تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کے پہنچنے سے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ذوالقرنین کی پیشگوئی کا ایک حصہ پورا ہو گیا اور معنوی طور پر احمدیت کی صداقت کے لئے پورا ہوا ہے.اس صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ذوالقرنین کے مظہر بنیں گے مگر وہ ذوالقرنین نہیں جو پرانا بادشاہ بیان کیا جاتا ہے بلکہ ذوالقرنین ان معنوں میں کہ یہ پیشگوئی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اور آپ کے دو ادوار کے لئے تھی.آپ کو دو ادوار نصیب ہوئے.آپ دو قرنوں کے مالک ہیں.آپ کے ایک دور کے مظہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں تو ان معنوں میں یہ درست ہے کہ

Page 229

225 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم یہ پیشگوئی کچھ پہلے پوری ہو چکی ہوگی اور آئندہ بھی پوری ہوتی رہے گی لیکن ایک خلافت کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کا یہ ایک سلسلہ ہے جو ہمیشہ سے جاری ہے.اس دفعہ جو کچھ حصہ پورا ہوا ہے اس کا ایک پہلو میں بیان کر دیتا ہوں.ابھی جب یہ تلاوت ہو رہی تھی تو اس وقت مجھے خیال آیا کہ جہاں تک مطلع الشمس کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر جغرافیائی نقطہ نگاہ سے کسی جگہ کو مطلع الشمس قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ وہی Date Line ہے.کیونکہ ویسے تو سورج چونکہ 24 گھنٹے ہر وقت ابھر رہا ہے.اس لئے یا تو ساری دنیا مطلع الشمس ہے یا پھر کوئی ایک جگہ ہے تو لاز ماوی جگہ ہو سکتی ہے جہاں تاریخ بدلتی ہے.یعنی جہاں سورج ایک نئی تاریخ لے کر آتا ہے وہاں تاریخ بنانے والی ایک فرضی لائن بنی ہوئی ہے.جو منی کے ایک جزیرہ پر سے گزررہی ہے.وہاں ایک طرف گزرا ہوا دن ہے تو دوسری طرف آج کا دن ہے.ایک طرف آج کا دن ہے تو دوسری طرف آنے والا کل ہے.ایک قدم آپ ادھر رکھ دیں تو ” آج میں آجائیں گے ایک قدم آپ ادھر رکھ دیں تو آنے والے کل میں چلے جائیں گے.یہ معاملہ آپ کو سمجھ نہیں آئے گا.میں نے اس کو جغرافیہ پر بڑا غور کر کے سمجھا ہے لیکن عام آدمی اس پر صرف ایمان بالغیب لائے گا کہ ہاں یہ ہو جاتا ہے.پس اس لحاظ سے یہ ایک دلچسپ جگہ ہے کہ یہاں ایک طرف آج ہے اور دوسری طرف کل ہے اس لائن پر اگر آپ کھڑے ہوں تو بارہ بجے رات ایک ایسا وقت آئے گا.جب مثلاً ہفتہ ہے تو ساری دنیا پر سو فیصد ہی ہفتہ ہوگا اور پہلی دفعہ جب ہفتہ اتوار میں تبدیل ہوتا ہے تو وہاں ہوتا ہے.رات کے بارہ بجے کا وقت تو ان کے حسابی لحاظ سے ہوتا ہے.سورج کے لحاظ سے جب سورج کی پہلی شعائیں وہاں دکھائی دیتی ہیں تو اس وقت اس دنیا کو ایک نیا دن ملتا ہے.ان معنوں میں یہ مطلع الشمس ہے اور وہاں اتفاق سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تابع سوالات مجھ سے یہ ہوئے کہ ہمیں نصیحت کریں کہ دنیا کے بداثرات سے بچنے کے لئے ہم کیا کریں.عالمی خطرات سے بچاؤ کا طریق دنیا پر اس وقت خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں.چنانچہ واضح طور پر یا جوج ماجوج یعنی روس اور امریکہ کا ذکر کر کے مجھ سے پوچھا کہ ان کی آپس کی لڑائیاں ہیں اور دنیا کیلئے جنگ کے خطرات ہیں.ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے.چنانچہ میں نے ان کو یہی نصیحت کی کہ آپ کیلئے سب سے بڑا اور مہلک خطرہ مادہ پرستی کا خطرہ ہے.جب تک آپ مادہ پرستی کی لعنت سے نہیں بچتے اس وقت تک آپ امن میں

Page 230

226 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم آہی نہیں سکتے.اس لئے مغربیت سے بھی بچیں دہریت سے بھی بچیں.اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ وہ اپنے فضل سے آپ کو ان سب خطرات سے محفوظ رکھے.نجی ایک دور کا مقام ہے ابھی تک بہت سی بدیاں وہاں نہیں پہنچیں اس لئے میں نے ان کو یہ نصیحت کی کہ ان خطرات سے وہ اپنی حفاظت کریں.قرآن کریم کا یہ پیغام جس میں یا جوج اور ماجوج یعنی امریکہ اور روس دونوں سے خطرہ کی نشان دہی کی گئی ہے.یعنی دائیں طرف کی قوموں سے بھی خطرہ ہے اور بائیں طرف کی قوموں سے بھی.یہ صرف نجی کو نہیں ہم سب اس سے دو چار ہیں.اور اس کا علاج یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے اللہ کی حفظ وامان میں آجائیں.خدا تعالیٰ کی حفاظت اور تقدیر کی دیوار بیچ میں قائم کر دیں.جو آپ کو ان سب خطرات سے بچالے گی.قرآنی تمثیلات گہرے مطالعہ کی متقاضی ہیں پس ان آیات کو آپ وقت کے لحاظ سے الٹا کر ایک مضمون چلائیں گے تو اور جواب آجائے گا ایک دوسرا مضمون چلائیں گے تو اور جواب آجائے گا.اس لئے قرآن کریم کی تفسیر کا معاملہ اور بیان تمثیلات کا مضمون بڑے گہرے مطالعہ کا متقاضی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی خاص راہ نمائی کے بغیر انسان پر یہ مضمون نہیں کھلتے خصوصاً ایسے مواقع کی سمجھ نہیں آتی.جیسا کہ یہ ذوالقرنین والا واقعہ ہے.جو بڑا الجھا ہوا نظر آ رہا ہے اس کی تفسیر کرنا انسان کے بس کی بات نہیں.یہ اللہ کا فضل ہی ہے جو انسان کو روشنی عطا کرتا ہے.حضرت مصلح موعود (اللہ آپ سے راضی ہو) نے اگر چہ تفسیر کبیر میں اس پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن وہاں بھی تشنگی رہ جاتی ہے معلوم ہوتا ہے ابھی کچھ چیز میں بیان نہیں ہوئیں یا خدا نے کچھ چیزیں مخفی رکھی ہوئی ہیں اور ان کے ظاہر کرنے کا ابھی وقت نہیں آیا مگر رفتہ رفتہ خدا جب چاہے گا تو یہ مضمون واقعاتی لحاظ سے بھی کھلتے چلے جائیں گے.نعرہ بازی کو چھوڑ دیں پس ہمیں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ اپنے فضل سے ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ان پیشگوئیوں کے جو اچھے پہلو ہیں ان کو پورا کرنے کا ہم ذریعہ بن جائیں.خدا تعالیٰ خود ہی ہمیں اس کا موقع دے خود ہی اس کی توفیق عطا فرمائے اور خود ہی اس کی جزا بھی دے.سب کچھ اسی نے کرنا ہے.ہماری

Page 231

227 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم ذات کی کوئی حقیقت نہیں ہے.اس لئے میں آپ کو ایک بار پھر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ نعرہ بازی سے اجتناب کریں جو آپ کا مقام نہیں ہے.اس میں خواہ مخواہ دخل اندازی نہ کریں اور دعائیں کرتے رہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں ہزاروں سال تک احمدیت کا پیغام ظاہری اور معنوی حفاظت کے ساتھ آگے سے آگے بڑھاتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے.ہر حالت میں امام کے پیچھے چلیں اسی طرح آپ نے خلافت کی حفاظت کا جو وعدہ کیا ہوا ہے اس میں بھی یہ بات داخل ہے کہ خلافت کے مزاج کو نہ بگڑنے دیں.خلافت کے مزاج کو بگاڑنے کی ہرگز کوشش نہ کریں ہمیشہ اس کے تابع رہیں.ہر حالت میں امام کے پیچھے چلیں.امام آپ کی راہ نمائی کے لئے بنایا گیا ہے اس لئے کسی وقت بھی اس سے آگے نہ بڑھیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور مجھے بھی تو فیق عطا فرمائے کہ میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کروں.آؤ اب دعا کر لیں.(الفضل 11 فروری 1984ء)

Page 232

مشعل راه جلد سوم 228 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 233

مشعل راه جلد سوم 229 آمین کی ایک تقریب سے خطاب فرمودہ 16 مئی 1985 اس تقریب کا نہایت ضروری اور اہم حصہ دعا ہے بچپن کے قبولیت دعا کے واقعات اپنے بچوں کے دل میں خدا اور اس کی حقیقی محبت ڈالیں ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 234

مشعل راه جلد سوم 230 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 235

مشعل راه جلد سوم 231 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی ایک بچی کی تقریب آمین پر حضور رحمہ اللہ نے فرمایا :- آج کا روز بھی جسے ہم بہت اہمیت دیتے ہیں اس وجہ سے کہ ہمارے بچے نے قرآن کریم جو خدا تعالیٰ کی الہامی کتاب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی خدا کے فضل سے مکمل کر لی اور اس موقع پر کوئی تصنع کوئی بناوٹ اور بے معنی خوشی نہیں ہے.بلکہ بچے سے قرآن کریم کا ایک حصہ سن لیا، اجتماعی دعا کر لی اور چائے کے ساتھ کچھ مٹھائی وغیرہ کھالی.اس تقریب کا نہایت اہم اور ضروری حصہ دعا ہے نہ کہ تحفے تحائف دینا اور لینا اور یہی ہم اپنے بچے کو بھی سکھانا چاہتے ہیں.آج بھی یہاں جو مہمان آئے ہیں وہ بھی بغیر تحائف کے آئے ہیں.یہ رسم ہم میں داخل ہونا شروع ہوگئی تھی اس لئے گزشتہ اسی قسم کے ایک موقع پر میں نے جماعت کو تحائف دینے پر اس وجہ سے پابندی لگا دی تھی تا کہ ہماری سوسائٹی پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑنے شروع ہو جائیں.کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی رسوم جو بظاہر نقصان دہ نہیں لگتیں اور لوگ کہتے ہیں کہ بچے کو ایک چھوٹا سا تحفہ دینے میں کون سی قباحت ہے، لیکن آہستہ آہستہ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہمیں اندھیروں کی طرف دھکیل دیتی ہیں اور یہی چیز پھر تصنع میں تبدیل ہو جاتی ہے اور خواہ کوئی اسے برداشت کر سکے یا نہ، وہ اسے ضروری سمجھنے لگ جاتے ہیں.چنانچہ میں نے اس رواج کو مزید فروغ دینے پر پابندی عائد کر دی.اور مجھے یہ جان کر نہایت خوشی ہوئی کہ اس چھوٹی سی معصوم بچی نے جسے گزشتہ موقع پر تھے دیئے گئے، ہنستے مسکراتے ہوئے واپس لوٹا دیئے.لہذا بجائے اس کے کہ ہم بچوں کو تحائف وغیرہ جیسی رسوم میں ملوث کر دیتے ان کی توجہ دعاؤں کی طرف مبذول کروا دی تا کہ وہ تحائف کی نسبت دعا کو زیادہ اہمیت دیں اور اس کی اہمیت کو سمجھنے لگیں اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر وہ بے صبری سے تحفوں کی امید میں ہی لگے رہتے ہیں.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:

Page 236

نعل راه جلد سوم 232 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی ”ہم اپنے بچوں کی توجہ دعاؤں کی طرف اس لئے مبذول کرواتے ہیں تا کہ انہیں یہ اہمیت واضح ہو کہ اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل نازل ہوں گے اور شاید ہی کوئی ایسا احمدی گھرانہ ہو جس کے بچے نے اپنی دعاؤں کے پھل نہ پائے ہوں.اور اگر بالفرض ہم بعض اوقات نا امید بھی ہو جائیں تو ہمارے بچے یقین دلا دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہماری دعاؤں کے نتیجہ میں ضرور فضل فرمائے گا.لہذا بجائے اس کے کہ والدین اپنے بچوں کو کہیں کہ فکر کی بات نہیں ہے، بچے اپنے والدین کی فکر مندی دور کر دیتے ہیں.اور یہی چیز ایک حقیقت حال بن کر سامنے آجاتی ہے اور دعاؤں کے معجزات کی وجہ سے ان کے اندر ایک نئی قوت پیدا ہو جاتی ہے.حضور نے فرمایا:- ” مجھے اپنا ایک ایسا واقعہ یاد ہے جس نے بچپن سے آج تک میرے دل پر گہرے نقوش جمارکھے ہیں اور میں اپنے والد گرامی حضرت مصلح موعود ( نوراللہ مرقدہ) کا اس تحفے کے لئے بے حد احسان مند ہوں جو آپ نے مجھے دیا.فرمایا کہ:- ”ایک دفعہ بچپن میں ہم اپنے والدین کے ساتھ پہاڑی مقام سے قادیان واپس آرہے تھے تو راستہ میں یہ معلوم ہونے پر کہ کار میں پٹرول ختم ہے حضرت فضل عمر ( نور اللہ مرقدہ) نے اپنے بچوں سے کہا کہ جس بچے کی دعا کے نتیجہ میں ہم خیر وعافیت سے گھر پہنچ جائیں گے اس بچے کو دو گیلن پٹرول بطور انعام دیا جائے گا.پٹرول کے ختم ہونے کا پتہ بھی اس وقت چلا جب کہ رات پڑ چکی تھی اور راستہ بھی سخت خطر ناک تھا.گو بحیثیت جماعت کے سر براہ اور ( خلیفہ) ہونے کی حیثیت سے آپ کی دعا زیادہ قابل قبول تھی لیکن آپ چونکہ ہمیں دعا کی اہمیت سکھانا چاہتے تھے اور یہ بتانا چاہتے تھے کہ خدا تعالیٰ جو رحمت اور محبت کا سرچشمہ ہے وہ کسی کی بھی دعا خواہ وہ کوئی بھی ہو اور خصوصاً بچوں کی دعا زیادہ قبول فرماتا ہے.کیونکہ بچے معصوم عن الخطاء اور خدا تعالیٰ کے زیادہ مقرب ہوتے ہیں.اگر وہ دعا کو قبول کرنا چاہے تو کچھ بعید نہیں کہ بچوں کی دعا بھی قبول فرمالے اور یہی وہ اعلیٰ سبق تھا جو ہمیں سکھانا مقصود تھا.سفر خدا کے فضل سے گزرتا گیا اور بظاہر یوں لگتا تھا کہ سارے بچے دعا کرنا بھول چکے تھے.لیکن جیسے

Page 237

233 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہی ہم قادیان میں داخل ہو گئے تو میں خوشی سے چلا اٹھا اور کہنے لگا کہ یہ میری مسلسل دعاؤں کے نتیجہ میں ہی ہم بخیر وعافیت پہنچ گئے ہیں.لہذا اب مجھے دو گیلن پٹرول کا تحفہ دے دیا جائے اور حقیقت میں بھی میں دعائیں کرتا رہا تھا.چنانچہ مجھے میرا تحفہ دے دیا گیا اور اس ناقابل فراموش واقعہ نے میری زندگی پر انمٹ نقوش ثبت کر دیئے.اور یہی عادت میں بھی اپنے بچوں کو ڈالتا رہا.اس ضمن میں حضور نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی عزیزہ طوبی کے بچپن کا ایک دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:- ایک دفعہ میں اسے سائیکل پر آگے بٹھائے ہوئے اپنے فارم پر سے جہاں ایک چھوٹا Fish Pond اور Swimming Pool تھا واپس آرہا تھا.بچی نے اس روز پیارا سا نیا جوتا پہن رکھا تھا.پاؤں کے سو جانے کی وجہ سے یہ جو تا راستہ میں کہیں گر گیا جس کا بچی کو احساس نہ ہو سکا اور جب اسے علم ہوا تو کافی راستہ گزر چکا تھا اور ویسے بھی اندھیرا ہورہا تھا.ہم نے واپس جا کر تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود.چنانچہ ہم گھر واپس جارہے تھے تو اچانک اس نے اونچی اور اپنی تو تلی زبان میں یہ دعا پڑھی إِنَّا لِلَّهِ رَاجِعُون (چھوٹی عمر کی وجہ سے وہ پوری دعا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ادا نہ کر سکتی تھی.میں نے اپنے بچوں کو یہ دعا سکھا رکھی تھی کہ کہ کسی چیز کے کھو جانے پر یہ دعا پڑھ لینی چاہیے.چنانچہ اسے یاد آ گیا کہ اس لئے اسے جس طرح بھی آتی تھی پڑھ دی اور جیسے ہی اس نے یہ دعا پڑھی تو مخالف سمت سے ایک شخص سائیکل پر آیا اور اس کے ہاتھ میں وہی جوتی پکڑی ہوئی تھی.مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا اور میں نے اس سے پوچھا کہ وہ تو مخالف سمت سے آ رہا تھا تو اسے جوتی کس طرح مل گئی.اس پر اس نے بتایا کہ کچھ دیر پہلے جب وہ حضور کے پاس سے گزر کر گیا تو اسے یہ جوتی ملی.لہذا یہ سوچ کر کہ یہ تو ایک ہی تھی واپس لے آیا اور اتفاق سے یہ واقعہ حقیقتا اسی وقت پیش آیا جبکہ بچی کے منہ سے دعائیہ الفاظ نکلے“.فرمایا:- ایسے ہی متعدد واقعات ہر احمدی گھر میں پیش آتے ہیں.اس میں صرف میرا یا میری بچی کا ہی کمال نہیں ہے.بلکہ اپنے بچوں کو تعلیم دینے اور دعاؤں کی برکات سکھانے کے نتیجہ

Page 238

234 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم میں ہی ایسا ہوتا ہے.اور یہ ورثہ صرف مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے ایک پیغام ہے اور یہی بات میں آپ سب کے ذہنوں میں راسخ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے بچوں کے دل میں خدا اور اس کی حقیقی محبت ڈالیں اور پھر دیکھیں کہ ہر گھر میں کس طرح معجزات ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں.بچے کا تو کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ تو بالکل معصوم ہوتا ہے.بچہ خواہ مسلمان گھر میں پیدا ہو یا عیسائی کے گھر میں یا کسی اور کے، خدا تعالیٰ کا وجود ان سب کے لئے ایک جیسا ہوتا ہے.یہی ایک طریق ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو تیار کر سکتے ہیں.لیکن کس قدر افسوس ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسل کو اپنے ہاتھوں اب تباہ و برباد کر رہے ہیں.مذہب سے لگا ؤ کم ہوتا چلا جارہا ہے اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل بگڑتی اور ضائع ہوتی چلی جارہی ہے.اب یہی ایک فارمولا رہ گیا ہے جو میں آپ سب کے لئے تجویز کرتا ہوں.اسی ذریعے سے آپ اپنے بچوں کو خالق حقیقی کی طرف واپس لا سکتے ہیں اور پھر اسی پر توکل کریں اور اسی پر چھوڑ دیں کہ وہ انہیں صراط مستقیم پر چلائے.میرے نزدیک یہی ایک طریق ہے ( دعا کا) جس کے بہت بڑے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں.ایسے تمام لوگوں کے بچے اپنے مالک سے پیار کرنے والے بن جائیں گے اور خدا تعالیٰ کبھی بھی انہیں ضائع نہیں کرے گا.اس کے علاوہ تمام حربے جو کہ انسان کو تباہ و برباد کر سکتے ہیں اس کے مقابل پر کچھ بھی حیثیت نہ رکھیں گے.آج اگر تمام دنیا اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو تمام جھوٹے قصے اور اسلحہ کے استعمال سے پیش آمدہ تباہی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے.پس اپنے بچوں کو خدا تعالیٰ سے پیار کرنا سکھائیں اور پھر دیکھیں کہ وہ کبھی ضائع نہیں کرے گا اور یہی وقت کا اہم تقاضا ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ آپ کے شامل حال ہو.آمین.(ماہنامہ تشخیذ الا ذہان.دسمبر 1985ء.صفحہ 10 تا 15 )

Page 239

مشعل راه جلد سوم 235 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ کے دوسرے سالا نہ یورپین اجتماع کے موقع پر شائع ہونے والے سوونیئر کے لئے پیغام احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ زندگی بھر اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور سچی غم خواری میں وقف رہیں بنی نوع انسان کی مادی فلاح و بہبود سے بڑھ کر ان کی روحانی فلاح و بہبود کے لئے کوشش کریں مغرب کی طرف سے آفتاب طلوع ہونے کی پیشگوئی پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے اپنی پوری صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے اس دن کو قریب لانے کی کوشش کریں جس کا آغا ز آسمان پر مقدر ہو چکا ہے.پوری جان کا ہی اور دل سوزی سے دعوت الی اللہ کا فریضہ ادا کریں اور دُعا سے کبھی غافل نہ ہوں

Page 240

مشعل راه جلد سوم 236 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 241

مشعل راه جلد سوم 237 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ UK نے مورخہ 24,23 اور 25 اگست 1985ء کو دوسرا یورپین اجتماع منعقد کرنے کی سعادت حاصل کی.اس موقع پر خدام الاحمدیہ نے ایک سو نیئر شائع کیا جس کے لئے حضور رحمہ اللہ نے از راہ شفقت ایک پیغام مرحمت فرمایا.اصل پیغام انگلش میں ہے.اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے.مجھے یہ معلوم کر کے از حد خوشی ہوئی ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ انگلستان، یورپ کی مجالس خدام الاحمدیہ کے دوسرے اجتماع کے موقع پر ایک سود نیئر شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو تمام یورپ کے لئے عظیم روحانی انقلاب کا پیش خیمہ بنادے اور نوجوانانِ احمدیت کو ایسا ز بر دست جوش غیر معمولی ولولہ اور بے مثال جذبہ عطا فرمائے کہ وہ مستقبل کی ہر ذمہ داری کو کمال خوبی کے ساتھ ادا کر سکیں امین.میرے نہایت پیارے عزیز و..............حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ نے خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھی احمدیت کے نونہالو! ہمارے محبوب امام جماعت ( حضرت فضل عم نوراللہ مرقدہ) نے 1938ء میں مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھی اور احمدی نو جوانوں کا نام خدام الاحمدیہ تجویز فرمایا تا احمدیت کے معیار کے مطابق صرف اپنے ملک اپنی قوم اور اپنی جماعت ہی کی نہیں پوری دنیا کی خدمت کرنے والے ہوں.میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس عظیم الشان نصب العین کی تکمیل کے لئے آپ کی نظر ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد پر رہنی چاہیے.(اس کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت بانی سلسلہ کی کتاب ازالہ اوہام صفحہ 836 سے ایک اقتباس پیش فرمایا.جس میں حضرت بانی سلسلہ نے فرمایا ہے کہ چاہیے کہ دین حق کی ساری تصویر تمہارے

Page 242

238 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم وجود میں نمودار ہو اور تمہاری پیشانیوں میں اثر سجود نظر آوے اور خدا تعالیٰ کی بندگی تم میں قائم ہو.اگر قرآن اور حدیث کے مقابل پر ایک جہان عقلی دلائل کا دیکھو تو ہر گز اس کو قبول نہ کرو اور یقینا سمجھو کہ عقل نے لغزش کھائی ہے.توحید پر قائم رہو اور نماز کے پابند ہو جاؤ اور اپنے مولائے حقیقی کے حکموں پر سب کو مقدم رکھو اور دین حق کے لئے سارے دکھ اُٹھاؤ.) یورپ کے احمدی نوجوانوں کے فرائض یورپ کے احمدی نوجوانوں کا دوسرا فرض یہ ہے کہ وہ زندگی بھر اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی اور بچی غم خواری میں وقف رہیں اور نہ صرف زبان سے بلکہ اپنے عمل سے اور پاک نمونہ سے ثابت کر دیں کہ انسانی تعلقات کے دائرہ میں بھی ( دین حق ) کی تعلیم ہر دوسری تعلیم سے افضل واعلیٰ اور اکمل اور احسن ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس تعلیم کا نچوڑ چند فقروں میں یہ بیان فرماتے ہیں کہ.قرآن انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو بلکہ وہ کہتا ہے کہ چاہیے کہ نفسانی رنگ میں تیرا کوئی بھی دشمن نہ ہو.اور تیری ہمدردی ہر ایک کے لئے عام ہو.مگر جو تیرے خدا کا دشمن تیرے رسول کا دشمن اور کتاب اللہ کا دشمن ہے وہی تیرا دشمن ہوگا تو ایسے کو بھی دعوت اور دعا سے محروم نہ رکھ اور چاہیے کہ تو ان کے اعمال سے دشمنی رکھے نہ ان کی ذات سے اور کوشش کرے کہ وہ درست ہو جائیں اور اس بارے میں فرماتا ہے إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرُبى (النحل:91).یعنی خدا تم سے کیا چاہتا ہے.بس یہی کہ تم نوع انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو.پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان سے بھی نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی.پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی سے پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو.جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں کیونکہ احسان میں ایک خود نمائی کا مادہ بھی مخفی ہوتا ہے اور احسان کرنے والا کبھی اپنے احسان کو جتلا بھی دیتا ہے لیکن وہ جو ماں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرتا ہے وہ کبھی خود نمائی نہیں کر سکتا.پس آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے جو ماں کی طرح ہو.“ (کشتی نوح صفحه 28) بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی کا اولین تقاضہ یہ ہے کہ ان کی مادی فلاح و بہبود سے بڑھ کر ان کی روحانی فلاح و بہبود کے لئے کوشش کریں اور اس کوشش میں اپنے آقا و مولے پیغمبر کامل حضرت اقدس

Page 243

239 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلوب سیکھیں اور آپ ہی کے رنگ پکڑیں.جس طرح آپ بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے ہمہ وقت غم و افسردگی میں مبتلا رہتے تھے اور اپنی جان کو یہ ایک روگ سالگا رکھا تھا.چاہیے کہ آپ میں سے بھی ہر ایک اس جانکا ہی اور دلسوزی کے ساتھ فریضہ ( دعوت الی اللہ ) ادا کرے.اور چین سے نہ بیٹھے جب تک مغرب سے سچائی کے سورج کے طلوع ہونے کے آثار ہو یدا نہ ہو جائیں اور وہ صبح صادق نمودار نہ ہو جائے جس کی بشارت مخبر صادق نے ہمیں 1400 برس پہلے دی تھی.مغرب سے اس طلوع آفتاب کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.(اس کے بعد حضور نے حضرت بانی سلسلہ کی کتاب ازالہ اوہام صفحہ 515 میں سے ایک اقتباس پیش فرمایا جس میں حضرت بانی سلسلہ نے فرمایا ہے اس عاجز پر جو ایک رویا میں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر وضلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو دین حق سے حصہ ملے گا.حضرت بانی سلسلہ نے فرمایا ہے کہ میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے دین حق کی صداقت بیان کر رہا ہوں بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہوگا اور میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگر چہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہو جائیں گے.در حقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے.گویا خدا تعالیٰ نے دین کی تمام عقل ایشیاء کو دے دی اور دنیا کی معقل تمام یورپ اور امریکہ کو نبیوں کا سلسلہ ابھی اول سے آخر تک ایشیاء کے ہی حصہ میں رہا اور ولایت کے کمالات بھی انہیں لوگوں کو ملے.اب خدا تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے ) دُعا ہی ہے جو ہماری کوشش کے بے رنگ خاکوں میں رنگ بھرتی ہے پس اے میرے عزیز و! آپ کامل یقین اور توکل اور صبر اور استقلال اور جانسوزی اور وفاداری کے ساتھ اپنی تمام صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے ان روشن دنوں کو قریب تر لانے کی کوشش کرتے رہیں جن کا آنا آسمان پر مقدر ہو چکا ہے اور دعا سے بھی کسی وقت غافل نہ رہیں.کیونکہ دُعا ہی ہے جو ہماری کوشش کے بے رنگ خاکوں میں رنگ بھرتی ہے اور ہمارے منصوبوں کی بے جان تصویروں کو زندگی عطا کرتی ہے.

Page 244

مشعل راه جلد سوم 240 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ بظاہر یہ کام ہماری طاقت سے بڑھ کر اور سخت مشکل بلکہ محال نظر آتا ہے مگر بہر حالت یہ ہوکر رہے گا.یہ ایک تقدیر مبرم ہے جسے کوئی ٹال نہیں سکتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اس مرحلے پر حضرت امام جماعت احمدیہ نے حضرت بانی سلسلہ کا ایک اقتباس تذکرہ صفحہ 286 سے بیان فرمایا جس میں حضرت بانی سلسلہ نے فرمایا کہ وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب سے چڑھے گا.اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ گند ہوگا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے) والسلام خاکسار ( دستخط) مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ 28 وفا1324 ہش مطابق 28 جولائی 1985ء ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدیدر بوه ستمبر 1985ء)

Page 245

مشعل راه جلد سوم ☆ ☆ 241 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 8 نومبر 1985ء ذیلی تنظیموں کی اہمیت اور ذمہ داری مجلس عاملہ کا ہر ماہ ایک اجلاس خاص نماز کے موضوع پر ہو پھر یہ خدا کا کام ہو گا کہ آپکی حفاظت فرمائے........اس دن کو قریب تر لائے جوظاہری فتح کا دن بھی ہوا کرتا ہے

Page 246

مشعل راه جلد سوم 242 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 247

مشعل راه جلد سوم 243 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضور رحمہ اللہ نے ذیلی تنظیموں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:- ذیلی تنظیموں کی ذمہ داری جب میں نے جماعت کو تنبیہ کی تو خصوصیت سے انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ ، یہ تینوں تنظیمیں میرے سامنے تھیں.جماعت احمدیہ کے اصل بنیادی نظام کا ڈھانچہ تو صدارت یا امارت کا نظام ہے لیکن اس قسم کے کاموں میں جہاں War Footing (جنگی بنیادوں ) پر کام کرنے ہوتے ہیں وہاں تقسیم کار کے اصول پر کار بند ہونا ضروری ہوتا ہے.مثال کے طور پر جب کوئی قوم ایک عظیم جنگ میں مصروف ہو جائے تو اگر کاموں کو تنظیموں کے اندر بانٹ دیا جائے تو وہ کام زیادہ عمدگی کے ساتھ زیادہ تفصیل کے ساتھ نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں.اس لئے جماعتوں کی ان تین تنظیموں سے میں خصوصیت کے ساتھ مخاطب ہوں کہ یہ اپنے اپنے دائرے میں بہت محنت اور کوشش کریں.ماؤں پر بہنوں پر بھائیوں پر یعنی خاندان کے اندر والدین پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس لئے کہ وہ آخری صورت میں خدا کے سامنے جواب دہ ہیں.ہر خاندانی یونٹ کسی نہ کسی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے اس لئے جیسا کہ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ نماز کے قیام کا آخری کارخانہ خاندان ہی ہوگا اس کارخانے تک پہنچنے کے لئے اسے بیدار کرنے کے لئے اسے حرکت دینے کے لئے جماعت کی مختلف تنظیمیں قائم ہیں.پس لجنہ عورتوں کو تو متوجہ کرے اور آخری نظر اس بات پر رکھے کہ اہل خانہ کے اندرنماز قائم کرنے کی ذمہ داری خود اہل خانہ کی ہے.لجنہ عورتوں سے کہے کہ آپ ہم سے سیکھیں اور پھر اپنے بچوں کو سکھائیں ،اپنے خاوندوں کو اپنے بیٹوں کو اپنی بیٹیوں کو بار بار پانچ وقت نماز کی طرف متوجہ کرتی رہیں.جو مر دیا بچے نماز کے وقت گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں...عورتیں ان کو اٹھا ئیں کہ تم نماز پڑھنے جاؤ، نماز پڑھ کر واپس آؤ پھر آرام سے بیٹھ کر کھانا کھائیں

Page 248

244 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم گے اسی طرح بچوں کو بھی نماز کے لئے تیار کریں اور گھر کی بیٹیوں پر نظر رکھیں کہ وہ نماز ادا کر رہی ہیں.والدین میں سے باپ کی ذمہ داری ہے مگر بیٹیوں کے معاملہ میں باپ کے اوپر کچھ مشکلات بھی ہوتی ہیں اس کو یہ پتہ نہیں لگتا کہ اس نے کب نماز پڑھنی ہے کب نہیں پڑھنی اس لئے وہاں جب تک ماں مددنہ کرے اُس وقت تک باپ پوری طرح اپنے فرائض کو ادا نہیں کر سکتا.اور بھی بہت سے مسائل ہیں نماز سے تعلق رکھنے والے جو ماں سکھا سکتی ہے.اس لئے جہاں تک لجنہ کا تعلق ہے وہ عورتوں کو سنبھالیں اور بچیوں کو سنبھالیں اور گھر کے اندر ان کو طریقے بتائیں کہ اس طرح تم نے اپنے گھروں میں نماز کو قائم کرنا ہے.میں یہ نہیں کہہ رہا کہ لجنہ نماز کی تلقین شروع کر دے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ لجنہ گھروں میں نماز قائم کرنے کے طریقے سمجھائے اور مستورات کو یہ بتائے کہ تم نے نماز کے قیام کے سلسلہ میں سوسائٹی کی کیا مدد کرنی ہے.اور پھر لجنہ یہ رپورٹیں لے کہ عورتیں کس حد تک نماز کو اپنے گھروں میں قائم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہیں.یہ ذمہ داری ہے جو میں لجنہ پر ڈال رہا ہوں.اسی طرح خدام نو جوانوں کو صرف یہ تلقین نہ کریں کہ تم نماز میں آؤ بلکہ یہ تلقین کریں کہ تم خود بھی آؤ اور اپنے بھائیوں کو بھی نماز پر قائم کرو اور اپنے والدین کو بھی نماز پر قائم کرنے کی کوشش کرو کیونکہ بعض جگہ ایسا بھی ہورہا ہے کہ بچے تو نماز کے پابند ہیں لیکن بڑے خود نماز کی ادائیگی میں غفلت برت رہے ہیں.بعض نو جوان بچے مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہمیں بہت تکلیف ہے، ہمارے والد صاحب نماز نہیں پڑھتے ، ہم بہت سمجھاتے ہیں لیکن وہ توجہ نہیں دیتے ان کو نماز کی عادت ہی نہیں اس لئے آپ ان کو خط لکھیں.چنانچہ ایک بچے نے بڑے درد سے مجھے لکھا، میں نے اس کی خواہش کے مطابق اس کے والد کو خط لکھا اور پھر مجھے وہاں کی امارت سے اطلاع ملی کہ اس خط نے اثر کیا ہے اور خدا کے فضل سے اُس نے نماز شروع کر دی ہے.مجھے بڑی خوشی ہوئی.اگر ایسے نوجوان اپنے والدین کو نماز کا پابند بنانے کے لئے بے قرار ہوں تو وہ بھی بڑا کام کر سکتے ہیں اس کے ساتھ اگر وہ دعا بھی مانگیں کے تو اس سے بہت غیر معمولی فائدہ پہنچے گا.دوسروں کو دعاؤں کی تحریک کریں گے تو اس طرح بھی خدا کے فضل سے فائدہ پہنچے گا.انصار کو یہ توجہ دلانی چاہیے اپنے ممبران کو ، کہ تم اس عمر میں داخل ہو گئے ہو جس میں جواب دہی کے قریب تر جا رہے ہو.ویسے تو ہر شخص ایک لحاظ سے ہر وقت ہی جواب دہی کے قریب رہتا ہے لیکن انصار بحیثیت جماعت کے اپنی جواب دہی میں قریب تر ہیں.اور جو وقت پہلے گزر چکا ہے اس میں اگر کچھ خلارہ

Page 249

مشعل راه جلد سوم 245 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ گئے ہیں وہ ان کو بھی پورا کرنا شروع کریں، اس طرح ان کا کام اور ذمہ داری دوہری ہو جاتی ہے.ان کو چاہیے کہ وہ موجودہ وقت کی ذمہ داریاں بھی پوری کریں اور گزشتہ گزرے ہوئے وقت کے خلا بھی پورے کریں.انصار اپنے ساتھیوں کو بتا بتا کر اس طرح بیدار کریں کہ اُن کو اپنی فکر پیدا ہو.وہ انہیں بتائیں کہ وَلَتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَد کی آیت تم پر سب سے زیادہ اطلاق پاتی ہے تمہیں کل کے لئے فکر کرنی چاہیے کہ تم نے کیا آگے بھیجا ہے.وہاں غد کا معنی روز قیامت بن جائے گا.سوال وجواب اور محشر کا وقت بن جائے گا، اس لئے ان کو بیدار کریں جگائیں اور کہیں کہ اگر تم اپنے گھروں میں نماز قائم کئے بغیر آنکھیں بند کر گئے تو کتنا حسرت ناک انجام ہوگا، بے نمازی نسلیں جو اپنے مقصد سے عاری ہیں جن کو خدا نے پیدا تو کسی اور غرض سے کیا تھا اور وہ کسی اور طرف رخ اختیار کر چکی ہیں وہ پیچھے چھوڑ کر جارہے ہو تمہارے ہاتھ بالکل خالی ہیں، وہاں پیش کرنے کے لئے تمہارے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہا، خدا کو کیا جواب دو گے کہ جوامانت اس نے تمہارے سپر د کی تھی تم نے ان کو کیا سے کیا بناڈالا ، کیسے حال میں انہیں پیچھے چھوڑ کر آئے ہو.اس رنگ میں انہیں بیدار کریں، خاص تعہد کے ساتھ اپنا پروگرام ایسا بنا ئیں کہ پھر ان کو سونے نہ دیں.معین پروگرام کی اہمیت تنظیمیں نسبتاً زیادہ بیدار رہ سکتی ہیں اگر وہ ایک معین پروگرام بنائیں کہ ہر ہفتے یا ہر مہینے میں ایک دفعہ خاص نماز کے موضوع پر غور کرنے کے لئے اکٹھے مل کر بیٹھا کریں گے، ہمیشہ کے لئے مجلس عاملہ کا ایک اجلاس مقرر ہو جائے جس کا موضوع سوائے نماز کے کچھ نہ ہو.اس دن لجنہ بھی نماز پر غور کر رہی ہوں.خدام بھی نماز پر غور کر رہے ہوں، انصار بھی نماز پر غور کر رہے ہیں.سب اپنی اپنی جگہ ہمیشہ کے لئے یہ فیصلہ کر لیں کہ اب ہم نے ہر مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور اس موضوع پر بیٹھ کر غور کرنا ہے.جہاں حالات ایسے ہیں کہ ہر مہینے اکٹھے نہ ہو سکتے ہوں.وہاں دو مہینے میں ایک اجلاس مقرر کر لیں، تین مہینے میں مقرر کرلیں مگر جب مقرر کر لیں پھر اس پر قائم رہیں، اس پر صبر دکھا ئیں ہر دفعہ جائزہ لیا کریں کہ ہمیں اس عرصہ میں کتنا فائدہ پہنچا ہے اس عرصے میں کتنے نئے نمازی بنے ہیں.کتنوں کی نمازوں کی حالت ہم نے درست کی.کتنوں کو نماز میں لطف حاصل کرنے کے ذرائع بتائے اور ان کی مدد کی.اور بہت سے پہلو ہیں وہ ان سب پہلوؤں پر غور کیا کریں اور ہر دفعہ اپنا محاسبہ کریں کہ ہم کچھ مزید حاصل کر سکے ہیں یا نہیں.اگر اس جہت سے اس طریق پر وہ کام شروع کریں گے تو امید ہے کہ ہم بہت تیزی کے

Page 250

مشعل راه جلد سوم 246 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ساتھ اپنے اس مقصد کی طرف بڑھ رہے ہوں گے جس کی خاطر ہمیں پیدا کیا گیا ہے،انشاء اللہ تعالیٰ.اور جب ہم مقصد کی طرف بڑھ جائیں اور جب ہم مقصد کو حاصل کر رہے ہوں تو پھر فتح ایک ثانوی چیز بن جاتی ہے.عددی اکثریت کے نصرت اور ظفر کے جو خواب آپ اب دیکھ رہے ہیں اس سے بڑھ کر یہ خواب آپ کے حق میں آپ کی ذاتوں میں پورے ہو چکے ہوں گے.پھر یہ خدا کا کام ہوگا کہ آپ کی حفاظت فرمائے پھر یہ خدا کا کام ہوگا کہ اُس دن کو قریب تر لائے جو ظاہری فتح کا دن بھی ہوا کرتا ہے.جنگِ بدر کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی تو واسطہ دیا تھا اپنے رب کو کہ اے خدا یہ تھوڑی سی جماعت میں نے تیار کی تیری عبادت کرنے والوں کی، یہ میری ساری محنتوں کا پھل ہے اور تو کہتا ہے کہ کائنات کا پھل ہے، اگر آج یہ لوگ مارے گئے تو پھر تیری عبادت کرنے والا دنیا میں کبھی کوئی پیدا نہیں ہوگا.اس قسم کے عبادت کرنے والے آپ بن جائیں تو اللہ کے پاک رسول کی دعائیں آپ کو بھی پہنچ رہی ہوں گی وہ خدا! کا رسول اس لحاظ سے آج بھی زندہ ہے آج بھی وہ دعا آپ کے حق میں خدا کو یہ واسطہ دے گی کہ اے خدا اگر یہ تیرے عبادت گزار بندے ہلاک ہوگئے یا نا کام مرگئے تو پھر کبھی دنیا میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی.پھر کیسے ممکن ہے کہ آپ کو وہ فتح اور ظفر نصیب نہ ہو.(ضمیمہ ماہنامہ "خالد" و ”انصار اللہ دسمبر 1986ء)

Page 251

مشعل راه جلد سوم 247 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ ساؤتھ ریجن UK کے سالانہ اجتماع کے لئے پیغام $1986 نئی نسل کو خصوصا اور بڑوں کو عموماً قرآن کریم سکھانے کی طرف توجہ دیں نماز کا ترجمہ اور تلفظ ہر ایک ذہن میں راسخ ہو اور نماز سے شدید محبت ہر ایک کے دل میں گھر کرلے قرآن کریم با ترجمہ پڑھنے کا عزم پیدا کیا جائے یہ وہ بنیادی کام ہے جس پر جماعت کے ایمان اور تقویٰ کی بنیاد ہے

Page 252

مشعل راه جلد سوم 248 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 253

مشعل راه جلد سوم 249 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:- آپ کو اس اجتماع کی بہت بہت مبارک ہو اور تمام حاضرین کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو ہر لحاظ سے کامیاب کرے اور دینی و دنیاوی برکتوں سے نوازے اور آپ کی مجلس کو ایک مثالی مجلس بنا دے.نئی نسل کو خصوصاً اور بڑوں کو عموما قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کی طرف توجہ دیں.نماز ، اس کا تلفظ اور ترجمہ ہر ایک ذہن میں پختہ طور پر راسخ ہو اور نماز سے شدید محبت ہر ایک کے دل میں گھر کر لے.یہ وہ بنیادی کام ہے جو نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے اس لئے گھروں کی سہولت کے اعتبار سے چھوٹے چھوٹے مرکز درس کے لئے قائم کئے جائیں اور سو فیصدی بچوں کو، اسی طرح بڑوں کو بھی نماز صحیح تلفظ اور ترجمے کے ساتھ یاد کرائی جائے اور قرآن کریم پڑھایا جائے.چھوٹی چھوٹی سورتیں حفظ کرائی جائیں اور پھر قرآن کریم باترجمہ پڑھنے کا عزم پیدا کیا جائے.یہ وہ بنیادی کام ہے جو ابتدائی لحاظ سے انتہائی ضروری ہے جس پر جماعت احمدیہ کے ایمان اور تقویٰ کی بنیاد ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق بخشے اور اس اجتماع کی برکتوں کو اتنا پھیلا دے کہ ہر بچہ اور ہر جوان اور ہر بوڑھا پکا نمازی بن جائے اور خدا تعالیٰ کی محبت اس کے رگ وریشہ میں گھر کر لے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.(ضمیمہ ماہنامہ مصباح اپریل 1986 ء صفحہ 9)

Page 254

مشعل راه جلد سوم 250 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 255

حلى مشعل راه جلد سوم 251 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ کے تیسرے سالانہ یورپین اجتماع سے افتتاحی خطاب فرموده 24 /اکتوبر 1986ء اسلام کا خلاصہ امن ہے ذکر الہی کے موضوع حضرت مصلح موعود کا ایک لیکچر ذکر الہی سے یہ مراد طمانیت بخش ذکر الہی ہر حالت میں خدایا در ہے

Page 256

مشعل راه جلد سوم 252 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 257

مشعل راه جلد سوم 253 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوّ ذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ مغربی جرمنی کو آج یہاں ایک یورپین اجتماع منعقد کرنے کی توفیق عطا فرما رہا ہے.مختلف مواقع پر مختلف تقریبات میں مجھے مغربی جرمنی میں آکر شمولیت کی توفیق ملتی رہی ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ ایک بڑا نمایاں غیر معمولی احسان ہے جسے میں ہر دفعہ محسوس کرتا ہوں کہ ہر مرتبہ حاضرین کی تعداد میں پہلے کی نسبت اضافہ پاتا ہوں اور کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کسی تقریب میں حاضرین کی تعداد پچھلے دورے کی تقریب کے مقابل میں کم ہوگئی ہو.گذشتہ مرتبہ یہاں ایک جماعتی جلسہ کے موقع پر حاضر ہوا تھا اور اگر یہ پنڈال اتنا ہی ہے جتنا اس وقت تھا تو آج یہاں حاضری اس عمومی جماعتی جلسے کے مقابل پر بھی دکھائی دے رہی ہے.یہ درست ہے کہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں انصار بھی تشریف لے آتے ہیں اور لجنات میں سے بھی نمائندگی ہو جاتی ہے لیکن جہاں تک میری نظر بتا رہی ہے کہ حاضرین کی بڑی تعداد خدام ہی سے تعلق رکھنے والی ہے تو اس پہلو سے اللہ تعالی کا بڑا احسان ہے، خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ یورپ میں اس وقت جرمنی میں ایک بڑی مضبوط خدام کی تعداد تیار ہو رہی ہے جہاں یہ اللہ کا احسان ہے کہ وہ برکت بھی دے رہا ہے تعداد بڑھا رہا ہے ہر لحاظ سے اپنے فضل نازل فرمارہا ہے وہاں کچھ ذمہ داریاں بھی ہم پر عائد ہوتی ہیں.اسلام کا خلاصہ امن ہے تفصیلی خطاب تو میں انشاء اللہ اجتماع کے آخر پر کروں گا یہ تو اختصار کے ساتھ محض ایک دعا کروانے کا بہانہ ہوا کرتا ہے جسے ہم افتتاحی خطاب کہتے ہیں.لیکن جمعہ کے مضمون کے تسلسل میں ایک بات میں آپ سے ضرور کہوں گا.میں نے اسلام کے متعلق تعارف کرواتے ہوئے قرآن ہی کی زبان میں یہ بتایا کہ اسلام کا خلاصہ امن ہے اور یہ امن انسان کی ذات سے شروع ہوتا ہے جب تک اس کا آغاز انسان کی ذات

Page 258

254 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم سے شروع نہ ہو اس وقت تک بیرونی امن کا دعویٰ بالکل بے معنی اور لغو بات ہے.میں آج اس مجلس میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انسان کی ذات سے امن کیسے شروع ہوتا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے اَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 29) کہ سنو! خبردار اللہ کے ذکر ہی سے دل اطمینان پایا کرتے ہیں.پس جب ہم کہتے ہیں کہ انسان کی ذات سے امن شروع ہوتا ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ امن کیسے نصیب ہو؟ تو اس کا نہایت آسان اور نہایت مؤثر اور قوی ذریعہ ذکر الہی ہے.ذکر الہی کا مضمون تو بہت ہی وسیع ہے.انسان کو جو اندرونی امن نصیب ہوتا ہے، قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اس کا آغاز ذکر الہی سے ہوتا ہے اور بیرونی امن بھی تبھی دنیا میں انسان پھیلا سکتا ہے اگر اسے اندرونی امن وہ نصیب ہوا ہو جس کا آغاز ذکر الہی سے ہوتا ہے ورنہ کئی قسم کے اور بھی اندرونی امن ہیں جو در حقیقت نظر آنے والے امن ہیں.ان میں کوئی گہرائی نہیں اور کوئی حقیقت نہیں ہوا کرتی.وہ بالآخر اُس انسان کا بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں جو بظاہر اس امن کا حامل ہوتا ہے.DRUGS (ڈرگس) کے ذریعے بھی تو ایک امن نصیب ہو جاتا ہے.دنیا کی لذتوں میں ڈوب کر بھی ایک قسم کا امن نصیب ہو جاتا ہے مگر جس امن کی اسلام بات کرتا ہے وہ وہ امن نہیں.وہ وہ امن ہے جو خالصہ ذکر الہی سے ملتا ہے.ذکر الہی کے موضوع حضرت مصلح موعود کا ایک لیکچر پس ذکر الہی کا مضمون جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا بہت ہی وسیع مضمون ہے اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود کا ایک لیکچر ذکر الہی کے موضوع پر موجود ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور خدام کو چاہیے کہ جس حد تک ممکن ہوا سے پڑھیں کیونکہ اس میں ذکر کی بہت سی انواع بیان ہیں ، طریقہ کار بیان ہیں، ذکر کیسے کیا جاتا ہے؟ اور کس طرح اُس سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کئے جاتے ہیں.مگر بہر حال مختصراً میں آپ سے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ذکر بعض دفعہ تو انسان اس وقت شروع کرتا ہے جب اسے خود ضرورت محسوس ہوتی ہے مثلاً کسی مشکل میں وہ مبتلا ہے.Assylum کے لئے درخواست دی ہوئی ہے رڈ ہوتی چلی جارہی ہے درخواست.اور آخر وکیل کہہ دیتا ہے کہ اب اپیل میں بھی کوئی گنجائش نہیں اس وقت خدایا د آ جاتا ہے اور انسان کہتا ہے کہ میں ذکر کرتا ہوں مگر اطمینان مجھے پھر نصیب نہیں ہورہا.میں نے بہت

Page 259

255 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم دعائیں کیں پھر بھی میری خدا نے نہیں سنی.تو یہ وہ ذکر نہیں جو طمانیت قلب نصیب کرنے والا ذکر ہے.بعض دفعہ وقتی طور پر اگر اس ذکر میں بھی انسان خالص ہو تو وہاں بھی اس عرصہ کے لئے طمانیت قلب ضرور نصیب ہو جاتی ہے مگر ضرورت کا ذکر اگر طمانیت بخشے بھی تو یہ آنی فانی طمانیت ہوتی ہے.آئی اور غائب ہوگئی جس طرح کا ذکر چلا گیا اسی طرح اس کی طمانیت بھی چلی جاتی ہے اور طمانیت کا مضمون ایسا ہے جس میں ٹھہراؤ کا معنی پایا جاتا ہے.آنا فانا آنے جانے والی چیز کو آپ طمانیت بخش نہ کہہ سکتے ہیں نہ اس میں طمانیت کے مضمون کے ساتھ کسی قسم کی موافقت پائی جاتی ہے.اطمینان تو کہتے ہی ہیں اس چیز کو جسمیں بظاہر ٹھہرا ؤسا ہو،سکمیت ہو، کوئی چیز آ کر ٹھہر جائے اور گھر بنالے، مقام کر بیٹھے.اس نقشے کو یا جونقشہ ذہن میں اُبھرتا ہے اس کے ساتھ طمانیت کا تعلق.ہے.ذکر الہی سے یہ مراد پس ذکر الہی سے یہ مراد ہے کہ کبھی ضرورت کے وقت آپ کو خدا یاد آ جائے جو آپ کی ضرورت کے وقت کا خدا ہوتو وہ آپ کو مستقل طمانیت بخش دے گا.وہ خدا یقیناً ایسا رحیم کریم خدا ہے کہ بعض دفعہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ بندہ ہے بے وفا مجھے اپنی ضرورت کے وقت یاد کرتا ہے میری ضرورت کے وقت یعنی میرے دین کی ضرورت کے وقت کھلا دیتا ہے پھر بھی بسا اوقات رحمان و رحیم خدا اُس ذکر کے نتیجے میں بھی اسے وقتی طمانیت بخش دیتا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ بسا اوقات ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہوتی ہیں سمندر میں کشتی والے بڑے خوش مطمئن سفر کر رہے ہیں اچانک ہواؤں کا رخ پلٹتا ہے اور شدید طوفان برپا ہوجاتا ہے.ایسا خطرناک طوفان کہ بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.اس وقت ایسے لوگ بھی جو جب امن کی حالت میں تھے تو خدا تعالیٰ کو بھلا بیٹھے تھے یا خدا کے ساتھ شریک کیا کرتے تھے اور فرضی خداؤں کی عبادت کیا کرتے تھے وہ بھی ایک خدا کو خالصتہ پکارنے لگ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی اس پکار کو بھی سن لیتا ہے اور انہیں وقتی طور پر طمانیت بخشتا ہے یہاں تک کہ وہ پھر زمین کے محفوظ کناروں تک آرام سے پہنچ جاتے ہیں.اللہ فرماتا ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی خدا ایسا کرتا ہے کہ جب انہیں امن نصیب ہوگا تو پھر وہ مجھے بھلا دیں گے پھر اسی طرح فرضی خداؤں کو بلانے لگ جائیں گے جس طرح پہلے بلایا کرتے تھے تو یہ طمانیت تو مل جاتی ہے لیکن وقتی طمانیت ہوتی ہے.

Page 260

مشعل راه جلد سوم 256 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی طمانیت بخش ذکر الہی قرآن کریم الا بذکر الله تطمئن القلوب میں جس ذکر کا ذکر فرما رہا ہے وہ ذکر آ کر ٹھہر جانے والا ذکر ہے جو زندگی کا حصہ بن جائے.خدا دل میں داخل ہو اور ٹھہر جائے وہاں سکینت اختیار کر لے.وہی ذکر ہے جس کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ وہ پھر طمانیت بخشے گا اور ساری زندگی مطمئن ہو جائے گا.وہیں سے ( دین حق ) کا آغاز ہوتا ہے.جن دلوں میں خدا تعالیٰ اس طرح داخل ہو جائے کہ ذکر خدا کی ذات کے ساتھ وابستہ ہو خدا ذکر کے ساتھ ہمیشہ وابستہ ہو اور انسانی وجود کا حصہ بن جائے.یعنی ( خدا تو حصہ نہیں بن سکتا مگر اس کی یاد تو انسانی وجود کا حصہ بن جائے ) ایسا شخص امن میں آجاتا ہے اور ایسے شخص کا ماحول بھی پر امن ہونے لگتا ہے.ایسا شخص جس کے ساتھ اللہ رہے یہ ممکن نہیں کہ وہ شخص دنیا میں بدامنی پھیلانے والا ہو.یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کا گھر بے سکون رہے وہ لازماً اپنے تعلقات میں ایک ایسی نئی بات خدا والی بات داخل کر لیتا ہے کہ جس طرح بندہ اپنے خدا سے محفوظ ہے خدا کے بندے اس سے محفوظ ہو جاتے ہیں.پس جب میں کہتا ہوں کہ آپ ( دین حق ) کا نام لے کر جب دنیا میں ( دین حق) کی فتح کی باتیں کرتے ہیں تو اس کا آغاز اپنے نفس سے کریں تو قرآن کے بیان کے مطابق میں آپ کو یہ گر بھی بتا تا ہوں کہ یہ آغاز کیسے ہوسکتا ہے.خدا کی باتوں سے یا بلند نعروں سے یہ بات حاصل نہیں ہوسکتی.نعرہ ہائے تکبیر آپ فلک شگاف بھی لگائیں تب بھی وہ اندرونی طمانیت آپ حاصل نہیں کر سکتے جو خدا سے بچے تعلق کے نتیجے میں خدا کے خود بخود یاد آتے رہنے کے ذریعے پیدا ہوتی ہے.ہر حالت میں خدایا در ہے پس جب خدا فرماتا ہے الا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب تو مراد یہ ہے کہ تم خدا کے اس رنگ میں ہو جاؤ کہ خدا سے تمہیں پیار پیدا ہو جائے اللہ کے ذکر میں لطف آنے لگے، وہ روز مرہ کی زندگی میں داخل ہو جائے، اُٹھتے بیٹھتے ہوتے جاگتے ، مصیبت ہو یا امن ہو تمہیں ضرورت ہو یا دین کو تمہاری ضرورت ہو ہر حالت میں خدا یاد رہے اور اس کے ساتھ ایک دائمی تعلق اور پیار پیدا ہو جائے.یہ جب پیدا ہوتو یہ راز چھپا نہیں رہا کرتا.یہ ایسی بات نہیں جسے آپ دل میں سمیٹ کے دنیا کی نظر سے بچا کر رکھ سکیں پھر تو اس کی خوشبو اٹھتی ہی اُٹھتی ہے پھر تو اس کے رنگ ضرور دکھائی دینے لگتے ہیں.

Page 261

257 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جس طرح مٹی میں بعض دفعہ ایک مالی جادو جگاتا ہے اور مٹی کے بد رنگ سے حسین خوبصورت پھول اگا لیتا ہے اور پھولوں کا رنگ بھی بکھرتا ہے فضا میں اور اُن کی خوشبو بھی بکھرتی ہے.سارے دیکھنے والوں کے لئے طمانیت بخش ہوتا ہے وہ نظارہ.اسی طرح اللہ کی محبت کا بیج جب دل میں بویا جائے تو اس پیج سے اس سے زیادہ خوشنما، اس سے بہت زیادہ حسین رنگوں والا، اس سے بہت زیادہ دلکش خوشبوؤں والا ایک مرغزار اٹھ جاتا ہے اور انسانی دل کو وہ گلزار بنا دیتا ہے.یہ وہ ذکر الہی ہے جو سکینت بخشنے والا ہے اور (دین حق کے سفر کا آغاز یہاں سے شروع ہوتا ہے.اگر دلوں میں یہ ذکر پیدا ہو جائے اور یہ طمانیت نصیب ہو جائے تو آپ سارے ماحول کو طمانیت بخشے والے بن جائیں گے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.اب ہم دعا کرتے ہیں اس کے بعد آپ کے جلسہ کی کارروائی جاری رہے گی.(ماہنامہ اخبار احمد یہ جرمنی دسمبر 1986ء)

Page 262

مشعل راه جلد سوم 258 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 263

ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی 259 مجلس خدام الاحمدیہ کے تیسرے سالانہ یورپین اجتماع سے اختتامی خطاب فرمودہ 26 اکتوبر 1986ء خدا کے شیروں کی طرح ہمت بلند کرتے ہوئے.........یہ عزم لے کر اٹھیں کہ اس ملک کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ نے فتح کرنا ہے ملکوں اور جسموں پر قبضہ نہیں بلکہ فتح سے مراد دلوں اور روحوں پر قبضہ ہے جرمنی میں ( دین حق ) اور احمدیت کی ترقی کے نمایاں امکانات ہیں جرمن قوم یورپ کی باقی قوموں کی نسبت زیادہ سعید فطرت اور سعادت مند ہے اور ذمہ دار قوم ہے میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جرمن قوم میں ( دین حق ) قبول کرنے کی صلاحیتیں یورپ کی دوسری قوموں سے زیادہ ہیں ہر احمدی نوجوان، بوڑھے ،عورت ہر احمدی بچے کو بھی ( داعی الی اللہ ) بننا پڑے گا سنجیدگی سے جرمن زبان سیکھنے کی طرف توجہ دیں اور اس پر عبور حاصل کریں یورپ کو اگر ہلاکت سے بچانا ہے تو جرمن قوم کو ہلاکت سے بچائے بغیر یورپ نہیں بچ سکتا ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ مشعل راه جلد سوم

Page 264

مشعل راه جلد سوم 260 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 265

مشعل راه جلد سوم 261 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- اللہ تعالیٰ کا یہ بے حد احسان ہے کہ اس نے خدام الاحمدیہ کے اس تیسرے اجتماع کو غیر معمولی رونق عطا فرمائی اور جتنی تو قعات تھیں منتظمین کی ان سے بہت بڑھ کر اس اجتماع کی حاضری بڑھا دی.جب میں نے یہاں آنے کے بعد اندازے طلب کئے تو قائد صاحب کا اندازہ تو بارہ سو کے لگ بھگ تھا اور امیر صاحب کا اندازہ پندرہ سو کے قریب تھا لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اٹھارہ سو سے بھی زائد خدام یہاں اکھٹے ہو چکے ہیں.خدا کے شیروں کی طرح یہ عزم لے کر اٹھیں یہ خدا کا غیر معمولی احسان ہے کہ گذشتہ اجتماع کے آٹھ سو کے مقابل پراٹھارہ سو کی تعداد بلکہ اس سے بھی زیادہ یہ بالکل غیر متوقع اللہ کا فضل ہے اتنی بڑی تعداد جماعت احمدیہ کے نو جوانوں کی خدا کی طرف سے ایک ملک کو عطا ہو جائے تو یقینی طور پر اس ملک کی فتح کی بنیاد میں قائم ہو جانی چاہئیں اور اس حیثیت سے میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ کے شیروں کی طرح ہمت بلند کرتے ہوئے ارادے بلند تر رکھتے ہوئے کامل یقین اور توکل کے ساتھ دعاؤں سے مدد مانگتے ہوئے آج یہ عزم لے کر اٹھیں کہ اس ملک کو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دین کے لئے آپ نے فتح کرنا ہے جب ہم فتح کی باتیں کرتے ہیں تو ( دین حق ) کی اصطلاح میں فتح کی باتیں کرتے ہیں یہاں فتح سے مراد ملکوں اور جسموں پر قبضہ نہیں ہے بلکہ فتح سے مراد دلوں اور روحوں پر قبضہ ہے اور دلوں اور روحوں پر قبضے سے پہلے خود انسان کو مفتوح ہونا پڑتا ہے.کہتے ہیں.عشق اول در دل معشوق پیدا می شود

Page 266

مشعل راه جلد سوم 262 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی عشق پہلے معشوق کے دل میں پیدا ہوا کرتا ہے.اگر شمع روشن نہ ہو تو پروانہ نہیں جلا کرتا اس لئے آپ کو انکی محبت میں پہلے خود مفتوح ہونا پڑے گا ان سے ایسا عشق اور پیار کا معاملہ کرنا پڑیگا کہ بالآخر انکے لئے چارہ نہ رہے آپ پر عاشق ہوئے بغیر یہ ہے دینی اور روحانی فتح کا منظر جو ہمیں قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور جو ہمیں احادیث نبویہ سے اور سنت حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے آپ فرماتے ہیں کہ میری اور تمہاری مثال تو ایسے ہے جیسے تم دیوانہ وار ایک آگ کے گڑھے کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہو اور میں تمہارے عشق اور تمہاری محبت میں والہانہ تمہیں بچانے کے لئے تمہارے پیچھے دوڑتا ہوں.کبھی کمر پر ہاتھ ڈالتا ہوں کبھی کندھے سے پکڑتا ہوں اور میری کوشش زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ کسی طرح میں تمہیں ہلاکت سے بچاؤں.پس حقیقت میں جب ہم فتح کی باتیں کرتے ہیں تو ہر گز دنیاوی اصطلاح کی فتح نہیں.نہ ہمارا وہ مقصود ہے نہ ہمیں اس سے کوئی دلچسپی ہے فتح سے مراد وہ روحانی فتح ہے جس کے نتیجہ میں جن پر ہم فتحیاب ہوتے ہیں وہ نجات پا جاتے ہیں جن پر ہم غالب آتے ہیں.ان کی محبت میں مغلوب ہو کر غالب آتے ہیں اس کے بغیر غالب نہیں آتے پس اس پہلو سے ( دین حق ) کا یہ جہاد ایک انتہائی عظیم الشان انسانی جہاد ہے اور انسانیت کی سطح کا بلند ترین جہاد ہے.اٹھارہ سو کے لگ بھگ خدام یہاں موجود ہیں جن میں سے غالباً دوسو کے قریب یا ایک سو پچھتر کے قریب باہر کے ملکوں کے ہونگے اور باقی سب جرمنی کے ہیں حالانکہ جرمنی کے سب خدام یہاں حاضر نہیں ہو سکے.یہاں احمدیت کی ترقی کے امکانات نمایاں ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی میں مجلس خدام الاحمدیہ کی تعداد دو ہزار سے یقیناً زائد ہو چکی ہے اور دو ہزار کی تعداد تو ایک بہت عظیم الشان تعداد ہے جو خالصہ جوانوں پر مبنی ہے دنیا کے کسی ملک میں بوڑھوں اور جوانوں کی وہ نسبت نہیں جو جرمنی میں ہے.یہاں نو جوانوں کی تعداد خاندانوں کی نسبت کے لحاظ سے غیر معمولی طور پر زیادہ ہے.اس لئے دو طرح سے یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ( دین حق ) اور احمدیت کی ترقی کے نمایاں امکانات ہیں.اول نو جوان میں ہمت ہوتی ہے کام کی اور خدمت کا جذ بہ بھی ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو مٹا دینے کی طاقت بھی پاتا ہے جب کہ بوڑھوں میں خواہ اخلاص کا معیار بلند بھی ہو تو وہ اس طرح انجام سے بے خبر ہو کر بے پرواہ ہو کر اپنی ذات کو کسی اعلیٰ مقصد کی خاطر

Page 267

263 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جھونکنے کی طاقت نہیں رکھتے.اس لئے دنیا میں جتنی بھی بڑی جنگیں ہوئی ہیں سب سے زیادہ تعداد میں نوجوانوں نے اپنے آپ کو ملک کی خاطر پیش کیا اور سب سے زیادہ تعداد میں نو جوانوں نے اپنی زندگیاں پیش کیں.کچھ تو اس لحاظ سے بھی طبعی بات ہے کہ جوان ہی ایسے موقعوں پر آگے آیا کرتے ہیں مگر کچھ اس لحاظ سے بھی کہ جوانوں اور نسبتاً بڑی عمر کے سپاہیوں اور فوجیوں کا اگر آپس میں موازنہ کر کے دیکھا جائے تو نوجوانوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جانی قربانی اور بعض صورتوں میں مالی قربانی کی زیادہ استطاعت ہوتی ہے.جرمن قوم سعید فطرت ہے پس اس پہلو سے جرمنی کو باقی ممالک پر ایک فوقیت حاصل ہے کہ یہاں احمدیوں کی زیادہ تر تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے ایک اور پہلو ہے وہ یہ کہ یہاں کی جو قوم ہے یعنی جرمن قوم وہ یورپ کی باقی قوموں کی نسبت زیادہ سعید فطرت اور سعادت مند ہے.جرمن قوم کے متعلق ایک وہ تصور تھا جو ہم نے دور سے سنا تھا یا دوسرے یورپینز کے پراپیگنڈا کے نتیجہ میں ہم تک پہنچا اور وہ یہ تھا کہ یہ نہایت کرخت قوم ہے اور انسانی قدروں سے تقریبا عاری ہے اور بہت ہی سخت مزاج اور غیروں کو نہ قبول کرنے والی، دھت کار نے والی لیکن ایک وہ جرمن قوم ہے جو قریب آنے سے ہم پر ظاہر ہوئی اور اس پہلو سے اُس تصور سے بالکل مختلف تصور ابھرتا ہے جو غیروں نے پراپیگینڈا کے طور پر جرمن قوم کا باہر کے ملکوں میں باندھا تھا ایک انتہائی سعید فطرت اور ذمہ دار قوم ہے جو سنجیدہ مزاج رکھتی ہے اور جس کام کو صحیح سمجھے اس کو بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوشش کرتی ہے جہاں تک غیروں کو قبول کرنے یا دھتکارنے کا تعلق ہے باوجود اس کے کہ یورپ کے بعض اور ممالک کی اقتصادی حالت مثلاً سویڈن کی اقتصادی حالت جرمنی کی اقتصادی حالت سے بہت بہتر ہے اور ملک کی وسعت کے لحاظ سے آبادی بھی بہت کم ہے اس کے مقابل پر جرمن قوم اقتصادی لحاظ سے اگر چہ بہت مضبوط ہے لیکن سویڈن کے مقابل پر نہیں اور ملک کی وسعت کے لحاظ سے اس قوم کی تعداد بہت زیادہ ہے اور Congestion ہے ضرورت سے زیادہ آدمیوں کا تھوڑے رقبے میں اکٹھے ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے.اس کے باوجود جرمن قوم نے جس فراخدلی کے ساتھ جس وسعت قلبی کے ساتھ باہر کے مظلوم انسانوں کے لئے اپنے ملک کے دروازے کھولے ہیں یورپ کی کوئی دوسری قوم اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتی.اس لحاظ سے اسلئے اس قوم کو تنگ دل کہنا یا غیروں

Page 268

مشعل راه جلد سوم 264 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کے اوپر سخت کہنا بالکل ایک ناجائز ظالمانہ حملہ ہے جس کی کوئی بھی حقیقت نہیں.تیسرا یہ میں نے غور سے دیکھا ہے بڑے لمبے تجربے کے بعد میں یقین کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ جرمن قوم میں اسلام قبول کرنے کی صلاحیتیں یورپ کی دوسری قوموں سے زیادہ ہیں.چونکہ ظاہری کرختگی کے باوجود ان کے اندر فطرتا سچائی کی محبت موجود ہے اور سعادت پائی جاتی ہے اور بناوٹی اور دکھاوے کے طور پر نہ ان کو باتیں کرنی آتی ہیں نہ ان کا مزاج ان کو ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے اس کے مقابل پر ساؤتھ آف یورپ میں آپ چلے جائیں وہاں آپ کو بہت ہی خوش مزاج لوگ ملیں گے جو جگہ جگہ بات بات پر بچھے جائیں گے آپ کے سامنے لیکن اس سے آگے نہیں.جب آپ ان کو کوئی سنجیدہ پیغام دینے کی کوشش کریں گے جب آپ ان کو کسی اعلیٰ مقصد کی طرف بلائیں گے تو السلام علیکم کہ کر الگ ہو جائیں گے ابتداء ان کی خوش دلی خوش مزاجی کی تہذیب نسبتاً ایک سطحی حیثیت رکھتی ہے جب کہ جرمن قوم میں یہ خوبی موجود ہے کہ ابتدء اسخت نظر آتے ہیں لیکن ذرا سا آپ ان کے وجود میں داخل ہونے کی کوشش کریں تو اندر سے آپ ان کو نہایت اعلیٰ انسانی قدروں سے مزین پائیں گے.پس فطرتا یہ اسلام کے قریب ہیں اور یہ جو میرا تجزیہ ہے یہ ایک فرضی بات نہیں حقائق پرمبنی تجزیہ ہے اور کچھ عرصہ پہلے مجھے یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی کہ حضرت مصلح موعود نے جنگِ عظیم سے پہلے جب پہلا احمد یہ مشن جرمنی میں بنانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت آپ کا بھی یہی جرمن قوم کے متعلق نظریہ تھا اور آپ نے اس کا اظہار اپنے خطبے میں کیا کہ میں جرمنی کو پہلے اس لئے چن رہا ہوں کہ میرے نزدیک جرمنی کے مستقبل سے ( دین حق ) کا مستقبل بہت حد تک وابستہ ہے اور اس قوم میں ایسی بنیادی خوبیاں پائی جاتی ہیں کہ اگر ہم اس کو ( دین حق) کے لئے جیت لیں تو ساری دنیا ( دین حق) کے لئے فتح کرنی آسان ہو جائے گی.اس پہلو سے ہماری ذمہ داریاں جہاں بہت بڑھ جاتی ہیں.چنانچہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ کچھ ہمیں باقی ملکوں کی نسبت اس ملک میں خدمت کے لئے بہت زیادہ آسانیاں میسر آتی ہیں لیکن ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے دو ایسے پہلو ہیں جن کی طرف میں خصوصیت سے آج آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.پہلی بات یہ کہ دعوت الی اللہ کے متعلق میں بارہا خطبات میں اعلان کر چکا ہوں اور بیان کر چکا ہوں اور اس کی اہمیت بیان کر چکا ہوں ہر رنگ میں میں نے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جب تک ہر احمدی نوجوان (مربی) نہیں بن جاتا اس وقت تک ( دین حق کی فتح کی باتیں کرنے کا ہمیں حق ہی کوئی نہیں ہر احمدی جوان ہی کو نہیں ہر احمدی بوڑھے کو بھی (مربی) بنا پڑیگا ہر احمدی عورت کو بھی ( مربی ) بننا پڑے گا ہر احمدی

Page 269

265 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم بچے کو بھی ( مربی ) بنا پڑیگا کیونکہ دنیا کے پھیلنے کی رفتار آج اسلام کے پھیلنے کی رفتار سے بہت زیادہ تیز ہے اور اگر ہمارے مجاہدین جو ( دعوت الی اللہ ) کے میدان عمل میں کود چکے ہیں اگر صرف ان پر ہی انحصار کیا جائے تو ہمیں ہزار ہا سال چاہئیں دنیا کو فتح کرنے کے لئے بشرطیکہ دنیا کی آبادی آگے بڑھنا بند کر دے اور اگر دنیا اسی رفتار سے آگے بھاگتی چلی جائے تو پھر تو غالب کے اس مصرع کے مصداق قصہ ہوگا کہ میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے.وہ کہتا ہے ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ ނ ہر قدم پر میری منزل کی دوری کا احساس پہلے سے آگے زیادہ بڑھتا چلا جا رہا ہے کیونکہ بیابان میری ہی رفتار سے آگے بھاگ رہا ہے.پس اے دنیا کے بیابانوں کو چمنستانوں میں تبدیل کرنے کے دعوے دارو! کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ یہ دنیا کے بیابان تو تمہاری رفتار سے بھی بہت زیادہ تیزی سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور مقابلہ تمہارے قدم پیچھے رہتے چلے جا رہے ہیں اس لئے اگر تم اپنے اس دعوے میں سنجیدہ ہو کہ ساری دنیا کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے لئے جو سچا دین ہے اور ایک ہی تنہا سچا دین ہے آج دنیا میں اس کے لئے فتح کرو گے اور تمام انسانیت کو ( دین حق ) کے امن بخش سائے میں لے آؤ گے تو پھر سنجیدگی سے غور کرو کہ اس دعوے کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے تم اپنے اندر کیا تبدیلی پیدا کر رہے ہو اور کس سنجیدگی کے ساتھ اس دعوے کی پیروی میں قدم آگے بڑھا رہے ہو.میں جب جائزہ لیتا ہوں تو مجھے یہ نظر آتا ہے کہ ہمارے اکثر احمدی نوجوان ابھی تک اپنی زندگی کا اکثر حصہ بریکا رصرف کر رہے ہیں جیسا کہ حضرت مصلح موعود کا کلام آپ کے سامنے پڑھا گیا تھا ابھی تک ان کے ارادے چھوٹے ہیں، ابھی تک ان کی نگاہیں نیچی ہیں، ابھی تک ان کے مقصود بے معنی اور بے حقیقت ہیں.دنیا کی چند نوکریاں، دنیا کی چند لذتیں بہت زیادہ نمایاں طور پر یہی ان کے سامنے ہیں اس وقت.حالانکہ انسان کے لئے اپنے مقصد کو بلند تر کرنا کوئی مشکل نہیں بلند تر مقصد کی پیروی تو ضرور مشکل ہے لیکن مقصد کا بلند کرنا تو کچھ مشکل نہیں پہلے اپنے مقاصد تو بلند کریں کہ آپ نے ( دین حق ) کے مجاہد بن کر ساری دنیا کو ( دین حق) کے لئے فتح کرنا ہے اگر یہ مقصود آپ کا بن جائے تو پھر آئندہ عمل کے بہتر ہونے کی بھی توقع کی جاسکتی ہے لیکن اگر مقصود ہی یہ نہ ہو اس طرف توجہ ہی نہ پیدا ہو تو پھر ساری زندگی رائیگاں جائے گی اور بہت

Page 270

266 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم دیر کے بعد آپ کو یہ احساس ہوگا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو جو نعمت دی تھی وہ اکثر آپ نے دنیا کی پیروی میں ضائع کر دی اور کچھ بھی ایسی کمائی یہاں نہیں کر سکے جو اُخروی زندگی میں خدا کے حضور پیش کر سکیں نو جوانی کی عمر جہاں غیر ذمہ داری کی عمر ہے وہاں اصلاح کے لحاظ سے بھی جوانی کی عمر میں صلاحیت موجود ہے کہ جلد اصلاح پذیر ہو جاتی ہے.دنیا میں بھٹکنے کے امکانات بھی زیادہ احتمالات بھی زیادہ ہوتے ہیں اور جوانی کی عمر میں تو بہ کرنے کی طاقت بھی زیادہ نصیب ہوتی ہے اور جلدی اپنے رستے کو بدلنے کی صلاحیت بھی زیادہ موجود ہوتی ہے.جس طرح چھوٹی عمر کے پودے ہیں ان کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ آپ ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگا دیں تب بھی وہ بچ جائیں گے لیکن بڑی عمر کے پودوں کو آپ ایک جگہ سے اکھیڑ کر دوسری جگہ لگائیں گے تو وہ نہیں بچ سکتے چند دن کی فرضی رونق ان کی باقی رہے گی جو پچھلی کمائی کے نتیجہ میں ہے لیکن تازہ پانی سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے، تازہ خوراک سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے، کچھ دنوں بعد مرجھا جاتے ہیں.تو آپ نوجوان نسل سے تعلق رکھتے ہیں اگر پہلی زندگی میں آپ نے کچھ اور قسم کے مقصود بنائے ہوئے تھے ، کچھ اور طرح کی باتوں کی پیروی کی تھی تو ابھی آپ میں صلاحیت موجود ہے کہ اپنی زندگی کے نقشے کو بدل ڈالیں.خدا تعالیٰ کے حضور سنجیدگی سے اپنے آپ کو پیش کریں اور خدا تعالیٰ کی فوج کے صف اول کے مجاہد بنے کا ارادہ کریں یہ ہر گز مشکل نہیں.میں اس کے متعلق مزید کچھ تھوڑی سی روشنی ڈالتا ہوں.امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے اور یہ جائزہ میرا صرف خطوں کے ذریعہ اطلاعات پر مبنی نہیں بلکہ جماعتی رپورٹوں پر بھی مینی ہے جس کا میں جائزہ لیتا رہتا ہوں بہت ہی تھوڑی تعداد ہے ابھی احمدی نوجوانوں کی جو دعوت الی اللہ کے کام میں سنجیدگی کے ساتھ ملوث ہو چکے ہیں جن کی زندگی کا مقصد اوّل دعوت الی اللہ بن چکا ہے.ایسے خدام جرمنی میں معدودے چند ہیں جو کوشش کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو توفیق بخشے کہ صحیح معنوں میں وہ اس کوشش میں کامیاب ہوں لیکن باقی جتنے ہیں وہ ان چند لوگوں کی نیک کمائی کی کھٹی کھاتے ہیں.جرمنی کا نام اگر ( دعوت الی اللہ ) میں روشن ہے تو وہ سب کی وجہ سے نہیں صرف چند آدمیوں کی وجہ سے ہے.اگر آپ سارے فی الحقیقت سنجیدگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عہد کر کے داعی الی اللہ بننے کی کوشش کریں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگلے سال اٹھارہ سو کی بجائے چھتیں سوخدام یہاں بیٹھے ہونے چاہئیں جن میں سے مزید اٹھارہ سو مقامی ملکی ہونے چاہئیں ہرگز مشکل نہیں ہے جو لوگ سنجیدگی سے

Page 271

267 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ارا دے کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو پھل عطا کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ پھل دینے میں ہرگز خسیس نہیں انسان اپنی محنت میں کمی کر دیتا ہے اپنی کوشش میں کوتاہی کر بیٹھتا ہے جس کے نتیجہ میں بعض دفعہ وہ پھل سے محروم ہو جاتا ہے مگر خدا تعالیٰ پھل دینے میں بہت ہی وسیع الحوصلہ ہے.بارہا میں جماعت کو پہلے بھی توجہ دلا چکا ہوں کہ آپ کی دنیا کی محنتوں کا تو پھل وہ بہت دیتا ہے اور آپ کی محنت سے بڑھ کر دیتا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے دین کی خدمت میں آپ محنت کریں اور وہ آپ کو محنت کے پھل سے محروم کر دے یہ تو بڑا ہی بھیا نک بہتان ہے اپنے خدا پر دین کی خاطر ، خدا کی خاطر دین کی خدمت کرنے والوں کے پھل کو خدا کبھی ضائع نہیں کرتا توقع سے بڑھ کر ان کو عطا کرتا ہے.اس لئے آپ میں سے ہر خادم کا فرض ہے کہ وہ یہ فیصلہ کر کے اٹھے کہ میں اللہ کی رضا کی خاطر اپنے سب مقاصد میں سب سے اونچا مقصد یہ رکھوں گا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کا سپاہی بن جاؤں گا اور چین سے نہ بیٹھوں گا جب تک ہر سال آنحضرت کے دین کے لئے مزید زمینیں سر نہ کرتا چلا جاؤں یہ ارادہ بہت بلند ہے اس کی پیروی کیسے کرنی ہے.اس کے متعلق میں چند باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.صرف ارادے سے دنیا تبدیل نہیں ہوا کرتی لیکن تبدیلی کے لئے ارادہ بہر حال سب سے پہلے آتا ہے دوسرا اس کا پہلو یہ ہے کہ ارادے کے ساتھ دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا ہے.آپ لاکھ ارادے باندھیں آپ کو بسا اوقات ان ارادوں پر عمل کرنے کی توفیق ہی نہیں مل سکتی.بہت سی مشکلات آپ کی راہ میں حائل ہیں جو ارادوں کو عمل میں ڈھالنے کی راہ میں روک بن جاتی ہیں اس لئے بہت ہی اہم بات ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ باقاعدہ دعا کر کے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہیں.پہلے فیصلہ کریں کہ میں نے اللہ کی راہ میں ایک مجاہد بننا ہے اور اول درجے کا مجاہد بننا ہے اور پھر دعائیں کریں اور باقاعدہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرمائے.یہ دو قدم اٹھا لیں تو آپ کی اصلاح کا ایک لامتناہی سلسلہ وہیں سے شروع ہو جاتا ہے.یہ کیسے ممکن ہے اس ارادے کے بعد جب آپ روزانہ دعا کرتے ہوں کہ اے خدا! مجھے اپنی راہ کا مجاہد بنا دے اور پھر دوسرے دن جا کر اپنے دوستوں کی مجلس میں شراب نوشی شروع کر دیں پھر آپ سور بیچنے کا کاروبار شروع کر دیں پھر آپ لوگوں سے بد یا نتیاں شروع کر دیں پھر لوگوں کے حقوق مارنے لگ جائیں.ہر روز کی دعا لعنت ڈالے گی ہر ایسے شخص پر اور اس کو شرمندہ کرے گی اور کہے گی کہ تم کیا مانگ رہے ہو خدا سے جبکہ تمہاری زندگی کا رخ بالکل دوسری

Page 272

268 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم طرف ہے کیوں ہوش نہیں کرتے.جب خدا سے مانگتے ہو کہ وہ تمہیں مجاہد بنائے تو مجاہد بننے کی طرف قدم اٹھاؤ لوگوں کو دین سے برگشتہ کرنے کی طرف تو قدم نہ اٹھاؤ.کتنا عظیم الشان پھل ہے جو دعا مانگتے ہی آپ کو حاصل ہونا شروع ہو جاتا ہے اور دعا کی مقبولیت کے نتیجہ میں جو غیر معمولی تائیدات اور نصرت اللہ کی طرف سے ملتی ہے آپ کو نئے حوصلے عطا ہوتے ہیں نئی قوتیں نصیب ہوتی ہیں اپنی اصلاح کی.وہ اس کے علاوہ ہیں یہ تو ایک طبعی فطرتی پھل ہے جو فور انصیب ہو جاتا ہے.جرمن زبان سیکھنے کی طرف توجہ کریں جو شخص بھی دعا میں سنجیدہ ہے جب وہ اپنے لئے دعائیں کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کے عمل کی اصلاح کے لئے ایک نظام از خود حرکت میں آجاتا ہے اور اس کے لئے کسی انتظار کی ضرورت نہیں پڑتی پھر اس دعا کے دوران جب روز مرہ کی زندگی میں آپ کے لئے ( دعوت الی اللہ ) میں مشکلات آئیں گی تو سب سے پہلی چیز آپ کو یہ محسوس ہوگی کہ آپ کو زبان نہیں آتی بغیر زبان سیکھے آپ کس طرح دنیا کے خیالات تبدیل کر سکتے ہیں یا کسی قوم کے خیالات تبدیل کر سکتے ہیں اور اگر آپ دعا میں سنجیدہ ہیں تو زبان سیکھنے میں بھی طبعا سنجیدہ ہو جائیں گے آپ کی مثال ویسی تو نہیں رہے گی پھر کہ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں پھر آپ تلوار ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے اس لئے زبان کی طرف توجہ کرنا آپ کے لئے ایک لازمی قدم بن جائے گا اس کو اٹھائے بغیر آپ آگے نہیں بڑھ سکتے اور آج اگر احمدی نوجوانوں کا جائزہ لیا جائے کہ کتنے ان میں سے جرمن زبان سیکھ رہے ہیں اور سنجیدگی سے اس پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دینی مطالعہ میں کوشش کرتے ہیں کہ جرمن دینی محاورہ بھی ان کو آجائے تا کہ وہ اس محاورے کو ( دعوت الی اللہ ) کے وقت استعمال کر سکیں تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے معدودے چند نکلیں گے جو ( دعوت الی اللہ ) کرنے والے بھی ہیں.ان میں سے بھی اکثر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اپنی خط و کتابت میں یا ملاقات کے دوران کہ ( دعوت الی اللہ) تو ہم نے شروع کر دی ہے مگر ہمیں زبان نہیں آتی.ہم کیسٹس لے کر دیتے ہیں یا بعض کتابیں لے کر اپنے دوستوں کو دیتے ہیں.ٹیسٹس لے کر دینا یا کتابیں لے کر دینا اپنی جگہ ایک نیک فعل ہے خدا اس کے بھی بڑے اچھے نتیجے نکالتا ہے مگر کہاں یہ بات کہ اپنے مافی الضمیر کو اپنے دل کی باتوں کو آپ اپنی

Page 273

مشعل راه جلد سوم 269 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ زبان میں خود اپنے دوست تک پہنچ سکیں.کئی قسم کی باتیں کئی قسم کے سوال اس کے دل میں اٹھتے ہیں جوان کیسٹس میں ہوتے ہی نہیں جو آپ نے ان کو دی ہوتی ہیں.یہ تو ناممکن ہے کہ ہر ذہن بالکل ایک طرح کا ہو.ایک کیسٹ بنانے والے نے اپنے تصور سے بعض لوگوں کے خیالات کا اندازہ کر کے بعض جوابات دیئے ہوئے ہیں جبکہ ہر آدمی کے دل میں ضروری نہیں کہ وہی سوالات اٹھیں اُسی قسم کی الجھنیں ہوں بالکل مختلف قسم کی باتیں بھی آسکتی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ آپ زبان دان ہوں اور زبان دانی میں بھی آپ کو عبور حاصل ہور نہ تھوڑی سی زبان سیکھ کر پھر وہی مسئلہ در پیش ہو گا کہ سننے والے کے خیالات اور مضمون کے ہیں اور آپ نے اور مضمون کی زبان سیکھی ہے آپ کا زبان کا دائرہ محدود ہے اس کا وسیع ہے بہت سی باتوں میں جا کر الجھن پیدا ہو جائے گی.مجھے یاد ہے ایک دفعہ راولپنڈی میں ایک چینی دوست تھے جو ریسٹورنٹ میں کام کرتے تھے.ہمارے عثمان چینی صاحب جو ہمارے بڑے مخلص دوست ہیں.پنڈی جانے سے پہلے میں نے اُن سے کہا کہ میں اس کو ذراPleasent Surprise دینا چاہتا ہوں آپ مجھے کوئی چھپیں تھیں فقرے یا کچھ زائد چینی زبان کے ایسے سکھا دیں میں خوب رٹ لوں گا اور میں جا کر اس سے چینی میں باتیں شروع کر دونگا اور وہی باتیں جو روزمرہ میں کام آتی ہیں وہ میں نے سوچ لیں میں اس کو جا کر کہوں گا آپ کا کیا حال ہے وہ یہ جواب دے گا پھر میں کہوں گا کھانے وانے کے لئے کیا ہے and so on خیر میں نے میرا خیال ہے کہ تمہیں کے قریب یا اس سے بھی زیادہ غالباً ستر فقرے تھے مختلف جو میں نے اس وقت یاد کر لئے اور جا کر میں نے اس سے پوچھا چینی زبان میں کہ کیا حال ہے تو اس نے فرفر چینی زبان بولنی شروع کر دی ایک لفظ بھی میرے پلے نہیں پڑا.وہ سمجھا کہ اس نے بڑے سلجھے ہوئے انداز سے کہا ہے کہ کیا حال ہے ضرور چینی آتی ہوگی اس کو.تو اس قسم کی Surprise ملیں گی آپ کو اگر آپ تھوڑی سی جرمن زبان سیکھ کے ( دعوت الی اللہ ) شروع کر دیں گے تو آگے سے وہ فرفر بولیں گے آپ کو کچھ پتہ نہیں لگے گا.اس لئے اپنے تجربے سے نہ سہی میرے تجربے سے فائدہ اٹھا لیں.زبان سیکھیں اور زبان پر عبور حاصل کریں.بڑی سنجیدگی کے ساتھ سکولوں میں داخل ہونا پڑے تو سکولوں میں داخل ہوں اور فیصلہ یہ کریں کہ میں نے اللہ کی خاطر یہ کام کرنا ہے.ویسے بھی زبان نے آپ کو یہاں فائدہ دینا ہے.زبان نہ سیکھنے والا کسی ملک میں رہ کر جانوروں کی طرح رہتا ہے.بیچارہ گونگے بہروں کی طرح رہتا ہے کہاں زبان سیکھے ہوئے کی زندگی کہاں نہ سیکھے ہوئے کی زندگی بہت نمایاں فرق ہے.تو یہ زبان سیکھنا جو خدا کی خاطر ہو گا آپ کو دنیا کے بھی عظیم الشان فوائد دے جائے گا آپ کی

Page 274

270 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم زندگیوں کی کایا پلٹ دے گا.بہت زیادہ آپ کو لطف آئے گا یہاں رہنے کا بہ نسبت اس کے کہ آپ اشاروں سے باتیں کریں یا پاکستانی ڈھونڈیں گئیں مارنے کے لئے.یہ وجہ ہے کہ ہمارے پاکستانی آپس میں بیٹھ جاتے ہیں گئیں مارنے کیلئے خصوصا پنجابی.ایسی بیماری ہے ان کو کھٹے ہو کر ایک دوسرے سے پنجابی میں باتیں کرنے کی اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دوسری زبانیں سیکھنے کا شوق ہی نہیں.زبان میں تلفظ کی اہمیت اور ایک بیماری یہ ہے کہ اگر کوئی سیکھے اور اس قوم کا تلفظ سیکھے تو سارے پنجابی ہنستے ہیں اس کے اوپر اگر غلط بولے پنجابی کی طرح تو کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے اور اگر شریفوں کی طرح اُن قوموں کی طرح بولے جن کی زبان ہے تو ہنستے ہیں کہ بڑا بیوقوف ہے کس طرح منہ ٹیڑھا کر رہا ہے.یہ ساری جہالت کی باتیں ہیں.ان جہالت کے قصوں کو بارڈر کے پر لی طرف چھوڑ آئیں اور اگر غلطی سے ساتھ لے آئے ہیں تو Export کر دیں.ہمیں احمدیوں میں نہیں چاہئیں یہ باتیں.بالغ نظر انسانوں کی طرح ان باتوں پر غور کریں اور دیکھیں کہ جب زبان سیکھی جاتی ہے تو اسی طرح سیکھی جاتی ہے جس طرح اہل زبان سیکھتے ہیں جس طرح کسی قوم کے بچے اور اس کے بڑے بولتے ہیں.اس کے بغیر آپ کی عزت اور قدر نہیں ہو سکتی.ایک دفعہ مجھے یاد ہے جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران کوئی بات شروع ہوئی تو کسی نے کسی کے اوپر اعتراض کیا کہ وہ دیکھو جی وہ انگریزی بولتا ہے اور منہ ٹیڑھا کر کر کے اور انگریز بنے کی کوشش کرتا ہے میں نے اس کو کہا کہ وہ غلط نہیں تم غلط ہو.میں نے کہا کہ تمہیں اندازہ نہیں کہ زبان میں تلفظ کو کتنی بڑی اہمیت حاصل ہے.تم عربی بولتے ہو تو وہ بھی پنجابی کی طرح جاپانی بولتے ہو وہ بھی پنجابی کی طرح.ستیا ناس کر دیتے ہو دنیا کی زبانوں کا اور اتنی ہوش نہیں کہ تمہاری عزت تب ہوگی اگر تم صحیح طریق سے بولو گے.چنانچہ میں نے اس کو مثال دی، عثمان چینی صاحب بھی وہیں تھے ہمارے ساتھ پڑھا کرتے تھے میں نے کہا کہ چینی صاحب کو دیکھ لو وہ بولتے ہیں تو وہ ایک فقرہ بھی اگر صحیح تلفظ سے بول جائیں تو تم کہتے ہو بڑی زبان آگئی ہے اور اگر وہ دس فقرے بھی بولیں چینی تلفظ میں تو آپ ہنستے رہتے ہیں کہ ان کو کچھ نہیں پتہ ابھی تک زبان نہیں آئی.زبان آنا اور بات ہے اور زبان سے ایک اثر اور مقام پیدا کرنا ایک اور چیز ہے.یونیورسٹی آف لندن میں مجھے یاد ہے کہ ایک ایسے فارسی کے ایم اے تھے جن کی وہاں مادری زبان یعنی لدھیانے وغیرہ کے پٹھانوں میں سے تھے وہ.اس لئے ان کے خاندان میں فارسی بولی جاتی تھی پنجابی سٹائل

Page 275

مشعل راه جلد سوم 271 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ میں، کیونکہ لمبے عرصہ سے وہ لوگ آئے ہوئے تھے اس لئے فارسی کا تلفظ بدل چکا تھا.وہ وہاں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے آئے.تو جو فارسی کے پروفیسر تھے وہاں انہوں نے ایک دن مجھے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ کونسی فارسی بولتا ہے مجھے ایک لفظ سمجھ نہیں آتی بالکل اور زبان لگتی ہے تو ساری عمر کی جو محنت تھی ان کی فارسی زبان کی وہ ضائع گئی.ایران میں جاتے تب بھی ان کو سمجھ نہ آتی.زبانیں سیکھیں اور زبان کا معیار بلند کریں تو آپ زبانیں سیکھیں اور زبان کو صیح تلفظ میں سیکھیں اور زبان کا معیار بلند کرنے کی کوشش کریں پھر یہ قوم آپ کو عزت سے دیکھے گی پھر یہ آپ کو اپنے اندر شامل ہونے دے گی.ورنہ یہاں احمدیت کی دو قو میں پیدا ہو جائیں گی ایک جرمن احمدی اور ایک غیر جرمن احمدی اور کسی جماعت کے مقصد کو نقصان پہنچانے کے لئے سب سے خطر ناک بات یہ ہوا کرتی ہے.ایسی جماعت جس کے اندر فرقے بٹ جائیں اور ریسز کی طرح یعنی قومیتیں نظریے کے اندر پیدا ہو جائیں وہ انتہائی نقصان دہ بات ہوا کرتی ہے کسی نظریے کے لئے.میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی بہت سا نقصان پہنچ چکا ہے زبان کے نہ آنے کے نتیجہ میں آپ نفوذ نہیں کر سکتے.زبان کے نہ آنے کے نتیجہ میں آپ کے اندر جو Inferiority Complex یعنی احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے اس کا حل آپ یہ کرتے ہیں کہ آپس میں بولتے ہیں اور آپس میں تعلقات بڑھاتے ہیں.جرمن احمدی جو پیدا ہورہا ہے اگر چہ آپ اس کو پیدا کر رہے ہیں لیکن پیدا کر کے اپنے سے پرے دھکیلنا شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اور قوم ہیں اور ہم اور قوم.اس کے نتیجہ میں چونکہ احمدیت آپ سے اس کو ملی ، ( دین حق ) آپ سے اس نے سیکھا وہ آپ کے متعلق جو بدظنیاں ، بُرے خیالات قائم کرتا ہے آپ کے مذہب کے متعلق بھی ویسے ہی خیالات آہستہ آہستہ قائم کرنے لگ جاتا ہے.آپ کی بدسلو کی اس کے اندر مذہب کے خلاف بھی رد عمل پیدا کر دیتی ہے.یہی وجہ ہے کہ یورپ میں اکثر ممالک میں جب سے احمدیت آئی ہے ایک بہت بڑا حصہ ہے.جو ایک طرف سے آئے اور کچھ دیر رہ کر اس کے بعد دوسرے دروازے سے باہر نکل گئے اور اس میں سب سے بڑا نقصان ہمارے اس قومی غلط رجحان نے پہنچایا ہے.غیر ہمارے اندر آتا ہے باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی طور پر نصیحت فرمائی ہے کہ جب کوئی شخص موجود ہو تو اس طرح باتیں نہ کرو آپس میں کہ ایک دوسرے کو پتہ نہ لگے.جب آپ آپس میں باتیں شروع کر دیتے ہیں اور اس کی زبان نہیں بولتے تو وہ سمجھتا ہے کہ میری یہاں ضرورت نہیں وہ سمجھتا ہے کہ میری بے عزتی کی گئی ہے

Page 276

حق) پر 272 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم میرے سے ذلیل سلوک کیا گیا ہے مجھے پوچھا نہیں گیا اور رفتہ رفتہ وہ بددل ہو کر باہر چلا جاتا ہے.انگلستان میں مجھے کئی انگریز اسی طرح ملے.جب میں شروع شروع میں یہاں آیا ہوں مجھ سے جب باتیں ہوئیں اس موضوع پر کہ کیا وجہ ہے کہ لوگ باہر نکل گئے.آئے اور باہر نکل گئے.کہنے لگے کہ اس وجہ سے نہیں کہ وہ (دین مطمئن نہیں تھے.بڑی سنجیدگی سے انہوں نے ( دین حق ) قبول کیا.مطمئن تھے، قربانیاں دیں مگر ہمارے انگلستان کے احمدی معاشرے نے جو غیر ملکوں سے آیا تھا اس نے ایک طرف سے بلایا اور دوسری طرف سے دھکے دے دے کر نکال دیا بدسلوکی کی وجہ سے.اور بعض دفعہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بدسلو کی عمد انہیں ہوتی.ایک آدمی کو پتہ ہی نہیں لگتا کہ میں بد اخلاقی کر رہا ہوں لیکن عملاً بد اخلاقی کر رہا ہوتا ہے.اگر آپ فرض کریں کہ آپ افغانستان جائیں اور افغانستان میں کوئی مذہب ان کا ہو جو وہ آپ کو قبول کرنے پر آمادہ کر لیں اور اس کے بعد جب آپ جائیں وہ آپس میں پشتو بولنا شروع کر دیں اور آپ کو ایک طرف چھوڑ دیں تو کیا اثر آپ کے اوپر پڑے گا.بہت سی جرمن خواتین بھی ایسی ہیں جن کے ساتھ یہ بدسلوکی ہوئی.وہ خواتین میں آتی ہیں اور پاکستانی خواتین آپس میں باتیں شروع کر دیتی ہیں وہ بیچاری ایک طرف بیٹھی رہتی ہیں کوئی ان سے پوچھتا نہیں کہ آئے تشریف رکھیے بیٹھیں آپ کے مسائل کیا ہیں ہم کس طرح خدمت کر سکتی ہیں.ان کے گرد حلقہ بنانا چاہیے ان کو محسوس ہونا چاہیے کہ ہم مرکز ہیں یہاں.کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ نے محبت میں پہل کرنی ہے ورنہ آپ محبوب نہیں بنیں گے اس قوم کے.عشق اول در دلِ معشوق پیدا می شود " کا یہ مطلب ہے.آپ کو وارفتگی کا اظہار کرنا چاہیے ان سے ( دین حق) کی خاطر جھکنا چاہیے اُن کے سامنے.جی آیاں نوں کی آواز میں دینی چاہئیں سر آنکھوں پر بٹھانا چاہیے ہر طرح عزت اور احترام اور پیار کا سلوک کرنا چاہیے اگر آپ یہ کریں گے تو آپ سے دس گنا بڑھ کر یہ ( دین حق) کی خدمت کی اہلیت رکھتے ہیں میں آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں.اس قوم میں بڑی ہمتیں ہیں بڑی خداداد صلاحیتیں ہیں بڑی محنت کی عادت ہے.بہت سنجیدہ ہیں اپنے مقاصد میں.اس لئے آپ ( دین حق ) کی خاطر ایک عظیم الشان قوم کے دل فتح کر نیوالے ہوں گے.اگر آپ یہ چھوٹی چھوٹی قربانیاں کریں لیکن بسا اوقات ان کی طرف کوئی توجہ نہیں باہر سے ہم یہاں آتے ہیں اکثر ایسے معاشرے سے آرہے ہیں جہاں اقتصادی معیار یہاں سے بہت تھوڑا ہے جہاں دیگر پابندیاں بہت ہیں.یہاں اقتصادی معیار بلند ہو جاتا ہے پابندیاں اٹھ جاتی ہیں نگر ان آنکھیں ہٹ جاتی ہیں والدین اس ملک میں بیٹھے ہیں کوئی دیکھنے والا نہیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں.صرف یہ بات بھول جاتے ہیں کہ خداد یکھنے والا ہے اور نتیجہ یہ

Page 277

مشعل راه جلد سوم 273 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نکلتا ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ چونکہ اب ہم آزاد بھی ہیں اب ہمیں خدا نے توفیق بھی دے دی ہے اس لئے جو چاہیں کرتے پھریں اس لئے کئی قسم کی اخلاقی کمزوریاں بھی داخل ہو جاتی ہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر آپ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو جو بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں آپ اہمیت دیں اس لئے کہ یہ چھوٹی باتیں نہیں ہیں ( دین حق ) کی اس عظیم جنگ میں فتح وشکست کا فیصلہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہو جانا ہے.اگر آپ ان کی طرف توجہ دیں اور ان کو اہمیت دیں اور بڑی سنجیدگی سے زبانیں سیکھیں اور بڑی سنجیدگی سے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں جن جرمن عورتوں سے آپ میں سے بعض نے شادیاں کی ہیں اگر شروع میں بد قسمتی سے یہ نیت بھی تھی کہ میں نے Asylum لینے کی خاطر یا وطنیت لینے کی خاطر شادی کی ہے تو اب استغفار کریں اور توبہ کریں ان سے حسنِ سلوک کریں ایسا حسن سلوک کریں کہ ان کا دل گواہی دے کہ (دین حق) سے زیادہ انسان کا کوئی محسن نہیں ہو سکتا.اس کے برعکس میں یہ نظارے بھی دیکھتا ہوں کہ بعض پاکستانی شادیاں کرتے ہیں ان کے حقوق ادا نہیں کرتے ان کی وجہ سے وطنیت لے لیتے ہیں ان کے سہارے اس وطن میں رہنے کا حق حاصل کر لیتے ہیں اس وطن کی زمین کا نمک چاہتے ہیں اور پھر ان کا حق ادا نہیں کرتے.ان سے بدسلوکیاں کرتے ہیں بعض دفعہ مارتے بھی ہیں بعض دفعہ زیادتیاں کرتے ہیں بعض دفعہ شرابیں پیتے ہیں اور باہر رہ جاتے ہیں.آپ کہیں گے بہت کم تعداد ہے.چاہے کم بھی ہو سفید کپڑے کا داغ تو ضرور ہے اور یہ ممکن نہیں کہ سفید کپڑے کا داغ نظر نہ آئے سفید کپڑا نظروں سے غائب ہو جاتا ہے اور داغ نمایاں حیثیت اختیار کر لیتا ہے.دیکھنے والے انگلیاں اٹھاتے ہیں.یہ لوگ خود آپ کو اعتراض کا نشانہ بناتے ہیں کہتے ہیں کہ دیکھو یہ ( دین حق ) ہے کہنے کا کچھ اور ہے اور کرنے کا کچھ اور ہے اس طرح ان لوگوں نے ہم سے فائدے اٹھائے اور اس طرح بعد میں دھتکار دیا.آپ کا تو فرض ہے کہ دوہری محبت کے ساتھ ، دوہری لگن کے ساتھ ، دوہرےاحساس ذمہ داری کے ساتھ ان قوموں کے حقوق ادا کریں اور ان کو یہ محسوس کرائیں کہ ہم آپ کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہیں.ایسا کرنے میں اگر آپ کامیاب ہو جائیں تو ہر سال آپ کا نقشہ بدلنے لگے گا.احمدیت ہر آئندہ سال کئی کئی منازل پر لی طرف آگے بڑھی ہوئی پائی جائے گی نہ کہ ہر دفعہ اسی مقام پر اور ہر دفعہ جرمن احمدیوں اور جرمن (مومنوں) کی تعداد میں اتنا نمایاں اضافہ ہو گا کہ خدا کے فضل کے ساتھ دیکھتے دیکھتے جماعت احمدیہ میں اکثریت جرمن احمدیوں کی بن جائے گی.یہ ایک انتہائی ضروری امر ہے میں بار بار آپ کو دوبارہ اس طرف توجہ دلاتا ہوں سہ بارہ توجہ دلاتا ہوں کہ یورپ کو اگر آپ نے

Page 278

274 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم بچانا ہے ہلاکت سے تو جرمن قوم کو ہلاکت سے بچائے بغیر یورپ نہیں بچ سکتا.اس قوم کو اولیت حاصل ہے پہلے ان کی طرف توجہ دیں ان کو سنبھال لیں پھر یہ سارا کام خود کریں گے ( دین حق) کی خاطر پھر یہ صف اول کے خادم دین بن جائیں گے.اور اگر آپ جرمن قوم کو سنبھال لیں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ یورپ کی تقدیر بھی بدل جائے گی اور اگر یورپ ( مومن) ہو جائے تو ساری دنیا کے لئے (مومن ) ہوئے بغیر چارہ نہیں رہے گا.ایسی صورت میں میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مغرب سے ( دین حق ) کا سورج طلوع ہوگا اور ضرور مغرب سے ( دین حق ) کا سورج طلوع ہو گا.اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی حرف بہ حرف سچی نکلے گی.پس اے ( دین حق ) کے مغرب سے سورج طلوع ہونے کی تمنا رکھنے والو! تمہاری محنتوں سے تمہاری کوششوں سے تمہاری توجہ سے اور تمہاری قربانیوں سے یہ مغرب میں ڈوبتا ہوا سورج دوبارہ ابھر آئے گا اور سارے عالم کو روشن کر دے گا.پس یہی پیغام تھا جو میں نے آپ کو دینا تھا.میں امید کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا کہ اللہ تعالیٰ سنجیدگی سے آپ کو ان باتوں کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ایک نعرہ ہائے تکبیر تو وہ ہیں جو آپ زبان سے بلند کرتے ہیں ایک نعرہ ہائے تکبیر وہ ہیں جو دل کی گہرائیوں میں ادا ہوتے ہیں اور آسمان تک پہنچنے والے وہی نعرہ ہائے تکبیر ہیں جو دل کی گہرائیوں میں اور اس کے گوشوں میں سنے جاتے ہیں.خدا پاتال تک کی نظر رکھتا ہے اور پاتال تک پہنچتا ہے اور خدا کے نزدیک وہی سب سے زیادہ مقبول تکبیر کا نعرہ ہے جو دل کی گہرائیوں میں ادا ہو کیونکہ اس سے ساری زندگی پر اثر پڑتا ہے اس سے ساری زندگی کے ہر عمل پر خدا غالب آ جاتا ہے اور حقیقتاً خدا بڑا ہو جاتا ہے.یعنی جہاں تک آپ کی ذات کا تعلق ہے آپ ایک بڑے خدا سے روشناس ہونے لگتے ہیں.پس خدا کرے کہ ایسا ہو اور خدا کرے کہ جلد تر احمدیت مغربی جرمنی میں پھر مشرقی جرمنی میں اور پھر یورپ اور پھر مشرق اور مغرب میں ہر طرف غالب آتی چلی جائے اور ہم جلد تر وہ فتح کا دن دیکھ لیں جس کا قرآن کریم میں وعدہ دیا گیا ہے.اب خدام کھڑے ہو کر عہد دہرائیں گے اس کے بعد ہم دعا کریں گے اس کے بعد اللہ کی حفاظت میں ہم آپ سے رخصت ہوں گے.

Page 279

مشعل راه جلد سوم 275 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرموده 7 نومبر 1986ء عالمگیر سطح پر جماعتی تربیت کا لائحہ عمل اگر نو جوانوں کو اچھی طرح سے سنبھال لیا جائے تو وہ جرمنی کا مستقبل بنانے میں ایک بہت ہی عظیم کردارادا کر سکتے ہیں جماعت احمدیہ حقیقی توحید پرست جماعت ہے.اسے خود اپنے اندر وحدت کا منظر پیش کرنا چاہیے توحید کا عملی تقاضا یہ ہے کہ دنیا بھر کے احمدیوں میں بہر طور کردار کی یکسانیت نظر آئے آئندہ نسلوں کی تربیت موجودہ نسلوں کو سنبھالنا ضروری ہے حمل اگر موجودہ نسلوں کی تربیت ہو جائے تو ان کی نسلیں خود بخود ٹھیک ہو جائیں گی خدا کی توحید آسمانوں سے ہم نے زمین پر لانی ہے اور اس کو فرضی تو حید نہیں رہنے دینا آج دنیا کی قیادت آپ کے سپرد کی گئی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ ہر احمدی اپنی جگہ لیڈر بنے جرمنی کے نو جوانوں میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی جوش پایا جاتا ہے عالمی تو حید کو پیدا کرنے کے لئے عالمی تمدن کے امتزاج کا ہونا بڑا ضروری ہے

Page 280

مشعل راه جلد سوم 276 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 281

مشعل راه جلد سوم 277 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی 7 نومبر 1986ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- ابھی جرمنی ، پیجئیم اور ہالینڈ کے ایک مختصر دورے سے واپس آیا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ دورہ کئی پہلوؤں سے مفید ثابت ہوا ، بہت سے امور کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.کئی امور خوشی والے تھے ، کئی قابل توجہ تھے جو دور بیٹھے نظر نہیں آتے.مگر قریب کے رابطے اور دوستوں کے ساتھ ملاقاتوں کے نتیجہ میں کئی نئے نئے رستے کھلتے چلے جاتے ہیں.اس لحاظ یہ دورے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی مفید ثابت ہور ہے ہیں.جرمنی کے نوجوانوں میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی جوش پایا جاتا ہے میرا تاثر یہ ہے کہ جرمنی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کے غیر معمولی امکانات پیدا ہو گئے ہیں.کیونکہ جہاں تک وہاں جماعت کا تعلق ہے اس کا ایک بڑا حصہ نو جوانوں پر مشتمل ہے.ان کے اندر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی جوش پایا جاتا ہے اور قربانی کا بہت مادہ ہے.اگر ان کو اچھی طرح سنبھال لیا جائے ( اور یہی بات قابل توجہ ہے ) تو وہ جرمنی کا مستقبل بنانے میں ایک بہت ہی عظیم کردار ادا کر سکتے ہیں.اس طرح جرمن نو جوان بھی اور جرمن خواتین بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت ہی اعلیٰ معیار کے احمدی ہیں بلکہ بعض صورتوں میں تو ان کا معیار اتنا بلند ہے کہ ان کو دیکھ کر بعض پاکستانی احمدی جو باہر سے آئے ہوئے ہوتے ہیں.وہ ان کے مقابل پر درجہ دوئم کے احمدی نظر آنے لگتے ہیں.اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ تشویشناک صورتحال بھی پیدا ہو جاتی ہے.مجھ سے دو جر من احمدیوں نے ذکر کیا کہ پاکستان سے آنے والے بعض احمدیوں کا رویہ افسوسناک ہے.اس کے نتیجہ میں جرمن احمدیوں کے لئے ٹھوکر کا سامان پیدا ہوتا ہے.ان امور پر غور کرتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ ساری دنیا کی احمدی جماعتوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہیے.جہاں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مقامی جماعتیں عطا ہو رہی ہیں یعنی ایسی جماعتیں جن میں

Page 282

مشعل راه جلد سوم 278 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ اس ملک کے مقامی باشندے زیادہ نمایاں تعداد میں نظر آنے لگے ہیں اور نمایاں دلچسپی لینے لگے ہیں ایسی جگہوں میں ہمیں تربیت کی طرف دو طرح سے متوجہ ہونا پڑے گا.اوّل یہ کہ مجالس عاملہ کو مربیان کے پیچھے پیچھے چلنے والا تربیت کا ایک Follow up ( یعنی بعد میں آنے والا ) گروپ تیار کرنا چاہیے.وہ تربیتی امور کے ماہر ہوں.خصوصیت کے ساتھ ان کے سپرد یہ کام کیا جائے کہ آپ یہ سوچتے رہیں کہ نئے آنے والوں کی تربیت میں کس کس چیز کی ضرورت ہے.ہر ملک کی ضرورت الگ الگ ہوگی.اس لئے مرکز سے تحریک جدید بھی کوئی معین ہدایت نہیں دے سکتی اور نہ میں یہاں بیٹھے معین طور پر ہر ایک ملک کی ضروریات کا تعین کرسکتا ہوں.دورے کے دوران جو چیزیں سامنے آتی ہیں ان سے متعلق تو ہدایات دی جاتی ہیں مگر یہ تو ممکن نہیں کہ انسان لٹو کی طرح ہر وقت تمام دنیا کی جماعتوں میں گھومتار ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے سو سے زائد ممالک میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور جماعتوں کی کل تعداد آپ شمار کریں تو عملاً دس سال میں بھی ایک ایک دن کا دورہ پورا نہیں ہو سکتا.اس لئے ان معاملات میں مقامی جماعتوں کو اپنی ذمہ داری کو خود ادا کرنا چاہیے اور بالغ نظری کے ساتھ ان معاملات کو سلجھانا چاہیے کیونکہ اگر وہ بھی ان کی طرف متوجہ نہ ہوئے تو آئندہ زیادہ وقتیں پیش آجائیں گی.جماعت کو طرز عمل میں توحید کا منظر پیش کرنا چاہیے سب سے اہم بات جس کو تمام جماعت کی مجالس عاملہ کوملحوظ رکھنا چاہیے وہ تو حید ہے.تو حید خالص کسی آسمان پر بسنے والی چیز کا نام نہیں ہے.(دین حق) جس خدا کو پیش کرتا ہے وہ آسمانوں کا بھی خدا ہے اور زمینوں کا بھی خدا ہے.اس سے کائنات کا کوئی حصہ بھی خالص نہیں.وہ نور السموات والارض ہے.اس کی توحید کے دائرہ سے کوئی چیز بھی باہر نہیں.اس کی توحید کے اثر اور نفوذ سے کوئی چیز خالی نہیں ہونی چاہیے.اس لئے جماعت احمدیہ جو حقیقی توحید پرست جماعت ہے.اسے اپنے طرز عمل میں توحید کا منظر پیش کرنا چاہیے.اگر جماعت احمد یہ ایک الگ کردار لے کر اٹھ رہی ہو اور افریقہ کی جماعتیں ایک الگ کردار لے کر اٹھ رہی ہوں اور اسی طرح یورپ اور امریکہ ، چین اور جاپان ، انڈو نیشیا اور ملائشیا کی اور دیگر ممالک کی جماعتیں اپنا اپنا ایک الگ کردار بنا رہی ہوں تو توحید قائم نہیں ہوسکتی.توحید عمل کی دنیا میں دکھائی دینی چاہیے.خدا کے نام پر اکٹھے ہونے والے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جمع ہونے والے ایک ہو جانے چاہئیں اور انہیں وحدت کا منظر پیش کرنا چاہیے.وحدت کے مناظر مختلف شکلوں سے مختلف

Page 283

279 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم زاویوں سے دیکھے جاتے ہیں ایک وحدت کا منظر ہے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنا اور ایک ہو جانا ، جغرافیائی تفریقات کو بھلا دینا ، رنگ اور نسل کے امتیازات کو فراموش کر دینا اور یک جان ہو جانا.اس پہلو سے بھی تو حید کو دنیا میں قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے.اور یہ حض تلقین سے قائم نہیں ہوسکتی بلکہ اس سلسلہ میں با قاعدہ منصوبہ بندی ہونی چاہیے.دین کے تمدن کی روح کو غالب رکھیں اس پہلو پر غور کرتے ہوئے جو فوری چیز سامنے آتی ہے وہ ہر ملک کے مختلف نسلوں مختلف رنگوں اور مختلف قوموں سے آنے والے لوگوں کے باہم امتزاج کا مسئلہ ہے.یہ مسئلہ ہر جگہ سر اٹھانے لگا ہے جس کی وجہ سے بعض غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں اور بعض خطرات سامنے ابھر رہے ہیں.اس لئے فوری طور پر جماعتوں کو اس طرف متوجہ ہونا چاہیے کہ اگر انگلستان میں انگریز احمدی ہوتے ہیں تو آپ حسن خلق سے ان سے پیار کر کے ان کو اپنے معاشرے میں جذب کرنے کی پوری کوشش کرتے ہوئے انہیں اس بات کا احساس نہ ہونے دیں کہ وہ تنہا ہو گئے ہیں، اس بات کا احساس نہ ہونے دیں کہ وہ ایک مغربی معاشرہ سے ایک ایسے معاشرہ کی طرف آئے ہیں جہاں انہیں مذہبی اقدار تو ملیں لیکن متبادل معاشرہ نصیب نہیں ہوا یعنی یہ توفیق نہیں ملی کہ وہ جس Civilization کو جس تمدن کو چھوڑ کر آئے تھے اس کے بدلے میں کوئی مخصوص تمدن اپنا سکیں.جہاں تک ان کو نئے تمدن سے روشناس کرانے کا تعلق ہے.اگر ( دین حق ) کے نام پر انہیں پاکستانی تمدن دیا جائے تو یہ ان کے ساتھ انصاف ہے نہ دین کے ساتھ انصاف ہے.حقیقت میں ہر قوم کے کچھ تمدنی پہلو ہیں جو اس قوم کی زندگی کا جزو بن چکے ہوتے ہیں اور کچھ مذہبی پہلو ہیں جو تمدن بن چکے ہیں.جہاں تک دین حق کے تمدن کا تعلق ہے ان دونوں دھاگوں کو الگ الگ کرنا پڑے گا.مقامی تمدن کے سیاہ دھاگوں کو ( دین حق ) کے تمدن کے سفید دھاگوں سے الگ کرنا پڑے گا.اور قوموں کو یہ پیغام دینا پڑے گا کہ جہاں تک دینی تمدن کا تعلق ہے.یہ وہ خطوط ہیں جن سے تم تجاوز نہیں کر سکتے.ان راہوں سے ہٹو گے تو دین کی راہوں سے ہٹو گے.اور یہ وہ خطوط ہیں جن میں تمہیں اختیار ہے لیکن عمومی دینی ہدایات کے تابع رہ کر اپنے لئے تمدن کی راہیں تلاش کرو، یا مقامی تمدن میں سے اچھی چیزیں اخذ کر لو.پاکستانی احمدیوں کو بھی اپنے تمدن میں اُسی حد تک تبدیلی پیدا کرنی چاہیے جس حد تک ( دین حق ) اجازت دیتا ہے یا جس حد تک دوسری قوم کو اپنے اندر شامل کرنے کے لئے ان کی خاطر کچھ تمدنی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے.جسے

Page 284

مشعل راه جلد سوم 280 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی Give and Take کہا جاتا ہے.اسے محو ظ ر کھتے ہوئے اگر آپ حکمت کے ساتھ بالغ نظری کے ساتھ دونوں سوسائٹیوں کی بری باتیں چھوڑ دیں اور دونوں سوسائٹیوں کی اچھی باتیں اختیار کرلیں اور ( دین حق ) کے تمدن کی روح کو غالب رکھیں تو اس پہلو سے جو بھی تمدن دنیا میں احمدی تمدن کے نام پر پیدا ہوگا اس میں ایک امتزاج پایا جائے گا.دوسرے دینی تمدن کے پہلو کے لحاظ سے ایک عالمی قدر مشترک پائی جائے گی اور قدر مشترک ہی ملت واحدہ بنانے کے لئے نہایت ضروری ہے.ایک بھاری حصہ تمدن کا ایسا ہے جو مذہب سے متاثر ہوا ہوتا ہے.اس حصہ کی حفاظت کرنا اور اسے نکھار کر دنیا کے سامنے پیش کرنا یہ وقت کی نہایت ہی اہم ضرورت ہے جس کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے ورنہ جیسا کہ یہاں گذشتہ تجربہ نے بتایا کہ محض اس توجہ کے فقدان کے نتیجہ میں بہت سے خاندان ایک رستہ سے آئے اور دوسرے رستہ سے چلے گئے.محض اس توجہ کے فقدان کے نتیجہ میں جو مخلص تھے ان کے ایمان داغدار ہونے لگے.ان کے دل افسردہ ہونے لگے وہ مایوس ہونے شروع ہوئے کہ ہم کس ویرانہ میں چلے آئے ہیں، جن لوگوں نے ہمیں خدا کی طرف بلایا تھا وہ خدا کا نمائندہ بن کر ہمیں چھاتی سے لگانے والے ثابت نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اس دنیا میں ہمیں تنہا چھوڑ دیا ہے.یہ کہہ کر کہ تم اپنے تمدن سے باغی ہو جاؤ اور ہم تمہارے لئے کوئی تمدن پیش نہیں کر سکتے ، تم اپنے تعلقات تو ڑلو ہم تمہارے لئے کوئی متبادل مہیا نہیں کر سکتے ، تم اردو سیکھو لیکن ہم انگریزی نہیں سیکھیں گے، ہم جب بات کریں گے پنجابی یا اردو میں کریں گے، خواہ تم بیٹھے رہو ہم تمہاری طرف متوجہ نہیں ہوں گے اور جب بھی ہم آپس میں ملیں گے تو تم سرکتے سرکتے ایک طرف کو نہ میں لگ جایا کرو.ہم اپنی اجتماعی شکل میں آپس میں خوش گپیوں میں مشغول ہو جایا کریں گے.اگر آپ یہ پیغام اسی طرح دیتے رہے تو ہر جگہ جتنے سفر آپ طے کریں گے وہ سارے فاصلے اپنے ہر قدم کے ساتھ منقطع بھی کرتے چلے جائیں گے.آپ زمینیں سر نہیں کریں گے بلکہ سر شدہ زمینیں بھی دوسروں کے سپر د کر تے چلے جائیں گے.آپ کا سفر ایک ایسا سفر ہوگا.جس میں آپ کی زمین وہی ہوگی جہاں آپ کھڑے ہوں گے.آپ کی حالت یہ ہوگی کہ آپ قدم ماررہے ہیں اور گزشتہ زمینیں فتح کر کے غیروں کے سپرد کرتے چلے جاتے ہیں یہ تو کوئی ترقی کا طریق نہیں ہے، یہ تو کوئی زندہ رہنے کا فیشن نہیں ہے اس لئے جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو الہام ہوا.زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ( تذکرہ صفحہ 509 طبع سوم اکتوبر 1969ء) آپ کبھی زندگی کے فیشن سے دور نہ جائیں.زندہ رہنے کے اسلوب سمجھیں ،سوچیں اور ان اسالیب

Page 285

مشعل راه جلد سوم سے چمٹ جائیں.281 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی عالمی تو حید کے لئے عالمی تمدن کے امتزاج کا ہونا ضروری ہے عالمی توحید کو پیدا کرنے کے لئے عالمی تمدن کے امتزاج کا ہونا بڑا ضروری ہے.اس کی طرف جماعتوں کو خصوصیت کے ساتھ توجہ دینی چاہیے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایسے گروہ ایسے چیدہ چیدہ صائب الرائے لوگوں کو اکٹھا کر کے ان کی مجالس قائم کرنی چاہئیں.خواہ وہ لوگ مجلس عاملہ میں سے چنے جائیں یا باہر سے اختیار کئے جائیں جن کے سپرد یہ کام ہو.اگر وہ باہر سے ہیں تو ان کی رپورٹیں مجلس عاملہ میں پیش ہوں.اگر وہ لوگ مجلس عاملہ کے ممبر ہیں تب بھی ان کی رپورٹیں مجلس عاملہ میں پیش ہوا کریں اور ملکی طور پر جو کچھ بھی لائحہ عمل تجویز ہو وہ مجھے بھجوا دیا جایا کرے تاکہ میں ایک نظر ڈال لوں.ایک تو مجھے اس کے نتیجہ میں علم ہوتا رہے گا کہ کونسا ملک بیدار مغزی سے کام کر رہا ہے.اور جو ملک غافل ہوں گے ان کو میں متوجہ کرسکوں گا.دوسرے ان حقائق کی روشنی میں جو انہوں نے جمع کئے ہوں گے میں ان کے لئے مزید راہنمائی کا موجب بن سکوں گا.اس لئے ساری جماعتیں ان مسائل پر غور کریں اور اپنی رپورٹیں مجھے بھوانی شروع کریں.انشاء اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں ایک اور فائدہ یہ ہوگا کہ چونکہ ساری رپورٹیں دنیا بھر سے آ رہی ہوں گی اس لئے دینی تمدن کی وہ توحید جو قرآن اور سنت کی روشنی میں میں قائم کرنا چاہتا ہوں وہ ساری دنیا کی رپورٹیں یکجائی طور پر نظر میں آنے کے نتیجہ میں زیادہ آسانی سے کر سکوں گا.یورپ میں بسنے والے نوجوانوں کی تربیت کا مسئلہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو پاکستانی احمدی باہر گئے ہوئے ہیں ان کی تربیت کرنا اور ان کو ابتدائی تعلیم کے لئے استعمال کرنا یہ بہت ہی اہم کام ہے اس کی اہمیت خاص طور پر جرمنی میں میرے سامنے آئی.جب میں ملاقاتیں کرتا رہا ہوں یا گفت و شنید کرتارہا ہوں تو صرف حال احوال پوچھنا مقصد نہیں ہوتا کہ انہوں نے میرا حال پوچھ لیا اور میں نے ان کا حال پوچھ لیا.میں ان کے تمدنی حالات پوچھتا رہا ہوں اور در پیش مسائل پوچھتا رہا ہوں.دینی حالت کے متعلق کچھ تو شکلیں بتا دیتی تھیں اور کچھ سوالات کے بعد چیزیں سامنے آجاتی تھیں.ایک افسوسناک چیز جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ نو جوانوں میں جہاں اخلاص کا معیار بلند ہے وہاں علم کا معیار بہت کم ہے.بعض صورتوں میں تو بعض احمدی نوجوانوں کو نماز کا ترجمہ نہیں آتا تھا.وہ گھر

Page 286

282 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم سے سیکھ کر ہی نہیں چلے.بہت سے ایسے احمدی نوجوان بھی دیکھے جو پاکستان میں کبھی نظر ہی نہیں آتے تھے ان کے یہاں آنے کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ جماعت کے ساتھ منسلک ہو گئے.اب انہوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے کہ جو چاہو ہم سے کام لو اور جس طرح چاہو ہمیں اچھا اور نیک بنادو.پہلے وہ اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے تھے اور جو لوگ ان کے پاس جاتے تھے وہ ان سے دور بھاگتے تھے.ایسا عنصر خاص طور پر جو پاکستان میں جماعت کی نظر سے الگ رہا اور جماعتی تربیت کے ہاتھ سے پیچھے ہٹتا رہا تھا وہ یہاں آکر جماعت سے متعلق تو ہو گیا لیکن علمی لحاظ سے اور تربیتی لحاظ سے ابھی پیچھے ہے اور خطرہ یہ ہے کہ ان کا اخلاص اور جماعت کے ساتھ ان کا تعلق ضائع نہ ہو جائے یا نقصان کا موجب نہ بن جائے.یہ عصر ضائع تو ان معنوں میں ہوسکتا ہے کہ یہ نوجوان اب اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں تعلق بڑھا رہے ہیں اس کے باوجود ان کی اصلاح کے لئے ان کے اخلاق درست کرنے کے لئے ان کی اعلیٰ تربیت کے لئے کوئی کارروائی نہ کی جائے.اللہ تعالیٰ اتنا اچھا موقع مہیا کرے اور جماعت اس موقع سے استفادہ کرنے سے غافل رہ جائے ، تو یہ بہت ہی بڑا نقصان ہے.دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ ان نوجوانوں نے جو تعلق قائم کیا ہے اس تعلق کے باوجود اگر ان کے اخلاق وہی رہے اگر ان کا علمی معیار اور تربیتی معیار وہی رہا تو مقامی دوست تو خصوصیت کے ساتھ ان کو ( دین حق کا سفیر سمجھ رہے ہوں گے اور پاکستانی احمدیوں کے ساتھ معیار کو اس طرح جانچ رہے ہوں گے.اور واقعہ ایسا ہوا بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ دو جرمن دوستوں نے اس بارہ میں بڑی تفصیل سے کھل کر مجھ سے گفتگو کی.ان میں سے ایک دوست ہمارے ساتھ سیر پر جاتے رہے.سیر کے دوران ان سے بات کرنے کا بڑا اچھا موقع میسر آیا.ان سے بڑی لمبی گفتگو ہوئی.انہوں نے جو باتیں بتا ئیں ان سے معلوم ہوا کہ یہ ایک بہت ہی بڑا اور حقیقی خطرہ ہے پہلے ان کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو وہاں سے آئے ہیں اور کس کس قسم کے لوگ ہیں.ہر آنے والے کے بارہ میں وہ سمجھتے تھے کہ خدا کے گھر سے آیا ہے ، وہاں سے آ رہا ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیدا ہوئے، جہاں ( رفقاء) نے نئی نسلوں کی تربیت کی.وہ ہر شکل کو احمدیت کے نمائندہ کے طور پر دیکھتے تھے.بعض دفعہ شکل وصورت کی طرز، رہنے سہنے، اوڑھنے بچھونے ، لباس اور باتوں کی طرز ایسی ہوتی ہے جو بتا دیتی ہے کہ اس میں دین نہیں ہے.میں نے انہیں بتایا جب آپ ایسے لوگوں کو ( دین حق) کے نمائندہ کے طور پر دیکھیں اور آپ کو پتہ نہ ہو کہ یہ وہاں بھی نمائندہ نہیں تھے، وہاں بھی پیچھے رہنے والوں میں سے تھے تو آپ یہ تاثر لیں گے کہ ہمیں تو کچھ اور.

Page 287

283 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم باتیں بتلائی جاتی تھیں ہم سے تو کچھ اور توقعات رکھی جاتی ہیں اور وہاں کچھ اور باتیں ہورہی ہیں.بہر حال بڑی تفصیل سے ان کو رفتہ رفتہ سمجھانے کی کوشش کی اور پھر وہ سمجھ گئے بڑے ذہین آدمی تھے.ان کو میں نے آخر پر یہ بتایا کہ ان نوجوانوں کی غلطی کردار کی غلطی ہے لیکن آپ کی غلطی اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے.آپ نے خدا کو پاکستان کا خدا سمجھ لیا ہے اور جرمن کا ( دین حق ) نہیں سمجھا.آپ کو تو ہم نے خدا سے روشناس کرایا ہے.جو کل عالم اور کل کائنات کا خدا ہے.آپ کو تو ہم نے ( دین حق ) سے روشناس کروایا ہے جو سارے عالم کا دین ہے.اس لئے جب آپ نے حاصل کر لیا تو اس کے بعد اپنی تربیت کے لئے کسی دوسرے کے محتاج کیوں ہیں.کیا اس کے پھر جانے سے آپ پھر جائیں گے؟ اگر غیر، خدا کو چھوڑتا ہے تو کیا آپ بھی اس خدا سے دامن تو ڈلیں گے؟ یہ رجحان سب سے زیادہ خطر ناک ہے.آپ اس کی بجائے ایک اور ردعمل دکھا سکتے تھے.آپ ان خطوط پر بھی سوچ سکتے تھے کہ ان لوگوں نے بڑی مالی اور جانی قربانیاں کیں اور بڑی لمبی جدوجہد کی اور بڑی سخت مشکلات میں اپنے ایمان کی حفاظت کرتے رہے اور ہم تک پیغام پہنچایا.اس عرصہ میں ان میں سے کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے کچھ بیمار ہوئے اور کچھ خود ان مقاصد سے دور جاپڑے، ہم اور طرح تو ان کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتے کیوں نہ ان کی تربیت کر کے احسان کا بدلہ دیں، کیوں نہ ان کو بتلائیں کہ جو دین تم نے ہم کو پہنچایا تھا ہم نے اس کو بہت حسین پایا ہے ہم نے اس پر عمل کر کے دیکھا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے تم یہی اعلان کر سکتے تھے کہ ہم نے تو اسے اچھا پایا ہے اس نے تو ہماری زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں.ہمارے کردار بدل کر رکھ دیئے ہیں، ہمیں گندگیوں سے نجات بخشی ہے اور روحانی تسکین عطا کی ہے، تم اپنی جانوں پر کیا ظلم کر رہے ہو کہ ہمیں بچا کر خود ہلاکت میں مبتلا ہورہے ہو.میں نے انہیں سمجھایا کہ اگر تمہاری طرف سے یہ آواز ان پاکستانی نوجوانوں کے کانوں میں پڑے تو وہ بہت زیادہ مؤثر ہوگی اور وہ بہت زیادہ ان کو شرمندہ کرنے والی اور ان کی غیرت کو چر کہ لگانے والے ہوگی اور واقعہ تم ایک احسان کا بدلہ اتارنے والے ہو گے.اگر تمہاری سوچیں ان رستوں پر چلتی رہی جن رستوں پر چل رہیں ہیں تو خود بھی نقصان اٹھاؤ گے اور ان کو بھی نقصان میں ڈال دو گے.یہ وہ طریق ہے جس میں دونوں طرف کی تربیت کی ضرورت ہے.

Page 288

284 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم امر واقعہ یہ ہے کہ جس قوم کو خدا تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے چن لیا ہے اس کی اولیت کو کوئی چھین نہیں سکتا اور اس کی ضرورت کے احساس سے کوئی عقل مند ا نکار نہیں کرسکتا.وہ اولین طور پر ہندوستان میں جو ایک خطہ پنجاب ہے ، اس سے تعلق رکھنے والی قوم ہے.اور اس دائرے کو جب بڑھاتے ہیں تو ہندوستان بحیثیت مجموعی آج کل پاکستان بھی ہے اور ہندوستان بھی ہے.یہ خطہ سرزمین جسے ہندو پاکستان کا برصغیر کہا جاتا ہے.اس علاقہ کے لوگوں کو خدا نے اولین طور پر ، ان میں کوئی اصلاحی مادہ ہے، ان میں بعض مخفی خوبیاں ہیں جن کو خدا کی نظر نے پہچانا ہے.اس لئے ان کو چنا ہے.خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ دنیا کی اصلاح کے لئے ان کے اندر مادہ ضرور موجود تھا اس علاقہ کے لوگ جو سو سال سے مسلسل قربانیاں پیش کر رہے ہیں اور بڑی وفا کے ساتھ حق کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں.یہ بات بتاتی ہے کہ یقینا خدا تعالیٰ کی نظر نے صحیح شناخت فرمائی.بہر حال ساری دنیا میں سے اس علاقہ کے لوگوں کا دین پھیلانے کے لئے استعمال ہونا د نیا کے آئندہ نقشہ کا ایک لازمی حصہ ہے.لازماً ہر ملک میں ابتداء میں اسی علاقہ کے لوگوں کو ( دعوت الی اللہ ) میں ایک مؤثر کردارادا کرنا ہو گا.اس لئے جماعتوں کو اس پہلو سے غافل نہیں ہونا چاہیے.ہمیں لازماً مجبوراً پاکستانی اور ہندوستانی احمدیوں کے کردار کو خصوصیات کے ساتھ پیش نظر رکھنا ہوگا کیونکہ خدا نے انہیں استعمال کرنے کے لئے چنا ہے.اگر یہ کھوٹے پیسے بن گئے تو ہم انہیں استعمال نہیں کر سکیں گے اور اگر یہ اچھے پیسے بنے تو دین کی غیر معمولی خدمت دنیا میں کر سکتے ہیں.آئندہ نسلوں کی تربیت کے لئے موجودہ نسلوں کو سنبھالو پھر دوسرا پہلوان کی اگلی نسلوں کو سنبھالنے کا ہے لیکن وہ پہلے پہلو کا بچہ ہی ہے.جس طرح اگلی نسل موجودہ نسل کے بچے ہوتے ہیں اسی طرح موجودہ نسل کو آپ سنبھالیں اور صحیح خطوط پر چلائیں تو روحانی طور پر اگلی نسل لاز ما بچ جاتی ہے.نقائص ڈھونڈنے کے لئے آپ دوسری نسل کی شکلوں کو نہ دیکھیں.جب بھی کوئی نقص ہو تو پہلی نسل کی شکلوں کو دیکھیں.وہاں سے ابتداء ہوتی ہے.یاد رکھیں قرآن کریم نے ہمیں یہ نکتہ عطا فرمایا ہے کہ آئندہ نسلوں کی تربیت کے لئے موجودہ نسلوں کو سنبھالو.فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّ َمتْ لِغَدٍ ( سورة الحشر : 19) اس کے وسیع مضمون میں ایک معنی یہ بھی ہے کہ اے آج کے بسنے والے (مومنو)! اے ایمان لانے والو! جن کو ہم مخاطب کر رہے ہیں.اگلی نسلوں کی تربیت کے تم ذمہ دار ہو اس لئے تم پوچھے جاؤ گے کہ کل کیا پیچھے چھوڑ کر جانے والے ہو.یہ سوال تم

Page 289

مشعل راه جلد سوم 285 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی سے کیا جائے گا.اس لئے یہ نہایت ہی اہم بات ہے کہ موجودہ نسل کے احمدی جود نیا کے کسی خطہ میں بھی آباد ہوں ان کی تربیت کی طرف فوری توجہ کریں.اگر وہ متوازن کردار کے حامل بن جائیں تو ان کی نسلیں خوبخود ٹھیک ہونی شروع ہو جائیں گی اور ان کے اندر بھی بعض غیر معمولی تبدیلیاں پیدا ہونی شروع ہو جائیں گی.اس ضمن میں اور بھی بہت سے امور سامنے آتے رہے جن کے متعلق مختلف وقتوں میں جماعتوں کی مجالس عاملہ کو ہدایات دیتا رہا ہوں.لیکن مختصراً اب جماعتوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب وہ سر جوڑ کے بیٹھیں گے اور پروگرام بنائیں گے تو انشاء اللہ خود ان کے ذہن میں بھی بہت سی باتیں ابھریں گی ، اللہ تعالیٰ ان پر نئے نئے رستے روشن فرما دے گا.تربیتی لٹریچر کی تیاری ایک اور اہم پہلو جس کی طرف ساری دنیا کی مجالس عاملہ کو توجہ دینی چاہیے وہ تربیتی لٹریچر کی تیاری ہے.ہر ملک کے لحاظ سے اس کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے تربیتی لٹریچر تیار ہونا ضروری ہے.اس لٹریچر کی تیاری میں ( دین حق ) کے بنیادی تقاضوں کو محوظ رکھا جائے.کم سے کم طور پر ایک شخص ( مومن) کیسے بنتا ہے؟ اور اسے کیا معلوم ہو، تو وہ (مومن) بنتا ہے؟ یہ باتیں آپ لٹریچر اور تربیت کے ذریعہ سکھائیں گے.ہر احمدی کے لئے لیڈر بننا ضروری ہے آپ کو یہ بات بھی پیش نظر رکھنی پڑے گی کہ دین حق ) میں محض مقتدی بنانے کا تصور نہیں بلکہ امام بنانے کا تصور ہے، لیڈرشپ پیدا کرنے کا تصور ہے.اسی لئے ( دین حق ) میں کوئی پیشہ ور ملاں موجود نہیں ہے.ہر شخص سے دین توقع رکھتا ہے کہ اگر جماعتیں اس کو چنیں عوام اس پر اعتماد کریں تو وہ قیادت کی صلاحیتیں بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور قیادت کے سلیقے جانتا ہو.نماز کیسے پڑھائی جاتی ہے یہ بھی جاننا ضروری ہے.صرف نماز پڑھنا ضروری نہیں بلکہ نماز پڑھانے کا علم بھی ضروری ہے.محض یہ کافی نہیں ہے کہ وہ....اپنی پیدائش اور اپنی موت کو بعض علماء کے سپر د کر دے کہ جس طرح چاہیں وہ سلوک کریں.اس کو خو دسب مسائل کا علم ہونا چاہیے کہ بچے جو پیدا ہوتے ہیں ان کے کیا حقوق ہیں اور جب لوگ مرتے ہیں.ان کے کیا حقوق ہیں.ہر احمدی کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ( دین حق ) میں جو کم سے کم قیادت کی ضرورتیں ہیں

Page 290

286 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ان سے وہ پوری طرح واقف اور آشنا ہو اور اسے تجربہ بھی ہو.محض دیکھنے سے بات حاصل نہیں ہوتی.مجھے یاد ہے وقف جدید میں ہم ظہر کی نمازیں وہیں پڑھا کرتے تھے کیونکہ کام کے وقت دوسری جگہ جانا مشکل ہوتا ہے.نزدیک ترین جو ( بیت الذکر ) تھی.اس سے زیادہ نمازی وہاں ہو جاتے تھے.چنانچہ با قاعدہ نماز ظہر کے لئے وہیں ایک کمرہ میں ( بیت الذکر ) بنائی ہوئی تھی.سپاہی پیدا کرنے کی بجائے لیڈر پیدا کریں ایک دفعہ وہاں ایک اچھے خاصے مخلص دوست جو خدام الاحمدیہ کے کاموں بڑے پیش پیش اور ان کاموں کے واقف کار تھے تشریف لائے تو میں نے ان کو کہا کہ آج آپ نماز پڑھائیں.ظہر کی نماز تھی.انہوں نے کہا مجھے نماز پڑھانی نہیں آتی.اگر وہ ویسے کہہ دیتے کہ میں جھجکتا ہوں تو اور بات تھی.میں نے کہا کہ نماز پڑھائی نہیں آتی کیا مطلب ! آپ کو بلکہ ہر احمدی کونماز پڑھانی آنی چاہیے.اس کا کیا مطلب ہے کہ نماز پڑھانی نہیں آتی.انہوں نے کہا جی دیکھی ہوئی ہے لیکن کبھی پڑھائی نہیں.میں نے کہا پھر پڑھانے میں کیا حرج ہے.اگر آپ کو پڑھانی نہیں آتی تو آپ نے بار ہا ساری عمر دوسروں کو نماز پڑھاتے دیکھا تو ہوا ہے.آج آپ آگے جا کر نماز پڑھائیں.چنانچہ ان کے نماز پڑھانے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ غلطی کی تھی ان کی پہلے کچھ تربیت ہونی ضروری تھی.کیونکہ وہ شائد میرے کہنے کی وجہ سے کچھ نروس یعنی گھبراہٹ کا شکار ہو گئے یا پہلی دفعہ نماز پڑھانے کے نتیجہ میں ایسا ہوا کہ اللہ اکبر کی جگہ سمع اللہ لمن حمدہ اور سمع اللہ کی بجائے اللہ اکبر سجدے میں جاتے وقت ربنا لک الحمد کہ رہے ہیں ایسی اکھڑی ہوئی نماز تھی کہ پچھلے نمازیوں کے لئے ہنسی برداشت کرنی مشکل تھی بڑی مشکل سے نماز کا وہ وقت گزرا.اس وقت خاص طور پر مجھے خیال آیا کہ ہم ایک بات سے غافل ہو گئے ہیں ( دین حق ) ہم سے تقاضے کرتا ہے سید پیدا کرنے کا سردار پیدا کرنے کا، امام پیدا کرنے کا اور ہم مقتدی پیدا کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داریاں ادا کر دیں.یہ تو ایک ایسا عظیم الشان راز ہے قوموں کی ترقی کا، جس کو مسلمانوں نے بھلا دیا لیکن بعض غیر قوموں کے غیر معمولی لیڈروں نے اختیار کیا اور اس سے بڑا فائدہ اٹھایا لیکن انہوں نے ی ظلم کیا کہ اس سے منفی رنگ میں فائدہ اٹھایا یعنی فائدہ تو اٹھایا لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے بعد اسے دنیا کی ہلاکت کے لئے استعمال کیا.بایں ہمہ بنیادی طور پر راز یہی تھا کہ نئی نسلوں کو لیڈر اور سردار بنایا جائے.جب جنگ عظیم اوّل ہوئی تو عالمی طاقتوں نے یہ غور کیا کہ جرمنی کے متعلق ایسی کارروائیاں کرنی چاہئیں کہ وہ پھر کبھی

Page 291

287 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم اٹھ ہی نہ سکے اور اس کو پھر کبھی یہ خیال نہ آسکے کہ میں بھی دنیا میں کوئی فوجی کردارادا کر سکتا ہوں.چنانچہ انہوں نے جو بہت سے اقدامات کئے ان میں ایک اقدام یہ بھی تھا کہ ان پر پابندی لگ گئی کہ غالباً ایک لاکھ یا اس کے لگ بھگ سے زیادہ فوج نہیں رکھ سکو گے اور نہ ہی تم اس سے زیادہ آدمیوں کو فوجی ٹریننگ دے سکتے ہو.ان کا خیال تھا کہ جنگیں ایک دم تو نہیں شروع ہو جاتیں.جس قوم کی فوج صرف ایک لاکھ ہو.یورپ جیسے ترقی یافتہ علاقے میں اس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور بھی بعض ذرائع اختیار کئے لیکن اُدھر یہ تھا کہ ہٹلر کو ایک بہت ہی قابل جرنیل نے مشورہ دیا کہ اس مسئلہ کا حل کرنا تو بہت ہی آسان ہے.ہم ایک لاکھ سپاہی پیدا کرنے کی بجائی ایک لاکھ افسر تیار کرتے ہیں.جہاں تک تعداد کا تعلق ہے ان کو کیا پتہ لگے گا کہ عملاً اس تعداد میں پھیلنے کی غیر معمولی طاقت آگئی ہے.میرا مشورہ یہ ہے کہ مجھے اجازت دی جائے میں بجائے سپاہی کی ٹریننگ کے فوجی تربیت کا ایسا منصوبہ تیار کرتا ہوں کہ ہم سپاہی تیار کرنے کی بجائے افسر تیار کریں.ایسا افسر جو انسٹرکٹر بننے کا اہل ہو.چنانچہ انہوں نے سپاہی بنانے کی بجائے ایک لاکھ انسٹرکٹر تیار کر دیئے.دوسری ترکیب انہوں نے یہ کی کہ ان کو تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد چھٹی دینی شروع کر دی.دس ہزار آج نکال دیئے جو تربیت یافتہ تھے اور ان کی بجائے دس ہزار اور بھرتی کر لئے.جہاں جہاں وہ فارغ شدہ فوجی افسر گئے ان کو تعلیمی اداروں میں مقرر کیا اور کہا کہ اب تم طلبہ کو تیار کرو.چنانچہ چند سال کے اندراندر اتنی عظیم الشان فوجی طاقت معرض وجود میں آگئی کہ جب چرچل (Chirchull) نے توجہ دلائی ( پہلا شخص یورپ میں چرچل تھا جس نے اس خطرہ کو بھانپا ) تو اس نے بھی ان الفاظ میں توجہ دلائی کہ میں الارم کی گھنٹی تو بجارہا ہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ میں بھی لیٹ ہو چکا ہوں، اب ہمارا اختیار ہی کوئی نہیں رہا.اب غور یہ کرنا ہے کہ جو کچھ نقصان ہو چکا ہے اس کی تلافی کیسے کی جائے.نقصان بہر حال ہو چکا ہے، جو کچھ جرمنی نے کرنا تھا کر لیا ہے.اب سارے اتحادیوں کی اجتماعی طاقت بھی اکیلے جرمنی کے برابر نہیں ہے.آج دنیا کی سیادت آپ کے سپرد کی گئی آج دنیا کی سیادت آپ کے سپرد ہے اور جب تک آپ خود سید نہیں بنیں گے تو دنیا کی سیادت کیسے کریں گے؟ کیسے نئے آنے والوں کو سردار بنا سکیں گے.اس لئے بہت ہی ضروری ہے کہ ہم اپنے Follow Up ( یعنی بعد میں آنے والوں) کی تربیت میں ایسا پروگرام شامل کریں کہ جس کے نتیجے میں ہر احمدی کو کم سے کم سیادت کی تعلیم دی جائے یعنی کم از کم ایسی سیادت جس کے بغیر (مومن ) کی تصویر

Page 292

مشعل راه جلد سوم 288 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ مکمل نہیں ہوتی.اس کو راہنمائی کے اصول بتائے جائیں.اسے بتایا جائے اس پر جب اعتماد کیا جاتا ہے.تو اس کو بتانا پڑے گا، اس کو اپنے اعتماد کی کن پہلوؤں سے خصوصیت کے ساتھ حفاظت کرنی چاہیے.جب اس طرف آپ آئیں گے تو نظام جماعت کے بارہ میں بھی اس کو بتانا پڑے گا کہ ہم پر تمام دنیا کے احمدی اعتماد کرتے ہیں.جب تک یہ اعتماد قائم رہے گا.مالی نظام میں برکت رہے گی.جب یہ اعتماد کھویا گیا تو مالی نظام ٹوٹ جائے گا.اسی طرح باقی نظام سے یہ توقعات کی جاتی ہیں اور ہم تمہیں صرف ایک احمدی کے طور پر نہیں بلکہ مجلس عاملہ کے رکن کے طور پر تیار کرنا چاہتے ہیں تا کہ جب تم پر یہ ذمہ داریاں پڑیں تو تم اس اس طرح انہیں ادا کر و محض ایسے احمدی نہ بنو باہر بیٹھ کر مجلس عاملہ پر تبصرے کر رہے ہوں.بلکہ ایسے احمدی بنائیں کہ جب لوگ تبصرہ کرنے کی کوشش کریں تو ان کے پاس مؤثر جواب ہوں.پھر ہر پہلو سے انہیں آگاہ کریں ان کے حقوق کیا ہیں ، ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں، خلافت کا نظام کیا ہے، انصار اللہ کا نظام اور خدام الاحمدیہ کا نظام کیا ہے.ان کی ذیلی تنظیموں کا کام کیا ہے، ان سارے امور سے ہر احمدی کو واقف کرانا اور پھر جماعت کی تاریخ سے ان کو آگاہ کرنا بھی ضروری ہے اور ایسے مؤثر کردار ادا کرنے والے احمدیوں کی زندگیوں کے حالات سے مطلع کرنا ضروری ہے جن کا کردار آج بھی زندہ ہے.جب آپ اس کردار پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ آپ کو مرتعش کر دیتا ہے.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی زندگی کے واقعات ہیں انہوں نے احمدیت میں بہت مختصر زندگی گزاری لیکن ایسی عظیم زندگی تھی کہ ہمیشہ دنیا اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتی رہے گی.اور تمنا کرے گی کہ کاش ہمارے سینکڑوں سال کے بدلہ وہ مختصر زندگی ہمیں نصیب ہو جاتی.جب آپ ان کے کردار پر نظر ڈالتے ہیں ان کے واقعات سے نئے آنے والوں کو آگاہ کرتے ہیں تو آپ کو زیادہ کاوش کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ آج بھی وہ کردار آ پکی باتوں سے زیادہ زندہ ہے، آج بھی اس میں اس بات کی اہلیت ہے کہ دلوں کو متحرک کر دے اور خون کو گرم کر دے اور انسانوں میں نئے حوصلے پیدا کرے اور ان کے سینوں میں نئے عزم بلند کرے.ایسے لوگ جو حضرت بانی سلسلہ کے ساتھی تھے.انہوں نے کیا کیا کارنامے انجام دیئے کس طرح دنیا میں قربانیاں پیش کیں، کس طرح دنیا کو تبدیل کیا، کس طرح قول اور فعل کے بچے ثابت ہوئے ، وہ صادق القول تھے اور صادق العمل تھے ان سب باتوں سے آگاہ کرنا ضروری ہے جب ان سب باتوں پر آپ نظر ڈالیں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے لئے کئی سال کی محنت درکار ہے.ساری دنیا کی زبانوں میں اس قسم کا لٹریچر تیار کرنا اور ایسے احمدی پیدا کرنا جو ساتھ ساتھ واقف ہوتے چلے جائیں اور

Page 293

مشعل راه جلد سوم 289 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ زبان ان باتوں کو آگے پھیلانے کے اہل ہوں کوئی معمولی کام نہیں ہے اس کے لئے تو بہت بڑی محنت کی ضرورت ہے.خدا کی تو حید ہم نے آسمانوں سے زمین پر لانی ہے جرمنی کے چند روز کے قیام میں اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں جو منصو بے ڈالے ہیں وہ تو کافی وسیع ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے جس کی طرف میں نے اس وقت توجہ دلائی ہے اور بہت سی باتیں جو وقتاً فوقتاً جماعتوں کو ہدایتوں کی صورت میں بھجوائی جاتی رہیں گی.مجھے فکر یہ ہوتی ہے کہ اگر زیادہ ہدایتیں اکٹھی دی جائیں تو بعض دفعہ ہمت ٹوٹ جاتی ہے آدمی سمجھتا ہے کہ اتنی باتیں میں کر ہی نہیں سکتا چلو چھوڑو.اس لئے مجھے بھی بڑا صبر کرنا پڑتا ہے.ایک وقت میں تھوڑی تھوڑی غذا دینے کی کوشش کرتا ہوں تا کہ یہ ہضم ہو تو پھر آگے چلیں اس کے بعد پھر آگے چلیں تا کہ رفتار میں زیادہ تیزی آتی جائے اور رفتار تیز کرنے والی غذا بھی ساتھ ساتھ ملتی جائے.سردست میں اسی پر اکتفاء کرتا ہوں.ان دو پروگراموں کو جن کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے آپ جاری کرنے کی کوشش کریں اور اس طرح کریں کہ جو پچھلے منصوبے تھے ان کو چھوڑ کر نہیں ان کے پہلو بہ پہلوان کو جاری کریں.اسی لئے میں بار بار اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ ہمیں مختلف کاموں کے لئے سپیشلسٹ ٹیمیں تیار کرنی پڑیں گی جو پہلے منصوبے ہیں وہ بعضوں کے سپرد کریں وہ بیدار مغزی سے ان کو عملی جامہ پہناتے رہیں اور یہ نیا منصوبہ کچھ اور لوگوں کے سپرد کر یں.اس کے دو پہلو ہیں اس کے لئے الگ الگ دوکمیٹیاں بنانی پڑیں گی.اور بعض دفعہ مجبوراً چھوٹے علاقوں میں خصوصیت کے ساتھ ایک شخ شخص ایک سے زائد کمیٹیوں کا ممبر بھی ہو سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر ہر کام کی الگ الگ کمیٹیاں ہوں تو اس کو اپنی اس شخصیت کا احساس ہمیشہ پیش نظر رہے گا کہ میری ایک شخصیت یہ ہے اور ایک شخصیت وہ ہے.اس سے اسے کام یاد رکھنے میں آسانی رہے گی.بہر حال اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.خدا تعالیٰ کی توحید آسمانوں سے ہم نے زمین پر لانی ہے اور اس کو فرضی تو حید نہیں رہنے دینا اسے اپنے سینوں سے چمٹانا ہے، اپنے خون میں جاری کرنا ہے.ایک ایسی جماعت پیدا کر کے دکھانی ہے جو موحد ہو حقیقتا عمل کی دنیا میں موحد ہو صرف نظریات کی دنیا میں موحد نہ ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ نومبر 1986ء)

Page 294

مشعل راه جلد سوم 290 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 295

مشعل راه جلد سوم 291 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 19 دسمبر 1986ء پیدائش سے سات سال تک کی عمر کے بچوں کو نظام کے سپردنہ کرنے کی حکمت کم سن بچوں کی تربیت اور والدین کی ذمہ داری بچوں کی سات سال سے دس سال کی عمر بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے یہ ایک اہم موڑ ہے چھوٹی عمر کے بچوں کی تربیت کا حق صرف ماں باپ کو ہی ہے بچے کی ابتدائی عمر کا زمانہ بڑا محنت طلب زمانہ ہوتا ہے ماں باپ کو بڑی ذہانت کے ساتھ اور بیدار مغزی کے ساتھ اپنے چھوٹے بچوں کے بارہ میں خصوصیت سے دلچسپی لینی چاہیے ی ٹیلی ویژن اور بچے ماں باپ کی تربیت کا بھی اہتمام ضروری ہے اور یہ کام ذیلی تنظیموں کے سپرد کیا جاسکتا ہے بچپن میں تربیتی خلا نہ رہنے دیں

Page 296

مشعل راه جلد سوم 292 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 297

مشعل راه جلد سوم 293 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:- یہ خطبہ جس کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں میرا ارادہ ہے کہ اس خطبہ میں کوئی تربیتی مضمون بیان کروں گا کیونکہ بعض تربیتی پہلو ایسے ہیں جن کے متعلق جماعت کو بار بار بتانا اور ان کو یاد دہانی کرواتے رہنا بہت ضروری ہے.چنانچہ اس غرض کے لئے میں وقتا فوقتا مختلف قسم کے مضامین چنتا ہوں اور پھر کوشش کرتا ہوں کہ میں ان کے بعض پہلوؤں پر اچھی طرح روشنی ڈالوں.کچھ پہلو بچ جاتے ہیں ان کو پھر میں آئندہ خطبہ کے لئے اٹھا رکھتا ہوں.بیچ میں وقتی ضروریات کے ماتحت خطبے دینے پڑتے ہیں.بہر حال اس مرتبہ میں نے یہی ارادہ کیا تھا کہ تربیتی امور سے متعلق عمومی رنگ میں کچھ بیان کروں گا لیکن اس عرصہ میں پشاور سے ہمارے ایک مخلص احمدی دوست جو جوانی کی عمر میں خود احمدی ہوئے ہیں یعنی جوانی سے ذرا آگے بڑھ کر درمیان کی جو عمر ہے اس میں ان کو قبول احمدیت کی توفیق ملی ہے.بڑا علمی ذوق رکھتے ہیں.نفسیات ان کا مضمون رہا ہے جماعتی اور دینی معاملات میں ان کی سوچ بچار پر ان کے نفسیات کے مضمون کا بھی اثر پڑتا رہتا ہے ان کی طرف سے ایک ایسے ہی مضمون سے متعلق خطبہ دینے کے لئے یا جماعت کو عمومی نصیحت کرنے کے لئے مجھے متوجہ کیا گیا ہے.نصیحت کا ایک خاص پہلو ہے جو ان کے پیش نظر تھا ان کو چونکہ سوچ بچار کی عادت ہے مختلف تربیتی مسائل پر غور کرتے رہتے ہیں چنانچہ انہوں نے مجھے لکھا کہ میں نے جماعتی نظام پر بہت غور کیا اور کرتا رہتا ہوں اور جتنا غور کیا میں حیرت میں ڈوبتا چلا گیا کہ حضرت فضل عمرکو اللہ تعالیٰ نے کیسا عظیم الشان اور کامل تربیتی نظام قائم کرنے کی توفیق بخشی ہے لیکن ایک پہلو ایسا ہے جس کے متعلق میرا ذہن پوری طرح مطمئن نہیں ہو سکا.اور بار با خیالات میرے دل کو کریدتے رہے کہ یہ پہلو کیوں تشنہ ہے اور وہ ہے پیدائش سے لے کر سات سال کی عمر تک بچوں کو کسی نظام کے سپرد نہ کرنا.وہ لکھتے ہیں کہ انسانی عمر کے جو مختلف ادوار میں نفسیاتی لحاظ سے سب سے اہم دور یہ ابتدائی دور ہے.اس دور میں بچہ.

Page 298

294 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جو سیکھ جائے وہ سیکھ جاتا ہے اور پھر مزید سیکھنے کی اہلیت اس میں پیدا ہو جاتی ہے.اور اگر اس دور میں کسی پہلو سے اس کی تعلیم میں تشنگی رہ جائے تو بسا اوقات بڑی عمر میں جا کر وہ تشنگی پوری ہو ہی نہیں سکتی اور وہ پہلو ہمیشہ کے لئے ایک خلا بن جاتا ہے جس طرح بعض دفعہ شیشہ ڈھالتے وقت اندر بلبلے رہ جاتے ہیں اس طرح انسانی دماغ میں بھی بعض علمی پہلوؤں سے بلبلے رہ جاتے ہیں اور یہ بات ان کی درست ہے.کم سن بچوں کی تربیت اور والدین کی ذمہ داری میں نے بھی جہاں تک مطالعہ کیا ہے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ بچے کی تربیت کا عمل اس کی پیدائش سے شروع ہو جاتا ہے چنانچہ بعض ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ اگر بچے کو چھوٹی عمر میں ہی زبان نہ سکھائی جائے ایک لمبا خلا مثلاً سات آٹھ سال تک مسلسل خلا چلا جائے تو اس کے بعد بچہ کوئی زبان سیکھ ہی نہیں سکتا.پھر آپ جتنا چاہیں زور لگا ئیں جتنی چاہیں کوشش کر لیں مستقل خلا جو پیدا ہو جائے گا اس کو پر کرنا مشکل ہے.اسی طرح بعض علوم یا بعض ذوق ایسے ہیں جو بچپن میں پیدا نہ ہوں تو پھر بعد میں آگے چل کر پیدا نہیں ہوتے.غرض ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کیوں سات سال سے چھوٹے بچوں کو کسی تنظیم کے سپرد نہیں کیا گیا.امر واقعہ یہ ہے کہ اس عمر میں بچے ماں اور باپ کے سپر د ہوتے ہیں.قرآن کریم نے بھی اس پہلو سے روشنی ڈالی ہے اور احادیث میں بھی کثرت سے اس کا ذکر ملتا ہے ہاں یہ بات صحیح ہے کہ والدین کو اس طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے ان کو بار بار یاد دہانی کی ضرورت ہے بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی پیدائش کے بعد چند لحات کے اندراندر بچے کے دائیں کان میں اذان دینا اور بائیں کان میں تکبیر کہنا اپنے اندر ایک بہت ہی عظیم الشان اور گہری حکمت رکھتا ہے.یہ حکم بتانے کے لئے دیا گیا ہے کہ بچے کی عمر کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جو تربیت سے خالی رہے اور کوئی لمحہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق تم جواب دہ نہیں ہو گے عملاً جب اذان دیتے ہیں تو بچہ تو اس اذان کے لئے جواب دہ نہیں ہے نہ اس تکبیر کے لئے جواب دہ ہے اور نہ وہ ان باتوں کو سمجھ رہا ہوتا ہے اس میں در اصل ماں باپ کو متوجہ کیا جارہا ہے کہ تم نے اپنے بچے کی پہلے دن سے دینی رنگ میں تربیت کرنی ہے اگر نہیں کرو گے تو تم جواب دہ ہو گے.اس کی اور بھی بہت سی حکمتیں ہیں لیکن ایک بڑی اہم حکمت یہی ہے جو میں نے بیان کی ہے........جہاں تک

Page 299

295 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم اولاد کا تعلق ہے ان کے بچانے کا عمل ان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے.سات سال کی عمر خصوصیت کے ساتھ اہمیت رکھتی ہے جیسا کہ ماہرین نفسیات بھی کہتے ہیں اور ان میں سے بعض فرق بھی کرتے ہیں.بعض سات سال کو کچھ بڑھا دیتے ہیں بعض کچھ کم کر دیتے ہیں لیکن عموماً اس بات پر یہ اتفاق ہے کہ سات سال کے لگ بھگ عمر بہت ہی اہمیت رکھتی ہے بچہ جب اس عمر کو پہنچتا ہے تو نفسیاتی لحاظ سے گویا وہ پختگی میں داخل ہوتا ہے یعنی پختگی کی جانب تیزی سے قدم اٹھانے لگتا ہے اور وہ کچھی عمر جو نفسیاتی لحاظ سے اثر قبول کرنے والی کہلاتی ہے اور جو بچے کی عمر کا سب سے زیادہ حساس دور ہوتا ہے وہ سات سال سے پہلے ہی کی عمر کا دور ہے اس لئے جہاں تک اس کی اہمیت کا تعلق ہے اس سے تو کوئی انکار نہیں ہے لیکن جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک فرائض عائد ہونے کا تعلق ہے ان کا آغاز سات سال کی عمر سے ہو جاتا ہے لیکن نرمی کے ساتھ ہوتا ہے یعنی تربیت کا جو ظاہری رسمی دور ہے وہ سات سال کے بعد ہی شروع ہوتا ہے دس سال کی عمر کے بچے اگر نماز نہ پڑھیں تو ان کو مارنے کی بھی اجازت مل جاتی ہے.جب وہ بارہ سال کی عمر کو پہنچ جائیں توان کو اتنا پختہ سمجھا جاتا ہے کہ اب وہ بالکل آزاد ہیں ان کو نصیحت تو کی جائے لیکن ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے.تربیتی لحاظ سے جو کچھ تم نے کرنا تھا وہ تم کر چکے ہو.اس خیال سے جماعتی نظام میں اطفال کی عمر سات سال کے بعد مقرر کی گئی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے اس عمر کی یہ اہمیت تو بہر حال ملتی تھی کہ اس کے بعد تربیت رسمی طور پر بھی با قاعدہ شروع کر دی جائے.لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے ارشادات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تربیت کا دور پہلے بھی جاری تھا.سات سال سے کم عمر کے بچہ کے بارہ میں بعض استثناء اس کے کچھ اور پہلو بھی ہیں پھر اس دور کے بعد کچھ اور پہلو بھی سامنے آتے ہیں پس اس نقطۂ نگاہ سے جب ہم اس مسئلہ پر مزید غور کرتے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے بعض اور ارشادات نظر آتے ہیں جن کا اس مضمون سے تعلق ہے مثلاً یہ بات کہ بچے کی خیار کی عمر کیا ہے؟ یہ ایک ایسی بحث ہے جو فقہاء کے درمیان چل رہی ہے مثلاً یہاں بیوی کی علیحدگی کی صورت میں اگر بچے سے یہ پوچھنا ہو کہ تم نے ماں کے پاس رہنا ہے یا باپ کے پاس جانا ہے تو وہ کون سی عمر ہے جس میں یہ فیصلہ کیا جاتا ہے.بہت سے فقہاء

Page 300

مشعل راه جلد سوم 296 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی سات سال کی عمر بتاتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو نو سال یا دس سال کی عمر بتاتے ہیں لیکن سات سال سے کم کوئی نہیں بتا تا اس لحاظ سے سات سال کا یقینا کوئی تعلق ضرور.پس بچے کی سات سال سے دس سال کی عمر بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے یہ ایک اہم موڑ ہے جو بچے کی زندگی میں آتا ہے سات سال سے پہلے کا دور اثر پذیر ہونے کا دور ہے.سات سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بچے کو اپنے فیصلے کا کچھ نہ کچھ ا ختیار حاصل ہو جاتا ہے اس کے اندر کچھ نہ کچھ شعور پیدا ہوجاتا ہے.اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچہ جب سات سال کا ہو جائے تو اس کو نصیحت کر کے نمازیں پڑھاؤ عبادت کے مزے چکھانے شروع کر دو.معلوم ہوتا ہے اس میں یہ فیصلے کی قوت پیدا ہو چکی ہے کہ ہاں میں نے کچھ کرنا ہے اس لئے اس اختیار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو یہ بتا نا شروع کر دو لیکن وہ ایسے رنگ میں اثر قبول کرے جس میں ارادے کا نمایاں دخل نہ ہو کیونکہ یہ عمر جتنی چھوٹی ہوتی ہے اتنا ہی اس عمل میں زیادہ اثر پذیر ہوتا ہے.قوت فیصلہ کے ذریعہ نہیں بلکہ جنبی طور پر.وہ جب ماں باپ کو مسکراتے دیکھ رہا ہوتا ہے تو بعض دفعہ ماں باپ کی مسکراہٹ کی ایک جھلک بلا ارادہ اس کی مسکراہٹ میں اس طرح داخل ہو جاتی ہے کہ وہ بڑھاپے تک قائم رہتی ہے ماں باپ کی باتیں کرنے کا طریق کیا ہوتا ہے ان کے غصے کا اظہار کیسے ہوتا ہے وہ خوش کیسے ہوتے ہیں.یہ ساری چیزیں ہیں جن کو بچہ قبول کر رہا ہوتا ہے لیکن ارادہ کے ساتھ نہیں کر رہا ہوتا اور چونکہ ارادے کے ساتھ قبول نہیں کر رہا ہوتا اس لئے ایک فطرتی عمل کے طور پر یہ چیزیں اس کے اندر داخل ہو رہی ہوتی ہیں البتہ جو چیزیں اس دور میں فطرتی عمل کے طور پر اس کے اندر داخل ہو جائیں بعد میں ان کو بالا رادہ طور پر ڈھال لینا اور ان کو زیادہ خوبصورت بناد بن یہ ممکن ہے لیکن جو باتیں اس عمر میں اس کے اندر داخل ہی نہ ہوئی ہوں وہ خلا ہیں جو بعد میں بھرے نہیں جاسکتے اس لئے جب ہم سات سال کی عمر سے پہلے بچے کو تنظیموں کے سپرد نہیں کرتے تو دوسری حکمتوں کے علاوہ ایک حکمت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ارادے کو ڈھالنے کے لئے تو اجازت دی ہے کیونکہ شریعت میں اپنا ارادہ شامل ہونا ضروری ہے شریعت میں صرف دوسرے کا ارادہ کافی نہیں ہے اس لئے جہاں شرعی فرائض یا منا ہی آجاتے ہیں وہاں سات سال سے پہلے بچے کو ایسے احکام جاری کرنے کی اجازت نہیں ہے جن میں اس کے ارادے کا دخل ہو.پس یہ وہ فرق ہے جس کو ملحوظ رکھنا چاہیے.

Page 301

مشعل راه جلد سوم 297 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی چھوٹی عمر میں بچہ ماں باپ کے زیر اثر ہی رہنا چاہیے رہی یہ بات کہ بہت چھوٹی عمر میں بچوں کو ماں باپ کے سوا کسی دوسرے کے زیر اثر رکھا جائے تو یہ تو خود ایک غیر نفسیاتی حرکت ہے.اگر آپ بہت چھوٹی عمر میں بچوں کو ان کے ماں باپ سے علیحدہ کر دیں گے یا ماں باپ کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ ان کو اپنے بچوں کی تربیت کا حق نہیں بلکہ والدین سے زیادہ کسی اور تنظیم کو حق ہے تو عمل یہ ایک نہایت ہی سنگین قدم ہے جو اشتراکیت کی طرف اُٹھتا ہوا نظر آتا ہے اور واقعۂ اشترا کی نظریے کے ساتھ اس کا گہرا جوڑ ہے چنانچہ ایسا نظریہ جو سطحی اشتراکیوں کا نظریہ نہیں بلکہ جوان کے فلسفے کی جان ہے یعنی اشترا کی نظریے کی روح ہے اگر آپ اس کو دیکھیں معلوم ہوتا ہے کہ اشتراکیوں کے نزدیک سوسائٹی بالغ ہی تب ہوگی جب پہلے ان کا بچہ بھی سٹیٹ کے زیراثر ہو جائے.چنانچہ اس ضمن میں اشترا کی فلسفہ یہ کہتا ہے کہ جب ماں اور باپ بچوں پر ان کی ابتدائی عمر میں اثر ڈالنا شروع کریں تو اس کے بعد سٹیٹ پھر اپنی مرضی کے مطابق ان کو پوری طرح ڈھال ہی نہیں سکتی.پس وہ بھی چونکہ یہ جانتے ہیں اور اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بچے کی زندگی کا ابتدائی دور بہت اہمیت رکھتا ہے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ پہلے دن کا بچہ ہی سٹیسٹ کا بچہ ہے ماں باپ کا ہے ہی نہیں.کہتے ہیں کہ پہلے دن یہ ایک تصور پایا جاتا ہے کہ ماں باپ کا بچہ ہے اشتراکیت نے اس تصور کی جڑ ضرور کاٹنی ہے اس لئے شادی بیاہ کا نظام ہی اُٹھ جانا چاہیے.یہ ہے اشتراکیت کی آخری تھیوری یعنی نظریے کا آخری قدم.مذہبی سوسائٹی میں وہ جب باتیں کرتے ہیں تو وہ اپنے اس نظریے سے واقف نہیں کراتے کیونکہ ان کو یہ ڈر ہے کہ مثلاً پاکستان کے غرباء میں خواہ وہ کتنے ہی غریب کیوں نہ ہوں اگر یہ بتایا جائے کہ بالآخر جب تم کمیونسٹ ہو جاؤ گے اور اشتراکیت کا یہاں قبضہ ہو جائے گا ہم یہ سلوک تم سے کریں گے تمہارا شادی کا نظام ختم کر دیں گے تمہیں اپنے بچوں کا پتہ بھی نہیں لگنے دیں گے.ہسپتالوں میں جاکے بچے پیدا کروائے جائیں گے اور ہسپتالوں کے جو بچے ہیں وہ حکومت اٹھا لے گی ماں کو فارغ کر کے پھر کارخانے میں بھجوادیا جائے گا یا جہاں بھی اس کو بھجوانا ہوگا بھجوایا جائے گا.یہ ایک ایسا بنیادی نظریہ ہے جس کو ٹالا نہیں جاسکتا.جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ اس پر عمل کیوں نہیں کر رہے تو کہتے ہیں کہ ابھی ہم پختہ نہیں ہوئے ابھی اشتراکیت کی تعلیم کا بہت سا حصہ ایسا ہے جو عمل کی دنیا میں نہیں ڈھالا گیا کیونکہ ہم ابھی اس کو قبول کرنے کے لئے پوری طرح تیار نہیں ہوئے لیکن یہ آخری قدم لازماً اٹھنا ہے ورنہ اشتراکیت کا نظام اس کے بغیرمستحکم نہیں ہوسکتا اس کے اندر تضادات رہ جائیں گے.

Page 302

مشعل راه جلد سوم 298 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی چھوٹے بچوں کو کسی نظام کے سپرد نہ کرنا حکمت پر مبنی ہے پس اس پہلو سے بھی دیکھا جائے تو سات سال تک کی عمر کے بچے کی اہمیت ان لوگوں کے ذہن میں بھی واضح ہے لیکن ( دین حق ) اس کی اجازت نہیں دیتا کہ چھوٹے بچوں کو کسی نظام کے سپرد کر دیا جائے.اور وہ بچوں کو کلیۂ اپنالے.ہاں ( دین حق ) ماں باپ پر ذمہ داریاں بڑھا تا چلا جاتا ہے اور ان کو بار بار توجہ دلاتا جاتا ہے کہ چھوٹے بچوں کی تربیت کا خیال رکھا جائے.کیونکہ دین حق ) کا ایک عائلی نظام ہے اور اس عائلی نظام کا سوشلسٹ تصور حیات سے ایک براہ راست ٹکراؤ ہے اس لئے یہ دونوں بیک وقت قائم نہیں رہ سکتے.حضرت فضل عمر دین کی گہری فراست رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی تائید اور ہدایت کے تابع جماعت احمدیہ کے لئے اصلاح کا ایک نظام قائم فرمارہے تھے.آپ کے اوپر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان مقبول دعاؤں کا سایہ تھا جو آپ کی پیدائش سے بھی پہلے کی گئی تھیں اور آپ کی پیدائش سے بھی ان کی مقبولیت کے متعلق آپ کو کھلے لفظوں میں مطلع فرما دیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ جس طرح کا تم بیٹا چاہتے ہو ویسا ہی بیٹا میں تمہیں عطا کروں گا.اس لئے بنیادی معاملہ میں حضرت فضل عمر سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی تھی.پس جیسا کہ میں بتا چکا ہوں آپ نے احمدی بچوں کو سات سال کے بعد نظام سلسلہ کے سپر د کر نے اور اس سے پہلے دخل دینے کی اجازت نہ دینے کی جو ہدایت فرمائی ہے وہ حکمت پر مبنی ہے.یہ نظام بڑے گہرے شرعی فلسفے پر قائم کیا گیا ہے.آئندہ کوئی خلیفہ بھی اسے تبدیل نہیں کر سکتا لیکن اس میں اگر کہیں کوئی خلاء نظر آ رہا ہے تو اس کو پُر کرنے کی طرف توجہ دلانا خلیفہ کا کام ہے کہ وہ ماں باپ کو یاد دہانی کرائے کہ تمہارے بچے ہیں تمہارے سپرد ہیں تم ان کے متعلق پوچھے جاؤ گے ان کو قرآن کریم کا یہ حکم یاد دلایا جائے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيْكُمُ نَارًا اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو آگ کے عذاب سے بچاؤ.پس یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ سوسائٹی ان بچوں سے زیادہ پیار رکھتی ہے زیادہ ہمدردی رکھتی ہے ان پر زیادہ حق رکھتی ہے بہ نسبت ان کے اپنے والدین کے جنہوں نے بچپن کے زمانہ میں بڑی مصیبتیں جھیل کر اور بڑی قربانیاں دے کر اپنی اولاد کو پروان چڑھایا ہوتا ہے.والدین سے ان کے بچوں کو الگ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ ان کے خون سے بنے ہیں ان کی ہڈیوں کے حصے ان میں داخل ہوتے ہیں وہ ان کے عملاً جگر گوشے ہیں ان کو والدین سے الگ نہیں کیا جاسکتا البتہ والدین کو اولاد کی تربیت کے سلسلہ میں ان کی ذمہ داریوں کی

Page 303

نعل راه جلد سوم طرف متوجہ کیا جا سکتا ہے.299 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی بچے کی ابتدائی عمر کا محنت طلب زمانہ پھر بچے کی ابتدائی عمر کا زمانہ بڑا محنت طلب زمانہ ہوتا ہے.چھوٹی عمر کے بچے سوسائٹی کی نظر میں اس وقت اچھے لگتے ہیں جب وہ تیار ہو کر سج دھج کر باہر نکلیں یعنی جب وہ بیمار نہ ہوں جب وہ ضد نہ کر رہے ہوں.جب وہ شور نہ مچارہے ہوں جب وہ چیزوں کو توڑ نہ رہے ہوں اس وقت سوسائٹی کو بڑے پیارے لگتے ہیں.جب ان میں سے کوئی بچہ حرکت شروع کر دے تو دیکھنے والوں کے اچانک تیور بدلنے لگتے ہیں آپ کے گھر میں کسی دوست کا بچہ آجائے تو آپ دیکھیں گے آپ کو کتنا پیارا لگے گا کیونکہ وہ سج دھج کر آیا ہوتا ہے اچھی اچھی باتیں کرتا ہے لیکن جوں ہی اس نے آپ کے گلدان کو توڑنے کے لئے ہاتھ ڈالا تو پھر دیکھیں آپ کے تیور کیسے بدلتے ہیں یا اگر کوئی بچہ پیشاب کر دے اور اس سے بد بو پھیل جائے اور پھر وہ اسی غلاظت کے ساتھ کرسیوں پر بیٹھنے لگے یا کھانے میں ہاتھ ڈال دے یا آپ کے کپڑوں کو خراب کرنے کی کوشش کرے تو پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ بچے کیا ہوتے ہیں.پس اس چھوٹی عمر میں بچوں کو غیروں کے سپرد کر دینا جو اتنا حوصلہ ہی نہیں رکھتے کہ بچوں کے منفی پہلوؤں پر بھی بڑے حوصلے کے ساتھ چل سکیں، جن میں استطاعت ہی نہیں ہے کہ وہ ان کے تکلیف دہ حصوں کو کشادہ پیشانی کے ساتھ اور مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کر سکیں.یہ تو ماؤں کا جگرا ہے کہ راتوں کو بھی اٹھتی ہیں اور بچوں کی ہر مصیبت اور تکلیف کے وقت ان کا ساتھ دیتی ہیں.اور ان کو صاف ستھر ا بناتی ہیں.پس بچے جب تیار ہو کر باہر آئیں تو ان سے پیار کرنا تو ایک طبعی اور فطرتی چیز ہے پھول سے بھی تو لوگ پیار کرتے ہیں البتہ کانٹوں سے پیار کرنا، یہ ہے اصل امتحان.اس امتحان پر مائیں پورا اترا کرتی ہیں.یا کسی حد تک باپ پورا اترتے ہیں.سوسائٹی اس بات کی اہل ہی نہیں ہے کہ وہ اس حالت میں بچوں کو پکڑے.لیکن جب وہ شعور کی دنیا میں داخل ہورہے ہوں گے پھر آپ ایسی باتیں ان سے کہہ سکتے ہیں جس کی زبان وہ سمجھیں اور اس زبان میں وہ آپ کو جواب دیں.بچے کی عمر کا نہایت حسّاس دور پس ( دین حق) کا نظام ایک بہت ہی گہرا اور مستحکم نظام ہے اس میں خلا کوئی نہیں ہے لیکن ذمہ داریاں

Page 304

300 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم الگ الگ ہیں اور معین کی گئی ہیں اس لئے جہاں تک اس ضرورت کا تعلق ہے جو ہمارے اس مخلص دوست کو محسوس ہوئی اس سے مجھے ایک ذرہ بھر اختلاف نہیں ہے ہاں جو طر ز اصلاح ان کے ذہن میں ابھری ہے اس سے مجھے اختلاف ہے جس کے بارہ میں دلائل میں نے بیان کئے ہیں کہ مجھے اس سے کیوں اختلاف ہے لیکن اس کے ساتھ میں والدین کو بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان پر تربیت اولاد کی بہت بڑی ذمہ داری ہے خصوصاً ایسے علاقوں میں بسنے والے والدین پر یہ ذمہ داری اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے جیسا کہ یہ علاقہ ہے جس میں ہم آج کل بس رہے ہیں اور زندگی کے دن گزار رہے ہیں یا یورپ کے بعض دوسرے علاقے ہیں مشرق بعید کی بعض ریاستیں ہیں یا ہندوستان کے بعض علاقے ہیں ان سب علاقوں میں (دینی) قدریں غیر معمولی طور پر غالب ہیں.سکول جانے کی بچے کی جو عمر ہے وہ سات سال سے پہلے شروع ہو جاتی ہے یہ بچے کی عمر کا نہایت ہی حساس دور ہوتا ہے یعنی چار ساڑھے چار سال سے سات سال تک کا زمانہ خصوصیت کے ساتھ خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے کیونکہ ان علاقوں میں جو بچے نگے بچوں کو کھیلتے دیکھتے ہیں نگی لڑکیوں کو نہاتے دیکھتے ہیں اور اسی قسم کی اور بہت سی حرکتیں مثلاً ناچ گانے وغیرہ دیکھتے ہیں تو آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ بچے ہیں، ان چیزوں کے ان کے اوپر بہت ہی گہرے اثرات مرتب ہورہے ہوتے ہیں.چنانچہ بعض دفعہ اس رنگ میں احساسات ان کے ذہنوں پر نقش و نگار بنارہے ہوتے ہیں کہ بعد میں آپ ان کو کھر چنے کی کوشش کریں تو زندگی گھر چی جاسکتی ہے مگر وہ نقش ونگار نہیں گھر چے جاسکتے ان کے نفسیاتی وجود کا ایک مستقل حصہ بن چکے ہوتے ہیں.جس طرح کسی سانچے میں کوئی چیز پگھلی ہوئی ڈال دی جائے وہ جم جائے گی تو پھر وہ توڑی جاسکتی ہے نئی شکل میں ڈھالی نہیں جاسکتی اس لئے بچوں کی عمر کا یہ نہایت ہی اہم دور ہے.اس دور میں ماں باپ کو اس طرح توجہ کرنی چاہیے کہ وہ اپنے بداثرات کے مقابل پر بالا رادہ نیک اثرات پیدا کرنے کی کوشش کریں.اور اس میں ان کے لئے بہت سے ایسے پہلو ہیں جن پر ان کو خود عمل کرنا پڑے گا.وہ اپنی زندگی کی نج بدلے بغیر اس عمر میں بچے پر نیک اثر نہیں ڈال سکتے.وہ سننے سے زیادہ دیکھ کر اثرات قبول کر رہا ہوتا ہے سُن کر بھی کرتا ہے لیکن وہ لاشعوری طور پر اثر قبول کر رہا ہوتا ہے.سمجھ کر نہیں کر رہا ہوتا.جو چیز اس کو اچھی لگتی ہے وہ طبعا اور فطرتا اس کا اثر قبول کرتا ہے اور جو چیز اُسے بُری لگ رہی ہوتی ہے وہ اس سے دور ہٹ رہا ہوتا ہے مثلاً کھانے کے معاملہ میں آپ دیکھ لیں اس عمر میں آپ بچے کو سمجھانے کی لاکھ کوشش کریں کہ یہ چیز اچھی ہے یہ کھاؤ وہ کہے گا کہ نہیں مجھے نہیں اچھی لگتی لیکن جب وہ کم و بیش سات سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو پھر وہ بات کو سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں میں کوشش کرتا ہوں اور کچھ دیر کوشش کے بعد اس کو اچھی بھی لگنے لگ جاتی ہے.بعض

Page 305

301 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم بیوقوف مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جو چیز ان کے نزدیک اچھی ہوتی ہے وہ بچے کو بار بار کھلا رہی ہوتی ہیں وہ یہ سوچ ہی نہیں سکتیں کہ یہ بہت بھیانک حرکت ہے بعض دفعہ اس سے بچے کو ماں سے ہمیشہ کے لئے نفرت پیدا ہو جاتی ہے بعض دفعہ نفسیاتی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں اس لئے کبھی ایسی حرکت کرنے کی ہرگز کوشش نہیں کرنی چاہیے.اس عمر میں بچے کے ساتھ زبر دستی بہر حال نہیں کرنی چاہیے.یہ پیار کی عمر ہے اور پیار کی عمر بھی ایسی کہ جودلکشی کی عمر ہے.اگر آپ دلکشی کے ذریعہ سے بچے کی فطرت پر اثر انداز ہوں گے تو بچہ اثر قبول کرے گا بھیا نک بن کر آپ اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتے.ایسی صورت میں وہ آپ سے دور بھاگے گا اور آپ اپنی کوشش میں نا کام ہو جائیں گے بچہ اس چیز سے دُور بھاگے گا جس کی طرف آپ اُسے زبر دستی لانا چاہتے ہیں.اس لئے اس کے ساتھ پیار کرنا ضروری ہے اور وہ دلکشی سے ہوسکتا ہے.زبردستی کا پیار بھی ممکن ہی نہیں.پس ماں باپ کو بڑی ذہانت کے ساتھ اور بیدار مغزی کے ساتھ اپنے چھوٹے بچوں کے بارہ میں خصوصیت سے دلچسپی لینی چاہیے.بچے کے دل میں نماز کی محبت پیدا کرنا اولین کام ہے.اگر بچے اپنے ماں باپ کو باقاعدہ سج دھج کر پیار کے ساتھ اور سلیقہ کے ساتھ نماز پڑھتے دیکھیں گے تو پیشتر اس کے کہ وہ اسکول جانے لگیں ان کے دل میں بھی نماز کی محبت پیدا ہو جائے گی اسی طرح بعض اور عادات ہیں بچے ان کو دیکھیں گے تو ان کے دل میں ان کا بھی پیار پیدا ہو جائے گا.ٹیلی ویژن اور بچے اس بارہ میں ٹیلیویژن کے پروگرام خصوصیت سے توجہ طلب ہیں.ان کے متعلق بہت سی باتیں کہنے والی ہیں وہ بعد میں کسی وقت انشاء اللہ وقت ملا تو کہوں گا.لیکن اس میں بھی اختیار کی باتیں ہیں.شروع میں چھوٹی عمر میں بچوں کو ٹیلی ویژن سے نوچ کر الگ تو پھینک نہیں سکتے اس لئے ان کو کسی حد تک ٹیلی ویژن دیکھنے دینا ہے.البتہ بچوں کو کیا دیکھنا ہے ان کے ساتھ بیٹھ کر کیا تبصرے کرنے ہیں کس طرح آہستہ آہستہ بعض اچھی چیزوں کا فطری طور پر پیار بڑھانا ہے بعض بُری چیزوں سے روکنا ہے.یہ ایک بہت ہی گہری حکمت کا کام ہے بڑی جان سوزی بھی چاہتا ہے اور دماغ سوزی بھی.ان سارے امور میں قرآن کریم نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نے ہمارے لئے راستے روشن کئے ہوئے ہیں.اگر آپ نے قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا ہو تو کوئی ایک بھی راستہ ایسا نہیں کوئی ایک بھی پگڈنڈی ایسی نہیں جس پر آپ قدم رکھنا چاہیں اور اندھیرے آپ کو ڈرائیں کیونکہ جس رستے پر بھی اور جس پگڈنڈی پر بھی آپ قدم رکھنا چاہیں گے

Page 306

مشعل راه جلد سوم 302 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی وہاں قرآن اور سنت کی کوئی نہ کوئی مشعل روشن ہوگی وہ آپ کی رہنمائی کر رہی ہوگی.ماں باپ کی تربیت کا بھی اہتمام ضروری ہے چونکہ اکثر ماں باپ ان باتوں میں خود نابلد ہوتے ہیں ان کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اس معاملہ میں کیا کرنا چاہیے اور ان میں اس بات کی اہلیت ہی نہیں ہوتی کہ وہ بچوں کی صحیح تربیت کر سکیں دوسری طرف چھوٹی عمر کے بچوں کی تربیت ہم براہ راست کر نہیں سکتے اس لئے اس کا ایک ہی علاج ہے کہ اس عمر کے بچے کی تربیت کے لئے ماں باپ کی تربیت کی جائے.یہ کام ہم تنظیموں کے سپر دکر سکتے ہیں انصار اپنے ہاتھ میں لیں خدام اپنے ہاتھ میں لیں اور لجنات اپنے ہاتھ میں لیں.ان کا کام یہ نہیں کہ بچوں کے معاملہ میں والدین کے کام میں براہ راست دخل دیں بلکہ ان کو چاہیے کہ وہ ایسے پروگرام بنائیں جو جلسوں کی شکل میں بھی ہوں عملی پروگراموں کی شکل میں بھی ہوں اور تربیتی رسالوں اور کتابوں کی شکل میں ہوں.ان کا مطمع نظر یہ ہو کہ ہم نے اوّلاً ماں باپ کی تربیت کرنی ہے اور ان کو بتانا ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بچوں کی تربیت کیسے کریں.ان ذیلی تنظیموں کو اپنے پروگرام اس طرح بنانے چاہئیں کہ خشک نہ ہوں بلکہ ان میں دلچسپی ہو.اللہ تعالیٰ نے بعض ماؤں کو بچوں کی تربیت کا بڑا سلیقہ دیا ہوتا ہے.اسی طرح بعض باپوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے خاص شعور بخشا ہوتا ہے وہ گہری نظر سے ساتھ ساتھ مطالعہ بھی کرتے چلے جاتے ہیں.تاریخ انبیاء میں بھی اس قسم کے واقعات پھیلے پڑے ہیں.قرآن کریم نے انبیاء کی جو تاریخ محفوظ کی ہے اس میں بھی یہ واقعات پھیلے پڑے ہیں.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں یہ واقعات پھیلے پڑے ہیں.اور خود ہر انسان کے بچپن کی یادیں تازہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ جب بہت چھوٹے ہوتے تھے تو کن چیزوں نے آپ پر نیک اثرات ڈالے تھے.کون سی چیزیں ہیں جن کی یاد سے آج بھی دل مہک اٹھتا ہے اور وہ آپ کی بعض نیکیوں کے ساتھ متعلق ہیں قرآن کریم کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ جو فرشتے مقررفرماتا ہے ان کا ایک نہایت ہی لطیف نظام ہماری فطرت کے اندر جاری ہے.ہم اکثر اس کو محسوس نہیں کرتے.اگر آپ بیدار مغزی کے ساتھ فرشتوں سے تعلق جوڑنے کی کوشش کریں تو آپ کا تعلق ان سے قائم بھی ہوسکتا ہے.

Page 307

مشعل راه جلد سوم 303 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی نیکی اور بدی کے محرکات دراصل ہر انسان کے اندر کچھ خوبیاں ہوتی ہیں اور کچھ بدیاں ہوتی ہیں اور ان کی ایک تاریخ اس کے ذہن میں محفوظ چلی آرہی ہوتی ہے.اگر اس کو اپنے اندر ڈوبنے کا سلیقہ ہوسوچنے اور غور کرنے کی عادت ہو تو بسا اوقات یہ ممکن ہے کہ اگر ساری نہیں تو اکثر بدیوں کے ساتھ سفر کرتا ہوا وہ اپنے بچپن کے اس مقام تک پہنچ سکتا ہے جہاں پہلی دفعہ وہ بدی پیدا ہوئی تھی اور اس کے لئے دل میں کشش پیدا ہوئی تھی کیوں کشش پیدا ہوئی تھی ؟ پس یہ وہ بدی کا محرک ہے جو انسان کے ساتھ ہوتا ہے.اس کو شیطان کہا جاتا ہے.انسان کو پتہ ہے کہ کون سا شیطان تھا کس وقت آیا تھا کس وقت اُس نے اس کے ذہن کے کس حصہ پر قبضہ کر لیا تھا اور آج تک وہ ساتھ چل رہا ہے اور اسی طرح اس بدی کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور اس کے آگے بھاگتا چلا جاتا ہے اور اسے آگے بڑھاتا اور اُکساتا چلا جاتا ہے.اسی طرح انسان اگر اپنی نیکیوں کا تجزیہ کرے تو اس کو معلوم ہوگا کہ بچپن میں کسی زمانہ میں کسی خاص چیز کے ساتھ کسی خاص وجہ سے پیار ہو گیا تھا اور وہ وجہ اس کی نیکی کا فرشتہ ہے وہ اس کی نیکی کی ہمیشہ حفاظت کرتا ہے اور اس کے قدم آگے بڑھاتا ہے.بچپن میں تربیتی خلانہ رہنے دیں پس اگر انسان شعوری طور پر آنکھیں کھول کر ذہن کو روشن کر کے انبیاء کی سیرت اور سنت نبوی کا مطالعہ کرے اور پھر خود اپنے واقعات پر غور کرے اور اپنے نفس میں ڈوبے ہوئے اس کے اندر سے ایک نہایت ہی شاندار مربی رونما ہوگا.اس کی ذات کے اندر سے وہ شخص پیدا ہو گا جو اللہ کے فضل سے تربیت کے نہایت ہی عمدہ طریقے جاننے والا ہوگا اور خدا کے فضل سے عملاً ایک اچھی نسل پیدا کرنے کی اہلیت رکھتا ہوگا.لیکن بہت سے لوگ بد قسمتی سے ان علمی روحانی اور نفسیاتی سفروں کے قابل نہیں ہوتے گو اس کی قابلیت تو اللہ تعالیٰ نے سب کو بخشی ہوتی ہے مگر اکثر ایسے ہیں جو اس کی عادت نہیں ڈالتے اور یہ قابلیت ان کے اندر بیدار نہیں ہو پاتی.غالبا یہ خلاء بچپن کا پیدا شدہ خلاء ہوتا ہے جو ساری عمر ساتھ چلتا ہے.پہلے سات سال یا چھوٹی عمر میں ان کا ذہن دوسری طرف مائل رہا یا سطحی چیزوں کی طرف مائل رہا.مثلاً آج کل ٹیلیویژن دیکھنے والے جو بچے ہیں ان کا دماغ اس دُنیا کی بجائے Space ( خلا) میں زیادہ رہتا ہے.فرضی ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کرنے والے یا اسی قسم کی دوسری چیزیں جو ٹیلیویژن پر دکھائی جاتی ہیں.بچے ان

Page 308

مشعل راه جلد سوم 304 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ میں بسنے لگ گئے ہیں گویا ان چیزوں نے ان کو روزمرہ کے انسانی مسائل سے الگ کر دیا ہے شاذ و نادر ہی آپ بچوں کا کوئی ایساٹی وی پروگرام دیکھیں گے جس میں انسانی ہمدردی سے تعلق رکھنے والے، انسانی بُرائیوں سے تعلق رکھنے والے، انسانی خوبیوں سے تعلق رکھنے والے پروگرام اس طرز سے دیئے گئے ہوں کہ بچے کو بُرائیوں سے نفرت اور خوبیوں سے پیار ہونے لگے.ماں باپ کی ذمہ داری سکول کے Syllabus میں بھی اسی قسم کی نہایت ہی خوفناک تبدیلیاں آچکی ہیں اس پہلو سے بھی دیکھیں تو جماعت کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اس لئے بڑے باشعور مربیوں کی ضرورت ہے چونکہ عملاً واقعہ ایسا ہونا فوری طور پر ممکن نظر نہیں آرہا، جب سچائی کی نظر سے دیکھیں تو اکثر دوست بدقسمتی سے اس سے محروم ہیں ، اس لئے ان لوگوں کی تربیت کے لئے یعنی ہر فرد بشر کی تربیت کے لئے نظام جماعت کو یہ کام اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے.ان میں باشعور لوگ بھی ہوں گے ہر قسم کی عورتیں بھی ملیں گی.ہر قسم کے مرد بھی ملیں گے تو اپنی اپنی تنظیم میں پول Pool بنا ئیں ان کے خیالات اور ان کے تجارب پر کتا بیں لکھیں لیکن اس میں پیش نظر ماں باپ ہوں اور ماں باپ پیش نظر ہوں خاص عمر کے.بچوں کی خاطر اس نقطہ نگاہ سے آپ کوشش کریں.اور جن ماں باپ تک میری بات ویسے ہی براہ راست پہنچ رہی ہے ان کو انفرادی طور پر اپنی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہیے اور بیدار رہنا چاہیے کیونکہ یہ وہ معاملہ ہے جس میں تنظیمیں آپ کی مدد کرنے کی کوشش تو ضرور کریں گی لیکن تنظیموں سے نہیں پوچھا جائے گا آپ سے پوچھا جائے گا.اس عمر کے بچوں پر جو نقش آپ نے مرتسم کر دیئے اگر وہ جہنم میں لے جانے والے نقش ہیں تو بچوں سے ہی نہیں آپ سے بھی پوچھا جائے گا اور اگر ایسے نقش مرتسم کر دیئے جو جنت کے رہنے والوں کے نقوش ہوتے ہیں تو پھر آپ بڑے خوش نصیب لوگ ہیں کیونکہ آپ کی اولاد در اولاد در اولاد کی نیکیاں بھی آپ کے نام پر ہمیشہ لکھی جائیں گی جو آپ کے درجات کی بلندی کا موجب بنتی چلی جائیں گی.(ضمیمہ ماہنامہ خالد جنوری 1988 ء وضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ جنوری 1988ء)

Page 309

مشعل راه جلد سوم 305 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ کے چوتھے سالانہ یورپین اجتماع سے اختتامی خطاب فرمودہ 14 جون 1987ء اجتماعات کا مقصد خالصہ دینی ہے یورپ میں اسلام کی غلط مشکل پیش کی گئی..یورپ کی نئی نسلیں یہ عزم لے کر اٹھی ہیں کہ....ہمیں لازماً سچائی کو دیکھنا ہوگا اور پرکھنا ہوگا.......اب عیسائیت کا تسلط یورپین ممالک پر بے حد کمزور ہو چکا ہے ان کی بھاری اکثریت اپنے ماضی سے پوری طرح غیر مطمئن ہو چکی ہے ان کو عملاً ایک تسکین بخش نظریئے کی نہیں بلکہ ایک تسکین بخش نمونے کی ضرورت ہے داعیان الی اللہ کے لئے ایک نصیحت کہ اپنے دعوی کو اپنے اعمال میں جاری کریں اہل یورپ کو خدا چاہیے.....(حقیقی) خدا کو فرضی وجود کے طور پر پیش نہ کریں دلوں کو جیتیں...محبت اور پیار سے....اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے خدا کے لئے دنیا کو روحانی معجزوں کی ضرورت ہے.........ایسے معجزے جو ان کو طمانیت قلب عطا کریں

Page 310

مشعل راه جلد سوم 306 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 311

مشعل راه جلد سوم 307 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہے اور جتنا بھی اس کا شکر کیا جائے کم ہے.کہ اس نے اپنے فضل اور رحم کے ساتھ ہمیں بڑی کامیابی کے ساتھ ہالینڈ کا یہ پہلا یورپین اجتماع منعقد کرنے کی توفیق عطا فرمائی.یعنی یورپ کے خدام الاحمدیہ کا یورپین اجتماع.شروع میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ ہالینڈ کی جماعت ابھی چھوٹی ہے اور جو خدام یہاں تھے وہ بھی زیادہ تربیت یافتہ نہ تھے.اس لئے مہمانوں کو کچھ دقت پیش آئی.خصوصا ر ہائش کے انتظام میں پہلی رات آنے والے مہمانوں نے بہت تکلیف اٹھائی لیکن خندہ پیشانی سے اسے برداشت کیا.اور جہاں تک ممکن ہو سکا اس وقت تمام مقامی خدام نے اور میز بانوں نے جہاں جہاں بھی جگہ مناسب مل سکی ان کو مہیا کرنے کی کوشش کی لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ جماعت چھوٹی ہے ابھی اس لئے اس اجتماع میں میزبانوں اور مہمانوں کا فرق بالکل اٹھ گیا تھا.اور بعض صورتوں میں تو ہالینڈ کی جماعت مہمان بن گئی تھی اور آنے والے میزبان بنے ہوئے تھے.مثلا کھانے کے انتظام میں انگلستان کا جو وفد آیا تھا اس نے بہت ہی محنت کے ساتھ اور بڑی مہارت کے ساتھ مہمانوں کا کھانا تیار کیا اور انہوں نے جو اپنے مہمانوں پر حسن ظن رکھا.آنیوالے مہمانوں نے اور مقامی مہمانوں نے اس حسن ظن کو بھی پورا کر دکھایا.اگر چہ ان کو بتایا گیا تھا کہ 500 مہمان ہوں گے لیکن حسن ظنی کرتے ہوئے که 500 مہمان کم از کم 700 کا کھانا کھائیں گے.انہوں نے 700 کا کھانا تیار کیا.خدا کے فضل سے کوئی کھانا ضائع نہیں گیا.اسلئے میں نہیں کہہ سکتا کہ اگر 800 کا پکاتے تو اس میں کوئی حصہ ضائع ہو جاتا.اجتماعات کا مقصد حضور نے فرمایا اجتماعات کا مقصد خالصۂ دینی ہے.اور اگر چہ کھیلوں وغیرہ کا انتظام بھی کیا جاتا ہے عام علمی مقابلے بھی ہوتے ہیں لیکن آخری مقصد و منتہا دین ہی ہے.ان قوموں میں جن میں ہم آکر کچھ

Page 312

308 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم نئے نئے آباد ہوئے ہیں.کچھ یہیں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ ہمیں سعید روحیں عطا کی ہیں.ان میں ہمارا دین ابھی بالکل نیا ہے.ہمارا دین ان معنوں میں نیا ہے.جن معنوں میں جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے.یعنی حسن و احسان کا سرچشمہ.ایک ایسا دین جو کامل حسن رکھتا ہو.اور کامل طور پر اپنے متبعین کو حسین بنانے کی طاقت بھی رکھتا ہو.یہ دین ان لوگوں کیلئے بالکل نیا ہے.وہ دین جس سے یہ متعارف ہیں وہ دین کی صدیوں سے بگڑی ہوئی صورت ہے.جسے بگاڑنے میں بدقسمتی سے خود مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کچھ بد قسمتی سے ان کے علماء نے جو مستشرقین کہلاتے تھے، ایک افسوسناک کردار ادا کیا.انہوں نے اپنی کتب میں، اپنے لٹریچر میں، اپنے اخبارات میں، ہر قسم کے علمی ذرائع اختیار کرتے ہوئے پہلے ہی سے ان کو ہمارے دین سے بہت حد تک بدظن کر رکھا تھا.اور بالکل غلط شکل دین کی بنا کر ان کے سامنے پیش کی ہوئی تھی جس کی وجہ سے جب بعد ازاں اس نئے دور میں بعض اسلامی ممالک کی طرف سے یا بعض اسلامی تحریکات کی طرف سے کچھ اس سے ملتی جلتی حرکتیں ہونی شروع ہوئیں.جو تصویر ان کے علماء نے ان کے سامنے پہلے ہی کھینچ رکھی تھی تو انہوں نے کامل طور پر یقین کر لیا کہ جو ہمارے بڑے، ہمارے صاحب علم کہا کرتے تھے وہ درست بات تھی اور یہ دین ایک جبر کا اور ایک استبداد کا مذہب ہے.یہ تلوار کے زور سے دلوں کو جیتنے کا دعویٰ کرتا ہے یہ قوت بازو سے سروں کو ختم کرنے کے لئے پیدا ہو ا ہے اور انسانیت کو تاریک ماضی کی طرف لوٹانے کے لئے آیا ہے.یہ دین ظلم جبر اور فساد کی تعلیم دیتا ہے.غرضیکہ ہر وہ چیز جو اس نئی دنیا میں ماضی میں پیچھے رہ گئی تھی، وہ جبر واستبداد کی تمام کہا نیاں جو قصوں میں سنا کرتے تھے بدقسمتی سے اس کی کوئی نہ کوئی عملی صورت آج کی دنیا میں بعض مسلمان ممالک نے ان کے سامنے پیش کی.چنانچہ ان کا دین حق کا تصور اتنا بگڑا ہوا ہے اتنا بھیانک ہے بسا اوقات یہ ہمارے دین کے نام سے بھی خوف کھاتے ہیں.کہ جہاں بھی یہ دین داخل ہونا شروع ہوا اس کے پیچھے فتنہ و فساد ضرور داخل ہوں گے.یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو ان یورپین ممالک میں جہاں ابھی احمدیت پوری طرح صحیح مذہب کو متعارف ہیں کرواسکی ، وقتیں پیش آتی ہیں.آسٹریا میں مشکلات جب آسٹریا میں ہم نے مشن قائم کرنے کی کوشش کی تو تقریبا ڈیڑھ دو سال حکومت کو یہ اطمینان کرنے میں لگے کہ ہم اس قسم کے لوگ نہیں ہیں جو خنجر کے ساتھ اور تلوار کے ساتھ اور توپ و تفنگ کے ساتھ دلوں کو

Page 313

مشعل راه جلد سوم 309 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی جیتنے کا دعویٰ کرنے والے لوگ ہیں.اس قسم کے لوگ نہیں ہیں جو معصوم انسانوں کی جانوں سے کھیل کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کا دعوی کرتے ہیں، Terrorism کی تعلیم دیتے ہیں.چنانچہ بڑی لمبی تحقیق انہوں نے کی جہاں جہاں احمدیت پہلے سے پوری طرح جاگزیں ہو چکی تھی.اپنی جگہیں بنا چکی تھی.اُن ممالک سے انہوں نے رابطے کئے اور آخر یہ تسلیم کیا کہ اگر احمدیت کو وہاں رجسٹر ہونے کی اجازت دی جائے تو اُن کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.پس جماعت احمدیہ جس دین کو پیش کرنا چاہتی ہے وہ قدیم ترین بھی ہے اور جدید ترین بھی.قدیم ترین اس لئے کہ وہ دین حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہے وہ حسین چہرہ ہمارے دین کا جو لوگوں کو فریفتہ کر لیتا ہے.جو دشمنوں کو بھی عاشق بنانے کی طاقت رکھتا ہے.جو انسانی طاقتوں کو رفتہ رفتہ اس طرح جلا بخشتا چلا جاتا ہے.کہ انسان خواہ دنیا کے لحاظ سے کتنا ہی اعلیٰ اخلاقی مقام پر بھی فائز ہو دین کی برکت سے اُسے نئی رفعتیں عطا ہوتی ہیں.یہ وہ دعوی ہے جو لے کر ہم ان ممالک میں آئے ہیں.اور اس دعوی کو اپنے اعمال سے سچا ثابت کرنا ہمارا کام ہے.یورپین قوموں کی ذہانت اگر ہم یہ دعوی زبانی پیش کرتے رہے.تو یہ خیال مت کریں کہ یہ تو میں اس زبانی دعوی سے دھو کہ کھا جائیں گی.یہ بڑے ذہین لوگ ہیں.دنیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں.لمبی علمی جستجو کے ذریعہ مشاہداتی دنیا میں اپنے نظریات کو بار بار پر کھنے کے بعد ان میں خدا تعالیٰ نے اس فطری ملکہ کو بہت جلا بخش دی ہے جو انسان کو عطا ہوتی ہے.لیکن بعض لوگ اسے بار بار استعمال کر کے اور اس میں مزید بہتری کے نقوش پیدا کرتے ہوئے اسے ایک بلند مقام تک پہنچا دیتے ہیں اور وہ فطری ملکہ ہے کسی دعویدار کے دعوئی کو پرکھنا.کسی دعویدار کے دعوی کی پہچان کرنا.قوموں میں لمبے تجربہ کی وجہ سے یہ ملکہ خود چمک اٹھتا ہے.یہ قو میں لمبے عرصہ سے تاجر قوموں کے طور پر دنیا کے سامنے ظاہر ہوئیں.اور تجارت کی قوت کے ساتھ انہوں نے تمام دنیا میں نفوذ حاصل کیا اور عروج حاصل کیا.اس لئے ان کے اندر پہچان کا ملکہ خاص ترقی پاچکا ہے.ہر ہے چیز کو پرکھ کر جان کر یہ معلوم کرنے کے عادی ہو چکے ہیں کہ دعوی سچا بھی ہے کہ نہیں.اور یہ چیز مفید بھی - کہ نہیں.پس ان کے سامنے بھی اپنے دین کو پیش کرنا یعنی اس دین کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حسین دلکش مذہب تھا.دو طرح سے ہمارے لئے بہت ہی مشکل امر ہے.اول یہ کہ ہمارے دین کی پہلی

Page 314

مشعل راه جلد سوم 310 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی تصویر جوان ذہنوں پر قائم ہے وہ بہت ہی بگڑی ہوئی ہے.ان نقوش کو پہلے ہمیں مٹانا ہوگا.نئی نسلیں سچائی کی تلاش میں ہیں دوسرے محض دعوئی اور دلائل سے یہ آپ کی بات نہیں مانیں گے.دعویٰ اور دلائل کے ذریعہ تو عیسائیت نے بھی بہت لمبا عرصہ ان کے دل و دماغ پر حکومت کی ہے.اور آج کی نئی نسلیں ان کے طلسم سے باہر آ رہی ہیں آج کی نئی نسلوں پر وہ جادوٹوٹ چکا ہے.اور وہ یہ عزم لے کر اٹھی ہیں.کہ ہم کسی نظریے اور کسی دعوی کو نظریات کی بناء پر قبول نہیں کریں گی.بلکہ ہمیں لازماً سچائی کو دیکھنا ہوگا اور پرکھنا ہوگا.اور جب تک سچائی کو ہم مشہودات کی دنیا میں اپنے سامنے دیکھ نہ لیں اور محسوس نہ کر لیں اس وقت تک ہم اس کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے.الفاظ میں تو یہ اعلان نہیں لیکن عملاً آج کا نئے دور کا یورپین نو جوان یہی اعلان کر رہا ہے.گزشتہ تمام نظریات اور تہذیبی تقاضوں اور تمدنی اقدار کے خلاف وہ علم بغاوت بلند کر چکا ہے.دین کے زبانی دعوے کافی نہیں ان کے سامنے جب آپ اپنا دین پیش کریں گے تو محض زبانی دعوؤں پر ہرگز اسے تسلیم نہیں کریں گے اگر زبانی دعوؤں سے ہی کسی مذہب کو قبول کرنا ہوتا تو عیسائیت کے قبضہ سے نکل کر یہ باہر کی طرف سفر کیوں شروع کرتے.جب میں کہتا ہوں کہ عیسائیت کے قبضہ سے نکل کر ، تو ممکن ہے کہ بہت سے یورپین عیسائی اس بات پر بُرا منائیں اور وہ یہ سمجھیں کہ یہ بات درست نہیں.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یورپ میں جہاں جہاں بھی میں نے سفر کیا اور جہاں جہاں بھی پریس کو انٹرویوز دیئے اور اصحاب علم و دانش سے ملاقاتیں کیں.وہاں ان سب مذکرات کے بعد گفت و شنید کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ لوگ جو سچائی کے ساتھ اپنے معاشرے کا مطالعہ کر رہے ہیں، وہ سب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اب عیسائیت کا تسلط یورپین ممالک پر بے حد کمزور ہو چکا ہے اور وہ لوگ جو نظریات کے لحاظ سے عیسائی ہیں بھی.بہت تھوڑے سے ان میں سے ہیں جو فی الحقیقت کامل یقین کے ساتھ عیسائیت کے متبع ہیں اس پر پورا ایمان رکھتے ہیں.اور اس ایمان کو اپنے عمل میں ڈھال رہے ہیں.

Page 315

مشعل راه جلد سوم 311 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی یورپین معاشرے کے دُکھ روز بروز جونئی زندگی کی دلچسپیوں اور مشاغل کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے.نئے نئے ناچ گانوں کی قسمیں، نئی لذت یابی کے سامان، پھر تمدن اور اقدار کے خلاف بغاوت، اپنی روایات کے خلاف بغاوت ، اپنے لباس کی طرز میں بغاوت، اپنے ہر رجحان میں ایک باغیانہ طرز کو اختیار کرنا، اپنے سر کے بالوں کے حلئے بگاڑ دینے ، اچھے بھلے لباس کو تار تار کر کے اس طرح پہننا کہ گویا پھٹا ہو الباس ہی ان کی نمایاں شان کے مطابق ہے اور اچھا لباس ان کی شان گرانے والا ہو گا.بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں پاگل پن کی باتیں نظر آتی ہیں لیکن فی الحقیقت ان کے نیچے ان کے اندر ایک بہت گہر انا سور ہے جو رس رہا ہے.ایک بہت بڑا دکھ ہے ان کے اندر، ایک بہت بڑا دکھ ہے جس کی علامتوں کے طور پر ان سے یہ حرکتیں سرزد ہورہی ہیں.ان کی بھاری اکثریت آج اپنے ماضی سے پوری طرح غیر مطمئن ہو چکی ہے.اپنے ماضی پر انہیں کوئی اعتماد نہیں.اور کوئی یقین نہیں رہا.اور ایک بھیانک مستقبل ہے جو غیر یقینی مستقبل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس طرح گھورتا ہے جس طرح کوئی بلا کسی پر جھپٹنے کے لئے اس کو گھور رہی ہوتی ہے.خوفناک ہتھیار اور ایسے خوفناک ہتھیار جو اگر تمام کے تمام اس دنیا میں استعمال ہوں تو دنیا کی بھاری اکثریت کو کلیۂ صفحہ ہستی سے مٹا ڈالیں.بڑے بڑے ممالک کو رہائش کے قابل نہ رہنے دہیں.صدیوں وہاں ویرانیاں بسیں اور آبادیوں کا کوئی سوال باقی نہ رہے.ایسے خطرناک ہتھیار یہ خود ایجاد کر چکے ہیں.اور جانتے ہیں کہ ہماری سیاسی لیڈرشپ اخلاقی قدروں کے لحاظ سے اتنی مضبوط نہیں ہے کہ ان ہتھیاروں کے معاملے میں ان پر اعتماد کیا جا سکے.وہ جانتے ہیں کہ کسی وقت بھی کوئی غیر ذمہ دار لیڈر ایسی حرکت کر سکتا ہے.کہ اس کے نتیجہ میں ان ہولناک ایٹمی ہتھیاروں کی لڑائی شروع ہو جائے.پس یہ دو بلاؤں کے درمیان پس رہے ہیں ایک ماضی سے بے اطمینانی اپنی ہر روایت سے بے اطمینانی اور ایک مستقبل پر عدم اعتماد اور یہ یقین کہ ہماری کوئی منزل نہیں اور ہمارا کوئی رخ نہیں.ان دونوں مصیبتوں کے درمیان گھر کر ان کی فطرت نے ایک بغاوت کی ہے.اس بغاوت کا اظہار اس نئی طرز کے ناچ گانے ، نئی طرز کے لباس نئی طرز کے انداز میں ہو رہا ہے جس کی ہر ہر ادا ماضی سے بغاوت کا اعلان کر رہی ہے اور مستقبل پر بے اطمینانی کا اظہار کر رہی ہے.

Page 316

مشعل راه جلد سوم 312 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی یورپ میں انقلاب لانے کا دعویٰ وہ یہ صورت حال ہے.چند گنتی کے احمدی یہ دعویٰ لے کر اٹھے ہیں کہ ہم ان قوموں کو اطمینان بخشیں گے.ہم ان کے لئے دائمی سکینت لے کر آئیں گے.ہم ان کی طمانیت کے سامان لے کر آئے ہیں اور وہ سارے خلاء جوان کی فطرت میں پیدا ہو کر ان کے سینوں کو ویرانے بنارہے ہیں ان سب خلاؤں کو نہایت ہی حسین دلکش بہاروں سے ہم نے بھرنا ہے.یہ دعویٰ لے کر جماعت احمدیہ کے چند نو جوان، چند بوڑھے چند عورتیں ، چند بچے ان ملکوں میں ایک نیا روحانی انقلاب پیدا کرنے میں کوشاں ہیں لیکن جیسا کہ میں نے آپ کو بیان کیا ہے.محض یہ دعوی کسی کام نہیں آئے گا.کیونکہ دعوؤں سے یہ لوگ تھک چکے ہیں.بیزار ہو چکے ہیں.ان کو عملاً ایک تسکین بخش نظریئے کی نہیں بلکہ ایک تسکین بخش نمونے کی ضرورت ہے اس لئے ہر وہ احمدی جو داعی الی اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا اور کوشش کرتا ہے کہ نظریات کی دنیا میں ان کو مطمئن کرائے کہ ہمارا دین بہتر ہے.ان کا مذہب ہمارے مذہب کے مقابلہ میں ان کے لئے کم نفع بخش ہے.بسا اوقات ایسا احمدی سالہا سال تک کوشش کرتا چلا جاتا ہے.اور اس کو کوئی پھل نہیں ملتا.کوئی شخص بھی اس کے مضبوط دلائل کے سننے کے نتیجہ میں ان سے مطمئن ہو کر احمدیت قبول نہیں کرتا.اور پھر یہ داعی الی اللہ مجھے شکوہ کے خط لکھتا ہے.شکوہ کے نہیں تو شکایت کے کہہ لیں.کہ ہم کیا کریں؟ ہم پوری کوشش کرتے ہیں دلائل سے اپنے مد مقابل کو ہر پہلو سے شکست دے دیتے ہیں.لیکن وہ ہمارے دین کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا.اس کا کیا حل ہے؟ اپنے دعوئی کے سامنے اپنے عمل کا سرخم کریں میں انہیں آج یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اپنے دعوئی کے سامنے اپنے عمل کا سر تو خم کریں.اپنے دعویٰ کو اپنے اعمال میں تو جاری کریں.خود ان دعاوی کے نتیجہ میں اپنے دل کیلئے تو تسکین کا سامان پیدا کریں نفس مطمئنہ بنیں.وہ نفس جو محض نظریوں پر اطمینان نہیں پاتا بلکہ نظریوں کو اپنے اعمال میں ڈھال کر ان کی صداقت کو پر کچھ کر عملاً ایک جنت کی زندگی بسر کرنا شروع کر دیتا ہے.یہ تبدیلی اگر آپ اپنے اندر پیدا کرلیں تو پھر آپ کے دعاوی میں ایک غیر معمولی طاقت پیدا ہو جائے گی.خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان کو خدا چاہیے.لیکن اس راہ میں ان کے لئے مشکل یہ ہے کہ جس خدا کے تصور سے جس خدا پر ایمان لا کر انہوں نے زندگی کا سفر

Page 317

313 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم شروع کیا تھا وہ خدا ایک فرسودہ خیالی خدا بن چکا ہے.ایک کہانی بن گئی ہے.عملاً وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا ان کے لئے کچھ نہیں کر سکا.اس لئے آپ جب خدا کا تصور لے کر ان کے پاس آتے ہیں.تو خواہ یہ الفاظ میں آپ سے کہیں یا نہ کہیں.لیکن ان کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ ہاں ہم نے دیکھے ہیں خداؤں والے.پہلے بھی سالہا سال صدیوں تک خدا والوں نے ہم پر حکومتیں کی ہیں اور خدا کے نام پر ہمیں ہزار قسم کے دھوکوں میں مبتلا رکھا ہے.آج اس خدا پر ایمان لانے کے نتیجہ میں یا ان خداؤں کی پیروی کے نتیجہ میں ہم اس حال کو پہنچے ہیں کہ دنیا کی تمام ترقیات کے باوجود ہما را قلب ، قلب مطمئنہ نہ بن سکا.ہمارے دل کو سکون حاصل نہ ہو سکا.اس لئے تم کس خدا کی بات کرنے آئے ہو.کون سا خد ا لے کر ہمارے پاس آئے ہو.یہ وہ چیلینج ہے جو آپ کے سامنے مد مقابل بن کر کھڑا ہے اور بظاہر ہماری طاقت کے مقابل پر اس چیلنج کی طاقت بہت بڑی ہے اور بہت وسیع ہے اور بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیلینج ہمارے سارے رستے روک کر کھڑا ہے.اہل یورپ کا چیلنج اس لئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس طرح اس چیلنج کو کامیابی کے ساتھ قبول کریں؟ اور اس پر غالب آئیں.اس کا یہی جواب ہے جو میں پہلے بھی دے رہا ہوں.اب پھر اس پر مزید زور دینا چاہتا ہوں اگر آپ اس دعوئی میں بچے ہیں کہ اس کائنات کا رحمان و رحیم رب مالک خدا وہی خدا ہے جسے آپ اس دنیا میں متعارف کروانا چاہتے ہیں تو پھر اس (حقیقی) خدا کو ایک فرضی وجود کے طور پر پیش نہ کریں.بلکہ ایک ایسے وجود کے طور پر پیش کریں جو آپ کی ذات میں اتر آیا ہو.جب تک آپ خدا والے بن کر نہیں دکھاتے اس وقت تک آپ کی بات پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا.اور خدا والے بننے کے لئے عملاً خدا کی صفات کو اپنی ذات میں جاری کرنا پڑتا ہے.یہ تو ممکن نہیں کہ کسی انسان سے بدبو کے بھبھا کے اٹھ رہے ہوں اور دعوئی یہ کرے کہ میں عطر بنا تا ہوں اور عطر کی دکان سے باہر آرہا ہوں.اگر کوئی عطر بنانے کا دعویدار ہے تو کم از کم اس کے کپڑوں سے اس کی لمس سے خوشبو تو اٹھے.یہ کیسے ممکن ہے کہ دعوئی تو عطر بنانے کا ہو اور منہ کالا اور کپڑے گندے اور بدن سے سخت بد بو اٹھ رہی ہو.اس لئے کوئی اس دعویدار کے دعوی کو قبول نہیں کرے گا.خدا تعالیٰ تو تمام خوشبوؤں کا منبع ہے.خدا تو ہر نور کا سر چشمہ ہے.اگر خدا سے تعلق کا دعویٰ رکھنے والے لوگ واقعی اپنے دعوئی میں بچے ہوں تو ان کے جسم میں نور کے نشان ظاہر ہونے چاہئیں اور یہی وہ دعوی ہے جو قرآن کریم کرتا ہے.فرماتا ہے نُورُ هُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمُ کہ جب مومن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں خدا

Page 318

314 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کے ساتھ تعلق جوڑ چکا ہوں.تو وہ دعویٰ ایک فرضی کہانی نہیں رہتی بلکہ عملاً اس کا نور آگے آگے دوڑتا ہے اور دنیا دیکھتی ہے کہ یہ نور کے ساتھ چل رہا ہے.ان کے اندر ایک غیر معمولی تزکیہ کی قوت پیدا ہو جاتی ہے ان کی باتوں میں ایک غیر معمولی طاقت بخشی جاتی ہے.اور ایک وزن پیدا ہو جاتا ہے.ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق دکھائی دینے لگتا ہے.دنیا والے جب ان پر نظر ڈالتے ہیں تو جانتے ہیں کہ اس دنیا میں ہوتے ہوئے بھی یہ کسی اور دنیا کے لوگ ہیں.ان کی ہر ادا مختلف اور نرالی دکھائی دینے لگتی ہے.وہ جانتے ہیں کہ ان کی ہر بات خلوص سے لبریز ہے.ان کی ہر ادا کچی ہے.یہ خالص ہمدردی بنی نوع انسان کی رکھتے ہیں اور محض اپنی انا کے لئے نہیں اپنے نظریے کے غلبہ کے لئے نہیں بلکہ ہمیں ہلاکتوں سے بچانے کے لئے یہ پیغام دے رہے ہیں.اس عملی تبدیلی کے ساتھ اگر آپ ان کو خدا کی طرف بلائیں گے کہ آپ کے اندر خدائی صفات جلوے دکھانے لگی ہیں.خدا کے رنگ آپ پکڑ گئے ہیں.تو پھر آپ دیکھیں کہ آپ کی دعوت میں کتنی غیر معمولی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.ہزار باتوں کی بجائے تقویٰ سے قوت پانے والا بعض اوقات ایک فقرہ ہی وہ رنگ دکھاتا ہے.جو ہزار باتیں نہیں دکھا سکتیں.اس لئے سب سے زیادہ زور اس بات پر دیں کہ جس کے آپ نمائندہ ہیں اس کی نمائندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں.اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی عالم بقاء کے لوگ بنے کی کوشش کریں.جو دنیا سے ہر طرح کا تعلق رکھتے ہوئے بھی دنیا سے بے نیاز ہیں.مؤمن کے دنیا سے تعلق کی مثال مولانا روم کی اس مثال کو پیش نظر رکھیں جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ پانی اور کشتی کا ایک ایسا اٹوٹ تعلق ہے کہ اگر کشتی کو پانی سے الگ رکھ دیا جائے تو کشتی کا وجود ہی ختم ہو جا تا ہے.اُسے کشتی کہنا ہی بے معنی بات بن جاتی ہے.لیکن کشتی تبھی دنیا کو فرق ہونے سے بچا سکتی ہے.اور انسانوں کو غرق ہونے سے بچا سکتی ہے.اگر وہ پانی کے اوپر رہے.اگر پانی کشتی کے اوپر آجائے تو کشتی غرقابی سے بچانے کی بجائے غرقاب کرنے والا ایک ذریعہ بن جاتی ہے.اسی طرح مؤمن کا دنیا سے تعلق ہے.اس دنیا میں جب تک وہ زندگی بسر کرتا ہے تو ناممکن ہے کہ اس دنیا کے معاملات سے الگ رہے.لیکن دنیا پر فائق رہ کر دنیا پر غالب رہ کر دنیا کی سطح کے اوپر حکومت کرتا ہے.دنیا سے مغلوب ہو کر نہیں پس آپ بھی دنیا میں اس طرح رہیں کہ ہر طرح

Page 319

315 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم کا تعلق جوڑنے کے باوجود اس سے مرعوب ہو کر نہ رہیں.اس پر غالب ہوکر رہیں.ہمیشہ یہ احساس اپنے ذہن میں غالب رکھیں کہ آپ خدا کے نمائندہ ہیں.اور جس طرح خدا ہر فیض کا سرچشمہ ہے آپ سے بھی فیض دنیا تک پہنچے.ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہیں کہ آپ کسی نہ کسی رنگ میں کسی انسان کے لئے بھلائی کا موجب بن جائیں.خدمت کے موقعوں کی تلاش میں رہیں.حسن خلق کے ذریعہ بھی یہ خدمت ہوسکتی ہے مسکراہٹوں اور پیار کے ذریعہ بھی یہ خدمت ہو سکتی ہے.مصیبت زدہ کو مصیبت سے نکالنے کی کوشش کے ذریعہ، بیمار پرسی کرنے کے ذریعہ، خدا سے غافل لوگوں کو خدا کی طرف متوجہ کر کے دعاؤں سے آشنا کر کے بھی یہ خدمت ہو سکتی ہے غرضیکہ ایسے بن جائیں کہ ہمیشہ ذہن خدمت کی راہیں تلاش کرتا رہے ہمیشہ ذہن یہ سوچتا ہے کہ میں کس طرح فیض رساں وجود بنوں.اور میری ذات سے ان لوگوں کوضرور کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچے.یہی وہ راز ہے جس کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں بعض دفعہ لوگ احادیث کو پڑھتے بھی ہیں لیکن ان کے اندر مخفی خزانوں سے ناواقف رہتے ہیں.خدا کا ذکر کرنے والوں کے واقعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ تمثیل کے طور پر خدا کا ذکر کرنے والوں کے بعض واقعات بیان فرمائے.ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار آپ نے ایسے واقعات بیان فرمائے جن میں سے ایک بات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ خدا کے فرشتے دنیا کے حالات کے متعلق جو کچھ دنیا میں گزر رہا ہے ریکارڈ رکھتے ہیں.اور یہ ریکارڈ ملاء اعلیٰ میں خدا کے حضور پیش کیا جاتا ہے ایسے ہی ایک مامور فر شتے نے خدا سے عرض کیا کہ اے خدا ! فلاں وقت فلاں جگہ کچھ لوگ خالصہ اس لئے اکٹھے ہوئے تھے کہ تیرا ذکر کریں.اور جب تک میں ان کی نگرانی کرتارہاوہ تیرے ہی ذکر میں اور تیری ہی محبت کی باتوں میں مشغول رہے یہ بات جب اس نے پیش کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ان کے سارے گناہ بخش دیئے.اور میں انہیں مغفرت کی خوشخبری دیتا ہوں.اور جنت کی خوشخبری دیتا ہوں.اس پر اس پیش کرنے والے فرشتے نے عرض کیا کہ اے خدا! اس مجلس میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہو گئے تھے جو مسافر تھے ایک مجلس دیکھ کر وہاں رک گئے.اور ستانے کے لئے ٹھہر گئے ان کا مقصد ذکر الہی نہیں تھا کیا وہ بھی اس خوشخبری میں شامل ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں وہ بھی کیونکہ وہ لوگ جو میرا ذکر کرتے ہیں ان کے پاس آنے والے بھی ان کی برکتیں پا جاتے ہیں.ان کے قریب بیٹھنے والے بھی برکتوں سے محروم نہیں رہتے.اس کے نتیجہ میں اکثر لوگ

Page 320

316 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جب اس حدیث کو سنتے ہیں.تو یہ خیال کر لیتے ہیں کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے لیکن اس حدیث میں جو پیغام مخفی ہے اس پیغام کو نہیں سمجھ سکتے.پیغام یہ ہے کہ اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے ہواور واقعتا اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو ہمیشہ تمہارا فیض تمہارے ساتھیوں کو پہنچتا رہنا چاہیے.دنیا کی بھلائی خیر امت ہونے کی بنیاد ہے یہ قانون طبعی ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا کا ذکر کرنے والا ہو اور اس کے ساتھی اس سے محروم رہ جائیں یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے فرمایا اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والو! تم کوبہترین اُمت ہو جو کبھی بنی نوع انسان کے لئے نکالی گئی تھی.لیکن اخرجت للناس اس لئے بہترین امت ہو کہ تم بنی نوع انسان کو خیر پہنچانے کی خاطر پیدا کی گئی ہو.اس لئے کہ تمہاری خیر اور تمہاری بھلائی تم تک نہیں ٹھہرتی بلکہ بنی نوع انسان تک آگے پھیلتی چلی جاتی ہے پس اگر تم دنیا کی بھلائی کے کام چھوڑ دو گے تو خیر امۃ نہیں رہوگے اور خیر امۃ ہو تو اس لئے نہیں کہ تم نے ایک رسول کو قبول کر لیا.بلکہ اس لئے کہ اس رسول کے فیض کے نتیجہ میں تم تمام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے والے بن گئے پس اگر آج یورپ میں بسنے والا احمدی اس بنیادی تعریف پر پورا اترتا ہے.اس قرآن کی آیت کے موضوع کو پیش نظر رکھتا ہے.اس حدیث کے مفہوم کو پیش نظر رکھتا ہے جو میں نے ابھی آپ کو سنائی تو یہ ممکن ہی نہیں کہ افاضہ خیر کے بغیر زندہ رہ سکے.یہ ممکن ہی نہیں ہے.کہ وہ لوگوں کی بھلائی کے تصور میں زندگی گزارے بغیر اطمینان پاسکے اس لئے آپ کا مقصدِ اعلیٰ جو قرآن کریم نے بیان فرمایا.آپ کی زندگی کا قبلہ وکعبہ جو خدا نے مقرر فرمایا.وہ یہی ہے کہ آپ بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں خواہ وہ آپ کی مانیں یا نہ مانیں خواہ وہ آپ سے حسنِ سلوک کریں یا نہ کریں آپ ان کی بھلائی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں ایسا کریں تو کافروں پر بھی خدا کی رحمت کی بارشیں برستی ہیں.اس کو گالیاں دینے والے بھی اس کے قانون قدرت سے فیض پا رہے ہیں ان کی فصلیں بھی پھل لگاتی ہیں.ان کی محنتیں بھی میٹھے ثمرات پیدا کرتی ہیں.اور خدا تعالیٰ کی رحمت کوئی تفریق نہیں کرتی کہ کون لوگ دہر یہ ہیں.اور کون غیر دہر یہ جہاں تک اس کی عام رحمت کا تعلق ہے وہ سب کے لئے یکساں جاری ہے سب کے لئے فیض رساں ہے.پس یہ وہ ادنی تعریف ہے مومن کی جو مومن کی ذات میں جاری ہونی ضروری ہے کہ اس کے بغیر مومن کی آواز میں قوت پیدا نہیں ہوتی.

Page 321

مشعل راه جلد سوم دلوں کو جیتنے کا طریقہ " 317 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی پس آپ اپنے گردو پیش کو اگر جیتنا چاہتے ہیں گو اپنے فیض کے ذریعہ جیتیں ، اپنی محبت کے ذریعہ جیتیں اپنے پیار کے ذریعہ جیتیں اور اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے خدا کے لئے جیتیں تا کہ آپ کی طمانیت ان کے وجود میں اس طرح منتقل ہو جیسے Radiation ایک وجود سے دوسرے وجود میں منتقل ہوتی ہے.تا کہ وہ بھی آپ کے رنگ ڈھنگ سیکھ کر خدا والے بنیں.اور بنی نوع انسان کے لئے فیض رساں وجود بنتے چلے جائیں.یہ کوشش بھی کامیاب ہو سکتی ہے اگر دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے آپ مدد مانگتے رہیں اس سے پاک تبدیلیوں کے متمنی رہیں اس کی صفات سے محبت کرنے لگیں.اس کی صفات سے محبت کے نتیجہ میں اس کی صفات کو اپنے اندر جاری کرنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں اگر آپ ایسا کریں گے اور دعاؤں کے ذریعہ مدد حاصل کریں گے تو یقیناً آپ ان علاقوں کی قسمت بدلنے والے بن جائیں گے وہ بھیا نک خلا جوان کے سینوں میں پیدا ہو چکے ہیں وہ بیقراریاں اور بے چینیاں جو ان کے وجود پر قابض ہو چکی ہیں.ان کا علاج آپ کے پاس ہے.لیکن یہ علاج ان تک پہنچا ئیں تو سہی.اس علاج کی افادیت ان پر ثابت کریں محض نظریاتی لڑائیوں سے یا محض یہ ثابت کرنے سے کہ قرآن یہ کہتا ہے اور بائیبل وہ کہتی ہے.اور ان دونوں کے موازنہ کرنے سے یہ بات درست نکلتی ہے اور وہ بات غلط نکلتی ہے.آپ کوئی عملی فتح ان قوموں پر حاصل نہیں کر سکتے آج بھاری اکثریت ان میں سے وہ ہے جو ان کتب پر کسی قسم کا کوئی ایمان نہیں رکھتی.اس لئے ان کے لئے یہ سب فرضی باتیں اور ڈھکوسلے ہیں.حقیقی خدا کی پیاس یہاں عملاً ایک ایسے خدا پر یقین کرنے اور ایمان لانے کے لئے یہ آج بھی آمادہ ہیں، جو عملی زندگی میں انسانوں میں اتر کر ان میں جلوے دکھا سکتا ہو.اور اپنے سے تعلق جوڑنے والوں کے لئے کرشمے دکھا سکتا ہو.کرشموں سے مراد وہ کرشمے نہیں جو فرضی معجزے ہیں ، تماشے ہیں مردوں کو زندہ کر دیا یا کوڑھیوں کو اچھا کر دیا اس سے بہت زیادہ وسیع پیمانے پر آج دنیا کے وہ لوگ جو خدا پر یقین نہیں رکھتے بنی نوع انسان کو فائدے پہنچارہے ہیں.قبروں تک پہنچے ہوئے لوگوں کو وہ زندگی بخش رہے ہیں.لاعلاج مریضوں کو شفا

Page 322

مشعل راه جلد سوم 318 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی بخش رہے ہیں.حیرت انگیز سرجری کے کارنامے دکھا رہے ہیں.طمانیت قلب کا معجزہ دنیا کو روحانی معجزوں کی ضرورت ہے جو ان کی روح کی کایا پلٹ دے.ایسے معجزوں کی ضرورت ہے.جو ان کو طمانیت قلب عطا کریں.ان کو یقین سے بھر دیں ایسے معجزے انسانوں کے اندر پاک تبدیلی کے بغیر دنیا کو نہیں دکھائے جا سکتے.اگر آپ ایسا بن جائیں گے تو آپ کے کلام میں برکت رکھی جائے گی.آپ کی دعاؤں کو قبولیت کا نشان عطا ہو گا.آپ جتنی زیادہ ہمدردی سے ان لوگوں کے لئے دعا کریں گے.اتنا ہی زیادہ قبولیت دعا کے نشان خدا تعالیٰ ان کو دکھائے گا.اور ان کے دلوں کو اطمینان بخشے گا کہ ہاں یہ دعا کے نتیجہ میں ایسا ہوا تھا.پس پاک اعمال کے ساتھ جب دعا ئیں اپنے جلوے دکھاتی ہیں تو ایسا ہی منظر پیدا ہوتا ہے جس طرح ایک زرخیز زمین پر آسمان سے بارش نازل ہونے لگتی ہے.اور ہری بھری کھیتیاں اس زرخیز زمین سے پیدا ہونے لگیں جو اپنے پاک انجام تک پہنچیں جس سے بہت ہی مفید اور دنیا کے لئے لذت بخش پھل پیدا ہوں.وقت کی شدید ضرورت یہ نقشہ ہے جو قرآن کریم مختلف رنگ میں مذہب کی افادیت کا پیش کرتا ہے.عملاً خدا کرے کہ ہم لوگ ان باتوں کو محض نظریات کی دنیا میں نہیں بلکہ عمل کی دنیا میں ڈھال کر ان کے سامنے پیش کر سکیں.اس کی بڑی شدید ضرورت ہے اور وقت تیزی سے ہمارے آگے بھاگ رہا ہے.بہت سے احمدی ہیں جو مایوس ہورہے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاشرہ بہت زیادہ غالب ہے.ہم اس کے حالات کو بدل نہیں سکتے.اور مایوسی کے نتیجہ میں وہ خود آہستہ آہستہ تبدیل ہونے لگے ہیں.اور یہ حقیقت ہے کہ آپ سب اس خطرے کے مقام پر کھڑے ہیں اور اگر آپ نے ان کو تبدیل نہ کیا تو یہ ضرور آپ کو تبدیل کر دیں گے یہ زندگی وموت اور زندگی کے درمیان ایک جدو جہد ہے جس میں کامیابی کے نتیجہ میں زندگی حاصل ہوتی ہے اور نا کامیابی کے نتیجہ میں موت ہے.کوئی درمیانی راہ نہیں کوئی جمود نہیں ہے.اس لئے آپ کو لازماً ان پر غالب آتا ہے.یعنی صفات حسنہ کے ذریعہ محبت کے ذریعہ اعلی پیغام کے ذریعہ پاک تبدیلیوں کے ذریعہ ان کو طمانیت عطا کریں ور نہ یہ آپ کی طمانیت چھین لیں گے.آپ کو دنیادار بنادیں گے.آپ کو اپنے پیچھے لگالیں گے.آپ نہیں تو

Page 323

319 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم آپ کی اولادیں آپ کی آنکھوں کے سامنے اپنے دین سے دور ہٹنی شروع ہو جائیں گی اس لئے اگر ان کی بھلائی کا خیال نہیں تو اپنی بھلائی کا خیال کریں.یہ ایک ایسا قانون ہے جو نہیں بدل سکتا.اگر آج آپ نے اس کو پوری طرح آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا تو کل محسوس کریں گے یا آپ تبدیل کرنے والے ہیں یا تبدیل ہونے والے ہیں.درمیان کی کوئی اور صورت نہیں.دعوت الی اللہ کو سنجیدگی سے اختیار کریں اس لئے لازماً دعوت الی اللہ کو بڑی سنجیدگی سے اختیار کریں.اور پاک اعمال اور دعاؤں کے ذریعہ ان کے حالات بدلیں ورنہ آپ تبدیل کر دیے جائیں گے.خدا نہ کرے کہ ایسا ہو.اللہ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہمارے بڑے ، ہمارے چھوٹے ، ہمارے بوڑھے اور ہمارے جوان اور ہمارے مرد اور ہماری عورتیں اور ہمارے بچے سب دعوت الی اللہ کے عملی پاک نمو نے ان کو دکھا ئیں.اور ان میں سے اُن سعید روحوں کو پکڑ پکڑ کر اپنے دین میں داخل کریں.جن کو حضرت بانی سلسلہ کو کشف دکھایا گیا تھا کہ میں یورپ میں سفید پرندے پکڑ رہا ہوں ان میں ضرور سعید روحیں بڑی کثرت کے ساتھ موجود ہیں بہت نیک لوگ ان کے اندر بس رہے ہیں.آپ ان کی تلاش کریں.ان کو محفوظ مقامات تک یعنی دین کے محفوظ مقام تک ان کو پہنچا ئیں خدا آپ کے ساتھ ہو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آئیے اب ہم دعا کر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور جانے والوں کو اپنی خیر وعافیت کے سائے تلے اپنی حفاظت کے سائے تلے لے کر جائے اور وہ لوگ جنہوں نے فیری پکڑنی ہے وہ پریشان ہورہے ہوں گے کہ گھنٹہ زیادہ ہو گیا ہے.اللہ ان کے لئے بھی سفر آسان فرمائے.اور سب احمدی دوست اور بعض غیر احمدی دوست اور بعض غیر مسلم دوست بھی جو دور سے اس اجتماع میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہیں.اللہ اس اجتماع میں شرکت کے عمل کو قبول فرمائے اور ان کے گھر برکتوں سے بھر دے اپنی رحمتیں ان پر نازل فرمائے اور وہ محسوس کریں کہ اس اجتماع میں شمولیت سے پہلے ہم اور تھے اور اس اجتماع میں شمولیت کے بعد ہم کچھ اور ہو چکے ہیں.اور اللہ کی رحمتیں اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھیں.تاکہ مزید خدا پر ان کا ایمان بڑھے.آئیے ہم دعا کر لیتے ہیں.(احمدیہ بلیٹن ہالینڈ شمارہ نمبر 2 جولائی 1987ء صفحہ 19 تا25)

Page 324

مشعل راه جلد سوم 320 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 325

مشعل راه جلد سوم 321 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1987ء مجالس عاملہ اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کریں.اگلی صدی میں داخل ہونے کی تیاری.امام وقت کا مقام و منصب اور منافقوں کا طریق کار.ساری دنیا کے احمدیوں کو میں متنبہ کرتا ہوں کہ جو اختیار آپ کو دیا گیا ہے اس سے تجاوز نہیں کرنا اور اپنے مقام کو نہیں چھوڑنا.☆ ☆

Page 326

مشعل راه جلد سوم 322 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 327

مشعل راه جلد سوم 323 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی.تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ O الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ الَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتِ طِبَاقًا مَاتَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفْوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ O ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبُ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ 0 ) سورة الملک : 2 تا 5) قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے کہ بہت ہی برکتوں والی ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں ہر قسم کی ملکیت ہے اور تمام ملکیت اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر اسی بناء پر قادر ہے کہ تمام ملکیتیوں کی باگ ڈور آخری صورت میں اس کے ہاتھ میں ہے.وہی ذات ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور زمین و آسمان یعنی ساری کائنات کی پیدائش میں تم کوئی تفاوت نہیں دیکھو گے فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورِ نظر دوڑا کے دیکھو تو سہی کیا تمہیں کوئی رخنہ کوئی سوراخ دکھائی دیتا ہے ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ پھر نظر کو دوڑ اور تمہاری نظر تمہاری طرف تھکی ہاری لوٹ آئے گی لیکن خدا کی عظیم ترین کائنات میں تم کہیں کوئی رخنہ کوئی سوراخ نہیں دیکھو گے.تخلیق کا ئنات میں کوئی تفاوت اور فتور نہیں ان آیات کے سرسری مطالعہ سے ایک مضمون سامنے آتا ہے.پھر زیادہ قریب کی نظر سے ان آیات کا مطالعہ کیا جائے تو بظاہر نظر آنے والا ایک تضاد دکھائی دیتا ہے.پھر اور مزید گہری نظر سے دیکھا جائے تو وہ تضاد دور ہو کر اس مضمون کے درمیان ایک نہایت حسین موافقت نظر آتی ہے.اسی طرح انسان جب خدا کی کائنات میں جستجو کے سفر کرتا ہے تو اس کے اوپر یہ حالتیں آتی رہتی ہیں.پہلی سرسری نظر میں اسے کچھ دکھائی

Page 328

324 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم نہیں دیتا.پھر جب تردد کرتا ہے غور کرتا ہے تو اگر جب علم کامل نہ ہو، سفر آغاز میں ہو یہ تو وہ سمجھتا ہے کہ میں نے بہت سی خرابیاں محسوس کر لی ہیں ، بہت سی خرابیاں دریافت کر لی ہیں.لیکن جب انسان اور زیادہ گہری اور عمیق نظر سے مطالعہ کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پہلا علم خام تھا.خدا کی کائنات میں کوئی خامی نہیں.سائنس نے جو معلوماتی سفر کیا ہے اس پر بھی یہ ادوار آئے اور قرآن کریم کے مطالعہ کرنے والوں پر بھی یہ ادوار آتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اپنی حفاظت اور اپنی پناہ میں رکھتے ہوئے لمس شیطان سے پاک رکھتے ہوئے گہرے اور عمیق مضامین کے مطالعہ اور ان کے فہم کی توفیق عطا فرماتا ہے اور اس کے نتیجہ میں پھر اس آیت میں جو منظر بیان ہوا ہے کہ ساری کائنات میں تم کہیں کوئی فتور نہیں دیکھو گے اس مضمون میں انسان حق الیقین تک پہنچ جاتا ہے.جس سرسری نظر کے مطالعہ سے تضاد کا میں نے ذکر کیا ہے اس کے متعلق میں واضح طور پر آپ کے سامنے اس کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں.پہلے فرمایا الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالحَيَوة کہ اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمُ اَحْسَنُ عَمَلًا تا کہ وہ معلوم کرے کہ تم میں سے کون بہتر اعمال کرنے والا ہے اور جس کے نتیجہ میں وہ زندہ رہ سکتا ہے.اب مضمون کا آغاز ہی ایک جدو جہد کے بیان سے ہوا ہے.فرمایا زندگی اور موت کے درمیان ایک مسلسل جہد وجد ہے اور آگے چل کر فرمایا کہ ساری کائنات میں تم کوئی تفاوت نہیں دیکھو گے.تفاوت کی تفصیل میں ابھی بیان کروں گا لیکن عام معنی جو اس سے سمجھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ مقابلہ.یعنی چیزوں کا آپس میں مدمقابل نہیں پاؤ گے.چنانچہ عربی لغات ، تفاوت کا ایک معنی یہ بیان کرتی ہیں کہ کسی قسم کا مقابلہ نہیں دیکھو گے.تو بات مقابلے سے ہی شروع فرمائی گئی.کہا یہ گیا کہ ہم نے خود موت اور زندگی کو باہم متقابل پیدا کر دیا ہے اور اس مقابلے کا مقصد یہ ہے کہ تا تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون ایسے اعمال والا ہے جو Survival of the fittest کے مطابق زندہ رہنے کی اہلیت رکھتا ہے اور آگے بڑھنے کی اہلیت رکھتا ہے.ساری کائنات میں ہر جگہ آپ کو زندگی موت کے مد مقابل دکھائی دے گی اور ساری کائنات کا فلسفہ اسی تقابل پر مبنی ہے اگر موت اور زندگی کی لڑائی ختم کر دی جائے تو کائنات کا وجود نظر سے غائب ہو جائے گا جو کچھ بھی ہمیں دکھائی دیتا ہے وہ اس تقابل کے نتیجہ میں دکھائی دیتا ہے اور اہل علم سائنسدان جانتے ہیں کہ اس تقابل کے محرکات کو اگر ختم کر دیا جائے تو ساری کائنات بے معنی ہو جائے گی.کوئی ترقی نہیں ہوسکتی کوئی ارتقاء نہیں ہو سکتا جمود پیدا ہو جائے گا یعنی آخری موت کی شکل ہمیں دکھائی دے گی اس لئے ایک طرف تو

Page 329

مشعل راه جلد سوم 325 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مضمون یہ باندھا گیا اور یہ بہت ہی عظیم الشان مضمون ہے کہ ساری کائنات کا فلسفہ حیات یا فلسفہ وجود یہ ہے کہ تم موت اور زندگی کو باہم متقابل دیکھتے ہو اور اس مقابلے کے نتیجہ میں ہم تمہیں آزماتے ہیں یعنی ہر وجود کو آزماتے ہیں کہ وہ کیا اہلیت رکھتا ہے.دوسری طرف فرمایا گیا کہ تم کوئی مقابلہ نہیں دیکھو گے.پس یہ جو مقابلہ نہیں دیکھو گے کا لفظ ہے اس پر غور کی ضرورت ہے.تفاوت کا اصل معنی کیا ہے کیونکہ جس جگہ یہ دعویٰ کیا گیا کہ کوئی تفاوت نہیں دیکھو گے وہاں تفاوت ہو ہی نہیں سکتا ان دونوں کو ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیا گیا.جس طرح موت کو زندگی کے مقابل رکھ دیا گیا اسی طرح یہ دو اعلان بظاہر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے دکھائی دیتے ہیں.تفاوت کا مضمون آپ سمجھ جائیں گے تو یہ سارا مسئلہ حل ہو جائے گا کہ ان میں جو یہ رکھا ہی اس لئے گیا ہے تاکہ زندگی اور موت کے جدوجہد کے فلسفے کی حقیقت کو آپ سمجھ سکیں.مقابلہ تفاوت نہیں ہے.اس لئے اگر لغات میں کوئی سرسری طرح پر معنی مقابلہ کے دکھائی دیں گے تو وہ اس پر پوری طرح صادق نہیں آتے.تقابل باب مفاعلہ سے ہے اور تفاوت بھی باب مفاعلہ ہے اور اس کا مادہ فوت ہے.فوت ہونا اکثر جانتے ہیں موت کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے.فات کا جو اصل عربی معنی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی چیز ہاتھ سے کھوئی جائے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ اپنے مقام سے ہٹ جائے ، اپنے منصب سے ہٹ جائے.پس فات کے لفظ کے اندر اس مسئلہ کا حل ہے وہ مقابلہ جس کا تفاوت میں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ فلسفہ حیات سے ہٹ کر مقابلہ.اپنے منصب سے ہٹ کر مقابلہ.جن چیزوں کی خاطر کسی چیز کو پیدا کیا گیا ہے اگر اس اصول کو چھوڑ کر اپنی راہ سے ہٹ کر کسی اور کی راہ میں کوئی چیز دخل دیتی ہے تو وہ مقابلہ ہوتا ہے اس کے اوپر لفظ تفاوت صادق آتا ہے.پس تفاوت کا معنی خالی مقابلہ کرنا بالکل غلط ہے.تفاوت کا معنی ہے وہ مقابلہ جو بے محل ہو ، جس چیز کی خاطر کسی چیز کو پیدا کیا گیا ہے اس سے ہٹ کر جب وہ چیز کسی دوسری چیز سے ٹکراتی ہے تو اس کو تفاوت کہتے ہیں.ان معنوں میں آپ مشین کے کل پرزوں پر غور کریں جب بھی کوئی کل پرزہ اپنے دائرہ سے ہٹ کر کسی دوسرے دائرے میں دخل اندازی شروع کرتا ہے وہیں فتور پیدا ہو جاتا ہے.تو فرما یافتور یعنی فساد کی جڑا اپنے اپنے منصب سے ہٹ کر کسی دوسرے کے منصب میں دخل اندازی ہے.چونکہ خدا کی ساری کائنات میں کہیں کوئی فتور نہیں دیکھو گے کہیں کوئی تفاوت نہیں دیکھو گے اس لئے تمہیں کہیں فتور بھی نظر نہیں آئے گا.فتور حادثاتی موت کو کہتے ہیں کہ یعنی اگر ہم کائنات کی اصطلاح میں بات کریں تو اسے حادثاتی موت

Page 330

مشعل راه جلد سوم 326 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی قرار دیا جا سکتا ہے.چنانچہ تفاوت کے لفظ میں مزید حسن قابل غور ہے کہ ایک فوت کا دوسرے فوت سے مقابلہ.فات اس چیز پر اطلاق پاتا ہے جو اپنی جگہ سے ہٹ جائے وہ جب کسی ایسی چیز سے ٹکراتی ہے جو خودا اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی ہو تو اس کو تفاوت کہیں گے اور اگر کوئی چیز ہٹ کر کسی ایسی چیز سے ٹکراتی ہے جو اپنے مقام سے علی نہیں ہے اپنے دائرے میں ہی موجود رہتی ہے تو وہ ٹکرانے والی چیز نا کام اور نامراد ہو جائے گی.اس کا کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اس کو پھر تفاوت نہیں کہیں گے اس کو ایک ایسا حادثہ کہتے ہیں.جس طرح کہ قرآن کریم میں دوسری جگہ مضمون باندھا گیا ہے کہ بعض اہل دنیا جب سماء الدنیا میں دخل دینے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کے لئے تفاوت کا لفظ استعمال نہیں فرمایا.بلکہ فرمایا ایک ناجائز کوشش ہے جس کا ان کو حق نہیں ہے.اس کے نتیجہ میں شہاب ثاقب ان کی پیروی کرتے ہیں اور آسمان کی طرف سے ان پر شعلے نازل کئے جاتے ہیں جو ان کو ہلاک کر دیتے ہیں.لیکن آسمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.پس ہر چیز جو اپنے مدار پر قائم ہے وہ کسی دوسری چیز سے ٹکر انہیں سکتی جو اپنے مدار پر قائم ہو.جو چیز اپنے مدار پر قائم ہے اس سے اگر کوئی چیز ٹکراتی ہے اور مدار پر قائم رہنے والی چیز اپنے منصب سے نہیں ہٹتی تو قرآن کریم کے فلسفے کے مطابق اس کو کوئی نقصان نہیں ہے ٹکرانے والی چیز کو نقصان ہوگا اور اس کے مقابل پر دوسری چیز بھی اپنے منصب کو چھوڑ دیتی ہے اور مقام سے ہٹ جاتی ہے تو پھر جو کراؤ ہے اس کا نام قرآنی اصطلاح میں تفاوت ہے.چونکہ فوت ہونے کا مطلب بھی موت ہے اس لئے جب منصب سے ہٹ گئے تو موت خود بخود واقع ہوگئی.گویا دوموتوں کے درمیان تصادم ہے اور جب دو موتیں متصادم ہوں گی تو نتیجہ فتور ہی پیدا ہو گا اس سے زیادہ اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے.عجیب حیرت انگیز کلام ہے جس کو باریک سے باریک نظر سے آپ دیکھیں اور اس میں تفاوت اور فتور تلاش کرنے کی کوشش کریں تو لازماً آپ کی نظر تھکی ہوئی واپس لوٹ آئے گی اور قرآن کریم کی کائنات میں بھی آپ کو کوئی تفاوت اور کوئی فتور دکھائی نہیں دے گا.دنیاوی نظاموں کی حفاظت کا راز اس فلسفے میں ( جو فلسفہ وجود پایا جاتا ہے ) تمام دنیا کے نظام یا نظاموں کی حفاظت کا راز بیان فرما دیا گیا ہے.خواہ معاشرتی نظام ہو.خواہ اقتصادی نظام ہو.خواہ مذہبی نظام ہو.خواہ سیاسی نظام ہو خواہ کسی نوع کا بھی نظام ہو ، اس میں اگر منتظمین یہ نگرانی کریں کہ تفاوت نہیں ہونے دیں گے اور اس نظام کے کل پرزے اس بات پر قائم ہو جائیں کہ وہ اپنے مدار سے کبھی نہیں ہٹیں گے تو پھر کوئی فتور دکھائی نہیں دے گا ورنہ

Page 331

327 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں آپ کو دکھائی دیتی ہیں جب بھی مدار سے ہٹا جائے گا اور مد مقابل بھی مدار سے ہٹ جائے گا یعنی اپنی مقرر کردہ راہوں سے اپنے مقررہ کردہ منصب سے کوئی چیز ہٹ جاتی ہے تو اس کے مقابل پر دوسری چیز کہتی ہے اچھا پھر ہم بھی ہٹتے ہیں.اس ٹکراؤ کا نام دوموتوں کی ٹکر ہے اور اس کا نتیجہ فتنہ اور فساد ہے مزید موتوں کا پیدا ہونا ہے.نظام جماعت کی حفاظت اور ہمارے معاشرے کی حفاظت کے لئے بھی یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم کی ان آیات میں بیان فرمودہ بنیادی سبق پر غور کریں اور اس کو مضبوطی سے پکڑ لیں.آج کل میرے پیش نظر کئی ایسے مسائل ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ انگلی صدی میں جماعت کے داخل ہونے سے پہلے پہلے ان کی نوعیت اور ان کی ماہیت کو آپ کے سامنے خوب کھول کھول کر بیان کر دیا جائے تا کہ خدا کے حضور میں بری الذمہ ہو جاؤں.ان امور کے متعلق جن کے متعلق قومی زندگی کے لئے راہنمائی ضروری ہے اور لمبی زندگی کے لئے راہنمائی ضروری ہے جہاں تک مجھے توفیق ملی میں نے آپ کی راہنمائی کی.انفرادی اور اجتماعی زندگی کے عظیم الشان راز شمالی امریکہ کے دورے میں میں نے دو خطبات اس موضوع پر دیئے تھے کہ بہت سے فساد Inferiority Complex یعنی احساس کمتری کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں.بعض صورتوں میں کھول کھول کر بیان کیا.چنانچہ نسلی جھگڑے قومی تفریقیں اور فسادات جو ملکی ، قومی ،نسلی فرق کی بناء پر ہوں یہ سارے بنیادی طور پر احساس کمتری کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں.اس مضمون کو بھی ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے لیکن یہ مضمون جو آج میں بیان کر رہا ہوں یہ بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے.آپ کے سامنے تفصیل کے ساتھ تو ساری مثالیں پیش نہیں کی جاسکتیں لیکن دوتین مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ قرآن کریم کی ایک ایک آیت میں کتنے عظیم الشان زندگی کے راز موجود ہیں.انفرادی زندگی کے بھی اور معاشرتی زندگی کے بھی اور اجتماعی زندگی کے بھی.ایک عام آیت سمجھ کر آپ سرسری طور پر مطالعہ کر کے آگے گزر جاتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ کتنا عظیم خزانہ یہاں دفن ہے اس لئے جماعت کے نظام کی حفاظت کے لئے اور اسلامی معاشرے کی حفاظت کے لئے اس اصول کو جو ان آیات میں بیان ہوا ہے خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے اور اس پر مضبوطی سے ہاتھ ڈال دیں کیونکہ اس کے بغیر ہماری قومی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.ایک جگہ ایک واقعہ ہوتا ہے مثلا کسی جماعت کے سامنے ایک برائی آتی ہے

Page 332

مشعل راه جلد سوم 328 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اگر منتظمین جماعت اس برائی پر غور کرتے ہوئے پہلے اپنی حیثیت کی تعیین کریں کہ ہمارا منصب کیا ہے اور بے وجہ اس برائی سے ٹکرانے کی خاطر اپنے منصب اور اپنے دائرے سے الگ نہ ہوں تو کوئی تفاوت آپ کو نظر نہیں آئے گا اور اس کے نتیجہ میں کوئی فتور پیدا نہیں ہوگا.مجلس عاملہ اور نظام جماعت مثلاً برائیاں کئی قسم کی ہیں بعض ایسی برائیاں ہیں نجی جھگڑے ہیں، مثلاً میاں بیوی کے جھگڑے ہیں، خاندانی جھگڑے ہیں، براہ راست ان کا مجلس عاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے.مجلس عاملہ نظام جماعت کے تابع مخصوص کاموں کے لئے مقرر کی جاتی ہے اس میں ایک سیکرٹری امور عامہ بھی ہے ایک سیکرٹری اصلاح و ارشاد بھی ہے.ان کا تعلق ایسے جھگڑوں سے صرف اس حد تک ہے کہ وہ فریقین کو جا کر سمجھائیں اور ان کو یہ بتائیں کہ یہاں آپ کی غلطی ہے وہاں دوسرے کی غلطی ہے.پیار اور محبت کے ساتھ ان کو سمجھا کر ان کی کمزوریوں کی طرف متوجہ کریں لیکن ان کا یہ کام ہرگز نہیں ہے کہ انفرادی حیثیت سے یا اجتماعی حیثیت سے قاضی بن جائیں.قضاء کا الگ ایک نظام موجود ہے اور جتنے نجی جھگڑے ہیں وہ سارے اس نظام کا کام ہے کہ ان کو طے کروائے.اصلاحی کوششیں جو صرف نصیحت کا رنگ رکھتی ہیں وہ ضرور ہونی چاہئیں اور نصیحت کرنا تصادم نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم نے ہر شخص کو نصیحت کے اوپر مامور فرما دیا ہے.اس لئے یہ بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ کسی کو نصیحت کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اس سے متصادم ہورہے ہیں اس لئے اگر آپ کو کوئی نصیحت کرتا ہے تو آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ تم اس کو کہو کہ تم میرے معاملات میں کیوں دخل دیتے ہو.جاؤ اپنے معاملہ میں اپنا معاملہ رکھو.یہ حماقت ہے.یہ جواب زندگی کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.جو آدمی نصیحت کرتا ہے وہ ٹکراتا نہیں ہے.وہ ایک مشورہ دیتا ہے ایک بیرونی آئینہ دکھاتا ہے اسی لئے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کو دوسرے مومن کا آئینہ قرار دیا ہے.آئینہ اگر متصادم ہوگا تو ٹوٹ جائے گا لیکن آئینہ تو خاموشی سے صحیح صورت اور رنگ دکھا دیتا ہے اور اس کا پرو پیگنڈا نہیں کرتا، کسی اور کو کسی کے چہرے کا نقص نہیں بتاتا تو اس کا نام تصادم بہر حال نہیں ہے اس لئے نصیحت کرنا عہد یداران کا کام ہے اور جہاں امور عامہ کے سیکرٹری کو بعض معین اختیارات دیئے گئے ہیں وہاں ان اختیارات کو استعمال کرنا اس کا کام ہے لیکن نجی معاملات یا مالی اختلافات میں قاضی بن کر بیٹھ جانا اور فیصلوں کا پابند کرنے کی کوشش کرنا اور جو ان فیصلوں کی پابندی نہ کرے ان کے خلاف شکائتیں کرنا کہ ان کو

Page 333

مشعل راه جلد سوم 329 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی سزاملنی چاہیے، یہ سارا محض فساد ہے.اگر کوئی ایسا فریق جس کے متعلق کوئی شخص مدار سے ہٹ کر کارروائی کرتا ہے، جوا بابد تمیزی اختیار نہیں کرتا، گالی گلوچ سے کام نہیں لیتا عوام الناس میں پرو پیگنڈا نہیں کرتا بلکہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے بال منتظمین تک بات کو پہنچا دیتا ہے تو اس کا نام تصادم نہیں ہے.اگر ایسا واقعہ ہو تو کوئی فساد آپ کو نظر نہیں آئے گا.جس نے غلطی کی اس کی غلطی کے متعلق افسران تک پہنچائی جاتی ہے وہ اس کو درست کر لیتے ہیں اور کوئی ٹکراؤ کی صورت پیدا نہیں ہوتی.لیکن اگر ایک طرف سے بھی غلطی ہو رہی ہو.اور دوسری طرف سے بھی غلطی ہو رہی ہو تو پھر یہ تفاوت بن جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں لازماً فتور پیدا ہوتا ہے.اس لئے یک طرفہ غلطی بھی بری چیز ہے اس کے نتیجہ میں بھی نقصان پہنچ سکتے ہیں لیکن نظام تباہ نہیں ہوا کرتے.اگر ٹکراؤ والی غلطی پیدا ہو جائے تو نظام تباہ ہو جایا کرتے ہیں.مشین کے کل پرزوں پر آپ دوبارہ غور کریں ایک پرزہ اپنی ذات میں خراب ہو جاتا ہے موٹر کو اس سے بھی نقصان پہنچتا ہے لیکن ایک پرزہ جب دوسرے پرزے کی راہ میں اٹکتا ہے تو اس کا نقصان اس سے بہت زیادہ شدید نوعیت کا ہوتا ہے.اس سے دھما کہ پیدا ہوتا ہے.اس سے تصادم پیدا ہوتا ہے اس لئے تفاوت کے مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے میری پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ اپنے مدار کو بہر حال نہ چھوڑیں اگر آپ اپنے مدار کو چھوڑیں گے تو تصادم کا بڑا بھاری احتمال موجود ہے.چونکہ عوام الناس اکثر ان مضامین کو نہیں سمجھتے اس لئے آپ کے مدار چھوڑنے کے نتیجہ میں کوئی دوسرا بھی اپنے مدار کو چھوڑ دے گا اور جب وہ اپنے منصب سے ہٹ کر آپ سے ٹکرائے گا تو اس کے نتیجہ میں آپ دونوں کی بھی ہلاکت ہے اور نظام جماعت کو بھی شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے.اپنے اپنے دائرہ کار میں فرائض منصبی کی ادائیگی اور مجالس عاملہ کی ذمہ داریاں پہلی مثال کی طرف واپس آتے ہوئے میں اس پر مزید روشنی ڈالتا ہوں.میاں بیوی کا جھگڑا ہوتا ہے مجلس عاملہ اس کے اوپر غور کرنے بیٹھ جاتی ہے اور خود ہی فیصلے کرتی ہے اور فیصلے صرف اس لحاظ سے نہیں کہ وہ نجی جھگڑے سے متعلق فیصلے ہوں کہ ان کو کیسے سلجھایا جائے.افتاء کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے یکطرفہ باتیں سنتی ہے.پھر ایک فریق کو موقع دیئے بغیر قضاء کا کام اس طرح کرتی ہے کہ وہ قضاء کے بھی منافی ہوتا ہے یعنی قضاء کے ادنی تقاضے بھی پورے نہیں کرتی یعنی دوسرے فریق کو بلاتی نہیں ہے ان کو پوری طرح موقع ہی نہیں دیتی حالانکہ اس کو اول تو اس طرح قاضی بنے کا بنیادی طور پر مجلس عاملہ کوحق ہی کوئی نہیں مجلس عاملہ قاضی بن کر قضاء کا کردار ادا کرنے لگ جاتی ہے اور وہ بھی ٹیڑھا اور لنگڑا.کیونکہ انہیں قاضی

Page 334

330 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم بنانے کے لئے مقرر نہیں کیا گیا.اس لئے اس میں وہ صلاحیتیں ہی موجود نہیں ہیں جو قاضی میں ہونی چاہئیں پھر اسی پر اکتفاء نہیں کرتی قضاء کے دوران بہت سے معاملات ایسے ہیں جن میں فتوے چاہئیں اور ایک متقی قاضی خدا کا خوف رکھنے والا جب کسی معاملے میں نہیں جانتا کہ قرآن یا سنت کا اس بارہ میں واضح حکم کیا ہے تو وہ اس معاملہ کو مجلس افتاء یا دار الافتاء کی طرف بھیجتا ہے اور جانتا ہے کہ یہ فتویٰ دینا قاضی کا کام نہیں ہے.قاضی کا کام صرف اتنا ہے کہ جو فتاویٰ موجود ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے وہ اپنے فیصلے صادر کرے.ایک مجلس عاملہ اٹھتی ہے اپنے مقام کو ایک جگہ بھی چھوڑتی ہے اور دوسری جگہ بھی چھوڑتی ہے اور جہاں افتاء کی ضرورت پیش آتی ہے وہاں خود ہی مفتی بن جاتی ہے اور فیصلے صادر کر دیتی ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں فحشاء پھیلتی ہیں.جو وہ نقائص وہ بجھتی ہے، چونکہ ان نقائص کی پورح طرح چھان بین بھی نہیں ہوسکی ، قضا کا منشاء ہے اور ذاتی حقوق جو خاندانوں کے ہیں ان کے بعض معاملات میں ان کی پردہ پوشی کی جائے ان کے معاملات کو منظر پر نہ لایا جائے اس بنیادی اصول سے بھی وہ روگردانی کرتے ہوئے ایک اور معاملے میں ایک اور طرف بھی رخ کرتی ہے.جہاں اس کو رخ کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا اور سارے معاشرے میں بدظنی، بے چینی اور فحشاء پھیلا دیتی ہے.ایسے کاموں کے لئے مجالس عاملہ کو مقرر ہی نہیں کیا گیا.اگر وہ مجالس اس طرح کریں گی اور ان طریقوں پر جن کی حق تلفی کی جائے جن کوٹکراؤ کی دعوت دی جائے گی وہ آگے سے ٹکراؤ کریں گے تو سارا نظام جماعت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گا اور اگر نہیں کریں گے تب بھی ی مجلس عاملہ ظالم رہے گی جس نے ناجائز کسی فریق کے اوپر ظلم کیا.اس کو کوئی حق نہیں تھا.اس قسم کے بعض معاملات میرے علم میں آئے.میں نے فوری طور پر مجالس عاملہ کو معطل کیا لیکن مجھے اس موقع پر بیان کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ جو کمیشن مقرر کیا گیا وہ بظاہر ایسے لوگوں پر مشتمل تھا جو بڑی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں لیکن اس کمیشن نے ان بنیادی باتوں کو نوٹ کئے بغیر کہ وہاں کیا ہو گیا ہے کیا قیامت برپا ہوئی ہے، قرآن کریم کے بنیادی اصول کو چھوڑ کر خود قاضی بننے کی کوشش کی ہے اور یہ فیصلہ کرنے کی کوشش شروع کر دی کہ کونسا فریق ٹھیک تھا اور کونسا غلط تھا چنا نچہ مجھے اپنے فیصلہ میں پھر یہ بھی لکھنا پڑا کہ آئندہ یہ جوکمیشن کے ممبران ہیں ان کو کم از کم ایک سال تک کے لئے کوئی تحقیقی کام نہ دیا جائے کیونکہ یہ بنیادی طور پر اہلیت ہی نہیں رکھتے.مجھے خیال آیا کہ اگر ایسے ممبران جو بڑے مخلص ہیں تجربہ کار ہیں نظام جماعت میں ان کو بھی بعض باتوں کے بنیادی فرق معلوم نہیں ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ساری جماعت کو مخاطب کرتے یہ معاملات ان کے سامنے لائے جائیں تاکہ قرآن کریم کی اس آیت کو نظر انداز کرتے

Page 335

مشعل راه جلد سوم 331 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ہوئے جماعت احمدیہ میں کسی قسم کے بھی تصادم کی صورت پیدا نہ ہو.مجھے تعجب ہے کہ یہ بات کس طرح اب تک میری نظر سے اوجھل رہی کہ ہماری مجالس عاملہ کو بھی بہت بڑی تربیت کی ضرورت ہے اس سلسلہ میں غور کر رہا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ حسب توفیق بعض اور اقدامات میں کروں گا لیکن سر دست ساری جماعت کی تربیت کی ضرورت ہے ، ان کو بتایا جانا چاہیے کہ رخنے کس طرح پیدا ہوتے ہیں.دراصل کسی نہ کسی قرآنی تعلیم کو نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں ہی فساد پیدا ہوتا ہے.معاملہ نہی کا شرعی اور جماعتی طریق کار چنانچہ دوسری مثال میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ ایک جگہ لجنہ کا ایک اجلاس ہو رہا ہے اور لجنہ کی بڑی اہم تقریب ہو رہی ہے سارے ملک سے ممبرات آئی ہوئی ہیں اس لئے کہ ان کی تربیت کی جائے اور جب ان کی اپنی تربیت کا امتحان ہوتا ہے تو تربیت کے سارے تقاضے یا پرانی تعلیمات کو قطعاً بھلا کر وہ نظام جماعت سے تصادم کی راہ اختیار کر لیتی ہیں.ایک ایسے ہی موقع پر ایک جگہ ایک لڑکی روتی ہوئی واویلا کرتی ہوئی بلند آواز میں اپنے خاوند کے خلاف اور اس کے باقی رشتہ داروں کے خلاف باتیں کرتی ہوئی لجنہ کی تقریب میں پہنچ جاتی ہے.وہ کہتی ہے کہ آپ کے قریب ہی فلاں خاوند نے مجھ پر ظلم کیا مجھے زدوکوب کیا.مجھے یہ کیا وہ کیا اس کے والدین نے ہمیں یہ کیا اور یہ مظالم کئے اس نے میرے والدین کو یہ کہا.نظام جماعت کا تقاضا یہ ہے کہ لجنہ اماءاللہ کی عہدیداران فوراً اس کی زبان بندی کریں.اور اسے کہیں کہ ہوسکتا ہے کہ تم مظلوم ہو لیکن ہم اس مقام پر فائز نہیں ہیں کہ تمہارے ظلم کی یک طرفہ داستان سنیں.اول تو یک طرفہ داستان سننا ہی انصاف کے تقاضے کے خلاف ہے اگر کوئی سرسری طور پر سنا دیتا ہے مثلاً بعض خطوں میں وہی بات میرے سامنے آجاتی ہے تو پھر سنے والے کا جو سرسری طور پر سن لیتا ہے یا گزرتے ہوئے اس کے کان میں پڑ جاتی ہے، یہ بنیادی فرض ہے کہ یکطرفہ رائے سن کر کوئی نتیجہ اپنے ذہن میں قائم نہ کرے، کوئی بداثر قائم نہ کرے.لیکن ایک نہیں دو نہیں بار بار وہ منتظمین جولوگوں کی تربیت کے لئے تقریب منعقد کر رہے ہیں وہ عہد یداران یہ رد عمل دکھاتی ہیں کہ نہ وہ قاضی نہ ان کو یہ حق کہ ان معاملات میں فیصلہ کریں بجائے اس کے کہ اس فریق کو جو اپنے منصب سے ہٹ کر ان کے پاس آیا تھا ، اپنے دائرہ اختیار سے ہٹ کر ان کے پاس آیا تھا اس کو سمجھا تیں کہ بلند آواز سے فحشاء کا ذکر کرنا جائز نہیں ہے، غیر محل جگہ میں یہ باتیں کرنا جائز نہیں ہے ، تم فتور پیدا کر رہی ہو.ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ تم مظلوم ہو یا ظالم ہولیکن اپنے اس فعل سے

Page 336

مشعل راه جلد سوم 332 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ نظام جماعت پر تم ضرور ظلم کر رہی ہو اس لئے تم قاضی کے پاس رجوع کرو یا امور عامہ کے پاس جاؤ کیونکہ ابتدائی معاملے شعبہ امور عامہ طے کیا کرتا ہے یا اگر وہ طے نہیں کرتا تو اصلاح وارشاد کے پاس جاؤ یا امیر کے پاس پہنچو ، ان کو کہو کہ تم میرے باپ کی جگہ ہو، تم سارے نظام کے امیر مقرر کئے گئے ہو، تمہارے دائرہ میں ایک واقعہ ہورہا ہے، تحقیقات کرواؤ.اسے سمجھانے کی کوشش کرو.اگر نہیں سمجھتا تو پھر ہمیں بتاؤ کہ ہمیں کیسی کا رروائی کرنی چاہیے تا کہ معاملہ نہی ہو سکے.لجنہ کی عہدیداروں کو یہ بھی خیال نہیں آتا کہ قرآن کریم جو بار بار وہ پڑھتی ہیں اور عہدیداروں میں سے اکثر ترجمہ بھی جانتی ہیں اس میں لکھا ہوا ہے کہ جب بھی جھگڑے ہوں تو فَابْعَثُوا حِكَمَا مِنْ أَهْلِهِ وَ حكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا (النساء:36) دو فریق مقرر ہوں ایک مرد کے اہل سے اور ایک عورت کے اہل سے.جو حکم مقرر ہوں ان میں فیصلہ کرنے کی طاقت ہو.خدا تعالیٰ نے ان کو حکمت عطا کی ہو ایسے آدمی چنو جو وہ آپس میں مل بیٹھیں اور معاملے طے کریں.اگر وہ طے نہیں ہو سکتے تو پھر ہ شخص کے لئے قضاء کا رستہ کھلا ہے.یہ سب کچھ کرنے کی بجائے ان باتوں میں اس قدر چسکا اٹھایا گیا کہ سارا نظام درہم برہم ہو گیا ، اجلاس ملتوی ہو گئے ، اس لڑکی کے ارد گرد گھیرے پڑ گئے اور سارے اکٹھے ہو گئے جلسہ کی تقریریں سننے کی بجائے محفل لگی اور باتیں شروع ہو گئیں کہ بڑا ظلم ہو گیا، بڑا اندھیر ہو گیا.فلاں نے یہ کر دیا فلاں نے وہ کر دیا.اور پھر اس لڑکی نے اپنی زبان درازیوں اور طعن میں خلیفہ وقت کو بھی نہیں چھوڑا اس نے پھر اور بھی درد ناک باتیں کیں کہ میرے والدین سے یک طرفہ باتیں سن کر خلفیہ وقت نے بائیکاٹ کر دیا ہے ان کی طرف (یعنی خاوند کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اس لئے کہ اس کے ارد گرد دو تین حاشی مواشی ایسے ہیں جو یک طرفہ باتیں اس کے کانوں میں ڈالتے ہیں.اس وقت بھی کسی کو خدا کا خوف نہیں آیا کہ اب حملہ ایسی جگہ کیا جارہا ہے جہاں حد سے زیادہ تصادم ہے جیسے دنیا نے سماء الدنیا پر حملہ کر دیا ہے اس قسم کا واقعہ ہے یا اس سے بڑھ کر نوعیت کا ہے اور کسی کو خیال نہیں آتا.دو قسم کے مزاج کے لوگ ایک ہی بات کرتے ہیں اس کے نتیجہ میں اس کا منہ پھر بھی بند نہیں کروایا جا تا یعنی میرا مطلب ہے محبت اور پیار سے سمجھا کر سختی سے مراد نہیں ہے اس کو یہ نہیں کہتے کہ پہلے تم اپنے خاوند کے خلاف یک طرفہ باتیں کر رہی تھی اب تم خلیفہ وقت کے خلاف یکطرفہ باتیں کر رہی ہو.تمہارے خاوند کو تو ہم نہیں جانتیں لیکن خلفیہ وقت کے ہاتھ پر ہم نے منصف سمجھ کر بیعت کی ہوئی ہے.یہ ایمان رکھتے ہوئے بیعت کی ہے کہ وہ خود منصف نہیں بلکہ دنیا میں انصاف کا محافظ ہے تم ایسے شخص کے اوپر عدل کے خلاف الزام لگا رہی ہو اس لئے اگر پہلے تمہاری باتیں سن بھی لی تھیں ، ناجائز چسکے

Page 337

333 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اٹھائے بھی تھے تو اب ہم تمہاری مزید باتیں نہیں سنیں گی.اس کی بجائے کہتی ہیں ہاں ہاں یہ تو فلاں شخص کی وجہ سے یا فلاں اشخاص کی وجہ سے ہو رہا ہے پرائیویٹ سیکرٹری اس کا دوست ہے، افسر حفاظت اس کا دوست ہے، وہ فلاں اس کا دوست ہے، اس کی یک طرفہ باتیں سنتا ہے.اور مجبور ہو گیا ہے.اب امر واقعہ یہ ہے کہ ایسی باتیں کرنے والے دو قسم کے ہو سکتے ہیں یا منافقین یا وہ جو خلیفہ وقت کے او پر حملہ نہیں کرنا چاہتے وہ اپنی طرف سے اس کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں اور بات ایک ہی ہوتی ہے.قرآن کریم نے اس مضمون کو بھی بیان فرما دیا ہے.نہ صرف یہ فرمایا کہ تم خدا کی کائنات میں کوئی تفاوت نہیں دیکھو گے بلکہ روحانی کائنات میں جہاں جہاں تفاوت کے احتمالات ہیں ان سب کا ذکر قرآن کریم نے فرمایا ہوا ہے.خودحضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر بھی ایسے حملے ہوئے آپ کے متعلق باتیں کی گئیں کہ هُوَ أُذُن وہ تو مجسم کان ہے یعنی لوگوں کی باتیں سنتا ہے اور مان جاتا ہے اس کے نتیجے میں بعض دوسرے لوگوں کے خلاف فیصلے کر دیتا ہے نعوذ باللہ من ذالک یا ان سے متنفر ہو جاتا ہے اور ان سے پیچھے ہٹ جاتا ہے.قرآن کریم نے اس کا بہت پیارا جواب دیا ہے فرمایا اذُنُ خَيْرٌ لَّكُمُ کان تو ہے لیکن صرف بھلائی کا کان ہے برائی کا کان نہیں ہے.جب تمہارے متعلق کسی سے بری باتیں سنتا ہے تو تم پر حسن ظن رکھتا ہے اور یک طرفہ فیصلے نہیں کرتا جب اچھی باتیں سنتا ہے تو قبول کر لیتا ہے کیونکہ وہ تم سے پیار کرتا ہے تمہارے اوپر حسن ظن رکھتا ہے اس لئے کان بے شک کہولیکن خیر کا کان کہو ، بھلائی کا کان کہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں آپ کے سب غلاموں کی یہی کوشش ہونی چاہیے اور ہوتی ہے.خلفاء وقت کے لئے بھی یہی وہ سنت ہے جس کی وہ عملاً پیروی کرتے ہیں اس لئے یہ بھی جواب کسی نے نہیں دیا کہ اذن خَيْرٌ لَكُمْ تمہارے لئے بھلائی کا کان تو ہو سکتا ہے ہم برائی کے کان کے طور پر اس کو تسلیم نہیں کر سکتے بلکہ اپنی طرف سے یہ دفاع پیش کیا کہ ہاں ہے تو کان لیکن کان بیچارے کا کیا قصور وہ تو اس زبان کا قصور ہے جس نے پاگلوں والی جھوٹی لغو باتیں اس تک پہنچائیں.فتنہ پردازوں سے بچیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ ایسی باتیں کرنے والے دو قسم کے ہو سکتے ہیں.میں حسن ظنی رکھتا ہوں لجنہ پر اور یہ سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی طرف سے میرا دفاع کیا ہے.اپنی طرف سے مجھے معذور قرار دیا ہے لیکن منافق بھی تو اسی طرح حملے کرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعتماد اٹھانے کے لئے بھی

Page 338

334 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اسی قسم کی باتیں کی گئیں تھیں اور وہ لازما منافقین تھے.اب بھی معاشرے میں جب خلیفہ وقت پر حملہ کیا جاتا ہے یا پہلے جب بھی کیا گیا ہمیشہ اسی طرح کیا جاتا ہے کہ اس کے اوپر ایک الزام کو تسلیم کر کے اس کی ایک وجہ جواز بیان کی جاتی ہے کہ فلاں خلیفہ وقت فلاں کی باتوں میں آگئے.قادیان میں مجھے یاد ہے بچپن میں بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے اور فتنہ پردازوں نے آغاز ہمیشہ نظارت امور عامه یا نظارت اصلاح وارشاد یا نظارت تعلیم پر حملہ سے کیا اور کہا کہ خلیفہ وقت کو تو پتہ ہی نہیں اس کے سامنے جھوٹی فائلیں پیش کی گئیں یا قضاء پر حملہ کیا اور کہا کہ دیکھو قضاء نے کتناظلم کیا ہے کہ خلیفہ وقت کے سامنے غلط معاملات پیش کر کے ان سے غلط فیصلے لے لئے.قرآن کریم نے تو ہمیشہ کے لئے یہ باتیں پیش کر کے آپ کی راہنمائی فرما دی تھی آپ کی آنکھیں کھول دی تھیں آپ کے کان کھول دئے تھے اور بتایا تھا کہ اس طرح حملے ہوا کرتے ہیں ان حملوں سے باخبر ہو اور جو تمہارا منصب نہیں ہے اس منصب سے ہٹ کر تم نے کوئی بات نہیں سنی ، نہ کوئی بات کرنی ہے.چنانچہ اگر آپ اپنے منصب اور دائرے میں رہیں تو پھر کوئی فتور پیدا نہیں ہو سکتا جو تفاوت کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.اب اس معاملے میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے ، فلاں خلیفہ نے فلاں کی بات سن لی مولوی ابو العطاء صاحب مرحوم کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اس کی بات سن لی ، میر داؤ داحمد کی بات سن لی ، فلاں کی سن لی، فلاں کی سن لی یا ناظر امور عامہ کی سن لی یا سید ولی اللہ شاہ صاحب کی بات سن لی یا قاضی کی بات سن لی تو سننے والے کا فرض تھا کہ اگر یہ بات ہے تو میں کون ہوں مجھے تم کیوں بتا رہے ہو میرا یہ منصب نہیں ہے کہ میں قضاء پر یا نظارت اصلاح وارشاد پر یاکسی اور نظارت پر محاکمہ کروں یا ان پر جج بن کر بیٹھ جاؤں اس لئے تم مجھے کیوں بتا رہے ہو.تم اپنے منصب سے ہٹ چکے ہوا اور چاہتے ہو کہ میں بھی اپنے منصب سے ہٹ جاؤں.تمہارا فرض ہے کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ خلیفہ وقت واقعہ معصوم ہے تو جن باتوں میں تم سمجھتے ہو کہ وہ آگئے ہیں تم خلیفہ وقت کو بتاؤ کہ تم ان باتوں میں نہ آؤ اس کو لکھ کر بھیجو اور تمہارے لئے دو ہی رستے ہیں یا تو پھر اس کے عدل پر حملہ کرو یہ نہ کہو کہ ناظر امور عامہ بد دیانت ہے پھر جرات کے ساتھ تقویٰ کے ساتھ یہ فیصلہ کرو جو بھی تمہیں تقویٰ نصیب ہو اس کے مطابق فیصلہ کرو کہ خلیفہ وقت جھوٹا ہے خلیفہ وقت بدیانت ہے اور اس کو چھوڑ دو.اگر چھوڑ دو تب بھی رخنہ پیدا نہیں ہو گا لیکن جب تم تصادم کی راہ اختیار کرو گے تو تفاوت پیدا ہوگا اور تفاوت کے نتیجہ میں لاز مافتور ہوگا یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے.اگر لوگ ہمیشہ یہ مسلک اختیار کرتے تو کبھی کوئی فتنہ پیدا نہ ہوتا کوئی فتنہ بھی سری نہیں اٹھا سکتا تھا.آج بھی پاکستان میں بھی اور باہر بھی جہاں بھی مفتنی پیدا ہوتے ہیں وہ پہلا حملہ خلیفہ وقت

Page 339

335 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم پر نہیں کیا کرتے.وہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے ہماری دشمنی میں خلیفہ وقت تک یہ بات پہنچائی.فلاں شخص نے فلاں آدمی سے پیسے کھالئے اس کی دعوتیں اڑائیں اور پھر خلیفہ وقت سے یہ بات کہی.ایک مخرج ہے اس وقت وہ لوگوں کے پاس پہنچتا ہے اور بڑی چاپلوسی سے کہتا ہے کہ میں تو خلیفہ وقت کا عاشق ہوں ،خلیفہ وقت تو بہت ہی بلند مقام رکھتے ہیں.میں تو معافیوں کی عاجزانہ درخواستیں بھی کر رہا ہوں لیکن معافی نہیں ملتی.ناظر امور عامہ ایسا ذلیل آدمی ہے کہ وہ راشی ہے وہ فریق ثانی سے دعوتیں اڑا چکا ہے.فریق ثانی سے پیسے کھا چکا ہے حالانکہ جو مخرج ہے اس کے متعلق میں جانتا ہوں کہ اس کو لوگوں کے پیسے چڑھانے اور دعوتیں کھلانے کی عادت ہے.میں نے آغا ز خلافت ہی میں عہد یداروں کو اس کے متعلق متنبہ کر دیا تھا کہ آپ نے اس کی کوئی دعوت قبول نہیں کرنی.اب وہ چونکہ خود اس مرض کا شکار ہے اس لئے دوسروں کے متعلق یا ناظر امور عامہ کے متعلق باتیں کرتا ہے اور ظلم کی بات یہ ہے کہ سننے والے سن لیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہاں خلیفہ وقت نے ناظر امور عامہ کی بات سن لی ہے اس لئے اس بچارے پر ظلم ہو رہا ہے حالانکہ اس سے اگلا نتیجہ نہیں نکالتے.جو خلیفہ اتنا بیوقوف اور احمق ہو کہ اس کو معاملہ نہی ہو ہی کوئی نہیں.جس طرف سے بات سنی اس کو فوراً قبول کر لیا وہ اس لائق کہاں کہ تم اس کی بیعت میں رہو.اس لئے تمہارے تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ اگر تم متقی ہو تو اس کی بیعت سے الگ ہو جاؤ.لیکن بیعت پر قائم رہتے ہوئے تمہیں تصادم کی اجازت نہیں دی جاسکتی یہ وہ بات ہے جس کے متعلق قرآن کریم کی ایک آیت ہمیں ہمیشہ کے لئے متنبہ کر چکی ہے کہ خبر دار تفاوت کی راہ اختیار نہ کرنا.تفاوت نام ہے دو موتوں کے ٹکرانے کا ، دوایسی چیزوں کے ٹکرانے کا جو دونوں اپنے منصب سے ہٹ چکی ہوں.اس لئے اگر ایک کو اپنا منصب نہ چھوڑتے ہوئے دیکھو بھی تو تم اس رو میں بہہ کر اپنا منصب نہ چھوڑ دینا.اصلاح کے نام پر فتنہ پردازیاں اور ان کا تدارک پس ایسے فتنے تو پیدا ہوتے رہیں گے اور ہمیشہ اصلاح کے نام پر پیدا ہوں گے کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ لَا قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُون ( سورة البقره: 12 ) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کی خاطر بات کر رہے ہیں.نظام جماعت میں فتنہ پیدا ہو رہا ہے اس کے متعلق ہم عوام الناس کی رائے عامہ کو بیدار کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ ایسی ایسی خطرناک باتیں پیدا ہو رہی ہیں ان کے متعلق یہ کیوں کہہ دیا أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ

Page 340

336 مشعل راه جلد سوم ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی وَلَكِنْ لا يَشْعُرُونَ (سورۃ البقرہ:۱۳) خبر دار! وہ خود مفسد ہیں اور ان کو علم نہیں ہے.اس میں بظاہر کوئی دلیل نہیں ہے.انہوں نے کہا ہم اصلاح کرتے ہیں انہوں نے کہا نہیں تم مفسد ہو.کس دلیل سے ان کو مفسد قرار دیا جا سکتا ہے وہ وہی دلیل ہے جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر ہے جس کی میں نے آغاز میں تلاوت کی تھی.ایک شخص جب اپنے منصب سے ہٹ کر باتیں کرتا ہے تو خواہ وہ اصلاح کی باتیں ہوں وہ ضرور مفسد ہے کیونکہ قرآن کریم نے فساد کی تعریف ہی منصب سے ہٹنا قرار دی ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تفاوت عربی زبان کے مطابق ان دو چیزوں کے ٹکراؤ کا نام ہے جو اپنے منصب سے الگ ہو چکی ہیں اپنے مقام کو چھوڑ کر فوت ہو چکی ہیں.پس جس شخص نے کوئی اصلاح کی بات کی ہو اور اصلاح کی بات کرنے کا اس کا مقام ہی نہ ہو.کبھی وہ قضاء میں دخل دے رہا ہے کبھی امور عامہ میں داخل دے رہا ہے کبھی تعلیم میں دخل دے رہا ہے نہ اس کو ناظر امور عامہ مقرر کیا گیا نہ قاضی مقرر کیا گیا اور نہ اور عہدے دیئے گئے اپنے محلہ کا سیکرٹری بھی نہیں ہے اگر سیکرٹری بھی ہے تو اس کا کام ہے مجلس عاملہ میں بات کرنا یا اوپر کے عہدے دار کو متنبہ کر نایا عوام الناس میں بغیر کسی کی ذات پر حملے کئے عمومی نصیحت کرنا.ان چیزوں پر اگر کوئی قائم رہتا ہے تو فساد پیدا کر ہی نہیں سکتا اس لئے اگر وہ کہتا ہے کہ میں مصلح ہوں تو بے شک مصلح کا دعویٰ کرتا پھرے اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں قرآن کریم اس کو اجازت دیتا ہے لیکن اصلاح کی بات کر رہا ہو خواہ بچی بھی ہو لیکن منصب سے ہٹ کر کر رہا ہے تو وہ لازما مفسد ہے اور بہت سے مفسدا ایسے ہیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ بعض دفعہ وہ عمداً مجرم نہیں ہوتے وَلَكِن لَّا يَشْعُرُونَ ان بیچاروں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اس لئے دونوں قسم کے لوگ نظام کو بہر حال نقصان پہنچا دیتے ہیں عمداً مفسد ہوں گے تو خدا کے ہاں مزید سزا پائیں گے اور بغیر عمد کے مفسد ہوں گے تو نظام کو تو بہر حال نقصان پہنچائیں گے.ان کو اس درجہ کی سزا ملے یا نہ ملے جو باشعور جرم کرنے والے کو ملتی ہے یہ الگ مسئلہ ہے.اس لئے لَا يَشْعُرُونَ والے پہلو کے تابع جب ان کے اوپر پکڑ کی جاتی ہے تو کئی لوگ مجھے لکھتے ہیں ہم نے جان بوجھ کر نہیں کیں ہم نیک دلی سے یہ کرنے والے تھے ان کو میرا یہی جواب ہے کہ تم چاہو نیک دلی سے کسی کو قتل کرو یا بد دلی سے قتل کر وہ تو مارا گیا جس کو قتل کر دیا گیا یہ فیصلہ کرنا خدا کا کام ہے تم نے بدنیتی سے اس کو مارا تھا یا نیک نیتی سے مارا تھا جیسا کہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا کہ تم نے کیوں مار دیا انہوں نے بتایا کہ مارا تو ہے لیکن نیک نیتی سے مارا ہے کیونکہ خدا کا حکم تھا.بعض دفعہ ایسی باتیں بھی ہو جاتی ہیں کہ کسی کے قتل کا کسی کی موت کا قانون فیصلہ کر دیتا ہے اور چونکہ

Page 341

337 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم خدا قانون کا مرجع اور منبع ہے اس لئے جب خدا کسی کو حکم دیتا ہے تو وہ اور مسئلہ بن جاتا ہے لیکن جہاں تک مرنے والے کا تعلق ہے اور جہاں تک دیکھنے والے کا تعلق ہے ، وہ قتل ہی کہلائے گا.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہی اعتراض کیا کہ تم نے کسی کو ناحق کیوں مار دیا حالانکہ وہ خدا کے نبی تھے لیکن دیکھنے والے کے نقطہ نگاہ سے ان کا اعتراض درست تھا.پس جہاں تک معاشرے کا تعلق ہے جو شخص بھی اپنے مقام اور مرتبے سے ہٹ کر بات کرتا ہے اپنے دائرے سے نکل کر بات کرتا ہے ساری جماعت کو اس بات کا حق ہے اس پر فرض ہے کہ اس کو متوجہ کرے اور کہے کہ جہاں تک قرآنی تعلیم کا تعلق ہے ہمارے نزدیک تم مفسد ہو اور ہم تمہارا یہ دعویٰ قبول نہیں کریں گے کہ تم نے اصلاح کی خاطر یہ بات کی تھی.یہ دعویٰ تم جانو اور خدا جانے ہمیں اس سے غرض نہیں لیکن جو کام تم کر رہے ہو اس کے نتیجہ میں جماعت میں فتنہ وفساد پیدا ہوگا.سنی سنائی باتوں پر یقین کر لینے کے نقصانات پھر انفردی طور پر بعض لوگ فحشاء پھیلانے والے ہوتے ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے ہیں کہ فلاں بدکردار ہے فلاں بدکردار ہے اور ظلم کی بات یہ ہے کہ لوگ ان کی باتوں کو سن لیتے ہیں.سوائے ایک صورت کے اور کسی صورت میں یہ بات سننا جائز نہیں ہے.اس موقع پر سننے والے کا منہ بند کرنا ضروری ہے اور یہ کہنا ضروری ہے کہ قرآن کریم نے اس بات کی تمہیں اجازت نہیں دی.ہر آدمی اور قرآنی اصطلاح میں تم جھوٹے ہو کیونکہ تم غلط جگہ بات کر رہے ہو اور جو بات کر رہے ہو اس کے گواہ تمہارے پاس نہیں اگر گواہ ہیں تو پھر بھی ہمارے پاس بات نہ کرو.پھر بھی تمہیں چاہیے کہ نظام جماعت کے پاس جاؤ جولوگ اس بات پر مقرر ہیں ان سے بات کرو.یہ بات سننا کسی کے لئے جائز ہی نہیں ہے کیونکہ اسی سے آگے فحشاء پھیلتی ہیں سوائے ایک صورت کے کہ وہ ایک مریض کے متعلق نظام جماعت کو مطلع کرنے کی خاطر اس کی بات سنتا ہے تا کہ نظام جماعت کو معلوم ہو جائے کہ ایک بیماری کا گڑھ ہے جو وائرس کا شکار ہے اور جگہ جگہ پھر رہا ہے اور اس وائرس کو پھیلا رہا ہے جس طرح بعض مریض ہیں بیماریاں پھیلاتے ہیں ان کے متعلق بر وقت اطلاع کر دی جاتی ہے بعض کتے پھر رہے ہوتے ہیں باولے ان کے کاٹنے سے پاگل پن ہو جاتا ہے جن کو کاٹتے ہیں وہ پاگل ہو جاتے ہیں ان کے متعلق اطلاع کرنا تو فرض ہے اس لئے اگر کوئی اطلاع کی خاطر کسی بات کو غور سے سنے اور اچھی طرح ذہن نشین کر لے تا کہ اس کی طرف غلط بات منسوب نہ کرے پھر وہ بات

Page 342

مشعل راه جلد سوم 338 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نظام جماعت تک پہنچائے ، تو یہ سننانا جائز نہیں ہے.لیکن شرط یہ ہے کہ بلا کم و کاست اس بات کو پھر نظام جماعت تک ضرور پہنچائے اس کے بغیر اس کو کوئی حق نہیں ہے.پس جتنے فحشاء پھیلتے ہیں نظام جماعت سے جتنے اعتما داٹھتے ہیں، جتنے فساد پیدا ہوتے ہیں ان کے نتیجہ میں آپ کی زندگی کا ہر اجتماعی شعبہ متاثر ہو جاتا ہے کسی اجتماعی شعبے کی حفاظت کی یقین دہانی نہیں کرائی جاسکتی گویا کہ اوپر سے نیچے تک آپ دشمن کے سامنے اپنے سینے ننگے کر کے کھڑے ہیں اس کے لئے قرآن کریم نے آپ کو جو ڈھال دی تھی اس کو آپ چھوڑ بیٹھے ہیں اور وہ ڈھال اسی آیت میں بیان فرمائی گئی ہے.جماعت احمدیہ کے ہر ممبر کا فرض ہے اس نے ابھی لمبے سفر طے کرنے ہیں اپنے معاشرے، اپنے نظام کی حفاظت کرنی ہے کیونکہ یہ جماعت ایک سو سال کے لئے تو نہیں ہے.ابھی تو ہمیں اپنے اعلیٰ تر مقصد کو حاصل کرنے میں یعنی دین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام ادیان پر غالب کرنے میں بڑا وقت درکار ہے.اس وقت سے پہلے اگر آپ ان قدروں سے ہٹ جائیں گے ، ان بنیادی اصولوں سے ہٹ جائیں گے جن کے ہٹنے کی قرآن کریم کسی قیمت پر اجازت نہیں دیتا ، جن کے متعلق کھول کر بیان کر رہا ہے کہ ایک ذرہ بھی تم ان مناصب سے ہٹو گے تو اس کا نتیجہ لازما موت ہے اور فساد ہے اور بے نظمی ہے، تمہارے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.اتنی واضح نصیحت کے باوجود اگر آپ بار باران باتوں کو نظر انداز کریں گے بار بار نصیحت کو سنیں گے اور پھر بھی اپنے اندر فحشاء کو پھیلنے دیں گے چسکوں کی خاطر یا عورتوں اور مردوں کے جھگڑوں کو اپنے کانوں کے چسکوں کی خاطر سنیں گے تو آپ قومی مجرم ہیں.نیت بھلائی کی ہے یا نہیں یہ میں نہیں جانتا لیکن آپ قومی مجرم ضرور ہیں.اس لئے ساری دنیا کے احمدیوں کو اس بات میں متنبہ ہو جانا چاہیے کہ جو اختیار ان کو دیا گیا ہے اس سے انہوں نے نہیں دوڑنا.جو اختیار قرآن کریم نے بنی نوع انسان کو دیئے ہیں اس سے اگر وہ ہٹتے ہیں تو پھر آپ نہ نہیں اور ان کو یک طرفہ ٹکرانے والا سمجھ لیں لیکن آپ نے اپنے مقام کو چھوڑ کر ان کی طرف مائل نہیں ہونا اگر یہ ہوگا تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پھر تفاوت نہیں ہوگا پھر اگر آپ سے کوئی یک طرفہ ٹکراتا ہے اپنے منصب کو چھوڑتا ہے اور جماعتی نظام پر حملہ کرتا ہے تو خدا نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ اس نے اس کے لئے شعلہ بردار مقرر فرما ر کھے ہیں جو اسے جہنم تک پہنچا کے چھوڑیں گے اس کو ضرور نا کام اور نامراد کر کے دکھائیں گے.اس لئے آپ کو کیا خطرہ ہے کہ آپ اٹھتے ہیں اور اس سے متصادم ہونے کے لئے اپنی راہیں چھوڑ دیتے ہیں، اپنے رستوں سے ہٹ جاتے ہیں.

Page 343

مشعل راه جلد سوم 339 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی خلافت احمدیہ کی حفاظت کے لئے ہر قربانی کے لئے تیارر ہیں ان امور پر میں کئی دفعہ خطبات دے چکا ہوں لیکن پھر بار بار یہ باتیں سامنے آتی ہیں کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں یہ معمولی باتیں ہیں کیا فرق پڑا اگر ہم نے چپکے سے فلاں کی بات سن لی ، ساتھ ساتھ اپنی دانست میں خلیفہ وقت کی حفاظت بھی کر لی.کہہ دیا کہ ہاں ہاں کسی کی باتوں میں آ گیا ہوگا.خود تو اپنی ذات میں شریف آدمی لگتا ہے خود تو جھوٹا اور غیر منصف نظر نہیں آتا اس لئے ضرور باتوں میں آ گیا ہوگا.یعنی غیر منصف بھی قرار دے دیا اور ساتھ ہی بے وقوف بھی قرار دے دیا.اچھا دفاع کیا ہے خلیفہ وقت کا.یعنی پہلے تو صرف ظالم کہا تھا آپ نے کہا کہ ظالم صرف نہیں ہے، احمق بھی بڑا سخت ہے اس کو چغلیوں کی بھی عادت ہے یک طرفہ باتیں سنتا ہے اور فیصلے دیتا چلا جاتا ہے.حسن ظنی میں میں کہتا ہوں کہ آپ نے اپنی طرف سے دفاع کیا لیکن یہ کیا دفاع ہے اس پر تو غالب کا یہ مصرع آپ پر صادق آتا ہے کہ بع ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو اگر آپ نے خلافت کا ایسا ہی دفاع کرنا ہے آپ کے یہی عزم تھے جب آپ نے عہد کئے تھے کہ ہم قیامت تک اپنی نسلوں کو بھی یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ تم نے خلافت احمدیہ کی حفاظت کرنی ہے اور اس کے لئے ہر چیز کی قربانی کے لئے تیار رہو گے اگر عہد سے آپ کی یہی مراد ہے تو یہ عہد مجھے نہیں چاہیے.خلافت احمدیہ کو یہ عہد نہیں چاہیے.کیونکہ اس قسم کی حفاظت نقصان پہنچانے والی ہے فائدہ پہنچانے والی نہیں ہے.لیکن یہ صرف ایک خلافت کا معاملہ نہیں ہے سارے نظام ( دین حق ) کا معاملہ ہے تمام ( دینی ) قدروں کا معاملہ ہے.ہم تو دور کے مسافر ہیں ایک صدی کا ہمارا سفر نہیں ہے سینکڑوں سال تک اور خدا کرے ہزاروں سال تک ہم ( دین حق ) کی امانت کو حفاظت کے ساتھ نسلاً بعد نسل دوسروں تک منتقل کرتے چلے جائیں ان اہم مقاصد کے لئے آپ کو پوری طرح ہتھیار بند ہونا چاہیے آپ ان معاملوں میں کیوں بار بار شیطان کے حملوں کے لئے اپنے سینوں کو پیش کرتے ہیں جن میں قرآن کریم نے آپ کو کھول کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ ان اصولوں سے ہٹو گے تو موت کے سوا تمہارا کوئی مقدر نہیں ہے.“ (ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ دسمبر 1987ء)

Page 344

مشعل راه جلد سوم 340 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 345

مشعل راه جلد سوم 341 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جنوری 1988ء بچوں کی دینی تربیت کی خاطر اور اُن کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کو جمعہ کا عادی بنایا جائے.جمعۃ المبارک کے دن کی برکات جماعت احمدیہ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ وہ اہل ایمان کی کھوئی ہوئی عظمتیں دوبارہ حاصل کر کے انہیں دے جمعہ سے غافل بچوں کا جماعتی لحاظ سے کوئی مستقبل نہیں جمعتہ المبارک کے لئے رخصت کی مہم سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چلائی ☆

Page 346

مشعل راه جلد سوم 342 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 347

مشعل راه جلد سوم 343 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:- يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُ وُا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً اَوْلَهُوَا إِنْفَضُّوا إِلَيْهَا وَ تَرَكُوكَ قَائِماً ط قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهُوَ وَ مِنَ التِّجَارَةِ طَ وَاللَّهُ خَيْرٌ الرَّزْقِينَ O ( الجمعة: آیت 10 تا 12 ) اور پھر فرمایا :- معۃ المبارک غیر معمولی برکتوں اور رحمتوں کا حامل دن آج نئے سال کا پہلا دن ہے اور چونکہ یہ پہلا دن جمعتہ المبارک کا دن ہے اس لئے نیا سال جمعہ المبارک سے شروع ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے جمعہ میں غیر معمولی برکتیں رکھی ہیں اور اس مبارک دن کے لئے ہمیں سال بھر کا انتظار نہیں کروایا جاتا بلکہ ہر ہفتے جمعہ نی برکتیں لے کر آتا ہے اور مومن کو اپنے کھوئے ہوئے مقامات کو دوبارہ حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے اور نئی منازل کی طرف بڑھنے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بعض لوگوں کا تو ہاتھ پکڑ کر ان کو نئی منازل کی طرف آگے بڑھا بھی دیتا ہے.سو گو یا جمعہ کا مبارک دن مومنوں کو صرف بڑھنے میں مدد نہیں کرتا ، بڑھنے کی طرف توجہ ہی نہیں دلاتا بلکہ عملاً بہت سے مومن ایسے بھی ہیں جو جمعوں کی برکت سے کئی نئی مسافتیں طے کر لیتے ہیں.لیکن جمعہ کی یہ جو برکتیں عموما لوگوں کی نظر سے مخفی رہتی ہیں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مضمون پر بار ہا روشنی ڈالی ہے اور مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے کہ جمعہ میں کتنی برکتیں ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن

Page 348

344 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جمعہ کی نماز سے عصر کے وقت تک ایسی مبارک ساعتیں آتی ہیں جن میں مومن کی ہر دعا قبول ہو جاتی ہے اور اس کے علاوہ جمعہ کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مثبت رنگ میں جو کچھ فرمایا ہے وہ بھی ایک طویل مضمون ہے لیکن خلاصہ کلام یہی ہے کہ مومنوں کے لئے جمعہ کا دن بہت ہی اہمیت رکھنے والا دن ہے اور غیر معمولی برکتوں اور رحمتوں کا موجب ہے.جماعت احمدیہ کے معیار کے لحاظ سے فکر انگیز بات پس یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ نئے سال کا آغاز جمعہ کے دن سے ہورہا ہے.اس میں ہمارے لئے دو خوشیاں اکٹھی ہو گئی ہیں.لیکن ان خوشیوں کے ساتھ ایک غم کا احساس اور فکر کا احساس بھی شامل ہے.اور وہ یہ ہے کہ جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے جماعت احمدیہ کے بھی تمام افراد نہ صرف یہ کہ جمعہ کی برکتوں سے پوری طرح واقف نہیں بلکہ بہت سے ایسے ہیں جو جمعہ کے فرض کی ادائیگی سے بھی غافل ہیں اور ایسے لوگ دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں.پاکستان میں نسبتاً کم ہوں گے.بہت کم بھی کہہ لیں تب بھی جمعہ نہ پڑھنے والوں کی اتنی بڑی تعداد ضرور موجود ہے جو جماعت احمدیہ کے معیار کے لحاظ سے کسی طرح بھی قابل برداشت نہیں.غیر ممالک میں تو یہ نسبت بہت زیادہ خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے.جہاں ملک کے پھیلاؤ کی طرح جماعتوں کا پھیلاؤ بہت زیادہ وسعت اختیار کر گیا ہے، حالانکہ وہاں احمدیوں کی تعداد تھوڑی ہے.وہاں جمعہ پڑھنے کے لئے کئی قسم کے مسائل پیش آتے ہیں.جماعت کو اس سلسلہ میں جو جگہ میسر آتی ہے خواہ وہ ( بیت الذکر ) ہو یا کسی کے گھر کا کمرہ ہو ، وہ عموماً لوگوں کے گھروں سے بہت دور ہوتی ہے کیونکہ پھیلاؤ کے ساتھ اگر تعداد نہ بڑھے تو پھر لوگوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلے حائل ہو جاتے ہیں.چنانچہ امریکہ میں میں نے خاص طور پر دیکھا ہے کہ وہاں بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں جمعہ تو پڑھا جاتا ہے لیکن وہاں بعض لوگوں کو سوسومیل کا سفر کر کے آنا پڑتا ہے.ایک جگہ ایسی تھی جہاں ایک ڈاکٹر صاحب صرف اس وجہ سے جمعہ پڑھ سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ذاتی جہاز دیا ہوا تھا ورنہ ان کے لئے موٹر کے ذریعہ ( بیت الذکر ) تک پہنچنا ممکن ہی نہیں تھا.عیسائی ممالک میں جمعہ کی ادائیگی میں ایک خطر ناک روک میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب ملک جغرافیائی طور پر وسیع ہو تو جماعت بھی ملک کے ساتھ ہی

Page 349

345 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم پھیلے گی ، ہر طرف کہیں نہ کہیں جماعت کے کچھ افراد موجود ہوں گے.لیکن اگر تعداد زیادہ نہ ہو تو پھر خلا بیچ میں بہت بڑھ جاتے ہیں اس لئے جمعہ پڑھنے کی راہ میں اب طبعی روک حائل ہو جاتی ہے.لیکن اس روک کے علاوہ اس سے بھی زیادہ خطرناک روک یہ ہے کہ اکثر عیسائی ممالک میں بلکہ غالباً تمام عیسائی ممالک میں جمعہ کے روز کوئی رخصت نہیں ہوتی اور اس کے مقابل پر اتوار ہی کو نہیں بلکہ ہفتہ کو بھی رخصت دی جاتی ہے اس لئے اور مسلمانوں کو کوئی ایسی رخصت نہیں ملتی جس سے وہ سمجھیں کہ آج ہما را ند ہی دن ہے اور اسے ہم نے خالصہ مذہبی رنگ میں منانا ہے.جمعہ ایک عام دن کی طرح آتا بھی ہے اور گزر بھی جاتا ہے.چنانچہ مغربی ممالک میں بسنے والے بہت سے احمدی یا دوسرے ( مومن ) اس کی اہمیت سے بے خبر ہو جاتے ہیں اور بسا اوقات ان کو یہ بھی یاد نہیں ہوتا کہ آج جمعہ کا دن ہے.چنانچہ انگلستان ہی کا واقعہ ہے ایک جمعہ کے موقع پر جس دن رخصت بھی تھی جب جماعت کے صدر نے پتہ کیا کہ بہت سے لوگ جمعہ پڑھنے کے لئے کیوں نہیں آئے تو بہت سے احمدیوں نے ان کو جواب دیا کہ اوہو! یہ جمعہ کا دن تھا.ہمیں تو پتہ نہیں چلا یعنی روز مرہ کے کاموں میں جمعہ کے دن کو کوئی بھی اہمیت نہیں دی جاتی.اس لئے جمعہ کا دن ایک عام دن کی طرح آتا اور گزر جاتا رہا.ان کو قطعاً اس بات کا خیال ہی نہیں آیا کہ آج جمعہ کا دن ہے، رخصت بھی ہے اس لئے ہمیں (بیت الذکر ) میں پہنچنا چاہیے.چنانچہ جب میں امریکہ گیا تو اس صورت حال نے مجھے خاص طور پر بہت پریشان کیا.کیونکہ وہاں بچوں کی تربیت اور جماعت کی عمومی تربیت کے سلسلہ میں میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ جب تک ہم اپنی جماعت کو جمعہ کی اہمیت پوری طرح سمجھاتے نہیں اور نظام جمعہ کا پورا احترام نہیں کرتے اور اس دن باقاعدہ عبادت کے لئے اکٹھے نہیں ہوتے اس وقت تک ہماری تمام دیگر تربیتی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود مومن کی تربیت کے لئے جمعہ کا دن رکھا ہے.خدا تعالیٰ نے ہر مذہب کے لئے کوئی نہ کوئی اجتماعی دن ایسا ضرور رکھا ہوا ہے کہ جس میں اس مذہب کے ماننے والوں کی تربیت ہوتی تھی.وہ اکٹھے ہوتے تھے ، ان کو نئی زندگی ملتی تھی ، پرانے داغ دھونے کا موقع ملتا تھا اور اس ایک دن کی وجہ سے بہت سی دیگر برکتیں نصیب ہوتی تھیں.چنانچہ ہفتہ کا دن یہود کے لئے مقرر تھا اور اس کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی.قرآن کریم نے ہفتہ کے دن کے عدم احترام کے نتیجہ میں یہود کا ملعون ہونا بیان فرمایا ہے.ان پر لعنت پڑی ان کے دلوں پر مہر لگی اس کی وجو ہات میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ وہ ہفتہ کے دن کا احترام نہیں کرتے تھے.عیسائیوں کے لئے اتوار کا دن ہے.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے اب تک عیسائیت کے زندہ رہنے کی بڑی وجہ اتوار کا دن ہے ہر

Page 350

346 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہفتے اگر اتوار کا دن نہ منایا جائے تو عیسائیت کب کی مر چکی ہوتی.اتوار کے دن ساری قوم کو چھٹی ہوتی ہے بچے تیار ہوتے ہیں اچھے کپڑے پہنا کر مائیں ان کو ساتھ لے کر گر جا گھروں میں جاتی ہیں.چنانچہ یہ Institution عیسائیت جب بعض دیگر عوامل کی وجہ سے طبعی موت مرنا شروع ہوئی یعنی ظاہری طور پر عیسائی رہتے ہوئے بھی بہت سے عیسائی عملاً عیسائی نہیں رہے تو اس کا ایک مظاہرہ اس طرح ہوا کہ چرچ خالی ہونے شروع ہو گئے.بڑے بڑے وسیع چرچ جو کسی زمانہ میں پوری طرح آباد ہوا کرتے تھے وہ خالی ہو کر رہ گئے یہاں تک کہ بالآخران عیسائی تنظیموں کو جن کی ملکیت میں وہ چرچ تھے وہ چرچ بیچنے پڑے تھے یہ رجحان صدیوں میں جا کر مکمل ہوا کرتا ہے.مسلمانوں میں جمعہ کا رجحان مسلمانوں میں ایک زمانے میں مساجد غیر معمولی طور پر آباد ہوا کرتی تھیں جن شہروں میں آج اس زمانے کی مسجد میں نظر آتی ہیں ان میں مسلمان نسبتا کم تھے آبادیاں تھوڑی تھیں لیکن اس کے باوجود اس وقت مسجد میں بہت وسیع بنائی گئیں.اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانہ میں لوگ جمعہ کے دن کو بڑی سنجیدگی سے لیا کرتے تھے وہ جوق در جوق اکٹھے ہوا کرتے تھے اور اس دن کے تقاضے پورے کیا کرتے تھے.ورنہ اتنی بڑی بڑی اور وسیع مسجدوں کا ان شہروں میں موجود ہونا کوئی مصلحت نہیں رکھتا یا کوئی حکمت نہیں رکھتا.چنانچہ لاہور کی بادشاہی مسجد کو آپ دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کتنی وسیع مسجد ہے اور وہ سال میں کبھی عید کے دن بھرتی ہے.عام جمعوں میں اس کا اکثر حصہ خالی رہتا ہے.وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں جمعہ کا احترام بہت زیادہ تھا اور لوگ بڑی کثرت سے جمعہ پڑھا کرتے تھے شاذ ہی کوئی ہوگا جو جمعہ کے دن کسی معذوری کی وجہ سے مسجد تک نہ پہنچتا ہو.ورنہ ہر آدمی جس کو توفیق تھی وہ جمعہ پڑھا کرتا تھا.اور اب ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو پاکستان جیسے ملک میں بھی ( جو اسلامی ملک کہلاتا ہے جہاں اسلام پر غیر معمولی زور دیا جاتا ہے وہاں بھی ) ایک بڑی تعداد ہے جو جمعہ کے دن کلیۃ جمعہ کی نماز سے غافل رہتی ہے.مسجد تک جانا عموماً غرباء کا کام سمجھا جاتا ہے.غرباء میں سے بھی سب جمعہ نہیں پڑھتے.غرباء کا ایک طبقہ ہے جو جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد پہنچتا ہے.ورنہ باقی غرباء اپنے دوسرے کاموں میں مصروف رہتے ہیں.چنانچہ آپ جائزہ لے کر دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ بعض دفعہ جمعہ کے دن لوگ سینیما دیکھنے چلے جاتے ہیں.سنیما کا ایک پروگرام ہے جسے مٹینی شو کہتے ہیں.یہ پروگرام کم و بیش جمعہ کی نماز کے وقت

Page 351

مشعل راه جلد سوم 347 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ہی رکھا جاتا ہے.اس دن آپ مسجدوں کے پاس سے گزریں تو مسجدوں کے باہر یا مسجدوں کی طرف بڑھتے ہوئے بہت کم مسلمان دکھائی دیں گے جب کہ مٹینی شو میں جاتے ہوئے اس سے کہیں زیادہ کثرت کے ساتھ ہجوم دکھائی دیں گے.مجھے یاد ہے کراچی میں وکٹوریہ روڈ کی جو ( بیت الذکر ) تھی وہاں سے ایک دفعہ جب ہم جمعہ پڑھ کر واپس جارہے تھے تو وہاں پر سڑک بلاک ہوئی ہوئی تھی.میں نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے اتنا ہجوم کس بات کا ہے تو پتہ لگا کہ کوئی فرلانگ بھر لمباQueueلگا ہوا تھا.اس دن کوئی فلم دکھائی جانی تھی جس کا مشینی شو تھا.مٹینی کا پتہ نہیں کیا مطلب ہے مگر وہ بعد دو پہر جمعہ کی نماز کے وقت کے لگ بھگ دکھایا جاتا ہے.اس وقت سنیما کے سامنے تو بہت رش تھا لیکن مسجدوں کے سامنے کوئی رش نہیں تھا، ویسے بھی میں نے ایک دفعہ مساجد کی Capacity کا جائز لیا تو مجھے یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ مسجدوں میں کل رقبہ جو مہیا ہے وہ ایک شہر میں جتنے افراد جمعہ پڑھنے کے اہل ہوتے ہیں ان سے کہیں کم ہوتا ہے.اگر وہ سارے مسلمان جو کسی شہر میں بستے ہیں جمعہ پڑھنے کے لئے مسجدوں میں داخل ہونے کی کوشش کریں تو تقریباً دو تہائی یا کم سے کم نصف ایسے ہوں گے جن کو مسجدوں میں جگہ مل ہی نہیں سکتی ، خواہ کتنا ہی سمٹ کر کیوں نہ بیٹھیں مسجدوں کا اتنا رقبہ ہی نہیں ہے کہ وہ سارے شہر کو اپنے اندر سمیت سکیں.پھر بعض جگہ خواتین جمعہ پڑھنے جاتی ہیں.احمد یوں میں تو خاص طور پر خواتین میں یہ رواج ہے ، ایسی صورت میں ان کے لئے تو بالکل جگہ ملنے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.پس یہ رجحان بہت ہی قابل فکر رجحان ہے.اسلام میں جمعہ کو بہت اہمیت حاصل ہے.جمعہ پڑھنے کا قرآنی حکم اور ایک خطر ناک فتنے کی طرف اشارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں اس کے مثبت پہلو بیان فرمائے ہیں وہاں جمعہ نہ پڑھنے کے نتیجہ میں جو منفی پہلو بیان فرماتے ہیں وہ بہت ہی دل ہلا دینے والے ہیں.ان میں سے چند ایک کا ذکر میں ابھی کروں گا لیکن اس سلسلہ میں پہلے میں آپ کو قرآن کریم کی ان آیات کا مطلب بتا تا ہوں جو میں نے ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو جب بھی نماز کے لئے بلایا جائے جمعہ کے دن فَاسْعَوْا إِلى ذكر الله تو دوڑتے ہوئے خدا کے ذکر کے لئے چلے آیا کرو، وَذَرُوا الْبَيْعَ ، اور تجارت کو چھوڑ دیا کرو

Page 352

348 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ يتمہارے لئے بہت بہتر ہے ، اِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ کاش کہ ہم جانتے اور تمہیں اس بات کی خبر ہوتی کہ اس میں کتنی برکت ہے.فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ ہاں جب نماز ختم ہو جائے یا نماز سے فارغ ہو جاؤ پھر بے شک زمین میں پھیل جایا کرو، وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ اور الله تعالیٰ کا فضل چاہو ، وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيراً لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اور اپنے کاموں میں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ ذکر الہی بھی کثرت سے کرتے رہو تا کہ تم نجات پاؤ اور کامیابی حاصل کرو.یعنی مومنوں کو جمعہ کے دن کام سے نہیں روکا خصوصاً نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد.لیکن ذکر الہی کی طرف توجہ دلا کر فرمایا کہ جمعہ عبادت کا دن ہے اور یہ دن صرف نماز جمعہ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ سارا دن ہی عبادت کا دن ہے اس لئے جب تم کاموں میں مصروف ہوا کرو تو اس وقت بھی کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یا دکیا کرو.پھر فرمایا وَ إِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْلَهُوَ إنفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوْكَ قَائِماً.عربی گرائمر کے لحاظ سے اس آیت کے دوترجم ممکن ہیں.جب ماضی کا صیغہ ہو اس سے پہلے اڈا لگایا جائے تو وہ ماضی کو مستقبل میں بدل دیتا ہے.یعنی عربی زبان کے محاورہ کے لحاظ سے مضارع میں تبدیل کر دیتا ہے.اور مضارع میں حال کے معنے بھی پائے جاتے ہیں اور استقبال کے بھی پس اس لحاظ سے اس آیت کا یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهُوَا اِنْفَضُّوا إِلَيْهَا کہ یہ لوگ جب کوئی تجارت دیکھتے ہیں یا کھیل تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں.وَتَرَكُوكَ قَائِمًا اور اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجھے خدا کی عبادت میں مصروف اکیلا چھوڑ دیتے ہیں.قُلْ مَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ تو کہدے کہ جو خدا کے پاس ہے وہ لھو یعنی کھیلوں، مشاغل اور دلچسپیوں سے بھی بہتر ہے اور تجارت سے بھی بہتر ہے ، والله خَيْر الرزقین اور اللہ بہت بہتر رزق دینے والا ہے.اس آیت کے پہلے حصہ کا مستقبل کے لحاظ سے دوسرا ترجمہ یہ ہوگا کہ یہ لوگ جب کوئی تجارت دیکھیں گے یا کوئی دلچسپی کا مشغلہ دیکھیں گے تو اس کی طرف مائل ہو جائیں گے اور تجھے چھوڑ دیں گے ایسے حال میں کہ تو اکیلا کھڑا رہ جائے گا قُلْ مَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهُو وَمِنَ التِّجَارَةِ تو کہہ دے کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ بہت بہتر ہے لھو سے بھی اور تجارت سے بھی.اس آیت کا عموماً پہلا ترجمہ کیا جاتا ہے یعنی جمعہ کے دن لھو یا تجارت کو دیکھتے ہیں تو تجھے چھوڑ کر اس کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.

Page 353

مشعل راه جلد سوم 349 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فدائیت کے نظار میں نے سالہا سال پہلے لاہور میں جمعہ کے وقت اس مضمون کی طرف توجہ دلائی تھی اور بتایا تھا کہ میرا دل اس بات کو تسلیم نہیں کرتا نہ تاریخ اسلام اس بات پر گواہی دیتی ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ مسلمان عادة نعوذ بالله مِنْ ذلِك آپ کو جمعہ کے دن اکیلا چھوڑ کر کھیل تماشے کی طرف دوڑ جاتے ہوں.احادیث میں جو روایات ملتی ہیں ان سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک دعوت پر لوگ ہر دوسرے کام کو چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جوق در جوق دوڑے آیا کرتے تھے یہاں تک کہ نہایت ہی خطرناک وقتوں میں بھی انہوں نے اپنی اس اطاعت کی روح کو زندہ رکھا اور اپنے جسموں کے مرنے کی کوئی پرواہ نہیں کی.چنانچہ جنگ حنین کے وقت ہم یہ نظارہ دیکھتے ہیں کہ ایک موقع پر جب کہ لشکر اسلام کے پاؤں اکھڑ گئے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد سوائے چند گنتی کے صحابہ رضی اللہ عنھم کے اور کوئی میدان میں کھڑا نہ رہ سکا اس وقت مختلف صحابہ رضی اللہ نظم نے آوازیں دے کر مسلمانوں کو بلانا شروع کیا لیکن وقت ایسا تھا ایسا زور کا ریلا پڑا تھا کہ اکھڑے ہوئے پاؤں جمتے نہیں تھے اور دوڑتے ہوئے سپاہی واپس نہیں آسکتے تھے اس وقت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھ کھڑے ہوئے غلاموں کو تاکید فرمائی کہ یہ اعلان کرتے چلے جاؤ کہ خدا کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے.صحابہ رضی اللہ عنھم بیان کرتے ہیں کہ جب ہمارے کانوں میں یہ آواز پڑی تو کوئی اور ہوش نہیں رہا سوائے اس کے کہ ہر قیمت پر ہم نے واپس جانا ہے.چنانچہ بعض صحابہ روایت کرتے ہیں کہ ہماری وہ سواریاں جو اتنی منہ زور ہو چکی تھیں ایسی بھگدڑ پڑی ہوئی تھی کہ سواریوں کو بھی ہوش نہیں رہی تھی.ہم نے اپنی تلوار میں نکال کر ان کی گردنیں کاٹ دیں اور پھر پیدل حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دوڑے پڑے جس جماعت کی قربانی کا یہ نظارہ ہو اور اطاعت کا یہ جذ بہ ہو اس کے متعلق یہ تصور کر لینا کہ جمعہ کے دن کھیل تماشے کی خاطر یا تجارت کی خاطر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اکیلا چھوڑ کر دوڑ جاتے ہوں یہ بات میری بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے، میرے دل میں یہ بات بچتی نہیں.قرآن کریم کی ایک اور آیت بھی اس ترجمے کی تصدیق کرتی ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا القُرْآنَ مَهْجُوراً (الفرقان آیت:31) که رسول

Page 354

مشعل راه جلد سوم 350 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے اپنے رب سے عرض کیا اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو مہجور کی طرح چھوڑ دیا ہے.پس جو قرآن کو چھوڑے گا وہ حمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی چھوڑے گا اور قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خبر واضح طور پر مستقبل کی خبر تھی.قرآن کو چھوڑنا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ نا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.پس سورۃ جمعہ کی اس آیت کا بھی مستقبل سے تعلق ہے اور اس میں ایک نہایت ہی خطرناک فتنے کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے.فرمایا گیا ہے کہ ایسے دن آنے والے ہیں جب کہ مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ دیں گے اور تجارتوں کی طرف ایسے مائل ہو جائیں گے کہ جمعہ کے دن بھی ان کو جمعہ کی آواز پر لبیک کہنے کی توفیق نہیں ملے گی یہاں کلام کا ایک بڑا ہی لطیف رنگ ہے.یہ نہیں فرمایا کہ جب خدا کا رسول انہیں جمعہ کی نماز کی طرف بلاتا ہے کیونکہ خدا کا رسول تو جس طرف بھی بلاتا تھا مسلمان دوڑے چلے آتے تھے.یہاں لفظ نُودِی رکھ دیا گیا جس کا مطلب ہے جب بھی بلایا جاتا ہے یعنی مؤذن کوئی بھی ہو اس سے بحث نہیں جب بھی تمہیں بلایا جائے تمہارے کانوں میں یہ آواز پڑے کہ جمعہ کا دن آگیا ہے اور جمعہ کے دن تمہیں نماز کے لئے اکٹھا ہونا چاہیے.قطع نظر اس کے کہ بلانے والا کون ہے تمہیں خدا کے ذکر کے لئے اکٹھے ہو جانا چاہیے.چنانچہ یہ ندا سارے زمانوں پر حاوی ہو جاتی ہے.قطع نظر اس کے کہ کون بلا رہا ہے کون جمعہ پڑھا رہا ہے کس کی امامت میں آج نماز ہوگی چونکہ جمعہ کا دن خدا کی یاد کا دن ہے خدا کی خاطر ا کٹھے ہونا ہے اس لئے آواز دینے والے کا کوئی ذکر نہیں فرمایا.جب بھی تمہیں جمعہ کی نماز کے لئے آواز دی جائے تمہیں اس پر لبیک کہنا چاہیے.لاہور کے ایک دورہ کا ذکر چنانچہ مجھے یاد ہے میں نے اس وقت لاہور میں اس پہلو سے بھی جماعت کو توجہ دلائی.میں نے ان کو کہا کہ آپ یہ نہ دیکھا کریں کہ جمعہ کے دن نماز پڑھانے کے لئے کون آرہا ہے یہ دیکھا کریں کہ جمعہ کی نماز پڑھنے اور اس کی برکتیں حاصل کرنے کے لئے جانا ہے.میں غالباً خدام الاحمدیہ کے صدر کی حیثیت سے وہاں گیا تھا یا کسی اور حیثیت سے مجھے یاد نہیں رہا لیکن اس روز جمعہ میں حاضری عام حاضری کی نسبت زیادہ تھی.چنانچہ مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ آج اتنی حاضری ہے.تو اس کے نتیجہ میں میں نے جو تجزیہ کیا وہ یہ تھا کہ اس غیر معمولی حاضری کی وجہ یا تو یہ ہے کہ ایسے علاقے کے دوست تشریف لائے ہوں گے جو دوسری ( بیوت

Page 355

مشعل راه جلد سوم 351 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ الذکر) میں جمعہ پڑھا کرتے تھے وہ اس وجہ سے آگئے ہوں کہ کسی خاص مقصد کے لئے یا کسی خاص نصیحت کی خاطر اکٹھا کیا جا رہا ہے اس لئے ہم اس (بیت الذکر ) میں چلے جاتے ہیں اس پر تو کوئی اعتراض نہیں ہے، یہ تو ایک بالکل جائز فعل ہے.لیکن اس روز مجھے یہ بھی خطرہ محسوس ہوا کہ جمعہ پڑھنے والوں میں ایسے لوگ بھی تھے خصوصاً احمدی نوجوان جو عام دنوں میں اسی ( بیت الذکر ) میں جمعہ پڑھتے ہیں یا جن کو اس ( بیت الذکر) میں جمعہ پڑھنا چاہیے وہ عام دنوں میں اس ( بیت الذکر) میں نہیں آتے مگر جب کوئی صدر خدام الاحمدیہ آجائے یا کوئی اور مرکزی عہدیدار یا ناظر آ جائے یا حضرت خلیفہ اسیح اس زمانے میں جب لا ہور تشریف لاتے تھے.ان کے آنے پر جمعہ کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں.یہ قرآن کریم کی اس آیت کی روح کے بالکل منافی ہے.کیونکہ یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ جب فلاں آدمی تمہیں آواز دے تو اکٹھے ہو جایا کرو.بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ جمعہ کا دن اہمیت رکھتا ہے اس لئے جمعہ کے دن خواہ کسی کی طرف سے بھی تمہارے کان میں آواز پڑے کہ نماز کا وقت آگیا ہے تو تمہیں نماز کے لئے اکٹھے ہو جانا چاہیے.جمعہ کے لئے تو حید کامل کی خاطر اللہ کے نام پراکٹھے ہونے کی ہدایت جمعہ کی اذان کا توحید سے بڑا گہرا تعلق ہے.اذان دینے والے کو نظر انداز فرما دیا گیا ہے.اور توحید کامل کی خاطر محض خدا کے نام پر اکٹھے ہونے کی ہدایت فرمائی گئی ہے.اس لئے یہ کہنا کہ اس بیت الذکر ) میں ( مثلاً ( بیت الذکر ) فضل لندن میں ) مثلاً کسی وقت خلیفہ امسیح موجود ہوتے ہیں اور کسی وقت نہیں اور اس کی وجہ سے اگر جمعہ کی حاضری میں فرق پڑ جاتا ہے تو یہ بات بالکل نا قابل قبول ہے اور یہ تصور بھی نہایت خطر ناک ہے ایسے لوگ جو یہاں عام حالات میں جمعہ پڑھنے آ سکتے ہوں جب تک خلیفہ اسیح یہاں جمعہ پڑھاتا ہے وہ آتے رہیں اور جب وہ چلا جائے تو اس (بیت الذکر ) کی رونق میں اس لئے فرق پڑ جائے کہ کوئی اور جمعہ پڑھانے آ گیا ہے تو یہ میچ نہیں سوائے اس کے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ باہر کے علاقوں سے بعض لوگ اس لئے جمعہ کے دن یہاں آتے ہیں کہ اگر چہ وہ دوسری ( بیوت الذکر ) میں بھی جا سکتے تھے یا جایا کرتے تھے لیکن اس خیال ہے کہ وہ خود براہ راست خلیفہ وقت کی بات سنیں ، وہ یہاں چلے آئیں ایسے لوگوں پر کوئی اعتراض نہیں ان کا یہ فعل جائز ہے.لیکن وہ لوگ جو خلیفہ وقت کی موجودگی میں جمعہ پر آجاتے ہیں اور ویسے جمعہ پڑھتے ہی نہیں ، ان کی حالت بڑی خطرناک ہے.اس مضمون کے پیش نظر میں نے امریکہ میں یہ تحریک کی اور بڑے زور کے ساتھ تحریک کی کہ جمعہ کے احترام کو قائم کرنا جمعہ کی عبادت کے

Page 356

مشعل راه جلد سوم 352 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نظام کو از سر نو مستحکم کرنا اور ہر احمدی کو اس بات کا عادی بنا دینا کہ وہ جمعہ کی نماز پڑھے ، یہ اس دور کی اور اس سال کی خصوصی مہم بن جانی چاہیے.بچوں کی تعلیم و تربیت کے نقطہ نظر سے جمعۃ المبارک کی اہمیت امریکہ کے حالات کے مطابق میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہاں کے احمدی دوست ایسا نہیں کریں گے تو ان کی اولادوں کی حفاظت کی کوئی ذمہ دار نہیں کی جاسکتی.یہاں برطانیہ کے متعلق بھی میں جانتا ہوں کہ اور یورپ میں بھی جو احمدی بستے ہیں.اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کی اولادوں کے ایمان اور اعمال صالحہ کی کوئی ضمانت نہیں ہوسکتی.امر واقعہ یہ ہے کہ میں سوچ رہا تھا کہ مجھ سے اس بارہ میں کوتاہی ہوئی اور دیر ہوگئی ہے مجھے بہت پہلے اس مضمون کی طرف توجہ دلانی چاہیے تھی.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض دفعہ تربیت کے مسائل پر غور کرتے کرتے ایک خیال بڑی قوت کے ساتھ دل میں ابھر آتا ہے اور بعض دفعہ اس کی طرف خیال بھی نہیں جاتا.اس لئے بہر حال غلطی تو ہے لیکن اب جب کہ میرے دل میں یہ خیال قائم ہوا ہے اور آج جب کہ نیا سال جمعہ کے دن سے شروع ہو رہا ہے اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کے متعلق پورے زور کے ساتھ نصیحت کروں اور جماعت کو اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلاؤں کہ جماعت نے اگر اپنے بچوں کی حفاظت کرنی ہے ان کو دین دار بنانا ہے اور ان کو (مؤمن ) رکھنا ہے تو ان پر جمعہ کی اہمیت واضح کئے بغیر ان کو جمعہ کی نماز کا عادی بنائے بغیر وہ ایسا نہیں کر سکیں گے یہ کیسا درد ناک منظر ہوتا ہے کہ عیسائی بچے تو ایک دن تیار ہو رہے ہوتے ہیں چرچوں میں جانے کے لئے عبادت کرنے کے لئے اور (مومن) بچوں کو پتہ ہی کچھ نہیں ہوتا ان کی مائیں ان کو سکول کے لئے تیار کر رہی ہوتی ہیں اور ماؤں کو پتہ ہی نہیں کہ ہمارے ہاں عبادت کا بھی کوئی خاص دن مقرر ہے.ایسی نسل جب بڑی ہوگی اس کے متعلق یہ توقع رکھنا کہ وہ اسلام پر کار بند ہوگی یا ان کے اندر دین کی اہمیت باقی رہے گی یہ ایک دیوانے کا خواب ہے ، اس سے زیادہ اس میں کوئی حقیقت نہیں.یا درکھیں بچوں پر جمعہ کی نماز کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے.جمعہ کا یہ نظام کچھ ایسا ہے کہ جمعہ سے پہلے کا حصہ اس میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے.چنانچہ وہ لوگ جو مسلمان ملکوں میں جوان ہوتے ہیں یعنی وہیں بچپن گزار کر بڑے ہوتے ہیں ان کو ہمیشہ یہ بات یا درہتی ہے کہ جمعہ کے دن خاص طور پر ان کو نہلایا دھلایا جاتا تھا.نئے کپڑے پہنائے جاتے تھے.اگر وہ بھاگتے دوڑتے تھے یا کھیلتے تھے تو ان کو پکڑ کر لایا جاتا تھا.

Page 357

مشعل راه جلد سوم 353 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی بعض گھروں میں تو باقاعدہ نہانے والی نائیں آیا کرتی تھیں وہ اپنے خاص طریق پر پانی گرم کرتیں اور بچوں کو غسل دیتیں.جمعہ کی نماز سے پہلے کی یہ تیاری دل پر ایک گہرا اثر چھوڑتی تھی اور ایسے نقش جمادیتی تھی جو پھر کبھی مٹ نہیں سکتے.پھر بڑے اہتمام کے ساتھ جمعہ پر جانا اور جمعہ میں بیٹھ کر نصائح سننا، جمعہ کے آداب سے واقف ہونا اور ایسے مسائل جو روز مرہ کی زندگی میں انسان کے سامنے نہیں آتے جمعہ کے خطبہ کے ذریعہ انسان تک پہنچ سکتے ہیں.بچے خود ان کو سنتے ہیں.چنانچہ میں نے جب اپنی حالت پر غور کیا تو مجھے بھی یہ محسوس ہوا کہ بچپن کے زمانہ میں سب سے زیادہ تعلیم و تربیت میں اگر کوئی چیز میں تھی تو وہ جمعتہ المبارک تھا.حضرت مصلح موعود ( نور اللہ مرقدہ کے خطبات آپ کے قریب بیٹھ کر سننے کا موقع ملتا تھا.تمام دنیا کے مسائل کا آپ کے خطبات میں مختلف رنگ میں ذکر آتا چلا جاتا تھا.دین کا بھی ذکر ہوتا اور دنیا کا بھی.پھر ان کے باہمی تعلقات کا ذکر ہوتا تھا.سیاست جہاں مذہب سے ملتی ہے اور جہاں مذہب سے الگ ہوتی ہے غرضیکہ ان سب مسائل کا ذکر ہوتا تھا.چنانچہ قادیان میں یہی جمعہ تھا جس کے نتیجہ میں ہر کس و ناکس، ہر بڑے چھوٹے اور ہر تعلیم یافتہ وغیر تعلیم یافتہ کی ایک ایسی تربیت ہورہی تھی جو بنیادی طور پر سب میں قدر مشترک تھی یعنی پڑھا لکھا یا ان پڑھ، امیر یا غریب اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھتا تھا کہ بنیادی طور پر احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کی تربیت کے علاوہ دنیا کا شعور کبھی حاصل ہو جایا کرتا تھا.چنانچہ بہت سے احمدی طلبہ جب مقابلے کے مختلف امتحانات میں اپنی تعداد کی نسبت سے زیادہ کامیابی حاصل کرتے تھے تو بہت سے افسر ہمیشہ تعجب سے اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ احمدی طلبہ میں کیا بات ہے کہ ان کا دماغ زیادہ روشن نظر آتا ہے، ان کو عام دنیا کا زیادہ علم ہے، ان کے اندر مختلف علوم کے درمیان ربط قائم کرنے کی زیادہ صلاحیت ہے.اس مسئلہ کو ایک دفعہ مولوی ظفر علی خان صاحب نے بھی چھیڑا.انہوں نے ایک موقع پر کہا کہ تم مرزا محمود کا کیا مقابلہ کرتے ہو.مرزا محمود نے اپنے احمدیوں کی جس طرح تربیت کی ہے جس طرح ان کو تعلیم دیتا ہے تم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.احمدیوں کا یہ حال ہے اگر کوئی سیاست دان یہ سمجھتا ہو کہ اسے بڑی سیاست آتی ہے اس نے اگر سیاست بھی سیکھی ہوتو وہ قادیان سے بٹالہ تک کسی قادیان والے کے یکے میں بیٹھ کر سفر کرے تب اس کو سمجھ آئے گی کہ سیاست ہوتی کیا ہے.قادیان کا یکہ بان بھی سیاست دانوں کو سیاست کے گر سمجھا سکتا ہے.اس نے حضرت مصلح موعود ( نور اللہ مرقدہ) کو یہ خراج تحسین دیا حالانکہ وہ احمدیت کا شدید دشمن تھا.

Page 358

354 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم واقعہ یہ ہے کہ یہ خراج تحسین دراصل جمعہ کی Institution کو تھا.جمعہ کے ذریعہ یہ ساری تربیت ہوتی تھی ہر جمعہ پر شوق سے بڑی دور دور سے لوگ اکٹھے ہو کر آیا کرتے تھے ، ( بیت الذکر ) بھر جاتی تھی.گنجائش سے زیادہ لوگ جو ( بیت الذکر ) میں سمانہیں سکتے تھے گلیوں میں بیٹھ جایا کرتے تھے.ہمارے گھر میں بھی صبح سے شام تک بچوں اور عورتوں کا اجتماع رہتا تھا.( بیت الذکر ) کے ایک حصہ میں عورتوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی اس کے ساتھ ہمارا گھر ملا ہوا تھا.ساتھ کا کوٹھا بھر جاتا تھا صحن بھر جاتا تھا اس سے پر لے صحن تک عور تیں پہنچ جایا کرتی تھیں.چنانچہ سارا دن ہمارے گھروں میں کثرت کے ساتھ دوسرے لوگوں کا ہجوم رہتا تھا.اس سے بچپن میں تکلیف بھی پہنچتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے بعد میں عقل دی تو معلوم ہوا کہ یہ تو بڑی نعمت تھی جو ہمیں حاصل رہی.اس سے زیادہ مبارک اور کیا تکلیف ہوسکتی ہے کہ خدا کے ذکر کی خاطر لوگ گھروں میں اکٹھے ہوں.چنانچہ اس کی وجہ سے جماعت کی عام تربیت ایسی ہوئی ہے اور احمدی طلبہ کی ایسی تربیت ہوئی ہے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ دنیا کے ہر میدان میں وہ ترقی پانے کے زیادہ اہل ہو گئے یہاں تک کہ دشمن حسد کے مارے یہ کہنے لگ گیا کہ احمدیوں میں چالا کی یا کوئی ہوشیاری ہے یا طاقت ہے کہ اپنی تعداد کی نسبت سے زیادہ نوکریاں حاصل کر جاتے ہیں ، زیادہ برکتیں حاصل کر جاتے ہیں، دنیا کے مفادات زیادہ حاصل کر جاتے ہیں.حالانکہ ان کو یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ جمعے کی برکتیں ہیں اور ایسے جمعے کی برکتیں ہیں جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری کردہ امامت کا نظام جاری ہو چکا ہے ، جہاں خلافت کا منصب قائم ہے.ایسے جمعہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی برکتیں پڑتی ہیں.جمعہ کے نظام سے غفلت ہلاکت کا موجب ہے قرآن کریم کی جو آیات میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہیں ان کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر کسی زمانے میں یہ ابتلاء آنا تھا کہ وہ جمعہ کے نظام سے غافل ہو جائیں گے اور یہ غفلت ایک بہت بڑی ہلاکت ہے کوئی معمولی ہلاکت نہیں ہے.جماعت احمدیہ کو اس لئے قائم فرمایا گیا ہے تاکہ وہ (مومنوں ) کو ان کی کھوئی ہوئی عظمتیں دوبارہ حاصل کر کے دے ان کو اس پہلے مقام تک پہنچائے جہاں سے وہ گر چکے ہیں.لیکن جمعہ کے معاملہ میں میں نہیں سمجھتا کہ ہم اس بات کے اہل ہیں کیونکہ ہم نے خود بھی وہ مقام ابھی کما حقہ حاصل نہیں کیا، اگر حاصل کیا تھا تو اس کا کچھ حصہ کھو بیٹھے ہیں.مغربی ممالک میں تو اس لحاظ سے جماعت احمدیہ کی نہایت ہی درد ناک حالت ہے.اکثر احمدی بچے جمعہ پڑھنے نہیں آتے ، اکثر

Page 359

مشعل راه جلد سوم 355 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی عورتیں جمعہ پڑھنے نہیں آتیں.عورتوں پر جمعہ پڑھنا فرض نہیں ہے اور آپ کہہ سکتے ہیں بچوں پر بھی فرض نہیں ہے مگر ان کی دینی تربیت کی خاطر اور ان کو زندہ رکھنے کے لئے یہ ایک انتہائی ضروری چیز ہے.اگر آپ ان کو بچپن میں اس سے محروم کر دیں گے تو جب ان پر جمعہ فرض ہو گا اس وقت بھی وہ محروم رہیں گے.چنانچہ یہاں انگلستان میں اور دوسرے یورپین ممالک میں جو بڑی نسلیں جمعہ کی عادی نہیں رہیں.اس میں ان کے ماں باپ کا قصور ہے کہ انہوں نے بچپن میں ان کو عادی نہیں بنایا.آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو سکول جانا ہوتا ہے اس کے جواب میں یہ کہوں گا کہ آپ کے لئے دو Choices یا اختیارات ہیں ان میں جس کو چاہیں چن لیں.یا تو سکول کو اہمیت دیں یعنی دنیا کی تعلیم کو اہمیت دیں اور ان کی روحانی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا فیصلہ کر لیں یا پھر دین کو اہمیت دیں.کیونکہ جمعہ کی نماز سے غافل بچوں کا جماعتی لحاظ سے کوئی مستقبل نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ خاص فضل فرمائے اور کوئی اکا دکا واپس لے آئے مگر بالعموم نئی نسلیں آپ کی اقدار سے دور ہونا شروع ہو جائیں گی اور وقت کے گزرنے کے ساتھ یہ تنزل زیادہ تیز رفتار ہوتا چلا جائے گا.اس لئے جمعہ کی طرف غیر معمولی توجہ کرنے کی ضرورت ہے.اس سلسلہ میں میں نے نظام جماعت کو ایک ہدایت دی ہے.اس کی تفصیلات یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں.انشاء اللہ اس بارہ میں منظم پروگرام بنائے جائیں گے اور ساری جماعت کے لئے ایک اجتماعی کوشش بھی کی جائے گی یعنی حکومتوں سے رابطہ کر کے نیز اشتہارات کے ذریعہ اور اخبارات میں پروپیگنڈہ کے ذریعہ مطالبہ کیا جائے گا کہ مسلمانوں کو جمعہ پڑھنے کی سہولتیں ملنی چاہئیں.جمعۃ المبارک کے لئے رخصت کی مہم سب سے پہلے حضرت مسیح موعود نے چلائی اس سلسلہ میں جیسا کہ میں نے امریکہ میں بھی دوستوں ک توجہ دلائی تھی ایک بہت ہی اہم بات جو ہے اور جماعت کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ہمیں جو کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں 1896ء میں پہلی مرتبہ جمعہ کے نام پر رخصت حاصل کرنے کی تحریک چلائی گئی ہے اور یہ تحریک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود چلائی ہے.میرے علم میں نہیں کہ تاریخ اسلام میں کبھی کوئی ایسا واقعہ ہوا ہو کہ مسلمانوں کی طرف سے اجتماعی طور پر جمعہ کی رخصت کے لئے ایک مہم چلائی گئی ہو.یہ پہلا واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں رونما ہوا.خدا نے آپ ہی کو یہ توفیق بخشی کہ جمعہ کے تقدس کو قائم کرنے کے لئے ایک ملک گیر تحریک چلائیں اور حکومت کو توجہ

Page 360

356 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم دلائیں کہ مسلمانوں کا یہ حق ان کو دیا جائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یکم جنوری 1896ءکود واشتہا رشائع فرمائے اور ایک اشتہار بعد میں شائع فرمایا.جس میں تمام مسلمانان ہند کو بھی متوجہ فرمایا گیا اور حکومت انگلستان کو بھی متوجہ فرمایا کہ بحیثیت حاکم ان کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ مسلمانوں کے جمعہ کے تقدس کو قائم کریں اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی دعائیں حاصل کریں ان کا شکر یہ حاصل کریں.آپ نے تاریخی لحاظ سے بتایا کہ کس طرح تمام مسلمان ممالک میں اس دن کا تقدس قائم تھا اور خود ہندوستان میں بھی ایک لمبے عرصے تک قائم رہا.لیکن انگریزی حکومت کے آنے کے بعد رفتہ رفتہ جمعہ کی تعطیل کی بجائے اتوار کی تعطیل شروع ہو گئی.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے اتوار کے دن آپ بے شک چھٹی منائیں اور ہندوؤں کو بھی چھٹی دیں لیکن مسلمانوں کو اس بنیادی حق سے آپ کیسے محروم کر سکتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو تحریک فرمائی تھی اس کے بعد حضرت خلیفۃ امسیح الاول ( نوراللہ مرقدہ) نے 1911 ء میں دوبارہ اس تحریک کو چلایا اور پہلی مرتبہ حکومت برطانیہ نے 1913ء میں دوبارہ جمعہ کی رخصت کو ضروری طور پر منظور کیا خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پھر رفتہ رفتہ یہ رجحان بڑھنا شروع ہوا بالآخر انگریزی حکومت کی طرف سے بھی مسلمانوں کے لئے جمعہ کی نماز ادا کرنے کے حق کو تسلیم کر لیا گیا گو ہر جگہ حکومت کی طرف سے رخصت کے دن کے طور پر قبول نہیں کیا گیا.پاکستان بننے کے بعد بھی ایک لمبے عرصہ تک اتوار ہی کو چھٹی ہوتی تھی جمعہ کو نہیں ہوتی تھی.یہ تو ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ حکومت پاکستان نے جمعہ کی رخصت منظور کی ہے.حضرت مسیح موعود کی جمعۃ المبارک کی تحریک کو از سر نو شروع کرنے کی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 1896ء میں یہ تحریک شروع فرمائی تھی اور عجیب حسن اتفاق ہے کہ وہ بھی یکم جنوری کا دن تھا یعنی یکم جنوری 1896ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ تحریک جاری فرمائی اور بغیر اس کے کہ مجھے علم ہوتا کہ یکم جنوری کو ایسا ہوا تھا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تصرف ہی ایسا ہوا ہے کہ آج اللہ تعالیٰ ہی مجھے یہ توفیق عطا فرما رہا ہے کہ یکم جنوری 1988ء کو میں اس تحریک کو از سر نو شروع کرنے کے لئے جماعت کو نصیحت کرتا ہوں.دو طرح سے آپ کو یہ تحریک چلانی ہوگی اول جیسا کہ نظام جماعت آپ کے سامنے پروگرام رکھے گا آپ اخباروں میں خطوں کے ذریعہ، وفود کے ذریعہ حکومت کے افسروں سے مل کر ، طلبہ کی خاطر حقوق لینے کے لئے مختلف سکولوں میں ان کی انتظامیہ سے مل کر اور دیگر جو بھی

Page 361

357 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ذرائع جماعت تجویز کرے گی ان کے مطابق ہر ملک کے احمدی ساری دنیا میں ایک عالمگیر مہم چلائیں کہ ساری دنیا میں ہر ملک میں جمعہ کے دن مسلمانوں کو جمعہ پڑھنے کا حق ملنا چاہیے.اس سے پہلے عام طور پر یہ رجحان پایا جاتا تھا کہ جولوگ کوشش کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ ہم جمعہ تک دفتر رہا کریں گے اور جمعہ کے وقت چھٹی لے کر گھر آجایا کریں گے یعنی نصف دن کی چھٹی کا رجحان پایا جاتا تھا.لیکن قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے حصے کی رخصت اولیٰ ہے یعنی جمعہ کے بعد بے شک کام پر چلے جاؤ کیونکہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے : فَإِذَا قُضِيَتِ الصّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ کہ تم جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر بے شک زمین میں پھیل جایا کرو اور روزمرہ کے کام کیا کرو.یہ یہودیوں کی طرح کا سبت کا دن نہیں ہے.جمعہ کا دن اگر گھر کے ماحول میں ایک خاص انداز میں رخصت کے طور پر منایا جائے تو یہ امر بہت گہرے طور پر اثر انداز ہوتا ہے اور بچوں کی تربیت اچھی ہوتی ہے.پھر آپ نے نہانا بھی ہے اور کئی قسم کے جمعہ کے دن کے کام کرنے ہوتے ہیں.ذکر الہی زیادہ کرنا ہے قرآن کریم کی تلاوت زیادہ کرنی ہے اور بہت سی ایسی باتیں ہیں جو رخصت سے تعلق رکھتی ہیں اس سے بہت زیادہ برکت ملے گی اس لئے اگر نصف دن بھی لینا ہو تو اس کے لئے یہ تحریک چلانی چاہیے کہ جمعہ کی نماز تک کا پہلا حصہ رخصت کا ہوگا جمعہ کے بعد ہم زیادہ وقت بیٹھ جائیں گے یا نصف دن کی بے شک ہماری تنخواہ کاٹ لو جو بھی کرنا ہے کرو لیکن ہم نے جمعہ ضرور پڑھنا ہے.جمعۃ المبارک کے بغیر احمدی کی کوئی زندگی نہیں اب سوال یہ ہے کہ آپ حکومت کے سامنے یہ تحریک کیسے رکھیں گے اگر آپ کا اپنا عمل نہ ہو.آپ جمعہ سے بالکل غافل ہوں اور پر واہ ہی کچھ نہ کر رہے ہوں تو یہ تحریک آگے سے آگے جاری کریں گے اس لئے بہت ہی اہم بات ہے کہ آپ کو پہلے اپنے جمعوں کی ادائیگی کی طرف توجہ کرنی چاہیے.جماعت کے ہر فرد پر یہ بات واضح کر دینی چاہیے کہ جمعہ کے بغیر اس کی کوئی زندگی نہیں ہے.اور جمعہ کے دن بچوں کو بھی سکولوں سے رخصت لے کر دینی چاہیے.جب میں نے یہ باتیں وہاں امریکہ میں مجلس شوریٰ میں چھیڑیں تو اس وقت مجھے یاد ہے بعض دوستوں نے بتایا کہ پہلے ہم بھی جمعہ نہیں پڑھا کرتے تھے.ایک دفعہ جب ہم تک جمعہ کے متعلق آواز پہنچی اور ہمیں اس کی اہمیت کا پتہ لگا تو جس کمپنی میں ہم ملازم تھے ان سے ہم نے درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ ہم نہیں رخصت دے سکتے تمہارا کوئی حق نہیں.ایک دوست نے بتایا کہ

Page 362

358 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم میں نے کہا بہت اچھا تم مجھے تنخواہ نہ دو اس دن میں اس کے بغیر بھی زندہ رہ لوں گا لیکن جمعہ میں نے نہیں چھوڑنا.چنانچہ انہوں نے اس دن زبر دستی فراغت حاصل کی اور با قاعدہ جمعہ پر جاتے رہے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو برکتیں عطا فرمائیں ان کا بھی انہوں نے ذکر کیا.پھر ایک خاتون نے ذکر کیا کہ ایک جگہ مسلمانوں کی طرف سے با قاعدہ یہ معاملہ پیش ہوا جو بالآخر عدالت تک پہنچا.اور اب ہمارے حق میں یہ عدالتی فیصلہ ہو چکا ہے کہ مسلمانوں کو جمعہ کا حق ہے اور اس سے انہیں زبر دستی روکا نہیں جا سکتا اس لئے کسی حد تک امریکہ میں کچھ کام ہوا ہے.یہاں بھی اگر احمدی ماں سب سے پہلے اپنے بچوں کو روکنا شروع کر دیں پھر وفود لے کر اساتذہ اور انتظامیہ تک پہنچیں ، اخباروں میں لکھیں جماعت اپنے طور پر کوشش کرے مثلاً ایم پی اے سے ملے تو میرے خیال میں بہت بڑی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.لیکن اگر رخصت حاصل کرنے میں کامیابی نہ ہو تب بھی قربانی کرنی چاہیے اس کی طرف میں اب جماعت کو بلاتا ہوں دوست کوشش کریں کہ آپ کو رخصت مل جائے ، آپ کے لئے آسانی پیدا ہو جائے لیکن اگر یہ نہیں کر سکتے تو جمعہ کے دن اپنے بچوں کو سکول بھیجنا بند کر دیں اور سکول والوں سے کہیں کہ جمعہ ہمارا مقدس دن ہے ہم نے بچوں کو جمعہ ضرور پڑھانا ہے اس دن ان کو نہلائیں دھلائیں ان کو جمعہ کے لئے خاص طور پر تیار کریں اس سے ان کو نہانے کی اہمیت کی طرف بھی توجہ ہوگی.میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ مغربی ممالک میں بسنے والے احمدیوں کو پاکی ناپاکی کا بھی اتنا زیادہ احساس نہیں رہتا اور ان کو پتہ ہی نہیں کہ بعض دنوں کے ساتھ غسل واجب ہے بعض امور کے ساتھ فسل کا گہرا تعلق ہے اور جمعہ ان میں سے ایک ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ہر مسلمان پر غسل واجب ہے.اور اس کا اکثر احمدیوں کو بھی پتہ نہیں کہ یہ اتنی اہم نصیحت موجود ہے.اس لئے اس دن بچوں کو نہلایا دھلایا جائے ، ان کو کہا جائے کہ آج جمعہ کی تیاری کرنی ہے.آج تلاوت ہو گی.آج اور نیک باتیں ہوں گی.ہم تمہیں عام دنوں کی نسبت دین کی زیادہ تعلیم دیں گے.اس طرح کریں تو میرے خیال میں ایک بہت ہی بابرکت اور پاکیزہ ماحول پیدا ہو جائے گا.میں یقین رکھتا ہوں کہ ہمیں قانونی طور پر یہ تحفظ ضروری حاصل ہو جائے گا بشرطیکہ ہم اس مہم کو سنجیدگی سے شروع کریں اور قربانی کے لئے تیار رہیں.اگر بغیر قربانی کے مفت میں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو ہماری دعاؤں میں اتنا اثر پیدا نہیں ہو گا.خدا کے حضور دعا کریں اور عرض کریں کہ ہم تو اب تیار ہو گئے ہیں اس لئے تو ہماری مددفرما ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ اکثر ابتلاؤں سے بچالیا کرتا ہے.اور اگر کچھ ابتلاء پیش بھی آجائیں تو اللہ تعالیٰ

Page 363

مشعل راه جلد سوم 359 اس کی بہترین جزا عطا فرمایا کرتا ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی جمعہ نہ پڑھنے والوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتباہ اب میں آپ کو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض نصیحتوں سے آگاہ کرتا ہوں تا آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے الفاظ میں آپ کو جمعہ کی اہمیت کا علم ہو سکے.آپ نے فرمایا مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللهُ عَلَى قَلْبِهِ ( ترمذی ابواب الصلوۃ باب فی ترک الجمعة من غير عذر ) آپ نے فرمایا کہ جو شخص تین جمعے مسلسل چھوڑ دے تَهَاؤنا ، یعنی جمعہ کی تخفیف کرتے ہوئے اس کی اہمیت نہ سمجھتے ہوئے اگر کوئی جمعہ پڑھنا چھوڑ دے اور اس کو مجبوری بھی کوئی نہ ہو بلکہ یہ سمجھے کہ کوئی فرق نہیں پڑتا بے شک چھوڑ دو تو طَبَعَ اللهُ عَلى قَلْبِهِ ، اللہ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے.قرآن کریم میں جب آپ اللہ کی طرف سے لگی ہوئی مہر کا ذکر پڑھتے ہیں تو کس طرح کانپ جاتے ہیں اور کیسا خوف کھاتے ہیں اس بات سے کہ نعوذ باللہ من ذالک کسی کے دل پر مہر لگے.تو یہ دیکھ لیں عمد أجمعہ چھوڑنے کی وجہ سے خدا تعالی کی طرف سے ناراضگی کا کتنا بڑا اظہار ہے.اگر چہ قرآن کریم میں اس ضمن میں یہ بات موجود نہیں مگر سبت کی بے حرمتی کے نتیجہ میں یہود کے دلوں پر مہر لگنے کا ذکر موجود ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استناد قرآن کریم سے ہی فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس نصیحت کی جڑ قرآن کریم میں موجود ہے.جو تو میں اپنے اہم مذہبی دن کی تکریم سے غافل ہو جائیں اور اس کی بے حرمتی کریں تو بالآخر ان کے دلوں پر مہریں لگا دی جاتی ہیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دوسری جگہ فرمایا : - لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَّدْ عِهِمُ الْجُمُعَاتِ اَوَ لَيَخْتِمَنَّ اللَّهُ عَلَى قُلُوْبِهِمُ ثُمَّ لَيَكُونُنَّ مِنَ الْعَفِلَيْنَ ( صحیح مسلم کتاب الجمعة ) اس حدیث میں بھی مختلف الفاظ میں وہی مضمون بیان ہوا ہے جو ترمذی کی حدیث کے حوالے سے اوپر بیان کیا جا چکا ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قومیں اس بات سے باز رہیں کہ وہ اپنے جمعوں کو چھوڑ دیں.اس کے بعد صاف پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیش نظر مستقبل کے خطرات تھے اور قرآن کریم میں جو پیشگوئی کی گئی ہے وہ مستقبل کی پیشگوئی ہے.اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خیال آیا کہ جب مسلمان کئی قوموں میں بٹ جائیں گے تو اس وقت یہ خطرات لاحق ہوں

Page 364

360 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم گے کہ وہ جمعہ کے دن کی اہمیت سے غافل ہو جائیں.فرمایا یا تو وہ جمعہ کو ترک کرنے سے باز رہیں یا پھر ضرور خدا تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا.اور پھر وہ غافل ہو جائیں گے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور موقع پر فرمایا :.اِنَّ اللهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْكُمُ الْجُمُعَةَ فِي مَقَامِي هَذَا فِى يَوْمِي هَذَا فِي شَهْرِى هَذَا مِنْ عَامِيٌّ هَذَا إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ فَمَنْ تَرَكَهَا فِي حَيَاتِي أَوْ بَعْدِي وَلَه إِمَامٌ عَادِلٌ أَوْ جَائِرٌ اسْتِخْفَافاً بِهَا اَوْ جَعُوداً لَّهَا فَلَا جَمَعَ اللهُ لَه شَمْلَهُ، وَلَا بَارَكَ لَه فِي أَمْرِهِ أَلَا وَلَا صَلوةَ لَهُ، وَلَا زَكوة لَهُ، وَلَا حَجَّ لَهِ، وَلَا صَوْمَ لَهُ، وَلَا بِرَّلَهِ، حَتَّى يَتُوبَ فَمَنْ تَابَ، تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ (سنن ابن ماجه كتاب الصلواة باب في فرض الجمعة) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ روایت بیان کی گئی ہے.آپ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے.خدا تعالیٰ نے تم پر جمعہ کا دن فرض فرما دیا ہے فی مقا می هذا میرے اس مقام پر فى يومى هذا آج اس دن فى شهرى هذا آج اس مہینے میں، من عامی هذا آج اس سال میں یعنی اہمیت کی خاطر اس کو بار بار دہرایا ہے کہ کیا واقعہ ہوا ہے.آج اس دن ،اس خاص شہر میں اس خاص مہینے میں، اس سال میں جمعہ فرض فرما دیا گیا إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ آج کا واقعہ ہے لیکن قیامت تک کے لئے فرض ہو گیا ہے.فَمَنْ تَرَكَهَا فِي حَيَاتِی اَوْ بَعْدِی پس جس نے بھی اسے چھوڑا خواہ میری زندگی میں چھوڑے یا میری وفات کے بعد چھوڑے وَلَهُ إِمَامٌ عَادِلٌ او جَائِرٌ اور ا سے امام میسر ہو خواہ وہ امام نیک ہو انصاف پسند ہو یا گناہگار اور بے راہ ہو اس سے بحث ہی کوئی نہیں.جس طرح نُودِی میں مضمون تھا اس کو ایک اور رنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرمایا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اس سے بحث نہیں کہ کون امامت کرنے والا تمہیں میسر ہے.یہ عذر بھی قبول نہیں ہوا کہ تم سمجھتے تھے کہ گندا امام تھا اس لئے ہم نے جمعہ نہیں پڑھا فر مایا کسی قسم کا امام ہو میرے وصال کے بعد ہو، تمہیں میسر آئے سہی جمعہ کے لئے ، پھر بھی تم جمعہ نہ پڑھو استِ خُفَافًا بِهَا أَوْ جَعُوْداً لَّهَا خواہ جمعہ کو معمولی سمجھتے ہوئے خواہ اس کی اہمیت کا کھلم کھلا انکار کرتے ہوئے فَلَا جَمَعَ اللَّهُ شَمْلَهُ، میری دعا یہ ہے کہ خدا اس کے بکھرے ہوئے کاموں کو کبھی مجتمع نہ کرے.یہ عظیم الشان کلام ہے جو اپنی فصاحت و بلاغت کے زور پر ثابت کر رہا ہے کہ خود حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا کلام ہے.جمعہ کا مطلب ہے جمع کرنا اور مسلمانوں کا، نیک لوگوں کا جمع ہونا اس جمعہ میں بیان ہوا ہے، مختلف زمانوں کا جمع ہونا اس جمعہ میں بیان

Page 365

361 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہوا ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں آخری دور میں جب ساری دنیا نے جمع ہونا تھا اس کا اسی سورہ جمعہ میں ذکر ہے.چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی جمعہ سے غافل ہوتا ہے اس کے لئے بہترین دعا یہی بنتی ہے کہ پھر خدا اس کے بکھرے ہوئے کاموں کو کبھی اکٹھا نہ کرے تا کہ اس کو احساس ہو کہ اس نے اجتماع کا کوئی موقع ہاتھ سے کھو دیا ہے، اجتماعیت کی برکت سے وہ محروم رہ گیا ہے.اب کیا آپ پسند کریں گے کہ نعوذ باللہ من ذالک آپ کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دعا قبول ہو یعنی آپ پر صادق آئے کیونکہ دعا تو حضور کی خدا تعالیٰ نے قبول فرمانی ہی ہے لیکن کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ وہ ہوں جن پر یہ دعا صادق آئے.وَلَا بَارَكَ لَه فِی اَمْرِہ اور پھر اس کے کسی کام میں ہی برکت نہ رہے.فرمایا الا خبردار! ایسا شخص جو جمعہ کی اہمیت سے غافل ہے وَلَا صلوةَ لَہ، اس کی کوئی بھی نماز نہیں ہوتی وَلَا زَكوة له، اس کی زکوۃ بھی کوئی نہیں وَلَا حَج لَه ، اس کا حج بھی کوئی نہیں وَلَا صَومَ لَہ، اس کا روزہ بھی کوئی نہیں.گویا جمعہ کی اتنی اہمیت ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن سے غافل ہو جائے اس کی نمازیں بھی گئیں اس کے روزے بھی گئے اس کا حج بھی گیا.وہ لوگ جو کہتے ہیں چلو ایک دفعہ حج کر لیں گے سب کچھ بخشا جائے گا اس حدیث نے اس مضمون کو بالکل رد فرما دیا.پھر فرمایا وَلَا بِرَّ لَہ، اس کی کوئی بھی نیکی کام نہیں آئے گی.اس کی نیکی کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے.حتَى يَتُوبَ یہاں تک کہ وہ تو بہ کرے فَمَنُ تَابَ ، تَابَ اللهُ عَلَيْهِ خدا تو توبہ قبول کرنے والا ہے وہ تو اپنے بندوں کی تو بہ کا منتظر ہے تم میں سے جو بھی تو بہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا.جمعہ کے نظام کومستحکم کرنے کی خاطر قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوں اس نصیحت کے بعد کچھ مزید کہنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ تمام دنیا میں احمد یہ جماعت کے افراد اور احمد یہ جماعت کے نظام جہاں جہاں بھی قائم ہیں وہ اس سال خصوصیت سے یہ کوشش کریں کہ جمعہ کے احترام کو پہلے اپنے گھروں میں قائم کریں ، اپنے چھوٹے بڑوں میں قائم کریں ، جمعہ کے نظام کو از سر نو زندہ اور مستحکم کرنے کے لئے قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوں اور جہاں قربانیوں کی ضرورت پیش آئے وہاں قربانیاں دیں اور دنیا کے نظام کو بدلیں تا کہ ( دین حق) کا نظام دنیا پر غالب آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا نے اس زمانہ کا امام بنایا ہے.اور آپ کی امامت کی علامتوں میں سے ایک یہ علامت ہے کہ ایک آپ ہی ہیں جنہیں یہ توفیق ملی تھی کہ جمعہ کے نظام کے لئے

Page 366

مشعل راه جلد سوم 362 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ ایک عالمگیر تحریک چلا ئیں.آج آپ کے غلاموں ہی کو یہ توفیق ملنی چاہیے.ساری امت مسلمہ پر جماعت احمدیہ کا یہ احسان ہوگا اگر ہر جگہ مسلمانوں کو ان کا بنیادی دینی حق میسر آجائے کہ حکومتیں یہ تسلیم کر لیں کہ ہاں جمعہ کے دن مسلمانوں کو کم سے کم اتنی رخصت ضرور ملنی چاہیے کہ وہ جمعہ کے فرائض سے سبکدوش ہوسکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ جنوری 1988ء)

Page 367

مشعل راه جلد سوم 363 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 را پریل 1988 ء سے اقتباس بچوں کو روزے رکھنے اور ان کے لوازمات کی طرف بھی توجہ دلانی چاہیے رمضان میں تہجد اور نوافل کی اہمیت جو اپنے بچوں کو خصوصیت سے تہجد کی تلقین کریں د نماز تراویح دراصل تہجد کا بدل ہے بچوں کو قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ سورتیں یاد کرائیں اچھی عادات کی بنیادیں بچپن میں ہی پڑتی ہیں ان کی اس عمر سے استفادہ کریں

Page 368

مشعل راه جلد سوم 364 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 369

مشعل راه جلد سوم 365 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- نئی نسلوں میں روزہ رکھنے کی عادت ڈالیں گزشتہ جمعے کے موقع پر میں نے جماعت کو یہ نصیحت کی تھی کہ روزہ رکھنے کی عادت نئی نسلوں کو خصوصیت کے ساتھ ڈالنی چاہیے کیونکہ عموماً میرا یہ تاثر ہے کہ ہماری نئی نسلوں میں خاص طور پر وہ جو یورپ اور امریکہ یا بعض دیگر ممالک میں پیدا ہو کر بڑی ہوتی ہیں ان میں روزے کا پورا احترام نہیں ہے اور اس کی پوری اہمیت ان پر واضح نہیں.اس کا بہت حد تک ماں باپ کا بھی قصور ہے کہ رمضان شریف آکر گزر جاتا ہے اور وہ اپنے روزوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے روزوں کا حق ادا کر دیا حالانکہ جب تک اولاد کو صحیح معنوں میں دین کے فرائض سے آگاہ نہ کیا جائے اور ان کو روزے اختیار کرنے میں ان پر عمل کرنے میں ان کی مدد نہ کی جائے اس وقت تک والدین کا حق ادا نہیں ہوتا.اس تحریک کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے جو اطلاعیں مل رہی ہیں وہ بہت امید افزاء ہیں بہت خوشکن ہیں.انگلستان ہی میں نہیں بلکہ بعض دوسرے ممالک میں بھی ذیلی تنظیموں نے مثلاً خدام الاحمدیہ نے ، انصار اللہ نے اور لجنہ وغیرہ نے اپنے اپنے رنگ میں فوری طور پر کوشش کی.خدا کے فضل کے ساتھ اب تک جو اطلاعیں ملی ہیں.( ابھی وقت پڑا ہے مزید بھی آئیں گی ) ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پہلو سے ایک بیداری پیدا ہوئی ہے.ایک احساس پیدا ہوا ہے اور جماعت نے ہر سطح پر منظم کوشش شروع کر دی ہے.اس ضمن میں کچھ اور باتیں بھی بیان کرنی ضروری ہیں.ان ممالک میں جہاں بچپن سے تربیت کا وہ ماحول میسر نہیں جو بڑے معاشرے کے نتیجہ میں میسر آجایا کرتا ہے.مثلا ربوہ یا قادیان یا پاکستان کی دیگر جماعتیں جہاں جماعت کے افراد کی تعداد اتنی ہے کہ وہ اپنا ایک معاشرہ قائم کرسکیں ، ایک معاشرے کا ماحول

Page 370

366 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم پیدا کر سکیں وہاں بچوں کی تربیت از خود ہوتی ہے اور اس کیلئے اتنی زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی.مگر جہاں جماعت احمدیہ کے افراد بکھرے ہوئے ہوں اور اجتماعی حیثیت کی بجائے بالعموم انفرادی حیثیت میں رہتے ہوں وہاں بچوں کے لئے بہت سی وقتیں پیدا ہو جاتی ہیں کیونکہ معاشرہ غیر ہے، غیر ہی نہیں بلکہ معاندانہ معاشرہ ہے.اسلامی قدروں سے بالکل برعکس ہی نہیں ان پر حملہ کرنے والا معاشرہ ہے.اس پہلو سے والدین کو عام حالات کے مقابل پر زیادہ محنت کرنی چاہیے لیکن افسوس یہ ہے کہ وہ عام حالات سے نسبتا کم محنت کرتے ہیں اور جو کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو پھل بھی دیتا ہے.اس معاشرہ میں رہتے ہوئے جو لوگ اپنے بچوں کی طرف بچپن سے ہی توجہ کرتے ہیں ان کے دل میں دین کی محبت ڈالتے ہیں، اچھی عادتیں ان کے اندر پیدا کرتے ہیں ان کو اللہ کے فضل کے ساتھ بڑے ہوکر کوئی خطرہ نہیں رہتا.اس لئے رمضان المبارک میں خصوصیت سے اس گزشتہ کمی کو جہاں جہاں بھی محسوس ہو پورا کرنا چاہیے.رمضان میں صرف روزوں کی تلقین نہیں کرنی چاہیے بلکہ روزوں کے لوازمات کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے.میں نے ایک دفعہ سرسری طور پر جائزہ لیا نو جوانوں سے پوچھنا شروع کیا روزہ رکھا ہے یا نہیں رکھا.کیسا رہا؟ کس طرح رکھا؟ تو اکثر یہ دیکھا گیا یعنی اکثر یہ جواب ملا کہ ہم نے صبح سحری کھا کر روزہ رکھا اور نفلوں کا کوئی ذکر نہیں تھا.حالانکہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کئے ہیں.اور میں نے اس میں تہجد کی سنت قائم کر کے تمہارے لئے مزید برکتوں کے راستے پیدا کر دیئے ہیں.پس تہجد تو ویسے بھی بہت اچھی چیز ہے.قرآن کریم نے اس کو بہت ہی تعریف کے رنگ میں پیش فرمایا ہے اور اس کی بہت سی برکتیں بیان فرمائی ہیں.یہ مقام محمود تک لے جانے والی چیز ہے لیکن رمضان المبارک سے تہجد کا بہت گہرا تعلق ہے.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواتنی لمبی تہجد کی نماز پڑھتے کبھی نہیں دیکھا.بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقریباً ساری رات کھڑے ہو کر گزار دیتے تھے.رمضان المبارک کے ساتھ تہجد کا گہراتعلق ہے پس رمضان کے ساتھ تہجد کا بہت ہی گہرا تعلق ہے وہ روزے جو تہجد سے خالی ہیں وہ بالکل ادھورے اور بے معنی سے روزے ہیں.اس لئے بچوں کو خصوصیت کے ساتھ تہجد کی تلقین کرنی چاہیے.قادیان یار بوہ کے جس ماحول کا میں نے ذکر کیا ہے اس میں تو عموماً یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا خصوصاً قادیان میں کہ کوئی بچہ

Page 371

367 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اٹھ کر آنکھیں ملتا ہوا کھانے کی میز پر آجائے اس کے لئے لازمی تھا کہ وہ ضرور پہلے نفل پڑھے.لازمی ان معنوں میں کہ کبھی ایسا کرتے تھے اس نے یہی دیکھا تھا اور وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا.بعض دفعہ بچے کی Late آنکھ کھلتی ہے یعنی وہ زیادہ دیر ہو جاتی ہے تو کھانا بھی جلدی میں کھاتا ہے لیکن قادیان کے بچے پھر تجد بھی جلدی میں پڑھتے تھے.یہ نہیں کرتے تھے کہ اب تہجد پڑھنے کا وقت نہیں رہا صرف کھانا کھائیں بلکہ اگر کھانے کے لئے تھوڑا وقت ہے تو تہجد کے لئے بھی تھوڑا وقت تقسیم کر دیا کرتے تھے.دونفل جس کو عام طور پر ٹکریں مارنا کہتے ہیں اس طرح کے نفل پڑھے اور اسی طرح کا کھانا کھایا یعنی دو لقمے جلدی جلدی کھالئے.لیکن انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ روحانی غذا کی طرف بھی توجہ دیں اور جسمانی غذا کی طرف بھی توجہ دیں اور یہ انصاف ان کے اندر پایا جاتا تھا جو ان کو بچپن سے ماؤں نے دودھ میں پلایا ہوا تھا.اس لئے وہ نسلیں جو قادیان میں پل کے بڑی ہوئیں ان میں تہجد اور رمضان کا چولی دامن کا ساتھ سمجھا جاتا تھا.کوئی وہم بھی نہیں کر سکتا تھا کہ بغیر تہجد پڑھے بھی روزہ ہوسکتا ہے.ہاں کچھ ان میں سے ایسے بھی تھے جو تہجد کے وقت اٹھ نہیں سکتے تھے اور کچھ ایسے تھے جو صرف تجد نہیں پڑھنا چاہتے تھے بلکہ قرآن کریم کی تلاوت بھی سننا چاہتے تھے.چنانچہ ایسے احباب کے لئے یا مردوزن کے لئے تراویح کا انتظام ہوا کرتا تھا.نماز تراویح روحانی تربیت کا ایک اہم ذریع تراویح کے متعلق یہ روایت آتی ہے کہ تراویح کی نماز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جاری ہوئی اور اس کے متعلق بعض دفعہ بعد میں اعتراضات بھی ہوئے خصوصاً جو لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پسند نہیں کرتے تھے.انہوں نے طعن زنی کے طور پر تراویح کو عمری سنت کہنا شروع کر دیا.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ تراویح کی بنیاد خود حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں پڑ چکی تھی.چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف میں باجماعت نوافل پڑھانے شروع کئے.صرف چند دن ایسا کیا اور اس کے بعد اس خیال سے کہ امت میں یہ فرض نہ سمجھ لیا جائے اس کو ترک فرما دیا.چنانچہ روایت آتی ہے کہ چوتھے یا پانچویں روز جب صحابہ رضی اللہ ھم پھر ا کٹھے ہوئے تو انہوں نے بلند آواز سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے کی خاطر یا یہ خیال کر کے کہ کسی دوسرے کام میں مصروف ہوں گے ، صلوۃ صلوۃ بھی کہنا شروع کر دیا.لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف نہیں لائے اور پھر دوسرے دن وضاحت فرمائی کہ میں عمداً نہیں آیا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ پھر بعد میں آنے والوں پر بہت بوجھ پڑ جائے گا، تکلیف مالا يطاق ہو

Page 372

مشعل راه جلد سوم 368 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی جائے گی.پس سنت کی بنیاد تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ڈال دی تھی.حضرت عمرؓ نے صرف ان مزدوروں کی خاطر جو بہت تھک جایا کرتے تھے اور صبح ان کے لئے اٹھنا ممکن نہیں ہوتا تھا ایسا کیا کہ صبح تہجد پڑھنے کی بجائے وہ پہلے ہی پڑھ لیا کریں.اور بالعموم تراویح کی یہ رکعتیں اس زمانہ میں ہیں ہمیں تک بھی پڑھی جاتی تھیں جبکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت عموما یہ ہے کہ آپ آٹھ رکعتیں پڑھتے تھے.پھر دو رکعتیں وتر کی اور پھر ایک رکعت ساری نماز کو وتر بنانے کے لئے پڑھتے تھے.تو گویا گیارہ رکعتوں کی سنت بالعموم ثابت ہے اسی لئے جماعت احمدیہ میں بھی یہی طریق ہے.بچوں کو بتائیں کہ تراویح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے قادیان میں ہمیں گیارہ رکعتیں ہی سکھائی جاتی تھیں اور رمضان کے علاوہ اس سے کم کا بھی ذکر ملتا ہے مثلاً چار نوافل اور پھر پہلے دور کعتیں اور پھر ایک وتر بنانے کی رکعت اس طرح چار نوافل اور دو اور ایک تین کل سات رکعتوں کا بھی ذکر ملتا ہے.پس بچوں کو اگر گیارہ رکعتیں پڑھنے کی توفیق نہیں تو یہ سات رکعتوں والے نوافل پڑھنے شروع کر دیں اور ان کو بتائیں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت تھی.چنانچہ اس سے ان کے دل میں نوافل کے لئے دہری محبت پیدا ہوگی اور ذہن میں یہ بات جانشین ہو جائے گی کہ میں اس لئے پڑھ رہا ہوں کہ ہمارے آقا و مولا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس طرح پڑھا کرتے تھے.تربیت کا یہ بہت ہی اچھا موقع ہے اگر بچوں کو اس طرح سکھایا جائے تو یہ ہرگز مشکل نہیں ہے ہے.چنانچہ قادیان میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تراویح کے وقت بھی بعض لوگ اس لئے اکٹھے ہوتے تھے کہ صبح نہیں اٹھ سکتے یا کسی لحاظ سے کوئی دقت تھی مگر کچھ لوگ اس لئے بھی اکٹھے ہوتے تھے کہ تراویح میں پورے قرآن کریم کا دور ہو جائے گا اور ہر روز ایک پارہ سے کچھ زائد سننے کا موقع ملے گا.ان میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو پھر تہجد کے لئے بھی اٹھتے تھے.تو یہ تو اپنی اپنی توفیق کی بات ہے مصروفیات کی بھی بات ہے جس کو توفیق ملے اس کو تراویح کے لئے بھی لانا شروع کریں جہاں تراویح کا انتظام ہے.اور جہاں تک اس ( بیت الذکر) کا تعلق ہے اس میں تراویح کا انتظام ہے مگر تراویح میں یہ جو خیال کیا جاتا ہے کہ ضروری ہے کہ روزانہ پورا ایک پارہ پڑھا جائے یا کچھ زائد تا کہ 29 دنوں میں ایک دفعہ پورے قرآن کریم کا دور مکمل کیا جا سکے.اس قسم کا یہ خیال سختی کے ساتھ عمل کرنے والا خیال نہیں ہے کہ اس کے بغیر تراویح نہیں ہو

Page 373

369 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم سکتی.تراویح کی روح دراصل تہجد کا متبادل ہے یعنی وہ نوافل جو تہجد میں پڑھنے ہیں وہ آپ رات کو پڑھ لیں تہجد کے متعلق قرآن کریم نے جو اصولی تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ جس قدر بھی قرآن کریم میسر آ جائے پڑھ لیا جائے.میسر آنے سے مراد یہ ہے کہ ہر شخص کی اپنی توفیق ہے اپنا علم ہے جتنی سورتیں یاد ہیں اس کے مطابق وہ تہجد کے وقت پڑھ سکتا ہے ورنہ کتاب کھول کے تو نہیں پڑھ سکتا.پس یہ سنت جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہی جاری ہوئی اس میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک زائد حسن پیدا کرنے کی خاطر یہ بات پیدا کی.فرمایا اگر با جماعت تراویح کا انتظام کرنا ہی ہے تو کیوں نہ میں ایک قاری کو مقرر کر دوں.چنانچہ ایک قاری جو بہت ہی خوش الحان تھے ان کو آپ نے مقرر فرما دیا.ابھی یہ بھی قطعی طور پر ثابت نہیں ہے کہ وہ پورا قرآن کریم پڑھ لیا کرتے تھے مگر بالعموم نتیجہ یہی نکالا جاتا ہے کہ ان کو غالباً سارا قرآن کریم حفظ ہوگا اور سارے قرآن کریم کا دور کرتے ہوں گے.تو سارا دور ضروری بھی نہیں ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ سارے قرآن کریم کا دور مکمل کیا جائے.بعض بدعتیں بھی مسلمانوں میں پیدا ہونی شروع ہو گئیں.چنانچہ بعض جگہ قرآن کریم سامنے کھول کر رکھا جاتا ہے اور وہاں سے پڑھ کر تراویح کی جاتی ہے.حالانکہ باہر سے اگر قرآن کریم پڑھنا ہے تو تہجد کی نماز تو ختم ہوگئی اس کا تو کچھ بھی باقی نہ رہا.تہجد کی نماز تو اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتی کہ آپ کی توجہ کسی دوسری چیز کی طرف ہو اس لئے قرآن کریم کی جو روح اور اس کا منشا ہے اس کو پورا کرنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ مَا تَيَسَّرَ مِنَ القُرآنِ.قرآن کریم سے جو بھی میسر آجائے اس کو آپ پڑھیں.اس لئے خواہ مخواہ تکلفات سے کام نہ لیں بلکہ جس حد تک بھی حفاظ موجود ہیں اس حد تک قرآن کریم کی تلاوت کی جائے.ایک تو تنوع پیدا کرنے کے لئے اور دوسرے اس حکمت کے پیش نظر کہ بعض لوگوں کو بعض سورتیں یاد ہوتی ہیں، بعض دوسروں کو دوسری یاد ہوتی ہیں.آپ باریاں مقرر کر سکتے ہیں یعنی بجائے اس کے کہ ایک ہی آدمی ہمیشہ تراویح پڑھائے جماعت اس بات کا جائزہ لے کر مختلف دوستوں کو جتنی سورتیں یاد ہیں ان کو جمع کر کے یہ کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ قرآن کریم اس وقت سننے کا موقع مل جائے.تربیت اولا د کا ایک اور پہلو حفظ قرآن کریم اس ضمن میں تربیت کے ایک اور پہلو سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے بہت سے ایسے بچے ہیں جو ایسے ممالک میں پلنے والے ہیں جیسے انگلستان ہے یا دوسرے مغربی ممالک ہیں.جہاں وہ

Page 374

370 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم قرآن کریم کی بہت تھوڑی سورتیں حفظ کرتے ہیں.میں نے اس بارہ میں جوسرسری جائزہ لیا ہے اس سے معلوم ہوا ہے کہ بعض دفعہ تو سوائے قُلْ هُوَ اللهُ ( سورہ اخلاص) کے ان کو کوئی بھی سورۃ یاد نہیں ہوتی.اور یہ ایک بہت ہی نا پسندیدہ بات ہے.احمدیوں کو جس حد تک قرآن کریم حفظ ہو سکے حفظ کرنا چاہیے اور بالعموم اتنی کوشش تو کرنی چاہیے کہ سارا قرآن کریم انہیں تو ایک پارے کے برابر مختلف جگہوں سے حفظ ہواور اگر اتنی بھی توفیق نہیں تو بچوں کو کم سے کم چیدہ چیدہ اتنی سورتیں یاد ہو جانی چاہئیں کہ وہ مختلف نمازوں میں مختلف سورتیں پڑھ سکیں.عموماً وہ احمدی جن کی تربیت اس لحاظ سے نہیں ہوئی وہ سورہ فاتحہ کے بعد ہر رکعت میں قُلْ هُوَ الله ہی پڑھ لیتے ہیں اور وہ بھی ایک ایسی روٹین (Routine) بن جاتی ہے کہ ان کو قُلْ هُوَ اللهُ کی بھی کوئی سمجھ نہیں آتی کہ کیا پڑھ رہے ہیں.تنوع سے ذہن بیدار ہوتا ہے.سورۃ فاتحہ کے مضامین لامتناہی ہیں جب آپ سورہ فاتحہ کے بعد سورتیں بدلتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں توجہ خاص طور پر نئے مضمون کی طرف مرکوز ہو جاتی ہے.اب یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ پھر سورہ فاتحہ کا کیوں حکم ہے کہ وہ ہر رکعت میں پڑھی جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ ام القرآن ہے اور ہر دوسری سورۃ اس کے اندر شامل ہے لیکن سورہ فاتحہ ہر سورۃ میں یا ہر آیت میں شامل نہیں ہے اس لئے سورہ فاتحہ کے مضامین تو اتنے لامتناہی ہیں اتنے وسیع ہیں کہ اگر ایک انسان غور کی عادت ڈالے اور ساری عمر غور کر تار ہے تو سورہ فاتحہ کے مضامین اس کے لئے ختم نہیں ہو سکتے.نسلاً بعد نسل قوموں کے لئے یہ مضامین ختم نہیں ہو سکتے.قرآن کریم کی دیگر آیات میں بھی بہت گہرائی ہے بہت وسعت ہے مگر جب قرآن کریم میں سے بعض حصوں کا بعض سے مقابلہ کیا جائے تو ہر ایک کے متعلق بعینہ یہ بات صادق نہیں آتی اس لئے سورہ فاتحہ تو نماز کی جان ہے.اور سارے قرآن کریم کا خلاصہ ہے اسے تو بہر حال ہر صورت میں ہر رکعت میں پڑھنا ہے.مگر فرائض کی پہلی دورکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھنے کے لئے بچوں کو کم سے کم اتنی سورتیں یاد ہونی چاہئیں کہ وہ بدل بدل کر پڑھ سکیں.قرآن کریم کے آخر سے چھوٹی چھوٹی سورتیں یاد کرائی جاسکتی ہیں.اس وقت یہ موقع ہے آج کل آپ گھر میں مل کر اکٹھے روزے رکھیں اور بچوں کی تربیت کریں ان کو سورتیں یاد کروائیں.یاد کرنے کے لئے معین سورتیں دی جاسکتی ہیں اور اس کا تلفظ بھی ساتھ بتانا پڑے گا کیونکہ یہ تلفظ کی بہت کمزوری ہے.بعض دفعہ جماعتیں تربیت کے سلسلہ میں چھوٹے چھوٹے پمفلٹ تیار کر

Page 375

371 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم دیتی ہیں مثلاً ہوسکتا ہے انگلستان کی جماعت فوری طور پر بچوں کے لئے کچھ سورتیں چن کر ان کی اشاعت کا انتظام کرے اور ان کا ترجمہ ساتھ شائع کر دے.بعض دفعہ رومن (Roman) طرز تحریر میں اس کا تلفظ ادا کرنے کی بھی کوشش کی جاسکتی ہے مگر قرآن کریم ایسی چیز ہے جس میں تلفظ میں بہت زیادہ احتیاط چاہیے اس لئے محض رومن طرز تحریر میں اس کا تلفظ لکھنے پر آپ اکتفانہ کریں.بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ اس طریق پر جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں تلفظ آ گیا ہے بالکل غلط بھی پڑھ لیتے ہیں.عربی زبان تو ایسی ہے جہاں زیرز بر کی غلطی یا لمبا اور چھوٹا کرنے کی غلطی کے نتیجہ میں مضمون بالکل بدل جاتا ہے.اس لئے بچوں کو جو سورتیں بھی آپ یاد کروانا چاہیں توجہ سے یاد کروائیں گھروں میں خود یاد کروانی پڑیں گی.اگر گھروں میں ماں باپ کو توفیق نہیں تو جماعتوں کو ایسے چھوٹے چھوٹے مراکز بنا دینے چاہئیں جہاں زیادہ بوجھ ڈالے بغیر رمضان شریف میں چند سورتیں یاد کروائی جاسکیں اور ان کا تلفظ بھی اچھی طرح سکھایا جاسکے.رمضان المبارک میں تربیت اولاد پر خاص زور دیں رمضان میں جو مثبت اقدار ہیں ان میں ایک تو نوافل ہیں جن کا رمضان سے گہرا تعلق ہے.دوسرے صدقات ہیں جن کے ذریعہ غریب کی ہمدردی کی جاتی ہے.یہ مضمون بھی بدقسمتی سے ان علاقوں میں یعنی مغرب کے علاقوں میں فراموش ہو جاتا ہے کیونکہ اکثر ایسا معاشرہ ہے جس کی ضرورتیں حکومتیں پوری کر دیتی ہیں.پس غربت کا جو تصور ہمارے ہاں ملتا ہے وہ یہاں دیکھنے میں نہیں آتا.جو غریب ہیں وہ اور طرح کے غریب ہیں کچھ ایسے غریب ہیں جن کو ڈرگز (Drugs) کی لت پڑ گئی ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ فاقہ کش بن گئے ہیں.لیکن ڈرگز نہیں چھوڑیں گے یا شراب کے متوالے ہیں.ان کا حال یہ ہے کہ ایک دفعہ مجھے یاد ہے جب میں یہاں طالب علم تھا تو ایک شخص جو زمین پر ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا اس کو میں نے کچھ پیسے دیئے.میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ پیسے لیتے ہی وہ فورا یعنی شراب خانے میں داخل ہو گیا جو اس کے پاس ہی تھا.بعد میں مجھے بعض دوستوں نے بتایا کہ یہ تو بیٹھتے ہی (Pub) یب کے اردگرد ہیں تا کہ جو خیرات ملے اس کی کچھ شراب لے کر پی لیں.پس ایسے بھی غریب ہیں لیکن ہم تو ایسے غریبوں کے لئے صدقہ و خیرات نہیں کرتے جن کا ہمیں علم ہو کہ انہوں نے اپنی جان پر ظلم کرنا ہے ہاں لاعلمی میں ایسا ہو جائے تو الگ بات ہے.تاہم یہ بات تو واضح ہے کہ ایسے ممالک میں صدقہ و خیرات کی اہمیت کا احساس نہیں رہتا اور ذاتی طور پر غریب کی جو ہمدردی پیدا ہوتی ہے اس میں کمی آجاتی ہے.لیکن اگر

Page 376

372 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم ماں باپ بچوں کی بھول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو یاد کروانا شروع کریں کہ دنیا میں خدا کے بندے ایسے بھی ہیں جو شدید بھوک میں مبتلا ہیں فاقہ کشی کر رہے ہیں ان کی غربت کا یہ حال ہے وغیرہ.ایسی باتیں کرنی شروع کریں تو ان کے دل میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں اور پھر ان کو صدقات کی طرف متوجہ کریں اور ان سے کچھ لے کر صدقات کی مد میں دیں.بچے بہت ہی جلدی اثر قبول کرتے ہیں.بعض دفعہ اتنا قبول کرتے ہیں کہ انسان سمجھتا ہے کہ جتنی ضرورت تھی اس سے زیادہ انہوں نے رد عمل دکھایا ہے.بعض دفعہ وہ اپنا سب کچھ پیش کرنے کے لئے فوراً آمادہ ہو جاتے ہیں.اس لئے آپ بچوں پر اعتماد کریں خدا تعالیٰ نے ان کے اندر نیکی کا بیچ رکھا ہے نیکی کی نشو و نما کے لئے بڑی زرخیر مٹی عطا فرمائی ہے خواہ مخواہ لاعلمی کے نتیجہ میں یا عدم توجہ کے نتیجہ میں رمضان آتا ہے اور چلا جاتا ہے اور آپ اس کو ضائع کر دیتے ہیں اور آپ کے بچے وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں، بعد میں جب رمضان گزر جاتا ہے اس وقت صرف روزے رکھنا کام نہیں آتا کیونکہ روزوں کا وقت گزر چکا ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ بس روزے گئے اور سب باتیں ساتھ ختم ہو گئیں لیکن جو نماز میں آپ ان کو پڑھا دیں گے جو تہجد پڑھائیں گے جو سورتیں یاد کرائیں گے غریب کی جو ہمدردی ان کے دل میں پیدا کریں گے یہ رمضان کے ساتھ چلی جانے والی باتیں نہیں ہیں یہ ان کی زندگی کا حصہ بن جائیں گی ان کی زندگی کا سرمایہ بن جائیں گی.اس لئے رمضان کو اولاد کی تربیت کے لئے خصوصیت سے استعمال کریں.بچپن کی تربیت دائمی نقش چھوڑ جاتی ہے علاوہ ازیں بعض چیزوں سے منع ہونے کا حکم ہے وہ ساری باتیں وہی ہیں جن سے روز مرہ کی زندگی میں بھی پر ہیز لازم ہے مثلاً جھوٹ ہے لغو بیانی ہے وقت کا ضیاع ہے لیکن بعض چیز میں روزہ مرہ کی زندگی میں کسی حد تک قابل قبول ہو جاتی ہیں.اور یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان ہر چیز کو اپنے بہترین معیار کے مطابق ہر روز ادا کر سکے.لیکن رمضان المبارک میں جب معیار بلند کیا جاتا ہے تو مراد یہ ہے کہ جب رمضان گزر جائے تو معیار گرے بھی تو اتنا نہ گرے کہ پہلی سطح پر آپ واپس آجائیں بلکہ سطح بلند ہو جائے اس لئے انفرادی طور پر جب آپ بچوں کو ان امور کی طرف متوجہ کریں گے کہ آپ نے جھوٹ نہیں بولنا تو یہ کہ کر متوجہ کرنا ہے کہ جھوٹ تو رمضان کے بعد بھی نہیں بولنا لیکن رمضان میں اگر بولا تو پھر کچھ بھی حاصل نہیں ، تمہارے بھوکے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے جب آپ رمضان کے 30 دن ان کو جھوٹ نہ بولنے کی اہمیت یاد

Page 377

373 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم دلاتے ہیں تو ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے رہیں کہ رمضان تو ایسی برکتوں کا مجموعہ ہے.جو ایک مہینے کے اندر ختم نہیں ہوتیں بلکہ یہ دن سارے سال کے لئے تمہارے لئے ایک خزانہ لے کر آتے ہیں.اور ایسا رزق عطا کر جاتے ہیں جسے تم سارا سال کھاؤ.جھوٹ نہ بولنے کا یہ مطلب ہے کہ رمضان تمہیں متوجہ کر رہا ہے اور رمضان کے گزرنے کے بعد بھی جھوٹ نہیں بولنا اور اس بات کی کوشش کرو کہ جب بھی جھوٹ کی طرف ذہن جائے تو یاد کیا کرو کہ آج تو رمضان ہے اور جب رمضان کا سوچو گے تو ساتھ یہ بھی سوچا کرو کہ یہ تو پریکٹس کا وقت ہے آئندہ بھی جھوٹ نہیں بولنا.اس طرح پیار کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتیں بچوں کو سمجھائیں جائیں تو وہ سمجھتے ہیں اور بعض دفعہ اس کو اچھی طرح سے مضبوطی سے پکڑ لیتے ہیں.میرا ذاتی طور پر یہی تجربہ ہے کہ بہت سی ایسی باتیں جو بچپن میں اس طرح سمجھائی گئیں وہ ہمیشہ کے لئے دل پرنقش ہو گئیں.اور بعد میں آنے والی جو بڑی بڑی نصیحتیں ہیں وہ اتنا گہرا اثر نہیں کر سکیں جتنا بچپن کی چھوٹی چھوٹی باتیں جو دل پر اثر کر جاتی ہیں وہ ایک نقش دوام بن جاتی ہیں اس لئے اس عمر سے آپ کو استفادہ کرنا چاہیے.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ توجہ دلائی تھی کہ آپ اپنی زندگی پر غور کر کے دیکھیں آپ کی بہت سی خوبیاں جو خدا نے آپ کو عطا کی ہیں ان کی بنیادیں بچپن میں ڈالی گئی ہیں.جو رسوم ایک دفعہ دل پر مرتسم ہو جائیں یا جو تحریریں بچپن میں لکھی جائیں وہ وقت کے ساتھ مٹنے کی بجائے مضبوط ہوتی چلی جاتی اور زندگی کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں.بعد کے زمانے میں تحریریں بنتی بھی ہیں اور مٹ بھی جاتی ہیں لیکن بچپن میں خدا تعالیٰ نے یہ خاص بات رکھی ہے چنانچہ وہ لوگ جو بعد میں ذہنی طور پر بیمار ہو جاتے ہیں ان کی یادداشت نہیں رہتی ایسے بیمار سے آپ بات کر کے دیکھیں اس کل کی بات یاد نہیں ہوگی آج کی بات بھی یاد نہیں ہو گی لیکن بچپن کی باتیں ساری یاد ہوں گی اور ایسی وضاحت کے ساتھ یاد ہوتی ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.اس سے اس وقت جب آپ بچپن کی باتیں کر رہے ہوں آپ و ہم بھی نہیں کر سکتے کہ وہ ذہنی طور پر بیمار ہے.لیکن جب وہ آپ سے سوال کرے گا کہ تو نے مجھے کھانا کھلا دیا ؟ حالانکہ آدھا گھنٹہ پہلے آپ نے کھانا کھلایا ہوگا یا وہ کہے گا پانی پلا دیا تھا ؟ حالانکہ آپ نے پانی بھی پلایا ہو گا تب آپ حیران ہوں گے کہ یہ کیا با تیں کر رہا ہے اس کا ذہن فوری باتیں یا درکھنے کے قابل ہی نہیں رہا.تو اس لحاظ سے خدا تعالیٰ نے خصوصیت سے یادوں میں یہ سلسلہ پیدا کیا ہے کہ بچپن کی یاد میں وقت کے ساتھ گہری ہوتی چلی جاتی ہیں ملتی نہیں ہیں.اور یادوں سے مراد وہ یادیں ہیں جن کا تعلق محض دماغ سے نہ ہو دل سے ہو گیا ہو.

Page 378

374 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم چنانچہ آپ جب بچپن کی یادوں پر غور کریں گے تو ہمیشہ آپ یہ محسوس کریں گے کہ وہی یا دیں پختہ ہیں جن کا دل کے ساتھ کوئی جوڑ پیدا ہو گیا تھا اور وہ مستقل ہوگئی ہیں جن یادوں کا دل سے جوڑ نہیں ہوا آپ وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں.اس لئے رمضان شریف میں جو یا دیں آپ نے مستقل بنانی ہیں ان کا دل سے تعلق قائم کریں.اللہ تعالیٰ کی محبت کے حوالے سے باتیں کریں.حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے حوالے سے باتیں کریں.بنی نوع انسان غریب کی ہمدردی اور اس کی محبت کے حوالے سے بات کریں پھر جو باتیں آپ بچوں کو سکھا دیں گے وہ بچوں کے دل میں ایک دائمی نقش بن جائیں گی پھر وہ کبھی نہیں مٹ سکیں گی اس لئے یہ جو برائیوں سے روکنے والی باتیں ہیں ان کا بھی اس سے تعلق پیدا کریں.بچے وقت ضائع کرتے ہیں اس کے متعلق کوئی ایسی باتیں ان کو بتائی جائیں جو انبیاء اور بزرگوں کی ذات سے تعلق رکھنے والی ہیں کہ وہ کس طرح اپنے وقت کا استعمال کرتے ہیں.وقت ضائع نہیں کیا جاتا اسے اچھی چیزوں پر صرف کرنا چاہیے.پس ہر ایک کے اپنے اپنے ڈھنگ ہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی ڈھنگ عطا فرمایا ہوا ہے.اگر وہ بالا رادہ کوشش کرے تو اپنے بچوں کو اس مہینے میں بہت کچھ سکھا سکتا ہے.چنانچہ جب یہ مہینہ ختم ہو گا تو اس کا نتیجہ دیکھ کر آپ حیران ہوں گے کہ اللہ کے فضل کے ساتھ آپ کی نسل پہلے سے بہت بہتر معیار پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا میں جماعتیں ہر رمضان میں پہلے سے اونچے معیار پر آجائیں گی.اس میں شک نہیں کہ رمضان کے بعد معیار ضرور گرتا ہے مگر کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اتنا نہ گرے کہ پہلی منزل سے بھی نیچے چلا جائے.جہاں آپ رمضان میں داخل ہوئے تھے جب رمضان سے نکلیں تو اس مقام سے بالا مقام ہو اس سطح سے اوپر کی سطح ہو.یہ ہے وہ مقصد جو پیش نظر رہنا چاہیے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس طرح روزانہ کچھ نہ کچھ وقت دیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی اگلی نسلوں کی تربیت کے لئے بہتر انتظام ہو جائے گا.(ضمیمہ ماہنامہ خالد مئی 1988ء)

Page 379

مشعل راه جلد سوم 375 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جولائی 1988ء جماعت کی آئندہ صدی اور نماز کی اہمیت تمام عبادتوں کی روح نماز ہے.انسانی پیدائش کا مقصد نماز سے حاصل ہوتا ہے نماز کے متعلق نسلوں کی ذمہ داری اور مغربی ممالک جماعت کے عمومی اخلاص کا معیار بلند ہوا ہے....میرا دل حمد سے بھر جاتا ہے جب تک اولادیں نمازی نہ بن جائیں اس وقت تک احمدیت کے مستقبل کے متعلق خوش آئند امنگیں رکھنے کا ہمیں کوئی حق نہیں عد جس حالت میں ہم آج اپنے بچوں کو پاتے ہیں یہ ہر گز اطمینان بخش نہیں ہر باپ کو اپنی بیوی اور بچوں کا نگران ہونا چاہیے و اسماعیلی صفت اپنے اندر پیدا کریں اپنی بیویوں کی نمازوں اور اپنے بچوں کی نمازوں کی طرف متوجہ ہوں گہرائی سے اپنی اولاد کا جائزہ لیں پھر اپنا جائزہ لیں اور پھر دونوں مل کر دعائیں کرتے ہوئے اس سفر کو آگے بڑھاتے جائیں ہو کبھی نہ بھولیں کہ اگر کامیاب نصیحت کرنی ہے تو آپ کو ہمیشہ اپنی بیوی اپنے بچوں کے قریب رہنا ہوگا

Page 380

مشعل راه جلد سوم 376 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 381

مشعل راه جلد سوم 377 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ العنکبوت آیت 46 کی تلاوت فرمائی.اس کے بعد فرمایا:- نماز سب سے زیادہ اہم ہے جماعت احمدیہ کی تاریخ کے پہلے سو سال عنقریب پورے ہونے کو ہیں.جوں جوں اگلی صدی قریب تر آتی چلی جارہی ہے میں جماعت کو مختلف رنگ میں بعض تربیتی امور کی طرف متوجہ کر رہا ہوں اور اس سلسلے میں گزشتہ ایک سال سے مسلسل ایک مربوط مضمون کی شکل میں یکے بعد دیگرے کئی خطبات دیئے لیکن ان سب میں سب سے زیادہ اہم امر جس کی طرف آج میں دوبارہ جماعت احمد یہ عالمگیر کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ نماز با جماعت کے قیام کے سلسلے میں ہے.تمام عبادتوں کی روح نماز ہے انسانی پیدائش کا مقصد نماز ہے اور نماز سے حاصل ہوتا ہے نماز میں ہر قسم کی فلاح کی کنجیاں ہیں اور جیسے جیسے انسان نماز میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے فلاح کی مزید کنجیاں عطا ہوتی رہتی ہیں.میں نے عمد لفظ کنجی استعمال نہیں کیا بلکہ جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے.کیونکہ میرا تجربہ ہے کہ نماز کی کیفیت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ انسان کو اللہ تعالیٰ نئے امور کا فہم عطا کرتا چلا جاتا ہے اور نئے مضامین اس پر کھلتے چلے جاتے ہیں اس ضمن میں حضرت اقدس بانی سلسلہ کے ارشادات میں سے متعدد اقتباسات میں جماعت کے سامنے پہلے رکھ چکا ہوں لیکن آج زیادہ تر توجہ نماز کی ابتدائی منازل کی طرف دلانا چاہتا ہوں.آئندہ نسلوں کی ذمہ داری کیونکہ میں نے بارہا اپنے سفر کے دوران خصوصاً مغرب کے ممالک میں یہ مشاہدہ کیا ہے کہ جماعت

Page 382

378 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم احمدیہ کا ایک طبقہ ایسا ہے جو ابھی تک نماز کی ابتدائی حالتوں پر بھی قائم نہیں ہو سکا.انگلستان میں بھی میں نے عمومی جائزہ لیا اور بعض خاندانوں سے تفصیلی گفتگو بھی کی ان کے بچوں کے حالات معلوم کئے تو مجھے یہ دیکھ کر بہت تکلیف پہنچی کہ ہم ابھی تک نماز کے سلسلے میں اپنی نسلوں کی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کر سکے اور یہی وہ امر ہے جو میرے لئے پہلی صدی کے آخر پر سب سے زیادہ فکر کا موجب بن رہا ہے.جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا اگر جماعت احمد یہ انگلی صدی میں اس حال میں داخل ہو کہ ہماری انگلی نسلیں نماز سے غافل ہوں.یہ ایک ایسی فکر انگیز بات ہے اور ایسی قابل فکر بات ہے کہ جب تک ہر دل میں اس کی فکر پیدا نہ ہو میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآنہیں ہوسکا.اور بار بار توجہ دلانے کے باوجود جس رنگ میں یہ فکر دلوں میں پیدا کرنی چاہتا ہوں میں دیکھ رہا ہوں کہ اس رنگ میں یہ فکر بہت سے دلوں میں پیدا نہیں کر سکا.جماعت کا عمومی اخلاص کا معیار بلند ہوا ہے اور اس کی حفاظت کا طریق جہاں تک جماعت کے عمومی اخلاص کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ابتلاء کے موجودہ دور میں جماعت کے اخلاص کا عمومی معیار بہت بلند ہوا ہے اور نیک کاموں میں تعاون کی روح میں ایک نئی جلا پیدا ہوگئی ہے.ایک آواز پر لبیک کہنے کے لئے کثرت کے نئی ساتھ دل بے چین ہیں جب بھی جماعت کو نیکی کی طرف بلایا جاتا ہے جس طرح اخلاص کے ساتھ اس آواز پر جماعت لبیک کہتی ہے اس سے میرا دل حمد سے بھر جاتا ہے.لیکن یہ اخلاص فی ذاتہ کچھ چیز نہیں اگر اس اخلاص کے نتیجے میں خدا تعالیٰ سے ایک مستقل تعلق پیدا نہ ہو جائے.یہ اخلاص اپنی ذات میں محفوظ نہیں.اگر اس اخلاص کو نماز کے اور عبادت کے برتنوں میں محفوظ نہ کیا جائے اس لحاظ سے یہ اخلاص ایک آنے جانے والے موسم کی شکل اختیار کر سکتا ہے بعض دفعہ سخت گرمیوں کے بعد اچھا موسم آتا ہے ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے آتے ہیں بعض دفعہ سخت سردی کے بعد خوشگوار موسم کے دور آتے ہیں لیکن یہ چیزیں آنے جانے والی ہیں ٹھہر جانے والی نہیں عبادت کوئی موعی کیفیت کا نام نہیں.عبادت ایک مستقل زندگی کا رابطہ ہے.عبادت کی مثال ایسی ہے جیسے ہم ہوا میں سانس لیتے ہیں کئی قسم کے زندہ رہنے کے طریق ہیں جو انسان کو لازم کئے گئے ہیں مگر ہوا اور سانس کا جو رشتہ زندگی سے ہے ایسا مستقل ، دائگی ، لازمی اور ہرلمحہ جاری رہنے والا رشتہ اور کسی چیز کا نہیں.پس عبادت کو یہی رشتہ انسان کی روحانی زندگی سے ہے.یہ عبادت ذکر

Page 383

مشعل راه جلد سوم 379 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ الہی ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا.اس لئے خصوصیت کے ساتھ آج پھر جماعت کو نماز کی اہمیت کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.آئندہ نسلوں کی نماز کی حالت پر غور کریں میں جانتا ہوں کہ اکثر احباب جو اس مجلس میں حاضر ہیں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نمازوں کے پابند ہیں مگر میں حال کے موجودہ دور کی بات نہیں کر رہا میں مستقبل کی بات کر رہا ہوں.وہ لوگ جو آج نمازی ہیں جب تک ان کی اولادیں نمازی نہ بن جائیں جب تک آئندہ نسلیں ان کی آنکھوں کے سامنے نماز پر قائم نہ ہو جائیں اس وقت تک احمدیت کے مستقبل کے متعلق خوش آئند امنگیں رکھنے کا ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا اس لئے بالعموم ہر احمدی بالغ سے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو میں بڑے عجز کے ساتھ یہ استدعا کرتا ہوں کہ اپنے گھروں میں اپنی آئندہ نسلوں کی نمازوں کی حالت پر غور کریں ان کا جائزہ لیں ان سے پوچھ لیں اور روز پوچھا کریں کہ وہ کتنی نمازیں پڑھتے ہیں.معلوم کریں کہ جو کچھ وہ نماز میں پڑھتے ہیں اس کا مطلب بھی ان کو آتا ہے یا نہیں اور اگر مطلب آتا ہے تو غور سے پڑھتے ہیں یا اس انداز سے پڑھتے ہیں کہ جتنی جلدی بوجھ گلے سے اتار پھینکا جاسکے اتنی جلدی نماز سے فارغ ہو کر دنیا طلبی کے کاموں میں مصروف ہو جائیں.اس پہلو سے اگر آپ جائزہ لیں اور حق کی نظر سے جائزہ لیں گے سچ کی نظر سے جائزہ لیں گے تو مجھے ڈر ہے کہ جو جواب آپ کے سامنے ابھریں گے وہ دلوں کو بے چین کر دینے والے جواب ہوں گے.چائی کے اقرار کی جرات پیدا کریں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسی بات ، ایسی مجلس میں کرنا جس میں تمام دنیا سے مختلف ممالک کے نمائندے آئے ہوں یا اچھا اثر پیدا نہیں کرے گا.کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ اقرار جو تمام دنیا میں تشہیر پاسکتا ہے اور مخالف اس سے خوش ہو سکتے ہیں ایسی مجلس میں کرنا کوئی اچھی بات نہیں مگر مجھے اس کی ادنیٰ بھی پرواہ نہیں کہ دنیا سچائی کے اقرار کے نتیجے میں ہمیں کیا کہتی ہے.جب تک آپ سچائی کے اقرار کی جرات پیدا نہیں کرتے آپ کی دینی حالت درست نہیں ہو سکتی.آپ کی اخلاقی حالت درست نہیں ہوسکتی.آپ کی روحانی حالت درست نہیں ہو سکتی.ہمارا حال سب خدا کے سامنے ہے اور خدا کی نظر کے سامنے ہم ہمیشہ کھلی ہوئی کتاب کی

Page 384

380 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم طرح پڑے رہتے ہیں اس لئے ہمارے جو بھی اقرار ہیں وہ اپنے خدا کے حضور ہیں اور یہ شعور بیدار کرنے کے لئے جماعت کے دلوں کو جھنجوڑنے کے لئے میں نے ضروری سمجھا کہ آج اس خطبے میں آپ کو خصوصیت کے ساتھ اس مرض کی طرف توجہ دلاؤں جس کے متعلق خطرہ ہے کہ ہماری انگلی نسلوں کے لئے بعض صورتوں میں مہلک ثابت ہوسکتا ہے.اپنے بچوں کے متعلق ذمہ داری کا احساس جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خصوصیت کے ساتھ مغربی ممالک میں یہ مرض پایا جاتا ہے اور بڑھ رہا ہے لیکن جب میں غور کی نظر سے مشرقی ممالک کو دیکھتا ہوں تو ان کی حالت بھی اس سے کوئی بہت زیادہ بہتر نہیں پاتا.یہاں تک کہ میں جب پاکستان کے حالات پر نظر ڈالتا ہوں تو وہاں کی جماعتوں کی حالت بھی کئی پہلوؤں سے قابل فکر دیکھتا ہوں.مجھے خدام الاحمدیہ کے ساتھ وابستہ رہنے کے نتیجے میں اور وقف جدید کے ساتھ وابستہ رہنے کے نتیجے میں اور انصار اللہ کے ساتھ وابستہ رہنے کے نتیجے میں دیہاتی جماعتوں میں پھرنے کا ایک لمبا تجربہ ہے.مجھے دیہاتی جماعتوں کے حالات کو قریب کی نظر سے دیکھنے کا موقع ملا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے میرا مزاج ایسا بنایا ہے کہ اعداد و شمار پر نظر رکھنے کی عادت ہے اس لئے میں نے تمام دوروں میں ہمیشہ تقریر میں کرنے کی بجائے تفصیل سے حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی.بعض مجالس میں تقریر کے پروگرام کے ہوتے ہوئے بھی اس پروگرام کو منسوخ کیا اور نو جوانوں اور بچوں کو کھڑا کر کے ان سے پوچھنا شروع کیا کہ بتاؤ تم نماز میں کیسے ہو تمہیں نماز پڑھنی آتی بھی ہے یا نہیں.آتی ہے تو پڑھ کے سناؤ اور سناتے ہو تو پھر اس کا مطلب بھی بتاؤ غرضیکہ بڑی تفصیل سے میں نے جائزہ لیا ہے اور مسلسل ان دوروں کے وقت جماعت کو متنبہ کرتا رہا ہوں کہ جس حالت میں ہم آج اپنے بچوں کو پاتے ہیں یہ ہرگز اطمینان بخش نہیں ہے.اس لئے محض مغرب کو متہم کرنا بھی مناسب نہیں.مغرب کے ملکوں کے بعض ایسے زائد محرکات ہیں جو نماز سے غیر اللہ کی طرف کھینچنے میں مزید ابتلاء پیدا کرتے ہیں.لیکن مشرقی ممالک میں کچھ اور قسم کے محرکات ہیں وہاں کی غربت، وہاں کی بدحالی، وہاں کے موسموں کی کڑی آزمائشیں، بہت سے ایسے محرکات ہیں جن کے نتیجے میں انسان میں بسا اوقات گھر واپس آنے کے بعد یہ طاقت نہیں رہتی کہ اپنی اولاد کی طرف صحیح توجہ دے سکے.اس لئے تمام دنیا میں جہاں جہاں بھی جماعت احمد یہ اللہ کے فضل سے اس وقت موجود

Page 385

381 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہے، اس وقت 114 سے زائد ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ قائم ہو چکی ہے.ہمیں آج کے بعد کا بقیہ سال خصوصیت سے نماز کو قائم کرنے کی کوششوں میں صرف کرنا چاہیے.تم میں سے ہر کوئی پوچھا جائے گا.یہ درست ہے کہ خدام الاحمدیہ کی ذمہ داریاں بھی ہیں انصار اللہ کی بھی ذمہ داریاں ہیں اور نظام جماعت کی من حیث الجماعت بھی ذمہ داریاں ہیں لیکن حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تربیت کا ہمیں گر سکھایا وہ یہ نہیں تھا کہ تم اپنے نظام کے اوپر اپنے تربیت کے کاموں کا انحصار کرو بلکہ فرمایا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ که خبر دار تم میں سے ہر ایک سے اپنی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا.مسلمان اگر یا درکھتے تو کبھی بھی وہ انحطاط پذیر نہیں ہو سکتے تھے.ہر فرد بشر جو ایک گھر رکھتا ہے یا گھر سے بڑھ کر اپنے معاشرے میں کوئی حیثیت رکھتا ہے.ایسے ہر شخص پر حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اطلاق پاتا ہے اور کیسے خوبصورت انداز میں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرمایا.فرمایا تم میں سے ہر ایک ایک گڈریا ہے، مالک نہیں ہے راعٍ کا لفظ اُس گڈریے کے متعلق استعمال ہوتا ہے جولوگوں کی بھیڑیں لے کر ان کو چرانے کے لئے باہر جاتا ہے.تو یہ نہیں فرمایا کہ تم اپنی اولاد کے مالک ہو اور اپنی اولاد کے بارے میں تم پوچھے جاؤ گے یا جن لوگوں پر تمہارا اثر رسوخ ہے یا جس قوم میں تمہارا نفوذ ہے ان لوگوں یا اس قوم کے متعلق اس لئے پوچھے جاؤ گے کہ تم ان پر کوئی مالکانہ حقوق رکھتے ہو.فرمایا ہر گز نہیں.تم جس حیثیت میں بھی ہو.ایک چھوٹے دائرے میں ایک مقام تمہیں نصیب ہوا ہے، تمہارا مقام ایک گڈریے کا سا مقام ہے اور جو کچھ تمہاری رعیت ہے جو کچھ تمہارے تابع فرمان لوگ ہیں یہ سارے خدا کی ملکیت ہیں.خدا کی بھیڑیں ہیں اور جس طرح بھیڑوں کا مالک گڈریے سے ان کا حساب لیا کرتا ہے اور بعض دفعہ ایک ایک بھیڑ کو گن کر وصول کرتا ہے اور نقصان کے عذر قبول نہیں کرتا اسی طرح تم میں سے ہر ایک خدا کے حضور جواب دہ ہے.تم اپنی اولاد کے بھی مالک نہیں.یہ تمہارے سپر دامانتیں ہیں.اس لئے سب سے اہم ذمہ داری خود گھر والے کی ہے اور پھر حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے تفصیل سے یہ ذکر بھی فرمایا کہ گھر کی مالکہ بھی اپنے دائرہ اختیار میں مسئولہ ہوگی اس سے بھی پوچھا جائے گا.اور کلکم نے تو سارے بنی نوع انسان کو محیط کر لیا ہے.کسی قسم کا کوئی انسان بھی اس فرمان کے دائرہ کار سے باہر نہیں رہا اس لئے یہی وہ بہترین گر ہے، یہی وہ بہترین ارشاد ہے جس کو سمجھنے کے بعد اور جس پر عمل کرنے کے بعد ہم فی الحقیقت زندہ رہنے کا سبق سیکھ سکتے ہیں.اس لئے ہر وہ شخص جو کسی حیثیت سے کوئی اثر رکھتا ہے اُسے نماز کا نگران ہو جانا چاہیے.ہر باپ کو اپنی

Page 386

مشعل راه جلد سوم بیوی اور بچوں کا نگران ہونا چاہیے.382 حضرت اسمعیل علیہ السلام کی پاکیزہ عادت ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت اسمعیل علیہ الصلوۃ والسلام اپنے بیوی اور بچوں کو با قاعدہ مستقل مزاجی کے ساتھ نماز کی تلقین فرمایا کرتے تھے.بہت پرانی بات ہے ہزاروں سال پہلے کا واقعہ ہے تمام انبیاء قوم کو نصیحت کیا کرتے ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام اس معاملے میں ایسا دل ڈال کر ایسی جان ڈال کر نصیحت فرمایا کرتے تھے اور ایسے بے قرار رہتے تھے اس بارے میں کہ اللہ تعالیٰ کے پیار اور محبت کی نظر ان پر پڑی اور قرآن کریم کی دائمی کتاب میں ان کا ذکر محفوظ فرما دیا.اس سے ایک سبق بھی ہمیں ملتا ہے کہ ہم کوئی کام خواہ کیسے ہی دنیا کی نظر سے مخفی طور پر کریں.دنیا کی نظر سے اوجھل رہ کر بھی کریں، آباد شہروں کے بیچ میں کریں یا صحراؤں کے درمیان ایک چھوٹی سی بستی میں کریں.شہر کی گلیوں میں کریں یا اپنے گھر کے خلوت خانے میں کریں، خدا کی نظر ہر کام پر پڑتی ہے اور جس کام کو خدا قبولیت عطا فرماتا ہے اس کام پر محبت اور پیار کی نظر رکھتا ہے اور اس کام کو ضائع ہونے نہیں دیتا اس نصیحت کی جو جزاء آپ کو اخروی دنیا میں ملے گی وہ ایک الگ جزاء ہے لیکن آپ کی مثال کو قیامت تک کے لئے دنیا کے سامنے زندہ کر کے پیش کر دینا خود اپنی ذات میں ایک اتنی عظیم الشان جزا ہے کہ اس کی مثال کم دنیا میں دکھائی دیتی ہے.یہ نصیحت بچپن سے شروع کریں پس وہ اسماعیلی صفت اپنے اندر پیدا کریں اپنی بیویوں کی نمازوں کے متعلق متوجہ ہوں اپنے بچوں کی نمازوں کی طرف متوجہ ہوں.اپنی بچیوں کی نمازوں کی طرف متوجہ ہوں اور یا درکھیں کہ اس کام کو جب تک بچپن سے آپ شروع نہیں کریں گے یہ کام ثمر دار ثابت نہیں ہو گا اس محنت کا ویسا پھل آپ کو نہیں مل سکتا جیسا کہ آپ توقع رکھتے ہیں.یہ وہ دوسری نصیحت ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی جب آپ نے یہ فرمایا کہ بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دائیں کان میں اذان کہو.جب آپ نے یہ فرمایا کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے بائیں کان میں تکبیر کہو تو در حقیقت انسانی فطرت کا یہ گہرا راز ہمیں سمجھا دیا کہ تربیت کے لئے کسی خاص عمر کا انتظار نہیں کیا جاتا جو نہی بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے وہ تمہاری ذمہ

Page 387

383 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم داری بن جاتا ہے اور اس دن سے اس کی تربیت کا آغاز ہو جاتا ہے.اس مضمون پر اس سے پہلے بھی میں روشنی ڈال چکا ہوں کہ گزشتہ زمانوں میں تو ایک جاہل انسان یہ اعتراض کر سکتا تھا کہ یہ ارشاد بے معنی اور مہمل ہے کیونکہ پہلے دن کے بچے کو تو کچھ سمجھ نہیں آتا.وہ تو نہ زبان سمجھتا ہے نہ اشارے جانتا ہے.اپنے ماں باپ تک کو پہچان نہیں سکتا.اس کے کان میں اذان دینے کا کیا مطلب ہے.مگر آج کی تحقیق نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ معاملہ کھول دیا ہے اور اس مقدمے کو حل کر دیا ہے کہ بچہ نہ صرف یہ کہ ماں کے پیٹ سے باہر آنے پر فوری طور پر اثر قبول کرنے لگ جاتا ہے بلکہ اب تو سائنسدان یہ بات بھی دریافت کر چکے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں پیدائش سے پہلے بھی وہ بیرونی دنیا کے اثرات کو قبول کرتا ہے اس پر غور کرتے ہوئے میری توجہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور نصیحت کی طرف مبذول ہوئی.آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب میاں بیوی تعلقات قائم کرتے ہیں تو اس وقت بھی دعا کیا کرو.اس وقت بھی شیطان کے لمس سے محفوظ رہنے کی دعا کیا کرو اور خدا سے پناہ مانگا کرو تو معلوم ہوا کہ پیدائش کے بعد تربیت کا ایک خاص مرحلہ شروع ہوتا ہے لیکن دراصل پیدائش سے پہلے بھی تربیت کا ایک مرحلہ شروع ہو جاتا ہے اور بچہ بننے کے وقت یا اُس کے آغاز کے وقت یا اس کے آغاز کے امکان کے وقت بھی انسان کو اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور خدا تعالیٰ سے استدعا کرنی چاہیے.آئندہ آنیوالی نسلوں کے لئے دعا کریں پھر مزید میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ مضمون تو اس سے بھی زیادہ گہرا ہے اور اس سے بھی زیادہ وسیع تر ہے.انبیاء کی تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ وہ مدتوں بعد پیدا ہونے والی نسلوں کے لئے بھی دعا کیا کرتے تھے جن کا کوئی وجود نہیں تھا.وہ شہر مکہ جو آج تمام دنیا کے لئے مرجع خلائق ہے جب اس کے کھنڈرات کو از سر نو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بلند کرنا شروع کیا تو اُس وقت قیامت تک اپنی آنے والی نسلوں کے لئے دعائیں مانگیں پس حقیقت یہ ہے کہ تربیت کا آغاز بچے کے بڑے ہونے کے وقت کا منتظر نہیں ہوتا بلکہ اس کی پیدائش کے ساتھ اُس کی پیدائش سے پہلے بلکہ اس سے بھی پہلے شروع ہو جاتا ہے.یعنی آپ صرف اپنی اولاد کے لئے دعا نہ کریں بلکہ اولاد در اولاد اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی دعا کریں.

Page 388

مشعل راه جلد سوم 384 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی دعا کے بغیر خشک نمازی پیدا ہوں گے ان باتوں پر غور کرتے ہوئے میری توجہ پھر اس بات پر آ کر ٹھہر گئی کہ ہر بات کا مرکزی نقطہ تو دعا بنتی ہے.دعا کے بغیر کسی کوشش کو پھل نہیں لگتا.دعا کے بغیر کوئی محنت ثمر دار ثابت نہیں ہوتی.پس وہ ماں باپ جو اپنی اولاد کی تربیت میں دعا سے کام نہیں لیتے وہ جتنی محنت کریں حقیقت یہ ہے کہ ان کی محنت کو پھل نہیں لگ سکتا اگر دعا کے پانی کے بغیر خشک محنت کریں گے تو یاد رکھیں کہ وہ خشک نمازی پیدا کر دیں گے لیکن حقیقی عبادت کرنے والے پیدا نہیں کر سکتے.اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے جب میں نے اپنے تجربہ پر نظر ڈالی تو اس وقت مجھے سمجھ آئی کہ کیوں بعض سخت گیر ماں باپ کی اولاد نماز پر تو قائم ہوئی لیکن وہ لوگ نماز کی روح سے خالی رہے اور جس طرح ایک مشین گھومتی ہے یا ایک روبوٹ چلتا ہے جو بظاہر زندگی والے آثار رکھتا ہے لیکن حقیقت میں زندگی سے خالی ہوتا ہے.ایسی عبادتیں بھی ہو جاتی ہیں.پس آخری بات یا یوں کہنا چاہیے کہ پہلی بات جو آخری بھی ہے اور پہلی بھی ہے وہ یہی ہے کہ اپنی آئندہ نسلوں کو عبادتوں پر قائم کرنے کیلئے دعا کی طرف متوجہ ہوں اور دعاؤں میں ابتہال پیدا کریں.دعاؤں میں درد پیدا کریں دعاؤں میں گریہ وزاری پیدا کریں.دعاؤں میں خدا تعالیٰ آپ کی بے چینی و بے آرامی کو محسوس کرے اور وہ جان لے کہ آپ واقعہ اپنی اولادوں اور آئندہ دور تک آنے والی نسلوں کو خدا کے عبادت گزار بندے بنانا چاہتے ہیں.اگر آپ ایسا کریں گے تو آئندہ سفر اختیار کرنے کے لئے آپ صراط مستقیم کے کنارے پر کھڑے ہوں گے.آپ کے صراط مستقیم پر چلنے کا آغاز ہو جائے گا.پھر جوں جوں اس راہ میں قدم آگے بڑھائیں ہمیشہ دعا کو یاد رکھیں اور دعا سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہیں.دعا سے عجائب کام ہوتے ہیں.حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں.نصیحت کو اک نیا شعور ملتا ہے وہ نصیحت کرنے والا جو دعا کا عادی نہیں اور دعا سے خالی نصیحت کرتا ہے اس کی نصیحت میں جان نہیں ہوتی اس کی نصیحت میں روح نہیں ہوتی.اس کی نصیحت بعض دفعہ خوبیاں پیدا کرنے کی بجائے طرح طرح کی خرابیاں پیدا کر دیتی ہے ایسا شخص جو دعا کا عادی نہیں اور ہر لمحہ اس کی اپنے خدا پر نظر نہیں اس کی نصیحت بعض دفعہ خود اس کے لئے بھی ہلاکت کا موجب بن جاتی ہے.کیونکہ اس کی نصیحت کی خشکی اس کی روح کے پانی کو چوس جاتی ہے.اور رفتہ رفتہ وہ خود ایک مشین بن جاتا ہے.بسا اوقات ایک خشک نصیحت کرنے والا متکبر ہو جاتا ہے.بسا اوقات ایک خشک نصیحت کرنے والا متکبر بن کر نہ صرف خود خدا تعالیٰ کی راہوں سے دور چلا جاتا ہے بلکہ جن کو نصیحت کرتا ہے ان کو نیکیوں کی

Page 389

مشعل راه جلد سوم 385 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی طرف بلانے کی بجائے بدیوں کی طرف دھکیلتا ہے اور ایسی نصیحتیں نہ اس کے کام آتی ہیں اور نہ اُن کے کام آتی ہیں جن کو نصیحت کی جاتی ہے.خشک نصیحتوں والے ملک کئی ملک ہیں جو مثال کے طور پر آپ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ان میں خدا کے نام پر کئی تحریکات پہنچائی جارہی ہیں لیکن کوئی بھی اثر نہیں رکھتے.کیونکہ وہ نصیحتیں تقویٰ سے عاری ہیں وہ نصیحتیں دعا سے عاری ہیں.جماعت احمدیہ کو ایسا نہیں بننا.جماعت احمدیہ تمام دنیا کے لئے آج وہ آخری نمونہ ہے جو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کا احیاء ہے.اگر یہ نمونہ جماعت احمدیہ میں زندہ نہ ہوا تو ساری دنیا ہمیشہ کے لئے مر جائے گی.اس لئے حضرت بانی سلسلہ کے الفاظ میں میں کہتا ہوں کہ تم خدا کی وہ آخری جماعت ہو جس پر کائنات کے خدا کی نظر ہے.جس سے ساری دنیا کی زندگی وابستہ ہوچکی ہے اور یہ عظیم الشان کام دعا کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہ عظیم الشان کام ممکن نہیں ہے جب تک آپ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والی نسلیں اپنے پیچھے چھوڑ کر نہ جائیں جب تک ایسا نہ ہو کہ مرنے سے پہلے آپ کی نظریں اپنی اولاد کے چہروں پر اس طرح پڑ رہی ہوں کہ آپ کے دل سکینت واطمینان سے بھر جائیں کہ ہاں ہم نے خدا کی راہ میں عبادت کرنے والی اولا د پیچھے چھوڑی ہے.جب تک ان کا تقویٰ نہ آپ دیکھیں اس وقت تک آپ کی زندگی بھی بیکار ہے اور آپ کی موت بھی بے کار ہے.اس لئے اس امر کی طرف بہت زیادہ گہری توجہ دیں.ہر وقت بے قراری محسوس کریں کیوں آپ چین سے بیٹھتے ہیں جب آپ اپنی اولا دکو اپنے گھر میں بے نماز دیکھتے ہیں.آغا زسفرانجام سفر تو نہیں پھر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آغاز سر کوئی انجام سفر تو نہیں.یہ سفرتو ایسا ہے جس میں لامتناہی مراحل آتے ہیں.اب بظاہر اپنی اولا د کو اگر دعاؤں کی مدد سے نماز پر قائم بھی کردیں اور غور سے مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بہت سے نماز کے ایسے آداب ہیں جن سے وہ عاری ہیں.بہت سے نماز کے ایسے فوائد ہیں جو ان کو ملنے چاہئیں اور نہیں مل رہے نماز ان کی توجہ دنیا سے ہٹا کر دین کی طرف نہیں کرتی.ان کا دل اسی طرح دنیا میں اٹکا ہوا ہے جس طرح نماز پڑھنے سے پہلے اٹکا ہوا تھا.پس

Page 390

مشعل راه جلد سوم 386 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی جب ان باتوں کو آپ غور کی نظر سے دیکھیں گے تو پھر ان کی نمازوں کی حالت کو بہتر اور بہتر بنانے کی کوشش کرتے چلے جائیں گے.حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بعض پچھلے خطبات میں حضرت بانی سلسلہ کے اقتباسات پڑھ کر سنائے اور بڑی تفصیل سے مضمون کی گہرائی میں جا کر آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ نماز کا آغاز محض وہ مقصد نہیں ہے جس سے ہم ہمیشہ کی زندگی پاسکتے ہیں نماز کے آغاز کے بعد پھر آگے لامتناہی مراحل ہیں جو مسلسل جاری رہیں گے اور اس کے سوا کوئی اور صورت ممکن نہیں ہے.دنیا کا کوئی عبادت کرنے والا عبادت میں اپنے آخری مقام کو نہیں پاسکتا جب تک وہ اس مضمون کو نہ سمجھے کہ جس کی عبادت کی جاتی.اس کا کوئی آخری مقام نہیں ہے اور جب اس مضمون کو وہ سمجھ جاتا ہے تو پھر آخری منزل جس کی کوئی منزل نہیں، یعنی خدا تعالیٰ کی طرف مسلسل اور پیہم حرکت کا نام ہی نمازوں کی تعمیل یا نماز کے مقاصد کا حصول بن جاتا ہے.اس سے یہ راز ہمیں سمجھ آگیا کہ وہ نماز جو ایک حالت پر ٹھہر جاتی ہے وہ زندہ نماز نہیں رہتی.وہ نماز جس کی حالت آگے بڑھنے سے رُک جاتی ہے وہ یقینا زندگی کے پانی سے محروم ہونا شروع ہو جاتی ہے.عبادت ایک ایسا مضمون ہے جس میں کوئی ٹھہراؤ نہیں ہے چنانچہ جب اس پہلو کو خوب سمجھنے کے بعد آپ اپنی اولاد کی طرف متوجہ ہوں گے تو آپ اپنے نفس کی طرف متوجہ ہوں گے.پھر آپ کو حضرت بانی سلسلہ کے اس شعر کا مضمون سمجھ میں آئے گا کہ ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے پھر آپ کو قدم آگے بڑھانے پڑیں گے تاکہ آپ کی اولا د آپ کے پیچھے پیچھے اپنے قدم بڑھائے پھر یہ مضمون یک طرفہ نصیحت کا مضمون نہیں رہے گا آپ خوب سمجھ لیں گے اور اس بات کا عرفان حاصل کر لیں گے کہ آپ کو ہمیشہ اپنی نمازوں کی حالت کو پہلے سے بہتر بنانا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی اولا دکو اپنے پیچھے چلنے کے اشارے کرنے ہوں گے.اپنے پیچھے چلے آنے کی تلقین کرنی ہوگی اور نمازوں کے جو پھل آپ حاصل کریں گے ان پھلوں میں اپنی اولاد کو شریک کرنا ہوگا اس طرح ان کو یہ معلوم ہوگا کہ یہ کوئی محض دکھاوے کا بوٹا نہیں یہ وہ پھلدار درخت ہے جسے واقعہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں اور اس کے قرب اور اس کے پیار کے پھل لگتے ہیں.پھر یہ نمازیں شمر دار ہو جائیں گی پھر یہ نمازیں ہمیشہ نشو ونما پاتی رہیں

Page 391

مشعل راه جلد سوم 387 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی گی.پس نماز کی حقیقت کی طرف نظر کریں.اس راہ میں ہمت نہ ہاریں گہرائی سے اپنی اولاد کا جائزہ لیں پھر اپنا جائزہ لیں اور پھر دونوں مل کر دعائیں کرتے ہوئے اس سفر کو آگے بڑھاتے جائیں.اس راہ میں بہت ہی محنت درکار ہے.بہت سے مراحل آتے ہیں جن میں انسان تھک جاتا ہے.ہمت ہار دیتا ہے.سمجھتا ہے کہ کب تک میں یہ کام کرتا رہوں گا.بسا اوقات اپنی اولاد کو نصیحت کرتا ہے مہینوں سالوں اور اولاد ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتی بعض دفعہ دل میں سخت درد پیدا ہوتا ہے کہ میں کیا کروں کس زبان سے انہیں سمجھاؤں کہ عبادت میں تمہاری زندگی ہے.مگر بندہ عاجز ہے، بے بس ہے کوئی پیش اس کی نہیں جاتی.لیکن یا درکھیں ایسے موقعوں پر ہرگز مایوس نہیں ہونا اس وقت پھر یاد کریں کہ در حقیقت آپ کا تمام تر انحصار عاجزانہ دعاؤں پر ہے ایسی صورت میں جب آپ اپنی نصیحت کی ناکامی سے دل میں دکھ محسوس کریں وہ وقت خصوصیت کے ساتھ دعا کا وقت ہے.میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہتوں نے یہ تجربہ کیا ہوگا لیکن کئی ایسے بھی ہوں گے جن کو ذاتی طور پر شاید اس کا تجربہ نہ ہوا ہو اس لئے ان کو بتانے کی خاطر میں آپ کو بتا تا ہوں.مایوسی میں سے زندگی کا پانی میں نے بارہا اپنی زندگی میں یہ محسوس کیا ہے کہ مایوسی کے وقت مایوسی میں سے زندگی کا پانی نکلتا ہے اگر آپ دعا کی طرف متوجہ ہو جائیں.جب آپ کی کوششیں بے کار جارہی ہوں جب کوئی نتیجہ نہ نکل رہا ہو.اس وقت اگر آپ خدا کو الحاح کے ساتھ پکاریں، عاجزی اور خشوع کے ساتھ پکاریں تو انہی ناکامیوں میں سے مراد کا ایک ایسا چشمہ پھوٹتا ہے جو سبیل بن جاتا ہے جو ہمیشہ کے لئے آپ کو زندگی بخشتا ہے.پس اس روح کے ساتھ اپنی اولا دوں کو نمازوں کو پر قائم کریں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ کو آغاز بہر حال پہلے سبق سے کرنا ہوگا پہلے ان کو روز مرہ کی نمازوں کی عادت ڈالنی ہوگی.یہ کام سختی سے نہیں ہوگا لیکن یہ یاد رکھیں یہ کام سختی سے نہیں ہوگا.دعا کے بعد آپ کے دل میں ایک قسم کی نرمی پیدا

Page 392

مشعل راه جلد سوم 388 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ہو جائے گی.دعا کے بعد آپ کے دل میں ایک قسم کا عجز پیدا ہو جائے گا اور دعا کے نتیجے میں آپ کی اولاد کے دل بھی نرم ہوں گے آپ ان کو پیارا اور محبت سے سمجھائیں اور ضروری نہیں کہ پہلے دن ہی آپ کی اولا د پانچ وقت کی نمازی بن جائے ضروری نہیں کہ آپ کی اولا د جب پانچ وقت کی نمازی بن جائے تو وضو میں بھی ویسا ہی اہتمام کرتی ہو اور دیگر لوازمات میں بھی ویسا ہی اہتمام کرتی ہو.ایسی خواتین بھی ملیں گی آپ کو ایسی بچیاں بھی ملیں گی جو اپنے سنگھار کو بچانے کی خاطر تیم کر لیں گی اس وقت ان کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھیں اس وقت ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنائیں ورنہ آپ کی نصیحت سارا اثر کھو دے گی.آپ ان کے قریب آنے کی بجائے دور ہٹ جائیں گے اور دور کی آواز وہ اثر نہیں کرتی جو قریب کی آواز اثر کیا کرتی ہے.ایک محبت کرنے والا جو اپنے محبوب کے کان میں سرگوشی کرتا ہے دنیا کی بلند ترین آواز رکھنے والا بھی وہ اثر اپنی آواز میں نہیں رکھ سکتا جب اس کی آواز دور کی آواز ہوا کرتی ہے.یہ راز بھی نہ بھولیں اس لئے آپ قریب رہیں.یہ یاد رکھیں اور کبھی نہ بھولیں کہ اگر کامیاب نصیحت کرنی ہے تو آپ کو ہمیشہ اپنی بیوی اپنے بچوں کے قریب رہنا ہوگا روحانی طور پر اپنے دلی تعلقات کے لحاظ سے کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے آپ اور ان کے درمیان کوئی خلیج حائل ہو جائے.حوصلہ کریں، وسعت قلبی کا ثبوت دیں، ان کی کمزوریوں کو دیکھیں تو اپنی کمزوریاں بھی تو یاد کیا کریں آپ بھی کب پہلے دن سے ہمیشہ کے لئے نمازی بن گئے تھے.کئی مراحل میں سے آپ گزرے ہیں.کئی کمزوریاں ہیں جو آپ کی ذات میں موجود ہیں جن کے ساتھ آپ زندہ رہ رہے ہیں.جن کے ساتھ آپ نے ایک قسم کی صلح کر رکھی ہے.آخر وہ بھی تو انسان ہیں ان کے اندر بھی کمزوریاں ہیں ان کے اندر بھی ایسے جذبات ہیں جو بچپن کی عمر میں بعض دفعہ غیر اللہ کی طرف زیادہ مائل ہو جایا کرتے ہیں اور ان کی تادیب کی ضرورت ہے ان کو رفتہ رفتہ تربیت دے کر ایک خاص نہج پر چلانے کی ضرورت ہے اس لئے یہ شوخیاں اور تیزیاں اور تحقیر کی باتیں کام نہیں دیں گی حوصلہ کرنا ہوگا مگر حو صلے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنی آنکھیں بند کر لیں.میں نے دو طرح کے لوگ دیکھے ہیں بعض اپنی اولا د سے اس قسم کا حوصلے کا سلوک کرتے ہیں کہ وہ جو مرضی کرتی رہے ان کو پرواہ کوئی نہیں یہ حوصلہ نہیں ہے یہ تو بے حسی ہے یہ تو موت ہے.

Page 393

مشعل راه جلد سوم 389 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی اپنی اولاد کی بے دینی کا دکھ حوصلہ یہ ہے کہ دکھ محسوس کریں اور دکھ کے ساتھ رہیں اور اس دکھ کو برداشت کر کے پھر اخلاق کا ثبوت دیں.اگر آپ ان کمزوریوں کو دیکھیں اور آپ کی روح بے چین نہ ہو جائے تو خدا کی قسم آپ حوصلے والے نہیں آپ مُردہ ہو چکے ہیں تکلیف کی آزمائش کے وقت حوصلہ دکھانا اور اُن محرکات کے وقت غصے کو قابو میں رکھنا جبکہ انسان لا ز ما طیش کا شکار ہو جاتا ہے اس کو حوصلہ کہتے ہیں اور تربیت کے لئے اس حوصلے کی ضرورت ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دلگد از واقعہ حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک ایسے صحابی روایت کرتے ہیں جو ایک لمبے عرصے تک اسلام سے غافل رہے اور صحرا میں انہوں نے پرورش پائی اس لئے شہروں کے آداب اور اخلاق واطوار سے وہ نا واقف تھے.وہ کہتے ہیں کہ جب میں پہلی دفعہ مدینے میں حاضر ہوکر مسلمان ہوا، تو مجھے نہ تو شہری تہذیب و تمدن کا کوئی حال معلوم تھا نہ نماز کے آداب سے کوئی واقفیت تھی چنانچہ نماز کے دوران میں نے ایسی حرکتیں کیں جو نماز میں نمازی کو زیب نہیں دیتیں وہ کہتے ہیں کہ جب نماز ختم ہوئی تو اردگرد سے صحابہ کی نظریں مجھ پر اس طرح پڑیں جیسے مجھے کھا جائیں گی کیونکہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے اور وہ جانتے تھے کہ آپ کی نماز میں یہ حرکتیں خلل انداز ہوئی ہیں اور یہ چیز وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ صحابی کہتے ہیں میں نے محسوس کیا کہ جیسے وہ خونی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہے ہیں کہ یہ کیا خبیثانہ حرکتیں میں نے کیں.وہ کہتے ہیں میں نے خوف محسوس کیا لیکن اچانک میری نظر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں پیار بھرا ہوا تھا.ایسی محبت تھی ایسی شفقت تھی کہ جیسے ماں بہت ہی پیار کی حالت میں اپنے بچے کو دیکھ رہی ہو.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو نماز میں یوں نہیں کیا کرتے ، یوں کیا کرتے ہیں.آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ نماز کس طرح پڑھا کرتے ہیں.ایسی ایک نہیں دو نہیں بیسیوں مثالیں ہیں کہ بڑوں سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حوصلے کا ثبوت دیا.بڑوں کے ساتھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت اور حلم کا سلوک کیا اور چھوٹوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک فرمایا.جاہلوں کے ساتھ بھی عالموں کے ساتھ بھی.یہ وہ مربی ہے جو ساری دنیا کو زندہ کرنے پر مامور فرمایا گیا تھا.

Page 394

مشعل راه جلد سوم 390 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی اس مربی کے آثار کو اپنی ذات میں اپنے وجود میں جاری کرنا ہوگا اور اس مربی سے خود زندگی کے گر پانے ہوں گے اور زندہ کرنے کے گر سیکھنے ہوں گے اس لئے اپنی اولاد اور اپنی بیویوں کی تربیت میں ہر گز نہ عجلت سے کام لیں نہ سہل انگاری سے کام لیں یہ دونوں چیزیں مہلک ہیں نہ ان کی بیماریوں سے غافل ہوں نہ ان بیماریوں سے بے پرواہ ہوں اپنے احساس کو زندہ رکھیں اور اس دکھ کو زندہ رکھیں جو برائیوں کو دیکھنے کے نتیجہ میں ایک مومن کے دل میں لازمی پیدا ہوتا ہے.(ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید تمبر 1988ء)

Page 395

مشعل راه جلد سوم 391 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ کے پانچویں سالانہ یورپین اجتماع سے اختتامی خطاب (خلاصہ ) فرمودہ 9اکتوبر 1988ء اجتماعات میں شمولیت کی برکت اور فائدہ ذکر الہی کی مجالس میں فرشتوں کا نزول اور اس کے مشاہدات ربوہ میں مخالفین کی اجتماعات پر پابندی لگانے کی بزدلانہ کوشش اور اس کا پس منظر دینی معلومات کی تمام تر ذمہ داری تنظیموں پر عائد ہوتی ہے ہماری کھیلوں کا معیار دنیا کے معیاروں سے بہت پیچھے ہے اس کو بلند کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے.ماله....عالمی روحانی مقابلہ اور اس کے نشانات اس قسم کے روحانی مقابلے بعض دفعہ ہزاروں سال کے بعد نصیب ہوا کرتے ہیں.آپ خوش نصیب ہیں جو اس زمانے میں رہ رہے ہیں ☆ ☆ ☆

Page 396

مشعل راه جلد سوم 392 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 397

مشعل راه جلد سوم 393 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ کا پانچواں سالانہ یورپین اجتماع اسلام آباد ( لندن ) میں 9,8,7 /اکتوبر کو منعقد ہوا.اس میں گل 551 خدام نے شرکت کی.برطانیہ کے علاوہ جرمنی ، ہالینڈ اور ناروے وغیرہ سے خدام تشریف لائے.حضور نے تقسیم انعامات کے بعد جو خطاب فرمایا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے.حضور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے یورپین خدام الاحمدیہ کا اجتماع بخیر و خوبی اختتام کو پہنچ رہا ہے.جیسا کہ آپ نے سنا کہ اس اجتماع میں.یورپ سے جس قدر مہمانوں کی توقع تھی وہ کسی وجہ سے تشریف نہیں لا سکے اور ساتھ یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ برطانیہ سے بھی خدام کما حقہ شریک نہیں ہو سکے.اجتماعات میں شمولیت کا فائدہ حضور نے فرمایا: خدام وانصار کے اجتماعات میں شرکت کی کمی کا رجحان قابل تشویش ہے.ان میں شامل ہونے والوں کے اندر نئے ولولے نئی امنگیں جاگتیں ہیں اور جماعت پر اُن کا اعتقاد اور ایمان بہت بڑھ جاتا ہے.اور ان اجتماعات میں شامل ہونے والے بہت سے خاموش فیصلے کرتے ہیں.ہر اجتماع اور جلسہ سے جب مہمان واپس جاتے ہیں تو ان کے خطوں سے ان کے فیصلوں کا مجھے علم ہوتا ہے.جو ان کے دل خاموشی سے دور ان اجتماع کرتے ہیں اور پھر یہ فیصلے ان کی کایا پلٹ دیتے ہیں.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ذکر الہی کی مجالس میں فرشتوں کے نزول والی حدیث کے حوالے سے بتایا کہ ہر اجتماع میں شرکت کرنے والے ان سے بہت سی برکتیں پاتے ہیں کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس تمثیل کے ذریعہ یہ خوشخبری دے رکھی ہے کہ ان مجالس میں بلا ارادہ بیٹھنے والے بھی خدا کی رحمتوں اور برکتوں سے حصہ پاتے جاتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ یہ ہے تو تمثیل لیکن اس میں جو کچھ بیان فرمایا گیا ہے وہ بعینہ درست اور حق ہے اور ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ جماعت کے اجتماعات اور جلسوں میں وہ شامل ہونے والے بھی برکات پا جاتے ہیں جو کسی اور غرض سے آتے ہیں.اس ضمن میں بعض واقعات کا

Page 398

مشعل راه جلد سوم 394 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں چارسی آئی ڈی انسپکٹر احمدی ہوئے.حالانکہ وہ منفی مقاصد کے لئے اور رپورٹ کی تیاری کے لئے آئے ہوئے تھے.مگر ان اجتماعات کی برکت سے احمدی ہو گئے اور پھر مخلص احمدی رہے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے امریکہ اور افریقہ کے دورہ کے دوران اپنے ساتھ پیش آنے والے بعض واقعات کا بھی ذکر فرمایا اور بتایا کہ پروٹوکول اور دیگر کاموں کے لئے حکومت کی طرف سے ہمارے ساتھ آدمی لگائے گئے تھے لیکن وقت کے ساتھ دورہ میں ہی ان کے اطوار میں فرق پڑنے لگ جاتا.چنانچہ ایک ملک میں ایسے ہی دوافراد نے بیعت بھی کی.حضور نے فرمایا یہ واقعہ ایک دفعہ نہیں بارہا ہو چکا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 1400 سال پہلے تمثیلاً جو بات بتائی تھی بعض دنیا دار اور شک کی نظر سے دیکھنے والے سمجھتے ہوں گے کہ یہ محض کہانیاں ہیں کہاں فرشتے اترتے ہوں گے.لیکن ہم نے ایک دفعہ نہیں بیسیوں دفعہ اس کا مشاہدہ کیا ہے.یقیناً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بات آج بھی پوری ہورہی ہے اور کل بھی پوری ہوگی.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان اجتماعات میں شرکت کا رجحان پیدا کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ سے خدام وانصار کو بہت پہلے سے ہی ایسی مہم جاری کرنی چاہیے کہ کثرت سے ایسی مجالس میں خدام و انصار اور اسی طرح لجنہ بھی جب کہ ان کی مجلس ہو شامل ہوں.اگر ایسا ہوا تو اس کے نتیجہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کے فضل سے بہت نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوں گی.ربوہ میں اجتماعات پر پابندی لگانے کا پس منظر حضور انور نے ان اجتماعات پر غیر از جماعت کو بھی لانے کی تلقین فرمائی اور بتایا کہ ربوہ میں ایسے ہی آنے والوں میں سے ہر سال کچھ نہ کچھ بیعتیں ہو جایا کرتی تھیں.چنانچہ اسی وجہ سے ہمارے مخالفین نے ربوہ میں ہونے والے کھیلوں کے اجتماعات کے خلاف اعتراض کیا اور حکومت سے دل آزاری کا بہانہ بنا کر انہیں بند کر وا دیا گیا.حضور نے فرمایا ان کا اعتراض کھیلوں کی وجہ سے نہیں بلکہ کھیلوں کے ان اثرات کی وجہ سے تھا اور وہ جانتے تھے کہ احمدی خواہ کھیلوں کے لئے اکٹھے ہوں ان کے مذہبی اور روحانی مشاغل ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں.اسی وجہ سے آج ہمارے اسیران راہ مولیٰ جیلوں میں بکثرت احمدی بنا کر سنت یوسفی کو زندہ کر چکے

Page 399

مشعل راه جلد سوم 395 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی ہیں.اس لئے ان میں شرکت کو ہلکانہ سمجھیں اور یہ نہ سمجھا جائے کہ کچھ شامل ہو جائیں تو ٹھیک اور اگر شامل نہ ہوں تو کچھ فرق نہیں پڑتا.بلکہ بکثرت شرکت سے ان کے بہت اچھے نتائج ظاہر ہوں گے.مختلف مقابلوں کے معیار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ معیار کسی حد تک اچھا رہا ہے مگر ابھی بہت سا خلاء ہے اپنے معیار کو بہت بلند کرنے اور ان خلاؤں کو بھرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ ایک احمدی بچے کو جس قدر معلوم ہونا چاہیے ابھی اتنا اسے معلوم نہیں.دینی معلومات اور ذیلی تنظیم کی ذمہ داری حضور نے فرما یاوقتی میلانات تو بعض اوقات پلٹ جایا کرتے ہیں لیکن مستقل ضمانت تو منتظمین ہی کے ذریعہ دی جاسکتی ہے.اس لئے آج کے بعد خدام الاحمدیہ کو اس طرف پوری توجہ کرنی چاہیے اور بہت سے مستعد خدام کو علمی اور تربیتی کاموں کی طرف ڈالنا چاہیے کھیلوں کے معیار خدام کی توجہ کے محتاج نہیں کیونکہ جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں وہاں پہلے ہی سے اس کی طرف بہت توجہ ہے.مگر جہاں تک دینی معلومات کا اور حالت کا تعلق ہے.وہ تمام تر ہماری تنظیموں پر عائد ہوتی ہے.کھیلوں کے پہلو سے صرف بار بار خدام کو بتانے کی ضرورت ہے کہ آپ اپنی جسمانی صحت سے غافل نہ رہیں اور جہاں جہاں رہتے ہیں وہاں اپنے علاقہ یا اپنے سکول میں ہمت کے ساتھ یہ ارادہ کر کے ان میں حصہ لیں کہ آپ نے ایک احمدی کی حیثیت سے ان میں شامل ہونا ہے اور نام پیدا کرنا ہے تا کہ آپ کے نام کے ساتھ دین کا نام بھی روشن ہو.اس پہلو سے اگر حصہ لیں گے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت برکتیں آپ کو ملیں گی.کھیلوں کا معیار بلند کریں حضور نے فرمایا میں کل بھی اور آج بھی کھیلوں کے مقابلے دیکھتا رہا ہوں.میں نے جائزہ لیا ہے کہ ہماری کھیلوں کا معیار دنیا کے معیاروں سے بہت پیچھے ہے.فرق بہت زیادہ ہے اس کی توقع تو تھی ہی لیکن اس کے لئے اگر خاص طور پر خدام کو مختلف کھیلوں کے عالمی ریکارڈ سے وقتا فوقتا مطلع کیا جایا کرے تو اس سے ہمارے نو جوانوں کی کھیلوں کا معیار بہت بلند ہو جائے گا.اگر معلومات مہیا کی جائیں تو دلچسپی بھی بڑھتی ہے اور فائدہ بھی ہوتا ہے اور اپنا معیار جانچنے کا موقع ملتا ہے.اور اس طرح انسان آگے بڑھتا ہے.مباہلہ کے اعجازی نشانات آخر پر ایک اور مقابلے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ مباہلے کا مقابلہ ہے جو جاری ہو چکا

Page 400

مشعل راه جلد سوم 396 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ہے.ہر احمدی کو اس میں تماش بین کی طرح نہیں بلکہ حصہ لینے والوں کی طرح شامل ہونا چاہیے.آپ میں سے جتنے اس میں شامل ہوں گے اتنے ہی زیادہ برکتیں اور نشانات ظاہر ہوں گے.حضور نے فرمایا اس مباہلہ کے نتیجہ میں جب کہ خدا نے نصرت کے نشان دکھائے ہیں.دنیا بھر سے بکثرت بیعتوں کے خطوط ملنے لگے ہیں.ان کا تعلق صرف پاکستان و ہندوستان سے نہیں بلکہ نبی، امریکہ ، یورپ اور افریقہ سے بھی ہے اور لکھنے والے لکھتے ہیں کہ یہ اعجازی نشان دیکھ کر ہم پوری شرح صدر کے ساتھ شامل ہورہے ہیں.حضور نے فرمایا وہ لوگ جو براہ راست تکلیف کے ذریعہ پھل پانے سے محروم رہتے ہیں ان کے لئے اس موقع پر اس رنگ میں شامل ہونے کا ایک وقت میسر آگیا ہے.اس وقت میں وہ مباہلے کی تیاری کریں.حضور نے فرمایا نشانات کا سلسلہ جو جاری ہو چکا ہے وہ رکنے والا نہیں.کیونکہ جب خدا کی طرف سے یہ سلسلہ جاری ہو تو اس کا کوئی منتہی بھی ہوا کرتا ہے.مباہلوں اور روحانی مقابلوں کے نتیجہ میں فیصلہ خدا کی ان دوانگلیوں کے درمیان ہوا کرتا ہے جن کے درمیان دل بے اختیار ہوا کرتے ہیں کہ جس طرف چاہے جب چاہے خدا کی تقدیر ان کا رخ پلٹ سکتی ہے.اس لئے آپ اپنی عبادت کے معیار کو بڑھا ئیں.گناہوں کو جھاڑنا، کمزوریوں کو دور کرنا شروع کریں.محض اللہ بعض تبدیلیاں پیدا کریں اور دعائیں کریں کہ اے خدا تو احمدیت کے دشمنوں کے دلوں میں تبدیلیاں پیدا کر اور ایسے اعجازی نشان دکھا جو بظاہر قہری ہوں لیکن فی الحقیقت اپنے اندر تیرے جلال کی تجلیات لئے ہوں اور ان کی کشش اور حسن کے نتیجہ میں کثرت کے ساتھ دنیا کے دل احمدیت کی طرف مائل ہوں.پس اس عالمی مقابلے میں میں آپ کو شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ دنیا کی اولمپکس تو ہر چار سال کے بعد آجایا کرتی ہیں.مگر اس قسم کے روحانی مقابلے بعض دفعہ ہزاروں سال کے بعد نصیب ہوا کرتے ہیں.آپ خوش نصیب ہیں.جو اس زمانے میں رہ رہے ہیں.لیکن موسیٰ کی قوم کی طرح ان معنوں میں نہ بڑھیں کہ آپ یہ کہیں کہ جاتو اور تیرا خدا لڑتے پھرو.ہم یہاں بیٹھ رہنے والے ہیں.بلکہ اٹھیں اور اس سفر میں میرے ساتھ شریک رہیں قدم قدم میں میرا ساتھ دیں اور دعاؤں کے ذریعہ اور پاک تبدیلیوں کے ذریعہ وہ انقلاب بر پا کرنے کے لئے میری مدد کریں.جس کے لئے خدا نے مجھے نہیں بلکہ ہم سب کو مامور کیا ہے.خدا کرے کہ جلد تر وہ انقلاب دنیا میں (ضمیمہ ماہنامہ مصباح اکتوبر 88ء) رونما ہو.آمین

Page 401

مشعل راه جلد سوم 397 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبه جمعه فرمودہ 10 فروری 1989ء آئندہ صدی کے واقفین نواور ہماری ذمہ داری ہمیں وقف کی روح رکھنے والے واقفین چاہئیں وقف نو میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ تربیت بھی نہایت ضروری ہے اگر ہم واقفین نو کی تربیت سے غافل رہے تو خدا کے مجرم ٹھہریں گے ہر واقف زندگی بچہ جو وقف نو میں شامل ہے بچپن سے ہی اس کو بیچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہیے بچوں کے مزاج میں شگفتگی ، خوش مزاجی اور تحمل کی صفات پیدا کریں اچھے مزاح کو جاری کریں اور برے مزاح سے نفرت اور کراہت پیدا کریں بچوں میں تلاوت قرآن کریم کی عادت ڈالی جائے واقفین نو بچوں کو جنرل نالج بڑھانے کی طرف توجہ کرنی چاہیے

Page 402

مشعل راه جلد سوم 398 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 403

مشعل راه جلد سوم 399 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آئندہ صدی کے واقفین نو آئندہ صدی کی تیاری کے سلسلہ میں ایک بہت ہی اہم تیاری کا تعلق واقفینِ نو سے ہے.میں نے وقف نو کی جو تحریک کی تھی اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بارہ سو سے زائد ایسے بچوں کے متعلق اطلاع مل چکی ہے جو وقف نو کی نیت کے ساتھ دعائیں مانگتے ہوئے خدا سے مانگے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کی خیر و عافیت کے ساتھ ولادت کا سامان فرمایا.یہ چھوٹے چھوٹے بچے آئندہ صدی کے واقفین نو کہلاتے ہیں.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے خطوط مسلسل ملتے چلے جارہے ہیں.اس سلسلہ میں دو طرح کی تیاریاں میرے پیش نظر ہیں.مگر اس سے پہلے کہ میں اس تیاری کا ذکر کروں میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وقف نو کے لئے جتنی تعداد کی توقع تھی اتنی تعداد بلکہ اس کا ایک حصہ بھی ابھی پورا نہیں ہوسکا اور جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے اس میں پیغام پہنچانے والوں کا قصور ہے.بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں عامتہ الناس تک یہ پیغام پہنچایا ہی نہیں گیا اور جن دنوں میں یہ تحریک کی گئی تھی ان دنوں کیسٹ کا نظام آج کی نسبت بہت کمزور حالت میں تھا اور افریقہ کے ممالک اور ایسے دیگر ممالک جہاں اردو زبان نہیں سمجھی جاتی اور بعض علاقوں میں انگریزی بھی نہیں سمجھی جاتی وہاں ترجمہ کر کے کیسٹیں پھیلانے کا عملاً کوئی انتظام نہیں تھا.اس وجہ سے وہ جو براہ راست پیغام کا اثر ہو سکتا ہے اس سے بہت سے احمدی علاقے محروم رہ گئے.بعد ازاں مؤثر رنگ میں اس تحریک کو پہنچانا بھی انتظامیہ کی ذمہ داری تھی مگر بعض جگہ اس ذمہ داری کو ادا کیا گیا اور بعض جگہ یا تو ادا نہیں کیا گیا یا نیم دلی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے.صرف پیغام پہنچانا کافی نہیں ہوا کرتا.کس جذبے کے ساتھ پیغام پہنچایا جاتا ہے، کس محنت اور کوشش اور خلوص کے ساتھ پیغام پہنچایا جاتا

Page 404

مشعل راه جلد سوم 400 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ ہے، یہ پیغام کے قبول کرنے کے ساتھ گہراتعلق رکھتا ہے.دنیا میں مختلف پیغمبر آئے.بنیادی طور پر ان کا ایک ہی پیغام تھا یعنی خدا کا پیغام بندوں کے نام.لیکن جس شان کے ساتھ وہ پیغام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہنچایا اس شان سے کوئی اور پہنچا نہیں سکا اور جس عظمت اور قدر اور قربانی کی روح کے ساتھ آپ کا پیغام قبول کیا گیا.تاریخ انبیاء میں اس عظمت اور قدر اور قربانی کی روح کے ساتھ کسی اور نبی کا پیغام قبول نہیں کیا گیا.اس لئے پیغام پہنچانا کافی نہیں.کس رنگ میں اور کس جذبے کے ساتھ ، کس خلوص کے ساتھ ، کس درجہ محبت اور پیار کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے پیغام پہنچایا جاتا ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جو پیغام کی قبولیت یا عدم قبولیت کا فیصلہ کیا کرتی ہیں.اس لئے میری خواہش یہ تھی کہ کم سے کم پانچ ہزار بچے اگلی صدی کے واقفین نو کے طور پر ہم خدا کے حضور پیش کریں.اس تعداد کو پورا کرنے میں ابھی کافی سفر باقی ہے.بعض دوست یہ لکھ رہے ہیں کہ جہاں تک ان کا تاثر تھایا میں نے شروع میں خطبے میں بات کی تھی اس کا واقعتہ یہی نتیجہ نکلتا ہو گا کہ جو اس صدی سے پہلے پہلے بچے پیدا ہو جائیں گے وہ وقف نو میں لئے جائیں گے اور اس کے بعد یہ سلسلہ بند ہو جائے گا.لیکن جس طرح بعض دوستوں کے خطوط سے پتہ چل رہا ہے وہ خواہش رکھتے ہیں.لیکن یہ سمجھ کر کہ اب وقت نہیں رہا وہ اس خواہش کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے.ان کیلئے اور مزید تمام دنیا کی جماعتوں کے لئے جن تک ابھی یہ پیغام ہی نہیں پہنچا.میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ وقف نو میں شمولیت کیلئے مزید دو سال کا عرصہ بڑھایا جاتا ہے اور فی الحال یہ عرصہ دو سال کیلئے بڑھایا جارہا ہے تا کہ خواہشمند دوست اس پہلی تحریک میں شامل ہو جائیں ورنہ یہ تحریک تو بار بار ہوتی ہی رہے گی.لیکن خصوصاً وہ تاریخی تحریک جس میں انگلی صدی کیلئے واقفین بچوں کی پہلی فوج تیار ہو رہی ہے اس کا عرصہ آئندہ دو سال تک بڑھایا جا رہا ہے.اس عرصے میں جماعتیں کوشش کر لیں اور جس حد تک بھی ممکن ہو ، یہ فوج پانچ ہزاری تو ضرور ہو جائے.اس سے بڑھ جائے تو بہت ہی اچھا ہے.واقفین کے والدین پر عائد ہو نیوالی ذمہ داری بہت سے والدین مجھے لکھ رہے ہیں کہ ان بچوں کے متعلق ہمیں کرنا کیا ہے؟ تو جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس کے دوحصے ہیں اول یہ کہ جماعت کی انتظامیہ نے کیا کرنا ہے اور دوسرا یہ کہ بچوں کے والدین نے

Page 405

401 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم کیا کرنا ہے؟ جہاں تک انتظامیہ کا تعلق ہے اس کے متعلق وقتا فوقتاً میں ہدایات دیتارہا ہوں اور جو جو نئے خیال میرے دل میں آئیں یا بعض دوست مشورے کے طور پر لکھیں ان کو بھی اس منصوبے میں شامل کر لیا جاتا ہے.لیکن جہاں تک والدین کا تعلق ہے آج میں اس ذمہ داری سے متعلق کچھ باتیں کرنی چاہتا ہوں.خدا کے حضور بچے کو پیش کرنا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہے.یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اور آپ یاد رکھیں کہ وہ لوگ جو خلوص اور پیار کے ساتھ قربانیاں دیا کرتے ہیں وہ اپنے پیار کی نسبت سے ان قربانیوں کو سجا کر پیش کیا کرتے ہیں.قربانیاں اور تھنے دراصل ایک ہی ذیل میں آتے ہیں.آپ بازار سے شاپنگ کرتے ہیں.عام چیز جو گھر کیلئے لیتے ہیں اسے با قاعدہ خوبصورت کاغذوں میں لپیٹ کر اور فیتوں سے باندھ کر سجا کر آپ کو پیش نہیں کیا جاتا.لیکن جب آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ ہم نے تحفہ لینا ہے تو پھر دکاندار بڑے اہتمام سے اسکو سجا کر پیش کرتا ہے.پس قربانیاں تحفوں کا رنگ رکھتی ہیں اور ان کے ساتھ سجاوٹ ضروری ہے.آپ نے دیکھا ہو گا بعض لوگ تو مینڈھوں اور بکروں کو بھی خوب سجاتے ہیں اور بعض تو ان کو زیور پہنا کر پھر قربان گاہوں کی طرف لے کر جاتے ہیں، پھولوں کے ہار پہناتے ہیں اور کئی قسم کی سجاوٹیں کرتے ہیں.انسانی قربانی کی سجاوٹیں اور طرح کی ہوتی ہیں.انسانی زندگی کی سجاوٹ تقویٰ سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار اور اسکی محبت کے نتیجہ میں انسانی روح بن ٹھن کر تیار ہوا کرتی ہے.پس پیشتر اس کے کہ یہ بچے اتنے بڑے ہوں کہ جماعت کے سپرد کئے جائیں ان ماں باپ کی بہت ذمہ داری ہے کہ وہ ان قربانیوں کو اس طرح تیار کریں کہ ان کے دل کی حسرتیں پوری ہوں.جس شان کے ساتھ وہ خدا کے حضور ایک غیر معمولی تحفہ پیش کرنے کی تمنار کھتے ہیں وہ تمنائیں پوری ہوں.اس سے پہلے مختلف ادوار میں جو واقفین جماعت کے سامنے پیش کئے جاتے رہے انکی تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ کئی قسم کے واقفین ہیں.کچھ تو وہ تھے جنہوں نے بڑی عمروں میں ایسی حالت میں اپنے آپ کو خود پیش کیا کہ خوش قسمتی کے ساتھ ان کی اپنی تربیت بہت اچھی ہوئی تھی اور وقف نہ بھی کرتے تب بھی وہ وقف کی روح رکھنے والے لوگ تھے.وہ ( رفقاء) کی اولا دیا اول تابعین کی اولاد تھے.انہوں نے اچھے ماحول میں اچھی پرورش پائی اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اچھی عادات سے سجے ہوئے لوگ تھے.واقفین کا یہ گروہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر پہلو سے زندگی کے ہر شعبہ میں نہایت کامیاب رہا.

Page 406

402 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم پھر ایک ایسا دور آیا جب بچے وقف کرنے شروع کئے گئے یعنی والدین نے اپنی اولا دکو خود وقف کرنا چاہا.اس دور میں مختلف قسم کے واقفین ہمارے سامنے آئے ہیں.بہت سے وہ ہیں جن کے متعلق والدین سمجھتے ہیں کہ جب ہم ان کو جماعت کے سپرد کریں گے تو وہ خود ہی انکی تربیت کریں گے اور اس عرصہ میں انہوں نے ان پر نظر نہیں رکھی.پس جب وہ جامعہ احمدیہ میں پیش ہوتے ہیں تو بالکل ایسے Raw Material یعنی ایسے خام مال کے طور پر پیش ہوتے ہیں جس کے اندر مختلف قسم کی بعض ملاوٹیں بھی شامل ہو چکی ہوتی ہیں.ان کو صاف کرنا ایک کارے دارد ہوا کرتا ہے.ان کو وقف کی روح کے مطابق ڈھالنا بعض دفعه مشکل بلکہ محال ہو جایا کرتا ہے اور بعض بد عادتیں وہ ساتھ لیکر آتے ہیں.جماعت تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ بعض لڑکوں کو جامعہ میں چوری کے نتیجہ میں وقف سے فارغ کیا گیا ہے.کسی کو جھوٹ کے نتیجہ میں وقف سے فارغ کیا گیا ہے.اب یہ باتیں ایسی ہیں کہ جن کے متعلق تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اچھے نیک صالح احمدی میں پائی جائیں، کجا یہ کہ وہ واقفین زندگی میں پائی جائیں.لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ والدین نے پیش تو کر دیا لیکن تربیت کی طرف توجہ نہ کی یا اتنی دیر کے بعد ان کو وقف کا خیال آیا کہ اس وقت تربیت کا وقت باقی نہیں رہا تھا.بعض والدین سے تو یہ بھی پتہ چلا کہ انہوں نے اس وجہ سے بچہ وقف کیا تھا کہ عادتیں نہایت بگڑی ہوئی تھیں اور وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح تو ٹھیک نہیں ہوتا.وقف کرد و تو خود ہی جماعت سنبھالے گی اور ٹھیک کرے گی.جس طرح پرانے زمانے میں بعض دفعہ بگڑے ہوئے بچوں کے متعلق کہتے تھے.اچھا ان کو تھانیدار بنوادیں گے.تو جماعت میں چونکہ نیکی کی روح ہے اس لئے ان کو تھانیداری کا تو خیال نہیں آتا لیکن واقف زندگی بنانے کا خیال آجاتا ہے.حالانکہ تھانیداری سے تو ایسے بچوں کا تعلق ہو سکتا ہے، وقف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوسکتا.یہ لوگ بہت بعید کی بات سوچتے ہیں.تھانیداری والا تو لطیفہ ہے لیکن یہ تو دردناک واقعہ ہے.وہ تو ایک ہنسنے والی کہاوت کے طور پر مشہور ہے لیکن یہ تو زندگی کا ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ خدا کے حضور پیش کرنے کیلئے آپ کو بس گندہ بچہ ہی نظر آیا ہے ناکارہ محض بچہ نظر آیا ہے جو ایسی گندی عادتیں لیکر پلا ہے کہ آپ اس کو ٹھیک نہیں کر سکتے.اس لیے بچوں کی یہ جو تازہ کھیپ آنے والی ہے اس میں ہمارے پاس خدا کے فضل سے بہت سا وقت ہے.اور اگر اب ہم انکی پرورش اور تربیت سے غافل رہے تو خدا کے حضور مجرم ٹھہریں گے اور پھر ہر گز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اتفاقاًیہ واقعات ہو گئے ہیں.اسلئے والدین کو چاہیے کہ ان بچوں کے اوپر سب سے پہلے خود گہری نظر رکھیں اور جیسا کہ میں بیان کروں گا، بعض تربیتی امور کی طرف خصوصیت سے توجہ دیں اور

Page 407

403 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اگر خدانخواستہ وہ سمجھتے ہوں کہ بچہ اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے وقف کا اہل نہیں ہے تو ان کو دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ جماعت کو مطلع کرنا چاہیے کہ میں نے تو اپنی صاف نیت سے خدا کے حضور ایک تحفہ پیش کرنا چاہا تھا مگر بد قسمتی سے اس بچے میں یہ یہ باتیں ہیں.اگر ان کے باوجود جماعت اس کو لینے کے لئے تیار ہے تو میں حاضر ہوں، ورنہ اس وقف کو منسوخ کر دیا جائے.پس اس طریق پر بڑی سنجیدگی کے ساتھ اب ہمیں آئندہ ان واقفین نو کی تربیت کرنی ہے.بچوں میں اخلاق حسنہ کی آبیاری کی اہمیت جہاں تک اخلاق حسنہ کا تعلق ہے اس سلسلہ میں جو صفات جماعت میں نظر آنی چاہئیں وہی صفات واقفین میں بھی نظر آنی چاہئیں بلکہ اُن میں وہ بدرجہ اولی نظر آنی چاہئیں.ان صفات حسنہ یا اخلاق سے متعلق میں مختلف خطبات میں آپ کے سامنے مختلف پروگرام رکھتا رہا ہوں.ان سب کو ان بچوں کی تربیت میں خصوصیت سے پیش نظر رکھیں.خلاصہ ہر واقف زندگی بچہ جو وقف نو میں شامل ہے بچپن سے ہی اس کو بیچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہیے اور یہ نفرت اس کو گویا ماں کے دودھ میں ملنی چاہیے.جس طرح Radiation کسی چیز کے اندر سرایت کرتی ہے اس طرح پرورش کرنے والی باپ کی بانہوں میں سچائی اس بچہ کے دل میں ڈوبنی چاہیے.اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو پہلے سے بہت بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا.ضروری نہیں ہے کہ سب واقفین زندگی کے والدین سچائی کے اس اعلیٰ معیار پر قائم ہوں جو اعلیٰ درجہ کے مومنوں کے لئے ضروری ہے.اس لئے اب ان بچوں کی خاطر ان کو اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی اور پہلے سے کہیں زیادہ احتیاط کے ساتھ گھر میں گفتگو کا انداز اپنانا ہوگا اور احتیاط کرنی ہوگی کہ لغو باتوں کے طور پر یا مذاق کے طور پر بھی وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولیں گے.کیونکہ یہ خدا کی مقدس امانت اب آپ کے گھر میں پل رہی ہے اور اس مقدس امانت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو بہر حال آپ نے پورا کرنا ہے.اس لئے ایسے گھروں کے ماحول سچائی کے لحاظ سے نہایت صاف ستھرے اور پاکیزہ ہو جانے چاہئیں.قناعت کے متعلق میں نے کہا تھا، اس کا واقفین سے بڑا گہرا تعلق ہے.بچپن ہی سے ان بچوں کو قانع بنانا چاہیے اور حرص و ہوا سے بے رغبتی پیدا کرنی چاہیے.عقل اور فہم کے ساتھ اگر والدین شروع سے تربیت کریں تو ایسا ہونا کوئی مشکل کام نہیں ہے.غرض دیانت اور امانت کے اعلیٰ مقام تک ان بچوں کو پہنچانا ضروری ہے.

Page 408

مشعل راه جلد سوم 404 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی علاوہ ازیں بچپن سے ایسے بچوں کے مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی چاہیے.ترش روئی وقف کے ساتھ پہلو بہ پہلو نہیں چل سکتی.ترش رو واقفین زندگی ہمیشہ جماعت میں مسائل پیدا کیا کرتے ہیں اور بعض دفعہ خطرناک فتنے بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں.اس لئے خوش مزاجی اور اس کے ساتھ حمل یعنی کسی کی بات کو برداشت کرنا، یہ دونوں صفات واقفین بچوں میں بہت ضروری ہیں.مذاق یعنی مزاح اچھی چیز ہے لیکن مزاح کے اندر پاکیزگی ہونی چاہیے اور مزاح کی پاکیزگی کئی طرح سے ہو سکتی ہے.لیکن میرے ذہن میں اس وقت خاص طور پر دو باتیں ہیں.ایک تو یہ کہ گندے لطائف کے ذریعہ اپنے یا غیروں کے دل بہلانے کی عادت نہیں ہونی چاہیے اور دوسرے یہ کہ اس میں لطافت ہو.مذاق اور مزاح کے لئے ہم لطافت کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں یعنی اس کو لطیفہ کہتے ہیں.لطیفہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ بہت ہی نفیس چیز ہے.ہر قسم کی کرختگی اور بھونڈا پن لطافت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ کثافت سے تعلق رکھتا ہے.چنانچہ ہندوستان کی اعلیٰ تہذیب میں جب بھی ایسے خاندانوں میں جہاں اچھی روایات ہیں کوئی بچہ ایسا لطیفہ بیان کرتا تھا جو بھونڈا ہو تو اسے کہا جاتا تھا کہ یہ لطیفہ نہیں ہے.یہ کثیفہ ہے.یہ تو بھانڈ پن ہے.تو بھانڈ پین اور اچھے مزاح میں بڑا فرق ہے.اس لئے جو مزاح ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی زندگی میں کہیں کہیں نظر آتا ہے.کیونکہ اکثر وہ مزاح کے واقعات اب محفوظ نہیں ہیں.اس میں پاکیزگی پائی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے ( رفقاء) کی زندگی میں بھی مزاح نظر آتا ہے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طبیعت میں بھی بڑا مزاح تھا لیکن اس مزاح کے ساتھ دونوں قسم کی پاکیزگی تھی.لیکن بعض ایسے دوستوں کو بھی میں نے دیکھا ہے جنہوں نے مزاح سے یہ رخصت تو حاصل کرلی کہ مزاح میں کبھی وقت گزار لینا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن وہ یہ فرق نہیں کر سکے کہ مزاح کے ساتھ پاکیزگی ضروری ہے.چنانچہ وہ بعض نہایت گندے اور بھونڈے لطیفے بھی اپنی مجلسوں میں بیان کرتے رہے اور بعض لوگوں نے اس سے سمجھ لیا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا.حالانکہ بہت فرق پڑتا ہے.اپنے گھر میں اچھے مزاح کو جاری کریں، قائم کریں.لیکن برے مزاح کے خلاف بچوں کے دل میں بچپن سے ہی نفرت اور کراہت پیدا کریں.یہ بظاہر چھوٹی سی بات ہے اور اس پر میں نے اتنا وقت لیا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ انسانی زندگی میں خصوصاً وہ زندگی جو تکلیفوں سے تعلق رکھتی ہو ، جو ذمہ داریوں سے تعلق رکھتی ہو اور جس میں کئی قسم کے اعصابی تناؤ ہوں وہاں مزاح بعض دفعہ بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے اور انسانی ذہن اور انسانی نفسیات کی حفاظت کرتا ہے.

Page 409

405 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم غنا کے متعلق میں پہلے بیان کر چکا ہوں.قناعت کے بعد پھر غنا کا مقام آتا ہے اور غنا کے نتیجہ میں جہاں ایک طرف امیر سے حسد پیدا نہیں ہوتا وہاں غریب سے شفقت ضرور پیدا ہوتی ہے.غنا کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ غریب کی ضرورت سے انسان غنی ہو جائے.انسان اپنی ضرورت سے غیر کی ضرورت کی خاطر غنی ہوتا ہے.اسلامی غنا میں یہ ایک خاص پہلو ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے.اس لئے واقفین بچے ایسے ہونے چاہئیں جو غریب کی تکلیف سے غنی نہ بنیں لیکن امیر کی امارت سے غنی ہو جا ئیں اور کسی کو اچھا دیکھ کر انہیں تکلیف نہ پہنچے لیکن کسی کو تکلیف میں دیکھ کر وہ ضرور تکلیف محسوس کریں.جہاں تک ان کی تعلیم کا تعلق ہے جامعہ کی تعلیم کا زمانہ تو بعد میں آئے گالیکن ابتداء ہی سے ایسے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم کی طرف سنجیدگی سے متوجہ کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں انشاء اللہ یقینا نظامِ جماعت بھی ضرور کچھ پروگرام بنائے گا.ایسی صورت میں والدین نظام جماعت سے رابطہ رکھیں اور جب بچے اس عمر میں پہنچیں کہ جہاں وہ قرآن کریم اور دینی باتیں پڑھنے کے لائق ہو سکیں تو اپنے علاقے کے نظام سے یا براہِ راست مرکز کو لکھ کر ان سے معلوم کریں کہ اب ہم کس طرح ان کو اعلیٰ درجہ کی قرآن خوانی سکھا سکتے ہیں اور پھر قرآن کے مطالب سکھا سکتے ہیں.کیونکہ قاری دو قسم کے ہوا کرتے ہیں.ایک تو وہ جو ابھی تلاوت کرتے ہیں اور ان کی آواز میں ایک کشش پائی جاتی ہے اور تجوید کے لحاظ سے وہ درست ادائیگی کرتے ہیں.لیکن محض پرکشش آواز سے تلاوت میں جان نہیں پڑا کرتی.ایسے قاری اگر قرآن کریم کے معنی نہ جانتے ہوں تو وہ تلاوت کا بت تو بنا دیتے ہیں، تلاوت کے زندہ پیکر نہیں بنا سکتے.لیکن وہ قاری جو سمجھ کر تلاوت کرتے ہیں اور تلاوت کے اس مضمون کے نتیجہ میں ان کے دل پگھل رہے ہوتے ہیں، ان کے دل میں خدا کی محبت کے جذبات اُٹھ رہے ہوتے ہیں، ان کی تلاوت میں ایک ایسی بات پیدا ہو جاتی ہے جو اصل روح ہے تلاوت کی.تو ایسے گھروں میں جہاں واقفین زندگی ہیں وہاں تلاوت کے اس پہلو پر بہت زور دینا چاہیے.خواہ تھوڑا پڑھایا جائے لیکن ترجمہ کے ساتھ - مطالب کے بیان کے ساتھ پڑھایا جائے اور بچے کو یہ عادت ڈالی جائے کہ جو کچھ بھی وہ تلاوت کرتا ہے وہ سمجھ کر کرتا ہے.ایک تو روز مرہ کی صبح کی تلاوت ہے.اس میں تو ہو سکتا ہے کہ بغیر سمجھ کے بھی ایک لمبے عرصہ تک آپ کو اسے قرآن کریم پڑھانا ہی ہوگا لیکن ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ سکھانے اور مطالب کی طرف متوجہ کرنے کا پروگرام بھی جاری رہنا چاہیے نماز کی پابندی اور نماز کے جو لوازمات ہیں ان کے متعلق بچپن سے تعلیم دینا اور سکھانا، یہ بھی جامعہ میں آکر سیکھنے والی باتیں نہیں.اس سے بہت پہلے گھروں میں بچوں کو اپنے ماں باپ کی تربیت کے نیچے یہ باتیں آجانی چاہئیں.

Page 410

مشعل راه جلد سوم 406 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تعلیم میں وسعت پیدا کرنے کی اہمیت اس کے علاوہ تعلیم میں وسعت پیدا کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور دینی تعلیم میں وسعت پیدا کرنے کا ایک طریق یہ ہے کہ مرکزی اخبار و رسائل کا مطالعہ کرتار ہے.بدقسمتی سے اس وقت بعض ممالک ایسے ہیں جہاں مقامی اخبار نہیں ہیں اور بعض زبانیں ایسی ہیں جن میں مقامی اخبار نہیں ہیں.لیکن ابھی ہمارے پاس وقت ہے اور گزشتہ چند سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں میں اپنے اپنے اخبار جاری کرنے کے رجحان بڑھ چکے ہیں.تو ساری جماعت کی انتظامیہ کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جب آئندہ دو تین سال میں یہ بچے سمجھنے کے لائق ہو جائیں یا چار پانچ سال تک سمجھ لیں تو اس وقت واقفین نو کے لئے بعض مستقل پروگرام ، بعض مستقل فیچر آپ کے رسالوں اور اخباروں میں شائع ہوتے رہنے چاہئیں کہ وقف نو کیا ہے؟ ہم ان سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ اور بجائے اس کے کہ اکٹھا ایک دفعہ ایسا پروگرام دے دیا جائے جو کچھ عرصہ کے بعد بھول جائے ، یہ اخبارات چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تربیتی پروگرام پیش کیا کریں اور جب ایک حصہ رائج ہو جائے تو پھر دوسرے کی طرف متوجہ ہوں، پھر تیسرے کی طرف متوجہ ہوں.واقفین بچوں کی علمی بنیاد وسیع ہونی چاہیے.عام طور پر دینی علماء میں یہی کمزوری دکھائی دیتی ہے کہ دین کے علم کے لحاظ سے تو اُن کا علم کافی وسیع اور گہرا بھی ہوتا ہے لیکن دین کے دائرہ سے باہر دیگر دنیا کے دائروں میں وہ بالکل لاعلم ہوتے ہیں.علم کی اس کمی نے اسلام کو شدید نقصان پہنچایا ہے.وہ وجوہات جو مذاہب کے زوال کا موجب بنتی ہیں اُن میں سے یہ ایک بہت ہی اہم وجہ ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور علم کی وسیع بنیاد پر قائم دینی علم کو فروغ دینا چاہیے.یعنی پہلے بنیاد عام دنیا وی علم کی وسیع ہو.پھر اُس پر دینی علم کا پیوند لگے تو بہت ہی خوبصورت اور بابرکت ایک شجرہ طیبہ پیدا ہوسکتا ہے.تو اس لحاظ سے بچپن ہی سے ان واقفین بچوں کو جنرل نالج بڑھانے کی طرف متوجہ کرنا چاہیے.آپ خود متوجہ ہوں تو ان کا علم آپ ہی آپ بڑھے گا.یعنی ماں باپ متوجہ ہوں اور بچوں کے لئے ایسے رسائل، ایسے اخبارات لگوایا کریں ایسی کتابیں پڑھنے کی ان کو عادت ڈالیں جس کے نتیجہ میں ان کا علم وسیع ہو اور جب وہ سکول میں جائیں تو ایسے مضامین کا انتخاب ہو جس سے سائنس کے متعلق بھی کچھ واقفیت ہو.عام دنیا کے جو آرٹس کے سیکولر مضامین ہیں مثلاً معیشت، اقتصادیات، فلسفه، نفسیات،حساب، تجارت وغیرہ ایسے جتنے بھی متفرق امور ہیں ان سب میں سے کچھ نہ کچھ علم بچے کو ضرور ہونا چاہیے.علاوہ ازیں پڑھنے کی عادت ڈالنی

Page 411

407 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم چاہیے کیونکہ سکولوں میں تو اتنا زیادہ انسان کے پاس اختیار نہیں ہوا کرتا.یعنی بچہ پانچ مضمون، چھ مضمون ، سات مضمون رکھ لے گا بعض دس بھی رکھ لیتے ہیں لیکن اس سے آگے نہیں جا سکتے.اس لئے ضروری ہے کہ ایسے بچوں کو اپنے تدریسی مطالعہ کے علاوہ مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہیے.اب یہ چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے واقفین زندگی بچوں کے والدین میں سے اکثر کے بس کی نہیں.میں جانتا ہوں کہ بہت سے بیچارے ایسے ہیں، افریقہ میں بھی اور ایشیا، یورپ اور امریکہ میں بھی جن کے اندر یہ استطاعت نہیں ہے کہ اس پروگرام کو وہ واقعہ عملی طور پر اپنے بچوں میں رائج کر سکیں.اس لئے یہ جتنی باتیں ہیں تحریک جدید کے متعلقہ شعبہ کو یہ نوٹ کرنی چاہئیں اور اس خطبہ میں جو نکات ہیں ان کو آئندہ جماعت تک اس رنگ میں پہنچانے کا انتظام کرنا چاہیے کہ والدین کی اپنی کم علمی اور اپنی استطاعت کی کمی بچوں کی اعلی تعلیم کی راہ میں روک نہ بن سکے.چنانچہ بعض جگہوں پر ایسے بچوں کی تربیت کا انتظام شروع ہی سے جماعت کو کرنا پڑے گا.بعض جگہ ذیلی تنظیموں سے استفادے کئے جاسکتے ہیں، مگر یہ بعد کی باتیں ہیں.اس وقت تو جو ذہن میں چند باتیں آرہی ہیں وہ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ ہمیں کس قسم کے واقفین بچے چاہئیں.منضبط رویہ اپنانے کی تربیت ایسے واقفین بچے چاہئیں جن کو شروع ہی سے اپنے غصے کو ضبط کرنے کی عادت ہونی چاہیے، جن کو اپنے سے کم علم کو حقارت سے نہیں دیکھنا چاہیے، جن کو یہ حوصلہ ہو کہ وہ مخالفانہ بات سنیں اور حمل کا ثبوت دیں.جب ان سے کوئی بات پوچھی جائے تو محمل کا ایک یہ بھی تقاضا ہے کہ ایک دم منہ سے کوئی بات نہ نکالیں بلکہ کچھ غور کر کے جواب دیں.یہ ساری ایسی باتیں ہیں جو بچپن ہی سے طبیعتوں میں اور عادتوں میں رائج کرنی پڑتی ہیں.اگر بچپن سے یہ عادتیں پختہ نہ ہوں تو بڑے ہو کر بعض دفعہ ایک انسان علم کے ایک بہت بلند معیار تک پہنچنے کے باوجود بھی ان عام سادہ سادہ باتوں سے محروم رہ جاتا ہے.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو فوراً جواب دیتا ہے خواہ اس بات کا پتہ ہو یا نہ ہو.پھر بعض دفعہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ایک بات پوچھی اور جس شخص سے پوچھی گئی ہے اس کے علم میں یہ تو ہے کہ یہ بات ہونے والی تھی لیکن یہ علم میں نہیں ہے کہ ہو چکی ہے.اس کے باوجود بسا اوقات وہ کہ دیتا ہے کہ ہاں ہو چکی ہے.واقفین زندگی کے اندر یہ چیز بہت بڑی خرابی پیدا کر سکتی ہے.میں نے اپنے انتظامی تجر بہ میں بارہا دیکھا ہے کہ اس قسم کی خبروں سے بعض دفعہ بہت سخت نقصان پہنچ جاتا ہے.مثلالنگر خانے میں میں ناظم ہوتا

Page 412

408 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم تھا تو فون پر پوچھا کہ اتنے ہزار روٹی پک چکی ہے؟ تو جواب ملا کہ جی ہاں پک چکی ہے.اس پر تسلی ہو گئی.جب وہاں پہنچا تو پتہ لگا کہ ابھی کئی ہزار کی کمی ہے.میں نے کہا آپ نے یہ کیا ظلم کیا ہے.یہ جھوٹ بولا ، غلط بیانی کی اور اس سے بڑا نقصان پہنچا ہے.کہنے لگے کہ نہیں جی.جب میں نے بات کی تھی اس سے آدھا گھنٹہ پہلے اتنے ہزار ہو چکی تھی تو آدھے گھنٹے میں اتنی تو ضرور بنی چاہیے تھی.یہ فارمولا تو ٹھیک ہے.لیکن واقعاتی دنیا میں فارمولے تو نہیں چلا کرتے.واقعہ ایسی صورت میں یہ بات نکلی کہ وہاں کچھ خرابی پیدا ہوگئی.مزدوروں کی آپس میں کوئی لڑائی ہوگئی، گیس بند ہوگئی.کئی قسم کی خرابیاں ایسی پیدا ہو جاتی تھیں تو جس آدھے گھنٹے میں اس نے کئی ہزار کا حساب لگایا ہوا تھا وہ آدھا گھنٹہ کام ہی نہیں ہورہا تھا.تو یہ عادت عام ہے.میں نے اپنے وسیع تجربے میں دیکھا ہے کہ ایشیا میں خصوصیت کے ساتھ یہ عادت بہت زیادہ پائی جاتی ہے کہ ایک چیز کا اندازہ لگا کر اس کو واقعات کے طور پر بیان کر دیتے ہیں اور واقفین زندگی میں بھی یہ عادت آجاتی ہے.یعنی جو پہلے سے واقفین آئے ہوئے ہیں ان کی رپورٹوں میں بھی بعض دفعہ ایسے نقص نکلتے ہیں جس کی وجہ سے جماعت کو نقصان پہنچتا ہے.اس لئے اس بات کی بچپن سے عادت ڈالنی چاہیے کہ جتنا علم ہے اس کو علم کے طور پر بیان کریں.جتنا اندازہ ہے اس کو اندازے کے طور پر بیان کریں اور اگر بچپن میں آپ نے یہ عادت نہ ڈالی تو بڑے ہو کر پھر دوبارہ بڑی عمر میں اسے رائج کرنا بہت مشکل کام ہوا کرتا ہے کیونکہ ایسی باتیں انسان بغیر سوچے کرتا ہے.عادت کا مطلب ہی یہ ہے کہ خود بخو دمنہ سے ایک بات نکلتی ہے اور یہ بے احتیاطی بعض دفعہ پھر انسان کو جھوٹ کی طرف بھی لے جاتی ہے اور بڑی مشکل صورت حال پیدا کر دیتی ہے.کیونکہ ایسے لوگوں میں سے بہت سے میں نے ایسے دیکھے ہیں کہ جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ نے یہ کیوں کیا؟ تو بجائے اس کے کہ وہ صاف صاف بیان کریں کہ ہم سے غلطی ہو گئی ، ہم نے اندازہ لگایا تھا، وہ اپنی پہلی غلطی کو چھپانے کے لئے دوسری دفعہ پھر جھوٹ بولتے ہیں اور کوئی ایسا ذ ر تلاش کرتے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.جب اس غذ رکو پکڑیں تو پھر ایک اور جھوٹ بولتے ہیں.خجالت الگ ،شرمندگی الگ ،سب دنیا ان پر ہنس رہی ہوتی ہے اور وہ بیچارے جھوٹ پر جھوٹ بول کر اپنی عزت بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں.یہ چیزیں بچپن سے شروع ہوتی ہیں.چھوٹے چھوٹے بچے جب کسی بات پر گھر میں پکڑے جاتے ہیں کہ آپ نے یہ کہا تھا یہ نہیں ہوا ، اس وقت وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور ماں باپ اُس کا نوٹس نہیں لیتے.اس کے نتیجہ میں مزاج بگڑ جاتے ہیں اور پھر بعض دفعہ ایسے بگڑتے ہیں کہ ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے.عادتا وہ یہ کام شروع کر دیتے ہیں.یعنی جھوٹ نہیں ہوا کرتا ، عادت ہے کہ تخمینے یا اندازے کو حقیقت بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے.تو

Page 413

409 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ایسے واقفین اگر جامعہ میں آجائیں گے تو جامعہ میں تو کوئی ایسا جادو نہیں ہے کہ پرانے بگڑے ہوئے رنگ اچانک درست ہو جائیں.ایسے رنگ درست ہوا کرتے ہیں غیر معمولی اندرونی انقلابات کے ذریعہ.وہ ایک الگ مضمون ہے.ہم ایسے انقلابات کے امکانات کو رد نہیں کر سکتے لیکن یہ دستور عام نہیں ہے.اس لئے ہم جب حکمت کے ساتھ اپنی زندگی کے پروگرام بناتے ہیں تو اتفاقات پر نہیں بنایا کرتے بلکہ دستور عام پر بنایا کرتے ہیں.پس اس پہلو سے بچوں کو بہت گہری تربیت دینے کی ضرورت ہے.مالی امور میں خصوصی احتیاط کی تعلیم پھر عمومی تعلیم میں واقفین بچوں کی بنیاد وسیع کرنے کی خاطر جو ٹائپ سیکھ سکتے ہیں ان کو ٹائپ سکھانا چاہیے.اکاؤنٹس رکھنے کی تربیت دینی چاہیے دیانت پر جیسا کہ میں نے کہا تھا بہت زور ہونا چاہیے.اموال میں خیانت کی جو کمزوری ہے یہ بہت ہی بھیانک ہو جاتی ہے اگر واقفین زندگی میں پائی جائے.اس کے بعض دفعہ نہایت ہی خطرناک نتائج نکلتے ہیں.وہ جماعت جو خالصۂ طوعی چندوں پر چل رہی ہے اس میں دیانت کو اتنی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے.گویا دیانت کا ہماری شہ رگ کی حفاظت سے تعلق ہے.سارا مالی نظام جو جماعت احمدیہ کا جاری ہے وہ اعتماد اور دیانت کی وجہ سے جاری ہے.اگر خدانخواستہ جماعت میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ واقفین زندگی اور سلسلہ کے شعبہ اموال میں کام کرنے والے خود بددیانت ہیں تو ان کو چندے دینے کی جو توفیق نصیب ہوتی ہے اس توفیق کا گلا گھونٹا جائے گا.لوگ چاہیں گے بھی تو پھر بھی ان کو واقعہ چندہ دینے کی توفیق نہیں ملے گی.اس لئے واقفین کو خصوصیت کے ساتھ مالی لحاظ سے بہت ہی درست ہونا چاہیے اور اس لحاظ سے اکاؤنٹس کا بھی ایک گہرا تعلق ہے.جو لوگ اکاؤنٹس نہیں رکھ سکتے ان سے بعض دفعہ مالی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ بد دیانتی ہوئی ہے اور بعض دفعہ مالی غلطیوں کے نتیجہ میں وہ لوگ جن کو اکاؤنٹس کا طریقہ نہ آتا ہو بد دیانتی کرتے ہیں اور افسر متعلقہ اس میں ذمہ دار ہو جاتا ہے.وہ لوگ جو اموال پر مقرر ہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کا مالی لحاظ سے دیانت کا معیار جماعت احمدیہ میں اتنا بلند ہے کہ دنیا کی کوئی جماعت بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.لیکن خرابیاں پھر بھی دکھائی دیتی ہیں.عمد ابددیانتی کی مثالیں تو بہت شاذ ہیں یعنی انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں.لیکن ایسے واقعات کی مثالیں بہت سی ہیں ( یعنی بہت سی سے مراد یہ ہے کہ مقابلہ بہت ہیں) کہ جن میں ایک شخص کو حساب رکھنا نہیں آتا ، یک شخص کو یہ نہیں پتہ کہ میں دستخط کرنے لگا ہوں تو اس کے نتیجہ میں میری کیا ذمہ داری ہے؟ مجھے کیا دیکھنا

Page 414

410 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم چاہیے؟ جس کو جمع تفریق نہیں آتی اس بیچارے کے نیچے بعض دفعہ بددیانتیاں ہو جاتی ہیں اور بعد میں پھر الزام اس پر لگتے ہیں اور بعض دفعہ تحقیق کے نتیجہ میں وہ بری بھی ہو جاتا ہے.بعض دفعہ معاملہ الجھا ہی رہتا ہے.پھر ہمیشہ ابہام باقی رہ جاتا ہے کہ پتہ نہیں بددیانت تھا یا نہیں.اس لئے اکاؤنٹس کے متعلق تمام واقفین بچوں کو شروع سے ہی تربیت دینی چاہیے.تبھی میں نے حساب کا ذکر کیا تھا کہ ان کا حساب بھی اچھا ہو اور ان کو بچپن سے تربیت دی جائے کہ کس طرح اموال کا حساب رکھا جاتا ہے.روز مرہ سودے کے ذریعہ سے ہی ان کو یہ تربیت دی جاسکتی ہے اور پھر سودا اگر ان کے ذریعے کبھی منگوایا جائے تو اس سے ان کی دیانتداری کی نوک پلک مزید درست کی جاسکتی ہے.مثلاً بعض بچوں سے ماں باپ سودا منگواتے ہیں تو وہ چند پیسے جو بچتے ہیں وہ جیب میں رکھ لیتے ہیں، بددیانتی کے طور پر نہیں اُن کے ماں باپ کا مال ہے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ پیسے کیا واپس کرنے ہیں.وہ وقت ہے تربیت کرنے کا.اس وقت ان کو کہنا چاہیے کہ سودا منگوانے میں اگر ایک دھیلا، ایک دمڑی بھی باقی بچی ہو تو واپس کرنی چاہیے.پھر ہے دھیلے کی بجائے دس روپے مانگو، اسکا کوئی حرج نہیں.لیکن بغیر بتائے کے جو دھیلا جیب میں ڈالا جاتا ہے کہ یہ بیچ گیا تھا، اس کا کیا واپس کرنا تھا.اس نے آئندہ بدیانتی کے بیج بو دیئے ہیں، آئندہ بے احتیاطیوں کے بیج بودیئے ہیں.تو قو میں جو بگڑتی اور بنتی ہیں وہ دراصل گھروں میں ہی بگڑتی اور بنتی ہیں.ماں باپ اگر بار یک نظر سے اپنے بچوں کی تربیت کر رہے ہوں تو وہ عظیم مستقبل کی تعمیر کر رہے ہوتے ہیں یعنی بڑی شاندار قو میں ان کے گھروں میں تخلیق پاتی ہیں.لیکن یہ چھوٹی چھوٹی بے احتیاطیاں بڑے بڑے عظیم اور بعض دفعہ سنگین نتائج پر منتج ہو جایا کرتی ہیں.پس مالی لحاظ سے واقفین بچوں کو تقویٰ کی باریک راہیں سکھائیں.یہ جتنی باتیں میں کہ رہا ہوں ان سب کا اصل میں تقویٰ سے تعلق ہے.تو تقویٰ کی کچھ موٹی راہیں ہیں جو عام لوگوں کو آتی ہیں.کچھ مزید باریک ہیں اور واقفین کو ہمیں نہایت لطیف رنگ میں تقویٰ کی تربیت دینی چاہیے.اس کے علاوہ واقفین بچوں میں سخت جانی کی عادت ڈالنا، نظام جماعت کی اطاعت کی بچپن سے عادت ڈالنا، اطفال الاحمدیہ سے وابستہ کرنا، ناصرات سے وابستہ کرنا ، خدام الاحمدیہ سے وابستہ کرنا بھی بہت ضروری ہے.انصار اللہ کی ذمہ داری تو بعد میں آئے گی لیکن ۱۵ سال کی عمر تک، خدام کی حد تک تو آپ تربیت کر سکتے ہیں.خدام کی حد تک اگر تربیت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر انصار کی عمر میں بگڑنے کا امکان شاذ کے

Page 415

مشعل راه جلد سوم 411 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی طور پر ہی کوئی ہوگا.ورنہ جتنی لمبی نالی سے گولی چلائی جائے اتنی دیر تک سیدھی رہتی ہے.خدام کی حد تک اگر تربیت کی نالی لمبی ہو جائے تو خدا کے فضل سے پھر موت تک وہ انسان سیدھا ہی چلے گا الا ماشاء الله _ تو اس پہلو سے بہت ضروری ہے کہ نظام کا احترام سکھایا جائے.پھر اپنے گھروں میں کبھی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے نظام جماعت کی تخفیف ہوتی ہو یا کسی عہدیدار کے خلاف شکوہ ہو.وہ شکوہ اگر سچا بھی ہے پھر بھی اگر آپ نے اپنے گھر میں کیا تو آپ کے بچے ہمیشہ کیلئے اس سے زخمی ہو جائیں گے.آپ تو شکوہ کرنے کے باوجود اپنے ایمان کی حفاظت کر سکتے ہیں لیکن آپ کے بچے زیادہ گہرا زخم محسوس کریں گے.یہ ایسا زخم ہوا کرتا ہے کہ جس کو لگتا ہے اسکو کم لگتا ہے.جو قریب کا دیکھنے والا ہے اس کو زیادہ لگتا ہے.اس لئے اکثر وہ لوگ جو نظام جماعت پر تبصرے کرنے میں بے احتیاطی کرتے ہیں انکی اولادوں کو کم و بیش ضرور نقصان پہنچتا ہے اور بعض ہمیشہ کے لئے ضائع ہو جاتی ہیں.واقفین بچوں کو نہ صرف اس لحاظ سے بتانا چاہیے بلکہ یہ بھی سمجھانا چاہیے کہ اگر تمہیں کسی سے کوئی شکایت ہے خواہ تمہاری تو قعات اس کے متعلق کتنی عظیم کیوں نہ ہوں ، اس کے نتیجہ میں تمہیں اپنے نفس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے.اگر کوئی امیر جماعت ہے اور اس سے ہرانسان کو توقع ہے کہ یہ کرے اور وہ کرے اور کسی توقع کو اس سے ٹھوکر لگ جاتی ہے تو واقفین زندگی کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ ان کو یہ خاص طور پر سمجھایا جائے کہ اس ٹھوکر کے نتیجہ میں تمہیں ہلاک نہیں ہونا چاہیے.یہ بھی اسی قسم کے زخم والی بات ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے.یعنی در اصل ٹھو کر تو کھاتا ہے کوئی عہدیدار اور لحد میں اتر جاتا ہے دیکھنے والا.وہ تو ٹھوکر کھا کر پھر بھی اپنے دین کی حفاظت کر لیتا ہے.اپنی غلطی پر انسان استغفار کرتا ہے اور سنبھل جاتا ہے وہ اکثر ہلاک نہیں ہو جایا کرتا سوائے اس کے کہ بعض خاص غلطیاں ایسی ہوں.لیکن جن کا مزاج ٹھوکر کھانیوالا ہے وہ ان غلطیوں کو دیکھ کر بعض دفعہ ہلاک ہی ہو جایا کرتے ہیں، دین سے ہی متنفر ہو جایا کرتے ہیں اور پھر جراثیم پھیلانے والے بن جاتے ہیں.مجلسوں میں بیٹھ کر جہاں دوستوں میں تذکرے ہوتے ہیں وہاں کہہ دیا.جی فلاں صاحب نے تو یہ کیا تھا اور فلاں صاحب نے یہ کیا تھا.اس طرح وہ ساری قوم کی ہلاکت کا موجب بن جاتے ہیں.تو بچوں کو پہلے تو اس بلا سے محفوظ رکھیں.پھر جب ذرا بڑی عمر کے ہوں تو ان کو سمجھائیں کہ اصل محبت تو خدا اور اس کے دین سے ہے.کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے خدائی جماعت کو نقصان پہنچتا ہو.آپ کو اگر کسی کی ذات سے تکلیف پہنچی ہے یا نقصان پہنچا ہے تو اس کا ہر گز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ کو حق ہے کہ اپنے ماحول، اپنے دوستوں، اپنے بچوں اور اپنی اولاد کے ایمانوں کو بھی آپ زخمی کرنا شروع کر دیں.اپنا زخم

Page 416

مشعل راه جلد سوم 412 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی حوصلے کے ساتھ اپنے تک رکھیں اور اس کے اندر مال کے جو ذرائع با قاعدہ خدا تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں ان کو اختیار کریں لیکن لوگوں میں ایسی باتیں کرنے سے پر ہیز کریں.آئندہ صدی کی عظیم لیڈرشپ کا اہل بنانے والی تربیت آج بھی جماعت میں ایسی باتیں ہو رہی ہیں اور ایسے واقعات میری نظر میں آتے رہتے ہیں.مثلاً ایک شخص کو کوئی تکلیف پہنچی ہے اور اس نے بعض مخلصین کے سامنے وہ باتیں بیان کیں.وہ باتیں اگر چہ کچی تھیں لیکن اس نے یہ نہیں سوچا کہ ان مخلصین کے ایمان کو کتنا بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے.بعض واقفین زندگی نے بھی ایسی حرکتیں کیں.ان کو انتظامیہ سے یا تبشیر سے شکوہ ہوا.غیر ملکوں کے نواحمدی مخلصین بیچارے ساری عمر بڑے اخلاص کے ساتھ جماعت سے تعلق رکھتے تھے.ان کو اپنا ہمدرد بنانے کی خاطر، یہ بتانے کے لئے کہ دیکھیں جی ہمارے ساتھ یہ ہوا ہے، وہ قصے بیان کرنے شروع کئے.خود تو اس طرح بچ کے واپس اپنے ملک میں چلے گئے اور پیچھے کئی زخمی روحیں چھوڑ گئے.ان کا گناہ کس کے سر پہ ہوگا.یہ بھی ابھی طے نہیں ہوا کہ انتظامیہ کی غلطی تھی بھی یا نہیں اور جہاں تک میں نے جائزہ لیا، غلطی انتظامیہ کی نہیں تھی.بدظنی سے سارا سلسلہ شروع ہوا لیکن اگر غلطی ہوتی بھی تب بھی کسی کا یہ حق نہیں ہے کہ اپنی تکلیف کی وجہ سے دوسروں کے ایمان ضائع کرے.پس سچا وفا دار وہ ہوا کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی جماعت پر نظر رکھے.اس کی صحت پر نظر رکھے.پیار کا وہی ثبوت سچا ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تجویز کیا تھا اور اس سے زیادہ بہتر قابل اعتماد اور کوئی بات نہیں.آپ نے سنا ہے، بارہا مجھ سے بھی سنا ہے، پہلے بھی سنتے رہے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان کی عدالت میں دو دعویدار ماؤں کا جھگڑا پہنچا جن کے پاس ایک ہی بچہ تھا.کبھی ایک گھسیٹ کر اپنی طرف لے جاتی تھی کبھی دوسری گھسیٹ کر اپنی طرف لے جاتی تھی اور دونوں روتی اور شور مچاتی تھیں کہ یہ میرا بچہ ہے.کسی صاحب فہم کو مجھ نہیں آئی کہ اس مسئلہ کو کیسے طے کیا جائے.چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی عدالت میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ طے کرنا تو بڑا مشکل ہے کہ یہ کس کا بچہ ہے.اگر ایک کا بچہ ہوا اور دوسری کو دے دیا گیا تو بڑا ظلم ہوگا.اس لئے کیوں نہ اس بچے کو دوٹکڑے کر دیا جائے اور ایک ٹکڑا ایک کو دے دیا جائے اور دوسرا ٹکڑا دوسری کو دے دیا جائے تا کہ نا انصافی نہ ہو.چنانچہ انہوں نے جلاد سے کہا کہ آؤ اس بچے کو عین بیچ سے نصف سے دوٹکڑے کر کے ایک، ایک کو دے دو اور دوسرا، دوسری کو دے دو.جو ماں

Page 417

مشعل راه جلد سوم 413 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ تھی وہ روتی چیختی ہوئی بچے پر گر پڑی کہ میرے ٹکڑے کر دو اور یہ بچہ اس کو دے دو لیکن خدا کے لئے اس بچہ کو کوئی گزند نہ پہنچے.اس وقت حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بچہ اس کا ہے.پس جو خدا کی خاطر جماعت سے محبت رکھتا ہے، کیسے ممکن ہے کہ وہ جماعت کو ٹکڑے ہونے دے اور ایسی باتیں برداشت کر جائے کہ جس کے نتیجہ میں کسی کے ایمان کو گزند پہنچتا ہو.وہ اپنی جان پر سب و بال لے لیگا اور یہی اس کی سچائی کی علامت ہے.لیکن اپنی تکلیف کو دوسرے کی رُوح کو زخمی کرنے کے لئے استعمال نہیں کرے گا، واقفین میں اس تربیت کی غیر معمولی ضرورت ہے.کیونکہ یہ ایک دفعہ واقعہ نہیں ہوا، دودفعہ نہیں ہوا.بیسیوں مرتبہ پہلے ہو چکا ہے اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ بڑے فتنے پیدا ہوئے ہیں.ایک شخص سمجھتا ہے کہ میں نے خوب چالا کی کی ہے خوب انتقام لیا ہے.اس طرح تحریک جدید نے مجھ سے کیا اور اس طرح پھر میں نے اس کا جواب دیا.اب دیکھ لو میرے پیچھے کتنا بڑا گر وہ ہے اور یہ نہیں سوچا کہ وہ گروہ اس کے پیچھے نہیں، وہ شیطان کے پیچھے تھا.وہ بجائے متقیوں کا امام بننے کے منافقین کا امام بن گیا ہے اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کیا ہے اور اپنے پیچھے چلنے والوں کو بھی ہلاک کیا.پس یہ چھوٹی چھوٹی باتیں سہی لیکن غیر معمولی نتائج پیدا کرنے والی باتیں ہیں.آپ بچپن سے ہی اپنے واقفین نو کو یہ باتیں سمجھائیں اور پیار ومحبت سے ان کی تربیت کریں تا کہ وہ آئندہ صدی کی عظیم لیڈرشپ کے اہل بن سکیں.واقفین بچوں میں وفا کا مادہ پیدا کریں اور بہت سی باتوں میں سے ایک اہم بات جو میں آخر پر کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ واقفین بچوں کو وفا سکھائیں.وقف زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے.وہ واقف زندگی جو وفا کے ساتھ آخری سانس تک اپنے وقف کے ساتھ نہیں چمٹتا وہ جب الگ ہوتا ہے تو خواہ جماعت اس کو سزا دے یا نہ دے وہ اپنی روح پر غداری کا داغ لگا لیتا ہے اور یہ بہت بڑا داغ ہے.اس لئے آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اپنے بچوں کو وقف کرنے کا، یہ بہت بڑا فیصلہ ہے.اس فیصلے کے نتیجہ میں یا تو یہ بچے عظیم اولیاء بنیں گے یا پھر عام حال سے بھی جاتے رہیں گے اور ان کو شدید نقصان پہنچنے کا بھی احتمال ہے.جتنی بلندی ہوا اتنا ہی بلندی سے گرنے کا خطرہ بھی تو بڑھ جایا کرتا ہے.اس لئے بہت احتیاط سے ان کی تربیت کریں اور ان کو وفا کے سبق دیں اور بار باردیں.بعض دفعہ ایسے واقفین جو وقف چھوڑتے ہیں وہ اپنی طرف سے چالا کی سے چھوڑتے ہیں اور سمجھتے

Page 418

مشعل راه جلد سوم 414 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی ہیں کہ اب ہم جماعت کی حد سے باہر نکل گئے ، اب ہم آزاد ہو گئے ، اب ہمارا کچھ نہیں کیا جاسکتا.یہ چالا کی تو ہوتی ہے لیکن عقل نہیں ہوتی.وہ چالا کی سے اپنا نقصان کرنے والے ہوتے ہیں.ابھی کچھ عرصہ پہلے میرے سامنے ایک ایسے واقف زندگی کا معاملہ آیا جس کی ایسے ملک میں تقرری تھی کہ اگر وہاں ایک معین عرصہ تک وہ رہے تو وہاں کی Nationality کا حق دار بن جاتا تھا.بعض وجوہات سے میں نے اس کا تبادلہ ضروری سمجھا.چنانچہ جب میں نے اس کا تبادلہ کیا تو چھ یا سات ماہ ابھی اس مدت میں باقی تھے جس کے بعد وہ نیشنیلٹی کا حقدار بنتا تھا.تو اس کے بڑے لجاجت کے اور محبت اور خلوص کے خط آنے شروع ہوئے کہ مجھے یہاں قیام کی کچھ مزید مہلت دی جائے.میں نے وہ مہلت دے دی.بعض صاحب فہم لوگوں نے یہ سمجھا کہ وہ مجھے بیوقوف بنا گیا ہے.چنانچہ انہوں نے لکھا کہ جناب یہ تو آپ کے ساتھ چالا کی کر گیا ہے اور یہ تو چاہتا ہے کہ عرصہ پورا ہو اور پھر وقف سے آزاد ہو جائے ، پھر اس کو پر واہ کوئی نہ رہے.میں نے ان کو بتایا یا لکھا کہ مجھے سب پتہ ہے.آپ کیا سمجھتے ہیں کہ میرے علم میں نہیں کہ یہ کیوں ایسا کر رہا ہے.لیکن وہ میرے ساتھ چالا کی نہیں کر رہا.وہ اپنے نفس کے ساتھ چالا کی کر رہا ہے.وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے يُخْدِعُونَ الله وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمُ (البقرہ:۱۲) اس لئے میں اس کی ڈور ڈھیلی چھوڑ رہا ہوں تا کہ یہ جو مجھے ظن ہے اور آپ کو بھی ہے یہ کہیں بدظنی نہ ہو.اگر وہ اس قسم کا ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں اور جیسا مجھے بھی گمان ہے تو پھر وقف میں رہنے کے لائق نہیں ہے.بدظنی کے نتیجہ میں یعنی اس ظن کے نتیجہ میں جو بدظنی بھی ہو سکتی ہے بجائے اس کے کہ ہم اس کو بدلتے پھریں اور اس کو بچاتے پھریں اس کو موقع ملنا چاہیے.چنانچہ وہ حیران رہ گیا کہ میں نے اس کو اجازت دے دی ہے.پھر اس نے کہا اب مزید اتنا عرصہ مل جائے تو اتنا روپیہ بھی مجھے مل جائے گا.میں نے کہا بیشک تم وہ بھی لے لو اور جب وہ واپس گیا تو اس کے بعد وہی ہوا جو ہونا تھا.کیسی بے وقوفوں والی چالا کی ہے.بظاہر سمجھ کی وہ بات جو تقویٰ سے خالی ہوا کرتی ہے اس کو ہم عام دنیا میں چالا کی کہتے ہیں.پس اپنے بچوں کو سطحی چالاکیوں سے بھی بچائیں.بعض بچے شوخیاں کرتے ہیں اور چالاکیاں کرتے ہیں اور ان کو عادت پڑ جاتی ہے.وہ دین میں بھی پھر ایسی شوخیوں اور چالاکیوں سے کام لیتے رہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ ان شوخیوں کی تیزی خود ان کے نفس کو ہلاک کر دیتی ہے.اس لئے وقف کا معاملہ بہت اہم ہے.واقفین بچوں کو یہ سمجھائیں کہ خدا

Page 419

415 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کے ساتھ ایک عہد ہے جو ہم نے تو بڑے خلوص کے ساتھ کیا ہے.لیکن اگر تم اس بات کے متحمل نہیں ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ تم واپس چلے جاؤ.ایک گیٹ اور بھی آئے گا جب یہ بچے بلوغت کے قریب پہنچ رہے ہوں گے.اس وقت دوبارہ جماعت ان سے پوچھے گی کہ وقف میں رہنا چاہتے ہو یا نہیں چاہتے.ایک دفعہ امریکہ میں ڈزنی لینڈ میں جانے کا اتفاق ہوا.وہاں ایک Ride ایسی تھی جس میں بہت ہی زیادہ خوفناک موڑ آتے تھے اور اس کی رفتار بھی تیز تھی اور اچانک بڑی تیزی کے ساتھ مڑتی تھی ، تو کمزور دل والوں کو اس سے خطرہ تھا کہ ممکن ہے کسی کا دل ہی نہ بیٹھ جائے.چنانچہ انہوں نے Warnings لگائی ہوئی تھیں کہ اب بھی واپس جاسکتے ہو ، اب بھی واپس جا سکتے ہو اور پھر آخری وارننگ تھی سرخ رنگ میں کہ اب یہ آخری ہے، اب واپس نہیں جاسکو گے.تو وہ بھی ایک گیٹ جماعت میں آنے والا ہے جب ان بچوں سے جو آج وقف ہوئے ہیں ان سے پوچھا جائے گا کہ اب یہ آخری دروازہ ہے، پھر تم واپس نہیں جاسکتے.اگر زندگی کا سودا کرنے کی ہمت ہے، اگر اس بات کی توفیق ہے کہ اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دو اور پھر کبھی واپس نہ لو، پھر تم آگے آؤ ورنہ تم اُلٹے قدموں واپس مڑ جاؤ.تو اس دروازے میں داخلے کے لئے آج سے ان کو تیار کریں.وقف وہی ہے جس پر آدمی وفا کے ساتھ تادمِ آخر قائم رہتا ہے.ہر قسم کے زخموں کے باوجود انسان گھٹتا ہوا بھی اسی راہ پر بڑھتا ہے.واپس نہیں مڑا کرتا.ایسے وقف کے لئے اپنی آئندہ نسلوں کو تیار کریں.اللہ آپ کے ساتھ ہو.اللہ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم واقفین کی ایک ایسی فوج خدا کی راہ میں پیش کریں جو ہر قسم کے ان ہتھیاروں سے مزین ہو جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے ضروری ہوا کرتے ہیں اور پھر اُن پر ان کو کامل دسترس ہو.

Page 420

مشعل راه جلد سوم 416 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 421

مشعل راه جلد سوم 417 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبه جمعه فرمودہ 17 فروری 1989ء بچپن سے ہی بچوں کی صحت کی بہت احتیاط کے ساتھ نگہداشت کریں بچے کی جس کھیل کی طرف رغبت ہو، اسی کھیل کی تربیت دلانے کی کوشش کریں ی اچھی کہانیوں سے بچوں کی قوت استدلال تیز ہوتی ہے بچوں کو عربی اور اردو زبان سکھانے کی اہمیت ☆ اپنی واقفین نسلوں کو کم از کم تین زبانوں کا ماہر بنائیں بچوں کو ان معنوں میں خوش اخلاق بنائیں کہ میٹھے بول بول سکتے ہوں واقفین بچیاں واقفین سے ہی بیا ہی جائیں

Page 422

مشعل راه جلد سوم 418 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 423

مشعل راه جلد سوم 419 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:- میں نے گزشتہ خطبے میں واقفین کی نئی نسل کی تیاری کے سلسلے میں کچھ نصائح کی تھیں.یعنی واقفین کی اس نسل کی تیاری کے سلسلے میں جو انگلی صدی کے تحفے کے طور پر جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہے.چونکہ یہ مضمون پوری طرح گزشتہ خطبے میں ادا نہیں ہو سکا، بعض پہلورہ گئے اور بعض مزید وضاحت کے محتاج تھے اس لئے آج مختصر آ میں اسی مضمون کو بیان کرونگا.واقفین کی تیاری کے سلسلے میں ان کی بدنی صحت کا بھی خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے.وہ واقفین جو مختلف عوارض کا شکار رہتے ہیں اگر چہ بعض ان میں سے خدا تعالیٰ سے توفیق پا کر غیر معمولی خدمت بھی سرانجام دے سکتے ہیں لیکن بالعموم صحت مند واقفین بیمار واقفین کے مقابل پر زیادہ خدمت کے اہل ثابت ہوتے ہیں.اس لئے بچپن ہی سے ان کی صحت کی بہت احتیاط کے ساتھ نگہداشت ضروری ہے.پھر ان کو مختلف کھیلوں میں آگے بڑھانے کی با قاعدہ کوشش کرنی چاہیے.ہر شخص کا مزاج کھیلوں کے معاملے میں مختلف ہے.پس جس کھیل سے بھی کسی واقف بچے کو رغبت ہو اس کھیل میں حتی المقدور کوشش کے ساتھ ماہرین کے ذریعے اس کو تربیت دلانے کی کوشش کرنی چاہیے.بعض دفعہ ایک ایسا مربی جو کسی کھیل میں مہارت رکھتا ہو محض اس کھیل کی وساطت سے لوگوں پر کافی اثر ورسوخ قائم کر لیتا ہے اور نوجوان نسلیں اس کے ساتھ خاص طور پر وابستہ ہو جاتی ہیں.پس ہم تربیت کا کوئی بھی راستہ اختیار کریں، کیونکہ ہماری نیتیں خالص ہیں اس لئے وہ رستہ خدا ہی کی طرف جائے گا.دنیاوی تعلیم کے سلسلے میں میں نے بیان کیا تھا کہ ان کی تعلیم کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے، ان کے علم کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے.اس سلسلے میں قوموں کی تاریخ اور مختلف ممالک کے جغرافیہ کو خصوصیت کے ساتھ ان کی تعلیم میں شامل کرنا چاہیے.لیکن تعلیم میں بچے کے طبعی بچپن کے رجحانات کوضر ور پیش نظر رکھنا ہوگا اور محض تعلیم میں ایسی سنجیدگی اختیار نہیں کرنی چاہیے جس سے وہ بچہ یا تو بالکل تعلیم سے بے رغبتی اختیار کر

Page 424

مشعل راه جلد سوم 420 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی جائے یا دوسرے بچوں سے اپنے آپ کو بالکل الگ شمار کرنے لگے اور اس کا طبعی رابطہ دوسرے بچوں سے منقطع ہو جائے.کہانیوں سے ان کی تربیت کریں مثلاً بچے کہانیاں بھی پسند کرتے ہیں اور ایک عمر میں جا کر ان کو ناولز کے مطالعہ سے بھی دور نہیں رکھنا چاہیے.لیکن بعض قسم کی لغو کہانیاں جو انسانی طبیعت پر گندے اور گہرے بداثرات چھوڑ جاتی ہیں ان سے ان کو بچانا چاہیے خواہ نمونے کے طور پر ایک آدھ کہانی انہیں پڑھا بھی دی جائے.بعض بچے Detective) (Stories یعنی جاسوسی کہانیوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں لیکن اگر انہیں اسی قسم کی لغو جاسوسی کہانیاں پڑھائی جائیں جیسے آج کل پاکستان میں رائج ہیں اور بعض مصنف بچوں میں غیر معمولی شہرت اختیار کر چکے ہیں جاسوسی کہانیوں کے مصنف کے طور پر تو بجائے اس کے کہ ان کا ذہن تیز ہو.ان کی استدلال کی طاقتیں صیقل ہو جائیں اور زیادہ پہلے سے بڑھ کر ان میں استدلال کی قوت چمکے وہ ایسے جاہلا نہ جاسوسی تصورات میں مبتلا ہو جائیں گے کہ جس کا نتیجہ عقل کے ماؤف ہونے کے سوا اور کچھ نہیں نکل سکتا.شریک ہومز کو تمام دنیا میں جو غیر معمولی عظمت حاصل ہوئی ہے وہ بھی تو جاسوسی ناول لکھنے والا انسان تھا لیکن اس کی جاسوسی کہانیاں دنیا کی اتنی زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں کہ آج تک کسی دوسرے مصنف کی اس طرز کی کہانیاں دوسری زبانوں میں اس طرح ترجمہ نہیں کی گئیں.جس طرح شیکسپیئر کے نام پر انگریز قوم کو فخر ہے.اسی طرح اس جاسوسی ناول نگار کے نام پر بھی انگریز قوم فخر کرتی ہے.یہ محض اس لئے ہے کہ اس کے استدلال میں معقولیت تھی اگر چہ کہا نیاں فرضی تھیں.اس لئے اس قسم کی جاسوسی کہانیاں بچوں کو ضرور پڑھائی جائیں جن سے استدلال کی قو تیں تیز ہوں.لیکن احمقانہ جاسوسی کہانیاں تو استدلال کی قوتوں کو پہلے سے تیز کرنے کی بجائے ماؤف کرتی ہیں.اسی طرح ایک رواج ہندوستان میں اور پاکستان میں آجکل بہت بڑھ رہا ہے اور وہ بچوں کو دیو مالائی کہانیاں پڑھانے کا رواج ہے اور ہندوستان کی دیو مالائی کہانیوں میں اس قسم کے لغو تصورات بکثرت ملتے ہیں جو بچے کو بھوتوں اور جادو کا قائل کریں.اس قسم کے تصورات اس کے دل میں جاگزیں کریں کہ گویا سانپ ایک عمر میں جا کر اس قابل ہو جاتا ہے کہ دنیا کے ہر جانور کا روپ دھار لے اور اسی طرح جادو گر نیاں اور ڈائنیں انسانی زندگی میں ایک گہرا کر دار ادا کرتی ہیں.یہ سارے فرضی قصے اگر بڑا

Page 425

421 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم پڑھے تو جانتا ہے کہ یہ محض دل بہلاوے کی من گھڑت کہانیاں ہیں لیکن جب بچہ پڑھتا ہے تو ہمیشہ کے لئے اس کے دل پر بعض اثرات قائم ہو جاتے ہیں.جو بچہ ایک دفعہ ان کہانیوں کے اثر سے ڈرپوک ہو جائے اور اندھیرے اور انہونی چیزوں سے خوف کھانے لگے پھر تمام عمر اس کی یہ کمزوری دور نہیں کی جاسکتی.بعض لوگ بچپن کے خوف اپنے بڑھاپے تک لے جاتے ہیں.اس لئے کہانیوں میں بھی ایسی کہانیوں کو ترجیح دینا ضروری ہے جن سے کردار میں عظمت پیدا ہو، حقیقت پسندی پیدا ہو، بہادری پیدا ہو.دیگر انسانی اخلاق میں سے بعض نمایاں کر کے پیش کئے گئے ہوں.ایسی کہانیاں خواہ جانوروں کی زبان میں بھی پیش کی جائیں وہ نقصان کی بجائے فائدہ ہی دیتی ہیں.عربی کہانیاں لکھنے والوں میں یہ رجحان پایا جاتا تھا کہ وہ جانوروں کی کہانیوں کی صورت میں بہت سے اخلاقی سبق دیتے تھے اور الف لیلیٰ کے جو قصے تمام دنیا میں مشہور ہوئے ہیں ان میں اگر چہ بعض بہت گندی کہانیاں بھی شامل ہیں لیکن ان کے پس پردہ روح یہی تھی کہ مختلف قصوں کے ذریعہ بعض انسانی اخلاق کو نمایاں طور پر پیش کیا جائے.مثلاً یہ قصہ کہ ایک بادشاہ نے اپنی ملکہ کو ایک کتے کی طرح باندھ کر ایک جگہ رکھا ہوا تھا اور جانوروں کی طرح اس سے سلوک کیا جار ہا تھا اور کتے کو بڑے اہتمام کے ساتھ معزز انسانوں کی طرح محلات میں بٹھایا گیا تھا اور اس کی خدمت پر نوکر مامور تھے.یہ قصہ ظاہر ہے کہ بالکل فرضی ہے لیکن جو اعلیٰ خلق پیش کرنا مقصود تھا وہ یہ تھا کہ کتا ما لک کا وفادار تھا اور ملکہ دغا باز اور احسان فراموش تھی.پس ایسی کہانیاں پڑھ کر بچہ کبھی یہ سبق نہیں لیتا کہ بیوی پر ظلم کرنا چاہیے بلکہ یہ سبق لیتا ہے کہ انسان کو دوسرے انسان کا وفادار اور احسان مند رہنا چاہیے.اسی طرح مولانا روم کی مثنوی بعض کہانیاں ایسی بھی پیش کرتی ہے جو پڑھ کر بعض انسان سمجھتے ہیں کہ یہ کیسے مولا نا ہیں جو اتنی گندی کہانیاں بھی اپنی مثنوی میں شامل کئے ہوئے ہیں جن کو پڑھ کر انسان یہ سمجھتا ہے کہ ان کی ساری توجہ جنسیات کی طرف ہے اور اس کے باہر یہ سوچ بھی نہیں سکتے.چنانچہ ایک دفعہ لاہور کے ایک معزز غیر احمدی سیاستدان نے مجھے مولانا روم کی مثنوی پیش کی جس میں جگہ جگہ نشان لگائے ہوئے تھے اور ساتھ یہ کہا کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بزرگ انسان تھا یہ اتنا بڑا مرتبہ تھا، ایسا بڑا فلسفی تھا، ایسا صوفی تھا.لیکن یہ واقعات آپ پڑھیں اور مجھے بتائیں کہ کوئی شریف انسان یہ برداشت کرے گا کہ اس کی بہو بیٹیاں ان کہانیوں کو پڑھیں.چنانچہ جب میں نے ان حصوں کو خصوصیت سے پڑھا تو یہ معلوم ہوا کہ نتیجہ نکالنے میں اس دوست نے غلطی کی ہے.یہ کہانیاں جنسیات سے ہی تعلق رکھتی تھیں لیکن ان کا آخری نتیجہ ایسا تھا کہ انسان کو جنسی بے راہ روی

Page 426

422 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم سے سخت متنفر کر دیتا تھا اور انجام ایسا تھا جس سے جنسی جذبات کو انگیخت ہونے کی بجائے پاکیزگی کی طرف انسانی ذہن مائل ہوتا تھا.پس یہ تو اس وقت میرا مقصد نہیں کہ تفصیل سے لٹریچر کی مختلف قسموں پر تبصرہ کروں.یہ چند مثالیں اس لئے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ اپنے بچوں کو جو کچھ آپ پڑھاتے ہیں اس کے متعلق خوب متنبہ رہیں کہ اگر غلط لٹریچر بچپن میں پڑھایا گیا تو اس کے بداثرات بعض موت تک ساتھ چھٹے رہتے ہیں اور اگر اچھا لٹریچر پڑھایا جائے تو اس کے نیک اثرات بھی بہت ہی شاندار نتائج پیدا کرتے ہیں اور بعض انسانوں کی زندگیاں سنوار دیا کرتے ہیں.جہاں تک زبانوں کا تعلق ہے سب سے زیادہ زور شروع ہی سے عربی زبان پر دینا چاہیے.کیونکہ ایک (مربی) عربی کے گہرے مطالعہ کے بغیر اور اس کے بار یک در بار یک مفاہیم کو سمجھے بغیر قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے پوری طرح استفادہ نہیں کر سکتا.اس لئے بچپن ہی سے عربی زبان کے لئے بنیا د قائم کرنی چاہیے اور جہاں ذرائع میسر ہوں اس کی بول چال کی تربیت بھی دینی چاہیے.قادیان اور ربوہ میں ایک زمانے میں جب ہم طالبعلم تھے عربی زبان کی طرف توجہ تھی لیکن بول چال کا محاورہ نہیں سکھایا جاتا تھا یعنی توجہ سے نہیں سکھایا جاتا تھا.اس لئے اس کا بھی ایک نقصان بعد میں سامنے آیا.آج کل جو رواج ہے کہ بول چال سکھائی جارہی ہے لیکن زبان کے گہرے معانی کی طرف پوری توجہ نہیں کی جاتی.اس لئے بہت سے عرب بھی ایسے ہیں اور تجارت کی غرض سے عربی سیکھنے والے بھی ایسے ہیں جو زبان بولنا تو سیکھ گئے ہیں لیکن عربی کی گہرائی سے ناواقف ہیں اور اس کی گرائمر پر عبور نہیں ہے.پس اپنی واقفین نسلوں کو ان دونوں پہلوؤں سے متوازن تعلیم دیں.عربی کے بعد اردو بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل غلامی میں اس زمانے کا جو امام بنایا گیا ہے اس کا اکثر لٹریچر اردو میں ہے.احمد یہ لٹریچر چونکہ خالصہ قرآن اور حدیث کی تفسیر میں ہے اس لئے عرب پڑھنے والے بھی جب آپ کے عربی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ قرآن اور حدیث پر ایک ایسی گہری معرفت اس انسان کو حاصل ہے کہ جو اِن لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی تھی جو مادری لحاظ سے عربی زبان سیکھنے اور بولنے والے ہیں.چنانچہ ہمارے عربی مجلہ التقوی میں حضرت اقدس مسیح موعود کے جو اقتباسات شائع ہوتے ہیں ان کو پڑھ کر بعض غیر احمدی عرب علماء کے ایسے عظیم الشان تحسین کے خط ملے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.بعض ان میں سے مفتیوں کے بیٹے ہیں.اس عظمت کے آدمیوں کے بیٹے ہیں جن کو دین پر عبور ہے اور دین میں

Page 427

423 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم وف مفتی ہیں.ان کا نام لینا یہاں مناسب نہیں لیکن انہوں نے مجھے خط لکھا کہ ہم تو حیران رہ گئے ہیں دیکھ کر اور بعض عربوں نے کہا کہ ایسی خوبصورت زبان ہے، ایسی دلکش عربی زبان ہے حضرت مسیح موعود کی.ایک شخص نے کہا.میں بہت شوقین ہوں عربی لٹریچر کا مگر آج تک اس عظمت کا لکھنے والا میں نے کوئی عربی نہیں دیکھا.پس عربی کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود کے اردو لٹریچر کا مطالعہ بھی ضروری ہے اور بچوں کو اتنے معیار کی اردو سکھانی ضروری ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود کے اردو لٹریچر سے براہ راست فائدہ اٹھا سکیں.جہاں تک دنیا کی دیگر زبانوں کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے اکثر اہم ممالک میں ایسی احمدی نسلیں تیار ہو رہی ہیں جو مقامی زبان نہایت شستگی کے ساتھ اہل زبان کی طرح بولتی ہیں اور یہاں ہالینڈ میں بھی ایسے بچوں کی کمی نہیں ہے جو باہر سے آنے کے باوجود ہالینڈ کی زبان ہالینڈ کے باشندوں کی طرح نہایت شستگی اور صفائی سے بولنے والے ہیں.لیکن افسوس یہ ہے کہ ان کا اردو کا معیار ویسا نہیں رہا.چنانچہ بعض بچوں سے جب میں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ہالینڈش زبان میں تو وہ بہت ترقی کر چکے ہیں لیکن اردو زبان پر عبور خاصا قابل توجہ ہے یعنی عبور حاصل نہیں ہے اور معیار خاصہ قابل توجہ ہے.پس آئندہ اپنی واقفین نسلوں کو کم از کم تین زبانوں کا ماہر بنانا ہوگا.عربی، اردو اور مقامی زبان.پھر ہمیں انشاء اللہ آئندہ صدی کے لئے دیگر ممالک میں احمدیت یعنی حقیقی (دین حق ) کی تعلیم پیش کرنے والے بہت اچھے (مربی) مہیا ہو جائیں گے.آئندہ جماعت کی ضروریات میں بعض انسانی خلق سے تعلق رکھنے والی ضروریات ہیں جن کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا اور اب دوبارہ اس پہلو پر زور دینا چاہتا ہوں.پس واقفین بچوں کے اخلاق پر خصوصیت سے توجہ کی ضرورت ہے.انہیں خوش اخلاق بنانا چاہیے.ایک تو اخلاق کا لفظ ہے جو زیادہ گہرے خصائل سے تعلق رکھتا ہے.اس کے متعلق میں پہلے کئی دفعہ بات کر چکا ہوں.لیکن ایک اخلاق کا معنی عرف عام میں انسان کی میل جول کی اس صلاحیت کو کہتے ہیں جس سے وہ دشمن کم بناتا ہے اور دوست زیادہ.کوئی بد مزاج انسان اچھا واقف زندگی ثابت نہیں ہو سکتا اور کوئی خشک مزاج انسان ملاں تو کہلا سکتا ہے، پیچ معنوں میں روحانی انسان نہیں بن سکتا.ایک دفعہ ایک واقف زندگی کے متعلق ایک جگہ سے شکایتیں ملیں کہ یہ بد خلق ہے اور ترش روئی سے لوگوں سے سلوک کرتا ہے.جب میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے یہ جواب دیا کہ سب جھوٹ بولتے ہیں.میں تو بالکل درست اور صحیح چل رہا ہوں اور انکی خرابیاں ہیں.جب توجہ دلاتا ہوں تو پھر آگے سے غصہ کرتے ہیں.میں نے ان سے کہا کہ خرابیوں کی طرف تو سب

Page 428

مشعل راه جلد سوم 424 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی سے زیادہ توجہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دلائی تھی اور جتنی دوری اس دنیا کے لوگوں کی آپ سے تھی اسکا ہزارواں حصہ بھی جماعت احمدیہ کے نوجوان آپ سے فاصلے پر نہیں کھڑے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامل طور پر معصوم تھے اور آپ خود اپنے اندر کچھ خرابیاں رکھتے ہیں.جن سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخاطب تھے وہ تمام برائیوں کی آماجگاہ تھے.مگر یہ نو جوان تو کئی پہلوؤں سے سلجھے ہوئے، منجھے ہوئے اور باہر کی دنیا کے جوانوں سے سینکڑوں گنا بہتر ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ آپ جب نصیحت کریں تو وہ بدکتے ہیں اور متنفر ہوتے ہیں اور آنحضرت جب نصیحت فرماتے تھے وہ آپ کے عاشق ہو جایا کرتے تھے.دوسرے میں نے ان سے کہا کہ ایک آدھ شکایت تو ہر (مربی) کے متعلق، ہر ایسے شخص کے متعلق آہی جاتی ہے جو کسی کام پر مامور ہو.ہر شخص کو وہ راضی نہیں کر سکتا.کچھ لوگ ضرور ناراض ہو جایا کرتے ہیں لیکن ایک شخص کے متعلق شکایتوں کا تانتا لگ جائے تو اس پر غالب کا یہ شعر اطلاق پاتا ہے.سختی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی بچوں کو خوش اخلاق بنائیں پس اپنے بچوں کو خوش اخلاق ان معنوں میں بنائیں کہ میٹھے بول بول سکتے ہوں.لوگوں کو پیار سے جیت سکتے ہوں.غیروں اور دشمنوں کے دلوں میں راہ پا سکتے ہوں.اعلیٰ سوسائٹی میں سرایت کر سکتے ہوں.کیوں کہ اسکے بغیر نہ تربیت ہو سکتی، نہ ( دعوت الی اللہ ) ممکن ہے.بعض ( مربیان ) کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطا فرمائی ہے.اسلئے اپنے ملک کے بڑے سے بڑے لوگوں سے جب وہ ملتے ہیں تو تھوڑی سی ملاقات میں وہ انکے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور اسکے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے (دعوت الی اللہ ) کی عظیم الشان را ہیں کھل جاتی ہیں.جہاں تک بچیوں کا تعلق ہے اس سلسلے میں بھی بار ہا ماں باپ سوال کرتے ہیں کہ ہم انہیں کیا بنا ئیں؟ وہ تمام باتیں جو مردوں کے متعلق یا لڑکوں کے متعلق میں نے بیان کی ہیں وہ ان پر بھی اطلاق پاتی ہیں.لیکن اسکے علاوہ انہیں گھر گرہستی کی اعلیٰ تعلیم دینی بہت ضروری ہے اور گھر یلو اقتصادیات سکھانا ضروری ہے.کیونکہ بعید نہیں کہ وہ واقفین بچیاں واقفین کے ساتھ ہی بیا ہی جائیں.جب میں کہتا ہوں کہ بعید نہیں تو مراد یہ ہے کہ آپکی دلی خواہش یہی ہونی چاہیے کہ واقفین بچیاں

Page 429

425 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم واقفین سے ہی بیا ہی جائیں ورنہ غیر واقفین کے ساتھ ان کی زندگی مشکل گزرے گی اور مزاج میں بعض دفعہ ایسی دوری ہو سکتی ہے کہ ایک واقف زندگی بچی کا اپنے غیر واقف خاوند کے ساتھ مذہب میں اسکی کم دلچسپی کی وجہ سے گزارا نہ ہو اور واقفین کے ساتھ شادی کے نتیجے میں بعض دوسرے مسائل اسکو در پیش ہو سکتے ہیں.اگر وہ امیر گھرانے کی بچی ہے.اسکی پرورش ناز و نعم میں ہے اور اعلیٰ معیار کی زندگی گزار رہی ہے تو جب تک شروع ہی سے اسے اس بات کے لئے ذہنی طور پر آمادہ نہ کیا جائے کہ وہ سادہ سخت زندگی اور مشقت کی زندگی برداشت کر سکے اور یہ سلیقہ نہ سکھایا جائے کہ تھوڑے پر بھی انسان راضی ہوسکتا ہے اور تھوڑے پر بھی سلیقے کے ساتھ انسان زندہ رہ سکتا ہے.پس ایسی لڑکیاں جن کو بچپن سے مطالبوں کی عادت ہوتی ہے وہ جب واقفین زندگی کے گھروں میں جاتی ہیں تو انکے لئے بھی جہنم پیدا کرتی ہیں اور اپنے لئے بھی.مطالبے میں فی ذاتہ کوئی نقص نہیں لیکن اگر مطالبہ توفیق سے بڑھ کر ہو تو پھر خواہ خاوند سے ہو یا ماں باپ سے یا دوستوں سے تو زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں ہمیں کیا خوبصورت سبق دیا جب فرمایا.لَا يُكَلِّفُ الله نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کہ خدا کسی کی توفیق سے بڑھ کر اس سے مطالبہ نہیں کرتا.تو بندوں کا کیا حق ہے کہ توفیق سے بڑھ کر مطالبے کر یں.پس واقفین زندگی کی بیویوں کے لئے یا واقفین زندگی لڑکیوں کے لئے ضروری ہے کہ یہ سلیقہ سیکھیں کہ کسی سے اسکی توفیق سے بڑھ کر نہ توقع رکھیں، نہ مطالبہ کریں اور قناعت کے ساتھ کم پر راضی رہنا سیکھ لیں.اس ضمن میں ایک اہم بات جو بتانی چاہتا ہوں کہ حضرت مصلح موعود نے واقفین کی تحریک کے ساتھ ایک یہ بھی تحریک فرمائی کہ امیر گھروں کے بچوں کے باقی افراد کو یہ قربانی کرنی چاہیے کہ اسکے وقف کی وجہ سے اسکے لئے خصوصیت کے ساتھ کچھ مالی مراعات مہیا کریں اور یہ سمجھیں کہ جتنا مالی لحاظ سے ہم اسکو بے نیاز بنائیں گے اتنا بہتر رنگ میں وہ قومی ذمہ داریوں کی امانت کا حق ادا کر سکے گا.اس نصیحت کا اطلاق صرف امیر گھرانوں پر نہیں بلکہ غریب گھرانوں پر بھی ہوتا ہے.ہر واقف زندگی گھر کو یعنی ہر گھر جس میں کوئی واقف زندگی ہے آج ہی سے یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ خدا ہمیں جس پر رکھے گا ہم اپنے واقف زندگی تعلق والے کو اس سے کم معیار پر نہیں رہنے دیں گے.یعنی جماعت کے مطالبے کی بجائے بھائی اور بہنیں یا ماں باپ اگر زندہ ہوں اور توفیق رکھتے ہوں یا دیگر قریبی مل کر یہ ایسا نظام بنائیں گے کہ واقف زندگی بچہ اپنے زندگی کے معیار میں اپنے گھر والوں کے ماحول اور انکے معیار سے کم تر نہ رہے.چنانچہ ایسے بچے جب زندگی کی دوڑ میں حصہ لیتے ہیں تو کسی قسم کے (Inferiority Complex) یعنی احساس کمتری کا شکار نہیں رہتے اور امانت کا حق زیادہ بہتر ادا کر سکتے ہیں.جہاں تک بچیوں کی تعلیم کا تعلق ہے اس

Page 430

426 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم میں خصوصیت کے ساتھ تعلیم دینے کی تعلیم دلانا یعنی ایجوکیشن کی انسٹرکشن جسے Bachelor Degree in Education غالباً کہا جاتا ہے یا جو بھی اسکا نام ہے.مطلب یہ ہے کہ انکو استانیاں بنے کی ٹرینینگ دلوانا، خواہ انکو استانی بنانا ہو یا نہ بنانا ہو انکے لئے مفید ہو سکتا ہے.اسی طرح لیڈی ڈاکٹر ز کی جماعت کو خدمت کے میدان میں بہت ضرورت ہے.پھر کمپیوٹر سپیشلسٹ کی ضرورت ہے اور ٹائپسٹ کی ضرورت ہے اور یہ سارے کام عورتیں مردوں کے ملے جلے بغیر ، سوائے ڈاکٹری کے، باقی سارے کام عمدگی سے سرانجام دے سکتی ہیں.پھر زبانوں کا ماہر بھی انکو بنایا جائے یعنی لٹریری (Literary) نقطہ نگاہ سے ، ادبی نقطہ نگاہ سے انکو زبانوں کا چوٹی کا ماہر بنانا چاہیے تا کہ یہ جماعت کی تصنیفی خدمات کر سکیں.اس طرح اگر ہم سب اپنی آئندہ واقفین نسلوں کی نگہداشت کریں اور انکی پرورش کریں انکو بہترین واقف بنانے میں مل کر جماعتی لحاظ سے اور انفرادی لحاظ سے سعی کریں تو میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ صدی کے اوپر جماعت احمدیہ کی اس صدی کی نسلوں کا ایک ایسا احسان ہوگا کہ جسے وہ ہمیشہ جذ بہ تشکر اور دعاؤں کے ساتھ یاد کریں گے.آخر پر یہ بتانا ضروری ہے کہ سب سے زیادہ زور تربیت میں دعا پر ہونا چاہیے.ان بچوں کے لئے ہمیشہ دردمندانہ دعائیں کرنا اور ان بچوں کو دعا کرنا سکھانا اور دعا کرنے کی تربیت دینا تا کہ بچپن ہی سے یہ اپنے رب سے ایک ذاتی گہرا تعلق قائم کر لیں اور اس تعلق کے پھل کھانے شروع کر دیں.جو بچہ دعا کے ذریعے اپنے رب کے احسانات کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے وہ بچپن ہی سے ایک ایسی روحانی شخصیت حاصل کر لیتا ہے جس کا مربی ہمیشہ خدا بنا رہتا ہے اور دن بدن اسکے اندر وہ تقدس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے جوخدا کے بچے تعلق کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا اور دنیا کی کوئی تعلیم اور کوئی تربیت وہ اندرونی تقدس انسان کو نہیں بخش سکتی جو خدا تعالیٰ کی معرفت اور اسکے پیار اسکی محبت کے نتیجے میں نصیب ہوتا ہے.پس ان بچوں کی تربیت میں دعاؤں سے بہت زیادہ کام لیں.خود انکے لئے دعا کریں اور انکو دعا کرنے والے بچے بنائیں.میں امید رکھتا ہوں کہ ان ذرائع کو اختیار کر کے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے سپرد کرنے سے پہلے پہلے ہی یہ بچے ہر قسم کے حسن سے آراستہ ہو چکے ہوں گے اور ایسے ماں باپ بڑی خوشی کے ساتھ اور کامل اطمینان کے ساتھ ایک ایسی قربانی خدا کے حضور پیش کر رہے ہوں گے جسے انہوں نے اپنی توفیق کے مطابق خوب سجا کر اور بنا کر خدا کے حضور پیش کیا ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعلیٰ تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 431

حيم مشعل راه جلد سوم 427 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ کے چھٹے سالانہ یورپین اجتماع سے افتتاحی خطاب فرمودہ 15 ستمبر 1989ء خدام الاحمدیہ دیگر تنظیمات سے روابط پیدا کرے ( دین حق ) کی طرف یورپ کا بڑھتا ہوا رجحان حسین ( دین حق ) کی تصویر خدام نے دکھانی ہے خدام گر دو پیش سے ایسا تعلق پیدا کریں جو ان کو حرکت میں لائے جماعت احمدیہ کی موثر قوت عمل...و قار عمل

Page 432

مشعل راه جلد سوم 428 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 433

مشعل راه جلد سوم 429 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- خدام الاحمدیہ دیگر تنظیمات سے روابط پیدا کرے مجلس خدام الاحمدیہ یورپ کا یہ انگلی صدی کا پہلا سالانہ اجتماع ہے اور اس پہلو سے اس اولیت کی بناء پر اسے خاص تاریخی مقام حاصل ہے.جہاں تک مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کا تعلق ہے اسے اللہ تعالیٰ نے یورپ میں ایک مرکزی حیثیت عطا فرما دی ہے.اور باوجود اس کے کہ بعض دوسرے یورپین ممالک میں بھی خدام الاحمدیہ بفضلہ تعالیٰ مستعد ہیں اور حسب توفیق خدمت دین بجالانے میں خدام پیچھے نہیں رہتے لیکن جرمنی کے خدام کو جس طرح غیر معمولی انہاک، محنت، خلوص اور استقلال کے ساتھ بہت سے مواقع پر خدمت دین کی توفیق ملی ہے یہ وہ ایک خاص اور ممتاز مقام ہے جو خدا تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا ہے لیکن جہاں تک غیر دنیا کا تعلق ہے ابھی تک میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ جرمنی کے خدام ابھی اپنے ماحول پر اثر انداز نہیں ہو سکے.اس پہلو سے یورپ کے دیگر خدام بھی میرے مخاطب ہیں.ہر چند کہ اندرونی طور پر مجالس خدام الاحمدیہ میں غیر معمولی سرگرمی کے آثار پائے جاتے ہیں لیکن جہاں تک بیرونی دنیا سے تعلق کا سوال ہے اس پہلو سے سہرا جرمنی کے خدام کے سر نہیں بلکہ خدام الاحمدیہ یونائیٹڈ کنگڈم یعنی انگلستان کے سر پر ہے وہ اس لحاظ سے آپ سے آگے بڑھ چکے ہیں اور بہت سے مواقع پر انہوں نے ایسی تقریبات منعقد کیں اور ابھی بھی اسی قسم کی اور تقریبات منعقد کرنے کے کچھ منصوبے بنا چکے ہیں، کچھ آئندہ بنائیں گے جن سے خدام الاحمدیہ کو اپنی ہی قسم کی دوسری تنظیمات سے رابطہ پیدا کرنے کا موقع ملے اور وہ خدام الاحمدیہ کے اخلاق اور خدام الاحمدیہ کے خاص کردار سے متاثر ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ جرمنی کی جماعت کے لئے اس میدان میں آگے بڑھنے کے بہت سے مواقع موجود ہیں اور انگلستان کی جماعت کے لئے بھی ابھی اور بہت سے آگے بڑھنے کے مواقع موجود ہیں اور یہ کام نہایت ضروری ہے.اگر چہ ( دعوت الی اللہ ) کے لحاظ

Page 434

430 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم سے میں اس بات پر ہمیشہ زور دیتا ہوں کہ انفرادی ( دعوت الی اللہ ) ہی سے درحقیقت کامیابیاں وابستہ ہوا کرتی ہیں اور اجتماعی اور لٹریچر کے ذریعہ پیغام پہنچانے کی جو کوششیں ہوتی ہیں وہ دلوں پر عمومی اثر تو ڈال دیتی ہیں ، دماغوں کو بالعموم مائل تو کر دیتی ہیں مگر انسانی واسطے اور انسانی تعلق کے بغیر ، خصوصاً انفرادی کردار کو دیکھے بغیر لوگ مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا کرتے.پس وہ نصیحت اپنی جگہ ہے اور اس موضوع پر میں بارہا پہلے بھی آپ سے خطاب کر چکا ہوں لیکن جہاں تک اجتماعی تعلق کا سوال ہے یعنی اجتماعی طور پر دوسری تنظیموں کے ساتھ رابطہ پیدا کرنا اس کو بھی اس سلسلہ میں ایک بہت بڑی اہمیت حاصل ہے.آج کل یورپ میں جوانوں کی تنظیمیں بہت ہی زیادہ مستعد ہورہی ہیں اور بالعموم آج کے دور میں یورپ کے نوجوان جب بھی کوئی تنظیم کی شکل اختیار کرتے ہیں تو وہ تنظیم اپنے ماضی کے خلاف بغاوت کا علم بلند کر رہی ہوتی ہے اور یہ قدر مشترک صرف یورپ کے نوجوانوں کی تنظیم کی ہی نہیں بلکہ امریکہ اور دیگر مغربی دنیا میں بھی یہی رجحانات ہیں جو سراٹھا رہے ہیں.پس ایک طرف تو خدام الاحمدیہ کی تنظیم ہے جو اپنے ماضی کے ساتھ اپنے روابط کو مضبوط کرنے کے لئے کوشاں ہے اور ماضی کی کھوئی ہوئی قدروں کو دوبارہ اپنی ذات میں زندہ کرنے کے لئے پروگرام بنا رہی ہے دوسری طرف دنیا کے یہ نوجوان ہیں جن کا رخ اپنے ماضی سے ہٹ کر کسی ایسی سمت میں ہے جسے ابھی تک وہ معین نہیں کر سکے.اس پہلو سے ہمارا ان سے رابطہ اور تعلق بہت ضروری ہے لیکن میں آپ کو یہ بات سمجھا دینا چاہتا ہوں کہ بظاہر یہ دور خ مختلف ہیں لیکن حقیقت میں یہ رخ مختلف نہیں ہیں.( دین حق ) کی طرف یورپ کا بڑھتا ہوا رجحان زیادہ یورپ کا ماضی ( دین حق) سے زیادہ دور تھا.یورپ کے ماضی کا مزاج ( دین حق ) کے خلاف بہت مشتعل تھا اور حد سے زیادہ غلط فہمیوں پر مبنی تھا.اس لئے اگر یورپ کے نوجوان اپنے ماضی کے خلاف بغاوت کرتے ہیں تو وہ (دین حق) سے دور نہیں ہٹتے بلکہ ( دین حق ) کی قدروں کے قریب تک آتے ہیں یا آ سکتے ہیں.اس لئے ان کی بغاوت یعنی ان کی اپنے ماضی سے بغاوت آپ کے اپنے ماضی سے قریب ہونے کے مخالف رو پیدا نہیں کرتی بلکہ اس کے موافق رو پیدا کرتی ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگاہ زندہ وار

Page 435

431 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم تو ابھی اس تبدیلی کے آثار یورپ میں نمایاں نہیں تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے جو فراست عطا فرمائی تھی، یہ اس فراست کا کرشمہ تھا کہ آئندہ پیدا ہونے والے رجحانات کو آپ نے ایک سوسال پہلے مشاہدہ کیا اور اس مشاہدے کو یقینی اور قطعی سمجھتے ہوئے اس پر بناء کرتے ہوئے آپ نے دنیا کو یہ خوشخبری دی کہ خواہ تم مجھے دیوانہ سمجھو، ( دین حق) کی طرف میں یورپ کے مزاج کو آتا ہوا دیکھ رہا ہوں اور مجھے فتح ( دین حق ) کا وہ یوسف دکھائی دینے لگا ہے، اس کی خوشبو آ رہی ہے.جیسے حضرت یعقوب کو اپنے پیارے یوسف کی خوشبو آئی تھی.جیسے یعقوب کو اس کے بیٹوں نے دیوانہ کہا تھا اور کہا تھا تو تو یوسف کے عشق میں پاگل ہو چکا ہے اور ایسی فرضی باتیں سوچتا رہتا ہے جن کا کوئی وجود نہیں.اسی طرح میں ( دین حق کی فتح کا دیوانہ ہو چکا ہوں.لاکھ تم مجھے دیوانہ کہتے رہو، مگر مجھے تو اپنے یوسف کی خوشبو آنی شروع ہو گئی ہے.یہ سو سال پہلے کی بات ہے آج تو وہ خوشبو اپنی مہک کے ساتھ بڑی نمایاں ہو چکی ہے اور ان نو جوانوں کا جن کا میں نے ذکر کیا ہے رجحان اپنے ماضی سے ہٹ کر کسی ایسے مستقبل کی طرف مائل ہوا ہے جس کی نشان دہی وہ ابھی تک نہیں کر سکے.آج بھی ان کو معلوم نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں.کس طرف ان کا رخ ہے اور کون سا ایسا مقام ہے جس کی جانب بڑھنے سے ان کے دلوں کو اطمینان نصیب ہو سکتا ہے.مگر حضرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج سے سو سال پہلے اس مقام کی نشان دہی فرما دی.آپ نے فرمایا کہ ان کا مزاج ( دین حق ) کے طرف مائل ہورہا ہے.اب بظاہر آج بھی ( دین حق) کے خلاف غلط فہمیاں موجود ہیں اور بظاہر آج بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ کرام کے مقام کو یہ لوگ نہیں سمجھ رہے اور بعض اپنی بدنصیبی اور بدبختی کی وجہ سے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دشنام طرازی سے بھی باز نہیں آتے اور ایسے خبیثانہ لٹریچر جیسے سلمان رشدی نے لکھا اس کی تعریف میں بھی رطب اللسان دکھائی دیتے ہیں.مگر اس کے با وجود یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ ان کا مزاج بالعموم ( دین حق ) کی طرف مائل ہو رہا ہے کیونکہ یہ زیادہ معقولیت اختیار کرتے چلے جارہے ہیں.فرضی تصوف میں یقین رکھنے سے یہ انکار کر چکے ہیں اور جو بھی سچائی کی حقیقت ان پر روشن ہوئی اس کو قبول کرنے پر ان کے دل آمادہ ہیں.پس غلط فہمیوں کو دور کرنا یہ آپ کا کام ہے.یہ میرا کام ہے، یہ ہم سب کا مشترکہ کام ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہیں فرمایا کہ یہ (مومن) ہو رہے ہیں.فرمایا: ان کا مزاج ( دین حق) کے قریب آ رہا ہے پس جہاں تک نبض شناسی کا تعلق ہے اگر قومی لحاظ سے آپ مغرب کے نوجوانوں کی نبض پر ہاتھ رکھیں تو یہ کہنے میں کوئی بھی باک محسوس

Page 436

432 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم نہیں کریں گے کہ ان کا مزاج دن بدن ( دین حق) کے قریب آ رہا ہے.ان کے تکبر ٹوٹ رہے ہیں.انسان اور انسان کے درمیان جو نفرت کی دیواریں تھیں وہ بہت سی جگہ کم ہو رہی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ نوجوان ایک نئی دنیا ایک نئے نظام کی تلاش میں ہیں.پس اس پہلو سے ان سے جماعت احمدیہ کا وسیع پیمانے پر رابطہ ضروری ہے اگر آپ نے ایسا نہ کیا ، اگر ایسا کرنے میں آپ نے دیر کر دی تو بعض دوسری تنظیمیں جو وقتی طور پر چمک دمک رکھتی ہیں، ایک عارضی کشش رکھتی ہیں وہ ان کی توجہ کو اپنی طرف سمیٹ لیں گی.ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو ابھی بھی ہرے کرشنا تحریک کی طرف مائل دکھائی دیتے ہیں.کئی ان میں سے بدھسٹ ہورہے ہیں.کئی اور کئی قسم کے مشرقی مذاہب کی جستجو کر رہے ہیں.کسی کو اگر اور دلچسپی ( دین حق ) میں نہ بھی نظر آئے تو صوفی ازم کی طرف ان کا میلان نمایاں نظر آ رہا ہے.ہرایسی چیز کی تلاش میں ہیں جن سے اپنا حال اور اپنے ماحول کو بھلا کر کسی خیال میں گم ہو جائیں.اگر آپ مزاج شناسی کی اہلیت رکھتے ہوں تو آپ یقیناً اس بات کی تصدیق کریں گے کہ یہ اس وقت بھاگنا چاہتے ہیں ،شعور سے بھاگنا چاہتے ہیں، اب باہر کی دھوپ سے بھاگنا چاہتے ہیں اور بھا گنا چاہتے ہیں کسی ایسی جگہ جس کا علم ان کو نہیں مگر سمجھتے ہیں کہ ہم تھک چکے ہیں دنیا کی پیروی سے.ہمیں اطمینان چاہیے اور وہ اطمینان ان فرضی اطمینان گاہوں میں حاصل کر رہے ہیں جن کا میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا ہے.لیکن لمبا عرصہ تک یہ تحریکات یہ نظریات ان کے دلوں کو مطمئن نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ایک سطحی کشش ہے.ان باتوں میں گہرائی کوئی نہیں.ہرے کرشنا میں اگر کوئی کشش ہے تو یہی کہ چھٹے بجا کر اور گانے کے ذریعے ان کے اندر جو بعض تمدنی رجحانات پائے جاتے ہیں ان کی وہ تسکین کریں اور دوسری ذمہ داریوں سے ان کو آزاد کریں اور وقتی طور پر ایک قسم کے نشہ میں مبتلا ہو کر یہ سمجھیں کہ ہم نے اپنے لئے جنت حاصل کر لی ہے مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ ان کا شعور بھی بیدار ہو رہا ہے ایک پہلو سے ان کے اندر منطق کی قوتیں جس طرح آج روشن ہیں اس سے پہلے کبھی روشن نہیں ہوئی تھیں.اس لئے زیادہ دیر تک ایک بے دلیل جنت میں یہ ہ نہیں سکتے ان کو مطمئن کرنے کے لئے ( دین حق کی منطق کی ضرورت ہے، ایک ایسی منطق جو دل اور دماغ کے درمیان فاصلے دور کر دے جہاں سوچ اور جذبات ایک ہی ساتھ دھڑکتے ہوں اور جہاں خدا کے قول اور خدا کے فعل میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا.یہ وہ چیز ہے جو ( دین حق ) کے سوا کسی مذہب میں اس وقت موجود ہے نہ کوئی مذہب اس پہلو سے ( دین حق ) کے قریب تر پہنچا ہے.

Page 437

مشعل راه جلد سوم 433 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حسین ( دین حق ) کی تصویر خدام نے دکھانی ہے.پس یہ ( دین حق ) ہی ہے جس نے بالآ خر قوموں کے لئے قلبی سکون کا کام کرنا ہے لیکن کون سا ( دین حق ) ؟ یقیناً وہ ( دین حق ) نہیں جو ایران کے شیشے میں دیکھا جاتا ہے یا لیبیا کے آئینے میں دکھائی دیتا ہے یا سعودی عرب کے چہرے پر جس کے آثار دکھائی دیتے ہیں اور جس سے آزاد قوموں کی طبیعتیں متنفر ہوتی ہیں اور دور بھاگتی ہیں.وہی ( دین حق ) اور صرف وہی ( دین حق ) آج انہیں قائل کر سکتا ہے جو خود حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ( دین حق تھا جس میں دل جیتنے کی ویسی ہی طاقت تھی جتنی دماغ جیتنے کی طاقت تھی.جو بیک وقت دلوں اور دماغوں کو مطمئن کرنے والا ( دین حق ) تھا.جس کے اندر غیر معمولی رحمت تھی اور تمام بنی نوع انسان کی طرف جو پیار سے جھکنے والا ( دین حق ) تھا یہ وہی ( دین حق ) ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آج دوبارہ زندہ کر کے آپ کے سامنے پیش کیا اور آج آپ اس کے نمائندہ ہیں.پس اس پہلو سے یہ حسین ( دین حق انسان کے کردار میں جو پاک تبدیلیاں پیدا کرتا ہے اور جو حسین تبدیلیاں پیدا کرتا ہے اس کی تصویر ہمارے خدام کو دکھانی ہے کیونکہ یہ ( دین حق ) محض تصورات کی دنیا میں رہتے ہوئے ان لوگوں کو اپنے حسن کا گرویدہ نہیں کر سکتا.یہ دین حق ) زندہ وجودوں کی صورت میں دکھائی دینا چاہیے.ایسی تنظیمات کی شکل میں اس ( دین حق ) کو ان سے رابطہ کرنا ہوگا ، جیسی خدام الاحمدیہ کی تنظیمات ہیں.اسے وہ آپ کی ذات میں جاری ہوتا دیکھیں گے تو پھر اس کے حسن کے گرویدہ ہوں گے.پس قومی سطح پر وسیع لحاظ سے خدام الاحمدیہ کونو جوانوں کی دیگر تنظیمات سے رابطے کے ایسے پروگرام بنانے چاہیں کہ یہ یا ان کے نمائندے آپ کی تقریبات میں آئیں اور تقریبات کو اس مقصد کی خاطر تشکیل دیا جائے کہ آنے والے یہ سمجھیں کہ یہ نوجوان ہم سے زیادہ مطمئن زندگی گذار رہے ہیں ان نو جوانوں کو کچھ ایسی دولت مل گئی ہے کہ ان کے چہروں پر جو طمانیت ہے اس کی کوئی مثال دوسری جگہ دکھائی نہیں دیتی.ان کے کردار میں ایک نئی شان پیدا ہو چکی ہے اور وہ شان ایسی ہے کہ جو حاصل کئے بغیر انسان کو عطا ہوا نہیں کرتی.کئی دفعہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ ہمارے قافلے کے ساتھ جو سفر کرنے والے نو جوان ہوتے ہیں اگر ان کو کھانا نہ کھلایا گیا ہو تو ان کے چہرے پر بھوک کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں.ان کی آنکھیں دیکھ کر اور چہرے کا رنگ دیکھ کر میں ان سے پوچھتا ہوں کیوں ابھی تک آپ کو کسی نے کھانا نہیں دیا اور جب انہوں

Page 438

434 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم نے کھانا کھایا ہو تو چہرے کی طمانیت کا رنگ ہی اور ہوتا ہے.انسان دیکھتے ہی پہچان جاتا ہے کہ آج نہ صرف کھا نا ملا ہے بلکہ اچھا کھانا ملا ہے اور سیر ہو کر کھایا گیا ہے.تو روحانی کھانے کا کیوں طبیعتوں پر ایسا اثر نہ ہو کیسے ممکن ہے کہ ( دین حق ) آپ کی روحوں کو سیراب کر چکا ہوں ( دین حق ) کی غذا آپ کے دلوں کو مطمئن کر چکی ہو اور آپ کے چہروں پر وہ غیر قو میں طمانیت کے آثار نہ دیکھیں.ناممکن ہے.پس خالی دلوں کو لے کر ایسے خون کے ساتھ جس میں ( دین حق ) سرایت نہ کر چکا ہو آپ دنیا کی قوموں کو نہ اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں نہ ( دین حق) کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں.پس تقریبات ایسی منعقد کیا کریں.بعض دفعہ جن میں غیر تنظیموں کو بلایا جائے.ان کے ساتھ قدر مشترک ڈھونڈی جائے ان کو بتایا جائے کہ ایک طریقہ تم نے اختیار کیا ہے جسے تم سمجھتے ہو کہ تمہارے دلوں کی پیاس بجھ رہی ہے ایک ہمارا بھی طریقہ ہے اس کو بھی آکر دیکھو اور دیکھو کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فرق ہے.ہمیں ایک ایسی طمانیت نصیب ہو چکی ہے جس کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ صرف یہ دنیا ہی نہیں بلکہ اس دنیا کے بعد کے مقاصد کو بھی ہم نے پالیا ہے.یہ وہ مقصد ہے جسے خدام الاحمدیہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے ماحول کی اپنے گردو پیش کی تنظیمات سے رابطے قائم کرنے چاہئیں.آپ کے اندر خواہ کتنا ہی جوش و خروش ہو، خواہ آپ کے اندر کتنی ہی حرکت پائی جائے اور قوت عمل جاری وساری دکھائی دے روابط کے بغیر آپ اپنے ماحول کو متحرک نہیں کر سکتے.خدام گر دو پیش سے ایسا تعلق پیدا کریں جو ان کو حرکت میں لائے آپ نے موٹروں کو دیکھا ہے یعنی موٹر کاروں کو.اس میں کیچ ہوتے ہیں، گئیر ز ہوتے ہیں.انجن خواہ کتنی ہی تیز رفتاری سے گھوم رہا ہو اگر کیچ کے ذریعہ آپ گئیر کے ساتھ انجن کا تعلق پیدا نہ کریں تو کار حرکت میں نہیں آئے گی.اس لئے آپ کو خدا تعالیٰ نے کار کے طور پر نہیں انجن کے طور پر پیدا کیا ہے آپ نے ساری دنیا کی گاڑی کو چلانا ہے.آپ کی اندرونی حرکت اپنی ذات میں آپ صحت کی علامت تو ہے لیکن آپ کی زندگی کا آخری مقصد نہیں جب تک ایسے گئیر کا انتظام نہ کیا جائے جس سے آپ کی حرکت آپ کے گردو پیش میں منتقل ہونے لگے اور گرد و پیش کی تنظیمات کو متحرک کر دے جب تک ایسا نہ ہواس وقت تک آپ اپنے اعلیٰ مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے یا جس مقصد کی خاطر آپ کو پیدا کیا گیا ہے اس کی تکمیل سے آپ اگر پوری طرح محروم نہیں رہیں گے تو بہت حد تک محروم رہیں گے تو اس لئے اب ضرورت ہے اس

Page 439

مشعل راه جلد سوم 435 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی بات کی بھی کہ ہم اپنے گردو پیش سے ایسا تعلق پیدا کریں جو ان کو حرکت میں لائے.اس ضمن میں ایک تنبیہ کی بھی ضرورت ہے اور جیسا کہ میں نے مثال پیش کی تھی عمداً اس غرض سے یہ مثال چینی تھی تا کہ اس کے اندر جو تنبیہہ شامل ہے اس سے بھی میں آپ کو واقف کر دوں، کاروں میں گئیر ز کا انتظام ہوتا ہے یعنی پہلا گئیر ، دوسرا گئیر ، تیسرا کئیر ، چوتھا کئیر اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اچانک انجن پر زیادہ بوجھ پڑ جائے تو بعض دفعہ انجن ٹوٹ جایا کرتا ہے اور اچانک بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتا.باوجود اس کے کہ اس کے اندر طاقت ہوتی ہے مثلاً ایک کار کے انجن میں یہ بھی طاقت ہے کہ وہ سو میل کی رفتار سے گاڑی کو چلائے یا ایک سو بیس میل یا ایک سو چالیس میل کی رفتار سے گاڑی کو چلائے لیکن جب آپ انجن کا تعلق گئیر سے کرتے ہیں تو پہلے اس گئیر سے کرتے ہیں جو دس میل سے زیادہ رفتار سے گاڑی نہیں بڑھا تا اس کے بعد چالیس میل یا پچاس میل والے گئیر سے تعلق پیدا کرتے ہیں اس سے بڑھکر پھر اس آخری گئیر سے جس پر انجن پوری قوت کو اپنے ماحول میں منتقل کر دیتا ہے.پس ایسے موقعوں پر جہاں ایک قوت کا ایک ساکت چیز سے رابطہ قائم کرنا ہوا ایک جامد چیز سے رابطہ قائم کرنا ضروری ہوا کرتا ہے کہ حکمت اور تدبیر کے ساتھ کام کیا جائے اور تدریج کو اختیار کیا جائے ورنہ آپ کے انجن پر بداثرات پڑیں گے.اگر اچانک مثلاً آپ ان غیر قوموں کی تنظیمات سے پورا رابطہ قائم کر لیں تو آپ میں سے بہت سے ہیں جن کے دلوں کو زنگ لگ جائیں گے، بہت سے ایسے ہیں جو اس رابطے کا Impact برداشت نہیں کر سکیں گے وہ سمجھیں گے کہ یہ تو غالب لوگ ہیں یہ تو طاقت والے لوگ ہیں یہ زیادہ مزے اٹھا رہے ہیں اور بجائے اس کے کہ گہرائی کے ساتھ ان کی لذتوں کا جائزہ لے سکیں اور یہ معلوم کر سکیں کہ ان کی لذتیں عارضی اور فانی ہیں ان کی لذتوں کے بعد سر در دیاں ہیں ، بہت سی تکلیفیں ہیں بہت سے دکھ ہیں جن میں خود بھی مبتلا ہوتے ہیں اور سوسائٹی کو بھی مبتلا کرتے ہیں آپ وقتی طور پر نوجوان ہونے کے باعث سمجھ سکتے ہیں کہ او ہو.یہ تو ہم سے زیادہ اچھی زندگی بسر کر رے ہیں کیوں نہ خدام الاحمدیہ سے نکل کر ان لوگوں میں شامل ہو جایا جائے.پس آپ کا انجن ان کو متحرک کرنے کی بجائے خود جامد ہو جائے گا اس لئے رابطوں میں تدریج کی ضرورت ہے اور حکمت بھی بہت ضروری ہے.پس اس لئے میں نے افراد کو نہیں کہا کہ آپ رابطے کریں، میں نے تنظیم کو کہا ہے کہ تنظیم با قاعدہ منصوبے بنا کر اپنے غیروں سے ایسے روابط پیدا کرے کہ ان کو رفتہ رفتہ طاقت کے مطابق اپنے ساتھ جذب کریں اور (دین حق) کے پیسے کے مطابق ان کو حرکت میں لائیں.ان بہترین صفات کو حرکت میں لائیں جو نوبل یعنی اعلیٰ پائے کی معزز صفات کہلا سکتی ہیں.بزرگ صفات کہلاتی ہیں جن صفات کے

Page 440

مشعل راه جلد سوم 436 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی اندر یہ خدا تعالیٰ نے خاصیت رکھی ہے کہ ان صفات کے متحرک ہونے کے نتیجہ میں انسان خود اپنے آپ کو بزرگ اور معزز مجھے لگتا ہے اور پھر بزرگ اور معزز ہستی سے اس کے تعلق قائم کرنے کے زیادہ امکانات پیدا ہو جاتے ہیں.پس اس پہلو سے بہت سے منصوبے بنانے کی ضرورت ہے.بہت سے پروگرام بنانے کی ضرورت ہے اور ان پروگراموں کو دلچسپ بنانے کی بھی ضرورت ہے.کیوں کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ یہ قومیں سر دست ظاہری کشش اور دلچسپیوں میں اتنا کھوئی جاچکی ہیں ان سے ایسی وابستہ ہوچکی ہیں کہ کوئی ایک حرکت جس میں کوئی چمک دمک نہ ہو ان کی آنکھوں کو خیرہ نہیں کر سکتیں ، ان کے دلوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتیں.پس آپ ایسے پروگرام بھی بنا سکتے ہیں جن میں کوئی دلچسپی بھی ہو.مثلا کھیلوں کے ذریعہ آپ ان سے روابط استوار کر سکتے ہیں آغاز میں اور بہت سے ایسے پروگرام دلچسپ سوچ سکتے ہیں جو علمی رنگ رکھتے ہوں لیکن دلچسپ ہوں اور ان کے نمائندگان کو دعوت دیں، ان سے روابط بڑھائیں.ان کو بتائیں کہ ہم یہ یہ کام کرتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ اپنے زیادہ سنجیدہ کاموں سے بھی ان کو متعارف کرانا شروع کریں.کوئی شخص بھی جماعت احمدیہ کی وقار عمل کی روح سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.سب سے زیادہ گہرا اثر کرنے والی چیز جو جماعت احمدیہ کی تنظیم میں پائی جاتی ہے جس کا بہت ہی وسیع اور گہرا اثر میں نے دیکھا ہے احمدیوں کی وقت کی قربانی اور اس قربانی کے نتیجہ میں عظیم الشان کام سرانجام دینا ہے.جماعت احمدیہ کی مؤثر قوت عمل اب ہمارے جلسہ سالانہ انگستان میں جو اس صدی کا پہلا ایسا جلسہ تھا جس میں خلیفہ مسیح نے بھی شرکت کی تھی اس لحاظ سے اسے مرکزی حیثیت ہوئی.اب آئندہ وقت بتائے گا کہ یہی جلسہ مرکزی جلسہ بنتا ہے یا کسی اور جلسے کو خدا تعالیٰ یہ سعادت بخشے.مگر بہر حال سردست ہم یہ کہہ سکتے ہیں اس صدی کا پہلا مرکزی جلسہ وہی تھا جو انگلستان میں منعقد ہوا.آپ جانتے ہیں کہ دنیا بھر سے وہاں نمائندگان آئے اور ان میں سے ہر ایک نے جو تاثرات مجھ سے بیان کئے یا بعد میں خطوط کے ذریعے لکھے وہ جماعت احمدیہ کی لکھی قوت عمل سے بے حد متا ثر دکھائی دیا.انہوں نے ہمارے پر لیس کو دیکھا، ہمارے روٹی پلانٹ کو دیکھا انہوں نے ہمارے طوعی خدمت کے نظاموں کو حرکت کرتے دیکھا ، کھانا کھلاتے ہوئے لوگوں کو دیکھا.روٹیاں تقسیم کرتے ہوئے دیکھا.پہروں پر مستعد دیکھا.یہ ساری و قادر عمل ہی کی مختلف شکلیں ہیں.پس اس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں بہت ہی گہرے اثرات قائم ہوئے ہیں.آج ہی میں آنے سے پہلے ڈاک کا

Page 441

437 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم مطالعہ کر رہا تھا تو دووزراء جومختلف ملکوں سے شریک ہوئے تھے ان کے خطوط دیکھے.دونوں الگ الگ ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر دونوں نے جماعت احمدیہ کی روح وقار عمل کی اتنی تعریف کی ہے اور کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں کو تو آپ نے جیت لیا ہے اس چیز سے.اور وہ دونوں لکھتے ہیں ایک ہی بات کہ ہم نے ساری زندگی میں کبھی ایسی چیز نہیں دیکھی.تو آپ کے سنجیدہ کاموں میں بھی گہری کشش ہے، اور اتنی گہری کشش ہے کہ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی راہنما بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے.یہی بات انگلستان کے ایک بہت ہی معزز راہنما نے اپنے ایک خط میں امیر صاحب انگلستان کو لکھی ہے ، اس سے پہلے کی بات ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب میں پولیس کے جو چیف کا نٹیبل ہیں اس سارے علاقے کے ان سے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ آپ کا اس جلسے میں شامل ہونے والوں کے متعلق کیا تاثر ہے.تو وہ کہتے ہیں کہ اس نے مجھ سے یہی بات کہی کہ میں نے اپنے زندگی میں کبھی ایسے لوگ نہیں دیکھے.وہ کہتے ہیں کہ پولیس تو وہاں خواہ مخواہ کھڑی تھی وہاں پر اس سارے انتظام کو چلانے کی خاطر بلکہ ایک عام نظر ر کھنے کے لئے ایک مرد کانسٹیبل اور عورت کانسٹیبل کافی تھے.عورت اس لئے کہ عورتوں کا نظام الگ تھا لیکن وہ اس لئے ضروری تھے کہ حکومت کی موجودگی وہاں ہونی چاہیے ورنہ وہ کہتے ہیں اس نے مجھے کہا جہاں تک نظام جماعت کا تعلق ہے ہم میں سے کسی کی کوئی ضرورت وہاں نہیں تھی ، پھر انہوں نے اس دوسرے وقار عمل کے مظاہروں کی جو خاموش مظاہرے از خود ہوتے چلے جارہے تھے ان کی بھی بہت تعریف کی.پھر جن ملکوں سے خطوط آ رہے ہیں جہاں واپس جا کر ان معززین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے بلا استثناء ہر جگہ سے یہی اطلاع ملتی ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کی قوت عمل سے اتنا مرعوب ہیں اور ایسا حسین تصور یہاں سے لے کر گئے ہیں کہ واپس جا کر اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے.پس آپ کے اندر خدا تعالیٰ نے وہ صفات رکھی ہیں جو بظاہر سرسری نگاہ میں کشش کا موجب نہ بھی ہوں مگر جو آپ کے قریب آئے گا جسے موقع ملے گا کہ گہری نظر سے دیکھے وہ متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.پس اتنی قوت موثرہ کے حامل ہونے کے باوجود آپ اس کو ( دین حق ) کی خدمت میں استعمال نہ کریں اور اپنے ماحول کو اس قوت متاثر ہ سے اجنبی اور نا واقف رکھیں یہ تو کوئی اچھی بات نہیں.آپ کو خدا نے ایک دولت دی ہے اس کو استعمال کریں، استعمال سے یہ وہ دولت ہے جو کم نہیں ہوگی بلکہ بڑھتی چلی جائے گی جتنے زیادہ لوگ آپ کی ان خاموش خوبیوں سے واقف ہوتے چلے جائیں گے اتنا ہی خدا تعالیٰ آپ کے اندر یہ جذبے اور بڑھا تا چلا جائے گا پس مجلس خدام الاحمدیہ کو میں یہ پروگرام دے رہا ہوں کہ وہ آئندہ غیر تنظیموں سے جو نو جوان تنظیمیں

Page 442

438 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم ہیں اس رنگ میں رابطے استوار کریں کہ وہ باقاعدہ منصوبے کے مطابق رابطے بنائے گئے ہوں.اور ان کا مقصد یہ ہو کہ ( دین حق ) نوجوانوں کو جو طمانیت کی دولت بخشتا ہے، ( دین حق ) نو جوانوں میں جو قوت عمل عطا کرتا ہے اور اس قوت کے عملی نتیجے میں ( مومن ) نوجوان جس طرح ایک اعلیٰ روحانی لذت پاتے ہیں وہ نمونے کے طور پر ان کو دکھائی جائیں اور ان کو بتایا جائے کہ اصل دائمی زندگی یہی ہے.اور باقی باتیں جن کی تم پیروی کرتے ہو عارضی اور فانی اور بے حقیقت ہیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ جرمنی جس کے متعلق میں نے پہلے بھی اظہار کیا ہے خدا کے فضل سے بڑی مستعد بڑی مخلص بڑی فعال جماعت ہے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو قوت عمل کے نہ ختم ہونے والے ذخیرے عطا فرمائے ہوئے ہیں.ان ذخیروں سے با قاعدہ تنظیم کے مطابق جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے آپ استفادہ کریں اور دعا بھی کرتے رہیں تا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ موثر رکھے اور متاثر نہ بنائے.ماحول میں بعض خوبیاں بھی ہیں ان کے متعلق میں آئندہ خطاب میں آپ سے بات کروں گا.میں ضمناً ان کا ذکر کروں گا لیکن اس سے پہلے گذشتہ خطابات میں میں یہ بات کھول چکا ہوں کہ یہ بات جھوٹی اور غلط ہے کہ گویا ہم ہی خوبیوں کے مالک ہیں اور باقی لوگ خوبیاں نہیں رکھتے.آپ کے ماحول میں دوسری تنظیمیں جو آپ سے روابط اختیار کریں گی ، ان میں خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں.پس آپ جب یہ روابط قائم کریں گے تو ان کی خوبیوں پر نظر رکھتے ہوئے یہ بھی کوشش کریں کہ آئندہ جب وہ آپ سے ملیں تو اپنی بہت سے خوبیاں آپ کے اندر پائیں اور آپ کی خوبیوں میں اضافہ ہوتا ہوا دیکھیں اور پھر جب وہ آپ سے دوبارہ ملیں تو پھر آپ کی خوبیوں میں اضافہ ہوتا ہوا دیکھیں.یہاں تک کہ ان کی خوبیوں کے بھی آپ ہی علمبردار بن جائیں اور اپنی خوبیوں کے بھی آپ ہی علمبردار بن جائیں اور حسن کے ایک ایسے اعلیٰ مقام پر فائز ہو جائیں جو اپنے ماحول کو عاشق بنادیا کرتا ہے.پس یہ عشق اور محبت ہے جو دنیا کے دلوں پر فتح یاب ہوگی.محض تقریریں اور محض نظریات غالب نہیں آیا کرتے بلکہ دلوں کو مائل کرنا بہت ضروری ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 443

مشعل راه جلد سوم 439 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ کے چھٹے سالانہ یورپین اجتماع سے اختتامی خطاب فرمودہ 17 ستمبر 1989ء خالق اور مخلوق کا رشتہ در حقیقت سب سے بڑا اور مضبوط رشتہ ہے جتنا بھی آپ خدا کی صفات کو اپنے اندر جاری کریں گے اتنا ہی آپ کی دعاؤں میں طاقت پیدا ہوگی اپنے اندر نو جوانی کی عمر میں الہی رنگ پیدا کرنے کی کوشش کریں آپ لوگوں کو قوموں کے منجی کے طور پر دنیا میں لایا گیا ہے کامل عقل خدا سے تعلق کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتی ایک نفس کا اندرونی مربی ہے.ٹیڑھی عادتوں کو اس کے سوا کوئی دوسرا صحیح نہیں کر سکتا إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا کی عظیم الشان تفسیر اپنے نفس پر رحم کرنا چھوڑ دیں ، اپنے نفس کے ناقد بن جائیں خدام الاحمدیہ قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، بنیادی مضبوطی کے کام اور عظیم قربانیاں خدام الاحمدیہ کو ہی کرنی ہیں ☆ ☆ ☆

Page 444

مشعل راه جلد سوم 440 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 445

مشعل راه جلد سوم 441 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:- اگر چہ یہ اجتماع کا آخری دن نہیں اور عموماً دستور کے مطابق اختتامی خطاب کیا جاتا ہے خلیفہ وقت کی طرف سے.وہ آخری روز ہوتا ہے.لیکن چونکہ مجھے صد سالہ جشن تشکر کے سال کے ضمن میں بہت سے سفر کرنے پڑرہے ہیں.اس لئے میں زیادہ وقت کسی ایک جگہ نہیں دے سکتا.اس لئے ان کے اصرار پر یعنی خدام الاحمدیہ جرمنی کے اصرار پر میں نے اپنے سفر جرمنی کو دوبارہ شامل تو کر لیا ہے مگر صرف دو دن یہاں دے سکا ہوں.چنانچہ میری ہی درخواست پر انہوں نے آج کے دن دوسرے اجلاس میں آخری خطاب کے لئے وقت رکھ لیا لیکن آپ کا اجتماع انشاء اللہ کل بھی جاری رہے گا اور حسب دستور جو بھی کارروائی باقی ہے وہ بھی انشاء اللہ چلتی رہے گی.آج کے خطاب میں میں اسی مضمون کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کا ذکر میں نے ہالینڈ سے شروع کیا اور اس بات کو آگے یہاں جرمنی میں خطبے میں بڑھایا اور اس کا تیسرا حصہ آج انشاء اللہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.خالق اور مخلوق کا رشتہ سب سے بڑا اور مضبوط رشتہ ہے میں نے ذکر کیا تھا کہ دعا خدا سے تعلق کے نتیجے میں تقویت پاتی ہے اور خدا سے تعلق کے سلسلے میں چند باتیں آپ کے سامنے کھول کر رکھی تھیں کہ جب تک خدا کی صفات کو آپ اپنے اندر جاری نہیں کریں گے اس وقت تک حقیقت میں آپ کی خدا سے شناسائی نہیں ہوسکتی.انسان اپنے روز مرہ کے تجربے میں یہ جانتا ہے کہ جس سے شناسائی ہو اس کی بات انسان زیادہ قبول کرتا ہے.یہ شناسائی آگے بڑھ کر گہرے تعلق میں تبدیل ہو جاتی ہے اور گہرے تعلقات پھر خونی رشتے کی شکل میں بھی ہمارے سامنے آتے ہیں اور خونی رشتوں میں پھر ماں بچے کا رشتہ ایک غیر معمولی طاقت رکھتا ہے.میں نے آپ کے سامنے یہ بات کھول کر

Page 446

مشعل راه جلد سوم 442 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی رکھی کہ خدا تعالیٰ سے اگر چہ خونی رشتہ تو کسی کا ممکن نہیں لیکن خالق اور مخلوق کا رشتہ در حقیقت سب سے بڑا اور مضبوط رشتہ ہے اور اس پہلو سے جب ہم خدا تعالیٰ کی صفات کو اپناتے ہیں تو اس رشتے کو مضبوط کرتے ہیں اور جورشتہ ہونا چاہیے، وہ عملاً ظہور پذیر ہو جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ ایک خلق تو وہ ہے جو ہمیں اس رنگ میں عطا ہوئی کہ ہمارا اس میں کچھ بھی دخل نہیں.جو کچھ ہمیں عطا ہوا، جو صورت بخشی گئی ، جو سیرت پیدائش کے طور پر فطرتا میں ملی ، جو عادات واطوار اس قومی سیرت کے نتیجے میں ہمیں عطا ہوئیں ، جو رنگ ملے، جو جسمانی قلبی یا ذہنی طاقتیں نصیب ہوئیں ، یہ سارے پہلی خلقت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں بندے کا کچھ بھی اختیار نہیں.اس خلقت کے لحاظ سے تو خدا کا ہر مخلوق سے برابر کا تعلق ہے.پھر دعا کے ذریعے وہ زائد تعلق کونسا ہے جو کام آتا ہے.اس تعلق کے ضمن میں میں نے کچھ مضمون بیان کیا تھا اس کی مزید میں یہ وضاحت کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے اس زائد تعلق کا ذکر خلق آخر کے تعلق میں ذکر فرمایا ہے کہ جب انسان خدا کا بندہ بن جائے.جب خدا اس میں اپنی روح پھونکنے لگے تو اسے ایک خلق آخر عطا ہوتی ہے اور وہ خلق آخر ہے روحانی طور پر جو انسان کو خدا کے مشابہہ بنانا شروع کر دیتی ہے.ویسے تو خدا کے مشابہ کوئی بھی نہیں.لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ (الشوری: 12) اس جیسی کوئی چیز بھی نہیں.پھر اس جیسا بننے کے متعلق قرآن کریم نے خود ہدایت فرمائی ہے.فرمایا صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَة (البقرۃ:139) اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اس سے بہتر اور کون سا رنگ ہوسکتا ہے؟ پس خدا کے رنگ اختیار کرنے کا مطلب ہے کہ خدا جیسا ہونے کی کوشش کریں یعنی اس کی صفات حسنہ، اس کا جو حسن ساری کائنات میں جلوہ گر ہے، اس میں سے کچھ حصہ پانے کی کوشش کریں اور خدا کی صفات کو سمجھے بغیر یہ ممکن نہیں.اس لئے قرآن کریم کی مدد سے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی مدد سے اپنے رب کی صفات سے شناسائی ضروری ہے.یہ شناسائی کا مرحلہ پہلا ہے.اس کے بعد پھر شناسائی کے نتیجے میں ایک دوستی پیدا ہوتی ہے اور دوستی بڑھتے بڑھتے بعض دفعہ اتنی بڑھ جاتی ہے کہ قریب ترین تعلق یعنی خونی رشتے بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.یہ وہ منزل ہے جس کی طرف انسان کو آگے بڑھنا ہے اور اس منزل کی طرف آگے بڑھے بغیر انسان خدا تعالیٰ کے دین کا علمبردار نہیں ہوسکتا.یہ وہ پہلو ہے جو ہر داعی الی اللہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے.کیونکہ اس پہلو کو سمجھے بغیر انسان حقیقت میں ( دعوۃ الی اللہ ) کا حق ادا نہیں کر سکتا.اس مضمون پر بہت کچھ میں جمعے کے خطبے میں کہہ چکا ہوں.

Page 447

443 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم آج کے خطاب میں میں نے اس کا جیسا کہ میں نے بیان کیا وہ حصہ چنا ہے جس میں بندے کے بندے سے تعلقات کا مضمون ہے.خدا سے تعلق کا مضمون تو آپ پر واضح ہو گیا کہ جتنا بھی آپ خدا کی صفات کو اپنے اندر جاری کرنے کی کوشش کریں گے اتنا ہی آپ کی دعاؤں میں طاقت پیدا ہوگی ، اتنا ہی خدا سے تعلق آپ کا خدا کے پیار کی شکل میں آپ پر برسنے لگے گا.آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کی ذات میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہورہی ہے.آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ دنیا سے مختلف ہوتے چلے جارہے ہیں.یہ تو خدا سے تعلق کا حصہ ہے.اس تعلق کے بعد پھر مخلوق سے تعلق جو مذہب کا دوسرا حصہ ہے یہ شروع ہوتا ہے اور جب تک پہلا تعلق نہ ہو دوسرا تعلق بے معنی اور بے حقیقت ہے.آپ جب خدا کے بندوں سے تعلق رکھتے ہیں تو کس حد تک آپ ان پر اثر انداز ہو سکتے ہیں یہ سوال ہے.اگر آپ کا خدا سے تعلق نہ ہو تو آپ کا وجود بالکل بے معنی اور بے حقیقت ہے اور دوسرے بنی نوع انسان کو اگر آپ اپنا خلق بخشنا شروع کریں، اپنی صفات عطا کرنا شروع کریں، تو وہ بے معنی بات ہے کیونکہ ان کا کوئی اعتبار نہیں.وہ آپ کی تمدنی صفات ہیں ، آپ کی قومی صفات ہیں، آپ کو جو نسل عطا ہوئی ہے، اس نسل کی کچھ صفات ہوں گی ، کچھ آپ کی تہذیبی صفات ہوں گی.آپ وہ صفات اگر دوسروں میں جاری کریں تو اس کا کوئی مقصد نہیں ہے.مگر خدا تعالیٰ کی صفات اگر آپ کے اندر جاری ہوں تو پھر آپ خدا کی صفات کو دوسرے میں جاری کریں تو پھر ایک اعلیٰ مقصد ہے اور یہی مذہب کا اولین مقصود ہے جسے ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے.پہلے خدا والا بنیں پھر خدا والے بنانے کی کوشش کریں.اس کے بغیر دعوت الی اللہ کا مضمون بے معنی ہے صرف تعداد بڑھانے والی بات ہے اور محض تعداد بڑھانا کوئی حقیقت نہیں رکھتا.پس اس مضمون کو سمجھنے کے بعد آپ کو خوب اچھی طرح یہ حقیقت معلوم ہو جائے گی کہ کس حد تک آپ پاک تبدیلی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں.جتنی تبدیلی آپ اپنے اندر کرتے ہیں اتنی ہی آپ میں اہلیت ہے پاک تبدیلی پیدا کرنے کی.جو تبدیلی آپ کے اندر نہیں ہوئی وہ آپ غیروں میں کیسے کر سکتے ہیں.اس لئے اپنے نفوس کا محاسبہ انتہائی ضروری ہے اور تجزیہ کے طور پر ایک ایک اپنی صفت پر، ایک ایک عادت پر نظر رکھنی ہوگی.جو جو آپ کی صفت خدا کے تابع ہوتی چلی جائے ، جو جو عادت اللہ والوں کی عادت بنتی چلی جائے ، اس حد تک ان صفات اور ان عادات میں آپ بنی نوع انسان کو اپنے جیسا بنانے کی کوشش کریں تو یہ ایک نیک مقصد ہے.اور اگر اس کے بغیر اپنی صفات کو جاری کریں تو بجائے اس کے کہ آپ بنی نوع انسان کے لئے فلاح اور نجات کا موجب بنیں آپ بنی نوع انسان کی ہلاکت کا موجب بھی بن سکتے ہیں.دنیا کے اثرات تو آپ نے دیکھے ہیں.بڑی قومیں اپنی

Page 448

مشعل راه جلد سوم 444 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی تہذیب اور تمدن اور اپنے زندگی کے مشاغل کو جہاں جائیں پھیلاتی چلی جاتی ہیں.امریکہ کو آج کل عروج حاصل ہے اور امریکہ میں جو طر ز زندگی ہے اس کا اثر جہاں جہاں امریکہ کا نفوذ ہو رہا ہے وہاں نمایاں ہوتا چلا جا رہا ہے.جرمنی میں آپ دیکھیں گے کہ باوجود اس کے کہ جرمن قوم ایک آزاد قوم ہے اور اپنی ذات میں مستقل صفات رکھنے والی قوم ہے لیکن یہاں بھی امریکن طرز زندگی کا بہت گہرا اثر پڑا ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں بلکہ روس اور چین میں بھی یہ نفوذ ہوا ہے.جاپان میں بڑی کثرت کے ساتھ امریکی طرز زندگی کا نفوذ ہوا ہے.لیکن اس طرز زندگی کے ساتھ بہت سی قابل ملامت چیزیں بھی داخل ہو جاتی ہیں.ایسی گندی عادات بھی داخل ہو جاتی ہیں جو قوموں کو بچانے کی بجائے ان کو ہلاک کر دیتی ہیں.پس آپ کو قوموں کے منجھی کے طور پر دنیا میں لایا گیا ہے.قوموں کے نجات دہندہ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں.اس لئے جب تک آپ الہی صفات سے اپنے وجود کو مرقع نہیں کرتے ، جب تک آپ صفات الہی کو اپنے اندر داخل کر کے ایک نئی خلقت اختیار نہیں کرتے ، اس وقت تک نہ آپ کو دنیا میں تبدیلی کا حق ہے نہ اس کا صحیح فائدہ ہے.پس جرمن جماعت کے نو جوانوں کو بالخصوص بلکہ آپ کی وساطت سے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے دنیا کے تمام نو جوانوں کو میں خصوصیت سے یہ پیغام دیتا ہوں کہ اپنے اندراس عمر میں الہی رنگ پیدا کرنے کی کوشش کریں.بڑھاپے میں انسان جن بدیوں سے باز آجاتا ہے وہ بے اختیاری کی تو بہ ہے.بڑھاپے میں بہت سے جوش از خود ٹھنڈے ہو جاتے ہیں، بڑھاپے میں بہت سی تمنائیں از خود مدھم پڑ جاتی ہیں اور انسان دن بدن اپنی نفسانی تمناؤں اور خواہشوں کی غلامی سے ان خواہشوں اور تمناؤں کی کمزوری کی وجہ سے باہر نکلنا شروع ہو جاتا ہے.پس ایک بوڑھا آدمی جس کا دل ٹھنڈا پڑا چکا ہو، جس کے خون میں گرمی باقی نہ رہی ہو، جس کو بعض بدیاں کرنے کی طاقت ہی نہ ملے اس کی تو بہ تو کوئی تو بہ نہیں ہے.اصل تو بہ وہ ہے جب آپ کا خون جوش مار رہا ہو، جب آپ کے جذبات اپنی شدت میں ہوں اور آپ کو زیر کرنے کی کوشش کر رہے ہوں، اس وقت اگر ایک شہسوار کی طرح ان پر قابو پائیں اور ان کو اپنا غلام بنا ئیں اور خدا کی خاطر ان صفات کا غلام بنے کی بجائے ان کے بدلے الہی صفات کو اپنے اندر جاری کریں اور اپنی تمناؤں کو صفات الہی کا غلام بنا دیں.یہ وہ حقیقی جوانی ہے جو مومن کی جوانی ہے.یہ وہ جوانی ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی تھی.پس اس جوانی کے ذریعے آپ نے دنیا کو پچھاڑنا ہے.اس کے سوا اور کوئی جوانی حقیقت نہیں رکھتی.پس احمدی نو جوانوں کو دنیا میں عظیم الشان کام سرانجام دینے ہیں اور وہ کام ادا کرنے کے لئے یہی ایک نسخہ ہے جو میں نے آپ کو بتایا.

Page 449

445 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اس کے سوا اور کوئی نسخہ نہیں.ادنیٰ سے اعلیٰ جب انسان بنتا ہے تو اس کے اندر غیر معمولی طاقتیں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں.وہ اپنے وجود میں ایک روشنی محسوس کرتا ہے.اس نور کے نتیجے میں اس کی بصارت تیز ہوتی ہے.وہ باتوں کی کنہ تک پہنچنا شروع ہو جاتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون پر بار ہا قلم اٹھایا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ عقل حقیقت میں تقویٰ کے نور سے ملتی ہے اور جب تک تقویٰ کا نور دل میں داخل نہ ہو انسان کو عقل نصیب نہیں ہو سکتی.اہل بصیرت وہی ہیں جو خدا سے محبت رکھتے ہیں اور خدا کا تقویٰ ان کے دل میں اور ان کی عادات میں جاری ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا کے فرشتے ان کے لئے روشنیاں لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کو روشنی عطا کرتے چلے جاتے ہیں.بڑی تیز آنکھ سے جود نیا کو نصیب نہیں ہوتی وہ دنیا کو جانتے اور پہچانتے ہیں اور ان کو ایک غیر معمولی بصیرت عطا ہوتی ہے.پس آپ نے اولوالالباب بننا ہے.وہ اولوالالباب بننا ہے جن کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے.جو خدا سے تعلق قائم کئے بغیر کچھ بن ہی نہیں سکتے.پس دنیا کی قومیں دنیا کی فراست میں اور دنیا کی عقلوں میں اگر چہ آپ سے بہت آگے نکل چکی ہیں.مگر ان کو خدا کی طرف لانے کیلئے اس عقل کی ضرورت ہے جو خدا سے تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.اور وہ عقل کل ہے.اس بات پر آپ جتنا بھی غور کریں اتناہی زیادہ آپ اس بات پر مطمئن ہوتے چلے جائیں گے کہ کامل عقل خدا سے تعلق کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتی.پس اس دور کو جو عقلی راہنمائی کی ضرورت ہے وہ بھی تعلق باللہ ہی سے ملے گی اور جو لوگ بھی خدا کی طرف بڑھتے ہیں وہ محسوس کرتے ہیں اور ان کے ذاتی تجربے میں یہ بات آتی ہے اور بارہا آتی ہے کہ اس تعلق میں آگے بڑھنے کے نتیجے میں ان کی بدیاں جھڑنی شروع ہو جاتی ہیں، ان کی ٹیڑھی سوچیں ختم ہونی شروع ہو جاتی ہیں.سیدھا رستہ عطا ہوتا ہے اور درحقیقت وہی صراط نہ ہر شخص کی صراط مستقیم اس کے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے.ظاہری طور پر تو آپ ایک ہی صراط مستقیم سمجھتے ہیں جس کا نام ( دین حق ہے.یہ درست ہے کہ (دین حق) صراط مستقیم ہے.مگر یہ کہنا کہ ہر ( مومن ) جو صراط مستقیم ( دین حق) پر چل رہا ہے اس کو ایک ہی جیسی صراط مستقیم نصیب ہے یہ درست نہیں.اگر ایسا ہوتا تو سورہ فاتحہ آپ کو ہر نماز میں، ہر رکعت یہ دعا نہ سکھاتی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اے ہمارے رب ہمیں سیدھے رستے کی ہدایت دے.جو رستے پر چل رہا ہو وہ ہدایت کیوں مانگے.جو منزل مقصود تک پہنچ جائے وہ اس منزل کا رستہ تو نہیں پوچھا کرتا.پس وہ کونسی صراط مستقیم ہے جس کی دعا قرآن کریم نے آپ کو

Page 450

446 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اس تاکید سے سکھائی کہ ہر نماز کی ہر رکعت میں وہ دعا مانگو اور خدا سے عرض کرتے چلے جاؤ کہ ہمیں صراط مستقیم عطا فرمائے.وہ صراط مستقیم وہی ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ دل سے پیدا ہوتی ہے.انسان اپنی سوچوں کو صحیح اور سیدھی بناتا ہے.خدا کے تصور سے وہ اپنی کجیوں کو دور کرتا ہے.اس کے وجود کا ہر ٹیڑھا حصہ سیدھا ہونے لگ جاتا ہے اور جوں جوں اس کے اندر کی کجیاں دور ہو کر اس کے اندر ایک صاف گوئی اور سیدھا رہنے کا شعور پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے وہی اس کی صراط مستقیم ہے اور سب سے زیادہ صراط مستقیم ان معنوں میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی اور قرآن کریم نے ان معنوں میں آپ کے متعلق فرمایا کہ لَا عِوَجَ لَهُ یہ ایسا نبی ہے جس کے اندر کوئی بھی کبھی باقی نہیں رہی کو ئی چیز ٹیڑھی نہیں.لَا عِوَجَ لَہ کا مضمون حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آخر کیوں بیان کیا گیا ہے؟ کسی میں کبھی نہیں، یہ تو ہم اس کی بڑی تعریف نہیں سمجھتے.ہم تو سمجھتے ہیں کہ اگر کہیں کسی کے متعلق کہ کبھی نہیں رہی، تو یہ ایک معمولی بات ہے.اس کے بعد پھر ترقی ہوتی ہے.پہلے آدمی ٹیڑھا نہ رہے پھر باقی ترقیات ہیں.تو اتنا بڑا Compliment، اتنا عظیم الشان تحسین کا کلمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو استعمال ہوا تو اس میں ضرور کوئی گہری بات ہے.بظاہر یہ فرمایا گیا اس میںکوئی بھی نہیں.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ کسی انسان کے متعلق یہ کہہ دینا کہ اس میں کوئی کبھی نہیں اتنا بڑا تحسین کا کلمہ ہے کہ اس سے بڑا تحسین کا کلمہ اس کے متعلق بولا ہی نہیں جاسکتا.کیونکہ اس کا دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہے کہ یہ خود صراط مستقیم بن گیا ہے.یہ ایک ایسا وجود بن چکا ہے جس کے وجود کا ہر حصہ خدا کی طرف مائل ہو چکا ہے اور اسی کا نام صراط مستقیم ہے.جس طرح ایک لوہے سے مقناطیس بنتا ہے، وہی مضمون ہے جو روحانی دنیا میں صراط مستقیم کا مضمون ہے.لوہے سے مقناطیس اس طرح بنتا ہے کہ لوہے کا ہر ذرہ ایک ہی طرف قبلہ رخ ہو جاتا ہے.قبلہ رخ کا محاورہ میں نے عملاً استعمال کیا ہے ورنہ اس کا وہ قبلہ تو نہیں جس کو ہم قبلہ سمجھتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے اس کے اندر بھی ایک قبلہ مقرر فرما دیا ہے اور لوہے کے وجود میں جب ذرے اس کے قبلے کی طرف رخ کر لیتے ہیں جو خدا نے ان کی صفات میں داخل کیا ہے تو ہر ذرہ اس کا ایک ہی رخ کی طرف مائل ہو جاتا ہے، ایک ہی رخ اختیار کر لیتا ہے.اس کے نتیجے میں اتنی عظیم الشان طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہی طاقت ہے جو آج ساری دنیا کے ہر کارخانے کو چلا رہی ہے.وہی طاقت ہے جس کے ذریعے زمین اپنے محور کے گرد خاص طریق پر گھوم رہی ہے اور ہر معاملے کو سیدھا رکھے ہوئے ہے.اگر یہ مقناطیسی طاقت نہ ہو تو انسانی ساری ترقی ایک دم منہدم ہوکر زیرو پوائنٹ (Zero point) تک پہنچ جائے.اپنی پہلی منزل پر واپس پلٹ جائے.پس

Page 451

447 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم مقناطیس کی طاقت سے یہ سبق سیکھیں کہ اس کی طاقت کا راز اس بات میں ہے کہ ایک ہی طرف رخ ہو جائے اور لَا عِوَجَ لَہ کا یہ مضمون ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وجود کی ہر طاقت ہر ذرے کو خدا کا رخ بخش دیا اور اس طرح قبلہ رو ہو گئے کہ ادنی سی کبھی بھی آپ کے وجود میں کہیں بھی تمہیں دکھائی نہیں دے گی.یہ وہی طاقت ہے جس کو طاقت محمد یہ کہہ سکتے ہیں ، طاقت مصطفوی کہہ سکتے ہیں.وہ عظیم طاقت ہے جو آج تک کارفرما ہے.چودہ سو سال گزر گئے ہیں لیکن آج بھی وہ قوت انسانوں کی کایا پلٹ سکتی ہے.آج بھی وہی قوت ہے جو قوموں کی تقدیر بدلے گی.اسی قوت سے آپ کو فائدہ اٹھانا ہوگا اور اس قوت کا راز اسی میں ہے کہ اپنے وجود کو خدا کے تابع کر دیں اور اس کی صفات کو اپنانا شروع کر دیں.آپ کا قبلہ خدا ہو جائے ، آپ کا رخ خدا کی طرف ہو.پھر جب آپ دنیا کی طرف رخ کرتے ہیں تو وہ دوسرا پول ہے.آپ کا رخ نہیں بدلتا.بلکہ آپ کے وجود کے دوسرے حصے میں بھی ایک طاقت پیدا ہو جاتی ہے.ایک وجود کا رخ خدا کی طرف رہتا ہے اور ایک وجود کا ایسا رخ ہے جو اسی طاقت کو بنی نوع انسان کی طرف بھی منتقل کر رہا ہوتا ہے.پس مقناطیس کے دو پولوں کی طرح اس مومن کے اندر جو خدا تعالیٰ کا بن جائے ایک اور پول(pole) بن جاتا ہے ایک اور طاقت کا مرکز بن جاتا ہے.جو بنی نوع انسان کو خدا کی طرف کھینچنے کے کام آتا ہے اور اس کے بغیر کوئی دعوت الی اللہ کامیاب نہیں ہو سکتی.پس آپ نے جو دنیا میں عظیم الشان کام کرنے ہیں ان کے کاموں کی تیاری تو کریں.کتنا بڑا ذمہ داری کا کام ہے.ساری دنیا کو ، تمام دنیا کے ہر قسم کے انسان جو یہاں بستے ہیں، ان عظیم طاقتوں کو جن کے مقابل پر تیسری دنیا کے ملک سارے بھی مل جائیں تو کوئی حیثیت نہیں رکھتے.ان سب کو آپ نے خدا والوں میں تبدیل کرنا ہے اور خدا والوں میں تبدیل کرنے کے لئے جتنی طاقت کی ضرورت ہے وہ آپ کے پاس ہے.جہاں تک دنیا کی طاقتوں کا تعلق ہے تو اس کے مقابل پر تو آپ کی اتنی بھی حیثیت نہیں جو ایک مچھر کو ایک ہاتھی کے مقابل پر ہوتی ہے.کوئی بھی طاقت نہیں، کچھ بھی آپ تبدیل نہیں کر سکتے.لیکن وہ طاقت جس کا میں ذکر کر رہا ہوں یعنی کائنات کے مالک سے تعلق جوڑ لیں اور اس کی طاقت سے اپنے وجود کو ملا ڈالیں اس کے نتیجے میں جو آپ کو طاقت نصیب ہوگی وہ تمام دنیا کی طاقتوں پر غالب آنے کی صلاحیت رکھتی ہے.اس پہلو سے آپ میں سے ہر ایک کو مختلف درجوں میں اللہ کاتعلق نصیب ہوگا اور آپ میں سے ہر ایک میں مختلف رنگ میں خدا جھلکنے لگے گا.اس کی مثال ایسی ہے جیسے بلب مختلف قوتو

Page 452

448 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کے ہوتے ہیں.مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں، بجلی وہی ہے بجلی کی قوت میں کوئی فرق نہیں.لیکن ایک واٹ کا بلب بھی اس بجلی سے لگایا جاسکتا ہے ہزار واٹ کا بھی لگایا جا سکتا ہے.دس لاکھ واٹ کا بھی جلایا جاسکتا ہے.ان دونوں یا تینوں میں چاروں میں زمین آسمان کا فرق ہے.ایک بلب ایسا ہے جو مشکل سے جس کی روشنی میں آپ کچھ پڑھ رہے ہوں اور عملاً وہ بلب بھی تار کے ذریعے اسی بجلی سے متعلق ہے جس سے ایک اور بلب بھی چمک رہا ہے ، روشنی حاصل کر رہا ہے.یا روشنی کی قوت حاصل کر رہا ہے اور اتنا روشن ہوتا ہے کہ بعض دفعہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں.پس یہ اب آپ کا فیصلہ ہے آپ کی کوشش ہے اور آپ کی ہمت ہے اور کس حد تک آپ اپنے تعلق کو خدا سے جوڑتے ہیں.اور کون کون سے رنگ اس کے اختیار کرتے ہیں خدا کی صفات تو لا انتہا ہیں.ویسے تو ننانوے صفات ہمارے علم میں ہیں.یعنی احادیث سے پتا چلتا ہے ننانوے صفات کے متعلق.کچھ تعداد میں کمی بیشی کا ذکر بھی ملتا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ صفات آپس میں جب جوڑ کھاتی ہیں ان کے نتیجے میں بے شمار اور صفات پیدا ہوتی ہیں.ورنہ آپ کو یہ دنیا میں جو بے انتہا مختلف رنگ، مختلف وجود، وجودوں کی مختلف شکلیں، ان کے رنگ، ان کے مزاج..ان کے اقسام، ان کے عقلوں کے فرق، یہ آپ کو دکھائی نہیں دیتے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے آپس میں مل کر نے وجود پیدا کرنے کے نتیجے میں ہے.اس کی ایک عام مثال یہ ہے کہ آپ جب کھانا کھاتے ہیں یا کوئی چیز پیتے ہیں تو آپ کو پتا ہے کہ کتنے مزے آپ کو ملتے ہیں.آپ سے پوچھا جائے کہ بتاؤ کل کتنے مزے ہیں؟ تو آپ کہیں گے بے شمار.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ میں مزے گن کر بتا سکوں کہ کتنے ہیں.ایک ہی پھل کے بعض دفعہ اتنے مختلف مزے ہو جاتے ہیں کہ انسان ان کو بھی اپنی گفتی کے احاطے میں نہیں لاسکتا.آموں کی قسمیں دیکھ لیجیے.ایک سو بیس سے زائد مقسمیں تو ہمارے قادیان کے باغ میں ہوا کرتی تھیں اور پھر ان میں سے بھی ہر آم مختلف موسم کا ٹوٹا ہوا، مختلف حالت میں پکا ہوا ، اپنے اپنے الگ مزے رکھتا تھا اور پھر ہر آم کو آپ چکھ کے دیکھیں تو ضروری نہیں کہ ایک آم میں ایک ہی مزا ہو.کسی کونے سے اور مزا ہے کسی اور کونے سے ایک اور مزا ہے اور پھر کھانے ہیں.ایک ہی قسم کے کھانے ہیں، مختلف عورتیں یا مختلف باور چی پکاتے ہیں اور مزے بدل جاتے ہیں.لیکن آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ بنیادی مزے صرف چار ہیں اور ان چاروں کے آپس میں ادلنے بدلنے سے ان کے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کے دائروں میں تبدیلی کے نتیجے میں بے انتہا مزے پیدا ہو جاتے ہیں.نمک ہے ایک مزا.ایک میٹھے کا مزا ہے.ایک خوشبو ہے کھانے کی.ایک

Page 453

449 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کڑواہٹ کا مزا ہے.یہ تو مزے ہیں نمکین ، میٹھا ، کڑوا اور کھٹا.یہ چارمزے ہیں.اور چارمزوں کے سوا اور کوئی مزا نہیں ہے جس کو آپ کی زبان یا آپ کی زبان کے غدود محسوس کر سکیں.اس کے علاوہ پھر خوشبو ہے.اس کو مزا تو نہیں کہہ سکتے لیکن وہ مدد کرتی ہے پھر اس کے کھانے کے جو لمس کے جو مختلف پہلو ہوتے ہیں وہ انسان کی زبان پر ، اس کے منہ پر اثر انداز ہوتے ہیں.اس کا ٹمپریچر زیادہ یا کم ہوتا ہے.اس کے نتیجے میں بھی مزوں میں فرق پڑتا ہے.تو چار بنیادی مزوں پر خوشبوؤں کا اضافہ کر لیں اس کی گرمی سردی کا اضافہ کر لیں اس کے لمس کا اضافہ کر لیں تو سات بن گئے.ان ساتوں کے اندر باریک تبدیلیوں کے نتیجے میں لاکھوں کروڑوں مزے پیدا ہوتے ہیں.تو اب بتائیے کہ خدا کی صفات حسنہ جوان مزوں سے بہت زیادہ گہرائی رکھتی ہیں وہ اگر نا نوے ہوں اور ننانوے آپس میں جوڑ کھا ئیں اور مختلف وقتوں میں مختلف مزاج پیدا کریں تو کتنی بے شمار صفات پیدا ہوں گی اور کتنے اس کے رنگ پیدا ہوں گے.پس خدا سے تعلق رکھنے کے نتیجے میں یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر شخص ایک ہی جیسا وجود بنے گا.اس کے اپنے اندر کا جوظرف ہے وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ میں کس قسم کا خدا ( چاہتا ہوں ) اور ان میں سے ہر ایک کے رنگ الگ الگ دکھائی دیں گے.لیکن وہ ہوں گے خدا کے رنگ، اس لئے ہر رنگ میں ایک حسن ہوگا ، ہر رنگ میں ایک جاذبیت پائی جائے گی.پس آپ جرمنی کے خدام مثلاً اگر چار ہزار ہیں تو چار ہزار مختلف خدا کی صفات کے نمونے دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہر شخص ایک ہی رنگ اور ایک ہی چمک سے مرعوب نہیں ہوا کرتا ، اس کی طرف مائل نہیں ہوا کرتا.ہر ایک اپنا ایک ذوق رکھتا ہے اور اپنے ذوق کے مطابق کھانے کے مزے بھی ڈھونڈتا ہے.لذت کے مزے بھی ڈھونڈتا ہے.دوسرے music کے کان کے ذریعے جو لذتیں حاصل کرتا ہے اس کے بھی مزے الگ الگ ڈھونڈتا ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ نے اپنے بندے کے اندر ایسی صفات رکھی ہیں کہ خدا کی صفات سے مل کر وہ پھر مختلف شکلوں میں دنیا کے سامنے خدائی صفات کو پیش کرتا ہے اور اس کی وجہ سے پھر مختلف لوگ خدا کی طرف مائل ہوتے ہیں.کوئی کسی ایک رستے سے داخل ہو رہا ہے کوئی کسی دوسرے رستے سے داخل ہو رہا ہے.آپ حقیقت میں جتنے خدام ہیں اتنے ہی دروازے خدا کی طرف کھول رہے ہوں.اگر آپ خدا والے بنیں گے تو کوئی ایک دروازے سے خدا کی طرف داخل ہوگا کوئی دوسرے دروازے سے خدا کی طرف داخل ہو گا.بے شمار دروازے ، روشن دان ، کھڑکیاں خدا کی طرف کھل رہی ہوں گی.ان معنوں میں حقیقت میں آپ قوم کی زندگیاں تبدیل کر سکتے ہیں قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں.اس کے بغیر اور کوئی نسخہ نہیں.اس کے بغیر محض کھو کھلی باتیں ہیں محض دعو.

Page 454

مشعل راه جلد سوم 450 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں ، ان کی کوئی حقیقت نہیں.پس آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ خدا کی صفات کو اپنے اندر جاری کریں اور اپنا رخ خدا کی طرف کرلیں اور پھر ہمیشہ اپنی صفات پر نظر رکھیں کہ کونسی صفت ابھی تک ٹیڑھا مزاج رکھتی ہے.آپ اس کو خدا کی طرف مائل کرتے ہیں پھر وہ ادھر دوسری طرف چلی جاتی ہے.کتے کی دم کے متعلق کہتے ہیں کہ کسی نے بارہ سال تک اس کو ایک نالی میں سیدھا رکھا.دیکھنے کے لئے کہ کتے کی دم سیدھی بھی ہوسکتی ہے یا نہیں.کہتے ہیں بارہ سال کے بعد جب اس نے وہ نالی نکالی تو دم پھر ٹیڑھی کی ٹیڑھی.تو بعض انسانوں میں بعض کجیاں اتنی شدت اختیار کر جاتی ہیں کہ ان کو آپ جتنا چاہیں تربیت دیتے چلے جائیں جب وہ تربیت کا دباؤ ہٹا ئیں گے تو پھر وہ ٹیڑھے ہو جائیں گے.پھر وہی پرانی شکل واپس آجاتی ہے.ایک نفس کا اندرونی مربی ہے.ان ٹیڑھی عادتوں کو اس کے سوا کوئی دوسرا صحیح نہیں کر سکتا لیکن وہ بھی دعا کی مدد سے یہ طاقت ملتی ہے.بیرونی اثرات ان طبیعتوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتے.آپ ہیں خود جو اپنے نگران بنیں تو کام بنے گا.اگر آپ اپنے نگران نہیں بنیں گے تو کوئی زعیم، کوئی قائد، کوئی بیرونی اثر رکھنے والا انسان آپ کی نگرانی کا حق ادا نہیں کرسکتا.مگر بد قسمتی سے انسان اپنے وجود کو اپنے ساتھ نہیں رکھتا.اپنے نگران کو سلا دیتا ہے.اس کی نگرانی کی عادت کو تھی کا تھکا کر ایسی نیند سلا دیتا ہے کہ پھر اس کا کوئی نگران باقی نہیں رہتا.آپ میں سے اکثر جب اپنے نفس پر غور کریں گے تو حیران ہوں گے یہ دیکھ کر کہ خدا نے تو آپ کو ایک اندرونی نگران عطا فرمایا تھا مگر آپ نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا.آپ نے اس کو کبھی موقع ہی نہیں دیا کہ وہ آپ کے اوپر اندرونی تبصرہ کر سکے.اس کے برعکس آپ کا وہ نگران جو غیروں کے عیوب ڈھونڈتا ہے وہ ہمیشہ بیدار رہتا ہے.اب دیکھیں کتاب اظلم ہے جو اپنی ذات سے آپ کر رہے ہیں.اللہ تعالی نے آپ کو نگران اس لئے دیا تھا کہ آپ اپنی ذات کے عیوب دیکھیں اور اس کو تلاش کر کر کے جتنا پاک پانی سے دھو سکیں دھوئیں اور صاف کریں.ان داغوں کو دور کریں اور جو کجیاں ہیں ان کو دور کریں.اس کی بجائے اکثر دنیا میں یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ غیروں پر تو بڑی تیز نگاہ رکھتے ہیں اور بڑی سخت تنقید کی نگاہ سے ان پر تبصرے کیے جاتے ہیں لیکن اپنے وجود کو بھول جاتے ہیں.پس اپنے نگران کو جگانا پڑے گا.اس کے بغیر طبیعت کی بھی دور نہیں ہو سکتی.اس کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتا کہ کن باتوں میں غیر اللہ کی طرف مائل ہوں.کونسے سے میرے وجود کے حصے ہیں جو ابھی تک سیدھے نہیں ہوئے.پس اس اندرونی شعور کی بیداری سے حقیقت میں خدا کا رستہ ملتا ہے اور اس پہلو سے انسان کو اپنے اوپر ظلم کر نا پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے "إِنَّهُ كَانَ

Page 455

451 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم ظَلُومًا جَهُولًا ( الاحزاب: 73) کی عظیم الشان تفسیر فرمائی.آپ نے فرمایا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر چل رہا ہے.آپ ہی کے متعلق فرمایا گیا ہے.جب زمین، آسمان ، پہاڑوں نے امانت اٹھانے سے انکار کر دیا اور ڈر گئے.فَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ.تو دیکھو انسان کامل آگے بڑھا اور اس نے اس عظیم امانت کا بوجھ اٹھالیا جود نیا میں کسی اور طاقت کو نصیب نہیں ہوئی.اس کے معابعد فرمایا "إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا، یہ تو بڑا ظَلُوم ہے، بڑاجھول ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہاں ظَلُوم کا لفظ اور جھول کا لفظ ان عام معنوں میں استعمال ہوا ہو جو عموماً کسی کے اوپر تنقید کی جائے تو اس وقت استعمال کیا جاتا ہے.یہ تنقید کے معنی تو نہیں رکھتے.یہ تو عظیم الشان تعریف کے معنی رکھتے ہیں.پس ظلوم کی آپ نے یہ تفسیر فرمائی کہ یہ اپنے نفس پر حد سے زیادہ ظلم کرنے والا ہے.یعنی اپنے نفس کی کوئی کمزوری بھی اس کی نظر سے الگ نہیں رہتی اور جہاں نفس کی کمزوری دیکھتا ہے اس کو پکڑتا ہے اور اس کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے.اور جھولا کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی خاطر اس نے یہ بوجھ اٹھا لیا ہے اور کوئی پروانہیں کہ اس بوجھ سے اس کی ہستی چاہے دب کر پارہ پارہ ہو جائے اس کو کوئی پروا نہیں.اتنا عظیم الشان بوجھ اور اتنا وزنی بوجھ جس کو پہاڑوں نے اٹھانے سے انکار کر دیا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور عرض کیا کہ اے خدا! مجھ پر یہ امانت ڈال دے میں اس امانت کا حق ادا کروں گا.پس عواقب سے بے خبر ہو گئے اس کا معنی ہے جھولا.پس حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نفس کو جو خدا کے تابع کیا اس کے لئے دو باتوں کی ضرورت ثابت ہوئی.اول یہ کہ کوئی شخص بھی جو اپنے نفس پر رحم کرنے والا ہو وہ خدا کی خاطر اپنے نفس کو ڈھال نہیں سکتا.کیونکہ جو اپنے نفس پر رحم کرے گا اس نے کہاں خدا کی خاطر اپنے نفس میں پاک تبدیلیاں پیدا ہونے دینی ہیں.یہ ایسی بات ہے جیسے بعض مائیں اپنی جہالت میں صبح کے وقت بچوں پر رحم کرتی ہیں کہ اس کو کوئی نہ اٹھائے نماز کے لئے نہیں اٹھے تو کوئی بات نہیں.وہ رحم نہیں ہے وہ ظلم ہے.پس خدا کی خاطر اپنے نفس پر ظلم کرنا دراصل رحم ہے اور خدا کی خاطر عواقب سے بے خبر ہو جانا یہ در اصل دانش مندی ہے.پس ان معنوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سب سے بڑا جو تحسین کا کلمہ جو قرآن کریم میں ملتا ہے وہ یہی ہے کہ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا“ یہ تو اپنے نفس پر حد سے زیادہ ظلم کرنے والا نکلا.اور خدا کی خاطر عواقب سے کلیہ بے پرواہ ہو گیا.جو ہوتی ہے میرے ساتھ گزر جائے مجھے کوئی پرواہ نہیں.پس آغاز نبوت سے لے کر دنیا نے جو آپ سے سلوک کیا ہے وہ اس بات کا گواہ ہے کہ ان معنوں میں آپ جھولا تھے.ورنہ آنکھیں کھول کر دانش مندی کے ساتھ دنیا کی

Page 456

مشعل راه جلد سوم 452 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی عقل کے ساتھ دیکھتے ہوئے بھلا کون تھا جو اتنے بڑے ظلموں کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتا سارا معاشرہ، سارا ماحول جو پہلے آپ کی صفات بیان کرتے ہوئے تھکتا نہیں تھا، جو آپ کے گن گاتے ہوئے اس طرح رطب اللسان رہتا تھا کہ گویا عرب میں سب سے عظیم الشان شخصیت یہی ہے اور تھی بھی.امین کا خطاب دیتا تھا صدیق کا خطاب دیتا تھا، ہر قسم کے اچھے ناموں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کیا جاتا تھا.لیکن جب امانت کا بوجھ اٹھایا تو اچانک سب دنیا نے آپ کے اوپر ہر قسم کی زبان طعن دراز کی ، ہر قسم کے گند اچھالے، ہر قسم کی گالیاں دیں، ہر قسم کے عیب نکالنے کی کوشش کی اور پھر دیگر مظالم کی تو حد کر دی.پس یہ ہے جَهُولًا کا معنی.آپ کس طرح اپنے نفس کو خدا کے تابع کریں گے اگر آپ اپنے نفس پر رحم کرنے والے ہوں گے.اگر آپ دنیا کی پروا کریں گے اور دنیا کی پروا کے نتیجے میں آپ خدا کی خاطر اپنے نفس سے غافل ہو جائیں گے یا ڈر جائیں گے کہ ہم کس طرح ان عواقب کو برداشت کریں گے جو خدا کی خاطر انسانوں کو برداشت کرنے پڑتے ہیں.پس یہ مضمون تو دیکھنے میں بڑا آسان ہے کہ خدا والے بن جائیں.لیکن خدا والے بننے کے لئے مشکلات ہیں.قربانیاں در پیش ہیں اور سب سے اہم نکتہ جو سمجھنے کے لئے لائق ہے یہ ہے کہ اپنے نفس پر رحم کرنا چھوڑ دیں.اپنے نفس کے ناقد بن جائیں.اپنے نفس کو باریک نظر سے دیکھیں اور ہر عیب جو اپنے نفس میں نظر آئے اسے تسلیم کریں.اور پھر اس کو کھنگالیں اور اس کو صاف کرنے کی کوشش کریں.دعائیں کریں، زور لگائیں اور پیچھے پڑ جائیں کہ میں نے یہ نفس نہیں رہنے دینا.یہ کام بہت لمبا ہے کیونکہ جب آپ اپنے وجود کے اندر نقص ڈھونڈیں گے تو آپ یہ معلوم کر کے حیران رہ جائیں گے کہ نقص اتنے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی پہلے کس پہ ہاتھ ڈالیں.انسان جب شعور کی آنکھ پیدا کرتا ہے تو اس کو داغ نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں.جب شعور کی آنکھ نہ ہو تو کوئی داغ دکھائی نہیں دیتا.اس لئے شعور کی آنکھ پیدا کرنا خدا والا بننے کے لئے نہایت ضروری ہے.اپنے نفس کا بڑی باریک نظر کے ساتھ محاسبہ کیا کریں اور پھر عقل کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کہ آپ میں کتنا صاف ہونے کی طاقت ہے.اتنا ذمہ اٹھائیں جس حد تک آپ اپنے اندر توفیق پاتے ہیں اور اس توفیق کے مطابق اپنے آپ کو صاف کرنا شروع کریں.یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی خاطر جب آپ اپنی کمزوریوں کو دور کریں گے اور خدا کی صفات کو جاری کریں گے تو آپ کی طاقت بڑھنی شروع ہو جائے گی.صفات الہی ہر کپڑے، ہر رنگ پر نہیں جاری ہو سکتے.بعض رنگ گندے کپڑے پر نہیں چڑھ سکتے.اسی لئے رنگریز اس کپڑے کو پہلے خوب دھوتا اور صاف کرتا ہے اور

Page 457

مشعل راه جلد سوم 453 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ پاک کرتا ہے.بعض دوسرے رنگ جب چڑھے ہوں کپڑے پر تو بعض دوسرے رنگ نہیں چڑھ سکتے.کیسے ممکن ہے کہ آپ اپنے نفس کو دھوئے بغیر بیماریوں سے صاف کئے بغیر اللہ کے رنگ میں رنگین کر لیں.اسی لئے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے یا بہت سادہ بات نہیں ہے کہ آپ خدا کی صفات کو اپنے اندر جاری کریں.اندرونی نفسانی جذبات سے اپنے وجود کو پہلے پاک کرنا ہو گا.بعض داغ دھونے ہیں بعض رنگوں سے اپنے جسم کے کپڑوں کو چھڑانا ہو گا.تب جا کر آپ دیکھیں گے کہ البہی صفات آپ کے اندر داخل ہونی شروع ہو جائیں گی.پس نفس کو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے جس طرح جھاڑو دیا جاتا ہے گھر کا اس طرح پہلے صفائی کرو.اور اپنے نفس میں ایسا جھاڑو دو کہ کوئی گند کا حصہ باقی نہ رہے.جوں جوں آپ صاف ہوتے چلے جائیں گے خدا آپ کے وجود میں داخل ہونا شروع ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں آپ کو سب طاقتیں نصیب ہوں گی.آپ دنیا کی باتوں سے کبھی پھر مرعوب نہ ہوں گے آپ کو وہ اپنے غم اور اپنے فکر معمولی دکھائی دینے لگیں.غم و فکر تو وہ کرتے ہیں.لیکن خدا والوں پر غم و فکر غالب نہیں آیا کرتا.جو بے خدا لوگ ہوں ان کو بعض دفعہ غم اور فکر نڈھال کر دیتے ہیں اور ان کو پیس کے رکھ دیا کرتے ہیں.لیکن جو خدا والے ہیں وہ بڑے سے بڑے صدمے کو بھی بڑے حوصلے سے برداشت کرتے چلے جاتے ہیں.یہ تو نہیں کہ ان کو صدمہ نہیں پہنچتا مگر چونکہ خدا سے تعلق ہوتا ہے اس لئے وہ بڑے سے بڑے صدمے کو بھی برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں.خدا والے بننے کی کوشش کریں پس دنیا کے مصائب سے نجات حاصل کرنی ، دنیا کے دلدل سے نکلنا، دنیا کی فکروں سے رہائی پانی ان سب کا ایک ہی علاج ہے کہ آپ خدا والے بننے کی کوشش کریں.اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کے متعلق خدا تعالی کا یہ کلام لازماً اطلاق پائے گا.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا لَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس: 63 ).کہ خبردار اللہ کے ولی وہ ہیں جن پر کوئی خوف غالب نہیں آتا اور کوئی غم ان کو محزون نہیں کر دیتا.اب یہ تو کہنا غلط ہے کہ خدا کے اولیاء کو کوئی غم پیش نہیں ہوتا.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود مغموم ہو جایا کرتے تھے.یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی خوف ان کے سامنے نہیں آتا.کئی کے خوف در پیش ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کئی قسم کے خوف در پیش رہتے تھے اپنی

Page 458

454 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم امت کا خوف ، ان کی بیماریوں کا خوف ان کے گناہوں کے نیچے دب جانے کا خوف...غیروں کے اوپر ان کی ہلاکت کا خوف، بے شمار خوف تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لاحق تھے.تو اس کا کیا مطلب ہے.عَلَيْهِمُ کا لفظ اس کا مطلب آپ کو سمجھائے گا.اَلَا اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمُ يَحْزَنُونَ.کہ کوئی خوف ان پر غالب نہیں آسکتا.خوف آئیں بھی تو بے حقیقت دکھائی دیتے ہیں ان کو ، کیونکہ وہ خدا کے ساتھ رہتے ہیں.چنانچہ حزن بھی اسی طرح در پیش تو رہتے ہیں مگران پر غلبہ نہیں پا سکتے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غار ثور میں پناہ لی تو آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق بھی تھے.انہوں نے فکر کا اظہار کیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَا تَحْزَنُ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ( التوبه: 40 ) - حزن نہ کر خدا ہمارے ساتھ ہے.پس جب تک خدا ساتھ نہ ہو زن سے نجات ممکن ہی نہیں.یہی راز ہے حزن مٹانے کا.دنیا سے محرومی کا غم صرف اس صورت میں مٹ سکتا ہے کہ دنیا سے بہتر چیز آپ کے پاس موجود ہو.ایک بہت امیر آدمی ہو اس کا تھوڑا سا نقصان ہو جائے معمولی ، وہ کہتا ہے بعض دفعہ کہ پرواہ نہیں.ٹھیک ہے چھوڑ دو اس کو لیکن جس کے پاس اور کچھ بھی نہ ہو وہ تو مارا گیا.پس جس کے پاس خدا ہو اس کو حزن مغلوب نہیں کیا کرتا ہے.جس کے ساتھ خدا ہو اس پر کوئی خوف غالب نہیں آیا کرتا.قرآن کریم میں یہ مضمون دو طریق سے بیان ہوا ہے.ایک نسبتاً ابتدائی سفر کرنے والوں پر اطلاق پاتا ہے ایک ان پر جو اس مضمون میں آگے بڑھ جاتے ہیں اور خدا کے بہت قریب ہو جاتے ہیں.چنانچہ دوسری جگہ فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ اَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ أَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ( حم السجدہ :31) - کہ وہ لوگ جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر اس پر استقامت کرتے ہیں.ان کے متعلق فرمایا ان پر فرشتے مسلسل نازل ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کو یہ کہتے ہیں کہ غم نہ کر و غم نہ کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور خوش ہو جاؤ کیونکہ خدا نے تمہیں جنت کی بشارتیں دی ہیں پس یہ مومن کی ابتدائی حالت ہے.پہلے رَبُّنَا اللهُ.اللہ کو اپنا رب بنانا پھر اس سلسلے میں جتنے ابتلاء آتے ہیں، ان کا مقابلہ کرنا ، ثابت قدم رہنا، غیر اللہ کی طرف نہ جھکنا.اس منزل پر خدا فرماتا ہے کہ فرشتے آکر انہیں تسلیاں دیتے ہیں، سہارے دیتے ہیں کہ غم نہ کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں.پھر ایک اور اس سے اگلا مقام ہے.وہ ہے اولیاء اللہ والا مقام.اَلَا اِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا م يَحْزَنُونَ.فرشتوں کے نزول کا سوال نہیں رہتا پھر ، خدا اُن کے ساتھ ہو جاتا ہے.چنانچہ إِنَّ اللهَ مَعَنَا نے اس مضمون کو کھول دیا کہ کیوں ان پر کوئی غم نہیں ہوتا.اس لئے یہ بہت سی منازل ہیں جو آپ کو طے

Page 459

مشعل راه جلد سوم 455 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی کرنی ہیں اور جوں جوں آپ اس مضمون کو سمجھیں گے اس کی طرف آگے بڑھیں گے آپ کے اندر پہلے اندرونی انقلاب بر پا ہوگا پھر بیرونی انقلاب کی آپ کو طاقت نصیب ہوگی.خدام الاحمدیہ قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں خدام الاحمدیہ قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور تمام دنیا میں جو ہم نے انقلاب بر پا کرنا ہے اگر چہ اس میں انصار اللہ کو بھی غیر معمولی دخل ہے ان کی عقل کی خدام کو ضرورت ہے ، ان کے تجربے کی خدام کو ضرورت ہے، جو نیکیاں انہوں نے لمبی محنتوں سے کمائی ہیں ان نیکیوں کے نتیجے میں جو خدا کے فضل ان پر نازل ہوتے ہیں، ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ان کی بھی آپ کو ضرورت ہے.اسی لئے انصار اللہ سے تو آپ الگ نہیں ہو سکتے.لیکن جو بنیادی مضبوطی کے کام ہیں وہ خدام الاحمدیہ کو ہی کرنے ہیں.جو عظیم قربانیاں پیش کرنی ہیں وہ خدام الاحمدیہ کو ہی پیش کرنی ہیں.اس لئے مجلس خدام الاحمدیہ کو اپنی اس حیثیت کو سمجھنا چاہیے اور بڑے وسیع پیمانے پر اگلی صدی کے اس کنارے پر جہاں آج آپ کھڑے ہیں اتنی محنت کے ساتھ اپنے وجود میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں کہ جو پھر ماحول کے رنگ میں بدل سکیں اور اس کے بعد پھر ایسی پاک نسلیں آپ پیچھے چھوڑ سکیں کہ جن کی نیکیوں کا پھل پھر آئندہ نسلاً بعد نسل بنی نوع انسان کھاتے چلے جائیں.اب یہ اعلان ہے کہ بسیں جو منگوائی ہیں ان کا وقت ختم ہو گیا ہے اور ان کو روکنا اب مشکل ہو گیا ہے اس لئے بسیں نہیں رک سکتیں میں رک سکتا ہوں.کوئی حرج نہیں مجھے پتا ہے وقت زیادہ ہو گیا ہے.لیکن پروگرام ہی ایسا تھا اتنی ملاقاتیں بیچ میں رکھ دی تھیں کہ ناممکن تھا کہ آٹھ بجے یہ پروگرام شروع کیا جاسکے.بہر حال اب مجبوری ہے..اب الوداع.

Page 460

مشعل راه جلد سوم 456 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 461

ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی 457 سچائی خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1989ء نرم اور پاک زبان کا استعمال وسعت حوصلہ دوسروں کی تکلیف کا احساس اور اُسے دور کرنا مضبوط عزم و ہمت نماز با جماعت کا قیام تلاوت قرآن کریم نوجوانوں میں قیادت پیدا کریں ذیلی تنظیموں کی ذمہ داریاں قیام تو حید کے لئے عزم و ہمت مشعل راه جلد سوم ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ حلم حلم

Page 462

مشعل راه جلد سوم 458 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 463

مشعل راه جلد سوم 459 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- وہ لوگ جو بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں.ان کو یہ رجحان پیدا کرنا چاہیے کہ ابتدائی باتوں کی طرف خصوصی توجہ دیں.بعض دفعہ بعض بہت ہی بلند بانگ منصوبے بنانے والے اور بلند بانگ دعاوی کرنے والے ابتدائی باتوں سے بے خبر رہ جاتے ہیں اور وہ چیزیں جو اُن کی نظر میں ابتدائی ہیں، درحقیقت بنیادی حیثیت رکھنے والی باتیں ہوا کرتی ہیں.اور جب تک بنیا دیں قائم نہ ہوں.کوئی بلند عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی.یہ ایک ایسا قانون ہے جسے دنیا کا کوئی انجنیئر کوئی ماہر فن تعمیر نظر انداز نہیں کرسکتا.قوموں کی تعمیر میں اور میری مراد مذہبی قو میں ہیں.مذہبی قوموں کی تعمیر میں دو باتیں بہت ہی بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور انہیں کے گرد سارا فلسفہ حیات گھومتا ہے.یعنی بندے سے تعلق اور خدا سے تعلق.ان دونوں تعلقات میں (دین حق) نے بہت ہی وسیع تعلیمات دی ہیں اور بہت ہی بلند منصوبے پیش کئے ہیں لیکن ان منصوبوں پر عمل تبھی ممکن ہے جب ان کے ابتدائی حصوں پر خصوصیت سے توجہ دی جائے صبر کے ساتھ بنیادیں تعمیر کی جائیں، پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے توقع رکھی جائے کہ ان بنیادوں پر عظیم الشان عمارتیں تعمیر ہوں گی.زمانے کی دوری اخلاق سے پائی جاسکتی ہے جماعت احمدیہ کا جو موجودہ دور ہے، یہ غیر معمولی اہمیت رکھنے والا دور ہے اور جیسا کہ میں نے بارہا پہلے توجہ دلائی ہے.ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلی صدی سے دور ہورہے ہیں یعنی زمانے اور وقت کے لحاظ سے دور ہورہے ہیں لیکن عین ممکن ہے بلکہ قرآن کریم نے اس کی معین پیشگوئی بھی فرمائی ہے کہ زمانے کی دُوری پائی جاسکتی ہے، عبور ہو سکتی ہے اگر اخلاق کو دُور نہ ہونے دیا جائے ،اگر اعمال کوڈ ورنہ ہونے دیا جائے وَاخَرِينَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ.(سورۃ الجمعہ: 4) میں یہی تو پیغام ہے اور

Page 464

460 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم یہی تو خوشخبری ہے جس کو پورا ہوتے دیکھ کر ہمارے ایمان پھر زندہ ہوئے ہیں.پس بہت ہی اہم بات ہے.ہم نے آخرین ہو کر، قرآن کریم کی اس پیشگوئی کا مصداق بنتے ہوئے قطعی طور پر یہ دیکھ لیا اور دنیا پر ثابت کر دیا کہ زمانے کی دوری کو اخلاقی قربت کے ذریعے مٹایا جاسکتا ہے اور نیک اعمال کے نتیجے میں زمانے کے فاصلے ماضی میں بھی طے ہو سکتے ہیں اور مستقبل میں بھی طے ہو سکتے ہیں.پس اس پہلو سے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر صدی کے قدم پر یہ دیکھیں کہ ہمارا قدم پچھلی صدی کے ساتھ ملا ہوا ہے یا نہیں اور ہمارا اخلاقی اور عملی فاصلہ کہیں بڑھ تو نہیں رہا.پس آگے بڑھنا دوطرح سے ہوگا.ایک زمانے میں آگے بڑھنا.وہ تو ایسی مجبوری ہے جس پہ کسی کا کوئی اختیار نہیں اور ایک آگے بڑھنا یہ بھی ہوسکتا ہے جیسے قو میں بظاہر آگے بڑھتی ہیں لیکن بنیادی طور پر انحطاط کا شکا رہو جاتی ہیں.اخلاقی قدروں کے لحاظ سے انحطاط کا شکار ہو جاتی ہیں.وہ آگے بڑھنا تو تنزل کی علامت ہے.ہم نے اس پہلو سے آگے نہیں بڑھنا بلکہ واپس جانا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جوسب سے بڑا معجزہ دکھایا.جو سب سے بڑا عظیم الشان کارنامہ کر کے دکھایا.وہ واپسی کا کارنامہ ہے.آگے بڑھنے کا کارنامہ نہیں.تیرہ سو سال کے فاصلے حائل تھے.کس طرح ایک ہی جست میں آپ اس زمانے میں جا پہنچے جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا.پس ہر صدی کی زمانی جست کے ساتھ ہمیں واپسی کی ایک جست بھی لگانی ہوگی اور بڑے معین فیصلے اور بڑے قطعی فیصلے کے ساتھ ایسا پروگرام طے کرنا ہوگا کہ جب ہم وقت میں آگے بڑھیں تو اخلاقی اور اعمالی قدروں میں واپس جارہے ہوں.اس پہلو سے اس دور میں جب میں چاروں طرف دیکھتا ہوں تو جماعت کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ اور بھی مسائل بڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کی رفتار ہر طرف پہلے سے بہت زیادہ ہو چکی ہے.پس بڑی جماعتوں میں رفتار کا پھیلا ؤ جہاں مبارک بھی ہے وہاں خدشات بھی پیدا کرنے والا ہے اور فکریں بھی پیدا کرنے والا ہے.اسی طرح بڑی جماعتوں میں نسل پھیلتی ہے.تولید کے ذریعے جماعتیں بڑھتی ہیں.اس پہلو سے بھی ساتھ ہی تربیتی فکر میں بڑھنے لگتی ہیں.ذیلی تنظیمیں براہ راست خلیفہ وقت کے تابع ہیں.پس جب میں نے مجلس خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ کو تمام ملکوں میں براہ راست اپنے تابع کرنے کا فیصلہ کیا تو اس میں یہ ایک بڑی حکمت پیش نظر تھی تا کہ میں ان مجالس سے براہ راست ایسے کام لوں جن

Page 465

461 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ہماری تربیتی ضرورتیں پوری ہوسکیں اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ محض خوابوں کے محل تعمیر نہ کریں بلکہ چھوٹے چھوٹے ایسے اقدام کریں جن کے نتیجے میں غریبانہ سر چھپانے کی ضرورت تو پوری ہو.یہ وہ ضرورت ہے جس کے پیش نظر جیسا کہ میں نے بیان کیا، مجھے یہ اقدام کرنا پڑا.اس سلسلے میں آج میں دو ابتدائی پروگرام جماعت کے سامنے رکھتا ہوں اور یہ تینوں مجالس خصوصیت کے ساتھ میری مخاطب ہیں.ان کو تنظیمی ہدایات انشاء اللہ تعالی پہنچتی رہیں گی اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں، چھوٹے چھوٹے آسان حصوں میں عملی پروگرام ان کے سپرد کئے جائیں گے لیکن جو بنیادی باتیں میرے پیش نظر ہیں ، وہ میں آپ سب کے سامنے پہلے بھی مختلف حیثیتوں میں رکھتا رہا ہوں.آج پھر ان باتوں میں سے بعض کو دھرانا ضروری سمجھتا ہوں.اخلاقی تعمیر ذیلی تنظیموں نے کرنی ہے مذہبی قو میں بغیر اخلاقی تعمیر کے تعمیر نہیں ہو سکتیں اور یہ تصویر بالکل باطل ہے کہ انسان بداخلاق ہو اور با خدا ہو.اس لئے مذہبی قوموں کی تعمیر میں سب سے اہم بات ان کے اخلاق کی تعمیر ہے اور یہ تعمیر جتنی جلدی شروع ہو اتنا ہی بہتر ہے اور اتنی ہی آسان ہوتی ہے.پس اس پہلو سے لجنہ اماءاللہ نے سب سے ابتدائی اور بنیادی کام کرنے ہیں اور یہی ابتدائی اور بنیادی کام عمر کے دوسرے حصوں میں خدام کے سپر دبھی ہوں گے اور انصار کے بھی سپر دہوں گے لیکن بنیادی طور پر ایک ہی چیزیں ہیں جو عمر کے مختلف حصوں میں مختلف مجالس کو خصوصیت سے سرانجام دینی ہیں.بچپن سے سچ کی عادت نہ ڈالی جائے تو بڑے ہو کر سچ کی عادت ڈالنا مشکل کام.سب سے پہلی بات سچ کی عادت ہے.آج دنیا میں جتنی بدی پھیلی ہوئی ہے.اس میں خرابی کا سب سے بڑا عنصر جھوٹ ہے.وہ قومیں جو ترقی یافتہ ہیں، جو بظاہر اعلیٰ اخلاق والی ہیں، وہ بھی اپنی ضرورت کے مطابق جھوٹ بولتی ہیں.اپنوں سے نہیں بولتیں تو غیروں سے جھوٹ بولتی ہیں.ان کے فلسفے جھوٹ پر مبنی ہیں ان کا نظام حیات جھوٹ پر مبنی ہے، ان کی اقتصادیات جھوٹ پر مبنی ہے.غرضیکہ اگر آپ بار یک نظر سے دیکھیں تو اگر چہ بظاہر ان کے زندگی کے کاروبار پرCivilization اور اعلیٰ تہذیب کے ملمع چڑھے ہوئے ہیں.لیکن فی الحقیقت ان کے اندر مرکزی نقطہ جس کے گرد یہ تو میں گھوم رہی ہیں اور جس کے اوپر ان کی تہذیبیں مبنی ہیں، وہ

Page 466

462 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جھوٹ ہی ہے.لیکن یہ ایک الگ بحث ہے.مجھے تو اس وقت جماعت احمدیہ کے اندر دلچسپی ہے اور جماعت احمدیہ کے بچوں کے اوپر میں خصوصیت کے ساتھ نظر رکھتا ہوں اور میرے نزدیک جب تک بچپن سے بیچ کی عادت نہ ڈالی جائے ، بڑے ہو کر سچ کی عادت ڈالنا بہت مشکل کام ہو جاتا ہے.اور جیسا کہ میں نے اپنے بعض خطبات میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے سچ بولنا بھی مختلف درجات سے تعلق رکھتا ہے اور مختلف مراحل سے تعلق رکھتا ہے اور کم سچا اور زیادہ سچا اور اس سے زیادہ سچا اور اس سے زیادہ سچا.اتنے بے شمار مراحل ہیں سچ کے بھی کہ ان کو طے کرنا بالآخر نبوت تک پہنچاتا ہے اور صدیق کے مرحلے سے آگے خدا تعالیٰ نے سچائی کا جو مقام تجویز فرمایا ہے.اس کو نبوت کہا جاتا ہے ایسا سچا کہ جس کا کوئی پہلو بھی جھوٹ کی ملونی اپنے اندر نہ رکھتا ہولیکن یہ ہیں بڑے اور اُونچے اور بلند منصوبے جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے پیش کئے ہیں.مَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (سورۃ النساء: 70) کتنے عظیم الشان اور بلند منصوبے ہیں لیکن ان کا آغاز سچ سے ہوتا ہے اور کوئی شخص صالح بھی نہیں بن سکتا جب تک وہ سچا نہ ہو.اس لئے بہت ہی اہم بات ہے کہ ہم اپنے بچوں کو شروع ہی سے نرمی سے بھی اور سختی سے بھی بچ پر قائم کریں اور کسی قیمت پر بھی ان کے جھوٹے مذاق کو بھی برداشت نہ کریں.یہ کام اگر مائیں کر لیں تو باقی مراحل جو ہیں، قوم کے لئے بہت ہی آسان ہو جائیں گے اور ایسے بچے جو بچے ہوں وہ اگر بعد میں لجنہ کی تنظیم کے سپرد کئے جائیں یا خدام الاحمدیہ کی تنظیم کے سپرد کئے جائیں.ان سے وہ ہر قسم کا کام لے سکتے ہیں کیونکہ سچ کے بغیر وFiber فائیر میسر نہیں آتا.وہ تانا بانانہیں ملتا جس کے ذریعے آپ بوجھ ڈال سکتے ہیں یا منصوبے بنا کر ان کو ان میں استعمال کر سکتے ہیں.جھوٹی قو میں کمزور ہوتی ہیں ان کے اندر اعلیٰ قدریں برداشت کرنے کی طاقت ہی نہیں ہوا کرتی لیکن یہ ایک بڑا لمباتفصیلی مضمون ہے اس کو آپ فی الحال نظر انداز فرما ئیں اور یہ یقین رکھیں کہ سچ کے بغیر کسی اعلیٰ قدر کی کسی اعلیٰ منصوبے کی تعمیر ممکن نہیں ہے.اس لئے جماعت احمدیہ میں بچپن سے ہی سچ کی عادت ڈالنا اور مضبوطی سے اپنی اولادوں کو سیچ پر قائم کرنا نہایت ضروری ہے اور جو بڑے ہو چکے ہیں.ان پر اس پہلو سے نظر رکھنا اور ایسے پروگرام بنانا کہ بار بار خدام اور انصار اور بلجنات اس طرف متوجہ ہوتے رہیں کہ سچائی کی کتنی بڑی قیمت ہے اور اس وقت جماعت کو اور دنیا کو جماعت کی وساطت سے کتنی بڑی ضرورت ہے.نرم اور پاک زبان کا استعمال تربیت کا دوسرا پہلو نرم اور پاک زبان استعمال کرنا اور ایک دوسرے کا ادب کرنا.یہ بھی بظاہر چھوٹی سی

Page 467

مشعل راه جلد سوم 463 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی بات ہے.ابتدائی چیز ہے لیکن جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے ، وہ سارے جھگڑے جو جماعت کے اندر نجی طور پر پیدا ہوتے ہیں یا ایک دوسرے سے تعلقات میں پیدا ہوتے ہیں ان میں جھوٹ کے بعد سب بڑا دخل اس بات کا ہے کہ بعض لوگوں کو نرم خوئی کے ساتھ کلام کرنا نہیں آتا.ان کی زبان میں درشتگی پائی جاتی ہے.ان کی باتوں اور طرز میں تکلیف دینے کا ایک رجحان پایا جاتا ہے، جس سے بسا اوقات وہ باخبر ہی نہیں ہوتے.جس طرح کانٹے دُکھ دیتے ہیں ان کو پتہ نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں.اسی طرح بعض لوگ روحانی طور پر سوکھ کے کانٹے بن جاتے ہیں اور ان کی روزمرہ کی باتیں چاروں طرف دُکھ بکھیر رہی ہوتی ہیں.تکلیف دے رہی ہوتی ہیں اور ان کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ ہم کیا کر رہے ہیں.ایسے اگر مرد ہوں تو ان کی عورتیں بیچاری ہمیشہ ظلموں کا نشانہ بنی رہتی ہیں اور اگر عورتیں ہوں تو مردوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے.یہ بات بھی ایسی ہے جس کو بچپن سے ہی پیش نظر رکھنا ضروری ہے.گھر میں بچے جب آپس میں ایک دوسرے سے کلام کرتے ہیں.اگر وہ آپس میں ادب اور محبت سے کلام نہ کریں.اگر چھوٹی چھوٹی بات پر تو تو میں میں اور جھگڑے شروع ہو جائیں تو آپ یقین جانئے کہ آپ ایک گندی نسل پیچھے چھوڑ کر جانے والے ہیں ایک ایسی نسل پیدا کر رہے ہیں جو آئندہ زمانوں میں قوم کو تکلیفوں اور دکھوں سے بھر دے گی اور آپ اس بات کے ذمہ دار ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں نے ایک دوسرے سے زیادتیاں کیں ،سختیاں کیں اور بدتمیزیاں کیں.اور آپ نے ان کو ادب سکھانے کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور یہی نہیں ایسے بچے پھر ماں باپ سے بھی بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں.اور جن ماں باپ کے بچوں کی تعزیر کے لئے جلد ہاتھ اُٹھتے ہیں ان کے بچوں کے پھر اُن پر ہاتھ اٹھنے لگتے ہیں.اس لئے روزمرہ کے حسن سلوک اور ادب کی طرف غیر معمولی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ بھی گھروں میں اگر بچپن ہی میں تربیت دے دی جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی آسانی کے ساتھ یہ کام ہو سکتے ہیں لیکن جب یہ اخلاق زندگی کا جزو بن چکے ہوں ، جب ایسے بچے بڑے ہو جائیں تو پھر آپ دیکھیں گے کہ سکول میں جائیں تو کلاسوں میں یہ بچے بدتمیزی کے مظاہرے کرتے ،شور ڈالتے ، ایک دوسرے کو تکلیفیں پہنچاتے اور اساتذہ کے لئے ہمیشہ سر دردی بنے رہتے ہیں.یہی بچے جب اطفال الاحمدیہ کے سپر دہوں یا لجنات کے سپر د بچیوں کے طور پر ہوں تو وہاں ایک مصیبت کھڑی کر دیتے ہیں.ان بچوں کی تربیت کرنا بڑا مشکل کام ہے.اور ہم نے جو تربیت کے بڑے بڑے کام کرنے ہیں وہ ہو ہی نہیں سکتے اگر ابتدائی طور پر یہ مادہ تیار نہ ہو.مادہ تیار ہو تو پھر اس کے اوپر کام آپ کرنا چاہیں، جتنا اس کو سجانا چاہیں اتنا اس کو سجا سکتے ہیں لیکن وہ مٹی ہی نرم نہ ہو اور اس

Page 468

464 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم کے اندر ڈھلنے کی طاقت نہ ہو تو پھر کیسا بڑا صناع ہی کیوں نہ ہو، وہ اس مٹی کو خوبصورت شکلوں میں تبدیل نہیں کر سکتا.پس اس پہلو سے کلامی، ادب و احترام کے ساتھ ایک دوسرے سے سلوک کرنا یہ بہت ہی ضروری ہے.بڑے بڑے خطرناک جھگڑے اس صورتحال کی طرف توجہ نہ دینے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور چونکہ مجھ تک ساری دُنیا سے مختلف نزاع کبھی بالواسطہ کبھی بلا واسطہ پہنچتے رہتے ہیں.اس وقت تک آئندہ بڑے ہو کر قوم میں ان کے کردار کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے اور ان کی بدخلقیاں بعض نہایت ہی خطرناک فساد پیدا کر سکتی ہے.جن کے نتیجے میں دُکھ پھیل سکتے ہیں.جماعتیں بٹ سکتی ہیں.منافقتیں پیدا ہو سکتی ہیں.سلسلہ سے انحراف کے واقعات ہو سکتے ہیں کیونکہ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن کو لوگ معمولی سمجھتے ہیں لیکن جن کے اوپر آئندہ قوموں کی تعمیر ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں بہت بڑے بڑے واقعات رونما ہو جاتے ہیں.وسعت حوصلہ بچپن ہی سے اپنی اولا د کو سکھانا چاہیے تیسری چیز وسعت حوصلہ ہے.بچپن ہی سے اپنی اولا د کو یہ سکھانا چاہیے کہ اگر تمہیں کسی نے تھوڑی سی کوئی بات کہی ہے یا تمہارا کچھ نقصان ہو گیا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں.اپنا حوصلہ بلند رکھو اور حو صلے کی یہ تعلیم بھی زبان سے نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے عمل سے دی جاتی ہے بعض بچوں سے نقصان ہو جاتے ہیں.گھر کا کوئی برتن ٹوٹ گیا.سیاہی کی کوئی دوات گر گئی.کھانا کھاتے ہوئے پانی کا گلاس اُلٹ گیا اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر میں نے دیکھا ہے کہ بعض ماں باپ برافروختہ ہو کر بچوں کے اوپر برس پڑتے ہیں، ان کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں.چیڑ میں مارتے ہیں اور کئی طرح کی سزائیں دیتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ جن قوموں میں یا جن ملکوں میں ابھی تک اُن کا ایک طبقہ یہ توفیق رکھتا ہے کہ وہ نوکر رکھے، وہاں نوکروں سے بدسلوکیاں ہورہی ہوں، ان گھروں میں جہاں بچوں سے بدسلوکیاں ہورہی ہوں وہاں آئندہ قوم میں بڑا حوصلہ پیدا نہیں ہوسکتا.جب ایک بچے نے حضرت مسیح موعود کا قیمتی مقالہ جلا دیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بچوں کو جو تربیت کی وہ محض کلام کے ذریعے نہیں کی بلکہ اعلیٰ اخلاق کے اظہار کے ذریعے کی ہے.حضرت مصلح موعود جب بچے تھے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 469

مشعل راه جلد سوم 465 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی کا ایک بہت ہی قیمتی مقالہ جو آپ نے تحریر فرمایا تھا اور اس کو طباعت کے لئے تیار فرمایا تھا، وہ آپ نے کھیل کھیل میں جلا دیا اور سارا گھر ڈرا بیٹھا تھا کہ اب پتہ نہیں کیا ہوگا اور کیسی سزا ملے (لیکن ) جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا: کوئی بات نہیں.خدا اور توفیق دے دے گا.حوصلہ اپنے عمل سے پیدا کیا جاتا ہے اور ماں باپ جن کے دل میں حوصلے نہ ہوں ، وہ اپنے بچوں میں حوصلے نہیں پیدا کر سکتے.اور نرم گفتاری کا بھی حو صلے سے بڑا گہرا تعلق ہے.چھوٹے حوصلے ہمیشہ بدتمیز زبان پیدا کرتے ہیں.بڑے حوصلوں سے زبان میں بھی تحمل پیدا ہوتا ہے اور زبان کا معیار بھی بلند ہوتا ہے.پس محض زبان میں نرمی پیدا کرنا کافی نہیں جب تک اس کے ساتھ حوصلہ بلند نہ کیا جائے اور وسیع حوصلگی جماعت کے لئے آئندہ بہت ہی کام آنے والی چیز ہے جس کے غیر معمولی فوائد ہمیں اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی نصیب ہو سکتے ہیں لیکن وسیع حوصلگی کا یہ مطلب نہیں کہ ہر نقصان کو برداشت کیا جائے اور نقصان کی پرواہ نہ کی جائے.یہ ایک فرق ہے جو میں کھول کر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اس کو سمجھ کر ان دونوں باتوں کے درمیان توازن کرنا پڑے گا.ہمیں چاہیے کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ضائع نہ ہو نقصان ایک بُری چیز ہے.اگر نقصان کا رجحان بچوں میں پیدا ہو تو ان کو سمجھانا اور عقل دینا اور یہ بات ان کے ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا فرمائی ہیں وہ ہمارے فائدے کے لئے ہیں اور ہمیں چاہیے کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کا بھی نقصان نہ ہو.وضو کرتے وقت پانی کا بھی نقصان نہیں ہونا چاہیے.منہ ہاتھ دھوتے وقت پانی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے.صرف ایک پانی ہی کو لے لیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہماری قوم میں اور بعض ترقی یافتہ قوموں میں بھی نقصان کا کتنا رجحان ہے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ ٹوٹیاں کھول کر کھڑے ہو جاتے ہیں.ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ گرم پانی یا ٹھنڈا پانی، جیسا بھی ہے وہ اکثر ضائع ہورہا ہے اور بہت تھوڑا ان کے کام آ رہا ہے.حالانکہ پانی خدا تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہے جس کی قدر کرنا ضروری ہے اور قطع نظر اس سے کہ اس سے آپ کا مالی نقصان کیا ہوتا ہے یا قوم کا مجموعی نقصان کیا ہوتا ہے، یہ بات ناشکری میں داخل ہے کہ کسی نعمت کی بے قدری کی جائے تو حو صلے سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ نقصان کی پرواہ نہ کرنے کی عادت ڈالی جائے.یہ دو باتیں پہلو بہ پہلو چلنی چاہئیں.حوصلے سے مراد یہ ہے کہ اگر اتفاقا کسی سے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس پر برداشت کیا جائے اور

Page 470

مشعل راه جلد سوم 466 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی اُسے کہا جائے کہ اس قسم کی باتیں ہوتی رہتی ہیں اور جن کے حوصلے بلند ہوں وہ پھر بڑے ہوکر بڑے نقصان برداشت کرنے کے بھی زیادہ اہل ہو جاتے ہیں.بعض دفعہ آفات سماوی پڑتی ہیں اور دیکھتے دیکھتے انسان کی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں.جن کو چھوٹی چھوٹی باتوں کا حوصلہ نہ ہو وہ ایسے موقعوں پر پھر خدا سے بھی بدتمیز ہو جاتے ہیں اور بے حوصلگی کے ساتھ خود غرضی کا ایک ایسا گہرا رشتہ ہے کہ اس خود غرضی کے نتیجے میں ہر دوسری چیز اپنی تابع دکھائی دینے لگتی ہے اگر وہ فائدہ پہنچا رہی ہے تو ٹھیک ہے.ذرا سا بھی نقصان کسی سے پہنچے تو انسان حوصلہ چھوڑ بیٹھتا ہے اور جب بندوں سے بے حوصلگی شروع ہو تو بالآخر انسان خدا سے بھی بے حوصلہ ہو جاتا ہے.اسی لئے حضرت اقدس محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ گر سمجھایا کہ من لَا يَشْكُرِ النَّاسَ لَا يَشْكُرِ الله (ابن عساکر بحوالہ کنز العمال جلد ۳ حدیث نمبر ۶۴۸۲) کہ جو بندے کا شکر ادا کرنا نہ سیکھے وہ خدا کا کہاں کر سکتا ہے.جو بندے کا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی نہیں کرتا.یہ جو گہرا فلسفہ ہے یہ ہم روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں.حوصلے پر بھی اسی بات کا اطلاق ہوتا ہے.اسی لئے میں نے کہا تھا کہ یہ معمولی بات نہیں.بڑے ہو کر اس کے بہت بڑے بڑے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں وہ نقصان جس میں انسان بے اختیار ہو اس پر صبر کا نام حوصلہ ہے.نقصان کی طرف طبیعت کا میلان ہونا یہ حوصلہ نہیں ہے.یہ بے وقوفی ہے.جہالت ہے اور بعض صورتوں میں یہ خود ناشکری بن جاتا ہے.اس لئے بچوں کو جب حوصلہ سکھاتے ہیں تو چیزوں کی قدر کرنا بھی سکھائیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.یہاں انگلستان میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ پانی کا نقصان اور Heat گرمی کا نقصان.یہ دوائیسی چیزیں ہیں جو قوم میں عام پائی جاتی ہیں.کوئی پرواہ نہیں ہوتی.ہمارے خود پاکستان سے یہاں آکر جو بسنے والے ہیں، بے ضرورت ہیٹر جلاتے ہیں.بے ضرورت آگ جلتی رہتی ہے.اس کے اوپر پھیلی ہو یا نہ ہو، عورتیں پرواہ نہیں کرتیں.بے ضرورت پانی بہتے رہتے ہیں.اس سے بہت کم میں انسان اپنی ضرورت کو پوری کر سکتا ہے اور قومی طور پر جو فائدہ ہے وہ تو ہے لیکن بنیادی طور پر ہر انسان کو ان باتوں کی طرف توجہ دینے کے نتیجے میں اپنی اخلاقی تعمیر میں مددملتی ہے اور اس سے بچوں کی تربیت میں بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے.بجلیوں کو دیکھ لیجئے.میں نے دیکھا ہے کہ گھروں میں لوگ بے وجہ بجلیاں جلتی چھوڑ جاتے ہیں.ریڈیو آن کیا ہے یا ٹیلی ویژن آن کیا ہے تو کمرے سے چلے گئے اور خالی کمروں میں بجلیاں بھی جل رہی ہیں.ریڈیو آن ہیں یا ٹیلی ویژن آن ہیں.کئی دفعہ میں اپنے گھر میں اپنے بچوں سے کہا کرتا ہوں کہ ہمارے گھر میں جن ہیں کیونکہ میں کمرے میں گیا وہاں بجلی جل رہی تھی اور ٹیلی ویژن چلا ہوا تھا.معلوم ہوتا ہے کوئی

Page 471

467 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم ایسی غیر مرئی مخلوق ہے جو آکر یہ کام کر جاتی ہے.انسانوں کو تو زیب نہیں دیتا کہ اس طرح بے وجہ خدا کی ان نعمتوں کو ضائع کریں تو بار ہا یہ دیکھا یہ تربیت کرنی پڑتی ہے لیکن صبر کے ساتھ.بدتمیزی کے ساتھ نہیں اور یہ جو دو باتیں ہیں یہ اکٹھی چلیں گی.یعنی حوصلے کی تعلیم اور نقصان سے بچنے کا رجحان.کسی قسم کا قومی نقصان نہ ہو اس کے نتیجے میں اندرونی طور پر بھی آپ کی ذات کو ، آپ کے خاندان کو فوائد پہنچیں گے اور بڑے ہو کر تو اس کے بہت ہی عظیم الشان نتائج نکلتے ہیں.وہ لوگ جن کو چھوٹے چھوٹے نقصانوں کی پرواہ نہیں ہوتی جب وہ تجارتیں کرتے ہیں تو اپنی طرف سے وہ حوصلہ دکھا رہے ہوتے ہیں کہ اچھا یہ ہو گیا، کوئی فرق نہیں پڑتا.اچھا وہ نقصان ہو گیا کوئی فرق نہیں پڑتا ہم اور آگے کما لیں گے.یہ جہالت کی باتیں ہیں.اچھے تاجر وہی ہوتے ہیں جو چھوٹے سے چھوٹا نقصان بھی برداشت نہ کریں اور حوصلے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اپنے نقصان کو آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھیں اور روکنے کی کوشش نہ کریں.غریب کی ہمدردی اور دُکھ دور کرنے کی عادت بچپن سے ہی پیدا کریں چوتھی بات غریب کی ہمدردی اور دُکھ دُور کرنے کی عادت ہے.یہ بھی بچپن سے ہی پیدا کرنا چاہیے.جن بچوں کو نرم مزاج مائیں غریب کی ہمدردی کی باتیں سناتی ہیں اور غریب کی ہمدردی کا رجحان اُن کی طبیعتوں میں پیدا کرتی ہیں.وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مستقبل میں ایک عظیم الشان قوم پیدا کر رہی ہوتی ہیں جو خَيْرَ اُمَّةٍ بننے کی اہل جاتی ہیں لیکن وہ مائیں جو خود غرضانہ رویہ رکھتی ہیں اور اپنے بچوں کو اُن کے اپنے دکھوں کا احساس تو دلاتی رہتی ہیں غیر کے دُکھ کا احساس نہیں دلاتیں.وہ ایک خود غرضانہ قوم پیدا کرتی ہیں.جولوگوں کے لئے مصیبت بن جاتی ہے.اس لئے انسانی ہمدردی پیدا کرنا نہ صرف نہایت ضروری ہے بلکہ اس کے بغیر آپ اپنے اس اعلیٰ مقصد کو پا نہیں سکتے جس کے لئے آپ کو پیدا کیا گیا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( سورة آل عمران : ۱۱۱) تم دنیا کی بہترین امت ہو جس کو خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فوائد کے لئے پیدا فرمایا ہے.اس لئے ہم اپنی زندگی کا قومی مقصد کھو دیں گے اگر بچپن ہی سے اپنی اولا د کولوگوں کی ہمدردی کی طرف متوجہ نہ کریں اور عملاً اُن سے ایسے کام نہ لیں یا اُن کو ایسے کام نہ سکھائیں جس کے نتیجے میں غریب کی ہمدردی اُن کے دل میں پیدا ہو اور اُس کی لذت یابی بچپن ہی سے شروع ہو جاتی ہے.لذت یابی سے مراد میری یہ ہے کہ اگر کسی بچے سے کوئی ایسا کام کر وایا جائے جس سے کسی کا دُکھ دور ہو تو اس کو ایک لذت محسوس ہوگی اگر محض زبانی بتایا جائے تو وہ لذت

Page 472

468 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم محسوس نہیں ہوگی اور جب تک نیکی کی لذت محسوس نہ ہو اس وقت تک نیکی دوام نہیں پکڑا کرتی.اس وقت تک یہ محض نصیحت کی باتیں ہیں.اس لئے اس کے دو پہلو ہیں.ایک تو آپ اپنے بچوں کو اچھی کہانیاں سنا کر سبق آموز نصیحتیں کر کے یا سبق آموز واقعات سنا کر غریبوں کی ہمدردی کی طرف مائل کریں.دُکھ والوں کوڈ کھ دُور کرنے کی طرف مائل کریں اور وہ شخص جو مصیبت زدہ ہے کسی تکلیف میں مبتلا ہے، یہ احساس پیدا کریں کہ اس کی مصیبت دُور ہونی چاہیے اور اس کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.خدمت کا جذ بہ اُن کے اندر پیدا کریں.بلکہ اس کے ساتھ مواقع بھی مہیا کریں.یہاں عام طور پر ایسے مواقع میسر نہیں آتے یعنی روز مرہ کی زندگی میں بھی ، کیونکہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں امیروں اور غریبوں کے درمیان فاصلے بہت ہیں یا درمیانے طبقے کے لوگوں کے درمیان اور غریبوں کے درمیان بہت فاصلے ہیں.لیکن ہمارے ملکوں میں یعنی غریب ملکوں میں، تیسری دنیا کے ملکوں میں تو غریب اور امیر ساتھ ساتھ رہتے ہیں.ہر روزان کی گلیوں اُن کے بازاروں میں غربت تکلیف اٹھاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور محسوس ہوتی ہے.وہاں تو نہ صرف یہ کہ کام بہت آسان ہے کہ عملاً بچوں کو بچپن ہی سے لوگوں کی تکلیفیں دُور کرنے کی عادت ڈالی جائے بلکہ مشکل بھی ہے کہ تکلیفیں اتنی ہیں کہ انسان کے حد استطاعت سے بہت بڑھی ہوئی دکھائی دیتی ہیں.ایسے ہی ملکوں کے متعلق ، غالباً ایسے ہی ماحول میں غالب نے یہ کہا تھا کہ ے کون جو نہیں ہے کس کی حاجت ہے حاجتمند روا کرے کوئی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ چونکہ حاجتیں پوری کرنا ہمارے بس سے بڑھ گیا ہے.اس لئے ہم حاجت پوری کرنا چھوڑ دیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کس کس کی کرے.دل یہ چاہتا ہے کہ ہر ایک کی کرے.پس جس کسی کی بھی جتنی حاجت بھی آپ دُور کر سکتے ہیں، خود بھی کریں اور بچوں سے کروائیں اور بچپن میں اگر اس کی عادت پڑ جائے تو اس کے نتیجے میں بچہ جو لذت محسوس کرتا ہے وہ نیکی کو دوام بخش دیتی ہے اور پھر بڑے ہوکر خدام الاحمدیہ میں جا کر یا لجنہ کی بڑی عمر کو پہنچ کر پھر ان تنظیموں کو ان میں محنت نہیں کرنی پڑے گی اور بنے بنائے با اخلاق افراد قوم میسر آئیں گے جو پھر بڑے بڑے کام کرنے کے لئے اپنے آپ کو مستعد اور تیار پائیں گے.مضبوط عزم و ہمت اور نرم دلی آخر پر پانچویں بات جو میں نے آج کے خطاب کے لئے چنی ہے وہ مضبوط عزم اور ہمت

Page 473

مشعل راه جلد سوم 469 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ ہے.مضبوط عزم اور ہمت اور نرم دلی اکٹھے رہ سکتے ہیں.اگر یہ ا کٹھے نہ ہوں تو ایسا انسان کمزور تو ہوگا با اخلاق نہیں ہوگا.نرم دلی جب آپ پیدا کرتے ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایسا نرم دل انسان ایسا نرم خو انسان مشکلات کے وقت گھبرا جائے اور مصائب کا سامنا کرنے کی طاقت نہ پائے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، صدیق اکبر اس لحاظ سے ہمیشہ ہمیش کے لئے تاریخ میں ایک کامل نمونہ کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں.یہ نمونہ اگر چہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے حاصل کیا مگر آپ کی زندگی میں ایک ایسا مقام آیا جہاں اس خلق نے نمایاں ہو کر ایک ایسا عظیم الشان کردارادا کیا ہے کہ جس کے نتیجے میں ہمیشہ کے لئے ہم آپ کی مثال دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں.بے حد نرم خو اور نرم دل ہونے کے باوجود جب اسلام پر آپ کی خلافت کے پہلے دن ہی مصیبت کا دور پڑا ہے.عظیم مصیبت واقع ہوئی ہے اور مشکلات کا دور شروع ہوا ہے تو وہ شخص جو دنیا کی نظر میں اتنا نرم دل اور اتنا نرم خو تھا کہ معمولی سی تکلیف کی بات سے ہی اس کے آنسو رواں ہو جایا کرتے تھے.کسی کی چھوٹی سی تکلیف بھی وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا.اتنے حیرت انگیز عزم کے ساتھ ان مشکلات کے مقابل پر کھڑا ہو گیا ہے کہ جیسے سیلاب کے سامنے کوئی عظیم الشان چٹان کھڑی ہو جاتی ہے.ایک ذرہ بھی اس کے سرکنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا.اس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس وقت اپنے نرم دل سے عظمت کا ایک پہاڑ نکلتا ہوا دنیا کو دکھایا.پس نرم دلی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان مشکلات کے وقت کمزور ہو یا بڑھتی ہوئی مشکلات کے سامنے ہمت ہار جائے.بچپن سے یہ خلق پیدا کرنا چاہیے کہ ہم نے شکست نہیں کھانی.میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ جو فقرہ ہے، یہ ایک عظیم الشان فقرہ ہے جو آپ کے اس عظیم خلق پر روشنی ڈالتا ہے: ” میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں بہت ہی بلند تعلیم ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عظیم خلق پر روشنی ڈالنے والا یہ ایک بہت ہی پیارا فقرہ ہے کہ میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وابستہ ہونے والوں کی سرشت میں بھی ہرگز ناکامی کا ضمیر نہیں ہونا چاہیے اور یہ عزم اور ہمت بچپن ہی سے پیدا کئے جائیں تو پیدا ہوتے ہیں.وہ لوگ جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہمتیں ہار جاتے ہیں.امتحان میں

Page 474

مشعل راه جلد سوم 470 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ فیل ہو جائیں تو زندگی سے بیزار ہو جاتے ہیں.زندگی کی کوئی مراد پوری نہ ہو تو ان کا سارا فلسفہ حیات ایک زلزلے میں مبتلا ہو جاتا ہے، وہ سوچتے ہیں، پتہ نہیں خدا بھی ہے کہ نہیں.اُن کی چھوٹی سی کائنات تنکوں کی بنی ہوئی ہوتی ہے اور معمولی سا زلزلہ بھی ان کی خاک اڑا دیتا ہے.اس لئے وہ قو میں جنہوں نے دنیا میں بہت بڑے بڑے کام کرنے ہیں.عظیم الشان مقاصد کو حاصل کرنا ہے اور عظیم الشان ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے.جن کا مشکلات کا دور چند سالوں سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ صدیوں تک پھیلا ہوا ہے.ہر مشکل کو انہوں نے سر کرنا ہے.ہر مصیبت کا مردانگی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے.ہر زور آور دشمن سے ٹکر لینی ہے اور اس کو نا کام اور نامراد کر کے دکھانا ہے.ایسی قوموں کی اولادیں اگر بچپن ہی سے عزم کی تعلیم نہ پائیں تو آئندہ نسلیں پھر اس عظیم الشان کام کو سرانجام نہیں دے سکیں گی.اس لئے بہت ہی ضرورت ہے کہ جہاں نرم کلام بچے پیدا کریں.جہاں نرم دل بچے پیدا کریں.جہاں نرم خو اولاد پیدا کریں جو دوسروں کی ادنی سی تکلیف سے بھی بے چین اور بے قرار ہو جائے اور ان کے دل کسی دوسرے دل کے غم سے پچھلنا شروع ہو جائیں ، اس کے باوجود اس اولا د کو عزم کا پہاڑ بنادیں اور بلند ہمتوں کا ایک ایسا عظیم الشان نمونہ بنادیں کہ جس کے نتیجے میں قومیں ان سے سبق حاصل کریں.یہ وہ پانچ بنیادی اخلاق ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری تنظیموں کو خصوصیت کے ساتھ اپنے تربیتی پروگرام میں پیش نظر رکھنے چاہئیں.ان پر اگر وہ اپنے سارے منصوبوں کی بناء ڈال دیں اور سب سے زیادہ توجہ ان اخلاق کی طرف کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کا فائدہ آئندہ سو سال ہی نہیں بلکہ سینکڑوں سال تک بنی نوع انسان کو پہنچتارہے گا.کیونکہ آج کی جماعت احمد یہ اگران پانچ اخلاق پر قائم ہو جائے اور مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائے اور ان کی اولادوں کے متعلق بھی یہ یقین ہو جائے کہ یہ بھی آئندہ انہیں اخلاق کی نگران اور محافظ بنی رہیں گی اور ان اخلاق کی روشنی دوسروں تک پھیلاتی رہیں گی اور پہنچاتی رہیں گی تو پھر میں یقین رکھتا ہوں کہ ہم امن کی حالت میں اپنی جان دے سکتے ہیں.سکون کے ساتھ اپنی جان جان آفرین کے سپر د کر سکتے ہیں اور یقین رکھ سکتے ہیں کہ جو عظیم الشان کام ہمارے سپرد کئے تھے.ہم نے جہاں تک ہمیں توفیق ملی ، ان کو سرانجام دیا.نماز کا ترجمہ ہر احمدی کو آنا چاہیے خواہ وہ بچہ ہو ، جوان ہو یا بوڑھا سرا پہلو مختصر عبادات کا پہلو ہے.اس سلسلے میں میں بارہا جماعت کو پہلے بھی متوجہ کر چکا ہوں کہ ابتدائی چیزوں کی طرف بہت ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ان میں سب سے ابتدائی اور سب سے اہم نماز

Page 475

471 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہے.ہماری نمازوں میں ابھی کئی قسم کے خلا ہیں جو بلند تر منازل سے تعلق رکھنے والے خلا ہیں.ان کا میں تفصیل سے ذکر کر چکا ہوں.لیکن اب میں آپ کو اس بنیادی کمزوری کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ ہمارے اندر آج کی نسلوں میں بھی بہت سے بچے ایسے ہیں جن کو پانچ وقت نماز پڑھنے کی عادت نہیں ہے.بہت سے بوڑھے ایسے ہیں جن کو پانچ وقت نماز پڑھنے کی عادت نہیں ہے اور یہ بات ہمیں روز مرہ نظر آنی چاہیے اور ہمیں اس سے بے چین ہو جانا چاہیے تنظیمیں کیوں اس سے بے چین نہیں ہوتیں.تنظیمیں کیوں یہ کمزوری نہیں دیکھتیں اور کیوں خصوصیت کے ساتھ ان باتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتیں.صرف نماز پڑھنا کافی نہیں، نماز ترجمے کے ساتھ پڑھنا بہت ضروری ہے اور نماز کا ترجمہ ہر احمدی کو آنا چاہیے.خواہ وہ بچہ ہو ، جوان ہو یا بوڑھا.مرد ہو یا عورت.ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز کاترجمہ جانتا ہو اور اس حد تک یہ ترجمہ رواں ہو کہ جب وہ نماز پڑھے تو سمجھ کر نماز پڑھے.عبادات کے مضمون میں تو بہت سی وسیع باتیں ہیں.بہت سی باتیں ہیں جو اپنے اندر پھر اور بہت سی منازل رکھتی ہیں لیکن سب سے بنیادی بات یہی ہے کہ ہم اپنی جماعت کو مکمل طور پر نماز پر قائم کر دیں.کسی اور نیکی کی اتنی تلقین قرآن کریم میں آپ کو نہیں ملے گی جتنی قیام عبادت کی تلقین ہے.قیام صلوة کی تلقین ہے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کی تلقین بھی ہمیشہ اس کے ساتھ وابستہ کی گئی ہے.پس قرآن کریم کی تعلیم کی روح یہی ہے کہ ہم اپنی عبادات کو کھڑا کر دیں اور اپنے پاؤں پر مضبوطی کے ساتھ ان کو اس طرح مستحکم کر دیں کہ کوئی ابتلاء کوئی زلزلہ کوئی مشکل ہماری نمازوں کو گرا نہ سکے.اس کے لئے پہلا بنیادی قدم یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص نماز با ترجمہ جانتا ہو اور نماز پانچ وقت پڑھنے کا عادی ہو اور دوسری چیز اس کے ساتھ ملانے والی یہ ضروری ہے کہ صبح تلاوت کی عادت ڈالیں ہر شخص جو نماز پڑھتا ہے اس کو یہ عادت پڑ جائے کہ کچھ نہ کچھ تلاوت ضرور کرے.یہ بنیاد اگر قائم ہو جائے اس کے اوپر پھر عظیم الشان عبادات کی عمارتیں قائم ہوسکتی ہیں.منازل نئی سے نئی بن سکتی ہیں.عبادتوں کو نئی رفعتیں حاصل ہو سکتی ہیں مگر یہ بنیاد نہ ہو تو اُوپر کی منزلیں بن ہی نہیں سکتیں.اس لئے خدام الاحمدیہ انصار اللہ اور بجنات کو اپنے آئندہ کے پروگراموں میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دینی چاہیے کہ ان کی مجالس کے اندر ایک بھی فرد نہ رہے جو نماز کا ترجمہ نہ جانتا ہو اور پنج وقتہ نماز پر قائم نہ ہو.باقی ساری باتیں انشاء اللہ رفتہ رفتہ سکھائی جائیں گی.ذیلی تنظیموں کے لئے لائحہ عمل میرا پروگرام یہ ہے کہ تمام مجالس پر اس پہلو سے نظر رکھوں اور ان کی رپورٹوں کو سر دست مختصر بنادوں.ان سے یہ توقع رکھوں کہ آپ لمبی تفصیلی رپورٹیں مجھے نہ کریں جن سے میں خود براہ راست گذر نہ سکوں جبکہ

Page 476

472 ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم مجھ کو آپ جو کام پہنچانا چاہتے ہیں وہ مختصر کر دیں اور بجائے اس کے کہ یہ بتائیں کہ آپ نے کتنے پیڑ لگائے اور کتنی محنتیں کیں اور کس طرح ان پودوں کو تناور درختوں میں تبدیل کیا.مجھے صرف یہ بتا دیا کریں کہ پھل کتنے لگے.پیٹوں سے مجھے غرض نہیں ہے.تو پھلوں کے لحاظ سے ان پانچ عادات کی متعلق رپورٹ مل جائے کہ آپ نے کتنے احمدیوں میں یہ عادات راسخ کرنے میں کام کیا ہے؟ کتنے لوگوں نے ، بچوں نے ، بڑوں نے مردوں اور عورتوں نے عہد کیا ہے کہ وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولیں گے اور اس کے سلسلہ میں آپ نے کیا کارروائیاں کی ہیں؟ سر دست صرف یہ بتائیں.یعنی نظر رکھنے کے لئے کیا کارروائیاں کی ہیں؟ عادتوں کو مزید راسخ کرنے کے لئے کیا کارروائیاں کی ہیں؟ اتنا حصہ بیشک مزید بھی بتادیں.جو پھلوں کی حفاظت سے تعلق رکھنے والا حصہ ہے.پھول پیدا کریں ان کی حفاظت کا انتظام کریں اور وہ حفاظت کی جو کارروائیاں ہیں وہ اپنی رپورٹ میں بے شک مختصراً لکھ دیا کریں دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ پتہ لگ جایا کرے کہ عرصہ زیر پورٹ میں کتنے ایسے احمدی بچے، بڑے تھے جو نماز پنج وقتہ نہیں پڑھتے تھے جن کو آپ نے نماز پنج وقتہ کی عادت ڈالی ہے یا کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے اور آپ نے ایک یا دو نمازوں کی عادت ڈالی ہے.صرف یہ تعداد کافی ہے.اگلی رپورٹ میں ان کا ذکر نہ ہو بلکہ مزید جو آپ نے اس میں شامل کئے ہوئے ہیں ان کا ذکر ہو یا اگر دو پڑھتے تھے اور تین پڑھنے لگ گئے تو ان کا ذکر ہو سکتا ہے اور اسی طرح یہ ذکر ہو کہ کتنے ایسے احمدی تھے جن کو نماز ترجمہ شروع کروادیا گیا ہے.کسی کا ترجمہ مکمل ہو گیا ہے تو دو حصوں میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اتنے ترجمہ پڑھ رہے ہیں اور اتنے ایسے خوش نصیب ہیں جو اگر چہ پہلے ترجمہ نہیں جانتے تھے اور اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کو ترجمہ آگیا ہے.تو یہ چھوٹے چھوٹے کام ہیں.ان کی طرف ساری مجالس اپنی ساری توجہ مبذول کر دیں.ان کے علاوہ جو دوسرے کام ہیں.سردست وہ جاری تو رہیں گے مگر ان کو مقابلہ ثانوی حیثیت دیں.اس سے میں اُمید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ جماعت کی عظیم الشان تعمیر کی ایسی بنیاد میں قائم ہو جائیں گے جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تمام دنیا میں ( دین حق ) کی عمارت کو مستحکم اور بلند تر کرنے میں عظیم الشان کارنامے سرانجام دیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 477

مشعل راه جلد سوم 473 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع سے افتتاحی خطاب فرمودہ 10 مئی 1991ء جرمنی کی سیاسی و اقتصادی اہمیت جرمنی کا جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت ہی حسن و احسان کا تعلق رہا ہے جرمنی کو ہمیشہ اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے مشرقی جرمنی کی طرف توجہ کرنے کی نصیحت مشرقی جرمنی کے لوگوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں ☆ ☆ ☆ ☆

Page 478

مشعل راه جلد سوم 474 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 479

مشعل راه جلد سوم 475 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آج پھر مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کو ایک عظیم الشان اجتماع منعقد کرنے کی توفیق بخشی ہے.آج منعقد ہونے والا یہ اجتماع اب مغربی جرمنی کا نہیں بلکہ سارے جرمنی کا اجتماع ہے.مگر خدام کی شمولیت کے لحاظ سے عملاً زیادہ بلکہ بہت زیادہ شمولیت اس میں مغربی جرمنی کی طرف سے ہی ہے.جرمنی کی سیاسی واقتصادی اہمیت اب جرمنی کے مغربی اور مشرقی دونوں حصوں کی اقتصادیات آپ میں مل رہی ہیں.اس کے نتیجہ میں کچھ عرصہ کے بعد ایک نیا جرمنی معرضِ وجود میں آئے گا جس کی اقتصادی حالت آج کے جرمنی سے کئی گنا زیادہ بڑھ چکی ہوگی.ہر چند کہ یہ قوم مشرقی اور مغربی حصوں کے باہم پھر متحد ہو جانے پر ذہنی و قلبی لحاظ سے خوش ہے لیکن مغربی جرمنی کو سر دست مشرقی جرمنی کا اقتصادی بوجھ اٹھانے کی وجہ سے وقتی طور پر ایک اقتصادی صدمہ پہنچا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی جرمنی کے بوجھ نے مغربی جرمنی کے اقتصادی معیار کو بھی نیچے جھکا دیا ہے لیکن عنقریب آپ دیکھیں گے کہ جرمنی اقتصادی لحاظ سے پھر ایک بہت بڑی طاقت بن کر ابھرنے والا ہے.صرف مشرقی جرمنی ہی نہیں بلکہ مشرقی یورپ کے بعض ممالک بھی جلد جرمنی کی طرف متوجہ ہوں گے اور اس کے ساتھ منسلک ہونے کی کسی نہ کسی رنگ میں کوشش کریں گے.اس احساس کے نتیجہ میں ابھی سے بعض دوسرے ممالک میں جرمنی کے خلاف حسد پیدا ہو چکا ہے.وہ مستقبل پر نگاه ڈالتے ہوئے گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں کہ جرمنی کہیں ان کے مقابلہ پر بہت زیادہ طاقتور ملک بن کر نہ اُبھرے اور اس طرح آپس میں فاصلے زیادہ نہ بڑھ جائیں.جرمنی کا جماعت احمدیہ سے تعلق جرمنی کا جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت ہی حسن و احسان کا تعلق رہا ہے.یورپ میں بلکہ دنیا بھر میں

Page 480

476 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جتنا جرمنی نے پاکستان کے غم زدہ اور تکلیف اٹھانے والے احمدیوں کو پناہ دی ہے اور جس جذبہ کے ساتھ اپنے ملک کے دروازے آپ پر کھولے ہیں اور ان کو امن مہیا کیا ہے.یہ ایک ایسا احسان ہے جو مجھے ہمیشہ جرمنی کے لئے دعائیں کرنے کی یاد دہانی کراتا رہتا ہے اور بعض اوقات رات کی تنہائیوں میں میرے دل کی گہرائی سے اس ملک کے لئے دعا اٹھتی ہے.یہ دوسری بات ہے کہ اس ملک کے باشندوں کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں ہوتی کہ کوئی شخص کہیں بیٹھا ان کے لئے دعا کر رہا ہے.ساری جماعت احمدیہ کو اس معاملہ میں امام کے ساتھ شامل ہونا چاہیے اور جرمنی کو ہمیشہ اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے.دنیا کے لحاظ سے تو ہم ان کو بدلہ نہیں دے سکتے.اگر کچھ بدلہ دے سکتے ہیں تو اعلیٰ اخلاقی تعلیم دے کر اور انہیں ( دین حق ) کی طرف بلا کر دے سکتے ہیں.یہ صحیح ہے کہ ان کی نظر میں یہ بدلہ کوئی بدلہ نہیں ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ جو چیز میں ہماری نظر میں قدر رکھتی ہیں ان کی نظر میں وہ کوئی قدروقیمت نہیں رکھتیں مگر جب ہم ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں تو محض اعلی کردار اور مذہبی ہدایت عطا ہونے کی ہی نہیں کرتے بلکہ ہم ان کے لئے دنیا کے لحاظ سے بھی دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! ان کو دنیوی حسنات بھی عطا فرما.پس ان کے لئے ہدایت یابی کے ساتھ ساتھ دنیوی حسنات عطا ہونے کی دعا بھی کیا کریں تا کہ یہ خوشحال ہوں اور اس طرح پہلے سے بہتر اور مضبوط ہوتے جائیں.ان کو اس کا علم ہو یا نہ ہو لیکن آپ جانتے ہوں اور آپ کے دل اس امر کے گواہ ہوں کہ آپ کے خدا نے آپ کی طرف سے اس قوم کے احسانات کا بدلہ اتنا اتارا ہے کہ جتنے وہ حقدار بھی نہیں تھے.پس اب جبکہ جرمنی کے مشرقی اور مغربی حصے کی دو علیحدہ علیحدہ اقتصادیات آپس میں مل رہی ہیں اور اس کے نتیجہ میں نئے حالات پیدا ہورہے ہیں میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ دعائیں کرتے ہوئے آپ بھی اس امر کے لئے کوشش شروع کر دیں کہ مشرقی جرمنی کے بھی خدام الاحمدیہ کو اور وہاں کی جماعت کے دیگر خدام کو پورے جرمنی کے جماعتی اجتماعات میں اسی طرح بھر پور حصہ لینے کی توفیق ملے جس طرح سابقہ مغربی جرمنی کے خطہ کے احمدی ایسے روحانی اجتماعات میں بکثرت شامل ہوتے ہیں.اس پہلو سے جرمنی کے مشرقی حصہ میں جو کمی ہے اللہ تعالیٰ اس کو دور فرما دے.اقتصادی لحاظ سے مشرقی حصہ کی کمی کو دور کرنا جن لوگوں کی ذمہ داری ہے وہ اپنی اس ذمہ داری کو بڑی توجہ سے ادا کر رہے ہیں.وہ بڑی بیدار مغزی اور بڑی محنت کے ساتھ بڑے بڑے چیلنج قبول کر رہے ہیں اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کی انتھک مساعی کے نتیجہ میں کچھ عرصہ کے اندر اندر مشرقی جرمنی کی اقتصادیات بھی مغربی جرمنی کی اقتصادیات کے برابر ہو

Page 481

477 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جائے گی.روحانی قدروں کے لحاظ سے آپ ذمہ دار ہیں.آپ کا خاموش اور غافل رہنا آپ کو زیب نہیں دیتا.خدا تعالیٰ کی ہستی پر زندہ ایمان لانے کے اعتبار سے، مذہبی اخلاق کو سمجھنے اور ان کی کماحقہ پابندی کرنے کے اعتبار سے اور جماعت کی تعداد کے نقطہ نگاہ سے مشرقی جرمنی میں فی الوقت جتنی بھی کمی ہے وہ آپ نے پوری کرنی ہے.پس اپنی دعاؤں میں اس بات کو خاص طور پر پیش نظر رکھیں اور مشرقی جرمنی میں پہلے سے بڑھ کر دعوت الی اللہ کا کام کریں.مشرقی جرمنی کی طرف توجہ کرنے کی نصیحت گزشتہ مرتبہ جب میں جرمنی میں حاضر ہوا تو میں نے امیر صاحب اور مجلس عاملہ کو توجہ دلائی کہ آپ مشرقی جرمنی میں مختلف اہم مقامات پر زمینیں حاصل کرنے کی کوشش کریں تا کہ ہم وہاں مشن ہاؤس اور ( بیوت الذکر ) بنا سکیں.مجھے علم نہیں کہ جماعت کو اس طرف پوری سنجیدگی کے ساتھ توجہ دلائی جاسکی ہے یا نہیں.ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اس ہدایت کو اس خیال سے نرمی سے لیا ہو کہ مشرقی یورپ جرمنی میں ابھی جماعتیں تو ہیں نہیں وہاں ( بیوت الذکر) وغیرہ بنانے کی ابھی کیا جلدی ہے.حالانکہ میں نے تو خدا تعالیٰ پر تو کل اور جماعت پر حسن ظن رکھتے ہوئی اس خیال سے یہ تحریک کی تھی کہ عنقریب وہاں جماعت پھیلے گی اور خدا سے روٹھے ہوئے لوگوں کو بڑی تیزی سے خدا کی طرف واپس لائے گی.تاریخی لحاظ سے مشرقی یورپ کے لوگ دو طرح اپنی بعض سابقہ اقدار سے روٹھے تھے.ایک اعتبار سے وہ سرمایہ دارانہ نظام سے روٹھ گئے تھے.انہوں نے اس کے مقابل ایک نیا نظام قائم کیا.دیکھیں آپ کے سامنے یہ مثال ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام والوں نے انہیں اپنا بنالیا ہے اور انہیں اپنی طرف واپس لوٹا لیا ہے.حالانکہ مشرقی یورپ کے لوگوں کے لئے یہ نقصان دہ ہے.جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ مشرقی یورپ اور روس اگر واپس سرمایہ داری کی طرف لوٹیں گے تو شدید نقصان اٹھائیں گے.ان کے لئے نئی راہ تلاش کرنا ضروری ہے اور یہ ئی راہ ان کو اسلام مہیا کر سکتا ہے.دوسرے اعتبار سے وہ خدا سے بھی روٹھ گئے تھے، وہ مذہب سے بھی روٹھ گئے تھے حتی کہ وہ اخلاقی اقدار سے بھی روٹھ گئے.انہیں مذہب ،اخلاقی اقدار اور خدا کی طرف واپس لانے کی ذمہ داری آپ کی ہے.آپ نے انہیں ( دین حق کا پیغام پہنچا کر خدا کی طرف واپس لانا ہے.

Page 482

مشعل راه جلد سوم 478 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشرقی جرمنی کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں دنیا کی قومیں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں.اس کے بالمقابل اگر خدا کی قوم اور خدا کے بندے اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو جائیں یہ انہیں زیب نہیں دیتا.پس اس مختصر خطاب میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں سابقہ مغربی جرمنی کے احسانات کو یادر کھتے ہوئے آپ ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں میں امید یہی رکھتا ہوں کہ آپ ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور اگر نہیں کرتے تو میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ ضرور دعائیں کریں گے.ان کی دنیا کے لئے بھی دعا ئیں کریں گے اور آخرت کے لئے بھی دعائیں کریں گے، وہاں اگر چہ مشرقی جرمنی کے آپ پر کوئی احسان نہیں پھر بھی ان پر احسان کرنے میں پہل کر جائیں اور مشرقی جرمنی کے لوگوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.ان کے لئے بھی بھلائی کے کام کریں.ان کو بھی اللہ کی طرف بلائیں.کوشش کریں کہ ان کی ہر قسم کی کمی پوری ہو اور ان کے تمام خلا دُور ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.( آمین ) (اخبار احمد یہ جرمنی 1991ء)

Page 483

مشعل راه جلد سوم 479 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب فرمودہ 12 مئی 1991ء صدر مجلس خدام الاحمدیہ کا خلیفہ وقت سے براہ راست رابطہ اور اس کے فوائد کسی مقام پر رک جانا مومن کی شان نہیں دنیا کا امام بننے سے پہلے اپنے نفس کا امام بننا ہوگا جماعتی عہدے اور ان کے تقاضے سَيِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمُ پاکستان بھر کے اتنے سفر کئے ہیں کہ کم آدمیوں نے کئے ہونگے.اس لئے میں تفصیل سے جماعت کا شناسا ہوں جماعت کا مزاج عاجزانہ ہے اور اخلاص سے گوندھا ہوا ہے ہ ہجرت کے تقاضے ہمیں بھی ایک Pollution دور کرنے کے لئے مامور کیا گیا ہے.اور وہ روحانی اور اخلاقی Pollution ہے ہ روس کے ایک لیڈر کی حضور سے ملاقات اور حضور کو ایک مرکزی کمیٹی کا اعزازی ممبر بنانا آپ احمدیت کے نمائندے اور سفیر ہیں

Page 484

مشعل راه جلد سوم 480 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 485

مشعل راه جلد سوم 481 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کو یہ سعادت نصیب ہوئی ہے کہ وہ اپنا یہ سالانہ اجتماع بڑے اہتمام کے ساتھ منعقد کرے.جہاں تک میں نے نظر ڈالی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر پہلو سے یہ اجتماع بہت کامیاب ہے.اس اجتماع کی خصوصی حیثیت یہ ہے کہ مغربی جرمنی کا اجتماع، اب جرمنی کا اجتماع بن چکا ہے.اس سے پہلے جتنے اجتماعات ہوا کرتے تھے وہ مغربی جرمنی کے اجتماع کہلاتے تھے اور اب یہ اجتماع وسیع تر جرمنی کا اجتماع ہے.صدر مجلس کا خلیفہ وقت سے براہ راست رابطہ اسی طرح اس اجتماع کو ایک اور خصوصیت بھی حاصل ہے جس کا تعلق نظام صدارت میں تبدیلی سے ہے.اس کی وجہ سے مجلس جرمنی کو پاکستان کی معرفت مجھ سے رابطہ رکھنے کی بجائے اب براہ راست رابطے کا وسیلہ مل گیا ہے اور براہ راست رابطہ قائم ہو چکا ہے.اب صدر مجلس جرمنی کو کسی دوسرے واسطے سے مجھ تک پہنچنے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ جس طرح پہلے پاکستان کے خدام الاحمدیہ کے صدر خلیفہ وقت سے براہِ راست تعلق رکھا کرتے تھے ویسے ہی دوسرے تمام ملکوں کی طرح جرمنی کو بھی یہ موقع پہلی بار ملا ہے اور اس عرصے میں میں نے محسوس کیا ہے کہ ہر پہلو سے خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی طرف قدم ہے.گو صدر صاحب مجلس جرمنی کی صدارت میں اس نئی حیثیت سے یہ پہلا اجتماع تھا اور اُن کے لئے ایک بہت بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا لیکن انہوں نے بڑی عمدگی سے اس کام کو نبھایا اور اُن کے ساتھ خدام کی بہت سی ٹیموں نے اتنی محبت اور خلوص اور اطاعت کے جذبے کے ساتھ کام کیا ہے کہ جب میں نے انتظامات کا جائزہ لیا تو مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر انتظام بہت عمدہ دکھائی دیا اور کسی جگہ میں نے کوئی ایسا نقص نہیں

Page 486

482 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم دیکھا کہ جس کی طرف میں انگلی اٹھا کر ان کو متوجہ کر سکتا.اس پس منظر میں مجھے یقین ہے کہ اس سارے انتظام و انصرام میں دعائیں ضرور کارفرما رہی ہوں گی کیونکہ میرا عمر بھر کا تجر بہ یہی ہے کہ ہر وہ انتظام ناکام اور نا مرا در رہتا ہے جس سے پہلے اور جس کے دوران اللہ تعالیٰ سے دعائیں نہ مانگی گئی ہوں.دعائیں بجز اور انکساری کو چاہتی ہیں اور جہاں تک میرا تجربہ اور علم ہے آپ کے صدر مجلس بھی اور مجلس عاملہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور اسی طرح دیگر مجالس عاملہ بھی، بجز اور انکساری اور دعاؤں کے ساتھ خدمت دین میں مصروف ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے کاموں میں بھی بہت برکت ڈالی ہے اور یہ اجتماع خدا کے فضل کے ساتھ ایک مثالی اجتماع بنا ہے.جہاں تک انتظامات کا تعلق ہے وہ تو انشاء اللہ بہتر سے بہتر ہوتے رہیں گے کیونکہ کمال کا کوئی ایسا تصور دنیا میں نہیں ہے کہ جو ہر پہلو سے کسی چیز کو اس طرح کامل کر کے دکھائے کہ اس کے بعد اگلی منزل دکھائی نہ دے.یہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے، اُس کے سوا اور کسی کو نصیب نہیں.اس لئے جب میں یہ کہتا ہوں کہ انتظامات ہر پہلو سے عمدہ اور اچھے تھے تو یہ ایک نسبتی تعریف ہے.اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیجئے کہ ترقی کی راہیں بند ہو گئیں ، جو سفر آپ نے کرنے تھے کر لئے اور اب اس سے آگے کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا.جب میں نے جائزہ لیا تو زیادہ تر میرے ذہن میں از خود ایک موازنہ گذشتہ سال کے ساتھ ہوتا چلا جار ہا تھا اور اس پہلو سے مجھے اطمینان ہوتا چلا گیا کہ پہلے کی نسبت خدا کے فضل سے ہر انتظام بہتر ہے لیکن آئندہ کسی مقام پر رک جانا مومن کی شان نہیں بلکہ بہتر سے بہتر کرنے کی ہمیشہ گنجائش رہے گی اور میں یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ کا بھی اور دیگر ذیلی تنظیموں کا بھی اور جماعت کا بھی بالعموم قدم ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا رہے گا.اس اجتماع میں عددی رونق بھی بہت ہے اور اس پہلو سے بہت سے دوستوں نے مجھے مبارکباد دی کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ پنڈال جو کبھی ساری جرمنی کی جماعت کے جلسے پر بھی پوری طرح بھر انہیں کرتا تھا اب خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں ہی یہ پنڈال خدا کے فضل سے پوری طرح بھر چکا ہے اور بہت رونق ہے.ظاہری کے ساتھ اندرونی برکت کا ہونا بھی ضروری ہے اس رونق پر مجھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا دعائیہ شعر یاد آیا کہ

Page 487

مشعل راه جلد سوم اک سے ہزار ہوویں 483 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی با برگ و بار ہوویں اور اس شعر کے یاد آنے سے ایک اور مضمون مجھے سجھائی دیا اور وہ یہ تھا کہ عام طور پر دنیا عددی اکثریت پر نازاں ہو جاتی ہے اور مطمئن ہو جاتی ہے لیکن ایک عارف باللہ میں اور ایک عام انسان کے معیار میں دیکھیں کتنا فرق ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ کہ کر خاموش نہیں ہو گئے کہ اک سے ہزار ہوویں بلکہ معا اس سے زیادہ طاقت اور قوت کے ساتھ یہ التجا کی مولی کے یار ہوویں با برگ و بارہوویں حق پر شار ہوویں پس اُن اک سے ہزار ہونے والوں کا کیا فائدہ جو مولی کے یار ہونے کی بجائے شیطان کے یار بنتے چلے جائیں اور حق پر نثار ہونے کی بجائے باطل پر شار ہونے لگیں.پس یہ دوسرا پہلو جو ہے اس کو آپ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے.عددی اکثریت کوئی حیثیت نہیں رکھتی.اس کے کوئی معنے نہیں ہیں.بسا اوقات خبیث اور باطل کو حق اور پاکیزگی کے مقابل پر اکثریت حاصل ہوتی ہے.اس لئے اکثریت وہ قدر کے لائق ہے اور وہی اکثریت ناز کے لائق ہے جس اکثریت کے ساتھ تقوی کی زینت موجود ہو.اگر خدا کا خوف ،خدا کی محبت دل میں نہ ہو اور بنی نوع انسان کے لئے سچا پیار انسان کے دل میں نہ ہو تو ایسی عددی اکثریت رحمت کی بجائے دنیا کے لئے لعنت بن جایا کرتی ہے.پس جہاں اللہ تعالیٰ نے جرمنی کی جماعت کو برکت دی ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے جرمنی کی ذیلی مجالس کو برکت کی ہے یعنی عددی برکت دی ہے وہاں ہم پر بہت ہی زیادہ پہلے سے بڑھ کر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنے دلوں کا جائزہ لیں ، اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اس ظاہری برکت کے ساتھ کیا ہمیں باطنی اور اندرونی برکت بھی نصیب ہو رہی ہے یا نہیں.کیا اس اضافہ کے ساتھ ، جونفوس کا اضافہ ہے کیا ہمارے ایمان میں بھی اضافہ ہورہا ہے کہ نہیں، ہمارے خلوص میں بھی اضافہ ہورہا ہے کہ نہیں اور ہمارے نیک اعمال میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کہ نہیں.اگر یہ سب بڑھ رہے ہیں اور نشو ونما پا رہے ہیں تو پھر یہ عددی اضافہ اور تعداد کا بڑھتے چلے جانا اللہ تعالیٰ کا یقینا ایک فضل ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پر عظمت و پُر حکمت دُعا انہی معنوں میں حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تمنا تھی کہ قیامت کے دن میں یہ دیکھوں

Page 488

484 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم که میری امت تمام دوسرے انبیاء کی اُمت سے بڑھ کر ہے لیکن آپ کی اس تمنا میں ہر گز محض عددی اکثریت پیش نظر نہ تھی، بلکہ متقیوں کے بڑھنے کا مضمون آپ کے سامنے تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک دعا سکھائی تھی جس کا قرآن میں ذکر ملتا ہے.وہ دعا یہ ہے.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا - ( سورة الفرقان: 75) کہ اے اللہ ! ہمیں اپنے ازواج کے ساتھ اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ ایسا تعلق عطا فرما اور ان کو ایسی نشو ونما عطا فرما کہ وہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائیں لیکن یہ آنکھوں کی ٹھنڈک تب نصیب ہوگی جب اس دعا کا دوسرا حصہ پورا ہوگا ، جو یہ ہے وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا کہ ہمیں متقیوں کا امام بنانا، فاسقوں اور فاجروں کا امام نہ بنانا.پس یہ دُعا جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی تمنا تھی جسے کلام الہی نے ایک دعا کا رنگ دیا اور تمام امت کے فائدے کے لئے قرآن میں اس دعا کو محفوظ فرمایا اس دعا میں یہ پہلو خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ واحد کے صیغہ میں یہ دعا نہیں سکھائی گئی بلکہ جمع کے صیغہ میں سکھائی گئی ہے.جیسا کہ دعا کے الفاظ سے ظاہر ہے.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا - اور اُمت محمدیہ کو نصیحت فرما دی گئی کہ ساری امت حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس دعا میں شریک ہو جائے کہ اے خدا! ہمیں متقیوں کا امام بنا.اس میں گہرا نکتہ یہ ہے کہ اگر چہ دیگر انبیاء بھی متقیوں کے امام تھے مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی اس دعا کے نتیجے میں متقیوں کے اماموں کے امام بن گئے.آپ کی امت کے ہر فرد سے صرف یہی توقع نہیں کی گئی کہ وہ متقی ہو جائے بلکہ اس سے توقع یہ رکھی گئی ہے کہ وہ متقیوں کا امام بنے.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم مرتبہ محض یہ نہیں کہ آپ متقیوں کے امام ہیں بلکہ متقیوں کے آئمہ کے امام ہیں اور احمدی ہونے کی حیثیت میں آپ کو اس دعا کی مقبولیت کا نشان بننا ہوگا.اس دعا کی مقبولیت کا آپ کو دنیا میں ایک جیتا جاگتا ثبوت مہیا کرنا ہوگا.اگر آپ متقی بھی نہ ہوں کجا یہ کہ آپ متقیوں کے امام ہوں تو کیسے حضرت اقدس محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کی مقبولیت کا آپ نشان بن سکتے ہیں؟.....جب تک بیماری کی تشخیص نہ ہو اس وقت تک انسان مرض کا صحیح علاج نہیں کر سکتا.پس جو تشخیص

Page 489

485 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم میں نے سمجھی میں اس میں آج آپ کو شریک کرنا چاہتا ہوں بہت ٹھنڈے دل سے بغیر کسی غصے کے ایک دلی درد کے ساتھ تا کہ ہو سکتا ہے کہ کسی دل میں یہ بات اتر جائے اور کوئی پاک تبدیلی کسی دل میں پیدا ہو اور ہم ایک قدم اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کا مصداق بننے کے لئے آگے بڑھائیں کہ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا.اے ہمارے آقا! اے ہمارے رب! ہمیں محض متقی ہی نہیں بلکہ متقیوں کا امام بنانا.جماعتی عہدے اور ان کے تقاضے وہ تجزیہ میرا یہ تھایا ہے کہ یہاں بہت سے آنے والے پاکستان کے ایسے دیہات و قصبات سے اور بعض ایسے شہروں سے تشریف لائے ہیں جن کو وہاں نظام جماعت کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہے.انہوں نے دنیا داریوں کے عہدے دیکھے ہوئے ہیں، انتخابی مقابلے دیکھے ہوئے ہیں اور عہدوں کو وہ اسی نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں.بے لوث خدمت دین کا ان کو زیادہ تجربہ نہیں ہے.ایسے لوگ یہاں تشریف لائے.یہاں آنے کے بعد ان میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوئیں.کچھ ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر ڈالی گئیں جن کو ادا کرنے کا ان کو پہلے سے کوئی خاص سلیقہ نہیں تھا.باقاعدہ کوئی تربیت انہیں نہیں دی گئی تھی.کچھ انہوں نے غلطیاں کیں کیونکہ ان کو پتہ نہیں کہ ان کے عہدے کے معنے کیا ہیں، ان کو کس طرح اس عہدے کے فرائض کو نبھانا چاہیے، کس طرح اس کے حقوق ادا کرنے چاہئیں.بعضوں نے ممکن ہے اپنے ساتھیوں سے اس رنگ میں بھی سلوک کیا ہو جیسے ان کو بہت بڑی فضیلت حاصل ہو چکی ہے اور وہ اب حکم چلا سکتے ہیں اور اس حکم چلانے کے نتیجے میں انہوں نے یہ خیال نہ کیا ہو کہ یہ میرے بھائی ہیں اور یہ بات بھول گئے ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سردار کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ وہ قوم کا خادم ہوجیسا کہ فرمایا سَيْدُ القَوْمِ خَادِمُهُمْ پس اگر اُن کو یہ پتہ نہ ہو کہ وہ حقیقت میں سید نہیں چنے گئے ہیں بلکہ خادم چنے گئے ہیں اور اگر وہ خادم کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دیں گے تو اللہ کی تقدیر انہیں سید لکھے گی.پس جہاں تک ان کی اپنی تحریر کا تعلق ہے انہیں اپنے آپ کو خادم ہی لکھنا پڑے گا.پھر جس طرح نیگیٹیو ( Negetive) سے پازیٹو (Positive) بنایا جاتا ہے خدا کی تقدیر اس بچے اور مخلص خادم کو آسمان پرسید لکھتی ہے اور وہ خدا کی نظر میں اس لائق ٹھہرتا ہے کہ وہ قوموں کا سردار بنایا جائے.

Page 490

مشعل راه جلد سوم 486 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی سفروں کا لمبا تجربه مجھے تفصیلی حالات کا تو علم نہیں لیکن جیسا کہ میں پاکستان کے حالات کا کسی حد تک واقف ہوں میں نے وہاں بہت دورے کئے ہیں تانگوں پر بھی ، سائیکلوں پر بھی اپنی ٹانگوں پر بھی ، بسوں پر بھی، پیدل بھی اور اپنی ایک پرانی کار پر بھی.غرضیکہ سفر کے مجھے تجارب ہیں اور میں سمجھتا ہوں بہت کم آدمیوں نے ، سوائے انسپکٹر ان بیت المال کے، اتنا سفر کیا ہوگا.لیکن انسپکٹر ان بیت المال کے سفر تو بعض مخصوص علاقوں تک محدود رہتے ہیں.میں نے مشرق کا بھی سفر کیا، مغرب کا بھی ، شمال کا بھی ، جنوب کا بھی ، گرمیوں میں بھی ، سردیوں میں بھی ، خشک موسم میں بھی ، بارش میں بھی ، خدام الاحمدیہ کی حیثیت میں بھی ، وقف جدید کی حیثیت سے بھی ، انصار کی حیثیت سے بھی، اس لئے میں تفصیل سے جماعت کا شناسا ہوں.جماعت مجھے جانتی ہے میں جماعت کو جانتا ہوں.لوگوں کے گھروں تک پہنچا ہوں اور یوں لگتا ہے ایک بڑے خاندان کا میں ایک فرد ہوں.اس لئے جب میں آپ سے باتیں کرتا ہوں تو اگر چہ یہاں کے حالات کے متعلق یہ میرے اندازے ہیں جن کے پیچھے ایک لمبے تجربے کا پس منظر ہے.پس مجھے علم ہے کہ کن کن علاقوں میں احمدی بستے ہیں، کس حد تک وہاں تربیت کی کمی ہے.بعض ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو عہدہ پہلی دفعہ پانے کے بعد اپنے رویے کو ایسا بنا لیں جس کے نتیجے میں ردعمل پیدا ہو.لیکن اکثر صورتوں میں ایسا نہیں ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ من حیث الجماعت ، جماعت کا مزاج عاجزانہ ہے اور اخلاص سے گوندھا ہوا ہے.چنانچہ کثرت سے مجھے ایسے عہد یداران کے خط ملتے ہیں جنہیں پہلی مرتبہ زندگی میں کسی عہدے پر منتخب کیا گیا ہو اور وہ مجھے لکھتے ہیں کہ ہمیں تو کچھ آتا ہی نہیں ، ساری عمر اسی طرح گزاری ، اب یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہمارے کندھوں پر ڈالی ہے ہم بہت ڈرتے ہیں، ہم خدا کا بہت خوف رکھتے ہیں.ہمارے لئے دعا کریں کیونکہ دعاؤں کی مدد کے بغیر ہم اس فریضے کو ادا نہیں کر سکتے.پس جن کا مزاج ایسا ہو ان کے متعلق یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اُس فریق میں شامل ہوں جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے.وہ فریق موجود تو ہے لیکن تھوڑا ہے.ورنہ اکثریت ایسی ہے جو سادہ لوگ ہیں ، لاعلمی سے غلطیاں کرتے ہوں گے لیکن عمد اوہ کسی جگہ بھی تحکم سے کام نہیں لیتے.پھر ان کو کیوں اعتراض کا نشانہ بنایا جاتا ہے.صرف ان کو اعتراض کا نشانہ نہیں بنایا جا تا جو غلطیاں کرتے ہیں بلکہ ان کو بھی اعتراض کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو غلطیاں نہیں کرتے.اس کی وجوہات کئی ہیں.ایک تو وہ لوگ ہیں جن

Page 491

487 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کو محرومی کا احساس ہو جو یہ سمجھتے ہوں کہ فلاں شخص کو تو ہم پر افسر چن لیا گیا ہے اور ہمیں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا.ان لوگوں کے دل میں ایک قسم کا حسد پایا جاتا ہے.وہ اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ ہمارے اوپر کسی اور کو افسر بنادیا گیا ہے.چنانچہ اس احساس محرومی کی وجہ سے وہ اپنا بدلہ تلخ کلامی کے ذریعہ لیتے ہیں اور یہ صورتحال بہت حد تک ایک مخفی شکل میں موجود رہتی ہے.لیکن سطح پر اس وقت ابھرتی ہے جبکہ انتظامی معاملات میں بعض لوگوں کے خلاف بات سرزد ہوئی اور نظام جماعت کا یہ تقاضا ہے کہ امیر جماعت یا مرکز ، عہد یداروں کی وساطت سے ان معاملات کی تحقیق کریں جو مناسب معلوم نہیں ہوتے اور یہی عہد یداران تحقیق کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں.پس خواہ وہ نیک مزاج ہوں یا ان کے اندر کسی قسم کی رعونت پائی جاتی ہو جب بھی وہ کسی معاملے کی تحقیق پر مقرر ہوتے ہیں تو اچانک ان کے خلاف بعض جذبات بھڑک اٹھتے ہیں.اس وقت ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس کو آتا ہی کچھ نہیں.بعض لوگ لکھتے ہیں کہ یہ کیسا عہدیدار ہے اس کو تو صحیح طور پر نماز بھی پڑھانی نہیں آتی ، فلاں کمزوری ہے.لیکن کمزور یاں اس وقت یاد آتی ہیں جب وہ عہدیداران کے اوپر حکم عدل بن کر بیٹھتے ہیں یا تحقیق کی ذمہ داری ان کے سپرد کی جاتی ہے اور اس امر کو بعض لوگ پسند نہیں کرتے.بعض خاندانوں میں بنیادی تربیت کی کمی پھر ایک اور وجہ اس کی یہ ہے کہ بہت سے ایسے خاندان ہیں جن میں بنیادی طور پر تربیت کی بہت کمی ہے.ایسے خاندان ہیں جن میں لوگ آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں.خواتین بھی ایک دوسرے سے لڑتی ہیں اور مرد بھی ایک دوسرے سے لڑتے ہیں.یہاں تک کہ بعض خاندان ایسے ہیں جہاں مرد اور عورتیں مل کر غیبت کی مجالس لگاتے ہیں.ہمارے ملک کی ایک لعنت ” شریکے بھی ہیں جہاں تک ”شریکوں“ کا تعلق ہے خاص طور پر پنجاب دنیا بھر میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا.جیسے ”شریکئے“ پنجابی زمینداروں میں پائے جاتے ہیں دنیا بھر کے پردے پر کہیں دکھائی نہیں دیں گے.بعض لوگ وہ شریکئے وہاں سے اٹھا کر یہاں لے آئے ہیں اور ان کی یہاں چاکیاں لگا رہے ہیں.زمینداروں کو چا کی لگانی تو بڑی اچھی طرح آتی ہے لیکن جن کی یہ چاکیاں لگا رہے ہیں یہ عنتی پودے ہیں یہاں ان کی چاکیاں کیوں اٹھا کے لے آئے ہیں.ان ملکوں میں آئے تھے تو اچھے اچھے پودوں کی خوبصورت پھولدار پودوں کی پھلدار پودوں کی چاکیاں اٹھا کر لاتے.اس ملک کو بھی زینت بخشتے اور آپ بھی اس نیکی کا فیض پاتے.وہاں کی بدیاں تو اس لائق تھیں کہ

Page 492

مشعل راه جلد سوم 488 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی انہیں وہیں چھوڑ آتے ، وہیں دفن کر کے آتے.شکوے تو یہ ہیں کہ ہماری قوم نے ہم سے اچھا سلوک نہیں کیا.شکوے تو یہ ہیں کہ ہماری قوم نے ہم سے نا انصافی کا سلوک اور ظلم کا برتاؤ کیا اور شکوے تو یہ ہیں کہ ہم وہاں کی بعض بدیوں سے تنگ آکر بھاگ رہے ہیں اور کیا اس بھاگنے کے وقت آپ کو یہ یاد نہیں تھا کہ کس چیز سے بھاگ رہے ہیں اور کیا یہ آپ کو خیال نہیں آیا کہ وہی بدیاں آپ کی گٹھڑیوں میں بھی بند ہیں.اگر بدیوں سے بھاگے تھے تو کیا بدیوں کی گٹھڑیاں ہی اٹھا کر بھا گنا تھا.ہجرت کے تقاضے دیکھیں دنیا میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کا بعض تو میں خیال رکھتی ہیں کہ باہر سے ان کے ملک میں داخل نہ ہوں لیکن وہ نظر آنے والی باتیں ہیں جن کو وہ روک سکتی ہیں.جب میں آسٹریلیا گیا تو وہاں خاص اس نقطۂ نگاہ سے سب مسافروں کی تلاشی لی گئی کہ کوئی باہر کا پودا تو نہیں لے آئے جس میں کوئی ایسی بیماری ہو جس کے نتیجے میں ہمارے ملک کے پودوں اور نباتات پر بھی بُرا اثر پڑے.کوئی پکی ہوئی کھانے کی چیز تو ایسی نہیں جس میں ایسی پھپھوندی آگئی ہو جس کے نتیجے میں ایک نئی قسم کی پھپھوندی ہمارے ملک میں داخل ہو جائے.اس قسم کی کچھ پابندیاں امریکہ میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن یہ وہ چیزیں ہیں جو نظر آتی ہیں اور جہاں تک ان لوگوں کی طاقت ہے وہ ان کو روک سکتے ہیں.مگر روحانی بدیاں اور اخلاقی بدیاں دوسروں کو دکھائی نہیں دیتیں.متقی وہ ہوتا ہے جو اپنی بدیوں کو خود اپنی نظر سے دیکھتا ہے.پس اگر آپ متقی ہوں اور تقوی کے ساتھ کسی ایک ملک سے ہجرت کریں اور دوسرے ملک میں جائیں تو خصوصیت کے ساتھ اس ہجرت کے موقع پر آپ کے دل میں یہ خیال آنا چاہیے کہ بعض بدیاں مجھے یہیں دفن کر کے جانا چاہیے، بعض اچھی چیزیں مجھے ساتھ لے کر جانا چاہیئے.ہجرت کے وقت انسان ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ اچھا اور ستھرا سامان ساتھ ہو بلکہ ہر سفر میں یہی کوشش ہوتی ہے.کبھی آپ نے سفر کے دوران یہ تو نہیں کیا ہو گا کہ سڑی کسی چیز میں اٹھا کر آپ سفر کے لئے زادراہ تیار کر رہے ہوں.ہمیشہ پرانے کپڑوں کو ایک طرف کرتے ہیں اچھے خوبصورت کپڑے ساتھ لیتے ہیں.اگر کھانا بھی ساتھ کچھ رکھنا ہے تو اچھا صاف ستھرا کھانا ساتھ لے کر چلتے ہیں.کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سفر کے کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں.ہجرت کے تقاضے اس سے بہت بڑھ کے ہیں اور وہ ہجرت جو دین اور خدا کی خاطر اختیار کی جاتی ہے اس کے تقاضوں کا معیار تو بہت بلند ہے.پس چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان

Page 493

489 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم سے آنے والے احمدی خاندان اس نیت سے ہجرت کرتے اور ہجرت کے دوران اس بات کی گہری نگرانی کرتے کہ ہمارے اندر جو معاشرتی کمزوریاں ہیں کیا ہم ان کمزوریوں کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں یا ساتھ لے کر آگے بڑھ رہے ہیں.اگر وہ ساتھ لے کر آئے ہیں تو ان کو کوئی حق نہیں کہ کسی ملک کی فضا کو گندہ کریں.روحانی پولیوشن کے بدنتائج حقیقت یہ ہے کہ آجکل پولیوشن (Pollution) کی طرف دنیا کی بہت توجہ ہے اور پولیوشن میں وہ زیادہ تر ظاہری پولیوشن کی بات کرتے ہیں.مجھ سے روس کے ایک بہت بڑے لیڈر ملے اور پولیوشن کے متعلق مجھ سے بعض باتوں میں مدد چاہی.وہ قازقستان صوبے کی پارلیمنٹ کے بھی ممبر ہیں اور وہاں کی مرکزی پولٹ بیورو کے بھی ممبر ہیں.ان کو میں نے سمجھایا کہ اگر چہ ان کے ہاں کے لوگ ظاہری پولیوشن (Pollution) کو بہت ہی خوف و خطر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور اس سے ڈر رہے ہیں مگر آپ کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں بھی ایک پولیوشن کو دور کرنے کے لئے مامور کیا گیا ہے اور وہ روحانی اور اخلاقی پولیوشن ہے اور روحانی اور اخلاقی پولیوشن دنیاوی پولیوشن سے یعنی فضا کی مادی آلودگی کی بہ نسبت بہت زیادہ خطرناک ہے اور بہت زیادہ بدنتائج پیدا کرتی ہے.شروع میں تو وہ کچھ تھوڑے سے مُتر ڈر سے تھے.مجھے معلوم ہوتا تھا کہ مطمئن نہیں ہو سکے.وہ سمجھ رہے تھے کہ ایک مذہبی لیڈر ہے وہ مجھے ٹال رہا ہے میری کسی قسم کی مدد نہیں کرنا چاہتا بلکہ ایک عذر رکھ کر بات کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن جب میں نے تفصیل سے سمجھایا اور قوموں کی مثالیں دیں، مغرب میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مثالیں دیں، مشرق میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی مثالیں دیں اور ان کو بتایا کہ دنیا کے اکثر ممالک اس روحانی پولیوشن اور اخلاقی پولیوشن کی وجہ سے تباہی کی طرف جارہے ہیں.دنیا میں سیاست کی فضا گندی ہو چکی ہے کیونکہ قوموں کے اخلاق گندے ہو گئے ہیں.تب ان کو اس بات کی سمجھ آئی.اس بات کے اظہار کے لئے کہ وہ مجھ سے پوری طرح مطمئن ہو کر لوٹے ہیں انہوں نے واپس جا کر U.S.S.R کی اس علاقے کے لئے اپنی صدارت میں جو مرکزی کمیٹی قائم کی اس میں اعزازی ممبر کے طور پر میرا نام بھی شامل کیا.چنانچہ ان کی خواہش کے مطابق میں نے وہاں اپنا ایک نمائندہ بھی بھجوایا.الماتا (Almata) قازقستان کے صوبے کا مرکز ہے.یہ اتنا بڑا صوبہ ہے کہ سارے ہندوستان کے برابر اس کا رقبہ بنتا ہے.وہاں انہوں نے میرے نمائندے کے ساتھ بے حد تعاون فرمایا.وہاں کے لیڈروں سے ملاقاتیں ہوئیں.احمدیت کی تعلیم میں، احمدیت کے پیغام میں انہوں نے

Page 494

مشعل راه جلد سوم 490 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی بہت گہری دلچسپی لی.یہاں تک کہ بہت سے ان میں بااثر لوگوں نے باقاعدہ بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی.( دین حق ) کا پیغام پہنچانے والے سفیروں کا بنیادی وصف انہوں نے مجھے پیغام یہ بھجوایا کہ ہمارے دروازے آپ کے لئے کھلے ہیں.جب آئیں سر آنکھوں پر آئیں لیکن جلد آئیں کیونکہ دیر ہورہی ہے اور ہمیں اس پیغام کی شدید ضرورت ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے پیغام بھیجنے کے لئے پیغامبروں کی ضرورت ہے اور پیغامبر وہ ہونے چاہئیں جو حقیقی پیغامبروں کی زندہ مثالیں ہوں.اللہ تعالیٰ بھی دنیا میں پیغام بھیجا کرتا ہے اور ہمیں بھی اُسی رنگ میں پیغامبر بننا ہوگا اور اسی معیار کو دنیا میں قائم کرنا ہوگا جو خدا تعالیٰ نے دنیا میں قائم فرمایا.وہ جب پیغامبر چنتا ہے تو ایسا پیغامبر چنتا ہے ( جسے ہم پیغمبر کہتے ہیں ) کہ جو پیغام کی امانت کا حق ادا کرنے والا ہو جو محض زبان کے ذریعے پیغام دینے والا نہ ہو بلکہ مجسم پیغام بن چکا ہو یعنی اس میں اور پیغام میں کوئی فرق نہ رہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جب کسی نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے متعلق کچھ بتا ئیں تو آپ نے فرمایا:- كَانَ خُلُقُهُ القُرْآنَ محمد رسول اللہ کا خلق تو قرآن تھا یعنی ایک زندہ قرآن تھا جو ہماری آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا تھا اور دنیا میں بس رہا تھا.محض قول نہیں تھا بلکہ قرآن عمل کی صورت میں ڈھل چکا تھا.پس پیغامبر کے لئے یہ معیار ہوناضروری ہے.آپ بھی احمدیت کے نمائندہ ہیں.دنیا کی اصطلاح میں ایسے پیغامبروں کو سفیر کہا جاتا ہے.آپ بھی اُسی پیغام کے سفیر ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا گیا اور جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو پہنچایا.آپ اس بات پر مقرر کئے گئے ہیں کہ تمام دنیا کو آپ نے وہ پیغام پہنچانا ہے اور امانت کے ساتھ اور دیانت کے ساتھ پہنچانا ہے.یہ پیغام اُس پیغام کی تصویر بنے بغیر نہیں پہنچایا جاسکتا.پس کیسے ممکن ہے کہ میں ان کی روحانی پولیوشن (Pollution) کو دور کرنے کے لئے کسی کو پیغامبر بنا کے بھیجوں اور وہ خودروحانی لحاظ سے آلودگی میں ملوث ہو یعنی اس کے اندر وہ نقائص اور آلودگیاں پائی جاتی ہوں جو روحانی فضاؤں کو مکڈ رکر دیا کرتی ہیں.پس آپ کی بھی یہی حیثیت ہے.آپ کو ایسے سفیر بن کر یہاں رہنا ہوگا.

Page 495

491 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ایسے پیغامبر بن کر یہاں رہنا ہو گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں ، دوسروں کے نگران بننے سے پہلے اپنے نگران بننے کی اہلیت رکھتے ہوں ، اپنے گھروں کی نگرانی کرنے والے ہوں، اپنے اہل وعیال کی نگرانی کرنے والے ہوں ، اپنے بچوں کی نگرانی کرنے والے ہوں، جو کچھ اُن کے سپرد ہے اس کے نگران رہیں لیکن سب سے بڑھ کر اپنی ذات کے نگران ہوں کیونکہ یہ سفر ذات سے شروع ہوتا ہے، یہ سفر ذات میں ڈوب کر شروع ہوتا ہے.تنقید کا سفر اختیار کر نیوالے دو قسم کے لوگ دنیا میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں.ایک وہ جو تنقید کا سفر باہر کی دنیا سے شروع کرتے ہیں.وہ اپنی ذات سے دور اور دور تر ہوتے چلے جاتے ہیں.ان کی نظریں اپنی ذات کے متعلق بالکل اندھی ہو جاتی ہیں.وہ ایک ایسے سفر پر روانہ ہوتے ہیں جہاں سے کوئی واپسی نہیں.وہ دنیا کو تنقید کی نظر سے دیکھتے چلے جاتے ہیں اور ان کا دائرہ تنقید بڑھتا اور پھیلتا چلا جاتا ہے اور پھر اونچا ہوتا چلا جاتا ہے.وہ ان پر بھی تنقید کرتے ہیں جو خدا کے نمائندے بنا کر بھیجے جاتے ہیں.یہاں تک کہ وہ اپنی ذات سے پوری طرح غافل ہو جاتے ہیں.اپنے وجود کو بھلا دیتے ہیں.یہی وہ مضمون ہے جس کو قرآن کریم نے اس حسین انداز میں بیان فرمایا ہے.يَا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللَّهَ فَانسَهُمْ اَنفُسَهُمْ أُولَئِكَ هُمُ الفَسِقُونَO ( سورة الحشر : 20,19) یعنی اے مومنو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور چاہیے کہ ہر جان اس بات پر نظر رکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیجا ہے اور تم سب اللہ کا تقوی اختیار کرو.اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے.ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا اور خدا نے ایسا کیا کہ وہ اپنی ذات کو بھلا بیٹھے.یہی وہ لوگ ہیں جو فاسق ہو جاتے ہیں.پس جو باہر کی دنیا پر تنقید کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں وہ اپنی ذات کو اپنے گھر میں چھوڑ جاتے ہیں اور ان کی ذات کا کوئی والی وارث نہیں رہتا.بیرونی تنقید جو اُن پر ہوتی ہے وہ اسے ناجائز سمجھتے ہیں اور اسے دھکے دیتے ہیں اور کبھی بھی قبولیت کی نگاہ سے اُسے نہیں دیکھتے.پس یہ ایسا ہی ہے کہ ایک شخص اپنے گھر کا

Page 496

492 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اثاثہ تو بغیر حفاظت کے اپنے گھر میں چھوڑ جائے اور خود سفر پر نکل کھڑا ہوتا کہ دنیا کے اثاثوں کی حفاظت کرے اور وہ حفاظت کی سرے سے اہلیت ہی نہ رکھتا ہو.برخلاف اس کے ایک وہ ہے جو باطن کا سفر اختیار کرتا ہے.وہ اپنے وجود کی تنقید پر متوجہ ہوتا ہے اور اپنے نفس میں ڈوبتا چلا جاتا ہے اور معلوم کرتا ہے کہ یہ سفر بھی لا متناہی سفر ہے.اس کا اپنا وہ سجود جو اُ سے اپنی ذات میں ایک کامل وجود دکھائی دیا کرتا تھا، وہ وجود جو اپنی ذات میں اسے سب سے اچھا نظر آتا تھا، وہ رفتہ رفتہ کمزوریوں اور بیماریوں سے داغ داغ دکھائی دینے لگتا ہے.اسے نظر آنے لگتا ہے کہ اس میں کئی قسم کے کیڑے پرورش پارہے ہیں.وہ دیکھتا ہے اور دن بدن اس کی طبیعت زیادہ تکلیف محسوس کرتی ہے اور دن بدن وہ زیادہ اپنے آپ کو بے کس، بے معنی، بے حقیقت اور گناہوں میں ملوث پاتا ہے.وہ جتنا بڑا عارف ہوتا چلا جاتا ہے اتنا زیادہ اس کا یہ عرفان بڑھتا چلا جاتا ہے کہ میں کمزور ہوں اور ابھی بہت گنجائش ہے اصلاح کی.یہ وہ سفر ہے جس سفر سے لوگ واپس نہیں آیا کرتے ، مگر یہ وہ سفر ہے کہ جو اس سفر پر نکلتا ہے اپنی ذات میں ڈوبتا ہوا خدا تک جا پہنچتا ہے اور جو خدا تک پہنچ جاتا ہے اسے پھر خدا خود واپس کیا کرتا ہے اسے خدا خود دنیا سے روشناس کراتا ہے.دنیا کا امام بننے سے پہلے اپنے نفس کا امام بننا ہوگا دنیا میں جتنے انبیاء پیدا ہوئے ان میں سے بلا استثناء ہر ایک نے پہلے یہ سفر اختیار کیا تھا.ہر نبی اپنی ذات میں ڈوبا تھا اور اپنی ذات میں ڈوب کر وہ کائنات کی بے حقیقتی کی طرف متوجہ ہوا تھا اور جوں جوں وہ اپنے اندرونی نقائص دور کرتا چلا گیا اپنی کمزوریوں پر اطلاع پا تا چلا گیا اور ان کی اصلاح کرتا چلا گیا وہ خدا کے قریب تر ہوتا چلا گیا کیونکہ قرب خدا کے بجز اس کے اور کیا معنی ہیں.خدا پاک ہے اور خدا کی وہ صفات جو ابھی آپ نے تلاوت میں سنی تھیں ان پر غور کر کے دیکھیں کہ کتنی بلند صفات ہیں.جب تک وہ صفات ہم اپنا ئیں گے نہیں ہم خدا کے قریب کیسے ہوں گے.پس وہ لوگ جو قرب الہی کی دعا مانگتے ہیں، جو یہ کہتے ہیں.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مَنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ان کو دنیا کا امام بننے سے پہلے اپنے نفس کا امام بننا ہوگا.اپنی کمزوریوں پر اطلاع پا کر اور ان کی حقیقت سے شناسائی حاصل کر کے ان کی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا ہوگا اور جیسا کہ میں بیان کر رہا ہوں یہ سفر حقیقت میں لامتناہی ہے کیونکہ اس کی آخری منزل خدا تعالیٰ ہے اور بدرجہ کمال کوئی خدا کو حاصل نہیں کر

Page 497

493 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم سکتا.خدا کے قریب تر ضرور ہوسکتا ہے.پس جتنے بھی ایسے لوگ عجز کے ساتھ اپنے نفس کا جائزہ لیتے ہیں، اپنے باطن کو صاف کرتے چلے جاتے ہیں ان کا اپنا وجود وہاں سے مٹ رہا ہوتا ہے اور خدا کا وجود ان میں ظاہر ہوتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ خدا نمائی کے منصب پر فائز کئے جاتے ہیں.پھر ان کے ذریعہ دوسری قو میں اور ان کے ماننے والے بھی خدا نمائی کے منصب پر فائز کئے جاتے ہیں.پس حضرت اقدس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تمام دنیا کی امامت کا منصب خدا تعالیٰ سے بطور فیض پایا اس کی وجہ یہی تھی...سب سے زیادہ گہرائی کے ساتھ آپ اپنی ذات کے عارف بنے اور اس عرفان کے نتیجہ میں خدا کا وجود آپ کی ذات میں ظاہر ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ آپ زندہ خدا نما بن گئے.قرآن کریم نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے آپ کے بارے میں فرمایا.وَ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَ لَكِنَّ اللَّهَ رَمَى (الانفال : 18) کہ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وسلم جب تو نے مٹھی کفار کی طرف پھینکی تھی تو تو نے نہیں پھینکی بلکہ خدا نے پھینکی تھی.پھر فرمایا کہ وہ لوگ جو درخت کے نیچے تیری بیعت کر رہے ہیں تیرا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے.یہ مقام اور یہ مرتبہ اپنے نفس کو کلیۂ مٹانے کے سوا حاصل نہیں ہوسکتا.اپنے وجود میں ڈوب کر خود اپنے آپ کو نصیحت کریں ایسے عظیم انسان کی نمائندگی کرنے کے نتیجے میں بہت بڑی ذمہ داریاں انسان پر عائد ہوتی ہیں اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا وہی طریق ہے جو میں آپ کو بتا رہا ہوں.ورنہ خدام الاحمدیہ کے نمائندے یا جماعت کے نمائندے جب آپ کو نصیحت کریں گے ( اور کرتے بھی ہیں ) تو ان سے آپ وحشت محسوس کریں گے.آپ ان سے بھاگیں گے اور ان کے نام بھی رکھیں گے اور آپ کہیں گے یہ کون ہے ہمیں نصیحت کرنے والا.پس آپ کے لئے ضروری ہے کہ پہلے خود اپنے ناصح بن جائیں اپنی ذات کے لئے مذکر ہو جائیں اپنے وجود میں ڈوبیں اور خود اپنے آپ کو نصیحتیں کرنی شروع کریں تب باہر کی آواز اگر آپ کی آواز کی ہم آہنگی میں آپ کے کانوں تک پہنچے گی تو آپ کو پیاری لگے گی.اس سے آپ متنفر نہیں ہوں گے اور یہ وہ راز ہے جس کو سمجھے بغیر آپ نصیحت کرنے والوں سے تعاون کا گر نہیں پاسکتے.بہت غور سے اس بات کو سنیں اور سمجھیں کہ وہی لوگ ہیں جو بیرونی نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں جن

Page 498

494 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کا دل اُسی قسم کی سوچوں میں مبتلا ہوتا ہے جن کے دل کی تمنا ہوتی ہے کہ ہم وہ ہو جائیں اور یہ ہو جائیں اور یہ برائیاں ہم سے مٹ جائیں اور وہ برائیاں ہم سے مٹ جائیں.ان کو جب بیرونی آواز اپنے دل کی آواز کی ہم آہنگی میں سنائی دیتی ہے تو ان کے لئے یہ میوزک بن جاتی ہے، موسیقی کا کام دیتی ہے اور اسی کا نام موسیقی ہے.ہم آہنگی کا نام موسیقی ہے.باہر کی آواز ان کو بہت ہی بھلی اور پیاری لگتی ہے جو دل کی آواز کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ان کی اصلاح کے لئے مزید کوشش کر رہی ہوتی ہے، مزید ان کو متوجہ کر رہی ہوتی ہے.دیکھیں غالب نے اپنے رنگ میں اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے کتنا اعلی تجزیہ کیا ہے تقریر کی لذت کا.تقریر اس کو کہتے ہیں کہ جب وہ بیان کی جارہی ہو تو ہر انسان کے دل میں سے یہ آواز اُٹھ رہی ہو کہ ہاں یہ بھی میرے دل میں ہے.مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ بھی میرے دل میں ہے، اب میرے دل کو آواز مل گئی ہے.میرے جذبات کو آواز مل گئی ہے، میں بھی مبہم طور پر ایسی ہی سوچیں سوچتا تھا، میرا بھی دل چاہتا تھا کہ ایسی باتیں کروں لیکن میرے دل کو زبان نہیں ملی تھی.اب دیکھو اس شخص نے وہ باتیں کی ہیں جو میرے دل میں تھیں مگر بے آواز تھیں.پس نیکی کی تو فیق بھی ان لوگوں کو ملتی ہے اور نیک نصیحتوں سے تعاون کی توفیق بھی ان لوگوں کو ملتی ہے جن کے دل میں پہلے ایک ناصح پیدا ہوتا ہے.وہ ناصح پوری طرح عمدگی کے ساتھ اس مضمون کو بیان نہیں کر سکتا.ان کے دل میں نیکی کی تمنا پیدا ہوتی ہے.ان کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی برائیاں جھڑیں.وہ دعائیں کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ کیسے ان برائیوں کو اپنے سے جھاڑیں.وہ دعائیں کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ کیسے ان برائیوں سے چھٹکارا حاصل کریں.تب بیرونی آواز جوان تک پہنچتی ہے کہ آؤ ہم تمہاری مدد کے لئے تیار ہیں.اس طرح کرو اور اس طرح کرو.وہ ان کو تقویت دیتی ہے اور اپنے ناصح سے ان کو پیار ہونے لگتا ہے.وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں.دیکھو دنیا کے ناصح جب خالی دل کے ساتھ اور مصنوعی طور پر دنیا کو نصیحتیں کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے لیکن حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نصیحت فرمائی تو پہلے دلوں میں پاک تبدیلی پیدا کر کے یہ تمنا پیدا کر دی کہ ہم بھی ایسے ہو جائیں.تزکیہ نفس پہلے رکھا اور نصیحت کو بعد میں رکھا اور وہ لوگ جن کا

Page 499

495 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم تزکیہ نفس ہوتا چلا گیا ان پر آپ کی نصیحت ایسی کارگر ہوئی کہ وہ نفرت کی بجائے آپ کے عشق میں ایسے مبتلا ہوئے کہ کبھی کسی نبی کی قوم نے اس سے ایسی محبت نہیں کی جیسی محمد رسول اللہ کی قوم نے آپ سے کی تھی.پس قرآن کریم فرماتا ہے کہ دیکھو اس نبی کو کہ يَتْلُوا عَلَيْهِم أَيتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ ، (سورۃ الجمعہ:3) کہ کیسا نبی ہے کہ پہلے ان کے دلوں کو پاک کرتا ہے نصیحت قبول کرنے کی اہلیت ان کو عطا کرتا ہے.پھر ان پر علوم قرآن بیان فرماتا ہے اور ان کی حکمتیں بیان کرتا چلا جاتا ہے.اس طرح قوم کے اندر ایک عظیم روحانی تغیر بر پا ہو جاتا ہے.اپنے دل میں حشر برپا کریں تا کہ اس میں صوراسرافیل پھونکا جا سکے پس خدام الاحمدیہ ہو یا انصار اللہ ہو یا لجنہ اماءاللہ، ان کے ناصحین ، ان کے عہدیدار یا جماعت کے عمومی عہدیدار ہوں آپ کو اُس وقت تک بُرے لگتے رہیں گے جب تک آپ کے دل میں بُرے بُرے نام موجود ہیں.اپنے دل کے بُرے ناموں کو مٹا دیں، اپنے دلوں کے بتوں کو پاش پاش کر دیں، اپنے اندر عاجزی پیدا کریں، اپنے اندر نیکی کی محبت پیدا کریں، اپنے دل سے ایک ناصح اٹھائیں ، دل میں ایک حشر برپا کریں جس میں صور اسرافیل پھونکا جائے.وہ صور پھونکا جائے جس کے نتیجے میں نئی زندگی عطا ہوتی ہے.تب خدا تعالیٰ آپ کو اپنے اندر ایک عظیم روحانی انقلاب پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا.اس کے بغیر آپ دنیا کی اصلاح نہیں کر سکتے.کیسے دنیا کی پولیوشن دور کریں گے جبکہ آپ گندی رسمیں، بیہودہ باتیں، گھٹیا کمینی با تیں ( جن سے عام انسانیت کو بھی شرم آتی ہے ) سمیٹے اور سنبھالے ہوئے جہازوں میں سفر کرتے اور کہیں جائز اور کہیں ناجائز بارڈر پار کرتے ہوئے آپ ایک ملک میں داخل ہوتے ہیں اور ان کی فضا کو گندہ کرنے لگتے ہیں.یہ کون سی شرافت ہے؟ اس کا کس نے آپ کو حق دیا ہے؟ یہ حرکتیں کر کے آپ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کیسے منسوب ہو سکتے ہیں.ہرگز نہیں.خدا کا خوف کریں ، سوچیں! یہ اچھی باتیں نہیں ہیں.خصوصا گھروں میں جو گھٹیا با تیں ہو کر، کمینے جھگڑے چلتے ہیں اس کے نتیجے میں ماحول پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے.کئی سوشل ورکرز ہیں جو واقعی سچی انسانی ہمدردی کے ساتھ آنے والوں کی مدد کرتے ہیں.ان میں سے ایک خاتون ایک دفعہ مجھے ملیں.بہت بے چین تھیں کہ عجیب قسم کے کچھ لوگوں

Page 500

496 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم سے پالا پڑتا ہے.بہت چھوٹی چھوٹی باتوں میں ملوث ہوتے ہیں اور دل کو تکلیف پہنچتی ہے کہ کیوں یہ اپنے لئے بھی ایک آزار بنائے بیٹھے ہیں اور دنیا کے لئے بھی آزار بنے ہوئے ہیں.سابقہ تجربوں کے پس منظر میں ابھرنے والے وسیع نظارے پس احمدیوں کو یہ زیب نہیں دیتا.آپ نے تو پاک نمونے یہاں دکھانے ہیں کہ وہ لوگ جن کو پروپیگنڈے کے ذریعہ یہ بتایا جارہا ہے یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ (دین حق ) دنیا کا سب سے ذلیل مذہب ہے، سب سے لڑا کا مذہب ہے سب سے بے حوصلہ مذہب ہے.وہ آپ کے نمونہ سے متاثر ہوکر اس غلط تاثر سے چھٹکارا حاصل کریں.اس تاثر کو دور کرنے کے لئے آپ کے منہ کی باتیں تو کام نہیں آسکتیں.آپ کو پاک نمونے دکھانے ہوں گے.آپ کو بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا تا کہ وہ دیکھیں کہ آپ بنی نوع انسان کے بہت ہی بچے اور مخلص ہمدرد ہیں.ایثار کے پتلے ہیں.آپ اپنے ماحول کو اچھا بنانا چاہتے ہیں.جب وہ آپ کی ذات میں عملی نمونہ کے طور پر یہ ( دین حق ) دیکھیں گے تب ان کا دل اُن مخالفانہ آوازوں کے خلاف گواہی دے گا جو ہر روز ان کے کانوں میں ریڈیو سے پڑتی ہیں اور تب اُن کی آنکھیں ان نظاروں کے خلاف گواہی دیں گی جن کو ہر روز وہ ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں.ان کا دل کہے گا یہ سب جھوٹا پروپیگنڈا ہے.ان کا دل گواہی دے گا کہ یہ اور قسم کے لوگ ہیں اور یہ بچے ( مومن ) ہیں.آپ نے تو دنیا کی اصلاح کرنی ہے اور آپ اپنی اصلاح کئے بغیر دنیا کی اصلاح نہیں کر سکتے.یہ جو بات میرے کان تک پہنچی یا میری آنکھوں نے پڑھی کہ لوگ اس طرح اپنے عہد یدار کو طعنے دیتے ہیں.اس پر غور کرتے ہوئے ، اپنے پرانے تجزیوں میں ڈوبتے ہوئے میں رفتہ رفتہ اس مضمون میں اور ڈوبتا چلا گیا.میں سوچتا رہا کیا کیا کمزوریاں ہوں گی ، کیا کیا خرابیاں ہوں گی کس قسم کے جھگڑے ہوں گے جن کے نتیجے میں گھٹیا کمینی باتیں دلوں میں پیدا ہوتی ہیں.ایسی عورتیں کیسی ہوں گی ، وہ اپنی بہوؤں سے کیا سلوک کرتی ہوں گی.ایسی بہوئیں کیسی ہوں گی ، وہ اپنے ساس اور سسر کی کیسی عزت کرتی ہوں گی.کیسے بچوں کو انہوں نے پیدا کیا ہو گا.ایسے مرد کیسے ہوں گے جو اپنی بیویوں سے کیسی سخت کلامی اور کیسی کج روی سے پیش آتے ہوں گے.کیسی وہ لڑکیاں ہوں گی جو اپنے خاوندوں کے خلاف باتیں کرتی ہوں گی، ان کی امانت میں خیانت کرتی ہوں گی اور اپنے بچوں سے پھر وہ کس قسم کا سلوک کرتی ہوں گی.یہ سارے نظارے وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے گئے.ہر نظارہ دل کو تکلیف دینے والا تھا کیونکہ میں جس دروازے میں سے ان مناظر

Page 501

497 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم میں داخل ہوا وہ دروازہ تکلیف کا دروازہ تھا.اس برش نے جو ایک تصویر بنائی تھی اس تصویر کے پیچھے ایک پورا منظر تھا جو موجود تھا اور اس پس منظر کے رستے سے میں اس منظر میں داخل ہوا اور میں نے سوچا کہ ابھی جماعت میں یہ بھی کمزوری ہے اور یہ بھی کمزوری ہے اور یہ بھی کمزوری ہے.تب میں عاجزی سے اپنے خدا کے حضور جھکا کہ اے خدا! مجھ میں تو کوئی طاقت نہیں کہ میں ان سب کمزوریوں کی اصلاح کر سکوں.میں تو ایک عاجز بندہ ہوں.ساری عمر اپنی کمزوریوں کی اصلاح نہیں کر سکا.تو میری مددفرما، تو مجھ پر رحم فرما ، تو اس جماعت کے دل بدل دے، ان کو پاک کر دے، ان میں سے فرشتے پیدا کر جو خود متقی ہوں اور تمام دنیا کو متقی بنانے والے ہوں اور جو متقیوں کے امام بن جائیں اور وہ فخر سے یہ عرض کر سکیں کہ اے ہمارے آقا! اے محمد رسول اللہ ! تجھے ساری دنیا کا امام بنایا گیا ہے.ہم متقیوں کے امام ہوکر تیرے قدموں میں گرتے ہیں اور تجھے اپنا امام تسلیم کرتے ہیں.تیری ساری عمر کی دعائیں قبول ہوجائیں، خدا نے تیری آواز کو عرش پر سنا اور آج تک ان دعاؤں کو قبول کرتا چلا جارہا ہے کہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًاط پس دیکھیں ایک انسان ایک چھوٹی سی بات سے کس طرح سفر پر نکلتا ہے اور مختلف سفر اختیار کرتا چلا جاتا ہے.مختلف نظارے اس کے سامنے بنتے چلے جاتے ہیں اور یہ سارے مناظر وہ ہیں جو ایک شاعر کے تصور کے مناظر نہیں ہیں.ان کے پیچھے ایک لمبا پس منظر ہے گہرے تجربوں کا، یہ حقیقتوں کے نظارے ہیں.ان میں کوئی جھوٹ نہیں، کوئی مبالغہ نہیں ، یہ سچائی کا سفر ہے.اس لئے میں آپ کو متوجہ کرتا ہوں اور دل کی گہرائی کے ساتھ ، درد میں ڈوبے ہوئے دل کی گہرائی کے ساتھ متوجہ کرتا ہوں کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں اور اپنے روز مرہ کے اخلاق کی نگرانی کریں.اپنے گھروں میں جس زبان میں آپ بچوں سے باتیں کرتے ہیں، جس زبان میں اپنی بیویوں سے بات کرتے ہیں اس زبان کی نگرانی کریں.اگر آپ نے اپنی بیویوں کا احترام نہ سیکھا، اگر آپ نے اپنے بچوں کا احترام نہ سیکھا، اگر بہوؤں نے اپنی ساسوں کا احترام نہ سیکھا، اگر ساسوں نے اپنی بہوؤں کا احترام نہ سیکھا اور ان کے لئے نرمی اور شفقت پیدا نہ کی تو تمہارے گھر ہمیشہ جہنم کے نظارے پیش کرتے رہیں گے.کس منہ سے ہم ان قوموں کو جنہوں نے اپنے گھر طرح طرح کے دکھوں کی وجہ سے جہنم بنائے ہوئے ہیں جنت کے گھروں کی خوشخبریاں دینے والے بن سکیں گے.ہمیں کوئی اس کا حق حاصل نہیں.

Page 502

مشعل راه جلد سوم 498 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی اپنے دلوں کے باطنی مربیوں کو بیدار کریں پس میں بڑے درد کے ساتھ آپ سے کہتا ہوں اپنے دل کے مربیوں کو بیدار کریں، ان کو آوازیں دیں اور ان کو اٹھائیں.اپنے دلوں سے وہ ناصح پیدا کریں جو قرآن کی آواز میں آپ کو نصیحت کرنے والے ہوں.پھر دیکھیں وہ لوگ جو آپ کی خاطر عہدوں کو سنبھالتے ہیں اور آپ کے دروازے کوکھٹکھٹاتے ہیں اور اپنے اوقات کو قربان کرتے ہیں اور اپنی عزتوں کو ہتھیلیوں پہ لئے ہوئے آپ کے گھروں تک پہنچتے ہیں آپ ان کے دلوں کو ٹھیس لگانے والے نہیں بن سکتے.آپ یہ پسند کریں گے کہ آپ اس سے پہلے پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے بجائے اس کے کہ خدا کی خاطر کام کرنے والوں کے دلوں کو آپ ٹھیس پہنچائیں اور ان کی بے عزتی کا کسی قسم کا خیال دل میں لائیں.آپ ان کے سامنے جھکیں گے تب بھی آپ کے دل میں ایک شرمندگی کا احساس پیدا ہوگا.آپ سوچیں گے کہ دیکھو کتنی دور سے یہ شخص چل کر میری اصلاح کے لئے ، میری خاطر آیا ہے.میرے دل میں بھی آواز ہے مگر کمزور ہے ، میں طاقت نہیں پاتا.آپ اس سے دُعا کی درخواست کریں گے اس کا شکریہ ادا کریں گے اور پھر مجھے بھی لکھیں گے جیسا کہ بعض لکھتے ہیں اور خود بھی دعائیں کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.یہ اصلاحوں کا سفر بہت ہی لمبا اور بہت ہی کٹھن سفر ہے.قدم قدم پر مشکل منازل مشکل رستے ہیں، مشکل موڑ ہیں ، سخت بلندیاں ہیں جن کو طے کرنا صعوبت کا کام ہے، پتھر ہیں پھر گڑھے ہیں، پھر کھڑے ہیں، کئی قسم کے خطرات ہیں.اے خدا! تو ہماری مددفرما اور وہ لوگ جو ہماری مددفرما رہے ہیں ہمیں ان کا احسان مند بنا ان کا ناشکرا نہ بنا اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم اپنے وجود کا سفر کریں، اپنی ذات کا سفر کریں.ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم اپنے گھروں کے ماحول کو جنت بنادیں اور گھروں کا ماحول اُسی صورت میں جنت بن سکتا ہے جب حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی نقل اتاریں.نقل اتارنے کا لفظ میں عمدا استعمال کر رہا ہوں.بعض باتیں نقل کے بغیر آتی نہیں ہیں.وہ آپ کی ہو جائیں گی، آپ کے اخلاق بن جائیں گی لیکن اس سے پہلے آپ کو نقل مارنی ہوگی.یہ سوچنا ہو گا کہ میری جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تو وہ گھر کی اس صورت حال میں کیسے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ، کیا طرز عمل اختیار فرماتے.دیکھیں بچے نقل سے سیکھتا ہے.آپ اُس کو ایک بات کہتے ہیں تو تلے منہ سے وہ بات بیان کرتا ہے اور

Page 503

مشعل راه جلد سوم 499 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ اگر چہ وہ غلط کرتا ہے لیکن نقل مارتے مارتے آہستہ آہستہ وہ مشاق ہو جاتا ہے اور پھر بعض دفعہ وہ اپنی طرز گفتگو میں آپ سے بھی زیادہ مہارت اختیار کر لیتا ہے، فصاحت و بلاغت اختیار کر لیتا ہے.پس نقل کے ذریعے انسان اپنی اصلاح کرتا چلا جاتا ہے اور نقل کی حالت میں جو کمزوریاں ہیں وہ بُری نہیں معلوم ہوتیں بلکہ اچھی لگتی ہیں.کئی لوگ ملاقات کے وقت اپنے بچے لے کر آتے ہیں تو بڑا لطف آتا ہے یہ دیکھ کر کہ کہتے ہیں جی سناؤ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ فلاں شعر سنا ؤ فلاں حدیث سناؤ اور بعض دفعہ وہ ایسی توتلی زبان سے کہتا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا کہہ رہا ہے اور ماں باپ بڑے فخر سے محبت سے بچے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ کمال کر دیا.اس سے زیادہ کیا اچھی آواز کسی نے سنی ہوگی جو اس بچے کے منہ سے نکل رہی ہے.اور واقعی پیاری لگتی ہے.پھر مجھے ترجمہ کر کے سناتے ہیں.ویسے مجھے پتہ نہیں لگتا بعض دفعہ کہ کیا کہہ رہا ہے اُن کو بتانا پڑتا ہے کہ اس نے لا الہ کہا تھا اور مجھے بھی پیار آتا ہے.حالانکہ نقل خواں ہے لیکن نیت خالص ہے.پاکیزگی اور سچائی کے ساتھ نقل اتار رہا ہے.محبتوں، دعاؤں اور انکساریوں کے سفر پس میں یہ نہیں کہتا کہ ایک ہی دن میں آپ حضرت محمد مصطفے کے اخلاق کو اپنا سکیں گے.ایک لمبی محنت کا کام ہے، لمبا سفر ہے لیکن نقل تو اتارنی شروع کریں.جب اپنی بیویوں سے سلوک کرتے ہیں سوچا تو کریں، سیرت کی تقاریر میں آپ نے کیا سن رکھا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے کیسے ان کی ناز برداریاں فرمایا کرتے تھے.کیسے کیسے بعض دفعہ ان سے تکلیف کے کلے سن کر بھی صبر کیا کرتے تھے.کس طرح پیارے انداز میں ان کو نصیحت کیا کرتے تھے.کس طرح کاموں میں ان کے ساتھ شامل ہو جایا کرتے تھے.کس طرح روز مرہ کے کاموں میں ان کی مددفرمایا کرتے تھے.ان کا ہاتھ بٹاتے تھے بلکہ جب وہ آپ کی خدمت کرنا چاہتی تھیں تب بھی آپ اُن سے چیزیں لے کر اپنی خدمت خود کیا کرتے تھے.یہ تصور بھی تو کبھی ذہن میں آنا چاہیے.جب آپ یہ سوچیں گے تو اچانک آپ کا برتا ؤ اپنی بیویوں سے بالکل مختلف ہو جائے گا.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بچوں کے لئے کیسے تھے، اپنے بڑوں کے لئے کیسے تھے، اپنی رضاعی والدہ کے لئے کیسے تھے، دنیا کے دوسرے انسانوں کے لئے کیسے

Page 504

500 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم تھے.کوئی ایک موقع ایسا نہیں جو آپ کی زندگی میں پیش آسکتا ہواور ایسے موقع کے لئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا عمدہ اخلاق کا مظاہرہ نہ کیا ہو جس کی آپ نقل نہ اتار سکیں.آپ نقل اتار سکتے ہیں خواہ خام سہی، کمزور سہی ، کچھ نہ کچھ تو آپ کے وجود کا حصہ بن جائیں گے.آپ کے اندر سے ایک نیا انسان پیدا ہوگا.آپ کے خاندانوں سے نئے خاندان پیدا ہوں گے.پس پیشتر اس کے کہ آپ مغرب کی تقدیر تبدیل کریں ، پیشتر اس کے کہ آپ یہ سوچیں کہ ان کے گھروں کو آپ جنت نشان بنادیں آپ اپنے گھروں کو تو جنت نشان بنا ئیں.یہ محبتوں کے سفر ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ تمام دنیا کی جماعتوں کو، ہر بڑے اور چھوٹے کو ، ہر مرد اور عورت کو، توفیق عطا فرمائے کہ خواہ تو تلے منہ سے ہی سہی نقل کریں تو محمد رسول اللہ کی نقل کریں.کبھی ابو جہل کی نقل کی توفیق ان کو عطا نہ ہو.اب دعا سے پہلے مجلس خدام الاحمدیہ کا عہد دہرایا جائے گا.اس لئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ کھڑے ہو کر میرے ساتھ ، خلوص نیت کے ساتھ اس عہد کو دہرائیں.

Page 505

مشعل راه جلد سوم 501 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب فرموده 30 مئی 1993.جرمنی میں نماز باجماعت کی حاضری کا شاندار نمونہ روس میں روحانی انقلابی کی پیشگوئی جرمنی میں روحانی انقلاب کی پیشگوئی جرمن قوم تک پہنچنے کے لئے بعض بنیادی صفات نفرتوں سے بچنے کے لئے اسوہ محد مصطفی اختیار کریں عصمت کی حفاظت

Page 506

مشعل راه جلد سوم 502 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 507

مشعل راه جلد سوم 503 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوّ ذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- جرمنی میں نماز باجماعت کی حاضری کا شاندار نمونہ بہت سی ایسی خصوصیات جن میں جرمنی کی ٹیموں نے نمایاں کارکردگی کے ذریعہ انعام حاصل کئے ہیں ان کا ذکر آپ کے سامنے ہو چکا ہے.لیکن ایک ایسی چیز جس کا ابھی ذکر نہیں ہوا جس سے سب سے زیادہ میرا دل آپ سب سے راضی ہوا ہے وہ یہ ہے کہ امسال مجلس خدام الاحمدیہ نے نماز با جماعت میں حاضری کا ایسا شاندار نمونہ دکھایا ہے کہ اس سے پہلے کبھی میں نے جرمنی میں ایسا نہیں دیکھا تھا.خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر نماز کے وقت پنڈال پورا بھرا ہوا ہوتا تھا اور مجلس خدام الاحمد یہ یوں معلوم ہوتا ہے اپنے عرفان کے لحاظ سے بلوغت کو پہنچ گئی ہے اور جانتی ہے کہ یہ سارے اجتماعات اور یہ ساری رونقیں لا حاصل ہوں گی اگر ہم عبادت کا حق ادا نہ کریں.پس اللہ تعالیٰ آپ کو مبارک فرمائے اور یہ وہ مقابلہ ہے جس کا انعام آسمان سے ملے گا اور زمین پر بھی ظاہر ہوگا اور آسمان پر بھی آپ کے لئے انتظار کرے گا.دنیا میں بھی آپ فلاح پائیں گے اور آخرت میں بھی فلاح پائیں گے.آپ اپنی نمازوں کی حفاظت کریں نمازیں ہمیشہ آپ کی محافظ اور نگران رہیں گی.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.روس میں عظیم روحانی انقلاب کی پیشگوئی حضرت اقدس خلیفہ المسح الثانی المصلح الموعودکی ایک پیشگوئی کا میں نے گزشتہ سال ذکر کیا تھا جس کے آثار اس زمانے میں پورے ہو رہے ہیں اور ہمیں یہ سعادت ملی ہے کہ ہم اس پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے مہروں کا کام دیں اور خدا کی تقدیر ہم سے کام لے کر ہمیں ( دین حق) کی ترقی کی راہوں پہ آگے بڑھائے.وہ پیشگوئی تھی روس میں عظیم روحانی انقلاب کی پیشگوئی اور جیسا کہ میں نے تفصیل سے بیان کیا

Page 508

مشعل راه جلد سوم 504 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی تھا اس پیشگوئی میں یا اس رویا میں جو پیشگوئی دکھائی گئی تھی اس میں اس عاجز کو بھی ایک بچے کی صورت میں دکھایا گیا تھا جسے حضرت مصلح موعود نے اپنی گود میں اٹھایا ہوا ہے اور روس کی سرزمین پر قدم رکھ رہے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ وہاں خدا کے فضل سے اندر اندر احمدیت پھیل چکی ہے.اب جو آثار ظاہر ہورہے ہیں ان سے یقین ہو جاتا ہے کہ اب وہ وقت آچکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ روس کی سرزمین احمد بیت کو قبول کرنے کے لئے ذہنی اور قلبی اور روحانی لحاظ سے بہت تیزی کے ساتھ تیار ہو رہی ہے.پس دعاؤں میں اس سرزمین کو یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ان خدمتوں کی جو بارگاہ الہی میں مقبول ہوں اور ان فضلوں کو نازل ہوتا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں جو مقدر تو ہیں مگر ہماری یہ تمنا ہے کہ ہمارے دور میں وہ فضل اتریں اور ہم اپنی آنکھوں سے ان کو پورا ہوتا دیکھیں.جرمنی میں روحانی انقلاب کی پیشگوئی ایک اور پیشگوئی حضرت مصلح موعود کی جس کا تعلق پھر اسی دور سے ہے اور خصوصیت کے ساتھ جرمنی سے ہے.آج میں وہ پیشگوئی آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں.اس میں ہمارے لئے بہت سے پیغامات ہیں، بہت سی حکمت کی باتیں ہیں جنہیں سمجھ کر ہمیں اس ملک میں اپنا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ۱۹۴۵ء کی اپنی ایک رؤیا بیان کی جو میں آپ ہی کے الفاظ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں:.گیارہ سال ہوئے یعنی یہ ۱۹۵۶ء میں آپ نے بیان کی ہے.گیارہ سال ہوئے.سن ۴۵ ء کی بات ہے میں نے رویا میں دیکھا کہ ہٹلر ہمارے گھر میں آیا ہے.پہلے مجھے پتہ لگا کہ ہٹلر قادیان میں آیا ہوا ہے اور ( بیت) اقصیٰ میں گیا ہے.میں نے اس کی طرف ایک آدمی دوڑایا اور کہا کہ اسے بلالا ؤ.چنانچہ وہ اسے بلالا یا.میں نے اسے ایک چارپائی پر بٹھا دیا اور اس کے سامنے میں خود بیٹھ گیا.میں نے دیکھا کہ وہ بے تکلف وہاں بیٹھا تھا اور ہمارے گھر کی مستورات بھی اس کے سامنے بیٹھی تھیں.میں حیران تھا کہ ہماری مستورات نے اس سے پردہ کیوں نہیں کیا.پھر مجھے خیال آیا کہ ہٹلر چونکہ احمدی ہو گیا ہے اور میرابیٹا بن گیا ہے اس لئے میرے گھر کی مستورات اس سے پردہ نہیں کرتیں.پھر میں نے اسے دعا دی اور کہا کہ اے خدا! تو اس کی حفاظت کر اور اسے ترقی دے.پھر میں نے کہا وقت ہو گیا ہے میں اسے چھوڑ آؤں.چنانچہ میں اسے چھوڑنے کے لئے گیا.میں اس کے ساتھ جارہا تھا اور یہ خیال کر رہا تھا کہ میں نے تو اس کی ترقی کے

Page 509

505 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم لئے دعا کی ہے.یہ میں نے کیا کیا ہے.لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ وہ ہٹلر عیسائی ہے اور یہ ہٹلر احمدی ہو چکا ہے.یعنی وہ ہٹلر جس کی ترقی کی دعا سے میں گھبراتا ہوں وہ عیسائی تھا اور یہ معراحمدی ہوچکا ہے.اس لئے اس کے لئے دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں.(خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی 11 جنوری 1957ء) میدوہ پیشگوئی ہے جس کے پورا ہونے کے کوئی معمولی سے بھی آثارا بھی افق پر ظاہر نہیں ہوئے تھے جب یہ پیشگوئی کی گئی تھی اور اس کے بعد کے جو انقلابات برصغیر ہندو پاکستان میں خصوصیت سے پاکستان میں رونما ہوئے ان کے نتیجے میں بکثرت احمدیوں کو اس ملک میں پہنچنے کی اور پناہ حاصل کرنے کی توفیق ملچر من قوم نے کھلے دل کے ساتھ اور وسعت قلب کے ساتھ آپ کے لئے اپنے دروازے کھولے.یہ الہی تقدیریتی اور یہ قوم اس تقدیر کے تابع مجبور تھی کہ آپ کے ساتھ غیر معمولی حسن سلوک کرے اور اس میں خدا کا یہ منشاء مقدر تھا کہ آپ کے ذریعے پھر اس قوم کو ہدایت ملے.پس ہٹلر جو اس قوم کے رہنماؤں میں ایک ایسا رہنما ہے جس کے دور میں ساری قوم ایک ہاتھ کی طرح اٹھتی اور ایک ہاتھ کی طرح بیٹھتی تھی.اس کا مسلک چاہے درست تھا یا غلط لیکن جو وہ کہتا تھا اس کی تائید کرتی تھی.اس کا رڈیا میں حضرت مصلح موعود کے پاس حاضر ہونا اور احمدی ہو جانا بتا تا ہے کہ اس قوم میں نیکی کی بڑی صلاحیتیں موجود ہیں اور ہرگز بعید نہیں کہ اس قوم کے رہنما احمدیت کی طرف مائل ہوں اور ان کے ساتھ ساری قوم کا میلان احمدیت کی طرف ہو جائے.یہ پیشگوئی خدا کے ہاں مقدر ہے.لیکن ایسی تقدیروں میں اسباب کا بھی بہت دخل ہوا کرتا ہے.بعض ایسی تقدیریں ہیں جنہیں بہر حال پورا ہونا ہے مگر زمانے کے متعلق یقین سے ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس زمانے میں پوری ہوں گی یا آئندہ کسی زمانے میں پوری ہوں گی.زمانے کا فیصلہ انسانوں کا کردار کرتا ہے مومنین کا کردار کرتا ہے.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے جو موعود زمین کے دیئے جانے کا وعدہ تھا اس زمین کے وعدہ دینے میں اللہ تعالیٰ نے قوم کی بدعملی کی وجہ سے تاخیر کر دی.حالانکہ خدا کے وعدہ نے بہر حال پورا ہونا تھا اور بالآخر پورا ہوا.پس اس بات میں تو ایک ادنی بھی شک نہیں کہ ۱۹۴۵ء میں جو عظیم الشان رویا حضرت مصلح موعود کو دکھائی گئی یہ لازماً پوری ہوگی.یہ خدا کا پیغام ہے جسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور آپ وہ خوش نصیب ہیں جن کے ذریعے اس رؤیا کے پورا ہونے کی داغ بیل ڈال دی گئی اور اس لحاظ سے آپ کی جماعت کو دنیا کی جماعتوں میں ایک غیر معمولی اہمیت اور انفرادیت حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ ایک ملک کی تقدیر بدلنے کی خوشخبری دی گئی ہے اور جرمنی کی جماعت کے ذریعے یہ کام ہونا ہے.ابھی جماعت یہاں تھی بھی نہیں تو یہ پیشگوئی کی گئی.اب خدا کے فضل سے یہاں جماعت مضبوطی سے قائم

Page 510

506 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اور مستحکم ہو چکی ہے.پس آپ کو اپنے کردار پر نظر رکھنی ہو گی.وہ کردار ادا کرنا ہوگا جو اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے وقت کو قریب ترلے آئے.ایسے کردار سے اجتناب کرنا ہوگا جو اس پیشگوئی کو مستقبل میں دور دھکیل دے.یہاں تک کہ آپ خوش نصیب ہونے کی بجائے وہ بد نصیب لوگ ہوں جیسا کہ موسیٰ کی قوم تھی جنہوں نے باوجود خدا کے وعدے کے اس وعدے کو پورا ہوتے اپنے دور میں اپنے زمانے میں نہیں دیکھا بلکہ بعد میں آنے والوں نے اس وعدے کا فیض اٹھایا.پس میری دعا یہ ہے کہ آپ وہ جو میرے سامنے میرے مخاطب ہیں، یہ زندہ نسلیں جو آج میرے سامنے بیٹھی ہیں یا جرمنی میں مختلف جگہ پر اس وقت مقیم ہیں خدا اس زمانے میں آپ کی ہی زندگیوں میں اور خود مجھے بھی یہ توفیق بخشے کہ میں آپ کی زندگی کے ساتھ ان خوشخبریوں کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھوں اور اس کا بہت بڑا دار و مدار آپ کے نیک اعمال پر ہے.ایسی قوم جیسی جرمن قوم ہے اس میں روحانی انقلاب بر پا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.اس کے لئے ان سے بہتر اور عظیم تر کردار کا نمونہ دکھانا ہوگا.یہ تو میں وہ ہیں جو علمی لحاظ سے، جو صنعتی ترقیات کے لحاظ سے، جو مادی ترقیات کے لحاظ سے آپ سے اتنا زیادہ آگے بڑھ چکی ہیں کہ اس پہلو سے آپ ان کو آواز بھی نہیں پہنچا سکتے.آواز تو وہ دیتا ہے جس کے سامنے قافلہ اس کی حد نظر میں ہو.اس کی آواز کی پہنچ میں ہو.لیکن مادی ترقیات کا جرمن قافلہ تو اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ یورپین قو میں ، جو دوسری یورپین قومیں ہیں، یہ بھی حسرت سے ان کو دیکھ رہی ہیں اور اس خوف سے تھر تھرا رہی ہیں کہ آئندہ چند سالوں میں یہ قوم اتنی تیزی سے آگے بڑھ جائے گی کہ ہماری پہنچ سے باہر ہو جائے گی.کئی قوموں کے دل میں خوف کھلبلانے لگے ہیں.کئی قوموں کے دل میں ایسی ترکیبیں آ رہی ہیں کہ جس کے نتیجے میں ان کے ساتھ اس طرح منسلک ہو جائیں کہ ان کا آگے بڑھنا اُن کا آگے بڑھنا ہو جائے.اسے ان کو کسی قسم کا خوف باقی نہ رہے.یہ باتیں ساری منصہ شہود پر ابھر آئی ہیں.ان کو تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے.پھر وہ کون سی ایسی خصوصیت ہے جس کے نتیجے میں آپ ان کو پیغام دے سکتے ہیں اور بالا حیثیت سے پیغام دے سکتے ہیں ، وہ اخلاقی قدریں ہیں.بدنصیبی سے اس وقت جرمنی میں باقی یورپ کی طرح اخلاقی قدریں بہت تیزی سے مجروح ہورہی ہیں اور اتنی تیزی سے مجروح ہو رہی ہیں اور ان کا دائرہ اتنا پھیل رہا ہے کہ وہ قوم جس کے سیاسی رہنماؤں اور بڑے بڑے حکومت کے افسران اور سر برا ہوں وغیرہ سے متعلق کبھی یہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اپنے ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو قربان کر سکتے ہیں.اس قوم کے متعلق آج سے پندرہ بیس سال پہلے یہ وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ اس قوم کے افراد مالی فوائد کی خاطر اصولوں کو قربان کر سکتے ہیں،

Page 511

507 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم قوم کے اس اعتماد کو ٹھوکر لگا سکتے ہیں جو سیاسی رہنما منتخب کرتے وقت قوم ان منتخبین پر رکھتی ہے.لیکن ہماری آنکھوں کے سامنے ایسے واقعات رونما ہونے لگے ہیں اور دن بدن تیزی کے ساتھ ایسے آثار دکھائی دے رہے ہیں کہ جس سے اخلاقی بحران کا خطرہ پہلے سے بہت زیادہ بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے.یہ بات باقی یورپ میں بھی ہے لیکن باقی یورپ میں اخلاقی بحران دنیا کے لئے اتنا شدید خطرہ نہیں بن سکتا جتنا جرمنی کا اخلاقی بحران دنیا کے لئے خطرہ بن سکتا ہے.اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ نائسی ازم اور فیشی ازم کے خیالات ان قوموں میں بڑھتے ہیں جن میں اجتماعیت کی گہری صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں اور جو روزمرہ زندگی میں دیکھتی ہیں کہ قوم کے مفادات کے تقاضے قومی رہنما پورے نہیں کر رہے.ایسی صورت میں ساری قوم کے دل میں ایک بے چینی پیدا ہوتی ہے، ایک بے اطمینانی پیدا ہوتی ہے وہ اپنے نظام حیات سے غیر مطمئن ہو کر واپس اس اجتماعیت کی طرف واپس ضرور لوٹتے ہیں جس کے ساتھ ان کا خمیر گوندھا ہوا ہوتا ہے.پس جرمن قوم کا ضمیر اجتماعیت سے گوندھا گیا ہے اور سارے یورپ میں کسی اور قوم کا خمیر اس طرح اجتماعیت سے نہیں گوندھا گیا جیسا جرمن قوم کا گوندھا گیا ہے.یہ وہ قوم ہے جس کے اندر بعض ایسی عادات ہیں یوں معلوم ہوتا ہے جیسے روحانی قوموں سے ان کی مماثلت ہے.جب روحانی انقلاب دنیا میں برپا ہوتے ہیں تو بکھرے ہوئے لوگ ایک ہاتھ پر اکٹھے ہوتے ہیں، ایک آواز پر لبیک کہنا سکھتے ہیں ، ایک ہاتھ کی حرکت پر اٹھنے کا سلیقہ سیکھ لیتے ہیں، ایک ہاتھ کی حرکت پر بیٹھنے کا سلیقہ سیکھ لیتے ہیں.اور اس طرح قومی اجتماعیت ایک عظیم قوت کے طور پر دنیا میں رونما ہوتی ہے.اس قوم میں یہ اجتماعیت کی بنیادی صفت موجود ہے.کہیں دنیا میں کسی قوم میں اپنے رہنماؤں کے پیچھے قومی مفادات کی خاطر اکٹھے ہونے کی ایسی صلاحیت نہیں جیسی اس قوم میں موجود ہے.چنانچہ چرچل نے جو جنگ کے بعد جنگی حالات پر تبصرے کئے اور نازی ازم کا تجزیہ کیا تو چرچل بھی اس نتیجے پر پہنچا کہ در حقیقت جرمن میں جس طرح اپنے رہنماؤں کی اطاعت کی صلاحیت ہے یورپ یا مغرب کی کسی اور قوم میں وہ صلاحیت نہیں.یہ وہ صلاحیت ہے جو رفتہ رفتہ ایک ایسی leadership کو جنم دیتی ہے جس نے لازماً ایک عظیم قومی کردار ادا کرنا ہے.اگر وہ کردار اپنے لائحہ عمل کے لحاظ سے فاسدا نہ ہو تو آنکھیں بند کر کے ساری قوم اس فاسدانہ کردار کی متابعت کرے گی اور اگر وہ کردار اپنی اجتماعی حیثیت سے صالحانہ ہو تو ساری قوم آنکھیں بند کر کے بغیر پوچھے کیوں اور کیا ہورہا ہے وہ اپنے رہنماؤں کی پیروی کرے گی یہ اس قوم کی سرشت میں داخل ہے.اور اس معاملے میں میں چرچل کے ساتھ پوری طرح متفق ہوں.میرا اپنا تجزیہ اس قوم کے متعلق ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ ساری مغربی دنیا میں

Page 512

مشعل راه جلد سوم 508 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی سے زیادہ اجتماعی کارکردگی اور اجتماعیت کی اپنی ذات میں جتنی صلاحیت جرمن قوم میں ہے اتنی کسی اور قوم میں نہیں ہے.پس حضرت مصلح موعود نے جو دیکھا کہ ایک ہٹلر وہ تھا جو عیسائی تھایا کچھ بھی نہیں تھا ایک وہ ہٹلر تھا جس نے اپنی قوم کی رہنمائی اپنے ان خیالات یا نظریات کے تابع ہو کر کی، جس نے بالآ خرقوم کو نہایت برے انجام تک پہنچایا.لیکن ایک وہ ہٹلر ہے جو مجھ سے ملنے آیا ہے، جس نے پہلے (بیت) اقصیٰ میں جانے کا مقصد کیا اور پھر وہاں سے ہو کر مجھ تک پہنچا ہے.وہ ہٹلر وہ ہے جو احمدی ہو چکا ہے اور اس کے حق میں دعا کرنی ضروری ہے.پھر آپ نے دیکھا کہ اس سے میری بچیوں کا پردہ نہیں گویا کہ وہ احمدی ہے اور اخلاق میں ایسا بڑھ گیا ہے کہ اس سے احمدی عورتوں کی عفت کو کوئی خطرہ نہیں.ان باتوں میں آپ کے لئے پیغام ہیں.( بیت ) اقصیٰ کیا ہے؟ اگر آپ اس مضمون پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اقصیٰ کا مطلب ہے بہت دور کی ( بیت ).پس حضرت مصلح موعود کو جو ( بیت) دکھائی گئی ہے میرے نزدیک یہ جماعت احمد یہ جرمنی ہے.کیونکہ علم التعبیر کے ماہرین بیان کرتے ہیں کہ (بیت) جماعت ہوا کرتی ہے.جب رؤیا میں ( بیت) دکھائی جائے تو اس سے مراد جماعت ہوتی ہے.تو اقصیٰ ( بیت ) یعنی دور کی ( بیت ).مراد یہ ہے کہ پہلے ایک دور کی جماعت میں جو قادیان سے، جس وقت یہ رویا دیکھی گئی، بہت دور ہے یعنی جرمنی.وہاں جرمن قوم کا کیونکہ جب ایک قوم کے رہنما کو دکھایا جائے تو مراد قوم ہوا کرتی ہے.جرمن قوم کارجحان احمدیت کی طرف ہوگا اور وہ اس ( بیت ) میں داخل ہوگی جو وہاں قائم ہو چکی ہوگی یعنی جماعت احمد یہ.اور اس کے ذریعے پھر وہ مرکز کے قریب آئے گی اور مرکز کے اتنا قریب آئے گی کہ خلیفہ وقت کے دل سے نکلی ہوئی دعائیں لے گی اور ان کے کردار میں عظیم تبدیلی آئے گی.ان کا کردار باقی یورپ کی طرح فاسدانہ نہیں رہے گا بلکہ وہ اپنی خواتین پر پاک نظریں ڈالیں گے اور ان سے وہ احترام کا سلوک کریں گے جو ( دین حق) کی تعلیم کے مطابق ایک مرد کو ایک عورت سے کرنا چاہیے.جرمن قوم تک پہنچنے کے لئے بعض بنیادی صفات کا ہونا ضروری ہے پس یہ وہ پیغامات ہیں جو میں اس رویا میں پڑھ رہا ہوں اور مجھے تو ادنی بھی شک نہیں کہ یہ رویا انشاء اللہ بڑی شان کے ساتھ ، ان تمام خوشخبریوں کے ساتھ ، جو جرمن قوم کو دی گئی ہیں ضرور پوری ہوگی.کب ہوگی ؟ یہ الہی فیصلہ ایک حد تک آپ کے عمل پر منحصر ہے.جیسا کہ ہمیشہ سے خدا کی تقدیر ہے.پس اپنے

Page 513

509 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اعمال میں وہ خوبیاں پیدا کریں جن کا اس رویا میں ذکر موجود ہے.اس قوم تک پہنچنے کے لئے بعض بنیادی صفات آپ میں ہونی ضروری ہیں.جیسا اس قوم میں ڈسپلن ہے ایسا بلکہ اس سے بڑھ کر ڈسپلن آپ کو دکھانا ہوگا.جیسی اس قوم میں اجتماعیت ہے اس سے بڑھ کر اور حسین ترین اجتماعیت ( دین حق ) کے نام پر آپ کو ظاہر کرنی ہوگی.پھٹے ہوئے دلوں کے ساتھ اس قوم کو فتح نہیں کیا جاسکتا.ان پھٹتے ہوئے دلوں کو پھٹے ہوئے دل جوڑ ہی نہیں سکتے.وہ لوگ جن کے آپس میں فاصلے بڑھ رہے ہوں وہ دوسروں کے فاصلے کیسے پاٹ سکتے ہیں.پس آپ کو ایک جان ہونا پڑے گا وہ اخوۃ بنا ہو گا جس کا قرآن کریم میں مومنوں سے تعلق میں ذکر ہے اور جواخوۃ خدا کی خاص رحمت کے نتیجے میں مومن بنا کرتے ہیں.قلوب کو آپس میں باندھنا کسی فرد بشر کا کام نہیں.یہ اللہ کی رحمت اور اس کی تائید سے ہوتا ہے.پس لازم ہے کہ اس سلسلے میں اپنے لئے دعائیں کریں.ہر گھر میں یہ دعا ئیں ہونی چاہئیں، ہر مجلس میں یہ دعائیں ہونی چاہئیں.آپ اس دعا کو اپنا مقصود بنالیں کہ اے وہ خدا جس نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ایک پھٹی ہوئی ،بکھری ہوئی قوم کو اکٹھا کیا تھا جس نے ان کے پھٹتے ہوئے دلوں کو ایک جان کر دیا تھا جس نے ان کو دوبارہ محبت کے رسوں سے جکڑ دیا تھا اور ایک جسم کی طرح بنیان مرصوص بنا دیا تھا.وہ الگ الگ پارہ پارہ وجود نہیں رہے بلکہ ایک مضبوط دیوار کی طرح اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور کوئی طاقت اس دیوار میں رخنہ نہ ڈال سکی.یہ وہ کردار ہے جو اس قوم میں آپ کو دوبارہ دکھانا ہوگا ، اس کا از سرنو احیاء کرنا ہوگا.جماعت احمدیہ کی تنظیم کے ساتھ اس طرح وابستہ و پیوستہ ہو جائیں کہ کوئی دنیا کی طاقت، کوئی نفس کا شیطان آپ کو اس تعلق سے الگ نہ کر سکے.یہ وہ عروہ و شقی بن جائے جس پر آپ کا ہاتھ پڑے، جس سے اس ہاتھ کا ٹوٹنا اور الگ ہونا ممکن ہی نہیں.پس ایک تو میں آپ کو وحدت کی تعلیم دیتا ہوں اپنے نظام کے تابع ہوں ، اپنے امیر کے تابع ہوں، اپنے صدر کے تابع ہوں اور ان کے نیچے جتنے بھی مختلف نگران خدا کی نمائندگی میں، حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائندگی میں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نمائندگی میں مقرر کئے جاتے ہیں ان کی اطاعت اپنے پر فرض کر لیں.یہ اطاعت حسنہ ہے.یہ وہ قوم ہے جس نے ایک بُری اطاعت میں ایک عظیم نمونہ قائم کیا ہے.ایسا نمونہ قائم کیا ہے جس کی مثال سارے عالم کی تاریخ میں نہیں ملتی کہ ایک برے پیغام کو لے کر ساری قوم اس طرح متحد ہوگئی کہ ساری دنیا کو چیلنج کر دیا اور تمام دنیا اس کے خوف سے تھر تھرانے لگی.آپ کا پیغام حسین ہے.آپ کا پیغام نائسی پیغام نہیں ہے، آپ کا پیغام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہے.آپ کا پیغام یہ نہیں ہے کہ آپ

Page 514

مشعل راه جلد سوم 510 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی حکومت کرنے کے لئے قائم کئے گئے ہیں.آپ کا پیغام بالکل اور ہے اور وہ یہ ہے.کنتم خير امة اخرجت للناس.اے محمد مصطفیٰ کی امت اتم سب دنیا سے بہتر ہو.اس لئے نہیں کہ تمہاری خدمت کے لئے دنیا کو پیدا کیا گیا ہے اس لئے کہ تمہیں دنیا کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.پس یہ وہ وحدت ہے جس کا ایک عظیم نمونہ آپ کو یہاں دکھانا ہے.اس وحدت کے ذریعے دنیا میں خوف پیدا نہیں کرنا بلکہ اس وحدت کو دنیا کے قدموں میں خدمت کے لئے ڈال دینا ہے.اس عظیم قوت کو دیکھ کر دنیا آپ کی طرف دوڑے تا کہ آپ سے فائدہ اٹھائے نہ کہ آپ سے بد کے اور پرے ہے.جیسا کہ بعض دفعہ عظیم اتحاد کے نتیجے میں خوف پیدا ہوتے ہیں.یہ وہ روح ہے جو آپ نے جرمن قوم میں پھونکنی ہے ان کو متنبہ کرنا اور بتانا ہے کہ اپنی عظیم صلاحیتوں سے بہترین فائدہ اٹھاؤ، یہ صلاحیتیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرو اور وہاں سے یہ قبولیت کا شرف پاکر، چمک کر نورانی بن کر پھر تمہیں واپس کی جائیں.ان صلاحیتوں کو لے کر تم دنیا میں آگے بڑھو گے.ان کو آپ بتائیں کہ تم نے دنیا سے ایک انتقام لینا ہے، اپنی ناکامی کا انتقام لینا ہے.دنیا تم سے انتقام لے چکی ہے، تمہیں نا کام اور نامراد دکھا چکی ہے.اب یہ انتقام تم صرف اسی صورت میں لے سکتے ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام حسنہ لے کر اٹھو عالمی وحدت کا پیغام لے کر اٹھو.عالمی خدمت کا پیغام لے کر اٹھو.تمام دنیا اس خدمت کے نتیجے میں تمہارے قدموں میں آ جائے گی.لیکن محبت اور عشق کے ساتھ تمہارے قدموں میں آئے گی.تمہارے جابر اور تمہاری وحشت اور تمہارے استبداد سے ڈر کر نہیں آئے گی.یہ وہ دوسرا پیغام بھی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا پیغام ہے کہ جب آپ نے فرمایا.سید القوم خادمھم.تم اس نفسیات کو کیوں نہیں سمجھتے کہ حقیقی سردار قوم کا تو وہی ہوا کرتا ہے جو اس کی خدمت کرتا ہے.جو اپنی سب صلاحیتیں قوم کے قدموں میں ڈال دیتا ہے.ایسے سردار کے لئے قوم اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتی ہے.یہ واقعہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ کے زمانے میں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.اس شان سے یہ واقعہ ظاہر ہوا ہے کہ اس کی کوئی مثال تاریخ عالم میں آپ کو دکھائی نہیں دے گی.حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح اپنے غلاموں سے محبت کی ہے، جس طرح ان کی خدمت کی ہے، جس طرح ان سے شفقت کا سلوک فرمایا ہے، جس طرح پیار کا اظہار کیا ہے اس کے نتیجے میں ایک عظیم انقلاب وہاں برپا ہوا.ایسی مائیں تھیں جن کے بچے شہید ہوئے، ایسی بہنیں تھیں جن کے بھائی شہید ہوئے ، ایسی عورتیں تھیں بیوائیں تھیں جن کے خاوند شہید ہو گئے.لیکن جب ان کو بتایا گیا کہ تمہارا بھائی شہید ہو گیا تمہارا خاوند شہید ہو گیا ،تمہارا بیٹا شہید ہو گیا تو

Page 515

511 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی پرواہ نہیں.وہ مرتے پھریں خدا کی قسم ہمیں یہ بتاؤ کہ محمد رسول اللہ زندہ ہیں کہ نہیں.پس یہ محمد رسول اللہ کے حسن کا جادو ہے جس نے چل کر دکھایا اور کوئی اور جادو اس کے مقابلہ پر نہیں کھڑا رہ سکتا.ہر جادوٹوٹ گیا اور محمد کا جادو جیتا ہے.یہی وہ جادو ہے جو آج بھی جیتے گا.نفرتوں سے بچنے کے لئے اسوہ محمد مصطفی اختیار کریں احمدی مجھ سے پوچھتے ہیں اور جرمنی کے احمدی خصوصیت سے بعض دفعہ گھبرا گھبرا کر لکھتے ہیں کہ اس قوم میں وہ آثار پھر ظاہر ہورہے ہیں جو نفرتوں کے آثار ہیں ، جوریشل برتری کے تصورات اس قوم میں کبھی پائے جاتے تھے وہ مرے نہیں.وہ کچلے ہوئے سانپ کی طرح جو ابھی زندہ ہو دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں.کیا ہم نے صحیح فیصلہ کیا تھا کہ اس ملک میں آکے پناہ لیں.اگر یہاں بھی ہم سے وہ سلوک ہوا تو پھر ہم کہاں جائیں.عملا وہ مجھے یہ پیغام دیتے ہیں جیسے ایک شعر میں کہا گیا تھا کہ اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ملک کو چھوڑا ، اپنے وطن سے بے وطن ہوئے اس لئے کہ ایک اور وطن میں جہاں امن ہے، جہاں شانتی ہے، جہاں اعلیٰ اخلاقی قدریں پائی جاتی ہیں وہاں ہمیں پناہ ملے گی.مگر روز بروز ایسے واقعات ہو رہے ہیں ، ایسے شور اٹھ رہے ہیں جن سے خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ اس قوم میں دوبارہ نفرتوں کے پیغام زندہ ہور ہے ہیں اور قوم دن بدن ان چیزوں کی طرف مائل ہورہی ہے جس کا تصور کا خلاصہ ایک لفظ ہٹلر میں بیان کیا جاسکتا ہے.میں ان سے کہتا ہوں کہ ایک ہی راہ ہے اور وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اختیار کرنے کی راہ ہے.اس محبت کی راہ کو اختیار کریں جو محمد رسول اللہ نے اپنے دشمنوں سے کی تھی.اس محبت کی راہ کو اختیار کریں جو دشمنوں کو محبت کرنے والا بنا دیا کرتی ہے.یہ وہ اسوہ ہے جو جیتا تھا اور ہمیشہ جیتنے کے لئے بنایا گیا ہے.خدا کی قسم آسمان اور زمین ٹل جائیں لیکن محمد مصطفی کے اسوہ کا اثر کبھی ٹل نہیں سکتا.پس اس اسوہ کی پناہ میں آجائیں آپ دنیا سے بے خوف ہو جائیں گے.یہ وہ پناہ ہے پناہ محمدیت.جس کو نصیب ہو جائے اسے کوئی دشمن کی زد پہنچ نہیں سکتی.آپ نے ان کو بچانا ہے.آپ اپنا خوف کیا کر رہے ہیں ان کے لئے خوفزدہ ہوں جو دوبارہ گمراہی کے رستوں پر چل پڑے ہیں.آپ ہیں جنہوں نے ان کو پناہ دینی ہے.آپ ہیں جنہوں نے ان کو بچانا ہے اور یہی احسان کا بدلہ

Page 516

مشعل راه جلد سوم 512 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی بہتر احسان کے ساتھ آپ نے ادا کرنا ہے.آپ اس قوم میں آئے نہتے ہو کر، بھکاری بن کر، بے سروسامان یہاں پہنچے انہوں نے دنیا کے لحاظ سے آپ کو پناہ دی، آپ کی ضرورتیں پوری کیں لیکن یا درکھیں آپ محسن اعظم کے غلام ہیں.آپ زیرا حسان رہنے کے لئے نہیں بنائے گئے.آپ نے ہر احسان کا بہتر بدلہ لازماً ادا کرنا ہے.پس اس قوم کی پناہیں بن جائیں ، ان کومحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلعوں میں پناہ دیں.حسن محمد کی دیوار میں ان کے گرد کھڑی کر دیں اور ان کو تمام دنیا کی بداخلاقیوں سے نجات بخشیں.تب یہ رویا بڑی شان کے ساتھ پوری ہوگی جس میں حضرت مصلح موعود نے ۱۹۴۵ء میں دیکھا تھا کہ ہٹلر احمدی ہو گیا ہے.ہٹلر ضرور احمدی ہوگا.کوئی دنیا کی تقدیر اس فیصلے کو اب نہیں بدل سکتی.آپ کے ذریعے ہو، میں یہ چاہتا ہوں.آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں.میں اپنی آنکھوں سے دیکھوں کہ خدا نے آپ کو یہ اعزاز بخشا ہے.عصمت کی حفاظت دوسرا خصوصی پیغام جو اس رویا میں دیا گیا ہے وہ عصمت کی حفاظت کا پیغام ہے.ان قوموں میں جنسی بے راہ روی اس تیزی سے راہ پارہی ہے کہ اب تو راہوں کی ضرورت نہیں اب تو سیلاب بن گیا ہے.سیلاب تو رستوں کی تلاش نہیں کیا کرتا وہ بند توڑ کر رستے بنا لیا کرتا ہے.آج جنسی بے راہ روی کی راہ سیلاب کی طرح ان قوموں میں پھیل گئی ہے.کوئی گھر کی دیوار اتنی طاقتور نہیں کہ اس سیلاب سے اپنے رہنے والوں کو بچا سکے.کسی قلعے کی دیوار ایسی نہیں جو اس سیلاب کی راہ میں روک بن سکے.آپ نے اس پہلو سے جیسا کہ رویا میں پیغام دیا گیا ہے ان کو آپ نے پاک باطن اور پاک سیرت بنانا ہے.اور یہ تب ممکن ہے کہ اگر آپ ایسا ہوں.اگر آپ کی عورتیں ان کی طرح معاشرے کے نام پر اور کلچر کے نام پر بے حیائیاں شروع کر دیں.ویسے لباس پہنے لگیں، ویسے لباس اتارنے لگیں ، اپنی زینت کو نمائش کے طور پر ان کو دکھاتی پھریں، اگر ان کی عورتوں کو بے راہ روی سے بچانے کے لئے ایک پاک نمونہ نہ دکھائیں اور ان کے نمونے کے پیچھے چل پڑیں تو پھر کیسے یہ انقلاب بر پا ہوگا.پھر ( مومن ) عورت کی عزت ان کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہ سکتی.مردوں نے بھی ایک عظیم کردار ادا کرنا ہے.یہ ممکن نہیں ہے کہ مردوں کو کھلی چھٹی ہو.وہ جو چاہیں باہر کرتے پھریں اور گھر میں آکر یہ توقع رکھیں کہ ان کی بیوی نیک سیرت باعصمت بیوی ہو.ان کی بچیاں عصمت والیاں ہوں اور پاک باز ہوں اور خود ان کو چھٹی ہو جو چاہے کریں.جومرد آزاد منش ہیں جو دنیا میں

Page 517

513 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جا کر مختلف قسم کی عیش و عشرت کی پیروی کرتے ہیں اور گھروں سے توقع رکھتے ہیں کہ ان کی بیویاں نیک بیویاں ہوں وہ جھوٹی خوابوں میں بس رہے ہیں.ایسا نہیں ہوا کرتا.انسانی فطرت کے خلاف ہے.قرآن کریم نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا.الْخَبِيثُتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَتِ (النور: 27) کیسا مضبوطی کے ساتھ پاک باز عورتوں کا پاک باز مردوں کے ساتھ رشتہ باندھا گیا ہے اور خبیث عورتوں کا خبیث مردوں کے ساتھ رشتہ باندھا گیا ہے.بہت گہرا فلسفہ تربیت کا ہمارے سامنے کھول کر پیش فرما دیا.پس مردوں کو اپنی عصمتوں کی حفاظت کرنی ہوگی پھر ان کے گھروں کی عصمتوں کی حفاظت کرنی ہوگی.پھر دونوں مل کر اس قوم کو عصمت کا پیغام دیں گے اور عصمت کا پیغام عصمت کے نیک نتائج دکھا کر دیں.پھر وہ دکھا سکتے ہیں ان کو کہ آپ کیسے امن کی زندگی بسر کر رہے ہیں.کس طرح آپ کے گھر محفوظ اور مامون ہیں اور جنت کا نشان بنے ہوئے ہیں.کس طرح آپ کے بچے اس پاکیزہ ماحول سے وابستہ ہیں اور ان کو دنیا کی کوئی پرواہ نہیں.یہ پاک نمونے ہیں جن کی اس قوم کو شدید ضرورت ہے.نام تو یہ جنسی آزادی کا لیتے ہیں لیکن دل ان کے بے چین ہیں.جانتے ہیں کہ گھر ٹوٹ رہے ہیں، جانتے ہیں کہ خود بچوں کی عصمتیں ان کے ماں باپ کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہیں.جانتے ہیں کہ ہر جگہ بدامنی ہے اور بے قراری اور بے چینی پائی جاتی ہے.پس آپ امن کے گھر بنائیں.ایسے امن کے گھر بنائیں جن گھروں میں پناہ لینے کی ان کے دلوں میں شدید تمنا پیدا ہو اور ان کو یہ گھر بنانا سکھا دیں.ان کو متوطن بنائیں.تہذیب کے متوطن بنا ئیں.ایسے وطن بخشیں جن میں تہذیب بستی ہے، جن میں امن بستا ہے، جن میں خدا کی محبت بستی ہے.یہ وہ دو پیغام ہیں جو میں آج آپ کو دیتا ہوں کیونکہ وقت بہت نازک ہے، بہت تیزی سے عظیم انقلابات برپا ہور ہے ہیں.اگر جرمنی کو آپ سنبھال لیں یعنی اللہ کے فضل و رحمت کے ساتھ دعاؤں کے ساتھ اور ان دو نصیحتوں پر عمل کرتے ہوئے جو میں نے آپ کے سامنے کی ہیں تو میں آپ کو بتا تا ہوں کہ جرمن قوم اس قابل ہے کہ سارے یورپ کو ہی نہیں ساری دنیا کو سنبھال سکتی ہے.یہ انتقام ہے جس کی طرف میں ان کو بلاتا ہوں.پہلے انہوں نے دنیا پر جبر کی حکومت طاری کرنے کی کوشش کی اور نامراد ر ہے.اگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اختیار کرتے ہوئے اسوہ محمد کے ذریعے دنیا پر حکومت کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے تو خدا کی قسم ساری دنیا کو فتح کرنے کی صلاحیت اس قوم میں موجود ہے.پس یہ پیغام تھا جو میں نے آپ تک پہنچا دیا.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ آپ اس پیغام پر

Page 518

514 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم عمل کریں گے اور جیسا کہ میں آثار دیکھ رہا ہوں آپ کے اندر نیکی کی صلاحیت موجود ہے.جیسا کہ نمازوں میں میں نے دیکھا کہ چند سالوں سے میں زور دے رہا تھا کہ عبادت کی طرف توجہ کریں.آپ نے بڑے اخلاص اور فدائیت کے ساتھ اس نیک اثر کو قبول فرمایا اور اپنے اعمال میں پاک تبدیلی پیدا کی.کثرت سے مجھے احمدی مردوں ، بچوں ، عورتوں نے خط لکھے اور ملاقاتوں میں بتایا کہ قبل از میں ہم نمازوں سے غافل تھے مگر آپ کی توجہ دلانے کے نتیجے میں اللہ کے فضل سے ہر گھر میں اب نماز میں ادا ہورہی ہیں.نمازوں پر قائم رہیں، دعائیں کرتے رہیں.یہ ساری کامیابیاں آپ کے مقدر میں ہیں.یہ سہرے آپ کے سر پر باندھے جائیں گے اس ساری قوم کے ذریعے دنیا میں جو عظیم روحانی انقلاب بر پا ہوں گے خدا آپ کو ان انقلابات کا سردار بنادے.کتنی عظیم خوشخبریاں ہیں جو آپ کے حق میں دی گئی ہیں.خدا کرے یہ خوشخبریاں پوری ہوں اور ہم اپنی آنکھوں سے ان کو پورا ہوتے دیکھیں.

Page 519

مشعل راه جلد سوم 515 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 21 اکتوبر 1994 ء سے اقتباس لاس اینجلس کی جماعت سے متعلق میں اچھے تاثرات لے کر آیا ہوں اگلی نسلوں کو محفوظ رکھنے کا طریق کہ خاندانوں کے تعلقات ( دینی ) اقدار کے مطابق باندھے جائیں امریکہ کی جماعت کو با قاعدہ منصوبہ بنا کر اصلاح کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ان لوگوں کی نسلوں کو ان کے آباؤ اجداد کا روشن ماضی بتائیں قادیان کا جنت نظیر ماحول

Page 520

مشعل راه جلد سوم 516 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 521

مشعل راه جلد سوم 517 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اس دفعہ یونائیٹڈ سٹیٹس اور کینیڈا کے سفر کے دوران مجھے یہاں پانچ جمعے ادا کرنے کی توفیق ملی اور یہ اس سلسلے کا آخری جمعہ ہے جو میں یہاں آج نیو یارک میں ادا کرنے کی توفیق پا رہا ہوں.مختلف موضوعات پر مختلف جمعوں میں میں نے خطاب کیا.دو کینیڈا میں ادا ہوئے اور آج تیسرا یہ ہے اس کو شامل کر کے تین یونائیٹڈ سٹیٹس میں.سفر کے تاثرات آج کے خطبے کے لئے پہلے تو مختصراً میں اپنے تاثرات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں میرے سفر کا آغاز لاس اینجلس سے ہوا اور پھر اس کے بعد مجھے سان فرانسسکو جانے کا موقع ملا اور پھر سیٹل کی جماعت کے ساتھ کچھ گھنٹے گزارنے کی توفیق ملی اور اس کے بعد پھر کینیڈا کا سفر ہوا.لاس اینجلس کی جماعت سے متعلق میں بہت اچھے تاثرات لے کر آیا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر شعبے میں، ہر پہلو سے وہاں زندگی کے آثار پہلے سے نمایاں تر ہو چکے ہیں.( دعوت الی اللہ ) بھی وہ نہایت سنجیدگی اور لگاؤ کے ساتھ کر رہے ہیں اور بہت سے احمدی ہیں جو داعی الی اللہ بن کر ہر پہلو سے خدمت کے کاموں میں مگن ہیں اور جو احباب ان کے تعلق میں ملنے کے لئے آتے رہے ان کے چہروں سے صاف عیاں تھا کہ ان پر ایک عرصے تک محنت ہو چکی ہے.بعض دفعہ دا عین الی اللہ محض رجسٹر پر نام لکھوا دیتے ہیں اور محنت نہیں کرتے وہ پہچانے جاتے ہیں کیونکہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.جب مجالس سوال وجواب میں ایسے دائین الی اللہ کے محنت کر کے اکٹھے کئے ہوئے لوگ وہاں پہنچتے ہیں تو ان کی طرز سے ان کی آنکھوں سے ان کی اداؤں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ پہلے ان پر کوئی کام نہیں ہوا.ان کے سوالات بھی اسی نوعیت کے ہوتے

Page 522

518 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم ہیں لیکن وہ جن پر کام ہو چکا ہو ان کے اندر تبدیلی کے آثار ظاہر ہو چکے ہوتے ہیں.ان کے چہروں پر وہ سعادت کا نور آجاتا ہے جونور کے قریب ہونے سے طبعا ظاہر ہونا چاہیے اور وہ پاک علامتیں ظاہر ہوتی ہیں جن کے نتیجے میں ان کے لئے بے اختیار دل میں محبت پیدا ہوتی ہے اور بہت سے ایسے لوگ عملاً پکا ہوا پھل ہوتے ہیں ایسے موقع پر ان کو بہانہ چاہیے اور وہ پھر بہت جلد احمدیت کی آغوش میں آجاتے ہیں.پس اس پہلو سے لاس اینجلس میں مجھے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ محنت دکھائی دی اور جو احمدی اس علاقے میں ہوئے ان کے اندر پختگی کے آثار بھی تھے اور آئندہ بہت نیک ارادے ظاہر کر رہے تھے لفظوں میں بھی اور ان کی اداؤں سے بھی معلوم ہوتا تھا کہ اس بات میں سنجیدہ ہیں کہ آئندہ وہ اپنے علاقے میں، اپنے ماحول میں ، اپنے گردو پیش میں بکثرت احمدیت کا پیغام پہنچائیں گے اور بہت گہرا اطمینان ان کے اندر دکھائی دیتا تھا.پس اس پہلو سے دعوت الی اللہ کے کام میں خدا کے فضل سے لاس اینجلس میں جونمونہ قائم ہو چکا ہے اور ہورہا ہے ابھی بہت کام ہونے والا ہے اس سے کسی حد تک اطمینان ہوا کہ امریکہ کی سرزمین بھی انشاء اللہ آئندہ دعوت الی اللہ کے کاموں میں زیادہ تیز رفتاری سے آگے قدم بڑھائے گی.آئندہ نسلوں کی حفاظت دوسری جگہوں میں ایسا کوئی نمایاں نظارہ دیکھنے میں نہیں آیا.لیکن ایک اور بات جس سے میں عموماً مطمئن ہوا ہوں اور اس میں محض لاس اینجلس کا اعزاز نہیں بلکہ عمومی طور پر امریکہ کے دورے کے دوران کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے بکثرت احمدی خاندانوں سے ملنے کی توفیق ملتی رہی ہے اور سینکڑوں خاندانوں کے ہزار ہا افراد سے بچوں، بڑوں ، جوانوں سب سے گفتگو ہوئی اور بعض جگہ چونکہ وقت تھوڑا تھا، ویسے توفیق نہیں ملتی مگر اکثر جگہ بیٹھ کر ایک دوسرے سے ایک دوسرے کی دلچسپی کی باتیں کرنے کا موقع ملا.اس پہلو سے میں نے دیکھا ہے جو سب سے خوشکن بات مجھے اس دفعہ معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ الیفر و امریکن نو جوان نسل میں پہلے سے بہت بڑھ کر جماعت سے تعلق پیدا ہوا ہے.اس سے پہلے میں ہمیشہ یہ شکوہ لے کر واپس جایا کرتا تھا کہ پہلی نسل کے مخلصین تو اسی طرح قائم ہیں مگر آگے اپنی آئندہ نسلوں میں انہوں نے احمدیت کی اقدار کو بڑھایا نہیں اور يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلَتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ - (الحشر: 19) کے پیغام کو نہ سمجھا نہ اس پر عمل کیا.چنانچہ بکثرت ایسے خاندان میرے علم میں

Page 523

مشعل راه جلد سوم 519 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ.آتے رہے جن کے بڑے تو اسی طرح اخلاص میں قائم رہے مگر نسلیں ہاتھوں سے پھسل گئیں اور واپس دنیا داری کی طرف لوٹ گئیں.بعض ایسے بھی واقعات ہوئے جو بہت تکلیف دہ تھے کہ اگر عیسائیت سے وہ خاندان آیا تو اگلی نسل رفته رفتہ سرکتی ہوئی واپس عیسائیت میں چلی گئی.اس سے معلوم ہوتا تھا کہ باشعور طور پر انہیں اپنے ساتھ لگائے رکھنے کی کوشش نہیں ہوئی.اور جو خاندانی تعلقات کے (دینی) تصورات ہیں ان کے مطابق خاندانی تعلقات کو ڈھالا نہیں گیا ورنہ یہ ناممکن ہے کہ ماں باپ (دینی) قدروں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں سے پیارا ور تعلق رکھیں، انہیں اپنے قریب کریں اور اپنے گھروں کو ان کی دلچسپیوں کا مرکز بنا ئیں اور پھر بھی وہ بچے سرک کر باہر نکل جائیں ، یہ فطرت کے خلاف بات ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ کیسی ہی زہریلی سوسائٹی کیوں نہ ہو جہاں خاندانوں کے تعلقات (دینی) اقدار کے مطابق باندھے جاتے ہیں اور انہیں قائم رکھا جاتا ہے وہاں اگلی نسلیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ محفوظ رہتی ہیں اور باہر سے زیادہ ان کا دل گھر میں لگتا ہے.پس اس پہلو سے میں نے دیکھا ہے کہ امریکہ میں بہت ہی اچھے آثار ظاہر ہورہے ہیں.چھوٹے چھوٹے بچے بھی جو امریکن بچے یعنی پاکستان سے آکر بسے ہوئے امریکن نہیں بلکہ یہیں کی زمین کی پیداوار اور یہیں پلنے والے بچے اللہ کے فضل سے ایسا گہرا تعلق رکھنے لگ گئے ہیں کہ ان کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی اور ان کی محبت آئندہ ( دین حق) کے خوش آئند مستقبل کی ضمانت دے رہی تھی.پس اس پہلو سے ابھی ہمیں اور کام کرنے کی ضرورت ہے احمدی خاندانوں میں جو باہر سے آکر یہاں بسے ہیں ان میں بھی مزید اس پہلو سے اصلاح کی ضرورت ہے.بہت سے بچے میں نے ان میں سے ایسے دیکھے ہیں جن کی نظروں میں غیریت آچکی تھی.جن میں معلوم ہوتا تھا کہ وہ مل کر کچھ اثر قبول کر رہے ہیں لیکن ماں باپ کے دباؤ کے نیچے یا مشوروں کے مطابق منت سماجت کے نتیجے میں وہ اس موقع پر پہنچ گئے ہیں مگر خود دل کے شوق سے نہیں آئے اور ان کی اجنبیت ان کے لباس، ان کے رنگ ڈھنگ، ان کے اٹھنے بیٹھنے، ان کے دیکھنے کی طرز سے بالکل ظاہر ہوتی تھی.تو ایسے موقعوں پر میں کوشش تو کرتا ہوں کہ ان سے ذاتی تعلق قائم ہو اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی آنکھوں میں بسا اوقات ملاقات کے ختم ہونے سے پہلے پہلے ہی پاک تبدیلیاں دکھائی دینے لگتی ہیں.مگر یہ چندلمحوں کا کام نہیں اس کے لئے لمبی محنت کی ضرورت ہے، حکمت کی ضرورت ہے.

Page 524

520 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم وہ ماں باپ جو اپنے بچوں سے پیار ہی نہیں عزت کا سلوک بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی نظم وضبط کو بھی قائم رکھتے ہیں وہی ہیں جو کامیاب ہیں اور جن کے متعلق کسی حد تک اطمینان سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ آئندہ اچھی نسل آگے بھیجیں گے اور اطمینان کے ساتھ خدا کے حضور لوٹیں گے کہ ہماری نسلیں بھی انہی قدروں پر قائم ہیں جو قدریں ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے ورثے میں پائی تھیں.پس اس پہلو سے جواب زیادہ قابل فکر پہلو یہ ہے کہ جو باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں اور بہت بڑی تعداد ایسوں کی ہے جن کے اقتصادی معیار پہلے بہت چھوٹے تھے اور یہاں آکر دنیا داری کے اثرات ان کے چہروں پر دکھائی دینے لگے ہیں.بچوں ہی میں نہیں، بعض دفعہ بڑوں میں بھی میں نے دیکھا بعض خواتین آئی ہیں جو ساری عمر ربوہ میں پلنے والی، وہاں پردوں کی پابندی اور حیادار یہاں آتے ہی ان کو پردے سے حیا ہوگئی ہے بجائے غیروں سے حیا کے.اور برقع معلوم ہوتا تھا وقتی طور پر مجھے دکھانے کے لئے استعمال ہوا ہے اور جب باہر موقع ملا جانے کا برقع اتارا اور بغل میں دبایا اور پھر اسی دنیا میں واپس لوٹ گئیں جہاں سے عارضی طور پر چھٹی لے کر ملنے آئی تھیں.یہ نظارے بہت ہی تکلیف دہ ہیں میں ان لوگوں کے ماں باپ کو بھی جانتا ہوں.غریبانہ زندگی مگر بہت ہی اخلاص تھا اور اخلاص کے نتیجے میں وہ روحانی طور پر بہت امیر لوگ تھے.تو جو دولت رکھنے کے لائق تھی وہ تو پھینک دی اور جو بے اعتنائی کے لائق تھی اس کے غلام بن گئے یہ کوئی اچھا سودا نہیں ہے.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ جماعت امریکہ کو با قاعدہ منصوبہ بنا کر مزید اصلاح کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اور ان لوگوں کو اپنے آباؤ اجداد کی یادیں زندہ رکھنے میں مدد دینی چاہیے.یہ ایک بہت ہی اہم کام ہے جس کی طرف میں نے ایک دفعہ افریقہ کے دورے میں توجہ دلائی تھی اور بعض ملکوں نے اس پر عمل درآمد بھی کیا اور بہت فائدہ پہنچا.ان لوگوں کو ان کے آباؤ اجداد کا روشن ماضی بتایا جائے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ان خاندانوں کو جو بہت بزرگ لوگوں کی اولاد تھے.مشہور نہیں بھی تھے تو بزرگ تھے.سادہ، غریبانہ کپڑوں میں پھرنے والے اہل اللہ لوگ تھے.جن کی دعائیں قبول ہوتی تھیں.جن پر دن رات اللہ تعالیٰ کی قربت کے نشان اترا کرتے تھے.ان لوگوں کی نسلوں کو ان کے آباء واجداد کا روشن ماضی بتا ئیں تا کہ اس روشنی سے کچھ حصہ لے کر ان کا حال روشن ہو جائے.ہم میں سے وہ لوگ جو پاکستان سے یہاں آباد ہوئے ہیں وہ بھی اور وہ لوگ بھی جو یہاں ( دین حق )

Page 525

521 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم میں داخل ہوئے ہیں وہ بھی اپنا بہت شاندار ماضی ضرور رکھتے ہیں.کیونکہ بہت سے افریقن احمدی اور بعض ان میں سفید رنگ کے، سفید فام احمدی بھی ہیں انہوں نے خود ( دین حق ) قبول نہیں کیا ان کے آباؤ اجداد نے قبول کیا اور اس کے نتیجے میں انہوں نے قربانیاں بھی دیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت معجزے بھی دیکھے.چنانچہ ان بزرگوں کی یاد کو تازہ رکھنا اور بار بار یاد دلاتے رہنا یہ کام ایک منظم کوشش کو چاہتا ہے اس پہلو سے یہاں کے جو رسائل ہیں ان میں یہ ذکر خیر جاری رہنا چاہیے اور آئندہ نسلوں کو ان کے آباؤ اجداد کی باتیں بتاتے رہنا چاہیے کہ انہوں نے کس قیمت پر احمدیت حاصل کی تھی اور کیسی کیسی قربانیاں اس راہ میں دی تھیں.بہت سے ایسے خاندان میری نظر میں ہیں جن میں یہ کمزوریاں واقع ہوئی ہیں لیکن ان کے آباؤ اجداد نے بہت عظیم الشان قربانیاں دین کو حاصل کر کے اس کو قائم رکھنے کے لئے دیں اور تمام عمر وہ یہ قربانیاں پیش کرتے رہے.ان کی روحوں کو اگر طمانیت پہنچانی ہے اگر ان سے محبت ہے، ان کے احسانات کا حق ادا کرنا ہے تو سب سے اعلیٰ طریق یہ ہے کہ انہی کی قدروں کو اپنی ذات میں زندہ رکھیں.ایک نسل جو آکر گزر جاتی ہے وہ کبھی نہیں مرتی اگر ان کی خوبیاں اگلی نسل میں زندہ رکھی جائیں اور ان کی حفاظت کی جائے.مرتے وہ لوگ ہیں جن کی قدریں ان کے ساتھ مر جاتی ہیں اور قدروں کے ساتھ ہی عزتیں وابستہ ہوتی ہیں، قدروں کے ساتھ ہی محبتیں وابستہ ہوتی ہیں.اگر ایک انسان غریب ماں باپ کا بیٹا ہو اور ترقی کر جائے اور ماں باپ کی قدریں کھو بیٹھا ہو تو وہ ماں باپ اس پر بوجھ بن جاتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں ان کے ساتھ میرا میل جول، لوگوں کا دیکھنا کہ میرے ماں باپ کسی زمانے کے لوگ ہیں، کیسا رہن سہن ہے، میرے لئے شرمندگی کا موجب ہوگا کیونکہ ان کی نظر میں دنیا کی قدریں بچ جاتی ہیں اور ماں باپ کے اعلیٰ اخلاق اور اُن کے روحانی مقامات ان کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے.وہ جن کی نظر میں یہ حقیقت رکھتے ہیں ان کو دنیا کی نظروں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ وہ ان قدروں سے وابستہ ہوتے ہیں.وہ بڑی عزت اور محبت اور احترام سے ان لوگوں کو ، اپنے بزرگوں کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کی عزت کی وجہ سے دنیا بھی ان کا بہت احترام کرتی ہے.ان کی غربت اور سادگی دنیا کو انہیں چھوٹا نہیں دکھاتی بلکہ اور بڑا کر کے دکھاتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عظمت نہ کپڑوں سے وابستہ ہے، نہ دولت سے وابستہ ہے.اعلیٰ اقدار ہی سے وابستہ ہے اور اہل نظر پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کون سی باتیں قدر کے لائق ہیں.اس لئے بعض دفعہ بعض احمدی خاندان بے وجہ خوبیوں سے شرمندہ ہوتے پھرتے ہیں اور بدیوں کو اعزاز سمجھتے ہیں جبکہ دنیا والے جانتے ہیں کہ خوبیاں ہی قابل قدر ہیں اور قابل احترام ہیں.مجھے یاد ہے قادیان میں

Page 526

522 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جب باہر سے بعض معززین آیا کرتے تھے یعنی دنیا کے لحاظ سے بڑے لوگ وہ مطالعہ کے لئے آتے تھے سب سے زیادہ وہ قادیان کی سادگی اور غریبانہ زندگی سے متاثر ہوتے تھے اور حقیقت میں کبھی اگر گدڑیوں میں لعل دکھائی دیتے تھے تو قادیان کا وہ زمانہ تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ( رفقاء) ان گلیوں میں پھرتے اور پرانی اقدار کا نور لئے پھرتے تھے جس سے وہ گلیاں روشن دکھائی دیتی تھیں.وہ عجیب زمانہ تھا.بزرگوں کی یاد تازہ رکھنا اور بار بار یاد دلاتے رہنا ایک منظم کوشش چاہتا ہے میں نے بارہا دیکھا کہ کہ باہر سے آنے والے ایک رات بعض دفعہ گزار کر جاتے تھے ان کی کایا پلٹ جاتی تھی ایک دفعہ میرے گورنمنٹ کالج کے ایک دوست جو میرے ساتھ وہاں رہتے تھے جماعت میں اگر کوئی دلچسپی تھی تو میری وجہ سے ایک تعلق تھا مگر دل میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں پیدا ہوئی کہ گویا وہ جماعت کی بحیثیت جماعت قدر کریں اور عزت کریں.وہ سمجھتے تھے ایک شخص ہے بس اس سے تعلق ہے.ایک دفعہ ان کو میں نے قادیان بلایا اور غالبا ایک دورا تیں ٹھہرے ہیں وہاں اور جاتی دفعہ ان کی آنکھوں میں آنسو.کہتے تھے مجھے تو دنیا میں جنت کا آج پتہ لگا ہے کیا ہوتی ہے.اور وہ غریب لوگ تھے جو بسنے والے ، وہاں کوئی شان و شوکت نہیں تھی یہ اس زمانے کی بات ہے جبکہ قادیان میں گفتی کی دو یا چار کاریں ہوں گی اور وہ بھی جب نکلی تھیں تو احتیاط سے چلا کرتی تھیں کہ لوگوں پر گرد نہ پڑے.سٹرکیں بھی ٹوٹی پھوٹی ، گڑھوں والی اور غریبانہ زندگی لیکن عظمت کر دار نمایاں تھی اور وہ گلیاں دن کو بھی روشن رہتی تھیں، رات کو بھی روشن رہتی تھیں اور ان میں بھی کبھی کوئی جھجک پیدا نہیں ہوئی دنیا کے سامنے بڑی عزت سے سراٹھا کر چلتے تھے اور جانتے تھے کہ یہی قدریں ہیں جو تحسین کے لائق ہیں باقی دنیا بے چاری محروم ہے.وہ تکبر سے عاری تھے باقی دنیا کو حقارت سے نہیں دیکھا کرتے تھے عزت سے ملتے تھے ، جھک کر ملتے تھے مگر ان سے متاثر ہوکر نہیں، اپنی اعلیٰ قدروں کی وجہ سے، جنہوں نے انہیں انکسار بھی سکھایا اور بتایا کہ یہ اعلیٰ قدریں تکبر پیدا کرنے کے لئے نہیں بلکہ انکسار پیدا کرنے کے لئے ہیں.پس (دینی) قدریں ایک ایسی اعلیٰ دولت ہے جیسا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ ( دین حق ) نے جو خدا کا تصور پیش کیا ہے یہ اس لائق ہے کہ جان دے کر بھی ملے تو لیا جائے.یہ ایک انمول خزانہ ہے پس احمدیت کچھ تو عقائد سے وابستہ ہے اور وہ عقائد بھی اللہ کے فضل سے روشن اور زندہ رہنے والے اور

Page 527

مشعل راه جلد سوم 523 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ غالب آنے والے ہیں.لیکن کچھ قدروں سے وابستہ ہے جو ہماری ذات میں زندہ رہتی ہیں.ان قدروں کو زندہ رکھیں گے تو آپ کے عقائد میں دنیا دلچسپی لے گی ورنہ عقائد کیسے ہی روشن اور مضبوط اور دلائل میں قوی کیوں نہ ہوں.دلائل کے قومی سہارے کیوں نہ رکھتے ہوں عقائد کی طرف توجہ نہیں جایا کرتی جب تک ان عقائد کے رکھنے والوں کے عظیم کردار کو انسان مشاہدہ نہ کرے پس اس پہلو سے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ان خاندانوں کو جو بہت بزرگ لوگوں کی اولاد تھے.مشہور نہیں بھی تھے تو بزرگ تھے سادہ غریبانہ کپڑوں میں پھرنے والے اہل اللہ لوگ تھے جن کی دعائیں قبول ہوتی تھیں جن پر دن رات اللہ تعالیٰ کی قربت کے نشان اترا کرتے تھے ان لوگوں کی نسلوں کو ان کے آباؤ اجداد کا روشن ماضی تو بتا ئیں تا کہ اس روشنی سے کچھ حصہ لے کر ان کا حال روشن ہو جائے اور وہ اس دنیا کے اندھیروں کو اس مستعار روشنی کے ذریعے روشن کر سکیں.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے اگر یہ جماعت نے منظم کوشش نہ کی تو مجھے ڈر ہے کہ یہاں کا معاشرہ ایسا ہے یہاں کی تہذیب ایسی ہے کہ لوگ سرکتے سرکتے ، رفتہ رفتہ دور ہٹے لگیں گے اور بہت نہیں تو کم سہی مگر ہیں ضرور جو ہٹ چکے ہیں اور جہاں ماں باپ کی نظریں بدلیں وہاں اولاد کی نظریں اور زیادہ بدل جاتی ہیں پس ان قدروں کی حفاظت کے لئے آپ جتنی بھی توجہ کریں گے کم ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے..( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 16 تا 22 دسمبر 1994ء)

Page 528

مشعل راه جلد سوم 524 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 529

مشعل راه جلد سوم 525 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 4 نومبر 1994ء سے اقتباس حضور کا ذیلی مجالس کے اجتماعات کے متعلق دستور کہ افتتاح امیر صاحب سے کروایا جاتا ہے انصار ہوں یا لجنات ہوں یا خدام ہوں، ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھیں کہ سالانہ تربیت کے معیار کو بڑھا ئیں تحریک جدید کے دفاتر کے قیام کی غرض اور الگ الگ دفتر کے اعداد و شمار.....تحریک جدید کے ساٹھ سالہ دور میں ایک بھی سال ایسا نہیں آیا جبکہ جماعت اس قربانی سے تھک گئی ہو

Page 530

مشعل راه جلد سوم 526 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 531

مشعل راه جلد سوم 527 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ البقرہ کی یہ آیت تلاوت فرماتے ہوئے فرمایا.وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبُوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَاتَتْ أكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَّمْ يُصِبُهَا وَابِلٌ فَطَلَّ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ.(البقره:266)...آج مجلس انصاراللہ یو.کے کا تین روزہ سالانہ اجتماع اسلام آباد میں ہورہا ہے اور ان کی طرف سے یعنی صدر صاحب انصار اللہ کی طرف سے گزشتہ ہفتہ دس دن سے مسلسل مجھ پر دباؤ رہا ہے کہ میں اسلام آباد جا کر افتتاح کروں اور مسلسل میں اس کا انکار کرتارہا ہوں.لیکن وہ بھی ماشاء اللہ دھن کے پکے ہیں اچھے دعا گو ثابت ہوں گے مگر میں نے واضح طور پر عرض کیا بار بار کہ یہ نہیں ہوگا پھر بھی ماشاءاللہ انہوں نے اپنی اس نیک کوشش کو ترک نہیں کیا اور یہ جوانہوں نے ضد لگائی تھی دراصل وہی وجہ ہے جو میں خصوصیت سے ان کی بات کا انکار کرتا رہا ہوں.ذیلی مجالس کے اجتماعات اور خلیفہ المسیح کی شمولیت میرا سابقہ دستور ہے جو سب مجالس کے علم میں ہے کہ یو.کے میں جتنے بھی ذیلی مجالس کے اجتماعات ہوتے ہیں ان کا افتتاح میں امیر صاحب یو کے سے کرواتا ہوں اور اگر وہ نہ ہوں تو ہمارے امام صاحب جو نا ئب امیر بھی ہیں اور دوسری تقریبات میں میں حصہ لیتا ہوں.تو اول تو میں کسی وجہ سے اس دستور کو بدلنا نہیں چاہتا تھا ورنہ ہر مجلس کی طرف سے مجھ پر یہی دباؤ ہوگا اور یہی مطالبہ ہوگا کہ انصار اللہ کے اجتماع میں آپ نے اس دستور کو بدلا ہے تو ہمارے معاملہ میں کیوں یہ سوتیلے پن کا سلوک ہے.ایک تو یہ وجہ تھی.دوسرے یہ کہ ان کا اصرار اس لئے تھا کہ وہ مجھ سے زیادہ اپنے اجتماع کی حاضری بڑھانا چاہتے تھے اور یہ اطلاع دے بیٹھے تھے سب کو کہ ضرور جمعہ سے پہلے پہنچ جائیں کیونکہ خلیفہ اسیح افتتاح کریں گے.یہ

Page 532

مشعل راه جلد سوم 528 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی درست ہے کہ اگر کسی مجلس میں خلیفتہ امسح شامل ہوں پہلے بھی یہی رہا ہے آئندہ بھی یہی رہے گا تو ظاہر بات ہے کہ اس سے اجتماع کی حاضری بڑھ جاتی ہے لیکن اسے حاضری کو بڑھانے کا ذریعہ بنا کر سالانہ رپورٹ کا معیار بڑھانا یہ جائز نہیں.خدام کی حاضری ہو، بجنات کی ہو یا انصار کی ہو وہ سال بھر کی کوششوں کا آئینہ دار ہونی چاہیے.اگر تمام سال کوشش کر کے مجلس انصار اللہ میں ایک مستعدی پیدا کر دی جائے اور جماعت کے کاموں میں حصہ لینے کا ذوق شوق بڑھایا جائے اور اس طبعی جوش اور ولولے کے نتیجے میں لوگ کثرت سے اجتماعات میں شامل ہوں تو اچھی بابرکت بات ہے اور قابل تحسین ہے.مگر یہ نہ ہو تو خلیفہ وقت کو ذریعہ بنا کر اس دن کی حاضری بڑھانا یہ کوئی نیک ، اچھی بات نہیں ہے.اس لئے وہ سمجھیں یا نہ سمجھیں یہ بات میں اشارہ ان کی دل آزاری کئے بغیر سمجھانے کی کوشش کرتا رہا مگر وہ بات پہنچی نہیں.اس لئے اب میں ساری دنیا کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ ایک طبعی بات ہے کہ اگر کوئی شخص جو کسی بڑے علاقے سے تعلق رکھتا ہو کہ اس کی خاطر لوگ آئیں اس کے آنے پر لوگوں کا آنا ایک طبعی بات ہے اس کا کوئی نقصان نہیں ہے.تربیت کے معیار کو بڑھائیں اس لئے انصار ہوں یا لجنات ہوں یا خدام ہوں ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ سالانہ تربیت کے معیار کو بڑھائیں یہاں تک کہ کسی ایک شخص کی خاطر نہیں بلکہ روزمرہ کی تربیت کے نتیجے میں ، دینی اغراض کی خاطر، تمام ذیلی تنظیموں کے ممبر خدا کو راضی کرنے کے لئے دینی اغراض کی خاطر ا کٹھے ہوا کریں.یہ جو خلیفہ وقت کے ساتھ تعلق ہے یہ بھی ایک دینی غرض ہے مگر ان دونوں ہاتوں میں فرق ہے.روز مرہ کی تربیت کے نتیجے میں جو دل سے وابستگی پیدا ہوتی ہے وہ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس بات کی محتاج نہیں رہتی کہ کون آرہا ہے اور کون نہیں آرہا.اس وقت تو حالت یہ ہو جاتی ہے کہ ہم تو بن بلائے بھی جانے کی کوشش کریں گے اور واقعہ ایسا ہوتا ہے جیسا کہ ایک مصرع میں یہ کہا گیا ہے کہ ان پہ بن جائے کچھ ایسی کہ دن آئے نہ بنے بلانے کا محتاج نہ رہے انسان جب دینی مقصد کا کوئی اجتماع ہوتو اس میں ذوق وشوق سے لوگوں کا حاضر ہونا ایک دینی تقاضا ہے.پس یہ وجہ ہے میں وضاحت کر رہا ہوں.انہوں نے جو وعدہ کیا تھا انصار سے ان کی طرف سے عہد شکنی کوئی نہیں ہوئی ان کو اس بات پر ملزم نہ کیا جائے.اپنی طرف سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آخر وقت تک جو ممکن تھا انہوں نے کوشش کر دیکھی مگر یہ میری مجبوری تھی جس کی وجہ سے

Page 533

مشعل راه جلد سوم 529 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ وہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی..اب میں اس مضمون کی طرف آتا ہوں جو میں نے بیان کیا ہے کہ نئے سال کا تحریک جدید کا اعلان ہونا ہے.الحمد للہ کہ تحریک جدید دفتر اول ساٹھ سال پورے کر چکا ہے اور دفتر دوم پچاس سال پورے کر چکا ہے.دفتر سوم انتیس سال اور دفتر چہارم نو سال.اور اب اپنے اکسٹھویں، اکانویں، تیسویں اور دسویں سال میں داخل ہوں گے.تحریک جدید کے دفاتر کے قیام کی غرض وغایت دفتروں کا جہاں تک تعلق ہے اس سلسلے میں میں نے رپورٹوں پر نظر کر کے محسوس کیا ہے کہ رفتہ رفتہ دفاتر کی تقسیم پر عہدیداروں کی یا کام کرنے والوں کی نظر نہیں رہتی اور عمومی طور پر تحریک کے چندے کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں.مگر دفاتر کے قیام کی جو غرض وغایت تھی وہ اس طرح پوری نہیں ہو سکتی جب میں نے اعداد و شمار سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ دفتر چہارم نے کتنی ترقی کی ، دفتر سوم نے کتنی ترقی کی ہے، تو پتہ چلا کہ ایسا کوئی تذکرہ رپورٹوں میں موجود نہیں تھا.پھر فیکس کے ذریعے بڑی بڑی یورپ اور امریکہ وغیرہ کی جماعتوں کو تحریک کی گئی کہ آپ کے پاس اعداد و شمار ہوں گے فوراً بھجوادیں.تو ہر جگہ سے یہ معذرت آئی کہ ہم نے الگ الگ اعداد و شمار نہیں رکھے اس لئے آئندہ سال ایسا کریں گے.تو تحریک جدید کے تعلق میں پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ دفاتر کا انتظام تحریک جدید کے سیکرٹری کے تابع الگ الگ ذمہ دار خدمت کرنے والوں کے سپرد ہونا چاہیے تا کہ آئندہ کبھی اس بات میں کوئی کوتاہی نہ ہو.ہر تحریک جدید کا سیکرٹری اپنے ساتھ دفتر اول کا ایک نائب لگائے ، ایک دفتر دوم کا، ایک سوم کا اور ایک چہارم کا.تاکہ ان کا الگ الگ ریکارڈ رکھے اور ان کا مقابلہ کرے اور اس طرح آپس کے مقابلے کی وجہ سے ویسے بھی عمومی معیار خدا کے فضل سے بہتر ہوگا.یہ دفاتر کی تقسیم دراصل بعض عمروں کے بدلنے کے نتیجے میں جو ایک قسم کے نسلی گروہ بنتے ہیں، ایک نسل سے تعلق رکھنے والے گروہ، ان کے پیش نظر کی گئی.دفتر اول کو جب دس سال گزر گئے تو حضرت مصلح موعود نے یہ تجویز فرمائی کہ دفتر اول کا الگ رجسٹر رکھ کر اس کا حساب الگ کر دیا جائے.اور ایک دفتر دوم قائم کیا جائے جس میں نئے مجاہدین داخل کئے جائیں.اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے اس حصے کو بھی قربانی کی توفیق ملے گی جو پہلے غافل رہا ہے اور دفتر اول کی قربانیوں کے سائے

Page 534

530 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم تلے وہ بھی شمار ہوتا رہا ہے پس اس گروہ کو اگر اس سائے سے الگ کر کے اپنی کار کردگی دکھانے کی طرف بلایا جائے تو ظاہر بات ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد ان مخلصین کی ہاتھ آسکتی ہے جو کسی وجہ سے تحریک جدید کے کاموں سے غافل رہے ہیں.جب یہ کچھ عرصے تک سلسلہ جاری رہا اور مفید ثابت ہوا تو پھر دفتر سوم کا اعلان دفتر اول کے اکتیس سال بعد کیا گیا اور پھر دفتر چہارم کے آغاز کا اعلان میں نے آج سے دس سال پہلے کیا تھا.مراد یہ تھی کہ گزشتہ عرصے میں جو نئے بچے بڑے ہوئے ہیں نئے لوگ جماعت میں داخل ہوئے ہیں، ان پر نظر رکھنے کے لئے ایک الگ نظام ہو، الگ منتظمین ان ذمہ داریوں کو ادا کر یں.چنانچہ میں پہلی نصیحت تو یہ کرتا ہوں کہ ان دفاتر کی تقسیم کوملحوظ رکھتے ہوئے شعبوں کے اندر ایسے نائبین مقرر کئے جائیں جو اپنے اپنے دفتر کا الگ حساب رکھیں.ایک سال بھی ایسا نہیں آیا کہ جماعت اس قربانی سے تھک گئی ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ جہاں اگر جماعت چھوٹی ہو اور یہ تقسیم ممکن نہ ہو تو جو بھی تحریک جدید کا سیکرٹری ہے وہی خود اپنے ذمہ یہ بات لے لے کہ وہ یادر کھے گا اور ان سب کا ریکار ڈ الگ الگ رکھے گا.جہاں تک تحریک جدید کی عمومی سال بہ سال ترقی کا تعلق ہے ، خدا کے فضل سے جماعت محض اللہ قربانیاں کر رہی ہے اور خدا کی ذات دائم ہے وہ آنی جانی نہیں ہے اس لئے جو قربانیاں اس کے تعلق سے بجالائی جاتی ہیں ان کو بھی دوام عطا ہوتا ہے کسی وقتی جوش سے تعلق نہیں رکھتیں.سن چونتیس سے لے کر اب سن چورانوے آگیا ہے اور اس ساٹھ سالہ دور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بھی سال ایسا نہیں آیا جب کہ جماعت اس قربانی سے تھک گئی ہو اور اس کے قدم ست پڑ گئے ہوں اس کی وجہ یہی ہے کہ جماعت کی قربانیاں محض اللہ ہوتی ہیں اور اللہ کی ذات کے حوالے سے ان قربانیوں کو دوام ملتا ہے......مطبوع الفضل اند نیشنل 23 تا 29 دسمبر 1994ء)

Page 535

مشعل راه جلد سوم 531 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرموده 3 /جنوری 1997ء سے اقتباس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اخلاق میں ترقی کریں معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے کا عہد کریں تربیت اولاد کی ذمہ داری اپنے اور اپنے اہل وعیال کے اخلاق پر گہری نظر رکھیں

Page 536

مشعل راه جلد سوم 532 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 537

مشعل راه جلد سوم 533 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضرت خلیفہ مسیح الرابع حمہ اللہ تعلی نے تشہد تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.رصلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آگے قدم بڑھانا ہے S.........اب یہ جوغفلت کی حالت ہے خاص طور پر اس کو پیش نظر رکھ کر اپنی اکائیوں اور دہائیوں کا حساب تولے کے دیکھیں.اگر آپ اس پہلو سے حساب لیتے ہیں جیسے کہ میں نے بیان کیا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لمحے لمحے پرنگران تھے اور یہ نگرانی اتنی کامل تھی اور اتنی مستقل تھی کہ آپ کو تمام بنی نوع انسان پر شہید بنادیا گیا.پہلے شاہد جس کا میں پچھلے خطبے میں ذکر کر چکا ہوں پھر شہید کے متعلق آپ کی گواہی مانی جائے گی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لمحے لمحے کا حساب لیا ہے اس لئے آپ اس لائق ہیں کہ آپ کی کسوٹی پر دوسرے پر کھے جائیں.فرمایا جب تمام انبیاء کو قیامت کے دن اپنی اپنی قوموں پر شہید بنا کے لایا جائے گا تو اے اللہ کے رسول تجھے ان تمام انبیا پر شہید بنا کر لایا جائے گا.ان کی امتوں کے اعمال نبیوں کے اعمال کی کسوٹی پر پرکھے جائیں گے اور نبیوں کے اعمال تیری کسوٹی پر پرکھے جائیں گے.یہ وہ رسول ہیں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جن کی غلامی میں ہم نے قدم آگے بڑھانے ہیں اور طریق بھی آپ نے ہمیں سمجھا دیئے اور قرآن نے یہ مضمون خوب کھول دیا کہ غفلت کی حالت میں گزرے ہوئے لمحے تمہارے کسی کام کے نہیں ہیں اور وہ جو گناہ پیدا کرتے ہیں ان گناہوں کے تم ذمہ دار قرار دیے جاؤ گے اور غفلت کی حالت میں اگر نمازیں پڑھنے کی اجازت نہیں.تو انسان جو نمازیں پڑھتے ہوئے اکثر غفلتوں میں ڈوبارہتا ہے اس کو سوچنا چاہیے کہ یہ نماز بھی ایسی ہے جس میں رس نہیں پیدا ہوا اور زور لگانا چاہیے کہ کسی طرح یہ غفلت کی حالت جاتی رہے.تو ایک مستقل جد و جہد ہے اور اس کے نتیجے میں اگر قدم زیادہ تیز رفتاری سے آگے نہ بڑھے تو کچھ نہ کچھ آگے بڑھنا چاہیے.یہ وہ موازنہ ہے جس کے متعلق میں نے کہا تھا کہ اپنے بہی کھاتے کھولو اور دیکھو کیا ہوا ہے.تو پچھلے

Page 538

534 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم سال کی جو بھی اپنی کیفیت ہے اس پر نظر رکھو اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انفرادی طور پر تو ممکن نہیں کہ میں سمجھا سکوں کہ کون کیا کیا کرے مگر ایک پیمانہ جو عالمی پیمانہ ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیمانہ ہے اس پر اپنے حالات کو چسپاں کرتے ہوئے ہم نے یہ دیکھنا ہے اگر ہمارا ہر لمحہ گزرے ہوئے سال کے ہر لمحے سے آئندہ بہتر نہیں ہوسکتا تو کم سے کم ہر منٹ اگر بہتر ہو سکتا ہے تو وہ بہتر کیا جائے، گھنٹہ بہتر ہوسکتا ہے تو گھنٹہ بہتر کیا جائے ، ہفتوں کا حساب کر لو، مہینوں کا حساب کر لو.کچھ تو کرو، کچھ تو ایسی مماثلت ہو جو خادم کی اپنے مخدوم سے ہوا کرتی ہے، غلام کی اپنے آقا سے ہوتی ہے.پس لازم ہے کہ مہینے نہیں تو کم سے کم ہر سال کچھ نہ کچھ آگے بڑھے.کہاں بڑھے گا ، کن کن قدموں میں وہ پہلے سے زیادہ سرعت سے وہ سفر اختیار کرے گا.یہ فیصلہ ہے جو ہر انسان نے اپنی توفیق کے مطابق کرنا ہے اور اس پہلو سے جن اخلاق کی طرف میں نے آپ کو متوجہ کیا تھا میں ان کی طرف مختصراً پھر واپس لوٹتا ہوں اور آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ ایک حساب عبادت کا کرلیں اور ایک اخلاق کا.یہ دو حساب کر لیں اور اپنے لئے تعلیم معین کریں، اپنے لئے خود فیصلہ کریں کہ اگلے سال میں میں نے ان دونوں چیزوں میں کیا بہتری کرنی ہے.نمازوں کی حالت میں بہتری کے لئے یہ لازم ہے کہ انسان اپنی نمازوں کے وقت ان شیطانوں کی شناخت کرے جو نماز میں دخل انداز ہوتے ہیں.وہ تجارت کے شیطان ہیں ، مقدموں کے شیطان ہیں ، بیوی بچوں یا دیگر لوگوں کی محبت کے شیطان ہیں.غرضیکہ جتنی بھی قسموں کے شیطان ہیں وہ الگ الگ صورتوں میں، الگ الگ انسانوں پر قابض ہوتے ہیں.بعض دفعہ ایک ، بعض دفعہ دو ، بعض دفعہ دسیوں شیطان اور ان کی شناخت کے بغیر آپ ان کے خلاف جوابی کارروائی کیسے کر سکیں گے.تو کسی دن غور کر کے دیکھیں تو سہی کہ نماز میں کون کون سے رخنے ڈالنے والے خیالات ہیں پھر جو جو بھی خیالات ہیں ان کا کسی چیز سے ربط ضرور ہے جو آپ کو اچھی لگتی ہے.اس ربط کو اگر وہ نماز میں مخل ہوتا ہے تو کاٹ دیں اور کاٹنے کی کوشش جو ہے وہ لمبا وقت لیتی ہے.کاٹ دیں کہنا تو آسان ہے مگر ان کا کٹ جانا آسان نہیں ہے.اس جدو جہد میں جب آپ داخل ہوں گے تو اس پہلو سے آپ کا ہرلمحہ پہلے لمحے سے بہتر ہوتا ہوا نظر آئے گا یا ہر وقت کا یونٹ جو بڑا بھی ہو تو پہلے یونٹ سے زیادہ بہتر ہوتا ہوا دکھائی دے گا.تو ایک تو نمازوں کے متعلق میں سمجھانا چاہتا ہوں بہت ہی اہم قابل توجہ امر ہے.میرے نزدیک اگر ہم اپنی عبادت کے متعلق غفلت کی حالت کو کاٹ پھینکیں اور پہلے تشخیص کریں تعیین کریں تشخیص بیماریوں کی اور تعیین ان اقدامات کی جن کو استعمال کرتے ہوئے آپ نے بیماریوں سے شفا پانی ہے.معین ایک راہ عمل

Page 539

مشعل راه جلد سوم 535 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ اپنے لئے بنالیں اور اگر آپ کو توفیق ملی تو میں یقین رکھتا ہوں کہ آئندہ آنے والا سال گزرے ہوئے سال سے ضرور بہتر ہوگا.انشاء اللہ.معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے کا عہد دوسرا وہ جو معاشرتی بدیاں ہیں جن کے نتیجے میں بہت سی بد اخلاقیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کے اوپر عبور حاصل کرناضروری ہے.بار ہا نصائح کے باوجود جن لوگوں پر نہیں اثر ہوتا ان پر نہیں ہوتا اور اس کے باوجود نصیحت کرتے چلے جانے کا حکم ہے.جو بدخلق اپنی بیویوں سے بدخلق ہیں، اپنی اولادوں سے بدخلق ہیں، اپنے رشتہ داروں سے بد خلقی سے پیش آتے ہیں وہ جب اس قسم کے خطبات سنتے ہیں تو اور بھی زیادہ اپنے گھر والوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم بچ جاؤ گے تم ہو ہی گندے بے ہودہ لوگ، میں تمہیں ٹھیک کر دوں گا اور یہ حوالے نہ دیا کرو مجھے اور پھر وہ بے چارے ہمیں خط لکھتے ہیں اور اسی طرح بعض بے چارے مرد ہیں جن کا حال یہ ہے کہ اپنی بیویوں کے سامنے وہ اس طرح اف نہیں کر سکتے جس طرح بچوں کو حکم ہے کہ ماں باپ کے سامنے اف نہیں کرنی اور ان کی ہر بات کے اتنا غلام کہ اپنی اولا دوں کو اپنے ہاتھوں سے ضائع کر بیٹھے ہیں.بیوی غیر احمدی، باپ احمدی مگر ایسا زن مرید کہ وہ اپنی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے جہنم کی طرف دھکیلا جاتا دیکھتا ہے اور مجال نہیں کہ جو آگے سے آواز بلند کر سکے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک اخلاقی کمزوری حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایک زوجہ میں پائی تو پیغام چھوڑ دیا کہ جب اسماعیل واپس آئیں تو ان کو کہنا اپنی چوکھٹ بدل لیں اور آپ نے طلاق دے دی.وہ دین کے لحاظ سے مختلف دین نہیں رکھتی تھی مگر جہاں دین کا اختلاف بھی ہو اور اولاد کو واضح طور پر لادینی قدروں کی طرف لے جارہی ہو کوئی بیوی، اس کے ساتھ چمٹے رہنے کا جواز ہی کون سا ہے؟ بہت پہلے طلاق دے کر الگ کر دینا چاہیے تھا.مگر ایسی بھی ہیں جو عیسائی بنارہی ہیں، جو د ہر یہ بنا رہی ہیں، جو ہر قسم کی دینی اقدار سے غافل کرنے کے لئے با قاعدہ سکیم بناتی ہیں اور ایک آدمی بیٹھا ہوا ہے بہت شریف آمی، بڑا ہی شریف النفس احمدی، بڑا با اخلاق ہے، چندے بھی دے دیتا ہے اور نمازیں بھی پڑھتا ہے اور دیکھ رہا ہے آنکھوں کے سامنے اس کی اولاد جہنم میں جارہی ہے.یہ شرافت ہے یا نا مردی.کیا اس کا نام آپ رکھیں گے؟ جن باتوں کے لئے انسان کو نگران بنایا گیا ہے، لازم ہے کہ ان پر نظر رکھے اور اس لحاظ سے بھی اپنے

Page 540

536 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم حال پر نظر کرے کہ وہ آگے بڑھ رہا ہے یا بحیثیت ایک خاندان کے پیچھے ہٹ رہا ہے.اس کا مستقبل کیا ہے جس کی اولاد پیدا ( مومن) ہوئی ہو.یعنی خدا تعالیٰ نے اسے (دینی) قدروں پر اور خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کی قدروں پر پیدا کیا ہو وہ اس کی آنکھوں کے سامنے دور ہٹ رہی ہو اور واضح نظر آرہا ہو کہ رستہ جہنم والا رستہ ہے اس پر آرام سے بیٹھا ہوا ہے اس کو شریف کون کہہ سکتا ہے.یعنی شریف ان معنوں میں ہے کہ وہ لوگوں سے معاملے میں ٹھیک ٹھاک ہے مگر یہ شرافت نہیں بزدلی ہے.بعض دفعہ بزدلی کا نام شرافت رکھ دیا جاتا ہے.کسی نے کسی سے کہا تھا کہ تو جو طاقتور ہے اس کے سامنے بڑا خاموش ہو جاتا ہے اور جو کمزور ہے بے چارہ اس کے اوپر چڑھ دوڑتا ہے.اس نے جواب دیا میری طبیعت میں شرافت بڑی ہے، جب کسی طاقتور کو دیکھتا ہوں مجھے بڑا رحم آتا ہے اس پر اور جب کمزور کو دیکھتا ہوں مجھے بڑا غصہ اس پر آتا ہے.یہ اس کی شرافت ہے.تو شرافت غفلت کے ساتھ اکٹھی ہو نہیں سکتی.وَهُمْ غَافِلُوْنَ والا مضمون سمجھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اپنی اولاد کو نیکی کے رستے پر گامزن رکھنا اور ان خطرات سے بچانا، یہ آپ کا اخلاقی اور بنیادی فرض بھی ہے اور حق بھی ہے اور اس غفلت کی حالت میں جو آپ نیک لوگوں کی نسلیں ضائع کر دیتے ہیں پوچھے جائیں گے.اگر بے اختیاری کی حالت میں اولا د ہا تھ سے نکل جائے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر کسی کو ذمہ دار قرار نہیں دیا مگر فطرت کے دکھ میں اس کو سزا ضرور مل جاتی ہے.حضرت نوح علیہ السلام کی مثال دیکھیں کہ اولاد ناشکری بنی، اس نے غلط راہ اختیار کر لی، ایسا عمل نہیں کیا جسے صالح عمل کہا جاسکتا ہے تو حضرت نوح کے قرب نے اسے بچایا نہیں.حضرت نوح کو اس کی وجہ سے سزا نہیں ملی کہ حضرت نوح کی پوری کوششوں کے با وجود وہ اولا د ایسی نکلی.مگر ایک چیز ضرور تھی کہ حضرت نوح اس پر تفصیلی نظر نہیں رکھ سکے تھے.یہ بھی ایک لطیف غفلت کی قسم ہے اور خدا کا انصاف ایسا کامل ہے کہ اس کی سزا بھی دیتا ہے پھر.چنانچہ حضرت نوح کو جو دکھ پہنچا ہے بیٹے کو غرق ہوتا ہوا دیکھ کر ، وہ ان کے لئے ایک سزا تھی اور اتنی بڑی سزا کہ بول اٹھے کہ اے خدا! تو نے وعدہ کیا تھا کہ میری اولا دضائع نہیں کی جائے گی.تب خدا نے فرمایا کہ تجھے پتہ نہیں.یہ تیری اولا د وہ اولا د نہیں ہے جس کے لئے میں نے حفاظت کا وعدہ فرمایا تھا.تو غفلت ہوئی، جرم کے طور پر اس کو سزا تو نہیں ملی مگر فطری تقاضوں کے نتیجے میں سزا ضرور مل جاتی ہے.پس جن لوگوں کا میں نے ذکر کیا ہے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے وہ غفلت میں اپنی اولادوں کو ضائع کرتے ہیں ان کی بھی مختلف قسمیں اور درجے ہیں.کچھ تو غافل ان معنوں میں ہیں کہ ان کو پرواہ ہی کوئی نہیں.وہ سمجھتے ہیں میں اپنی ذات کا ذمہ دار، مجھے

Page 541

537 ارشادات حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کوئی فکر نہیں.اولاد آزاد ہے جو چاہے کرے، میں کیوں کسی کے معاملے میں دخل دوں.انہوں نے انصاف کا یہ ایک چر بہ بنا رکھا ہے اور حقائق سے دور ہیں.جب وہ بچہ فیل ہوتا ہے سکول میں، ان کو فکر ہوتی ہے.جب وہ ایسا رستہ اختیار کرتا ہے کہ دنیا میں اس کی صلاحیتیں ضائع ہوں تو بڑی تکلیف پہنچتی ہے.اس کو ٹھیک کرنے کے لئے پورے خرچ کرتے ہیں.تو ان کا ایک عمل ان کے دوسرے عمل کو جھٹلا رہا ہے.ثابت کر رہا ہے کہ یہ غفلت کی حالت ہے.یہ کوئی شرافت نہیں ہے، انصاف نہیں ہے، یہ ضمیر کی آزادی نہیں ہے.ضمیر کی آزادی تم وہاں دے رہے ہو جہاں اس کا نقصان ہو رہا ہے ، جہاں روحانی نقصان ہورہا ہے.اور جہاں دنیاوی نقصان ہے وہاں تم اس کو ضمیر کی آزادی نہیں دیتے تو اس کا نام تم نے انصاف کیسے رکھ دیا.اپنے اور اپنے اہل وعیال کے اخلاق پر گہری نظر رکھیں تو اخلاقی حالتوں کی طرف واپس آنے میں جو اندرونی گھریلو حالتیں ہیں ان پر نگاہ رکھنا بہت ہی ضروری ہے.اپنی ساری اولاد کی طرف نظر رکھیں، اپنی بیوی کی طرف نظر رکھیں ، اپنے بچوں، ان کے بچوں کی طرف نظر رکھیں اور غافل نہیں ہونا کیونکہ آپ سب کو ایک اکائی کے طور پر بھی دیکھا جائے گا.انفرادیت کے لحاظ سے ہر شخص اپنا جواب دہ الگ ہے.لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى (الانعام: 165) کوئی بھی جان نہیں ہے جو کسی اور جان کے لئے ذمہ دار قرار دی جائے ، اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گی.مگر بعض بوجھ ہیں جو قومی بوجھ ہیں.جیسے انبیاء کے بوجھ ہیں، وہ بڑے عظیم قو می بوجھ ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بوجھ اٹھانے والے سے بڑھ کر بوجھ اٹھا لیا.ان معنوں میں یہ بوجھ ہے کہ ذمہ داریاں بہت بڑی ہیں.وہ ذمہ داریاں جن کو آسمانوں نے اور زمین نے اور پہاڑوں نے اٹھانے سے انکار کر دیا فَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو آگے بڑھے اور سارے بوجھ اٹھالئے اور سارے بنی نوع انسان کو تعلیم دینے کا اور ان کے لئے نمونے قائم کرنے کا بوجھ اتنا بڑا بوجھ ہے کہ اس کے تصور سے بھی انسان کانپ اٹھتا ہے اور اس معاملے میں آپ فرماتے ہیں میں پوچھا جاؤں گا، آپ نے ہر ایک کو کہا کہ جس دائرے میں تم نگران بنے ہو، دائرے کی وسعت اور مقام کی عظمت کے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں بھی تو بڑھتی ہیں اور جہاں تم نا کام ہو گے تم سے سوال کیا جائے گا.پس انفرادی بحث الگ ہے اور اجتماعی ذمہ داریوں کی بحث الگ ہے.میں آپ کو خاندانی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتا ہوں.اپنے اہل وعیال کے اخلاق پر گہری نظر رکھنا اور اپنے ہی اخلاق پر نہیں

Page 542

مشعل راه جلد سوم 538 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی ان کے اخلاق پر بھی لمحہ لحہ نگاہ ڈالنا کہ کس طرف کو چل رہے ہیں.اور اگر آپ کو اپنے اخلاق ہی کی ہوش نہیں تو ان کے اخلاق پر کیسے نظر ڈال سکیں گے.بعض عورتیں کہتی ہیں ہمارا خاوند یہ حرکتیں کرتا ہے، یہ حرکتیں کرتا ہے.تمہیں سال ہم نے صبر سے گزارہ کیا ، اب نہیں ہوتا.میں سال صبر کیا کیا، اپنی زندگی کو خود جہنم میں جھونکا ہے اور جب خطرہ ایسا پیدا ہوا ہے کہ طلاق تک نوبت آ پہنچی ہے اب تم متوجہ ہو رہی ہو اور کہ رہی ہو کہ ہمارے حالات کو ٹھیک کرو.یہ نفس کے دھو کے ہیں.اس خاوند کی بدکرداریوں کے باوجود اس کے ساتھ شیر و شکر ہو کے رہنا، یہ بتاتا ہے کہ وہ اس پر راضی تھی اور اس کے باوجود یہ بات ان کو زیادہ پیاری تھی کہ رشتہ رہے اور کوئی فرق نہیں پڑتا جو مرضی کرتا رہے.اگر یہ صورت تم نے پندرہ ، میں چھپیں سال تک قائم رکھی تو جو نتیجہ نکلے گا اس کے تم ذمہ دار ہو اور یہ قانون تمہیں یاد ہی نہیں رہا کہ جس کی غلامی کی دعویدار ہو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَلا خِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأوْلى (سورة الضحى :5) تیرا تو ہر لحہ گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہے اور آپ کا ہرلمحہ بدتر ہوتا ہوا نظر آ رہا تھا آپ کو اور فکر نہیں کی ، کوئی توجہ نہیں کی.تو اس پہلو سے اپنے گزشتہ سال کا بھی موازنہ کریں اور تفصیل سے اپنے خاندانی حالات پر نظر ڈالیں، اپنے دوستوں کے تعلقات پر نظر ڈالیں اور پھر آئندہ سال کے لئے اپنے طور پر ذہنی منصوبہ بنائیں تا کہ یہ ہمارا الوداع ہو اور یہ ہمارا استقبال ہو.الوداع ایک ایسے سال کو کر رہے ہوں جس کی کمزوریوں پر صاف نظر پڑ رہی ہو.اے فلاں کمزوری تجھے بھی ہم وداع کہتے ہیں اور اے فلاں کمزوری تجھے بھی ہم وداع کہتے ہیں اور اے حسن تجھے ہم کھلی آغوش سے خوش آمدید کہتے ہیں تو آ اور ہمارے سینے سے چمٹ جا اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہ اور پھر اس میں بھی اضافہ کرتا رہ.حسن میں بھی ایک لا متناہی اضافہ ہے جو ہوتا چلا جاتا ہے.اللہ کرے کہ ہمیں اس شعور کے ساتھ گزشتہ سال کو وداع کرنے اور آنے والے سال کو خوش آمدید کہنے کی توفیق ملے.تمام دنیا کی جماعتوں کو میں، اس پس منظر میں جو میں نے بیان کیا ہے، نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سب دنیا میں ہر احمدی کا آنے والا سال ہر گزرے ہوئے سال کے ہر وقت سے بہتر ثابت ہو.اللہ کرے کہ ہمیں اس کی توفیق ہو.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 21 فروری تا 27 فروری 1997ء)

Page 543

مشعل راه جلد سوم 539 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب فرمودہ 25 مئی 1997ء جہاد کریں کہ سب احمدی سچائی پر قائم ہو جائیں دل میں نفرت اور ظاہری محبت تو حید کے منافی ہے.ہو اگلی صدی کے لئے ایک ہی تحفہ ہے جو ہم آگے بھیج سکتے ہیں وہ تو حید کا تحفہ ہے.ہیں اگر آپ تو حید کو قائم کریں گے تو آپ کے ہاتھ پر تو میں اکٹھی ہوں گی.اس کے بغیر قو میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں ☆ ☆ ☆ ☆ امام وقت کو قبول کرنا در حقیقت توحید کے سامنے سرخم کرنا ہوا کرتا ہے اپنے آباء واجداد کی نیکیوں کو زندہ رکھو انبیاء بدیوں کو کاٹنے والے ہوتے ہیں تو حید ان اخلاق کا نام ہے جو میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں.ان کو اپنی ذات میں پیدا کریں تو پھر بے اختیار دنیا کی ساری قومیں آپ سے جڑیں گی.آج آپ اس دنیا کو اسماعیلوں سے بھر دیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہنے والے بنیں

Page 544

مشعل راه جلد سوم 540 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 545

مشعل راه جلد سوم 541 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: - الحمد للہ کہ اللہ ہی کے فضل اور احسان کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ کا یہ سالانہ اجتماع آج اختتام کو پہنچا ہے.حسب سابق اس مرتبہ بھی مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی نے اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے پہلے سے کئی قدم آگے بڑھائے ہیں اور حسن انتظام کے لحاظ سے یہ اجتماع غیر معمولی طور پر کامیاب رہا ہے.ہر قسم کے مقابلہ جات میں اور کھیلوں میں ، خصوصاً ایسے کھیلوں میں جہاں جسمانی مقابلے اور ٹکراؤ زور پر ہوتا ہے،سب کھلاڑیوں نے حسن خلق کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا.جیتنے والے نے بھی اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھایا ، ہارنے والے نے بھی اور بہت ہی محبت کے ماحول میں ایسے مقابلے ہوئے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے ایسے جسمانی ورزشی مقابلہ جات میں اتنا اعلیٰ خلوص اور باہمی محبت کا نمونہ اور کہیں نہیں دکھایا جاتا.اس کے علاوہ مختلف انتظامات میں جن کے متعلق ابھی نیا تجربہ تھا یعنی نئی آنے والی قوموں کے مقابلے الگ کر وائے جائیں تاکہ اُن میں مقابلے کی رُوح پیدا ہو.یہ تجربہ بھی خدا کے فضل سے بہت ہی کامیاب رہا ہے.صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کی یہ خواہش تھی کہ اس دفعہ حاضرین کی تعداد میں اضافہ ہوا اور آٹھ ہزار کی بجائے دس ہزار تک پہنچ جائے.وہ دس ہزار پوری تو نہیں پہنچ سکی مگر کم و بیش دس ہزار کے قریب قریب یہ تعداد پہنچ گئی ہے.منتظمین نے بھی بہت محنت سے حصہ لیا ہے اس میں کوئی شک نہیں.ہر منتظم نے خواہ وہ نیا احمدی تھا یا پرانا احمدی تھا، اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی ذمہ داری کو پوری طرح ادا کیا ہے.آج کے اجتماع میں جو اختتامی خطاب ہے اُس کا بھی دراصل تعلق تو حید باری تعالی ہی سے ہے اور آب جو تین سال یا کم و بیش تین سال اس صدی کے پورے ہونے میں باقی ہیں اُن میں توحید ہی کے مضمون پر جماعت احمدیہ کو بار بار توجہ دلائی جاتی رہے گی.کیونکہ اس صدی میں اگر ہم تو حید کو قائم کر لیں یعنی تو حید کو تو اللہ تعالیٰ ہی نے دنیا میں قائم فرمانا ہے اگر ہم عاجز غلام بندوں کو اللہ تعالیٰ اس صدی کے آخر پر توحید کی ایسی خدمت کی توفیق عطا فرمائے جو اگلی صدی کے لئے ایک نشان بن جائے اور یہی تو حید کا جھنڈا بلند کئے

Page 546

542 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہوئے احمدیت انگلی صدی میں سے گذرے تو یہ ایک بہت ہی بڑا اور عظیم الشان نشان ہوگا.توحید کے مختلف پہلو ہیں جن کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں کئی قسم کی نصیحتیں کرتا چلا آرہا ہوں اور اس اجتماع پر بھی افتتاحی خطبہ میں تو حید ہی سے متعلق نصیحت کی تھی اور اب بھی تو حید ہی کے مضمون پر عملی پہلو سے اور روشنی ڈالوں گا.زندگی کی ہر دلچسپی میں سچائی کو داخل کریں آپ کو یاد ہوگا کہ گذشتہ اجتماع پر میں نے سچائی کو یا سچائی کے جہاد کو اس سال کا نشان بنانے کی آپ کو ہدایت کی تھی کہ جہاد کریں کہ سب احمدی سچائی پر قائم ہو جائیں اور سچائی کا قیام اور توحید کا قیام دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.کیونکہ توحید باری تعالیٰ کا اعلیٰ اور گہرا مضمون یہ ہے کہ اُس کے سوا اور کوئی نہیں اور سچائی بھی ایک ایسی چیز ہے کہ اُس کے سوا اور کچھ نہیں ہوا کرتا.سچائی ایک ہوا کرتی ہے.جھوٹ بہت ہوا کرتے ہیں.جھوٹ سینکڑوں ہزاروں بھی ہو جاتے ہیں مگر سچائی صرف ایک چیز ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ کا نام الحق ہے.یعنی وہی سچ ہے.پس اس پہلو سے جو تحریک میں نے شروع کی تھی وہ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ابھی تک صرف جماعت احمد یہ جرمنی کی بات نہیں کل دنیا میں سچائی جھوٹ سے شکست کھاتی چلی آرہی ہے اور تمام دنیا کا یہ حال ہے کہ اب تقریباً ہر ملک میں ہر جگہ جھوٹ کی عبادت شروع ہو چکی ہے.جھوٹ ہی قوموں کا اوڑھنا بچھونا بن گیا ہے.جھوٹ ہی قوموں کی سیاست ہو چکا ہے.جھوٹ ہی قوموں کا معاشرہ بن گیا ہے.اور وہ قو میں جو عام روز مرہ لین دین کے معاملات میں سچی ہیں وہ بھی فی الحقیقت اپنی زندگی کے مقاصد کے لحاظ سے جھوٹ کی عبادت کرتی ہیں.یعنی ایسے عیش وعشرت کی اور ایسے عیش وعشرت کے سامانوں کی عبادت کرتی ہیں جو جھوٹ کے سوا اور کچھ بھی نہیں.پس جھوٹ نے جو یورش کی ہے بہت بڑا ز بر دست حملہ ہے اور توحید پر یہ سب سے بڑا حملہ ہے.پس جب ہم تو حید کے حق میں نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے ہیں تو محض منہ کے یاسینوں کے جوش سے مضمون کا حق ادا نہیں ہو جاتا.بہت سے ایسے ہیں جو بڑے زور کے ساتھ نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے آوازے بلند کرتے ہیں لیکن جب اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ہیں تو روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ کی ہی ملاوٹ ہوتی ہے اور توحید میں ملاوٹ کوئی نہیں ہوا کرتی ایک ہی چیز ہے.آنحضرت کو اس پہلو سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو اعلان کر دے وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ کہ مجھ میں تو تکلف نام کی بھی کوئی چیز نہیں ہے.جیسا میں ہوں ، جو بھی ہوں، تمہارے سامنے ظاہر و باہر ہوں.میرا ظاہر اور میرا باطن ایک ہی ہے.پس توحید میں جو سب سے اعلیٰ مضمون ہے وہ دوئی کا اور تفرقہ کامٹ

Page 547

مشعل راه جلد سوم 543 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی جانا ہے.جب تفرقے مٹ جائیں تو تو حید قائم ہوتی ہے اور کوئی طاقت دنیا میں تو حید کو قائم کر ہی نہیں سکتی جب تک کہ اُس کی ذات میں سے تفرقہ نہ مٹ جائے.اگر ایک شخص ہے تو اس کا دوغلہ پن ختم ہونا چاہیے اگر قوم ہے تو قوم کا دوغلہ پن ختم ہونا چاہیے.پھر ہر مضمون میں زندگی کی ہر دلچسپی میں سچائی کو اس طرح داخل ہونا چاہیے کہ کوئی پہلو بھی زندگی کا دوغلے پن والا نہ رہے.یعنی ہر زندگی کا پہلو دوئی سے پاک ہو.دُنیا میں توحید کا علم کیسے بلند کرنا ہے پس اس پہلو سے میں آج پھر آپ کو متوجہ کرتا ہوں کہ ہم نے دنیا میں توحید کا علم بلند کرنا ہے اور توحید کا علکم بلند کرنا نعروں سے نہیں ہوگا.توحید کا علم بلند کرنا محض مجالس میں اونچے اونچے اعلانات اور تقریروں سے نہیں ہوگا.تو حید کا علم بلند کرنا ہے تو پہلے اپنے سینوں میں توحید کا علم بلند کریں.اپنی ذات میں توحید کا علم بلند کریں.اپنی ذات کو سیدھا اور صاف کرلیں.ہر قسم کی دوئی سے توبہ کر لیں اور ایک جان ہو جائیں.جب آپ اپنی ذات میں ایک وجود بنتے ہیں تو پھر آپ اس بات کے اہل بنتے ہیں کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا اعلان کر سکیں.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو توحید کے اعلان کے لئے چنا.حالانکہ تو حید کے بہت سے علمبر دار دنیا میں موجود تھے.بہت تھے جو کہتے تھے کہ ہم موحد ہیں مگر سب بھری دنیا میں صرف حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو تو حید کے اعلان کے لئے اللہ تعالیٰ کا چن لینا یہ اس بات کی قطعی اور واضح علامت ہے کہ خدا کے نزدیک آپ کا وجود ایک ایسا وجود تھا جس میں دوئی کا کوئی شائبہ تک باقی نہیں رہا تھا.جو ظا ہر تھا وہ اندر بھی تھا.جو شاہد تھا وہی باطن میں تھا.کوئی فرق بھی آپ کی ذات میں دوئی کا باقی نہیں تھا.جس سے جس طرح ملتے تھے وہی دل کی بات ہوتی تھی جو آپ کے چہرے سے ظاہر ہوا کرتی تھی.اب یہ روز مرہ کا ایک عام دستور ہے ہر انسان دوسرے انسانوں سے ملتا ہی تو ہے.آتے جاتے، گھر میں بھی ملتا ہے، باہر بھی ملتا ہے لیکن اگر صرف اس پہلو سے آپ اپنی ذات پر غور کر کے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ پوری طرح حق پر قائم نہیں ہیں.ملتے وقت ہزار تصنع اختیار کئے جاتے ہیں.کسی سے نفرت بھی ہو تو ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ بڑی محبت ہے.اب نفرت ہو تو نفرت کا ظاہر کرنا یہ تو حید نہیں ہے.نفرت ہو تو نفرت پر قابو پا کر اسے ہمدردی میں تبدیل کرنا توحید ہے لیکن نفرت کو باقی رکھیں اور چہرے سے محبت ظاہر کریں یہ دوئی ہے.یہ توحید کے منافی ہے.پس یہ بہت ہی باریک پہلو ہیں توحید کے جن پر اپنی ذات میں آپ کو نظر کرتے ہوئے نگاہ رکھنی ہوگی کہ آیا ہم میں یہ پہلو موجود ہیں کہ نہیں.یہی وہ باریک پہلو

Page 548

مشعل راه جلد سوم 544 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی ہیں جن کو سمجھے بغیر آپ یگانگت کا مطلب سمجھ سکتے ہی نہیں اور وحدت کا کوئی معنی آپ کے ذہن میں ابھر نہیں سکتا جب تک اپنی ذات کے حوالے سے اپنے اندر کے وجود کے حوالے سے اور اس وجود کے باہر کے تعلق کے حوالے سے آپ وحدت کو نہ سمجھیں.اب یہی بات جو میں نے کہی ہے اس کو کچھ مزید تفصیل سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.مثلاً ایک شخص ہے اس کو کوئی شخص پسند نہیں ہے اگر وہ اس کے گھر ملنے جاتا ہے اگر وہ ہنس کر خوش ہو کے کہتا ہے بہت مدت کے بعد ملاقات ہوئی آؤ جی یار گلے تو لگو کہاں غائب رہے.جب وہ گھر آتا ہے تو اُس پر واری واری جاتا ہے.اس کو حسنِ اخلاق نہیں کہا جاتا.یہ تو حید کے منافی بات ہے.اگر اُس سے کوئی دشمنی ہے اور دوری ہے تو ضبط کا نام تو حید ہے.پھر سب سے پہلے ضبط کرے اور وہ بات ظاہر نہ کرے جو دل میں نہ ہو لیکن اس سے بڑھ کر تو حید اس سے اعلیٰ درجے کا مضمون یہ رکھتی ہے کہ توحید کے نتیجے میں انسان اپنے بھائی سے جو دور ہٹا ہوا ہے وہ قریب ہونے کی کوشش کرے.اپنی نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کرے.اپنے غصے کو مغفرت میں تبدیل کرنے کی کوشش کرے.پھر جب اُس سے ملتا ہے اُس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ایسی ہوگی جو تو حید کی علامت ہوگی.ایک طمانیت ہوگی گویا اُس کا چہرہ یہ کہہ رہا ہوگا کہ میرے دل میں جو بغض تھے وہ تو میں دُور کر بیٹھا اور اللہ کی خاطر انسان کو انسان سے ملانے کے لئے تا کہ خدا کی تو حید آسمان پر نہ رہے بلکہ دنیا میں بھی جاری ہو اس غرض سے میں نے اپنے غصے تم سے دور کر لئے ہیں آگے تم جو چاہو کرتے پھرو.ایسی صورت میں اُس کی مسکراہٹ منافقت کی مسکراہٹ نہیں ہوگی.فی الحقیقت وہ اُس کا بہی خواہ ہوگا، چاہنے والا ہو گا ، اس کی خیریت اُس کے دل میں ہوگی اور پھر وہ جب مصافحہ کرتا ہے اور شوق سے السلام علیکم کہتا ہے اس میں کوئی جھوٹ نہیں.تو ایک ہی معمولی سی بات ہے جو انسان روز مرہ اپنے تجربے میں دیکھتا ہے ہزاروں بار ایک سال میں ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے جن سے دل پھٹے ہوئے ہیں اور دور ہیں مگر کتنے ہم میں ہیں جو پھٹے ہوئے دلوں کے باوجود اپنے چہرے سے یہ ظاہر نہیں کرتے کہ وہ اُن کے ساتھ ایک ہو چکے ہیں.کرتے ہیں مگر جھوٹ کرتے ہیں.پس اخلاق کے نام پر چہروں کی اداؤں میں بھی جھوٹ نہیں ہونا چاہیے.آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کا بیروہ کردار ہے جو اتنا نمایاں تھا کہ جب انسان انسانی اخلاق کی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو جس باریکی سے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات میں تو حید جاری کی ہے اس کی اور کوئی مثال کہیں دکھائی نہیں دیتی.انبیاء کی تاریخ میں ساری تاریخ ہی ان کی توحید سے تعلق رکھنے والی تاریخ ہوا کرتی ہے مگر اتنے چمکتے ہوئے، ایسے درخشاں، ایسے اعلیٰ نمونے آپ کو دکھائی نہیں دیں گے جو خدا تعالیٰ کے نور کا

Page 549

545 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم مظہر ہوں اور مجسم نور کا مظہر ہوں.ہوں گے ضرور کیونکہ انبیاء کا تعلق تو حید ہی سے ہے مگر چمک دمک میں فرق ہوا کرتا ہے.پس میں اس پہلو سے کہ رہا ہوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں جو تو حید چمکتی تھی جس طرح وہ ظاہر وباہر ہوا کرتی تھی اس شان کی تو حید آپ کو باقی تمام انبیاء میں دکھائی نہیں دے گی.یہ بہت وسیع مضمون ہے جس پر میں پہلے بھی گزشتہ خطبات میں روشنی ڈالتا چلا آیا ہوں.آج صرف ایک چھوٹی سی مثال دی ہے کہ آپ نے اگر تو حید کو قائم کرنا ہے تو نعروں سے تو حید قائم نہیں ہوگی.اس لئے اگر نعروں ہی کو دیکھیں تو بعض دفعہ نعرے بھی تو حید کے منافی ہوا کرتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو نہیں سمجھتے.کئی لوگ ہیں جو ہاتھ بلند کر کر کے بانہیں مار مار کے زور سے کہتے ہیں نعرہ ہائے تکبیر اور چہرہ ٹیلی ویژن کی آنکھ پر ہوتا ہے کہ ٹیلی ویژن ان کو دیکھ رہی ہے کہ نہیں دیکھ رہی اور بار بار وہ دیکھتے ہیں کہ کس حد تک دنیا کو یہ معلوم ہو گیا ہے کہ ہم نے اس زور اور شدت کے ساتھ باز و ہلا ہلا کے نعرہ تکبیر بلند کئے ہیں.اب وہ نعرہ تکبیر تو نہیں وہ تو ایک نعرہ شرک ہے.جب آپ نعرہ مارتے ہوئے مشرک بن جاتے ہیں اپنے وجود کی عبادت اپنے وجود کی بڑائی مقصود ہوتی ہے اور نام اللہ کا لے رہے ہوتے ہیں تو خود اپنے وجود ہی کو تو اللہ قرار دیتے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے بہت زبر دست کمال کر دیا ہے.نعرے تو منع نہیں مگر نعرے اس وقت اٹھنے چاہئیں جب دل تھرا اٹھیں توحید کے اثر سے.جب جسم پر لرزہ طاری ہو چکا ہو.انسان بے اختیار ہو جائے.ایسے اوقات میں خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے جوش اور عظمت سے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے ہیں مگر جہاں بھی تصنع آئے گا وہاں توحید غائب ہو جائے گی.پس اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ تو اعلان کر کہ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ میرے وجود کا ایک ایک حصہ، میرے وجود کا ذرہ ذرہ شرک سے پاک ہے.اس پہلو سے مجھ میں تم کوئی بھی تکلف نہیں دیکھو گے.ناراضگی ہوتی تھی تو ناراضگی کا اظہار کیا کرتے تھے مگر اس میں بھی کوئی تکلف نہیں ہوا کرتا تھا.محبت تو تھی ، رحمت تو ایسی تھی جس کے چشمے رواں تھے مگر اس میں بھی کبھی آپ نے مبالغہ نہیں فرمایا.پس تو حید کے قیام کیلئے سب سے پہلے اپنی ذات میں تو حید کو قائم کرنے کی کوشش کریں.اس کے بغیر ہم دنیا میں تو حید کو قائم نہیں کر سکتے دنیا تو در کنار خود اپنے گھر میں بھی تو حید قائم نہیں کر سکتے.یہ وہ پہلو تھا جس کے پیش نظر میں نے گزشتہ سال خدام کو تحریک کی تھی کہ جھوٹ سے توبہ کریں.اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ کتنے ہیں جنہوں نے اس تحریک کے بعد جھوٹ سے تو بہ کی ہے مگر جھوٹ کا جو مفہوم میں

Page 550

546 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم سمجھتا ہوں، جو جھوٹ میرے نزدیک شرک ہے وہ تو انسانی زندگی میں صرف خدام الاحمدیہ کی بات نہیں ساری انسانی زندگی میں اس طرح سرایت کر چکا ہے کہ بڑی بڑی عظیم اور شریف النفس قو میں بھی جو روز مرہ کی باتوں میں جھوٹ نہیں بولتیں ان کی زندگی کا کوئی نہ کوئی حصہ ضرور جھوٹ کا شکار ہو چکا ہوتا ہے اور اس پہلو سے توحید کل عالم میں پارہ پارہ ہوئی پڑی ہے.اس توحید کو ہم نے دوبارہ قائم کرنا ہے.اپنی ذات کے ہر پہلو سے جھوٹ کو نکال کے باہر پھینکنا ہے اور یہ جو جد و جہد ہے میں بار بار آپ سے گزارش کر چکا ہوں کہ مشکل ہے اتنا آسان کام نہیں ہے جتنا سننے سے معلوم ہوتا ہے.صرف ایک دن اپنی زندگی کا ایسا بنا کے دیکھیں جس میں فیصلہ ہو کہ صبح سے رات تک نہ جھوٹ بولنا ہے نہ ایسی بات کرنی ہے جو سچائی کو دہرے رنگ میں پیش کرتی ہے.اپنی اداؤں سے، اپنے کلام سے، اپنے روزمرہ کے سلوک سے، اپنے گھر میں، اپنے گھر سے باہر، آپ نے خدائے واحد کا نمونہ بن کر پھرنا ہے.ایک دن منا کر دیکھیں اور رات کو بیٹھ کر حساب کریں مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے.یہ حساب تو روز مرہ انسان کو کرنا ہی چاہیے.یہ یاد رکھیں کہ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَاب.آپ حساب نہیں کریں گے تو اللہ تو ساتھ ساتھ حساب کر رہا ہے اور وہ حساب میں بہت تیز ہے.تو کسی دن تو اپنا بہی کھاتہ کھولیں اور شام کے وقت ایسا دن منا کر جو تو حید کے لئے خالص ہو اپنا حساب کر کے دیکھیں.پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ کس حد تک آپ موحد بن چکے ہیں اور کس حد تک ابھی شرک کی ملونی باقی ہے.تو شرک کو جڑوں سے اکھیڑ پھینکنا یہ جماعت احمدیہ کا مقصد ہے اور اس صدی میں یہ مقصد جو ہم نے حاصل کرنا تھا.اس میں ابھی صرف تین سال باقی ہیں اسی لئے گھبراہٹ اور بے چینی کے ساتھ میں بار بار آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگلی صدی کے لئے ایک ہی تحفہ ہے جو ہم آگے بھیج سکتے ہیں وہ تو حید کا تحفہ ہے.اس صدی کے پرانے زنگ دور کریں.جو غفلتیں ہیں ان کو ختم کریں.جو بقیہ وقت ہے اس میں اپنے نفس کے محاسبہ میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور توحید کے قیام کے لئے جس حد تک کوشش ممکن ہے وہ کوشش کر دیکھیں اور ساتھ دعائیں کرتے رہیں کیونکہ دعاؤں کے بغیر ہماری کوئی کوشش بھی پھل نہیں لاسکتی.اس تعلق میں یعنی مضمون تو جیسا کہ میں نے عرض کیا بہت وسیع ہے اور اس کے سارے پہلو ایک مجلس میں بیان نہیں ہو سکتے مگر بعض پہلو بھی کھل کر بیان نہیں ہو سکتے یا کھول کر بیان نہیں کئے جا سکتے.اس سلسلے میں میں خطبات دے رہا ہوں.گزشتہ ایک دو سال سے تقریباً ہر خطبے میں اس مضمون کو کسی نہ کسی طرح داخل کرتا ہوں اور اسی مضمون کے آگے سلسلے چلے ہیں جو درحقیقت سب تو حید ہی سے ملتے ہیں.اگر آپ تو حید کو قائم کریں گے اور اپنی ذات میں قائم کریں گے تو آپ کے ہاتھ پر تو میں اکٹھی ہوں گی اور اس کے بغیر قومیں اکٹھی نہیں ہوسکتیں.اب آج

Page 551

547 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم آپ نے جو نظارہ دیکھا اس میں مختلف قوموں کے نمائندے اپنی اپنی قوم کے مقابلوں میں انعام لینے کے نتیجے میں آپ کے سامنے ظاہر ہوئے.کوئی بوسنین قوم سے تعلق رکھتا تھا، کوئی Albanian سے، کوئی جرمن قوم سے.غرض یہ کہ جتنی بھی تو میں یہاں اس وقت موجود ہیں وہ سب کی سب نہ سہی مگران میں سے بہت سی ایسی ہیں جنہوں نے مقابلوں میں حصہ لیا.اب یہ پہلو خاص طور پر توجہ کے لائق ہے کہ بظاہر اس سے توحید ٹوٹتی ہے لیکن جس مقصد کی خاطر میں نے یہ سلسلہ شروع کیا وہ تو حید کو توڑنے کے لئے نہیں تو حید کے قیام کی خاطر کیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ مختلف قوموں کو احمدیت کی طرف یا حقیقی (دین) کی طرف بلاتے ہیں پھر اگر ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیں اور ان کی وہ تربیت نہ کریں جو روایتا ایک سوسال سے زائد عرصے سے آپ کی ہو رہی ہے تو یہ بھی تو حید کے منافی ہے.آپ اور رنگ کے ہوں گے وہ اور رنگ کے بنیں گے.آپ دونوں کی روایات ایک نہیں ہوں گی.آپ کو جو خدا تعالیٰ نے سعادت بخشی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے ( رفقاء) سے تربیت پائی یعنی آپ میں اگر چہ وہ ( رفقاء ) تو موجود نہیں مگر بھاری اکثریت آج جو میرے سامنے ہے وہ ایسے احمدیوں پر مشتمل ہے جو پاکستان سے تعلق رکھا کرتے تھے یا پاکستان واپس جانے کا خوف دل میں رکھتے ہیں مگر کسی نہ کسی پہلو سے ان کا تعلق پاکستان سے نہ ہو ہندوستان سے ہو، ہندوستان سے نہ ہو بنگلہ دیش سے ہومگر ہے انہی لوگوں سے جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ظاہر ہوئے تھے اور آپ نے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو از سر نو اپنے پاک نمونے کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کیا.ان ( رفقاء) کے تربیت یافتہ خاندانوں سے آپ کا تعلق ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ ان سے کتنی دور نکل آئے ہیں.اگر ان پہلی نسلوں سے آپ کا توحید کے اخلاق کے معاملے میں بھی تعلق کٹ گیا تو ایک یہ بھی رخنہ ہے جو توحید میں پڑچکا ہے.یعنی آج سے سو سال پہلے یا پچاس سال پہلے خود آپ لوگوں کے جو بزرگ تھے، انہوں نے کیا کیا اعلیٰ اقدار ، اخلاق اور ایمان اور عمل میں حاصل کی تھیں.ان اعلیٰ اقدار سے اگر آپ جو اُن کی نسل سے ہیں، آپ کا تعلق ٹوٹ گیا ہے تو یہ تو حید منقطع ہونے کا ایک دوسرا نام ہے.توحید صرف آسمان پر قائم نہیں تو حید قوموں میں قائم ہے اور ہر فرد میں قائم ہوتی ہے.انسان کے تعلقات میں قائم ہوتی ہے اور خاندانوں کے نسلی تعلق میں بھی قائم ہوتی ہے.توحید کا ایک مضمون یہ ہے کہ پہلے لوگوں نے توحید کا جیسا حق ادا کیا تھا اگر گلے لوگوں نے وہ حق ادا نہ کیا فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ تو یہی وہ لوگ ہیں جو فسق و فجور میں مبتلا ہیں اور قرآن کریم نے لفظ فاسق کو تو حید توڑنے والوں کیلئے استعمال کیا ہے.اب بہت سی آیات ہیں جن کو پیش کیا جاسکتا ہے مگر ان سے پھر آگے تفسیری مضمون چل پڑیں گے.اسی

Page 552

مشعل راه جلد سوم 548 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی لئے میں ان کا حوالہ دیئے بغیر ان آیات کی روح آپ کے سامنے رکھتا ہوں قرآن کریم کی جو آیات آپ کے سامنے تلاوت کی گئیں تھیں ان میں یہی پیغام تھا.یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلَتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر : 19) اے وہ لوگو جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا جو ایمان لائے ہو اور تقویٰ کا دعویٰ رکھتے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ اور اس بات پر نظر رکھو کہ آنے والے کل کیلئے تم کیا چھوڑ کر جارہے ہو.اگر آنے والی نسلیں ویسی ہی بنیں گی جیسی تم ہو تو پھر تم واقعی متقی شمار ہو گئے.لیکن اگر تمہارے تقویٰ کی کمی کی وجہ سے اگلی نسلیں تم سے پھٹ گئیں تو پھر تم توحید پر قائم نہیں رہو گے پھر تم فاسق شمار ہو گے.ولَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَهُمْ أَنْفُسَهُمُ أُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ.ایسے لوگوں کی طرح نہ بنا جنہوں نے اپنے آباؤ اجداد کے کمائے ہوئے خدا کو بھلا دیا.اب یہ لفظ کمائے ہوئے کا جو محاورہ ہے یہ تو اس میں موجود نہیں مگر ان آیات کا مطالعہ کر کے دیکھیں تو یہی مضمون ابھرتا ہے.وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَانْسَهُمُ انْفُسَهُمُ کیونکہ وہ لوگ جو خود خدا کو یاد کرتے ہیں یعنی انبیاء کے تربیت یافتہ لوگ وہ خدا کو بھلایا نہیں کرتے.کوئی بھی جو سچائی کے ساتھ کسی خوبصورتی کا قائل ہوا کرتا ہے اس کو از خود بھلایا نہیں کرتا.آپ اپنے روز مرہ کے تجربے میں دیکھیں جو چیز آپ کو پیاری لگتی ہے اسی کو یاد کرتے ہیں اور جو چیز پیاری نہیں لگی وہ یاد بھی آئے تو ماتھے پر بل پڑنے لگتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ ایسے نہ بننا کہ جنہوں نے اللہ کو یا درکھا تھا اور پھر تم ان کی نسل سے ہوتے ہوئے اس خدا کو بھلا بیٹھے.یعنی خدا میں جو حسن انہوں نے دیکھا تھا وہ تم نے نہیں دیکھا.خدا سے جو تعلق ان لوگوں نے قائم کیا تھاوہ تم نہیں کر سکے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کے پیش نظر میں نے آپ کو آپ کے آباؤ اجداد کا حوالہ دیا.اگر چہ میں نے یہ کہا کہ بہت ایسی آیات ہیں جن کی تفسیر میں میں نہیں جاتا مگر یہ وہ آیات تھیں جن کی تلاوت آپ کے سامنے ہوئی تھی.اس لئے ان کے حوالے سے میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ مضمون ان میں یہی بیان ہوا ہے کہ خدا جب ایک دفعہ یاد کیا جائے تو اس لائق نہیں کہ اسے بھلا دیا جائے.وہ تو ایسی ذات ہے جس سے پیار بڑھا کرتا ہے جس سے تعلق دن بدن فزوں تر ہوتا ہے.پہلے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.پس ایسے خدا کو یاد کر کے پھر ایسی نسلیں پیچھے چھوڑ جاؤ جو اس کو بھلا دیں، بہت بڑا ظلم ہے اور یہیں سے شرک شروع ہوتا ہے.پس آپ لوگ اس پہلو سے بھی اپنی توحید کا جائزہ لیں.آپ میں کچھ ایسے ہیں ملاقات کے وقت کہتے ہیں ہمارے پڑدادا ( رفیق) تھے کوئی کہتا ہے ہمارا دادا (رفیق) تھا، اور بعض یہ بھی بتانے والے ملتے ہیں کہ ہمارے والد ( رفیق ) تھے مگر ایسے کم ہورہے

Page 553

549 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہیں جو والد کا ( رفیق) ہونا بتا ئیں مگر دادا کا اور پڑدادا کا بتاتے ہیں اور بڑے فخر سے ذکر کرتے ہیں لیکن ایسی ملاقاتوں کے وقت میرا یہ کام تو نہیں کہ ان سے پوچھوں کہ کیا تم میں بھی ( رفقاء) کے کوئی آثار پائے جاتے ہیں یا نہیں.مگر جس طرح فخر کیا جاتا ہے اس فخر کا تقاضا یہ ہونا چاہیے.میں نہ پوچھوں آپ تو پوچھا کریں، آپ تو اپنے دل سے پوچھا کریں کہ ہم جن اعلیٰ اخلاق والے صاحب کردار لوگوں کی نسل ہیں جنہوں نے وقت کے امام کو قبول کیا اور باوجود اس کے قبول کیا کہ ان کے والدین نے ، ان کی سوسائٹی نے ،ان کے خاندان نے ،سب نے اس کو رڈ کر دیا تھا.کیوں قبول کیا تھا ؟ اس لئے کہ ان کے دل اس یقین سے بھر گئے تھے کہ یہ نمائندہ خدائے واحد ویگانہ کا نمائندہ ہے.پس اللہ کے حضور انہوں نے سر جھکا دیے اور غیر اللہ کی نفی کر دی.پس امام وقت کو قبول کرنا درحقیقت تو حید کے سامنے سرخم کرنا ہوا کرتا ہے.ان لوگوں کی نسل سے ہوتے ہوئے کیا آپ نے غیر اللہ کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا ہے.کیا آپ بھی روز مرہ کی زندگی میں صرف اُس ایک خدا کے حضور سر جھکاتے ہیں جس کے سامنے آپ کے باپ دادا نے سر جھکائے تھے؟ اگر نہیں تو پھر قرآن کریم کا یہ فتویٰ ہے کہ اُولئِكَ هُمُ الفَسِقُونَ یہی وہ لوگ ہیں جو فاسق ہیں یا فاسق ہو جائیں گے.ان کے خدا سے ہٹتے ہوئے دور ہونے کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا.یعنی کچھ نہیں کہا جا سکتا میری طرف سے الفاظ ہیں معنے یہ ہیں اگر یہ لوگ تبدیلی پیدا کریں اگر ان کے اندر ایک فیصلے کا دن آجائے وہ فیصلے کا دن جس میں یہ اقرار کریں کہ اے خدا! ہم تیرے سوا اب کسی کی عبادت نہیں کریں گے.وہ فیصلے کا دن آجائے جس میں ان کی نمازیں بول اٹھیں کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.اے ہمارے رب صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تیری عبادت کریں گے.وَايَّاكَ نَسْتَعِينُ اور تیرے سوا کسی اور سے مدد نہیں مانگیں گے.وہ ایک دن آپ کے زندہ ہونے کا دن ہو گا وہ ایک دن آپ کی ذات میں توحید کے قیام کا دن ہوگا اور اس کے نتیجے میں آپ کے اخلاق کی کایا پلٹ جائے گی.جب خدا کو خدا مانیں گے اور اپنی بندگی کا اقرار کریں گے، اپنی ذات میں کسی حسن کو کسی خوبی کو کسی طاقت کو نہیں دیکھیں گے تو لوگوں کے سامنے جھک کر چلیں گے.جیسا قرآن کریم فرماتا ہے هَونًا عَلَى الْأَرْضِ یہ اللہ کے پاک بندے زمین پر نرمی سے چلتے ہیں تکبر سے نہیں چلتے.رفتہ رفتہ ان میں سے ایسے ہیں جو اس طرح اپنی عاجزی میں غرق ہو جاتے ہیں کہ زمین پر ہر قدم جو پڑتا ہے وہ ان کے دل پر چوٹ لگاتا ہے کہ میں کون ہوں اس زمین پر اس طرح اس کو روندتے ہوئے چلنے والا.یہ وہ خدا کے بندے ہیں جو توحید میں غرق ہوتے ہوتے توحید میں پنہاں ہو جاتے ہیں اور پھر ان سے خدا کے وہ بندے اٹھتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ دوبارہ دنیا میں توحید کے قیام کے لئے ہدایت

Page 554

550 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم فرماتا ہے ایسے ہی لوگ ہیں جن سے پھر آگے نبی بنتے ہیں مگر اس مقام تک نہ پہنچیں.اس کے پیچھے چلنے والوں کے ادنی تقاضوں کو تو پورا کریں.کیونکہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کے بعد پھر اگلا حکم یہی ہے کہ اگر واقعہ اے میرے بندو! تم میری ہی عبادت کرتے ہو مجھ سے مدد چاہتے ہو تو میں تمہیں مدد کا رستہ دکھاتا ہوں.یہ دعا کرو اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اے ہمارے اللہ ! ہمیں اُس سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرماصِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ ان لوگوں کا رستہ جن پر تو نے انعام فرمایا تھا.ہمیں توفیق بخش کہ ہم ان کے پیچھے چلیں.وہ رستہ تو بہت دور تک آگے چلا جاتا ہے.اس قافلے کے سر پر تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے بڑھ کر قدم اٹھا رہے ہیں مگر پیچھے آنے والوں میں سے وہ جلوس جو آخرین تک آپہنچا ہے اس جلوس کی قیادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں.ان کے پیچھے آپ کے آباؤ اجداد بھی تو ہیں.اے جماعت جرمنی کے احمد یو! جن کے آباؤ اجداد میں ( رفقاء ) یا ( رفقاء) سے تربیت پانے والے لوگ تھے یہ سوچا کرو کہ جس خدا کی توحید کا آپ نے اقرار کیا، جس کی عبادت کے وعدے کئے ، جس سے مدد مانگی، اس کی یہ آواز بھی تو سنو کہ اگر تم مجھ سے مدد چاہتے ہو تو مجھ سے یہ دعا کرو کہ تم سے پہلے جو نیک رستوں پر چلنے والے نیک لوگ تھے تم ان کے پیچھے چلو گے.تو وہ جو فرق پڑا تھا تو حید کا اس میں ایک شبہ یہ پڑتا ہے کہ پہلے لوگوں کی غفلت کی وجہ سے آپ لوگوں کی تربیت میں کمی آگئی ہومگر یہ جو دوسرا پہلو میں بیان کر رہا ہوں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خود آپ کی غفلت ہے کہ آپ ان کے پیچھے نہیں چل رہے.انہوں نے تو گرتے پڑتے جیسا بھی بن پڑی خدا سے انعام پانے والوں کی پیروی کی تھی.وقت کے تقاضوں کے خلاف ان کی پیروی کی تھی.بڑھتی ہوئی مخالفتوں کے باوجود ان کی پیروی کی تھی.وہ تو آگ کے شعلوں سے گزر کر بھی اس قافلے کے پیچھے ہی چلتے رہے.کئی ان میں سے ایسے بھی تھے جو واقعہ زندہ جلا دیے گئے کئی وہ تھے جو پتھراؤ کے نتیجے میں رستوں کا ڈھیر ہو گئے مگر پیچھے چلنا نہیں چھوڑا.آپ ان کی اولاد ہیں.ان آباؤ اجداد کی نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں.تو تو حید کو اس طرح بھی تو قائم کریں کہ خدا سے جو مانگا کہ اے خدا! ہم تیری عبادت کرتے ہیں.اس نے جو آپ کو سمجھایا کہ میری عبادت کرتے ہو تو پھر ان لوگوں کے پیچھے چلو جو نیک لوگوں کے رستوں پر چلنے والے لوگ تھے.اس رستے کو کیوں چھوڑ بیٹھے ہو.اپنے آباؤ اجداد کی نیکیوں کو زندہ رکھو پس اسی پہلو سے میں بار بار آپ کو توجہ دلاتا رہا ہوں اور سب دنیا کو توجہ دلاتا رہا ہوں کہ اپنے آباؤ اجداد

Page 555

551 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کی نیکیوں کو زندہ رکھو.اپنے گھروں میں ان کا ذکر خیر چلایا کر واپنے ماں باپ سے سنا کرو کہ وہ کون لوگ تھے، مگر میں نے تو اکثر نئی نسل کے بچوں سے جب سوال کئے ہیں تو مشکل سے باپ کا نام پا یا درہتا ہے اور ماں کا مما اور اس سے آگے چلیں تو ان کو کچھ پتا نہیں کہ وہ کون تھے.ان کی لاعلمی کے ذمہ دار آج کی نسل کے بڑے بزرگ لوگ ہیں.ان پر لازم ہے کہ اپنے آباؤ اجداد کی جستجو کریں.خود تلاش کریں کہ وہ کون تھے اور دین کی راہوں پر انہوں نے کیا کیا قربانیاں کی تھیں؟ پھر اگلی نسلوں کو وہ باتیں بتائیں اور جب یہ بتائیں گے تو لازماً جو انہوں نے کھویا تھا اس کے ذکر کے ساتھ جو پایا ہے وہ بھی تو بتانا ہوگا.کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ خدا کے راستے میں کھونے والے کچھ پانہ رہے ہوں.ان کا کھونا پانے کے نتیجے میں ہوا کرتا ہے.ایک ہاتھ سے وہ جو کچھ ان کا تھاوہ بظاہر ضائع کر رہے ہوتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ سے وہ کچھ لے رہے ہوتے ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتا، جو عطا کا ایک نہ ختم ہونے والا ، ایک جاری وساری سلسلہ ہے.ایک ایسے رازق خدا کی طرف سے ہے جس کا رزق ساری کائنات بھی وہ بخش دے تو پھر بھی ختم نہیں ہوگا.پس پانے کے نتیجے میں کھونے کا غم کم ہوتا ہے اور یہ ایک طبعی اور لازمی حقیقت ہے، جو انسانی فطرت کی گہرائی سے تعلق رکھتی ہے.جب تک اس کو آپ نہیں سمجھیں گے تو تربیت کے رازوں سے ناواقف رہیں گے.پس وہ لوگ جو اپنے آباؤ اجداد کا ذکر اس طرح کرتے ہیں کہ انہوں نے احمدیت کی راہ میں یہ کچھ کھویا، اگر یہیں کھڑے ہو گئے تو حقیقت میں وہ اس مضمون کا حق ادا نہیں کر سکیں گے.بلکہ بعض دفعہ غلط پیغام دے رہے ہوں گے.گویا ہمارے آباؤ اجداد تھے جنہوں نے احمدیت پہ یہ احسان کئے تھے جن کے نتیجے میں احمدیت قائم ہوئی.اسی قسم کے غلط متکبرانہ خیال کی نفی کے طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْ لَا تَمَنَّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ.یعنی ایسے لوگوں کو اے رسول یہ کہہ دیا کر لَا تَمَنَّوا عَلَی اِسْلَامَكُمْ.مجھ پر اپنا اسلام نہ جتایا کرو.اسلام تو تم پر جتانے والی چیز ہے.اسلام نے تو تمہاری کا یا بیٹی ہے تمہارے اندر عظیم تبدیلیاں پیدا کی ہیں.بے وقوفو! یہ سوچو کہ اسلام کے کتنے احسانات ہیں.تو ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو تو حید کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ اپنے آباؤ اجداد کے اوپر جو خدا کے فضل نازل ہوئے ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے پھر ان سے احسانات کے سلسلے کئے ہیں، ان کا بھی ذکر خیر چلے.یہ بھی تو بتایا کرو کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ان کو رد کیا اور کشوف میں آئندہ کی خبریں دیا کرتا تھا.کس طرح مشکل وقتوں میں ان کا سہارا بنا کرتا تھا.وہ کیا تھے انہوں نے کیا کھویا تھا، اور پایا کیا.اور ان کی نسلیں کس طرح دنیا میں پھیل گئیں اور عظیم الشان ترقیات حاصل کیں؟ یہ باتیں بھی ساتھ بتائی جائیں تو ایسی صورت میں نئی نسل کا پچھلی نسل سے تعلق ٹوٹ سکتا ہی نہیں.کل کی جرمن مجلس میں ایک مخلص

Page 556

552 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم جرمن نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ میں یہاں پرانے لوگوں اور نئے لوگوں کے درمیان ایک فرق دیکھ رہا ہوں اور ان کے درمیان ایک Gap جس کو انگریزی میں Generation Gap کہا جاتا ہے یہاں بھی انہوں نے یہی لفظ استعمال کیا کہ نسلوں کا فرق ایسا پڑ گیا ہے کہ گویا درمیان میں ایک فصیل حائل ہوگئی ہے.پہلی نسل کا دوسری نسل سے تعلق ٹوٹ گیا ہے.ان کو جو میں نے بتایا جو کچھ کہا اس کا مختصر ذکر میں بعد میں بھی کروں گا لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ، دیکھنے والی آنکھ نے باہر سے یہ محسوس کیا اور توحید کے قیام کے خلاف ہے یہ نسلوں کا فرق ہونا.یعنی ایسا فرق جو ایک نسل کی خوبیوں کو دوسری نسل سے کاٹ دیتا ہے مگر ایک نسل کی برائیوں کو دوسری نسل سے کاٹنا توحید کے خلاف نہیں ہے کیونکہ ہر نیکی تو حید ہے.ہر بدی اور ہر جھوٹ غیر اللہ ہے.پس مذہب کی دنیا میں یہ اس قسم کا انگریزی محاورہ نہیں پایا جاتا کہ ایک نسل کا دوسری نسل سے کوئی Gap نہ ہو، کوئی جدائی نہ ہو.اگر یہ ہوتا تو پھر انبیاء ہی پیدا نہ ہوتے.دیکھو انبیاء جدائیاں پیدا کرتے ہیں اور بعض دفعہ ان کا جدائیاں پیدا کر نادشمن کے لئے کئی قسم کے شبہات پیدا کر دیا کرتا ہے.وہ کہتے ہیں کیسے لوگ آئے ہیں جنہوں نے ہمیں اپنے پہلوں سے کاٹ دیا ہے.انبیاء بدیوں کو کاٹنے والے ہوتے ہیں پس یا درکھو کہ تو حید جہاں جوڑتی ہے وہاں کاٹتی بھی ہے اور محض فرضی نعرہ بازی توحید کا کام نہیں ہے.چنانچہ سب انبیاء پر اُن کی قوموں نے جو بڑے بڑے اعتراض کئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ تم تو ہمیں اپنے آباؤ اجداد سے کاٹ رہے ہو.چنانچہ بعض دفعہ Bosnians کی میٹنگ میں بعینہ یہی سوال اٹھا کہ تم احمدیت لے کر کیا آئے ہو.کیا ہماری فوجوں ، ہمارے بڑوں ، ہمارے آباؤ اجداد سے کاٹ کر ہمیں الگ کر دو گے؟ ان کو میرا یہی پیغام ہے جو انبیاء نے اپنی قوم کو دیا تھا کہ دیکھو ہم تمہیں غلط باتوں سے کاٹ رہے ہیں نیکیوں سے نہیں کاٹ رہے.تمہیں کس نے بتایا ہے کہ تمہارے ماں باپ ہمیشہ سچ ہی بولا کرتے تھے.تمہیں کس نے کہا کہ تمہارے ماں باپ کچی تو حید پر قائم تھے.تم یہ دیکھو کہ ہم کن باتوں سے کاٹ رہے ہیں اور کن باتوں کو جوڑ رہے ہیں.جن باتوں کو کاٹنا مقصود ہے ان باتوں کو ہم کاٹ رہے ہیں.بدیوں کو کاٹ رہے ہیں، جھوٹ کو کاٹ رہے ہیں فسق و فجور کو کاٹ رہے ہیں، منافقت کو کاٹ رہے ہیں ،سوسائٹی کو سیدھا اور پاک اور صاف کر رہے ہیں، تکبر سے پاک کر رہے ہیں، شرک سے پاک کر رہے ہیں، ایک دوسرے پر تعلمی کرنے سے اور ایک دوسرے پر ظلم سے پاک کر رہے ہیں، اگر تم یہ کہتے ہو کہ یہ کاٹنا برا ہے تو پھر تمہاری بڑی حماقت

Page 557

553 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہے.انبیاء تو بدیوں کو کاٹنے والے ہوا کرتے ہیں اور اگر پہلی نسلوں میں بدیاں قائم ہو چکی ہوں تو اس کی اولادوں کو پہلی نسل سے کاٹا کرتے ہیں اور اگر وہ نہ کاٹیں تو ان کے ماں باپ اپنی اولادوں کو کاٹ کر الگ پھینک دیا کرتے ہیں.چنانچہ انبیاء کوقبول کرنے کی جو کہانی ہے وہ ساری دنیا میں ایک ہی طرح چلی ہے.اس میں کبھی آپ کوئی فرق نہیں دیکھیں گے.آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک اور آج پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صورت میں یہی کہانی ہے جو دوبارہ زندہ کی جارہی ہے.احمدیت پرانی نسلوں سے اس وقت کاٹتی ہے اور ان سے کاٹتی ہے جو بُرائیوں پر قائم ہوں اور جہاں تک نیکیوں کا تعلق ہے نیکیوں سے جوڑتی ہے اور اس طرح نئے رشتے قائم ہوتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جو گزشتہ انبیاء کے وارث بن جایا کرتے ہیں، کیسے وقت میں پیدا ہوئے اور کن وقتوں سے جاملے؟ یہ توحید کا ایک دوسرا پہلو ہے.یعنی غلطیوں سے برائیوں سے کاٹنے والی ، نیکیوں سے جوڑنے والی اور فاصلے پاٹ دینے والی ، فاصلے پیدا کرنے والی نہیں.پس نادان ہیں جو یہ دیکھتے ہیں کہ احمدیت نے تو فاصلے پیدا کر دیے.Bosnians کو Bosnians سے الگ، Albanean کوAlbanean سے الگ کر دیا.مگر نہیں جانتے کہ الگ کر دیا تو ملایا کس سے ملایا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے.اس آیت کا نشان بن گئے جس میں قرآن کریم نے پیشگوئی کی تھی وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ محمد رسول الله ان آخرین میں بھی پیدا ہوں گے جو آج تک کے لوگوں سے ملے نہیں مگر جب ملیں گے تو ایک کر دیں گے پہلوں کو دوسرں سے ملا دیں گے دوسروں کو پہلوں سے ملا دیں گے.پس دیکھو جہاں کاٹنے کا مضمون ہے وہاں توحید میں ایک جوڑنے کا بھی مضمون ہے مگر تو حید اچھے لوگوں سے جوڑتی ہے اور برے لوگوں سے کاٹتی ہے.اس پہلو سے احمدیت میں عظیم الشان نمونے دکھائے گئے ہیں.حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کا صبر و استقامت ایک سیالکوٹ کے جلسے کے بعد کا نمونہ تھا جو میں پہلے بھی آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں.غالباً مولوی برہان الدین صاحب کا تھا وہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سیالکوٹ کا جلسہ جب ختم ہوا تو مخالفین نے بہت دور دور تک گھیرے ڈالے ہوئے تھے اور اڈے بنائے ہوئے تھے کہ اس جلسے سے جو احمدی بکھر کر دور ہٹیں گے یعنی اجتماعی طاقت سے الگ الگ ہوں گے اس وقت ان پر حملہ کیا جائے گا.اس وقت مولوی برہان الدین صاحب

Page 558

مشعل راه جلد سوم 554 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ کو ایک ایسے ہی جتھے نے پکڑ لیا اور بہت مارا اور بہت ذلیل کیا لیکن ہر دفعہ وہ سبحان اللہ سبحان اللہ پڑھتے جاتے تھے.کہتے اللہ کی شان دیکھو مجھے خدا نے کیسا مرتبہ دیا.مارنے والے اور بظاہر ذلیل کرنے والے حیران ہوئے اور ایک شخص نے گوبر وہاں سے اٹھایا اور ان کے منہ پر ملا اور ان کی آنکھوں میں گیا ان کے ناک میں گھسا ان کے منہ کے اندر چلا گیا اور وہ سبحان اللہ پڑھتے رہے کہ واہ واہ! اللہ کی کیا شان ہے.مجھ جیسے بر ہانے کو اٹھا کر کن لوگوں سے ملا دیا.کسی پوچھنے والے نے ان سے پوچھا کہ یہ تم کیا باتیں کر رہے ہو یہ تو پاگلوں والی باتیں تھیں.انہوں نے کہا یہ پاگلوں والی باتیں نہیں.یہی تو تھیں جوحق کی باتیں ہیں جو سچائی کی باتیں ہیں.ایک پیشگوئی قرآن کریم نے فرمائی تھی تیرہ سو سال پہلے کہ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آخرین میں ظاہر ہوں گے جب ظاہر ہوں گے تو آخرین کو پہلوں سے ملا دیں گے.میں جب پڑھا کرتا تھا تو سوچا کرتا تھا کہ کہاں وہ زمانے تیرہ صدیاں حائل ہوگئیں بیچ میں.کہاں عرب کے لوگ کہاں پنجاب کے ڈھنگے کہلانے والے باشندے جن کو بعض باہر کے لوگ ہندوستان کے بیل، گائے بھینسیں قرار دیا کرتے تھے.کہاں ہم لوگ کہاں وہ لوگ مگر دیکھو! مرزا غلام احمد آف قادیان کو دیکھو ! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی غلامی کی کہ آپ کی ذات میں محمد مصطفیٰ دوبارہ ظاہر ہوئے اور قرآن کی اس پیشگوئی کو کس شان سے پورا کر دیا وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمعة : 4) کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جب دوبارہ آئیں گے تو ان کا دوبارہ آنا ظاہری طور پر چاند سورج کی طرح چمکے گا.دنیا دیکھ لے گی کہ یہ وہی ہے جو آیا ہے.کیونکہ اس کے ماننے والوں پر جو جو ظلم وستم اس کے زمانے میں ہوئے تھے وہ دوبارہ اس شبیہ کی صورت میں جو شبیہ آنحضرت کے آنے کو دوبارہ آنا قرار دے رہی ہوگی ،اس کے غلاموں کے اوپر پورے کئے جائیں گے.وہ ساری باتیں ان کے حق میں پوری ہوں گی.پس وہ جو سبحان اللہ پڑھ رہے تھے.وہ اس بات پر پڑھ رہے تھے کہ ملکے کی گلیوں میں تو کبھی بلال گھسیٹا جاتا تھا، کبھی اور طرح طرح سے غلاموں اور ادنی اور غریب لوگوں کو سزائیں دی جاتی تھیں.آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر میری قوم نے مجھ سے بھی وہی سلوک کیا ہے.تو دیکھو یہ کاٹا جانے کا مضمون ہے تو حید ایک طرف کاٹ رہی ہے، اپنی سوسائٹی سے الگ کر رہی ہے اور اتنا الگ کر رہی ہے کہ وہ جو پہلے عزت کرنے والے تھے وہ اتنے دشمن ہو گئے کہ ہر قسم کی غیر انسانی حرکتوں پر اتر آئے مگر ملایا تو کن سے جا ملایا.رفقاء سے جا ملایا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ھے سے ملا جب مجھ کو پایا

Page 559

مشعل راه جلد سوم 555 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی اے دنیا سے کاٹے جانے والو! جن کو دنیا نے حقیر اور ذلیل کر کے چھوڑ دیا ہے.یہ بھی تو سوچو تم کن سے جاملے ہو یہ وہ تو حید ہے جو زمانوں کو پالتی ہے اور قوموں کے تفرقوں کو مٹا دیا کرتی ہے.نیک لوگوں کا نمونہ اپنائیں پس اس توحید پر قائم ہونا آپ کے لئے از بس ضروری ہے.اس پہلو سے اپنے ماں باپ کا فخر سے ذکر کریں یعنی فخر ان معنوں میں کہ وہ بہت اچھے لوگ تھے.مگر اپنی بڑائی کے معنوں میں نہیں.ان معنوں میں کہ ہمیں دیکھو ہم بھی تو ان سے مل رہے ہیں.ہم غیروں سے کاٹے جا رہے ہیں اور نیک لوگوں کی صفات کو اپنا رہے ہیں.ان جیسے ہورہے ہیں.اگر آپ یہ دعوی کر سکتے ہیں تو آپ تو حید کے علمبر دار ہیں.اگر آپ نیکیوں سے سرک کر بدیوں کی طرف حرکت کر رہے ہیں تو پھر آپ ہر گز تو حید کے علمبردار نہیں ہیں.آپ فسق و فجور کے علمبردار بن جائیں گے.پس تو حید کو محض نعروں کے لئے نہ رکھیں.تو حید کو غور سے دیکھتے دیکھتے ایک ایک پہلو پر نظر رکھتے ہوئے ، اس کی باریک راہوں کو اختیار کرتے ہوئے، اپنی ذات میں جاری کریں اور جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا.ہر قسم کے جھوٹ سے تو بہ کر لیں.یہ جتنی مثالیں میں دے رہا ہوں یہ جھوٹ ہی ہے.آبا ؤ اجداد نے بڑے کام کئے.اپنے ان بڑے کاموں کے متعلق سر بلندی دکھاتے ہوئے ان کے ذکر خیر کو اچھالا کہ ہمارے آباؤ اجداد یہ ہوا کرتے تھے یہ ہوا کرتے تھے.جھوٹ یہ ہے کہ آپ ویسے نہیں ہیں اگر فخر تھا تو سچی بات جس پر فخر ہوا کرتا ہے انسان و یسا بننے کی کوشش کرتا ہے.روزمرہ کی زندگی میں لوگ ایکٹریوں کی بھی نقل کرتے ہیں، ایکٹروں کی بھی نقل کرتے ہیں، کھلاڑیوں کی نقلیں کرتے ہیں اور کوئی چیز بھی جس کو وہ پسند کرتے ہیں اس سے روگردانی نہیں کیا کرتے.ویسا بننے کی کوشش کرتے ہیں.تو آپ بھی ان جیسا بنے کی کوشش کریں.یہ حق ہے.یہ تو حید کا دوسرا نام ہے.اپنے پہلوں اور بعد والوں میں کوئی تفریق نہ پیدا ہونے دیں، جو تو حید کے منافی ہو.پس وہ مضمون جو دیکھنے میں آسان دکھائی دیتا تھا جب میں اس کی تفصیل بیان کرتا ہوں تو دیکھو کتنا مشکل اور مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جارہا ہے.مگر ہم نے لازماًیہ کرنا ہے اسکے بغیر ہم دنیا میں جینے کا حق نہیں رکھتے.ہمیں دنیا کو تو حید کی طرف بلانے کا کوئی بنیادی طور پر استحقاق ہی نہیں پیدا ہوتا اور بلا نا ہم نے ضرور ہے.یہ وہ راہ ہے جسے ہم اختیار کر چکے ہیں.خواہ اس راہ پر مارے جائیں ، اب ہم نے پیچھے نہیں ہٹنا اور اس پہلو سے صدی کے دیکھو کتنے تھوڑے سال باقی ہیں.اس صدی کو اگلی صدی سے اس طرح ملانا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صدی کا آغاز اس

Page 560

556 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اگلی صدی سے جُڑ جائے اور پھر یہ سارے لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کا مضمون دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہوں.آنے والے بھی رفقاء سے ملیں.یعنی رفقاء کا رنگ اختیار کر چکے ہوں.یہ کام بہت مشکل ہے مگر آسان بھی ہے.مشکل تو اس لحاظ سے کہ بہت لمبے سفر کرنے ہیں.اپنی زندگی میں بہت جھاڑ پونچھ کرنی ہے.بہت کچھ دیکھنا ہے کیا کیا خرابیاں، کیا کیا گند، کیا کیا داغ لگے ہوئے ہیں، کیا کیا گندی عادتیں پڑ چکی ہیں مگر آسان اس لئے ہے کہ اللہ کو آوازیں دیتے ہوئے چلنا ہے.بچے دل سے اس کو بلاتے ہوئے آگے چلنا ہے.اپنے بجز کا اقرار کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے.اللہ کے حضور بھکاریوں کی طرح بھیک مانگتے ہوئے آگے بڑھنا ہے.إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اے خدا ہم تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے مگر بہت کمزور ہیں، تجھ سے مدد مانگتے ہیں.تجھ سے مدد مانگتے رہیں گے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے رہیں گے.تو ہماری نصرت فرما.کبھی دل ڈال کر ان آیات کو پڑھ کے تو دیکھو.کبھی ان دعاؤں کو حرز جان تو بناؤ کبھی اٹھتے بیٹھتے یہ سوچا تو کرو کہ اے اللہ ! ہم میں کوئی طاقت نہیں مگر چاہتے ہم ضرور ہیں کہ تیری عبادت کریں اور تیرے سوا کسی کی نہ کریں.پھر دیکھو اللہ تعالیٰ اس سفر کو کتنا آسان کر دے گا.قدم قدم پر تمہاری نصرت فرمائے گا تم پر ظاہر ہوگا تم کو اپنے پہلوں سے ملائے گا اور تم جانو گے کہ ہاں تم پہلوں سے مل رہے ہو.تمہاری زندگی میں ایک حق ظاہر ہوگا.جھوٹ سے تمہیں نفرت ہوتی چلی جائے گی اور تمہاری زندگی کے سب دوغلے پن ،سب دوئی دور ہو جائے گی.سچائی کو اپنی زندگی کا شعار بنالیں یہ وہ مضمون ہے جو میں سمجھا سمجھا کر تھکتا نہیں ہوں کیونکہ میرا کام ہے.زندگی کے آخری سانس تک میں آپ کو یہی پیغام دیتا رہوں گا.اس کے سوا میری زندگی کا اور کوئی مقصد نہیں.حق پر قائم ہوں، سچائی کو اپنی ذات میں قائم کریں، سچائی کو اپنی زندگی کا شعار بنالیں، اپنی ادائیں بنالیں.اپنے گرد و پیش سچائی کا نور پھیلائیں تا کہ سارے اس سچائی کے اوپر عاشق ہوتے ہوئے آپ کے ساتھ اس قافلے میں آگے بڑھنے لگیں.اس کے سوا قوموں کو کیسے آپ باندھ سکتے ہیں.جب تو حید کا دامن چھوڑیں گے، تو میں بکھر کر الگ الگ ہو جائیں گی.جرمن جرمن ہو جائیں گے، بوسنین بوسنین بن جائیں گے، البانین البانین بن کر آپ سے جدا ہو جائیں گے، افریقن افریقن ہو کر آپ کو سلام کریں گے کہ آپ اپنے رستے پر چلیں ہم اپنے رستے پر چلتے ہیں.توحید کے سوا کوئی بندھن ہے ہی نہیں جو عالمی بندھن ہو، جو انسان کو انسان کے ساتھ

Page 561

مشعل راه جلد سوم 557 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ باندھ رہا ہو اور توحیدان سارے اخلاق کا نام ہے جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں.ان کو اپنی ذات میں پیدا کریں تو پھر بے اختیار دنیا کی ساری قومیں آپ سے جڑیں گی کیونکہ آپ نہیں ہوں گے، آپ خدا کے مظہر بن چکے ہوں گے.آپ خدائے واحد و یگانہ کی صفات کو دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہوں گے.بیوت الذکر توحید کا نشان ہیں یہی وہ امور ہیں جن کے پیش نظر میں نے ( بیوت الذکر ) کی بھی تحریک کی تھی کیونکہ (بیوت الذکر ) توحید کا نشان ہیں.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے، لوگوں سے پوچھا ہے.مجھے یہ محسوس ہورہا ہے کہ ابھی جماعت جرمنی میں سو ( بیوت الذکر ) بنانے کے لئے اعتماد نہیں پیدا ہوا.بہت لمبا عرصہ پہلے میں نے تحریک کی تھی اور آج تک کل مراکز آپ صرف پندرہ بنا سکے ہیں جن میں پہلے کی بنی ہوئی ( بیوت الذکر ) بھی شامل ہیں یعنی فرینکفرٹ کی ( بیت الذکر ) بھی اور ہمبرگ کی (بیت الذکر ) بھی.تو اس خیال سے جہاں تک میں نے جائزہ لیا لوگوں کے دل بیٹھے ہوئے دکھائی دیے.وہ سمجھتے ہیں میں تحریکیں تو کرتا ہوں مگر بعض دفعہ دیکھتا نہیں کہ طاقت ہے بھی کہ نہیں مگر میں جو تحریک کرتا ہوں میرا ذہن تو حید کی طرف جاتا ہے اور توحید سے جو طاقت نصیب ہوتی ہے اس کی طرف جاتا ہے اور توحید کی طاقت سے بسا اوقات ناممکن دکھائی دینے والی چیزیں بھی ممکن ہو جایا کرتی ہیں لیکن توحید میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد بھی داخل ہے اور جو بلند ارادے کئے ہیں ان ارادوں کی تائید میں اپنی ساری طاقتوں کو ڈھال دینا بھی شامل ہے.پس اگر چہ ارادہ بہت بڑا دکھائی دیتا ہے مگر اگر آپ سب یہ دل میں عہد کریں کہ ہم نے یہ کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے تو پھر آگے بڑھنا آپ کا کام ہے، تو کل کرنا آپ کا کام ہے.پھر اس کی مرضی اگر وہ چاہے گا تو سو ( بیوت الذکر ) کی توفیق دے گا.نہیں چاہے گا تو نہیں دے گا مگر آپ سے پھر کوئی شکوہ نہیں مگر اگر ہمت ہار بیٹھیں اگر سفر شروع نہ کریں اور اگر گزشتہ سالوں کو آپ شامل کر لیتے تو اب تک خدا جانے کتنا آگے بڑھ چکے ہوتے.تو اب تو صرف تین سال باقی ہیں.تین سال میں کچھ نہ کچھ ضرور ہو سکتا ہے لیکن اس کے لئے اب آپ کو اپنے آپ کو منظم کرنا ہوگا اور منظم کرنے کے لئے بہت سے ایسے طریق ہیں جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں.چند باتیں جو باقی وقت ہے اس میں اب میں آپ کو سمجھاؤں گا.

Page 562

مشعل راه جلد سوم 558 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ سب سے پہلی بات تو یہ یا درکھیں کہ اگر مرکزی کسی ایک کمیٹی کو یہ کہا جائے کہ آپ (بیت الذکر ) Plan کریں یعنی (بیوت الذکر) کے منصوبے بنا ئیں ، تو سال بھر تو ان کو منصوبے بنانے میں لگ جائے گا اور جب وہ بنائیں گے تو پھر سوچیں گے کہ ایک کو پہلے ہاتھ ڈالیں یادو کو ڈالیں یا تین کو ڈالیں.تو تین سال تو انہی باتوں میں گزر جائیں گے اور بمشکل ایک دو یا تین کے سوا وہ کچھ بھی آپ کے سامنے پیش نہیں کر سکیں گے یا خدا کے سامنے پیش نہیں کر سکیں گے.جب جلدی کے وقت ہوں تو اسی نسبت سے تنظیم کو اعلیٰ ، بالکل واضح اور قطعی ہو جانا چاہیے.اس لئے پہلی میری نصیحت تو آپ کو یہ ہے کہ جماعت جر منی اگر ایک کمیٹی بنائے تو اس کو چند دن معین دیں.ان معین دنوں کے اندر اندر آپ سو ( بیوت الذکر ) کی جگہیں طے کریں، علاقے طے کریں اور ان علاقوں سے وابستہ جماعتوں کو متعین کریں کہ یہ جماعتیں مل کر ان علاقوں کا خیال کریں گی اور ان علاقوں میں پھر فوری طور پر مرکزی کمیٹیاں بنائیں.جن کا کام ہو کہ آج ہی سے وہ اجازتیں بھی لینا شروع کریں حکومت سے.زمین کی تلاش شروع کریں اور پھر جو بھی مالی ضرورت پیدا ہوگی آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو پورا کرتا چلا جائے گا مگر سو جگہوں پر مسلسل ساتھ ساتھ کام ہونا ضروری ہے.آج ہی سے شروع ہونا چاہیے.کل کا انتظار بے سود ہے کون سا وقت ہمارے پاس رہ گیا ہے.اس لئے سو ( بیوت الذکر) کے لئے الگ الگ کمیٹیاں اپنی اپنی ( بیت الذکر ) کے لئے فوری طور پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور یہ فیصلہ شروع کریں کہ کہاں سب سے اچھی بہترین جگہ مل سکتی ہے اور پھر اس کے متعلق انتظامی کارروائیاں فورا شروع کریں.جو زمین جتنے کی ملتی ہے اس کے متعلق امیر صاحب کو لکھیں ، امیر صاحب ساتھ ساتھ مجھے لکھنا شروع کریں تو بجائے اس کے کہ ایک مرکزی کمیٹی دویا تین ( بیوت الذکر ) کی پلاننگ کر کے منظور یاں لے ستر اسی لاکھ کا منصوبہ بنائے.ایسا منصوبہ بنائیں جس پر روزمرہ عمل کیا جا سکتا ہے اور وہ اسی طرح ہے کہ ہر حصے کی کمیٹیاں الگ الگ.ہر حصے کی (بیوت الذکر ) کا فیصلہ کرنا ان کا کام ہو.اپنے ساتھ وہ ٹیم لے کر آگے چلیں اور پھر چندہ اکٹھا کرنے والے الگ ہوں اور یہ کام کرنے والے اور منصو بہ بنانے والے الگ ہوں.مجھے جو گزشتہ چند دنوں میں جماعت جرمنی کے نئے بچوں سے واسطہ پڑا ہے مجھے ان سے بہت تو قعات ہیں اور ان کو میں نے بہت پہلے سے سدھرا ہوا پایا ہے.سوال جواب سے بھی ظاہر ہوتا ہے مگر روز مرہ ان کے دیکھنے سے، ان کی باتوں سے ملاقات میں جب مجھ سے ملتے ہیں مجھے خدا تعالیٰ کے اس عضل کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے الفاظ نہیں ملتے کہ اللہ نے آپ کی نئی نسل کو سنبھال لیا ہے.بہت پیارے

Page 563

مشعل راه جلد سوم 559 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ بچے پیدا ہورہے ہیں ، بہت پیاری بچیاں پیدا ہو رہی ہیں، مگر ان میں بہت سے ضائع بھی ہورہے ہیں.ایسے بھی ہیں جو ماحول کا شکار ہو گئے.تو اس مضمون پر غور کرتے ہوئے میں نے یہ سوچا کہ آپ کے بچوں کی ایک الگ ٹیم بنائی جائے جو بچوں ہی سے پیسے اکٹھے کریں اور ان کے بھی ہر Region میں مقابلے ہوں.سو ( بيوت الذکر ) کیلئے اس علاقے کے بچوں کی ٹیمیں ہوں اور وہ بچے جو اس وقت کام نہیں کر رہے اور جماعت سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ان کو بھی ممبر بنایا جائے اور پھر دیکھیں کہ یہ بچے انشاء اللہ تعالیٰ کتنے زور سے آگے بڑھیں گے.کیونکہ جرمنی کی قوم کو ابھی تک خدا تعالیٰ نے یہ فضیلت عطا فرمائی ہے کہ بچوں کے لئے الگ پیسے مقرر کرتے ہیں اور باقی دنیا میں تو یہ رواج چل رہا ہے کہ پہلے بچے کے اگر بارہ سو ہیں تو دوسرے کے (600) چھ سو ہو جائیں گے تیسرے کے تین سورہ جائیں گے.جرمن قوم کو یہ فضیلت ہے کہ پہلے بچے کے بارہ سو ہیں تو دوسرے کے پندرہ سو (1500) ہوں گے اور تیسرے کے اور آگے بڑھیں گے.تو یہ ایک حیرت انگیز بات ہے جو اس قوم میں پائی جاتی ہے.جب تک ہے، خدا کرے یہ ہمیشہ جاری رہے، اس سے استفادہ کریں.تو احمدی بچے جن کی عمر یعنی بلوغت کے بعد تک یعنی سترہ اٹھارہ سال تک کے جو کالج کے لڑکے یا سکول کے لڑکے چھوٹی عمر کے بھی ، ان سب کی ٹیمیں بنائیں ، انہی کے نگران بنائیں اور ان کو ایک ایک ( بیت الذکر ) ایک ایک گروہ کے سپرد کر دیں کہ اس کے لئے تم نے پیسے اکٹھے کرنے ہیں اور بچوں سے کرنے ہیں اور پھر جتنے ہوتے ہیں اس کو زائد سمجھیں مگر یہ جو معاملہ ہے نہ خدام الاحمدیہ کے سپرد ہوگا نہ لجنہ کے سپرد ہوگا نہ انصار اللہ کے بلکہ جماعت احمد یہ جرمنی کے سپر د ہوگا کیونکہ اس گروہ میں ہر قسم کے بچے شامل ہوں گے بچیاں بھی ہوں گی.بچیوں کی الگ ٹیمیں بنائی جائیں گی اور چھوٹے بچے بھی ہوں گے تو ان کی ایک الگ مقابلے کی دوڑ شروع کرا دیں.پھر ہر Region میں وہ بچے کہیں گے کہ ہم نے اللہ کے فضل سے اسے اپنے Region میں (بیت الذکر) بنانے کے لئے پہلے سال پیدا کٹھا کیا ہے، آئندہ سال یہ کریں گے اس سے اگلے سال وہ کریں گے اور اس کے علاوہ ایک عام تحریک کر دی جائے جماعت میں کہ جو لوگ ان تین سال کے لئے اپنے باقی چندوں کی ضمانت دیتے ہوئے کہ وہ اتنے ہی رہیں گے جو کچھ ہر سال پیش کر سکتے ہیں وہ لکھوا دیں اور پھر سو یا اس سے زائد ایسے آدمیوں کو تحریک کی جائے جن کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت عطا فرمائی ہے اور ان سے گزارش کی جائے کہ وہ خوب غور کے بعد فیصلہ کریں کہ اگر ان میں سے کسی کو یہ توفیق ہو کہ تین سال کے اندر ایک (بیت الذکر ) بنا سکیں تو اس کا عہد لے کر آگے بڑھیں.خواہ شروع میں یہ وعدہ نہ لکھوائیں مگر وعدے اتنے ضرور لکھوائیں کہ نمایاں طور پر جماعت کا حوصلہ

Page 564

560 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم بڑھے کہ ہاں اس علاقے کے اتنے لوگوں نے خدا کے فضل کے ساتھ اتنی رقم اکٹھی کر دی ہے کہ جو زمین کے ابتدائی اخراجات ہیں وہ سارے کے سارے پورے ہو سکیں.تو اگر آپ ایک فیصلہ کر کے اور عزم لے کر آگے بڑھیں، آپ کے چھوٹے بڑے بچے عورتیں سب شامل ہو جائیں گے اور اس شمولیت کے نتیجے میں ان کو دوسری برکتیں حاصل ہوں گی، وہ سارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو آپ سمجھتے ہیں کہ ضائع ہورہے ہیں جب نیک کام میں ملوث ہونے کا احساس ان کے دل میں پیدا ہو گا جب ان کو یقین ہوگا کہ وہ ایک اعلیٰ خدمت میں مصروف ہیں ، خدائے واحد ویگانہ کی خاطر ( بیوت الذکر ) بنانے میں مصروف ہیں تو آپ دیکھنا آئے دن ان کی طبیعت ، ان کی کیفیت بدلتی چلی جائے گی.ان کے چہروں پر توحید کی عظمت کے نشان ظاہر ہونا شروع ہوں گے تو یہی وہ مضمون ہے جو تربیت کے لئے بھی ضروری ہے اور ( بیوت الذکر ) کے قیام کیلئے بھی ضروری ہے اور اس کے نتیجے میں آپ کی انگلی نسل پہلی نسل کی خوبیوں سے جاملے گی.وقار عمل سنت ابراہیمی ہے اسی تعلق میں وقار عمل کا ایک پہلو ہے جس کو ہم اختیار کر سکتے ہیں ، کرتے آئے ہیں.جن علاقوں میں ( بیوت الذکر) بنائی جاتی ہیں جو نبی (بیت الذکر ) کے لئے منظوری ہو اسی وقت اس کی بنیادیں کھودنا اور وہاں پتھر رکھ دینا اتنا کام تو آپ تین سال میں ضرور کر سکتے ہیں.پس اس صدی کے اختتام سے پہلے ہر علاقے کی (بیت الذکر ) اگر بن سکتی ہے اس کی دیوار میں ہی کھڑی ہو سکتی ہیں تو وہ بھی کھڑا کر دیں مگر عزم لے کر آگے بڑھیں فیصلہ کریں کہ کچھ نہ کچھ ہم نے ضرور کر کے دکھانا ہے.تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ یہ سارے رستے آپ کے لئے آسان ہو جائیں گے.آپ نے اس صدی کے آخر تک سو ( بیوت الذکر ) بنانی ہیں اور گھبرارہے ہیں کہ کیسے یہ کام ہوگا، انجینئر کہاں سے آئیں گے، اعلیٰ درجے کی مہارت رکھنے والے مزدور اور صناع کیسے حاصل ہوں گے.مگر آپ بھول گئے ہیں کہ دنیا میں توحید کی سب سے بڑی مسجد خانہ کعبہ تھی اور اس خانہ کعبہ کو کس نے تعمیر کیا تھا.حضرت اقدس ابراہیم علیہ السلام نے اور آپ کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام نے.ایک انجینئر تھا ایک مزدور تھا اور ساری دنیا کو تو حید کے ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کے لئے وہ بیت الحرام کی تعمیر کی جارہی تھی.کتنا بڑا عزم تھا، کتنا یقین تھا.کیا آپ کے بڑوں اور آپ کے چھوٹوں میں یہ عزم پیدا نہیں ہوگا؟ پھر درود میں ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا نام کیوں لیتے ہیں؟ جب نام لیتے ہیں تو ویسے کام بھی تو کر کے دکھا ئیں.فیصلہ کر لیں کہ خواہ جھونپڑے تعمیر ہوں خواہ

Page 565

561 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم دیواریں کسی حد تک اونچی کی جائیں.ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو ضرور قائم کر کے دکھانا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جگہ جگہ بیک وقت ( بیوت الذکر ) اونچی ہونی شروع ہو جائیں گی اور ان ( بیوت الذکر ) کی برکت سے آپ کی کایا پلٹ جائے گی.پھر آپ میں مختلف قوموں کے لوگ ہیں، ان کی بھی کمیٹیاں بنا ئیں.ان کو کہیں کہ (بیت الذکر ) کے اتنے عظیم کام سے آپ کو ہم نے محروم نہیں رکھنا.آپ اپنے اپنے طور پر اپنے اپنے دائرے میں کوششیں شروع کر دیں اور کوئی ( بیت الذکر ) جرمنی میں بوسنیا کے نام پر بنائی جارہی ہو ، کوئی ( بیت الذکر ) جرمنی میں Albanians کے نام پر بنائی جارہی ہو، کوئی کوسوو کے Ethnic Bosnian کے نام پر، کوئی افریقنوں کے نام پر ترکوں کے نام پر، جنہوں نے یہاں پر پناہ لی ہوئی ہے تو اس قسم کے جو Ethnic Groups ہیں وہ بھی اس دوڑ میں شامل ہو جائیں اور کسی ( بیت الذکر) کا نام ترکی کے نام پر ہوتر کی کو دعائیں بھیجنے کیلئے کسی (بیت الذکر ) کا نام Bosnians کے نام پر ہو.ہم نے جو وہاں( بیوت الذکر ) بنانی ہیں وہ الگ بات وہ ساری دنیا کی جماعت کی ذمہ داری ہے اور میں نے بوسنیا والوں سے کہہ دیا ہے کہ آپ یہ جھگڑا نہ کریں کہ پہلی کون بناتا ہے اور دوسری کون بناتا ہے.جو دو( بیوت الذکر ) آپ نے سوچی ہیں دونوں شروع کر دیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دنیا بھر کی جماعتوں کی طرف سے آپ کو پوری مالی تائید حاصل ہوگی.تو ایک تو مقامی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا یہ لازم ہے اور اس میں وقار عمل بھی آپ کا شامل ہو، اینٹیں جو ڈھوئی جاتیں ہیں وہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کو یاد کر کے ابراہیم علیہ السلام کو یاد کر کے ان کے نام پر ان اینٹوں کو اور پتھروں کو اٹھا ئیں اور دوسری جگہ پہنچا ئیں تو دیکھیں تو حید کا کیسا منظر پیدا ہوگا.ایسا عظیم الشان منظر تو حید کا اس زمانے میں پیدا ہوگا کہ دنیا کی آنکھیں خیرہ ہوں گی اور خیرہ ہوتی رہیں گی.آنے والی نسلیں مڑ کر آپ کو دیکھا کریں گی اور کہیں گی یہ تھے تو حید کے علمبردار جنہوں نے دیکھو کتنے تھوڑے سے عرصے میں کتنے عظیم الشان کام کر دکھائے.پھرانہی بچوں سے میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ جھوٹ کے خلاف یہ بھی ایک علم جہاد بلند کریں.ان بچوں میں میں نے نسبتاً زیادہ سچائی دیکھی ہے.کیونکہ جو پہلی نسلوں کے لوگ ہیں بعض عادتا جھوٹ بولتے ہیں.ایسے علاقوں سے آئے ہیں جن کے خاندانوں میں ماحول کی خرابی کی وجہ سے اور آپ کو اندازہ نہیں کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں ماحول کتنا جھوٹ سکھاتا ہے.آپ کے ہاں تو بڑی بڑی باتوں میں آکر بڑی ہوشیاریوں سے جھوٹ بولے جاتے ہیں ، وہاں تو گلیوں میں روز مرہ جھوٹ ہی جھوٹ ہے اور اب تو اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس کے تصور سے بھی انسان کا حوصلہ ٹوٹتا ہے کہ کیا یہ ملک پھر سچائی کا منہ دیکھ سکے گا یا نہیں دیکھ

Page 566

مشعل راه جلد سوم 562 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی سکے گا.وہاں سے آئے ہوئے لوگ ہیں بے چارے.اکثر کو پتا ہی نہیں کہ ہم روز کتنا جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور ان کے بچے جنہوں نے جرمنی میں تربیت پائی ہے جہاں جرمنی کو تو حید کا پیغام دے رہے ہیں وہاں جرمنی سے توحید کا ایک سبق سیکھ بھی سکتے ہیں اور وہ سچائی کی توحید کا سبق ہے اور سیکھ رہے ہیں.میں بہت سے احمدی بچے اور بچیوں کو دیکھ رہا ہوں جو بڑے ہو رہے ہیں اور اللہ کے فضل سے ان کے دل صاف ہورہے ہیں، ان کو جھوٹ کی عادت نہیں رہی، صاف ستھری بات کرنے والے لوگ ہیں.تو ان بچوں کو میں کہتا ہوں کہ تم یہ حکم بھی اپنے ہاتھ میں لے لو اور جماعت جرمنی کے بچے ایک ایسا عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیں کہ رہتی دنیا تک بچے آپ کی مثالیں دیں اور آپ کی مثالوں سے مثال پکڑیں.ایک ابراہیم علیہ السلام نے ایک اسماعیل علیہ السلام جو پیدا کیا تھا وہ اس لئے نہیں تھا کہ ایک ہی رہے،اس سے بہت سے اسماعیلوں نے پیدا ہونا تھا.ان سب کا سردار اور سب کا ئنات کا سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی کی نسل سے پیدا ہوئے تھے.پس آج آپ اس دنیا کو اسماعیلوں سے بھر دیں اور ابراہیم علیہ السلام کی اس آواز پر لبیک کہنے والے نہیں جس نے اپنے بیٹے کو بلایا تھا کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے خدا کے حضور قربان کر رہا ہوں بتا تیرا کیا خیال ہے؟ اس نے یہی جواب دیا تھا.اے میرے باپ ! جو تجھے کہا جا رہا ہے تو وہی کر.میری گردن پر چھری پھیر دے.پس اے جرمنی کے احمدی بچو! یہ ایک اور رنگ کی چھری ہے جو تمہاری گردن پر پھیری جاتی ہے لیکن یہ چھری تمہیں زندہ کر دے گی تمہاری نسلوں کو زندہ کر دے گی، تمہارے ماحول کے ملکوں کو زندہ کر دے گی ، آئندہ آنے والی صدی کو زندہ کر دے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.( آمین ) اس کے بعد میں اب آپ سے اجازت چاہتا ہوں اور آئیے اب آخری دعا میں شامل ہو جا ئیں.

Page 567

مشعل راه جلد سوم 563 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرموده 20 جون 1997ء آئندہ نسلوں کی تربیت کے متعلق بنیادی اصول حم آج کے بچے مستقبل کی نسلیں ہیں ☆ ☆ والدین بچپن سے ہی بچوں کو اپنی طرف مائل کریں بچوں کی خواہشات کے ساتھ ساتھ ان کو نیکی پر قائم کرنے کی طرف توجہ دیں جب تک قوانین درست نہ ہوں، معاشرے کی صحیح اصلاح ممکن نہیں معاشرتی برائیوں سے بچوں کو آگاہ کرنے کے اصول ماں باپ اور بچوں کے درمیان نیکی کے رشتے بچوں میں خود اعتمادی پیدا کریں بچپن ہی سے نیکیوں سے پیار کے ساتھ ساتھ اس وجود سے پیار پیدا کرنا ضروری ہے جو نیکیاں سکھانے والا ہے اور اس میں سب سے اہم انسانوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ہ اپنے بچوں کے دل میں خدا کی محبت عبادت کے حوالے سے پیدا کریں

Page 568

مشعل راه جلد سوم 564 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 569

مشعل راه جلد سوم 565 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے تشہد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوْا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا (سورہ الحشر : 19 ) تَعْمَلُوْنَO آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس خطبہ کے ساتھ جماعت احمدیہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کا انچاسواں جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ جماعت یونائیٹڈ سٹیٹس کے مالی قربانی کرنے والوں کو بہترین جزاء دے جنہوں نے یہ انتظام کیا ہے کہ اس وقت ساری دنیا میں سنایا جارہا ہے اور اسی طرح جلسے کے کچھ حصے بھی تمام دنیا میں نشر کئے جائیں گے.جماعت احمدیہ یونائیٹڈ سٹیٹس کے کچھ اپنے مسائل ہیں.کچھ تو ایسے مسائل ہیں جو سب دنیا کے برابر ہیں لیکن پھر بھی ملک ملک میں فرق پڑتا جاتا ہے.اگلی نسلوں کی تربیت سے متعلق بنیادی اصول آج جو میں نے آیت تلاوت کی ہے اس میں تربیتی مسائل کی طرف خصوصیت کے ساتھ اگلی نسلوں کی تربیت سے متعلق بنیادی اصول پیش فرمائے گئے ہیں.گزشتہ خطبے میں میں نے دو یا تین خطبات میں ( دعوت الی اللہ ) کی طرف توجہ دلائی تھی.مگر ( دعوت الی اللہ ) کو تقویت ملتی ہے ( دعوت الی اللہ ) کرنے والوں کی اپنی تربیت کے ساتھ اور ( دعوت الی اللہ ) کے اپنے کچھ مسائل بھی ہیں.کیونکہ نئے آنے والے ایسے ہوتے ہیں جو تربیت کے محتاج ہوتے ہیں.اگر تربیت کرنے والے خود تربیت کے محتاج ہوں تو اس سے بہت سے گھمبیر مسائل پیدا ہو جاتے ہیں.چونکہ ہم نے خصوصیت کے ساتھ مستقبل کی طرف توجہ دینی ہے اس لئے ہماری نظر موجودہ مسائل پر بھی رہنی ضروری ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے تعلق میں بھی ہمیں جماعت کی اور نئے آنے والوں کی ایسی ٹھوس تربیت کرنی ہے جس کے نتیجے میں ہم کہہ سکیں کہ ہم نے صدی کے سر پر پیدا ہونے کا حق ادا کر دیا.

Page 570

566 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم بہت سے ایسے خاندان ہیں جن سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان میں خصوصیت کے ساتھ الیفر و امریکن خاندانوں نے اکثر تربیت ہی کے متعلق سوال کئے.کیونکہ وہ ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوئے ہیں جس ماحول نے ان کے بچوں تک گہرا اثر کر رکھا ہے.چنانچہ اس ماحول سے الگ ہو کر اسی ماحول کی تربیت کرنا جس میں وہ پیدا ہوئے ایک بہت ہی مشکل مسئلہ ہے.چنانچہ کل بھی سوال و جواب کی مجلس میں ایک مخلص احمدی دوست نے یہی توجہ دلائی کہ ہمیں بتایا جائے کہ ہم کیا کریں.کچھ ایسی باتیں ہیں جو بچپن سے شروع ہو جاتی ہیں اور بچپن ہی میں ان کی بنیاد ڈالنی ضروری ہے.میں سب سے پہلے انہی کی طرف آپ کی توجہ منعکس کرتا ہوں.کیونکہ جب تک بچوں کی نسل کو سنبھالا نہ جائے آئندہ کے متعلق کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی.یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے اسی طرف اشارہ فرمارہی ہے.يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور کل پر نظر رکھو کہ تم کل کے لئے کیا آگے بھیج رہے ہو.آج کے بچے کل کی نسلیں ہیں پس آج کے بچے کل کی نسلیں ہیں جنہوں نے آج کا احمدیت کا پیغام انگلی صدی میں منتقل کرنا ہے.بچوں کی طرف تربیتی نقطہ نگاہ سے توجہ دینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ ماں باپ جو بچوں کی تربیت کرتے ہیں خود ان کی بھی تربیت ہوتی ہے اور لازم ہے کہ وہ اپنی تربیت اپنے بچوں کے حوالے سے کریں.تو پہلی بات جو بچوں کے تعلق میں خصوصیت سے یہاں کے ماحول میں بتانی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ماں باپ کے لئے لازم ہے کہ بچپن ہی سے اپنے بچوں کا تعلق اپنے ساتھ بڑھائیں اور ایسے خاندان بنا ئیں جن میں نگاہیں اندر کی طرف اٹھنے والی ہوں اور بچوں کو گھر کے ماحول میں سکون ملے.وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ سختی سے بچوں کو دبانے کے نتیجے میں اگر اس عمر تک جب تک وہ ان کے ماتحت ہیں ان میں کوئی خرابی پیدا ہوتی دکھائی نہیں دے رہی، تو وہ غلطی پر ہیں.چونکہ بہت سے بچے اپنے ماں باپ کے حکم کی تعمیل میں یا ان کی سختی سے ڈر کر بسا اوقات اپنے دل کی خواہشات کو دبائے رکھتے ہیں اور جب وہ سوسائٹی میں کھل کر باہر جاتے ہیں تو وہ خواہشات ایک ایسے ماحول میں پنپنے لگتی ہیں جو ان کے لئے سازگار ہے.ہر بدی کا خیال، ہر اس لذت کی تمنا جو جلدی حاصل کی جاسکتی ہے امریکہ کی سوسائٹی میں

Page 571

مشعل راه جلد سوم 567 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی سب سے زیادہ جلدی حاصل کی جاسکتی ہے.دنیا کی ہر سوسائٹی میں یہ مسئلہ ہے لیکن امریکہ میں تو ماحول میں اتنی زیادہ سرعت کے ساتھ دل کی لذت کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں کہ بچوں کو بہکانے کے لئے اس سے زیادہ اور کوئی چیز ممکن نہیں ہے.چنانچہ جب وہ گھر کے ماحول سے نکلتے ہیں تو باہر کا ماحول انہیں بدیوں میں خوش آمدید کہتا ہے، نیکیوں میں نہیں اور یہ ایک اس ماحول کی خصوصیت ہے جسے بچوں کو سمجھا ناضروری ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بچے یہ شکایت کرتے ہیں کہ جب ہم (دینی) طریق پر عمل کر رہے ہوں تو لوگ ہم پر ہنستے ہیں ، لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ یہ اور قسم کی نسل ہے اور ماحول کا یہ اختلاف اور نیکی پر حملہ کرنا، یہ امریکہ کے ماحول کا ایک جزو بن چکا ہے.امریکہ کی فضا ایسی ہے کہ وہ لازماً گھر سے باہر نکلنے والے بچوں کو اپنی طرف کھینچے گی اور ان کی اچھی عادات کو فرسودہ خیالات کہہ کر ان کو رد کرتی ہے، اس کے نتیجے میں بچے میں خود اعتمادی کا فقدان ہو جاتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ جو اپنے گھر سے میں اقدار لے کر چلا تھا سوسائٹی میں تو ان کی کوئی قیمت نہیں.سوسائٹی میں جن اقدار کی قیمت ہے وہ ایسی اقدار ہیں جن کو گھر میں برا کہا جاتا ہے.پس آزادی کا ایک احساس باہر نکل کر ایسا پیدا ہوتا ہے جو تیزی کے ساتھ ایسے بچوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے.پس اس مشکل کو پیش نظر رکھتے ہوئے لازم ہے کہ بچپن ہی سے بچوں کے دل اپنی طرف یعنی ماں باپ اپنی طرف مائل کریں اور گھر کے ماحول میں ان کی لذت کے ایسے سامان ہونے چاہئیں کہ وہ باہر سے گھر لوٹیں تو سکون کی دنیا میں لوٹیں، بے سکونی سے نکل کر اطمینان کی طرف آئیں اور یہ باتیں صرف اسی صورت میں ممکن ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت پر غور کیا جائے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دائیں کان میں اذان دو اور بائیں کان میں تکبیر کہو.بہت سے لوگ ہیں جو اس کا فلسفہ نہیں سمجھتے.وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا تو کوئی فائدہ نہیں.اکثر ایسے بچے مختلف زبانیں بولنے والوں کے بچے ہوتے ہیں، ان کو تو عربی کا بھی کچھ پتہ نہیں کہ کیا چیز ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ بظاہر ایک بے کار بات ہے.میں اس وقت اس تفصیل میں نہیں جاتا کہ نفسیاتی لحاظ سے اس کا کیا اثر پڑتا ہے اور بچے کا دماغ کن باتوں کو شروع ہی سے قبول کرتا ہے اور پھر محفوظ رکھتا ہے.اس بحث کو چھوڑتے ہوئے میں ان ماں باپ کو بتا رہا ہوں جو اذان دیتے یا دلواتے ہیں ، وہ تکبیر دیتے یا دلواتے ہیں.ان کو تو متوجہ ہونا چاہیے وہ تو باشعور ہیں.آخر کیوں یہ کہا گیا ؟ ایک اس کا پہلو وہ ماں باپ ہیں جن کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں.ان کو سمجھایا گیا ہے کہ بچپن ہی سے بچوں کی صحیح تربیت کرو ورنہ بعد میں یہ ہاتھ سے نکل جائیں گے.تو پہلی تربیت کا وقت بچپن کا آغاز ہے اور

Page 572

568 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اس وقت کی تربیت ایسی ہے جو ہمیشہ کے لئے آئندہ زندگی کی بنیادیں قائم کرتی ہے.اس بات کو بھلانے سے بہت سے لوگ نقصان اٹھا جاتے ہیں.بچوں سے ہر قسم کی پیار کی باتیں تو ہوتی ہیں، ان کی خواہشات کا خیال رکھا جاتا ہے.مگر بچپن سے ان کو نیکی پر قائم کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی.اس لئے سب سے اہم بات اس ماحول میں جیسا کہ دوسرے ماحول میں بھی بہت ہی اہم ہے لیکن امریکہ میں خصوصیت کے ساتھ جماعت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ بچوں سے ایسی باتیں کریں جو اللہ اور رسول اور نیک لوگوں کی محبت پیدا کرنے والی باتیں ہوں اور ان کو نیکی کی اقدار سمجھائیں اور اس کے لئے گھر میں مختلف قسم کے مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں.جب ایک بچہ اچھی بات کرتا ہے تو ماں باپ کا فرض ہے کہ اس بات کو بڑی اہمیت دیں اور اس بچے کی اس بات کا ذکر چلائیں، کیونکہ وہ بچہ اچھی بات پر مثلاً کسی موقع پر وہ جھوٹ بول سکتا تھا، اس نے نہیں بولا اور سچ بول کر بظاہر نقصان اٹھایا ہے اگر آپ اس کی باتیں آنے والوں میں ذکر کیا کریں اور سوسائٹی میں، اپنے گھر میں، گھر سے باہر بچے کو اس طرح پیش کریں کہ دیکھو اس کے دل میں شروع ہی سے نیکی ہے تو ایسا بچہ اس بات کو کبھی بھول نہیں سکتا.ناممکن ہے کہ اس کے دل سے اس ماحول میں نیکی کی اہمیت کا اثر مٹ جائے.دوسرے جب وہ کوئی بری بات کرتا ہے تو اسے سمجھانا اس طریق پر کہ وہ سمجھ جائے اور اسے محسوس ہو کہ میں ایک برابر کی چیز ہوں، میں بھی ایک عقل رکھنے والا وجود ہوں جو کچھ میں سوچتا ہوں، ماں باپ کی سوچ اس سوچ پر اثر انداز ہو رہی ہے نہ کہ اس کا ہماری سوچ پر حکم چل رہا ہے.پس تحکم سے احتراز لازم ہے اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے قیام کے سلسلے میں شروع میں بچپن میں بچوں پر تحکم کی اجازت نہیں دی.سات سال سے پہلے تو کسی حکم کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.سات سال سے دس سال تک ایسی نصیحت جس کے نتیجے میں بچے نمازوں کی طرف متوجہ ہوں اور بار باران کو نمازوں کی عادت ڈالنے کی طرف ماں باپ کو توجہ دلانا، یہ تو ہمیں ملتا ہے.لیکن بچوں کو اس پر سزا کوئی نہیں ہے کہ وہ سات سال سے دس سال کی عمر میں نمازوں سے منہ موڑتے ہیں.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سات سال سے دس سال تک سزا دینے کا کہیں ارشاد نہیں فرمایا.تین سال مسلسل ماں باپ کو نصیحت کے ذریعے اثر انداز ہونا ہے.ایسی باتیں کہنی ہیں جو ان کے دل اور دماغ کو ( دین حق ) کی طرف پھیرنے والی ہوں اور دل کے اطمینان سے وہ ( دین حق) کی طرف مائل ہوں اور دس سال تک جب وہ اس عمر کو پہنچیں جہاں صرف گھر ہی میں نہیں باہر بھی ایسے بچوں کو کچھ نہ کچھ مزا ضرور دی جاتی ہے.پرانے زمانے میں تو سکول میں

Page 573

مشعل راه جلد سوم 569 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ایسے بچوں کو جو دس سے بارہ سال کی عمر میں ہوں سوئیاں بھی پڑتی ہیں اور کئی قسم کی سزائیں دی جاتی ہیں.بلکہ وہاں تو اس سے پہلے بھی بعض دفعہ سزا شروع ہو جاتی ہے.تو پہلے سزا کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ، جھوٹ ہے.اس سے باز رہیں اور اس کے بعد جو سزا ہے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی سرزنش قرار دیا ہے.ہر گز کسی قسم کی تختی ایسی نہیں جس سے بچے کے بدن پر ایسی ضرب پڑے جس سے اس کو نقصان پہنچ سکے اور یہ وہ پہلو ہے جس کو بچپن کی تربیت میں آپ کو ملحوظ رکھنا ہو گا.یعنی سات سال کی عمر تک پیار اور محبت سے اپنے ساتھ دل لگائیں، ان کی اچھی باتوں کو اچھالیں.کیونکہ اس عمر میں بچے ضرور اپنی تعریف کو خوشی سے قبول کرتے ہیں اور جس بات کی تعریف کی جائے اس پر جم جایا کرتے ہیں.جس چیز سے نفرت دلائی جائے اس سے متنفر ہو جایا کرتے ہیں.تو آئندہ آنے والے جو خطرات ہیں ان کا بچپن ہی میں تصور باندھیں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر ماحول کی بدی کو ان کے سامنے اچھال کر پیش کریں.ان کو بتائیں کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے.جب وہ سات سال سے اوپر دس سال تک پہنچیں تو پھر خصوصیت سے عبادتوں کی طرف متوجہ کرنا بھی آپ کی تربیت کا ایک حصہ بن جائے گا.اس کے بعد نا پسندیدگی کا اظہار، ان سے منہ موڑنا اگر وہ بری حرکت کریں، نمازیں نہ پڑھیں، تو بعض دفعہ دائنا اور سمجھانا یہ چیزیں بارہ سال کی عمر تک جائز ہیں اور بارہ سال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پھر اب تمہارا ان پر سختی کا کوئی حق باقی نہیں رہا.جو کچھ تم نے کرنا تھا وہ وقت گزر گیا ہے.اب دیکھیں اس پہلو سے مغربی تہذیب اور ( دین حق) میں کتنا نمایاں فرق ہے.مغربی تہذیب میں مختلف سال مقرر کر دیئے جاتے ہیں.مثلاً اٹھارہ سال، اکیس سال یا سولہ سال، اور سالوں کا بعض جرائم سے تعلق قائم کیا جاتا ہے.آج کل جو ترقی یافتہ ممالک ہیں ان میں یہ تعین کیا جارہا ہے کہ سولہ سال کی عمر تک کسی لڑکے کو کس جرم کی کتنی سزاملنی چاہیے، اٹھارہ سال تک کسی جرم کی کتنی سزاملنی چاہیے اور اکیس سال کی عمر میں جا کر پھر وہ کلیہ ہر سزا کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا.( دین حق) نے بارہ سال اس لئے مقرر کئے ہیں کہ یہ بلوغت کا آغاز ہے اور بارہ سال میں بچہ اتنی پہنی پختگی اختیار کر جاتا ہے کہ اپنے روزمرہ کے معاملات میں خود فیصلہ کر سکے.پس ( دین حق ) کی بلوغت کا آغاز دنیا والوں کی بلوغت سے بہت پہلے ہوتا ہے اور یہ بہت ضروری بات ہے.کیونکہ اگر بارہ سال تک بچہ اپنے سیاہ سفید کو دیکھ نہ سکتا ہو تو پھر اٹھارہ سال تک بھی نہیں دیکھے گا بلکہ اپنی بد عادتوں میں اتنا پختہ ہو جائے گا.جب وہ اٹھارہ سال کی عمر سے گزر کر سوسائٹی میں جاتا ہے تو پھر

Page 574

570 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اس میں وہ بدی ایک مستقل دائمی شکل اختیار کر جاتی ہے.یہ وہ پہلو ہے جس کے متعلق میں آپ کو بھی متوجہ کر رہا ہوں اور انگلستان میں اکثر جوان مسائل میں دلچسپی لینے والے سوشل راہنما یا سیاسی راہنما ہیں وہ جب مجھے سے گفتگو کے لئے آتے ہیں تو میں ان کو سمجھاتا ہوں کہ تم بنیادی طور پر ایک غلطی کر رہے ہو.مثلاً بعض چھوٹے بچوں کو وہاں قتل پر آمادہ کرنے والے گروہ بن چکے ہیں اور ان سے وہ قتل کرواتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کو سزا نہیں ملے گی.اسی طرح چوری، ڈاکہ سکولوں میں ڈرگ اڈکشن (Drug Addiction) کے لئے اس قسم کے گروہ تیار کئے جاتے ہیں اور یہ محض غلط قانون سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہے.جب تک قوانین درست نہ ہوں اس وقت تک انسان کی صحیح تربیت اور معاشرے کی صحیح اصلاح ممکن ہے.مگر ہمیں جس نے قانون دیا یعنی اللہ تعالیٰ ، اس نے ایک ایسا قانون دان عطا فرمایا جس سے بڑھ کر کوئی قانون دان دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوا یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.آپ نے قرآن کے قانون کو سمجھا اور اپنی امت میں اسے جاری فرمایا.یہی ایک پہلو آپ دیکھیں کہ جب گفتگو آگے بڑھی وہ تمام ملنے والے اس بات پر یقینی طور پر مطمئن ہو کر گئے کہ ہمارے معاشرے کی غلطی ہے.اس کی اصلاح کے بغیر ہم کسی تربیت کا دعوی نہیں کر سکتے.کیونکہ ان کی بلوغت تک پہنچتے پہنچتے یعنی اٹھارہ سال یا اکیس سال تک اگر بدی کی سزا نہ دی جائے تو بچے کو بدی پر جرات پیدا ہو جاتی ہے اور یہ وہ عمر ہے جس میں جرات ایک دوام اختیار کر جاتی ہے، ایک ایسی عادت بن جاتی ہے کہ جسے پھر چھوڑ ناممکن نہیں رہتا.چنانچہ اکثر انگلستان میں بھی اور یورپ کی دوسری سوسائیٹیوں میں بھی ایسے بدبچے بالغ بنا کر سوسائٹی میں پھینکے جاتے ہیں جو اپنی بدیوں پر پختہ ہو چکے ہوتے ہیں.جسے Drug Addiction کی شروع سے عادت پڑ گئی ہو، جسے ڈرگ بیچ کر پیسے لینے کی عادت پڑ جائے، کیسے ممکن ہے کہ وہ اٹھارہ سال یا اکیس سال کے بعد قانون کے ڈر سے ان عادات کو چھوڑ دے.تو معمولی سی عقل کی بات ہے.اسے استعمال کر کے اگر دیکھا جائے ، جیسا کہ یہ لوگ نہیں دیکھ رہے بدقسمتی سے، تو انسان لازماً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی طرف لوٹے گا.پس تربیت کا آغاز شروع سے ہونا چاہیے اور بارہ سال کی عمر تک پہنچ کر اس تربیت کو اتنا مکمل ہو جانا چاہیے کہ اس کے بعد بچہ اپنے سیاہ وسفید کا مالک ہو اور پھر اگر وہ سوسائٹی کا جرم کرے تو سوسائٹی اس کو سزا دے.اگر خدا کا جرم کرے تو خدا سزا دے گا.ماں باپ کا کام نہیں کہ اس کو سزا دیں.یہاں پہنچ کر معاشرے اور احمدی ماحول کے طرز عمل میں ایک فرق ہے جو میں آپ کے سامنے نمایاں طور پر رکھنا چاہتا ہوں.

Page 575

571 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم بہت سے بچے اور بچیاں جو امریکہ کے ماحول میں پیدا ہوئے ان کے متعلق ماں باپ بہت سے تو نہیں کہنا چاہیے مگر کئی ایسے ہیں کہ ان کے ماں باپ بہت تکلیف محسوس کرتے ہیں ، روتے ہیں، گریہ وزاری کرتے ہیں.مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہماری جوان بچیوں کو کیا ہو گیا.بہت اچھی اور نیک اور مخلص تھیں، بے حد دین سے تعلق تھا، نمازیں بھی پڑھتی تھیں.مگر اچانک جب کالجوں میں گئی ہیں تو ان کی کایا پلٹ گئی.میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اچانک کچھ نہیں ہوا کرتا.انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ بچیاں جو دل سے نیکی پر قائم ہو چکی ہوں اچانک معاشرے میں جا کر ان کی کیفیت بدل جائے.لا ز ما دل میں کچھ دبی ہوئی خواہشات رہی ہیں جن کو گھر میں پینے نہیں دیا گیا اور جن کو سنبھالنے کے لئے کوئی ذہنی کوشش نہیں کی گئی.اس لئے اب یہ دوسرا پہلو ہے جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں.یہ کوششیں بھی بارہ سال سے پہلے پہلے کام کر جائیں گی اور نہ نہیں کریں گی.یعنی بلوغت کا آغاز جس کو میں بارہ سال کہہ رہا ہوں، اس میں بچے کے اپنے دل میں خصوصیت کے ساتھ ایسی جنسی خواہشات جنم لینے لگتی ہیں جن سے وہ مغلوب ہو جاتا ہے اور اگر ان امور میں پہلے ہی اس کی تربیت کی گئی ہو تو وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار ہوگا اور اس تربیت میں ماں باپ کو اپنے بچوں کے ساتھ وقت لگانا ہوگا بجائے اس کے کہ سکولوں کے اوپر چھوڑ دیا یا کالجوں پر چھوڑ دیا جائے.میں نے یہ دیکھا ہے کہ جن ماں باپ نے بچوں پر اس لحاظ سے محنت کی ہو کہ ان کو نیکی اور بدی کی تمیز سکھائی گئی ہو، اس طریق پر سکھائی گئی ہو کہ وہ زندگی کا فلسفہ بن جائے وہ بچے اسے زندگی کے فلسفے کے طور پر قبول کریں.اور یہ پہلوتر بیت میں بہت ہی اہم ہے کہ تعلیم کے ساتھ تعلیم کا فلسفہ بتایا جائے.کیونکہ قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسے معلم کے طور پر پیش فرمایا ہے جو يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ كَروه صرف تعلیم کتاب پر اکتفاء نہیں کرتا وہ اس کی حکمت بھی سمجھاتا ہے.پس جو خرابی میں نے دیکھی ہے اس میں ان دو چیزوں کے اندر جو فرق کیا جاتا ہے یہی فرق ہے جو آئندہ خرابیوں کا موجب بنتا ہے.ماں باپ کہتے ہیں ہم نے ان کو تعلیم دی، ان کو بچپن سے نمازیں پڑھنی سکھائیں اور قرآن کی تلاوت بھی یہ کیا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ.لیکن اس تعلیم کی حکمت نہیں بتائی گئی اور حکمت ایسی چیز ہے جو دل کو اس تعلیم کے ساتھ اس طرح جوڑ دیتی ہے کہ پھر آئندہ کبھی وہ الگ نہیں ہو سکتی.مثلاً باہر کی دنیا میں جو ان کو دلچسپیاں دکھائی دیتی ہیں ان کی مثال ایسے جانوروں سے بھی دی جاسکتی ہے جو بظاہر بڑے خوبصورت ہیں.مثلاً سانپ ہے.بعض دفعہ

Page 576

572 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی ނ مشعل راه جلد سوم اس کے بہت ہی پیارے رنگ ہوتے ہیں، نظر کو بھاتا ہے.اسی طرح بعض کاٹنے والے جانور ہیں جو بہت خوبصورت دکھائی دیتے ہیں.ان کے متعلق اگر یہ سمجھایا جائے کہ ان کو جب تم ہاتھ لگاؤ گے، ان کی طرف مائل ہو گے تو لا زما یہ ڈسیں گے اور لازماً نقصان پہنچائیں گے اور اس بات کو اگر بچپن ہی سے دل میں بٹھایا جائے تو کوئی انسان جو اس حکمت کو سمجھ جائے وہ ان کی طرف ہاتھ بڑھانے کی جرات نہیں کر سکتا.لیکن اگر یہ حکمت بچپن سے بتائی نہ جائے اور سمجھائی نہ جائے اور دل میں بٹھا نہ دی جائے تو پھر انسان ایسے تجربے کرنے پر آزادی محسوس کرے گا.پس یہ نہ سمجھیں کہ معاشرے کی خرابیوں کو سمجھانے کا وقت بلوغت کے بعد شروع ہوگا.بچپن.سمجھانا ضروری ہے، ان بچوں کے ساتھ بیٹھنا ضروری ہے، ان کو ٹیلی ویژن دکھانی ضروری ہے.جو ٹیلی ویژن یہ دیکھتے ہیں اس وقت ماں باپ کو چاہیے کہ کچھ اپنا وقت خرچ کریں اور ساتھ بیٹھیں اور ان کو بتا ئیں کہ دیکھو یہ خرابیاں ہیں اور ان خرابیوں کی حکمتیں اس طریق پر سمجھائی جائیں کہ وہ جاگزیں ہو جائیں اور انسانی فطرت اور سوچ کا حصہ بن جائیں.اس سلسلے میں چند مثالیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.مثلاً اگر ان کو یہ سمجھایا جائے کہ یہ بدیاں چیز کیا ہیں؟ کیوں ان سے منع کیا جاتا ہے؟ نیکیاں کیا ہوتی ہیں؟ اور نیکی کے فوائد کیا ہیں؟ اور پھر معاشرے کے حوالے سے ان کی تفصیل سمجھائی جائے تو ناممکن ہے کہ بچہ ان امور کی طرف توجہ نہ دے.پہلی بات جو نمایاں طور پر ان کے سامنے رکھنی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بدی سے ایک لذت پیدا ہوتی ہے، اس کا انکار کرنا جائز نہیں.ہر قسم کی بدی سے ایک لذت حاصل ہوتی ہے لیکن وہ لذت ہمیشہ یا الٹ کر اس بدی کرنے والے کو نقصان پہنچاتی ہے یا ماحول کو نقصان پہنچاتی ہے.پس ہر وہ لذت جس کے ساتھ ایک نقصان وابستہ ہو چکا ہے جس سے اس کو علیحدہ کیا جاہی نہیں سکتا وہ بدی ہے.لیکن لذت سے محرومی کا نام نیکی نہیں ہے.یہ اگلا قدم ہے جس پر ان کو خوب اچھی طرح سمجھا نا ضروری ہے کہ ہم جو تمہیں نیکی کی طرف بلاتے ہیں اس لئے کہ نیکی میں ایک لذت ہے اور بدی کی لذت اور نیکی کی لذت میں بہت بڑا فرق ہے.بدی کی لذت میں ضرور کوئی نہ کوئی کانٹا چھپا ہوتا ہے، وہ ضرور نقصان پہنچاتی ہے اور جتنی بھی موجودہ سوسائٹی کی بدیاں ہیں ان کو دیکھ لیں وہ لازما سوسائٹی میں بے اطمینانی پیدا کریں گی اور کسی نہ کسی خرابی پر منتج ہوں گی.چنانچہ ساری سوسائٹی میں وہ خرابی بے چینی بن کر پھرتی ہے لیکن سوسائٹی اس بے چینی کے باوجود اپنی لذت کے حصول کی خاطر اس کی طرف لپکتی بھی ہے.

Page 577

573 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم سیہ وہ تضاد ہے معاشرے کا جس کو بچپن ہی سے اپنی اولاد کے سامنے کھول کر بیان کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے چھوٹی چھوٹی مثالیں دی جاسکتی ہیں.مثلاً ایک بچے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ تم اگر اپنے بھائی کی کوئی چیز لے کر بھاگ جاؤ تو تمہیں تو مزہ آئے گا تمہیں کچھ حاصل ہوگا ، یہ درست ہے نا!.یہ بات ہے.اپنی چھوٹی بہن سے کوئی چیز چھین لو تو تم لطف اٹھاؤ گے لیکن یہ ایسا لطف ہے جس کے نتیجے میں اسے دکھ ضرور پہنچے گا.پس وہ لطف جو کسی کے دکھ پر مبنی ہو، یہ بدی ہے.لیکن اس کے برعکس اس کو سمجھایا جا سکتا ہے، کوئی چیز اس کو دی جاسکتی ہے کہ اپنی بہن کو یہ خوشی کا جس کو Surprise کہتے ہیں یعنی خوشی میں ایک حیرت کا سماں پیدا ہو جاتا ہے، اسے یہ چیز دے دو، چھپ کر اس کے بٹوے میں ڈال دو یا اس کے کمرے میں رکھ دو اور وہ تعجب کرے کہ میرے دل کی یہ چیز ، میری خواہش کس نے پوری کی.اس میں بھی ایک خوشی ہے اور ان دونوں خوشیوں میں ایک فرق ہے.پہلی خوشی کی صورت میں جو نقصان پہنچا کر لذت اٹھاتا ہے اس کی لذت دائمی نہیں رہتی بلکہ اسی وقت اس کے ضمیر میں سے ایک کانٹا نکلتا ہے جو کچھ نہ کچھ ضرور چبھتا ہے اور یہ بات ان بچوں کو جن کو آپ بچہ سمجھ رہے ہیں سمجھانی ضروری ہے.کیونکہ بچے بہت عقل والی چیز ہیں.میرا بچوں سے یہ تجربہ ہے کہ جن کو لوگ بچے سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں وہ بعض دفعہ اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ ذہین اور ہوشیار اور گہری باتوں کو سمجھنے والے ہوتے ہیں صرف صبر کی ضرورت ہے اور نیکی کے ساتھ قرآن کریم میں ہر جگہ صبر کا مضمون بیان ہوا ہے.کوئی نصیحت کارفرما نہیں ہوسکتی جب تک صبر نہ ہو اور صبر کے ساتھ نصیحت کرتے چلے جانا ہی (مومنوں ) کا شعار مقررفرمایا گیا ہے.پس اس پہلو کو جو میں بیان کر رہا ہوں اہمیت دیں اور بچپن ہی سے بھائی اور بہن میں، بھائی اور بھائی میں ، ماں باپ اور بچوں کے درمیان ایسے نیکی کے رشتے قائم کریں جن میں مزہ پیدا ہو اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک انسان اپنے بھائی کے لئے ، اپنی بہن کے لئے جو بظاہر قربانی کرتا ہے اس قربانی کے نتیجے میں اس کی طرف سے مادی چیز ، مادی قدر الگ ہو کر کسی دوسرے تک پہنچتی ہے.اگر کوئی جھپٹ کر اپنے بھائی یا بہن کی کوئی مادی چیز ،Material چیز لے بھاگتا ہے تو دونوں صورتوں میں انتقال ہے مادے کا اور مادے کا انتقال ہے جو لذت پیدا کرتا ہے.اب یہ لذت کا فلسفہ ہے جو سمجھانا ضروری ہے جو ہمیشہ ان بچوں کے کام آئے گا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے لذت میں بہت سی چیزیں ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ مادہ ایک

Page 578

574 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم طرف سے منتقل ہو کر دوسری طرف جاتا ہے.حق ایک طرف سے منتقل ہو کے دوسری طرف جاتا ہے.اگر آپ مادہ حاصل کرنے والے ہوں تو ایک لذت ہے.اگر کسی کا حق چھیننے والے ہوں اس میں بھی ایک لذت ہے.لیکن جب آپ اپنی مادی قدر کو کسی دوسرے کی طرف منتقل کرتے ہیں اس میں بھی ایک لذت ہے اور جب آپ اپنا حق کسی کے لئے چھوڑتے ہیں تو اس میں بھی ایک لذت ہے.مگر فرق یہ ہے کہ یہ دوسری قسم کی لذت دائمی ہو جاتی ہے، ساری زندگی انسان کو لطف پہنچاتی رہتی ہے اور پہلی قسم کی لذت ایک شر پیدا کرتی ہے جو خود اپنے ضمیر میں بھی پیدا ہوتا ہے اور پھر مزید کی طلب پیدا کر دیتی ہے اور کبھی بھی بدی کی لذت بار بار وہی بدی کرنے سے اسی طرح نہیں رہے گی بلکہ آگے بڑھے گی.ایک بدی کے بعد جب تک آپ دو بدیاں نہ کریں آپ کو چین نہیں آئے گا.جب دو بدیاں کریں گے تو تیسری بدی کی طرف آپ کا قدم اٹھے گا، چوتھی کی طرف اٹھے گا.اس طرح ساری دنیا میں معاشرے میں اخلاقی گراوٹ پیدا ہوتی ہے اور ہوتی چلی جاتی ہے.پس ان دو چیزوں میں جو فرق ہے وہ بعض مثالوں کے ذریعے آپ کو خود سمجھنا ہے اور اپنے بچوں کو سمجھانا ہے.آپ ان کو یقین دلائیں کہ جو تم قدریں اپنے طور پر حاصل کرتے ہو جائز قدریں ہیں ، ویلیوز (Values) جن کو انگریزی میں کہا جاتا ہے.جب تم ان کو چھوڑتے ہو تو اس کے نتیجے میں تمہیں ضرور مزہ آئے گا لیکن اگر بالا رادہ چھوڑو.اگر مجبور ہوکر چھوڑو گے تو تکلیف پہنچے گی.پس بالا رادہ اپنی چیزوں کو دوسروں کو دینا اس لئے کہ ان پر احسان ہو اور ان کو مزہ آئے ، یہ ایک ایسی چیز ہے کہ دینے والے کو بھی ضرور مزہ دیتی ہے اور یہ نیکی کی ایسی تعریف ہے جس میں آپ کبھی کوئی فرق نہیں دیکھیں گے.بدی میں یہ بات نہیں ہوتی.بدی میں کم سے کم بدی کرنے والا لذت محسوس بھی کرے تو جس کے خلاف کی جاتی ہے وہ محسوس نہیں کرتا.لیکن نیکی میں دوطرفہ مزہ ہے اور دوطرفہ مزہ بھی ایسا جو دائی ہو جاتا ہے، جو کہ ہمیشہ باقی رہ جاتا ہے.پس اگر کوئی شخص احسان کا مزہ اٹھانے لگ جائے تو وہ اور زیادہ احسان کرے گا یعنی اور زیادہ اپنی مرضی سے اپنے حقوق دوسروں کی طرف منتقل کرے گا.یہاں تک کہ بظاہرا نبیاء کے مرتبے پر پہنچتے پہنچتے انسان اپنے سارے حقوق سوسائٹی کی طرف منتقل کر بیٹھتا ہے، اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اس شخص کی زندگی بڑی بدمزہ ہوگئی ہے.حالانکہ جولطف احسان کا انبیاء کو محسوس ہوتا ہے دوسرا اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.پس یہ خیال کر لینا کہ نبی احسان کر کے تکلیف اٹھاتے ہیں بالکل غلط ہے.وہ تکلیف اٹھا کے بھی احسان کرتے ہیں.یہ فرق ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں دائی سبق کے طور پر ملتا

Page 579

575 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیکی کرنے پر مجبور تھے یعنی اپنی فطرت کی وجہ سے نیکی کی قدر کو انہوں نے محسوس فرمایا اور اتنا محسوس کیا کہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے.پس عادت ایک ایسی چیز ہے جو دونوں جگہ ہے.چور بھی عادی ہو جاتا ہے، قاتل بھی عادی ہو جاتا ہے، سمگلنگ کرنے والا بھی عادی ہو جاتا ہے، گھروں میں ڈاکے ڈالنے والا بھی عادی ہو جاتا ہے.مگر اس کی عادت لازماً دوسروں کو نقصان پہنچاتے پہنچاتے اس کی اپنی ذات میں ایک نقصان کے طور پر جمع ہونے لگتی ہے.یہاں تک کہ وہ دن بدن خود اپنی نظر میں بھی گرتا ہے، سوسائٹی کی نظر میں بھی گرتا ہے مزید بدی کے بغیر اس کو مزہ نہیں آسکتا.بدی سے جومزہ ملتا ہے وہ دائی نہیں ہوتا، چند دن میں ختم ہو جاتا ہے اور ایسی صورت میں اس کی روح بھی ان باتوں سے متاثر ہوتی ہے اور جس کو ہم جہنم کہتے ہیں وہ اسی چیز کا دوسرا نام ہے.ہر انسان جو بدیوں میں ملوث ہوا اپنی روح کے لئے ایک جہنم پیدا کر رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی فلسفے کو یعنی سارا اسی فلسفے پر مبنی تو کتاب نہیں مگر اسلامی اصول کی فلاسفی میں اسی فلسفے کو، اس کتاب کے مضامین کے ایک حصے کے طور پر پیش فرمایا ہے.بہت سے لوگ پڑھیں بھی تو پوری طرح سمجھتے نہیں.مگر امر واقعہ یہی ہے کہ آج اس دنیا میں ہم آئندہ دنیا کے لئے جنت اور جہنم بنا رہے ہیں اور بچوں کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ تم جو کچھ بھی کرو گے اس سے کچھ فائدہ بھی اٹھاؤ گے اور کچھ نقصان بھی.لیکن جو نقصان تم خود کسی اعلیٰ قدر کی خاطر اٹھاتے ہو اس نقصان میں مزہ ہے اور اس نقصان میں باقی رہنے والا مزہ ہے.پس آپ اپنے بچپن کی طرف نظر ڈال کر دیکھیں.آپ کو بچپن کی وہی باتیں سب سے زیادہ پیاری لگیں گی جن میں آپ نے کچھ نہ کچھ ایسی بات کی تھی جس سے ماں خوش ہوگئی ، باپ خوش ہو گیا، بہن خوش ہوگئی یا کوئی غریب ہمسایہ خوش ہو گیا.بسا اوقات ایک چھوٹا سافعل ہے، ایک غریب بھوکے کو روٹی کھلانا.ایک بچہ جب روٹی کھلاتا ہے تو پھر دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس کے چہرے پر کیا اثر پڑ رہا ہے.جب اس کی تکلیف مٹ رہی ہوتی ہے، اس کے چہرے پر ایک سکون اور اطمینان پیدا ہوتا ہے.تو ویسا ہی سکون بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ، ویسا ہی اطمینان بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، بچے کے دل میں پیدا ہورہا ہوتا ہے.جس پر احسان ہے وہ اس بات کو بھول بھی سکتا ہے.روٹی کھائی، پیٹ بھرا اور بھول گیا.لیکن جس نے کسی کا پیٹ بھر کر اس کے مزے کو دیکھا ہو وہ اس چیز کو کبھی نہیں بھول سکتا.ساری عمر کے لئے ہمیشہ اس کا یہ ایک فعل اس کے لئے مزید نیکیاں پیدا کرنے کا موجب بن جاتا ہے.

Page 580

576 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم پس اس معاشرے میں جہاں ماحول نیکیوں کے مخالف ہے، جہاں بدیوں کو تقویت دینے والا ہے وہاں بچپن ہی سے نیکیوں سے ذاتی لگاؤ پیدا کرنا اور اس کے لئے روزمرہ کے مواقع سے فائدہ اٹھانا بہت ضروری ہے.فائدہ اٹھانا اس لئے کہ اگر آپ محض تلقین کریں گے تو یہ تلقین ضروری نہیں کہ بچے پر نیک اثر ڈالے.بچوں سے کچھ کام کروا کے دیکھیں، کچھ نیکی اس سے ایسی صادر ہو جس میں آپ اس کے مددگار ہوں پھر دیکھیں کہ اس کے دل پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے.میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے ہمیں بچپن میں چندہ دینے کی عادت ماں نے ڈالی.کچھ پیسے وہ دیا کرتی تھیں اور پھر کہتی تھیں دوسرے ہاتھ سے کہ اللہ میاں کے لئے واپس کر دو.چونکہ اس میں جبر کوئی نہیں تھا بلکہ ایک تحریص تھی ، اس لئے جب ہم واپس کرتے تھے تو مزہ آتا تھا اور دن بدن، سال بہ سال یہ احساس برھتا گیا کہ ہمارا بھی نام ان لوگوں میں ہے جنہوں نے دین کی خاطر کوئی قربانی کی ہے.اس کے بعد یہ سکھانے والا باقی رہے نہ رہے، یہ نیکی ضرور باقی رہ جاتی ہے.ہو نہیں سکتا کہ زندگی بھر ساتھ نہ دے.پس نیکی کا مزہ صرف سمجھانے سے نہیں آئے گا، نیکی کا مزہ نیکی کروانے سے آئے گا اور یہ وہ چیز ہے جس کی اس معاشرے میں شدید ضرورت ہے.بچوں میں خود اعتمادی پیدا کریں دوسری بات ، یعنی اور بہت سی باتیں ہیں جو میں نے نوٹس کے طور پر اپنے سامنے رکھی ہیں لیکن یہ ایک ایک بات بھی اگر پھیلائی جائے تو بہت پھیل سکتی ہے.دوسری بات جو سمجھانے کی ضرورت ہے وہ خود اعتمادی پیدا کرنا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جب بچے باہر سکولوں میں جاتے ہیں تو بعض لوگ ان کو حقارت سے دیکھتے ہیں، ان کا مذاق اڑاتے ہیں.لیکن ان میں اگر خو داعتمادی ہو اور ماں باپ ان کو پہلے سمجھا چکے ہوں کہ تمہاری نیکیوں پر سوسائٹی تمسخر اڑائے گی تمہیں ذلیل نظروں سے دیکھے گی لیکن تم نے سر اٹھا کے چلنا ہے.اگر کہیں سر اٹھانا جائز ہے تو اس موقع پر سر اٹھانا جائز ہے اور لازم ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بتائیں کہ تم کوڑی کی بھی پرواہ نہ کرو جو چاہے دنیا کہتی پھرے، جس طرح چاہے دیکھے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارا کردار تب بنے گا کہ تم جن باتوں کو اچھا سمجھتے ہوا نہیں کرنے کی جرات رکھتے ہو.چنانچہ بہت سی احمدی بچیوں کی تربیت میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مجھے اسی اصول سے فائدہ اٹھانے کی توفیق ملی.کئی ایسی بچیاں ہیں انگلستان میں جو پردے کی عمر کو پہنچیں لیکن سوسائٹی سے متاثر ہوکر پردے کے لئے تیار نہیں تھیں اور ماں باپ کے سامنے بھی انہوں نے کہا نہیں، ہم نہیں یہ کام کرسکتیں.جب

Page 581

مشعل راه جلد سوم 577 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ماں باپ نے مجھے بتایا، میں نے ان کو بلایا اور پیار سے سمجھایا.میں نے کہا تم یہ دیکھو کہ تم پردہ کس کے لئے کر رہی ہو؟ اللہ کے لئے یا ماں باپ کے لئے یا اور کوئی پیش نظر بات ہے.اگر تمہیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے یہ قربانی چاہتا ہے کہ تم اپنے حسن کو ، اپنی دل آویزی کو چھپاؤ اور معاشرے کی بے راہرو آنکھوں کو اجازت نہ دو کہ وہ تم پرحملہ کریں یا حرص کے ساتھ تمہیں دیکھیں تو پھر یہ ایک اچھی بات ہے.اگر تم اچھی بات سے آج شرما گئیں تو ہمیشہ ساری اچھی باتوں سے شرماتی رہو گی.دل میں یہ خیال کرو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں سوسائٹی کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں.کیونکہ وہ بد ہے اور تم اچھی ہو.تم نے ان کو سبق دینا ہے.چنانچہ جب ان باتوں کو خود اچھی طرح وہ سمجھ گئیں تو پھر میں نے ان کو دیکھا پر دے میں ملبوس اور میری آنکھوں کی بھی ٹھنڈک کے سامان ہوئے اور ساری عمر کے لئے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے سامان ہوئے.اتنا لطف آتا تھا ان کو دیکھ کر پھر اور وہ بڑے مزے سے میری طرف آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یوں ہلکا سا، یہ بتا جاتی تھیں کہ ہاں ہم خوش ہیں.ہمیں اب پتا چلا ہے کہ ہم کیا چیز ہیں.پس نیکی پر خود اعتمادی یہ بہت ضروری ہے اور اس خود اعتمادی کے فقدان کے نتیجے میں نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں.پس جن بچوں کو آپ نے سوسائٹی میں بھیجنا ہے ان کو بتائیں کہ تمہاری عزت اور تمہاری اعلیٰ اقدار سچائی سے وابستہ ہیں.تمہاری عزت اور اعلیٰ اقدار گندگیوں سے منہ موڑنے سے وابستہ ہیں.سوسائٹی ایک طرف منہ کر کے جاتی ہے تم دوسری طرف منہ کر کے چلو اور اس میں تمہارا سر فخر سے اٹھنا چاہیے، ذلت کا احساس نہیں ہونا چاہیے.اگر نیکی کے ساتھ ذلت کا احساس ہوتو یہ نیکی کبھی بھی قائم نہیں رہ سکتی.پس اکثر خرابی یہاں بچوں میں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ ان کو گھر میں نیکی میں عزت کا احساس نہیں بتایا جا تا.یہ نہیں بتایا جا تا کہ تم میں تو اس سے خود اعتمادی پیدا ہونی چاہیے.تم اونچے ہو، گھٹیا لوگوں سے شرماتے ہو، یہ تم کیا چیز ہو.کیا کبھی جانوروں سے بھی تم شرمائے ہو کہ جانور ہر قسم کی بے ہودہ حرکتیں کر رہے ہیں اور تم انسانوں کی طرح چل رہے ہو.تمہیں جانوروں پر رحم تو آسکتا ہے مگر جانوروں سے شرما نہیں سکتے.پس انسانی ماحول میں بھی جانور بس رہے ہیں اور جانور جو مادر پدر آزاد ہیں.جانوروں سے بھی بے حیائیوں میں آگے بڑھ گئے ہیں.ان کے سامنے تمہیں سراٹھا کر چلنا ہے.یہ وہ تکبر ہے جس میں حقیقت میں بنیادی طور پر انکساری ہے کیونکہ خدا کی خاطر آپ اپنا سر اٹھا ر ہے ہیں اور ایسے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے کہ بعض دفعہ نیکیوں کا اثر ڈالنے کے لئے سر اٹھانا ہی نیکی بن جایا کرتا ہے.اپنی اعلیٰ اقدار پر سر اٹھا کر چلیں.کوڑی کی بھی پرواہ نہ کریں کہ کوئی آپ کو کس

Page 582

578 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم طرح دیکھتا ہے اور کیا سمجھ رہا ہے.یہ احساس خود اعتمادی گھر میں بچپن میں پیدا کرنا ضروری ہے.اگر آپ نے نہ کیا تو پھر بارہ، چودہ، پندرہ سال کے بعد بالکل آپ کا بس نہیں رہے گا.آپ کو اختیار نہیں رہے گا.پھر دنیا کی لذتیں ان کو اس عمر میں اپنی طرف اس طرح کھینچیں گی کہ ان کے نزدیک خود اعتمادی کا کوئی سوال باقی نہیں رہے گا.پس بہت سے ایسے خاندان میں نے دیکھے ہیں جن کے بچے ماں باپ سے ڈرے ہوئے تھے اور نظر آرہا تھا کہ ماں باپ بڑے جبار ہیں اور ان کی مجال نہیں کہ وہ ان سے ہٹ کر چلیں اور مجھے ان کے متعلق تشویش پیدا ہوتی تھی ، رحم آتا تھا کہ کیسی تربیت ہے کہ جب بھی یہ آزاد ہوں گے ان ماں باپ کی کوڑی کی بات بھی نہیں سنیں گے.پس خاص طور پر Afro-Americans بچوں کے لئے میں یہ نصیحت کر رہا ہوں کیونکہ میں نے دیکھا ہے Afro-Americans ماں باپ جو نیک اور مخلص ہیں وہ اس طرح کرخت بھی ہیں اور اپنے گھر میں اپنی سلطنت قائم کرنے میں بڑے جابر ہیں.ان کے بچوں کو میں نے دیکھا ہے بہت سر جھکا کر چل رہے ہیں، مجال ہے جو ادھر سے ادھر ہو جائیں.کئی دفعہ غلطی سے انہوں نے بایاں ہاتھ کر دیا تو سختی سے ڈانٹ پڑی.خبردار! دایاں ہاتھ آگے کر و.جزاکم اللہ اس طرح کہو ، فلاں بات یوں کہو اور ماں باپ سمجھ رہے ہیں کہ دیکھو ہم نے بچوں کی کیسی اچھی تربیت کی ہے.ان کو یہ پتہ نہیں کہ کل بچے مڑ کر دیکھیں گے اور کہیں گے.اب جو کرنا ہے کر لو، اب ہم تم سے نکل کے آزاد ہو چکے ہیں.تو نیکی کی لذت حاصل کرنا اور لذت حاصل کرنا سکھا نا یہ ماں باپ کا کام ہے.نیکی سے وابستگی لذت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی.کوئی انسان سر پھرا تو نہیں ہے کہ بے وجہ لذتوں سے منہ موڑ لے جب تک بہتر اور اعلیٰ لذتیں نصیب نہ ہوں.اس لئے خدا تعالیٰ کا یہ ایک دائمی قانون ہے جس کو آپ کو پیش نظر رکھنا ہے.اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ (المؤمنون: 97) سارے قرآن میں یہ مضمون بیان ہوا ہے.برائی کے خلاف جہاد کی اجازت نہیں جب تک کہ اس سے بہتر چیز آپ پیش نہیں کر سکتے.پس احسن کے ذریعے بدی کو دور کریں.اچھی چیز پاس ہے تو وہ دیں تا کہ بدی اس سے نکل کر دور بھاگے اور اچھی چیز میں خوبی یہ ہوا کرتی ہے یعنی اچھی چیز کا اچھا دیکھنا ضروری ہے، یہاں جا کر فرق پڑ جاتا ہے.جب آپ کے بچے اچھی چیز کو اچھا نہیں دیکھتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ سے ڈرے ہوئے ہیں.وہ سمجھتے ہیں ماں باپ کا خیال ہے کہ اچھی ہے.جب تک ہم ان کے قبضہ قدرت میں ہیں ہم بھی اچھا کہیں گے اس کو اور جب نکلیں گے تو پھر جو ہماری مرضی کریں گے.لیکن اچھے کو اچھا دکھانے کے لئے وہ تجربے

Page 583

579 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم ضروری ہیں جو میں نے آپ کے سامنے بیان کئے ہیں.اچھی چیزوں کی لذت دل میں پیدا کریں اور میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ صرف بحیثیت خلیفہ باقی بچوں کی تربیت میں اس سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے بچوں کی تربیت میں ہمیشہ اس سے کام لیا ہے اور اللہ کے فضل کے ساتھ جب ان کو نیکیوں سے محبت پیدا ہوئی تو اب مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں کہاں ہوں.اپنے گھروں کی تنہائیوں میں ، اپنے بچوں میں جہاں بھی وہ ہیں ان کو بچپن ہی سے نیکیوں سے پیار ہو چکا ہے اور وہ اس سے الگ نہیں ہو سکتے.پس آپ اپنے بچوں کو بچپن ہی میں وہ اہمیت دیں جس کے وہ مستحق ہیں.ان سے بڑوں کی طرح باتیں کریں ، ان کو سمجھا ئیں اور ساتھ لے کر چلیں.اس ضمن میں خود اعتمادی کے علاوہ بعض اور باتیں ہیں جواب بیان کرنا ضروری ہیں.مثلاً عبادت کا فلسفہ بچپن ہی سے ان کو سمجھانا ضروری ہے.میں نے یہ کہا کہ جب آپ ان کے دل میں نیکی کا پیار پیدا کر دیں، دل میں یقین بھر دیں کہ ہاں یہ اچھی چیز ہے وہ اس سے چھٹے رہیں گے.مگر یہ کہنا اس تحدی کے ساتھ جائز نہیں.کیونکہ بہت سے ایسے بچے بھی میں نے دیکھے ہیں جن کے ماں باپ نے پوری محنتیں کیں لیکن ماں باپ دنیا سے رخصت ہوئے.پھر وہ اس دنیا میں پڑ کر کہیں سے کہیں سرکتے ہوئے چلے گئے.ایک چیز ہے جو ہمیشہ ان کی محافظ رہ سکتی ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے اور عبادت کے فلسفے میں خدا کی محبت کا فلسفہ داخل کرنالازم ہے.کیونکہ اس کے بغیر حقیقت میں عبادت کے کوئی بھی معنی نہیں.پس بچپن ہی سے نیکیوں سے پیار کے ساتھ ساتھ اس وجود سے پیار پیدا کرنا ضروری ہے جو نیکیاں سکھانے والا ہے اور اس میں سب سے اہم انسانوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور پھر اس کے بعد عبادت کا فلسفہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے ہی سے بیان کیا جائے گا اور اس بات کو اگر بچے سمجھ لیں کہ عبادت کیوں ضروری ہے تو پھر وہ خود ہی عبادت کریں گے اور اگر وہ خود عبادت کرنے لگیں گے تو پھر ان کی عبادت کو پھل لگیں گے.اگر آپ کے کہنے پر عبادت کر رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ احمدیوں میں عبادت کرنی ضروری ہے تو وہ عبادت ضروری نہیں کہ ہمیشہ ان کا ساتھ دے.پس عبادت کے تعلق میں بعض اہم امور ہیں جو آپ کو پیش نظر رکھنے ضروری ہیں.عبادات کا فلسفہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کیوں کی جاتی ہے؟ انبیاء عبادت کیوں کرتے ہیں؟ اس

Page 584

580 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کا فلسفہ آپ کو سمجھایا جائے.بعض بچے کہتے ہیں صبح ہم سے اٹھا نہیں جاتا، کیوں اٹھیں.ایک دو نمازیں Miss ہو گئیں تو کیا فرق پڑ گیا.بعض کہتے ہیں چار پانچ Miss ہوگئیں تو کیا فرق پڑا.ہم اسی طرح ٹھیک ٹھاک ہیں.جب تک آپ عبادت کا فلسفہ ان کو نہیں سمجھائیں گے ان کو یہ فرق سمجھ میں نہیں آئے گا.ابھی ایک ملاقات میں ، یعنی ابھی سے مراد ہے کچھ دن پہلے، ایک بچے نے کہا کہ صبح کی نماز میں اس وقت اٹھنا کیوں ضروری ہے؟ اور اگر میں صبح کی نماز نہ بھی پڑھوں تو کیا فرق پڑتا ہے.میں نے کہا آپ مجھے یہ بتائیں آپ ناشتہ کرتے ہیں؟ کہا ہاں میں کرتا ہوں.تمہیں اچھا لگتا ہے؟ اس کو اتفاق سے اچھا لگتا تھا، بعض بچوں کو نہیں لگتا کہ ہاں مجھے بہت اچھا لگتا ہے.میں نے کہا نہ کیا کرو کیا فرق پڑتا ہے؟ تو اس کی سمجھ میں آئی ، ہاں فرق پڑتا ہے.مگر وہ فرق ہے کیا.یہ جب تک نہ سمجھایا جائے اس وقت تک محض فلسفیانہ جواب سے اگر عقل مطمئن بھی ہو تو پوری طرح دل مطمئن نہیں ہوا کرتا.ناشتہ اچھا لگتا ہے، اس لئے اس کو کھانے سے مزہ آتا ہے.اگر آپ کہہ دیں کہ عبادت بھی اور صبح کی نماز بھی ایک ناشتہ ہے تو مان تو جائے گا.مگر اس نماز میں اگر مزہ ہی نہ آئے تو اس کو کیا پتہ کہ یہ ناشتہ تھا بھی کہ نہیں.اس لئے عبادت میں مزہ پیدا کرنا یہ آغاز ہی سے ضروری ہے اور اس سلسلے میں بہت لمبی باتیں ہیں جو بیان کی جاسکتی ہیں مگر وقت کی رعایت کے پیش نظر میں مجبور ہوں کہ اس بات کو ذرا مختصر کروں.امر واقعہ یہ ہے کہ آپ نے کبھی اپنی عبادت پر غور کیا کہ آپ کو کیوں مزہ آیا؟ خدا سے تعلق کی جھر جھری جب تک دل میں پیدا نہ ہو اس وقت تک عبادت میں مزہ ہی نہیں آسکتا اور اس تعلق کو پیدا کرنے کے لئے احسان کرنے والے اور احسان مند کے درمیان جو رشتہ ہے اس کو کھولنا ضروری ہے.چنانچہ بچوں کو یہ سمجھانا پڑے گا تمہیں ناشتہ پسند ہے، مگر پتہ ہے ناشتہ پیدا کیسے ہوا؟ ایک ایسا قادر مطلق ہے جو رب العالمین ہے.اس نے تمام جہانوں کی ربوبیت کی ذمہ داری آپ اٹھا لی تھی.تمہیں تو خدا نے اتنے اچھے اچھے کھانے، اتنے اچھے اچھے رزق عطا فرمائے ہیں مگر ساری دنیا پر نظر ڈال کے دیکھو.سمندروں کی گہرائیوں میں بھی رزق مقرر ہے.اڑنے والے پرندوں کے لئے آسمان کی بلندیوں تک جو جاتے ہیں ان کے لئے بھی رزق مقرر ہے.کوئی کائنات میں ایسا جاندار نہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے رزق کے سامان نہ فرمائے ہوں اور اس پر اگر آپ غور کریں تو حیران رہ جاتے ہیں.ان کو سمجھانا پڑتا ہے.چنانچہ اپنے گھر میں بچوں کو بعض دفعہ میں سمجھا تا ہوں کہ باہر نکل کے دیکھو.پرندے صبح اٹھتے ہیں.ان کو کوئی پتہ نہیں کہ کہاں سے کیا ملے گا.کوے اٹھتے ہیں اور چہچہانے والے چھوٹے چھوٹے پرندے صبح کے

Page 585

مشعل راه جلد سوم 581 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی وقت بیدار ہو جاتے ہیں.پانی پہ بیٹھنے والے پرندے ہیں ان کو پتہ نہیں مچھلی کہاں ہے.ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ رزق کے سامان فرمائے ہیں بلکہ سامان حاصل کرنے کے ذریعے بھی بیان فرمائے ہیں.ان کے اندر ودیعت کر دیئے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ ایک جھیل پہ Seagulls اڑ کے اتر رہی تھیں بار بار ایک جگہ.میں نے ساتھ مسافروں کو سمجھایا.میں نے کہا دیکھو یہ Seagulls جو دیکھ رہی ہیں وہ تمہیں دکھائی نہیں دے رہا.تم ڈھونڈ رہے ہو، مچھلیوں کے لئے راڈیں پکڑی ہوئی ہیں اپنی، کہ کہاں مچھلیاں ہیں اور کچھ پتہ نہیں.لیکن ان کو خدا تعالیٰ نے نہ صرف وہ آنکھ دی ہے جو پہچانتی ہے مچھلیوں کو بلکہ جب ان پر گرتی ہیں تو بعینہ نشانے پر گرتی ہیں اور دیکھو جو بھی نیچے جاتی ہے کچھ اٹھا کر اوپر نکلتی ہے.کیسا کیسا قدرت نے رزق کا سامان مقرر فرمایا ہے.تم بھول جاتے ہو اس بات کو کہ جو ناشتہ تم کر رہے ہو، جو کھانا تم کھا رہے ہو اس کے لئے خدا نے قانونِ قدرت میں کتنی دیر سے سامان بنا رکھے ہیں.تو وہ ماں باپ جو تمہیں کوئی اچھا ناشتہ دیتے ہیں یا کوئی دوست دعوت کرتے ہیں.کسی کو چائنیز کھانا پسند ہے تو ہوٹل میں لے جاتے ہیں.دیکھو کتنا دل چاہتا ہے ان کا شکریہ ادا کرنے کو اور جتنا شکر یہ ادا کرتے ہو تمہیں بھی مزہ آتا ہے.جس کا شکر یہ ادا ہورہا ہے وہ بھول جاتا ہے کہ اس نے خرچ کیا تھا.اس کو خرچ میں مزہ آنے لگتا ہے.تو تم نے کبھی سوچا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے سارے سامان کر رکھے ہیں اور وہ نہ کرے تو کچھ بھی باقی نہ رہے.ایک پانی پر ہی غور کر کے دیکھ لو کہ قرآن کریم فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ بندوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر ہم پانی کو گہرائی میں لے جائیں تو کون ہے جو اسے نکال سکے.امر واقعہ یہ ہے کہ جب خشک موسم آتے ہیں تو پانی نیچے اترنے لگتے ہیں.جب نیچے اترنے لگتا ہے تو کوئی دنیا کی طاقت بڑی سے بڑی طاقت بھی ہوا تنا خرچ کر ہی نہیں سکتی کہ اسی پانی کو اٹھا کر اس سے اپنے رزق کے سامان بھی پیدا کرے اور پیاس بھی بجھائے.وہ اتر تے اتر تے اس مقام تک پہنچتا ہے کہ اس کو اوپر آنا بہت مہنگا ہو جاتا ہے اور پھر غائب بھی ہو جایا کرتا ہے.تو یہ تفصیل ہے جو رزق سے تعلق رکھتی ہے.اس ایک ناشتے کے حوالے سے آپ رفتہ رفتہ بچوں کو ایسی باتیں بتا سکتے ہیں جو قانون قدرت میں ہر جگہ دکھائی دیتی ہیں.ان کے لئے دلائل کی ضرورت نہیں ہے لیکن ان کو سمجھانا ضروری ہے.وہ سمجھیں اور ان کو بتائیں کہ دیکھو خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے سارے سامان کئے ہوئے ہیں اور خود غائب ہو گیا ہے.تم اسے ڈھونڈ واپنے تصور میں اور اس کا شکریہ ادا کرو.پھر تمہیں لذت آئے گی کہ شکریہ ہوتا کیا ہے اور جب تم شکریہ ادا کرو گے تو وہ خدا تم پر اور زیادہ مہربان ہوگا.

Page 586

582 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم یہ عبادت کا فلسفہ سکھانے کے لئے ابتدائی چیزیں ہیں.اس لئے بچے سے کہا جائے کہ جب تم نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہو، اگر تمہیں ساری نماز کا ترجمہ نہیں بھی آتا تو اس دن کی اچھی باتوں پر اللہ کا شکریہ ادا کر لیا کرو کہ اے اللہ ! تو نے آج میرے لئے یہ کیا، مجھے بہت مزہ آیا.میں نے آج ٹھنڈا پانی پیا، میں نے کوکا کولا پیا اور میں نے فلاں Ham Burger کھایا جو بھی کھایا کرتے ہیں لوگ یہاں ، تو اس وقت سوچا کرو کہ اصل دینے والا کون ہے.اگر اس طرح بعض لذتوں کا تعلق دینے والے ہاتھ کے ساتھ قائم کر دیا جائے تو یہ عبادت کا پہلا فلسفہ ہے جو بچے کے دل میں جانشین ہوگا اور پھر اسے ایک اور ہاتھ ہے جو اٹھا لے گا جس کے متعلق میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ بچہ جب پیار سے اپنے اللہ سے کوئی بات کرتا ہے تو میرا تجربہ ہے کہ اللہ ضرور اس کا جواب دیتا ہے اور ایک بچے کے دل میں اگر خدا کے لئے کوئی شکر پیدا ہو تو اللہ اس کے دس شکر ادا کرتا ہے اور ان معنوں میں وہ شکور ہے.اب حیرت کی بات ہے کہ اللہ تو ہر احسان کرنے والا اور ایسا وجود ہے جس کو کسی کے شکر کی ضرورت کوئی نہیں.کوئی اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتا.لیکن وہ شکریہ کس بات کا ادا کرتا ہے،شکر کا شکر یہ ادا کرتا ہے اور یہ چیز اس نے انسانی فطرت میں بھی رکھ دی ہے.پس بچوں کو سمجھانا ضروری ہے کہ دیکھو ایک بچہ تم سے کوئی اچھا سلوک کرے، رستہ چلنے والا تمہیں ایک لفٹ ہی دے دیتا ہے تو کتنا تمہارے دل میں شکر یہ اٹھتا ہے اور جب تم شکریہ کرتے ہو تو وہ بھی آگے تمہارے شکریے کا شکریہ ادا کرنے لگ جاتا ہے.کہتا ہے چھوٹی سی بات تھی کچھ بھی نہیں تھا، آپ نے تو بہت ہی محسوس کیا ہے.تو شکر کرنے والا حقیقت میں ایک بات کا شکر ادا کر رہا ہوتا ہے اور جو اس کے جواب میں شکر یہ ادا کرتا ہے وہ صرف شکر کا شکر یہ ادا کرتا ہے.تو شکر کو طاقت دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نظام قائم فرمایا ہے کہ بندہ ایک شکر کرتا ہے، اللہ دس شکر کرتا ہے اور ہر شکر کے جواب میں اس پر اور زیادہ احسان فرماتا ہے.اس طرح بچے کو اگر آپ سمجھا ئیں تو وہ خود دیکھے گا ، اپنی آنکھوں سے دیکھے گا کہ واقعہ ایسا ہوتا ہے، واقعہ اللہ تعالیٰ ہمارے ادنی ادنی شکر کو قبول فرماتے ہوئے اتنا شکر ادا کرتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.ایسے موقع پر لازم ہے کہ روح پچھلے خدا کے حضور اور ایسے موقع پر لازم ہے کہ روح خدا کے حضور سجدہ ریز ہو اور یہ باتیں وہ ہیں جو روز مرہ کے تجربے میں آئی ہوئی باتیں ہیں.کوئی فلسفہ ایسا نہیں جو آسمان پر اڑ رہا ہے.یہ فلسفہ وہ ہے جو روزمرہ زندگی میں انسانی تعلقات میں بھی ہم دیکھ رہے ہیں اور بندے اور خدا کے تعلق میں بھی یہی دکھائی دیتا ہے.تو محض یہ کہ دینا کہ جی پانچ وقت نماز میں ضروری ہیں، تم نے لا زما پڑھنی ہیں ، یہ اور بات ہے اور ان نمازوں سے

Page 587

583 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم محبت پیدا کرنا اور نمازوں کا فلسفہ سکھانا یہاں تک کہ وہ دل کو متحرک کر دے، دل میں ایک تموج پیدا کر دے، یہ وہ چیز ہے جو بچوں کی آئندہ نمازوں کی حفاظت کرے گی اور ایسی حفاظت کرے گی کہ ماں باپ بچپن سے ہی ان کو چھوڑ کر جاسکتے ہیں پھر وہ خدا کے حوالے ہوں گے.اللہ ان کا ہاتھ پکڑ لے گا اور ماں باپ کی آرزوؤں کو ایسے وقت میں پورا کرے گا جب ماں باپ موجود ہی نہیں ہیں.پس اگر اپنے بچوں کے دل میں خدا کی محبت عبادت کے حوالے سے پیدا کریں تو یہ نظام وہ ہے جو بچوں کی ہر حال میں ہر جگہ حفاظت فرمائے گا.ایسے اعلیٰ کردار کے بچے جب پیدا ہوں پھر وہ سوسائٹی میں جائیں تو ان کو اس کی کوئی بھی پرواہ نہیں ہوگی.یعنی اس پہلو سے تو پرواہ ہوگی کہ یہ بھی اچھے ہو جائیں.اس پہلو سے پرواہ ہوگی کہ ان کو بھی میں بتاؤں کہ خدا کی محبت میں کیا مزے ہیں نیکیوں میں کیا لذات ہیں.مگر اس پہلو سے کوئی پرواہ نہیں ہوگی کہ وہ ان نیکیوں کو بدی کے ساتھ دیکھ رہا ہے.چنانچہ آپ ہی کے امریکہ میں ایک دفعہ نہیں، بارہا ایسا ہوا ہے کہ بعض احمدی بچوں نے لڑکوں نے یا بعض احمدی لڑکیوں نے خطوں کے ذریعے مجھ سے سوال کئے اس طرح ہمارے لئے مسئلہ در پیش ہے، بتائیں ہم کیا کریں.ان کو میں نے یہ تفصیل سے تو نہیں سمجھا یا مگر کسی حد تک مختصر مرکزی بات سمجھا دی کہ آپ اگر ایک بات کو نیکی سمجھ رہے ہیں تو اس کے اوپر ذاتی فخر محسوس کریں اور سوسائٹی کی کوئی پرواہ نہ کریں.پھر دیکھیں کہ آپ کے دل میں کیا کیفیات پیدا ہوتی ہیں اور بلا استثناء ان سب نے مجھے یہی بتایا ، کسی نے جلدی کسی نے دیر کے بعد ، کہ اب تو ہم مؤثر ہونے لگ گئے ہیں اور سوسائٹی متاثر ہو رہی ہے.اب لوگ قریب آکر ہمارے انداز سیکھ رہے ہیں.اس ضمن میں ایک اور بات جو آپ کو سمجھانے والی ہے وہ یہ ہے کہ بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو آپ معمولی نہ سمجھا کریں.میں نے کئی بچوں کو دیکھا ہے ان کے گلے میں تعویذ سے لٹکے ہوئے ہیں.کسی کے کان میں بندا پڑا ہوا ہے، کسی کے بالوں کا حلیہ بگڑا ہوا ہے، قریب سے رگڑے گئے ہیں بال اور اوپر سے بڑے بڑے ہیں.ٹوپی پہنیں تو لگتا ہے ٹنڈ کروائی ہوئی ہے.ٹوپی اتاریں تو بڑے بڑے بال دکھائی دیتے ہیں.ان کو سمجھانا چاہیے کہ اگر تم کچھ عرصہ پہلے، جب یہ فیشن نہیں تھا، کسی دکان میں جاتے وہ یہ حالت تمہاری بنادیتا تو نہ صرف یہ کہ تم نے پیسے نہیں دینے تھے اس سے بڑی سخت لڑائی کرنی تھی کہ او بد بخت تو نے کیا حال بنا دیا ہے.یہ کوئی شکل ہے میری دیکھنے والی.اب اسی شکل کو تم لئے پھرتے ہو سوسائٹی میں، اس لئے نہیں کہ تمہیں پسند ہے.اس لئے کہ تم پیچھے چلنے لگ گئے ہو، تم غلام ہو گئے ہو اور غلام کی کوئی عزت نفس

Page 588

مشعل راه جلد سوم 584 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نہیں ہوا کرتی.ان کو یہ سمجھائیں کہ کیا ہو گیا ہے.تم فیشن کی پیروی کرنے والے نہ بنو، فیشن بنانے والے بن جاؤ.وہ بنو جس کے پیچھے لوگ چلا کرتے ہیں.تو اگر بچے سمجھ جائیں بات کو تو ان کے اندر تبدیلی ہوتی ہے.انگلستان میں بارہا ایسا مجھے تجربہ ہوا ہے.کئی بڑے بڑے چھتوں والے میرے پاس آئے ، بعضوں نے گئیں بنائی ہوئیں تھیں اور میں نے کہا یہ تم نے کیا کیا ہوا ہے.تو ماں باپ نے کہا کہ یہ بات نہیں مانتا.آپ چھوڑ دیں اس کو.میں نے کہا کیوں نہیں مانتا.میں ابھی سمجھاتا ہوں اس کو اور اگلی دفعہ آئے بالکل ناریل ، گتیں کاٹی ہوئیں، بعضوں نے میرے سامنے ہی اپنے تعویذ نوچ پھینکے کہ آج کے بعد ہم نہیں پہنیں گے یہ ذلیل چیز.تو سمجھانے سے انسان اپنے اندر تبدیلی پیدا کیا کرتا ہے اور سمجھانے سے اندر کا انسان بدلتا ہے.جب تک آپ اندر کے انسان کو نہیں بدلیں گے بیرونی انسان بدلنے سے کیا حاصل ہوگا.پس وہ سوسائٹی جو مخالفانہ اثر رکھنے والی سوسائٹی ہے اس نے تو ہر وقت آپ کے بچوں کو آپ سے چھینے کی کوشش کرنی ہے.آپ کا جواب یہ ہونا چاہیے کہ ان کے اندروہ دفاع پیدا کر دیں کہ سوسائٹی کو جرات نہ ہو ان کو بدلنے کی اور وہ سوسائٹی کو بدلیں اور اپنے گرد و پیش میں تبدیلیاں پیدا کریں.پس وہ احمدی جو نواحمدی ہیں مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اب ہم امریکہ کو کیسے بدلیں گے.ان کو میں یہ جواب دے رہا ہوں کہ اسی طرح بدلیں گے جیسے ایک انسان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری سوسائٹی کو بدل دیا تھا اور اس میں تبدیلی پیدا کرنے والی ایسی باتیں پیدا ہو چکی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ساری دنیا کو تبدیل کرنے کے لئے مقرر فرما دیا.آج وہ ہم میں نہیں مگر ان کی قوت قدسیہ ہم میں موجود ہے.وہی قوت قدسیہ ہے جس نے مسیح موعود کو پیدا کیا ہے، وہی قوت قدسیہ جو آج جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے نیکی کے لئے محبت کرنے والے پیدا کر رہی ہے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آج سے چودہ سو سال پہلے ساری دنیا کو بدلنے کے لئے اگر پیدا کیا جاسکتا تھا تو آخر کیوں پیدا کیا گیا تھا.اس لئے کہ آپ نے اپنے اندر وہ تبدیلی پیدا کر لی تھی جو ماحول کو بدلا کرتی ہے.آپ ایک ذرہ بھی ماحول سے متاثر ہونے والے نہیں رہے.پس اپنے اندر وہ انسان پیدا کریں اور اپنے بچوں میں وہ انسان پیدا کریں کہ متاثر ہونے کی بجائے مؤثر ہو جائے اور یہی خاتم کا دوسرا نام ہے.بعض لوگ سمجھتے نہیں کہ خاتمیت کیا چیز ہے.تو آنکھیں بند کر کے بس خاتمیت کا لفظ اٹھائے چلے جاتے ہیں کہ اب نبی کوئی نہیں، نبی کوئی نہیں.خاتمیت تو ایک ایسی مہر ہے جو محمد رسول اللہ کے ہر غلام میں لازماً پیدا ہونی چاہیے.خاتمیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری مہر دوسرے پر اثر انداز ہو جیسے تم ہو کم سے کم ویسا تو بن سکے اور اسی میں ہمارے لئے ایک خوش خبری بھی ہے اور ایک خطرے کا

Page 589

مشعل راه جلد سوم الا رم بھی ہے.585 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ آنے والے بہت سے آرہے ہیں اور مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب امریکہ میں بھی ( دعوت الی اللہ ) تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے.ابھی اس میں بظاہر اتنی تیزی پیدا نہیں ہوئی جتنی میں توقع رکھتا ہوں.لیکن ملاقاتوں میں میں نے ایسے مخلص نئے آنے والے دیکھے ہیں اور نئی آنے والیاں دیکھی ہیں جن کے متعلق بعض دفعہ میں سمجھتا تھا کہ پیدائشی احمدی ہیں اور جب پوچھا گیا تو کسی نے کہا میں چھ مہینے پہلے ہوا تھا یا سال پہلے احمدی ہوئی تھی.بہت نمایاں پاکیزہ تبدیلیاں ہیں.لیکن اگر پرانے احمدیوں میں ان کے اندر وہ تبدیلیاں پیدا نہ ہوئیں تو یہ لوگ پھر زیادہ دیر آپ کے ساتھ نہیں رہ سکیں گے اور ہر وہ شخص جو کسی اور میں پاک تبدیلی پیدا کرتا ہے وہ ایک مہر کا مقام رکھتا ہے، وہ اپنی مہر دوسروں پر چسپاں کیا کرتا ہے اور اکثر اس کی بدیاں دوسرے میں منتقل ہو جایا کرتی ہیں.پس اس پہلو سے اپنے بچوں کی بھی حفاظت کریں.ان کو چھوٹے چھوٹے خاتم بنالیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں کو دوسروں میں رائج کرنے کی طاقت رکھیں.اگر مہر پر دوسری مہر لگ جائے اور وہ مہر مٹ جائے تو اس کو مہر کہا ہی نہیں جاتا.پس آپ وہ مہر بنیں جو غیر اللہ کا اثر قبول نہ کرے ورنہ آپ کے نقوش مٹ جائیں گے.آپ اپنی مہر کو جب جس پر ثبت کریں گے جو آپ سمجھ رہے ہیں وہ اس پر ثبت نہیں کرے گی کیونکہ دنیا نے اس کے نقوش بدل دیئے ہوں گے.پس سمندر کی لہروں کی طرح جو ریت پر کچھ نقشے بناتی ہیں اپنے نقشے ایسے نہ بنائیں کہ ہر اٹھنے والی لہر اس نقشے کو پھر بدل جائے.آج کی لہروں نے کچھ ور نقشہ کھینچے ہیں، کل کی لہریں کچھ اور نقشے بنا جا ئیں.آپ نے تو دائما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کا نقشہ اپنے اندر بناتا ہے اور پھر اس کو جاری کرنا ہے.پس جب تک اپنے بچوں میں جاری نہیں کریں گے آئندہ نسلیں سنبھالی نہیں جاسکیں گی.اور وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ یا درکھو خدا کا یہ پیغام ہے.آج دیکھو کہ کل کے لئے تم کیا بھیج رہے ہو.اللہ تعالیٰ خوب باخبر ہے اس سے جو تم کرتے ہو.اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ اگر آج تمہارے نقوش پختہ ہیں ، اگر آج تمہارے نقوش دائمی ہیں تو کل تمہاری نسلوں کے نقوش بھی پختہ اور دائمی ہوں گے.اگر آج یہ روز مرہ مٹنے والے اور بدلنے والے ہیں تو کل کی نسلوں کی کیا ضمانت ہے.وہ بھی اسی طرح سمندری لہروں کے سہارے روز اپنے نقش بدلا کریں گی.پس اللہ تعالیٰ جماعت کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ ( دعوت الی اللہ ) کے نئے بڑھتے ہوئے تقاضوں کو جس طرح میں مختصراً آپ کو سمجھا رہا ہوں ان تقاضوں کو آپ پوری

Page 590

مشعل راه جلد سوم 586 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی طرح آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں اور ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں لیکن ایک فرض کے طور پر نہیں بلکہ دلی لگاؤ کے ساتھ.دلی لگاؤ اور اعلیٰ اقدار کا ایک گہرا تعلق ہے جو اعلیٰ اقدار کے دوام کے لئے ضروری ہے.عارضی طور پر اگر آپ نصیحتیں سن کر اپنے اندر مشکل سے تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں اور ان نیک تبدیلیوں پر قائم رہنے میں ہمیشہ مشکل محسوس کرتے ہیں تو ان کے دوام کی کوئی ضمانت نہیں.کچھ عرصہ کے بعد آپ کا دل ہار جائے گا اور کہیں گے چلو کوئی بات نہیں، کچھ دیرہ نیکی کر لی، اب چلو دنیا کے عیش بھی دیکھ لیں.لیکن اگر آپ کو ان سے محبت ہو جائے ان قدروں کے ساتھ ، ان اخلاق کے ساتھ جو نیکی کی محبت آپ کے دل میں پیدا کر رہی ہیں تو پھر کسی فکر کی ضرورت نہیں ہے.جس ماحول میں آپ جائیں گے وہ آپ کے ساتھ ساتھ جائیں گی.ہمیشہ وہ ماحول کو آپ کے مزاج کے مطابق تبدیل کرتی رہیں گی.آنے والوں کا ہم پر حق ہے پس اس پہلو سے آئندہ آنے والی (تربیت) کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار کریں اپنی نسلوں کے لئے جو آپ خدا کے حضور جواب دہ ہیں، اس نقطہ نگاہ سے بھی ان کو تیار کریں اور یا درکھیں کہ آنے والوں کا ہم پر حق ہے.ہر آنے والے نے اس کی مہر کو ضرور قبول کرنا ہے یا اس کے اثر کو کچھ نہ کچھ ضرور لینا ہے جس نے اسے احمدیت کا پیغام دیا.پس بہت بڑا کام ہے مگر ہمیں کرنا ہے.امریکہ کی تبدیلی ایک بہت بڑی تبدیلی ہے.اگر اب ہم نے نہ کی تو کوئی اور نہیں کر سکے گا.یہ ایک ایسی قطعی بات ہے جس میں کوئی آپ تبدیلی نہیں دیکھیں گے.آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام دنیا میں تبدیلیاں اور پاک تبدیلیاں قائم کرنے کے لئے پیدا فرمائے گئے ہیں.ان کو دنیا سے نکال دو تو دنیا میں کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.دیکھو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا سے کیا عرض کیا تھا، جب آپ کو بتایا گیا کہ لوط کی قوم مٹائی جانے والی ہے تو بہتوں سے شروع کر کے آخر دس تک جا پہنچے، اے خدا! ان میں دس بھی نیک نہیں ہیں جن کی خاطر لاکھوں کو زندہ رکھا جاتا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے جواب دیا کہ دس بھی نیک نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رحم کے تعلق میں بہت جھگڑا کرنے والا تھا اور یہ ایک ابرا ہیم علیہ السلام کی تعریف ہے جو بظاہر برائی ہے.مگر اللہ بڑے محبت کے انداز میں بیان کر رہا ہے کہ یہ تو ہم سے بھی جھگڑا کرتا ہے مگر ہماری مخلوق پر رحم کرتے ہوئے.وہاں ابراہیم نے جھگڑا چھوڑ دیا اے خدا ! اگر ان میں دس بھی ایسے نہیں ہیں تو پھر

Page 591

مشعل راه جلد سوم 587 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی میں کچھ مطالبہ نہیں کرتا.تو تم تو ہزاروں لاکھوں ہو کر وڑ بیان کئے جاتے ہو، کروڑ سے بھی اوپر کی باتیں کر رہے ہو.میں خدا کی قسم کھا کے کہتا ہوں اگر تم اپنے اندر وہ نقوش پیدا کر لو جو نقوش مہرمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش ہیں تو اربوں آپ کی وجہ سے بچائے جائیں گے.ہو نہیں سکتا کہ دنیا ہلاک ہو جب تک آپ اس دنیا میں موجود ہیں.پس امریکہ کے متعلق مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے.اگر یہاں پانچ ہزار بھی ایسے ہو جائیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حضرت اقدس محمد رسول اللہ کے نقوش اپنے اندر اپنانے والے ہوں تولا ز ما امریکہ کو بچایا جائے گا.لیکن اگر گہرائی میں اتر کے دیکھیں تو پانچ ہزار بھی ایسے نہیں بنتے.ہمیں بنانے کی ضرورت ہے، محنت کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کے حوالے سے سب دنیا کو بھی ( دعوت الی اللہ ) کے نئے دور میں داخل ہوتے وقت ان تقاضوں کو پیش نظر رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 8اگست تا 14 اگست 1997ء)

Page 592

مشعل راه جلد سوم 588 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 593

مشعل راه جلد سوم 589 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جولائی 1997ء عظمت قرآن کریم تلاوت قرآن کریم کی اہمیت ہماری نسلوں کو اگر سنبھالنا ہے تو قرآن کریم نے تربیت کا ایک بڑا طریق ، اللہ تعالیٰ سے سوالوں کے جواب مانگیں اگلی صدی سے پہلے پہلے ہر خاندان کا ہر ایک شخص نمازی ہو جائے

Page 594

مشعل راه جلد سوم 590 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 595

مشعل راه جلد سوم 591 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضرت خلیفہ اصبح الرابع رحم الله تعالى تشهد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرماتے ہیں:.الم ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِيْنَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُوْنَ O (البقره: 2 تا4) الحمد للہ ، آج اس خطبے کے ساتھ میرا مختصر دورہ کینیڈا اختتام پذیر ہوگا.اس عرصے میں مجھے یہاں بھی بہت سے خاندانوں سے ملنے کا موقع ملا اور بالعموم کثرت سے جماعت کو دیکھنے کا موقع ملا اور گزشتہ روز جب میں آٹو وا اور مانٹریال کے سفر پہ تھا تو وہاں بھی کثرت سے جماعتوں سے ملاقات ہوئی اور ان کے حالات کو قریب سے دیکھا.اس خطبے میں خصوصیت کے ساتھ میں نے عبادت کا مضمون چنا ہے اور اسی لئے میں نے وہ آیات تلاوت کی ہیں جو قرآن کریم کی سورہ بقرہ کی پہلی آیات ہیں.سب سے پہلے اللہ تعالیٰ قرآن کریم کا تعارف ان الفاظ میں فرماتا ہے.ذلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ یہ کتاب ہے بلکہ ذلِكَ الْكِتَابُ فرمایا.وہ کتاب ہے.حالانکہ بظا ہر قرآن کریم ہر پڑھنے والے کے سامنے ہوتا ہے اور عام انسان کا کلام ہوتا تو کہتا یہ کتاب ہے.لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس ”وہ“ میں بہت سے معافی مضمر ہیں.ہدایت اسی کتاب سے ملے گی ایک تو یہ کہ انسان کو یہ وہم ہے کہ وہ قرآن کریم کو ز خود پاسکتا ہے.سامنے پڑی ہوئی کھلی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے وہ کتاب ہے.یعنی تم سے دور ہے اور تمہارے قریب آسکتی ہے.مگر کچھ شرطیں ہیں جو پوری کرنی ہوں گی اور پھر ذلک میں اشارہ گزشتہ پیشگوئیوں کی طرف بھی ہے.کیونکہ تمام انبیاء نے مختلف رنگ میں آنے والے رسول حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر نازل ہونے والی عظیم

Page 596

592 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم کتاب کی خوشخبری دی تھی.الکتاب“ سے مراد وہ کتاب ہے جو ہمیشہ سے جس کا وعدہ دیا گیا ہے اور ہمیشہ سے تو میں اس کا انتظار کر رہی تھیں اور آج وہ ہمارے سامنے ہے.”ذلِكَ الْكِتَابُ“ میں ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ تم سے دور تو ہے لیکن قریب آسکتی ہے.لَا رَيْبَ فِيهِ“ اس بات میں کوئی شک نہیں.لاریب“ کے ساتھ جب ذلک“ کو پڑھیں تو یہ معنی ہوگا کہ وہ کتاب تو ہے مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ”هُدًى لِلْمُتَّقِينَ “ یہ ہدایت ہے متقیوں کے لئے اور لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِيْنَ “ کا ایک معنی یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر ان متقیوں کے لئے جن کے لئے ہدایت بنتی ہے.بغیر تقومی کے اس کتاب کو پڑھو گے تو کئی قسم کے شکوک پیدا ہوتے رہیں گے.مگر یہ عجیب کتاب ہے جو شک سے پاک ہونے کے باوجود غیر متقیوں کے دلوں میں شک پیدا کرتی ہے اور متقیوں کے دلوں کو شکوک سے پاک کر دیتی ہے.پس اس مختصر کلام میں جس میں ایک آیت ابھی پوری نہیں ہوئی اللہ تعالیٰ نے کتنے مضامین بیان فرما دیئے.ہماری نسلوں کو اگر سنبھالنا ہے تو قرآن کریم نے ایک امر بہر حال یقینی اور قطعی ہے کہ جو کچھ بھی ہم نے ہدایت پانی ہے اسی کتاب سے پانی ہے.پس سب سے پہلے تو عبادت کے تعلق میں کلام الہی کا پڑھنا ایک بنیادی امر ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرتا ہوں.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے بہت کم ایسے خاندان ہیں جن میں روزانہ تلاوت ہوتی ہو.شاذ کے طور پر ایسے بچے ملیں گے جو صبح اٹھ کر نماز سے پہلے یا نماز کے بعد کچھ تلاوت کرتے ہوں اور یہ جائزہ فیملی یعنی خاندانوں کی ملاقات کے دوران میں نے لیا اور اکثر بچوں کو اس بات سے بے خبر پایا.وہ تربیت کے مسائل جن پر میں گفتگو کرتا رہا ہوں وہ سارے بے حقیقت ہو جاتے ہیں اگر اس بنیادی حقیقت کی طرف توجہ نہ کریں کہ ہماری نسلوں کو اگر سنبھالنا ہے تو قرآن کریم نے سنبھالنا ہے اور قرآن کریم سے دو باتیں لازم ہیں.ہدایت ہے مگر نہیں بھی ہے.ہدایت ان لوگوں کے لئے ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں.جو تقویٰ اختیار نہیں کرتے ان کے لئے ذلِكَ الْكِتَابُ دور کی کتاب رہے گی ، جو بظاہر ان کے سامنے ہے مگر ان سے دور ہٹی رہے گی.تو جب تک یہ کتاب قریب نہ آئے اس دنیا کے مسائل حل نہیں ہو سکتے اور کینیڈا کی جماعتوں کو خصوصیت سے اس طرف توجہ دینی چاہیے.بعض باتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کینیڈا میں پہلے سے

Page 597

593 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم بہتر ہو رہی ہیں مگر اگر بنیادی مقصد دور ہی رہے تو اس ظاہری ہنگامے کا کوئی بھی فائدہ نہیں.یہ ہنگامے رفتہ رفتہ مرجایا کرتے ہیں.رفتہ رفتہ اگلی نسلیں ایسی ہوتی ہیں جو خدا کو بھلا دیا کرتی ہیں.مگر کلام الہی سے محبت ایک ایسی چیز ہے جو نسلوں کو سنبھالے رکھتی ہے.پس بچپن ہی سے اس بات پر زور دیں یعنی آپ کے بچوں کے بچپن.آپ تو بڑے ہو چکے ہیں.آپ نے تو ، جس طرح بھی خدا نے چاہایا آپ نے چاہا خدا کی مرضی کے مطابق یا اس کے خلاف زندگی بسر کر لی.لیکن اگلی نسلیں آپ کی ذمہ داری ہیں اور آئندہ صدی ان انگلی نسلوں کی ذمہ داری ہوگی.پس آج اگر آپ نے ان کو قرآن کریم پر قائم نہ کیا تو باقی ساری باتیں جو اس کے بعد بیان ہوئی ہیں ان میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے.قرآن کریم پر زور دینا اور تلاوت سے اس کا آغاز کرنا بہت ہی اہم ہے.مگر تلاوت کے ساتھ ان نسلوں میں ، ان قوموں میں جہاں عربی سے بہت ہی نا واقفیت ہے، ساتھ ترجمہ پڑھنا ضروری ہے.ترجمے کے لئے مختلف نظاموں کے تابع تربیتی انتظامات جاری ہیں مگر بہت کم ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا اٹھا سکتے ہیں.اس لئے جب میں ایسی رپورٹیں دیکھتا ہوں کہ ہم نے فلاں جگہ قرآن کریم کی کلاس جاری کی یا فلاں جگہ قرآن کریم کی کلاس جاری کی تو میں ہمیشہ تجب سے دیکھتا ہوں کہ اس کلاس میں سارے سال میں بھلا کتنوں نے فائدہ اٹھایا ہوگا اور جو فائدہ اٹھاتے بھی ہیں تو چند دن کے فائدے کے بعد پھر اس فائدے کو زائل کرنے میں باقی وقت صرف کر دیتے ہیں.وہی بچے ہیں جن کو آپ نے قرآن کریم سکھانے کی کوشش کی.چند دن بعد ان سے پوچھ کے دیکھیں تو جو کچھ سیکھا تھا سب بھلا چکے ہوں گے.بڑی وجہ اس کی یہ ہے کہ ہماری جو بڑی نسل ہے اس نے قرآن کریم کی طرف پوری توجہ نہیں دی اور اکثر ہم میں بالغ مردوہ ہیں جو دین سے محبت تو رکھتے ہیں لیکن ان کو یہ سلیقہ سکھایا نہیں گیا کہ قرآن سے محبت کے بغیر دین سے محبت رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا، اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.وقتی طور پر تو فوائد تو ہیں لیکن ان فوائد کا اعلیٰ مقصد یہ ہے کہ ان کی دین سے محبت ، دین کے لئے وقت نکالنا، دین کے لئے محنت کرنا ان کو گھیر کر قرآن کی طرف لے آئے.اگر یہ فائدہ نہ ہو تو وہ کوششیں بے کار ہیں.کیونکہ قرآن کریم کا پہلا تعارف ذلِكَ الْكِتَابُ ہے.وہ کتاب جس کی قوم انتظار کر رہی ہے.جب سے دنیا بنی ہے اس کتاب کا انتظار تھا بنی آدم کو اور جب یہ آ گئی تو کتنے ہیں جو اس سے پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں.پس حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ رسول شکوہ کرے گا اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو مہجور کی طرح چھوڑ دیا.پس آپ وہ قوم نہ بنیں جن

Page 598

594 مشعل راه جلد سوم ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی سے قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شکوہ ہو کہ اے خدا! میری کہلانے والی، مراد کہلانے کا مضمون اس میں داخل ہے، میری کہلانے والی قوم نے اس قرآن کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا، مہجور کی طرح چھوڑ کر چلی گئی.پس آج جماعت کینیڈا کی تربیت کی ایک ہی پہچان ہے.کیا آپ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ شکوہ.جائز تو ہوگا شکوہ، مگر آپ دل میں سوچ کے دیکھیں کہ شکوہ آپ پر اطلاق پائے گا کہ نہیں.آپ میں سے کتنے ہیں جن کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن خدا کے حضور عرض کر سکتے ہیں کہ اے خدا! یہ میری قوم ہے جس نے قرآن کو مجبور کی طرح نہیں چھوڑا.پس بہت ہی اہم مسئلہ ہے اور عبادت کی جان قرآن کریم ہے.عبادت سے پہلے بھی قرآن ہے یعنی تہجد کے وقت بھی جتنی توفیق ملے.قرآن کریم فرماتا ہے قرآن کی تلاوت کیا کرو اور عبادت کے دوران بھی تلاوت ہے اور عبادت کے بعد بھی تلاوت ہے.پس تلاوت قرآن کریم کی عادت ڈالنا اور اس کے معانی پر غور سکھانا ، یہ ہماری تربیت کی بنیادی ضرورت ہے اور تربیت کی کنجی ہے جس کے بغیر ہماری تربیت ہو نہیں سکتی اور یہ وہ پہلو ہے جس کی طرف اکثر مربیان ، اکثر صدران، اکثر امراء بالکل غافل ہیں.ان کو بڑی بڑی ( بیوت الذکر ) دکھائی دیتی ہیں ، ان کو بڑے بڑے اجتماعات نظر آتے ہیں.وہ دیکھتے ہیں کہ بڑے جوش سے اور ذوق و شوق سے لوگ دور دور کا سفر کر کے آئے اور چند دن ایک جلسے میں شامل ہو گئے.لیکن یہ چند دن کا سفر تو وہ سفر نہیں ہے جو سفر آخرت کے لئے مد ہو سکتا ہے.سفر آخرت کے لئے روزانہ کا سفر ضروری ہے اور روزانہ کے سفر میں زاد راہ قرآن کریم ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مومن کی مثال اسی طرح دی ہے.یہ نہیں فرمایا کہ تین سو پچپن دن سوتا ہے اور پھر پانچ دس دن کے لئے جاگتا ہے اور سفر شروع کر دیتا ہے.فرمایا مومن کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی روزانہ سفر کر رہا ہو.کچھ صبح، کچھ شام کو، کچھ دوسرے وقت میں، دوپہر کو کچھ آرام بھی کر لے مگر سفر روزانہ جاری رہنا چاہیے اور ہر سفر کے لئے قرآن کریم فرماتا ہے زادِ راہ ہونا چاہیے اور زاد راہ تقوی بیان فرمایا اور یہی زادِ راہ ہے جس کو قرآن کریم کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے.پس تقوی اور قرآن کریم تو روز کے سفر کے قصے ہیں.یہ کوئی ایک آدھ دفعہ سال میں سفر کرنے سے تعلق رکھنے والی بات نہیں، روزانہ ضرورت ہے.روزانہ قرآن کو پڑھنا اور روزانہ تقویٰ کے سہارے جو زادِ

Page 599

595 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم راہ ہے یعنی جس سے قوت ملتی ہے قرآن کریم سے کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل کرتے چلے جانا ہے.یہ وہ بنیادی امر ہے جس کے لئے صرف تنظیموں کے اجتماعات کی ضرورت نہیں تنظیموں کے اجتماعات ان باتوں میں نئی دلچسپیاں پیدا کر دیا کرتے ہیں مگر سارا سال دلچسپیاں قائم رکھنے کے لئے ماں باپ کی دلچسپی کی ضرورت ہے اور ماں باپ تب دلچسپی لے سکتے ہیں کہ پہلے اپنی ذات میں دلچسپی لیں.دنیا کے کسی حصہ میں پہنچے ہوں، ایک دفعہ انہیں عزم کرنا ہوگا کہ ہم نے خدا کی طرف سفر کا آغاز کرنا ہے اور یہ سفر قرآن کے بغیر ممکن نہیں اور قرآن کا سفر زاد راہ چاہتا ہے.یعنی رستے کا سامان جو ہر مسافر ساتھ باندھ لیا کرتا ہے.جب بھی لوگ سفر پہ چلتے ہیں تو سوائے اس کے کہ رستے میں کچھ کھانے پینے کے ہوٹل ایسے ہوں جہاں سے چیزیں خریدنی ہوں مگر عموماً اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ باندھ لیا کرتے ہیں اور تقویٰ ہے جس کو ساتھ لے کر چلنا ہے.پس فرمایا ” ذلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ» (سورۃ البقرہ:3) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ شک سے بالا کتاب ہے مگر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ہدایت صرف متقیوں کے لئے ہے.جو تقویٰ سے آراستہ ہوں گے ان کے لئے ہدایت کا سامان پیدا کرے گی.پس قرآن کا تقویٰ سے مطالعہ، یہ دو چیزیں اکٹھی کر دی گئی ہیں.بعض اوقات لوگ سالہا سال تلاوت قرآن کرتے ہیں مگر اس طرح جیسے طوطارٹی ہوئی باتیں دہراتا ہے.اس سے زیادہ ان کو کوئی سمجھ نہیں آتی اور یہ تقویٰ سے عاری سفر ہے.سفر تو ہے مگر بھو کے ننگے کا سفر ہے.حقیقت یہ ہے کہ تقویٰ قرآن کے تعلق میں یہ بات یاد دلاتا ہے کہ قرآن کریم میں کچھ چیزوں سے بچنے کا حکم ہے، کچھ رستوں کو اختیار کرنے کا حکم ہے اور بنیادی معنوں میں تقویٰ کا یہی معنی ہے کہ پتہ ہو کہ کہاں سے بچنا ہے اور کس رستے پہ قدم بڑھانے ہیں.تقویٰ کے نتیجے میں انسان قرآن کریم پر جب غور کرتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معانی عطا ہوتے ہیں.چنانچہ اسی مضمون کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا " لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعہ: 80) کہ ہاتھ تو بظاہر لوگ لگاتے ہیں لیکن سوائے ان کے جن کو خدا پاک کرے، کوئی اس کتاب کو ہاتھ نہیں لگا سکتا.تو دیکھو دونوں مضمون ایک ہی ہیں اور مختلف رنگ میں ایک ہی بات آپ کو سمجھائی گئی ہے کہ قرآن کریم کے ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی طرف ساری جماعت کو متوجہ ہونا چاہیے.کوئی بھی ایسا نہ ہو جس کے پاس سوائے اس کے کہ شرعی عذر ہو جو روزانہ قرآن کریم کی تلاوت سے محروم رہے.تمام بچوں کو اس راہ پر ڈالیں.دیکھیں جب سکول کے لئے وہ چلتے ہیں تو آپ کتنی محنت ان پر کرتے ہیں.مائیں دوڑتی پھرتی ہیں ناشتہ کراؤ ، منہ ہاتھ دھلاؤ، بستے ٹھیک کرو اور قرآن کریم کی طرف محنت نہیں

Page 600

596 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم ہے.یہ ایک دن کا سفران کا سکول کی طرف ایسا ہے جس کے لئے آپ کی ساری توجہ مبذول ہو جاتی ہے اور ہمیشہ کا سفر جس میں آئندہ سفر کی تیاری کرنی ہے یعنی مرنے کے بعد، اس کی طرف توجہ نہیں ہے.( بیوت الذکر ) بنانا اچھی چیز ہے مگر بیوت الذکر ) کے لئے نمازی بنانا ضروری ہے.اگر ( بیوت الذکر ) بنائیں گے اور نمازی نہیں بنائیں گے تو اس کا کیا فائدہ.میرے علم میں یہاں ایسی ( بیوت الذکر ) ہیں جہاں دو نمازیں ہوتی ہیں.پانچ ہونی چاہئیں ، دو کیوں ہوتی ہیں.ان ( بیوت الذکر ) کا اس کے سوا پھر کیا فائدہ کہ دنیا کو دکھانے کے لئے کہ ہم نے ، جماعت احمدیہ نے ایک بڑی ( بیت الذکر ) بنالی ہے.دکھانے کے لئے ایک عمارت کا حسن ہے، اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں.اس لئے میں نے امیر صاحب کو رستے میں بھی بار بار تاکید کی ، پھر تاکید کرتا ہوں اور آپ سب کو تاکید کر رہا ہوں کہ ( بیوت الذکر) کی بڑائی کی طرف، ان کی ظاہری عظمتوں کی طرف ، ان کے ظاہری حسن کی طرف اگر توجہ اس لئے دی جائے کہ نمازی تو آتے ہیں مزید یہ بھی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، پھر کوئی نقصان نہیں.لیکن اگر بیوت الذکر ) میں نمازی نہ ہوں تو ہزار ان کو آراستہ کر دیں ان ( بیت الذکر ) کا کوئی فائدہ نہیں اور پھر ایسی (بیوت الذکر ) بڑے اجتماعات کے کام تو آسکتی ہیں، جیسے یہ ( بیت الذکر ) آتی ہے، مگر روزمرہ ہمارے مختلف جگہ پھیلے ہوئے نمازیوں کے کسی کام نہیں آسکتیں.اس وجہ سے میں نے ہدایت کی ہے کہ آپ سب کو آج تاکید کر رہا ہوں کہ اگر اس ہدایت پر عمل نہ ہو تو آپ عمل کروائیں.نگران ہوں اس بات کے کہ اس ہدایت پر لازما عمل ہوتا ہے.آخری بات یہ بیان فرمائی ” وَ مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُوْنَ “ پھر جو کچھ ہم ان کو دیتے ہیں وہ اس میں سے لازماً خرچ کرتے ہیں.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کو وہ صلاحیتیں عطا ہوں اور وہ خرچ نہ کریں.ان کی صلاحیتوں میں سے انسان کی توجہات ہیں اور انسان کو خدا تعالیٰ نے جو بھی نعمتیں جس رنگ میں عطا فرمائی ہیں، رشتے ہیں ، اموال ہیں، ذہنی اور قلبی طاقتیں ہیں.یہ سب کچھ مِمَّا رَزَقْنهُمْ میں داخل ہیں، اس کو 660 خرچ کرتے ہیں.خرچ کرنے میں یہ بیان نہیں فرمایا کہ کس پر خرچ کرتے ہیں؟ اس لئے اس مضمون کو کھلا چھوڑ کر اس آیت میں بے انتہاء معانی داخل فرما دیئے ہیں.سب سے پہلی چیز ، وہ اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ اس مضمون کو کھولا ہے کہ تم اپنے نفس کے لئے خیر خرچ کرو یعنی ایسا خرچ کرو جس کا تمہارے نفسوں کو فائدہ پہنچے.پس اپنے لئے بھی خرچ کرنا خدا کی خاطر خرچ کرنا ہے، اگر ان شرائط کو پورا کریں.پس اپنی سب چیزوں کو خدا

Page 601

مشعل راه جلد سوم 597 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.یعنی اپنے قدم خدا کی طرف بڑھانے کے لئے اپنے اوپر اس طرح خرچ کرتے ہیں کہ وہ مد اور مددگار ہو جائیں.اب مِمَّا رَزَقْنهُمْ" میں وہ لوگ داخل ہیں جن کے پاس کاریں ہیں ، وہ دور کے سفر کر کے نمازوں کے لئے پہنچ جاتے ہیں.تو ” مِمَّا رَزَقْنَهُمْ“ میں ان کی کاریں ، ان کی سہولتیں شامل ہو جاتی ہیں.وہ لوگ جو اپنے بچوں پر وقت خرچ کر کے محنت کرتے ہیں اور ان کو خدا والا بنانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی مِمَّا رَزَقْنَهُمْ“ میں آجاتے ہیں.تو اموال سر دست ایک طرف رکھیں، یہ دیکھیں کہ آپ نے اپنے لئے اور اپنی اولاد کی تربیت کے لئے اپنی صلاحیتوں سے کیا فائدہ اٹھایا ہے.اگر آپ وہ طاقتیں جو خدا نے آپ کو عطا کی ہیں ان کو اپنے اوپر اس طرح خرچ کرتے ہیں کہ خدا کے قریب تر ہو سکیں تو اپنے اوپر خرچ ہو یا اپنی اولاد پر خرچ ہو، یہ سب خدا ہی کی خاطر خرچ ہے اور غریبوں کی باری اور اموال کو جماعت کو پیش کرنے کی باری بعد میں آتی ہے.اگر یہ پہلے خرچ نہ ہوں تو دوسرے خرچ ضائع ہو جایا کرتے ہیں.چنانچہ خدا کے حضور جو تھے ہیں ان میں نیکی ہونا لازم ہے "لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ» (سورۃ آل عمران:93) تم نیکی کو پاہی نہیں سکتے ، ہرگز نہیں پاؤ گے جب تک، جن چیزوں سے محبت ہے، ان کو خدا کی راہ میں خرچ نہ کرو.اب دیکھیں محبت کے تقاضے انسان کو اپنی ساری زندگی میں ہر طرف پھیلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.ماں کو بیچے سے محبت ہے اس میں کوئی شک نہیں، مگر اللہ کی محبت غالب ہو تو بچے کو خدا والا بنانے پر اس کی زیادہ توجہ ہوگی.اپنی طاقت کو پہلے اس بات پر خرچ کرے گی کہ میرا بچہ خدا والا بنے اور سکول والا بعد میں بنے گا خدا والا پہلے بنے گا.جو جو خدا والا بچہ ہے وہ جہاں بھی جائے گا اللہ اس کی حفاظت فرماتا ہے.ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں ہر طرف شیطان کی آواز میں آپ کو بلا رہی ہیں اگر آپ کے بچوں کو نمازوں کی عادت نہیں ہے تو وہ بچے نہ آپ کے کام آسکیں گے، نہ اپنے نہ آئندہ نسلوں کے کام آسکیں گے.کیونکہ انہوں نے لاز ما رفتہ رفتہ بھٹکتے بھٹکتے دور چلے جانا ہے.پس نمازوں کے قیام میں یہ ساری باتیں اپنے پیش نظر رکھیں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ پہلے نمازوں کی عادت ڈالنا، پھر نمازوں کو کسی چیز سے بھرنا یہ دو باتیں ہیں جو ایک لامتناہی سفر ہے.ایسا وقت آنا چاہیے اور جلد آنا چاہیے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ انگلی صدی سے پہلے پہلے آنا چاہیے کہ آپ میں سے ہر ایک کے خاندان میں ہر شخص نمازی ہو جائے اور یہ سفر وہ ہے جس کے متعلق میں نے شروع میں کہا تھا کہ نظام جماعت مستقلاً اس کو جاری نہیں کرسکتا.کیونکہ نظام جماعت کا ایسے ملک میں جہاں آپ ہزار ہا میل پر پھیلے پڑے ہیں،

Page 602

598 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جہاں بسا اوقات ایک گھر کا دوسرے سے رابطہ کرنے کے لئے بھی سوسو دود وسو چار چار سو میل کا سفر کرنا پڑتا ہے، بعض دفعہ ہزار میل کا سفر کرنا پڑتا ہے.وہاں نظام جماعت میں طاقت ہی نہیں کہ وہ سب تک پہنچ سکے.مگر نظام قرآن میں یہ طاقت ہے اور قرآن کریم نے شروع ہی میں آپ کو یہ سادہ طریق سمجھا دیا ہے.ہر گھر والے کا فرض ہے کہ وہ قرآن کی طرف توجہ دے، قرآن کے معانی کی طرف توجہ دے، ایک بھی گھر کا فرد ایسا نہ ہو جو روزانہ قرآن کے پڑھنے کی عادت نہ رکھتا ہوا ور قرآن کریم کو پھر مضامین سمجھ کر پڑھے اور جو بھی ترجمہ میسر ہو اس کے ساتھ ملا کر پڑھے.ایسے بچوں کے دل میں پھر سوال بھی اٹھتے ہیں اور وہ سوالات بسا اوقات مجھے اس وقت نظر آتے ہیں جب کسی مجلس سوال و جواب میں بیٹھا ہوں تو مجھے پتہ چل جاتا ہے کہ بعض بچے ایسے ضرور ہیں جو قرآن پڑھ رہے ہیں اور قرآن پڑھنے کے بعد پھر ان کے دل میں سوال اٹھتے ہیں.ان سوالات کے حل کے دوطریق ہیں.ایک تو جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ تم اولو العلم کے پاس جایا کرو اور اولوالعلم وہ لوگ ہیں جو آپ کی جماعتوں میں موجود ہیں.اس کے لئے سال یا دو سال میں کسی ایک مجلس کے انتظار کی ضرورت نہیں ہے.مربی ہیں، دوسرے بزرگ ہیں جن کو قرآن کریم سے محبت ہے.کچھ ایسے ہیں جنہوں نے کثرت سے تفاسیر پڑھی ہوئی ہیں اور میرا خیال ہے کہ ہر جماعت میں ایسے ایک دو انسان ضرور ہوں گے جن کو دینی علم بڑھانے کا شوق ہے.ان کے پاس جانا چاہیے، ان سے پوچھنا چاہیے اور روز بروز اپنے مسائل حل کرنے چاہئیں.اور اس سے بڑھ کر دوسرا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے سوال کریں اور اللہ تعالیٰ سے التجا کریں کہ وہ آپ کو سمجھا دے.بچپن سے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ وہ چیز ہے جس کی طرف توجہ دلائی ہے اور مجھے کبھی علماء کے پاس نہیں جانا پڑا.جب بھی سوال اٹھا تھا ایک بات لاز ما میری مددگار ہوتی تھی."يُؤْمِنُونَ بالغيب “ یہ کامل ایمان تھا کہ اس سوال کا جواب موجود ہے.میرے لئے غیب ہے مگر میں ایمان رکھتا ہوں.اس غیب پر ایمان رکھتا ہوں جس پر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ مومن بندے ضرور ایمان رکھتے ہیں اور اس ایمان کے نتیجے میں وہ غیب جو لوگوں کے لئے غیب رہتا ہے آپ کی دعا کے ذریعے آپ کے قریب آجاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے.آپ خدا سے دعا مانگیں کہ مجھے اس مضمون کی سمجھ نہیں آرہی.ایمان ضرور ہے کہ تو سچا ہے، ایمان ہے کہ اس میں شک کوئی نہیں، تو آپ حیران ہوں گے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ آپ کی سوچوں میں برکت ڈالے گا اور اپنے فضل کے ساتھ آپ کے مسائل حل کرے گا.

Page 603

599 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایسے غور کرنے والوں کو خدا تعالیٰ کچھ نکات عطا فرماتا ہے.اگر وہ متقی ہوں تو وہ فتنے کا موجب نہیں بنتے.اگر وہ متقی نہ ہوں تو وہی نکات تردداور شک اور فتنوں کا موجب بن جایا کرتے ہیں اور یہ منازل بعد کی منازل ہیں.لیکن آغاز میں وہ برتن تو حاصل کریں جن کو بھرنا ہے اور اکثر جگہ برتن موجود نہیں.یہ مجھے فکر ہے جو اس سفر کے دوران پہلے سے بہت زیادہ بڑھ کر میرے سامنے ابھری ہے.بھاری تعداد میں ایسے احمدی گھر ہیں جن کو روزانہ پانچ وقت نمازیں پڑھنے اور بچوں کو پڑھانے کی توفیق نہیں ملتی اور ایسے ہیں جن کو روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کی اور بچوں کو تلاوت قرآن کریم کروانے کی توفیق نہیں ملتی.اب یہ لوگ ہیں جن کے گھروں میں آسمانی دودھ کے نازل ہونے کے لئے برتن بھی موجود نہیں.اگر برتن نہیں ہوگا تو بارش کے دوران آپ چلو بھر پانی پی کر پیاس تو بجھا سکتے ہیں مگر جب بارش آ کے گزر جائے اور ہر طرف خشکی ہو تو آپ کے پاس کچھ بھی پیاس بجھانے کے لئے نہیں ہوگا.پس نمازوں کا آغاز نمازوں کے برتن قائم کرنے سے ہوتا ہے.تلاوت کا آغاز تلاوت کے برتن قائم کرنے سے ہوتا ہے اور برتن سے میری مراد یہ ہے کہ شروع کر دیں تلاوت، پھر رفتہ رفتہ علم بڑھائیں اور تلاوت کو معارف سے بھرنے کی کوشش کریں، معارف سے پہلے علم سے بھرنے کی کوشش ضرور کریں اور اگر آپ اس ترتیب کو سامنے رکھیں گے تو وہ جو لغزش میں نے بیان کی تھی اس سے کسی حد تک بچ سکتے ہیں.عرفان سے پہلے عمل ہونا چاہیے اور بغیر علم کے جو عرفان ہے یہ خیالی عرفان ہے، اکثر ٹھوکروں والا عرفان ہے.اسی لئے قرآن کریم نے اُولُوا العِلم کہ کر متوجہ فرمایا کہ تم نے کچھ پوچھنا ہے تو اُولُوا العِلم سے پوچھا کرو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عرفان کا ذکر بعد میں فرمایا ہے علم کا ذکر پہلے فرمایا ہے.يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ“ پہلے کتاب کی تعلیم دیتا ہے، حکمت یعنی عرفان کی باتیں بعد میں آتی ہیں.تو وہ نوجوان جو بڑے ہوں یا چھوٹے ، اگر وہ قرآن کریم پڑھتے ہوئے اس کا علم نہیں رکھتے یعنی ظاہری معانی جو عربی زبان سے حاصل ہو سکتے ہیں اس پر توجہ نہیں کرتے تو ان کو مجلسیں لگا کر عرفان کی باتیں کرنے کا حق ہی کوئی نہیں.وہ جاہل ہیں اور لوگوں کو بھی جہالت کی طرف بلانے والے ہیں.وقتی طور پر اپنی بڑائیاں دکھاتے ہیں مگر حقیقت میں ان کو قرآن کریم کا علم ہی نہیں ہے.تو علم کے حصول کے لئے پھر رفتہ رفتہ ترقی ہوتی ہے، بہت سی لغات کی کتب ہیں جن کو دیکھنا پڑتا ہے، بہت سے علماء سے استفادہ کرنا پڑتا ہے.تو بنیادی طور پر پہلے علم کو بڑھائیں اور علم کو بڑھائیں گے تو علم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ

Page 604

مشعل راه جلد سوم 600 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی والسلام کی کتب کے مطالعہ کی طرف بھی متوجہ ہوں گے کیونکہ یہ وہ باتیں ہیں جن کی طرف آپ کے بچے ابھی توجہ دے نہیں سکتے.اس لئے میں آپ کو بعد کی باتیں بھی اشارہ بتا رہا ہوں لیکن فی الحقیقت زور اس بات پر دے رہا ہوں کہ آغاز کی باتوں کو پکڑلیں اور آغاز کی باتوں پر قائم ہو جائیں، باقی باتیں اللہ سنبھال لے گا اور آغاز کرنے والوں کو خدا تعالیٰ خود انگلی پکڑ کر سفر کے آخر تک پہنچا دیا کرتا ہے اور سفر کے آخر سے مراد یہ ہے کہ موت تک وہ اس سفر میں ہمیشہ آگے بڑھتے رہتے ہیں.ورنہ حقیقت میں اس سفر کا کوئی آخر نہیں ہے.تو اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کینیڈا کو بھی یہ توفیق عطا فرمائے اور باقی دنیا کی جماعتوں کو بھی.میں چاہتا ہوں کہ اس صدی سے پہلے پہلے ہر گھر نمازیوں سے بھر جائے اور ہر گھر میں روزانہ تلاوت قرآن کریم ہو.کوئی بچہ نہ ہو جسے تلاوت کی عادت نہ ہو.اس کو کہیں تم ناشتہ چھوڑ دیا کرو نگر سکول سے پہلے تلاوت ضرور کرنی ہے اور تلاوت کے وقت کچھ ترجمہ ضرور پڑھو، خالی تلاوت نہیں کرو اور جب یہ آپ کام کر لیں گے تو پھر اردگر د( بیوت الذکر) بنانے کی کوشش کریں اور ان نمازیوں کو گھروں سے ( بیوت الذکر) کی طرف منتقل کریں.کیونکہ وہ گھر جس کے بسنے والے خدا کے گھر نہیں بساتے ،قرآن کریم سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ایسے گھروں کو ویران کر دیا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطافرمائے کہ ان تقاضوں کو پورا کریں.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 22 اگست تا 28 اگست 1997 ء )

Page 605

مشعل راه جلد سوم 601 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب فرمودہ 24 مئی 1998ء امت مسلمہ کی وجہ فضیلت ہر وہ امت جو بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے ہوگی وہ بہتر ہوگی نهي عن المنکر کرنی ہے تو بہترین ذریعہ نماز ہے جب سے مسلمانوں نے نماز کو ترک کیا وہ خود متروک ہو گئے خدام الاحمدیہ جرمنی سے حضور کا اظہار خوشنودی ہجرت کے فوائد نو مبائعین کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دیں کیونکہ اللہ کی خاطر انہوں نے بھی تو ایک ہجرت کی ہے لله کہے ہے کہے

Page 606

مشعل راه جلد سوم 602 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 607

مشعل راه جلد سوم 603 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعو ذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران آیت اا تلاوت فرمائی: كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَوْا مَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاكْثَرُهُمُ الْفَسِقُونَ اس کے بعد حضور نے فرمایا: امت مسلمہ کی وجہ فضیلت یہاں خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے دوران ہی ایک مجلس میں ایک سوال ہوا تھا جس کا تعلق خیر امت سے تھا کہ خیر امتہ قرار دیا گیا ہے اور سب دنیا کی امتوں میں قرآن کریم نے امت مسلمہ کو سب سے اچھا قرار دیا ہے یہ ایک دعوئی ہے.اس کا ثبوت کیا ہے کہ واقعہ یہ امت سب امتوں سے بہتر ہے؟ اس سلسلے میں میں نے آج کا خطاب منتخب کیا ہے تاکہ خیر امۃ کی تفصیل جو ایک دفعہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں آج پھر اس کو دہراؤں.ایسی باتوں کو بار بار دہرانا پڑتا ہے تاکہ نئے آنے والے اور نئی نسلوں والے بھی ان امور کو اچھی طرح سمجھ لیں اور دوسرے یہ کہ اسی مضمون سے میری اس تربیتی تقریر کا تعلق ہے جو میں نے آج کے لئے چنی تھی.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ.اے امت مسلمہ اتم تمام امتوں میں سے سب سے بہتر ہو جن کو لوگوں کے لئے چنا گیا.یہاں لِلنَّاس کا لفظ صاف بتا رہا ہے کہ وجہ فضلیت بیان ہوگئی.ہر وہ امت جو بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے ہوگی، وہ بہتر ہوگی.اکیڈ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّلی دینے والا ہاتھ جو ہے وہ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوا کرتا ہے.تو ایک تو اس دعوے کی دلیل بھی ساتھ ہی رکھ دی.لِلنَّاسِ ، جب تک تم للناس رہو گے تم بہت بہترین رہو گے.جب لِلنَّاسِ نہیں رہو گے اپنے نفسوں کی خاطر کام کرو گے تو معالم بہترین امت نہیں رہو گے.بلکہ گر جاؤ گے اس مقام سے.أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کا

Page 608

604 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم مطلب یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے کوئی بھی امت ایسی نہیں تھی جو تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو.الناس میں سارے انسان شامل ہیں.چنانچہ اس آیت کے پہلے حصہ میں ہی یہ دونوں مضمون بیان ہو گئے کہ لازماً پہلی امتیں وہ اپنے علاقوں اور قوموں کے لئے ہوا کرتی تھیں یعنی للناس محد و درنگ میں تھیں تمام بنی نوع انسان کے لئے نہیں تھیں.کوئی امت اسلام سے پہلے ایسی نہیں نکلی جس کا تعلق ساری دنیا کی بھلائی سے ہو.پس جس کا تعلق ساری دنیا کی بھلائی سے ہے وہ امت لازماً ان امتوں سے بہتر ہے جن کا تعلق علاقائی بھلائی سے تھا یا قومی بھلائی سے تھا.اس کے بعد للناس کی تشریح فرما دی گئی ہے کہ الناس کن معنوں میں.ان معنوں میں کہ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ.سب سے اچھی بھلائی جو کسی کی طرف سے کسی کو پہنچ سکتی ہے ، وہ یہ ہے کہ اچھی باتوں کا حکم دیا جائے.اچھی باتوں کی تلقین کی جائے وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ اور نا پسندیدہ باتوں سے روکا جائے اور تمام دنیا میں اگر خدا کے نام سے پیغام شروع کیا جائے تو یہ بعید نہیں کہ لوگ بھاگ جائیں اور منتشر ہو جائیں کہ یہ کس طرف بلا رہا ہے ہمیں.کیونکہ اب بہت سے لوگ دہر یہ ہو چکے ہیں.ایک بھاری تعداد ہے جو اللہ کے نام پر بھی آنا پسند نہیں کرے گی ،سوائے اس کے کہ آپ اللہ کی صفات اپنی ذات میں جاری کر کے خدا کو بنی نوع انسان کے لئے ایک بہت خوبصورت وجود کے طور پر دکھا ئیں.یہ الگ مسئلہ ہے لیکن اس کے باوجود اس میں شک نہیں کہ آج دنیا کی اکثریت مذہب سے بھی متنفر ہے اور خدا کی ہستی کی قائل ہی نہیں رہی.ایسی صورت میں ان کو کس طرف بلایا جائے؟ کیا ان کی خدمت ہو سکتی ہے؟ بہترین خدمت یہ ہے کہ وہ باتیں جو معروف ہیں، معروف سے مراد یہ ہے کہ ہر جگہ کا انسان انہیں اچھا سمجھتا ہے چاہے دہر یہ ہو، چاہے کا فربد کردار ہو لیکن یہ جانتا ہے کہ سچائی اچھی چیز ہے یہ جانتا ہے کہ بھلائی کرنا اچھی بات ہے خواہ خود بد بھی ہو لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا.نہ کبھی کرتا ہے.کوئی شخص سچائی کے خلاف جہاد نہیں کر سکتا سوائے شیطان کے پس بہترین امت ثابت کرنے کے بعد بہترین امت کی وہ تعریف ثابت فرما دی گئی جس کا تعلق سارے بنی نوع انسان سے ہے.کوئی بھی اس سے باہر نہیں نکل سکتا.معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں.اب یہ جو صورت حال ہے اس کا اطلاق اس وقت ساری دنیا پر یکساں ہورہا ہے.ہر جگہ اچھی باتوں کو اچھا جانتے ہوئے بھی ان پر عمل نہیں ہورہا.ہر جگہ بری باتوں کو برا سمجھتے ہوئے بھی ان سے پر ہیز نہیں ہو رہا.پس قرآن کریم نے ایک ہی آیت میں کس قدر خوبصورت مضمون کو آگے بڑھایا

Page 609

605 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہے اور فرمایا ہے کہ دنیا کو اس کی ضرورت ہے اور ساری دنیا میں اگر کسی امت نے جہاد کرنا ہے کہ وہ معروف کی طرف بلائے اور منکر سے روکے تو تم ہوائے امت محمدیہ ! جن کے سپرد یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے.وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ.اس کے ساتھ تُومِنُونَ“ کی شرط لگا دی گئی ہے.اللہ پر ایمان لاتے ہوئے ایسا کرو ورنہ بہت سے آدمی ایسے بھی ملتے ہیں جو نیک نصیحت بھی کرتے ہیں برائی سے روکتے بھی ہیں مگر جن کا خدا پر ایمان نہیں ہوتا.ایسے لوگوں کی کوشش ایک طبعی فطری نرم دلی کی وجہ سے اس تحریک کی وجہ سے ہے جوان کے ماں باپ نے ان کو سکھائی مگر اللہ نہیں ہوا کرتی.اللہ کی خاطر اگر کچھ کرو گے تو پھر خدا مددگار ہو گا اور اس کی جزا مرنے کے بعد بھی عطا فرمائے گا.پس تُؤْمِنُونَ کی شرط کولازم رکھیں.اس کے بغیر یہ نیکی ضائع ہوسکتی ہے اور بہت سے اچھے لوگ ہمیں دکھائی دیتے ہیں جن کی نیکیاں اسی طرح ضائع ہو جاتیں ہیں.ان کی نیکی کے امتحان کا جب وقت آتا ہے تو وہ اس امتحان میں ناکام ہو جایا کرتے ہیں.یہ ایسا مضمون ہے جو پچھلے چند خطبات کے اندر میں نے بڑی تفصیل سے کھول کر بیان کیا تھا، اسے دہراؤں گا نہیں مگر اتنی بات یاد رکھیں کہ ایمان باللہ کا نیک تعلیم سے اور برائی سے روکنے سے بہت گہرا تعلق ہے.اگر خدا کی خاطر آپ یہ کام کر رہے ہوں گے تو اس کے نتیجے میں اگر کسی کو برائی سے روکیں اور وہ ناراض ہو اور وہ کہے کہ جاؤ جاؤ اپنا کام کرو تو اس صورت میں بھی آپ کی دل شکنی اس حد تک ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کام سے رک جائیں.کیونکہ آپ نے یہ کام اللہ کی خاطر کیا ہے.یہی نمونہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمیں دکھائی دیتا ہے.تمام عمر بنی نوع انسان کو بھلائیوں کی طرف بلایا اور برائیوں سے روکا.لیکن آپ کے پہلے مخاطب جو اہل مکہ تھے اور اہل عرب تھے انہوں نے اس پیاری اور اچھی تعلیم کو بہت بری نظر سے دیکھا.وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام ایمان کی وجہ سے اللہ کی خاطر کرتے تھے اور یہ انسانوں کی عادت ہے بگڑی ہوئی عادت ہے کہ خدا کے سوا کسی نام سے کام شروع کرو اس کی مخالفت نہیں کرتے مگر جب اللہ کے نام سے کام شروع کرو تو ضرور مخالفت کرتے ہیں اور اس وقت سہارا بھی صرف اللہ ہی دیتا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رستے میں دیکھو کتنی روکیں ڈالی گئیں.نیکی کی تعلیم دے رہے تھے ، بھلائی کی طرف بلا رہے تھے، بری باتوں سے روک رہے تھے لیکن کس طرح عرب مخالفت میں تلواریں لے کر آپ پر چڑھ دوڑے.ایسی صورت میں تُؤْمِنُونَ بِاللہ آپ کا سہارا ہے.جس اللہ کی خاطر تم یہ کام کرو گے وہ ذمہ دار ہے کہ تمہاری حفاظت فرمائے.وہ ذمہ دار ہے کہ تمہیں دل شکنی سے اس حد تک رو کے کہ

Page 610

606 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم تم کام ہی چھوڑ بیٹھو.پس مومن اپنے آرام کی خاطر بنی نوع انسان کو بھلائی کی طرف بلانے سے اور برائی سے روکنے سے باز نہیں آسکتا یہ وہ وجہ ہے کہ بیچ میں لفظ تو منون باللہ رکھ دیا ہے اور جو اللہ پر ایمان کی خاطر ایسا کریں اور کبھی بھی اس کام کونہ چھوڑیں ان سے بہتر اور کون ہوسکتا ہے.تو اس آیت کریمہ میں ایک ایک لفظ کے ساتھ دلائل دیئے گئے ہیں.ایسے قطعی دلائل دیئے گئے ہیں جن کا کوئی قوم انکار نہیں کرسکتی.اتنا مضبوط اور منفرد کلام ہے ایک لفظ سے دوسرے لفظ کی طرف منتقل ہوتا چلا جاتا ہے اور ہر انتقال میں ایک قوی دلیل شامل ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوْ آمَنَ اَهْلُ الْكِتَبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمُ.اہل کتاب میں بھی اچھے لوگ ہیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہود میں بھی اچھے لوگ ہیں.عیسائیوں میں بھی اچھے لوگ ہیں ، ان کی بھلائی سے انکار نہیں.مگر ان کے ایمان کی کمی کو ایک نقص کے طور پر دکھایا گیا ہے.فرمایا کاش ایسا ہوتا کہ وہ اچھے لوگ ایمان بھی رکھتے.اگر ایمان لاتے تو ان کی نیکیاں ضائع نہ ہو جاتیں.لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمُ پھر اتنی احتیاط کے ساتھ قرآن کریم تمام بنی نوع انسان کے حالات کا جائزہ لیتا ہے کہ ایک ذرہ بھی غلطی کی گنجائش نہیں چھوڑتا.فرماتا ہے مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ یہ نہیں کہا جارہا کہ اہل کتاب اور اہل کتاب کی دونوں قسمیں یعنی یہود اور عیسائیوں میں سے کوئی بھی مومن نہیں.اللہ فرماتا ہے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کیا جا رہا.بحیثیت جماعت کاش ایسا ہوتا کہ وہ اہل کتاب ہوتے ہوئے ایمان بھی لاتے لیکن اَكْثَرُ هُمُ الفسِقُونَ.ان میں مومن تو ہیں مگر تھوڑے ہیں، بہت تھوڑی تعداد ہے.اور ان کی بھاری اکثریت فاسق ہے.ان کے بداعمال بتاتے ہیں کہ ان کا حقیقی ایمان کوئی بھی نہیں ہے.یہ وہ آیت کریمہ ہے جس کے متعلق جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے، یہی سوال اٹھتا تھا.تو میں نے سوچا اسی مضمون کو میں اخذ کر کے مجلس خدام الاحمدیہ کو اور آپ کی وساطت سے سب دنیا کو جو نصیحت کرنی ہے اس کو اس مضمون کے تعلق میں بیان کروں.تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ - يلفظ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ جو ہے یہ دراصل نَهِي عَنِ الْمُنْكَرِ کا اشارہ نماز میں بھی اسی طرح کیا گیا ہے.نَهِی عَنِ الْمُنْكَرِ کرنی ہے تو بہترین ذریعہ نماز ہے اور نماز ہی آپ کو بھی عَنِ الْمُنكَرِ کے طریق سکھائے گی.إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ.جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے.یہ نماز ہی ہے جو منکر سے آپ کو روکتی ہے.جیسا کہ فرمایا اتل مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَاَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ (سورة العنكبوت: ۴۶).اے محمد ! جو بھی تیری طرف وحی کی جارہی ہے کتاب میں سے اس کو پڑھ کر سنا اَقِمِ الصَّلاةَ اور نماز کو قائم کر.اِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ

Page 611

607 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم وَالْمُنْكَرِ کیونکہ جہاد بدیوں کے خلاف ہے تو نماز سے بہتر بدیوں کے خلاف جہاد کا طریقہ اور کوئی چیز نہیں سکھا سکتی پس نماز کو مضبوطی سے پکڑ لے.نماز فحشاء، ہر قسم کی پھیلنے والی متعدی بیماریاں جو اخلاقی بیماریاں ہوں ان سے بھی منع فرماتی ہے اور عام ناپسندیدہ باتوں سے بھی منع فرماتی ہے.وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ اللہ کا ذکر ہے جو دراصل سب سے بڑا ہے.وہی نماز نَهِی عَنِ المُنكَرِ کی تعلیم دے گی ، وہی فحشاء سے روکے گی جو اللہ کے ذکر سے بھر جائے اور اللہ کا ذکر نماز کے بعد بھی کیا جائے تو پھر بھی یہی نتیجہ پیدا کرے گا.مومن کی زندگی میں دن رات ذکر الہی اس طرح شامل فرما دیا گیا کہ نہ وہ نماز کی حالت میں اس سے الگ رہیں نہ نماز کے علاوہ اس سے الگ رہیں.وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ 0 اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب اچھی طرح جانتا ہے.اس حصہ کا کیا مقصد تھا؟ اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے.وجہ یہ ہے بہت سے لوگ نماز پڑھتے ہیں اور وہ نماز نہ خود ان کو منکر سے روک سکتی ہے نہ خودان کو فحشاء سے روک سکتی ہے.جبکہ اللہ فرمارہا ہے نماز ضرور روکتی ہے.تو یہ بتانا مقصود ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ وہم ہوتا ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں.جبکہ حقیقت میں وہ نماز پڑھنے کا حق ادا ہی نہیں کرتے اور یہ پہچان کہ نماز نہیں پڑھتے ، وہ نماز کے بعد کی حالت بتاتی ہے.نماز کے بعد اگر وہ اسی فحشاء میں واپس چلے جائیں، اسی منکر کی طرف واپس لوٹ جائیں جس میں وہ پہلے ہوا کرتے تھے تو خدا کا پیغام تو بہر حال سچا ہے ان کا عمل جھوٹا ہے ان کو وہم ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ نماز نہیں پڑھتے.یہ جو مضمون نماز والا ہے اس کے متعلق میں نے مجلس خدام الاحمدیہ کو خصوصیت سے توجہ دلائی تھی کہ نوجوانوں کو اور بچوں کو نماز یہ قائم کریں اور نماز پہ قائم کرنے کے علاوہ ان کو نماز کا مضمون سمجھائیں.کیونکہ نماز اگر مجھ کر ادا کی جائے تو پھر دل واقعہ نماز میں اٹک سکتا ہے.اگر پتا نہ ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں تو خیالات ہمیشہ بکھرے ہی رہیں گے اور مجبور اوہ نمازیں بظاہر تو پڑھی جا رہی ہوں گی مجبوری کی خاطر مگر حقیقت میں یہ وہ نمازیں نہیں ہوں گی جن کا ذکر قرآن کریم نے فرمایا ہے.پس ہمیں گہری نظر سے حالات کا جائزہ لینا چاہیے.نمازی تو کثرت سے دنیا میں ہیں لیکن جن کے من پرانے پاپی ہوں ان کو سجدے کی ٹھوکروں میں سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا.وہ یہی شکوے کرتے رہتے ہیں کہ سجدے کئے ہیں مگر پرانا پاپی من تھا ذرہ بھی فائدہ نہیں ہوا.پس آپ لوگ ان پاپیوں میں سے تو نہ بنیں کیونکہ آپ نے تو پاپ دور کرنے ہیں.ساری دنیا کی اصلاح کا بیٹر اٹھایا ہے اور ساری دنیا سے منکر کو دور کرنا اور فحشاء کو دور کرنا آپ کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے.تب آپ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم وہ بہترین قوم ہیں جو بنی نوع انسان کی سچی خدمت کے لئے قائم کی گئی ہے.

Page 612

مشعل راه جلد سوم 608 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ اس ضمن میں میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ سے یہ روایت ہے اور یہ ترمذی کتاب الصلوۃ سے لے گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے.تو جس کا سب سے پہلے حساب لیا جا رہا ہے اس کو سب سے آخر پر ہم نے رکھا ہوا ہے.اپنی زندگیوں میں نماز کو اولیت نہیں بلکہ آخر پر رکھا جاتا ہے کہ جب سارے کاموں سے فارغ ہو کے کچھ وقت مل جائے تو نماز بھی پڑھ لی.ورنہ نماز کو اولیت ہونی چاہیے اور دوسرے کاموں کو ثانوی درجہ دینا چاہیے.قیامت کے دن تو سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا اور وہ لوگ کیا حساب پیش کریں گے جن کی دنیا میں نماز سب سے آخر پر رکھی گئی ہو.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو غور سے سنیں ، فرماتے ہیں: ” قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے.اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہو گیا اور اس نے انجام پالیا پس اس حساب کو ٹھیک کریں ، یہیں ٹھیک کرلیں، مرنے کا پتہ کوئی نہیں.کسی وقت بھی جان لینے والا فرشتہ آسکتا ہے.کسی وقت بھی بیماری یا بغیر بیماری کے جان چلی جاتی ہے.حادثے ہوتے رہتے ہیں.بیماریاں آتی رہتی ہیں.یہاں تک کہ بعض لوگوں کو بغیر بیماری کے ہی سوتے میں موت آجاتی ہے.جب موت کا یہ عالم ہے کہ ہر طرف سے جب چاہے آجائے اور ہمارا اس پر اختیار کوئی نہیں تو پھر ظاہر بات ہے کہ یہ نماز کا حساب ٹھیک کرنے کا وقت ہمارے پاس بہت تھوڑا ہے.اپنے ہوش وحواس میں جب تک زندگی کے دن ہیں نمازیں درست کر لو.اگر غفلت ہوئی تو پھر جسے انگریزی میں کہتے ہیں too late یعنی بہت تاخیر ہو چکی ہوگی کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور نمازوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو حساب بنا رکھا ہے جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے کھولا ہے یہ ایک بہت ہی منصفانہ حساب ہے.اس سے بہتر انصاف کا تصور ممکن ہی نہیں ہے.جب فرمایا اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو کامیاب ہوا تو اس کی تفصیل بھی بیان فرمائی کہ حساب کیسے ہوگا.اس کے بعد فر مایا کہ اگر یہ حساب خراب ہوا تو وہ نا کام ہو گیا اور گھاٹے میں رہا.اب حساب اس طرح ہوگا.اگر اس کے فرضوں میں کوئی کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ دیکھو میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں.اب فرضوں میں ہم سے جو کوتا ہی ہو جاتی ہے اس کو درست کرنے کے لئے نوافل جاری فرمائے گئے اگر ہم فرض ہی ادا نہ کریں تو نوافل کا تو ذکر ہی کوئی نہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے نوافل کی ضرور توقع رکھتا ہے.اس کی خاطر توقع رکھتا ہے کیونکہ نماز کے حساب میں تو کوئی کمی نہیں کی جائے گی وہ تولازم ہے اور جب یہ لازم ہوا تو پھر سہولت

Page 613

609 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کیسے ہوگی؟ فرمایا نوافل پڑھنے والے لوگ اس خبر سے اس حساب سے خوش ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ اگر ان کے فرائض میں کچھ کمی ہوئی تو ان کو نوافل سے لے کر فرائض میں ڈال دے گا.حالانکہ عموماً نوافل الگ ہیں اور فرائض الگ ہیں.مگر یہ آسان حساب کی ایک صورت ہے.فرمایا دیکھو میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں.یہ جو لفظ ہے دیکھو میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں، یہ بہت پیار کا لفظ ہے.فرشتوں کو گویا کہا جا رہا ہے.میرا بندہ ہے میں اس کو آسانی سے جہنم میں ڈالنے والا نہیں.دیکھو اس کے نوافل بھی تو ہوں گے.فرمایا اگر نوافل ہوئے تو فرضوں کی کمی ان نوافل کے ذریعے پوری کر دی جائے گی.اسی طرح اس کے باقی اعمال کا معائنہ ہوگا اور ان کا جائزہ لیا جائے گا.پس مجلس خدام الاحمدیہ کے ذمہ جو میں نے نماز سکھانے اور نماز پڑھانے کی تلقین کی تھی اس میں یہ حدیث ہمارے لئے مشعل راہ ہے.اس طرح نماز سکھائیں کہ اس کے ساتھ نوافل کی طرف بھی خدام کی توجہ ہو اور اطفال کی توجہ ہو اور جو کچھ بھی وہ نماز میں پڑھیں وہ واقعہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر سے تعلق رکھنے والی باتیں ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو ان الفاظ میں پیش فرما ر ہے ہیں.یہ پانچ وقت تو خدا تعالیٰ نے بطور نمونہ کے مقررفرمائے ہیں.ور نہ خدا کی یاد میں تو ہر وقت دل کو لگا رہنا چاہیے.“ ( وَلَذِكْرُ الله اکبر کی تشریح ہے.جہاں نماز کا ذکر فرمایا قرآن کریم نے ساتھ ہی فرمایا وَ لَذِكْرُ الله اكبر - اس کا یہ مطلب نہیں کہ نماز سے بہتر کوئی اور ذکر ہے جو نماز سے بھی بڑھ کر ہے.فرمایا یہ پانچ وقت تو خدا تعالیٰ نے بطور نمونہ کے مقررفرمائے ہیں ورنہ خدا کی یاد میں تو ہر وقت دل کو لگارہنا چاہیے اور کبھی کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چاہیے.اٹھتے بیٹھتے ، چلتے ، پھرتے ہر وقت اسی کی یاد میں غرق ہونا بھی ایک ایسی صفت ہے کہ انسان اس سے انسان کہلانے کا مستحق ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اسی طرح کی امید اور بھروسہ کرنے کا حق رکھ سکتا ہے.اصل میں قاعدہ ہے کہ اگر انسان نے کسی خاص منزل پر پہنچنا ہے تو اس کے واسطے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے.(بغیر چلے تو کسی منزل پر پہنچ نہیں سکتا ) جتنی لمبی وہ منزل ہوگی اتنا ہی زیادہ تیزی ، کوشش اور محنت اور دیر تک اسے چلنا ہوگا“.( یہ سادہ سے عام تجربے والی بات ہے جو سب پر ظاہر ہونی چاہیے کہ منزل جتنی دور ہو اتنا ہی تیزی کی ضرورت ہے کوشش اور محنت کی ضرورت ہے.سوخدا تک پہنچنا بھی تو ایک منزل ہے اور اس کا بعد اور دوری بھی لمبی پس جو شخص خدا سے ملنا چاہتا ہے اور اس کے دربار میں پہنچنے کی خواہش رکھتا ہے اس کے واسطے نماز ایک گاڑی ہے جس پر سوار ہو کر وہ جلد تر پہنچ سکتا ہے اور جس نے نماز ترک کر دی وہ کیا پہنچے گا.“ (سفر لمبا ہو اور انسان ایک تیز رفتار سواری سے اتر کر پیدل چلنے لگے تو وہ بے چارہ کب منزل تک پہنچے گا.) ”اصل میں مسلمانوں نے

Page 614

610 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جب سے نماز کو ترک کیا یا اسے دل کی تسکینی ، آرام اور محبت سے اس کی حقیقت سے غافل ہو کر پڑھنا ترک کیا ہے تبھی سے اسلام کی حالت بھی معرض زوال میں آئی ہے.“ ( آج آپ کو دنیا میں بے شمار نمازی ملیں گے.مسلمانوں میں کثرت سے نماز کا رجحان جگہ جگہ پایا جاتا ہے.اگر دل کی خوشی سے نہیں پڑھتے تو ڈنڈے کے جبر سے پڑھتے ہیں مگر مسجدوں میں آبادی دن بدن بڑھ رہی ہے.کیونکہ یہ جو اسلام کے نام پر دنیا کو فتح کرنے کا نعرہ لگایا جارہا ہے اس کے نتیجے میں ایک ظاہری اسلام ہے جو پرورش پا رہا ہے اور مسجد میں ایسے نمازیوں سے بھر رہی ہیں جن پر اس صورت حال کا اطلاق ہوتا ہے ) کہ مسلمانوں نے جب سے نماز کو ترک کیا یا اسے دل کی تسکینی ، آرام اور محبت سے اس کی حقیقت سے غافل ہو کر پڑھنا ترک کیا ہے تبھی اسلام کی حالت بھی معرض زوال میں آئی ہے.پس یہ سارے نمازی ایک طرف اور اسلام کے زوال کی حالت دوسری طرف اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نماز سچی پڑھتے اور اسلام کی حالت نہ بدلتی.اسلامی اخلاق اسلامی اقدار اور اسلام بنی نوع انسان کے لئے جو کچھ بھی بھلائی کا پیغام لایا ہے وہ ساری باتیں تو ہو گئیں.ان میں سے کچھ بھی کہیں باقی دکھائی نہیں دیتا.صرف نمازی دکھائی دیتے ہیں اور اسلام کے نام پر انتہائی ظلم کرنے والے دکھائی دیتے ہیں.اسلام کے نام پر سخت جبر کی تعلیم دینے والے دکھائی دیتے ہیں.پس یہ تنزل ہمیں بتا رہا ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تجزیہ فرمایا تھا کہ نماز حقیقی نماز نہیں رہی جو نماز پڑھتے ہیں وہ ایک فرضی نماز ہے).فرمایا ” وہ زمانہ جس میں نماز سنوار کر پڑھی جاتی تھی غور سے دیکھ لو کہ اسلام کے واسطے کیسا تھا.ایک دفعہ تو اسلام نے تمام دنیا کو زیر پا کر دیا تھا.جب سے اسے ترک کیا وہ خود متروک ہو گئے.“ (اسلام نے ایسی یلغار کی تھی دنیا پر کہ سیاسی لحاظ سے بھی دنیا زیر پا ہوگئی تھی.لیکن اب جو نماز پڑھ رہے ہیں اس کے نتیجے میں ساری دنیا ان پر غالب ہے.کچھ بھی حاصل نہیں ہوا.فرمایا یہ فقرہ بڑا توجہ سے سنے والا ہے ) ” جب سے اسے ترک کیا خود متروک ہو گئے.“ جب نماز چھوڑی تو خود چھوڑے گئے.بہت ہی پیارا کلام ہے.ترک کرنے والا متروک ہو گیا.خدا نے انہیں چھوڑ دیا ان کا کچھ بھی باقی نہ رہا.درد دل سے پڑھی ہوئی نماز ہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے.ہمارا بارہا کا تجربہ ہے کہ اکثر کسی مشکل کے وقت دعا کی جاتی ہے ابھی نماز میں ہی ہوتے ہیں اور خدا نے اس امر کوحل اور آسان کیا ہوا کر دیا ہوتا ہے.یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو ماضی کا تجربہ نہیں آج بھی زندہ ہے اور اس کی طرف میں آپ کو بلاتا ہوں.ایسی نمازیں پڑھیں کہ جو جو خواہش دل سے اٹھتی ہے وہ بسا اوقات سلام پھیرنے سے پہلے ہی پوری ہو چکی ہو اور میں ایسے احمدی مخلص احباب کو جانتا ہوں جن کی

Page 615

مشعل راه جلد سوم 611 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی یہی حالت ہے.دنیا ان سے غافل ہے مگر میرے ساتھ ان کا ایک علاقہ ہے جس کی وجہ سے وہ بے تکلفی سے مجھ سے باتیں کرتے ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کثرت سے ایسے احمدی احباب دنیا کے ہر ملک میں پائے جاتے ہیں جن کی نماز میں ختم ہونے سے پہلے ہی اس طرح مقبول ہو جاتی ہیں کہ ان کی ساری خواہشات پوری ہو چکی ہوتیں ہیں.اطلاع بعد میں آتی ہے مگر بعض دفعہ تو وقت ملانے سے پتا چلتا ہے کہ جس وقت انہوں نے دعا کی تھی بعینہ اسی وقت وہ پاک تبدیلی رونما ہوگئی جس کی وہ تمنا کرتے تھے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں کوئی فرضی نصیحتیں نہیں ہیں ایک صاحب تجربہ کی باتیں ہیں اور یہ تجربہ ہے جس کی طرف میں خصوصیت سے آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی نمازوں کو پہچا نہیں.اگر دل لگا کر پڑھیں گے اور خدا کی یاد کی خاطر پڑھیں گے تو اللہ آپ کا نگران ہو جائے گا اور بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ کی دعا دل سے اٹھتی ہی نہیں ، ضرورت محسوس کر رہے ہوتے ہیں اور اللہ خود ہی اس ضرورت کو پورا فرما دیتا ہے.فرمایا ”نماز میں کیا ہوتا ہے یہی کہ عرض کرتا ہے التجا کے ہاتھ بڑھاتا ہے اور دوسرا اس کی عرض کو اچھی طرح سنتا ہے.آپ درد دل سے اپنی التجا کا ہاتھ اللہ کے حضور پھیلا دیتے ہیں اور اللہ سن رہا ہوتا ہے، بڑی توجہ سے سنتا ہے.” پھر ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے کہ جو سنتا تھا وہ بولتا ہے.کتنا عظیم الشان قطعی نشان ہے نمازوں کی قبولیت کا.ایک وقت گزرتا ہے انسان التجائیں کرتا چلا جاتا ہے اور بظاہر جواب نہیں آتا.مگر دل یقین سے بھرا ہوتا ہے کہ میں کس عالی ہستی کے حضور عاجزانہ دعائیں کر رہا ہوں اور ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں.پھر ایک وقت آتا ہے جو سنتا تھاوہ بولتا بھی ہے.یہ وہی بات ہے جس کے متعلق میں بارہا ایک واقعہ بیان کر چکا ہوں مگر وہ اتنا پیارا واقعہ ہے کہ جتنی دفعہ بھی سناؤں دل اس سے تھکتا نہیں.ایک بزرگ کے متعلق یہ آتا ہے کہ وہ بہت گریہ وزاری سے ایک دعا کیا کرتے تھے اور ہمیشہ کرتے چلے جاتے.ایک مرتبہ ایک شاگرد کو خیال آیا کہ یہ رات کو اٹھ کر جو گریہ و زاری کرتے ہیں میں بھی ساتھ کھڑا ہوں اور پتہ تو کروں یہ کہتے کیا ہیں.وہ جب رات کو اٹھے اور دعائیں شروع کیں تو یہ بھی ساتھ کھڑا تھا.چند دن کے اندر اس نے یہ عجیب نظارہ دیکھا.اللہ اسے کچھ سمجھانا چاہتا تھا.جب وہ دعا کرتے تھے تو جواب یہ آتا تھا کہ یہ دعا مقبول نہیں ہوئی، میں نے قبول نہیں کی.چند دن میں یہ تھک گیا جو مرید بنا ہوا تھا، آخر اس نے عرض کی کہ آپ میرے امام ہیں مگر یہ حرکت کیا کر رہے ہیں اللہ کہ رہا ہے کہ میں نہیں سن رہا تمہاری بات میں نہیں مان رہا آپ کئے جارہے ہیں.اس پر انہوں نے جواب دیا کہ دیکھو ( میں ) ایک سائل ہوں، ایک غریب بے کسی بندہ ہوں.میرا اور کام کیا ہے سوائے ہاتھ

Page 616

مشعل راه جلد سوم 612 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ پھیلانے کے.وہ مالک ہے اگر وہ چاہے کہ نہیں، تو اس کی مرضی ہے نہیں ، اس کا اختیار ہے نہ قبول کرنے کا، تو میں کیسا سائل ہوں گا اگر اس در کو چھوڑ دوں تو میں جاؤں گا کہاں؟ عین اس وقت بڑی شدت سے الہام ہوا کہ اے میرے بندے! تیری گزشتہ تمہیں سال کی ساری دعائیں میں نے قبول کر لیں.پس ایک وقت آتا ہے کہ جو سنتا ہے وہ بولتا ہے اور تائید میں بولتا ہے اور بڑے زور آور نشانوں سے اس کی تائید کو دنیا پر ظاہر کر دیتا ہے.اس شخص کا تعلق خدا سے ایک ذاتی تعلق تھا.ایک جماعتی تعلق نہیں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خدا جب بولتا ہے تو سب دنیا جانتی ہے کہ وہ بول رہا ہے.آپ کے ماننے والے جگہ جگہ اس کی ہستی کے ثبوت پیش کرتے ہیں.اپنی ذات سے اس کی ہستی کے ثبوت پیش کرتے ہیں.ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور وہ روشنی کے چراغ لئے پھرتے ہیں.ان کا ماحول اس سے روشن ہوتا چلا جاتا ہے.پس یہ وہ باتیں تھیں جو میں خدام الاحمدیہ کو سمجھاتا رہا ہوں اور اب بھی سمجھا رہا ہوں کہ ایسی نماز سیکھوایسی نماز پڑھنی شروع کرو.میں اس معاملے میں مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی سے بہت خوش ہوں کہ انہوں نے بڑی توجہ اور محنت اور انتظام کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھایا ہے.جگہ جگہ نماز کے چرچے ہو رہے ہیں.جگہ جگہ خدام نے نماز کی طرف توجہ شروع کر دی ہے.اب ایک ہی دن میں تو یہ ساری منازل طے نہیں ہوسکتیں مگر ان کا رخ ایسا ہے کہ شیطان سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں اور اپنے رب کے قریب ہوتے چلے جارہے ہیں.اگر ایک بزرگ تنہا میں سال تک اپنی مطلب براری کے لئے خدا کے حضور عاجزانہ عرضداشت کرتا چلا جاتا ہے تو آپ پر ضروری ہے، آپ نے اس دنیا کی کایا پلٹی ہے کہ آپ اس رستے پر گامزن رہیں.ہر قدم آپ کو شیطان سے دور کر رہا ہوگا، ہر قدم آپ کو خدا کے قریب تر کر رہا ہوگا اور جب بھی نماز میں موت آئی اچھی حالت میں موت آئے گی ، شیطان سے ہٹتے ہوئے اور خدا کے قریب تر ہوتے ہوئے.خدا تو لا متناہی ہے اس کی ذات تو کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتی.اس کی ذات کا سفر جاری ہونا چاہیے.جس قدم پر بھی آپ کو موت آئے گی وہی آپ کی منزل ہے.آپ نے اپنی منزل کو پالیا.ید وہ بنیادی باتیں تھیں جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا تھا اب خدام الاحمدیہ کے حوالے سے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ مجلس خدام الاحمدیہ نے ایک بہت ہی پیاری سکیم بنائی ہے جس پر وہ با قاعدگی اور محنت کے ساتھ عمل کر رہے ہیں.انہوں نے کیسٹس (cassettes) تیار کیں ہیں نماز کی اور نماز کے ترجمے کی اور اس کے جتنے بھی لوازمات ہیں یعنی وضو کس طرح کرنا چاہیے، عبادت کے لئے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں، صفائی بدنی

Page 617

613 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اور ذہنی وغیرہ وغیرہ وہ مجھے خود صدر صاحب نے بتایا کہ ایک ہزار کی تعداد میں تو بک بھی چکی ہے.کیسٹ بھی بک چکی ہے اور ساتھ کتا بچہ بھی جو تیار کیا ہے وہ بھی بک رہا ہے لیکن جرمنی کے لحاظ سے ہزار کی تعداد تھوڑی ہے.لیکن میں یہ حسن ظنی رکھتا ہوں کہ خریدنے والے اپنی جماعتوں کے لئے لے کے جارہے ہیں.اگر جماعتوں کے لئے لے کے جار ہے ہوں اور ہزار خرید میں تو دس ہزار تک تو پیغام ضرور پہنچ گیا.پس اس پہلو سے انہوں نے میری ہدایت کو بڑی محنت اور توجہ اور بڑی دیانتداری سے پورا کرنے کی کوشش کی ہے.اس کے علاوہ جو بچوں کا میں ماحول دیکھ رہا ہوں وہ میرے دل کو یقین سے بھر رہا ہے کہ آپ کی اگلی نسلیں انشاء اللہ نجات یافتہ ہوں گی.یہ بچے جو مجھے ملاقات کے دوران ملتے ہیں بڑی کثرت سے میں ملاقاتیں کرتا ہوں اور ہر قسم کے بچے مجھے ملتے ہیں.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اتنی زیادہ ملاقاتوں کی ضرورت کوئی نہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ بہت شدید ضرورت ہے.جن نسلوں سے میرا براہ راست رابطہ ہو جائے ان کے اندر بہت نمایاں تبدیلی ہوتی ہے اور مجھے موقع ملتا ہے کہ میں دیکھوں اپنی آنکھوں سے اس بات کو جانچوں کہ جو کچھ میں کہتا جا رہا ہوں اس پر عمل بھی ہو رہا ہے کہ نہیں.میں اس بات کو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی تین چار سال کی عمر کے بچے بھی اب دین سے گہرا تعلق رکھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ MTA نے بھی اس میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے.ایسے بچے مجھے ملے ہیں کہ میں نے محبت سے ان کی پیشانیاں چومیں اتنے پیارے بچے ہیں.چھوٹی چھوٹی عمریں اور اللہ کا ذکر کر رہے ہیں اور بڑی محبت سے ذکر کر رہے ہیں.خدام الاحمدیہ کے ماتحت کیونکہ اطفال بھی ہیں اس لئے وہ اس عمر کے بچے ، ضروری نہیں کہ براہ راست MTA سے ہی فائدہ اٹھا رہے ہوں...مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ ان کی تربیت کے لئے جگہ جگہ اسکول کھولے جاچکے ہیں.طوعی طور پر خدمت کرنے والوں نے اپنے نام پیش کئے ہوئے ہیں اور بڑی محنت سے ان کو نماز کے آداب بھی سکھائے جارہے ہیں.نماز کا مضمون بھی یاد کرایا جارہا ہے.نماز کے تعلق میں جیسا کہ میں نے عرض کیا سب قسم کے لوازمات ان کو سکھائے جار ہے ہیں.اس لئے یہ نسل ہے جو آج کی نسل کل کی راہنما بننے والی ہے اور ہم بڑے اطمینان کے ساتھ خدا کا شکر کرتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر سکتے ہیں.کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان لوگوں کا تقویٰ دیکھا دیا ہے.ہجرت کے فوائد جماعت جرمنی کو اب یہ چاہیے کہ سب دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جائے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جو

Page 618

614 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کچھ میں نے یہاں دیکھا ہے یہ جن دیہات یا قصبات سے آنے والے لوگ ہیں وہاں انہوں نے یہ کچھ نہیں دیکھا تھا.وہاں کی حالت اور تھی.پس ہجرت کے کچھ تو ظاہری فوائد ہیں جو آپ کو دکھائی دے رہے ہیں لیکن یہ روحانی فائدہ ہے جو اصل فائدہ ہے.ہجرت کے متعلق جو اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہجرت کرو گے تو تمہیں وسعت عطا ہو گی.اگر صرف مالی وسعت ہوتی تو دنیا تو مالی وسعتوں سے بھری پڑی ہے.اصل وسعت یہ ہے جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اللہ کا وعدہ ہمارے حق میں بڑی شان سے پورا ہوا ہے.جس ملک میں ہمیں کلمہ تک پڑھنے کی اجازت نہیں تھی ، جس ملک میں نمازوں پر قدغن تھی ، اس ملک میں ایسی جماعتوں کی بڑی تعداد تھی جن کو ویسے ہی نمازیں نہیں آتیں.نمازوں پر قدغن کی وجہ سے بلکہ نمازوں کی طرف توجہ ہوئی ہے.میں دورے کرتا رہا ہوں اور بڑی محنت کی میں نے اپنی طرف سے جہاں تک کوشش کی اور جتنی کوشش کر سکتا تھا کرتا رہا، وقف جدید میں بھی ، خدام الاحمدیہ میں بھی ، انصار اللہ میں بھی ہر مجلس کے دورے میں میں نماز کو اولیت دیتا رہا ہوں اور نماز کو اولیت دیتے ہوئے جب ان کا میں امتحان لیا کرتا تھا تو بہت دل کو تکلیف پہنچتی تھی.اکثر ان کے نماز پڑھتے بھی تھے تو اس کے مضمون سے ناواقف تھے.مگر وہ لوگ جب یہاں آکر بسے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے جس وسعت کا وعدہ فرمایا تھا اس کا نشان دیکھو کس شان سے پورا ہوا.وہی بچے اگر اپنے دیہات میں سو سال بھی رہتے تو وہ کچھ نہ سیکھ سکتے تھے جو جرمنی پہنچ کر چند سالوں میں سیکھ رہے ہیں اور سیکھ گئے ہیں.پس اللہ تعالیٰ آپ کو مبارک کرے کہ آپ کی آئندہ نسلیں اسلامی قدروں کی محافظ بن جائیں گی اور اگلی صدی میں ان کا فیض نہ صرف صدی کے آخر تک پہنچے گا بلکہ اگلی صدیوں کو بھی ملے گا.پس میں جماعت جرمنی سے اس پہلو سے بہت خوش ہوں کہ محض خدام الاحمدیہ ہی نہیں دراصل ساری جماعت اس کوشش میں بلکہ ملوث ہے.خدام الاحمدیہ تو بطور خاص اس میں سب کچھ تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہے.اگر آپ ان کے ساتھ تعاون کریں گے تو یہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى کی تعلیم ہے.اس تعاون کے نتیجے میں آپ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اہل ہوجائیں گے.نماز سب سے پہلے اپنے دل کو تعلیم دیتی ہے.اپنے نفس کو تعلیم دینی پڑتی ہے.جب اپنا دل اور اپنا نفس نماز کے اثر کو قبول کرتا ہے تو وہ وجود نکلتے ہیں جو سب دنیا کو تعلیم دینے کے اہل ہو جاتے ہیں.پس یہ تیاری صرف جماعت کی بہتری کے لئے نہیں بلکہ دنیا کی بہتری کے لئے ہے کیونکہ دنیا کی بہتری آج آپ سے منسوب ہو چکی ہے.کوئی اور نہیں ہے جو خدا کی خاطر سب دنیا کی بھلائی کا مقصد لے کر اٹھے اور کوئی

Page 619

615 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم اور نہیں ہے جو بڑے وسیع پیمانے پر دنیا کی تربیت کا کام شروع کر چکا ہو.پس جو میں نے وقت اپنے ذہن میں رکھا تھا ساڑھے سات تک وہ وقت تو ختم ہو گیا نصیحت کا یہ مطلب نہیں کہ ضرور لمبی تقریریں کی جائیں.میں سمجھتا ہوں جو بات میں کہنی چاہتا تھا میں نے عمدہ لفظوں میں بیان کر دی ہے.اس لئے میں عمدہ لفظ کہہ رہا ہوں کہ میں آپ کے چہرے دیکھ رہا ہوں، مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ میری باتیں آپ کے دل میں ڈوب رہی ہیں اور ان کے اثرات آپ کے چہروں پہ ظاہر ہورہے ہیں.پس ان اثرات کی حفاظت کریں.میں تو اب آپ سے الوداع کہوں گا اور پھر دوبارہ اللہ تو فیق عطا فرمائے تو جماعت جرمنی کے سالانہ جلسے میں حاضر ہوں گا.اس عرصے میں جو میں نے نصیحتیں کی ہیں ان پر پہلے سے بھی زیادہ شدت سے عمل کریں اور جب میں آؤں تو مجھے نمایاں تبدیلیاں دکھائی دینے لگیں.صرف ایک بات کی میں گزارش کروں گا کہ جو نو مبائعین ہیں ان کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دیں وہ محتاج ہیں کیونکہ اللہ کی خاطر انہوں نے بھی تو ایک ہجرت کی ہے وہ اپنے ماحول کو چھوڑ کر آپ کے پاس آئے ہیں اور یہ خیال غلط فہمی ہے کہ جرمنی ایک آزاد ملک ہے اور یہاں لوگ دلوں کے اتنے وسیع ہیں کہ اگر کوئی خدا کو بھی قبول کر لے تو اس کا بُرا نہیں مناتے.الٹ قصہ ہے.جرمنی ایک آزاد ملک ہے جیسا کہ یورپ کے اور بہت سے آزاد ممالک ہیں ان کی آزادی کی نشانی یہ ہے کہ جب تک آپ خدا سے دور ہٹ رہے ہوں وہ راضی رہیں گے اس پر کوئی اعتراض نہیں.مگر جب خدا کو کوئی قبول کر لے تو اس کے ماں باپ کی طرف سے، اس کے ماحول کی طرف سے اس پر بہت دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ تم کیا بن گئے ہو اور اس سے معاشرتی تعلقات اکثر اوقات کاٹ لئے جاتے ہیں.بہت کم ایسی مثالیں ہیں جہاں خاندان نے اپنی معاشرتی تعلقات کو جاری رکھا.اللہ ان کو جزا دے.مگر کثرت کے ساتھ سب نواحمدی مجھے بتاتے ہیں کہ ان کو اپنے ماحول، اپنے خاندان کی طرف سے عملاً علیحدہ کر دیا گیا ہے اور وہ محبت کا تعلق جاری نہیں رہا.پس یہ بھی مہاجر ہیں.صرف پاکستان سے آنے والے مہاجر نہیں ہیں یہ سارے اپنی اپنی قوموں سے جو احمدیت میں داخل ہورہے ہیں یہ مہاجرین ہیں ان کا آپ پر حق ہے اس حق کو آپ ہی نے پورا کرنا ہے پس آپ کی ہجرت کا خیال اللہ نے کیا، اس احسان کا شکر یہ ادا کرنے کے لئے جو اللہ کے نام پر مہاجر بنے ہوئے ہیں ان کی ہجرت کا خیال کریں، ان کی تربیت کریں، ان کو نمازیں سکھائیں.اس کام پر جتنا وقت دے سکتے ہیں وہ دینے کی کوشش کریں.اگر یہ سارے نئے آنے والے حقیقی نمازی بن جائیں تو وہ عظیم انقلاب جس کی مدت سے ہم راہ دیکھ رہے ہیں.وہ آپ کے دروازے کھٹکھٹانے لگے گا.وہ کل کی بات نہیں رہے گی

Page 620

مشعل راه جلد سوم 616 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ آج ہم اس کو اپنی آنکھوں سے رونما ہوتا دیکھ لیں گے.اللہ کرے ایسا ہی ہو.آئیے اب میرے ساتھ دعا میں شامل ہوں...دعا کے بعد حضور نے فرمایا: ابھی بہت سے خدام نے رخصت ہو کر اپنی اپنی جماعتوں میں جانا ہے ایک یہ بھی وجہ تھی کہ میں نے اپنے لئے ساڑھے سات تک کا وقت مقرر کیا تھا کیونکہ مجھے پتا ہے کہ بہت سے دور سے آنے والے خدام کی بسیں وغیرہ تیار کھڑی ہوئی ہیں اور انہوں نے اپنی اپنی جگہ واپس پہنچنا ہے.اس لئے ان کو میں نے اپنی دعا میں شامل کر لیا ہے آپ بھی دعائیں کرتے ہوئے واپس جائیں اللہ خیریت کی خبریں دکھائے ( آمین ) کسی کی طرف سے ہمیں کوئی دکھ کی خبر نہ پہنچے خیریت سے آئے تھے خیریت سے رہے اور خیریت ہی سے واپس جائیں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.

Page 621

مشعل راه جلد سوم 617 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرموده 5 جون 1998 ء سلسلہ کے کارکنان ، ان کی حیثیت اور ان کا دائرہ کار مثلاً معتمد اور اس کے فرائض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں تکرار نہیں ، اصرار ہوا کرتا ہے امراء.........وہ میرے لحاظ سے تو معتمد ہیں دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھا ہے اولوا الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے مجاہدات کی اس قدرضرورت نہیں جس قد را طاعت کی ضرورت ہے جماعت کے سر پر خدا کا ہاتھ تب ہو گا جب وہ جماعت ہوگی صحابہ کرام میں کسی قسم کی پھوٹ اور عداوت نہ تھی صحابہ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت ہے ☆ ☆ ☆ ہے

Page 622

مشعل راه جلد سوم 618 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 623

مشعل راه جلد سوم 619 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:- يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُوْنَ ) (التحريم:) یہ سورۃ تحریم کی ساتویں آیت ہے جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس کا جو تر جمہ تفسیر صغیر میں درج ہے وہ یہ ہے کہ اے مومنو! اپنے اہل کو بھی اور اپنی جانوں کو بھی دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن خاص لوگ یعنی کافر ہونگے اور اسی طرح پتھر جن سے بت بنے.اس دوزخ پر ایسے ملائکہ مقرر ہیں جو کسی کی منت و سماجت سننے والے نہیں بلکہ اپنے فرض کے ادا کرنے میں بڑے سخت ہیں اور اللہ نے ان کو جو حکم دیا ہے اس کی وہ نافرمانی نہیں کرتے اور جو کچھ کہا جاتا ہے وہی کرتے ہیں.یہ ترجمہ و تفسیر صغیر سے پیش کیا گیا ہے یہ تفسیری ترجمہ ہے.جہاں تک اس مضمون سے تعلق ہے جو آج میں نے آپ کے سامنے بیان کرنا ہے اس میں اس کے بعض پہلو ، بعض ایسے الفاظ سے تعلق رکھتے ہیں جو اس آیت میں وضاحت کے ساتھ درج ہیں.يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ یہ فرشتوں کی ایک صفت ہے اور آج کا میرا امضمون اسی صفت مَا يُؤْمَرُونَ سے تعلق رکھتا ہے.ملمسلہ کے کارکنان اور ان کا دائرہ کار اسلام میں دو طرح کی اصطلاحیں رائج ہیں.ایک مامور کی اور ایک اولوالامر یا ذوالامر کی.مامور ہمیشہ فرشتوں سے مشابہت رکھتے ہوئے وہی کچھ کرتا ہے جس کا اس کو حکم دیا گیا ہے، اُس سے ہٹ کر اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کر سکتا مگر بعض لوگ صرف مامور ہوتے ہیں اور بعض مامور بھی اور اولوا الا مر بھی.یعنی مامور ہونے کے لحاظ سے جو کچھ کہا جائے وہی کر سکتے ہیں اس سے زائد یا کم نہیں کرتے اور اولوا الامر

Page 624

620 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہونے کے لحاظ سے وہ حکم بھی دیتے ہیں اور حکم کا دائرہ مامور کے دائرے کے اندر ہوا کرتا ہے لیکن انہیں حکم دینے کا اختیا ر ہے ہر موقع پر وہ اپنی سوچ کے مطابق حکم دے سکتے ہیں.اسی طرح دنیا دار اولوالامر کا حال ہے ان کو بھی ایک دائرے میں محدود ہو کر اپنے حکم کو جاری کرنا چاہیے جو قوانین کا دائرہ ہے، جو ان لوگوں کی توقعات کا دائرہ ہے جنہوں نے ان کو ووٹ دیئے اور اس نسبت سے وہ مامور ہوئے لیکن اپنی ماموریت کی حیثیت کو بھول جاتے ہیں اور اولو الا مر بنتے ہیں اور ان لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق حکم دیتے ہیں.یہ دنیا داروں کا حال ہے.مگر جہاں تک ان کے اولوالا مر ہونے کا تعلق ہے اس سے انکار نہیں اور جب تک وہ اولوا الا مر رہتے ہیں ان کی اطاعت کرنی ضروری سمجھی جاتی ہے.معتمد کے فرائض یہ ساری بخشیں نظام جماعت سے تعلق رکھنے والی بحثیں ہیں.آج میں اس نیت سے ان بحثوں کو چھیٹر رہا ہوں کہ بعض دفعہ ضرورت پڑتی ہے کہ سلسلے کے کارکنوں کو ان کی حیثیت ، ان کے دائرہ کار کے متعلق اچھی طرح وضاحت سے سمجھایا جائے.میں نے محسوس کیا ہے کہ بعض لوگ مثلاً معتمد جن کا فریضہ ایک جماعت میں معتمد کا ہے وہ لوگ بعض دفعہ ذوالا مر بھی بننے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ذوالا مرا میر ہے اور معتمد ذ والا مر نہیں ہے.امیر مامور بھی ہے یعنی ایک لحاظ سے معتمد بھی ہے لیکن امر دینے کا اختیار بھی رکھتا ہے.اسی طرح سلسلے کے تمام عہدے جو کسی بھی تنظیم سے تعلق رکھتے ہوں جماعتی تنظیم سے یا ذیلی تنظیموں سے سب میں یہ دوسلسلے ساتھ ساتھ جاری ہیں.ہر چھوٹے سے چھوٹے دائرے میں مثلاً خدام الاحمدیہ کا چھوٹا دائرہ ہے اس کے اندر جو بہت چھوٹے دائرے مقامی جماعتوں سے یا خدام کی مجالس سے تعلق رکھتے ہیں ان میں سے بھی ایک معتمد ہوا کرتا ہے اور ایک زعیم بھی ہوتا ہے.معتمد کو اپنی طرف سے کوئی حکم جاری کرنے کا کسی دائرے میں بھی اختیار نہیں.وہ صرف کان ہوتا ہے جو اپنے ذوالا مر کی طرف لگے رہتے ہیں ، جو کچھ اس کو کہا جائے بعینہ وہی کام کرتا ہے.اگر وہ اپنی طرف سے کوئی حکم جاری کرے گا تو وہ معتمد ہی نہیں رہے گا.وہ فرشتوں کے قریب ترین ہے تو اپنی اس حیثیت سے کیوں خوش نہیں ہوتا کہ میں فرشتہ ہوں.خدا کے فرشتے بھی تو مامور ہوا کرتے ہیں ذوالا مر نہیں ہوا کرتے.سارے قرآن میں کہیں بھی فرشتوں کو ذ والا مرنہیں فرمایا گیا، مامور ہیں اور اپنے دائرہ کام میں بعینہ وہی فرائض سرانجام دیتے ہیں جن کا حکم دیا گیا ہے.ان احکامات میں سے جب وہ کوئی حکم لوگوں تک

Page 625

621 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم پہنچاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اللہ کے اذن سے ہم یہ حکم پہنچا رہے ہیں اور اس میں کوئی استثناء نہیں.ہمیشہ فرشتے جو بات پہنچاتے ہیں وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اس وضاحت کے ساتھ پہنچاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات پر مامور فرمایا ہے کہ ہم آپ تک یہ پیغام پہنچا دیں.بعینہ یہی کام معتمد کا ہے.جب بھی وہ کسی مجلس کو یا کسی فرد واحد کو یہ حکم دیتا ہے کہ تم نے یہ کام کرنا ہے اگر وہ یہ حوالہ نہیں دیتا کہ میرے افسر بالا کی طرف سے میں اس بات پر مامور ہوں کہ تم تک یہ حکم پہنچاؤں تو اس کے حکم کی کوڑی کی بھی حیثیت نہیں.جماعتیں یا مجالس اس کو کلیتہ نظر انداز کر سکتی ہیں کیونکہ وہ معتمد تو ہے لیکن ذوالا مر نہیں.اگر کسی ذوالا مر کا پیغام اس نے پہنچانا ہے تو اس کو لازم ہے کہ وضاحت کرے کہ یہ حکم میر انہیں ، میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ جس کے تابع ہوں اس نے یہ حکم مجھے آپ تک پہنچانے کے لئے مامور کیا ہے.اگر اس نظام کو جو ساری کائنات کا نظام ہے اور اسی طرح پر جاری و ساری ہے جماعت احمد یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلے تو کسی معتمد کے لئے اس میں سبکی کا بھی کوئی سوال نہیں کہ میری سبکی ہو گئی ، میں تو حکم دے ہی نہیں سکتا.سارے فرشتوں کی سیکی ہوگی تو اس کی سبکی ہوگی.جتنے خدا کے فرشتے ہیں وہ معتمد ہی ہیں.پس اپنی ذات میں مگن ہوا اور شکر کرو اور خدا کا جس حد تک احسان کا تصور باندھو اتنا ہی تمہارے لئے بہتر ہے.اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں اس قابل سمجھا، تمہیں ایک ایسا مقام عطا فرمایا جس میں کامل یقین ہے کہ تم اس مقام سے سرمو بھی فرق نہیں کرتے.اتنا بڑا اعزاز اور اس کو انسان سمجھے کہ میری سیکی ہوگئی ہے یہ تو بہت ہی بے وقوفی ہوگی.ایسا شخص جو اس کو کی سمجھتا ہے وہ اس لائق ہی نہیں ہے کہ اسے معتمد بنایا جائے.اب میں قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ان اقتباسات سے معاملہ بالکل کھل جاتا ہے اور وہی مضمون حیرت انگیز طور پر ساری کائنات میں جاری ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جب میں نے اس آیت کے اس پہلو سے متعلق راہنمائی چاہی، یعنی ان معنوں میں کہ آپ کی متعلقہ تحریرات کا مطالعہ کیا ، مجھے یقین تھا کہ انتہائی تفصیل کے ساتھ اور باریکی کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس موضوع پر روشنی ڈالی ہوگی، میں دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ تمام نظام جسم کو بھی آپ زیر بحث لائے ہیں، دنیاوی طاقتوں اور سیاسی طاقتوں کے جو اولوا الامر ہیں ان کو بھی زیر بحث لائے ہیں، دینی ذوالا مر کو بھی زیر بحث لائے ہیں، فرشتوں کو بھی اور انسانوں کو بھی اور ان کے متوازی کردار تمام زیر بحث لاکر ایک پہلو بھی

Page 626

مشعل راه جلد سوم 622 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی اس مضمون کا آپ نے باقی نہیں چھوڑا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر میں تکرار نہیں اصرار ہوتا ہے تحریریں تو دو تین چنی ہیں ، میں نے اور بھی بہت سی تھیں جن کے متعلق زیادہ تفصیل سے مجھے بات کرنی پڑنی تھی کیونکہ سننے والے سمجھتے ہیں کہ یہاں تکرار ہے حالانکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تحریرات میں تکرار نہیں، اصرار ہوا کرتا ہے اور ہر مضمون کو جب ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ بیان فرماتے ہیں تو کوئی نہ کوئی ضرور نیا پہلو ہوتا ہے جس پر غور کر کے سمجھ آتی ہے اور اسے سمجھانے کے لئے بھی وقت چاہیے.پس آج کا خطبہ میں نے چھوٹا کرنے کی کوشش کی ہے ہوسکتا ہے زیادہ ہی چھوٹا ہو گیا ہو مگر کوشش یہی ہے کہ تھوڑے وقت میں زیادہ باتیں آپ کو سمجھالوں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے سمجھاؤں.الحکم جلد ۵ اور نمبر ۳۰، ۱۷ اگست ۱۹۰۱ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر شائع ہوئی ہے.” دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھا ہے اور حقیقت میں ان کی شان ملائکہ ہی کی تھی.انسانی قوی بھی ایک طرح ملائکہ کا ہی درجہ رکھتے ہیں کیونکہ جیسے ملائکہ کی شان ہے کہ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُونَ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے.اسی طرح پر انسانی قومی کا خاصہ ہے کہ جو حکم ان کو دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں.ایسا ہی تمام قومی اور جوارح حکم انسانی کے نیچے ہیں.اب یہ تحریرہ بہت ہی لطیف مضمون کو بیان کر رہی ہے.دس ہزار صحابہ کا ملائکہ ہونا ان معنوں میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کی پوری طرح تعمیل کرتے تھے، اس سے مضمون شروع کر کے تو جسمانی قوی کی بات شروع کر دی.یہ وہ بحث ہے جس کو بہت بڑے بڑے سائنسدانوں نے ، جن کا دماغ اور جسم کے باہمی رابطے سے تعلق ہے جو اس مضمون پر غور کرتے ہیں ، انہوں نے بیان کیا ہے اور آج ہی میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا اس میں یہی مضمون تھا، یعنی کوشش تھی اس شخص کی کہ اس کو سمجھ سکے اگر چہ سمجھ نہیں سکا، کیونکہ یہ مضمون ایسا ہے جو قرآن کریم جاننے والا ہی سمجھ سکتا ہے.بہر حال ماحصل ساری تحقیق کا یہ ہے کہ دماغ کے اندر کوئی آمر حکم دینے والا موجود ہے اور تمام نظام

Page 627

623 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم جسمانی سو فیصد اس حکم کی تعمیل پر مجبور ہے.بیماری اس کو کہتے ہیں کہ حکم ہوا اور عمل نہ ہو جہاں یہ واقعہ ہوا وہاں بیماری شروع ہوگئی.سارا نظام جسمانی بے کار ہو کر رہ جاتا ہے اگر وہ آمر جود ماغ میں خدا نے بٹھایا ہوا ہے اس کے ماتحت اس کی باتوں پر عمل نہ کریں اور اس کی باتوں کا سارے نظام جسمانی تک پہنچانے کا نظام اتنا باریک ہے اور اتنا تفصیلی ہے کہ اگر کہا جائے کہ ارب ہا ارب واسطے بیچ میں موجود ہیں اور ان میں سے ہر واسطے کی تفصیل موجود ہے تو یہ مبالغہ نہیں ہے، یہ کم ہوگا.جتنا بھی مطالعہ آپ کر کے دیکھ لیں، میں نے بہت مطالعہ کر کے تفصیل سے اس مضمون کو سمجھنے کی کوشش کی ہے یعنی سائنس دان کی زبان سے، بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ سائنس دان تفصیل تو بیان کر دیتے ہیں مگر وجوہات کہ کیوں ایسا ہو رہا ہے، کیوں ایک با ربط نظام ہے جو کائنات کے نظام کی طرح با ربط ہے ، کیوں ایسا ہوا ہے یہ بیان نہیں کرسکتا.یہ جانتے ہیں کہ اگر دماغ کے اندر جو اولوالامر بیٹھا ہوا ہے وہ سارا جسم جو مامور ہے اس کو فرشتوں کی طرح اس کی تعمیل کرنی چاہیے اگر وہ تعمیل سے کسی ایک جگہ بھی، ایک معمولی سے حصے میں بھی محروم رہ جائے گا تو سارا نظام تباہ ہوسکتا ہے.اب بعض لوگ ایسے فالج کا شکار ہو جاتے ہیں کہ صرف دماغ کام کر رہا ہے اور سارا دھڑ کلیتہ مفلوج ہے تو کیا چیز ہے وہ.صرف اس رابطے کی کمی ہے جو خدا تعالیٰ نے قائم فرمایا لیکن مامور کو آمر حکم دے رہا ہے اور اس کو آواز ہی نہیں پہنچ رہی یا اس کی پرواہ نہیں کر رہا جس کے نتیجے میں کلدیہ تمام نظام مفلوج ہو کے رہ جاتا ہے.ایک چھوٹے سے رابطے کی کہیں کمی واقعہ ہوئی ہے.یہی حال جماعت کا ہے.اگر معتمد جس کو حکم دیا جاتا ہے آگے اس حکم کو جماعت کو نہ پہنچائے تو ساری جماعت مفلوج ہو جائے گی اور یہ خرابیاں میں نے بہت جگہ دیکھی ہیں.کئی دفعہ سمجھانا پڑتا ہے کہ آپ سے جو کچھ کہا گیا ہے، امراء ہوں یا جو بھی ہوں وہ میرے لحاظ سے تو معتمد ہیں، ان کو میں بارہا سمجھا تا ہوں کہ خدا کے واسطے جو کچھ کہا گیا ہے اس کو ضرور ان تک پہنچائیں جن کی خاطر کہا گیا ہے لیکن غفلت ہو جاتی ہے اور تفصیل سے الا سب تک یہ بات نہیں پہنچائی جاتی جن تک یہ بات پہنچائی جانی ضروری ہے اور نتیجہ ایک فالج کا سا منظر دکھائی دیتا ہے جو نظام، جسم یا نظام جسمانی کی مجھ سے مشابہت رکھتا ہے.پس دیکھیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر کتنی باریک اور کتنی لطیف ہے.اگر اس کی تفاصیل میں میں جاؤں تو ایک گھنٹے کا خطبہ بھی بہت چھوٹا ہو جائے گا، کئی گھنٹوں کے خطبے بھی چھوٹے ہونگے.جس حد تک میں نے اس مضمون کو سائنسی نقطہ نگاہ سے سمجھا ہے مجھے لمبا عرصہ درکار ہے کہ میں اس کی تمام تفاصیل جس حد تک مجھے علم ہے ، ہر تفصیل کا تو مجھے علم ہی نہیں ہے، جو تھوڑا سا مجھے علم ہے اس کو اگر باریکی سے سمجھنے کی کوشش کروں اور خاص

Page 628

624 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم طور پر یہ ذہن میں رہے کہ بہت سے ہمارے سننے والے ان پڑھ بھی ہیں، بہت محدود علم رکھنے والے بھی ہیں، تو اتنی زیادہ مجھے محنت بھی درکار ہو گی ان کو سمجھانے کے لئے اتنا زیادہ وقت بھی چاہیے ہوگا.تو یہی وجہ ہے کہ میں نے کہا تھا کہ میں نے کوشش کی تھی کہ وقت تھوڑا لوں.میں تھوڑے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صرف چند تحریرات پڑھ کر سناؤں کیونکہ ہر تحریر کا مضمون کھولا جائے تو بہت لمبا وقت درکار ہے.بہر حال اب دیکھیں اس عبارت کی شان.دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھا ہے“.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو دس ہزار قد وی آپ کو عطا کئے گئے تھے ان کو پرانی کتابوں میں قدوسی بھی لکھا ہے یعنی وہ خدا کی طرف سے پاک شدہ تھے اور ملائکہ بھی لکھا ہوا ہے.یہی حالت ملائکہ کی آپ میں میں دیکھنی چاہتا ہوں اس کے سوا تو جماعت بن ہی نہیں سکتی.اور اس کی تفصیل کو سمجھائے بغیر اتنی بات تو میں آپ کو سمجھا سکتا ہوں کہ نظام انسانی میں سے کچھ بھی اگر حصہ مفلوج ہو جائے تو ساری عمر کے روگ لگ جاتے ہیں.اتنی بات تو ہر ان پڑھ بھی سمجھ سکتا ہے.وہ نہیں جانتا کہ اس کو کیا ہوا ہے، کہاں کوئی کل ٹیڑھی ہوئی ہے مگر یہ جانتا ہے کہ ایک ہی بیماری نے سارے جسم کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، کہیں کا نہیں چھوڑا اس کو.تو اگر ایک بھی بیماری جماعت میں کہیں لگ جائے تو اندازہ کریں کہ پھر باقی جماعت کا کیا حال ہوگا.ہر بیماری سے پر ہیز ضروری ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں یہ زور دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے اتنے احکام ہیں ان میں سے ہر حکم پر عمل ضروری ہے کسی کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ، یہ مراد ہے اس سے.ہرگز یہ مراد نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک ساری جماعت اتنے اعلیٰ درجے تک پہنچ چکی ہے کہ ہر حکم پر پوری طرح ایمان بھی رکھتی ہے اور عمل بھی کرتی ہے مگر اگر عمل نہیں کرتی لیکن خدا کا خوف رکھتی ہے، اگر ڈرتی ہے کہ میرے عمل میں کمی کے نتیجے میں مجھے نقصان نہ پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے عمل کی کمزوری سے جماعت کو نقصان سے محفوظ رکھتا ہے.یہ وہی خوف ہے جس کو تقومی کہتے ہیں.پس اس بیماری کا علاج بھی تقویٰ ہے.کمزوریاں تو بے شمار ہیں جن میں ہم مبتلا ہیں اس کے باوجود نظام جماعت کی حفاظت کی خاطر لازم ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں سے ڈرتا رہے اور اللہ کے حضور یہ عرض کرتا رہے کہ ان کمزوریوں کا بداثر جو دوسروں پر پڑ سکتا ہے اور قانون قدرت کے طور پر پڑنا چاہیے، مجھے اس سے محفوظ رکھ اور میں دشمن کے لئے ابتلاء کا موجب نہ بنوں.حضرت مسیح علیہ السلام نے اسی مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کی وجہ سے کوئی ٹھوکر کھا جائے تو بہتر تھا کہ وہ شخص پیدا ہی نہ ہوتا کیونکہ اس نے بڑا جرم کمایا ہے.پس

Page 629

625 مشعل راه جلد سوم ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی کمزوری کے باوجود اعمال کی اس حد تک حفاظت کرنا کہ وہ دوسرے جسم کے حصے پر یعنی جماعت پر اثر انداز نہ ہوں یہ انتہائی ضروری ہے اور یہ بھی ہو گا جب آپ اولوالامر کے احکامات کو نظر انداز کریں گے اور تخفیف کی نظر سے دیکھیں گے.اولوا الامر سے مراد اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولوا الامر کے متعلق دیگر تحریرات میں سے بعض حصے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ، یعنی اس وقت مسلسل تحریر نہیں پیش کر سکتا کیونکہ مضمون بہت لمبا ہو جائے گا مگر بعض حصے میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.اولوا الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے“.یہ فرق بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے.روحانی طور پر امام الزمان اولوا الامر ہے لیکن مادی لحاظ سے اور جسمانی لحاظ سے بادشاہ بھی اولی الامر ہے.اور جسمانی طور پر جو شخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اس سے مذہبی فائدہ ہمیں حاصل ہو سکے وہ ہم میں سے ہے.( ضرورة الامام صفحه ۲۳) تو یہ خیال کہ اولوا الا مر صرف روحانی نظام کا بادشاہ ہے.یعنی ہمارے نقطہ نگاہ سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور جسمانی لحاظ سے اس کے سوا کوئی ہم پر اولوا الا مرنہیں ہے یہ خیال غلط ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہی کے فہم قرآن کے نتیجے میں جس سے بہتر فہم قرآن ممکن ہی نہیں ہر بادشاہ، ہر سیاسی قوم کا راہنما جو حکم ہو جائے ، جس کو وہ مقام حاصل ہو جائے کہ ساری قوم کو اس کی بات ماننا ضروری ہو وہ اولوالامر ہے اور اس کی اطاعت فرض ہے خواہ وہ دماغی لحاظ سے کیسا ہی ہو، خواہ وہ عقلی لحاظ سے ایک پاگل دکھائی دے، خواہ وہ روحانی لحاظ سے انتہائی ظالم اور حد سے گزرنے والا ہو.ان تمام امور کا حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک ایک کر کے تذکرہ فرمایا ہے تا کہ کسی کو بہانہ ہاتھ نہ آئے کہ ایسا اولوالامر ہو تو ہم کیسے اطاعت کریں گے.فرمایا ہر صورت میں اطاعت کرنی ہے.صرف ایک صورت ہے کہ اس کی اطاعت سے آپ باہر نکل جائیں کہ اگر روحانی بادشاہ کا حکم اس سے متضاد ہوا اور بیک وقت روحانی بادشاہ کے احکام کے دائرے میں رہتے ہوئے اس پر عمل ممکن نہ ہو تو پھر حضرت رسول اللہ

Page 630

626 مشعل راه جلد سوم ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو آپ کو سمجھا اس کی رو سے وقتی طور پر ایسی صورتوں میں اس اولوالامر کی طرف رجوع کرو جو روحانی اولوا الامر ہے کیونکہ اصل وہی ہے اور دنیاوی اولوا الامر کو چھوڑ دو.یہ مضمون میں نے پہلے بھی بارہا سمجھایا ہے اور اب پھر نظام جماعت کے حوالے سے دوبارہ ضرورت ہے یعنی دنیا میں احمدیوں کو جو حکومتوں کے سامنے مسائل پیش ہوتے ہیں وہ ایک الگ مسئلہ ہے.میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہر جماعت کے دائرے میں کوئی شخص بھی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ یہ میرا اولوالامر تھوڑے دائرے میں ہے خلیفہ وقت میرا اولی الامر زیادہ وسیع دائرے میں ہے اُس کے حکم کو یہ شخص ٹال رہا ہے اس لئے میں اس کی بات نہیں مانتا.اگر یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو فساد کا ایک ایسا دروازہ کھل جائے گا جو کبھی بھی بند نہیں ہوسکتا.یہاں جا کر لوگوں کا دماغ کنفیوژ ہو جاتا ہے.وہ بار یک فرق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے.یہی وجہ ہے کہ یہ مضمون اگر چہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں مگر پھر مجھے نظام جماعت کی خاطر اسے بیان کرنا ضروری ہے.اگر کوئی شخص صاحب امر ہونے کی وجہ سے کسی کو کہتا ہے کہ نماز چھوڑ دو تو وہاں اس کے ذرہ بھی تر درد کی گنجائش نہیں.وہ کہے جاؤ اپنے گھر بیٹھو تم اولوا الامر ہو اس دائرے کے اندر جو قرآن کے دائرے کے اندر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے دائرے کے اندر ہے اور اس دائرے میں فرائض میں فرائض کا ترک ناممکن ہے لیکن فرائض سے کم کے جو ترک ہیں وہ ممکن بھی ہو سکتے ہیں.یہ فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے سارا فساد برپا ہوتا ہے.فرائض کا ترک بالکل واضح ہے وہ محکمات میں سے ہے کوئی دنیا میں اختیار نہیں رکھتا کہ ان محکمات کو تبدیل کر سکے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تو کوئی وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ آپ محکمات کو نظر انداز کریں گے مگر دنیا والے جو محکمات کو نظر انداز کرتے بھی ہوں وہ اس کا حکم نہیں دے سکتے.یہ بھی عجیب بات ہے کہ بعض لوگ خود محکمات کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں.یہ گناہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک ان کا شخصی گناہ ہے لیکن اگر وہ دوسروں کو کہہ دیں کہ یہ چھوڑ دو تو یہ بہت بڑا گناہ بن جاتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کے اوپر حاکم بنے والی بات ہے.ایک حکم کی آپ تعمیل نہ کر سکیں اور بجز اور شرم ہو اور حیا ہو.یہ گناہ ایک انفرادی گناہ ہے لیکن اگر اس قدر جسارت کریں کہ دوسرے کو وہ حکم دیں جو حکم دینا آپ کے اختیار میں نہیں ہے تو یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو

Page 631

مشعل راه جلد سوم 627 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی اولوا الامر کی بحث اٹھائی ہے اس کے بہت سے پہلو چھوڑتے ہوئے اب میں اس بحث کو لیتا ہوں جو جماعتی نظام سے گہرا تعلق رکھنے والی ہے.اطاعت کی افادیت اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر بچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے“.اب اولوالامر کے مقابل پر اطاعت کا مضمون ہے.فرمایا:- اگر سچے دل سے اطاعت کی جائے ، تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.یہ مضمون اطاعت کرنے والے کے سوا کوئی سمجھ نہیں سکتا.ان شرائط کے ساتھ جو میں نے بیان کی ہیں اگر کوئی کسی اولوا الامر کی اطاعت کرتا ہے تو خواہ وہ چھوٹا سا انسان ہی ہواس کے دل میں ایک عظمت پیدا ہو جاتی ہے، ایک کشادگی پیدا ہوتی ہے.وہ جانتا ہے کہ دنیا کے لحاظ سے میں بڑا ہوں لیکن اس کی اطاعت اس لئے کر رہا ہوں کہ اللہ نے فرمایا ہے.اس کی اطاعت اس لئے کر رہا ہوں کہ جس نے مجھ تک پیغام پہنچایا اس نے اللہ کا پیغام پہنچایا.اس وقت اس کا جھکنا اس کی عظمت کی دلیل ہوگی اور اس کو محسوس ہوگا کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ابتلاء میں کامیاب ہو گیا ہوں.اس وجہ سے وہ نور اور روح کو ایک لذت آتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے.لوگ مجاہدے کرتے ہیں بعض عمریں گنوا دیتے ہیں مجاہدوں میں، فرمایا مجاہدات کی اتنی ضرورت نہیں ہے، اطاعت کی ضرورت ہے.اطاعت سے انقلاب عظیم برپا ہو سکتے ہیں.مجاہدات سے ایک شخص کو خیال ہو سکتا ہے میں جسم کما رہا ہوں یا میری روح کو پرورش مل رہی ہے لیکن اس سے ساری دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا.فرمایا : - مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ کچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے“.

Page 632

مشعل راه جلد سوم 628 اطاعت کی ضرورت ہے مگر سچی اطاعت کا ہونا ایک مشکل امر ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اطاعت میں اپنی ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے.دل کی تمناؤں کو اور دل کی خواہش کو ذبح کرنا پڑتا ہے جو ایک بہت مشکل امر ہے.”بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے.اور بڑے بڑے تو حید کے دعوے کرنے والوں کے سینوں کے اندر بت رکھے ہوئے ہیں اور وہ بت کیا ہے، ہوائے نفس.دل کی خواہش کو اللہ کے احکام پر جان بوجھ کر ترجیح دینا یہ تو سراسر واضح شرک ہے اور اطاعت نہ کرنے پر شرم محسوس کرنا اور حیاء محسوس کرنا اور استغفار میں مبتلا ہونا اور رونا اور گریہ وزاری اختیار کرنا یہ واضح شرک نہیں ہے.یہ نفس انسانی کی کمزوریاں ہیں جو اگر نظرانداز کر دی جائیں تو رفتہ رفتہ شرک میں تبدیل ہو سکتی ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ بات بڑے غور سے سنیں.فرماتے ہیں:.” ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بُت بن سکتی ہے.دیکھنے میں بڑے تو حید پرست ہو نگے مگر ان کے دلوں میں بہت آباد ہیں.صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی.فنا شدہ کا مطلب ہے دل سے ہوائے نفس کو مٹا دیا تھا.” یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم ، قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملتیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے.اس لئے معتمد ہو یا معتمد کو حکم دینے والا ہو دونوں صورتوں میں فرمانبرداری دونوں پر لازم ہے.ایک پر اس پہلو سے لازم ہے کہ جس بات پر وہ مامور ہے اسی کا حکم دے اس سے زائد نہ دے اور وقت پر جو فیصلہ کرنا ہوا اپنی سوچ کے مطابق کرے مگر کوشش یہی ہو کہ جو عمومی ہدایتیں ہیں ان کے تابع رہنا ہے.معتمد کو یہ اختیار نہیں کہ وقت پر کوئی حکم بھی دے سکے.اُس نے صرف اسی کی اطاعت کرنی ہے جو اس کو کہہ دیا گیا اس کے دائرے میں محدود ہو چکا ہے اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا ، اسے کم نہیں کر سکتا.جیسا کہ فرشتوں کے

Page 633

629 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم متعلق اللہ فرماتا ہے نہ وہ زیادہ کر سکتے ہیں نہ وہ کم کر سکتے ہیں بعینہ وہی کرنا ہوگا جو ان کو کہا گیا ہے.کمی اور زیادہ کے مواقع دوسرے اولوالامر کے لئے ضرور پیدا ہوتے رہتے ہیں کیونکہ صورت حال بدلنے کے نتیجے میں موقع پر ایک صاحب امر کی ضرورت پڑتی ہے.وہ موقع پر جو فیصلہ کرے گا اس کا وہ ذمہ دار ہوگا.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس بات کی بہت احتیاط کرتے تھے اور کبھی موقع کا فیصلہ کرنا پڑے اور یا د نہ ہو کہ رسول اللہ علیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بارے میں کیا چاہتے ہیں اور کیا فرما چکے ہیں تو پھر اپنی فطرت کے اندر جو اطاعت نے ایک یگانگت گھول دی ہے اس سے فائدہ اٹھاتے تھے.وہ یگانگت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ تھی جو اطاعت کے نتیجے میں ان کی فطرت میں گھولی گئی تھی.جب اس کے حوالے سے فیصلہ کرتے تھے ضرور صحیح نکلتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہو کر جب پیش کرتے تھے تو بعض صحابہ کہتے ہیں ساری عمر اتنی خوشی نہیں ہوتی تھی جتنی اس وقت ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یہی میرا فیصلہ تھا، میں ہوتا تو یہی کرتا.اندازہ کریں اس یگانگت سے کیا سرور حاصل ہوتا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :- ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.اطاعت سے نور اور روشنی کا یہ مطلب ہے.پھر فرماتے ہیں:.وہ فنا شدہ قوم تھی.یعنی اپنے دل کی تمام نفسانی خواہشات کو مٹا بیٹھے تھے.فرماتے ہیں:.کوئی قوم بھی اس میں یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے.ادبار اور تنزل کے نشانات یعنی اس وقت تک وہ قوم نہیں کہلا سکتی.پھر اگلا فقرہ ہے.اگر اختلاف رائے اور پھوٹ رہے تو پھر سمجھ لو کہ یہ ادبار اور تنزل کے نشانات ہیں“.اللہ جماعت کو اد بار اور تنزل کے نشانات سے کلینتہ پاک رکھے لیکن یاد رکھیں جب آپ کی اختلاف رائے کے نتیجے میں پھوٹ پیدا ہو جائے اور کچھ ٹولیاں کچھ کرنا چا ہیں، کچھ ٹولیاں کچھ کرنا چاہیں تو یہ پھر تنزل

Page 634

مشعل راه جلد سوم 630 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا آغاز ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے.اسفل السافلین اس کی حد ہے.سب سے زیادہ ذلیل مخلوق خدا کے نزدیک جو بھی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ جو اطاعت سے محروم ہوتے ہیں وہ اسفل السافلین ہو جاتے ہیں.گرتے گرتے آخری مقام تک جہاں تک انسان گر سکتا ہے گرتے چلے جاتے ہیں.یہ حال ان لوگوں کا ہے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا دم تو بھر الیکن اپنی آراء کو فوقیت دے کر اپنے اندر بتوں پر بُت بناتے چلے گئے یہاں تک کہ ان کا دل اس خانہ کعبہ کی طرح ہو گیا جو تو حید کا علمبر دار تھا لیکن بتوں سے بھرا پڑا تھا.ایسے ہی یہ موحد ہیں جن کے متعلق مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بڑے سے بڑے موحد اور سینے بتوں سے بھرے ہوئے ہیں.پس ان بار یک باتوں پر نظر رکھیں اور ہر گز کسی بات کو توفیق نہ دیں کہ وہ آپ کے دل میں جگہ بنالے اور نشانی یہ ہے کہ اگر پھوٹ ہے جماعت میں افتراق ہے تو قطعی علامت ہے لازماً بت موجود ہیں.وہاں بت شکنی کی ضرورت ہے اور بعض بڑی بڑی اچھی جماعتوں میں بعض لوگ ایسے بتوں کی پوجا کرتے اور ان کے پیغامات کو جماعت میں پھیلا کر افتراق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ابھی کل ہی مجھے ایک فیصلہ کرنا پڑا ایک جماعت کے متعلق جہاں بھری جماعت میں صرف چار ایسے افراد تھے جنہوں نے افتراق شروع کیا ہوا تھا اور مجھتے تھے کہ ہم نیکی کی تعلیم دے رہے ہیں، ہم زیادہ بہتر سمجھتے ہیں لیکن جس طرح بھی وہ تعلیم دے رہے تھے جو بھی کر رہے تھے وہ جانتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں دل پھٹے ہیں، اس کے نتیجے میں گروہ بندی ہوئی ہے اور یہ پہچان بت پرستی کی پہچان ہے.اگر گروہ بندی ہوئی ہے تو وہ لوگ لا زما ذمہ دار ہیں.بظاہر وہ تو حید کی تعلیم دے رہے ہیں لیکن دراصل شرک پھیلا رہے ہیں.ادبار اور تنزل کے نشانات ہیں.مسلمانوں کے ضعف اور تنزل کے منجملہ دیگر اسباب کے باہم اختلاف اور اندرونی تنازعات بھی ہیں“.اور بھی وجوہات ہیں تنزل کی.اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت ساری وجو ہات پیدا ہوئیں جس کے نتیجے میں انہوں نے تنزل اختیار کیا مگر ایک وجہ جو بہت کڑی وجہ ہے وہ باہمی اختلاف تھے.پس اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس میں یہ تو سر ہے.اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب

Page 635

مشعل راه جلد سوم 631 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ تک اطاعت نہ کی جاوے“.جماعت کے سر پر خدا کا ہاتھ تب ہو گا جب وہ جماعت ہوگی اور جماعت ہو نہیں سکتی جب تک ایک شخص کی اطاعت نہ کی جائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے“.اب دیکھیں ان کی رائے کی کتنی طاقت تھی اور اس کو کس طرح مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے قوی دلائل سے ثابت کیا ہے.یہ تو نہیں تھا کہ جو عرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سر تسلیم خم کر بیٹھے تھے اس وجہ سے تھے کہ نعوذ باللہ من ذالک بے وقوف تھے یا ان کی اپنی رائے کوئی نہیں تھی.اس مضمون کو چھیڑتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.بڑے اہل الرائے تھے خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بار گراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی.حضرت عمر فاروق ایک عظیم سیاستدان حضرت عمر کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لگتا ہے کوئی رائے ہی نہیں اگر کوئی رائے دیتے تھے تو بعض دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے اس کے اوپر غالب آکر یہ پھر ایک دم اپنی رائے کو مٹا دیا کرتے تھے مگر اطاعت کی روح تھی.جب صائب الرائے بنے ، جب خدا تعالیٰ نے حکومت نصیب کی تو حضرت عمرؓ کے متعلق آج کے مفکرین بھی لکھتے ہیں کہ ایک بھی سیاسی غلطی نہیں کی آپ نے ، ساری زندگی حکومت کی ہے.سیاسی پہلو سے اگر ہم دیکھیں، مذہبی نقطہ نگاہ کو چھوڑ دیں جو اختلاف کا نقطہ نگاہ ہے، تو بعض چوٹی کے مبصرین نے یہ لکھا ہے کہ عمر ایک ایسا خلیفہ ہے جس کے متعلق ہم پوری چھان بین کر لیں تو یہ بات قطعی ہے کہ سیاست میں کبھی انہوں نے غلطی نہیں کی.ایک عظیم سیاستدان تھے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دیکھیں انہی خلفاء کے حوالے سے جو عام آدمیوں کی طرح چلتے پھرتے تھے فرما رہے ہیں یہ خیال مت کرو کہ وہ صائب الرائے نہیں تھے.تم بھی صائب الرائے بنتے

Page 636

مشعل راه جلد سوم 632 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی پھرتے ہو جو بعض دفعہ نظام کے خلاف سراٹھاتے ہو تمہیں کیا پتہ کہ تم سے بڑے بڑے صائب الرائے تھے جو اولی الامر کے سامنے جھک گئے.جہاں خدا نے اجازت دی وہاں پھر صائب الرائے ہونا جو ان کی صلاحیت تھی یہ بہت چکی ہے لیکن اس سے پہلے نہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور تو ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ نے فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو اس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو واجب الامر قرار دیا.ان کی اطاعت میں گمشدگی کا یہ عالم تھا.اطاعت میں گمشدگی اب دیکھیں کتنا پیارا محاورہ ہے.اطاعت میں کلینہ گم ہو چکے تھے اور اتنا گم ہو چکے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فعل سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے.وہ سمجھتے تھے کہ یہ بھی اطاعت ہے.یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھولا ہے کہ جو بعض عجیب و غریب حرکتیں ہمیں اس وقت دکھائی دیتی ہیں اس کی وجہ اطاعت تھی.اتنے کامل مطیع ہو چکے تھے کہ جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل کوئی حرکت بھی ایسی نہیں کہ اگر اس کو اپنانے کی کوشش کی جائے تو وہ بے فائدہ ہوگا.ان کی اطاعت میں گمشدگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے وضو کے بقیہ پانی میں برکت ڈھونڈتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے کسی نے بھی ان مضامین کو نہیں باندھا ہوا تھا.بڑے بڑے مقررین بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا عشق تھا لیکن وہ کیا عشق تھا اس کی کہنہ کیا تھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں." آپ کے وضو کے بقیہ پانی میں برکت ڈھونڈ تے تھے اور آپ کے لب مبارک کو متبرک سمجھتے تھے اور اگر ان میں یہ اطاعت، یہ تسلیم کا مادہ نہ ہوتا بلکہ ہر ایک اپنی ہی رائے کو مقدم سمجھتا اور پھوٹ پڑ جاتی تو وہ اس قدر مراتب عالیہ کو نہ پاتے.میرے نزدیک شیعہ، سینیوں کے جھگڑوں کو چکا دینے کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے.اب یہ دلیل کیسے بنی جب تک مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں سمجھیں گے نہیں آپ کو سمجھ نہیں آئے گی.فرماتے ہیں.

Page 637

مشعل راه جلد سوم 633 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی ”میرے نزدیک سینیوں کے جھگڑوں کو چکا دینے کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے کہ صحابہ کرام میں باہم کسی قسم کی پھوٹ اور عداوت نہ تھی کیونکہ ان کی ترقیاں اور کامیابیاں اس امر پر دلالت کر رہی ہیں“.وہ جو شیعہ کہ رہے ہیں کہ کوئی پھوٹ تھی یعنی حضرت علیؓ کے اختلافات تھے.فرمایا اگر پھوٹ ہوتی تو یہ ترقیات ہو ہی نہیں سکتی تھیں.جو عظیم ترقیات خصوصا خلفائے راشدین کے زمانے میں نصیب ہوئی ہیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان کا پھوٹ کا دعویٰ جھوٹا ہے.پھوٹ ہو اور ترقیات ! یہ ہو ہی نہیں سکتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیسی پختہ اور عمدہ دلیل لائے ہیں کہ میرے نزدیک تو یہی ایک دلیل کافی ہے.مگر ان کے لئے کافی ہے جو عقل رکھتے ہیں جو غور کرنے کی عادت رکھتے ہیں.عامتہ الناس کے لئے پکی سے کی، بڑی سے بڑی دلیل بھی پیش کریں تو سمجھ کچھ نہیں آتی.عامتہ الناس کیا ان عامتہ الناس کے علماء تو ان سے بھی زیادہ ناسمجھ ہیں.دلیل کی بات ماننا تو ان کے نفس کی انا کے خلاف ہے.جنہوں نے بے شمار انانیت کے بت سینوں میں سجائے ہوئے ہوں یہ ہو کیسے سکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے منہ سے دلیل کی بات سن کر اپنا سرتسلیم خم کریں.ناسمجھ مخالفوں نے کہا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا مگر میں کہتا ہوں یہ سی نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہن نکلی تھیں.اب عام دلیل جو ہے وہ دلیل جو ہم سنتے آئے ہیں وہ نہیں دی جارہی.ایک بالکل الگ دلیل ہے.اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہت نکلی تھیں.یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے جب دل کی نالیاں لبریز ہو گئیں اور بہت نکلیں تو اس سیلاب کو دنیا میں روک ہی کوئی نہیں سکتا تھا یہ مفہوم ہے.یہ احمقانہ خیال ہے کہ پھر اس سیلاب کو کسی تلوار کی ضرورت ہے.یہ اس اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا“.جب ایسی نالیاں بہت نکلیں، ایساFlood آ جائے جس کے نتیجے میں دل تسخیر ہور ہے ہوں تو تلوار کی کیا ضرورت ہے، تلوار کا موقع کیا ہے.میرا تو یہ مذہب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں:.میرا تو یہ مذہب ہے کہ وہ تلوار جوان کو اٹھانی پڑی وہ صرف اپنی حفاظت کے لئے تھی.ورنہ اگر تلوار نہ اٹھاتے تو یقیناوہ زبان ہی سے دنیا کو فتح کر لیتے.

Page 638

مشعل راه جلد سوم 634 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی سخن کز دل بروں آید لا جرم بر دل یعنی وہ کلام جو دل سے نکل رہا ہو وہ بلاشبہ دل میں جا کر بیٹھ جایا کرتا ہے، دل سے نکلی بات دل پر اثر کرتی ہے.فرماتے ہیں:.انہوں نے ایک صداقت اور حق کو قبول کیا تھا اور پھر سچے دل سے قبول کیا تھا.ایک صداقت اور حق کو قبول کیا تھا اور پھر سچے دل سے قبول کیا تھا اس میں کوئی تکلف اور نمائش نہ تھی.ان کا صدق ہی ان کی کامیابیوں کا ذریعہ ٹھہرا.یہ سچی بات ہے کہ صادق اپنے صدق کی تلوار ہی سے کام لیتا ہے“.اس کو سچائی کی تلوار کے سواکسی تلوار کی ضرورت نہیں ہے.ہوا تھا." آپ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل وصورت جس پر خدا پر بھروسہ کرنے کا نور چڑھا اب جس کو ہم نور سمجھ رہے ہیں وہ دکھائی تو نور کی طرح دیتا ہے لیکن ہے کیا چیز؟ وہ تو کل علی اللہ کا نور ہے جو شخص بات کرتے وقت جانتا ہو کہ خدا میرے ساتھ ہے اس کو جیسا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو نور عطا ہوا تھا، حصہ رسدی تو کل کا نور ماتا ہے.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نور کو جسمانی ظاہر کرنے والے لوگوں کو کیا پتہ کہ نور کیا چیز ہوتی ہے.جسمانی نور تو دنیا میں بظاہر بڑے بڑے خوبصورت چہرے والوں کے چہروں پر دکھائی دینا چاہیے مگر اس نور میں کوئی حقیقت نہیں.ایک بہت بڑا فرق ہے جسمانی حسن کے نور میں اور اس نور میں جو اللہ عطا فرماتا ہے اور یہ فرق دیکھنا ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آنکھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا چہرہ دیکھیں.” آپ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل وصورت جس پر خدا پر بھروسہ کرنے کا نور چڑھا ہوا تھا.اب کوئی ادنی سی عقل رکھنے والا انسان بھی اس عبارت کو پڑھ کر ایسے شخص کو جھوٹا نہیں کہہ سکتا.بہت ہی جاہل اور کمینہ دشمن ہوگا، کوئی دہر یہ خدا کے غضب کا مارا ہوا جسکو ان باتوں میں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت دکھائی نہ دے.کون کہہ سکتا ہے یہ الفاظ، جس کا دل گہرائی کے ساتھ اس مضمون میں ڈوبا

Page 639

مشعل راه جلد سوم ہوا نہ ہو.ہے.635 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ خدا پر بھروسہ کرنے کا نور چڑھا ہوا تھا اور جو جلالی اور جمالی رنگوں کو لئے ہوئے تھی.یہ کیفیت، یعنی اطاعت کی بات ہو رہی ہے اس لئے اس کو نر کی بجائے مادہ لفظوں میں بیان فرمایا گیا ” جو جلالی اور جمالی رنگوں کو لئے ہوئے تھی.اس میں ہی ایک کشش اور قوت تھی کہ وہ بے اختیار دلوں کو کھینچ لیتے تھے اور پھر آپ کی جماعت نے اطاعت رسول کا وہ نمونہ دکھایا اور اس کی استقامت ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی کہ جو ان کو دیکھتا تھا وہ بے اختیار ہو کر ان کی طرف چلا آتا تھا.آج ہمیں جماعت میں اس کشش کی ضرورت ہے.آپ کے پیغام تو کتابوں کے ذریعہ بھی پہنچ جاتے ہیں لیکن جو پیغام آپ کا وجد پہنچائے اس سے بڑھ کر طاقتور کوئی پیغام نہیں ہوسکتا کیونکہ صحابہ کرام کی طرح یہ کشش آپ کے اندر ہوگی کہ جو کوئی دیکھے گا وہ بے اختیار چلا آئے گا.صحابہ کرام کی سی وحدت کی ضرورت ہے ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی.یعنی عام کرامتیں جو ہیں وہ بالکل معمولی باتیں ہیں فقیروں، پیروں کی تعلیاں ہوا کرتی ہیں.مگران کرامتوں سے بھی بڑھ کر کرامت یہ ہے کہ جو کوئی اسے دیکھے وہ بے اختیار چلا آئے.غرض صحابہ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت اب بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ہاتھ سے تیار ہو رہی ہے اسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیار کی تھی اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونے سے ہوتی ہے اس لئے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزور کھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو.اطاعت ہو تو ویسی ہو، باہم محبت اور اخوت ہوتو ویسی ہو.غرض ہر رنگ میں، ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کر و جو صحابہ کی تھی.(الحکم جلد ۵ فروری ۱۹۰۱ء) ایک دومنٹ میں اس عبارت کے ایک دو فقرے میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں جو آئینہ کمالات

Page 640

مشعل راه جلد سوم 636 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اسلام صفحہ ۸۶، ۸۷ حاشیہ سے لی گئی ہے."جو شخص معرفت کا کچھ حصہ رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ہر ایک ذرہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کے موافق کام کرتا ہے اور ایک قطرہ پانی کا جو ہمارے اندر جاتا ہے وہ بھی بغیر اذنِ الہی کے کوئی تاثیر موافق یا مخالف ہمارے بدن پر نہیں ڈال سکتا.یہ گہرے طبابت کے راز ہیں اور تمام دنیا کے علم شفا سے تعلق رکھنے والے لوگ، خواہ وہ کسی نظام شفا سے تعلق رکھتے ہوں ، اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے.پانی کا ایک قطرہ بھی جب تک وہ نہیں جانتے کہ اذنِ الہی ہے مگر یہ جانتے ہیں کہ جب تک جسم کی وہ خاص کیفیت نہ ہو جو اسے جذب کر کے اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے ایک پانی کے ضرورت مند کو آپ ڈھیروں پانی بھی پلا دیں ایک قطرہ بھی اس کے کام نہیں آئے گا اب اذنِ الہی کو تو نہیں جانتے مگر یہ معمہ ضرور دیکھا ہوا ہے کہ بعض دفعہ جسم اس ایک قطرے کو بھی قبول نہیں کرتا جو اس کے جسم میں سے گزر رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.یہ اذنِ الہی کا نتیجہ ہے.ہم جب کہتے ہیں کہ ایک پتہ بھی نہیں ہلتا اس کے اذن کے بغیر یا ایک قطرہ بھی اس کے اذن کے بغیر فائدہ نہیں پہنچا سکتا تو واقعتہ اللہ کا کلیہ اختیار ہے.اس کے تابع ہوگے تو تم بھی وہ قطرے گنو گے جو تمام دنیا کے صحت مند نظام میں جذب ہو سکتے ہوں.اگر خدا تم میں جذب ہونے کی صلاحیت رکھے گا تو پھر تم جذب ہو سکو گے پھر دنیا کا کوئی جسم تمہارا دفاع کرہی نہیں سکے گا.یہ وہ مرکزی نکتہ ہے جو اس عبارت سے میں نے لیا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سب باتوں کو سن کر ان کی باریکیوں کوسوچے اور سمجھے گی اور دنیا میں عظیم انقلاب کے قابل ہو جائے گی جس کو بر پا کرنے کے لئے اللہ نے اس جماعت کی بناء ڈالی ہے.( مطبوعه الفضل انٹرنیشنل 24-30 جولائی 1998ء)

Page 641

مشعل راه جلد سوم 637 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جولائی 1998ء سے اقتباس بچوں کے والدین پر حقوق آنحضور نے فرمایا ہے کہ اپنے بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آیا کرو اور ان کی تربیت کرو قتل اولاد سے بچوں کا روحانی قتل بھی مراد ہے جماعت احمدیہ امریکہ کو اپنی اولاد کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دینے کی ضرورت ہے وقت کی چند لمحوں کی ملاقات بھی بعض دفعہ سرمایہ حیات بن جاتی ہے ☆

Page 642

مشعل راه جلد سوم 638 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 643

مشعل راه جلد سوم 639 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم الله على تشہد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرماتے ہیں:.اعْلَمُوْا أَنَّمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَ لَهْوٌ وَ زِيْنَةٌ وَ تَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا وَ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (سورة الحديد: 21) اس کا ترجمہ جو تفسیر صغیر میں کیا گیا ہے پہلے میں وہ آپ کو پڑھ کے سناتا ہوں.اے لوگو جان لو کہ دنیا کی زندگی محض ایک کھیل ہے اور دل بہلاوا ہے اور زینت حاصل کرنے اور آپس میں فخر کرنے اور ایک دوسرے پر مال اور اولاد میں بڑائی جتانے کا ذریعہ ہے.اس کی حالت بادل سے پیدا ہونے والی کھیتی کی سی ہے جس کا اگنا زمیندار کو بہت پسند آتا ہے اور وہ خوب لہلہاتی ہے.مگر آخر تو اس کو زرد حالت میں دیکھتا ہے.پھر اس کے بعد وہ گلا ہوا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب مقرر ہے اور بعض کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رضائے الہی مقرر ہے اور ور لی زندگی صرف ایک دھو کے کا فائدہ ہے.میرے نزدیک اس آیت کریمہ کی طرح جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس کا براہ راست تعلق امریکہ کے معاشرے سے ہے اور دنیا میں کسی اور جگہ یہ آیت اتنا اطلاق نہیں پاتی جتنا امریکہ کے معاشرے پر اطلاق پاتی ہے.فرما یا اعْلَمُوْا أَنَّمَا الْحَيوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَ لَهْوٌ جان لو سمجھ لو اس بات کو کہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل تماشہ ہے، دل بہلاوا ہے.اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.جتنا کھیل تماشہ امریکہ کا معاشرہ پیش کرتا ہے اس سے زیادہ آپ کو دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دے گا.ان کی ٹیلی ویژن جھوٹی ، ان کے ذرائع ابلاغ جھوٹے.کسی زمانے میں تو یہ کارٹون وغیرہ جو پیش کیا کرتے تھے وہ اصلیت پر مبنی ہوا کرتے

Page 644

640 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم تھے اور اصلی کردار والے مزاحیہ لوگ اس میں پیش ہوا کرتے تھے.اب تو ساری باتیں فرضی گھڑی ہوتی ہیں.کمپیوٹر کے ذریعے جو چاہیں بنا لیں اور اس کا ہماری اگلی نسلوں پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے.اگلی نسلیں جو عادی ہو چکتی ہیں کمپیوٹر کی کھیلیں دیکھنے کی، ان کے دماغ میں کسی اور چیز کی اہمیت ہی باقی نہیں رہتی.اگر ایسے بچوں کے ماں باپ ان کو ایم ٹی اے پر ساتھ بٹھا بھی لیں گے تو وہ اوپری اوپری چیز میں دکھائی دیں گی ان کو.دل اسی میں اٹکا رہتا ہے کہ وہ جو فرضی کھیلیں ہیں آسمانی مخلوق جن کا کوئی ذکر ہی ، کوئی وجود ہی نہیں، اچانک کمپیوٹر کے ذریعے اٹھ کھڑے ہونے والے جنات ان سب باتوں میں دل اٹکا رہتا ہے اور وہ عمر جو Impressionmable، عمر ہے جس میں گہرے تاثرات قائم ہوتے ، ہیں اس عمر میں ان کے گہرے تاثرات ایک فرضی کہانی کے سوا اور کوئی نہیں رہتے.ساری دنیا ایک کھیل تماشہ ہے.یہ اطلاق کہ سب دنیا کھیل تماشہ ہے، یہ پیغام ہے جو امریکہ کے ذرائع ابلاغ آپ سب کو، آپ کے سب بچوں کو دے رہے ہیں اور اپنا کیا حال ہو گیا ہے، اس کے نتیجے میں سب اکھڑے ہوئے ہیں.ملاقات کے دوران یہ بھی مجھے تجربہ ہوا کہ بہت سے امریکن احمدی مجھے ملنے کے لئے آئے اور جب ان سے گفتگو کی تو بظاہر خوشکن لیکن ہر ایک کا دل دکھی تھا.ان کی کوئی عائلی زندگی نہیں تھی تھی تو ٹوٹ چکی تھی.اعتبار اٹھ چکے ہیں.نہ خاوند کو بیوی پر اعتبار، نہ بیوی کو خاوند پر اعتبار اور ایک فرضی تصور ، اطمینان کے تصور میں وہ دوڑے چلے جارہے ہیں.کچھ پتہ نہیں کہ کیا انجام ہوگا.بہت بڑی بڑی عمر کے آدمی بھی دیکھے جو شادی سے محروم تھے.کیونکہ ان کی ابتدائی زندگی احمدیت کے قبول کرنے سے پہلے عیش وعشرت کی تلاش میں دوڑنے میں خرچ ہوگئی اور اب اس عمر کو آپہنچے ہیں کہ کوئی ان سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہے.تو بہت سی ایسی مصیبتیں ہیں جو امریکن زندگی کی پیداوار ہیں اور اس پہلو سے اس آیت کا اطلاق ان پر ہوتا ہے.جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے یہ جو زینت ہے یہ آخر تفاخر میں تبدیل ہو جاتی ہے.یہ لہو ولعب جو ہے یہ زینت میں اور زینت تفاخر میں بدل جاتی ہے.آخری ماحصل یہ رہ گیا کہ میرے پاس اچھی کوٹھیاں ہیں ، اچھے محلات ہیں، اچھی دنیا کی زینت کے سامان ہیں.یہاں تک تو کچھ قابل قبول تھا مگر جب یہ تفاخر بن جائے ، ایک دوسرے پر فخر کا ذریعہ بن جائے تو وہاں سے پھر خرابی بہت گہری ہو جاتی ہے وَتَكَانُرٌ فِي الْأَمْوَالِ اور دوڑ مال بڑھانے کی دوڑ ہو جائے.ہر شخص کی کوشش ہو کہ میر امال بڑھے اور دوسرے سے زیادہ ہوتا کہ مال کی برتری کا مزہ لوٹوں.والاولاد اور اولاد کے بڑھنے کا بھی ان معنوں میں کہ اولاد کی طاقت بڑھے، ان معنوں میں اولاد کے بڑھنے کا بھی ایک Craze جس کو کہتے

Page 645

641 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم ہیں ، جنون ہو جاتا ہے کہ مال بھی بڑھیں ، اولاد بھی بڑھے اور ہم دنیا کی نظر میں اونچے اٹھ جائیں اور اپنی سوسائٹی کے مقابل پر ان کو ہم نیچا دیکھیں.یہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ دنیا کی زندگی ہے.مگر یا درکھو كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُہ ایک بارش کی طرح ہے جس سے روئیدگی نکلتی ہے ، سبزہ نکلتا ہے جب وہ زمین پر پڑتی ہے اور جو ناشکرے لوگ ہیں یا انکار کرنے والے.یہاں کفار کا لفظ وسیع معنوں میں ہے.وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرنے والے ہیں وہ اس روئیدگی کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں.کہتے ہیں دیکھو ہماری دنیا کی محنت کیسا کیسا پھل لائی ہے.پھر وہ زرد رو ہو جاتی ہے ، اس کی رونق جاتی رہتی ہے.فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا وہ خشک ہوکر زردرو ہو جاتی ہے اور تو اس لہلہاتی کھیتی کو مُصْفَرًّا دیکھتا ہے.ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا پھر وہ کٹے ہوئے گھاس پھوس کی طرح ہو جاتی ہے.وَ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِید اس دنیا میں بھی ایک عذاب ہے ان لوگوں کے لئے کہ اپنی سرسبز اور شاداب ہوتی کھیتی کو وہ لہلہاتی ہوئی دیکھنے کے بعد ، بھیج کے لفظ میں لہلہانے کا مضمون ہے، خوب موجیں مارتی ہے، ہواؤں کے ساتھ ہلتی ہے، جب وہ زرد حالت میں دیکھتا ہے تو اس وقت اسے صدمہ پہنچتا ہے ساری دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے.پھر فرمایا آخرت میں بھی ایسے لوگوں کے لئے بڑا عذاب مقدر ہے اور بعض کے لئے اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضا ہے.یعنی یہ صورت حال سب پر برابر چسپاں نہیں ہوتی.بعض خدا کے بندے مستثنیٰ ہیں.وہ ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، اس کے بداثرات سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں ، ان کو بھی دنیا کی زندگی کے انعامات ملتے ہیں.لیکن اپنی آنکھوں کے سامنے اسے لہلہانے کے بعد زرد رو ہوتا نہیں دیکھتے.فرمایا ایسے لوگوں میں سے کچھ وہ لوگ ہیں کہ جن کے لئے مغفرت بھی ہے اور رضوان بھی ہے.اللہ ان سے بخشش کا سلوک فرمائے گا اور ان سے راضی ہو جائے گا لیکن بعض ایسے بھی ہیں وَمَا الْحَيةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ کہ جن کی یہ دنیا کی زندگی سوائے دھو کے کے کچھ بھی ان کے لئے نہیں رہے گی.دھو کہ بھی وہ جو عارضی ہے.اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ آگے ایک تنبیہ کی صورت میں ان لوگوں کے لئے پیش کرتا ہے.فرمایا یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيكُمْ نَارًا اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ.وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَة اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہوں گے اور پتھر ہوں گے.انسان سے مراد تو سب سمجھتے ہیں.جہنم کے اندر پتھر ڈالنے سے پتھر کو تو کوئی سزا نہیں ملتی ، پتھر

Page 646

642 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم سے مراد وہ سخت دل لوگ ہیں جن پر کوئی نصیحت اثر نہیں کیا کرتی.وہ پتھر جو خدا کے تصور کے ساتھ پارہ پارہ نہیں ہوتے ، جبکہ بعض پتھر ایسے بھی ہیں جن کو قرآن کریم نے اس رنگ میں پیش کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہو کے، ریزہ ریزہ ہو کے گر جاتے ہیں.مگر یہ پتھر وہ ہیں جن پر اللہ کی آیات پڑھی جائیں تو ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا.ان کے لئے فرمایا عَلَيْهَا مَلَئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ (سورۃ التحریم: 7) ایسی جہنم پر ایسے خدا کے فرشتے مقرر ہوں گے جو بہت شدید ہوں گے یعنی ان کی پکڑ سے کوئی باہر نہیں نکل سکتا.غِلاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللہ کہ وہ غلاظ بھی ہیں اور شداد بھی ہیں.غلیظ اس چیز کو کہتے ہیں جو آپس میں اتنی سختی سے جڑی ہوئی ہو کہ اس کو پار کرنے کی کوئی صورت ہی نہ ہو.تو ان کی پکڑ بہت سخت ہوگی اور کسی کو بچنے کی راہ نہیں ہوگی اور شداد ہوں گے اس لئے کہ لا يَعْصُوْنَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُم وہ شدید ہوں گے ، اپنے دل کی سختی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کو بنایا ایسا گیا ہے کہ اللہ نے جو ان کو حکم دیا وہ انہوں نے ضرور پورا کرنا ہے.اس کو پورا کئے بغیر ان میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ اس سے ہٹ سکیں کسی اور طرف رخ کر سکیں.جیسا کہ فرمایا وَ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ وہ وہی کرتے ہیں جس کا حکم دیا جاتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ اے وہ لوگو جنہوں نے کفر کیا آج کے دن کوئی عذر پیش نہ کرو کیونکہ عذر کا وقت گزر چکا ہے.إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (التحریم: 8) یقینا تمہیں اسی چیز کی جزاء دی جارہی ہے جو تم کیا کرتے تھے.اس کے بعد ایک اور سورۃ المنافقون کی یہ آیت آپ کے لئے قابل توجہ ہے.يَا يُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَسِرُوْنَ (سورة المنافقون: 10) اے مومنو! تمہیں تمہارے مال اور تمہاری اولادیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں.اکثر خدا کے ذکر سے غافل ہونے والے وہ لوگ ہیں جن کو اپنی اولاد کی اور مال کی محبت خدا سے غافل کر دیا کرتی ہے اور جن کا نقشہ میں پہلے کھینچ چکا ہوں بعینہ وہی ہیں.مال کی محبت اور اولاد کی محبت ایسا چڑھ جاتی ہے دماغ پر کہ کسی اور چیز کی ہوش نہیں رہنے دیتی.ایسے لوگ خدا کا ذکر کر ہی نہیں سکتے.ایسے لوگ فرضی طور پر سرسری طور پر خدا کا ذکر کریں بھی تو وہ ذکر دل میں ڈوبتا نہیں ہے اور دلوں کی کیفیت کو تبدیل نہیں کرتا.وَ مَنْ يَفْعَلْ

Page 647

643 مشعل راه جلد سوم ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْخَسِرُونَ جو بھی ایسا کرے گا ، وہ لوگ ہیں جو بہت گھاٹا کھانے والے ہوں گے.تو قرآن کریم نے تو کوئی گنجائش نہیں چھوڑی بیچ نکلنے کی کہ انسان عذروں کی تلاش کر کے کہیں نہ کہیں اپنا منہ چھپا سکے.قتل اولاد قرآن کریم نے انسانی فطرت کے ہر پہلو کو اجاگر کر دیا ہے، مضمون کے ہر حصے کو کھول کر بیان کر دیا ہے.جیسا کہ فرمایا: وَلَا تَقْتُلُوْا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ إِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيراً O (سورۃ بنی اسرائیل: 32) اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو.اب یہ بہت غور طلب آیت ہے اس پہلو سے کہ عرب اپنی اولا د کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہیں کیا کرتے تھے.اس زمانے میں یہ دستور نہیں تھا.اگر قتل کرتے تھے تو لڑکیوں کو قتل کیا کرتے تھے اور وہ بے عزتی کے ڈر سے قتل کیا کرتے تھے.مگر سارے عرب میں کہیں آپ کو یہ رواج نہیں دکھائی دے گا کہ مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کوقتل کرتے ہوں.یہ دراصل آئندہ زمانے کی ایک پیشگوئی ہے جسے ہم پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.بہت سے ایسے خاندان میں نے دیکھتے ہیں جو باوجود اس کے کہ اپنی اولاد کی عظمت چاہتے ہیں، اس کی بڑائی چاہتے ہیں مگر زیادہ بچے نہیں چاہتے تا کہ جائیدادزیادہ لوگوں میں تقسیم نہ ہو اور تھوڑے رہیں اور پھر صاحب دولت ہوں.یہ وہ فطرت انسانی ہے جس کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے.وَلَا تَقْتُلُوْا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ولاد بننے کے بعد ان کو قتل نہیں کیا جاتا، احتیاطیں برتی جاتی ہیں جیسے آج کل فیملی پلانگ میں خَشْيَةَ اخلاق ایک ضروری پہلو ہے.تمام دنیا میں یہ تو میں غریبوں کو یہ نصیحت کرتی ہیں کہ اولا د کم پیدا کرو تا کہ تمہاری غربت دور ہو اور یہ جھوٹ ہے کیونکہ غریبوں کی اولا دزیادہ ہو تو غربت دور ہوا کرتی ہے.کہیں دنیا میں غریبوں کی اولا دان پر بوجھ نہیں بنا کرتی.وہ تو اپنے ماں باپ کا سہارا بنتی ہے.تو فرمایا لَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ویسے ہی بے وقوفی ہے.غربت کے ڈر سے اولا دیں قتل کرو گے تو اور بھی غریب ہو جاؤ گے اور جیسا کہ میں مثال دینے لگا تھا چین کی مثال ہے.غربت کے ڈر سے قانون بنائے، اولاد میں قتل کرتے لیکن اس کا کوئی بھی فائدہ چینی اقتصادیات کو نہیں پہنچا.یہ ایک تفصیلی

Page 648

644 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم مضمون ہے.میں نے بہت گہرا جائزہ لیا ہے.اطلاق کی وجہ سے اولا دیں کم کرنے کا کوئی بھی فائدہ ان کو نہیں پہنچا.بلکہ غریب لوگوں نے قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زیادہ بچے اس غرض سے پیدا کئے.چنانچہ بعض چینی خاندانوں میں سات سات، آٹھ آٹھ، دس دس بچے ہیں کہ وہ جانتے تھے کہ اس سے ہماری غربت دور ہوگی اور بچپن سے ہی ان کو کاموں پر لگایا اس کے نتیجے میں خاندان کی مجموعی طاقت ، دولت میں اضافہ ہو گیا.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِيَّاكُم رزق تو ہم دیتے ہیں، ان کو بھی اور تمہیں بھی اس لئے کس گمان میں بیٹھے ہو کہ رزق تمہاری چالاکیوں کی کمائی ہے.اللہ ہی ہے، جب وہ فیصلہ فرماتا ہے کسی کو رزق دینے کا تو رزق دیتا ہے اور جب نہیں فیصلہ فرما تا تو رزق نہیں دیتا.اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطاً كَبِيراً خدا کے نزدیک ایسے بچوں کا قتل بہت بڑا گناہ ہے.لیکن اس قتل سے مراد کچھ اور بھی ہے.ایسے بچوں کا روحانی قتل بھی اس آیت میں مراد ہے.چنانچہ احادیث نبوی میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.اس سے سمجھ آئے گی کہ اصل قتل، اولاد کا روحانی قتل ہوا کرتا ہے اور یقیل ہے جو یہاں عام جاری ہے.بڑی کثرت سے میں دیکھ رہا ہوں کہ لوگ اپنی اولادوں کو قتل کر رہے ہیں اور اس کی پرواہ نہیں کرتے.آپ کے بچوں کا آپ پر گہر احق ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، الادب المفرد للبخاری میں، آپ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابرار کو اللہ تعالیٰ نے ابرار اس لئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے والدین اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کیا.جس طرح تم پر تمہارے والد کا حق ہے اسی طرح تم پر تمہارے بچے کا بھی حق ہے.اس حق کو نہ بھولیں آپ.آپ کے بچوں کا آپ پر گہرا حق ہے اور اس حق کو کیسے ادا کرنا ہے ،اس کا ذکر آگے میں بعض احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، یہ ابن ماجہ ابواب الادب سے حدیث لی گئی ہے.وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اپنے بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو.بچوں کے ساتھ عزت سے پیش آنا بھی ایک لازمی امر ہے.محض حکماً ان سے وہ کام کروانا جو آپ کے نزدیک ان کی دنیا کے لئے بہتر ہیں، یہ درست نہیں ہے.بہت سے ایسے ماں باپ ہیں

Page 649

مشعل راه جلد سوم 645 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ جو بچوں کے لئے سب کچھ کرتے ہیں لیکن ڈانٹتے اس وقت ہیں جب وہ دنیا سے روگردانی کر رہے ہوں.جب دین سے روگردانی کریں تو ہلکے منہ سے ان کو روکتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ عزت سے پیش آؤ یعنی ان کی اصلاح کرنی ہو تو نرمی اور پیار سے گفتگو کرو اور اچھی تربیت کرو.اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے.ایک اور حدیث ہے حضرت ایوب بن موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ، ترمذی ابواب البر سے لی گئی ہے.حضرت ایوب اپنے والد اور پھر اپنے دادا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہے.اچھی تربیت کرے گا تو یہ سب سے اعلی تحفہ ہے جو دے سکتا ہے، نہ کہ اموال جمع کر کے ان کو یقین دلانا کہ میرے مرنے کے بعد تمہیں بہت دولت مل جائے گی.اس کو تحفوں میں شمار ہی نہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے.فرمایا بہترین تحفہ ہے جو باپ اپنی اولا دکو دے سکتا ہے کہ اس کی اچھی تربیت کرے.اب ملفوظات میں سے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.فرمایا ” ان کی پرورش ، یعنی بچوں کی پرورش محض رحم کے لحاظ سے کرے، نہ کہ جانشین بنانے کے واسطے.“ رحم کے حوالے سے کرے، اس سے کیا مراد ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا اے میرے اللہ ! میرے ماں باپ پر رحم فرما جس طرح انہوں نے میری تربیت کی تھی بچپن میں تو یہ رحم تربیت کا مرکزی حصہ ہونا چاہیے.اگر کوئی شخص اپنے بچوں پر رحم کرے گا تو لازمی اس رحم کے نتیجے میں اسے اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ کردار سکھائے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی کمائی اور ورثے کو شمار ہی نہیں فرمایا.فرمایا اس طرح رحم کرو جیسے تم خدا کے حضور یہ کہہ سکو کہ اے اللہ میرے ماں باپ پر بھی رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم فرمایا تھا.اگر انہوں نے دین سے ہٹایا ہوتا تو یہ دعا ہو ہی نہیں سکتی تھی کہ میرے ماں باپ پر اس طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم فرمایا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: نہ کہ جانشین بنانے کے واسطے اولاد سے عزت کا سلوک اور نرمی کا سلوک کرو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ رحم کی توقع رکھتا ہے.نہ کہ جانشین بنانے کے واسطے“.اپنا جانشین بنانے کے لئے جو تم ان سے حسن سلوک کرتے ہو بظاہر وہ ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے.فرمایا بلکہ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا کا لحاظ

Page 650

646 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ہو.پیش نظر یہ بات ہو کہ میں متقیوں کا امام ہوں.اب ظاہر بات ہے کہ بچوں کو بچپن ہی سے تقویٰ کی تعلیم دی جائے گی.تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آپ متقیوں کے امام بنیں گے.اگر بچپن سے ہی ان کی ایسی باتوں سے روگردانی کی جاتی ہے جو نظر آ رہی ہیں کہ ان کو دین سے دور لے جارہی ہیں تو پھر وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ إماما کی دعا بالکل جھوٹی اور بے معنی ہو جاتی ہے.ملاقاتوں کے دوران مجھے اس کا بھی بہت تلخ تجربہ ہوا.بعض بچے، بعض بچیاں ایسے نظر آئے جن کی آنکھوں میں ذرہ بھی دین کی پرواہ نہیں تھی.ان کی آنکھیں بول رہی تھیں.بعض ایسی بچیاں بھی دیکھیں جنہوں نے دوپٹوں سے اپنے سر ڈھانکے ہوئے تھے لیکن ان کا سرڈھانکنا بتارہا تھا کہ آج پہلی دفعہ سرڈھانکا گیا ہے.یعنی روز جب وہ خدا کے حضور چلتے پھرتے تھے تو اسوقت سرڈھانکنے کا کوئی خیال نہیں آیا، جب وہ میرے سامنے پیش ہوئے ہیں تو سر ڈھانک کے آئے.ایسی صورت میں میری تکلیف میں دگنا اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ مجھے لگا کہ نعوذ باللہ من ذلک یہ میرا شرک کر رہے ہیں.جس خدا سے ڈرنا چاہیے اس سے ڈرتے نہیں اور میں ایک عاجز حقیر بندہ جس کی کوئی بھی حیثیت نہیں اس کے سامنے بن سنور کے آتے ہیں اور دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم نیک ہیں.نیک ہیں تو جس کو دکھانا ہے اس کو دکھا ئیں.وہ خدا ہے جو ہر حال میں آپ پر نظر رکھتا ہے.اگر اس کو نہیں دکھانا تویہ کسی نیکی ہے.اس نیکی میں آپ شرک کی تلخی گھول رہے ہیں.جس کو آپ نیکی سمجھ رہے ہیں، ہے تو بدی لیکن اس میں شرک کی تلخی بھی گھل جاتی ہے.چنانچہ جب میں نے چھان بین کی تو ان ماں باپ نے اقرار کیا کہ یہ تو بچپن سے ہمارے قابوہی میں نہیں ہے.میں نے کہا یہ بالکل جھوٹ بول رہے ہیں آپ.بچپن سے آپ اپنے قابو میں نہیں ہیں.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اولاد سے سچا پیار ہو اور انسان انہیں بھینچ کے سینے سے لگائے اور پھر بجائے دنیا داری کے ان کی نیکی کا لحاظ ر کھے اور وہ اچانک بے راہ رو ہو جائے.یہ نہیں ہوا کرتا.اولا د آنکھوں کے سامنے بگڑا کرتی ہے.جن لوگوں کو احساس نہ ہو وہ آنکھیں بند رکھتے ہیں.اس لئے کہ ان کی دنیا داری سے خوش ہو رہے ہوتے ہیں اور دین کی کوئی حقیقی پر واہ نہیں ہوتی.مجھے دعا کے لئے کہہ رہے تھے کہ دعا کرو.میں نے کہا انا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ کے زندگی بھر کے عمل کے خلاف میری دعا کیا کرے گی.مجھے ان سے ہمدردی تو ہے، تکلیف تو ہے مگر آپ کا عمل میری دعا کو جھٹلا رہا ہے.میں دعا کروں گا اللہ تعالیٰ ان کو ٹھیک کر دے.آپ کا عمل پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ اے خدا با لکل نہیں ٹھیک کرنا.ہمیں ایسی ہی تربیت چاہیے تھی جو ہم نے کر دی ہے.

Page 651

647 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم تو ایسے معاملات اور بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً میرے سامنے آتے رہتے ہیں.مگر آئندہ سے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن کے متعلق جماعت کو علم ہو وہ ان کی ملاقات ہی کروانی چھوڑ دیں.یہ نفس کا دھوکہ ہے جو وہ دیتے ہیں اور مجھے اس سے اور بھی تکلیف پہنچتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا کا لحاظ ہو.به لحاظ رکھو کہ جن کو پیچھے چھوڑ کے جا رہے ہو وہ متقی ہوں اور خدا کے حضور تم متقیوں کے امام لکھے جاؤ.فرماتے ہیں اولا ددین کی خادم ہو.یہ لحاظ ہو لیکن کتنے ہیں جو اولاد کے واسطے یہ دعا کرتے ہیں کہ اولا ددین کی پہلوان ہو.بہت ہی تھوڑے ہوں گے جو ایسا کرتے ہیں.اکثر تو ایسے ہیں کہ وہ بالکل بے خبر ہیں کہ وہ کیوں اولاد کے لئے کوششیں کرتے ہیں اور اکثر ہیں جو محض جانشین بنانے کے واسطے ایسا کرتے ہیں اور کوئی غرض ہوتی ہی نہیں.صرف یہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شریک یا غیر ان کی جائیداد کا مالک نہ بن جاوے.مگر یا درکھو کہ اس طرح پر دین بالکل بر باد ہو جاتا ہے.غرض اولاد کے واسطے صرف یہ خواہش ہو کہ وہ دین کی خادم ہو“.پھر فرماتے ہیں: ( ملفوظات.جلد سوم.جدید ایڈیشن صفحہ 599) میں دیکھتا ہوں کہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ محض دنیا کے لئے کرتے ہیں“.یہ کوئی نئی بیماری نہیں ہے.یہ فطرت کی بیماری ہے جو بڑی دیر سے چلی آرہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی جو بڑے بڑے خدمت کرنے والے اور جان فدا کرنے والے اور دین کی راہوں میں دوڑ دوڑ کر چلنے والے ( رفقاء) موجود تھے ان میں بھی ایسے لوگ تھے.میں دیکھتا ہوں کہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ محض دنیا کے لئے کرتے ہیں، محبت دنیا ان سے کراتی ہے.خدا کے واسطے نہیں کرتے.اگر اولاد کی خواہش کرے تو اس نیت سے کرے وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا پر نظر کر کے یہ دعا کرے کہ کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلائے کلمہ ( دین حق کا ذریعہ ہو.بچپن سے بچوں کی تربیت اور اس کے تقاضے اب آپ فرماتے ہیں ایک بچہ کوئی پیدا ہو جائے جو آگے دین کا نام بلند کرنے والا ہو، دین کا کلمہ بلند

Page 652

648 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کرنے والا ہو.اس خواہش کے ساتھ وہ اولاد کی خدمت کریں، وہ سچی خدمت ہے.باقی سب جھوٹ ہے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا حال دیکھ لیں کتنی دعائیں کی ہیں مصلح موعود کی پیدائش سے پہلے.ہر بچے کے لئے دعائیں کی ہیں.اتنی کوشش کی بچپن سے ہی ، دین کے سوا ان کی کوئی نظر برداشت نہیں کی.بہت تفصیلی واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے بچوں سے آپ نے نرمی نہیں کی.یعنی نرمی کے باوجود آپ کی طرز میں ایک تلخی آجایا کرتی تھی ، جب دیکھتے تھے کہ دین کے معاملے میں کوئی ہلکی بات کر رہا ہے اور وہ تلخی بظاہر جسمانی سختی نہ ہونے کے باوجود جسمانی سختی سے بہت زیادہ کام کرتی تھی.اب یہ سب کچھ اپنی جگہ، بے انتہا دعا ئیں ، اولاد کے پیدا ہونے سے پہلے دعائیں ،ان کے پیدا ہونے کے بعد مسلسل ان پر نظر اور یہ عرض کہ یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا جب آوے وقت میری واپسی کا کتنی عاجزانہ دعا ہے.ان سب کوششوں کے باوجود انحصار نہیں ہے.جانتے ہیں کہ میں ایک عاجز بندہ ہوں.جب تک اللہ قبول نہیں کرے گا مجھے یہ نصیب نہیں ہوگا کہ جاتی دفعہ میں پیار اور محبت کی نظر ڈالوں.میں دیکھوں کہ میری اولاد وہ بن گئی ہے جو عمر بھر میں بنانا چاہتا تھا.آپ کیوں اس مثال کو نہیں پکڑتے.دیکھتے نہیں کس کو اپنا امام مانا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنا امام مانا ہے جن کا اولاد کے متعلق یہ نظریہ تھا.گریہ وزاری کرتے ہیں.کاش میں ان پر محبت کی نظر ڈال سکوں جب میں واپس ہورہا ہوں.خدا گواہ ہے کہ جب وہ واپس ہوئے ہیں تو انتہائی نیک اولاد پیچھے چھوڑ کر گئے تھے ، ہر پہلو سے خدمت دین کرنے والی.بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اسی رنگ میں اونچے ہوئے ہیں، اسی رنگ میں لہلہاتے رہے ہیں.وہ لہلہاتے تو تھے پر ان میں زردی کبھی نہیں آئی.وہ چور نہیں بنے کہ پھر مٹی میں مل جائیں.ان میں سے ہر ایک کے متعلق ہم گواہ ہیں کہ جب تک وہ زندہ رہا اپنی طرف سے انتہائی کوشش کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ دین کا علم بردار بنے ، دین کی خدمت کرنے والا بنے.” ہوج کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلائے کلمہ ( دین حق ) کا ذریعہ ہو.ایسی پاک خواہش ہو تو اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ ذکریا کی طرح اولا د دے دے.اب ایک اور بات بڑی عظیم فرمائی گئی ہے.بہت سے لوگوں نے اولاد کے لئے دعاؤں کی درخواست کی لیکن ان کی درخواست میں غالباً کوئی ملونی نفس کی ہوتی ہوگی کہ وہ اپنی اولاد کو اس لئے دیکھنا چاہتے ہیں

Page 653

649 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کہ وہ ان کے دل کی تسکین کا موجب بنے.خواہ نیک ہو یا بد ہو مگر دل کی تسکین کا موجب بنے.مگر حضرت زکریا کی دعا اور تھی.حضرت زکریا کے بال سفید ہو چکے تھے.قرآن کریم کی رو سے شعلے کی طرح سر بھڑک اٹھا تھا، اتنی سفیدی آچکی تھی اور وہ عرض کرتے ہیں کہ میری ہڈیوں میں جان تک باقی نہیں رہی ، ہڈیاں گل گئی ہیں.لیکن یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! میں تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوسکتا.فرمایا ایسی دعا کرو تو پھر زکریا کی طرح تمہیں بھی اولاد نصیب ہوگی، پھر تمہیں بیٹی ملے گا.اگر ایسی دعائیں نہیں کرتے یہ دل کی گہری تمنا نہیں ہے تو پھر دنیا میں ایسی اولا د چھوڑ جاؤ گے جس کا کوئی بھی فائدہ نہیں.تم چلے جاؤ گے اور اس کے بعد ان پر کیا بنے گی یا مرنے کے بعد تم پر کیا بنے گی ،اس کی تمہیں کوئی ہوش نہیں ہے.ایک چھوٹے سے فقرے میں دیکھیں کیسی پیاری بات فرما دی.فرمایا: کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلائے کلمہ ( دین حق ) کا ذریعہ ہو.ایسی پاک خواہش ہو تو اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ زکریا کی طرح اولاد دے دے مگر میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی نظر اس سے آگے نہیں جاتی کہ ہمارا باغ ہے اور ملک ہے، اس کا وارث ہو.کوئی شریک اس کو نہ لے جائے.مگر وہ اتنا نہیں سوچتے کہ کم بخت جب تو مرگیا تو تیرے لئے دوست دشمن، اپنے بیگانے سب برابر ہیں.یہ حقیقت ہے جب انسان مر ہی گیا تو اس کو اس دنیا سے کیا ہے.پیچھے کیا چھوڑا ہے، کیا نہیں چھوڑا، اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں ، کوئی اس کا اختیار نہیں اس پر.تو لفظ کم بخت سے طبیعت کو جھنجھوڑا گیا ہے.اتنا نہیں سوچتے کہ کم بخت جب تو مر گیا تو تیرے لئے دوست دشمن، اپنے بیگانے سب برابر ہیں.میں نے بہت سے لوگ ایسے دیکھے اور کہتے سنے ہیں کہ دعا کرو کہ اولاد ہو جائے جو اس جائیداد کی وارث ہو.ایسا نہ ہو کہ مرنے کے بعد کوئی شریک لے جاوے.اولاد ہو جائے خواہ وہ بدمعاش ہی ہو.یہ معرفت اسلام رہ گئی ہے.اس لئے اپنی اولاد کی طرف خاص طور پر توجہ کریں.قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَّ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَّلَا تَقْتُلُوْا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ إِيَّاهُمْ (سورۃ الانعام : 152) یہ آیت تو وہی ہے جس کی میں پہلے تلاوت کر چکا ہوں.

Page 654

650 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم لیکن اب میں آپ کو یہ بات آخر پر سمجھانا چاہتا ہوں کہ میں نے جہاں تک جائزہ لیا ہے امریکہ کی جماعت کو اپنی اولاد کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دینے کی ضرورت ہے.کیونکہ بہت سے چہرے تو میں نے دیکھ لئے ہیں اور ان کی آنکھوں نے جو پیغام دیاوہ سن لیا اور سمجھ لیا.مگر ہر دفعہ بھی ملاقاتیں ممکن ہی نہیں ہوا کرتیں اور جماعت کا ایک بھاری حصہ ایسا رہ جاتا ہے جس کے ساتھ میں ملاقات نہیں کر سکا.تو میں تو محض نمونے کے طور پر آپ کو بعض چہرے دکھا سکتا ہوں.اس سے زیادہ مجھے کوئی توفیق نہیں ہے.اس ضمن میں ایک اور بات میں امریکہ کی جماعت سے کہنا چاہتا تھا، وہ لمبی ملاقاتوں کی معذرت ہے.اگر چہ میری خواہش یہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ احمدی دوستوں سے اور ان کے بچوں سے ملوں.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بعض دفعہ ان کی چند لھوں کی ملاقات بھی ان کی اولاد کے لئے ساری زندگی کا سرمایہ بن جایا کرتی ہے.اسی ملاقات میں بعض لوگوں نے بہت پرانی اپنی بچپن کی تصویریں میرے ساتھ دکھائیں اور کہا کہ ہمارے بچے جو گودیوں میں ہیں یہ ان کا سرمایہ حیات ہے.یہ ساتھ لئے پھرتے ہیں، اپنی البموں میں سجاتے ہیں اور کہتے ہیں ، اس طرح ہمیں گودی میں اٹھایا ہوا تھا حالانکہ اس وقت میں خلیفہ اسیح بھی نہیں تھا.لیکن ان بچوں نے ان لمحات کی قدر کی اور میرے دینی تعلق کو پیش نظر رکھ کر ان تصویروں کو سنبھال کر رکھا اور جب میں دیکھتا ہوں تو بعض دفعہ پہچانا نہیں جاتا کہ یہ کیا ہورہا ہے.مگر میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ چند لمحوں کی ملاقات بھی بعض دفعہ ایک سرمایہ حیات بن جایا کرتی ہے.مگر وہ لوگ جو ملاقات کی خاطر بعض دفعہ گھنٹوں بیٹھتے ہیں ان کو میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ ان کی تکلیف سے زیادہ میرا دل تکلیف محسوس کرتا ہے.مجھے بہت شرم آتی ہے اس بات سے کہ گھنٹوں انتظار کے بعد بے چارے آئے اور کھڑے کھڑے السلام علیکم، چاکلیٹ بچوں کے لئے لے لو، تصویر کھینچوا ؤ اور رخصت ہو جاؤ.اب اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ میرا دل سخت ہے.میں ان کی تکلیف کو محسوس کرتا ہوں.گھنٹوں جو باہر بیٹھے ہوئے ہیں، ان کی تکلیف کا لمحہ لمحہ میرے دل پہ گزر رہی ہوتی ہے اور اس میں کوئی بھی شک نہیں، ذرہ بھی اس میں جھوٹ نہیں ہے.مگر میں مجبور ہوں کہ جتنے بھی مل سکتے ہیں ان سے مل کر ان چند لمحوں میں کوئی ایسی بات کروں کہ ان کی زندگی کا سرمایہ بن سکے اور مجھے پتہ ہے کہ آئندہ جب میں گزر جاؤں گا تو یہی سرمایہ حیات ہے جو آپ کے بچوں کے کام آئے گا.عمر بھر کا سرمایہ بن جائے گا انگلی نسلوں کے لئے ، ان کی صدیاں جو آنے والی ہیں ان سب کا یہ سرمایہ حیات بن جائے گا.پس جو کچھ اس سفر کے دوران گزرا ہے یہ اس کی تشریح کر رہا ہوں.اس کی روشنی میں آپ

Page 655

651 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم میرے عمل کو جانچیں اور اس کی روشنی میں ہی اپنے عمل کو بھی جانچیں اور اپنی اولاد کی فکر کریں.بہت سے بچے ضائع ہورہے ہیں، غیر معاشرہ ان پر قبضہ کر رہا ہے.کبھی کسی دنیا میں غیر معاشرے کو اتنی طاقت گھروں میں داخل ہونے کی نہیں ہوئی جتنی آج ہو چکی ہے.جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا یہاں کا میڈیا، یہاں کی ٹیلی ویژن کی تصویر میں اور پھر اردگرد کا ماحول، ناچتے پھرتے بچے دکھائی دیتے ہیں.ان باتوں کو روکنے کے لئے جو دنیا کی کوششیں ہیں وہ بھی کریں.بعض دفعہ بچوں کو یہ دیکھ کر بہت مزہ آتا ہے کہ بچے تالاب میں پھر رہے ہیں ، ننگے دوڑ رہے ہیں، پھر رہے ہیں.ان کی تسکین جو ہے نہانے کی اور تیرنے کی وہ تو پوری ہونی چاہیے کسی طریقے سے لیکن اس طرح نہیں جس طرح یہ لوگ کرتے ہیں.تو بچپن سے ان کے لئے جن لوگوں نے تالاب بنالئے ، جن کو توفیق ملی ان پر میرا کوئی اعتراض نہیں.جن کو خدا نے توفیق دی ہے وہ بے شک بنا ئیں مگر اتنا دکھاوا نہ کریں کہ وہ تالاب لوگوں کی نظر کے لئے ہوں نہ کہ بچوں کے نہانے کے لئے.مجھے یاد ہے امریکہ آنے سے بہت پہلے بھی مجھے یہ خیال رہتا تھا کہ میری بچیاں بڑی ہوں گی تو یہ محسوس نہ کریں کہ ہمیں تیرنا نہیں آیا، نہ ہمیں نہانے کا آزادانہ مزہ آیا.اس لئے یہاں کے معاشرے کا تو مجھے خواب و خیال بھی نہیں تھا مگر اپنے فارم پہ میں نے ایک تالاب بنا رکھا تھا چھوٹا سا جس میں میرے بچے مجھ سے سیکھتے تھے.ان کے ساتھ ہی خاندان کے اور بچے بچیاں آکر پاکیزہ ماحول میں تیرنا بھی سیکھتے تھے اور مزے بھی پورے کرتے تھے.جب یہ بچیاں، ان میں سے دو بڑی بچیاں میں ساتھ لے کر امریکہ آیا تو یہاں کے تالابوں نے ان پر ذرہ بھی اثر نہیں کیا.کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ہمارا حق ہمیں دیا گیا ہے اور ان پر رحم کرتی تھیں جو اپنا جسم بیچنے کے لئے نہاتے ہیں.کراہت سے ان پر نظر پڑتی تھی اور اپنے متعلق پورا اطمینان تھا کہ ہمارا جو حق ہے ہمیں عطا کیا گیا ہے.تو یہ میں باتیں اس وقت کی کر رہا ہوں جب میں ابھی امریکہ نہیں آیا تھا.تو یہاں کے لوگ اگر اس نیت سے تالاب بنانے کی توفیق رکھتے ہوں کہ گھر میں پاکیزہ ماحول میں ان کی تربیت ہو سکے تو ہر گز کوئی برائی کی بات نہیں ہے.اس کو تکاثر اور تفاخر نہیں کہتے.مگر تالاب کے بہانے اگر اتنے بڑے بڑے ہال بنائے جائیں ، اتنی بڑی بڑی چکو زیاں ہوں کہ دیکھتے ہی طبیعت میں کراہت پیدا ہو، یہ تو کوئی مومنانہ طریق نہیں ہے.اس سے تو اگر بچے یہاں نہائیں گے بھی تو بیرونی معاشرے کی اور بھی زیادہ قدر کریں گے.وہ سمجھیں گے کہ ہمارے ماں باپ نے انہی کو اپنی بڑائی کا ذریعہ بنارکھا ہے.تو یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو میرے اس سفر کے دوران تجربے میں شامل ہیں.ان کی تفصیل میں میں نہیں جانا

Page 656

652 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم چاہتا.جن کو توفیق ہے ضرور تالاب بنا ئیں مگر بچوں کے ساتھ مل کر ان کو تیرنا بھی سکھائیں.ان کو ساتھ ساتھ بتائیں کہ باہر کی دنیا کی طرف نظر نہ کرو، وہ گندے لوگ ہیں.اپنی حفاظت کرو، اپنے دین کی حفاظت کر و تو یہی تالاب ان کے لئے رحمت کا موجب بن جائیں گے..( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 21 اگست تا 27 اگست 1998 ء )

Page 657

مشعل راه جلد سوم 653 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 10 جولا ئی 1998 ء سے اقتباس نئی نسلوں کو بچانا بہت بھاری ذمہ داری ہے والدین بچوں کو چندوں کی اہمیت سمجھائیں اگر ہماری موجودہ نسل سنبھل جائے تو مستقبل کی ہمیں کوئی فکر نہیں بلا وجہ ہمدردی بچوں کو خراب کر دیتی ہے ☆ ☆

Page 658

مشعل راه جلد سوم 654 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 659

مشعل راه جلد سوم 655 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.ياَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا قُوْا أَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ O يَا يُّهَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُوْنَ (سورة التحريم: 7-8) میہ وہ آیات کریمہ ہیں جن کی تلاوت میں نے امریکہ کے آخری خطبہ میں بھی کی تھی اور ان آیات کے مضمون کے پیش نظر تمام ایسے متمول احمدیوں کو خصوصیت سے نصیحت کی تھی جو اپنے اموال سے اللہ کی نسبت زیادہ محبت کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کے ہاتھوں سے ان کی اولا دمیں بھی نکلی چلی جارہی ہیں اور جو مال وہ جمع کرتے ہیں وہ ان کے کسی کام نہیں آئے گا.یہ ایک عمومی نصیحت تھی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہاں کی جماعت کے اکثر لوگ اس میں ان معنوں میں مبتلا ہیں کہ جماعت کے چندوں پر کوئی بداثر پڑتا ہے.کیونکہ یہ لوگ جو محروم ہیں ان کی ادائیگیاں ان لوگوں کے مقابل پر جو اللہ کی راہ میں ویسا ہی مال خرچ کرتے ہیں جیسا کہ خدا ان کو عطا فرماتا ہے وہ اتنی زیادہ ہیں کہ اگر ان کی ساری قربانیوں کو ایک طرف پھینک دیا جائے تو ایک فی صد بھی امریکہ کی جماعت کی آمد میں فرق نہیں پڑتا تھا بلکہ یہ بھی مبالغہ ہوگا ایک فیصد کہنا بھی.اس لئے ہرگز کوئی مالی ضرورت کا احساس نہیں تھا جس کے پیش نظر میں نے یہ خطبہ دیا.یہ احساس تھا کہ وہ لوگ جو بدنصیب ہیں وہ بچائے جا سکتے ہیں تو ان کو بچالیا جائے.نئی نسلوں کو بچالو اور شروع ہی سے ان کی فکر کرو اس ضمن میں ایک اور بات جو خاص طور پر قابلِ توجہ ہے جو امریکہ میں بیان نہیں کی مگر اب میں اس خطبے میں اسے بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قُوْا اَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا میں یہ بھی ہدایت ہے کہ اپنی

Page 660

656 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم نئی نسلوں کو بچالوا ور شروع ہی سے ان کی فکر کرو اور جو ان میں سے کمانے والے ہیں ان پر لازم کر دو کہ وہ ضرور پہلے چندہ ادا کریں ، باقی باتیں بعد میں دیکھیں.اگر یہ کر لیں تو بہت بڑی احمدی نسلیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ کے لئے اس شر سے بچائی جاسکتی ہیں.امریکہ کے دورہ کے وقت بھی اور یہاں بھی ملاقات کے دوران میں نے محسوس کیا ہے کہ بہت سے احمدی بچے اور بچیاں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھے عہدوں پر نئے نئے فائز ہوئے ہیں یا فائز ہونے کی توقع رکھتے ہیں ان کے والدین کو ان کی فکر نہیں کہ اس وقت یہ اصل وقت ہے کہ ان کو سمجھایا جائے کہ تمہارا مال تم پر حرام ہے جب تک پہلے خدا کا حصہ نہ نکالو اور اس وقت ان کے لئے آسان ہے کیونکہ نوجوان نسلیں بوڑھی نسلوں کے مقابل پر نسبتا اپنے مزاج میں نرمی رکھتی ہیں.یعنی ان کے اندر لوچ پائی جاتی ہے اور وہ مال کی محبت میں ابھی ایسا مبتلا نہیں ہوتیں.وہ لوگ جنہوں نے عمریں گزار دیں مال کی محبت میں ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کی اصلاح کا وقت گزر چکا ہے وہ اللہ کے حوالے، جو چاہے ان سے سلوک فرمائے.لیکن نئی نسلوں کو سنبھالنا تو نسبتاً بہت آسان ہے اور بعض ان میں سے جو مجھے ملے جن کو میں نے خود یہ نصیحت کی فوری طور پر انہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ لازماً ہم ایسا ہی کریں گے.ایسی مائیں بھی مجھے ملیں جن کو میں نے توجہ دلائی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے دل میں یہی تمنا اٹھ رہی ہے اور اب ہم اپنے بچے کو لاز ما اس بات کا پابند کریں گی کہ اگر تم میرے بچے ہو، جیسا ماؤں کا محاورہ ہے، میرا دودھ بخشوانا چاہتے ہو، تو سب سے پہلے اللہ کا حصہ نکالو اور باقی چیزیں پھر جس طرح چاہو اللہ تعالیٰ تمہیں تو فیق دے تم اس کے مطابق خرچ کرو اور بعض ماؤں نے کہا کہ ہم نے اپنے بچوں کو یہ کہنا ہے کہ جو کچھ تم کماؤ گے اگر اس میں سے خدا کا حصہ نہ نکالا تو میرا حصہ بھی نہ نکالنا، مجھ پر حرام ہے.جو تم کما کر خدا کے حصے میں سے بچاتے ہو وہ مجھ پر خرچ کرو، یہ نہیں ہوسکتا.یہ ناممکن ہے.اگر یہ نسل سنبھل جائے تو مستقبل کی ہمیں کوئی فکر باقی نہیں رہے گی تو بہت سی خوشکن باتیں ایسی دیکھنے میں آئیں جن سے میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری نئی ابھرتی ہوئی نسل کو سنبھالا جا سکتا ہے اور اگر یہ نسل سنبھل جائے تو مستقبل کی ہمیں کوئی فکر باقی نہیں رہے گی.قُوْا أَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيكُمْ نَارًا ایک ان کے حق میں بہتا ہوا موجیں مارتا ہوا چشمہ ثابت ہوگا جس کا پانی انگلی صدیوں میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ منتقل ہوتا چلا جائے گا اور بڑھتا چلا جائے گا.تو اس سے بہتر تحفہ ہم اگلی صدیوں کے لئے کیا پیش کر سکتے ہیں کہ ایسی نسلیں آگے بھیجیں جو خدا کا حق نکالنے میں

Page 661

657 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم سب سے پہلے ہوں ،سب سے بالا ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ ان کو توفیق بخشے، اور جولا از ما بخشا کرتا ہے کہ وہ تمام دوسرے چندوں میں بھی بہت زیادہ آگے سے بڑھ کر ہوں.جس کا اپنا یہ حال ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اس بات کی تربیت نہ دیں.تو اس پہلو سے میں کہہ رہا ہوں کہ ایک موجیں مارتا ہوا دریا پھوٹ پڑے گا.قُوْا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيكُمْ نَارًا یہ کہتا ہوا اور انگلی صدیوں کو سیراب کرے گا.تو میں امید رکھتا ہوں کہ جو لوگ میں امریکہ میں پیچھے چھوڑ آیا ہوں اور وہ سب اب جو میرے مخاطب ہیں تمام دنیا کے احمدی نو جوان ، وہ اس جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھام لیں گے اور ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس نیکی کا بہت لمبا اثر ہے.ایک نہ ختم ہونے والا فائدہ پہنچنے والا ہے اور آئندہ وقتوں میں جماعت کو اس کی بڑی شدید ضرورت پیش آنے والی ہے.آپ دیکھیں گے کہ اگلے دس پندرہ سال کے اندر حالات ایسے پیدا ہو جائیں گے کہ ان نوجوانوں کی قربانیاں ساری جماعتی ضرورتوں کو سنبھال لیں گی.پس میں امید رکھتا ہوں کہ یہ نصیحت آپ کے لئے کافی ہوگی..اپنی فکر کریں، اپنے بچوں کی فکر کریں، اپنے میاں کی فکر کریں، اپنے عزیزوں کی فکر کریں ، وہ آپ کا حق ہے.اور وہ بھی ضرورت سے زیادہ نہ کریں کیونکہ وہاں بھی اگر آپ نے ضرورت سے زیادہ فکر کیا تو اس کا نقصان پہنچے گا.بعض ماؤں نے اپنے بچوں کو اس وجہ سے نقصان پہنچایا ہے کہ ان کی ہمدردی کی وجہ سے ان کی بیماریوں کو بہت بڑھا چڑھا کر سمجھا اور اس بچے پر گویا یہ ظاہر کیا کہ تم اتنے بیمار ہو.جب مجھے علم ہوا اور میں نے سختی سے اس بات سے روکا تو آپ حیران ہوں گے کہ وہ بچے بالکل ٹھیک ٹھاک ہو گئے ، بداثر سے باہر نکل آئے.تو جو باتیں میں عرض کر رہا ہوں ذاتی تجربے کی بناء پر یقین کی وجہ سے عرض کر رہا ہوں.مطبوع الفضل انٹر نیشنل 28 اگست تا 3 ستمبر 1998 ء )

Page 662

مشعل راه جلد سوم 658 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 663

مشعل راه جلد سوم 659 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 14 راگست 1998ء سے اقتباس سیدھی بات سچی بات سے زیادہ اعلیٰ درجے کی بات ہے سیدھی بات سے اصلاح اعمال کا بہت گہرا تعلق ہے قول سدید کا تجر بہ گھروں سے شروع ہونا چاہیے.تمام وہ اولا دیں جو رفتہ رفتہ بگڑ کر دور چلی جاتی ہیں بچپن میں ان سے قول سدید سے کام نہیں لیا جاتا اپنے بچوں سے کھری بات کہو اور دیکھو کہ ان کے دلوں میں دن بدن عمر کے ساتھ ساتھ تمہاری عزت بڑھے گی بچوں سے وعدہ کرو تو اس میں وعدہ خلافی نہ کرو کبھی ساری عمر اپنے بچوں سے کوئی وعدہ نہ کریں جسے آپ پورا نہ کر سکتے ہوں فطرت میں دورنگی نہیں ہونی چاہیے.یہ دورنگی ہے جو انسان کو برباد کر دیتی ہے جسم کی صفائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات مسواک کی عادت ہم نے سارے آداب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھے ہیں ☆ ☆ ☆

Page 664

مشعل راه جلد سوم 660 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 665

مشعل راه جلد سوم 661 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالى تشهد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرماتے ہیں:.ياَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلاً سَدِيداً يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ رَسُوْلَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْماً (الاحزاب : ۷۱-۷۲) آج کے خطبے کے لئے میں نے قرآن کریم کی دو دو آیات مختلف سورتوں سے اخذ کی ہیں اور انہی کو اس خطبے کا عنوان بنایا ہے.یہ پہلی دو آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے سورۃ الاحزاب کی آیت اکہترویں اور بہترویں ہیں.دوسری دو آیات میں نے سورۃ البقرہ سے چینی ہیں پینتالیس اور چھیالیس جو اس طرح ہیں.أَتَامُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ کیا تم لوگوں کوتو نیکی کی تعلیم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو.وَ انْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ حالا نکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو.أَفَلا تَعْقِلُوْنَ کیا تم عقل نہیں کرتے.وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃ اور صبر اور صلوٰۃ کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو.وَ إِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِيْنَ اور یہ بہت بڑی بات ہے مگر ان لوگوں کے لئے جو خاک بہ سر ہوں ، جو مزا جامٹی سے ملے رہیں.یہ دو آیات ہیں جن کو میں ایک دوسرے خطبے کا موضوع بناؤں گا.سیدھی بات سچی بات سے زیادہ اعلیٰ درجے کی بات ہے پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ آیات اکثر نکاح کے موقعوں پر تلاوت کی جاتی ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سیدھی بات کہو.سیدھی بات کے متعلق میں پہلے بھی کئی دفعہ عرض کر چکا ہوں کہ سیدھی بات سچی بات سے زیادہ اعلیٰ درجے کی بات ہے.سچی بات کہنے کے نتیجے میں بھی بعض دفعہ غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں.سیدھی بات کرنے کا عادی پوری کوشش کرتا ہے کہ بات اس طرح کرے کہ بچی بھی ہو اور اس سے کوئی غلط فہمی بھی پیدا نہ ہو.جو اس کے دل کا منشاء ہے وہ پوری

Page 666

662 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم طرح کھل کر ظاہر ہو جائے.يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُم کیونکہ سیدھی بات سے اصلاح اعمال کا بہت گہرا تعلق ہے.ایک بات تم کرو، دوسری بات اللہ نے اپنے ذمہ لے لی ہے.يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُم اگر سیدھی بات کو شیوہ بناؤ گے تو وہ ضرور تمہارے اعمال کی اصلاح فرمادے گا.وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ اور تمہارے گناہ جو اس سے پہلے سرزد ہو گئے ان کو معاف فرما دے گا.وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، پس اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی.یعنی یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہے گا ، اطاعت رسول کی توفیق ملتی چلی جائے گی اور جوں جوں تم اطاعت کرو گے ساتھ ساتھ تم نیکی میں ترقی کرتے چلے جاؤ گے یہاں تک کہ اس کا کوئی منتہی نہیں سوائے اس کہ کہ جب تمہیں موت آئے گی تو تم ایک کامیابی کی حالت میں مررہے ہو گے ، بہت بڑی کامیابی تمہیں نصیب ہوگی.ان آیات سے متعلق پہلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پیش کرتا ہوں جو میرے نزدیک ان آیات سے گہرا تعلق رکھتی ہے.مسند احمد بن حنبل سے یہ حدیث لی گئی ہے.عبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں ابھی بچہ ہی تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر پر تشریف لائے.میں کھیلنے کودنے کے لئے گھر سے باہر جانے لگا.میری والدہ نے کہا اے عبد اللہ جلد گھر چلے آنا.میں تجھے کچھ دوں گی.اس لالچ میں کہ مجھے کچھ ملے گا ان کا خیال تھا کہ یہ کھیل کود میں دل لگانے کی بجائے دماغ گھر کی طرف رکھے گا اور جتنی جلدی اس کو توفیق ملے گی واپس آجائے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اسے کیا دینے کا ارادہ کیا ہے.انہوں نے جواب دیا کھجور میں دینا چاہتی ہوں.آپ نے فرمایا اگر تو نے ایسا نہ کیا تو یہ تیرا جھوٹ شمار ہوگا.(مسند احمد بن حنبل.جلد نمبر۲.صفحہ ۴۴۷.مطبوعہ بیروت) قول سدید کا تجر بہ گھروں سے شروع ہونا چاہیے پس قول سدید کا تجر بہ گھروں سے شروع ہونا چاہیے.تمام وہ اولا دیں جو رفتہ رفتہ بگڑ کر دور چلی جاتی ہیں بچپن میں ان سے قول سدید سے کام نہیں لیا جاتا.بارہا میں نے ماؤں کو توجہ دلائی ہے اور اب پھر میں دوبارہ متوجہ کرتا ہوں ، باپ بھی مخاطب ہیں مگر بالعموم مائیں جن کا روز مرہ بچوں سے واسطہ ہوتا ہے اکثر وہ بچوں کو گلے سے اتارنے کے لئے کوئی جھوٹا وعدہ کر دیتی ہیں اور جب وہ پورا نہیں کرتیں تو یہ قول سدید کے خلاف ہے اور قول سدید کے نہ ہونے کے نتیجے میں اصلاح ہو ہی نہیں سکتی.جب اللہ تعالیٰ نے اصلاح کا

Page 667

663 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم وعدہ قول سدید سے وابستہ فرما دیا ہے تو ظاہر ہے کہ قول سدید نہیں ہوگا تو اصلاح نہیں ہوگی.یہ دو باتیں قول سدید اور اصلاح لازم وملزوم ہیں.اگر ایک نہیں ہوتی تو دوسری بھی نہیں ہوگی اور یہ نکتہ اکثر لوگ اپنے بچوں کی تربیت میں بھلا دیتے ہیں.بچوں سے جو بات کہو صاف اور سیدھی کہو.اس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ اول تو تمہاری زیادہ تو قیر کریں گے کیونکہ جو شخص اپنے وعدے کا پکا ہو اور صاف کھری بات کہنے والا ہو ہمیشہ اس کے لئے دلوں میں عزت پیدا ہوتی ہے.یہ بھی ایک ایسا طبعی نتیجہ ہے جسے نظر انداز کیا ہی نہیں جاسکتا.حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ کھری بات کرنے والے تھے.اگر کھری بات کے نتیجے میں لوگ دور بھاگ رہے ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد تو کوئی بھی نہ رہتا.اصل میں آپ کا لوگوں کے اوپر رحمت اور شفقت کا سلوک ایک الگ مسئلہ ہے ، اس نے بھی لوگوں کو کھینچے رکھا، مگر یہ بات لوگ نظر انداز نہ کریں کہ کھری بات کہنے سے بھی عزت بڑھتی ہے اور جو ہمیشہ کھری بات کہنے والا ہو آہستہ آہستہ اس کی نصیحت سے منافرت نہیں پیدا ہوتی بلکہ دن بدن اس کی عزت اور احترام کا جذ بہ دل میں بڑھتا چلا جاتا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھری باتیں کہنے میں ، ظاہر ہے ، دنیا میں تمام پہلوں اور اگلوں سے سبقت لے گئے اور سب سے زیادہ آپ کی تو قیر کی گئی.بہت گہری تو قیر ہے جو صحابہ کے دل میں بھی تھی ، بلکہ دشمن بھی آپ کی کھری بات کی قدر کرتا تھا.جو ابو جہل والا واقعہ آپ کے سامنے ہے اس میں بھی آپ نے جا کر ، جبکہ وہ شدید مخالف تھا، کھری بات کہی اور اس کے دل میں اس کھری بات کا رعب پڑ گیا.جب بھی کوئی غیر آپ کی بات سنتا تھا جانتا تھا کہ کچی بات ہے اور اس کے نتیجے میں منافرت کی بجائے عزت بڑھا کرتی تھی.پس اپنے گھروں میں یہ تجربہ تو کر کے دیکھو.اپنے بچوں سے کھری بات کہوا اور دیکھو کہ ان کے دلوں میں دن بدن عمر کے ساتھ ساتھ تمہاری عزت بڑھے گی اور اگر یہ نہیں کرو گے تو پھر اولا د ہاتھ سے جاتی رہے گی.آج تک میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی اپنے بچوں سے دھوکے کی باتیں کرتا ہو اور بچے پھر ان کی کوئی عزت کرتے رہیں یا آزاد ہونے کے بعد دین اور دنیا سے ہر لحاظ سے ان کے اثر سے باہر نہ نکل گئے ہوں.جب ان کو توفیق ملتی ہے وہ بڑے ہو کر اپنے ماں باپ کے دائرہ اثر سے باہر نکل جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موضوع پر تین باتیں ایسی بیان کیں جو منافق کی نشانی ہیں.ان میں سے ایک وہی ہے جس کا ذکر کر رہا ہوں.فرمایا منافق وہ ہے جو جب کوئی وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے.( صحیح بخاری.کتاب الشہادات )

Page 668

664 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم پس سب سے پہلے تو بچوں سے وعدہ کرو تو اس میں وعدہ خلافی نہ کرو.جو بچوں سے وعدہ خلافی کرے گا وہ باہر بھی وعدہ خلافی کرے گا.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بچے جو اپنے سب سے پیارے ہوں اور عزیز ہوں ان سے تو آدمی وعدہ خلافی کرتا رہے اور باہر کے وعدے پورے کرے ، یہ ناممکن ہے، فطرت انسانی کے خلاف ہے.تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی یہ علامتیں بیان فرمائی ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ہوش مند شخص جانتے بوجھتے ہوئے منافقت کی راہ اپنے لئے پسند کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس موضوع پر جو کچھ فرمایا ہے میرا خیال ہے میں اس حصے کو پیچھے چھوڑ آیا ہوں لیکن اپنی یادداشت کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا عمل اس بارے میں بیان کر دیتا ہوں.بہت سے واقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ایسے گزرے ہیں کہ ایک شخص جو بیرونی نظر سے ان کو دیکھے وہ سمجھے گا کہ یہ للہ کا کیسا نبی ہے جو اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں میں مبتلا رہا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جیب میں روڑے بھرے ہوئے تھے.اب ملاں اور بد بخت لوگ ہنسیں گے اور قہقہے لگائیں گے کہ یہ نبی بنا ہوا ہے، جیب میں روڑے ہیں.وہ اس لئے تھے کہ اپنے ایک بچے سے، جو روڑوں سے کھیلتا اور شور مچارہا تھا، آپ نے کہا کہ یہ روڑے مجھے دے دو اور باہر جا کر کھیلو.جب واپس آؤ گے میں تمہیں دے دوں گا.وہ روڑے جیب میں ڈال لئے تا کہ ان میں سے کوئی بھی ضائع نہ ہو.جب وہ بچہ واپس آیا تو وہ روڑے اس کے سپر د کر دیئے.اب دیکھنے میں ایک بہت چھوٹی بات ہے مگر چھوٹی باتوں ہی سے عظیم باتیں پیدا ہوا کرتی ہیں.اگر کسی کو اتنا خیال ہے اپنے بچے سے سچا وعدہ کرنے کا کہ اس کے روڑے سنبھالتا پھرتا ہے تو اندازہ کریں کہ باہر کی دنیا میں اس کا کیا حال ہوگا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کی بیشمار دلیلیں ہیں مگر یہ ایک دلیل بھی ہوش مند کے لئے کافی ہونی چاہیے.جو وعدوں کا اتنا سچا ہو وہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں بیان کرنے اور دنیا سے وعدے کرنے میں کتنا سچا نہیں ہوگا.پس اسی کو اپنا وطیرہ بنائیں اور اپنے بچوں کو خوامخواہ جھوٹے لارے نہ دیا اپنے گھر میں میں نے بچپن سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات کی تاکید رکھی.ماؤں کی عادت ہوتی ہے میری بیگم مرحومہ بھی، بے خیالی میں لوگ سمجھتے نہیں کہ جھوٹ ہے، بے خیالی میں بچوں سے وعدے کر دیا کرتی تھیں کہ تمہیں یہ دے دوں گی ، فلاں چیز دے دوں گی اور جب مجھے پتہ چلتا میں وہ ضرور حاصل کر لیا کرتا تھا.یہ بھی ایک سمجھانے کا طریقہ تھا.بجائے اس کہ کے ان کو کہوں کہ آپ نے جھوٹ بولا ہے، سختی

Page 669

665 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم کرتا، ان کو سمجھانے کا یہ طریق تھا کہ وہ چیز حاصل کر کے مہیا کر دیتا تھا تا کہ جب بچے واپس آئیں تو ان کے لئے موجود ہو.تو تربیت کے مختلف رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں.سچی بات کرنے میں ضروری نہیں کہ وہ کڑوی بات بھی ہو، سچی بات کہنے کے انداز الگ الگ ہیں.جب کچی بات کرنی ہی پڑے تو خواہ کسی کو کڑوی لگے وہ ضرور کرنی ہے.لیکن اگر آپ یہ پسند کرتے ہوں کہ اس بات کا کوئی ایسا تکلیف دہ اثر نہ پڑے تو یہ ممکن ہے.میں نے اپنی زندگی میں بارہا اس کو آزمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی ساری عمر اپنے بچوں سے کوئی وعدہ نہیں کیا جس کو میں پورا نہ کر سکا ہوں.اس کے نتیجے میں میں خوش ہوں.میرے بعد اللہ اسی حال پر ان کو قائم رکھے، یہ میری دعا ہے.آپ بھی اپنے بچوں کے لئے یہی دعا کیا کریں اور جب یہ دعا کریں گے تو اس عمل کے بعد ہونی چاہیے جو اس دعا کے مطابق ہو.ورنہ وہی منافقت والی بات آجائے گی.آپ کے لئے بھی بچوں کی خاطر دل میں ایسا درد ہونا چاہیے جو اللہ کے فضل کے ساتھ ہمیشہ میں نے محسوس کیا اور میں جانتا ہوں کہ اللہ اس درد کو کبھی ضائع نہیں کرتا، توقع سے بڑھ کر پھل لگاتا ہے.تو اپنے گھروں میں تجربہ تو کر کے دیکھیں کتنا آسان تجر بہ ہے.بچوں سے پیار ہوا کرتا ہے.ان کے حق میں یہ باتیں کرنی ہیں، اس میں کونسی مشکل ہے.لیکن جو مشکل ہے وہ یہ کہ سر سے ٹالنے کی کوشش نہ کریں بچوں کو.جب بھی ٹالیں گے ہمیشہ کے لئے وہ ٹل جائیں گے.پھر آپ کو ان کی نیکی دیکھنا نصیب نہیں ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات میں سے، جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے، بہت بڑے واقعات ہیں اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے وہ واقعات بڑے بیان کئے ہوئے ہیں اور بھی بہت سے ( رفقاء) نے واقعات بیان کئے ہوئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ چھوٹا سا کوئی وعدہ کیا ہے اور پھر وہ بھولے نہیں.ایک دفعہ ایک (رفیق) جو غالباً حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ہی تھے، سوئے ہوئے تھے اور ان کی آنکھ کھلی تو دیکھا چار پائی کے نیچے فرش پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لیٹے ہوئے ہیں.وہ گھبرا کر اٹھے کہ ہیں ! آپ یہاں لیٹے ہوئے ہیں.آپ نے فرمایا نہیں، گھبراؤ نہیں، میں تمہاری حفاظت کر رہا ہوں اپنے بچوں کے شور سے.بچوں کو میں نے باہر بھگا دیا تھا اور کہا تھا خبر دار! جو ادھر آئے ، میں یہاں ہوں گا.اس یقین پر کہ میں یہاں ہوں گا، وہ آپ کو تنگ نہیں کر رہے.آپ نے کہا اگر میری یہ بات غلط ہوتی ، کوئی جھانک کے دیکھ لیتا کہ میں یہاں نہیں ہوں تو اس پر کیا بداثر پڑتا.ایک تو آپ کی نیند خراب ہوتی ، دوسرا اس کی تربیت بگڑ جاتی.

Page 670

666 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اتنا باریک خیال تھا سچی ، صاف اور کھری بات کرنے کا کہ آپ گرد و پیش نظر ڈال کر دیکھ لیں آپ کو کوئی دوسرا انسان اس باریکی کے ساتھ اپنی باتوں کی حفاظت کرنے والا نہیں ملے گا.یہ وہ شخص ہے جس کو لوگ جھوٹا بھی کہتے ہیں، ان کی اپنی بدنصیبی ہے.وہ جب مریں گے تو اللہ ان سے جو سلوک چاہے فرمائے لیکن ایک باشعور انسان جو گہرائی کی نظر سے کسی کے سچ کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے اسے بڑی باتوں کی بجائے روزمرہ کی چھوٹی باتوں میں اس کا مطالعہ کرنا چاہیے.بڑی باتوں میں جھوٹ بولا جاتا ہے.بڑے بڑے دعاوی میں بڑے جھوٹ بولے جاتے ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ میں ان جھوٹوں کے ساتھ دنیا میں عزت اور تو قیر پا جاؤں گا.لیکن چھوٹے معاملات میں گھر میں ہر روز کی چھوٹی چھوٹی زندگی کی باتوں میں جھوٹ نہ بولنا بہت بڑی آزمائش ہے، بہت کڑی آزمائش ہے.اس آزمائش پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑھ کر کبھی آپ کوئی آدمی نہیں دیکھیں گے جو اس طرح پورا اترا ہو اور آپ کو اپنے گھروں میں یہ دستور بنانا چاہیے.اندر کی آزمائش کو سنبھال لیں، باہر اللہ تعالیٰ آپ کے وجود کو صاف ستھرا اور پاکیزہ وجود کے طور پر دنیا کے سامنے ظاہر فرمائے گا.پھر آپ کے بڑے دعاوی بھی قبول کئے جائیں گے.لیکن فطرت میں دو رنگی نہیں ہونی چاہیے.یہ دورنگی ہے جو انسان کو بربادکر دیتی ہے.مسواک کی عادت ڈالیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہم پر احسانات فرمائے ہیں ان کا تو شما ممکن ہی نہیں ہے.روزمرہ کی زندگی میں چھوٹی چھوٹی نصیحت آپ نے پیچھے چھوڑ دی جس سے انسانی زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے.کئی لوگ دانتوں کی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں.آج کل کے جدید ترین ڈاکٹر بھی ان کا کوئی مؤثر علاج نہیں کر سکتے.جو گل گئے دانت گل گئے.لیکن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی اور اسی کی نصیحت فرماتے تھے کہ ہر نماز سے پہلے اچھی طرح مسواک کرو.اگر پانچ وقت کسی کو دانت صاف کرنے کی عادت ہو اور بچوں کو بھی جو آپ ضرور سکھاتے ہیں کہ یہ عادت ڈال دیں تو کیسے ممکن ہے کہ عمر کے کسی حصے میں بھی ان کے دانت خراب ہو جائیں.امر واقعہ یہ ہے کہ کوتاہیوں کے نتیجے میں انسان کی عادت نہ رہی ہو تو پھر جو وہ دانتوں پر برا اثر پڑ جاتا ہے یہ الگ مسئلہ ہے.بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کا مسواک کی عادت سے تعلق نہیں، وہ اندرونی

Page 671

مشعل راه جلد سوم 667 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی بیماریاں ہیں.حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماریوں کا ذکر نہیں فرمار ہے.آپ فرما رہے ہیں جو دانت تمہیں خدا نے دیئے ہیں جس حالت میں دیئے ہیں ان کی حفاظت تم پر فرض ہے.اگر اچھے دانتوں والا پانچ وقت کی اس عادت کو اپنالے تو کبھی اس کے دانت خراب نہیں ہوں گے.چنانچہ میری ملاقاتوں پر جو لوگ آتے ہیں ان میں بعض دفعہ نیا دولہا دلہن بہت خوبصورت دانت، ہنستے ہیں تو موتیوں کی طرح دانت دکھائی دیتے ہیں.ان کو میں ضرور نصیحت کیا کرتا ہوں.میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے ایک نعمت عطا فرمائی ہے اور ایک اور نعمت بھی دی ہے.دنیا اس سے اعراض کرتی ہے لیکن آپ نے اعراض نہیں کرنا ، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ اس نعمت کے سہارے اس ظاہری نعمت کی حفاظت کر سکتے ہیں.آپ نے فرمایا ہے کہ پانچ وقت مسواک کیا کرو.آج کل مسواک نہیں تو ٹوتھ پیسٹیں (Tooth Pastes) ہر قسم کی موجود ہیں.اگر پانچ وقت کرو تو ساری زندگی دانت صاف رہیں گے اور لوگوں کا یہ خیال ہے کہ عمر کے ساتھ دانت ضرور جھڑتے ہیں ، یہ غلط ہے.عمر کے ساتھ اچھے دانت جن کی حفاظت کی جائے وہ مضبوط بھی رہتے ہیں.کیونکہ دانتوں کی مضبوطی کا تعلق مسوڑھوں کی مضبوطی سے ہے اور جب آپ ان کی پانچ وقت صفائی کریں تو وہ جراثیم مسوڑھوں کو نرم ہونے ہی نہیں دیتے ، وہ ہمیشہ ٹھیک رہتے ہیں..ایک معمولی، چھوٹی سی مثال میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے.اس صحبت کے لئے آپ کے نعمت ہونے کا تصوران روزمرہ کی نصیحتوں میں سے اخذ کریں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمائیں.جسم کو پاک صاف رکھنا، ہر قسم کی بدیوں سے دور بھاگنا، جسم کی صفائی، ان میں سے ہر نصیحت ایک بہت بڑی نعمت ہے اور وہ سارے بدن کی صحت کے لئے انتہائی ضروری بن جاتی ہے.یہاں تک نصیحت کہ کھانے سے کب ہاتھ کھینچنا ہے اور کن چیزوں میں تکلف نہیں کرنا.جو کھانا ہے وہ پاک ہو، حلال ہی نہ ہو پاک بھی ہو.جب بھی اس میں یہ شبہ ہو کہ وہ حلال تو ہے مگر پاک نہیں رہا، اس کو اٹھا کر پھینک دو یا دوبارہ اتنا گرم کر لو کہ یقین ہو جائے کہ وہ ناپا کی اس میں سے مرگئی ہے.یہ صرف چند چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں ، ان کا حد و شمار ہی نہیں ہے.میں نے تو ہمیشہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا تصور باندھا اور غور کیا تو حیران رہ گیا کہ کلیہ ساری زندگی کے لئے ہم غلامان مصطفیٰ آپ کے احسانات کے تلے اتنا دب چکے ہیں کہ کبھی سر اٹھانے کی جرأت بھی نہیں کر سکتے.جو صحابہ آپ کے سامنے آوازیں نیچی

Page 672

668 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم رکھتے تھے، جو ادب سے دیکھتے تھے ان کے متعلق یاد رکھیں کہ صرف آواز میں ہی دھیمی نہیں رکھتے تھے، نظریں بھی نیچی رکھا کرتے تھے.اب میں خطبہ دیتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ اکثر لوگ محبت کی وجہ سے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھ رہے ہوتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہ طریق نہیں تھا.ان کو اس سے بہت زیادہ محبت تھی جو آپ کو مجھ سے ہے مگر اپنی آواز میں بھی دھیمی رکھتے تھے اور اپنی نظروں کو بھی نیچار کھتے تھے یہاں تک کہ بعض صحابہ سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد پوچھا گیا کہ آپ کی شکل کیسی تھی تو دھاڑیں مار مار کے رونے لگے، زار و قطار رونے لگے.اتنا حسین چہرہ تھا کہ میں چاہتا بھی تو نظر پڑ ہی نہیں سکتی تھی اور پھر محبت اور عشق کے تقاضے کے نتیجے میں مجھے جرات بھی نہیں ہوتی تھی کہ میں گھور کے دیکھوں، بغور سے دیکھوں.اب میں یاد کرتا ہوں اور جب مجھ سے کوئی پوچھتا ہے تو میں بتا نہیں سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی تفصیل کیا تھی.پس یہ سارے وہ آداب ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے سیکھے ہیں.اب ان پر غور کریں تو ہمیشہ ہمیش کے لئے آپ ان آداب کے احسان کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو قیر کرتے چلے جائیں گے اور آپ کی عظمت کا تصور آپ کے دل میں بڑھتا چلا جائے گا، اپنے آپ کو ہمیشہ زیر بار سمجھیں گے اور یہ وہ صحبت ہے جس صحبت کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے کہ یہ مز کی تمہارے لئے پیدا کیا گیا ہے.اس مز کی نفس کی صحبت میں رہو.اگر یہ صحبت مل جائے تو وہ جو مسائل پہلے بیان کئے گئے ہیں یہ کرو، وہ کرو، وہ تو بالکل آسان اور ہر قسم کی مشکل سے آزاد ہو جائیں گے.مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 2 تا18اکتوبر 1998ء)

Page 673

مشعل راه جلد سوم 669 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب فرموده 27 ستمبر 1998 (خلاصه) جتنا زیادہ آپ کا ضمیر جاگا ہوگا اتنا ہی زیادہ ( دعوۃ الی اللہ ) میں آپ کا میاب ہوں گے میں نئی انتظامیہ کو ( دعوت الی اللہ ) کی سرگرمیاں تیز کرنے کی نصیحت کرتا ہوں معصوم بچوں کی دنیا میں ایک روحانی انقلاب برپا کر دیں ☆ ☆

Page 674

مشعل راه جلد سوم 670 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 675

مشعل راه جلد سوم 671 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تلاوت قرآن کریم اور ترجمہ کے بعد حضور نے خدام کا عہد دہرایا جس کے بعد حضرت مصلح موعود کی نظم ” نو نہالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے کے چند اشعار خوش الحانی سے پڑھے گئے.مکر سید احمد بیٹی صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ کی رپورٹ کے بعد حضور انور نے انعامات تقسیم فرمائے اور پھر اختتامی خطاب میں حضور نے فرمایا کہ رپورٹ سے مجموعی تاثر یہ ہوتا ہے کہ اس سال کا اجتماع کئی لحاظ سے بہتر رہا.میں ایک لمبے عرصے سے یہ خواہش کرتا رہا ہوں کہ یو کے جماعت کے خدام بھی جرمنی کے خدام کی طرح زیادہ تعداد میں شامل ہوں کیونکہ میں ہجرت کے بعد ان کے درمیان ہوں.میرا یہ بھی خیال تھا کہ خدام الاحمدیہ ( دعوۃ الی اللہ ) میں زیادہ سرگرم ہو نگے لیکن ایسا نہیں ہوا.آپ یہاں آکر باتیں سنتے ہیں اور گھر جا کر بھول جاتے ہیں.جتنا زیادہ آپ کا ضمیر جاگا ہوا ہو گا اتنا ہی زیادہ ( دعوۃ الی اللہ ) میں آپ کامیاب ہونگے.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اگلے سال حاضری اس سے بہت زیادہ ہوگی.حضور نے فرمایا کہ اپنی روحانی تخلیق کرو.مجھے ان باتوں کی اتنی فکر رہتی ہے اور اس عالم بے بسی میں خدا سے دعائیں کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری مدد فرمائے.اگر خدام اپنی کوششوں میں ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہیں تو یو.کے کے خدام میں ایک نیا ماحول پیدا ہو جائے گا.حضور نے فرمایا کہ میں نئی انتظامیہ کو ( دعوۃ الی اللہ کی ) سرگرمیاں تیز کرنے کی نصیحت کرتا ہوں.اردو کلاس کے بچوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا کیونکہ آپ نے ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا.ہماری بیدارد و کلاس بعض خصوصیات کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر دلعزیز ہو چکی ہے.ایک تو اس وجہ سے کہ یہ کسی موسیقی کی دھن کے بغیر گاتے ہیں اور دوسرے ان کے نغمات پاکیزگی اور روحانیت سے لبریز ہوتے ہیں.کیا ہی اچھا ہوا اگر دنیا کے باقی ٹی وی بھی ہماری نقل کریں اور معصوم بچوں کی دنیا میں ایک روحانی انقلاب برپا کر دیں.غیر احمدی بچے بھی احمدی بچوں کے گائے ہوئے نغمات شوق سے سنتے ہیں خاص طور پر وہ جن میں خدا تعالی کی تعریف کی گئی ہے.آخر میں حضور نے الوداعی دعا کروائی اور دعا کے ساتھ یہ اجتماع اپنے اختتام کو پہنچا.) مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 16 تا 22 اکتوبر 1998ء)

Page 676

مشعل راه جلد سوم 672 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی بد تمیز بچوں کی تربیت ایک مجلس سوال و جواب کے دوران حضور انور سے کسی نے سوال کیا کہ جو بچے بہت زیادہ بدتمیز ہو جائیں ان کی تربیت کیسے کی جاسکتی ہے؟ حضور نے فرمایابد تمیز ہونے سے پہلے کرنی چاہیے.اس کے بعد کیسے تربیت کر سکتے ہیں.مجلس اطفال الاحمد یہ مجلس خدام الاحمدیہ جس حد تک ممکن ہوسکھا سکتی ہے سکھائے گی مگر گھروں میں بھی صحیح تربیت ہوئی جا ہے.الفضل انٹر نیشنل 126 نومبر 1998ء)

Page 677

مشعل راه جلد سوم 673 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع سے اختتامی خطاب فرموده 16 مئی 1999.اِنْفِرُوا خِفَافًا وَّثِقَالًا کی پر معارف تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جوش دعوت الی اللہ دنیا میں تین قسم کے آدمی دعوت الی اللہ میں کامیابی کا گر ذاتی مثال سفر کرنے والوں کے لئے قیمتی نصائح

Page 678

مشعل راه جلد سوم 674 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 679

مشعل راه جلد سوم 675 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- اِنْفِرُوْاخِفَافًا وَّثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَالِكُمْ خَيْرُ لَّكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.(تو به آیت: 41) اس کا سادہ ترجمہ یہ ہے نکل کھڑے ہو ہلکے بھی اور بھاری بھی اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.یہاں لفظ ہلکے اور بھاری پر غور ہونا چاہیے کہ اس کا کیا مطلب ہے یا کیا مطالب ہیں چنانچہ اس پہلو سے حضرت امام راغب کی ایک تحریر میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس میں تقریباً اس لفظ ہلکے اور بھاری کے تمام مختلف معانی اکٹھے کر دیے گئے ہیں، جو عربی لغت کے لحاظ سے سارے درست قرار پاتے ہیں اور اس کی وجہ سے آپ کو اس مضمون کی تفصیل کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہو جائے گی فرماتے ہیں:.انفرواخفافاًو ثقالاً کے بارہ میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد جوان اور بوڑھے ہیں یعنی یہ خطاب جوانوں سے بھی ہے اور بوڑھوں سے بھی ہے اور اس سے مراد غرباء اور امر انہیں یعنی غریبوں سے بھی خطاب ہے اور امراء سے بھی خطاب ہے جو ان کے لئے چلنا پھرنا آسان اور ہلکا ہوتا ہے.بوڑھے کے لئے بھاری ہوتا ہے.پس یہ بہت ہی لطیف معنی ہے جو اس آیت کا حضرت امام راغب نے اخذ فر مایا کہ خواہ تمہیں جہاد پر نکلنا آسان ہو تم ہلکے پھلکے محسوس کر دیا عمر کے تقاضے کے پیش نظر چلنا دو بھر ہواور بوجھل محسوس کرو پھر بھی خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو اور پھر غریب کے لئے سفر مشکل ہوتا ہے اور امیر کے لئے آسان ہوتا ہے کیونکہ غریب کو سواری نہیں ملتی اور کئی قسم کی دقتیں اس کی راہ کے لئے روک بن جاتی ہیں پس وہ ہلکا نہیں چل سکتا اگر چہ بظاہر اس پر کوئی اور بوجھ نہیں ہوتا مگر اس کا جہاد میں نکلنا مشکل ہوتا ہے.اور امیر کو وقسم کی سہولتیں میسر ہوتی ہیں تو پھر حضرت امام راغب یہی فرما رہے ہیں اس سے مراد غرباء اور امراء ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ

Page 680

676 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اس سے مراد مسافرا اور مقیم ہیں یعنی خدا کی راہ میں نکلنے کا حکم مسافر کے لئے تو اس لحاظ سے ایک زائد حکم بنتا ہے وہ پہلے ہی سفر میں ہے مگر مراد یہ ہے کہ سفر خواہ کسی نوعیت کا بھی ہو ہر سفر کو خدا کی راہ کا سفر بنالو اور اسی طرح مقیم اگر چہ سفر پر نہیں ہوتا اس کے متعلق یہ نہیں سوچا جا سکتا کہ خدا کی راہ میں نکلا ہے مگر مقیم رہتے ہوئے بھی وہ کئی طریقے سے خدا کی راہ میں ( دعوت الی اللہ کے) سفر کر سکتا ہے پس فرماتے ہیں کہ مراد مسافر بھی ہے اور مقیم بھی پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مستعد اور ست ہے.مستعد جس کو جس طرف بلایا جائے جس کام پر بلایا جائے وہ تیزی سے لپکتا ہے اورست جو بوجھل محسوس کرتا ہے اپنے آپ کو.خفافاً وثقالاً کا مطلب ہے کہ وہ جو ہر آواز پر بڑی تیزی سے لبیک کہتے ہیں اور آواز کی طرف لپکتے ہیں وہ گویا خفافا ہو گئے اور وہ جو آواز پہ بلانے پر آتے تو ہیں مگر بوجھل قدموں کے ساتھ وہ ثقالاً کے تابع شمار ہوں گے یہ سب لوگ اس آیت کے عموم میں داخل ہیں اور اس آیت کا یقینی طور پر مقصد یہ ہے کہ ہر حال میں خواہ وہ مشکل ہو یا آسان لوگوں کو جہاد کے لئے نکلنے کی ترغیب دلائی جارہی ہے.اب سوال یہ ہے کہ حضرت امام راغب جس زمانہ کی بات کر رہے ہیں عموماً اس زمانہ میں تلوار کا جہاد ہوا کرتا تھا.ہتھیاروں سے جہاد ہوا کرتا تھا مگر اسی آیت کا اطلاق اس زمانہ میں جبکہ جہاد کی نوعیت بدل گئی ہے.قلم کا جہاد ہے اور تقریر کا جہاد ہے اور حکمت کے ساتھ پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کا جہاد ہے.اس پہلو سے اس کے کیا معنے ہوں گے حضرت خلیفہ اُسیح الاوّل نے انفر و اخفافًا و ثقالاً کی بحث میں فرمایا: - انفروا سے مراد ینی کام میں چلو خواہ کسی قسم کا دینی کام ہو تربیت کا ہو یا ( دعوت الی اللہ ) کا ہونوعیت دینی ہو تو اس وقت کہا جائے گا کہ انفر و نکل کھڑے ہو.پھر فرماتے ہیں خفافاً میرے ذوق کے مطابق اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ مباحثہ میں کتابوں کے انبار لے جانے کی ضرورت نہیں حسبنا کتاب اللہ.اس میں ایک بہت گہرا نکتہ ہمارے لئے بیان فرمایا گیا ہے جو آج کل ( دعوت الی اللہ ) کے میدان میں کام آ سکتا ہے.بہت عمدگی سے کام میں آسکتا ہے.کبھی جاؤ تو کتابوں کے انبار لے جانے کی ضرورت نہیں.خفافاً میں یہ مراد ہے کہ ہلکے پھلکے بھی سفر اختیار کرو اور اگر یہ کہا جائے کہ بوجھل کا بھی ذکر ہے تو پھر جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں کتابوں کے انبار بھی اٹھانے پڑتے ہیں چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں (دعوت الی اللہ ) دونوں طرح سے ہوتی تھی بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت سی کتابوں کی ضرورت پڑتی تھی اور اکٹھی کروائی جاتی تھیں تو وہ ثقالاً ہو گیا اور بسا اوقات صرف قرآن

Page 681

677 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کریم سے ہی استنباط کرتے تھے اور وہ خفافا ہوگیا یعنی ہلکے پھلکے صرف کتاب اللہ کافی ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الاول نے یہی نتیجہ نکالا کہ ان کو گویا عملاً وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ حسبنا کتاب اللہ.ہمارے لئے کتاب اللہ ہی ہر قسم کے جہاد کے لئے کافی ہے.اب اسی تعلق میں میں کچھ حدیثیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں حضرت سہل بن سعد سے مسلم کتاب الفضائل اور بخاری میں کتاب الجہاد میں یہ روایت درج ہے.حضرت سہیل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت نے حضرت علیؓ سے فرمایا: خدا کی قسم تیرے ذریعے ایک آدمی کا ہدایت پا جانا اعلیٰ درجہ کے سرخ اونٹوں کے مل جانے سے زیادہ بہتر ہے.پس یہ حضرت محمدرسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی صیحت آج بھی اسی طرح ہے جس طرح پہلے تھی کہ ہر وہ شخص جس کے ذریعے خدا تعالیٰ ایک آدمی کو ہدایت عطا فرماتا ہے اس کے ذریعہ گویا اس زمانہ میں سرخ اونٹوں کی نعمتملنا ہے.اس زمانے میں سرخ اونٹوں کی بہت قیمت ہوا کرتی تھی.تو آج تو یوں کہنا چاہیے کہ اس زمانہ میں خواہ دولت کے انبار لگے ہوئے ہوں اُس کے ان انباروں کے مالک ہونے سے بھی یہ خوشی نہیں ہونی چاہیے جتنی ایک آدمی کو ہدایت پہنچانے کے نتیجہ میں پہنچنی چاہیے.ایک روایت ابو داؤد اور بعض اسناد سے ابوداؤد سے مروی ہے اور جن اسناد سے مروی ہے وہ صحیح اسناد شمار کی جاتی ہیں حضرت ابواسامہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جو جہاد نہیں کرتا یا کسی غازی کو جہاد کے لئے تیار نہیں کرتا خود بھی جہاد نہیں کرتا اور کسی دوسرے کو بھی تیار نہیں کرتا یاکسی غازی کے اہل و عیال میں نیکی کے ساتھ جانشینی نہیں کرتا، اللہ اسے یوم قیامت سے پہلے کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا کرے گا یہاں جو قرآن کریم کی آیت ہے اس کے ساتھ اس کا براہ راست تعلق ہے غازی کی مددا موال سے کی جاتی ہے پس اموال کی قربانی کرو گے خدا کی رضا کی خاطر تو بہت سے غازی تیار ہوں گے اگر تمہیں خود نکنے کا موقع نہ بھی مل سکتا ہو تو یہ غازی کی مدد ہو جائے گی اور غازی کے اہل وعیال میں نیکی کے ساتھ جانشینی نہیں کرتا یہاں مفہوم جو مضمر ہے وہ یہ ہے کہ وہ غازی جو شہید ہو جاتے ہیں راہ خدا میں ان کے اہل وعیال کے ساتھ نیکی کا سلوک کرنا بھی انتہائی ضروری ہے.کیونکہ وہ خدا کی راہ میں مصیبت اٹھانے والے لوگ ہیں پس اگر وہ خدا کی راہ میں مصیبت اٹھانے والوں کی مدد نہیں کرتا تو قیامت سے پہلے اللہ اس کو بھی کسی نہ کسی مشکل میں ضرور مبتلا کرے گا.اب ایک حدیث حضرت انس سے مروی ہے آنحضرت نے فرمایا.

Page 682

678 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم مشرکوں کے ساتھ اپنے اموال اور نفوس اور زبانوں کے ساتھ جہاد کرو یہاں بات بالکل کھل گئی ہے.یہاں تلوار کا جہاد مراد نہیں ہے خصوصیت کے ساتھ.پہلے اس آیت سے ذہن میں آسکتا تھا کہ تلوار کا جہاد مراد ہے مگر آنحضرت صلعم نے یہ بات خوب کھول دی ہے کہ اپنے اموال اور نفوس کے ساتھ اور آیت کریمہ میں بھی پہلے اموال کا ذکر ہے پھر نفوس کا اور زبانوں کے ساتھ جہاد کرو.خدا تعالیٰ نے تمہیں جس رنگ میں بھی پیغام حق پہنچانے کی توفیق پہنچائی ہے.پیغام حق پہنچاؤ.تو تم جہاد فرض پورا کر رہے ہو گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جوش دعوت الی اللہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک قول ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۹۱ اور صفحہ ۲۹۲ پر درج ہے.جو بہت ہی پیارا ہے اور اس سے سخت دلوں میں کھلبلی مچ جانی چاہیے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دل کا یہ حال تھا تو ہم غلاموں کا کیا حال ہوگا.فرماتے ہیں ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں.کیونکہ آپ کو غیر معمولی ذمہ داریاں تھیں آپ کو مرکز میں رہ کر ان فرائض منصبی کو ادا کرنا تھا اس لئے یہ خواہش دل کی دل میں ہی رہی.مگر میں سمجھتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش رائیگاں نہیں گئی بلکہ مقبول ہوئی اور آج اس زمانے میں میرے خلافت کے دور میں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جوتیوں کے طفیل ہے.آپ کی خواہش من و عن پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ جیسا کہ آپ تشریح فرما رہے ہیں.فرماتے ہیں گھر گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے بچے دین کی اشاعت کریں.اور اس ہلاک کرنے والے شرک وکفر سے جودنیا میں پھیلا ہوا ہے.لوگوں کو بچالیں.اب یہ فقرہ بطور خاص معنی خیز ہے اگر خدا تعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کر کے ( دعوت الی اللہ ) کریں.اور اس ( دعوت الی اللہ ) میں زندگی ختم کر دیں.اب دیکھیں بعینہ یہ اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش پوری ہو رہی ہے.مجھے جواللہ تعالیٰ نے جنون عطا کیا ہے پھرنے کا.جگہ جگہ پہنچنے کا مختلف جماعتوں تک پہنچنے کا مختلف جماعتوں کے ذریعے مختلف مواقع پر ( دعوت الی اللہ ) کے انتظامات کی وجہ سے وہاں جا کر اپنی زبان میں پیغام پہنچانے کا.یہ دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا ہی ہے جو مقبول ہوتی دکھائی دے رہی ہے.اور یہ فقرہ بے معنی نہیں کہ انگریزی سکھا دے اور اچانک انگریزی کا کیسے خیال آ گیا.دراصل مجھے انگریزی بہت نہیں آتی مگر جتنی بھی آتی ہے اللہ ہی نے سکھائی ہے.کیونکہ میرا بچپن تعلیمی لحاظ سے نہایت ہی نکھا تھا اور انگریزی میں بات کرنے کا سلیقہ سکھنے

Page 683

679 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا تو جتنا بھی سکھایا ہے اور جو بھی سکھایا ہے.یہ میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعا کی مقبولیت کا ایک نشان ہے.اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں (دعوت الی اللہ ) کرنے کے گر سیکھیں.کیونکہ نکلنا تو آپ نے ہے.خواہ ہلکے ہوں خواہ بھاری ہوں.امیر ہوں یا غریب ہوں یہ تو خدا نے آپ پر فریضہ عائد کر دیا ہے.اب تو اس سے گریز کا چارہ ہی کوئی نہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گر تو سیکھیں کہ کس رنگ میں بہترین ( دعوت الی اللہ ) کر سکتے ہیں.دنیا میں تین قسم کے آدمی ہیں آپ فرماتے ہیں کہ دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں.عوام.متوسط درجہ کے، یہ درمیانی طبقہ ہے.اور امراء.عوام عموماً کم فہم ہوتے ہیں.ان کی سمجھ موٹی ہوتی ہے.اس لئے ان کو سمجھانا بہت ہی مشکل ہے.ہمارا تجربہ ہے کہ عوام کیونکہ علم نہیں رکھتے اس لئے اپنے ملانوں پر انحصار کرتے ہیں اور اس وجہ سے ان کے لئے راہ حق کو پانا بہت مشکل ہو جاتا ہے.وہ کہتے ہیں ہمیں تو پتہ کچھ نہیں.خدا جانے یہ ٹھیک بات کہہ رہا ہے یا غلط بات کہہ رہا ہے.اپنے علماء سے اپنے خوجوں سے پوچھو.اور جب ان کے پاس جاتے ہیں تو ان کو گمراہ کر دیتے ہیں.اس لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ تجر بہ بالکل درست ہے کہ اگر چہ عوام سادہ لوح ہوتے ہیں لیکن باوجود اس کے بات اس لئے نہیں سمجھتے کہ اپنے پر اعتماد نہیں ہے.دوسرے متوسط درجے کے لوگ ہیں.یہ وہ طبقہ ہے جس کو مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تمہیں خصوصیت سے (دعوت الی اللہ) کا نشانہ بنانا چاہیے.تیسرے امراء ہیں.آپ فرماتے ہیں عوام عموما کم فہم ہوتے ہیں.ان کی سمجھ موٹی ہوتی ہے.اس لئے ان کو سمجھانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے.امراء کے لئے سمجھانا بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ نازک مزاج ہوتے ہیں اور جلد گھبرا جاتے ہیں.اور ان کا تکبر اور تعلی اور بھی سید راہ ہوتی ہیں یعنی راہ کی روک بن جاتے ہیں.اس لئے ان کے ساتھ گفتگو کرنے والے کو چاہیے کہ وہ ان کی طرز کے موافق ان سے کلام کرے یعنی مختصر مگر پورے مقصد کو ادا کرنے والی تقریر ہو تھوڑی سی بات کریں اور ان کے پاس زیادہ وقت نہیں بات سننے کا.اور ان کا ذاتی تکبر اور انا اُن کے رستے میں حائل ہو جاتی ہے.فرماتے ہیں وہ بات کچھ سمجھ سکتے ہیں پھر فرماتے ہیں بہت ہی صاف اور عام فہم ہونی چاہیے.رہے اوسط درجہ کے لوگ زیادہ تر یہ گروہ اس قابل ہوتا ہے کہ اُن کو ( دعوت الی اللہ ) کی جائے ، یہ متوسط درجے کے لوگ نہ بہت

Page 684

680 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم نیچے طبقے اور نہ بہت اونچے طبقے کے.وہ بات کو سمجھ سکتے ہیں اور ان کے مزاج میں وہ تعلی اور تکبر اور نزاکت بھی نہیں ہوتی جو امراء کے مزاج میں ہوتی ہے اس لئے ان کو سمجھا نا بہت مشکل نہیں ہوتا.ہمارا تجربہ ہے ہر جگہ یہی تجربہ ہے خصوصاً یورپ میں تو خصوصیت کے ساتھ انگلستان میں میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر بات وہی سمجھتے ہیں جو متوسط درجے کے ہیں.بہت اونچوں کو دلچسپی کوئی نہیں دین میں بہت نیچوں کو مادہ پرستی نے گھیرا ہوا ہے.اور اگر دین سے رغبت ہے بھی تو اپنے پادریوں کی طرف رجوع کرتے ہیں.لیکن متوسط طبقہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً ہماری ( دعوت الی اللہ ) کی پہنچ میں ہوتا ہے.اور یہی حال جرمنی کا بھی ہوگا اور یقینا یہی ہوگا تو آپ لوگ بھی اس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصیحت کو حرز جان بنائیں پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اصل مقصود کے پانے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجاہدہ ٹھہرایا ہے یعنی اپنا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعے سے اور اپنی طاقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعے سے اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعے سے اور اپنی عقل کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعے سے اس کو ڈھونڈا جائے.اب دیکھیں کتنا پیارا مقصد ہے ( دعوت الی اللہ ) کا جو بالکل کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا ( دعوت الی اللہ ) کا مقصد لوگوں کو پانا نہیں خدا کو پانا ہے اگر اس مقصد سے ( دعوت الی اللہ ) کریں گے تو اللہ تعالیٰ بہت کامیاب کرے گا.یعنی دنیا مل جائے گی یعنی دنیا کے مددگار بھی آپ کومل جائیں گے.اور خدا بھی آپ سے راضی ہو جائے گا.مگر پیش نظر یہی رہنا چاہیے کہ اللہ کو ڈھونڈنے کی خاطر ہم (دعوت الی اللہ ) کرتے ہیں.بظاہر نیک بندوں کو ڈھونڈ رہے ہیں مگر اصل مقصد یہ ہے کہ ان کی وساطت سے اللہ مل جائے فرمایا اس کو ڈھونڈا جائے جیسا کہ وہ فرماتا ہے (جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَانْفُسِكُمْ ) یعنی اپنے مالوں اور اپنی جانوں اور اپنے نفسوں کو مع ان کی تمام طاقتوں کے خدا کی راہ میں خرچ کرو.اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو مزید واضح اور آسان کرتے چلے جاتے ہیں کہ ( دعوت الی اللہ ) کیسے ہونی چاہیے اور کیا کیا ضرورتیں ہیں جو اس راہ میں پیش آئیں گی.فرماتے ہیں ( دعوت الی اللہ ) سلسلہ کے واسطے ایسے آدمی کے دوروں کی ضرورت ہے مگر ایسے لائق آدمی مل جاویں کہ وہ اپنی زندگی اس راہ میں وقف کر دیں.تو واقفین کا مضمون بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے ہی آغاز پاتا ہے.یہ کوئی بعد کی تحریک نہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گویا سب سے پہلے وقف کی تحریک فرمائی.ایسے لائق آدمی مل جائیں کہ وہ اپنی زندگی اس راہ میں وقف کر دیں.پرانے زمانے میں حضرت رسول اللہ صلعم کو اس قسم کے وقف کی ضرورت نہیں تھی جیسے اب رائج ہے.کیونکہ سارے صحابہ ہی اپنے آپ

Page 685

681 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم کو وقف سمجھتے تھے.کوئی ان میں سے کسی مال کا کسی خدمت کا محتاج نہیں تھا.ہر ایک سمجھتا تھا کہ محمد رسول اللہ کا فریضہ میرا فریضہ ہے.(صلی اللہ علیہ وسلم ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُس دور سے اس دور کا موازنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں آنحضرت کے صحابہ رضوان اللہ یھم بھی اشاعت ( دین حق ) کے واسطے دور دراز ممالک میں جایا کرتے تھے.یہ جو چین کے ملک میں کئی کروڑ مسلمان ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی صحابہ رضوان اللہ یھم میں سے کوئی شخص پہنچا ہو گا اگر اسی طرح ہیں یا تمیں آدمی متفرق مقامات میں چلے جاویں تو بہت جلدی ( دعوت الی اللہ ) ہو سکتی ہے.مگر جب تک ایسی آدمی ہمارے منشاء کے مطابق اور قناعت شعار نہ ہوں تب تک ہم ان کو پورے اختیارات بھی نہیں دے سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایسے قانع اور جفاکش تھے کہ بعض اوقات صرف درختوں کے پتوں پر ہی گزارا کر لیتے تھے حضرت مسیح موعود کی یہ خواہش بھی اللہ تعالیٰ نے پوری فرما دی آپ کے زمانے میں بکثرت ایسے واقفین پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے واقعتا درختوں کے پتوں اور جڑی بوٹیوں پر گزارے کئے ہیں اور اللہ کی راہ میں ہر آنے والی مشکل کو بغیر شکایت کے قبول کیا بلکہ اپنے اوپر احسان سمجھتے ہوئے قبول کیا.حضرت مسیح موعود اب ایک ایسا مضمون بیان کر رہے ہیں جس کا خصوصیت سے اس زمانہ میں اطلاق ہو رہا ہے کہ آخری جنگ جو ( دین حق ) اور کفر کے درمیان لڑی جانی ہے اس کی نوعیت کو سمجھیں یہ جنگ در اصل ایک طرف حضرت مسیح ہیں جو حضرت محمد رسول اللہ کی نمائندگی میں ہیں ان کی لڑائی مسیحی کہلانے والوں سے ہے جنہوں نے دین مسیح کو برباد کیا ہے.پس جب ہم کہتے ہیں کہ عیسائیت سے جنگ ہے تو ہرگز یہ مراد نہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک ہم عیسائیت کے مخالف ہیں ہم حضرت مسیح کی عیسائیت کے بچے پیروکار اور اس عیسائیت کو دنیا پر غالب کرے کے لئے کوشاں ہیں لیکن اس عیسائیت کے خلاف ہیں جو بعد کے گمراہ لوگوں نے ایجاد کر لی اور حضرت مسیح کی طرف منسوب کر دی.پس اس بات کو اس طرح کھول کر عیسائی ملکوں میں بیان کرنا چاہیے تا کہ آپ کی بات سن کر کسی کے دل میں بے وجہ ناجائز رد عمل نہ پیدا ہو.لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ تو آ کر ہمیں مفتوح کرنے آرہے ہیں ہمارے دین کو بدلنے آرہے ہیں ہم ہر گز کسی کے دین کو بدلنے نہیں آرہے ہم ان کے دینوں کو ان کے اصل پر بحال کرنے آئے ہیں پس ہم تو ان کے معین ہیں ہم تو ان کی خدمت کے لئے سفر کرتے ہیں.اور ان کی خدمت کے لئے ہی (دعوت الی اللہ ) کا جال بچھا رکھا ہے.پس اس مضمون کو سمجھتے ہوئے اب دیکھیں حضرت مسیح موعود کا یہ اقتباس آپ کو آسانی سے سمجھ آ جائے گا.

Page 686

682 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اب یہ زمانہ کسر صلیب کا ہے تقریر کے مقابلہ پر تلوار سے کام لینا بالکل نادانی ہے خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جس طرح اور جن آلات سے کفار لوگ تم پر حملہ کرتے ہیں انہیں طریقوں اور آلات سے تم ان لوگوں کا مقابلہ کرو.اب ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے حملے ( دین حق ) پر تلوار سے نہیں ہیں بلکہ قلم سے ہیں لہذا ضرور ہے کہ ان کا جواب قلم سے دیا جاوے اگر تلوار سے دیا جاوے گا تو یہ اعتدا ہوگا.یہ زیادتی ہوگی یہ ظلم ہو گا جس سے خدا تعالیٰ کی صریح ممانعت قرآن شریف میں موجود ہے.إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (البقره: 191) یعنی اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والے کو زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا پھر اگر عیسائیوں کو قتل بھی کر دیا جاوے اب یہ دیکھیں کتنا اہم نکتہ ہے جہاں بعض ظالم ( دین حق ) کا نام لے کر عیسائیوں کے قتل کا اجازت نامہ دیتے ہیں یعنی ملاں ملان کے لوگ.ان پر حضرت مسیح موعود کی تحریر ایک حرف آخر ہے جو ان کو خدا کی راہ میں مجرم قرار دینے کے لئے بہت کافی ہے فرماتے ہیں.پھر اگر عیسائیوں کو قتل بھی کر دیا جائے تو اس سے وہ وساوس ہرگز دور نہ ہوں گے جو کہ دلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں قتل کرنے سے دل کے وساوس کیسے نکل جائیں گے بلکہ جب دین کے نام پر قتل کیا جائے تو بکثرت لوگوں کے دلوں میں وساوس پیدا ہوں گے اور اس کے نتیجہ میں ان کا غلط دین زیادہ پھیلے گا اور دلوں میں انتقامی کارروائی پیدا ہوگی اور سمجھیں گے کہ محمد رسول اللہ کا دین زیادہ تر تلوار ہی کے زور سے پھیلا تھا چنانچہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں بلکہ وہ اور بھی پختہ ہو جائیں گے اور کہیں گے واقع میں اہل ( دین حق ) کے پاس اپنے مذہب کی حقانیت کی دلیل کوئی نہیں لیکن اگر شیریں کلامی اور نرمی سے ان کے وساوس کو دور کیا جاوے تو امید ہے کہ وہ سمجھ جائیں گے.اور ہم نے دیکھا ہے کہ بعض عیسائی لوگ یہاں آتے ہیں ان کو جب نرمی سے سمجھایا جاتا ہے تو اکثر سمجھ جاتے ہیں اور تبدیل مذہب کر لیتے ہیں جیسے کہ ماسٹر عبدالحق صاحب (نومبائع).پس ہماری رائے تو یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے کمر بستہ ہو کر دین کی خدمت میں مصروف ہوں کیونکہ یہ وقت اسی کام کے لئے ہے اگر اب کوئی نہیں کرتا تو اور کب کرے گا ؟ ضروری ہے کہ ہر طبقہ کے انسانوں کو مناسب حال دعوت کرنے کا طریق سیکھے یعنی ہر قسم کے طبقے کو کیسے دعوت پہنچانی چاہیے یہ طریقہ سیکھیں بعض کو باتوں کا ایسا ڈھنگ ہوتا ہے کہ جو کچھ کہنا ہوتا ہے کہہ دیتے ہیں اور اس سے ناراضگی بھی پیدا نہیں ہوتی یہ

Page 687

نعل راه جلد سوم 683 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک دین ہے اس کا ایک احسان ہے.دعوت الی اللہ میں کامیابی کا گر میں نے پہلے بھی بار ہا ذکر کیا ہے کہ ہمارے وقف جدید میں ایسے معلم میسر تھے جن کی ظاہری علمی قابلیت کچھ بھی نہیں تھی مگر بات کا انداز اتنا پیارا تھا کہ وہ دل سے نکلتی تھی اور دلوں میں کھب جاتی تھی اور جہاں تک ( دعوت الی اللہ کی کوششوں کا تعلق ہے بعض بڑے بڑے عالم معلموں سے ان کی (دعوت الی اللہ کی کارروائی بہت زیادہ ہو جایا کرتی تھی.یعنی ( دعوت الی اللہ کی ) کارروائی کو بہت زیادہ پھل لگتے تھے پس یہ وہی نکتہ ہے جو حضرت مسیح موعود بیان فرما رہے ہیں بعض کو باتوں کا ایساڈھنگ ہوتا ہے کہ جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ کہہ لیتے ہیں اور اس سے ناراضگی بھی پیدا نہیں ہوتی بعض ظاہر میں خبیث معلوم ہوتے ہیں جن سے نا امیدی ہوتی ہے مگر وہ قبول کر لیتے ہیں.اس طرح رخ بدل کر مخاطب کی بات کر رہے ہیں.مخاطب بھی کئی قسم کے ہیں بعض ایسے ہوتے ہیں جن کو انسان سمجھتا ہے شروع میں کہ بڑا شدید متعصب اور مخالف ہے اور اس سے اس وجہ سے منہ موڑ لیتا ہے حالانکہ پہلے سلیقے اور پیار سے بات کرنے کا ڈھنگ سیکھ لو ایسے لوگوں سے جب پیار اور محبت سے بات کرو گے تو جن کے دل اندر سے نرم ہے ان کی ظاہری خشونت بھی جاتی رہے گی اور وہ دل نرم پڑ جائیں گے جیسے بعض پتھروں سے خدا تعالیٰ پانی کے چشمے بہا دیتا ہے اس طرح یہ پتھر نظر آنے والے لوگ خد کی راہ میں نرم ہو جائیں گے اور ان کے دل سے ( دین حق کے لئے شیریں چشمے جاری ہو جائیں گے.اس کی ایک مثال حضرت مسیح موعود خود اپنے تجربہ میں دیتے ہیں بعض ظاہر میں خبیث معلوم ہوتے ہیں جن سے ناامیدی ہوتی ہے مگر وہ قبول کر لیتے ہیں اور بعض غریب طبع دکھائی دیتے ہیں اور ان پر بہت کچھ امید کی جاتی ہے مگر وہ قبول نہیں کرتے اس لئے قول موجہ کی ضرورت ہے جس سے آخر کار فتح ہوتی ہے یعنی اس کے برعکس بھی یہ بات درست ہے کہ بعض بڑے نرم نرم ہاں میں ہاں ملانے والے ہوتے ہیں لیکن جب ان کو پیچھے پڑ کر دعوت الی اللہ ) کی جائے اور وہ سمجھ جائیں کہ ہمیں یہ لینا چاہتے ہیں تو پھر ان کے دل سخت ہونے شروع ہو جاتے ہیں حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.ہر ایک کو ایسی بات کرنی نہیں آتی.پس چاہیے کہ جب کلام کرے تو سوچ کر اور مختصر کام کی بات کرے بہت بحشیں کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا پس

Page 688

684 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم چھوٹا سا چٹکلا کسی وقت چھوڑ دیا جو سیدھا کان کے اندر چلا جائے.اب یہ بھی ایک بڑا عظیم ( دعوت الی اللہ کا نکتہ ہے کہ بعض دفعہ انسان کو کسی آدمی کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ میں اس قسم کی بات کروں گا تو پھر اس کا دل سوچنے پر مجبور ہو جائے گا ایک چھوٹا سے چٹکلا اس کے سامنے چھوڑ دیا جاتا ہے پھر کبھی اتفاق ہوا تو پھر سہی تھوڑی سی بات کی پھر اعراض کیا اس کے پیچھے نہ پڑے پھر جب جائیں گے تو معلوم ہوگا کہ اس چھوڑے ہوئے چٹکلے نے کچھ نہ کچھ کام کر دکھایا ہے پھر کبھی اتفاق ہوا تو پھر سہی غرض آہستہ آہستہ پیغام حق پہنچاتا رہے اور تھکے نہیں کیونکہ آج کل خدا کی محبت اور اس کے ساتھ تعلق کو لوگ دیوانگی سمجھتے ہیں اگر صحابہ رضوان اللہ میھم اس زمانہ میں ہوتے تو لوگ انہیں سودائی کہتے اور وہ انہیں کا فر کہتے.دن رات بیہودہ باتوں اور طرح طرح کی غفلتوں اور دنیاوی فکروں سے دل سخت ہو جاتا ہے اور بات کا اثر دیر سے ہوتا ہے.ذاتی مثال اب ذاتی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں.ایک شخص علی گڑھی غالبا تحصیلدار تھا میں نے اسے کچھ نصیحت کی وہ مجھ سے ٹھٹھا کرنے لگا میں نے دل میں کہا میں بھی تمہارا پیچھا چھوڑنے والا نہیں ہوں تم نے جو ٹھٹھا کرنا ہے کر لو میں تو اپنی بات پہنچاؤں گا آخر باتیں کرتے کرتے اس پر وہ وقت آ گیا کہ وہ یا تو مجھ پر تمسخر کر رہا تھایا چنیں مار مار کر رونے لگا دیکھتے دیکھتے اپنے تمسخر پر اتنی حیا آئی اتنی شرمندگی ہوئی خود اپنے نفس کو اتنی تکلیف پہنچی کہ میں کس بزرگ سے تمسخر کر رہا ہوں پس یا وہ تمسخر کر رہا تھا یا چینیں مار مار کر رونے لگا بعض وقت سعید آدمی ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے شقی ہو ہمیں دلوں کا حال معلوم نہیں اللہ ہی جانتا ہے ہم جس کو صحیح فطرت سمجھ رہے ہوتے ہیں کھود کر دیکھیں تو شقی نکلتا ہے جس کو سخت دل سمجھ رہے ہوتے ہیں کرید کر دیکھیں تو نرم دل نکلتا ہے پس ( دعوت الی اللہ ) میں ان سارے امکانات کو پیش نظر رکھنا چاہیے.پھر ہر شخص کو کسی مضمون کا قائل کرنے کے لئے اس کی ایک کنجی ہوا کرتی ہے ہر کنجی سے ہر تالہ نہیں کھل سکتا مگر کنجی کی تلاش کرنی چاہیے.کس شخص کا دل کس بات سے کھل جائے گا اور ( دعوت الی اللہ ) کے لئے وہ اپنے دروازے کھول دے گا فرماتے ہیں یا درکھو ہر قفل کے لئے کلید یعنی چابی ہے بات کے لئے بھی ایک چابی ہے وہ مناسب طرز ہے جس طرح دواؤں کی نسبت میں نے ابھی کہا ہے کہ کوئی کسی کے لئے مفید اور کوئی کسی کے لئے مفید ہے ایسے ہی ہر ایک بات ایک خاص پیرایہ میں خاص شخص کے لئے مفید ہوسکتی ہے

Page 689

685 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم یہ نہیں کہ سب سے یکساں بات کی جائے بیان کرنے والے کو چاہیے کہ کسی کے برا کہنے کو برا نہ منائے بلکہ اپنا کام کئے جائے اور تھکے نہیں امراء کا مزاج بہت نازک ہوتا ہے اور دنیا سے غافل بھی ہوتے ہیں بہت باتیں سن بھی نہیں سکتے انہیں کسی موقع پر کسی پیرایہ میں نہایت نرمی سے نصیحت کرنی چاہیے یعنی ان کے دل کی چابی کی تلاش رہے اور جب وہ چابی آپ کو میسر آئے تو اس وقت جو آپ بات کریں گے اس کے لئے ان کے دل کے دروازے کھل جائیں گے.میں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ اب آپ کو خطاب مختصر کروں گا اور خطبات میں بھی میں نے دراصل مسلسل یہ کوشش شروع کی ہوئی ہے کہ ضروری نہیں کہ گھنٹے کا خطبہ ہو بلکہ مختصر بات بھی کی جائے جو باتیں میں کر رہا ہوں.ان پر مجھے خود بھی تو عمل کرنا چاہیے مختصر بات ہومگر دل سے نکل ہوئی دل پر اثر کرنے والی اس لئے اس مضمون کے آخر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : اے عزیز و! تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے بڑی خوش قسمتی ہے اگر کوئی سمجھے تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا جس کے دیکھنے کے لئے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی بڑی خوش نصیبی ہے اس لئے اب اپنے ایمانوں کو خوب مضبوط کرو اور اپنی راہیں درست کرو اور اپنے دلوں کو پاک کرو اور اپنی مولیٰ کو راضی کرو.وہی بات جو پہلے بیان کی گئی ہے.آخری مقصد ہر دینی جہاد کا یہ ہے کہ مولیٰ راضی ہو جائے.دوستو ! تم اس مسافر خانہ میں محض چند روز کے لئے ہو آئے دن اپنے چاروں طرف ہم لوگوں کو مرتا اور کبھی بیماریوں کا شکار کبھی حادثات کا شکار کبھی بڑی عمر کا شکار ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن سب نے آخر اس دنیا سے چلے جانا ہے اور اس موتا موتی کے درمیان ہر انسان اپنی بیوقوفی کی وجہ سے یا اپنی نفسانیت کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ میں باقی ہوں باقی سب مر رہے ہیں یہ ہرگز درست نہیں.فرمایا.دوستو ! تم اس مسافر خانہ میں محض چند روز کے لئے ہو اپنے اصلی گھروں کو یا دکر وسب نے آخر وہاں جانا ہے تم دیکھتے ہو کہ ہر ایک سال کوئی نہ کوئی دوست تم سے رخصت ہو جاتا ہے کوئی سال ایسا نہیں آتا کہ انسان کے جاننے والے اس کے عزیز اس کے اقرباء میں سے کوئی نہ کوئی رخصت نہ ہو رہا ہو.ایسے ہی تم بھی کسی سال اپنے دوستوں کو داغ جدائی دے جاؤ گے یہ بھی تو سوچو کہ تم بھی ان سب دوستوں کو روتا پیٹتا چھوڑ

Page 690

686 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم جاؤ گے اور اپنے ہمیشہ دائمی گھر کی طرف روانہ ہو جاؤ گے سو ہوشیار ہو جاؤ اور اس پر آشوب زمانے کی زہر تم میں اثر نہ کرے اپنی اخلاقی حالتوں کو بہت صاف کرو کینہ اور بغض اور نخوت سے پاک ہو جاؤ اور اخلاقی معجزات دنیا کو دکھاؤ.یہ آخری بات بہت ہی اہم ہے.اخلاق اچھے ہوں گے تو یہ سب سے بڑا معجزہ ہے اس زمانے میں جب کہ ہر کس وناکس کے اخلاق بگڑ چکے ہیں.بظاہر اخلاق پر قائم لوگ بھی دکھائی دیتے ہیں مگر کرید کر دیکھیں تو بنیادی طور پر ان اخلاق کے مالک نہیں جو ہر حال میں خدا کی خاطر ہر مشکل کے وقت بھی قائم رہتے ہیں.کسی نہ کسی وقت اپنی نفسانیت کی خاطر ان کے اخلاق جواب دے جاتے ہیں پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.بغض اور نخوت سے پاک ہوجاؤ اور اخلاقی معجزات دنیا کو دکھاؤ یہ سب سے بڑا معجزہ ہے.یہ ایسا معجزہ ہے کہ جس میں خفافاً اور ثقالاً ددونوں باتیں اکٹھی ہو گئیں ہیں.دو کلمات ایسے آنحضرت نے بیان فرمائے جو زبان پر ہلکے مگر اپنے وزن میں بہت بھاری ہیں پس یہی موقع خفافا اور ثقالاً کے اکھٹے ہونے کا ہے آپ بھی اخلاق فاضلہ سیکھیں یہ بات ہلکی بھی ہے یعنی صرف اخلاق لے کر دنیا میں سفر اختیار کریں مگر اخلاق کا وزن بہت ہے اور اخلاق کا وزن جب دلوں پر پڑتا ہے تو ان کو آپ کی بات ماننے پر مجبور کر دیتا ہے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین سفر کرنے والوں کے لئے قیمتی نصائح اب میں آخر پر آپ کو دعا کے لئے توجہ دلانی چاہتا ہوں آپ سب لوگ یہاں سے رخصت ہورہے ہیں رخصت کی باتیں ہورہی ہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اگلے سال ہم کس کو دیکھ سکیں گے اور کس کو نہیں دیکھ سکیں گے.آپ بھی مجھے دیکھ سکیں گے یا نہیں.میں بھی آپ کو دیکھ سکوں گا کہ نہیں سب اللہ کی منشاء ہیں اور اسی کی تقدیر کے تابع چلتے ہیں.مگر جانے سے پہلے میں آپ کو یہ نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ ہر شخص اپنی حفاظت کے لئے پورے سامان کرے یہ تدبیر ہے جو تقدیر کے تابع ہے.نقد یا الہی کا یہی حکم ہے کہ ہر شخص اپنے دفاع اپنے آپ کو حادثات سے بچانے اور بیماریوں سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے.پس اسی لئے ہر سال آپ کو نصیحت کی جاتی ہے کہ جب جائیں تو تھکے ہوئے موٹر کا رنہ چلائیں.ایسی حالت میں کار نہ چلائیں کہ خطرہ ہو کسی وقت اونگھ آ جائے اور آپ کسی حادثہ کا شکار ہو جائیں یا کوئی اور کسی حادثے کا

Page 691

مشعل راه جلد سوم 687 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ شکار ہو جائے بعض دفعہ حادثہ اس طرح بھی ہوتا ہے کہ غلطی ایک کی ہے اور خمیازہ دوسرے کو بھگتنا پڑتا ہے.معصوم بھی بیچارے مارے جاتے ہیں اور حادثے کے نتیجے میں تکلیفیں جو ہیں وہ بہت گہری اور لمبی چلتی ہیں بض تو عارضی بھی ہیں مگر بعضوں کو چوٹیں ایسی آجاتی ہیں کہ عمر بھر بستر پر لیٹے رہتے ہیں بعضوں کی کمر کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور اچھے بھلے چلتے پھرتے آدمی صاحب فراش عمر بھر کے لئے صاحب فراش ہو کر رہ جاتے ہیں.پس ان حادثوں کی وجہ سے مجھے بہت تکلیف پہنچتی ہے جن کو خدا تعالیٰ کے بیان کردہ طریق کو اپنانے کے نتیجے میں ٹالا جاسکتا ہے حقیقت میں تو ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہی ہے لیکن اگر ٹالا جاسکتا ہو تو ضرور ٹالنا چاہیے.اپنی طرف سے سب کوشش کر دیکھیں پھر اگر اللہ کی تقدیر چلے تو راضی بہ رضا ہوں.راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو پس یہ پہلو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی فکر کریں احتیاط سے چلیں خیر وعافیت سے پہنچیں اور مجھے کوئی دکھ دینے والی خبر نہ بعد میں آئے کیونکہ آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ آپ میں سے جو بھی تکلیف اٹھاتا ہے اس کی مجھے کتنی تکلیف پہنچتی ہے.یہی خلافت کا حقیقی مضمون ہے ایک خلیفہ کے دل میں ساری جماعت کے دل دھڑک رہے ہوتے ہیں اور ساری جماعت کی تکلیفیں اس کے دل کو تکلیف پہنچا رہی ہوتی ہیں اور اسی طرح سب جماعت کی خوشیاں بھی اس کے دل میں اکٹھی ہو جاتی ہیں.پس اللہ کرے ہمیشہ آپ کی خوشیاں پہنچتی رہیں اور آپ کی تکلیف مجھے نصیب نہ ہو کیونکہ آپ کی تکلیف میری تکلیف ہے.اس آخری نصیحت کے بعد اب میں آپ کو اپنے ساتھ دعا میں شامل ہونے کی تحریک کرتا ہوں.آئے ہاتھ اٹھا لیں خدا کے حضور ، اور دعا کریں.

Page 692

مشعل راه جلد سوم 688 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 693

مشعل راه جلد سوم 689 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی خطبه جمعه فرموده 11 فروری 2000ء تربیت اولاد کے تقاضے اور ہماری ذمہ داریاں جو اپنے بچوں سے شروع سے ہی عزت کے ساتھ پیش آتے ہیں ان کے بچے بھی بڑے ہو کر ان کی بھی عزت کرتے ہیں اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو پھر دس سال تک انہیں اس پر سختی سے کار بند کرو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ایسی ماؤں پر جو بچپن سے بچوں سے محبت کا سلوک کرتی ہیں ان پر جہنم حرام کر دی جاتی ہے.کسی شخص کا اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنا صدقہ دینے سے زیادہ بہتر ہے ماں باپ کا اپنی بیٹیوں کی مرضی کے خلاف شادی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے

Page 694

مشعل راه جلد سوم 690 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی

Page 695

مشعل راه جلد سوم 691 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی حضرت خلیفہ اسی الرابع رحم الله تعالى تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرماتے ہیں:.وَمَا اَمْوَالُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِى تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفِى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَ هُمْ فِى الْغُرُقْتِ امِنُوْنَ (سورة سبا: 38) اور تمہارے اموال اور تمہاری اولادیں ایسی چیزیں نہیں جو تمہیں ہمارے نزدیک مرتبہ قرب تک لے آئیں سوائے اس کے کہ جو ایمان لایا اور نیک اعمال بجالایا.پس یہی وہ لوگ ہیں جن کو ان کے اعمال کے بدلے جو وہ کرتے تھے دوہری جزا دی جائے گی اور وہ بالا خانوں میں امن کے ساتھ رہنے والے ہوں گے.جو حقوق کے مضامین کا سلسلہ چل رہا ہے اس سلسلہ میں یہ بھی ایک کڑی ہے اور اس کا تعلق زیادہ تر بچوں کے حقوق سے ہے.کہیں اس ضمن میں ماں باپ پر جو حقوق ہیں وہ بھی آجاتے ہیں ، بعض دفعہ بچوں پر جو حقوق ہیں ان کا بھی ذکر آجاتا ہے مگر ان کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتا.مگر اصل زور جو ہے وہ اس بات پر ہے کہ اپنے بچوں کے حقوق ادا کریں.اس سلسلہ میں پہلی حدیث ابن ماجہ سے لی گئی ہے.حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اپنے بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو.بچوں سے عزت کا سلوک کیا کرو (ابن ماجه ابواب الادب.باب بر الوالد) جو اپنے بچوں سے شروع سے ہی عزت کے ساتھ پیش آتے ہیں ان کے بچے بھی بڑے ہو کر ان کی بھی عزت کرتے ہیں اور باہر دوسروں کی بھی عزت کرتے ہیں اور یہ سلسلہ آگے نسلاً بعد نسل چلتا رہتا ہے.

Page 696

مشعل راه جلد سوم 692 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی اس لئے بچوں کو معمولی اور حقیر سمجھ کر بے وجہ جھڑ کنا نہیں چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو ان سے عزت کا سلوک کیا کرو.دوسری روایت ترمذی ابواب البر والصلہ سے لی گئی ہے حضرت ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد اور پھر اپنے دادا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین اعلی تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہے.(ترمذی.ابواب البر والصلہ.باب فی ادب الولد ) الادب المفرد للبخاری سے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ ابرار کو اللہ تعالیٰ نے ابرار اس لئے کہا ہے یعنی یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں ابرار کو اللہ تعالیٰ نے ابرار اس لئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے والدین اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کیا“.اب اس میں بچوں پر جو حق ہے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا اس کا بھی ذکر اکٹھا مل گیا ہے.تو اپنے والدین اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کیا.جس طرح تم پر تمہارے والد کا حق ہے اسی طرح تم پر تمہارے بچے کا حق ہے.الادب المفرد للبخاری.باب بر الأب لولده) یہ روایت سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ سے لی گئی ہے.حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دا دا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی اولا دکوسات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو.پھر دس سال تک انہیں اس پر ختی سے کار بند کرو نیز ان کے بستر الگ الگ بچھاؤ“.(سنن ابی داؤد.کتاب الصلواۃ.باب متى يؤمر الغلام بالصلواة) بچوں کے لئے سب سے بڑا تحفہ نماز تو انسانی زندگی کی جان ہے.نماز نہ ہو تو کچھ بھی رشتہ خدا سے باقی نہیں رہتا.یہ اسلام کا سب سے بڑا تحفہ ہے جو بچوں اور بنی نوع انسان کو پیش کیا گیا ہے، پانچ وقتہ نماز تو اس کی عادت ڈالنے کے لئے بھی بچپن سے تربیت کی ضرورت پڑتی ہے.اچانک بچوں میں یہ عادت نہیں پڑا کرتی.اس کا طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھایا ہے کہ سات سال کی عمر سے اس کو ساتھ نماز پڑھانا شروع کرو اور پیار سے ایسا کرو.کوئی سختی کرنے کی ضرورت نہیں، کوئی مارنے کی ضرورت نہیں، محبت اور پیار سے اس کو پڑھاؤ، اس کو عادت پڑ جاتی ہے.دراصل جو ماں باپ نمازیں پڑھنے والے ہوں ان کے سات سال سے چھوٹی عمر کے بچے بھی نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں.ہم نے تو گھروں میں دیکھا ہے اپنے نواسوں وغیرہ کو

Page 697

693 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم بالکل چھوٹی عمر کے ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو سال کی عمر کے ساتھ آ کے تو نیت کر لیتے ہیں اور نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اس لئے کہ ان کو اچھا لگتا ہے دیکھنے میں، خدا کے حضور اٹھنا، بیٹھنا، جھکنا ان کو پیارا لگتا ہے اور وہ ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں.مگر وہ نماز نہیں محض ایک نقل ہے جو اچھی نقل ہے.لیکن جب سات سال کی عمر تک بچہ پہنچ جائے تو پھر اس کو با قاعدہ نماز کی تربیت دو.اس کو بتاؤ کہ وضوکرنا ہے، اس طرح کھڑے ہونا ہے، قیام وقعود سجدہ وغیرہ سب اس کو سمجھاؤ.اس کے بعد وہ بچہ اگر دس سال کی عمر تک، پیار و محبت سے سیکھتا رہے، پھر دس اور بارہ کے درمیان اس پر کچھ پختی بے شک کرو.کیونکہ وہ کھلنڈری عمر ایسی ہے کہ اس میں کچھ معمولی سزا، کچھ سخت الفاظ کہنا یہ ضروری ہوا کرتا ہے بچوں کی تربیت کے لئے.تو جب وہ بلوغ کو پہنچ جائے ، بارہ سال کی عمر کو پہنچ جائے پھر اس پر کوئی سختی کی اجازت نہیں.پھر اس کا معاملہ اور اللہ کا معاملہ ہے اور جیسا چاہے وہ اس کے ساتھ سلوک فرمائے.تو انسانی تربیت کا دائرہ یہ سات سال سے لے کر بلکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پہلے سے بھی شروع ہو جاتا ہے، بارہ سال کی یعنی بلوغت کی عمر تک پھیلا ہوا ہے.اس کے بعد بھی تربیت تو جاری رہتی ہے مگر وہ اور رنگ ہے.انسان اپنی اولاد کا ذمہ دار بارہ سال کی یعنی بلوغت کی عمر تک ہے.ایک روایت عمر بن ابی سلمہ سے ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں بچہ تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرا ہاتھ کھانے کی پلیٹ میں ادھر ادھر چلا جاتا تھا.آپ نے فرمایا: ”بیٹا اللہ کا نام لے، داہنے ہاتھ اور اپنے سامنے سے کھانا کھا“.(صحیح بخاری کتاب الاطعمه باب السمية على الطعام والأكل باليمين) یہ کھانے کے آداب بھی بچپن سے ہی بچوں کو سکھانے ضروری ہیں.یہ بچے کا حق ہے ماں باپ کے اوپر کہ اس کو ایک تو یہ سکھایا جائے کہ جو سامنے ہے وہی کھائے اور ہر طرف کھانے میں ہاتھ نہ مارتا پھرے اور دوسرے ہمیشہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرے.یہ بسم اللہ کی عادت بھی اگر بچپن میں نہ ڈالی جائے تو پھر بعد میں پڑنی بہت مشکل ہے اس لئے بچپن ہی سے بسم اللہ کی عادت ڈالنا یہ بہت ہی ضروری ہے اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھانا.کہتے ہیں میں نے اس نصیحت کو پلے باندھ لیا اور ساری عمر پھر کبھی پلیٹ میں ادھر ادھر ہاتھ نہیں دوڑائے اور جو میرے سامنے ہوتا تھا وہی کھاتا تھا اور دائیں ہاتھ سے کھا تا تھا اور بسم اللہ پڑھ کر کھاتا تھا.ہم اللہ پڑھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بسم اللہ سے کھانا حلال ہو جائے گا بلکہ محض اللہ کو یاد کرنا ہے کہ اللہ کے حکم سے ہمیں یہ سب کچھ عطا ہوا ہے، اس کی نعمتیں ہیں.بعض لوگوں کو بسم اللہ پڑھنے کی

Page 698

694 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ایسی عادت ہوتی ہے کہ وہ شراب پر بھی بسم اللہ پڑھ لیتے ہیں.تو شراب ان کی بسم اللہ سے مسلمان نہیں ہو سکتی.نہ اس بسم اللہ کا ان کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے بلکہ گستاخی ہے یہ بسم اللہ.کئی دفعہ سیاسی لوگوں سے مجھے واسطہ پڑا ہے بچپن میں، جوانی میں اور میں نے خود دیکھا ہے ایک صاحب کو، اب اس کا نام بتا نا مناسب نہیں، وہ اپنے لیڈر کو کہ رہا تھا ، وہ اس کو شراب پیش کر رہا تھا.وہ اس کو کہ رہا تھا سائیں بسم اللہ کرو، بسم اللہ کرو پہلے تم بسم اللہ کرو، شروع کرو پھر میں بھی شروع کرتا ہوں.اب جو مرضی بزرگ بنتے پھریں، میں نے جوا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ میں صحیح بیان کر رہا ہوں.ایک روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے.وہ عرض کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی (اپنے نواسے ) کو چوما تو پاس بیٹھے اقرع بن ہابس تمیمی نے کہا کہ میرے تو دس بچے ہیں لیکن میں نے کسی کو کبھی نہیں چوما.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا : جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا.( بخاری کتاب الادب.باب رحمة الولد و تقبيله و معانقته) بچوں کو چومنا اور بچوں کو پیار دینا یہ سنت ہے.مگر اتنا پیار نہیں دینا چاہیے کہ وہ ان کے لئے وبال جان بن جائے اور اسی طرح جب اپنے بچوں پر پیار آتا ہے تو دوسرے بچوں پر بھی پیار آنا چاہیے.یہ محض ناجائز خیال ہے کہ اپنے بچوں کو تو پیار کرو، دوسروں کو نہ کرو.بچہ معصوم خود پیار چاہتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بچوں کو بھی پیار دیتے تھے اور دوسرے بچوں کو بھی پیار دیا کرتے تھے اور بچپن سے پیار دینا بھی بچوں کی تربیت کے لئے بڑا ضروری ہے.ایک اور روایت الادب المفرد للبخاری سے ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا.اس کے ساتھ اس کا ایک چھوٹا بچہ بھی تھا.وہ اسے اپنے ساتھ چمٹانے لگا.اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس سے رحم کا سلوک کرتے ہو؟ اس پر اس نے جواب دیا: جی حضور.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تم پر اس سے بہت زیادہ رحم کرے گا جتنا تم اس بچے پر کر رہے ہو.وہ خدا ارحم الراحمین ہے اللہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.الادب المفرد للبخاری باب رحمة العيال) ایک اور روایت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ہے کہ میں نے فاطمہ سے بڑھ کر شکل و صورت ، چال ڈھال اور گفتگو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کسی اور کو نہیں دیکھا.فاطمہ ( رضی اللہ

Page 699

مشعل راه جلد سوم 695 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی تعالیٰ عنہا ) جب کبھی حضور سے ملنے آتیں تو حضور ان کے لئے کھڑے ہو جاتے ، ان کا ہاتھ پکڑ کر چومتے ، اپنے بیٹھنے کی جگہ پر ان کو بٹھاتے.اسی طرح جب حضور ملنے کے لئے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے یہاں تشریف لے جاتے تو وہ کھڑی ہو جاتیں.حضور کے دست مبارک کو بوسہ دیتیں اور اپنے بیٹھنے کی جگہ پر حضور کو بٹھاتیں.(سنن ابی داؤد.کتاب الادب.باب فی القیام) بخاری کتاب الزکوۃ سے یہ روایت لی گئی ہے.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک غریب عورت میرے پاس آئی جس نے اپنی دو بچیاں اٹھا رکھی تھیں.میں نے ان کو تین کھجوریں دیں.اس نے دونوں بیٹیوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور ایک کھجور کھانے کے لئے اپنے منہ میں ڈالنے لگی لیکن یہ کھجور بھی اس کی بیٹیوں نے مانگ لی.اس پر اس نے اس کھجور کے، جسے وہ کھانا چاہتی تھی ، دو حصے کئے اور دونوں کو ایک ایک حصہ دے دیا.مجھے اس کی یہ ادا بہت پسند آئی اور میں نے اس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جنت واجب کر دی.یا یہ فرمایا کہ اس ( شفقت) کی وجہ سے اسے آگ سے آزاد کر دیا.(بخاری كتاب الزكواة باب اتقوا النار ولو بشق تمرة) تو بچوں سے پیار کرنا یہ محض اپنے قلبی جذبات کا اظہار ہی نہیں بلکہ اللہ کو بچے اتنے پیارے ہیں کہ ان سے پیار بھی اللہ کو پیارا لگتا ہے.اب ماں نے اپنے طبعی جذبے سے ان بچیوں کے لئے قربانی دی لیکن اللہ نے اپنے لئے تعالی کو یہ ادا پسند آئی اور جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ایسی ماؤں پر جو بچپن سے بچوں سے محبت کا سلوک کرتی ہیں ان پر جہنم حرام کر دی جاتی ہے.ایک دوسری روایت کا ترجمہ یہ ہے.ابورافع بن عمر والغفاری کے چچا سے مروی ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں ابھی بچہ ہی تھا تو انصار کی کھجوروں پر پتھر مار مار کر پھل گرا یا کرتا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ یہاں ایک لڑکا ہے جو ہماری کھجوروں کو پتھر مارتا ہے اور پھل گراتا ہے.چنانچہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے پوچھا ”اے لڑکے تو کیوں کھجوروں کو پتھر مارتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ”تاکہ میں کھجور میں کھا سکوں، فرمایا ” آئندہ کھجور کے درخت کو پتھر نہ مارنا.ہاں جو پھل گر جائے اسے کھا لیا کر.پھر آپ نے میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور دعا دی کہ اللَّهُمَّ اَشْبِعْ بَطْنَهُ “اے میرے اللہ ! اس کا پیٹ بھر دے.(مسند احمد بن حنبل - جلد 5 صفحہ 31 مطبوعہ بیروت)

Page 700

696 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم اس روایت میں کئی ایسی باتیں ہیں جو ہمارے لئے نصیحت ہیں.ایک تو یہ کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اس بچے کو خود پکڑ کر مارا نہیں.یہ بھی ایک بہت ہی ضروری عادت ہے.کیونکہ اگر دوسرے کے بچے کو پکڑ کر مارا جائے تو اس سے بہت خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.بہت بڑے فسادات کی جڑ یہ بیماری ہے.کسی بچے کو شرارت کرتے دیکھا تو بجائے اس کے کہ اس کے ماں باپ تک بات پہنچائیں ،اس وقت پیار سے روک دیں خود ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بڑے بڑے فسادات بر پا ہو جاتے ہیں.تو صحابہ کی یہ عادت نہیں تھی.جانتے تھے کہ کون بچہ ہے لیکن اس کی شکایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑے پیار سے اس سے پوچھا تو اس کے اس جواب پر کہ میں کھجور میں کھا سکوں اس لئے کرتا ہوں، آپ نے فرمایا پھر نہ مارو.جو خود بخود نیچے گر جائے اس کو کھا لیا کرو.اب بظاہر اس روایت کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض روایات سے ایک تضاد سا دکھائی دیتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ پھل اگر گر بھی جائے تو مالک کی اجازت کے بغیر نہیں کھانا اور اس میں ہے کہ وہ کھا لیا کرو.دراصل یہ بات لوگ بھول جاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو سب صحابہ مالک ہی سمجھتے تھے اور آپ کا اجازت دینا ان سب کا اجازت دینا تھا.یہ ناممکن تھا کہ حضور کے لفظ کوسن کر وہ فدا نہ ہوں اور اپنا ہی معاملہ سمجھیں.پس اس بچے کو جو اجازت دی گئی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اپنے صحابہ پر کتنا اعتماد تھا.جانتے تھے کہ یہ مجھ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور مجھے باپ سے بھی بڑھ کر سمجھتے تھے.ایک روایت صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام سے لی گئی ہے.حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایک ٹیلے پر کھڑے ہوکر جھانکا اور فرمایا: کیا تم وہ دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں؟ میں تو دیکھ رہا ہوں کہ فتنے تمہارے گھروں میں بارش کی طرح گر رہے ہیں.ایک انسان اونچی جگہ کھڑا ہو تو وہ زیادہ دور تک دیکھ سکتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹیلے چڑھنا یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم آنے والی نسلوں کو بھی دیکھ رہے تھے.یعنی آپ کی نگاہ دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اور یہ بنیادی حکمت کی بات ہے.یہ نظر انداز نہیں کرنی چاہیے.ورنہ اس حدیث کی سمجھ نہیں آئے گی اور یوں لگے گا جیسے صحابہ پر فتنے نازل ہورہے تھے اور ان کے گھروں میں بارش کی طرح گر رہے تھے.ہرگز نہیں.مراد یہ ہے کہ آئندہ ایسی نسلیں آنے والی ہیں جن کو اپنے بچوں کی صحیح تربیت کی توفیق نہیں ملے گی.ان پر بارش کی طرح فتنے نازل ہوں گے اور یہ حدیث آج کل اطلاق پارہی

Page 701

مشعل راه جلد سوم 697 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ہے.آج کل بچوں کی تربیت میں وہ کوتاہیاں کی جارہی ہیں جن کے نتیجہ میں پھر ان کے لئے فتنے پیدا ہوتے ہیں.اولاد کی تربیت سے لامتناہی سلسلہ صدقات کا شروع ہو جاتا ہے حضرت جابر بن سمرہ کی ترندی کتاب البر والصلۃ میں یہ روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کا اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنا صدقہ دینے سے زیادہ بہتر ہے.صدقہ دینا تو بہت اچھا ہے مگر اولاد کی تربیت سے لامتناہی سلسلہ صدقات کا شروع ہو جاتا ہے.اچھی تربیت والی اولا د جو آئندہ کے لئے نیکی کا موجب بنتی ہے وہ صدقہ دیتی ہے اور اس کی اولا د آگے اولا داور یہ محبت کا سلسلہ نسلاً بعد نسل چلتا ہے.پس یہ معنی ہیں کہ ایک صدقہ تم دے دو وہ تو وہیں رک جائے گا مگر اولاد کی تربیت اچھی کرو گے تو اولاد تمہارے لئے ایک صدقہ جاریہ ثابت ہوگی.ایک حدیث سنن ابی داؤد سے لی گئی ہے.حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی ایک بیٹی ہو پھر وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، نہ ہی اس کی تذلیل کرے اور اپنے دیگر) بچوں کو یعنی لڑکوں کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا.(سنن ابی داؤد.کتاب الادب ) زندہ درگور کا تو اب وقت نہیں رہا مگر زندہ درگور روحانی معنوں میں لوگ کر دیا کرتے ہیں.اپنی بچیوں کی بد تربیت کے ذریعہ یا ان کی تربیت سے عافل رہنے کی وجہ سے عملاً ان کو زندہ درگور ہی کر دیتے ہیں.پس یہ حدیث بھی پرانے زمانہ پر صرف اطلاق نہیں پاتی اس زمانہ پر بھی اطلاق پا رہی ہے.”وہ نہ ہی اس کی تذلیل کرے“.بہت سی بچیاں شکایت کرتی ہیں کہ ہمارے ماں باپ بڑی ذلت سے ہم سے سلوک کرتے ہیں، حقیر جانتے ہیں اور وہ اس کی وجہ سے نفسیاتی مریضہ بن جاتی ہیں اور عمر بھر ان کو یہ روگ لگ جاتا ہے.تو ماں باپ کو اپنے بچوں سے بھی بہت پیار کا سلوک کرنا چاہیے.بعض دفعہ اگر کسی کے بیٹیاں ہی ہوں اور بیٹا نہ ہو تو جو بدخلق والا ہے وہ بیوی کو بھی طعنے دیتا رہتا ہے اور بچی کو بھی.تو یہ بہت ہی گندی رسمیں ہیں جو بدبختی سے ہمارے ملک میں بہت پائی جاتی ہیں.یہ شکر ہے کم سے کم یورپ اور انگلستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ گندگی نہیں.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت پر خوب غور کریں کہ نہ ہی اس کی تذلیل کرے اور اگرلڑ کے ہوں تو لڑکیوں کو اس پر ترجیح نہ دے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جنت عطا فرمادے گا.

Page 702

698 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم ایک حدیث مسلم کتاب البر والصلۃ میں انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دولڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بلوغت کو پہنچ جائیں تو قیامت کے روز میں اور وہ اکٹھے آئیں گے.(اس پر ) حضور نے اپنی انگلیوں کو باہم بھینچ کر دکھایا کہ اس طرح اکٹھے ہوں گے.اب یہاں دو ہوں یا چار ہوں، یہ بحث نہیں مگر دو کی تربیت میں ایک کی تربیت کے علاوہ کیا بات ہے.جب دو کا ذکر فرمایا گیا یا دو سے زیادہ ہوں تو مطلب یہ ہے کہ دو بچیاں ایک دوسرے سے نمونہ پکڑتی ہیں اور اگر بڑی بچی کی اچھی تربیت ہو تو دوسری کی بھی ساتھ ہی صحیح تربیت ہو جاتی ہے اور دونوں کی تربیت پر ماں باپ کو متوجہ ہونا چاہیے.اگر وہ ایسا کریں گے تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بچیوں کی تربیت بہت پیار سے کرتے تھے اور بہت اچھی تربیت کرتے تھے تو گویا آپ کا اسوہ انہوں نے اپنالیا.اس پہلو.سے فرمایا ہے کہ جنت میں میں اور وہ اس طرح دو جڑی ہوئی انگلیوں کی طرح ہوں گے.ابن ماجه ابواب الادب سے یہ روایت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں بہترین صدقہ کے بارہ میں نہ بتاؤں؟ تمہاری مطلقہ یا بیوہ بیٹی جس کا تمہارے سوا اور کوئی کمانے والا نہ ہو اس کی ضروریات کا خیال رکھنا بہترین صدقہ ہے.(ابن ماجهـ ابواب الادب.باب بر الوالد والاحسان الى البنات) اب یہ بہت ہی اعلیٰ درجہ کی نصیحت ہے.کئی لوگ اپنی مطلقہ یا بیوہ بیٹیوں کا خیال نہیں کرتے مگر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سب سے زیادہ تمہارے صدقہ یعنی تمہاری طرف سے حسن و احسان کی محتاج ہیں اور حقدار ہیں.ان کی ضروریات کا خیال رکھنا بہترین صدقہ ہے.ایک طرف تو یہ نصیحت ہے ماں باپ کو کہ وہ اپنی مطلقہ اور بیوہ بیٹیوں کا بھی خیال رکھیں، ان پر ہر طرح سے خرچ کریں اور دوسری طرف پاکستان سے بعض بچیاں شکایت کرتی ہیں جو بالکل برعکس معاملہ ہے.ایک بچی نے بڑا ہی دردناک خط لکھا ہے.و لکھتی ہیں کہ میں تو بیٹھی بوڑھی ہورہی ہوں اور ماں باپ میری کمائی کھارہے ہیں اور میری کمائی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ دیکھیں کتنا بڑا ظلم ہے.بالکل برعکس معاملہ ہے.بجائے اس کے کہ اپنی بچیوں کو پالیں جو ضرورت مند ہوں ، وہ الٹا ان کی کمائی پر بیٹھے براجمان ہیں اور ان کی کمائیاں کھا رہے ہیں اور یہ دیکھتے نہیں کہ ان کی زندگی خراب ہورہی ہے.مستقبل خراب ہورہا ہے.تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقل دے.ایسے لوگ واقعہ ملتے ہیں آج کل بھی.کسی بچی نے مجھے لکھ دیا لیکن ہر بچی مجھے لکھا تو نہیں کرتی.مگر

Page 703

مشعل راه جلد سوم ایسے ماں باپ بہت ہیں دنیا میں.699 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ ایک سنن ابو داؤد میں روایت ہے.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور بیان کیا کہ اس کے والد نے اس کی شادی کی ہے اور یہ شادی اسے ناپسند ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا کہ وہ چاہے تو اس نکاح کو قائم رکھے اور اگر چاہے تو اسے رد کر دے).(سنن ابی داؤد باب فی البكر يزوجها ابوها ولا يشارها ) یہ بھی ایک خرابی ہے جو آج کل بھی جاری ہے اور مجھے کل پرسوں ہی ایک بچی کا خط آیا کہ میرے ماں باپ نے زبر دستی جرمنی میں میری ایک جگہ شادی کی ہوئی ہے اور غالبا اس خیال سے کہ میں غیر ملک میں چلی جاؤں گی اور بہت خوش رہوں گی.لیکن میرا دل بالکل نہیں مان رہا.دعا استخارہ کرتی ہوں لیکن طبیعت میں بے حد تردد ہے.تو وہ مجھ پر زبردستی کر رہے ہیں.میں نے اصلاح و ارشاد کو لکھا ہے کہ فوری طور پر توجہ کریں.کوئی حق نہیں ہے ماں باپ کا اپنی بیٹیوں کی مرضی کے خلاف شادی کرنا.پوری تحقیق کرنی چاہیے اور اکثر ماں باپ کو جب سمجھایا جاتا ہے تو اللہ کے فضل سے وہ سمجھ بھی جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو منگنی چھوڑ نکاح کا بھی ایک ذکر کیا ہے کہ اگر نکاح بھی ہو چکا ہوتو پھر بھی اس کو اختیار ہے چاہے.تو رد کرے، چاہے تو قبول کرے.ابن ماجه ابواب الادب باب بر الوالد میں مروی ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو.ہمارے بعض رواجوں کے مطابق بعض لوگوں میں خاص طور پر یو پی میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ بچوں سے عزت سے پیش آتے ہیں.ان کو آپ کر کے مخاطب کرتے ہیں اور یہ ایک رسم وہاں چلی ہوئی ہے مگر ہے بہت پیاری رسم.بچوں کو اگر آپ نہیں کہہ سکتے تو کم سے کم پیار سے تو مخاطب کریں.ان کے دل میں یہ خیال ہو کہ میرا احترام ہے اور یہی احترام پھر آگے جا کر آپ کے لئے ان کے دلوں میں پیدا ہوگا.ترمذی ابواب البر والصلۃ میں مروی ہے کہ حضرت ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد اور پھر اپنے دادا کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین اعلی تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولادکو دے سکتا ہو.وہ ساری عمر اس کے کام آئے گا.مال و دولت دینا، دعا کرنا وہ

Page 704

مشعل راه جلد سوم 700 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ تو اس نیت کے ساتھ کہ اس کے حق میں بہتر ہو کوئی حرج نہیں ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی دعاؤں میں ہے دے ان کو عمر و دولت مگر وہ دولت جوان کے پاؤں کی جوتی ہو وہ دولت ان پر سوار نہ ہو جائے.پس اس پہلو سے بچوں کے لئے دولت مانگنا بھی ٹھیک ہے مگر اس نیت کے ساتھ کہ وہ دولت بچے آگے خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے ہوں.ایک روایت حضرت عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضوان اللہ علیہم سے مروی ہے.حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ ابرار کو اللہ تعالیٰ نے ابرار اس لئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے والدین اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کیا.جس طرح تم پر تمہارے والد کا حق ہے اسی طرح تم پر تمہارے بچے کا حق ہے.یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری نصیحتیں تھیں جو سیدھا دل میں گڑ جاتی ہیں.دل سے نکلتی ہیں ، دل میں اتر جاتی ہیں.سادہ لفظ ہیں.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کا یہ انداز ہے کہ تھوڑی سی باتوں میں بہت سی باتیں کہہ جاتے ہیں اور غوطہ لگا کر اس کے اندر چھپے ہوئے موتیوں کو تلاش کرنا پڑتا ہے.تو اس پہلو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی غور کیا اور اس میں چھپے ہوئے موتیوں کو نکال کر ہمارے سامنے اس کو آسان کر کے پیش کر دیا.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرماتے ہیں:.حضرت داؤد علیہ السلام کا ایک قول ہے کہ میں بچہ تھا، جوان ہوا، اب بوڑھا ہو گیا.میں نے متقی کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا کہ اسے رزق کی مار ہوا ورنہ اس کی اولا دکوکٹڑے مانگتے دیکھا.اللہ تعالیٰ تو کئی پشت تک رعایت رکھتا ہے.یہ بات بھی ایسی ہے کہ جس کو جماعت احمدیہ میں ہر گھر میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بہت سے غریب ماں باپ بے حد قربانیاں کرنے والے وہ اللہ کے حضور حاضر بھی ہو چکے ہیں اور ان کی اولادیں دنیا میں بڑے بڑے اعلیٰ مراتب پر فائز ہیں.خدا تعالیٰ نے غریبوں کی اولادوں میں اتنی دولت دی ہے کہ ان کو سمجھ نہیں آتی کہ خرچ کیسے کریں.بہر حال اکثر وہی ہیں جو خدا کی راہ میں ہی خرچ کرتے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ جو بات ہے یہ حضرت داؤد کی زبور سے لی ہے جو آپ بیان کر رہے ہیں.کہتے ہیں کہ ہم نے تو سات پشتوں تک پھر بھو کا مرتے نہیں دیکھا.تو اچھی تربیت کریں اور دولت کے لئے بے شک دعا کریں مگر اس شرط کے ساتھ جو میں نے بیان کی ہے اور یقین رکھیں کہ خدا متقیوں کی اولا دکو ضائع نہیں کرتا.

Page 705

مشعل راه جلد سوم 701 اس کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ پس خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لئے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤ اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لئے سعی اور دعا کرو.جس قدر کوشش تم ان کے لئے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو“.( ملفوظات.جلد چہارم جدید ایڈیشن صفحہ 444) ایک اور روایت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ بیان کرتے ہیں: پھر ایک اور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولا د ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں“.یہ جو فرمایا ہے کبھی نہیں دیکھا گیا، اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اولاد کی بے انتہاء خواہش، جاہلانہ خواہش رکھتے ہیں، ان کا ذکر فرما رہے ہیں.ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا عمل اور آپ کے ( رفقاء) کا عمل بالکل برعکس تھا اس بات سے کہ وہ اپنی اولاد کے نیک چلن کے بارہ میں بالکل بے پرواہ ہوں.پس کبھی نہیں دیکھا گیا“ سے یہ مراد نہیں کہ ایسے نیک لوگ نہیں ہوتے جو اولاد کی اچھی تربیت نہیں کرتے.پھر یہ بھی فرمایا: ” نہ کبھی ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مدنظر رکھتے ہیں“.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا سلوک تو یہ تھا کہ اپنی اولاد کے پیدا ہونے سے پہلے بھی ان کے لئے دعائیں کی ہیں.بہت پہلے سے دعائیں شروع کی ہوئی تھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعائیں کی تھیں تو کہاں حضرت ابراہیم کا زمانہ ، کہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.کتنا فاصلہ ہے سالوں کا مگر وہ دعائیں دیکھو کیسی قبول ہوئیں.پس اپنی اولاد کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کے لئے دعا کیا کرو.فرمایا:.”میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولا داور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا.” بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں.ابتداء میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں.یاد رکھو کہ اس کا ‘ ایمان درست نہیں ہو سکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا.جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور

Page 706

702 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ مشعل راه جلد سوم نیکیوں کی امید اس سے کیا ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ إمـامـاً (الفرقان: ۷۵) یعنی خدا تعالیٰ تو ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرمادے اور یہ تب ہی میسر آسکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عباد الرحمن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں اور آگے کھول کر كبر ديا وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً ـ اولا داگر نیک اور متقی ہو تو ان کا امام ہی ہوگا.اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے“.( ملفوظات جلد اول.جدید ایڈیشن صفحہ 562-563) وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً سے مراد یہ ہے کہ آگے نسلاً بعد نسل متقی پیدا ہوتے چلے جائیں.ان کا پیشوا بن جائیں، امام جو سب سے آگے ہوتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ان معنوں میں امام تھے کہ آپ کے بعد نسلاً بعد نسل آپ کی نیکیاں جاری رہنی تھیں.پھر فرماتے ہیں:.” جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو اور خدا تعالیٰ کی فرمانبردار ہو کر اس کے دین کی خادم بنے ، بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے اور باقیات صالحات کی بجائے اس کا نام باقیات سیئات رکھنا جائز ہوگا“.یعنی نیک باقیات نہیں بلکہ بد باقیات.لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعویٰ ہی دعویٰ ہوگا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے.اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے کہ میں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اس دعویٰ میں کذاب ہے.صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بنادے.تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہوگی اور ایسی اولا دحقیقت میں اس قابل ہوگی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں.لیکن اگر یہ خواہش صرف اس لئے ہو کہ ہمارا نام باقی رہے اور وہ ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہو یا وہ بڑی نامور اور مشہور ہو، اس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے“.( ملفوظات جلد اول.جدید ایڈیشن صفحہ 560-561)

Page 707

مشعل راه جلد سوم 703 ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ سب سے ضروری بات اس نصیحت میں یہی ہے کہ ماں باپ جو اولاد کے لئے دعائیں بھی کرتے ہوں گے، خواہش بھی رکھتے ہوں گے کہ نیک ہوں اگر خود نیک نمونہ نہ دکھا ئیں ، گھر میں دنگا فساد ہو، گندی زبان ہو تو بچوں کو گھر کے دباؤ میں رہنے کے نتیجے میں اگر وہ عادت نہ بھی پڑے یعنی وہ عادت ماں باپ کے سامنے ننگی نہ ہومگر باہر جائیں گے تو چھپ کر پھر گالیاں دیں گے.ماں باپ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کی تربیت اچھی ہورہی ہے، ہم ان کو دبا کر رکھ رہے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ بچہ ماں باپ کے اندرونے کو سمجھتا ہے.اگر ماں باپ بچے کے ساتھ وہ سلوک کریں جو دل سے چاہتے ہیں تو پھر خود بھی ویسا نہیں.جب خود ویسا بنیں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ ایسے بچوں کو پھر نیک بناتا ہے اور انہی نیکیوں کے ساتھ وہ جوان ہوتے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.” اولا د کا فتنہ بھی بہت سخت ہوتا ہے.اکثر لوگ مجھے گھبرا کر خط لکھتے رہتے ہیں کہ آپ دعا کریں کہ میری اولا د ہو.اولاد کا فتنہ ایسا سخت ہے کہ بعض نادان اولاد کے مرجانے کے سبب دہر یہ ہو جاتے ہیں.بعض جگہ اولا د انسان کو ایسی عزیز ہوتی ہے کہ وہ اس کے واسطے خدا تعالیٰ کا شریک بن جاتی ہے.بعض بچے چھوٹی عمر میں مر جاتے ہیں تو وہ ماں باپ کے واسطے سلب ایمان کا موجب ہو جاتے ہیں.پھر فرماتے ہیں:.( ملفوظات جلد پنجم.جدید ایڈیشن صفحہ 415-416) ”ہم نے تو اپنی اولا دو غیرہ کا پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ یہ سب خدا تعالیٰ کا مال ہے اور ہمارا اس میں کچھ تعلق نہیں اور ہم بھی خدا تعالیٰ کا مال ہیں.جنہوں نے پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہوتا ہے ان کو غم نہیں ہوا کرتا“.پھر فرماتے ہیں:.( ملفوظات.جلد نہم.صفحہ 409) دین کی جڑ اس میں ہے کہ ہر امر میں خدا تعالیٰ کو مقدم رکھو.دراصل ہم تو خدا کے ہیں اور خدا ہمارا ہے اور کسی سے ہم کو کیا غرض ہے.ایک نہیں کروڑ اولا دمر جائے پر خدا راضی رہے تو کوئی غم کی بات نہیں.اگر اولا د زندہ بھی رہے تو بغیر خدا کے فضل کے وہ بھی موجب ابتلا ہو جاتی ہے.بعض آدمی اولاد کی وجہ سے جیل خانوں میں جاتے ہیں.شیخ سعدی علیہ الرحمہ

Page 708

مشعل راه جلد سوم 704 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے ایک شخص کا قصہ لکھا ہے کہ وہ اولاد کی شرارت کے سبب پابہ زنجیر تھا.اولاد کو مہمان سمجھنا چاہیے.اس کی خاطر داری کرنی چاہیے.اس کی دلجوئی کرنی چاہیے مگر خدا تعالیٰ پر کسی کو مقدم نہیں کرنا چاہیے.اولا د کیا بنا سکتی ہے.خدا تعالیٰ کی رضا ضروری ہے.( ملفوظات.جلد 10 صفحہ 90) پھر فرماتے ہیں:.”میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے.گویا بد مزاج مارنے والا ہدایت اور ر بوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے.ایک جوش والا آدمی جب کسی بات پر سزا دیتا ہے تو اشتعال میں بڑھتے بڑھتے ایک دشمن کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی حد سے سزا میں کوسوں تجاوز کر جاتا ہے.اگر کوئی شخص خود دار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا اور پورا متحمل اور بردبار اور با سکون اور باوقار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقتِ مناسب پر کسی حد تک بچہ کو سزا دے یا چشم نمائی کرے.مگر مغلوب الغضب اور سبک سر اور طائش العقل ہر گز سزاوار نہیں کہ بچوں کی تربیت کا متکفل ہو.جس طرح اور جس قد ر سزادینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوز دل سے دعا کرنے کو ایک حزب مقرر کر لیں اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے.( ملفوظات جلد اول جدید ایڈیشن 308-309 یہ آخری روایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملفوظات جلد دوم سے لی گئی ہے.اس کے بعد کچھ روایتیں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی اور بعض حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بچوں سے سلوک کے بارہ میں ہیں، وہ اب وقت نہیں رہا، پھر آئندہ خطبہ میں بیان کر دیں گے.اس روایت کے بعد میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.ہدایت اور تربیت حقیقی خدا تعالیٰ کا فعل ہے.سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے.یہ ایک قسم کا شرک خفی ہے.اس سے ہماری جماعت کو پر ہیز کرنا چاہیے ہم تو اپنے بچوں کے لئے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آداب تعلیم کی پابندی کراتے ہیں.بس اس سے زیادہ نہیں.اور پھر

Page 709

705 ارشادات حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی مشعل راه جلد سوم اپنا پورا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں.جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہو گا وقت پر سرسبز ہو جائے ( ملفوظات جلد جلد اوّل.جدید ایڈیشن صفحہ 309) گا.یہاں ایک بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ نرمی کے ساتھ اپنے گھر میں بچوں کی شرارتوں سے ٹوکنا ایک ایسی عادت ہے کہ اس کے نتیجے میں بچے پھر دوسروں کے گھروں میں بھی جا کر شرارتیں نہیں کرتے.لیکن بعض ماں باپ عجیب خصلت رکھتے ہیں.اپنے گھر میں اپنی چیزوں کے نقصان پر تو ان کو بہت غصہ چڑھتا ہے اور وہ بچوں سے بہت سختی کرتے ہیں.مگر وہی بچے جب دوسرے کے گھر جائیں تو ان کی قیمتی چیز میں بھی توڑ پھوڑ کر پھینک دیں تو ان کو روکتے نہیں.ایسے ماں باپ کو چاہیے ہی نہیں کہ بچوں کو لے کر دوسروں کے گھروں میں جائیں اور اگر جائیں تو ان کو پکڑ کر اپنے پاس بٹھا کر رکھیں.اس وقت کی جوختی ہے اس کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کچھ نہیں فرما ر ہے.پس اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آخری نصیحت کے بعد میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں اور جو روایات رہ گئی ہیں ان کو انشاء اللہ آئند ہ خطبہ میں یا کسی اور موقع پر پیش کیا جائے گا.( مطبوعه الفضل انٹر نیشنل 24 مارچ تا30 مارچ 2000ء) تمت بالخير

Page 710

707 انڈیکس مرتبہ: مکرم سید مبشر احمد ایاز صاحب ( نائب ناظر اشاعت ) 709 711 712...737.......743 744 آیات قرآنیه.احادیث نبویه.مضامین اسماء..کتابیات مقامات

Page 711

3 21 462 332 537 208 132 95 89 493 185 675 709 (البقره: ١٠) آیات قرآنیہ 414,65 | الذين ينفقون في السراء والضراء (آل عمران: ۱۳۵) وسارعوالى مغفرة (آل عمران : ۱۳۴) من يطع الله والرسول (النساء: ۷۰) فابعثوا حكماً من اهله وحكما من اهلها.(النساء: ٣٦) لا تزر وازرة وزراخری(انعام: ۱۶۵) قل ان صلاتی و نسکی و محیای (انعام: ۱۶۳) 682 591 527 207 يخدعون الله والذين آمنوا ان الله لا يحب المعتدين (البقره: ۱۹۱) الم ذالك الكتاب لا ريب فيه (البقره: ۲ تا ۴) ومثل الذين ينفقون اموالهم ابتغاء (البقره: ۲۶۶) لا يكلف الله نفساً الا وسعها (البقرہ:۲۸۷) انالله وانا اليه راجعون(البقره: ۱۵۷) 233 | خذوازينتكم عند كل مسجد.(اعراف: ۳۲) صبغة الله ومن احسن (البقره: ۱۳۹) 442 قل من حرم زینت الله (اعراف:۳۳) 335 لئن شكرتم لأزيدنكم(ابراهيم : ۸) اذا قيل لهم لا تفسدوا في الأرض (البقره: ۱۲-۱۳) هدى للمتقين (البقره: ۳) الا انهم هم السفهاء (البقره: ۱۴) 2 ومارميت آذرمیت(الانفال: ۱۸) 29 استجيبوا لله وللرسول اذا دعاكم 65 (الانفال: ۲۵) واذا سألك عبادی عنی فانی قریب 175 | انفرواخفافاًوثقالاً وجاهدواباموالكم (التوبه : ۴۱) لا تحزن ان الله معنا (التوبه: ۴۰) 454 الا ان اولياء الله لاخوف عليهم (يونس: 1453,20 254 238 17 146 137 (البقرة : ۱۸۷) صم بكم عمى (البقره: ۱۹)......الذين يؤمنون بالغيب (البقره: ۱تا۳) کنتم خير امة اخرجت للناس 467,603 | الابذكر الله تطمئن القلوب(الرعد: ۲۹) ان الله يامر بالعدل والاحسان (النحل: ٩١) (آل عمران: ۱۱۱) لن تنالوا البرحتى تنفقوا (آل عمران: ۹۳) 597 | وكان يأمر اهله بالصلوة(مریم: ۵۶)

Page 712

واذكر في الكتب اسماعيل انه كان صادق الوعد(مریم: ۵۵-۵۶) و امر اهلک بالصلواة (طه: ۱۳۳) الخبيثت للخبيثين (النور: ۲۷) وقال الرسول يارب ان قومي اتخذوا هذا القرآن مهجورا (الفرقان: ۳۱) ربنا هب لنا من ازواجنا (الفرقان: ۷۵) والذين جاهدوا فينا (العنكبوت: ۷۰) ان الصلوة تنهى عن الفحشاء (العنكبوت: ۴۶) 129 130,17 513 349 484 174 606 710 يايها الذين امنوا اتقوا الله ولتنظر نفس 565, (الحشر : ۱۹ ) 548,518 لاتكونوا كالذين نسوا الله (الحشر: ٢٠) و آخرين منهم (الجمعه: ۴) 491,284 147 459,554 يتلوا عليهم آيته ويزكيهم الجمعة : 3 495,116 يايها الذين آمنوا اذانودي للصلوة 343 (الجمعة: ١٠) 73 | عليها ملائكة غلاظ شداد (التحريم:) ظهر الفساد في البر والبحر (الروم: ۴۲) انه كان ظلوما جهولاً (الاحزاب : ۷۳) 451 | يايها الذين امنواقوا انفسكم واهليكم قولوا قولا سدیدا(الاحزاب: ۷۲.۷۱) 661 | ناراً (التحريم:۷) وما انا من المتكلفين(ص: ۸۷) 542,545 | تبرك الذي بيده الملک الملک: ۲تا۵) اليس الله بکاف عبده (الزمر:۳۷) وما اموالكم ولا اولادكم بالتي تقربكم عندنا زلفی (سبا: ۳۸) ان من امة الاخلافيها نذیر(الفاطر: ۲۵) 6 هم على صلاتهم دائمون (المعارج: ۲۴) وللآخرة خير لك من الاولى (الضحی (۵) 642 619 323 130 538 691 | فويل للمصلين :(الماعون : ۵ تا ۸ 139,140 ان الذين قالوربنا الله (حم السجده: ۳۱) ليس كمثله شئ (الشوری: ۱۲) لا يمسه الا المطهرون (الواقعه : ۸۰) اعلموا انما الحيوة الدنيالعب ولهو (الحديد، ۲۱) يايها الذين امنو الاتلهكم اموالكم ولا اولادكم (المنافقون: ١٠) ولا تقتلوا اولادكم خشية املاق (بنی اسرائیل: ۳۲) 31 454 442 595 639 642 643

Page 713

711 اللهم ان تهلك هذه العصابة من لايشكر الناس لا يشكر الله سيد القوم خادمهم لولاک لما خلقت الافلاک الحكمة ضالة المؤمن احادیث نبویہ اللہ کا نام لے کر اور اپنے سامنے سے کھاؤ 693 466 ابرار اس لئے کہ بچوں اور والدین سے حسن سلوک 1692,700 485,510 اولاد کی اچھی تربیت کرنا صدقہ سے بہتر ہے 49 دو بچیوں کی پرورش کرنے والا...34 بہترین صدقہ مطلقہ یا بیوہ بیٹی کا خیال رکھنا کلکم راع وكلكم مسئول عن رعيته 381 ایک بچی کا آنحضور سے شکوہ کہ میری پسند سے احادیث بالمعنی بچہ سات سال کا ہوجائے تو اس کو نماز پڑھاؤ 296,692 مومن کی مثال مسافر.....میری اور تمہاری مثال ایسے جیسے تم دیوانہ وار آگ کے گڑھے کی طرف جارہے ہو آنحضرت کا فرمان کہ میرادل مسجد میں اٹکا ہے اچھی تربیت سے بڑھ کر اور کوئی تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولا د کو دے سکتا ہے 594 262 38 645,692,699 اپنے بچوں سے عزت سے پیش آؤ 644,691,699 تم پر تمہارے بچوں کا حق ہے قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب بیٹی کی عزت کرنے پر جنت منافق کی تین علامات حضرت علی سے فرمانا کہ ایک آدمی کا ہدایت پانا جونہ خود جہاد کرتا ہے نہ دوسرے کی مددکرتا ہے مشرکوں سے اموال نفوس اور زبان سے جہاد 644 608 697 663 677 677 678 شادی نہیں ہوئی تو حضور کا اُسے اختیار دینا آنحضور کا اپنے نواسے کو چومنا ایک بچے کو کھجور پر پتھر مارنے سے روکنا فتنے تمہارے گھروں میں بارش کی طرح..نا بینا کا نماز گھر میں پڑھنے کی اجازت مانگنا جنگل میں اکیلے ہونا اور نماز با جماعت غصہ آیا ہو تو بیٹھ جاؤ......قومیں اس سے بازر ہیں کہ جمعوں کو چھوڑ دیں رمضان میں لمبی تہجد ادا کرنا جمعہ کے دن ہر مسلمان پر غسل واجب جمعہ کے دن ایک مبارک گھڑی جمعہ کی فرضیت.ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ذکر الہی کرنے والوں کی تمثیل بچے کو چیز دینے کا وعدہ.آنحضرت نے فرمایا چیز ضرور دینا ورنہ جھوٹ ہوگا ☐ ☐ ☐ 697 698 698 699 694 695 696 144 16 64 359 366 358 344 360 328 315 662

Page 714

118 327 459 287 339 53 34 11 486 282 74 475 712 ا.آ مضامین 4 احساس کمتری ہندوستان اور پاکستان کی قوم کا اس میں مبتلا ہونا اور اس کے نقصان بہت سے فساد احساس کمتری کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں احمدیت جماعت احمدیہ کا موجودہ دور غیر معمولی اہمیت رکھنے والا دور ہے آج دنیا کی سیادت آپ کے سپرد ہے ہمارا سفر ایک صدی کا سفر نہیں...احمدیت مستقل قربانیوں کا ایک لائحہ عمل ہے آج حکمت احمدیت کے سپرد ہوئی ہے احمدیت نے دنیا میں ( دین حق ) کو غالب کرنا ہے عبادت کے ذریعہ احمدیت پر ابتلاؤں کا آنا اور استحکام اور تمکنت نصیب ہونا جماعت احمدیہ کا مزاج عاجزانہ ہے غیر ملکوں میں بسنے والے احمدی وہاں احمدیت کے نمائندہ ہیں.....احمدیت کی تشہیر یورپ میں..جماعت احمدیہ کا جرمنی سے حسن و احسان کا تعلق 3 346 307 393 394 528 527 527 ابتلاء ابتلاؤں میں جماعت احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کے کچھ تقاضے جماعت پر ابتلاؤں کے دور آتے رہتے ہیں اور خدا کے فضل سے نیا استحکام اور تمکنت نصیب ہوتی ہے اتوار عیسائیوں کے لئے اتوار کا دن اور عیسائیت کی زندگی کا راز کہ وہ اس دن کا احترام کر رہے ہیں اجتماعات اجتماعات کا مقصد اجتماعات میں شمولیت کے فوائد وبرکات اجتماع کی برکت سے چارسی آئی ڈی انسپکٹر احمدی ہوگئے اجتماعات میں حاضری سال بھر کی کوششوں کی آئینہ دار.....ذیلی تنظیموں کے اجتماعات کا افتتاح امیر صاحب یو.کے سے کروانے کی روایت مجلس انصاراللہ یو.کے کا تین روزہ اجتماع نیز دیکھیں ” تنظیم / خدام الاحمدیہ

Page 715

422 422 496 189 157 238 519 298 274 430 264 33 33 511 اُردو 713 اختلافات باہمی اختلافات تنزلی اور اد بار کا باعث بنتے ہیں اخلاق 630 اس زمانے کے امام کا لٹریچر اردو زبان میں ہے اُردوزبان کی اہمیت پانچ بنیادی اخلاق کی اہمیت اور ذیلی تنظیمیں 470 | اسلام اپنے اور اپنے اہل وعیال کے اخلاق پر نظر ( دین حق کے خلاف پراپیگنڈہ اور اس کے رکھیں مذہبی قو میں اخلاقی تعمیر کے بغیر تعمیر ہو نہیں سکتیں زمانے کی دوری اخلاق سے پائی جاسکتی ہے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں اور روز مرہ کے اخلاق کی نگرانی کریں واقفین نو کے خوش اخلاق بنائے جانے کی ضرورت جرمنی میں اخلاقی بحران اور اس کے دوررس اثرات اخوت بھائی چارہ اور اخوت کی روح کو زندہ رکھیں اذان بچے کے کان میں اذان کی حکمت 537 461 459 497 423 لئے ہمیں اپنا نمونہ پیش کرنا ہوگا ساری دنیا میں ( دین حق) کے پھیلنے کے دن قریب آگئے ہیں ( دین حق) ایک بہت بڑی آسمانی دولت ہے اور ہم خوش نصیب کہ ہمیں یہ حاصل ہوئی اسلامی تعلیم کی امتیازی شان، انسانی تعلقات کے دائرہ میں اسلامی اقدار کے مطابق باندھے جانے والے خاندانی تعلق کی نسلیں محفوظ رہتی ہیں 507 اسلام کا عائلی نظام اور اس کی اہمیت 164 294 کا سورج مغرب سے طلوع ہونے کی پیشگوئی اسلام کی طرف یورپ کا بڑھتا ہوا رجحان یورپ کی دوسری قوموں کی نسبت جرمن قوم میں اسلام قبول کرنے کی صلاحیت (دین) کی غیرت آج صرف جماعت احمدیہ سے وابستہ ہے اسوه نفرتوں سے بچنے کیلئے اسوہ محمد اختیار کریں 108 109 109 ارتقاء نظریہ ارتقاء تو درست ہے مگر ڈارون غلط ہے ارتقاء کے اتفاقی ہونے کے خلاف دلائل نظریہ ارتقاء پر مذہبی نقطہ نگاہ سے تحقیق کا پہلو اور دعوت تحقیق

Page 716

170 171 173 174 174 443 158 57 441 442 313 111 441 211 714 اشترا کی فلسفہ بچوں کی تربیت کے متعلق اور اس میں حکمت اصلاح اصلاح کیلئے لوگوں کو ان کے آباؤ اجداد کی یا دیں زندہ رکھنے میں مدد کریں 297 اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کے متعلق حضور کی بچوں سے آسان گفتگو خدا کو ڈھونڈ نے اور اس کو پانے کا طریق 520 ہر مذہب خدا تک نہیں لے جاسکتا خدا کو پانے کیلئے خودخدا سے دعا کریں خدا کو پانے کا حل قرآن پیش کرتا ہے خدا کے بندوں سے تعلق کی اہمیت خدا سے تعلق رکھیں خدا کی محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے اور اس کے لئے بہت اچھی عمر بچپن کی عمر ہے خدا کی صفات کو اپنے اندر جاری کریں قرآن اور سیرت آنحضرت کی مدد سے صفات الہیہ سے شناسائی ضروری ہے خدا تعالیٰ اپنے عبادت گزار بندوں سے کبھی بے وفائی نہیں کرتا یورپ کو خدا چاہیے آپ لوگ خدا کو فرضی وجود کے طور پر پیش نہ کریں زمانہ خدا کی طرف لوٹ رہا ہے اور دہریے واپس آ رہے ہیں..خالق اور مخلوق کا رشتہ سب سے بڑا اور مضبوط رشتہ ہے ایک جرمن نو مبائع کا یہ کہنا کہ اللہ کی راہ میں میری آنکھوں میں آنسو آئے ہوئے ہفتہ گزر جائے تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے 498 496 663 627 626 631 57,63 63,66 66 410 اصلاحوں کا سفر لمبا اور کٹھن سفر ہے اپنی اصلاح کے بغیر دوسروں کی اصلاح نہیں کر سکتے اصلاح کا بہترین ذریعہ قول سدید اطاعت اطاعت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اولوا الامر کی اطاعت ہر حال میں فرض ہے جماعت کے سر پر خدا کا ہاتھ تو تب ہوگا جب وہ جماعت ہوگی اور جماعت نہیں ہو سکتی جب تک ایک شخص کی اطاعت نہ کی جائے اطفال.نیز دیکھیں اولادا بچے“ دعائیں کریں اور خدا سے پیار کریں گالی نہ دینے ، سچ بولنے اور جھوٹے مذاق بھی نہ کرنے کی نصائح آپ نے بہت بڑے کام کرنے ہیں اور ساری قوم کو سنبھالنا ہے اکاؤنٹس اکاؤنٹس کی اہمیت جماعت کے مالی نظام میں

Page 717

الهام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام "البس الله بکاف عبده“ اور اس کا پس منظر والسماء والطارق زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے اور اس کی کے حکمت تفسیر امام دنیا کا امام بننے سے پہلے اپنے نفس کا امام بنا ہوگا أمت امت محمدیہ کو سب اُمتوں سے بہتر قرار دینے کی وجہ اور ثبوت امت محمدیہ کا بہترین اُمت ہونا آنحضرت کا اپنی امت کا دوسری امتوں سے بڑھ کر ہونے کی دعا کرنا امن اسلام کا خلاصہ امن ہے امید اپنی امیدوں کو بلند کریں انتقام ہم نے کسی سے انتقام نہیں لینا، طائف کا واقعہ ہمارے لئے اسوہ ہے اندازه جتنا علم ہو اتنا ہی بیان کریں اندازے کو اندازے کے طور پر ہی بیان کریں 6 6 715 انسان اپنی حیثیت اور اصلیت کو کبھی نہ بھولے انعام کبڈی کے ایک میچ میں سچ بولنے پر حضور انور کی طرف سے خصوصی انعام 280 | انفاق خدا کی راہ میں خرچ کرنا اور اس کا فائدہ انکوئز بیشن 492 سپین کی عیسائی قوم کی ظالمانہ ایجاد انگریزی 603 316 484 253 183 48 408 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انگریزی زبان کی خواہش اور حضرت خلیفہ ایح الرابع کا انگریزی سیکھنا انگوٹھی حضور کا الیس اللہ کی انگوٹھی کا ذکر کرنا اولاد بچپن سے ہی اپنی اولاد کو وسعت حوصلہ سکھائیں اللہ کی نسبت اموال اور اولاد سے زیادہ محبت کرنا اور اولا د کاہاتھوں سے نکل جانا اولاد آنکھوں کے سامنے بگڑا کرتی ہے اولاد کے قتل سے مراد روحانی قتل ہے قتل اولاد قتل اولاد آئندہ زمانے کی پیشگوئی ہے جو آب پوری ہو رہی ہے 60 71 597 77 678 464 655 646 644 643

Page 718

231 668 583 295 294,382 383,567 297 298 299 298,304 302 148 148 169 716 اولا د اور مال کی محبت کے نقصانات اولاد کی نگرانی اور تربیت کی ذمہ داری اور اس کا طریق 642 تقریب آمین کی اہمیت اور تقاضے آنکھ 536 آنحضرت کے صحابہ کا آنکھیں نیچی رکھنا اور بعض لوگوں کا حضور انور کی آنکھوں میں انسان انسان کو نگران بنایا جانا اور اس کی ذمہ داری 535 آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہنا اولوا الامر اولوا الامر اور مامور کی تفصیل 619,625 | بات اولیت جس قوم کو خدا نے دنیا کی اصلاح کے لئے چھوٹی چھوٹی باتوں کو معمولی نہ سمجھا کریں بچہ / بچپن.نیز دیکھیں اولا دا اطفال چن لیا ہے اس کی اولیت ایٹم بم بنائے جانے کی کہانی 284 119 بچپن میں سات سال کی عمر کی اہمیت بچے کے کان میں اذان اور تکبیر کی حکمت آباؤ اجداد اپنے آباؤ اجداد کی نیکیوں کو زندہ رکھو 550 رہنا چاہئے آداب چھوٹی عمر میں بچہ ماں باپ کے زیر اثر ہی چھوٹے بچوں کو کسی نظام کے سپرد نہ کرنے کی حکمت بچے کی ابتدائی عمر کا محنت طلب زمانہ بچوں کے متعلق والدین کی ذمہ داری بچوں کی تربیت کیلئے ماں باپ کی تربیت ضروری ہے جو اپنے بچوں کی عبادت کا خیال نہیں رکھتے ان کی اولادیں ہلاک ہو جایا کرتی ہیں بچوں اور عورتوں کی تربیت اور حفاظت کا حکم اور ضرورت غیر از جماعت بچوں سے گنے سے گفتگو 693 27 448 202 کھانے کے آداب بچپن سے ہی سکھانے ضروری ہیں آرکیٹکٹس اینڈ انجنیئر احمدیت کی ایک علمی شاخ کا سرمایہ اور نصائح اور راہنمائی.اس سے حضور کا تعلق آم آم کی اقسام، ایک سو بیس سے زائد قسمیں تو قادیان کے باغ میں ہوا کرتی تھیں آمین بچوں کو آہستہ آواز میں آمین کہنے کی نصیحت

Page 719

572 576 576 294 352 234 232 699 383 380 372 8,9 464 697 193 بچوں کے ساتھ بیٹھیں..بچپن سے نیکیوں سے ذاتی لگاؤ پیدا کرنا ضروری ہے بچپن سے ہی خود اعتمادی پیدا کریں 717 196 197 احمدی بچے خدا سے تعلق جوڑیں احمدی بچوں میں سعادت اور نیکی کا مادہ موجود ہے احمدی بچوں نے ساری دنیا کے بوجھ اُٹھانے ہیں بچوں سے سچ بولنے اور گندی زبان نہ استعمال کرنے کا عہد 197 198 کمسن بچوں کی تربیت اور والدین کی ذمہ داری بچوں کی تعلیم و تربیت کے اعتبار سے جمعہ کی نماز کا گہرا اثر بچپن کی عمر خدا سے محبت کی بہترین عمر 57,63 | اپنے بچوں کو خدا سے پیار کرنا سکھائیں آپ کے بچوں کا آپ پر گہرا حق ہے بچوں کی پرورش کے متعلق ارشادات بچوں کی تربیت سے غفلت برتنے والوں سے حضور کا ملاقات کرنے سے انکار بچوں کی تربیت اور اس کے تقاضے بچوں کے حقوق بچوں کو مارنا شرک میں داخل ہے بچوں کو چومنا اور پیار کرنا سنت ہے مگر اتنا پیار نہیں کہ وبال جان بن جائے بچوں کو شرارتوں سے روکیں لیکن نرمی سے بچوں کا فکر کریں لیکن اس کا طریق بچوں کی تربیت کی اہمیت کہ یہ کل کی نسلیں ہیں بچپن سے ہی ان کے دل اپنی طرف مائل کریں بچپن میں تربیت کریں بلوغت کے بعد وقت گزر چکا ہوتا ہے 644 645 647 647 691 704 پھر وہ کبھی ضائع نہیں کرے گا بچوں کی دعا کی اہمیت بچوں کے ساتھ عزت سے پیش آنا بچوں کے اثرات قبول کرنے کی عمر آنحضرت کے اقوال اور سائنسدانوں کی تحقیق اپنے بچوں کے متعلق ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا بہت ضروری ہے 694 بچپن کی تربیت دائمی نقش چھوڑ جاتی ہے 705 657 566 567 571 بچوں کا شوق جہاد اور دو نو جوان بچوں کا ابو جہل کو ہلاک کرنا بچوں کو نقصان ہونے پر ڈانٹنا اور اس کا نقصان بچیوں کی تذلیل اور لڑکوں کو ترجیح دینے کی جاہلانہ عادت بچوں کے اخلاق بگاڑنے میں ویڈیو کیسٹس کا کردار

Page 720

557 559 462 465 520 576 164 489 696 184 718 بچوں کے لئے ریکارڈ کروانے والے پروگرام اور ان کی تفصیل بچوں کیلئے ویڈیو گیمز اور ان کے تباہ کن نقصانات پاکستانی احمدی بچوں کی ذمہ داری اور اہمیت مجلس خدام الاحمدیہ کے ذمہ بچوں کے لئے پروگرام کی ریکارڈنگ جرمنی کے بچوں پر حضور کا اظہار خوشنودی بد تمیز بچوں کی تربیت مغربی ممالک میں بچوں پر ہونے والے ظلم اور ان کے بداثرات بچیوں کی تربیت اچھی نہ کرنا ان کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے بعض بچیوں کا حضور کو خط لکھنا کہ میرے ماں باپ میری کمائی کھا رہے ہیں بچیوں کی نمازوں کی طرف مائیں خصوصی 194 195 194 194 558 اصولی راہنمائی جرمنی میں بیوت الذکر بنانے کی تحریک اور بيوت الذکر کی تعمیر کیلئے بچوں کی ٹیم بنانے اور چندہ اکٹھا کرنے کی تجویز پرت پاک نرم اور پاک زبان کا استعمال 672 پانی جیسی نعمت کی قدر نہ کرنا 194 697 698 پرده بیرونی دنیا میں آکر پردہ ترک کر دینا انگلستان میں حضور کا بچیوں کو پردہ کرنے کیلئے ایک نکتہ کی طرف توجہ دلانا اور کامیابی پریذیڈنٹ نیشنل پریذیڈنٹ کا عہدہ ختم کرنے کا رواج اور حضور کا اصولی فیصلہ طور پر توجہ کریں 244 پولیوشن بسم الله پولیوشن کے بُرے نتائج اور جماعت احمدیہ کو بسم اللہ کا مناسب استعمال، ایک سیاسی لیڈر کا شراب پیش کرتے ہوئے کہنا کہ بھی اس روحانی پولیوشن دور کرنے کیلئے مامور کیا گیا ہے ”بسم اللہ “ کریں بنسی 694 پھل گر جائے تو مالک کی اجازت کے بغیر نہ کھایا جائے شیطان کی بنسی کے مقابل پر کرشن کی جنسی 215 پیشگوئی بائبل کی پیشگوئی کہ کنواریاں اس کا انتظار......کریں گی...بنی قوم کا اس کا مصداق ہونا 557 بيت الذكر بیت الذکر تو حید کا نشان ہیں

Page 721

368 369 571 302 568 565 381 284 285 380 122 222 226 29 29 719 پیشگوئیوں میں اسباب کا دخل بھی ہوتا ہے اور زمانوں کا فیصلہ انسانوں کا کردار کرتا ہے پیغام مالی قربانی کرنے والوں کیلئے پیغام کہ اليس الله بکاف عبده اہل سپین کیلئے محبت کا پیغام جس شان کے ساتھ خدا کا پیغام محمد نے پہنچا یا اس شان سے اور کوئی نہیں پہنچا سکا 505 نماز تراویح میں قرآن کریم کا دور اور اس میں سختی سے عمل کرنے کا خیال درست نہیں نماز تراویح کے دوران قرآن کھول کر رکھنا تکلفات ہیں 6 | تربیت 45,82 تربیت میں یہ بھی اہم ہے کہ تعلیم کے ساتھ 400 تعلیم کا فلسفہ بتایا جائے تربیت اجلاسات اور تربیتی کتابوں کے ذریعہ تربیت میں تحکم نہ ہو انگلی نسلوں کی تربیت سے متعلق بنیادی اصول تربیت کا بنیادی گر ، کہ تنظیم کی نہیں بلکہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے آئندہ نسلوں کی تربیت کیلئے موجودہ نسلوں کو سنبھالو تربیتی لٹریچر تیار کرنے کی طرف دنیا بھر کی مجالس عاملہ توجہ کریں مشرقی ممالک کے تربیتی مسائل تفریح Relaxation کے طریق تفسیر قرآن تفسیر قرآن وہی کرے گا جس کو اللہ تو فیق دے اور اس منصب پر مقرر کرے تفسیر کا معاملہ گہرے مطالعہ کا متقاضی ہے تقوی تقوی اور دیانتداری کے معیار کو بلند کریں 490 231 163 530 529 367 368 369 367 پیغامبر کا بنیادی وصف کہ محض قول نہ ہو عمل بھی ہو تحفہ آمین کی تقریب پر تحائف کی رسم کو ختم کرنا خدام کی تجنید کی اہمیت تحریک جدید ایک سال بھی ایسا نہیں آیا کہ جماعت اس قربانی سے تھک گئی ہو تحریک جدید کے دفاتر کے قیام کی غرض و غایت تراویح کی نماز روحانی تربیت کا ایک اہم ذریعہ نماز تہجد ، تراویح کی گیارہ رکعت تراویح کی روح در اصل تہجد کا متبادل ہے آنحضرت کا نماز تراویح پڑھانا اور پھر چھوڑ دینا اور اس کی حکمت

Page 722

281 366 366 93 33 200 95,201 301 436 631 278 437 عالمی توحید کیلئے عالمی تمدن کے امتزاج کا ہونا ضروری ہے تہجد کی اہمیت رمضان میں تہجد کا رمضان کے ساتھ گہراتعلق ٹ.ج - چ - ح - خ ٹوپی پہننے کی اہمیت ٹوپی پہنا قومی شعار ہے ایک ہی قسم کی ٹوپی ضروری نہیں آپ نئی 720 ٹو پیاں ایجاد کریں ٹیلی ویژن ٹیلی ویژن اور بچوں کی تربیت، حضور کی راہنما ہدایات جلسه خلیفہ کی شمولیت سے جلسہ انگلستان کو مرکزی حیثیت حاصل ہونا جماعت جماعت کے سر پر خدا کا ہاتھ تب ہو گا جب وہ جماعت ہوگی اور جب تک اطاعت ایک شخص کی نہ ہو جماعت نہیں ہو سکتی جماعت احمد یہ حقیقی توحید پرست جماعت ہے جماعت احمدیہ کی قوت عمل سے متاثر غیروں کے تاثرات 483 600 592 593,594 405 279 149,243 131 528 461 460 491 112 452 542 543 عددی اکثریت کی کوئی اہمیت نہیں جب تک اس میں تقوی کی زینت نہ ہو تلاوت ہر گھر میں تلاوت کی آرزو تلاوت قرآن کریم کی طرف توجہ کریں ترجمہ اور معانی پر غور کی اہمیت تلاوت اور تجوید کی طرف توجہ تمدن مقامی تمدن اور دینی تمدن کا خیال رکھنا ذیلی تنظیموں کو نمازوں کی طرف توجہ دلانا قرآن کریم پہلی ذمہ داری تنظیم پر نہیں گھروں پر ڈالتا ہے ذیلی تنظیمیں تربیت کے معیار کو بڑھائیں اخلاقی تعمیر ذیلی تنظیموں نے کرنی ہے تمام ملکوں کی ذیلی تنظیموں کو براہ راست اپنے تابع کرنے کا فیصلہ اور اس میں حکمت تنقید تنقید کرنے والے دو طرح کے لوگ سب سے بڑی تنقید اپنے اوپر ہونی چاہئے اپنے نفس کے ناقد بنیں توحید توحید کی اہمیت و افادیت دنیا میں توحید کے علم کو بلند کرنے کا طریق

Page 723

6,7 286 678 675 676 105 656 4 454 608 369 584 جنگ بدر اور مسلمانوں کی کسمپرسی اور خدا کی تائید جنگ عظیم اول کے بعد جرمنی کی فوجی اہمیت ختم کرنے کا منصوبہ اور...جہاد جہاد میں صرف تلوار کا جہاد نہیں جہاد کیلئے ہر امیر وغریب کو نکلنے کا حکم دینی کام ، دعوۃ الی اللہ اور تقریر وقلم سب جہاد ہے 721 73 343 357 348 355 یورپین جماعتوں میں حیرت انگیز روحانی تبدیلی جمعه جمعہ کی غیر معمولی برکات جمعہ کے بغیر احمدی کی کوئی زندگی نہیں جمعہ عبادت کا دن، البتہ نماز کے بعد کاموں سے نہیں روکا گیا عورتوں اور بچوں پر جمعہ فرض نہیں مگر وہ تربیت کی خاطر اور ان کو زندہ رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے جمعہ کے نظام سے غفلت ہلاکت کا موجب 354 | چرچ مسلمانوں میں قدیم زمانہ میں جمعہ کا رجحان 346 چرچ اور سائنس اور چپقلش جمعہ کا حکم قرآنی اور ایک خطرناک فتنہ کی نماز جمعہ کی ادائیگی اور مغربی ممالک 345 | چنده نئی نسلوں کو بچانے کیلئے چندہ لازم کرنا طرف اشارہ نماز جمعہ کیلئے شرکت کی خصوصار بوہ کو ترغیب 347 133 جمعہ کیلئے رخصت کی مہم سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چلائی 355 ضروری ہے....چندہ جات میں جرمنی جماعت کی اہمیت حزن حزن مٹانے کا راز ، خدا سے تعلق حضرت خلیفہ المسیح الاول کا جمعہ کی رخصت حساب کی تحریک دوبارہ کرنا اور حکومت برطانیہ کا اس کو منظور کرنا نماز جمعہ کیلئے رخصت کی دوبارہ عالمی تحریک شروع کرنے کا اعلان 356 356 قیامت کے دن نماز کا حساب اور اس کی تفصیل حفظ قرآن حفظ قرآن کی تحریک 356 خاتم جنسی بے راہ روی کا سیلاب اور اپنی عصمتوں خاتم کا مفہوم کہ متاثر ہونے کی بجائے مؤثر کی حفاظت کریں 512 ہوجائیں پاکستان میں جمعہ کی رخصت

Page 724

266 216 209 94 201 607 612 471 455 455 461 444 101 احمدی نوجوانوں کو دعوت الی اللہ کیلئے سنجیدہ ہو کر کوشش کرنا ہوگی اے احمدی نوجوانو! اٹھو کہ تم سے آج دنیا کی تقدیر وابستہ ہے...خدام الاحمدیہ کا زمانہ عبادت کا زمانہ ہے آپ کو کوئی نہ کوئی امتیازی کردار اختیار کرنا پڑے گا خدام الاحمد یہ ایک سستی سی لیکن خوبصورت ڈیزائن کی ٹوپی تیار کریں..خدام الاحمدیہ کو خصوصی ہدایت کہ نو جوانوں اور بچوں کونماز پر قائم کریں خدام الاحمدیہ جرمنی کا نمازوں میں بہتر مظاہرہ کرنا خدام الاحمدیہ / انصار اللہ الجمعہ اپنے پروگراموں میں سب سے زیادہ اہمیت اس کو دیں کہ ایک بھی فرد ایسا نہ ہو جو نماز کا ترجمہ نہ جانتا ہو اور پنج وقتہ نماز پر قائم نہ ہو خدام الاحمدیہ قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں جو عظیم قربانیاں پیش کرنی ہیں وہ خدام الاحمدیہ کو ہی پیش کرنی ہیں خدام الاحمدیہ الجنہ / انصار اللہ کیلئے حضور کا 722 66 395 410 429,433 45 237 165 277 433 194 خادم / خدام الاحمدیہ نیز دیکھیں تنظیم آپ ( دین حق ) اور قوم کے بھی خادم ہیں خدام الاحمدیہ علمی اور تربیتی کاموں کی طرف توجہ کرے اور معیار بہتر کرے خدام الاحمدیہ میں شمولیت کی اہمیت خدام الاحمدیہ دیگر تنظیموں سے روابط پیدا کرے.خدام احمدیت کے دل میں پیار محبت اور عشق کے ولولے ہوں خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد کہ ساری دنیا کی خدمت کرنے والے ہوں میں خدام کو بہت سے کاموں کا ذمہ دار بنانا چاہتا ہوں جرمنی کے نو جوانوں کا غیر معمولی جوش اور قربانی خدام کو ( دین حق) کی حسین تصویر دکھانا ہوگی خدام الاحمدیہ کے ذمہ بچوں کے پروگرامز کی ریکارڈنگ نوجوانوں کو اس طرف توجہ دلانا کہ ہر نوجوان دعوت الی اللہ کرنے والا بن جائے نو جوانوں میں جانی اور مالی قربانی کی زیادہ استطاعت ہوتی ہے نو جوانوں کو اپنی نگاہیں اور ارادے اونچے کرنے کی طرف توجہ.264 پیش کردہ پروگرام 263 " اپنے اندر اس عمر میں الہی رنگ پیدا کرنے ’ اندراس 265 کی کوشش کریں خدام الاحمدیہ کا دومشنوں کیلئے چندہ اکٹھا کرنا

Page 725

221 227 339 163 332 687 165 650 687 476 481 723 خدام الاحمدیہ کی تعداد جرمنی میں اور اس کی اہمیت یورپ میں بسنے والے نوجوانوں کی تربیت کا مسئلہ اور اس کی تفصیلات یورپ کے احمدی نوجوانوں کے فرائض جرمنی کے نو جوانوں کی قربانیاں خدام الاحمدیہ کی یورپ میں ایک مرکزی حیثیت خدام الاحمدیہ انگلستان کی کارکردگی پر اظہار 263 خلافت سے محبت کے جذبات کو حقیقت میں ڈھالیں خلافت کے ہمیشہ تابع رہیں اور ہر حال میں 281 امام کے پیچھے رہیں کسی وقت بھی اس سے 238 5 429 آگے نہ بڑھیں خلافت کے ساتھ کیا ہوا عہد اور اس کو نبھانے کے تقاضے خلافت کا آسمانی نظام اور دوسرے دنیاوی نظاموں سے اس کا امتیاز خلیفہ وقت کے خلاف باتیں کرنے والے ان کا انداز نیز منافقین کا کردار ایک خلیفہ کے دل میں ساری جماعت کے دل دھڑک رہے ہوتے ہیں خلیفہ وقت آپ کے پروگرام کے تابع نہیں آپ کو خلیفہ وقت کے پروگرام کے تابع ہونا چاہیے خلیفہ وقت سے چند لمحوں کی ملاقات.ساری زندگی کا سرمایہ بن جایا کرتی ہے " آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ آپ میں سے جو بھی تکلیف اٹھاتا ہے اس کی مجھے کتنی تکلیف ہوتی ہے“ رات کی تنہائیوں میں جرمنی کیلئے دعائیں کرنے والا خلیفۃ المسیح کادل.خلیفہ وقت سے براہ راست صدر مجلس خدام الاحمدیہ کا رابطہ اور اس کی افادیت 429 671 153 307 249 237 157 481 537 354 خوشنودی خدام الاحمدیہ انگلستان کو جرمنی کے خدام کی طرح بہتر کارکردگی دکھانے کی خواہش کا اظہار خدام الاحمدیہ سویڈن کے اجتماع کیلئے حضور کا پیغام ہالینڈ کے اجتماع خدام سے حضور کا خطاب خدام الاحمدیہ ساؤتھ ریجن یو کے کے اجتماع کیلئے حضور کا پیغام خدام الاحمدیہ کے یور بین اجتماع کیلئے پیغام خدام الاحمدیہ انگلستان کے اجتماع کیلئے پیغام صدر مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی پر اظہار خوشنودی خاندانی ذمه داری خاندانی ذمہ داری اور ان کی ادائیگی خلافت / خلیفہ جہاں خلافت کا منصب قائم ہے ایسے جمعہ میں اللہ کے فضل سے غیر معمولی برکتیں ہیں

Page 726

50 60 88 28 44 678 681 432 319 264 267 671 678 724 مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعا کو شعار بنائیں ے اے دل تو نیز خاطر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں 679 683 684 ہماری دولت ہیں دعوت الی اللہ دعوت الی اللہ کرنے والوں کو نصیحت کہ مسیح موعود علیہ السلام کا کلام یاد کریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوت الی اللہ کا جوش دعوت الی اللہ کرنے والے واقفین کا درختوں کے پتے کھا کر گذارہ کرنا یورپ کا مزاج اور دعوت الی اللہ کے تقاضے دعوت الی اللہ کو سنجیدگی سے اختیار کریں ہر احمدی کومر بی بننا ہوگا ارادہ محنت اور دعاد عمل سے دعوت الی اللہ کی 460 442 295 666 طرف توجہ کریں یو.کے کے خدام کو دعوت الی اللہ کی سرگرمیاں تیز کرنے کا ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جوش اور خلافت رابعہ کے دور میں اس کا پورا ہونا دعوت الی اللہ کے گر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سکھائے دعوت الی اللہ میں کامیابی کے گر حضور کا دعوت الی اللہ کے حوالے سے ایک واقعہ بیان فرمانا 384 384 318 خلیفہ وقت کے تابع براہ راست ذیلی تنظیمیں خلق آخر قرآن کریم کا یہ کہنا اور اس سے مراد خیار بچے کی خیار کی عمر دانت دعا د ڈ ذ ر ز دانت کی صفائی کے متعلق آنحضرت کے ارشاد اور ان کی اہمیت دعا کے بغیر محنت کو پھل نہیں لگ سکتا اور خشک نمازی پیدا ہونگے دعا کے بغیر نصیحت کرنے والا.....دعا میں جتنی زیادہ ہمدردی ہوگی خدا قبولیت کے نشان دکھائے گا 57,175,232 239 482 445 7 بچوں کو چھوٹی عمر میں دعا کی طرف توجہ دلانے کی اہمیت دعا کی عظمت اور اہمیت میر اعمر بھر کا تجربہ ہے کہ ہر وہ انتظام ناکام و نامراد رہتا ہے جس سے پہلے اور جس کے دوران اللہ تعالیٰ سے دعائیں نہ مانگی گئی ہوں ہر رکعت میں اهدنا الصراط المستقيم کی دعا سکھانے کی حکمت آنحضرت کی دعا بدر کے موقع پر...

Page 727

273 231 117 548 371 366 366 365 239 504 725 سپین میں دعوت الی اللہ کا منصوبہ دین کا پیغام پہنچانے والے سفیروں کا بنیادی وصف محض قول نہ ہو عمل بھی ہو دماغ 102 جرمنی میں بسنے والے احمدیوں کی ذمہ داری رسم 490 آمین کی تقریب پر تحائف کی رسم کو ختم کرنا رشیوں اللہ تعالیٰ نے احمدی دماغ کو چمک عطا فرمائی 188 رشیوں سے ہندوستانی علوم کے وابستہ انسانی دماغ کا مکمل استعمال آج تک نہیں ہونے میں حکمت ہوا 119 | رفقاء رفقاء کی اولاد اور ان کی نسلوں کے افراد کی ذمہ داری رمضان رمضان سے نوافل اور صدقات کا تعلق قادیان اور ربوہ میں رمضان کا پاکیزہ ماحول رمضان میں صرف روزوں کی تلقین ہی نہیں بلکہ روزہ کے لوازمات یعنی تہجد وغیرہ کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے روزه نئی نسل میں روزہ کی عادت ڈالیں رؤيا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رؤیا لندن میں ایک منبر پر کھڑے ہیں.حضرت مصلح موعود کا رؤ یا ہٹلر کو احمدی دیکھنا حضرت مصلح موعود کا رویا کہ روس میں قدم 123 614 395 508 393 دماغ کی مختلف کیفیات اور زبان سیکھنے کا طریق دنیا دنیا کی بہتری آج آپ سے منسوب ہو چکی ہے دینی معلومات دینی معلومات اور ذیلی تنظیموں کی ذمہ داری ڈسپلن جرمن قوم تک پہنچنے کیلئے بعض بنیادی صفات کا ہونا ضروری ہے ڈسپلن ،اجتماعیت ذکر الہی ذکر الہی کی مجالس میں شریک ہونے کے فوائد ذکر الہی اور اس کے نتیجہ میں انسانی ذات کو ملنے والا امن 254 ذمہ داری رکھ رہے ہیں اور حضور انور ایک بچے کی شکل جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور ہماری میں ساتھ ہیں ذمہ داریاں حضور کا اپنا ایک رؤیا 504 45,184,185

Page 728

سندھ کے ایک دوست کا رویا جس میں انہوں نے الیس الله بکاف عبده کی انگوٹھی سے شعائیں نکلتے ہوئے دیکھا زبان زبان سیکھنے کے طریق زبان سیکھنے کی عمر بچپن کی عمر ہے زبان سیکھنے کی بابت ریسرچ اور کان میں اذان کی حکمت ایک انگریز بچی کا جرمن زبان اچانک بولنا زبان میں تلفظ کی اہمیت 726 سپینش زبان سیکھنے کی تحریک جاپانی زبان 183 چینی زبان میں ماہرین کی کمی پاک زبان رکھنا ایک نعمت ہے 122 زکوۃ کی ادائیگی کی تلقین 121 زندگی زندگی نام ہی کام کا ہے 125 123 270,271 زندگی فرصت کے ایک با مقصد مصرف کا نام ہے زندگی کا مزہ علم میں ہے غیر ملکوں میں ان کی زبان سیکھنے کی اہمیت 269,270,271 یورپ میں بسنے والوں کو دین کی طرف بلانے صحابہ کا زبانیں سیکھنا یونانی وغیرہ خدمت دین کیلئے نئی زبان سیکھنے کا عہد کریں ربوہ کو زبان سکھانے کا ماڈل بنانے کا انگلستان میں رہنے والے اُردو، عربی سیکھیں منصوج 116 کیلئے اپنا طرز زندگی ان سے بہتر بنانا ہوگا 97 " میری زندگی کا مقصد آپ کو سچائی اور توحید کا پیغام دیتے چلے جانا ہے 126 عائلی زندگی 97 زبانوں میں سب سے زیادہ زور عربی زبان پردیں اُردو اور عربی زبان میں مہارت حاصل کریں اُردو اور اس کی افادیت اُردو کے علاوہ دوسری زبانیں سیکھیں 422 100 671 97 فوری ضرورت کی زبانیں اٹالین...100 سائنس فرانسیسی زبان کا وسیع دائرہ جرمن زبان سیکھنے کی ہدایت 101 268 امریکن احمدیوں کا عائلی زندگی ٹوٹنے پر حضور سے دکھی ہوکر ملنا سیش سال نئے سال کے موقعہ پر اپنی عبادات اور اخلاق کا حساب کیا کریں نئے سال کی آمد اور حضور کا نوافل ادا کرنا سائنس کی انتہا خدا کی ہستی کا اقرار ہے سائنسدانوں کے حالات پڑھنے کی ترغیب 102 102 102 64 129 39 38 لله به 121 153 556 640 534,538 14 107 38

Page 729

461 462 661,663 99,100 477 569 486 517 686 337 598 209 370 بچپن میں سچائی کی عادت ڈالیں سچائی کے مراحل کی انتہاء نبوت...سیدھی بات سچی بات سے زیادہ اعلیٰ درجہ کی بات ہے سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کو ساری دنیا میں وسیع 727 105 30 مذہب اور سائنس میں دوری پیدا ہونے کے اسباب اور نقصانات یورپ کی تاریخ میں سائنسدانوں کو سچائی کے الزام میں آگ میں زندہ جلایا جانا سایت سبت کی بے حرمتی پر یہود کے دلوں پر مہر کرنے کا حکم لگنے کا ذکر 359 سرمایه داری سپاسنامه مشرقی یورپ اور روس اگر سرمایہ داری کی حضور کا اس کے متعلق اصولی ارشاد کہ اس طرف لوٹیں گے تو نقصان اٹھائیں گے رسم کو توڑیں 219 | سزا سپاہی پیدا کرنے کی بجائے لیڈراور افسر پیدا بچوں کو سزا دینے کے اصول اور آنحضور کے کریں 286 ارشادات اور مغربی ممالک کے قوانین کا سچ سچائی سچ کو شعار بنائیں دنیاوی ترقی کا راز بھی بچے ہونے میں سچ کی اہمیت اور اس کی حفاظت موازنہ 65 | سفر 200 199 حضور انور کو پاکستان بھر کی جماعتوں کے وسیع سفروں کا ذاتی تجربہ کبڈی کے ایک میچ میں کھلاڑی کا سچ بولنا اور حضور کا کینیڈا، امریکہ کے سفروں کے حضور کا تعریف کرنا 71 تاثرات بچوں میں بیچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت سفر کرنے والوں کیلئے حضور کی نصیحت پیدا کریں 403 سنی سنائی بات پر یقین کرنے کا نقصان سچائی کے اقرار کی جرات پیدا کریں 379 | سوال سچائی کی بدولت جاپان کی ترقی سچائی کا جہاد شروع کرنے کی تحریک سچائی کا قیام اور توحید کا قیام ایک ہی چیز کے 33 542 سوال کوئی پیدا ہو تو خدا سے دعا کیا کریں سورة سورۃ فاتحہ کا خزانہ نہ ختم ہونے والا ہے بچوں کو سورتیں یاد کروانے کی تحریک 542 دو نام ہیں

Page 730

728 سووينير مجلس خدام الاحمدیہ یو.کے کے سود بینیئر کیلئے حضور کا پیغام شرم نمازوں کی ادائیگی اور جھوٹی شرم.حضور کا اپنا نمونہ شوری مجلس شوری نجی کی تاریخوں میں حضور کا تبدیلی فرمانا اور مصلحت صدی انگلی صدی کیلئے تو حید کا تحفہ 237 | صفت /صفات خدا تعالیٰ کی نانوے صفات.اور ان کے 13,14 164 مختلف رنگ 448 یہ صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت 441,442 صوفی ازم اسلام کسی ایسے صوفی ازم کی تعلیم نہیں دیتا جس میں خلیفہ موجود ہو اس کی اہمیت 165 طالب علم نو جوانوں کو شوری کی کارروائی میں زیادہ سے زیادہ شریک کرنے کی ہدایت صط 165 546 کہ حلیہ بگاڑا جائے یا گند الباس پہنا جائے 96 احمدی طلباء کا ایک نمایاں Advantage کہ وہ ایک نور کے آگے کھڑے ہیں احمدی طالب علم کی غفلت 117 111 صحاب طيب آنحضرت کے صحابہ کی فدائیت صحابہ میں کسی قسم کی پھوٹ نہ تھی آنحضرت کی اطاعت میں صحابہ کی گمشدگی 349 633 632 طیب چیزوں سے مراد کہ بے حیائی کی جھلک اور فیشن پرستی نہ ہو...95 95 ع غ صحابہ کو پہلی کتب میں ملائکہ کہا گیا 622 | عامله آنحضرت کے بعض صحابہ جنہوں نے فرط مجلس عاملہ اور نظام جماعت 328,329 محبت سے حضور کو آنکھ بھر کے دیکھا نہ تھا آنحضور کے صحابہ کی جفاکشی اور قناعت صحابہ کرام کی سی وحدت کی ضرورت 668 681 635 مجلس عاملہ کا ایک اجلاس صرف نماز کے موضوع پر ہو 245 جماعت کی مجلس عاملہ کو سب سے پہلے توحید صدقہ کو ملحوظ رکھنا چاہئے 278 اولاد کی تربیت لامتناہی صدقات کی حامل 697 | عبادت صدقات اور نوافل کا رمضان سے تعلق 371 عبادات کا فلسفہ 579

Page 731

116 116 116 118 115 104 117 87,88 273 277 221 63 535 آنحضرت کا علم پر زور دینا اور صحابہ کا دوسری زبانیں سیکھنا مسلمانوں کے علمی دور کا آغاز آنحضرت کے زمانہ سے ہوا حضرت مسیح موعود کا اپنے ماننے والوں کو علمی ترقی حاصل کرنے کی خوشخبری دینا حضرت مسیح موعود کی بعثت میں علوم کا کثرت سے دریافت ہونا حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا علم کی طرف بہت توجہ دینا دینی اور دنیاوی علم میں توازن ضروری ہے 729 9 11 10 208 13 9 11 210 | بہت سے ہندوستانی علوم کا ہندور شیوں سے عبادت کا حق ادا کرنے کی نصیحت احمدیت کے ذریعہ ( دین حق کو غلبہ عبادتوں کے ذریعہ ہی نصیب ہوگا ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگی کا راز اس میں ہے کہ عبادت گزار بندے بن جائیں عبادت کی طرف توجہ اور اس کا وسیع مفہوم اللہ کی عبادت سے کبھی شرمانا نہیں چاہئے اس میں انسان کی عظمت ہے دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جو عبادت گزار دل ہوں اللہ تعالیٰ انہیں ضائع فرمائے عبادت کے دو پہلو.ظاہری و باطنی.دونوں کو اختیار کرنے کی نصیحت عبادت کی اہمیت جنگ بدر کے واقعہ کے لحاظ سے 246 وابستہ ہونا اور اس میں حکمت تمام عبادتوں کی روح نماز ہے 377 | عورت عربی لٹریچر اسلام میں عورت کا مقام اور مغربی پریس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی لٹریچر کی اہمیت 422 عزم سے حسن سلوک کا ارشاد مضبوط عزم و ہمت کی ضرورت 468 عقل حضور سے سوال جن جرمن عورتوں سے شادیاں کی ہیں ان جرمن نو جوانوں اور عورتوں کا قابل رشک نمونه عقل حقیقت میں تقویٰ کے نور سے ملتی ہے 445 | عہد کامل عقل خدا سے تعلق کے بغیر نہیں مل سکتی دین کی عقل ایشیا اور دنیا کی عقل یورپ 445 خدام الاحمدیہ کا عہد اور تقاضے طفل کا عہد اور حضور کی نصائح معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے کا عہد کریں 239 امریکہ کو

Page 732

عهده جماعتی عہدے اور ان کے تقاضے اور ذمہ داریاں عہد یداران اور امیر کے اختیارات ذیلی تنظیموں کے عہد یداران کو نصیحت عیسائیت عیسائیت کا یورپ پر تسلط کمزور ہو چکا ہے ایک عیسائی کا قبول حق مسیحیت میں زندہ کرنے کی طاقت نہیں رہی یہ قو تیں اب محمد کو عطا کر دی گئی ہیں غار ثور میں آنحضرت کا پناہ لینا غناء بچوں میں یہ صفت پیدا کریں ف ق ک گ فتنہ پردازیاں کرنے والے اصلاح کے نام پر ، اور ان کا تدارک 485 164 495 310 86 185 454 405 730 قربانی جرمنی کے نوجوانوں کی قربانی پر حضور کا اظہار خوشنودی مالی قربانیاں بہتر مستقبل کی ضمانت.نظریاتی قربانی اور عملی قربانیوں کے معیار میں ہم آہنگی پیدا کریں مالی قربانی کی بابت جماعت کے اخلاص کا مظاہرہ اب تلوار کی بجائے قلم کا زمانہ ہے قول سدید قول سدید کا تجر بہ گھروں سے شروع ہو اور اس کی اہمیت مذہبی قوموں کی تعمیر کیلئے دو باتیں اہم ہیں 335 بندے سے تعلق ، خدا سے تعلق فرشتوں کی صفت مــایــو مــرون اور تفسیری ترقی یافتہ قومیں اور جھوٹ کی بیماری معارف 619 کارکن فیشن اچھے کارکن اپنے پیچھے خلا نہیں چھوڑتے فیشن کی پیروی کرنے والے نہ بنو، فیشن بنانے والے بن جاؤ فیملی پلانگ 584 اچھے نائبین تیار کریں مرکزی کارکنان کی اہمیت کہ وہ نمونہ ہیں سلسلہ کے کارکنان اور ان کا دائرہ کار چرچل کا پریشانی کے وقت ترکھانوں والا کام کرنا غربت دور کرنے کا یہ پراپیگنڈہ غلط ہے 643 | کام قانون قانون اور معاشرے کی اصلاح.....570 ////// 5,6 220 138 682 662 459 461 99 142 619 122

Page 733

72 639 612 197 63 63 731 کائنات کائنات کی تخلیق میں کوئی فتور نہیں ساری کائنات کا فلسفہ زندگی اور موت کے تقابل پر ہے Survival of the 324 اصل مقابلہ روحانی اور اخلاقی میدان کا ہے کھیلوں میں بھی اس کو پیش نظر رکھنا چاہئے کھیل تماشہ جتنا امریکہ پیش کرتا ہے اس سے زیادہ دنیا میں کہیں نہیں خدام الاحمد یہ جرمنی کا نماز کے متعلق کیسٹس تیار کرنا اور حضور کا خوشی کا اظہار فرمانا 71 حضرت مسیح موعود کی نظموں ، تلاوت پر مشتمل (کیسٹس) ریکارڈنگ کی ضرورت fittest 324 کیسٹ کبڈی کبڈی کے ایک میچ میں ایک احمدی کھلاڑی کا سچ بولنا اور حضور کا خوشی کا اظہار کتب حضرت مسیح موعود کے مطالعہ کی طرف توجہ کریں کسر صلیب کا زمانہ اور تقریر..کشف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفید پرند پکڑنے کا کشف 600 682 319 گالی طفل کا عہد کہ وہ گالی نہیں دے گا وہ گھر جو خدا کے گھر کو نہیں بساتے اللہ ایسے گھروں کو ویران کر دیا کرتا ہے ل من 600 96 9990 96 244 286 285 10 199 | لباس نیکی کے تصور میں گند الباس نہیں صاحب علم کی عظمت لباس میں نہیں 420 | لجنه 59,61 213 لجنہ پر ڈالی جانے والی ذمہ داری نماز کی بابت لیڈر نئی نسلوں کو لیڈر اور سردار بنایا جائے ہر احمدی کو لیڈر بننا ہوگا لیلۃ القدر کاراز 395 419 کنگرو کہانی کہانیوں سے بچوں کی تربیت اور کہانیوں کے انتخاب کی بابت راہنمائی محمود اور ایاز کی کہانی اور پُر حکمت سبق فرانس کی ایک کہانی کھیل کھیلوں کا معیار دنیا کے معیاروں کی نسبت بہتر کرنا چاہئے واقفین نو میں کھیلوں کی رغبت پیدا کریں

Page 734

732 مباہلہ مباہلہ کے نتیجہ میں ساری دنیا میں نشانات کا ظہور مباہلہ کی عالمی اہمیت اور ہزاروں سال بعد ایسے مواقع کا نصیب ہونا ایم.ٹی.اے کی افادیت اور بچوں کی تربیت میں گہرا اثر مجاہدات آنحضرت اور صحابہ کا پاکیزہ مزاح ہمارے لئے اسوہ ہے 395,396 پاکیزہ مزاح کی عادت ڈالیں 396 613 مزه بنیادی مزے صرف چار ہیں مستشرقین کا افسوسناک کردار مسکراہٹ دنیا کی کوئی طاقت احمدیوں کی مسکراہٹ کو چھین نہیں سکی مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے محبت محبت ہمارا پیغام ہے اور اس کے تقاضے محبت ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے مقابل پر کوئی اور ہتھیار نہیں نفرت کا جواب محبت سے دیں محنت اور لگن کی عادت ڈالیں مذاق جھوٹے مذاق بھی نہ کریں مذہب کی افادیت مذہب اور سائنس میں دوری کے اسباب اور نقصانات مرکز مرکز سلسلہ سے دوری کے نتیجہ میں مسائل پیدا ہوتے ہیں مزاح 627 مسواک مسواک کی عادت ڈالیں 52 52 مطالعہ قرآن کے مطالعہ کی عادت ڈالیں 45 213 111 انبیاء اور سنتِ نبوی کا مطالعہ اپنی اور نسل کی تربیت کیلئے بہترین راہنما حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کی توجہ کریں 65 معاشرہ 137,318 یور چین معاشرہ کے دکھ اور اس کے اظہار کا انداز.فیشن اور گانے 105 معاملہ نہی کا شرعی اور جماعتی طریق معتمد کے فرائض منافقین کا کردار اور ان کا طریق 164 | مومن کسی مقام پر رک جانا مومن کی شان نہیں 404 404 448 308 666 111 303 600 311 331 620 333 482

Page 735

333 288 411 298 226 181,222 609 465 450 149 130 16,17 کائنات اور روحانی کائنات.نظام اور خلیفہ وقت کے خلاف باتیں....ہر احمدی کو نظام جماعت سے واقف کرانے کی ضرورت اور اہمیت نظام جماعت پر تبصرے کرنے کے نقصانات اطفال کی عمر کی بابت نظام بڑے گہرے شرعی فلسفے پر قائم کیا گیا ہے اس کو آئندہ کوئی خلیفہ بھی تبدیل نہیں کر سکتا نعره نعرہ بازی سے اجتناب کرنے کا ارشاد نعروں میں احتیاط کرنے کا حکم خدام اور اطفال کو نماز کے ساتھ نوافل کی طرف توجہ دلائیں نقصان نقصان اور ضیاع ایک بُری چیز جو ناشکری 733 117 158 552 219 379 249 328 493 اور نعمت کی ناقدری کی طرف لے جاتی ہے نگران 388 پہلے خود اپنے نگران بنیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کہ بیوی بچوں اور دامادوں کو نماز کیلئے اُٹھاتے 43 آنحضرت کو حکم کہ اپنے اہل کو نماز کا حکم دیں 326 اپنے بیوی بچوں اور دوستوں کو نماز با جماعت کی ہمیشہ تلقین کرتے رہیں نبی / انبیاء انبیاء کے ساتھ ایک نور ہوتا ہے اور اس کی روشنی کا عام ہوتا.انبیاء کی بعثت کا مقصد.خدا کی شناخت انبیاء جدائیاں پیدا کرتے ہیں کاٹنے والے ہوتے ہیں.لیکن...دور نبوت سے دور ہوتے ہوئے احتیاط کے تقاضے نل آئندہ نسلوں کی نمازوں کی حالت پر غور کرنا بہت ضروری ہے نئی نسل کے لئے قرآن کریم ، نماز اور اس کا تلفظ سیکھنے کی ضرورت نصیحت نصیحت کا انداز نصیحت کرنے سے پہلے خود اپنے ناصح بن جائیں اگر کامیاب نصیحت کرنی ہے تو ہمیشہ آپ کو اپنے بیوی بچوں کے قریب رہنا ہوگا نصیحت کرنے والوں سے تعاون کاگر 493 | نماز نظم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام کی اہمیت اور اس کو یاد کرنے کا ارشاد نظام دنیاوی نظاموں کی حفاظت کا راز

Page 736

144 142 144 129 129 129 15,16 15 607 611 614 430 692 692 692 580 583 نماز با جماعت اور میٹنگز جماعت کے قیام کا اولین مقصد نماز نماز با جماعت اور بیت الذکر میں پڑھنے کی اہمیت جماعت کو نماز کی حفاظت کی ہدایت ربوہ میں نماز کا وہ معیار نہیں رہا جو قادیان میں ہوا کرتا تھا نماز قائم کرنے کے گر نماز بر وقت باجماعت ادا کرنے کی نصیحت ایک صحابی کا عرض کرنا کہ جنگل میں نماز با جماعت کیسے ادا کروں تو آنحضور کا ارشاد بدیوں کے خلاف جہاد.نماز کے ذریعہ نمازوں کو دل لگا کر پڑھنے سے دعاؤں کی قبولیت حضور کا نماز کو اولیت دینا نماز کا ترجمہ ہر احمد کی کو آنا چاہئے نماز کیلئے بچوں پر کوئی سختی کرنے یا مارنے کی ضرورت نہیں نما ز تو انسانی زندگی کی جان ہے نماز دین کا سب سے بڑا تحفہ جو بنی نوع انسان کو پیش کیا گیا ایک بچے کا سوال کہ میں صبح کی نماز کیوں پڑھوں؟ اور حضور کا جواب نماز کی محبت پیدا کرنا اور اس کا فلسفہ بچوں کو سکھایا جائے 734 131 382 610 130 10,12 132 131 243 132 133 138 139 140 141 142,143 143 سب کو نماز کی بابت ذمہ داری پوری کرنا ہوگی حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اپنے بچوں اور بیوی کو نماز کی تلقین کرنا ارشاد مسیح موعود علیہ السلام بابت نماز رفقاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمازوں کی بابت اپنے بچوں اور اہل وعیال کو نصیحت نماز کو وقت پر ادا کرنے کا عہد کریں جلسہ سالانہ کے دنوں میں نماز کے قیام کی طرف توجہ دلانا قادیان قادیان میں نماز با جماعت کا ماحول نمازوں کی بابت ذیلی تنظیموں کو ہدایات غیر معمولی جہاد کے ساتھ نماز کے قیام کی کوشش کرنی چاہئے صدران محلہ ، زعماء انصار اللہ کا فرض نماز نہ پڑھنے والوں کے گھروں میں جائیں نمازوں کی طرف توجہ دلانے اور اس کی برکات نماز کی بنیادی صفات نماز اور عبادت کے بغیر خدا سے تعلق قائم ہوتا ہے نہ مخلوق سے تمام انجمنوں اور ذیلی اداروں کو نماز کی حفاظت کی بابت بنیادی ہدایت اور چھ ماہ کی مہلت دین میں جبر نہ ہونا اور نماز میں جبر...

Page 737

نیز دیکھیں زیر لفظ ” بچے /اولاد 735 وحدت آپس میں محبت کرتے ہوئے.وحدت کا منظر پیش کرنا ہو گا 279,509,510 464 66 46 46 23 23 664 413 600 13 12 377 وسعت حوصلہ کی اہمیت و ضرورت وطن آپ ( دین حق ) کے بھی خادم ہیں اور قوم کے بھی.( دین حق ) وطن کی محبت سکھاتا ہے ہمیں اپنے وطن سے محبت ہے ہر وہ تیر جو اس وطن کی طرف چلایا جائے گا...اپنے ملک کی ترقی اور استحکام کیلئے دعائیں کریں وعده وفا بچوں سے جو وعدہ کرو پورا کرو...اللہ اپنے عبادت گزار بندوں سے کبھی بے وفائی نہیں کرتا 560 436 683 واقفین بچوں میں وفا کا مادہ پیدا کریں وقار عمل 312 وقار عمل کی اہمیت اور یہ کہ یہ سنت ابراہیمی ہے دوسروں کو متاثر کرنے والی چیز وقف جدید وقف جدید کے معلمین کی دعوت الی اللہ کے انداز کی تعریف 53 117 117 میں چاہتا ہوں اس صدی سے پہلے ہر گھر نمازیوں سے بھر جائے اور ہر گھر میں روزانہ تلاوت ہو سفروں میں بھی حضور کا نماز کو ادا کرنا اور پبلک جگہوں پر نماز ادا کرنا دنیا کے بعض ممالک میں نمازوں کو وقت پر ادا کرنے کے مسائل...نماز با جماعت کی اہمیت اور اس کی تحریک نمونه یورپ کو ایک تسکین بخش نظریے کی نہیں نمونے کی ضرورت ہے نوجوان.دیکھیں ”خادم“ احمدی نو جوان اس غلط فہمی کو دل سے نکال 578 703 دے کہ احمدیت صرف وقتی جوش کا نام ہے نور احمدی طلباء ایک نور کے آگے کھڑے ہیں نور نبوت کے چھینٹے دنیا کو عام روشنی سے نیکی منور کرتے ہیں....نیکی سے وابستگی پیدا کرنے کی ضرورت اور طریق و.ہی والدین والدین جب خود ویسا نیک بنیں گے تو اولاد نیک ہوگی

Page 738

399,400 195,196 193 488 21 613 591 432 212 467 225,226 226 واقفین نو کے والدین پر عائد ہونے والی ذمہ داری اور انتظامیہ کی ذمہ داریاں ویڈیو گیمز کے نقصانات بچوں کے اخلاق بگاڑنے میں ویڈیو کیسٹس کا 736 وقف وقف کی تحریک سب سے پہلے حضرت مسیح موعود نے فرمائی بغیر وقف کئے بھی دین کی خدمت کا عہد کریں 680 98 کردار انگلستان میں وقف کی تحریک اور خوشکن نتائج 103 | ہجرت وقف اولا د اور تربیت کی ذمہ داری خدا کے حضور بچہ کو پیش کرنا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہے 402 ہجرت کے تقاضے..ایک ملک سے دوسرے ملک میں ہجرت کرنا 401 اور اس کے فوائد وقف وہی ہے جس پر آدمی وفا کے ساتھ ہجرت کے فوائد تا دم آخر قائم رہتا ہے 415 | ہدایت واقف زندگی ہدایت قرآن سے ہی ملے گی واقف زندگی کے گھرانے کے دوسرے افراد اس کا خیال رکھیں ہرے کرشنا تحریک 425 | ہمدردی ایک واقف زندگی کی چالا کی اور انجام واقفین بچیوں کیلئے ضروری ہدایات واقفین نو کو کم از کم تین زبانوں کا ماہر بنانا ہوگا 414 424 423 بنی نوع انسان کی ہمدردی کی طرف توجہ کرنے کی تحریک غریب کی ہمدردی اور دکھ دور کرنے کی عادت بچپن سے ہی پیدا کریں 419 | یا جوج ماجوج یا جوج ماجوج روس اور امریکہ 410 یا جوج ماجوج سے بچنے کا طریق یہود یہود کیلئے ہفتہ کا دن مقرر کرنا اور عدم احترام کی وجہ سے ملعون قرار دینا 345 ☐ ☐ ☐ 409 406 واقفین نو کی بدنی صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے...واقفین نو کو ذیلی تنظیموں سے وابستہ کرنا بہت ضروری ہے واقفین نو میں مالی امور میں خصوصی احتیاط کی تعلیم بہت ضروری ہے واقفین نو کی علمی بنیا دوسیع ہونی چاہئے واقفین نو میں پیدا کرنے والے اخلاق حسنہ 415,403

Page 739

737 اسماء آپ کی یہ پاکیزہ عادت کہ اپنے بچوں اور ابراہیم.حضرت 535,560 بیوی کو نماز کی تلقین کرتے 561,562,701,702 اقرع بن ہابس حضرت ابراہیم ان معنوں میں امام کہ بعد میں اکرام اللہ آپ کی نیکیاں نسلوں میں جاری رہنا تھیں 702 امة المجيب 147,382 694 115 آپ کا قوم لوط کی بابت اللہ تعالیٰ سے جھگڑنا ابن عباس.حضرت ابن عمر حضرت ابواسامہ - حضرت ابو العطاء.حضرت ابوبکر صدیق.حضرت ابو جہل اس کی دو نوجوانوں کے ہاتھوں ہلاکت ابو رافع بن عمر والغفاری ابو ہریرہ.حضرت احمد یحی.سید اسامہ.حضرت اسلم.راجہ 586 697,699 آکسفورڈ میں پردہ کے ساتھ نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی 644692 | امتیاز احمد نیشنل قائد نجی 677 انس.حضرت 334 انس بن مالک 454,631 | ایاز محمودوایاز کی کہانی 663 ایوب.حضرت 9 ایوب بن موسیٰ.حضرت 695 آدم 608,694 برہان الدین جہلمی.حضرت 671 696 115 163 677 644,691,698,699 61,59 آپ کا صبر و استقامت اور شکر خداوندی کا ایک واقعہ بشیر احمد.حضرت مرزا ایک مجنون پانچ وقت کے نمازی جو دعوت الی 132 بشیر الدین محمود احمد صاحب.حضرت مرزا اللہ کی خاطر روس چلے گئے اسماعیل.حضرت 16,129 535,560,561,562 ///// مصلح موعود 692.699 645 553 553 36 226,265, 394,671 روس میں عظیم روحانی انقلاب کی بابت آپ کی پیشگوئی 503

Page 740

184 35 87 700 334 108 222 224 222 226 675,676 314 421 108 31 93 738 آپ کا ایک رؤیا جس میں ہٹلر کو احمدی دکھایا گیا 504 حمید اللہ.چوہدری آپ کا بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خلیق عالم فاروقی 465 خمینی.امام قیمتی مقالہ جلانے پر حضور کا رد عمل آپ کا اپنے بچوں کو بچپن میں دعا کی طرف توجہ دلانا اور اس ضمن میں حضور کا اپنا واقعہ آپ کی تحریک کہ اپنے واقفین بھائیوں کی ضروریات کا خیال رکھیں آپ کی ایک نصیحت آپ کے خطبات میں مضامین کا تنوع اور وسعت آپ کا جرمن قوم کی بابت حسن ظن اور جرمنی میں مشن کا قیام آپ کا خدام الاحمدیہ کی نسبت یہ مقصد کہ ساری دنیا کی خدمت کرنے والے ہوں آپ کا شعر وہ تم کو حسین بناتے ہیں“ ہ فضل تیرا یا رب 232 وڈز حضرت داؤد کا یہ قول کہ میں بچہ تھا اور اب بوڑھا ہو گیا متقی کی اولا دکورزق..425 | داؤداحمد.میر 47 353 264 237 47 22 ڈارون اس کا نظریہ ارتقاء درست تھا مگر ڈارون غلط تھا ذوالقرنین حضور کی بابت ان الفاظ کا بطور تمثیل منسوب کرنا اور حضور کا روکتے ہوئے اصلاح فرمانا ذوالقرنین اور اس کے متعلق پیشگوئی اور یہ کہ اس کا تعلق خلافت کے ساتھ نہیں ذوالقرنین کی بابت پیشگوئی کی تفسیر مولوی ظفر علی خان کا تبصرہ کہ آپ کی بدولت قادیان کا یکہ ذوالقرنین کا واقعہ اور اس کی گہرائی 353 رسیش راغب.امام مولانا روم مثنوی مولانا روم کی بابت یہ اعتراض کہ اس 181 554 میں بعض مخرب الاخلاق باتیں ہیں کا جواب 697 سپائی نوزا مشہور جرمن فلاسفر خدا کی ہستی کو حسابی نظریہ سے ثابت کرنے والا اس مشہور فلاسفر کا خودکشی کرنا 287,507 122 694 | سٹالن بان بھی سیاست کے گر جانتا ہے مثیل مصلح موعود کا نعرہ حضور کی بابت لگایا جانا اور حضور کا اس پر ارشاد بلال.حضرت ج - چ - ح - خ جابر بن سمر.حضرت چرچل چرچل کا پریشانی کے وقت کوئی اور کام شروع کرنا حسن بن علی ////

Page 741

73 233 185 222 آپ کا سفر سپین اور اس کی تفصیلات آپ کا اپنے بچوں کو دعا کی عادت ڈالنا اور اس ضمن میں عزیزہ طوبیٰ کا ایک واقعہ آپ کی ایک رؤیا جس میں یہ اشارہ کہ نجی قوم میں دعوت الی اللہ کے لئے کوشش کی جائے آپ کی نسبت ”ذوالقرنین کے لفظ کا استعمال اور آپ کا روکتے ہوئے اصلاح فرمانا آپ کے بارے مثیل مصلح موعود کا نعرہ لگایا 739 698 431 سراقہ بن مالک سلمان رشدی اس کا خبیثانہ لٹریچر سلیمان.حضرت کی عدالت میں دو ماؤں کا ایک بچہ کے متعلق کیس سہل بن سعد.حضرت 412 677 420 420 b-b شریک ہومز شیکسپیر طاہراحمد صاحب.حضرت مرزا (حضرت خلیفہ مسیح الرابع ) انگلستان میں رہتے ہوئے آپ کا نمازوں کا التزام کرنا...امریکہ اور یورپ میں بھی لندن میں نئے سال کے موقعہ پر حضور کا اخبار بچھا کر نوافل ادا کرنا قازقستان کی پارلیمنٹ کے ممبر کی حضور سے ملاقات اور آپ کو اعزازی ممبر بنایا جانا آپ کا اپنا اسوہ کہ بچوں سے جو وعدہ کرتے وہ پورا فرماتے.....آپ کا فرمانا کہ میں خدام کو بہت سے کاموں کا ذمہ دار بنانا چاہتا ہوں حضرت مصلح موعود کا اپنے بچوں کو دعا کی طرف توجہ دلانا اور اس ضمن میں حضور گا اپنا ایک واقعہ 13,14 14 489 664 165 جانا اور حضور کا ارشاد آپ کا دورہ نبی کے موقعہ پر ڈیٹ لائن جانا اور ذوالقرنین کی پیشگوئی...محمد ظفر اللہ خان.حضرت چوہدری ظفر علی خان حضرت مصلح موعود کے وسعت علم اور اس کے اثرات کی بابت تبصرہ کرنا ع غ عائشہ حضرت آپ کا فرمانا کہ کان خلقه القرآن آپ کا فرمانا کہ ایک غریب عورت نے اپنی کھجور بھی اپنی بچیوں کو دیں.حضور نے فرمایا کہ اللہ نے جنت اس کے لئے واجب کردی عبدالحق.ماسٹر 232 عبد السلام.ہر علم کے میدان میں سینکڑوں آپ کا سپین کی سیاحت فرما نا اور پاسپورٹ گھر عبدالسلام پیدا کرنے پڑیں گے چھوڑ آنا 80 عبد السلام.ڈاکٹر 181 224 84 353 694,695 490 695 682 33 84,115,116 /////

Page 742

عبدالکریم.مولوی حضرت سیالکوٹی عبداللطیف.حضرت صاحبزادہ عبداللہ خان.حضرت نواب نماز با جماعت سے آپ کا عشق عبداللہ بن عامر عبد اللہ بن عمرؓ عثمان چینی علی.حضرت 665,704 288 740 131 662 700 269,270 49,633,677 631 631 عمر.حضرت مفکرین کا آپ کو عظیم سیاستدان قرار دینا نماز تراویح کی بابت آپ کا اہتمام اور انتظام میں حسن پیدا کرنا عمر بن ابی سلمہ عمرو بن شعیب عیسی.حضرت غالب ( اور اس کے بعض اشعار ) 369 693 692 173 265,339 424,468,494 غلام احمد صاحب.حضرت مرزا علیہ السلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام 32,75 108,522,547,553,554,575,584,586,610 621,696,700 700 685 اولاد کی تربیت کے متعلق حضور کے ارشادات آپ کے دور کی تاریخی اہمیت دعوت الی اللہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کی خواہش اور واقفین کا اس خواہش کو پورا کرنا دعوت الی اللہ کے بارے آپ کا جوش سچی اور کھری بات کرنے میں باریک راہوں کا بھی خیال کرنا آپ کی سیرت کا ایک پہلو کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی خاطر خود فرش پر لیٹ گئے آپ کی جیب میں کسی بچے کا روڑے ڈالنا اور آپ کا حفاظت کرنا آپ کی تحریر میں تکرار نہیں اصرار ہوتا ہے نماز کی بابت آپ کے ارشاد آپ کا سب سے بڑا کارنامہ واپسی کا کارنامہ ہے آنحضرت کے زمانے کی طرف بچوں پر چختی نہ کرنے کا حکم آپ کی کتب کے مطالعہ کی طرف توجہ حضرت مصلح موعود کا آپ کا ایک قیمتی مقالہ جلانا یورپ کی بابت حضرت مسیح موعود کی فراست که آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج آپ کے منظوم کلام کی اہمیت اور زبانی یاد کرنے کا ارشاد آپ کی دعائیں ہماری دولت ہیں آپ کی اس دعا کو شعار بنائیں کہ ”اے دل تو نیز خاطر“ آپ کا ظهر الفساد فی البر “ کی تغییر فرماتا 681 678 665 665 664 622 610 460 704 600 465 430 43 28 لله الله 50 50 الله 73

Page 743

117 586 586 لوظ.حضرت آپ کی قوم پر عذاب کے متعلق حضرت ابراہیم کا خدا سے جھگڑا کرنا من 741 6 198 103,157 32,47 ماٹا.قادیان کے ایک بزرگ مبارک احمد.شیخ صل الله محمد مصطفی اما حضرت 130 48,49,50,51,52,67,73,75,81,203 118 197 265,278,309,315,333,338,344,349, 359,366,367,374,381,382,385 389,393,400,424,431,433,442, 182 444,447,451,452,454,460,466 469,484,490,491,493,494,495 497,498,499,509,510,511,512 116 513,533,537,543,544,553,554 483 562,567,574,575,584,591,593 594,605,608,625,626,634,662 663,666,667,677,680,682,701 442 667 451 493 آپ بندگی کا خلاصہ تھے اور خدا تعالیٰ کا آپ سے سلوک کہ میں تجھے اکیلا نہیں چھوڑوں گا.الیس الله بکاف عبدہ کی تفسیر آپ کے رفقاء کا نمازوں کی بابت اپنے بچوں اور اہل وعیال کو تلقین کرنا اور اس کی آپ کی بعثت میں علوم کا کثرت سے دریافت ہونا آپ کی نظموں پر مشتمل ریکارڈنگ کی ضرورت جماعت کو بڑھانے کا آپ سے خدائی وعدہ اور اس کا پورا ہونا حضور کے ماننے والوں کی علمی ترقی حاصل کرنے کی خوشخبری آپ کا ایک شعر اک سے ہزار ہوویں آپ کا کشف.یورپ میں سفید پرندے پکڑنا 239,319 آپ کا الہام زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے“ آپ کا الہام الیس الله بکاف عبده آپ کو کرشن کنہیا قرار دینا غلام احمد.مرزا ایم.اے فاطمہ حضرت ف کل 280 6 215 122,124 آنحضرت کی سیرت کی مدد سے اپنے رب کی صفات کی شناسائی ضروری ہے ہر چھوٹی اور بڑی بات کے متعلق آپ کی تعلیم ایک عظیم احسان ہے کرشن کنہیا کرم الہی ظفر 694 آپ کیلئے سب سے بڑ اکلمہ تحسین انسه كان ظلوما جهولا 215 آپ سب سے زیادہ گہرائی کے ساتھ اپنی ذات 80,84 کے عارف بنے اور خدا نما وجود بن گئے

Page 744

آپ کی ایک دعا کہ میری اُمت دوسرے انبیاء کی اُمت سے بڑھ کر ہو بنی نوع انسان کی ہدایت کا غم آپ کا ایک شخص کی موجودگی میں دو کا آپس میں بات کرنا کہ تیسرے کو سمجھ نہ آئے اس سے منع فرمانا آپ کی سیرت کا خلاصہ کہ آپ رحمتہ للعالمین تھے آپ کا سب سے عظیم انسانی لقب عبداللہ 742 سیح علیہ السلام.حضرت 484 | مظفر احمد.حافظ 239 | موسی علیہ السلام.حضرت 271 208 208 207 محمد الدین ناز.مرزا ناصر احمد صاحب.حضرت مرزا ( حضرت خلیفة اصبح الثالث) آپ کا علم کی طرف بہت توجہ دینا آپ کا سین جانا اور دعائیں کرنا آپ ہمارے لئے نمونہ ہیں نوح علیہ السلام آپ کے خلاف ہونے والی باتیں اور یہ کہ نورالدین.حضرت حکیم مولوی آپ کو اون“ قرار دینا آپ کا سفر طائف ہمارے لئے اسوہ ہے ایک بدوصحابی کی تربیت کا خوبصورت انداز آپ کا نماز تراویح پڑھانا نماز کیلئے آپ کا اپنے بچوں، دامادوں اور 333 48 389 367 681 219 336,337 396,505,506 219 27 115 78 536 198,676 ,677 356 ( حضرت خلیفہ ایسیح الاوّل) آپ کا جمعہ کی رخصت کیلئے تحریک کرنا نیوٹن اس کا دن رات محنت کرنا 38 وہی ولی اللہ شاہ سید 334 ہٹلر 287,505,508,511,512 بیویوں کو اٹھانا علم اور دوسری زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ دلانا آپ کو حکم کہ اپنے اہل کونماز کا حکم دیں بدر کے موقعہ پر آنحضرت کی دعا 149 116 130 7 ہٹلر کا رویا میں احمدی دیکھا جانا اور بیت اقصیٰ جانا آپ کی خاطر ساری زمین کو مسجد بنایا جانا 15 یعقوب علیہ السلام.حضرت ہم صرف اورصرف محمد کے نمائندے ہیں محمد حضرتی بک محموداحمد ناصر.میر 83 یعقوب علی عرفانی.حضرت 48 یوسف علیہ السلام.حضرت 13,80 ☐ ☐ ☐ 504,508 431 704 431

Page 745

743 ا.آ.ب.ت.ف.فیض ابن عسا کر.تاریخ سنن ابن ماجه کتابیات ق_کل_من 466 | قرآن کریم 360,644,691,698,699 تقریب آمین اور اس کی اہمیت سنن ابو داؤد 697,699,695 ,677,692 تلاوت قرآن.(کیسٹس) کی ضرورت 237,239 قرآن کریم کی تفسیر.گہرے مطالعہ کی متقاضی 238 231 197 226 111 422 قرآن خدا کو پانے کا معقول حل پیش کرتا ہے 174,175 421 قرآن سے محبت نسلوں کو سنبھالے رکھتی ہے 592,593 ازالہ اوہام 622,635 | قرآن کریم کا باقاعدہ مطالعہ کرنے کی نصیحت التقوی- عربی مجلہ الف لیلی.کہانیوں کا مجموعہ الأدب المفرد للبخارى اسلامی اصول کی فلاسفی 575 قرآن کریم کی تلاوت اور تجوید کی طرف توجہ 644,692,694 | قرآنی قوانین کی برتری انجیل کے مقابل قرآن کی تعلیم کی شان 238 قرآن اور آنحضرت کی سیرت سے مدد اپنے آئینہ کمالات اسلام بخاری صحیح بخاری تذکره نرمندی 636 رب کی صفات سے شناسائی ضروری ہے 570 405 کشتی نوح 663,677 693,694,695,696 280,240 کنز العمال لیکچر لاہور مثنوی مولانا روم پر ہونیوالے اعتراض کا جواب 359,608 | صحیح مسلم 442 238 466 158 421 145,359,677,698 7,662,695 158,647 645,692,697,699 مسند احمد بن حنبل 619,639 ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام 678,701,702,703,704 49 226 48 موضوعات کبیر نور اليقين في سیرت سید المرسلین 254 700 ☐ ☐ ☐ 625 //// تفسیر صغیر تفسیر کبیر ذکر الہی.حضرت مصلح موعود کا لیکچر زبور ضرورة الامام

Page 746

744 مقامات اٹلی ا.آ مشن ہاؤس کیلئے زمین خریدنے کا منصوبہ اسلام آباد - لندن افریقہ امریکہ یا دوسری سوسائٹی کو بدلنے کا طریقہ 101 حضور کا امریکہ کی جماعت پر اطمینان 100 دین کی عقل ایشیا اور دنیا کی عقل یورپ و 584 518 393,527 | امریکہ کو دیا جانا 101,278 امریکہ.جنوبی میں مشن ہاؤس کھولنے کا منصوبہ 394,396,407,520 | امریکہ.شمالی افغانستان 272 | اندلس اقصیٰ.بیت اقصیٰ 508 انڈونیشیا اقصی.بیت اقصیٰ 508 انگلستان.انگلینڈ ( نیز دیکھیں لندن، برطانیہ ) 239 101 327 79 79,278 39,77 الحمراء (چین) الماتا امریکہ 76 489 13,75 79,83,102,104,106,119,193,214 83,96,102,109,279,307,345,356 365,369,371,378,429,436,437 466,527,570,576,697 انگلستان میں دین حق قبول کرنے والوں کا 225,226.239.278,344,345,351 واپس چلے جانا اور اس کا سبب..352,357,358,365,394,396,407 انگلستان میں رہتے ہوئے حضور کا نمازوں 415,430,444,488,517,518,519 520,529,565,566,567,568,571,583 کے بارے میں التزام فرمانا 584,585,586,639,640,650,651,655 انگلستان میں وقف کی تحریک اور اس کے خوشکن امریکہ کی جماعت کو اپنی اولاد کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دینے کی ضرورت ہے فتاریخ 650 انگلستان میں رہنے والے عربی اور اُردو زبان امریکہ دعوت الی اللہ میں ترقی کر رہا ہے 585 ضرور سیکھیں امریکہ کے متعلق مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اگر محمد کے نقوش اپنے اندر اپنانے والے تم میں ہوں گے تو امریکہ کو لاز ما بچایا جائے گا اوسلو ایران 587 ایشیا 272 13 103 97 88 87,271,433 407

Page 747

745 دین کی عقل ایشیا اور دنیا کی عقل یورپ و امریکہ کو دیا جانا آٹووا آسٹریا.مشن قائم کرنے میں مشکلات اور کامیابی آسٹریلیا 239 591 283,284,297,334,344,346,365,396 420,466,476,481,485,486,488 505,519,520,547,615,698 پاکستان سے جرمنی جانے والوں کا افسوسناک 308 رویہ اور ان کی بابت حکمت عملی تیار کرنے کا 199,488 115 ارشاد پاکستان میں جمعہ کی رخصت پاکستان کی قوم کا احساس کمتری کے عذاب میں مبتلا ہونا اور اس کا نقصان پاکستان کے احمدیوں کی ذمہ داری کہ سلسلہ کا آکسفورڈ یونیورسٹی میں پردہ میں رہ کر نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی احمدی بچیاں بیت بادشاہی مسجد.لاہور بدر کی جنگ اور آنحضرت کی گریہ وزاری برازیل برصغیر ہند و پاکستان برطانیہ ( نیز دیکھیں انگلستان) مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر حضور کا پیغام بریڈ فورڈ.انگلستان بلغاریہ بوسنیا بیت بشارت.اسپین کے افتتاح کی بابت 346 7 101 505 352,399 مرکز یہاں قائم ہے پشاور ایک احمدی دوست کا استفسار کہ حضرت فضل عمر نے پیدائش سے لے کر سات سال کی عمر کے 157 بچوں کو کسی نظام کے سپر د کیوں نہ کیا اور حضور کا 45 123 561 تفصیلی جواب پنجاب پنجاب کے خطہ کی قوم کی اوّلیت کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت 277 356 118 194 293 293 554 284 487 104 79 561 پنجاب اور شریکے کی لعنت پولینڈ 43,72 351 662 86,277 | پید رو آباد تفصیل بیت فضل لندن بیروت پاکستان 163,282 | ترکی

Page 748

273 277 286 475 475 476 507 508 511 557 558 559 503 505 475 746 ج - چ - چ جرمنی میں بسنے والے احمدیوں کی ذمہ داری 33,35 جرمنی کے نوجوانوں کا غیر معمولی جوش اور قربانی 79,278,444 کا جذبہ اور حضور کا اظہار خوشنودی جاپان جامعہ احمدیہ 402,405,409 | جرمنی کی عظمندی جامعہ احمدیہ میں اٹالین زبان سکھانے کی طرف فوری توجہ کی نصیحت جرمنی 126,270 | جرمنی کی فوجی اہمیت ختم کرنے کی حکمت عملی اور جرمنی کی سیاسی و اقتصادی اہمیت 101 | جرمنی کا جماعت احمدیہ سے بہت ہی حسن و 5,9,103 احسان کا تعلق رہا ہے 253,262,263,264,266,273,274 | جرمنی کا احسان کہ پاکستان کے احمدیوں کو پناہ 277,281,287,289,393,441,449 475,481,483,503,505,511,541 542,557,558,559,561,562,612 دی اور یہ احسان ہمیشہ دعائیں کرنے کی یاددہانی کراتا ہے 613,614,615,699 جرمنی میں اخلاقی بحران اور اس کے اثرات جماعت احمدیہ جرمنی سب دنیا کیلئے نمونہ چندوں کے حوالے سے جرمنی ایک نشان جرمنی کے نوجوانوں کیلئے محبت کے جذبات 613 جرمن قوم تک پہنچنے کیلئے بعض بنیادی صفات کی 4 ضرورت ڈسپلن، اجتماعیت وغیرہ 5 جرمنی میں نفرت کے آثار اور اس کا علاج جرمنی میں احمدیت کی ترقی کے نمایاں امکانات 262 جرمنی میں سو بیوت الذکر بنانے کی تحریک اور جرمن قوم یورپ کی باقی قوموں کی نسبت زیادہ سعید فطرت اور سعادت مند ہے خدا کے شیروں کی طرح اس ملک کو فتح کرنے کا عزم لے کر اٹھیں ایک آزاد قوم اور اپنی ذات میں مستقل صفات رکھنے والی قوم جرمن عورتوں سے حسن سلوک کا ارشاد یورپ کو اگر ہلاکت سے بچانا ہے تو جرمن قوم کو تفصیلی راہنمائی 263 جرمنی کے بچوں پر حضور کا اظہار خوشنودی جرمنی میں بیوت الذکر کی تعمیر کیلئے بچوں کی ٹیم 261 | بنانے کا مشورہ 444 | شاندار نمونه 273 جرمن قوم میں نیکی کی بڑی صلاحیتیں موجود ہیں جرمنی کی خدام الاحمدیہ کا نماز باجماعت کا مغربی اور مشرقی جرمنی کا اتحاد اور بعض پہلوؤں بجائے بغیر ممکن نہیں.جرمن قوم کی اہمیت 274 کی طرف اشارہ

Page 749

747 مشرقی جرمنی کی طرف توجہ کرنے کی نصیحت 477 | ( بیت ) سپین مشرقی جرمنی کو دین حق کی طرف بلائیں اور اپنی دعاؤں میں یادرکھیں جھنگ جنیوا چین صحابہ میں سے کسی کے چین جانے کا ذکر حیدرآباد ڈر.زیس ڈزنی لینڈ پین میں دعوت الی اللہ کا منصوبہ.دوسرے 478 | ممالک سے چھٹیاں وہاں گزار نے جائیں 199 اہل پین کا والہانہ استقبال 86 سپین میں مظالم 104,117 سپین میں عیسائی قوم کے ظلم....278,444,643 | بيت بشارت سپین کے افتتاح کا تفصیلی ذکر 681 سپین کا شاندار ماضی 73 سپین کیلئے محبت کا پیغام سعودی عرب 415 سندھ کے ایک دوست کی رؤیا جس میں انہوں ڈبیٹ لائن حضور انور کا وہاں تشریف لے جانا 225 نے الیس الله بکاف عبدہ کی انگوٹی سے راولپنڈی ربوه 269 شعائیں نکلتے ہوئے دیکھا 57,63 سویڈن 271,132,133,134,365,422,520 | مجلس خدام الاحمدیہ سویڈن کے اجتماع کے لئے قادیان اور ربوہ میں رمضان کا پاکیزہ ماحول ربوہ میں اجتماعات پر پابندی لگانے کا پس منظر 366 394 حضور کا پیغام سوئٹزرلینڈ ربوہ کو زبان سکھانے کا ماڈل بنانے کا منصوبہ 126 | سیالکوٹ رتن باغ.لاہور روس زیورچ سان فرانسسکو سپین 131 104,122 سٹیل طع_غ_ف 225,226,444,489,503 طائف کا واقعہ ہمارے لئے اسوہ ہے ہم نے 33 کسی سے انتظام نہیں لینا 517 74,75,78 عرب 81,82,83,84,86,223 | غرناطه //// 46 102 79 76 77 75 45 و له لا بد له من الله 72,73 433 183 263 153 33,84,86 553 517 48 7,8,116 554,605,643 76,81,82

Page 750

رحم 748 33 فارمولا 163,184 | لاس اینجلس 185,189,207,224,225,226,396 دورہ نجی کی تفصیلات فرانس فرانس کی ایک کہانی فرینکفرٹ قک قادیان لاہور 183 لمبا سا.نجی کا ایک جزیرہ 32,101 لندن.نیز دیکھیں انگلستان 213 | یونیورسٹی آف لندن 517,518 349,350,351,421 186 557 لندن میں نئے سال کے موقعہ پر حضور کا 232,233 نوافل ادا کرنا ليبيا 239 270 14 433 77 101 591 380 7,554,605 278 115 393 517 223 186 334,353,365,368,422,448,508 | مادام تساؤ 521,522,554 قادیان کی سادہ زندگی سے متاثر ہونے والے لوگ اور اس کو جنت قرار دینا...قادیان کے ایک بزرگ ماٹا صاحب قادیان میں نماز با جماعت کا خوبصورت ماحول قادیان اور ربوہ میں رمضان کا پاکیزہ ماحول قازقستان کے ایم پی اے کا حضور سے ملنا اور حضور کو مرکزی کمیٹی کا اعزازی ممبر بنانا قرطبه کراچی کعبہ.خانہ کعبہ کی تعمیر وقار عمل کے ذریعہ ماریشس مانٹریال 522 مشرقی ممالک کے تربیتی مسائل مکه ملائیشیا ملتان 198 131 366 489 ناروے 82 | نیویارک 183,347 | ویانا 560 و بینوالیوہ نبی کا ایک جزیرہ 33 ھی 561 ہالینڈ کوریا کوسووو کینیڈا 83,517 ہالینڈ کا پہلا یورپین اجتماع اور حضور کا خطاب 591,592,594,600 | ہانگ کانگ 393,423,441 307 33

Page 751

308 309 310 311 312 313 432 274 274 281 238 477 671 517 749 ہمبرگ ہندوستان 557 یورپ میں احمدیت کو متعارف کرانے میں 75,181 | وقتیں.284,300,396,420 یورپین قوموں کی ذہانت ہندوستان اور پاکستان کی قوم کا احساس کمتری میں مبتلا ہونا اور اس کے نقصانات ہیتھ لینڈ ہنسلو.برطانیہ یو پی کے علاقہ کی خوبی کہ بچوں سے عزت سے پیش آنا اور آپ“ کہہ کر مخاطب کرنا یورپ یورپ کے نوجوان کی بغاوت کہ نظریہ کو صرف 118 دعوی کی بناء پر تسلیم نہیں کریں گے 157 یورپین معاشرے کے دکھ اور اس کا اظہار.نئی طرز کے لباس سے......699 یورپ کو تسکین بخش نظریے کی نہیں تسکین بخش 5,13,75 نمونے کی ضرورت ہے 97,102,106,116,121,214,237 239,240,263,271,273,274,278 یورپ کو خدا چاہئے.آپ لوگ خدا کو فرضی 287,310,316,352,365,393,396 وجود کے طور پر پیش نہ کریں 407,429,430,431,475,506,507 508,513,529,570,615,697 یورپ کا مزاج اور دعوت الی اللہ کے تقاضے یورپ کو ہلاکت سے بچانا ہے تو جرمن قوم کو یورپ کے ممالک کا بیت بشارت کے افتتاح کو کوریج دینا یورپ میں بسنے والوں کو ( دین حق) کی طرف 86 ہلاکت سے بچائے بغیر یورپ نہیں بچ سکتا یورپ بھر میں جرمن قوم کی اولیت اور اہمیت بلانے کیلئے اپنا طرز زندگی ان سے بہتر بنانا ہوگا 153 یورپ میں مقیم نو جوانوں کی تربیت کا مسئلہ یورپین جماعتوں میں حیرت انگیز روحانی تبدیلی 73 یورپ کے احمدی نوجوانوں کے فرائض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے یورپ کے ممالک میں احمدیت کی بذریعہ اخبارات تشہیر یورپ ،سائنس اور سچائی 74,75 مطابق بنی نوع انسان کی خدمت 30 مشرقی یورپ اور روس اگر سرمایہ داری کی طرف لوٹیں گے تو شدید نقصان اُٹھا ئیں گے یورپ کی تاریخ میں سائنسدانوں کو سچائی کے الزام میں آگ میں زندہ جلا دینا 30 یوکے کے خدام کو جرمنی کے خدام کی طرح بہتر یورپ کی علمی اجارہ داری کو سچائی کی بدولت ختم کارکردگی دکھانے کی خواہش کا اظہار 33 یونائیٹڈ اسٹیٹس.نیز دیکھیں امریکہ 307 ہونے والے ممالک جاپان، کوریا وغیرہ خدام الاحمدیہ یورپ کا اجتماع

Page 751