Mashal-e-Rah Volume 2

Mashal-e-Rah Volume 2

مشعل راہ۔ جلد دوم

خدام الاحمدیہ سے متعلق خطبات و تقاریر کا مجموعہ
Author: Hazrat Mirza Nasir Ahmad

Language: UR

UR

حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب، خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے مجلس خدام الاحمدیہ کے متعلق فرمودات کا مجموعہ ہے جوآپ کی تحریرات اور خطابات سے ماخوذ ہے۔ قریبا 600 صفحات پر مشتمل ان قیمتی نصائح کا مطالعہ خدام کو وہ جوش و ولولہ بخشتا ہے کہ ’’سست کبھی گام نہ ہو‘‘ کی نصیحت پر عمل پیرا ہونے لگتے ہیں۔ کتاب کے آخر پر تفصیلی انڈیکس کے علاوہ شروع میں فہرست مضامین دی گئی ہے۔


Book Content

Page 1

نمبر شمار فهرست تفصیلی انڈیکس کتاب کے آخر پر ملاحظہ فرمائیں) نام خطاب 1 اطفال الاحمدیہ کے نام حضور کا پہلا پیغام صبح کے وقت ہر احمدی تلاوت کریم کرے 3 مہتممین اور قائدین ضلع سے خطاب 4 احمدی نوجوان اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں سالانہ تربیتی کلاس افتتاحی خطاب 6 خطبه جمعه سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ اختتامی خطاب صدر مجلس خدام الاحمدیہ.مرزار فیع احمد صاحب کی الوداعی تقریب سے خطاب سالانہ تربیتی کلاس.اختتامی خطاب 10 خطبہ جمعہ 11 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ.افتتاحی خطاب 12 سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ 13 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ اختتامی خطاب 14 سالانہ تربیتی کلاس افتتاحی خطاب 15 سالانہ تربیتی کلاس اختتامی خطاب 16 خطبہ جمعہ 17 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ.افتتاحی خطاب 18 سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ 19 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ اختتامی خطاب 20 خطبه جمعه 21 سالانہ تربیتی کلاس _ افتتاحی خطاب 22 انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کراچی سے خطاب 23 خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب تاریخ صفحہ نمبر 11 دسمبر 1965 19 فروری 1966 29 مئی 1966 جون 1966 3 جون 1966 7 اکتوبر 1966 23 اکتوبر 1966 1 2 3 8 9 18 21 38 1966131 39 47 51 57 73 1967122 13 مئی 1967 29 ستمبر 1967 20 اکتوبر 1967 21 اکتوبر 1967 26 اپریل 1968 86 10 مئی 1968 92 97 196818 107 196818 118 1968 19 125 1968120 4 اپریل 1969 128 11 جولائی 1969 | 130 6 ستمبر 1969 7 ستمبر 1969 135 159

Page 2

نمبر شمار نام خطاب 24 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ افتتاحی خطاب 25 سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ 26 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ اختتامی خطاب تاریخ صفحہ نمبر 17 اکتوبر 1969 - 174 18اکتوبر 1969 | 184 19 اکتوبر 1969 | 192 27 حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ کی الوداعی تقریب سے خطاب 29 اکتوبر 1969 210 28 ابادان نائیجیریا یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب 3 اپریل 1970 220 29 محمود ہال لندن میں خدام الاحمدیہ سے خطاب 30 ایبٹ آباد.علاقائی اجتماع سے خطاب 31 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ افتتاحی خطاب 32 سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ 33 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ اختتامی خطاب 34 سالانہ تربیتی کلاس اختتامی خطاب 35 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ اختتامی خطاب 37 سالانہ تربیتی کلاس سے خطاب 38 سالانہ تربیتی کلاس اختتامی خطاب 39 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ افتتاحی خطاب 40 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ اختتامی خطاب 41 ربوہ کے اجتماعی وقار عمل سے حضور کا خطاب 42 تربیتی کلاس افتتاحی خطاب 43 سیلاب کے سلسلہ میں خدام الاحمدیہ کی خدمات پر اظہار خوشنودی 44 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ.افتتاحی خطاب 3 اپریل 1970 230 26 ستمبر 1970 | 238 240 1970116 260 1970117 260 1970118 269 10 جون 1971 277 197118 297 197110 307 338 345 363 7 جون 1972 8 جون 1972 5 اکتوبر 1972 9اکتوبر 1972 24 اپریل 1973 367 18 مئی 1973 2 نومبر 1973 4 نومبر 1973 369 381 382 394 45 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ.اختتامی خطاب 46 صدر خدام الاحمدیہ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کی الوداعی تقریب سے خطاب یکم دسمبر 1973 | 414 47 سالانہ تربیتی کلاس.اختتامی خطاب 48 خدام الاحمدیہ کے نام پیغام 49 خدام الاحمدیہ کے نام پیغام 2 مئی 1973 416 422 423

Page 3

نمبر شمار 50 احباب جماعت کے نام پیغام 51 سالانہ تربیتی کلاس.افتتاحی خطاب نام خطاب 52 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ.افتتاحی خطاب 53 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ.افتتاحی خطاب 54 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ.اختتامی خطاب 55 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ.افتتاحی خطاب 56 سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ 57 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ.اختتامی خطاب 58 سالانہ تربیتی کلاس.افتتاحی خطاب 59 سالانہ تربیتی کلاس اختتامی خطاب 60 خطبه جمعه 61 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ.افتتاحی خطاب 62 سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ 63 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ.اختتامی خطاب تاریخ صفحہ نمبر 424 16 اپریل 1976 | 426 18 اپریل 1976 | 433 4 نومبر 1977 6 نومبر 1977 435 446 464 1978120 476 1978121 22 اکتوبر 1978 - 485 499 506 1979 1979 14 ستمبر 1979 - 508 19اکتوبر 1979 | 512 20 اکتوبر 1979 | 522 527 1979121 530 64 صدر مجلس خدام الاحمدیہ صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کی الوداعی تقریب سے خطاب 7 نومبر 1979 65 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ 66 احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن سے خطاب 67 سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ 68 سالانہ تربیتی کلاس.اختتامی خطاب 69 اجتماع اطفال اڑیسہ بھارت کو پیغام 70 خطبه جمعه 71 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ.افتتاحی خطاب 72 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ.اختتامی خطاب 73 گیسٹ ہاؤس میں عشائیہ سے خطاب 74 سالانہ تربیتی کلاس.اختتامی خطاب 532 7 نومبر 1980 10 نومبر 1980 539 8 نومبر 1980 7 مئی 1981 541 543 549 18 ستمبر 1981 | 551 23اکتوبر 1981 | 558 570 1981125 3 نومبر 1981 578 584 198206

Page 4

Page 5

دومشعل دوم 2 فرموده ۱۹۶۶ء 2 صبح کے وقت ہر احمدی تلاوت قرآن کریم کرے حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحم اللہ تعال نے فرمایا:- قرآن کریم سے اتنا پیار کرو کہ اتنا پیار تمہیں دنیا میں کسی اور چیز سے نہ ہو.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جماعت اس طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہورہی ہر احمدی کا گھر ایسا ہونا چاہئے کہ اس میں رہنے والا ہر فر د جو اس عمر کا ہے کہ وہ قرآن کریم پڑھ سکتا ہو صبح کے وقت اس کی تلاوت کر رہا ہو.الفضل ۱۹ فروری ۱۹۲۶ء)

Page 6

3 فرموده ۱۹۶۶ء دومشعل راه جلد دوم ۲۹ مئی ۱۹۶۶ کومجلس خدام الاحمد بی مرکز بہار وہ کے ہال میں قائدین اضلاع اور مرکزی متمین خدام الاحمدیہ سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے خطاب کا مکمل متن تشہد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا قانون قدرت بھی یہی ہے اور الہی سلسلوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ بعض حالات میں تھوڑی کوشش کا بھی نتیجہ نکلتا ہے اور بعض حالات میں اتنی ہی کوشش کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نہیں نوازتا اور اس کا وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو ہم چاہتے ہیں کہ نکلے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک پہاڑ پر انسان چڑھ رہا ہو اب بعض جگہ پہاڑ کا سلوپ (Slope) زیادہ نہیں ہوتا اس لئے انسان تھوڑی سی محنت سے چڑھائی چڑھتا چلا جاتا ہے یعنی تھوڑی سی کوشش سے وہ بلندی حاصل کر سکتا ہے لیکن بعض ایسی جگہیں بھی آجاتی ہیں جہاں سلوپ بڑا سٹیپ (Steep) یعنی بہت زیادہ سیدھا ہوتا ہے وہاں اگر اتنی کوشش کی جائے جو کم چڑھائی پر کی جاتی ہے تو اس کا نتیجہ ایک انچ آگے نکلنا بھی نہیں نکلتا بلکہ وہاں انتہائی کوشش کرنی پڑتی ہے ورنہ انسان اتنی بلندی پر نہیں پہنچ سکتا جس تک پہنچنے کا اس نے ارادہ کیا ہوتا ہے یہی حال الہی سلسلوں کا ہے.بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ تھوڑی سی کوشش سے بھی کچھ نہ کچھ نتیجہ نکلنا شروع ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ الہی سلسلہ ایسی حالت میں داخل ہوتا ہے یا وہ ایسی حالت میں سے گزر رہا ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر اور اس وقت میں انتہائی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے.اس وقت ہماری جماعت ایک نازک دور میں داخل ہو چکی ہے اور ہمارے سامنے عام سلوپ ( ڈھلوان ) نہیں کہ ہم تھوڑی سی کوشش کے نتیجہ میں بھی آگے ہی آگے بڑھتے جائیں بلکہ اگر ہم اس مثال کو سامنے رکھیں تو اس وقت ہم جن بلندیوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ قریباً عمودی چڑھائی پر واقع ہیں.ہم نے ان بلندیوں پر بہر حال چڑھنا ہے اگر اس وقت ہم میں کوئی خامی پیدا ہو جائے یا ہم سے ذراسی کو تا ہی بھی سرزد ہو جائے تو ہم کسی صورت میں بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.اس وقت احمدیت کی حالت ہم سے انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کر رہی ہے اور اگر اس وقت ہم انتہائی جد و جہد.انتہائی قربانی اور انتہائی ایثار کانمونہ نہ دکھا ئیں تو جماعت کسی صورت میں بھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتی.پس ہماری اس نسل پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ہمیں اس وقت انتہائی کوشش اور انتہائی مجاہدہ کی ضرورت ہے.مجالس کے کام کا جائزہ....ر پورٹس کی ترسیل اس موجودہ حالت میں اور مذکورہ نقطہ نظر کے لحاظ سے خدام الاحمدیہ کے کام پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ مجلس کے بعض ممبر بڑا ہی اچھا کام کرنے والے ہیں.اور بعض مجالس ایسی ہیں جن کا کام واقعہ میں اچھا اور قابل

Page 7

فرموده ۱۹۶۶ء 4 د دمشعل راه جلد دوم قدر ہے لیکن خدام الاحمدیہ کی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور ان کا بڑا حصہ ایسا ہے جس کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس کم سے کم معیار کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہے جو ایک احمدی کا ہونا چاہئے.مجالس کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ نقشہ نظر آتا ہے کہ جہاں بعض اچھا کام کرنے والی مجالس ہیں وہاں بعض ایسی مجالس بھی ہیں جو سال میں ایک رپورٹ بھی مرکز میں نہیں بھجواتیں یا سال میں ایک آدھ رپورٹ کے علاوہ کوئی رپورٹ ان کی طرف سے مرکز میں موصول نہیں ہوتی اور یہ حالت بہت فکر یدا کرنے والی ہے.اس لئے مجالس خدام الاحمدیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہرممبر اور اپنی ہر مجلس کو اٹھا کر کم سے کم اس معیار تک لے جائیں جو ان کے ذہن میں ہے.اگر جماعت کے نوجوانوں میں دس ہیں یا تمیں فیصدی ہی کام کرنے والے ہوں تو ظاہر ہے کہ ہم وہ نتیجہ حاصل نہیں کر سکتے جس کی امید ہم سو فیصدی کی صورت میں اپنے رب سے رکھتے ہیں.جہاں تک مرکز کا سوال ہے وہ ہمیشہ ہی اس طرف تھوڑی بہت توجہ کرتا رہا ہے اور کرتا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہم اس وقت زندگی کے ایک نازک دور میں داخل ہو چکے ہیں.اگر اس وقت ہم سے کوئی سستی ہو یا غفلت کا ہم شکار ہوں تو اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گا.اس وقت ہماری جماعت پر ہے سال کے قریب عرصہ گزر چکا ہے اور ابتدائی کام جو اللہ تعالیٰ نے اس سے لینا تھا وہ لے چکا ہے اور جو مضبوط بنیاد یں اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ قائم کرنی تھیں وہ ایک حد تک قائم ہو چکی ہیں.اس کے بعد اب ان پر روشنی نور محبت الہی عشق رسول اور فدائیت کے جذبہ کے مینار بلند پر قائم ہونے کا وقت آ گیا ہے.اب ہمیں مناسب تیزی کے ساتھ کام کرنا چاہئے تا ہم آخری اور شاندار کامیابی حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کا وہ فضل جو جماعت کی ترقی کی راہ پر ایک خاص مقام پر نازل ہوتا ہے وہ ہماری زندگی میں اور جلد تر ہمارے سامنے آجائے.مجلس کا کم سے کم معیار پس میں اس وقت اپنے نوجوان بھائیوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نو جوان جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں.چاہے وہ مرکزی عہدیدار ہیں کہ ان پر ساری مجالس کی نگرانی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا علاقائی اور ضلعی عہد یدار ہیں کہ ان پر علاقائی اور ضلعی منصوبوں کو پورا کرنا فرض ہے.آپ میں سے کوئی شخص اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتا (اگر اس خوشی کے معنی حقیقی طور پر خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے جائیں) جب تک آپ کے ماتحت یا آپ کے علاقہ یا آپ کے ضلع میں ایک مجلس بھی ایسی ہے جو کم سے کم معیار پر نہیں آئی اگر آپ اس بات سے تسلی پکڑ لیں کہ ہم چونکہ نسبتاً اچھا کام کر کے علم انعامی حاصل کر لیتے ہیں اس لئے ہم اچھا کام کرنے والے ہیں تو یہ غلطی ہوگی.اگر مثلاً آج میں یہ اعلان کر دوں کہ آئندہ صرف اس قیادت کو علم انعامی دیا جائے گا

Page 8

5 فرموده ۱۹۶۶ء د و مشعل راه جلد دوم جس کی ساری مجالس کم سے کم معیار تک پہنچ چکی ہوں تو ایک ضلع بھی علم انعامی کا مستحق قرار نہیں دیا جا سکتا.پس اگر نسبتی طور پر اچھا کام کرنے کے نتیجہ میں تم کوئی انعام نظام سے حاصل کرتے ہو تو وہ اس لئے تمہارے لئے حقیقی خوشی کا باعث نہیں ہونا چاہئے کہ وہ کام اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ مقام پر نہیں پہنچا.غرض جب تک ہم تمام مجالس کو بیدار کر کے اور انہیں کام کی اہمیت بتا کر فعال مجالس نہیں بنا دیتے اس وقت تک ہمیں تسلی اور اطمینان حاصل نہیں ہوسکتا.حقوق اللہ اور حقوق العباد اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو فرمایا ہے کہ قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.یہ دراصل أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ کی ہی تفسیر ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی مومن کو کسی جماعت مومنین کو یا نظام کے اندر رہ کر مجالس خدام الاحمدیہ یا جماعت ہائے احمدیہ کو ایک مقام ایسا بھی حاصل ہوتا ہے جس پر پہنچ کر اس فرم مجلس یا جماعت کی زندگی کا ہر فعل خدا تعالیٰ کے لئے بن جاتا ہے اس لئے یہ تصور بھی بالکل درست ہے کہ عبادت کی نسبت خدا تعالیٰ کو اعمال زیادہ محبوب ہوتے ہیں.ویسے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر عبادت عمل ہے اور ہر شکل کے عمل عبادت کا ہی پہلو اپنے اندر رکھتے ہیں لیکن عبادات یا اعمال کو دو حصوں میں منقسم کیا گیا ہے.ایک حصہ کو حقوق اللہ اور ایک حصہ کو حقوق العباد کہتے ہیں.جب ہم حقوق اللہ کو ادا کر رہے ہوتے ہیں تو ان میں ایک حصہ حقوق العباد کا بھی شامل ہوتا ہے.مثلاً نماز ہے ہم مسجد میں جاتے ہیں اور نماز باجماعت ادا کرتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے جو ہم ادا کر رہے ہوتے ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ ہم اس کے مطیع اور فرمانبردار بندے بنتے ہوئے اس کی حمد کریں.اس کی بلندی اور عظمت کا اظہار کریں.تضرع اور عاجزی سے اس کے سامنے جھکیں.غرض نماز ادا کر نا خالصتا اللہ تعالیٰ کاحق ہے لیکن اس نماز کی ادائیگی میں بھی ہم حقوق العباد ادا کر رہے ہوتے ہیں مثلاً نماز میں ہم اپنے لئے اپنے رشتہ داروں کے لئے مجلس اور جماعت کے لئے یا تمام بنی نوع انسان کے لئے دعا کرتے ہیں اور یہ دعا والا حصہ حقوق اللہ میں شامل نہیں کیونکہ اس حصہ میں ہم صرف اس کی حمد نہیں کر رہے ہوتے بلکہ حمد کے قیام کے لئے سامان کر رہے ہوتے ہیں.ہم یہ سامان کر رہے ہوتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ آدمی اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرتے ہوئے اس کی حمد میں مشغول ہوسکیں.یہ حصہ حقوق العباد میں شامل ہے کیونکہ گو ہم نماز میں خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں اور اسی سے مانگتے ہیں لیکن مانگتے بنی نوع انسان کے لئے ہیں.پس حقوق اللہ میں حقوق العباد کا ایک حصہ بھی شامل ہوتا ہے.پھر جن اعمال کو ہم حقوق العباد کے نام سے موسوم کرتے ہیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ کا حق آ جاتا ہے.کیونکہ ہر عمل کی بنیاد (اگر وہ عمل صالح ہے تو اللہ تعالیٰ کے حق پر ہے کیونکہ کوئی عمل چاہے وہ کیسا ہی ہو وہ کیا ہی اس لئے جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو وہ خدا تعالیٰ کی خاطر بجالایا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر بجالایا جانے والا حصہ جو ہے وہ بہر حال خدا تعالیٰ کا حق ہے

Page 9

فرموده ۱۹۶۶ء 6 د دمشعل را قل راه جلد دوم جسے ہم ادا کر رہے ہوتے ہیں.گو ہم بظاہر وہ عمل اپنے لئے یا دوسرے بنی نوع انسان کے لئے کر رہے ہوتے ہیں لیکن چونکہ ہر عمل کی بنیاد خدا تعالیٰ کی رضا پر ہے اس لئے ہم اس کو بجالانے کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کے حق کو بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں.اسلام نے ہمیں نہایت اعلیٰ اور نہایت وسیع تعلیم دی ہے.اگر ہم اس کو صحیح طور پر سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ہوں تو ہماری اس زندگی کا ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوتا ہے اور اس طرح وہ عبادت بن جاتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے خاندان پر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خرچ کرتا ہے وہ صدقہ ہے اب دنیا میں ہر کمانے والا شخص ( الا ماشاء اللہ کہ بعض لوگ غلط کام کرنے والے بھی ہوتے ہیں وہ مشقی ہیں ) اپنے خاندان کا خیال رکھتا ہے کوئی دہر یہ ہو عیسائی ہو ہندو ہو بدھ مذہب کا ہو مشرک ہو یا مسلمان ہوں ہر شخص کماتا ہے اور اپنے خاندان پر خرچ کرتا ہے لیکن اگر ایک مسلمان کماتا ہے اور اپنے خاندان پر خرچ کرتا ہے تو وہ اس نیت سے ایسا کر رہا ہوتا ہے کہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہے وہ اپنی کمائی اپنے بیوی بچوں پر اس لئے خرچ کر رہا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ایسا کرنا تمہاری ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو تم نے صحیح طور پر نبھانا ہے.اب دیکھو یہ دنیا کا کام ہے اس میں بندوں کے حق کی ادائیگی نمایاں نظر آتی ہے لیکن اس کی روح اللہ تعالیٰ کا حق ہی ہے.اس میں انسان مَحْيَايَ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے.وہ یہ بتارہاہوتا ہے کہ اس کی زندگی.اس کا ہر عمل اس کی ہر جد و جہد اور اس کی ہر کوشش لِرَبِّ الْعَالَمِینَ یعنی خدا تعالیٰ کے لئے ہے اور جب کسی کو یہ مقام حاصل ہو جائے تو دنیا میں حقوق العباد کے سلسلہ میں اس کے اعمال حقوق اللہ کے سلسلہ میں بجا لائے جانے والے اعمال سے آگے نکل جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہاما فرمایا ہے ” تیری نمازوں سے تیرے کام افضل ہیں کیونکہ عبادات محض خدا تعالیٰ کے لئے کی جاتی ہیں اور وہ خدا تعالی کا ہی حق ہوتی ہیں لیکن جو صحیح عمل حقوق العباد کے سلسلہ میں کیا جاتا ہے اس میں حقوق اللہ کا پہلو بھی شامل ہوتا ہے کیونکہ اس کی بناء خدا تعالیٰ کی رضا کی جستجو پر ہوتی ہے.گو وہ عمارت تو حقوق العباد ہے لیکن جن بنیادوں پر اسے کھڑا کیا گیا ہے وہ رب کی تلاش ہیں.اس لئے مَحْيَايَ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ کے مقام پر کھڑے ہو کر خدا تعالیٰ اور بندے کے دونوں حقوق ادا ہو جاتے ہیں.اس قسم کے اعمال ارتقائی تبدیلی اور تدریجاً انقلاب پیدا کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کے نتیجہ میں مخلوق زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکتی ہے اس لئے یہ اعمال صرف عبادت کا ماحول رکھنے والے اعمال کی نسبت خدا تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ مقبول اور زیادہ پیارے ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ اسلام میں رہبانیت کو پسند نہیں کیا گیا اور نہ مسلمانوں میں پیدا ہونے والے لاکھوں خدا رسیدہ لوگ اگر انہیں اجازت دی جاتی تو وہ دنیا میں اپنی زندگی بسر نہ کرتے وہ پہاڑوں کی تنہائیوں میں نکل جاتے اور اپنی ساری زندگی خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزار دیتے لیکن جب بھی ان بزرگوں کا خیال اس طرف جاتا تو انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے لکھا ہوا ایک بورڈ نظر آتا کہ تم مجھے تنہائی میں نہیں بلکہ انسانوں کے مجمعوں میں تلاش کرو اس لئے وہ اس دنیا کی 66

Page 10

فرموده ۱۹۶۶ء د مشعل راه جلد دوم طرف آتے اور اپنی زندگی کا ہرلمحہ مخلوق کی خدمت میں محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے خرچ کرتے.پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ جماعت جلد اس مقام کو حاصل کرلے جیسا کہ میں نے شروع میں بیان کیا ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی ایک نازک دور میں داخل ہو گئے ہیں اور ہماری مثال ایک کوہ پیاسی ہے اور بلندیوں پر چڑھتے ہوئے پہاڑ کے بعض ایسے مقامات بھی آجاتے ہیں کہ جہاں وہ عمودی شکل اختیار کر لیتا ہے.اس وقت کوہ پیما کو اپنے حواس اپنے ذہن اپنی استعدادوں اور اپنی قوتوں کو انتہائی طور پر صرف کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے وہ وقت انتہائی جد و جہد کا ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصہ کے لئے بھی اس کی توجہ دوسری طرف ہوگئی تو اس کا پاؤں پھسل جائے گا اور وہ کسی کھڑ میں گر کر مر جائے گا کہ میں سمجھتا ہوں بالکل یہی مقام اس وقت ہمارا ہے.ہمیں ایک بڑی لمبی اور عمودی پہاڑی اور ایک بڑے خطرناک راستے کو طے کرنا ہے اور یہ کام پوری جدوجہد اور کوشش کے بغیر نہیں ہو سکتا.اس لئے اپنے اس مقام اور وقت کو پہنچانتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی میں انتہائی جدوجہد اور کوشش سے لگ جائیں.میں پھر کہتا ہوں کہ حقوق اللہ میں سے سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اگر ہمارا ایمان پختہ ہے.ہم احمدیت کو ورے یقین سے مانتے ہیں اور اسے پہچانتے ہیں تو ہمیں نظر آ رہا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جھٹلایا اور وہ آپ پر ایمان نہیں لائے وہ نار جہنم کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس نار جہنم سے انہیں بچانا ہمارا فرض ہے اور ہمارے سوا انہیں اس آگ سے کوئی بچا بھی نہیں سکتا.کیونکہ ہم احمدی ہیں اور اس زمانہ میں یہ فرض خدا تعالیٰ نے ہمارے ہی ذمہ لگایا ہے غرض اس وقت ایک دنیا ہجوم کر کے جہنم کی طرف بڑھ رہی ہے.اور ہم چند آدمی ہیں.ہماری تعداد بہت قلیل ہے اتنے بڑے ہجوم کے ریلے کو ہم بھلا کس طرح روک سکتے ہیں.اس ہجوم کے ریلے کو اس وقت روکا جا سکتا ہے.جب پوری جدوجہد کی جائے.میں پھر کہوں گا کہ ہمارے لئے آج بڑا نازک وقت ہے انتہائی کوشش کا وقت ہے.انتہائی جدوجہد کا وقت ہے انتہائی مجاہدات کا وقت ہے.انتہائی ایثار اور قربانی دینے کا وقت ہے اس وقت ہم نے ذرا بھی سستی کی تو نہ ہم اس دنیا میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس لعنت سے محفوظ رکھے اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی توفیق عطا کرے.( بحوالہ روزنامه الفضل ۲۳ جون ۱۹۶۶ء)

Page 11

دومشعل دوم 4 فرموده ۱۹۶۶ء 8 احمدی نوجوان اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا ارشاد:- مشرقی افریقہ ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے حالات کا یہی تقاضا ہے کہ ہمارے احمدی نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنی زندگیاں وقف کریں اور یہاں مرکز میں رہ کر تربیت حاصل کریں اور اس کے بعد بیرون پاکستان تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کریں.اس وقت ایک تو ہمارا طریق جامعہ احمدیہ میں داخل کر کے باقاعدہ مربی بنانے کا ہے لیکن جس تعداد میں نوجوان جامعہ احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں اور ایک لمبے عرصے تک تعلیم ختم کر کے وہ با قاعدہ مربی بنتے ہیں اسے دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہماری ضرورت کے ہزارویں حصہ کو بھی پورا نہیں کرتے.....اس وقت اسلام خطرہ میں ہے اور ہمیں ہر مصیبت اور تکلیف برداشت کر کے بھی محمد رسول اللہ کے جھنڈے کو دنیا میں بلند کرنا ہے تو حید باری تعالیٰ کو دنیا میں قائم کرنا ہے پس ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اسلام کی ضرورت کی طرف متوجہ ہوں اور اپنی اُخروی زندگی کی خاطر اور اس دنیا میں اپنی اور اپنی نسلوں کی بھلائی کی خاطر اپنی زندگی دکھ اور تکلیف میں گزارنے کے لئے تیار ہوں تا ساری دنیا حلقہ بگوش اسلام ہو جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض پوری ہو کہ ساری دنیا خدائے واحد کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے“.الفضل ۸ جون ۱۹۶۶ء)

Page 12

9 فرموده ۱۹۶۶ء دومشعل راه جلد دوم مجلس خدام الاحم یہ مرکز یہ کی تیرہویں تربیتی کلاس کے افتتاحی اجلاس میں سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا خطاب نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ ہر کام سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا چاہیئے.اور اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتے ہوئے.اس سے دعا مانگتے ہوئے کہ وہ ہمارے اس کام میں برکت ڈالے اور اللہ اس کا نیک نتیجہ نکالے.کام کو شروع کرنا چاہیئے.اس لئے میں بھی اس کلاس کا افتتاح بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرتا ہوں.بسم اللہ الرحمن الرحیم کے معنے یہ ہیں.کہ ہم یہ کام شروع کر رہے ہیں اور اسے شروع کرنے سے قبل اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتے ہیں جو تمام صفات کا ملہ وحسنہ اپنے اندر رکھتا ہے.اور جس کے اندر کوئی نقص، قصور کو تا ہی، کمی اور کمزوری متصور نہیں ہو سکتی.خصوصاً ہم خدا تعالیٰ کو اس کی دوصفات کا واسطہ دیتے ہیں ایک اس کی صفت رحمانیت کا اور دوسرے اس کی صفت رحیمیت کا.رحمان کے معنے یہ ہیں کہ بغیر ہمارے کسی عمل کے وہ ہم پر انعام کرتا ہے جیسا کہ اس نے ہماری پیدائش سے قبل بلکہ بنی نوع انسان کی پیدائش سے بھی قبل ان گنت اور بے شمار چیزیں پیدا کیں تاجب انسان اس دنیا میں پیدا کیا جائے تو وہ ان سے فائدہ اٹھانے والا ہو.اب وہ اشیاء جو میری، آپ کی اور ہر انسان کی پیدائش سے ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں سال پہلے سے پیدا کی گئی ہیں کہ وہ ہمیں فائدہ پہنچائیں.ان کے متعلق کوئی عقل بھی یہ تصور نہیں کر سکتی.کہ اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کو ہمارے کسی عمل کے نتیجہ میں پیدا کیا تھا.کیونکہ اس وقت نہ ہم تھے اور یہ نہ ہمارا عمل تھا اور خدا تعالیٰ نے ان اشیاء کو پیدا کر دیا تھا.پھر خدا تعالیٰ کا یہ فعل صرف ماضی کے ساتھ ہی تعلق نہیں رکھتا.بلکہ اگر ہم سوچیں، غور کریں اور تدبر سے کام لیں.تو ہمیں یہ نظر آتا ہے.کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت (یعنی رحمان ) ہر آن ہماری حفاظت کر رہی ہے.یہ ہر آن ہمیں بہت سے دکھوں اور پریشانیوں سے بچارہی ہے.قطع نظر اس کے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی ان نعمتوں کے حصول کے لئے کوئی کام کیا ہے یا نہیں کیا.سائنس نے اس زمانہ میں بہت زیادہ ترقی کر لی ہے اور منجملہ ان علوم کے جو انسان نے حاصل کئے ہیں ایک بڑا دلچسپ علم یہ بھی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک ہر لحظہ ہزاروں خطرات میں سے گزرتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت جوش میں نہ آئے.تو ان ہزاروں خطرات میں سے کوئی ایک خطرہ بھی ہمارے لئے مہلک ثابت ہو سکتا ہے.غرض ہر آن ہم ہزاروں خطرات میں سے گزر رہے ہیں اور ہر آن خدائے رحمان کی ہزاروں تجلیاں ہماری حفاظت کے لئے ہورہی ہیں.رحیم کے معنے ہیں ہمارا وہ رب جو ہماری ان محنتوں اور اعمال کو ضائع نہیں کرتا

Page 13

فرموده ۱۹۶۶ء 10 د دمشعل را تل راه جلد دوم جو ہم خلوص نیت کے ساتھ اس کی راہ میں یا اس کے کہنے کے مطابق بجالاتے ہیں.ایک جاہل انسان جو اپنے خدا کو پہچانتا نہیں اور اس کی شناخت اُسے حاصل نہیں.سمجھتا ہے کہ میں اپنی کوشش اور اپنے زور سے کوئی کام کر لیتا ہوں.لیکن اس کا خیال درست نہیں.مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص اپنے کمرہ میں پاؤں سے جوتی اتارے بیٹھا ہے.اُس نے نماز یا کسی اور کام کے لئے باہر جانا ہے.سامنے اس کی جوتی پڑی ہے.پھر ایک جسم میں طاقت ہے.وہ سمجھتا ہے کہ باہر آجکل بڑی شدید گرمی پڑ رہی ہے.اگر میں جوتی پہن کر جاؤں تو میں تمازت سے بچ جاؤں گا.اور ایسے حقیر اور چھوٹے سے عمل سے میں فائدہ اٹھاؤں گا.لیکن یہ اس کی غلطی ہے کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت اس موقع پر اس کے لئے جلوہ گر نہ ہوگی وہ اس چھوٹے سے کام کے کرنے کا بھی اہل نہیں ہو سکتا ہے.کہ وہ جوتی جس کو پہننے کا وہ ارادہ کر رہا ہے اس کو فائدہ اور آرام پہنچانے کی بجائے موت یا تکلیف کا باعث بن جائے بسا اوقات ایسے بھی ہوتا ہے کہ ایک انسان کبر اور غرور کی وجہ سے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ ایک معمولی اور حقیر سا کام ہے میں اسے اپنی طاقت اور زور سے بجالا سکتا ہوں.خدا تعالیٰ کو یادر کھے بغیر جوتی میں پاؤں ڈالتا ہے.وہاں ایک سانپ بیٹھا ہوتا ہے یا اس کے اندر کوئی بچھو چھپا ہوا ہوتا ہے.وہ اس کو ڈس لیتا ہے اور یا تو وہ اس کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے یا اسے شدید درد اور تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے.اب دیکھو یہ کتنا معمولی اور حقیر سافعل ہے.ہم کمرے سے باہر جانے کے لئے جوتی پہننا چاہتے ہیں.لیکن اسلام ہمیں یہ کہتا ہے کہ اس کام کے کرنے سے پہلے بھی تم بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لو.تا تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی صفات رحمان اور رحیم کا جلوہ ظاہر ہو.اگر تم ایسا نہ کرو گے تو ممکن ہے کہ اس جوتی کا پہنا تمہارے لئے ہلاکت یا تکلیف کا باعث بن جائے.چھوٹے چھوٹے کام کے لئے بھی دعا کر لینی چاہئے بعض لوگ جو اللہ تعالیٰ کی کوکچھ شناخت رکھتے ہیں.لیکن پوری شناخت اور عرفان نہیں رکھتے.وہ بڑے بڑے اور اہم کاموں کے لئے تو دعا کرتے ہیں اور ان کے لئے دعا کوضروری سمجھتے ہیں.لیکن چھوٹے چھوٹے اور معمولی کاموں کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے دعا کی کیا ضرورت ہے.انہیں ہم اپنی طاقت اپنے زور اور اپنے وسائل سے بجالا سکتے ہیں لیکن اسلام ہمیں یہ ہدایت دیتا ہے.کہ تم اس غلطی میں کبھی نہ پڑنا.اگر جوتی کے ایک تسمہ کی بھی تمہیں ضرورت ہے.جو ایک آنہ یا دو آنہ میں بازار سے مل جاتا ہے.تو تم یہ سمجھو کہ جب تک خدا تعالی کا اذن اور منشاء نہ ہو.تمہیں وہ تسمہ بھی نہیں مل سکتا.اس لئے تم جوتی کا وہ تسمہ بھی اپنے رب سے مانگو اور اس کے لئے اس سے دعا کرو.ایک قصہ ہے کہ ایک شخص تھا.جس کو نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد یاد نہیں تھا.کہ ہر کام سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت طلب کیا کرو.اس کی جیب میں پیسے تھے.اور ان کی وجہ سے وہ اترار با

Page 14

11 فرموده ۱۹۶۶ء دد د و مشعل راه جلد دوم تھا.ایک دفعہ اسے ایک گدھا خریدنے کی ضرورت محسوس ہوئی.قریب شہر میں منڈی لگی ہوئی تھی.چنانچہ وہ گدھا خریدنے کے لئے گھر سے نکلا لیکن گھر سے باہر نکلتے ہوئے اس نے خدا تعالیٰ کو یاد نہ کیا.نہ اس نے خدا تعالیٰ سے دعا کی.وہ شہر کی طرف جارہا تھا.کہ رستہ میں اس کا ایک دوست ملا.اس نے اس سے دریافت کیا.تم اس وقت کدھر جا رہے ہو اس نے کہا میں منڈی سے ایک گدھا خرید نے جار رہا ہوں.منڈی میں بہت سے گدھے ہوں گے ان میں سے میں اپنی پسند کا ایک گدھا خرید لوں گا.ایک دوست نے کہا.بھئی تم نے یہ فقرے بڑے آرام سے کہہ دیئے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ سے دعا نہیں کی.تم خدا تعالیٰ سے دعا کرو.کہ وہ تمہیں تمہاری پسند کا اور برکت والا گدھا مہیا کر دے.اس جاہل آدمی نے جواب دیا.مجھے دعا کی کیا ضرورت ہے.روپے میری جیب میں ہیں اور گدھا منڈی میں موجود ہے.اور پھر میری مرضی بھی گدھا خریدنے کی ہے.سوئیں منڈی کی طرف جارہا ہوں.وہاں سے میں اپنی پسند کا ایک گدھا خرید لوں گا اس کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرنے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے یا انشاء اللہ کہنے کی کیا ضرورت ہے.بہر حال اس نے ایک بڑہانکی کبر و غرور کا مظاہرہ کیا.خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں ایک رنگ میں اباء کا پہلو اختیار کیا.منڈیوں میں ایسے لوگوں کی تلاش میں اور ان کو سبق دینے کے لئے جیب کترے بھی ہوتے ہیں.چنانچہ جب وہ شخص منڈی گیا تو ایک جیب کترے نے اس کی جیب کنترلی اور اس کا سارا روپیہ نکال لیا اور اُسے اس کا علم بھی نہ ہوا.اس نے منڈی میں گھوم پھر کر اپنی پسند کا ایک گدھا منتخب کیا.وہ بڑا خوش تھا کہ اسے اس کی پسند کا گدھا مل گیا ہے اس نے سودا چکا یا.گدھے کا مالک بھی اس کے ہاتھ وہ گدھا فروخت کرنے پر تیار ہو گیا لیکن جب اس نے رقم نکالنے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا.تو وہاں کچھ بھی نہ تھا.رقم چوری ہو چکی تھی.اس نے اپنا سر نیچے گرایا اور بغیر گدھا خریدے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا.رستہ میں اس کا دوست ملا.تو وہ کہنے لگا.میاں تم منڈی سے گدھا خرید نے گئے تھے لیکن خالی ہاتھ واپس آرہے ہو.کیا بات ہے.اس نے جواب دیا.انشاء اللہ میں منڈی سے گدھا خریدنے گیا تھا.انشاء اللہ ایک جیب کترے نے میری جیب کتر لی.انشاء اللہ میری ساری رقم چوری ہوگئی.انشاء اللہ میں اپنی پسند کا گدھا نہیں خرید سکا.اس لئے انشاء اللہ میں بغیر گدھا خریدے اپنے گھر واپس جارہا ہوں.اس واقعہ میں بتایا گیا ہے کہ اس شخص نے چونکہ کبر اور غرور کا مظاہرہ کیا تھا.اور اپنے اس کبر اور غرور کی وجہ سے اس نے خدا تعالیٰ سے دعا اور مدد و نصرت مانگنے کی ضرورت نہ بھی تھی.اس نے خیال کیا تھا.کہ جب روپے میرے پاس ہیں.اور گدھے منڈی میں موجود ہیں تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے.خدا تعالیٰ سے دعا مانگنے اور اس کی مدد و نصرت چاہنے کی کیا ضرورت ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے اسے ایک سبق سکھا دیا.اور اگر یہ واقعہ سچا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس شخص کی یہ حقیری ناکامی اُسے آئندہ کے لئے عبودیت کے مقام پر قائم رکھنے والی ثابت ہوئی ہو.

Page 15

دومشعل قل راه جلد دوم صفت رحمانیت کے نظارے فرموده ۱۹۶۶ء 12 غرض اس چھوٹی سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بڑے ہی لطیف اور وسیع مضمون کی طرف متوجہ کیا ہے اور اس نے ہمیں بتایا ہے کہ اپنا ہر کام شروع کرنے سے پہلے میری دوصفات کو یا درکھا کرو.اور ان کا واسطہ دے کر اخلاص سے یہ دعا مانگا کرو.کہ جو کام ہم شروع کرنے لگے ہیں.اس میں اس کی برکت ہمارے شامل حال ہو اور ہمارے لئے اس کا نتیجہ اچھا نکلے.ان دو صفات میں سے ایک صفت رحمانیت کی ہے.جس کے بغیر ہم کوئی کام بھی کرنے کے قابل نہیں.ہم دنیا میں کسی کام میں بھی اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.جب تک کہ خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت اپنے تمام جلووں کے ساتھ ہمارے شامل حال نہ ہو.دیکھیں آپ تمام طالب علم جو یہاں بیٹھے ہیں.اور خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر اہتمام جاری کی ہوئی تربیتی کلاس میں حصہ لینے آئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کی پیدائش سے پہلے جو فضل اور احسان آپ پر کئے ہیں انہیں آپ چھوڑ بھی دیں.آپ کی اپنی ذات پر بھی خدا تعالیٰ نے ان گنت اور بے شمار احسان اور انعام کئے ہیں.اور یہ ان گنت اور بے شمار احسانات اور انعامات آپ کے کسی عمل کا نتیجہ نہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے.ہماری زندگیوں کا ہر لمحہ اس طرح گزر رہا ہے کہ ہمارے جسم کے مختلف نظام جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں.ہزاروں خطرات میں سے گزر رہے ہیں.اور ہمارے جسم کی کوئی ایک کل بھی خراب ہو جائے تو بعض اوقات فوری طور پر موت وارد ہو جاتی ہے.مثلاً سائنس نے یہ معلوم کیا ہے کہ جس وقت ہمارا دماغ ہمارے جسم کے مختلف اعضاء کو احکام بھیج رہا ہوتا ہے اس وقت بجلی کی ایک رو پیدا ہوتی ہے جو ان پیغامات کو ان اعضاء تک لے جاتی ہے جنہیں وہ پیغامات پہنچاتے ہیں.مثلاً یہ میرا ہاتھ ہے.میری انگلیاں بند ہیں.اب جس وقت میرا دماغ میری ایک انگلی کو حکم دے گا کہ یوں کھل جا.تو دماغ سے بجلی کی ایک رو چلے گی جو دماغ کے اس حکم کو اس انگلی تک پہنچا دے گی.اور جن ذرائع سے دماغ کے احکامات جسم کے مختلف اعضاء تک پہنچتے ہیں.انہیں نروز (Nerves) یعنی اعصاب کہتے ہیں.نرو یعنی عصب کوئی لمبی اور مسلسل چیز نہیں جیسے ایک ریل پر لپٹا ہوا دھاگہ ہوتا ہے بلکہ چھوٹے چھوٹے دھاگوں کی مانندٹکڑے ہیں.جو جسم کے سارے حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہر دوٹکڑوں میں کچھ فاصلہ ہوتا ہے.جس وقت (Nerves) نروز کام نہ کر رہی ہوں.اس وقت یہ فاصلہ قائم رہتا ہے.گو یہ فاصلہ ایک انچ کے کروڑویں حصہ کے برابر ہی ہو.بہر حال دونونروز ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں.اب مثلاً جب دماغ کسی انگلی کو حکم دیتا ہے کہ یوں کھل جا.تو یہ حکم نرو کے ایک ٹکڑے تک پہنچتا ہے.دوسرا ٹکڑا اس سے جدا ہوتا ہے اور رستہ رک جاتا ہے اور ان دونوں ٹکڑوں پر کوئی پل بھی نہیں.لیکن اللہ تعالی وقتی طور پر دونوں ٹکڑوں کے درمیانی فاصلہ پر پل بنادیتا ہے.یہ پل کیمیاوی قسم کا ہوتا ہے جو ان دونوں ٹکڑوں کو ملا دیتا ہے پھر جب دماغ کا حکم دوسرے ٹکڑے سے تیسرے ٹکڑے تک پہنچتا ہے تو اس کے اور چوتھے ٹکڑے کے درمیانی فاصلہ پر ایک اور پل فوراً تیار ہو جاتا ہے اس طرح سینکڑوں اور ہزاروں پل تیار ہوتے جاتے ہیں.اور بالآخر

Page 16

13 فرموده ۱۹۶۶ء دو مشعل راه جلد دوم دماغ کا حکم انکی تک پہنچ جاتا ہے.اب سائنس دانوں نے معلوم کیا ہے کہ دماغ سے پیغام لانے والی بجلی کی رو جب ایک ٹکڑے سے دوسرے ٹکڑے میں پہنچ جاتی ہے.تو دونوں کے درمیانی فاصلہ پر تیار شدہ کیمیاوی پل اگر فوری طور پر تباہ نہ ہو جائے.تو انسان کی فوری طور پر موت وارد ہو جاتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا ہے.کہ جو نہی یہ بجلی کی روا یک نرو سے دوسری نرو تک پہنچتی ہے.تو دونوں کے درمیانی فاصلہ پر تیار شدہ کیمیاوی پل تباہ ہو جاتا ہے.کیمیاوی اجزاء میں ایک تغیر پیدا ہو جاتا ہے اور جب وہ رو آگے گزر جاتی ہے تو پل خود بخود تباہ ہوجاتا ہے ورنہ انسان فوت ہو جاتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ دماغ ہر وقت اور ہر لمحہ اپنے احکام جسم کے مختلف اعضاء تک پہنچا رہا ہے کوئی پیغام پاؤں کی انگلی کو جارہا ہے کوئی گھٹے کو جارہاہے کوئی ہاتھ کو جارہا ہے کوئی زبان کو جارہا ہے.کوئی آنکھوں کو جارہا ہے.کوئی کسی دوسرے عضو کو جارہا ہے.آنکھ جھپک نہیں سکتی.جب تک اسے جھپکنے کا حکم دماغ سے صادر نہ ہو.غرض ایک سیکنڈ کے اندر اندر سینکڑوں بلکہ ہزاروں احکام دماغ سے صادر ہوتے ہیں اور سینکڑوں ہزاروں روئیں یہ احکام لے کر آتی ہیں.اور دوسرے اعضاء تک پہنچاتی ہیں.اور اس طرح شاید سینکٹروں ہزاروں یا لاکھوں پل ایک سیکنڈ کے اس حصے میں جو اس کا سینکڑواں، لاکھواں یا کروڑواں حصہ ہوتا ہے.تیار ہوتے ہیں اور مٹتے جاتے ہیں.یہ انتظام اللہ تعالیٰ نے ہماری بقا اور حفاظت کے لئے جاری کیا ہے.جب کوئی روا یک نرو سے دوسری نرو میں جانا ہوتی ہے.تو دونوں کے درمیانی فاصلہ پر پل بن جاتا ہے اور جب وہ روگزر جاتی ہے تو وہ پل تباہ ہو جاتا ہے.جہاں کوئی پل جلدی میں اور فوراً تیار ہو جاتا ہے.وہاں سے جب روگزر جاتی ہے تو وہ فور انتباہ ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے اس جاری کردہ نظام میں بہت سی حکمتیں ہیں اور ان حکمتوں تک ہماری سائنس نہیں پہنچ سکتی.ابھی جب میں یہ بات کر رہا تھا.ایک چیز میرے ذہن میں آئی کہ ہو سکتا ہے.اگر وہ کیمیاوی پل اس طرح قائم رہیں تو جس طرح دماغ کی طرف سے ایک رواعضاء کی طرف چلی تھی وہ اعضاء کی طرف سے دماغ کو واپس جا کر اس کو نقصان نہ پہنچائے اس لئے ضروری معلوم ہوا کہ ان رستوں کو جن سے بجلی کی روئیں دماغ کے احکام لے کر گزرتی ہیں فوری طور پر مسدود کر دیا جائے.تا کہ دماغ کو کوئی نقصان نہ پہنچے.بہر حال ابھی انسان علوم کے سمندر کے کنارے پر کھڑا ہے لیکن سمجھتا ہے کہ وہ بہت بڑا عالم ہے.اس کی مثال اس شخص کی ہے جو مچھلی پکڑنے والی چھوٹی کشتی کے اندر بیٹھ کر سمندر کے اندر کچھ دور تک چلا جاتا ہے اور سمجھتا ہے.میں نے سمندر کی سیر کر لی حالانکہ اس کے آگے ہزاروں میل تک سمندر ہوتا ہے اور اس کے متعلق اسے کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا.پس اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کی صفت ہر آن ہمارے لئے ہزاروں جلوے دکھا رہی ہے اسی لئے بسم اللہ الرحمن الرحیم میں رحمانیت کے واسطہ کو پہلے رکھا.پھر اسے اس لئے بھی پہلے رکھا ہے کہ رحیمیت کی صفت کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے کچھ عمل کیا تھا.اس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ضروریات اور نیت کے مطابق نکالا.لیکن اس عمل کے شروع سے قبل بھی اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کروڑوں کروڑ جلوے دکھا چکی ہوتی ہے.پس ہمیں بتایا

Page 17

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۶ء 14 کہ خدا تعالیٰ کی رحیمیت کی صفت کو جوش میں لانے کے لئے تم جو اعمال کرو گے.ان سے پہلے خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت تم پر بڑے احسان کر چکی ہوگی.صفت رحیمیت پھر رحیمیت کی صفت تمہیں تمہارے اعمال کے مطابق جزا دے گی اگر عمل کے میدان میں مجاہدات کے میدان میں اور کوشش اور تگ و دو کے میدان میں خالی رحیمیت کی صفت ہی جلوہ گر رہے.تو ہمیں کسی کام میں بھی کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.کیونکہ ہم کمزور انسان ہیں.ہزاروں غفلتیں ہم سے ہوتی ہیں ہزاروں کو تا ہیاں ہم سے سرزد ہوتی ہیں.ہماری کوششوں میں بہت سے نقائص رہ جاتے ہیں.رحمانیت کے صفت کے ماتحت خدا تعالی ہم پر احسان نہ کرے.تو ہمیں کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی.مثلاً ایک طالب علم ہے اس نے میٹرک کا امتحان دینا ہے.جس کے لئے وہ تیاری کر رہا ہے اس کے پاس اس کی کتاب موجود ہے جس میں ہر چیز سفید وسیاہ میں موجود ہے.لیکن پڑھتے پڑھتے اسے نیند آ جاتی ہے اور مضمون کا ضروری اور اہم حصہ اس کے ذہن کے سامنے آتا نہیں.اس کے نتیجہ میں امتحان میں اس کا دماغ پریشان ہوتا ہے.لیکن اگر رحیمیت کے ساتھ رحمانیت بھی ملی ہوئی ہو.تو وہ چیزیں اس کے سامنے آجائیں گی جن کا جاننا اس کے لئے ضروری ہے.جو دوست دعا کرنے والے ہیں انہوں نے اس کا اپنی ذات میں کئی بار تجربہ کیا ہوگا.میں جب طالب علم تھا.تب میں نے خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا جلوہ اس رنگ میں کئی بار دیکھا.مثلاً جب میں مولوی فاضل کا امتحان دے رہا تھا اس وقت ہم تین ساتھی اکٹھا پڑھا کرتے تھے.دوسرے دونوں ساتھی بھی ہوشیار تھے.میں بھی تھوڑا بہت جانتا تھا.کتب کے نوٹ بھی میں نے لئے ہوئے تھے.امتحان کے لئے ہم امرتسر گئے ہوئے تھے.بعض اوقات پڑھتے پڑھتے نو یا ساڑھے نو بجے میرا دماغ کہتا.اب نہیں پڑھنا.کیونکہ کل جو حصہ امتحان میں آنا تھا وہ دیکھ لیا ہے.اب جو کچھ پڑھوں گا.وہ کل کے امتحان کے لئے ضروری نہیں.سو میں اپنے ساتھیوں سے کہتا میں اب جا کر سوتا ہوں.وہ کہتے اپنے نوٹ ہمارے پاس رکھ دیں ہم ابھی پڑھیں گے اور ہمیشہ یہی ہوا.کہ اگلے دن امتحان میں پرچہ کتاب کے اسی حصہ سے آتا جو میں نو یا ساڑھے نو بجے رات تک دیکھ لیتا تھا.اگر میں صبح تک بھی پڑھتا رہتا.تو میری یہ حرکت لغو اور میرے دماغ کو تھکا دینے والی ہوتی.غرض رحمانیت رحیمیت کو بیک (Back) کرتی ہے.اس کی راہنمائی کرتی ہے.اس کی حد بندی کرتی ہے اور اگر ہمارے کسی عمل کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے ماتحت اس کا فضل اور احسان بھی شامل حال ہو تو ہمیں کبھی ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا پڑتا.سورۃ فاتحہ میں جس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی آیت آئی ہے.ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی دعا سکھائی گئی ہے.اب صراط مستقیم پر چلنا اور اپنے اس عمل کی جزا کی امید رکھنا تو خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے اندر آ جاتا ہے.لیکن یہ کہ ہم صراط مستقیم پر قائم رہیں اور اس سے ادھر ادھر نہ ہوں.اس کے لئے ہمیں خدائے رحمان

Page 18

15 فرموده ۱۹۶۶ء د و مشعل راه جلد دوم دو کی ضرورت ہوتی ہے.ہمیں اس بات کی احتیاج ہوتی ہے کہ وہ ہمیں سیدھے راستے سے ادھر ادھر نہ جانے ے.غرض خدا تعالیٰ نے اپنی دونوں صفات رحمان اور رحیم کا فائدہ محض اپنے فضل سے ہمارے لئے مقدر کر دیا ہے.خدا تعالیٰ کی ذات غنی ہے.وہ ہمارے کسی عمل کی محتاج نہیں اور ہمیں اس فائدہ کا جو اس کی صفات رحمان اور رحیم پہنچارہی ہیں کوئی حق نہیں.ہم کسی حق کی بناء پر اس کا اس سے مطالبہ نہیں کر سکتے.لیکن وہ ذات جو اپنے بندہ سے بہت ہی پیار کرنے والی ہے.محض اپنے فضل سے اپنی صفت رحمانیت کے بھی اور اپنی صفت رحیمیت کے بھی بے شمار جلوے ہمیں دکھاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی بڑی لطیف آیت قرآن کریم کی ہر سورت سے پہلے نازل کی.اور رسول کریم علیہ کے ذریعہ ہمیں ہدایت دی کہ ہم اپنے ہر کام سے پہلے اسے پڑھا کریں لیکن یہ کوئی ٹو نا نہیں.نہ یہ کوئی جادو ہے کہ اسے پڑھ لیا یا اسے کسی کاغذ کے پرزہ پر لکھ کر اپنے پاس رکھ لیا.تو کام ہو گیا بلکہ اس کے پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں جو معانی بیان کئے گئے ہیں.ان پر غور کرو ان کو ہمیشہ سامنے رکھو.پھر تمہیں علم ہوگا.کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی صفات رحمانیت اور رحیمیت کے جلوے تمہارے لئے ظاہر نہ ہوں.تم کسی صورت میں بھی اور کسی کام میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتے.پس خدا تعالیٰ سے ایک دعا یہ مانگنی چاہئے.کہ جہاں تو نے ہم پر پہلے بے شمار فضل کئے ہیں.وہاں آئندہ بھی تو ہماری کوتاہیوں اور غفلتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور ہمارے عمل کو نہ دیکھتے ہوئے ہمیں رحمانیت کے جلوے دکھاتا چلا جا.اور دوسرے یہ دعا مانگنی چاہیئے.کہ اے خدا ہم کوشش تو کرتے ہیں.لیکن کوشش ان ذرائع سے کرتے ہیں جو ہمارے اپنے نہیں.نہ ہماری صحت اپنی ہے نہ ہماری طاقت اپنی ہے.نہ وجاہت اپنی ہے.نہ اموال اپنے ہیں نہ اسباب اپنے ہیں.یہ سب کچھ تیرا ہی پیدا کردہ ہے.ہم انہیں استعمال کرتے ہوئے ہزاروں غلطیاں کر جاتے ہیں.تو ان غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہماری کوششوں کے بہترین نتائج نکال.پس آج بسم اللہ الرحمن الرحیم سے اس کلاس کو شروع کیا جاتا ہے خدا کرے کہ میں بھی اور آپ سب بھی خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں اور وہ ہمارا پیارا اور پیار کر نیوالا رب ہمیشہ پیار کی نگاہ ہم پر رکھے.اور ہمارے لئے ہمیشہ رحمانیت اور رحیمیت کے جلوے دکھاتا رہے اور اس رنگ میں دکھاتا رہے کہ ہماری حقیر کوششوں کے نتیجہ میں دین اور دنیا کی حسنات ہمیں ملتی رہیں.اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.دعا کے بعد فرمایا: -

Page 19

دومشعل دوم فرموده ۱۹۶۶ء 16 تربیتی کلاس کے طلباء کو حضور کی نصائح دعا سے پہلے جو کچھ میں نے کہا ہے.وہ دراصل دعا کا ہی ایک حصہ تھا.اب میں مختصر اردو ایک باتیں کہنا چاہتا ہوں.پہلی بات یہ ہے کہ آپ لوگ ایک خاص مقصد کے لئے باہر سے تشریف لائے ہیں.آپ یہ کوشش کریں.کہ ان دنوں میں آپ اپنا کوئی لحہ بھی ضائع نہ کریں اور اپنے اوقات عزیزہ کو فضول خرچ نہ کریں.معمور اوقات زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں.اور زیادہ سے زیادہ علم حاصل کریں قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے.کہ علم جو محض علم کی حد تک ہو.لغو چیز ہے.قرآن کریم میں انبیائے کرام کی بہت سی مثالیں بیان کی گئی ہیں.ان میں سے ہر مثال ایک مسلمان کے لئے سبق مہیا کر رہی ہے.اور اسے خاص قسم کے اعمال پر ابھار رہی ہے.آپ نے جو علم حاصل کرنا ہے وہ اس لئے حاصل کرنا ہے.کہ اللہ سے آپ خود بھی اور آپ سے تعلق رکھنے والے بھی (چاہے وہ اس وقت آپ سے تعلق رکھتے ہیں یا آپ ان سے بعد میں تعلق پیدا کریں گے) فائدہ اٹھا ئیں آپ یہاں تبلیغی اسباق سیکھیں اور اس کے بعد مختلف لوگوں سے نئی دوستیاں پیدا کر کے ان تک ان اسباق کو پہنچائیں.محض کسی چیز کا سن لینا اور اسے اپنی زندگی پر اثر انداز نہ ہونے دینا بالکل فضول چیز ہے.علم عمل کے لئے ایک ضروری زینہ ہے.جو شخص ایسی سیڑھی بناتا ہے جسے وہ استعمال نہیں کرتا.وہ اپنے مکان کے اس حصہ کو بھی ضائع کرتا ہے اور اپنے روپیہ کوبھی ضائع کرتا ہے.سو جو علم آپ یہاں سیکھیں وہ اس نیت سے سیکھیں کہ اس سے آپ نے خود بھی آئندہ زندگی میں فائدہ اٹھانا ہے اور اس بات کی بھی انتہائی کوشش کرنا ہے کہ اس سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچتار ہے.علم کے حصول کے ذرائع علم دو طرح سے حاصل کیا جاتا ہے.ان میں سے ایک طریق تقاریر ہیں.تقاریرین کر انسان ایک مجموعی اثر قائم کر لیتا ہے.لیکن جب اس سے کوئی بات بیان کرنے کو کہا جائے.وہ بیان نہیں کر سکتا مثلاً وہ احمدی جنہوں نے بیسیوں دفعہ وفات مسیح کے متعلق پیچر سنے ہیں.ان میں سے نانوے فیصدی ایسے ہوں گے کہ اگر آپ انہیں پیج پر بلا لیں.تو وہ وفات مسیح کی ایک دلیل بھی تفصیل سے بیان نہیں کر سکیں گے.لیکن ان کے دماغوں نے قرآنی آیات اور دوسرے حوالہ جات کو سن کر ایک مجموعی اثر قائم کر لیا ہے.اور سمجھ لیا ہے کہ یہ یقینی بات ہے کہ قرآن کریم حضرت مسیح علیہ السلام کو وفات یافتہ ثابت کرتا ہے.اور ایک تبلیغی جماعت جو اصلاح وارشاد کی ذمہ داری اٹھانے والی ہو.اس قسم کے علم پر راضی نہیں ہو سکتی.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ میں سے ہر ایک کو ضروری مسائل کے متعلق کم از کم ایک ایک آیت یا ایک ایک دلیل پوری تفصیل کے ساتھ از بر ہو.مثلاً وفات مسیح کا مسئلہ ہے.اس

Page 20

17 فرموده ۱۹۶۶ء دد د و مشعل راه جلد دوم کے متعلق قرآن کریم کی کوئی آیت آپ کو اس رنگ میں از بر ہو کہ آپ اس پر پوری طرح حاوی ہوں اور اس کے تمام کونے ، حاشیے اور زاویے آپ کے ذہن میں حاضر ہوں اس طرح مقام نبوت اور دوسرے مسائل ہیں.مجھے ر ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ اس کا ضروری انتظام کر دے گی.غیر احمدی مسلمان ہم پر مختلف اعتراضات کرتے ہیں وہ ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ ان کا کلمہ اور ہے.معنوی لحاظ سے ان کا یہ اعتراض درست ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں تسلیم کر لینا چاہیئے کہ ہمارا کلمہ اور ہے اور دوسرے مسلمانوں کا کلمہ اور ہے.لفظی لحاظ سے نہیں کیونکہ لفظی لحاظ سے ہمارا کلمہ وہی ہے جو دوسرے مسلمانوں کا ہے.لیکن معنوی لحاظ سے ان سے ہمارا بڑا اختلاف ہے.ایک غیر احمدی لا الہ الا اللہ کہنے کے باوجود ایک قبر پر جا کر سجدہ کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کا ایسا کرنالا الہ الا اللہ کے خلاف نہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ قبر پر سجدہ کرنا تو کجا.اپنی تدبیر پر تو کل کرنا بھی لا الہ الاللہ کے خلاف ہے.غرض معنوی لحاظ سے ہمارا اور دوسرے مسلمانوں کا کلمہ میں بھی بڑا اختلاف ہے.بہر حال آپ کے پاس ضروری مسائل میں سے ہر مسئلہ کے متعلق ایک ایک دلیل پوری تفصیل سے نوٹ بھی ہو.اور آپ کو زبانی یاد بھی ہو.اگر آپ ایسا کر لیں.تو کسی مذہبی بحث میں آپ کبھی شرمندہ نہیں ہو سکتے.بشر طیکہ آپ اُسے پوری طرح استعمال کریں.طالب علمی کے زمانہ سے ہی ہمارا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ ہمارا مخالف ہمیشہ ایک چال چلتا ہے.جب وہ ایک دلیل سے عاجز آ جاتا ہے تو کہتا ہے اسے چھوڑ دو کوئی دوسری بات کرو.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے کہیں یہ قرآن کریم کی آیت ہے اسے ہم کیوں چھوڑیں.پہلے اس کا فیصلہ ہو جائے.پھر دوسری بات کی جائے گی.اگر ہم یہ طریق اختیار کر لیں.تو ہم میں سے جسے کسی مسئلہ کے متعلق ایک دلیل بھی آتی ہوگی.وہ اپنے مخالف کو بحث میں قائل کرلے گا.آپ ان چیزوں کا خیال رکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت سے جو آپ یہاں گزار ہیں.زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی توفیق بخشے اور جب تعلیمی کلاس ختم ہو تو آپ خیریت، صحت اور برکات کے ساتھ یہاں سے رخصت ہوں.پھر اس کی برکات کو آپ ساتھ لے کر جائیں اور ساری عمر اللہ تعالی ان برکات سے آپ کے اور آپ کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے حق میں بابرکت نتائج ظاہر کرے.اللهم آمین

Page 21

دومشعل دوم فرموده ۱۹۶۶ء 18 وقف جدید کے چندہ کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی احمدی بچوں سے اپیل خطبہ جمعہ فرموده ۷ اکتوبر ۱۹۶۶ء میں آج احمدی بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں) سے اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بچو! اٹھو اور آگے بڑھو اور تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں وقف جدید کے کام میں جو رخنہ پڑ گیا ہے اسے پر کر دو اور اس کمزوری کو دور کر دو جو اس تحریک کے کام میں واقع ہوگئی ہے.کل سے میں اس مسئلہ پر سوچ رہا تھا.میرا دل چاہا کہ جس طرح ہماری بہنیں بعض مساجد کی تعمیر کیلئے چندہ جمع کرتی ہیں اور سارا ثواب مردوں سے چھین کر اپنی جھولیوں میں بھر لیتی ہیں.وہ اپنے باپوں اپنے بھائیوں اپنے خاوندوں اپنے دوسرے رشتہ داروں یا دوسرے احمدی بھائیوں کو اس بات سے محروم کر دیتی ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر میں مالی قربانی کر کے ثواب حاصل کر سکیں.اسی طرح اگر خدا تعالیٰ احمدی بچوں کو توفیق دے تو جماعت احمدیہ کے بچے وقف جدید کا سارا بوجھ اٹھا لیں.لیکن چونکہ سال کا بڑا حصہ گزر چکا ہے اور مجھے ابھی اطفال الاحمدیہ کے صحیح اعداد و شمار بھی معلوم نہیں اس لئے میں نے سوچا کہ آج میں اطفال الاحمدیہ سے صرف یہ اپیل کروں کہ اس تحریک میں جتنے روپے کی ضرورت تھی اس میں تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں جو کمی رہ گئی ہے اس کا بارتم اٹھا لو اور پچاس ہزار روپیہ اس تحریک کیلئے جمع کرو.اچھی مائیں یہ بھی ہے کہ بہت سے خاندان ایسے بھی ہیں جن کے بچوں کو مہینہ میں ایک دو آنے سے زیادہ رقم نہیں ملتی.لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہماری جماعت میں ہزاروں خاندان ایسے بھی ہیں جن کے بچے کم و بیش آٹھ آنے ماہواریا شاید اس سے بھی زیادہ رقم ضائع کر دیتے ہیں.چھوٹا بچہ شوق سے پیسے لے لیتا ہے لیکن اسے معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی قیمت کیا ہے.وہ پیسے مانگتا ہے اور اس کی ماں یا اس کا باپ اس کے ہاتھ میں پسینہ آنہ دونی یا چونی دے دیتا ہے اور پھر وہ بچہ اسے نہیں پھینک کر ضائع کر دیتا ہے.اگر مائیں ایسے چھوٹے بچوں کو وقتی خوشی کے سامان پہنچانے کیلئے پیسہ، آنہ، دونی یا چونی دے دیں اور پھر انہیں ثواب پہنچانے کی خاطر تھوڑی دیر کے بعد ان سے وہی پیسہ، آنہ، دونی یا چونی وصول کر کے وقت جدید میں دیں اور اس طرح ان کے لئے ابدی خوشیوں کے حصول کے سامان پیدا کر دیں تو وہ بڑی ہی اچھی مائیں ہونگی.اپنی اولاد کے حق میں لیکن یہ تو چھوٹے بچے ہیں جو اپنی عمر کے لحاظ سے ابھی اطفال الاحمدیہ میں شامل نہیں ہوئے وہ بچے جو اپنی عمر کے لحاظ سے اطفال الاحمدیہ یا ناصرات

Page 22

19 فرموده ۱۹۶۶ء ود مشعل راه جلد د دوم الاحمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں یعنی ان کے عمریں سات سے پندرہ سال تک کی ہیں.اگر وہ مہینہ میں ایک اٹھنی وقف جدید میں دیں تو جماعت کے سینکڑوں ہزاروں خاندان ایسے ہیں جن پر ان بچوں کی قربانی کے نتیجہ میں کوئی ایسا بار نہیں پڑے گا کہ وہ بھو کے رہنے لگ جائیں.رہے وہ غریب خاندان جن کے دلوں میں نیکی کرنے اور ثواب کمانے کی خواہش پیدا ہو لیکن ان کی مالی حالت ایسی نہ ہو کہ ان کا ہر بچہ اس تحریک میں ایک اٹھنی ماہوار دے سکے تو ان لوگوں کی خواہش کے مد نظر میں ان کے لئے یہ سہولت پیش کر دیتا ہوں کہ ایسے خاندان کے سارے بچے مل کر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دیں اس طرح اس خاندان کے سارے بھائی اور بہنیں ثواب میں شریک ہو جائیں گی.لیکن یہ رعایت صرف ان خاندانوں کیلئے ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں لیکن باطنی اور ایمانی لحاظ سے ان کے دل روشن اور مضبوط ہیں اور ان کے بچوں کے دلوں میں یہ خواہش ہے کہ کاش ہماری مالی حالت ایسی ہوتی کہ ہم میں سے ہر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دے سکتا اور ہم ثواب سے محروم نہ رہتے.ان کی ایسی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے یہ سہولت دی ہے کہ وہ سب بچے مل کر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دیں.اب سال کا بہت تھوڑا حصہ باقی رہ گیا ہے اگر احمدی بچے اس موقعہ پر پچاس ہزار روپیہ پیش کر دیں تو وہ دنیا میں ایک بہترین نمونہ قائم کرنے والے ہوں گے اور اس طرح ہماری وہ ضرورت پوری ہو جائے گی جو اس وقت اعلائے کلمتہ اللہ اور جماعت کی مضبوطی، اس کی تربیت اور تعلیم کے نظام کو مستحکم کرنے کیلئے ہمارے سامنے ہے اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے کیلئے ان کی نماز کی بلوغت سے پہلے نماز پڑھانے کی ہمیں تلقین کی ہے.اسی طرح ان مالی قربانیوں کیلئے جو فرض کے طور پر ایک احمدی پر عائد ہوتی ہیں.اس فرض کے عائد ہونے سے پہلے ہمارے بچوں کی تربیت ہو جائے گی اور جب وہ فرض ان پر عائد ہوگا تو وہ خوشی اور بشاشت سے مالی جہاد میں شامل ہوں گے اور اس فرض کے ادا کرنے میں وہ کوئی کمزوری نہ دکھائیں گے کیونکہ ان کی طبیعتوں میں بچپن سے ہی یہ بات راسخ ہو چکی ہوگی کہ جہاں ہم نے خدا اور اس کے رسول کیلئے دوسری قربانیاں کرنی ہیں وہاں ہم نے خدا اور اس کے رسول کے لئے مالی قربانیاں بھی دینی ہیں.خدا تعالیٰ کی فوج کے ننھے سپاہی غرض ایک بچہ جب اٹھنی دے رہا ہوگا یا جب بعض خاندانوں کے سب بچے باہم مل کر ایک اٹھنی ماہوار وقف جدید میں دے رہے ہوں گے تو یہ ایک لحاظ سے ان کی تربیت ہوگی اس طرح ہم ان کے ذہن میں یہ بات بھی راسخ کر رہے ہوں گے کہ جب خدا تعالیٰ کسی کو مال دیتا ہے تو وہ مال جو اس کی عطا ہے بشاشت سے اسی کی طرف لوٹا دینا اور اس کے بدلہ میں ثواب اور اس کی رضا حاصل کرنا اس سے زیادہ اچھا سودا دنیا میں اور کوئی نہیں.پس اے احمدیت کے عزیز بچو! اٹھو اور اپنے ماں باپ کے پیچھے پڑ جاؤ اور ان سے کہو کہ ہمیں مفت میں ثواب مل رہا ہے.آپ ہمیں اس سے کیوں محروم کر رہے ہیں.آپ ایک اٹنی ماہوار ہمیں دیں کہ ہم اس فوج میں شامل ہو

Page 23

فرموده ۱۹۶۶ء 20 د دمشعل را ل راه جلد دوم جائیں.جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دلائل و براہین اور قربانی اور ایثار اور فدائیت اور صدق وصفا کے ذریعہ اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے گی.تم اپنی زندگی میں ثواب لوٹتے رہے ہو اور ہم بچے اس سے محروم رہے ہیں.آج ثواب حاصل کرنے کا ایک دروازہ ہمارے لئے کھولا گیا ہے ہمیں چند پیسے دو کہ ہم اس دروازہ میں سے داخل ہو کر ثواب کو حاصل کریں اور خدا تعالیٰ کی فوج کے ننھے منے سپاہی بن جائیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا کرے.آمین (الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۶ء)

Page 24

21 فرموده ۱۹۶۶ء دومشعل راه جلد دوم ربوه ۲۳،اکتوبر ۱۹۶۶ ء سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے سالانہ اجتماع میں جو اختتامی تقریر فرمائی وہ ذیل میں درج کی جاتی ہے.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا.إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر: ١١) اس کے بعد فرمایا:- مجھے ابھی تک بخار کی تکلیف بدستور جاری ہے اور اس وقت بھی سو کے قریب درجہ حرارت ہے.لیکن چونکہ میرے بھائی اور عزیز اس اجتماع سے اپنی اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق فائدہ حاصل کرنے کے بعد اپنے گھروں کو واپس جارہے تھے اور میرا آپ سے وعدہ بھی تھا کہ میں کچھ اور باتیں بھی آپ کے سامنے بیان کروں گا.اس کیلئے میں تکلیف ہونے کے باوجود یہاں حاضر ہو گیا ہوں.میں نے پرسوں بتایا تھا کہ اسلامی تعلیم بڑی وضاحت کے ساتھ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ محض قیل و قال محض لاف وگزاف محض باتیں بنانا انسان کی عزت کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں قائم نہیں کرتا.نہ اس طرح پر انسان خدا تعالیٰ کا پیارا اور محبوب اور مقرب بن سکتا ہے.آیت قرآنیہ کا جو ٹکڑا میں نے آپ کے سامنے پڑھا ہے اس میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے.تم میں سے جو عزت کا متلاشی ہو وہ کان کھول کر سن لے اور یا در کھے کہ تمام عزتیں اور تمام و جاہتیں خدا تعالیٰ ہی کیلئے ہیں.وہی عزتوں کا سر چشمہ ہے.اور اسی سے حقیقی عزت کو حاصل کیا جاسکتا ہے.دنیا میں انسان بڑوں یعنی صاحب اقتدار اور صاحب وجاہت کی نگاہ میں بعض دفعہ خوشامد کے ذریعہ عزت حاصل کر لیتا ہے بعض دفعہ وہ چاپلوسی کے نتیجہ میں ان کی نگاہ میں محبوب ہو جاتا ہے بعض دفعہ وہ اتنی چرب زبانی سے کام لیتا ہے کہ دنیا دار اور دنیا میں جو بڑا شمار ہوتا ہے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا.اور ایک قدر اور منزلت ان لوگوں کی نگاہ میں اس شخص کیلئے پیدا ہو جاتی ہے.چرب زبانی کا تو یہاں تک اثر ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ دوفریق میرے پاس آتے ہیں.ایک کی زبان بڑی چلتی ہے وہ اپنے مفہوم کو زیادہ اچھی طرح واضح کر سکتا ہے.دوسرا اپنے مفہوم کو زیادہ اچھی طرح واضح نہیں کر سکتا جو حق پر ہے وہ اپنے حق میں صحیح دلائل بھی اچھی طرح پیش نہیں کر سکتا اور جو ناحق پر ہے وہ غلط دلائل کو بھی یا غلط واقعات کو بھی میرے سامنے ایسے رنگ میں پیش کر سکتا ہے کہ میں اس کی باتوں سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ دے دیتا ہوں.لیکن میں محمد رسول اللہ علیہ میں جو خدا تعالیٰ کا محبوب اور پیارا ہوں.میں جس پر اللہ تعالیٰ کی آخری شریعت نازل ہوئی ہے اگر میرا فیصلہ بھی اس شخص کے حق میں ہوگا تو وہ حق

Page 25

فرموده ۱۹۶۶ء 22 د «مشعل راه جلد دوم دار نہیں بنے گا.اگر واقعہ میں وہ اس چیز کا حق دار نہیں.لیکن دنیا کی عزتیں عارضی عزتیں ہیں.جیسا کہ بھاپ ہوتا ہے.ایک بلبلہ سا پانی سے بن جاتا ہے.اس کی اٹھان اور رفعت بھی ہے.اس میں ایک حسن بھی ہے.لیکن نہ اس میں حقیقت ہے اور نہ اس میں فائدہ ہی ہے.یہی حال ان عزتوں کا ہے جو دنیا میں دنیا والوں کی طرف سے انسان حاصل کرتا ہے اور دنیا والوں کی نگاہ میں اسے میسر آتی ہیں.حقیقی عزت غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کوئی عزتیں نہیں ہیں.حقیقی عزت وہ ہے جو عزت کے حقیقی سرچشمہ سے نکلتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندے کوملتی ہے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میرے حضور محض باتیں کسی کام نہیں آئیں گی کیونکہ میں دلوں کے مخفی سے مخفی رازوں کو بھی جانے والا ہوں.مجھے تمہارے اعمال میں وہ نقص وہ کوتاہیاں ، خودی کی وہ ملاوٹ جو تم جانتے ہو لیکن لوگ نہیں جانتے.مجھے ان کا ہی علم نہیں بلکہ تمہارے اعمال کی اور تمہاری دعاؤں کی اور تمہارے اذکار کی وہ خامیاں اور ان کے وہ رخنے بھی جن سے تم خود بھی واقف نہیں ہو.میرے علم سے باہر نہیں رہ سکتے.اليه يصعد الكلم الطيب نیک باتیں بیشک اللہ تعالیٰ تک پہنچتی ہیں.لیکن وہ اسی وقت اللہ تعالیٰ تک پہنچتی ہیں والعمل الصالح يرفعہ جب ان باتوں کو عمل صالح کر رہا ہو.صعود کے معنی عربی زبان میں اس چیز کے ہوتے ہیں جو انسان سے خدا تعالیٰ تک پہنچے.اور اس کے مقابلہ میں نزول اس کو کہتے ہیں جو برکت کے رنگ میں یا رحمت کے رنگ میں یا فضل کے رنگ میں یا بعض دفعہ بعض دوسرے رنگوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو پہنچتی ہیں.پس یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اگر تم حقیقی عزت اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی میں حاصل کرنا چاہتے ہو تو عزت کے معیار کی نشان دہی ہم کر دیتے ہیں اور وہ ہے ہماری ہی ذات الله العزة جميعا اور اس سلسلہ میں تمہیں ایک تنبیہ بھی کر دیتے ہیں کہ محض باتیں کرنا تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچائے گا.جب تک کہ اچھی باتوں کے ساتھ ساتھ اچھے عمل بھی نہ کئے جائیں گے.اس کیلئے عربی زبان میں ایمان کے معنے صرف دل کے اقرار یا زبان کے اقرار کے ہی نہیں بلکہ ایمان کے معنی کے اندر یہ بات بھی آئمہ لغت نے بیان کی ہے کہ دلی اقرار اور زبان کے اظہار کے ساتھ ساتھ انسانی جوارح (یعنی وہ اعضاء جن سے ان کے عمل سرزد ہوتے ہیں) کی تصدیق بھی شامل ہو.جب تک ان کی تصدیق اس کے شامل حال نہ ہو وہ ایمان نہیں کہلا سکتا.حقیقی مومن کی پہچان غرض حقیقی مومن دراصل وہی ہے جو دل سے بھی اقرار کر رہا ہو اور زبان سے بھی اس کا اظہار کر رہا ہو اور اپنے ایمان کے مطابق اعمال صالحہ بھی بجالا رہا ہو لیکن چونکہ عام طور پر انسان کی توجہ اس طرف مبذول نہیں ہوتی اس لئے اللہ تعالیٰ نے جابجا ایمان کے ساتھ اعمال صالح کے الفاظ کو واضح طور پر قرآن کریم کی مختلف آیات میں

Page 26

23 فرموده ۱۹۶۶ء دو مشعل راه جلد دوم رکھ دیا ہے تا کہ اس بات پر زور دیا جائے کہ محض زبانی اقرار یا دلی اقرار کافی نہیں ہے.جب تک کہ اعمال صالحہ بھی ساتھ نہ ہوں.اعمال صالحہ کے معنی ہیں وہ اعمال جو ایمان کے مطابق ہوں اور جن میں کوئی فساد نہ ہو.ہر نیک عمل کو یا اچھے عمل کو یا عمدہ کام کو قرآن کریم کی زبان میں اور اسلام کی اصطلاح میں عمل صالح نہیں کہتے.بلکہ عمل صالح اس عمل کو کہا جاتا ہے جو قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہو اور پھر ان اصولوں کے مطابق ہوں جو اللہ تعالیٰ نے وضع کئے ہیں.اگر وہ ایسا نہیں تو ممکن ہے بہت سے لوگوں کی نظر میں وہ عمل اچھا اور عمل صالح ہو لیکن خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ عمل عمل صالح نہیں ہوتا.اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق نہیں کیا گیا.اس کی موٹی مثال عفو ہے.عفو کے لفظ پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ اسلام نے مظلوم کو یہ اجازت دی ہے اور یہ حق بھی دیا ہے کہ وہ اپنے ظلم کا بدلہ بتائے ہوئے طریق کے مطابق حاصل کرے.مثلاً اگر وہ کسی با قاعدہ اور منظم حکومت کے ماتحت ہے تو اس حکومت نے جو قوانین وضع کئے ہیں وہ ان کے مطابق جاکے اپنا بدلہ لے.قرآن کریم نے یہ بھی اجازت دی ہے کہ اگر تم چاہو تو معاف کر سکتے ہو لیکن اس کے ساتھ اس نے ایک شرط بھی لگادی ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ تمہیں معاف کرنے کی اجازت صرف اس صورت میں ہے کہ عفو کے نتیجہ میں شر میں زیادتی نہ ہو بلکہ ظلم کے مٹنے کی توقع ہو.اگر عفو کے نتیجہ میں اصلاح متوقع ہو تو تم عفو کر سکتے ہو.اگر عفو کے نتیجہ میں اصلاح متوقع نہیں تو تم عفو نہیں کر سکتے.اب اگر ایک شخص جس پر ظلم کیا گیا ہے اس کی کوئی چیز چھین لی گئی ہے.یا اس کا کوئی حق تھا جو مارلیا گیا ہے.وہ شخص یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر میں نے معاف کر دیا تو اس کی اصلاح نہیں ہوگی وہ صرف لوگوں کی واہ واہ حاصل کرنے کی خاطر یا اس سے بڑھ کر کسی اور فائدہ کی خاطر اس شخص کو جس سے اس نے وہ حق لینا ہے کہتا ہے.جاؤ میں تمہیں معاف کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس مظلوم سے بھی یہ بات پوشیدہ نہیں کہ یہ شریر انسان ہے اگر اس کو اس طرح معافی مالتی رہی تو اس علاقہ میں اس ماحول میں اس کا شر بڑھ جائے گا.کم نہیں ہوگا.شاید لوگ واہ واہ کریں کہ یہ بڑا بلند انسان ہے یا اس نے اپنے دشمن کو معاف کر دیا اور شاید وہ شخص بھی جس کو اس نے معاف کیا ہے یہ کہے کہ تم بڑے پیارے ہو.تم نے مجھے معاف کر دیا لیکن وہ عمل صالح نہیں ہو گا.خدا تعالیٰ آسمان سے کہے گا تم میرے پیارے نہیں ہو کیونکہ تم نے اس وقت معاف کیا جب میں نے تمہیں منع کیا تھا اور کہا تھا معاف نہ کرنا.عمل صالح غرض ہر اچھا نظر آنے والا عمل عمل صالح نہیں.بلکہ عمل صالح وہ اچھا عمل ہے جو ایمان کے مطابق ہو.جہاں تک خدام الاحمدیہ کے کاموں کا تعلق ہے.خدام الاحمدیہ کے وہی کام اسلامی اصطلاح کی رو سے اعمال صالحہ میں شمار ہوں گے.جو خلیفہ وقت کی ہدایات کے مطابق کئے جائیں.اگر خلیفہ وقت نے ایک منصوبہ تیار کیا ہو مانے بعض ہدایات دی ہوں اور ہم انہیں چھوڑ کر دوسری طرف چلے جائیں تو خواہ وہ کام جنہیں ہم نے کیا ظاہر

Page 27

فرموده ۱۹۶۶ء 24 د «مشعل راه جلد دوم بین نگاہ میں کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں.وہ کام خدام الاحمدیہ کا ایک حلقہ کر رہا ہو تو بھی اور سارے خدام الاحمد بیل کر رہے ہوں تو بھی خدا تعالیٰ کی نگاہ میں عمل صالح نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کا ایک جزو یہ بتایا ہے کہ خلیفہ وقت کی اطاعت کی جائے اور فرمایا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کا کوئی سلسلہ جاری ہوتا ہے جیسے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ عالمگیر رحمت کی ایک تحریک اللہ تعالیٰ نے جاری کی کہ امت محمدیہ کیلئے قرآن کریم کی شریعت آپ کے ہاتھ میں دے دی اور کہا کہ یہ شریعت ہے، یہ قوانین ہیں، یہ اصول ہیں ان کے مطابق تم تمام دنیا میں رحمت کی نہریں جاری کرو.جو شخص قرآن کریم کے مطابق نہیں بلکہ اس کے خلاف کام کرے گا اس کا وہ کام عمل صالح نہیں ہوگا.قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی بشارت دی کہ اگر تم ایمان کے اوپر قائم رہے اور اگر تم بحیثیت جماعت اس مقام کو جانتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافت کی نعمت سے نوازا ہے اور نوازتا رہے گا تو پھر جو خلیفہ مقرر ہو اس کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرنا اس کو چھوڑ کر دوسری طرف نہ جانا کہ تمہارا ایسا کرنا فاسقانہ اعمال میں شمار ہوگا.اعمال صالحہ میں شمار نہیں ہوگا.غرض خدام الاحمدیہ کا لائحہ عمل وہ ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب مجلس خدام الاحمدیہ کو جاری فرمایا تو ابتداء میں مختلف وقتوں میں خدام الاحمدیہ کے سامنے رکھا یا وہ لائحہ عمل ہے جو میں اب تمہارے لئے بناؤں.تنظیم بڑی چھوٹی سی ابتداء سے شروع ہوئی تھی اور آج یہ بڑی ہی خوش کن اور بڑی اچھی صورت میں اور بڑی وسعتوں میں پھیلی ہمیں نظر آتی ہے اور اب جو بھی خلیفہ وقت ہوگا وہ حالات کے مطابق ہدایتیں دیتا چلا جائے گا.وہ بعض پہلی ہدایتوں میں ترمیم بھی کر سکتا ہے اور بعض تبدیلیاں بھی کر سکتا ہے کیونکہ مناسب حال عمل ہی قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہی عمل صالح بنتا ہے.وقار عمل کی اہمیت ہمارے سپرد ایک کام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ کیا تھا کہ ہم ایک خاص طریق پر وقار عمل منائیں لیکن اب ہم نے اس طریق پر وقار عمل منانا چھوڑ دیا ہے یا ہم ایک حد تک اس سے غافل ہو گئے ہیں.کچھ مجالس تو ایک حد تک اس قسم کے وقار عمل مناتی ہیں لیکن بعض مجالس نے ان ہدایتوں کی طرف سے عدم توجہی برتنی شروع کر دی ہے.مثلاً ہر دو ماہ کے بعد سارے قادیان کا اکٹھا ایک وقار عمل منایا جاتا تھا.جس میں خود حضور کے منشاء کے مطابق غیر خدام کو بھی دعوت عمل دی جاتی تھی ان سے درخواست کی جاتی تھی کہ آپ بھی جو ہمارے بزرگ ہیں آئیں اور اس وقار عمل میں ہمارے ساتھ شامل ہوں.چنانچہ قادیان میں ہر دوماہ میں ایک بار وقار عمل منایا جا تاربا ہے جس میں سارا قادیان شامل ہوتا تھا اور شروع میں ہمیں بڑی محنت کرنی پڑی ہے کیونکہ ابتدائی کام بہت مشکل ہوتا ہے.بہت سی چیزوں کا تجربہ ہی نہیں ہوتا اب آپ کا جو اجتماع ہے اس کے پیرا میٹر کے اوپر جو پتلی پتلی سے رسیاں باندھی گئی ہیں.یہ رسیاں چوروں کو روکنے کیلئے تو نہیں ہیں.بلکہ یہ صرف ایک نشان کے طور پر ہیں.

Page 28

25 فرموده ۱۹۶۶ء دو مشعل راه جلد دوم تا خدام کوعلم ہو جائے کہ اس سے پرے نہیں جانا یا ادھر سے اندر نہیں آیا بلکہ مقررہ راستہ پر سے آنا ہے.ان رسیوں کے باندھنے کیلئے بھی جامعہ احمدیہ کے بیسیوں طالب علم کئی ہفتے وقار عمل کرتے تھے تب یہ چھوٹے چھوٹے ڈنڈے گاڑے جاسکے تھے کیونکہ ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ سوراخ کس طرح کئے جاتے ہیں تاز مین میں ڈنڈے گاڑے جاسکیں.ہم پندرہ میں چوہے رہنے اکٹھے کرتے تھے اور پھر ایک آدمی سوراخ ہی کھود رہا ہوتا تھا.ایک ایک لاٹھی کیلئے سوراخ کرنے پر پندرہ بیس منٹ وقت لگ جاتا تھا اور پھر یہ ایک ڈنڈا نہیں ہوتا تھا بلکہ سینکڑوں ڈنڈے ہوتے تھے.میرے خیال میں آپ کے اس اجتماع کا جو پیرا میٹر ہے اس میں سات آٹھ سو ڈنڈے گاڑے ہوئے ہوں گے.پھر یہاں زمین نرم ہے.وہاں کچھ سخت تھی.اس طرح ہمیں بڑی دقت پیش آتی تھی.پھر ایک دن مجھے خیال آیا کہ یہ کیا لطیفہ بنایا ہوا ہے.ہم ایک ایک سوراخ پر پندرہ بیس منٹ لگا دیتے ہیں میرے ذہن میں سوراخ نکالنے کا ایک بڑا آسان طریق آیا.میں نے آٹھ کیلیاں جو خیمہ لگانے والی ہوتی ہیں بنوالیں اور کچھ ٹھوکنے والے مگدر بھی بنوالئے.پھر ایک آدمی اس مگدر کے ساتھ ایک کیلی پر ایک ہی ضرب لگا تا تھا تو ضرورت کے مطابق سوراخ ہو جاتا تھا پھر وہ وہاں سے کیلی نکال لیتا اور آگے لگا لیتا.اس طرح پندہ دن کا کام چند گھنٹوں میں ہونے لگ گیا.اب پتہ نہیں آپ لوگ کیا طریق اختیار کر رہے ہیں.جوں جوں انسان کو تجربہ حاصل ہوتا ہے وہ سوچتا ہے وقت اس کے سامنے آجاتی ہے.اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وقت ضائع نہیں ہونا چاہیئے.ہم اس وقت کو اس سے اچھے مصرف میں لگا سکتے ہیں.اگر کوئی صورت نکل آئے تو ہم یہاں سے کچھ وقت بچا لیں.پھر اللہ تعالیٰ اسے نئے نئے طریق سوجھاتا چلا جاتا ہے.قادیان میں اجتماع کی ابتدائی کیفیت اس طرح شروع میں جب اجتماع ہوا تو تمہیں پتہ ہے کہ اس اجتماع کے موقع پر خدام کو جو کھانا دیا گیا تھا وہ کہاں پکا یا گیا تھا.وہ کھانا قادیان میں ہر احمدی گھرانے میں پکایا گیا تھا.ہمیں یہ خیال آیا کہ اگر ہر ایک خادم کو گھر جا کر کھانا کھانے کی اجازت دے دی گئی تو بہت سارا وقت ضائع ہو جائے گا.ہمیں اس وقت کو بچانا چاہیئے اور ہمیں مقام اجتماع میں ہی رہنا چاہیئے.تب ہم نے قادیان میں اعلان کر دیا کہ ہر گھر جس کے ایک یا دو خدام اجتماع میں شرکت کیلئے آئے ہوئے ہیں.وہ دو افراد خاندان کی بجائے چار افراد خاندان کا کھانا بھیجے.اب یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ہزاروں گھروں میں سے ہزاروں کھانے برتنوں میں کیسے لائے جائیں اس کیلئے یہ طریق اختیار کیا گیا کہ قادیان میں اعلان کر دیا گیا کہ مثلاً جمعہ کی شام کو ہر گھر مونگ کی دال پکائے گا.چنانچہ اطفال والنٹیئر گھر گھر جاتے تھے اور گھر والے چار کس مونگ کی دال بالٹی میں ڈال دیتے تھے.اب دیکھو ہر گھر میں مونگ کی دال پکی ہوئی ہوتی تھی اور پھر مختلف گھروں میں اس پکی ہوئی دال کی مختلف شکلیں ہوتی تھی.کہیں گاڑھی دال پکی ہوئی کہیں ذرا پتیلی کہیں کچھی ہوتی اور کہیں پکی ہوئی.یہ سارا ملغوبہ بن کے وہاں آجا تا تھا اور اس کے ساتھ

Page 29

دومشعل مل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۶ء 26 روٹیاں آجاتی تھیں.اور ہم اسے آپس میں تقسیم کر لیتے تھے.آپ کو اس وقت ہنسی آرہی ہے مگر ہمیں اس وقت ایسی دال کھانے میں بڑا لطف آتا تھا.پھر اس کے بعد مقام اجتماع میں ہی کھانا پکنے لگا.پھر شروع میں چونکہ ضبط کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے.اس کیلئے کئی سال تک ہمارا یہ دستور رہا ہے کہ مقام اجتماع سے باہر جانے کیلئے صدر مجلس کے علاوہ اور کوئی اجازت نہیں دے سکتا تھا.اب مقام اجتماع سے باہر جانے کی جائز یا نا جائز ضرورت پڑتی رہتی ہے.اب جس شخص کو بھی کہنا ہے وہ بھی اور جس کو نہ کہنا ہے وہ بھی صدر کے پاس آ جائے گا.اب مقام اجتماع میں جہاں بھی صدر مجلس جا رہے ہیں.تمہیں چالیس آدمیوں نے ان کو گھیرا ہوا ہے اور پر چیاں ان کے آگے رکھ ہیں کہ ہم نے باہر جانا ہے ہمیں اجازت دیجئے.یہ تجربے بھی ہم نے حاصل کئے ہیں.غرض ان دنوں میں وقار عمل کی یہ مختلف شکلیں تھیں لیکن ہر دو ماہ کے بعد ہونے والا اجتماعی وقار عمل قریباً با قاعدگی سے ہوتا تھا.ان مواقع پر اکثر حضرت مصلح موعوددؓ تشریف لے آتے تھے.کہیں حضور مٹی کی ٹوکری اٹھا رہے ہیں، کہیں کدال سے مٹی کھود رہے ہیں.ٹھیک جس طرح گھر کا ماحول ہوتا ہے اس ماحول میں وہ وقار عمل منایا جاتا تھا اور اس میں بڑا لطف آتا تھا.شروع میں ہمارے پاس کرالیں نہیں تھیں.شروع میں کام کیلئے کرالیں کہاں سے آنی تھیں.کوئی دوسو کدال کی ہمیں ضرورت تھی اور پانچ سات سو ٹوکریوں کی ضرورت تھی اور ہم یہ کرالیں اور ٹوکریاں گھروں سے مانگتے تھے اور ان کدالوں اور ٹوکریوں کی ہم باقاعدہ رسیدیں لکھ کر دیتے تھے اور ہر کدال کے اوپر ایک نمبر لگاتے تھے اور جس وقت وقار عمل ختم ہوتا تھا تو مجھے اور میرے ساتھیوں کو دو دو تین تین گھنٹے بعد میں وہاں رہنا پڑتا تھا اور کدالوں اور ٹوکریوں کو محلوں میں ان گھروں میں بھیجنا پڑتا تھا.عام طور پر کوئی کدال یا ٹوکری کم نہیں ہوتی تھی.لیکن اگر خدانخواستہ کدال گم ہو جاتی تو ہم اس مالک کو اس کی قیمت ادا کرتے میں یہ بھی بتادوں کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں.لیکن یہ باتیں کیریکٹر بنانے والی ہیں.اور بعض اخلاقی اقدار ایسی ہیں کہ جنہیں آپ کو یا درکھنا چاہیئے انہیں چھوڑنا نہیں چاہیئے.دیکھ لو قادیان میں ہمارا اجتماع اس زمین پر ہوتا تھا جو قادیان کے محلوں میں احمدیوں کی خالی پڑی ہوئی ہوتی تھی.لیکن ہم ان مالکوں سے اجتماع کرنے کی با قاعدہ اجازت لیا کرتے تھے.مثلاً دار الانوار کی ایک کمیٹی بنی ہوئی تھی اور ایک یا دو دفعہ ہمارا سالانہ اجتماع دارالانوار میں ہوا ہے ( زیادہ تر ہمارا سالانہ اجتماع محلہ دارالشکر میں ہوا ہے ) ہم اس کمیٹی سے با قاعدہ دو دو ماہ پہلے اجازت لیتے تھے.ہم ان کی خدمت میں لکھتے تھے کہ آپ کی زمین خالی پڑی ہوئی ہے.یہ زمین آپ کی ملکیت ہے.مہربانی فرما کر آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اسے خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کیلئے استعمال کرلیں.کیونکہ اسلام نے اس بات سے منع کیا ہے کہ آپ کسی دوسرے کی چیز کو بغیر اس کی اجازت کے استعمال میں لائیں.خواہ آپ کے استعمال کے نتیجہ میں اس میں ذرہ بھر بھی فرق نہ پڑے مثلاً خالی زمین ہے بعد میں اس پر مکان بن جانے ہیں.اس پر اجتماع کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے.لیکن پھر بھی اجازت لینی ضروری ہے.اس عمر

Page 30

27 فرموده ۱۹۶۶ء دو مشعل راه جلد دوم میں ان باتوں کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیئے تاکہ بچوں کے ذہن نشین ہو جائے کہ اسلام کس قسم کے اخلاق ہمیں سکھا رہا ہے.شروع میں جب کہ میں نے بتایا ہے ہم گھروں سے کرالیں اور ٹوکریاں مانگ لیا کرتے تھے.لیکن بعد میں میں نے سوچا کہ ایک تو مانگنا بری بات ہے.اس طرح بہر حال دوسرے کا احسان لینا پڑتا ہے اس لئے ہمیں اپنا سامان خریدنا چاہیئے.چنانچہ ہم نے اپنا سامان خرید نا شروع کیا.اور جب ہم قادیان سے ادھر آئے تو اس وقت کئی سو کرالیں اور بیلچے اور غالبا ڈیڑھ دو ہزار ٹوکریاں ہمارے پاس موجود تھیں.اور یہ سارا سامان مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کا تھا.یہ سامان مقام وقار عمل پر جاتا تھا اور استعمال ہوتا تھا اور پھر اس کی حفاظت کی جاتی تھی.یہاں چونکہ اس قسم کا وقار عمل نہیں منایا جاتا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے خیال میں اس وقت مجلس خدام الاحمدیہ کے پاس چالیس کرالیں بھی نہیں ہوں گی.خدا کرے کہ میرا خیال غلط ہو.اس موقع پر حضور نے مکرم مرز لطف الرحمن صاحب معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ سے دریافت فرمایا کہ مجلس کے پاس کتنی کدالیں ہیں.مرزا صاحب نے عرض کیا اس وقت مجلس کے پاس ۳۷ پرانی کدالیس ہیں اور چھپیں نئی خریدی گئی ہیں ).وقار عمل کی روح اس کے بعد حضور نے فرمایا: - اگر یہاں اس قسم کا وقار عمل منایا جائے تو یہ کرالیں ناکافی ہیں.اس قسم کے وقار عمل کیلئے کئی سو کرالیں ہونی چاہئیں.قادیان میں ہم نے ۴۰ ء اور ۴۶ ء کے درمیان یعنی چھ سال کے اندر اندر اپنی ضرورت کو پورا کر لیا تھا.لیکن یہاں اٹھارہ سال ( یعنی اس مدت سے تین گنا) ہو چکے ہیں.لیکن مجلس نے اپنی ضرورت کو پورا نہیں کیا.وقار عمل کی روح یہ ہے کہ ہر احمدی نوجوان کو اس بات کی عادت ڈال دی جائے کہ وہ کسی کام کو بھی ذلیل اور حقیر نہ سمجھے اور جب تک یہ ذہنیت ہمارے نوجوانوں میں پیدا نہ ہو اس وقت تک وہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے اہل ہو ہی نہیں سکتے.جو ذمہ داریاں خدا تعالیٰ نے ان پر ڈالی ہوئی ہیں اور جن ذمہ داریوں کے نبھانے کیلئے ہم لوگ آپ کو کہتے رہتے ہیں.سکاؤٹس کی تنظیم اب دیکھو سکاؤٹنگ ایک دنیوی تنظیم ہے مگر سکاؤٹس کو بھی ہمیشہ مشق کرائی جاتی ہے کہ اپنی روٹی آپ پکائیں.میں بھی سکاؤٹ رہا ہوں.مجھے بھی روٹی پکانی آتی ہے.وقف عارضی کے سلسلہ میں جو دوست باہر جاتے ہیں انہیں بڑی سخت تاکید کی جاتی ہے کہ اپنا کھانا خود پکانا ہے.کسی جماعت پر بار نہیں ڈالنا.لیکن باوجود اس

Page 31

دومشعل نعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۶ء 28 کے کہ ان کی اپنی خواہش بھی ہوتی ہے اور وہ بڑے اخلاص سے جاتے ہیں مگر چونکہ انہیں ان باتوں کی مشق نہیں ہوتی اس لئے گاؤں والوں کے ادنی اشارہ پر کسی اور کو کہتے ہیں کہ پیسے ہم سے لے لو اور ہمارے کھانے کا انتظام کر دو.اب آپ جانتے ہیں کہ زمیندار تو کہیں گے ہماری ناک کٹ گئی کیا ہم پیسے لے کر کھانا پکائیں.کیا ہم پندرہ دن تک دو آدمیوں کا کھانا نہیں کھلا سکتے.اس طرح جو اصل روح تھی وہ فوت ہو جاتی ہے.کیونکہ وقف عارضی کی روح یہ تھی کہ کسی پر بار نہیں بنا.اپنا کھانا خود پکانا ہے اور جو کام سپرد کیا جائے وہ کرنا ہے.جہاں جہاں ہمارے دوستوں نے اس طریق پر کام کیا.دوسروں کی نسبت وہاں بہت زیادہ اثر ہوا.اب دیکھو اگر وہ اپنا کھانا آپ پکا ئیں تو وہ آزاد ہیں.جب تک چاہیں کام کریں لیکن اگر کسی کے گھر کھانا ہو تو مغرب کے بعد وہ گھر والا کہے گا آئیں چل کر کھانا کھالیں اور گھر والی کہے گی کہ میں نے اس کو رات کے دس بجے کھانا کھلانا ہے.اب مغرب سے لے کر رات کے دس بجے تک کا وقت تو اس کا ضائع ہو جائے گا.اگر اس نے اپنا کھانا پکانا ہوتا تو مغرب سے پہلے دو روٹیاں پکالیتا اور کھانا کھا کر وہ اپنا باقی وقت قرآن کریم پڑھانے ، ملنے اور دوستوں کو بیدار کرنے میں خرچ کرتا اور دوسرے بہت سارے کام کرتا.جو اس نے وہاں کرنے تھے.لیکن دوسرے کے گھر کھانے کا انتظام کیا تو یہ مصیبت ہوگئی کہ بندھے ہوئے ہیں.گھر اس وقت جاؤ جب مرد بلائے اور کھانا اس وقت ملے گا جس وقت اس کی بیوی چاہے گی.غرض کسی چیز کو ذلیل نہیں سمجھنا چاہیئے.جس وقت کانگرسیوں کو حکومت انگلستان نے قید کرنا شروع کیا تو وہ اکثر پڑھے لکھے ہوتے تھے انکو ہارڈ لیبر (Hard Labour) کے طور پر سوت کاتنے کیلئے چرخے دیئے جاتے تھے.گاندھی جی بہت ہوشیار آدمی تھے انہوں نے بعد میں گاندھی کا چرخہ کا رواج پیدا کر دیا.یعنی جب تم باہر رہو تب بھی چرخہ کا تو اور جب جیل میں جاؤ تب بھی چرخہ کا تو.اس طرح کانگرسیوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی.وہ جیل سے باہر ہوتے تب بھی چرخہ کاتے اور جب جیل میں جاتے تب بھی چرخہ کاتے.دنیا کی تحریکوں میں اور جود نیا دار لوگ ہیں ان کو واقعی تکلیف ہوتی ہے.لیکن جو خدا تعالیٰ کیلئے جیل میں چلا جائے اس کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی.۱۹۵۳ء میں جب ہمیں ایک مہینہ پچیس دن کیلئے جیل میں بھجوایا گیا ( یعنی حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور اس خاکسار کو) تو ہمیں بھی جیل میں چرخہ کاتنے کی مشقت دی گئی تھی اور ہم بڑی خوشی اور بشاشت سے سوت کاتنے کی کوشش کرتے تھے دھا گا کبھی بنتا تھا اور کبھی ٹوٹ جاتا تھا.بہر حال ہم نے تھوڑا تھوڑا سوت کا تناسیکھنا شروع کیا.لیکن ابھی ہمیں یہ فن پوری طرح نہیں آیا تھا کہ گورنمنٹ نے ہمیں جیل سے رہا کر دیا.گو ہم نے یہ فن پوری طرح سیکھا نہیں لیکن وہاں بیٹھ کے ہمیں اس میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی تھی.کیونکہ ہم جانتے تھے کہ ہم خدا تعالیٰ کی خاطر جیل میں آئے ہیں اور جو چیز بھی خدا کہے اس میں برکت ہوتی ہے.سوت کا تنا تو بڑی صفائی والی چیز تھی.لیکن ایک چیز کی وجہ سے اس وقت طبیعت میں ذراسی کمزوری پیدا ہوگئی تھی.پہلے دن جب کسی کو پتہ نہیں تھا.کالی کوٹھری میں ایک پیالہ تھا.جس مٹی کا یہ پیالہ بنایا گیا تھا اتنی ہی موٹی تہہ

Page 32

29 فرموده ۱۹۶۶ء د و مشعل راه جلد دوم دد گند کی اس پر جم گئی تھی.اس پیالہ میں شام کو ہمیں سالن ڈال کر دے دیا گیا.اور کہا گیا کھاؤ.اس وقت طبیعت سخت گھبرائی.اب میں سوچتا ہوں کہ اگر کسی اور موقع پر وہ چیز سامنے آ جائے تو بغیر کھانا کھائے ہاتھ سے گر جائے.لیکن جیل میں فورا طبیعت سنبھلی اور خیال آیا کہ یہ تو شیطانی خیال ہے کہ اس پیالہ میں نہیں کھانا.خدا کیا کہے گا کہ میری خاطر تم گندے پیالے میں روٹی نہیں کھا سکتے.اس پر ہم نے اس پیالہ میں روٹی کھالی اور ہمیں کوئی تکلیف نہ ہوئی.اور یہ صحیح ہے کہ اس جذبہ کے ساتھ کوئی تکلیف نہیں ہوتی.لیکن بعض تکلیفیں جذباتی اور چینی ہوتی ہیں.اور بعض تکلیفیں جسم کی عادت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور جسم کی عادت کے ساتھ تعلق رکھنے والی تکلیفوں میں جسم بہر حال تکلیف محسوس کرتا ہے.مثلاً عادت بری چیز ہے چاہے کسی چیز کی بھی ہو.اگر کسی کو چار پائی پر سونے کی عادت پڑ جائے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کے کام پوری تسلی کے ساتھ نہیں کر سکتا.مثلاً آپ دوست جو یہاں آئے ہیں آپ میں سے جن کو چار پائی پر سونے کی عادت پڑ گئی ہے ان کو ان دنوں مصیبت پڑی ہوئی ہوگی کہ زمین پر سونا ہے.لیکن اگر سال میں کچھ دن آپ گھر میں بھی زمین پر سوئیں تو آپ کو ان دنوں زمین پر سونے کی وجہ سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی.ہم بچپن سے ہی شکار پر جاتے رہے ہیں میں اس وقت چھوٹا سا تھا.عمر کے لحاظ سے ابھی میں خدام الاحمدیہ میں بھی نہیں آیا تھا.اطفال والی عمر کے حصہ میں میں تھا.اس وقت بھی ہم حضرت صاحب کے ساتھ شکار پر جاتے تھے.اس وقت حضور بھی زمین پر سوتے تھے اور ہم بھی زمین پر سوتے تھے اور زمین پر سونے میں ہمیں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی.لیکن شہری لوگ ( میں نے خود اپنے کانوں سے سنا ہے ) زمین پر سونے سے گھبراتے ہیں کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ انہیں زمین پر سونے کی عادت نہیں.اس قسم کے بہت سارے کام ہیں جنہیں انسان گندا سمجھ کے گھبرا جاتا ہے.لیکن جس شخص نے دنیا کے گند دور کرنے ہوں وہ گند کو ہاتھ لگانے سے کس طرح ہچکچاہٹ محسوس کرے گا.آپ کو تو خدا تعالیٰ نے دنیا میں پیدا ہی اسی لئے کیا ہے کہ دنیا کے گندوں کو دور کرو.ماں کو دیکھ لو.اللہ تعالیٰ نے اس کے ذمہ یہ ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے کہ بچے کو صاف رکھے.جب وہ ٹی کرے تو اپنے ہاتھ سے صاف کرے.اب چونکہ یہ بات اس کی فطرت میں داخل ہے اس لئے وہ اس گند کو بڑی بشاشت سے دور کرتی ہے.اور اس میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتی اسے یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ گند کو ہاتھ لگا ہی ے.بعض مائیں بعد میں صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھوتی ہیں.لیکن گند کو دھوتے وقت ان کی طبیعت میں کوئی ہچکچاہٹ پیدا نہیں ہوتی.ان کی طبیعت میں کسی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا.ان ماؤں کی نسبت بہت زیادہ خطرناک گند ہیں جن کو دور کرنے کی ڈیوٹی خدا تعالیٰ نے آپ کے ذمہ لگائی ہے.پھر اس میں عار کیوں محسوس ہو.آپ کہیں جارہے ہیں ایک بڑھیا آپ کو نظر آتی ہے.آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے ہاتھ میں ایسا سامان ہے جسے وہ ٹھیک طرح سے نہیں اٹھا سکتی.وہ لنگڑ النگڑا کر چلتی ہے اور بہت تکلیف محسوس کرتی ہے.اگر آپ نے سوٹ پہنا ہے ، ٹائی لگائی ہوئی ہے، ننگے سر ہیں اور بال بنائے ہوئے ہیں تو آپ اس بڑھیا کی کوئی مدد نہیں کر سکتے.لیکن اگر آپ سادہ زندگی اختیار کئے ہوئے ہوں اور کسی چیز سے آپ کو عار نہ ہو تو آپ فوراً آگے بڑھیں گے اور کہیں

Page 33

قل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۶ء 30 دومشعل گے کہ ماں جی میں آپ کے بچے کی طرح ہوں اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں.جہاں آپ جانا چاہیں میں آپ کا سامان اٹھا کر وہاں پہنچادوں گا.اس کا جواب وہ بڑھیا دورنگ میں دے گی یا تو وہ سوچے گی کہ دنیا میں بڑے لفنگے موجود ہیں یہ نوجوان بھی ان میں سے ایک لفنگا ہے.اس کو اپنا سامان نہیں دینا چاہیئے.ہوسکتا ہے کہ یہ سامان اٹھا کر اپنے گھر لے جائے.وہ بڑھیا جو چاہے کہے.اللہ تعالیٰ بہر حال آپ کو اس کا ثواب دے گا.یاوہ کہے گی.یہ بڑا اچھا انسان ہے.بڑا ہمدرد ہے.اس سے میری تکلیف نہیں دیکھی گئی.سو وہ آپ کو پیار کرے گی.آپ کو بڑی دعائیں دے گی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو دہرا ثواب مل جائے گا.آپ کے اس نیک کام کی وجہ سے ثواب تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دینا ہی تھا لیکن اس بڑھیا کی دعائیں بھی سنے گا اور آپ کو دوہرا ثواب مل جائے گا.بہر حال کسی چیز کے کرنے میں عار نہیں ہونی چاہیئے اور یہی وقار عمل کی روح ہے.لاہور میں خدام الاحمدیہ کے خدمت خلق میں کام ہمیں وقار عمل ان طریقوں پر شروع کر دینا چاہیئے جو ہمیں حضرت مصلح موعودؓ نے بتائے تھے اور اس کی روح کو زندہ کرنا اور زندہ رکھنا چاہیئے.۱۹۵۰ء میں جب سیلاب آیا.اس وقت ہمارا کالج لاہور میں تھا.اس وقت لا ہور شہر کے بہت سے حصے جزیرے بن گئے تھے.ڈی سی صاحب نے خدام الاحمدیہ اور تعلیم الاسلام کالج کے طلباء کو خصوصاً کہا اور تو کوئی کام نہیں کرتا تم جا کر کام کرو.اور گھروں سے روٹیاں اکٹھی کرو.گورنمنٹ نے یہ اعلان کر دیا ہوا تھا کہ جو لوگ روٹیاں دینا چاہیں وہ روٹیاں دے دیں تاہم ہوائی جہازوں کے ذریعہ سیلاب سے گھرے ہوئے علاقوں پر پھینکیں.تین چار دن یا پانچ چھ دن اس قسم کے حالات رہے تھے.ہمارے کالج کے طلباء بڑی بشاشت کے ساتھ روٹیاں اکٹھی کرنے کیلئے جاتے تھے اور اس میں وہ کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے.ایک دن ہمارے کالج کے طلباء کی پارٹی میرے پاس آئی اور انہوں نے کہا.ہم ایک محلہ میں روٹیاں اکٹھی کرنے گئے تھے لیکن محلہ والوں نے کہا آئندہ تم آؤ گے تو ہم تمہیں ماریں گے.انہوں نے کہا تسی مرزائی ایتھے کی کرن آگئے او.ان لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ مرزائی بیچارے تو ان کے بھائیوں کیلئے روٹیاں مہیا کرنے کیلئے محنت کر رہے ہیں.ورنہ انہیں کیا مصیبت پڑی تھی کہ وہ اپنی رضائیاں چھوڑ کر کمروں سے نکلتے اور تمہارے پاس آتے.بہر حال دنیا میں ہر طرح کے انسان ہوتے ہیں.اچھے انسان بھی ہوتے ہیں اور برے بھی.میں نے ان طلباء سے کہا اپنے لئے مانگنا عار ہے لیکن کسی دوسرے کی حاجت کو پورا کرنے کیلئے مانگنا د ہرا ثواب ہے.ایک تو آپ نے تکلیف اٹھائی.اور ایک اس شخص کو ثواب پہنچا دیا جس سے تم نے روٹیاں حاصل کیں.گویا آپ کو اپنا حصہ بھی ثواب سے ملا اور اس شخص کے ثواب سے بھی حصہ ملا.میں نے طلباء کو ہدایت کی کہ تم کل صبح پھر اسی محلہ میں جاؤ اور ان سے کہو کہ کل تم نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم پھر آؤ گے تو ہم تمہیں ماریں گے.آپ ہمیں جتنی چاہیں چیڑ میں ماریں لیکن ایک شرط ہے کہ جتنی چپیڑ میں مارو اتنی روٹیاں دے دو.کیونکہ ہمارا مقصد صرف روٹیاں

Page 34

31 فرموده ۱۹۶۶ء دومشعل راه جلد دوم جمع کرنا ہے.اس وقت ایک انسان بھوکا ہے اس کو روٹی ملنی چاہیئے اگر زید کو دس چیپٹر میں پڑ جاتی ہیں لیکن وہ دس روٹیاں لے آتا ہے اور پانچ آدمیوں کو کھانا مل جاتا ہے تو ان چپیڑوں سے جو جسمانی تکلیف ہوتی ہے وہ دور ہو جاتی ہے.اور اس میں اس کی کوئی بے عزتی نہیں ہوتی.چھیڑیں اگر خدا تعالی کی خاطر کھائی جائیں تو ان سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی.جیسا کہ میں نے کہا کہ زید دس چیرہ میں کھاتا ہے لیکن دس روٹیاں لے آتا ہے اور اس طرح پانچ آدمیوں کی بھوک کو دور کر دیتا ہے.تو دیکھو اس کو کتنا ثواب ملتا ہے.پانچ آدمی جو بھوک سے تلملار ہے تھے.وہ ان لوگوں کیلئے دعا مانگتے ہوں گے جنہوں نے انہیں روٹیاں دیں اور اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو ڈائیورٹ (Divert) کردیتا ہوگا.جنہوں نے ان روٹیوں کی خاطر چپیڑ میں کھائیں یا وہ روٹیاں حاصل کرنے کی خاطر چھیڑ میں کھانے کیلئے تیار ہو گئے.کیونکہ ان بیچاروں کو تو پتہ نہیں تھا.کہ یہ روٹیاں کس لئے وصول کی جا رہی ہیں.بہر حال ہمیں کسی تکلیف میں بھی عار نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ ہم نے دنیا سے روحانی گند کو بھی دور کرنا ہے اور جسمانی گند کو بھی دور کرنا ہے.جس طرح جسمانی گند کو دیکھ کر انسان کی طبیعت گھبرانی شروع ہو جاتی ہے اور الٹی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح روحانی گندوں کو دیکھ کر روحانی آدمیوں کو بھی گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے.پس ہمیں یہ تکلیف بہر حال برداشت کرنی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمہ ڈیوٹی ہی یہ لگائی ہے کہ ہم دنیا کے گندوں کو دور کریں پس اس وقار عمل کی روح کو ہمیں قائم رکھنا چاہیئے.ہر روز نئے سے نئے بچے خدام الاحمدیہ میں شامل ہورہے ہیں.لیکن بہت سے نئے نوجوان قدم بقدم آگے بڑھتے ہوئے اطفال الاحمدیہ سے نکل کر خدام الاحمدیہ میں داخل ہو جاتے ہیں.اور ایک بڑا طبقہ ایسا ہوتا ہے جن کو پہلے دن کی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے.کیونکہ ان کو خدام الاحمدیہ میں آئے ہوئے پہلا دن ہوتا ہے.بہر حال یہ کام لگا تار ہونا چاہیئے.میں خدام الاحمدیہ ربوہ سے خصوصا یہ امید رکھتا ہوں کہ آئندہ سال سے یعنی اگلے دو ماہ کے اندر اندر ہی وہ پہلا اجتماعی و قار مل کر دیں گے.اور چونکہ یہ صیح ہے کہ اپنے بجٹ سے ہی ہم نے کام کرنا ہے.کسی سے مانگنا نہیں.اس لئے جتنی اللہ تعالیٰ توفیق دے ایک دو سال میں کافی تعداد میں کرالیں، بیلچے اور ٹوکریاں یا لوہے کی بنی ہوئی ٹوکریاں جن کو نگاریاں کہتے ہیں جمع کر لیں گے.اس قسم کی چیزیں ہزار کام آجاتی ہیں.پچھلے دنوں جب لڑائی چھڑ گئی تھی.اگر یہ سامان ہمارے پاس ہوتا تو بہت سارے کاموں میں استعمال کیا جاسکتا تھا.باہر سے مہاجر آئے ہوئے تھے ان کو روٹیاں پہنچانے کیلئے ٹوکریاں کام آجاتیں.غرض ہزار کام ہیں جو اللہ تعالیٰ نیک نیتی سے بنے ہوئے سامان سے لے لیتا ہے اور اس کے بعد ہمیں گھر بیٹھے مفت میں ثواب ملتا رہتا ہے.خدمت خلق کی اہمیت دوسری چیز تھی خدمت خلق.دفتر والے بتائیں کہ خدمت خلق کے ریز ورفنڈ میں اس وقت کتنی رقم ہے؟ اس

Page 35

فرموده ۱۹۶۶ء 32 دد مشعل راه ل راه جلد دوم پر دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ بجٹ میں خدمت خلق کیلئے کوئی علیحدہ مد نہیں.صرف ۲۰ ہزار روپے ایک ریز روفنڈ میں جمع ہیں.اس ریز روفنڈ سے ضرورت پڑنے پر خدمت خلق کے سلسلہ میں بھی خرچ کیا جاتا ہے.اس کے بعد حضور نے فرمایا: - پہلے خدمت خلق ریز روفنڈ ہوا کرتا تھا.لیکن اب بعض مصالح کے پیش نظر اسے عام ریز روفنڈ میں مدغم کر دیا گیا ہے اور ضرورت پڑنے پر اسی ریز روفنڈ سے خدمت خلق کے کام پر بھی خرچ کیا جا سکتا ہے.مثلاً پچھلے سال جب ہماری قوم کو ( ڈیفنس کے سلسلہ میں ) ضرورت پڑی تو اس ریز روفنڈ سے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے ڈھائی ہزار روپیہ کی رقم حکومت کے قومی فنڈ میں بھجوائی.اس طرح اب مثلاً مشرقی پاکستان میں ضرورت پڑتی رہتی ہے وہاں بھی شاید روپیہ بھیجنا پڑے.یہ تو ہے مرکزی فنڈ.لیکن ہر ایک احمدی نوجوان کا یہ فرض ہے (بڑوں کا بھی فرض ہے لیکن اس وقت میں ان کے متعلق کچھ نہیں کہ رہا) کہ وہ خدمت خلق کی طرف بہت ہی توجہ دے.خدمت خلق جس منبع سے نکلی ہے پتہ ہے وہ کیا ہے؟ وہ منبع ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِين“ اس آیت میں نبی اکرم ﷺ کے دل کی کیفیت بتائی گئی ہے.یہ دیکھ کر کہ لوگ مصیبت میں پڑے ہیں ان کا مداوا کوئی نہیں ہور ہا.یہ اپنے علاج اور اپنی صحت کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے.آپ کے دل میں اتنا درد پیدا ہوتا تھا ، اتنی تڑپ اور توجہ پیدا ہوتی تھی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تو نے اپنا یہ حال بنا رکھا ہے کہ ان لوگوں کیلئے اپنی جان دینے کو تیار ہوگیا ہے.اس ذہنیت کے سرچشمہ سے خدام الاحمدیہ کی خدمت خلق کا جذبہ نکلا ہے.پس اپنے آقا محمد رسول اللہ ﷺ کے نام کی قدر کرتے ہوئے اس پر قربان ہونے کیلئے ہر دم اور ہر آن خدمت خلق کی ذہنیت پیدا کرو.جہاں کہیں کوئی مصبیت زدہ ہو اس کی مصیبت کو دور کرنے کا پہلا فرض آپ کا ہے.پھر کسی اور کا ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ اگر میں نماز پڑھ رہا ہوتا ہوں اور میرے کان میں کسی دردمند کی پکار آ جاتی ہے تو میرا دل چاہتا ہے کہ جس طرح ہو سکے میں اس کی تکلیف دور کر سکوں اور اس کو آرام اور سکون پہنچا سکوں اور ایسا کرنے کی خاطر میرا دل چاہتا ہے کہ میں نماز توڑ دوں اور اس کے پاس پہنچ جاؤں.جب میں نے بولنا شروع کیا تھا تو مجھے احساس تھا کہ میں بیمار ہوں.اور تقریر کے بعد اس بات کا زیادہ احساس ہو جائے گا.کہ میں بیمار ہوں.لیکن چونکہ دوستوں کو واپس جانا ہے اس لئے اب میں اپنی تقریر مختصر کر دیتا ہوں.آپ اپنے اندر خدمت خلق کا جذبہ پیدا کریں اور پھر اس جذبہ کو سیر کرنے کیلئے اپنے لئے موقعہ بہم پہنچا ئیں.ایک دفعہ جب یہ جذبہ پیدا ہو جائے گا تو وہ کہے گا کہ اب میرے سیر کرنے کیلئے سامان پیدا کر و.جب بھوک بھڑک اٹھتی ہے تو جسم کہتا ہے کہ کھانے کو کچھ لاؤ.اگر آپ کے دل میں آپ کے دماغ میں اور آپ کی روح میں واقعہ میں صحیح معنی میں خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہو جائے گا اور پھر اس کی سیری کے سامان بھی پیدا ہوتے جائیں گے ( جبکہ میں نے کہا ہے یہ جذبہ نبی اکرم ﷺ کے عظیم سر چشمہ سے نکلا ہے ) آپ کا نفس خود آپ کو کہے گا کہ میں سیر نہیں ہورہا.اس کیلئے سامان پیدا کرو.بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ اگر وہ

Page 36

33 فرموده ۱۹۶۶ء دو مشعل راه جلد دوم کسی روز شام کو اس حالت میں سوئیں کہ انہوں نے کسی کی کسی رنگ میں مدد نہ کی ہو تو ان کیلئے رات کو سونا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا اس جماعت پر بڑا فضل اور احسان ہے.دنیا میں اور کہیں آپ کو یہ نظارہ نظر نہیں آئے گا.لیکن چونکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کیلئے کام کرتے ہیں اس لئے مجھے اشارہ بھی ان کے نام نہیں بتانے چاہئیں.لیکن مجھے ذاتی طور پر بغیر ان کے بتائے ایسے لوگوں کا علم ہے جو روز کسی نہ کسی کی کسی نہ کسی رنگ میں مدد کرتے ہیں.پیسے کے ساتھ بھی اور دوسرے رنگ میں بھی.یہ بھی بڑی چیز ہے کہ آپ کسی سے ہنس کر بات کر دیں.اس کی تکلیف کے بیان کو ہمدردی سے سنیں اور اس سے ہمدردی کا اظہار کریں.خواہ بعد میں آپ معذرت ہی کر دیں اور کہہ دیں مجھے بڑا ہی دکھ ہے کہ میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا.آپ کے پاس مثلاً ایک آدمی آتا ہے اسے پچاس روپیہ کی ضرورت ہے.آپ کی حالت ایسی ہے کہ آپ اسے پچاس روپیہ نہیں دے سکتے.اگر آپ محمل کے ساتھ اور ہمدردی کے ساتھ اس کی باتوں کو سننے کے بعد اس کو کہیں گے کہ کاش میرے پاس پچاس روپے ہوتے تو میں آپ کی اس ضرورت کو پورا کر دیتا.لیکن بڑا افسوس ہے کہ اس وقت میرے پاس اس قدر رو پے نہیں.تو آپ کے ایسا کہنے سے اس کی آدھی تکلیف دور ہو جائے گی اور وہ سمجھے گا کہ دنیا میں میرا بھی کوئی ہمدرد ہے.اور اگر آپ اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہزاروں آدمی ایسے ہیں جن کے ساتھ کسی احمدی نے ہمدردی کا سلوک کیا تو ان کی توجہ اس طرف ہوئی کہ جس جماعت کی طرف یہ شخص منسوب ہے مجھے اس کا لٹریچر پڑھنا چاہیئے.مجھے ان کی باتیں سنی چاہئیں.آخر کیا بات ہے کہ یہ لوگ اس دنیا سے کچھ بے تعلق معلوم ہوتے ہیں.اب دیکھو آپ کے منہ سے ایک لفظ بھی تبلیغ کا نہیں نکلا.لیکن آپ کے حسن سلوک کے نتیجہ میں وہ شخص مجبور ہوگیا کہ وہ جماعت احمدیہ کا لٹریچر پڑھے اور اس کی باتیں سنے اگر وہ پڑھ نہیں سکتا.غرض ہر نیکی کے کام میں اللہ تعالیٰ نے کئی پہلو ایسے رکھے ہیں کہ ادھر کسی نے کوئی نیکی کا کام کیا اور ادھر فرشتہ پہنچ گیا اور اس نے کہا اے خدا تیرے بندہ نے جو کام کیا ہے اس میں فلاں نیکی کی بات بھی تو ہے.تو اس نے کہا اچھا اس کو ادھر سے بھی ثواب دے دو.صحت جسمانی تیسری چیز ہے صحت جسمانی.آپ کو پتہ ہی ہے کہ میں نے اپنی آدھی عمر خدام الاحمدیہ میں بحیثیت صدر کے گزاری ہے.لیکن ایک چیز جو مجھے سمجھ نہیں آتی تھی آج ہی سمجھ آئی ہے.جب میں آپ کیلئے سوچ رہا تھا تو میرے دماغ میں آیا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے صحت جسمانی اور ذہانت کو بریکٹ کر کے ایک ہی شعبہ بنادیا تھا.سوچ رہا تھا تو یکدم میرے ذہن میں قرآن کریم کی ایک آیت کا ٹکڑ آیا اور وہ ٹکڑا یہ ہے إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرُتَ الْقَوِيُّ الْآمِينُ (قصص :۲۷) یہ فقرہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق ان دولڑکیوں نے اپنے باپ کو کہا تھا.جن کے جانوروں کو آپ

Page 37

فرموده ۱۹۶۶ء 34 د دمشعل و جلد دوم نے پانی پلایا تھا یعنی اگر تم نے کسی شخص کو اجرت پر ہی رکھنا ہے تو جس شخص کو اجرت پر رکھا جائے اگر اس میں دو خوبیاں پائی جائیں تو وہ بڑا ہی اچھا کام کرنے والا ثابت ہوگا.ایک تو وہ مضبوط جسم کا ہو اور دوسرے وہ امین ہو.اور لفظ امین کے اندر ذہانت والا پہلو آ جاتا ہے.کیونکہ انسان کی ذہانت کا بڑا انحصار توجہ پر ہے اور توجہ قائم رکھنے کیلئے ایک انسان کا اپنے پیشہ میں امانت دار اور دیانت دار رہنا ضروری ہے.ورنہ وہ مثلاً درزی کی دکان پر درزی کا کام کر رہا ہو گا اور سوچ رہا ہوگا کہ میں نے پیسے کمانے کیلئے جو مرغیاں پالی ہوئی ہیں شام کو میں انہیں کیا کھلاؤں گا.اور وہ کپڑے کے اوپر ٹانکے ادھر ادھر لگا تا چلا جائے گا.اس کی توجہ قائم نہیں ہوگی.پس اس آیت میں الفاظ القوى الامین میں صحت جسمانی اور ذہانت دونوں کا ذکر ہے.جب تک صحت درست نہ ہو وہ بار حیح معنوں میں نہیں اٹھائے جاسکتے.جو قوت برداشت رکھنے والے انسان اٹھاتے ہیں.صحابہ کرام کی صحتیں بشمولیت آنحضرت علی اتنی قوت برداشت رکھتی تھیں کہ وہ دنوں پیٹ پر پتھر باندھ کے خدا تعالیٰ کے رستہ میں جہاد کرتے رہتے تھے.یہاں ایک دن کیلئے کھانا نہ ملے تو اگلے دن شاید ایک مربی بھی یہ کہے گا کہ میں اب تربیت کا کام کس طرح کر سکتا ہوں.لیکن صحابہ کی صحتیں ایسی تھیں کہ وہ دنوں پیٹ پر پتھر باندھ کے کام کرتے تھے.اور دنوں اس گرمی میں انہوں نے کام کیا ہے کہ جس گرمی کی شدت بیان کرنے کیلئے اس دنیا میں اور کوئی گرمی موجود نہیں.گرمی کے دنوں میں جب مسلمانوں کو جہاد کیلئے بلایا گیا تو بعض منافقوں نے کہا.اتنی شدید گرمی تو دنیا کے تختہ پر کہیں بھی نہیں پڑتی ہوگی.ہم اس جہاد میں کیسے شامل ہوں.اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ فلاں ملک میں اس سے زیادہ گرمی پڑتی ہے.بلکہ اس نے یہ کہا کہ تم سچ کہتے ہو.دنیا کے تختہ پر کہیں ایسی گرمی نہیں پڑتی.لیکن ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا جہنم کی آگ اس سے زیادہ سخت ہے.غرض اس گرمی کیلئے (دنیا کی ) مثال نہیں دی جاسکتی تھی.کیونکہ اس وقت ایسی گرمی اور کہیں نہیں پڑتی تھی.اس کی مثال دینے کیلئے نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا کہا اور یہ قوت برداشت صحت جسمانی کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوئی تھی.ور نہ اگر خدانخواستہ ان لوگوں کا خیال اپنی صحتوں کی طرف نہ ہوتا تو جب جہاد کیلئے ان کو بلایا جاتا تو گو وہ اپنے ایمان اور تقویٰ کے زور پر آجاتے لیکن وہ لولے لنگڑے ہوتے.ان کی کمریں جھکی ہوئی ہوتیں.ان کے چہرے زرد ہوتے اور وہ ایک گھنٹہ کی واک (Walk) بھی برداشت نہ کر سکتے.چلنا ان کیلئے دو بھر ہو جاتا اور اگر وہ آ بھی جاتے تو نبی کریم ﷺ ان کو ساتھ لے کر کیا کرتے.وہ کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہ ہوتے.غرض ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے ہی تیار کر رکھا تھا.اور ان کی سمجھ میں یہ نکتہ آ گیا تھا کہ لَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَا عَدُّوا لَهُ عُدَّةً (توبه (۴۶) اگر ان (منافقوں) کی جہاد میں جانے کی نیتیں ہوتیں ( ان کو زیر الزام کیا گیا ہے ) تو وہ اس کیلئے پہلے سے تیاری کرتے اور تیاری کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی صحتوں کو درست کرتے.تو دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں منافقوں کو ان فٹ (Unfit) قرار دیتے ہوئے مومنوں کو کتنا اچھا سرٹیفیکیٹ دیا ہے کہ وہ جہاد پر جانے سے پہلے اس کیلئے تیاری کرتے تھے اور اپنی صحتوں کو بھی درست رکھتے تھے.خدا تعالیٰ نے مومنوں کے

Page 38

35 فرموده ۱۹۶۶ء د و مشعل راه جلد دوم دد متعلق کہا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ارادے اور نیتیں یہ تھیں کہ وہ خدا تعالی کی ہر آواز پر لبیک کہیں گے اور اسی لئے انہوں نے پہلے سے اپنے آپ کو تیار کیا ہوا تھا.جسمانی لحاظ سے بھی اور جس حد تک ان کیلئے ممکن تھا ظاہری تدابیر کے لحاظ سے بھی، اگر کسی کولو ہے کی تلوار میسر نہ آئی تھی تو اس نے لکڑی کی تلوار بنائی تھی اور انہوں نے عزم کیا تھا کہ انہوں نے کوئی ظاہری تدبیر نہیں چھوڑنی.اگر لوہے کی تلوار نہیں تو لکڑی کی ہی سہی اور انہوں نے خیال کر لیا تھا کہ تلوار نہیں تو کوئی بات نہیں.آخر لوگ ڈانگ سے بھی تو مارا کرتے ہیں.انہوں نے کہا ہم جائیں گے ضرور تلوار نہیں تو لکڑی ہی چلائیں گے.لیکن وہ اپنی صحت کا ضرور خیال رکھتے تھے.پس صحت جسمانی کی طرف اور ذہانت کی طرف ہمیں خاص طور پر توجہ کرنی چاہیئے اور آخر میں میں مختصر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم جو بھی ہیں یا جو بھی بن جائیں.دنیا جہان کے اموال ہمارے قدموں میں آجائیں.دنیا جہان کے خزانوں کو ہم شکست دینے کے قابل ہو جائیں.ساری دنیا ہماری غلام ہو جائے تب بھی ہم خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم ایک ہزار موت اپنے نفس پر وارد نہ کریں.جب تک کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور خلوص نیت کے ساتھ ، صدق کے ساتھ اور وفا کے ساتھ ہر آن اور ہر لحظہ یہ اقرار نہ کرنے والے ہوں کہ اے خدا ہم سے تو کچھ ہوا یا نہیں ہوا.لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم انتہائی طور پر جاہل، انتہائی طور پر کم علم کم طاقت بلکہ کچھ بھی نہیں ، ہم محض نیستی محض نیستی محض نیستی ہیں.مگر کوئی نتیجہ نکلا ہے تو صرف تیرے فضل کے ساتھ نکلا ہے.اگر ہمیں آخری فتح نصیب ہونی ہے تو صرف تیرے فضل اور تیری رحمت کے ساتھ ہوتی ہے.ہم کچھ نہیں کر سکتے.تیرا حکم ہے ہم اس کی تعمیل کر رہے ہیں.جس طرح ہم سے پہلے صحابہ کرام لکڑی کی تلوار میں لے کر جنگ میں کود جاتے تھے اسی طرح ہم اپنے ٹوٹے ہوئے دل اور ٹوٹے ہوئے جسم اور ٹوٹی ہوئی تدابیر تیرے قدموں میں لا کر ڈال دیتے ہیں.ہمیں معلوم ہے کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر تیری رضا کی نظر ہم پر پڑ گئی تو کوئی طاقت یا وہ طاقتیں جن کو ہم شیطانی طاقتیں کہتے ہیں ہمارے مقابلہ میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتیں.کیونکہ دنیا کی کوئی طاقت ہمارے رب کے آگے نہیں چل سکتی.ہمیشہ کے لئے پیغام پس سب سے آخر میں اور سب سے ضروری میرا آج کا پیغام بلکہ ہمیشہ کیلئے پیغام ہے کہ اپنے نفسوں پر اس موت کو وارد کرو جس موت کو ہمارے بزرگوں نے جو خدا تعالیٰ کے مقرب بنے اپنے نفسوں پر وارد کیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت ابو یزید بسطامی کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بہت بڑے بزرگ تھے اور ان کا بڑا شہرہ تھا.ہمارے بزرگ وہ تھے جو حقیقتاً بزرگ تھے.جو اپنی بزرگی کے اظہار سے بھی گھبراتے تھے.وہ اس چیز سے گھبراتے تھے کہ کوئی ان کو بزرگ سمجھے.بیسیوں مثالیں اس قسم کی ہماری تاریخ میں پائی جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان میں سے ایک مثال بیان کی ہے جو میرے ذہن میں آگئی ہے اور میں اسے آپ

Page 39

فرموده ۱۹۶۶ء 36 د و مشعل راه جلد دوم کے سامنے بیان کر رہا ہوں.حضرت ابو یزید بسطامی ایک قصبہ میں پہنچے تو وہاں مشہور ہو گیا کہ ایک بڑے بزرگ آئے ہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہجوم لوگوں کا آپ کے گرد جمع ہو گیا.انہوں نے کہا لوشیطان مجھے ریا کی طرف بلا رہا ہے.اور میرے دماغ میں غلط خیال پیدا کرنا چاہتا ہے.رمضان کا مہینہ تھا انہوں نے کھانا لیا اور مجمع میں کھانا شروع کر دیا لوگ آپ کو گالیاں دیتے ہوئے وہاں سے دوڑ گئے.انہوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ تو بڑا نالائق انسان تھا.پتہ نہیں یہ کیوں بزرگ مشہور ہو گیا.اس نے رمضان میں بھی روزہ نہیں رکھا ہوا تھا.حضرت ابو یزید بسطامی نے نفل پڑھے کہ خدایا تیرا بڑا احسان ہے کہ مجھے ان لوگوں سے نجات حاصل ہوئی ہے اور تیری عبادت کیلئے تنہائی میسر آئی ہے.وہ لوگ جاہل تھے اور انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ جو بھی بزرگ ہوا سے رمضان میں ضرور روزہ رکھنا چاہیئے اور حضرت ابو یزید بسطامی نے بھی جان بوجھ کر مجمع میں کھانا کھا لیا تھا.تا لوگ وہاں سے بھاگ جائیں.حالانکہ ان کیلئے ایسا کرنا ضروری نہ تھا.پھر بعض بزرگ ایسے بھی ہیں جن کا ہمیں پتہ نہیں لگتا.ہم نہیں جانتے کہ کون بزرگ ہے اور کون نہیں ہے.پتہ نہیں قیامت کے دن ان بزرگوں کی کون کون سی شکلیں آپ کو نظر آئیں گی.جنہیں اب ہم ان کی زندگی میں حقارت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں.لیکن قیامت کے دن پتہ لگے گا کہ ہم دنیا میں کیا کرتے رہے ہیں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.خودی کو مارو غرض خودی کو مارنا بھی اس وقت ہمارا ایک چیلنج ہے کیونکہ مسلمانوں کا ایک حصہ خودی کو زندہ رکھنے کے حق میں ہے.مثلاً اقبال نے خودی کو زندہ ہی نہیں کیا بلکہ اسے انفلیٹ (Inflate) کیا ہے.جس طرح غبارہ میں ہوا بھر کر اسے پھلا دیا جاتا ہے اسی طرح خودی اور نفس میں خود رائی ، خود روی خود نمائی کی اتنی ہوائیں بھریں کہ وہ اپنے اصل سائز سے بھی کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ خودی کو مارو.خودی کو مارو.خودی کو مارو.آپ نے اس بارہ میں اپنے منظوم کلام میں اردو میں بھی ، فارسی میں بھی اور عربی میں بھی اور پھر اپنی کتابوں میں بھی بار بار تا کید کی ہے اور جو فقرہ ابھی میں نے بولا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی رضا کو اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم اپنے نفس پر ہزار موتیں وارد نہ کریں.یہ بھی دراصل آپ کے ہی ایک شعر کے ایک مصرعہ کا ترجمہ ہے.غرض انسان کو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے ہزار موتیں اپنے پہ وارد کرنا پڑتی ہیں.اس لئے کہ شیطان اسے چھوڑتا نہیں.شیطان ہزار دفعہ آتا ہے اور خودی کے اندر پھونک بھرنی شروع کر دیتا ہے.اور وہ انسان کو کہتا ہے کہ تو ایسا ہے، تو ایسا ہے.اس لئے اسے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اے شیطان تو اپنے پھونک بھرنے کے آلات سمیت یہاں سے دفع ہو جا.یہ ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں علم ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں اور یہ نیستی کا مقام ہے.جومحمد مصطفی ہے کے مقام عبودیت کا ظل ہے.جب تک ہم اسے اختیار نہیں کریں گے.اس وقت تک وہ دن جس کے متعلق ہم توقع رکھتے ہیں کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے

Page 40

37 فرموده ۱۹۶۶ء د و مشعل راه جلد دوم دو گا جس کے متعلق ہم توقع رکھتے ہیں کہ توحید خالص کا جھنڈا ہر گھر میں لہرانے لگے گا.جس کے متعلق ہم یہ امید اور خواہش رکھتے ہیں کہ اس دن محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت ہر فرد بشر کے دل میں جاگزیں ہو چکی ہوگی نہیں آسکتا.ہماری فتح کا دن اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک کہ ہم اس کی راہ میں اپنے نفسوں کو اس طرح فنانہ کر دیں کہ ہمارے نفس کا ایک غبار بنے اور اس غبار کو پھر ہوائیں اڑا کے لے جائیں اور کچھ پتہ نہ لگے کہ ہم کون تھے اور کہاں چلے گئے.اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں احمدی صحیح معنوں میں نوجوان احمدی اور صحیح معنوں میں خدام الاحمدیہ بناۓ.اللهم آمین.

Page 41

دومشعل دوم 00 فرموده ۱۹۶۶ء 38 ۳۱ اکتوبر۱۹۲۶ء بروز سوموار مکرم صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی الوداعی پارٹی کے موقع پر جو خدام الاحمدیہ مرکز یہ کی مجلس عاملہ کی طرف سے آپ کو دی گئی.حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفہ مسیح الثالث نے مندرجہ ذیل خطاب فرمایا: سب سے قبل تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیئے خصوصاً اس موقع پر میں شکر کے ان جذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں.کہ ہم اپنی زندگیوں کے ہرلمحہ میں اپنے رب کی ربوبیت کے مظاہرے دیکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جہاں باہر جسمانی ربوبیت کے سامان پیدا کئے ہیں.وہاں ہماری روحانی ربوبیت کے سامان بھی پیدا کئے ہیں.ایک سامان ہمارے لئے یہ پیدا کیا.کہ حضرت مصلح موعودؓ کے دل میں یہ تڑپ پیدا کی کہ جماعت کے نو جوانوں کو ایک تنظیم میں پروکر ان کی صحیح تربیت کریں.اور اس نظام کا ایک مضبوط باز و انہیں بنا ئیں.اور ہمارے دل میں اس تربیت کے نتیجہ میں یہ بات بھی پیدا کی کہ جو شخص جس رنگ میں ہماری کوئی خدمت کرتا ہے.ہمارے دل میں اس کے لئے شکر کے جذبات ہوں چنانچہ یہ فرض ہے مجلس خدام الاحمدیہ کا جو بھی کوئی ان کا صدرنسی عرصہ میں رہے.وہ اس کے ممنون اور مشکور ہوں.کہ ان کی خاطر اس شخص نے بہت سا وقت خرچ کیا اور بہت سی توجہ دی اور میں سمجھتا ہوں کہ بہت سی دعاؤں کیسا تھ ان کی تربیت میں حصہ لیا.اور سب سے ضروری اور سب سے اہم بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آواز جب بھی اور جس کے ذریعہ بھی ہمارے کانوں تک پہنچے ہمیں فوراً لبیک کہنا چاہیئے اس وقت اللہ تعالیٰ کی آواز ہمارے کان میں یہ پہنچی ہے.کہ نماز مغرب کا وقت ہو گیا ہے اس لئے میں مختصر دعا کے بعد مسجد کو جاؤں گا دوست بھی دعا کرلیں.(غیر مطبوعہ )

Page 42

39 فرمودہ ۱۹۶۷ء دومشعل راه جلد دوم ۱۳ رمئی ۱۹۶۷ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے تربیتی کلاس کے اختتام پر جو خطاب فرمایا اس کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.یہ متن غیر مطبوعہ ہے.تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.تربیتی کلاس کی اہمیت معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے خدام نے اس کلاس کی اہمیت کو پوری طرح سمجھا نہیں.کیونکہ اس وقت ہماری جماعتیں مغربی پاکستان میں ہی ۹۰۰ سے اوپر ہیں اور میرا خیال ہے کہ ۷۰۰ مقامات پر خدام الاحمدیہ کی مجالس قائم ہیں اور ۷۰۰ مجالس میں سے صرف ۱۴ مجالس کے خدام اس کلاس میں شامل ہوئے ہیں یعنی صرف دو فیصدی مجالس کی نمائندگی اس کلاس میں ہے.اس موقع پر ناظم صاحب تربیتی کلاس مکرم شفیق قیصر صاحب نے عرض کیا کہ حضور چودہ مجالس نہیں بلکہ ۳۰ مجالس کے خدام کلاس میں شامل ہوئے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا.اس کا مطلب یہ ہے کہ ۹۶ اور ۹۷ فیصدی مجالس اس کلاس میں شامل نہیں ہوئیں اور صرف ۱۳ اور ۴ فیصدی کے درمیان مجالس کی نمائندگی ہے.جس کا واضح طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ۹۶ یا ۹۷ فیصد مجالس ایسی ہیں کہ جن پر اس کلاس کی اہمیت پورے طور پر واضح نہیں کی گئی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں خدام الاحمد یہ مرکز یہ کا مجالس کی نسبت زیادہ قصور ہے.اس نے اس سلسلہ میں زیادہ غفلت برتی ہے.تدریس کے متعلق ہدایات آئندہ سے ہر کلاس میں مجالس کی نمائندگی مقرر ہونی چاہیئے مثلاً حالات کا جائزہ لے کر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ یہ فیصلہ کرے کہ پانچ سال میں تمام مجالس کی اس کلاس میں نمائندگی ہو جانی چاہیئے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ ۲۰ فیصدی مجالس اپنے نمائندے اس کلاس میں ضرور بھجوائیں.یہاں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ بڑی محنت سے اور بڑی تیاری کر کے پڑھایا جاتا ہے اور جو خدام اس کلاس میں شامل ہوتے ہیں بظاہر ان میں پڑھنے اور علم سکھنے کا شوق بھی پایا جاتا ہے سوائے عربی زبان کے جس کے سیکھنے کا شوق مجھے کم محسوس ہوا ہے لیکن جو باتیں آپ یہاں سنتے ہیں اور انہیں یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ پوری طرح یاد نہیں رہ سکتیں.اس کے لئے

Page 43

د دمشعل قل راه جلد دوم فرمودہ ۱۹۶۷ء 40 یہاں ایک انتظام کے ماتحت نوٹ بکیں تیار ہونی چاہئیں تقاریر جو یہاں کی جائیں ان کے نوٹ طبع کرا کے یا سائیکلوٹائل کرا کے کلاس میں شامل ہونے والے خدام کو دئے جائیں اور خدام انہیں اپنے پاس محفوظ رکھیں.انہیں پڑھیں.یاد رکھیں اور اپنی مجالس میں واپس جا کر وہاں کے دوسرے خدام کو یاد کرائیں غرض آپ نو جوانوں کا فرض ہے کہ یہاں آئیں اور دین سیکھیں اور پھر جو کچھ سیکھیں اسے اپنی ذات تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ اپنی مجلس میں واپس جا کر دوسرے دوستوں کو بھی بتائیں کہ آپ نے یہاں آ کر کیا کچھ سیکھا ہے.اپنی مجالس میں واپس جا کر وہاں ایک کلاس جاری کر کے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک روزانہ ایک ماہ یا دو ماہ تک روزانہ دوسرے خدام کو پڑھائیں اور نہ اس بات کا کوئی فائدہ نہیں کہ اتنی بڑی جماعت میں سے ۸۰ یا ۱۵۰ طالب علم یہاں آئیں اور تعلیم حاصل کریں اور دوسرے سب نو جوانوں کو اس سے محروم رکھا جائے.یہ دوسروں پر بہت بڑا ظلم ہے اور اس ظلم میں آپ بھی شریک ہیں کیونکہ آپ یہاں آتے ہیں.کلاس میں شامل ہوتے ہیں لیکن آپ نوٹ نہیں لیتے اور اپنے آپ کو اس قابل نہیں بناتے کہ اپنے دوسرے بھائیوں کے سامنے ان دلائل کو رکھیں اور ان کو آیات قرآنیہ سکھائیں اور اس طرح اپنے آپ کو بھی اور دوسرے نوجوان بھائیوں کو بھی احمدیت کے عالم بنانے کی کوشش کریں.دوسری کلاس جو ہر سال جولائی میں ہوتی ہے اس میں بھی نقص تھا گو اس میں شامل ہونے والے بڑی عمر کے اور زیادہ تجربہ کار ہوتے ہیں اور وہ ساتھ ساتھ تقاریر کے نوٹ بھی لیتے ہیں (گوان میں سے بعض ناقص نوٹ لیتے ہیں لیکن بعض ان میں سے خاصے نوٹ لے لیتے ہیں) لیکن وہ پورے نوٹ نہیں لے سکتے خصوصاً جو عام لیکچر ہیں ان میں اگر نوٹ لینے کی طرف توجہ ہو تو ان کی بہت سی باتیں سمجھ میں نہیں آسکتیں اس لئے تجویز ہے اور اس کلاس میں جو آئندہ جولائی میں منعقد ہونے والی ہے اس پر عمل ہوگا کہ اس میں شامل ہونے والوں کو کاپیاں تیار کر کے دی جائیں.عام طور پر جو دوست اس کلاس میں باہر سے آکر شامل ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر پانچ دس آنے خرچ کر سکتے ہیں اس لئے یہ کا پیاں ان کے پاس فروخت کی جائیں لیکن بعض ایسے افراد بھی ہو سکتے ہیں جو غریب ہوں اور اتنی رقم خرچ کرنے کے بھی قابل نہ ہوں ان کو یہ کا پیاں مفت دی جائیں اور ان کا پیوں میں ان لیکچروں کے نوٹ ہوں جو یہاں ہوتے ہیں مثلاً یہاں ایک عالم وفات مسیح لیکچر کرتا ہے اور اس لیکچر میں پانچ یا دس آیات قرآنیہ پیش کرتا ہے تو پہلے وہ اس لیکچر کے نوٹ تیار کرے اور وہ نوٹ طبع کر کے یا سائیکلوسٹائل کر کے کلاس میں شامل ہونے والوں کو دئے جائیں اور وہ نوٹ اس سائز کے کاغذ پر ہوں جو اس کاپی میں پورے آ سکیں.اگر خدام کے پاس اس قسم کی نوٹ بک تیار ہوگی تو ان کے اندر باہر جا کر ایک عالم بن کر کام کرنے کی اہلیت پیدا ہوگی.چونکہ یہ زمانہ طباعت کا غذ اور قلم کا زمانہ ہے اس لئے عام طور پر انسان حافظہ سے اتنا کام نہیں لے سکتا جتنا وہ نوٹ بک سے لے سکتا ہے جس خادم نے نوٹ بک تیار نہ کی ہو وہ غیروں کے سامنے بات کرنے میں ہچکچاہٹ اور حجاب محسوس کرے گا.اس کے ذہن میں یہ تو ہوگا کہ قرآن کریم میں ۳۰ آیات ایسی ہیں جن سے یہ امر واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے جسد عصری کے ساتھ آسمان پر نہیں اٹھائے گئے

Page 44

41 فرمودہ ۱۹۶۷ء د و مشعل راه جلد دوم دد بلکہ وہ دیگر انبیاء کی طرح اپنا کام ختم کر کے اسی دنیا میں وفات پاگئے ہیں اور اسی زمین میں دفن ہوئے ہیں اور قرآن کریم کی کسی آیت سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں بلکہ اس کے مقابل قرآن کریم کی تمیں آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ یہیں اس زمین پر فوت ہوئے ہیں پس اس کے ذہن میں یہ مضمون تو ضرور ہو گا لیکن اگر وہ کسی ایسے شخص سے بات کرے گا جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں تو اسے بڑی مشکل پیش آئے گی.گو اس کے ذہن میں سب کچھ ہوگا لیکن وہ اسے بیان نہیں کر سکے گا.ہاں اگر اس کے پاس نوٹ بک ہوگی تو وہ اسے نکال کر ایسے آدمی کو وہ تمیں آیات بتا سکتا ہے جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے.آپ میں سے ہر ایک نے اسلام کا سپاہی بننا ہے آپ میں سے ہر ایک نے اسلام کا سپاہی بنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم انتہائی کوشش کریں گے کہ آپ کو اسلام کا سپاہی بنادیں اور ہم اپنے رب سے یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ میں سے اکثر خدا تعالیٰ کی فوج کے سپاہی بن جائیں گے لیکن اس کے لئے نہیں بھی بڑی جد و جہد کرنی پڑے گی اور آپ کو بھی بڑی کوشش کرنی پڑے گی.صرف احمدیت کی طرف منسوب ہونا یا کسی احمدی باپ کے ہاں پیدا ہوجانا کافی نہیں.نبی کریم ﷺ نے دنیا کے سامنے قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب پیش کی.اور آپ کے صحابہ نے اور تابعین نے اور پھر ان کے بعد آنے والی نسل نے (جس درجہ پر آپ لوگ ہیں جنہیں تبع تابعین کہتے ہیں قرآن کریم کی عظمت کو جانا اور پہچانا.انہوں نے اس نور سے وافر حصہ لیا اور اس نور کو دنیا میں پھیلایا اور ایک انقلاب عظیم پیدا کر دیا اس وقت دشمن نے اسلام کے مقابلہ میں تلوار نکالی تھی اور اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں اس تلوار کو توڑ دیا تھا اور اسلام کو غالب کر دیا تھا آج دشمن منہ کی پھونکوں سے اسلام کو مٹانا چاہتا ہے اور جو لوگ اس وقت ہمارے مقابلے کے لئے ہمارے سامنے کھڑے ہیں ان کا مقابلہ ہم نے دلائل اور معجزات کے ساتھ کرنا ہے.نبی اکرم ﷺ نے جب دنیا کے سامنے قرآن کریم کو پیش فرمایا تو جن نسلوں نے ( زیادہ تو وہ پہلی تین نسلیں ہی تھیں ) قرآن کریم کی عظمت اور شان اور اس کے مقام کو پہچانا تھاوہ قرآن کریم کی برکت سے دنیا پر غالب آئیں اور کوئی میدان ایسا نہیں تھا جس میں وہ مغلوب ہوئی ہوں لیکن اس کے بعد قرآن کریم کو اسلام کے ہر فرقہ نے چھوڑ دیا اور اس کا بڑا زبردست ثبوت یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے اسلام کو دنیا کے دوسرے تمام مذاہب پر غالب کرنے اور قرآن کریم کی برکتوں کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو اسلام کا کوئی فرقہ ایسا نہیں تھا جو پورے کا پورا آپ پر ایمان لایا ہو.اور اس نے آپ کو پہچانا ہو حالانکہ آپ قرآن کریم ہی کی طرف تمام دنیا کو بلا رہے تھے اگر ایک فرقہ بھی سارے کا سارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قرآن کریم کا علم رکھتا اور اس کے نور سے منور ہوتا تو اس کے تمام افراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے

Page 45

فرمودہ ۱۹۶۷ء 42 د دمشعل را تل راه جلد دوم دوڑے آتے اور آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر آپ پر ایمان لاتے تو دنیا میں وہ عظیم انقلاب پیدا ہوجاتا جو اللہ تعالیٰ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پیدا کرنا چاہتا تھا اور اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کرنے کے لئے جو جد و جہد جماعت احمد یہ کر رہی ہے اس میں وہ شریک ہوتے اور اللہ تعالیٰ کی برکتوں سے حصہ لیتے لیکن کوئی فرقہ سارے کا سارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان نہیں لا یا بلکہ ایک فرقہ سے چند اور دوسرے فرقہ سے چندا حمدیت میں داخل ہوئے اور داخل ہورہے ہیں.صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قربانیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ نے بڑی قربانیاں کی ہیں اور ان کے بعد جو ان کے تابعین ہیں وہ بھی بڑی قربانی کر رہے ہیں.ان کے بعد آپ کی نسل آئے گی.آپ کو ان قربانیوں کے لئے تیار کرنا جماعت کے نظام کا کام ہے اور اس کے لئے کوشش کی جارہی ہے.ہر سال ایک تربیتی کلاس منعقد کی جاتی ہے اور آپ کو اس میں بلایا جاتا ہے اور ایک اور پروگرام بھی ہے جو میں عنقریب جماعت کے سامنے رکھنے والا ہوں.آپ کی نسل یعنی تبع تابعین کو سنبھالنا.ان کو دین کا علم سکھانا ان کے اندر قربانی کا جذبہ پیدا کرنا.ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا عشق اور رسول کریم علی اللہ کی محبت پیدا کرنا بڑا ہی ضروری ہے.اس کے بغیر جماعت اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتی جس کے لئے یہ اس زمانہ میں قائم کی گئی ہے اور یہ بات اس لئے بھی ضروری ہے کہ جماعت اس وقت اپنی تاریخ کے اس دور میں سے گزر رہی ہے جس میں ہم اپنے رب سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق اس کو ترقی دے گا.اب آج اگر لاکھوں انسان احمدیت میں داخل ہوں تو ان کو پڑھانے کے لئے ہمیں ہزاروں کی تعداد میں استاد چاہئیں.ہمیں ایسے نوجوان اور بڑی عمر کے افراد چاہئیں جن کا علم کافی حد تک مکمل ہو اور وہ اس قابل ہوں کہ انہیں علمی اور عملی میدان میں سنبھال سکیں.پہلے علم کمزور ہوتا ہے.پھر عمل میں رخنہ پیدا ہوتا ہے.ہر وہ بات جس کے خلاف قرآن نے علم بلند کیا تھا اور اب وہ اسلام میں داخل ہونی شروع ہو گئی ہے.شراب کو ہی لے لو.اسلام میں شروع شروع میں شراب پینا منع نہیں تھا.ہجرت کے بعد مدینہ میں یہ حکم نازل ہوا کہ اسلام میں شراب ممنوع ہوگئی ہے اور جس وقت یہ حکم نازل ہوا بہت سے لوگ شراب پی کر مدینہ میں بدمست تھے لیکن جب شراب کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو وہ بدمستی بھی ختم ہوگئی اور شراب بھی ختم ہوگئی.رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں صحابہ کی اتنی تربیت ہو چکی تھی کہ ایک آواز نے شراب پینے کی عادت کو بالکل مٹادیا اور جب مسلمان قرآن کریم کو بھول گئے تو اب مغربی پاکستان میں ہی لاکھوں لوگ اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور وہ شراب پیتے ہیں اور ان میں سے سارے کے سارے قریباً ایسے ہیں جو شراب پیتے ہیں لیکن ہمیں کا فر کہتے ہیں.گو انہیں خود اسلام کا پتہ نہیں لیکن جو جماعت اسلام پر قائم ہے وہ ان کے نزدیک کا فر ہے اور جو خود اسلام کو عملاً اور عقید تا چھوڑ چکے ہیں وہ بڑے مسلمان ہیں.اسی طرح

Page 46

43 فرمودہ ۱۹۶۷ء اور بھی کئی رسمیں اسلام میں داخل ہو گئی ہیں.اسلام سادہ زندگی کا مذہب ہے د و مشعل راه جلد دوم دد اسلام سادہ زندگی کا مذہب ہے اور ہر رسم تکلف پر مبنی ہے اسلام نے سادہ زندگی کو پیش کیا ہے.اس نے کوئی بد رسم قائم نہیں کی ایک حقیقی مسلمان سادہ زندگی گزار رہا ہوتا ہے اور بدر میں اس کی زندگی میں راہ نہیں پاتیں لیکن جب مسلمان قرآن کریم کو بھول گئے تو ان میں کئی بدر سوم رائج ہوگئیں.ہم میں سے اکثر کو پتہ ہی نہیں کہ وہ رسمیں کیا کیا ہیں.میں نے ان رسوم کو اکٹھا کر دیا ہے جو مسلمان اس زمانہ میں کر رہے ہیں اور وہ بڑی عجیب معلوم ہوتی ہیں.اگر تمہیں اسلام کا صحیح علم نہ ہو تو تم شیطان کے حملہ سے بچ نہیں سکتے اور نہ جماعت کو بچا سکتے ہو شیطان مختلف محاذوں سے اسلام پر حملہ آور ہوتا ہے اور آئندہ بھی وہ مختلف محاذوں سے حملہ آور ہوگا اور ہم نے ہر محاذ پر شیطان کو شکست دینی ہے اور ہم شیطان کو ہر محاذ پر اس صورت میں شکست دے سکتے ہیں جب ہمیں قرآن کریم کا صحیح علم حاصل ہو اور اس زمانہ میں قرآن کریم کا صحیح علم صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہی حاصل کیا جا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب قرآن کریم کی تفسیر ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری کتب اور آپ کی ساری تقاریر اور سارے ملفوظات قرآن کریم کی تفسیر ہیں اور وہی ایک ایسی تفسیر ہے جو زمانہ حاضر کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہے.آپ کے بعد جو غیر لکھی گئی ہے یا جو تفسیر تقاریر میں بیان کی گئی ہے اس کی بنیاد بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر پر ہی ہے.قرآن کریم کے علوم کا میدان بند نہیں ہوا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بنیاد رکھ دی ہے اور آئندہ جو عمارت بھی کھڑی ہوگی وہ اس بنیاد پر کھڑی ہوگی لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ کی نسل میں بعض ایسے افراد بھی پیدا ہو گئے ہیں جو تفسیر کرنے میں احتیاط نہیں کرتے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کے خلاف تو نہیں ہے.قرآن کریم کے علوم غیر محدود ہیں اس لئے اس کی نئی سے نئی تفسیر ہوتی چلی جائے گی لیکن قیامت تک اس کی کوئی ایسی تفسیر نہیں لکھی جاسکتی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کے متضاد اور مخالف ہو مثلاً ایک خیال امت مسلمہ میں یہ پیدا ہو چکا ہے کہ اس میں بعض ایسے بزرگ اور مقدس وجود بھی پیدا ہوئے ہیں جو انسان کو ایک نظر سے ولی بنا دیتے ہیں حالانکہ یہ تصور نہایت ہی بیہودہ اور لغو ہے اسلام تو اسے دھکے دے دے کر باہر نکال رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے پر خچے اڑا دیئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خیال کی تردید فرماتے ہوئے ایک دلیل یہ بھی دی ہے کہ سب سے زیادہ قوت قدسیہ نبی اکرم ﷺ کو حاصل تھی.جب آپ کی ایک نظر نے کسی پر اللہ تعالیٰ کے قرب کی جنتیں نہیں کھولیں بلکہ آپ کے صحابہ کو انتہائی قربانیاں دینی پڑیں

Page 47

دومشعل کل راه جلد دوم صلى الله فرمودہ ۱۹۶۷ء 44 تب جا کر وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی جنتوں میں داخل ہوئے تو اب کس ماں کا بیٹا ہوگا جو آپ سے زیادہ قوت قدسیہ کا دعویٰ کرے.جس کو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی رضا اور دوستی کے حصول کے لئے ہر انسان کو قربانی دینی پڑتی ہے اور اس طریق کے مطابق قربانی دینی پڑتی ہے جو قرآن کریم نے بتایا ہے وہ رسول کریم ﷺ کی سنت سے ثابت ہے لیکن اب مسلمان فرقوں میں بہت ساری نئی چیز میں داخل ہوگئی ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ اگر تم یہ کرلو گے تو تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگی.حالانکہ خدا تعالیٰ کی حمد اس کی تسبیح اور ذکر اور لاحول اور نماز اور روزہ اور زکوۃ اور حج وغیرہ سات سو یا اس سے زیادہ احکام جو قرآن کریم میں ہیں ان کی پابندی کے نتیجہ میں اور ان پر عمل کر کے ہی خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جا سکتا ہے.جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ان وظائف کے علاوہ جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں بعض اور وظائف بھی ہیں جو یاد کئے جانے چاہئیں کہ ان کی ضرورت زیادہ ہے اور ان کے نتیجہ میں ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہیں تو یہ ایک نئی شریعت کے مترادف ہے اور قرآن کریم کے بعد اور کوئی شریعت قیامت تک نہیں آ سکتی.غرض قرآن کریم کی وہ تفسیر جو آج کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں پائی جاتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور وہ علوم جوان کتب میں پائے جاتے ہیں ہر احمدی کی جان اور اس کی روح ہیں اگر آپ ان کتب سے یا ان کتب میں بیان کئے گئے علوم سے ناواقف ہیں تو گو احمدیت تو پھیل کر رہے گی اور اس کو مٹانا مشکل ہوگا.لیکن تم ایک ایسے مردہ جسم کی طرح ہو جاؤ گے جس میں جان نہیں ہوگی.پس وہ بنیادی نصیحت جو میں اپنے بچوں کو اس وقت کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے پڑھنے کی عادت ڈالیں.روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب یا آپ کے ملفوظات کا کوئی حصہ پڑھ لیا کریں.ملفوظات سے اگر آپ شروع کریں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ ان میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ عام فہم ہیں اور جن الفاظ میں انہیں اخبارات نے محفوظ کیا ہے وہ بھی آسان اور عام فہم ہیں ان میں مثلاً مختلف سوالات کے جوابات ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کئے گئے یا ان سوالات کا جواب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا ہے جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود لکھا ہے کہ جو دوست باہر سے آئیں وہ قادیان سے جلد واپس نہ چلے جائیں بلکہ کچھ عرصہ یہاں رہیں، لیکن مجالس میں الہی علم کے مطابق انسان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے باتیں کرتا ہوں.مثلاً ایک آدمی مجلس میں آتا ہے اور وہ حدیث کی کوئی اہمیت نہیں سمجھتا تو اللہ تعالیٰ مجھے القاء کرتا ہے اور میں حدیث کی اہمیت بیان کر دیتا ہوں یا بعض ایسے آدمی آپ کی مجلس میں آ جاتے جو حدیث کو قرآن کریم پر ترجیح دینے والے ہوتے تو آپ مجلس میں اس موضوع پر کچھ فرما دیتے.غرض بہتوں کو سوال کرنا ہی نہیں پڑتا تھا.اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کر دیا تھا کہ جن عقائد اور کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہوتی یا جن مسائل کو بیان کرنے کی ضرورت ہوتی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے متعلق کچھ بیان فرما

Page 48

45 فرمودہ ۱۹۶۷ء دو مشعل راه جلد دوم یتے.غرض ملفوظات کے ایک ایک حصہ میں سینکڑوں مسائل بیان ہوئے ہیں.جس طرح سیمنٹ کی نئی بنی ہوئی دیوار پر آپ ناخنوں سے نشان ڈال دیتے ہیں اس طرح آپ کی نسل پر شیطان خراشیں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا جائے اور یہ کام آپ کوئی زائد وقت دیئے بغیر کر سکتے ہیں.صرف نیت کرنے کی ضرورت ہے.اگر میں مبالغہ نہیں کر رہا تو آپ روزانہ ایک گھنٹے دو گھنٹے کے درمیان وقت ضائع کر دیتے ہیں اگر آپ کو یہ خیال ہو کہ آپ کا وقت ضائع نہیں ہونا چاہیئے تو آپ اس وقت کا ایک حصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ میں خرچ کریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تو وہ شیخ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا اور ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور آپ اسے ضائع کر رہے ہیں اور اس طرح خدا تعالیٰ کی ناشکری کے مرتکب ہورہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے اپنے آپ کو محروم کر رہے ہیں اور جو وقت آپ ضائع کر رہے ہیں اس کا چوتھا حصہ بھی آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ میں خرچ کریں تو آپ دس ہمیں صفحات روزانہ پڑھ سکتے ہیں.اگر آپ پانچ صفحات روزانہ بھی پڑھیں تو ایک ماہ میں آپ ۱۵۰ اور سال میں ۱۸۰۰ صفحات پڑھ لیتے ہیں اور کہنے کو صرف پانچ صفحات روزانہ ہیں.اگر آپ یہاں سے یہ عہد کر کے جائیں گے کہ ہم روزانہ پانچ صفحات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے پڑھیں گے بلکہ میں پانچ کی شرط کو بھی چھوڑتا ہوں اگر آپ تین صفحات روزانہ پڑھنے کا بھی عہد کریں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تھوڑے عرصہ ہی میں آپ کے اندر ایک عظیم انقلاب پیدا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی برکتیں آپ پر نازل ہوں گی اور خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے آپ کو اس قدر حصہ ملے گا کہ آپ دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والے ہوں گے.تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے اس کے بعد آپ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اس کے ایسے بندے بن جائیں گے جو اس کے پسندیدہ بندے ہوتے ہیں.آپ دنیا کے راہنما اور قائد بن جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی برکتیں آپ حاصل کریں گے لیکن اس قیادت اور راہنمائی اور خدا تعالیٰ کے فضل اور برکتوں کا حصول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان کردہ تفسیر قرآن کریم سے باہر نہیں ہوسکتا.سو میں آپ کو بار بار تاکید کروں گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کی عادت ڈالیں تین صفحات روزانہ پڑھنا شروع کر دیں گے تو پھر آپ کو اس کی عادت پڑ جائے گی اور اس کے نتیجہ میں آپ کی پڑھائی پر یا اگر آپ کوئی کام کر رہے ہیں تو آپ کے کام پر قطعاً کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ یہ مطالعہ ان پر اچھا اثر ڈالے گا اگر آپ میں کوئی پڑھنے والا ہے تو اس مطالعہ کے نتیجے میں اس کے ذہن میں جلا پیدا ہوگی اور اس کے اندر ایک نور پیدا ہوگا اور پھر وہ دوسرے مضامین کیمیسٹری اور انگریزی وغیرہ کو با آسانی سمجھنے لگے گا اور امتحان میں اسے اچھے نمبر ملیں گے اور اگر وہ کوئی کام کر رہا ہے تو اس کے کام میں Efficiency (ایفی شنسی ) پیدا ہو جائے گی پچھلے سال جو طالب علم انجینئر نگ یونیورسٹی میں فرسٹ آئے ہیں وہ مجلس خدام الاحمدیہ کے کاموں میں کافی وقت دیتے تھے.اس کا ان کی پڑھائی پر کوئی برا اثر نہیں پڑا.

Page 49

فرمودہ ۱۹۶۷ء 46 د دمشعل راه جلد دوم بلکہ وہ یونیورسٹی میں اول آئے ہیں.کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی جب تم اپنے اندر کمال پیدا کر لو گے تو دنیا تمہارے عقائد کو تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن وہ آپ کی قدر کرنے لگ جائے گی اور آپ کی عزت اور احترام کرنے پر مجبور ہوگی.پس آج آپ کو میری نصیحت یہی ہے اور یہ بڑی بنیادی اور اہم نصیحت ہے اور میں اسے بار بار دہرانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کی عادت ڈالیں اس کے نتیجہ میں آپ شیطان کے بیسیوں حملوں سے محفوظ ہو جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں آپ کی عزت ہوگی اور آپ کی زندگی کے کاموں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا اور جب وہ وقت آئے گا کہ دنیا پکارے گی ہمیں استاد چاہئیں.ہمیں سکھانے والے چاہئیں تو آپ میں سے ہر ایک اس قابل ہوگا کہ وہ استاد بن سکے.اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا کا استاد بنے کی توفیق عطا کرے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم آپ کو ان راہوں پر چلائیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل آپ کے شامل حال ہوا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی آپ کو ملے.

Page 50

47 فرمودہ ۱۹۶۷ء دومشعل راه جلد دوم ۲۹ ستمبر ۱۹۶۷ء کومری میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے وقف جدید کے موضوع پر بعض نصائح فرمائیں جو درج ذیل ہیں.دونسلوں کی نازک ذمہ داری میں نے بڑا غور کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہم پر جو دوسری نسل احمدیت کی اس وقت ہے اور ہماری اگلی نسل پر جو اس وقت بچے ہیں.ان دو نسلوں پر قربانیاں دینے کی انتہائی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.کیونکہ ہم ایک ایسے زمانہ میں داخل ہو چکے ہیں.جس میں ترقی اسلام کے لئے جو مہم جاری کی گئی ہے.وہ اپنے انتہائی نازک دور میں داخل ہو چکی ہے اور ہمیں اور آنے والی نسل کو انتہائی قربانیاں دینی پڑیں گی.تب ہمیں اللہ تعالیٰ وہ عظیم فتوحات عطا کرے گا.جس کا اس نے ہم سے وعدہ کیا ہے.پس ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کے دلوں میں بھی اس احساس کو زندہ کریں اور زندہ رکھیں کہ عظیم فتوحات کے دروازے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے کھول رکھے ہیں.اور ان دروازوں میں داخل ہونے کے لئے عظیم قربانیاں انہیں دینی پڑیں گی.اور ان سے ہم ایسے کام کرواتے رہیں.کہ ان کو ہر آن اور ہر وقت یہ احساس رہے کہ غلبہ اسلام کی جو مہم اللہ تعالیٰ نے جاری کی ہے.اس میں ہمارا بھی حصہ ہے ہم نے بھی کچھ کنٹری بیوٹ کیا ہے.ہم نے بھی اس کے لئے کچھ قربانیاں دی ہیں.ہمارے بچے وقف جدید کا بوجھ اٹھا ئیں ہم بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ویسے ہی امیدوار ہیں جیسا کہ ہمارے بڑے ہیں.اس کے لئے میں نے علاوہ اور تدابیر کے جو ذہن میں آتی رہیں یا جو پہلے سے ہماری جماعت میں جاری ہیں یہ تحریک کی تھی کہ ہمارے بچے وقف جدید کا مالی بوجھ اٹھائیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت کے سارے بچے اور وہ ماں باپ جن کا ان بچوں سے تعلق ہے اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اس بات کو اچھی طرح جانے لگیں کہ جب تک بچے کو عملی تربیت نہیں دی جائے گی.اللہ تعالیٰ کی فوج کا وہ سپاہی نہیں بن سکے گا.اگر وہ دین کے لئے ابھی سے ان سے قربانیاں لیں تو یہ نسل اللہ تعالیٰ کے فضل سے پوری طرح تربیت یافتہ ہوگی.اور جب ان کے کندھوں پر جماعت کے کاموں کا بوجھ پڑے گا تو وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے اور ان کو بنانے کے لئے کوشاں رہیں گے.میرے دل میں یہ احساس ہے کہ جماعت نے بحیثیت مجموعی اس کی طرف وہ توجہ نہیں دی جو اس کو دینی چاہئے.بڑے نیک نمونے بھی ہیں ہماری جماعت میں.ایسے بچے جن کو تحریک نہیں کی گئی اور پھر بھی ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ

Page 51

د و مشعل راه جلد دوم فرمودہ ۱۹۶۷ء 48 ہمارے بڑوں پر ہی نہیں ہم پر بھی قربانیوں کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور وہ قربانیاں دیتے ہیں.افریقہ کے ایک بچے کی مثال میں اسی وقت دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.افریقہ میں ہمارے ایک احمدی بھائی ہیں.لیق احمدان کا نام ہے.بڑے مخلص دُعا گو ہیں اور ہر وقت ان کو یہ احساس رہتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ہم پر فضل کر رہا ہے.ہمیں اپنی راہ میں قربانیاں دینے کی تو فیق عطا کرتا ہے.ہمارے بچے بھی اس کے فضلوں کے وارث بنیں اور اس کی راہ میں قربانیاں دیں.چند دن ہوئے انہوں نے مجھے خط لکھا جو کل ہی مجھے ملا ہے.انہوں نے اپنے بچوں سے کہا ( ایک بچہ بہت چھوٹا ہے ) بڑے بچے جو ہیں ان کو انہوں نے کہا کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا یہ قصیدہ تم حفظ کرلو ( جو نعتیہ قصیدہ ہے یا عین فیض الله و العرفان يسعى اليك الخلق کا لظمان ) میں تمہیں پچاس شلنگ انعام دوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ جو شخص اس قصیدہ کو زبانی یاد کرے اور دوہرا تا رہے اللہ تعالیٰ اس کا حافظہ تیز کر دیتا ہے.تو بچوں کو یہ قصیدہ حفظ کروانے میں ان کا دنیوی فائدہ بھی ہے کیونکہ بچپن کی عمر حافظہ سے فائدہ اٹھانے کی عمر ہے.جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو پھر ذہن سے فائدہ اُٹھانے کی عمر میں وہ داخل ہو جاتے ہیں.بہر حال انہوں نے اپنے بچوں کو ۵۰ شلنگ انعام کا وعدہ دے کر انہیں اس طرف متوجہ کیا اور شوق ان میں پیدا کیا اور انہوں نے یاد کرنا شروع کر دیا.بڑے بچے نے سارا قصیدہ حفظ کر لیا تو انہوں نے اسے، ۵ روپے انعام دیا.وہ لکھتے ہیں کہ میری اور میری بیوی کی یہ خواہش تھی کہ ہم اسے ترغیب دیں کہ جب اسے یہ انعام ملے تو اس کا ایک حصہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے اور ایک حصہ وہ اپنے بھائیوں کو دے تا کہ وہ اس کی خوشی میں شریک ہوں اور ایک حصہ وہ اپنے پر خرچ کرے.چنانچہ ان کے والد صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں:.یہ قصیدہ حفظ کرنے کے دوران میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی فضل و کرم سے عزیز کو خوابوں میں سید الانبیاء حضرت رسول کریم ﷺ ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضور پُر نو راید کم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زیارت کا شرف بخشا.(الحمدلله ثم الحمدللہ).پھر وہ لکھتے ہیں.عزیز فرید احمدکی امی کا اور میرا خیال تھا کہ انعام دینے سے قبل بچے کو تربیت کے طور پر کسی رنگ میں کبھی ترغیب دلائیں گے کہ اس رقم میں سے کچھ چندہ دے دے اور کچھ حصہ اپنے بھائیوں اور بہن کو دے اور بقیہ رقم اپنے استعمال میں لے آئے لیکن قصیدہ حفظ کرنے سے پہلے ہی ایک دفعہ عزیز نے ہماری تحریک کے بغیر خود اپنا عندیہ یہ ظاہر کر دیا کہ وہ انعام کی ساری رقم حضور انور کی خدمت اقدس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جاری

Page 52

49 فرمودہ ۱۹۶۷ء دو مشعل راه جلد دوم کرده تحر یک وقف جدید کے چندہ کے طور پر پیش کر دے گا کیونکہ حضور اقدس اید کم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس عظیم الشان تحریک کی مالی مضبوطی کا کام اپنے بچوں کے سپرد کیا ہے.پس عزیز کے منشاء کے مطابق میں پچاس روپے کا چیک حضور پر نور کو بھجوار ہا ہوں“.اور عزیز فرید احمد اپنے خط میں لکھتا ہے :- "Waleed, Amatul-Naseer and I were promised by our father gifts of sh 50/- each for memorising the Qasida, first to have recieved this gift.and I am Al-Hamdulillah!!! On my part, I have undertaken to present the whole of this amount to your Holiness for purpose of Waqf-e- because you have kindly made the children of Jadid Ahmadiyyat responsible for the finance of the Waqf-e-Jadid, and I fully realize that your needs for the spreading of Islam must have priority over my personal needs.Please, threrfore, accept the enclosed cheque for Rs.50/- and grant me the opportunity of earning Sawab.I may assure your holiness that your children, though young, are as willing to serve Islam as the grown ups".تربیت کا مقصد کیا ہے یہ اس بچے کا خط ہے.تو اس قسم کی نہایت حسین مثالیں بھی ہیں جو ہمارے بچوں میں پائی جاتی ہیں لیکن بچے کا ذہن اس قسم کے خیالات کا اظہار صرف اس وقت کر سکتا ہے جب وہ یہ دیکھے کہ اس کے ماحول میں ایسی باتیں ہورہی ہیں.اگر اس کے ماں باپ کو اسلام کی ضرورت کا خیال ہی نہ ہو.اگر اس کے ماں باپ اسلام کی ضرورتوں کے متعلق اپنے گھر میں باتیں ہی نہ کرتے ہوں.اگر اس کے ماں باپ اس کا تذکرہ گھر میں نہ کرتے ہوں کہ ہمیں اپنی ضرورتیں چھوڑ دینی چاہئیں اور آج اسلام کی ضرورت کو مقدم رکھنا چاہئے.اگر یہ نہ ہو گھر کا ماحول تو گھر کے بچوں کی تربیت ایسی ہو ہی نہیں سکتی.جیسا کہ آپ نے ابھی سنا کہ کس قسم کی تربیت اس بچے کی ہے.چھوٹا بچہ ہے اور وہ اس قسم کا خط نہیں لکھ سکتا.دلی جذبات سے جب تک ایک پاک ماحول میں اس کی تربیت

Page 53

فرمودہ ۱۹۶۷ء 50 د و مشعل راه جلد دوم نہ ہوئی ہو.یہ احساس کہ میری ضرورتیں اسلام کی ضرورتوں پر قربان ہو جانی چاہئیں اگر ہر بچے کے دل میں پیدا ہو جائے تو ہمیں کل کی فکر نہ رہے.ہم اس یقین سے پر ہو جائیں کہ جب آئندہ کسی وقت ہمارے بچوں کے کندھوں پر جماعت احمدیہ کا بوجھ پڑے گا وہ اسے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اور اس بوجھ کا حق ادا کرتے ہوئے اس کو ادا کریں گے.اس خطبہ کے ذریعہ میں اپنے تمام بچوں کو جو احمدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والدین اور گارڈ منیس (سر پرستوں) کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ یہ پسند کرتے ہوں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمتیں آپ پر نازل ہورہی ہیں اسی طرح آپ کی اولاد اور نسل پر بھی نازل ہوں.تو آپ اپنے بچوں کی تربیت کچھ اس رنگ میں کریں کہ ہر ایک کے دل میں یہ احساس زندہ ہو جائے اور ہمیشہ بیدار رہے کہ ایک عظیم مہم اللہ تعالیٰ نے تو حید کے قیام اور غلبہ اسلام کے لئے جاری کی ہے احمدیت کی شکل میں.اور اب ہمیں اپنا سب کچھ قربان کر کے اس مہم میں حصہ لینا اور اسے کامیاب کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ان انتہائی فضلوں اور رحمتوں کا وارث بننا ہے جن کا وعدہ اس نے ہم سے کیا ہے.( بحوالہ روزنامہ الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۶۷)

Page 54

51 فرمودہ ۱۹۶۷ء دومشعل راه جلد دوم ۲۰ اکتوبر ۱۹۶۷ء مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے چالیسویں سالانہ اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جو تقریر فرمائی تھی اس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.حضور نے اجتماعی دعا سے قبل فرمایا: - اپنے رب کریم اور جی و قیوم خدا کے لئے ہی ہماری زندگیاں وقف ہیں اور اس کے نام سے اور اس کے حضور عاجزانہ جھکتے ہوئے دعاؤں کے ساتھ ہم اپنے اس اجتماع کا افتتاح کرتے ہیں.اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی اور پر سوز دعا کروائی.دعا کے بعد حضور نے خدام سے ان کا عہدد ہروایا.پھر ایک نکاح کا اعلان فرمایا.خطبہ نکاح سے قبل حضور نے فرمایا: - اس وقت میں جو باتیں اپنے عزیز بچوں اور بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں.ان سے قبل میں ایک نکاح کا اعلان کروں گا.جمعہ کے وقت میں نے یہ اعلان کرنا تھا لیکن چونکہ ابھی فارم مکمل نہیں ہوا تھا.اس لئے اس موقعہ پر میں یہ اعلان نہیں کر سکا.اس وقت میں اس نکاح کا اعلان کروں گا اور پھر اپنے عزیز بھائیوں کے سامنے بعض باتیں رکھوں گا.اس کے بعد حضور نے نکاح کا اعلان فرمایا اور خطبہ نکاح میں چند مختصر مگر اہم نصائح فرمائیں اور پھر رشتہ کے با برکت ہونے کے لئے دعا کروائی.اس کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل خطاب فرمایا.میرے بہت ہی عزیز بچو اور بھائیو! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں نے یورپ کا دورہ اس غرض سے کیا تھا کہ وہ اقوام جو اپنے رب کو بھلا چکی ہیں.اس سے دور ہو گئی ہیں خالق کی محبت ان کے دلوں میں ٹھنڈی ہو چکی ہے ان کو نصیحت کروں.اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسلام کو غالب کرے گا محبت کے جلووں سے اگر دنیا محبت کے جلووں کی قدر کرے اور قہری نشانیوں سے اگر وہ محبت کے جلووں کی بجائے اللہ تعالیٰ کے قہری نشان ہی دیکھنے پر تلی ہوئی ہو.چنانچہ الہی بشارت اور اس کے اذن سے اس سفر کو اختیار کیا گیا اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا ایسے سامان پیدا ہوئے کہ ان لوگوں کی ان اقوام کی توجہ ان باتوں کے سنے کی طرف اور سمجھنے کی طرف پھری جو میں خدا اور اس کے محمد ﷺ کے نام پر انہیں کہہ رہا تھا.کروڑوں انسانوں کے ہاتھ میں وہ اخبار پہنچے.جن میں یہ ذکر تھا کہ میں اس دورہ پر اس لئے آیا ہوں کہ ان اقوام کو خدائے واحد و یگانہ کی طرف بلاؤں اور انہیں بتاؤں کہ اپنے پیدا

Page 55

فرمودہ ۱۹۶۷ء 52 د دمشعل را قل راه جلد دوم کرنے والے کی طرف رجوع کرو.اگر تم ایک ہولناک تباہی سے بچنا چاہتے ہو.کروڑوں آدمیوں کے کانوں میں ریڈیو کے ذریعہ میری یہ آواز پہنچی اور اس کے علاوہ کروڑوں آدمیوں نے ٹیلی ویژن پر میری شکل کو دیکھا.اور میری آواز کی اس کثرت سے اشاعت ہوئی کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس قسم کے حالات اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پیدا کر دے گا اور ہمارے وہم اور ہمارے اندازے تو محدود ہیں جہاں وہ پہنچے ہیں اس سے کہیں آگے غیر محدود حد تک اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے جلوے ظاہر ہوئے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے ہر لحظہ اور ہر آن اپنے قادر ہونے اپنے مالک ہونے کا ثبوت دنیا کو دکھایا.دنیا اندھی ہے شائد انہوں نے دیکھا تو ہومگر سمجھے نہ ہوں.لیکن ہم نے دیکھا بھی اور سمجھا بھی کہ خدا اپنے بندوں سے کس طرح پیار کا سلوک کرتا ہے اور ہمارا سر اس کے حضور جھکا ہوا ہے اور ہماری روح گداز ہے اور ہمارے جسم کے ذرہ ذرہ سے اس کی حمد کے چشمے پھوٹ رہے ہیں.ہمارے سارے پروگرام کی بنیاد غور کی بات یہ ہے کہ جب ہم دنیا میں جاتے ہیں.اور مختلف اقوام کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں اور وہ اپنے رب کے مقام کو پہچانتے ہوئے خشیت اللہ اور خوف خدا اور تقویٰ اللہ اپنے دلوں میں پیدا کر یں.تو ہمارے لئے خود کتنا ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم پہلے اپنے نفسوں کو دیکھیں اور ٹولیں اور معلوم کریں کہ کیا واقعی ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف.ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی خشیت ہمارے دلوں میں تقویٰ اس حد تک مستحکم ہو چکا ہے کہ جتنا ایک احمدی مسلمان کے دل میں ہونا چاہیئے اور اگر نہیں تو پھر تدبیر و مجاہدہ کے ذریعہ بھی اور دعا کے ذریعہ بھی اس خوف کو اللہ تعالیٰ کی اسی خشیت کو اللہ تعالیٰ کے لئے اس تقومی کو اپنے دلوں میں مضبوط کرنے کی کوشش کریں اور اسی طرف میں آپ کو آج متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے سارے پروگرام کی بنیاد یہ ہے جس پر ہم اپنی عمارت کو کھڑا کر سکتے ہیں.خشیت اللہ کا مفہوم میں نے دیکھا ہے بہت سے ہم میں سے خشیت اللہ یا اللہ کے خوف کا لفظ یا فقرہ استعمال تو کرتے ہیں مگر خود انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے کیا معنے ہیں.مثلاً ایک شخص اپنے بھائی کو بڑی رعونت کے ساتھ یہ لکھ دیتا ہے کہ میں سوائے اللہ کے کسی سے نہیں ڈرتا حالانکہ یہ فقرہ بتارہا ہوتا ہے کہ وہ اپنے اللہ سے بھی نہیں ڈر رہا.کیونکہ اللہ سے ڈرنے کا وہ مفہوم نہیں ہے جو ایک شیر یا بھیڑیے سے ڈرنے کا مفہوم ہے.ایک بھیڑیا بھیٹر کے سامنے جب آتا ہے تو اس بھیڑ کے دل میں خوف کی ایک حالت پیدا ہوتی ہے.لیکن خشیت اللہ سے ہماری یہ مراد نہیں.نہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہماری یہ مراد ہے وہاں تو مراد ہی کچھ اور ہے.پس جو شخص یہ اعلان کرتا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور سے نہیں ڈرتا.اگر وہ اس فقرہ کے معنی کو سمجھتا ہو تو وہ یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ میرے جیسا دنیا میں

Page 56

53 فرمودہ ۱۹۶۷ء د و مشعل راه جو جلد دوم اور کوئی عاجز بندہ نہیں ہے.میرے جیسا دنیا میں اور کوئی نا اہل نہیں ہے.میرے جیسا دنیا میں اور کوئی کم مایہ نہیں ہے.میں نے اپنے رب کی عظمت کو پہچانا اور اس کے مقام کا عرفان حاصل کیا اور مجھے پتہ ہے اور میں علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں سب کچھ وہی ہے کوئی طاقت ہمیں حاصل نہیں.جب تک کہ وہ ہمیں طاقت نہ دے.کوئی علم ہمیں حاصل نہیں جب تک کہ وہ ہمیں علم عطا نہ کرے.کوئی خوبی ہمیں حاصل نہیں جب تک کہ ہم اس سے اس خوبی کو حاصل کرنے والے نہ ہوں اور اسی کے فضل سے حاصل کرنے والے نہ ہوں.کوئی حسن ہم میں نہیں جب تک کہ اس کے حسن کا پر تو ہم پر نہ ہو اور احسان کرنے کی کوئی قوت ہم میں نہیں جب تک کہ وہ حسن حقیقی ہمیں یہ قوت عطا نہ کرے کہ ہم اس کے لئے اور اس کی خاطر اس کے بندوں اور اس کی مخلوق پر احسان کرنے والے ہوں تو سوائے اللہ کے میں کسی سے نہیں ڈرتا.اس کے تو یہ معنے ہیں جو میں نے بیان کئے ہیں.اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ایک بچہ اپنے باپ کے سامنے کھڑا ہو اور کہے کہ میں سوائے اللہ کے اور کسی سے نہیں ڈرتا.اس لیے اے میرے باپ میں ادب و احترام کی وہ چادر پھاڑ دوں گا جو اللہ نے تجھے پہنائی ہے.اسکے یہ معنی نہیں ہیں کہ ایک بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کو کہے کہ چونکہ میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اس لئے میں تجھ پر شفقت کا ہاتھ نہیں رکھوں گا.اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ کوئی استاد اپنی کلاس کو یہ کہے چونکہ سوائے اللہ کے میں کسی سے نہیں ڈرتا اس لئے میں تمہیں اتنا ماروں گا اتنا ماروں گا کہ بے ہوش کر دوں گا.اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کوئی شاگر د کلاس میں اپنے استاد سے کہے کہ چونکہ میں سوائے اللہ کے کسی سے نہیں ڈرتا اس لئے تمہارے ہاتھ میں جو سوٹی ہے اس کی میں کیا پرواہ کرتا ہوں.تم میری طرف سوئی اٹھاؤ گے تو میں تمہیں اٹھا کر زمین پر دے ماروں گا.غرض اس فقرہ کے کہ میں اللہ کے سوا اور کسی سے نہیں ڈرتا وہ معنے نہیں جو میں نے ابھی بیان کئے ہیں.لغوی لحاظ سے بھی خوف کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں.مفردات راغب میں ہے.يُرَادُ به الْكَقُ عَنِ الْمَعَاصِي وَاخْتِيَارُ الطَّاعَاتِ کہ جب یہ کہا جائے کہ میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا یا جب یہ سمجھا جائے اور دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق دی ہے کہ میرے دل میں اس کا خوف اور اس کی خشیت پیدا ہوگئی ہے.تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ میرے دل میں ایسی کیفیات پیدا ہوگئی ہیں.ایسے جذبات پیدا ہو گئے ہیں ایسی قوت پیدا ہوگئی ہے کہ میں ان چیزوں سے پر ہیز کرنے والا ہوں جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتی ہیں اور ان راہوں کو اختیار کرنے کی اللہ تعالیٰ سے تو فیق پاتا ہوں جن سے وہ خوش ہوتا ہے.یہ معنی ہیں لغوی لحاظ سے لفظ خوف کے.غرض جب ہم غیر مسلم اقوام کو ( وہ عیسائی ہوں یاد ہر یہ ہوں یالا مذہب ہوں یا بدھ مذہب ہوں ) یہ کہتے ہیں کہ تم اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس سے ڈرو تو اس سے ہماری یہ مراد ہوتی ہے کہ تم ہر اس کام سے بچو جس کو وہ پسند نہیں کرتا اور ہر اس کام کے کرنے کی کوشش کرو جس کے متعلق وہ چاہتا ہے کہ تم کر ولیعنی نیکیوں کے کرنے کی

Page 57

د دمشعل راه دوم فرمودہ ۱۹۶۷ء 54 کوشش کرو اور گنا ہوں اور بدیوں سے بچنے کی کوشش کرو.جب ہم انہیں یہ کہتے ہیں تو وہ ہم سے یہ امید رکھتے ہیں اور خود ہمیں بھی یہ احساس ہونا چاہیے ) کہ ہمارے دل میں بھی خوف اور اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا ہو جائے ورنہ ایسے شخص کے منہ سے یہ فقرہ زیب نہیں دیتا جس کا دل خدا کے خوف اور اس کی خشیت سے عاری ہو.خدام الاحمدیہ کے کاموں کی عمارت کی بنیاد صلى الله میں آج اپنے عزیز بچوں اور بھائیوں کو اس بنیادی حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ تم اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت پیدا کرو اور ان بنیادوں پر ہی خدام الاحمدیہ کے سارے کاموں کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے.اگر بنیاد نہ ہو تو پھر آپ ہوائی قلعے تو بنا سکتے ہیں لیکن وہ مضبوط قلعے نہیں بنا سکتے جن کے متعلق بعض دفعہ خدا تعالیٰ یہ اظہار کرتا ہے کہ میرا انبوب محمد ﷺ ان قلعوں میں پناہ گزین ہوتا ہے.محمد رسول اللہ ہے صرف اس قلعہ میں پناہ گزین ہو سکتے ہیں.صرف وہ قلعہ آپ کے دین کی حفاظت کر سکتا ہے صرف وہ قلعہ دشمن کے حملوں سے آپ کے لائے ہوئے اسلام کو بچا سکتا ہے.صرف اس قلعہ سے جوابی اور جارحانہ حملہ کیا جا سکتا ہے جو محمد رسول اللہ علہ کے نام پر اور اللہ کے خوف اور خشیت کی بنیادوں کے اوپر کھڑا کیا جائے جو قلعہ ہوا میں بنایا جائے اس کے نتیجہ میں خیالی پلاؤ پکائے بھی جا سکتے ہیں اور شاید کھائے بھی جاسکیں.لیکن خیالی پلاؤ نے نہ آپ کو فائدہ دینا ہے اور نہ دنیا کو فائدہ پہنچانا ہے.ان بنیادوں کو مضبوط کرنا ہمارے لئے ضروری ہے.ہر شخص کے لئے انفرادی طور پر اور جماعت کے لئے بحیثیت جماعت خصوصاً آنے والی نسلوں کو اس طرح تربیت دینا کہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور خشیت اللہ سے وہ معمور ہوں بڑا ضروری ہے.کیونکہ ہمارا کام ایک نسل پر پھیلا ہوا نہیں بلکہ کئی نسلوں نے اس کی تکمیل کرنی ہے.پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے.تو ہم یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ہر بڑے کا احترام کریں گے.کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص بڑے کا احترام نہیں کرتا وہ میری فوج کا سپاہی نہیں.جب ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں اللہ صلى الله تعالیٰ کا خوف ہے تو ہم یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم چھوٹوں پر شفقت کرنے والے ہیں کیونکہ نبی اکرم ہے نے فرمایا ہے کہ جو شخص چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور رحم کی نگاہ سے انہیں نہیں دیکھتا اور ان کی صحیح رنگ میں تربیت نہیں کرتا وہ میری فوج کا سپاہی نہیں ہے.جب ہم کہتے ہیں کہ ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے تو ہم یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ کیسی بھی حالت ہو جس میں ہم اپنے آپ کو پائیں.ہم جھوٹ کی راہ بھی اختیار نہیں کریں گے.پختگی کیساتھ صدق اور سداد پر قائم ہوں گے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے تو ہم یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم دنیا سے بدی کو مٹائیں گے اور دنیا کے دل سے بتوں کو نکال کر باہر پھینک دیں گے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے تو ہم یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ قرآن کریم کے سب حکموں پر ہم

Page 58

55 فرمودہ ۱۹۶۷ء د و مشعل راه جلد دوم دد عمل کریں گے اور دوسروں سے قرآن شریف کی شریعت پر عمل کروائیں گے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے.ہم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی سے نہیں ڈرتے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی شیطانی آواز پر لبیک کہنے والے نہیں.صرف اپنے اللہ کی آواز پر ہم کان دھرتے اس کو سنتے اور اس کی اطاعت کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل اپنے اللہ کے خوف سے بھرے ہوئے ہیں تو ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول نے ہمیں جو کہا اور ہم سے جس رنگ میں اطاعت کا مطالبہ کیا.اس رنگ میں ان باتوں میں ہم اس کی اطاعت کریں گے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے تو ہم یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے خلفاء کی معروف اوامر میں کامل اطاعت کرنے والے ہوں گے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا خوف اور اس کی خشیت ہمارے دل میں ہے تو ہم یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو جماعت اپنے ہاتھ سے قائم کی ہے.ہم اس کی ترقی کے لئے اس کی حفاظت کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوں گے.یہ معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے خوف کے.اللہ تعالیٰ کے خوف کے یہ معنی نہیں کہ یہ کہہ دیا کہ ہم خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور پھر سمجھ لیا کہ اب مادر پدر آزاد ہو گئے ہیں.ہم اس اعلان کے ساتھ ہزار بندشوں میں جکڑے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے سینکڑوں احکام ہیں.سات سو سے بھی اوپر احکام ہیں اگر تم میں سے کوئی شخص دیدہ دانستہ ان میں سے ایک حکم کو بھی توڑتا ہے اور ایک حکم کے تعلق میں بھی حکم عدولی کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لینے والا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کے دل میں اپنے رب کا کوئی خوف نہیں ہے اور خشیت اللہ نہیں ہے.عاجزانہ راہوں کو اختیار کرو پس اے میرے پیارے بچو! اپنے دل میں اللہ کا خوف پیدا کرو اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرو.کیونکہ جس شخص کے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو جاتا ہے وہ سوائے عاجزانہ راہوں کے اور کوئی راہ اختیار نہیں کرسکتا.اگر آج آپ اپنے دل میں حقیقی معنی میں اپنے اللہ کا خوف پیدا کریں اور خشیت اللہ آپ کے دلوں میں قائم ہو جائے تو پھر آپ کے لئے عاجزانہ راہوں کا اختیار کرنا آسان ہو جائے گا.اور پھر آپ پر اللہ تعالیٰ کے اتنے فضل اور اتنی رحمتیں نازل ہوں گی.کہ آپ کی نسلیں بھی ان کو شمار نہیں کر سکیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل جماعت احمد یہ ہر آن اور ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے پیار کے جلوے دیکھ رہی ہے اور ایک مومن دل ایک خوف رکھنے والا دل جب بھی اللہ تعالیٰ کے پیار کا جلوہ دیکھتا ہے تو اس کا سر اپنے رب کے حضور اور بھی جھک جاتا ہے کیونکہ اس کو یہ معلوم ہے کہ میرا یہی مقام ہے.نیستی کا بے مائیگی کا اور اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ میرے رب کا کیا مقام ہے.علو اور عظمت اور جلال کا.وہ حیران ہوتا ہے کہ میرے جیسے نالائق پر اللہ

Page 59

فرمودہ ۱۹۶۷ء 56 د دمشعل ل راه جلد دوم کس طرح پیار کے جلوے.رحمت کے جلوے.فضل کے جلوے.احسان کے جلوے ظاہر کر رہا ہے.ہر کام میں وہ اس کا ممد ہو جاتا ہے.ہر مصیبت کے وقت وہ اس کی ڈھارس بندھاتا ہے.ہر ضرورت کے وقت وہ اس کی نصرت کرتا ہے اور ایک احمدی کے دل میں یہ خواہش ہے کہ خدا کرے کہ اسلام جلد تر تمام دنیا میں غالب آجائے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کی نہایت ہی حقیر کوششوں کے نتیجہ میں اتنے عظیم نتائج پیدا کر رہا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور کوئی فلسفہ اس کی حکمت کو بیان نہیں کر سکتا.غرض خدا تعالیٰ ہر آن آپ پر اپنے فضلوں اور رحمتوں کی بارش کر رہا ہے اور اس بارش میں ( یعنی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش میں تیزی اور شدت پیدا ہوتی چلی جارہی ہے اور انسان جب سوچتا ہے تو اس نتیجے پر پہنچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم انتہائی قربانیاں اس کے حضور پیش کریں تا کہ وہ انتہائی فضلوں کی بارش ہم پر کرے اور ہمیں اپنا مقصد اور مدعا حاصل ہو جائے اور ہم اپنی زندگیوں میں اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لیں کہ وہ زبانیں جو نبی اکرم می پرطعن کرنے والی تھیں.ان زبانوں کو خدا کے فرشتوں نے ان مونہوں سے نکال کر باہر پھینک دیا اور ان کی جگہ ان زبانوں کو ان مونہوں میں رکھ دیا.جن زبانوں سے ہر وقت درود نکل رہا ہے.وہ دل جو ظلمت میں بھٹک رہے تھے.اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے الہی تصرف سے ان دلوں میں اپنے نور کو بھر دیا.ہر طرف الله نور السموات والارض کا جلوہ ہمیں نظر آئے.ہر دل اللہ کے نور سے منور ہو اور ہر ذہن محمد رسول اللہ عمل اللہ کے احسان کے نیچے اپنی گردن جھکا رہا ہو اور آپ پر درود بھیج رہا ہو.پس ہر وقت میرے دل میں یہ تڑپ ہے کہ اسلام کے لئے یہ انتہائی قربانیوں کا وقت ہے کیونکہ انتہائی فتوحات کا زمانہ ہمارے سامنے ہے وہ ہمیں نظر آرہا ہے.فتوحات تو ہمارے سامنے نظر آ رہی ہیں.لیکن ان فتوحات اور ہمارے درمیان ہماری کمزوریاں حائل ہیں.اگر آج ہم اپنی کمزوریوں کو دور کر دیں.اگر آج ہم اللہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انتہائی فدائیت اور ایثار کا نمونہ دکھانے کے لئے تیار ہو جائیں.اگر آج ہم چند لمحوں کی اس دنیوی زندگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ابدی حیات کے طالب بن کر اس کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں دینے لگ جائیں.تو وہ دن دور نہیں جب ہم دیکھیں گے کہ ساری دنیا پر اسلام کا جھنڈا لہرا رہا ہے اور ہر گھر سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آرہی ہے اور ہر زبان محمد رسول اللہ علے پر درود بھیج رہی ہے اور ہر دل اور ہر روح اور جسم کا ہر ذرہ اپنے رب کے حضور شکر کے سجدے بجالا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور نباہنے کی توفیق عطا کرے.اب میں رخصت چاہتا ہوں آپ ہمیشہ ہی اپنے رب کی امان اور اس کی حفاظت میں رہیں اور اس کے فضلوں کے وارث ہوتے رہیں.(روز نامه الفضل ربوہ ۱۲۰ اکتوبر ۱۹۶۹ء)

Page 60

57 فرمودہ ۱۹۶۷ء دومشعل راه جلد دوم ۲۱ اکتوبر ۱۹۶۷ مجلس اطفال الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں سیدنا حضرت خلیفہ المسح الثالث نے جو تقر میر ارشاد فرمائی اس کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ میں اسلام کو اس مذہب کو جو میں نے تیرے ذریعہ دنیا میں بھیجا ہے ) ساری دنیا میں دو دفعہ غالب کروں گا.ایک آپ کے وقت میں اور ایک ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب آپ کے روحانی بیٹے پیدا ہوں گے.جن کا نام آنحضرت ﷺ نے بھی مسیح اور مہدی رکھا اور جنہیں آپ نے اپنا سلام بھجوایا.اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ اس وقت میں اسلام کو ساری دنیا میں دوبارہ غالب کروں گا اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان دو زمانوں کے درمیان اسلام پر تنزل کا ایک زمانہ آئے گا.اگر تنزل کا زمانہ نہ ہوتا تو پھر پہلا غلبہ دنیا میں قائم رہتا اور یہ غلبہ قیامت تک چلا جاتا لیکن چونکہ ایسا نہیں ہونا تھا اور اس لئے آنحضرت ﷺ کو یہ وعدہ دیا گیا کہ آپ کے وقت میں اسلام غالب آئے گا اور یہ وعدہ دیا گیا کہ آپ کے عظیم روحانی فرزند کے زمانہ میں اسلام پھر تمام دنیا میں غالب آ جائے گا.جس وقت یہ وعدہ دیا گیا اس وقت نبی کریم علے کے ساتھ گنتی کے چند مسلمان تھے اور وہ بڑی تکلیف میں اپنی زندگی گزار رہے تھے.چونکہ اس وقت کے لوگوں نے خدا تعالیٰ کے اس پیغام کو سمجھا نہیں تھا اور محمد رسول اللہ اللہ کی شان کو پہچانا نہیں تھا اس لئے وہ سمجھے کہ ایک شخص کھڑا ہوا ہے اور ہمیں اپنے اس مذہب سے جو ہمارے باپ دادوں کا مذہب ہے اور ورثہ میں ہم نے ان سے لیا ہے گمراہ اور بدظن کرنا چاہتا ہے.پس انہوں نے سمجھا کہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے اور اپنی پوری طاقت خرچ کر کے اس کو مٹادیا جائے.شروع میں چونکہ اسلام صرف مکہ ہی میں تھا اس لئے انہوں نے خیال کیا کہ اسے مکہ سے مٹادیا جائے اور بعد میں جب اسلام عرب میں پھیلنا شروع ہوا تو انہوں نے سمجھا کہ ہم نے اسے اپنے ملک میں نا کام کردینا ہے اور ورثہ میں ملنے والے عقائد (ماننے والی باتیں) کو قائم رکھنا ہے.مختلف قسم کی عبادتیں.بتوں کے سامنے سجدہ کرنا وغیرہ ان کے عقائد تھے.لیکن چونکہ وعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا اور چونکہ اللہ تعالیٰ تمام طاقتوں اور قدرتوں والا ہے اور چونکہ اللہ جب کچھ کہتا ہے تو وہ پورا کر دکھاتا ہے.نہ وہ بے وفائی کرتا ہے اور نہ کوئی کمزوری اس کے اندر موجود ہے.سب طاقتیں اور قدرتیں اس کے اندر موجود ہیں.اسی لئے اگر چہ ساری دنیا نے اسلام کی مخالفت کی لیکن پھر بھی اسلام ساری دُنیا میں غالب آ گیا اس وقت دنیا نے یہ سمجھا کہ پندرہ بیس یا سود و سو مسلمان ہیں.تلوار میں نکالو ( ان دنوں تلوار سے جنگ ہوتی تھی مرغ جنگ نہیں ہوا کرتی تھی کہ جس شکل میں کہ آپ ابھی لڑ رہے تھے.اب اس جنگ کی

Page 61

فرمودہ ۱۹۶۷ء 58 و د مشعل راه جلد دوم ضرورت نہیں.بہر حال اس وقت تلوار اور نیزے کی جنگ ہوتی تھی) اور چند سو آدمی ہیں یہ ان کو ختم کر دو.ان کو قتل کر دو.یہ مذہب خود بخود ختم ہو جائے گا.جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ سے کہا تم تھوڑے ہو غریب بھی ہو.تمہارے پاس تلواریں بھی نہیں اور جو ہیں وہ بھی بڑی کمزور قسم کی ہیں.ادنی قسم کی ہیں.لیکن میرے فرشتے تمہاری مدد کے لئے آئیں گے اور تم کامیاب ہو جاؤ گے اس لئے دشمن کی طاقت اور ان کی تیز دھار تلواروں سے نہ ڈرنا اور ان کی تعداد کی طرف نہ دیکھنا.میں جو تمہیں کہہ رہا ہوں کہ کامیاب تم ہی ہو گے.یہ کثیر لوگ جو ہیں تمہارے مخالف یہ کامیاب نہیں ہوں گے.چنانچہ بی کریم اللہ نے اپنے پر ایمان لانے والے اس زمانہ کے مسلمانوں کو یہ کہا کہ ہیں تو ہم تھوڑے اس میں کوئی شک نہیں غریب بھی ہیں.ہم میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کو کھانے کو بھی نہیں ملتا.اتنے غریب ہیں کہ بہت سارے ایسے ہیں جن کو ٹھیک طرح کپڑا بھی پہننے کو نہیں ملتا.سامان بھی ہمارے پاس معمولی ہے.بہتوں کے پاس تلواریں بھی نہیں ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے جو تمام قدرتوں کا مالک ہے اس نے مجھے کہا ہے کہ ڈرنا نہیں کیونکہ میں تمہاری مدد کو آؤں گا اور فتح اور نصرت تمہیں کو ملے قرآن کی تعلیم میں بڑی کشش ہے چنانچہ جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا جب بڑی تعداد میں اپنی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے.دشمن نے مسلمانوں کو تلوار سے قتل کرنا چاہا تو خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے نازل ہوئے اور انہوں نے اس زمانہ کے مٹھی بھر تھوڑے سے گنتی کے جو آدمی تھے ان کی مد کی اور دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ جو تھوڑے تھے.غریب تھے.ان کے پاس کپڑے بھی نہیں تھے.ان کے پاس تلواریں بھی نہیں تھیں.لڑائی کے دوسرے سامان بھی نہیں تھے وہ غالب آگئے ان لوگوں پر جن کو سارا عرب اپنا سردار سمجھتا تھا اور مکہ کی ساری دولت جن کے ہاتھ میں تھی اور دنیا کی بہترین تلواریں لے کر جوان غریب مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تو اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو آسمان سے فرشتے بھیج کر پورا کیا اور وہ مسلمان جو شروع میں بالکل تھوڑے تھے تمام دنیا پر چھا گئے پھر سارا عرب مسلمان ہوا.پھر وہ باہر نکلے.افریقہ کے لوگوں تک پہنچے اور ان کو قرآن کریم کی تعلیم دی.قرآن کریم کی تعلیم میں بڑی کشش ہے.وہ اپنی تعریف کھینچنے والی ہے.اس میں بڑی اچھی اور پیاری باتیں ہیں اور انسان کی فطرت اسے قبول کرنے کے لئے فور اختیار ہو جاتی ہے.بہر حال انہوں نے قرآن کریم ان کے سامنے پیش کیا.اس کی تعلیم ان کے سامنے رکھی اور ان کے دل جیتنے شروع کئے.پھر دنیا میں جو شیطانی طاقتیں تھیں انہوں نے کہا یہ کیا ہوا ہم تو انہیں عرب میں مارنا چاہتے تھے لیکن یہ تو عرب سے باہر نکلے اور اب وہ افریقہ میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں.وہ یورپ کی طرف گئے وہاں بھی انہیں کا میابی شروع ہوئی.غرض اس وقت کی جو مہذب دنیا تھی ایسی طاقت والی دنیا تھی جس طرح آج کل امریکہ کی بڑی طاقت سمجھی

Page 62

59 فرمودہ ۱۹۶۷ء دو مشعل راه جلد دوم جاتی ہے.انگریزوں کی طاقت بڑی سمجھتی جاتی ہے.اس نے سمجھا کہ اب ہمیں اپنی طاقت کو استعمال کرنا چاہیے اور اس قوم کو جو خدائے واحد ( ایک اللہ) کی پرستش کی طرف دنیا کو بلا رہی ہے مٹادینا چاہیے.ایک طرف وہ بڑی طاقتیں تھیں جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا سمجھتی تھیں انہوں نے کہا یہ کون آگئے مسیح سے خدائی چھینے والے اور دوسری طرف بت پرست اور توہمات کی پرستش کرنے والے تھے.انہوں نے کہا کہ ہمارے پرانے عقیدے ہیں.ہم بھی اور ہمارے ماں باپ بھی ہمارے دادا وغیرہ بھی ان چیزوں کی عبادت کرتے چلے آئے ہیں اور اب یہ ایک نیادین پیدا ہو گیا ہے جو کہتا ہے کہ ان چیزوں کی عبادت نہ کرو.ایک اللہ کو مانو.جولوگ بہت سے خداؤں کو مانتے تھے ان کو یہ بات سمجھ نہ آئی.کیونکہ جو شخص بہت سے خداؤں کو مانتا ہے اس کا دماغ روشن نہیں ہوتا کند ہوتا ہے.وہ یہ سمجھے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں نے یعنی محمد رسول اللہ علی اللہ نے سارے خداؤں کو ملا کر ایک خدا بنا دیا ہے.ان کا خیال تھا کہ مثلاً پیتل کے بہت سارے بت ہوں.ایک شخص یہ کہے کہ ان بہت سارے بتوں کی کیا پوجا کرنی ہے آ ؤان سب کو پگھلاتے ہیں اور پھر ایک بہت بڑا بت بنا لیتے ہیں اور وہ بت ان سارے بتوں کا قائم مقام ہو جائے گا کیونکہ سارے بتوں کا پیتیل اس میں شامل ہو جائے گا.وہ سمجھے کہ شاید اس قسم کی کوئی بات اس نے کی ہے.وہ مرنے کے لئے تیار ہو گئے.ہر قوم نے کہا کہ ہم تو اپنا بہت چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں.ایک خدا کا تم کیا نعرہ لگا رہے ہو.لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ دنیا میں تمہیں اور تمہارے ماننے والوں کو میں غالب کروں گا.اس لئے جب ساری دنیا کی طاقتیں اسلام کو مٹانے کے لئے جمع ہو گئیں تو اللہ تعالیٰ نے مزید نصرت اور زیادہ تعداد میں فرشتوں کو نازل کیا اور انہوں نے ان کو شکست دے دی اور ساری دنیا میں اسلام غالب آ گیا.شیطان نے تلوار کے زور سے اسلام کو مٹانا چاہا تھا.اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ان ٹوٹی پھوٹی تلواروں کے ساتھ میں شیطان کی گردن اڑا دوں گا.چنانچہ جو خدا نے کہا وہ پورا ہوا اور ساری دنیا میں اسلام پھیل گیا.یہ جو قربانیاں تھیں جو اس وقت دی گئیں ان میں صرف بڑے ہی شامل نہیں تھے بلکہ تمہارے جیسے بچے بھی شامل تھے.بچوں کی ذمہ داری بچوں کی بڑی ذمہ داری سیکھنے کی ہوتی ہے.اس وقت کے جو بچے تھے انہوں نے اپنے بڑوں (یعنی صحابہ) سے اچھے طور پر سیکھا اور پھر جب یہ بچے جوان ہوئے تو قرآن کریم کہتا ہے کہ ان کو سارے مسئلے معلوم تھے.ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت تھی.ان کے دل میں محمدرسول اللہ یا اللہ کی محبت تھی اور پھر جو کام انہیں اپنے زمانہ میں کرنے چاہئے تھے وہ انہوں نے کئے وہی چھوٹے چھوٹے بچے جب بڑے ہوئے تو انہوں نے اپنے زمانے میں ایسے کام کئے ہیں کہ جب ہم پڑھتے تھے تو ان کے کاموں کو پڑھ کر ہماری طبیعتوں میں بڑی خوشی پیدا ہوتی تھی اور ہم کہتے تھے کہ کتنے اچھے تھے اس وقت کے یہ بچے کہ جب وقت تھا سیکھنے کا انہوں نے دُنیا میں اپنے بڑوں سے قرآن کریم کو سیکھا اور اس کا نور حاصل کیا اور جب سکھانے کا وقت آیا تو وہ دنیا کے بہترین استاد ثابت ہوئے.

Page 63

فرمودہ ۱۹۶۷ء 60 د دمشعل ل راه جلد دوم غرض یہ تھا وہ زمانہ جس کے متعلق میں نے بڑے اختصار کے ساتھ اپنے چھوٹے بچوں کے سامنے کچھ بیان کیا ہے.اپنی طرف سے میں نے یہ کوشش کی ہے کہ میں بڑے سادہ طریق سے یہ باتیں آپ کو سمجھاؤں.خدا کرے کہ آپ کے ذہن میں یہ باتیں آجائیں.پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت بتایا تھا.مسلمانوں کے بعد میں آنے والی نسلوں نے اپنے بچوں کا خیال نہیں رکھا.وہ یہ سمجھے کہ ہم قرآن کریم سیکھے ہوئے ہیں.پڑھے ہوئے ہیں انہوں نے بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں کی اور خیال کیا جدوں وڈا ہو ئیدا تے آپے ای سکھ لے گا.بعض ماں باپ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں لیکن جو بچہ بچپن میں نہیں سیکھتا وہ وڈے ہو ئے کس طرح سیکھ جائے گا.اسے کون سکھائے گا.بہر حال انہوں نے ایسا کرنا شروع کیا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں ایسی نسل پیدا ہوئی کہ جس کو اسلام کا کچھ پتہ نہیں تھا بچپن میں اس کو کسی نے کچھ سکھایا ہی نہ تھا اور جب ان کے اوپر سکھانے کا وقت آیا تو جن کو آپ کچھ آتا نہیں تھا وہ سکھاتے کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان قرآن کو بھول گیا اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا میں تمہاری اس وقت تک مدد کروں گا جب تک تم میری باتیں مانو گے.قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی باتیں ہیں.خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ جب تک تم میری باتیں مانو گے میں تمہاری مدد کرتا چلا جاؤں گا اور دنیا میں صرف تم ہی غالب ہو گے.دنیا میں صرف تمہاری عزت ہوگی.دوسری قوموں کی عزت نہیں ہوگی.یہ دنیا بھی ( گو تمہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ) تمہیں دیدوں گا لیکن ایک شرط ہے کہ جو میری باتیں ہیں وہ تم نے مانتی ہیں.جب بچوں کو کسی نے بتایا نہیں کہ جب تک تم اللہ تعالیٰ کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوگے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے جو فضل اور نعمتیں ہیں وہ بھی تمہیں نہیں ملیں گی.غرض جب سیکھنے کا وقت تھا ان کو کسی نے سکھایا نہیں اور جب سکھانے کا وقت آیا اس نسل کے لئے تو اس وقت ان کو آتا ہی کچھ نہیں تھا.وہ کسی کو کیا سکھاتے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی مرد انہیں ملنی بند ہوگئی.پھر مسلمانوں پر وہ ظلم ہوا ہے کہ جب ہم پڑھتے ہیں ہمیں رونا آتا ہے.ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ قرآن کریم کو چھوڑ کر اور اللہ تعالیٰ سے منہ موڑ کر انہوں نے کسی قسم کی ذلتیں اور شکستیں اُٹھائی ہیں اور کس قسم کے ظلم ان کو سہنے پڑے.پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ علیہ سے وعدہ کیا تھا وہ زمانہ آ گیا جب اسلام نے ساری دنیا پر پھر غالب آنا تھا.خدا تعالیٰ نے ایک شخص کو پیدا کیا.اس شخص کے دل میں اپنی محبت انتہائی شدت کے ساتھ پیدا کی.اس سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نہیں کر سکتا اور اس شخص کے دل میں قرآن کریم کی محبت کو پیدا کیا، محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت کو پیدا کیا اور اس نے قرآن کریم پڑھتے ہوئے ایک نکتہ معلوم کیا اسے سیکھا اور اس پر عمل کیا اور وہ یہ تھا کہ اگرتم اللہ تعالیٰ کا محبوب بننا چاہتے ہو.اگر تم یہ چاہتے کہ تمہارا پیدا کرنے والا تم سے پیار کرے اور پیار کے نتیجہ میں اس نے اپنی مخلوق کی ہر چیز تمہارے سپرد کی ہے تو ایک شرط ہے کہ تم محمد رسول اللہ علیہ کی اتباع کرو.آپ کی پیروی کرو اور قرآن کریم جو کہتا اسے سمجھو اور مانو اور اس پر عمل کرو.غرض یہ راز

Page 64

61 فرمودہ ۱۹۶۷ء دو مشعل راه جلد دوم اس شخص نے ہاں اس بچہ نے جو ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوا تھا.معلوم کیا اور اس نے کہا بڑا ستا سودا ہے اگر میں محمد رسول اللہ علیہ سے محبت کروں اور قرآن کریم پر عمل کروں تو میرا خدا مجھ سے پیار کرنے لگ جائے گا.بچو! اس نے قرآن کریم پر غور کرنا شروع کیا اور نبی اکرم ﷺ کی خوبیوں کو پہچاننا شروع کیا اور اس کا دل اپنے اللہ کی محبت سے محمد رسول اللہ علہ کے عشق سے اور قرآن کریم کے نور سے اس طرح بھر گیا جس طرح سمندر کی زمین پانی سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ دیا تھا یعنی اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ لے کو وعدہ دیا تھا.اس شخص کو منتخب کیا تا وہ اسلام کو دنیا میں دوبارہ غالب کرے اور اس کو کہا کہ کھڑا ہو.اُس کا دل یہ چاہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے کسی ایسے کام پر نہ لگائے تا میں اپنی ساری عمر خدا تعالیٰ کی عبادت میں.محمد رسول اللہ علے پر درود بھیجنے میں.قرآن کریم پڑھنے اور اس کی مطالب پر غور کرنے اور اس کی جو خوبیاں ہیں ان کو سمجھنے اور اس نے لوگوں پر اور مجھ پر جو احسان کیا ہے اس احسان کے طور پر حمد اور شکر میں اپنی زندگی کے دن گزاروں.مگر اللہ تعالیٰ نے کہا نہیں.مجھے اس وقت محمد رسول اللہ ﷺ کے روحانی بچوں میں سے ایک بچہ کی ضرورت ہے جو میرے حکم پر کھڑا ہو اور میرے نام پر دنیا کو اسلام کی طرف اور محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف بلائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اور اپنی طبیعت کے خلاف اس نے یہ دعویٰ کیا.اور جب دعوی کیا تو پھر دنیا نے ان کو ”مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے نام سے یاد کیا.ان کے ماں باپ نے تو ان کا نام غلام احمد رکھا تھا.قوم ان کی مغل تھی.اس لئے ان کو لوگ مرزا غلام احمد کہتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے کہا تیرے ماں باپ نے تو تیرا نام غلام احمد رکھا ہے لیکن میں تمہارا نام مسیح موعود اور مہدی معہود رکھتا ہوں.یعنی میں تجھ سے وہ کام لوں گا جو کام میں نے محمد رسول اللہ ﷺ سے کہا تھا کہ تیرے روحانی بچوں میں سے ایک بچہ لے لوں گا.اور وہ کام ہے اسلام کو پھر دوبارہ دنیا میں غالب کرنے کا.چنانچہ آپ (اگر چہا کیلے تھے ) کھڑے ہوئے اور دنیا میں اعلان کر دیا کیونکہ جب خدا تعالیٰ کسی کو حکم دے تو وہ خاموش تو نہیں رہ سکتا.آپ کو یہ علم تھا کہ جب میں اعلان کروں گا تو ساری دنیا میری مخالف ہو جائے گی.جب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اسلام کو دوبارہ غالب کرنے کے لئے کھڑا کیا جاؤں گا تو خود مسلمان اپنی نا سمجھی اور جہالت کے نتیجہ میں میرے خلاف ہو جائیں گے لیکن خدا کا کہنا کون موڑ سکتا ہے؟ کوئی نہیں موڑ سکتا.چنانچہ آپ کھڑے ہوئے.آپ نے دُنیا میں اعلان کر دیا کہ خدا نے مجھے مسیح بھی بنا دیا ہے.مہدی بھی بنا دیا ہے اور ان وعدوں کے مطابق بنا دیا ہے.جو اس نے محمد رسول اللہ اللہ سے کئے تھے اور یہ بات کوئی کس طرح کہہ سکتا ہے جب تک اللہ تعالیٰ نہ کہے.اتنی واضح بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایک علامت بتائی تھی کہ میں کسی کو تیرے بچوں میں سے مسیح اور مہدی بنا کر کھڑا کروں گا تو اس مہدی کی سچائی کے لئے چاند اور سورج کو کہوں گا کہ آگے بڑھو اور گواہی دو.اب چاند اور سورج کو میں یا آپ تو کچھ نہیں کہہ سکتے.اور اگر میں یا آپ چاند اور سورج کو کہیں تو وہ ہماری بات کبھی نہیں مانیں گے.وہ تو کہیں گے ہم خدا تعالیٰ کے غلام ہیں ہم تمہاری بات کیسے مان لیں.ہم تو وہی کریں گے جو

Page 65

د و مشعل راه جلد دوم خدا تعالیٰ ہمیں کہتا ہے.فرمودہ ۱۹۶۷ء 62 محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی نے یہ بتایا تھا کہ میں دنیا میں اسلام کو دوبارہ غالب کروں گا اس لئے گھبرانا نہ.اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اسلام کے تنزل کے متعلق بھی بہت ساری باتیں بتا ئیں اور کہا گھبرانا نہیں میں تیرے روحانی بچوں میں سے ایک کو کھڑا کروں گا اور اس کے ذریعہ سے اسلام کو دوبارہ غالب کروں گا طبعا ہر آدمی کے دماغ میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے (میں تاریخی واقعہ نہیں بتارہا لیکن قیاس کے طور پر میں سمجھتا ہوں ) کہ جب محمد رسول اللہ ﷺ کواللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ میں تیرے بچوں میں سے ایک کو کھڑا کروں گا.جو چودھویں صدی میں دوبارہ اسلام کو غالب کرے گا تو آپ کے دل میں یقیناً گھبراہٹ پیدا ہوئی ہوگی کہ کہیں میری امت ٹھوکر نہ کھا جائے ان کو کوئی زبردست نشانی بھی بتانی چاہیے تا کہ وہ ٹھو کر نہ کھائیں.تو خدا تعالیٰ نے کہا.دیکھو یہ انسان کے ہاتھ کا کام نہیں.انسان تو نہیں کر سکتا کہ وہ سورج کو کہے یا چاند کو کہے کہ فلاں تاریخ کو فلاں مہینہ میں تم اپنا منہ اندھیرے میں چھپا لینا جسے ہم گرہن لگنا کہتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے کہا کہ میں سورج اور چاند کو کہوں گا کہ جب میرا مہدی دنیا میں آئے تو تم دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ روحانی طور پر تم اندھیروں میں ہو.اگر چہ چاند اور سورج کی روشنی اب بھی تم پر پڑ رہی ہے لیکن جو تمہاری روحانی دنیا ہے وہ اندھیری دنیا ہے یہ بتانے کے لئے اور اس مہدی کو سچا ثابت کرنے کے لئے میں چاند اور سورج کو کہوں گا کہ اندھیرے میں اپنے آپ کو چھپا لو.چنانچہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعویٰ کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہدی بنا دیا گیا ہوں اور میرے سپرد یہ کام ہے کہ میں اسلام کو ساری دنیا پر غالب کروں.تو مسلمانوں میں جو پڑھے لکھے لوگ تھے اور انہوں نے حدیث کی پرانی کتابیں پڑھی ہوئی تھیں.انہوں نے دنیا میں ای شور مچادیا اور کہا ہم نہیں مانیں گے کبھی نہیں مانیں گے.کیوں نہیں مانو گے؟ اس لئے نہیں مانیں گے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی نے کہا تھا کہ جب میں اپنے مہدی کو بھیجوں گا تو اس وقت چاند اور سورج کو کہوں گا کہ دنیا کو اندھیرا ہو کر اور گرہن لگ کر دکھا دو ( اور خاص معین تاریخوں میں رمضان کی تیرہ تاریخ کو چاند اور اسی رمضان کی اٹھائیس تاریخ کو سورج اور محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی ساری امت کو اور ساری دنیا کو یہ بتا دیا تھا کہ جو ایسا مہدی دعویدار ہو جس کے لئے سورج اور چاند گواہی دیں وہی مہدی میرا سچا مہدی ہے.چنانچہ ساری دنیا میں پڑھے لکھے لوگوں نے شور مچادیا کہ ہم نہیں مانیں گے چاند اور سورج کو گرہن نہیں لگا.وہ اندھیرے نہیں ہوئے اس لئے تمہارا دعویٰ ٹھیک نہیں.تمہارا دعویٰ درست نہیں.قریباً چار سال وہ لوگ شور مچاتے رہے کہ ہم نہیں مانیں گے.ہم نہیں مانیں گے چاند کو اس تاریخ کو گرہن نہیں لگا جو بتائی گئی تھی اور سورج کو بھی اس تاریخ کو گرہن نہیں لگا جو بتائی گئی تھی.جب ساری دنیا میں ان لوگوں نے اچھی طرح مشہور کر دیا کہ بچے مہدی کے لئے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ چاند کو بھی اور سورج کو بھی حکم دے گا کہ وہ رمضان کی معینہ تاریخوں میں جو پہلے سے مقرر کی گئی ہیں اور جن کا اعلان کیا گیا ہے گرہن لگ جائے اور جب ساری دنیا کو پتہ لگ گیا تو خدا تعالیٰ نے چاند اور سورج کو کہا اٹھو اور دنیا میں میرے اس بندہ کے لئے گواہی دو کہ یہ سچا ہے.

Page 66

63 فرمودہ ۱۹۶۷ء د و مشعل راه جلد دوم دد چنانچہ جیسا کہ تیرہ سو سال پہلے بتایا گیا تھا رمضان میں اسی تاریخ کو جو بتائی گئی تھی پہلے چاند کو گرہن لگا اور پھر اسی رمضان میں اسی تاریخ کو جو پہلے بتائی گئی تھی سورج کو گرہن لگا اور دنیا میں اندھیرا چھا گیا.بہت سے لوگوں نے جب یہ نشان دیکھا تو انہوں نے احمدیت قبول کر لی اور انہوں نے سمجھا کہ یہی شخص (جس نے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا ہے ) محمد رسول اللہ کا وہ بچہ ہے جس کے ذریعہ سے اسلام نے ساری دنیا میں پھر غالب آنا ہے لیکن بعض طبیعتیں ضدی ہوتی ہیں انہوں نے کہا ہم اب بھی نہیں مانتے یہ حدیث ہی جھوٹی تھی.لیکن اگر حدیث جھوٹی تھی تو چاند اور سورج کو گرہن کیسے لگا.جو چیز جھوٹی ہوتی ہے یعنی جب ہم اسے جھوٹا کہتے ہیں تو وہ وہ چیز ہوتی ہے جو واقع نہ ہو اور جو واقع ہو جائے اس کو تو ہم جھوٹا نہیں کہتے.اگر کوئی شخص شخص یہ وعدہ کرے کہ میں آج عصر کی نماز کے بعد مسجد مبارک میں تمہیں دس روپے دوں گا تو تم مجھے وہاں ملنا.پھر وہ شخص مسجد مبارک میں آئے اور اس شخص کو ملے اور جس نے وعدہ کیا تھا وہ جیب میں سے دس روپے نکال کر اس شخص کو دے دے اور ساتھ کھڑا ہوا ایک شخص یہ کہے کہ اس شخص نے جھوٹا وعدہ کیا تھا.جھوٹا وعدہ کیا تھا تو یہ دس روپے کیوں دیدئے.لیکن وہ یہی کہتا جائے نہیں نہیں یہ شخص جھوٹا ہے میں نے سنا تھا کہ بیشخص جھوٹا ہے.اب دیکھو تمہارے سننے سے تو کوئی شخص جھوٹا نہیں ہو جاتا.غرض جس وقت وہ نشان پورا ہو گیا تو بعض لوگ کہنے لگے جس شخص نے یہ بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ اللہ نے یہ بات کہی ہے اس کے متعلق ہمیں پتہ نہیں لگا کہ وہ سچا تھا یا جھوٹا تھا.اس لئے ہم نہیں مانتے لیکن جب چاند اور سورج کو گرہن لگ گیا تو تم مانتے کیسے نہیں اور وہ بات جھوٹی کیسے ہوگئی لیکن بہر حال بعض طبیعتوں میں ضد ہوتی ہے اس لئے بہت سے لوگوں نے نہیں مانا.اسلام کو دنیا میں غالب کر نیکی ایک عظیم مہم غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کو دنیا میں غالب کر نیکی ایک عظیم مہم کا اجراء کر دیا.اس وقت کچھ بڑی عمر کے مرد اور بڑی عمر کی عورتیں آپ پر ایمان لائے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بہت سے نشان دیکھے.اس وقت قادیان سے ایک اکیلی آواز اٹھی تھی.اپنے خاندان میں سے بھی کوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں مانتا تھا بلکہ خاندان کے لوگ آپ کو برا سمجھتے تھے.وہ ایک دنیا دار خاندان تھا اور زمیندار خاندان تھا.اس کا بڑا اثر ورسوخ تھا.وہ کہتے تھے کہ یہ شخص ہر وقت مسجد میں بیٹھ کر قرآن کریم پڑھتا رہتا ہے.اس کو دنیا کی کوئی پرواہ ہی نہیں.یہ تو ہمارے خاندان کی ناک کٹوادے گا یہ ملاں بن گیا ہے.اب بھی بعض بیوقوف زمیندار ہیں کہ وہ اپنے بچے کو دینیات نہیں پڑھاتے.اسے دین کا علم نہیں سکھاتے کہ یہ ملاں بن جائے گا اور وہ کہتے ہیں اسی جٹ آں ساڈا نک کٹیا جائے گا، بعض لوگ اب بھی اس قسم کے پائے جاتے ہیں.احمدیوں میں تو نہیں

Page 67

د و مشعل راه جلد دوم فرمودہ ۱۹۶۷ء 64 اور اگر ہیں تو نہ ہونے کے برابر لیکن دوسرے مسلمانوں میں ایسے بہت سے خاندان ہیں.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خاندان بھی ایسا ہی تھا.نہ گھر والے آپ کی کوئی عزت کرتے تھے اور نہ باہر والے آپ کو جانتے تھے اور خدا نے آپ کو کہا کھڑے ہو کر اعلان کر دو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.کسی کی کچھ پرواہ نہ کرو.چنانچہ آپ نے اعلان کر دیا وہ اکیلی آواز تھی جو اس وقت اٹھی تھی اور آج ہمارے اس اجتماع میں سینکڑوں کی تعداد میں بچے پہنچ گئے ہیں.اگر آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑے نہ ہوتے تو ساری دنیا آپ کی مخالفت کر رہی تھی.کوئی ایک آدمی جا کر آپ کو قتل بھی کر سکتا تھا.اور دنیا میں روزانہ قتل ہوتے ہی رہتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے ایسا آدمی پیدا نہیں ہونے دیا.اور آپ سے وعدہ کیا کہ میں آپ کی جان کی حفاظت کروں گا.اس لئے کسی انسان سے نہ ڈرنا.اور خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا.بڑی سازشیں ہوئیں قتل کے مقدمے بھی ہوئے اور پتہ نہیں کیا کچھ دنیا نے کیا اور کتنی ندامتیں اور شکستیں دنیا نے اٹھا ئیں.پھر وہ سلسلہ بڑھنا شروع ہوا.صحابہ کے بعد ان کی نسلیں سامنے آئیں.۱۹۲۴ء میں میں پہلی دفعہ مدرسہ احمد یہ میں گیا ہوں.اس وقت میری عمر قریباً چودہ پندرہ سال کی تھی.پہلے میں نے قرآن کریم حفظ کیا تھا پھر گھر میں کچھ پڑھا.بہر حال ابھی میں مجلس خدام الاحمدیہ میں شامل نہیں ہوا تھا گو اطفال کے آخری حصہ میں تھا.اس وقت ہمارے بڑے یہ کہتے تھے کہ دیکھو جماعت احمدیہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ ساری دنیا میں اسلام پھیلے گا.تم اپنے آپ کو ابھی سے تیار کرو تا کہ جب وقت آئے اور تمہارے اوپر ذمہ داری پڑے تو تم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل بن جاؤ.قرآن سیکھو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں پڑھو اور اپنے اللہ سے پیار کرو جو بڑی طاقتوں اور قدرتوں والا ہے.اس کے وعدے بچے ہوا کرتے ہیں.اس وقت بچپن کی عمر میں ) ہم بڑے حیران ہوتے تھے کہ چھوٹی سی یہ جماعت ہے.ویسے اس بات کو غلط نہیں سمجھتے تھے ہمیں یقین تھا کہ خدا کی بات پوری ہوگی لیکن ہم حیران ہوتے تھے کہ یہ کس طرح ہوگا.بچپن میں آدمی کا دماغ بڑا ادھر ادھر کی لڑانے کا عادی ہوتا ہے.سوچتے تھے افریقہ میں احمدی جماعتیں قائم ہو جائیں گی.یورپ میں احمدی جماعتیں قائم ہو جائیں گی اور وہ اسلام اور احمدیت کے غلبہ کی ابتداء ہوگی.وہ کس طرح ہوگا.اس وقت تو ایک آدھ جگہ کے علاوہ ہندوستان سے باہر جماعت کہیں تھی ہی نہیں اس لئے ہمیں سمجھ نہیں آیا کرتا تھا لیکن ہمارے بڑے ہمیں ہر وقت یہ کہتے رہتے تھے کہ دیکھو اپنے دلوں کو پاک صاف رکھو.دیکھو اسلام کی تعلیم سیکھو.اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو.سادہ زندگی گزار و اور نہایت عاجزی کے ساتھ زندگی کے دن گزارو.کسی کو حقیر نہ سمجھو.ہزار باتیں ہیں.سینکڑوں احکام میں قرآن کریم کے.ہمارے بڑے ہر وقت یہ کوشش کرتے تھے کہ ہم دین اسلام کے احکام سیکھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہیں.مثلاً اب جو ہماری دنیا ہے اس میں وہ حالت نہیں رہی.غریب کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن جو چیز مثلاً میں نے اپنے گھر میں دیکھی وہ یہ نہیں تھی.مجھے حضرت

Page 68

65 فرمودہ ۱۹۶۷ء د و مشعل راه جلد دوم دد م المومنین نے پالا.میں اس وقت سے ان کے پاس رہا جب کہ میں بالکل چھوٹی عمر کا تھا مجھے اس وقت کوئی ہوش نہیں تھی.آپ غریب اور یتیم بچوں کو اپنے پاس رکھ کر ان کی پرورش کیا کرتی تھیں.جب آپ کو کسی گھر کے متعلق یہ پتہ لگتا کہ وہاں کوئی لاوارث بچہ ہے تو آپ ان کو بلا لیتی تھی اور اپنے پاس رکھتی تھیں.اسے پڑھاتی تھیں.سارا خرچ اپنے پاس سے کرتی تھیں.اسے اپنے پاس بٹھا کر کھانا کھلایا کرتی تھیں.آپ جانتے ہیں کہ حضرت ام المومنین کا کیا مقام تھا.جماعت کی ہر عورت آپ کے لئے جان دینے کے لئے تیار تھی اور کوئی نہیں چاہتی تھی کہ آپ کو ذرا بھی تکلیف پہنچے لیکن میں خود گواہ ہوں.میری آنکھوں نے خود دیکھا ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کی محبت میں اور اسلام کی تعلیم کے عشق میں یہ کیا کرتی تھیں کہ جب آپ آٹھ نو یا دس سال کے بچوں کو اپنے پاس رکھتیں تو بعض دفعہ خود انہیں اپنے ہاتھ سے نہلا تیں.میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ بعض دفعہ آپ ایک گھر کے ایک سے زائد بچوں کو اپنے پاس بلا لیتیں اور وہ بہن بھائی سب مل کر آپ کے پاس رہتے.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ وہ بچی جس کو اپنے گھر میں کسی نے پوچھا نہیں تھا اور سر میں اس کے جوئیں پڑی ہوئی ہوتیں.آپ بیٹھ جاتیں اور اپنے ہاتھ سے ساری جوئیں نکالتیں.پھر اس کو نہالتیں نئے کپڑے بنا کر اس کو دیتیں اور انہیں خود پہنا تیں.پھر اپنے ساتھ بٹھا کر دستر خوان پر کھانا کھلاتیں اور ہمیں بھی سبق دیتیں کہ سارے لوگ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں.اسلام نے انسان کی عزت کو قائم کیا ہے.ہرایک سے محبت اور پیار کرنا ہے.یہ نہیں دیکھنا کہ کوئی امیر ہے یا غریب، بڑے اثر اور رسوخ والا ہے یا یتیم بچہ ہے.سارے خدا کی نگاہ میں ایک جیسے ہیں اور سارے خدا کو پیارے ہیں اور اسلام نے ہمیں ہر ایک سے پیار کرنا سکھایا ہے.غرض آپ اپنے عمل سے ہمیں ہر وقت یہ سبق دیا کرتی تھیں اور ہمارے کانوں میں یہ باتیں پڑتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کو ساری دنیا میں غالب کرے گا اور ہم اپنی اس عمر میں حیران ہوتے تھے جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے ہم جانتے تھے کہ غالب ضرور ہوں گے.یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے لیکن ہوں گے کیسے؟ یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی.پھر جب ہم بڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی توفیق دی ہم نے اپنے دین کی خدمت کی اور وہ خدمت اللہ تعالیٰ نے ہم سے لی اور اب ہم آپ سے مخاطب ہو کر یہ باتیں کر رہے ہیں.اس وقت کا اور آج کا بڑا فرق ہے.اس وقت افریقہ میں شاید کوئی اکا دکا احمدی ہو اور یورپ میں دو چار آدمی مسلمان ہوں گے لیکن اب کئی ہزار میل دور افریقہ میں اتنی بڑی بڑی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے نازل ہوئے اور اسلام کو وہاں غالب کر دیا.وہ لوگ بددین اور دہریہ اور درختوں کی پوجا کرنے والے اور سانپوں کی پرستش کرنے والے تھے.ان کا کوئی عقیدہ نہیں تھا.وہ ننگے پھرتے تھے.ان کی کوئی تہذیب نہیں تھی.جماعت احمدیہ کی کوششوں سے ( گو وہ نہایت حقیر ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے ان میں برکت ڈالی ) وہ اسلام لائے اور ان کو اللہ تعالیٰ نے تہذیب سکھائی عقل دی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈالا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے پیار کریں اور محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کریں.آپ پر درود بھیجیں اور اسلام

Page 69

دومشعل دوم فرمودہ ۱۹۶۷ء 66 کے احکام پر عمل کریں اور اللہ تعالیٰ نے ان سے اتنا پیار کرنا شروع کیا کہ ہزاروں آدمی افریقہ میں اس وقت ایسا ہے جن سے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کلام کرتا ہے.کچی خوا ہیں انہیں دکھاتا ہے.ان سے کچھ وعدے کرتا ہے.اس دنیا کے بھی اور اس دنیا کے بھی.اور اس دنیا کے وعدے ان کے سامنے پورے ہو جاتے ہیں.بیسیوں آدمی ایسے بھی ہیں جن سے آج اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا اور وہ حیران ہوا کہ اللہ تعالیٰ مجھے کیا کہہ رہا ہے.مجھے سمجھ نہیں آرہا.لیکن دس پندرہ دن کے بعد وہ وعدہ پورا ہو گیا.گیمبیا کے ایک احمدی حبشی تھے.وہ بڑے نمازی اور دعا کرنے والے ہیں.ان کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی.بریکار تھے بیچارے.بڑے پریشان تھے.ایک دن وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ تو اتنے پونڈ پر نوکر ہو جائے گا.ویسے تو دنیا میں نوکریاں ملتی بھی ہیں اور بہتی بھی ہیں اور اس سے یہ پتہ نہیں لگتا کہ واقعہ میں خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بتانے کے لئے کہ میں قادر خدا جو ہوں تم سے وعدہ کر رہا ہوں اس وعدہ کو چند دن بعد پورا کر دیا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے اسے بتایا کہ تم سولہ پاؤنڈ ماہوار پر نوکر ہو جاؤ گے.اور ابھی چند دن نہیں گزرے تھے کہ انہیں نوکری مل گئی اور تنخواہ بھی انہیں بالکل اتنی ملی جو انہیں بتائی گئی تھی.غرض اس قسم کی قرب کی راہیں اللہ تعالیٰ ان پر کھول رہا ہے.اور سکول کے زمانہ میں تو ہم اس بات پر حیران ہوتے تھے کہ اسلام دنیا میں غالب کیسے آئے گا اور اب اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کتنا فضل کیا ہے کہ اپنا قرب ان کو عطا کر دیا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ماں اپنے بچہ کو اپنے سینہ سے لگا لیتی ہے اسی طرح ان قوموں کو جو اسلام لا رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کو پہچانے لگی ہیں انہیں اب اللہ تعالیٰ اپنے سینہ سے لگا رہا ہے اور ان پر اپنے فضل کر رہا ہے.سو میں آج اپنے بڑوں کی طرح آپ سے یہ نہیں کہتا کہ افریقہ میں بھی اسلام لانے والے پیدا ہو جائیں گے.ان کے دلوں میں حقیقی اسلام کی نیکی پیدا ہو جائے گی کیونکہ یہ تو ہو چکا لیکن آج جو بات میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں وہ آپ کے لئے اتنی ہی حیران کن ہے جتنی وہ باتیں جو ہمارے بزرگ کیا کرتے تھے ہمارے لئے حیران کن تھیں.لیکن جس طرح وہ باتیں اپنے وقت پر پوری ہو گئیں.اسی طرح آپ یقین رکھیں کہ یہ باتیں بھی جو میں آج آپ سے کہہ رہا ہوں اپنے وقت پر ضرور پوری ہو جائیں گی.آج میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں ہاں اسی فضل کے نتیجہ میں جو وہ آج اسلام پر کر رہا ہے یہ کہنے کے قابل ہوں کہ آپ جو اس وقت چھوٹی عمر میں میرے سامنے بیٹھے ہیں جس وقت آپ بڑے ہوں گے اور آپ کی عمریں ۲۵ ،۳۰، ۳۵، ۴۰ سال کی ہوں گی اس وقت دنیا کی اکثریت اللہ تعالیٰ کو پہچان چکی ہوگی انشاء اللہ اور وہ آپ سے مطالبہ کرے گی کہ آؤ اور ہمیں اسلام سکھاؤ.اگر آج اس عمر میں آپ نے اسلام نہ سیکھا تو جس وقت دنیا آپ کو کہے گی کہ آؤ اور ہمیں اسلام سکھاؤ تو آپ انہیں کیسے اسلام سکھائیں گے.اس لئے میں یہ تو نہیں کہتا کہ دنیا کمانا برا ہے یا دنیا کمانے کی جو راہیں ہیں انہیں آپ اختیار نہ کریں.اگر تم میں کوئی ڈاکٹر بنا چاہتا ہے تو میں یہ نہیں کہوں گا کہ تم ڈاکٹر نہ بنو.کوئی انجینئر بننا

Page 70

67 فرمودہ ۱۹۶۷ء د و مشعل راه جلد دوم چاہتا ہے تو میں یہ نہیں کہوں گا کہ انجینئر نہ بنو لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ تم کوئی اور پیشہ اختیار کرنے کے باوجود علم قرآن اتنا تو سیکھ لو کہ جب تمہیں دنیا استاد بنانا چاہے تو تم استاد بننے کے قابل ہو.کیونکہ تم سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ تم دنیا کے استاد معلم اور راہبر بنو گے.زیادہ نسلیں تو نہیں گزریں ہماری لیکن جو بھی چھوٹوں سے بڑے ہوئے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ وعدہ کیا تھا کام لیا ہے یا کام پر بلایا ہے ان میں سے بہتوں نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا اور خدا کی راہ میں کام کئے اور انہوں نے اس کی رضا کو حاصل کیا.زیادہ تو نہیں لیکن کچھ ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طرح ادا نہیں کیں اللہ تعالیٰ فضل کرے ان پر.لیکن تم پر جو آج بچے ہو جو ذمہ داری عائد ہونے والی ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو آج کی نسل پر پڑ رہی ہے.اس لئے ہمیں ہر وقت یہ فکر رہتا ہے کہ تمہاری صحیح تربیت ہو اور تربیت کے لئے جو بنیادی چیزیں ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں پیدا کیا ہے ہم پر اس نے بڑے احسان کئے ہیں.ہمیں اسے پہچاننا چاہیے اور اس کے احسانوں کو سامنے رکھ کر اس کے لئے اپنے دل میں محبت پیدا کرنی چاہیے.دیکھو ماں کے لئے بچہ کے دل میں محبت ہوتی ہے.کچھ ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو بیوقوفی سے اپنی ماں سے محبت نہیں رکھتے.ان کی تعداد لاکھ میں سے ایک ہوگی لیکن اکثریت ایسی ہے کہ ان میں سے ہر بچہ اپنی ماں سے محبت کرتا ہے اور وہ اس سے اس لئے محبت کر رہا ہوتا ہے کہ ہر ماں اپنے بچے سے محبت کر رہی ہوتی ہے.اور اس محبت اور پیار کے نتیجہ میں بچہ کے دل میں اس کے لئے محبت اور پیار پیدا ہوتا ہے.جتنا پیار ایک ماں اپنے بچہ سے کرتی ہے اگر میں کہوں کہ یہ اس پیار کا لاکھواں حصہ ہے جو خدا اپنے بندہ سے کر رہا ہے تو یہ غلط ہوگا.اگر میں کروڑواں حصہ بھی کہوں تب بھی یہ غلط ہوگا.اگر میں اربواں حصہ بھی کہوں تب بھی یہ غلط ہوگا.اس کی ہر چیز پر نظر ہے.آج سے لاکھوں سال پہلے اس کو اس بات کا علم تھا کہ یہ بچے پیدا ہونے والے ہیں ان کے لئے انتظام کرنا چاہیئے اور اس نے انتظام کیا.تمہاری نسل روٹی کھاتی ہے.یہ روٹی گندم سے نتی ہے.اور یہ گندم جو آج ہم کھا رہے ہیں یا تمہیں بچپن سے مل رہی ہے وہ اس گندم سے مختلف ہے جو ہم اپنے بچپن کے زمانہ میں کھایا کرتے تھے.یہ ا یک بار یک بات ہے تم اسے سمجھنے کی کوشش کرو میں سمجھا دوں گا تمہیں.اصل وجہ جو ہے وہ تو شاید بہتوں کو سمجھ نہ آئے اس لئے میں مختصر طور پر کہتا ہوں کہ دنیا میں سائنس نے یہ تحقیق کرلی ہے کہ ستاروں کی روشنی دنیا کی تمام چیزوں پر اثر انداز ہورہی ہے.یعنی گندم کے پکنے میں یہ اثر انداز ہوتی ہے.درختوں پر، ترکاریوں پر اور دوسرے دانوں پر سورج چاند اور ستاروں کی روشنی کا اثر ہے.تمہارا دماغ اس بات کو سمجھے یانہ مجھے لیکن اتنی بات سمجھ لو کہ ستاروں کی روشنی کا اثر گندم پر پڑتا ہے.جب ہم بچے تھے تمہاری عمر کے اس وقت اور آج کے زمانہ کے درمیان بہت سارے ستاروں کی روشنی پہلی دفعہ زمین پر پڑنی شروع ہوئی ہے.پہلے وہ روشنی گندم پر نہیں پڑتی تھی اب پڑ رہی ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گندم کے پکنے میں جو آج ہم کھاتے ہیں بہت سے ایسے ستاروں نے بھی حصہ لیا ہے جنہوں نے اس وقت کی گندم کے پکانے میں حصہ نہیں لیا تھا جو اس زمانہ میں تھی جب ہم بچے تھے.اب دیکھو آج کی گندم مختلف ہو گئی.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہار.

Page 71

د و مشعل راه جلد دوم فرمودہ ۱۹۶۷ء 68 جسموں اور تمہارے دماغوں میں کچھ زیادہ قوتیں پیدا کرنی چاہتا ہے تا جب تم پر بوجھ پڑے تو تم اس کو برداشت کرلو.اب دیکھو کتنا مہر بان ہے خدا کئی لاکھ سال پہلے اس نے ایسے ستارے پیدا کئے جن کی روشنی اس زمانہ میں دنیا پر پڑنی تھی اور تمہاری غذا پر انہوں نے اثر انداز ہونا تھا.غرض ماں بے شک پیار کرتی ہے لیکن اس سے بے شمار گنازیادہ پیار اللہ تعالیٰ ہم سے کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا ہونی چاہیے اور جس طرح ہر شریف بچہ اس بات سے خائف ہوتا ہے کہ کہیں اس کی ماں ناراض نہ ہو جائے وہ اپنے کسی فعل کی وجہ سے اسے نہ ناراض نہ کر دے.اسی طرح ہر سمجھدار اور شریف بچے کو یہ خیال رہنا چاہیے کہ میں کہیں اپنے رب کو ناراض نہ کر دوں.ہم اپنی ذمہ داریوں کو اس وقت تک نبھا نہیں سکتے جب تک ہمارے دلوں میں اپنے پیدا کرنے والے رب کی وہ محبت پیدا نہ ہو جائے جو اسلام ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے.اس کو جو تفاصیل ہیں.اس کی جو گہرائیاں ہیں.اس کے جو فلسفے ہیں تمہاری عمران کے سمجھنے کی نہیں لیکن تم اتنا تو سمجھ سکتے ہو کہ ماں کا پیار تمہارے دل میں ہے اس وجہ سے کہ ماں تم سے پیار کرتی ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ تم سے ماں سے زیادہ پیار کرتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی محبت تمہارے دلوں میں ماں کی محبت سے زیادہ ہونی چاہیے.پھر نبی کریم ﷺ دنیا کے لئے قرآن کریم جیسی عظیم کتاب لے کر آئے اور بغیر مبالغہ کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی ایسا وجود ہوسکتا ہے اور ہوا ہے جس کو ہم دنیا کا حسن اعظم کہہ سکیں تو وہ محمدرسول اللہ ﷺ کا وجود ہے.پس دوسری محبت ہماری محمد رسول اللہ اللہ کے لئے ہونی چاہیے.تیسری محبت ہماری قرآن کریم اور اسلام کے ساتھ ہونی چاہیے.چوتھی محبت ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہونی چاہیے کہ آپ کے طفیل ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ کی شان کو پہچانا ورنہ دنیا آپ کو اور آپ کے مقام کو اور آپ کی شان کو بھول چکی تھی.اگر تمہارے دل میں یہ حبتیں بیدار اور زندہ رہیں تو پھر ہمیں کوئی خوف نہیں.پھر ہم سمجھیں گے کہ ہم تمہاری تربیت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.ان محبتوں کو زندہ اور قائم رکھنے کے لئے قرآن کریم کا جاننا اس کا پڑھنا اور اس کا سمجھنا بہت ضروری ہے اور قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ بڑا ضروری ہے لیکن قرآن کریم کو ہر آدمی اپنی عمر کے لحاظ سے سمجھ سکتا ہے.یورپ کے سفر میں مجھ سے ایک مسلمان نے (جو احمدی نہیں ویسے در در کھتے ہیں ) اس فکر کا اظہار کیا کہ ہم یہاں رہتے ہیں.ہمارے خاندان اور ہمارے بچے دین اسلام سے غافل ہو رہے ہیں اور قرآن کریم پڑھانے کا کوئی انتظام نہیں.میں نے انہیں کہا کہ انتظام تو ضرور ہونا چاہیے.ہم بھی اس کے لئے سوچ کر کوئی سکیم بنائیں گے لیکن ایک بات میں تمہیں بتاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم دنیا کے بڑے بڑے فلاسفروں کو مخاطب کر کے بھی انہیں قائل کرتا ہے اور لاجواب کر دیتا ہے.کوئی فلسفی قرآن کریم کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا.اور قرآن کریم اوسط درجہ کے علم رکھنے والوں اور ذہن

Page 72

69 فرمودہ ۱۹۶۷ء دو مشعل راه جلد د.دوم رکھنے والوں کی تسلی کا موجب بنتا ہے.اور قرآن کریم بچوں کو بھی مخاطب کرتا ہے اور جب وہ بچوں کو مخاطب کرتا ہے تو انہیں وہ بچوں کی زبان میں سکھانا چاہیے.میں آج دنیا کے ایک بہترین فلسفی کو جس زبان میں اور جن دلائل کے ساتھ قرآن کریم سمجھا سکتا ہوں اگر ان دلائل کے ساتھ اور اس زبان میں آپ کو سمجھا ؤں تو آپ سمجھیں گے نہیں.کیونکہ آپ کو اتنا علم نہیں.آپ کا بیک گراؤنڈ (Back Ground) یعنی پس منظر ویسا نہیں ہے.لیکن اگر میں آپ سے قرآن کریم کی باتیں سہل زبان میں کروں تو آپ سمجھ سکتے ہیں اور آپ سمجھ جائیں گے.مثلاً رب العلمین سورۃ فاتحہ میں ہے.اگر میں اس کے فلسفہ میں جاؤں تو آپ میں سے بہت سے بچے ایسے ہیں جن کو کچھ بھی پتہ نہ لگے.تھوڑے ہوں گے جن کو تھوڑا بہت پتہ لگ جائے گا.لیکن اگر میں آپ کو یہ بتاؤں کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جن طاقتوں اور جن ذرائع کی ضرورت تھی وہ بھی اس نے پیدا کئے ہیں.یہ کوئی ایسی بار یک چیز نہیں ہوگی جو آپ سمجھ نہ سکیں یہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے.اس کی حکمت آپ کو آج سمجھ نہیں آئے گی لیکن اتنی بات آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ ہمارا اللہ رب ہے اس نے مجھے اور آپ میں سے ہر ایک کو پیدا کیا کہ آپ اس کے فضلوں کے وارث بنیں.اور ان فضلوں کے وارث بننے کے لئے جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی مثلا دل کی ، دماغ کی ، آنکھوں کی کانوں کی علم سیکھنے کی، لکھنے کی ، پڑھنے کی وغیرہ وغیرہ وہ اس نے ہمیں دیدیں.اور ہماری تربیت کرنے کے لئے اس نے ایسا انتظام کیا کہ اس کا پیار نئے سے نئے طریق سے ظاہر ہوتا رہے.پرانی باتیں لوگ بھول جاتے ہیں.ہماری جماعت میں سے اور آپ میں سے بھی بہت سارے ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ کچی خوا نہیں دکھا دیتا ہے یا جن کے گھر میں سچی خوا میں دیکھی جاتی ہیں اور والد یا والدہ بتاتے ہیں کہ ہمیں یہ خواب آئی اور یہ اس طرح پوری ہوئی.آپ وہ خواب سن کر حیران ہوتے ہیں اور کہتے ہیں اچھا اللہ تعالیٰ اتنی طاقت رکھنے والا اور اتنا علم رکھنے والا ہے.طاقت رکھنے والا اس لئے کہ اس نے مثلاً یہ کہہ دیا کہ پندرہ سال بعد یہ بات ہو گی اور آپ کو تو آج شام تک کا پتہ نہیں.ابھی ایک بڑا افسوسناک واقعہ ہوا ہے جو اس اجتماع سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں پل بھر کی خبر نہیں ہوتی.ہمارے ایک بڑے مخلص نوجوان لائل پور کے تھے.وہ بڑے شوق سے اس سالانہ اجتماع پر آنے کی تیاری کر رہے تھے لیکن ایک دن پہلے ریل کے ساتھ ان کی ٹکر ہوئی اور ان کا جسم قیمہ کی طرح ہو گیا.تو دیکھو وہ اپنے دل میں بڑی امنگیں لئے ہوئے تھے.بڑے مستعد اور شوق رکھنے والے نوجوان تھے.وہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اپنی ساری مجلس کو اجتماع پر لے کے جاؤں گا اور ہم اس میں اس طرح حصہ لیں گے.پتہ نہیں کہ اس نے کیا کیا سکیمیں سوچی ہوں گی لیکن اس کو پتہ نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے لیکن دنیا کی کوئی چیز ہمارے خدا سے چھپی ہوئی نہیں ہے اور وہ ہمیں آئندہ کی باتیں (چھوٹی بھی اور بڑی بھی) بتا تا ہے.اور اس سے ہماری طبیعتوں میں بڑی بشاشت پیدا ہوتی ہے.اس سفر کے دوران میں انگلستان کے متعلق ہمارے دوستوں کو کچھ فکر تھا کہ ان کا انتظام ( امیگریشن والوں کا

Page 73

مشعل راه جلد دوم فرمودہ ۱۹۶۷ء 70 د بھی اور جو چیک کرتے ہیں سامان کو ان کا بھی ) اتنا خراب ہے کہ وہ بعض دفعہ لوگوں کو تنگ بھی کرتے ہیں.ان کو جب کہا گیا کہ جماعت احمدیہ کے امام آ رہے ہیں تم انہیں کچھ سہولتیں دو تو وہاں کا جو انچارج تھا اس نے کہا ایسا انتظام نہیں ہوسکتا.اس کی اطلاع ہمیں ڈنمارک میں ملی جہاں مسجد کا افتتاح ہوا تھا.آپ سب جانتے ہیں کہ کوپن ہیگن ( جوڈنمارک کا دارالخلافہ ہے ) میں آپ کی ماؤں اور بہنوں کے چندوں سے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک مسجد کی تعمیر کی جماعت احمدیہ کو تو فیق عطا کی ہے.اس مسجد کا افتتاح ۲۱ جولائی کو ہوا تھا.وہاں ہمارے سارے مبلغ بھی جمع ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ پریشانی ہے کہ کہیں ہمیں وہاں ٹھہرنا نہ پڑے.وہ ہمیں تنگ کریں گے اگر آدھا گھنٹہ امیگریشن والے لگا دیں اور گھنٹہ بھر کٹم والے لگا دیں تو ڈیڑھ گھنٹہ ہمیں وہاں ٹھہرنا پڑے گا اور آپ کو تکلیف ہوگی.ہم بڑے پریشان ہیں.محکمہ والوں کو کہا گیا تھا کہ آپ کچھ سہولتیں مہیا کر دیں.لیکن انہوں نے کہا ہے کہ جس طرح دوسرے لوگ آتے ہیں اسی طرح امام جماعت احمد یہ بھی آئیں گے.اور جو ہم نے کرنا ہوا وہ ہم کریں گے.اسی وقت میری طبیعت دعا کی طرف مائل ہوئی اور میں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بتایا کہ تمہاری کوششیں سب ناکام ہو جائیں گی لیکن میں انتظام کر دوں گا میں نے انہیں کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بشارت دی ہے اب دیکھیں وہاں کیا ہوتا ہے.ہمارے مبلغ اپنے پیار کی وجہ سے فکر مند اور پریشان تھے اور کہتے تھے آپ کو ڈیڑھ گھنٹہ وہاں ٹھہر نا پڑا تو آپ کو تکلیف ہوگی.اور جو احمدی وہاں کئی سو کی تعداد میں جمع ہیں ان کو بھی تکلیف ہوگی.اور کوئی بات نہیں تھی لیکن یہ ایک پریشانی کی بات تھی.لیکن میں نے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ کتنا پیار کرنے والا خدا ہے.یہ ایک چھوٹی سی پریشانی تھی جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی خیال رکھا اور ایسا انتظام کیا کہ ہمیں کوئی پریشانی نہ ہو اور ایسا انتظام کیا جس کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا.رپورٹ تھی کہ کوئی انتظام وہاں نہیں ہوسکا.ہم ناکام ہو گئے ہیں.بڑے بڑوں نے مل کر بات بھی کی لیکن کوئی انتظام نہ ہو سکا اور اللہ تعالیٰ اتنا قادر ہے کہ اس نے کہا میں انتظام کروں گا تم کیوں فکر کرتے ہو لیکن جب وہاں پہنچے تو ہر وہ انتظام وہاں موجود تھا جس کے نہ کرنے کا ان لوگوں نے وعدہ کیا تھا.یعنی کہا یہ تھا کہ ہم یہ نہیں کریں گے وہاں ایروڈ رام پر جہاں جہاز ٹھہرتا تھا وہاں کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد جانا پڑتا تھا.عمارتیں فاصلہ پر ہیں اور جانا بھی وہاں پیدل پڑتا ہے لیکن سیڑھی پر ہی میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ خدا کی شان.وہاں کا رٹھہری ہوئی تھی وہ محکمہ والوں کی کا رتھی.اس پر وہ (امیگریشن والے) ہمیں اس جگہ سے لے گئے جہاں جہاز ٹھہر نا تھا.آج کل بہت سے لوگ انگلستان میں ناجائز طور پر بھی چلے جاتے ہیں اس لئے وہ احتیاط کرتے ہیں اور قانون کی پابندی کراتے ہیں.وہ ہر ایک سے ایک جیسا سلوک کرتے ہیں.بہر حال لوگوں نے جن کے متعلق خیال تھا کہ وہ بڑے اوٹ پٹانگ سوال کرتے ہیں اور وہ دیر لگائیں گے اور وہاں ٹھہر نا پڑے گا.پریشانی ہوگی.انہوں نے ایک احمدی ہی کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ پاسپورٹ لے آؤ.ہم یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ امام جماعت احمد یہ ہمارے دفتر میں آنے کی تکلیف گوارا کریں.تم جا کر پاسپورٹ لے آؤ.مہریں لگواؤ اور واپس چلے جاؤ.غرض وہاں خدا تعالیٰ کی یہ

Page 74

71 فرمودہ ۱۹۶۷ء د و مشعل راه جلد دوم شان نظر آئی اس کے بعد جب ہم کٹم کے پاس پہنچے تو وہاں بھی انتظام موجود تھا.مجھے یہ پتہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے وہاں کیسے انتظام کیا.مجھے صرف یہ پتہ ہے کہ وہاں انتظام تھا.کسٹم والے جب سامان کھولتے ہیں تو اسے بکھیر دیتے ہیں.گویا پہلے سامان کو تہہ کرو پھر سوٹ کیس کو بند کرو.پھر اس کے بعد وہ اس پر ایک پرچی لگاتے ہیں.ہم سات آٹھ آدمی تھے ( کچھ آدمی وہاں سے بھی ہمارے ساتھ مل گئے تھے.یہاں سے تو ہم چھ آدمی ہی گئے تھے لیکن کوپن ہیگن میں جو لوگ ہمارے ساتھ مل گئے تھے.ان کے سمیت شاید اس سے بھی زیادہ ہو گئے تھے.پھر کافی سامان تھا اس پارٹی کا پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کس طرف سے اور کیسے یہ سمجھایا اور ان کے کانوں کو کھینچا کہ اگر پر چی لگاؤ گے تب بھی ان کے تین چار منٹ ضائع ہوں گے.چنانچہ انہوں نے پر چی بھی نہ لگائی بلکہ کہا آپ پہلے جائیں.ہم باہر نکل آئے تو کئی سو دوست وہاں انتظار کر رہے تھے.وہ بہت محبت اور پیار کے ساتھ ہمیں ملے.اور ہم بھی انہیں بڑی محبت اور پیار کے ساتھ ملے گو پریشانی بالکل معمولی تھی.آدھا گھنٹہ یا گھنٹہ وہاں ٹھہر نا پڑتا یہ کوئی چیز نہیں تھی معمولی بات تھی لیکن ہمیں ایک ذرہ بھی پریشانی نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ نے اتنی چھوٹی سی بات کا بھی خیال رکھا اور ہمیں یہ معمولی تکلیف بھی نہ پہنچنے دی.غرض اللہ تعالیٰ بڑا پیار کرنے والا ہے.اس کے صلى الله ساتھ ہمارا تعلق ہونا چاہیئے.پھرنی کریم ﷺ کا ہم پر اتنا بڑا احسان ہے کہ ہماری عقلیں اس احسان کو اپنے احاطہ میں نہیں لاسکتیں.ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم محمد رسول اللہ علے سے انتہائی محبت اور پیار کر نیوالے ہوں.ہر وقت آپ پر درود بھیجنے والے ہوں پھر قرآن کریم سے ہمیں محبت ہونی چاہیئے جو نور ہی نور ہے.آدمی دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے.اگر دنیا کے سارے علوم مل کر قرآن کریم پر اعتراض کرنا چاہیں تو آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو توفیق ہے کہ ان کو خاموش کرنے والے جواب دیں.اور جن لوگوں پر وہ اعتراض کر رہے ہوں.وہیں اسے قرآن کی خوبیوں اور اس کے حسن کو نکال کر ان کے سامنے پیش کیا جائے.یہ توفیق اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو دی ہے.غرض قرآن کریم سے محبت کرنا بڑا ضروری ہے.جو شخص قرآن کریم سے پیار نہیں کرتا اور قرآن کریم کی محبت اپنے دل میں نہیں رکھتا وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں بنتا.اور یہ ساری چیزیں ہمیں محمد رسول اللہ علہ کے ایک عظیم فرزند کے ذریعہ ملی ہیں.جو ہمارے سلسلہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود ہیں.پس جن کے طفیل اور جن کے ذریعے یہ صداقتیں ہم پر کھلیں جن کی وجہ سے وہ راہیں ہمیں ملیں جن راہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیا تھا اور اس کے پیار کے نمونے ہم نے اپنی زندگیوں میں دیکھے ان سے بھی پیار کرنا بڑا ضروری ہے.پس آج وہ سبق جو اس اجتماع میں میں آپ کو دینا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے پیار کرو جتنا پیار تم کسی وجود سے کر سکتے ہو.اس سے بھی زیادہ اور اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کی قرآن کریم کی اسلام کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرو.مائیں جو محبت اپنے بچوں کو دیتی ہیں وہ اس محبت کا ار بواں حصہ بھی نہیں جو خدا تعالیٰ سے ہمیں ملتی ہے.پھر کتنے ہیں جن کی مائیں بچپن میں فوت ہو جاتی ہیں اور وہ

Page 75

د دمشعل را قل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۷ء 72 ماں کی محبت سے محروم ہو جاتے ہیں.لیکن ہمارا خدا ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے.اور جو شخص اس کی محبت کو پالیتا ہے اسے کبھی یہ خطرہ نہیں ہوتا کہ کبھی کسی نقص کی وجہ سے وہ محبت ہم سے چھن جائے گی.اگر وہ محبت ہم سے واپس لے لی جاتی ہے تو صرف اس لئے کہ ہم نے اپنی غفلت کی وجہ سے اس محبت کو کھود یا ورنہ یہ نہیں کہ جس طرح ماں فوت ہوگئی یا ماں بیمار ہوگئی یاماں مفلوج ہوگئی یا ماں دیوانہ ہوگئی تو بچہ ایک محبت سے محروم ہو گیا.اس طرح انسان اپنے خدا کی محبت سے محروم ہو جائے.کیونکہ کوئی نقص یا عیب یا بیماری یا کمزوری اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی.جو شخص ایک دفعہ اس کا پیار حاصل کر لیتا ہے.اس کا دل اس یقین سے مطمئن ہوتا ہے کہ یہ پیارا ہمیشہ ملتا رہے گا بشرطیکہ وہ ہمیشہ خود کو اس پیار کا مستحق قرار دیتارہے.اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہ دعا ہے کہ وہ آپ سب کو اور ہم سب کو بھی یہ توفیق دیتا ہے کہ ہم انہی راستوں پر چلیں جو اس کی رضا کی راہیں ہیں جو اس کے قرب کی راہیں ہیں جن پر چل کر ہم اس کی محبت اور پیار حاصل کرنے والے ہوں اور ہم حقیقی معنی میں اسلام کے خادم اور محمد رسول اللہ علیہ کے فدائی بن کر اس مہم کے فوجی بنیں جو آج غلبہ اسلام کے لئے اس دنیا میں جاری کی گئی ہے.ہم اس کے خادم بنیں اس کے جاں شار بنیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس مہم میں حصہ دار بنائے اور اس کی رحمتوں کے ہم اور ہماری نسلیں ہمیشہ وارث ہوتی رہیں.(آمین) ( تفخیذ الا ذہان مارچ ۱۹۶۸)

Page 76

73 فرمودہ ۱۹۶۷ء دومشعل راه جلد دوم ربوه ۲۲، اکتوبر ۱۹۶۷ء سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے پچیسویں سالانہ اجتماع کے اختتامی اجلاس میں نہایت روح پرور اور بصیرت افروز خطاب فرمایا اور خدام کو قیمتی نصائح سے نوازا.حضور کے اس خطاب کا متن.یہ غیر مطبوعہ خطاب ہے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے فضل سے تو فیق عطا کی کہ ہم امسال پھر اپنے سالانہ اجتماع میں شامل ہوں اور کوشش کریں کہ یہاں سے کچھ سیکھیں اور واپس جا کر اس پر عمل کریں اور اپنے ماحول کو سیکھی ہوئی باتوں کے مطابق بنانے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس سال ہمارے اس اجتماع پر گزشتہ سال کی نسبت بہت زیادہ رونق ہے.جب اللہ تعالیٰ آسمانوں پر کوئی فیصلہ کرتا ہے اور زمین پر اس کا نفاذ کرتے ہوئے اپنی جماعت قائم کرتا ہے تو اس جماعت کا قدم ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہی چیز ہمیں آج کے اجتماع میں نظر آتی ہے.قائدین اضلاع کی ذمہ داری گزشتہ سال ۷۷ مجالس سالانہ اجتماع میں شامل ہوئی تھیں اور ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سالانہ اجتماع میں شامل ہونے والی مجالس کی تعدادا تھی.اور امسال ۲۰۱ مجالس نے حصہ لیا ہے.یہ ترقی تو ہے مگر ترقی کی یہ رفتار میرے لئے تسلی بخش نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کم و بیش ایک ہزار جماعتیں مغربی پاکستان میں ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ چھ سات سو جماعتوں میں یقیناً مجالس خدام الاحمدیہ قائم ہیں اور چھ سات سو مجالس میں سے صرف ۲۰۱ مجالس کا اس اجتماع میں حصہ لینا میرے دل میں فکر پیدا کرتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بڑی ذمہ داری قائدین اضلاع پر ہے.قائد ضلع کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھے کہ اس کے ضلع میں خدام الاحمدیہ کی ہر مجلس ایک کم سے کم معیار پر قائم ہو اور اگر وہ دیکھتا ہے کہ اس کے ضلع میں کوئی مجلس اپنے اس کم سے کم معیار پر قائم نہیں تو اس کا فرض ہے کہ اس کو زندہ اور بیدار کرنے کی کوشش کرے اور اگر وہ اپنی اس کوشش میں ناکام ہو جائے تو اس کا فرض ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی امداد حاصل کرے اور اس کمزور مجلس کو جگانے کی کوشش کرے اور اگر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ بھی اپنی کوشش میں ناکام رہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ خلیفہ وقت کو اس کی طرف توجہ

Page 77

دد مشعل را ل راه جلد دوم فرمودہ ۱۹۶۷ء 74 دلائیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت کا ہر قدم ہر صبح آگے ہی ہمیں نظر آتا ہے.کسی شعبہ زندگی میں بھی ہم پیچھے نہیں رہتے.صدر لجنہ اماءاللہ کو بھی لجنہ اماءاللہ کے اجتماع کے شروع ہونے سے ایک دن قبل یہ فکر تھا کہ کہیں امسال ہماری اماءاللہ ( ہماری وہ بہنیں جو لجنہ اماءاللہ کی ممبر ہیں) اجتماع میں گزشتہ سال کی نسبت کم تعداد میں شامل نہ ہوں.چنانچہ انہوں نے اجتماع سے ایک دن پہلے یعنی جمعرات کی شام کو اپنے دفتر سے مجھے فون کیا کہ اس وقت تک جو بہنیں آچکی ہیں ان کی تعداد گزشتہ سال کی نسبت کم ہے.مجھے فکر ہے اس بات کی.میں نے انہیں کہا کہ فکر نہ کریں.اللہ تعالیٰ فکر کرے گا اور پچھلے سال سے یہ تعداد بڑھ جائے گی.چنانچہ ان کی جو کل کی رپورٹ ہے اور پھر آج دوپہر کی رپورٹ ہے اس میں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ گزشتہ سال بیرون ربوہ کی ۴۰۰ کے قریب ممبرات لجنه اماءاللہ کے سالانہ اجتماع میں شامل ہوئی تھیں.اس سال ان کی تعداد ۵۸۸ تک چلی گئی ہے.یعنی قریباً چالیس فیصد اضافہ ہے.یہ بھی بڑی خوش کن چیز ہے لیکن ان کو بھی میں کہوں گا کہ حقیقت یہ ہے کہ ان اجتماعات میں کم از کم ایک نمائندہ تو ہر مجلس کا شامل ہونا چاہیئے تا کہ وہ واپس جا کے بتائے کہ اس نے کیا دیکھا.کیا سنا.کن ضرورتوں کو محسوس کیا.ان ضرورتوں کو پورا کرنے کی کیا تجاویز پیش ہوئیں اور کس طرح سے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم وقت کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس لئے مبعوث فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا.اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ علیہ سے کہا تھا کہ ایک دفعہ عروج کے حصول کے بعد اسلام تنزل کے ایک دور سے گزرے گا.اور پھر اسلام کا رب اور محمد رسول اللہ ﷺ سے پیار کرنے والا اللہ دوبارہ اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کیلئے آپ کے روحانی فرزندوں میں سے ایک عظیم فرزند کو کھڑا کرے گا اور اس کے ذریعہ سے اور اس کی جماعت کے ذریعہ سے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرے گا.یہ بڑا ہی اہم کام ہے، یہ بڑا ہی مشکل کام ہے.اتنا مشکل کہ میں سمجھتا ہوں کہ آج دنیا میں اس سے زیادہ مشکل کوئی کام نہیں.لیکن یہ کام ہو کر رہے گا.کیونکہ ہمارا رب کہتا ہے کہ میں ایسا ہی کرنے والا ہوں لیکن ہمیں اس کیلئے بیحد قربانیاں بھی دینی پڑیں گی.یہ نہیں کہ ہم آرام سے اپنے گھروں میں سوتے رہیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہونے کے بعد بھی کوئی قربانی نہ دیں.کوئی ایسی قربانی جو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والی ہو.یہ نہیں ہو سکتا.ہمیں مشکل بیابانوں سے گزرنا پڑے گا.ہمیں ہر چیز کو قربان کرنا پڑے گا.ہمیں اپنی عزتوں، اپنے مالوں کو ہمیں اپنی خواہشات کو ہمیں اپنے آراموں کو، ہمیں اپنے سکون کو ہمیں اپنی اولاد کو، ہمیں اپنی بیوی اور بچوں کو خدا کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر رکھ دینا پڑے گا اور سب سے پہلے اپنے نفسوں کو خدا کے سامنے رکھنا ہوگا.جب اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں احساس.

Page 78

75 فرمودہ ۱۹۶۷ء د و مشعل راه جلد دوم دد کو دیکھے گا.ہماری قربانیوں کو قبول کرے گا.تو وہ دن ہماری زندگی میں اپنے فضل سے لے آئے گا جس دن کیلئے صدیاں مسلمان تڑپتے آرہے ہیں.اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور آخری فتح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.آپ فرماتے ہیں.یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں.مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ پیچ ہیں.میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا.میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں.کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا.“ پھر آپ فرماتے ہیں:.مجھے اس کی عزت کی اور جلال کی قسم مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو.اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو.اس کے فضل کے ساتھ مجھے کسی ابتلاء سے خوف نہیں.اگر چہ ایک ابتلاء نہیں ، کروڑوں ابتلاء ہوں.ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے.“ پھر آپ فرماتے ہیں:- پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے.مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پر خار باد یہ در پیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے.پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں.جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے.نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے.نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے“.آپ نے فرمایا کہ جولوگ اس وقت کمزوری محسوس کرتے ہوئے مجھ سے الگ ہو جائیں گے.یا درکھیں کہ بدظنی اور قطع تعلق کے بعد اگر پھر کسی وقت جھکیں تو اس جھکنے کی عنداللہ ایسی عزت نہیں ہوگی جو وفا دار لوگ عزت پاتے ہیں کیونکہ بدظنی اور غداری کا داغ بہت بڑا داغ ہے.(انوار الاسلام صفحه ۲۲) اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرماتے ہیں کہ (اول) میری روح ہلاک ہونے والی نہیں.میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں.اس لئے میں اس یقین پر قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ مجھ سے کیا ہے کہ وہ میری اور میری جماعت کی عاجزانہ کوششوں کے نتیجہ میں اسلام کو دنیا میں غالب کرے گا.یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا کیونکہ میں ان لوگوں میں سے نہیں جن کو دنیا کی کوئی طاقت شکست دے سکے.اور نا کام کر سکے.

Page 79

فرمودہ ۱۹۶۷ء 76 د و مشعل راه جلد دوم انشاء اللہ.دوسرے آپ یہ فرماتے ہیں کہ ان وعدوں کے نتیجہ میں ان لوگوں پر جو میری طرف منسوب ہوتے ہیں جو میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر میری بیعت میں شامل ہوتے ہیں.جو میرے خلفاء کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر جماعت احمدیہ میں شامل ہوتے ہیں انہیں اس راہ میں انتہائی قربانیاں دینی پڑیں گی اور صدق اور وفا کا ثبوت دینا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں شمار ہونے کیلئے ہر وقت تیار رہنا پڑے گا.اگر یہ جماعت ان ذمہ داریوں کو نبھالے جو اس پر ڈالی گئی ہیں تو کامیابی یقینی ہے اور کامیابی ہمارے لئے مقدر ہو چکی ہے.تیسرے آپ نے اس میں یہ فرمایا ہے کہ بعض لوگ سستی دکھائیں گے.بعض لوگ کمزوری دکھائیں گے.بعض لوگ یہ ثابت کریں گے کہ ان کے پاؤں نازک ہیں.ان کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ ایسے نازک پاؤں والوں کو میرا یہ مشورہ ہے کہ وہ مجھ سے علیحدہ ہو جائیں وہ میرے ساتھ رہ کر کیوں مصیبت اٹھا رہے ہیں اور یہ یا درکھیں کہ اگر آج سے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو نازل ہوتے دیکھ کر اور آخری فتح کے دنوں کو قریب تر پاتے محسوس کر کے وہ پھر میری طرف جھکیں اور میری جماعت میں داخل ہونا چاہیں تو انہیں داخل تو کر لیا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ان کی وہ عزت نہیں ہوگی جو ان لوگوں کی ہے جو پہلے دن سے ثبات قدم کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ خود کو داغدار کر چکے ہوں گے اور بدظنی اور غفلت اور کسل اور غداری کا جو داغ ہے وہ بہت بڑا داغ ہے وہ مٹایا نہیں جاسکتا.یہ تین چیزیں ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنی چاہئیں خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا یقین کہ جو اس نے کہا ہے وہ ضرور پورا ہوگا.دنیا کی کوئی طاقت اس کے راستہ میں روک نہیں بن سکتی.یہ یقین اتنا پختہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں کہ آپ نے (جیسا کہ ان حاظ سے ظاہر ہے ) اپنی جماعت کے سامنے یہ اعلان کیا کہ اگر تم سارے مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ اور میں اکیلا رہ جاؤں تب بھی میں کسی سے نہیں ڈرتا.کیونکہ میں اس خدا پر ایمان لایا ہوں اور اس کے وعدوں پر یقین رکھتا ہوں جس کے ہاتھ میں سب طاقتیں ہیں.جو کامل اور حقیقی قدرتوں کا مالک ہے.جو اپنے وعدوں کا سچا ہے اور جب وہ وعدہ کرتا ہے تو پورا کرتا ہے.اس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں کامیاب ہوں گا تو یقیناً کامیاب ہوں گا.میں تمہیں اپنے ساتھ تو رکھنا چاہتا ہوں.میں تمہاری تربیت کرنا چاہتا ہوں.اس لئے نہیں کہ خدا کو تمہاری ضرورت ہے بلکہ اس لئے کہ تمہیں اپنے رب کی ضرورت ہے.جب تک تم یہ قربانیاں اس کے سامنے پیش نہیں کرو گے تم اس کے انتہائی فضلوں کے وارث نہیں ہو گے.وہ بے شمار رحمتیں تم پر نازل نہیں ہوں گی جو اللہ تعالیٰ آج اس جماعت پر نازل کرنا چاہتا ہے.یہ یقین ہر احمدی کے دل میں پیدا ہونا چاہیئے کیونکہ جب یہ یقین دل میں پیدا ہو جاتا ہے تو پھر انسان کے دل میں کوئی اور خوف باقی نہیں رہتا.اس کو یقین ہوتا ہے اپنی کامیابی پر.اس کو یقین ہوتا ہے ان الہی نصرتوں پر اور تائیدات اور فضلوں اور برکات پر جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دنیا کی یہ زندگی چند روزہ زندگی ہے اور اگر یہ زندگی اور اس کا سب کچھ قربان بھی کر دیا جائے تو جو اس کے

Page 80

77 فرمودہ ۱۹۶۷ء «مشعل راه جلد دوم مقابلہ میں ہمیں ملنے والے ہیں وہ اس زندگی سے اور اس زندگی کے سب کچھ سے کہیں زیادہ بہتر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ روح بغیر جسم کے کام نہیں کر سکتی.ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو، اپنی جانوں کو خدا کی راہ میں قربان کیا تو یہی مطلب ہوتا ہے کہ اس مشت خاک کو ہم نے خدا تعالیٰ کے وعدوں پر رکھا.لیکن اس مشت خاک کی قیمت ہی کیا ہے.اس جسم جتنے وزنی مٹی کے ڈھیر ہزاروں لاکھوں گدھے ہمارے ملک میں اپنی پیٹھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں.ہم اس جسم کی قربانی دیتے ہیں اور انعاموں کو چھوڑ و.جو جسم اس جسم کے مقابلہ میں ہمیں بطور انعام ملتا ہے وہ اس سے زیادہ بہتر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفصیلاً فرمایا ہے کہ اس جسم کے بعد ہماری روح کو دو جسم ملتے ہیں.ایک زمانہ برزخ کا جسم جو اس جسم سے بہتر ہوتا ہے اور ایک جنت کا جسم جو اس جسم سے بھی بہتر ہوتا ہے اور جب وہ جسم ہماری روح کو دیا جاتا ہے تو ہماری روح ان لذتوں کو محسوس کرتی ہے اور مشاہدہ کرتی ہے جو لذتیں اور سرور اللہ تعالیٰ اس زندگی میں انسان کیلئے پیدا کرتا ہے.روح بغیر جسم کے نہ کوئی کام کر سکتی ہے اور نہ کوئی لذت اور سرور محسوس کر سکتی ہے.اور اس جسم کا قربانی کے نتیجہ میں ایک بڑا اچھا جسم ہمیں مل جاتا ہے.اس کے علاوہ خدا تعالیٰ کی جو نعمتیں ہوتی ہیں ان کا کوئی شمار ہی نہیں.غرض ہر احمدی کے دل میں یہ یقین ہونا چاہیئے کہ ہماری روح ہلاک ہونے والی نہیں اور ہماری فطرت میں شکست کا خمیر نہیں ہے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ دنیا ہمیں شکست دے دے.ہم بہر حال کامیاب ہوں گے اور ہمارے اندر یہ یقین پیدا ہونا چاہیئے اور اس کے مطابق ہمارے اندر یہ جذبہ پیدا ہونا چاہیئے کہ ہم نے اپنے رب کی راہ میں ہر قسم کی قربانی دے دینی ہے اور ہر قسم کی قربانی دینے کے بعد ہم نے یہ سمجھنا ہے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا کیونکہ قربانی دینا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں.جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اتنا بڑا دعویٰ کیا کہ دنیا کہ میرے ساتھ شامل ہو یا نہ ہو.مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث کیا ہے کہ میں ساری دنیا میں اسلام کو غالب کر دوں تو اس وقت حقیقتا آپ کے ساتھ کوئی دنیا نہیں تھی.ایک آواز تھی جو اٹھی اور اس آواز کو سننے والا کوئی نہیں تھا آپ کی اپنی آواز تھی اور آپ ہی اس کو سن رہے تھے.پھر چند آدمی آپ کے ساتھ ہو گئے پھر وہ آدمی ہزاروں ہو گئے پھر وہ پنجاب اور ہندوستان کے مختلف شہروں میں پھیلے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں احمدی پائے جاتے ہیں.(دنیا کے ہر ملک میں قریباً) اور وثوق کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جماعت احمدیہ پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا.یہ تو خیر ایک پرانا محاورہ ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بہتر ایکسپریشن (Expression) میں زیادہ اور شوکت میں بڑھی ہوئی جماعت پر طلوع ہوتا ہے.کوئی ایک دن ایسا نہیں کہ جماعت ہر لحاظ سے ترقی نہ کر چکی ہو.یہ ترقی سال کے بعد ایک نمایاں شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے.لیکن میں جو سینکڑوں خطوط روزانہ پڑھتا ہوں میں جانتا ہوں کہ ہر روز دنیا کے مختلف حصوں میں جماعت بڑھ رہی ہے.بعض دفعہ یہاں سے سات آٹھ ہزار میل سے مجھے ایک خط آتا ہے اور اس خط کے اندر چھپیں بیعتیں ہوتی

Page 81

د دمشعل مل راه جلد دوم ہیں.فرمودہ ۱۹۶۷ء 78 اب یورپ میں بھی ایک حرکت پیدا ہوئی ہے اور میرے دورہ کے بعد ایک شور مچا ہے.سویڈن اور ڈنمارک میں ہمارے دورہ کے بعد دس بیعتیں ہو چکی ہیں.جب کہ گزشتہ سارے سال میں دو یا تین بیعتیں ہوئی تھیں.خالی یہی نہیں بلکہ وہاں کے پادریوں کو بڑی تشویش لاحق ہوگئی ہے کہ یہ کیا ہونے والا ہے.اس لئے کہ وہ محسوس کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے فرشتوں کے نزول کے ساتھ ان اقوام کے دلوں میں ایک محیر العقول تبدیلی پیدا کر دی ہے اور وہ یہ کہ ان کے عقائد جو کہ خالص عیسائی پرانے غلط اور نامعقول عقائد تھے.ان کو بدل دیا ہے اور ان کے عقائد مسلمانوں کے عقائد سے بہت کچھ ملنے لگے ہیں.چنانچہ ڈنمارک کا چرچ جو ٹیسٹ چرچ ہے.ہر بچہ جو وہاں پیدا ہوتا ہے وہ قانو نالوتھر چرچ کا ممبر ہوتا ہے.اس کی ایک بلیٹن شائع ہوئی ہے.اس بلیٹن میں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ڈنمارک کے رہنے والوں کے عام عقائد بالکل ویسے ہیں جیسے مسلمانوں کے عقائد ہوتے ہیں.اس فرق کے ساتھ کہ مسلمان اللہ کہتے ہیں اور یہ لوگ لارڈ کہتے ہیں.مسلمان محمد رسول اللہ علی اللہ کو اپنا رسول کہتے ہیں.اور یہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنا رسول کہتے ہیں جن پر خدا تعالی کی وحی نازل ہوئی اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر لوگوں کو ہدایت دینے کی کوشش کی.پھر انہوں نے رونا رویا ہے کہ یہ تو عیسائیت نہیں.عیسائیت کا اصل اور بنیادی عقیدہ تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ خود آسمان سے زمین پر آیا اور اس نے ایک انسان کے جسم میں حلول کیا اور پھر پھانسی پر لٹکا.پھر کفارہ تثلیث وغیرہ وغیرہ عقائد ہیں.اور لکھنے والے کے دماغ پر اس حد تک اثر ہے کہ اس نے جہاں یہ کہا ہے کہ ان دونوں مذہبوں ( ڈنمارک کے رہنے والوں کا مذہب اور اسلام) کے عقائد آپس میں ملتے ہیں وہاں اس نے یہ فقرہ بھی استعمال کیا ہے کہ دونوں مذہبوں کے عقائد اسی طرح ملتے ہیں جیسے پانی کے دو قطرے آپس میں ملتے ہیں.وہاں میں نے ان قوموں کو ڈرایا تھا کہ اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور محمد رسول اللہ علیہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ.ورنہ ایک عظیم ہلاکت تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے.میرے اس اندار کا کئی طور پر اثر ہوا ہے.ایک اثر یہ ظاہر ہوا ہے کہ ہمارے عبدالسلام صاحب ہیڈ مشن نے پہلے بھی مجھے ایک خط لکھا اور کچھ حوالے بھجوائے کہ آپ نے جو انذار کیا ہے اس کے مطابق اب لوگوں نے باتیں کرنی شروع کر دی ہیں.اب ان کا دوسرا خط آیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ انگلستان کے ایک پادری نے یہ اعلان کیا ہے کہ تین مہینہ کے اندر اندر دنیا انے تھرمونیوکلیئر وار سے تباہ ہو جائے گی سوائے اس کے کہ وہ اس پادری کے گرجے میں جمع ہو جائے اور اس کی باتوں کو قبول کرے.میں نے ان کو خط لکھا کہ ہے آپ ہر ممکن ذریعہ سے اپنے ملک میں یہ اعلان کریں کہ اس پادری نے جو کچھ کہا ہے غلط ہے.اس پادری نے یہ بھی لکھا ہے کہ خدائے واحد نے مجھے الہا ما بتایا ہے.میں نے انہیں لکھا کہ یہ پادری جھوٹ بولتا ہے اس کو قطعا اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ یہ نہیں بتایا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگلے تین مہینے خدا تعالیٰ کے فضل سے امن میں گزریں گے اور دنیا ” تھرمونیوکلیئر وار سے تباہ نہیں ہوگی اور میں

Page 82

79 فرمودہ ۱۹۶۷ء د و مشعل راه جلد دوم دد نے انہیں یہ اس لئے لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو عظیم اور قیامت کا نمونہ زلزلہ بتایا ہے اس کا زمانہ بہار بتایا ہے اور بہار کی تعین بھی آپ نے خود کر دی ہے یعنی ضروری اور مئی کے درمیان کا زمانہ اور اس پادری کے اعلان پر تین ماہ پندرہ یا میں دسمبر کو ختم ہوتے ہیں اور چونکہ یہ عرصہ بہار کا نہیں ہوتا اس لئے اس پادری کی پیشگوئی پوری نہیں ہوگی.دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس قسم کی پیشگوئی کے بعد لکھا ہے کہ اگر کوئی میرے مقابلہ میں اس قسم کی پیشگوئی کرے گا تو وہ جھوٹا ثابت ہوگا اور نادم ہوگا اور اس کی یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی.ان دو چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے انہیں کہا تھا کہ ان لوگوں کو جو اس پادری کی طرف متوجہ ہورہے ہیں آپ یہ کہیں کہ تین مہینے کوئی لمبا عرصہ نہیں.بیشک آپ انتظار کر کے دیکھ لیں اور اگر اس پادری کی باتیں جھوٹی نکلیں تو پھر اس صداقت کی طرف لوٹیں جو اسلام تمہارے سامنے پیش کرتا ہے اور جس کو اسلام کے ایک عظیم جرنیل نے آج دنیا کو پکار کے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ پیغام جو میں انہیں وہاں دے کر آیا تھا.عیسائیت کی قابل رحم حالت غرض اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک عظیم انقلاب بپا کر دیا ہے اور یہ انقلاب ہماری کوشش اور محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے.اس نے ان لوگوں کے دلوں سے عیسائیت اور حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی غلو والی محبت کو مٹا کر تختی کو بالکل صاف کر دیا ہے اور اب عوام ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور پادری لوگ ان کے خلاف ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جن کو سن کر ہمیں بھی شرم آتی ہے کیونکہ ہم بھی حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا برگزیدہ اور پیغمبر یقین کرتے ہیں.میں نے ان پادریوں کو جو ڈنمارک میں مجھ سے ملنے کیلئے آئے تھے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اور جذبہ کے ساتھ کہا کہ اس وقت در حقیقت عیسائیت کی حالت بڑی قابل رحم ہو چکی ہے.ہمیں تم لوگوں پر رحم آتا ہے.تو وہ سارے میرا منہ دیکھنے لگے کہ یہ کون سی قابل رحم حالت اب بیان کرے گا.میں نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں علم ہے کہ ڈیفینڈر آف فیتھ (Defender of Faith) یعنی محافظ عیسائیت اور محافظ کلیسا کس کا لقب ہے.انہوں نے اپنے سر نیچے پھینکے اور سارے پادری سوچ میں پڑ گئے کہ یہ ہم سے کیوں یہ سوال کر رہے ہیں.کوئی تمیں سیکنڈ کے بعد ایک پادری نے سراٹھا کر صرف اتنا کہا آئی نو ( I know) میں نے اس سے کہا.بتاؤ وہ کون ہے اس پر وہ کہنے لگا کوئین آف انگلینڈ (Queen of England کوڈیفینڈ رآف فیتھ (Defender of Faith) کا خطاب دیا ہوا ہے.تب میں نے انہیں کہا.تمہاری حالت قابل رحم اس لئے ہیں کہ وہ جوڈیفینڈ رآف فیتھ ہے (He has to sign sodomy bill) اسے بدمعاشی کے قانون پر دستخط کرنے پڑتے ہیں.وہ خدام جو اجتماع کی غرض سے یہاں جمع ہوئے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ تاریخ انسانی کا بڑا افسوسناک واقعہ ہے کہ انگلستان نے بدمعاشی کی قانونی اجازت دے دی ہے.اور اس قانون پر اس ملکہ نے

Page 83

د و مشعل راه جلد دوم فرمودہ ۱۹۶۷ء 80 دستخط کئے ہیں جس کو عیسائیت ڈیفینڈ رآف فیتھ کہتی ہے.جب میں نے اسے یہ کہا کہ تمہاری یہ حالت ہوگئی ہے اور تم ہمارے نزدیک قابل رحم ہو.تو وہ پادری جو تعداد میں بارہ تھے ان کے چہرے سرخ ہو گئے اور ان سے بات نہیں کی جاتی تھی.ان کے ہونٹ پھڑ پھڑاتے تھے.میں جب انگلستان گیا تو گلاسگو میں ایک صحافی نے مجھ سے پوچھا کہ یہاں آپ نے اس زمانہ کے بعد جو طالب علمی کا زمانہ تھا نہ ہب میں کیا کیا تبدیلی محسوس کی ہے.میں نے کہا.میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اس ملک کے رہنے والے اب عیسائیت میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے.اس نے کہا کہ آپ نے یہ استدلال کس چیز سے کیا ہے میں اسے بہت سی باتیں کر سکتا تھا لیکن موقع کے لحاظ سے میں نے کہا کہ میں نے اس چیز سے استدلال کیا ہے کہ لنڈن میں گر جاؤں کے سامنے فارسیل ( For Sale) کے بورڈ لگے ہوئے ہیں.یعنی یہ گر جا کی عمارت بکاؤ ہے.قابل فروخت ہے اور لنڈن کے بہت سے گر جا فروخت ہو چکے ہیں جن میں اب شراب خانے ہیں یا کوئی فیکٹری لگی ہوئی ہے.میں نے بھی ایک سڑک پر سے گزرتے ہوئے ایک گر جا کے سامنے اس قسم کا ایک بورڈ لگا ہوا دیکھا ہے.کہ یہ گر جا قابل فروخت ہے.اور میں نے اسی بات سے استدلال کیا ہے اور نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تمہاری قوم کو اب مذہب سے کوئی دلچپسی باقی نہیں رہی.اس نے پوچھا آپ کے نزدیک اگر گر جا کو مسجد بنادیا جائے تو کوئی حرج تو نہیں.میں نے کہا جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں لیکن میں اس بات کو اپنی جماعت کیلئے پسند نہیں کروں گا.اس لئے کہ اس کے نتیجہ میں بہت ساری غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے تو ہم تمہارے ملک میں نئی مسجد بنائیں گے ہم کوئی گر جا خرید کر اسے مسجد میں کیوں کنورٹ (Convert) کریں.ایک پادری کا عیسائی عقائد سے بکلی دستبرداری کا اعلان میں بتا رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک زبر دست پیشگوئی کی تھی اور وہ یہ تھی کہ ان اقوام تک میرے دلائل پہنچیں یا نہ پہنچیں اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتوں کو نازل کرے گا اور ان کے دلوں سے گندے خیالات کو مٹا دے گا.اور عیسائیوں کے عقائد مثلاً الوہیت مسیح، تثلیث اور کفارہ وغیرہ قائم نہیں رکھے جائیں گے.چنانچہ ہم نے کوشش تو کی ہے لیکن ہمارے پاس نہ تو ایسے مینز (Means) ہیں نہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسباب دیئے ہیں اور نہ اس نے ہمیں اتنا پیسہ دیا ہے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو جو ہم پر ہیں اس حد تک پورا کر سکیں جس حد تک ہمارا دل چاہتا ہے.ہمیں ان ذمہ داریوں کو اس حد تک پورا کرنا چاہیئے جس حد تک ہماری استعداد ہے ، قوت ہے، اختیار ہے لیکن جس حد تک ہم چاہتے ہیں اس حد تک نہ تو ہمارے پاس پیسہ ہے ، نہ آدمی ہیں لیکن قوموں کی تختیاں جو ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے صاف کر دی ہیں.انگلستان کے ایک پادری نے اعلان کر دیا ہے کہ نہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ مانتا ہوں نہ یہ مانتا ہوں کہ آپ بن باپ تھے نہ یہ مانتا ہوں نہ وہ مانتا

Page 84

81 فرموده ۱۹۶۷ء دو مشعل راه جلد دوم ہوں.اس نے عیسائیت کے سب موجودہ عقائد کا انکار کر دیا ہے اور اعلان کر دیا ہے.اس پر وہاں بڑا شور مچا.بڑی لے دے ہوئی اور ایک کمیشن بھی بیٹھا ہے جو نومبر میں اس پادری کا انٹرویو لے گا.اخباروں میں خط و کتابت شروع ہوگئی.اس کے جواب میں اس نے بھی ایک اخبار کو خط لکھا جو شائع ہو چکا ہے.اس پادری نے اس خط میں لکھا کہ اگر تم ایسے پادریوں کی تلاش کرو گے کہ جو ور جن برتھ (Virgin Birth) پر یقین رکھتے ہوں اور تثلیث وغیرہ عقائد مانتے ہوں تو تمہیں کوئی ایسا پادری نہیں ملے گا.گویا ان پادریوں کے عقائد بدل گئے ہیں.انہوں نے مسیح کی محبت کو غلط انتہاء تک پہنچایا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس غلط محبت کو زائل کر دیا اور اب وہ لوگ جو مسیح علیہ السلام کو خداوند مسیح خداوند یسوع اور خداوند یسوع مسیح کہتے تھے ان کی زبانیں (عوام ہی کی نہیں بلکہ پادریوں کی زبانیں) صحیح کو گالیاں دے رہی ہیں اور ان کے حق میں ایسے الفاظ استعمال کئے جارہے ہیں جو ہم برداشت نہیں کر سکتے.پس محبت تو ختم ہوگئی اور تختی صاف ہے.اب دوسرا قدم یہ ہے کہ اس تختی پر اللہ اورمحمد ﷺ کی محبت کو ثبت کیا جائے اور اسی کیلئے ہمیں قربانیاں دینی پڑیں گی.عیسائیت کے پاس کوئی دلیل نہیں باقی جو قربانیاں ہیں میں اس وقت انہیں چھوڑتا ہوں وقت بھی زیادہ ہو گیا ہے.میں صرف ایک چیز بڑے درد کے ساتھ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب میں نے ایک دو مثالیں بھی دی ہیں ( میں اور بھی بہت سی باتیں بیان کر سکتا تھا لیکن اب وقت نہیں ہے ) کہ جہاں تک دلائل کا سوال ہے.عیسائیت کے پاس اب کوئی دلیل اسلام کے خلاف موجود نہیں اور جہاں تک دلائل کا سوال ہے ہمارے دلائل کو توڑنے کی اب ان میں سکت نہیں.وہ بارہ پادری جو ڈنمارک کے نمائندہ تھے اور وہ مجھے ملنے کیلئے آئے تھے.ڈیڑھ گھنٹہ کے انٹرویو کے بعد میں نے ان کے ہاتھوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو پینج پکڑا دیئے.جو میں نے پہلے سے ٹائپ کروالئے ہوئے تھے.میں گفتگو کے دوران ان سے ان کے متعلق کوئی بات نہیں کرنی چاہتا تھا.اس لئے جب ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا اور میں وہاں سے اٹھنا چاہتا تھا تو میں نے ان کے لیڈر سے کہا.دیکھو مذہب کا معاملہ دل سے تعلق رکھتا ہے اور دل مادی طاقتوں سے فتح نہیں کئے جایا کرتے اگر دنیا کے سارے ایٹم بم اور دنیا کے سارے ہائیڈ روجن بم مل کر بھی کسی ایک دل میں تبدیلی پیدا کرنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں.لیکن جب دنیا میں ایک سچا مذہب قائم ہوتا ہے تو وہ لاکھوں، کروڑوں اور اربوں کے دلوں کو بدلتا چلا جاتا ہے اور جب مذہب کا معاملہ دل سے ہے تو مذہب کے معاملہ میں لڑائی اور جھگڑے کی کیا ضرورت ہے.اسلام اور عیسائیت میں طریق فیصلہ مذہب کے معاملہ میں مادی طاقت کے استعمال کا کیا مطلب.امن اور صلح اور آشتی کے فضا میں ہمیں آج

Page 85

د مشعل راه جلد دوم فرمودہ ۱۹۶۷ء 82 فیصلہ کرنا چاہئے کہ اسلام سچا مذ ہب ہے یا عیسائیت کچی ہے.گو امن میں بات کرنے کیلئے کئی طریق فیصلہ ہو سکتے ہیں لیکن اس وقت یہ دو طریق فیصلہ ہیں.سورة فاتحہ بطور چیلنج میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ غور کریں اور اگر آپ یہ فیصلہ کریں (اور خدا کرے) کہ آپ یہ باتیں مان لیں تو ہمارا فیصلہ ہو جائے گا.ایک دعوت فیصلہ میں نے ان کے ہاتھ میں یہ پکڑائی کہ سورۃ فاتحہ کے مضامین کے ساتھ اپنی تمام الہامی کتب کے مضامین کا مقابلہ کر کے دیکھ لو.اگر سورۃ فاتحہ اپنے روحانی مضامین میں اور ترتیب محکم میں اور پھر جو روحانی مضامین کے نشانات ہوتے ہیں ان میں ان تمام الہامی کتب کے مضامین سے بڑھ کر ہو جن میں گوردو بدل ہو چکا ہے مگر آپ انہیں الہامی کتب مانتے ہیں.تو ہمارے درمیان فیصلہ ہو جائے گا.میں نے انہیں کہا کہ تم یہ مقابلہ کر لو اگر اس میدان میں ( کہ جو امن سے تبادلہ خیالات کرنے کا میدان ہے ) تمہاری الہامی کتب مقابلہ نہ کر سکیں اور تم شکست کھا لو تو پھر تم قرآن کریم کی طرف رجوع کرو کہ جس کی سورۃ فاتحہ ایک چھوٹی سی سورۃ ہے.اس کی صرف سات آیات ہیں اور سارے قرآن کے مقابلہ میں یہ چھوٹی سی سورۃ ہے.وہ مجھ سے بات کرنے لگا تو میں نے کہا.تمہیں یہاں بات کرنے کی ضرورت نہیں تم مجھ سے ملنے کیلئے بڑی میٹنگیں کر چکے ہو.یہ دعوت ہائے فیصلہ ہیں مجھے ان کے متعلق جلدی نہیں تم ان کے متعلق آپس میں سر جوڑو.آپس میں مشورہ کرو ایک کمیٹی آف ایکولز (Committee of Equals) ہے وہاں جو سٹیٹ چرچ کی مجلس منتظم ہے.اس میں سات آٹھ بشپ ہیں.میں نے ان سے کہا کہ تم اسے کمیٹی آف ایونز کے سامنے رکھو.وہ مشورہ کریں اور پھر ہمیں بتاؤ.اگر مقابلہ کی تاب ہو تو ہم سے مقابلہ کریں.جماعت احمدیہ کی ذمہ داری جہاں تک دلائل کا سوال ہے ، جہاں تک مضامین کی برتری کا سوال ہے اس میں شک نہیں کہ دنیا یہ محسوس کر چکی ہے کہ اسلام کے دلائل مضبوط ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت کے طفیل دنیا اسلامی دلائل کا مقابلہ نہیں کر سکتی.لیکن صرف دلائل کافی نہیں ہوتے.کئی دفعہ اشاروں اور کنایوں میں اور بعض دفعہ وہ کھل کر بھی اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلامی تعلیم کا ہمیں کوئی نمونہ دکھاؤ.میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت جماعت احمدیہ پر یہ سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دنیا کو اپنی زندگی میں اسلام کی عملی تصویر اور شکل دکھائیں.کیونکہ اگر آج ہم اس میں کامیاب ہو جائیں تو کل یہ دنیا ہمارے قدموں میں ہے.ہمارے قدم تو کیا ہیں ! ہمارے قدم تو خاک ہیں! دنیا ہمارے خدا کے قدموں میں ہے.غرض اس وقت اشاعت اسلام اور غلبہ اسلام کے راستہ میں جو بڑی روک ہے وہ عملی نمونہ کا نہ ہونا ہے.

Page 86

83 فرمودہ ۱۹۶۷ء د مشعل راه جلد دوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار اس کثرت سے اس چیز پر زور دیا ہے کہ ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اصل حقیقت یہی ہے.مذہب کوئی فلسفہ نہیں مذہب کوئی کلب نہیں.جہاں چند آدمی جائیں، کہیں ماریں اور واپس آجائیں.یا کوئی مجلس مذاکرہ قائم کرنے کی مجلس نہیں ہے.مذہب تو زندگی میں ایک انقلاب عظیم پیدا کرنے کا نام ہے.دنیا میں انبیاء اس لئے مبعوث کئے جاتے ہیں کہ وہ اپنا نمونہ دنیا کے سامنے رکھ کر اس اسوہ پر ہزاروں زندگیوں کو ڈھال دیں (اپنی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ) اور پھر وہ بطور نمونہ کے پیش ہوں.قرآن کریم نے تعلیمی لحاظ سے دنیا پر اتنا احسان کیا ہے کہ دنیا اس احسان کو ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے.کسی کو آپ لے آئیں میں اس کو قائل کروں گا کہ قرآن کریم نے تم پر احسان کیا ہے لیکن اگر ہم علی احسان کے مقابلہ میں عملی حسان دنیا پر نہ کریں و وہ لوگ کہیں گے اس احسان کا کیا فائدہ.قرآن کریم کا احسان....انسانیت پر ساؤتھ ہال فیلڈ لندن میں مجھے اچانک جماعت والوں نے بلایا اور انہوں نے وہاں ایک ہال میں میرے ایک مختصر لیکچر کا انتظام کیا تھا جس کی اطلاع مجھے انہوں نے اس دن دی تھی.بہت سے غیر مسلم بھی وہاں تھے عیسائی بھی اور دوسرے مذاہب کے بہت سے لوگ بھی.میں نے ان کو کہا.دیکھو تم گو مسلمان نہیں اور تمہیں قرآن کریم کی طرف توجہ نہیں لیکن اس کے باوجود قرآن کریم تم پر احسان کرتا چلا جارہا ہے.کیونکہ قرآن کریم نے ذمہ لیا ہے تمہاری عزت کا، تمہاری حفاظت کا، تمہاری جان کی حفاظت کا، تمہارے جذبات کی حفاظت کا تمہارے مال کی حفاظت کا تمہاری صحت کی حفاظت کا تمہارے بچوں کو کھانا کھلانے کی حفاظت کا.غرض ہر قسم کا احسان تم پر کر دیا ہے.میں نے انہیں کہا کہ قرآن کریم نے صرف ایک مسلمان کی جان کی حفاظت کا ہی ذمہ نہیں لیا کیونکہ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ ایک مسلمان کو قتل کرنا حرام ہے بلکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ ایک انسان کو قتل کرنا حرام ہے خواہ وہ خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے والا دہر یہ ہے یا مشرک ہے یا خدا کے ساتھ بہت سارے خداؤں کو مانتا ہے.پھر بھی قرآن کریم کہتا ہے کہ اس کو قل نہیں کرنا.اس کی جان نہیں لینی.غرض وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیتا ہے اس کے گرد بھی خدا تعالیٰ کے فرشتے (مسلمان) کھڑے ہیں.وہ کہتے ہیں اس کی جان کی حفاظت ہم نے کرنی ہے.قرآن کریم نے اتنا صبر بتایا ہے، اتنا حمل اور ٹالرنس (Tolerance) بتائی کہ کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.اب دیکھو نڈ ہی لحاظ سے ایک مسلمان کیلئے سب سے مقدس جگہ مسجد ہے.میں نے جب مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا أَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدًا قرآن کریم نے تعلیم دی ہے کہ مسجد کا مالک حقیقی چونکہ اللہ تعالیٰ ہے ہم انسان تو اس کے کسٹوڈین.نگران اور محافظ کے ہیں اور چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہے اس کیلئے اسلام نے اس اللہ کے گھر کے دروازے ہر اس موحد اور ایک خدا کی پرستش کرنے والے کیلئے کھول دیئے ہیں جو نیک نیتی سے آئے.اس کے دل میں کوئی شرارت نہ ہو.وہ یہاں آئے اور عبادت کرے

Page 87

الله فرمودہ ۱۹۶۷ء 84 د دمشعل را مل راه جلد دوم جیسے نجران کا ایک وفد جو نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا.گفتگو کے دوران ان کی عبادت کا وقت ہو گیا.آپ نے فرمایا تم یہاں اس مسجد میں عبادت کرو.بعض صحابہ کو یہ بات بری لگی کہ نبی اکرم ﷺ کی مسجد میں یہ عیسائی عبادت کریں گے.جب آپ کو پتہ لگا تو آپ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور آپ نے فرمایا.یہ ٹھیک نہیں.اسلام کی تعلیم ہے اس پر عمل ہونا چاہیئے.اس احسان کا یہ اثر ہوا مذہبی جذبات کی حفاظت کی گئی ہے اس اعلان میں ) کہ وہاں کے بہت سے عیسائی ہمارے ساتھ نماز میں اور دعا میں شامل ہو جاتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ انہوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ اَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدًا به خدا تعالیٰ کا گھر ہے.جو موحد یہاں آکر عبادت کرنا چاہے وہ آئے اور اپنی عبادت کرے.جو شخص ایک خدا کی عبادت کرنا چاہتا ہے تو بیشک یہاں آکر عبادت کرے.اور چونکہ یہ لوگ ایک خدا کی پرستش کرتے ہیں اور چونکہ ہم بھی ایک خدا کی پرستش کرتے ہیں اس لئے کوئی حرج نہیں کہ ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائیں.وہ لوگ با قاعدہ رکوع وسجود میں ہمارے ساتھ شامل تھے ویسے سر جھکا کر دعا کے وقت تو سارے ہی شامل ہو جاتے تھے.غرض مذہبی جذبات سب سے زیادہ نازک ہوتے ہیں.بڑی جلدی انہیں ٹھیس لگ جاتی ہے.غرض دیکھو قرآن کریم نے جذبات کا اتنا خیال رکھا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ بنی نوع انسان پر اتنے احسان کئے ہیں کہ دنیا کے سارے فلسفی مل کر بھی ایسی کوئی راہ تلاش نہیں کر سکتے جو اس سے بڑھ کر دنیا پر احسان کرنے والی ہو.لیکن آج ایک ہندو، آج ایک عیسائی ، آج ایک سکھ ، آج ایک دہریہ، آج ایک لا مذہب، آج ایک بد مذہب ہم سے یہ پوچھتا ہے کہ تعلیم تو اسلام کی ٹھیک ہے لیکن کہاں ہیں اس پر عمل کرنے والے.ہمیں کوئی عملی نمونہ دکھاؤ اور سوائے آپ کے عملی نمونہ دکھانے کے قابل آج کوئی نہیں ہے.اگر آپ آج سستی دکھا ئیں گے تو اللہ تعالیٰ کا بڑا غضب آپ پر نازل ہوگا.اور یہ یاد رکھیں کہ خالی بیعت کافی نہیں ہے.اتنے احسان کرنے والے نبی سے ہم کیوں دور رہیں.پس یہ ایک ذمہ داری ہے جس کی طرف ہمارے بڑوں اور چھوٹوں ، مردوں اور عورتوں کو توجہ دینی چاہیئے اور پوری توجہ کے ساتھ اور پوری کوشش کے ساتھ اور پوری قربانی کے ساتھ اسلام کا عملی نمونہ دنیا میں پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.اگر ہم ایسا کرنے میں آج کا میاب ہوجائیں تو میں یقین سے آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ دنیا میں انقلاب عظیم اتنا جلدی پیدا ہوگا کہ دنیا کے مورخ اس واقعہ پر ہزاروں سال حیرانی کا اظہار کرتے جائیں گے.دیکھنے والے دیکھیں گے کہ ایک چھوٹی سی جماعت تھی جس نے خدا سے بڑا پیار کیا اور اپنے خدا کے اخلاق میں وہ رنگے گئے اور قرآن کریم کا نمونہ انہوں نے دنیا کے سامنے رکھا.تب یہ ایک انقلاب عظیم دنیا ہو گیا.روس میں ریت کے ذروں کی طرح احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کواللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ روس میں ریت کے ذروں کی طرح احمدی

Page 88

85 فرمودہ ۱۹۶۷ء د و مشعل راه جلد دوم دد مسلمان پائے جائیں گے.اب یہ قوم کی قوم دہریہ اور خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے والی ہے.وہ یہ اعلان کرنے والی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے نام کو صفحہ زمین سے مٹادیں گے اور خدا کے وجود کو آسمان سے باہر نکال کر پھینک دیں گے.اس قسم کے اعلان وہ کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے، اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہ ہے کہ ایک دن ( اور وہ دن امید ہے جلد آ جائے گا) یہ قو میں اسلام کی طرف رجوع کریں گی.اتنی بڑی فتوحات کیلئے کیا ہم نے اپنی زندگیاں اپنے رب کے کہنے کے مطابق نہیں ڈھال سکتے.اتنے بڑے انعامات کے حصول کیلئے کیا ہم دنیا کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو قربان نہیں کر سکتے.کیا ہم اپنے پیار کرنے والے محبوب آقا کے فرمان کے مطابق اپنے دلوں کے ہر جذبہ کو (سوائے اس کی محبت کے جذبہ کے ) باہر نکال کر پھینک نہیں سکتے.کیا ہم محمد رسول اللہ اللہ جیسے محسن اعظم کی خاطر اپنے نفسوں پر دکھ اور تکلیف اور بے آرامی اور بے سکونی ڈال نہیں سکتے.اگر ہمارے دلوں میں جبکہ ہمارا دعویٰ ہے اللہ تعالیٰ کی محبت کا.اگر ہمارے دلوں میں جیسا کہ ہمارا دعویٰ ہے ہمارے محبوب آقا محمد رسول اللہ ہے کی حقیقی محبت ہو.اگر ہم اسلام اور قرآن کریم سے پیار کرتے ہیں.اگر ہم قرآن کو ایک نور مجسم سمجھتے ہیں.جس کے بعد اور جس سے باہر صرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے.اگر ہم آج یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے طفیل ہم نے اسلام کی صداقتوں کو حاصل کیا ہے تو ہمارا یہ فرض ہے کہ اس دعوئی کے مقابلہ میں ہم اپنا عملی نمونہ پیش کریں.تا دنیا میں وہ وعدہ پورا ہو کہ اسلام ساری دنیا میں غالب آ جائے گا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے.اب میں دعا کراؤں گا اس کے بعد یہ اجتماع کامیابی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا.خلیفہ وقت کے دل میں احباب جماعت کے لئے محبت آپ جانتے ہیں بڑے بھی اور چھوٹے بھی کہ خلیفہ وقت کے دل میں خدا تعالیٰ جماعت کے احباب کیلئے خصوصاً اور تمام بنی نوع انسان کیلئے عموماً بڑی ہی محبت پیدا کرتا ہے اور میں اس کے فضل اور توفیق سے ہمیشہ ہی آپ میں سے ہر ایک دعا کرتا رہتا ہوں.میں قریباً ہر نماز میں آپ کیلئے دعا کرتا ہوں.اب بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی امان میں آپ ہمیشہ رہیں.دنیا کا کوئی وار آپ کے خلاف کامیاب نہ ہو.اللہ تعالیٰ کے حقیقی اور بچے خادم بن کر آپ اپنی زندگیوں کو گزار ہیں اور ان تمام بشارتوں اور نعمتوں کے وارث ہوں جن کا وعدہ خدا تعالیٰ نے اپنے بندہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے آپ کیلئے کیا ہے اور آپ کو بھی اور مجھے بھی اللہ تعالیٰ تو فیق عطا کرے کہ ہم جس حد تک ا ا ا اام کے غلبہ کیلئے اس رنگ میں جس رنگ ری ان حقیر قربانیوں کو قبول کر کے اپنے میں وہ چاہتا ہے اس کے حضور قربانیاں پیش اس وعدہ کے پورا کرنے میں مدد دے.آمین علم

Page 89

دومشعل دوم فرموده ۱۹۶۸ء 86 ۲۶ را پریل ۱۹۶۸ ء سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ساڑھے پانچ بجے شام ایوان محمود ( ہال مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان مرکز یہ ) مجلس خدام الاحمدیہ کی پندرھویں تربیتی کلاس کا افتتاح فرمایا.حضور نے کلاس میں شامل ہونے والوں کو جو خطاب فرمایا اس کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.( غیر مطبوعہ ) تشهد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اس وقت جو مختصر سی رپورٹ آپ کے سامنے پڑھی گئی ہے.اس کلاس کے تدریجی تنزل کی تصویر بڑی نمایاں ہمارے سامنے آئی ہے.وہ عہدیدار ( ضلع یا مقام کے جو عملاً اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبھاتے انہیں اپنے کاموں سے فارغ کر دینا چاہیئے اور مستعد خدام سامنے آنے چاہیں جو نمائش کی بجائے کام کے عادی ہوں اور کام کر کے دکھانے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بڑے زبر دست اور بڑے روشن دلائل ہمارے ہاتھ میں دیئے ہیں.اور وہ اس قدر زبر دست اور مؤثر ہیں کہ جہاں تک عقائد کا سوال ہے دنیا میں ایک عظیم تبدیلی رونما ہو چکی ہے.لاکھوں آدمی پاکستان میں ایسے موجود ہیں جو ان عقائد کی وجہ سے ان دلائل کے زیر اثر اپنے عقیدوں کو جن پر وہ پہلے قائم تھے بدل چکے ہیں اور اس حد تک وہ احمدی ہو چکے ہیں.اتنا ز بر دست اثر ہے ان دلائل کا کہ ابھی چند ہفتوں کی بات ہے کہ مشرقی افریقہ کے ایک چھوٹے سے بچے (جو ابھی خادم بھی نہیں.اطفال میں ہے ) کا خط مجھے ملا اس نے لکھا کہ میں ایک جگہ لٹریچر ( کتب رسائل وغیرہ جو مفت تقسیم کرنی چاہئیں تقسیم کر رہا تھا.وہ لٹریچر فروخت بھی کرتا ہے اور بڑا مخلص اور جوشیلا احمدی بچہ ہے ) کہ ایک بڑی عمر کا عیسائی وہاں سے گذرا.میں نے اسے کوئی کتاب دی ( وہ اپنے سلسلہ کی کتب یا رسائل میں سے کوئی ایک تھی مجھے اس وقت اس کا نام یاد نہیں) تو اُس نے وہ کتاب اپنے ہاتھ میں لی اور اسے دیکھا اور پھر ( اُس بچہ کو ) کہنے لگا کہ تم احمدی ہو میں نے جواب دیا کہ ہاں میں احمدی ہوں.اُس کے جواب میں اُس نے کہا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں کیتھولک عیسائی ہوں اور ہمیں یہ ہدایت ہے کہ احمدیت کی کوئی کتاب نہیں پڑھنی اور کسی احمدی سے بات نہیں کرنی.اب دیکھ لو اس عیسائی کا مخاطب دس گیارہ سال کا بچہ تھا مگر وہ اس سے بات کرنے کی جرات نہ کر سکا.پس یہ حقیقت ہے کہ عیسائی دنیا میں ہمارے دلائل کی تاب نہیں لاسکتی.پرسوں ہی ایک خط انگلستان سے آیا ہے.ایک دوست نے لکھا ہے کہ میں ایک گرجا میں گیا.اور میں نے پادری کو علیحدہ کر کے اس سے کہا کہ قرآن کریم بڑی عظیم کتاب ہے اس کے شروع ہی میں بہت سی آیات کا ایک

Page 90

87 فرموده ۱۹۶۸ء دو مشعل راه جلد دوم خلاصہ سورۃ فاتحہ کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہے.تمہارا جو دعویٰ بھی ہو تم اسے اپنی کتب سے ثابت کرو اور میرا جود عولی بھی ہو گا میں اسے سورۃ فاتحہ سے ثابت کروں گا.شروع میں تو اس نے بڑی تیزی دکھائی لیکن جب میں نے یہ بات کی تو اس کا چہرہ زرد ہو گیا اور اس سے کوئی بات بن نہ آئی.غرض جہاں تک دلائل کا تعلق ہے ( عقلی اور نقلی دونوں قسم کے دلائل کا ) وہ تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ذریعہ دیئے ہیں اور وہ اس قدرز بر دست دلائل ہیں.دشمن اسلام ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اور لاکھوں انسان ایسے ہیں جو ان سے متاثر ہو چکے ہیں.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کے باوجود دنیا اسلام اور احمدیت کی طرف متوجہ نہیں ہورہی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال میں اس مقام تک نہیں پہنچے جس مقام تک جماعت کو پہنچنا چاہیئے.جب تک دنیا کے سامنے ہم اسلام کا عملی نمونہ نہیں رکھتے.ہم دنیا کو اسلام اور احمدیت کی طرف کھینچنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتے.اس لئے میں اس وقت اپنے بچوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تقاریر تو آپ بہت سنتے ہیں.ان کے مواقع بھی آپ کو میسر آتے ہیں.آپ میں سے اکثر ایسے ہیں جو اغلباً جلسہ سالانہ میں شریک ہوتے ہوں گے.آپ کے اپنے علاقہ میں یا جماعت میں یا قصبہ شہر اور دیہات میں سال دوران مختلف تقریریں ہوتی رہتی ہیں.جو آپ سنتے ہیں.مثلاً اس کلاس میں تو آپ آئے ہوئے ہی ہیں.آپ میں سے بعض یا آپ کے بہت سے بھائی قرآن کریم کی اس کلاس میں بھی شامل ہوں گے.جو جماعت کی طرف سے غالباً جولائی کے مہینہ میں منعقد ہوتی ہے.غرض بیسیوں مواقع آپ کو اسلام کی تعلیم سنے اور اسلام کے حق میں مضبوط دلائل کو سننے کے مواقع میسر آتے ہیں لیکن اگر آپ سنیں تو سہی مگر کریں نہ.آپ کا ذہن ان دلائل کو یاد بھی رکھے.آپ امتحانوں میں کامیاب بھی ہو جائیں لیکن آپ کا عملی نمونہ اسلام کے مطابق نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق نہ ہو تو پھر اس سننے کا کیا فائدہ.سننا یا نہ سننا برابر ہو جاتا ہے.آپ کو اپنے عمل سنوارنے کی طرف پوری توجہ دینی چاہیئے.مجھ سے بہت سے دوست ملتے ہیں.احمدی بھی اور دوسرے بھی اور جو ابھی احمدی نہیں ہوئے وہ مجھ سے یہی کہتے ہیں کہ قوم کی عملی حالت درست کرنے کیلئے کیا کیا جائے مثلا دیانت داری ہے.اسلام نے دیانت داری ر بڑا زور دیا ہے.اور رزق حلال کو ضروری قرار دیا ہے اور ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ جب تک رزق حلال ہمارے جسموں کا حصہ نہ بنے اس وقت تک ہم اعمال صالحہ بجا نہیں لا سکتے.لیکن ہمارے ملک میں دیانت کی طرف توجہ نہیں، اس کی وہ قدر نہیں جو ہونی چاہئے.پھر اس کے بدنتائج جو اس دنیا میں ہمارے لئے دوزخ پیدا کر رہے ہیں ان کی واقفیت نہیں یا اس دوزخ پر ہم راضی ہو جاتے ہیں حالانکہ اگر ہم دیانتداری سے کام لیں ، اگر قوم کا ہر پیسہ بیح مصرف میں خرچ ہو تو اس ملک کی شکل ہی بدل جائے اور دنیا کیلئے ہم اور ہمارا ملک ایک نمونہ بن جائے.لیکن ہمیں صرف اور صرف ملک ہی کی فکر نہیں.ہم نے تو ساری دنیا کو صیح اسلامی معاشرہ میں لے کر آنا ہے اور اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ لوگ جو اس وقت سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہیں یا وہ بچے جو احمدیت میں پیدا ہوئے ہیں اور

Page 91

دومشعل ن راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۸ء 88 آٹھویں، نویں ، دسویں یا گیارہویں، بارہویں، تیرھویں کلاس میں پڑھ رہے ہیں ان کے دلوں میں یہ بات پختگی سے قائم ہو جائے کہ اپنی عمر کے لحاظ سے جو اسلامی ذمہ داریاں ہم پر پڑتی رہیں گی ہم ان کو بجالائیں گے اور ان کے بجالانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے.یع ملی کمزوری بڑے بھیانک نتائج پر منتج ہوتی ہے.یعنی جب ہم اچھے عقائد کو دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہوں لیکن اس کے مطابق اچھا عمل دنیا کے سامنے پیش نہ کریں تو دنیا ہمیں یہ کہے گی اور اب بھی کہتی ہے (جہاں جہاں جماعتوں میں کمزوری ہے) کہ ہم احمدی بن کر کیا کریں.تمہارے عقائد اچھے سہی.صحیح سہی.قرآن کے مطابق سہی لیکن جب تمہارے اندر وہ عملی نمونہ نہیں.جب تم نے اسلام کے مطابق زندگیاں نہیں گزارنی.جب تمہارے چہروں پر اسلام کی روشنی نہیں جب مخلوق کے ساتھ تمہارا سلوک وہ نہیں جس کا تم دعوی کرتے ہو کہ اسلام اس کی تعلیم دیتا ہے تو پھر نہیں احمدیت میں داخل ہو کر کیا فائدہ حاصل ہوگا.اور بات ان کی معقول ہے.اس کا جواب ہم میں سے کوئی بھی نہیں دے سکتا.سو آج میں آپ کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.کہ آپ خود جب گھروں کو واپس جائیں.تو اپنے گھروں میں تمام بچوں کو اور تمام خدام کو خصوصاً اور تمام جماعت کو عموماً میرا یہ پیغام پہنچائیں کہ اپنے اعمال کو درست کرنے کی فکر کرو کہ تمہارے عقائد کے نتیجہ میں تمہاری بہشت کے جو درخت ہیں وہ تر و تازہ نہیں رہ سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اس دنیا کے اچھے عقائد درختوں کی شکل اس دنیا میں اختیار کریں گے اور ان درختوں کو ترو تازہ رکھنے کیلئے اور پھل دار بنانے کیلئے اعمال صالحہ کا پانی انہیں دیا جائے گا.پس جس شخص کا ایک اچھا باغ ہو.بڑی محنت اس نے اس پر کی ہو اس لحاظ سے کہ اچھے درخت اس میں لگائے ہوں اور کھا د بھی اس نے پوری دی ہو لیکن اگر وہ ان کو پانی نہیں دیتا اور اپنے باغ کو خشک رکھتا ہے تو اس کے عقائد کے جو درخت ہیں وہ خشک ہو جائیں گے.ان کے پتے سوکھ جائیں گے اور ان درختوں کو پھل نہیں آئے گا.پس بڑا ہی بیوقوف وہ شخص سمجھا جائے گا جس نے بڑا روپیہ خرچ کر کے اور محنت کر کے اور محنت سے ایک باغ لگایا لیکن وقت پر اس کو پانی نہ دیا اور اسے سو کھنے دیا.اور اس سے جو فائدہ وہ حاصل کر سکتا تھا وہ اُسے نہیں ہوا.اگر آپ کوئی ایسا باغ دیکھیں تو آپ میں سے ہر شخص یہی کہے گا کہ اس باغ کا مالک کوئی مجنون ہے جس نے اپنا روپیہ ضائع کیا اور جس نے اپنی غفلت اور عملی کو تاہی کے نتیجہ میں خود اور اپنے خاندان کو اس شمر سے، اس پھل سے محروم کر دیا.جو اس کا حق بنتا تھا.اس عطا سے محروم کر دیا جو اس اللہ تعالیٰ اسے دینا چاہتا تھا.میں نے غور کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اعمال صالحہ کی بنیاد اعتقادات صحیحہ پر نہیں بلکہ اسلام کے اوپر ہے اور اسلام کے معنی یہ ہیں کہ انسانوں کی روح میں ایک ایسا تغیر پیدا ہو کہ وہ اپنے مالک حقیقی اپنے خالق حقیقی اپنے رحمان و رحیم اور مالک یوم الدین کو پہچاننے لگے اور اپنے اللہ کا صحیح عرفان حاصل کرے اور پھر یہ حقیقت اسے اچھی طرح سمجھ میں آجائے کہ میرا سارا وجود اور میری ساری کوششیں اور میرے سارے اعمال اور میری جان اور میری عزت سب کچھ اس اللہ پر قربان ہے اور ہر وقت اس کی گردن اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے

Page 92

89 فرموده ۱۹۶۸ء دو مشعل راه جلد د دوم جھکی رہے اور اس کی روح پکھل کر اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر بہہ نکلے.یہ اسلام ہے اور جتنا جتنا کسی کو اسلام حاصل ہو جائے اتنے اتنے ہی اس کے اعمال صالحہ بن جاتے ہیں اور بنتے رہتے ہیں.پس اپنے اندر یہ روح پیدا کر دیا مجھے یوں کہنا چاہئیے کہ اپنی روح میں یہ جلا پیدا کرو اور اس عرفان پر قائم ہونے کی کوشش کرو کہ ہمیں ایک اللہ نے پیدا کیا ہے اور وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور کوئی نقصان اور برائی اس میں پائی نہیں جاتی اور اس نے ہمیں اس لئے پیدا کیا ہے کہ ہم اس کی صفات کے مظہر بنیں.ہمارا کوئی عمل ایسا نہ ہو جو اس کی کسی صفت سے متضاد ہو بلکہ ہمارا ہر عمل ایسا ہو جو ہمارے ذریعہ اس کی کسی صفت کا جلوہ ظاہر کر رہا ہو.اگر ہم اس عرفان کو حاصل کر لیں.اگر ہم اپنے رب کو پہچان لیں.اگر ہم اس حقیقت کو پالیں.اس مقصد کو حاصل کر لیں جس کیلئے اُس نے ہمیں پیدا کیا.اور ایک دن ہم نے اس کے سامنے کھڑے ہو کر جواب دہی کرنی ہے.اس نے ہم سے جواب لینا ہے کہ میں نے تمہیں ایک خاص مقصد کیلئے پیدا کیا تھا اور میں نے تمہیں قو تیں اور استعدادیں بھی بخشی تھیں جن کے بغیر تمہارے لئے اس مقصد کا حصول ناممکن تھا.کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی سے ایسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتا جو اس کے بس میں نہ ہو.اس کی طاقت میں نہ ہو.غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کیلئے طاقت دی ہے اور استعداد دی ہے کہ ہم اس کی صفات کے مظہر بنیں لیکن اگر ہماری روح اس عرفان کو حاصل نہ کرے.اگر ہماری روح ہر وقت اس کے آستانہ پر بہہ نہ نکلے.اگر ہماری گردن اس کے سامنے ہر وقت جھلی نہ رہے تو جو تو ہم سے چاہتا ہے.ہم وہ کرنے کیلئے تیار ہیں.جب تک یہ کیفیت روح میں پیدا نہ ہو اس وقت تک اعمال صالحہ ہم سے سرزد نہیں ہو سکتے.دکھاوے کا کام، نمائش کا کام تو ہم ویسے بھی کر سکتے ہیں.لیکن دکھا وا نمائش اور ریاء کے کام خدا تعالیٰ کے مقبول نہیں ہیں خدا تعالیٰ کو تو وہی عمل مقبول اور محبوب ہیں جو محض اس کی خاطر اور اس کی رضاء کے حصول کیلئے کئے جائیں اور جب انسان کی روح میں یہ تڑپ اور یہ عاجزی اور یہ انکسار اور یہ حقیقت پیدا ہو جائے کہ اس نے اپنے پیدا کرنے والے کی رضاء کو حاصل کرنے کی ضرور کوشش کرنی ہے اور وہ اس دعا میں ہمیشہ مشغول رہے.کہ اے خدا تو نے مجھے قو تیں اور استعداد میں تو دی ہیں لیکن میں بہر حال تیرا کمزور بندہ ہوں اگر کبھی غلطی کروں تو اپنی مغفرت کی چادر کے نیچے مجھے ڈھانپ لے.اگر مجھ سے کوئی کوتاہی ہو تو تو خود فضل کر کے اس کے بدنتائج سے مجھے محفوظ کر لے.اور مجھے توفیق عطا کر کہ جو قو تیں اور استعداد میں تو نے مجھے عطا کی ہیں ان کو صحیح راہوں پر میں خرچ کرنے والا بنوں تا کہ میرا ارتقائے روحانی درجہ بدرجہ تیرے قرب کی منازل طے کرتے ہوئے مجھے تیرے قریب ترلے آئے اور تا اس کے نتیجے میں اس دنیا میں مجھ سے وہ اعمال صالحہ سرزد ہوں کہ جو اس باغ کیلئے ایک اچھے پانی کا کام دیں جو تو نے صحیح اعتقادات ہمیں عطا کر کے ہمارے لئے جنتوں کی شکل میں لگایا ہے.پس آج اور آج کے بعد بھی میں آپ ( جو میرے چھوٹے بچے ہو ) پر یہ زور دیتا رہوں گا.کہ اعتقادات سیکھو مگر عمل کرنے کیلئے جو اسباق آپ یہاں لیتے ہیں وہ فلسفیانہ نہیں بلکہ وہ زندگی کا ایک جزو ہیں.فلسفہ کی کتب سے تھیوریز Theories ایسی بھی ہوتی ہیں جن پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اسلام نے جو احکام ہمیں

Page 93

فرموده ۱۹۶۸ء 90 د و مشعل راه جلد دوم دئے ہیں ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس سے ہم مستغنی ہو سکیں.ہر حکم کے نیچے ہم نے اپنی گردن کو رکھنا ہے اور ہر حکم کے بجالانے کیلئے ہم نے پوری سعی کرنی ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی سرسبز جنتیں تمہارے نصیب میں رہیں.اللہ تعالی اسلام کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی توفیق عطا کرے.اور آپ کیلئے ایسے سامان پیدا کرے کہ آپ سیکھیں بھی بہت اور عمل بھی بہت کریں اور اپ کو اپنے فضل سے وہ اسلام کا مقام عطا کرے.آپ کی روح وہ عرفان حاصل کرے جو اس حقیقت پر قائم ہو کہ یہ ورلی زندگی چنددنوں کی زندگی ہے بچپن میں بھی بچے مرجاتے ہیں.آپ میں سے بہت سے ہیں جن کے ساتھی یا جن کے گھروں میں ان کے بہن بھائیوں میں سے کچھ بچپن میں فوت ہو گئے.اس زندگی کا کیا اعتبار ! بچپن میں اگر مر گئے تب بھی یہاں سے چلے گئے.اگر کچھ دیر زندہ رہے تو نو جوانی میں بھی بہت سے مرجاتے ہیں پھر اگر جوانی میں بھی زندگی کے دن گزارے تو کسی نے یہاں ہمیشہ کیلئے نہیں رہنا جو زندگی انسان کی گزر جاتی ہے پیچھے مڑ کر آپ اس کی طرف دیکھیں تو وہ چند منٹ کی یا چند گھنٹوں کی زندگی محسوس ہوتی ہے.ہمارا احساس یہ نہیں ہوتا کہ ہم نے پندہ سال یا بیس سال کی زندگی گزاری یا تمہیں یا پینتیس سال کی زندگی گزاری ہے یا ساٹھ سال یا ستر سال کی زندگی گزاری ہے.بلکہ جوں جوں ہماری زندگی کے دن بڑھتے چلے جاتے ہیں.ہمارا یہ احساس اور پختہ اور زندہ ہوتا چلا جاتا ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے میری زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس زندگی میں اگر ہم خدا کے کہنے پر اس کی رضا کے حصول کیلئے اعمال صالحہ بجالائیں اور اس کے نتیجہ میں اپنے لئے جنت میں ایک مقام اور ٹھکانہ بنالیں تو وہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ ہمیں ساری دنیا کے عیش نصیب ہوں.اس سے کہیں بہتر ہے کہ ہمارے پاس ساری دنیا کی دولت ہو اور اپنی مرضی کے مطابق ہم اس کو خرچ کریں.اس سے کہیں بہتر ہے کہ ساری دنیا کی عزتیں ہمیں عطا ہوں.اس سے کہیں بہتر ہے کہ دنیا میں سیاسی طور پر ہم صاحب اقتدار سمجھے جائیں کیونکہ یہ دس پندرہ سال یا تیں پینتیس سال یا ساٹھ ستر سال گزارنے کے بعد ہم نے ایک اور دنیا میں داخل ہونا ہے.یہ ایک حقیقت ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.دنیا کے لاکھوں کروڑوں خدا کے بزرگ بندوں نے اس حقیقت کو پایا اور مشاہدہ کیا اور خدا تعالیٰ کی اس جنت کے وہ عینی شاہد ہیں جو مرنے کے بعد انسان کو دی جاتی ہے اور اس لئے ہماری یہ کوشش ہونی چاہئیے کہ ہم اس دنیا کے عارضی اور وقتی آراموں کو قربان کر کے ابدی سرور اور ابدی راحتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.اگر آج احمدی جماعت کے نوجوان اور بڑے عملی طور پر اسلام کے مطابق اور خدا میں ہو کر اپنی زندگیاں گزارنے والے ہو جا ئیں تو عنقریب ساری دنیا میں انقلاب عظیم بپا ہو جائے.آج اسلام کی طرف جو مخالف اور منکر متوجہ نہیں ہورہے تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہے وہ ہم سے پوچھتے ہیں.مجھ سے بھی یورپ کے دورے میں بعض نے یہ سوال کیا کہ وہ نمونہ کہاں ہے جو آپ چاہتے ہیں کہ اسلام دنیا میں قائم کرے صحیح ہے کہ ہم تھوڑے ہیں.صحیح ہے کہ اس ملک میں بھی ہماری تعداد اتنی کم ہے کہ بظاہر ہمارا کوئی اثر نہیں لیکن ہم دنیا کے اثر اور دنیا کی عزت اور دنیا کے اقتدار کے پرستار نہیں.ہمیں تو اپنے خدا کی رضا چاہئیے.

Page 94

91 فرموده ۱۹۶۸ء د و مشعل راه جلد دوم دد اگر ہم تھوڑے ہیں تو کیا ہوا.کیونکہ اگر ہم تھوڑے ہوتے ہوئے بھی خدا میں ہو کر زندگی گزارنے لگیں تو ساری دنیا کو خدا تعالیٰ ہماری طرف متوجہ کرنے اور ہمارے عملی نمونہ کو دیکھ کر اسلام کی فتح اور کامرانی کے دن بہت قریب آجائیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو صحیح مسلمان احمدی بچہ صحیح مسلمان احمدی نوجوان صحیح مسلمان احمدی بوڑھا بننے کی توفیق عطا کرے اور اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کو آپ قریب پائیں اور آپ کو خدا ساری دنیا کو اسلام کی طرف لانے کا ذریعہ بنائے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا کرے.آمین

Page 95

دومشعل دوم فرموده ۱۹۶۸ء 92 خدام الاحمدیہ کا پندرہویں تربیتی کلاس کے اختتام پر حضور پر نور کا طلبہ سے خطاب بتاریخ ۱۰ رمئی ۱۹۶۸ء بمقام ایوان محمو در بوہ.یہ خطاب غیر مطبوعہ ہے.تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تنزل کی تصویر تو ترقی میں بدل گئی ہے.الحمد للہ لیکن سو کی تعداد جو مقررکی گئی تھی اس کے مطابق مجلس نے اس کلاس میں حصہ نہیں لیا.یہ مسیح ہے.کہ زمیندار جماعتیں آج کل بہت مشغول ہیں اور ان کے نوجوانوں کے لئے کھیل کود کا زمانہ ہے.اور اس لئے ان کا ہر موسم میں کلاس کے لئے آنا نسبتا مشکل ہے.اگر ناممکن ہے تو اس کلاس کو آگے پیچھے کیا جانا چاہیئے.اس کی تعداد بھی کم ہے.ضرورت تو یہ ہے کہ تمام جماعتوں کے نمائندے آئیں لیکن بعض حالات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ تمام جماعتوں کے نمائندے نہیں آسکتے.اس لئے کم از کم ۹۰ فیصد جماعت کے نمائندے آنے چاہئیں.اس وقت سو ۱۰۰ کی تعداد اس لئے مقرر کی گئی تھی کہ زیادہ بوجھ کارکنوں ظمین پر نہ پڑے اور اس میں کم از کم کامیاب ہو جائیں.صرف یہ بات ہماری لئے خوشی کا موجب نہیں کہ گذشتہ سال یا اس سے پہلے سال کے مقابلہ پر تعداد زیادہ ہو.ہمارے سامنے ایک ضرورت ہے.اس ضرورت کو پورا کیا جانا ہے.آئندہ سال کے لئے یہ خیال رکھا جائے کہ سوائے شہری جماعتوں اور ایسی دیہاتی جماعتوں سے یہاں طالب علم آنے چاہئیں.جو امسال اس کلاس میں شامل نہیں ہوئے.اور سو کی تعداد ان کی نہیں ہے.یعنی بڑے شہر اور نئی دیہاتی جماعتیں.لیکن اگر وہ دیہاتی جماعتیں جنہوں نے اس سال بھی طلبہ بھیجے ہیں.وہ آئندہ بھی بھیجنا چاہیں تو ان کے راستہ میں روک کوئی نہیں.لیکن سو کی تعدا دنئی دیہاتی جماعتوں اور شہروں کی طرف سے آنے والے طلبہ سے پوری ہونی چاہیئے.میں نے اس کلاس کے افتتاح کے موقع پر بھی اپنے بچوں کو اس طرف متوجہ کیا تھا.کہ جب تک ہم دنیا کے لئے عملی زندگی میں اسلام کا نمونہ قائم نہ کریں اس وقت تک ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.قرآن کریم نے کسی جگہ بھی زبان کے دعووں پر جنتوں کا وعدہ نہیں دیا.بلکہ بڑی وضاحت سے ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے.کہ ایسے دعاوی اور ایسی باتیں جن کے پیچھے عمل اور حقیقت نہ ہو وہ بے معنی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے دھتکار دیئے جاتے ہیں.قرآن کریم نے ایک تو ہمیں یہ بشارت دی کہ کم از کم جو تمہارے اعمال اخلاص نیت کے ساتھ کیے جائیں گے ضائع نہیں ہو نگے.مومن اس مقام تک پہنچتا ہے.کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں اپنی محبت کو پیدا کرتا اور اس حقیقت سے وہ آگاہ ہو جاتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی اس کی راہ میں گزارنی ہے، تو باوجود اس کے کہ اپنی طرف

Page 96

93 فرموده ۱۹۶۸ء دو مشعل راه جلد دوم سے وہ پوری کوشش کرتا اور اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ڈھالتا ہے.اس کے دل میں بڑا خوف پیدا ہوتا ہے کہ اس محدود زندگی میں خواہ کتنے ہی اعمال کیوں نہ کر لیں اس کے نتیجہ پر ہم ابدی جنتوں کے وارث نہیں بن سکتے.جب وہ دعا کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے.اور اس کے حضور یہ فریاد کرتا ہے.کہ اے میرے رب! یہ زندگی تو نے محدود بنائی تیر افضل تھا کہ ہم نے تجھے پہچانا تیر افضل تھا کہ ہم نے تیرے محمد مال اللہ کو پہچانا تیر افضل تھا کہ ہم نے حقیقت کو پایا کہ قرآن کریم کے سب احکام پر عمل کرنا چاہئے.لیکن اگر ہم نے کوتاہی کی تو ہو ہم بشر ہیں.بہت سی کوتاہیاں بھی ہوئی ہوگی.لیکن اگر ہم نے کوتاہی نہ کی ہو.تب بھی اس محدود زندگی کا اگر اتنا ہی بدلہ ہمیں ملنا ہے تو ایک محدود جزاء ہمیں ملے گی ابدی جنتوں کے ہم وارث نہیں ہو نگے.اس لئے ہم پر فضل کر اور ایسے سامان پیدا کر دے کہ عمل خواہ محدود ہی کیوں نہ ہوں اس کے بدلے میں ہمیں تیری رضاء جو ملے اور تیری رضاء کی جنتیں جو حاصل ہوں وہ غیر محدودزمانہ پر متد ہوں اور پھیلی ہوئی ہوں.اللہ تعالیٰ نے انسان کی اس کمزور اور ان حالات کی وجہ سے کہ اس زندگی میں اس نے بڑے محدود زمانہ میں اعمال صالحہ بجالانے ہیں.اپنی طرف سے یہ انعام کیا ہے.کہ بَشِّرِ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ اَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ اور ان صفات کے متعلق ہمیں یہ بتایا کہ وہ ہمیشہ رہنے والی ہوگی.اور انسان بھی جب ان پر داخل ہوگا.تو ہمیشہ ان پر رہے گا.دراصل اس ابدی حیات طیبہ کی ابتداء اسی زندگی میں ہو جاتی ہے.اور سوائے اس کے کہ انسان اپنی غفلت اور کوتاہی کے نتیجہ میں یا اپنی تکبر اور نخوت اور فخر کے خیالات کے نتیجہ میں اپنے آپ کومحروم کرے، وہ اس دنیا میں داخل ہو جاتا ہے.جنتوں کو اپنے ساتھ ہی لے جاتے ہوئے.نئے سرے سے وہ جنت میں داخل نہیں ہوتا.جنت میں وہ اسی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے.اور پھر ابد تک اس کو جنت کی خوشیاں حاصل رہتی ہیں.اللہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اگر تم ایمان لاؤ اور ایمان کے مطابق عمل کرو.تو تمہیں حیات طیبہ عطا کی جائے گی.حیات طیبہ اس زندگی کو کہتے ہیں کہ جو ہر قسم کے گند اور ناپاکی سے پاک ہو جس کے اندر اطاعت کے خلاف کوئی بات نہ ہوا باء اور استکبار نہ ہو.کوئی ایسی چیز نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہوا اور تمام نیکیاں اور خوبیاں اس میں پائی جائیں.یہ زندگی مجاہدہ کی زندگی ہے.اس زندگی میں ہم پر ہر آن شیطان حملہ آور ہوتا ہے.اور ایک مسلسل جد و جہد اور جنگ شیطانی وساوس شیطانی ماحول غلط قسم کے دوستوں کے مقابلہ پر کرنا پڑتا ہے.لیکن اللہ تعالی کا یہ وعدہ ہے کہ اگر تم قرآن کریم کے مطابق عمل کرو گے تو شیطان کا کوئی وارتم پر کا میاب نہیں ہوگا.اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے تمہاری حفاظت کریں گے.اور تمہیں حیات طیبہ دی جائے گی.حیات طیبہ اس دنیا سے شروع ہوتی اور اُس دنیا میں جا کر بھی ختم نہیں ہوتی.اور یہ حیات طیبہ اس کو ملتی ہے.جو ایمان کے مطابق اعمال صالحہ بجالاتا ہے.اسلام نے نیک عمل عمل صالح کی یہ تعریف کی ہے کہ جس عمل میں کسی قسم کا کوئی فساد یا شر نہ ہو.اور جو عمل

Page 97

دوم فرموده ۱۹۶۸ء 94 وہ دومشعل قرآن کریم نے بتایا ہو.اور موقعہ اور محل پر کیا جائے.جو عمل موقعہ اور محل کے مطابق نہیں کیا جاتا وہ اسلامی اصطلاح میں عمل صالح نہیں ہوتا.اسی طرح پر جہاں ایک طرف اس زندگی میں بہت سی لچک پیدا کروائی وہاں ہم به ی ذمه داری عائد کر دی کہ دعا کے ساتھ اور فکر اور تدبر کے ساتھ تم صیح نتیجہ پر پہنچو.کہ ان حالات پر جن میں سے تم گزررہے ہو.اس وقت اس مقام کے مناسب کون ساعمل ہے.جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتایا ہے.ایک احمدی نے ایک مسلمان نے اگر حیات طیبہ حاصل کرنی ہو.تو اس کے لئے یہ ضروری ہے.کہ و قرآن کریم پر غور کرے اور قرآن کریم نے جو احکام بھی دیئے ہیں ان کے مطابق اپنی زندگی گزرانے کی کوشش کرے.اور قرآن کریم نے جن باتوں سے روکا ہے.ان باتوں سے وہ رکے.قرآن کریم کے کسی حکم کو خواہ وہ منفی ہو یا مثبت یہ کہہ کے ٹالا نہیں جاسکتا.کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے.بچے بعض دفعہ اس گندی عادت میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ حقارت سے دوسروں کے نام رکھتے ہیں.خدا کہتا ہے کہ ایسا کرو گے میں ناراض ہو جاؤں گا کوئی احمدی نوجوان اپنے ہوش میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اتنی چھوٹی سی بات ہے کہ اگر میں اس پر عمل نہ بھی کروں حرج نہیں ہے.کیونکہ کوئی ایسی بات جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینی پڑے چھوٹی نہیں ہوتی.اس میں تو ہمارے دلوں میں کسی قسم کی تسلی کا سامان نہیں کہ اپنے نزدیک جس بات کو ہم نے چھوٹی پایا.اس بات میں ہم نے خدا کی نافرمانی کی.اور اس کے غضب کا مورد بن گئے.پس چھوٹے سے چھوٹا حکم جو ہے.وہ کرنا ہے.چھوٹے سے چھوٹا حکم جو کسی بات کو کرنے سے روکتا ہو.اس کے مطابق ہم نے رکنا ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ہم اسلام کے تمام احکام پر عمل کر کے دنیا کے سامنے اسلام کا ایک زندہ نمونہ پیش نہیں کرینگے.اسلام کا غلبہ تمام ادیان باطلہ پر ممکن نہیں.پس اس حقیقت کو اپنے سامنے رکھو.اور اس حقیقت کے نتیجہ میں جو ذمہ داریاں تم پر عائد ہوتی ہیں.ان ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کرو.اور اس مقام پر کھڑے ہو کہ ہم بالکل ہی کمزور ہیں.جب تک اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی طرف سے طاقت عطا نہ کرے ہم میں کسی قسم کی کوئی طاقت کوئی خوبی پیدا نہیں ہوسکتی.اس لئے ہر وقت دعاؤں میں لگے رہو.دعا ایک عجیب ہتھیار ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ میں دیا ہے.اگر چہ دعا کے لئے خدا تعالیٰ نے نماز کو صلوٰۃ کو رکھا ہے.لیکن نفلی دعاؤں کے لئے اس نے کوئی وقت مقر نہیں کیا.حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان چاہے تو ہر کام کرنے سے قبل اور اکثر کاموں کے کرنے کے دوران میں بھی دعاؤں میں مشغول رہ سکتا ہے.اور اس کے نتیجہ میں اس کے کام کو نقصان نہیں پہنچے گا.بلکہ فائدہ پہنچے گا.بہت سے یہاں زمیندار بچے بھی آتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ زمینداروں میں بھی دو قسم کے انسان ہوتے ہیں.ایک وہ جو ہل چلاتے ہوئے.اپنے بیلوں کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور ایک وہ جو ہل چلاتے ہوئے اپنے لئے بھی اور جو مال اللہ تعالیٰ نے ان کو بیل کی یاز مین کی یافصل کی شکل میں دیا ہے اس مال کے لئے دعا ئیں کر رہے ہوتے ہیں.تو ہل چلاتے وقت، گہائی کرتے وقت ، بیج ڈالتے وقت ، پانی دیتے وقت ، زمیندارہ پر کام

Page 98

95 فرموده ۱۹۶۸ء د و مشعل راه جلد دوم دد کرتے وقت ، آپ اپنے اوقات کو دعا سے معمور رکھ سکتے ہیں.استغفار سے معمور رکھ سکتے ہیں.استغفار بھی ایک دعا ہے.جس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے انسان عاجزانہ پر گزارش کرتا ہے کہ اے ہمارے رب! ایک انسان کی حیثیت سے ہم میں بہت سی کمزوریاں پائی جاتی ہیں.تو ایسا افضل کر کہ ہماری کمزور یوں کو اپنے فضل میں ڈھانپ لے اور اس کے بدنتائج سے ہمیں محفوظ کرلے.استغفار ہے.لاحول ہے.زمیندار کے لئے تو بڑی حسین اور بڑی پر اثر دعا اللہ تعالیٰ نے یہ سکھائی ہے کہ کھیتوں میں ماشاء الله لاقوۃ الا بالله العلی العظیم پڑھا کرو تا کہ تمہاری فصلیں جو ہیں وہ محفوظ رہیں.اور اگر اللہ تعالیٰ تمہارا امتحان کبھی کرے تو تمہارے دل شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہیں.اس کے نتیجہ میں بڑا ہی سکون قلب پیدا ہوتا ہے.اور اطمینان پیدا ہوتا ہے.اور انسان کا دل اپنے رب کی حمد سے بھر جاتا ہے.کہ جو کچھ وہ دیتا ہے.یہ اس کا فضل ، اسکی رحمت اور اس کی عطا ہے.اس کی طرف سے ایک نعمت ہے.ہم اپنے نفسوں میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھتے.کہ ہم خود کو اس بات کا مستحق قرار دیں کہ اللہ تعالیٰ پر یہ فرض عائد ہو گیا ہے کہ ہمارے جیسے انسان پر اپنی نعمتوں کی بارش کرے سب خدا تعالیٰ کی عطا ہے.اور خدا تعالیٰ ہر ایک سے پیار کا سلوک کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بعض لوگوں کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ جب وہ دنیا کی نعمتیں ان لوگوں کو عطاء کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ میرا رب میرے جیسے انسان پر نعمتیں کرنے کے لئے مجبور ہو گیا.میرے اندر کچھ ایسی خوبیاں تھیں.کہ خدا کے لئے ضروری ہو گیا کہ وہ میری عزت کو دنیا میں قائم کرے اور ایسے بیوقوف نہیں سمجھتے کہ انسان کا خدا کے ساتھ مقابلہ ہی کیا ہے.جو اللہ تعالیٰ دیتا ہے.وہ اپنے فضل اور رحم سے دیتا ہے.جب وہ دیتا ہے تو ہماری غفلتوں کو اور کمزوریوں کو اور کوتاہیوں کو اور سستیوں کو پہلے ڈھانپ لیتا ہے.اپنی مغفرت کی چادر میں.پھر وہ کہتا ہے کہ اے میرے پیارے بندے! مجھے تیرے اندر خوبیاں نظر آتی ہیں.تو نے میری نعمتوں کا شکر ادا کیا.تو نے میرے کہنے کو مانا.تو نے میری رضا کو دنیا کی ہر چیز پر مقدم کیا.تیرا دل ہر وقت اس عزم پر تڑپا کہ اس کا سب کچھ میری راہ پر قربان ہو جائے.اس لئے میں تجھ پر خوش ہوتا ہوں اور اپنی نعمتوں سے تجھے نوازتا ہوں اللہ تعالی بڑا ہی فضل کرنے والا بڑا ہی رحمتیں کرنے والا ہے.جماعت پر بحیثیت اجتماعی اور جماعت کے افراد پر انفرادی حیثیت میں اللہ تعالیٰ اتنا فضل کر رہا ہے کہ جب انسان ان فضلوں کو دیکھتا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اگر ساری جماعت ہر تو وقت اور ہر آن اس کا شکر ادا کرتی رہے تب بھی اس کا شکر ادا نہیں ہوسکتا.یہ کوئی مبالغہ نہیں یہ ایک حقیقت ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ میرے شکر گزار بندے بنو اور ہم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر تم میرے شکر گذار بندے بنو گے.تو میں تمہاری مدد کروں گا.میں بھی شکور ہوں.اس شکر کے بدلے میں میری طرف سے مزید نعمتیں پہلے سے زیادہ انعام تمھیں حاصل ہوتے رہیں گے.ہم جب اپنا وقت اس کی حمد میں خرچ کرتے ہیں.جب ہم اپنی زندگی کے ہر لحہ کو اس کے حضور دعا کرتے ہوئے معمور رکھتے ہیں جب ہم اس کے لئے اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں.جب ہم اس کی خاطر اپنی عزتوں کو قربان کرتے ہیں.جب ہم اس کے لئے اپنے جسمانی آراموں

Page 99

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۸ء 96 کو قربان کرتے ہیں اور ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہم سے خوش ہو جائے.اگر ہماری نیتوں میں کوئی فساد نہیں.اگر ہمارے دلوں میں تکبر و نخوت نہیں ، اگر ہمارے دل میں اپنے بھائیوں کے لئے حقارت کے جذبات نہیں.تو ہماری کمزوریوں کے باوجود وہ خوش ہوتا ہے.اور ہمیں اتنا دیتا ہے.اتنا دیتا ہے کہ ہمارا رواں رواں ، ہمارا ذرہ ذرہ بھی اگر اس کی راہ میں خرچ ہو جائیں اور ہوا میں اڑا دیا جائے ، تب بھی ہم اس کا شکر ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے.پس جو اللہ تعالیٰ نے نعمتیں دی ہیں.ان کو دیکھتے ہوئے اس کے شکر گزار بندے بہنو.اور اس کے لئے اپنی زندگی گزارو خدا تعالیٰ نے بڑا احسان کیا ہے.کہ تمہیں دنیا پر اسلام کو غالب کرنے کے لئے چنا ہے.اور یہ وعدہ دیا ہے کہ تمہارے ہاتھ سے وہ اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب اور فاتح کرے گا.کمزوریوں کی طرف کیوں دیکھتے ہو؟ خدا کے وعدوں کی طرف دیکھو شیطان اور شیطانی وساوس سے کیوں پیار کرتے ہو.رب اور اس کی رضا سے تعلق حاصل کرو.اللہ تعالیٰ سے میری یہ دعا ہے کہ ہمارے بچوں کو بھی اور بڑوں کو بھی اپنے فضل سے اچھا اور حقیقی احمدی بننے کی توفیق عطا کرے اور ان فیوض سے حصہ لینے والے ہوں جو ابدی فیوض محمد رسول اللہ ﷺ کو عطا کئے گئے آپ کے وجود سے جو چشمہ جاری ہوا ہے.وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں.خود بھی اپنے لئے اس پانی کو بند کر لیتے ہیں.اور خود کو اس سے محروم کرتے ہیں.اگر ہم چاہیں تو دعاؤں کے ذریعہ، اگر ہم چاہیں تو درود کے ذریعہ، اگر ہم چاہیں تو حقیقی محبت اللہ کے محمد ﷺ کے لئے اپنے دلوں میں پیدا کر کے خدا کے مقرب اور محبوب بندے بن سکتے ہیں.آج دنیا خدا کو بھول چکی ہے.تمہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ دنیا کو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف واپس لوٹا کر لائیں.ایک بڑی بھاری ذمہ داری ہے.اس میں شک نہیں کہ بڑی قربانیاں ہمیں دینی پڑیں گی.اس میں بھی شک نہیں.لیکن اس کے بدلے میں جن انعاموں کا ہمیں وعدہ دیا گیا ہے وہ اتنے عظیم ہیں کہ ہماری قربانیاں ان کے مقابلہ میں پیچ بن جاتی ہیں.خدا کرے کہ ہم اور آپ سب ہی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اچھے اور حقیقی احمدی مسلمان بنے رہیں.اور شیطان کو شکست دینے والی جو پیشگوئیاں ھیں.جو بشارتیں ہیں.ان کے ہم وارث ہوں.اور ہمیشہ ہی وہ ہمارا حافظ و ناصر ہو.

Page 100

97 فرموده ۱۹۶۸ء دومشعل راه جلد دوم خطبه جمعه فرموده ۱۸ ۱۷ کتوبر ۱۹۶۸ء بمقام مسجد مبارک ربوه سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: ولا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا الهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ، سَيُطَوَتُونَ مَا يَخِلُوابِه يَوْمَ الْقِيمَةِ وَلِلَّهِ مِيرَاتُ السموتِ وَالأَرْضِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرات لقد سمع الله قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللهَ فَقِيرُ ونَحْنُ أَغْنِيَاءُ (آل عمران آیات ۱۸۱ ۱۸۲) يَايُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاء إلى اللهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ إن يَشَا يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيد ومَا ذَلِكَ عَلَى اللهِ بِعَزِيزِك اس کے بعد فرمایا:- (فاطر آیات ۱۶ تا ۱۸) اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں سب کچھ دیتا ہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی اس دین میں سے مالی قربانیاں پیش نہیں کرتے بلکہ بخل سے کام لیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا اپنے اموال کو خدا کی راہ میں خرچ نہ کرنا نیوی فوائد پر منتج ہوگا اور اسی میں ان کی بھلائی ہے.اگر وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کریں گے تو انہیں نقصان ہو گا.ان کا خدا کی راہ میں اموال خرچ کرنا ان کیلئے خیر کا موجب نہیں ہوگا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ (شرلهم) ایسا کرنا ان کیلئے بہتر نہیں بلکہ ان کیلئے ہلاکت اور برائی کا باعث بنے گا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو وہ مول لینے والے ہوں گے.اس بخل کے دو قسم کے نتائج نکلیں گے.ایک اس دنیا میں اور ایک اُس دنیا میں.خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل جو شخص بخل سے کام لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ نہیں کرتا وہ اس دنیا میں جہنم میں پھینکا جائے گا اور وہاں اسے ایک نشان دیا جائے گا جس سے سارے جہنمی سمجھ لیں

Page 101

فرموده ۱۹۶۸ء 98 د مشعل راه جلد دوم گے کہ وہ اس لئے اس جہنم میں آیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال خرچ نہیں کیا کرتا تھا.سیطوقون ان کے گلے میں ایک طوق ڈالا جائے گا.اور وہ طوق تمثیلی زبان میں ان اموال کا ہو گا جو اس دنیا میں خدا کی راہ میں خرچ نہ کر کے وہ بچایا کرتے تھے.اور اس طوق کی وجہ سے ہر وہ شخص جو جہنم میں پھینکا جائے گا جان لے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کہا گیا تھا کہ اپنی عاقبت سنوارنے کیلئے اور خدا کو راضی کرنے کیلئے اپنے اموال اس کے سامنے پیش کرو مگر انہوں نے اس کی آواز نہ سنی اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک نہ کہا اور دنیا کے اموال کو اخروی بھلائی پر ترجیح دی اور نتیجہ اس کا یہ ہے کہ آج یہ جہنم میں ہیں اور ذلت کا عذاب انہیں دیا جارہا ہے.جہنم کے عذاب میں تو سارے شریک ہیں لیکن یہ طوق بتارہا ہوگا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اموال کی تو حفاظت کیا کرتے تھے لیکن اپنی جانوں کی حفاظت نہیں کیا کرتے تھے.اپنی ارواح کی حفاظت نہیں کیا کرتے تھے.ایک نتیجہ اس بخل کا اس دنیا میں نکلے گا اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الله ميراث السموت والارض آسمانوں اور زمین کی ہر شے اللہ کی میراث ہے اور میراث کے ایک معنی لغت نے یہ بھی کئے ہیں کہ ایسی چیز جو بغیر کسی تکلیف کے حاصل ہو جائے.پس اللہ جو خالق ہے.رب ہے اور جس کی قدرت میں اور طاقت میں ہر چیز ہے جس کے محسن کہنے سے ساری خلق معرض وجود میں آئی ہے.کسی چیز کے پیدا کرنے یا اس کے حاصل کرنے میں اسے کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی اور جب ہر چیز اللہ ہی کی میراث اور ملکیت ہے تو جو شخص بھی اللہ کو ناراض کرے گا وہ اس دنیا میں اموال کی برکت سے محروم ہو جائے گا یا کوئی اور دکھ اس کو پہنچایا جائے گا.پھر اللہ تعالیٰ نے ایک مثال دی اور وہ یہود کی مثال ہے کہ جب مسلمانوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں اپنے اموال خرچ کرو تو یہود میں سے بعض کہتے ہیں کہ اچھا.اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ ہو فقیر اور ہم ہوئے بڑے امیر.ہمارے اموال کی خدا کو ضرورت پڑ گئی ہے اس لئے وہ ہم سے مانگ رہا ہے.اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا چونکہ بل کے ساتھ ذات باری کا استہزاء بھی شامل ہو گیا ہے اس لئے انہیں عذاب حریق یعنی ایک جلن والا عذاب دیا جائے گا اور ان لوگوں پر جنہوں نے اس قسم کے فقرے مسلمانوں کو ورغلانے اور بہکانے کیلئے کہے تھے اسی دنیا سے جلن کا عذاب شروع ہو گیا تھا.اسلام ترقی کرتا چلا گیا اور وہ لوگ جو غریب تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے ساری دنیا کے اموال ان کے قدموں پر لا ر کھے.اور جو مخالف بھی خدا تعالیٰ کے ان فضلوں اور انعاموں کو دیکھتا تھا وہ اس بات کا مشاہدہ کرتا تھا کہ سچا ہے وہ جس نے یہ کہا تھا کہ اللہ میراث السموت والارض اور جو شخص مخالفت کو چھوڑنے کیلئے بھی تیار نہیں تھا اس کے دل میں ایک جلن پیدا ہوتی تھی.یہ دیکھ کر کہ یہ لوگ غریب تھے، ہمارے محتاج تھے ، ہم ہی ان کی ضرورتیں پوری کرتے تھے اور ہمارے بغیر ان کی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتی تھیں (ان دنوں جو یہود عرب میں آباد تھے وہ عربوں کو قرض دیا کرتے تھے ) غرض ان کے دلوں میں یہ دیکھ کر جلن پیدا ہوتی تھی کہ یہ بہت تھوڑے عرصہ میں یعنی چند سال کے اندر اندر اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو قبول کر کے اس قسم کے نتائج نکالے ہیں کہ ساری دنیا کی دولت ان کے قدموں پر لا ڈالی ہے.

Page 102

99 فرموده ۱۹۶۸ء دو مشعل راه جلد دوم دد خدا محتاج نہیں ہم محتاج ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو مضامین بیان کئے ہیں وہ ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں اور دوسرے مضامین کیلئے دلائل مہیا کرتے چلے جاتے ہیں.چنانچہ سورہ فاطر میں اللہ تعالی انہی لوگوں کے خیالات کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سچ تو یہ ہے کہ انتسم الفقراء الی اللہ تم خدا کے فضلوں کے حاجتمند ہو.تم اس احتیاج کا احساس پیدا کر لوتم یہ سمجھ لو کہ دنیا کی کوئی نعمت اور کوئی اخروی نعمت ہمیں اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اللہ تعالیٰ اس کا فیصلہ نہ کرے.کیونکہ اس دنیا کی ملکیت بھی اس کے قبضہ میں ہے اور اس دنیا کی نعمتیں بھی اس کے ارادہ اور منشاء کے بغیر کسی کومل نہیں سکتیں.تمہیں (جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے ) جوتی کا ایک تسمہ بھی اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا منشاء نہ ہو.ہر چیز میں ہر وقت اور ہر آن تم محتاج ہو.تمہارے اندر اپنے رب کی احتیاج ہے.خدا تمہارا محتاج نہیں.خدا تعالیٰ تو غنی ہے والله هو الغنی حقیقی غنا اسی کی ذات میں ہے کوئی اور بستی ایسی نہیں جس کی طرف ہم حقیقی غنا کو منسوب کر سکیں اور کہہ سکیں کہ اس کے اندر غنا پائی جاتی ہے اور وہ غنی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی نیک بندہ صفات باری کا مظہر بنتے ہوئے غنا کی صفت بھی اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق اپنے رب سے پائے.پھر وہ ایک معنی میں غنی بھی بن جاتا ہے.ایک معنی میں وہ ربوبیت بھی کرتا ہے اور رحمانیت کے جلوے بھی دکھاتا ہے اور رحیمیت کے جلوے بھی دکھاتا ہے.وہ معاف بھی کرتا ہے اور مالک یوم الدین کے جلوے بھی دکھاتا ہے لیکن یہ سب نسبتی اور طفیلی چیزیں ہیں.انسان اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اس کی دی ہوئی توفیق سے صفات باری کا مظہر بنتا ہے.اگر خدا کا سہارا نہ ہو تو پھر خدا تعالیٰ کی صفات کا کون مظہر بن سکے؟ ہاں جب اللہ تعالیٰ خود اپنا سہارادیتا ہے اور اپنے فضل سے نوازتا ہے تو انسان اس کی صفات کا ملہ کا محدود دائرہ میں اور طفیلی طور پر مظہر بھی بنتا ہے اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق بنتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا الکسیسٹی یعنی کامل غناوالی ذات تو اللہ کی ہے.اور وہ فنی ہونے کے لحاظ سے تمہارا محتاج نہیں اور الغنٹی کے اندر یہ مفہوم بھی آ گیا ( جس کو پہلے فقرہ میں کھول کر بیان کیا گیا تھا) کہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی احتیاج ہے تم زندہ نہیں رہ سکتے جب تک حسی خدا تمہاری زندگی کی ضرورت کو پورا کرنے والا نہ ہو.اور اپنی حیات کا ملہ سے تمہیں ایک عارضی زندگی نہ عطا کرے.تمہاری استعداد میں اور قو تیں قائم نہیں رہ سکتیں جب تک کہ خدائے قیوم کا تمہیں سہارا نہ ملے.سب تعریفوں کی مالک اس کی ذات ہے.اس لئے وہ تمہاری احتیاجوں کو پورا کرتا ہے اور تمہارے دل سے یہ آواز نکلتی ہے کہ الحمدللہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے چونکہ تم اس کے محتاج ہو اور وہ تمہارا محتاج نہیں اس لئے تم اپنی فکر کرو.ان يشأ يذهبكم اگر وہ چاہے تو روحانی حیات سے تمہیں محروم کر دے.ویسات بخلق جدید اور ایک اور ایسی قوم پیدا کر دے جو اپنے کو اس کیلئے فنا کر دے اور اس میں ہو کر ایک نئی زندگی پائے.خلق جدید کا ایک نظارہ دنیا دیکھے گی.پھر وہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہو جائیں گے.

Page 103

د دمشعل ل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۸ء 100 صحابه رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی قربانیاں جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ نے فنافی الرسول اور فنافی اللہ کے نتیجہ میں ایک نئی زندگی پائی اور ان کی خلق جدید ہوئی.یہودیوں کے برعکس ان کا یہ حال تھا کہ ایک موقعہ پر ایک جنگ کی تیاری کیلئے بہت سے اموال کی ضرورت تھی اور ان دنوں کچھ مالی تنگی بھی تھی اور دنیا ایسی ہی ہے.کبھی فراخی کے دن ہوتے ہیں اور کبھی تنگی کے دن ہوتے ہیں.اس موقعہ پر بھی تنگی کے ایام تھے اور جنگی ضرورت تھی.نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کے سامنے ضرورت حقہ کو رکھا اور مالی قربانیاں پیش کرنے کی انہیں تلقین کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تو اپنا سارا مال لے کر آگئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنا نصف مال لے کر آگئے.حضرت عثمانؓ نے عرض کیا کہ میری یہ پیشکش قبول کر لی جائے کہ میں دس ہزار صحابہ کا پورا خرچ برداشت کروں گا.اور اس کے علاوہ آپ نے ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے دیئے.اسی طرح تمام مخلص صحابہ نے اپنی اپنی توفیق اور استعداد کے مطابق مالی قربانیاں پیش کیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بہترین نتائج نکالے.ایک موقعہ پر ایک نو مسلم قبیلہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگیا اور ان کو آباد کرنے کا سوال تھا.وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے ہوں گے کیونکہ ان دنوں وہاں بھی مخالفت بہت زیادہ تھی جیسا کہ کبھی کبھی ہر زمانہ میں اسلام کے خلاف ہر ملک میں مخالفت پیدا ہوتی رہتی ہے اور مومن ان مخالفتوں کی پرواہ نہیں کیا کرتے کیونکہ ان کا بھروسہ اللہ پر ہوتا ہے دنیوی سامانوں پر نہیں ہوتا.بہر حال ایک قبیلہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آیا تو ان کے آباد کرنے کیلئے مال کی ضرورت تھی.آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام کو مالی قربانیاں پیش کرنے کی تلقین کی.آپ کی اس اپیل کے نتیجہ میں ہر شخص نے یہ سوچا کہ میرے پاس جو چیز زائد اور فاضل ہے وہ میں لا کر پیش کر دوں لیکن ” فاضل“ کے معنی انہوں نے وہی کیئے تھے جو ایک مومن کیا کرتا ہے انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ہمارے پاس دو درجن کوٹ ہونے چاہئیں اور پچاس قمیصیں ہونی چاہئیں اور ایک دو پھٹی پرانی قمیصیں جو بریکار پڑی ہیں اور استعمال میں نہیں آتیں وہ لا کر دے دی جائیں بلکہ ان میں سے اگر کسی کے پاس کپڑوں کے دو جوڑے تھے تو اس نے کہا میں ایک جوڑے میں گزارا کر سکتا ہوں دوسرا جوڑا زائد ہے چنانچہ اس نے وہ جوڑ پیش کر دیا.ایک صحابی کے پاس کچھ سونا تھا انہوں نے یہ سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا یہ عمدہ موقع ہے.رسول کریم ﷺ نے ضرورت ہمارے سامنے رکھی ہے اور ہمیں تلقین فرمائی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال خرچ کریں چنانچہ و اشرفیوں کا ایک تو ڑا ( جو وہ اچھی طرح اٹھا بھی نہیں سکتے تھے ) لے آئے اور رسول کریم علیہ کی خدمت میں پیش کر دیا اور اس طرح غلہ، کپڑوں اور روپے کے ڈھیر لگ گئے اور خدا تعالیٰ نے مومنوں کے اس ایثار کے نتیجہ میں ایک پورے قبیلہ کی جائز ضرورتوں کو پورا کرنے کے سامان کر دئے.ان دو واقعات کے بیان کرنے سے اس وقت میری یہ غرض نہیں کہ میں یہ بتاؤں کہ صحابہ کرام کس قسم کی قربانیاں کیا کرتے تھے بلکہ میری غرض یہ بتانا ہے کہ ان قربانیوں کے پیچھے جس روح کا صحابہ کرام نے مظاہرہ کیا وه

Page 104

101 فرموده ۱۹۶۸ء د و مشعل راه جلد دوم تھا وہ کیا تھی.تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور ان مثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ ان قربانیوں کے پیچھے جو روح تھی وہ یہ تھی کہ نحن الفقراء الى اللہ ہم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں اور الله هو الغنی الحمید اللہ کوکسی کی احتیاج نہیں.تمام تعریفوں کا وہ مالک ہے.ہمیں اپنی دنیوی اور اخروی ضرورتوں کیلئے یہ قربانیاں دینی چاہئیں اور دنیوی اور اخروی انعاموں کے حصول کیلئے ان قربانیوں کا پیش کرنا ہمارے لئے ضروری ہے.ان مثالوں سے روز روشن کی طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ کے اندر جو روح تھی وہ یہ تھی کہ الفقراء الی اللہ.منافق ہر جگہ ہوتے ہیں اس وقت میں ان کی بات نہیں کر رہا.ان میں سے جو خلص اور ایثار پیشہ تھے اور بھاری اکثریت انہی لوگوں کی تھی.ان کی زبان پر یہودیوں کی طرح یہ نہیں آتا تھا کہ ان اللہ فقیر و نحن اغنیاء بلکہ ان کی زبان پر یہ تھا.ان کے دل میں یہ احساس تھا اور ان کی روح میں یہ تڑپ تھی کہ وہ الفقراء الی اللہ ہیں.نہ ان کی کوئی مادی ضرورت پوری ہوسکتی ہے اور نہ روحانی جب تک کہ اللہ تعالیٰ ان کی ضرورت کو پورا نہ کرے.غرض جس سے ہم نے ہر شے کو حاصل کرنا ہے اس کی رضا کے حصول کیلئے پانچ روپیہ یا پانچ لاکھ روپیہ قربان نہیں کیا جا سکتا ؟ میں نے صحابہ کرام کی ایک مثال دی ہے کہ جس کے پاس دو جوڑے کپڑے تھے اس نے ایک جوڑا کپڑے پیش کر دیئے.تفصیل تو نہیں ملتی لیکن یہ امکان ہے کہ ان میں سے کسی کو اس قربانی کی توفیق ملی ہو اور اس کے بعد وہ مثلاً فوت ہو گیا ہو اور مزید قربانی کا اس کو موقع نہ ملا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا اسے تو اس قربانی کے نتیجہ میں اخروی انعامات مل گئے لیکن اس کی اولاد کو اس ایک جوڑے کپڑوں کے نتیجہ میں اتنے اموال دیے گئے کہ اگر وہ چاہتے تو اس قسم کے ایک ہزار جوڑے بنالیتے.پس ہم خدا تعالیٰ کے محتاج ہیں.ہم فقیر ہیں.خدا تعالیٰ ہمارا محتاج نہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بڑی پیاری بات کہی ہے جو قرآن کریم نے بھی نقل کی ہے اور وہ یہ ہے رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِیر کہ ہر چیز کی مجھے احتیاج ہے.جو بھلائی بھی تیری طرف سے آئے میں اس کا محتاج ہوں.میں اسے اپنے زور سے حاصل نہیں کر سکتا.جب تک تو مجھے نہ دے وہ مجھے نہیں مل سکتی.غرض حقیقی خیر چاہے دنیوی ہو یا اخروی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ملا کرتی.ویسے اللہ تعالیٰ کتوں کو بھی بھوکا نہیں مار رہا.سؤر بھی اس کی بعض صفات کے جلوے دیکھتے ہیں.ان کو بھی خوراک مل رہی ہے اور ان کی ( مثلاً بیماریوں سے حفاظت بھی ہو رہی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی زمانہ میں وباء کے طور پر اس قسم کے جانوروں کو ہلاک کر دے جس طرح وہ بعض دفعہ انسان کی بعض گنہ گار نسلوں کو فنا کر دیتا ہے لیکن جو سلوک ان جانوروں سے ہو رہا ہے وہ اس سلوک سے بڑا مختلف ہے جو انسان سے ہو رہا ہے اور جو سلوک ایک کتے سے ہو رہا ہے جو سلوک ایک سور سے ہو رہا ہے جو سلوک ایک گھوڑے یا بیل یا پرندوں سے ہورہا ہے اس کے مقابلہ میں جو سلوک ایک انسان سے ہو رہا ہے اس کو ہم خیر کہہ سکتے ہیں.باقی عام سلوک ہے گو ایک لحاظ سے ނ

Page 105

فرموده ۱۹۶۸ء 102 دو مشعل راه شعل راه جلد دوم وہ بھی خیر ہے.لیکن صحیح اور حقیقی معنی میں وہ خیر نہیں اور انسان خیر کا محتاج ہے.اگر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر نہ ملے بلکہ اس سے عام سلوک ہو تو اس دنیا میں تو اس کا پیٹ بھر جائے گا مگر اس دنیا میں بھوک کیسے دور ہوگی.یا مثلاً اس دنیا میں سورج کی تپش ہے.اگر اسے ایک چھوٹایا بڑا مکان مل گیا تو وہ اس تپش سے محفوظ ہو جائے گا لیکن اس دنیا میں جہنم کی آگ سے اسے کون بچائے گا.اس دنیا میں اسے کوئی بیماری ہوئی تو کسی حکیم نے اسے روپیہ کی دوائی دے دی یا کسی ڈاکٹر نے دو ہزار روپیہ کی دوائی دے دی اور اسے آرام آ گیا.یہ درست ہے لیکن اس دنیا میں جہنم میں جو بیماری ظاہر ہوگی.جسم میں پیپ پڑی ہوئی ہوگی.کسی کو کوڑھ ہوا ہو گا.کسی کو فالج ہوگا اور کسی کو پتہ نہیں کون سی بیماری ہو.روحانی طور پر جو اس کی یہاں حالت تھی وہ وہاں ظاہر ہورہی ہوگی.وہاں کون ڈاکٹر اس کے علاج کیلئے آئے گا.پس انسان کو ہر کام کیلئے اللہ تعالیٰ کی احتیاج ہے اور ہمیں ہر قسم کی قربانیاں اس کی راہ میں دینی چاہئیں.اس وقت اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر مجھ پر بھی اور آپ پر بھی بڑا فضل کیا ہے اور ہمیں تو فیق عطا کی ہے کہ ہم اس کے مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائیں اور اس کی راہ میں اس نیت سے قربانیاں دیں کہ اس کی رضا ہمیں حاصل ہو اور دنیا میں اسلام غالب آجائے.اس وقت غلبہ اسلام کے راستہ میں جتنی ضرورتیں بھی پیش آتی ہیں وہ آپ لوگوں نے ہی پوری کرنی ہیں.اگر آپ ان ضرورتوں کو پورا نہیں کریں گے تو کھڑے ہو کر یہ تقریر میں کرنا کہ اسلام کا غلبہ مقدر ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے گا کہ ہمارے ذریعہ سے اسلام غالب آئے بے معنی چیز ہے.اللہ تعالیٰ دنیا میں اسلام کو غالب تو کرے گا لیکن اگر ہم بحیثیت جماعت خلق جدید کے مستحق نہیں ٹھہریں گے تو دنیا میں کسی اور قوم میں خلق جدید کا نظارہ نظر آئے گا.اسلام تو بہر حال غالب آئے گالیکن کیوں نہ وہ ہمارے ہاتھ سے غالب آئے.کیوں غیر اللہ کے فضلوں کے وارث بنیں اور ہم محروم رہ جائیں.ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم بھی اور ہماری بعد میں آنے والی نسلیں بھی اور وہ لوگ بھی جو ہمارے ساتھ بعد میں آکر شامل ہوں گے سارے ہی خدا کے فضلوں کے وارث بنیں اور اس کے انعامات کے مستحق ٹھہریں.پس بخل کو دل سے نکال دینا چاہیے اور اس یقین کامل کے ساتھ نکال دینا چاہیے کہ خدا کی راہ میں بخل دکھانا جہنم کو مول لینا ہے اور اس سے زیادہ شر اور کوئی ہے نہیں.خدا کی راہ میں بخل غرض اگر ہم خیر چاہتے ہیں تو ہمیں دل سے بخل نکالنا پڑے گا اور خدا تعالیٰ کے در پر کھڑے ہو کر یہ کہنا پڑے گا کہ اے خدا سب کچھ تو نے ہی ہمیں دیا ہے ہم سے جتنا تو چاہتا ہے لے لے.ہم جانتے ہیں کہ زمین و آسمان کی میراث تیری ہی ہے.سب کچھ تیرا ہے.تو ہمارا امتحان لیتا ہے آزماتا ہے اور تو ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم ان چیزوں کو جو تیرے فضل نے ہمیں دی تھیں تیرے حضور ساری (اگر ساری کی ساری دینے کا حکم ہو) یا کچھ (اگر کچھ

Page 106

103 فرموده ۱۹۶۸ء د و مشعل راه جلد دوم دینے کا حکم ہو ) پیش کر دیں.سو ہم یہ چیزیں اس یقین پر اور اس دعا کے ساتھ پیش کر رہے ہیں کہ تو ہم پر رحم کرے اور اپنی دینی اور دنیوی نعمتوں سے ہمیں نوازے اور اس دنیا میں بھی تیری رضا کی نظر ہم پر رہے اور اُس دنیا میں بھی ہم تیری رضا حاصل کرنے والے ہوں.تحریک جدید اس وقت میں احباب جماعت کو دو چندوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.ایک تو چندہ تحریک جدید ہے اور دوسرا چندہ وقف جدید - تحریک جدید کی آمد اب تک جو ہوئی ہے وہ تسلی بخش نہیں.گو وہ ہے کافی (جماعت بڑی قربانی کرنے والی ہے لیکن بعض دفعہ احباب جماعت تو چست ہوتے ہیں.مگر مقامی طور پر نظام جماعت سست ہوتا ہے اور اس طرح کاغذوں میں کمی نظر آجاتی ہے.ہماری دو جماعتیں ہیں جن کا چندہ زیادہ ہوتا ہے اور ان کے تحریک جدید کے وعدے بھی زیادہ ہیں وہ دو جماعتیں ربوہ اور کراچی ہیں.ربوہ ابھی تک اس وعدہ سے بھی پیچھے ہے جو اس نے پچھلے سال انصار اللہ کے اجتماع کے موقع پر کیا تھا اسی طرح کراچی کی جماعت بھی ابھی اس وعدہ سے پیچھے ہے ( وعدوں کے لحاظ سے.ادائیگی کے لحاظ سے نہیں) جو مجموعی طور پر کراچی کی طرف سے پچھلے سال انصار اللہ کے اجتماع کے موقع پر ہوا تھا.کراچی کی جماعت نے یہ مجموعی وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم احباب جماعت میں تحریک کر کے ایک لاکھ ایک ہزار روپیہ تحریک جدید کی مد میں ادا کریں گے.اس وعدہ میں ابھی سات آٹھ ہزار روپیہ کی کمی ہے ربوہ کا وعدہ ستر ہزار روپیہ کا تھا اس وعدہ کے لحاظ سے ربوہ بھی سات ہزار پیچھے ہے یعنی ابھی تک ۶۳ ہزار روپیہ کے وعدے ہوئے ہیں.غرض وعدے بھی بڑھانے ہیں اور ادائیگیاں بھی تیز کرنی ہیں تا کہ جو کام خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیابی کے ساتھ تحریک جدید کی قربانیوں کے نتیجہ میں ساری دنیا میں ہو رہا ہے وہ جاری رہ سکے اور ترقی کر سکے.تحریک جدید کے کام نے آہستہ آہستہ ترقی کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری ضرورتیں بھی بڑھ رہی ہیں.جب یہ کام شروع ہوا تھا تو سارا مالی بوجھ ہندوستان (اس وقت تقسیم ملک نہیں ہوئی تھی) کی جماعتوں پر تھا.پھر بیرونی جماعتیں بڑھیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں بھی اخلاص اور ایثار کا جذبہ پیدا کیا اور اس وقت وہ (غیر ممالک کے احمدی ) پاکستان کے کل چندہ تحریک جدید سے آٹھ گنا زیادہ چندہ ادا کر رہے ہیں.گویا پاکستان کی جماعتیں اخراجات ( جو بیرونی ممالک میں ہو رہے ہیں ) کا آٹھواں حصہ بلکہ اس سے بھی کم شاید نواں حصہ) ادا کر رہی ہیں.پھر اس رقم میں سے بھی کچھ رقم با ہر نہیں جاسکتی کیونکہ اس وقت فارن ایچینج پر پابندی لگی ہوئی ہے.پھر یہاں کے اخراجات بھی ہیں مثلاً مبلغوں کی تربیت ہے.مبلغ پیدا کرنے.یہاں کے کارکنوں کی تنخواہوں وغیرہ اور خط و کتابت پر بہت سے اخراجات یہاں کرنے پڑتے ہیں.غرض ہمارا چندہ تحریک جدید کے کل چندہ کا کوئی آٹھواں یا نواں حصہ بنتا ہے.اگر ہم اس کی ادائیگی میں بھی سنتی کریں تو ہم سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو کیسے پورا کریں گے.حالات بدل رہے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ ہماری ضرورتیں بھی

Page 107

فرموده ۱۹۶۸ء 104 د دمشعل ن راه جلد دوم بڑھ رہی ہیں مثلاً آپ دیکھیں ایک ملک میں آپ نے کام کیا وہاں عیسائیت بڑے زوروں پر تھی اور وہ امید رکھتی تھی کہ عنقریب وہ سارا ملک عیسائی ہو جائے گا پھر ہمارے مبلغ خدا کی توفیق سے وہاں پہنچے اور خدا کی توفیق ہی سے ان کے کاموں میں برکت پیدا ہوئی اور آج وہاں کے حالات بدلے ہوئے ہیں اور اس قدر بدلے ہوئے ہیں کہ ایک ملک سے بہت سے خطوط آتے رہتے ہیں.میں ایک مثال دے رہا ہوں) مجھے مطالبہ آیا کہ یہاں کے حالات کے لحاظ سے آپ فورا ۹ (نو) اور مبلغ ہمارے ہاں بھجوا دیں.یہ افریقہ کا ایک ملک ہے اور لکھنے والے بھی افریقن احمدی ہیں.غرض دنیا کے حالات بدل رہے ہیں غرض دنیا کے حالات بالکل بدل رہے ہیں اور جب حالات بدلے ہیں تو ہماری ضرورتیں بھی بدلیں گی.مثلاً ایک ملک میں ہمارا مبلغ گیا اس نے کام کی ابتداء کی اور اس وقت وہ کام تھوڑا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں برکت ڈالی اور وہ پھیلا اور اب ہم الحمد للہ کہتے کہتے تھکتے ہیں اور اسی کا وہ سزاوار ہے اور جب ہمارا کام پھیلا اور بڑھا تو ہمیں اور زیادہ روپیہ کی ضرورت ہوئی.لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ ہم تو یہ ذمہ داریاں نبھانے کیلئے تیار نہیں تو یہ کئے کرائے پر پانی پھیر نے والی بات ہے.اسی لئے خدائے قادر و توانا نے کہا ہے کہ کام تو نہیں رکے گا لیکن پھر مجھے خلق جدید کرنی پڑے گی.ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر ہی زندگی قائم رکھے اور ہماری حیات روحانی ہم سے نہ چھینے اور ہمیں تحریک جدید کے چندوں کو بڑھانے کیلئے کوشش کرنی چاہیے کیونکہ میں نے بتایا ہے کہ بہت سی جماعتوں نے ابھی وہ وعدے بھی پورے نہیں کئے جو انہوں نے مجموعی لحاظ سے پچھلے سال انصار اللہ کے اجتماع پر کئے تھے اور پھر ادائیگیاں بھی جلد تر پوری کرنی چاہئیں دفتر کا اندازہ ہے کہ اگر سال رواں کی آمد پچھلے سال کی آمد سے دس فیصدی نہ بڑھی تو ہماری بڑھتی ہوئی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکیں گی.وقف جدید دوسرے میں وقف جدید کے چندہ کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وقف جدید کا سال رواں کا چندہ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے پچھلے سال سے کچھ اچھا ہے اور امید ہے وہ سال کے آخر تک پورا ہو جائے گا.سال رواں کا بجٹ آمد ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار روپیہ تھا.اس میں سے ایک لاکھ دس ہزار روپیہ ۱/۸ خاء تک وصول ہو چکے تھے.گزشتہ جمعہ میں میرا خیال تھا کہ جماعت کو خطبہ جمعہ میں اس چندہ کے متعلق تحریک کروں لیکن میں بیمار ہو گیا اور جمعہ میں نہ آسکا.بہر حال ۱۷۸ خاء کو ایک لاکھ دس ہزار روپیہ وصول ہو چکا تھا اور اس عرصہ میں اور وصولی بھی ہوئی ہوگی اور امید ہے ساری رقم وصول ہو جائے گی انشاء اللہ.لیکن جنہوں نے وعدے لکھوائے ہیں وہ اپنے وعدے پورے کریں.اگر سارے وعدے پورے ہو جائیں تو بجٹ سے کہیں زیادہ وصول ہو جائے گا.اطفال

Page 108

105 فرموده ۱۹۶۸ء دو مشعل راه جلد د ، دوم الاحمدیہ کا جو پچاس ہزار روپیہ چندہ تھا اس میں سے صرف گیارہ ہزار روپیہ وصول ہوا ہے میری یہ خواہش بھی ہے اور میں دعا بھی کرتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان بچے اور چھوٹے بچے جنہیں میں نے اس میں شامل کیا ہوا ہے وقف جدید کا سارا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا ئیں اور میرے نزدیک ایسا ممکن ہے لیکن ان کے والدین اور سر پرست اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں رکھتے یا انہیں ذمہ داری کا اتنا احساس نہیں جتنا ہونا چاہیے.انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ وہ دو چیزوں میں سے کون سی چیز پسند کریں گے.ایک یہ کہ ان کے بچے بچپن کی عمر سے ہی بجل کی عادتوں سے چھٹکارا حاصل کر کے اس دنیا میں اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوتے چلے جائیں.یا وہ یہ پسند کریں گے کہ جہنم کے اندر ان بچوں کی گردنوں میں وہ طوق ہو جس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں کیا گیا ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.آپ یقیناً پہلی بات کو ہی پسند کریں گے لیکن صرف دعوئی سے نتیجہ نہیں نکلا کرتا.یہ مادی دنیا عمل کی دنیا ہے جو شخص عمل ( دعا بھی ایک عمل ہے جب میں عمل کہتا ہوں تو میری مراد ہر اس عمل سے ہے جس کے کرنے کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی ہے اور جس کے کرنے کا اس نے ہمیں حکم فرمایا ہے ) کرتا ہے تو اس عمل کا ہی نتیجہ اسے ملتا ہے.جو شخص یہ کہے کہ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنی چاہیے سوائے عذر معقول کے اور صبح سے شام تک وہ یہ وعظ کرتا رہے لیکن ایک نماز بھی مسجد میں پڑھنے نہ آئے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کو باجماعت نماز کا ثواب مل جائے گا اس لئے کہ بارہ گھنٹے اس کے منہ سے ایسے فقرات نکلتے رہے کہ مسجد میں جا کر نماز پڑھنی چاہیے.ہرگز نہیں.وقف جدید اور بچے پس اگر آپ کے دل میں یہ احساس ہو کہ کہیں ہمارے بچوں کو بخل کی عادت نہ پڑ جائے اور اس عادت میں وہ پختہ نہ ہو جائیں تو مہینہ میں ایک اٹھنی ( یا جو اور بھی غریب ہیں یعنی جو خاندان اقتصادی لحاظ سے اچھے نہیں ان کے متعلق میں نے کہا ہے کہ ایک خاندان کے سارے بچے مل کر ایک اٹھنی مہینہ میں دیں) ایسی چیز نہیں جو بوجھ معلوم ہو.صرف توجہ کی کمی ہے اور یہ حالت دیکھ کر مجھے شرم آتی ہے.پس میں بچوں کو بھی اور ان کے والدین اور سر پرستوں کو بھی اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم نے آہستہ آہستہ عادت ڈال کر وقف جدید کے نظام کو مالی لحاظ سے بچوں کے سپر د کر دینا ہے.ابھی تو ابتداء ہے اور پچاس ہزار روپیہ کی رقم ان کیلئے مقرر کی گئی ہے لیکن یہ رقم دولاکھ، اڑھائی لاکھ یا تین لاکھ ہو جائے گی.ضرورتیں بڑھیں گی تو قربانی کا جذبہ بھی بڑھے گا اور ایثار بھی بڑھے گا اور چندہ بھی بڑھتا جائے گا.اللہ تعالیٰ جماعت کے بچوں کو توفیق دے گا کہ وہ اس چندہ میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں.اور یہ کوئی ایسی رقم نہیں ہے جو ادا نہ ہو.اس وقت جماعت کی جو اقتصادی حالت ہے اس کو سامنے رکھیں تو یہ مشکل امر نہیں کہ بچے اس بوجھ کو اٹھا لیں لیکن وہ تو بچے ہیں اصل ذمہ داری تو ان کے سر پرستوں اور والدین پر ہے.ایک بچہ مثلاً پانچ سال کا ہے اب اللہ تعالیٰ اس سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے میری راہ میں قربانی کیوں نہیں

Page 109

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۸ء 106 دی.کیونکہ ہر نیک عمل کی ایک بلوغت ہوتی ہے اور وہ ابھی مالی قربانی کی بلوغت کو نہیں پہنچا.جب وہ اس بلوغت کو پہنچے گا تو اگر آپ نے اس کی تربیت نہیں کی اور اس میں بخل پیدا ہو گیا اور بجل کی عادت پختہ ہوگئی تو پھر جس طرح وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہوگا آپ بھی جواب دہ ہوں گے.پس ابھی سے اپنی اور اپنے بچوں کی تربیت کریں اور ان کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت ڈالیں.وقف جدید کی رقم اس قدر تھوڑی ہے کہ میں سمجھا تھا اسے بچوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت ڈالنے کیلئے استعمال کرنا چاہیے.ڈیڑھ دولاکھ روپیہ چندہ تو کچھ بھی نہیں اور پھر خاص طور پر جماعت کی موجودہ اقتصادی حالت کے لحاظ سے.خدا تعالیٰ کا جماعت پر بڑا فضل ہے.پچھلے سال میں نے ایک ضلع کی زمین کی ملکیت کے متعلق اندازہ لگایا تھا کہ اگر ہمارے دوست دیسی بیج کی بجائے میکسی پاک یا انڈس بیج بوئیں تو اگر اخلاص اتناہی رہے جتنا اب ہے تو اس ضلع کی جماعت کی آمدنی گندم سے اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کا چندہ بڑھ کر دس لاکھ ہو جائے گا.غرض اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل کیا ہے اور یہ کوئی بڑی رقم نہیں جو بچوں سے مانگی جارہی ہے.یہ رقم مانگی بچوں سے جارہی ہے اور بچوں کے ہاتھ سے ہی ہمیں ملنی چاہیے.ایک بچہ جو بالکل چھلے کا ہی ہو ماں اگر چاہے تو اس کے ہاتھ سے چندہ دلوا سکتی ہے.کیا ہم پیدائش کے وقت اس کے کان میں اذان نہیں کہتے.آپ اس کے ہاتھ میں اٹھنی پکڑا دیں یا دو مہینہ کا چندہ اکٹھا دینا ہو تو روپیہ کا نوٹ اس کے ہاتھ میں دے دیں اور آگے کر دیں اور لینے والے سے کہیں اس سے لے لو.اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے گا مگر لینا ہم نے بچہ سے ہی ہے ہاں ذمہ داری بہر حال والدین اور سر پرستوں پر ہے.پس میں جماعت کے احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اس طرف فوری طور پر متوجہ ہوں کیونکہ ابھی پچاس ہزار روپیہ میں سے گیارہ ہزار وصول ہوا ہے اور وصولی کو سال رواں میں پچاس ہزار تک بہر حال آپ کو پہنچانا چاہیے.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی توفیق دے اور مجھے بھی توفیق دے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اسے اس رنگ میں نبھائیں کہ وہ ہم سے خوش ہو جائے اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہو جائے.روزنامه الفضل ربوه ۲۶ ، اکتوبر ۱۹۶۸ء)

Page 110

107 فرموده ۱۹۶۸ء دومشعل راه جلد دوم مجلس خدام الاحمد یہ مرکز یر کےسالانہ اجتماع ۱۸ اکتو بر ۱۹۲۸ء کے افتتاح کے موقعہ پر حضرت خلیفة اصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایمان افروز تقریر تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.كُنتُمْ خَيْرٌ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ المُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَا مَنْ أَهْلُ الكتب لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ، مِنْهُمْ الْمُؤْمِنُونَ وَاكْثَرُهُمُ الْفَسِقُوْنَ ان خير من استأجرت القوي الأمين (آل عمران: ۱۱۱) (القصص: ۲۷) أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (البقرہ: ۱۶۶) يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا آمَنَتِكُمْ وَ انْتُمْ تعْلَمُونَ اس کے بعد فرمایا: (انفال: ۲۸) انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی ایک بڑی غرض یہ ہوتی رہی ہے کہ ایک ایسی قوم پیدا ہو جو ایک طرف حقوق اللہ کو ادا کرنے والی ہو تو دوسری طرف حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی ہر طرح کوشاں رہے.اس آیت کریمہ میں جو ان آیات میں سے میں نے پہلے پڑھی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلی امتیں بھی لوگوں کی بھلائی کے لئے ہی پیدا کی گئی تھیں.لیکن امت مسلمہ محمد رسول اللہ اللہ کے ذریعہ پیدا کی جارہی ہے وہ ان تمام امتوں سے بہتر اور بزرگ تر ہے.اس لئے کہ پہلے انبیاء کو ” کامل معروف عطا نہیں ہوا تھا اور پہلے انبیاء کو منکر کی وہ باریک باتیں نہیں بتائی گئی تھیں جن کو چھوڑنے کے بغیر اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا نہیں ہو سکتا.لیکن چونکہ تم اے امت مسلمہ کے افراد اس امت کی طرف منسوب ہو رہے ہو.جسے المعروف اور المنکر کا علم دیا گیا ہے.اور تم سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ تم السمعروف کے مطابق عمل کرو گے اور کرواؤ گے اور تم سے یہ امید رکھی جاتی ہے کہ تم السمنکر کے مطابق بدیوں اور کوتاہیوں سے بچو گے.اور دوسروں کو بھی بچنے کی تلقین کرتے رہو گے.اس لئے تم ہی وہ

Page 111

فرموده ۱۹۶۸ء 108 د دمشعل را کل راه جلد دوم امت ہو جو تمام پہلے انبیاء کی امتوں سے بہتر اور بزرگ تر ہے اور آپ جو امت مسلمہ کے نوجوان ہیں آپ کو میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے مقام کو پہچانیں کیونکہ آپ کی عمر کے نوجوان تو پہلی امتوں میں بھی گزرے ان قوموں میں بھی گزرے جو اپنے انبیاء کی تعلیم کو بھول چکی تھیں اور خدا سے دور جا پڑیں تھیں.اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا کوئی زندہ تعلق نہ رہا تھا.القوى الامين پس عمر کی جوانی تو کوئی شے نہیں لیکن اس عمر میں بھی اس امت مسلمہ کی طرف منسوب ہونا جسے اللہ تعالیٰ نے خیر الام قرار دیا ہے.کوئی معمولی مقام نہیں ہے.جس پر آپ کو کھڑا کیا گیا ہے.اس لئے جو ذمہ داریاں آپ پر عائد ہوتی ہیں انہیں سمجھنے اور ان ذمہ داریوں کو پوری کوشش اور پوری جد و جہد سے نباہنے کی طرف آپ کو متوجہ ہونا چاہیئے اور بنیادی طور پر دو خصوصیتیں آپ کے اندر پیدا ہونی چاہئیں جو اس آیت کریمہ میں بیان ہوئی ہیں کہ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرُتَ الْقَوِيُّ الاَمِينُ جب حضرت موسی علیہ السلام مدین کے پانی پر اپنے تربیتی اور مجاہدانہ سفر میں پہنچے تو وہاں خدا تعالیٰ کی حکمت کا ملہ نے آپ کو ایک نیکی کی توفیق عطا کی اور وہ یہ کہ کچھ عورتیں اپنے جانوروں کو پانی پلانا چاہتی تھیں.لیکن چونکہ ان کے ساتھ کوئی مرد نہ تھا اس لئے وہ ایک طرف کھڑی ہوئی اس بات کا انتظار کر رہی تھیں کہ جب مرد چلے جائیں تو پھر آرام سے اپنے جانوروں کو پانی پلائیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کی مدد کی اور ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا جب وہ اپنے گھر گئیں تو انہوں نے اپنے والد سے کچھ باتیں کی ہونگی ان باتوں میں سے بعض باتیں اصولی تھیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل کتاب میں پر حکمت زبان میں بیان کیا ہے اور ایک چھوٹے سے فقرہ میں بیان کیا ہے کہ ان میں سے ایک لڑکی نے اپنے والد سے کہا کے جسے خادم رکھنا ہو اُس کے متعلق پر دیکھ لینا چاہیے کہ وہ السقوی اور الامین ہے یا نہیں کیونکہ بہتر خادم وہی ہوا کرتا ہے جو قوی اور امین ہو.جب ایک شخص کسی کو خادم رکھتے ہوئے ان دو صفات کو دیکھتا ہے تو وہ جو خدا کے خادم بننے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں اپنے اندر ان صفات کو بدرجہ اولی پیدا کرنا چاہئیے ایک القوی اور دوسرے الا مین ہونا.اسی طرح بالواسطہ امت مسلمہ کے خدام کا ذکر قرآن کریم میں آجاتا ہے.کیونکہ جو اجرت پر رکھا جاتا ہے.وہ خادم ہوتا ہے اور اگر چہ اللہ تعالیٰ سے انسان اجرت تو مقرر نہیں کروا تا کہ اس کا حق نہیں لیکن اللہ تعالیٰ جو بے انتہاء فضل اور رحم کرنے والا ہے اس نے اپنے بندوں سے یہی وعدہ کیا ہے کہ اگر تم میری خدمت میں مصروف رہو گے تو میرے انعامات کے وارث بنتے چلے جاؤ گے.القوی اور الامین کے جو معنی اس لڑکی کے دماغ میں آئے ہوں یا اُس کے والد کے دماغ میں آئے ہوں وہ تو محدود ہی ہو نگے لیکن جس معنی میں قرآن کریم نے ان الفاظ کو بیان کیا ہے وہ ایسے معنی ہیں کے خدام الاحمدیہ کے سارے پروگرام پر حاوی ہیں.

Page 112

109 فرموده ۱۹۶۸ء د و مشعل راه جلد دوم دد پہلی صفت ایک خادم میں القوی کی ہونی چاہیئے جب ہم لغت کو اور قرآن کریم کی اصطلاح کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ السقوۃ کے ایک معنی المقدرة کے ہیں اور یہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں لیکن آگے پھر ہر قسم کی قوتوں کی معنی میں اس لفظ کو عربی زبان اور اللہ کی اصطلاح استعمال کرتی ہے.اس کے معنی بدن کی قوت کے بھی ہیں.اس کے معنی دل کی قوت اور مضبوطی کے بھی ہیں.اس کے معنی اس قوت کے بھی ہیں جو خارجی اموال اور اسباب سے حاصل کی جاتی ہے اور اس کے معنی اللہ تعالیٰ کی قوت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بھی ہیں اس معنی میں بھی قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ تو ایک بے مثل رنگ میں کامل قدرتوں اور طاقتوں کا مالک ہے اس لئے اس معنی میں تو انسان کے متعلق اس لفظ کو استعمال نہیں کیا جا سکتا سوائے ظلی طور پر لیکن جو تین معنی دوسرے ہیں ان میں یہ لفظ انسان کے لئے استعمال ہو سکتا ہے اور قرآن کریم ان تینوں معنوں میں اسے استعمال کرتا ہے.جسمانی طور پر مضبوط پہلے معنی ہیں جسم کی قوت یعنی صحت ہو اور مضبوط قوی ہوں مضبوط جسم ہو محنت کرنے کے قابل جو ہر قسم کی سختیاں برداشت کر سکے خدام الاحمدیہ کے پروگرام میں مختلف شعبوں میں اس بات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے مثلاً ہم ورزشی مقابلے کرواتے ہیں اور وقار عمل کرواتے ہیں اور ہم یہ وعظ کرتے ہیں کہ کھانے میں توازن کو قائم رکھا کرو اور اس متوازن غذا کو ہضم کرنے کے سامان پیدا کیا کرو غذا کے ہضم کرنے کا ایک سامان تو ورزش ہے اور ایک سامان یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے تو بھوک ہو تو کھاؤ اور ابھی بھوک ہو تو کھانا چھوڑ دو اس سے بھی کھانا جلدی ہضم ہو جاتا ہے اور جزو بدن بن جاتا ہے جوشخص بغیر بھوک کے کھالیتا ہے اور پھر کھاتا چلا جا تاہے بھوک اس کی ختم ہو جاتی ہے لیکن زبان کے چسکہ کی وجہ سے وہ ضرورت سے زیادہ غذا کھا لیتا ہے ایسے شخص کا معدہ خراب ہو جاتا ہے.سوہ ہضم میں وہ مبتلا ہو جاتا ہے اور کھانا جزو بدن نہیں بنتا اور انسانی جسم کی صحت کو قائم رکھنے کی بجائے اسے بیمار کر دیتا ہے.غرض ایک خادم کے لئے القوی کے ایک معنی یہ ہوں گے کہ وہ اپنی زندگی کو اس طرح الله گزارے کے مناسب وقت میں وہ ورزش کر رہا ہو کھانے میں محتاط ہو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ کا فر کھانے کی مقدار کے لحاظ سے کبھی عقل سے کام نہیں لیتا کیونکہ جب وہ کھانے پر آتا ہے تو کھاتا چلا جاتا ہے لیکن ایک مومن عقل سے کام لیتا ہے اور جتنی غذا کی اس کے جسم کو ضرورت ہوتی ہے اور جتنی اس کا نظام ہضم جزو بدن بنا سکتا ہے اس کے مطابق وہ غذا استعمال کرتا ہے.کھانے کے ہضم کے لئے اور صحت کو برقرار رکھنے کے لئے مناسب آرام کی بھی ضرورت ہے اس لئے اطباء یہ کہتے ہیں کہ دو پہر کے کھانے کے بعد کچھ آرام کر لینا چاہیئے اور رات کے کھانے کے بعد کچھ ورزش کر لینی چاہئیے چاہے وہ ہلکی ہی کیوں نہ ہو غرض میں نے بتایا ہے کہ القوی کے اس معنی کے مطابق خدام الاحمدیہ کے بعض پروگرام ہیں مثلا ورزشی مقابلے ہیں وقار عمل ہے.

Page 113

د دمشعل نل راه جلد دوم دل کی مضبوطی کے لئے تقوی ضروری ہے فرموده ۱۹۶۸ء 110 القوی کے ایک دوسرے معنی ہیں دل کا مضبوط اور دل کی مضبوطی کے لئے تقویٰ کی ضرورت ہے کیونکہ جو شخص اس معرفت کو حاصل کرلے وہ اللہ کی پناہ میں آ گیا ہے ( جو تقویٰ کے معنی ہیں ) اور خدا کی ڈھال اس کے سامنے ہے اس کے دل میں بزدلی پیدا نہیں ہو سکتی.کسی قسم کی کمزوری نہیں پیدا ہوسکتی.یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے مخلصین پیروکار اور تبعین کبھی بھی اپنے مخالفوں کی طاقت اور ان کے مادی سامانوں سے گھبرائے نہیں بلکہ بے خوف ہو کر وہ خدا تعالیٰ کے ایسے احکام کی اطاعت کرتے رہے ہیں کہ دنیوی قواعد کی رو سے وہ کام خالص موت نظر آتے تھے.کمزورں کو موت نظر آتی تھی قرآن کریم میں بھی ذکر ہے کے بعض نے کہہ دیا کے لڑائی ہوتی تو ہم لڑتے لیکن تم تو ہمیں موت کے منہ میں دھکیل رہے ہو پھر کیسے ہم سے توقع رکھتے ہو کہ ہم موت کے منہ میں چلے جائیں گے اب دیکھو منہ تو وہی تھا لیکن ایک کو وہ موت کا منہ نظر آ رہا تھا اور ایک کو اللہ کی محبت کا جلوہ وہاں نظر آتا تھا وہ ان کے لئے کوہ طور بن گیا تھا پھر جس طرح اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی جماعتوں کی حفاظت کی ہے اور خصوصا نبی اکرمﷺ کے متبعین کی جانوں کی حفاظت کی ہے وہ حیران کن ہے.جتنا زور نبی اکرم ہے کے خلاف آپ کے دشمنوں نے لگایا اور کسی نبی کے خلاف اُس کے دشمنوں نے نہیں لگایا اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ کوئی شخص ہم پر یہ اعتراض کرے کہ اپنے متعلق تمہارا یہ دعوی ہے حضرت موسٹی اور ان کی قوم کے خلاف زور لگانے والوں پر قرآن کریم اور تاریخ نے جو روشنی ڈالی ہے اس کے مطابق وہ فرعون تھا یا اُس کی قوم تھی یا پھر خود یہودیوں میں سے بعض گروہ تھے جو انہیں ہر وقت تنگ کرتے رہتے تھے لیکن نبی اکرم کے خلاف زور لگانے والی ساری دنیا تھی اور اسی زمانہ کے قیصر و کسری جن کی طاقت اس زمانہ کے امریکہ اور روس کی طاقتوں کے برابر تھی.مقابل پر آئے اور مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت تھی لیکن ہم ان کے متعلق القوی کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ دلوں کے بڑے مضبوط تھے اس لئے کے وہ اس یقین پر قائم تھے کے گوہم کمزور اور کم مایہ ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے ہم سے وعدہ کیا ہے کے میں تمہاری ڈھال بن کر تمہارے سامنے آؤں گا تم میں بعض کو بے شک شہادت کا انعام مل جائے گا لیکن بحیثیت مجموعی دنیا کی کوئی طاقت تمہیں تباہ نہیں کر سکتی پھر اس زمانہ کی تاریخ سے آگے چلیں تو ہم دیکھتے ہیں کے ساری دنیا نے ہر قسم کا زور لگا یا مادی طاقت یا مادی زور صرف تلوار، بندوق ، یا ایٹم بم کا ہی نہیں بلکہ دجل کا بھی ہے اسلام کے خلاف جو کثرت اشاعت دجل کی گئی ہے کسی اور مذہب کے خلاف نہیں کی گئی.لاکھوں کروڑوں اور اربوں کتابیں اسلام کے خلاف شائع کی گئی ہیں یہ کتابیں محض جھوٹ کے پلندے تھے جو دشمنوں نے شائع کئے اور ساری دنیا میں دنیا کے کونہ کونہ میں ، ہر شہر اور ہر قریہ میں ان کو پھیلایا اور انہوں نے اپنا سارا زور لگایا لیکن وہ لوگ جن کے دلوں میں حقیقی تقویٰ تھا وہ گھبرائے نہیں.

Page 114

111 فرموده ۱۹۶۸ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد د مشعل راه جلد دوم دد اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعوی کیا ہے کے اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے معبوث فرمایا ہے اور نبی کریم ﷺ کے ایک روحانی فرزند جلیل کی شکل میں معبوث فرمایا ہے.کچھ لوگ آپ کے گرد جمع ہو گئے.ہم میں سے بعض تو وہ ہیں جو نئے نئے احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اور بعض وہ ہیں جو احمدیوں کے بچے ہیں.دیکھو! اس زمانہ میں بھی جہاں تک مادی ذرائع کا تعلق ہے یا تعداد کا تعلق ہے ہماری کوئی حیثیت نہیں.ساری دنیا اسلام پر حملہ آور ہے اور اس کے مقابل مٹھی بھر چند دل ہیں جو اسلام کی حقیقی ہمدردی اور خیر خواہی رکھنے والے ہیں.لیکن اس یقین پر قائم ہیں کہ اللہ ہماری ڈھال اور ہمارا مددگار اور محمد اور معاون ہے اس لئے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں.ان کے دل میں کوئی خوف نہیں پیدا ہوتا.ہمارے کم عمر کم علم ، غریب، بے کس، بے چارے نوجوان جاتے ہیں اور دھڑلے کے ساتھ ان پادریوں سے بھی ٹکر لیتے ہیں جن کو پوپ بھی ملاقات کا وقت دینے پر مجبور ہوتا ہے.جن سے امریکہ کا پریذیڈنٹ بھی گھنٹہ گھنٹہ بات کرتا ہے.جن سے ملنا بڑا مشکل ہے.اتنا رعب ہوتا ہے ان کا لیکن ہمارے اس نوعمر مبلغ کے دل پر ان کا رعب طاری نہیں ہوتا.اس لئے کہ وہ نو جوان اسلام کا خادم ہونے کی وجہ سے القوی ہے.دل کا مضبوط ہے وہ اس معنی میں مضبوط ہے کہ وہ جانتا ہے اللہ میری ڈھال ہے اور جس کی ڈھال اللہ ہو اس کو کون نقصان پہنچا سکتا ہے.دل کی مضبوطی کے لئے تو کل بھی چاہیئے یعنی انسان تدبیر اور کوشش کو انتہا ء تک پہنچائے اور نتیجہ کو خدائے قادر وتو انا کی ذات پر چھوڑ دے تو کل کے یہ معنے ہیں کہ جس وقت انسان اپنی پوری کوشش کر لیتا ہے لیکن سمجھتا ہے کہ یہ کوشش اتنی حقیر سی ہے.تعداد میں ہم کم ہیں.اموال کم ہیں.ذرائع کم ہیں.وسائل کم ہیں لیکن انسان کی اس کوشش کا نتیجہ اور اس کی تدبیر کا نتیجہ اس کی تدبیر کی وجہ سے نہیں نکلتا.بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نکلتا ہے.کامل تو کل دل کو مضبوط کرتا ہے اور اصولاً ہم کہ سکتے ہیں کہ ایمان کا کمال انسان کے دل کو مضبوط کرتا ہے اور ایمان کو صحیح طور پر تربیت دینے کے لئے قرآن کریم کے علوم کا سیکھنا ضروری ہے.اس لئے ہم خدام الاحمدیہ کو ہر وقت یہ کہتے بھی رہتے ہیں اور انتظام بھی کرتے ہیں کہ قرآن کریم پڑھو قرآن کریم پڑھو قرآن کریم پڑھو.اس پر غور کرو اور اس کے سمجھنے کی کوشش کرو.اور جنہوں نے اس پر پہلے غور کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے جن کو فراست عطا کی ہے.اور اپنی طرف سے انہیں بہت سا علم عطا کیا ہے.ان کی تفاسیر کو پڑھو.ان پر تدبر کرو.ان تفاسیر کا مطالعہ دل کو مضبوط کرتا ہے.کیونکہ اس کے نتیجہ میں انسان تو کل اور تقویٰ کے مقامات حاصل کر سکتا ہے.القوی یعنی دنیوی ساز وسامان والا تیسرے معنی القوی کے اس شخص کے ہیں جس کے پاس خارجی طاقت ہو قوت ہو مال ہود نیوی

Page 115

فرموده ۱۹۶۸ء 112 د دمشعل مل راه جلد دوم ساز وسامان اور اسباب ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیوی ساز و سامان اور اموال ہمارے پاس نہیں.اس کے باوجود میں آپ سے کہتا ہوں کہ اس لحاظ سے بھی آپ کو القوی بننا چاہیئے.اور وہ اس طرح کہ وہ مال جو طیب راہوں سے کمایا جائے.اور پسندیدہ اور حمید راہوں پر خرچ کیا جائے.وہ اس مال سے کہیں زیادہ اچھے نتائج نکالتا ہے جو حرام راہوں سے کمایا جائے اور ان راہوں پر خرچ کیا جائے جو اللہ کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہوں اس لئے ہر احمدی نوجوان کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ اس کے پاس حلال اور طیب مال ہو اور جن راہوں پر وہ خرچ کیا جائے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہوں.قرآن کریم نے ہمیں بڑی عجیب چیز بتائی ہے اور وہ یہ کہ اس نے مومن کو صرف صالح نہیں کہا بلکہ هُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ (الحج : ۲۵ ) بھی کہا ہے.پس مال جو طیب اور حلال ہوا سے ایسے راہوں پر خرچ کرو جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ ہیں اور اس کے لئے دعا کی بڑی ضرورت ہے کیونکہ انسان بڑا کمزور ہے اور اس کا علم بڑا ناقص ہے.وہ یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکتا کہ وہ کونسی راہ ہے جو میرے رب کے نزدیک پسندیدہ ہے.اس لئے اسے یہ دعا کرنی چاہیئے کہ اے خدا تو میری مدد کو آ.تو مجھے وہ راہیں دکھا جن پر چل کر میں حلال اور طیب مال جمع کر سکوں اور مجھے وہ راستہ دکھا جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہو اور جس پر میں خرچ کرسکوں.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مال جو میرے بتائے ہوئے طریق پر جمع کیا جاتا ہے اور جو میرے بتائے ہوئے طریق پر خرچ کیا جاتا ہے اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے انسان القوی بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقَوَّةِ الْمَتِينُ.(الذاریات آیت ۵۹) یعنی اللہ تعالیٰ ہی رزق کا منبع اور سرچشمہ ہے اور جو رزق اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں سے حاصل کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ راہوں پر خرچ کیا جائے وہ انسان کے اندر قوت پیدا کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ رزاق ہونے کے ساتھ ساتھ ذوالقوۃ المتین بھی ہے.یہاں فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ رزاق ہے اور ذوالقوۃ ہے اور ہمیں بتایا ہے کہ وہ رزق جو حلال اور طیب ہو یعنی اس کے حاصل کرنے میں خدا تعالیٰ کے تقویٰ سے کام لیا گیا ہو اور جس کے خرچ کرنے میں اللہ تعالیٰ کے تقویٰ سے کام لیا گیا ہو وہ چاہے تھوڑا ہو اس کے نتیجہ میں انسان خدائے ذوالقوة کی قوتوں اور طاقتوں کے جلوے دیکھتا ہے.اور جس وقت انسان خدا تعالیٰ کی قوت اور قدرت کے جلوے دیکھتا ہے تو وہ خارجی اسباب کے لحاظ سے القوی بن جاتا ہے.دیکھو بدر کے میدان میں کچھ ظاہری سامان تو استعمال کئے گئے تھے لیکن دنیوی لحاظ سے ان کی کوئی وقعت نہیں تھی.اگر وہ سامان ایسے ہاتھوں میں نہ ہوتے جو تمثیلی زبان میں اللہ کے ہاتھ تھے تو اس تھوڑے اور معمولی سامان سے اس قوت کا مظاہرہ نہ ہوتا جو بدر کے میدان میں ہوا.غرض خارجی سامان اور خارجی اسباب تھوڑے ہونے کے باوجود اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے نتیجہ

Page 116

113 فرموده ۱۹۶۸ء د و مشعل راه جلد دوم دد میں انسان القومی بن جاتا ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ تم اس معنی میں بھی القوی بنے کی کوشش کرو.آپ میں سے ایک حصہ تو ابھی طالب علم ہے.کمانے والا نہیں لیکن ایک حصہ ( اور میرے خیال میں وہ کافی بڑا حصہ ہے ) ایسا ہے جو کمانے والا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو کہتا ہے کہ خارجی سامانوں کے لحاظ سے بھی القومی بنیں تب آپ میرے محبوب بنیں گے.اور وہ اس معنی میں القوی بنیں کہ جو کمائیں حلال کمائیں اور جب خرچ کریں تو صراط حمید کا خیال رکھیں یعنی ان راہوں پر خرچ کریں جو میری نگاہ میں پسندیدہ ہوں.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صحت ہو یعنی جسمانی توانائی اور قوت ہو.دل مضبوط ہو اور پھر خارجی قوت بھی ہو اور قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے کہ یہ تینوں چیزیں خدا تعالیٰ سے ہی حاصل کی جاسکتی ہیں.کیونکہ فرمایا اَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا ( البقرة: ١٦٦ ) اور اور قوت اور قدرت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور ایک اور جگہ فرمایا کہ جب تم اپنے کھیت میں جاؤ تو یہ دعا کرو.مَا شَاءَ اللهُ - لَاقُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ (الكهف : ٤٠) یعنی تمام طاقت اور قدرت اللہ تعالیٰ ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے اور ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ چاہے اور اس کا ارادہ ہو.اگر چہ اس آیت میں باغوں کا ذکر ہے لیکن قرآن کریم ہمیں اصولی تعلیم دیتا ہے اس لئے ہم اصولی لحاظ سے اس کے یہ معنی کریں گے کہ جب بھی تم کسی ذریعہ آمد سے آمد کے حصول کی کوشش کرو تو اس بات کو یا درکھو کہ ہر قسم کی قوت ، قدرت اور طاقت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور ہوتا وہی ہے (ماشاء اللہ ) جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے.اس لیئے اس کے حضور جھکو اور اس سے عاجزانہ دعائیں کرو کہ وہ اپنی قوت کا سہارا تمہیں دے اور اپنی طاقت کے جلوے تمہیں دکھائے اور پھر تمہیں اپنی اور صفات کے علاوہ ان دونوں صفات کا مظہر بننے کی توفیق عطا کرے غرض اس معنی میں خدام کو القومی بننا چاہئیے.میں نے بتایا ہے کہ خادم کی دو صفات ہوتی ہیں.۱.القوی ۲.الا مین اور آپ کا سارا پروگرام ان دوصفات کے گردگھومتا ہے.القوی پر میں نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.الا مین کے معنی صرف یہ نہیں کہ کسی نے آپ کے پاس کوئی امانت رکھی اور آپ نے اس میں خیانت کئے بغیر اسے واپس لوٹا دیا.اس بات کے لئے بلندی اخلاق کی زیادہ ضرورت نہیں.عام شریف آدمی خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اس قسم کی خصلتیں اپنے اندر رکھتے ہیں.کوئی خبیث الفطرت ہی ایسا ہوگا جو امانت میں خیانت کرتا ہو لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم الامین یعنی صاحب امانت یا امانت دار بنو گے تو میرے خادم کہلاؤ گے ورنہ میں اپنے خدمت گزاروں کی فہرست سے تمہارا نام کاٹ دوں گا.اس دنیا کی فہرست میں اپنا نام خادم لکھا کر تو ہمیں کوئی فائدہ نہیں.ہمیں تو تبھی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور بھی خوشی پہنچی سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فہرست میں بھی ہمارا نام خدام میں شامل ہو.اگر ہمارا نام خدا تعالیٰ کی فہرست میں بطور خادم درج نہیں تو پھر جہاں

Page 117

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۸ء 114 بھی وہ درج ہو، ہمیں اس سے کیا فائدہ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا اَمَانَا تِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (انفال: ۲۸) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اصولی طور پر تین باتوں کو بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ الامین کے معنے اس نوجوان (ویسے تو اس کے معنے بچے بڑی عمر کے آدمی اور عورت کے بھی ہیں جو مومنوں میں شمار ہوتے ہیں اس لئے اس وقت میرے مخاطب آپ نوجوان ہیں اس لئے میں اس وقت نوجوان کا لفظ ہی استعمال کروں گا) کے ہیں جس میں اصولی طور پر تین قسم کی امانتیں پائی جاتی ہیں.یعنی وہ تین قسم کی امانتوں کا حق ادا کر رہا ہو یعنی اللہ کی امانت رسول کی امانت اور آپس کی امانت چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ایماندارو.اے مومنو! اگر تم ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم تین معنی میں الامین بنو.ایک یہ کہ اللہ کی امانت میں خیانت نہ کرو.دوسرے یہ کہ رسول کی امانت میں خیانت نہ کرو، تیسرے یہ کہ آپس کی باہمی امانتوں میں خیانت کرنے والے نہ بنو.خدا کا بنیادی حق عبودیت ہے اللہ تعالیٰ کی امانت میں خیانت نہ کرنے والے کے معنے حقوق اللہ کو پوری طرح ادا کرنے والے کے ہیں.جو شخص احمدی ہوتا ہے یا احمدی کہلاتا ہے یا احمدی ماں باپ کے ہاں پیدا ہوتا ہے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کو ادا کرے.اللہ تعالیٰ کا بنیادی حق عبودیت ہے یعنی انسان خدا تعالیٰ میں ہو کر ایک نئی زندگی پائے ( خدا تعالیٰ میں ہو کر زندگی پانا خدا تعالیٰ کا حق ہے ) یعنی کامل بندہ بنے.جو شخص عبودیت کے مقام کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا وہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والا ہے.حقوق العباد دوسراحق حقوق العباد کوادا کرنا ہے اور حقوق العباد میں پہلا حق نفس کا حق ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی گنہ گار ہوتا ہے تو اس سے تمہیں کیا نقصان پہنچ سکتا ہے اذا اھتدیتم اگر تم ہدایت پر قائم رہو تو تمہیں اس کا کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.پس اپنے نفس کو ہدایت پر قائم رکھنا حقوق العباد میں سے پہلا حق ہے نبی اکرم اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ و لنفسک علیک حق اپنے نفس کا بھی تم پر حق ہے نفس کے دوسرے حقوق کی تفصیل میں میں نہیں جاؤں گا.میں اس وقت اصولی باتیں کرنا چاہتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کہ ان بہت سے حقوق میں.

Page 118

115 فرموده ۱۹۶۸ء دو مشعل راه جلد د دوم ایک بنیادی حق یہ ہے کہ ہدایت پر اپنے نفس کو قائم رکھو.اور اس کا ذکر بعد میں اس لئے آیا ہے کہ ہر حق کی ادائیگی کے لئے اور ہر ذمہ داری کو نباہنے کے لئے قوت کی ضرورت ہے.بعض لوگ نفس کے کمزور ہوتے ہیں اور وہ نفس کی بدخواہش کو دبا ہی نہیں سکتے.انسان کو کوشش کر کے یہ عادت ڈالنی چاہیئے کہ وہ ہوائے نفس، یعنی نفسانی خواہشات پر غالب رہے.اللہ تعالیٰ کے جو مقرب بندے گزرے ہیں ان میں تمہیں نمایاں طور پر یہ صفت نظر آتی ہے کسی چیز کے ساتھ کوئی لگاؤ نہیں یہ نہیں کہ اگر کسی خادم کو دودھ پینے کی خواہش پیدا ہو تو چاہے چرا کر دودھ پیا جائے ، پیئے.نفس کی غلامی انسان کو تباہ کر دیتی ہے.اگر انسان اپنی خواہشات کو دبا نہیں سکتا اور نفس کا غلام بنا رہتا ہے تو وہ الامین نہیں رہتا.دوسرا حق ( حقوق العباد میں سے) جو میرے نزدیک نفس ہی کا حق ہے یہ ہے کہ اخلاقی ذمہ داریوں کو نبھایا جائے اگر چہ صحیح اخلاق، نیک اخلاق، اچھے اخلاق اور احسن اخلاق دکھانے کا اثر غیر پر بھی پڑتا ہے لیکن سب سے بڑا اثر ان کا اپنے نفس پر پڑتا ہے.انسان کو عزت نفس اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اخلاق کے بلند مقام پر نہ کھڑا ہو کیونکہ عزتوں کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور حقیقی عزت وہی ہے جو انسان اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حاصل کرے.اگر کوئی شخص اخلاق فاضلہ پر مضبوطی سے قائم ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ معزز بن جاتا ہے تبھی وہ اپنی نگاہ میں معزز بنے گا.اور نفس کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جسم کو پاکیزہ رکھا جائے جسم پر کوئی گندگی نہ ہو یہ بات صحت جسمانی میں آجاتی ہے اور ماحول کو صاف رکھنا وقار عمل میں آجاتا ہے.پھر روح کی پاکیزگی ہے.یہ بھی بڑی ضروری چیز ہے اور روح کی پاکیزگی میں پہلے نمبر پر خیالات کی پاکیزگی ہے اور یہ بڑی ضروری چیز ہے بعض لوگ ویسے برائی نہیں کرتے لیکن ان کے خیالات زیادہ پاکیزہ نہیں ہوتے وہ پراگندہ ہوتے ہیں.بعض دوست ان پراگندہ خیالات کا ذکر اپنے دعائیہ خطوط میں بھی کر دیتے ہیں.روزانہ ڈاک میں ایک آدھ خط ایسا بھی آجاتا ہے جس میں پراگندہ خیالات کا ذکر ہوتا ہے میں اسے پسند نہیں کرتا کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کی پردہ پوشی کرتا ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ خود بھی اپنی پردہ پوشی کرے.بہر حال روح کی پاکیزگی کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے خیالات پاکیزہ ہوں.مثلا ایک شخص کسی مجلس میں بیٹھ کر خلافت پر اعتراض کرتا ہے اور جب اسے ٹو کا جاتا ہے تو کہتا ہے دیکھو میں تو ہمیشہ اطاعت کرتا ہوں.مجھے جب بھی کوئی حکم ملتا ہے میں اس کی تکمیل کرتا ہوں لیکن میں کہوں گا کہ اگر تم اطاعت کرتے ہو تب بھی تم اپنے آپ کو ایک خطرہ میں ڈال رہے ہو.کیونکہ تمہارے خیالات پاکیزہ نہیں اور روح اس وقت تک پاکیزہ نہیں ہو سکتی جب تک خیالات پاکیزہ نہ ہوں.اس لئے خدام الاحمدیہ میں ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کو کپیں مارنے یا سینمادیکھنے کی عادت نہ پڑے ہر وہ چیز جو خیالات کو پاکیزہ نہیں رہنے دیتی.اس سے بچنا ہمارے لئے ضروری ہے.اس کے بغیر روح پاکیزہ نہیں رہ سکتی اور جب تک روح پاکیزہ نہ ہو اور روح کو پاکیزہ رکھنے کی کوشش نہ کی

Page 119

فرموده ۱۹۶۸ء 116 د و مشعل راه جلد دوم جائے اس وقت تک حقوق العباد میں سے جو پہلا حق نفس کا حق ہے.اسے ہم پورا نہیں کر سکتے اور جب تک ہم یہ حقوق پورے نہ کریں ہم الامین نہیں کہلا سکتے اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں الامین بنے بغیر ہم اس کے فضلوں اور انعاموں کے وارث نہیں بن سکتے.پھر حقوق العباد میں سے معاملات کی ذمہ داری ہے معاشرہ کی ذمہ داریاں ہیں.اور شہری ذمہ داریاں ہیں.جب میں نے کراچی میں خدام کو خطاب کیا تھا تو اس وقت میں نے شہری ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی تھی.میری یہ تقریر انشاء اللہ چھپ جائے گی.معاملات کے حقوق میں سے بیع وشراء کے حقوق ہیں.اس بارہ میں اسلام کی نظر باریکیوں میں گئی ہے اور اس نے ہمیں پاک رکھنے کے لئے اور ہمیں الامین بنانے کے لئے ہر اس راہ کو بند کر دیا ہے جس پر چل کر انسان بھٹک جاتا ہے اور الامین نہیں رہ سکتا اور اس طرح بند کیا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.تول پورا کرنا.ملاوٹ نہ کرنا وغیرہ موٹی موٹی برائیاں تھیں اور ان سے اسلام سے پہلے انبیا علیہم السلام نے بھی اپنی امتوں کو منع کیا تھا لیکن اسلام بہت باریکی میں گیا ہے.اگر ہم نے اسلام کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق معاملات اور معاشرہ کی ذمہ داریوں کو نباہنا ہے تو ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیم پر تفصیل سے عبور حاصل کرنے کی کوشش کریں یا اگر یہ مکن نہ ہو اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ ایسا کرنا بعض احمدیوں کے لئے ناممکن ہے ) تو ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں کی باتوں کو تسلیم کریں جو اسلامی تعلیم پر ایک حد تک عبور حاصل کر چکے ہیں مثلاً اگر انہیں جماعت کا امیر یا کوئی عہدیدار کسی طرف توجہ دلاتا ہے تو انہیں اس کی اطاعت کرنی چاہیئے اور اس کی بات کو تسلیم کر لینا چاہیئے اور دین العجائز کو اختیار کرنا چاہیئے.اس وقت تک میں نے ذمہ داریاں بیان کی ہیں یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد ایک تیسری ذمہ داری اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے یہ بیان ہوئی ہے کہ انسان رسول کی امانت میں خیانت نہ کرے.اس ذمہ داری کے متعلق میں مختصر ابتا دیتا ہوں کہ یہاں اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی سنت کو قائم کیا جائے میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی امانت جیسا کہ آیت إِنَّا عَرَضْنَا الْآمَانَةَ عَلَى السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا (الاحزاب : ۷۳) میں بیان کیا گیا ہے اللہ تعالی کی تو حید اور اس پر پختگی سے قائم ہونا اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی استعدادوں اور قوتوں کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں پر استعمال کرنا ہے اور آپس کی اور باہمی امانتیں یہ نہیں کہ کسی نے آپ کو پانچ روپے دئے تھے اور وہ آپ نے واپس کر دیئے بلکہ ہر وہ چیز جس میں خیانت کی جاسکے اس میں خیانت نہ کرنا امانت کے اندر آجاتا ہے کیونکہ خیانت کا لفظ عربی زبان میں امانت کی نفیض کے طور پر استعمال ہوتا ہے.پس تیسری چیز جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی امانت میں خیانت نہ کرو رسول کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں قرآنی احکام کا عملی نمونہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے اس لئے اتباع سنت اور اجرائے سنت ضروری ہے جو شخص اس کا خیال نہیں رکھتا وہ رسول کی امانت میں خیانت کرنے والا ہے اور وہ الامین نہیں اور ہم خدام کو ہر سہ معنی میں الامین دیکھنا چاہتے ہیں اور اس یقین اور معرفت پر کھڑے ہیں

Page 120

117 فرموده ۱۹۶۸ء د و مشعل راه جلد دوم دو کہ جب تک ایک احمدی نوجوان ہر سہ معنی میں الامین نہیں بنتا وہ خدا تعالیٰ کے ان انعامات اور فضلوں کا وارث نہیں بن سکتا جن کے وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں دئے گئے ہیں.بی کریم ﷺ کی سنت پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اتنی گہرائی اور وسعت اس میں نظر آتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.میں اس کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں.نبی کریم ﷺ کی ایک سنت یہ ہے کہ کھانا اس وقت تک شروع نہ کیا جائے جب تک سامنے پانی نہ پڑا ہو.اب دیکھیں آپ کتنی بار یکی میں گئے ہیں.بعض دفعہ کھانا کھاتے ہوئے انسان کو اچھو آ جاتا ہے اور کئی آدمیوں کی موت محض اس وجہ سے واقع ہوگئی کہ انہوں نے کھانا شروع کر دیا تھا اور ان کے پاس پانی موجود نہ تھا.انہیں اچھو آیا اور پھر موت سے انہیں بچایا نہ جاسکا.صلى الله غرض رسول کریم ﷺ نے چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی ہمارے لئے ایک ایسا نمونہ قائم کیا ہے کہ اگر ہم اس کی اتباع کریں تو دنیوی فوائد بھی ہمیں حاصل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار بھی ہمیں ملے گا.کیونکہ یہاں یہ جو کہا ہے کہ تم رسول کی خیانت نہ کیا کرو اس کا انعام دوسری جگہ بیان کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میری محبت حاصل کرنا چاہتے ہو تو بی کریم ﷺ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کرو.آپ کی محبت کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ اور آپ کی سنت کی اتباع کرد بھی اور صرف اسی وقت تمہیں میری محبت مل سکتی ہے.غرض اگر ہم نے الا مین بننا ہے تو اتباع سنت نبوی اور اشاعت وا جراء سنت نبوی ضروری ہے.پس خدام الاحمدیہ سے بنیادی طور پر جماعت احمدیہ اور خلفائے احمدیت دو مطالبے کرتے ہیں ایک یہ کہ وہ حقیقی معنی میں القوی بنے کی کوشش کریں اور دوسرے یہ کہ بچے معنی میں الامین بننے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ توفیق عطا کرے کہ ہم اس کی نگاہ میں القوی اور الائین بن جائیں اور اگر ایسا ہو جائے تو پھر ہمیں کوئی خوف و خطرہ باقی نہیں رہتا.(بحوالہ روزنامه الفضل ۱۵ /اکتوبر ۱۹۶۹ء)

Page 121

دومشعل دوم فرموده ۱۹۶۸ء 118 سالانہ اجتماع مجلس اطفال الاحمدیہ مرکز یہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۶۸ء تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ پڑھیں.وَاصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي رب هب لي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةٌ طَيِّبَةً.اس کے بعد فرمایا:- عزیز بچو! امام وقت اور بچوں کا روحانی تعلق صلى الله السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ (الاحقاف: ۱۶) (آل عمران (۳۹) آپ بچے مجلس خدام الاحمدیہ کی تقاریر میں بھی شامل ہوتے ہیں.لیکن چونکہ اس وقت میرے مخاطب نسبتا بڑی عمر کے نوجوان ہوتے ہیں اس لئے ہو سکتا ہے کہ بعض باتیں وہاں ایسی کی جائیں جو آپ کی عمر اور سمجھ سے بالا ہوں.دوسرے آپ کو یہ شوق ہوتا ہے کہ امام جماعت آپ میں آکر براہ راست آپ سے بھی خطاب کریں.اور امام کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ نے بچوں کیلئے انتہائی شفقت اور پدرانہ روحانی محبت کو قائم کیا ہوتا ہے.ان وجوہات کی بناء پر یہاں آ کر بھی بعض باتیں آپ کے سامنے کہی جاتی ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ وہ باتیں آسان زبان میں کہی جائیں تا کہ آپ انہیں سمجھ سکیں.اس پدرانہ روحانی تعلق کی وجہ سے آپ کے متعلق خصوصاً اس لئے بہت فکر رہتی ہے کہ آپ صرف اپنے والدین کے یا امام جماعت کے بچے نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ صلى الله نبی اکرم ﷺ کے بچے ہیں اور ہمیں یہ فکر رہتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں کی جائے کہ وہ آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں.اللہ تعالیٰ نے از خود ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ اے ہمارے رب ایسے سامان پیدا کر دے.ہمیں اس بات کی توفیق دے اور ہمارے بچوں کو سمجھ اور طاقت دے کہ ان کے اندر نیکی کی صلى الله بنیاد قائم ہو جائے اور اس رنگ میں نیکی کی بنیاد قائم ہو کہ وہ ذریت طیبہ بن جائیں اور نبی اکرم ہی ہے اپنے ان بچوں پر فخر کریں.نیکی کی بنیاد بچپن ہی میں پڑ سکتی ہے.کیونکہ ساری عادتیں بچپن ہی میں پڑتی اور پختہ ہوتی ہیں.مثلاً ذریت طیبہ بنے کیلئے اور نیکی کی بنیاد کو قائم کرنے کیلئے جسم کی اور کپڑوں کی صفائی ہے.ہم نے دیکھا ہے کہ بعض والدین بہت چھوٹی عمر میں جب بچے کو ہوش ہی نہیں ہوتی اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ ان کا ناک صاف کر دیا جائے.نزلہ ہمارے ملک میں عام ہے.ناک جب بہتا ہے تو ماں باپ، بہن بھائی یا گھر کے دوسرے بڑے افراد جو پاس

Page 122

119 فرموده ۱۹۶۸ء د و مشعل راه جلد دوم ہوتے ہیں وہ ناک صاف نہیں کرتے اور اس کے نتیجہ میں اس بچے کو ایسی گندی عادت پڑ جاتی ہے کہ جب وہ ۲۵ ، ۴۰،۳۰ یا ۰ ۵ سال کا ہو جاتا ہے تب بھی اس کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ناک بہہ کر میرے ہونٹوں پر آ گیا ہے اور دیکھنے والوں کے دل متلا جاتے ہیں.دیکھ کر بڑی گھن پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے صفائی کو قائم رکھنے کیلئے یہ انتظام کیا ہے کہ جب ناک بہتا ہے تو ہونٹ کے اوپر کے حصہ میں گدگدی ہوتی ہے.اور فوراً انسان کا رومال او پر اٹھتا ہے اور وہ ناک کو صاف کر دیتا ہے.لیکن بچپن میں جب ماں باپ یا گھر کے دوسرے افراد چھوٹے بچوں کا ناک صاف نہیں کرتے تو آہستہ آہستہ یہ حس ماری جاتی ہے یا دب جاتی ہے.احساس باقی نہیں رہتا اور چونکہ احساس باقی نہیں رہتا اس لئے یہ گندگی بڑی عمر تک ساتھ چلتی ہے.پھر بڑی مشکل سے اس عادت کو اور اس بے حسی کو دور کیا جاتا ہے.جسم کی صفائی اہم ہے غرض بچپن کا زمانہ ہی بنیادوں کو قائم کرنے کا ہے اور بچپن ہی میں نیکی کی بنیاد قائم کی جاسکتی ہے.ہمیشہ آپ بچوں کو یہ وعظ اور نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ صاف رہا کرو.مناسب وقتوں پر نہانا ضرور چاہیے تاکہ جسم کی گندگی دور ہو جائے.جسم کے جو حصے ہر وقت ننگے رہتے ہیں.مثلاً چہرہ ہے، ہاتھ ہیں، پاؤں ہیں ان کو دن میں کم از کم پانچ بار وضو کرتے ہوئے اچھی طرح دھونا چاہیے.نبی اکرم ﷺ نے صفائی پر اس قدر زور دیا ہے کہ آپ نے فرمایا اپنے مخنوں کو جہنم کے عذاب سے بچاؤ.یہ نہ ہو کہ دھوتے وقت بے خیالی میں پاؤں کے کچھ حصے بغیر ڈھلے کے رہ جائیں اور اس طرح تم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے لو.منہ کو دھونا چاہیے ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرنا چاہیے.آنکھوں کو مل کر دھونا چاہیے تا کوئی گند نظر نہ آئے.اچھی طرح کلی کر کے دانتوں کو صاف کرنا چاہیے اور اگر ہو سکے تو ہر کھانے سے پہلے دانتوں اور منہ کو صاف کرنا چاہیے اس سے دانت بڑے مضبوط رہتے ہیں.اس میں جسمانی فائدہ بھی ہے اور معاشرہ میں بھی اس کا بڑا فائدہ ہے.آپ تو نبی اکرم ﷺ کے وہ بچے ہیں جنہوں نے ساری دنیا کو اپنے سینہ سے لگانا ہے.ہم نے پیار کے ساتھ ساری دنیا کو محمد رسول اللہ ہی اللہ کیلئے جیتنا ہے اور اس پیار کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کے قریب جائیں اور ان کو اپنے سینہ سے لگائیں.اگر کوئی عیسائی یا د ہر یہ ہم سے زیادہ صاف ہو تو وہ کہے گا یہ میرا دل جیتنے آئے ہیں لیکن انہوں نے منہ اور جسم کی بدبو سے میرے دماغ کو پریشان کر دیا ہے.پس اگر ہم صفائی کی عادت نہ ڈالیں تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.بظاہر یہ ایک چھوٹی سی چیز ہے اور دنیوی چیز ہے لیکن دنیا کی کوئی چھوٹی چیز بھی نہیں جس کا ہمارے مذہب نے یا نبی اکرم ﷺ نے حکم نہ دیا ہو.ہر چیز ہی اہم ہے اور ہر چیز ہی موثر ہے اور ہر چیز کا ایک نتیجہ نکلتا ہے جو اسلام کے حق میں اچھا ہوتا ہے.ذریت طیبہ بنے اور نیکی پر قائم رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ بنیاد مضبوط ہو جو مکان

Page 123

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۸ء 120 مضبوط بنیادوں پر کھڑے کئے جاتے ہیں ان کی دیواروں کو بارشوں، آندھیوں اور زلزلوں کے نتیجہ میں بعض دفعہ بلکا سا نقصان تو پہنچ جاتا ہے لیکن وہ اپنی بنیادوں پر قائم رہتے ہیں لیکن اگر اوپر کی دیوار میں بڑی مضبوط ہوں اور بنیاد کمزور ہو تو تھوڑی سی آفت ہی اس مکان کو گرا دے گی.کیونکہ جب بنیاد ہلے گی تو دیوار کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو وہ گر جائے گی.اسی طرح اگر ہم خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کی پوری تربیت کر لیں تو ٹھیک ہے لیکن اطفال کے دور میں سے گزر کر جب وہ ہمارے پاس پہنچیں اور ان کی بنیادیں مضبوط نہ ہوں تو بڑی دقت پیش آئے گی.پھر بنیادوں کوکھودنا پڑے گا.ان میں سیمنٹ بھرنا پڑے گا.( میں ظاہری مثال دے رہا ہوں ) اور بڑی کوشش کے نتیجہ میں ان کی حفاظت کی جاسکے گی.لیکن اگر بنیاد مضبوط ہو تو اوپر کی مرمتیں تو نسبتا کم خرچ اور سہولت کے ساتھ کی جاسکتی ہیں.غرض جہاں تک آپ کا تعلق ہے نیکی کی بنیاد آپ کی عمروں میں قائم ہو جانی چاہیے اور اس لئے قائم ہو جانی چاہیے کہ اسلام کے قائم کرنے اور محمد رسول اللہ ﷺ کے مبعوث کئے جانے کا یہ مقصد نہیں تھا کہ صرف ایک نسل کی اصلاح کی جائے.اصل مقصد تو یہ تھا قیامت تک ہر نسل جو پیدا ہو اس میں نیکی کی بنیادیں بڑی مضبوط ہوں اور نیکی کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو کر وہ اپنی زندگیوں کو اس رنگ میں گزار ہیں کہ وہ دنیا کیلئے ایک نمونہ بنیں.اس بنیادی اصول کو بھولنے کا نتیجہ ایک وقت کے بعد مسلمان اس بنیادی اصول کو بھول گیا نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ اثر مسلمانوں ہی کا تھا.لیکن اس بنیادی اصول کو بھولنے کے نتیجہ میں بعد کی نسلیں جب پیدا ہوئیں تو آہستہ آہستہ ان کی تربیت میں کمی واقع ہوتی گئی اور جوں جوں ان کی تربیت میں کمی ہوئی نیکی کی بنیادیں کمزور ہوتی گئیں اور جوں جوں نیکی کی بنیاد میں کمزور ہوتی گئیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اس قدر وارث نہ رہے کہ جس قدر ان کے باپ دادا تھے اور غیروں کو ان پر فوقیت حاصل ہوگئی.اس دنیا میں (اخروی زندگی میں ) کسی کو جنت کا نچلا حصہ ملے گا اور کسی کو اوپر کا حصہ ملے گا لیکن ہماری جنت اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے اور اس دنیا کی جنت کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ شرط لگائی ہے کہ دنیا بھی تبھی ملے گی جب تم اس دنیا میں میری جنت میں داخل ہو جاؤ گے.یہ شرط غیر مسلموں پر نہیں لگائی.غیر مسلموں کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بنایا ہے کہ اگر وہ دنیا کمانے کی صحیح تدبیر کریں گے تو انہیں دنیا مل جائے گی.لیکن آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا.وہاں انہیں جہنم میں جلنا پڑے گا.اس دنیا میں ان کی کوشش اور تدبیر کے مطابق انہیں دنیوی انعام ملتے رہیں گے اور مل رہے ہیں.لیکن مسلمان کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ شرط لگائی ہے کہ تمہیں دنیا صرف اس وقت ملے گی جب تم دینی اور روحانی لحاظ سے میری رضا کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ گے.جب آہستہ آہستہ بنیاد کمزور ہونی شروع ہوئی اور بہت ہی کمزور ہوگئی تو ہم مسلمانوں کو دنیا کی ذلتیں اٹھانی پڑیں.ان ذلتوں کو سوچ کر بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.دماغ بڑا پر ایشان

Page 124

121 فرموده ۱۹۶۸ء دو مشعل راه جلد دوم ہوتا ہے کہ وہ قوم جس سے اللہ تعالیٰ کے بے شمار وعدے تھے اگر وہ ان شرائط کو پورا کرتی جو اللہ تعالیٰ نے عائد کی تھیں اور ان ذمہ داریوں کو نبھاتی جو ان پر ڈالی گئی تھیں اور وہ کام کرتی جن کے کرنے کا ایسے حکم دیا گیا تھا تو ساری دنیا میں قابل عزت صرف یہی ایک قوم تھی.لیکن اس نے اپنے رب کے احکام کی پرواہ نہ کی اور اس کے ساتھ اپنے تعلق کو پختہ نہ رکھا.نتیجہ یہ ہوا کہ دین تو گیا ہی تھا دنیا بھی ساتھ ہی گئی کیونکہ مسلمان کیلئے یہ شرط تھی کہ اسے دنیا تبھی ملے گی جب وہ دینی اور روحانی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت میں داخل ہو جائے.ہمیں فکر ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ پھر غلبہ اسلام کے سامان پیدا کئے ہیں اور اس نے آپ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر مسلمان اسلام کی اس تعلیم پر جسے آپ نے بڑا روشن اور نمایاں کر کے اور دلائل اور آسمانی تائیدوں کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے مضبوطی پر قائم ہو جائیں تو انہیں دین بھی ملے گا اور دنیا بھی ملے گی اور یہ غلبہ اسلام کا ، یہ غلبہ تو حید باری کا، یہ غلبہ نبی اکرم ﷺ کی محبت کا دنیا میں اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ قیامت نہ آ جائے بشرطیکہ شرائط پوری ہوتی جائیں.احمدیوں کے لئے خوشخبری غرض یہ وعدہ دہرایا گیا ہے اور نئے سرے سے اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا کئے گئے ہیں.اس لئے ہمیں اپنی نسل کی بھی فکر ہے اور اس نسل کی بھی فکر ہے جس نے ہماری جگہ لینی ہے کیونکہ یہ دنیا تو فانی ہے.باپ مر جاتا ہے اور بیٹا اس کی جگہ لیتا ہے.باپ چاہے اللہ تعالیٰ کے فضل کا وارث ہو اور اللہ تعالی اس سے محبت کر رہا ہو.لیکن بیٹا اپنی نالائقیوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے محروم ہو جائے تو اسلام کا غلبہ وہاں اس نسل میں ختم ہو جاتا ہے.اس لئے ہمیں ہر وقت یہ فکر رہتا ہے کہ ہماری اگلی نسل ہر لحاظ سے پاک اور صاف ہو.جسمانی لحاظ سے بھی ، اخلاقی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی.یہاں بھی اب بڑی شکایتیں آنے لگ گئی ہیں.کیونکہ ہر سال بہت سے دوست باہر سے یہاں آجاتے ہیں چونکہ ان کے بچوں کی تربیت نہیں ہوتی.اس لئے وہ ہمارے ماحول کو بھی خراب کر دیتے ہیں.بچے اور گالیوں کی عادت دیہات میں گندی گالیاں دینے کی عادت عام ہے.ہر سیال یہاں پندرہ میں نئے گھرانے بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ آجاتے ہیں.ان کے بچوں کی تربیت اچھی نہیں ہوتی.انہیں گالیاں دینے کی عادت ہوتی ہے تو وہ ہمارے ماحول میں بھی گالیوں کا رواج ڈال دیتے ہیں.یہ آپ بچوں کا، کہ جو یہاں کے رہنے والے ہیں فرض ہے کہ جہاں بھی اس قسم کی بات دیکھیں وہ اس کی اصلاح کی کوشش کریں یا مجھے رپورٹ کریں.ایک چھوٹا سا بچہ بھی میرے پاس آکر کہہ سکتا ہے کہ فلاں فلاں بچے غیر تربیت یافتہ ہیں.ان کی اصلاح کا انتظام کریں.آپ مکہ

Page 125

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۸ء 122 دکھا کے اصلاح کی کوشش نہ کریں بلکہ پیار سے اصلاح کرنے کی کوشش کریں اور پیار میں جتنی طاقت ہے وہ مادی ذرائع میں نہیں.نہ سکے میں ہے، نہ چھپڑ میں، نہ لاٹھی میں، نہ بندوق میں اور نہ ایٹم بم میں کسی میں بھی وہ طاقت نہیں.اسلام کی طاقت میں یورپ کے دورہ پر گیا تو وہاں کے لوگوں کے سامنے میں نے یہ بات رکھی.دینی لحاظ سے وہ بھی بچے ہیں ناں.آپ سے بھی کم عمر بچے.دین ان کی عقلوں میں بمشکل آتا ہے.میں یہ بات ان کے سامنے بار بار رکھتا تھا کہ دلوں کو بدلنا مذ ہب کا کام ہے اگر ہم ساری دنیا کے ایٹم بم لا کر بھی کسی ایک دل میں نیک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں تو ایسا نہیں کر سکتے.ایٹم بم لاکھوں کروڑوں آدمیوں کی جان تو لے سکتے ہیں لیکن ایک دل میں نیک تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے.لیکن اسلام اتنا ز بر دست اور طاقتور مذہب ہے کہ اس نے کروڑوں کے دلوں میں تبدیلیاں پیدا کر دیں.ایسی نیک تبدیلیاں کہ وہ دل جو سیاہ تھے اللہ تعالیٰ کی ذات تو خیر بہت ہی پاک ہے.انسان کی نظر بھی جب ان پر پڑتی تھی تو گھن آنے لگی تھی اور طبیعت متلا جاتی تھی لیکن اب وہی دل جن کو اسلام نے بدلا ہے اتنے حسین ہو گئے ہیں کہ الفاظ ان کے حسن کو بیان نہیں کر سکتے.وہ سچ بولنے والے ہیں.ہمدرد اور لوگوں کی خدمت کرنے والے ہیں.لوگوں کو آرام پہنچانے والے ہیں میٹھی زبان رکھنے والے ہیں.اپنے نیک نمونہ سے دلوں کو کھینچنے والے ہیں.یہ لوگ مخلوق کے ایک حصہ کو بھینچ کر محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں لے آئے ہیں اور کہا ہے کہ یہ ہے تمہارا نجات دہندہ.پہلے مسلمانوں کی نسل تو چند صدیوں بعد کمزور ہوگئی تھی لیکن ہماری نسل کمزور نہیں ہونی چاہیے ہم سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ پھر اسلام کو اپنے فضل اور رحم سے غالب کرے گا اور اگر ہم اپنی نسلوں کی صحیح تربیت کرتے چلے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے انعامات ہم پر قیامت تک بارش کے قطروں کی طرح برستے رہیں گے.اب ہر بچہ اگر اس وقت سوچے تو اسے سمجھ آجائے گا کہ جب تیز بارش ہورہی ہو تو اس کے قطرے گنے نہیں جا سکتے.لیکن ہو سکتا ہے کہ انسان کوئی ایسا آلہ ایجاد کر دے کہ وہ بارش کے قطرے گن اور معلوم کرلے کہ ایک منٹ میں ایک فٹ جگہ میں اتنے سو یا اتنے ہزار قطرے پڑ رہے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اس قد را ور اس تعداد میں نازل ہو رہی ہیں کہ دنیا کا کوئی ایسا آلہ نہیں بنایا جا سکتا جو خدا تعالیٰ کے فضلوں کی گنتی کر سکے.اللہ تعالیٰ کے فضل بے شمار ہیں.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض زمینیں بنجر ہوتی ہیں اور بعض علاقے ایسے ہوتے ہیں کہ وہاں بارش نہیں ہوتی.مثلاً صحرا ہیں کہ سالہا سال گزر جاتے ہیں وہاں بارش نہیں ہوتی.نہ وہاں بوٹیاں اگتی ہیں نہ گھاس.لیکن بعض علاقے ایسے ہوتے ہیں جو ہر وقت سرسبز رہتے ہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ ہم روحانی طور پر وہ علاقے ہیں کہ جہاں ہر وقت سرسبزی اور شادابی رہتی ہے.خوبصورتی رہتی ہے.کہیں اعمال صالحہ

Page 126

123 فرموده ۱۹۶۸ء دو مشعل راه جلد دوم دد کے درخت اگے ہوئے ہیں، کہیں اقوال طیبہ کے درخت اگے ہوئے ہیں.کچی اور میٹھی باتیں ، دل موہ لینے والی باتیں ، خدا تعالیٰ کی حمد وثنا کے بول یہ ساری باتیں جو اسلام نے سکھائی ہیں ان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انعام دیتا ہے.ان انعاموں کی مثال ہم درختوں پھولوں اور دوسری چیزوں سے دے سکتے ہیں.کوئی ہماری کسی حس کو آرام پہنچا رہا ہے اور کوئی کسی حس کو آرام پہنچارہا ہے.دنیا میں مثلاً آم ہیں ان کے مقابلہ میں روحانی طور پر ایک درخت ہے جو ہمیں روحانی غذا مہیا کر رہا ہے.یا مثلا گلاب کا پھول ہے جو آنکھوں کو بھی اچھا لگتا ہے اور اس کی خوشبو بھی بڑی اچھی لگتی ہے.اسی طرح بعض اعمال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ روحانی طور پر گلاب کے پھول پیدا کر دیتا ہے اور جب ہم اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کو دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھیں بھی خوش ہوتی ہیں.ہمارا ناک بھی بڑا خوش ہوتا ہے کہ نہایت اچھی اور بھینی بھینی خوشبو آ رہی ہے.غرض ہم سرسبز علاقے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں کہا ہے کہ اگر تم اپنی نسل میں نیکی کی بنیاد کو قائم کر کے اگلی نسل کو ذریت طیبہ بنانے کی کوشش نہیں کرو گے اس حد تک جتنا تمہارے ہاتھ میں ہے.جتنی تمہارے لئے ممکن ہے.تو پھر میں یہ سر سبز علاقے بنجر کر دوں گا.پھر یہ عمتیں یہاں نازل نہیں ہوں گی.پس ہمیں ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں سے ہمیں یہ ایک سرسبز علاقہ ملا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے گناہوں کے نتیجہ میں یہ سرسبز علاقہ بنجر بن جائے.حضرت آدم اور حوا نے گناہ کیا تھا اور اس کی وجہ سے عارضی طور پر ان سے بھی سرسبز علاقے چھین لئے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ پھر نیکی کرو تو سر سبز علاقہ تمہیں ملے گا.اللہ تعالیٰ تمثیلی زبان میں باتیں کیا کرتا ہے یہ بھی ایک تمثیلی زبان ہے.میں بھی آپ سے تمثیلی زبان میں باتیں کر رہا ہوں یعنی میں ایک مثال دے رہا ہوں.ویسے تو روحانی انعام الفاظ میں نہیں بتائے جاسکتے.خصوصاً بچوں کیلئے ان کا سمجھنا مشکل ہے.ممکن ہے آپ میں سے بعض ایسے بچے ہوں کہ جن کے والدین کے پاس عمدہ باغ ہوں ان میں بڑا اچھا پھل لگتا ہو.اللہ تعالیٰ نے پانی با افراط دیا ہو.زمین اچھی دی ہو.فراست دی ہو.موقع پر اور وقت پر پانی دیا جاتا ہو.کھاد دی جاتی ہو.پودے سرسبز اور پھلوں سے بھرے ہوئے ہوں مگر یہ دنیوی باغ تو ایک وقت میں پھل دیتے ہیں لیکن جو روحانی باغ میں وہ سدا بہار ہیں ان میں سے جن درختوں کو آم لگتے ہیں ان کو بارہ مہینے ہی ہم لگتے ہیں ان میں انگور کی بیلوں کو بارہ مہینے ہی انگور لگتا ہے.آپ جن کے والدین کے پاس باغات ہیں کبھی یہ نہیں سوچیں گے کہ اپنے باغ کو کا ٹیں آپ سمجھیں گے کہ یہ خدا کی نعمت ہے ہم اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.مزیدار اور خوشبو دارسیب اور لذیذ آم ہمیں کھانے کو ملتے ہیں.اسی طرح ہم دوسرے پھل ان سے حاصل کرتے ہیں ہم انہیں کیوں کاٹیں.غرض جو عارضی چیزیں ہیں جو وقتی لذتیں ہیں ان کو ضائع کرنے کیلئے ایک بچہ بھی کم عقل ہونے کے باوجود تیار نہیں ہوگا.بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض چھوٹے چھوٹے بچے (چھ سات برس کی عمر کے بچے) ان کی کسی چیز کوغیر ہاتھ لگانے لگے اور وہ سمجھیں کہ وہ چیز ٹوٹ نہ جائے تو وہ اسے کھانے کو پڑتے ہیں اور کہتے ہیں پرے ہٹ کہیں میری یہ چیز نہ تو ڑ دینا.تو دیکھو دنیا کی

Page 127

دومشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۸ء 124 چیزوں کیلئے تو اتنی غیرت اور جوش ہوتا ہے لیکن جو روحانی نعمتیں اللہ تعالیٰ نے دی ہیں ان کیلئے اتنا جوش بھی نہیں پایا جاتا کہ ہم نے انہیں ضائع نہیں ہونے دینا.پس یہ عہد ہونا چاہیے.یہ پختہ ارادہ ہونا چاہیے.یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں انہیں ضائع نہیں ہونے دینا.خدا تعالیٰ کہتا ہے پاکیزہ جسم سے رہو جس کا جسم پاکیزہ نہیں ہوگا وہ ہمارے ماحول میں نہیں پنپ سکے گا.ہم اسے اپنے باغ میں داخل نہیں ہونے دیں گے جن کے خیالات پاکیزہ نہیں ہوں گے ان کو بھی ہم اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے باغ میں آکر اس کی خرابی کا باعث بنیں.جس طرح دیمک مادی درختوں کو کھا جاتی ہے اسی طرح یہ دیمک ہے جو روحانی درختوں کو کھا جاتی ہے.اس لئے ہمیں بھی فکر ہے اور آپ کو بھی یہ فکر ہونی چاہیے.ہم یہ جانتے ہیں کہ آپ حقیقتا محمد رسول صلى الله اللہ عیہ کے بچے ہیں اور آپ کے دل میں بھی ہمیشہ یہ احساس زندہ اور بیدار رہنا چاہیے کہ آپ نبی اکرم ہی اللہ کے بچے ہیں اور آپ کی نسل میں بھی اور آپ کی زندگی کے اس حصہ میں بھی نیکی کی بنیادیں قائم ہونی چاہئیں اور آپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ آپ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذریت طیبہ بن جائیں.ایک ایسی پاک اور صاف نسل بن صلى الله و جائیں جس پر آنحضرت ﷺ فخر کریں اور ساری دنیا (ہم سب نے قیامت کے دن اکٹھے ہو جانا ہے ) سے کہیں تم دیکھتے ہو میری اس امت کو.دوسرے بچے اپنی نا مجھی اور جہالت کی وجہ سے ہر قسم کے گند میں ملوث تھے.ان کے جسم اور کپڑے غلیظ تھے.ان کے اخلاق ، ان کے اقوال، ان کی باتوں اور ان کے کاموں میں گندگی نظر آرہی تھی لیکن اس وقت بھی میرے یہ بچے اتنے صاف ستھرے تھے کہ تم اس کا تصور نہیں کر سکتے.آپ غیر قوموں کو مخاطب کر کے کہیں گے کہ دیکھو میری برکت سے اور میرے فیوض سے اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں جاری کی تھیں ان کے نتیجہ میں اس عمر میں بھی ان بچوں کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ سمجھ دی تھی کہ کوئی گندگی ان کی زندگیوں میں داخل نہ ہواور وہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی نظر میں پاک اور ستھرے بچے رہیں اور اس میں وہ کامیاب ہوئے اور دیکھو میری امت کو اس کے کتنے انعامات مل رہے ہیں.پہلی امتیں ان انعامات کے قریب بھی نہیں آئیں.ان کے انعامات امت محمدیہ کے انعامات کے مقابلہ میں اتنے تھوڑے ہیں کہ ان کا ان سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا.غرض ہمیشہ یہ سوچتے رہا کرو ہمیشہ یہ دعائیں کرتے رہا کرو اور ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہا کرو کہ اللہ تعالی آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کے ایسے بچے بنائے کہ آپ ﷺ آپ بچوں پر فخر کریں اور وہ نیکی کی بنیادوں کو آپ میں قائم کر کے آپ کو ذریت طیبہ بنادے اور آپ دین اور دنیا کی نعمتوں کے وارث ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رحمت کا سایہ آپ پر رکھے.اللھم آمین.اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی اور پر سوز دعا فرمائی.روزنامه الفضل ربوه ۱۳ ، نومبر ۱۹۶۹ء)

Page 128

125 فرموده ۱۹۶۸ء د و مشعل راه جلد دوم ۲۰ اکتوبر ۱۹۶۸ کو بعد دو پہر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے اختتامی اجلاس میں خدام سے ایک نہایت روح پرور اور پر ولولہ خطاب فرمایا جس کا ملخص پیش کیا جاتا ہے.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ علیہ نے اپنے گزشتہ خطاب کے تسلسل میں جو اجتماع کے افتتاح کے موقعہ پر آپ نے فرمایا تھا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ، اس کے رسول کی اور باہم ایک دوسرے کی امانتوں کو پورے طور پر ادا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سی بشارتیں دی ہیں.اللہ امانت ادا کرنے والوں کو بشری للمومنین اور بشری للمحسنین کے الفاظ میں ، رسول کی امانت ادا کرنے والوں کوبشرا لمحسنین اور باہمی امانت ادا کرنے والوں کو لتبشر به المتقین کے الفاظ میں بشارت دی گئی اہے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان امانتوں کو بجالانے کا طریق کیا اختیار کیا جائے؟ اس کا جوا.بشر المخبتين کے الفاظ میں ہے کہ عاجزی کی راہوں کو اختیار کر ک نیز فرمایا کہ حکم کی بہترین اطاعت کر کے.بشارتوں کے وعدے اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اگر چہاللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے وعدے حق ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میری بشارتوں کے وارث بننے کیلئے تمہیں میری راہ میں تکالیف اور مصائب کو بھی بشاشت سے قبول کرنا ہوگا.جیسے فرمایا: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقرة: ۱۵۶ - ۱۵۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی قرآنی تعلیم کے مطابق اور حضرت نبی کریم ﷺ کی سنت کی اتباع میں ہمیں خدائی بشارتوں کے وعدے بھی دیئے ہیں اور ابتلاؤں اور مصائب کی خبریں بھی دی ہیں.اس ضمن میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب سے چند اقتباسات پیش فرمائے.جن میں یہ ذکر ہے کہ تم خوش ہوا اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تم کو تعلیم دیں گے.پس ماریں کھاؤ اور صبر کرو.اس کے بعد حضور نے ان خدائی بشارتوں اور وعدوں کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ سے کئے تھے اور کفار کے ان لرزہ خیز مظالم کا تذکرہ فرمایا جنہیں آنحضرت مایا اللہ عليم

Page 129

دومشعل حل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۸ء 126 آپ کے صحابہ نے خدا کی راہ میں بشاشت قلبی کے ساتھ قبول فرمایا اور یہ کہ ان مصائب اور مظالم کے وقت صلى الله تہ اپنے صحابہ کو صبر کی تلقین فرماتے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدائی وعدے پورے ہوئے چنانچہ اسلام الب آگیا اور معاندین کے منصوبے خاک میں مل گئے.مومنوں پر ابتلاء کیوں آتے ہیں اپنا روح پرور خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ جب انسان اپنے رب سے دور ہو جاتا ہے اور اس کی بدبختی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے تو خدا تعالیٰ اپنے رسولوں کو بھیجتا ہے.اس وقت دنیا کی سب طاقتیں ان کے خلاف صف آراء ہو جاتی ہیں.لیکن رسول کی حسین اور سریلی آواز دیتی نہیں بلکہ ساری دنیا میں پھیلنی شروع ہو جاتی ہے.تب مخالفین کا جوش بھی بڑھ جاتا ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ مومنوں کو ابتلاء میں ڈالتا ہے.لیکن انہیں ہلاک کرنے کیلئے نہیں بلکہ دنیا پر یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ انہیں میرے ساتھ پختہ تعلق حاصل ہے.یہ ان ابتلاؤں میں مجھے چھوڑ کر نہیں جائیں گے.نیز یہ کہ میرے انعام وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جو میری خاطر دکھ قبول کرتے ہیں.اس کے بعد مومنوں کیلئے وعدہ پورا ہونے کا وقت آتا ہے تو ان کے چہرے وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ صَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ کے مصداق ہوتے ہیں.یعنی ان کے چہرے اطمینان کامرانی اور اللہ کی عظمت کے جلووں سے چمکنے والے ہوتے ہیں جن پر مسکراہٹ کھیل رہی ہوتی ہے اور وہ رحمت الہی کے سایہ میں خوش اور شاد ہوتے ہیں.صبر کی تلقین صلى الله علوم اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ دنیا اس وقت بھی اسلام پر بڑی طاقت سے حملہ آور ہے.آنحضرت علی کے زمانہ میں تلخیاں اور رنگ کی تھیں.اب اور رنگ کی ہیں.اب دنیا دجل کے ہتھیاروں کے ساتھ اسلام پر حملہ آور ہے.ہزاروں میل دور بیٹھے ایذاء پہنچانے والے آنحضرت علی پر ایسے ایسے الزام لگاتے ہیں جن سے ہمارے دل چھلنی ہو جاتے ہیں اور آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں.لیکن ہمیں گالی کے مقابل گالی کا حکم نہیں.تمسخر کے مقابل تمسخر کا حکم نہیں.بلکہ ہر ایذاء کے مقابل صبر کی تعلیم ہے.گالیاں سن کر دعائیں دینے کا حکم ہے اور دکھ پہنچانے والوں کو آرام دینے کی تعلیم ہے.حضور نے خدام سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم اس مقام پر قائم رہوتا خدا تعالیٰ اپنی بشارتوں کے وعدے پورے کرے.فرمایا کہ میں تو دیکھ رہا ہوں کہ وہ وقت بڑا قریب ہے جب اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے گا جب ہر دل میں نبی اکرم ﷺ کی محبت قائم ہو جائے گی.جب تمام دہریہ اور بت پرست اور بدھ مذہب اپنی بدیوں اور بت پرستیوں اور شرک کو چھوڑ کر خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے لگیں گے.فرمایا کہ کامیابی بہر حال اسلام کو ہونی ہے.غلبہ بہر حال اسلام کا ہے سارے معاند ناکام رہیں گے اور یہ غلبہ خدائی وعدہ کے مطابق جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہوگا.پھر وہ ہمارے بھائی جو ہم سے ناراض ہیں ہم سے گلے مل صلى الله

Page 130

127 فرموده ۱۹۶۸ء دو مشعل راه جلد دوم جائیں گے اس وقت ہم بھی خوش ہوں گے اور وہ بھی خوش ہوں گے.فرمایا کہ دنیا جاہل اور کم علم ہے.ہم اس سے ناراض نہیں کیونکہ ہم ظالم کے دشمن نہیں بلکہ اس کے ظلم کے دشمن ہیں.آخر میں حضور نے خدام سے فرمایا کہ میرا سلام اللہ آپ تک پہنچائے گا.کیونکہ زبانی سلام پہنچنے کا تو کوئی فائدہ نہیں.اللہ تعالیٰ اگر میری سلامتی کی دعا کو آپ کے حق میں قبول کرے اور آپ کو سلامتی سے یہاں رکھے، سلامتی سے گھروں کو واپس لے جائے اور وہاں بھی سلامتی سے رکھے تو اس میں فائدہ ہے.میری دعا ہے اور یہی میری دعا ہے کہ اللہ میرے سلام کو آپ تک پہنچائے اور آپ کے ساتھ رکھے، میری دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں.اس کے بعد حضور نے ایک پر سوز اجتماعی دعا کرائی جس میں مقام اجتماع میں حاضر جملہ خدام، اطفال و زائرین شامل ہوئے.دعا میں سوز و گداز اور در دو الحاح کا یہ عالم تھا کہ رقت قلب سے ہر آنکھ اشکبار اور پرنم تھی.دعا کے بعد حضور تقریباً پانچ کے بعد دو پہر مقام اجتماع سے تشریف لے گئے اور جملہ خدام کو واپس جانے کی اجازت مرحمت فرمائی.( بحواله روزنامه الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۸ء)

Page 131

دومشعل دوم فرموده ۱۹۶۹ء 128 خطبه جمعه فرموده ۴ را پریل ۱۹۶۹ء بمقام مسجد مبارک ربوه سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- خدام الاحمدیہ کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آئندہ اشاعت اسلام کا بڑا بوجھ آپ کے کندھوں پر پڑنے والا ہے کوئی ایک طفل یا کوئی ایک نو جوان بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جو احمدیت کے مقصد سے غافل رہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی سے غافل رہے جو ہمارے رب نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالی ہے.گو ہر عمر میں انسان کے ساتھ موت لگی ہوئی ہے لیکن عام حالات میں ایک ساٹھ سالہ ادھیڑ عمر کے انسان کی طبعی عمر اس نو جو ان کی عمر سے کم ہوتی ہے جو ابھی سولہ یا سترہ سال کا ہے.آپ اپنے روحانی بنک یا خزانہ (اگر یہ لفظ اس جگہ کے لئے استعمال ہو جہاں خزانہ رکھا جاتا ہے ) کو اگر آپ چاہیں تو بہت زیادہ بھر سکتے ہیں لمبی عمر ہے.جس شخص نے کئی فصلیں کاٹنی ہوں اس کے گھر میں دانے بہت زیادہ ہوں گے اگر وہ دانے جمع کرے اور اگر دانے بیچے تو مال زیادہ ہوگا.لیکن جس شخص نے ایک ہی فصل کاٹنی ہو یا دو فصلیں کاٹنی ہوں تو اگر اس کا پیٹ بھر جائے تو وہ راضی ہو جاتا ہے.لیکن اس دنیا میں تو پیٹ بھر جاتا ہے مگر اخروی زندگی کی جو نعماء ہیں ان کے متعلق کوئی شخص یہ سوچ نہیں سکتا کہ بے شک وہ نعماء ہمیں تھوڑی مقدار میں مل جائیں زیادہ کے ہم امید وار نہیں.ان نعمتوں کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تو فیق کے مطابق کوشش ہونی چاہئے.پس خدام الاحمدیہ کی تنظیم اپنے طور پر بحیثیت خدام الاحمدیہ اس بات کا جائزہ لے اور نگرانی کرے کہ کوئی خادم اور طفل ایسا نہ رہے جو قرآن کریم نہ جانتا ہو یا مزید علم حاصل کرنے کی کوشش نہ کر رہا ہو.لجنہ اماءاللہ کا فرض اسی طرح لجنہ اماءاللہ کا یہ فرض ہے.کہ وہ اس بات کی نگرانی کرے کہ ہر جگہ لجنہ اماءاللہ کی مہرات اور ناصرات الاحمدیہ ان لوگوں کی نگرانی میں جن کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے قرآن کریم پڑھ رہی ہیں یا نہیں.میں لجنہ اماءاللہ پر یہ ذمہ داری عائد نہیں کر رہا کہ وہ سب کو قرآن کریم پڑھائیں.کیونکہ اس سے تو باہم تصادم ہو جائے گا.کیونکہ میں نے کہا ہے کہ ہر ایک موصی دو اور افراد کو قرآن کریم پڑھائے اگر مثلاً اس کی بیوی قرآن کریم پڑھنا نہیں جانتی تو پہلے اپنی بیوی کو ہی پڑھائے گا.یا میں نے یہ ہدایت دی ہے کہ ہر رکن انصار اللہ اس ماحول میں جس ماحول کا وہ رائی ہے قرآن کریم کی تعلیم کو جاری کرے.لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ جن پر قرآن کریم پڑھانے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے (جہاں تک مستورات اور ناصرات کا تعلق

Page 132

129 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم ہے ) وہ اپنی ذمہ داری کو نباہ رہے ہیں یا نہیں.اگر وہ اپنی ذمہ داری کو نباہ نہیں رہے تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اس ذمہ داری کو نبا ہیں اور مستورات اور ناصرات کو پڑھانا شروع کر دیں اور اس کی اطلاع مرکز میں ہونی چاہئے.کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ہم پوری طاقت کے ساتھ پوری ہمت کے ساتھ اور انتہائی کوشش کے ساتھ تعلیم القرآن کے اس دوسرے دور میں داخل ہوں اور خدا کرے کہ کامیابی کے ساتھ (جہاں تک موجودہ احمدیوں کا تعلق ہے ) اس سے باہر نکلیں.ویسے یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ نئے بچے، نئے افراد بنتی جماعتیں اور نئی قو میں اسلام میں داخل ہوں گی اور اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا.تو ساری دنیا کا معلم بننے کی تربیت آپ ہی کو حاصل کرنی چاہئے.خدا جانے آپ میں سے کس کو یہ توفیق ملے کہ وہ ساری دنیا میں تعلیم القرآن کی کلاسیں کھولنے کا کام کرے لیکن اگر ہم آج تیاری نہ کریں تو اس وقت اس ذمہ داری کو جو اس وقت کی ذمہ داری ہوگی ہم نباہ نہیں سکیں گے.غرض موصیوں کی تنظیم بھی اور انصار اللہ کی تنظیم بھی اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم بھی اور لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم بھی اس طرف پورے اخلاص اور جوش اور ہمت کے ساتھ متوجہ ہو جائیں اور کوشش کریں کہ جلد سے جلد ہم اپنے ابتدائی کام کو پورا کرلیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے تفسیر القرآن تو نہ ختم ہونے والا کام ہے وہ تو جاری رہے گا.اس سلسلہ میں میں سمجھتا ہوں کہ جن دوستوں کے پاس تفسیر صغیر نہیں ہے انہیں تفسیر صغیر خرید لینی چاہئے کیونکہ وہ ترجمہ بھی ہے اور مختصر تفسیری نوٹ بھی اس میں ہیں.عام سمجھ کا آدمی بھی بہت سی جگہوں میں صحیح حل تلاش کر لیتا ہے جو اس کے بغیر اس کے لئے مبہم رہیں.جماعتی تنظیم کا یہ کام ہے کہ وہ تعلیم القرآن کے کام کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے نیز وہ یہ دیکھے کہ انصار الله ، موصیان ، خدام، لجنہ اور ناصرات کے سپر د جو کام کیا گیا ہے وہ ادا کر رہے ہیں یا نہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.آخری تین چار منٹ سے ضعف کی وجہ سے مجھے چکر آ رہے ہیں کھڑا ہونا بھی مشکل معلوم ہوتا ہے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور صحت عطا فرمائے.(روز نامه الفضل ربوه ۱۰ را پریل ۱۹۶۹ء)

Page 133

دومشعل دوم فرموده ۱۹۶۹ء 130 اار جولائی ۱۹۶۹ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں مجلس خدام الاحمد یہ مرکز یہ کے زیرا ہتمام جاری ہونے والی سولہویں تربیتی کلاس کا افتتاح کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے کلاس میں شامل ہونے والے خدام کو مخاطب کرتے ہوئے ساری جماعت کو بعض قیمتی نصائح سے نوازا.حضور کی اس تقریر کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.( غیر مطبوعہ ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مجلس خدام الاحمدیہ کی سولہویں تربیتی کلاس کا آج اس وقت میں افتتاح کر رہا ہوں.گذشتہ سالوں میں خدام الاحمدیہ اپنی اس کلاس کی طرف پوری توجہ نہیں دیتے رہے.اس لئے میں نے اس دفعہ مرکزیہ سے یہ کہا تھا کہ اگر سو مجالس کے نمائندے کلاس میں شامل نہ ہوئے تو اس کا افتتاح نہیں کروں گا.مجلس مرکز یہ نے دعاؤں کے ساتھ کوشش کی اور اللہ تعالیٰ نے فضل کیا کہ آج بڑی خاصی تعداد میں خدام اس کلاس میں شامل ہورہے ہیں اور خاصی زیادہ مجالس کے خدام اس میں شامل ہورہے ہیں.جو نقشہ اس وقت میرے سامنے رکھا گیا ہے.اس کے مطابق ۱۳۴۵اھش ۱۹۶۶ ء میں اس کلاس میں صرف ۴۱ مجالس نے حصہ لیا تھا.۱۳۴۶ ھش ۱۹۶۷ء میں صرف ۳۰ مجالس نے اس میں حصہ لیا تھا اور ۱۳۴۷ چش ۱۹۶۸ ء میں، ۷ مجالس نے حصہ لیا تھا اور امسال یعنی ۱۳۴۸ ھش ۱۹۶۹ء میں ۱۳۱ مجالس اس کلاس میں شامل ہو رہی ہیں.یعنی پچھلے سال سے تقریبا دگنی تعداد میں ہیں.یہی حال شامل ہونے والے خدام کی تعداد کا ہے.ربوہ سے صرف پانچ خدام کو اس میں شمولیت کی اجازت دی گئی ہے.جو خدام باہر کی مجالس سے آئے ہیں.ان میں سے بعض کو ابھی یہ پتہ نہیں کہ مسجد میں باتیں نہیں کرنی چاہئیں ان کی آواز کی بھنبھناہٹ کانوں کو بُری لگ رہی تھی اور دل کو تکلیف دے رہی تھی لیکن ایک پہلو خوشی کا بھی تھا.کہ کثرت سے خدام اس کلاس میں شامل ہوئے ہیں.گو ابھی وہ تربیت چاہتے ہیں اور یہ ہمارا کام ہے کہ ان کی تربیت کریں اور ہم امید رکھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں تربیت حاصل کرنے کی توفیق دے.عزیز بچو! آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں بہت سے لوگ خادم رکھا کرتے ہیں اور جو بڑے امیر لوگ ہیں ان کے بہت سے خادم ہوتے ہیں.اور وہ امیر ہر ایک خادم سے پوری خدمت لے رہے ہوتے ہیں.مثلاً جو خادم اپنے آقا کو کھانا کھلانے پر مامور ہے.اس سے یہ امید رکھی جاتی ہے کہ وہ وقت پر کھانا کھلائے گا.برتن پوری طرح صاف کرے گا.ان کی رکابی یا گلاس پر میل کا ذرا سا نشان بھی نہیں ہوگا.وغیرہ.غرض بہت سے کام زندگی سے تعلق رکھنے والے اس چھوٹے سے معاملہ کے متعلق اس کے سپرد ہوتے ہیں.مثلاً اس نے اپنے مالک کو کھانا کھلا نا ہوتا ہے.مالک پوری تاکید کے ساتھ اسے ہدایتیں دیتا ہے اور اس سے یہ امید رکھتا ہے کہ وہ پوری توجہ محنت

Page 134

131 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم اور پیار کے ساتھ کام کرے گا.پھر وہ تنخواہ بھی اسے دوسروں سے زیادہ دیتا ہے.اس کے کپڑوں کا بھی وہ خیال رکھتا ہے.اس کے بچوں کے کھانے اور پڑھائی کا بھی وہ خیال رکھتا ہے.اسی طرح اس کے جو دوسرے خادم ہیں ان - ن سے بھی وہ کام لیتا ہے.لیکن ان لوگوں کی نسبت جو اس سے کم دولت مند ہیں.اپنے خادموں سے زیادہ پیار کرتا اور ان کا زیادہ خیال رکھتا ہے.اب دیکھو! آپ لوگ اللہ اور اس کے دین کے خادم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر اور مجھ پر کہ میں بھی اس کا ایک ادنیٰ خادم ہوں.بہت سی ذمہ داریاں ڈالی ہیں.جو دنیا دار شخص ہے وہ تو اپنے خادم سے ظاہری پاکیزگی اور صفائی کی توقع رکھتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ اپنے خدام سے نہ صرف ظاہری بلکہ باطنی صفائی اور پاکیزگی اور طہارت کی امید رکھتا ہے اور جو اللہ کا خادم ہو وہ اس کی ساری مخلوق کا خادم ہے اور بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں جو اس خدمت کی ہم پر ڈالی گئی ہیں.مثلاً ہم صرف انسان کے خادم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے خادم ہونے کی حیثیت سے ہم ان کے بھی خادم ہیں جو انسان نہیں بلکہ جو جاندار بھی نہیں.مثلاً ہمیں خدا نے کہا کہ اگر تم میرے خادم بننا چاہتے ہو تو تمہیں درختوں کے خادم بننا پڑے گا اور اسی نے حکم دیا ہے کہ پھلدار درختوں کو کائنا نہیں.ان کی ٹہنیوں کو توڑنا نہیں.ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا.پھر سب درختوں کے اندر نشو ونما بڑھنے ، پھلنے اور پھولنے کی اور بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کی جو طاقت اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے.اس طاقت کے نشو و نما میں ان کا ہاتھ بٹانا اور ان کی خدمت کرنا ہے.اسلام میں اس بات کی بڑی تاکید کی گئی ہے.ایک دفعہ ایک جنگ کے موقعہ پر مسلمانوں کی جانیں بچانے کے لئے رسول کریم ﷺ کو گنتی کے چند درخت کاٹنے پڑے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کو اتنی اہمیت دی کہ قرآن کریم میں یہ ذکر کیا کہ وہ درخت میرے حکم سے کاٹے گئے تھے تا دنیا اور دنیوی نگا ہیں محمد ﷺ پر یہ اعتراض نہ کریں کہ خدا کے حکم کے بغیر اور خدا کی مرضی کے خلاف آپ نے ان درختوں کو کاٹ دیا.پس ہمیں اللہ تعالیٰ نے درختوں کا بھی جو غیر جاندار ہیں خادم بنایا ہے.پھر سڑکیں ہیں آپ کو اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے ان سڑکوں کا بھی خادم بنایا ہے.اور کہا ہے کہ اگر تم میرے خادم بنا چاہتے ہو تو تمہیں سڑکوں کی خدمت بھی کرنی پڑے گی.نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ راستوں پر سے گندگی اور تکلیف پہنچانے والی چیزوں کو پرے ہٹادینا بھی ایمان کا ایک جزو ہے اور جوایسا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالی کی رضا کو حاصل کر لیتا ہے، کیونکہ وہ اس کے حکم سے اور اس کی منشاء کے مطابق اور اس کو خوش کرنے کے لئے سڑک کی خدمت میں لگ گیا.ماحول کی صفائی اب آپ اپنے ماحول میں دیکھیں کہ کتنے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو جانتے سمجھتے اور پھر اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور اس گندے ماحول میں ہمارے بہت سے احمدی خدام بھی ایسے ہوں گے جن کو یہ خیال نہیں آتا ہو گا کہ سڑک پر کوئی تکلیف دہ چیز نہ پھینکیں.اوّل تو سڑک پر کھانا پسندیدہ نہیں.لیکن اگر کہیں

Page 135

فرموده ۱۹۶۹ء 132 د دمشعل را قل راه جلد دوم ضرورت پڑ جائے ( بعض دفعہ مسافروں کو سڑک کے کنارے پر کھانے کی جائز ضرورت پڑ جاتی ہے ).تو وہ تربوز کھائیں گے تو اس کے چھلکے وہیں سڑک پر پھینک دیں گے.آم کھائیں گے تو اس کی گٹھلیاں وغیرہ وہیں سڑک پر پھینک دیں گے.کیلا کھائیں گے تو اُس کے چھلکے وہیں سڑک پر پھینک دیں گے اور بعض دفعہ آٹھ دس منٹ کے بعد کوئی بچہ دوڑتا ہوا وہاں سے گزرے اور کیلے کے چھلکے یا آم کی گٹھلی یا تربوز کے چھلکے پر سے پاؤں پھیلے اور اور تو نے پھیلے اور گرے اور اس کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے تو ایسے شخص نے اس سڑک کی خدمت نہیں کی.نیز اس نے بنی نوع انسان میں سے کسی کو تکلیف پہنچانے کا امکان پیدا کر دیا.اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ایسے لوگوں کو اپنے فضل سے بچا بھی لیتا ہے لیکن اگر کسی ایک شخص کو بھی اس کی وجہ سے دکھ پہنچا تو اپنے رب سے وہ کیا کہے گا کہ میں نے دعویٰ تو کیا تھا کہ میں تیرا خادم ہوں.لیکن میں نے خدمت کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا.پھر جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے.اس نے ہمیں ہر مخلوق کا خادم بنادیا لیکن چونکہ ہر چیز کو اس نے انسان کے لئے یعنی اس کے فائدہ کے لئے ، اس کے آرام کے لئے اور اس کی قوتوں کی نشو ونما کے لئے پیدا کیا ہے تا کہ وہ اپنے رب کی رضا زیادہ سے زیادہ حاصل کرتا چلا جائے.اس لئے سب سے بڑا خادم اس نے ہمیں انسان کا بنایا.جتنے احکام ہمیں قرآن کریم کی تعلیم میں اور نبی کریم ﷺ کے اسوہ اور ارشادات میں نظر آتے ہیں.ان سب کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ بنی نوع انسان کی خدمت سے ہے.اگر ہم ہر حکم کو لے کر غور کریں الله تو بات ثابت تو ہو سکتی ہے لیکن اس کے لئے بڑا وقت چاہیے.ہاں چند مثالیں دی جاسکتی ہیں.اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے یہ اعلان بھی کیا کہ ساری زمین اور اس کی ساری اشیاء آسمان اور اس کے سارے ستارے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے مسخر کئے ہیں.پھر اس نے اپنے خادموں اور اپنی طرف ہونے والوں کو بھی کہا کہ تم نے یہ خدمت کرنی ہے اور جو حکم اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں وہ ایسے نہیں.جو ایک مسلمان میں اور ایک غیر مسلم میں (جہاں تک خدمت کا تعلق تھا) فرق کرنے والے ہوں.مثلاً اس نے یہ کہا کہ کسی پر بہتان نہیں تراشنا اور اس نے یہ نہیں کہا کہ کسی مسلمان پر بہتان نہیں تراشنا بلکہ اس نے کہا کہ کسی انسان کے خلاف بہتان نہیں تراشنا پھر مثلاً اس نے کہا کہ ظلم نہیں کرنا تو اس نے یہ نہیں کہا کہ اپنے بھائیوں پر ظلم نہیں کرنا.جیسا کہ بعض دوسرے مذاہب نے اگر سود کی ممانعت کی تو صرف یہ کہا.کہ اپنے ہم مذہبوں سے سود نہیں لینا.غیروں کو بے شک لوٹو اور ان کے اموال پر نا جائز قبضہ کرو اور بغیر حق کے ان کے اموال کھاؤ بلکہ اسلام نے یہ کہا کہ ظلم نہیں کرنا اور جب یہ کہا کہ ظلم نہیں کرنا تو ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس سے میرا مطلب صرف یہ نہیں کہ مسلمان پر ظلم نہیں کرنا.بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ کسی انسان پر ظلم نہیں کرنا اور جب اسلام نے سود کی ممانعت کی تو اس نے یہ نہیں کہا مسلمان سے سود نہیں لینا ہاں یہودی سے سود لینا جائز ہے یا ہندو سے سود لینا جائز ہے.بلکہ یہ کہا کہ یہودی ہو یا عیسائی یا ہندو ہو یاد ہر یہ ہو جواللہ تعالیٰ کو برا کہنے والا ہو.تم نے ان میں سے کسی سے بھی سود نہیں لینا تم نے کسی انسان سے سود نہیں لینا پھر جب اس نے یہ کہا کہ اگر کوئی بھوکا تمہیں نظر آئے تو تم پر یہ ذمہ داری ہے کہ تم اسے کھانا

Page 136

133 فرموده ۱۹۶۹ء د مشعل راه جلد دوم.تو.کھلاؤ تو اس نے یہ نہیں کہا کہ کوئی تمہیں مسلمان بھوکا نظر آئے تو تم اسے کھانا کھلا ؤ بلکہ اس نے یہ کہا کہ کوئی دہریہ بھوکا تمہیں نظر آ جائے کوئی یہودی بھوکا تمہیں نظر آ جائے کوئی عیسائی بھوکا تمہیں نظر آ جائے.کوئی ہندو بھوکا تمہیں نظر آ جائے.کوئی امیر بھو کا تمہیں نظر آ جائے ( وقتی طور پر ایک امیر بھی بھوکا ہوسکتا ہے.مثلاً وہ ابن سبیل ہے اور اس کی جیب کتری گئی ہے اور وہ وقتی طور پر غریب ہو گیا ہے کیونکہ وہ غیر جگہ ہے اور اس کی جیب میں پیسے نہیں) تمہیں کوئی غریب بھوکا نظر آ جائے تو ہر دو کا تم نے پیٹ بھرنا ہے ہر دو کا تم نے خیال رکھنا ہے.ہر دو کو تم نے آرام پہنچانا ہے.پھر جب اس نے کہا کہ تم نے کسی انسان کو بھی دکھ نہیں پہنچانا تو اس نے یہ نہیں کہا کہ تم نے کسی مسلمان کو دُکھ نہیں پہنچانا بلکہ اس نے یہ کہا کہ کسی انسان کو بھی دکھ نہیں پہنچا نا خواہ اس کا تعلق کسی مذہب سے ہو یا وہ لامذہب دہر یہ یا بت پرست ہو.خوا وہ انبیاء کو برا بھلا کہنے والا ہو.خواہ وہ اپنی جہالت کی وجہ سے نبی کریم جیسے محسن کے خلاف نفرت کے جذبات رکھنے والا ہو تم نے کسی کو بھی دکھ نہیں پہنچانا کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے اس جنس (بنی نوع انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے.وہ اپنی بدقسمتی سے اور اپنی جہالت کے نتیجہ میں اپنے اس شرف کو بعض دفعہ کھو دیتے ہیں.اس کی سزا میں انہیں دوں گا.لیکن تمہاری نگاہ میں ایسے انسان کے لئے جس نے اپنی عزت کے جامہ کو اپنے ہاتھ سے پھاڑ دیا ہو.حقارت نفرت اور بے غیرتی کے جذبات پیدا نہیں ہونے چاہئیں.اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنا خادم (اگر ہم واقعی اس کی نگاہ میں خادم بن جائیں تو اس سے بڑا احسان اور کیا ہوسکتا ہے ) بنا کر اپنی ہر مخلوق کی خدمت پر لگا دیا.اور اس کے مقابلہ میں ہم سے اس کی جزا کا ان انعامات کا وعدہ کیا کہ بڑے سے بڑا امیر بلکہ دنیا کے سارے امراء اور دولتمند ا کٹھے ہو کر بھی اس جزا کا کروڑ واں حصہ بلکہ اربواں حصہ جزایا بدلہ یا اجرت یا تنخواہ (جو نام بھی آپ رکھ لیں ) نہیں دے سکتے.اللہ تعالیٰ نے بڑا ہی فضل کیا ہے کہ اس نے ہمیں اپنا خادم بنالیا ہے.اگر ہم خدمت کے تقاضوں کو پورا کریں تو جو اجرت یا جو انعام یا جو فضل یا محبت کا جو سلوک اللہ تعالیٰ ہم سے کرے گا.وہ اتنا بڑا ہے اجر.اتنا بڑا انعام.اتنی اچھی اور پیاری اور خوبصورت چیز ہے کہ اگر ہم اس کو پالیں تو اس دنیا کی اور اس دنیا کی ساری نعمتوں کو ہم نے پالیا.کیونکہ ساری مخلوق مل کر بھی عزت کی اس نگاہ کا مقابلہ نہیں کرسکتی.جو انسان اپنے رب کی نگاہ میں پاتا ہے اور اس کی قدر اور قیمت کو وہ سمجھتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم خدمت کی ذمہ داریوں کو پوری طرح نبا ہیں مختلف پہلوؤں سے اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی خدمات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کر دیا ہے.ہم اسلام کی تعلیم کو سنے اور سمجھنے اور یادر کھنے کے لئے یہاں

Page 137

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۹ء 134 اکٹھے ہوئے ہیں.اس نیت کے ساتھ ہم اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی ہدایات کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے.یہ توفیق پانا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے.اس لئے اب میں دعا کراؤنگا.آپ بھی دعا کریں اور سب احمدیوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خادم ہونے کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں جماعت احمدیہ پر ڈالی ہیں.وہ خود اپنے فضل سے توفیق دے.کہ ہم ان کو ادا کرسکیں اور خلوص نیت سے ادا کر سکیں تا کہ جن نعمتوں کا اور جن رحمتوں کا، جن فضلوں کا ، جس پیار کا ہمیں اس کے بدلہ میں وعدہ دیا گیا ہے.ان نعمتوں کو ، ان رحمتوں کو ، ان فضلوں کو اور اس پیار کو ہم پانے والے ہوں.(اس کے بعد حضور نے سب حاضرین سمیت ایک لمبی اور پرسوز دعا کرائی)

Page 138

135 فرموده ۱۹۶۹ء دومشعل راه جلد دوم سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے کراچی میں مورخہ 4 ستمبر ۱۹۲۹ ءساڑھے گیارہ بجے دن اپنی قیام گاہ پر ممبران احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن سے قریباً دو گھنٹے خطاب فرمایا تھا جو بالآ خر حضور کی دعا پر اختتام پذیر ہوا.اس کا مکمل متن درج ذیل ہے.یہ خطاب غیر مطبوعہ ہے.حضور نے ممبران سے کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم بنگالی طلبہ کے متعلق بعض سوالات پوچھے اور پھر ممبران ایسوسی ایشن کو یہ نصیحت فرمائی کہ وطن عزیز کے ہر حصہ سے آنے والے طلبہ خصوصا مشرقی حصہ کے طلبہ جو کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں ان سے ہمدردانہ میل جول رکھا جائے.ان سے باہمی اخوت اور یگانگت کے تعلقات پیدا کئے جائیں اور ہمیشہ حسن سلوک اور حسن اخلاق روا رکھا جائے تا کہ مغربی پاکستان کے متعلق جو ان کے دلوں میں شکوے پائے جاتے ہیں وہ خود بخود دور ہو جائیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا: - مثلاً یہاں جو پنجابی آئے گا.ایسٹ اور ویسٹ کا سوال نہیں کئی طلبہ پنجاب کے پڑھنے کے لئے آجاتے ہیں.ایسے طلبہ کے لئے بھی کراچی اپنی جگہ نہیں ہوتی بہر حال غیر ماحول ہو گا.نہ وہ اس شہر سے واقف ہونگے نہ یہاں کے لوگوں کی عادات سے واقف.ہر شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہوتی ہے.جس طرح ہر شخص کی ایک انفرادیت ہے اس طرح ہر شہر کا بھی ایک کریکٹر ہوتا ہے اور یہاں مثلاً جو محتاط موٹر چلانے والا ہوگا وہ Accident ( حادثہ ) کر دے گا.پیچھے سے آکر کوئی ٹکر مار جائے گا.دوستانہ تعلق پیدا کرنے کی ضرورت پس جو طالب علم پنجاب یا ایسٹ پاکستان سے آیا ہوا ہے اس کے لیے یہ ملک تو غیر نہیں لیکن جگہ تو بہر حال غیر ہے.اس کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کوئی مقامی دوست اس سے دوستی پیدا کرے تا کہ اسے ذہنی سکون حاصل ہو.یہی حال بنگالی طلبہ کا ہے.وہ دوستانہ تعلق کو خوش آمدید کہیں گے.پس ہمارے لئے یہ بات بڑی ضروری ہے کہ ہم عام دنیا کے دوستانہ تعلقات قائم کریں ایک دوستی کے تعلقات میں وفا ہونی چاہیے جس شخص سے دوستی کی ہے اس کو پھر آپ کی زبان یا کسی اور حرکت سے جذباتی یا جسمانی یا کسی اور قسم کی کوئی بھی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے انسان میں باہمی تعلقات پیدا کرنے کی بڑی اہلیت رکھی ہے ورنہ تو انسان کا حال بھی گدھے اور کتے سے مختلف نہ ہوتا.جدھر کو منہ اُٹھا ادھر ہی چل پڑا.نہ بچوں سے پیار نہ اپنے دوستوں سے تعلق کا کوئی سوال.

Page 139

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۹ء 136 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس چیز پر بڑا زور دیا ہے.آپ نے یہ فرمایا ہے اور اس میں ہم سب سے دراصل دوستانہ تعلقات پیدا کرنے کا حکم ہے کہ ایک دفعہ دوستانہ تعلق اگر کسی سے قائم ہو جائے خواہ اس کا عقیدہ اور اس کی عادات اور اس کی سیاست اور ہو اور دوست کو اس سے اختلاف ہو تو پھر بھی دوستانہ تعلقات کا قائم ہو جانا اور قائم رہنا ایک طبعی امر ہے پھر ایسی دوستی کو نباہنا چاہیے.دوستانہ تعلق اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد آپ نے فرمایا ہمارا تو یہ حال ہے کہ اگر ہمارا کوئی دوست شراب کے نشے میں گندی نالی میں بے ہوش پڑا ہو تو ہم اسے اپنے کندھوں پر اٹھا کے گھر لے جائیں گے اور یہ نہیں سوچیں گے کہ دُنیا کیا کہتی ہے.اب دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اتنا بلند روحانی مقام اور یہ آپ کی حسن وفا.پس دوستی کریں اور پھر اس کو نا ہیں.آپ کے دوست کو یہ احساس ہونا چاہیے اور اسے یہ پختہ یقین ہونا چاہیے کہ احمدی دوست اس سے کبھی بے وفائی نہیں کرے گا اسے کوئی دکھ نہیں پہنچائے گا.بلکہ جب بھی موقع ہوگا جس حد تک اس کے امکان میں ہے اس کی مدد کرے گا.اچھے دوست کی پہچان عربی لٹریچر میں دوستی کا ایک بڑا مشہور قصہ بیان ہوا ہے.ایک دشمن اپنے بیٹے سے کہتا رہتا تھا کہ تم نے اچھے دوستوں کا انتخاب نہیں کیا یہ ضرورت کے وقت تمہیں چھوڑ کر چلے جائیں گے.باپ کی نصیحت سنتے سنتے آخر تنگ آ کر بیٹے نے ایک دن کہا کہ آپ مجھے بتا ئیں تو سہی اچھا دوست ہوتا کس قسم کا ہے.کوئی نمونہ بتا ئیں تا کہ میں سمجھ سکوں.اس نے کہا اچھی بات.ایک دن رات کے بارہ ایک بجے اس نے بیٹے کو اٹھایا اور کہا کہ چلو تمہیں بتائیں کہ دوست کس قسم کا ہوتا ہے خیر وہ اسے لے گیا اور ایک دوست کے گھر پر جا کر اس نے دستک دی.پوچھا کون ہے.اس نے بتایا میں فلاں ہوں اور اس کے بعد خاموشی ہوگئی اور وہ دیر تک باہر نہ آیا.کچھ دیر کے بعد بیٹا اپنے باپ سے کہنے لگا کہ اچھا ایسے ہی دوست ہوتے ہیں.باپ نے کہا تم دیکھتے رہو.کوئی ہمیں پچیس منٹ کے بعد وہ دوست باہر آیا تو اس نے زرہ بکتر پہنی ہوئی تھی اور نیزہ اور تیر کمان اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور علاوہ از میں دو تھیلیاں بھی ہاتھ میں پکڑی ہوئیں تھیں اور کہنے لگا کہ تمہارے اس بے وقت آنے سے میں نے سمجھا کہ ضرور تمہیں کوئی کام در پیش ہے جس کی وجہ سے تم آدھی رات کو میرے پاس پہنچے ہو.میں نے سوچا کہ دو میں سے ایک بات ضرور ہوگی.یا تو کوئی دشمن ہے جس کے ساتھ تم لڑ نا چاہتے ہواور میری مددکی تمہیں ضرورت ہے یا تمہیں پیسے کی ضرورت ہے.پس میں پوری طرح تیار ہو کر آیا ہوں.اگر کسی سے لڑائی کرنی ہے تو چلتے ہیں اور اگر تمہیں پیسے کی ضرورت ہے تو لو اشرفیوں کی تھیلیاں لے کر آیا ہوں یہ لے جاؤ.حالانکہ ابھی تو اس نے اس سے کچھ کہا بھی

Page 140

137 فرموده ۱۹۶۹ء د مشعل راه جلد دوم نہیں تھا.چنانچہ اس شخص نے اپنے بیٹے سے کہا دیکھو دوست اس قسم کے ہوتے ہیں.پس پہلی دوستی تمہیں بنگالی طلبہ کے ساتھ قائم کرنی ہے ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا کرنے ہیں پھر وہ خود ہی آپ سے دلچسپی لینے لگیں گے.ویسے اس بات کو یاد رکھیں کہ آپ طالب علم ہیں.آپ ہمارے مبلغ نہیں ہیں (ابھی نہیں شاید کسی وقت آپ میں سے بہتوں کو مبلغ بننے کی توفیق مل جائے) لیکن اس وقت تو آپ کی حیثیت ایک طالب علم کی ہے.پس آپ کے لئے اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کرنے اور اپنی طرف کھینچے کا ایک اور حربہ بھی دیا ہے اور یہ حسن اخلاق اور حسن سلوک کا حربہ ہے اور یہ دونوں پہلو بہ پہلو اور متوازن شکل میں چل رہے ہیں اور ایک دوسرے میں مدغم بھی ہو جاتے ہیں.اخلاق کے بعض مظاہرے حسن سلوک بن جاتے ہیں اور حسن سلوک کے بعض مظاہرے حسن اخلاق کی غمازی کر رہے ہوتے ہیں.احمدی کے اوصاف پس پہلا کام یہ ہے کہ آپ ان سے دوستی کریں اور اپنے اخلاق سے ان پر یہ اثر ڈالیں.ان کے ذہن پر یہ بات نقش کریں کہ ایک احمدی بڑا اچھا دوست ہوتا ہے کسی کی غیبت نہیں کرتا.کسی کی بدظنی نہیں کرتا.کسی پر اتہام نہیں لگا تا اپنی زبان سے کسی کو دکھ نہیں پہنچا تا.دنیا میں اس چیز کی اس وقت بڑی ضرورت ہے.کوئی بھی کسی کا حقیقی دوست نہیں ہے.سب مطلب پرست ہیں.دوستیاں دو قسموں میں منقسم کی جاسکتی ہیں.ایک مطلب پرستی کے لیے دوستی ہوتی ہے یعنی کسی خاص کام کے لئے دوستی کی جاتی ہے اور دوسری قسم یہ ہے کہ دوستی کے ذریعہ انسان کا مطلب پورا ہو جاتا ہے.دوستی کرتے وقت کوئی reservation ( ریزرویشن ) یا برا خیال دل میں نہیں ہوتا.جو صحیح معنے میں دوست ہے وہ وقت پر بہر حال کام آئے گا لیکن مطلب کے لیے دوستی پیدا کرنے کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جب مطلب پورا ہو گیا تو دوستی ختم ہو گئی.مثلاً ہماری جماعت کے ساتھ بہت سے بڑے بڑے آدمیوں کی اسی قسم کی دوستی ہے جس وقت الیکشن کا وقت قریب ہوتا ہے تو ان کا پیار یوں ابل کر باہر آ جاتا ہے کہ جی ہمارے آپ سے یہ تعلقات ہیں، ہمارے آپ سے وہ تعلقات ہیں.اس لئے آپ ہمیں ووٹ دیں اور جس وقت الیکشن ہو جاتے ہیں تو پھر اگلے الیکشن تک سوئے رہتے ہیں.کبھی خبر تک نہیں لیتے اور کسی تعلق کا اظہار نہیں ہور ہا ہوتا.آپ نے دوسرے طلبہ کے ساتھ اس قسم کی دوستی نہیں کرنی بلکہ خالص دوستی کرنی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوستی کرنے کی ایک قوت عطا کی ہے.اور دوست بنانے کی انسان کو اہلیت بخشی گئی ہے.دوست بنانے کا فن بہت فائدہ مند ہے.نیت بری نہیں ہونی چاہیے.میں نے اپنی زندگی میں غیر احد یوں میں دو ایک دوست بڑے اچھے دیکھے ہیں.لیکن سینکڑوں سے دوستیاں ہوئیں پہلے گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر آکسفورڈ کی طالب علمی کے زمانہ میں.لیکن ان کو پتہ ہی نہیں کہ دوستانہ تعلقات ہوتے کیا ہیں.مگر بعض ایسے بھی ہیں کہ جو دوستی کے معیار پر پورے اترتے رہے ہیں.مثلاً ایک ظفر الاحسن صاحب ہیں.یہ آکسفورڈ میں میرے ساتھ صرف ایک سال

Page 141

د فرموده ۱۹۶۹ء 138 و مشعل راه جلد دوم رہے ہیں کیونکہ پھر وہ یہاں واپس آگئے تھے.ان کی فطرتی نیکی کا پہلی بار مجھے اس طرح احساس ہوا کہ ایک دفعہ ہمارے Cousin کے سمن آگئے.بات یہ ہوئی کہ یہ شکار کھیلنے کے لئے کلو دھرم سالے کی طرف چلے گئے تھے وہاں اتفاق سے ایک کنگ کمشنر بھی شکار کھیلنے آیا ہوا تھا.یہ کمشنر شکار کے کسی معاملے میں ہمارے Cousin کے ساتھ ناراض ہو گیا.کیونکہ انکی وجہ سے اس کا شکار خراب ہو گیا تھا ظفر الاحسن صاحب کلو دھرم سالہ کے علاقہ کے ڈپٹی کمشنر لگے ہوئے تھے.یہ کمشنر انہیں جاتے ہوئے ہمارے Cousin کے متعلق یہ کہہ گیا کہ انہوں نے یہ یہ بے ضابطگیاں کی ہیں اس لئے انہیں ضرور سزا دینی ہے.اب یہ کمشنر انگریز اور بڑے دھڑلے والا ، اور یہ ڈی سی.ایسے افسر کے لئے اس صورت میں تو بڑی مشکل پیدا ہو جاتی ہے.اگر وہ یہ سمجھ بھی رہا ہو کہ یہ ناحق فیصلہ کر رہا ہوں تب بھی وہ ڈر کے مارے بے انصافی کر جائے گا.چنانچہ ہمارے یہ Cousin میرے پاس آئے.غالباً ۱۹۳۹ء کی بات ہے اور کہنے لگے اس طرح سمن آیا ہے.یہ وہاں کا ڈی سی لگا ہوا ہے آپ کے ساتھ اکٹھا رہا ہے آپ ضرور کچھ کریں.میں نے کہا ہاں میرے ساتھ اکٹھا ضرور رہا ہے میری اس کے ساتھ بڑی دوستی تھی لیکن میں نے اسے کبھی آزمایا نہیں.میں لکھ دیتا ہوں لیکن پتہ نہیں کہ کیسا آدمی نکلے.خیر میرا دو فقروں کا مختصر سا خط لے کر یہ چلے گئے اور کورٹ ہی میں جہاں ان کی پیشی تھی وہاں ان کے ہاتھ میں پکڑا دیا.انہوں نے خط کو دیکھا نیچے میرا نام پڑھا اور کہنے لگے آپ تشریف لے جائیں.آپ کی یہاں ضرورت نہیں اور جو لوکل شکاری بیچ میں ملوث تھا اسے دس روپے جرمانہ کیا اور اسے بھی چھوڑ دیا.پھر مجھے پتہ لگا کہ یہ آدمی تو بڑا نیک فطرت ہے.گو میں اس کی بعض عادتوں سے مشفق نہیں ہوں لیکن اس کے ساتھ جو دوستانہ تعلق ہے وہ اپنی جگہ پر قائم ہے.ایک دن جب کہ وہ پی آئی اے سے سکرین آؤٹ ہو چکے ہوئے تھے اور پھر تو اس محکمے میں ان کی ویسے ہی بے رحمی اور بے عزتی ہو چکی ہوئی تھی.میرے چھوٹے بھائی انور نے ہوائی جہاز سے ضروری جانا تھا اور بلنگ نہیں کروائی ہوئی تھی.جب ائیر پورٹ پر پہنچے تو انہوں نے بتایا کہ کوئی جگہ نہیں.بڑے پریشان ہوئے.کام بڑا ضروری تھا اور جانے کے لئے جگہ نہیں مل رہی تھی.اس پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے کہ وہاں سے ظفر الاحسن صاحب کا گزر ہوا.نہ جان نہ پہچان.شکل دیکھ کر شبہ پیدا ہوا کہ شاید اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو.وہ ان سے کہنے لگے کہ کیا فلاں کے ساتھ آپ کی کوئی رشتہ داری ہے.یہ کہنے لگے ہاں میں ان کا چھوٹا بھائی ہوں.پھر کہنے لگے اتنی پریشانی کی وجہ کیا ہے.انہوں نے بتایا کہ اس طرح مجھے ضروری کام ہیں.میں نے غلطی کی.پہلے سے بلنگ نہیں کروائی تھی.مجھے ضروری جانا ہے اور جگہ نہیں مل رہی.وہ کہنے لگے میں لے کر دیتا ہوں.باوجود اس کے کہ اس محکمہ سے نکلے ہوئے تھے اور اس لحاظ سے بڑی ذلت کا سامنا تھا.مگر وہ گئے اور پتہ نہیں کیا جا کر تاریں ہلائیں کہ انہیں ٹکٹ مل گیا.انہوں نے اپنے بچے کو ایک دفعہ ہمارے کسی دوست کے کام پر بھیجا اور اس رنگ میں اپنے بیٹے کی

Page 142

139 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم Briefing ( بریفنگ) کی کہ جب اس نے مجھے فون کیا تو جس رنگ میں وہ مجھ سے باتیں کر رہا تھا میں نے سمجھا کہ ان کے دفتر کا کوئی منشی ہے اور وہ باتیں اس رنگ میں کر رہا تھا کہ میں مجبور ہوں.معذرت خواہ ہوں.میں یہاں آ نہیں سکتا جن صاحب نے وہ بات کرنی ہے اگر انہیں تکلیف نہ ہوسہولت سے یہاں (ائیلپور ) پہنچ سکیں تو وہ یہاں آ جائیں اور پھر معذرت کرنی شروع کر دی.حالانکہ ربوہ سے لائیلپور کا فاصلہ صرف ۲۸ میل ہے.مجھے یہ بعد میں پتہ لگا کہ یہ ان کا بیٹا ہے.پس ظفر الاحسن صاحب بڑا خیال رکھنے والے دوست تھے.ایک دو اور آدمی بھی اسی طرح دوستی نباہنے والے دیکھے ہیں.ورنہ دنیا کو تو پتہ ہی نہیں کہ خدا نے کتنی اچھی چیز انسان کو دی تھی.اس سے انسانی معاشرہ بڑا اچھا اور خوشگوار ہو جاتا ہے.کیونکہ اصل میں تو ہمدردی اور غم خواری اور دوسرے حقوق العباد کی ادائیگی بہترین تعلقات کی ضامن ہے اور بہترین تعلقات کی ابتداء دوستانہ طریق پر ہونی چاہیے.جب انسان اس طرح سے تعلقات پیدا کرنے لگ جاتا ہے تو پھر وہ حقوق العباد ادا کرنا شروع کرتا ہے.پہلا حق ہے ہی دوستی کا.اور میں نے بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر بڑا زور دیا ہے.پس بنگالی طالب علموں سے اس رنگ کے دوستانہ تعلقات قائم کریں کہ جو ایک احمدی کے شایان شان ہوں ان سے کوئی غرض نہ ہو.جس طرح قرآن کریم نے ضرورت مند کے حقوق کی ادائیگی کے بعد ہمیں یہ تعلیم دی اور ہماری زبان سے یہ کہلوایا کہ: لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَّلَا شُكُورًا (الدهر : ١٠) کہ نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ ہی اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ تم ہمارے شکر گزار رہو گے.اللہ تعالیٰ کا حکم تھا حقوق ادا کر دیئے.تم پر کوئی احسان نہیں کیا.دوست یعنی یک جان دو قالب پس دوست پر دراصل احسان کوئی نہیں ہوتا.دوستی کے دائرہ کے اندر تو وہ پھر ایک خاندان کے افراد بن گئے.بھائی بھائی بن گئے.یا دوستی کی وجہ.ان کا ایک ہی وجود بن گیا.دوستی کا دائرہ انسان کو ایک ہی وجود میں باندھ دیتا ہے.اس میں حقوق کی کوئی ادائیگی یا احسان کا کوئی اظہار باقی نہیں رہتا.جس طرح اپنا کام ہوتا ہے اس طرح دوست کا کام سمجھا جاتا ہے.دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا.ہر انسان اپنا کام کرتا ہے اور اپنے لئے بڑے گندے کام بھی کرتا ہے مثلا غسل خانے جاتا ہے.وہ طہارت کرتا ہے.پس یہ کوئی پاک صاف کام تو نہیں پاک صاف ہونے کے لئے یہ کام کیا جاتا ہے.لیکن خود اپنی ذات میں یہ کام تو گندہ ہی ہے نا؟ پس انسان جس طرح اپنے لئے اس قسم کے بھی کام کرتا ہے اور اپنے اوپر کوئی احسان نہیں جتاتا اور یہ نہیں کرتا کہ رات کو سوچنا شروع کر دے اور اپنا نام لے کر کہے کہ میں نے تم پر بڑا احسان کیا.دیکھو میں نے تمہارا گند صاف کیا.یہ بات کسی کے

Page 143

د دمشعل راه مل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۹ء 140 ذہن میں بھی نہیں آتی.پس اس طرح کی یہ کیفیت دوستی میں بھی پیدا کرنی چاہیے کہ کوئی خیال بھی دل میں نہ آئے کہ ہم نے کسی پر کوئی احسان کیا ہے.اس طرح معلوم ہونا چاہیے کہ دو آدمی ہیں آپس میں بھائی بھائی ہیں.اور آپس میں بڑے گہرے تعلقات رکھتے ہیں.پس اس قسم کی دوستی پیدا کرنی چاہیے.بنگالی طلبہ سے دوستی کریں میں نے بتایا ہے کہ دوسروں کی نسبت اس وقت بنگالی طلبہ سے دوستی پیدا کرنے کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ وہ غیر جگہ آئے ہوئے ہیں انہیں چھوٹے چھوٹے ہزار قسم کے سہاروں کی ضرورت پیش آتی ہوگی اور انسان میں اللہ تعالیٰ نے عزت نفس پیدا کی ہے اور غیر جگہ پر انسان بہت ساری تکالیف کو برداشت کر لیتا ہے اور کسی سے ان کا ذکر نہیں کرتا.لیکن جب اس کے ساتھ کسی کی دوستی کا تعلق ہوگا اور اسے اس کا علم ہوگا تو پھر اسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ مجھے یہ چیز چاہیے صرف اس کے دوست کے علم میں یہ بات آنی چاہیے کہ اس شخص کو اس وجہ سے چھوٹی یا بڑی تکلیف لاحق ہے اور پھر جس حد تک اسے ( یعنی دوست کو ) توفیق ہوگی اسے خود ہی دور کرنے کی کوشش کرے گا.مانگنے کی ضرورت یا بتانے کی نوبت ہی نہیں آتی.وہ دوستی ہی کیا جس میں کسی چیز کی ضروت کا اظہار کرنا پڑے.دوسرے میں نے یہ جماعت اسلامی اور دوسری ایسوسی ایشیز کا ذکر اس لئے کیا تھا کہ اگر یہ لوگ ایک حد تک آرام سے زیادہ نمائش کئے بغیر زیادہ شور مچائے بغیر حتی کہ مارشل لاء کے زمانے میں بھی اپنی ایسوسی ایشنز کے کام کر سکتے ہیں تو احمدی کیوں نہیں کر سکتے لیکن اس میں عقل اور حزم اور احتیاط کی بڑی ضرورت ہے ان میں کوئی غلط بات کر جائے تو ایک ایسوسی ایشن پر حرف آتا ہے اور اگر ہم کوئی خلاف قانون بات کر جائیں تو جماعت پر حرف آتا ہے کہ دعوئی تو تمہارا یہ ہے کہ ہم قانون کی پابندی کرنے والے ہیں اور تم نے بھی تربیت کی ہے ایسے نوجوانوں کی.پس اس سے ساری جماعت بدنام ہو جاتی ہے اس لئے احتیاط کی بڑی ہی ضرورت ہے.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی کام نہیں ہو سکتا.بہت سا کام اب بھی ہم کر سکتے ہیں.آپ لوگوں سے دوستانہ تعلق پیدا کریں وہ آپ سے سوال کریں گے.اس طرح خود ہی تبلیغ کی راہیں کھل جائیں گی.اسلام تلوار سے نہیں پھیلا تبلیغ کا مطلب ہے تبادلہ خیال کرنا اور اس وقت صرف جماعت احمدیہ ہی ایسی جماعت ہے جو عملاً اس بات کا اعلان بھی کر رہی ہے اور اس بات کا ثبوت بھی بہم پہنچا رہی ہے کہ اسلام کو کسی تلوار یا لاٹھی یا سکے یا چھیڑ یاختی کرنے کی کوئی ضروت نہیں ہے.یہ تو عیسائیوں نے ایک نہایت ہی خطرناک جال ہماری تاریخ میں ایک زمانہ میں بچھایا اور اس میں بہت سارے مسلمان بھی پھنس گئے اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا

Page 144

141 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم ہے.جس مذہب کو اللہ تعالیٰ نے اتنے زبر دست دلائل دیئے ہیں.اتنی حسین تعلیم دی ہو.اتنے اچھے اخلاق پیدا کئے ہوں.اسے تلوار کی ضرورت ہی نہیں.لیکن اسلام کے بزور تلوار پھیلنے کا زبردست پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے.میں جب یورپ کے دورے پر گیا تو میں نے دیکھا کہ اس پروپیگنڈہ کا اثر ان کے دماغ پر بہت زیادہ ہے یعنی یہ کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.حالانکہ یورپ کے ممالک عام طور پر عیسائیت کو چھوڑ رہے ہیں.عیسائیت کے نام کا ایک لیبل لگا رکھا ہے لیکن عیسائیت کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں رہی حضرت مسیح علیہ اسلام کے ساتھ ایک وقت میں جو غلو کی حد تک محبت کرتے تھے اب یہ بھی ختم ہوگئی ہے.اب تو شاید آپ کو انسان بھی نہیں سمجھتے حالانکہ پہلے خدا بنارکھا تھا.مگر اس پروپیگنڈہ سے وہ شدید متاثر ہیں.چنانچہ دو جگہ پر یس کا نفرنس میں مجھ پر یہ سوال کیا گیا کہ آپ ہمارے ملک میں اسلام کو کیسے پھیلائیں گے.سوال کرنے والے نے تو یہ سوال بڑے ادب سے کیا لیکن ان کی دماغی کیفیت کا مجھے علم تھا.میرے ذہن نے فوراً اس سوال کا تجزیہ کیا کہ دراصل سوال اسلام کے بزور شمشیر پھیلائے جانے کا ہے.یعنی سوال ان کا یہ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا جاتا ہے.ہم نے تلوار تمہارے سے چھین لی ہے اور اب اس کی ضرورت بھی باقی نہیں رہنے دی کیونکہ ایٹم بم بنالئے ہیں.پس طاقت تو تمہارے پاس ہے نہیں.اسلام طاقت کے بغیر پھیل نہیں سکتا اس لئے تم ہمارے ملک میں اسلام کو کیونکر پھیلاؤ گے اور جب میرے منہ سے یہ بے تکلفانہ جواب سنا کہ ہم تمہارے دل جیتیں گے اور اسلام کو پھیلا ئینگے تو یہ ان کے لئے ایک ایسا عجوبہ تھا اور ایک قسم کا صدمہ اور شاق تھا کہ ایک جگہ تو ۲۵ ۳۰ صحافی یہ جواب سن کر قریب ڈیڑھ منٹ تک خاموش رہے کہ یہ کیا جواب ملا ہے کیونکہ ان کے دماغ تو یہ سوچ رہے تھے کہ میں یہ کہوں گا کہ تم نے ایٹم بم بنایا ہے تو ہم بھی ایٹم بم بنائیں گے اور پھر اس کے زور سے اسلام کو تمہارے ملک میں پھیلائیں گے.ان کے دماغ میں تو یہ تصور تھا.جواب انہوں نے یہ سن لیا.ایک دوسرے موقعہ پر ایک صحافیہ جو دھیڑ عمر کی تھی اور چپ کر کے ایک طرف بیٹھی ہوئی تھی جس وقت یہ سوال ہوا اور میں نے اس کا یہ جواب دیا تو اس وقت وہ بھی بول اُٹھی کہ آپ ان دلوں کو لے کر کیا کریں گے.یہ ایک عجیب سوال تھا اور پھر ایک عورت کے منہ سے نکلا ہوا.میں نے اسی وقت جواب دیا.اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہوتا ہے انسان تو بڑا کمزور ہے.میں نے اسے یہ جواب دیا کہ جو تمہارا اور میرا پیدا کرنے والا رب ہے اس کے قدموں میں جا کر رکھ دوں گا.- چنانچہ میرے ان جوابات سے ان پر ایک عجیب اثر ہوتا تھا کہ ہم نے سنا کچھ اور تھا.عیسائیوں نے پروپیگنڈہ کچھ اور کیا ہوا تھا.پتہ نہیں یہ کہاں سے آگئے ہیں کہ اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں.دراصل دل جیت کر احمدی ہی ہوتے ہیں اور عقیدہ یا مذہب کا تعلق تو دراصل دل کے ساتھ ہے چنانچہ پھر میں اس بات کو ان کے سامنے Explain(یعنی تشریح) کرتا تھا کہ دیکھو تم نے بڑے ایٹم بم بنالئے ہیں اور تم نے دُنیا میں ہلاکت کے سامان پیدا کر لیے ہیں اور اگر تم چاہو تو بے شمر مخلوق کو تباہ کر سکتے ہو لیکن تمہارے یہ سارے کے سارے ایٹم بم کسی

Page 145

فرموده ۱۹۶۹ء 142 د دمشعل را س راه جلد دوم ایک آدمی کے دل میں بھی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے.مگر اسلام نے آ کر کروڑوں کروڑ دلوں کے اندر تبدیلی پیدا کردی.پس مذہب کا تعلق تو دل کے ساتھ ہے اور دلوں کو ہم جیتیں گے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جیت رہے ہیں بڑے مخلص اور بہت جو شیلے اور فدائی احمدی مسلمان وہاں پیدا ہورہے ہیں.اسی واسطے یہاں جوستی اور غفلت اور کچھ اونگھنا وغیرہ سامنے آتا ہے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے.وہاں جو طالب علم ہیں ان کی ذمہ داریاں علم سیکھنے کے لحاظ سے آپ ہی کی طرح ہیں.ذمہ داریوں کی قسم تو ایک جیسی ہے لیکن ذمہ داری کا احساس ان میں زیادہ ہے اس لئے کہ وہ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں.آکسفورڈ میں پڑھائی کے سلسلہ میں عام مقولہ یہ ہے کہ جو طالب علم روزانہ پڑھائی کی اوسط ( کلاس روم کے علاوہ) گیارہ بارہ گھنٹے کی بناتا ہے وہ ہوشیار طالب علم سمجھا جاتا ہے اور جو طالب علم آٹھ گھنٹے کی اوسط بنارہا ہے وہ متوسط درجہ کا طالب علم خیال کیا جاتا ہے اور جو طالب علم کلاس روم کے علاوہ صرف چار پانچ گھنٹے پڑھائی کرتا ہے اس سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ وہ اسے بڑا نالائق سمجھتے ہیں.میرے خیال میں اگر میں آپ میں سے کسی سے پوچھوں تو شاید ہی کوئی طالب علم ہو جو یہ کہے کہ وہ روزانہ ( کلاس روم کے علاوہ) تین چار گھنٹے پڑھتا ہے.پس ذمہ داری تو ایک جیسی ہے لیکن اس ذمہ داری کا بوجھ وہاں کے طالب علم پر بہت زیادہ ہے.کیونکہ وہاں کا ماحول تو ایسا ہے کہ اگر کوئی طالب علم چار پانچ گھنٹے پڑھنے والا ہے تو یا تو وہ فیل ہو جائے گا یا تھوڑی ڈویژن لے گا.بعض جگہ ڈویژن ہی نہیں ہوتی صرف پوزیشن بتا دیتے ہیں.مگر ایسے طالب علم کی ان کی سوسائٹی میں جود نیوی علم کے لحاظ سے بدرجہا بڑھ گئی ہے کوئی قدر نہیں ہوتی.پس وہاں کے طالب علم کا یہ حال ہے مثلا فرینکفورٹ میں ہمارا محمود ہے وہ یو نیورسٹی کا طالب علم ہے اس کا حال یہ تھا کہ جس وقت وہ مسلمان ہوا تو اس کے دل میں قرآن کریم کی شدید محبت پیدا ہوگئی اور اس کے دماغ نے کہا کہ صرف مسلمان ہو جانا تو ایک بے معنی چیز ہے قرآن کریم سیکھنا اور پڑھنا چاہیے.چنانچہ اس نے جرمن ترجمہ قرآن کریم خود پڑھنا شروع کیا اور ہمارے مبلغ نے بتایا کہ بسا اوقات رات کے ایک بجے اس کا فون آجاتا ہے کہ میں نے اپنے کام سے فارغ ہو کر قرآن کریم پڑھنا شروع کیا اور فلاں آیت پر آ کر رک گیا ہوں اور مجھے سمجھ نہیں آرہی مجھے اس کا مطلب بتا ئیں ورنہ میں رات کو سو بھی نہیں سکوں گا.پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ آپ کا مقابلہ ہے.آپ کو ان سے آگے نکلنا چاہیے کیونکہ قرآن کریم کے سیکھنے سکھانے کی آپ کو بہت زیادہ سہولیتیں میسر ہیں.وعظ ونصیحت بھی اُن سے کہیں زیادہ آپ کے کانوں میں پڑتی ہے اور ان کے راستے میں روکیں بھی آپ سے زیادہ ہیں.انہیں دس بارہ گھنٹے روزانہ پڑھ کر علم کے میدان میں اپنا نام پیدا کرنا ہوتا ہے.پھر ساتھ ہی ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ محبت پیدا کر دی کہ وہ قرآنی علوم بھی سیکھیں اور وہ علی وجہ البصیرت اسلام پر قائم ہوں یہ نہیں کہ بیعت فارم پر کرایا اور مسلمان ہو گئے احمدی ہو گئے.

Page 146

143 فرموده ۱۹۶۹ء دو مشعل راه جلد دوم یورپ کے اس سفر کے دوران ایک چھوٹا سا لطیفہ ہوا جسے میں نے پہلے بھی کئی بار سنایا ہے.مجھے اس کے بیان کرنے سے بڑا لطف آتا ہے.ہمارے قافلے میں سے کسی نے وہاں کی ایک احمدی بہن سے یہ سوال کیا کہ مسجد میں اگلی صفوں میں مرد ہوتے ہیں اور پچھلی صفوں میں عورتیں.ان کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے.تم نے سکرین کا کیوں انتظام نہیں کیا تو اس بہن نے بڑی بے تکلفی سے جواب دیا کہ اس لئے انتظام نہیں کہ محمد علی اللہ کی مسجد میں عورتوں کے لئے سکرین کا کوئی انتظام نہیں تھا.جس کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی انہوں نے بڑا غور کیا ہے اس لئے وہاں ہمارے مبلغوں کا کام آسان نہیں کیونکہ ان کا ایسے لوگوں سے واسطہ ہے جنہوں نے جو کچھ سیکھا ہے پورے تدبر اور غور اور تحقیق کر کے مختلف قرآنی آیات اور حضرت نبی اکرم ﷺ کے ارشادات کو سامنے رکھ کر سیکھا اور سمجھا ہے.پس اگر وہ کہیں تھوڑی سی بھی غلطی کریں تو انہیں سمجھانا بڑا مشکل ہو جاتا ہے.انہیں بڑے دلائل دے کر اور احادیث پیش کر کے اور بہت سارے حوالے سنا کر سمجھایا جاسکتا ہے.مبلغ کا صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ یہاں تم نے غلطی کی ہے کیونکہ انہوں نے علی وجہ البصیرت اسلام کو قبول کیا ہے اور علی وجہ البصیرت اسلام پر قائم رہنا چاہتے ہیں.یہ نہیں کہ یہ کہ کر انہیں روک دیا جائے کہ یہ غلط ہے اسے نہ کرو.اسلام نے بے تحاشہ عقلی دلائل دیتے ہیں.لیکن عقلی دلائل خواہ کتنے ہی زبر دست کیوں نہ ہوں انسان کے دماغ کو اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا بنایا ہے کہ اس کے مقابلہ میں غلط اور سوفسطائی سا خیال اپنے دل میں جما لیتا ہے اور پھر اس قسم کی غلط دلیلیں وہ اپنے حق میں پیش کر دیتا ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ کا انکار کیا تو سینکڑوں ہزاروں دلائل غلط تھے لیکن چونکہ دماغ اس دلیل کو مانتا تھا اس لئے انہوں نے دلائل بنالئے اس کے.تو جب تک کچھ اور چیزیں نہ ہوں تو وہ اسلام کے حسن واحسان کے نظارے نہیں دیکھ سکتا.عبد السلام میڈیسن صاحب کا ذکر خیر پس ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے محاورے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بار باران فقروں کو دہرایا ہے یعنی آسمانی تائیدات اور آسمانی نشانات اور ان ہی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی محبت کے نظارے ظاہر ہوتے ہیں.ہمارے ہاں اس قرب اور محبت کے جلووں کو دیکھنے کے لئے بہت زیادہ مجاہدہ کرنا پڑتا ہے مگر وہ لوگ شاید اس لئے کہ باہر سے اسلام میں داخل ہوتے ہیں آج احمدی مسلمان ہوتے ہیں یا ہوتی ہیں تو دو ہفتے کے بعد بعض کو کچی خوا ہیں آنی شروع ہو جاتی ہیں.ہمارے عبد السلام میڈیسن جنہوں نے قرآن کریم کا ڈینش زبان میں ترجمہ کیا ہے.اور یہ ترجمہ وہاں بڑا مقبول بھی ہوا ہے.انہوں نے اس پر بڑی محنت کی ہے.ان کے اخلاص کا یہ حال ہے کہ انہوں نے جب قرآن کریم کا ڈینیش میں ترجمہ کر لیا تو چھاپنے کے لئے وہاں کی ایک کمپنی کو دیا.اس کمپنی نے عبد السلام میڈیسن کو جور انکلٹی دی وہ انہوں نے ساری کی ساری لا کر چندہ میں دے دی اور کہنے لگے کہ میں اسے ذاتی استعمال میں نہیں لانا چاہتا.اسے اسلام کی تبلیغ پر خرچ کیا جائے.حالانکہ انہوں نے

Page 147

فرموده ۱۹۶۹ء 144 د دمشعل را ل راه جلد دوم اس ترجمہ کرنے پر اپنا وقت بھی لگایا اور پیسے بھی خرچ کئے ٹائپ پر.کاغذ پر.علاوہ از میں ان کا تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی عیسائی اسلام کے متعلق فون پر کوئی سوال کر دے تو یہ اسے سمجھانے کے لئے لمبا جواب دیتے ہیں اور اسے اس وقت تک چھوڑتے نہیں جب تک اس کی تسلی نہ ہو جائے.وہاں تین منٹ کے بعد فون بند نہیں کر دیتے اگر کوئی چاہے تو آدھے گھنٹے تک فون پر بات کر سکتا ہے.اس کا بل آ جاتا ہے چنانچہ ایک دفعہ ایک مہینے کا ایک ہزار روپے کا فون کا بل آ گیا اور ان کی تنخواہ بھی کم و بیش اتنی ہی ہے لیکن جب ہمارے مبلغ کو اس کا پتہ لگا تو انہیں عبد السلام میڈیسن صاحب کو اس بات پر رضامند کرنے کے لئے بڑی مشکل پیش آئی کہ یہ پہل اس کی رائلٹی والی رقم سے ادا کر دیا جائے.کیونکہ یہ پل بھی تو آخر تبلیغ کرنے کی وجہ سے آیا ہے اسلئے پل کی رقم اس میں سے ادا کر دیتے ہیں.لیکن پھر بھی وہ مانتا نہیں تھا بڑی مشکل سے جا کر مانا.پس اس قسم کے لوگ ہیں جن سے آپ نے بہر حال آگے جانا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی کوئی رشتہ داری تو پاکستان کے مکینوں کے ساتھ نہیں کہ وہ ضرور آپ ہی کو دین کی قیادت دیئے رکھے گا.اگر وہ قومیں اس کثرت کے ساتھ آگے بڑھ گئیں تو پھر قیادت ان کے ہاتھ میں چلی جائے گی.اور جانی چاہیے کیونکہ وہ اس بات کے لئے Deserve (ڈیزرو) کریں گے.ہمیں جب اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ جو آدمی اہل ہے اس کے سپر د کام کرو.پس اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے اس کا عمل بھی اسی کے مطابق ہے وہ قیادت دین اُنہی کے سپر د کرے گا جو اس کے اہل بن جائیں گے.پھر اس لحاظ سے بھی یہ نہیں کہ ہمیں ان پر شکوہ ہے.ہمیں تو بہت خوشی ہوتی ہے.لیکن ایک نعمت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے اسے کھونا کیوں ہے.قرب الہی ایک راز ہوتا ہے پس دوسری چیز آسمانی نشانات اور تائیدات کی دی گئی ہے اور جو آدمی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے اس کی شاید سویا ہزار میں سے کوئی ایک بات باہر آ جائے تو آ جائے اور لوگوں کو اس کا پتہ لگ جائے ورنہ یہ تو اس کا راز ہوتا ہے جسے ظاہر کرتے ہوئے وہ شرماتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے اور یہ ہمیں سمجھانے کے لئے ہے کہ خدا تعالیٰ کا بندہ اس تعلق کو اس طرح چھپاتا ہے جس طرح ایک خاوند اپنی بیوی کے تعلقات کو چھپارہا ہوتا ہے.لیکن بعض چیزیں ظاہر ہو جاتی ہیں یا ظاہر کرنی پڑتی ہیں.مثلاً جماعتی کاموں یا جماعتی حالات سے تعلق رکھنے والی باتیں ظاہر کرنی پڑتی ہیں.جب کوئی احمدی اس قسم کی خواب دیکھتا ہے یا اُسے کسی اور رنگ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم دیا جاتا ہے تو وہ مجھے لکھتا ہے یہ اس کا فرض ہے لیکن یہ نہیں کہ وہ مجھے ہر چیز لکھنا شروع کر دے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قرب بہر حال ظاہر نہیں کرنا پڑتا.میرے علم میں بڑی عمر کے بیسیوں سینکڑوں نوجوان ایسے ہیں جن ک اللہ تعالیٰ کے ساتھ بڑے قرب کا تعلق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے بڑے فدائی

Page 148

145 فرموده ۱۹۶۹ء دومشعل راه جلد دوم ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی ان سے بڑے پیار کا سلوک کرتا ہے.خدا کے پیار کا اظہار اور اسی طرح باہر بھی بڑی کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں حتی کہ حبشی جن کے ہونٹ موٹے موٹے اور لٹکے ہوئے اور رنگ کالا ہوتا ہے اور کئی سو سال تک ان مہذب کہلانے والی قوموں نے ان سے نفرت کی اور ان سے بڑی حقارت کا اظہار کیا.ان پر ظلم کئے اور انہیں اتنا دبایا کہ ان کے اندر Complexes ( یعنی احساس کمتری) پیدا کر دیئے.غرض ہزار قسم کی خرابیاں تھیں جو ان کے اندر پیدا کر دی گئی تھیں.اب جب ہمارے مشنز وہاں قائم ہوئے تو یہ خیال کر کے بڑا ہی لطف آتا ہے کہ وہی لوگ جو دنیا کے دھتکارے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں سینے سے لگایا ہوا ہے اور انہیں پیش خبریاں دی جاتی ہیں اور یہ پیش خبریاں ان کے اپنے متعلق بھی ہوتی ہیں اور غیروں کے متعلق بھی ہوتی ہیں چنانچہ گیمبیا کے ایک Cook ( یعنی باورچی) کو اس ملک کے Prime Minister ( پرائم منسٹر کے متعلق ایک خواب میں ایک بات بتائی گئی جو پرائم منسٹر کی ایک راز والی بات تھی اور وہ بڑا پریشان تھا.چنانچہ اس احمدی دوست نے ہمارے مبلغ سے اس خواب کا ذکر کیا.کہ اس طرح میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ہمارا پرائم منسٹر ایک دکھ اور تکلیف میں مبتلا ہے اور اس نے اپنے ہاتھ سے یہ مصیبت پیدا کی ہے حالانکہ اس احمدی دوست کو اس بات کا سرے سے علم ہی نہیں تھا.یہ تو اس پرائم منسٹر کا اپنا راز تھا مگر جب یہ خواب پوری ہو گئی اور ہمارے مبلغ نے مجھے لکھا تو میں نے اس کا اظہار ایک غیر از جماعت دوست سے کیا تو وہ کہنے لگا کہ اللہ تعالی کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ ایک باورچی کو یہ راز بتادیتا یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے پیار کی حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکتے.مجھے اس شخص پر بڑا رحم آیا.میں نے دل میں سوچا اب میں اسے کیا سمجھاؤں.پس یہ پیار کے تعلق کا ایک حسین مظاہرہ ہے ناں ! اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس افریقی دوست کو یہ خواب دکھا کر یہ سمجھایا کہ دنیا تمہیں ایک حقیر باور چی سمجھتی ہے میں تمہیں ایک پیارا بندہ سمجھتا ہوں.اللہ تعالیٰ کا پیار بلا رنگ ونسل ہوتا ہے پس اس کا یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیار بلا امتیاز رنگ ونسل یا ملک وقوم کے ہوتا ہے.ضرورت صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے قرب کا تعلق پیدا کیا جائے.اور ایسے لوگ وہاں بھی ہیں اور یہاں بھی ہیں.پس اگر آپ بھی اللہ تعالیٰ سے یہی تعلق قائم کریں گے اور آپ کی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے نظر آنے لگیں گے تو پھر ہر کوئی مجبور ہو جائے گا کہ وہ آپ سے کہے کہ میرے لئے دعا کرو.دوسروں پر یہ اثر ہونا چاہیے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے اور اسی سے دعائیں کرنے والے ہیں اور جس حد تک اللہ تعالیٰ

Page 149

د دمشعل را ل راه جلد دوم نے انہیں تو فیق دی ہے الہی احکام پر کار بند رہنے والے ہیں.نیک نمونے کی ضرورت ہے فرموده ۱۹۶۹ء 146 پس اپنا نمونہ نیک بنالیں اللہ تعالیٰ خود ہی ایسی تحریک کرتا ہے کہ لوگ خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں.میرے پاس عیسائیوں کے بیسیوں خطوط آ جاتے ہیں اور لکھا ہوتا ہے کہ فلاں پریشانی ہے.ہمیں اچانک پتہ لگا.کوئی احمدی مل گیا اور اس نے کہا کہ دعا کے لئے خط لکھو اس لئے خط لکھ رہے ہیں دعا کریں چنانچہ ان میں سے اللہ تعالیٰ بہت ساروں پر اپنا فضل کرتا ہے بعض ہندوستانی سکھ اور ہندو بھی افریقہ میں آباد ہیں ان میں سے بعض کے دعا کے لئے خط آ جاتے ہیں.ابھی حال ہی میں ایک سکھ نے افریقہ سے خط لکھا تھا کہ وہ بڑا پریشان ہے.دعا کریں چنانچہ کچھ دن ہوئے اس کا خط آیا ہے کہ آپ کی دعا کی برکت سے میری پریشانیاں دور ہوگئی ہیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ ایک آدمی جو احمدی نہیں بلکہ مسلمان بھی نہیں.وہ اتنا متاثر ہے اور جماعت سے بڑا تعلق بھی رکھتا ہے.غرض یہ چیز بڑا اثر کرنے والی ہے کہ ایک بالکل عاجز انسان جو مستقبل چاہے ایک منٹ بعد کا ہو چاہے ایک سو سال بعد کا ہو اس پر کوئی تصرف نہیں رکھتا یعنی آپ میں سے کوئی شخص اپنے ہوش و حواس میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں آج شام کو ضرور یہ کام کروں گا.کیا پتہ ہے شام سے پہلے موٹر کے حادثہ میں جان ہی نکل جائے یا اللہ تعالیٰ بھلوا دے.اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے نظر آتے ہیں جو آدمی بہت کہیں مارتا ہے کہ میں یوں کروں گا اس کے ذہن پر ایک ایسا ہی تصرف ہوتا ہے وہ سرے سے اس کام ہی کو بھول جاتا ہے جس کے متعلق وہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں اسے ضرور کروں گا.پس ایسی صورت میں فرمایا ہے کہ مستقبل میں کام کرنے کے اظہار کے ساتھ انشاء اللہ کہ لیا کرو اور اس میں یہی یا در بانی کر دی گئی ہے کہ ہمارا نہ تو مستقبل پر کوئی تصرف ہے اور نہ ہی حال پر.لیکن مستقبل تو بالکل اندھیرا ہے ناں ! جہاں تک مستقبل کا سوال ہے ہمارے سامنے اتنی موٹی دیوار ہے کہ دیوار چین بھی شاید اتنی موٹی نہ ہوگی.کچھ بھی پتہ نہیں.ہم اس میں کوئی شگاف بھی نہیں کر سکتے لیکن وہ علام الغیوب خدا جس کے سامنے مستقبل، حال اور ماضی ایک جیسے عیاں اور سامنے ہیں اور اس کے علم نے ہر ایک چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.اس کے ساتھ انسان کا تعلق ہو تو اللہ تعالیٰ اسے زمان و مکان سے تعلق رکھنے والی باتیں بھی بتا دیتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو بہت ساری تقدیریں بدل بھی جاتی ہیں.دعا کی حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حقیقت دعا پر بہت کچھ لکھا ہے اور اس کے فلسفہ اور حکمت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.آپ نے دعا کی ایک حکمت اور اس کی ایک خصوصیت یہ بتائی ہے کہ دعا کے سلسلہ میں

Page 150

147 فرموده ۱۹۶۹ء دو مشعل راه جلد دوم اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ ایک دوست کا سا سلوک کرتا ہے اور یہ اس کا بڑا احسان ہے.اللہ تعالیٰ کی شان کتنی بلند اور بندے کی عاجزی کتنی زیادہ لیکن وہ اپنے عاجز بندوں سے دوستانہ سلوک کرتا ہے اور دوستانہ سلوک یہ ہے کہ کبھی اپنی منواتا ہے اور کبھی اس کی مانتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ بندے کی مانے تو پھر اللہ تعالی بندے کے قریب آکر دوست نہیں پھر تو خادم بن گیا.جیسے کوئی مالک اپنے خادم سے کہے کہ میرا حکم مانو ورنہ میں تمہاری تنخواہ سے اتنے روپے کاٹ لوں گا.یا تم پر اتنا جرمانہ کر دوں گا یا ملازمت ہی سے نکال دوں گا.(اللہ تعالیٰ اس خیال سے محفوظ رکھے.اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے درمیان تو اس تعلق کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ بندے کی ہر دعا قبول ہونی چاہیے.بھلا بندے کا تصرف ہے ہی کیا کوئی طاقت نہیں اور کوئی حق نہیں.ہمارے حقوق اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں.گھر سے تو کچھ نہ لائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا.گھر سے تو کچھ نہ لائے تھے چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن بڑا پیارا فقرہ ہے.اپنے لئے آدمی کیا کرتا ہے عقل سے کام لیتا ہے وہ گھر سے نہیں لایا.اس نے دی جو دی.انسانی جوارح ہیں.ہاتھوں سے انسان کام کرتا ہے پاؤں سے چلتا ہے اپنے جسم کو مضبوط کرنے کے لئے ورزش کرتا ہے.پھر Efficiency (یعنی ہوشیاری) سے اگر کسی محکمے میں ہے وہاں کام کر رہا ہوتا ہے یا اس میں اتنی طاقت ہے کہ وہ پڑھائی کے وقت بارہ گھنٹے کرسی پر بیٹھا رہے کسی ایک کو تو Sleep Disk (سلیپ ڈسک) ہو جاتی ہے تو پھر ایسے آدمی کے لئے کرسی پر آدھا گھنٹہ بیٹھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے.اوٹ لگانی پڑتی ہے بعض دفعہ لیٹ کر کام کرنا پڑتا ہے کوئی طاقت انسان کے اندر نہیں ہے.پس ہر چیز اور ہر طاقت اور ہر قسم کی تو فیق اللہ تعالیٰ سے ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک انسانوں کے ساتھ جاری ہے.پس اگر آپ اخلاص کے ساتھ دوستی پیدا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ایسے سامان بھی پیدا کرے گا کہ جو آدمی آپ سے دعا کے لئے کہے گا.اور آپ اس کے لئے دعا کریں گے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو وہ اپنے فضل سے تمہاری دعا کو قبول بھی فرمائے گا.اور جب تمہاری دعا قبول ہو جائے گی تو اس شخص پر جس نے آپ سے دعا کروائی ہے اس پر بہر حال اثر ہوتا ہے کہ یہ احمدیت کی برکت ہے ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہیئے.پھر وہ آپ کے اخلاق کو دیکھے گا اس سے متاثر ہو گا پھر آپ کا حسن سلوک دیکھے گا اس سے بھی متاثر ہوگا.نبی کریم ﷺ کا بڑا معجزہ حسن اخلاق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تائیدات الہیہ کے علاوہ حضرت نبی اکرم ﷺ کو جو سب سے بڑا معجزہ دیا گیا تھا وہ حسن اخلاق کا معجزہ تھا.باقی معجزات بھی اپنی عظمت شان میں کم نہیں تھے لیکن جس

Page 151

و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۹ء 148 طرح انبیاء علیهم السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ (البقر ۲۵۴:۵) اسی طرح آپ کے جو معجزات اصولی طور پر مختلف اقسام کے ہیں ان کے متعلق بھی اصولی طور پر یہی ہے کہ ان میں سے بعض بعض سے اپنی تاثیرات کے لحاظ سے بڑھ کر ہیں اور آپ کا یہ حسن اخلاق کا معجزہ سب سے بڑا معجزہ ہے.آپ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کر کے آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ بنی نوع انسان میں ایک ایسا پاک ترین وجود پیدا ہوا جو اخلاق کا مجسمہ تھا.مکہ والوں نے اڑھائی سال تک آپ کو اور آپ کے دوسرے ساتھیوں کو شعب ابی طالب میں بھوکا مارا.میں نے ایک دفعہ یہیں مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد بتایا تھا کہ ان کی بھوک کی یہ حالت تھی درختوں کے پتے حتیٰ کہ کوئی گری پڑی نرم خو چیز اٹھا کر کھا لیتے.چنانچہ ایک بڑے ہی بزرگ صحابی نے بعد میں کسی کو بتایا ( حدیث میں یا تاریخ میں آیا ہے ) کہ اس زمانے میں ہماری یہ حالت تھی کہ ایک دفعہ رات کے اندھیرے میں ایک چیز پر میرا پاؤں پڑا اور میرے پاؤں نے یہ محسوس کیا کہ یہ کوئی نرم چیز ہے.( کیونکہ پاؤں پڑتا ہے تو آدمی محسوس کرتا ہے کہ سخت کنکر آ گیا ہے یا پاؤں کے نیچے نرم مٹی ہے یا کوئی نرم چیز ہے ) اسی طرح کی کوئی نرم چیز تھی.جس پر ان کا پاؤں پڑا.اس وقت ان کی بھوک کی حالت یہ تھی کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس چیز کو اٹھایا اور کھا گیا اور مجھے اب تک پتہ نہیں کہ وہ چیز کیا تھی.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدنی زندگی میں جب مکہ میں قحط ڈالا اور ان کفار کے فتنہ وفساد کی وجہ سے جو حالت حضرت نبی اکرم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی شعب ابی طالب میں ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے وہی حالت قریش مکہ کے سرداروں کی کر دی.بھوکوں مرنے لگے تو فوراً حضرت نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں لکھا.چنانچہ آپ نے ان کے کھانے کا انتظام فرمایا.کفار مکہ نے آپ کے لئے بھوک کا انتظام کیا تھا مگر آپ نے ان کے لئے کھانے کا انتظام فرمایا.پس آپ کی حیات مبارکہ میں حسن اخلاق کے اتنے حسین مظاہرے نظر آتے ہیں کہ انسان اس حسن کو دیکھ کر خود بخود آپ کا گرویدہ ہو جاتا ہے.ایک مرض عام طور پر ہمارے احمدیوں میں خدا کے فضل سے کم ہے ) لیکن دوسروں میں بہت زیادہ ہے کہ جب ان سے بات کی جائے تو بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم ﷺ کی بہت بلندشان تھی ہم آپ کی تقلید کیسے کر سکتے ہیں.آخر کیوں تقلید اور پیروی نہیں کر سکتے اللہ تعالیٰ نے تو قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ آپ گولوگوں کے لئے اسوہ حسنہ بنایا گیا ہے.پس اگر حضرت نبی اکرم عملے کے اخلاق نے اسوہ نہیں بنا تھا تو وہ اپنی جگہ پر قائم رہتے تاریخ میں ان کے اظہار کی یا ان کے محفوظ کر لینے کی ضرورت ہی کیا تھی.یہ صحیح ہے کہ آپ کا انتنا ارفع اور اعلیٰ مقام ہے کہ ہم وہاں تک نہیں پہنچ سکتے اور یہ بھی صحیح ہے کہ ہر شخص نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق رفعتوں کو حاصل کرنا ہے نپس اپنے دائرہ استعداد کے اندر ہر شخص آپ کے اسوہ حسنہ یعنی آپ کے اخلاق فاضلہ صلى الله الله

Page 152

149 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم پنے اندر پیدا کر سکتا ہے.اور اگر آپ کے حسن اخلاق کو ہم اپنے اندر پیدا کر لیں تو ہمارے ماحول میں اس کا بڑی جلدی اثر ہوگا.اور اس وقت وہ لوگ جو ہماری باتیں نہیں سنتے وہ ہماری باتیں سننے لگ جائیں گے.یہ دُنیا اب ہمیں گالیاں دیتی ہے.بعض افراد بھی شوخی دکھاتے ہیں.اور جس وقت ان کی شوخی کا کسی احمدی پر اثر نہ ہو یعنی اپنی شوخی کا جو رد عمل دیکھنا چاہتے ہیں وہ رونما نہ ہو تو پھر وہ بڑے حیران ہو کر دوسرا اثر قبول کرتے ہیں.گندہ دہن دشمن کے مقابل پر عمدہ نمونہ آپ طالب علم ہیں.میں بھی طالب علم رہا ہوں اور اپنی طالب علمی کے زمانہ کا ایک واقعہ بتا دیتا ہوں.میں ایک دفعہ لاہور سے قادیان کے لئے روانہ ہوا.لاہور سے امرتسر تک میرے ڈبہ میں ایک بڑا ہی گندہ دہن شخص میرا ہم سفر تھا اس نے مجھے بے نقط سنانی شروع کر دیں اور میں مسکرا کر باتیں کرتا رہا.میں مسکرا کر اسے جواب دیئے جاؤں اور وہ مجھے گالیاں دیئے جائے.اتنے میں امرتسر کا اسٹیشن آ گیا اور میں اتر نے لگا تو اس سے رہانہ گیا اور کہنے لگا کہ اگر آپ کی طرح تبلیغ کی گئی تو آپ ہمیں بہت جلد اپنے ساتھ ملالیں گے.میں آپ کو جان بوجھ کر گالیاں دے رہا تھا مگر آپ نے چہرے پر ذرا بھی ملال نہیں آنے دیا.یہ تو مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق دے دی کہ میں اس کے ساتھ بڑے تحمل کے ساتھ باتیں کرتا رہا.پس اگر ایسے آدمی بھی ملیں تو ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہونا چاہیے.ایسے لوگ دراصل بیمار ہوتے ہیں کئی لوگ بیماری میں جب بے ہوش ہو جائیں یا ویسے بہک جائیں.بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے تو اپنے عزیز رشتے دار بھائی ہوں یا بیوی یا خاوند کے درمیان گلے شکوے ہوں وہ Burst کر کے پھر گالیاں دینی شروع کر دیتے ہیں ایسے سینکڑوں مریض آپ کو نظر آئیں گے.ڈاکٹروں سے جا کر پوچھیں.جس وقت وہ گالیاں دے رہے ہوں مثلاً بیوی خاوند کو گالی دے رہی ہو.اسے غصہ تو نہیں آتا بلکہ منہ اسے اس پر رحم آ رہا ہوتا ہے کہ اس بیچاری کی کیا حالت ہو گئی ہے.بھائی بھائی کو گالی دے رہا ہو تو اسے غصہ نہیں آئے گا یا بہن بھائی کو یا بھائی بہن کو گالی دے رہا ہو تو ایک دوسرے پر غصہ نہیں آئے گا ایسی بیماری کی بے ہوشی کی حالت میں تو غصہ نہیں آتا مثلاً ایسی حالت میں انسان دوسری Extreme ( یعنی انتہاء) پر چلا جاتا ہے اسے دماغ پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا.پس ایسے شخص کو دیکھ کر ہمارے دل میں اس کے لئے رحم پیدا ہونا چاہیے.اس مادی جسم کی بیماری میں مبتلا انسان کو اتنا نقصان نہیں جتنا روحانی بیماری کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ جسمانی طور پر مریض کے متعلق زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ ایک زندگی ختم ہوئی دوسری شروع ہو جائے گی.لیکن جو روحانی مرض ہے اس کا انسان پر بہت برا اثر پڑتا ہے پتہ نہیں ایسا مریض کتنا عرصہ اللہ تعالیٰ کے قہر کے نیچے رہتا ہے.(اللہ محفوظ رکھے ) ایسے بیمار شخص پر بہت رحم کرنا چاہیئے اور جب دل میں کسی کے لئے رحم پیدا ہوگا تو پھر دل میں غصہ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ دل کے سارے خانوں کوتو رحم نے پر کر دیا ہے.اس طرح غصہ کے لئے کوئی خانہ باقی ہی نہیں رہتا.اگر دوسرے اس قسم کی باتیں کریں اور اس کے مقابلے میں آپ اپنے خلق کا مظاہرہ دکھا ئیں اور ایسے شخص پر رحم کریں.اسے

Page 153

فرموده ۱۹۶۹ء 150 د و مشعل راه جلد دوم بتائیں کہ تم ہمدردی کے قابل ہو تمہارا رد عمل درست نہیں ہے.ٹھیک ہے عقائد کا اختلاف ہوتا ہے لیکن جنسی خوشی اور نہایت شرافت کے ساتھ ایک دوسرے سے تبادلہ خیال ہونا چاہیے.پس جب غیر سے بات کرتے وقت آپ کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکلے جو اخلاقی معیار سے گری ہوئی ہو تو وہ آپ کی باتوں سے اثر پذیر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.۱۹۵۳ء میں ہمیں بہت گالیاں دی گئیں تھیں اور جماعت احمدیہ کو نقصان پہنچانے کے لئے بڑے منصوبے کیسے گئے تھے لیکن انہوں نے نقصان تو کیا پہنچانا تھا.ہمارے حق میں اس کا ایک خوشگوار نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے لوگ احمدی ہو گئے اور کئی اب آ کر کہتے ہیں کہ ہم تو احمدیت کو مٹانے اور احمدیوں کو قتل کرنے کے درپے رہتے تھے.چنانچہ ایک دوست نے بتایا کہ میں ان فسادات کے دوران میں چھرا لے کر پھرا کرتا تھا کہ جہاں کوئی احمدی مل گیا قتل کر دوں گا.مگر چند مہینے کے اندر اندر سے اللہ تعالیٰ نے احمدیت قبول کرنے کی توفیق دے دی اور بڑا مخلص اور فدائی احمدی بن گیا.غرض یہ چیزیں جو ہیں وہ انسان پر اثر انداز ہوئے بغیر رہ نہیں سکتیں.احمد یوں کو دیئے گئے تین ہتھیار پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین ہتھیار ایسے دیے ہیں جو لوگوں کو مارنے یا ہلاک کرنے یا قتل کرنے کے لئے نہیں بلکہ زندہ کرنے کے لئے دیئے گئے ہیں.قرآن کریم نے بھی حضرت نبی اکرم اللہ کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ رسول لوگوں کو اپنی طرف اس لئے بلا رہا ہے کہ انہیں زندہ کرے.کیونکہ وہ اس وقت روحانی طور پر مردہ ہیں.پس حضرت رسول کریم ﷺ کے متعلق قرآن کریم میں یہ صریحاً بیان موجود ہے کہ آپ انہیں مارنے کے لئے نہیں بلا رہے بلکہ زندہ کرنے کے لئے بلا رہے ہیں.اسی طرح ہمارے متعلق بھی لوگوں کا یہی تاثر ہونا چاہیے کہ کوئی احمدی کسی کو دکھ دینے یا اس سے مذاق کرنے یا استہزاء یا تحقیر کے الفاظ استعمال کرنے کے لئے نہیں بلا رہا بلکہ ہر غیر کے دل میں یہ احساس ہونا چاہیے کہ احمدی ہماری بھلائی کے لئے ہم سے باتیں کرنا چاہتا ہے.عقلی دلائل اپنی تدبیر ہیں بہت سارے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ہمارے موقف کا پتہ ہی نہیں ہوتا.یہ میرا ذاتی تجربہ ہے.چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ عام طور پر کالج میں جہاں اس وقت میری ملاقاتیں ہوسکتی تھیں یا جب میں سفر کر تا تھا تو بعض دفعہ میرے ہم سفر بڑے پڑھے لکھے ہوتے تھے.میں نے آج تک ختم نبوت کے متعلق کسی پڑھے لکھے غیر احمدی دوست سے بات نہیں کی جس نے آخر میں یہ جواب نہ دیا ہو کہ اگر یہی بات ہے تو آپ کے خلاف اتنا شور کیوں ہے.شور اس لئے ہے کہ جہالت ہے سمجھتے نہیں بلکہ سنتے ہی نہیں اور کچھ لوگوں نے اس مسئلے کو اپنے رزق اور روزی کمانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے وہ اس پر پل رہے ہیں اور ہمیں وہ قیمت دیتے ہیں.جو گالیاں دے کر اپنے پیٹ پال رہے ہیں.They have to pay us ( یعنی وہ ہمیں قیمت ادا کرتے ہیں.ان کی وجہ سے سینکڑوں لوگ احمدی ہورہے ہیں.ایسی جگہ پر چاہے احمدیت کا ذکر مخالفت کے رنگ میں پہنچ جائے گا جہاں

Page 154

151 فرموده ۱۹۶۹ء دد د و مشعل راه جلد دوم میرے مبلغ نے جا کر تبلیغ نہیں کی وہیں بعض ایسی سعید روحیں ہوتی ہیں جن کے دل میں یہ شوق پیدا ہوتا ہے کہ وہ احمدیت کے متعلق پڑھیں.پس یہ جھوٹ بولتے ہیں اور ہمارے حق میں اچھا نتیجہ نکل آتا ہے.پچھلے فسادات جو اس مارشل لاء سے پہلے رونما ہوئے تھے اس میں ایک دوست نے بتایا کہ اس کا Boss احمدی ہے لیکن وہ چھپائے ہوئے ہیں.وہ ظاہر نہیں کرتے وہ غلط بیانی کر گئے.اس کے بعد مجھے یہ اطلاعات آنے لگیں کہ ہمارا فلاں افسر دوست ہے اور ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے کتابیں دو، پڑھنا چاہتا ہوں.میں نے سوچا شاید میرا دوست اندر سے احمدی ہو.مجھے پتہ کرنا چاہیے شاید مجھے کام آجائے.غلط بیانی تو اُس نے کی جو کسی اور مقصد کے لئے کی تھی لیکن اس نے Pay back کیا ناں ! پس اللہ تعالیٰ ہمیں گھاٹے میں نہیں رکھتا.ہمیں اس کا بدلیل جاتا ہے یعنی اس کی قیمت مل جاتی ہے.اس لحاظ سے بھی ہمیں غصہ کیوں آئے غصہ تو ویسے بھی نہیں آنا چاہیے مثلاً یہ جو مالی ہے یہ باغ ہی سے بہت ساری بوٹیوں کو اکھیڑ رہا ہوتا ہے.اس کے اوپر غصہ تو نہیں آتا بلکہ ہم اُسے شاباش دیتے ہیں.حالانکہ یہ بوٹیاں اس باغ ہی میں اُگی ہوتی ہیں.اس کی Soil ( یعنی مٹی) سے غذا حاصل کی اور بڑھیں.پتے نکلے ہوئے ہوتے ہیں بعض بڑے خوبصورت لگتے ہیں.بہر حال وہ کاٹتا چلا جاتا ہے اور جس پودے پر ظلم کرنا ہو یعنی کا تنا ہو اپنے فائدہ کے لئے ظلم تو مجھے نہیں کہنا چاہیے لیکن بہر حال اُسے موت کا منہ دکھانا ہو تو ہم ایسے پودے کو Reed کا نام دے دیتے ہیں یا Parasite ( پیرا سائٹ ) کہہ دیتے ہیں کہ جو پودے لگانا چاہتے ہیں یہ ان کی غذا کھا رہا ہے اس لئے اسے کاٹ دیتے ہیں.پس یہ لوگ بہت سی غلط فہمیاں نکال دیتے ہیں غلط فہمیاں پیدا کر کے.ایسے سامان پیدا کر دیئے گئے ہیں کہ وہ غلط فہمیاں دور ہو جائیں.مثلا ربوہ کے متعلق کوئی شخص اپنے دوست سے یہ کہے کہ وہاں جنت ہے دوزخ ہے حوریں ہیں اور یہ ہے اور وہ ہے تو اسے یقیناً بڑا غصہ آئے گا کہ کیا نالائق جماعت ہے جس نے یہ تماشا بنایا ہوا ہے اور جو بھی یہ سنتا ہے وہ ہمیں بہر حال متقی تو نہیں سمجھے گا.بے شک وہ غلط نہی میں مبتلا ہوگا مگر ا سے بڑا غصہ آرہا ہوگا.اللہ تعالیٰ کہتا ہے آ تجھے دکھا ئیں ربوہ.پس کبھی اسے اتفاقاً سفارش کروانے کی ضرورت پڑ جاتی ہے اور ربوہ سفارش کرانے کے لئے آ جاتا ہے اور ربوہ میں آکر بڑے ڈر ڈر کر یہ فرضی قصے نہیں سنار ہا بلکہ واقعی ایسے لوگ ربوہ آتے رہتے ہیں).کسی سے پوچھتا ہے یا رسنا ہے ربوہ میں جنت اور دوزخ ہے.میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں.اس لئے چلو مجھے دکھاؤ.ربوہ والے بڑے Trained ہو گئے ہیں اسے یہ نہیں کہتے کہ کوئی نہیں بلکہ اسے کہتے ہیں ہاں چلو تمہیں دکھا ئیں چنانچہ اسے بہشتی مقبرہ میں جاتے ہیں.وہ وہاں جا کر دیکھتا ہے کہ قبریں ہیں البتہ پر سکون فضا نظر آتی ہے پھر تو اس کے ذہن پر بڑا شاق گذرتا ہے کہ جس سے اس نے جنت اور دوزخ اور نہ جانے کیا کیا باتیں سنیں تھیں اور جسے سچا سمجھتے ہوئے اور اپنا ہمدرد سمجھتے ہوئے اس کی باتوں کو مان لیا تھا مگر جب یہاں آ کر دیکھا تو حقیقت ہی اور تھی چنانچہ اس کا خیال بدل جاتا ہے اور جس سے اس نے غلط باتیں سنیں اُسے جھوٹا اور غیر ہمدرد سمجھنے لگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ اسے غلط راستے پر لے جارہا

Page 155

دومشعل تل راه جلد دوم ہے.فرموده ۱۹۶۹ء 152 پس جولوگ ایک دفعہ ربوہ آ جاتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ جاتے ہیں وہ اگر چہ اسی وقت احمدی ہو جاتے ہیں البتہ جو لوگ احمدی نہیں ہوتے وہ پہلے جیسے مخالف بھی نہیں رہتے وہ اپنی ڈار کو چھوڑ دیتے ہیں.جس طرح شکاری مرغابیوں کی ڈار پر فائر کرے اور کسی مرغابی کو ہلکا سا چھتر الگ جائے اس سے اگر چہ وہ نہ مرتی ہے اور نہ گرتی ہے لیکن پھر وہ اپنی ڈار کے ساتھ نہیں اڑ سکتی.پھر وہ اپنی ڈار کو چھوڑ دیتی ہے اور ڈار سے علیحدہ ہوکر زندگی گزار نے لگ جاتی ہے کیونکہ اس کے اندر اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ ڈار کے ساتھ پرواز کر سکے.اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے جانوروں کو اس طور کا بنایا ہے کہ وہ ذرا سا زخم آجانے کے بعد اپنی ڈار کو چھوڑ دیتے ہیں مثلاً یہ ہرن ہے اسے ذرا سا زخم آجائے تو یہ اپنی ڈار کو چھوڑ دیتا ہے.وہ پہلے کی طرح دوڑ ہی نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ نے جانوروں میں اس سمجھ کا مادہ رکھا ہے کہ جب وہ زخمی ہو جائیں تو اپنی ڈار سے الگ ہو جائیں.بالکل اسی طرح ان لوگوں کا بھی حال ہوتا ہے جو ایک دفعہ ربوہ آ جاتے ہیں یا کسی احمدی سے سنجیدگی سے باتیں سن لیتے ہیں ایسا آدمی دلائل سے گھائل ہو جاتا ہے.چنانچہ غلط فہمی دور ہوگئی.مثبت قسم کی دلچسپی پیدا ہوگئی.باتیں سنی شروع کیں مسئلے سمجھ آنے لگے اس حد تک وہ احمدی ہو گیا.پہلے مثلاً آنکھیں بند کر کے ورثہ میں حیات مسیح والا عقیدہ لیا ہوا تھا لیکن پھر جب دلیلیں سامنے آئیں تو وفات مسیح کا قائل ہو گیا.پس اس حد تک وہ احمدی ہو چکا.عقائد کے لحاظ سے ہم نے اس کا ایک عقیدہ بدل دیا اور یہ بات اس کے لئے اچھی ہے.لیکن اس مثال کو ایک اور رنگ میں بھی بیان کر سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ پرند اور چرندکو اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھ عطا کی ہے کہ جب تم اپنی ڈار میں آگے بڑھنے کے قابل نہ رہو تو اپنی ڈار کو چھوڑ دو.ڈار کو کیوں خراب کرتے ہو؟ بعض پرندے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی زخمی پرندہ ڈارکو نہ چھوڑے تو ساری ڈار اپنی رفتار کوکم کر لیتی ہے اور اسے اپنے ساتھ لئے جاتی ہے.ایک دفعہ ہمنگ کے شکار کو گئے.Migratory Bird ( یعنی ایک ملک سے دوسرے ملک کو پرواز کر جانے والا جانور ہے.گرمیوں میں یہ جاچکا تھا.یہاں سردیاں گزارتا ہے لیکن بعض دفعہ کھانے کے لالچ میں بعض دانے ٹھہر جاتے ہیں اور پھر اتنی گرمی ہو جاتی ہے کہ وہ کئی ہزار میل کا سفر گرمی کی وجہ سے نہیں کر سکتے اور انہی میں سے اکثر شکار کی نذر ہو جاتے ہیں.الا ماشاء اللہ چنانچہ تین چانگ ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے.ہم نے فائر کیا ان میں سے ایک گر گیا اور دوسرا تھوڑ اسا زخمی ہو گیا اور قریباً پانچ سو گز کے فاصلے پر جا کر بیٹھ گیا دوسرے دو تین لگ بھی وہاں سے اُڑے اور پھر بجائے کئی میل دور چلے جانے کے اُس زخمی لگ کے پاس آکر بیٹھ گئے پس یہ جتنے پرند اور چرند ہیں ان میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنی ڈار کے ساتھ نہیں چل سکتے تو انہیں اپنی ڈار کو بہر حال چھوڑ دینا چاہیے ورنہ ساری ڈار تکلیف میں پڑ جائے گی.لیکن منافق کو یہ احساس نہیں ہوتا.وہ بھی روحانی طور پر زخم خوردہ ہوتا ہے نا! مگر بیچ میں گھسا رہتا ہے اس کی وجہ سے جماعت کو بہر حال چاہے وہ فتنہ بڑا نہ ہو کچھ نہ کچھ نقصان اٹھانا پڑتا ہے Slow down ( یعنی سست رفتار ) ہونا پڑتا

Page 156

153 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم دد ہے.ان کی تربیت کی طرف کچھ زیادہ توجہ پھیر نی پڑتی ہے.جو کہ دوسری طرف دے سکتے تھے.پس رفتار میں ستی بہر حال پیدا ہو جاتی ہے چاہے وہ جماعت کی جو حرکت آگے کی طرف ہے اس کا اربواں حصہ ہی کیوں نہ ہو لیکن بہر حال فرق تو ضرور پڑتا ہے.اس وقت تو ہمیں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے Momentum ( مومینٹم ) حاصل کرنے کا موقعہ دیا ہے.اگر آپ اپنی جماعتی عمر کو دس سالہ اثاثوں میں تقسیم کر کے دیکھیں کہ جو ہماری ترقی ہوئی ہے.پہلے دس سال میں، دوسرے دس سال میں، تیسرے دس سال میں، چوتھے دس سال میں پانچویں دس سال میں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ہماری ترقی دس سالہ اصول پر نہیں ہوتی یعنی پہلے دس سال اور دوسرے دس سال کو ملا کر دگنی ترقی ہونی چاہیے تھی لیکن ترقی ہوتی ہے چار پانچ گنا زیادہ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نسبت بڑھتی چلی جارہی ہے.اس رفتار ترقی کو قائم رکھنا بڑا ضروری ہے کیونکہ انسان اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہتا ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا ہوتی ہے اور قومی لحاظ سے جوذ مہ داریاں زیادہ تربیت یافتہ نسل پر ڈالی گئی.مثلا تیسری نسل پر.اس سے کہیں زیادہ ذمہ داریاں چوتھی نسل پر پڑتی ہیں.کیونکہ ایسے Momentum ( موسیشم ) کی وجہ سے کام میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے اور تربیت میں نسبتا کمی واقع ہو جانے کا امکان ہوتا ہے ضروری نہیں کہ کبھی پیدا ہو بھی لیکن امکان تو بہر حال ہوتا ہے.پس اس محاذ پر ہمیں بڑی ہی جدو جہد اور مجاہدے کی ضرورت ہے.جس نسل پر پہلے سے زیادہ اور وسیع ذمہ داریاں پڑتی ہیں وہ ان ذمہ داریوں کو نباہنے کے قابل ہونی چاہیے ورنہ ہمارے اس Momentum (مومیشم) میں فرق پڑ جائے گا.ہم اس تیزی سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے.میں نے جلسہ سالانہ پر بتایا تھا کہ پچھلے اسی نوے سال میں بڑا نمایاں فرق نظر آتا ہے.۱۹۴۴ ء تک باہر کے ملکوں کے احمدیوں کی تحریک جدید میں ایک پیسے کی بھی Contribution ( کنٹری بیوشن نہیں تھی.مقامی طور پر تھوڑی بہت مالی قربانی دیتے ہوں تو یہ الگ بات ہے جس طرح مثلاً یہاں کراچی میں دوست مقامی طور پر بھی چندہ دیتے ہیں لیکن جہاں تک ہمارے بجٹ کے حصے کا تعلق ہے اس میں باہر کے ملکوں کے احمدیوں کا ایک دھیلا بھی چندہ نہیں تھا اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید کے بجٹ کا ساٹھ ستر فیصد حصہ باہر کے ملکوں کے احمدیوں کے چندے کا ہوتا ہے.میں نے دوبار ایسے Figure ( یعنی اعداد و شمار ) لے کر موازنہ کیا تھا تو میں علیٰ وجہ البصیرت اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ترقی کی رفتار میں دن بدن تیزی پیدا ہورہی ہے.ویسے یہ تو محض اللہ تعالیٰ کے مل کا نتیجہ ہے.ہم نے اپنے زور بازو سے یہ شاندار ترقی حاصل نہیں کی.پس یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بڑا انعام ہے اور ہمیں اس انعام کی ناشکری نہیں کرنی چاہیے.اس لحاظ سے آپ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے.آپ بڑی عجیب قوم ہیں یعنی امکان کی دنیا میں آپ کا بلند مقام ہے.آپ دوسرے نوجوانوں کی طرح نہیں ہیں.آپ ایسے بے شمار فضلوں اور نعمتوں کے وارث ہوتے ہیں اور یہ فضل اور انعام ان نعمتوں کے علاوہ ہیں جو ہر انسان پر نازل ہورہے ہیں لیکن ایک وہ انعام ہے جس میں مومن اور کافر برابر ہے لیکن آپ نے جن الہی انعامات سے حصہ لیا -

Page 157

دومشعل دوم فرموده ۱۹۶۹ء 154 ہے وہ دوسروں کے انعام Plus ( یعنی جمع ) یہ انعام ہیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا فضل ہے یہ ایک معمولی سی یا چھوٹی سی نعمت نہیں ہے اس لئے آپ کو اپنی ذمہ درایوں کو نباہنا چاہیے.اپنے ماحول کو پاک کرنا چاہیئے.قرآن کریم کی خوبیاں قرآن کریم کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جسے پیٹھ پیچھے پھینک دیا جائے.اس میں اس قدر علوم ہیں خزانے بھرے ہوئے ہیں کہ ہماری اخلاق کی صفائی کے لئے ہماری ذہنی نشو ونما کے لئے ہماری جسمانی قوتوں کو بحال رکھنے کے لئے اور ہر بداخلاقی سے بچنے کے لئے تعلیم دی گئی ہے.غرض قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس میں جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی فوائد رکھ دیئے گئے ہیں.مثلاً یہ شراب ہے اس کے متعلق صرف یہ نہیں کہا کہ اس کا پینا گناہ ہے بلکہ ساتھ ہی اس کی مضرت بھی بتائی گئی ہے کہ انسانی جسم پر اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے اسی طرح سور کا گوشت ہے اس کے متعلق بھی بتایا ہے کہ اس کے کھانے کے یہ یہ نقصانات ہیں.اس طرح مثلاً غیبت کرنا ہے غیبت کا اثر صرف اخلاق ہی پر نہیں بلکہ انسان کی جسمانی زندگی پر بھی پڑتا ہے اور اگر یہ عادت طالب علموں میں پیدا ہو جائے تو وہ دو گھنٹے پڑھنے کی بجائے یہ وقت ایک دوسرے کی غیبت کرنے میں گزار دیتے ہیں اور اس طرح ان کا وقت ضائع ہوتا ہے تعلیم حرج ہوتی ہے دنیوی زندگی پر بھی اثر پڑتا ہے.میں نے کئی ایسے طالب علموں کو جو اس طرح کی بہت سی بد عادتوں کی وجہ سے اپنا وقت ضائع کرتے ہیں انہیں بلا کر سمجھایا کرتا ہوں کہ پڑھائی کی طرف توجہ کرنے سے تمہارا اپنا فائدہ ہے.البتہ وقتی طور پر تمہارے پاس کچھ بھی خوشی ہوگی مگر اصل فائدہ تو تمہیں پہنچے گانہ کہ مجھے نہ تمہارے والد کو کیونکہ میں نے تم سے کوئی چیز تو نہیں مانگی تم نے اپنی زندگی بنانی ہے.اس سے تمہارے ماں باپ بھی خوش ہوں گے کہ بیٹا علم کے میدان میں ترقی کر کے آگے نکل کر دنیوی لحاظ سے بھی ترقی کر گیا.لیکن اس تعلیم کا اصل فائدہ تمہاری ذات کو پہنچتا ہے.اس لئے اپنی ذات پر ظلم نہ کرو.جتنی باتوں سے ہمیں روکا گیا ہے ان کا اثر پڑھائی پر بھی لازماً پڑتا ہے.مثلاً ایک بدظنی ہی کو لے لیجئے اس کا بھی پڑھائی پر بُرا اثر پڑتا ہے.مثلاً ایک طالب علم اپنے دماغ میں یہ سوچتا ہے کہ یہ بات میرے خلاف فلاں طالب علم نے کہی ہوگی.چنانچہ اس کے نتیجہ میں اس کا دماغ کھولتا رہتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں بھی اس سے بدلہ لے کر چھوڑ ونگا پس اس غصے کی وجہ سے اس کا قیمتی وقت ضائع ہوتا رہتا ہے.اسی طرح بدظنی کا عام دنیوی زندگی پر بھی بہت برا اثر پڑتا ہے.غموں کے باجود بشاشت قائم رہنی چاہیئے پس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کریں.کیونکہ یہ تعلیم ہماری جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی قوتوں کی Normal Development کی ضامن ہے.اس سے کوئی

Page 158

155 فرموده ۱۹۶۹ء دد د و مشعل راه جلد د ، دوم Complex (یعنی الجھن ) نہیں پیدا ہوتی.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.جتنی مجھے پریشانی ہے کسی اور کو تو نہیں ہو سکتی کیونکہ ہر احمدی کی پریشانی میری پریشانی ہے.جماعتی مسائل میں جن کو حل کرنا پڑتا ہے.پھر ساری دنیا سے خطوط آتے ہیں جماعتی الجھنیں الگ ہیں.بعض دفعہ فتنے رونما ہو جاتے ہیں.بعض سازشیں ہوتی ہیں اور یہ الجھنیں ، فتنے یا سازشیں میرے لئے خوشی کا باعث تو نہیں بنتے.مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک حساس دل دیا ہے.وہ تڑپتا ہے بے چین ہوتا ہے.دعائیں کرتا ہوں.اس غم کا مداوا جس دَر سے جا کر ہوسکتا ہے اس دَر پر جا کر غم کا اظہار کرتا ہوں لیکن میرے چہرے پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر وقت بشاشت رہتی ہے.میرے چہرے کو دیکھ کر کوئی شخص یہ کہے گا کہ اسے بھی کوئی دکھ یا غم لاحق ہی نہیں ہوا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے کوئی Complex (الجھن ) نہیں پیدا کی.مثلاً جب باہر سے کوئی خبر آئے اور میرے دماغ میں یہ کیڑا ہو کہ میں اپنے زور سے اس دوا کا علاج کر سکتا ہوں یا اس الجھن کو دور کر سکتا ہوں تو مجھے بڑی فکر پیدا ہوگی اور میری حالت ایک اور طرح کی بن جائے گی میرے اعصاب پر بھی اس کا اثر پڑے گا.لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس چیز سے محفوظ رکھا ہو اور میں ایسے وقت میں یہ سمجھوں کہ صرف اللہ تعالیٰ یہ کام کر سکتا ہے اور اسی سے مجھے مانگنا چاہیے میرا کام ہے کہ جتنا میرے امکان میں ہے اس سے دعا کروں.پھر مجھے گھبرانے کی ضروت نہیں.گو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعا کے وقت دعاؤں کے نتیجہ میں اس طرح جواب نہیں ملتا لیکن دل میں ایک تسکین پیدا ہو جاتی ہے اور خود بخود ایک بشاشت کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.پس احساس کے اندر تبدیلی آجاتی ہے.یعنی وہ آواز کان کو تو نہیں پہنچتی بلکہ اس حس کو پہنچتی ہے جسے کسی غمناک خبر نے پریشان کیا ہوتا ہے.خبر آتی ہے فلاں آدمی بڑا سخت بیمار ہے.اور ایسی خبریں ان گنت دفعہ آتی ہیں) پس میں اس کے لئے دعا کرتا ہوں بعض دفعہ چند گھنٹے کے بعد بعض دفعہ ایک دن کے بعد بعض دفعہ دو دن کے بعد دل میں یہ اطمینان پیدا ہو جاتا ہےکہ اللہ تعالیٰ اس پر فضل کرے گا اور وہ ٹھیک ہو جائے گا.کبھی تو کوئی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے چنانچہ دعا کے لئے خط آتا ہے.میں دعا کرتا ہوں.میرے دل میں اطمینان ہو جاتا ہے اور اس طرح پریشانی اور تکلیف کا احساس خود بخود ختم ہو جاتا ہے چاہے اللہ تعالیٰ کے اس فضل کی مجھے اطلاع دو دن یا اس پندرہ یا بیس دن بعد میں آئے.بعض دفعہ غیر ملکی ڈاک کی وجہ سے اطلاع ملنے میں دیر ہو جاتی ہے لیکن اس قسم کی اطلاع ملنے سے پہلے ہی میرے دل میں اطمینان پیدا ہو جاتا ہے اور دل میں ہر قسم کی ایک تسلی پیدا ہو جاتی ہے کہ اگر کسی کا کام ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو گیا ہے یا اگر کوئی بیمار ہے تو وہ الہی فضل سے تندرست ہو گیا ہے وغیرہ.اللہ تعالیٰ صرف احساس کی تاروں کو چھیڑتا ہے.کان میں بھی تو اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز سنائی دیتی ہے.چنانچہ صوتی لہریں پیدا ہو جاتی ہیں جنہیں دوسروں کے کان نہیں سنتے.مگر ایک شخص ہے جس کے کان سن رہے ہوتے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹروں کا یہ دعویٰ کہ کان کا جو ڈرم ہے وہ اس صوتی لہروں کے Belt ( بیلٹ ) میں کام کر رہا ہے اس کے علاوہ نہیں کر رہا یہ غلط ہے جس طرح Amateur (یعنی شوقین) کے لئے رکھے ہوئے براڈ کاسٹنگ مختلف Frequencies ہوتی ہیں.

Page 159

فرموده ۱۹۶۹ء 156 د مشعل راه جلد دوم دد ہمارے ملک میں تو بڑی پابندی ہے امریکہ میں ہر کوئی پوسٹ آفس سے جا کر لائسنس حاصل کر کے ایک ایسا ٹرانسمیٹر بھی خرید سکتا ہے جس کے ذریعہ امریکہ میں بیٹھا ہوا ایک شخص افریقہ میں اپنے دوست سے باتیں کر سکتا ہے.پہلے دوستی تھی کہ دو دوست آپس میں مل بیٹھتے تھے لیکن پھر انسان کے دماغ نے pen Friendship ( یعنی قلمی دوستی ) نکالی.یعنی خط و کتابت کے ذریعہ دوستی قائم کرنا.اس کا ایک عرصہ سے بڑا رواج چلا آ رہا ہے اب انہوں نے وائرلیس کے ذریعہ بھی دوستی کا ذریعہ نکالا ہے چنانچہ اس سلسلہ کا ایک لطیفہ ہے وہ بھی آپ کو میں سنا دیتا ہوں.بعض تالے گھروں کے باہر خود بخود Lock ( یعنی مقفل ) ہو جاتے ہیں.اندر سے کھل جاتے ہیں لیکن باہر سے جب تک چابی نہ لگائی جائے نہیں کھلتے.ایک شخص کی بیوی کسی کام کے لئے اپنے ہمسائے کے گھر میں گئی مگر اپنے ساتھ دروازے کی چابی رکھنی بھول گئی.دو چار منٹ کے بعد ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور دروازہ بند ہو گیا.اب وہ دروازہ کھولنے کے لئے دستک دینے لگی مگر اندر اس کا خاوندا فریقہ کے کسی دوست سے وائرلیس پر محو گفتگو تھا وہ اس کی آواز سن ہی نہیں رہا تھا.دو چار گھر چھوڑ کر اسی قسم کا ایک اور جنونی تھا اس کے گھر میں پہنچی اور کہنے گی کہ میرا خاوند اپنے دوست کے ساتھ وائرلیس پر مو گفتگو ہے.دروازہ اندر سے بند ہے.باہر سے بغیر چابی کے کھلتا نہیں.سردی کا موسم ہے.تم اسے وائرلیس پر یہ بتاؤ کہ تمہاری بیوی باہر کھڑی انتظار کر رہی ہے.وہ اندر سے دروازہ کھولے.پس اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے کانوں میں کچھ ایسی صوتی لہریں یعنی Reserve Frequencies پیدا کر دیتا ہے کہ ان کا ایک عام آدمی کو پتہ ہی نہیں ہوتا.ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کے کان میں ایک آواز آئے اور ساتھ جو آدمی کھڑا ہے اس کو آواز ہی نہ آئے اور یہ بتانے کے لئے اللہ تعالیٰ مختلف اوقات میں ایسا انتظام بھی کرتا ہے کہ جو آواز اوپر سے آتی ہے وہ ساتھ والے بھی سن لیتے ہیں.ان کے کان کو بھی Reserve Frequencies Tume( ریزور فریکوئنسی ) اجازت دے دیتا ہے.وہ تو ہے اور اجازت دے دی جاتی ہے کہ اچھا آج تم بھی سن لو.پھر ان کو سمجھ آتی ہے کہ اس نے جو دس پندرہ باتیں سنائی تھیں واقعی اس کے کان میں آواز پڑی ہوگی.انبیاء علیہم السلام ہزاروں کی تعداد میں باتیں سنتے اور آگے پہنچاتے ہیں.بدظنی کرنے والے بدظنی کرتے ہیں.اب ” کن فیکون“ ہے.میں نے کل خطبہ میں بھی کچھ بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں جو مادی شکل اختیار کر لیتی ہیں.یعنی جب خدا کا یہ حکم ہوتا ہے کہ یہ کلمہ اس قسم کی مادی شکل اختیار کرے تو ویسی ہی مادی شکل اختیار کر لیتا ہے اب یہ ایک فلسفہ ہے یہ بڑا گہرا فلسفہ ہے.ہر ایک آدمی تو اس کو سمجھ بھی نہیں سکتا اور جو لوگ اس فلسفہ کو سمجھ سکتے ہیں ان کی باتوں پر بہت سارے لوگوں کو یقین بھی نہیں آسکتا.پھر بعض دفعہ اللہ تعالیٰ ایسے نشان دکھاتا ہے کہ کن کا نظارہ سامنے آجاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور کا غذات پیش کر رہے ہیں.یہ ایک کشفی نظارہ تھا.منظوری دینے کے لئے قلم کو سرخی کے اندر یعنی ہولڈر ڈبو کے (انسان جس شکل میں سمجھ سکتا تھا وہی سامنے رکھی تھی ) آپ تو پین استعمال کرتے ہیں.اس سے دستخط خراب ہو گئے ہیں.پہلے ہولڈر سے کام

Page 160

157 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم کرنے والے کلرک لکھائی کے لحاظ سے اچھے ہوتے تھے وہ ا اپنا خط اچھا رکھتے تھے.مگر اب Mass Production (ماس پروڈکشن) کے خط خراب ہو گئے ہیں.بہر حال اس سرخ سیاہی والے ہولڈر کو چھینٹا دیا تو سرخی کے نشان آپ کے کپڑوں پر پڑ گئے.اگر اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس کوئی اور آدمی بیٹھا ہوتا تو مخالفین کہتے کہ آپ نے یہ بات بنالی ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ایک تو گواہ ساتھ بٹھا دیا اور جب قلم کو جھاڑا تو سرخی کے چھینٹے کپڑوں پر بھی گرے اور آپ کے پاس بیٹھے ہوئے آپ کے صحابی کے کپڑوں پر بھی گرے.اس کے بعد ماننے والوں میں سے دو قسم کے دماغ ہونگے ایک تو وہ جس نے یہ نظارہ دیکھا.اگر یہاں دنیا کے فلسفی دلائل دیں کہ ایسا نہیں ہوسکتا تو وہ کہے گا تم پاگل ہو میں پاس بیٹھا ہوا تھا.میں نے یہ واقعہ خود دیکھا ہے.دُنیا کا کوئی کیڑایا چھپکلی ایسی نہیں جس کا پیشاب سرخ رنگ کا ہو اور جو خون ہے اس کا بھی پتہ لگ جاتا ہے.اب تو یہ بات مشکل ہی نہیں رہی کہ ہم خون اور سیاہی میں فرق نہ کر سکیں اور یہ اس صحابی کے لئے جس نے اپنی آنکھوں سے اس واقعہ کو رونما ہوتے دیکھا ایک قسم کی تسلی تھی اور یہ اس کے یقین کو پختہ کرنے کے لئے تھی.اب اس کا ایمان تو کوئی بدل نہیں سکتا.اسے کوئی دلیل اس بات کی قائل نہیں کر سکتی کہ یہ ایک ذہنی اختراع ہے.یہ تو اس کا اپنا مشاہدہ ہے اس لئے وہی دلائل مشاہدہ کو منسوخ نہیں کر سکتے.پس اگر ہمارے سامنے یورپ کے امریکہ کے اور چین کے اور روس اور فرانس کے فلسفی آ کر کہیں کہ اس قسم کی باتوں کو نہ مانو.ہم انہیں کہیں گے.تم پاگل ہو ہم نے تو اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کیا ہے اور بھی بہت سے رنگ میں مشاہدہ کیا ہے اور اس رنگ میں بھی مشاہدہ کیا ہے پس یہ بتانے کے لئے کہ میرے حکم سے یہ ساری دنیا بنتی ہے ایک یہ سرخ سیاہی کے چھینٹے پڑنے والا ) نظارہ دکھا دیا کہ دیکھو اس طرح بنتی ہے ”کن“ کا حکم ہوا تو اللہ تعالیٰ کا یہ جلوہ سرخ سیاہی کے رنگ میں نمودار ہو گیا اور اس کے نشان کپڑوں پر بھی ظاہر ہو گئے.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑا مختلف بنایا ہے بہت سارے احمدی اپنے اس مقام کو نہیں پہچانتے.صوفیاء نے کہا ہے کہ جو آدمی اپنے نفس کو پہچان لیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے.یہ بات بڑی ہی بچی ہے لیکن اس کا اطلاق صرف اسی بندے پر ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے کسی نیک بندے کے ساتھ تعلق رکھتا ہو اور اس کے عقائد بھی اور اس کے اعمال بھی درست ہوں.ویسے تو اللہ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق سے پیار کرتا ہے لیکن پیار پیار میں بڑا فرق ہوتا ہے ایک پیار کا تعلق مثلاً ڈاکٹر کو اپنے مریض سے ہی ہوتا ہے وہ اس پیار سے بڑا مختلف ہوتا ہے جو ایک باپ کو اپنے بیٹے سے یا بھائی کو اپنی بہن سے ہے.اس میں بہت فرق ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ایک قرب عام کا تعلق ہے جو اس کی ہر مخلوق سے ہوتا ہے.میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ ایک قبر کا بھی قرب ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ جب کسی آدمی کو اصلاحی طور پر سزا دینا چاہتا ہے.مثلاً خدام الاحمدیہ میں بھی یہ طریق یا ذریعہ اصلاح مشہور ہے.یہ ذریعہ اصلاح بید مارنے کی شکل میں ہوتا ہے کبھی بوجھ اٹھانے کی شکل میں ہوتا ہے کبھی جھڑ کنے کی شکل میں ہوتا ہے کبھی

Page 161

د و مشعل راہ جلد دوم فرموده ۱۹۶۹ء 158 پیار کی شکل میں ہوتا ہے، کبھی استغفار پڑھوانے کی شکل میں ہوتا ، پس ایک تو اصلاحی قرب قہر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ سے غصے کا اظہار فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں محفوظ رکھے.اللہ تعالیٰ کا غصہ بڑا سخت ہوتا ہے.انسان اللہ تعالیٰ کے ایک سیکنڈ کے غصے کی بھی تاب نہیں لاسکتا.دعا کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہم سے ہمیشہ پیار ہی کرتا رہے.بہر حال جماعتی لحاظ سے (انفرادی طور پر تو میں بھی کہتا ) احمدی نوجوانوں اور دوسرے نو جوانوں میں بڑا فرق ہے.جماعتی لحاظ سے دوسروں کی نسبت ہمارے نوجوان کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے وارث بنتے ہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننا چاہیے.دنیا کے لئے ایک نمونہ بننا چاہیے پھر اگر واقعی اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی اور پیار ہے تو یہ بھی کوشش کرنی چاہیے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے پیار کے دائرہ سے باہر ہیں وہ بھی اس دائرہ کے اندر آجائیں اور اللہ تعالیٰ ان سے بھی پیار کرنے لگ جائے.پس میری آپ کو بنیادی نصیحت تو یہی ہے کہ آپ میں سے ہر ایک ممبر اپنے اس مقام کو پہچانے جو مقام کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو عطا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 162

159 فرموده ۱۹۶۹ء د دمشعل راه جلد دوم سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے مورخہ ۷ ستمبر ۱۹۲۹ ء پونے چھ بجے احمد یہ ہال میں جو خطاب فرمایا تھا اس کا مکمل متن تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: - آپ نے ابھی اپنی رپورٹ سن لی ہے.کراچی کی مجلس اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی حد تک فعال مجلس ہے تا ہم اس قدر فعال نہیں جس قدر جماعت احمدیہ کی ایک مجلس کو فعال ہونا چاہئے.پھر بھی آپ جس رنگ میں کام کر رہے ہیں اور جن جن پروگراموں پر عمل پیرا ہیں وہ بڑے اہم ہیں.جو خدام مجلس کے ایسے پروگراموں کو بنانے کے لئے مجلس کے ساتھ تعاون نہیں کرتے یا کسی بھی کام میں حصہ نہیں لیتے انہیں توجہ دلاتے رہنا چاہئے تا کہ وہ غفلت کے پردوں سے باہر نکل کر فعال زندگی گزارنے لگیں.ہمارا اصل مقصد آج میں اپنے عزیز بچوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے جو بھی مختلف پروگرام یا کام کرنے کے جو بھی مختلف شعبے بنارکھے ہیں یہی ہمارا اصل مقصد نہیں ہے.ہمارا اصل مقصد قرآن کریم کی روشنی میں تو حید خالص کو کو قائم کرنا ہے اور قرآنی تعلیم اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل پیرا رہنا ہے.ایک خاص جہت کی طرف انسان کی ہر حرکت و سکون اس غرض کے لئے ہے کہ تو حید حقیقی جلوہ گر ہو.تو حید حقیقی کے قیام کے لئے تین قسم کے حقوق ادا کرنے پڑتے ہیں.ایک تو اللہ تعالیٰ کا حق ہے دوسرے اس کے بندوں کا حق ہے اور تیسر.ہمارے اپنے نفس کا حق ہے.حقوق اللہ اور حقوق العباد اللہ تعالیٰ نے انسان پر جو اپنا حق واجب قرار دیا ہے اس کی بھی آگے دو قسمیں ہیں ایک قسم تو وہ ہے جو ہمارے اپنے وجود سے تعلق رکھتی ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار مختلف پیرایوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ اپنی ذات وصفات کو بیان فرمایا ہے اور ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا علم و عرفان رکھنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اس کے حق کے ہم پر واجب ہے پس بنی نوع انسان کے لئے یہ نہایت ہی ضروری ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے رب کی ذات وصفات کا علم و عرفان حاصل کریں کیونکہ اس کے بغیر تو حید حقیقی کا قیام ممکن ہی نہیں.مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق بنیادی طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تمام صفات حسنہ سے متصف اور

Page 163

فرموده ۱۹۶۹ء 160 د دمشعل باراه جلد دوم تمام کمزوریوں اور نقائص سے منزہ ہے اور پھر اپنی ان صفات حسنہ کو اس نے قرآن کریم میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے.مثلاً یہ کہ وہ رب ہے.اس نے ہمیں پیدا کیا بغیر اس کے کہ ہمارا کوئی عمل ہوتا اس نے اپنی حکمت کا ملہ کے ا ماتحت انسان کو پیدا کیا اور پھر اس سے آگے نسل انسانی کا سلسلہ چلایا.ساتھ ہی اس نے ہمیں بہت سی قو تیں اور طاقتیں اور قابلیتیں عطا کیں یہ قوتیں اور طاقتیں اور یہ استعدادیں ہمارے جسم سے بھی تعلق رکھتی ہیں ہمارے ذہن سے بھی تعلق رکھتی ہیں ہمارے اخلاق سے بھی تعلق رکھتی ہیں ہماری روحانیت سے بھی تعلق رکھتی ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں بنیادی طور پر یہ قو تیں اور طاقتیں اور قابلیتیں عطا فرمائیں.پھر اس رب نے ہم پر اپنا فضل فرماتے ہوئے ہم سے یہ وعدہ فرمایا کہ اگر تم میری طرف آؤ گے تو پھر میں تمہاری جسمانی، ذہنی ، اخلاقی اور روحانی قوتوں اور استعدادوں کی نشو و نما اس طرح کروں گا کہ تمہاری انگلی پکڑ کر تمہیں صراط مستقیم پر گامزن کر دوں گا یہاں تک کہ تم اپنے دائرہ استعداد میں یعنی جتنی تمہاری قوت اور استعداد ہے اس کے مطابق تم اپنی نشو و نما کے کمال کو پہنچ جاؤ گے پس اللہتعالی کا یہ وعدہ ہے کہ ہرشخص اگر وہ چاہے تو کمال حاصل کر سکتا ہے اگر چہ ایک دوسرے کے کمال میں اختلاف ہوگا لیکن ہر شخص اپنے اپنے دائرے میں جس قدر ا سے قوت یا طاقت یا استعداد عطا ہوتی ہے اسے بروئے کارلاتے ہوئے ایک کامل انسان بن سکتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے انسان سے یہ بھی کہا ہے کہ تمہاری جسمانی ، بہن ، اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشو ونما کے لئے تجھے اس مادی دنیا میں جس جس چیز کی بھی ضرورت تھی وہ میں نے تمہارے لئے پیدا کر دی ہے.پھر فرمایا کہ میں نے یہ بھی انتظام کیا ہے کہ جب تم نیک اعمال کرو گے تو اس کی بہترین جزاء میری صفت رحیمیت کے جلوے کے ماتحت مل جائے گی اور جب تم کوشش کرو گے تو تمہاری کوشش کو انتہا تک پہنچانے کے لئے یعنی اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے بھی انتظام کروں گا.کوشش تو بے شک تم کرو گے اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھو گے لیکن تمہیں خود اپنی کوشش سے وہ سب کچھ نہیں مل سکتا جو کمال کے درجے پر پہنچنے کے لئے ضروری ہوتا ہے اس لئے میں نے تمہارے لئے یہ بھی انتظام کیا ہے کہ میری صفت رحمانیت کے جلوے تم پر ظاہر ہو نگے.اور بغیر تمہارے کسی عمل اور عمل کے نتیجہ میں جو استحقاق ( جو کوشش اور مجاہدہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اس لئے اس کو ہم استحقاق کہتے ہیں ویسے تو کسی شخص کا اللہ تعالیٰ پر کوئی حق نہیں ہے ) پیدا ہوتا ہے اس کے بغیر بھی میں تمہیں دوں گا.کیونکہ میں بڑا رحم کرنے والا رب ہوں.میری رحمتوں نے ہر ایک چیز پر گھیرا ڈالا ہوا ہے.جس وقت بدلہ دینے کا آخری وقت آئے گا اس وقت میں کسی اور کو یہ نہیں کہونگا کہ وہ بدلہ دے بلکہ میں جو علام الغیوب اور رحمتوں کا سر چشمہ اور منبع ہوں جزا دینے کے کام کو بھی اپنے ہاتھ میں لونگا اور اس کی جزاء میں خود دوں گا.اور مالک ہونے کی حیثیت سے دونگا.تمہاری خطائیں ،غفلتیں اور کوتاہیاں معاف کردوں گا اور جو تمہارے اعمال ہونگے ان سے کہیں بڑھ کر ان کی جزاء دوں گا.کیونکہ میں مالک بھی ہوں جو چاہوں تمہیں دے سکتا ہوں.میرے خزانے بھرے ہوئے ہیں ان میں کمی کا کوئی خطرہ نہیں ہے.

Page 164

161 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم دد پس اللہ تعالیٰ نے ان امہات الصفات یعنی چار بنیادی صفات کا سورۃ فاتحہ میں ذکر فرمایا.ان کے علاوہ اور بھی بہت سی صفات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں ہی رزاق ہوں میں ہی غفور ہوں، میں ہی عزت کا سرچشمہ ہوں، میں ہی رفعتوں کی انتہاء تک پہنچانے والا اور اپنی طرف کھینچنے والا ہوں، میں ہی ہر قسم کے قادرانہ تصرف کا مالک یعنی قادر مطلق ہوں.اللہ تعالیٰ کی یہ اور دوسری صفات قرآن کریم میں کثرت سے بیان ہوئی ہیں.غرض اللہ تعالیٰ کا پہلا حق ہم پر یہ ہے کہ ہم اس کی صفات کی معرفت حاصل کریں.دراصل ہماری روحانی رفعتوں کے حصول کے لئے کوششوں کی یہ ابتداء ہے.ہمارے لئے پہلا ضروری قدم یہ ہے کہ ہم اس کی صفات کو اچھی طرح سمجھنے لگ جائیں.ان سے واقفیت حاصل کر لیں اور قرآن کریم کی صفات باری کے متعلق جو تعلیم ہے وہ ہمارے لئے نور کا ایک کالر بن جائے ایک روشنی بن جائے تا کہ ہمارے لئے سہولت کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت کے حصول کی طرف قدم بڑھانا ممکن ہو جائے.پس پہلا حق اللہ تعالیٰ کا ہے اور اس کی پہلی قسم اس کی صفات کا پہچاننا ہے.اللہ تعالیٰ کا دوسراحق یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت حاصل ہو جائے تو پھر عملاً اپنی زندگی میں اس حق کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے خالص اور کامل اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کی کرنا اور اس پر بھروسہ رکھنا اور اس میں گم اور فنا ہو جانا.ہمارا کوئی فعل اور ہمارا کوئی ترک فعل ہماری کوئی حرکت یا کوئی سکون یا ہماری توجہ کا کسی قسم کا مبذول ہو جانا سوائے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے اور کوئی خاصہ نہ رکھتا ہو.ہمارے ہر فعل میں یہ بنیادی خصوصیت ہو کہ ہمارا ہر فعل اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ہو اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو اور اس بات کو ظاہر کر رہا ہو کہ گویا ہم اس کے وجود میں اور اس کی صفات میں فنا ہو گئے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے حق کے یہ دو پہلو ہیں ایک یہ کہ اس کی صفات کو جانا اور پہچانتا اور دوسرایہ کہ کامل اور چی اور حقیقی اطاعت صرف اسی کی کرنا اور کسی غیر اللہ کی طرف نگاہ نہ کرنا.جو شخص اللہ تعالیٰ کو حقیقی معنوں میں اپنا رب سمجھنے لگ جائے وہ ربوبیت کے حصول کے لئے کسی اور کے پاس تو نہیں جائے گا.جو شخص اللہ تعالیٰ کو صیح معنوں میں رحیم سمجھنے لگ جائے وہ اپنی جد و جہد اور اپنی کوشش اور عمل کے نتیجہ کے لئے کسی اور کی طرف تو متوجہ نہیں ہوگا اور جو شخص اپنے عمل کے میدان میں اپنے اندر یہ احساس رکھتا ہو کہ خواہ میں کس قدر عمل کر لوں میری ضرورت ( اور ضرورت یہ ہے کہ میں اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرلوں ) اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی جب تک اللہ تعالیٰ اپنی صفت رحمانیت کے جلوے مجھے نہ دکھائے.پس اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا کامل عرفان اور اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ساری زندگی گزارنا یہ اللہ تعالیٰ کے (اس کے بندوں پر ) حق کے دو ( علمی اور عملی ) پہلو ہیں.ان دونوں کے بغیر ہماری زندگی میں وہ تو حید قائم نہیں رہ سکتی جو اللہ تعالیٰ قائم کرنا چاہتا ہے.تو حید کے قیام کے لئے ایک اور حق ہے جس کو ادا کرنا ضروری ہے اور یہ عباد کا حق ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے

Page 165

فرموده ۱۹۶۹ء 162 د و مشعل راه جلد دوم بندوں کا حق ہے جسے ادا کرنا تو حید خالص کے قیام کے لئے ضروری ہے.یہاں بھی اس حق کے دو پہلو ہیں.ایک یہ کہ انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو پہچانے جیسا کہ حقوق اللہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات کو پہچانا ضروری تھا ایسا ہی یہاں پر انسان کا دوسرے انسان کو پہچانا ضروری ہے اور انسان کی پہچان اسلام نے یہ بتائی ہے کہ ایک تو تمام بنی نوع انسان کو اپنے جیسا انسان سمجھے ( یہ اپنے جیسے کی تفصیل آگے آئے گی ) دوسرے یہ کہ تمام بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کا بندہ سمجھے اس سے زیادہ کچھ نہ سمجھے اور تیسرے یہ کہ ہر انسان کو لاشی محض اور پیچ سمجھے.کیونکہ اس کے اندر اپنی کوئی طاقت اور قوت نہیں ہے اپنے نفس میں وہ کچھ بھی نہیں ہے اس کے اندر جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے.اس کا اپنا کچھ نہیں.جو خدا نے دیا جس طرح اس نے بنایا جو کچھ قوت، طاقت اور استعداداس کے اندر پیدا کی اس پر انسان کی زندگی کا دار ومدار ہے وہ اپنی ذات میں کچھ نہیں.تمام انسانوں جیسا ایک انسان ہے.اس سے زیادہ کسی انسان کو کوئی مقام حاصل نہیں.حقوق العباد کی ادائیگی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم انسانی زندگی کے اصل مقصد کے حصول کے لئے یعنی اللہ تعالیٰ کے قرب کا تعلق قائم کرنے کے لئے ایک دوسرے کے مد و معاون بنیں.پہلے یہ کہ اس کو کچھ نہ سمجھیں اور دوسرے یہ کہ اپنے اندر غیروں کے لئے خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ اس وجہ سے پائیں کہ ہم نے ان کا ممدو معاون بنکر ان کو اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں پر چلانا ہے.یہ حق العباد کا دوسرا پہلو ہے جس کو ہم عملی تو حید کہہ سکتے حق العباد کے ہر دو پہلو یہ ثابت کرتے ہیں اور جس کی وجہ سے توحید کے ساتھ ان کا تعلق ہے کہ اس Universe (یونیورس) اس عالمین، اس دنیا، اس جہاں کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس کو عظمت حاصل اور اس کی عزت قائم ہے.وہی عظمت اور عزت کا سر چشمہ ہے اور اس کے علاوہ جسے ہم غیر کہتے ہیں.اس کے اندر کوئی خوبی نہیں ہے کوئی عزت نہیں ہے اس کا کوئی احترام نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کا جو احترام قائم کیا ہے اور جس طرح میں ہوں ( اور میں کی حقیقت آگے تیسرے حق میں بتاؤں گا ) اسی طرح کے یہ بھی انسان ہیں اور محتاج ہیں اس بات کے کہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑیں اور ان راہوں پر ایک دوسرے کی مدد کرتے چلے جائیں جو راہیں اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف سے جانے والی ہیں.اس حق کے ہر دو پہلو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کو ثابت کرتے ہیں کیونکہ اس کا علمی پہلو ہمیں بتاتا ہے کہ وہ نیچ اور لاشی محض ہیں اور عملی پہلو یہ بتاتا ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ایک قرب کا تعلق قائم کریں اور وہ نہیں کر سکتے تھے جب تک وہ ایک دوسرے کے ممدو معاون نہ ہوں.تو حید خالص کے قیام کے لئے جو تیسر احق فرض کیا گیا ہے وہ نفس کا حق ہے اور نفس کے حق کے ہی پھر یہی دو پہلو ہیں یعنی ہر ایک کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ نفس ہے کیا چیز : صوفیاء نے کہا ہے.جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا.نفس کو پہچاننے میں پھر آگے دو شقیں نظر آتی ہیں ایک آفات نفس کا جاننا یعنی

Page 166

163 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم نفس انسانی کے وہ رذائل اور بد خصلتیں جو اللہ تعالیٰ سے دور لے جاتی ہیں ان کو اچھی طرح سے پہچان لینا.قرآن کریم نے اس پر بھی بڑی روشنی ڈالی ہے مثلا تکبر ہے، حسد ہے، بدلنی ہے، خوداری ہے، خود نمائی ہے، یہ انانیت ہے کہ میں ہی کوئی چیز ہوں.یہ نفس کی بہت بڑی آفات ہیں.یفس کی بد خصلتیں ہیں یہ نفس کی بیماریاں ہیں جو نفس کو لاحق ہو جاتیں ہیں.ان آفات نفس کو پہچانا ضروری ہے یعنی اپنے اندر جو جو ایسی کمزوریاں پائی جاتی ہیں ان کا علم حاصل کرنا ضروری ہے.بسا اوقات انسان اپنے مقصد حیات کو بھول کر نفس امارہ کے احکام پر چل پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی گود میں بیٹھنے کی بجائے شیطان کے قدموں میں جا بیٹھتا ہے.پس ہمارے لئے یہ بات بڑی ضروری ہے کہ ہم ان آفات کو پہچانیں اور ہمیں پتہ ہو کہ تکبر توحید کے خلاف ہے اور نفس کے لئے ایک مہلک مرض ہے.اسی طرح حسد بھی بڑی بری مرض ہے.پھر انا ہے جتنے بزرگ اولیاء اللہ امت محمدیہ میں گزرے ہیں ان سب کا بالاتفاق یہ فیصلہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب کو کوئی شخص اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتا جب تک اس کا اپنا وجود قائم رہے جب تک اس کی انانیت قائم رہے جب تک انا کی آواز اس کے نفس سے نکلتی رہے.یہ ممکن ہی نہیں کہ اس صورت میں انسان قرب الہی کو حاصل کر سکے.پہلوں نے بھی اپنے متعلق بہت کچھ کہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بہت کچھ لکھا ہے اور ہمارے لئے اس کے اندر بڑا سبق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنے نفس کو مخاطب کر کے یہ کہنا کہ :- کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں اسی حقیقت کا غماز ہے.آپ کا یہ کہنا کہ جو مل کرتے ہیں وہ تو اپنے عمل کا نتیجہ پاتے ہیں.میں نے تو اے میرے پیارے خدا تیرے حضور کوئی عمل نہیں کیا کوئی مجاہدہ نہیں کیا تو نے محض اپنے فضل اور رحمانیت کے جلوے سے مجھے وہ کچھ دے دیا جو دیا اس میں میری اپنی کوشش اور میری کسی خوبی کا دخل نہیں ہے.بیسیوں جگہ آپ نے ان خیالات کا اظہار کیا ہے.آپ کی اردو، عربی اور فارسی نثر بالعموم اور منظوم کلام بالخصوص اس اظہار سے بھرا پڑا ہے.ایک حقیقی احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام کو پہنچانتا ہے جب وہ اس قسم کے فقرات کو پڑھتا ہے تو اس کی جو حالت ہونی چاہئے آپ اس کا اندازہ لگائیں میں نے کئی دفعہ سوچا ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے رب کو ان الفاظ میں مخاطب کرتے ہیں:.کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں تو میں کن الفاظ میں اپنے رب کو پکاروں.الفاظ نہیں ملتے جن سے میں اپنی نیستی کا اظہار کروں اپنے پیچ ہونے کا اظہار کروں اور اپنے لاشی محض ہونے کا اظہار کروں.میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہچانا.اس لحاظ سے میرا اور آپ کا جو نبتی فرق ہے وہ فرق میرے اظہار میں بھی تو ہونا چاہیئے اس سے بھی گر کر مجھے اپنے رب کے حضور جھکتا چاہئے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اتنا جھک گئے ہمارے لئے اب یہ مشکل ہے کہ ہم کون سے الفاظ کہاں سے کس زبان سے لے کر آئیں کہ جو ہمارے

Page 167

فرموده ۱۹۶۹ء 164 د دمشعل را ل راه جلد دوم مقام کے متعلق اظہار کر رہے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو ایک عکس اور انعکاس تھے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی شکل کا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ ایک فتح کے موقع پر خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اور ان جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہ ہماری کوششیں کیا تھیں جو کچھ بھی ہمیں ملاوہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملا.سواری پر سوار تھے اور اس عاجزی کے جذبات میں خدا تعالیٰ کے حضور آہستہ آہستہ جھکنا شروع ہوئے یہاں تک کہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ آپ کا سر گھوڑے کی پیٹھ کو لگ گیا.پس اس قدر عاجزی رب کے حضور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دکھاتے ہیں اور آپ کے روحانی فرزند دکھاتے ہیں تو ہمارا عاجزی کا پھر کونسا مقام ہے اگر ہم اس عاجزی کے مقام کو نہیں پہچانتے تو حقیقی تو حید کیسے قائم کریں گے.پس توحید خالص کے قیام کے لئے نفس کے حق کی ادائیگی ضروری ہے اور اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کی کمزوریوں کو اس کی آفات کو اور اس کے رزائل کو اور اس کی ہلاکتوں کو پہچانے اور سمجھے اور پھر یہ کوشش کرے کہ میں اپنے نفس امارہ کے کہنے میں نہیں آؤں گا.حق نفس سے تعلق رکھنے والی توحید علمی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جو قابلیتیں رکھی ہیں.جن اچھے اخلاق کو وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل کر سکتا ہے اس کا بھی اسے علم ہو کیونکہ اگر اسے محض منفی علم ہو یعنی آفات نفس کا اسے علم ہور ذائل اور ہلاکتوں کا علم ہو.نفس امارہ کے جو مفسدانا احکام اپنے نفس ہی کو مل رہے ہوتے ہیں ان کا علم ہو تو ٹھیک ہے.عاجزی کے مقام کو اس نے پالیا لیکن روحانی ترقیات وہ کیسے کرے گا اس لئے ساتھ ہی اس کو اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کا بھی علم ہونا چاہئے جو اس پر بارش کے قطروں کی طرح برستے اور جن کے نتیجہ میں وہ روحانیت کی وسعتوں اور روحانیت کی رفعتوں میں لا انتہاء حرکت کر سکتا ہے یعنی قرب الہی کی کوئی منزل نہیں ہے جہاں جا کر ٹھہر جانا ہے.پس انسان کو یہ علم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے میرے اندر کیا قابلیت رکھی ہے.قرآن کریم میں دو تعلیمیں پائی جاتی ہیں ایک کو ہم کہتے ہیں عادت اور ایک کو ہم کہتے ہیں اخلاق.جو تعلیم ادب کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہے وہ وحشی کو انسان بنا دیتی ہے اور جو اخلاق سے تعلق رکھنے والی ہے وہ انسان کو با اخلاق انسان بنا دیتی ہے اور پھر آگے بتایا ہے کہ میرے بتائے ہوئے اخلاق پر خود بھی چلو اور دوسروں کو بھی چلاؤ تب تیم روحانی ترقیات حاصل کر سکتے ہو.اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جو قوت رکھی ہے اس کے مقابلہ میں ایک حسین تعلیم دی ہے اس کو ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ اخلاق اور عادات کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو حسین تعلیم ہمیں دی ہے اس میں ہر پہلو کے مقابلے میں ہماے اندر ایک قابلیت اور استعداد رکھی گئی ہے کیونکہ ایس حکم دینا جو انسان کرہی نہ سکے اس کی طاقت سے باہر ہو یہ اللہ تعالیٰ کی خدائی پر ایک داغ ہے ایک دھبہ ہے.اللہ تعالیٰ ایسا حکم نہیں دیتا.اللہ تعالیٰ ہمیں وہی حکم دیتا ہے جس کو ادا کرنے میں جس کو تسلیم کرنے میں جس کو بجالانے میں انسان بالکل معذور نہ ہو بلکہ اس کی وہ قابلیت رکھتا ہو.جتنی بھی اخلاقی تعلیم ہے وہ ایسی ہے کہ اس کے مقابلے میں اخلاقی قوتیں اورقابلیتیں انسان کو عطا ہوتی ہیں پس انسان کو اپنے نفس کے اس پہلو کو بھی پہچانا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر بڑا فضل کیا اور اس کو بڑی قابلیتیں

Page 168

165 فرموده ۱۹۶۹ء د مشعل راه جلد د ، دوم کیں.ہدایت دی اور روشنی عطا کی اور اپنے قرب کی راہوں کے تعین کی اور کہا کہ میری انگلی پکڑو میں تمہیں اپنے قرب کی راہوں کی طرف لے چلتا ہوں اور پھر اپنے مقربین کو اپنی گود میں بٹھا لیا لیکن نسبتا زیادہ کسی پر اس کا فضل ہوا اتنا ہی زیادہ اس کے اندر عاجزی انکساری اور اس بات کا احساس پیدا ہوا کہ میں لاشے محض ہوں نیست ہوں یا بیچ ہوں کچھ بھی نہیں.میری کوئی ہستی ہی نہیں اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی ایک عظمت اور شوکت ظاہر ہوتی ہے کہ انسان خدا میں ہو کر یعنی فانی فی اللہ ہو کر جو کچھ حاصل کر سکتا ہے وہ حاصل کر سکتا ہے ورنہ وہ کوئی چیز نہیں.پھر ایک تو یہ ہے علم والا پہلو حق نفس کا کہ اپنی کمزوریوں کو بھی وہ جانتا ہو جن سے نفس ہلاک ہو جاتا ہے اور ان قوتوں اور طاقتوں کو بھی پہچانتا ہو جن کے صحیح استعمال سے وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر سکتا ہے اور اس کی رضا کو پاسکتا ہے اور نفس کا دوسرا حق یہ ہے کہ وہ صرف یہی علم نہ رکھتا ہو بلکہ اس پر عمل کرنے والا بھی ہو.خالی یہ لیکچر دے دینا کہ حسن اخلاق سے کام لو یہ بالکل بے معنی چیز ہے.لیکچر دینے والوں کے لئے اور لیکچر سننے والوں کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ اس پر عمل کرنے والوں ہوں.اگر وہ خود عمل نہیں کرتے تو ایسے شخص کی مثال ایک بند کتاب کی تو ہوسکتی ہے جس میں اخلاق کے متعلق بہت سے علوم لکھے گئے ہیں اور امت مسلمہ کے علماء نے بہت سی کتب ان کے متعلق اور ان کی تہذیب کے متعلق یعنی پاک وصاف کرنا، پالش کرنا، روشن کرنا، نمایاں کرنا علوم کا ہالہ ان کے گرد پیدا کرنا وغیرہ کس طرح کیا جا سکتا ہے اس پر انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں لیکن اگر کتا بیں سن کر انسان ان کو بند کر دے اور اس طرح آگے کتابیں پڑھنے والا بھی انکو پڑھ کر بند کر کے رکھدیں اور اس پر عمل نہ کریں تو کیا فائدہ ہے ایسے لکھنے کا اور کا فائدہ ہے ایسے پڑھنے کا نفس کا حق یہ ہے کہ جہاں ایک طرف اس کا وجود اللہ تعالیٰ کی رضا میں فنا ہو جائے اور ان باقی نہ رہے وہاں اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے اور اس کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے وہ نعمتیں جو اسے اللہ تعالیٰ نے جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی طور پر عطا کی ہیں ان سے وہ پورا فائدہ اٹھائے اور ان پر وہ پورا عمل کرتے ہوئے جب تک یہ چھ قسم کے یا ہم تین قسم کے حق کہہ سکتے ہیں جیسا کہ میں ابتداء میں بتا چکا ہوں چھ قسم کے حق اس لئے کہہ سکتے کہ ان تین قسم کے حقوق کے آگے دودو پہلو ہیں.جب تک ہم ان حقوق کو ادا نہ کریں.تو حید خالص قائم نہیں ہو سکتی.نہ اپنے نفس کے اندر اور نہ دنیا کے اندر.کیونکہ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم بھی نہ ہو تو ہم اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی عظمت اور اس کے جلال کے پر تو کے نیچے آ کر اپنی پرورش نہ کریں تو حقیقی تو حید قائم نہیں ہو سکتی.کیونکہ زندگی میں ویسے تو لاریب تو حید خالص قائم ہے اور اس کے تصرف میں ہر شے ہے.لیکن یہاں سوال ہے تو حید خالص کا انسانی زندگی میں قائم کرنے کا.انسانی زندگی میں توحید خالص قائم نہیں ہو سکتی جب تک ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کا پوری طرح علم نہ رکھتے ہوں اور پوری طرح واقفیت رکھنے کی کوشش نہ کریں.یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی واقفیت انسان درجہ بدرجہ اپنی استعداد کے مطابق حاصل کرتا ہے اور جتنا جتناوہ اس سے نزدیک ہوتا چلا جاتا ہے اتنی ہی دنیوی Expression (اظہار ) کے طور پر ہم کہیں گے کہ اس کی روشنی کو زیادہ منور، زیادہ واضح طور پر وہ اپنی

Page 169

فرموده ۱۹۶۹ء 166 د مشعل راه جلد دوم روحانی آنکھ سے دیکھتا ہے.جس حد تک کسی کو اس کی استعداد میں آگے بڑھنے کا موقع دیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرتا رہتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے جذب کی ضرورت ہے اس کے لئے ہمیں دعا کرتے رہنا چاہئے.کیونکہ ہم اپنی تدبیر اور کوشش سے جذب الہی کو ٹھیک طرح سے حاصل نہیں کر سکتے.تدبیر اور دعا دونوں اس کے لئے بڑی ضروری ہیں.لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ ہم محض اپنی تدبیر اور دعا سے اللہ تعالیٰ کی صفات کے یہ جلوے نہیں دیکھ سکتے.اس کے لئے اپنے نفس پر ایک موت وارد کرنی پڑتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ میں فانی ہو کر انسان ایک نئی زندگی پاتا ہے جو اس کے جسم پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے ذہن پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے اخلاق اور روحانیت پر اثر انداز ہوتی ہے.پس جذب الہی یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب کھینچ کر ہمیں اپنی طرف لے جائے اس کے لئے ہمیشہ کوشش بھی کرنی چاہئے اور تدبیر بھی کرنی چاہئے.اس کے بغیر ہماری زندگیوں میں توحید خالص قائم نہیں ہوسکتی.قرآن کریم کا اصل مقصد انسان زندگی میں تو حید کو قائم کرنا ہے اس کی باقی سب تعلیم اس توحید کے قیام کے وسائل اور ذرائع ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں.توحید خالص کے قیام کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم کسی انسان کو کسی رنگ میں بھی خدا تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہرائیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ وہ بھی ہمارے جیسے لاشی محض ہیں.محض اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں.پھر ہمیں کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں ہوسکتی.ایک دفعہ کا واقعہ ہے.اس میں ہمارے لئے سبق ہے.ہمارے ایک بزرگ تھے.اللہ تعالیٰ ان کو بغیر حساب اور بغیر ظاہری اسباب کے رزق بہت دیتا تھا اور جو بھی روپیہ پیسہ ان کے پاس آتا وہ اس میں سے اس دن کے لئے اٹھنی یا روپیہ جو انہوں نے اپنے لئے خرچ مقرر کیا ہوتا وہ اپنے پاس رکھ لیتے اور باقی جتنا جلد ممکن ہوتا فوری طور پر سلسلہ کو بھیج دیتے.جہاں بھی ہوتے منی آرڈر کر وا دیتے یا کسی کو دے دیتے مثلاً انہیں رات کے وقت رقم ملی تو کسی اور کے سپر د کر دیتے کہ دیکھو میں نے تمہیں دے دیا ہے.ایک دن ان کو یہ خیال آیا کہ اس طرح روز اٹھنی یار و پی رکھ کر باقی منی آرڈر کر دیتا ہوں کیوں نہ زیادہ عرصہ کے لئے رکھ لوں چنا نچہ ایک دن ان کے پاس دو تین سوروپے یا پانچ روپے کی رقم آئی تو ان کو یہ خیال آیا کہ یہ جو میں روز اٹھنی رکھتا ہوں.ایک ہی بات ہے اگر چھ ماہ کے لئے جو مجھے ضرورت ہے وہ میں رکھ لیتا ہوں اور باقی کا میں منی آرڈر کر دیتا ہوں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.ظہر کی نماز پڑھنے گئے.ان کی یہ عادت تھی کہ فرض نماز کے بعد سنتیں بھی مسجد میں ادا کیا کرتے تھے.اور پھر وہیں کچھ دیر آرام کرتے تھے.ان کے ایک دوست نے (جوا کثر وہیں ان کے ساتھ ہوتا تھا ) دیکھا کہ انہوں نے اپنی عادت کے خلاف سنتیں نہیں پڑھیں.سلام پھیرتے ہی جلدی سے گھر اپنے کمرے کی طرف دوڑے.ان کے اس دوست کو بڑا عجیب معلوم ہوا کہ انہوں نے آج اپنی عادت کے خلاف یہ بات کیوں کی ہے.چنانچہ اس نے ان سے پوچھا کہ آج آپ نے خلاف عادت اس طرح کیوں کیا ہے.وہ کہنے لگے کہ میں آخری سجدہ میں تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ آواز آئی کہ "ہن میں چھ مہینے لئی تیرا رب نہیں رہیاں میں یہ سن کر کانپ اٹھا اور

Page 170

167 فرموده ۱۹۶۹ء دو مشعل راه جلد د دوم گھر جا کر وہ رقم بھی بھجوادی.پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفت رزاقیت کا جلوہ اس رنگ میں دیکھا تھا.ان کو کسی کو کچھ کہنے یا کسی سے اپنی ضرورت کا اظہار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.ان کو معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ میری ضرورت کو پورا کرے گا کسی اور کے سامنے مجھے جھکنے کی ضرورت نہیں.اس طرح مثلاً بیماری ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہے.انسان کے اندر بد خصلتیں پائی جاتی ہیں جن کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان بیمار ہو جاتا ہے.وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (الشعراء: ۸۱) یعنی مرض میری اپنی پیدا کردہ ہے اور شفا ہو نہیں سکتی جب تک اللہ تعالیٰ شفا نہ بخشے.اب جو شخص مریض ہوتا ہے اس کے دماغ میں بنیادی طور پر دو خیال پیدا ہوتے ہیں ایک یہ کہ ڈاکٹر نے میری بیماری کی تشخیص کر کے میرے لئے دوا تجویز کرنی ہے اور اس کی تشخیص اور تجویز کردہ دوا کے نتیجہ میں میری بیماری دور ہو جائے گی چنانچہ وہ اس خیال کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے لیکن ایک دوسرا شخص یہ سمجھتا ہے کہ مجھے شفاء تو صرف اللہ تعالیٰ نے دینی ہے لیکن یہ سامانوں کی دنیا یہ اسباب کی دنیا بلاوجہ نہیں ہے.اگر اس نے خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ سامانوں سے فائدہ نہ اٹھایا تو کہیں میرا رب مجھ سے ناراض نہ ہو جائے.ایسا شخص دوائی اس لئے نہیں استعمال کرتا کہ وہ دوائی یا ڈاکٹر پر بھروسہ رکھتا ہے.وہ دوائی اس لئے کھاتا ہے کہ میرے رب نے کہا ہے کہ تدبیر کرو اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :- لكل داء دواء “ (صحیح مسلم جزء ثانى باب لكل داء دواء واستحباب میرے رب نے اپنے فضل سے ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے.شفا تو اسی نے دینی ہے میں ناشکرا بندہ نہیں بننا چاہتا.وہ اس خیال سے کہ اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہو جائے وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور اس کے دل میں یہ کامل یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں ڈاکٹر ایک جاہل آدمی ہے.اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں ڈاکٹر کا علم کیا حقیقت رکھتا ہے اور اس نے مجھے کیا فائدہ پہنچانا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تیرے لئے دوا پیدا کی اس سے تجھے کام لینا چاہئے.وہ سامان استعمال کرنے چاہیے جو میں نے پیدا کئے ہیں.تجھے دعا بھی کرتے رہنا چاہئے البتہ تیری دعا کا قبول کرنا یا نہ کرنا میرا کام ہے.پس جس شخص کے ذہن پر خدائے شافی کا جلوہ کچھ اس طور پر جلو فگن ہوتا ہے اس کے نزدیک نہ کسی ڈاکٹر کیی کوئی حیثیت ہوتی ہے.نہ ہی دوا کوئی حیثیت رکھتی ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ساری دوائیں کھا لیا کرو ایلو پیتھی دوائیں بھی ، ہومیو پیتھی ادویہ بھی، طب یونانی بھی اور صدری نسخے بھی استعمال کر لو تا کہ تمہارے اندر شرک کی کوئی رگ پیدا نہ ہو جائے کہ فلاں دوائی نے مجھے آرام پہنچایا ہے.بسا اوقات مٹی کی چنکی یا کاغذ کی گولی یعنی ہوئی انسان دوسرے کو کھلا دیتا ہے اور اس سے آرام آجاتا ہے مگر پانچ چھ

Page 171

د دمشعل با راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۹ء 168 دوائیاں اکٹھی کھالی جائیں تو ڈاکٹروں کا شور مچ جاتا ہے مثلا ایلو پیتھی کے ڈاکٹر تو بہت منع کرتے ہیں کہ کوئی اور دوا نہ کھانا ورنہ بیماری بگڑ جائے گی.اور ہومیو پیتھی والے تو کہہ دیتے ہیں کہ اگر کوئی اور دوا کھانی ہے تو ہم نے علاج ہی نہیں کرنا، طب یونانی والوں کی اپنی عقل ہوگی.لیکن ہماری گردنیں تو اللہ تعالیٰ نے نیچے جھکا دیں.اس لئے ایک احمدی کو ساری دوائیں استعمال کر لینی چاہئیں.تا کہ یہ خیال پیدا نہ ہو کہ Streptomycin ( سٹر پیٹو مائیسین ) نے مجھے فائدہ پہنچایا ہے.یہ ہمیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی ہمیں تو صرف اللہ تعالیٰ کا حکم فائدہ پہنچا سکتا ہے اور اگر اس کا حکم نہ ہو تو یہ ملک ہے.اس ( سٹرپٹو مائیسین ) اور دوسری دوائیوں نے سینکڑوں ہزاروں کو مار دیا ہے.بجائے اس کے کہ یہ بیماریوں کو دور کر دیں انہوں نے انسانوں ہی کی جان لے لی.اور بعض دفعہ ایسی Injuries ( انجریز ) پہنچا دیتی ہیں بے چارہ بیمار نہ مردہ ہوتا ہے اور نہ زندہ ہوتا ہے.وہ اس طرح دکھ، تکلیف میں ایڑیاں رگڑتے رگڑتے مرجاتا ہے اس کی حالت بڑی قابل رحم ہوتی ہے.غرض ہمیں اس قسم کے مشرک نظر آتے ہیں جن کا دوا پر بھروسہ ہوتا ہے حالانکہ شانی مطلق تو خدا تعالیٰ ہے صرف وہی شفا دیتا ہے.میں نے شاید یہ واقعہ پہلے بھی کئی بار بیان کیا ہے قادیان میں ایک نوجوان کے پیٹ میں رات دو بجے کے قریب اتنا شدید در داٹھا کہ اس نے چیچیں مار مار کر سارے محلے والوں کو جگا دیا.حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے قریب ہی وہ رہا کرتا تھا.یہ بھی گھبرا کر اٹھے کہ پتہ نہیں کیا واقعہ ہو گیا ہے چیخوں کی آوازیں آ رہی ہیں لوگ دوڑے چلے جارہے ہیں وہاں جا کر انہوں نے دیکھا کہ وہ نو جون ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہا تھا چیچنیں مار مار کے اس کا برا حال ہو گیا تھا.خیر انہوں نے کسی آدمی کو بھیجا کہ جلدی جا کر ڈاکٹر کو بلا لائے.لیکن چونکہ پتہ تھا کہ شفاء تو اللہ تعالیٰ نے دینی ہے ڈاکٹر بھی تو آخر دوا ہی دے گا.کیوں نہ میں اس کی تسلی کے طور پر کہ کوئی نہ کوئی چیز مجھے خدا تعالیٰ کے سامانوں میں سے مل گئی ہے کوئی چیز دے دوں چنانچہ انہوں نے ایک طرف لیٹ کر جیب میں سے ایک کاغذ نکالا اس میں سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا پھاڑ ا.اس کی گولی بنائی اور اس کے پاس آکر پانی منگوایا اور اسے کہا کہ منہ کھولو میں تمہیں دوائی دیتا ہوں.اس نے یہ سمجھ کر کہ یہ کوئی دوائی ہے وہ گولی کھالی چنانچہ خدائے شافی نے چند منٹ کے اندر قبل اس کے کہ ڈاکٹر پہنچتا جسے لانے کے لئے آدمی دوڑائے گئے تھے اس کی درد دور ہوگئی لہذا چنیں بند ہو گئیں اور وہ آرام سے لیٹ گیا.پس اسباب کی رعایت ضروری ہے کیونکہ اگر ہم ان کی رعایت نہ کریں تو ناشکری ہوتی ہے البتہ اسباب پر بھروسہ مہلک ہے.کیونکہ اگر ہم اسباب پر بھروسہ کریں تو اس میں شرک پیدا ہوتا ہے.غرض اسباب سے کام لینا چاہئے.اور ان کی اپنی ذات میں بالکل روی چیز بھی نہیں چھنی چاہئے یعنی یہ تو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں اس چیز کو حکم مل جائے گا تو ہمیں شفا مل جائے گی.ہمارے بدن کی صحت ٹھیک ہو جائے گی.لیکن یہ کہ ان اشیاء کی ذات کے اندر کوئی خوبی ہے.ایسا ہر گز نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ اس قسم کی مثال غلط ہے.گر ہمیں اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل ہو تو ہمیں یہ بھی معلوم ہو جائے کہ توحید کا ایک تقاضا ہے کہ جس طرح ہم اس کی

Page 172

169 فرموده ۱۹۶۹ء دو مشعل راه جلد د دوم ذات میں ہی کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اس کی صفت میں بھی کسی کو شریک نہ بنائیں.یعنی اللہ تعالیٰ شافی ہے کسی اور کو اس کی شفاء کی صفت میں شریک نہ بنائیں.اس طرح ہم اس کی ربوبیت کی صفت میں بھی کسی کو شریک نہ بنا ئیں.غرض اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی صفات ہیں ان میں کسی اور کوشریک نہ بنا ئیں تب تو حید قائم ہو سکتی ہے.اور اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کو سزاوار ہے اور کسی کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے.اگر ہمیں صفات باری تعالیٰ کی صحیح معرفت معلوم ہو جائے تو پھر ہم کسی اور کی اطاعت نہیں کر سکتے کیونکہ کسی غیر کے اندر وہ خوبیاں دیکھتے ہی نہیں.تمام خوبیاں تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات میں دیکھتے ہیں.اس کو تمام خوبیوں کا منبع اور سر چشمہ سمجھتے ہیں.پس جب ہم کسی اور کے اندر کوئی خوبی پاتے ہی نہیں تو پھر کسی غیر کی اطاعت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.حق العباد میں جو علمی پہلو ہے یعنی ہر انسان کو اپنے جیسا نیچ سمجھنا.اگر ہم کسی کو یہی سمجھنا شروع کر دیں تو ظاہر ہے ہم اس کو اپنے معبود تو نہیں بنا سکتے پس تو حید خالص اس وقت قائم ہوتی ہے جب ہم انسان کا حق اس رنگ میں ادا کریں کہ اپنے جیسا بیج اور لاشی محض دوسرے کو بھی سمجھیں اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ چونکہ تو حید ہی تو حید ہے اللہ ہی اللہ ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتے ہیں ہر ایک کو دوسرے کا ممد و معاون بننا چاہئے یعنی ہمدردی اور خیر خواہی کا جذ بہ اس نیت اور اس اخلاص کے ساتھ ہو کہ ہم نے ان کے ساتھ محبت اور پیار اور محبت کا تعلق اس لئے قائم کرنا ہے کہ ہم ان کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کریں تا کہ ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ ہماری زندگی کا مقصد اور ہماری پیدائش کی غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے قرب کا ایک تعلق پیدا کیا جائے.جب خدمت کا جذبہ اس نسیت کے ساتھ ہو گا تو اس صورت میں توحید اپنے آپ پیدا ہوگی کیونکہ ہم یہ کام تو حید کے لئے کر رہے ہو نگے.اس صورت میں بھی آدمی جب نفس کی آفات کو دیکھے گا تو غیر اللہ سے اپنے آپ نظر ہٹ جائے گی.متکبر سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے اور کوئی نہیں اور قادر سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے اور کوئی نہیں.جب کسی فرد واحد ہی یا انسانوں کے باہر کسی مخلوق میں بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کے مشابہ صفت کا کوئی شائبہ تک نہیں تو اس کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں ہو سکتا جو ہماری ہلاکت کا باعث بنے.حقیقی اخلاق صرف اسلام کی روشنی میں پیدا ہو سکتے ہیں پس تو حید خالص کے نتیجے میں آفات نفس کے ایسے بہت سے راستے جو اپنے رب سے دور لے جانے والے اور شیطان کے قریب کرنے والے ہوتے ہیں وہ اپنے آپ مسدود ہو جاتے ہیں.دوسری طرف وہ یہ دیکھتا ہے کہ میرا رب کتنا رحیم و کریم ہے کہ میری راہوں کو اس نے آسان کر دیا اور مجھے جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی قابلیتیں عطا کیں تا کہ میں اس کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر اس کے فضل اور اس کی رحمت سے اس کی رضا کی جنتوں کو حاصل کرلوں.پس یہ تو علم ہے کہ میرے اندر خدا نے یہ قابلیت پیدا کی ہے اور حق نفس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اپنے علم کے مطابق عمل کرے یعنی جب اپنے آپ کو لاشی محض سمجھے تو پھر یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ جوش میں آکر

Page 173

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۹ء 170 (اکثر لوگ دوسرے کو) کہہ دیا کرتے ہیں کہ میں تجھے ہلاک کر دوں گا.لیکن اگر اسے اپنی حقیقت کا علم ہو تو وہ کہے گا میں کون ہوتا ہوں کسی کو ضرر پہنچانے والا.مجھے یہ کہاں طاقت.پس کسی کا یہ کہنا کہ میں یوں کر دوں گا وؤں کر دوں گا اس قسم کے فقرے اس کی زبان پر آہی نہیں سکتے کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ ساری طاقتوں کا منبع تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.میں تو ہوں ہی کچھ نہیں.جب ہے ہی کچھ نہیں تو کر دونگا“ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ایسے شخص کی زبان سے یہ نہیں نکل سکتا کہ میں ایسا اور میں یوں اور ووں ہوں.کیونکہ اس کو تو پتہ ہوتا ہے کہ میں تو ہوں بھی کچھ نہیں.میں میں ہی نہ رہی تو یوں کر دینے یاووں کر دینے کا سوال ہی نہ رہا.پس اس میں انتہائی عاجزی ہوتی ہے.اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ عاجزی کی سواری پر سوار ہو کر عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کی طرف حرکت کر رہا ہوتا ہے اور اس صورت میں پھر میں باقی نہیں رہتی.حسن اخلاق جو ہے اس میں بھی نفس کی صحیح پہچان اس کو یہ بتاتی ہے کہ نفس مطمئنہ کا حصول اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہی فرق ہے دنیوی اخلاق اور روحانی اخلاق میں جو بظاہر آپس میں بڑے مشابہ ہیں.آج ہی ایک غیر احمدی دوست آئے ہوئے تھے.انہوں نے اس قسم کے سوال کئے کہ اسلام سے باہر (اصل تو ان کا سوال حدئی للمتقین صحیح معنی نہ جاننے کی وجہ سے تھا) انسان متقی بن سکتا ہے تو پھر اسلام لانے کی کیا ضرورت ہے.اسلام سے باہر اگر کوئی متقی بن سکتا ہے تو پھر واقعی اسلام لانے کی ضرورت نہیں.میں نے ان کو بتایا کہ اسلام سے باہر کوئی منتقی نہیں بن سکتا.اسلام سے باہر کوئی با اخلاق بھی نہیں بن سکتا.کیونکہ جو اخلاق ہیں وہ ہماری طبعی حالتوں کی ایک ہدایت یافتہ شکل ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جن راہوں پر ان طبعی حالتوں کو چلایا ہے اس ہدایت یافتہ شکل کو ہم روحانی طور پر اخلاق کہتے ہیں.لیکن جو د نیوی اخلاق ہیں.وہ اخلاق نہیں ان میں کوئی روحانیت نہیں.مثلاً یورپین اقوام اب تو وہ اخلاقی لحاظ سے بہت گر گئی ہیں.ایک وقت ایسا تھا کہ ان کے اندر دیانت داری بہت تھی خصوصاً معاملات کی دیانت، تجارت کی دیانت وہ جو بھی Sample ( نمونہ) بھیجتے تھے مال بالکل اس کے مطابق آتا تھا اور اگر کوئی یہاں سے ان کو مال بھجواتا تھا تو اس کو پتہ ہوتا تھا کہ پیسے نہیں مارے جائیں گے.دیانت دار قوم ہے اب یہ بات بھی حسن اخلاق کے اندر آتی ہے لیکن وہ خلق کا اظہار اس لئے نہیں کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے بلکہ اس لئے ہوتا تھا کہ ان کی عقل اور تجربے نے ان کو یہ بتایا تھا کہ تم دیانت داری کی راہوں کو اختیار کرو گے تو تمہیں دنیوی لحاظ سے بڑا فائدہ ہوگا.تمہاری تجارت چمک جائے گی.تم بڑے امیر ہو جاؤ گے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جو اور بہت سے اچھے اخلاق ہیں وہ ان میں نہیں پائے جاتے.بد معاشی اور شراب نوشی اور اس طرح کی ہزاروں بد اخلاقیاں اور بے ایمانیاں ان کے اندر پائی جاتی ہیں مگر جو روحانی اخلاق ہیں وہ کامل ہونگے.کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے جلووں کے نتیجہ میں پیدا ہونگے.پس ہدایت یافتہ اخلاق رکھنے والا کوئی شخص اسلام سے باہر نہیں ہوسکتا.پھر انہوں نے یہ سوال کیا کہ اس ھدی للمتقین کے کیا معنی ہونگے.میں نے ان کو بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب کی تعلیم متقی بھی بناتی ہے

Page 174

171 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم اور قرآن کریم کے نزدیک یہ اس کی آخری منزل نہیں ہے.مثلاً ایک شخص اسلام لا یا متقی بن گیا.لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ اس کی آخری منزل نہیں ہے روحانی ترقیات کے بے شمار دروازے اس کے لئے کھلے ہیں.وہ آگے بڑھے.پہلے ایک دروازے میں پھر دوسرے میں پھر تیسرے میں پھر چوتھے میں بے انتہاء دروازوں میں داخل ہوتا ہوا میرے قریب سے قریب ہوتا چلا جائے اس واسطے فرمایا ھدی للمتقین“.ا.ہر مقام پر وہ اپنے آپ کو متقی ا پاتا ہے.پہلے سے بڑا انعام پاتا ہے.لیکن وہاں اس کے کان میں یہ آواز آتی ہے ھدی للمتقین، متقی بننے کا راستہ کھلا ہے.ایک ہدایت دے دی ہے.ایک راستہ بتا دیا ہے تو اس پر چلو.پھر وہ آگے جا کر سمجھتا ہے کہ یہ میری منزل ہے پھر اور آواز آتی ہے ھدی للمتقین“ پھر وہ اور آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.پس حقیقی اخلاق صرف اسلام کی ہدایت کی روشنی میں پیدا ہو سکتے ہیں اسلام کے باہر پیدا نہیں ہوسکتے اور حقیقی اخلاق کا منبع بھی تو حید خالص ہے اور حقیقی اخلاق ہی کے نتیجہ میں انسان کی علمی زندگی میں تو حید حقیقی قائم ہوتی ہے.میری آج کی اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا حقیقی مقصد جو ہے وہ صرف بنی نوع انسان میں تو حید خالص کا قیام ہے اور باقی تمام احکام جو ہماری زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ تو حید حقیقی کے قیام کے لئے ذرائع اور وسائل ہیں.ہر حکم جو ہے وہ تو حید خالص کو مضبوط کرتا ہے اور اس کو ایک رنگ میں قائم کر دیتا ہے پھر دوسرے رنگ میں قائم کر دیتا ہے پھر تو حید تیسرے رنگ میں قائم ہوتی ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ احکام قرآن سات سو کے قریب ہیں.اگر تم ایک حکم کو بھی جانتے بوجھتے ہوئے توڑو تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی قدر محروم ہو جاؤ گے پھر وہ متقی نہ رہا.اس نے تو حید خالص کے چکر کو مضبوطی سے نہیں پکڑا اگر اس نے پکڑا ہوتا تو ہر حکم کی اتباع کرتا.پس خدام الاحمدیہ کو چوکس ہو کر اپنی زندگی کے ایام گزار نے چاہئیں اگر ہم اگلی نسل کی صحیح تربیت نہ کر سکیں تو پھر خود اللہ تعالیٰ کے وعدے تو پورے ہوں گے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں یہ بشارت دی ہے کہ آپ کی جماعت کے ذریعہ یعنی آپ کی جماعت کو اللہ تعالیٰ اپنا آلہ کار بنا کر دنیا میں اسلام کو غالب کرے گا.اسلام ساری دنیا میں غالب تو ہوگا.اسلام کے غالب ہونے میں آج دنیا کی کوئی طاقت حارج نہیں ہوسکتی.یہ راستہ جو کھلا ہے اس کو دنیا کی کوئی طاقت بند نہیں کرسکتی.اگر ہماری نسلیں جس کا ایک حصہ اس وقت میرے سامنے بیٹھا ہوا ہے کمزوری دکھا ئیں تو اللہ تعالیٰ ایک اور نسل پیدا کرے گا.جو قربانیاں دینے والی جو حقیقی معنی میں توحید خالص پر قائم اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں اور اس کی ذات میں کامل عرفان اور بصیرت سے فنا ہو کر اس سے ایک نئی زندگی پانے والی ہوگی اور دنیا کی حقیقی خادم خیرخواہ اور رغم گسار ہوگی.اور وہ اس نیت سے یہ سب کچھ کرنے والی ہوگی کہ دنیا اپنے رب کو پہچاننے لگے اور دنیا اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور دنیا اپنے رب کے قرب کی راہوں کو تلاش کرے اور پھر ان پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کو حاصل کرے.

Page 175

دومشعل قل راه جلد دوم عہد یداران کے لئے لمحہ فکریہ فرموده ۱۹۶۹ء 172 پس ہمارے اندر جو کمزور ہیں ہمیں ان کی فکر ہے.ہم ان کو کاٹ کر باہر پھینکنا نہیں چاہتے وہ بیمار ہیں مردہ نہیں.اور خدام کو بحیثیت جسم اپنے بیمار اور درد کرنے والے عضو یا حصہ کی فکر کرنی چاہئے.میں جب دیکھتا ہوں کہ ہماری بہت سی مجلس آرام سے بیٹھ جاتی ہیں حالانکہ ان میں سے بہت سے ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اس اجتماعی جسم میں اتنی شدید میں اٹھنی چاہئے کہ وہ رات کوسو نہ سکیں.پس ذمہ دار عہدیداروں کے لئے لحہ فکر یہ ہے انہیں اس غفلت کو دور کرنا چاہئے.ایک انگلی کے ایک چھوٹے سے حصے مثلاً ناخن کے ایک کونے کی شدید درد انسان کو تڑپا دیتی ہے اسے سونے نہیں دیتی.اس درد کا احساس جو ہر ایک کو زیادہ ہوتا ہے مگر اپنے چند بھائیوں کو روحانی بیماری کا احساس نہیں ہوتا.یہ بڑی ہی قابل شرم بات ہے.ہم نے پیار کے ساتھ اپنے نیک نمونے کے ساتھ حسن اخلاق کے ساتھ ان کی روح کو بیدار کر کے ان کی بیماری کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے پھر تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے دعا ہی کرنی چاہئے کہ آسمان سے حکم نازل ہو اور ان کی اصلاح ہو جائے.لیکن ان کی اس حالت سے ہم غافل نہیں ہو سکتے اور اللہ تعالیٰ نے تدبیر اور دعا کا جو طریق ہمیں بتایا ہے اس طریق کو ہم چھوڑ نہیں سکتے کوشش کریں گے لیکن تو کل اللہ تعالیٰ ہی پر کریں گے.اگر ہم ایک جسم میں اور یقیناً ہم ایک جسم ہیں اگر اس جسم نے بحیثیت جسم آگے ہی آگے بڑھ کر ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے ( اور اس کے ذمہ یہ فرض لگایا گیا ہے کہ وہ غالب کرے تو پھر چھوٹی سے چھوٹی درد اور تکلیف اور بیماری اور زخم اور کسی چھوٹے جوڑ کا مثلاً اتر جانا یعنی اپنی جگہ سے ہل جانا.( جو شخص تو حید کے مقام سے ہل جاتا ہے اگر وہ شرک خفی ہے تو ہم یہی مثال دے سکتے ہیں کہ اس کی انگلی کا ایک جوڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ) تو حید کو چھوڑ کر انسان کی بھی یہی حالت ہو جاتی ہے.پس ایک مضبوط جسم کی ضرورت ہے.ظاہر ہے کہ اس سے ایک بچہ بھی انکار نہیں کرسکتا کہ جو کام ہمارے سپرد ہے وہ سہل اور آسان تو نہیں بلکہ بڑا ہی مشکل ہے بہت بڑا بوجھ ہے جو ہمارے کندھوں پر ڈالا گیا ہے.بشارت کے ساتھ کہ بوجھ ڈالا گیا ہے کندھے کمزور ہیں جس حد تک تم اس کو اٹھا سکتے ہو اٹھا ؤ پھر ہم اوپر سے خود اٹھا لیں گے.کئی دفعہ بچہ ضد کرتا ہے کہ بوجھل گٹھڑی میں نے اٹھانی ہے ( جن دوستوں کے گھر بچے ہیں ان کے سامنے یہ نظارہ آتا رہتا ہے) بچہ کہتا ہے کہ یہ میں نے اٹھانی ہے مگر وزن ہوتا ہے اس کا ہمیں سیر.اگر اس کی گردن پر رکھ دی جائے تو اس کی گردن ٹوٹ جائے.اس کو خوش کرنے کے لئے ماں کیا کرتی ہے کہ اوپر سے خود پکڑ لیتی ہے اور وہ گھڑی بچے کے سر سے صرف مس کر رہی ہوتی ہے اور بچہ یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ بوجھ میں نے اٹھایا ہوا ہے.دراصل ہماری بھی یہی حالت ہے.ہمارے کندھوں پر جو بوجھ ڈالا گیا ہے اگر ہم پر وہ سارا بوجھ ہوتا تو ہم اس کے نیچے آ کر پس جاتے اور قیمہ قیمہ بن جاتے اور ہمارے ذات کو ہوا میں اڑا کر لئے پھرتیں.اتنا بڑا بوجھ ہے لیکن ہم پر اللہ تعالیٰ نے رحم کیا ہم سے پیار کا سلوک کرنے کا اردہ کیا اور اس بوجھ کو اس کے دست قدرت کے اوپر سے پکڑ لیا اور ہمیں یہ فرمایا کہ دیکھو میں نے کتنابڑا بو جھ تم پر ڈال رکھا ہے.تم بڑے پیارے بندے ہو تم آگے

Page 176

173 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم ہی آگے بڑھ رہے ہو اور ساری دنیا میں اسلام کو غالب کر رہے ہو پس بو جھ تو دراصل اللہ تعالیٰ ہی نے اٹھانا ہے.ہمارے کمزور کندھے اٹھا نہیں سکتے.لیکن ہمیں حکم یہی ہے کہ تمہاری جس حد تک طاقت ہے وہ ساری طاقت میری راہ میں خرچ کر ڈالو.جس حد تک تمہارے لئے ممکن ہے تدبیر کو انتہائی کمال تک پہنچا دو.جس حد تک میں نے تمہیں طاقتیں دی ہیں دعا کو انتہا ء تک پہنچا دو.پھر جس وقت میں تم کو اس مقام پر دیکھوں گا.تمہاری طاقت کے لحاظ سے جتنا بوجھ تم برداشت کر سکتے ہو عملاً اتنا ہی بوجھ تم پر پڑے گا باقی کا بوجھ میں خود اٹھا لونگا لیکن انتہاء تک پہنچانا ضروری ہے تدبیر کو بھی کوشش کو بھی اور دعا کو بھی اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ عظیم بشارتیں ہماری زندگیوں میں پوری ہوں اور ہم ان سے متمتع ہوں تو ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم مجموعی طور پر ایک جسم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو نہا ہیں.ہمارے اندر کہیں بھی کوئی کمزوری نہ رہے.میرے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ کے دامن کے سوا کچھ نہیں.( اور ہم سب ایک جسم ہیں جیسا کہ میں نے کئی دفعہ بتایا ہے ) آپ میرے ساتھ جسم کے اجزاء اور جوارح کی حیثیت میں اس وقت تک چل سکتے ہیں جب کہ آپ کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ کے دامن کے سوا کچھ نہ ہو.پس کوشش کرو اور دعائیں کرو کہ تمہارے ہاتھ ہر غیر سے تہی اور اللہ تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے پکڑنے والے بن جائیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 177

دومشعل دوم فرموده ۱۹۶۹ء 174 مجلس خدام الاحمد یہ مرکز یہ کے سالانہ اجتماع ۱۷ راکتو بر ۱۹۲۹ء کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایمان افروز خطاب تلاوت قرآن کریم اور نظم خوانی کے بعد خدام نے کھڑے ہو کر حضور کی اقتداء میں اپنا عہد دوہرایا.عہد کے بعد حضور نے فرمایا.اب ہم دعا کریں گے اور اس کے بعد میں انشاء اللہ آپ سے باتیں کروں گا.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ایک احمدی بچے اور نوجوان کو جس شکل اور صورت اور حسن میں دیکھنا چاہتا ہے وہی شکل ہماری بن جائے وہی صورت ہماری ہو جائے اور اس کے فضل سے وہی حسن جو اس کی صفات کا جلوہ ہے جو اس النور کا نور ہے.وہ ہمیں اپنے ہالہ میں لے لے آؤ اب دعا کر لیں.اس کے بعد حضور نے لمبی پُر سوز دعا کرائی اور اس کے بعد خدام سے جو نہایت لطیف اور ایمان افروز خطاب فرمایا.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.إِنَّ اللهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ هُمُ لَا يَشْكُرُونَ.(یونس آیت: ۶۱) اس کے بعد فرمایا: آؤ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے بے شمار عطایا اور بے انتہاء اور نعمتوں کا ذکر کریں اور اس طرح اس کے ذکر سے اپنے دل کے مشکیزہ کو محبت کے پانی سے بھرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اس آیت میں جو ابھی میں نے سورۃ فاتحہ کے بعد تلاوت کی ہے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑے ہی فضل انسان پر کئے.لیکن کم ہیں جو ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے ہیں.فضل کے معنی جب اسے اللہ کے لئے استعمال کیا جائے.اس وقت خصوصاً اس طرف اشارہ کرتے ہیں.کہ اللہ تعالیٰ کو ایک تو اس کی کوئی ضروت نہیں تھی کہ وہ نعمتیں اپنے بندوں کو عطا کرے جو اس نے دیں اور دوسرے جن کو اس نے وہ نعمتیں عطا کیں ان کا اللہ تعالیٰ پر کوئی حق نہیں تھی.احتیاج کا نہ ہونا یعنی کامل غنا کا انسانوں کے ساتھ تعلق نہیں بلکہ بہت سے انسان دوسروں کو دیتے تو عطیہ کے رنگ میں ہیں.لیکن امید رکھتے ہیں کہ جب انہیں ضرورت پڑے گی تو وہ ان کا کام کریں گے.لیکن اللہ تعالیٰ تو غنی اور بے نیاز ہے اس کو کسی غیر کی ضرورت پڑنے کا امکان ہی نہیں ہے.اس معنی میں اللہ تعالیٰ کیلئے فضل استعمال ہوتا ہے.یعنی اسے ضرورت کوئی نہیں تھی ان عطایا کو بخشنے کی لیکن پھر بھی اس نے اپنی رحمت بے پایاں سے اپنی مخلوق پر بے شمار فضل کئے.

Page 178

175 فرموده ۱۹۶۹ء دد دو مشعل راه جلد دو فضل کے معنی میں دوسری بات یہ پائی جاتی ہے کہ جن کو وہ عطایا نصیب ہوئیں ان کا اللہ تعالیٰ پر کوئی حق نہیں تھا اور بغیر استحقاق حق کے اللہ تعالیٰ نے محض رحمت کے جوش میں اور اس محبت کے جوش میں جو وہ اپنے بندوں کے لئے رکھتا ہے انہیں اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا.پس ایک تو اسے کوئی احتیاج اور ضرورت نہیں.اور دوسرے اس پر کسی کا کوئی حق نہیں.لیکن ان ہر دو صورتوں کے باوجود اس نے اپنے بندوں پر بڑے ہی فضل کئے.لیکن بہت ہیں جو اس بات کو سمجھتے نہیں اور ناشکری پر اتر آتے ہیں.فضل کا لفظ ہر قسم کی عطایا پر بولا جاتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے جو زندگی دی اسپر بھی فضل کا اطلاق ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس زندگی کو سنوانے کے لئے اور اس زندگی میں خوشحالی پیدا کرنے کے لئے جو مادی اسباب بنائے ان پر بھی فضل کا لفظ استعمال ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کی عزت کے قیام کے لئے جو سامان پیدا کئے اور اسے اس دنیا میں محترم اور مختار بنایا.اس کے لئے بھی فضل کا لفظ استعمال ہوتا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو قو تیں اور قابلیتیں اور استعدادیں عطا کی ہیں.ان قوتوں اور قابلیتوں اور استعدادوں پر بھی فضل کا لفظ استعمال ہوتا ہے.غرض ہر وہ چیز (آسمانی ہو یا زمینی ) جو رب کے حکم سے انسان کو ملی وہ فضل ہے.ایک تو ہمارا کوئی حق نہیں تھا کہ وہ ہمیں ملتی.اور دوسرے یہ کہ رب عظیم کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے وہ یہ فضل کرتا.فضل کے جو مختلف معانی ہیں ان میں سے صرف ایک معنی کو میں اس وقت لینا چاہتا ہوں.اور وہ قوت، قابلیت اور استعداد ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو جیسا کہ قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے ہمیں پتہ لگتا ہے.چار مختلف بنیادی قابلیتیں اور استعدادیں عطا کی ہیں.ایک تو اس کی جسمانی قوتیں ، قابلیتیں اور استعدادیں ہیں جن کی نشو و نما انسان کرتا ہے یا بعض دفعہ وہ ایسا نہیں بھی کرتا.جب وہ ان کی نشو و نما کرتا ہے تو وہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور جب نہیں کرتا تو وہ نقصان اٹھاتا ہے.بہر حال بہت سی قو تیں اور قابلیتیں ، طاقتیں اور استعداد میں انسان کو جسمانی نشوونما کے لئے ملی ہیں.ایک اور قسم کی قوتیں اور قابلیتیں ہیں جو انسان کو اس کی ذہنی نشونما کے لئے ملی ہیں.پھر ایک اور گروہ قوتوں اور قابلیتوں کا ہے جو انسان کو اس کی اخلاقی نشو ونما کے لئے ملی اور چوتھی قسم قوتوں اور قابلیتوں کی وہ ہے جو اسے روحانی ارتقا اور روحانی نشو ونما کے لئے ملی ہیں.جو و تیں جسمانی نشو و نما کے لئے ملی ہیں وہ ایک لحاظ سے ایک زاویہ نگاہ سے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کے پر تو کے نیچے ہیں جو قو تیں اور قابلیتیں اسے ذہنی نشو و نما کے لئے ملی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے پر تو کے نیچے ہیں.جیسا کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرآن اور جو قو تیں اور قابلیتیں اس کی اخلاقی نشو ونما کے لئے اسے ملی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمیت کے پر تو کے نیچے ہیں اور جو قو تیں اور قابلیتیں روحانی نشو ونما کے لئے ملی ہیں.روحانی ارتقاء کے لئے ملی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت کے پر تو کے نیچے ، ہیں.یہ چار صفات خدا داد ہیں اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا بندہ پر فرض قرار دیا گیا ہے.اور شکر کے معنے یہ لئے گئے ہیں کہ ایک تو ان ہر چہار قسم کی قوتوں کی صحیح نشو ونما کے لئے کوشش کی جائے اور

Page 179

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۹ء 176 دوسرے ان قوتوں اور قابلیتوں کو صحیح مصرف پر خرچ کیا جائے اور صحیح مصرف کے معنی اسلام میں یہ لئے گئے ہیں کہ ان راہوں پر چلا جائے یا ان طریقوں پر ان قوتوں کا استعمال کیا جائے کہ جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ہوں اور جس کے نتیجہ میں انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوتا ہے.ہر چہار قسم کی قوتوں کی نشوونما ضروری ہے.اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خدام الاحمدیہ کے سارے پروگرام کسی نہ کسی قوت اور طاقت کی نشو ونما کے لئے بنائے گئے ہیں.خدام الاحمدیہ کے بعض پروگرام ایسے ہیں جن سے جسمانی نشو ونما ہوتی ہے.بعض ایسے ہیں جن سے ذہنی نشو و نما ہوتی ہے.بعض ایسے ہیں جن سے اخلاقی نشو و نما ہوتی ہے اور جن سے روحانی نشو ونما ہوتی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے بڑی تاکید سے فرمایا کہ میں نے تمہیں یہ چار قسم کی قو تیں طاقتیں ، قابلیتیں اور استعدادیں دی ہیں تم شکر گزار بندے بنا یعنی ان قوتوں کی صحیح اور کامل نشو و نما کے لئے کوشش کرنا اور دوسرے جتنی جتنی قوت کسی کام کے قابل ہو اس کا استعمال اس رنگ میں ہو کہ جس طرح یہ تو تیں اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تو کے نیچے آتی ہیں.اسی طرح تمہارے افعال بھی اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے اخلاق کا رنگ اپنے پر لئے ہوئے ہوں اور اسی کا نام قرب الہی ہے.مثلاً اللہ نور ہے.اگر بندہ کے افعال میں اور اس کی قوتوں کے اظہار میں نور کا پہلونہ ہو.تو اللہ تعالیٰ جو نور محض ہے جونور کامل ہے وہ اس اندھیرے سے محبت نہیں کر سکتا وہ اس کے قریب نہیں آسکتا.کیونکہ نور اور اندھیرا ایک جگہ اکٹھے نہیں ہو سکتے.ظلمت یا اندھیرا اللہ تعالیٰ سے دوری کا نام ہے.ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی تمام قوتوں کی (ہر چار قسم کی تمام قوتوں کی ) ایک تو صحیح نشو ونما کرنے والے ہوں اور دوسرے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق اس کا صحیح استعمال کرنے والے ہوں.خدام الاحمدیہ کی تنظیم ہمیشہ یہی کوشش کرتی رہی ہے اور آئندہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی کوشش کرتی رہے گی.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم خداداد قوتوں کا شکر ادا کرو گے تو اس کا فائدہ تمہیں ہوگا.یعنی اگر تمہاری قوتوں کی صحیح نشو ونما ہو جائے تو یہ تمہارے لئے مفید ہوگی.مثلاً تمہارے اندر ایک قوت اللہ تعالیٰ نے تیرا کی کی رکھی ہے اور یہ ایک جسمانی قوت ہے.اگر تم اپنی اس جسمانی قوت کو اس کے کمال نشو ونما تک پہنچاؤ گے تو اس کا فائدہ تمہیں ہوگا.فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ (فرقان آیت ۱۳) تم میں سے بہت سے سیر کے لئے دریا کے کنارے جاتے ہیں اور پھر دریا کے کنارے سیر پر جانے والوں میں سے بہت سے خاندانوں کا بعض دفعہ کوئی بچہ پانی میں گر جاتا ہے.اگر اس جسمانی قوت یعنی تیرنے کی قوت کی صحیح نشو و نما ہو تو اس کا ایک فائدہ تو نمایاں ہے کہ وہ چھلانگ لگاتا ہے اور اپنے اس بچے یا عزیز کو ڈوبنے سے بچالیتا ہے.دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ جسمانی قوتوں کی صحیح نشو ونما کے نتیجہ میں ایک دوسرا قدم اٹھا نا تمہارے لئے آسان ہو جائے گا یعنی تمہاری یہ جسمانی نشو ونما تمہاری ذہنی نشو ونما کا ذریعہ بنے گی.جس طرح ربوبیت کا جلوہ اس صفت کی نشو و نما کے نتیجہ میں ظاہر ہوا.پھر تمہاری ذہنی ارتقا کے نتیجہ میں رحمانیت کا جلوہ ظاہر ہو جائے گا.جس وقت انسان نے اپنی تیرا کی کی قوت کی نشو ونما کرنی شروع کی تو ساتھ ہی

Page 180

177 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم اس کا ذہن اس کے پہلو میں آ کر کھڑا ہوا اور اس کو کہا کہ تیرا کی میں تم اپنے عضلات ، اعصاب اور دوسری چیزوں سے کام لیتے ہو ان سے ایک تو اس قوت کی نشو ونما میں مددملتی ہے اور دوسرے اس سے دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے.مثلاً اب ایک بیٹی ربڑ کی ہوا بھر کے باندھ دی جاتی ہے اور یہ تیرا کی کی قوت کی نشو و نما کا ایک بہتر طریقہ ہے.اس سے پہلے ہم بچہ کو اپنے ہاتھ پر رکھتے تھے اور انسان انسان ہی ہے.ہاتھ بھی نیچے ہوتا تھا اور بھی اوپر ہوتا تھا اور بچہ کو تیرا کی سکھنے میں پوری مدد نہیں ملتی تھی.لیکن اس بیلٹ سے یا اس کی بعض اور شکلیں ہیں ان سے اس کو زیادہ فائدہ پہنچ جاتا ہے.اب دیکھو پہنی ترقی ہوئی تو ذہن نے سوچنا شروع کیا اور مختلف زاویوں سے سوچنا شروع کیا کہ اچھا تیر نا کس طرح سیکھا جا سکتا ہے یا سکھایا جا سکتا ہے اور ڈوبنے کے جو خطرے ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ کس طرح بچا جاسکتا ہے وغیرہ وغیرہ.انسان نے جب سوچنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو اس نے جذب کیا تو اس کے ذہن نے اور اس کے علم نے بہت سی ایسی چیزیں نکالیں.جو ایک طرف اس کے جسمانی قوی کی نشو ونما میں مد ہوئیں اور دوسری طرف وہ اس کی اخلاقی نشو و نما میں ممد ہوئیں.پھر اخلاق کا تعلق حسن سلوک اور حسن معاملہ سے ہے.اس لئے یہ سوال پیدا ہوا کہ ان چیزوں کو کس رنگ میں دوسرے کے فائدہ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور جب اخلاق اچھے ہو گئے تو پھر روحانیت کی طرف توجہ ہوئی کیونکہ اچھے اخلاق والا انسان ایک احساس یہ بھی اپنے اندر پاتا ہے.( بداخلاق انسان یہ احساس نہیں رکھتا ) اچھے اخلاق والا انسان اپنے اندر یہ احساس پاتا ہے کہ میں نے اپنے حسنِ سلوک اور حسن معاملہ سے دنیا میں بہتوں کو دُکھ سے نجات دی.اور میں بہتوں کے کام آیا.میں نے اپنے اچھے اخلاق کا اظہار کیا اور میں ہر دلعزیز بھی بنا.لیکن ابھی میں نے اپنے رب کی نگاہ میں عزت کا مقام حاصل نہیں کیا.مجھے روحانیت حاصل نہیں ہوئی.تب وہ اپنے اخلاق پر زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا نور چڑھانا شروع کرتا ہے اور اس سے اس کی روحانیت کی نشوونما میں مددملتی ہے.یہ اخلاق روحانی رفعتوں کے لئے ممد اور معاون ہوتے ہیں.پھر جب وہ روحانی طور پر اپنی روحانی قوتوں کو کمال نشو ونما تک پہنچاتا ہے.تو پھر اس کی روحانیت اپنا چکر پورا کر کے پھر ربوبیت کی طرف آتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ جب میں نے اپنے رب کی رضا کو پایا تو میں نے یقین اور عرفان حاصل کیا کہ دنیا کی سب لذتوں اور دنیا کے سب سرور سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے پیار کی لذت اور سرور ہے اور مجھے اپنے دوسرے بھائیوں کو اس میں شریک کرنا چاہئیے.پھر تبلیغ کے لئے باہر نکلتا ہے.پھر وہ اصلاح کی طرف متوجہ ہوتا ہے.پھر وہ ان لوگوں کو جو اپنے رب سے دور ہیں واپس اپنے پیدا کرنے والے کی طرف لانے کی کوشش کرتا ہے.اور اس طرح اس کی روحانیت میں ربوبیت کا جلوہ نظر آنے لگتا ہے یعنی اس کے جسمانی قو می اس کی روحانیت کے تابع ہو کر اپنا کام کرتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم میرے دیئے ہوئے قومی کی ، میری عطایا کی ، میری نعمتوں کی ، میرے فضلوں کی صحیح نشو ونما کرو گے اور ان سے زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھا فائدہ اٹھاؤ گے تو اس میں تمہارا اپنا

Page 181

فرموده ۱۹۶۹ء 178 د و مشعل راه جلد دوم فائدہ ہے.دنیا کے بہت سارے دکھوں سے تم بچ جاؤ گے اور اس دوزخ کی آگ سے تم محفوظ ہو جاؤ گے.جس کے تخیل سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.جیسا کہ قران کریم میں بہت جگہ یہ بیان ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ومن کفر میں نے اپنی نعمتیں دیں لیکن پھر بھی میرے بندوں میں سے بعض ایسے ہو نگے جو میر اشکر ادا نہیں کریں گے.جو میری ان نعمتوں کی صحیح نشو و نما نہیں کریں گے.ان سے صحیح اور حقیقی فائدہ نہیں اٹھا ئیں گے وہ ناشکری کریں گے اور اس بات کو بھول جائیں گے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی تھی.تو وہ اس وقت بھی بے نیاز تھا.اس کو کسی چیز کی احتیاج نہیں تھی جس کی طرف میں نے شروع میں اشارہ کیا ہے اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس بے نیازی کے باوجود اس کی صفت کریم نے یہ چاہا کہ وہ بے حد و حساب سخاوت کرے اور بخشش کرے اور اپنی اس صفت کے ماتحت اسنے بخشش کی.اس کے کریم ہونے کی صفت سے جس کے نتیجہ میں انسان کو یہ تمام تو تی اور قابلیتیں ملیں.اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ اللہ نی نہیں ہے اس کو کوئی ضرورت تھی.اس کو کوئی احتیاج تھی.اس لئے اس نے یہ چیزیں دیں.یہ احمقانہ بات ہے.اللہ تعالیٰ جہاں غنی ہے.وہاں وہ کریم بھی ہے اور جہاں وہ کریم ہے وہاں وہ منی بھی ہے.یعنی اس کی سخاوت اس کی بخشش اس کی عطا.اس کا اپنے بندوں پر نعمتوں اور فضلوں کو پانی کی طرح بہاد دینا یہ اس کی صفت کریم کے ماتحت ہے لیکن وہ شخص نا شکرا اور احمق ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے یا ہمارے کسی حق کے نتیجہ میں ہمیں یہ چیز میں دی ہیں ایسا نہیں ہے بلکہ فنی خدا نے کریم ہونے کی حیثیت سے تمہیں یہ بخشیں دی ہیں اور تم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ تم اس کا شکر ادا کرو اور شکر کا جو طریق اس نے بتایا ہے اس کا اسے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس کو کوئی احتیاج نہیں.وہ تو غنی ہے اس کا فائدہ تمہیں ہی ملے گا دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاو من يشكـرفـانـما يشكر لنفسه ومن كفر فان الله غنى حمید (فرقان:۱۳) یہاں یہ بیان ہوا ہے کہ جو شخص ناشکری کرتا ہے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ سب نعمتیں ہمیں بغیر استحقاق کے ملی ہیں.وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ کے لئے ہر حمد ہے.ہر حمد اور تعریف اللہ ہی کی ہے.اصل میں وہی حقیقی معنی میں حمد کا مستحق اور تعریف کا حقدار ہے.اگر ایک بندہ اس کی حمد نہیں کرتا.اگر ایک بندہ اس کی تعریف نہیں کرتا.اگر ایک بندہ اس کی عطا پر اس کی صحیح نشو ونما اور اس کے صحیح استعمال سے اس کا شکر ادا نہیں کرتا.تو اس سے خدا تعالیٰ کی تعریف اور حمد میں کوئی فرق نہیں آتا.اس کے اندر کوئی عیب نہیں پیدا ہوتا.ہاں اس بندے کے اندر عیب پیدا ہو جاتا ہے.بندے کے اندر ایک نقص پیدا ہو جاتا ہے.اس کے چہرے پر ایک داغ لگ جاتا ہے اور وہ خدا سے دُوری کا داغ ہے اور اس سے تم کو بچنا چاہئیے.اللہ کی شان میں اس سے کوئی فرق نہیں آتا.لیکن بہت سے لوگ ہیں جو اپنے رب کو بھول جاتے ہیں اور وہ اس کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے.جیسا کہ قدر کرنی چاہئیے.ان کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا: زين لـلـذيـن كـفـــروا الـحـيــة الدنيا ويسخرون من الذين آمنوا والذين اتقو افوقهم يوم القيامة والله يرزق من يشاء بغير حساب (آیت ۲۱۳) که اتنی نعمتوں کے باوجود کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے

Page 182

179 فرموده ۱۹۶۹ء دو مشعل راه جلد د دد دوم اور کفر سے کام لیتے ہیں ان لوگوں کی نگاہ میں ان کی اس بدبختی کے نتیجہ میں دنیوی زندگی (ورلی زندگی) کو خوبصورت کر کے دکھایا گیا ہے اور اس سے ان کو بڑا نقصان اٹھانا پڑتا ہے.اگر کسی ایک چیز سے آپ سور و پیر کا فائدہ اٹھا سکتے ہوں.لیکن اٹھائیں صرف پانچ روپیہ کا فائدہ.تب بھی یہ بد بختی ہے کہ آپ پچانوے روپے کا اور فائدہ اٹھا سکتے تھے.لیکن وہ فائدہ آپ نے اٹھایا نہیں.ایک شخص کو ایک ایسی عطاملی (ساری عطا یا ہی اس قسم کی ہیں ) کہ وہ ان کے ذریعہ سے اس ورلی زندگی کی جنت بھی حاصل کر سکتا تھا.اور اس اخروی زندگی کی جنت بھی حاصل کر سکتا تھا.اور ان دو جنتوں کا مقابلہ ایک اور سو کا نہیں ایک اور ہزار کا نہیں ایک اور ارب یا کھرب کا بھی نہیں بلکہ یہ بغیر حساب کے ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حاصل تو کرتے ہیں ہماری عطا کردہ قوتوں اور استعدادوں سے بے شمار کے مقابلہ میں صرف پانچ روپیہ کا فائدہ اور تمسخر شروع کر دیتے ہیں مومنوں کی جماعت سے.جنہوں نے بے شمار نعمتیں اور فضل حاصل کئے اور ان کے نتیجے اور ثمر اور پھل کھائے ویسخرون من الذين امنوا.پس لوگ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والے اور بے شمار عطایا اور ان کے ثمرات کے وارث تھے یہ ناشکرے منکر ان سے تمسخر کرنا شروع کر دیتے ہیں ان کو استہزاء کی نظر سے دیکھتے ہیں ویسخرون من الذين امنوا.پس جو لوگ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے اور بے شمار عطایا اور ان کے ثمرات کے وارث تھے یہ ناشکرے منکر ان سے تمسخر کرنا شروع کر دیتے ہیں انکو استہزا کی نظر سے دیکھتے ہیں اور استہزا کی نگاہ سے اس لئے دیکھتے ہیں کہ کہتے تم نے دنیا میں عیش وعشرت سے فائدہ نہیں اُٹھایا.دنیوی زینت سے فائدہ نہیں اٹھایا اور یہ نہیں سمجھتے اور ان کی عقلوں پر پردہ پڑا ہوا ہے کہ ان لوگوں نے دنیا میں بھی لذت پائی جو منکر ناشکرے کو نہیں ملی اور اخروی لذتوں کے سامان بھی ان کے لئے مقدر کئے گئے جن سے دنیا دار ناشکر امنکر محروم رہے گا اور اس کی بجائے اللہ تعالیٰ کی غضب اور غصے کی جلا دینے والی آگ میں جو ایک سیکنڈ کے اندر بھسم کر کے رکھ دیتی ہے ایک لمبا عرصہ ان لوگوں کو رہنا پڑے گا.لیکن یہ جاہل ناشکرے حیات دنیا کی ظاہری زینت پر فریفتہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والے پر تمسخر کرتے ہیں اور حقیقت سے وہ آشنا نہیں.حالانکہ بات یہ ہے کہ جس دن ایمان لانے والوں کی جزا کا فیصلہ ہوگا اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی.اس دن معلوم ہوگا کہ والذین اتقو فونھم کہ ان سے کہیں بلند اور بالا اور ان سے برتر اور ان پر فوقیت رکھنے والے وہ لوگ تھے جن سے یہ تمسخر کیا کرتے تھے کیونکہ یہ گروہ تو وہ ہے جو خدا تعالیٰ کا پسندیدہ گروہ ہے اور وَ اللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ جس کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اسے بغیر حساب کے دیتا ہے.میں نے پہلے بتایا تھا کہ اس دنیا کی دنیوی زینت اور اس دنیا کی دنیوی لذت اور اس دنیا کا دنیوی سرور اس لذت اور سرور اور اس حسن اور اس نور کے مقابلہ میں جو اللہ تعالیٰ سے اس کا بندہ حاصل کرتا ہے ایک اور ایک کھرب کی نسبت بھی نہیں رکھتا.بلکہ ایک کی نسبت جو غیر محدود سے ہے وہ نسبت رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو کچھ ان کو ملنے والا ہے وہ تو بغیر حساب کے ہے اس کو اعداد وشمار اپنے احاطہ میں نہیں لے سکتے.غرض ایک نہایت

Page 183

دومشعل کل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۹ء 180 ہی محدود ظاہری اور صرف چھلکے کی زینت اور ایک عارضی اور فانی آرام اور سکون اور لذت کی خاطر وہ ان راہوں کو اختیار کرتے ہیں جن راہوں پر چل کر خدا تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں اور قابلیتوں کی صحیح نشو و نما نہیں ہوسکتی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا نہیں ملا کرتی اور بجائے اس کے کہ وہ اپنی حالت پر روئیں وہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والوں پر استہزا کرتے ہیں ٹھٹھا کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ جن سے وہ ٹھٹھا کرتے ہیں یہ وہ جماعت ہے کہ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ دنیوی زینت اور دنیوی آراموں کے مقابلہ میں بغیر حساب ان کو ملے گا ان کا ان سے کوئی مقابلہ نہیں.میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب دنیا دار ناشکرے کے خلاف فیصلہ صادر فرماتا ہے تو اس دنیا کی لذت دکھ میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اس دنیا کا سرور غم میں بدل جاتا ہے.اس دنیا کی خوشحالی بد حالی میں تبدیل ہو جاتی ہے.اور وہ فیصلہ الہی سلسلوں میں اس دنیا میں ضرور ہوتا ہے ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ یہ فیصلہ کس نسل میں ہوگا.بعض دفعہ یہ فیصلہ پہلی نسل میں ہوتا ہے جیسا کہ قریش مکہ جو مومنوں کی جماعت کے مقابلہ میں آئے تھے وہ مومنوں کی آنکھوں کے سامنے اور ان کے ہاتھوں سے ذلیل وخوار ہوئے.بے عزت ہوئے لیکن کبھی یہ فیصلہ کئی نسلیں گزرنے کے بعد ہوتا ہے لیکن اس سارے عرصہ میں پھر بھی بغیر حساب کے اللہ تعالیٰ سے فضل اور رحمتیں اور ان انعامات کے صحیح استعمال کے نتیجہ میں ان کے جو مرات ملتے ہیں جو پھل ملتے ہیں وہ بغیر حساب ملتے ہیں اور اسی دنیا میں ملنے شروع ہو جاتے ہیں.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک مثال دی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک الہی سلسلہ قائم ہوتا ہے.اس پر ایمان لانے والے ایک وقت تک ذلیل بھی کئے جاتے ہیں.ان پر پھبتیاں بھی کسی جاتی ہیں.استہزاء سے بھی کام لیا جاتا ہے.ان کو دکھ بھی دیا جاتا ہے.ان کو چپیڑ میں بھی لگائی جاتی ہیں.ان کو جوتے بھی پڑتے ہیں.ان کو قتل بھی کیا جاتا ہے لیکن وہ اپنا تعلق محبت جو انہوں نے اپنے رب سے باندھا تھا قطع نہیں کرتے.دنیا کی کوئی تلوار ایسی نہیں کہ جو اس رشتہ الفت کو قطع کر سکے اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے حقیقی سکون کا اس وقت بھی انتظام کرتا ہے.پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ دنیا میں اپنا فیصلہ جاری کرتا ہے وہ ان کو غالب کرتا ہے اور باقی دنیا کو چوہڑے چماروں کی طرح ذلیل اور بے عزت کر دیتا ہے.پھر اللہ تعالی کی قوتوں کا وہ صحیح استعمال کرتے ہیں ان کی صحیح نشو ونما کرتے ہیں اور ایک نہایت ہی حسین معاشرہ اس دنیا میں پیدا ہو جاتا ہے جس میں کوئی شخص کسی دوسرے کو دکھ پہنچانے والا نہیں ہوتا بلکہ ہر شخص دوسرے کے دکھوں کا مداوا بنتا ہے اور دراصل یہ دنیوی دکھ بھی سوائے آسمانی ابتلاؤں اور امتحانوں کے باقی نہیں رہتے کیونکہ ہماری دنیا میں جو دکھ ہیں وہ بنیادی طور پر دو قسم کے ہیں.ایک وہ دکھ ہیں جو انسان کے ہاتھ کے پیدا کردہ ہیں اور ایک دکھ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے حوادث کے رنگ میں آتے ہیں اور وہ امتحان کے طور پر ہوتے ہیں.یہ امتحان تو ان کے ایمان کی پختگی کے لئے اور ان پر اپنے فضلوں کی بارش میں وسعت اور شدت پیدا کرنے کے لئے جاری رہتا ہے اور جاری رہے گا لیکن انسان کے ہاتھ سے جو یہ پاک اور مقدس لوگ دکھ اٹھایا کرتے تھے وہ صورت پھر قائم نہیں رہتی.ہر انسان کی عزت کی جاتی ہے ہر ایک انسان کا احترام ہوتا ہے.ہر انسان کی قدر کی

Page 184

181 فرموده ۱۹۶۹ء دو مشعل راه جلد دوم جاتی ہے.ہر انسان کو اپنے جیسا اشرف الخلوقات کا ایک فرد سمجھا جاتا ہے.ہر انسان دوسرے انسان سے تعاون کرتے ہوئے اپنے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے قرب کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.فیصلے کا وہ دن بھی آتا ہے.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ امِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَّأْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَاذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُو يَصْنَعُوْنَ.(النحل : ۱۱۳) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نقشہ کھینچا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کی جماعت کے لئے آخری فیصلہ ہو جاتا ہے اور اس دنیا میں بھی وہ غالب ہو جاتے ہیں اور امن اور اطمینان اور خوشی اور خوشحالی اور ہزار قسم کے سرور والی زندگی گزارنے لگ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ان بے شمار نعمتوں کے نتیجہ میں وہ اور بھی اس کی طرف جھکتے ہیں.وہ اپنے نفس سے اور بھی خالی ہو جاتے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں اور بھی زیادہ فانی ہو جاتے ہیں.وہ ہر غیر اللہ سے اور بھی زیادہ دور ہو جاتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور شکر کا حق ادا کرتے ہیں تب ایک لمبازمانہ ایسا آتا ہے کہ اس دنیا کا رزق بھی بڑی کشائش کے ساتھ ان کو ملتا ہے اور ان کی زندگی امن اور اطمینان کی زندگی ہوتی ہے.پھر کبھی دو نسلیں کبھی چار نسلیں کبھی پانچ نسلیں اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی پرورش یافتہ خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکتی رہتی اور اس کے مزید فضلوں کو حاصل کرتی رہتی ہیں.پھر ایک نسل پیدا ہوتی ہے اس کے دل میں شکر کی بجائے ناشکری کے جذبات ہوتے ہیں اور وہ یہ مجھے لگتی ہے کہ ہمارے باپ دادا اور ہم ایسی خوبیوں کے مالک ہیں کہ اللہ تعالیٰ بھی اس بات پر مجبور ہوا کہ وہ ہماری عزت کرے.اللہ تعالیٰ بھی مجبور ہوا کہ وہ ہمیں مال دے اور ہمیں اقتدار دے وہ ہمیں عزت دے اور وجاہت دے عاجزانہ راہوں کو چھوڑ کر متکبرانہ اور مغرورانہ راہوں کو اختیار کرتے ہیں تب جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ ان کی ناشکری اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور وہ جو سمجھ رکھتے تھے وہ جو روحانیت کے نور میں زندگی گزار رہے تھے ان کی آواز کو یہ سن نہیں رہے تب ایک دوسرا فیصلہ آسمان سے نازل ہوتا ہے اور وہ یہ کہ فأذاقها الله لباس الجوع ایسی بستی کو ایسی قوم کو ایسی جماعت کو اللہ تعالیٰ سکون اور آرام اور خوشی اور اطمینان کے لباس کی بجائے بھوک اور بے اطمینانی اور خوف کی چادر پہناتا ہے اور ذلت کا مزہ چکھاتا ہے تب ان کو کہتا ہے دیکھو تمہارے باپ دادا نے میرے فضلوں کو پایا اور انہوں نے اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو اس رنگ میں استعمال کیا کہ میرے مادی اسباب دنیا کے فائدہ کے لئے اور ان کی روحانی ارتقاء کے لئے کام آئے کتنا لمبا عرصہ میں نے ان سے پیار کا سلوک کیا.کتنی بے شمار نعمتیں میں نے ان کو دیں ایک لمحہ بھی وہ میری محبت کی نگاہ سے محروم نہیں ہوئے کیونکہ مجھ پر نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ.اور ایک ذرہ بھی ان کے جسم کا اور ایک پہلو بھی ان کی روح کا مجھ سے دور نہیں ہوا.ان کا ہر زاویہ جو تھا ہر رنگ جو تھا وہ میری طرف اور میرے رنگ سے رنگین تھا.ایک کے بعد دوسری نسل نے میری محبت کی شان اور میری محبت کے جلوے اس طرح دیکھے کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے لیکن تم ناشکرے پیدا ہوئے کہ تم ان تمام نعمتوں کو بھول

Page 185

فرموده ۱۹۶۹ء 182 د دمشعل کل راه جلد دوم گئے اور ناشکری کی راہوں کو تم نے اختیار کیا اور اب میں تمہیں دوسرا جلوہ جو میرے قہر اور غضب اور غصہ کا جلوہ ہے دکھاتا ہوں.تم دنیا میں اگر کوئی چیز حاصل کر سکتے ہو جس کے نتیجہ میں خوش حالی اور آرام ملے تو وہ میری رضا اور میری مرضی کے بغیر حاصل نہیں کر سکتے.اب میں تمہارے لئے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ تم سے دنیا کی عزتیں دنیا کے اموال دنیا کی عقلیں اور وجاہتیں اور دنیا میں انسان کی...زندگی بسر کرنے والے اخلاق اور دنیا میں ان راہوں کو اختیار کرنے کی طاقتیں جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہیں یہ ساری چیزیں چھین لیتا ہوں اور اب تم جسمانی اور روحانی بھوک اور اس دنیا اور اُس دنیا کے خوف میں اپنی زندگی بسر کرو گے.ہمیں یہ جلوہ بھی نظر آتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے جو انعامات تم پر کئے ہیں تم نے انعامات کی ناشکری نہیں کرنی.جب تک تم شکر گزار بندے بنے رہو گے مزید نعمتیں اور مزید فضل تمہیں حاصل ہوتے رہیں گے.اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اس مفہوم کو ادا کرتی ہیں.میں نے چند آیتیں لی ہیں اور یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے یہ تمہید کے طور پر ہے اس کے نتیجہ میں ہماری ہر نسل پر جو عمر کے لحاظ سے بڑوں سے تعلق رکھتی ہے اور وہ بھی جو چھوٹوں سے تعلق رکھتی ہے.مرد بھی اور عورتیں بھی اور ہم سب پر ہماری ہر نسل پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں بنیادی طور پر تو ایک ہی ذمہ داری ہے کہ جب اللہ تعالیٰ انسان پر فضل کرے اور اسے اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازے (اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی فضل کرتا اور ہمیشہ ہی اپنی بے شمار نعمتوں سے اپنے عاجز بندوں کونو از تارہتا ہے ) تو اس کا یہ فرض ہے کہ ان نعمتوں کا صحیح استعمال کرے.ان نعمتوں اور فضلوں میں سے ایک نعمت اور ایک فضل ہماری جسمانی ، بہنی، اخلاقی اور روحانی قوتیں ہیں پس جہاں تک ان قوتوں اور استعدادوں کا تعلق ہے.ہے.ہم پر یہ لازم آتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے ایک تو ان کی صحیح نشو و نما کریں اور اس نشو ونما کو کمال تک پہنچائیں.یعنی جتنی طاقت اور جتنی قوت اس نے ہمیں دی وہ جس حد تک اپنے کمال کو پہنچ سکتی ہے اس حد تک اسے پہنچا ئیں.ہر ایک آدمی کا دائرہ استعداد علیحدہ علیحدہ ہے لیکن ہر فرد واحد کا جو دائرہ استعداد ہے اس کے اندر جن رفعتوں تک پہنچا اللہ تعالیٰ نے ممکن بنایا ہے ان رفعتوں تک وہ اپنی کوشش تدبیر اور دعا جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی ہے کے ذریعہ پہنچے یہ ہمارا فرض ہے اور اس فرض کی طرف ہمیں متوجہ ہونا چاہیئے.یہ فرض صرف بڑی نسل کا نہیں بلکہ یہ فرض ان پر بھی عائد ہوتا ہے.جو نئے نئے احمدیت میں داخل ہوتے ہیں اور ان پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے جو احمدیت کے گھر میں پیدا ہوئے اور انہوں نے نئے سرے ( کیونکہ نئے افراد ہیں) سے اپنی جسمانی اور ذہنی اور اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشو و نما کرنی ہے اور اس نشو ونما کو اس کے کمال تک پہنچانا ہے.اس تمہید کے بعد میں انشاء اللہ اللہ تعالیٰ مجھے زندگی اور توفیق دے اپنی آخری تقریر میں جب میں آپ سے مخاطب ہوں گا جو فرائض عائد ہوتے ہیں ان کی طرف بڑی وضاحت سے اور کھل کے توجہ دلانا چاہتا ہوں.آپ

Page 186

183 فرموده ۱۹۶۹ء اس تمہید کو مجھیں یہ بڑی اہم تمہید ہے.اب دعا کر لیں اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے اور آپ کو سمجھنے کی بھی توفیق دے.اس کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی.دد د و مشعل راه جلد دوم ( بحوالہ روزنامہ الفضل ۱۷ / دسمبر ۱۹۶۹ء)

Page 187

دومشعل دوم فرموده ۱۹۶۹ء 184 سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث" نے اطفال الاحمد یہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر مورخہ ۱۸ ۱۷ خاء ۱۳۴۸ ہش (۱۸/اکتوبر ۱۹۲۹ء) کو جو تقریر فرمائی تھی اس کا مکمل متن درج ذیل ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سورہ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات کے متعلق جو ہدایت دی گئی تھیں اس کے متعلق اطفال سے دریافت فرمایا کہ کس کو اس ہدایت کا علم ہوا ہے.اور کس کو ابھی تک علم نہیں ہوا.اس جائزہ کے بعد حضور نے فرمایا :- ابتدائی سترہ آیات یاد کریں میں نے اس سے ایک عام اندازہ یہ لگایا ہے کہ باہر سے آنے والے بچوں کی اکثریت ایسی ہے جن کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ میں نے حال ہی میں جو ہدایت دی تھی وہ کیا تھی.لیکن ربوہ میں رہنے والے اطفال میں سے بھی ایسے ہیں جنہیں اس بات کا ابھی تک علم نہیں ہوا.میں نے یہ ہدایت دے رکھی ہے کہ ساری جماعت چھوٹے بھی اور بڑے بھی سورۃ بقرہ کی پہلی سترہ آیات زبانی یاد کر لیں.اب آپ نے میرے منہ سے بھی یہ ہدایت سن لی ہے.دسمبر کی ۲۶.۲۷ کو جب ہمارا جلسہ سالانہ ہوگا اس وقت تک آپ سب ان آیات کو حفظ کر لیں.اور جو اطفال باہر سے آئے ہوئے ہیں وہ واپس جا کر تمام دوسرے اطفال کو بھی یہ بتا دیں کہ سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات زبانی یاد کریں یا آپ خود بھی ان کو شوق سے یاد کریں اور دوسروں میں بھی یاد کرنے کا شوق پیدا کریں.کیونکہ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس اجتماع میں شرکت کا موقع عطا کیا ہے.باقی دوسرے بچے اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس اجتماع کی برکتوں سے محروم رہے ہیں اور میری اس ہدایت کو نہیں سن سکے آپ ان کو جا کر بتا ئیں تا کہ وہ اس سے محروم نہ رہیں اور دسمبر تک یہ سترہ آیات آپ سب کو یاد ہو جانی چاہئیں.آ میں مختلف عمروں کے اطفال ہیں.بعض تو بہت چھوٹی عمر کے ہیں بعض درمیانی عمر کے ہیں.لیکن جو بڑے ہیں ان کو قرآنی آیات کا ترجمہ بھی سیکھ لینا چاہیئے.البتہ چھوٹے بچے ان آیات کو صرف حفظ کر لیں.کیونکہ اس عمر کے لحاظ سے حفظ کرنا بڑا آسان ہوتا ہے.در اصل سات سے پندرہ سال کی عمر کا عرصہ حافظہ کی عمر ہے.اس عمر میں بچوں کے ذہنوں پر حافظہ حکومت کرتا ہے.پھر جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک اور اچھا حاکم انہیں عطا کرتا ہے اور یہ ذہن اور فراست کی حکومت ہوتی ہے اس وقت ذہن اور فراست حاکم بنتا ہے یعنی سوچنا اور استدلال کرنا یا اس کو سمجھنا اور پھر اس سے فائدہ اُٹھانا.وغیرہ

Page 188

185 فرموده ۱۹۶۹ء بچپن میں تربیت کرنے کی ضرورت د و مشعل راه جلد دوم دد ایک اور ضروری بات جس کی طرف بھی فوری توجہ کرنی ہے اور یہی اس وقت آپ اطفال کے لئے میرا پیغام یا میری ہدایت ہے کہ دنیا میں بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں عام طور پر بڑے قیمتی پتھر ہیرے جواہرات پائے جاتے ہیں.افریقہ میں بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں بعض خاندان تو اپنے بچوں کو بتا دیتے ہیں کہ یہ قیمتی پتھر ہیں.یہ عام پتھر نہیں لیکن بہت سے والدین یا گارڈین اس سے غفلت برت رہے ہوتے ہیں اور وہ ان کی اس رنگ میں تربیت نہیں کرتے اور انہیں یہ نہیں بتاتے کہ یہ ہیرا ہے یہ زمرد ہے یہ یا قوت ہے یا یہ دوسری قسم کے قیمتی پتھر ہیں اور ان کی کوئی قیمت ہے اور ان کو سنبھال کر رکھنا ہے ایسے بچے بعض دفعہ کھیل رہے ہوتے ہیں کہیں سے مٹی کو اکٹھا کرتے ہیں تو نیچے ہیرا پڑا ہوا ہوتا ہے یا پھروں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں اور ان میں بعض دفعہ ہیرا بھی ہوتا ہے.لیکن انہیں اس کا پتہ نہیں ہوتا.یہ میں آپ کو کہانی نہیں سنار ہا بلکہ واقعہ بتارہا ہوں دنیا میں اس قسم کے خطے ہیں جہاں یہ پتھر بڑی کثرت سے ملتے ہیں اور وہاں بعض بچے ان پتھروں کی قدرو قیمت سے غافل ہوتے ہیں.وہ اس لحاظ سے جاہل ہوتے ہیں ان کو کچھ علم ہی نہیں ہوتا.کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان پتھروں کی کیا قیمت ہے یہ عام پتھر نہیں.دوسری مثال میں آپ کے سامنے یہ رکھنا چاہتا ہوں (اس اثناء میں ایک بچے کی حرکات کو دیکھ کر حضور نے فرمایا ) ضمن میں یہ بھی بتا دینا ہوں کہ میری آنکھوں کو یہ عادت پڑ گئی ہے شاید اس کا شکریہ مجھے خدام الاحمدیہ کو ادا کرنا ہے کہ میرے سامنے جو مجمع ہو اس کی حرکت میری نظر میں ہوتی ہے.اس واسطے کوئی بچہ یہ نہ سمجھے کہ وہ میری نظر سے اوجھل ہے سارا مجمع جس سے میں مخاطب ہوتا ہوں وہ میری نظر میں ہوتا ہے.اور یہ عمر چونکہ تربیت کی ہے اس واسطے مجھے بولنا پڑے گا اور آپ کو شرمندہ ہونا پڑے گا.اور میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ شرمندہ ہوں.اس لئے آپ توجہ سے سنیں اور یہ مثال جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ مثلاً دوچھوٹے کینوس کے تھیلے ہیں جو ہم نے بازار سے خریدے ہیں.ان کی قیمت تین چار روپے ہے.ہم نے ایک تھیلے میں پتھروں کے ٹکڑے بھر لئے ہیں اور دوسرے تھیلے میں ہیرے اور جواہرات بھر لئے.ان میں سے ہیرے اور جواہرات سے بھرے ہوئے تھیلے کی قیمت بہت زیادہ ہے یا پتھروں سے بھرے ہوئے تھیلے کی؟ (سب بچوں نے جوابا عرض کیا جس تھیلے میں ہیرے جواہرات بھرے ہوئے ہیں ).ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا روحانی خزانہ دیا ہے جس میں روحانی ہیرے اور جواہرات پائے جاتے ہیں.مثلاً ایک ہیرا جو برصغیر پاک و ہند میں تھا اور جسے انگریز یہاں سے غصب کر کے لے گئے.یہ برصغیر اس کا اصل مالک ہے.بہر حال یہ دنیوی دولت تو بے وفا ہے.ایک گھر سے نکل دوسرے گھر میں چلی جاتی ہے.پس وہ تھیلا زیادہ قیمتی ہے جس میں ہیرے جواہرات پڑے ہوں بہ نسبت اس تھیلے کے جس میں پتھر کے ٹکڑے ہوں بلکہ ان دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں ہے.ایک چند روپوں کا ہے اور ایک وہ ہے کہ بادشاہوں کے خزانے خالی ہو جائیں

Page 189

فرموده ۱۹۶۹ء 186 د دمشعل را س راه جلد دوم تب بھی شاید ہی اس کی قیمت ادا ہو سکے.سنو کہ انسان کا ذہن بھی ایک تھیلے کی حیثیت رکھتا ہے.جس طرح ہم تھیلے میں پتھر کے ٹکڑے یا ہیرے جواہرات بند کر دیتے ہیں اسی طرح ہم دماغ میں روحانی ہیرے اور جواہرات بھی بند کر سکتے ہیں.پس ایک دماغ وہ ہے جس کے اندر روحانی ہیرے اور جواہرات ہیں اور دوسرا دماغ وہ ہے جس میں روحانی طور پر چھوٹے چھوٹے بے قیمت پتھر بھرے ہوئے ہیں ان میں سے کون سا دماغ اچھا ہے ( سب بچوں نے بیک زبان عرض کیا ہیروں اور جواہرات والا) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام روحانی خزائن تقسیم کرنے آئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق حضرت نبی اکرم ﷺ کی یہ پیشگوئی تھی کہ آپ بڑی کثرت سے روحانی خزائن کو دنیا میں تقسیم کریں گے.یہ ہم میں سے بڑوں کو بھی ملے اور چھوٹوں کو بھی ملے ہیں.لیکن چونکہ آپ کو ورثہ میں ملے ہیں اور آپ کے ماں باپ نے یہ غفلت برتی کہ آپ کو ان ہیروں اور جواہرات کی قدروقیمت نہیں بتائی.اس لیے آپ عدم تربیت کی وجہ سے اپنے دماغ کے تھیلے بے قیمت پتھروں سے بھرتے ہتے ہیں اور ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ آپ اپنے دماغوں کو بے بہا روحانی ہیروں اور بیش قیمت روحانی جواہرات سے بھریں یہ ایک مقابلہ ہے جو عدم تربیت اور جدوجہد برائے تربیت میں کارفرما ہے.یعنی آپ کا ما حول یا آپ کے والدین کی غفلت آپ کو ایک طرف کھینچ رہی ہے اور آپ کو بے قیمت اور کم مایہ بنانا چاہتی ہے کہ آپ کا کوئی مول نہ ہو.جس طرح آوارہ کتوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی.انسان جب سمجھتا ہے کہ کتے بہت ہو گئے ہیں تو بندوق کے ساتھ یاز ہر دے کر ان کو مار دیتا ہے.آپ کا ماحول جس کی ایک حد تک ذمہ داری آپ کے والدین پر ہے آپ کو ایک ایسا ذہن بنانا چاہتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی قیمت نہیں اور ہماری کوشش رہتی ہے کہ آپ کے ذہن کا تھیلا ان روحانی خزائن سے بھر جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت محمد مصطفی اللہ کے خزانے سے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے صرف ہمارے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے لائے ہیں اور جن کا سلسلہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے.ہماری یہ کوشش جاری ہے.شیطانی وساوس ہمارے مقابلے میں ہیں اور ہمیں یہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم ہی جیتیں گے اور آپ معصوم بچے نہیں ضائع ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سامنے دو چیزیں رکھی ہیں کہ آپ کی یا تو ایک بندر کی قیمت ( قرآن کریم میں بھی بندر کی مثال بیان ہوئی ہے ) یا ایک انسان کی قیمت پڑے جس کے ذہن میں روحانی قیمتی جواہرات بھرے ہوئے ہوتے ہیں.بچوں کی عمر حافظے کی عمر ہے ویسے آپ کی جو عمر ہے یعنی سات سے پندرہ سال کی عمر یہ فراست کی یا ذہانت کی عمر نہیں ہے بلکہ حافظہ کی عمر

Page 190

187 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم ہے.اس وقت ہم آپ کے ذہن میں روحانی ہیرے Stock ( سٹاک) کر سکتے ہیں.اس میں یہ روحانی جواہرات بھر سکتے ہیں.لیکن وہ پہچان جو ایک جوہری کو ہیرے کی ہوتی ہے وہ آپ کو اس عمر میں حاصل نہیں ہوسکتی.ایک جوہری کے پاس مثلا اگر کوئی بڑا سا پتھر یہ سمجھ کر لے جائے کہ اس کی بڑی قیمت ہے تو جو ہری دیکھ کر کہتا ہے کہ اس کا حجم تو بڑا ہے مگر اس کے اندر ایک بال آیا ہوا ہے اور یہ دراصل ہیروں کے دو چھوٹے ٹکڑوں کا مجموعہ ہے اس لئے اگر یہ بال نہ ہوتا تو اس کی قیمت ایک لاکھ روپے ہوتی اور اب چونکہ اس کے اندر ایک بال آیا ہوا ہے اس کی قیمت پچاس ہزار روپے ہے.پس آپ اس وقت یہ فرق نہیں کر سکتے کیونکہ اس وقت آپ کو اس کی سمجھ اور فراست عطا نہیں ہوئی.البتہ ہم امید رکھتے ہیں اور ہماری دعائیں ہیں اور کوششیں بھی جاری ہیں کہ آپ بڑے ہو کر ایک ماہر جوہری کی طرح ایک قیمتی ہیرے اور ایک ناقص ہیرے میں یا ایک ہیرے اور ایک شیشے کے ٹکڑے میں فرق کر سکیں گے.یہ عمر آپ کی ایسی عمر نہیں ہے.آپ کی اس عمر میں ہمارا یہ کام ہے کہ آپ کے ذہنوں کو روحانی خزائن میں سے قیمتی ہیرے منتخب کر کے ان سے بھر دیں.پھر جب آپ بڑے ہوں گے تو پھر انشاء اللہ ان روحانی ہیروں اور جواہرات کی قدر و قیمت آپ پر خود بخود کھل جائے گی اور آپ ان سے فائدہ اٹھانے لگ جائیں گے.حافظے سے کام لے کر دلائل یا د کر لیں پس آج آپ کو میرا یہی پیغام ہے کہ آپ اپنے حافظہ سے کام لیتے ہوئے قیمتی اور بنیادی دلائل کو یاد کر لیں کیونکہ اس وقت آپ کی حافظہ کی عمر ہے ذہانت اور فراست کی عمر نہیں ہے.ان قیمتی اور بنیادی دلائل (جو دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے روحانی خزائن کا ایک حصہ ہیں) میں سے نہایت ہی بیش قیمت ہیرا اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا بیش بہا ہیرا اعطا ہوا ہے جس کے مقابلہ میں ہر چیز ریت کا ایک ذرہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت ہے.یہ ایک وسیع اور بڑا باریک اور دقیق مضمون ہے جسے سمجھنے کے لئے ذہانت اور فراست کی بھی ضروت ہوتی ہے لیکن آپ اس وقت اس مضمون کو پوری طرح سمجھنے کے قابل نہیں ہیں لیکن پانچ ، دس، ہیں سال کے بعد انشاء اللہ قابل ہو جائیں گے اور آپ ایک ما ہر جوہری کی طرح اس ہیرے کی قیمت کو پہچاننے لگ جائیں گے.اس وقت اس کو آپ اپنے ذہن میں محفوظ کر سکتے ہیں تا کہ شیطان اس کو چرا کر نہ لے جائے اور آپ کے دل میں وسوسہ نہ پیدا کر سکے اس لئے آپ کو اللہ تعالی اور اس کی صفات کواز بر یاد کر لینا چاہیئے.آپ کے حافظہ کی تھیلی میں یہ سب سے زیادہ قیمتی جو ہر ہے نیز دیگر قیمتی ہیرے جواہرات جو ہیں وہ محفوظ ہو جائیں.یہ سمجھنے سمجھانے کے لئے دنیوی مثال ہے ورنہ اس خزانے کی جو اصل اور روحانی قدرو قیمت ہے اس کے مقابلے میں ساری دنیا کی مادی دولتیں نیچے ہیں.مگر یہ خزانہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے لیکن اس مضمون سے تعلق رکھنے والی ایسی چیز جو آپ کی اس عمر میں آپ کے

Page 191

دد مشعل راه دوم حافظہ میں محفوظ ہوسکتی ہے وہ محفوظ ہو جانی چاہیئے.فرموده ۱۹۶۹ء 188 آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم مقام اپنے ذہن میں محفوظ کر لیں ا الله اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے علم و عرفان حاصل کر لینے کے بعد حضرت نبی اکرم ﷺ کے بلند مقام کو جاننا بھی ضروری ہے.قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے آپ کے مقام کی قدرو قیمت کو سمجھتے ہوئے حسب ضرورت مقدور بھر قربانیاں دیں مگر بعد میں مسلمان اس حقیقت کو بھول گئے اور محمدیت کے بارے میں ایسی غلط باتیں اختراع کر لیں اور ایسی عجیب باتیں بنالیں جن سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ہیرا تو بہت ہی زیادہ قیمتی تھا لیکن انسان نے اس کے اوپر پیتل اور تانبے کے خول چڑھانے شروع کر دئیے.چنانچہ ایک وقت میں جا کر اس کی وہ شان نظر نہیں آتی تھی جو قرآن کریم نے بیان کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے اور آپ نے روحانی حربوں کے ساتھ یہ خول اتار پھینکے اور اس طرح آنحضرت ﷺ کا نہایت ہی خوبصورت اور چمکتا ہوا ہیرا نکھر کر ہمارے سامنے آ گیا.پس آنحضرت ﷺ کا مقام آپ کے حافظہ کی تھیلی میں محفوظ ہونا چاہئے جس کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ زندہ نبی ہیں.آپ کی روحانی برکات آپ کے بچے متبعین کو قیامت تک ملتی رہیں گی.لیکن جنہوں نے آپ کے مقام کو نہیں پہچانا وہ آپ کی پیروی کے نتیجہ میں جو فیوض اور برکات مالتی ہیں اور انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا وارث بنتا ہے.ان کے نزدیک یہ ماضی کے زمانے کی باتیں ہیں.اس وقت یہ انعام حاصل نہیں ہو سکتے.اور کہنے والوں نے یہاں تک کہ دیا کہ اب کسی مسلمان کو کچی خواب بھی نہیں آ سکتی.یعنی ان کے ذہن میں بالکل اندھیرا ہے.اور یہ اس لئے ہے کہ ان کے ذہن میں آنحضرت امی ﷺ کا اصل مقام محفوظ نہیں رہا ہے.قرآن کریم کی عظمت پھر قرآن کریم ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے علوم اور نشانات کا ایسا خزانہ بھرا ہوا ہے کہ جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ہم میں سے جس کو اپنے فضل سے نوازتا ہے اس پر قرآن کریم کا ایک کے بعد دوسرا مضمون کھلتا چلا جاتا ہے.بعض دفعہ ایک لمحہ میں اللہ تعالیٰ ایک بڑا لطیف مضمون سکھا دیتا ہے مگر اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا شاگرد بنا پڑتا ہے.بہر حال قرآن کریم واقعہ میں ایک عظیم کتاب ہے.پس قرآن کریم کی عظمت کے جو اصول ہیں جن سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ یہ عظیم ہے وہ آپ کی اس عمر میں آپ کے حافظہ میں ہونے چاہئیں.حضرت مسیح موعود کا مقام اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کام کئے یا جو آپ کا مقام ہے وہ بھی ہمارے ذہن

Page 192

189 فرموده ۱۹۶۹ء د مشعل راه جلد دوم میں ہونا چاہیئے.یہ وہ بنیادی مضامین یا بنیادی اصول یا بنیادی حقیقتیں ہیں جن کا انتخاب کر کے اپنے حافظہ میں محفوظ کر لینا ضروری ہے.خواہ اس کی حقیقت پوری طرح واضح ہو سکی ہو یا نہ ہو سکی ہو.بہر حال ان خزائن کو آج آپ کے حافظے کی تھیلی میں محفوظ کر دینا چاہیئے تا کہ جس وقت آپ بڑے ہوں آپ کا فکر و تد بر ترقی کرے اور ان باتوں کے سمجھنے کے قابل ہو تو یہ نہ ہو کہ آپ کی ذہانت اور آپ کی فراست ان باتوں کے سمجھنے کے تو قابل ہولیکن آپ کا حافظہ اس خواہش اور کوشش کا ساتھ نہ دے رہا ہو.اس لئے آج میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ مجلس اطفال الاحمدیہ اور مجلس خدام الاحمدیہ دسمبر کے ختم ہونے سے قبل میرے مشورہ سے ان بنیادی علوم کا ایک متن تیار کرے اور یہ زیادہ لمبا بھی نہ ہو.سترہ آیات تو آپ انشاء اللہ دسمبر تک یاد کر لیں گے (اس پر سب بچوں نے لبیک کہتے ہوئے غرض کیا حضور ہم انشاء اللہ ضرور یاد کرلیں گے ) اس کے بعد پھر دسمبر تک ایک مختصر سا رسالہ تیار ہو جائے گا اور پھر اسے بھی زبانی یاد کر لیں.مثلاً وفات مسیح کا مسئلہ ہے.ہم وفات مسیح کے قائل ہیں اور یہ مجھتے ہیں کہ باقی انبیا علیہم السلام کی طرح حضرت عیسی علیہ السلام بھی وفات پاگئے ہیں.ہمارے ذہن میں اس کے متعلق کوئی الجھن پیدا نہیں ہوتی.لیکن بعض ذہنوں میں غلط باتیں بھی ہوتی ہیں.ہم نے دوسرے کی چیز نہیں لینی صرف مثبت پہلو کو لینا ہے.مثلاً ہم وفات مسیح کے قائل ہیں.قرآن کریم کی ایک دو.تین.چار.پانچ اور چھ آیات یا حضرت نبی کریم علی اللہ کے بعض ارشادت یا امت مسلمہ کے پہلے بزرگوں کے بعض اقوال ہیں.قرآن کریم حفظ کرانے کے لئے مختصر رسالہ بنا ئیں قرآن کریم کی آیات تو ویسے بھی چھوٹی ہیں ان میں علوم کے خزانے بھرے ہوئے ہیں.لیکن ان کے علاوہ جو اقتباس دیے جائیں وہ ایک دو فقروں سے زیادہ کے نہ ہوں کیونکہ ہم نے ان کو حفظ کروانا ہے.اس طرح اگر دو اڑھائی صفحے ہر مضمون کے بنیادی دلائل پر مشتمل ہوں تو سارے پندرہ ہمیں صفحے ہوں گے اور اتنے مختصر رسالہ کا یاد کرنا کوئی مشکل نہیں ہے.یہ متن اگلے سال تک ( گو یہ عرصہ بڑا لمبا ہے لیکن چونکہ اطفال مختلف عمروں کے ہیں اس لئے ان کو از بر یاد کرنے کے لئے زیادہ عرصہ مقرر کیا گیا ہے اور مجلس اطفال الاحمدیہ مرکز یہ اگلے سال اس رسالہ کا امتحان لے اور اس میں پاس ہونے کے لئے سو فیصدی نمبر لینے ضروری ہوں گے.چھوٹا سا رسالہ ہوگا اس کو صرف یاد کرنا ہے.اس کی تفصیل یا تشریح نہیں کرنی.مثلاً یہ سوال ہوگا کہ حضرت نبی اکرم ﷺ کا جو مقام اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تھا جس کا بیان قرآن کریم میں ہے اس کے متعلق دو آیات قرآنیہ لکھ دو.اب وہ آپ کے اس مجوزہ متن میں موجود ہوں گی.وہاں تو شاید زیادہ ہوں گی لیکن امتحان میں تو اتنا لمبا وقت نہیں ہوتا صرف امتحان لینا مقصود ہوتا ہے جس طرح دیگ کا امتحان لینا مقصود ہو تو اس میں سے چند چاول چکھے جاتے ہیں.مگر آپ پاس تب ہوں گے کہ دو آیات بالکل صحیح لکھ دیں.یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے آپ کا اس عمر صلى

Page 193

فرموده ۱۹۶۹ء 190 د دمشعل کل راه جلد دوم میں اپنے دائرہ استعداد کے اندر بڑے اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے.یورپین اقوام نے اپنے بچوں کے متعلق ایک یہ نیا تجربہ کیا ہے کہ اس چھوٹی عمر میں حافظہ اتنا اچھا ہوتا ہے کہ اگر ایک ہی وقت میں چھوٹے بچے کو جو کہ ابھی اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں شامل بھی نہیں ہوا ہوتا مثلا دو اڑھائی سال کا ہوتا ہے.ابھی اس نے اپنی توتلی زبان میں کچھ نہ کچھ الفاظ بولنے شروع کئے ہوتے ہیں اس وقت اگر دو یا تین یا چار زبانیں بیک وقت سکھانی شروع کر دیں تو حافظہ پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا.اردو فارسی، انگریزی اور عربی بولنی شروع کر دے گا.لیکن چونکہ گھر میں ایسا انتظام نہیں ہوتا وہ بے چارہ اپنی طاقت کے استعمال اور اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہتا ہے.پس آپ کی یہ عمر حافظہ کی عمر ہے.اس عمر میں حافظہ بڑا اچھا ہوتا ہے.سوائے اس کہ کے بعض بچے پیدائشی لحاظ سے کند ہوتے ہیں یا بعد میں کسی بیماری کی وجہ سے ان کا حافظ متاثر ہوتا ہے لیکن یہ استثناء ہوگی عام طور پر بچے اس عمر میں بڑا اچھا حافظہ رکھتے ہیں.اس لئے بچوں کی اس طاقت اور استعداد کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیئے یہ متن میرے مشورہ کے ساتھ دسمبر کے آخر تک تیار ہو جانا چاہیئے اور اگلے سال تک آپ نے اس کو فر فر زبانی یاد کر لینا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق قرآنی آیات کو.حضرت نبی اکرم عہ کے مقام کے متعلق.قرآن کریم کی عظمت کے متعلق.اسلام کی حقانیت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو مقام آنحضرت معاوہ کے ایک عظیم روحانی فرزند ہونے کی حیثیت میں ہے اس کے متعلق مختصر حوالے آپ کو زبانی یاد ہونے چاہئیں.آپ ان سے استدلال نہیں کر سکیں گے اور نہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کوئی استدلال کریں.لیکن جب میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کوئی استدلال نہیں کر سکیں گے تو آج کے بچے کی بات کر رہا ہوں.اگر قرآن کریم حفظ ہوتو بڑے ہو کر استدلال کرنا آسانی سے آسکتا ہے آپ میں سے (اللہ تعالیٰ سب کو زندگی عطا کرے) ہر ایک جب بڑی عمر کو پہنچے گا تو اس کے ذہن میں آیات ہوں گی یا دوسری دلیلیں ہوں گی.کتاب دیکھنے کی اسے ضرورت نہیں ہوگی.ان سے وہ خود بخود بڑی آسانی سے استدلال کرنا سیکھ جائے گا.کیونکہ اس نے ایک وقت میں ایک چیز سیکھنی ہے.اللہ تعالیٰ کا منشاء بھی یہی ہے کہ ایک وقت میں صرف حافظہ کام کر رہا ہو اور دوسرے وقت میں حافظہ کے ساتھ ذہانت اور فراست بھی کام کر رہی ہو.اس لئے اللہ تعالیٰ کے اس قانون کے مطابق حافظہ کی اس عمر سے پورا پورا کام لینا چاہیئے.(اس اثناء میں ایک بچہ پیچھے دیکھ رہا تھا.حضور نے فرمایا اے بچے! پیچھے کیا دیکھتے ہو.تمہارے پیچھے دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے.ویسے اصولاً بھی نہیں کیونکہ انسان کے سامنے دلچسپیاں ہیں جو ماضی میں کھو جاتا ہے وہ ہلاک ہو جاتا ہے.ہم نے مستقبل بنانا ہے اپنا نہیں اسلام کا اس واسطے ہماری نگاہ ہمیشہ آگے رہنی چاہیئے پیچھے نہیں جانی چاہیئے.پس یہ آج کا پروگرام ہے کہ آپ میں سے ہر احمدی بچہ (اور جو یہاں حاضر نہیں ہے وہ آپ کے ذریعہ یہ

Page 194

191 فرموده ۱۹۶۹ء دو مشعل راه جلد دوم سن کر ) اس متن کو جس کی تیاری کے لئے ابھی میں نے ہدایت دی ہے اگلے سال تک ضرور یاد کرے گا.(اس کے بعد حضور نے اطفال سے اس کا عہد لیا تو تمام بچوں نے اپنے پیارے آقا کے ارشاد پر بدل و جان لبیک کہا ).پھر حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اب میں دعا کر وا دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور عمر دے اور صحت دے اور دولت دے اور عزت دے اور اپنا قرب عطا کرے.وہی جو سب عزتوں کا سرچشمہ ہے اور آپ کو روحانی طور پر اس قسم کا خوبصورت انسان بنا دے کہ شیطان کی آنکھ آ پر ٹھہر نہ سکے اور وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے.( بحوالة تشحيذ الاذهان مارچ ۱۹۷۰ء)

Page 195

دومشعل دوم فرموده ۱۹۶۹ء 192 فرمائی: سید نا حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے مجلس خدام الاحمد یہ مرکز یہ کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر مورخه ۱۹ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو جو اختتامی تقریرفرمائی تھی اس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.سید نا حضور انور نے تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ (النحل : ١٩) وَاِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ.(ابراهیم: ۳۵) اس کے بعد حضور نے فرمایا: - میں نے اپنی افتتاحی تقریر میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر بے شمار نعمتیں نازل کی ہیں.اللہ تعالی بڑا ہی فضل کرنے والا ہے بڑی ہی رحمتوں سے نوازنے والا ہے.خدا نے چار قسم کی قوتیں انسان کو عطا کی ہیں علاوہ اور احسانوں کے جو اس نے انسان پر کئے ایک بڑا احسان کیا کہ اُسے چار قسم کی قوتیں عطا کیں یعنی جسمانی پہنی اخلاقی اور روحانی.ان چاروں قوتوں کی نشو ونما کے لئے ہی باقی تمام نعماء عطا کی گئی ہیں.انسان کو ہر دوسری نعمت اس لئے عطا ہوئی ہے کہ وہ اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں اور استعدادوں کو صحیح طور پر کمال نشو ونما تک پہنچا سکے.اللہ تعالیٰ ان دو آیات میں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں قومی دیئے.ہم نے ان قومی کی صحیح تربیت اور اعلی نشو ونما کے لئے جس چیز کی ضرورت تھی وہ تمہیں عطا کی اور ہم نے یہ فضل بھی کیا کہ تم انسان خطا کے پتلے ہو تم خلوص نیت کے ساتھ کوشش کرتے ہو.تمہارے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ تم اپنے رب کی رضا کو حاصل کرو لیکن ہمارے بتائے ہوئے طریقوں پر کی گئی تمہاری تدبیر میں بعض نقائص رہ جاتے ہیں.بعض کمزوریاں رہ جاتی ہیں بعض خامیاں رہ جاتی ہیں بعض لغزشیں ہو جاتی ہیں اس صورت میں میں نے تم پر یہ فضل کیا ہے کہ میں تمہارے اخلاص کو دیکھتے ہوئے تمہاری کمزوریوں کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لیتا ہوں اور وہ خامیاں جو دنیا کی نگاہ سے نہیں بلکہ بعض دفعہ خود تمہاری نگاہ سے پوشیدہ رہ جاتی ہیں اور ان کا وہ نتیجہ نکل آتا ہے جو تم بھی اور میں بھی نکالنا چاہتا ہوں.یعنی تم میرے قرب کو حاصل کرو گے اور میں بار بار رحم کرنے والا ہوں.میری رحمت صرف ایک لغزش ہی کو نہیں ڈھانکتی بلکہ جب انسان کے دل میں اخلاص کے سمندر موجزن ہوں تو

Page 196

193 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم دد سمندر کی لہروں کی طرح ہی میری رحمت بھی جوش میں آتی ہے اور تمہاری غفلتوں کو ڈھانکتی چلی جاتی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے باوجود انسان کتنا بد بخت ہے اور کتنا احمق ہے کہ وہ میرے ان فضلوں کو نہیں دیکھتا.میں اس کی ترقی کے سامان پیدا کرنا چاہتا ہوں اور میں اسے اپنی رحمت سے نوازنا چاہتا ہوں.میں ہر لحاظ سے اُسے کامیاب کرنا چاہتا ہوں لیکن وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور ناشکری کرنے بیٹھ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ میں نے ابھی اشارہ کیا ہے ہر قسم کی نعمتیں جو انسانی قوتوں، قابلیتوں اور استعدادوں کے علاوہ ہیں وہ اس لئے پیدا کی ہیں کہ انسان کے قومی اس رنگ میں اور اس حد تک مدارج ارتقاء طے کریں جس رنگ میں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے.کہ وہ ترقی کریں اور جس حد تک اللہ تعالیٰ نے استعداد مقرر کر دی ہے حد بندی کر دی ہے کیونکہ وہ قادر بھی ہے اور اس نے قدرہ تقدیر " کے مطابق ہر ایک کو اپنی استعداد کے دائرہ کے ساتھ باندھ بھی دیا ہے اپنے دائرہ استعداد سے کوئی چیز باہر نکل نہیں سکتی.اس کی نعمتوں کی کوئی حد نسبت نہیں کی جاسکتی.لیکن انسان کے قومی اور استعداد کی اس نے ایک دائرہ کے اندر حد نسبت کر دی ہے.ہر لحاظ سے محدود ہے لیکن ہمارے رب کریم نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں.ان قومی کونشو و نمادینے کے لئے اسباب مادیہ یعنی دوسری نعمتوں کا 66% استعمال ضروری ہے.اسلام نے ہمیں رہبانیت نہیں سکھائی.اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو تو جو اسباب میں نے پیدا کئے ہیں ان سے ہمیشہ کام لینا پڑے گا ورنہ ناشکری ہو جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی ضمن میں فرماتے ہیں:.اگر رعایت اسباب نہ کی جاوے تو انسانی قوتوں کی بے حرمتی کرنا اور خدا تعالیٰ کے عظیم الشان فعل کی توہین کرنا ہے.خدا کا قرب کیسے حاصل ہو سکتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ ۷۹) اس لئے کہ یہ تمام اسباب ان قوتوں کی صحیح اور کامل نشو و نما کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور صحیح اور کامل نشو ونما کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ چونکہ انسان صاحب اختیار ہے وہ غلطی بھی کرتا ہے.بعض دفعہ جان بوجھ کر غلطی کرتا ہے اور بعض دفعہ اپنی کمزوری کی وجہ سے غلطی سرزد ہو جاتی ہے کوئی ایسا طریق کوئی ایسی ہدایت کوئی ایسی شریعت ہونی چاہیئے کہ جو غافل انسان کو بیدار کرنے والی ہو اور جو نا سمجھ انسان کو سمجھ عطا کرنے والی ہو اور جو شوق رکھنے والے اور جذبہ رکھنے والے انسان کی رہنمائی کرنے والی ہو کہ انسان اپنی قوتوں کی نشوونما کے لئے ان مادی سامانوں کو اس رنگ اور اس طور پر استعمال کرے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لے.ہماری عقل یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس مطالبہ کا جو انسان کی فطرت کے اندر ہے یعنی انسان کی

Page 197

فرموده ۱۹۶۹ء 194 د و مشعل راه جلد دوم فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو محبت رکھی ہے اس کا یہ مطالبہ ہے کہ اے ہمارے رب! ہمارے دل میں ایک تڑپ ہے کہ ہم تیرے حسن کو دیکھیں اور اس میں ہی ہمیشہ مست رہیں لیکن کس طرح دیکھیں کیسے تجھ کو پائیں.کیسے تیرے حسن واحسان کے جلوے ہم مشاہدہ کریں.تو خود ہماری رہنمائی فرما.اسی مطالبہ کا جواب انبیاءعلہیم السلام کا وجود ہوا کرتا ہے.اب ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے اس مطالبہ کے جواب میں جو ایک فطری تقاضا تھا اس کو پورا کرنے کے لئے حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بھیجا اور آپ کے ذریعہ سے ہمارے لئے ایک کامل اور مکمل شریعت نازل کی لیکن انسان بڑا غافل اور خطا کار اور ست اور کابل واقع ہوا ہے اس لئے مرور زمانہ کے ساتھ بہت سے گردو غبار اس شریعت کے اوپر پڑ گئے اور اس کے حقیقی اور دائمی حسن پر باطل کے پردے پڑ گئے.انسان کے ہاتھ نے اس کے حسن کو ڈھانک لیا انسان کی آنکھ اس حسن سے حظ اٹھانے کے قابل نہ رہی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آ کر کیا کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس گردوغبار کو صاف کیا.انسان نے اس کے اندر جو ملاوٹیں کر رکھی تھیں ان ملاوٹوں کو دور کیا.اسلام کا وہ حسین چہرہ جو اسی کا حق ہے وہ ہمارے سامنے رکھا.قرآن کریم جو اتنی حسین اور محسن کتاب ہے اس کے متعلق جو غلط معانی راہ پاگئے تھے ان کی درستی کی اور قرآنی آیات کے صحیح معانی گئے.قرآن کریم کے صحیح معانی اور صحیح اسرار روحانی جو ہماری آج کی اور قیامت تک ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری تھے وہ قرآن کریم میں کسی جگہ تفصیل سے اور کسی جگہ اجمال کے ساتھ بیان ہوئے ہیں.آپ نے ان کی بہترین تفسیر اور تشریح کی.آپ نے قرآن کریم کے متعلق اور اسلام کے متعلق جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ بڑا وسیع بیان ہے وہ سارا تو اس وقت پیش نہیں کیا جاسکتا.لیکن اس میں شک نہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں آئے تو اس وقت اس گردو غبار کے نتیجہ میں جو خود مسلمانوں کے ہاتھوں اسلام کے اس حسین چہرہ پر ڈالا گیا تھا غیر مذاہب والے یہ خیال کرتے تھے کہ وہ (نعوذ باللہ ) اسلام کو اس دنیا سے مٹادیں گے.قرآن کریم کا نام بھی یہ دنیا بھول جائے گی.تب ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس گردو غبار کو دور کیا اور اسلام اور قرآن کریم کا چمکتا ہوا چہرہ جب دنیا کو دکھایا تو پھر آنکھیں خیرہ ہوگئیں دل دھڑکنے لگ گئے اور ان غیر مذاہب والوں کے دلوں میں ایک خوف پیدا ہوا اور اب ہم احمدیوں کے ساتھ کوئی بات کرنے کی جرات نہیں کر سکتا.اس قدر زبر دست عقلی دلائل اس قدر ز بر دست نقلی دلائل اور اس قدر ز بر دست آسمانی تائیدات جو اسلام کے حق میں ایک سمندر کی طرح موجزن تھیں لیکن اس تک پہنچنے کی راہیں باطل نے روک دی تھیں.ان روکوں کو ہٹا کر اس راستے کو ہمارے لئے صاف کر دیا.قرآن کریم اپنی تمام عظمتوں کی وجہ سے اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ جس پر یہ نازل ہو وہ بھی خدا تعالیٰ کی نگاہ میں تمام انسانوں سے بڑھ کر عظمت اور عزت کا مالک ہو چنانچہ اسی وجہ سے قرآن کریم حضرت موسیٰ یا حضرت عیسی علیہ السلام پر نازل نہیں ہوا بلکہ حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا ہے کیونکہ

Page 198

195 فرموده ۱۹۶۹ء الله دومشعل راه جلد دوم آپ کے اندر جملہ انسانی کمالات جمع تھے.آپ کی استعداد تمام دوسرے انسانوں سے بدرجہا زیادہ تھی اور آپ قرآن عظیم کے بوجھ کو اٹھا سکتے تھے.اور قرآن عظیم آپ کے وجود میں ایک نئی روشنی ایک نیا حسن پاسکتا تھا.چنانچہ یہ آپ کے اپنے کمالات کا نتیجہ تھا کہ جہاں قرآن عظیم ہمارے ہاتھ میں دیا گیا وہاں آنحضرت نے کا اسوہ حسنہ بھی ہمارے سامنے رکھا گیا کیونکہ یہ دونوں پہلو بہ پہلو ایک ہی حسن کے دو منظر یا ایک ہی نور کی دو چکار میں ہیں.ہمیں ایک تو تعلیم کے اندر نظر آئی اور دوسری کو ہم نے آپ کے عمل میں مشاہدہ کیا.آپ کا یہ عمل ہمارے لئے کامل اسوہ قرار پایا.اسلام نے قرآن نے اور حضرت محمد عہ نے جو حسن اور جو احسان ہمارے سامنے پیش کیا اپنے وجود میں اپنی تعلیم میں وہ اس لئے نہیں تھا کہ ہم قرآن عظیم کو ایک بت بنالیں الله آنحضرت ﷺ کی پوجا کرنی شروع کردیں بلکہ یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا تھا کہ انسان خدائے واحد و یگانہ کے حسن واحسان سے متعارف ہو جائے اور اسلام نے اللہ تعالیٰ کو جو ایک زندہ طاقت اور ایک زبر دست طاقت اور ایک عظیم طاقت ہے اس کو دنیا کے سامنے رکھا تھا اور حضرت نبی کریم ﷺ کے صحابہ نے اپنی روحانی آنکھوں کے ساتھ اپنے اس رب کریم اور رب رحیم اور رب قدیر کو دیکھا تھا.جس کے جلووں کی جھلک میں انہیں اس کے قادرانہ تصرف نظر آئے تھے.پس یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ ایک ذاتی محبت پیدا کر سکے.من جب حضرت نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ ہمارے آنکھوں سے اوجھل ہو گیا اور جب اسلام اور قرآن عظیم کے حسن پر انسان نے گردو غبار کا ایک پردہ چڑھا دیا تو پھر انسان کے لئے یہ ممکن نہ رہا کہ وہ اپنے رب کے حسن و احسان کا حقیقی مشاہدہ کر سکے.پھر اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حضرت نبی ماکے کے ایک ادنیٰ خادم اور آپ کے ایک عظیم روحانی فرزند کی حیثیت میں ہماری طرف مبعوث فرمایا.آپ نے دین اسلام کی ہر چیز کو صاف کیا جہاں زنگ لگا ہوا تھا وہ دور کیا ہر قسم کا گردوغبار جو پڑا ہوا تھا اس کو صاف کیا.جس کے نتیجہ میں اسلام کا جو سچا اور حقیقی چہرہ تھا اور قرآن کریم کا جو سچا حسن تھا وہ نکھر کر ہمارے سامنے آگیا اور جو آپ پر ایمان لائے آپ ان کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ وہ ایک ایسا گروہ ہے جس کو یہ نظر آ گیا کہ اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لا کر حقیقی اسلام کو قبول کرتے ہیں تو ہمیں اپنی جانوں کی قربانی دینی پڑے گی مگر ان کے دلوں نے یہی فیصلہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کو پالینا یہ ایک بڑی بات ہے جان دے دینا کوئی بات نہیں.یہ بڑا سستا سودا ہے.انہوں نے جان دے دی مگر خدا تعالیٰ کے دامن کو نہیں چھوڑا.ایک گروہ ایسا تھا کہ جن کو یہ نظر آیا کہ اگر ہم اس اسلامی صداقت کو قبول کریں گے تو ہماری عزت خاک میں مل جائے گی.لیکن چونکہ انہوں نے صداقت کی چہکار دیکھ لی تھی اور اس حُسن کے وہ عاشق ہو چکے تھے انہوں نے کہا اس عارضی اور فانی دنیا کی عارضی اور فانی عزتیں کوئی چیز نہیں.اصل عزت تو وہ ہے جو انسان اپنے رب کی نگاہ میں دیکھتا ہے دنیا ہمیں ذلیل کرتی ہے ذلیل سمجھتی ہے.ہمارے ذلیل ہونے کا اعلان کرتی اور ڈھنڈورا پیٹتی ہے.مگر

Page 199

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۹ء 196 جب تک ہمیں اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت اور پیار نظر آئے گا یہ چیزیں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں.سچائی کی شناخت کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے صلى الله ایک گروہ ایسا بھی تھا ان کو یہ نظر آیا کہ اگر ہم نے اس سچائی کو قبول کیا تو ہمیں جذبات کی زبر دست قربانی دینی پڑے گی اور اس میں مرد بھی تھے اور عور تیں بھی تھیں.کسی مرد نے یہ خیال کیا کہ میرے یہ جاہل رشتہ دار میری بیوی یا میرے بچوں کو مجھ سے چھین لیں گے.عورت جس کے دل میں بڑی مامتا ہوتی ہے اس کو یہ نظر آیا کہ اگر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کا جوحسن دیکھا ہے اس کو قبول کر لیا تو میرا خاوند مجھے علیحدہ کر دے گا یا میرے بچے چھن جائیں گے.لیکن اس ماں نے یا اس باپ نے کہا کہ میرے بچے چھن جائیں جذبات ہی ہیں ناں! جذباتی طور پر مجھے تکلیف ہوگی.لیکن میں ان جذبات کا جو فطری طور پر پائے جاتے ہیں کیا پرواہ کرتا ہوں اور اس کے مقابلہ میں میں یہ دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے دل میں ( مثال اور تشبیہ دیا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے متعلق) میرے لئے محبت کا جذبہ پیدا ہو جائے گا.تو سارے جذبے اس جذبہ پر قربان.اور آپ کی تاریخ میں ایسے بیسیوں اور سینکڑوں مرد اور عورتیں ہیں.مردوں سے بیویاں چھین لی گئیں اور اگر عورت تھی تو مرد نے اسے طلاق دے دی اور بچوں کو ان سے علیحدہ کر دیا گیا.لیکن ان کے چہروں پر ایک ذرہ بھر ملال نہیں آیا.کیونکہ وہ احمدیت کی قدر و قیمت کو جانتے تھے ایک گروہ ایسا بھی تھا جس کو نظر آرہا تھا کہ اگر ہم جو ایمان لے آئے تو ہم سے دنیوی اموال چھین لئے جائیں گے.باپ ہمیں عاق کر دے گا.گھر سے نکال دے گا ایسی بیسیوں اور سینکڑوں مثالیں ہیں کہ احمدیت کی وجہ سے بعض کو واقعی گھر سے نکال دیا گیا.لیکن انہوں نے اس کی ذرہ بھی پرواہ نہ کی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ دنیا کے اموال ان روحانی خزائن کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتے ہیں جو آنحضرت امیہ کے طفیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ہمیں دے رہا ہے.انہوں نے سوچا کہ اگر ساری دُنیا کے اموال بھی ہمارے پاس ہوتے تب بھی وہ اس چیز کی قیمت کے برابر نہیں تھے.جو مال مجھے اس کے بدلے میں ملے گا وہ ہزار نہیں.ایک لاکھ نہیں، ایک کروڑ نہیں، ایک ارب سے بھی بے حد وشمار زیادہ ہے اس لئے مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں.دنیوی مال جاتا ہے تو بے شک جائے مجھے اس کا غم نہیں.ہماری تاریخ میں عملاً ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ نہ زندگی کی پرواہ کی نہ اموال کی پرواہ کی نہ عزتوں کی پرواہ کی نہ جذبات کی پرواہ کی.آنحضرت میے کے طفیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ وہ ایک ایسی ہستی کے عاشق ہو گئے تھے کہ کسی اور کی محبت ان کے دلوں میں باقی نہیں رہی تھی.دراصل یہی وہ گروہ ہے جس کو قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے اور جن کو سمجھانے کے لئے آپ کی کتب بھری پڑی ہیں کہ اسلام یہ ہے.قرآن کریم کی عظمت یہ ہے.سیدنا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان یہ ہے.اللہ تعالٰی کا جلال اور اس کا جمال یہ ہے.اس کی یہ صفات حسنہ ہیں جن کا عرفان حاصل کرنا چاہیئے.

Page 200

197 فرموده ۱۹۶۹ء خدا کی ذاتی محبت پیدا کرو دومشعل راه جلد دوم اس کے علاوہ آپ نے اس بات پر بھی بڑا زور دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی محبت پیدا کرنی چاہیئے ذاتی محبت اور دوسری محبت میں یہ فرق ہوتا ہے کہ جو عام محبت ہے اس میں محبت کرنے والا اس کا بدلہ چاہتا ہے یعنی ایسا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میری محبت کا جواب محبت میں ملے گا.یا بعض دفعہ محبت اور دوستی کے تعلقات کے پردہ میں بعض لوگ دنیوی اموال تلاش کر رہے ہوتے ہیں.غرض ان دنیوی محبتوں کے ساتھ مختلف قسم کی اغراض وابستہ کر لی جاتی ہیں.اور غافل اور جاہل انسان اللہ تعالیٰ کی محبت کو بھی ایسا ہی سمجھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ذاتی محبت پیدا ہونی چاہیئے اور جس کے اندر ذاتی محبت پیدا ہو جائے تو پھر اگر اسے خود اللہ تعالیٰ یہ فرمائے کہ میں تجھے ثواب نہیں دوں گا یا یہ فرمائے کہ کوئی جنت نہیں جس میں تجھے داخل کروں گا یا اللہ تعالیٰ یہ فرمائے کہ میری آنکھ میں تمہیں کوئی عزت نظر نہیں آئے گی مگر اس نے اپنے رب کا اس قسم کا حسن دیکھا ہوتا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب! تو جو چاہے مجھ سے سلوک فرما.مگر تیرا دامن میرے ہاتھ سے نہیں چھوٹ سکتا.پھر ان ابتلاؤں کے بعد ماں سے زیادہ محبت و پیار کرنے والا رب ایسے شخص کو اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے.قرآن کریم کی بابت ارشادات حضرت مسیح موعود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ ان مختلف عناوین یعنی اسلام قرآن عظیم آنحضرت ماه کے مقام اور ذات وصفات باری کی حقیقت پر لکھا ہے وہ تو ایک عظیم اور وسیع مضمون ہے.میں اس وقت ان عناوین پر چند اشارے کرنا چاہتا ہوں.میں نے ہر ایک عنوان کے متعلق ایک ایک دو دو فقرے لئے ہیں.تا کہ جو عزیز بچے اور نوجوان اس وقت یہاں موجود ہیں وہ شاید کچھ سمجھ جائیں.قرآن عظیم کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.سب سے سیدھی راہ اور بڑا ذریعہ جو انوار یقین اور تواتر سے بھرا ہوا اور ہماری روحانی بھلائی اور ترقی علمی کے لئے کامل رہنما ہے قرآن کریم ہے.(ازالہ اوہام صفحہ ۲۸) پھر آپ فرماتے ہیں:.اس کے دقائق تو بحر زخار کی طرح جوش ماررہے ہیں اور آسمان کے ستاروں کی طرح جہاں نظر ڈالو چمکتے نظر آتے ہیں.کوئی صداقت نہیں جو اس سے باہر ہو.کوئی حکمت نہیں جو اس کے محیط بیان سے رہ گئی ہو.کوئی نور نہیں جو اس کی متابعت سے نہ ملتا ہو.(براہین احمدیہ صفحه ۶۴۳ حاشیہ نمبر۱۱)

Page 201

د دمشعل دوم صد الله مقام مصطفی من سے حضرت مسیح موعود کی نظر میں فرموده ۱۹۶۹ء 198 اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کے مقام ومرتبہ کے متعلق فرمایا ہے.مگر ہمارے نبی ﷺ کے معجزات ایسے ہیں کہ وہ ہر زمانے میں اور ہر وقت تازہ بتازہ اور زندہ موجود ہیں.ان معجزات کا زندہ موجود ہونا اور ان پر موت کا ہاتھ نہ چلنا صاف طور پر اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ ہی زندہ نبی ہیں اور حقیقی زندگی یہی ہے جو آپ کو عطا ہوتی ہے اور کسی دوسرے کو نہیں ملی.آپ کی تعلیم اس لئے زندہ تعلیم ہے کہ اس کے ثمرات اور برکات اس وقت بھی ویسے ہی موجود ہیں جو آج سے تیرہ سو سال پیشتر موجود تھے دوسری کوئی تعلیم ہمارے سامنے اس وقت ایسی نہیں ہے جس پر عمل کرنے والا یہ دعویٰ کر سکے کہ اس کے ثمرات اور برکات اور فیوض سے مجھے حصہ دیا گیا ہے اور میں ایک آیت اللہ ہو گیا ہوں لیکن ہم خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے قرآن شریف کی تعلیم کے ثمرات اور برکات کا نمونہ اب بھی موجود پاتے ہیں اور ان تمام آثار اور فیوض کو جو نبی کریم ﷺ کی سچی اتباع سے ملتے ہیں اب بھی پاتے ہیں چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو اس لئے قائم کیا ہے تا وہ اسلام کی سچائی پر زندہ گواہ ہو اور ثابت کرے کہ وہ برکات اور آثار اس وقت بھی رسول صلى الله اللہ علی کے کامل اتباع سے ظاہر ہوئے ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحه ۳۷) اسلام زندہ ضابطہ حیات اسلام کے زندہ مذہب ہونے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں :- زندہ مذہب وہی ہوتا ہے جس پر ہمیشہ کے لئے زندہ خدا کا ہاتھ ہوسو وہ اسلام ہے“.(کتاب البریہ صفحه ۹۲ ) پھر آپ فرماتے ہیں:.اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ وہ تعلیم کی رو سے ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہے اور کامل تعلیم کے لحاظ سے کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.دوسری قسم کی فتح جو اسلام میں پائی جاتی ہے.اس کی زندہ برکات اور مجزات ہیں.(دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفه هم )

Page 202

199 فرموده ۱۹۶۹ء د مشعل راه جلد دوم دد اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے اللہ تعالیٰ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:- خدا زمین و آسمان کا نور ہے.وہی تمام فیوض کا مبدء اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے.اس کی ہستی حقیقی تمام عالم کی قیوم اور تمام زیروز بر کی پناہ ہے.( براہین احمدیہ صفحه ۱ ۱۸ حاشیه ) اسی طرح آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:.بات یہی سچ ہے کہ جب تک زندہ خدا کی زندہ طاقتیں انسان مشاہدہ نہیں کرتا شیطان اس کے دل سے نہیں نکلتا اور نہ کچی تو حید ان کے دل میں داخل ہوتی ہے اور نہ یقینی طور پر خدا کی ہستی کا قائل ہوسکتا ہے اور یہ پاک اور کامل تو حید صرف آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے ہی ملتی ہے.پھر آپ فرماتے ہیں:.(حقیقۃ الوحی صفحه ۱۱۸) ” فاسق اور بدکاروہی ہے جو خدا تعالیٰ سے مغفرت نہیں مانگتا کیونکہ جب کہ ہر ایک سچی پاکیزگی اُسی کی طرف سے ملتی ہے اور وہی نفسانی جذبات کے طوفانوں سے محفوظ اور معصوم رکھتا ہے.تو پھر خدا تعالیٰ کے راستباز بندوں کا ہر یک طرفہ العین میں یہی کام ہونا چاہیئے کہ وہ اس حافظ اور عاصم حقیقی سے مغفرت مانگا کریں....روحانی سرسبزی کے محفوظ اور سلامت رہنے کے لئے یا اس سرسبزی کی ترقیات کی غرض سے حقیقی زندگی کے چشمہ سے سلامتی کا پانی مانگنا یہی وہ امر ہے جس کو قرآن کریم دوسرے لفظوں میں استغفار کے نام سے موسوم کرتا ہے“.(نورالقرآن نمبر ا صفحه ۲۷.۲۸) عظمتوں غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام گردو غبار کو دور کر کے قرآن عظیم کو اس کی تمام عظ کے ساتھ جماعت اور ساری دُنیا کے سامنے پیش کیا.اسلام کو تمام خوبیوں اور کمالات کے ساتھ اور فیوض اور برکات کے ساتھ دُنیا کے سامنے رکھا اور فرمایا کہ یہ سب زندگی اس سر چشمہ سے ہے جس نے اس سارے عالمین کو پیدا کیا ہے اور اس نور کے یہ انوار اور اس قادر کی قدرتوں کو ظاہر کرنے والا یہ پاک وجود اور اس سلام کے مضمون کے سمندروں کی موجوں کو اپنے صفحات میں لپیٹے ہوئے یہ قرآن عظیم ہے جو تمہاری اصلاح کے لئے آیا

Page 203

و د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۹ء 200 ہے یہ تمہاری ترقی کے لئے آیا ہے.یہ اس لئے آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو قو تیں اور طاقتیں عطا فرمائی ہیں تم اس کی مرضی اور منشاء کے مطابق صحیح طور پر ترقی کے مدارج طے کرتے چلے جاؤ.در حقیقت خداداد قوتوں کی صحیح نشو ونما ہی قرب الہی پر منتج ہوتی ہے.ایک عجیب نکتہ اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اور عجیب نکتہ بھی بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک بڑا انعام یہ ہے کہ اس کی مخلوق صفات باری کے جلووں کے اثرات کو قبول کرنے کی طاقت رکھتی ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر مخلوق میں یہ طاقت رکھی ہے.آپ نے دنیا کے سامنے اس حقیقت کو پیش کیا کہ چونکہ ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی صفات کی جلووں سے اثر قبول کرنے کی طاقت رکھتی ہے اس لیے خواص مخلوق غیر محدود ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے جلوے غیر محدود ہیں.جو مضمون میں بیان کر رہا ہوں اس کا ذکر اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف قسم کے چار قوی دیئے ہیں اور فرمایا ہے کہ میں نے ان قویٰ کی نشو ونما کے لئے جس چیز کی ضرورت تھی وہ بھی میں نے پیدا کر دی ہے.تمہاری راہبری کے لئے قرآن عظیم دے دیا ہے.پھر تعلیم و تربیت کی رو سے تمہاری فطرت کا یہ مطالبہ تھا کہ ان الفاظ سے ٹھیک طرح سمجھ نہیں آ رہی اس لئے کوئی نمونہ ہونا چاہیئے چنانچہ آنحضرت ﷺ کے وجود میں ایک بہترین اسوہ تمہارے سامنے رکھ دیا گیا.اگر تم اس تعلیم کے مطابق حضرت نبی اکرم ﷺ کی سنت کی اتباع کرتے ہوئے اپنے قومی کی نشو ونما کرو گے تو آسمان سے میری صفات اس رنگ میں نازل ہونگی کہ تمہارے قویٰ کی کما حقہ تربیت ہو سکے کیونکہ ان قومی کے اندر بھی میں نے اپنی صفات کا اثر قبول کرنے کی خاصیت رکھی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جب میری ہدایت کے مطابق اور میرے محبوب مے کے اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے قومی کی نشو و نما کرو گے تو میں آسمان سے اس رنگ میں الہی صفات کا جلوہ نازل کروں گا کہ تمہاری قوتیں اس کے اثر کو قبول کرتے ہوئے بہترین نشو و نما حاصل کر کے اپنی استعداد کو کامل اور مکمل طور پر بروئے کارلاؤ گے تو تمہیں میرا قرب حاصل ہو جائے گا.شہید کابل کا ذکر خیر یہی وہ خزانہ تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دُنیا کے سامنے پیش کیا اور یہی وہ خزانہ تھا جس کی قدر و قیمت وہ لوگ جانتے تھے جو آپ کے ارد گرد دیوانہ وار جمع ہو گئے جیسا کہ میں نے بتایا ہے انہوں نے ساری دُنیا کے مقابلے میں اس خزانے کو قیمتی جانا اور اس کے مقابلے میں ساری دنیا کو بھی سمجھا اور ہنستے ہوئے جان دے دینے سے بھی دریغ نہیں کیا.اس سلسلہ میں ایک پاک نمونہ حضرت صاحبزادہ سید عبدالطیف شہید رضی اللہ عنہ کا ہے.آپ کا ذکر خود خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.جب شہید حج کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلے اور

Page 204

201 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے یہ نتیجہ نکالا کہ حج ارکان اسلام کا ایک رکن ہے لیکن دینا اسلام کو بھول چکی ہے اب احمدیت وہ چشمہ ہے جہاں سارا اسلام ملتا ہے.ساری عبادتیں یعنی نماز روزہ وغیرہ اور سارے عقائد اور ساری حکمتیں اور سارے اسرار روحانی کا سر چشمہ یہی ہے.آپ وہیں ٹھہر گئے.لیکن آپ کو نظر آرہا تھا ( اور بہت سے قرائن سے معلوم ہوتا ہے ممکن ہے کہیں لکھا بھی ہو ).آپ کو یقین تھا کہ شہادت کا جام نوش کرنا پڑے گا.ان کو خود بتایا گیا تھا کہ تم اس چیز کو قبول کر رہے ہو جسے دنیا آج قبول نہیں کر رہی اس لئے وہ تمہاری جان لے گی.انہوں نے اپنے رب کے حضور یہی عرض کیا کہ اے خدا تیرا چہرہ مجھے نظر آ گیا تیرے حسن کا میں گرویدہ ہو گیا اب دُنیا مجھے زندہ رکھے یا مارے کوئی فرق نہیں پڑتا.پس آپ کو یقین تھا کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا لیکن اس بہادر مرد اور خدا کے پیارے نے کوئی پرواہ نہیں کی.دندناتا ہوا اپنے وطن واپس پہنچ گیا.کابل کے حاکم کو اس کے ساتھ لگاؤ تھا.پرانے خاندانی تعلقات تھے.اس نے بہتیر از ور لگایا کہ آپ خواہ ظاہری طور پر ہی احمدیت کا انکار کر دیں تا کہ آپ کی جان بچالی جائے.آپ کی عزت دوبارہ قائم کر دی جائے.انہوں نے فرمایا نہ مجھے عزت چاہیے نہ مجھے جان چاہیے.مجھے تو خدا چاہیئے اور جہاں سے مجھے خدا ملے میں نے اس کو حاصل کرنا ہے.میں نے بتایا ہے کہ ایک نہیں دو نہیں بلکہ ایسی بیبیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں مگر اس وقت تفصیل میں جانے کے لئے وقت نہیں ہے.ایک ماں ہے جو اپنے بچے کی تکلیف کو دیکھ کر پاگل ہو جاتی ہے.اگر اس کے بچے کے قریب سانپ ہو تو اس کے دل میں اپنے بچے کے لئے پیار کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ اس سانپ پر ٹوٹ پڑتی ہے اور اس کو پکڑ کر پرے پھینک دیتی ہے.اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتی کہ یہ مجھے ڈس لے گا وہ تو بچے کو بچانا چاہتی ہے اگر اس کا بچہ دریا میں گر جائے اور ڈوب رہا ہو تو باوجود اس علم کے کہ اسے تیر نا نہیں آتا وہ بے چاری اپنے بچے کی محبت کے جوش میں دریا میں چھلانگ لگادیتی ہے اور خود بھی اپنے بچے کے ساتھ ڈوب مرتی ہے.مگر یہی ماں جس کے اپنے بچے کے لئے جذبات کا یہ حال ہوتا ہے جب احمدی ہو گئی تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے اور آپ نے اسلام کا جو حسین چہرہ پیش کیا ہے اس کے لئے اپنے بچوں کی پرواہ نہیں کی.بعض احمدیت کی قدرو قیمت سے غافل ہیں لیکن اب ہم اس زمانے میں داخل ہو گئے ہیں کہ جہاں باہر سے آ کر احمدیت میں داخل ہونے والے بھی اور ایک طبقہ پیدائشی احمدیوں کا بھی اس خزانے کی قدر و قیمت کو جانتا اور پہچانتا ہے لیکن پیدائشی احمد یوں میں سے ایک حصہ ایسا بھی ہے جو اس کی قدر و قیمت کو نہیں پہچانتا اور یہ ہمارے لئے فکر پیدا کرنے والی بات ہے.دنیا پر ایک اندھیرا چھایا ہوا تھا.اس اندھیرے میں اللہ تعالیٰ نے ایک نور پیدا کیا.دیکھنے والی نگاہ نے اندھیروں کو غائب ہوتے دیکھا.زمین و آسمان کو منور ہوتے دیکھا.ایسا حسن نظر آیا کہ اس کے بعد ہر حسین چیز میں ان کو اس

Page 205

دوم فرموده ۱۹۶۹ء 202 د دمشعل کا چہرہ نظر آیا.گلاب کا پھول جب صبح کے وقت تازہ تازہ کھلتا ہے تو اتنا حسین نظر آتا ہے کہ انسان مجبور ہو جاتا ہے کہ اس کی طرف دیکھتا ہے اور اس کے حسن سے لذت حاصل کرتا ہے.لیکن اس پیارے خدا کے حسن کا جلوہ کچھ اس طرح ان پر حاوی ہوتا ہے کہ جس وقت وہ گلاب کا یہ حسن دیکھتے ہیں تو انہیں گلاب یاد نہیں رہتا بلکہ اس گلاب کے پھول میں انہیں اپنے رب کے حسن کی ایک جھلک نظر آتی ہے ان کی زبان سے گلاب کی تعریف نہیں نکلتی.ان کی زبان پر اپنے رب کی تعریف جاری ہوتی ہے.یہی حال چاند کا ہے اور ہر قسم کا حسن جو ہے جب ایسے بندے کی نگاہ اس پر پڑتی ہے تو یہ چیزیں اس کو نظر ہی نہیں آتیں.بلکہ اللہ تعالیٰ کے جلوے ان میں نظر آتے ہیں.جب کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنے خوبصورت گھوڑوں میں اللہ تعالیٰ کی شان نظر آئی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ ان چیزوں سے میں اس لئے پیار کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے مجھے پیار ہے اور اس کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کے حسن کے مختلف جلوے ہیں جہاں یہ جلوے نظر آتے ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش مارتی ہے اور انسان خود بخود ان سے پیار کرنے لگتا ہے.لیکن ایک حصہ بچوں اور نوجوانوں کا ایسا ہے جنہوں نے یہ حسن نہیں دیکھا جنہوں نے اس نور کے جلووں کا مشاہدہ نہیں کیا.جماعت احمدیہ کے گرد خدا کے نور کا ہالہ ہے جنہوں نے خدائے قادر و توانا کے قادرانہ تصرفات کا علم حاصل نہیں کیا اور آہستہ آہستہ ان کی جسمانی نشو ونما پر اور ان کے ذہنوں پر اور ان کے اخلاق پر اور ان کی روحانیت پر گردوغبار پڑ رہا ہے.اور زنگ لگ رہا ہے اور ساری جماعت کو یہ فکر کرنی چاہیئے کہ ہم نے ان کو واپس لا کر نور کے اس ہالہ کے اندر لے آنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کے گرد کچھ اس طرح ڈال رکھا ہے کہ اس کے اندر کوئی ظلمت داخل نہیں ہو سکتی بڑے بڑے اندھیروں نے طوفان کی شکل اختیار کر کے اس ہالہ کو تو ڑ کر اس کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی لیکن وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار سے اپنے نور کی چادر میں لپیٹا ہوا تھا ان کے قریب اس اندھیرے کا ذرا سا اثر بھی پہنچنے نہیں پایا.اور اسی طرح خوش باش خدا تعالیٰ کے نور میں نہاتے اور اس کے حسن سے لذت اٹھاتے ہوئے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب کی راہوں پر آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے لیکن کچھ ہمارے بھائی پیچھے رہ گئے ہیں ان کو اپنے ساتھ لانا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ہمارے ذمہ داری پوری نہیں ہوتی.آج اگر احمدی کے دل میں (اب میں ایک ایسا لفظ بولتا چلا جاؤں گا جسے آپ سمجھ لیں گے تفصیل میں میں نہیں جاؤں گا.میں جب احمدیت کہوں گا تو احمدیت نے اسلام قرآن کریم.آنحضرت ﷺ اور اللہ تعالیٰ کے متعلق جو تعلیم بتائی ہے وہ بڑی عظیم ہے اور ہمارے سامنے بیان کر دی گئی ہے ) اپنے کمز ور حصہ کا خیال ہو تو وہ ضرور اس نتیجے پر پہنچے گا کہ احمدیت کی صحیح ہدایت کا یہ تقاضا ہے کہ کمزوروں کو بھی اپنے ساتھ ملانا ہے اور ان کو واپس اپنی ڈار میں لا کھڑا کرنا ہے.اس کے لئے ہمیں کئی تدبیریں کرنی پڑیں گی اور خدا داد قوتوں کو استعمال میں لانا پڑے گا.

Page 206

203 فرموده ۱۹۶۹ء دد د و مشعل راه جلد دوم کتب حضرت مسیح موعود کے مطالعہ کی عادت ڈالیں پہلی چیز تو یہ ہے کہ ایسے نوجوانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیئے (ویسے تو اکثر مطالعہ کرتے رہتے ہیں.مجھے کہنے کی ضرورت نہیں لیکن جو مطالعہ نہیں کرتے وہ اس وقت میرے مخاطب ہیں ) اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کا جو حسن و احسان بیان فرمایا ہے اس سے ہمارا ایک نوجوان آگاہ ہی نہیں تو اس حسن و احسان کا عاشق کیسے ہوگا اور اس کا گرویدہ کیسے بنے گا؟ اور وہ حسن اس کے سامنے آہی نہیں سکتا جب تک اس حسن کا بیان نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اپنے فضل سے جس رنگ میں اپنے پیار کے جلوے دکھائے ہیں اور دکھاتا چلا جاتا ہے اگر کوئی احمدی نوجوان نے جو تھوڑا بہت شعور رکھنے والا ہے اس پیار کے جلوے کو مشاہدہ ہی نہیں کیا تو اس کا غلام کیسے بن جائے گا.کیونکہ جب وہ قادرانہ تصرفات کو دیکھ لیتا ہے تو اپنا تو پھر کچھ نہیں رہتا.اس کو پتہ لگ جاتا ہے کہ میں کیا چیز ہوں.میں تو محض نیستی ہوں.کوئی غلط خیال یا شیطانی وسوسہ دل میں پیدا ہی نہیں ہوتا.انسان کبھی تکبر سے کام لے سکتا ہے.یار یاء سے کام لے سکتا ہے یا خود نمائی کے جال میں پھنس سکتا ہے مگر جس پر قادر و توانا کی قدرت اور اس کا جلال جلوہ فگن ہو اس پر یہ چیز عیاں ہوگئی کہ مخلوق کی کوئی قیمت نہیں.اس کی کوئی عظمت نہیں.سب عظمتیں اس ایک ہی عظمت والے کے سامنے بیچ ہو جاتی ہیں.سب مٹ جاتی ہیں اور فنا ہو جاتی ہیں.لیکن جس نے خدا تعالیٰ کے اس جلال اور اس کا عظمت کا جلوہ نہیں دیکھا وہ کیسے فانی فی اللہ بنے گا.البتہ یہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ وہ ہے تو ہیرا لیکن کٹا ہوا نہیں ہے بہت سے مٹی کے ذرے اس پر پڑے ہوئے ہیں اور اس وجہ سے وہ اثر جو وہ روحانی طور پور قبول کر سکتا تھا وہ قبول نہیں کر رہا.اس لئے اس کے لئے دعا کے ذریعہ سے اور اس کو پالش کر کے اور رگڑ کر اچھی طرح صاف کیا جائے تاکہ روحانی طور پر وہ اثر قبول کرنے لگے.کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو سب سے بڑی روحانی قوت عطا کی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:- اور روحانی قوتیں صرف انفعالی طاقت اپنے اندر رکھتی ہیں یعنی ایسی صفائی پیدا کرنا کہ مبدء فیض ان میں منعکس ہوسکیں سو اُن کے لئے یہ لازمی شرط ہے کہ حصول فیض کے لئے مستعد ہوں اور حجاب اور روک درمیان نہ ہو تا خدا تعالیٰ سے معرفت کا ملہ کا فیض پاسکیں“.روحانی اثر قبول کرنے والی قوت پیدا کرنی چاہیئے.(حقیقۃ الوحی صفحه ۶) پس روحانی قوتیں تو انفعالی ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں اثر قبول کرنے کی طاقت ہے اور جس دل اور جس روح میں مستعدی ہو وہی اللہ تعالیٰ کے جلووں کا اثر قبول کرتی ہے.یہ انفعالی قوت پیدا کرنی چاہیئے اور

Page 207

دو مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۹ء 204 اس کے پیدا کرنے کا طریق آپ نے یہ بتایا ہے کہ کوئی روک اور حجاب بیچ میں نہ رہے یعنی عقلی طور پر ایسے شخص کو سمجھایا جائے یہ پہلے عقلی طریق سے ہی ہو سکتا ہے کیونکہ ذہنی قوئی پہلے ہیں اور اخلاقی اور روحانی قولی بعد میں آتے ہیں.پس پہلے عقلی طور پر اس کو سمجھایا جائے اور عقلی دلائل کی تائید میں نقلی دلائل سے بھی کام لینا چاہیئے غرض اس کو یہ بتایا جائے کہ دیکھو جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے پیار کرتا ہے تو اس کی عظمت اور اس کے جلال کا اس قسم کا جلوہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان ساری دنیا کو بھول جاتا ہے.اس کی نظر میں کسی چیز کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی.سوائے خدا تعالیٰ کے اس کے سامنے اور کوئی باقی نہیں رہتا.پس ایسے شخص کو اس سعادت سے بہرہ مند کرنے کے لئے مستعد کیا جائے.اور صاف کیا جائے اور اس کے گند کو دور کیا جائے اور اس کو نفس کی آفات سے محفوظ کرنے کی کوشش کی جائے تب وہ صفات باری تعالیٰ کا اثر قبول کرنے کے قابل ہوگا اور خدا تعالیٰ کی صفات کا جلوہ اس کے مصفہ اور شفاف دل پر نازل ہوگا.اور پھر وہ بھی دوسرے ہزاروں لاکھوں احمدیوں کی طرح ایک مضبوط انسان بن جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس لئے فرمایا ہے کہ جو تقلید اور عقل ہے یہ روحانیت پیدا کرنے کا ذریعہ تو بن سکتی ہے لیکن ان کے اندر وہ طاقت نہیں ہے جو ایک جاہل انسان سمجھتا ہے.آپ فرماتے ہیں:.تقلیدی علوم محدود اور مشتبہ ہیں اور عقلی خیالات ناقص و نا تمام ہیں اور ہمیں ضرور حاجت ہے کہ براہ راست اپنے عرفان کی توسیع کریں.(ازالہ اوہام صفحہ ۲۲۸) لیکن چونکہ ذہنی قومی جن کا عقل کے ساتھ تعلق ہے ان کی صفائی ضروری ہے اس واسطے ایک نوجوان ذہنی طور پر تیار ہوسکتا ہے.ایسا ممکن ہے.کیونکہ پہلے انبیاءعلیہم السلام کی مثالیں، پہلے اولیاء کی مثالیں.اختیار وابرار کی مثالیں اور اس قسم کے دوسرے شواہد ہمیں بتا رہے ہیں کہ ایک انسان کا دل اور اس کی روح ایسی صاف اور شفاف ہو جائے اور وہ مستعدی اور انفعالی طاقت اس کے اندر پیدا ہو جائے کہ اس کی پاکیزگی اور اس کی صفائی کو دیکھ کر خدا تعالیٰ جونور محض اور پاکیزگی کا سر چشمہ ہے وہ اپنے جلال کا جلوہ اس پر ظاہر کرے.اولیاء اللہ بنیں ہم سب سے بڑھ کر حضرت نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے ( جو دراصل تمام اسووں کا منبع اور سر چشمہ ہے) اس پر وہ غور کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ بحیثیت جماعت آپ کے اولیاء کی جماعت دیکھنا چاہتا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ اولیاء بنو جنہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا ہے.انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور محض اس کی توفیق سے ہر قسم کے قومی کو اس کی ہدایات اور روشنی کے مطابق اور ارتقائی مدارج میں سے گزارا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کی روحانیت بڑی بلند ہوگئی.وہ تو خدا تعالیٰ

Page 208

205 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم کی نگاہ میں ولی بن گئے مگر ہمیں نظر نہیں آتے.کیونکہ دراصل ولی وہ ہوتا ہے جو نظر نہ آئے.چونکہ جو خدا تعالیٰ کی ذات میں گم ہے وہ نظر کیسے آئے گا.جو ولی آپ کو باہر نظر آتے ہیں وہ ولی نہیں ہوتے بلکہ نمائشی ہوتے ہیں.سوائے مامور کے کہ جس کو اللہ تعالیٰ خود ظاہر کرتا ہے اولیا مخفی رہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میں تو خلوت کا عاشق تھا.مجھے دنیا میں باہر نکنے کا کبھی خیال نہیں آیا تھا اللہ تعالیٰ کی زبر دست قدرت نے مجھے اٹھایا اور کہا کہ چل اور یہ کام کر ورنہ میں تو یہ چاہتا تھا کہ مرتے دم تک تنہائی اور خلوت میں اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہوں.مجھے دُنیا سے کیا غرض اور دنیا کی آنکھ اُسے دیکھ نہیں سکتی وہ ظاہر نہیں ہوتا اور سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ خود ظاہر کر دے یا ان کے ایک حصے کو ظاہر کر دے.میرے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے ہزاروں واقعات ایسے ہیں جن کے اندر اللہ تعالیٰ کی ذاتی محبت اور پیار کے جلوے پائے جاتے ہیں لیکن آپ نے ان کو ظاہر نہیں کیا لیکن جو واقعات نشان بنے والے تھے ان کو آپ نے ظاہر کر دیا.پس سارے نبیوں یا ولیوں کو تو دنیا نہیں جانتی لیکن جو حصہ دنیا کو انا اور پہچانا چاہئے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے کہ جاؤ باہر نکلو.دنیا دیکھ لیتی ہے کہ تم کیسے ہو.پس اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جماعت میں کئی ولی ہیں مگر وہ بالعموم پوشیدہ رہتے ہیں.کمزوروں کی اصلاح کی فکر کریں غرض ہماری جماعت کے کسی حصہ میں erosion (اروژن ) نہیں ہونا چاہیئے.ہماری جماعت پتھر کی پختہ دیوار کی طرح ہے.ہمیں یہ بات بھی برداشت نہیں کرنی چاہئے کہ کوئی جاہل اس دیوار پر اپنے ناخن سے ایک لکیر کھینچے اور چند ذرے اس دیوار کو چھوڑ کر علیحدہ ہو جائیں.یعنی اگر ایک آدمی بھی حقیقی معنوں میں احمدی نہیں ہے تو ہمیں یہ برداشت نہیں کرنا چاہیئے اور برداشت نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں غصے کا اظہار کرنا چاہیئے.ہمیں اس کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیئے اس پر ہمیں رحم آنا چاہیئے.ہمیں ہر وہ تدبیر عمل میں لانے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ اپنے قومی کو صحیح رنگ میں نشو و نما دے سکے.اور اللہ تعالیٰ کا پیارا بن سکے جماعت نے اللہ تعالیٰ کا پیارا تو بنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان کردہ بشارتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی بشارتیں دی ہیں.آپ نے ایک نہایت ہی حسین تعلیم دی ہے جس کا انسان خود ہی گرویدہ ہو جاتا ہے پھر انعام بھی بہت بڑی چیز ہے.ابھی چھوٹے چھوٹے انعام دیئے گئے ہیں.بہت سے لوگ دوڑ بھی نہیں سکتے لیکن اس امید پر دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں کہ شاید ہم فسٹ آجائیں وہ دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان میں اور فسٹ آنے والے میں نصف کا فاصلہ ہوتا ہے یعنی پچاس گز اس نے

Page 209

فرموده ۱۹۶۹ء 206 د و مشعل راه جلد دوم کئے ہوتے ہیں اور سوگز اس نے کئے ہوتے ہیں لیکن انعام ایک شوق پیدا کرتا ہے.پس یہ فکری تقاضا ہے ایک طرف حسن دیا اور پھر یہ بشارت دی کہ حسن تمہیں فائدہ پہنچائے گا.یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے پوری ہو کر رہے گی آپ نے بشارتیں تو بے حد دی ہیں چند ایک کا میں اس وقت ذکر کروں گا.آپ فرماتے ہیں:.دوشم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے.اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکینت تم پر اترے گی اور روح القدس سے مدد دیئے جاؤ گے اور خدا ہر ایک قدم میں تمہارے ساتھ ہو گا.(تذکرۃ الشہا دتین صفحه ۶۶ طبع اوّل) پھر آپ فرماتے ہیں:.و لیکن اگر تم اپنے نفس سے در حقیقت مر جاؤ گے تب تم خدا میں ظاہر ہو جاؤ گے اور خدا تمہارے ساتھ ہوگا اور وہ گھر با برکت ہوگا جس میں تم رہتے ہو گے اور ان دیواروں پر خدا کی رحمت نازل ہو گی جو تمہارے گھر کی دیواریں ہیں اور وہ شہر بابرکت ہوگا جہاں ایسا آدمی رہتا ہوگا.اگر تمہاری زندگی اور تمہاری موت اور تمہاری ہر ایک حرکت اور تمہاری نرمی اور گرمی محض خدا کے لئے ہو جائے گی اور ہر ایک تلخی اور مصیبت کے وقت تم خدا کا امتحان نہیں کرو گے اور تعلق کو نہیں توڑو گے بلکہ آگے قدم بڑھاؤ گے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک خاص قوم ہو جاؤ گے.تم بھی انسان ہو جیسا کہ میں انسان ہوں اور وہی میرا خدا تمہارا خدا ہے.پس اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو.(الوصیت صفحه ۹ تیسرا ایڈیشن) اللہ تعالیٰ کی ان بشارتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس قوم کو اتنی بشارتیں دی گئی ہوں اس کو اپنی پاک قو تیں ضائع نہیں کرنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو قو تیں عطا کی ہیں ان کا صحیح استعمال اور ان کی صحیح نشو ونما ان کو پاک قو تیں بنادیتی ہے.پس اس میں فرمایا ہے کہ تمہیں خدا اتنی بشارتیں دے رہا ہے کیا پھر بھی تم اپنی قوتوں کو ضائع کرو گے؟.پس ہر قسم کی قوتوں کو خدائی ہدایت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات کے سایہ میں اور ان سے متاثر ہوتے ہوئے ترقی دوان کی کماحقہ نشو و نما کرو کہ ہر قوت ایک راہ ہے جو تمہیں قرب الہی کی طرف لے جارہی ہے.اللہ تعالیٰ نے تمہیں جتنی قو تیں عطا کی ہیں اگر تم ساری قوتوں کی خدا تعالیٰ کی راہ میں جنبش دو گے اور ان کو خدا کی راہ میں قربان کر رہے ہو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر جنت کے ساتوں دروازے کھول دے گا.غرض جماعت کے اس کمزور حصے کا واپس آنا ضروری ہے ورنہ ہمارے لئے بڑے شرم کی بات ہے.اور اس کے لئے ہمیں بڑی ہی جدوجہد کرنی پڑے گی.بعض باتیں میرے ذہن میں آئی ہیں.اطفال الاحمدیہ کے لئے میں نے نیا پروگرام بنایا ہے خدام الاحمدیہ کے لئے بھی ایک نیا پروگرام ہے میرے ذہن میں ہے انشاء اللہ وہ بھی

Page 210

207 فرموده ۱۹۶۹ء دومشعل راہ جلد دوم بتا دیا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں ہر غلطی سے چھڑوا دیا اور ہر نیکی کی رغبت ہمارے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کی.ایک وقت میں ایک غلط خیال تھا اور لوگ سمجھتے ہی نہیں تھے آپ نے کھڑے ہو کر بے شمار اعتقادی غلطیوں کو دور کیا.لوگ سمجھتے تھے کہ ہم مصیبت کھڑی کر رہے ہیں.وفات مسیح صلى الله الله آپ نے فرمایا حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.یہ چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن عظیم اثرات کا حامل تھا.پھر آپ نے بہت کچھ سیکھا ہے آپ کی اس بارے میں تعلیم کو میں یوں بیان کر سکتا ہوں کہ ہم نے انسانی تاریخ پر نگاہ کی اور ہم نے دیکھا کہ اس ساری انسانی تاریخ میں کوئی ایک آدمی بھی ایسا پیدا نہیں ہوا.پھر ہم نے اپنے دلوں کو ٹولا.اپنے دل میں آنحضرت ﷺ کی وہ محبت پائی کہ ہمارے دل نے کہا کہ میں مان نہیں سکتا کہ حضرت محمد مصطفی ملے تو فوت ہو جائیں اور حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہوں.پھر ہماری عقل نے دل کو کہا کہ کہیں یہ جذباتی خیال نہ ہو فراست بھی خدا تعالیٰ نے دی ہے اس سے بھی کام لو.اور قرآن کریم میں اس کی حقیقت ڈھونڈ و.پھر قرآن کریم کے اس نکتے کو سمجھنے کے لئے عقل اور فکر و تدبر سے کام لیا گیا تو قرآن کریم کی بڑی واضح اور بیسیوں آیات ایسی ملیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ یہ بتارہی تھیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.پھر دل نے عقل سے فراست سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم ہی کی تعلیم نہیں دی بلکہ حضرت نبی اکرم ہے کے ارشادات اور آپ کے اسوہ حسنہ کی اتباع کرنا بھی ضروری قرار دیا ہے.پھر عقل اور فراست اور فکر وتدبر نے حضرت نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر غور کیا اور آپ کے ارشادات کا مطالعہ کیا تو وہاں بھی یہی دیکھا کہ آپ کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ میں بھی اس دن حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح یہی کہوں گا کہ جب تک میں زندہ تھا ان لوگوں کی تربیت کی ایک حد تک ذمہ داری مجھ پر تھی لیکن اے ہمارے رب جس طرح عیسی نے کہا تھا کہ میرے فوت ہو جانے کے بعد پھر میری ذمہ داری نہیں رہتی اسی طرح میں یہ کہتا ہوں کہ تو نے جب مجھے اپنے پاس بلایا تو میرے بعد میرے صحابہ سے کوئی خراب ہو گئے تو یہ ان کی اپنی بدقسمتی تھی.میری تعلیم پر کوئی حرف نہیں آتا.پس جس رنگ میں بھی ہم نے غور کیا اور تعلیم کا مطالعہ کیا ہم نے یہی پایا کہ آنحضرت ﷺ ہی زندہ ہیں اور آپ کے مقابلے میں کوئی اور زندہ نہیں ہے.کتب حضرت مسیح موعود قرآن کی تفسیر ہیں پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلامی تعلیم کو بڑی خوبی اور بڑے حسن اور بڑی وضاحت سے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے.مگر ایسے نوجوان جو اس خزانے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو توجہ دلائیں اور بتائیں کہ یہ وہ تعلیم ہے جسے آپ نے پیش کیا ہے.یہ وہ قرآن کریم کی تفسیر ہے جسے آپ نے بیان

Page 211

کل راه جلد دوم صلى الله فرموده ۱۹۶۹ء 208 دومشعل فرمایا ہے.یہ آنحضرت علی کی حسن و احسان کے جلوے ہیں جنہیں آپ نے اپنی کتابوں میں بھر دیا ہے.اور یہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات ہیں جن پر آپ نے بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے اور پھر ہمیں بتایا ہے کہ ایسی صفات میں ہی حدوث کا جامہ پہن کر مخلوق میں جلوہ گر ہوتی ہیں اور ہر مخلوق میں اللہ تعالی نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ وہ صفات باری کا اثر قبول کرتی ہے.پس یہ آپ نے اتنے عظیم خدا.اتنے طاقتور خدا.اتنے بلند خدا.اتنے وسعتوں والے خدا اتنے کبیر خدا اور اتنے رزاق خدا جو ہر صفت میں یکتا اور واحد و یگانہ خدا ہے سے دنیا کو متعارف کرایا اور ہمیں یہ ہدایت فرمائی کہ ہر صفت کا رنگ اپنے اوپر چڑھاؤ اور قرآن کریم نے کہا ہے کہ تم اپنے قومی کی تربیت کر رہے ہو گے تو ان کی ہی تربیت نہیں ہوگی جب تک میری صفات سے اثر پذیر ہونے والے نہیں بنو گے یعنی میری صفات کا رنگ اپنے اندر پیدا نہیں کر رہے ہو گے.پس آپ نے عظیم تعلیم اسلام کی نہایت حسین رنگ میں بڑی واضح بیان کے ساتھ ہمارے سامنے رکھی.اس کی قیمت بتاؤں کتنی ہے.زمین و آسمان میں جتنی مخلوق ہے اس کی بھی وہ قیمت نہیں جو اس کی قیمت ہے.جنت کے متعلق ہمیں یہ بتایا کہ سارے عالمین کی جو قیمت ہے وہ جنت کے برابر نہیں اور جنت پھل ہے آنحضرت ﷺ کے خون سے سینچے ہوئے اسلام کے پودے کا.کتنی قیمت اس اسلام کی اور اس کی تعلیم کی ہے لیکن بعض نادان ایسے بھی ہیں جو اس کی قیمت نہیں جانتے وہ اس کو بھول گئے ہیں.ان کو سمجھانا ہمارا فرض ہے کہ ایک نہایت ہی قیمتی چیز تمہارے ہاتھ میں دی گئی ہے اس سے غافل نہ ہو ایک ایسی پاک تعلیم ایک ایسا حسین لائحہ عمل ایک ایسی خوبصورت شریعت اور ایسے مفید احکامات دیئے گئے ہیں کہ ان کا کوئی اور مذہب یا کوئی اور نسل مقابلہ کر ہی نہیں سکتی.عقل اور الہام کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وحی والہام کے متعلق فرمایا ہے کہ کون کہتا ہے کہ عقل سے کام نہ لو.عقل تو ہے ہی اس لئے کہ اس سے کام لینا چاہیئے اللہ تعالیٰ نے بھی یہی فرمایا ہے.لیکن اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیئے کہ عقل کی سمت محدود ہے جہاں عقل جا کر ٹھہر جاتی ہے اور آگے چلنا اس کے لئے ممکن نہیں رہتا تو اللہ تعالیٰ اس نقطہ سے کشف اور رویا اور وحی جاری کرتا ہے.پس عقل کا الہام کے ساتھ کوئی تضاد نہیں ہے.کوئی ایک دوسرے کی ضد یا مخالف نہیں ہیں بلکہ ایک حد تک چلنے کے لئے ہمیں عقل دی گئی اور اس کے آگے وحی و الہام یا کشف اور رویاء کی شکل میں اللہ تعالیٰ کے فضل نے انسان کی انگلی پکڑ کر آگے سے آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائی.پس انسان کہاں تک اس حسن و احسان کو بیان کر سکتا ہے.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس احمدی نوجوان سے زیادہ کوئی بد بخت نہیں جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا مگر آپ نے جس رنگ میں اسلام کو پیش کیا تھا اور خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات اور آنحضرت می ﷺ کے حسن و احسان کو بیان فرمایا تھا اس طرف اس

Page 212

209 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم نے توجہ نہیں کی اور اس سے ظالم کوئی بھائی نہیں جس نے اپنے ایک بھائی کو اس طرح کھڑے پایا اور اس میں روحانی حرکت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی.پس ہمیں اپنی اس نئ نسل کی فکر کرنی چاہیئے.ہمیں ان میں وہ اخلاص اور بشاشت پیدا کرنی چاہیئے جس اخلاص اور بشاشت کے بعد جب جان مانگی گئی تھی تو جان پیش کر دی گئی تھی اور جب مال مانگے گئے تھے تو مالوں کو لٹادیا گیا تھا جب عزتیں تلف ہو جانے کا سوال تھا تو انہوں نے عزتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی تھی اور جب ماؤں کے جذبات سے کھیلا جانے لگا تو ماؤں نے کہا اٹھا کر لے جاؤ میرے بچوں کو مجھے خدا کے مقابلے میں ان کی کوئی پر واہ نہیں.ہم ان کی خاطر اللہ تعالیٰ کے دامن کو نہیں چھوڑ سکتیں.حضرت مسیح موعود نے بہر حال غالب آنا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جیتنا تو ہے میں نے.یہ تو مقدر ہے.یہ تو ایسا فیصلہ ہے جو اٹل ہے.لیکن میرے ساتھ شامل ہو کر برکتیں وہی حاصل کریں گے جو میری کامل طور پر اتباع کریں گے.صرف لیبل نہیں لگائیں گے.پس ہمیں اپنی حقیقت ذہنی اور حقیقت عملی یہ بنانی چاہیئے کہ ہمارے اندر حضرت نبی اکرم اللہ کا رنگ اور نور اس طرح چمکنے لگے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مشابہت اختیار کر جائیں جن کے اندر حضرت نبی اکرم ﷺ کا رنگ اور نور کامل اور مکمل طور پر چمکتا ہوا نظر آتا ہے.صلى الله حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:- یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں.اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں.مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ پیچ ہیں.(انوار الاسلام صفحه ۲۳) اب ہم عہد کو دھرائیں گے اور اس کے بعد دعا پر یہ اجتماع ختم ہو جائے گا اور باہر سے تشریف لانے والے عزیز بچے اور نو جوان واپس جائیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ اپنی حفظ وامان میں رکھے.

Page 213

دومشعل دوم فرموده ۱۹۶۹ء 210 مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے ایوان محمود میں محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ( جو تین سال تک صدر مجلس کی حیثیت میں گراں قدر خدمات انجام دینے کے بعد اب انصار اللہ میں شامل ہورہے ہیں) کے اعزاز میں ۲۹ را کتوبر۱۹۶۹ءکو الوداعی دعوت دی گئی.جس میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقعہ پر حضور نے جو تقریر فرمائی وہ درج ذیل کی جاتی ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کی بعد فرمایا:- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ایک عظیم وعدہ یہ بھی دیا ہے کہ حضور علیہ السلام کے وصال کے بعد جماعت احمد یہ اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی قیامت تک اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتی رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسالہ الوصیت میں اسے قدرت ثانیہ یعنی خلافت حقہ قرار دیا ہے.چونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی ایک مجسم قدرت ہوں.اس پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آپ بہر حال انسان ہیں.ایک وقت میں آپ نے اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے.کیا آپ کی وفات کے بعد جماعت اس مجسم قدرت سے محروم ہو جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ نہیں جماعت اس سے محروم نہیں ہوگی.آپ نے اس خوف کو دور کرنے کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت سنائی کہ میرے بعد بھی جماعت میں اللہ تعالیٰ کی قدرتیں اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی رہیں گی اور یہ سلسلہ جب تک کہ جماعت احمدیہ پر قیامت نہیں آجاتی اور روحانی طور پر یہ جماعت مردہ نہیں بن جاتی (والعیاذ باللہ ) اس وقت تک یہ جماعت خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتی رہے گی.قرآن کریم میں خلافت کے دو کام بتائے گئے ہیں ایک ہے تمکین دین اور دوسرا ہے خوف سے حفاظت.اور قرآن کریم کی رو سے یہ دونوں کام جب تک خلافت ہے کسی اور کے ذریعہ سے سرانجام نہیں پاسکتے.اس لئے ( جس طرح پہلے الہی سلسلوں میں ہمیشہ یہ ہوتا رہا ہے ) جماعت احمد یہ میں بھی مختلف تنظیمیں تمکین دین اور خوف کو امن سے بدلنے کے سامان پیدا کرنے کے لئے بطور ہتھیار کے ہوتی ہیں.اور یہ ہتھیار خلیفہ وقت کے ہاتھ میں ہوتا ہے.ذیلی تنظیموں کی اہمیت ہماری جماعت میں اس وقت مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں.مثلاً صدر انجمن احمد یہ ہے.یہ سب سے پرانی

Page 214

211 فرموده ۱۹۶۹ء دد دو مشعل راه جلد د ، دوم تنظیم ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی موجود تھی.پھر تحریک جدید ہے.حضرت مصلح موعود نے دنیا بھر میں اشاعت اسلام کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اور جماعت کی جدوجہد کو تیز اور اس کے جہاد بالقرآن میں ایک شدت پیدا کرنے کے لئے تحریک جدید کو قائم کیا.پھر وقف جدید ہے.اسی طرح وقف عارضی کا نظام ہے.پھر موصیوں کی انجمن ہے.گو اس کے کام کی بھی ابتداء ہے اور جو اس کی ذمہ داریاں ہیں ان کو نباہنے کے لئے یہ تنظیم بھی انشاء اللہ اپنے وقت پر نمایاں شکل میں سامنے آجائے گی.خدام الاحمدیہ کے ساتھ مجلس اطفال الاحمدیہ ہے.اس واسطے میں نے اس کا ذکر نہیں کیا.پھر لجنہ اماءاللہ کی تنظیم ہے.یہ نظمیں خلیفہ وقت کے اس ذکر کیا.پھر ہاتھ میں ایک ہتھیار کی حیثیت میں بڑے ہی مفید کام کرتی رہی ہیں اور اب بھی کر رہی ہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی کرتی رہیں گی.لیکن ہر تنظیم میں بعض دفعہ وقتی طور پر بعض کمزوریاں بھی آجاتی ہیں.یہ خلیفہ وقت کا کام ہوتا ہے کہ ان کمزوریوں کو جس طرح وہ مناسب سمجھے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی اسے ہدایت ہو دور کرنے کی کوشش کرے.بسا اوقات ایک ظاہر بین آنکھ اس کوشش کو دیکھ ہی نہیں سکتی.جو کسی کمزوری کو دور کرنے کے لئے کی جاتی ہے.لیکن بہر حال خلیفہ وقت تو کسی وقت بھی اپنی ذمہ داری سے غافل نہیں ہوسکتا خواہ دنیا دیکھے یا نہ دیکھے اور سمجھے یا نہ مجھے.غرض جماعت کی کسی تنظیم میں بعض دفعہ عارضی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے.اسے دور کیا جاتا ہے.مجلس خدام الاحمدیہ میں بھی بعض کمزوریاں پیدا ہوئیں.اس ہال پر بھی بعض بد نما داغ لگے لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.یہ داغ صاف کر دیئے گئے اور ان پر خوبصورت رنگ وروغن کر دیا گیا اور مجلس خدام الاحمدیہ جو آہستہ آہستہ غیر محسوس طور پر (آپ کے نقطہ نگاہ سے غیر محسوس طور پر ) تنزل کی طرف جارہی تھی.اس میں زندگی کی رو پیدا ہوئی اور اس کے کاموں میں وسعت پیدا ہوئی.کچھ اعداد و شمار آپ کے سامنے ہیں.گو اس وقت زیادہ تفصیل سے تو نہیں بتائے جاسکے لیکن ہر لحاظ سے کمزوریاں جو تھیں وہ دور ہوئیں لیکن ابھی ہم اپنے کام میں سو فیصدی کامیاب نہیں ہو سکے اور میرے خیال میں انسان سو فیصدی کامیاب ہو بھی نہیں سکتا.ورنہ اس کی جد و جہد ختم ہو جائے.پس ابھی مزید ترقی بھی کرنی ہے.اس لئے ایک طرف تو ہم سب کو ممنون ہونا چاہیے کہ آپ کے بے نفس صدر کا جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ وہ بہت سی غلطیوں اور غفلتوں کو دور کرسکیں.نیز بعض بدنما دھبوں کو اس مجلس کے چہرے پر سے دھو سکیں.اور ایک خوبصورت رنگ میں ایک فعال جماعت کی حیثیت میں ایک تیز دھار والے روحانی آلہ کے طور پر اسے خلیفہ وقت کے ہاتھ میں رکھ سکیں.کیونکہ بہر حال یہ روحانی تلوار خلیفہ وقت نے چلانی ہے زید یا بکرنے نہیں چلانی.اور دوسری طرف مجھے خوشی ہوئی ہے کہ ایک لمبے عرصہ کے بعد اب ایک مخلص اور بے نفس نوجوان صدر بنے ہیں.جن کا جسمانی رشتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نہیں لیکن جواللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس ذمہ داری کو نباہنے کی اہلیت رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء اور اس کی مدد اور نصرت کے بغیر کوئی شخص صحیح اور صالح عمل نہیں

Page 215

فرموده ۱۹۶۹ء 212 د و مشعل راه جلد دوم کر سکتا.اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو عمل صالحہ کی اہلیت تو عطا کر رکھی ہے.مثلا یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکے.لیکن انہی انسانوں میں سے جن میں سے ہر ایک قرب الہی کے حصول کی قابلیت اور اہلیت رکھتا ہے.ابو جہل بھی پیدا ہو جاتا ہے.اس قسم کے اور بھی کئی بدقسمت لوگ پیدا ہو جاتے ہیں حالانکہ ان میں قرب النبی کے حصول کی اہلیت بھی پائی جاتی ہے.لیکن محض اہلیت کا ہونا کافی نہیں ہے.اہلیت کے ساتھ جب تک تدبیر اور دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نصرت کو حاصل نہ کیا جائے.اس وقت تک اہلیت کھلتی نہیں بند کلی کی شکل میں رہتی ہے اور بعض دفعہ وہیں ختم ہو جاتی ہے.حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل ہو.تو وہی گلاب کا ایک خوبصورت پھول بن جاتا ہے.پس صدر بننے والے نوجوان کیلئے بھی دعا کرنی چاہیے اور اس عہدہ سے سبکدوش ہونے والے مخلص نوجوان کے لئے بھی دعا کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو قبول کرے اور آنے والے کو یہ توفیق دے کہ وہ اللہ تعالی کی مدد سے پہلوں سے زیادہ کام کر کے دکھا ئیں.ہم کسی جگہ پر ٹھہر نہیں سکتے.ہمارا ہر فر د جس پر نئے سرے سے ذمہ داری عائد کی جاتی ہے.ان کو پہلوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے.کیونکہ جماعت میں اللہ تعالیٰ کے نل سے پھیلا ؤ اور وسعت آ رہی ہے.جماعت کے کام بھی بڑھ رہے ہیں.اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھ رہی ہیں.غرض میں بتارہا تھا کہ جنہوں نے مجلس کی صدارت کا چارج لیا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خونی رشتہ کے لحاظ سے خاندان کے فرد نہیں ہیں.لیکن روحانی رشتہ کے لحاظ سے ہر شخص اپنی ہمت اور کوشش اور اپنی دعا اور عاجزی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی روحانی اولاد بننے کے قابل ہے اور سچا اور حقیقی روحانی بیٹا اسے بننا چاہیے.اور بہت سے لوگ ہیں جو جسمانی اولاد سے بھی زیادہ آگے نکل جاتے ہیں.حالانکہ وہ محض روحانی اولاد ہوتے ہیں.جسمانی تعلق تو ایک دنیوی تعلق ہے.مذہب یا روحانیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے.حضرت صحیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنی اولاد سے اصل تعلق روحانی تعلق ہی ہے.اسی واسطے کہا گیا ہے کہ انبیاء کسی کے وارث ہوتے ہیں نہ آگے ورثہ میں کسی کو کچھ دیتے ہیں.کیونکہ ورثہ کا تعلق جسمانی قرابت سے ہے اس کی نفی کر دی گئی ہے لیکن جہاں تک روحانی فیوض و برکات کا تعلق ہے وہی حقیقت، وہی صداقت اور وہی حکمت ہے.و ہی دراصل صحیح معنی ہیں.کسی شخص کی روحانی اولاد ہے.جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو اس کی منشاء اور فرمان کے مطابق قائم کیا.اور ہر شخص اپنے اخلاص اور ایثار کے مطابق اپنا اجر پاتا ہے.پس اصل میں یہی روحانی اولا دایک روحانی وجود کی اولاد ہے.اس کی جسمانی اولاد کوئی نہیں ہوتی.بہت سی جگہوں پر اس قسم کی غلط فہمی پیدا کی جاتی ہے اور جس طرح Erosion (اروژن) کے نتیجہ میں دریا کا پانی کاٹ جاتا ہے.یہاں بھی اس قسم کے Erosion (اروژن) ہوتے رہتے ہیں.پھر بارشیں آتی ہیں.بعض کھیتوں کی حالت خراب کر جاتی ہیں جہاں پہلے بڑی اچھی کھیتی ہوا کرتی تھی وہاں نشیب و فراز اور بالکل بنجر علاقے بن کر رہ جاتے ہیں.اس قسم کے

Page 216

213 فرموده ۱۹۶۹ء دو مشعل راه جلد د دوم بد خیالات کا یہی حال ہے.ان سے ہمیشہ بچتے رہنا چاہیے.اصل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی اولا دہی حقیقی اولاد ہے اسی واسطے آپ نے اپنی جسمانی اولاد کے متعلق فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا کو قبول کیا اور ان کو روحانی وجود بنادیا.اگر محض جسمانی اولاد ہونے میں کوئی خوبی ہوتی تو آپ کو نہ ان دعاؤں کے کی ہو.کرنے کی ضرورت تھی نہ ان کی قبولیت کی حاجت ہوتی.پس اصل چیز یہ ہے کہ روحانی رشتہ مضبوط ہو.خواہ جسمانی تعلق نہ بھی ہو.اس واسطے وہ لوگ بھی غلطی پر ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ محض جسمانی اولاد ہونا کوئی بڑائی ہے.بعض لوگ اسلام میں ایسے بھی ہوئے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی اولاد سے محض اس لئے دشمنی کی کہ وہ آپ کی جسمانی اولاد تھے لیکن یہ بھی غلط ہے کہ چونکہ جسمانی اولاد تھے اس لئے ان کو عزت حاصل ہوگئی لیکن اس رشتہ کے نتیجہ میں کوئی انہیں بزرگی دیتا ہے تو وہ جاہل مطلق ہے.اس کے اندر کوئی روحانیت نہیں ہے.کوئی عقل نہیں ہے.اصل تعلق روحانیت کا ہے جسمانی اولاد میں اگر یہ تعلق پختگی کے ساتھ قائم ہو جائے.ان میں ایثار اور قربانی اور بے نفسی پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دیتا ہے اور اپنے قرب اور رضا سے نوازتا ہے اور جس نے جسمانی اولاد نہ ہونے کے باوجو د روحانی اثر کو قبول کر کے اپنے آپ کو دنیا کی نگاہ میں حقیقی اولا د جیسا بنا دیا.اس کے متعلق یہ کہنا کہ صرف اس وجہ سے کہ چونکہ جسمانی تعلق نہیں تھا اس لئے وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں عزت اور مرتبہ نہیں پاسکتا.یہ بھی غلط ہے.دونوں باتیں غلط ہیں.اصل صراط مستقیم یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت اور احترام کو حاصل کر لیتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے.وہ اپنی اپنی استعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کے دین کے کام کرنے کی توفیق پاتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی کوششوں کو قبول کرتا ہے.خواہ اس کا مامورزمانہ سے جسمانی تعلق ہو یا نہ ہو پس وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ چونکہ ان کا جسمانی تعلق ہے.اس لئے ان کو بڑا کہنا چاہیے.وہ بھی غیر معقول بات کرتے ہیں اور وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ جسمانی تعلق ہے اس لئے اچھے ہو گئے ہیں اور انہوں نے ورثہ میں عزت و احترام کو پالیا ہے.یہ بھی غلط ہے.اس طرح پر تو ورثہ میں کسی کو عزت و احترام نہیں ملا کرتا.پس جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ جسمانی رشتہ نہیں ہے.اس لئے اکرام اور بزرگی نہیں مل سکتی.یہ خیال غلط ہے.غرض جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ جسمانی تعلق ہے.اس لئے ضرور بزرگی مل جائے گی.یہ بھی غلط ہے.اصل میں روحانی تعلق نام ہے تقویٰ اختیار کرنے کا.اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا کرنے کا.اللہ تعالیٰ کے لئے ایثار اور قربانی کرنے کا ، اپنے نفس پر ایک موت وارد کرنے کا، اپنے آپ کو کچھ بھی نہ سمجھنے کا، اپنی فنا کے بعد اللہ تعالی سے ایک نئی اور پاک زندگی حاصل کرنے کا.یہ اصل تعلق ہے اس کے بغیر تو کوئی تعلق تعلق ہی نہیں.خدام الاحمدیہ کا کام ختم ہونے والا نہیں غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے تین سال میں خدام الاحمدیہ نے خاصی ترقی کی ہے لیکن پہاڑوں کی بلند چوٹیوں کی طرح خدام الاحمدیہ کے لئے کوئی ایک چوٹی مقرر نہیں کہ جہاں جا کر وہ یہ سمجھیں کہ بس اب ہم

Page 217

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۹ء 214 آخری بلندی پر پہنچ گئے.ہمارا کام ختم ہو گیا.یہ تو ایسے پہاڑ کی چڑھائی ہے کہ جس کی چوٹی کوئی ہے ہی نہیں.کیونکہ یہ وہ پہاڑ ہے جس کے اوپر عرض رب کریم ہے اور انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ غیر محدود ہے اور ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے اور اسی میں ہماری زندگی اور حیات ہے کہ ہم کسی جگہ پر تھک کر بیٹھ نہ جائیں.یا کسی جگہ ٹھہر کر یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے جو حاصل کرنا تھا کر لیا.نہیں ہمارے لئے غیر محدودترقیات اور رفعتیں مقدر کی گئی ہیں اور اگر ہم کوشش کریں اور واقعہ میں اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں اخلاص اور ایثار اور محبت ذاتی اپنے لئے محسوس کرے تو وہ ہم پر فضل نازل کرتا چلا جائے گا اور کرتا چلا جاتا ہے.جس کے نتیجہ میں انسان خدا تعالیٰ سے اور زیادہ پیار حاصل کرتا ہے اور اپنے نفس سے وہ اور زیادہ دور اور بے گا نہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ میاں طاہر کو جزا دے پس کام ہوا اور بڑا اچھا کام ہوا.انشاء اللہ آگے بھی کام ہوں گے اور بڑے اچھے ہوں گے.اور تنظیمی لحاظ سے ہم کچھ اور بلند ہو جائیں گے لیکن چوٹی پر نہیں پہنچ سکتے کہ جس کے بعد ہم سمجھ لیں کہ بس اب ہمارا کام ختم ہو گیا.کیونکہ جہاں بھی ہم کھڑے ہوئے وہاں ہم گرے اور ہلاک ہوئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس لغزش اور اس ہلاکت سے محفوظ رکھے اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ ہمارے جیسے کمزور بندوں میں جس کو بھی کسی تنظیم کی قیادت نصیب ہو.وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور مدد سے اس کا اہل ثابت ہو اور اللہ تعالیٰ اس کے ذہن میں جلا پیدا کردے.اس کے دل میں ایک عزم اور ہمت پیدا کر دے اور جس طرح خلیفہ وقت کا یہ کام ہے کہ تمکین دین ہو وہ اس کے لئے ایک مضبوط اور قابل اعتماد اور ہمت اور عزم رکھنے والا باز و بن جائے.وہ بھی اور اس کے ما تحت تنظیم بھی اور اس طرح اپنی جگہ ایک ایسی تنظیم قائم ہو جائے کہ جس کے ذریعہ سے علاوہ اور ذرائع کے خلیفہ وقت جماعت کے خوف کو امن سے بدلنے والا اور دشمنوں کے جھوٹے امن کو حقیقی خوف میں تبدیل کرنے والا ہو.اب ہم دو کے لئے دُعا کریں گے.اللہ تعالیٰ میاں طاہر احمد کو جزا دیے ہر انسان سے لغزشیں اور غفلتیں ہو ہی جاتی ہیں.لیکن جیسا اللہ تعالیٰ انسان کے دل میں اخلاص کو دیکھتا اور بے نفسی کو پاتا ہے تو اس کی مغفرت جوش میں آتی ہے اور انسان کی بشری کمزوریوں پر اس طرح پردہ پڑ جاتا ہے کہ کئی دفعہ میں نے سوچا ہے کہ ہمارا رب ہم سے کتنا پیار کرنے والا ہے کہ وہ بعض دفعہ انسانی غفلتوں پر اس طرح پردہ ڈالتا ہے کہ خود غفلت کرنے والے کو بھی یہ پتہ نہیں ہوتا کہ میں نے کیا غفلت کی ہے.یہ کتنی مہربانی اور پیار ہے اس کا.پس اللہ تعالیٰ مغفرت کی چادر میں ان کو لپیٹے رکھے.اپنی رحمت سے ہمیشہ ان کو نو از تار ہے.اور اس عاجزی کے مقام سے ان کو کبھی دور نہ کرے اور جس طرح پہلے انہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کی توفیق پائی.اب دوسری راہوں پر دوسرے میدانوں میں بھی وہ خدمت بجالانے کی توفیق پاتے رہیں اور جس طرح جانے والے صدر نے ایک اور حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی اور وہ بہت سے کام کرتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان

Page 218

215 فرموده ۱۹۶۹ء دد دو مشعل راه جلد دوم نئے صدر کو بھی بڑی ہمت دی ہے اور بڑا خلاص دیا ہے جو ظاہری آنکھ دیکھتی ہے.لیکن میری آنکھ یا آپ کی آنکھ نے تو فیصلہ نہیں کرنا.فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ نے کرنا ہے.اس لئے ہم تو صرف دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس سے زیادہ اخلاص ہو جو ہمیں نظر آتا ہے.اس سے بھی زیادہ عزم و ہمت اور بے نفسی و فدائیت ہو جو ہمیں بظا ہر دکھائی دیتی ہے.اللہ تعالیٰ جماعت میں سینکڑوں ہزاروں ایسے نوجوان پیدا کرے جو قیادت کرنے کے اہل ہوں.یہ جماعت سرداروں کی جماعت ہے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو سادات کی یا سرداروں کی یعنی قیادت کرنے والوں کی جماعت بنایا ہے.ہماری جماعت ایسی جماعت نہیں ہو کہ جس میں سے ایک کے قائد بن جانے کے بعد باقی ساری کی ساری جماعت میں قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان ہو.کیونکہ پھر تو چوٹی کی بلندیاں اونچی نہیں ہوتیں.چوٹی کے لیے تو پھرا تنے ہی بلند زاویئے بھی قائم کرنے پڑتے ہیں اور اس ڈھلوان پر چاروں طرف سے Queue ( کیو ) لگا ہوتا ہے.قطار بنی ہوتی ہے جن میں سے ہر ایک اہل ہوتا ہے.اس بات کا اگر اللہ تعالیٰ منشاء اس طرح ہو کہ اگر مثلاً ایک نو جوان چالیس سال کا ہو گیا ہے تو اگر وہ اپنی جگہ سے ہٹے تو دوسرا آگے قدم بڑھا کر اس کی جگہ لے لے جس کی تربیت انتظامی لحاظ سے بھی ہو اور جس پر روحانی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت بھی ہو.پس یہ جماعت ہے ہی سرداروں کی جماعت.اس کی راہ میں بے ہوش پڑے ہوئے افراد تو آپ کو نظر آئیں گے.لیکن ان کی تعداد بڑی تھوڑی ہے یہ جماعت ایک مضبوط دل رکھنے والی اور بڑی ہی پیاری جماعت ہے مجھے تو ان لوگوں کے خطوط آتے رہتے ہیں جنہیں غیر بڑی تکالیف پہنچاتے ہیں.ابھی آج ہی میں ڈاک میں ایک خط پڑھ کر آیا ہوں کہ اس طرح ہم نئے نئے احمدی ہیں اور اس طرح پر ہمیں تنگ کیا جا رہا ہے لیکن ہم نے لوگوں کی مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں کی اور ہم پوری مضبوطی کے ساتھ اور علی وجہ البصیرت احمدیت پر قائم ہیں اور مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اور حقیقت یہی ہے اور قرآن کریم نے بھی اس پر روشنی ڈالی ہے کہ وہ جماعت جس میں ثبات قدم پایا جاتا ہے.اس پر ملائکہ (فرشتے) بھی رشک کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ کے صحابہ کا یہی حال تھا ہمارے متعلق بھی یہی کہا گیا ہے کہ صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی واسطے بار بار فرمایا ہے کہ جس طرح صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اندر ایک عظیم انقلابی تبدیلی پیدا ہوگئی تھی میری جماعت کو بھی چاہیے کہ اس قسم کی روحانی تبدیلی اپنے اندر پیدا کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو وہ بھی اپنی زندگیوں میں پورا ہوتے دیکھ لیں.اللہ تعالیٰ کے وعدے تو ضرور پورے ہو کر رہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدے کسی فرد یا کسی قوم یا کسی خاندان کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتے.

Page 219

دوم فرموده ۱۹۶۹ء 216 د دمشعل چنانچہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبھاؤ گے تو ہم ایک اور قوم لے آئیں گے جو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے والی ہوگی.خدا تعالیٰ کے وعدے تو پورے ہو کر رہیں گے لیکن وہ قوم جس نے اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبھایا اور اللہ تعالیٰ کو اس کی جگہ ایک اور قوم کو لانا پڑا) وہ تو بڑی ہی بد بخت ثابت ہوئی.اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے لوگوں کو اپنی انتہائی محبت سے نوازنا چاہا مگر انہوں نے اپنے نفس کے موٹاپے کی وجہ سے اس محبت کو ٹھکرا دیا اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے غضب اور اس کے قہر کا مورد بنا لیا.پس احمد نی مسلمان تو ایسی قوم ہے جو اللہ تعالیٰ ایک قادرانہ فعل کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے جو کام اس کے ذمہ لگایا گیا ہے ( بظاہر کام تو سارے اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے ) وہ تو انشاء اللہ پورا ہوگا اسلام کو ضرور غلبہ حاصل ہوگا دُنیا کی کوئی طاقت اس کے راستے میں روک نہیں بن سکتی لیکن وہ لوگ بڑے ہی مبارک ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی جنتوں میں لانے کے لئے دُنیا میں ظاہر یہ کرتا ہے کہ ان کی کوششیں کامیاب ہوئیں.مگر کیا انسان اور کیا اس کی کوشش وہ دنیا جو اس وقت اسلام کی مخالف ہے اس کے مقابلہ میں ہماری یہ طاقت یا ہماری یہ دولت یا ہمارے افراد کی یہ تعداد کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتی.لیکن بہت سے لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم تھوڑوں کو یہ توفیق دے دی.گرچہ وہ اس کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوتے.حقیقت یہ ہے کہ تھوڑوں کو توفیق تو دے ہی دیتا ہے.مگر اس کے ساتھ اگر اللہ تعالیٰ ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں گناہ اپنی قدرت بیچ میں نہ ملاتا تو وہ نتیجہ نہ نکلتا جو آج ہمیں نظر آ رہا ہے.ساری دنیا ہماری مخالف ہے اور ساری دنیا میں ہم خدا کے نام کی آواز کو بلند کرنے کے لئے اور ساری دنیا کے دلوں میں ہم حضرت نبی اکرم ﷺ کی محبت گاڑنے کے لئے پھر رہے ہیں.ربوہ کی گلیوں میں بعض نوجوان پھرتے ہیں آپ ان کے پاس سے گزر جاتے ہیں مگر آپ کے دل میں ان کی کوئی قدر پیدا نہیں ہوتی.لیکن جب جماعت ان کو باہر بھیج دیتی ہے.مثلاً افریقہ کے کسی ملک میں اور جب وہ وہاں پہنچ کر اسلام کی تبلیغ کا کام شروع کرتے ہیں اور وہاں سے رپورٹیں آتی ہیں کہ یوں وہاں کے پریذیڈنٹ نے محبت اور عزت کا سلوک کیا تو پھر دیکھنے والی آنکھ اندازہ کر سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کس قدر محبت اور پیار کرنے والا ہے اور کس طرح ذرہ نا چیز کو جب اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو اس کے ذریعہ سے اپنی قدرت کو ظاہر کرتا ہے.پس دنیا کی نظر سے وہ ذرہ پوشیدہ ہو جاتا ہے.دنیا کو تو اللہ تعالیٰ کی وہ انگلیاں نظر آ رہی ہوتی ہیں جن سے اس نور السموت والارض کا نور پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا ہوتا ہے اور دنیا کی آنکھیں چندھیا رہی ہوتی ہیں.تقوی میں ساری عزت ہے پس اللہ تعالی کے فضل کے بغیر تو کوئی بات ہو نہیں سکتی اور اللہ تعالیٰ کا اب تک یہ فضل رہا ہے.امید ہے کہ انشاء اللہ ایک لمبے عرصے تک یہ فضل رہے گا اور یہ جماعت سرداروں اور قائدین کی جماعت رہے گی.

Page 220

217 فرموده ۱۹۶۹ء د مشعل راه جلد دوم اس جماعت میں کسی خاندان کی اجارہ داری مقرر نہیں کی گئی اس میں ایک ہی اصول مقرر کیا گیا ہے.جسے قرآن کریم نے إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ أَنقَكُم (الحجرات آیت نمبر ۱۴) کے الفاظ میں بتایا تھا.پس جو تقویٰ کے علاوہ کسی اور عزت کا خواہاں ہے وہ جاہل ہے یا مفسدانہ خیالات رکھنے والا ہے.اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے.غرض تقویٰ ہی میں ساری عزت ہے.جس کا مطلب ہے یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو کسی چیز کے قابل نہ سمجھے.خود کو خدا تعالیٰ کی پناہ میں لے آئے اور اسی سے طاقت حاصل کر کے دنیا کا کام کرے اور اسی سے علم پا کر بولے اور اسی کو سب کچھ سمجھے اور ساری دنیا کو ایک مردہ کیڑا سمجھے اور فخر اور معجب اور تکبر اور ریا اپنے دل کے اندر پیدا نہ ہونے دے.تب جا کر انسان اللہ تعالیٰ کی محبت کی نگاہ کا مورد بنتا ہے.اس کے بغیر وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو پاہی نہیں سکتا ایسے ہزاروں لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ کا پیار ملا ہے اور وہ اپنی اپنی جگہ خاموش زندگی گزار رہے ہیں.ان میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جن کو دنیا پہچانتی ہی نہیں.ہماری جماعت کے لوگ بھی ان کو نہیں پہچانتے لیکن خلیفہ وقت اور جماعت تو ایک ہی وجود کا نام ہے اس لئے خلیفہ وقت کو تو پتہ ہوتا ہے کہ یہ بے نفسی کے لحاظ سے کون کس مقام کا انسان ہے.پس اس وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت آئی ہوئی ہے اس رحمت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور بہتوں نے حاصل کی ہے اور کرتے رہیں گے.اس کی تو فکر نہیں یعنی یہ ڈر نہیں کہ ایسے لوگ کہاں سے پیدا ہوں گے لیکن جو تد بیر اور کوشش ہے وہ ضروری ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دُنیا کو اسباب کی دُنیا بنایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا تدبیر کی دنیا ہے کیونکہ اسباب کی دنیا میں بہر حال تدبیر کرنی پڑتی ہے.جہاں اسباب کی دنیا نہیں وہاں تدبیر کوئی نہیں.مثلاً فرشتوں کو کوئی تدبیر نہیں کرنی پڑتی اور اسباب کی دنیا سے مراد دراصل یہ ہے کہ دنیا اسباب کی ہو اور دل میں یہ احساس ہو کہ یہ اسباب کی دنیا ہے اس لئے میں یہ کام کر رہا ہوں.شاید کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ جانور اس طرح کی تدبیر نہیں کرتے.یہ صحیح ہے کہ انسان کی طرح جانور تدبیر نہیں کرتے لیکن کچھ نہ کچھ تدبیران کو بھی کرنی پڑتی ہے لیکن ان کو تو یہ احساس ہی نہیں کہ یہ اسباب کی دنیا ہے اور یہاں کوئی تدبیر ہونی چاہیے ان کے اندر تو فطرتی جذ بہ پایا جاتا ہے.میں نے پہلے بھی ایک جگہ بتایا تھا کہ ایک بوٹی ہوتی ہے بکری اس کے پاس سے گزرتی ہے.وہ اسے سوکھتی ہے مگر تیوری چڑھاتے ہوئے پرے ہٹ جاتی ہے.وہ فطرتا یہ جھتی ہے کہ یہ میرے کھانے کی چیز نہیں ہے.اس کے پیچھے پیچھے بھیٹر آرہی ہوتی ہے وہ بھی اس بوٹی کو سوکھتی ہے تو اس کے چہرے پر بشاشت آ جاتی ہے اور وہ بڑے شوق سے اُسے کھانے لگ جاتی ہے.پس ان کے اندر تو ایک اور قانون جاری کر رکھا ہے.لیکن جہاں اسباب کی دنیا ہے وہاں تدبیر کرنی پڑے گی.لیکن جو تد بیر کرنی پڑے گی وہ کامیاب صرف اس وقت ہوسکتی ہے جب اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو.دنیوی لحاظ سے تدابیر کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنایا ہے کہ جو لوگ مذہب سے دور چلے جائیں گے اور اس ابتلاء اور امتحان کی دنیا میں اپنے آپ کو غرق کر دیں گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کے لئے ابتلاء کے سامان پیدا کر دیں گے اور یہ دنیا ان کو دے دیں

Page 221

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۶۹ء 218 گے.ایک ایسا شخص جو اسلام کی مخالفت میں دولت کی قربانی کر رہا ہے.عیسائیوں میں ایسے بہت لوگ ہیں.اس کو جتنی زیادہ دولت ملے گی اتنا ہی وہ زیادہ اسفل السافلین کا مصداق بنے گا یعنی اس کا اس طرح اپنی دولت کو خرچ کرنا جہنم میں ٹھکانا بنانے کے مترادف ہے.کیونکہ جس شخص نے اپنی دولت کا 100\1 حصہ اسلام کے خلاف استعمال کیا اس کے مقابلہ میں وہ شخص جو کروڑ پتی تھا اور جس نے اپنی دولت کا نصف حصہ اسلام کی مخالفت میں خرچ کر دیا اس سے خدا تعالیٰ کا مواخذہ بھی زیادہ ہو گا.یہ نسبت امارت اور غربت کے درمیان بڑھتی چلی جاتی ہے یعنی غریب لوگ کم نسبت سے خرچ کر سکتے ہیں کیونکہ ان پر اور بڑا بار ہوتا ہے.پس دیکھنے والا کہے گا کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اور یہ بڑا امیر آدمی ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے شخص پر میں نے دولت کے دروازے جو وا کئے ہیں وہ محبت اور پیار کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ اس کی آزمائش کے لئے ہیں اور اس میں اس کے لئے ایک ابتلاء ہے اور یہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتا اور مجھ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور جہنم کی اتھاہ گہرائیوں میں اور بھی زیادہ غرق ہوتا چلا جاتا ہے.لیکن ایک دوسرا شخص ہے اس کو اللہ تعالیٰ دولت اتنی دیتا ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں.وہ ساری دولت لا کر خدا کی راہ میں قربان کر دیتا ہے اپنے پاس کچھ بھی نہیں چھوڑتا کیونکہ اس کا سارا تو کل اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے.تاریخ میں حضرت نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کی مثالیں بھی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کی مثالیں بھی ہیں اور آپ سے پہلے کے زمانے کی مثالیں بھی ہیں کہ کئی لوگوں نے باوجود بڑے دولت مند ہونے کے ساری کی ساری دولت اسلام کی راہ میں قربان کر دی یہ لوگ جو ہزاروں کی تعداد میں ایک تھیلا ہاتھ میں لئے اور ایک جوڑا کپڑے پہنے دنیا میں نکل کھڑے ہوئے تھے.ان میں سے کئی ایک بڑے امیر بھی تھے لیکن وہ ا سلام کی تبلیغ کے لئے دُنیا کے مختلف ممالک میں نکل گئے.اُن کے دلوں میں یہی خیال تھا کہ یہ دولت تو آنی جانی چیز ہے اس کو چھوڑ و جہاں کی یہ ہے وہیں رہنے دو.چلو ہم ساری دُنیا میں جا کر خدا تعالیٰ کا نام بلند کریں.نہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کچھ ہو نہیں سکتا تد بیر کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی نکالتی ہے پس تدبیر تو ہم کرتے ہیں لیکن نتیجہ خدا تعالیٰ نکالتا ہے.آخر یہ ساری تنظیمیں کوئی خدام الاحمدیہ کی شکل میں اور کوئی لجنہ اماءاللہ کی شکل میں تدبیر ہی ہیں لیکن ان تنظیموں کی کوششوں کا نیک نتیجہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے نکلتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو جذب کرنے کے لئے ایسی دعا کی ضرورت ہے جو نہایت متضرعانہ ہو اور خود پر ایک موت وارد کرنے کے بعد کی جائے جب انسان فنا کی راہوں کو اختیار کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس نیستی میں اپنی قدرت کے جلووں کو ظاہر کرتا ہے.غرض نیستی کی راہوں کو اور عاجزی کی راہوں کو اختیار کرنا چاہیے.مجھے امید ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ انشاء اللہ ہر نئے دور میں پہلے سے زیادہ ترقی کرتی چلی جائے گی.جب تک اس مجلس کا کام ختم نہیں ہو جاتا ( تین سو سال تک یا ہزار سال تک یادو ہزار سال تک اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ) یہ آگے ہی آگے بڑھتی چلی جائے گی.لیکن ہماری دعائیں بھی یہی ہیں اور ہماری کوششیں بھی یہی ہیں کہ اس کا ہر قدم پہلے سے زیادہ آگے بڑھنے والا ہو

Page 222

219 فرموده ۱۹۶۹ء د و مشعل راه جلد دوم اور ہر نیا دور پہلے دور سے زیادہ بلندیوں کو حاصل کرنے والا ہو.اللہ تعالیٰ پر ہمیں یہی بھروسہ ہے کہ وہ اپنے فضل سے ایسا ہی کرے گا اور ہم جو اس کے نہایت ہی عاجز بندے ہیں ہماری کوششوں میں وہ برکت ڈالے گا اور ہماری دعاؤں کو وہ قبول فرمائے گا اور اس کے نتیجہ میں ہمارے کاموں میں وہ عظمت اور وہ شان پیدا ہوگی اور ہماری کوششوں کے وہ بہترین نتائج نکلیں گے جو دُنیا کے لئے معجزات بن کر ظاہر ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے ہمیشہ نواز تار ہے.آمین

Page 223

د مشعل راه جلد دوم د را فرموده ۱۹۷ء 220 ۱۳ اپریل ۱۹۷ء کو حضور نے ابادان نائیجیریا میں دانشوروں دیگر اہل علم حضرات اور یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب فرمایا حضرت خلیفہ اُسیح الثالث کے اس معرکۃ الآراء خطاب کا انگریزی سے ترجمہ کیا گیا ہے.بصیرت افروز اور معرکۃ الآراء خطاب حضور ۱۳ شہادت کو لیگوس سے ابادان تشریف لے گئے.یہ فاصلہ ۱۰۸ میل کے قریب ہے.ابادان کے احباب شہر سے باہر حضور کے استقبال کے لئے پہنچے ہوئے تھے.ماپو ہال میں حضور کا لیکچر تھا.ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.لوگ گیلریوں میں بھی کھڑے تھے اور کھڑکیوں کے باہر بھی اچھا خاصہ جمگھٹا تھا.حاضری ایک ہزار سے زائد تھی.خطاب سے قبل حضور کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا گیا.حضور کا خطاب انگریزی زبان میں تھا.جس کا ترجمہ مقامی زبان میں کیا گیا.سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - دو عظیم سرزمین کے عظیم فرزندانِ گرامی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں آپ سب کی خدمت میں سلامتی کا تحفہ پیش کرتا ہوں.میں بیان نہیں کر سکتا کہ آپ کے ملک میں آ کر اور اپنے آپ کو آپ لوگوں کے درمیان پا کر میں کس قدرخوش ہوں.مغربی افریقہ سے پچاس سال پرانا لگاؤ مغربی افریقہ کا علاقہ اور بالخصوص نائیجریا کا ملک پہلے پہل میرے شعوری ذہن میں آج سے پچاس سال قبل اُس وقت اُبھرا تھا جب کہ ابھی میں دس گیارہ سال کا تھا.یہ اُس زمانہ کی بات ہے کہ جب جماعت احمدیہ کے پہلے مبلغ اور معلم و مدرس نے آپ کی سرزمین پر قدم رکھا.اُس زمانہ میں سفر کرنا آسان نہ تھا اور فاصلے بہت طویل تھے.اُس وقت ایک مسافر یہاں سکول کھولنے مسجد میں تعمیر کرنے اور جماعتی مراکز قائم کرنے آپ لوگوں کے درمیان اکیلا اور تن تنہا آوارد ہوا.اُس اکیلے انسان کا یہ عزم کتنا عجیب اور دل پر اثر کرنے والا تھا! جیسا کہ آپ میں سے اکثر جانتے ہیں اس کے بعد سے دنیا کے اُس حصہ سے چل کر جس میں ہم رہتے ہیں اور زیادہ تعداد میں لوگ آپ لوگوں کے درمیان کام کرنے اور خدمات بجالانے یہاں آئے ہیں.اس عرصہ میں ہمارے اور آ

Page 224

221 فرموده ۱۹۷۰ ء د و مشعل راه جلد د دد ، دوم کے درمیان تعلقات اور روابط میں اضافہ ہوا ہے.اس کے نتیجہ میں ہم ایک دوسرے کو زیادہ بہتر طور پر جاننے اور سمجھنے لگے ہیں اور اسی طرح باہمی اعتماد میں بھی ترقی ہوئی ہے.۱۹۲۰ ء اور اس کے بعد کے زمانہ میں آپ صاحبان اور آپ کے دیگر ہم وطنوں کے متعلق جو معلومات ہم تک پہنچیں ان سے ہمارے جذبۂ شوق اور اشتیاق میں اضافہ ہوا.خاص طور پر جہاں تک میرا تعلق ہے میں اس وقت سے ہی اس بات کا متمنی تھا کہ میں جا کر بچشم خود اس ملک کو دیکھوں اور ان لوگوں کے حالات و واقعات سے بالمشافہ آگاہی حاصل کروں جن کی مہمان نوازی اور دیگر نوازشات کے ہم اُس زمانہ سے ہی مورد چلے آرہے ہیں.اپنے آپ کو یہاں آپ صاحبان کے درمیان پا کر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ خدا نے میرا ایک پرانا خواب پورا کر دکھایا ہے.افریقہ کا روشن اور درخشندہ مستقبل مجھے یہاں آ کر آپ کی تاریخ اور ثقافتی لحاظ سے آپ کے گرانقدر ماضی سے بہت کچھ آگاہی حاصل ہوئی ہے.میں بصیرت کی نظر سے دیکھ رہا ہوں اور یقیناً اور بہت سے لوگوں کا بھی یہ یہی خیال ہے کہ آپ کا مستقبل آپ کے ماضی سے کہیں زیادہ روشن اور درخشندہ و شاندار ہے.میں محسوس کرتا ہوں کہ افریقہ میں بادصبا کی مانند ایک عجیب خوشگوار ہوا چلنی شروع ہو چکی ہے.یہ ہوا ایک نئی تبدیلی کے آثار نیز نئی امیدوں اور امنگوں سے بھر پور و معمور ہے.یہ اہل افریقہ کو ایک نئی بیداری اور نئے حوصلوں سے ہمکنار کرنے والی ہے اور ساتھ ہی ایسے شواہد کی آئینہ دار ہے جن سے اہل افریقہ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے خوش آئند مقدرات کی نشاندہی ہوتی ہے.اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ تمام باتیں آپ کے لئے اور میرے لئے کس درجہ اہمیت کی حامل ہیں.اور آ ملاقات اور با ہم تبادلۂ خیالات کا یہ موقع میرے لئے کس درجہ مسرت انگیز ہوسکتا ہے.آپ کا روشن اور درخشندہ تر مستقبل جسے میں اپنی بصیرت کی آنکھ سے دیکھ رہا ہوں.نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے.اور چونکہ میں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ نو جوانوں کے درمیان کام کرنے میں ہی گزارا ہے اس لئے میری طرح آپ کو بھی اس بات پر منتجب نہیں ہونا چاہیئے کہ میں ایک خاص باطنی تحریک کے ماتحت فی الوقت بعض ایسی باتیں کہنا چاہتا ہوں جو نو جوانوں کے دلوں کو متاثر کرنے اور انہیں حرکت میں لانے والی ہوں.علمی ترقی کی جدو جہد اور اس کی اہمیت ނ جو چیز میرے قلب و ذہن پر سب سے زیادہ چھائی ہوئی ہے اور اس کے سوا اور کچھ کہنے یا بیان کرنے کی خواہش میں کر بھی کیسے کر سکتا ہوں؟ اور وہ یہ ہے کہ میں آپ لوگوں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ علمی ترقی کے لئے

Page 225

دو مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷ء 222 جد و جہد کرنا کس درجہ اہم ہے.اور یہ کہ اس جدو جہد کو کامیابی سے جاری رکھنے اور اسے مثمر ثمرات بنانے کا اسلامی طریق کیا ہے؟ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے تذکرے ہر شخص کی زبان پر ہیں.میں اس کے خلاف نہیں ہوں اور نہ اس سے بے رخی برتنے کا قائل ہوں اور میں اس سے بے رخی برت بھی کیسے سکتا ہوں.جب کہ میں جانتا ہوں کہ خدائے قادر مطلق نے آسمانوں اور زمین کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ انسان انہیں مسخر کر کے ان سے فائدہ اٹھائے.اور ان کی تسخیر بجز اس کے کیسے ممکن ہو سکتی ہے کہ علم حاصل کرنے میں صبر، ہمت اور استقلال سے کام لیا جائے اور پھر اس حاصل کردہ علم کو انسانی زندگی کی فلاح و بہبود نیز اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ مقصد کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جائے.الہذا میں سب سے پہلے تو حصول تعلیم کی جدو جہد میں آپ کی کامیابی کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس جدوجہد میں بامراد کرے.خواہ آپ قوانین قدرت اور ان کی کارفرمائی سے متعلق سائنسی علوم کا مطالعہ کر رہے ہوں یا پھر سوشل سائنس ، تاریخ اور ادب وغیرہ مضامین کے مطالعہ میں مصروف ہوں یا عملی اور پیشہ ورانہ سائنس کے مطالعہ میں منہمک ہوں یاد مینیاتی اور مذہبی سائنس میں درک حاصل کرنا آپ کا مطمع نظر ہو.الغرض علم کے کسی بھی شعبہ میں آپ مصروف کار ہوں میری دلی تمنا اور دعا ہے کہ تحصیل علم کے ہر میدان میں آپ کا قدم ترقی کی طرف بڑھتا چلا جائے اور کامیابی آپ کے قدم چومے.اس میں شک نہیں کہ علمی میدان میں ترقی کرنے اور کرتے چلے جانے کے لئے جدو جہد کرنا دنیا بھر کے نو جوانوں کا خصوصی حق ہے.لیکن اس ضمن میں جو بات میں آپکے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ سچائی یا صداقت ہی کا دوسرا نام علم ہے اور یہ کہ اسے حاصل کرنے کی مساعی اور جد و جہد کا ایک وہ طریق بھی ہے جس کی اسلام نشاندہی کرتا ہے.میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ اسلام کے پیش کردہ طریق کو اپنائیں اور پھر خود تجربہ کر کے دیکھیں کہ علمی جد و جہد کے بار آور ہونے کے لحاظ سے یہ بہترین طریق ہے یا نہیں.علمی ترقی کو مثمر ثمرات بنانے کا اسلامی طریق حصول علم کی جد و جہد کو بار آور کرنے کے سلسلہ میں اسلام نے جو طریق پیش کیا ہے.وہ دعا کے ذریعہ استمداد کا طریق ہے.میں ابھی آپ کو بتاؤں گا کہ دعا سے فی الاصل میری کیا مراد ہے؟ اور جب کہ آپ مطالعہ اور تحقیق کے میدان میں مصروف کار ہیں میں اس مخصوص طریق کو اپنانے کی طرف آپ کو کیوں متوجہ کر رہا ہوں؟ میرا نظریہ یہ ہے کہ آڑے وقتوں میں جب کہ علمی تحقیق کے دوران تمام راستے مسدود نظر آنے لگتے ہیں اور عقل اندھی اور بے بس ہو کر رہ جاتی ہے علم حقیقی تک رسائی دعا کے ذریعہ ہی ہوتی رہی ہے.بڑے بڑے دریافت کنندہ موجد اور عظیم سائنسدان دنیا میں ایسے گزرے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ

Page 226

223 فرموده ۱۹۷۰ء د و مشعل راه جلد دوم دد عقدہ کشائی کی گواہی دی ہے.لیکن آپ بجا طور پر ایسے سائنسدانوں کی بھی نشاندہی کر سکتے ہیں جو سرے سے اللہ تعالی کی ہستی پر ایمان ہی نہیں رکھتے یا اس قسم کے ایمان کو چنداں اہمیت نہیں دیتے اور نہ ہی وہ دعا اور اس کی اہمیت کے قائل ہیں.میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ بات صحیح ہے.یقین دنیا میں اس قسم کے سائنسدان بھی موجود ہیں.لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ایسے موجدوں اور سائنسدانوں کو بھی بسا اوقات غیب کے دروازے کو اس التجا اور درخواست کے ساتھ کھٹکھٹانا پڑا ہے کہ وہ اپنے غیب کے بعض راز ان پر منکشف کر کے ان کی عقدہ کشائی کرے.مشکل وقت میں غیبی مدد کے لئے ان کی یہ تڑپ اور لگن اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان رکھنے والے کی دعا سے بلحاظ مقصد و مدعا چنداں مختلف نہیں ہوتی.ایمان رکھنے والا یقین پر قائم ہو کر خدا تعالیٰ سے استمد ادکرتا اور اکثر اس کی جناب سے اپنی مراد پاتا ہے.وہ تجربہ کی رو سے جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندے کی پکار کوسنتا اور اس کے جواب میں رجوع برحمت ہوتا ہے اور اسے اپنے افضال وانعامات سے نوازتا ہے.ایمان نہ رکھنے والا بھی آڑے وقت میں غیر شعوری طور پر غیب سے استمد اد کا طالب ہوتا ہے اور بسا اوقات وہ بھی جناب الہی سے اپنی مراد کو پالیتا ہے.اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان رکھنے والا اور ایمان نہ رکھنے والا دونوں ہی استمداد کے لئے غیب کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دونوں ہی کو مدددی جاتی ہے.صرف فرق اتنا ہے کہ ایمان نہ رکھنے والا نہیں جانتا جب کہ ایمان رکھنے والا جانتا اور اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ وہ غیبی مددجس کے وہ دونوں میجی ہوتے ہیں اور جو انہیں میسر بھی آجاتی ہے قادر مطلق خدا کی طرف سے ہی آتی ہے جو ہم سب کا خالق اور پر وردگار ہے.اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان رکھنے والا اور ایمان نہ رکھنے والا دونوں ہی اس امید کے ساتھ دعا کا سہارا ڈھونڈتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں سے ان کی دستگیری ہوگی اور اس طرح عقدہ کشائی کی صورت نکل آئے گی.ایمان نہ رکھنے والے کو خود اس کا علم نہیں ہوتا کہ وہ دعا کرتا ہے نہ اسے یہ پتہ ہوتا ہے کہ وہ کس کے حضور دعا مانگتا ہے اور نہ وہ یہ جانتا ہے کہ وہ کونسی ہستی ہے جو اس کی دعا کوسنتی اور اسے قبولیت کے شرف سے نوازتی ہے.برخلاف اس کے ایمان رکھنے والا اپنے لیے تجربہ کی بناء پر جانتاہے کہ وہ دعا کرتا ہے اور کرتا بھی ہے اپنے خالق و مالک اور اپنے آقا سے جو اس پر عم اور تحقیق و دریافت کے دروازے کھولتا ہے.سوگو یا ایمان نہ رکھنے والا لاعلمی میں دعا مانگ رہا ہوتا ہے اور ایمان رکھنے والا یقین اور اعتماد کے ساتھ اپنے قادر و توانا خدا کو پکار رہا ہوتا ہے.دونوں ہی کی دعائیں قبولیت کے شرف سے نوازی جارہی ہوتی ہیں لیکن کتنا فرق ہے دونوں کی دعاؤں میں! اور وہ کتنی مختلف ہوتی ہیں ایک دوسرے سے! ہماری علمی پسماندگی اور اس کا علاج دونوں کی دعاؤں کا یہ باہمی فرق ہی ہے جس کی طرف فی الوقت میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.فرق یہ ہے کہ اگر تم عرفان ، اعتماد، بھروسہ اور یقین کے ساتھ دعا کرتے ہو تو اس امر کا زیادہ امکان ہے کہ تمہاری دعاسنی

Page 227

مشعل راه جلد دوم اور قبول کی جائیگی.فرموده ۱۹۷ء 224 اعتماد، بھروسہ اور یقین سے لبریز دعا کا ہماری پسماندگی کی موجودہ حالت کے دور ہونے سے گہرا تعلق ہے.آپ اور ہم اور اسی طرح ایشیا اور افریقہ کی دوسری قوموں پر علمی پسماندگی کا اعتراض وارد کیا جاتا ہے لیکن نہ آپ اور نہ ہم سدا علمی پسماندگی کا شکار رہے ہیں.ماضی میں ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب ہم ہی ترقی یافتہ شمار ہوتے تھے.اپنی ترقی کے اُس دور میں ہم نے نہ صرف الہیات کا عرفان حاصل کرنے میں دنیا کی رہنمائی کی بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے مادی علوم میں بھی ہم نے دنیا کی راہبری کا فرض خوش اسلوبی سے ادا کیا.ہماری ترقی اور عروج کا وہی زمانہ اب پھر لوٹ کر آنے والا ہے.آپ کے اور ہمارے لئے ایک دفعہ پھر روحانی اور مادی علوم کا مشعل بردار بننا مقدر ہے.جب وہ وقت آئے گا تو ہم میں سے وہی لوگ جو قدرتی وسائل و ذرائع اور قدرت کے وضع کردہ طریقوں کو جو ہم کو اور دوسروں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کئے گئے ہیں.دعا سے متحد کر دکھا ئیں گے یعنی جو علمی ترقی کی مادی کوششوں پر ہی اکتفا نہیں کریں گے بلکہ ساتھ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے قادرانہ تصرف فضل اور رحمت پر ایمان لا کر اور اس بارہ میں یقین سے مالا مال ہو کر دعا کے ذریعہ آسمانی مدد اور راہنمائی کے طالب ہوں گے وہی لوگ ترقی کے میدان میں پہلے سے کہیں بڑھ کر تیز رفتاری کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے اور دنیا کے رہبر و راہنما ثابت ہوں گے.وہ ایسے لوگ ہوں گے جنہیں اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کے بارہ میں کوئی مغالطہ نہیں ہوگا.وہ ہر گز ایسے خود سر نہیں ہوں گے کہ ہر بات کو اپنی ہی طرف منسوب کر کے یہ دعوی کریں کہ انہوں نے اپنی طاقت اور اپنی صلاحیت کے بل پر سب کچھ کیا ہے.وہ عاجزی اور انکساری کے اوصاف سے متصف ہوں گے.وہ نہ خود تباہی کی سمت میں قدم اٹھائیں گے اور نہ دوسروں کو تباہی کی طرف لے جانے والے ہوں گے.برخلاف اس کے وہ تو دوسروں کو اس تباہی سے بچانے اور محفوظ کرنے والے ہوں گے جس کے غار میں حصول علم کی اندھی اور بے لگام جد و جہد کا ہم سب کو دھکیل دینا یقینی ہے.قرآن مجید کا ایک تاکیدی حکم اور اس کی حکمت بعض اور باتیں بھی ہیں جن پر غور کرنے کی میں آپ کو دعوت دینا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن مجید میں بار بار توجہ دلائی ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اس پر پوری توجہ کے ساتھ غور کرتے رہیں.اس کا منشاء یہ ہے کہ ہم خود اپنے وجود اپنے بے حیثیت آغاز اپنی ہر آن بڑھتی ہوئی امنگوں اور خواہشات اپنی زندگی اور اپنی موت اور اگلے جہان کی غیر محدود حیات پر غور کریں اور ہمیشہ ان تمام امور کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے رہیں.مدعا اور مقصد یہ ہے کہ ہمارے خصوصی مفادات کچھ ہی تقاضا کریں اور ہمارے مطالعہ اور دریافت کی مخصوص راہیں خواہ کوئی ہوں ، ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے ماحول اور ارد گرد کی اشیاء سے خواہ وہ انسان ہوں یا جانور پرندے ہوں یا بے جان مادی چیزیں ہم ان سے بیگانہ اور لاتعلق نہ رہیں.مشہور مقولہ ہے کہ اچنبہ اور

Page 228

225 فرموده۰ ۱۹۷ ء د و مشعل راه جلد دوم دد استعجاب علم کی کنجی ہے.ہمیں اپنے ہم جنس بنی نوع انسان کے مفادات اور ان کی امنگوں اور خواہشات سے کسی حال میں بھی بے رخی نہیں برتنی چاہیئے.ہمیں ان ذمہ داریوں اور فرائض سے ہمیشہ باخبر رہنا چاہیئے.جو انفرادی سطح پر باہمی تعلقات کے ضمن میں نیز اجتماعی سطح پر بنی نوع انسان کے مجموعی مفادات کے ضمن میں اور ہم سب کے خالق و مالک کے حقوق یعنی حقوق اللہ کے ضمن میں ہم پر عائد ہوتے ہیں.اگر ہم اس صاف اور سیدھی سی بات کا خیال رکھیں اور اس بارہ میں پوری احتیاط سے کام لیں تو ہم ان تمام خطرات سے جو پر مسرت اور خوشحالی کی بھر پور زندگی کو لاحق ہیں اور جو تہذیب نو کے سر پر منڈلا رہے ہیں بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور تخلیق کائنات کے عظیم مقصد سے ہم آہنگی ہمیں نصیب ہو جائیگی.ہمیں سوچنا اور غور کرنا چاہیئے کہ ہم ہیں کیا اور ہماری ہستی کیا ہے؟ ہم اللہ تعالیٰ کی عاجز مخلوق ہی تو ہیں جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے محدود اختیارات سونپے گئے ہیں اور جو جز وی طور پر آزاد پیدا کی گئی ہے.اس عاجز مخلوق (یعنی انسان ) کو اس غرض کو پورا کرنا چاہیئے جس غرض کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے اور وہ یہی ہے کہ وہ اپنے خالق کے حضور کمال عاجزی اور تذلیل کے ساتھ جھکے.اگر ہم اپنے ماحول اور گردو پیش سے تخلیق کائنات کے عظیم مقصد سے اور اپنے خالق سے باخبر ہو جاتے ہیں اور ان سب سے آگاہی حاصل کر لیتے ہیں تو پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ ہم دنیا میں اس طرح زندگی نہ بسر کریں کہ گویا ہمیں اس امر کا کوئی احساس ہی نہ ہو کہ یہاں دوسرے لوگ بھی موجود ہیں یا یہ کہ ظلم کے ہمارے اپنے میدان کے علاوہ بعض اور میدان بھی ہیں یا یہ کہ ہماری پیدائش اور ہمارے وجود کی کوئی علت غائی بھی ہے.یعنی یہ کہ رضائے الہی کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کر کے خدا سے صلح کرنا.ایسی صورت میں تو ہمیں بدرجہ اولی ان سب باتوں کا پورا پورا احساس ہونا چاہیئے.جدید سائنسی علوم کی ظاہری واقفیت بھی اچھا اثر پیدا کئے بغیر نہیں رہتی.تمام سائنسی علوم ہم پر اللہ تعالیٰ کی صفت خلق میں کارفرما مقصدیت اور معنویت کو واضح کرتے ہیں.بایں ہمہ سائنس سائنس میں بھی فرق ہوتا ہے.ایک فرق یہ ہے کہ بعض سائنسی علوم نسبتا زیادہ خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں اور بعض میں نسبتا زیادہ عمومیت پائی جاتی ہے.زیادہ عمومیت کے حامل وہ سائنسی علوم ہوتے ہیں جو انسان پر بحیثیت مجموعی بحث کرتے ہیں.میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسے سائنسی علوم میں آپ کو زیادہ دلچسپی لینی چاہیئے اور ان کے مطالعہ کی طرف آپ کو زیادہ راغب ہونا چاہیئے.کیونکہ یہ علوم آپ کو اُس علت غائی اور مقصد کے زیادہ قریب لے جانے والے ہیں جس سے ہماری زندگی میں معنویت پیدا ہوتی ہے اور اس زندگی کی اہمیت ہم پر آشکار ہوتی ہے.لہذا علوم کے ایسے میدانوں میں آپ کے لئے زیادہ جاذبیت ہونی چاہیئے اور ان کے مطالعہ کی طرف آپ کو زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہیئے.حياة الآخرة کا عقیدہ اور علمی ترقی پر اس کا اثر ہمارا علوم جدیدہ کی رسمی اور روایتی تقسیم سے زیادہ متاثر ہونا سود مند نہیں ہے.ہمیں ان علوم کا اپنے مخصوص

Page 229

د د مشعل راه جلد دوم فرموده۰ ۱۹۷ء 226 طریق سے جائزہ لینا چاہیئے.ہمیں اگر موقع ملے تو ایسے علوم منتخب کرنے چاہئیں جو انسان سے یہ ہیت مجموعی واقفیت پیدا کرنے والے ہوں.یعنی جن سے انسان کی صلاحیتوں، دلچسپیوں امنگوں ذمہ داریوں اور فرائض وغیرہ سے آگاہی حاصل ہوتی ہو حتی کہ ہمیں ایسے علوم اور کتب کے مطالعہ کو بھی ترجیح دینی چاہیئے جو ہم میں اگلے جہاں کی زندگی کے متعلق فکرمندی پیدا کرنے والے ہوں.اگر ہم حصول علم کی جدوجہد کے متعلق اپنے نظریہ اور رویہ کی اس طرح اصلاح کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو پھر ہمیں بہت جلد یہ احساس ہو جائے گا کہ اس دنیا کی زندگی حیاۃ الآخرۃ کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی حتی کہ ان میں تقابل کے لئے پہاڑ اور رائی کی مثال بھی یکسر نا کافی ہے.اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے بعد وقتی مفادات باہمی جھگڑوں نفرت و حقارت اور ایک دوسرے کو گرانے کے متعلق ہمارے نقطۂ نظر میں ایک انقلاب آئے بغیر نہیں رہتا.اس ایمان ویقین کو اپنانے سے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے نو جوانوں کی حصول علم کی جدوجہد میں ایک نئی کیفیت ایک نئی وسعت اور ایک نئی گہرائی و گیرائی پیدا ہوسکتی ہے.ابھی ہم اس حقیقت سے پوری طرح باخبر نہیں ہیں کہ اس دنیا کی تمام اشیاء اپنے اندر غیر محدود خواص اور غیر محدود قو تیں رکھتی ہیں.اگر علم کی اور خواص الاشیاء معلوم کرنے کی دوڑ میں ہم کسی نہ کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں تو پھر ہمیں محض اس بناء پر ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں.ہمیں ہرگز بھی یہ خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ ہراہم بات دریافت کی جاچکی ہے اور اب کوئی ایسی اہم بات باقی نہیں ہے جسے ہم دریافت کریں یا کر سکیں.ایک حقیقی سائنسدان جس نے نیچر کی لامحدود وسعتوں اور ان لا محدود خواص کا جو نیچر کی جملہ اشیاء میں ودیعت کئے گئے ہیں کچھ بھی مطالعہ کیا ہے نہ کبھی ایسی بات سوچے گا اور نہ کبھی اسے زبان پر لائے گا.سائنس کے صرف کمتر اور گھٹیا درجہ کے طلباء ہی ایسی بات سوچ سکتے ہیں اور زبان پر لا سکتے ہیں.کم تر درجہ کے ایسے سائنسدانوں کو جاننا اور یا درکھنا چاہیئے کہ ہمارے خالق و مالک خدا کی بنائی ہوئی کائنات اپنی وسعت کے لحاظ سے غیر محدود ہے اور اس کی پیدا کردہ جملہ اشیاء کے خواص اور طاقتوں کی بھی کوئی انتہا نہیں ہے اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی غیر محدود طاقتوں اور صفات کے ایک جلوہ کی حیثیت رکھتا ہے.خواص الاشیاء دریافت کرنے کا سفر کبھی ختم نہیں ہو سکتا.نوجوان طلباء کے نام ضروری پیغام لہذا میرا پیغام یہ ہے کہ اپنی پوری ہمت اور پوری طاقت کو مجتمع کر کے علمی تحقیق میں لگ جاؤ.ماضی میں جو کچھ بھی دریافتیں ہو چکی ہیں تمہارے لئے ان سے کہیں بڑھ کر دریافت کرنے کا ابھی موقع ہے اور ہمیشہ رہے گا.تمہارے لیے علمی تحقیق کے میدان میں اپنے جو ہر دکھانے کے لئے بہت کچھ محفوظ ہے بلکہ اتنا کچھ محفوظ ہے کہ تم اسے تصور میں بھی نہیں لا سکتے.دعا کی اہمیت اور اللہ تعالیٰ کی غیر محدود صفات اور قدرتوں سے آگاہ ہونے کے نتیجہ میں اس وقت جو علم تم حاصل کرو گے وہ نہ صرف پہلے کی نسبت زیادہ وسیع اور عمیق ہوگا بلکہ وہ زیادہ بامعنی اور

Page 230

227 فرموده ۱۹۷۰ء دو مشعل راه جلد دوم دد با مقصد ہوگا اور تخلیق کائنات کے عظیم مقصد سے زیادہ مطابقت اور ہم آہنگی رکھنے والا ہوگا اور اس طرح ہمارے خالق و مالک ہمارے آقا اور ہمارے معبود حقیقی کی رضا اور خوشنودی پر منتج ہو کر صحیح معنوں میں فائز المرام کرنے والا ہوگا.پس علمی ترقی کی جدوجہد میں دعا کی اہمیت اور اس کی برکات سے متعلق میں نے جو کچھ بیان کیا ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرو اور یاد رکھو کہ دعا اس وقت تک اپنے کمال کو نہیں پہنچتی جب تک کہ خدا تعالیٰ کی جو آسمانوں اور زمین اور ان میں موجود ہر شے کا خالق و مالک اور پرورش کرنے والا ہے، صحیح معرفت حاصل نہ ہو.میری یہی نصیحت ہے کہ اس کی طرف جھکو خواہ ابھی تمہیں کامل معرفت حاصل نہ ہوئی ہو.وہ تمہاری طرف متوجہ ہوگا اور تمہاری دعا کا جواب دے گا اور ان تمام علمی کاوشوں میں جو تم اس کی خاطر اور اس کی مخلوق کی خاطر اٹھاؤ گے تمہارا ہادی اور تمہارا راہنما بن جائے گا.یہ ایک ایسا طریق عمل ہے جو حصول علم کی جدوجہد کو حقیقی کامیابی سے ہمکنار کرنے اور ایسے مثمر ثمرات بنانے کے لحاظ سے بہت موزوں اور مناسب ند ہی تعلیم اور اس کی بے انداز اہمیت ایک اور کام بھی ہے جو آپ لوگوں کو اس ضمن میں کرنا چاہیئے اور وہ یہ ہے کہ دوسرے علوم کو یکسر نظر انداز کر کے کسی ایک علم میں خصوصی مہارت پیدا کرنے کی خاطر اس پر ضرورت سے زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے طریق اور اس کے غیر صحت مندانہ اثر کو زائل کرنے کی آپ کوشش کریں.اس قسم کی مہارت جدید علم اور جدید تعلیم کی ایک ناگزیرو ناگوار خصوصیت بن کر رہ گئی ہے.میں جانتا ہوں کہ اس قسم کی مہارت ایک حد تک ناگزیر بھی ہوتی ہے اور مفید بھی.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شعبہ علم میں اس کی بڑھتی ہوئی وسعت کے پیش نظر بہت کچھ جاننا اور اس پر عبور حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے.اور پھر علم کے نئے نئے شعبے نکلتے چلے آتے ہیں نتیجتاً کوئی شخص بھی علم کے ایک یا دو شعبوں سے زیادہ شعبوں کی طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہو سکتا.پھر بھی میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ تعلیم اور تحقیق کے میدان میں موجودہ صورت حال کی اصلاح کے لئے کچھ نہ کچھ کیا جاسکتا ہے اور کرنا چاہیئے تا کہ انسان یک طرفہ علوم میں ہی گم ہو کر نہ رہ جائے.ایک مناسب نقطہ نظر اور طرز عمل اختیار کرنے سے بہت کچھ اصلاح کی صورت پیدا ہو سکتی ہے.اس سلسلہ میں میں جس نقطہ نظر اور طرز عمل کا حامی ہوں وہ ایک ایسا نقطہ نظر اور طرز عمل ہے جو آپ کے اندر اپنے شعبہ علم کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی تیر انگیز دلچسپی کو ابھارنے والا ہے.یہ ایک ایسا نقطہ نظر اور طرزعمل ہے جو بالآ خر آپ میں یہ صلاحیت پیدا کر دیتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اور پوری کی پوری کا ئنات کو بمع اس کے حسن، اس کے جاہ و جلال اور اس کی مقصدیت کے یہ ہیت مجموعی دیکھیں اور اسی اعتبار سے اس پر غور کریں.اس نقطہ نظر اور اس طرز عمل کو ہم آزادانہ ماحول میں مذہبی تعلیم کو تمام سطحوں اور تمام درجوں میں رائج کر کے فروغ دے سکتے ہیں.مذہبی تعلیم کا جدید نظام تعلیم میں از خود در آنے والی اس نا گوار صورت حال

Page 231

فرموده ۱۹۷۰ء 228 د مشعل راه جلد دوم پر بہت صحت مند اور متوازن اثر پڑے گا.تعلیم یافتہ مردوں اور عورتوں کی آئندہ نسلوں کے ذہنوں کو نہ ہی تعلیم اللہ تعالیٰ کی طرف جو ہمارا خالق و مالک اور پروردگار ہے پھیر دے گی.ذرا سوچئے اور غور کیجئے اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نئے حقائق دریافت کرنے کی رفتار بہت تیز ہو جائے گی.نئے علم کی تلاش ایسی سمتوں میں کی جائے گی اور ایسے خطوط پر آگے بڑھے گی جو ہماری جسمانی اخلاقی اور روحانی بہتری اور خوشحالی کے عین مطابق ہوں گے.اس کے نتیجہ میں ہم ایک دوسرے کے متعلق اور دنیا کے کل انسانوں کے متعلق یہ سوچنا اور سمجھنا شروع کردیں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوق ہیں جنہیں زندہ رہنے اور خوشحالی سے ہمکنار ہونے کا مساویانہ حق حاصل ہے اور یہ کہ ان سب پر خود اپنے بارہ میں اپنے ہم جنس ساتھیوں کے بارہ میں اور اللہ تعالیٰ کے بارہ میں بعض فرائض عائد ہوتے ہیں جنہیں بجالانا ضروری ہے.ایسا نقطہ نظر اور رویہ ہماری حصول علم کی جد و جہد کو بہر نوع مناسب مقامات پر اور مناسب حدود کے اندر رکھنے میں بہت ممد ثابت ہوگا.اس کے نتیجہ میں ہماری حصول علم کی جد و جہد ہم میں عجز وانکسار پیدا کرے گی نہ کہ کبروغرور اور نخوت.ہماری زندگیاں خود ہمارے لئے اور تمام دوسرے انسانوں کے لئے زیادہ اہم اور زیادہ مفید بن جائیں گی.علم ہمیں ضرور حاصل کرنا چاہیئے لیکن جوعلم ایسا کر دکھانے میں ناکام رہتا ہے.اس کی ناکامی ظاہر وباہر ہے.بنیادی طور پر ہی وہ ناکامی سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دُعا میں دعا کرتا ہوں کہ ہمارا رحمن و رحیم خدا ایک بہتر زندگی کے لئے ہماری کوششوں کا رُخ مناسب سمت کی طرف پھیر دے.وہ اپنے فضل سے ہمیں اُن غلطیوں سے بچالے جو ہم سے سرزد ہوسکتی ہوں اور ہماری ان غلطیوں کو معاف کر دے جو ہم سے سرزد ہو چکی ہوں.وہ ہماری اچھی نیتوں اور نیک ارادوں پر نظر کرتے ہوئے ہماری حقیر کوششوں اور تھوڑے اعمال کو ہی اپنے فضل سے قبول فرمالے.اور خواہ ہم اس کے مستحق ہوں یا نہ ہوں وہ محض اپنے فضل سے ہی ہمیں اپنی تائید و نصرت اور اپنی رضا اور اپنی خوشنودی سے نوازے.وہ ان لوگوں کے قلوب واذہان میں دوبارہ جا داخل ہو.جنہوں نے اسے بھلا دیا ہے اور اپنے خیالات تک سے اسے باہر نکال دیا ہے.وہ انہیں اپنے آپ پر اور ان اسباب پر جو انہیں حاصل ہیں بھروسہ کرنے کی حماقت اور اس کے برے انجام سے بچالے.اے قادر و عزیز خدا! اے تمام اشیاء اور ان کے خواص کے خالق ! اے ہمارے ہادی و ناصر ! حقیقی اور کار آمد علم کے دروازے ہمیشہ تیرے ہی فضل اور تیری ہی رحمت کے نتیجہ میں کھلتے رہے ہیں.ان دروازوں کو ہم میں سے ان پر کھول دے جو تلاش علم کی جدوجہد میں پیچھے رہ گئے ہیں.ان دروازوں کو ہم پر بھی کھول اور ہماری آئندہ پر کھولتا رہ تا کہ تیری پیدا کردہ ہر چیز کی ماہیت کو سمجھنے والی بصیرت ہمیں ملے.تاکہ ہم ہر اس چیز سے آگاہ نسلوں پر

Page 232

229 فرموده ۱۹۷۰ء د مشعل راه جلد دوم دد اور باخبر ہوں جسے تو پسند کرتا اور جس سے تو خوش ہوتا ہے اور تا کہ ہم ان راستوں پر چلیں جو ان مقاصد کو پورا کرنے والے ہیں جن کی خاطر تو نے ہمیں پیدا کیا ہے.اے ہمارے آقا اور اے ہمارے مالک ! ایسا کر کہ ہم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں اور ایک دوسرے کی خدمت بجالائیں اور سب سے بڑھ کر ہم پر یہ فضل فرما کہ ہم تجھ سے محبت کرنے والے ہوں اور ہمیں اپنا حقیقی عبد بنے کی توفیق عطا کر اور ایسا کر کہ ہم ہمیشہ ہی تیرے احسانوں کو یاد کر کے تیرے شکر گزار بندے بنے رہیں.اور ہم علم اور نئی دریافتوں کی تلاش کے اہل ثابت ہوں جس کی تڑپ اور لگن اپنے فضل اور اپنی حکمت بالغہ کے ما تحت تو نے ہمارے اندر پیدا کی ہے.اور جو علم ہمیں حاصل ہوا اور جونئی دریافتیں ہم کریں وہ ہمیں ایک دوسرے کے قریب لانے میں اور تیرے مقاصد تیری منشاء اور تیرے ارادہ کے آگے سر تسلیم خم کرنے میں ہمارے لئے مدد معاون ثابت ہوں.آمین.اے خدا تو ایسا ہی کر.( ترجمه از مسعود احمد دہلوی.الفضل ۹ر جون ۱۹۷۰ء)

Page 233

دمشعل راه جلد دوم د را فرموده ۱۹۷ء 230 سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحم اللہ تعالی الیہ دورہ مغربی افریقہ کے اختتام پرلندن تشریف لے گئے تھے.وہاں قیام کے دوران مجلس خدام الاحمدیہ کی خواہش پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے محمود ہال میں مجلس خدام الاحمدیہ لندن کے اراکین سے ایک روح پرور خطاب فرمایا.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- بنی نوع انسان کے خادم بن جائیں خطبہ جمعہ میں زیادہ تر آپ خدام کو ہی میں نے خطاب کیا تھا.اس وقت مختصراً بعض باتیں اور کہ دیتا ہوں.اول یہ کہ خدمت جس کا بیج آپ نے لگایا ہے ایک ایسی طاقت اپنے اندر رکھتی ہے جو دلوں کو موہ لیتی ہے.بنی نوع کے خادم بن جائیں اگر آپ حقیقی معنوں میں بنی نوع انسان کے خادم بن جائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بنایا ہے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ دنیا کے دل آپ کی طرف متوجہ نہ ہوں اور آپ کے نور سے نور لینے کی خواہش ان کے دلوں میں پیدا نہ ہو.دنیا میں نفرت اور دشمنی زوروں پر ہے.محبت ہمدردی غمخواری اور خدمت کے جذبات بہت کم نظر آتے ہیں.بسا اوقات منہ پر تو محبت، ہمدردی یا خدمت کے کلمات ہوتے ہیں لیکن جب ہم انہی لوگوں کے اعمال کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ان حسین الفاظ کے پیچھے ایک نہایت ہی قابل نفرت رُوح کام کر رہی ہے.افریقہ میں جہاں کا دورہ کر کے ابھی میں آیا ہوں بظاہر محبت کا پیغام لے کر ہی ان ممالک کی فوجوں کے آگے چلنے والے پادری وہاں پہنچے تھے مگر اس آواز کے پیچھے جو بھیانک کھیل کھیلا گیا.آج اس کا احساس ان اقوام کو ہو گیا ہے اور وہ سمجھ گئی ہیں کہ محبت کا دعوی تھا مگر Exploitation ان کا مقصد تھا.ان ممالک کے رہنے والوں کو میں نے بڑے پیار کے ساتھ مگر بڑے زور کے ساتھ یہ سمجھایا کہ جو ہونا تھا ہو چکا.اپنے ماضی کی طرف اب مت دیکھو مستقبل کی فکر کرو اور آگے بڑھو.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دماغ بھی دیئے ہیں اور مادی ذرائع بھی.جو اقوام آج تمہیں اپنے سے صدیوں آگے نظر آتی ہیں ان اقوام کے پہلو بہ پہلو تم بھی ترقی کر سکتے ہو بشرطیکہ تم اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرو.محنت سے کام لو اور دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکوتا کہ تمہاری محنت ثمر آور ہو اگر تمہاری نیتیں درست اور تمہارے دلوں میں اخلاص ہو تو تمہیں اللہ تعالیٰ ان سے بھی بڑھ کر علوم دے دے گا.

Page 234

231 فرموده ۱۹۷۰ء د و مشعل راه جلد دوم دد احمدی نے آگے ہی آگے بڑھنا ہے ہم نے جواحدی ہیں ساری دنیا سے آگے بڑھ جانا ہے یا یوں کہو کہ ساری دنیا کو ساتھ لے کر آگے ہی آگے ڑھتے چلے جانا ہے.پہلے ہم آہستہ چلا کرتے تھے.مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ دوڑنے کا وقت آ گیا ہے.ہمیں ارنى حقائق الاشیاء کی دعا سکھائی گئی ہے.یعنی اے خدا ہمیں ” حقائق زندگی کا علم اور شناخت عطا کر.اگر ہم حقائق زندگی کو سمجھیں تو یہ بات سمجھنی مشکل نہیں کہ دنیا اس وقت محبت پیار ہمدردی، غمخواری اور مساوات کے پیغام کی پیاسی ہے اور صرف ہم ہی ان کی پیاس کو بجھا سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فرشتے جس رنگ میں دلوں میں تبدیلی پیدا کر رہے ہیں اسے دیکھ کر انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے.میں نے شاید پہلے بھی بتایا تھا کہ نائیجیریا میں ان ہزاروں احمدیوں کے علاوہ جن سے میں نے ملاقات کی سڑکوں کے کناروں پر بلا مبالغہ ۵۰٬۰۰۰ سے ایک لاکھ تک عیسائیوں کو خوشی سے اچھلتے اور ناچتے ہوئے میں نے دیکھا ہے وہ ہمیں دیکھ کر اپنے طریق پر خوشی کا اظہار کرنے لگ جاتے تھے.ایسا کیوں کرتے تھے شاید انہیں بھی معلوم نہ ہو لیکن ہمیں معلوم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ وعدہ دیا ہوا ہے کہ آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے اور لوگوں کے دلوں میں اللہ اور محمداور محمد کے عظیم فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت پیدا کریں گے.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایک عارف کی دُعا عارفانہ ہوتی ہے لیکن وہ لوگ جو خدا کو نہیں پہچانتے وہ بھی علوم کے میدانوں میں آگے بڑھتے ہوئے ایک ایسے مقام پر پہنچتے ہیں کہ اندھیرے کی دیوار ان کے سامنے آجاتی ہے اور آگے بڑھنا ناممکن ہو جاتا ہے.تب وہ ایک غیر مرئی طاقت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس وقت اللہ تعالیٰ باوجود اس کے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ لوگ مجھے شناخت نہیں کرتے لیکن اس لئے کہ اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں اور اپنی طاقت کے علاوہ کسی اور غیر مرئی طاقت سے نصرت حاصل کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں وہ اسی کو دعا سمجھتا ہے اور اس دعا کو قبول کرتا ہے.اس طرح روشنی ان پر ظاہر ہو جاتی ہے اور علوم کے دروازے ان پر کھل جاتے ہیں.پس اگر چہ وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ کیوں خوش ہوئے مگر ہمیں معلوم ہے کہ وہ کیوں خوش ہوئے.ان کے درمیان نبی کریم علیہ کے عظیم روحانی فرزند کا نائب اور خلیفہ موجود تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام نہیں - بھولنا چاہیئے.جسے دیکھ کر وہ خوشی کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکتے تھے.حضرت مسیح موعود کا مقام جو نبی اکرم علی اللہ نگاہ میں ہے وہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیئے.نبی کریم صلعم کو اللہ تعالیٰ نے کوثر کا وعدہ دیا تھا اور اس وعدہ کو پورا کیا.اس وقت سے لے کر اس وقت تک اربوں ارب انسان اس بات پر فخر کرتے رہے ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کی غلامی صلى الله میں ہیں اور خدا جانے کتنے ارب انسان قیامت تک پیدا ہوں گے جن کو اس بات پر فخر ہوگا کہ وہ نبی کریم علیہ کی طرف منسوب ہورہے ہیں.ان تمام اربوں ارب انسانوں میں سے نبی کریم ﷺ نے صرف ایک روحانی فرزند کو منتخب کیا اور اپنی اُمت سے کہا کہ تم میں سے جس کو بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے اور وہ اُس کا زمانہ پائے تو میرا سلام اُسے پہنچانا.ساری امت محمدیہ میں سے صرف ایک کا انتخاب کیا اور اسے سلام پہنچانے کی تاکید کی.

Page 235

فرموده ۱۹۷ء 232 مشعل راه جلد دوم یہ کوئی معمولی مقام نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی نگاہ میں دیا.ہم احمدی بسا اوقات اس بات کو بھول جاتے اور دنیا کی الجھنوں میں پھنس جاتے ہیں.اگر ہمیں یہ احساس ہو اگر ہمارے دل اس بات پر یقین رکھتے ہوں کہ ہم نبی اکرم کے اس روحانی فرزند کی طرف منسوب ہونے والے ہیں جو امت محمدیہ میں ایک فرد یکتا تھا تو ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگ جائیں.ہر نسل کو ایک انقلاب پہنی میں سے گزرنا ضروری ہے.اس کے بغیر محبت پیار، مساوات کا پیغام ایک نسل سے دوسری کی طرف منتقل نہیں ہو سکتا.ہمارے نوجوان کو یہ احساس ہونا چاہیئے کہ ایک عظیم ذمہ داری اُس کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے اور وہی اس کا ذمہ دار ہے.دوسروں کی طرف نہ دیکھے بلکہ ہر شخص اپنی طرف دیکھے اور یہ سمجھے کہ وہی اس بات کا ذمہ دار ہے کہ نبی اکرم کے عظیم پیغام کو دنیا تک پہنچائے.اگر یہ احساس پیدا ہو جائے اور یہ احساس تبھی پیدا ہوسکتا ہے اگر ہم یہ سمجھیں کہ ہم اس عظیم روحانی فرزند کی طرف منسوب ہونے والے ہیں جس اکیلے نبی کریم ﷺ نے اپنے سلام کے لئے چنا.اگر تمام نو جوانوں میں یہ احساس پیدا ہو جائے تو ہم جو بڑی عمر کے ہیں ان کی فکر دور ہو جاتی ہے اور ہم اس یقین کے ساتھ اس دنیا سے جائیں گے کہ ہمارے بعد کوئی خلا پیدا نہیں ہوگا بلکہ اس نسل کے بعد اگلی نسل ہم سے بہتر طور پر اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے والی ہوگی.پس بڑوں، چھوٹوں، مردوں، عورتوں سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ انتہائی کوشش کر کے اسلام اور احمدیت کو دنیا میں غالب کریں.افریقہ احمدیت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے صلى الله جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس وقت افریقہ احمدیت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایک تبدیلی پیدا کی ہے.احمدیت سے ان کا پیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کا عشق صلى الله اس وجہ سے ہے کہ حضرت مسیح موعود کی بدولت انہوں نے حضرت محمد ﷺ کا نور اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کیا اور اُس پیار کو دیکھا جو سمندر کی طرح تمام بنی نوع انسان کے لئے حضرت رسول کریم صلعم کے سینہ میں موجیں مار رہا تھا.متعدد مقامات پر جب میں نے ان کو یہ کہا کہ صرف تھیوری کے طور پر نہیں بلکہ نبی اکرم اللہ نے عملاً تمہارے اور غیر کے درمیان مساوات کو قائم کیا ہے.اور میں نے انہیں بتایا کہ کس طرح فتح مکہ کے موقع پر آپ نے ایک جھنڈا تیار کیا اور اس جھنڈے کا نام بلال کا جھنڈا رکھا اور سرداران مکہ میں اُن کو اُن کی زبان میں کہا کرتا تھا (Paramount Chiefs Of Mecca) سے کہا کہ تم اسے غلام سمجھتے تھے اور حقیر جانتے تھے.تم اس کے رنگ کو دیکھتے تھے اور دل کے نور کو نہیں پہنچانتے تھے.تم نے اسے ذلیل سمجھا اور ہزار قسم دیکھ اسے پہنچائے.ایسے ایسے دکھ کہ جن کے تصور سے بھی ہمارے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں آج میں یہ جھنڈا بلال کا جھنڈا کھڑا کرتا ہوں اور تمہیں یہ کہتا ہوں کہ انسان اور انسان میں کوئی فرق نہیں ہے اگر آج تم اپنی جان کی حفاظت اور اپنی عزت کی امان چاہتے ہوں تو اس جھنڈے کے نیچے جمع ہو جاؤ.کتنا عظیم مظاہرہ تھا مساوات انسانی کا.اور جب میں دس

Page 236

233 فرموده ۱۹۷۰ ء د و مشعل راه جلد دوم دد بارہ ہزار کے احمدی مجمع میں یہ بات کہتا تھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اچھل پڑے ہیں اور آسمانوں کی طرف بلند ہونا شروع ہو گئے ہیں اور جب غیر یہ بات سنتا تھا تو اثر قبول کئے بغیر نہ رہ سکتا تھا.ان کی سمجھ میں یہ آ گیا ہے کہ اس وقت تک جتنے پیار اور مساوات کے پیغام ہم تک پہنچے ہیں وہ سب دجل کے پیغام تھے عملاً ہمارے ساتھ کسی نے پیار نہیں کیا، کسی نے محبت نہیں کی کسی نے ہمیں اپنے جیسا نہیں سمجھا کسی نے ہمارے ساتھ مساوات کا سلوک نہیں کیا، کسی نے ہمیں اپنا بھائی نہ جانا.ہر ایک جو آیا وہ لوٹ مار کی طرف متوجہ رہا.اُس نے ہمیں حقیر جانا اور ہماری کوئی خدمت نہیں کی لیکن یہ ایک ایسی جماعت ہے جو ۵۰ سال یہاں موجود ہے اور ہماری خدمت کر رہی ہے.اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ۵۰ سالہ جماعت احمدیہ کی خدمت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت ریہ کے خلیفہ کو موقع دیا کہ وہ وہاں جائے اور انہیں مخاطب کرے اور میرے پاس یہ ایک زبردست دلیل تھی.میں انہیں کہتا تھا کہ ہم ۵۰ سال سے تمہارے پاس ہیں اور تم میں سے ہر ایک اس بات کا گواہ ہے کہ تمہارے مالوں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں.ہمارے Clinics اور ہیلتھ سینٹروں نے بہت کمایا.صرف کا نو کے ایک سینٹر نے ہی تقریب ۱۵ ہزار پونڈ سٹرلنگ کمایا اور ایک ایک پیسہ وہیں انوسٹ کر دیا.اب وہ ایک نہایت خوبصورت ہسپتال ہے.تمہاری حکومتیں جانتی ہیں کہ ہم نے تمہاری سیاست میں کبھی دخل اندازی نہیں کی.خدا کی شان عجیب ہوتی ہے بندہ تو بڑا عاجز ہے اور غیب کا علم نہیں رکھتا.اب جب نائیجیریا میں باغیوں نے ہتھیار ڈالے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ ڈالا کہ میں اپنی جماعت کو ایک خاص پیغام بھیجوں.یہ سفر پر روانگی سے چند روز قبل کی بات ہے.چنانچہ میں نے ربوہ سے تار کے ذریعہ جماعت کے نام پیغام بھیجا اور ان کو کہا کہ تم آزادانہ طور پر Rehabilitation کا کام مت کرو بلکہ رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات حکومت کو پیش کر دو اور جو مالی قربانی تم کر سکتے ہوحکومت کو دے دو اور یہ یاد رکھو کہ اب اس موقع پر جب جنگ ختم ہو چکی ہے.امن کی فضا کو قائم کرنے کی ضرورت ہے اور جو مظلوم ہیں جو جنگ کی لپیٹ میں آگئے ہیں اور دکھی ہیں ان کے دکھوں کو دور کرنے کے لئے باہر کی طرف نگاہ نہ رکھنا.یہ خیال مت کرنا کہ باہر سے تمہارے پاس کوئی آئے گا.تمہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیئے اور اپنے مسائل خود حل کرنے چاہئیں.اور اس کی نقل گوان کو بھی بھیجی.اور عین اس وقت جب میری طرف سے یہ تارا نہیں پہنچا پوپ اور دوسرے غیر ملکی مشن اس پر زور دے رہے تھے کہ ہم تمہیں اپنی خدمات پیش نہیں کریں گے نہ تمہیں پیسے دیں گے.ہمیں اجازت دو کہ ہم خود وہاں جا کر اپنی مرضی سے اور اپنے منصوبہ کے مطابق Rehabilitation کا کام کریں.مگر چونکہ وہ ان لوگوں کا ستایا ہوا تھا وہ جانتا تھا کہ کس طرح خانہ جنگی کی ابتدا انہی لوگوں کی شرارت کی وجہ سے ہوئی اگر یہ دخل نہ دیتے تو وہ کبھی کا باغیوں کی بغاوت کو فرو کرنے میں کامیاب ہو جاتا.اسی لئے جب میری اس سے ملاقات ہوئی تو حالانکہ وہ ایک عیسائی اور ایک Sincere عیسائی (یعنی ابھی تک اس پر اسلام کا اثر نہیں ، خدا کرے جلدی اسے ہدایت نصیب ہو) اور

Page 237

د و را فرموده ۱۹۷ء 234 مشعل راه جلد دوم میں ایک مسلمان جماعت کا سر براہ ، بڑی آزادی سے اس نے مجھے کہا کہ ان غیر ملکی عیسائی مشنوں نے ہمارے ملک کو تباہ کرنے کی انتہائی کوشش کی.اللہ کا بڑا فضل ہے کہ ہم محفوظ رہے اور بچ گئے ہیں.اور جاتے ہوئے اس نے مجھے دعا کے لئے کہا میں تو سمجھا کہ ایک عیسائی تکلف سے کہہ رہا ہے کہ دعا کریں.میں نے کہا اچھا دعا کریں گے.لیکن جب میری نظر اس کے چہرہ کی طرف گئی تو میں نے محسوس کیا کہ میں اس کی بات کو سمجھا نہیں.پھر میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارا مطلب ہے کہ اسی وقت با قاعدہ فورمل طریق پر دعا کرواؤں تو اس نے کہا ہاں یہی میرا مطلب ہے.تب میں نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور وہ بھی اپنے طریق پر شامل ہوا.تو اسی ماحول اور بیک گراؤنڈ میں وہ کہنے لگا کہ ہم آپ کے بہت ممنون ہیں.آپ کی جماعت یہاں بہت اچھا کام کر رہی ہے.اس کے برعکس میرے وہاں پہنچنے سے پانچ روز قبل ویسٹ افریقہ کا آرچ بشپ وہاں پہنچا تھا اور اس نے بھی گوان سے ملاقات کی اور اخباروں میں مکمل یہ خبر چھپ گئی کہ گوان بڑا روکھا ہے اس نے آرچ بشپ کو دعا کے لئے نہیں کہا.جب ان کی ملاقات ختم ہوگئی تو آرچ بشپ نے خود ہی کھسیانے ہو کر کہا کہ میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں لیکن مجھے جاتے ہی اس نے دعا کے لئے کہا.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی طبیعت ایک فرق محسوس کر رہی تھی کہ یہ لوگ صرف خدمت کے لئے یہاں آئے ہیں ہمارے مالوں سے یا ہماری سیاست سے ان کو دلچسپی نہیں ہے.محبت کا پیغام لے کر اور خدمت کا جذبہ لے کر یہ یہاں پہنچے ہیں.اس کے مقابلے میں کر چین مشن یہاں آئے.ٹھیک ہے انہوں نے سکول بھی بنائے اور بھی کام کئے.مگر انہوں نے ان ملکوں پر جتنا روپیہ صرف کیا اُس سے کہیں زیادہ وہ ان ملکوں سے باہر لے گئے.لیکن ہم کچھ لے کر گئے اور ایک دھیلا بھی وہاں سے نہیں لائے.حکومت کو بھی اس کا علم ہے اور عوام کو بھی.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں احمدیت کا چرچا ہے.اس لئے کہ ہم نے اسلام کی تعلیم پرعمل کیا، ان سے بھائیوں جیسا سلوک کیا، ان سے محبت کی ان کی خدمت کی.انہیں یہ احساس نہیں دلایا کہ ہم میں کوئی برتری ہے بلکہ یہ احساس دلایا کہ ہم بھی ان جیسے ہیں.اور یہی احساس دلانا چاہیئے تھا کیونکہ مسلمان کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں سوائے اس کے کہ وہ محمد ﷺ کے ساتھ بغاوت کر رہا ہو.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ سے یہ اعلان کروایا.قل انما انا بشر مثلکم.جب نبی کریم ﷺ جیسا عظیم اور ارفع انسان بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں تو کون انسان ہے جو یہ کہے کہ میں چوہڑے اور چہار سے ارفع اور اعلیٰ ہوں.چند نو جوانوں نے سوال کیا تھا.میں نے کہا بچوں والا سوال ہے.اس لئے کہ اگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بنتا ہے کہ ہم ایک جمعدار سے محبت نہیں کر سکتے.اس لئے اس سے یہ پیشہ چھڑایا جائے تا کہ ہم اس سے پیار کرنے لگ جائیں.ایک جمعدار سے ایک احمدی کو محبت کرنی پڑے گے.اگر اس نے محمد کا پیار اور خدا کا پیار حاصل کرنا ہے.لیکن ہم نے ان کو بے روزگار نہیں کرنا.بحیثیت انسان ان میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں.ربوہ کا ہر جمعدار اس بات کا گواہ ہے کہ ہم ان کا خیال رکھتے ہیں.صلى الله

Page 238

235 فرموده ۱۹۷۰ء د و مشعل راه جلد دوم دد ضرورت کے وقت ہمدردی کرتے اور ہر قسم کی مدد کرتے ہیں.بتانے کی بات نہیں اور نہ میں تفصیل میں جاؤں گا مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم ان کی ضرورتوں کے وقت ان کے کام آتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی عزت اور احترام کرتے ہیں.اصل مسئلہ اقتصادی نہیں بلکہ محبت اور مساوات کا ہے میں نے گزشتہ چھ ماہ سے ایک مہم چلائی.پاکستان میں اور اب اس دورے کے موقع پر باہ بھی اور میں نے یہ کہا کہ دنیا کا سب سے پہلا مسئلہ اقتصادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ انسان انسان سے پیار نہیں کرتا اور مساوات نہیں ہے.ہمارے ملک میں ایک غریب آدمی چیتھڑوں میں ملبوس ڈی سی صاحب سے ملنے جاتا ہے تو اس کا چپڑاسی ہی اسے اندر نہیں جانے دیتا اور بعض دفعہ دھکے دے کر باہر نکال دیتا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی بحیثیت انسان قدر نہیں کی گئی اس کی عزت اور احترام نہیں کیا گیا.اگر پاکستان کے افسر اور اسی طرح دنیا کے دوسرے افسر جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں وہ رسول کریم کے فرمان کے مطابق عمل کریں اور ایک غریب ان پڑھ جاہل بظا ہر گندا کام کرنے والے سے انسانیت کا سلوک کریں تو دنیا کے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں.جس شخص کو پیارل جاتا ہے اس کی آدھی سے زیادہ بھوک یقینا جاتی رہتی ہے.اگر میں اپنے حالات کی وجہ سے مثلاً اتنے آدمیوں کو روٹی نہ دے سکوں جتنے میرے پاس آ جاتے ہیں.مثلاً میں ۵۰۰ کو روٹی کھلا دوں اور میرے پاس ۶۰۰ آجائیں تو باقی ۱۰۰ کو بڑے پیار کے ساتھ بڑی معذرت کے ساتھ معافیاں مانگتے ہوئے یہ کہوں کہ دل تو چاہتا ہے کہ تمہارے پیٹ بھی پالوں مگر میرے پاس اس کی توفیق نہیں تو وہ بڑے خوش ہو کر چلے جائیں گے.لیکن اگر میں ان کی عزت نہ کروں ان کا احترام نہ کروں خود کو ان سے ارفع جانوں تو ان کی تسلی نہ ہوگی نہ ہونی چاہیئے.اس اعلان کے ہوتے کہ انما انا بشر مثلکم ان کی تسلی نہیں ہونی چاہیئے.اس اعلان کے بعد آپ کو ہر انسان سے پیار کرنا پڑے گا.اگر آپ نے محمد اور اس کے اللہ کا پیار حاصل کرنا ہے ورنہ دنیا کو تسلی نہ ہوگی.اور فتنہ فساد جو ہر جگہ ظاہر ہورہا ہے اس ملک میں بھی فرانس میں بھی، جرمنی میں بھی، غرضیکہ مشرق اور مغرب میں، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسان انسان سے پیار نہیں کرتا اس کو اپنے جیسا نہیں سمجھتا اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے.حالانکہ خدا تعالیٰ نے بطور بشر کے اس کو بڑا نہیں بنایا کیسے بنا سکتا تھا بڑا جبکہ اس محمد صلعم کے منہ سے خود یہ کہلوایا کہ میں تمہارے جیسا انسان تم میرے جیسے انسان.اس انسانیت کے مقام سے پھر اخلاقی اور روحانی رفعتوں کے حصول کا سوال پیدا ہوتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ان رفتعوں کے حصول میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر انسان سے آگے نکل گئے اور ایک بلند تر مقام عزت اور احترام اللہ تعالیٰ کے پہلو میں حاصل کیا لیکن وہ انسانیت کے مقام سے بلند ہونے کے بعد تھا انسانیت کے مقام پر سارے انسان برابر ہیں.آج وقت ہے کہ دنیا اس پیغام کو سمجھے اور اس سے فائدہ اٹھائے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ دنیا اس پیغام کو سمجھے اور اس سے فائدہ اٹھائے آپ احمد یوں پر ہے.صلى الله

Page 239

فرموده ۱۹۷ء 236 د : مشعل راه جلد دوم خصوصاً احمدی نوجوانوں پر.کیونکہ ہماری زندگیوں کا یہ آخری دور اور آپ کی زندگیوں کا یہ پہلا دور Over lap کیا ہوا ہے.یہ بڑا نازک دور ہے اس وقت یا ہم دنیا کے دل جیتنے میں کامیاب ہوں گے یا دنیا کو انتہائی خطرناک حالات کی طرف دھکیلنے کا ہم موجب ہونگے.انسانیت کے لئے اب دور استوں میں سے ایک راستہ ہے یا تو وہ مکمل تباہ ہو جائے گی یا پھر اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرلے گی.ہمارا دل تو نہیں کرتا کہ خدا تعالیٰ کا قہران پر نازل ہو دل تو یہی کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں.کسی نے مجھ سے اسرائیل کے متعلق سوال کیا.ویسے تو میں بیان نہیں دیا کرتا مگر قرآن کریم نے ہمیں ایک چیز بتائی ہے.قرآن نے کہا ہے کہ آخری زمانہ میں یہود کو اس علاقہ میں حکومت حاصل ہوگی.پھر اس کے بعد ان سے حکومت چھین لی جائے گی.اور قیامت تک ان کو غلبہ نصیب نہیں ہوگا.یہ دو طرح ہو سکتا ہے.ایک اس طرح کہ وہ مٹادیئے جائیں اور ایک اس طرح کہ وہ مسلمان ہو جائیں.تو ہمارے دلوں میں ان کے خلاف کوئی دشمنی نہیں ہے.اس لئے ہماری تو دعا ہر وقت یہ رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اسلام قبول کرنے کی توفیق دے.آج اگر اسرائیل مسلمان ہو جائے تو سارے جھگڑے ساری لڑائیاں ختم ہو جاتی ہیں.سو ہم تو یہ دعا کرتے ہیں کہ مسلمان ہو جائیں ہلاک نہ ہوں.لیکن ہوگا یہ ضرور کہ یہودی بحیثیت یہودی وہاں نہیں رہ سکے گا.بحیثیت مسلمان تو ہر جگہ رہ سکتا ہے.یہ قرآن مجید کی پیشگوئی ہے.ہو ہی نہیں سکتا کہ مل جائے.پیشگوئی یہ ہے کہ یہودیوں کو ایک موقع دیا جائے گا اس علاقے میں حکومت کرنے کا.پھر اس کے بعد اسلام غالب آئیگا اور قیامت تک غالب ہی رہے گا اور پھر یہودی اس چھوٹے سے خطے میں بھی اسلام پر غالب نہیں آسکیں گے.سو آپ بھی دعا کریں میں بھی دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے.ہمیں انسان سے دشمنی کرنے کا سبق نہیں دیا گیا ہمیں انسان سے دشمنی کرنے کا سبق نہیں دیا گیا لیکن بد اعمالیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کا سبق دیا گیا ہے ان دو چیزوں میں بڑا فرق ہے.زید سے ہم نے نفرت نہیں کرنی لیکن اگر زید بد اخلاق ہے تو اس کی بد اخلاقیوں کو ہم نے اچھا نہیں سمجھنا.زید سے اگر ہم نفرت کریں تو اس کی بداخلاقی کو دیکھ کر ہم اس کی اصلاح کی کوشش نہیں کریں گے.اگر ہم زید کے ساتھ پیار کریں اور اس کی بداخلاقی کو بھی برا نہ سمجھیں تب بھی ہماری توجہ اس کی اصلاح کی طرف نہیں ہوگی.پس دنیا کی اصلاح کے لئے بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان کو ہم برا نہ سمجھیں.اس سے ہمارا تعلق ہمدردی، اخوت، محبت اور پیار کا ہو اور اس کی جو برائیاں ہیں ان کو ہم برداشت نہ کریں اور اس کی محبت میں اس کو اس کی برائیوں سے بچانے کی کوشش کریں.یہی اصلاح ہے یہی اشاعت اسلام ہے.یہ جو محبت پیار غمخواری ہمدردی کا پیغام اسلام نے دیا ہے.اس نے آج غالب آنا ہے اس کو غالب کرنے کے لئے آسمان سے فرشتوں نے نہیں آنا کیونکہ اگر آسمان سے

Page 240

237 فرموده ۱۹۷۰ء د و مشعل راه جلد دوم فرشتوں نے اترنا ہوتا تو جنت فرشتوں کے لئے بنتی.میرے تمہارے جیسے انسانوں کے لئے کیوں بنائی جاتی.تو جنت تو انسان کے لئے بنائی گئی ہے اور جنت میں داخل ہونے کے لئے جو شرائط ہیں ان کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے سب کچھ پیش کر دیا.اور اللہ کے حضور سب کچھ پیش کرنے کی مختلف شکلیں ہیں.ایک یہ ہے کہ اس کے بندوں کی اصلاح کی جائے پیار کے ساتھ ان کے دلوں کو جیتا جائے.یہ ساری ویسٹرن طاقتیں جو اس وقت Civilized کہلاتی ہیں.ان کے دل میں انسان کا پیار نہیں اگر ان کے دل میں انسان کے لئے پیار ہوتا تو وہ ایچ بم (Hydrogen Bomb) اور اے بم (Atom Bomb) نہ بناتے.انہوں نے ہلاکت کے سامان بنادئیے.صرف ایک بم لاکھوں انسانوں کو ختم کر سکتا ہے.کروڑوں آدمی اس سے نقصان اٹھا سکتے ہیں مگرکسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.ابھی اسی سفر میں Lufthansa میں دو امریکن بیٹھے ہوئے تھے.بڑے بے تکلف بوڑھے سے تھے اور آپس میں باتیں کر رہے تھے اور تصویریں لے رہے تھے.میں نے ان کو یہی کہا کہ تمہارے دل میں انسانیت کے لئے پیار ہے ہی نہیں.تم نے انسان کو ہلاک کرنے کے لئے سامان بنا دئیے مگر اس کی حفاظت کے لئے اس کے مقابلہ میں اتنی بڑی تدبیر نہیں کی.کوئی کہہ سکتا ہے کچھ تدبیر کا سوال ہی نہیں.سوال یہ ہے کہ جتنی بڑی تدبیر انسان کو ہلاک کرنے کے لئے کی اتنی بڑی تدبیر انسان کی حفاظت کے لئے نہیں کی.اور میں نے کہا یہ عجیب ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے نفرت کرتا ہے ایک قوم دوسری قوم سے اور ایک ملک دوسرے ملک سے نفرت کرتا ہے.وہ پڑھے لکھے لوگ سمجھ گئے کہنے لگے اب تو ہمارا روس کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے حالانکہ میں نے روس کا نام بھی نہیں لیا تھا.میں نے کہا out of fear not of love ڈر کے مارے تم نے سمجھوتہ کر لیا اس میں کیا خوبی ہے.وہ کھسیانے سے ہو گئے اور کہنے لگے بہر حال.یہ ایک قدم آگے ہے میں نے کہا ٹھیک ہے دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ تمہیں صحیح قدم آگے اٹھانے کی توفیق دے.تو دنیا نے بظاہر بڑی ترقی کی لیکن دنیا نے دنیاوی ترقیات میں جو قدم بھی آگے بڑھایا اس نے ثابت کیا کہ ان اقوام کے دل میں انسانیت کی محبت یا پیار نہیں ہے.آج دنیا کو بچانے کے لئے صرف ایک جماعت موجود ہے اور وہ جماعت احمدیہ ہے.جماعت احمدیہ سے باہر ہمیں کوئی ایسی جماعت نظر نہیں آ رہی جس کے دل میں انسان کا پیار ہو اور یہ بڑی اہم ذمہ داری ہے جو ہم پر عائد ہوتی ہے.نوجوان طبقے کو یہ مجھنا چاہیئے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا چاہیئے.اللہ تعالیٰ توفیق دے.اب میں دعا کر دیتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ میری آپ کے لئے سب سے بڑی دعا یہ ہے کہ میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے جو خواہش پیدا کی ہے آپ ایسے بن جائیں خدا کرے آپ ویسے بن جائیں.( بحوالہ ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ )

Page 241

د را مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷ء 238 ۲۶ ستمبر ۱۹۷۰ ء ایبٹ آباد کے اجتماع کے شرکاء کو نصائح مورخہ ۲۶ رتبوک ظہر کی نماز کے بعد حضور محترم چوہدری ناصر احمد صاحب ( برادر خورد ومحترم مولانا عطاء اللہ قائد علاقائی مجلس خدام الاحمدیہ سے ضلع ہزارہ کی مجالس کے دوروزہ تربیتی اجتماع کے بارے میں گفتگو فرماتے رہے.یہ اجتماع آج پچھلے پہرا یبٹ آباد میں شروع ہونے والا تھا.اس روز مغرب کی نماز کے بعد بھی حضور ا حباب میں تشریف فرما ہوئے.تربیتی اجتماع میں شامل ہونے والی نو مجالس کے قریباً ۵۰ اطفال اور خدام اپنے قائد علاقائی کی سرکردگی میں حضور کے ارشادات سے بہرور ہونے کے لئے حاضر تھے.حضور نے پہلے اس حلقہ کی مجالس اور ان کے متعلقہ کو ائف دریافت فرمائے نیز اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ گزشتہ سالانہ اجتماع کے موقعہ پر جو ہدایات دی گئی تھیں مثلاً سورۃ بقرۃ کی ابتدائی سترہ آیات یاد کرنی تھیں اس پر کہاں تک عمل ہوا ہے.ازاں بعد حضور نے نہایت مؤثر اور دلنشیں پیرا یہ میں نونہالان جماعت کو اپنے روح پرور ارشادات اور بیش قیمت نصائح سے نوازا.حضور اقدس نے اس موقعہ پر فرمایا جسمانی قوتوں اور طاقتوں کو برقرار رکھنے کے لئے انسان کھانا کھاتا ہے اور پھر کئی گھنٹے نیند اور آرام لیتا ہے تا کہ نظام ہضم درست اور صحت برقرار رہے.مذہبی لحاظ سے اخلاقی اور روحانی قوتوں اور استعدادوں کی نشو و نما اور انہیں برقرار رکھنے میں بھی یہی اصول کارفرما ہے.اگر انسان دینی اور اخلاقی لحاظ سے جو کچھ سکھے اور پڑھے مگر اسے یاد نہ رکھے اور اس پر عمل پیرا نہ ہوتو یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کھانا کھایا اور ہضم نہ کیا.اس لئے احمدی بچوں اور جوانوں کو میری یہ فصیحت ہے کہ جس طرح بعض جانور جگالی کرتے اور اپنی خوراک کو جزو بدن بناتے ہیں.اسی طرح انہیں بھی چاہئے کہ دینی اور روحانی علوم سیکھیں.انہیں پوری طرح ذہن نشین کریں اور پھر سوچنے اور غور کرنے کی عادت ڈالیں تا کہ مذہبی علوم ان کے اخلاق اور روح کا حصہ بن جائیں.نشانات اور دعاؤں کے آسمانی ہتھیار حضور نے فرمایا ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے سپر دفرمایا ہے.یہ بہت بڑا کام ہے جسے ہم نے نسلاً بعد نسل انجام دینا ہے اس میں ہم اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں کہ اسلام کے مخالفین جن ہتھیاروں کے ساتھ اسلام پر حملہ آور ہیں ہمارے پاس ان سے کہیں زیادہ اچھے اور مضبوط ہتھیار ہوں.مثلاً معاندین اسلام ہمارے خلاف دلائل دیتے ہیں.گو ان کے دلائل فرسودہ ہوتے ہیں اور ان میں جھوٹ اور دجل سے کام لیا جاتا ہے.پھر بھی ان دلائل کا مقابلہ کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو

Page 242

239 فرموده ۱۹۷۰ء دو مشعل راه جلد دوم سچی دلیلیں بتائی ہیں وہ یاد ہونی چاہئیں.دوسرے یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو آسمانی نشانات اور معجزات سے نوازا ہے.اسلام کے مخالفین علمی دلیل کے مقابلے میں تو شاید کوئی دلیل پیش کر سکیں لیکن آسمانی نشانات دکھانے سے قاصر ہیں.دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے آسمانی نشانات اور معجزات عطا کئے ہیں.حضور نے بعض کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا انہیں بار بار سامنے لانا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کے وعدوں پر ایمان تازہ اور یقین پختہ ہوتا رہے اور انہیں بطور دلیل کے پیش کر کے مخالف کا منہ بند کیا جائے.حضور نے فرمایا مخالفین کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو تیسرا ہتھیار دیا ہے وہ دعا ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے اس شعر میں اسی طرف اشارہ ہے.آپ فرماتے ہیں عدد جب بڑھ گیا شور و فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں سلسلہ احمدیہ کی مخالفت میں لوگوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر چونکہ جماعت احمدیہ کا سہارا اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے اس لئے ہم نے ہر مشکل اور ایذا دہی کے وقت اسی سے مدد طلب کی اور اسی کو اپنی پناہ گاہ بنایا بلکہ اسی میں اپنے آپ کو فنا کر دیا اس لئے ہمارے مخالفین ہمیشہ نا کام رہے اور جماعت اپنی تعداد اور قربانیوں کے معیار میں ترقی کرتی ہوئی کہیں سے کہیں تک جا پہنچی.خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی دلیلیں سکھائی ہیں جن کا بڑے سے بڑا عالم یا فلسفی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا.ہمیں آسمانی نشانات عطا فرمائے ہیں جن کے مقابلے میں دوسرے مذاہب عاجز اور بے بس ہیں.ہمیں دعا کا ایسا گر سکھایا ہے جس کے مقابلے میں مخالفت ہمیں کوئی نقصان پہنچا ہی نہیں سکتی بلکہ وہ ہمارے لئے کھاد کا کام دیتی ہے اور ہماری ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے.حضور نے نوجوان نسل کو یہ نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے علم کو ان دلائل کے ساتھ پختہ بنا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بالخصوص در مشین کو کثرت سے پڑھیں اور دعا کرنے کی عادت ڈالیں اور پکے ، بچے اور سیدھے سادے مسلمان احمدی بن کر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں کوشاں رہیں.آخر میں حضور نے از راہ شفقت تمام اطفال اور خدام کو شرف مصافحہ بخشا.اس دوران دانہ کی مجلس کی نمائندگی نہ ہونے پر قائد عمومی کو یہ ہدایت فرمائی کہ دانہ کے سارے خدام سالانہ اجتماع پر ربوہ ضرور پہنچیں میں انہیں علیحدہ ملاقات کا موقعہ دوں گا.( بحوالہ روزنامه الفضل ربوه ۱۱ / اکتوبر ۱۹۷ء)

Page 243

مشعل راه جلد دوم د را فرموده ۱۹۷ء 240 مورخه ۱۱۶ خاء ۱۳۴۹ هش (۱۲ اکتو بر۰ ۱۹۷ء) بوقت سوا تین بجے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے حضور نے جو روح پرور تقریر فرمائی تھی اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- ہمارے محبوب آقا حضرت نبی اکرم علی نے ہر نسل کو بڑا پیار دیا ہے.اس وقت میں آپ کے پیار اور محبت کا ایک جلوہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ نے مجھے اور آپ میں سے ہر ایک کو مخاطب کر کے فرمایا:.وإِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا( صحیح بخاری) کہ تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے.اس کے یہ معنے نہیں کہ انسان خود ہی اپنے حقوق قائم کر کے ان کے مطالبات شروع کر دے.بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ اور آنحضرت علیہ کی قرآنی تفسیر کے ذریعہ ہر فرد واحد کے جو حقوق مقرر کئے ہیں، ہر فرد واحد اور ہر نفس کو ان حقوق کا خیال رکھنا چاہیئے.ان کا علم حاصل کرنا چاہیئے اور ان کے لینے کی کوشش کرنی چاہیئے.اللہ تعالیٰ نے اصولی طور پر ہر نفس کا جوحق مقرر کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اسی رب کریم نے ہر نفس کو جو طاقتیں اور قو تیں اور استعداد یں عطا کی ہیں ان قوتوں اور طاقتوں اور استعدادوں کو ان کی نشو ونما کے کمال تک پہنچایا جائے.ہر نفس کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے دائرہ استعداد میں اپنی قوتوں کو کمال تک پہنچائے اور اپنے دائرہ استعداد میں وہ اللہ تعالیٰ کا ایک کامل اور مکمل فرد بن جائے.اس کا حقیقی بندہ بن جائے.یہ بہت بڑا احسان ہے.احسان اس لئے بھی کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کوئی حق نہیں یعنی ایثار اور قربانی کی روح کو اور اس کے مطالبہ کو غلط معنے پہنا کر وہ خود کو اپنے بہت سے حقوق سے محروم کر لیتے ہیں اور یہ احسان ہے ہم پر اس معنے میں بھی کہ ہمیں منع کیا اس بات سے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حق تمہیں دیئے ہیں.ان کے باہر جا کر ان چیزوں کا مطالبہ نہ کرنا جن پر تمہارا حق نہیں ہے.یہ مضمون اپنے نفس میں بہت لمبا ہے اگر میں حقوق یا حقوق نفس کہنا چاہیئے وہ گنوانے لگوں تو بڑا وقت گئے شاید کئی دن لگ جائیں.میں ان حقوق میں سے صرف ایک حق کو اس وقت لینا چاہتا ہوں اور اس کے مطابق

Page 244

241 فرموده ۱۹۷۰ ء د و مشعل راه جلد دوم دد آپ کو بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں.اور وہ آپ کا یہ حق ہے کہ آپ پکے اور بچے اور حقیقی خادم بنیں کیونکہ خادم بننا بھی انسان میں ایک قوت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کی.پس اس قوت کو یعنی خادم بننے کی قوت اور استعداد کو اس کے کمال تک پہنچانا چاہیئے اس کی نشو ونما ادھوری نہ رہ جائے بلکہ جس حد تک کوئی فرد یا نفس اپنے خادم بنے کی طاقت کو زیادہ سے زیادہ نشو ونما دے کر انتہائی رفعت تک پہنچا سکتا ہے وہاں تک اس کی خدمت کا جذبہ پہنچنا چاہیئے.اس حق کو پوری طرح حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مقام پر بارہ باتوں کا ذکر فرمایا ہے.میں پہلے وہ حوالہ پڑھ دیتا ہوں پھر مختصراً ان بارہ باتوں کے متعلق آپ سے کچھ کہوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی زندگی کے ایک دور میں حکومت کے بعض افسروں اور ذمہ دار آدمیوں کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا.اور آپ نے یہ سوچا کہ حکومت اور اس کے افسر قوم کے خادم ہوتے ہیں.اور آپ نے یہ سمجھنے کی کوشش کی اور اس کے متعلق علم حاصل کیا اور اس کا مشاہدہ کیا اور یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ حکومت کے افسروں وغیرہ میں ایک خادم کی خوبیاں پائی جاتی ہیں یا نہیں.چنانچہ آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ الا ما شاء اللہ چند اچھے آدمی بھی ہیں وہ قوم کے خادم ہیں.وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے بھی ہیں ان کے اندر خدمت کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے لیکن وہ استثنا ہیں.قاعدہ کلیہ نہیں ہیں.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے اپنے مشاہدہ کو اس رنگ میں بیان کیا کہ ان کے اندر یہ یہ باتیں پائی جانی چاہئیں ورنہ وہ خادم نہیں بن سکتے اور میں یہ باتیں ان میں دیکھنا چاہتا ہوں.تو آپ کے اس ارشاد سے مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ میں اپنے خادم بچوں کو ان کے اس حق کی طرف توجہ دلاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خدمت کی قوت بھی دی ہے.انسان کے اندر خدمت کرنے کا ایک جذ بہ ہوتا ہے یعنی وہ چاہتا ہے کہ میں دوسروں کا خادم بنوں.دوسروں کی مدد کرنے والا ان کی تکالیف کو دور کرنے والا اور ان کی راحت کے سامان پیدا کرنے والا بنوں.یہ جو انسان کی فطرت کا تقاضا ہے اس کی پوری نشو ونما کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اس مختصر سے اقتباس میں ان کی طرف توجہ دلائی ہے.آپ فرماتے ہیں:- میں نے ملازمت پیشہ لوگوں کی جماعت میں بہت کم ایسے لوگ پائے کہ جو محض خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے اخلاق فاضلہ حلم اور کرم اور عفت اور تواضع اور انکسار اور خاکساری اور ہمدردی مخلوق اور پاک باطنی اور اکل حلال اور صدق مقال اور پر ہیز گاری کی صفت اپنے اندر رکھتے ہوں“.(کتاب البریہ صفحه ۱۶۸ حاشیه ) یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بارہ باتوں کا ذکر فرمایا ہے جو ایک خادم میں پائی جانی چاہئیں.لیکن آپ نے دیکھا کہ جو لوگ حکومت کی ملازمت میں ہیں جنہیں قوم کا خادم بنا چاہیئے ان میں یہ

Page 245

د مشعل راه جلد دوم صفات نہیں پائی جاتیں.الا ماشاء اللہ.یہ بارہ صفات یہ ہیں.فرموده ۱۹۷ء 242 ا.اخلاق ،فاضله ۲ حلم ۳ کرم ۴- عفت، ۵.تواضع، ۶.انکسار، ۷.خاکساری،.ہمدردی مخلوق ، ۹.پاک باطنی ۱۰.اکل حلال، ۱۱.صدق مقال ۱۲.پر ہیز گاری کی صفت.ویسے اگر دیکھا جائے تو انسان کی تمام قوتیں اگر اعتدال پر ہوں یا اعتدال پر آجائیں یا اعتدال پر لائی جائیں تو انسان کی جسمانی طاقت اور فطری قوت خلق بن جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس امر پر بڑی روشنی ڈالی ہے.ہم خوش خلقی کو بھی بالعموم اخلاق کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں.بعض طبائع میں چڑ چڑا پن ہوتا ہے.بات کرتے ہیں تو چہرے پر بل پڑ جاتے ہیں.ہشاش بشاش اور ہنس مکھ چہرے سے نہ وہ دوسروں سے ملتے ہیں نہ بات کرتے ہیں لیکن ایک خادم کو ایسا نہیں ہونا چاہیئے.کہنے کو تو تو یہ چھوٹی سی بات ہے لیکن اس کا اثر بڑا وسیع ہے.اب میں نے افریقہ کا دورہ کیا.ایک ایک وقت میں پانچ پانچ چھ چھ ہزار احمدیوں سے میں نے ملاقات کی.ان سے مصافحے کئے.ان سے باتیں کیں.سیرالیون کے ایک افریقن دوست جو اس ملک کے احمدیوں کے پریذیڈنٹ ہیں اور جن کا نام چیف گومانگا ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھ سے ( یعنی گومانگا سے ) بیسیوں احمدیوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ ہم حیران ہیں کہ حضرت صاحب ہر شخص سے مسکرا کر ملتے ہیں.حالانکہ مسکرانے پر نہ میرا وقت خرچ ہوا نہ پیسے خرچ ہوئے لیکن اس مسکراہٹ نے اپنا اثر کیا.ویسے تو یہ ایک ہنگامی زندگی تھی.اگر چہ جماعت احمدیہ قریباً اسی اکاسی سال سے قائم ہے اور افریقہ میں ہم قریباً پچاس سال سے کام کر رہے ہیں مگر جماعت کی تاریخ میں پہلی دفعہ اور ان کی زندگیوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ مہدی معہود کا ایک خلیفہ وہاں جاتا اور اللہ تعالیٰ انہیں یہ موقع عطا کرتا کہ وہ اس سے ملیں، اس کی باتوں کو سنیں اس سے باتیں کریں، اسے اپنے دکھ درد سنائیں.اس کی نصیحتیں سنیں.اس سے برکت حاصل کریں.میں تو ایک عاجز انسان ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا ہے کہ میں تیرے ماننے والوں کے لمس میں بھی برکت دوں گا اس واسطے بھی اللہ تعالیٰ کا یہ احسان جتا رہا ہوں کوئی فخر نہیں کر رہا.بہر حال وہ بھی خوش تھے اور میں بھی بڑا خوش تھا.حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب میں اس قسم کی لمبی ملاقاتوں کے بعد اپنے کمرے میں واپس آتا تھا تو میرے جبڑے مسکرا مسکرا کر دیکھ رہے ہوتے تھے.لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر میں مسکرا کر ان سے بات نہ کرتا.تو ان کی روحانی طور پر سیری نہیں ہوئی تھی وہ بھی روحانی محبت سے بھرے ہوئے تھے اور میرا دل بھی روحانی محبت سے بھرا ہوا تھا.وہاں کے دوستوں کے متعلق میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ مجھے شرم آ جاتی تھی میں تو سر جھکا لیتا تھا کہ مصافحہ کیا ہے کوئی بات نہیں کرنی مگر ہاتھ نہیں چھوڑ رہے اور میرا منہ دیکھے چلے جارہے ہیں چنانچہ کئی دفعہ پیچھے جو آدمی کھڑا ہے وہ پیچھے سے اگلے آدمی کو جھنجھوڑتا تھا کہ میں بے چین ہو رہا ہوں چلو آ گے.مگر وہ اس بات کی بھی پر واہ نہیں کرتے تھے اور اس قسم کی محبت کے اظہار میں ہی مگن رہتے تھے.ایسی روحانی محبت ان کو ملنی چاہیئے تھی اور میں

Page 246

243 فرموده ۱۹۷۰ء دو مشعل راه جلد دوم نے کوشش کی کہ یہ محبت ان کو ملے.یہاں تک کہ ایک موقع پر ایک آدمی میرا ہاتھ پکڑ لیتا تھا اور وہ چھوڑتا ہی نہیں تھا.دوسرا آدمی جو اس کے پیچھے ہوتا تھا وہ آگے آ کر اپنے ایک ہاتھ سے میرا ہاتھ پکڑتا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑ کر جھٹکا دے کر چھڑوا تا تھا اور پھر وہ خود میرا ہاتھ پکڑ لیتا تھا اور دوسرے کو موقع نہیں دیتا تھا.غرض میں بتا یہ رہا ہوں کہ خوش اخلاقی کا بڑا اثر ہوتا ہے اور یہ ایک ایسا خلق ہے جس کا بغیر کچھ خرچ کئے اثر ہوتا ہے.اس میں وقت کا بھی کوئی خرچ نہیں مال کا بھی کوئی خرچ نہیں لیکن اس طرح آپ دوسرے کو خوشی پہنچاتے ہیں اس کو مسرت حاصل ہوتی ہے اور وہ ہشاش بشاش ہو جاتا ہے.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ایک دن میں نے اُن سے کہا کہ آج میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ پیار کا جواب ہمیشہ پیار میں ملتا ہے.یہ میرے دورے کے آغاز میں نائیجیریا کی بات ہے.ایک دن میں میں نے بلا مبالغہ ان لوگوں سے پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک مسکراہٹیں وصول کی ہیں.جن میں مشرک بھی تھے عیسائی بھی تھے بد مذہب بھی تھے اور غیر احمدی مسلمان بھی تھے.احمدی تو عام طور پر جلسوں میں ہوتے تھے سڑکوں کے اوپر تو وہ نہیں ملتے تھے اور میں ان کو مسکرا کر سلام کرتا تھا اور ان سب کے چہروں پر مسکراہٹ اور خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی.ان کی یہ عادت ہے کہ ایک چیخ مارتے تھے اور اس پر کارخانے کے سارے مزدور چھلانگیں لگا کر باہر نکل آتے تھے.جب میری کار نظر آتی تھی تو کوئی آدمی چیخ مارتا تھا جسے کا رنظر آ جائے تو سارے مزدور کام چھوڑ کر سڑک پر آ جمع ہوتے تھے صرف مسکراہٹ کے ساتھ سلام وصول کرنے کے لئے.افریقی بچے کو جب میں نے پہلی بار اٹھایا اور پیار کیا تو صرف ان کے چہروں پر میں نے خوشی نہیں دیکھی بلکہ میرے کانوں نے بھی ان کی خوشی کی آواز سنی یعنی ہوا کے اندر اس قسم کی خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی کہ میرے کانوں نے اسے سنا.وہ لوگ پیار کے بہت بھوکے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ایسی کوئی مخلوق پیدا ہی نہیں ہوئی جو ان سے پیار کر سکے اور یہ ان کے لئے بڑے تعجب کی بات تھی کہ ایک شخص غیر ملک سے آیا ہے اور اس کا صرف یہ دعویٰ اور اعلان ہی نہیں کہ میں پیارا اور محبت کا اسلامی پیغام تمہارے پاس لے کر آیا ہوں بلکہ وہ اپنے عمل سے بھی ثابت کر رہا ہے.بچوں سے پیار کرتا ہے بڑوں سے معانقہ کرتا ہے اور پھر عورتوں کو بھی بھولا نہیں اور یہ اس لئے کہ منصورہ بیگم میرے ساتھ تھیں میں تو عورتوں سے مصافحہ نہیں کر سکتا تھا لیکن اگر یہ میرے ساتھ نہ ہوتیں اور میرے کام میں میرے ساتھ اتنا تعاون نہ کرتیں تو وہاں کی مستورات کی روحانی طور پر سیری نہ ہوتی.انہوں نے بھی ایک دفعہ ایک وقت میں چھ ہزار سے زیادہ عورتوں کے ساتھ مصافحے کئے ہیں.ان کی مستورات کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے اس طرح روحانی مسرت اور روحانی سیری کا سامان پیدا کر دیا.پس بظاہر یہ چھوٹی سی چیز ہے لیکن اپنے اثر کے لحاظ سے چھوٹی نہیں ہے.اس لئے ہر احمدی کے چہرے پر بشاشت ہونی چاہیئے اور خوشی ہونی چاہیئے اور خوش ہونے کا حق دراصل ہمیں ہی حاصل ہے اور کسی کا خوش ہونے کا حق نہیں ہے.یہ خوش ہونے کا حق احمدی کا ہے.پس اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑتی رہنی چاہیئے.بہت سے

Page 247

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷ء 244 آدمی مجھ سے آکر ملتے ہیں میں انہیں سمجھایا کرتا ہوں کہ دیکھو اسی اکاسی سال کی گالیوں اور مخالفتوں نے ہمارے چہرے سے مسکراہٹ نہیں چھینی.ہم ہمیشہ مسکراتے رہے ہیں اور انشاء اللہ مسکراتے رہیں گے.غرض اچھے اخلاق ہونے چاہئیں اس معنے میں کہ جب تم دوسرے سے ملو یا اس سے بات کرو تو زبان کی تیزی نہ دکھاؤ.تمہارے چہرے پر ہر حال میں مسکراہٹ ہو تو یہ بات دوسرے پر اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی.میں ابھی پرسوں بدھ کے روز ایک صاحب سے ملنے گیا تھا ان کے سیکرٹری نے ہمارے سیکرٹری سے کہا کہ میں نے تو ایسا چہرہ ساری عمر کبھی نہیں دیکھا.کیونکہ چہرے پر بشاشت تھی اور ملتے ہوئے اسے پتہ تھا کہ میرے اندر سے ہمدردی پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہی ہے.اس کے علاقے کے متعلق میں نے باتیں کیں تو وہ حیران ہو گیا کہ اچھا ہمارے علاقے کے متعلق دنیا میں اس نہج سے بھی سوچنے والے ہیں.پس ہر خادم کا یہ حق ہے کہ خادم بننے کے لئے اور جذبہ خدمت کی نشو ونما کو کمال تک پہنچانے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ ان کا استعمال کرے اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہ گر یا بارہ طریقے بتائے ہیں جن کے ذریعہ ایک خادم اپنے حق کو لے سکتا ہے یعنی اس کے اندر جو قوت ہے خدمت کی اور جذبہ ہے خدمت کا اس کی نشو ونما کو کمال تک پہنچانے کے لئے ان طریقوں کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے.یہ اس کا حق ہے یہ اسے ملنا چاہیئے ورنہ وہ آدھا رہ جائے گا.اگر وہ اپنے دائرہ استعداد میں مثال کے طور پر آسمان کی طرف دس منزلیں چڑھ سکتا تھا تو وہ پانچ منزلیں چڑھے گا.اس کا آدھا حق مارا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے آسمان کی طرف دس منزلیں چڑھنے کے لئے پیدا کیا تھا.پس آپ سوچا کریں اور اس بات کی مشق کیا کریں کہ جس سے بھی آپ بات کریں تیوری چڑھا کر نہ بولیں.اگر آپ کو کوئی گالی دے تو اس سے بھی آپ ہنس کر بات کریں.یہاں بھی اس وقت کالجوں میں پڑھنے والے بہت سارے طالب علم آئے ہوئے ہیں.میں جن دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھا کرتا تھا.ان دنوں کا مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آ گیا.کالج میں چھٹی تھی.میں قادیان جارہا تھا.ایک تیز قسم کا مخالف بھی گاڑی کے اسی ڈبے میں بیٹھ گیا.لاہور سے امرتسر تک وہ میرے ساتھ بڑی سخت بد زبانی کرتا رہا اور میں مسکرا کر اسے جواب دیتا رہا.جس وقت وہ امرتسر میں اتر اتو اس مسکراہٹ اور خوش خلقی کا اس پر یہ اثر تھا کہ وہ مجھے کہنے لگا اگر آپ جیسے مبلغ آپ کو سو دو سول جائیں تو آپ ہم لوگوں کو جیت لیں گے کیونکہ میں نے آپ کو غصہ دلانے کی پوری کوشش کی مگر آپ تھے کہ ہنتے چلے جارہے تھے.پس اگر کوئی آپ کو گالی دے کوئی برا بھلا کہے بلکہ کوئی چھیڑ بھی لگا دے تو آپ کو غصہ کرنے کی ضرورت نہیں.آپ غصہ کرنے کے لئے پیدا ہی نہیں ہوئے.آپ خادم ہیں.ایسے موقعہ پر آپ مخالف کے سامنے ہنسا کریں.۱۹۵۰-۵۱ء کی بات ہے پنجاب میں سیلاب آیا اور ہمارے بہت سارے علاقے چھوٹے چھوٹے جزیرے بن گئے اور لوگ بھو کے مررہے تھے.تو ظفر الاحسن صاحب جوڈی سی لگے ہوئے تھے اور جن سے

Page 248

245 فرموده۰ ۱۹۷ء د و مشعل راه جلد دوم میرے تعلقات تھے انہوں نے مجھے خاص طور پر کہا کہ دوسرے توجہ نہیں کرتے.آپ کا لج کے طلباء اور دوسرے خدام سے کہیں کہ وہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لئے روٹیاں جمع کر کے دیں.چنانچہ ایک دن ہمارے کالج کے پانچ دس طالب علم میرے پاس آ کر کہنے لگے کہ لاہور کے جس محلے میں ہم روٹیاں جمع کرنے کے لئے گئے تھے انہوں نے ہمیں کہا ہے کہ اگر دوبارہ تم یہاں آئے تو ہم تمہیں چھیڑ میں لگائیں گے.میں نے ان سے کہا کل تم ضرور جاؤ اور اُن سے کہو کہ ہم چھیڑ میں کھانے آئیں ہیں.اس شرط پر کہ جتنی چھیڑ میں مارو اس سے دگنی روٹیاں ہمیں دے دو کیونکہ ہمارے بھائی بھوکے ہیں ان کو روٹی پہنچنی چاہیئے چنانچہ وہ گئے تو چپیڑ میں تو انہوں نے نہیں کھائیں البتہ اس محلے سے روٹیاں لے کر آگئے.یہ بات اثر کرتی ہے.آپ ایک نمونہ قائم کریں.خادم کا یہ حق الله ہے کہ وہ مسکرائے اور ہنسے اور میں نے کہا کہ یہ آپ ہی کا حق ہے اس وجہ سے کہ حضرت نبی اکرم ﷺ کو دو وعدے دیئے گئے تھے ایک یہ کہ آپ کے زمانہ میں اسلام اس وقت کی دنیا میں غالب آجائے گا اور دوسرا یہ کہ آپ کے محبوب ترین روحانی فرزند کے زمانہ میں ایک ہزار سالہ تنزل کے دور کے بعد پھر اسلام ساری دُنیا میں غالب آئے گا.غلبہ اسلام کی پو پھٹ چکی ہے اور غلبہ اسلام کا دن طلوع ہونے والا ہے دنیا کی کوئی قوم اسلام سے باہر رہ کر عزت کی زندگی نہیں گزار سکتی.اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے.یہ پورا ہوگا.پس جب خدا تعالیٰ نے غلبہ اسلام کا اتنا عظیم وعدہ دیا ہے تو رونے کا حق ہمیں کیسے مل گیا.ہمیں تو ہنسنے کا حق ملا ہے.اس عظیم وعدے اور اس حق کی بناء پر مسکراتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاؤ.اگر کوئی چھیڑ لگاتا ہے کوئی فرق نہیں پڑتا.کوئی گالی دیتا ہے کوئی فرق نہیں پڑتا.کوئی ہماری راہ میں کانٹے بچھاتا ہے کوئی فرق نہیں پڑتا.نادان ہیں جاہل ہیں.ان کے یہ افعال ہماری مسکراہٹوں کو نہیں چھین سکتے ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ ہم غلبہ اسلام کے وعدے بھول گئے اور کسی کا ایک چپیڑ مارنا یا گالی دینا یا کانٹے بچھانا یا درہ گیا.ایسی باتوں سے متاثر ہونا ہمارا حق نہیں ہے.ہم میں سے کسی کے نفس کا یہ حق نہیں ہے.ہمارے ہر نفس کا یہ حق ہے کہ وہ بہترین اور اچھا خادم بنے اور یہ کشادہ راہ ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہورہی ہے لوگ مٹی ڈالتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اسے دھو ڈالتی ہے.ہمارا قدم بھی نہیں پھسلا اور نہ پھسلنا چاہیئے.سوائے ان کے کہ جو منافق ہیں اور یہ ہر الہی سلسلے میں ہوتے ہیں.ہزار میں سے ایک یا لا کھ میں سے دو.ان کا تو کوئی ذکر نہیں.لیکن خدا کے پیارے مخلص وفادار اور مخلص بندے جو ہیں.دنیا کی کوئی گالی یا فتوے یا چھیڑ میں یا غصہ کا اظہار ان کے راستے میں کوئی روک نہیں بن سکتا.جہاں سب سے زیادہ گالیاں ہمارے کانوں میں پڑ رہی ہوتی ہیں وہیں اللہ تعالیٰ کے پیار کا ہاتھ کہتا ہے آگے بڑھو.بھول جاؤ اس کو یہ کیا کہتے ہیں.کیونکہ بے اثر ہے ان کی ہر کوشش اور ناکام ہے ان کا ہر منصوبہ.پھر ہمیں غم اور غصہ اور گھبراہٹ کس بات کی ! غرض آپ کا خادم بنے کا پہلا حق یا خادم بننے کے لئے پہلا گر یہ ہے کہ آپ کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت پینی چاہیئے.اگر کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتلاء آئے تب بھی بشاشت آنی چاہیئے.یہ ہے تو میرے گھر کا واقعہ

Page 249

فرموده ۱۹۷ء 246 د دمشعل راه نل راه جلد دوم اور ہے بھی عورتوں سے تعلق رکھنے والا لیکن بحیثیت انسان مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے.میری بڑی لڑکی کا پہلا لڑ کا نہایت خوبصورت تھا مگر پیدائش کے بعد اُس نے سانس نہیں لیا.ہسپتال میں تھے جب گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ڈاکٹر فارغ ہوا اور اس نے اجازت دی کہ آپ بچی سے مل لیں تو میں نے دل میں سوچا اس کا پہلا بچہ ہے.چھوٹی عمر ہے.شاید نوعمری میں بہک گئی ہو.چیرے پر گھبراہٹ ہو.چنانچہ جب میں اپنی طرف سے اسے تسلی دینے کے لئے گیا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور اس سے مجھے بے حد خوشی ہوئی اور میں نے اسی وقت اس سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تجھے زندہ رہنے والا بچہ دے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُسے دوسرا بچہ عطا کیا.خدا کی چیز تھی اس نے لے لی غم کی کیا بات ہے.۱۹۵۳ء میں جس صبح ہمیں پکڑ کر لے گئے تھے اُس رات اللہ تعالیٰ نے بتادیا تھا کہ صبح تمہیں گرفتار کر لیں گے.جو ٹیم آئی ہوئی تھی اسے بھی پتہ نہیں تھا، شاید اس کا آرڈر بعد میں آیا تھا چونکہ مجھے پتہ تھا اس لئے صبح جس وقت انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو میں نے اپنے بچوں کو جس اس وقت بہت چھوٹے تھے.ان میں سے ایک تو غالبا ۳ سال کا تھا ) ان سے میں نے کہا کہ میں نے نہ چوری کی نہ ڈا کہ مارا نہ قانون ملکی کو توڑا ہے نہ قانون الہی کو توڑا ہے اگر مجھے آج پکڑ کر لے گئے تو میں مظلوم ہوں اور تمہارے چہروں پر میں نے مسکراہٹ دیکھنی ہے.ایسا نہ ہو کہ تم منہ بنالو کہ ہمارے ابا کو پکڑ کر لے گئے ہیں چنانچہ گرفتاری کے وقت ۳ سال کے بچے کا چہرہ بھی مسکرا رہا تھا.ان باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے.اگر ہم نے اپنے رب کے لئے زندگی گزارنی ہے اور اپنے رب کی مخلوق کا خادم بننا ہے تو خواہ وہ امتحان اور ابتلا ء ہو اس رنگ کا جسے قضا وقدر کہتے ہیں، خواہ وہ لوگوں کی طرف سے تکلیف اور ایذا ہو ہمارے چہرے پر سے مسکراہٹ نہیں جانی چاہئے کسی شکل میں بھی نہ حرف شکایت زبان پر لانا چاہیے اور نہ ہمیں غصہ آنا چاہیئے.کیونکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے عظیم روحانی فرزند نے ہمارے دل سے ہر غیر کی دشمنی نکال کر باہر پھینک دی ہے.ہمارے دل میں کسی کی دشمنی نہیں ہے.ہمارے دل میں ہر ایک کے لئے محبت اور پیار اور ہمدردی اور غمخواری کا جذبہ ہے.جو مرضی وہ کہیں.خدا تعالیٰ نے ہمیں جو چیز دی ہے وہ تو نہیں چھین سکتے.نہ انہیں چھینی چاہیئے.اگر وہ چھین لیں تو بڑے بدقسمت ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے کہ اس نے ہمارے دل کو ان کے لئے محبت اور پیار اور خدمت کے جذبہ سے م ہے.پس یہ عطا ہے جسے اگر وہ اپنی گالیوں سے چھین لیں تو یہ ان کی بڑی بدقسمتی ہوگی کیونکہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایک نہایت حسین چیز دی تھی.مگر انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی اور اسے باہر پھینک دیا.پس پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر خادم کے اندر خوش خلقی ہونی چاہئے کسی سے لڑنا جھگڑ نانہیں محبت اور پیار سے باتیں کرنی ہیں.اس وقت آپ دُنیا سے جتنی محبت کریں گے اتنی جلدی آپ ان کے دلوں کو حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے عظیم احسان کے سائے کے نیچے لے آئیں گے.اور انہیں آپ کا غلام بنادیں گے.

Page 250

247 فرموده ۱۹۷۰ء د و مشعل راه جلد دوم دد دوسری چیز جس سے ایک خادم کی خدمت کی قوت جلا حاصل کرتی ہے.اور جو اس کی نشونما کو کمال تک پہنچانے میں ممد و معاون بنتی ہے وہ حلم ہے.حلم کے معنے ہیں صبر اور بردباری اور طیش میں نہ آنا اور وقار کے ساتھ انتظار کرنا ویسے تو کئی معنوں میں انتظار کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے.لیکن ہمارے لئے تو یہ ہوگا کہ وقار کے ساتھ اس آخری کامیابی کا انتظار کرنا جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا ہے.پس ہم جنہیں یہ یقین ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں اور اس کی مخلوق کی ہمدردانہ طور پر خدمت کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہم سے جو وعدے کئے ہیں وہ ضرور پورے ہوں گے.ہم نے اپنے دشمن کا دل جیتنا ہے، اپنے فائدے کے لئے نہیں بلکہ حضرت محمد رسول اللہ علہ کی غلامی میں لانے کے لئے.اس لئے بڑے وقار کے ساتھ ان وعدوں کے پورا ہونے کا انتظار کریں.طیش میں نہ آئیں، صبر اور وقار والی زندگی گزاریں.پہلے حصے کو میں نے زیادہ وقت دے دیا ہے.اب میں جلدی جلدی مضمون کو ختم کروں گا.پھر کسی وقت انشاء اللہ تفصیلی ذکر آ جائے گا.تیسرا ذریعہ قوت خدمت کی نشو ونما کو کمال تک پہنچانے کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کرم بتایا ہے.کرم کے معنے ایک تو درگزر کرنے کے ہوتے ہیں اور دوسرے جود یعنی سخاوت کرنے کے.دراصل درگزر کر نا بھی سخاوت ہی کا ایک پہلو ہے اس لئے کہ جو بھی شخص اپنے مال و دولت کا ایک حصہ دوسرے کو دیتا ہے.وہ اپنے ایک جائز حق میں سے دے رہا ہوتا ہے اور جو درگزر کرتا ہے وہ انتقام لینے کا جو حق ہے اسے وہ چھوڑ دیتا ہے.شرط وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ لگائی ہے کہ دوسرا اگر عفو کرنے سے اپنے گناہ میں اور زیادہ بڑھتا ہے تو پھر تھوڑا سا انتقام بھی لے لینا چاہیئے.لیکن اصل بنیادی چیز یہی ہے کہ درگزر کرنا بہتر ہے یعنی جو انتقام لینے کا حق ہے اسے چھوڑ دینا چاہیئے.اسی طرح یہ بھی سخاوت کا ایک پہلو ہے.غرض یہ دونوں پہلو نفی اور مثبت جو سخاوت کے اندر پائے جاتے ہیں وہی کرم کے لفظ کے اندر پائے جاتے ہیں اور خدام کو ہر وقت سوچتے رہنا چاہیئے کہ یہ عادت ان کے اندر پائی جاتی ہے یا نہیں.اس میں اپنے اور غیر بھی آ جاتے ہیں بعض دفعہ انسان جہالت کے نتیجہ میں یا لاعلمی میں دوسرے کو دکھ پہنچا دیتا ہے تو جس کو دُکھ پہنچا ہو اس کا یہ فرض ہے کہ اس نے خادم بننا ہے وہ مقابلہ میں اپنا ہاتھ نہ اٹھائے اور بدلہ نہ لے اور انتقام کی طرف متوجہ نہ ہو.میرے بچپن کا ایک واقعہ ہے.بعض واقعات ایسے گزر جاتے ہیں.انسان کی زندگی میں جنہیں وہ عمر بھر بھلا نہیں سکتا.میں چھوٹا تھ مدرسہ احمدیہ میں پڑھا کرتا تھا.حضرت ام المومنین رضی اللہ عنھا نے مجھے پالا ہے اُن کے پاس میں رہتا تھا.انہوں نے مجھے یہ حکم دے رکھا تھا کہ میں باقی نمازیں تو مسجد مبارک میں پڑھوں لیکن چونکہ پڑھنا اور پھر سونا ہوتا تھا اور مسجد مبارک میں نماز دیر سے ہوتی تھی.اس لئے عشاء کی نماز کے لئے مسجد اقصیٰ جایا کروں.وہ بھی پاس ہی تھی.حضرت مصلح موعودؓ چونکہ ہر وقت کام میں مشغول رہتے تھے بعض دفعہ دیر سے نماز کے

Page 251

مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷ء 248 لئے تشریف لاتے تھے.اب بعض دفعہ مجھے دس پندرہ منٹ کی بھی دیر ہو جائے تو نمازی گھبرا جاتے ہیں مگر ہم نے تو وہ نمازیں بھی پڑھیں ہیں جن میں حضور دو دو گھنٹے کی دیر کے بعد مسجد میں آئے ہیں.آپ تو خدا کے گھر میں بیٹھے ہوتے ہیں اور جو خدا کے گھر میں بیٹھا ہوا ہے اُسے باہر جانے کی جلدی کیسے ہوسکتی ہے.اپنے گھر سے باہر نکلنے کی جلدی نہیں ہوتی.بہر حال میں عشاء کی نماز میں مسجد اقصیٰ جایا کرتا تھا.دار مسیح کے نیچے ایک گلی تھی (اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہوئے خدام میں سے اکثر ایسے ہیں جنہیں قادیان میں دار مسیح کا کچھ پتہ نہیں ہے ) وہ گلی چھتی ہوئی تھی اور وہاں اندھیرا ہوا کرتا تھا.ایک روز جس وقت میں نیچے اتر اتو اس وقت مدرسہ احمدیہ کے طالب علموں کی قطار ( وہ قطار میں نماز پڑھنے جایا کرتے تھے ) اسی گلی میں سے گزرہی تھی.میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا.لیکن چونکہ اندھیرا تھا اس لئے اتفاقاً میرا پاؤں مجھ سے آگے چلنے والے لڑکے کے پاؤں پر پڑا.اس نے سلیپر پہنے ہوئے تھے جب اس نے ایڑی اٹھائی تو اس کے سلیپر پر میرا پنجہ پڑ گیا تو اسے جھٹکا لگا مگر اس نے درگذر سے کام لیا.لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ چار پانچ قدم کے بعد دوبارہ میرا پاؤں اس پر جا پڑا تو اسے یہ خیال گزرا کہ شاید کوئی شرارت کر رہا ہے.چنانچہ اس نے پیچھے مڑ کر تاڑ سے میرے منہ پر چپیڑ لگادی.خیر میں نے اس وقت دل میں سوچا کہ اس کو کچھ پتہ نہیں اس نے کیا کیا ہے اور اُس نے کسے چیڑ لگائی ہے اگر اسے پتہ لگ گیا تو یہ شرمندہ ہوگا.میں کیوں اسے شرمندگی کا دُکھ دوں.یہ سوچ کر میں وہاں سے ایک طرف پیچھے ہٹ گیا اور جب پندرہ ہیں طالب علم گزر گئے تو پھر میں ان کے ساتھ ہولیا.نہ مجھے پتہ ہے کہ وہ کونسا شخص ہے اور نہ اُسے (اگر وہ اب تک زندہ ہے ) پتہ ہے کہ اس نے کس کو چپیڑ لگائی تھی.پس مجھے یہ واقعہ بڑا پیارا لگتا ہے کیونکہ بچپن میں آدمی ویسے بھی بعض دفعہ تیزیاں دکھا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وقت سمجھ عطا کی کہ چیڑ کے مقابلے میں چیر نہیں لگانی.بعض دفعہ جہالت کے نتیجہ میں یا بعض دفعہ ویسے ہی نالائقی کے نتیجہ میں احمدی ایک دوسرے کو دکھ پہنچاتے ہیں یہ زندگی کے حقائق ہیں ان تلخ حقائق سے ہمیں انکار نہیں کرنا چاہئے ورنہ ہم ان سے نپٹ نہیں سکیں گے.بعض احمدی بھی ایک دوسرے کو دکھ پہنچاتے ہیں جس سے میرے لئے بھی بڑے دُکھ پیدا ہو جاتے ہیں.مجھے دونوں طرف سے تکلیف ہوتی ہے.ظالم کے لئے بھی اور مظلوم کے لئے بھی کڑھنا پڑتا ہے.تکلیف اٹھانی پڑتی ہے اور پھر کچھ وقت دعاؤں کے لئے بھی دینا پڑتا ہے.یہ آپ کا حق ہے اور میرا فرض ہے.یہ تو میں کرتا ہی رہتا ہوں.پس چاہے مخالف کے ہاتھ سے تکلیف پہنچے چاہے اپنے بھائی کے ہاتھ سے تکلیف پہنچے.ہر دو صورتوں میں درگزر سے کام لینا چاہیئے اگر درگزر نہیں کریں گے تو آپ حقیقی خادم نہیں کہلا سکیں گے.اگر درگزر سے کام نہیں لیں گے تو آپ اپنی اس قوت خدمت کی نشو ونما کو کمال تک نہیں پہنچا سکیں گے.آپ کے لئے ضروری ہے کہ نفس کے اوپر پورا ضبط ہو یہ نہیں کہ منہ زور گھوڑے کی طرح نفس جدھر چاہے انسان کو لے جائے بلکہ جس طرح ایک اچھا سوار ایک ہلکے سے اشارے کے ساتھ گھوڑے کو چلنے یا کھڑے ہونے پر مجبور کر دیتا ہے.اسی طرح آپ کا اپنے نفس کے ساتھ تعلق ہونا چاہیئے.نفس آپ پر

Page 252

249 فرموده ۱۹۷۰ء د مشعل راه جلد دوم قابو نہ پائے بلکہ آپ نفس پر قابو ر کھتے ہوں.اس کے بغیر خدمت کی قوت اور استعداد اپنی نشو ونما میں کمال تک نہیں پہنچ سکتی.پھر عفت ہے عفت کے ایک معنے احسان کے بھی ہیں یعنی جو نفسانی شہوات ہیں ان کو اپنے قابو میں رکھنا لیکن عفت کے اصل معنے اس سے زیادہ وسیع ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہر اس چیز سے پر ہیز کرنا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور ہر وہ چیز جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے وہ چہرے پر ایک داغ چھوڑ جاتی ہے.یا یوں کہئے کہ نفس پر ایک داغ چھوڑ جاتی ہے.پس ایسی چیزوں سے پر ہیز کرنا ضروری ہے جو انسان کو داغدار کر دیں.اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والی ہوں ورنہ خدمت کا جذبہ ابھر نہیں سکتا.کیونکہ اگر آپ کچھ چیزوں کا (جو آگے آ جاتی ہیں.جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نمایاں کر کے لکھا ہے ) خیال نہیں رکھیں گے تو آپ کی کوئی قوت صحیح اور کامل نشونما حاصل نہیں کر سکے گی مثال کے طور پر بعض چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے.ویسے وہ تو ہمارا حسن ہے اس نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ وہ ہمیں دکھ میں ڈالنا چاہتا ہے بلکہ اس لئے کیا ہے کہ وہ ہمیں سکھ پہنچانا چاہتا ہے یا ہر ایسی چیز جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے یہ وہ چیز ہے جو انسان کی قوتوں کی نشو و نما میں روک بنتی ہے لیے اس سے منع کیا گیا ہے.اسی کو گناہ کہتے ہیں.اسلام میں اور قرآن کریم میں گناہ کی یہ بڑی ہی عجیب تعریف بیان کی گئی ہے.ہر وہ چیز جو انسان کی سب یا بعض قوتوں اور استعدادوں کی نشو و نما میں روک بنتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام کر دی گئی ہے اور ہر وہ چیز جو انسان کے مختلف قومی کی نشوونما میں ممد و معاون ہے اسے حلال قرار دیا گیا ہے.کیونکہ انسان کی ان کی طبائع مختلف ہیں اس لئے کسی فرد کے لئے کوئی چیز موافق آتی ہے اور کسی کے لئے کوئی جس طرح کھانے کا حال ہے اسی طرح دوسرے احکام کا حال ہے.جو چیز انسان کے نفس مجموعی طور پر جو قو تیں اس کے اندر ہیں ان کے مناسب حال ہے ہماری زبان میں اسے طیب کہتے ہیں.پس ایک احمدی نے صرف حلال چیزوں کی طرف ہی توجہ نہیں کرنی.بلکہ حلال میں سے پھر طیب کا خیال کرنا ہے بعض ماں باپ غلطی کر جاتے ہیں بچے کو کہتے ہیں یہ ضرور کھاؤ.یہ ضروری نہیں کہ جو چیز ان کے لئے طیب ہو وہ ان کے بچے کے لئے بھی طیب ہو.ہمارے گھر میں لطیفہ ہوا ہماری ایک چھوٹی عزیزہ بچی جس کی عمر ۳ سال ہے اُسے اسہال آنے شروع ہوئے اور وہ بضد ہوئی کہ میں نے چنے کھانے ہیں.وہ اپنے والدین کے ساتھ ایک دو دن کے لئے اپنی نانی کے ہاں آئی ہوئی تھی.اتفاقاً انہوں نے شام کی چائے پر چنے رکھے ہوئے تھے.چنانچہ ماں باپ ایک طرف اور وہ بچی ایک طرف.ماں باپ اسے کہہ رہے تھے کہ تمہیں اسہال آ رہے ہیں تمہیں چنے نہیں کھانے دینے اور وہ کہے اسہال آ رہے ہیں یا نہیں میں نے چنے ضرور کھانے ہیں.آخر اس کی نانی نے کہا جب اس کی خواہش ہے تو اسے چنے کھانے دو.چنانچہ اس نے چنے کھائے اور اسہال کا علاج ہو گیا اسہال آنے بند ہو گئے کیونکہ یہ اس کے اندر کی Urge (ارج) تھی.یہ اس کے جسم کی آواز تھی کہ چنے کھاؤ یہ تمہارا علاج ہے.اب یہ جانور ہیں.ان میں سے اکثر ایسے ہیں مثلاً بھیڑ بکریاں ہیں یہ چر رہی ہوتی ہیں بعض دفعہ ایک بکری

Page 253

فرموده ۱۹۷ء 250 د مشعل راه جلد دوم کسی بوٹی کو منہ لگاتی ہے اور اسے چھوڑ کر پرے چلی جاتی ہے اس کی فطرت اسے یہ بتادیتی ہے کہ یہ تمہارے کھانے کی چیز نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے جانور کو یہ سمجھ عطا کر دی ہے.کہ تمہارے لئے یہ حلال چیز طیب نہیں ہے.اس لئے نہ کھاؤ.یہ حلال چیز تمہارے لئے طیب ہے اسے کھا لو.ہمیں اس نے عقل دی ہے اور کہا ہے کہ اپنی عقل کے مطابق فیصلہ کرو اور اپنے اندر کی آواز سنا کرو اس کے مطابق کام کیا کرو.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں جو عفت کا لفظ استعمال کیا ہے وہ عام معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.یعنی نفسانی شہوات کے معنوں میں بھی کہ انسان کو ان سے بھی بچنا چاہیے اور اس معنے میں بھی استعمال ہوا ہے کہ انسان ہر اس حرام چیز سے بچے جو انسان کے جسم کو یا اس کے کیریکٹر کو داغدار کر دے جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے دراصل حرام کہتے ہی اس چیز کو ہیں جو انسان کو داغدار کر دے.اللہ تعالیٰ کی رضا سے جو گر جاتا ہے اپنے کسی گناہ کی وجہ سے اس سے بڑا داغ انسان کو اور کیا لگ سکتا ہے.تواضع اور انکسار اور خاکساری ان تینوں میں فرق تو ہے لیکن یہ آپس میں زیادہ ملتے جلتے معنے رکھتے ہیں.اگر میں اس فرق میں گیا تو دیر ہو جائے گی.اس لئے ان کو میں اکٹھا لے لیتا ہوں.ایک خادم کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھے.ہم نے اگر چہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم میں سائق مقرر کئے ہیں لیکن سائق کو قائد کے ماتحت کیا ہے.خدام الاحمدیہ کے نظام کی اصل روح قیادت ہے قائد اور سائق کے معنوں میں فرق یہ ہے کہ سائق کہتا ہے پیچھے سے کہ چلو اور وہ خود پیچھے آتا ہے تا کہ کوئی پیچھے نہ رہ جائے.اس کا اپنا ایک مصرف ہے لیکن وہ اپنے اس عہدے کے لحاظ سے قیادت کا اہل نہیں ہے.قائد کہتا ہے کہ میں چل رہا ہوں میرے پیچھے آؤ سائق کہتا ہے کہ تم چلو میں تمہارے پیچھے رہوں گا تا کہ تم میں سے کوئی غفلت نہ کر جائے.پس آپ کو اللہ تعالیٰ نے دُنیا کی قیادت نصیب کی ہے.آپ یہ بات کر ہی نہیں سکتے.یعنی یہ بات ایک خادم کی روح کے خلاف ہے کہ آپ یہ کہہ دیں کہ ہم تو آرام سے بیٹھے ہیں تم یہ کام کر لو.جرمن فوجوں کے متعلق بعض مضمون میں نے پڑھے ہیں اور مجھے ان کی ایک بات بڑی پسند آئی ہے.جسے میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اسلام سے لیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی فوج کے دس افراد پرمشتمل ہر چھوٹے یونٹ پر ایک لیفٹینینٹ افسر مقرر کر دیا.بعض ملک ایسا کرتے ہیں اور بعض ایسا نہیں کرتے.بہر حال ان کو یہ تربیت دی جاتی تھی کہ جنگ کے دنوں میں اس چھوٹے یونٹ کا قائد یعنی لیفٹیننٹ کہتا تھا کہ فلاں جگہ پر ہم نے قبضہ کرنا ہے.چھوٹے چھوٹے ٹارگٹ مثلاً سو گز پرے جو جھاڑیاں ہیں ہم نے وہاں تک پہنچنا ہے.دشمن کی مشین گنیں ہم پر حملہ کریں گے مگر وہ لیفٹینٹ افسر اپنے سپاہیوں سے یہ بھی نہیں کہتا تھا کہ تم جاؤ اور میں تمھیں دیکھتا ہوں.جا کر Capture ( کیچر ) کرلو.بلکہ وہ یہ کہتا تھا کہ ہمیں حکم یہ ملا ہے کہ میں نے فلاں جھاڑیوں پر قبضہ کرنا ہے میں وہاں حملہ کرنے جارہا ہوں تم میرے پیچھے آؤ.چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے ملکوں کی نسبت جرمن فوجوں کے لیفٹینٹ اس کثرت سے مارے گئے کہ کوئی حد نہیں یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کے بغیر کوئی قیادت ہو ہی نہیں سکتی کوئی قائد بن ہی نہیں سکتا.

Page 254

251 فرموده ۱۹۷۰ء د و مشعل راه جلد دوم دد آپ نے قائد بنا ہے اور قائد اس کو کہتے ہیں جس کا اپنا نفس باقی نہ رہے.یعنی تواضع، انکسار اور خاکساری کی وجہ سے اس کا نفس مٹ جائے.( میں نے بتایا ہے کہ ان کے درمیان بھی ایک بار یک فرق ہے لیکن چونکہ دیر ہوگئی ہے اس لئے ان کے باریک فرق میں میں اس وقت نہیں جاسکتا.پس ایک خادم میں تواضع انکسار اور خاکساری کی رُوح ہونی چاہیئے.جو دراصل ایک سچے مسلمان کی روح ہے.اس عمر میں ہم آپ کی تربیت کر رہے ہیں تا کہ یہ آپ کے جسم اور آپ کی روح اور آپ کے ذہن کا حصہ بن جائے.پس آپ میں سے ہر ایک کے اندر یہ روح ہونی چاہیئے کہ ہم کچھ نہیں یعنی تنظیم کے لحاظ سے ایک عام خادم ہیں.سائق، قائد زعیم اور پھر مہتم اور صدر میں غرض نیچے سے لے کر اوپر تک یہ روح کارفرما ہونی چاہئے کہ ہم کچھ نہیں اگر یہ روح پیدا ہو جائے تو بہت سارے مسئلے آپ ہی حل ہو جائیں.آپ خود سوچ لیں گھر جا کر.اگر یہ روح ہم جماعت کے سارے نوجوانوں میں پیدا کر دیں کہ ہم کچھ نہیں تو پھر فطرت ایک ریلا کرتی ہے دل اور دماغ اور روح پر اور کہتی ہے کہ یہ تو درست ہے کہ تم واقعہ میں کچھ نہیں ہو لیکن جب کچھ ہے اس سے تعلق کیوں پیدا نہیں کرتے دراصل اس کے بغیر اللہ تعالیٰ سے سچا اور حقیقی تعلق پیدا ہی نہیں ہو سکتا.حضرت نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی جوتی کا ایک تسمہ ٹوٹ گیا اور اس نے یہ سمجھا کہ میں نے اپنے زور اور مال سے یا اپنی طاقت سے یہ تسمہ لے سکتا ہوں وہ مشرک ہے.حالانکہ تسمہ کی حقیقت کیا ہے! انسان با آسانی بازار سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر دکان سے لاسکتا ہے.ایک دو آنے اس کی قیمت ہوتی ہے.ایک ہزار روپے ایک شخص کو تنخواہ مل رہی ہے وہ یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ میرے پاس دولت بھی ہے میری ٹانگیں بھی ٹھیک ہیں.مجھے کا ر ملی ہوئی ہے تو میں اپنے زور اور دولت کے ذریعہ تسمہ لے لوں گا لیکن آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں تسمہ بھی نہیں مل سکتا تھا.جب تک تم خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے دعا کے ذریعہ اس کے فضل کو نہ پاؤ.اور یہ ایک حقیقت ہے محض کہانی یا فلسفہ نہیں ہے.دنیا میں کتنے آدمی تسمہ لینے کے لئے جاتے ہیں اور راستہ میں مرجاتے ہیں یا تو دوکان پر پہنچ ہی نہیں سکتے یا گھر واپس نہیں آسکتے.ہزار ہا موتیں اس طرح ہو جاتی ہیں.کوئی شخص گھر میں آکر یہ سمجھے بیوی بڑی اچھی ہے اس نے میرے لئے ٹھنڈا پانی رکھا ہوا ہے.میں گرمی میں باہر سے کام کر کے آیا ہوں اب میں یہ پانی پیوں گا، مجھے لذت حاصل ہوگی.الغرض اسے بڑی اچھی خیال رکھنے والی بیوی ملی ہے لیکن اگر وہ شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس پانی سے میں فائدہ اٹھا سکتا ہوں تو یہ غلط ہے جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے پانی کسی کی زندگی کا موجب نہیں بن سکتا.یہ بات ثابت کرنے کے لئے میرے ذہن میں کئی مثالیں ہیں.آپ نے بھی اخباروں میں کئی دفعہ پڑھا ہوگا.ایک شخص باہر سے آیا اس نے پانی پیا اور مر گیا.کیونکہ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے پانی کو کہ اس کے جسم کا حصہ بن یا اس کی موت کا باعث بن.اسی طرح کھانے کے ایک لقمے میں انسان کو پتہ نہیں ہوتا کہ یہ زندگی کا باعث بنے گا یا نہیں.بعض دفعہ آدمی آرام کے لئے لیٹتا ہے اگلے روز اس کے متعلق اخباروں میں آجاتا ہے کہ باہر سے تھکا ہوا آیا تھا آرام کرنے کے لئے لیٹا بیوی مجھی کہ سو گیا ہے آرام آ رہا ہے.جب ذرا دیر ہوگئی تو دیکھا مردہ پڑا ہوا ہے.پس نیند اس کی راحت اور سکون اور آرام کا

Page 255

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷ء 252 باعث نہیں بنی بلکہ اس کی موت کا باعث بن گئی.اللہ تعالیٰ نے اپنے مالک ہونے کے یہ جلوے ہم عاجز بندوں کو دکھا تا رہتا ہے.تا کہ ہم اسے بھول نہ جائیں اور اس کی طرف جانے والے رستہ کو چھوڑ نہ دیں.اللہ تعالیٰ سے اس قسم کا تعلق پیدا ہو نہیں سکتا اور انسان بلند مقام تک پہنچ نہیں سکتا اگر اس کا نفس کچھ موجود ہو یا اس میں انانیت پائی جاتی ہو اس لئے اگر آپ نے اچھا خادم بننا ہے.تو آپ کو تو اضع ، خاکساری اور انکسار کو اختیار کرنا پڑے گا.کیونکہ جو کام آپ کے سپرد کیا گیا ہے.وہ خالی پانی پینے کا یا بوٹ کے تسمے کا نہیں بلکہ ساری دنیا کو اور دنیا کی ساری اقوام کو اکٹھا کر کے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے قدم مبارک میں جمع کر دینے کا ہے.یہ کوئی مذاق نہیں ہے.یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے.تسمہ آپ لے نہیں سکتے، پانی کو حکم نہیں دے سکتے اور اتنا بڑا کام آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کیسے کرسکیں گے.اسی واسطے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا.اِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ (کنز العمال جلد ۲ صفحه ۲۵ ) کہ تم میں سے شریعت اسلامیہ اور ہدایت کے مطابق جو بھی تواضع کی راہوں کو اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اسے ساتویں آسمان تک لے جائے گا کیونکہ اگر کوئی آدمی چھلانگ لگائے تو اس کی چھلانگ دس فٹ اوپر نہیں جاسکتی.چھ فٹ کی دیوار کے لئے کہتے ہیں کہ بڑا چالاک چور ہے.اس نے پریکٹس کی ہوگی تب ہی چھلانگ مار کر نکل گیا ہے.لیکن ایک عام آدمی تو چھ سات فٹ کی دیوار بھی پھاند نہیں سکتا.ساتویں آسمان تک پہنچنے کی آپ کو کب طاقت ملی.لیکن ساتویں آسمان تک پہنچنے کے سامان اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے پیدا کر دئیے ہیں.اور فرمایا تو اضع خاکساری اور انکسار کو اختیار کرو ہم ذمہ لیتے ہیں تمہیں ہاتھ سے پکڑیں گے اور ساتویں آسمان تک پہنچادیں گے.جس طرح ماں چھوٹے بچے کو جو ابھی چل بھی نہیں سکتا اس کے قدم ڈگمگا رہے ہوتے ہیں.اس کو گود میں اٹھالیتی ہے اور بعض دفعہ کسی چھ سات فٹ اونچی جگہ پر بٹھانا ہوتو بٹھا دیتی ہے یا باپ اسے کندھے پر بٹھا لیتا ہے حالانکہ وہاں تک پہنچنے کی اسے طاقت ہی نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تو ہماری حالت اس چھوٹے بچے سے بھی گئی گزری ہے اللہ تعالیٰ کی طاقت تو باپ اور ماں سے کہیں زیادہ ہے.اس کا تو اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا.اس واسطے اگر ایک خادم نے حقیقی معنوں میں خادم بننا ہے اور اس نے اس قوت کو اس کی نشو ونما کے کمال تک پہنچانا ہے تو یہ ضروری ہے کہ وہ ان راہوں کو اختیار کرلے.پھر ہمدردی مخلوق ہے.میں نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے ہمارے سب چھوٹوں اور بڑوں کا کام ہی ہمدردی مخلوق ہے انصار کا بھی یہ کام ہے اور آپ کا بھی یہ کام ہے.( دراصل انصار بھی خادم ہیں صرف نام بدلا ہوا ہے).جماعت احمد یہ پیدا ہی دنیا کی خدمت کے لئے ہوئی ہے ہم نے دنیا سے بہر حال ہمدردی کا سلوک روا رکھنا ہے.مجھے یاد آ گیا میں افریقہ میں گیا تو جب میں یہ بات کہتا تھا کہ اسلام ہمدردی مخلوق کی تلقین کرتا ہے تو وہ حیران رہ جاتے تھے اور اس کا بڑا اثر لیتے تھے اور بڑے خوش ہوتے تھے.میں ان سے کہتا تھا کہ میں آپ کے لئے محبت کا پیغام لے کر آیا ہوں مساوات کا پیغام لے کر آیا ہوں.ایک دفعہ میں نے ان سے کہا کہ تمہاری عزت اور احترام کا سورج طلوع ہو چکا ہے اب آئندہ دنیا تمہیں نفرت اور حقارت سے نہیں دیکھا کرے گی ہم اس کے

Page 256

253 فرموده۰ ۱۹۷ ء ضامن ہیں.دد دو مشعل راه جلد د دوم یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ کو قائم ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ ہم ان لوگوں سے جو مظلوم ہیں جن سے نفرت کی گئی ہے اور جن پر دنیا کی حقارت کی نگاہیں پڑتی رہی ہیں ان سے کہیں کہ آج کے بعد تمہیں کوئی بھی نفرت اور حقارت سے نہیں دیکھے گا لیکن اگر ہم اس اعلان کے بعد یا اس اعلان کے ہوتے ہوئے اپنے اس فرض کی طرف توجہ نہ دیں تو وہ آج نہیں تو کل ہم سے بھی مایوس ہو جائیں گے.دو تین سو سال پہلے عیسائیت بھی افریقہ میں یہی پیغام لے کر گئی تھی.میں نے ان سے کہا کہ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جب عیسائیت تمہارے ملکوں میں آئی تو پادریوں نے یہی کہا تھا کہ وہ خداوند یسوع مسیح کی محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں لیکن ان کے معا پیچھے یورپین اقوام نی فوجیں دوڑ رہی تھیں.ان کی توپوں سے پھول نہیں جھڑے تھے ، گولے برس رہے تھے اور پھر انہوں نے تمہارا جو حال کیا وہ تم خود جانتے ہو مجھے کہنے کی ضرورت نہیں.اب ہم محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں اور پچاس سال سے تمہارے اندر بیٹھے ہوئے تمہاری خدمت کر رہے ہیں.اور تم جانتے ہو کہ ہم تم سے پیار بھی کرتے ہیں اور تمہارے حقوق پر ہماری نگاہ نہیں، نہ ہم تمہاری سیاست میں کوئی دخل اندازی کرتے ہیں اور نہ تمہارے مال میں ہمیں کوئی دلچسپی ہے.ہم نے جو کچھ کمایا وہ بھی تمہارے ملک پر خرچ کر دیا مثلاً ہمارے کانو کے ایک کلینک نے دو سال ہوئے ۱۵ ہزار پونڈ یعنی تین لاکھ روپیہ بچایا ہوا تھا.یہاں سے انہیں ہدایت بھجوائی کہ اپنے کلینک کو ہسپتال بنا دو.چنانچہ ایک نہایت خوبصورت بلڈنگ ہسپتال کی بن گئی ہے.میں نے ان سے کہا کہ تمہاری دولت میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے.باہر سے ہمارے بھائیوں نے قربانیاں دیں اور ہم وہ مال تمہارے پاس لے کر آگئے.یہاں سے جو کما یا وہ بھی تمہارے ملک میں خرچ کر دیا اور جو باہر سے لائے وہ بھی یہیں خرچ کر دیا اور اس کا تمہاری حکومت کو بھی پتہ ہے اور تم خود بھی جانتے ہو اور اس سے صرف ان کو اس طرف توجہ دلانا مقصود تھا.لیکن یورپی قوموں نے تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا.وہ اپنے ساتھ تو ہیں لے کر آئے تھے اور انہوں نے تمہاری سیاست میں دخل دیا تمہیں اپنا محکوم بنالیا.تمہاری عزتیں چھینیں اور تمہارے اموال لوٹے.یعقو بو گوون مجھے بڑے پیار سے ملا ہے.میں اس کا بڑا ممنون ہوں.دنیوی معیار کے لحاظ سے تو اس کا سر پھولا ہوا ہونا چاہیئے تھا دماغ خراب ہونا چاہیئے تھا امریکہ کے خلاف بیا فرا کی سول وار جیتی ہوئی تھی اور چند دن پہلے بیا فرانے Surrender (سرنڈر) کیا تھا.لیکن میرے ساتھ وہ اس طرح ملا جس طرح اپنے گھر کا ایک بچہ ہو.دس بارہ منٹ کے بعد میں نے اٹھنے کی کوشش کی کہا کہ نہیں ابھی بیٹھیں پھر دوسری بار میں اٹھنے لگا تو کہا نہیں ابھی اور بیٹھیں میں نے سمجھا تھا کہ Coursty Call ہے.اس لئے میں نے دو دفعہ اٹھنے کی کوشش کی لیکن وہ برابر میرے ساتھ باتیں کرتا رہا.حالانکہ ہماری اس ملاقات سے پانچ دن پہلے آرچ بشپ آف ویسٹ افریقہ گوون سے ملنے گیا تھا.اس کو اس نے دعا کے لئے نہیں کہا لیکن مجھے اس نے کہا کہ دعا کریں.میں سمجھا کہ یہ عیسائی ہے ممکن ہے اس نے رسماً کہا ہو.میرے دل نے فیصلہ کیا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ میں ہاتھ اٹھالوں اور یہ آرام

Page 257

فرموده ۱۹۷ء 254 د و مشعل راه جلد دوم سے میرا منہ دیکھتا رہے یہ تو ٹھیک نہیں ہوگا.پھر میں نے اس سے وضاحت سے پوچھا کہ کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ با قاعدہ فارمل طریقے پر ہاتھ اٹھا کر اسی وقت دعا کروں وہ کہنے لگا.ہاں میرا یہی مطلب ہے.چنانچہ میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو وہ بھی اس میں اپنے طریق پر شامل ہوا اور دعا کرتا رہا.میں نے اس سے کہا کہ میں نے اپنے ایک افریقن احمدی دوست سے یہ اظہار کیا ہے (ابھی مجھے وہاں چند دن ہوئے تھے اس عرصہ میں میں نے جو مشاہدہ کیا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں سب کچھ دیا تھا مگر یہ غیر اقوام تم سے سب کچھ چھین کر لے گئیں.میں نے جب اس سے یہ بات کہی تو وہ بے اختیار کہنے لگا.How true you are! How true you are! کیسی سچی بات آپ کہہ رہے ہیں! کیسی سچی بات آپ کہہ رہے ہیں !! پس ہم نے ان کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا.اگر ہم کسی قوم سے یہ سلوک کریں اور مخلوق خدا کے لئے ہمدردی نہ ہو تو پھر نہ ہم صحیح معنوں میں خادم بن سکتے ہیں نہ جماعت احمد یہ اپنا مقصد اور مشن پورا کر سکتی ہے اور جو آپ کے نفس کا یہ حق ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو قوتیں دی ہیں ان کی نشو و نما کمال کو پہنچے.اس میں آپ ناکام ہو جاتے ہیں کم از کم اس مسئلہ میں جس کے متعلق میں بات کر رہا ہوں.نویں بات پاک باطنی یعنی تزکیہ نفس ہے.یہ بھی بہت ضروری وصف ہے.ورنہ مذہب فلسفہ بن جاتا ہے.اور سب سے زیادہ فکر میرے جیسے انسان کو یہی رہتی ہے کہ ہماری نوجوان نسل میں پاکیزگی نفس اور تقویٰ پیدا ہو اور وہ اپنے رب کی معرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں، خدا تعالیٰ کے پیار اور اس کے حسن و احسان کی مسرت سے لطف اندوز ہونے کا انہیں چسکا پڑ جائے اور وہ اس کو چھوڑ نہ سکیں تب ہی پاک باطنی قائم رہ سکتی ہے.شیطان صرف چاروں طرف سے نہیں بلکہ ہزاروں اطراف سے حملہ کرتا ہے.کبھی انسان کے دل میں تکبر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.کبھی ریا پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.کبھی ایک برائی اور کبھی دوسری برائی میں ملوث کر دیتا ہے.یہ اس کا کام ہے وہ اس میں لگا ہوا ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ شیطان سے نہ ڈرنا البتہ ایک شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ میرے بندے بن جانا.پھر تمہارے اوپر شیطان کا حملہ کامیاب نہیں ہو گا.غرض پاکیزگی کا حاصل کرنا از بس ضروری ہے ظاہری پاکیزگی کا بھی دل اور روح اور اخلاق پر اثر پڑتا ہے.یہاں اتنی ظاہری صفائی نہیں جتنی میں نے افریقہ میں دیکھی ہے.حالانکہ وہ بڑے پسماندہ علاقے سمجھے جاتے ہیں.وہاں ہزاروں لوگوں سے میں نے معانقہ کیا سارے دورے کے دوران صرف ایک یادو آدمیوں کے سوائے کسی کے جسم سے مجھے پسینے کی بدبونہیں آئی اور ہزاروں میں سے ایک یا دو کا ہونا تو استثنائی صورت رکھتا ہے.بعض دفعہ بیماری بھی ہوتی ہے جسے بغل گن“ کہتے ہیں یا بعض دفعہ کسی اور رنگ کی بدبو کی بیماری ہوتی ہے لیکن یہ استثنائی صورت ہے.میرے خیال میں ایک لاکھ کے قریب احمدیوں سے ملاقات ہوئی ہے.ہزاروں سے میں نے معافقے کئے ہیں اور سینکڑوں بچوں کو میں نے اٹھا کر پیار کیا ہے.مجھے تو ہر ایک ظاہری طور پر صفائی کے لحاظ سے صاف ستھرا

Page 258

255 فرموده ۱۹۷۰ء ، د و مشعل راه جلد دوم دد دکھائی دیا.وہ معیار مجھے یہاں نظر نہیں آتا.اس کی طرف بھی آپ کو توجہ کرنی چاہیئے.کیونکہ پاک باطنی کے لئے پاک ظاہر کا ہونا بھی ضروری ہے وہ تو اس کے لئے بنیاد بنتا ہے افریقن دوست دن میں قریباً دو دفعہ نہاتے ہیں.افریقہ میں جہاں بھی مجھے پانی نظر آیا وہیں افریقنوں کو میں نے کپڑے دھوتے دیکھا.یہاں تو آپ کو سفر کرتے ہوئے سینکڑوں پانی کی جگہیں نظر آئیں گی کہ جہاں کوئی کپڑے نہیں دھور ہا ہوگا.لیکن وہاں تو جہاں بھی پانی ملتا ہے خواہ نالہ ہو یا چشمہ ہو یا حوض ہو وہاں میں نے کثرت سے لوگوں کو کپڑے دھوتے دیکھا ہے.بعض دفعہ تو میں نے دیکھا کہ نالے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لوگ کپڑے دھو رہے ہوتے تھے.غرض وہ بالکل صاف ستھرے رہتے ہیں.غریب آدمی کو کپڑے دھونے پر تو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا البتہ محنت کرنی پڑتی ہے.توجہ دینی پڑتی ہے.پس آپ سب اس طرف بھی توجہ دیں.اگر آپ افریقنوں جتنے صاف ہو جائیں بحیثیت جماعت تو اس وقت تو لوگ آپ کو سامنے سے دیکھ کر پہچانتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو ایک نور عطا فرمایا ہے اس نور کو کوئی چھین نہیں سکتا اگر لوگ احمدی کو سامنے سے دیکھ لیں تو ان کو پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ احمدی ہے پھر وہ آپ کو دور سے دیکھ کر پہچانے لگ جائینگے خواہ آپ کا منہ ان کی طرف ہو یا نہ ہوا ور کہیں گے اتنا صاف ستھرا سوائے احمدی کے اور کوئی نہیں ہوسکتا.پس اپنے آپ کو نمایاں کریں.ہمدردی مخلوق کا جذ بہ بھی ہونا چاہیے اور پاک باطنی بھی ہونی چاہیئے اور پھر دسویں بات اکل حلال ہے یہ تو پہلی چیز ہے.میں نے بتایا ہے کہ طیب کی دراصل شرط ہے.لیکن حلال کے بغیر تو طیب ہوتا ہی نہیں.اب یہ گندی عادت ہے.میں چھوٹی سی مثال دے دیتا ہوں باقی چیزیں آپ خود سوچ لیں.گاؤں میں ہر خاندان کا گنے کا کھیت ہوتا ہے.قریباً ایک جتنے گئے کھائے جاتے ہیں.کوئی فرق نہیں پڑتا.مگر بعض دفعہ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک خاندان کے بچے دوسرے خاندان کے کھیت سے گنے تو ڑ کر کھا جاتے ہیں اور اس خاندان کے بچے اس پہلے خاندان کے کھیت میں سے کھا لیتے ہیں.حالانکہ اگر وہ اپنے اپنے کھیت سے کھاتے تو انہیں کوئی نقصان نہ ہوتا بلکہ اکل حلال ہو جاتا.اس لئے بغیر اجازت کسی دوسرے کا حق نہیں مارنا چاہیئے.یہ حرام کے اندر آ جاتا ہے.یہاں بھی منظمین اجتماع یہ کرتے ہیں مجھے رپورٹ ملتی ہے اور خوشی ہوتی ہے.بعض دفعہ ممکن ہے ایسا نہ ہوتا ہو لیکن قادیان میں جب بھی مجلس خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہوا وہاں بالعموم لڑے میدان میں اجتماعات ہوتے تھے اور وہاں نہ کوئی چیز بنی ہوئی ہوتی تھی نہ وہاں کوئی کام کر رہا ہوتا تھا لیکن وہ جگہ جس کی ملکیت ہوتی تھی اس سے ہی با قاعدہ تحریری اجازت نامہ لیا کرتا تھا اور پھر وہاں کیمپ کرتا تھا کیونکہ مالک کا یہ حق ہے کہ وہ ہاں کرے یا نہ کرے اور میرا یہ فرض ہے کہ میں اس سے پوچھوں.مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ حق نہیں دیا کہ دوسرے کی چیز کو اس کی اجازت کے بغیر استعمال کروں خواہ وہ کھلا میدان ہی کیوں نہ ہو.پس اکل حلال کا صرف یہ مطلب نہیں ہوتا کہ چوری نہ کرو بلکہ بہت ساری بار یک باتیں ہیں ان کی طرف توجہ کرنی چاہیئے.مثلا کسی دوسرے کے کھیت سے گنے کھانا ہے یا مولیاں کھا جانا ہے.اس قسم کی اور بہت سی چیزیں ہیں.دوسرے کے گھر کی بیری کی شاخیں باہر لٹکی

Page 259

د د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۰ء 256 ہوئی ہیں، چھوٹے بچوں کو سنبھالنا چاہیئے اور انہیں سمجھانا چاہیئے کہ دس بیر بغیر اجازت کے کھا کر اس کے جسم کی نشو و نما تو شاید ہو جائے لیکن غیر کے بیراجازت کے بغیر کھا کر اس کی روح بیمار ہو جائے.حالانکہ اگر گھر والوں سے پوچھ لیا جائے تو وہ کبھی نہیں کہیں گے کہ نہ کھاؤ اور شوق سے اجازت دے دیں گے.میں نے کالج میں باغ لگوایا.اس کے انچارج بڑے تیز قسم کے آدمی تھے ایک دن وہ میرے پاس آگئے کہ کالج کے بعض لڑکوں نے پھل توڑا ہیں.میں نے پہلے یہ سوچا تھا کہ اگر میں منع کروں اور یہ کھا لیں تو گنہگار ہوں گے اور اگر میں اجازت دے دوں اور وہ حسب مرضی کھالیں تو گنہگار نہیں ہوں گے کیونکہ اس طرح تو وہ اپنی چیز کھارہے ہوں گے.میں نے اسے جواب دیا کہ یہ باغ میں نے تو لگایا ہی ان بچوں کے لئے ہے تمہیں کیوں غصہ آ رہا ہے.ان کا باغ ہے جب ان کی مرضی ہو اس سے پھل کھائیں.تم ان کو صرف یہ سمجھا دیا کرو کہ مثلاً امرود ہے وہ کچا نہ کھایا کریں یہ بیمار کر دیتا ہے.پک جائیگا انہی کی چیز ہے بڑے شوق سے آ کر کھائیں.اب تو شاید ٹھیکے پر دینے لگ گئے ہیں لیکن کچھ درخت بچوں کے لئے ضرور مخصوص ہونے چاہیئے.پہلے حق ان کا ہے.گیارہویں بات صدق مقال یعنی سچی بات کہنا ہے یہ بھی بڑی بنیادی چیز ہے.کہتے ہیں جھوٹ کا بچہ ہوتا ہے.ایک دفعہ کوئی آدمی جھوٹ بول لے تو اس کا سلسلہ پھر پتہ نہیں کہاں تک چلتا ہے.اس کو چھپانے کے لئے ایک دوسرا جھوٹ بولنا پڑتا ہے.پھر اس کو چھپانے کے لئے ایک تیسرا جھوٹ بولنا پڑتا ہے.مگر جو آدمی سچ بول رہا ہوتا ہے اس کو تو جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں پڑتی.کیونکہ اس کی تربیت کہیں کی کہیں پہنچ جاتی ہے.ابھی حال ہی میں ایک بڑے افسر سے میری ملاقات ہوئی.میں نے ان سے کہا کہ ہماری جماعت تو ایسی ہے کہ اگر ہم غلطی سے قانون شکنی کر دیں اور آپ کو ہم Convince ( کنونس) نہ کرواسکیں کہ ہم نے قانون نہیں تو ڑا ہماری نیت کھوئی نہیں تھی.ہم امن پسند جماعت ہیں.لیکن بہر حال خدا ہونے کا تو ہمارا کوئی دعویٰ نہیں ہے.ایک احمدی بعض دفعہ غلطی بھی کر سکتا ہے اگر وہ کبھی ایسا کر دے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر آپ اس کا یہ حق پورا کریں کہ جس نے کوئی غلطی کی ہے.بہر حال اس کا حق ہے کہ اس سے دریافت کیا جائے اور اُسے اپنی برات کا موقعہ دیا جائے اور برکت کا موقعہ دینے کے بعد بھی اگر آپ سمجھیں کہ واقعی اس نے قانون شکنی کی ہے تو وہ بشاشت کے ساتھ دو میں سے ایک راستے کو اختیار کرے گا.اگر آپ معذرت ضروری اور کافی سمجھتے ہوں تو وہ معذرت کرے گا اور اگر آپ سزا دینا ضروری سمجھتے ہیں تو وہ بشاشت کے ساتھ سزا لے گا.مگر جھوٹ نہیں بولے گا لیکن اس کا یہ حق اسے ملنا چاہیے کہ اس سے یہ پوچھ لیا جائے کہ تم نے ایسی غلطی کی ہے یا نہیں.اب رپورٹیں کرنے والے تو ایسی رپورٹیں بھی کر جاتے ہیں جو حقیقت سے دور ہوتی ہیں.میں اگست کے آخر میں ایبٹ آباد سے چند دنوں کے لئے یہاں آیا ہوا تھا.میں نے یہاں ایک خطبہ بھی پڑھا جس میں نے براڈ کاسٹنگ سٹیشن کا ذکر کیا.جس کے متعلق میں اس سے پہلے بھی اپنی تقریروں اور خطبات میں کئی بار ذکر کر چکا ہوں کہ یہ ٹیشن افریقہ میں لگانے کا پروگرام ہے اور اس کے متعلق میرے خیال میں آپ میں سے جو دوست اخبار پڑھتے ہیں.ہر ایک

Page 260

257 فرموده ۱۹۷۰ ء د و مشعل راه جلد دوم دو جانتا ہوگا کہ یہ براڈ کاسٹنگ سٹیشن افریقہ کے کسی ملک میں لگایا جائے گا لیکن یہیں سے کسی نے حکومت کو یہ رپورٹ بھجوائی کہ میں نے اپنے خطبہ جمعہ میں یہ اعلان کیا ہے کہ یہ براڈ کاسٹنگ سٹیشن ربوہ میں لگائیں گے اور قانون شکنی کرتے ہوئے لگائیں گے اور گورنمنٹ کو ہوشیار رہنا چاہیئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جماعت احمد یہ چپکے سے لگالے اور گورنمنٹ کو پتہ ہی نہ لگے یعنی جماعت احمد یہ براڈ کاسٹنگ سٹیشن چپ کر کے لگالے اور حکومت کو علم ہی نہ ہو.غرض ایسی باتیں بھی لوگ کر جاتے ہیں.کس نے یہ بات کی یہ پتہ نہیں لیکن یہ یقینی طور پر پتہ ہے کہ حکومت کو کسی نے یہ بات بھی لکھ دی.بعض مخالفوں نے دھڑلے سے اپنی تقریروں میں یہ کہدیا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے نصرت جہاں ریز روفنڈ سیاسی مقاصد کے لئے جاری کیا گیا ہے.بندہ خدا! ہم نے افریقہ کا دورہ کیا.اسلام کی ضرورت کو دیکھا.لوگ خدا اور اس کے رسول ﷺ کے نام پر قربانیاں دے رہے ہیں.میں نے اس ریز روفنڈ کے وعدہ جات کے سلسلہ میں احباب کو ایک یاد دہانی کرائی تھی جس کے جواب میں ابھی چار پانچ دن ہوئے.لنڈن سے ایک احمدی دوست کا خط آیا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ میں نے کچھ رقم اپنی شادی کے لئے جمع کی ہوئی تھی.اب آپ کا خط مجھے ملا ہے اور میں نے یہ رقم نصرت جہاں ریزروفنڈ میں دے دی ہے اور اپنی شادی ملتوی کر دی ہے.پس اس قسم کی قربانیاں دینے والے لوگوں کے چندہ سے جو نصرت جہاں ریز ورفنڈ بنا ہے ہم اتنے احمق اور گدھے ہیں کہ اس روپیہ کو سیاسی مقاصد پر خرچ کر دیں گے اور ویسے بھی ہمارے چندوں کا حساب اس طرح تو نہیں جس طرح آج کل دنیا میں ہو رہا ہے ہمارا تو ایک ایک پیسہ کھاتوں میں درج ہوتا ہے.چیکوں کے ذریعہ انکا خرچ ہوتا ہے اور بالکل محفوظ ہے جس کی مرضی ہو ہر وقت آ کر چیک کر سکتا ہے.پس یہ کہنا غلط ہے کہ یہ سیاست لڑ رہے ہیں.لوگ اس قسم کی تقریریں کر جاتے ہیں.اس قسم کی رپورٹیں بھجوا دیتے ہیں لیکن کیا ہم افراد جماعت احمد یہ ہمارے بڑے بھی اور چھوٹے بھی ہمارے بچے بھی اور جوان بھی اس ارفع اور اعلیٰ مقام صدق پر کھڑے ہو چکے ہیں کہ کوئی شخص اپنے تجربے کی بناء پر یہ نہ کہہ سکے کہ فلاں احمدی جو بات کر رہا ہے وہ غلط ہے اور اس کا مخالف جو کہہ رہا ہے وہ صحیح ہے.یہ مقام حاصل کرنا چاہیئے اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے 1999 حمدی اس مقام پر قائم ہیں لیکن اگر ایک بھی کمزور ہے تو یہ بات جماعت کو بدنام کرنے والی ہے.پس سچائی کے اوپر پختگی سے قائم ہونا چاہیئے.کوئی فرق نہیں پڑتا گود نیا اس کو پسند نہیں کرے گی.ہمیں کئی دفعہ تکلیفیں دی گئیں.( میں اس وقت تفصیل میں نہیں جاسکتا ) تکلیف اس وجہ سے کہ آگے سے جواب یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ آپ جھوٹ بولنے کے لئے تیار نہیں اس لئے آپ کو یہ حق نہیں مل سکتا.یہ بات ٹھیک ہے ہم اپنا حق جھوٹ بول کر نہیں لینا چاہتے مثالیں میں خاص وجہ سے نہیں دے رہا لیکن بہر حال یہ بھی ہوتا رہتا ہے کہ آپ جھوٹ بولیں گے تو آپ کو اپنا حق ملے گا ورنہ نہیں مل سکتا.ہم حق چھوڑتے ہیں لیکن سچ کو نہیں چھوڑ سکتے یہ جذ بہ ہر احمدی کے اندر پیدا ہونا چاہیئے اور سچ بولنے کی پختہ عادت ڈالنی چاہیئے.یعنی سچ بولنا اس کی سوچ اور اس کی روح اور اس کے دماغ کا حصہ بن جانا چاہیئے.اب

Page 261

فرموده۰ ۱۹۷ء 258 د دمشعل را راه جلد دوم مثلاً میں ہوں.مجھ پر ہزارقسم کی ذمہ داریاں ہیں.جماعت مجھے خط لکھتی ہے اپنے متعلق بھی اور اپنے کاموں کے متعلق بھی.اب اگر مجھے یہ گمان ہو کہ میرے پاس کچی خبر نہیں آرہی تو میں صحیح فیصلے نہیں کر سکتا.میں صحیح فیصلے تب ہی کر سکتا ہوں کہ جس طرف سے بھی مجھے اطلاع ملے وہ حقیقت پر بنی ہو اور لوگ کچی اطلاعیں دیتے ہیں اس واسطے جو ہمارے رائے ہوتی ہے دینی یا دنیوی معاملات کے متعلق وہ دوسروں کی آراء سے بہت مختلف ہوتی ہے.کیونکہ یاد ان کے پاس جور پورٹیں آتی ہیں وہ آدھی بچی اور آدھی جھوٹی ہوتی ہیں.آپ ان سے صحیح نتیجہ نکال ہی نہیں سکتے صحیح نتیجہ وہی شخص نکال سکتا ہے جس کے پاس کچی خبریں آتی ہوں اور اگر کوئی مشتبہ خبرآ بھی جائے تو اللہ تعالی اسے ایسی فراست دے کہ جس سے وہ معلوم کر لے کہ یہ خبر صحیح نہیں ہے.پس خلاصہ یہ کہ پرہیز گاری کی عادت ہو دراصل پر ہیز گاری یعنی بری چیزوں سے بچنا بنیاد ہے.جب تک بری چیزوں سے بچا نہ جائے اچھی چیزیں حاصل نہیں ہوسکتیں.جب تک بنیا د اچھی ریت اور پختہ روڑی پر نہ ہو مکان کھڑا نہیں رہ سکتا.اگر کوئی شخص بنیاد میں گاؤں یا شہر کا گند یا کوڑا کرکٹ ڈال دے اور یہ سمجھے کہ اس کے اوپر وہ ایک پختہ عمارت کھڑی کر دے گا.جو اس کے بیوی بچوں پر نہیں گرے گی اور ان کی ہلاکت کا باعث نہیں بنے گی.وہ جاہل ہے اسی طرح جو شخص اپنی زندگی کی عمارت کی بنیاد میں پر ہیز گاری اور پاکیزگی اور طہارت کو نہیں رکھتا اور ان چیزوں پر جو مثبت قسم کے اثرات ہیں ان کی عمارت قائم نہیں کرتا اس کو ہر لمحہ اور ہر لحظہ ہلاکت کا انتظار کرنا چاہئے اور وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث نہیں بن سکتا.ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگی کی عمارت کو طہارت اور پاکیزگی کی بنیادوں پر قائم کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی عمارت بنائی جاتی ہے اور جو ہمارے لئے نمونہ ہوتی ہے اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.لمسجد اسس على التقوى من اول يوم احق ان تقوم فيه.(التوبہ آیت نمبر ۱۰۸) یعنی اللہ تعالیٰ کا جو گھر تقویٰ کی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے.محمد رسول اللہ ﷺ کو اس میں کھڑے ہو کر قیادت کرنے کی اجازت ہے کیونکہ وہیں وہ مؤثر ہوسکتی ہے.یہی حال ہمارے گھروں کا ہے ہمارے گھروں کی بنیاد بھی تقومی اور طہارت پر ہونی چاہیئے تا کہ ہم اور ہمارے بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں ہو کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو ہم حاصل کرنے والے ہوں اور دین و دنیا کی برکات اور حسنات کے وارث بنیں.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ایسا ہی بنائے.اب میں دعا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ اپنی رحمت کے سایہ میں رکھے اور اپنی حفاظت اور امان میں رکھے اور دشمن اور مخالفت کے ہر وار کو اپنی ڈھال پر روکے اور وہ آپ تک نہ پہنچ سکے اور آپ کو توفیق دے کہ آپ ظاہری اور باطنی پاکیزگی اور طہارت کے مالک ہوں.اللہ تعالیٰ تو خالص طہارت کا سرچشمہ اور منبع ہے جو شخص گندا ہے اس سے وہ پیار نہیں کرسکتا.خدا کرے کہ میں اور آپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہمیشہ ہی پاک ٹھہریں اور پاکیزہ ہی

Page 262

259 قرار دئے جائیں.فرموده ۱۹۷۰ ء د و مشعل راه جلد دوم تا کہ اس کی نگاہ میں اس کے پیار اور اس کی رضا اور اس کی رحمتوں کے حق دار سمجھے جائیں.آؤدعا کرلیں.(اس پر معارف خطاب کے بعد حضور نے ہاتھ اٹھا کر دعا کرائی جس میں اجتماع میں شریک جملہ خدام اور دیگر احباب شریک ہوئے) (بحوالہ روزنامه الفضل ربوہ ۱۲ مئی ۱۹۷۱ء)

Page 263

دمشعل راه جلد دوم د را فرموده ۱۹۷ء سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے خدام الاحمدیہ مرکزی کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر مورخہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۰ اطفال الاحمدیہ سے جو خطاب فرمایا تھا.اس کا مکمل متن پیش خدمت ہے.( غیر مطبوعہ ) تشهد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- 260 اس اجتماع میں آپ کی دلچسپی پہلے سے زیادہ ہے کیونکہ پہلے سے زیادہ مجالس اور اطفال شریک ہوئے ہیں.لیکن ابھی یہ تسلی بخش شمولیت نہیں.اس اجتماع میں ہر جماعت احمدیہ کے اطفال کی نمائندگی ضروری ہونی چاہیے اور اسکے لئے عہد یداران کو کوشش کرنی چاہیے.اس سال میرے لئے جو بہت خوشی کی بات ہے وہ یہ ہے کہ صوبہ سرحد کے اطفال اور خُذ ام نمایاں طور پر اور بڑی کثرت سے شریک ہوئے ہیں.میں ایبٹ آباد میں کچھ عرصہ رہا تھا.وہاں کے قائد علاقائی کو میں نے تاکید کی تھی کہ کوئی مجلس ایسی نہ رہے جسکے نمائندے اس اجتماع میں شامل نہ ہوں.ضلع ہزارہ کے متعلق انکی کوششیں بڑی حد تک کامیاب ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر عطا فرمائے اور انہیں بھی جنہوں نے بڑے شوق اور رغبت سے اس اجتماع میں حصہ لیا ہے.کل میری طبیعت ضعف کی تکلیف کی وجہ سے کچھ خراب ہوگئی.اور آج مجھے ابھی لجنات کی طرف تقریر کے لئے جانا ہے.اگر منتظمین سہولت کے ساتھ اطفال میں میری تقریر کا وقت تیسرے دن صبح رکھ لیا کریں تو میرے لئے شاید زیادہ سہولت رہے بشرطیکہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع عصر کے قریب ختم ہوا ہو.صبح میں یہاں آ سکتا ہوں اور زیادہ وقت دے سکتا ہوں اور شام کو خدام الاحمدیہ میں شمولیت ہو سکتی ہے.اس وقت تو میں چند منٹ بعض ضروری باتیں آپ سے کہنا چاہتا ہوں.حضرت نبی اکرم محمد ﷺ نے بنی نوع انسان پر بڑے احسان کئے ہیں اور آپ کے احسانوں کا یہ دریا یا آپ کے احسانوں کی یہ برکت صرف اس زمانہ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی جس میں آپ اُس جسد عنصری کے ساتھ اس دنیا میں موجود رہے بلکہ اس احسان کا تعلق آپ کے افاضہ روحانی ( یا آپ بچوں کو سمجھانے کے لئے یہ کہا جا سکتا ھے کہ ) کے جب تک آپ کے احسانات کا شمار نہیں ہو سکتا یعنی آپ کے احسانات کو گنا نہیں جا سکتا جو انسان کے اوپر ہوتے رہے ہیں اور ہور ہے ہیں اور ہوتے رہیں گے.حضرت نبی اکرم ﷺ نے خود ہمیں بتایا ہے کہ میرا احسان آدم علیہ السلام پر بھی تھا اور نوح علیہ السلام پر بھی تھا موسی پر بھی تھا اور عیسی پر بھی تھا اور بعد میں آنے والے پر بھی ہوگا.آپ کے بعض احسان تو اُن افراد پر بھی

Page 264

261 فرموده ۱۹۷۰ء دد د و مشعل راه جلد دوم ہیں جنہوں آپ سے انتہائی محبت کی اور اللہ تعالیٰ نے اس محبت کے نتیجہ میں اور ان کی استعدادوں اور زمانے کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے انکو ایک مامور کا نظام عطا کیا اور ان کے سپرد یہ کام کیا کہ جو لوگ مجھے بھول گئے ہیں میرا وجود انہیں یاد کرواؤ.ان کو بتاؤ کہ یہ اللہ ہے اور یہ اس کی صفات ہیں.وہ قادر مطلق ہے کوئی چیز اس کے علم سے با ہر نہیں اور کوئی چیز اس کے تصرف سے باہر نہیں.وہ تو چاہتا ہے.ہر ایک پر اس کی گرفت ہے کوئی شخص اس سے یہ پوچھ نہیں سکتا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ہے؟ کیونکہ وہ مالک ہے.اگر آپ کی جیب میں چند آنے ہوں اور آپ چنے خریدنا چاہیں تو بعض دفعہ ماں باپ ٹوکتے ہیں اور بچہ کہدیتا ہے کہ آپ کو اس سے کیا.میرے پاس پیسے ہیں میں جہاں مرضی خرچ کروں.بعض دفعہ وہ غلطی بھی کر رہا ہوتا ہے کیونکہ بہر حال وہ بچہ ہے اور انسان کا بچہ ہے.اسے بہت ساری چیزوں کا پوری طرح علم نہیں ہوتا اور اپنے مفاد کا پوری طرح احساس بھی نہیں رکھتا لیکن اللہ تعالیٰ کا علم تو ہر چیز پر حاوی ہے کیونکہ اس نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کی جان ہے.وہ ہر چیز کا سہارا ہے.اس کی منشاء کے بغیر کوئی چیز نہ زندہ رہ سکتی ہے اور نہ قائم رہ سکتی ہے.غرض ایک تو افراد پر آپ کا احسان ہے.دوسرے اقوام پر آپ کے احسان ہیں مثلاً حضرت موسیٰ کی امت پر آپ کے احسان ہیں اور شاید یہ بات آپ کو سمجھانا مشکل ہو کیونکہ آپ کے ذہنوں کی نشو ونما ابھی پوری طرح مکمل نہیں ہوئی لیکن جو بعد میں آنے والے ہیں اُن کے اوپر تو آپ کے احسان بڑے واضح ہیں.یہ آپ بھی بچے ہونے کے باوجود سمجھتے ہیں.حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ امت محمدیہ پر میرے احسان خاص طور پر بڑی شان سے ظاہر ہوں گے.ایک پہلی تین صدیوں میں یعنی جس صدی میں آنحضرت علے آئے اور آپ کے بعد کی دوصدیوں میں اور پھر امت پر تنزل کا ایک زمانہ ہوگا گو اس وقت بھی وہ افراد امت جن پر آپ احسان کر رہے ہوں گے.اور جو آپ کے احسان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر رہے ہونگے ان کی تعداد بھی سمندر کے قطروں کی طرح ہوگی.لیکن بہر حال بحیثیت امت اس زمانہ میں ان کی اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کے نتیجہ میں ایثار اور قربانی کے جذبہ کے فقدان کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ کے احسانات سے محروم کر لیا تھا اور اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر پہلا دور امت مسلمہ پر آئے گا.اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر پھر اسی طرح اپنا فضل کرنے لگے گا جس طرح آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کیا تھا.آپ نے فرمایا کہ جب میرا محبوب روحانی بیٹا سیح موعود اور مہدی معہود کی شکل میں دنیا کی طرف مبعوث کیا جائے گا اس وقت وہ لوگ جو اس کی جماعت میں داخل ہونگے یا آپ کی جماعت میں داخل ہونے والوں کی اولاد ہونگے ان پر اللہ تعالیٰ کا اسی طرح فضل ہوگا جس طرح صحابہ حضرت نبی اکرم ﷺ اور آپ کے سوسال کے ساتھ جو ملے ہوئے دوسو اور سال تھے ان میں اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا.ہم انہیں تابعین یا تبع تابعین کہتے ہیں لیکن آپ کو ان اصطلاحوں میں الجھنے کی ضرورت نہیں آپ یہ الله

Page 265

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷ء 262 سمجھ لیں کہ آنحضرت ﷺ کا زمانہ تین صدیوں تک ایسا زمانہ تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ پر خاص طور پر بے شمار فضل کئے اور اب پھر ان فضلوں کی بارش جماعت احمدیہ پر ہوگی چنانچہ جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی اتنی عظیم بارش ہے کہ جو ہمارے سب سے اچھے ذہن ہیں یا جو حساب میں بڑے ماہر ہیں مثلاً ڈاکٹر عبدالسلام ہیں وہ سائنس میں بڑے اونچے گئے ہیں اسی طرح حساب میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑے ذہین بچے دیئے ہیں.وہ پھر جتنا مرضی حساب لگا لیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو نہیں گن سکتے.فضل تو ایک طرح دنیوی رنگ میں دوسروں پر بھی ہیں اور بے شمار ہیں لیکن آنحضرت ﷺ کے طفیل روحانی طور پر ہم پر ہوتے ہیں وہ تو انسانی ذہن میں بھی نہیں آسکتے.آپ بچے ہیں.آپ کے بزرگ یا آپ کے والدین اگر وہ پرانے احمدی ہیں یا آپ کے دادا اور دادی جو بزرگ ہیں جنہیں ہم آپ کے بزرگ کہتے ہیں انہوں نے اپنی زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو موسلا دھار بارش کے قطروں سے زیادہ نازل ہوتے دیکھا ہے.لیکن آپ کو اس کا احساس نہیں نہ ہونا چاہئے کیونکہ اس چھوٹی عمر میں تو احساس پختہ نہیں ہوتا لیکن جو آپ کا حق ہے آپ کو یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ یہ آپ کا حق ہے آپ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اسی طرح وارث ہوں جس طرح جماعت احمدیہ کے وفادار حضرت محمد اللہ کے فدائی اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوتے رہے ہیں اور ہورہے ہیں یہ آپ کا حق ہے.یہ حق جو ہے.ایک تو آپ کو اس پر پختہ یقین ہونا چاہیئے دوسرے آپ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ جو چیز آپ کو اس حق سے محروم کرنا چاہتی ہے اس سے آپ کو محفوظ رکھنا آپ کے خاندان کا اور جماعت احمدیہ کا فرض ہے.اگر ہم اس بات میں کامیاب ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو روحانی طاقتیں اور اخلاقی استعداد میں آپ کو دی ہیں ان کی نشو نما کمال تک پہنچ جائے اور آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی پیدا ہو جائے اور حضرت محمد رسول اللہ علے کے لئے آپ کے دل میں عشق پیدا ہو جائے اور حضرت مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام سے آپ کا عاشقانہ تعلق قائم ہو جائے اگر آپ کے قوئی آپ کی استعداد میں اس طرح نشو و نما پاتی ہوئی اپنے کمال کو پہنچ جائیں تو میں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ بتاتا ہوں کہ یقینا آپ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اسی طرح وارث ہونگے جس طرح آپ سے پہلے بزرگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوتے رہے.یہ ماحول جس میں آپ رہ رہے ہیں.اس میں تو لوگ خدا کو نہ اس طرح پہچانتے ہیں نہ اس کے فضلوں کو جانتے ہیں جس طرح خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اس کی صفات کی معرفت رکھیں اور اس کو پہچانیں اور اس کے فضلوں کو دیکھیں.اس واسطے سے ماحول کے بداثرات اور گندی باتیں آپ پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں اور ان سے آپ کو محفوظ رکھنا یہ جماعت کا اور خدام الاحمدیہ کا اور اطفال الاحمدیہ کا اور انصار جو بزرگ ہیں غرض ساری تنظیموں کا یہ کام ہے.آپ اگر یہ یقین رکھیں اور کوئی وجہ نہیں عقلا کہ آپ یہ یقین نہ رکھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے پیار کرنا چاہتا ہے

Page 266

263 فرموده ۱۹۷۰ء د و مشعل راه جلد دوم دد اور اپنے رضا کے عطر سے معطر بنانا چاہتا ہے.یہ ہمارا محاورہ ہے جس طرح بعض خوشبوئیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر آدمی لگالے تو اُن سے سیا را کمرہ مہک اُٹھتا ہے.ابھی چند دن ہوئے میں ایک صاحب سے ملنے گیا تھا تو وہ کہنے لگے کہ ایسا عطر تو میں نے کبھی نہیں سونگھا ویسے تو وہ عطر لگانے کے شوقین ہیں لیکن شاید ان کو اچھا عطر ملا نہیں.پس خوشبو تو دور دور تک پھیل جاتی ہے.اگر آپ یہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے ساتھ جو وعدے کئے گئے ہیں وہ ضرور پورے ہونگے تو آپ کی خوشبو آپ کے ماحول میں پھیلے گی اور ماحول کو گندی بد بو پر آپ اثر انداز نہیں ہوگی اور یہ ہمارا کام ہے کہ ہم آپ کو ہر وقت تھامتے رہیں.اس لئے آپ آج یہاں سے یہ عہد کر کے اٹھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے جو وعدے کئے ہیں ہم کوشش کریں گے کہ ہم ان کے وارث بنیں.اگر آپ اپنی تربیت کے لحاظ سے یا اپنی استعدادوں کی صحیح اور کامل نشو ونما کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے وارث بن جائیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل اس طرح دیکھیں گے جن کا آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے.ایک میں تنبیہ بھی آپ کو یہاں کر دوں کہ پہلے آپ تھے اور آپ کا مقابلہ کسی سے نہیں تھا.اب دُنیا کی اقوام کے بچے آپ کے رقیب یا مد مقابل بن کر میدان میں آگئے ہیں اور وہ بڑے سنجیدہ ہیں.مثلاً افریقن بچے اتنے سنجیدہ ہیں کہ اس کا دسواں حصہ سنجید گی مجھے اس وقت اس ہال میں نظر نہیں آرہی کوئی ہنس رہا ہے، اسے یہ خیال ہی نہیں ہے کہ مجھے سنجیدہ ہو کر بیٹھنا چاہیے لیکن وہاں ساڑھے تین سال کی ایک افریقن بچی ہمارے جلسے میں آئی اور تین گھنٹے کے جلسے میں اس نے اپنی لاتیں بھی نہیں ہلائیں بڑی سنجیدگی سے بیٹھی رہی حالانکہ وہ زبان بھی نہیں سمجھ رہی تھی اور اس کے پلے کچھ نہیں پڑرہا تھا لیکن اس کے پہلے ایک چیز بندھی ہوئی تھی اور وہ یہ تھی کہ میرا خاموشی کے ساتھ اس مجلس میں بیٹھنا اللہ تعالیٰ کی برکتوں کو جذب کرے گا.ساڑھے تین سال کی بچی اور اس کا اس طرح خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہنا اس بات کی علامت ہے کہ افریقین بچے بڑے سنجیدہ ہیں.ایسے سنجیدہ بچوں کی نسل آپ کے مقابلے میں آگئی ہے.آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی کوئی رشتہ داری نہیں.اگر وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سیکھنے اور سکھانے کے میدانوں میں آپ سے زیادہ آگے بڑھ جائیں گے تو وہ آپ سے زیادہ فضلوں کے وارث ہونگے.پس وہ زمانہ تو گذر گیا جب برصغیر پاک و ہند میں یہ سمجھتا تھا یا اس برصغیر کے احمدی بچے یہ سمجھ سکتے تھے کہ صرف ہم ہیں ہمارے مقابلے میں کوئی نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے جو بھی فضل نازل ہونگے ہم ان کے وارث ہوں گے.اب دنیا کی دوسری اقوام کے احمدی بچے آپ کے مقابلے پر آگئے ہیں اور آپ کو للکارتے ہیں اور آپ کو چیلنج دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف تمہارا حق نہیں ہے ہم تم سے آگے نکلیں گے اور اگر وہ تم سے دین کا زیادہ علم سیکھیں آپ سے زیادہ اپنے اخلاق درست کریں اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی آپ سے زیادہ کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ راضی ہوگا اور ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل زیادہ ہونگے وہ آپ کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی

Page 267

تل راه جلد دوم د دمشعل را فرموده ۱۹۷ء 264 نعمتوں کے زیادہ وارث ہونگے لیکن انسان کی فطرت ہی ہے کہ جب اسے چیلنج کیا جائے للکارا جائے مقابلے پر بلایا جائے تو اس کی طبیعت میں ایک جوش پیدا ہوتا ہے.یہ جوش آپ کے اندر پیدا ہونا چاہیئے.بعض دفعہ ایک چھوٹی عمر کے بچے کو جسے جسمانی طاقت بھی نہیں ہوتی اسے بڑی عمر کا طاقتور بچہ للکارتا ہے اور کہتا ہے میں تجھے تھپڑ ماروں گا.کرے گا مجھ سے کشتی.اس قسم کی بات کہتا ہے تو وہ چھوٹا ہونے کے باوجود اس بڑے پر حملہ کر دیتا ہے خواہ نتیجہ کچھ ہو.یہ انسان کی فطرت ہے.یہاں بھی ممکن ہے ایسا واقعہ ہوا ہو.ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا وہ بچوں کا تو نہیں نو جوانوں کا واقعہ ہے.ایک دفعہ کسی خادم کو دوسرے نے للکارا اور جو للکار نے والا تھا یعنی چیلنج کرنے والا تھا وہ بہت طاقتور اور پہلوان ٹائپ کا تھا اور جس سے اس نے کہا تھا کہ آمیرا مقابلہ کر وہ بڑا منحنی اور کمزور جسم کا مالک تھا لیکن جس وقت اسے یہ چیلنج ملا تو اس نے چھلانگ لگائی اور اس جوش کی وجہ سے جو اس کے اندر پیدا ہو گیا تھا اس نے اپنے سے زیادہ طاقتور خادم کوگر الیا اور اس کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور اسے شرمندہ کر دیا.پس یہ تو فطرت کا تقاضا ہے.یہ پینج آپ کو مل چکا ہے.پہلے آپ کو چیلنج نہیں ملا تھا اب تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ آئے ہیں.منہ سے تو وہ کچھ نہیں کہتے لیکن زبان حال سے یہ کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستانی بچوں سے آگے نکل جانا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا زیادہ وارث بننا ہے.اس لئے آپ میں سے ہر ایک دل میں یہ جوش پیدا ہونا چاہیئے کہ ہم تم سے زیادہ قربانیاں دیں گے اور آگے نہیں نکلنے دیں گے.جرات یعنی اچھی باتوں میں آگے نکلنے کی تعلیم قرآن کریم نے ہمیں دی ہے.اور اس کے مطابق ہمارا عمل ہونا چاہیئے.اس واسطے بڑی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگیوں کو اس رنگ میں بناؤ کہ اللہ تعالیٰ کے وہ فضل جواحمدی بچوں پر ہونے چاہیں ان فضلوں کو حاصل کرنے میں دوسرے آپ سے آگے نہ نکل جائیں.ہماری جماعت کے نظام کا یہ فرض ہے کہ وہ آپ کو گندے ماحول کے بداثرات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے اور آپ کے دلوں میں اور آپ کے سینے میں یہ بات شیخ کی طرح گاڑ دی جائے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بچے ہیں.احمدیت کے بچے اللہ تعالیٰ کے بچے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے اور اعلان کیا ہے کہ اگر یہ بچے میرے بچے بہنیں رہیں تو ان کے اوپر اتنے فضل نازل کروں گا کہ جتنے فضل میں نے پہلی صدی کے بچوں پر نازل کئے تھے پھر دوسری اور پھر تیسری صدی میں شاید انیس بیس کے فرق کے ساتھ لیکن وہ بھی ان کی اپنی غلطی تھی وہ چاہتے تو بالکل ویسے ہی ہو جاتے لیکن آپ وہ غلطی نہ کریں.خلاصہ یہ کہ آپ احمدی بچے ہیں.آپ سے اللہ تعالیٰ کے بڑے وعدے ہیں.اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ آپ کی ساری استعدادوں کی صحیح اور کامل نشو و نما ہو خصوصاً اخلاقی اور روحانی قومی کی.اور اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اگر تم میرے کہنے کے مطابق اور بتائے ہوئے طریق پر اپنی قوتوں اور استعدادوں کی نشو ونما کرو گے اور میرا پیار اپنے دل میں پیدا کرو گے اور جو تمہارے ذریعہ سے یہی کام لینا چاہتا ہوں وہ بشاشت کے ساتھ کروگے اور میری راہ

Page 268

265 فرموده ۱۹۷۰ء د و مشعل راه جلد دوم دد میں ہر قسم کی قربانیاں دو گے تو پھر میں تمہیں اپنے فضلوں سے نواز دوں گا ور دنیا میں اس کی مثال سوائے پہلی تین صدیوں کے اور کہیں نظر نہیں آئے گی یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر بھی جو فضل نازل ہوئے ان سے زیادہ فضلوں کے آپ حق دار ہیں اور وارث بن سکتے ہیں.حق دار اس لئے ہیں کہ خدا نے فرمایا ہے کہ یہ میں تمہیں دینے کے لئے تیار ہوں اس کے لئے آپ کو کوشش کرنی پڑے گی.افریقہ والوں کو میں نے یہ بات اس طرح سمجھائی کہ تقدیر کے درخت پر تمہارے لئے پھل پکے ہوئے موجود ہیں لیکن تقدیر کے درخت کے پھل پکے ہوئے آم کی طرح جھولیوں میں نہیں گرا کرتے ان کے حصول کے لئے درخت پر چڑھنا پڑے گا تدبیر کرنی پڑے گی تب تم تقدیر کے پھل حاصل کرو گے.یہ میں آج آپ کو سمجھاتا ہوں اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھا ہے کہ آپ پر بڑے ہی فضل کرے لیکن تقدیر کا یہ پھل جو ہے وہ بغیر قربانی دینے کے بغیر اپنی تربیت کرنے کی گندے ماحول کے مقابلہ میں ایک مضبوط دیوار کی طرح کھڑے ہوئے بغیر آپ حاصل نہیں کر سکتے.خدا جو چاہتا ہے وہ کرو اور خدا سے جو تم چاہتے ہو وہ تم پا ؤ اور اس زمانہ میں سب سے زیادہ نعمتوں کے تم وارث بنو.خدا تعالیٰ تمہیں اس کی توفیق عطا کرے.اب میں دعا کرا دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو آپ وارث بنیں اور سنجیدگی آپ کے دل میں پیدا ہو اور آپ کی روح کے اندر ایک تڑپ ہو کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا ہے.آداب دعا کر لیں.

Page 269

مشعل راه جلد دوم د را فرموده ۱۹۷ء 266 ۱۸ اکتوبره ۱۹۷ء کوسید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث رحم اللہ تعالی کا جلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے اٹھائیسویں سالانہ اجتماع پر اختتامی خطاب ساڑھے تین بجے حضور نے تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد خدام کو ایک روح پر ورا اور ولولہ انگیز اختتامی خطاب سے نوازا جو سوا گھنٹے سے کچھ زائد وقت تک جاری رہا.تقریر کے آغاز میں حضور نے یاد دہانی کے رنگ میں اس بنیادی حقیقت کو بڑی تفصیل سے ذہن نشین کرایا کہ احمدی ہونے کی حیثیت میں ہمارے اموال و ہماری جانیں ، ہمارے نفوس، ہماری قوتیں اور استعداد میں غرض ہمارا سب کچھ ہمارا نہیں بلکہ ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.ہماری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال دنیا میں قائم ہو.اس خواہش اور اس جدو جہد میں ہم اس دنیا سے گذر جائیں گے اور ہمارے بعد ہماری نسلیں اس جد و جہد کو جاری رکھ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں بلند سے بلند تر کرتی چلی جائیں گی.اس کے بعد حضور نے واضح فرمایا کہ خدام الاحمدیہ کا قیام بھی اس غرض سے ہوا کہ آنے والی نسلوں کی تربیت اس رنگ میں کی جائے کہ وہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال کے اظہار کے لئے قربانیاں دیتی چلی جائیں لیکن جس طرح انسان کے جسم کو بیماری لگ جاتی ہے اس طرح بعض اوقات جماعتی جسم کو بھی بیماریاں لگ جایا کرتی ہیں.خدام الاحمدیہ کا بھی ایک جسم اور ایک روح ہے اس کی تنظیم کو بھی بیماریوں کا خطرہ لاحق ہے اور کبھی کبھی اس کی تنظیم بیمار بھی ہوتی رہی ہے.حضور نے خدام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تین سال (۶۴ ء تا۶۶ ء ) کا عرصہ سخت بیماری کا آپ پر گزرا ہے.بیماری کے اس تین سالہ دور کا اگر ہم جائزہ لیں اور اجتماع میں سال بہ سال شمولیت کرنے والی مجالس کے اعداد و شمار پر نگاہ ڈالیں تو پوزیشن یہ بنتی ہے:.سال شرکت کر نیوالی مجالس کی تعداد ۱۹۶۳ء ١٩٦٤ء ۲۱۰ ۲۰۱ ۱۹۶۵ء (اس سال اجتماع منعقد نہیں ہوا) ١٩٦٦ء ١٩٦٧ء ١٩٦٨ء ١٩٦٩ء 1+1 ۲۲۶ ۲۳۵ ۲۴۷

Page 270

د و مشعل راه جلد دوم دد ۴۰۱ فرموده ۱۹۷۰ء 8192▾ 267 اس گراف سے عیاں ہے کہ ۱۹۶۶ ء تک اجتماع میں شامل ہونے والی مجالس کی تعداد گرتی رہی تھی حتی کہ ۲۱۰ سے گر کر ۱۹۶۶ء میں یہ تعداد ء ا رہ گئی تھی.اس کے بعد تین سال تک آپ کو گو یا ہسپتال میں رکھا گیا اور خدا کے فضل سے یہ تعداد بڑھنی شروع ہوئی اور رفت رفته ۱۹۲۹ تک یہ ۲۷ تک جا نچی.یہ بتدریج ترقی واضح طور پرصحت کی علامت تھی.اس کے بعد میں نے ایک مخلص بچہ کو جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جسمانی تعلق تو نہ تھا لیکن روحانی تعلق بہت پختہ تھا خدام الاحمدیہ کی صدارت سونپی.اللہ تعالیٰ نے اسے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی اس کی کوششوں میں برکت ڈالی اور ہماری دعاؤں کو قبول فرمایا.۱۹۷۰ء میں یہ تعدا یکدم ۲۴۷ سے ۴۰۱ تک جا پہنچی ہے.اس لحاظ سے آپ کا یہ اجتماع آپ کے حق میں غسل صحت کا درجہ رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ کے اس فضل اور احسان کو دیکھ کر میرا دل اپنے رب کی حمد سے معمور ہے اور میری روح سے خوشیوں کے دھارے بہہ رہے ہیں.خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا یہ خوشی کا مقام ہے کہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم کا جسم صحت یاب ہو گیا ہے اب آپ غلبہ اسلام کی کوششوں کی شاہرہ پر انشاء اللہ العزیز آگے ہی آگے قدم بڑھاتے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ خلوص نیت کی وجہ سے ہماری کوششوں کو قبول فرمائے گا اور ان کا وہ نتیجہ نکالے گا جو ہم چاہتے ہیں کہ ہماری حقیر کوششوں کا اس کے فضل خاص کے ماتحت نتیجہ نکلے.لیکن ہمیں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ جو نتیجہ ہم چاہتے ہیں کہ نکلے وہ توحید پر پختگی سے قائم ہونے سے نکل سکتا ہے.ضروری ہے کہ ہم تو حید پر اس قدر پھنگی سے قائم ہوں کہ شرک کی کوئی ملونی اس میں نہ پائی جائے.سب سے خطر ناک شرک خود اپنے نفس کا شرک ہے.عاجزی کی راہیں اختیار کر کے اور نیستی کا جامہ پہن کر ہی ہم نفس کے شرک اور اس کی ہلاکت آفرینی سے محفوظ رہ سکتے ہیں جب ہم عاجزی کی راہیں اختیار کرینگے تب ہی غلبہ اسلام کے وعدے ہمارے حق میں پورے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ہم سے کئے ہیں.دنیا میں غلبہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلال کے قیام سے متعلق خدائی وعدوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے واضح فرمایا کہ غلبہ اسلام کے لئے جس پاک جماعت کی ضرورت تھی اور اس جماعت کی کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لئے جس خدائی تائید و نصرت اور نزول برکات کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے ان سب ضرورتوں کو پورا کرنے کا بھی وعدہ فرمایا.اس ضمن میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور ارشادات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کو قیامت تک غلبہ عطا ہونے اس غلبہ کے زمین کے کناروں تک وسیع ہونے اور خالص دلی محبتوں کے نفوس و اموال میں برکت عطا ہونے سے متعلق خدائی وعدے پڑھ کر سنائے اور ساتھ کے ساتھ اپنے سفر مغربی افریقہ کے ایمان افروز واقعات بیان کر کے اور اس کے نتیجہ میں ملنے والی غیر معمولی برکات پر روشنی ڈال کر ان وعدوں کے پورے ہونے کو بہت مسحور کن انداز میں واضح فرمایا.خدائی وعدوں کے پورا ہونے اور ان کے مہتم بالشان عملی ظہور کا یہ تذکرہ جمیل اس قدر ایمان افروز اور روح پرور تھا کہ ہزاروں ہزار سامعین فرط

Page 271

دد مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۰ء 268 سرت سے جھوم اٹھے اور وہ خدا تعالیٰ کے ہر نئے فضل اور انعام کے ذکر پر وقفہ وقفہ سے بار بار پر جوش نعرے بلند کرتے رہے.اس ولولہ انگیز و پر اثر خطاب کے بعد حضور نے جملہ خدام سے ان کا عہدد ہروایا.آخر میں حضور نے اجتماعی دعا کرائی.بعدہ حضور نے خدام کو بلند آواز سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہ کر اور نہایت ہی بیش قیمت دعاؤں سے نواز کر انہیں بہت ہی محبت و شفقت کے ساتھ رخصت فرمایا.(بحوالہ روزنامه الفضل ۲۰ /اکتوبر ۱۹۷۰ء)

Page 272

269 فرموده ۱۹۷۱ء دد دو مشعل راه جلد دوم سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مجلس خدم الحد یہ مرکزیہ کی اٹھارہویں سالانہ تربیتی کلاس کے اختتام کے موقعہ پر مورخہ ۱ جون ۱۹۷۱ ء ایوان محمود میں جو ایمان افروز خطاب فرمایا اس کا مکمل متن درج ذیل ہے ( غیر مطبوعہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - مجلس خدام الاحمدیہ کی یہ کلاس سال بسال ترقی کر رہی ہے پچھلے پانچ سالوں کا نقشہ یہ ہے.۱۹۶۷ء میں ۳۰ مجالس اور ۱۰۱ نمائندگان اس کلاس میں شامل ہوئے تھے.۱۹۶۸ء میں ، ۷ مجالس اور ۱۷۰ نمائندوں نے شمولیت کی تھی اور ۱۹۶۹ء میں۱۷۰ مجالس اور ۳۵۰ نمائندوں نے شرکت کی تھی.۱۹۷۰ء میں مجلس پھر نیچے چلی گئی.اس سال صدارت بدلی ہے.معلوم یہ ہوتا ہے کہ نئے صدر کو کام سنبھالنے میں کچھ وقت لگتا ہے جو درست نہیں ہے.یہ نقشہ انتظامی کمزوری کی طرف دلالت کرتا ہے کیونکہ گذشتہ برس مجالس، ۱۷ سے گر کر ۱۳۹ تیک پہنچ گئیں اور نمائندے ۳۵۰ کی بجائے ۲۱۷ شامل ہوئے.لیکن امسال یعنی 1951 ء میں تعداد مجالس نہ صرف سے ۱۳۹ سے بڑھ گئی بلکہ اس سے پہلے کی سب سے بڑی تعدادہ ۷ سے بھی آگے نکل کر ۲۶۵ مجالس شامل ہوئی ہیں اور ۱۹۶۹ء کے۰ ۳۵ نمائندوں کے مقابلہ میں ۴۳۴ نمائندے شامل ہوئے ہیں.اس میں شک نہیں کہ پچھلے سال تعداد گری ہے لیکن مجموعی اثر یہ ہے کہ پھر سنبھالا لے لیا اور ۱۹۶۷ ء سے لگا تار ترقی کرتے چلے آئے ہیں اور تعداد مجالس ۲۶۵ تک اور نمائندگان کی تعداد ۴ ۴۳ تک پہنچ گئی ہے.۲۶۵ کی تعداد بھی میرے لئے تسلی کا باعث نہیں.اس وقت مغربی پاکستان میں ۰۴ ۷ مجالس ہیں.ان سب کے نمائندے تو آنے چاہئیں بہر حال مجلس کا قدم ترقی کی طرف ہے.کوشش یہ کرنی چاہئے کی قریباً ہر مجلس سے نمائندے آئیں کیونکہ جس طرح ہماری بعض جماعتیں چھوٹی ہیں اسی طرح بعض مجالس بھی بہت چھوٹی ہیں اس لئے ہو سکتا ہے کہ بعض مجالس کے حالات ایسے ہوں کہ ہر جگہ سے نمائندہ نہ آسکے اور ان کی جائز مجبوری ہو.اس موقعہ پر محترم صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں عرض کیا امیرالمونین کی.کہ سندھ میں ابھی میٹرک کے امتحانات نہیں ہوئے.) فرمایا:- یہ کہتے ہیں کہ سندھ میں میٹرک کے امتحان ابھی نہیں ہوئے اور ایک وجہ یہ بھی ہوگئی ہے.گو میرا خیال ہے کہ سندھ کے سارے خدام و اطفال میٹرک کا امتحان دینے والے نہیں.بہر حال کافی ترقی ہے اور کافی ترقی کی گنجائش بھی موجود ہے.اللہ تعالیٰ منتظمین کو یہ مسئلہ سمجھنے اور اس کا حل پالینے کی توفیق عطا کرے.پس آپ

Page 273

د د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۱ء 270 (نمائندگان) ہر جگہ سے آئیں خواہ بیچ میں دو ایک مکے باز بھی آجائیں.کوئی حرج نہیں.آپ جو چھوٹی عمر کے ہیں آپ کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم اسلام کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اسلام میں بعض چھوٹے چھوٹے ایسے زمانے آتے ہیں جن میں اسلام بعض جگہوں اور بعض علاقوں سے پیچھے ہٹ رہا ہوتا ہے لیکن شروع سے لیکر اس وقت تک صرف اسلام ہی ایک مذہب اور امت محمدیہ ہی انسانوں کا ایک گروہ ہے جو آگے ہی آگے بڑھتا چلا آیا ہے اور تاریخ اس پر شاہد ناطق ہے.اسلام دل جیتنے کی طاقت رکھتا ہے تاریخ کی آنکھ نے ہلا کو اور اس کی اولاد کے گھوڑوں کے ٹاپوں کے نشان ہمیشہ کے لئے صرف ایک سمت میں چلتے ہوئے نہیں دیکھے بلکہ کچھ عرصہ کے بعد جب مسلمانوں کو بعض علاقوں میں ان کی غفلت اور ان کے گناہوں کی سزا دی جا چکی تو اس وقت ہمیں پھر یہ نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کے گھوڑوں نے ہلاکوں خان اور اس کی اولاد کے گھوڑوں کا پیچھا کیا اور گوبی کے صحرا تک ان کا پیچھا کرتے چلے گئے.کہتے ہیں (واللہ اعلم ) کہ انہوں نے ہلا کو اور اس کی اولاد) نے مفتوحین کے سروں کے ڈھیر لگائے اور مینارے بنائے.اس کے مقابلہ میں اسلام نے ہلا کو کی اولا د اور اس کے قبائل کے دل جیتنے کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر بے شمار مغل دل لا کر رکھ دیا.اسلام میں یہ طاقت تھی.اس نے دل کا ٹا نہیں.دل جیتا ہے اور ہمیشہ یہی مقابلہ اسلام کا کفر کے ساتھ نظر آتا ہے.کفر تلوار سے گردن اڑاتا ہے اور اسلام اپنے حسن کے جلووں کے ساتھ دلوں کو جیتتا ہے.پس صرف ایک حرکت نہیں تھی کہ ہلا کو اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے قبائل گوبی کے صحراء سے گھوڑے دوڑاتے ہوئے بغداد تک پہنچ گئے اور زمانہ ختم ہو گیا بلکہ پھر ایک وقت آیا کہ امیر تیمور (اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوان پر اور دوسرے لوگ پیچھا کرتے چلے گئے.خود ہلاکو خان اصل نہیں بلکہ اصل چنگیز ہے کیونکہ پہلے چنگیز ہی نکلا ہے ویسے ہلا کو زیادہ اندر تک گیا ہے اس واسطے زبان پر اس کا نام آ گیا.اس چنگیز کے ایک پوتے نے اسلام قبول کر لیا تھا اور ان کی شکستوں کی ابتداء اس طرح ہوئی ہے کہ چنگیز کے اپنے قبائل اور اس کی اپنی اولاد میں سے ایک گروہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر کفر کے مقابلہ میں نبرد آزما ہو چکا تھا.اسلام قیامت تک کے مسائل کو حل کرنے کے قابل ہے اسلام آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک انقلابی مذہب ہے.جب سے انسان پیدا ہوا انسان کے حالات بدلتے رہے ہیں اور بدلتے رہیں گے.انسانی زندگی کو بحیثیت انسان کے کسی جگہ قرار نہیں اور اسلام نے یہ دعویٰ کر دیا کہ قیامت تک کے لئے قرآنی تعلیم انسانی مسائل کو حل کرنے کے قابل ہے اور حل کرے گی.ہمیں انسان کے حالات نظر آ رہے ہیں کہ بدل رہے ہیں.اس سے ہماری عقل یہ نتیجہ

Page 274

271 فرموده ۱۹۷۱ء دو مشعل راه جلد دو دوم نکالتی ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم جو قیامت تک کے بدلے ہوئے حالات کے لئے کافی وشافی سمجھی گئی اور انسان کے دل اور دماغ اور اس کی روح کو تسلی دلانے والی سمجھی گئی تو اس لئے کہ قرآن کریم کتاب مکنون کی حیثیت سے ہر بدلے ہوئے حالات کی الجھنوں کو سلجھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے.دوسری شکل یہ بنتی کہ قرآن کریم اس لئے آخری تعلیم ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد انسان ایک جگہ ٹھہر جائے گا اور اس کا ذہن ترقی نہیں کرے گا اور اس کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا ہو گی تب بھی قرآن کریم کی تعلیم ایک آخری شریعت ہوتی جو انسان کے لئے کافی ہوتی کیونکہ اس کے بعد انسان نے بدلنا نہیں تھا اور وہ اس وقت کے حالات کے مطابق نازل ہو چکی تھی.چونکہ عملاً یہ نہیں ہے اور ہمیں نظر آ رہا ہے کہ انسان بدل رہا ہے اور بدلتا چلا آیا ہے اور ہمیں کوئی معقول وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ وہ آئندہ ٹھہر جائے گا.پیچھے چودہ سو سال گذر گئے ہیں اور وہ اس میں بدلا ہے.چونکہ انسان نے بدلتے ہی رہنا تھا اس واسطے اس کو تسلی دینے کے لئے ایسے حالات پیدا ہونے چاہئیں تھے کہ اسلامی تعلیم اس کے لئے کافی ہوتی چلی جاتی.سب سے بڑا حملہ جو کسی مذہب پر کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات اور بدلے ہوئے تقاضوں کو یہ پورا نہیں کرتا.اور اس کی تعلیم بدلے ہوئے حالات کے مطابق نہیں.پس خدا نے کہا کہ یہ کتاب مکنون ہے اور فرمایا :- انا نحن نزلنا الذكر وانا له لحافظون (الحجر: ١٠) کہ ہم اس ذکر کی حفاظت کریں گے اور اس کی حفاظت کے سامان کریں گے.یعنی ایسے لوگ پیدا کریں گے جو قرآن کریم کے چھپے ہوئے خزانوں میں سے معاشرے کی گتھیوں کو سلجھانے کے لئے وہ باتیں وہ دلائل اور وہ بیان نکالیں گے کہ انسان کا ضمیر اور انسان کا دماغ اور اس کی روح تسلی پکڑ جائیں گے.ہمیں یہ نظر آ رہا ہے کہ اگر حقیقی معنی میں کوئی اصل انقلابی دنیا میں پیدا ہوا ہے تو وہ مذہب اسلام ہے اور اگر کوئی گروہ اپنے آپ کو انقلابی کہنے کا حقدار ہے تو وہ امت محمدیہ ہے کیونکہ اسلام نے ہر آدمی کی ضرورت کا خیال رکھا ہے.اب حالات اس طرح بدل گئے ہیں.میں آپ کو اس کی ایک موٹی مثال دیتا ہوں کہ دو اڑھائی سو سال پہلے ہماری یعنی انسان کی (انڈسٹری ) صنعت ترقی یافتہ نہیں تھی.اڑھائی سو سال سے ایک تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی اور حالات بالکل بدل گئے.پہلے تو مزدور کا دماغ میں تصور ہی نہیں تھا لیکن اب مزدور کا تصور آ گیا.حالات کے بدلنے کی وجہ سے مزدور کا جو نیا تصور پیدا ہوا اس تصور کی بدولت بڑا ز بر دست مسئلہ پیدا ہو گیا.بڑی تباہیاں آئیں اور عارضی طور بڑے انقلاب بھی پیدا ہوئے.مزدور کے تصور میں سب سے بڑا انقلاب اشتراکیت کا انقلاب ہے.اس وقت انہوں نے کارخانے کے مزدور کے ساتھ کھیتوں پر کام کرنے والے زراعت کے مزدور کو بھی بریکٹ یعنی متحد کر دیا تھا.انہوں نے اپنی طرف سے بڑا معرکہ مارا اور ایک انقلاب بپا کیا.لیکن خود

Page 275

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۱ء 272 اشتراکیت کے اندر بڑے مضبوط گروہ اور اقوام ایسی پیدا ہوئیں اور کچھ ایسے ملک بن گئے جنہوں نے انقلابی اشترا کی روس پر اعتراض شروع کر دئے.کہ انہوں نے مسائل حل نہیں کئے.مثلاً چین اب روس پر اعتراض کر رہا ہے کہ تم مزدور کے مسائل حل نہیں کر سکے.اسلام نے مزدور کا مسئلہ حل کر دیا ہے لیکن اسلام کو عارضی طور پر ایک جگہ ٹھہر نا پڑا جو ہمارے اپنے گناہوں کا نتیجہ ہے.میں نے بتایا ہے کہ اسلام ہی بدلے ہوئے حالات کا مقابلہ کرتا چلا آیا ہے اور کرتا چلا جائے گا.ہمیں کچھ ایسے زمانے اور کچھ ایسے ملک بیچ میں نظر آتے ہیں کہ وہاں کے مسلمانوں کے گناہوں کے نتیجہ میں اور اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ کے مطابق کہ انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور بھلا دیا اس لئے میں ان کو سزا دوں گا اس زمانہ میں اور ان ملکوں میں ہمیں اسلام ٹھہرا ہوایا پیچھے ہٹتا ہوا نظر آتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی انسانی تاریخ کی نگاہ نے اسلام اور امت محمدیہ کو آگے ہی آگے بڑھتے دیکھا ہے اور بھی پیچھے ہٹتے نہیں دیکھا.یہ دوصدیوں کا جو پچھلا زمانہ ہے اس کے متعلق بھی پیشگوئیاں تھیں.یہ بھی اسلام کی شان ہے کہ جب تنزل آیا تو پہلے سے بتادیا کہ اس زمانے میں ایسے حالات پیدا ہوں گے جب کہ بظاہر اسلام پر اعتراض آئے گا لیکن وہ اعتراض سچا نہیں ہوگا کیونکہ انسانی زندگی میں صدی دوصدی کی مدت بے معنی ہے.حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے جو حالات پیدا ہوتے رہے ہیں اس میں تو صدی دوصدی کچھ چیز نہیں اور خود اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں بھی یہ کچھ نہیں پھر اس صورت میں کہ صرف ایک ملک کے حالات ایسے تھے اور اسی زمانہ میں اسلام بعض دوسرے ملکوں میں آگے بڑھ رہا تھایا چھوٹے چھوٹے Pockets(پاکٹس ) آگے بڑھنے والے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ جو تنزل کا زمانہ اسلام پر آیا تھا اس میں اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والوں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والوں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والوں کی تعداد سمندر کے قطروں کی تعداد کی طرح تھی لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے امت محمدیہ کو بڑے زور سے دھکا لگا ہو اور ذرا سا پیچھے ہٹ گئی ہو لیکن بے شمار Pockets (پاکٹس) ایسی تھیں اور ملک ایسے تھے جہاں اسلام ترقی کر رہا تھا تاہم ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی حجاب نہیں کہ خدا کی بتائیں ہوئی پیشینگوئی کے مطابق ماضی قریب میں ایک زمانہ ایسا بھی آیا جس میں بظاہر اسلام کو پیچھے ہٹنا پڑا لیکن اسلام کی یہ آخری شکست نہیں تھی کیونکہ آخری شکست اسلام کا مقدر نہیں بلکہ آخری فتح اسلام کا مقدر ہے.آخری فتح اسلام کا مقدر ہے جس طرح ایک وقت میں چنگیز اور ہلاکو اور اس کے دوسرے بچوں اور اس کے Tribes ( ٹرائیز ) یعنی قبیلوں نے بعض مسلمان ملکوں اور بغداد کی اس وقت کی حکومت کو جو خلافت کہلاتی تھی پامال کیا اور مسلمانوں کو وقتی طور پیچھے ہٹنا پڑا لیکن پھر مسلمان آگے بڑھے اور اپنے فاتح کی تلوار کو پیار سے مفتوح کر لیا اور ان کے دل جیت

Page 276

273 فرموده ۱۹۷۱ء ود مشعل راه جلد دوم دد لئے اور روس تک وہ سارے علاقے جہاں یہ آباد ہوئے تھے ( روس میں بھی چنگیز کی اولاد گئی تھی اور وہاں کی فاتح ہوئی تھی.یہ سارے علاقے مسلمان ہوئے اور وہاں کے سرداروں نے مسلمانوں کا ساتھ دیا.اسلام کے خلاف ان کی جو ایک حرکت تھی پہلے اسے روکا پھر پیچھے ہٹایا اور پھر ان کے دل جیتے چلے گئے.یہ بڑا لمبا اور دلچسپ مضمون ہے.اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی شان کے نظارے اور اسلام کے ساتھ اس کے پیار کے جلوے ہمیں اس تاریخ میں نظر آتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ماضی قریب میں ایک زمانہ اس زمانہ سے ملتا جلتا ہے جو چنگیز اور اس کی اولاد اور اس کے قبیلوں کی یلغار کے نتیجے میں اسلام کے تنزل کی شکل میں ظاہر ہوا اگر چہ شکل بدلی ہوئی ہے.یہ زمانہ اس سے کچھ ملتا جلتا تو تھا لیکن ظاہر کچھ بڑے پیمانے پر ہوا.پیشینگوئیوں نے ہمیں یہ بتایا تھا کہ وہ زمانہ ہزار سال کے بعد کی دو تین صدیاں ہے ( چودہویں صدی تو اب ہماری شروع ہو چکی ہے ) اور وہ دو تین صدیاں بڑی تنزل کی اور پشیمانی اور پریشانی کی صدیاں ہیں لیکن گھبرانے کی بات نہیں کیونکہ یہ تنزل عارضی ہے اور پھر اسلام غالب آئے گا.یہ زمانہ جس میں اسلام نے غالب آتا ہے اس میں آپ داخل ہو چکے ہیں اور آپ کو اس کا احساس ہونا چاہئے صرف یہ احساس اگر آپ کے دل یعنی ہر احمدی بچے اور نو جوان خادم کے دل میں پیدا ہو جائے کہ ہم اس زمانہ میں داخل ہو چکے ہیں کہ جس میں اسلام کے مقدر میں عظیم فتوحات اور عظیم غلبہ ہے تو یہ احساس آپ کو ایسی تربیت پر مجبور کرےگا کہ اللہتعالی کی نگاہ میں صیح معنی میں اسلام کے سپاہی بن جائیں اور یہی چیز ہم دیکھنا چاہتے ہیں.دنیا تو اس وقت پاگل ہوئی ہوئی ہے.میں نے بڑا غور کیا ہے اس وقت دنیا میں عقلمند صرف احمدی ہے.دنیا اس دنیا کے پیچھے لگی ہوئی ہے جو عارضی اور بے اطمینانیوں سے بھری ہوئی اور پریشانیوں سے معمور دنیا ہے جہاں ہلاکتیں ہی ہلاکتیں نظر آ رہی ہیں.یہ وہ دنیا ہے جہاں نشوں کے ذریعہ اپنے آپ کو بھلانا چاہتے ہیں اور بھلا نہیں سکتے ہر دل میں بے اطمینانی ہے.ہر روسی کے دل میں بھی بے اطمینانی ہے کہ ہم نے کیا کرنا چاہا تھا اور کیا ہورہا ہے؟ ہم اپنے مقصد کو نہیں پا سکے.اگر انسان کا مقصود یہ ہو کہ اس دنیا میں بھی اس کا دل مطمئن رہے اور بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی کے دن گزار رہا ہو تو سوائے اسلام کے کہیں اور یہ بشاشت اور اطمینان حاصل نہیں ہوسکتا.انسان پیار تو اللہ تعالیٰ سے حاصل کرتا ہے جو حقیقی پیار ہے اور اسی پیار کے نتیجہ میں اطمینان اور بشاشت پیدا ہوتی ہے.ورنہ جس قسم کی یلغار اس وقت اسلام کے خلاف ہو رہی ہے اس سے تو بظاہر اس شخص کے دل میں مایوسی پیدا ہوتی ہے جو کہلا تا تو مسلمان ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے قرب کا تعلق نہیں رکھتا.کئی لوگ مجھ سے بھی اور دوسرے احمدیوں سے بھی پوچھ لیتے ہیں کہ آپ لوگ جو ہر وقت بولتے رہتے ہیں

Page 277

مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۱ء 274 کہ اسلام غالب آئے گا تو کیسے اسلام غالب آئے گا ؟ ان کا یہ سوال اس وجہ سے ہے کہ ان کے دل مطمئن نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ سے قرب اور محبت انہیں حاصل نہیں لیکن ایک احمدی کا دل مطمئن ہے.ہم تو اس کی قدرت کے نظارے دیکھتے ہیں مثلاً آج ہی ایک تار آئی ہے وہ میں بتاؤں گا اور اس سے پتہ چلے گا کہ ہمارے دل کس طرح مطمئن ہیں اور کیوں ہیں.افریقہ میں جماعت کی طبی خدمات عیسائیت افریقہ میں صدیوں سے اپنے اور کاموں اور سکول کھولنے کے علاوہ ڈاکٹر بھی بھیج رہی ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اب یہ دروازہ کھولا.پچھلے سال جب میں وہاں گیا اور میں نے وہاں کے حالات دیکھے تو میں سمجھا کہ ہمیں ان لوگوں کی اس طرح بھی خدمت کرنی چاہئے جیسا کہ اسلام ہم سے چاہتا ہے یعنی ہم طبی میدان میں بھی ان کی خدمت کریں اور ڈاکٹر بھیجیں.اس وقت جو فرق عیسائی مشنری ڈاکٹر اور ہمارے ڈاکٹر میں نظر آتا ہے.میں آپ کو اس کی ایک مثال میں دیتا ہوں جو مجھے ایک عیسائی امریکن نے بتائی ہے وہ آج کل غانا میں مختلف Projects ( پراجیکٹس ) پر ریسرچ کا کام کر رہے ہیں.وہ پیچھے یہاں آئے ہوئے تھے اور مجھے بھی ملنے آئے تھے.میں نے ان سے ایک بات کی تو کہنے لگے آپ کو پھر پورا علم نہیں ہے.غانا میں ایک جگہ کے عیسائیوں کے ہسپتال کے ایک پادری ڈاکٹر نے ایک افریقن کو ٹھڈے مار مار کر اپنے ہسپتال سے باہر نکالا اور اسے کہا کہ تم سارے افریقن وحشی درندے ہوتے ہو.ان میں انسانیت کی محبت کوئی نہیں.دعوے تو تھے لیکن وہ کھوکھلے دعوے تھے جو ہمیں نظر آ رہے ہیں.اس کے مقابلے میں ابھی چند دن ہوئے ہمارا ڈاکٹر غا نا میں پہنچا.ابھی اس ہیلتھ سنٹر کا افتتاح بھی نہیں ہوا لیکن اللہ نے یہ فضل کیا کہ جن مریضوں کو اس پادری ڈاکٹر نے لا علاج قرار دے دیا تھا.ان مریضوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ڈاکٹر کے ہاتھ سے شفاء دینی شروع کر دی.اب یہ میری طاقت یا آپ میں سے کسی کی طاقت یا ہم سب کی مل کر بھی طاقت نہیں ہے کہ یہ ایک نظارہ دنیا کو دکھائیں کہ جو مریض بڑے بڑے ماہر سمجھے جانے والے ڈاکٹروں کی نگاہ میں لاعلاج ہیں اللہ تعالیٰ ایک احمدی ڈاکٹر کے ہاتھ میں ان کے لئے بھی شفاء دے دے.طبی میدان میں جو پہلا درجہ ہماری کوشش کا تھا یعنی First phase for the project (فرسٹ فیز فاری دی پرا جیکٹ وہ یہ تھا کہ ان چار ملکوں میں ہم چار چار ڈاکٹر بھیج دیں گے.غانا میں چار پورے ہو گئے ہیں کیونکہ وہاں ضرورت زیادہ تھی.عیسائی وہاں زیادہ زور میں ہیں.سیرالیون اور بعض دوسرے ممالک کچھ پیچھے رہ گئے ہیں اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور حکمت کا ملہ ہی کام کر رہی ہے.سیرالیون میں دو پہنچ گئے ہیں اور امید ہے کہ دور اور جلد ہی پہنچ جائیں گے.انشاء اللہ.گیمبیا میں مجموعی طور پر سات جانے تھے دو پہنچ چکے ہیں اور باقی تیار ہیں.سیرالیون میں جو پہلے ڈاکٹر پہنچے ہیں ان کو جو رو کے علاقہ میں کام دیا گیا.جہاں ہمارا ہائر سیکنڈری سکول

Page 278

275 فرمودها ۱۹۷ء د و مشعل راه جلد دوم دد یعنی انٹر میڈیٹ کالج ہے.سیرالیون کے دارالخلافہ فری ٹاون سے ۱۷ میل دور ایک جگہ بو ہے یہاں تک میں گیا تھا اس سے آگے میں نہیں گیا.بو سے ستر میل شمال مغرب میں ایک طرف جو رو“ ہے اور دوسری طرف قریباً ستر میل ” بو آ جے بو ہے.ہمارے پہلے ڈاکٹر نے اپنا سنٹر جو رو میں کھولا ہے.ہمیں ایک اور مشکل یہ پڑتی ہے کہ ہم سادہ لوگ ہیں شعر ہمیں پسند نہیں ہے.دنیا کے اظہار بشاشت کے یہ جو طریق ہیں یہ بھی ہمیں اچھے نہیں لگتے.چنانچہ جب ڈاکٹر پہنچا تو وہاں کے پیراماؤنٹ چیف کئی سو آدمیوں کے ساتھ ناچتے ہوئے پہنچ گئے.یہ ان کا اپنا طریق ہے.ویسے وہاں کے پیرا ماونٹ چیف مسلمان ہیں لیکن ان کے قریب بہت ساری گندی رسوم آئی ہوئی ہیں جن سے ہماری جنگ ہے.ہم نے انہیں کہا بھی کہ تم یہ کیا کر رہے ہو ہمیں یہ یہ پسند نہیں ہے.کہنے لگے آج تو ہماری خوشی کا دن ہے اس لئے ہمیں ناچ لینے دو.آج وہاں سے تار آئی ہے کہ ہیلتھ سنٹر کے افتتاح پر پانچ ہزار آدمی وہاں جمع ہوا جس میں درجنوں چیف پیراماؤنٹ چیف اور پادری ( پادریوں کو بھی وہاں آنا پڑتا ہے ) اور پروفیسر اور سکالر وغیرہ شامل تھے.انہوں نے وہاں اتنی خوشی منائی ہے کہ کوئی حد نہیں.جہاں بھی ہمارا ڈاکٹر جاتا ہے اللہ تعالیٰ وہاں شفاء بھی دیتا ہے.ایک تو ہماری کوشش ہے جو ہر آدمی کرتا ہے ایک عیسائی بھی کرتا ہے ان کے پاس دولت زیادہ ہے اور ان کی ظاہری کوشش ہم سے بڑھی ہوئی ہے.ہمارے پاس مال کم ہے اور ہماری ظاہری کوشش عیسائیوں سے کم ہے.پس ایک تو یہ ظاہر کی چیز یعنی چھلکا ہے اور ایک اندر کی بات ہے کہ پادری کا ذہن جس کو لا علاج قرار دے دے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک احمدی کے ہاتھ میں شفاء ڈال دے.یہ جو باطنی چیز ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے.خدا تعالیٰ نے اس وقت رحم کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھیجے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس باطنی تعلق کو ظاہر کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا پیار اللہ تعالیٰ اس جماعت سے پیار کرتا ہے اور اس پیار کے جلوے بڑوں کو بھی اور چھوٹوں کو بھی دکھاتا ہے.جب ہم سوچتے ہیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اتنا عظیم پیار ہے کہ اگر ساری زندگی بھی ایک پیار کا بدلا دیتے ہوئے گزار دی جائے تو بدلہ ادا نہیں ہوتا.انسان بدلہ تو دے ہی نہیں سکتا اسے شکر کا حکم ہے اور اگر ہم شکر کے طور پر الحمد للہ پر ہتے رہیں تو ایک پیار کے مقابلے میں بھی ہماری وہ حمد اور ہمارا وہ شکر کافی نہیں بلکہ وہ ایک پیار اس سے زیادہ ہے.اس کے مقابلہ میں ہمارا حال تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ایک ایک دن میں بے شمار محبت اور پیار اور اپنی قدرتوں کے جلوے ہمیں دکھا رہا ہے.یہ احساس ہے جو آپ کے دل میں پیدا ہونا چاہئے.آپ ادھر ادھر نہ دیکھیں کیونکہ آپ کا رستہ بالکل سیدھا ہے اور آپ کا یہ سیدھا رستہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف لے جانے والا ہے.آپ پہلے جلووں کی طاقت اور ان

Page 279

دد مشعل راه فرموده ۱۹۷۱ء 276 نعل راه جلد دوم کے بل پر آگے بڑھیں اور مزید جلووں کو حاصل کریں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا وہ جلوہ میسر آجائے جسے ہم خاتمہ بالخیر کہتے ہیں.جس کے بعد خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے اس کے غضب کے جلووں میں تبدیل نہیں ہوا کرتے.یہ جلوے بعض دفعہ اس زندگی میں تبدیل ہو جاتے ہیں مثلاً آج ایک شخص بڑے جوش سے تبلیغ کر رہا ہے کل وہ مرتد ہو جاتا ہے.یہ نفاق اور ارتداد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے نہیں بلکہ پہلی نبوت سے لے کر آج تک کے الہی سلسلوں کے ساتھ ہے.اس کے اندر بھی ہمیں ایک عجیب شان نظر آتی ہے.بعض بچے گھبرا کر مجھے بھی لکھ دیتے ہیں کہ فلاں شخص نے منافقانہ باتیں کیں حالانکہ یہ منافقانہ باتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے ہوتی چلی آرہی ہیں.ایسے شخص یا ایسے نو جوان پر ہمیں رحم آتا ہے غصہ نہیں آتا کیونکہ جو چیز دیکھنے کی تھی وہ اس نے دیکھی نہیں.دیکھنے کی چیز تو میرے نزدیک ایک ہی ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا پیار باقی سب چیزیں دیکھنے کی نہیں ہیں یعنی اس قابل نہیں ہیں کہ انسان اپنا وقت ضائع کر کے ان کی طرف نگاہ اٹھائے.پس پیارمل رہا ہے اور دیکھنے کی چیز موجود ہے لیکن ایک شخص اس کو دیکھتا نہیں اور جو چیز دیکھنے کی نہیں اس کو دیکھتا ہے.یہ تو نتیجہ ہے غلط ذہنیت اور غلط تربیت کا.آپ کے لئے راستہ ایک ہی ہے اور وہ بڑا سیدھا ہے.یعنی صراط مستقیم جو آپ کو آپ کے خدا کے اس پیار تک لے جانے والا ہے جس کے بعد کوئی تکلیف کوئی گھبراہٹ اور کوئی پریشانی باقی نہیں رہتی اور خاتمہ بالخیر ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کا بھی اور ہمارا بھی خاتمہ بالخیر کرے اور آپ کو بھی اور ہمیں بھی یہ توفیق دے کہ اس کی راہ میں وہ کام کریں اور کرتے چلے جائیں جس کے نتیجہ میں وہ ہمیں اپنا وہ پیار دے کہ جس کے بعد نہ صرف کوئی اور پیار بلکہ دنیا کی کسی اور چیز کی کوئی حقیقت باقی نہ رہے.اللہم آمین.اب دعا کر لیتے ہیں.اس کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ حضور نے اجتماعی دعا کروائی.

Page 280

277 فرموده ۱۹۷۱ء د مشعل راه جلد دوم دد ۱۸ اکتو برا ۱۹۷ء سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کا مجلس خدام الاحمدیہ مرکز بیر بوہ کے انتیسویں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر افتتاحی خطاب سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: يايها المدثر قم فانذره و ربک فکبر وثيا بک فطهر والرجز فاهجر ولا تمنن تستكثر ولربک فاصبر (المدثر ۲ تا (۸) اس کے بعد فرمایا: بحالی صحت کی رفتار اور ایک بشارت دوست اور عزیز بھائی جانتے ہیں کہ ایک لمبا عرصہ میرا کسی نہ کسی بیماری کی حالت میں گزرا ہے ریڑھ کی دو ہڈیوں پر ضرب آنے کی وجہ سے بارہ ہفتے بستر پر لیٹ کر گزرے اور پھر شاید لمبا عرصہ لیٹنے کی وجہ سے کچھ عوارض یعنی چکروں کا آنا اور جگر کا صحیح کام نہ کرنا اور گھٹنوں میں سختی پیدا ہو جانا ان عوارض کی وجہ سے آپ سے دور ہو جانے کی ذہنی تکلیف بھی اٹھانی پڑی اس کا جذبات پر بڑا اثر تھا.اب اللہ تعالیٰ نے یہ تو فضل کیا ہے کہ یہ سب عوارض اسی کے فضل اور رحم سے دور ہو گئے ، البتہ گھٹنوں کی سختی ۹۵ فیصد دور ہو گئی ہے.کچھ ابھی باقی ہے.میں ابھی التحیات یعنی قعدہ میں پوری طرح بیٹھ نہیں سکتا.پہلے قریباً دو فٹ کا فاصلہ تھا.اب جسم ایڑی کے ساتھ لگ جاتا ہے لیکن شدید درد کے ساتھ اس لئے میں قعدہ میں بھی بیٹھ نہیں سکتا دوست دعا کریں میں بھی دعا کر رہا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ جلد انشاء اللہ یہ گھٹنے بھی ٹھیک ہو جائیں گے.اسلام آباد میں ایک ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ معلوم ہوتا ہے آپ کا دایاں گھٹنا مستقل طور پر خراب ہو گیا ہے اور اب ٹھیک نہیں ہوگا.مجھے یہ سن کر بڑا غصہ آیا کہ یہ مجھے کیسی بات بتا رہا ہے کہ کوئی ایسی بیماری بھی ہے جس سے اللہ تعالیٰ شفاء نہیں دے سکتا یہ بات تو درست نہیں ہے پھر ایک اور ڈاکٹر کو دکھایا انہوں نے کہا مجھے تو کوئی ایسی بات نظر نہیں آ رہی.لیکن وہ تو ڈاکٹروں کی رائے ہے جس میں اختلاف ہو سکتا ہے اس سے تو تسلی نہیں ہوتی.چنانچہ اسلام آباد سے یہاں آنے سے دو روز قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ میں سونے والے کمرے میں ہوں اور منصورہ بیگم سے باتیں کر رہا ہوں اور باتیں کرتے کرتے التحیات کی پوزیشن میں بیٹھ گیا ہوں اور بیٹھنے کے بعد میں کہتا ہوں کہ یہ دیکھو میرے گھٹنے بالکل ٹھیک ہو گئے مجھے کوئی دردنہیں رہی.اس واسطے گھٹنے انشاء اللہ اپنے وقت پر ٹھیک ہوں گے.ابھی تو میرے اور آپ کے درمیان پر کچھ تھوڑا سا بعد باقی ہے اب باہر آنے لگ گیا ہوں ورنہ پہلے تو

Page 281

فرموده ۱۹۷۱ء 278 دد مشعل راه مل راه جلد دوم اس کے قابل بھی نہیں تھا.قرآن مجید کی پر حکمت تعلیم پر عمل پیرا ہونے کا طریق مشتمل قرآن کریم ایک کامل شریعت کی شکل میں انسان کی طرف بھیجی گئی ہے یعنی قرآن کریم ایسے احکام پرش ہے جن پر دینی اور دنیوی ترقی کے لئے عمل کرنا ضروری ہے اس کتاب میں حکیمانہ فرائض ہیں کہ جو محض چھٹی کے طور پر عائد نہیں کئے گئے.بلکہ انسان جب غور کرتا ہے تو سمجھتا ہے کہ اس میں ہمارے کام کی ایسی باتیں ہیں.جنہیں ہمارا دماغ سوچ ہی نہیں سکتا تھا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ باتیں سکھادی ہیں اور اس شریعت پر عمل کر الله کے ہمیں فائدہ ہی فائدہ ہے.نقصان کا کوئی پہلو سوچنے والے اور سمجھنے والے دل کے سامنے نہیں آتا.قران کریم کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو ظاہر کرنے کے لئے حکم آنحضرت ﷺ کو ہوتا ہے اور اس طرح سارے احکام کے پہلے اور حقیقی مخاطب آنحضرت عے ہیں.جیسا کہ ان آیات کے شروع میں جن کی ابھی میں نے تلاوت کی ہے یا یھا المدثر کا پہلا مخاطب آنحضرت عیﷺ کی ذات ہے لیکن چونکہ نبی متبوع ( اور آنحضرت ﷺ کی تو شان ہی سب نبیوں میں بلند اور ارفع ہے ) اُسوہ ہوتا ہے اپنی امت کے لئے اس لئے وہ اول المسلمین ہوتا ہے یعنی اللہ تعالی کی طرف سے اسے جو حکم ملتا ہے وہ اس پر سب سے پہلے اور سب سے اچھے طریق پر اور احسن رنگ میں عمل کرنے والا ہوتا ہے.پھر وہ نبی متبوع اپنے ماننے والوں سے کہتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے.خدا تعالیٰ کی دی ہوئی فراست اور خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق میں نے اس پر اس طرح عمل کیا ہے.تم بھی میرے پیچھے آؤ اور جس طرح میں نے عمل کیا ہے ویسا ہی تم بھی عمل کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سات صفات کا ذکر ان آیات قرآن میں جن کی میں نے ابھی سورۃ فاتحہ کے بعد تلاوت کی ہے.آنحضرت ﷺ کو سات حکم دیئے گئے ہیں یا ایک اور رنگ میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان آیات میں حضرت نبی کریم ﷺ کی سات صفات بیان کی گئی ہیں.کیونکہ جیسا کہ جاننے والے جانتے ہیں اور بعد میں معلوم کرنے والوں نے معلوم کیا.حضرت نبی کریم ﷺ کی ساری زندگی اخلاق قرآنیہ پر عمل کرنا تھی.جیسا کی حدیثوں میں آیا ہے: كان خلقه القرآن (مسلم) انسانی قوتوں اور استعدادوں کے صحیح مظاہرہ Expression(ایکسپریشن) کو خلق کہتے ہیں یعنی انسانی قوتوں کا صحیح طور پر اور موقع اور محل کے مطابق ظہور اور اللہ تعالیٰ کی ان عطا کردہ قوتوں کا افراط و تفریط سے بچاتے ہوئے صحیح استعمال کا نام خلق ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف کتب میں عام طور پر اور

Page 282

279 فرموده ۱۹۷۱ء دو مشعل راه جلد دوم دد اسلامی اصول کی فلاسفی میں خاص طور پر اس بات کو ہمارے سامنے واضح کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب آنحضرت علی کے بارے میں پوچھا گیا کہ آپ کے اخلاق کیا تھے؟ اور چونکہ آپ کی زندگی صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک ایک پیہم عمل ہے.اس لئے پوچھنے والے نے یہ پوچھا کہ مثلاً آنحضرت عیہ سوتے کس طرح تھے کس وقت جاگتے اور عبادتیں کس طرح کیا کرتے تھے آپ کے بندوں کے ساتھ تعلقات کیسے تھے مسلمانوں پر شفقت کیسی تھی، غیر مسلموں کے ساتھ سلوک کیسا تھا؟ یہی زندگی ہے اور اسی پرش کے متعلق حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ کیسی تھی؟ آپ نے جواب دیا: كان خُلُقُه القرآن“ خدا تعالیٰ نے جو ارشاد فرمایا آپ نے وہ کر کے دکھا دیا.لیکن جہاں تک امت محمدیہ کا تعلق ہے بات ختم نہیں ہوتی بلکہ کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ حکم اور محمد رسول ﷺ کا جو عمل اس حکم کو پورا کرنے کے لئے ہے.تم جن کا یہ دعوی ہے کہ ہم محمدمصطفی ﷺ سے پیار کرتے ہیں اور آپ کے فدائی اور جاں نثار ہیں تمہارا فرض ہے کہ جس طرح محمد ﷺ نے کیا اسی طرح تم بھی کرو.پس ہر نسل کے اندر یہ سات صفات پیدا ہونی چاہئیں اور اسے ان کا عادی بنانا چاہئیے تا کہ وہ بھی اس قسم کے اعمال بجالائیں.ا پہلی صفت مفوضہ کام کے لئے مستعد اور تیار يا يها المدثر میں یہ صفت بیان ہوئی ہے کہ ہر کام کے لئے تیاری کرنی پڑتی ہے.اسی واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دس سال تک بچے کو ذہنی طور پر نماز کے لئے تیار کر واور پھر دس سال کے بعد اس کی عملی طور پر نماز کے لئے تربیت کرو کیونکہ یہ تربیت کا زمانہ ہے، ابھی اس کو اس عمر میں پورا احساس اور بصیرت نہیں ہوتی ، اس واسطے اس کی تربیت کرنی پڑتی ہے اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ نماز کا ناغہ نہ کرے، ستی نہ کرے، مسجد میں جائے وغیرہ وغیرہ.پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ ذہنی اور روحانی طور پر بالغ ہو جاتا ہے اور جب وہ اپنی بلوغت کو عمر کو پہنچتا ہے تو پھر اس کو نماز میں لذت آنی شروع ہو جاتی ہے.پھر وہ دنیا کے سارے دھندے چھوڑ کر نماز کے اوقات میں مسجد کی طرف بھاگتا ہے.لیکن بہر حال اس کے لئے بچے کی شروع میں تربیت کرنی پڑتی ہے اور بتانا پڑتا ہے کہ نماز بڑی سرور اور لذت پیدا کرنے والی چیز ہے اپنی ذات میں بھی ، اور اپنے نتائج میں بھی یعنی نماز دعا کو کہتے ہیں اور جب انسان اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہا ہوتا ہے تو اسے بڑا سرور آتا ہے.اور جب اللہ تعالی نماز کے نتیجہ میں دعا کو قبول کر کے اپنی قدرتوں کے نشان دکھا دے تو اس سے انسان کے دل میں اور بھی زیادہ سرور پیدا ہوتا ہے.پس نماز تو ہے ہی اپنی ذات اور نتائج میں لذت اور سرور پیدا کرنے والی چیز.مگر ایک دس سال کے بچے کو اس کا علم نہیں ہوتا اس لئے اس کی تربیت کرنی پڑتی ہے.

Page 283

مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۱ء 280 غرض يـا يها المدثر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے مدثر اتو تیار ہے یعنی مدثر کہتے ہی اس شخص کو ہیں جو ادا ئیگی فرض کے لئے ہمہ تن تیار ہو.منافق کی ایک واضح علامت قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ولو اراد والخروج لا عدو اله عدة (التوبه ٤٦) اگر یہ منافق جنگ کے لئے باہر نکلنے کا ارادہ رکھتے تو بہانے نہ کرتے بلکہ یہ تیار ہوتے.ہتھیار خریدے ہوتے گھوڑے ان کے پاس ہوتے علوم قرآنیہ سے اپنی زینت کی ہوتی لباس تقوی میں دنیا کو ملبوس نظر آتے اور پھر یہ جنگ کے لئے باہر نکلتے.لیکن تقویٰ نہیں تیاری نہیں اور قربانی نہیں.اپنی بہانہ جو خو کو ظاہر کر رہے ہیں اور اپنے نفاق کا مظاہرہ کر رہے ہیں پس منافق کی تو یہ علامت ہوتی ہے کہ وہ دعوی کرتا ہے لیکن اس کے مطابق تیار نہیں ہوتا.مگر یہاں مخاطب کو یہ کہا گیا ہے تو تیار ہے یعنی مدثر ہے اس معنی میں بھی کہ جو کام تمہارے سپرد ہے اس کو نباہنے کیلئے تم پوری طرح تیار ہو.لباس تقوی اور اس کی اہمیت مثلاً ہر کام کے لئے ایک لباس ہے.گھوڑی کی سواری کا لباس ہے.ایک سو گز دوڑ کا لباس ہے مسجد میں آنے کا لباس ہے لوگ سر بھی ڈھانپے ہوئے مسجد میں آتے ہیں مگر گھر میں انسان بیٹھے ہوئے اچکن بھی اتار دیتا ہے ننگے سر ہو تب بھی کوئی بات نہیں کیونکہ گھر کا بھی ایک لباس ہے لیکن ایک لباس مسلمان کا ہے اور مسلمان کا لباس ہے لباس تقوی.اور ایک مسلمان کی ساری بھلائی اس لباس میں ہے.باقی لباس تو ہیں ہی.اللہ تعالیٰ دیتا ہے لوگ پہنتے ہیں.کوئی ٹوپی پہن لیتا ہے.کوئی پگڑی پہنتا ہے کوئی رومال باندھ لیتا ہے تو کوئی عقال جو عرب کالباس ہے یہ ایک رسہ سا ہوتا ہے جسے لوگ سر کے رومال پر لپیٹ لیتے ہیں.اس میں بھی ایک خوبصورتی ہے.میں نے بھی عرب سے پیار کے نتیجہ میں کچھ عقال منگوائے ہیں.میرا خیال تھا کہ گھوڑے کی سواری کریں تو وہ بھی انشاء اللہ استعمال کریں گے.لیکن ایک ایسا لباس ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور وہ تقویٰ کا لباس ہے.یہ نہیں کہ کبھی تقویٰ کا لباس اوڑھا ہوا ہے اور اس سے نور کی شعائیں باہر نکل رہی ہیں اور کبھی شیطان کا دامن ا.اپنے گرد لپیٹ لیا ہے اور ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا ہے بہر حال اس لباس (یعنی لباس تقوی ) میں تبدیلی نہیں ہوتی.باقی تو جتنے لباس ہیں اُن میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے.ہمارے ملک میں کم عادت ہے دوسرے ملکوں میں زیادہ ہے.مثلا افریقہ کے دورے میں جو دوست مجھے ملتے رہے ہیں میرے خیال میں بلا مبالغہ دو دفعہ سے لے کر

Page 284

281 فرموده ۱۹۷۱ء د و مشعل راه جلد د دد ، دوم سات دفعہ تک میں نے ان کی ٹوپیاں بدلی ہوئی دیکھیں.ان کو ٹوپیاں پہنے کا بڑا شوق ہے اُن کی ٹوپی کی کوئی خاص شکل نہیں ہوتی.بس جس طرح درزی نے بنادی پہن لی.کسی کا پھند نا ا دھر لٹکا ہوا ہے کسی کا ادھر اٹکا ہوا ہے کوئی سامنے ہے اور کوئی پیچھے.کوئی رنگ برنگی ہے اور کوئی پھولدار کپڑے کی (جس طرح یہاں جانگلی لوگوں کی پھولدار دھوتی ہوتی ہے اس قسم کے کپڑے کی ) غرض ہر قسم کی ٹوپیاں وہ بناتے رہتے ہیں اور خریدتے رہتے ہیں.اب تو ہماری جناح کیپ بھی وہاں بڑی مقبول ہورہی ہے ہم بھی یہاں مختلف قسم کے سر کے لباس پہنتے ہیں.ایک لنگی ہے ایک ٹوپی ہے اور پھر ٹوپیوں میں سے آگے کوئی جناح کیپ کہلاتی ہے اور کوئی کچھ اور ایک ٹرکش کیپ کہلاتی تھی وہ سُرخ رنگ کی ہوتی تھی اُس میں پھر ایک زرم قسم کی اور ایک سخت قسم کی ہوتی تھی میں بھی کسی زمانے میں بچپن میں وہ ٹوپی پہنتا رہاہوں ویسے وہ ہمارے علاقے میں اتنی زیادہ مروج نہیں تھی.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب یہ ( ٹرکش اب بھی پہنتے ہیں.وہ بڑے محتاط آدمی ہیں میرے خیال میں جب وہ لاء کرنے کے بعد انگلستان سے لاہور آئے تھے ہوسکتا ہے.اس وقت خریدی ہو اور ابھی تک سنبھال کر رکھی ہو.بہر حال وہ بھی ٹوپی کی ایک قسم ہے گو پرانی ہے.لیکن اب بھی بعض لوگ اسے پہنتے ہیں.پس یہ چیزیں تو بدلتی رہتی ہیں.نئے لباس کا شوق ہوتا ہے اور ویسے بھی ایک لباس پہنتے پہنتے آدمی تنگ آجاتا ہے یا بیماری کی وجہ سے وقتی طور پر تبدیلی کرنی پڑتی ہے.ابھی پیچھے جب میں بیمار ہوا یعنی بیمار تو اس طرح نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا تھا لیکن اس کی وجہ سے بہر حال ضعف تھا جس کی وجہ سے بعض دفعہ پگڑی کا بوجھ میرا سر برداشت نہیں کر سکتا تھا تو میں نے ٹوپیاں بھی منگوائیں جو میرے پاس پڑی ہوئی ہیں کبھی سر پر ٹوپی پہن کر نکلتا ہوں.کئی دفعہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ٹوپی نہیں پگڑی پہنا کریں.میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ساری چیزیں میرے لئے پیدا کی ہوئی ہیں میں ساری پہنوں گا.بہر حال لباس میں کوئی پابندی نہیں.اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی ہر چیز کو انسان کے لئے جائز قرار دیا ہے.البتہ اس میں افراد تفریط سے بچنا چاہئیے.لباس نہ اتنا میلا ہونا چاہئیے کہ ایک حساس آدمی کو دیکھ کرتے آ جائے اور نہ اس پر اتنا خرچ کرنا چاہئیے کہ آدمی مقروض ہو جائے.جتنا خدا تعالیٰ نے دیا ہے اس کے مطابق کپڑوں پر خرچ کیا جائے اور اس میں ایک یہ پہلو بھی مدنظر ہے کہ دولت میں جو دوسروں کے حقوق ہیں ان کے ادا کرنے کے بعد وانفسک علیک حق کی رو سے اپنا حق بھی ادا کرو.پس مدثر کے ایک معنی اس لباس میں ملبوس ہونے کے ہیں جو ڈیوٹی کا لباس ہے اور معین ہے اور مسلمان کی ڈیوٹی کا لباس لباس تقویٰ ہے.چونکہ اس حکم کے پہلے مخاطب رسول کریم ﷺے ہیں اس لئے اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ اسے لباس تقویٰ کی حسین ترین شکل میں ملبوس.دوسرے وہ شخص مراد ہے.جو گھوڑے پر چڑھا ہوا حکم کا منتظر ہوا سے بھی مدثر کہتے ہیں یعنی خواہش یہ ہے کہ حکم اور عمل کے درمیان ایک سیکنڈ کا بھی فاصلہ نہ وہ یہ نہیں کہ پوستیوں کی طرح دیر کر دی جائے.

Page 285

مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۱ء 282 ایک معروف قصہ اور اس میں پوشیدہ سبق کہتے ہیں کہ ایک پنجابی لکھنو گیا اور وہاں اپنے ایک دوست کے ہاں مہمان ٹھہرا اس نے اس کی خاطر کرنی تھی.چنانچہ اس نے اپنے نوکر سے کہا کہ جا کر فلاں پھل لے آؤیا فلاں چیز لے آؤ.بہر حال نو کر چلا گیا اب وہ اپنے پنجابی دوست پر اپنا رعب ڈالنا چاہتا تھا.پانچ چھ منٹ کے بعد کہنے لگا کہ اب وہ ( نوکر ) دکان پر پہنچ گیا ہوگا پھر دومنٹ کے بعد کہا اس نے سود اخرید لیا ہے پھر پانچ چھ منٹ کے بعد اس نے کہا کہ اب آ گیا ہے بس پہنچنے والا ہے اور پھر اس نے نوکر کو آواز دی ( جو بھی نام تھا الیاس یا منصور وغیرہ ) وہ عین اُس وقت پہنچا ہوا تھا.کہا جناب میں چیز لے آیا ہوں آخر نوکر کی اہلیت یہی ہے تا کہ وہ کم سے کم وقت میں پوری چستی کے ساتھ اپنے مالک کا کام کرے.کچھ عرصے کے بعد وہ لکھنؤ کے دوست اپنے پنجابی دوست کے پاس آئے.اس نے سوچا کہ مجھے بھی رعب ڈالنا چاہئے.چنانچہ اُس نے کہا اوختو ! مہمان آئے ہوئے ہیں جارہی لے آ.پھر یہی کہنا شروع کیا اب وہ دوکان پر پہنچ گیا ہو گا.اب اُس نے دہی خرید لیا ہے.اب وہ واپس آ گیا ہے بس وہ پہنچ گیا ہے.اور پھر اس نے آواز دی اوفتو ! آ گئے ہو؟ اُس نے جواب دیا جی میں جوتی ڈھونڈ رہا ہوں.ابھی دہی لینے جاتا ہوں.پس جوتی ڈھونڈنے والا آدمی خدا کا خادم نہیں بن سکتا.خدا کا حقیقی خادم تو مدثر ہوتا ہے یعنی حکم اور عمل کے متعلق سمجھتا ہے کہ ان میں کوئی فاصلہ نہیں ڈالنا چاہیئے.حضرت نبی کریم ﷺ کی شان تھی کہ حکم نازل ہونے پر ہی عمل شروع ہو جاتا تھا.آپ کے ماننے والے کی بھی یہی شان ہونی چاہئیے کیونکہ اول المسلمین تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں لیکن جو شخص بھی صفت کو آپ کی طرف منسوب کرتا ہے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ بھی مدثر رہے.جو ضرورت ہے اس کے مطابق تیار ہو اور جو قرآن کریم کا حکم ہے اور ( بدلے ہوئے حالات میں ) اس کے کان میں پڑتا ہے تو اسے اس کے مطابق عمل کرنا چاہیئے.دوسری صفت دین کی حفاظت کے لئے عزم فرما یاقم فاند را یک تو وہ زمانہ تھا کہ پوری قوم کیلئے فاندر کا حکم تھا.قیام کے لفظ میں (جس کا قدوم عربی مصدر ہے ) کھڑے ہونے اور عزم کے معنی بھی پائے جاتے ہیں اور اس کے معنی حفاظت کے بھی ہوتے ہیں.پس تم فانذر کے یہ معنی ہوں گے کہ دین کی حفاظت کے لئے پورے عزم کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور دنیا کوڈرا ؤا اور ہوشیار کرو.مدثر میں بتایا گیا تھاکہ تعلق کس سے ہے.اللہ تعالیٰ سے ہے پس انذار یہ نہیں ہے کہ تمہاری چھتوں کی منڈیر نہیں ہے اور بچے نیچے گر جائینگے.بلکہ انذار یہ ہے کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ میرا یہ بندہ مدثر بنے میرے حکم پر لبیک کہنے والا ہو اور اپنے عمل سے میری محبت اور میرے پیار اور میرے تعلق کا اظہار کرنے والا ہو.تم ان لوگوں کو جو اپنے پیدا کرنے والے رب سے پر ہٹ گئے ہیں انہیں اُن عواقب سے ڈراؤ جو خدا تعالیٰ سے دور ہونے والوں

Page 286

283 کو پیش آتے ہیں.فرموده ۱۹۷۱ء دو د و مشعل راه جلد دوم پس تم عزم کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور دنیا کی حفاظت کی نیت کے ساتھ دُنیا کے پاس ملک ملک، قریہ قریہ اور شہر شہر جاؤ اور ان سے کہو کہ تم خدا تعالیٰ سے دور ہو گئے ہو اور ہلاکت اور تباہی کے سامان اپنے لئے پیدا کر رہے ہوا اپنے رب کی طرف واپس آو اور اس کے پیار کو حاصل کرو اور اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق اس کی برکتوں اور رحمتوں سے حصہ لو.تیسری صفت صفات الہیہ کا اظہار فرمایاوربک فکبر دراصل انذار کی ایک بنیادی دلیل ہے کہ کسی کا انذار کرنا ہے.یہ دلیل اس آیت میں بتائی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات اُن کے سامنے بیان کرو.خدا تعالیٰ کو بھول کر انسان تباہی کے گڑھے میں جا پڑتا ہے پس خدا کے نام کی عظمت کو قائم کرو اس کی کبریائی کو قائم کرو اور یہ اس کی صفات سے پیدا ہوتی ہے اور جہاں تک اس عاجز کا تعلق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس دُنیا میں پیدا کیا اُس کے لئے وہ ساری صفات الہیہ جو اس کے ذہن میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کو قائم کر سکتی ہیں وہ قران کریم نے بیان کر دی ہیں.تو شکل کی حقیقت مثلاً قران کریم نے یہ کہا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور پر تو گل نہ کر ویعنی یہ اللہ تعالی کی ایک صفت ہے کہ اس کے اوپر انسان بھروسہ کرتا ہے اور صفت اللہ تعالیٰ کی بنیادی صفات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی ہستی ہے جس پر تو کل کیا جاتا ہے.اب کسی ایسی ہستی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا جو قادر نہ ہومثلا کوئی ماں سوائے پاگل کے کسی چور پر یہ بھروسہ نہیں کر سکتی کہ وہ اس کے دودھ پیتے بچے کی حفاظت کرے گا البتہ پاگل عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو اس قسم کا بھروسہ کر لیتی ہیں یا کوئی باپ اپنے چار پانچ سالہ چھوٹے سے بچے پر یہ امید رکھتے ہوئے ) کہ وہ گھر کی حفاظت کرے گا).اپنے گھر کے دروازے کھلے چھوڑ کر جانگلیوں کے علاقہ میں، چوروں کے علاقہ میں باہر نہیں جاسکتا.اس خیال سے کہ اس کا دوسالہ یا چار سالہ لڑکا گھر میں ہے اور وہ اپنے گھر کی حفاظت کرے گا یہ ممکن ہی نہیں کیونکہ وہ بچہ کمزور ہے.پس تو کل اس ہستی پر کیا جاسکتا ہے، بھروسہ اس ہستی پر کیا جاسکتا ہے جو قادر مطلق ہو جس کے لئے کوئی چیز ان ہونی نہ ہو.صفات البیہ کی معرفت غرض ربک فکبر میں فرمایا کہ دنیا کے سامنے خدا تعالیٰ کی صفات بیان کرو.کیونکہ بھٹک گئی ہے دُنیا بھول گئی ہے دُنیا اپنے پیدا کرنے والے کو اس لئے ساری دُنیا میں پھیل جاؤ اور خدا کی صفات کی معرفت ان میں پیدا کرنے

Page 287

دد مشعل راه دوم فرمودها ۱۹۷ء 284 کی کوشش کرو.جب کوئی مجھ سے بات کرتا ہے تو میں کہتا ہوں دیکھو! ہم جوبھی ہیں ہمیں فخر نہیں ہے کیونکہ حضرت نبی کریم ﷺ جیسے وجود بھی جب خدا تعالیٰ کی کوئی نعمت بیان فرماتے تو ساتھ یہ بھی فرما دیتے لانخر کہ ذاتی طور پر میرے اندر کوئی خوبی نہیں (جو کچھ دیکھ رہے ہو یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے.لیکن ہم تو کسی شمار میں ہی نہیں.اگر آنحضرت ﷺ ایک دفعہ لا فخر فرمایا کرتے تھے تو ہمیں ایک ہزار دفعہ کہنا چاہیے کیونکہ ہمارے اندر کوئی خوبی نہیں ہے لیکن جس عظیم طاقت کے ساتھ اور جس حسین اور اکبر اور ارفع وجود کے ساتھ ہم نے اپنا تعلق قائم کیا ہے وہ سب طاقتوں والا ہے.وہ عزت کا بھی سر چشمہ ہے اور علوم کا بھی وہی منبع ہے اور تمام قدرتوں کا بھی وہی مالک ہے کونسی چیز ہے جو اس کے پاس نہیں اور کہیں اور سے جا کر لی جاسکتی ہے.جب ہر چیز اُسی کے پاس اور اُسی سے لی جاسکتی ہے تو پھر بھروسہ بھی اسی پر کیا جاسکتا ہے.پس باہر جا کر دوسروں کو صفات باری بتانی چاہئیں.ایران میں مسلمانوں کی فتوحات مسلمانوں کی تاریخ کے پہلے تین سوسال کا یہ نظارہ ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ مٹھی بھر تھے مگر کسری جیسی عظیم طاقت کے ساتھ نبرد آزما ہوئے.دنیا ان کو پاگل کہتی تھی اور وہ انہیں پاگل سمجھنے میں اپنے معیار کے مطابق حق بجانب تھی خلیفہ وقت نے حضرت خالد بن ولید کو حکم دیا کہ ایرانی ہمارے خلاف جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں اور انہوں نے سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع کر دی ہے تو ان کے اس فتنہ و فساد کوختم کرو.چنانچہ حضرت خالد نے خلیفہ وقت کے حکم کے ماتحت ۱۸ ہزار مسلمان سپاہیوں کے ساتھ ایران پر حملہ کر دیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ دشمن کی طاقت زیادہ ہے بلکہ جوں ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ملا ایرانیوں پر حملہ کر دیا.میرا خیال ہے کہ حضرت خالد ایران میں آٹھ دس جنگیں لڑ چکے تھے جب ان کو حکم ملا کہ اب شام چلے جاؤ.ہر جنگ میں ایرانیوں کی تازہ دم فوج جس کی تعداد چالیس سے اسی ہزار تک ہوتی تھی ان کے مقابلے پر آتی رہی اور یہ کل اٹھارہ ہزار ( جن میں سے کچھ شہید ہو جاتے تھے اور کچھ زخمی اور سب تھکے ہوئے ) دشمن کے سامنے سینہ سپر رہے.گو ایک ایک دن کی جنگ ہوتی تھی اللہ تعالیٰ فضل کرتا تھا.لیکن مسلمانوں نے ان معرکوں میں صبح سے لے کر شام تک تلوار چلائی.آپ لکڑی کی تلوار لے کر مشق کریں تو پتہ لگے.ایک گھنٹے کے بعد آپ کے بازو شل ہو جائیں گے مگر وہ لگاتار چلاتے تھے ان پر ایک جنون سوار تھا وہ جنون آپ کے اندر پیدا ہونا چاہئیے یہ بات نہیں کہ وہ لوہے کے بنے ہوئے تھے وہ بھی ہماری طرح کے انسان تھے.مگر اُن کے سامنے زندگی اور موت کا سوال تھا.صبح جنگ شروع ہوتی تھی اور شام کو ختم ہوتی تھی.یہ درست ہے کہ مسلمانوں کو فتح ہوتی تھی لیکن ۱۸ ہزار اور ۶۰ ہزار کا مقابلہ کیا ؟ خصوصاً جبکہ ایرانی ہر گھنٹے کے بعد اگلی صفوں کو پیچھے ہٹا لیتے تھے اور تازہ دم فو جیں آگے آجاتی تھیں اور یہ بیچارے اسی طرح لڑ رہے ہوتے اور پھر گھنٹے دو گھنٹے بعد دشمن کی اور تازہ دم فوج مقابل پر آجاتی تھی اور یہ سلسلہ اسی طرح شام تک جاری رہتا تھا.وہ مرنے کے لئے آگے بڑھتے تھے اور یہ مارنے کے لئے گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے لڑ رہے ہوتے تھے.

Page 288

285 فرمودہ ۱۹۷۱ء د و مشعل راه جلد دوم دد مگر یہ جنون ہے کہ نہیں.حضرت ابو بکر کے توکل کا مقام حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا اپنے رب پر تو کل کا یہ حال تھا کہ حضرت خالد بن ولید نے سوچا کہ خلیفہ وقت کو حالات کا علم ہونا چاہئیے چنانچہ انہوں نے رپورٹ کی (عملا یہ ہوا کہ پہلی لڑائی ہوئی اس میں ساٹھ ہزار ایرانی مقابلہ پر تھے، پھر دوسری لڑائی ہوئی علی ہذا القیاس ہر جنگ جو ہے کوئی دوسرے دن کوئی تیسرے دن کوئی ساتھ میں دن اور کوئی دسویں دن لڑی گئی لیکن ہر جنگ ایرانیوں کی تازہ دم فوج اور نئے جرنیلوں کے ساتھ لڑی گئی اور بہت سارے جرنیل بھی مارے گئے یعنی کمانڈر انچیف بھی اور ان کے ماتحت افسر بھی جن میں سے بعض انفرادی مبارزہ کے لئے آئے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مارے جاتے تھے ) غرض حضرت خالد بن ولید نے رپورٹ کی کہ یہ حالات ہیں.ہر دفعہ تازہ دم فوج جس کی تعداد ہم سے کئی گنا زیادہ ہوگی.میرے مقابلے پر آئے گی.میرے پاس اٹھارہ ہزار سپاہی ہیں یہی لڑتے جائیں گے مگر کم ہوتے جائیں گے کیونکہ بہر حال شہید ہورہے تھے گو تھوڑے شہید ہوتے تھے مگر ہو تو رہے تھے.ہر دوسری جنگ میں پہلی جنگ سے کم آدمی شامل ہوں گے کیونکہ کچھ زخمی ہوں گے.کچھ شہید ہوں گے مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی یہ شان کہ مسجد میں سب کے سامنے ایک آدمی کو بلایا اور فرمایا کہ خالد بن ولید نے کمک مانگی ہے تم چلے جاؤ.چنانچہ ایک آدمی کمک بھیج دی.کتنا تو کل تھا آپ کا اللہ تعالیٰ پر صحابہ کرام جن میں اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے.( بعض روشنیاں اللہ تعالیٰ خلافت کے بعد عطا کرتا ہے پہلے تو جس طرح عام صحابہ تھے اُن میں حضرت عمر بھی ایک تھے ) انہوں نے عرض کیا یا حضرت! یہ آپ کیا کر رہے ہیں.نازک حالات ہیں.قاصد دن رات دوڑتا ہوا یہاں کمک کے لئے پہنچا ہے آپ نے صرف ایک آدمی کو بطور کمک کے بھیج دیا ہے آگے سے جواب ملا کہ جس فوج میں اس (ایک آدمی ) جیسے جاں نثار ہوں وہ شکست نہیں کھایا کرتی.خدا تعالیٰ نے اپنے مقرر کردہ خلیفہ کی بات اس طرح پوری کی ( میں تفصیل میں نہیں جاؤں گا) کہ ایک موقع پر حضرت خالد بن ولید دشمن کی چال میں پھنس گئے تھے اور قریب تھا کہ شہید کر دئیے جاتے کیونکہ ایک جرنیل کے ساتھ ان کی DUEL ڈول یعنی دو آدمیوں کی باہم لڑائی کے موقع پر اس نے اپنے گرد آٹھ دس آدمی چھپائے ہوئے تھے وہی آدمی جو کمک کے طور پر آیا تھا.اکیلا گیا اور اُن چھپے ہوئے آدمیوں کو قتل کر کے واپس آ گیا اور خالد اور جرنیل کی لڑائی میں دخل نہیں دیا.مسلمان کی عجیب شان تھی.پس حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ تو گل ربک فکبر پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے آپ نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے کسری کے خلاف لڑنے والی فوج کو ایک آدمی کی کمک بھیج دی.آخران (ایرانیوں) کے پاس بھی تو یہ بات پہنچی ہوگی وہ کہتے ہوں گے کہ یہ لوگ پاگل ہیں.ایک تو ہمیں مٹانے کے لئے آئے ہیں.دوسرے ان کو

Page 289

فرموده ۱۹۷۱ء 286 د و مشعل را تل راه جلد دوم جو بادشاہ ہے وہ تو خلیفہ کو بادشاہ ہی سمجھتے تھے ) وہ بھی پاگل ہے اُس نے اپنی فوج کو ایک آدمی کی کمک بھیج دی ہے مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کو یہ سبق دیا کہ اللہ جس پر ہم ایمان لائے اور جس کے قدموں میں ہم نے اپنا سر رکھا اور جس کے دامن کو ہم نے پکڑا اور دعا کی کہ اے خدا! ہمیں بے سہارا نہ چھوڑ نا وہ تعداد کو نہیں دیکھا کرتا.ایک آدمی بھی تمہارے سامنے آئے گا تو وہ تمہیں تباہ کر دے گا کیونکہ یہ اس کا منشاء ہے کہ اسلام غالب ہو.پس ربک فکبر میں خدا تعالیٰ کی صفت کو دُنیا کے سامنے پیش کر کے غلبہ اسلام کے سامان پیدا کئے گئے ہیں.چوتھی صفت جماعتی تربیت پھر فرمایا: و ثیابک فطھر.اس کے ایک معنی صفائی یعنی اپنے آپ کو صاف رکھنے کے ہیں.مجھے افسوس ہے کہ ہم ابھی تک ربوہ میں بھی صفائی کا وہ معیار قائم نہیں کر سکے جو ہماری طرح ہی غریب مدینہ میں بسنے والے قائم کر چکے تھے میں نے یہ الفاظ کہ وہ غریب تھے جان کر کہے ہیں کہ وہ غریب نہیں تھے جو اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر پھرا کرتے تھے ؟ تمہیں خدا تعالیٰ روکھی روٹی سہی مگر دے تو رہا ہے ان کو تو ایسے حالات میں سے گزرنا پڑا کہ روکھی روٹی بھی بعض دفعہ نہیں ملی لیکن اُن میں صفائی تھی اور اس پر بڑا زور دیا جارہا تھا.لیکن اس وقت در اصل جو ضروری چیز ہے وہ ہے تربیت.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ثیابک مظھر کے ایک معنی (اور اسی سے ملتے جلتے بعض دوسروں نے یہ کئے ہیں کہ اے رسول ! جماعت کی تربیت کر.تیرے ارد گر دلوگ جمع ہو گئے ہیں اس لئے تو ان کی تربیت کر.صفات باری تعالیٰ اور تربیت ربک فکبر کا تعلق انذار کے ساتھ ہے یعنی غیر مسلم کو صداقت اسلام سمجھانے کیلئے بھی صفات باری کا بیان ضروری ہے اور جماعت کی تربیت کے لئے بھی صفات باری کا بیان کرنا ضروری ہے.جس شخص نے خدا تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ دیکھا ہے اس کو شیطان کبھی نہیں بہکائے گا.اب جو بچے ہیں ، اگر اُن کے ماں باپ خدا تعالیٰ کی وہ قدرتیں جنہیں وہ اپنے ماحول میں دیکھتے ہیں اپنے بچوں کے کان میں نہ ڈالیں اور وہ باتیں بچوں تک نہ پہنچیں.تو شیطان سمجھے گا کہ یہ خدا تعالیٰ کی صفات کو پہچانتے نہیں.میرا وار شاید کامیاب ہو جائے.پھر اگر اللہ تعالیٰ فضل کرے تو شیطان ناکام ہی ہو لیکن ایسے ماں باپ نے اپنی طرف سے تو شیطان کو کامیاب کرنے کے سامان پیدا کر دیئے.پس غیروں تک اسلام کی صداقت پہنچانے کے لئے اور اپنوں کی تربیت کے لئے اور انہیں اسلام پر قائم رکھنے اور ان کے اندر جذبہ اور ایثار کو پیدا کرنے کے لئے جو بنیادی چیز ہے وہ الہی صفات کا بیان کرنا ہے.اللہ تعالی کی بڑی شان ہے جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے میرے جیسے ایک کمزور اور عاجز انسان کو خدا تعالیٰ نے مجھے تسلی

Page 290

287 فرموده ۱۹۷۱ء د و مشعل راه جلد دوم دد دی کہ فکر نہ کرو تمہارے گھٹنے ٹھیک ہو جا ئینگے.اس دن سے مجھے بالکل اطمینان ہے اور ایک لمحہ کے لئے بھی کوئی فکر نہیں.کئی لوگ منہ بنا کر کہہ دیتے ہیں کہ آپ جلدی مسجد میں بھی آئیں.میں جلدی کیسے آؤں نہ میرا آنا میرے اختیار میں اور نہ رکنا میرے اختیار میں ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اس نے کہا کہ اس حالت میں) مسجد نہ جاؤ گھر میں نماز پڑھ لو اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا گھٹنے ٹھیک ہو جائیں گے تو آپ کے پاس مسجد میں آجاؤں گا.آزمائش اور تکلیف میں ابھی حکمتیں ہر آزمائش یا تکلیف ہو قضا کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اس میں بہت ساری حکمتیں ہوتی ہیں.اب میں جب میں گھوڑے سے گرا تو ریڑھ کی دو ہڈیوں پر ضرب آئی اس کو Compression Fracture( کمپریشن ریکلچر ) کہتے ہیں یعنی ریڑھ کی ہڈیاں دب گئی تھیں.ریڑھ کی ہڈیوں سے سارے nerves ( نروز ) نکلتے ہیں یہ گویا نروز سنٹر ہے.ریڑھ کا ایک منکا ایسا بھی ہے کہ اگر وہاں زیادہ ضرب آ جائے تو نچلا دھڑ ہمیشہ کے لئے مفلوج ہو جاتا ہے.اب ظاہری حالات میں میں بیمار پڑا ہوا تھا تو کئی منافق احمق اور کمزور ایمان والوں نے سمجھا کہ اب یہ بچے گا نہیں.چنانچہ اس خیال سے انہوں نے کچھ ایسی شوخیاں دکھائیں کہ ان میں سے دو چار کو خشی کر کے جس کے وہ حقدار تھے ان کو خاموش کرنا پڑا.وہ سمجھتے تھے کہ (معاذ اللہ ) اب تو یہ گیا.اب ہم شوخیاں دکھائیں میں یہ سوچ کر مسکرایا کرتا تھا کہ یہ بیوقوف نہیں.زندگی اور موت میرے اختیار میں نہیں لیکن جب تک میں زندہ ہوں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے فرمایا ہے کہ تو میرا خلیفہ ہے.يداؤد انا جعلنك خليفة في الارض (ص ۲۷) داؤڈ کی طرح میں بھی تمہارے ساتھ سلوک کیا کروں گا.کبھی معاف کر دیا کروں گا.کبھی ٹھیک کیا کروں گا سختی کے ساتھ.چنانچہ پھر ان کو سزا دینی پڑی.لیکن جب ایسی باتیں میرے سامنے آتیں تو میں مسکرایا کرتا تھا کہ یہ اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں اور اس خدا کو بھول گئے جو محمد ﷺ پر جلوہ گر ہوا اور اس جلوہ کے طفیل ہم نے مہدی موعود کے لائے ہوئے جلوے دیکھے.منافقین اور جماعت کا فرض پس آپ لوگوں کو بھی چوکنا رہنا چاہئیے.بہت سے ایسے چھپے ہوئے منافق تھے جو بھرنا شروع ہوئے.اکثر ٹھیک ہو گئے اور باقی انشاء اللہ ٹھیک ہو جائیں گے.میں نے شروع میں نرمی کی حالانکہ ان لوگوں کے دلوں میں بہت گند تھا.نفاق کے بعض ایسے پہلو تھے جن کو میں نے بیان نہیں کیا خدا تعالیٰ نے بہت تو خود ہی ٹھیک کر دئے اس واسطے شاید بیان کرنے کی ضرورت نہ پڑے میں نے یہ سوچا کہ میرا کام تربیت کرنا اور پیار کرنا ہے

Page 291

فرموده ۱ ۱۹۷ء 288 د دمشعل راه حل راه جلد دوم اس لئے میں پیار کرتا ہوں بڑا اچھا ہوا.خدا تعالیٰ نے مجھے اس وقت عقل دی.اب میں سمجھتا ہوں کہ پچانوے فیصد کمزور ایمان دل میرے پیار نے جیت لئے ہیں اور ان کی کمزوریاں دور ہو گئیں.اور ان کے نفاق جاتے ہے.میں شاید کچھ کم کہ گیا ہوں پچانوے فیصد نہیں بلکہ ۹۹۹ کے دل میں نے جیت لئے ہیں.ہزار میں سے ایک رہ گیا ہے یہ منافق گنتی کے ہیں تمہیں ہوں گے.کمزور ایمان والوں کے مختلف درجات ہیں ان کی میں بات نہیں کر رہا البتہ منافق ہیں تمہیں ہی رہ گئے ہیں اور وہ بھی انشاء اللہ ٹھیک ہو جائیں گے یا وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب میں جلیں گے چنانچہ کئی ایک کے منہ سے نکل جاتا ہے کہ ہم جہنم کے عذاب میں پڑے ہوئے ہیں.ایک نے مجھ سے بات کی تھی.میں نے کہا تم نے اپنے ہاتھ سے جہنم کا جو عذاب مول لیا ہے میں اس سے تمہیں نہیں بچا سکتا.تمہارے ہی ہاتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ چیز پیش کر دیں جسے وہ قبول فرمالے تو جہنم جنت میں تبدیل ہو جائے گی.بہر حال یہ جو صفات باری تعالیٰ ہیں جب ان پر ایمان کمزور ہو جاتا ہے تو پھر کمزور ایمان والوں کے دل میں شیطانی وسوسے پیدا ہونے لگ جاتے ہیں نفاق پہلے تھوڑا ہوتا ہے پھر بڑھتا چلا جاتا ہے بعض واپس آ جاتے ہیں بعض جہنم میں جا پڑتے ہیں اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی.دوست ان کے لئے بھی دعا کیا کریں.ہمارا تو کسی کے ساتھ کوئی عناد نہیں ہے.وہ بھی مجھے ملنے آتے ہیں.میں ان سے اسی طرح مسکرا کر مل رہا ہوتا ہوں.جس طرح ایک بہت ایثار کرنے والے احمدیت کے فدائی حضرت نبی کریم ﷺ کے عاشق اور خدا پر جان دینے والے دوست سے مسکرا کر ملتا ہوں.اور باتیں کرتا ہوں اس وقت میں اس کے لئے دعا کر رہا ہوتا ہوں کہ خدا تعالی تمہیں عقل دے اور سمجھ دے تا کہ تم صحیح راستے کا علم حاصل کرو اور پھر اللہ تعالیٰ اس پر چلنے کی تمہیں توفیق عطا فرمائے.یا نچویں صفت شرک سے اجتناب میں نے بتایا ہے ربک فکبر غیر مسلموں کے لئے بھی ہے اور مسلمانوں کے لئے بھی ہے.یعنی ہر دو پر اثر انداز ہے اس واسطے بیچ میں اس کو رکھ کر پھر آگے فرمایا.والرجز فاهجر یعنی شرک اور گناہ سے بچو اس کے معنی ذنب کے بھی ہیں اور بت پرستی کے بھی.فرما یا شرک سے بچو.قرآن کریم میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے.جو آدمی اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم حاصل کر لیتا ہے وہ تو پھر مشرک نہیں ہو سکتا اور نہ دہریہ بن سکتا ہے.یورپ میں ۱۹۶۷ء میں بھی اور پچھلے سال بھی کئی دہر یہ لوگ ملتے تھے افریقہ میں تو اس کے مواقع پیدا نہیں ہوئے لیکن یورپ میں میں لوگوں سے کہتا تھا کہ وہ فرد ( مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا ) جس نے اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا معجزانہ رنگ میں مشاہدہ کیا اُسے تمہاری ایک ہزار فلسفیانہ دلیل خدا

Page 292

289 فرموده ۱۹۷۱ء د و مشعل راه جلد دوم دد سے دُور نہیں لیجاسکتی.وہ کہے گا میری آنکھوں نے دیکھا وہ کہے گا میرے جذبات نے اُسے محسوس کیا.میرے دل میں اس سے زیادہ پیار پیدا ہوا جو ماں کی گود میں کبھی حاصل کیا تھا.اس سے زیادہ پیار پیدا ہوا جو میں اپنے پیار سے بچے کو اٹھا کر سرور حاصل کرتا ہوں یا دوسرے محبت کرنے والے وجود ہیں ان کے پیاروں کی نسبت یہ بہت زیادہ پیار ہے جسے میرے وجود اور میری روح نے محسوس کیا.پس تمہاری دلیلوں کو میں کیا کروں تم تو اُس قادر و توانا ہستی پر ایمان نہیں لاتے اس لئے تم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا.ایک ایمان افروز واقعہ ۱۹۶۵ء میں ایک عورت کو جس کا بیٹا میجر تھا اور سیالکوٹ کی سرحدوں پر تھا ایک رات میں اللہ تعالیٰ نے تین دفعہ غیب کا علم دیا پہلے یہ کہ پاکستان کی حفاظت کا انتظام ہو گیا ہے اس ہماری بہن نے کہا.خدایا یہ تیرا بڑا احسان ہے.لیکن مجھے تو میری مامتا سونے نہیں دیتی مجھے یہ پتہ لگے کہ میرے بیٹے کی حفاظت کا بھی سامان ہوا ہے یا نہیں.پاکستان کی حفاظت کے یہ معنی تو نہیں کہ کوئی بھی جان کی قربانی نہیں دے گا.چنانچہ وہ دعا کرتی رہی تو دوسری دفعہ اسی رات اللہ تعالیٰ نے اسے بتایا کہ سیالکوٹ کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہم نے فرشتوں کو بھیج دیا ہے اس نے کہا بھیج دیئے ہیں لیکن میرے بیٹے کا تو اب بھی ذکر نہیں آیا مجھے تو تسلی نہیں ہوئی.وہ دعا کرتی رہی تو تیسری دفعہ خدا تعالیٰ نے اُسے کہا کہ تیرے بیٹے کی حفاظت کا بھی سامان کر دیا گیا ہے.میں یورپ کے دہریوں سے کہا کرتا تھا کہ میرے نزدیک ایک رات میں تین دفعہ اس عورت ک جو بتایا گیا یہ بھی خدا کی بڑی شان ہے لیکن اس خبر کے بعد اس یقین کا دل میں پیدا ہو جانا کہ خبر دینے والا واقعی قادر وتوانا ہے اور جو اس نے فرمایا ہے وہ پورا ہوگا یہ اس سے بھی بڑی چیز ہے اور تم عیسائی دنیا میں یاد ہریوں کی دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں پیش کر سکتے.دہریت کا حقیقی علاج اب یہ جود ہریت ہے اس کا تو علاج ہی یہ ہے کہ وہ خدا کو مان لیں.وہ خدا کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ خدا پر ایمان لانا افیون کھانے کے مترادف ہے ہم کہتے ہیں کہ خدا کو چھوڑنا بھنگ کے استعمال سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور تم نے بھنگ اور اس کا ست نکال کر پینا شروع کر دیا ہے.امریکہ وغیرہ میں اس کا عام رواج ہو گیا ہے اور اس سے یہ قومیں تباہ ہورہی ہیں خدا تعالیٰ جو کبھی سوتا ہی نہیں بلکہ اسے اونگھ تک نہیں آتی قرآن کریم نے اس کی یہ صفت بیان کی ہے اس کا مانے والا افیمی بنکر اونگھے گا کیسے؟ اس کے لئے مذہب افیون نہیں بن سکتا.مذہب اس کی بیداری کا ذریعہ بنے گا.مذہب اس کی اہلیت کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کا ذریعہ بنے گا.مذہب ہر قسم کی ذمہ داریوں کو احسن طریق پر نباہنے کا ذریعہ بنے گا کمیونزم نے کہدیا To each according to his needs لیکن needs کی تعریف نہیں کی.(اس کی تفصیل میں کئی دفعہ بتا چکا ہوں ) کئی موقع پر اتفاق ہوا سوال

Page 293

فرموده ۱۹۷۱ء 290 د دمشعل راه راه جلد دوم کرنے کا لیکن ناقص تعریف بیان کرتے ہیں.یہاں بھی کئی سر پھرے کہہ دیتے ہیں کہ جی ہم Leftlist (لفٹسٹ یعنی کمیونسٹ ہیں اور یہ بھی آجکل بعض حلقوں میں ایک فیشن بن گیا ہے.میں ایسے لوگوں سے کہا کرتا ہوں تم بڑے ظالم ہو.اللہ تعالیٰ غریب کو روپیہ دینا چاہتاہے تم اٹھنی دے کر اسے خوش کرنا چاہتے ہو جو باقی اٹھنی اس کا حق بنتا ہے تم اسے اس سے کیسے روک سکتے ہو.غرض انسان کا دماغ جہاں تک پہنچا ہے وہ نصف بھی نہیں.نصف بھی اپنے لئے ہے جو غریب لوگ کمیونسٹ ممالک میں ہیں.اُن کے کوئی حقوق نہیں سمجھے گئے اور نہ ادا کئے گئے.ان کے حقوق پامال ہو گئے.شرک سے بچنے کا گر ہر قسم کا شرک در اصل خدا تعالیٰ سے دوری ہے.یہ بہر حال دور ہونا چاہئیے اور ربک فکبر کے نتیجہ میں یہ دور ہو جاتا ہے یعنی جب انسان بحیثیت مجموعی خدا تعالیٰ کی صفات کو شناخت کرے گا تو وہ شرک کیوں کرے گا وہ شرک کرے گا ہی نہیں شیطان اگر کسی ایسے مسلمان کا دروزاہ کھٹکھٹائے جس نے خدا تعالیٰ کی صفات اور اس کی قدرتوں کا مشاہدہ کیا ہو اور وہ شیطان اُسے آکر کہے کہ میں تجھے کروڑ روپے دیتا ہوں تم خدا کی ہستی سے انکار کر دو تو وہ کہے گا کروڑ روپے تو مجھے دیتا ہے اپنے خزانے سے اس کو چھوڑنے کے لئے جس کے خزانے کی دولت کی کوئی انتہاء نہیں تو کہاں آبھٹکا ہے چلے جاؤ یہاں سے.مجھے سب کچھ خدا ہی دے رہا ہے اور اسی سے میں نے لینا ہے جو شیطان دیتا ہے وہ کہاں رہتا ہے.بعض ایسے پیسے بھی ہیں جن کو شیطان کا ہاتھ لگ جاتا ہے مثلاً رشوت میں لیا ہوا پیسہ ہے وہ تو فرشتے کے ہاتھ کا نکلا ہوا ہے یا مثلاً بلیک مارکٹنگ دھوکہ دہی یا لوٹ مار کا پیسہ ہے یا لوگ بعض دفعہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق چھین لیتے ہیں.جن میں زمیندار بھی ہوتے ہیں اور غیر زمیندار بھی.یہ دولت جو ہے.یہ شیطان نے دی.مگر کس نے اس قسم کی دولت کو قائم رہتے دیکھا یہ جلد ختم ہو جاتی ہے اور ضائع ہو جاتی ہے اور جو اس کے سب تکلیفیں اور عذاب ہیں جن میں اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو بتلا کرتا ہے وہ زائد ہیں.غرض شیطانی ہاتھ سے آنیوالا پیسہ پائیدار چیز نہیں ہوتی لیکن جو چیز خدا سے ملتی ہے وہ پائیدار ہوتی ہے بشرطیکہ انسان کا اپنے رب سے تعلق پائدار رہے.یہ نہیں کہ تم خدا سے پیار حاصل کر کے کہو کہ ہم نے پیار لیا.اے خدا! اب کچھ ہم شیطان سے بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ تو ہلاکت کی راہ ہے.اسی لئے حضرت نبی کریم ﷺ نے بار بار فرمایا ہے کہ خاتمہ بالخیر کیلئے دعا کیا کر و بعض لوگ بڑے بڑے بزرگ تھے لیکن بدقسمتی سے شیطان کے بہکانے میں آگئے تو جتنے اونچے گئے تھے اتنی ہی زور سے زمین پر آ گرے.جو آدمی اس شامیانے پر سے گرے گا اس کی تو شاید انگلیاں ٹوٹ جائیں یا شاید ہڈیوں میں بال آجائے لیکن جو ساتویں آسمان سے گرے گا وہ تو قیمہ بن جائے گا.یہی حال ان بزرگوں کا ہوا جو شیطان کے بہکانے میں آگئے ایک وقت میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کا جتنا پیار حاصل کیا اتنا ہی وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے آگئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کا اتنا حسن تھا اتنا علم تھا اتنا نور تھا یعنی نور

Page 294

291 فرمودہ ۱۹۷۱ء د و مشعل راه جلد دوم دد السموات والارض تھا جس سے دوری تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے اس کو شناخت کرنے کے بعد اور اس کی روشنی میں جا کرانہوں نے اندھیرے کا انتخاب کر لیا.نفس موٹا ہو گیا اور وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگ گئے اور اپنا آپ بھول گئے اپنا مقام بھول گئے خدا تعالیٰ سے جو تعلق یا اس کی طرف سے جو ذمہ داریاں ہیں اُن کو بھول گئے تو پھر کسی کام کے نہ رہے اور گناہ دراصل اسی معنی میں شرک ہے لوگ بعض دفعہ کہہ دیتے ہیں کہ صرف درخت وغیرہ کی پوجا شرک ہے نہیں ! دراصل شرک ہے خدا سے دُوری اور اسی کا نام گناہ ہے.چھٹی صفت گناہ سے پر ہیز رجز کے دوسرے معنی الدنب یعنی گناہ کے ہیں.دراصل گناہ شرک کا ہی دوسرا نام ہے.شکل ذرا بدلی ہوئی ہے عام آدمی کے لئے شاید سمجھنا مشکل ہو جائے.در حقیقت خدا سے دوری گناہ ہے جو شخص خدا کو پہچان لیتا ہے اور خدا کے نور کی چھاؤں کے نیچے آجاتا ہے وہ اندھیرے میں کیسے چلا جائے گا.وہ گناہ کیسے کر لگا.گناہ خدا سے دوری اور تاریکی کا راستہ ہے.بعض دفعہ انسان خدا کی صفات کے شناخت کرنے کے بعد بھول جاتا ہے اور یہ بھول جانا اس کی زندگی کے ساتھ لگا ہوا ہے.بعض دفعہ ممکن ہے انسان کا حافظہ کمزور ہوا اور اس سے بظاہر گناہ سرزد ہو جائے.ایسے شخص کو ہم گنہ گار ہیں کہتے.لیکن کیا اس شخص کو نماز میں وہی لذت مل رہی ہوتی ہے جو اس آدمی کوئل رہی ہے جس کا حافظہ کمزور نہیں ہوا.ایک احمدی عورت کا واقعہ مجھے ایک مثال یاد آ گئی ہے.ہماری ایک احمدی بہن جس کی شادی ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں مگر ابھی تک اس کے بچہ پیدا نہیں ہوا ( آپ بھی دعا کریں میں بھی دعا کر رہا ہوں ) میرے پاس دعا کرانے کے لئے آئی مگر روتی چلی گئی.میں بڑا حیران ہوا اور اس سے کہا تم احمدی ہو.تمہارا خدا کی ہستی پر یقین ہے.مسکراہٹیں ہمارے چہروں پر کھیلتی ہیں تم نے رونا کیوں شروع کر دیا ہے.وہ کہنے لگی میں نے نماز چھوڑ دی ہے میں نے کہا تمہیں کیا ہو گیا.تم نے نماز کیوں چھوڑ دی وہ کہنے لگی کہ میں نے نماز پڑھنی اس لئے چھوڑ دی ہے کہ جب میں نماز کی نیت باندھتی تھی تو گندے گندے خیالات آنے لگتے تھے.پھر میں نیت تو ڑ کر دوبارہ باندھتی تھی پھر اسی طرح گندے خیالات آنے لگ جاتے تھے.آٹھ آٹھ دل دس بلکہ بعض دفعہ میں بیس مرتبہ یہی ہوتا تھا تو میں نے کہا چلو نماز ہی چھوڑ دو.خیر اللہ تعالیٰ نے اُس پر فضل کرنا تھا میں نے اسے کہا.استعمال کر کے دیکھو اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہو گیا تو تمہیں فائدہ پہنچے گا.چنانچہ ۱۵/۲۰ دن کے بعد وہ مجھے دوبارہ ملی تو میں نے اسے پہچانا نہیں کیونکہ اس کو جو حالت میری نظر میں آئی تھی کہ آنسو بہہ رہے ہیں اور بہت پریشان حال اور اب اس کی ساری پریشانی دور ہو چکی تھی.میں نے پوچھا تمہیں کوئی فائدہ ہوا ہے کہنے لگی کہ دیکھیں کتنا فائدہ ہو گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب میں

Page 295

د مشعل راه جلد دوم نے نماز پڑھنی شروع کر دی ہے اور اس طرح برکت بھی آگئی ہے.ایک عجیب دُعا اور اس کی قبولیت فرموده ۱۹۷۱ء 292 غرض بیماری کی وجہ سے انسان نہ صرف یہ کہ عملاً عبادت اور اللہ تعالیٰ نے جو دوسرے فرائض عائد کئے ہیں ان کی ادائیگی میں کمزوری محسوس کرتا ہے بلکہ عبادت کی فرضیت کا احساس ختم ہو جاتا ہے اب ہر چیز جو خدا کے لئے ہو اور ہر خواہش جو خدا کے لئے ہو وہ ایک لذت اور سرور پیدا کرتی ہے.ایک دفعہ مجھے کیا سوجھی ( میں یہی کہوں گا کہ بچوں والا خیال تھا) میں نے ایک دن دعا کی اے خدا تو نے اپنے بندوں کے لئے مختلف قسم کی لذتوں کے حصول کے لئے مادی اشیاء پیدا کی ہیں مثلاً کھانے میں بھی لذت ہے.اگر لذیذ کھانا ہو اور خواہش کے مطابق ہو تو انسان کو اس میں بڑا مزہ آتا ہے.گرمیوں میں ٹھنڈا پانی یا ائر کنڈیشنڈ روم اور سردیوں میں گرم لحاف سرور پیدا کرتا ہے اسی طرح کی بے شمار مادی اشیاء ہیں جن سے سرور پیدا ہوتا ہے.میں نے یہ دُعا کی کہ خدایا! مجھے تو بغیر مادی اشیاء کے تیرا بخشا ہوا سرور چاہئیے.ویسے تو یہ کہنا شاید پاگل پن تھا لیکن خدا اپنی شانِ رحمت دکھانے پر آ گیا کوئی پندرہ منٹ کے بعد میرے جسم اور میرے دماغ اور میری روح میں ایک ایسا سرور پیدا ہوا جس کی کیفیت ۴۸ گھنٹے تک مجھ پر طاری رہی.پس خدا تعالیٰ کا تعلق تو اس طرح سرور بخشتا ہے کھانا بھی اسی کے حکم سے لذت دیتا ہے ورنہ اگر خدا نہ چاہے تو بعض دفعہ کھا نا کھانے سے قولنج ہو کر موت بھی واقع ہو جاتی ہے.غرض ذنب در اصل خدا تعالیٰ سے دوری کا نام ہے اس سے بچنا چاہئیے.ساتویں صفت قوت احسان اور صبر پھر فرمایا کہ جس خدا نے تمہیں اتنا کچھ دیا ہے تو تمہیں بھی ( خدا کی صفت احسان سے متصف ہوکر ) دنیا پر احسان کرنا پڑے گا.میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اسی سال ہے ساری دنیا کی گالیاں اور ظلم (ہمارے اوپر ہور ہے ہیں ) ہماری مسکراہٹ نہیں چھین سکے اور ہم سے قوت احسان نہیں چھین سکے.ہمارا بڑے سے بڑا دشمن اگر کسی کام کے لئے ہمارے پاس آتا ہے تو ہم مسکرا کر اس کا کام کر دیتے ہیں.کیونکہ ہمیں خدا نے بے حد و حساب دیا ہے یعنی اس کا وہ پیار کہ جس کے نتیجہ میں ہمارا احساس یہ ہے کہ ساری دنیا ہمارے لئے ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان ہے کہ آپ کے متعلق فرمایا: لولاک لما خلقت الافلاک ہم آپ کے ماننے والے ہیں.اگر آنحضرت ﷺ کے لئے یہ عالمین پیدا ہوئے ہیں تو آپ کے ماننے والوں کے لئے بھی پیدا ہوئے ہیں.اس لحاظ سے یہ ساری یو نیورس یہ عالمین میرے اور آپکے لئے.پس آر

Page 296

293 فرموده ۱۹۷۱ء د و مشعل راه جلد دوم دد کے پاس جو آدمی تھوڑا سا لینے کے لئے آتا ہے تم وہ چیز اس کے ہاتھ میں پکڑا ؤ غرض مخالف ( اپنی مخالفتوں کے با وجود ) قوت احسان ہم سے نہیں چھین سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم پر خدا تعالیٰ نے بڑا احسان کیا ہے تمہارے دماغ میں ایک لمحہ کے لئے احسان کا بدلہ لینے کا خیال پیدا نہ ہوا.اس سلسلہ میں جو تمہیں جو ہدایتیں دی گئی ہیں اُن کے اوپر سختی سے قائم رہو اور صبر سے کام لو.صبر کے متعدد معانی صلى الله صبر کے بہت سارے معنی ہیں مثلاً صبر کے ایک معنی تو شجاعت کے ہیں یعنی میدان جنگ میں صبر وثبات کے ساتھ قائم رہنا اور صبر کے ایک معنی کسی کا بچہ مرجائے تو نوحہ نہ کرنے کے ہیں یعنی اس بات پر قائم رہنا کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور اس کی رضا پر ہم راضی ہیں.اس طرح یہ صبر مختلف شکلوں میں انسانی زندگی میں ظاہر ہوتا ہے.فرمایا اپنے رب کی خوشنودی کیلئے صبر کی راہوں کو اختیار کرو اور اگر تم صبر کی راہوں کو اختیار کرو گے تو تم اپنے رب کی زیادہ سے زیادہ خوشنودی اور اس کا پیار حاصل کرتے چلے جاؤ گے.غرض یہ سات حکم حضرت محمد ﷺ کو دیئے گئے ہیں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے آپ اول المسلمین تھے.اس لحاظ سے یہ آپ کی سات صفات بن گئیں اور کوئی شخص یہ نہیں کہ سکتا کہ خدا نے فرمایا تھا کہ (اے رسول) تو مدثر بن اور ( نعوذ باللہ ) آپ مدثر نہیں بنے یا خدا نے فرمایا تھاتم فاند لیکن پھر بھی آپ لیٹے رہے اور خدا نے آپ کو فر مایا تھا کہ اپنے رب کی صفات کو دنیا میں بیان کر مگر آپ نے اس میں سستی اختیار کی (نعوذ باللہ ).ایسا خیال بالکل خلاف واقعہ ہے.اور ہم دوسروں کو بھی قائل کر سکتے ہیں کہ یہ بات خلاف واقعہ ہے مخالفین اسلام یہ کہ سکتے ہیں کہ ہم قرآن کریم کو نہیں مانتے کہ وہ خدائی شریعت اور خدا کی کتاب اور خدا کے احکام پر مشتمل ہے لیکن اس سے وہ انکار نہیں کر سکتے کہ اس میں جو بھی حکم دیا گیا ہے محمد رسول علی علیہ نے اس پر عمل کیا.آپ تو اول امس تھے.سات صفات کی اہمیت سلمین پس یہ دراصل سات صفات ہیں جو ہمارے لئے مظلومیت سے کامل محسن بنے تک کے راستے کے نشان ہیں.آنحضرت ﷺ کے وقت شروع میں اسلام ایک مظلوم کی حیثیت میں تھا.کفار مسلمانوں کو گرمیوں میں تپتی ہوئی ریت یا پتھروں پر لٹا دیتے تھے یا ان کے سینے پر پتے ہوئے پتھر رکھ دیتے تھے.بعض دفعہ کوڑے لگاتے تھے.مسلمان عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مارتے تھے ان کی لاتیں پکڑ کر گھسیٹتے بلکہ بعض دفعہ چیر دیتے تھے.غرض مسلمان مظلوم تھے خدا تعالیٰ نے فرمایا.میں تمہیں یہ سات گر سکھاتا ہوں تم ان پر عمل کرو.تمہاری جتنی

Page 297

فرموده ۱۹۷۱ء 294 د و مشعل راه جلد دوم طاقت ہے اتنی تیاری کر لو یہ یاد رکھیں احمدی بھی یاد رکھیں ! خدا مجھے اور آپ کو یہ نہیں فرما تا کہ اپنی طاقت سے زیادہ دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے تیاری کر و خدا تعالیٰ مجھے اور آپ کو یہ بشارت دے رہا ہے کہ جتنی تمہاری طاقت ہے جب تم اس کے مطابق تیاری کر لو گے تو اسلام کو غالب کرنے کے لئے اس طاقت کے علاوہ اس سے بہت زیادہ بلکہ کروڑ ارب کھرب گنا زیادہ طاقت کی ضرورت ہے وہ میں دوں گا اور اس طرح اسلام غالب آ جائے گا.پس آنحضرت علی مظلوم تھے مگراللہ تعالیٰ کے احکام پر چل کر محسن کامل بن گئے اس محسن کامل ﷺ کے نقش قدم پر چل کر مسلمان پہلے زمانہ میں مظلوم سے ظالم نہیں بنابلکہ مظلوم سے ظانی محسن کامل بنا.حضرت بلال اور صحابہ کرام کی مثال اب حضرت بلال رضی اللہ عنہ یا دوسرے صحابہ کرام جن پر سرداران مکہ اپنے غرور اور تکبر کے نتیجہ میں ظلم کیا کرتے تھے.اس وقت جس وقت وہ تپتی ہوئی ریت کے اوپر لٹائے جاتے اور ان کے اوپر پتھر رکھے جاتے تھے تو وہ اتباع احکام شریعت کی بہترین مثال قائم کرتے تھے.پھر خدا نے اسی بلال پر اتنا احسان کیا کہ وہی بلال جو مظلومیت کی حالت میں تپتی ہوئی ریت کے اوپر پڑا ہوتا تھا اس کے جھنڈے کے نیچے سرداران مکہ اپنی زندگیوں اور اپنی عزتوں کی حفاظت کے لئے جمع کئے گئے کتنے بڑے احسان کے قابل بنادیا.بلال کو حضرت نبی کریم ﷺ کا یہ بھی احسان ہے کہ آپ نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ دیکھو بلال جیسا غلام اور دُنیا کا دھتکارا ہوا جب میری محبت میں رہ کر اور قرآن کریم پر عمل کر کے خدا تعالیٰ کی محبت کا پالیتا ہے تو اُس کی قوت احسان اتنی بڑھ جاتی ہے کہ مکہ کے سرداران کو بھی اس کے جھنڈے تلے پناہ لینی پڑتی ہے اس میں یہ سبق بھی تھا کہ اسلام پر چلو گے تو خانی محسن کامل بن جاؤ گے جیسا کہ حضرت بلال تھے اور جیسا کہ اُس زمانہ میں ہزاروں دوسرے صحابہ ظلی محسن کامل بنے.پھر اُس وقت ساری معروف دنیا پر احسان کیا.اسی طرح دنیا میں انسان کے ساتھ چکر چلتا ہے.آسمانی فیصلہ اور جماعت احمدیہ کا فرض اب پھر آسمانوں پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ اسلام از سر نو اسی شان اور شوکت اور اُسی تر و تازگی کے ساتھ دنیا میں دیکھا اور پایا جائے گا اور دنیا پر احسان کرنے والا ہوگا جس طرح پہلے زمانہ میں تھا یہ آسمانی فیصلہ ہے زمینی طاقتیں اسے روک نہیں سکتیں یہ ضرور پورا ہوگا.لیکن یہ آسمانی فیصلہ مجھ پر اور آپ پر بہت سارے فرض بھی عائد کر رہا ہے.خدا تعالیٰ نے نشان دے دیئے ہیں arrows (آمروز) لگے ہوتے ہیں کہ یہ راستہ ہے تمہارے ظلی محسن کامل بنے کا.ایک احمدی کے دل میں جب یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مثلاً سارا انگلستان احمدی مسلمان ہو جائے تو یہ اس واسطے نہیں ہوتا کہ پھر انگلستان افریقی ممالک میں اس امپریلزم کا ظلم ڈھائے.یہ ہمارے دل میں خیال

Page 298

295 فرمودہ ۱ ۱۹۷ء دومشعل راه جلد دوم پیدا نہیں ہوتا بلکہ ہمارے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ سارے انگریز مسلمان ہو جائیں.محمد علی اللہ کا کلمہ پڑھنے لگ جائیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت کے عقیدہ کو ایک غیر معقول بات سمجھتے ہوئے چھوڑ دیں اور آنحضرت ﷺ کے عشق میں سرشار ہو کر اللہ تعالیٰ کے قدموں میں جا کر اپنا سر رکھیں اور پھر خالی محسن کامل کی حیثیت سے جس طرح وہ ایک وقت میں ظالم کامل کی حیثیت میں دنیا میں چھائے تھے اب محسن کامل کی حیثیت میں غیر مسلم دنیا میں چھا جائیں یہ ہماری خواہش ہے.یہ خواہش نہیں ہے کہ وہ پھر سے ظالم و سفاک بن جائیں.پس یہ سات arrows (امیروز ) ہیں یہ سات نشان ہیں جو نشان دہی کر رہے ہیں کہ ان راستوں پر چلو، یہ صفات اپنے اندر پیدا کرو، پھر خدا تعالیٰ تمہیں کمزور ہونے کے باوجود مظلوم ہونے کے باوجود ظالم بننے سے بھی بچائے گا اور ظلی محسن کا مل بھی بنادے گا.غلبہ اسلام اور خدام الاحمدیہ کے فرائض اب اس وقت جو ہماری نسل ہے یعنی خدام الاحمدیہ جس میں اطفال اور خدام شامل ہیں یعنی جن کی سات سال سے لے کر چالیس سال تک کی عمر ہے اس پر بڑی ذمہ داریاں ہیں.اس وقت افق انسانیت پر غلبہ اسلام کی سعائیں جن کی نگاہیں تیز ہیں انہیں ابھرتی نظر آ رہی ہیں.جن کی نگاہیں ذرا کمزور ہیں وہ آج نہیں تو کل دیکھ لیں گے.لیکن ہمارے اوپر بڑی زمہ داریاں ڈالی گئی ہیں.ہمیں اخلاقی لحاظ سے ذہنی لحاظ سے اور جسمانی لحاظ سے ہر وقت چوکس رہنا چاہئیے.مدثر کے معنی یہی ہوں گے.وہ گھوڑا کون ہے جس کی پیٹھ پر آپ نے سوار ہونا ہے اور وہ تیار ہے اور جسے آپ نے خوب کھلا پلا کر تیار رکھا ہوا ہے کہ عرب کے گھوڑے کی طرح نوسو میل بغیر پانی پنے سفر طے کر لے.وہ گھوڑا علم کا گھوڑا ہے.وہ گھوڑا اخلاق کا گھوڑا ہے.وہ گھوڑا خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کرنے کا گھوڑا ہے.جسے ہم تمثیلی زبان میں گھوڑا کہتے ہیں.اس کے اوپر آپ نے سوار ہونا ہے محمد ﷺ کے اخلاق کو لے کر محمد علﷺ کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم سکھائے گئے ہیں ان کو لے کر اور جو نور آپ کو دیا گیا ہے اس نور کی بھریاں بھر کر (اگر اس نور کی بھریاں بھری جاسکیں اور آپ اس کو سمجھ جائیں) آپ نے دنیا کے پاس جانا ہے.اس سے لینے کے لئے نہیں بلکہ اسے دینے کے لئے آپ نے جانا ہے اس کام کے لئے آپ کو تیار ہونا چاہئیے.خدا کرے ہماری ساری دعائیں اور ہماری حقیر کوششیں کامیاب ہوں اور پینسل جو اس وقت ہمارے دلوں میں فکر پیدا کر رہی ہے ووہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو ہم سے زیادہ حاصل کرے ہم سے کم حاصل نہ کرے.دعا کی تحریک الله اب پھر ہم دعا کر لیتے ہیں.پھر میں جاؤں گا آپ اپنے کام جاری رکھیں.موقعہ ملاتو پھر بھی شاید آ جاؤں ویسے گرمی ابھی مجھے تکلیف دیتی ہے.اسی واسطے میں پندہ منٹ لیٹ ہو گیا تھا بہت دعائیں کریں.کیونکہ اللہ تعالیٰ

Page 299

مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۱ء 296 سے نیکی کی توفیق پانا بھی اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے وہی سب کچھ دینے والا ہے اسی سے سب کچھ مانگیں اور اصولی طور پر ایک ہی دعا کریں کہ اے خدا! جس طرح حضرت نبی کریم ﷺ کے وقت یعنی نشاۃ اولی کے زمانہ میں صحابہ کرام نے محمد عہ کے طفیل تیری رحمتوں سے بہت کچھ پایا اب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے زمانے میں صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا کی مدد سے جب تو نے ہمیں صحابہ کا مثیل بنادیا ہے تو ہم پر بھی وہی رحمتیں تیری، اور وہی پیار تیرا، اور وہی لطف تیرا، اور وہی برکتیں تیری نازل ہوں تا کہ ہم بھی خالی محسن کامل کی حیثیت سے اسی طرح دنیا میں اسلام کو پھیلائیں اور غالب کریں جس طرح اُس وقت صحابہ نبی کریم اور اُن تابعین اور تبع تابعین نے جنہوں نے صحابہ کرام کے رنگ میں اپنی زندگیوں کو نا تھا لیکن کام کی حیثیت میں دنیامیں اسلام کو پھیلایا اور دنیا پر اسلام کو غالب کیا تھا.آؤ دعا کر لیں ( به خطاب روزنامه الفضل ۸ تا ۲۵ جنوری ۱۹۷۲ کے شماروں میں قسط وار شائع ہوا )

Page 300

297 فرمودہ۱ ۱۹۷ ء د و مشعل راه جلد دوم دد ۱۰ اکتو برا ۱۹۷ کو حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے انیسویں سالانہ اجتماع میں جو اختتامی خطاب فرمایا پیش خدمت ہے.سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: بعض باتیں تو میں تنظیمی کرنا چاہتا ہوں.ہمیں یہ احساس تھا اور انصار اللہ کے تجربہ سے یہ یقین ہو گیا کہ شہروں میں جہاں بڑی جماعتیں ہیں مثلاً کراچی یالا ہور یا اور بڑی جماعتیں ہیں وہاں کے قائد خدام الاحمد یہ ساری جماعت کے خدام کو صحیح طور پر منظم کر کے ان کی استعداد کے مطابق کام لینے میں کامیاب نہیں ہوئے.میں نے بتایا ہے کہ ہم نے انصار اللہ پر تجربہ کیا مجلس انصار اللہ کراچی کو تقسیم کر کے کئی مجالس میں بانٹ دیا.جس کا ایک ظاہری اور مادی نتیجہ جو ٹھوس شکل میں ہمارے سامنے آیا وہ یہ تھا کہ انصار اللہ کراچی کا چندہ ایک مجلس کی حیثیت میں جتنا تھا بٹنے کے بعد اس سے تین گنا زیادہ ہو گیا.خدام الاحمدیہ کے متعلق بھی یہ تاثر پیدا ہوا کہ ایک نوجوان شخص کو تنظیم کے بارے میں بہر حال اتنا تجربہ نہیں ہے جتنا پرانے احمدیوں کو ہے کہ جماعت کو اکٹھا کر کے ان میں بشاشت پیدا کر کے ان کی قیادت کرے.وہ خود آگے بڑھیں اور جماعت سے کہیں کہ میرے پیچھے آؤ اس لحاظ سے قائد کو ایسا تجربہ نہیں ہوتا اس واسطے نتیجہ اتنا اچھا نہیں نکلتا رہا جتنا نکلنا چاہئے تھا.کراچی میں چند کمزور ایمان والوں کا ایک ٹولا ہے انہوں نے Manoeuvre (مینور ) کر کے آگے آنے کی کوشش کی چنانچہ وہی ٹولا آگے آ گیا ان کے متعلق باتیں پہنچیں یہ ایک وجہ بن گئی فوری توجہ کرنے کی ویسے اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے سوچا بھی یہ اور تجربے سے بھی یہی ثابت ہوا کہ اس قسم کی بڑے شہروں میں مجالس خدام الاحمدیہ ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد ہونی چاہئیں.چنانچہ میں نے صدر صاحب خدام الاحمدیہ سے کہا تھا کہ مشورہ کے بعد قیادت کراچی کو مختلف قیادتوں میں بانٹ دیں.ان کی یہ رپورٹ میرے سامنے ہے جس کی میں نے منظوری دے دی ہے.(1) کراچی میں اب ایک قیادت کی بجائے پانچ قیادتیں ہونگی.عزیز آباد کی قیادت جس میں عزیز آباد، دستگیر کالونی، النور اور النصرت کے علاقے شامل ہوں گے.(۲) ناظم آباد کی قیادت جس میں ناظم آباد شمالی ، ناظم آباد وسطی، ناظم آباد جنوبی ، ماڑی پور اور لی مارکیٹ کے حلقے شامل ہوں گے.(۳) کراچی صدر کی قیادت جس میں، کیماڑی، منوڑہ ، رام سوامی ، جیکب لائنز.ایسے سینیا لائنز محمود آباد اور

Page 301

د و مشعل راه دوم کورنگی کر یک شامل ہوں گے.فرموده ۱۹۷۱ء 298 (۴) حلقہ سوسائٹی کی قیادت جس میں ہوسنگ سوسائٹی، محمد علی سوسائٹی، یونیورسٹی کے حلقے شامل ہوں گے.(۵) مارٹن روڈ کی قیادت جس میں مارٹن روڈ اور لیاقت آباد شامل ہوں گے.اس کے مطابق پندرہ دن کے اندر انتخاب ہو جانا چاہئے اور تین ہفتہ کے اندراندر یہاں سے منظوری چلی جانی چاہئے تا کہ تقسیم ہونے کے بعد یہ پانچوں حلقے اپنا اپنا کام شروع کر دیں.اسی طرح لاہور کی قیادت کو بھی چھ قیادتوں میں تقسیم کیا گیا ہے.(1) حلقہ دارالذکر کی قیادت جس میں دارالذکر، مصطفی آباد، چھاؤنی، محمدنگر، انجنیئر نگ یونیورسٹی، سلطان پورہ اور مزنگ شامل ہیں.(۲) ماڈل ٹاؤن کی اپنی مستقل قیادت ہے جس میں ماڈل ٹاؤن، وحدت کالونی، رحمانپورہ ، احمد یہ ہوٹل، نیو کیمپس ، شادمان کا لونی ، گلبرگ اور والٹن شامل ہیں.(۳) دہلی دروازہ جس میں دہلی دروازہ ہمصری شاہ ، بھاٹی گیٹ ، رتن باغ، نیلا گنبد ، قلعہ گوجر سنگھ، پرانی انار کی اور چاہ میراہ شامل ہیں.(۴) اسلامیہ پارک جس میں کرشن نگر سنت نگر، راجگڑھ، اسلامیہ پارک، سمن آباد، مسلم کالونی اور شیزان فیکٹری شامل ہیں.مغلپورہ جس میں مغلپورہ، باغبانپورہ اور شالا مار ٹاؤن شامل ہیں.(۲) شاہدرہ جس میں شاہدرہ ٹاؤن اور شاہدرہ فیکٹری ایریا شامل ہیں.شاہدرہ ٹاؤن مستقل قیادت ہوگی اور شاہدرہ فیکٹری ایریا بھی مستقل قیادت ہوگی جس طرح پہلے بھی یہی ہوتا چلا آیا ہے.راولپنڈی کو دو حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے.وہاں اب دو قیادتیں ہوں گی.ایک سیٹلائٹ ٹاؤن شرقی ، اصغر مال شرقی اور غربی مسجد شمالی، مسجد جنوبی، سید پوری ہسٹیلائٹ ٹاؤن غربی اور مورگاہ اور دوسرا مین حلقه مغل آباد، اردو منزل ، صدر، گوالمنڈی ، احمد کمرشل، چک لالہ اور ڈھوک رتہ شامل ہوں گے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے پندرہ دن کے اندر انتخاب اور تین ہفتے کے اندر منظوریاں ہو جانی چاہئیں تا کہ فوری طور پر یہ قیادتیں اس نئی شکل میں کام شروع کر دیں.آپ نے پڑھا ہوگا چند دن ہوئے ہماری حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ہمارا ملک اس وقت ایک نازک دور میں سے گزر رہا ہے اس لئے عوام کو چاہئے پاکستانی شہریوں کو چاہئے کہ وہ ایسی باتوں سے اجتناب کریں جن کے نتیجہ میں دلوں میں گھبراہٹ پیدا ہو یا مایوسی پیدا ہوتی ہو یا بد دلی پیدا ہوتی ہو یا ایسی افواہیں جس سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ ہر ملک میں دوسرے ملک کی جاسوسی ہو رہی ہے.تمہاری ماں یعنی مادر وطن آج تمہیں بلا رہی ہے

Page 302

299 فرموده ۱۹۷۱ء د و مشعل راه جلد دوم دد بہر حال حکومت نے قوم کو اپنے اعتماد میں لے کر ان سے کہا تھا کہ ہر اس قول اور ہر اس فعل سے بچیں جس کے نتیجہ میں پاکستان میں کمزوری پیدا ہو اور دشمن کے لئے وہ خوشی کا موجب بن جائے یاوہ بات ان کے منصوبوں میں مدد پینے والی ہو.مارشل لا اتھارٹی کوجو باتیں معلوم ہوئی ہیں، وہ ہمیں تو معلوم نہیں جس حد تک مناسب سمجھا اور مصلحت سمجھی اس کے مطابق انہوں نے اصولی طور پر قوم کو متوجہ کر دیا ہے.اس سلسلے میں میں جماعت احمدیہ کو عموماً اور اپنے عزیز نو جوان بچوں اور بھائیوں کو خصوصاً اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تمہاری ماں یعنی مادر وطن آج تمہیں بلا رہی ہے اور وہ تم سے قربانی چاہتی ہے پاکستان کی سالمیت اور اس کی حفاظت کے لئے ہماری طاقتوں کا آخری جز و خرچ ہو جانا چاہئے.ہمارے ذہن ہر قربانی کے لئے تیار رہنے چاہئیں اور ہمارا عمل ہمارے ذہنی فیصلوں کی ہر وقت تائید کرنے والا ہونا چاہیئے.اللہ تعالیٰ بڑے فضل کرنے والا ہے پچھلے دنوں غالباً مشرقی پاکستان ہی میں ہماری ایک احمدی بہن نے خواب دیکھی اور مجھے بھی لکھی.وہ کہتی ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں اور میں نے (یعنی اس بنگالی بہن نے ) کہا کہ ۶۵ ء کی جنگ میں آپ ہمارے درمیان تھے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا جماعت کی دعائیں قبول فرما ئیں خدا تعالیٰ نے پاکستان کو فتح دی اور ہندوستان اپنے بد منصوبوں میں ناکام ہوا.اب پھر جنگ کے آثار ہیں اب کیا ہوگا.مطلب یہ تھا کہ آپ تو وصال کر گئے آپ نے بڑے جوش میں آ کر کہا کہ ہندوستان کی حکومت پاکستان کی ایک چپہ زمین بھی نہیں لے سکتی.( خواب تعبیر طلب ہوتی ہے.خدا جانے کس شکل میں پوری ہو) یہ تو ایک بشارت ہے اور جتنی بڑی بشارت ہوتی ہے.وہ اتنی ہی بڑی ذمہ داری انسان پر ڈالتی ہے.اسی لئے میری توجہ اس طرف پھری کہ میں آپ کو یہ کہوں کہ اگر مادر وطن نے ہم سے قربانی مانگی تو خدا کرے کہ سارے پاکستانی ہی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے ملک کی حفاظت کیلئے قربانی دینے کیلئے تیار ہو جائیں.لیکن جو احمدی ہے اس نے بہر حال کسی سے پیچھے نہیں رہنا صرف یہی نہیں کہ نسبتا پیچھے نہیں رہا بلکہ دوسروں کی طرف دیکھے بغیر قربانیوں میں آگے سے آگے ہی بڑھتے چلے جانا ہے.انشاء اللہ آپ کے سر خدا کے حضور شکر کے طور پر زیادہ سے زیادہ جھک جانے چاہئیں اور دنیا کو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ آپ کو خدمت اسلام اور خدمت انسان کے مقام پر کھڑا کر دیا یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے.جو لوگ آقا ہوتے ہیں ان میں سے ایک حصہ تو وہ ہوتا ہے جو اپنے زور بازو سے جنگ کے نتیجہ میں یا اقتدار کے لحاظ سے یا دولت کی وجہ سے خود آقا بن جاتے ہیں.دوسرے وہ آقا ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ آقا بنا دیتا ہے.پس جنہیں اللہ تعالیٰ آقا بناتا ہے وہ بھی اور جو خود آقا بن جاتے ہیں وہ بھی بڑے نازک مقام پر ہوتے ہیں.یہ جو خدا کے فضل اور اس کی مدد سے بڑے ہو کر پھر اپنی بداعمالیوں کے نتیجہ میں نیچے گرتے ہیں ان کا تو کچھ باقی نہیں رہتا اور جو اس دنیوی نظام کے ماتحت خود آقا بن جاتے ہیں ان کا حشر ہماری آنکھوں نے دیکھا ہے.ساری دنیا میں انگلستان میں بھی اور امریکہ میں بھی یہی ہو رہا ہے.دیگر ممالک میں بھی یہی ہو رہا ہے کہ ان کے

Page 303

فرموده ۱۹۷۱ء 300 د و مشعل راه ل راه جلد دوم اندر لالچ پیدا ہو جاتا ہے وہ نا جائز ذرائع سے مال اکٹھا کرنا شروع کر دیتے ہیں.رعب ڈالنے کیلئے ظلم کرنا شروع کر دیتے ہیں.حق دار کو حق ادا کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے.انسان کو اپنا بھائی نہیں سمجھتے اور اس طرح بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک حاکم اور آقا پر جوذمہ داریاں ڈالی ہیں ان کو ادا کریں، وہ اپنے نفس کی پرستش میں لگے رہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بھی دھتکارے جاتے ہیں.وہ تو دھتکارے ہی جاتے ہیں.لیکن انسان کی نگاہ بھی انہیں حقیقی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی.میں نے کہا ہے کہ امریکہ میں بھی یہی ہو رہا ہے.یہ فقرہ کہتے ہوئے مجھے ایک مثال یاد آ گئی.ایک امریکن بڑا امیر تھا وہ امریکہ کی ایک ریاست میں بڑا مقبول تھا کیونکہ وہ غریبوں کی مدد کرتا تھا.عوام سے پیار کرتا تھا.سب کو گلے لگاتا تھا لیکن سیاست میں حصہ نہیں لیتا تھا.انتخاب کے وقت اس کے دوست ہمیشہ اسے کہتے کہ تم گورنر کے عہدہ کے لئے کھڑے ہو جاؤ.اول تو کوئی تمہارے مقابلے میں کھڑا نہیں ہوگا اور اگر کھڑا ہوا تو اس کے جیتنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.کیونکہ تم قوم کی خدمت کرتے ہو اور ان میں بہت مقبول ہو وہ آگے سے کہتا کہ نہیں میں کھڑا ہونا نہیں چاہتا اس لئے کہ: Power corrupts you use it.Abuse it and then lose it.کہ جب کسی کو اقتدار ملتا ہے تو وہ انسان کے ذہن کو اور اس کی روح کو بددیانت بنا دیتا ہے.تم اس کو استعمال کرتے ہو لیکن صحیح استعمال نہیں کرتے اس کا غلط استعمال کرتے ہو اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمہارے ہاتھ سے طاقت چھین لی جاتی ہے.چنانچہ امریکہ کا ہی حال ہے.کبھی کوئی پارٹی اوپر آ جاتی ہے اور کبھی کوئی کبھی دنیا کے کسی حصے میں ظلم ہورہا ہوتا ہے اور کبھی کسی حصے میں ظلم ہورہا ہوتا ہے.انہوں نے سینکڑوں سال تک بعض لوگوں پر اس لئے ظلم کیا کہ وہ رنگ دار تھے.وہ سمجھتے تھے کہ ہم چونکہ بے رنگ ہیں اس لئے ہمارا مقام اونچا ہے.چنانچہ وہاں بڑا ہنگامہ رہا اور بڑی لڑائیاں ہوتی رہیں اور ابھی تک وہ لڑائیاں جاری ہیں گو اس شدت کی اور اس شکل کی تو نہیں.لیکن وہ جنگ ابھی تک جاری ہے.سفید فام یا جن کو میں بے رنگ کہا کرتا ہوں.انہوں نے سمجھا کہ ہمارا یہ حق ہے کہ ہم دوسرے انسان پر ظلم ڈھائیں اور ان سے پیار نہ کریں.نفرت اور حقارت کی نگاہ سے انہیں دیکھیں یہ دنیا داروں کا حال ہے.جو دیندار ہیں مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لے لو.اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کو طاقت دی اور جیسا کہ قرآن کریم نے کہا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر بادشاہت کا سلسلہ بھی جاری کیا اور ان میں انبیاء کا ایک سلسلہ بھی جاری ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ صلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایک ایک وقت میں سینکڑوں ہزاروں انبیاء پیدا ہو جاتے تھے کیونکہ یہ قوم یعنی بنی اسرائیل تربیت کی بہت محتاج تھی.ایک وقت تک وہ ٹھیک رہے لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کر لیا اور ان کو سنبھالنے والے باقی نہ رہے اور انبیاء پیدا نہیں کئے گئے.چنانچہ اتنا بڑا ظلم کرنے والی قوم دنیا میں اور کوئی نہیں ہے.آسمان سے یہ گری ہے.قرآن کریم نے کہا ہے کہ ان کے اوپر زمین اور آسمان کی لعنت ہے (سوائے اس کے کہ بدقسمتی سے اس سے زیادہ

Page 304

301 فرموده ۱۹۷۱ء د و مشعل راه جلد د دد دوم کوئی مغضوب ہو جائے) لیکن کوئی بھی ان کو پیار سے نہیں دیکھتا اور میں اس بات کا ذاتی گواہ ہوں.جب میں انگلستان میں پڑھا کرتا تھا اس وقت یہ (یہودی) جرمنوں پر ظلم کر رہے تھے اور جرمن ان پر ظلم کر رہے تھے.نہ جرمنوں کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ظلم سے ہاتھ نہیں رنگے اور نہ بنی اسرائیل یعنی یہودیوں کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جرمنوں پر ظلم نہیں کیا.دونوں ایک دوسرے پر ظلم کر رہے تھے اور انگریز کی حکومت یہودیوں کی پوری تائید کر رہی تھی.لیکن آکسفورڈ جیسی جگہ جہاں سادہ طالب علم ہوتے ہیں انگریز میں یہ بڑی خوبی ہے کہ وہ اپنی طالب علمی کے زمانہ میں بڑا سادہ رہتا ہے یعنی ایک کروڑ پتی آدمی کا بیٹا وہاں معمولی سی قمیص اور پتلون اور ایک موٹی سی فضول سی ٹائی پہن کر آ جاتا ہے اور یہ بالکل پتہ نہیں لگ سکتا کہ اس کا خاندان کروڑ پانڈ کا مالک ہے ) اس سادگی کے باوجود وہ یہودیوں کے پاس سے گزرتے تھے تو سیدھے مندان سے بات نہیں کرتے تھے وہ ان سے نفرت کرتے تھے حالانکہ ان کا ملک اور ان کی حکومت یہودیوں کی تائید میں لڑنے مرنے کیلئے تیار ہو گئی تھی لیکن ان کے دل میں ان کی عزت نہیں تھی اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے گر گئے تھے.خدا تعالیٰ نے جس شکل میں اور جب ان کو اقتدار دیا ہے انہوں نے بنی نوع انسان کے فائدے کی بجائے بنی نوع انسان کے نقصان اور بنی نوع انسان کو فساد میں مبتلا کرنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ یا مال و دولت استعمال کیا ہے.اب بھی یہ ہمارے عرب ممالک کو ناحق تنگ کر رہے ہیں.پیسے کے زور سے بڑی بڑی حکومتیں فضول خرچ بن گئی ہیں.فضول خرچی صرف یہ نہیں ہوتی کہ آدمی عیش کرے بلکہ فصول خرچی یہ بھی ہے کہ آدمی سمجھے کہ میں نے دنیا پر تسلط جمانا ہے.دنیا پر میں نے قبضہ کرنا ہے اور اس لئے میرے پاس اتنے ہوائی جہاز ہونے چاہئیں.کئی سو سب میرین (آبدوزیں) ہونی چاہئیں.اتنا بیڑا ہونا چاہئے.اتنی بڑی فوج ہونی چاہئے.اتنی تو ہیں اور ٹینک ہونے چاہئیں اور پھر ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم ہونے چاہئیں لیکن اتنا اس کے پاس پیسہ نہیں ہوتا.یعنی جتنی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ طاقت کے لحاظ سے ہمیں اتنا بڑا ہو جانا چاہئے ، اتنے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے.پیسہ انہوں (یعنی یہودیوں) نے دبا کر رکھا ہوا ہے.پھر یہ لوگ جو بڑے طاقت ور بننا چاہتے ہیں) ان سے پیسے لیتے ہیں اور فساد کی راہیں نکالتے ہیں.چنانچہ بعض انگریزوں نے کتابیں لکھی ہیں کہ دنیا میں جہاں بھی فساد ہوا ہے، اس کے پیچھے یہودی تھا اور اس وجہ سے دنیا انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے دنیا ان سے پیسے لیتی ہے اور جس طرح مزدور کام کر دیتا ہے اسی طرح دنیا ان کا کام کر دیتی ہے.مگر ہر مزدور اپنے آقا سے پیار تو نہیں کرتا.لوگ پیسے لے کر ان کا کام تو کر دیتے ہیں مگر ان سے پیار نہیں کرتے.پس یہ ایک بڑا نازک مسئلہ ہے یعنی جب اللہ تعالی اقتدار دیتا ہے جب اللہ تعالیٰ ملک دیتا ہے.جب اللہ تعالیٰ صاحب اثر و رسوخ بناتا ہے.جب اللہ تعالیٰ دولت دیتا ہے یا کسی کو بڑا بنا دیتا ہے یا آقا بنا دیتا ہے تو اس وقت بھی اس کے لئے بڑا خطرہ رہتا ہے.اسی واسطے مسلمانوں نے مظلومیت کے زمانے میں ضعف کے زمانے میں یعنی جب دنیا کی ہر طرف سے دھتکارے ہوئے تھے.جتنی اس زمانے میں استغفار کی ہے اس سے زیادہ

Page 305

فرموده ۱۹۷۱ء 302 د و مشعل راه شعل راه جلد دوم انہوں نے اس وقت کی ہے جب قیصر و کسری کے تاج ان کے قدموں میں گرے.کیونکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی تھی.”خادم“ کا مقام پس خادم کا جو یہ مقام ہے کہ سر ہر وقت زمین پر سجدہ ریز رہے وہ خود ساختہ آقا کا مقام نہیں ہے.خدا تعالیٰ کا بڑا ہی احسان ہے اس قوم پر اور اس نسل پر جس کو ”خادم“ کا مقام دیا اور خادم کا احساس دیا اور خدمت کا جذ بہ عطا کیا.یہ مقام اللہ تعالیٰ نے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو دیا ہے.یہ مقام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں خلیفہ وقت نے نوجوانانِ احمدیت کو دیا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی احسان ہے.اس لئے تم حمد کے ترانے گاؤ اور اپنے سر کو اونچانہ کرو اور خدمت کے مقام کو بھول نہیں خواہ کوئی ہی کیوں نہ ہو آپ اس کی خدمت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں.آپ للناس ہیں آپ کو خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ میں نے تمہیں انسانوں کی خدمت کیلئے پیدا کیا ہے اور ساتھ یہ بشارت بھی دی تھی کہ اگر تم اپنے اس مقام کو نہ بھولے تو تم خیر امت ہو گے.دنیا میں کوئی ایسی امت پیدا نہیں ہوئی اور نہ آگے پیدا ہوگی کیونکہ اسلام میں خدمت کی جو تعلیم ہے اور پیار کی جو تعلیم ہے اور اخوت کی جو تعلیم ہے وہ ہمہ گیر اور عالمگیر ہے.اس نے کسی قوم کو نظر انداز نہیں کیا.اس نے کسی ملک کو نہیں چھوڑا اور اس نے کسی زمانے سے غفلت نہیں برتی.اسلام نے یہ نہیں کہا کہ پہلی صدی میں انسان سے پیار کرنا ہے اور چودہویں صدی میں نہیں کرنا بلکہ اسلام نے یہ کہا ہے کہ پہلی صدی میں بھی انسان سے پیار کرنا ہے اور چودہویں صدی میں بھی پیار کرنا ہے اور اس دنیا کی زندگی کی آخری صدی میں بھی پیار کرتا ہے.اسلام نے یہ نہیں کہا کہ میں نے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہر انسان کو تمہارا بھائی بنایا ہے اور بعد میں اگر تم نے اس اخوت کے مقام کو چھوڑ دیا تو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا.اسلام نے یہ نہیں کہا بلکہ اسلام نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بنی نوع انسان کی خدمت کیلئے اخوت کے مقام پر کھڑا کیا ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم اور اسلام کے ذریعہ سے فرمایا کہ میں نے انسان کو بھائی بھائی بنا کر مساوات کے مقام پر کھڑا کر دیا ہے.بحیثیت بشر نہ کوئی کسی سے اونچا اور نہ کسی سے نیچا ہے اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے والا جو سر سجدوں میں پڑا ہوا ہے وہ ساتو میں آسمان پر بھی ہے لیکن میں ان وجوہ کی بات نہیں کر رہا.میں بتا یہ رہا ہوں کہ بحیثیت بشر اسلام کامل اور مکمل اور حسین اور احسن مساوات قائم کرتا ہے.اسلام نے یہ نہیں کہا کہ اگر کسی کا رنگ کالا ہو تو وہ تمہارے برابر نہیں.تم اس سے بلند ہو.اسلام نے یہ نہیں کہا کہ اگر کسی کے ہونٹ لٹک رہے ہوں جس طرح انگریزوں نے تصویروں میں افریقنوں کے ہونٹ لٹکے ہوئے دکھا دئیے تھے اور وہ عملاً اس طرح نہیں ہیں.شاید ہزارافریقنوں میں سے ایک افریقن ہوگا جس کے ہونٹ لٹکے ہوئے ہونگے وہ بھی میری اور آپ کی شکلوں جیسے ہیں.غرض افریقنوں سے اپنے بچوں کو ڈرانے کے لئے انگریزوں نے ان پر ایک یہ ظلم بھی کیا تھا مگر انہوں

Page 306

303 فرموده ۱۹۷۱ء د و مشعل راه جلد دوم دد نے یہ نہ سوچا کہ ایک وقت ایسا بھی آجائے گا کہ انگریزوں کے بچوں کو واقعی ہی افریقنوں سے ڈرنا پڑے گا.اس وقت انہوں نے اندھیرے میں تمہید باندھ دی لیکن اب وہی اپنے پاؤں اور اپنے مقام پر کھڑے ہو گئے ہیں.ایک وقت تک یہ ظالم ان سے ڈریں گے.پھر افریقہ میں بسنے والوں کو مغرب میں جا کر کہنا پڑے گا.تم کیوں ڈرتے ہو.ہم کوئی عیسائی تھوڑے ہیں ہم سے کیوں ڈرتے ہو ہم کوئی دہریہ تھوڑے ہیں ہم سے کیوں ڈرتے ہو.ہم کوئی یہودی تھوڑے ہیں ہم سے پیار لو کہ ہم احمدی ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں.پس اسلام نے جب یہ کہا کہ تمام انسان بشر کی حیثیت سے مساوی اور برا بر ہیں تو یہ نہیں کہا کہ ملک ملک میں فرق کیا جائے گا یا نسل نسل میں فرق کیا جائے گا یا قبیلہ قبیلہ میں فرق کیا جائے گا یا زمانہ زمانہ میں فرق کیا جائے گا جس وقت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو مخاطب کر کے انہیں خدائی حکم بنایا.قل انما انا بشر مشلکم اس وقت سے لیکر اس وقت تک کہ اس کرہ ارض پر آخری انسان آخری سانس لے گا یہ مساوات قائم رکھی گئی ہے اور قائم رہے گی.غرض جو خدمت کا مقام ہے جس کے لئے مساوات ضروری ہے جس کے لئے خدمت کی بھی ضرورت ہے.جس کیلئے حقوق کی ادائیگی کی بھی ضرورت ہے.یہ بڑا ہی عجیب مقام ہے اور جب میں یہ سوچتا ہوں تو میرا دل خدا کی حمد سے بھر جاتا ہے.ہر قسم کے گند سے نکال کر اس نے ہمیں ایک حسین مقام پر لا کھڑا کیا اور فرمایا کہ تم اپنے زور اور طاقت سے بلند نہیں ہو سکتے.میں نے تم پر ظلم نہیں کہ میں نے یہ حکم دیا کہ تمہاری جبین نیاز زمین سے بلند نہ ہو بلکہ تم پر احسان کیا ہے کیونکہ جتنا تم اپنے زور سے بلند ہو سکتے تھے اور ارفع مقام تک جاسکتے تھے.میں تمہیں اس سے بے شمار گنازیادہ اوپر اٹھا کر اپنے قریب لے آؤں گا تم میرے قریب ہو جاؤ گے.خدا تعالیٰ تو بہت بلند ہستی ہے اس کی رفعت تک تو کوئی اور پہنچنے والا نہیں ہے.تمثیلی زبان میں کہا گیا ہے کہ کوئی پہلے آسمان پر پہنچے گا کوئی دوسرے پر کوئی تیسرے پر کوئی چوتھے پر کوئی پانچویں پر کوئی چھٹے پر اور کوئی ساتویں پر اور کوئی اس کے عرش پر جا کر بیٹھ جائے گا.یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جولوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ماننے والے ہیں.وہ اس رفعت اور آسمان تک نہیں جاسکتے جہاں تک حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں پہنچے اور جو لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ماننے والے ہیں وہ عقلاً یا مذ ہبا یا شرعاً اس بلندی ، اُس آسمان تک نہیں پہنچ سکتے جہاں تک ان کے نبی متبوع حضرت عیسی علیہ السلام نہیں پہنچے لیکن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے رفعتوں کے عروج کو حاصل کیا یعنی جو سب سے ارفع جگہ تھی جس کے پرے انسانی تخیل نہیں پہنچ سکتا آپ وہاں تک پہنچے اور وہ اللہ تعالیٰ کا عرش ہے.جہاں اس کی قدرتوں کے کامل نظارے ظاہر ہوتے ہیں اور جس جگہ خدا تعالیٰ کی صفات کے نظاروں کے لئے اس مادی دنیا کی بھی ضرورت نہیں اور جس کو ہم آج نہیں پہچان سکتے.خدا کرے کہ اس کی ایک جھلک مرنے کے بعد ہم بھی دیکھ لیں.بہر حال حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جہاں تک پہنچے، وہ انتہائی نقطہ عروج ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ

Page 307

دد د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۱ء 304 جس آدمی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں اپنا سر رکھا اس کا مقام بھی انتہائی نقطہ عروج سے متصل ہے.لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں سر رکھنا ضروری ہے.اس کے بغیر وہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا.پس ہمارے رب نے ہم پر یہ بڑا احسان کیا جب کہ اس نے ہمیں خدمت کے مقام پر کھڑا کر دیا.آپ اس مقام کو کبھی نہ بھولیں.اب جیسا کہ حکومت وقت نے کہا ہے ہمیں ملک کی خدمت کرنی پڑے گی.اور کئی قسم کی خدمت کرنی پڑے گی.میں اس وقت تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.آپ ہر خدمت کیلئے تیار ہو جائیں.ہر انسان جس حیثیت میں بھی ہو آپ نے اس کی خدمت کرنی ہے.ان کی بھی خدمت کرنی ہے جو آپ پر بھائی بھائی ہونے کی حیثیت سے جانیں شار کرنے والے ہیں اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ان کی بھی خدمت کرنی ہے جنہوں نے ساری عمر میں آپ کی دشمنی میں ضائع کر دیں.کوئی آدمی بھی اس خدمت سے محروم نہیں رہے گا اور نہ ہمارے اس پیار سے محروم رہے گا (اردو میں جو پیار کے معنی ہیں وہ مراد ہیں.عربی میں اس کے معنی اور ہوتے ہیں) اور نہ اس مساوات سے محروم رہے گا.نہ ہمارے ہاتھ سے ان کے حقوق مارے جائیں گے کیونکہ ہم تو کچھ بھی نہیں.لاشی محض ہیں.زمین پر پڑے ہوئے ہیں.ایک ہی حقیقت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام عرش رب العلمین پر اور ہمارا سر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر.اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان فرمایا کہ ہمیں آقا بننے سے بچالیا اور ( بایں ہمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی میں) وہ بزرگی اور وہ تزکیہ اور وہ طہارت اور وہ بلندی اور وہ رفعت عطا فرمائی کہ جو صرف اس وقت ملتی ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے دونوں ہاتھوں سے سہارا دیا ہو.حسی اللہ ونعم الوکیل.اس کے بعد انسان کو کسی اور سہارے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے.اب آپ یہاں سے واپس جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہی جانے کہ وہ آپ سے کیا کیا نئی خدمتیں لینا چاہتا ہے.اس کے لئے آپ کو تیار ہونا چاہئے اور آپ نے ہر شخص کی ہر جاندار کی اور ہر بے جان کی بھی خدمت کرنی ہے.اب مثلاً درختوں کے کاٹنے سے روک دیا نو درخت کاٹے گئے تھے.جن کا ذکر قرآن کریم میں بھی کیا گیا ہے.اتنی حرمت مفید چیزوں کی اسلام نے قائم کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے کہا تھا تب کاٹے گئے.انسان کی جان بچانے کے لئے کہا تھا تب کاٹے گئے تھے اور وہ بھی صرف نو درخت تھے.جو ایک جنگ کے موقع پر کاٹے گئے تھے.یہ نہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں درخت کاٹ دیئے گئے ہوں صرف نو درخت تھے اور قرآن کریم نے ان کا ذکر کر دیا.خلق جو ہے یعنی ہر وہ چیز جو ہمارے محبوب اور مطلوب پیارے رب کے ہاتھوں خلق ہوئی ہے ہمارا اس کے ساتھ الفت اور خدمت کا تعلق ہے یہ صحیح ہے کہ وہ ہمارے لئے مسخر ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہمیں کسی حلال جاندار کی گردن پر چھری رکھنے کی بھی اپنے طور پر اجازت نہیں ہے.جب تک کہ خدانہ کہے اور اسی لئے فرمایا اس موقع پر بسم اللہ پڑھو ورنہ تمہارے ایمان کمزور ہو جائیں گے.بسم اللہ پڑھنے کے نتیجہ میں آپ نے جس بکرے کو یا جس دنبے کو یا جس اونٹ، گائے یا بھینس کو یا جس مرغ کو یا کسی اور پرندے کو ذبح کیا ہے اس کے گوشت میں صرف اس

Page 308

305 فرموده ۱۹۷۱ء د و مشعل راه جلد دوم لذت نہیں پیدا ہوگی.بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرنا گوشت میں لذت پیدا کرنے کیلئے نہیں.لیکن بسم اللہ پڑھنے سے آپ کے ذہن اور آپ کی روح میں سرور پیدا ہوتا ہے اور اس میں آپ کو خدمت والے مقام کی یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ ایک مرغی یا ایک بطخ ہے تو بظاہر ایک حقیر چیز.مگر اس کی بھی حرمت کا تم نے خیال رکھنا ہے اور خدمت کرنی ہے.فرمایا جانور کو بھوکا نہیں رکھنا.پیاسا نہیں رکھنا ورنہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں کہوں کہ تمہاری صحت کے قیام کیلئے میں نے اسے تمہارے لئے تسخیر کیا ہے کہ جس حد تک تمہیں گوشت کی ضرورت ہے میرا نام لو اور ذبح کر کے کھا لوتاکہ تمہیں یادر ہے کہ میرے نام سے تمہیں اختیار ملتا ہے ورنہ نہیں ملتا.فرمایا اتنے جانور ذبح نہ کرو یا اتنے جانور قتال نہ کرو جو تمہیں ضائع کرنے پڑیں اور ان کا گوشت انسان کے استعمال میں نہ آئے یعنی اسلام اتنی باریکیوں میں گیا ہے اور ان میں یہی بتایا کہ انسان کا مقام ہی یہ ہے کہ اس کا سر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے قدموں میں پڑا رہے.آپ کے قدموں کو انسان چھوئے اور ان سے اپنا سر رگڑتا رہے تا کہ اسے اپنا اصل مقام مل جائے.اور پس اللہ تعالیٰ نے خدمت کا مقام دے کر احسان عظیم فرمایا مجھ پر بھی اور آپ پر بھی اور بشارت دی ارفع مقام کی اور یہ بشارت ساری امت کے لئے ہے.یہ نہیں فرمایا کہ میں نے موسیٰ علیہ السلام کو جتنا دیا اس سے زیادہ دوں گا بلکہ فرمایا کہ جتنی نیکی ، بڑائی اور بزرگی کسی کے دماغ میں آسکتی ہے اس سے بھی زیادہ دوں گا.تم خیر امت ہو اس لئے میں تمہیں اپنے اس معیار کے مطابق دوں گا.جب خیر کا معیار مقرر کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے انسان کے سپرد نہیں فرمایا تو وہ کہاں سے مقرر کرے گا.قرآن کریم نے فرمایا ہے كُنتُمْ خَيْر أُمَّة اس میں جو خیر ہے اس کی تعیین ہم نے کرنی ہے؟ تم نے نہیں کرنی.خیر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس کو میں خیر سمجھتا ہوں وہ خیر ہے اور میں تمہیں ایسی امت بنانا چاہتا ہوں جو خیر ہو.جس کو اللہ تعالیٰ خیر یعنی بہترین امت سمجھتا ہو.انسان کا دماغ وہاں تک کیسے پہنچ سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے بڑا ہی فضل کیا کہ خدمت کا مقام دیا اور بڑا ہی فضل کیا کہ اتنی بڑی بشارت دے دی.یعنی خیر امت بنادیا اور خیر امت ہے ہی وہ امت کہ جو اس پاک بزرگ ہستی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں پڑی ہو جس کا مقام عرش رب العلمین ہے کیونکہ اس سے بہتر تو کوئی اور چیز نہیں ہے.عام لوگ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.زیادہ پڑھے ہوئے لوگ بھی تصور میں نہیں لا سکتے.کیونکہ انسانی عقل وہاں تک نہیں پہنچ سکتی.لیکن ہماری عقل میں اتنا آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہم سے جو وعدہ کیا ہے وہ بڑا عظیم ہے اور یہ خیر امت ہونے کا وعدہ ہے.اور اتنا بھی ہمیں سمجھ آتا ہے کہ اس بشارت کے حصول کے لئے جو ذمہ داری ہم پر عائد کی گئی ہے وہ بھی بہت عظیم ہے.پہلی کسی امت پر وہ ذمہ داری عائد نہیں کی گئی.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو یہ نہیں کہا گیا تھا کہ جو یہودی نہیں ہیں.ان سے بھی پیار کرو.بائیبل ایسی آیات سے بھری پڑی ہے.جن میں یہ کہا گیا ہے کہ مثلاً یہود سے سود نہ لے یعنی اپنے بھائی سے سود نہ لے لیکن جو یہودی نہیں ہے اس سے سود لے.اسی قسم کی اور بہت ساری آیتیں ہیں جن میں جانے کی اس وقت ضرورت نہیں ہے.

Page 309

فرموده ۱۹۷۱ء 306 دو مشعل راه جلد دوم پس جو ذمہ داری حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر ڈالی گئی جو ذمہ داری حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر ڈالی گئی جو ذمہ داری حضرت آدم علیہ السلام کی قوم پر ڈالی گئی، اس سے کہیں زیادہ ذمہ داری ہم پر ڈالی گئی ہے مگر ہمیں فرمایا تم گھبراؤ نہیں اپنی طاقت کے مطابق جب تم کوشش کر لو گے تو جو زیادہ سے زیادہ ضرورت کے مطابق تمہیں چاہئے وہ میں تمہیں دے دوں گا.خود ہی دیا اور خود ہی انعام کے سامان پیدا کر دئے یعنی خیر امت بنادیا.جہاں تیک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پہنچی اور پہنچ سکتی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کی امتیں تو اس کی گرد کو نہیں پہنچ سکتیں.غرض بڑی عظیم بشارت دی گئی ہے اور ساتھ ہی بڑی عظیم ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں.اب میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا آپ بھی میرے ساتھ شامل ہوں خدمت کے نقطۂ نگاہ سے جو عظیم ذمہ داریاں ہم پر ڈالی گئی ہیں ان کے پورا کرنے کی ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق ملے اور پھر اس کے بعد محض اپنے فضل سے نہ کہ ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں ، ہمیں اس نے جو بشارتیں دی ہیں ان کے مطابق انعام دے دے.یہ کتنے فخر کی بات ہے کہ ہم یہ محسوس کریں کہ ہمارا سر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں پڑا ہوا ہے.اس سے زیادہ اور کوئی خوشی نہیں ہو سکتی.خدا کرے کہ مجھے بھی اور آپ کو بھی وہ خوشی اور وہ لذت حاصل ہو.آؤ اب کھڑے ہو کر عہد دہراتے ہیں اور پھر دعا کریں گے.عہد دہرانے کے بعد حضور نے خدام کو ارشاد فرمایا کہ وہ بیٹھ جائیں.پھر فرمایا دعا کرانے سے قبل ایک بات یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ موجودہ حالات میں خیال یہی تھا کہ خدام کی مجالس اس اجتماع میں شاید کم شامل ہوں نیز خدام بھی.مگر جہاں تک مجالس کا تعلق ہے پچھلے سال ۵۵۲ مجالس میں سے ۴۱۵ مجالس اجتماع میں شامل ہوئی تھیں اور اس سال ۵۵۲ مجالس میں سے ۴۲۶ مجالس شامل ہوئی ہیں.امجالس کی زیادتی ہوئی ہے.الحمد للہ علی ذلک.خدام کی تعداد کچھ کم ہے لیکن بڑی ہمت ہے جس تعداد میں وہ آئے ہیں کیونکہ آج کل کے حالات میں اتنے خدام کی توقع نہیں تھی.آپ کا قدم پیچھے نہیں ہٹا آگے بڑھا ہے اور ہم خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائی.اب آؤ دعا کر لیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اپنے پیار کا مستحق بنائے اور اس کے پیار میں زیادتی ہی زیادتی ہوتی چلی جائے.اجتماعی دعا کے بعد حضور نے فرمایا.جہاں بھی آپ ہوں.جہاں بھی آپ واپس اپنے گھروں کو جائیں اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور امان میں رہیں.اس کے فرشتے آپ کی ہدایت کے لئے بھی موجود ہوں اور آپ کی حفاظت کیلئے بھی موجود ہوں.یہ خطاب روزنامه الفضل ۲۷، ۲۸ جنوری اور ا ،۲ فروری ۱۹۷۲ ء کے شماروں میں قسط وار شائع ہوا)

Page 310

دومشعل دوم فرموده ۱۹۷۲ء 307 حضور نے ۲ ۷-۶ - ۷ کو بوقت سوا آٹھ بجے صبح حضور نے ایوان محمود خدام الاحمدیہ مرکز یہ کی سالانہ تربیتی کلاس سے خطاب فرمایا.اس کا مکمل متن پیش خدمت ہے.(غیر مطبوعہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اس کلاس کی مجموعی طور پر اچھی رپورٹ آ رہی تھی.اور اس سے قبل آپ لوگوں میں بیٹھ کر باتیں کرنے کو دل چاہتا تھا.مگر شروع میں مصروفیت کی وجہ سے اور پھر بیماری کے نتیجہ میں اس سے قبل آپ سے باتیں نہیں کر سکا.یہ خوشی کی بات ہے کہ یہ کلاس اپنی کیفیت اور کمیت ہر دو لحاظ سے پہلی کلاسز سے زیادہ بہتر ہے.زیادہ مجالس نے زیادہ تعداد میں نمائندگی کی ہے.اور اپنے کام میں زیادہ توجہ دی ہے.کیونکہ میں زیادہ گہرا مطالعہ آپ کے کام نہیں کر سکا.اس لئے میں یہ نہیں کہ سکتا کہ جہاں تک کلاس کی تعلیم کا سوال ہے.یعنی مرکز کے انتظام کا اور جو یہاں تقریریں ہوئیں.ان کا معیار کیسا رہا.آیا اس میں بھی پہلے سے ترقی ہوئی ہے یا نہیں.قدم بہتری کی طرف ہے یا نہیں.واللہ اعلم بالصواب.خدا کرے کہ وہ بھی اپنی کیفیت کے لحاظ سے گذشتہ سالوں کی نسبت زیادہ بہتر ہو.بچوں اور نو جوانوں پر زیادہ بوجھ پڑنے والا ہے آپ بچے اور نو جوان جو احمدیت کی طرف منسوب ہوتے اور اپنی زندگی کی اس عمر میں سے گذر رہے ہیں.آپ کے کندھوں پر اس سے زیادہ بوجھ پڑنے والا ہے.جتنا بوجھ کہ آج جو بڑی عمر کے خدام اور اراکین انصار اللہ پر سے یا یوں کہنا چاہیئے کہ جماعت کے جو بڑے ہیں جن کے کندھوں پر آج جماعت کا بوجھ ہے.اس سے زیادہ بوجھ آپ کے اوپر پڑنے والا ہے.اس لئے کہ اللہ کی رحمت احمدیت کی جدوجہد میں وسعت پیدا کر رہی ہے.اور اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس جدوجہد کو زیادہ نمایاں طور پر کامیاب کر رہا ہے.ایک تو آج گذشتہ کل کے مقابلہ میں خدا کے حضور زیادہ پیش کرنے کی توفیق دی گئی ہے.اور دوسرے چونکہ خدا کے حضور جو بھی حقیر پیشکش تھی.جب وہ قبول کر لی گئی تو اس کا نتیجہ بہر حال پہلے کے مقابلہ میں زیادہ نکلا.جب تک ساری دنیا میں اسلام غالب نہیں آجاتا او محمد ﷺ کا جھنڈا ہر دل میں گاڑ نہیں دیا جاتا.اس وقت تک کام میں یہ وسعت اور نتائج میں یہ برکت بڑھتی ہی چلی جائے گی.اور پھر اس وقت اپنے مقام پر قائم رہنے کا سوال پیدا ہو جائے گا.محبت میں ترقی بھی ہوگی.گہرائی بھی پیدا ہو جائے گی.تب بھی ظاہری آنکھ اس کو دیکھ نہیں سکے گی.بھانپ نہیں سکے گی کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ صلى الله

Page 311

308 فرموده ۱۹۷۲ء د مشعل راه جلد دوم لاتزكوا انفسكم هوا علم بمن اتقى (النجم: ۳۳) یعنی اپنے آپ کو پاک قرار دینا اور تقویٰ اور طہارت کا حکم لگا ناممنوع قرار دیا گیا ہے.یہ میرا یا آپ کا کام نہیں ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے جو فضل ظاہری طور پر اور نمایاں طور پر دنیا کے سامنے آتے ہیں.دنیا اس کو پسند کرے یا نہ کرے ان کی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے.کیونکہ حقائق کو جھٹلا ناڈھیٹ آدمیوں کا کام ہے.دوسرے ساری دنیا ڈھیٹ نہیں ہے.تیسرے حقائق کو جھٹلاتے چلے جانا ایک ڈھیٹ آدمی کی استعداد سے بھی باہر ہے.آج نہیں تو کل اس کو ماننا پڑے گا.ایک طریقے سے اگر وہ انکار کرتا ہے تو دوسرے طریقہ سے اسے ماننا پڑتا ہے.آپ کو سمجھانے کے لئے میں ایک تازہ مثال دیتا ہوں.بعض لوگ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ سارا پاکستان احمدیوں کو کافر کہتا ہے احمدیوں سے نفرت کرتا ہے اور احمدیت سے بغض رکھتا ہے.اور احمدیت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کو تیار ہے.ایک تو اس قسم کی آوازیں ہمارے کانوں میں پڑتی ہیں اور دوسرے یہ آواز ہمارے کان میں پڑی کہ لائکپور میں جہاں ضمنی انتخاب ہوا ہے؟ پیپلز پارٹی اس لئے جیت گئی کہ وہاں جماعت ان کا کام کرنے کے لئے آ گئی.اگر پاکستان کی اکثریت جماعت احمدیہ سے نفرت کرتی اور بیزاری کا اظہار کرتی ہے اور عداوت سے ان کے دل بھرے ہوئے ہیں اور وہ احمدیت کو مٹانے کے لئے تیار ہیں تو احمدیوں کے کہنے پر وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ کیسے دے سکتے ہیں.ان دو باتوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے.باہمی تضاد رکھتی ہیں.عقلاً یاد نیا ہم سے نفرت کرتی ہے اور ہمارے کہنے پر ووٹ نہیں دے گی.یا پھر دنیا ہم سے نفرت نہیں کرتی اس لئے ہمارے کہنے پر ووٹ دے دیتی ہے.میں یہ نہیں کہتا.( آپ اپنے ذہنوں میں ہر دو باتوں کا فرق سوچ لیں ) کہ ہمارا وہاں کتنا اثر پڑا ہے.میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارے مخالف کے بیان میں تضاد ہے اور متضاد ہونے کی وجہ سے نا معقول بھی ہے.کیونکہ کوئی متضاد بیان معقول نہیں ہوسکتا.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ایک ہی وقت میں سورج بھی نکلا ہوا ہے.اور اندھیری رات بھی ہے تو یہ متضاد اور بڑا نا معقول بیان ہوگا.کوئی سادے سے سادہ عقل بھی اسے تسلیم نہیں کرے گی.بلکہ میرا خیال ہے کہ اسی فیصد پاگل بھی اس کو تسلیم نہیں کریں گے.آخر جنون کی بھی تو مختلف شکلیں ہوتی ہیں.پس اس وقت ہمارا مخالف جو بیان دے رہا ہے وہ متضاد اور نا معقول ہے.اس سے ہر عقل مند اس نتیجہ ہے پہنچتا ہے کہ ان کے ذہن دھندلائے ہوئے ہیں.ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں.کیا کہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے تو ہیں لیکن انہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.احمدی ساری دنیا میں محمد ﷺ کا کلمہ پڑھا کر غیر مسلم کو احمدی مسلمان بھی بنا رہا ہے اور خود ” کا فر“ بھی ہے.کیا نا معقول بات ہے.اگر احمدی کا فر ہے تو پھر حمدی محمد ﷺ کا کلمہ پڑھا کر غیر مسلم کومسلمان نہیں بنائے گا.اور اگر احمدی محمد ﷺ کا کلمہ پڑھا کر ایک عیسائی کو ایک مشرک کو ایک دھریہ کو ایک بت پرست کو مسلمان بناتا ہے تو پھر وہ کافر نہیں

Page 312

د دمشعل راه جلد دوم ہوسکتا.فرموده ۱۹۷۲ء 309 ایک غیر مسلم کو ایک بار کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا جاسکتا ہے.لیکن ایک دن میں سود فعہ کلمہ پڑھ کر انسان کا فر بن جاتا ہے؟ یہ سراسر غیر معقول اور متضاد بیان ہے.اور متضاد بیان نامعقول اور نا قابل تسلیم ہوتا ہے.یہ اللہ کا فضل ہی ہے کہ جماعت احمدیہ پر جو بھی اعتراض کیا جاتا ہے وہ معقول نہیں ہوتا.بلکہ متضاد اور نامعقول ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ بڑے فضل کر رہا ہے.ہمارے کاموں میں ہر لحاظ سے وسعت عطا کر رہا ہے.مال میں بھی برکت دے کر اور نفوس میں بھی برکت دے کر ترقی عطا کر رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ میری جماعت کے گھروں کو برکت سے بھر دے گا.ہر احمدی کا سب سے پیارا اور محبوب گھر تو اللہ کا گھر ہے.جسے اللہ نے اپنے فضل سے ہمارے لئے بنایا ہے.یعنی اللہ کے ذکر کو بلند کرنے والی مساجد متضرعانہ دعاؤں کی آواز سے معمور ہوں تو اس میں ہمارے لئے برکت ہی برکت ہے.احمدیوں کی دعائیں بڑی کثرت سے قبول ہوتی ہیں.اسی طرح آپ علیہ السلام یہ بھی فرماتے ہیں.میری جماعت میں بڑی کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو زندہ خدا کے زندہ نشانات دنیا کے سامنے رکھنے والے ہیں.مردوں میں بھی اور عورتوں میں بھی.بڑوں میں بھی اور بچوں میں بھی.بچوں کو ان کی عمر اور ان کے مجاہدہ کے لحاظ سے اور ان کی سمجھ کے مطابق اللہ تعالیٰ کچی خوا میں دکھاتا ہے.یہ بڑا نمایاں نشان ہے.یہ تو آپ کی کلاس کا مختصر جائزہ تھا.اب جو سبق آج میں آپ کو دینا چاہتا ہوں.وہ ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے.یعنی یہ کہ ہمارے بنیادی عقائد کیا ہیں.ایک مسلمان احمدی کی حیثیت میں یعنی طفل یا خادم یا انصار کی حیثیت میں ہمارے عقائد کیا ہیں.ان میں کوئی ترمیم نہیں کی جاسکتی.شیطانی وسوسہ نہیں پیدا ہونے دینا چاہیئے.ہمارا پہلا عقیدہ ہمارا پہلا عقیدہ خدائے واحد و یگا نہ پر ایمان ہے جس کو اسلام نے اللہ کی حیثیت میں پیش کیا ہے.اسلام کہتا ہے اللہ پر ایمان لاؤ اور اللہ کے معنی اور تعریف خود قرآن کریم نے بیان کی ہے.سورہ الحمد سے تو حید کا بیان شروع ہوا اور والناس تک چلتا چلا گیا ہے.مختلف مضامین اور مختلف ابواب ہیں جن میں مختلف پیرایوں میں مختلف زاویوں سے مختلف پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے.لیکن یہ ایک بنیادی فکر یا بنیادی حقیقت کا بیان ہے یعنی تو حید باری تعالیٰ کا بیان جو قرآن کریم میں شروع سے ہو کر آخر تک چلا گیا ہے.غرض ہم اس اللہ پر ایمان لائے ہیں جس نے اس عالمین اس یونیورس (Universe) کو پیدا کیا ہے.یعنی جو مخلوق ہے وہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.

Page 313

310 فرموده ۱۹۷۲ء الحمد لله رب العلمين د و مشعل راه جلد دوم اللہ وہ ہے جو رب ا العلمین ہے.ربوبیت کا سارا کام اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا.اللہ وہ ہے جو رحمن ہے.اللہ وہ ہے جو رحیم ہے.اللہ وہ ہے جو مالک یوم الدین ہے.اللہ وہ ہے جو قادر مطلق ہے اللہ وہ ہے جو رزق دینے والا ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں تو بے شمار لیکن ہماری دنیا سے تعلق رکھنے والی جو صفات ہیں وہ قرآن کریم نے بیان کی ہیں ان میں سے ہر صفت کے اوپر ہمیں غور کرنا چاہیئے.اور کسی صفت سے ادھر ادھر نہیں جانا چاہیئے.یعنی ہر وہ صفت جو اللہ تعالیٰ کی قرآن عظیم میں بیان ہوئی ہے.اس سے ادھر ادھر نہیں جانا چاہیئے.ورنہ تضاد پیدا ہو جاتا ہے مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں رزق دیتا ہوں.تم ایک دوسرے کے رزاق نہیں ہو.یہ ایک بنیادی حقیقت ہے اور توحید کا ایک حصہ ہے.خدائے واحد ویگا نہ اللہ رب العالمین ہی رزاق ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا - أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَارِعُون - (الواقعہ: ۶۵) گویا رزق دینا اللہ کا کام ہے.اس واسطے کوئی مؤخد حصول رزق کے لئے ان راہوں کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوگا.جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں.اور جنہیں اللہ تعالیٰ حرام اور ممنوع قرار دیتا ہے.کوئی حقیقی موحد خدائے واحد دیگا نہ پر حقیقی معنی میں ایمان لانے والا رشوت کی راہ سے مال نہیں کمائے گا.رشوت بھی ایک طرح رزق دیتی ہے لیکن اللہ کہتا ہے رشوت نہیں لینی.اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ رشوت کے بغیر گزارا نہیں.وہ بالفاظ دیگر یہ کہہ رہا ہے کہ خدا کامل طور پر رازق نہیں.اس واسطے اللہ کے علاوہ اپنے مال میں برکت پیدا کرنے کے لئے کسی اور راہ کی تلاش کرتا ہے.یہ غلط ہے.پھر تم خدا تعالیٰ پر ایمان نہ لاؤ.تو حید جس کے معنی میں صرف خدا ہی رزاق سمجھا گیا ہے اس اعتقاد کے بعد پھر رشوت کی راہ کو اختیار کرنا اعتقاد اور عمل میں تضاد ہے.اور ہر تضاد نا معقول ہے.یعنی ایک ہی وقت میں یہ کہنا کہ اللہ تعالی رزاق بھی ہے اور رشوت کے بغیر گزارہ بھی نہیں، یہ تضاد ہے.یہ توحید سے انحراف اور بعد اور دوری کا نام ہے.رشوت لینا یا چوری کرنا یا تول کے وقت بعض تاجر ڈنڈی کو اس طرح ہلا دیتے ہیں کہ دیتے ہوئے دوسیر کی بجائے ایک سیر اور چودہ چھٹانک خریدار کو مل جائے.یا لیتے وقت دوسیر کی بجائے دوسیر دو چھٹانک خود کو مل جائے.تول میں ہوشیاری کے ساتھ بددیانتی کرتے ہیں.نظر آ رہا ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے لیکن ہونے دیتے ہیں ب ایک وقت میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو رزاق سمجھنا اور تول کی بددیانتی پر اپنے رزق کا انحصار سمجھنا یہ دو متضاد باتیں ہیں اور تو حید باری تعالیٰ کے خلاف ہیں.ایک ہی وقت میں اللہ تعالیٰ کو نعمتوں کا دینے والا اور علم کا سکھانے وال سمجھنا اور اسی وقت میں امتحان کے پرچے میں نقل کرنا.یہ توحید کے خلاف ہے.اور تضاد ہے.یا تو نقل مارنے میں برکت ہے یا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے میں برکت ہے.کہ وہی فراست دیتا ہے.اور وہی اچھے نتائج نکالتا ہے.دونوں باتیں اکٹھی نہیں ہوسکتیں.میں اپنے ذاتی تجربہ کی بناپر علی وجہ البصیرت کہ سکتا ہوں کہ ایک لڑکا بڑا ہوشیار ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے عقل اور سمجھ دی ہوتی ہے.اور اس کو تو فیق ملتی ہے کہ وہ محنت کرے.غرض وہ بڑا اچھا ہوتا ہے.لیکن ایک وقت تکبر کا شیطان اس کے دماغ میں گھستا ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید سے اسے پرے

Page 314

دومشعل کل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۲ء 311 لے جاتا ہے.اور خدا تعالیٰ اپنی قدرتوں کا نشان دکھانے کے لیے ایسا کرتا ہے کہ امتحان کے پرچے میں وہی لڑکا جو اپنی کلاس میں بہترین طالب علم ہوتا ہے، غلطی پر غلطی کرنا شروع کر دیتا ہے.اور وہ جس کے متعلق اس کے اپنے نفس کو یا اساتذہ کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ یو نیورسٹی یا بورڈ میں اول آئے گا وہ فیل ہو جاتا ہے یا تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوتا ہے.ہمارے اپنے ایک غیر احمدی ساتھی نے تکبر کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بدزبانی کرتا رہا اور اس فعل ممنوع و مکروہ پر اصرار کیا.تو وہ لڑکا جو Superior Services میں جانے کی تیاری کر رہا تھا.وہ گورنمنٹ کالج 2nd Year میں فیل ہو گیا.یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم پڑھا کرتے تھے (۳۴.۱۹۳۱ء ) تو یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوا.حالانکہ وہ کلاس میں اچھا اور کلاس کے امتحانوں میں بڑے اچھے نمبر لینے والا طالب علم تھا.لیکن جب اس نے تو حید باری سے ٹکر لی یعنی اللہ تعالیٰ کو اس معنی میں ناراض کر لیا کہ اس کے ایک مقرب بندے کے خلاف آوازے کسے اور یہ سمجھا کہ وہ خدا سے ٹکر لے سکتا ہے تو وہ نافہم ہو گیا.دراصل احمدیت سے لڑنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.اگر احمدیت اللہ تعالیٰ نے قائم کی ہے تو پھر احمدیت سے لڑنا خدا تعالیٰ سے لڑنا ہے.اور خدا تعالیٰ سے لڑنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.پس یہ تضاد ہے کہ ایک ہی وقت میں خدا تعالیٰ کوعلم اور کامیابی کا سر چشمہ بھی قرار دینا اور اسی وقت میں اس سر چشمہ علم و کا میابی کو چھوڑ کر نقل کی طرف توجہ کرنا.اور سمجھنا کہ نقل کر کے ہم اچھے نمبر لے جائیں گے.یا یہ سمجھنا کہ ہم اپنے زور سے اچھے نمبر لے لیں گے.یہ تضاد ہے.غرض جو خدا کے مقابلہ پر آتا ہے.وہ.یہی اعلان کرتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی پرواہ نہیں ہے میں اس کے سلسلہ سے لڑائی مول لوں گا.تمہارا خدا ( کہنے والے حماقت میں کہہ دیتے ہیں) کیا کرلے گا.ہمارا جواب یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ تم خود دیکھ لو گے.بلکہ ہمارا جواب یہی ہوتا ہے.ہم تو عاجز بندے ہیں ہوگا وہی جو ہمارا خدا چاہے گا.ہم تو اللہ تعالیٰ کو کسی بات پر مجبور نہیں کر سکتے.یہ بھی بڑا خطرناک وہم ہے.کہ اگر کوئی ہمیں (ایک احمدی ہونے کی وجہ سے ) دکھ دیتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے معاف نہیں کرے گا.وہ مالک ہے وہ جسے چاہے معاف کر دیتا ہے.ہمیں بھی اپنے دل میں تکبر پیدا نہیں کرنا چاہیے.آخر عکرمہ بن ابی جہل ) کو مکی زندگی میں اور پھر اس کے بعد ایک عرصہ تک انتہائی اور شدید مخالفت اسلام کے باوجود اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا.اگر اس وقت کوئی مسلمان یہ کہتا کہ ہمارا خدا یہ کیا کر رہا ہے ہماری خواہش تو یہ ہے کہ وہ پکڑا جائے کیونکہ وہ تلوار لے کر نکلا اور آنحضرت ﷺ کی امت ہی پر نہیں بلکہ آپ کی مقدس ذات پر حملہ کر کے پ کو ہلاک کرنا چاہا مگر کسی مسلمان نے یہ خواہش نہیں کی ( اللہ ان سے راضی ہو ).اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی تھے.اللہ تعالیٰ نے اسے بھی معاف کر دیا.کیونکہ ہم خدا کے بندے ہیں.ہم نے اس کی رضا پر راضی رہنا ہے.اس نے ہماری رضاء کے مطابق اپنی قدرت کی تاروں کو نہیں ہلانا.اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو اس سے زیادہ احمق کوئی نہیں

Page 315

312 فرموده ۱۹۷۲ء ، د و مشعل راه جلد دوم دد پس جو بنیادی تعلیم ہمیں دی گئی ہے.اور جو ہمارا بنیادی عقیدہ ہے وہ تو حید باری تعالیٰ کا ہے.اور اگر آپ سوچیں.آپ کی عمر بھی کم ہے.لیکن یہ عمر سوچ شروع کرنے کی ضرور ہے سوچ کی انتہاء تک پہنچنے کی یہ عمر نہیں ہے.یہ میں مانتا ہوں.لیکن میں یہ نہیں مانتا کہ کوئی کہے کہ ابھی آپ کو کسی مسئلے پر سوچنا ہی نہیں چاہیئے.آپ کی یہ عمر سوچ شروع کر دینے کی ہے.تو حقیقت یہی ہے کہ اللہ ہی اللہ ہے.یہ ہے تو حید ہر دوسری چیز لا یعنی ہے.اور وہ نیت اور لاشی محض.اور خدا تعالیٰ سے ذاتی پیار یہ ہے کہ جس طرح ایک شخص ایک ایسے راستہ پر سے گذر رہا ہے جو باغ کے پاس سے گذرتا ہے.جس میں بڑے اعلیٰ درجہ کے آم لگے ہوئے ہیں.اور آم کا پھل تیار ہے.اور بڑا خوبصورت ہے.وہ اسے دیکھتا ہے تو اس حسن سے لذت اٹھاتا ہے یہ سمجھ کر کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک خلق ہے.آپ میں سے بعض نے شاید غور کیا ہو کہ جب پھل اپنے جوبن پر ہوتا ہے تو اس کے اندر ایک حسن پیدا ہوتا ہے).لیکن وہ اس سے ذاتی فائدہ تو نہیں اٹھا سکتا.اگر وہ اسے توڑے تو چور بن جائے گا.اور اگر وہ اس آم میں خدا کی شان اور اس کی قدرت کے جلووں کو دیکھے گا تو خدا تعالیٰ کا پیارا بندہ بن جائے گا.وہ چور نہیں بنے گا.بلکہ اس کا پیارا بندہ بن جائے گا.تو خدا تعالیٰ کی قدرت کے جلووں کے ساتھ جو پیار ہے یہ چھوٹی سی مثال میں نے دی ہے تاکہ بچے سمجھ جائیں.یہ ذہنی پیار کا نتیجہ ہے یہ اس لئے نہیں کہ مجھے کوئی فائدہ پہنچے گا اس لئے کہ یہ ایک حقیقت ہے.پیار کے ساتھ پیار کا نتیجہ ہے.مجھے فائدہ پہنچے یا نہ پہنچے در حقیقت اپنی جگہ قائم ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا عرفان رکھنے والے اس کے بندے تو وہ ہیں کہ اگر انہیں یہ کہا جائے کہ خدا تعالیٰ کے پیار کے نتیجہ میں انہیں دوزخ میں پھینکا جائے گا.تو وہ خدا کے پیار کو نہیں چھوڑیں گے.اس میں پڑنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.کیونکہ انہوں نے خدا کی اس حقیقت کو پالیا.اس کے حسن و احسان کے جلووں کو دیکھ کر اس سے پرے وہ جاہی نہیں سکتے.پھر آپ فرماتے ہیں دشمن تو حید اور دشمن اسلام کہتا ہے کہ جوخدا پر ایمان لائے اور جنہوں نے محمد ﷺ کا ساتھ دیا انہیں دشمن دکھ کیوں پہنچا تا ہے آخر ساری کی زندگی دنیا کی نظر میں دکھوں کی زندگی تھی.آخر مدنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں بڑی سخت دشوار یاں تھیں.اور جنگ احزاب کے موقعہ پر مسلمانوں کو اور خود سروردوعالم محمد ﷺ کو پیٹ پر پتھر باندھ کر زندگی کے دن گزارنے پڑے تھے.اتنی تکلیف تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مخالف اسلام کہتا ہے کہ خدا کے بندوں کو اس دنیا میں دکھ کیوں پہنچتا ہے.آپ فرماتے ہیں.تمہاری نظر میں دکھ ہے تو ان سے جا کر پوچھو.ان سے جا کر پوچھو گے تو وہ تو کہیں گے ہمیں تو بڑی لذت اور بڑا سرور آ رہا ہے.جو کچھ بھی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اس سے ہمیں تو سرور آ رہا ہے.کیوں سرور آ رہا ہے اس لئے کہ جب دنیا انہیں دھت کارتی ہے اور جتنی شدت سے انہیں دھتکارتی ہے اتنا ہی اور اتنی ہی شدت سے وہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر رہے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق یہ لکھا ہے کہ دن کے وقت کفر کے فتوے اور اس قسم کے دوسرے نعرے میرے کان میں پڑتے ہیں.اور جب رات کے وقت میں تکیے پر اپنا سر رکھتا ہوں تو میرا پیارا خدا

Page 316

و مشعل راه جلد دوم د فرموده ۱۹۷۲ء 313 بعض دفعه ساری ساری رات کہتا ہے کہ میں تجھ سے پیار کرتا ہوں تجھے اس دنیا کی کیا پر واہ.جو شخص اپنی استطاعت کے مطابق خدا تعالیٰ سے اس قسم کا تعلق پیدا کر لیتا ہے وہ دنیا کی مخالفت یاد نیا کی ایذارسانی زبانی ہو یا جسمانی اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا.اس نے اپنے زندہ خدا کا زندہ پیار دیکھا ہوتا ہے.اس کو ذاتی محبت کہتے ہیں.توحید باری کی حقیقت غرض تو حید باری کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کے دل میں اپنے پیدا کرنے والے رب کی جو حسن کا بھی سر چشمہ ہے اور احسان کا بھی سر چشمہ ہے اس کی صفات کی معرفت پیدا ہو جائے.جو لوگ اپنے رب کی صفات کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں، وہ پھر پیار کرنے میں کسی لالچ کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ اپنے پیدا کرنے والے رب سے ذاتی پیار کرنے لگ جاتے ہیں.پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو اس تعلق سے دور نہیں لے جاسکتی اور اس تعلق کو قطع نہیں کر سکتی.دنیا کی خواہ کتنی تیز دھار کی تلوار ہی کیوں نہ ہو.وہ اس تعلق کو قطع نہیں کر سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ ایسے شخص کو اگر ہاون مصائب میں اس طرح پیس دیا جائے جس طرح حکیم جڑی بوٹیوں کو رگڑ کر دوائیوں میں استعمال کرنے کے لئے اس کا ایک پانی یعنی نچوڑ نکالتے ہیں.تو اس کو بھی رگڑ کر پیس دیا جائے اس کی ہڈی پسلی ایک کر دی جائے.پھر اس کو خوب نچوڑا جائے تو جو اس کا Essence نکلے گا.وہ محبت الہی ہوگا.یعنی ایسے لوگوں کو ان چیزوں کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی ان کو خواہ پیس بھی دیا جائے تو ان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق ہوتا ہے.کوئی چیز اس کو قطع نہیں کر سکتی.پس ہم احمدیوں کا یہ اعتقاد ہے اور ہماری یہ ذہنیت ہے میں یہ نہیں کہتا کہ آپ جو کم عمر بچے ہیں اور ابھی آپ نے اللہ تعالیٰ فضل کرئے روحانی اور جماعتی اور دینی اور دنیوی طور پر بہت ترقیات کرنی ہیں.اس زندگی کے اس مقام میں روحانیت کے اس مقام پر پہنچیں گے.میں یہ نہیں کہتا لیکن میں آپ سے یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہر احمدی بچے کو جب اس کو ذرا بھی سمجھ آ جائے.اور جس عمر میں آپ داخل ہو چکے ہیں اس میں اس راہ کو اختیار کر لینا چاہیئے.جس کے آخر میں وہ شخص ہے کہ اگر اس کو کوٹ کوٹ کر اس کا قیمہ بنا کر نچوڑا جائے تو سوائے محبت الہی کے اس میں سے کچھ بھی نہ نکلے.آپ کو ابھی سے اس راہ کو اختیار کر لینا چاہیئے تا کہ آپ انتہا ء تک پہنچ جائیں.سیدھی راہ ہو اور اس راہ پر حرکت ہو.تب اس کا ایک نتیجہ نکلتا ہے.اگر کسی شخص نے لاہور جانا ہو اور وہ سرگودھا کا راستہ لے لے تو وہ لا ہور نہیں پہنچ سکے گا.اگر کسی شخص نے لاہور جانا ہو.اور راستہ لاہور کالے.اور کسی درخت کے نیچے چوکڑی مار کر بیٹھ جائے اور چلے ہی نہ تو لا ہور نہیں پہنچ سکے گا.گو یا منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.ایک صراط مستقیم ہو اور دوسرا صراط مستقیم پر مناسب اور حتی المقدور حرکت ہو.ایک شخص جو خرگوش کی طرح دوڑنے والا ہے وہ یہاں سے لالیاں کی طرف روانہ ہو اور راستے میں سو جائے تو جو آدمی کچھوے کی طرح چلنے والا ہے وہ اس سے پہلے پہنچ جائے گا.آپ میں سے بہت ساروں نے بچپن میں خرگوش اور کچھوے

Page 317

314 فرموده ۱۹۷۲ء دد د و مشعل راه جلد دوم کی کہانی پڑھی ہوگی.یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ محض کہہ دینا کہ اسلام نے ہمیں خدا تعالی تک پہنچانے اور اس کے قرب کے حصول کی راہ بتادی ہے.یہ ہمارے لئے کافی نہیں ہے.ہمیں اس راہ کو اختیار کرنا چاہیئے اور صرف یہ کہہ دینا کہ ہم خواہ کتنے ہی آہستہ چلیں ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے.یہ بھی کافی نہیں ہے کیونکہ یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے.اور زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہے.اس واسطے کوشش کرنی چاہیئے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس تیز رفتاری سے چلیں کہ اپنی اس محدود اور نا معلوم مدت تک پھیلی ہوئی زندگی میں اپنے مقصد کو پہنچ جائیں.کیوں کہ یہاں ہم جو پرچے دیں گے.اس کے مطابق دوسری زندگی میں نتیجہ نکلے گا.الا ماشاء اللہ اللہ تعالیٰ پھر مالک ہے جزا سزا کا وہ چاہے تو گناہ گار کو معاف کر سکتا ہے لیکن یہ سمجھنا کہ خدا یہ چاہے گا کہ مجھ گناہگار کو معاف کر دے اور دوسرے کو معاف نہ کرے یہ غلط اور نا معقول بات ہے.اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیئے.اس سے ڈر ڈر کر زندگی گزارنی چاہیئے.پس ہمارا پہلا اور بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ ہم خدائے واحد و یگا نہ پر ایمان لاتے ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر ایمان لاتے ہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں اور ہر بدی خدا تعالیٰ کی صفات سے کسی نہ کسی رنگ کا اعتقادی یا عملی انکار ہے.اسی کو ہم بدی کہتے ہیں.اسی کو ہم گناہ کہتے ہیں.خدا تعالیٰ کی صفات کا اعتقادی اور عملی انکار نہ ہو.اور انسان کی اس زندگی ( زندگی کہتے ہی حرکت کو ہیں) کی حرکت اللہ تعالیٰ کی رضاء کی شاہراہ پر اسی جہت میں جس جہت میں وہ چلانا چاہتا ہے.چل رہی ہو تو وہ نیکی ہے.اور جو کسی نہ کسی رنگ میں اعتقاد ایا عملاً انکار ہے.وہ گناہ اور بدی ہے.دوسری حقیقت ہمیں اسلام نے یہ بتائی کہ اس ساری یو نیورس (Universe) اس عالمین یعنی ستارے جو نظر آتے ہیں اور جو نظر نہیں آتے.غرض دنیا میں جو بھی مخلوق ہے اور دنیا سے مراد صرف یہ زمین نہیں بلکہ جہاں تک ہماری نگاہ پہنچتی ہے یا جہاں تک ہمارا تخیل پہنچتا ہے یا نہیں پہنچ سکتا جہاں بھی پیدائش ہے خدا تعالیٰ نے یہ سب کچھ پیدا کیا.ایک ہی خدا ہے جو خالق اور باری ہے.یعنی وہ خود ہی پلان کر کے نئے سرے سے پیدا بھی کرتا ہے اور آگے پیدائش کے اصول چلا کر اور ہر فرد کی ذاتی نگرانی کر کے اس پیدائش کے سلسلہ کو چلاتا ہے.یعنی یہ نہیں کہ اماں حوا اور باوا آدم سے انسان پیدا کر دیا اور آرام سے بیٹھ گئے کہ اب تم سلسلہ نسل چلاؤ.بلکہ ہر ایک کی پیدائش کے وقت اس کی ذاتی نگرانی ہوتی ہے.اگر میں اس مضمون کو اسی طرح بیان کرتا رہا تو یہ زیادہ لمبا ہو جائے گا.اس لئے اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ جو اصل نکتہ میں آپ کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں وہ میں آگے بیان کروں گا.پس جو کچھ پیدا ہوا ہے یعنی خلق کی صورت میں اس دنیا میں نظر آتا ہے.اسے اللہ نے پیدا کیا ہے جس کے متعلق میں ابھی ذرا زیادہ تفصیل کے ساتھ بتایا ہے.یہ سب کچھ پیدا کرنے کے بعد اس نے یہ فرمایا کہ میں ایک ایسی مخلوق پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے اس دنیا میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ اس کی خدمت کرے اور اس کا نام اشرف المخلوقات رکھا.جسے ہم انسان بھی کہتے ہیں.پس خدا نے سب کچھ پیدا کرنے کے بعد کہا کہ میں ایک ایسی نوع انسان پیدا کرنا چاہتا ہوں.کہ میری ہر دوسری پیدائش اس کی خدمت کرے گی.اس کو قرآنی محاورے میں

Page 318

فرموده ۱۹۷۲ء 315 مشعل راه جلد دوم تسخیر کہتے ہیں.اللہ تعالی فرماتا ہے کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں نے ہر چیز جو پیدا کی ہے وہ تمہارے لئے مسخر کردی ہے یعنی تمہاری خدمت پر لگادی ہے.جب ہم اس عالمین اور اس خادموں کی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں اور ہم یہ محاورہ بول سکتے ہیں یعنی ہمیں سمجھ آ گئی کہ جو چیز پیدا کی گئی ہے.وہ انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے ) تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پھر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یعنی ان خادموں کی خدمت دو قسم کی ہے.ایک وہ خدمت جسے وہ بغیر ہمارے مطالبہ کے خود بخود کر رہے ہیں.مثلاً انسانی پیدائش سے پہلے سورج چاند اور دوسرے ستاروں نے اور تمام دوسری موثرات (اثر کرنے والی مخلوقات) نے انسان ( کہ جس نے اشرف المخلوقات بننا تھا.اس کے لئے زمین کو تیار کیا.یہ عمل لاکھوں کروڑوں سال میں انجام پذیر ہوا.یہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اس یو نیورس(Universe) کو پیدا کر کے یہ فرمایا کہ میں نے اشرف المخلوقات کو زمین پر بھی آباد کرنا ہے.زمین پر بھی آباد کرنا میں اس لئے کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض دوسرے گروں میں بھی انسانی آبادی ہے.انسانی سے مراد ہے شعور رکھنے والی اور جیسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تو وہ نیکی کرے اور چاہے تو گناہ کرے ضروری نہیں کہ شکلیں ملتی ہوں.بالکل ہمارے جیسی ہی ہوں.واللہ اعلم.ممکن ہے بالکل ہمارے جیسی ہوں ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے کوئی اور شکل دی ہو لیکن روح ملتی ہے یعنی روح زندگی پانے والی اور اشرف المخلوقات ہے اور سارے عالمین ان کی خدمت میں بھی لگے ہوئے ہیں.بہر حال ان کا تو ہمیں علم نہیں.جس نسل کو علم ہوگا.وہ خود ہی ان سے گفتگو کرلیں گے غرض اس سارے عالمین کو کہا کہ میں نے ایک اشرف المخلوقات نوع پیدا کرنی ہے.تم ایک زمین تیار کرو جو اس اشرف المخلوقات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے.پھر جیسا کہ میں نے بتایا نا معلوم زمانے تک بے شمار سال بھی کہہ سکتے ہیں.غیر محدودزمانہ بھی کہہ سکتے ہیں) اپنے محدود دائرہ میں وہ غیر محدود بن جاتا ہے.جب نظر اور تمثیل سے جن کی وسعتیں پرے چلی جائیں سورج بھی اس کام میں لگارہا.چاند بھی اس کام میں لگا رہا.سورج نے زمین سے کہا (اشرف المخلوقات کو قبول کرنے کے لئے تیار کرنا تھا نا کہ مجھ سے اتنے فاصلے پر رہنا میرے قریب نہ آنا کیونکہ تو اگر میرے قریب آگئی تو اتنی گرمی پیدا ہوگی کہ تم اشرف المخلوقات کو قبول نہیں کر سکو گی.وہاں وہ اپنی زندگی نہیں گزار سکیں گے.(اب یہ سائنس کی بات آپ کو بتارہا ہوں ).اور کہا اس سے دور بھی نہ چلی جانا.پھر اتنی ٹھنڈ پیدا ہو جائے گی کہ اشرف المخلوقات یہاں رہ نہیں سکے گا.پھر زمین کے ذروں کو کہا کہ میں اپنے پیغامبر اپنے خزانے دے کر تمہارے پاس بھیج رہا ہوں.زمین کے ذروں میں غیر محدود طاقتیں خدا کے حکم سے موجود ہیں.کیونکہ ہم خد تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں.بہر حال خدا تعالیٰ نے اس کو یہ حکم دیا کہ یہ تم اپنے اندر سمیٹ لو.اب وہ غیر محدود طاقتیں ابتدائے آفرینش سے انسان کے کام پر تلی ہوئی ہیں.گندم کو لے لیں.کہتے ہیں.آدم علیہ السلام کے زمانے سے گندم پیدا ہونی شروع ہوئی اور زمین آج تک گندم اگائی جارہی ہے.گندم کیا چیز ہے.گندم زمین سے اجزاء لے کر ہمارے کھانے کے لئے بہترین غذاؤں

Page 319

316 فرموده ۱۹۷۲ء د و مشعل راه جلد د.دوم میں سے ایک غذا ہے.تو آدم علیہ السلام سے لے کر اس وقت تک پیدا ہورہی ہے.جو ہمارا آدم ہے اس پر بھی قریباً چھ ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے.وہ پہلے آدم نہیں تھے.ان سے بھی پہلے آدم اس زمین پر پیدا ہوئے.تاہم اگر یہی زمانہ لے لیں تب بھی چھ ہزار دفعہ ایک کھیتی نے اپنے خزانوں کو اگلا جو اس نے سورج سے لے کر اپنے پیٹ میں چھپائے ہوئے تھا.تا کہ انسان اس سے فائدہ تھا سکے.تو سورج نے اس زمین کو اشرف المخلوقات کے لئے تیار کیا.اب دنیا میں بندر کی کوئی ایسی نسل نہیں ہے جو گندم اگائے.آپ میں سے کسی کو معلوم ہو تو مجھے بتا دے.کیا کوئی بندروں کی ایسی نسل ہے جو گندم اگایا کرے.کوئی نہیں.اسی طرح خرگوش کی کوئی ایسی نسل نہیں جو آموں کے باغ لگایا کرے.کوئی نہیں.وہ تو درخت پر چڑھ ہی نہیں سکتا.اگر وہ لگا بھی لیتا تو اسے کھانے ہی نصیب نہیں ہوتے جب تک وہ سر کر نیچے نہ گر جائے.اور کوئی کچھوا ایسا نہیں جو امرود کے باغ لگا کر بیٹھ جائے یہ تو کھاتے نہیں لیکن کوئی طوطا نہیں ہے.جو آموں کا باغ لگائے آپ لگاتے ہیں تو پھر آ جاتے ہیں.کہتے ہیں کہ ان کو غلیلیں مار مار کر یا پٹا نے.چھوڑ چھوڑ کر یہاں سے اڑاؤ.چڑیاں آجاتی ہیں.ہمارے گندم کے کھیتوں سے کھاتی ہیں.کئی دفعہ میری زمینوں پر کام کرنے والے آتے ہیں اور کہتے ہیں بڑی چڑی آگئی.میں کہتا ہوں کہ جس وجود نے چڑیا کو پیدا کیا ہے اسی وجود نے چڑیا کے لئے غذا بھی پیدا کی ہے.میں کون ہوتا ہوں روکنے والا.تم ان کو کھانے دو.اور ویسے ہی انسان گھبراتا ہے.ایک دفعہ میں نے شرمندہ کرنا تھا اپنے کارکن کو.وہ میرے ہاں کام کر رہا تھا.میں نے کہا چڑیا کوئی چالیس پچاس من گندم کھا جائے گی.کہنے لگا نہیں نہیں اتنی کیسے کھا جائے گی دس نہیں سیر کھا جائے گی.میں نے کہا دس ہیں سیر کی خاطر تمہاری آنکھوں میں آنسو کیوں آرہے ہیں.خدا نے ان کو پیدا کیا ہے تم ان کو کھانے دو.ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے.ہم خدا کے بندے ہیں.ہماری بات ہی یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ ہم خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں اس نے یہ حکم دیا ہے کہ چڑیا کو ذبح کر کے کھا جائیں ہمیں خدا نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ چڑیا کو بھوکا رکھ کر مار دیں.اس بات سے بڑی سختی سے منع کیا گیا ہے.آنحضرت ﷺ نے اسے گناہ قرار دیا ہے.پس ہم تو خدا کے بندے ہیں.اگر چڑیا کسی کے کھیت سے کھاتی ہے تو یہ اس کا حق ہے.خدا تعالیٰ نے اس کے لئے بھی اگایا ہے.بہر حال میں یہ بتارہا ہوں کہ ساری دنیا جو پیدا کی اس کو کہا کہ زمین کو تیار کرو.کہ میری جو اشرف المخلوقات نوع ہے.وہ اس کے لئے مناسب بن جائے.وہ اس کی ضرورتوں کو پورا کرے اور دوسری طرف انسان کو خدا نے عقل دی گو اس کے فائدے بھی ہیں اور اس میں بے ہودگیاں بھی ہیں اس کی لالچ دن بدن بڑھتی چلی جاتی ہے.اصل تو یہ خواہش ہے کہ خدا تعالیٰ کے کسی پیار کے سہارے کھڑے ہو کر تسلی نہیں پالینی یعنی جو ۱۹۷۲ء میں خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ سے پیار کرے یا یوں کہنا چاہیئے کہ جو ۱۹۷۱ء میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے دیکھے جماعت کو بحیثیت مجموعی اجتماعی زندگی میں تسلی نہیں پالینی چاہیئے.کہ یہ ہمارے لئے کافی ہے اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے کسی اور پیار کی ضرورت نہیں ہے.بلکہ ۱۹۷۲ء میں خدا تعالیٰ کے پیار کے زیادہ وسیع اور زیادہ گہرے

Page 320

د دمشعل قل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۲ء 317 اور زیادہ شدید پیار کے جلوے دیکھنے کی خواہش پیدا ہونی چاہیئے.تو یہ ایک لالچ ہے یہ ایک خواہش جو انسان کے دل میں رکھی گئی ہے.جس کا صحیح استعمال وہ ہے جو میں نے ابھی بتایا ہے.لیکن بسا اوقات اس کا غلط استعمال بھی ہو جاتا ہے.اور انسان چاہتا ہے کہ دنیا میں اسے زیادہ سے زیادہ ملے.آج کے انسان نے اپنے میں انتہائی لالچ پیدا کی ہے.اور زمین نے کہا میرے خزانے تیرے لئے کھلے ہیں.وہ ایٹم جوزمین کے ذروں نے چھپارکھا تھا.جب انسان نے کہا کہ مجھے اور چاہیئے تو زمین نے کہا اچھا یہ ایٹم بھی لے لو اور ایک نئی طاقت کا منبع اور سر چشمہ اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا.جب انسان نے کہا کہ میں زمین سے بھی راضی نہیں میں نے کہیں باہر کی سیر کرتی ہے.زمین نے کہا یہ لو میرے اجزاء اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق اس کو استعمال کرو.تم چاند پر پہنچ جاؤ گے.چاند پر انسان محض اپنی عقل سے نہیں پہنچتا.یہ سائنسدان اگر کوئی بات کرے اسلام کے متعلق تو ایک بنیادی بات یا درکھو.چاند پر انسان محض اپنی عقل کے زور سے نہیں پہنچ رہا چاند پر انسان جو اللہ تعالیٰ نے زمین ایک خلق پیدا کی ہے.جو اشیاء پیدا کی ہیں خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق اپنی عقل کو استعمال کر کے پہنچتا ہے.اگر وہ نہ ہو تو یہ پھر کہتے کہ فلاں خرابی پیدا ہوگئی.سات دن کے بعد راکٹ چلے گا.کیا خرابی پیدا ہوگئی ؟ کبھی آپ نے سوچا؟ خرابی یہی پیدا ہوئی تھی کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے قانون کے خلاف کوئی بات کر دی تھی.اب پتہ لگا کہ ایسے کام نہیں چلے گا.دنیوی لحاظ سے اور حسابی لحاظ سے ذہین اور جو دھاتوں کے ماہرین ہیں وہ لگے رہتے ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ اس رفتار میں فلاں چیز سے کثافت کے لحاظ سے کتنی رگڑ پیدا ہوگی.اور اس سے یہ دھات جل تو نہیں جائے گی.اور وہ سارے قیافے لگارہے ہوتے ہیں.سالہا سال سے ہزاروں آدمی یہ کام کر رہے ہیں.انسان کس بات کا کام کر رہا ہے.کیا کوئی نئی چیز پیدا کر رہا ہے.نہیں بلکہ جو خدا تعالیٰ پیدا کر چکا ہے اس کا علم حاصل کر رہا ہے اور اس کے بعد کچھ اور بھی کرتا ہے.لیکن یہ خدمت کے اس مضمون کا دوسرا حصہ ہے اسے میں بعد میں لوں گا.پس ایک قسم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے کہا میں اشرف المخلوقات انسان پیدا کرنا چاہتا ہوں اس زمین کو تیار کروتا کہ یہ اسے قبول کرلے ایک یہ خدمت ہے جس میں ہماری کوشش اور عمل کا کوئی دخل نہیں ہے.یہ ہماری یعنی اسلام کی اصطلاح میں رحمانیت کے جلوئے رحمانیت کے انعامات کہلاتے ہیں.یعنی سارے عالمین کی خدمت میں نے کہا تھا کہ خدا نے ان عالمین کو انسان کے لئے مسخر کیا ہے اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ سارے عالمین ہمارے علم کے بغیر ہماری کوشش کے بغیر ہماری پیدائش سے بھی قبل سے اپنا کام کر رہے تھے.ہماری خدمت میں بھی لگے ہوئے تھے زمین کو ہمیں قبول کرنے کے لئے تیار کر رہے تھے.اگر زمین میں پانی نہ ہوتا اس کی بجائے سمندر سلفیورک ایسڈ سے بھرے ہوئے ہوتے تو آدمی سلفیورک ایسڈ پی کر زندہ رہ سکتے تھے؟.چوبیس گھنٹے میں ایک دفعہ پی کر دیکھ لیں آپ زندہ رہتے ہیں یا نہیں.تو یہ پانی کس نے بنایا ہے.عالمین کی خدمت کے نتیجہ میں پانی کی ی شکل بنی جسے انسان نے قبول کرنا تھا.اور پھر یہ پھل پیدا ہوئے اور پھر یہ فصلیں اگیں.اور یہ ہوا کہ اندر مختلف

Page 321

318 فرمود : ۱۹۷۲ء دد دو مشعل راه جلد د دوم گیسر Gases کی فیصدی قائم ہوئی.ہماری اس ہوا میں جس میں ہم سانس لے رہے ہیں اگر آکسیجن ہوتی ہی نہ تو پھر زمین نے اشرف المخلوقات کی نوع کو قبول نہیں کرنا تھا.دوسری خدمت وہ ہے جو انسان نے ایس یو نیورس اور اس عالمین سے لینی تھی.یہ خدمت اس نے اپنی کوشش اپنے عمل اپنی سمجھ اور اپنی عقل سے لینی تھی.ایک تو اس پیدائش نے اور اس خلق نے زمین کی تربیت کی کہ وہ انسان کو اشرف المخلوقات کے طور پر قبول کرے.انسان اس میں زندہ رہ سکے اور ترقی کر سکے.چنانچہ زمین کی ہر چیز نے یہ خدمت کردی دوسری قسم کا خدمت وہ خدمت ہے کہ مثلاً سورج سے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنے طور پر تم نے خدمت نہیں کرنی.گو اس کی ایک خدمت یہ بھی ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تیری ساری طاقتیں میرے انسان کے لئے ہیں اور تجھے انسان کا خادم بنایا گیا ہے.لیکن دیکھ ! تیری یہ ساری طاقتیں انسان کی خدمت صرف اس وقت کریں گی جس وقت وہ خدمت لینا چاہے گا.میں آپ کو اس کی ایک موٹی مثال دیتا ہوں.سائنسدانوں نے ایک بیٹری بنائی ہے.وہ مجھے بھی تحفہ دے گئے تھے.یہ بیٹری بہت پہلے کی ایجاد ہے.ہماری ملک نے بھی کچھ مسالے باہر سے منگوا کر وہ بیٹری بنائی ہے.اس کو سورج کی شعاعوں سے چارج کرتے ہیں.اب سورج کی شعاعوں کی یہ خدمت کہ وہ ہمارے لئے بیٹری چارج کریں جو رات کہ اندھیرے میں ہمارے کام آئے یہ اس نے اپنے طور پر نہیں کی جب تک کہ انسان نے اس سے یہ خدمت نہیں کی بیٹری چارج نہیں ہوئی.پس بعض خدمت کے حصے ایسے ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ جب تک انسان ان کی تربیت کر کے الہی قانون کے مطابق ان سے خدمت لینے کی کوشش نہ کرے اس وقت تک وہ بالکل خدمت نہیں کرتے.اس کی اور بھی کئی مثالیں ہیں.موٹر کار ہے جس میں سوار ہو کر میں یہاں آیا ہوں یا ریل گاڑی اور موٹر بسیں ہیں جین میں سوار ہو کر آپ ربوہ آئے ہیں.کیا یہ موٹر کاریں.ریل گاڑیاں اور موٹر بسیں وغیرہ سورج نے بنادی تھیں.چاند نے آسمان سے بھیجیں تھیں یا ستاروں کے قافلے ہمارے لئے ان کو لے کر پہنچے تھے؟ تو یہ بھی مخلوق ہی ہے اور انسانی خدمت پر مامور ہے لیکن یہ عالمین کا ایک ایسا حصہ ہے جس نے اس وقت ہماری خدمت کی جب ہم نے اس سے خدمت لینی چاہی.پانی ہماری زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے.ہم روز پانی پیتے ہیں.پانی ہماری خدمت کر رہا ہے.دس دن تک آپ کو پانی نہ ملے اس گرمی میں تو آپ مر جائیں.بہت سارے تو اس کے بھی شاید پہلے مر جائیں.تاہم پانی حاصل کرنے کے لئے آپ کو اس قسم کی محنت نہیں کرنی پڑتی لیکن کچھ محنت ضرور کرنی پڑتی ہے مثلاً جولوگ دریا کہ کنارے پر رہتے ہیں ان کو اتنی محنت کرنی پڑتی ہے کہ گلاس دریا میں ڈالا اور پانی بھر کر پی لیا.اسی طرح نہر کے کنارے رہنے والے لوگوں کا حال ہے.لیکن جہاں دریا اور نہریں نہیں وہاں کے لوگوں کو پانی کے لئے بند باندھنے پڑتے ہیں اور وہ بھی ایک قسم کی خدمت لینے کی شکل ہے.لیکن چونکہ پانی ہماری زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہے اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ آپ ہی آپ ہماری خدمت میں لگا ہوا ہے.لیکن یہی

Page 322

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۲ء 319 پانی گیس بن کر ریل گاڑی چلائے.خدا تعالیٰ نے فرمایا خود بخود یہ خدمت نہیں کرے گا.انسان کوشش کرے گا انسان محنت کرے گا تب وہ انجن بنائے گا.جب وہ میرے قانون کہ مطابق یہ چیز بنالے گا تو پھر میرا اسے یہ حکم ہے کہ وہ انسان کی خدمت میں لگ جائے یہ نہ ہو کہ جو پانی ہے جب اسے انجن میں گرم کیا جائے.تو وہ ریل کے کئی کئی من وزنی پہیوں کو دھکا دینے کی بجائے واہمہ بن کر ہوا میں اُڑ جائے.فرمایا یہ نہیں ہوگا.جب انسان اپنی کوشش کرے گا.تمہیں مسخر کرنے اور زنجیر ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گا تو اسوقت تم نے اس کی خدمت پر لگ جانا ہے.یہی وہ خدمت کی قسم ہے جسے میں دوسری قسم کی خدمت سے تعبیر کرتا ہوں.پس بنیادی طور پر خدمت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک یہ کہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں خدا کی مخلوق انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے.ہم چاہیں نہ چاہیں صبح ہوتی ہے اور سورج ہمارے اوپر طلوع ہوتا ہے.ہم چاہیں نہ چاہیں رات آتی ہے اور ہمارے لئے سکون کا سامان اور آرام اور ستانے کا سامان اور اپنی طاقتوں کو بحال کرنے یا ان میں دوبارہ طاقت پیدا کرنے کا سامان پیدا کرتی ہے.ہم چاہیں نہ چاہیں ہمارے لئے کائنات کی یہ مخلوق خدمت میں لگی ہوئی ہے.لیکن یہ نہیں ہوگا کہ ہم چاہیں نہ چاہیں انجن چلنے لگ جائے.ہم چاہیں نہ چاہیں زمین سے پڑول نکل آئے اور ہماری موٹروں میں استعمال ہونے لگے.ہم چاہیں نہ چاہیں پٹرول خود ہی صاف ہو جائے اور اس قابل ہو جائے کہ ہمارے ہوائی جہاز اڑا لے.ہم چاہیں نہ چاہیں ہوائی جہاز کی اتنی رفتار ہو جائے کہ وہ کشش ثقل کہ مقابلے میں پرواز کر سکے.غرض اسی قسم کہ اور ہزار با اصول ہیں جو ایک چیز کو بیلنس یعنی اس میں توازن پیدا کرنے والے ہیں.غرض ایک خدمت وہ ہے جس پر یہ کائنات مامور ہے یعنی جسے انسانی خدمت پر مامور کیا گیا ہے.انسان چاہے نہ چاہے یہ مخلوق اس کی خدمت پر لگی ہوئی ہے.ہم اللہ تعالیٰ کو ناراض کر دیں جیسے ابو جہل نے آنحضرت ﷺ کے مقابلے میں کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کو ناراض کر دیا تھا تب بھی خدا تعالیٰ نے مخلوق سے یہی کہا کہ میں نے تجھے بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے.اس واسطے اگر انسانی نوع یا اس کا کوئی حصہ یا کوئی فرد بشر میرا باغی ہو جائے تب بھی تم نے اس کی خدمت کرتے رہنا ہے.کیونکہ تم خدمت پر مامور ہو صرف میرے مقرب بندوں کی خدمت پر مامور نہیں ہو بلکہ میرے سب بندوں کی خدمت پر مامور ہو خواہ ان میں سے کچھ باغی ہی کیوں نہ ہو جائیں.چنانچہ سورج کفار پر بھی اسی طرح طلوع ہوتا تھا جس طرح مسلمانوں پر طلوع ہوتا تھا.اونٹ کفار کے تجارتی قافلے اسی طرح لے کر جاتے تھے جس طرح وہ مسلمانوں کے کام آتے تھے.چنانچہ ابوسفیان اونٹوں کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ لے کر گیا تھا اور اسے اس نیت کے ساتھ بھیجا گیا تھا کہ اس کی جو آمد ہوگی وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں استعمال کی جائے گی.اونٹوں سے خدا نے کہا ٹھیک ہے ان کی نیتیں خراب ہیں لیکن تمہیں حکم یہ ہے کہ تم انسانی شرف کا خیال رکھو.کفار مکہ خراب ہو گئے ہیں لیکن ان کی نوع خراب نہیں ہے.ان میں سے محمد ی ہے جیسا عظیم وجود پیدا ہوا ہے.چنانچہ اونٹوں کے قافلے گئے.اونٹوں نے

Page 323

320 فرموده ۱۹۷۲ء د و مشعل راه جلد دوم دد انکار نہیں کیا.گویا ایک تو یہ خدمت جو ہر کس و ناکس کی ہورہی ہے.ایک دوسری قسم کی خدمت ہے جس کے لئے انسان کو کوشش کرنی پڑتی ہے.جہاں انسان کہ لئے کوشش کا سوال پیدا ہو جائے وہاں اس کے لئے دوامکان ہیں.انسان آزاد ہے تبھی وہ اشرف الخلوقات بنا.وہ نیکی کا راستہ اختیار کرے یا بدی کا راستہ اختیار کرے گویا جہاں بھی اپنی مرضی سے خدمت لینے کا سوال پیدا ہوا وہاں دور ا ہیں کھل گئیں.ایک نیکی کی راہ دوسری بدی کی راہ.جہاں لوہے سے تلوار بنا کر دشمن کا مقابلہ کرنے کی خدمت لوہے سے لینے کا سوال پیدا ہو وہاں خدا تعالیٰ نے لوہے سے یہ بھی کہا کہ اگر میرا بندہ تجھ سے دشمن کے دفاع کا کام لینا چاہتا ہے تو کام کرنا تجھے اسی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.لیکن یہ دوسری قسم کی خدمت ہے.جب وہ کوشش کرے.لوہے کی قسمیں بنائے پھر ا چھے لوہے کا انتخاب کرے پھر اس کو تلوار کی شکل میں ڈھالے اور اس کی دھار کو تیز کرے اور پھر اس تلوار کو چلانے کی مہارت حاصل کرے تو لوہے سے کہا گیا کہ اس کے دشمن کا گلا کاٹ دینا.لیکن یہ خدمت انسان خود تجھ سے لے گا.تاہم انسان اس تلوار سے دو قسم کی خدمت لے سکتا تھا اس نے اس سے خدمت کی یا لینے کی کوش کی.ابو جہل نے تلوار سے اسلام کے خلاف خدمت لی.اور حضرت ابو بکر نے اس سے حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے نام کو بلند کرنے کے لئے خدمت لی.پس خدمتیں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک خدمت وہ ہے جو خدائی مخلوق خود بخود ہماری کوشش کے بغیر کرتی ہے.دوسری وہ خدمت ہے جو ہمیں اپنی کوشش اور اپنے علم اور اپنے عزم کہ نتیجہ میں لینی پڑتی ہے.میں اب اس دوسری قسم کی خدمت کو لے رہا ہوں.جہاں انسان نے اپنی مرضی اور منشاء سے خدا تعالیٰ کی مخلوق سے خدمت لینی تھی.وہاں جب کہ میں نے بتایا ہے اس کے لئے دور ہیں کھلی تھیں یا بد خدمت لے یا نیک خدمت لے.فاسقانہ عمل ہو یا مومنانہ عمل ہو دونوں راہیں اس کے لئے کھلی ہیں.جب انسان کے لئے اس خدمت کے لینے میں دور ہیں کھلی تھیں تو عقل ہمیں کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر اپنے بندوں کو بچانا تھا تو آسمان سے ہدایت نازل ہونی چاہئے تھی.سلسلہ انبیاء کے قیام کی یہی وجہ ہے.خدا تعالیٰ کی مخلوق سے جو خادم کی حیثیت رکھتی ہے انسان اس سے خدمت لیتے وقت بہک نہ جائے اور بھٹک نہ جائے.راہ راست پر قائم رہے اور وہ خدمت لے جو خدا تعالیٰ کا منشاء ہے.چنانچہ اس غرض کے لئے انبیاء علیہ السلام کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا.غرض اس دوسری قسم کی خدمت کا تقاضا یہ تھا کہ خدا آسمان سے اترے اور انسان کی انگلی پکڑے اور کہے تمہیں اجازت تو ہے بھٹکنے کی لیکن تمہارے لئے ایک راہ یہ ہے میری انگلی پکڑ لو گے تو راہ راست سے بھٹکو گے نہیں تاہم اس میں جبر کوئی نہیں.اگر چاہو تو میری انگلی پکڑ لو تا کہ انسانی شرف نمایاں طور پر مخلوق کے سامنے آ جائے اور وہ غرض پوری ہو جائے جس کے لئے یہ کائنات معرض وجود میں آتی ہے.بس سلسلہ انبیاء شروع ہو گیا.اس لحاظ سے ایک خدمت وہ ہے جو انسان نے مخلوق خدا سے اپنی مرضی سے لینی تھی.اس دوسری قسم کی خدمت کو میں نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے.

Page 324

کل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۲ء 321 دومشعل میں پھر بتا دیتا ہوں کہ اشیائے مخلوقہ نے دو قسم کی خدمت کرنی تھی ایک خدمت انسان کی مرضی کے بغیر اپنی مرضی سے خدا کے حکم کے ساتھ.مثلاً خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ کرو! یہ کرو! کرو! ایک وہ خدمت ہے جو خدا نے کہا اگر میرا بندہ چاہے تو پھر وہ خدمت کر دینا.اگر مرا بندہ چاہے تو انجمن کو چلا دینا.میں چاہوں تو نہ چلاؤں.پانی کو یہ حکم تھا تو اس واسطے انجن تیار ہو گیا جس میں پانی گرم ہونے سے وہ چلنے لگتا ہے.ویسے انتظار کیا گیا اس زمانے کا جو ہزاروں سال بعد آیا کہ جب انسان نے اپنی محنت اور کوشش سے پہلے ایک صحیح اصول اور جسمانی صداقت (اس کو ہم صداقت ہی کہیں گے ) کو معلوم کیا جو انسانی ذہن میں چھپی ہوئی تھی.اور وہ تھی کہ پانی کو کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے.پانی سے کس طرح خدمت کی جا سکتی ہے.پھر اس کے لئے انسان نے ایک انجن بنایا.اس میں کچھ غلطیاں کیں پھر اصلاح کی پھر غلطیاں کیں اور پھر اصلاح کی جو انجن آج ہمیں نظر آرہا ہے یہ ایک دن میں تو نہیں بنا.گو آج پانی والا انجن جس کی میں مثال دے رہا ہوں وہ نئی سے نئی شکلوں میں ڈھلتا چلا جارہا ہے.بہر حال جو انجن بنا ہے وہ ایک دن میں نہیں بنا اس کو بھی میرے خیال میں تاریخی طور پر ڈیڑھ دو سو سال لگے.پہلے ایک انجن بنایا.اس میں غلطی کی پھر اصلاح کی پھر غلطی کی پھر اصلاح کی.پس انسان نے انجن کے متعلق جو غلطی کی اور اصلاح کی اس نکتے کو آپ یاد رکھیں آگے چل کر یہ ہماری اس گفتگو میں کام آئے گا.چونکہ انسان نے یہ خدمت لینی تھی اس لئے یہ ڈر پیدا ہوتا تھا کہ وہ غلط خدمت نہ لے.اشرف المخلوقات ہونے کہ باوجود اور اس آزادی کی وجہ سے جو انسان کو دی گئی ہے انسان خود کے لئے ہلاکت کے سامان نہ پیدا کرے.جس طرح مثلا ایٹم کی دریافت انسان کے فائدہ کے لئے تھی لیکن انسان نے اس سے غلط خدمت لی اور جس طرح مثلا سیم کے فائدہ سے ایٹم بم ایجاد کر لئے.پس اگر چہ شروع زمانہ سے سلسلہ انبیاء شروع ہو گیا لیکن اس وقت کا انسان اشرف المخلوقات کا Essence ایسینس یعنی نچوڑ کو قبول کرنے کے لئے جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی طور پر تیار نہیں تھا.چنانچہ جس طرح زمین کو ایک لمبے عرصہ تک تیار کرنے کی ضرورت تھی اسی طرح بنی نوع انسان کو بھی ایک لمبے عرصہ تک تیار کرنے کی ضرورت تھی.اصل مقصود حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات تھی لیکن آدم کے وقت کا انسان اس عظیم بوجھ کو جو حضرت رسول کریم ﷺ پر ڈالا جانے والا تھا اٹھانے کے قابل نہیں تھا کیونکہ اس کی ابھی تربیت نہیں ہوئی تھی.اس واسطے حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعے تھوڑی سی تربیت ہوگئی پھر اور نسلیں آئیں جن میں اور انبیاء آئے پھر اور زیادہ تربیت ہوگئی.ہزار ہا سال کی تربیت کے بعد ایک وقت ایسا آیا کہ اللہ تعالیٰ کے علم کامل نے فیصلہ کیا کہ اب انسان کامل شریعت اور افضل نبی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو گیا ہے اور ان کی باتیں ماننے کے لئے تیار ہو گیا ہے.اگر حضرت محمد ﷺ حضرت آدم کی جگہ مبعوث ہو جاتے اور وہ قربانیاں لینا چاہتے جو صحابہ نبی صلى الله اکرم ﷺ نے دیں تو اس وقت کے لوگ کبھی دے ہی نہ سکتے.

Page 325

322 فرموده ۱۹۷۲ء د و مشعل راه جلد دوم ان کی سمجھ میں ہی نہ آتا کہ بات کیا ہے.اس زمانہ میں لوگوں کے ذہن اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے احسان کو قبول کرنے کہ لئے تیار نہیں تھے.اسی واسطے بھٹکتے رہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نالائق تھی انہوں ے موسی بچھڑے کو خدا بنادیا ان کا بچھڑے کو خدا بنانا جو اپنے رنگ میں عجیب تھا یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر آنحضرت ﷺ کی تجلی کیوں نازل نہیں ہوئی.آپ کے لئے بھی یہ سمجھنا شاید مشکل ہو جاتا ہو کہ کوہ طور پر.جھاڑ کیوں کھائی.جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے خدا.وہ تجلی مجھے بھی دکھائیں.اللہ تعالیٰ وہ نے فرمایا نہ تم اس بجلی کو دیکھ سکتے ہو اور نہ تمہاری قوم.حال یہ تھا کہ اُدھر تجلی دکھانے پر اصرار ہور ہا تھا اور ادھر قوم ایک بچھڑا بنا کر اس کی پرستش کر رہی تھی.یعنی بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں بچھڑے کی پرستش شروع کر دی تھی.اللہ تعالیٰ نے ان کو بتایا کہ حضرت محمد ہے.جس تو حید کو قائم کرنے کہ لئے مبعوث ہوں گے.تمہاری قوم بنی اسرائیل اس توحید کی معرفت کو روحانی اور دینی طور پر حاصل کرنے کے قابل ہی نہیں.اس واسطے مزید تربیت کی ضرورت ہے.چنانچہ پھر مزید تربیت ہوئی.پس انبیاء کا سلسلہ اس خطر کے پیش نظر شروع ہوا کہ انسان غلط خدمت نہ لینی شروع کر دے آسمان سے الہی ہدایت نازل ہونی شروع ہوگئی.جس کے بعد انسان کی تربیت ہوتی رہی تاکہ وہ اپنے اس مقام تک پہنچ جائے جس مقام کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے.اور جس کا بہترین نمونہ (جس سے بہتر کوئی اور نمونہ عملاً ہوسکتا ہے اور نہ انسان کے تصور میں آ سکتا ہے ) وہ حضرت مصطفی عیہ ہیں انسان ان کے حسن کی بھی معرفت رکھے اور ان کے اسوہ پر عمل کرنے کی بھی طاقت رکھے.چنانچہ بڑے لمبے عرصہ کے بعد پھر وہ انسان کامل پیدا ہو گیا.اور جس وقت وہ انسان کامل پیدا ہوا اور وہ پیدا ہی اس لئے ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام ( میں پیچھے کو جارہا ہوں ) اور حضرت آدم علیہ السلام کا زمانہ جو تھا اس سے آپ کا زمانہ روحانی طور پر اور ذہنی طور پر اور جسمانی طو پر اور تربیت یافتہ ہونے کے لحاظ سے آگے نکل چکا تھا.اور ساری باتیں تسلیم کرنے کے لئے تیار تھا.جس کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ دوسرے کروں میں بھی انسان جیسی آزاد مخلوق بستی ہے.اب یہ تصور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم اس زمانہ میں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھی.غرض دوسری قسم کی خدمت میں چونکہ یہ خطرہ تھا کہ انسان غلط کام نہ لے.اور بھلائی کی بجائے بدی کی راہوں کو اختیار نہ کرے.اس لئے خدا نے آسمانی ہدایتوں کا سلسلہ اور انبیاء کی بعثت کا سلسلہ شروع کیا.اور ان کے ذریعہ بنی نوع انسان کی تربیت کی اس کا ایک مقصد یہی تھا کہ انسان کی اسی طرح تربیت کی جائے جس طرح زمین کی گئی تھی.انسان کو قبول کرنے کے لئے انسان کی تربیت کی جائے حضرت محمد اللہ کو قبول کرنے کے لئے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں

Page 326

فرموده ۱۹۷۲ء 323 د دمشعل را قل راه جلد دوم یا حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں انسان حضرت محمد ﷺ کو قبول کرنے کے قابل ہی نہیں تھا.اس کی ابھی کما حقہ تربیت نہیں ہوئی تھی اس کے جسمانی پہنی اخلاقی اور روحانی قومی کی تربیت اور ان کی نشو ونما اتنی نہیں ہوئی تھی کہ حضرت محمد ﷺ کو قبول کر سکے.اس لئے یہ تربیت ضروری تھی.اس کا ایک دوسرا حصہ ہے جس کا گویا ایک جوڑ لگا ہوا ہے.ایک مادی ترقیات اور ایک روحانی ترقیات صلى الله کا.مثلاً آخرت پر ایمان ہے.حضرت محمد ﷺ نے اور قرآن کریم نے جس رنگ میں اس مضمون کو بیان کیا ہے پہلی کتب نے اس کو بیان نہیں کیا.کیونکہ وہ تو میں اس کو سمجھ ہی نہیں سکتی تھیں.اور آخرت کے بغیر الہی سلسلہ نامکمل ہو جاتا ہے اور ایک تماشا نظر آتا ہے.اس واسطے خدا تعالیٰ نے سختی سے اس کی تردید کی ہے.اور آخرت کے حق میں دلائل دے کر بتایا ہے کہ میں نے ان چیزوں کو باطل طور پر پیدا نہیں کیا.اگر آخرت نہیں.اگر اس زندگی کے بعد دوسری زندگی نہیں تو پھر ہر چیز ایک کھیل بن جاتی ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میری ہستی کی طرف کھیل کو منسوب کرنا اور مذاق کے رنگ میں منسوب کرنا یہ غلطی ہے.کیونکہ یہ سب چیزیں کمزوری کی علامت ہیں.اور میری ذات میں کوئی کمزوری نہیں اور اگر آخرت کی زندگی نہیں اگر اس دنیا میں سب کچھ ختم ہو جاتا ہے تو پھر یہ دنیا باطل ٹھہرتی ہے.بے نتیجہ ثابت ہوتی ہے اور اس کی پیدائش کا کوئی مقصد ہی نہیں رہتا.لیکن ہم نے دیکھا کہ اتنا کام ہے جو لاکھوں سالوں پر پھیلا ہوا ہے.اور ایک جہت کی طرف حرکت کر رہا ہے.لاکھوں سالوں تک ہر ایک مخلوق کو کہا کہ زمین کو تیار کرو کہ وہ اشرف المخلوقات کو قبول کرے اور اس میں انسان زندہ رہ سکے.جب انسان کو پیدا کیا تو ایک الہی ہدایت ناموں کا سلسلہ اور انبیاء علیہ السلام کا سلسلہ شروع کیا.تا کہ انسان کو تیار کرے کہ وہ محمد مہ کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے.اور آپ ﷺ کی شریعت کا بوجھ ہر لحاظ سے اپنے کندھوں پر اٹھانے کے قابل ہو جائے.پھر آنحضرت ﷺ کو پیدا کیا تو ان کی قوم کو دنیا نے اس قدر تکالیف پہنچائیں کہ اگر دوسری زندگی نہیں تھی اور اگر ہمیں کوئی پیدا کرنے والا سمجھا جائے تو وہ ظالم ٹھہرتا ہے.ظاہر ہے خدا کے نام کو لے کر وہ کھڑے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے انہیں تکلیفیں پہنچ رہی ہیں اور ان کی جزاء کے لئے کوئی مقام ہی نہیں رکھا گیا.صحابہ جو محمد ﷺ کی مظلومیت کی زندگی میں وفات پاگئے یا شہید کر دیئے گئے ان کی زندگی تو تکلیفوں کے ساتھ ختم ہوگئی.اب جنہوں نے اپنے عمل اور قربانی اور ایثار کا نتیجہ نہیں دیکھا تو ان سے ہر شخص یہ کہے گا کہ اے خدا تو نے اس دنیا کو باطل پیدا کیا ہے؟ نہیں ہمارے خدا نے اس دنیا کو باطل نہیں بنایا.اور یہ باطل صرف اس وقت نہیں بنتی جب اس زندگی کے بعد دوسری زندگی ہو ورنہ یہ سارا سلسلہ کا ئنات باطل ٹھہرتا ہے.اس لئے آخرت پر ایمان لانا ضروری ہے.ہمیں سمجھ آئے نہ آئے ہمارا ایمان علی وجہ البصیرت ہو یا نہ ہو جیسا کہ ہزاروں لاکھوں کا ہوا کرتا ہے اور ہوتارہا ہے.یا ہمارا ایمان بالغیب ہو لیکن آخرت پر ایمان بہر حال ضروری ہے.ورنہ یہ سارا سلسلہ بے حقیقت ٹھہرتا ہے.حالانکہ آخرت ایک ایسی حقیقت ہے.جس سے ہم انکار نہیں کر سکتے.یہ ساری قربانیاں الہی سلسلوں کے لئے ایک حقیقت ہیں.جس کا ہم انکار نہیں کر سکتے.چنانچہ

Page 327

324 فرموده ۱۹۷۲ء د و مشعل راه جلد د دوم جانوں کا قربان کرنا اموال کی قربانی دینا.بشاشت کے ساتھ آگ کے اندر کود جانا.ایسے اعمال ہیں جو رائیگاں نہیں جاتے.تاہم کسی کے متعلق آگ کو بھی حکم دے دیا کہ تو اسے اس دنیا میں بھی نہیں جلائے گی.کسی کے متعلق یہ حکم دے دیا کہ اس دنیا میں جلالے اس اُخروی زندگی میں نہیں جلائے گی.یعنی جنت کے اندر آگ کا کوئی دخل نہیں ہوگا.نہ وہاں اس کا کہنا مانا جائے گا دوزخ میں اس کا کہنا جلانے کے متعلق مانا جائے گا.روپیہ لے کر سو روپے دے دے تو کیا بچے نے کوئی تکلیف اٹھائی؟ کیا کہتا ہے آپ کے بچپنے کا دماغ.اس کو کوئی نقصان پہنچا کہ فائدہ پہنچا.؟ کوئی نقصان نہیں پہنچا کیونکہ روپیہ دے کر اس نے سو روپیہ لے لیا.اگر اس زندگی کے بعد دوسری زندگی ہے اور یقینا ہے تو اس دنیا کی قربانیاں کوئی نقصان نہیں پہنچا تیں.اس لئے ہمیں صحابہ کی زندگی میں یہی نظر آتا ہے کہ وہ اس دنیا سے دوسری دنیا میں اسی طرح ہنستے کھیلتے اور بشاشت سے چلے جاتے تھے.جس طرح ایک آدمی اپنے گھر کے ایک کمرہ سے دوسرے کمرہ میں چلا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اس حقیقت کو پا لیا تھا کہ یہ دنیا باطل نہیں ہے.یہ سارا کارخانہ اور یہ سارا نظام جسے لاکھوں سالوں پہلے قائم کیا یعنی زمین کو پیدا کیا.انسان کو قبول کرنے کے لئے پھر ہزاروں سالوں میں انسانوں کو تیار کیا حضرت محمدعلی کو قبول کرنے کے لئے اور شروع سے ہی آسمان سے شریعت نازل کی اور خدا تعالیٰ نے فرشتوں کو بھیجا کہ میرے بندوں کی ہدایت اور رہنمائی کا سامان پیدا کرو.لیکن اس کو آزادی دی کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ ایک ایسی مخلوق بھی ہو جو اس سے ذاتی پیار رکھتی ہو ہر آن ہر لحظہ دنیا کی ہر مخلوق خدا تعالیٰ کی حمد کر رہی ہے.مگر حمد کرنے پر مجبور ہے.خدا نے کہا میں ایک ایسی مخلوق بنانا چاہتا ہوں جو مجبور نہ ہوا اور پھر بھی میری حمد کرے میری صفات کی معرفت حاصل کر لے.چنانچہ اس نے انسان کو پیدا کیا.پھر انسانوں میں سب سے افضل حضرت محمد ملتے تھے.صلى الله علي میں نے جو باتیں بتائی ہیں یہ ایک لحاظ سے تمہید بنتی ہے اور یہ تمہید بنتی ہے اس بات کی محمد کے خاتم الانبیاء ہیں.ساری مخلوق کو سارے عالمین کو لاکھوں سال تک اسی کام پر لگایا گیا کہ زمین کو تیار کریں انسان کو قبول کرنے کے لئے اور پھر ہزاروں سال انبیاء کو اور ان کی قوموں کو اس کام پر لگایا گیا کہ تربیت دیں.نوع انسان کو نسلاً بعد نسل کہ ان کے روحانی اور دوسرے قومی اتنے ترقی یافتہ ہو جائیں کہ محمد ﷺ کو قبول کر لیں لیکن محمد ﷺ کو یا آپ ﷺ کی امت کو اس کام پر نہیں لگایا گیا کہ کوئی آپ سے بڑھ کر آنے والا تھا جس کو قبول کرنے کے لئے بنی نوع انسان کو تیار کیا جانا تھا.آخری نقطۂ عروج جو انسانیت کا نقطۂ عروج ہے وہاں جب انسان پہنچ گیا اور جو بلند تر مقام اللہ تعالیٰ کے داہنے طرف عزت اور احترام اور خدا کے پیار کی اور خدا تعالیٰ کے حسن کے جلوں کی اصل آماجگاہ جو تھا.اس کرسی پر خدا نے اپنے پیارے محمد ﷺ کو بھا دیا.یہ ہے خاتم الانبیاء کا مقام آخر میں آنا نہیں.عجیب بات ہے کہ جس سمندر نے انتیس ہزارفٹ بلند ہمالیہ کی چوٹی پر پانی پہنچادیا.(ہمالیہ بہت بڑا پہاڑ ہے جس کی ایک چوٹی دنیا میں سب سے اونچی ہے).جس کی انتیس ہزار اور کچھ فٹ کی بلندی ہے.سطح سمندر سے اور پانی وہاں نہیں چڑھ سکتا.کئی آپ میں سے جو زمیندار ہیں وہ جانتے ہیں کہ نچلی طرف سے پانی اوپر لے جانے کے

Page 328

د فرموده ۱۹۷۲ء 325 و مشعل راه جلد دوم لئے مثلا کنویں سے لگا کر کھنچتے ہیں.یانالی کواونچا کر کے اونچے کھیتوں میں پانی پہنچاتے ہیں.لیکن خدا کی پر شان ہے کہ سمندر کی سطح سے جو مقام انتیس ہزارفٹ اونچا تھا خدا تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا وہاں تک سمندر کا پانی پہنچا دیا.سمندری پانی سے بخارات بنائے اور پھر ان کو ہواؤں سے اڑایا وہاں سردی پیدا کر دی اور پھر ان کو جمایا برف کی شکل میں.اور پھر یہ پانی سورج کی گرمی سے پہاڑی نالوں اور دریاؤں کے ذریعہ اپنی والدہ یعنی سمندر کی گود کی طرف بڑھنا شروع ہو گیا.اور اس عرصہ میں وہ لوگ جو مقامی طور پر ماں سے دور تھے ان تک ماں کا دودھ پہنچادیا.یعنی پانی زندگی کا حصہ بن گیا.آپ یہ سوچیں کہ جس سمندر نے انتیس ہزار فٹ کی بلندی کو بھی اپنے پانی سے محروم نہیں رکھا وہ سمندر اس شخص کو اپنے پانی سے کیسے محروم رکھے گا جو اس کے کنارے پر کھڑا ہوا ہے.کیا محروم کرے گا ؟ عقل کہتی ہے نہیں.پس محمد ﷺ نے جو روحانی سمندر ہیں ان سے تو یہ فیض رسانی بدرجہ اولیٰ مسلم ہے.یہ سمندر تو کچھ کھارے پانی کے ہیں.کچھ میٹھے پانی کے ہیں.لیکن وہ تو اتنا لذیذ اور ٹھنڈا اور سرور پیدا کرنے والا اور روحانی لذتوں اور جسمانی لذتوں اور آرام کے سامان پیدا کرنے والا سمندر ہے.پس جو روحانی سمندر ہے.جس سمندر نے جو زمانی طور پر سب سے دور تھا.صرف آدم جو ہم کہہ سکتے ہیں انتیس ہزار فٹ سے بھی زمانی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ زیادہ دور تھے.چنانچہ جس طرح ظاہری سمندر سے ہمالیہ کی سب سے اونچی چوٹی تک آپ نے پانی پہنچادیا.اس طرح آنحضرت کا فیضان حضرت آدم علیہ السلام تک پہنچانے کی ہدایت یہی دی گئی تھی کہ حضرت محمد ﷺ کو قبول کرنے کے لئے انسانیت کو تیار کرو.اور یہ محمد اللہ کا ہی پانی تھا.جو آدم کو دیا گیا.جتنا وہ برداشت کر سکتے تھے.اور یہ محمد کا روحانی زندگی بخش پانی تھا.جو حضرت نوح اور حضرت موسی علیہ السلام کو دیا گیا پس کتنا بے وقوف ہے وہ شخص جو یہ تو کہتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے روحانی حیات بخش پانی نے حضرت آدم اور ان کی قوم کو زندہ کیا اور اس زمانہ میں آدم کو نبی بنادیا اور پھر نوح کو نبی بنادیا.ایک معنی میں امتی نبی خلافت کا ایک اور سلسلہ ہے اس میں سارے نبی امتی نبی ہی بنتے ہیں.ہم مستقل کہتے ہیں کہ وہ اور معنی کے لحاظ سے ہیں یہ ایک اور معنی کے لحاظ سے ایک تسلسل ہے.پس اتنا ہی سمجھ لو کہ ایک اور معنی کے لحاظ سے یہ تسلسل ہے.اور حضرت محمد اللہ کے اس روحانی زندگی بخش پانی نے نوح کو نبی بنا دیا.اور پھر موسیٰ کو بنا دیا پھر عیسی کو نبی بنادیا.یہ چند گنتی کے نام ہیں.ہمارے علماء کہتے ہیں کہ ایک لاکھ بیس ہزار انبیاء صلى الله بنا دیے.محمد ﷺ کے حیات بخش پانی نے زندگی بخش پانی نے اتنے نبی بنادیئے اور وہ قوم جو اس روحانی سمندر کے کنارے خیمہ زن ہوگئی اور اپنے ڈیرے ڈال لئے.لوگ کہتے ہیں وہ اس روحانی سمندر سے حصہ نہیں لے سکتی اگر ہزار ہا سال پہلے یہ پانی آدم کو امتی نبی بنا سکتا ہے تو یہی پانی ام محمد یہ میں تیرہ سو سال کے بعد محمد ے کے عاشق جس سے زیادہ کسی نے محمد مے سے پیار نہیں کیا اس کو کیسے نبی نہیں بنا سکتا.یہ تو روحانی افاضہ ہے.ہزار ہا سال پہلے جس سمندر کے پانی نے بخارات اُڑا کر اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمانی ہوا ؤں کو زمانے کے لحاظ سے

Page 329

326 فرموده ۱۹۷۲ء دو مشعل راه جلد دوم پیچھے لے جا کر روحانی زندگی عطا کی تھی وہ پانی (پانی تمثیل ہے اسے تمثیلی رنگ میں ذہن میں لاؤ کیونکہ مکان کی مثال جب میں زمانے سے دوں گا تو وہ تمثیل بن جاتی ہے ) بعد میں جو بعد ہے زمانی اس میں افاضہ کیوں نہیں کرے گا.کیونکہ انسانیت کا اصل نچوڑ جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے.جو ذمہ داریاں آسمان سے انسان پر پڑتی ہیں وہ مکمل طور پر انسان کے ہاتھ میں دے دی گئیں پھر محمد ی ﷺ کا افاضہ ہوا.پہلوں کو آپ نے فائدہ پہنچایا بعد میں آنے والوں کو بھی آپ نے فائدہ پہنچایا.آپ نے یہ فرمایا کہ میری امت کے علماء باطنی ( علماء ظا ہر نہیں) پہلی امتوں کے انبیاء کی طرح ہیں.حضرت موسیٰ کے کتنے نبیوں سے یا ان کے ناموں سے یا ان کے ذکر سے آپ کی واقفیت ہے؟.جو آپ میں جماعت کا لٹریچر اور کتب پڑھنے والے ہیں ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی رو سے واقفیت ہے.چنانچہ امت موسویہ میں تیرہ خلفاء پیدا ہوئے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امت موسویہ میں ایک ایک وقت میں سینکڑوں انبیاء موجود ہوتے تھے.جن کا نام تاریخ نے یاد نہیں صلى الله رکھا.اور اس کی ضرورت بھی کوئی نہیں تھی.یہ جو تیرہ نام رکھے گئے ہیں حضرت محمد ﷺ اور مہدی معہود کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے ہیں ورنہ جس طرح اور سینکڑوں ہزاروں کو انسانیت بھول گئی ان کو بھی بھلا دیا جاتا.جس طرح ہر چیز میں ہمیں ایک مقصد نظر آتا ہے.اسی طرح اس میں بھی ایک مقصد پیش نظر ہے.پس محمد یا اللہ اس معنی میں خاتم الانبیاء ہیں کہ کوئی روحانی فیض کوئی شخص حضرت محمد اللہ کے مقابلہ میں کھڑے ہو کر آپ سے دوری کی راہوں کو راختیار کر کے آپ کی ہدایت سے منہ موڑ کر اور آپ کی لائی ہوئی روحانی روشنی سے بچنے کے لئے اپنے گھروں کی کھڑکیاں دروازوں اور روشن دانوں کو بند کر کے اور اوپر کالے پردے لگا کر (جس طرح جنگ کے دنوں میں ہم نے لگا دیئے تھے باہر سے کوئی روشنی نہیں آتی تھی ) کوئی روحانی فائدہ حاصل نہیں کر سکتا.روحانی فیض پہلوں نے بھی حضرت محمد اللہ کے فیوض سے حاصل کیا.روحانی روشنی پہلوں نے بھی محمد ﷺ کے روحانی سورج سے حاصل کی.روحانی خوشحالی کے سامان پہلوں نے بھی محمد ﷺ ہی کے ذریعہ سے حاصل کئے.اور یہ یہی آپ کا خاتم الانبیاء کا مقام ہے.زمانی طور پر مسلمانوں کا ہر فرقہ یہ دعوی کرتا ہے کہ محمد ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اس سے ہمیں انکار نہیں ہے.ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارا یہ دعویٰ ہے جب تک دوسروں کو سمجھ نہ آئے وہ تو انکار کر دیں گے.اور کریں ہمیں ان سے کوئی شکوہ نہیں لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ میں سے جس نے غور سے میری باتوں کو سنا ہے وہ بھی اس پر پہنچے گا کہ انسانی فطرت خاتم الانبیاء کے انہی معنوں کو اور یہی معنی ہماری عقل تسلیم کرتی ہے کہ وہ مقام جہاں آکر ساری رفعتیں اور بلندیاں ختم ہو گئیں اور جس جگہ پہنچ کر (اگر پہاڑ کی مثال لی جائے تو جو پہاڑ کی شمالی جانب ڈھلوانیں تھیں انہوں نے بھی اسی سورج سے روشنی حاصل کی جو چوٹی پر تھا اور جو جنوب کی طرف ڈھلوان تھیں انہوں نے بھی اسی سورج سے یا اس چراغ سے یا اس مینار کے بلب سے روشنی حاصل کی جو چوٹی پر تھا.یہ کہنا کہ ایک بلند چوٹی پر ایک مینار بنایا گیا اور اس پر ایک نہایت روشن چراغ جلایا گیا.جس کو ہم روحانی سورج بھی

Page 330

دد مشعل را ل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۲ء 327 کہتے ہیں اور وہ جو پہاڑ کی چوٹی کی ڈھلوان کے ہر حصہ میں نظر آ رہا ہے تو ایک حصہ میں تو اس کی روشنی پہنچ رہی ہے لیکن دوسرے حصہ میں نہیں پہنچ رہی یہ غلط ہے.ہماری عقل بھی اس کو تسلیم نہیں کرتی.ہماری فطرت بھی اسے تسلیم نہیں کرتی.جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ اتنا لمبا سلسلہ پہلے خلق کا انسان کو قبول کرنے کے سامان پیدا کرنے کا پھر انسان کی ایک لمبا عرصہ تک تربیت کر کے محمد للہ کے حسن اور احسان کے جلووں کو برداشت کرنے کا وہ جلوہ جو اپنے صحیح روپ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام برداشت نہیں کر سکے.اور ان کی قوم نے ایک نہایت بھیانک دلیل خدا تعالیٰ کے سامنے دی (بھیانک اپنے لحاظ سے کیونکہ وہ بڑی گری ہوئی قوم تھی.یہ دلیل خدا تعالیٰ کے اس قول کی تصدیق میں کہ تم اور تمہاری قوم محمد ہے کے جلوے کی ایک جھلک بھی برداشت نہیں کر سکتی.پس جس قوم نے اس جلوے کی جھلک کیا سارے جلوے کو برداشت کرنے کی قابلیت حاصل کرنی تھی وہ اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے.جہاں تک پہلے پہنچے تھے.پس یہ تو خاتم الانبیاء کے معنی نہیں ہو سکتے.ہماری عقل کے لحاظ سے بھی نہیں ہو سکتے.ہماری فطرت کے لحاظ سے بھی نہیں ہو سکتے.صحیح معنی ہمارے نزدیک یہی ہیں کہ محمد ﷺ کا مقام ایسا ہے کہ جس مقام سے پہلوں نے بھی فیوض حاصل کئے اور بعد میں آنے والوں نے بھی صرف آپ سے فیوض حاصل کئے جو شخص آپ سے دور ہوا جو شخص آپ کے مقابلہ پر کھڑا ہوا.جس شخص نے جتنا جتنا آپ کو رد کیا اتنا اتنا خود کو آپ کے فیوض کے حصول سے محروم کر دیا.یہ ایک حقیقت ہے اور یہ ہمارا ایمان ہے.یہ محمد ﷺ کا مقام ہے یہ وہ مقام ہے جس کے نتیجہ میں ہمارے دل میں اتنی شدید محبت محمد اللہ کے لئے پیدا ہوتی ہے کہ جس کا حد و حساب ہی کوئی نہیں.ایک لحظہ کے لئے بھی کوئی احمدی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کے بچوں کو قتل نہ کیا جائے لیکن محمد ﷺ کو برا بھلا کہا جائے.اگر ہمارے اختیار میں ہوا گر دنیا کی اصلاح اس بات میں ممکن ہو تو ہم میں سے ہر ایک تیار ہے کہ ہمارے سارے بچوں کو قتل کر دیا جائے لیکن محمد ﷺ کی صداقت کو قبول کر لیا جائے.آخر انتہائی قربانیاں اجتماعی طور پر جماعت کیوں دیتی ہے؟ میں جانتا ہوں کہ جماعت میں کچھ کمزور ایمان بھی ہیں.اور بعض منافق بھی ہیں.سب کچھ الہی سلسلوں کیساتھ لگا ہوا ہے.منافق بھی یعنی کمزور ایمان والا بعض دفعہ مخلص بن جاتا ہے کمزور ایمان والوں کی تربیت ہوتی ہے اور وہ کہیں کے کہیں آگے نکل جاتے ہیں اور قابل رشک وجود بن جاتے ہیں.اس واسطے کمزور کو دیکھ کر ان کا مستقبل دیکھ کر اور مستقبل کے متعلق اپنی امیدیں دیکھ کر ہمیں ان سے پیار پیدا ہوتا ہے کہ جو آج کمزور ہے وہ کل کہاں نکل جائے گا.جن بچوں کو ہم نے (میں تو ان کو بچے ہی کہوں گا) یعنی خدام الاحمدیہ اور جوانی کے پہلے دور میں ہم ہر وقت گرفت میں رکھتے تھے کہ تمہارے اندروہ کمزوری ہے وقت آنے پر انہوں نے اپنے بھائیوں کے لئے اورمحمد علی کی صداقت کے لئے اپنی جانیں بھی قربان کر دیں.اس واسطے کمزور کو ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں غصہ نہیں آتا.یا ہمارے دل میں نفرت یا حقارت کے جذبات پیدا نہیں ہوتے.بلکہ مستقبل کی امیدیں اور کامیاب تربیت کے

Page 331

328 فرموده ۱۹۷۲ء د و مشعل راه جلد دوم لئے دل میں پیار پیدا ہوتا ہے.میں نے اپنی عملی زندگی میں دیکھا ہے کہ وہ شخص جو دس سال پہلے کمزور تھا.آج وہ کہیں کا کہیں پہنچ گیا ہے.جو لوگ دس سال پہلے کسی شمار میں نہیں تھے آج بڑے محبت اور پیار سے آنے والی نسل ان کے قرب میں جاتی ہے.آپ کا دل کرتا ہے ان کے ہاتھوں کو پیار کریں.اور ان کی صحبت میں رہیں.حالانکہ دس سال پہلے وہ کمزور سمجھے جانے والے تھے.پس ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس کو جو کمزور ہے بشمولیت اپنی کمزوری کے یہ نہیں کہے گا کہ ہمارے بچے زندہ رہیں لیکن محمد ﷺ کی عزت قائم نہ ہو.ہم نے محمد ﷺ کا وہ مقام دیکھا اور اس کا ہم نے مشاہدہ کیا اور ہم نے محمد علیہ کے احسان کے وہ جلوے دیکھے کہ ہمارا تو رواں رواں آپ کے احسان کے نیچے دبا ہوا ہے.اور اگر آپ نہ ہوتے تو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جو خدا تعالیٰ کو چھوڑتا ہے وہ کتوں صلى الله اور بندروں اور سؤروں سے بھی نیچے چلا جاتا ہے.ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ محمد ﷺ کو چھوڑنے والے کتوں سؤروں اور بندروں سے بھی نیچے کی زندگی گزار نے والے ہیں.اس مشاہدہ کے بعد ہم کس طرح اس گندی زیست کو اس حسن زیست پر ترجیح دے سکتے ہیں ہمیں تو یہی پیاری چیز ہے.ہماری زندگی میں ایک یہی حسن ہے کہ محمد ﷺ کا حسن ہماری زندگیوں کو منور کرتا رہے.اور چمکاتا رہے.اور اس میں خوبصورتی پیدا کرتار ہے.اس میں دلر بائی پیدا کرتار ہے.پس ہم تو محمد ﷺ کے مقام کو پہچانتے ہیں.اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی آپ کے مقام کو پہچانتے ہیں.پہلا ہمارا عقیدہ توحید کا ہے.ہم نے رشوت کا سہارا نہیں لینا ہم نے چوری کا سہارا نہیں لینا.ہم نے انسان کی سفارش کا سہارا نہیں لینا.ہمیں دوسرے کے سہارے سے کیا ہم نے اپنے سہارے بھی نہیں رہنا.ہم نے خدا کے حکم کے مطابق خدا کی بنائی ہوئی چیزوں سے پوری تدبیر کرنی ہے.لیکن وہاں ٹھہر کر ہم نے یہ نہیں کہنا کہ ہم نے اپنا مقصد حاصل کر لیا.ہم نے یہ کہنا ہے اے خدا تو نے کہا کہ تدبیر کرو.ہم نے تدبیر کی اور ہم جانتے ہیں کہ جب تک تیرا فضل نازل نہیں ہوگا ہم کامیاب نہیں ہوں گے.پھر ہم نے تدبیر کی چھت کو (جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ) آسمان تک لے گئے.لیکن اس کے نیچے دعا کے ستون کو قائم کرنا ہے اس کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.صرف دعا سے اور عاجزی کے ساتھ اور عاجرانہ راہوں کو اختیار کر کے تضرع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دامن کے ساتھ چمٹ کر اسے یہ کہہ کر کہ اے ہمارے رب ہم تجھے چھوڑیں گے نہیں جب تک تیرے فضل کو حاصل نہیں کریں گے.تب ہم کامیاب ہوں گے.ہمارے نفس ہمارے لئے بت نہیں ہیں.ہمارے علم اور ہماری فراست ہمارے لئے بت نہیں ہیں.ہمارا زور اور ہماری دنیوی حالت ہمارے لئے بت نہیں ہے.خدا کا فضل اور احسان ہے اور ہمارے دل اس کی حمد سے لبریز لیکن ہمارا ایک ہی سہارا ہے.ہماری زندگی اور ہماری بقاء کا ایک ہی ذریعہ ہے.وہ خدا تعالیٰ کا دامن ہے جسے ہم نے حضرت محمد ﷺ کے طفیل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مھدی معہود کے ذریعہ حاصل کر لیا.اس کے علاوہ ہمیں اور کچھ نہیں چاہیئے.پس ایک تو ہمارا یہ پختہ اور صحیح عقیدہ ہے.جو خدا نے ہمیں سکھایا ہے.اللہ پر ہمارا ایمان ہے.یا ایمان باللہ

Page 332

فرموده ۱۹۷۲ء 329 د دمشعل را مل راه جلد دوم جو خدا ہمیں کہتا ہے.قرآن کریم میں سکھاتا ہے.دوسرے یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے انسان کے لئے پیدا کیا ہے.اور تیسرے ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ یہ جو اس کی خدمت ہے یہ دو قسم کی ہے.ایک وہ کہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہماری خدمت ہو رہی ہے.مثلاً یہ سورج چڑھتا ہے.اس کی روشنی زمین کو طاقت بخش رہی ہے.خواہ ہم پسند کریں یا نہ کریں خواہ ہم اپنے آپ کو اس کا اہل بنا ئیں یا نہ بنائیں.سورج کی روشنی پڑتی رہے گی اور دوسری قسم کی خدمت وہ ہے جو ہم کوشش سے ان چیزوں سے لیتے ہیں.اور جب کوشش سے ان چیزوں سے خدمت لینے کا سوال پیدا ہوا تو آسمانی ہدایت کا نازل ہونا ضروری ہو گیا.ورنہ انسان بہک جاتا اور شیطان کی گود میں چلا جاتا تو پھر آسمان سے ہدایت کے نزول کا سلسلہ شروع ہو گیا.اور ایک سلسلہ نبوت جاری ہو گیا.ہزاروں سالوں کی تربیت کے نتیجہ میں اس میں محمد ﷺ اور آپ کی شریعت کو قبول کرنے کے سامان پیدا کئے.پھر کامل اور مکمل شریعت آگئی اور شریعت کے ) لانے والے کا نام محمد ہی تو ہے ہمارا ذرہ ذرہ ہمارا جگر اور ہماری روح آپ پر قربان ہو.ہمارے اگلے اور پچھلے آپ (ﷺ) پر فدا ہوں.ہماری ہر چیز آپ پر قربان ہو.ہم نے آپ کے پیار اور آپ کے احسان کو دیکھا.ہم آپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نگاہ نہیں کر سکتے.یہ آپ کا وہ مقام ختم نبوت ہے جسے ہم نے پہچانا ہے اور جسے ہمارے نزدیک ہمارے مخالفین نے نہیں پہچانا.بایں ہمہ وہ ہمیں منکرین ختم نبوت کہیں بھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا.کیونکہ وہ جو خدائے قادر و توانا ہے اور خاتم الانبیاء کو پیدا کرنے والا ہے وہ کہتا صلى الله ہے کہ تم میرے محمد (ع) کو پہچانتے اور میری توحید پر قائم ہو.میں تم سے پیار کرتا ہوں.جب خدا تعالیٰ کے پیار کی یہ آواز ہمارے کانوں میں پڑتی ہے تو پھر اگر ساری دنیا اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر ہم پر کفر کے فتوے لگانا شروع کر دے.تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا.اس پیاری آواز کے بعد بعض لوگوں کے کفر کے فتووں کو بھلا حیثیت اور قدرو قیمت ہی کیا ہے.اس پیار کے مقابلہ میں دنیا کی ہر چیز بیچی ہے.پس یہ ہمارا عقیدہ ہے.ہم دل سے حضرت محمد ﷺ کو خاتم الانبیاء مانتے ہیں.آپ خاتم الانبیاء ہیں اور اس بلند مرتبہ اور شان کے نبی ہیں کہ آپ سے پہلے نبیوں کی نبوتیں بھی آپ کے فیض رسالت کی مرہون منت تھیں اور آپ کے دور میں آنے والوں کے روحانی درجات بھی آپ ہی کے فیوض کا نتیجہ ہیں.ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے اور ہم اس عقیدہ پر قائم ہیں کہ قرآن کریم ایک کامل اور مکمل کتاب ہے.ہم اس عقیدہ پر بھی قائم ہیں کہ جیسا کہ قرآن کریم نے اعلان کیا ہے اور کھول کر اور بار بارا انسان کے سامنے رکھا ہے.اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی برحق اور درست ہے.انسانی زندگی موت کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتی.خدا تعالیٰ کی یہ پیدائش عبث نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی خلق میں اس کی صفات کے بے شمار حسین جلوے باطل نہیں ہیں.وہ ضائع ہونے والے نہیں ہیں.وہ بے نتیجہ نہیں ہیں.پھر ان کا کیا نتیجہ ہے؟ ان کا نتیجہ اخروی زندگی ہے.اس زوی زندگی کا ہمیں پتہ نہیں.لیکن ہم اس زندگی پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں.جب جائیں گے دیکھ لیں گے.لیکن ہم اس حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں کہ اخروی زندگی کا وجود اس دنیوی زندگی کی پیدائش اور خلق یعنی اللہ تعالیٰ

Page 333

330 فرموده ۱۹۷۲ء دو مشعل راه جلد دوم نے جو کارخانہ حیات قائم کیا ہے اس کو برحق ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے.ورنہ ہر چیز باطل ٹھہرتی ہے.پس ہم آخرت پر ایمان لاتے ہیں ہم اسلام کو مانتے ہیں.ہم قرآن کریم پر ایمان لاتے ہیں ہم حضرت محمد مصطفی میت و کوحقیقی معنوں میں اور بچے طور پر خاتم الانبیاء مانتے ہیں.ہم خدا تعالیٰ کی توحید پر قائم ہیں.ہم نے اس کی توحید کا جھنڈا اپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ اور اپنی روح کی ساری قوتوں کے ساتھ پکڑا ہوا ہے.ہم ایک لحظہ کے لئے بھی خدا تعالٰی سے دوری کو پسند نہیں کرتے.کبھی بشری کمزوری لاحق ہو یا غفلت ہو جائے تو ہم تو بہ اور استغفار کی چیخوں کے ساتھ واپس اس کی طرف لوٹتے ہیں اور اس سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری لغزشوں کو معاف کر دے گا اور ہماری غفلتوں کو بھول جائے گا اور ہماری گناہوں کی پردہ پوشی کرے گا اور اپنی مغفرت کی چادر ان پر ڈال دے گا.پھر وہ ہمیں ویسا ہی بنا دے گا.جیسا کہ ہم اس کے فضلوں اور رحمتوں کے سایہ تلے اس کے پیارے مشرف تھے یا اگر نہیں تھے تو اس کے پیارے بننا چاہتے تھے.غرض یہ ہمارے بنیادی عقائد ہیں.میرا تو خیال تھا کہ شاید بیماری کی وجہ سے دس پندرہ منٹ ہی بول سکوں گا اور اس مضمون کا مختصر عنوان ہی بتا سکوں گا.اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی.میں بولتا چلا گیا آپ ہی سے اکثر بچے میری باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے.ہر ایک خدا کے فضل سے اپنی استطاعت کے مطابق سمجھا ہو گا.میں نے سوچا تھا کہ اس مضمون کا عنوان مختصر بیان کروں گا اور ان کا خلاصہ تحفتا آپ کو کل پچھلے پہر دے دوں گا.میں نے اس وقت چند بنیادی عقائد کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے.میں ان کو خلاصہ پھر دہرا دیتا ہوں.ہمارا اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے.اس اللہ پر جس کو قرآن کریم نے صفات حسنہ کا ملہ کے ساتھ پیش کیا.اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر بھی ہمارا ایمان ہے.اس نے جو کچھ پیدا کیا ہے.انسانی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے.ہمیں یہ یقین ہے کہ یہ خدمت عقلاً دو قسم کی ہے.ایک وہ جو ہماری خواہش کوشش اور محنت کی محتاج نہیں.نہ اس کی اسے کوئی ضرورت ہے.ہم چاہیں نہ چاہیں کچھ چیزیں یا اکثر چیزوں کے بہت سے حصے انسانی خدمت میں لگے ہوئے ہیں.دوسری خدمت ایسی ہے جس کے لئے انسانی کوشش کی ضرورت ہے.اور یہ کوشش دنیوی فوائد کے لئے بھی ہے.اور روحانی فوائد کے لئے بھی.لیکن انسانی قوی کا جو سلسلہ ہے اس میں ہر چیز بلا واسطہ یا بالواسطہ روحانی تربیت ہی کے لئے مامور ہے.بظاہر نظر آتا ہے کہ روٹی نے پیٹ پالا یا دنیوی پریشانیوں سے دولت نے نجات دلائی لیکن اندر سے یہ نظر آیا.كادالفقران يكون كفراً اگر یہ دولت نہ ہوتی تو بہت سے انسان کفر کی راہوں کو اختیار کرتے اور توحید کی راہوں کو چھوڑ دیتے.غرض دوسری قسم کی خدمت کے لئے انسانی کوشش کی ضرورت ہے.تاہم یہ بھی بالآ خر روحانی فوائد پر منتج ہوتی ہے.یوں تو اس کائنات کی ہر چیز انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے.تاہم ان سے خدمت لینے کی ایک راہ یا ان کے اندر خدمت کرنے کی جو طاقت ہے اس سے فائدہ اُٹھانے کا ایک طریق یہ ہے کہ انسان

Page 334

دد مشعل راه راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۲ء 331 خود کوشش کرے اور ہمت سے کام لے.وہ جتنی زیادہ کوشش کرے گا اور ہمت سے کام لے گا اتنی زیادہ ان سے خدمت لیتا رہے گا.جس رنگ کی وہ کوشش کرے گا اس رنگ کی ان سے خدمت لے گا.اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انسان اپنے اندر کوئی ایسی خوبی نہیں رکھتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلووں اور اس کی آسمانی ہدایت کے بغیر صحیح رنگ میں مخلوق سے دوسری قسم کی خدمت لے سکے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کا ایک نہایت حسین جلوہ انسان کو یہ دکھایا کہ انسان کو بھٹکنے اور بے راہ رو ہونے سے بچانے کے لئے سلسلہ انبیاء کا ایک تسلسل شروع کر دیا.اور اس میں ایک چیز یہ بھی رکھی کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے جس پر روحانی طور پر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی کامل شریعت کا بار ڈالا جانے والا تھا اور آپ کے حسن و احسان کو دیکھنے جانچنے اور فائدہ اٹھانے کے لئے جس روحانی طاقت کی ضرورت تھی اس کے لئے انسان کو تیار کیا جائے.گویا بعثت انبیاء کی ایک غرض یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک کسی وقت انسان بہک نہ جائے.اور کائنات کی مختلف اشیاء سے صحیح معنوں میں خدمت لے اور سلسلہ انبیاء کے تسلسل میں ایک شاہراہ جو کی تھی وہ یھی کہ انسان کو حضرت محمد رسول اللہ کی شریعت کے قبول کرنے کے قابل بنایا جائے تبھی انسان بے راہ روی سے محفوظ ہوسکتا ہے.یہ دونوں سلسلے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں.مقصد ایک ہی ہے.لیکن دو شکلوں میں آ جاتا ہے.آنحضرت ﷺ کا وجو د سب سے زیادہ منور ہے.آپ صاحب حسن و احسان ہیں.آپ کی لائی ہوئی شریعت سب سے زیادہ کامل اور مکمل ہدایت نامہ پر مشتمل ہے.یعنی آنحضرت مه خود منور اور صاحب حسن احسان اور آپ کی شریعت کامل اور مکمل ہے.اور یہی مقام ختم نبوت ہے.اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے علاوہ آج صحیح معنی میں شاید کوئی خاتم الانبیاء کی حقیقت کو سجھتا ہو.تاہم اس بات سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ ہوسکتا ہے کوئی صلى الله چھپا ہوا دماغ ہو جو اس حقیقت کے سمجھنے میں بڑا قریب ہو.ہم اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ قرآن کریم کی شریعت کامل اور مکمل شریعت ہے.اس کی کوئی آیت اس کا کوئی لفظ اس کا کوئی حرف حتی کہ اس کا کوئی شععہ منسوخ نہیں ہو سکتا اور نہ بدل سکتا ہے اور نہ آج تک بدلا ہے.یہ ایک کامل کتاب ہے اور خدا کی حفاظت میں ہے.پہلی سب کتب بدل گئیں.ایک دفعہ میں نے ایک پادری کو ایک پیغام بھجوایا.جس آدمی کو میں نے بھیجا تھا اسے میں نے کہا تم اپنی طرف سے بغیر کسی دلیل دیئے یہ کہنا کہ تم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ بائیل محرف و مبدل ہو چکی ہے.چنانچہ پادری پندرہ بیس منٹ کی بحث کے بعد کہنے لگا تم سچ کہتے ہو ہم انکار نہیں کر سکتے.لیکن ہر مسلمان انکار کر سکتا ہے.اور اس انکار کو علی وجہ البصیرت بیان کر سکتا ہے اور دلائل کے ساتھ ثابت کر سکتا ہے ہے کہ قرآن کریم اپنی اصلی اور ازلی شکل میں جیسا کہ پہلے تھا اب بھی موجود ہے.کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہے.دوسرے یہ ایک عجیب چھوٹی سی کتاب ہے.پہلے انبیاء کی کتب کے مقابلہ میں بھی چھوٹی ہے اور آج کل کے جو بڑے بڑے پھنے خان فلاسفر اور سیاسی راہنما اور مدبر سمجھے جاتے ہیں مارکس وغیرہ ان کی کتب کے مقابلہ

Page 335

332 فرموده ۱۹۷۲ء دو مشعل راه جلد دوم میں بھی بڑی چھوٹی ہے لیکن چودہ سو سال میں آگے روز بدلے ہوئے مسائل کو حل کرتی چلی آرہی ہے.اور قیامت تک حل کرتی چلی جائے گی.لیکن کارل مارکس جس کے متعلق آج دنیا میں کارل مارکس زندہ باد اور ایشیا سرخ کے بڑے نعرے لگ رہے ہیں اس کے نظریات اور خیالات پر مشتمل کتابیں قرآن کے مقابلہ میں بیچ ہیں.بلکہ کوئی نسبت ہی نہیں ہے.مارکس کے نظریات اور خود مارکس کی زندگی زمانہ کی نظروں سے دن بدن او جھل ہورہی ہے لیکن اسلام ابدی مذہب ہے اور اس کی رو سے ابدی حیات ایک ہی ذات کو حاصل ہے وہ محمد ﷺ کی ذات ستودہ صفات ہے اور اس تعلیم کو ابدی زندگی حاصل ہے جو آپ لے کر آئے تھے.صلى الله چین ایک بہت بڑا ملک ہے آبادی کے لحاظ سے بھی اور رقبہ کے لحاظ سے بھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر آج نہیں تو کل اثر ورسوخ کے لحاظ سے بھی بہت بڑا ملک بن جائے گا.چین کارل مارکس زندہ باد کے نعرے لگانے والا ہے.لیکن ( میں موازنہ کر رہا ہوں قرآن کریم کی تعلیم اور کارل مارکس کی تعلیم کا جس کے آج نعرے لگ رہے ہیں) چین نے یہ اعلان نہیں کیا کہ ہم مارکس اور لینن کی تھیوریز کے مطابق اپنے معاشرہ کی بنیاد ڈالیں گے.چین نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا.آپ اس نکتہ کو اچھی طرح سے یادرکھیں.اس کے برعکس انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ چین کے اندر اپنی اقتصادیات اور اپنے معاشرہ کی بنیاد مارکس اور لینن کی ان تھیوریز کے مطابق رکھیں گے جن کو چیر مین ماؤزے تنگ نے اپنے حالات کے مطابق ڈھال لیا ہے.گویا اصول بدل گیا.چیرمین ماؤ نے مارکس اور لین کی تھیوریز میں تبدیلی پیدا کر دی.اس خیال سے کہ ان کے ملک کے حالات میں تبدیلی ناگزیر تھی.بعض دوسرے اشترا کی ملکوں میں بھی کہہ دیا گیا کہ مارکس اور لینن کی بعض تھیوریز فرسودہ ہوگئی ہیں.غرض مارکس نے زیادہ لکھا اور کم زمانہ میں اس کی بہت سی تھیوریز فرسودہ ہو گئیں مگر قرآن کریم نے تھوڑے الفاظ میں ابدی صداقتوں کو نہایت قرینے سے سجا کر اور بعض حصوں کو مصلحتا چھپا کر اس طرح بیان کر دیا ہے ( قرآنی علوم کے سجانے کے ساتھ ایک پہلو چھپانا بھی ہے لیکن یہ ایک الگ مضمون ہے ) کہ وہ چودہ سو سال کے بدلے ہوئے حالات میں انسان کی زندگی کے بدلے ہوئے مسائل اور الجھے ہوئے مسائل کو حل کرتا چلا آ رہا ہے.یہ بگڑے ہوئے حالات کو زیادہ اچھے طریق سے سنوار تا آرہا ہے.اور آج بھی سنوار رہا ہے.میں نے اس مضمون پر بڑا غور کیا ہے مجھے اس سلسلہ میں بعض دفعہ بہت سارطب و یا بس بھی پڑھنا پڑتا ہے کیونکہ قرآن کریم سے موارنہ کرنے کے لئے ہر قسم کے خیالات اور نظریات کا جاننا ضروری ہے.چنانچہ میں نے ایک زمانہ میں مارکس، لیفن اینجلز اور سٹالن وغیرہ کے نظریات کو بڑی اچھی طرح سے پڑھا.ان کی اصل کتابوں گہرا مطالعہ کیا.کارل مارکس کی ایک کتاب Das Capital (دس لیپیٹل ) بڑی مشہور ہے.اسے میں نے دو تین دفعہ پڑھا ہے.میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کے نظریات قرآن کریم کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اب نئے حالات میں جب چین ایک عالمی طاقت بن کرا بھرا تو چین کے نظریات کو بھی پڑھنا پڑا.چنانچہ ان کے خیالات اور نظریات میں یہ بات نظر آئی کہ مارکس اور لینن کے بعض اصول ایسے ہیں جن کی چین نے ایسی

Page 336

دومشعل دوم فرموده ۱۹۷۲ء 333 انٹر پری ٹیشن (Interpretation) کی ہے جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ ان کے اصول پر قائم نہیں رہے.چین والے اس بات کو مانیں یا نہ مانیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اصول بدل گئے ہیں تا ہم چین والے کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے حالات کے مطابق اشترا کی نظریات کو انٹر پریٹ Interpret کیا ہے.چنانچہ ایک دفعہ میں نے ایک چینی دوست سے کہا تم نے مارکس اور لینن کی تھیوریز کی اپنے حالات کے مطابق تعبیر کی ہے (میں نے اس کی تفصیل نہیں بتائی کیونکہ عام حالات میں یہ پسندیدہ نہیں سمجھی جاتی ) اور خدا تعالیٰ کے مقرب بندے اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کر کے قرآن کریم کی ابدی صداقتوں کو اپنے ماحول کے مطابق Apply (اپلائی کرتے رہتے ہیں اور قیامت تک کرتے چلے جائیں گے.اس لئے تم قرآن کریم پر یہ اعتراض نہیں کر سکتے کہ چودہ سو سال قبل جو کتاب نازل ہوئی تھی وہ آج کے مسائل کو کیسے حل کرے گی.ڈیڑھ سو سال پہلے جو اصول وضع کئے گئے تھے.اگر آج وہ بدلے ہوئے حالات پر چسپاں نہیں ہوتے اور تم نے اپنے حالات کے مطابق ان کی تعبیر وتشریح کے اصول کو تسلیم کر لیا ہے تو پھر قرآن کریم پر تمہارا اعتراض ختم ہو گیا.گویا یہ ایک بنیادی اور بڑا اہم فرق ہے.چینیوں نے بعض اشترا کی اصولوں کی اپنی عقل سے انٹر پری ٹیشن کی.انہوں نے جب ان کو اپنے ماحول کے مطابق ڈھالا تو اپنی عقل کے مطابق ڈھالا.مگر قرآن کریم کی ابدی صداقتوں اور اصولوں کو جب خدا کے بندوں نے بدلے ہوئے حالات میں بدلے ہوئے مسائل کو حل کرنے کے لئے ڈھالا تو خدا تعالیٰ سے علم حاصل کر کے ڈھالا.خدا تعالیٰ علام الغیوب ہے.اس کی راہنمائی میں جو چیز سامنے آتی ہے وہ غلط نہیں ہوسکتی.اس واسطے تمہاری انٹر پری ٹیشن اتنی وزنی نہیں ہو سکتی جتنی خدا کے بندوں کی خدا داد علم وفراست کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی ہے.تاہم چینی دوستوں کو سمجھانے کے لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ درست تسلیم کر لیا جائے کہ خدا کے بندے آتے رہے اور بعد میں بھی آتے رہیں گے (ہم تو یقینا تسلیم کرتے ہیں کہ خدا کے بند بے آتے رہے ہیں کیونکہ ہم نے اپنی زندگی میں خدا کے بندوں کا خدا سے زندہ تعلق دیکھا.جنہوں نے خدا کے فضل سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا لیکن اگر بحث کے لئے تھوڑی دیر کے لئے ہم ان سے کہیں کہ تم یہ مان لو کہ خدا کے بندے اور مقرب پیدا ہوئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر قرآن کریم کی ابدی صداقتوں کو بدلے ہوئے حالات کے مطابق استنباط اور تشریح کی.ان کا ایسا کرنا انسانی فطرت اور عقل کو کارل مارکس کے ان نظریات کی نسبت زیادہ قابل قبول ہے جس نے خدا کے بتائے بغیر اپنی تھیوریز بنائیں اور خدا کے بتائے بغیران تھیوریز کو بروئے کارلانے کی کوشش کی.یہ ایک موٹی بات ہے.یا تو ہم انسان کے عقلی نظریات پر ایمان نہ لائیں یا خدا کے بندوں کی پیدائش اور ان کا دنیا میں آتے رہنے کا انکار کر دیں.مگر یہ ہم کر ہی نہیں سکتے.کیونکہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کودیکھا.علاوہ ازیں جماعت کے ہزار ہا دوستوں کو اللہ تعالیٰ سے آئندہ کے بارہ میں چھوٹی بڑی خبروں کو حاصل کرتے دیکھا.ان کی دعاؤں کی قبولیت کو دیکھا.اس لئے ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ زندہ خدا سے

Page 337

334 فرموده ۱۹۷۲ء دو مشعل راه جلد دوم زندہ تعلق پیدا کیا جا سکتا ہے.کوئی اس حقیقت کو مانے یا نہ مانے ایک احمدی جس نے خدا تعالیٰ کے زندہ نشانوں کو اپنی اور اپنے بزرگوں کی زندگیوں میں دیکھا ہے اس کا دماغ یہ کہے گا کہ خدا داد عقل و فراست کے نتیجہ میں نئے اور بدلے ہوئے حالات میں قرآن کریم کی ابدی صداقتوں کی تشریح و تفسیر مارکس اور لینن کی تھیوریز کی تعبیر وتشریح سے بدرجہا بہتر ہے کیونکہ وہاں خدا کی راہنمائی شامل ہے مگر یہاں صرف عقل پر تکیہ ہے.انسانی عقل کے نتیجہ میں جو نظریات جنم لیتے ہیں یا ان کی تشریح کی جاتی ہے ان کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تفسیر و تشریح ہی اولی وافضل ہوتی ہے.اس واسطے اے میرے بچو! سنو اور یاد رکھو کہ ہمارے ہاتھ میں قرآن کریم ہے.تم اس کو پڑھو اور اور اس کی تعلیم پر عمل پیرار ہو.کارل مارکس اور بعد میں آنے والے بڑے بڑے صاحب عقل لوگوں کے اصول اور نظریات قرآن کریم کے مقابلہ میں بیچے ہیں.تاہم اس بات کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے عقلی لحاظ سے کوشش ضرور کی ہے.گو وہ الہی نور سے منور تو تھے لیکن اتنے منور نہیں تھے جتنے خدا کے بندے منور ہوتے ہیں.تا ہم جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے.جو شخص دنیا کی کوشش کرتا ہے اور اس کے دماغ میں بھی اللہ ہی نور پیدا کرتا ہے.لیکن ایسا شخص اس شخص سے مقابلہ نہیں کر سکتا جور وحانی طور پر نور حاصل کرتا اور پھر مادی طور پر بھی نور حاصل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کے نور سے منور اور خدا تعالیٰ کے سکھائے سے قرآن کریم کی تفسیر کرنے والے.کارل مارکس سے بہر حال اچھے ہیں.کیونکہ کارل مارکس کے اصول خود ساختہ ہیں.الہام الہی کا ان میں کوئی دخل نہیں ہے اور نہ ہوسکتا تھا.تاہم یہ امر موجب خوشی بھی ہے کہ انسان کے دل میں انسان کا پیار پیدا ہو اور ہم ان کے لیئے روتے بھی ہیں کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے رب سے دور ہو گیا ہے اور خود کو کچھ سمجھنے لگ گیا.بایں ہمہ جو شخص دنیا کے لئے کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیا کے سامان پیدا کر دیتا ہے.یہ او ربات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندہ کی تائید میں کبھی قہ کا جلوہ دکھاتا ہے.اور تمثیلی زبان میں خدا کی آنکھوں میں غضب بھڑکتا نظر آتا ہے.تاہم عام اصول یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ جو دشمن دنیا کے لئے کوشش کرے گا اسے دنیا مل جائے گی لیکن آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا.جو آخرت کے لئے کوشش کرے گا.اس کو آخرت کی جزا بھی یقینی طور پر مل جائے گی اور دنیا میں بھی بہت بڑا حصہ ہوگا.لیکن اللہ کے بندہ کی جزا اور جو دنیا کے لئے کوشش کر رہا ہے اس کی کامیابی اور کامیاب نتیجہ میں بہت بڑا فرق ہے.یعنی آخرت کے لئے کوشش کرنے والے کو دین و دنیا کی نعمتیں ملتی ہیں.لیکن جس آدمی کی کوششیں صرف اس دنیوی زندگی تک محدود ہوتی ہیں اسے اخروی زندگی نہیں ملتی یعنی وہاں کی نعمتیں وہاں کا سکون وہاں کی بہشت وہاں کی ٹھنڈ کیں، وہاں کی راحتیں، وہاں کا آرام اور وہاں کی رفعتیں اسے نہیں ملتیں.اس دنیا میں اکثر تھوڑی بہت نعمت مل جاتی ہے.بعض دفعہ کیا اکثر کچھ بھی نہیں ملتا.بہت ساری کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں کسی کی ساری کوششیں تو کامیاب نہیں ہوتیں.لیکن عام اصول یہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے اور اس کی کوئی اور حکمت کارفرما نہ ہو.تو دنیوی کوشش کامیاب ہو جاتی ہے.تاہم یہ فعال زندگی تو کسی شخص کی ۲۰ سال کسی کی ۴۰ سال اور

Page 338

فرمود ۱۹۷۲۵ء 335 د دمشعل راه جلد دوم کسی کی ۵۰ سال ہے.ابتدائی زندگی تو تعلیم و تربیت کی زندگی ہے.ابتدائی زندگی نتیجہ پیدا نہیں کر رہی ہوتی بلکہ کسی اور کے کام کا نتیجہ کھا رہی ہوتی ہے.مثلاً آپ کو ماں باپ خرچ دے رہے ہیں یا آپ کو وظیفہ مل رہا ہے یا اگر آپ امیر گھرانہ میں پیدا ہوئے ہیں تو آپ کو دیگر آرام و آسائش حاصل ہے.یہ آپ کی اپنی کوشش کا نتیجہ یا آپ کے عمل کا ثواب نہیں کہلائے گا.گویا اس دنیا کی محدود زندگی کے مقابلہ میں ابدی زندگی ہے جو موت کے بعد ملتی ہے جو مسلمان ہے اسے ابدی زندگی ملے گی لیکن جن کی کوششیں اس محدود زندگی میں فائدہ اٹھانے کے لئے تھیں ان کو ابدی زندگی نہیں ملے گی.گو ایسے لوگ عام اصول کے مطابق ایک حد تک دنیا میں کامیاب ہو گئے لیکن جو حقیقی راحت اور سکون ہے وہ انہیں عام طور پر نہیں ملا.پیسہ مل گیا تو کیا ہوا.میں ذاتی طور پر بعض ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اگر چاہیں تو پیسے خرچ کر کے ہوائی جہاز کے ذریعہ انگلستان سے بھی کھانا منگوا کر کھا سکتے ہیں.گو پیسہ تو ان کو بے شمار مل گیا.لیکن ان کا معدہ خراب ہو گیا.جب نظام ہضم خراب ہوا تو ڈاکٹر نے کہہ دیا ابلی ہوئی چیزیں کھاؤ.یہ کھاؤ اور وہ کھاؤ.آخر کھانے کی بھی تو ایک لذت اور آرام ہے.اس سے بھی تو انسان سرور حاصل کرتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پیسہ دے دیا اور اس لذت سے محروم کر دیا.دو نتیجے مترتب ہوئے پیسے ملنے کی شکل میں کامیابی مگر کھانے کی لذت سے محرومی کی شکل میں نا کا می لیکن جو حقیقی مومن ہے.اس کا آخری نتیجہ اس دنیا میں بھی کامیابی ہے.البتہ یہ صحیح ہے کہ اس دنیا میں اسے قربانیوں اور آزمائشوں کے دور سے ضرور گذرنا پڑتا ہے.مسلمانوں نے مکی زندگی میں بڑی تکالیف اٹھا ئیں.ان میں سے بعض شہید کر دئیے گئے.پھر مدنی زندگی میں بھی بہت سارے شہید ہوئے.کچھ زخمی ہوئے.غرض انہیں کھانے پینے پہنے اور رہنے سہنے کی ہزار ہا تکلیفیں اٹھانی پڑیں لیکن مسلمانوں کی اکثریت ایسی تھی جن کے قدموں میں خدا نے کسری اور قیصر جیسی عظیم سلطنتوں کے خزانے ڈال دیئے.کسری اور قیصر دنیا کی لالچ میں دنیا کے خزانے جمع کر رہے تھے.تا کہ وہ اور ان کی نسلیں ان سے فائدہ اٹھائیں.لیکن خدا نے دھوتی پوش بظاہر چیتھڑوں میں ملبوس مسلمانوں کو ان کا مالک بنا دیا اور ثابت کر دیا کہ مزدور تھا کسری اور مزدور تھا قیصر جنہوں نے سالہا سال تک یہ خزانے جمع کئے تھے.اس خیال سے کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائیں گے لیکن خدا نے مسلمانوں کو ان کے خزانوں کا مالک بنا دیا اور اس طرح گویا مسلمانوں کو ان کی قربانیوں کی اس دنیا میں بھی جزا مل گئی اور اخروی زندگی میں بھی جزا ملے گی.600 اسی طرح ہم آخرت پر بھی ایمان لاتے ہیں اور پکا ایمان رکھتے ہیں.اس کے بغیر تو ہم سمجھتے ہیں کہ انسان کا ہر عمل باطل ہے.چنانچہ آخرت پر ہم ایمان لاتے ہیں.انبیاء کے سلسلہ پر ہم ایمان لاتے ہیں.خاتم الانبیاء پر حقیقی معنوں میں ہم ایمان لاتے ہیں.قرآن کریم پر ہم ایمان لاتے ہیں.اس کے ساتھ ہم یہ بھی ایمان لاتے ہیں کہ اب وہ زمانہ پھر آ گیا ہے یعنی اسلام کے غلبہ کا زمانہ اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے پیار کا بنی نوع انسان کے دل میں پیدا ہونے کا زمانہ اور توحید کے جھنڈے کو دنیا کے کونے کونے اور گھر گھر پر لہرانے کا زمانہ آ گیا ہے.

Page 339

336 فرموده ۱۹۷۲ء توحید کا قیام د مشعل راه جلد دوم دد آنحضرت کی عظمت کے اظہار کا کام اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ سے لینا چاہتا ہے.اب احمدیت کے ذریعہ یہ مقدر ہے کہ اسلام دنیا میں غالب ہو.توحید حقیقی قائم ہو آ نحضرت ﷺ کا پیار بنی نوع انسان کے دلوں میں ظاہر ہو.انسانی زندگی اسلام کے نور سے منور اور اسلام کے حیات بخش پانی سے سیراب ہو.پس یہ ہیں ہمارے بنیادی عقائد.اب عقائد کے ہوتے ہوئے اگر کوئی ہمارے خلاف فتوی دیتا ہے تو اس کا یہ فعل واقعات کو جھٹلانے کے مترادف ہے.تاہم جہاں تک ان عقائد کے مطابق اعمال کا تعلق ہے.ہم نے ان کی جزا رب العلمین سے لینی ہے.ہمارے دل میں ایک لحظہ کے لئے بھی یہ خیال پیدا نہیں ہونا چاہیئے کہ دنیا ہمیں کیا کہتی ہے.ہم نہ دنیا کے بندے اور نہ دنیا کی تعریف و تحسین کے خواہش مند ہیں.ساری دنیامل تر بھی اگر ایک کمزور سے کمزور احمدی کی تعریف میں لگ جائے تو اگر اس کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہے تو وہ اس تعریف کو پائے حقارت سے ٹھکرا دے گا اور کہے گا میں تمہاری تعریفوں کو نہایت گندی اور کمتر چیز سمجھتا ہوں.کیونکہ جس شخص نے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں خدا تعالیٰ کے پیار کو دیکھا ہے اس کے لئے دنیا کی ہر چیز ایک مردہ کیڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی.ہمارے بعض دوست کہتے ہیں کہ دنیا ہمیں یہ کہتی ہے اور دنیا ہمارے خلاف یہ سازشیں کرتی ہے.میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ کیا تم دنیا کے بندے ہو؟ اگر تم دنیا کے بندے تھے تو پھر احمدیت کو تم نے کیوں قبول کیا ہے؟.جب تم نے احمدیت کو قبول کر کے احمدیت کی روشنی کو حاصل کیا اور خدا کے پیار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے وجود میں اس کا مشاہدہ کیا تو پھر دنیا اور اس کے مخالفانہ منصوبوں کی طرف کیوں دیکھتے ہو.اپنے خدائے قادر و تو انا پر بھروسہ رکھو.وہ تمہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا.اب مثلاً میری خلافت پر چھ سال گزر چکے ہیں.اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بہت زیادہ ترقی عطا فرمائی.( میں یہ نہیں کہتا کہ پہلوں نے ترقی نہیں کی.جب میں خلافت ثالثہ کی بات کرتا ہوں تو اس سے میری مراد یہ ہوتی ہے کہ آپ یہ مسئلہ آسانی سے سمجھ جائیں.پہلی خلافتوں میں بھی اسی طرح ترقی ہوئی ہے ) ہم کہیں سے کہیں پہنچ گئے.مثلاً مالی قربانیوں کے لحاظ سے ہم کہتے ہیں کہ جماعت مالی قربانیوں میں آگے چلی گئی اس کا یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو مال کے لحاظ سے پہلے سے زیادہ مال عطا فرمایا.پہلے سے زیادہ نعمتیں نازل ہوئیں.تم پہلے سے زیادہ قربانی دینے کے قابل ہوئے.تبھی تمہاری قربانیاں آگے نکلیں.اگر قابل نہ ہوتے تو آگے کس طرح نکلتے.غرض جماعت پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ایک طرف ایک نعمت عطا فرمائی اور دوسری طرف دوسری نعمت کے سامان پیدا کر دیئے.ہم نے غیر ممالک میں مساجد تعمیر کیں.اسی طرح مدر سے اور ہسپتال کھولے تا کہ بنی نوع انسان کی خدمت کر سکیں.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں اصل اسلام ہے.چنانچہ ہم حقوق اللہ کی

Page 340

فرموده ۱۹۷۲ء 337 دو مشعل راه جلد دوم ادائیگی کے ساتھ ساتھ ساری دنیا میں حقوق العباد بھی ادا کر رہے ہیں.مسجدیں بن رہی ہیں.سکول کھل رہے ہیں.ہسپتال بن رہے ہیں.قرآن کریم پڑھایا جارہا ہے اسلام کی تعلیم دی جارہی ہے.بنی نوع انسان کو حضرت مصطفی اللہ کے حسن و احسان کے جلووں کا گرویدہ بنایا جار ہے.آسمان سے فرشتے نازل ہورہے ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں مگر لوگ ہماری طرف بڑی محبت اور پیار سے متوجہ ہوتے ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے.یہاں بظاہر درمیانہ درجہ کے بیا نو جوان شاہدین کو آپ دیکھتے ہیں اور آنکھیں نیچی کر کے ان کے پاس سے گذر جاتے ہیں.مگر جب ہمارا وہی نو جوان مبلغ افریقہ میں یاکسی دوسرے ملک میں اعلائے کلمہ اسلام کے لئے جاتا ہے تو سر براہ مملکت کھڑے ہو کر اس سے ملاقات کرتا ہے.اس کے دل میں مبلغ کی عزت ہوتی ہے تبھی وہ کھڑے ہو کر اس کا استقبال کرتا ہے.اسی طرح نصرت جہاں سکیم کے ماتحت ڈاکٹر گئے تو انہوں نے مجھے خط لکھا کہ یہاں جماعت احمدیہ کی اتنی عزت ہے کہ ہم تو حیران ہیں.کئی ایک نے تو یہ بھی لکھا کہ پاکستان میں رہنے والے اس عزت افزائی کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ کس طرح خدا کے فرشتے جماعت احمدیہ کا پیار دلوں میں پیدا کرنے کے لئے دنیا میں کام کر ہے ہیں.اور جماعت احمدیہ کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی عطا ہورہی ہے.پس اگر آپ کوشش کریں تو آپ اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں.اس کی بہتر صورت یہی ہے کہ آپ ان واقعات کو پڑھا کریں اور سوچا کریں.دنیا کی مجموعی آبادی کے مقابلہ میں آپ کی حیثیت اور طاقت ہی کیا ہے.آپ تعداد کے لحاظ سے مٹھی بھر ہیں.پیسہ آپ کے پاس نہیں ہے.آپ دنیا کے دھتکارے ہوئے لتاڑے ہوئے ہیں.دنیا کی اکثریت ایسی ہے جس کی آنکھوں میں آپ کو نفرت و حقارت اور غیض و غضب نظر آتا ہے.آخر وہ کیا چیز ہے جو آپ کا سہارا بن جاتی ہے.وہ ہے اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں آپ کا پیار.جب اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں آپ کے لئے پیار ہے تو کسی اور کے پیار کی آپ کو کیا پر واہ ہوسکتی ہے.پس یہ ہیں ہمارے عقائد تو حید کے بارہ میں.انبیاء کے بارہ میں.آنحضرت مال اللہ کے بارہ میں.قرآن کریم کے بارہ میں اور اخروی زندگی کے بارہ میں.میں نے خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ خدا نے کائنات کی ہر چیز انسان کے لئے مسخر کی ہے.مگر اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تسخیر کائنات میں خدا تعالیٰ کی کیا مشیت کارفرما ہے.اور انسان کو اس سے کس طرح فائدہ اٹھانا چاہیئے.ہمارے یہ عقائد ہیں.ہم ان پر قائم ہیں اور خدائی راہ میں حقیر قربانیاں پیش کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو قبول فرمائے گا اور ان کی بہترین جزاء عطا فرمائے گا.وہ اپنے فضل سے اس دنیا میں بھی جزا عطا فرماتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں جو پیار نظر آرہا ہے.وہ اسی حقیقت کا غماز ہے.خدا کے اس پیار کے مقابلہ میں باقی سب چیزیں بیچ ہیں.

Page 341

338 فرموده ۱۹۷۲ء دومشعل راه جلد دوم سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مورخہ ۱۸ حسان ۱۳۵۱ بهش بمطابق ۸ جون ۱۹۷۲ ، بعد ء نماز عصر ایوان محمود میں خدام الاحمدیہ کی سالانہ تربیتی کلاس سے جو اختتامی خطاب فرمایا تھا اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.یہ خطاب غیر مطبوعہ ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: - آئندہ سالوں سے انشاء اللہ کچھ نئی باتیں اس تربیتی کلاس کے کورس میں رائج کی جائیں گی.اس وقت تک جس طرح اسکول میں کلاسز لی جاتی ہیں اسی طرح آپ کو لیکچر دیئے گئے اور کتابوں کا کورس پڑھایا گیا اور اس کا امتحان لیا گیا لیکن جس طرح سکولوں اور کالجوں میں بعض ایسے مضامین بھی ہوتے ہیں جن کا ایک خاص معنی میں عملی زندگی سے تعلق ہوتا ہے اور جنہیں پریکٹیکل مضمون بھی کہا جاتا ہے.اسی طرح آئندہ سے اس کلاس کے بھی ابتدا پریکٹیکل ہوا کریں گے.ابتداء میں تھوڑے پیمانہ پر پھر تجربے کے بعد دیکھیں گے کہ کم کرنا ہے یا زائد سر دست اس کلاس کے لئے تین پریکٹیکل ہوا کریں گے.اور اس کے لئے صدر صاحب پانچ آدمیوں کی ایک کمیٹی بنالیں اور مجھ سے مشورہ لے لیں.جو میرے ذہن میں ہے وہ آپ کو ابھی نہیں بتاؤں گا.پھر ان کو بتاؤں گا پھر وہ غور و فکر کریں اور مشوروں کی ضرورت ہو تو مشورہ کرنے کے بعد پورا Work Out کریں گے اور اگلے سال سے پریکٹیکل حصے شروع کئے جائیں گے اس کلاس کے لئے ایک تو یہ نئی ہدایت ہے.ایک نئی چیز اس کلاس کے لئے اور وہ بھی پہلی دفعہ دی جارہی ہے.کل میں نے جو تقریر کی تھی اس کا خلاصہ شعبہ زودنویسی نے تیار کیا اور ان کی طرف سے شائع ہوا ہے.اور میری طرف سے آپ کو ابھی مل رہا ہے.یہ خلاصہ ہے ان بنیادی نکات کا جو میں نے کل تقریر میں بیان کئے تھے.اگر کسی غیر احمدی سے بات ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ میں سے سمجھدار بچے اس سے فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں.مثلاً لوگ ہم پر یہ جھوٹا الزام لگاتے ہیں کہ ہم ختم نبوت کے منکر ہیں.ہمارا تو یہ دعوی ہے کہ ہم ہی ختم نبوت کے قائل اور خاتم النبین کو پوری شان سے تسلیم کرنے والے ہیں.اور آپ کی تمام صفات اور آپ کے سارے حسن و احسان کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے اور آپ کی تمام صفات اور آپ کے سارے حسن واحسان کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہیں.بہر حال سات آٹھ صفحے کا یہ خلاصہ ہے میری کل کی تقریر کا جس کے متعلق ارادہ تو بہت مختصر کرنے کا تھا لیکن بہر حال لمبی ہوگئی.اس کا خلاصہ آپ کے سامنے ہے اس کو آپ دیکھیں گے.تو کچھ نہ کچھ باتیں آپ کے ذہن میں آجائیں گی.آج کل ویسے ہی دنیا میں تھے دینے کا رواج ہے.سیاح چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں بھی جائیں تو کوئی نہ کوئی چیز وہاں سے خرید لیتے ہیں چنانچہ یہاں سے آپ اور بہت ساری چیزیں جو تحفہ لے جارہے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے.

Page 342

کل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۲ء 339 دومشعل اللہ تعالیٰ نے انسان کو کچھ ایسا بنایا ہے کہ کچھ وقت اس کو کھانے کے لئے ملنا چاہئے اور کچھ وقت اس کو ہضم کرنے کے لئے ملنا چاہئے.کھانے کی نسبت ہضم کرنے کا انتظام زیادہ اہم اور ضروری ہے.کیونکہ جو لوگ موٹے ہو جاتے ہیں اور چربی چڑھ جاتی ہے ان میں حرکت قلب بند ہو جانے کے سبب زیادہ موتیں واقع ہو جاتی ہیں.گو اس کی اور بھی بہت ساری وجوہات ہیں.لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ عمدہ اور اور مرغن کھانے کھاتے ہیں لیکن ہضم نہیں کرتے.حالانکہ کھانے اور ہضم کا میزان قائم رہنا چاہیئے.ہمارے زمیندار دوست خوب محنت کرتے ہیں وہ بعض دفعہ ایک سیر آٹا کھا جاتے ہیں اور آسانی سے ہضم کر لیتے ہیں لیکن جو لوگ شہروں میں رہتے ہیں ان میں سے بعض چار چار پتلی پتلی چپاتیاں کھاتے ہیں.جن کا وزن تین چار چھٹانک سے زیادہ نہیں ہوتا.وہ انہیں بھی ہضم نہیں کر سکتے اور موٹے ہو جاتے ہیں.کیونکہ ان کے کھانے اور ہضم کا توازن قائم نہیں رہتا.یہ توازن قائم رکھنا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر صحت قائم نہیں رہتی.غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو ذہنی ، اخلاقی اور روحانی صلاحیتیں دی ہیں ان کا بھی یہی حال ہے.کچھ وقت ان کو چاہئے سیکھنے کے لئے کچھ وقت ان کو چاہئے اپنانے کے لئے.مثلاً طلبہ کو دلچسپی ہوگی اس بات میں کہ نفسیات کے ماہرین نے یہ تجربہ کیا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک دفعہ اپنے کورس کے دو صفحے پڑھے اور اس کے بعد کتاب بند کر دے اور سات دن کے بعد پھر پڑھے تو بظاہر وہ سمجھے گا کہ مجھے بہت کم یاد ہے.اور لیکن بس صفحہ کھلتا ہے تو اس کے حافظے کے صفحے پر کچھ حروف تو بڑے جلی اور کچھ بڑے پھیکے آتے ہیں.پھر جب دوبارہ پڑھے گا تو جو حروف جلی نہیں پھیکے آئے ہوتے ہیں وہ نمایاں ہو جائیں گے اور زیادہ جلی ہو جائیں گے.دراصل انسان کا ذہن بھی جانوروں کی طرح جگالی کرتا ہے یا انسانی جسم کی طرح ذہنی نظام ہضم بھی ہضم میں لگا رہتا ہے.یہی حال اخلاقی اور روحانی قوتوں بھی کا ہے یہ نہیں کہ اگر آپ کسی پندرہ بیس سال کے خادم کو صبح سے لے کر اگلی صبح تک اور پھر اگلی صبح تک.گویا چوبیس گھنٹے تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھانے یا سنانے لگ جائیں تو دو تین مہینے کے بعد اسے کوئی پتہ نہیں ہو گا کہ اس کے اندر کیا ڈال دیا گیا ہے.کیونکہ اس کے اندر جو ڈالا گیا ہے اس کے حافظے میں اور اس کے حواس میں محفوظ نہیں رہا.حافظے کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو اور بہت سی حسیں دی ہیں.لیکن اس کو ہضم کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا تو ہضم کرنے کا موقعہ جس طرح جسم کو ملنا چاہئے اسی طرح روح کو ملنا چاہئے.اسی طرح ذہن کو بھی ملنا چاہئے.اسی طرح جو اخلاق سے تعلق رکھنے والا نفس انسانی ہے اس کو ملنا چاہئے.اس کے لئے ہم کبھی پڑھاتے ہیں اور کبھی چھوڑ دیتے ہیں.علم میں اضافہ کرنے کا طریق جہاں تک عملی زندگی کا تعلق ہے اس میں ہضم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے.قادیان میں نو جوانوں کے لئے ہضم کے زیادہ مواقع تھے.مثلاً دلیل سیکھ لی وفات مسیح کی.اس قسم کی کوئی ایک دلیل سیکھ لیتے تھے اور پھر اس پر تبادلۂ خیال ہوتا رہتا تھا.وہ دلیل ان کو بار بار اپنے ذہن میں حاضر کرنی پڑتی تھی.اس سے دلیل کی تمام فروغ

Page 343

340 فرموده ۱۹۷۲ء دو مشعل راه جلد دوم ذہن میں آجاتی تھیں.مجھے یاد ہے جب میں اسکول میں پڑھا کرتا تھا مسجد مبارک کے نیچے ایک بلیک بورڈ ہوتا تھا.جس پر ہمارے چھوٹے ماموں جان حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی نہ کوئی حدیث یا ارشاد لکھ دیا کرتے تھے.لوگ اس کو پڑھتے.آپس میں باتیں کرتے ایک دوسرے سے اس کا مضمون دریافت کرتے اور اس طرح گویا آپس میں تبادلہ خیال سے علم میں اضافہ ہوتا تھا.پھر قادیان میں دوست باہر جاتے تھے.گاؤں والوں سے ملتے تھے اور یہ ملاپ قائم رہتا تھا.اب مجھے یہ شبہ ہے کہ ربوہ کا ملاپ اپنے ماحول سے اس سے کم ہے جتنا قادیان کا ملاپ اپنے ماحول کے ساتھ تھا.واللہ اعلم بالصواب عزیزان من! صرف دعوئی یا تعلیم کافی نہیں ہے.تمہاری زندگیوں میں تمہارے اخلاق میں تمہاری عادات میں اس کا رنگ نظر آنا چاہئے.قادیان میں چونکہ اس کا موقعہ ملتا تھا دوستوں پر چاروں طرف سے دباؤ پڑتا تھا.وہ صرف علم میں ہی ترقی نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے عمل میں بھی پختہ ہو جاتے تھے اور اس طرح قول و فعل میں توازن و یک رنگی پیدا ہو جاتی تھی.اسی واسطے اب میں نے یہاں باہر کی جماعتوں میں ایک تحریک شروع کی ہے اگر آپ ہمت کریں تو میرے لئے خوشی اور آپ کے لئے بھلائی کا موجب ہوگی وہ یہ ہے کہ ہمارا ہر عزیز بچہ جس نے اس کلاس میں شمولیت اختیار کی ہے وہ اگلے دو تین مہینے کے اندر کوشش کر کے دس غیر احمدیوں کو اپنا دوست بنائے.آپ ان کے ساتھ متنازعہ فیہ مسائل پر جھگڑمیں نہیں.دوستانہ ماحول میں ان کے ساتھ باتیں کریں ان کو پیار سے سمجھا ئیں کبھی ان کو چائے پر بلا لیں.نیکی کی باتیں کریں.قرآن کریم کی تعلیم سے انہیں روشناس کرائیں.ان کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کیا دلائل ہیں.احمدیت کے کیا دلائل ہیں اور احمدیت کو کیوں قبول کرنا چاہیے.شروع شروع میں ان مسائل کو لینے کی ضرورت نہیں ہے.آپ ان کو عملاً یہ بتائیں کہ ایک احمدی کس قسم کا وجود ہے جو پیار کرتا ہے خدا تعالیٰ سے پیار کرتا ہے خدا کے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرتا ہے خدا کی مخلوق سے پیار کرتا ہے خدا کی تعلیم سے جو قرآن کریم کی شکل میں کامل طور پر ہمیں ملی ہے اور خیر محض ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ کیا ہے؟ قرآن کریم کی شکل میں مکمل ضابطہ حیات ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو حکم نازل فرمایا ہے آپ نے وہ کر دکھایا یہی آپ کا اسوہ حسنہ ہے اسی واسطے جب آپ کے اخلاق کے متعلق حضرت عائشہ سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کے اخلاق کیسے تھے.انہوں نے کہا قرآن دیکھ لو جو قرآن میں خلق بیان ہوئے ہیں وہ آپ کی زندگی میں ہمیں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں.پس قرآن کریم نے جو اخلاق بتائے ہیں ان کا خلاصہ خیر کے ایک لفظ میں بیان کر دیا گیا ہے.چنانچہ جب مسلمانوں سے سوال کیا گیا ماذا انزل ربكم قالو اخیرا.بھلائی ہی بھلائی ہے.قرآن کریم کی تعلیم ہر قسم کی مخلوق کے لئے خصوصاً انسان کے لئے بھلائی ہی بھلائی پر مشتمل ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی بنی نوع انسان کی خدمت میں گزری ہے.آپ نے ہر کس و ناکس کے لئے بھلائی ہی بھلائی چاہی ہے.اپنوں کیلئے بھی.غیروں کے لئے بھی آپ کا وجود مجسم ہمدردی اور شفقت تھا.مکہ والوں نے آپ کی مخالفت میں

Page 344

دومشعل ان جلد دوم صلى الله فرمود ۱۹۷۲۵ء 341 اپنا پورا زور گایا حتی کہ آپ ﷺ کو اور آپ کے دو تین سوصحابہ کواڑھائی سال تک شعب ابی طالب میں قید رکھا اور کھانے کے سارے راستے بند کر دیئے گواڑھائی سال کی اس قید میں اللہ تعالیٰ نے بھوکے مرنے سے تو ان کو بچالیا.لیکن ان کے جسم کمزور ہو گئے.ان کی طاقتوں میں ضعف پیدا ہو گیا.چنانچہ اتنی لمبی بھوک کی اور دوسری اذیتیں برداشت کرنے کے باوجود جب خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کے اخلاق کو دنیا پر ظاہر کرنے کا ارادہ فرمایا اور خدائی منشاء کے مطابق سکے والوں کو قحط کا سامنا کرنا پڑا.خوراک کی کمی ہوگئی تو وہ جنہوں نے اڑھائی سال تک مسلمانوں کو شعب ابی طالب میں بند کر کے بھوکا مارنے کی کوشش کی تھی ان کی بھوک کو محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن بھی برداشت نہیں کیا بلکہ جوں ہی پتہ لگا ان کی بھوک دور کرنے کے سامان پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دی.گومدینے سے مکے تک سامان کے پہنچنے میں اور اس سے پہلے سامانوں کو اکٹھا کرنے اور اس کا اانتظام کرنے میں وقت تو لگا لیکن ایک دن ضائع کئے بغیر ان کی بھوک کو دور کرنے کے سامان کرنا شروع کر دئیے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اڑھائی سال تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کو بھو کے مارنے کی کوشش کی تھی.یہ وہ خیر ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں آیا ہے: - ماذا انزل ربكم قالو اخیرا.بھلائی ہی بھلائی ہے.قرآن کریم کی تعلیم کو دیکھ لو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھ لو ہر ایک لئے بھلائی ہی بھلائی نظر آتی ہے.یعنی خیر محض اس خیر محض سے مختلف پہلوؤں میں ہزاروں شعائیں نکلیں.گویا آپ کیا وجود منبع ہے خیر محض کا.آپ کے دل میں ہر کس و ناکس کی فکر تھی.کسی کی روحانیت کی فکر کسی کے اخلاق کی فکر کسی کے نفاق کے درست کرنے کی فکر کسی کے ایمان کی کمزوری دور کرنے کی فکر کسی کے بھوکا مرنے سے بچانے کی فکر کسی کی عزتیں خطرے میں تھیں ان کی عزتوں کی حفاظت کی فکر.بعض تو میں تھیں جو اپنے لئے جہنم کے سامان پیدا کر رہی تھیں ان کی فکر کہ وہ خدا کے عذاب سے بچ جائیں.چنانچہ کسری اور قیصر نے حملے کئے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فکر تو پیدا نہیں ہوئی تھی کہ میں نہ مارا جاؤں گو ان کے ساتھ لڑائیاں تو خلافت راشدہ کے زمانہ میں ہوئیں لیکن اس فتنہ کے آثار آپ کے زمانہ ہی میں افق پر نظر آنے لگ گئے تھے.کہ ان قوموں کے ساتھ واسطہ پڑے گا.سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع ہو گئی تھی.اسی طرح آپ کے خلفاء کو یہ فکر نہیں تھی کہ ابو بکر مارا جائے گا یا عمر مارا جائے گا یا عثمان مارا جائے گا یا علی مارا جائے گا اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر ہوں اللہ تعالیٰ کی رضا انہیں حاصل ہوں).انہیں فکر تھی تو اس بات کی یہ تو میں جہنم کے دروازے اپنے لئے کھول رہی ہیں کہیں یہ ماری نہ جائیں.چنانچہ ایک وقت تک اندھیرا تھا اور انکار تھا.لیکن انکار پر اصرار نہیں تھا اور بظاہر کچھ شرارت اور فتنہ اور فساد نہیں تھا.لیکن بعد میں ننگے ہو کر سامنے آگئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے نام لیواؤں کو مٹانے کے لئے سارا عرب اکٹھا ہو گیا.انہوں نے مدینہ کو گھیرے میں لے لیا اور مسلمانوں کے خلاف آخری اور فیصلہ کن جنگ شروع کر دی.بعد میں یہود بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے.ایسے خطرناک موقع پر بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں صرف یہ نہیں تھیں کہ مدینہ میں بسنے والے مسلمانوں کی اللہ تعالیٰ

Page 345

342 فرموده ۱۹۷۲ء د و مشعل راه جلد دوم حفاظت کرے بلکہ اس وقت بھی دعا ئیں تھیں کہ دنیا میں بسنے والے انسان کی اللہ تعالیٰ جہنم میں جانے نے حفاظت کرے.کیونکہ جس قسم کی دعا ہوتی ہے اسی قسم کی قبولیت ہوتی ہے.اس موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت تڑپ اور الحاح کے ساتھ جو دعائیں کیں ان کا تو ہمیں نہیں پتہ کیونکہ تاریخ نے ان کو پوری شکل میں ریکارڈ نہیں کیا.ممکن ہے کہیں چھوٹے چھوٹے اشارے ہمیں مل جائیں میرے ذہن میں اس وقت نہیں لیکن ان دعاؤں کی جو قبولیت تھی وہ ہمارے سامنے ہے.جو بھی دعائیں کیں.یعنی مدینہ میں مسلمان گھرا ہوا ہے اس کی وہ جان خطرے میں ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ تڑپ ہے کہ کسری کی حکومت میں بسنے والے اور قیصر کی بادشاہت میں زندگی میں گزارنے والے خدا تعالیٰ سے دوری اختیار کر کے اس کے غضب کے جہنم میں، دوزخ میں نہ جائیں.بلکہ خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کریں اور اس کی رحمت سے حصہ پائیں.کیونکہ ) قبولیت یہ ہمیں نظر آئی کہ سر کی اور قیصر کی حکومتیں مسلمانوں کو مل جائیں گی.مسلمان کو ان کے خزانوں سے تو کوئی دلچسپی نہیں تھی.مسلمانوں کو ان کے دلوں سے دلچسپی تھی اور مسلمانوں کو اس چیز سے دلچسپی تھی کہ وہ اندھیرے دل جو ظلمت میں اس طرح پھنسے ہوئے تھے کہ ان کو اپنی بھلائی یا اپنی نیکی کا بھی پتہ نہیں تھا ان کے لئے نیکی اور بھلائی کا سامان پیدا ہو جائے.تو جو بھی دعائیں کیں جن کا ہمیں پتہ نہیں وہ محض مدینہ کے مسلمانوں کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں کیونکہ جو اس کی قبولیت ہے اس کا دائرہ اس وقت کی معلوم دنیا کی وسعتوں پر پھیلا ہوا ہے.یہ دو ہی تو بڑی سلطنتیں تھیں یعنی قیصر اور کسریٰ کی ان کے لئے بھی دعا کی اور اس طرح اپنا خیر محض ہونا ثابت کیا یہ وہ بنیادی راہ عمل ہے جس کو اختیار کر کے ہم نے دنیا کو بتانا ہے کہ اسلام ہی زندہ مذہب ہے.جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم ہر ایک کے لئے بھلائی ہے ان معنی میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر ایک کے لئے بھلائی لائے.آج ہی مجھے ایک غیر احمدی دوست ملنے آئے تھے میں نے ان سے کہا جو ہمیں گالیاں دیتے اور کفر کے فتوے لگاتے ہیں ان کے لئے بھی ہمارے دلوں میں نفرت اور حقارت کے جذبات نہیں ہیں بلکہ اخوت اور شفقت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور ہمارے دل ان کے لئے بے چین ہیں.یہ خدا تعالیٰ کے غضب کو مول لے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے بنیں.ہمیں ان پر کوئی غصہ نہیں.ہمیں ان کی فکر ہے ہمارے دل ان کے لئے بھی تڑپ رہے ہیں.جو ہمیں گالیاں دے رہے ہیں ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے ہدایت اور نور کے حصول کے سامان پیدا کرے.یہ ہے وہ اسوہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری خدمت انسانی کا نچوڑ ہے کہ سوائے خدمت کے اور کوئی جذ بہ نہیں ہے.ساری دنیا کی بادشاہتیں آپ کے قدموں پر ڈال دی گئیں اور اللہ تعالیٰ کا سارا پیار آپ کو حاصل ہو گیا.لیکن سر اونچا نہیں ہوا.اور کسی سے نفرت اور حقارت کا سلوک نہیں کیا.آپ کی زندگی میں فروتنی اور ہمدردی کے بے مثال مظاہرے اس بات کا زندہ ثبوت ہیں.یہی زندگی ایک احمدی کی ہونی چاہئے.اس کے لئے آپ کو اپنی زندگی کی تربیت اس رنگ میں کرنی چاہئے کہ جب آپ سے کوئی یہ پوچھے کہہ ماذا انزل ربكم

Page 346

فرموده ۱۹۷۲ء 343 د و مشعل راه جلد دوم کہ تمہارے رب نے قرآن کریم میں کیا تعلیم نازل کی ہے تو آپ میں سے ہر ایک شخص زبان حال سے یہ کہے کہ میری زندگی دیکھ لو میں نے اسوۂ نبوی پر عمل کر کے جو کچھ خو کو بنایا وہ تمہارے لئے ہی نہیں ہر غیر کے لئے خیر ہی خیر ہے.اس زندگی کے لئے آپ کو تیار ہونا چاہئے.دنیا بڑی پر کشش ہے.وہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے مگر سب کچھ دیکھنے کے بعد ( جو آپ دیکھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھ کی توفیق دے) دنیا کا پیار ہمارے اندر نہیں پیدا ہوسکتا.دنیا کا پیار ٹھنڈا ہو گیا.ایک ہی گرمی ہے جو ہمارے سینوں کو اورہ ہماری روح کوگر مائے ہوئے ہے اور وہ گرمی ہے خدا اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کی گرمی اور ہمارے دل میں یہ تڑپ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوہ حسنہ تھا ہم اس کی تصویر بن جائیں.کامل طور پر تو ہم نہیں بن سکتے.ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو نہیں بن سکتے لیکن اپنی استعداد کے مطابق اس کی تصویر بن سکتے ہیں.ہمارے نفس کے آئینہ میں اس کا عکس آ سکتا ہے.آئینہ اگر خراب ہے اور دھندلا ہے تو اس میں شکل اچھی طرح نظر نہیں آ سکتی لیکن سوائے اس تصویر کے ہماری روح کے آئینہ میں کوئی اور تصویر نہیں آنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.کھڑے ہوں اور اپنے عہد کو دھرائیں.تجدید عہد اور دعا کے بعد فرمایا:- مجھے یاد ہے انگلستان میں پڑھائی کے دوران دو سال کے بعد میں نے جرمنی کے بعض علاقوں میں دیکھا.مجھے کوئی دبلا اور کمزور نظر نہیں آیا میں نے سوچا اور ان سے پوچھا کہ ان کو کھانے کو تو زیادہ نہیں ملا لیکن کھانا ہضم کرنے کے زیادہ سامان پیدا کئے گئے.صبح چار بجے جگا دیا کرتے تھے نوجوانوں کو اور جس وقت ہمیں تہجد پڑھنی چاہئے اس وقت ان کی ایک خاص قسم کی پریڈ ہوتی ہے جو جرمنی میں بڑی مقبول تھی وہ کروایا کرتے تھے.جس سے کھانا ہضم ہو جاتا تھا اور رات کو آٹھ بجے کے بعد کوئی گھر یہ جرات نہیں کرتا تھا کہ اونچی آواز سے ریڈیو بجائے کیونکہ اگر ہمسایہ شکایت کر دے تو اگلے دن وہ پکڑا جاتا تھا.کہ تم آرام میں خلل ڈالتے ہو اور ہمارے یہاں تو کہاں سے کہاں پر لوگ اکٹھے ہوتے اور دوکانوں پر رات کے بارہ بجے تک جب تک ریڈیو بند نہیں ہوتا شور مچتا رہتا ہے اور اس جگہ کوئی ہمسایہ کا خیال نہیں رکھتا وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود ہمسائے کا خیال رکھتے ہیں.رات کو دیر تک نہ جا گنا سوائے ضرورت کے یہ بھی صحت کیلئے خصوصاً اس عمر میں بڑا ضروری ہے.آپ میں سے بہت سے بعض تو بڑی عمر کے ہیں لیکن بہت سے ایسے ہیں جن کو آٹھ گھنٹے روزانہ اچھی نیند آنی چاہئے.یہ بڑا ضروری ہے.لیکن جن کو عادت نہیں مارنے کی پڑ جاتی ہے یا جن کے گھر میں ماں باپ کو عادت ہوتی ہے شہروں میں کہیں مارنے کی بیچارہ پانچ چھ سال کا بچہ اونگھ رہا ہوتا ہے ماں کے پاس ہوتا ہے بھی آدھا منٹ سوتا ہے پھر جاگ اٹھتا ہے.کیونکہ ماں مشغول ہے باتیں کرنے میں باپ مشغول ہے گئیں مارنے میں یا ٹیلیوژن دیکھنے میں یا اور خرافات نکل آئی ہیں.خرافات اس معنی میں کہ ان کا استعمال خرافت ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز ہمارے فائدہ کے لئے پیدا کی ہے.لیکن ہمیں یہ اجازت دی ہے کہ ہر چیز کو اگر ہم برے بنا چاہیں تو غلط کاموں میں بھی استعمال

Page 347

344 فرموده ۱۹۷۲ء دو مشعل راه جلد دوم دد کر لیں.بہر حال آپ کو پوری نیند آنی چاہئے اور اپنی ضرورت کے مطابق اور اپنے معدے کی طاقت کے مطابق ماں باپ کی جیب کی طاقت کے مطابق نہیں ) معدے کی طاقت کے مطابق کھانا کھانا چاہئے.اور کھانا کھانے کے بعد اس کو ہضم کرنا چاہئے.کئی دفعہ مجھے خیال آتا ہے کہ پندرہ میں دن کی کلاس یا تین ہفتے کی ایک کلاس منعقد کی جائے.جس میں بھلائی اور نیکی کی باتیں بتائی جائیں.ساتھ ہی کھانا اور کھانے کے ہضم کا انتظام ہو.اصل خوراک اس بات کی ہے.پھر دیکھیں کیا فرق پڑتا ہے.جو انفرادی طور پر میں بھی کبھی تجربے کیا کرتا ہوں وہ تو بڑا اچھا نتیجہ پیدا کرتے ہیں.ہماری جو جسمانی طاقتیں ہیں وہ اس طرح جس طرح اس ہال کے نیچے روڑی کوئی گئی تھی اسی طرح انہیں طاقتوں کے اوپر پھر ذہنی طاقتوں کی ایک منزل بنی ہے.پھر اخلاقی طاقتوں کی دوسری منزل بنتی ہے.پھر اوپر بالا خانہ روحانی طاقتوں کا بنتا ہے.اگر بنیاد ٹھیک طرح کوئی نہ گئی ہو تو وہ عمارت کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی.باقی چیزوں کو مثلاً عمر کے لحاظ سے آدمی ایک ایسی عمر میں داخل ہوتا ہے کہ اس کی خواہش بہت زیادہ ہوتی ہے جوانی سے بھی زیادہ نیکیاں کرنے کی لیکن جسمانی طاقت ساتھ نہیں دیتی اور کئی انبیاء کی طرف یہ بات منسوب ہو کر یہ روایت آئی ہے کہ خواہش تو ہے اے رب تیری راہ میں قربانی کرنے کی مگر جسم ساتھ نہیں دے رہا.اسی مفہوم کی باتیں پہلی کتابوں میں پائی جاتی ہیں.پس جہاں تک ممکن ہے جسم کو اس قابل بناؤ کہ دینی اور اخلاقی اور روحانی جد و جہد اور مجاہدہ کے قابل بن جائے یہی مجاہدہ ہے جس میں آپ نے ایک نہ ایک دن پڑنا ہے.آپ کا جسم اس قابل ہوگا تبھی اس کو برداشت کر سکے گا.ورنہ نہیں.میں نے کئی بڑے اچھے ذہین اور صاحب فراست بچے دیکھے ہیں.آٹھویں دسویں میں پڑھتے ہیں لیکن چونکہ ان کی جسمانی طاقت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ وہ پڑھائی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے.اگر کوئی ان کو سنبھال لے تو وہ آسانی سے برداشت کر جائیں گے.شاید یونیورسٹی میں فرسٹ آجائیں.اب ہم جو دعا کریں گے اس میں یہ بھی دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ ہماری تمام صلاحیتوں کا ایک متوازن ارتقاء ہو اس کے اللہ تعالیٰ سامان پیدا کرے اور ان سامانوں میں اپنی سمجھ اور عقل بھی ہے.کیونکہ انسان خود ہی اپنے آپ کا دشمن بن کے اپنے آپ کو نقصان پہنچا تا ہے.خدا کرے ایسا نہ ہو، نہ ہم اپنے دشمن ہیں اور نہ کوئی دشمن ہماری صلاحیتوں کے ارتقاء میں ہمیں نا کام کرنے میں کامیاب ہو.اس کے فرشتے ہر قوت کی جو ہمیں عطا کی گئی ہے حفاظت کرنے کے لئے آئیں.اور تمام قولی ہمارے جو اللہ تعالیٰ کی از بر دست عطا ہیں وہ متوازن ترقی کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے اس پیار کو حاصل کر لیں جو پیارا اللہ تعالیٰ انفرادی حیثیت میں ہراحمدی کی استطاعت کے مطابق اسے دینا چاہتا ہے.آؤدعا کر لیں“.

Page 348

دومشعل دوم فرموده ۱۹۷۲ء 345 مورخه ۵ ، اخاء۱ ۱۳۵ هش مطابق ۵، اکتو بر۱۹۷۲ ء گیارہ بجے قبل دو پہرسیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے ۲۹ ویں سالانہ اجتماع کا افتتاح فرمایا.اس موقعہ پر حضور نے جو بصیرت افروز خطاب فرمایا تھا وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سید نا حضور نے فرمایا:- خادم کا رُومال قبل اس کے کہ میں اس وقت وہ باتیں کہنا شروع کروں جن کے کہنے کا ارادہ لے کر میں یہاں آیا ہوں، میں خدام کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم نے خادم کی علامت کے طور پر ایک رومال تجویز کیا ہے.کیونکہ وقت کم تھا اس لئے یہ صرف پانچ سو کے قریب تیار ہو سکے ہیں جن میں سے نصف کے قریب تو نو جوان بچوں نے خرید لئے ہیں اور نصف ابھی پڑے ہوئے ہیں.خدام کو چاہیئے کہ وہ بھی خرید لیں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ساری دنیا میں ہر خادم اسلام کے پاس یہ رومال ہونا چاہیئے.اس رومال میں ایک چھلا پڑتا ہے.یہودی بڑی ہوشیار قوم ہے.وہ دنیا میں ہر لحاظ سے اپنی بڑائی پھیلانے کی کوشش کرتی رہتی ہے.اس سلسلہ میں اُن کے بعض خاموش ذرائع بھی ہیں.غرض ان کی دنیوی شہرت کا ایک ذریعہ یہ چھلا بھی بنا اور انہوں نے گردن میں ڈالنے والے رومال کیلئے جو چھلا بنا رکھا ہے، اس پر سانپ کی شکل بنادی ہے اور اس طرح گویا انہوں نے ہر مسلمان کے گلے میں جو یہ رنگ استعمال کرے، اپنی یہ علامت ڈال دی ہے.چنانچہ جس وقت مجھے اس رومال اور چھلے کا خیال آیا تو میں نے سوچا ہمیں اپنے لئے رنگ (چھلے ) خود تجویز کرنے چاہئیں اور اسی طرح سکارف (رومال) کا نمونہ بھی خود ہی بنانا چاہیئے.مجھے یاد آیا کہ چین میں الحمرا کی دیواروں پر مجھے چار فقرے نظر آئے تھے.(۱) لا غالب الا للہ جو بڑی کثرت کے ساتھ لکھا ہوا تھا.(۲) القدرة الله (۳) الحكم لله (۴) العزة لله.ان سے فائدہ اٹھا کر یہ تجویز کی ہے.عام اطفال اور خدام یعنی ہر رکن کیلئے القدرة الله کا رنگ یعنی چھلا ہے اور جو عہدہ دار ہیں ان کیلئے العزة الله کا.اور یہی لجنہ اماءاللہ کا نشان ہے.البتہ ان کے رومال کا رنگ مختلف ہے.ویسے تو جھنڈوں کیلئے عام طور پر سبز رنگ ہوتا ہے مگر ہمارے اس رومال کا رنگ کالا اور سفید اس لئے ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کے جوجھنڈے تھے وہ یا کالے رنگ کے تھے اور یا سفید رنگ کے تھے چنانچہ پہلی بار جب ہماری جماعت کا جھنڈا بنا تھا اسوقت حضرت مصلح موعودؓ نے اس سلسلہ میں چھان بین کرنے کیلئے ایک کمیٹی مقررفرمائی تھی جس میں مجھ خاکسار کو بھی شامل کر دیا تھا.چنانچہ اس ہم نے پوری

Page 349

346 فرموده ۱۹۷۲ء د و مشعل راه جلد دوم دد چھان بین کی تو ہمیں یہی پتہ لگا تھا کہ ان دورنگوں کے سوا آنحضرت ﷺ کے جھنڈے کا اور کوئی رنگ نہیں تھا.س واسطے ہم نے جماعت کے جھنڈا میں سیاہ اور سفید رنگوں کا ایک امتزاج پیدا کر دیا ہے اور یہی دورنگ یعنی سیاہ اور سفید ہمارے اس رومال میں بھی آئے ہیں اور ایک دوسری شکل میں ناصرات اور لجنہ اماءاللہ کے رومال میں آئے ہیں اور تیسری شکل میں انشاء اللہ انصار اللہ کے رومالوں میں آئیں گے.انصار اللہ کو چاہیئے کہ وہ مجھ سے مشورہ کر کے اپنے رومال تیار کریں.ان کے اجتماع میں ابھی کچھ وقت ہے اس وقت تک کچھ نہ کچھ تو ضرور تیار ہو جانے چاہئیں.ان کیلئے میں رومالوں کی کوئی اور شکل تجویز کروں گا.تاہم انصار اللہ کے چھلے کیلئے لا غالب الا اللہ کا نشان مقرر کیا گیا ہے.چاہے وہ عام رکن ہو چاہے وہ مجلس انصاراللہ کا کوئی عہدہ دار ہو سب کا یہی نشان ہوگا.ہر خادم کے پاس یہ رومال ہو ویسے ہمارا ہر عہدہ دار قائد ہے اور ہمارا ہر خادم قیادت کی اہلیت رکھنے والا ہونا چاہیئے.پس یہ کوشش کریں کہ ہر خادم کے پاس یہ رومال ضرور ہو.یہاں تو اس وقت آپ کو یہ رومال تھوڑے ملیں گے بعد میں تیار ہو جائیں گے.سب خدام لینے کی کوشش کریں ان کی حفاظت کریں، انکو ضائع نہ ہونے دیں.اس قسم کے رومال کے اور بھی کئی فائدے ہیں.لیکن میں اس وقت ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا تا ہم جو رومال تیار ہوئے ہیں ان میں سے بعض خدام نے لے لئے ہیں.یہ کچھ چھوٹے بن گئے ہیں...جو بعد میں تبدیل ہو جائیں گے.اصل رومال ایک گز مربع کا تجویز ہوا تھا لیکن موجودہ رومالوں کے بناتے وقت بعض چیزوں کا خیال نہیں رکھا گیا اس لئے کوئی چھوٹا ر و مال بن گیا اور کوئی بڑا بن گیا ہے.مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کو چاہیئے کہ وہ آئندہ احتیاط برتیں.اگر یہ رومال ایک گز سے چھوٹا رہ جائے تو اس کے ذریعہ جو دوسرے فوائد ہمارے مدنظر ہیں وہ ہم حاصل نہیں کر سکتے.بہر حال ایسے مواقع پر ہر خادم کے گلے میں یہ رومال ہونا چاہیئے.ہر وقت ڈالنے کی ضرورت نہیں.اپنے جماعتی اجتماعوں میں یا جب وہ ڈیوٹی پر ہوں اس وقت یہ رومال اور ایک مخصوص چھلا گلے میں ڈال لیا کریں دنیا میں ہر چیز تجربہ اور تحقیق طلب ہے.جب شروع میں مجھے اس کا خیال آیا تو میں نے اس سلسلہ میں بڑا غور کیا کہ یہ چھلے اور رومال کیسے اور کس طرح تیار کئے جائیں.( میں آپ کو اس لئے بتانے لگا ہوں تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ کام کرنے کا طریق کیا ہوتا ہے) چنانچہ میں نے یہاں فوری طور پر اپنے پیسوں سے چاندی کے چھلے بنوائے مگر ان پر فی چھلا نو نو دس دس روپے خرچ آئے.پھر میں نے لاہور آدمی بھیجا اور نکل اور تانبے کے چھلے بنوائے جن پر ایک سے ڈیڑھ روپیہ فی چھلا خرچ آیا.میں نے سوچا یہ بھی زیادہ قیمت ہے.کیونکہ ہماری جماعت میں امیر بھی ہیں، غریب بھی ہیں.بعض ایسے دوست بھی ہو سکتے ہیں جو اپنی زندگی کے کسی مرحلہ پر اپنے بچوں پر

Page 350

قل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۲ء 347 دومشعل شاید اتنا خرچ بھی نہ کر سکیں.حالانکہ ہمارا مقصد سب کو برابر سطح پر رکھنا ہے.پھر ہم نے پلاسٹک کے چھلے بنوائے اس میں بھی دو قسم کے تیار ہوئے جن میں سے ایک قسم کو پسند کیا گیا اور اس کے مطابق یہ چھلے تیار کروائے گئے.اب اس کی قیمت فی چھلا دس پیسے ہے.اب کجا چاندی کے چھلے جن کی قیمت دس روپے تھی اور کجا یہ چھلے جن کی قیمت دس پیسے ہے.پھر ہم نے کپڑوں کے رومال بنوائے.پہلے ایک بنوایا پھر دوسرا بنوایا.غرض مختلف شکلوں کے رومال بنوائے.چنانچہ تجربہ کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اس اس طرح کے رومال سستے بن جائیں گے اور اچھے بھی ہوں گے.مثلاً اس میں سے سفید اور کالی پٹیاں ہیں.ان کی تقسیم اور ان کی شکل غرض ہر چیز کا تجربہ کر کے اور پھر پہنا کر اور دیکھ کر بالآخر اس نتیجے پر پہنچے جو اس وقت ہم سب کو نظر آ رہا ہے.عملی کام کے لئے تجربہ کی اہمیت میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں عملی کام کرنا ہو وہاں محض تھیوری اور خالی بسیط علم کے نتیجہ میں انسان کامیاب نہیں ہوا کرتا.اسے ہر کام کو عملا تجربہ کر کے دیکھنا چاہیئے اور پھر پورے شرح صدر کے ساتھ کسی نتیجہ پر پہنچنا چاہیئے یہ ہماری زندگی کی بڑی ضروری اور بنیادی حقیقت ہے.حقائق زندگی ( حقائق اشیاء میں نہیں کہہ رہا) کیلئے یہ ایک بنیاد چیز ہے کہ محض (Theory) بسیط علم کے نتیجہ میں زندگی کے کسی مرحلے پر فیصلے نہیں ہوتے.نہ اپنی خواہشات اور نہ نقل کے نتیجہ میں کوئی فیصلہ کرنا چاہئے کیونکہ اس سے بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے.میں نے کئی نو جوانوں کو اپنی عمر میں ضائع کرتے دیکھا ہے.مثلاً ایک بچہ ہے جس پر مجھے رحم آتا ہے غصہ نہیں آتا ، اس نے اپنی زندگی میں غلط راستہ اختیار کر رکھا ہے.وہ چار سال سے ہر سال بڑے الحاج کے ساتھ مجھ سے یہ دعا کر وا تارہا ہے کہ میں یو نیورسٹی میں اول آؤں اور ہر سال قیل ہوتا رہا ہے یعنی اس نے حقیقت کو نہیں پہچانا.پس محض دعا کے نتیجہ میں کامیابی نہیں ہوا کرتی.دعا کے نتیجہ میں کامیابی تب حاصل ہوتی ہے جب فضل رب کریم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی مادی عطا میں اسی نسبت سے زیادتی نہ ہو جائے.دعا اور تدبیر مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیماری اور صحت کے متعلق ایک بڑا بنیادی اور حسین مضمون بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں ایک شخص بیمار ہے ساری دنیا کے ڈاکٹر اس کی بیماری کی تشخیص اور علاج کرتے ہیں لیکن اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.پھر ایک دن ایک معمولی سی دوائی اسے فائدہ پہنچا دیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دینی ہو اور اس کی دعا کو اس نے قبول کرنا ہو تو وہ اس کے جسم کے ذروں میں ایک تبدیلی پیدا کر دیتا ہے اور ان کو یہ حکم دیتا ہے کہ دوا کا اثر قبول کرو تو پھر جسم کے ذرے دوائی کے اثر کو قبول کر لیتے ہیں (پہلے ان کو یہ حکم نہیں ہوتا ) اور دوا کو کہتا ہے کہ وہ انسانی جسم پر اثر کرے گویا

Page 351

348 فرموده ۱۹۷۲ء د و مشعل راه جلد دوم مادی دنیا میں ایک تبدیلی رونما ہوتی ہے تب دوا کا اثر ظاہر ہوتا ہے.تاہم یہ تو معجزات ہیں.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ میں ہر سال ایسے ہزار ہا نشانات دکھاتا ہے.یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے.اس وقت ہم عام زندگی کے متعلق بات کر رہے ہیں.یہ دعا تو کرو کہ اے خدا ہماری اچھی طاقتوں میں اضافہ کر اور ان کو زیادہ مضبوط بنا اور ان کو زیادہ قوی بنا اور ہمیں ان طاقتوں سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرما لیکن یہ سمجھنا کہ طاقت اتنی ہی رہے اور فائدہ دگنا مل جائے یہ نامعقول بات ہے.ایسا کبھی نہیں ہو سکتا.پھر بعض قدرت کی باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا عام حکم ہے کہ یہ کرو تو اس کا نتیجہ نکلے گا.مثلاً اگر میاں بیوی کے تعلقات ہوں گے تو بچے کی پیدائش کی صورت میں نتیجہ ظاہر ہوگا.حضرت خلیفتہ مسیح الاول کے پاس ایک دفعہ سرگودھا کے علاقہ کا رہنے والا ایک شخص آیا اور عرض کیا میرے ہاں کوئی بچہ نہیں ہوتا حضور دعا کریں کہ میرے ہاں بچہ پیدا ہو.آپ کو پتہ تھا کہ یہ خود بمبئی کی طرف جارہا ہے اور اس کی بیوی سرگودھا کے کسی علاقے میں ہے.آپ نے پوچھا تم سفر کر رہے ہو کس طرف جانے کا ارادہ ہے؟ کہنے لگا میں بمبئی جا رہا ہوں.آپ نے فرمایا تم بمبئی چلے جاؤ گے تمہاری بیوی گھر بیٹھی ہوگی خالی میری دعا سے تمہارے ہاں بچہ تو پیدا نہیں ہوگا.پس اللہ تعالیٰ نے جو قانون قدرت مقرر فرمایا ہے اس کے خلاف چل کر یا اسے توڑ کر تو کوئی نتیجہ نہیں نکلا کر تا خدا تعالیٰ کا جو قانون ہے اس کے مطابق عمل پیرا ہو کر نتیجہ نکلا کرتا ہے.پس جو حقیقت زندگی اور حقیقت اشیاء ہے اس کو سمجھ کر اور خدا تعالیٰ کے قانون کے مطابق اگر تم دعا مانگو اور خدا تعالیٰ تمہاری دعاؤں کو قبول کرلے تو اس کا قانون بدل سکتا ہے.یہ بھی اس کا قانون ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کیلئے اپنے عام قانون کو بدل کر ایک خاص قانون چلاتا ہے گو یہ بھی اس کا قانون ہے لیکن جب تک تمہاری دعا ئیں اس رنگ میں قبول نہیں ہو جا تیں اس وقت تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا کیونکہ دعا اور تد بیرل کر نتیجہ نکالے گی اور جہاں تک تدبیر کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے جو مادی ذرائع اور دوسرے طریق ہمیں بتائے ہیں ہم ان کو استعمال کریں گے تو کوئی نتیجہ نکلے اورنہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.مثلاً ایک شخص کتابوں کے پڑھنے کی طرف متوجہ ہی نہ ہو اور سمجھے دعا کرنے سے ہی فرسٹ ڈویژن لے لوں گا.یہ بات غلط ہے اور عام قاعدہ کے خلاف ہے.اس لئے ایسا نہیں ہو سکتا ویسے اگر خدا تعالیٰ کسی کے حق میں کوئی معجزہ دکھانا چاہے تو یہ ایک علیحدہ بات ہے اس قسم کے معجزے بھی رونما ہوتے ہیں.ہم اس حقیقت سے اختلاف نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں.لیکن عوام کی زندگی میں ایسا نہیں ہوا کرتا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو آزمانا چاہیئے.انسان کی دعا تو اس وقت قبول ہوتی ہے جب انسان اپنی تدبیر کو انتہا تک پہنچا تا اور دعا کرتے ہوئے اپنے او پر موت وارد کر لیتا ہے.پھر اللہ تعالی اس کیلئے سب کچھ کرتا ہے اور اسے اپنے دست قدرت سے اٹھاتا ہے.لیکن آپ میں سے اس وقت یہاں جو دوست بیٹھے ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو اس قسم کی موت قبول کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں.بہت کم ہیں.جس آدمی نے وہ موت قبول کر لی اس نے گو یا سب کچھ پالیا.اس کیلئے قانون قدرت بھی ایک نئی شکل میں ظاہر ہوا مگر جس نے خدا کی راہ میں موت قبول

Page 352

فرموده ۱۹۷۲ء 349 د دمشعل تل راه جلد دوم نہیں کی اس کیلئے قانون قدرت ایک نئی شکل میں ظاہر نہیں ہوگا.اسے خدا کے عام قانون کے مطابق چلنا پڑ.گا.خدا تعالیٰ کا وہ قانون جو علم کے حصول کیلئے ہوتا ہے اس کے متعلق میں اس وقت اظہار خیال کرنا چاہتا ہوں.ہمارے حالات ملکی بھی اور اجتماعی طور پر ساری دنیا کے حالات بھی کچھ بدل گئے ہیں اور کچھ بدل رہے ہیں اب ان بدلے ہوئے حالات میں ہمیں اپنے تدبر کو ، اپنے فکر کو اپنی تدبیر کو اور اپنی دعاؤں کو نئے راستوں پر ڈالنا ہوگا.ور نہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے ، ورنہ ہماری کوششیں اور ہماری تدبیریں اور ہماری دعائیں عند اللہ اعمال صالحہ میں شمار نہیں ہوں گی.کیونکہ عمل صالح کے معنے ہی یہ ہوتے ہیں کہ حالات کے مطابق کام کیا جائے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے دعا تدبیر ہے اور تدبیر دعا ہے یہ ایک بڑا لطیف مضمون ہے.جن دوستوں کو اللہ تعالی توفیق دے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے اس مضمون کو پڑھیں اور غور کریں.ہمارے محاذ اور اور میدان عمل چنانچہ ان بدلے ہوئے حالات میں ہمارے محاذ یعنی عمل کے میدان بھی بدل گئے ہیں.اب ہمیں عمل کے ان نئے میدانوں میں داخل ہونا چاہیئے.ان کے اندر ہمیں شیروں کی طرح گھسنا چاہیئے.ہمارے لئے کسی سے ڈرنے یا گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے.بلکہ ان نئے میدانوں میں بھی اللہ کی تو فیق اور اس کے فضل کے ساتھ بہتر رنگ میں کام کرنا چاہیئے.اس کے متعلق اصولی طور پر ایک مضمون اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں ڈالا ہے.زندگی رہی اور اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی تو آخری دن اختتامی دعا کے موقع پر اس کے متعلق کچھ بیان کروں گا تاہم اس وقت میں علم کے متعلق تمہیداً کچھ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں.ہمارے کچھ حالات تو اس طرح بدلے کہ ہماری موجودہ حکومت جو اپنے آپ کو عوامی حکومت کہتی ہے اس نے ہمارے تعلیمی اداروں کو بھی Nationalise(میشلائز ) کر لیا یعنی قومی تحویل میں لے لیا جس سے کچھ احمدی گھبرا جاتے ہیں.میں ایسے دوستوں سے کہتا ہوں اگر یہ واقعی عوامی حکومت ہے تو پھر یہ ہماری اپنی حکومت ہے کیونکہ ہم بھی عوام ہیں اور عوام ہی ہیں جنہوں نے زیادہ تر خود ووٹ دے کر یا دوسروں سے دلوا کر ان لوگوں کو منتخب کر وایا تھا جن کی آج حکومت ہے.چنانچہ حزب مخالف نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ۲ لاکھ احمدی ووٹوں کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی جیت گئی.میں نے تو اس سلسلہ میں اعداد و شمار اکٹھے نہیں کروائے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک احمدی رائے دہندگان کی تعداد کا تعلق ہے انہوں نے مبالغہ کیا ہے.احمدی ووٹروں کی تعدد ۲۲ لاکھ نہیں ہے.لیکن ایک اور حقیقت بھی کارفرما ہے اور یہ اعداد و شمار اس حقیقت کے بہت قریب معلوم ہوتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ پارٹیشن کے وقت جماعت کو ایک بڑا دھکا لگا تھا پھر بھی ہر احمدی ووٹر کم از کم دو غیر احمدی دوست بطور ووٹر اپنے ساتھ رکھتا تھا.چنانچہ عام انتخابات سے پہلے ایک دوست مجھے ملنے آئے وہ گجرات کے ایک حلقے میں امیدوار تھے.کہنے لگے آپ مجھے ووٹ دیں.میں نے کہا کہ آپ کے اس حلقہ میں ساٹھ ستر ہزار ووٹ ہیں جب

Page 353

350 فرموده ۱۹۷۲ء د و مشعل راه جلد دوم کہ ہمارے احمدی دوستوں کے ووٹ سے ہزار کے لگ بھگ ہیں.یہ اگر تمہیں ووٹ نہ بھی دیں تو کیا فرق پڑتا ہے ستر ہزار ووٹوں میں ان کی نسبت ۱/۱۰ا ہے کہنے لگے نہیں احمدی ووٹر سات ہزار نہیں نو ہزار ہیں.میں نے کہا اگر نو ہزار ہیں تب بھی کیا فرق پڑتا ہے.کہنے لگے فرق یہ پڑتا ہے کہ ہم نے سر جوڑے اور غور کیا اور آپس میں مشورے کئے اور حالات کا اندازہ لگایا تو ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ آپ کے ساتھ ۲۷ ہزار ووٹ ہے کیونکہ 9 ہزار آپ کا اور ۱۸ ہزار آپ ساتھ لے کر آئیں گے اور ساٹھ ستر ہزار کے حلقے میں ۲۷ ہزار ووٹ بڑی اہمیت رکھتے ہیں.اس لئے یہ ہوہی نہیں سکتا کہ جس امیدوار کی طرف یہ ووٹ جائیں وہ ہار جائے.پس میں اپنے دوستوں سے یہ کہتا ہوں کہ آپ خواہ مخواہ کیوں گھبراتے ہیں.اگر یہ عوامی حکومت ہے اور آپ عوام ہی کا ایک حصہ ہیں تو یہ آپ کی حکومت ہے.اب جس حلقہ انتخاب میں ستائیس ہزار ووٹ کسی امیدوار کو احمدیت کی وجہ سے ڈالے گئے ہیں وہاں کے عوام جا کر اس کی گردن پکڑیں گے کہ تم کیوں غلط کام کر رہے ہو.پس اس لحاظ سے ۲۲ لاکھ ووٹر سارے احمدی تو نہیں مگر کچھ احمدیوں کے اور کچھ اُن کے ساتھ تعلق رکھنے والے سمجھدار اور صاحب فراست اور صاحب شرافت دوستوں کے، دونوں کی مل کر تعداد کم و بیش اتنی ضرور ہوگی واللہ اعلم بالصواب.اس لئے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کے قومی تحویل میں چلے جانے کی وجہ سے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے.یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس علاقہ کے عوام کی مرضی کے خلاف ان تعلیمی اداروں کی روایات توڑ دی جائیں اور کوئی اور پالیسی اختیار کی جائے.اگر ایسا ہوا تو ہمارے یہاں کے عوام کہیں گے کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا جس طرح ہماری مرضی ہو گی اس طرح کالج چلے گا کیونکہ اگر عوامی حکومت نے عوامی حکومت رہنا ہے تو پھر یہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق کالج چلے گا.فرض کریں ہمارے کالج میں کوئی بڑا سخت متعصب پر نسپل آ جاتا ہے تو وہ بھی کالج کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں چلا سکتا.کیونکہ ربوہ کے عوام کا یہ تقاضا ہو گا کہ اس طرح کالج کو چلاؤ اور عوامی حکومت کو ماننا پڑے گا یا عوامی حکومت کو حکومت چھوڑنا پڑے گی یا یہ اعلان کرنا پڑے گا کہ اب ان کی حکومت عوامی حکومت نہیں رہی اس لئے دوستوں کو قطعا نہیں گھبرانا چاہیئے.میں نے ضمناً یہ بات بتادی ہے کیونکہ کئی دوست آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب کیا ہوگا.یہ سوچنے کی کیا ضرورت ہے کہ اب کیا ہوگا.اب وہی ہو گا جو خدا تعالیٰ چاہے گا ہم نے خود آخر کیا کرنا ہے.اگر ہم نے مل کر اور سر جوڑ کر احمدیت کو بنایا ہوتا تو ہمارے دل میں یہ سوال پیدا ہونا چاہیئے تھا کہ اب کیا ہوگا لیکن کیا تم نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کو قائم کیا ہے ! اور اس کو چلا رہے ہو! اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر جس نے یہ سلسلہ بنایا ہے وہ ہمارے اس سلسلہ کے کام بنانے والا ہے ہمیں تو کوئی فکر نہیں ہونی چاہیئے.ہمیں اگر کوئی فکر ہے تو اس بات کا فکر ہے کہ جن قربانیوں کا ہم سے مطالبہ کیا جارہا ہے ہم ان کو لفظا اور معنا پورا کرنے والے ہوں.چنانچہ آج تک احمدیت کے حق میں جو نتیجے نکلتے رہے ہیں وہ ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ کے پیار کو ظاہر کرتے رہے ہیں.میری طبیعت ان دنوں بہت خراب تھی، بہت ضعف تھا کمر کے اعصاب اور عضلات میں درد کی وجہ سے

Page 354

د دمشعل راه چہرے کل راه جلد دوم ے پر فرموده ۱۹۷۲ء 351 بڑی بے چینی تھی.کل رات تو بہت زیادہ تکلیف رہی.آج صبح بھی میں بہت زیادہ کمزوری محسوس کر رہا تھا.میرا خیال تھا کہ میں اس وقت بیٹھ کر تقریر کروں گا لیکن جب میں مقام اجتماع میں پہنچا تو اللہ تعالیٰ کی شان ہے، اس نے فضل کیا.میں نے اپنے اندر طاقت اور بڑی بشاشت محسوس کی.جب کبھی بغیر وجہ کے میرے جیسے کمزور انسان کے اندر بشاشت پیدا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کل پرزے کھینچے ہیں اور کہا ہے کہ اپنے ر مسکراہٹیں لے کر آؤ.پس میں تو خوش ہوں اور سمجھتا ہوں کہ حالات بے شک بدلتے رہیں ہمیں اس یقین پر قائم رہنا چاہیئے کہ یہ ہمارے فائدہ کیلئے بدل رہے ہیں.غرض جب میں یہاں پہنچا تو میں نے اپنے اندر طاقت اور بڑی خوشی محسوس کی یہاں تک کہ میرے جسم کے روئیں روئیں میں سے خوشی پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی تھی اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ صدر صاحب نے مجھے رپورٹ دی کہ پچھلے سال کے اجتماع کے آخری دن جتنی مجالس نے حصہ لیا تھا اس دفعہ پچھلے سال کی نسبت پہلے دن پچاس مجالس زیادہ شامل ہوئی ہیں.الحمد للہ.حالانکہ اجتماع کے ان تین دنوں میں اور بھی کئی مجالس کی شمولیت متوقع ہوتی ہے.مگر باوجود اس کے کہ ہمارا ملک اس وقت بڑے پریشان کن حالات میں سے گزر رہا ہے، دوسرے اس مہینے کی ۲ تاریخ کو تعلیمی ادارے بھی کھل گئے تھے، ہمارے اکثر نوجوان تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں ، مگر ان مشکل حالات میں جن سے ہمارا ملک اس وقت دو چار ہے ( میں اس بارہ میں دو خطبے بھی دے چکا ہوں آپ ملک کے مستقبل کیلئے دعا کریں اور صدقات دیں، لوگوں کو سمجھا ئیں.غرض آپ پر اس لحاظ سے بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ) بہر حال بڑے مشکل حالات میں اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا کہ پہلے سے زیادہ مجالس کو اجتماع میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائی.اب یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.اس کا کریڈٹ مجھے یا چوہدری حمید اللہ صاحب کو نہیں جاتا.اس لئے ہمارا دل خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد سے پر ہو جاتا ہے.خدام میرے سامنے بیٹھے ہیں جن میں سے بعض ( میں نے کل بھی دیکھا تھا ) لاڑکانہ سے اپنی مخصوص ٹوپیوں کے ساتھ آئے ہوئے ہیں.میرے خیال میں اتنی تعداد میں یا تو پہلے کبھی نہیں آئے یا کم از کم ان ٹوپیوں میں نہیں آئے کہ نمایاں ہو کر نظر آجائیں.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ جماعت کو کہیں سے کہیں لے گیا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.فرمایا:- (بحوالہ روزنامه الفضل ۲۸ جون ۱۹۷۳ء) تعلیمی اداروں کے قومی تحویل میں چلے جانے پر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ اس پر غور کرو.چنانچہ اس سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ تعلیمی اداروں میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ حقیقی تعلیم کا دسواں حصہ بھی نہیں ہوتی بلکہ تعلیمی اداروں کے کام تو بالکل ابتدائی نوعیت کے ہوتے ہیں.اس لئے اگر انسان وہیں تک ٹھہر جائے تو گویاوہ ایک نہایت ہی نا معقول اور مہلک مقام پر ٹھہر گیا.اس کے متعلق میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.اور بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کے مطابق علم کن کن مراحل سے گزر کر کامل ہوتا اور ایک حقیقی شکل اختیار کرتا

Page 355

352 فرموده ۱۹۷۲ء د مشعل راه جلد دوم ہے.کہنے کو تو مثلاً ایک بھیڑ کے پیٹ میں جو دو ہفتے کا بچہ ہے اور صرف ایک لوتھڑے کی شکل کا ہوتا ہے وہ بھی بھیڑ کا بچہ ہی ہوتا ہے لیکن اگر وہ وہیں کھڑا ہو جائے اور اس کو پوری نشو ونما نہ ملے تو وہ ایک گندی اور عفونت والی چیز ہے آپ اس کو ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کریں گے.لیکن وہی چیز جب نشو و نما پا جائے گی اور بھیڑ کا بچہ بنے گی اور پھر جب وہ سال کا ہو جائے گا، چربی اس پر چڑھی ہوئی ہوگی تو آپ اس کو کتنے شوق سے کھا رہے ہوں گے.حالانکہ اس کو آپ ایک سال اور چند مہینے پہلے ہاتھ لگانے کو تیار نہیں تھے.پس جب تک کوئی کام اپنے کمال کو نہیں پہنچتا، نہ اس میں کوئی حسن پیدا ہوتا ہے اور نہ اس میں کوئی افادیت پیدا ہوتی ہے.علم ،فکر اور عقل قرآن کریم نے علم کے متعلق مختلف الفاظ بیان کئے ہیں.ایک ”علم“ کا لفظ استعمال کیا ہے.دوسرے فکر کا لفظ استعمال کیا ہے تیسرے عقل کا لفظ استعمال کیا ہے.یہ ایک سلسلہ ہے جو علم وفکر اور عقل و تدبر پر نل ہے.لیکن جب ہم علم کے حصول کیلئے یا علم کو پھیلانے کیلئے روحانی جد وجہد کرتے ہیں تو ایمان اور عمل صالح کا سہارا لینا پڑتا ہے.یہعلم کا ایک اور سلسلہ ہے جس کے متعلق قرآن کریم کہتا ہے:.انما يخشى الله من عباده العلماء (فاطر: ۲۹) اس میں علم اور فکر کی بجائے شعور اور عرفان کا ذکر ہے.تاہم پہلے میں اس حسین سلسلہ یا چکر کے متعلق کچھ کہوں گا جو علم سے شروع ہوتا ہے جس میں علم سے فکر کی طرف حرکت، فکر سے عقل کی طرف حرکت اور عقل سے پھر علم کی طرف حرکت ہوتی ہے.پھر علم سے فکر کی طرف حرکت، پھر فکر سے عقل کی طرف حرکت اور پھر عقل سے علم کی طرف حرکت ہوتی ہے.غرض یہ ایک بڑا لطیف چکر ہے جو چلتا رہتا ہے.علم کے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کے متعلق ظاہری حواس سے ( مثلا کان سے سن کر یا آنکھ سے دیکھ کر یا ہاتھ سے چھو کر یا زبان سے چکھ کر ) معلوم کرنا اور جاننا.غرض ظاہری حواس سے ہم بہت کچھ حاصل کرتے ہیں اور جہاں تک دیکھنے اور سننے سے علم کے حصول کا تعلق ہے، اس میں کتابوں کا پڑھنا یا ان کا سنا شامل ہے.چنانچہ جو علم ظاہری حواس سے حاصل کیا جاتا ہے اس علم کا بھی صرف ایک حصہ درسی کتب کے مطالعہ پر مشتمل ہے.یعنی اس علم کے ایک حصہ کے ساتھ ہمارے تعلیمی اداروں کا تعلق ہے.پھر جہاں تک تعلیمی اداروں کا تعلق ہے ایک ہمارا جامعہ احمدیہ ہے جس میں دینی کتب پڑھائی جاتی ہیں.دوسرا تعلیم الاسلام کالج ہے.جس کے نصاب میں دیگر درسی کتب شامل ہیں.مثلاً سائنس کے مضامین کیلئے فزکس کیمسٹری، باٹنی، زوالوجی اور حساب کی کتابیں ہیں.پھر اسی طرح آرٹس کے مضامین مثلاً اقتصادیات اور سیاسیات وغیرہ ہیں.ان کے متعلق بھی کتابیں ہیں جو نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی ہیں حالانکہ وہ کسی اور شخص نے لکھی ہوتی ہیں طلبہ ان کتابوں کو پڑھ کر وہ چیز حاصل کرتے ہیں جو کسی اور نے مشاہدہ کر کے یعنی آنکھ سے دیکھ کر

Page 356

راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۲ء 353 دومشعل یا اپنے زمانے اور اپنے حلقے میں اپنے دوستوں اور بزرگ علماء کی آرا پہن کر ان سے ایک نتیجہ نکالا ہے.پس وہ میرا یا آپ کا علم نہیں ہے وہ یا تو کتاب لکھنے والے کا علم ہے یا کتاب پڑھانے والے کا علم ہے جو ہم تک آنکھ یا کان کے ذریعہ پہنچا ہے.یعنی یا خود کتاب پڑھی یا استاد کا لیکچر سنا.تاہم آنکھ اور کان کے علاوہ اور بھی تو ظاہری اور باطنی حواس ہیں جو حصول علم کا ذریعہ اور وسیلہ بن سکتے ہیں اور بنتے رہے ہیں اس لئے تعلیم کے حصول کا سارا انحصار سکول یا کالج کی پڑھائی پر نہیں ہونا چاہیئے.علاوہ ازیں جامعہ احمدیہ کی پڑھائی میں بھی بعض دفعہ یہ خرابی پیدا ہو جاتی ہے کہ بالکل تھوڑا سا علم حاصل کرنے پر (جو سارے علم کا شائدہ ۱/ حصہ بھی نہیں ہوتا ) غرور پیدا کر کے بعض لوگ اپنے آپ کو عالم کہلانے لگ جاتے ہیں.مثلاً جامعہ میں اگر کسی آدمی نے صحیح بخاری پڑھی یا کسی نے بخاری پڑھائی تو یہ علم بھی گویا آنکھ اور کان کے دو ظاہری حواس کے ذریعہ حاصل ہوا.حالانکہ اور بھی کئی ظاہری حواس ہیں جن کے ذریعہ علم حاصل ہو سکتا ہے اور اس لحاظ سے بھی یہ علم ادھورا ہے.پس علم کا پہلا ذریعہ اور وسیلہ اور اس کا پہلا مرحلہ ( علم کو اگر ہم وسیع معنوں میں لیں تو ظاہری حواس سے جاننا ہے.چنانچہ ہم اکثر چیزوں کو ظاہری حواس سے جانتے اور معلوم کرتے ہیں.آپ اس ماحول ہی کو لے لیجئے.میری آنکھ مجھے صرف یہ بتاتی ہے کہ میرے سامنے اس وقت کئی ہزار انسان بیٹھے ہیں.پس جہاں تک ظاہری حواس میں سے آنکھ کا تعلق ہے اس نے اس اجتماع میں اس کے سوا اور کچھ نہیں بتایا کہ کئی ہزار نو جوان ( اور کچھ بڑی عمر کے دوست بھی ہیں ) میرے سامنے بیٹھے ہیں یا پھر میری آنکھ نے یہ بھی بتایا کہ بہت تھوڑے خدام ہیں جنہوں نے اپنا نیا نشان اپنے گلے میں لڑکا یا ہوا ہے.پھر آپ نے جب اپنا عہد دہرایا یا جب آپ کے صدر صاحب نے میرے سامنے آپ کی حاضری کی رپورٹ پیش کی تو میرے کان نے یہ بتایا کہ میرے سامنے جو مجمع بیٹھا ہوا ہے اس کا تعلق خدام الاحمدیہ سے ہے.پس آنکھ اور کان نے اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا.چنانچہ ان دونوں ظاہری حواس سے ہمیں جو علم حاصل ہوتا ہے اسے علم بسیط بھی کہا گیا ہے.اس میں اور بہت ساری چیز نیں بھی شامل ہیں.لیکن اس چکر میں جہاں تک علم کا تعلق ہے وہ صرف ظاہری حواس کے ذریعہ چیزوں کے جاننے یا معلوم کرنے کو کہتے ہیں.علم کا دوسرا مرحلہ غور و فکر پھر قرآن کریم نے جس دوسری چیز کا ذکر کیا ہے یعنی علم کے بعد جو دوسرا مرحلہ آتا ہے وہ غور و فکر کرنے کا مرحلہ ہے.فکر ایک قوت ہے جو بیرونی علم یعنی ظاہری حواس کے ذریعہ جو کچھ معلوم کیا جاتا ہے اس سے نتائج اخذ کرنے میں مدد دیتی ہے.اسی لئے مفکر اس شخص کو کہتے ہیں جو علم بسیط کو بروئے کار لاتا اور مختلف چیزوں کو باہم جوڑ کر اُن سے ایک نتیجہ نکالتا ہے.مثلاً بہت سارے خدام کو ظاہری حواس کے ذریعہ دین کا ایک نہ ایک نکتہ معلوم ہوا اس سے ہماری فکر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جماعت احمدیہ کے نمائندہ نوجوان آج کے اس اجتماع میں خلوص نیت کے ساتھ دین کا علم سیکھنے کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں.اب خلوص نیت ظاہری علم کے ساتھ تو معلوم نہیں ہوسکتا.اس کا تو کا

Page 357

354 فرموده ۱۹۷۲ء دو مشعل راه جلد د.دوم دد بعض اور چیزوں کے ذریعہ تجزیہ کرنا پڑتا ہے.گویا ہماری فکر نے بہت ساری چیزوں کو ملا کر ایک نتیجہ اخذ کیا مثلا یہ کہا کہ جب بھی احمدی اکٹھے ہوتے ہیں تو ان کی جو مختلف حرکات اور جو مختلف کلمات ہم تک پہنچتے ہیں ان سے ہم یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ احمدی خلوص نیت کے ساتھ اکٹھے ہوتے ہیں.مثلاً جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ایک لاکھ مرد وزن کا اجلاس ہوتا ہے مگر ان کا آپس میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا.چنانچہ اس لڑائی جھگڑے کا فقدان اور دیگر ظاہری علوم جو ظاہری حواس سے حاصل کردہ ہیں ان سے قوت فکر یہ اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ احمدی نوجوان یہاں خلوص نیت کے ساتھ جمع ہوئے ہیں.پس ثابت ہوا کہ انسانی فکر علم بسیط کی مختلف تاروں اور دھاگوں کو جوڑ کر ایک نتیجہ نکالتی ہے جس نتیجہ کا انسان کے ظاہری حواس کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق اس کی قوت فکریہ کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ علم کا دوسرا مرحلہ ہے.علم کا تیسرا مرحلہ عقل انسانی چنانچہ غور وفکر کرنے سے جب ایک نتیجہ نکل آتا ہے تو پھر انسان کا علم تیسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے جس کی روسے پریکٹیکل لائف یعنی عملی میدان میں یہ پتہ لینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ نتیجہ صبح نکلا ہے یا نہیں گویا جس طرح سائنس میں تجربے کئے جاتے ہیں اسی طرح سوشل سائنس میں بھی تجربے کئے جاتے ہیں اور یہ کام انسانی عقل سے تعلق رکھتا ہے.چنانچہ انسانی فکر جو نتائج اخذ کرتی ہے ان کی صحت معلوم کرنے کیلئے از روئے عقل تجربہ کرنا پڑتا ہے.مثلاً اس وقت آپ کے اجتماع کا جتنا پر وگرام آپ کے سامنے پیش ہو رہا ہے یہ گویا سب تجر بہ ہی ہوگا.یہ معلوم کرنے کیلئے کہ آپ یہاں خلوص نیت کے ساتھ اکٹھے ہوئے ہیں یا نہیں.اگر آپ سب کے سب مجوزہ پروگرام میں حصہ لیں گے اور اس ماحول سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے تو عقل کی کسوٹی پر ان تین دن کا تجربہ بتائے گا کہ ہمارا فکری نتیجہ مسیح تھا.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں عقل اس قوت کا نام ہے جو انسان کو علم اور فکر وشعور کے مطابق کام کرنے کی توفیق بخشتی ہے.اسی لئے عاقل اس شخص کو کہتے ہیں جو ی علم صحیح فکر اور صحیح شعور کے مطابق کام کرتا ہے اور عملی میدان میں پہلے علمی اور اس کے بعد فکری نتائج کی جانچ پرکھ کیلئے تجربے کرتا ہے.چنانچہ جس وقت وہ تجربہ کرتا ہے تو مادی اور ظاہری حواس سے اسے کام لینا پڑتا ہے اور ان ظاہری حواس کے ذریعہ کئی نئی چیزیں اس کے سامنے آجاتی ہیں.چنانچہ پہلی سٹیج کے بعد پھر دوسری سٹیج میں بعض نئی باتیں ظاہری حواس کے نتیجہ میں اس کے سامنے آتی ہیں تو وہ پھر فکر سے کام لیتے ہوئے ان پر غور کرتا ہے.پھر وہ کچھ نتائج اخذ کرتا ہے.پھر وہ عمل کے میدان میں اپنی عقل کے زور سے ان کو پر کھنے کی کوشش کرتا ہے.پھر اس عملی تجربے کے وقت بھی کئی نئی چیزیں انسان کے سامنے آتی ہیں اور یہ ایک ایسا چکر بن جاتا ہے جو انسان کے علم کو بڑھانے کیلئے چلتا رہتا ہے.مثلاً آپ کیمسٹری کو لے لیں.

Page 358

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۲ء 355 یہ جڑی بوٹیوں کے اجزاء اور مرکبات کا علم ہے یہ علم ہزاروں سال سے موجود اور روز بروز بڑھتا چلا گیا ہے.یہ کیوں بڑھا.یہ اسی فکر کے نتیجہ میں بڑھا.مثلاً لوگوں نے ایک چیز کا مشاہدہ کیا اور غور و فکر کے بعد وہ کسی خاص نتیجہ پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور ان کی عقل نے عملاً ان کو درست پایا.اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے ہزاروں لاکھوں چیزیں پیدا کیں جن میں سے مثلاً ایک یہ چائے بھی ہے جسے ہم روزانہ کئی بار پیتے ہیں اس کا استعمال کیسے رائج ہوا یہ ایک طویل داستان ہے.جائے کی ابتداء مختصراً یہ کہ چنگیز خان یا اس کے بیٹوں کی ایک فوج نے جو لاکھوں کی تعداد میں تھی کسی علاقہ پر حملہ آور ہونے کیلئے کوچ کیا.راستے میں ایک جگہ جہاں انہوں نے پڑاؤ کیا ہیضہ کی وباء پھیلی ہوئی تھی.فوج کے سپہ سالار نے اطباء کو بلایا اور کہا کہ ہم تو اس وبائی مصیبت میں پھنس گئے ہیں، اس سے نکلنے کی کوئی ترکیب بتاؤ چنا نچہ اطباء نے مشورہ دیا کہ فوج کے ہر سپاہی اور افسر کو یہ حکم دیا جائے کہ وہ پانی کو ابال کر پیئے.سپہ سالار نے ساری فوج کو حکم دے دیا جس پر فی الفور عمل درآمد بھی ہونے لگا.اس زمانے میں افسر اعلیٰ کی طرف سے جو کم ملتا تھا اس کی یا تو پابندی کرنی ہوتی تھی یا گلا کٹوانے کیلئے تیار رہنا پڑتا تھا.چنانچہ انہوں نے جب پانی کو ابال کر پینا شروع کیا تو انہیں بدمزہ لگا.آپ بھی اگر پانی ابال کر پیئیں تو وہ آپ کو بدمزہ لگے گا.بہر حال چونکہ پانی ابالنے سے بک بکا ہو جاتا ہے اس لئے ان کو چنداں پسند نہ آیا.اتفاقاً ایک دن ان کا کوئی آدمی جنگل میں سے گزررہا تھا اس نے دیکھا ایک خوشبودار جنگلی بوٹی اُگی ہوئی ہے.وہ اس کے کچھ پتے لایا اور اپنے ساتھیوں سے کہا آؤ تجربہ کر یں.انہوں نے پانی ابالا اور وہ پتے بھی اس میں ڈال دیئے تو وہ پانی ان کو اچھا لگا.چنانچہ ظاہری حواس سے انہیں ایک علم حاصل ہوا.یعنی ان کی آنکھ نے پتوں کو دیکھا اور زبان نے اس کا مزہ چکھا.پھر انہوں نے سوچا اس پر غور اور فکر کر کے اس کا کوئی نتیجہ نکالنا چاہیئے.اور اس سے نتیجتا انہوں نے یہ اخذ کیا کہ یہ پتے خالی پانی کا مزہ ہی نہیں بدلتے بلکہ معدہ کی IRRITATION (اری ٹیشن ) یعنی سوزش اور جلن کو بھی دور کرتے ہیں.تو گویا پہلا نتیجہ یہ نکالا کہ اس سے پانی بدمزہ نہیں رہا، اس سے پانی کا ذائقہ بہتر ہو گیا.دوسرے انہوں نے ظاہری حواس کے ذریعہ یہ بھی معلوم کیا کہ معدہ میں جو درد اور خراش محسوس ہوتی تھی اس کا احساس بھی ختم ہو گیا.غرض انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ایک بڑی اچھی اور مفید چیز ہے لیکن یہ تو ایک تھوڑ اسا علم تھا جو محدود شکل میں تجربہ حاصل ہوا تھا کیونکہ دس ہیں یا سو دو سو آدمیوں نے وہ پانی پیا ہو گا مگر جب ان کے سپہ سالار کو پتہ لگا ( اس زمانے میں بادشاہ خود فوج کی کمان کرتے تھے ) تو اس نے اطباء کے مشورے سے ساری فوج کو پانی ابال کر اور اس میں اس چائے کی ( جواب سبز چائے کہلاتی ہے ) پتی ڈال کر پینے کا حکم دیا اور اس طرح گویا عقل کے زور سے انہوں نے عملی تجربہ کیا اور پھر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ یہ بڑی اچھی چیز ہے اس لئے ساری فوج کو استعمال کرنی چاہیئے.

Page 359

356 فرموده ۱۹۷۲ء دد د و مشعل راه جلد دوم یہ تو تھی چائے کے استعمال کی ابتداء جو چنگیز خان یا اس کے بیٹوں کے زمانہ میں ہوئی.اس کے بعد لوگوں نے اس کے متعلق غور وفکر کیا اور بہت سے عملی تجربات کے بعد اس کے کئی خواص معلوم کئے.مثلاً لوگوں نے یہ بھی معلوم کیا کہ یہ صرف وبائی امراض کی روک تھام کیلئے ہی مفید نہیں بلکہ پینے کے لحاظ سے بھی بڑی اچھی چیز ہے.کئی آدمیوں کو چست اور بیدار بھی رکھتی ہے.چونکہ بعض کھانے پینے والی چیزوں کا اثر محدود ہوتا ہے اور ہر ایک پر یکساں نہیں ہوتا مثلاً ایک ایسی چیز ہے جس کو استعمال تو بہت سارے لوگ کرتے ہیں.مگر ان میں چند ایک پر اس کا اثر ہوتا ہے باقی پر نہیں ہوتا.اس لئے یہ عقل کا کام ہے کہ وہ تجربہ کر کے بتائے کہ اس چیز کا ورد عمل ہے استثنائی حیثیت رکھتا ہے یا اس کا سارے انسانوں پر اجتماعی رد عمل مترتب ہوتا ہے.چنانچہ اس قسم کے عقلی تجربات کے نتیجہ میں جہاں چائے اور اس کے خواص کا علم بہت ترقی کر چکا ہے وہاں اس کے بعض نقائص بھی سامنے آچکے ہیں.پس اگر ہم حقائق اشیاء پر غور کریں تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ ایک چکر ہے جس کی علم سے فکر کی طرف حرکت ہے اور فکر سے عقل کی طرف حرکت ہے اور عقل سے پھر علم کی طرف حرکت ہے.یعنی عقلی تجربے کے وقت ظاہری حواس نے اگر کوئی نئی چیز دیکھی تو گویا عقل سے پھر علم کی طرف حرکت عمل میں آتی ہے اور پھر پہلے کی طرح غور و فکر اور عقلی تجربات کا چکر چل پڑتا ہے اور یہ چکر جس پر انسانی علوم کی ساری ترقی (جسمانی بھی اور روحانی بھی) کا دار ومدار ہے ہمیشہ چلتا چلا جاتا ہے.روحانی علوم کی ارتقائی حرکت میں تھوڑا سا فرق ہے.ہم اس میں بعض نام بدلتے ہیں ورنہ بنیا د سب کی ایک ہی ہے.جہاں تک روحانیت کا سوال ہے اس میں ایمان اور عمل صالح کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے.خود ایمان کے اندر ان تینوں چیزوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہے جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں.چونکہ ہمارے روحانی علماء نے ایمان کے یہ معنے کئے ہیں کہ زبان سے اقرار کرنا اس لئے اس کا مطلب اس کے علاوہ کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا کہ ظاہری حواس سے ہمیں ایمانیات کا پتہ لگا.مثلاً ظاہری حواس جس میں ہمارے کان اور آنکھیں بھی شامل ہیں اور اسی طرح بعض دوسرے حواس بھی ہیں ان سے ہمیں پتہ لگا کہ اللہ ایک ہے قرآن کریم ایک آخری عظیم اور کامل شریعت ہے اور یہ علم کا پہلا درجہ ہے.گویا اظہار ایمان کی ابتداء سننے یا پڑھنے سے ہوتی ہے.پھر ہم نے اور بہت ساری چیزیں معلوم کیں ظاہری حواس سے.مثلاً روحانی طور پر اللہ تعالی ، قرآن عظیم ، آنحضرت ﷺ کی زندگی اور آپ کی عظمت شان کے متعلق ایک ایک کر کے با تیں معلوم ہوئیں ان کو ہماری فکر نے اکٹھا کیا اور اس سے کچھ نتائج نکالے.پس زبان سے ایمان کے اقرار کا تعلق علم سے ہے اور دل سے اقرار یا تصدیق کا تعلق فکر سے ہے.انسانی فکر کے ذریعہ مختلف تاروں کو جوڑ کر نئے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں.مثلاً ایمان یعنی مذہبی علم نے ہمیں یہ بتایا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا مبارک وجود بڑی عظمت والا ہے.اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ دعائیں کرنا، نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا وغیرہ ایمانیات کے مختلف اجزاء ہیں.مگر فکر نے ایمان کی ان جزئیات کو اکٹھا کیا اور اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ صرف یہی نہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ ہے ہیں ایمان کی ان جزئیات سے فائدہ اٹھا سکتے تھے بلکہ مذہبی دنیا میں ہر آدمی یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے اور اسے اخذ کرنا.

Page 360

فرموده ۱۹۷۲ء 357 د دمشعل قل راه جلد دوم چاہیئے کہ انسانی فکر نے یا صحیح فکر نے یا ایک مسلمان کی صحیح فکر نے یا ایک احمدی کی صحیح فکر نے ایمان کی جزئیات سے یہی نتیجہ نکالا کہ اگر انسان الہی احکام کی پابندی کرے گا تو اسے بھی اپنے دائرہ استعداد میں وہ برکات حاصل ہوں گی جو پہلوں نے حاصل کیں.گویاند ہی میدان میں اس نتیجہ تک پہنچے کا تعلق فکر سے ہے.چنانچہ پھر اس نے کہا آزما کر دیکھتے ہیں.پھر اس نے خلوص نیت کے ساتھ عمل کرنا شروع کیا.پھر اس نے خدا تعالیٰ کے پیار کے جلوے دیکھے.جب پیار کے جلوے دیکھے تو اس کے سامنے کہیں کہیں بسیط علم کے کچھ جلوے نظر آگئے.پھر اس نے غور اور فکر سے کام لیا اور نتیجہ نکالا.پھر اس نے کہا عملی میدان میں مجھے اپنے فکر و شعور کو آزمانا چاہیئے تا کہ میں اس سے فائدہ اٹھاؤں.چنانچہ هدى للمتقین کا یہی مطلب ہے کہ ایک آدمی جو تقی ہو جاتا ہے اس کیلئے بھی ہدایت کا سامان علم بسیط اور فکر کے تسلسل سے پھر پیدا کر دیا جاتا ہے.شعوراور عرفان اس کا علم ایک جگہ رک نہیں جاتا.یہ ہمارا ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ کوئی حقیقی مومن قرب الہی کی حرکت میں کبھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتا وہ آگے ہی آگے بڑھتا ہے وہ اسی وجہ سے آگے بڑھتا ہے کہ جب وہ خدا کا پیار حاصل کرتا ہے تو اس وقت اس کے سامنے بعض نئی باتیں یا علم کے نئے پہلو آتے ہیں.پھر وہ ان کے اوپر غور کرتا ہے.پھر وہ ان سے بعض نتائج اخذ کرتا ہے.پھر ان کے اوپر وہ عمل کرتا ہے.پھر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے اور پھر اس کے سامنے نئی باتیں آتی ہیں اسی طرح ایک چکر چلتا رہتا ہے جس طرح ایک بگولا آسمان کی طرف جاتا ہے جو الہی محبت اور پیار اور خدائی عظمت اور جلال کے اثرات کا بگولا ہے وہ انسان کو اٹھا کر خدا تعالیٰ کے قریب سے قریب تر کر دیتا ہے.اسے ہم مذہبی زبان میں شعور اور عرفان بھی کہتے ہیں.علم اور فکر کی بجائے.گویا اس مقام پر مذہب نے ایک نئی چیز متعارف کرائی ہے اور وہ باطنی حواس ہیں.ظاہری حواس کے نتیجہ میں مذکورہ چکر میں ہم عقل تک پہنچے اور پھر اس کے ساتھ ایک اور چکر متوازن چلتا ہے جو شعور سے شروع ہوا اور عرفان کے مرحلہ سے گزرا اور عمل صالح کے تجربہ کے میدان میں داخل ہو گیا.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ عملوا الصالحات کا حکم فرمایا ہے.عمل صالح اس تسلسل میں عقل ہی کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے کہ تجربہ کر کے دیکھتے ہیں اور پھر جس طرح دوسیٹیلائٹ فضا میں ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں اسی طرح عقل اور وہ روحانی طاقت جو انسان کو عمل صالح پر مجبور کرتی ہے وہ اکٹھے ہو جاتے ہیں گویا یہ دو چکر جو مختلف نقطوں سے شروع ہوئے تھے ایک مومن کی عقل اور عمل صالح کی قوت پر آکر اکٹھے ہو جاتے ہیں یہ شرف صرف ایک حقیقی مومن کو حاصل ہے کیونکہ جو مومن نہیں ہوتا وہ تو ظاہری علوم کے ارتقائی تسلسل میں عقل پر آکر ٹھہر جاتا ہے.لیکن جو مومن ہوتا ہے وہ عقل کے ساتھ عمل صالح کی قوت بھی رکھتا ہے.گویا عقل بھی ایک طاقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے اور عمل صالح کی طاقت بھی انسان کو خدا ہی نے دی ہے

Page 361

358 فرموده ۱۹۷۲ ء ، د و مشعل راه جلد دوم دد یہ دو طاقتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں تو پھر انسان علی وجہ البصیرت حقیقی مومن یا احمدی مسلمان بنتا ہے پھر اس کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس نے اس تیسرے درجہ پر ایمان کا مزہ چکھ لیا یا اس مزہ چکھنے کے بعد جسے ایمان کی بشاشت حاصل ہوگئی اس کے چہرے پر کبھی اداسی نہیں آسکتی.کون کہتا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے موت کا چہرہ نہیں آیا اور وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے نہیں ہوئے.جس طرح ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کے سامنے موت آئی تھی اور انہوں نے کبوتر کی طرح خوف کے مارے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں.اسی طرح صحابہ کے سامنے بھی موت آئی اور اسی خوفناک شکل میں آئی لیکن وہ مسکراتے ہوئے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں پر آگے سے آگے قدم مارتے چلے گئے ، اس واسطے کہ وہاں محض عقل نہیں تھی بلکہ عقل کے ساتھ عمل صالح کی قوت بھی کارفرما تھی خدا کی راہ میں جان دینا یا اپنا سب کچھ قربان کر دینا عمل صالح ہے.یعنی اس کیلئے صرف موت کا وارد ہو جانا ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ تو فنافی اللہ کا مقام حاصل کر لیتا ہے وہ موت کو قبول کرنے کیلئے ہر دم اور ہر لحظہ تیار رہتا ہے.پس یہ وہ مقام ہے جہاں عمل صالح یعنی فنافی اللہ اور عقل کا مقام اکٹھا ہو جاتا ہے.علم کے میدان میں ہمارا کام کم نہیں ہوا میں نے اس مضمون کو بھی مختصر بیان کیا ہے.اب یہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے.میں نے مضمون آپ کے سامنے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے بیان کیا ہے.اور اس طرح یہ آپ کے سامنے علم بسیط کا حکم رکھتا ہے.یعنی آپ نے جو کچھ سنا ہے وہ مجھ سے سنا ہے.چنانچہ میں نے اور آپ نے اس کا نتیجہ یہ نکالنا ہے کر تعلیمی اداروں کے قومیائے جانے کے بعد علم کے میدان میں ہمارا کام کم نہیں ہوا بلکہ ہماری توجہ کو اللہ تعالی نے حقیقی علم کے پھیلانے کیلئے آزاد کر دیا ہے کیونکہ درسی کتب پڑھ لینا غرورتو پیدا کر سکتا ہے لیکن ( الف ) صحیح فکر اور صحیح عقل اور (ب) صحیح شعور اور اعمال صالحہ کی قوت نہیں پیدا کر سکتا.اس کیلئے آپ نے کوشش کرنی ہے.اس کیلئے آپ نے صرف اس ملک میں کوشش نہیں کرنی.آپ نے ساری دنیا میں کوشش کرنی ہے کیونکہ اس کیلئے آپ کیا گیا ہے.پس بدلے ہوئے حالات نے ہمیں پکڑ کر اور جھنجھوڑ کر اس بات کے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم اپنے بعض ضروری کام بھول گئے تھے.ہمیں ان کی طرف توجہ کرنی چاہیئے.اب مثلاً جو شخص احمدیت کا سخت مخالف ہے کیا آپ نے اس کے متعلق کبھی سوچا ہے کہ وہ آپ کی مخالفت کیوں کرتا ہے؟ وہ آپ کی مخالفت محض اس لئے کرتا ہے کہ دینی علم کے میدان میں اس کا علم ظاہری حواس سے آگے نہیں بڑھا.اس نے جو کتابیں پڑھی ہیں اس کے مطابق اس نے فتویٰ دے دیا.حالانکہ اسے یہ سوچنا چاہیئے تھا کہ اس کا علم تو ناقص اور نامکمل ہے جس کے ذریعے انسان کسی نتیجہ پرنہیں پہنچ سکتا.وہ تو صرف علم بسیط کا رنگ رکھتا ہے مگر اس نے ہماری تاریخ میں شروع سے اب تک مخالفت کا یہ تماشہ دکھایا ہے.یوں ویسے یہ ایک لمبا مضمون ہے لیکن بڑا لطیف بھی ہے اور ایک لحاظ

Page 362

د دمشعل راه جلد دوم دد سے لطیفہ بھی ہے.ہمیں شرمندہ کرنے والا بھی ہے اور فکر مند کرنے والا بھی ہے.فرموده ۱۹۷۲ء 359 حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے بزرگ تھے.اکثر خدام ان علاقوں سے آئے ہیں جہاں حضرت سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بڑی عزت اور احترام کیا جاتا ہے.مثلاً کشمیر میں انہیں بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے.چنانچہ ان علماء نے جن کا علم ظاہری حواس کے ذریعہ حاصل کئے ہوئے علم سے آگے بڑھ کر عقل و فکر کے میدانوں میں داخل نہیں ہوا تھا ان پر یہ کہ کر کفر کا فتویٰ لگایا کہ تم وہ باتیں کہہ رہے ہو جو تم سے پہلی صدی کے باطنی علماء نے نہیں کہیں.اس واسطے تم کا فر ہو اور پھر ان سے بعد میں آنے والی صدی کے باطنی علماء پر یہ کہ کر کفر کا فتویٰ لگایا گیا کہ حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو کہا تھا تم اس سے مختلف باتیں کرتے ہو.چنانچہ مختلف باتیں کہنے پر حضرت سید عبد القادر جیلانی اپنے وقت پر کا فرٹھہرے اور بعد میں آنے والے مجددین اور مقربین الہی اپنے وقت پر کافر ٹھہرے اس واسطے کہ ان ظاہری علماء کا علم ظاہری حواس سے آگے نہیں بڑھا تھا.ایسے علماء نے بے شک کتابوں کو پڑھا اور سنا بلکہ جن کا حافظہ تیز تھا انہوں نے یاد بھی کر لیا.لیکن انہوں نے اپنے علم کو ذاتی تجربے کی کسوٹی پر نہیں پر کھا.انہوں نے خود غور و فکر اور عقل و تدبر سے کام نہیں لیا.اور نہ انہوں نے اس سے نتائج اخذ کئے.انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ نے اپنے سے پہلی صدی کے باطنی علماء سے اس لئے اختلاف کیا کہ سید صاحب کے زمانے کے مسائل ان سے پہلی صدی کے مسائل سے مختلف تھے اور ان کو حل کرنے کیلئے خدائے واحد و یگانہ نے ان کو علم قرآن سکھایا تھا.اگر وہ ظاہری علماء جنہوں نے کفر کا فتویٰ لگایا تھا وہ فکر سے کام لیتے اور اس اختلاف کی وجہ معلوم کرتے اور پھر یہ دیکھتے کہ ان کے زمانہ میں جن لوگوں نے فکر سے کام لیا اور پھر عقل سے کام لیا.یعنی اپنی زندگیوں میں ان کی نئی تفسیر کے مطابق نئی برکات کے حصول کی کوشش کی.انہوں نے وہ برکات حاصل کیں.اسی طرح اگر وہ بھی فکر سے کام لیتے تو اس ابدی صداقت سے جو اکثر مجددین کے بعثت کا خاصہ رہا ہے ( تبھی تو وہ عزت واحترام سے یاد کئے جاتے ہیں ) تو وہ خود بھی فائدہ اٹھاتے اور بعد میں آنے والوں کو کا فر بھی نہ کہتے.یعنی سید عبد القادر جیلائی کے متعلق انہوں نے جو علم حاصل کیا اگر اس کو غور و فکر سے سمجھنے کی کوشش کرتے اور یہ معلوم کرتے کہ اس زمانہ کے لوگوں نے جنہوں نے فکر اور غور سے کام لے کر حضرت سید عبد القادر جیلائی سے برکت اور فیض حاصل کیا وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے زمانہ کے مسائل سمجھے اور ان کا حل حضرت سید صاحب کی تفسیر قرآنی میں پایا تو پھر حضرت سید عبد القادر کے بعد میں آنے والے بزرگ کو یہ کہہ کر کا فرقرار نہ دیتے کہ تم اس لئے کافر ہو کہ تم سید صاحب سے مختلف باتیں کر رہے ہو کیونکہ حضرت سید عبدالقادر جیلانی نے جو پہلوں سے مختلف باتیں کی تھیں ان پر فکر کے نتیجہ میں وہ اس نے نتیجہ پر پہنچے تھے کہ وہ نیا باطنی عالم ہے جو خدا تعالیٰ سے سیکھتا ہے اور نئے مسائل حل کرنے کیلئے نئی باتیں کرتا ہے.اس واسطے اس کی کوئی بات قابل اعتراض نہیں ہوتی.اس طرح اس زمانہ میں اگر ہمارے مخالفین فکر سے کام لیتے اور حضرت مسیح موعود کے دعاوی پر غور کرتے اور

Page 363

360 فرموده ۱۹۷۲ء دومشعل راه جلد دوم آپ نے یہ جو فرمایا ہے کہ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے فیوض کو بانٹ رہا ہوں تم خود آزما کر دیکھ لو اگر اس پر غور وفکر کرتے.اپنی عقل سے کام لیتے تو کافر کہنے کی بجائے آپ کے پاؤں پکڑ کر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر فدا ہور ہے ہوتے.پس خالی علم ایک لا یعنی چیز ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے.خواہ وہ ظاہری علم ہو اور ظاہری علم سے میری مراد سائنسی علوم ہیں جو تفصیلی اور بنیادی علوم ہیں اور انسانی بقا کیلئے اور انسانی ترقیات کیلئے اور انسان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے کھولنے کیلئے ہم انہیں پڑھتے اور دنیوی طور پر فائدہ اٹھاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں ربنا اتنا في الدنيا حسنة میں ان دنیوی علوم کی طرف بھی اشارہ ہے اور فی الاخرۃ حسنہ کی رو سے ہم ان سے مذہبی اور روحانی فائدہ اٹھاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری بھی دعا قبول کرتا ہے اور کہنے کو تو وہ فزکس کی ایجاد ہوتی ہے یا کیمسٹری کے ذریعہ خواص اشیاء پر مشتمل کوئی نئی دریافت ہوتی ہے مگر ان سب کا حصول اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہوتا ہے.بہر حال ہمارا یہ کام ہے ( اور یہی میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں ) کہ لوگوں کو پیار کے ساتھ اور ان کی با ہیں پکڑ کر محبت کے ساتھ ان کو ( یہ جو حرکت ہے علم سے فکر اور فکر سے عقل کی طرف اور پھر عقل سے علم کی طرف اور پھر علم سے فکر اور فکر سے عقل کی طرف) اس راستے پر جو دائرہ کی شکل میں چل رہا ہے لا کھڑا کریں ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے محروم ہو جائیں گے.دہریت نواز دنیا نے گود نیوی طور پر ترقی کی ہے.مگر وہ راہ راست سے بھٹک گئی ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کو نعمت کے طور پر جو چیز دی تھی وہ ان کی ہلاکت کا موجب بن گئی.مادی ذرے کے اندر جو طاقت ہے یہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے لیکن ان بے وقوفوں نے ذرات کی طاقت کو ہلاکت کے سامان پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا اور اب سارے ڈر رہے ہیں بڑے خوف زدہ ہیں کہ اب کیا ہوگا.چنانچہ امریکہ بھی خوف و پریشانی میں مبتلاء ہے.روس بھی خوف اور پریشانی سے دو چار ہے اور اس طرح بعض دوسرے ملکوں میں بھی خوف و پریشانی کا دور دورہ ہے.اب یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ خدا کی نعمتوں کا غلط استعمال کر کے انہوں نے اپنے لئے خدا کی رحمت کے دروازے کھولنے کی بجائے پریشانیوں کے دروازے کھول لئے ہیں.اس لئے اب دنیا کو سمجھانا ہمارا کام ہے کسی دوسرے کا کام نہیں نہ کسی نے پیدا ہونا ہے.اس کام کیلئے جس نے پیدا ہونا تھاوہ تو پیدا بھی ہو چکا.خدا کے محبوب خاتم النبین ﷺ کا محبوب مہدی آچکا.چنانچہ وہ دنیا جس نے خدا اور اس کے رسول کو پہچانا تھا اس نے ختم المرسلین کی طرف سے اسے سلام پہنچا دیا.وہ آ گیا.اب اس کے ذریعہ غلبہ اسلام مقدر ہے.اس کی جماعت نے اپنی حقیر قربانیاں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر کے اور اپنے عاجزانہ آنسوؤں کے ساتھ اپنے گناہوں کو دھو کر یہ انقلاب دنیا میں بپا کرنا ہے.پس ظاہری طور پر اگر ہمارے سکول اور کالج بھی لے لئے جائیں (ابھی ان کا آخری فیصلہ نہیں ہوا) تب بھی ہمارے کام میں کوئی فرق نہیں پڑتا اس لئے جیسا کہ میں نے بتایا ہے علم کا جو پہلا مرحلہ ہے اس کا بھی ایک حصہ ہے جو ان کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے.اور پھر دوسرے اور پھر تیسرے حصہ میں داخل ہوئے بغیر یعنی فکر اور عقل سے کام لئے بغیر اور پھر اس کے متوازی جو دوسرا چکر چل رہا ہے یعنی شعور و عرفان اور عمل صالح کی

Page 364

فرموده ۱۹۷۲ء 361 دد مشعل راه تل راه جلد دوم قوت کا ، اس میں داخل ہوئے بغیر اور ان دونوں راستوں کو ایک بنائے بغیر انسان نہ حقیقی ترقی حاصل کر سکتا ہے نہ حقیقی سکون پا سکتا ہے اور نہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا اور پیار کے جلوے دیکھ سکتا ہے.خدا تعالیٰ تو بڑا پیار کرنے والا ہے.آپ اس کے پیار کو جذب کریں اور اس نیت کے ساتھ جذب کریں کہ آپ دنیا کی راہ نمائی کر کے بنی نوع انسان کو خدائے رب کریم ، خدائے غفور رحیم اور خدائے ودود کے قدموں میں لے آئیں گے.مگر یہ صرف اسی طرح ہو سکتا ہے کہ آپ ان کیلئے قربانیاں دے کر ان کے ہاتھوں سے چھیڑ میں کھا کر دکھ سہہ کر ان کو سمجھا بجھا کر خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے پر مجبور کر دیں.اگر کوئی ہمارے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو اس سے آخر کیا فرق پڑتا ہے.کیا خدا تعالیٰ کے پیار کو ہم اس لئے ترک کر دیں گے کہ بعض جگہ ہمارے منہ پر چھیڑ لگائی جاتی ہے.کیا کوئی ایسا شخص جس نے اپنی دونوں مٹھیوں میں ایک سو اشرفیاں پکڑی ہوں ایک چھیڑ سے محفوظ رہنے کیلئے ان اشرفیوں کو پھینک دیا کرتا ہے.سوائے احمق اور مجنون کے کوئی شخص نہ ایسا سمجھ سکتا ہے اور نہ ایسا کر سکتا ہے.اگر انسان دنیا کے اصول کی خاطر بڑی سے بڑی تکلیفوں کو برداشت کر لیتا ہے تو اتنی بڑی روحانی دولت کی خاطر اور اتنی بڑی رحمت کی خاطر وہ اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو کیوں برداشت نہیں کرے گا.پس تکلیفیں تو ضرور آئیں گی اور وہ آپ کو برداشت بھی کرنی پڑیں گی کیونکہ آپ کو تکلیفیں جھیلنے کیلئے پیدا کیا گیا ہے.آپ کو مصائب سہنے کیلئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ آپ کو خدا کی جنتوں میں اعلیٰ مقام حاصل ہو.جب تک آپ خدا کی راہ میں قربانی نہیں دیں گے.جب تک آپ کے دلوں میں یہ آگ نہیں بھڑک اٹھتی کہ آپ تمام بنی نوع انسان کو اکٹھا کر کے علم کے میدان اور عقل اور فکر کے میدان میں ان کی راہ نمائی اور رہبری کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے قدموں میں حضرت محمد رسول اللہ علیہ کے جھنڈے تلے جمع نہیں کریں گے اس وقت تک آپ کیسے چین سے بیٹھ سکتے ہیں.جب تک آپ کے اندر یہ خواہش پیدا نہیں ہوتی اور یہ آگ نہیں بھڑک اٹھتی اس وقت تک آپ اس عظیم ذمہ داری سے کیسے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ میں اپنی ذمہ داری کو نباہ رہا ہوں اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے آخر میں بھی کمزور انسان ہوں.لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ میرے دل میں یہ آگ لگی ہوئی ہے کہ میں آپ کو جھنجھوڑ کر اس مقام پر لا کے کھڑا کر دوں جو مقام خدا تعالیٰ نے ایک احمدی نوجوان کیلئے بنایا ہے تا کہ آپ اس کی رحمتوں اور برکتوں کے وارث بنیں.آپ کوشش کریں.اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور رحمتیں آپ پر نازل ہوں گی.خدا تعالیٰ ایک قربانی لیتا ہے اور اس کے بدلے میں اس دنیا میں بھی دس اور بعض دفعہ سو اور بعض دفعہ دس ہزار اور بعض دفعہ بے شمار دے دیتا ہے.اُخروی زندگی کا تو سودا ہی بڑا عجیب ہے.اس دنیا میں انسان انسان سے کبھی اس قسم کا سودا نہیں کر سکتا تھا جو خدا نے اپنے بندوں سے کر لیا.پچاس سال، ساٹھ سال ، ستر سال، اتی سال کوئی زمانہ ہے اس ابدی زندگی کے مقابلہ میں جس کی تمہیں بشارت دی گئی ہے جس کی ابتدا تو ہے لیکن جس کی انتہاء کوئی نہیں.پس یہ سودا مہنگا نہیں ہے آپ فکر کریں غور کریں، عقل سے کام لیں.شعور کو بیدار کریں، عرفان کو حاصل

Page 365

362 فرموده ۱۹۷۲ء د مشعل راه جلد دوم کریں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوؤں کو پہچانیں.انسان کے اندر وہ تمام قو تیں ودیعت کی گئی ہیں جو اسے خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنادیتی ہیں اور انسان کے اندر جو قو تیں اللہ کا مظہر بننے کیلئے پیدا کی گئی ہیں اس کے مطابق خدا نے اپنے صفات کے جلوے ہر رنگ میں ظاہر کر دیئے.آگے بڑھیں اور اس آسمانی نور سے پائیں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ سب کو بھی اپنی ذمہ داریاں نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.(بحوالہ روزنامه الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۷۲ء)

Page 366

دومشعل دوم فرموده ۱۹۷۲ء سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا خدام الاحمدیہ سے بصیرت افروز اختتامی خطاب فرمودہ ۱۹ اکتو بر۱۹۷۲ کا خلاصہ پیش خدمت ہے.سورۃ التین کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:- اس سورۃ میں چارا نقلابات کا ذکر کیا گیا ہے.پہلا انقلاب 363 پہلے انقلاب کی علامت الحنین بیان کی گئی ہے.اور یہ انقلاب حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ تک رہا.درمیان میں جو انبیاء کرام ہوئے ، انہوں نے ایک طرف اس انقلاب کو کامیاب بنانے کے لئے کوشش کی اور دوسری طرف دوسرے انقلاب کے لئے لوگوں کو تیار کیا.اس انقلاب کے ذریعہ بنو آدم کو گناہ کا احساس دلایا گیا.ان کے ننگ یعنی گناہ کی طرف میلان کو ظاہر کیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ تم اس جنگ کو ڈھا نپوور نہ تم گناہگار ہو کر رہ جاؤ گے.اور اس طرح اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکو گے.اس انقلاب میں تین باتیں خاص طور پر ممتاز نظر آتی ہیں.(۱) شیطان کو یہ ڈھیل دی گئی کہ روحانی انقلاب کونا کام بنانے کے لئے وہ جو جی چاہے کرے.اس پر وہ گرفت نہیں آئی جو نوح کے زمانہ میں اس پر آئی.گو یا اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ میں اس پہلے انقلاب کو بغیر گرفت کے کامیاب کروں گا.(۲) حضرت آدم پر جو ہدایت نازل ہوئی ، وہ گوروحانی ترقیات کے لئے تھی لیکن اس میں معاشرہ انسانی پر زیادہ زور دیا گیا تھا.(۳) مادی ضروریات کا اس انداز میں خیال رکھا جاتا تھا کہ آبادی کی تقسیم کے نتیجہ میں نفرت پیدا نہ ہو.دوسرا انقلاب دوسرا انقلاب جس کا اس سورۃ میں ذکر کیا گیا ہے وہ حضرت نوح علیہ السلام سے شروع ہوا.اس انقلاب کی علامت زیتون بیان کی گئی ہے.اس انقلاب میں جو چیز نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے شیطان سے کہا میں تمہیں ایک حد تک ڈھیل دے سکتا ہوں لیکن اگر تو سمجھتا ہے کہ میرے بندوں کو میرے رستہ سے ہٹا دے گا اور انہیں ہلاک کر دے گا.تو میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دونگا.کہتے ہیں طوفان نوح کے دوران کشتی نوح کے پاس سے ایک فاختہ گزری جس کے منہ میں زیتون کی ٹہنی تھی.حضرت نوح علیہ السلام نے فاختہ اور زیتون کی ٹہنی سے دواندازے لگائے.

Page 367

364 -1 فرموده ۱۹۷۲ء د مشعل راه جلد دوم دد ان کے قریب ہی خشکی ہے جس پر وہ آباد ہو سکتے ہیں.کیونکہ فاختہ کی پرواز چند میل سے زیادہ نہیں ہوسکتی.یہ کہ اس خشکی پر زیتون موجود ہے جو بہت عمدہ غذا ہے.یہ انقلاب انسانی ذہن اور قومی کو ایک درجہ اور آگے لے گیا اور اس نے لوگوں کو تیسرے انقلاب کے قبول کرنے کے لئے تیار کیا اس دوسرے انقلاب کا زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تک ممتد ہے درمیان میں بہت سے انبیاء آئے جن کی بعثت کی دواغراض تھیں.-1 -۲ تیسرا انقلاب یہ کہ اس انقلاب کو کامیاب بنانے کے لئے جد و جہد کریں.اور تیسرے انقلاب کو قبول کرنے کے لئے انسانی ذہن کو تیار کریں.اس انقلاب کے بعد انسان کی آبادی جو ایک جگہ اکٹھی تھی اس میں انتشار اور وسعت پیدا ہوگئی.تیسرا انقلاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں پیدا ہوا اور محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ تک رہا.اس روحانی انقلاب کی علامت سورۃ الحسین میں البلد الامین یعنی خانہ کعبہ بیان کی گئی ہے.اس انقلاب میں بعض چیزیں نمایاں نظر آتی ہیں.-1 -۲ دشمنان دین کے مقابلہ میں زیادہ طاقت نظر آتی ہے.حضرت نوح علیہ السلام کے انقلاب کے زمانہ میں جو گنتی کے لوگ منتشر ہو گئے تھی وہ اس زمانہ تک قوموں کی شکل اختیار کر گئے اور صرف قوم ہی نہیں بنے بلکہ ان میں نیشنلزم کا رنگ نمایاں ہو گیا.حضرت نوح کے زمانہ میں جو ایک قوم تھی وہ اب کئی ایک مخالفت کرنے والی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے والی اور ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کرنے والی قوموں کے رنگ میں آگئی.چوتھا انقلاب چوتھا انقلاب محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بپا ہوا.اور یہی وہ انقلاب ہے جس کے لئے تیار کرنے کے لئے پہلے تینوں انقلاب آئے.یہ عظیم انقلاب مادی دنیا میں بھی آیا اور روحانی دنیا میں بھی آیا.کیونکہ اس میں مادی دنیا اور روحانی دنیا کو اس طرح سمودیا گیا ہے.ان میں ایسا امتزاج پیدا کر دیا گیا ہے کہ ربنا اتنا فی الدنیا حسنة و في الاخرة حسنة کی تفسیر انسان کو نظر آتی ہے اور اس انقلاب کا عظیم مقصد یہ تھا کہ دنیا تو حید سے

Page 368

د دمشعل راه ل راه جلد دوم اس طرح بھر جائے جیسے سمندر پانیوں سے بھرا ہوا ہے.فرمود ۱۹۷۲۵ء 365 ان چاروں انقلابات کا سورہ فاتحہ میں بیان کردہ چار الہی صفات یعنی ربوبیت ، رحمانیت ، رحیمیت اور مالکیت یوم الدین سے گہرا تعلق ہے.موجودہ مادی انقلابات حضور نے موجودہ دنیوی اور مادی تحریکات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا.سرمایہ داری اشتراکیت اور سوشلزم ( چین ) کے تینوں انقلابات بھی لوگوں کو اس عظیم انقلاب کے لئے تیار کرنے کے لئے آئے ہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ بپا ہوا.سرمایہ داری کے دور میں ریلیں جاری ہوئیں ہوائی جہاز اور سمندری جہاز بنائے گئے، تار اور ٹیلی فون کی ایجادات ہوئیں صنعتی انقلاب بپا ہوا.مطبع ایجاد ہوا.اور یہ ساری وہ چیزیں ہیں جن کی اسلامی انقلاب کے لئے ضرورت تھی.اشتراکیت کے نظام نے جہاں مذہب پر حملہ کیا اور خدا کا انکار کیا وہاں اس نے اسلام کی مخالف مستشرقین کی فوج کو بھی تمہیں نہیں کر دیا سوشلزم کا انقلاب اشتراکی انقلاب سے بڑا مختلف ہے اس انقلاب کے بپا کرنے والوں نے خدا کا اقرار تو نہ کیا لیکن لا اکراہ فی الدین کی تعلیم پر عمل کروایا.کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ چین میں رہنے والے اپنے عقائد آزادی سے رکھ سکیں گے اور ان پر عمل بھی کر سکیں گے.گویا جسمانی، ذہنی، اخلاقی ، اور روحانی چاروں بنیادی صفات میں سے پہلی دو صفات کو اشتراکیت نے پہچانا اور ان پر اتنا زور دیا کہ مغرب کہنے لگا کہ بہت سے میدانوں میں روس ان سے آگے نکل گیا ہے.سوشلزم ایک درجہ اور آگے بڑھی اس نے کہا کہ اخلاق کے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے گویا سوشلزم کا انقلاب انسانی ذہن کو ایک درجہ اور آگے لے آیا.غرض یہ تینوں انقلاب ایک طرح سے اسلامی انقلاب کے مد و معاون ہیں.اسلامی جنگ کے ہتھیار حضور نے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا جیسا کہ میں نے بتایا ہے لوگوں کو عظیم انقلاب یعنی اسلامی انقلاب کے قریب تر لانے کے لئے اللہ تعالی نے تین انقلاب بپا کئے.یہ تینوں انقلاب انسانی ذہن کو اس حد تک لے آئے ہیں جہاں سے روحانی بادشاہت نے دنیا کو اپنے حلقہ میں لے لینا تھا.اس لئے تمہارے سامنے جو اصل چیز ہے وہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی فوج کا ایسا سپاہی بنیں جو اسلام کی جارحانہ جنگ لڑ سکے اور اس کے لئے جو ہتھیار تمہیں دئے گئے وہ مادی نہیں بلکہ روحانی ہیں.اور وہ ہتھیار قرآنی ہدایت اور قرآنی انوار ہیں.قرآن کریم پر غور و فکر کر کے اور اس کی ہدایات سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھنا تمہارا کام ہے.تم فکر سے کام لو اور فکری اتحاد پیدا کرو اور صحیح نتائج ، دعاؤں اور کوشش سے حاصل کرو.پھر زندگی کی تجربہ گاہ میں عملاً تجربہ حاصل کرو.تا علی وجہ البصیرت اسلامی مساوات کے پیغام کو دنیا تک پہنچا سکو تم آرام سے سو نہیں سکتے کیونکہ اس کام کے لئے مہینوں کی

Page 369

366 فرموده ۱۹۷۲ء دو مشعل راه جلد دوم نہیں سالوں کی ضرورت ہے.تقویٰ کو ڈھال بناؤ کیونکہ اس روحانی فوج کو جس کا آپ نے سپاہی بننا ہے.دشمن سے حفاظت کے لئے تقویٰ کی ڈھال دی گئی ہے اگر تم تکبر اور خود نمائی سے کام لو گے تو یہ ڈھال تمہارے کام نہیں آئے گی.پس تم تقویٰ کی ڈھال کو پاس رکھو اسلامی تعلیم سے ہتھیار بند ہو جاؤ.اور ساری دنیا پر حملہ کرنے کی طاقت پیدا کرو.اگر تم نے محمد رسول اللہ ﷺ کی فوج کا سپاہی بننا ہے تو آج یہ عہد کر کے یہاں سے اٹھو کہ قرآن کریم کے حکم اور تنبیہہ کے مطابق لو ارادوا الخروج لا عدو اله عبدة ( حواله التوبہ آیت نمبر (۴۶) جنگ کرنی ہے تو اس کیلئے تیاری بھی کرنی پڑتی ہے ) تم عمل کرو گے.کیونکہ جس شخص نے سپاہی بننا ہوتا ہے، اس کے لئے سپاہی کی صفات کو پیدا کرنا ضروری ہے.پھر یہ عہد محض زبانی نہ ہو بلکہ تمہیں عمل کر کے دکھانا پڑے گا اس رستہ میں تکالیف بھی آئیں گی.مصائب کا سامنا بھی کرنا پڑے گا لیکن ان سے گبھرانے کی ضرورت نہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ بغیر امتحان لئے اور ابتلاؤں میں ڈالے اپنی رضا کی جنتوں کا وارث نہیں بنایا کرتا.پھر جتنا بڑا کام ہوگا اتنا ہی بڑا امتحان بھی ہوگا.اس روحانی جنگ میں حصہ لینے کے لئے تمہیں ظاہری ہتھیاروں کی ضرورت نہیں اور نہ یہ ہتھیار تمہارے پاس موجود ہیں.تمہاری تیاری یہ ہے کہ قرآن کریم کے ہتھیار سے لیس ہو جاؤ.اور بداخلاقی سے بچنے کے لئے تقوی کواپنی ڈھال بنا لو.پھر خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا کرو.کیونکہ تم نے اسلام کا جھنڈا گھر گھر ، قریہ قریہ، شہر شہر، ملک ملک میں گاڑنا ہے.تم خدا تعالیٰ سے ایسی محبت اور تعلق پیدا کرو کہ وہ خود بلا کر تمہیں اسلام کا جھنڈا دے دے تا ہماری زندگی کا مقصد پورا ہو.تا ہماری یہ خواہش پوری ہو جائے کہ ہماری زندگی میں اسلام کو غلبہ نصیب ہواور تا دوسری قوموں کو یہ پتہ لگ جائے کہ وہ غلطی پر ہیں اور وہ تمہارے پاس آئیں اور تمہارے نمونہ کو دیکھ کر صداقت قبول کریں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں.میری دعا ہے اور ہمیشہ رہے گی اور تمہاری بھی دعا ہے اور ہمیشہ ہی رہے گی کہ خدا کرے ایسا ہی ہو.اس کے بعد حضور نے خدام الاحمدیہ کا عہدد ہروایا اور بہی اور پر سوز دعا کروائی جس کے ساتھ خدام الاحمدیہ کا تیسواں سالانہ اجتماع بخیر و خوبی اختتام پذیر ہو گیا.( بحوالہ روزنامه الفضل ۱۰ اکتوبر ۱۹۷۲ء)

Page 370

دومشعل دوم فرموده ۱۹۷۳ء 367 ۱۲۴۲ ۱ پریل نماز مغرب سے قبل حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی از راہ شفقت ربوہ کے اجتماعی وقار عمل کے مقام پر تشریف لائے اور اپنے خدام کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے جو خطاب فرمایا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے.اہل ربوہ خصوصاً نو جوانان و اطفال ربوہ نے اس وقار عمل کو انجام تک پہنچایا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جس نے اپنی یہ صفت بھی ہم پر ظاہر کی کہ میں الشکور ہوں آپ کی اس مخلصانہ اور عاجزانہ اور منکسرانہ اور متواضعانہ خدمت کو قبول کرے اور اپنی بے پایاں رحمت سے احسن جزا آپ سب کو عطا کرے“.دعا کے بعد حضور نے فرمایا:- یہ کام تو ختم ہو گیا.یہ سمجھیں ایک کلاس تھی.کام کا تجربہ بہت ہو گیا.سامان جس قسم کا چاہیئے اس کا تجربہ بھی ہوگیا.اب ایک اور کام ہے.یہ تو قریباً ایک مہینے کا کام تھا وہ دو سال کا کام ہے.انشاء اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ وہ ہوگا اور وہ جو ہماری زمین دریا چھین کر لے گیا تھا اس کو ہم نے دریا سے چھیننا ہے.انشاء اللہ جو پل کے پاس سے لیکر آگے ایک پتھروں والی جگہ ہے جہاں بعض دفعہ ہمارے دوست ڈوب بھی گئے ہیں اور جہاں نیچے پانی چکر کا تا ہے وہاں تک انجنئیر وں کے مشورے اور نقشوں کے مطابق پتھر رکھنے ہیں.جب پانی بڑھے گا تو ریت بیچ میں ڈالا کرے گا لیکن برسات سے پہلے اس قسم کا اور اتنا کام ہو جانا چاہیئے کہ برسات میں دریا بھی ہماری خدمت کرے اور بیچ میں بھل اور ریت ڈالے.باقی کی ہم ڈال لیں گے انشاء اللہ.اور پھر لیول کر کے نہایت اچھی سیر گاہ بنائی جائے گی اور یہ جو پکی سڑک ہے اس کو دریا تک لیجانا پڑے گا ( کالج کے سامنے والی سڑک ) ورنہ وہ سیر گاہ کسی کام نہیں آئیگی.جماعت کے ہر طبقے کو اس کی ذمہ داری سے آگاہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:- اگر وہ ذمہ داری جو ہماری چھوٹی سی جماعت پر اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کی شاہراہ فتح ونصرت پر کامیاب انجام تک پہنچانے کی ڈالی ہے اسے پورا کرنا ہے تو ہماری بہنیں ہمارے ساتھ برابر کی شریک ہونی چاہیئیں.مجاہدے میں اور عمل میں لیکن ہماری بہنیں اس وقت تک پوری طرح شریک نہیں ہوسکتیں جب تک کہ جماعت احمدیہ کوتسلی نہ ہو کہ کوئی بھی ہو خواہ وہ احمدی ہے یا دوسرے فرقوں سے تعلق رکھتا ہے یا غیر مسلم ہے کوئی بھی شخص کوئی بھی انسان ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا.یہ تسلی ہونی چاہیئے جماعت کو تب وہ شریک ہو سکتی ہیں.اور یہ نہیں ہوسکتا جب تک آپ احمدی جو ہیں وہ غض بصر کی عادت نہ ڈالیں.کوئی ہندنی سامنے آ جائے یا کوئی اچھوت سامنے آ جائے.آپ کی نظر عورت کے چہرے کی طرف نہیں اٹھنی چاہیئے.تب آپ ان سے یہ ڈیمانڈ

Page 371

368 فرموده ۱۹۷۳ء د و مشعل راه جلد د دوم کر سکتے ہیں کہ احمدی بچی کی طرف ، احمدی عورت کی طرف تمہاری نگاہ نہ اٹھے.چنانچہ ہم دعا کریں گے اور تربیت کی کوشش بھی کریں گے کہ اپنا معاشرہ ٹھیک کر لیں.لیکن ہماری ہر احمدی بچی اور احمدی عورت کے متعلق جماعت کو بحیثیت مجموعی یہ تسلی ہونی چاہئے کہ کوئی آنکھ اس پر نہیں اُٹھے گی پھر وہ برابر کی شریک ہوسکتی ہیں.نہیں تو اسلامی تعلیم کے خلاف ان کو گھروں کے اندر بند کر دیا گیا ہے.ٹھیک ہے بڑا میدان عمل ان کا گھر ہی ہے اور انہوں نے بچوں کی تربیت کرنی ہے وغیرہ.لیکن جب ضرورت پڑی تو جہاد کے میدان میں انہوں نے پانی بھی پلایا اور انہوں نے زخمیوں کی دیکھ بھال بھی کی.علاج کیا مرہم پٹی کی.جو ان کے کام وہاں جہاد میں ہو سکتے تھے سب کیے.اب یہ تو نہیں کہ وہاں جا کے وہ بے پردہ تھیں.نہیں، وہ پر وہ کرتی تھیں اور نہ یہ تھا کہ پردے کی وجہ سے کام میں رکاوٹ پیدا ہوئی.بہر حال بدلے ہوئے حالات میں جو بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں ان کے ساتھ ساتھ ہم نے چلنا ہے.اس طرح سمجھیں کہ ایک فلڈ آیا ہوا ہے.آپ نے اسے یہاں سے روکا پھر پانی آگے جائے گا لیکن پانی کے آگے آگے آپ نے جانا ہے تا کہ بند باندھتے چلے جائیں اور گندگی جو ہے وہ بنی نوع انسان کے اندر سرایت نہ کرے اور جماعت کے مردوزن کو اس گندگی سے ہم محفوظ رکھ سکیں.میں نے ان بوجھ کر دعا پہلے کرا دی تھی، مگر دل آپ لوگوں کی محبت میں اپنی کیفیت رکھتا تھا.تو میں نے کہا کہ وہ حصہ ختم کر کے پھر اگلا پروگرام آپ کو بتاؤں گا.میں تو جب سے گھوڑے سے گرا ہوں تو میری ریڑھ کی دوہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں.بڑا لمبا عرصہ ڈاکٹروں نے مجھے لٹائے رکھا اس لئے اب میں بوجھ نہیں برداشت کر سکتا.نہ اس قسم کا کام کر سکتا ہوں اس لئے کڑھتا رہتا ہوں.( کیونکہ ویسے میری صحت خدا کے فضل سے اچھی ہے.میں آپ سے شاید ہر ایک کے ساتھ بینی اب بھی پکڑلوں کا میابی کے ساتھ ، لیکن یہ ایک مجبوری ہے اور مجھے بڑا دکھ اٹھانا پڑتا ہے اور دکھ کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں آپکے ساتھ میں بھی شریک ہو جاتا ہوں ).( خالد مئی ۷۳)

Page 372

دومشعل دوم فرموده ۱۹۷۳ء 369 سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے مورخہ ۱۸ مئی ۱۹۷۳ء ایوان محمودر بوہ میں خدام الاحد یہ مرکزیہ کی سالانہ تربیتی کلاس کا افتتاح کرتے ہوئے جو خطاب فرمایا تھا.اس کا مکمل متن درج کیا جاتا ہے.( غیر مطبوعہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: - تربیتی کلاس میں نمائندگی کی اہمیت خدام الاحمدیہ کی یہ تربیتی کلاس جو مرکز میں ہر سال ہوتی ہے دو ہفتے تک رہے گی.وہ خدام جو اس کلاس میں شمولیت کے لئے آئے ہیں مگر ابھی تک رجسٹر نہیں ہوئے.یعنی ان کے نام نہیں لکھے گئے اور پیچھے علیحدہ ان کو بٹھایا گیا ہے وہ ذرا کھڑے ہو جائیں تاکہ اندازہ ہو جائے کہ وہ کتنے ہیں (حضور کے ارشاد پر چند خدام کھڑے ہو گئے حضور نے فرمایا تشریف رکھیں).اس وقت تک جو احمدی بچے مرکز میں اس کلاس میں شمولیت کے لئے آچکے ہیں، وہ گذشتہ سال کے مقابلہ میں برابر برابر ہیں کچھ تھوڑا سا فرق ہے.اگر مجالس کی شمولیت کی تعداد تسلی بخش ہو جائے تو پھر تسلی بخش زیادتی ہو جائے گی.ویسے تو یہ نمائندہ کلاس ہے.اس کے افراد کی تعداد کے مقابلہ میں جماعت کی شمولیت، مجالس کی شمولیت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے.تعلیم و تربیت کی اصل بنیاد قرآن کریم قرآن کریم ہی ہماری تعلیم و تربیت کی اصل بنیاد ہے.باقی تمام علوم اس کی تفاصیل ہیں.قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کتاب عظیم کے ذریعہ انسان کو عزت و شرف کے سامان مہیا کئے ہیں.پھر بھی فهم عن ذكر هم معرضون“ یعنی طرفہ تماشہ یہ ہے کہ انسان جس کے شرف کے سامان مہیا کئے گئے ہیں اپنے شرف کے سامانوں سے اعراض کر رہا ہے.پہلو تہی کر رہا ہے.اس کامل اور حسین شریعت کے نزول کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان شرف کے اس مقام کو حاصل کر سکے جس کے لئے اُسے پیدا کیا گیا ہے.جماعت احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ الہام اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ الخير كله فی القرآن ہر قسم کی بھلائی قرآن کریم میں پائی جاتی ہے.اور اس سے حاصل کی جاسکتی ہے.اس میں دین کی بھلائی بھی ہے اور دنیا کی بھلائی بھی.اس میں دنیا کی عزت و شرف کے سامان بھی ہیں اور روحانی طور پر عزت و شرف

Page 373

370 کے سامان بھی ہیں.فرموده ۱۹۷۳ء دو مشعل راه جلد دوم اس وقت دنیاوی لحاظ سے جو اقوام ترقی یافتہ کہلاتی ہیں ان کے معاشرہ کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں.ایک وہ حصہ جو اقوام کی خوبیوں پر مشتمل ہے اور ایک وہ حصہ جو ان کی برائیوں پر مشتمل ہے.جو حصہ تو ان کی بد عملیوں سے تعلق رکھتا ہے.وہ انہیں ہلاکت کی طرف لے جارہا ہے.اور جو حصہ ان کی خوبیوں پر مشتمل ہے وہ انہیں ہلاکت سے محفوظ رکھ رہا ہے.گویا ایک قسم کا مقابلہ ہے جو ان کی زندگی اور ان کے معاشرہ کی بدی اور خوبی کے درمیان ہورہا ہے اور ہمیں یہ نظر آ رہا ہے کہ آہستہ آہستہ ان کی بدیاں ان کی خوبیوں سے زیادہ ہو جانے کی طرف مائل ہو رہی ہیں.جس وقت برائی نیکی سے بڑھ جائے اور دنیا میں فساد پیدا ہو تو اس وقت اقوام اللہ تعالیٰ کی قہری گرفت میں آ جاتی ہیں.جو حصہ ان کی خوبیوں پر مشتمل ہے اس پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سارے کے سارے اصول قرآن کریم سے اخذ کئے گئے ہیں.مثلاً جب تجارت میں بعض اقوام نے دنیا میں ترقی کی اور ان کی تجارت ساری دنیا میں پھیل گئی یہیں سے دولت مشترکہ کی ابتداء ہوئی یعنی مختلف یور بین اقوام تجارتی اغراض کے لئے اکٹھی ہو گئیں پھر جب امریکہ کی یا جاپان کی اجارہ داری قائم ہوئی اور اب چین میدان میں آرہا ہے.ان کی تجارت کی بنیاد دیانت پر اور صداقت پر تھی.اس لئے کہ پہلی دفعہ انسان نے ہزاروں میل دور سے مال منگوا نا شروع کیا.اور اس کے لئے اپنا اعتبار جمانا ضروری ہو گیا.انہیں یہ معلوم تھا کہ اس میں صداقت اور دیانت سے کام لینا ضروری ہے.اور جھوٹ نہیں بولنا.صداقت چھوڑ کر ہم دنیا کی تجارت پر قبضہ نہیں کر سکتے.یہ دراصل اسلام سے اپنایا ہوا اصول ہے.معاشرے کی اصلاح اور ترقی کے لئے بنیادی اصول یہ ایک بنیادی تعلیم اور اصول ہے جو اسلام نے معاشرہ کی اصلاح اور ترقی کے لئے دیا ہے.اسلام نے اس بات پر بڑاز وردیا ہے کہ دیانت اور صداقت کو بھی نہیں چھوڑنا.یہاں سے ایک شخص مثلا انگلستان کو دس بیس لاکھ روپے کے سامان کا آرڈردے دیتا تھا.حالانکہ نہ اسے ان کے حالات کا پتہ اور نہ ان کے طریق کا پتہ ہوتا تھا.لیکن ایک چیز کا پتہ تھا کہ یہ ملک تجارت میں غلط بیانی نہیں کرتے.اس حد تک صداقت اور امانت کا حال تھا کہ آپ بیتی کی میں ایک مثال دے دیتا ہوں.بڑی دیر کی بات ہے غالباً ، ۵ یا ۵۱ء کی.ہمارا کالج اس وقت لاہور میں تھا اور میں کالج کا پرنسپل تھا.ہمیں سائنس کے سامان کی ضرورت تھی.انگلستان کی ایک فرم کے ساتھ ہم نے خط و کتابت کی اور ان کو سامان بھجوانے کا آرڈر دیا.جس وقت وہ سامان پہنچا تو اس میں دو آ ٹیٹم ITEMS ( جو چھوٹے چھوٹے تھے اپنے حجم کے لحاظ سے.وہ ) موجود نہیں تھے.چنانچہ میں نے انہیں یہ لکھا کہ اس طرح یہ یہ چیزیں نہیں ہیں.ایک کا نام تو مجھے یاد ہے دوسرا ذ ہن سے نکل گیا.آٹھ کے قریب سٹاپ واچر تھیں جو کہ ہماری لیبارٹریز میں کام آتی ہیں.اور لیبارٹریز سے باہر بھی کام

Page 374

فرموده ۱۹۷۳ء 371 د و مشعل راه جلد دوم آ جاتی ہیں.وہ موجود نہیں تھیں.انہوں نے مجھے جواباً لکھا کہ پیکنگ کا جو سامان ہوتا ہے مثلاً باریک باریک کاغذوں کی کترنیں وغیرہ اگر آپ نے وہ ضائع نہیں کیا تو اس میں تلاش کریں.چنانچہ اس وقت فزکس ڈیپارٹمنٹ اور ہمارے کسٹم والوں نے مجھے اس تجارتی فرم سے بہت شرمندہ کروایا.وہاں بیٹھے کئی ہزار میل دور مجھے یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اپنا پیکنگ کا سامان دیکھو وہ چیز اس کے اندر ہوگی.یعنی یہ بات اُن کے تصور میں بھی نہیں آسکتی کہ وہاں رہ گئی ہو.اس سے اُن کی دیانت اور امانت کے ساتھ اُن کی اہلیت کا بھی مظاہرہ ہوتا ہے.خیر میں نے اپنے فزکس کے شعبہ سے کہا یہ خط آ گیا ہے.تلاش کرو.جب انہوں نے تلاش کیا تو ان دو میں سے ایک چیز وہاں سے مل گئی چنانچہ میں ان کو خط لکھا کہ ایک چیز مل گئی ہے اور دوسری نہیں ملی.تو انہوں نے مجھے یہ جواب دیا کہ کراچی کسٹم والوں سے پوچھو.شاید وہاں رہ گئی ہو اور جب میں نے کراچی کسٹمر کولکھا تو انہوں نے آرام سے لکھ دیا کہ ہمیں بڑا افسوس ہے کہ متعلقہ چیز یہاں رہ گئی تھی.انہوں نے چیزیں دیکھنے کے لئے بکس کھول نگر ساری چیزیں اندر نہ رکھیں.ایک چیز بے احتیاطی سے باہر رہ گئی.تجارت کے سنہری اصول پس دیانت اور صداقت اور امانت کی بنا پر ان اقوام نے دنیا کی تجارت پر قبضہ کیا اور وہ سارے بنیادی اصول جو تجارت کو فروغ دینے والے اور دنیا کے سامان اور دنیا وی دولت کو اکٹھا کرنے والے ہیں وہ دراصل اسلامی تعلیم سے ماخوذ ہیں.مسلمان ان کو بھول گئے.لیکن انہوں نے ان سنہری اصولوں کو اپنایا.اور دنیا کی تجارت پر قبضہ کر لیا.اس کے مقابلہ میں جب پاکستان بنا اس وقت یہاں کے بعض تجارتی اداروں کے متعلق پتہ لگا کہ سامان کا جو نمونہ بھیجتے ہیں وہ کچھ اور ہوتا ہے اور بعد میں جو مال سپلائی کرتے ہیں وہ کچھ اور ہوتا ہے.بعض کے متعلق اس وقت اخباروں میں یہ بھی چھپا کہ روٹی کی گانٹھوں کو جب پریس کرتے تو درمیان میں ڈیڑھ ڈیڑھ دو دوسیر کی اینٹیں رکھ دیتے اور اس طور پر پریس کرتے کہ کسی کو پتہ ہی نہ لگتا کہ ان میں اینٹیں رکھی ہوئی ہیں.چنانچہ اس طرح وزن پورا کر دیا جاتا اور اس کو باہر بھیج دیا جاتا لیکن ایک دفعہ تو ایسے تجارتی اداروں نے پانچ اینٹوں کی قیمت اصل قیمت سے کہیں زیادہ روئی کی قیمت کی صورت میں وصول کر لی.یہ تو درست ہے لیکن بعد میں نہ صرف اپنے تجارتی ادارہ کو نقصان پہنچایا بلکہ اپنی قوم کی تجارت کو بھی نقصان پہنچایا.اور آئندہ کے لئے تجارت کا دروازہ بند کر وا دیا.غرض مسلمان اس چیز کو بھول گئے اور جو غیر اقوام تھیں انہوں نے قرآن کریم کے بتائے ہوئے ان اصولوں سے جو انسان کو عزت و شرف کے سامان بہم پہنچانے والے ہیں فائدہ اٹھایا اور دنیا میں ترقی کی.بیسیوں ایسی مثالیں ہیں جن سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ دنیا میں بھی دنیاوی معیار کے مطابق شرف اور عزت کے سامان اگر کسی نے لینے ہوں تو اسے قرآن عظیم کی تعلیم کو اپنا نا پڑے گا.

Page 375

372 فرموده ۱۹۷۳ء دد د و مشعل راه جلد دوم پس اگر دیانت نہیں ہوگی اگر امانت نہیں ہوگی.اگر لوگ جھوٹ بولیں گے.اگر ان میں اہلیت نہیں ہوگی تو دنیا کے اموال تو ان کو ملیں گے لیکن ایک مسلمان کے لئے محض دنیا کے اموال میں کوئی دلچسپی نہیں ہے.وہ تو ذریعہ ہے دنیا میں ترقی کرنے اور اس دنیا میں اور مرنے کے بعد کی جو دنیا ہے جس پر ہمیں ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ آج کی دنیا پر.اگر وہاں عزت و شرف کے اپنے لئے سامان پیدا کرنے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کے پیار کو ہم نے لینا ہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم سے خیر و برکت کے سامان حاصل کریں.قوت مشاہدہ کی اہمیت اس تربیتی کلاس میں آپ سے بہت سے کام لئے جائیں گے.بہت سے عملی کام.مثلاً ورزش کے بینائی سے کام لینا آنکھیں کھلی رکھنا.Observe یعنی مشاہدہ کرناوغیرہ.جہاں تک قوت مشاہدہ کا تعلق ہے (ایک اور میں مثال دے دیتا ہوں ).یہ قوت جہاں روحانی اور دینی طور پر شرف کے سامان انسان کے لئے پیدا کرتی ہے وہاں دنیا میں بھی شرف کے سامان پیدا کرتی ہے.مشاہدہ دو طرح کا ہوتا ہے ایک آنکھ سے دیکھ کر یعنی موجودہ چیز کا مشاہدہ دوسرے گذرے ہوئے واقعات کو مشاہدہ کی آنکھ سے دیکھنا.یہ بھی انسانی مشاہدہ ہی ہوتا ہے مثلاً انسان تاریخ پڑھتا ہے اور اسے بہت سی چیزوں کا علم ہوتا ہے پس دینی لحاظ سے جب ہم انسانی زندگی پر نوع انسانی کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ ہی جب انبیاء اور اللہ تعالیٰ کے مامور مبعوث ہوتے رہے اور اس کے مرسل دنیا کی طرف آتے رہے.اور اس کے پیارے ولی جو ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے کسی خاص علاقہ چھوٹے علاقے یا بڑے علاقے یا دنیا کی طرف مبعوث کیا مثلاً اب ایک مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام ) آ گیا ہے.غرض جب کبھی کوئی نبی یا ولی لوگوں کی طرف بھیجا گیا تو علاوہ ظاہری مخالفت کے یعنی ایک تو جنگ ہے.تلوار نکال لی.ڈنڈالے لیا کلہاڑی پکڑ لی چھری بغل میں دبالی خنجر ہاتھ میں لیا.نیزہ ہے تیر کمان وغیرہ ہے.مادی سامانوں کے ساتھ ان کی گردنیں اڑانے کی کوشش کی گئی ایک یہ مخالفت ہے.ایک مخالفت ہے ان کے خلاف جھوٹ بولا اور افترا باندھا ہے.کچھ اور کہا کچھ جیسا کہ آج کل آپ دیکھ رہے ہیں.جب بھی ہمارے متعلق اخبارات میں ذکر ہوتا ہے آپ کو معلوم ہوگا کہ سچائی کی راہ کو چھوڑ کر کچھ اور ہی ہوتا ہے.اس کو سچائی ہم نہیں کہہ سکتے.نہ دیانت داری ہم اسے قرار دے سکتے ہیں.بہر حال جھوٹ بھی دراصل غصہ اور تعصب اور نفرت کے نتیجہ میں بولا جاتا ہے.نا مجھی اور جہالت کے نتیجہ میں دشمنی اور نفرت پیدا ہوتی ہے حالانکہ معاشرتی زندگی کی پر امن بقا اور سلامتی کے لئے آپس میں پیار پیدا ہونا چاہیئے.مگر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ آپس کے جو تعلقات ہیں اس میں بھی ہمیں محبت اور حسن سلوک اور پیار کی کمی محسوس ہوتی ہے.اور اس کے مقابلہ میں جو خدا تعالیٰ کے پیارے بندے اپنی قوم میں اپنے علاقہ میں اپنے وقت کے لئے یا ساری دنیا کے لئے مثلاً حضرت نبی اکرمی جیسا وجود دنیا کی طرف مبعوث ہوا.غرض انبیاء آتے ہیں تو ان کا بنیادی ہتھیار حسن سلوک خدمت اور پیار ہوتا

Page 376

فرموده ۱۹۷۳ء 373 دد مشعل راه تل راه جلد دوم ہے.پس جب ہم انسانی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک چیز بڑی نمایاں ہو کر ہمارے مشاہدہ میں آتی ہے.(میں مشاہدہ کی بات کر رہا ہوں اور دینی لحاظ سے میں نے پہلے اس کو لے لیا ہے ) ہمارے مشاہدہ میں یہ چیز آتی ہے کہ کبھی بھی آخر کار نفرت اور تعصب کامیاب نہ ہوا اور نہ ہوتا ہے.ہمیشہ حسن سلوک اور خدمت اور پیار آخر کار کامیاب ہوتا ہے.یہ ایک مشاہدہ ہے.انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں حضرت آدم علیہ السلام سے آج تک اس کے الٹ اور مخالف نظر نہیں آتا.جہاں بھی پیار اور نفرت اور دوستی اور دشمنی کا مقابلہ ہوا وہاں پیارا اور دوستی اور استحصال کے مقابلہ میں خدمت جیتی.دشمنی اور نفرت اور تعصب اور استحصال کی جتنی بھی کوششیں تھیں وہ نا کام ہوئیں.روز مرہ زندگی میں بھی ہم ایک مشاہدہ کرتے ہیں.یہ تو ایک لمبا چوڑا مشاہدہ ہے جس کے لئے میں آپ کو تیار کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر دے بڑا المبا عرصہ آپ کو اللہ تعالیٰ مشاہدہ کی توفیق دے گا.آپ تاریخ دیکھیں اور مشاہدہ کریں کہ خدا تعالیٰ کا سلوک اپنے بندوں سے کیا رہا ہے؟ کن چیزوں سے وہ پیار کرتا ہے اور کن چیزوں سے وہ نفرت کرتا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کریں اسی طرح دنیاوی ترقیات کے لئے بھی مشاہدہ بڑا ضروری ہے.مثلاً ہم زراعت کو لے لیتے ہیں ( زرعی علاقوں سے بہت سے خدام اس کلاس میں آئے ہوں گے.ہمارا ماہر فن خواہ وہ مغربی تہذیب کا تربیت یافتہ ہی کیوں نہ ہو مشاہدہ کی طرف توجہ نہیں کرتا.اس کے اندر غرور پیدا ہو جاتا ہے جب کہ مشاہدہ کے لئے تو جھکنا پڑتا ہے.مگر اس کی گردن اکڑی ہوئی ہوتی ہے.وہ جھکتا نہیں اور مشاہدہ نہیں کرتا.اس لئے وہ دنیاوی لحاظ سے ترقیات نہیں کرتا.یا ترقیات کے ان مواقع کو کھو بیٹھتا ہے جو اس شخص کو حاصل ہوتے ہیں.جوان عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتا ہے جو اسلام نے بتائی ہیں اور زمین کی طرف جھکتا ہے اور جھک کے وہ مشاہدہ کرتا ہے لیکن وہ شخص جس کی گردن اکڑی ہوئی ہے وہ مشاہدہ نہیں کر سکتا اور مشاہدے سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.چین کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں.جو عاجزانہ مشاہدہ کی ایک دلیل ہے.انہوں نے اسلام کا یہ اصول اپنی زندگیوں میں اپنا لیا ہے کہ ہر شخص کی زندگی دوسرے کے لئے کچھ اسباق مہیا کرتی ہے.یہ کہنا کہ میں اتنا اونچا ماہر زراعت ہوں کہ ہر دوسرے کو مجھ سے سیکھنا چاہیئے اور مجھے کسی دوسرے سے سیکھنے کی ضرورت نہیں غلط ہے.کیونکہ ہر زمیندار کا مشاہدہ ہر ماہر زراعت کے لئے کچھ نہ کچھ اسباق مہیا کرتا ہے اور اسے پتہ لگنا چاہیئے اگر قوم نے یا بنی نوع انسان نے انفرادی اور اجتماعی بہتری اور بہبودی حاصل کرنی ہے.چنانچہ اس اصول کو اپنا کر چین نے ایک مہم جاری کی ہے اس کو وہ اس طرح کہتے ہیں learn from the poor غریب سے علم حاصل کرو.ان کی یونیورسٹی کے چوٹی کے جو ماہرین ہیں ان کو وہ گاؤں میں بھیج دیتے ہیں.ان کے بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں ہمارے ملک کی طرح بعض لوگ دستخط کرنا بھی نہیں جانتے.پچھلے دنوں میں نے ایک رسالے میں پڑھا کہ ایک خاص علاقہ جو وہاں کی یونیورسٹی کے ایک چوٹی کے ماہر زراعت کے سپرد ہے.وہ وہاں جاتا رہتا ہے.تاکہ وہ خود مشاہدہ کرے لوگوں سے پوچھے کہ تم نے کیا دیکھا.

Page 377

374 فرموده ۱۹۷۳ء د و مشعل راه جلد دوم دد زراعت میں تمہیں کس چیز نے فائدہ پہنچایا کس چیز نے تمہیں نقصان پہنچایا.چنانچہ ایک دیہاتی سے اس نے پوچھا.تو اس نے کہا ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ اگر آندھی اور طوفان کی وجہ سے گندم لیٹ نہ جائے.زمین کی اوپر کی سطح خشک نہ ہو ہر وقت نم رہے تو فصل زیادہ ہو جاتی ہے.اس نے اس بات کو نوٹ کیا اور اس کا مشاہدہ بھی یہی تھا کہ اس علاقے میں گندم کی فصل بہت زیادہ ہورہی تھی گذشتہ سالوں کی نسبت بھی اور بعض دوسرے علاقوں کی نسبت بھی.انہوں نے سب سے کہا کہ ایک غریب زمیندار کا یہ مشاہدہ ہے.اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے.گو انہوں نے اجتماعی ملکیت کا نظام رائج کر دیا ہے لیکن ابھی تک وہاں اسی طرح کے درمیانہ درجہ کا بلکہ غریب زمیندار بھی ہے جس طرح پہلے تھا.اس انقلاب کی وجہ سے وہ بادشاہ تو نہیں بن گئے.اب دیکھو چوٹی کا ماہر زراعت دیہاتی لوگوں سے جا کر باتیں کرتا ہے ان سے حالات پوچھتا ہے اور پھر اس مشاہدہ کی رو سے چینی لوگ اس نتیجہ پر پہنچے کہ لیس للانسان الاماسعی.کہ انسان جتنی کوشش کرے گا ویسا ہی اس کو پھل ملے گا.گو اس میں استثناء بھی ہے لیکن اصول یہی ہے کہ لیس للانسان الا ما سعی.اگر انسان نے کچھ حاصل کرنا ہے تو جو کچھ حاصل کرنا ہے اس کے مطابق اسے کوشش کرنی پڑے گی.چنانچہ چینی لوگ بڑی محنت کرتے ہیں.وہ قومی لحاظ سے اتنی محنت کرتے ہیں اور اتنی مشقت اٹھاتے ہیں کہ ہمیں دیکھ کر شرم آتی ہے.حالانکہ ہم احمدی دوسروں کے مقابلہ میں بہت زیادہ محنت کرتے ہیں مگر شاید دنیاوی محنت میں وہ ہم سے بھی آگے نکلے ہوئے ہوں.مجھے یہ سوچ کر تکلیف ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں لیڈر بنایا ہے بنی نوع انسان کا.ہر میدان میں ہم نے ہر دوسروں سے آگے نکلنا ہے.یہ سبق آپ کو اس عمر میں سیکھنا چاہیئے.اور اس کے مطابق آج زندگیوں کو ڈھالنا چاہیئے.جیسا کہ میں نے کہا ہے زراعت کا ایک استثناء بھی ہے.اور اسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے.قرآن کریم ایک جگہ زمینداروں کو مخاطب کر کے (جن کا کام ہے کھیتی باڑی کرنا ) کہتا ہے انتــم تـــزرعــونـــه أم نـحـن الزارعون (الواقعہ آیت ۶۵) کہ کیا کھیت تم اگاتے ہو اپنی محنت اور فراست سے اور کھا د وغیرہ استعمال کر کے یا اچھے بیج کا انتخاب کر کے یا ہم اُگاتے ہیں؟ قرآن کہتا ہے کہ تم پوری محنت کرو.تم کھیتوں کو وقت پر پانی دو تم فصلوں کو گرنے نہ دو تم زمین کی سطح کو بے شک گیلا رکھو.فصلوں کی نگرانی کرو.مروجہ طریق پر کھا دڈالو.سب کچھ کر و مگر پھر بھی اس حقیقت کو یاد رکھو کہ کھیتیاں میں اُگا تا ہوں تم نہیں اُگاتے.اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر فصل نہیں اگتی.ایسے حادثات جن پر انسان کا اختیار نہیں ہوتا مثلا ژالہ باری ہو جاتی ہے.زالہ باری سے قبل اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دکھایا کہ بڑی اچھل فصل ہے.بالیں لدی ہوئی ہیں.ان کے اندر دانہ موٹا موٹا ہے.دس بارہ دن رہتے ہیں اس کے کاٹنے میں.دس پندرہ منٹ کے لئے چھوٹی سے بدلی آتی ہے اور اس سے اتنے اولے برستے ہیں.اتنی شالہ باری ہوتی ہے کہ کسی کھیت کی ( میرا یہ اپنا مشاہدہ ہے ) ۸۰ بائیں جھاڑ کر چلی جاتی ہے.جس کا مطلب %۸۰ فصل کا نقصان ہو گیا.جب کہ ساتھ کے کھیت سے ۵۰۰ جھاڑتی ہے.اور اس کے ساتھ کے کھیت میں ۲۰۰ نقصان ہوتا ہے.کسی کا ۱۰۰ نقصان ہوتا ہے.کسی میں کچھ بھی نہیں ہوتا.

Page 378

د دمشعل دوم فرموده ۱۹۷۳ء 375 وہاں ژالہ باری نہیں ہوتی حالانکہ وہ کھیت بیچ میں آیا ہوا ہے.اب یہ ایک ایسی شکل بنتی ہے کہ آدمی حیران ہوتا ہے.لیکن جس کی آنکھ دیکھنے والی اور دماغ سوچنے والا ہے ( یہی مشاہدہ ہے ) وہ قدرت کی اس کرشمہ سازی کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ خدا نے کیا ہی سچ فرمایا ہے.أأنتم تزرعوونه أم نحن الزارعون (الواقعه:۶۵) انسان کا کام ہے کوشش کرے.خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق کوشش کرے اور اپنی کوشش کا عام حالات میں پھل حاصل کرے.لیکن وہ اس وقت حاصل کرے گا جب خدا یہ کہے کہ تمہاری کوشش کو میں بار آور کرتا ہوں تمہیں اس کا پھل مل جائے گا لیکن جب خدا تعالیٰ یہ بتانا چاہے کہ تم مغرور نہ ہو جانا اس پیداوار میں اس کے حصول میں تمہاری کوششوں کا نتیجہ ضرور ہے.کیونکہ میں نے تمہیں کہا کہ میرے اصول کے مطابق کوشش کرو لیکن آخری حکم (جس کے نتیجہ میں مثلاً کسی کو کتنی گندم ملتی ہے ) آسمانوں سے میں نازل کرتا ہوں.ان کے کھیتوں کے متعلق اور ان سے حاصل ہونے والے پھلوں کے متعلق میں فیصلہ کرتا ہوں.جو لوگ آنکھیں کھلی رکھتے ہیں.یہ بات ان کے مشاہدہ میں آنی چاہیئے اور قرآن کریم نے جو اصول بیان کیا ہے وہ ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے.ان میں قدرت نے ہمارے لئے بہت سے سبق رکھے ہیں.ان کے پاس سے یونہی گزر نہیں جانا چاہیئے.کہ آنکھ کسی چیز کو دیکھے نہیں دماغ کسی چیز کو پکڑے نہیں اور حافظہ کسی چیز کو یاد نہ رکھے اس لئے پریکٹس کرنے کے لئے مشاہدہ بڑا ضروری ہے.اس طرح دنیا وی حالات کے مطابق آپ لوگوں کو ان حواس کے ذریعہ فائدہ اُٹھانے کی عادت پڑ جائے گی.یہاں مجلس صحت کے زیر انتظام تین سیروں کے مقابلے ہو چکے ہیں اور مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے جو اطفال ہیں ( پندرہ سال سے چھوٹی عمر کے احمدی بچے ) وہ اس میں بڑے شوق سے حصہ لیتے ہیں اور بعض کے تو مضمون بھی بڑے اچھے ہوتے ہیں.گوآٹھویں جماعت والے طالب علم کی لکھائی ایسی ہی ہوگی جیسے آٹھویں جماعت کے طالب علم کی ہونی چاہیئے.لیکن مشاہدہ والا حصہ بڑا پیارا ہوتا ہے آج کل ایک بہت چھوٹی سی چڑیا جو اڑنے پھرنے کی بڑی شوقین ہے اس لئے وہ گھومتی رہتی ہے آج کل ربوہ میں آئی ہوئی ہے.جو خدام پیج پر بیٹھے ہیں ان میں کوئی دوست مجھے بتائیں وہ کونسی چڑیا ہے.سٹیج میں سے کوئی خادم مجھے بتائے کہ کیا کسی نے اس کو دیکھا ہے؟ ( کسی نے جواب نہ دیا.فرمایا وہ ایک پڑی ہوتی ہے جسے ہم چھوٹی چڑیا کہتے ہیں.عام چڑیا کا ایک تہائی حصہ جتنا اس کا جسم ہوتا ہے.چپکتے ہوئے کالے مور کی طرح اس کے پر ہوتے ہیں.لمبی اس کی چونچ ہوتی ہے.پنجابی میں اس کو پھل سنکھنی بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ شہد کی مکھی کی طرح پھول کا رس بھی چوس جاتی ہے.اس کے پروں کے نیچے نہایت تیز شوخ سرخ اور نہایت خوبصورت زردرنگ کے چند ایک بال بھی ہوتے ہیں.جب تک وہ اپنے پر پھیلائے نہ اس وقت تک وہ آپ کو نظر نہیں آئیں گے.جس طرح مچھلیاں پکڑنے والا جانور جو تالابوں اور دریا کے کنارے ہیلی کاپٹر

Page 379

376 فرموده ۱۹۷۳ء و مشعل راه جلد دو کی طرح پر ہلاتے ہوئے ایک جگہ اڑتا نظر آتا ہے.اسی طرح یہ چڑیا بھی کھڑی ہو جاتی ہے اور اپنے پر ہلانے لگتی ہے.اس میں خدا کی شان دیکھیں کہ چھوٹا سا وجود ہے مگر رنگ اس کے اتنے پیارے اور عادتیں اس کی اتنی پیاری اور کھانا اس کا اتنا اچھا ہوتا ہے بلکہ بہترین کھانا ہوتا ہے یعنی وہ پھول کا رس چوس جاتی ہے اور مجھے اس سے بھی زیادہ پیاری اس کی یہ چی لگتی ہے کہ جس وقت اس کی چھپی ہوئی چیزیں ظاہر ہوتی ہیں تو ان میں ظاہر کی نسبت زیادہ حسن نظر آتا ہے.سرخ اور زرد رنگ کا جو حسین امتزاج اس کی بغل کے نیچے چھپا ہوا ہے.جس وقت وہ ظاہر ہوتا ہے تو اس کا باطن اس کے ظاہر سے بہت زیادہ حسین نظر آتا ہے.ہمیں اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ایک احمدی کا باطن اس کے ظاہر سے بہت زیادہ خوبصورت اور حسین ہونا چاہیے.بہر حال یہ اور اسی قسم کی بہت سی باتیں مشاہدہ کے اندر آتی ہیں.اور خدا تعالیٰ کا ایک بندہ جس نے خدا تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل کی ہو یا اس طرف متوجہ ہو اور صفات کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہو اس دنیا کے بہت سے حسین نظارے اس کے سامنے آتے ہیں.اس کا دل خدا کی حمد سے معمور ہو جاتا ہے.اُس کی زبان اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اقرار کرتے نہیں تھکتی.غرض جب اللہ تعالیٰ کی صفات کی شان انسان کے سامنے آتی ہے اور اس کے مقابلہ میں وہ اپنی عاجزی کو دیکھتا ہے اور اُسے یہ حقیقت نظر آتی ہے کہ چند ذروں میں جان ڈال دی.پھر اس میں اتنا حسن پیدا کر دیا گیا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.اس میں ان لوگوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے جو خدا کو بھول جاتے ہیں حالانکہ ہر وہ چیز جس کا آپ مشاہدہ کرتے اور اس سے سبق حاصل کرتے ہیں وہ آپ کی استاد ہے.غرض ہر چیز میں خدا تعالیٰ کی شان بھی نظر آتی ہے.اور اس میں انسان کے لئے کوئی نہ کوئی سبق بھی موجود ہوتا ہے.اسی چڑیا کو دیکھ لو اس میں جہاں قدرت خداوندی جلوہ گر ہے وہاں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ دیکھو تمہارا باطن تمہارے ظاہر کی نسبت زیادہ خوبصورت ہونا چاہیئے.ورنہ تم مومن نہیں کہلا سکتے جس انسان کا ظاہر اس کے باطن سے زیادہ خوبصورت ہے تو یہ ریا کاری ہے.کیونکہ انسان بسا اوقات چرب زبانی سے بظاہر خوبصورت بن جاتا ہے.جھوٹے وعدوں سے بظاہر خوبصورت بن جاتا ہے.اچھے کپڑوں سے بظاہر خوبصورت بن جاتا ہے.مال کے ذریعہ دنیا کی خوبصورتیاں جمع کر کے خوبصورت بن جاتا ہے.اس نے کوئی یہاں سے چیز اٹھالی اپنے ڈرائنگ روم کو سجانے کے لے کوئی وہاں سے اٹھالی اس سے انسان کے اندر یعنی اس کی زندگی میں دیکھنے والوں کو دنیوی نقطہ نگاہ سے حسن نظر آتا ہے.لیکن اگر لوگ اپنی اپنی کوشش اور اپنی ہمت سے ان قومی کے ذریعہ حسن کو پیدا کرنے کے لئے ( وہ حسن جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں حسن ہے) کچھ نہیں کرتے.لیکن اگر ہر ایک آدمی جھوٹ بول لیتا ہے آسانی سے.بدیانتی کر لیتا ہے آسانی سے.یا نا اہل ہے.سست ہے.محنت نہیں کرتا دوسرے ظاہری حواس سے وہ کام نہیں لیتا.پس یہ ظاہری حالات خواہ کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ دکھائے جائیں اس کے باطن یعنی جھوٹ اور بددیانتی اور نا اہلی کو چھپا نہیں سکتے.اصل وہی چیز اچھی ہے.جس کا باطن ظاہر سے بھی اچھا ہوتا ہے.

Page 380

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۳ء 377 الخير كله في القرآن میں یہ مثالیں آپ کو اس بات کے سمجھانے کے لئے دے رہا ہوں کہ قرآن کریم نے تم میں سے ہر ایک کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا کہ دیکھو مجھ میں تمہارے عزت و شرف کا سامان ہے اس سے اعراض نہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمارے کانوں میں یہ حسین آواز آئی الخير كله في القرآن ہر قسم کی بھلائی تمہیں قرآن کریم سے ملتی ہے.میں نے مثالیں دے کر آپ کو بتایا ہے کہ یہ محض دعوی نہیں بلکہ جو قو میں بھی دنیاوی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں.جب آپ ان کی تاریخ پر اور ان کے موجودہ کردار پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جتنا جتنا کسی نے قرآن کریم کے بنیادی اصولوں کو اپنایا ہے.اتنا اتنا وہ دنیاوی لحاظ سے ترقی کر گیا.تاہم قرآن کریم کے جو روحانی اصول ہیں وہ تو انہوں نے آزمائے ہی نہیں کیونکہ ان سے تو وہ لا پرواہی برت رہے ہیں ان کا تو وہ انکار کر رہے ہیں.لیکن جس حصہ سے انہوں نے اعراض نہیں کیا اس حصہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دنیاوی لحاظ سے وہ ترقی کر گئے ہیں.انہوں نے دیانت اور صداقت کے ذریعہ اپنے اندر ایک حسن پیدا کیا اور گویا خدا تعالیٰ کے کلام کی صداقت پر ایک گواہ بن گئے.غرض دنیا میں کسی قوم کی کوئی ترقی ایسی نہیں جس کے متعلق میں اللہ کے فضل سے آپ کو یہ نہ بتا سکوں کہ انہوں نے فلاں قرآنی اصول کو اپنایا اور ترقی کی.جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا.انسانی معاشرہ کے دو حصے ہوتے ہیں ایک وہ جو خو بیوں سے معمور ہوتا ہے اور ایک وہ جونہایت بھیانک اور گندا یعنی برائیوں پر مشتمل ہوتا ہے یعنی قومی زندگی کا یہ پہلو ہر قسم کی برائی اور گندگی سے بھرا ہوا ہوتا ہے.جو حصہ خوبیوں سے معمور ہوتا ہے، اس کی ہر خوبی قرآن کریم کے بتائے ہوئے کسی نہ کسی اصول پر مبنی ہوتی ہے.اور ان کی ہر گندگی اور ہر بے ہودگی اور ہر برائی اور ہر بدصورتی وہ قرآن کریم کے کسی نہ کسی اصل کو چھوڑنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.قرآن کریم کے جو احکام ہیں ان میں اوامر بھی ہیں مثلاً قرآن کریم کہتا ہے یہ کرو یہ کرو یہ کرو پھر ان میں موانع بھی ہیں.مثلاً قرآن کریم کہتا ہے اس سے بچو، اس سے بچو.تو جہاں کمزوری ہے وہاں جو کرو کا حکم تھا اس کو پس پشت ڈال دیا گیا.اور جہاں بدصورتی اور بھیانک گند ہمیں نظر آتا ہے.وہاں قرآن کریم نے جو کہا تھا یہ نہ کر اس سے بچو.اس سے بچا نہیں گیا.اور جتنی جتنی انہوں نے دنیاوی لحاظ سے ترقی کی وہ بنیادی لحاظ سے کوشش کا پھل ہے.کیونکہ خدا نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ صرف روحانی لحاظ سے تمہارے لئے عزت و شرف کے سامان ہیں یا نہیں کہا تھا کہ قرآن کریم میں صرف روحانی بھلائیاں ہیں بلکہ فرمایا ہے کہ اس میں ہر قسم کی عزت و شرف کے سامان ہر قسم کی خیر کے سامان ہیں دینی خیر ہو یا دنیاوی.عزت و شرف دینی ہو یاد نیوی ہو.روحانی طور پر حاصل ہونے والا شرف ہو یا اس دنیا کے معاشرہ کا شرف ہو.وہ قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے وہ دوست جو ابھی تک ہم میں شامل نہیں ہوئے وہ آج کہ سکتے ہیں کہ ہمیں قرآن کریم کی یہ باتیں کسی نے بتائی نہیں اس لئے ہم دنیا

Page 381

378 فرموده ۱۹۷۳ء دو مشعل راه جلد دوم میں ذلیل ہو گئے.وہ عزت و شرف ہمیں حاصل نہیں ہوا جو قرآن دینا چاہتا تھا.لیکن آپ میں سے کوئی شخص یہ نہیں کہ سکتا اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت کے ساتھ ان چیزوں پر روشنی ڈالی.اور ہمیں ان کی طرف بلایا ہے آخر اور کس چیز کی طرف آپ لوگوں کو بلا رہے ہیں ؟.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا کو محض اس طرف بلا رہے ہیں کہ خدا جو تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور حضرت محمد ﷺے جنہوں نے اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کی صفات کے نمونہ کے طور پر تمہارے سامنے پیش کیا ہے.اُس خدا کی طرف اُس محسن کی طرف نہیں محسن اعظم کی طرف آؤ.تا کہ تمہارے لئے بھی دنیاوی عزت و شرف کے سامان پیدا ہوں.یہی وہ حسین راہ ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بلا رہے ہیں.آپ نے ہر چیز کو کھول کر بیان کر دیا ہے.آپ کے خلفاء آپ کو ان چیزوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں.اور جماعت کے بزرگ بھی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ آپ کو اس طرف بلاتے ہیں.آپ کے پاس پہنچتے ہیں.آپ کے گاؤں میں جاتے ہیں.پیار کا پیغام لے کے جاتے ہیں تا کہ آپ ایک دوسرے سے پیار کریں علم کے تحفے لے کر جاتے ہیں تا کہ آپ دوسروں کو علم سکھائیں وہ الا ماشاء اللہ دن رات ایک کر کے محنت اور مشقت کا سبق آپ کو دیتے ہیں اور آپ کو دنیا کے مقابلہ میں لا کر کھڑا کرتے ہیں.کہ دیکھو چین اتنا آگے نکل گیا.امریکہ اتنا آگے نکل گیا.ہم نے دنیا میں بھی ان سے پیچھے نہیں رہنا ہم نے آگے نکلنا ہے.اور خدا تعالیٰ نے مثلاً علم کے میدان میں ہمیں عقل عطا فرمائی ہمارے ڈاکٹر سلام ہیں ہمارے اور بھی بہت سارے دوست ہیں لیکن چونکہ عام طور پر لوگ ڈاکٹر سلام کو جانتے ہیں.اس لئے ان کی مثال دے دیتے ہیں.غرض جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے بڑے اعلیٰ دماغ دیئے ہیں.شاید کوئی ان میں سے ضائع ہو گیا ہو.اس پر ہمیں انا للہ وانا اليه راجعون پڑھنا پڑے.لیکن ڈاکٹر سلام ایک مثال ہیں اس بات کی کہ تم اگر کوشش کرو گے تو ڈاکٹر سلام بن جاؤ گے.اعلیٰ درجہ کے سائنسدان بن جاؤ گے.سوشل ویلفیئر یعنی بھلائی کے کاموں میں اعلیٰ پایہ کے انسان بن جاؤ گے.کنتم خير امة اخرجت للناس کی رو سے ہم سے زیادہ بھلائی کے کام اور کون کرنے والا ہو سکتا ہے.ہم بنی نوع انسان کی بے لوث خدمت کرنے والے ہیں پہلے بھی میں بتا چکا ہوں کہ ہم تو بھلائی کے کام اس طرح بھی کرتے ہیں کہ جب ۵۰ء میں لاہور میں سیلاب آیا تو ضلع کے اکثر مقامات چھوٹے چھوٹے جزیرے بن گئے.جن میں خوردونوش کے سامان کی کمی ہو گئی.تو حکومت وقت نے ہمیں کہا کہ ان لوگوں کے لئے بھنے ہوئے چنے اور پکی ہوئی روٹیاں اکٹھی کرو تا کہ ہوائی جہاز کے ذریعہ گرائی جائیں.چنانچہ ہمارے کالج کے کچھ طلبہ لاہور شہر کے اندر گئے.کچھ لوگ کہنے لگے تم مرزائی کہاں سے آگئے کل پھر آئے تو ہم تمہیں ماریں گے.وہ آئے اور بتایا کہ اس اس طرح لوگ کہتے ہیں.میں نے سے کہا کل تم پھر وہیں جاؤ گے اور مار کھانے کی نیت سے جاؤ گے.تم ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہمارے کچھ

Page 382

نل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۳ء 379 دومشعل بھائی سیلاب کے پانی میں گھرے ہوئے ہیں اور بھوکے مر رہے ہیں.ہوائی جہاز کے ذریعہ انہیں روٹیاں پہنچائی جارہی ہیں.ہم تو رضا کارانہ طور پر خدا کی خوشنودی کی خاطر خدمت خلق کا یہ کام کر رہے ہیں.اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہمیں ماریں تو ہم مارکھانے کے لئے آئے ہیں.لیکن ایک شرط ہے تم ہمیں جتنی مرضی چپیڑ میں مارلونگر فنی چیرہ ہمیں ایک روٹی دیتے چلے جاؤ.جب انہوں نے یہ بات سنی تو چونکہ انسان فی نفسہ شریف ہے کیونکہ وہ اشرف المخلوقات کا ایک فرد ہے انہوں نے چیرہ میں تو نہیں ماریں گھر سے روٹیاں لا کر دے دیں.پس ہم ہی بنی نوع انسان کی بے لوث خدمت کرنے والے ہیں اور کوئی نہیں.بظاہر امریکہ بھی خدمت کر رہا ہے.یورپ بھی بظاہر خدمت کر رہا ہے.مگر اس کے پیچھے ایک بہت بڑا جل کام کر رہا ہے.روس بھی بظاہر خدمت کر رہا ہے.مگر اس کے پیچھے بھی کچھ اور پر فریب محرکات ہیں.جنہیں بیان کرنے کا یہ وقت نہیں ہے.دعا کی اہمیت بے لوث خدمت جس کے مقابلہ میں آپ کے دل میں ایک دھیلے کے حصول کی بھی خواہش پیدا نہ ہو وہ صرف آپ کر سکتے ہیں.کیونکہ آپ کے دل کو خدا تعالیٰ کی تقدیر نے بدل دیا ہے اور اس کے علاوہ آپ پر اور ذمہ داریاں عائد ہوگئیں.جنہیں سمجھنے کے لئے اور واپس جا کر اپنے بھائیوں کو سمجھانے کے لئے آپ کو یہاں اکٹھا کیا جاتا ہے.یہ دن بڑی محنت سے بڑی فکر اور توجہ سے گزاریں اور کچھ حاصل کر کے یہاں سے واپس اپنے گھروں کو جائیں.اور بے معنی میں ایک مسلمان کو جس قسم کا خادم خدا تعالیٰ نے قرآنی تعلیم کے ذریعہ بنایا ہے اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں کے نتیجہ میں اور آپ کی اور ہماری دعاؤں اور کوششوں کے نتیجہ میں آپ کو ایسا خادم انسانیت بنا دے.پھر ہم سمجھیں گے کہ ہماری زندگی کا مقصد پورا ہوگیا اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق سے یہ ہوسکتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کی توفیق پر ہی ہم بھروسہ رکھتے ہیں.اب میں دعا کرا دوں گا.اس کلاس کا افتتاح تو تلاوت قرآن کریم کے ساتھ ہی ہو گیا تھا کیونکہ قرآن کریم ہی سے ہماری ہر چیز کا افتتاح اور اسی پر ہمارا ہر کام ختم ہوتا ہے.تاہم ایسے موقع پر ہم دعا بھی کرتے ہیں.ویسے ہر شخص بغیر بتائے دعا کر رہا ہے اور وہ دل کی دعا ہے جس کی عادت ہر ایک کو ڈالنی چاہیئے.ہماری زندگی کا ہر لمحہ دعا سے معمور ہونا چاہیئے.اسی واسطے خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو الہاما فرمایا: انت الشيخ المسيح الذي لا يضاع وقته.اس الہام کی رو سے جس احمدی نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ دعا میں گزارا اس کا وقت گو یا ضائع نہیں گیا.اس لئے تم ہر وقت دعاؤں میں لگے رہو.اب میں اس کلاس کے افتتاح پر حسب معمول ہاتھ اٹھا کر بھی دعا کرا دیتا ہوں.ویسے عام حالات میں زیادہ تر بغیر ہاتھ اُٹھائے بھی ہم دعا میں کر رہے ہوتے ہیں دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا فرض نہیں ہے.عادت ڈالنے کے لئے یاد دہانی کے لئے ہم ہاتھ اٹھاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے دعا میں بڑی

Page 383

380 فرموده ۱۹۷۳ء دو مشعل راه جلد دوم برکت رکھی ہے.یہاں تک کہ ساری نماز دعا ہے.خود حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ نماز دعا ہے.اس میں خوب دعائیں کرو.تاہم اصل چیز ذکر الہی ہے گویا ہر وقت انسان کا جسم اور روح پوری بیداری کے ساتھ خدا کے حضور جھکی رہنی چاہیئے.آؤدعا کرلیں.( اجتماعی دعا کے بعد رخصت ہونے سے قبل حضور نے مکرم مولوی عبدالباسط صاحب شاہد کے گلے میں لیٹے ہوئے رومال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طلبہ کو نصیحت فرمائی کہ وہ بھی اپنے نشان کے طور پر اسی قسم کا رومال پہنیں ).

Page 384

دومشعل دوم فرموده ۱۹۷۳ء 381 ہولناک سیلاب کے سلسلہ میں خدام الاحمدیہ کی بے لوث خدمات پر حضرت خلیفہ مسیح الثالث کی طرف سے اظہار خوشنودی اور پیغام گزشتہ ماہ جب ربوہ کے نشیبی حصے اور ارگرد کے دیہات قیامت خیز سیلاب کی لپیٹ میں آگئے تو مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے فوری طور پر وسیع پیمانے پر امدادی سرگرمیاں جاری کر دی گئیں.جن میں جان مال کا تحفظ کھانا کھلانا اور علاج معالجہ کی سہولتیں شامل ہیں.ان بے لوث خدمات میں سینکڑوں خدام شب و روز بڑی بے جگری سے مصروف رہے.ان امدادی سرگرمیوں کی اطلاعات حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی خدمت میں بذریعہ ٹیلیفون اور خطوط با قاعدہ بھجوائی جاتی رہیں چنانچہ حضور نے ان پر بے حد اظہار خوشنودی فرمایا اور خدام کے نام اپنے پیغام میں آخر وقت تک خدمات جاری رکھنے کا ارشاد فرمایا.حضور صد ر خدام الاحمدیہ مرکز یہ محترم چوہدری حمید اللہ صاحب کے نام ایک خصوصی کیبل گرام میں فرماتے ہیں:.خدام الاحمدیہ کی بے لوث خدمات قابل تعریف ہیں.سیلاب زدگان کو جانی اور مالی نقصان سے بچانے کے لئے انتہائی کوششیں جاری رکھیں“.اسی طرح محترم صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے نام اپنے ایک مکتوب گرامی محرره ۱۶ اگست ۱۹۷۳ ء میں حضور نے فرمایا: - ”میری طرف سے خدام کو کہیں کہ جب تک ضروری ہو کام کو جاری رکھیں اور پوری تندہی اور ہمت سے کام کریں.تمام احباب اور خدام کو السلام علیکم کہ دیں.( خالد ستمبر ۱۹۷۳ء)

Page 385

382 فرموده ۱۹۷۳ء دومشعل راه جلد دوم ۲ نومبر ۱۹۷۳ء کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اکتیسویں سالانہ اجتماع سے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جو افتتاحی خطاب فرمایا.اس کا متن پیش تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے یہ حصہ آیت تلاوت فرمایا: - کنتم خير امة اخرجت للناس (ال عمران: ١١١ ) اور فرمایا:- قرآن عظیم کی ایک آیہ کریمہ کے اس ٹکڑے میں جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.دوباتیں بیان ہوئی ہیں.ایک یہ کہ امت مسلمہ خیر امت ہے.اور دوسرے یہ کہ امت مسلمہ نوع انسانی کی خدمت اور بھلائی کے لئے بنائی گئی ہے.پچھلے دو خطبات جمعہ میں اصولی اور تعلیمی لحاظ سے خیر امۃ کی جو بہت سی خیر کی صفات ہیں ان میں سے دو بنیادی صفات کے متعلق میں نے کچھ بیان کیا تھا.اس امت کی ایک بنیادی صفت یہ ہے کہ یہ ایک ایسی امت ہے کہ جوز بر دست استعدادیں اور صلاحیتیں رکھتی ہے.اور ان صلاحیتوں اور استعدادوں کی صحیح اور پوری نشو و نما کر کے انہیں اپنے معراج تک پہنچاتی ہے.اس نقطہ نگاہ سے خیر امت کا ہاتھ ہمیشہ اوپر کا ہاتھ دینے والا ہاتھ خدمت کرنے والا ہاتھ.احسان کرنے والا ہاتھ ہوگا.احسان لینے والا یا مانگنے والا یا دوسروں پر انحصار کرنے والا یا غیر اللہ کی احتیاج دل میں رکھنے والا نہیں ہوگا.اور خیر امت کی دوسری بنیادی صفت یہ ہے کہ وہ امین ہے.یعنی قرآنی تعلیم کو بجھتی اور اس پر عمل کرتی اور اسے دوسروں کو سمجھاتی اور اس عظیم تعلیم اور ہدایت اور شریعت پر دنیا کو عمل کروانے کی کوشش کرتی ہے.خدام الاحمدیہ کی اہمیت دام الاحمد یہ بڑی ذمہ داریوں کی حال ہماری ایک مجلس ہے.نوجوان نسل جس نے اس رنگ میں تربیت حاصل کرنی ہے کہ وہ بڑھتی ہوئی ذمہ داریاں اور بڑھتے ہوئے بوجھ کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتی ہو.سائیکل چلانے کی تحریک انسانی جسم پر بنیادی طور پر دو قسم کے بوجھ پڑتے ہیں.ایک وہ بوجھ ہے جو براہ راست اس کے جسمانی اور ذہنی قولی پر پڑتا ہے اور ایک وہ بوجھ ہے جو بالواسطہ اس کے جسمانی اور ذہنی قومی پر پڑتا ہے.اس کے لئے جو تربیت جماعت اپنے ان پیارے بچوں کو دینا چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے جسمانی قوئی اپنی نشو و نما کے کمال کو اس

Page 386

فرموده ۱۹۷۳ء 383 و مشعل راه جلد دوم رنگ میں پہنچا ئیں کہ دوسری ذمہ داریاں نبھانے کے بوجھ کو وہ برداشت کر سکیں.ان میں سے ایک طریق جو ماضی قریب میں جاری کیا گیا ہے وہ سائیکل کا استعمال ہے.میں نے جب ابتداء یہ تحریک کی تو مختصرا یہ اشارہ کیا تھا کہ اپنی صحتوں کو برقرار رکھنے کے لئے سائیکل کی طرف متوجہ ہوں.کیونکہ آج کی سائنس اور علمی تحقیق نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ سائیکل چلانے سے عام صحت بھی اچھی ہوتی ہے اور انسانی جسم کو دل کی بیماریوں سے کافی حد تک حفاظت مل جاتی ہے.اس وقت بعض عمر رسیدہ سائینسدان یا ڈاکٹر جن کو دل کی تکلیف تھی.خود سائیکل چلاتے ہیں تا کہ دوائی کے علاوہ سائیکل کا چلانا ان کے دل کی بیماریوں کو دور کرنے کا باعث بنے.سائیکل چلانے میں صرف یہی فائدہ نہیں اور بھی ہزاروں فوائد ہیں.مثلاً آپ میں سے بہتوں کو اپنے گھر کے کام کاج کے لئے یا خریداری کے لئے بازار جانا پڑتا ہے.اگر آپ کے پاس سائیکل ہو تو آپ اپنا بہت سا قیمتی وقت بچاسکیں گے.اور وہ بشارت آپ کے وجود میں بھی پوری ہوگی جو مہدی معہود کو ان الفاظ میں دی گئی تھی کہ تو ایک شیخ ( بزرگ ) مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا“.پس ہمیں خاص طور پر اپنے اوقات کو معمور رکھنے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور دوسرے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے تا کہ وہ برکات ہمارے وجود میں بھی پوری ہوں.دیہاتی جماعتوں میں سے بعض نے اس طرف بڑی توجہ کی اور بعض نے اتنی توجہ نہیں کی.میں بہت ہی خوش ہوں کہ جھنگ کے ہمسایہ ضلع ( یعنی سرگودھا) نے اس سکیم پر اس سے زیادہ عمل کیا جتنا بہت سے دوسروں نے کیا ہے اور بہت سے فوائد اس منصوبہ کے ان کے یا دوسرے افسروں کے سامنے آئے جن کی طرف انہیں پہلے توجہ نہیں تھی اور قریباً ہر گاؤں میں سرگودھا کا احمدی جو ان سائیکل سوار پہنچا ہے.یہ ابھی ابتداء ہے.ابھی آپ کو تربیت دی جارہی ہے اور ہم پہلے مرحلے میں سے گذررہے ہیں اور اگر ربوہ کے سائیکل اسی طرح اس اجتماع میں شامل سمجھے جائیں جس طرح کہ ربوہ کے خدام اس اجتماع میں شامل سمجھے جاتے ہیں.تو اس اجتماع میں شامل ہونے والے سائیکلوں کی تعداد ایک ہزار سے کہیں بڑھ جاتی ہے.باہر سے آنے والے سائیکل سواروں کی تعداد جو اس وقت تک علم میں آئی ہے وہ تو چھ سو باسٹھ ہے لیکن کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے نام ابھی تک رجسٹر نہیں کروائے اور توقع ہے کہ کچھ آج پہنچیں گے.ان میں سے وہ ہیں جو کراچی سے سائیکل پر قریباً ۱۹۰ اور ۱۰۰ میل روزانہ طے کر کے آئے.اور کچھ وہ ہیں جو تھر پارکر یا سندھ ( جو کہ قریباً کراچی جتنا فاصلہ ہے.میرے خیال میں تمیں چالیس میل کا فرق ہوگا) وہاں سے آئے اور بڑی تیزی سے انہوں نے سفر کیا.اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے.ایک گروپ کو وہاں کی جماعت نے ہدایت کی کہ تم دن کو سفر کر نا رات کو نہ کرنا.اور دوسروں کو یہ ہدایت نہیں تھی.کراچی والوں نے دن کو سفر کیا.تھر پار کر والوں نے اکثر رات کو سفر کیا.دونوں وقتوں کے سفروں کے حالات ہمیں معلوم ہوئے کیونکہ ہر دو کو جس دن وہ یہاں پہنچے میں نے کہا تھا کہ ایک مختصری رپورٹ اپنے سارے احوال کے متعلق مجھے دو دن کے اندر لکھ کر دو.انہوں نے دونوں مجلد رپورٹیں مجھے جمعرات کو پہنچا دی تھیں.وہ بڑی دلچسپ ہیں میں نے

Page 387

384 فرموده ۱۹۷۳ء پڑھی ہیں.صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ مجھ سے لے لیں اور اپنی فائل میں رکھیں.اپنا وقت ضائع نہ ہونے دیں د و مشعل راه جلد دوم دد پھر ساہیوال سے خدام سائیکلوں پر آئے اسی طرح دوسرے ضلعوں سے بھی آئے.تھر پار کر کے علاوہ کہ ان کی ٹیم میں اکثر دیہاتی سائیکل سوار تھے.سوائے دو ایک افراد کے جو حیدر آباد سے ان کے ساتھ ملے ہیں.عملاً فائدہ اس کا دیہاتیوں کو شاید اس سے زیادہ ہو جتنا شہریوں کو ہے.ایک تو شہر میں سڑکیں اچھی ہیں.اور ویسے بھی سائیکل کے استعمال کی پرانی عادت ہے میں اپنے دیہاتی بچوں سے کہتا ہوں کہ یہ جو آپ اڈہ پر بس کے انتظار میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایک گھنٹہ بھر انتظار کرتے ہیں.پھر بس آتی ہے اور بعض دفعہ اتنی بھری ہوئی ہوتی ہے کہ آپ سوار نہیں ہو سکتے اور اس طرح آپ کا وقت ضائع ہوتا ہے اور ابھی میں نے بتایا ہے کہ ایک احمدی کا وقت ضائع ہونے سے بچنا چاہیئے یعنی و لنفسک علیک حق ہر احمدی کا فرض ہے کہ اپنا وقت ضائع نہ ہونے دے اگر اس کے پاس سائیکل ہو تو وہ اپنے نفس کا حق بھی ادا کر سکے گا یعنی اس کی ورزش بھی ہو جائے گی اور کام بھی جلد ہو جائے گا میرے اندازے کے مطابق الا ما شاء اللہ ہر گاؤں سے ہیں یا چھپیس میل کے اندر اندر کوئی نہ کوئی بڑا قصبہ ہے جہاں ایک دیہاتی کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں.یہ درست ہے کہ بعض ایسی ضروریات ہیں جو صرف تحصیل کے ہیڈ کوارٹر سے پوری ہوتی ہیں مثلاً قانونی ضروریات یا مقدمات کی ضروریات یا زمینداروں وغیرہ کی ضروریات ہیں.لیکن عام ضروریات پندرہ یا بیس میل کے فاصلوں سے پوری ہو سکتی ہیں.اس لئے آپ بسوں کا انتظار کیوں کرتے ہیں اپنا وقت بچائیں.ورزش کریں صحت مند ہو جائیں اور آپ سائیکل سواری کریں.میں نے بتایا تھا اور آج دہراتا ہوں کہ مجھے بڑی جلدی ایک لاکھ احمدی سائیکل چاہیے احمدی سائیکل وہ ہے جسے احمدی چلاتا ہو.اور ایک لاکھ ایسا احمدی سائیکل چاہیئے جسے قریباً سو میل روزانہ چلنے کی عادت ہو میں نے بتایا تھا کہ اگر ایک لاکھ سائیکل ہو اور سومیل روزانہ چلے تو ایک دن میں ہمارا احمدی ایک کروڑ میل کا سفر کر رہا ہوگا اور یہ بڑی حرکت ہے اور حرکت میں بڑی برکت ہے.اور اب جو ہم نے تجربہ کیا تو ہر شخص نے الا ماشاء اللہ پسندیدگی کی نگاہ سے اسے دیکھا اور سب ہی بہت خوش ہوئے.ان کو غصہ نہیں آیا بلکہ حیرت ہوئی اور ہمت کی بہت داد دی.یہ ایک اچھا اثر آپ نے چھوڑا اس کے بہت سے اور بھی اثرات ہیں یہ کام آنے والی چیز ہے.اگر جماعت اور خدام الاحمدیہ کوشش کریں تو سات سال کے اندر اندر ایک لاکھ احمدی سائیکل ہو جائے.یہ بڑا ضروری ہے.اس لئے بھی کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جو میں آپ لوگوں کے سامنے ایک بڑا منصوبہ پیش کرنے والا ہوں.اس کے لئے بھی تیاری کر رہا ہوں اور آپ کے ذہنوں کو بھی اس کے لئے تیار کر رہا ہوں.پس یہ جسمانی قوت کو مضبوط کرنے کے لئے ایک پروگرام ہے.

Page 388

دومشعل تل راه جلد دوم ایک احمدی نوجوان کی غیرت کا تقاضا فرموده ۱۹۷۳ء 385 ہلاکو خان اور چنگیز خان جو دنیا فتح کرنے کے لئے اپنے ملک سے نکلے تھے اور ایک دنیا کو انہوں نے فتح کیا تھا ان کے پاس ایسے گھڑ سوار تھے جن کو سات سات آٹھ آٹھ سو میل تک گھوڑے سے اترنے کی اجازت نہیں تھی انہوں نے قاصدوں کی ایسی ٹیمیں بنارکھی تھیں جنہوں نے جلدی خبریں پہنچانی ہوتی تھیں.وہ ایک گھوڑے سے چھلانگ لگا کر دوسرے گھوڑے پر سوار ہو جاتے تھے.کیونکہ ایک گھوڑا اتنا لمبا فاصلہ بیک وقت طے نہیں کر سکتا اور گھوڑے پر ہی ان کو کھانا ملتا تھا.ان کو اترنے کی اجازت نہیں تھی اور پیشاب وغیرہ بھی وہ گھوڑے پر ہی کر دیتے تھے.اور اس کام کو اتنی اہمیت دی گئی تھی کہ اگر کسی قاصد کا گھوڑا تھک کر گر جاتا اور مرجاتا تھا تو اگر وہاں کوئی جرنیل کھڑا ہوتا تو اسے حکم تھا کہ قاصد کا حکم مانے اور اپنا گھوڑا اسے پیش کر دے.کیونکہ وقت بچانے کا گر انہوں نے مسلمانوں سے سیکھا تھا.بعد میں اللہ تعالیٰ نے انہیں مسلمان کر دیا اور یہ برکت بھی انہیں مل گئی.لیکن بڑے بڑے علماء انہوں نے اپنے درباروں میں رکھے ہوئے تھے ان سے وہ یہ باتیں سیکھتے تھے اور چونکہ وہ اسلام نہیں لائے تھے اس لئے بعض حرام چیزیں کھا جاتے تھے.مثلاً خون حرام ہے لیکن قاصدوں کو یہ حکم تھا کہ اگر تمہیں پیاس لگے اور اتنی پیاس ہو کہ تم صبر نہ کر سکو تو اس صورت میں ایک خاص قسم کا سوراخ دار سوا ان کے پاس ہوتا تھا اور گھوڑے کی گردن کی ایک خاص رگ ان کو بتائی جاتی تھی اور حکم تھا کہ اس کے اندر سوا ڈالو اور سرپٹ دوڑتے گھوڑے کا دو چھٹانک یا ایک پاؤ خون پی کر اپنی پیاس بجھالو اور اپنی طاقت کو قائم رکھو ہمیں جائز ذرائع استعمال کرنے ہوں گے لیکن میری غیرت تو یہ برداشت نہیں کرتی.کیا آپ کی غیرت یہ برداشت کرے گی کہ چنگیز خان کا قاصدا تناقوی اور مضبوط ہو کہ اس قسم کے کام کرے اور ایک احمدی نوجوان کہے کہ میں نہیں کر سکتا.اس لئے ہماری غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ اسلام سے باہر دنیا میں جتنی ترقی کرنے والی اقوام نے اسلام کی باتیں سیکھ کر اپنے نفوس کو سختیوں کے برداشت کرنے کی اور اپنے ”ڈولوں کو مضبوط بنا کر سختیاں جھیلنے کی عادت ڈالی ہے وہ ہم میں نہ ہو.یہ ہماری غیرت برداشت نہیں کرتی.پس زیادہ سے زیادہ سات سال میں.ویسے تو آپ تین سال میں بھی کر سکتے ہیں لیکن بعض مشکلات ہیں مثلاً خرچ کے لحاظ سے آج کل سائیکل مہنگا ہو گیا ہے.چار سو روپے سے اوپر ایک سائیکل کی قیمت ہے.ایک لاکھ سائیکل کا مطلب ہوا چار کروڑ روپے.ایک وقت میں جماعت یہ برداشت نہیں کر سکتی.یہ درست ہے لیکن آپ نیت کر لیں کہ جس وقت بھی خدا نے آپ کو توفیق دی آپ سائیکل خریدلیں گے تو سائیکل خریدنے کا ثواب انما الاعمال بالنیات کے مطابق ابھی سے ملنا شروع ہو جائے گا.دوسرے اس لئے کہ قرآن کریم نے ایک مسلمان کو جن میں نفاق کا کوئی شائبہ نہیں یہ حکم دیا ہے کہ اگر تمہاری نیت کسی مقصد کے حصول کی ہے.تو اس کے لئے جس قسم کی تیاری چاہیئے وہ تم کرو گے منافق کے متعلق کہا لوارادو الخروج لا عدوا له عدة کہ اگر میدان جہاد میں جانے کا ان کا ارادہ ہوتا تو وہ اس کے لئے تیاری کرتے.ان کا جہاد کے لئے تیاری نہ کرنا ان کا اس وقت کے لحاظ سے تیر کمان نہ خریدنا تلوار ان کے پاس نہ ہونا، تلوار چلانے کی مشق نہ کرنا.تیر

Page 389

386 فرموده ۱۹۷۳ء دو مشعل راه جلد دوم چلانے کی مشق نہ کرنا.اپنے نشانوں کو درست نہ کرنا اپنے پٹھوں کو مضبوط کرنے کی کوشش نہ کرنا اور پھر کہنا کہ دیکھیں نیت تو جہاد میں شامل ہونے کی بہت تھی لیکن دیکھیں ناں! ہماری بیوی بیمار ہے.ہمارے بچے کو کھانسی ہوگئی ہے.اس لئے ہم جہاد کے لئے نہیں جاسکتے.یہ ماننے والی بات نہیں.اگر تمہاری تیاری ہوتی اور پھر تمہارا عذر بھی معقول ہوتا تو خدا کا رسول ﷺ بھی تمہارے عذر کو قبول کر لیتا اور اللہ تعالیٰ بھی اس عذر کو قبول کر لیتا.پس مسلمان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جن مقاصد کے حصول کا تم ارادہ اور عزم رکھتے ہو ان مقاصد کے حصول کے لئے جسم قسم کی تیاری کی ضرورت ہے.وہ تمہیں کرنا پڑے گی.ورنہ خدا کے نزدیک تم جھوٹے اور دروغ گو اور کذاب ٹھہرو گے.پس ہمارا مقصد اس دنیا پر ان کے دل جیت کر غالب آتا ہے کہ جو دنیا آج دنیا وی لحاظ سے اتنی ترقی کر گئی ہے کہ دنیا کی ساری دولتیں انہوں نے اپنے خزانوں میں سمیٹ لیں مگر ہم ان دونوں حالتوں سے خائف نہیں ہیں.اس لئے کہ ہم نے اس دنیا میں اس حقیقت پر اور اس یقین کے ساتھ آنکھ کھولی ہے کہ تمام خزانوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی خزانے دینے والا اور وہی دولت چھینے والا ہے.آخر تاریخ انسانی واقعات سے بھری نہیں پڑی.ایک قوم کو ایک وقت میں اللہ تعالیٰ نے اتنے خزانے دیئے کہ وہ ان سے گنے نہیں جاتے تھے اور دوسرے وقت میں وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے.ہمارے اپنے ملک میں مغل بادشاہوں کے متعلق میں نے کئی جگہ پڑھا ہے کہ ایک وقت میں وہ حاکم تھے اور ان کے پاس اتنی دولت تھی کہ جب ان کی سخاوت جوش میں آتی تھی تو وہ اپنے سرداروں میں ایک ایک وقت میں دس دس نہیں بیس لاکھ روپیہ ایک ایک میں سوسو امراء اور درباریوں میں تقسیم کر دیتے تھے.لیکن کچھ اور گناہ تھے کچھ اور غلطیاں تھی جو ان سے سرزد ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کی گرفت نے ان کو ان کی غلطیوں کی وجہ سے پکڑا اور دوسروں کے عبرت کا سامان پیدا کرنے کے لئے ان کو یہ سزا ملی کہ ان کی اولاد میں سے ان کی پوتیوں یا پڑ پوتیوں پر ایسا وقت آیا کہ انہیں دیکھنے والوں نے گلیوں میں بھیک مانگتے دیکھا.پس یہ تو درست ہے کہ غیر اسلامی دنیا نے آج دنیا کی دولتیں سمیٹ لیں مگر ایک احمدی دل کو یہ دولتیں خائف نہیں کر سکتیں.کیونکہ احمدی کا دل اس یقین سے معمور ہے کہ تمام خزانوں کا مالک خدا کی ذات ہے اور جسے خدامل جائے اس نے ان خزانوں کو لے کر کیا کرنا ہے اور تمہیں تو خدا کہتا ہے کہ میرے لئے قربانیاں دو.میرے پیار اور میری رضا کی جنتوں کو تم پا لو گے.اس آواز کے بعد کسی احمدی کو دنیا کے خزانوں سے کیا تعلق.اس کو کیا حرص اور کیا خواہش دنیا کے خزانوں کی ؟ ان لوگوں نے دن رات ایک کر کے نہایت سخت محنت کر کے.اپنے شہروں اور وطنوں کو چھوڑ کر رضا کارانہ طور پر جنگلوں میں جا کر اپنی قوم کی خاطر قربانیاں دے کر یہ دولتیں جمع کی ہیں.یہ نہیں کہ گھر بیٹھے آسمان سے یہ دولتیں گریں میں نے آئس لینڈ اور گرین لینڈ کے متعلق دو تین بڑی مشہور کتابیں پڑھی ہیں.وہاں ان کے پاس سمندری جانوروں کی کھالیں تھیں جن سے وہ اپنے خیمے بھی بناتے تھے اور بڑی صحت مند زندگی وہ لوگ گزار رہے تھے.پھر یہ لوگ وہاں پہنچے بالکل

Page 390

فرموده ۱۹۷۳ء 387 د و مشعل راه جلد دوم ایسی جگہ جہاں بالکل وحشیوں والی زندگی تھی برف کے تودوں کے اندر وہ اپنے کھوہ بنا کر رہتے تھے کیونکہ سال میں ایک ایسا وقت آتا تھا کہ کھالوں کے خیمے بھی کام نہیں دیتے تھے.بڑی مشقت سے وہ سمندری جانوروں کا شکار کر کے کھانے کا انتظام کرتے تھے اور ان کی چربی اپنے جسموں پر ملتے تھے.یہ عیش پرست لوگ ان کی دولت سمیٹنے کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ کر ان کے پاس گئے اور ایک ایک سگریٹ دے کر ایک ایک کھال ان سے لے لی اور وہ جنہوں نے شراب کا نام نہیں سنا تھا ان کو شراب کا عادی بنادیا اور ان کی ساری دولت سمیٹ کر لے آئے.دنیا کی دولت اکٹھی کرنے کی خاطر انہوں نے یہ قربانیاں دیں کیا خدا کو پانے کے لئے ہم اس سے زیادہ قربانیاں نہیں دیں گے؟ انشاء اللہ ضرور دیں گے.پس اپنے آپ کو القوی بنانے کے لئے اپنی جسمانی قوتوں کی نشو ونما کو عروج تک پہنچاؤ.یہ ٹھیک ہے کہ خدا تعالیٰ نے بعض کو جسمانی قومی کو بڑھانے اور نشو ونما دینے کی استعداد کم دی ہے اور کسی کو یہ استعداد زیادہ ملی ہے لیکن جتنا کسی کو دیا اس سے متعلق خدا کہتا ہے کہ یہ میری عطا ہے تو نا شکر ابندہ نہ بن اور میری اس عطاء سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے.جب ان کی نشوونما کامل ہو اگر کامل نہیں تو پورا فائدہ نہیں ہوسکتا.جب تک جسم مضبوط نہ ہو اس وقت تک وہ مذہبی قربانیاں نہیں دی جاسکتیں جن کا آج اسلام مطالبہ کر رہا ہے میں نے بڑا غور کیا اور میں اپنے اس مسلمان بزرگ کی قوت کو دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ شروع میں چند ہزار مسلمان سپاہی حکومت کسری کی حرکتوں کے نتیجہ میں مجبور ہوئے کہ وہ جنگ لڑیں.اس حکومت اور سلطنت سے جو دنیا کی سب سے بڑی دو طاقتوں میں سے ایک تھی اور فوجوں کا بہت فرق تھا کہ ایک ایک دن کی دو دو دن کی لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست دی لیکن فوجوں کا اتنا فرق تھا کہ ایک مسلمان سپاہی کو صبح سے لے کر جب جنگ شروع ہوتی.دست بدست جنگ تلوار کی جنگ، تو صبح سے لے کر شام تک تلوار چلانی پڑتی لیکن کسری کی فوجیں تعداد میں اتنی زیادہ تھیں کہ ہر گھنٹے دو گھنٹے کے بعد لڑنے والی اگلی صف پیچھے ہٹ جاتی اور ایک تازہ دم فوج اس فوج کے مقابلے میں جواب تازہ دم نہیں رہی تھی آکھڑی ہوتی اسی طرح وہ اپنی صفیں بدلتے رہتے اور یہ مسلمان صبح سے لے کر شام تک تلوار چلاتے رہتے.تم کبھی ہاکی لے کر گھماؤ تو دس منٹ گھما سکتے ہو.یا پندرہ منٹ یا ہمیں منٹ تم تھک جاؤ گے لیکن وہ جس نے خدا کی خاطر صبح سے لے کر شام تک تلوار چلائی اس نے خدا تعالیٰ کے قانون کے مطابق کتنی محنت دعا اور تدبیر اپنے ان بازوؤں کو مضبوط اور طاقتور بنانے کے لئے کی ہوگی؟ تاریخ میں ہم پڑھتے ہیں کہ ان لوگوں کو اپنی قوتوں کی نشو ونما کا اتنا شوق پیدا ہو گیا تھا کہ بارہ بارہ سال کے بچے بھائی کے سر پر سیب رکھ کر تیر سے اس کا نشانہ لیتے تھے اپنے نشانہ پر اتنا اعتماد تھا اور اتنی مشق تھی.اتنی ساری محنت انہوں نے نشانہ سیکھنے پر اور اپنے ہاتھ سے تیر بنانے پر خرچ کی.وہ اپنے ہاتھ سے اپنا اسلحہ بناتے تھے.کوئی امریکن کارخانہ تو انہیں سامان حرب سپلائی نہیں کرتا تھا.جس طرح اس لڑائی میں انہوں نے اسرائیل کو سامان جنگ دے دیا وہ مسلمان تو آپ ہی اپنے ہاتھوں سے کمانیں بناتے اور تیر تیار کرتے تھے اور بھائی کے سر پر سیب رکھ کر اس کا نشانہ کرتے تھے.

Page 391

388 فرموده ۱۹۷۳ء د و مشعل راه جلد دوم میں نے کہا ہے کہ تم اپنے پاس غلیل رکھو تا تازہ گوشت کھاسکو میں ایک دوسری مثال آپ کو بتا تا ہوں.ہمارے ایک احمدی سندھ میں رہتے تھے اب تو وہ بوڑھے ہو گئے ہیں اور سندھ سے آ بھی گئے ہیں.غالباً ۴۹-۵۰ ء کی بات ہے.غلیل رکھنے کی تحریک حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے زمینوں کے ہی کسی کام کے لئے مجھے وہاں بلوایا کہ چند دن آؤ اور یہ کام کرو.ایک دن میں شام کو ڈیرے کے باہر کھڑا ہوا تھا.وہ شخص گھوڑے پر آئے انہوں نے چار پانچ بھٹ تیتر ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے وہ کہنے لگے کہ میں حضرت صاحب کے لئے شکار کر کے لایا ہوں.میں نے کہا آپ کے پاس بندوق تو ہے نہیں.آپ نے یہ مارے کس چیز سے ہیں! جیب میں سے غلیل نکال کر کہنے لگے اس چیز سے مارے ہیں.میں نے پوچھا کیسے مارے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ جہاں وہ بھٹ تیتر بیٹھا ہوا دیکھتے تھے اس کے قریب اپنا گھوڑالے جاتے تھے.یہ ایک ایسا جانور ہے جو عمو ماریتلی زمین پر بیٹھتا ہے.بھٹ تیتر کی کئی قسمیں ہوتی ہیں.سندھ میں دو قسم کا ہوتا ہے ایک کو امپریل کہتے ہیں جو سائز میں بڑا ہوتا ہے اور اس کی گردن میں بڑی خوبصورت مٹھی ہوتی ہے.ایک چھوٹا ہوتا ہے.وہ ہماری سندھ کی زمینوں میں کافی ہوتا ہے.اس وقت میں نے بھی شکار کیا تھا.لیکن بندوق سے غلیل سے نہیں.تو انہوں نے بتایا کہ جہاں انہوں نے دیکھا کہ چھوٹے بھٹ تیتر بیٹھے ہوئے ہیں تو وہ اپنی گھوڑی اس کے قریب لے جاتے تھے.اور عام طور پر یہ جانور گھڑ سوار سے نہیں ڈرتے.جب بالکل قریب پہنچ جاتے تھے تو اپنا گھوڑا اس کے پیچھے دوڑاتے تھے نیچے گھوڑا دوڑ رہا ہے اور اوپر بھٹ تیتر پرواز کر رہا ہے.اور یہ دوڑتے ہوئے گھوڑے سے اڑتے بھٹ تیتر کو غلیل کے نشانے سے گرا لیتے تھے.ایسا اچھا نشانہ تھا.مثال میں نے اس لئے دی ہے کہ کہا تو میں نے یہ ہے کہ تم غلیل رکھو.کیونکہ الامــام جـنـة يقتل من وراء ہ ایک مسلمان کو امام کی ڈھال کی نیچے لڑنا پڑتا ہے اور مصلحتیں نہیں پوچھی جاتیں اس لئے مصلحت نہ پوچھو.لیکن اگر چاہو تو تمہیں غلیل سے بھٹ تیتر کا شکار بھی مل سکتا ہے.امریکہ میں اس وقت ہرنوں اور ریچھوں کا شکار تیر کمان سے کیا جارہا ہے اور جو تیر کمان کا بادشاہ تھا یعنی مسلمان وہ اس ہنر کو بھول چکا حالانکہ آج دنیا پھر اس طرف آ رہی ہے.میں نے گھڑ سواری کا کہا ہے اس میں بھی اچھی ترقی ہے لیکن ایک ہزار گھوڑے یہاں آنے کی ابھی ہم امید نہیں رکھتے کیونکہ اس پر خرچ زیادہ ہوتا ہے.اور ” بیکو والے یا رستم “ اور ” سہراب “ والے گھوڑے نہیں بناتے ورنہ تو بہت سارے گھوڑے جلدی مل جائیں کیونکہ گھوڑیاں پالنا پھر ان کے بچے ہوں پھر وہ بڑھیں تین چار سال کا انتظار کرنا پڑتا ہے.بہر حال اس کو وقت لگے گا.لیکن تسلی بخش طریقہ پر وہ کام بھی چل رہا ہے.کسی دن آپ کے ساتھ یہ مقابلہ بھی ہو جاتا ہے کہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں گھوڑے زیادہ آتے ہیں یا سائیکل زیادہ تے ہیں.تو جو سائیکلسٹ ہیں وہ اس مقابلہ کے لئے بھی تیاری کریں.یورپ کے اس دورہ میں یہ سوال کیا گیا وو

Page 392

د دمشعل را مل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۳ء 389 کہ آپ نے جس ملک میں ایک مسجد بنائی اور مشن ہاؤس بنایا.اور جو باتیں آپ کر رہے ہیں بڑی اچھی ہیں اور ہمارے ملک کے عوام کے سامنے پیش ہونی چاہیں لیکن اتنی چھوٹی سے کوشش سے اتنے بڑے نتائج کیسے نکلیں گے؟ نتائج تو اللہ تعالیٰ نکالتا ہے اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں سے واقف نہیں لیکن میں نے انہیں ایک بات کہی اور آپ کو اس لئے بتارہا ہوں کہ آپ اس کے لئے تیار رہیں.میں نے کہا بات یہ ہے کہ یہ ہمارے مشن ہاؤس دراصل ہماری (Observation Post) یعنی دیکھ بھال کی چوکیاں ہیں یہاں سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تمہارے ملک میں کس قسم کی تبدیلی پیدا ہورہی ہے اور اس سے ہمیں بڑا فائدہ ہے کیونکہ تمہاری ذہنیت اور تمہارا رجحان کس طرح بدل رہا ہے؟.کدھر جا رہا ہے؟ کس طرح تم عیسائیت کو دل سے چھوڑ رہے ہو؟.اور دھریت کو تم پسند نہیں کر رہے یہ جو ایک Vacum (ویکیوم) یعنی خلاء پیدا ہورہا ہے.یہ حالت ہمارے علم میں آرہی ہے.جس وقت جماعت احمدیہ کو یہ پتہ لگا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی جگہ پر اس طرح جھنجھوڑا ہے کہ تمہارے درخت، گندگی اور دہریت اور مشرکانہ زمین سے اکھیڑ کر اسلام کے باغ میں لگائے جاسکتے ہیں اس وقت میں ایک ہزار احمدی کو کہوں گا کہ تمہارے ملک میں آجائے.وہ آجائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ ایک ہزار احمدی تو آئے گا.مجھے یقین ہے اور یقین کی بناء پر ہی میں نے کہا.لیکن میری یہ خواہش ہے کہ اگر کبھی یہ آواز امام وقت کو دینی پڑے تو ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے بلکہ سب میدان میں آجائیں.میں نے جیسا کہ ابھی بتایا اور اپنے خطبہ میں بھی یہ کہا تھا کہ امت مسلمہ اگر صحیح معنوں میں امت مسلمہ بنا چاہتی ہے تو ان کو دوسروں کی امداد سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑے گا.کیونکہ ہمارے خدا ہمارے محبوب اور پیارے رسول ﷺ اور قرآن نے یہی کہا ہے یہ تو ایک اصولی تعلیم ہے لیکن تمہیں میں یہ کہوں گا کہ تمہیں خدا نے پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ تم دنیا کے دل اسلام کے لئے جیتو اور تمام نوع انسانی کو کے جھنڈے تلے لا جمع کرو تم اپنی جسمانی اور ذہنی قوتوں کی نشو ونما کو اپنے کمال تک پہنچاؤ.اب ہمارے کالج میں ایم ایس سی فزکس کا نتیجہ بہت اچھا نکلا ہے.اور ہمارے یہاں کے ایک نوجوان بچے نے یو نیورسٹی کا ریکارڈ توڑا ہے.مجھے بتایا گیا ہے کہ ( واللہ اعلم بالصواب) اس موقع پر بعض لوگ بڑے گھبرائے بعض چالا کیاں بھی انہوں نے کیں لیکن اس بات میں تو وہ عام کامیاب نہیں ہوئے کہ اس کو نمبر کم کر کے پیچھے ڈال دیں.لیکن انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ دس نمبر Grace Marks ( گریس مارکس) فی پر چہ دیں گے اور جب ہمارے بچے کے نمبر سامنے آئے تو انہوں نے سوچا کہ اس کو عام قاعدہ کے مطابق نمبر مل گئے تو یہ ایک ایسار یکارڈ قائم ہو گا جو بعد میں کبھی ٹوٹے گا ہی نہیں.اس لئے انہوں نے بیچارے دوسروں کو نقصان پہنچا کر اس کو وہ نمبر نہیں دیئے.پھر بھی ریکارڈ تو اس نے توڑ ہی دیا مگر جو چیز انہوں نے سوچی نہیں وہ یہ ہے کہ انہیں کس نے یہ یقین دلایا ہے کہ بعد میں آنے والا نوجوان جو اس ریکارڈ کو توڑے گا وہ ربوہ کا احمدی نہیں ہوگا ! انشاء اللہ وہ ربوہ کا ہی ہوگا.

Page 393

390 فرموده ۱۹۷۳ء ساری دنیا سے آگے نکلنا ہے دومشعل راه جلد دوم تم نے سب سے آگے نکلنا ہے! نکلتا ہے! نکلنا ہے! اور اس کے لئے تمہیں تیاری کرنا ہو گی.ورنہ خدا تعالیٰ تمہیں منافق کہے گا.لو ارادوا الخروج لا عدوا له عدة میں خدا نے اعلان کیا ہے کہ جو شخص میری آواز پر لبیک کہتا ہے لیکن اس کے لئے ان قربانیوں کے لئے تیار نہیں ہوتا جن کا میں مطالبہ کرتا ہوں وہ میری نگاہ میں منافق بن جاتا ہے.کیونکہ مومن وہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کے حصول کا ارادہ اور عزم کرلے تو اس کے حصول کے لئے جس قسم کی اور جتنی قربانی دینی پڑے اور تیاری کرنی پڑے وہ کرتا ہے.اور پھر وہ اللہ کے فضل سے کامیاب ہوتا ہے کامیاب تو اللہ کے فضل سے ہوتا ہے لیکن اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑتا.اس لئے ہم نے کہا کہ آپ سائیکل لیں اور میں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ سات سال تک انتہا ہے لیکن اگر ہو سکے اور جماعت ہمت کرے اور خصوصاً جماعت کے دیہاتی احمدی کوشش کریں تو تین چار سال میں.ایک لاکھ سائیکل سوار بن جائیں گے.بہت سے فائدے ہوں گے صحت اچھی ہوگی.وقت بچے گا.کھیتوں میں برکت ہوگی مال زیادہ ہو گا.مال میں برکت ہوگی اور پھر اولاد میں بھی برکت ہوگی.صحت مند قوم بن جاؤ پھر دیکھو دنیا تمہیں اپنا حقیقی اور سچا خادم او رغمخوار سمجھنے لگے گی.ہم خادم کی حیثیت سے پیدا ہوئے اور خادم کے مقام پر کھڑے رہنا ہماری زندگی کا معراج ہے.جتنا ہم بڑھیں گئے جتنا ہم طاقتور ہوں گے جتنا ہم علم میں ترقی کریں گے جتنا ہماری فراست کا نور آسمان کی بلندیوں کو چھوئے گا اتنا ہی وہ جو خود کو ہمارا دشمن سمجھتا ہے ہمیں پہلے سے زیادہ اپنا دوست پائے گا.اپنا خادم اور ہمدر د پائے گا.پس آگے بڑھنا ہے اور ساری دنیا سے آگے نکلنا ہے.پاکستان تو بہت پیچھے ہے پاکستان نے تو اس طرف توجہ نہیں کی لیکن احمدی ( اور میرا یہ پیغام دنیا بھر کے احمدیوں کو ہے کیونکہ خدام الاحمدیہ بین الاقوامی خدمت پر مامور ہیں).دنیا کے احمدی کو میں کہتا ہوں کہ اگر تم نے خدمت کی ذمہ داریاں نوع انسانی سے ہمدردی کی ذمہ داریاں ان کے دکھوں کو دور کرنے کی ذمہ داریاں اور قرآن کریم سکھانے کی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں تو اپنے جسموں اور ذہنوں کو طاقتور بناؤ تا کہ تم قوی ہو جاؤ.دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ نہ صرف قومی بنو بلکہ ”آمین“ بنو.اس کا تعلق اسی دوسری چیز سے ہے جس کا ذکر آج کے خطبہ جمعہ میں میں نے کیا تھا.یعنی قرآن کریم کی تعلیم سمجھنا اور دوسروں کو سمجھانا اور اس پر عمل کرنا اور دوسروں کو تیار کرنا کہ اس پر عمل کریں.امین کے ایک معنی یہ ہیں جس کی تفسیر ایک دوسری آیت میں بھی ہے قرآن کریم اپنی آیات کی تفسیر خود بھی کرتا ہے بلکہ تفسیری معانی میں آیات ایک دوسرے کی مد اور معاون ہیں.اور انسان کے ذہن کو اس طرف متوجہ کرنے والی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے پاس ایک امانت تھی ہم نے آسمانوں کو کہا اسے اٹھا لو.انہوں نے انکار کر دیا.ہم نے زمین سے کہا اسے اٹھا لو تو زمین نے بھی انکار کر دیا.ہم نے پہاڑوں سے کہا تم بلند و بالا پہاڑ میل میل بھر لمبے پتھر تمہارے اندر ہیں، جو تمہاری جان ہیں تو تم بڑے مضبوط ہو.اس امانت کو اٹھا لو تو انہوں نے بھی انکار کر دیا.تب ہم نے انسان کو کہا تو اس امانت (یعنی ذمہ

Page 394

فرموده ۱۹۷۳ء 391 د دمشعل شعل راه جلد دوم داری) کو اٹھا اور اس نے اٹھا لیا.یہ امانت جو خدا تعالیٰ نے آسمانوں کو پیش کی اور انہوں نے انکار کیا مطلب یہ کہ انہوں نے کہا کہ خدایا! تو نے ہم میں وہ طاقتیں ہی پیدا نہیں کیں جو اس امانت کو اٹھا سکیں.وہ امانت کہ زمینوں کو کہا گیا کہ اٹھاؤ تو انہوں نے کہا خدایا ہمارے اندر اس قسم کی طاقت پیدا کرنے کے مادی سامان تو ہیں لیکن طاقت ہم میں نہیں ہے کہ تیری اس امانت کو ہم برداشت کر سکیں.پہاڑوں نے اپنی بلندیوں اور اپنی سختی کے باوجود اور اپنی گرمی اور اپنی سردی کے باوجود کہا خدایا! ہمیں تو نے یہ طاقت نہیں دی لیکن انسان نے کہا اے میرے رب! تو نے مجھ میں یہ طاقت رکھی ہے کہ تیری دوسری مخلوق نے جس امانت کو اُٹھانے سے انکار کیا میں اس امانت کو اگر تیری عطا کردہ طاقتوں کا صحیح استعمال کروں اٹھا سکتا ہوں.اس لئے میں اٹھاتا ہوں.سو یہ امانت انسان نے اٹھالی اور یہ امانت جس کے اٹھانے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے تا کہ نوع انسانی کو درجہ بدرجہ ہزاروں سالوں میں تربیت دے کر اس مقام تک پہنچا دیں کہ جس مقام پر کھڑے ہوکر محمد ﷺ کی امت پہ کہہ سکے کہ اے خدا! تیرا درود اور سلام ان انبیاء پر جن کی مسلسل تربیت کے نتیجہ میں ہمارے آباؤ اجداد نسلاً بعد نسل اس قابل ہوئے کہ محمد اللہ کی آخری شریعت یعنی اس کامل امانت کو اُٹھانے کے قابل ہمیں بنا دیں اور تیرا درود اور سلام محمد ﷺ پر جو ایک محسن اعظم کی حیثیت میں ایک کامل اور حسین نور لے کر آئے کہ جس کو ہم اپنی طاقتوں اور استعدادوں کی صحیح نشو ونما کر کے بشاشت کے ساتھ اور مسکراتے چہروں کے ساتھ محمد علیہ کی تربیت اور آپ کی تعلیم کے نتیجہ میں اٹھا سکتے ہیں.آپ پر درود ہو اور ہم امت محمدیہ یہ کہنے کے قابل ہوئی کہ اے ہمارے رب! اس امانت کو ہم کامل طور پر اٹھاتے ہیں تو ہم سے جو بھی مطالبہ کرے گا ہم تیری راہ میں اسے پورا کریں گے تب تمہارا نام خدا نے ”امین رکھا.اس امین کے طفیل جسے دنیا نے محمد اللہ کے نام سے بھی یاد کیا اور جس کے بلند وارفع مقامات اور نام اور بھی ہیں جس کی برکتیں اور قوت قدسیہ اپنی وسعت کے لحاظ سے اور اپنی تیزی کے لحاظ سے قیامت تک کے زمانہ کو چھید تی چلی جارہی ہیں اور گھائل کرتی چلی جارہی ہیں اور اس نے دنیا کو اپنے احاطہ میں لیا ہوا ہے.وہ امین تھے محمد ﷺے اور ان کے طفیل تم امین ہو.اس معنی میں کہ تمہیں خدا آج یہ آواز دے رہا ہے کہ وہ امانت جس کو دوسری مخلوق نے اُٹھانے سے انکار کیا تھا اور جس کے قبول کرنے کی اہلیت پیدا کرنے کے لئے ہزاروں ہزار پیغمبر دنیا کی طرف آئے اور ایک امت محمدیہ اور امت مسلمہ خیر امت پیدا ہوئی.یہ امانت ہے جس کو آپ نے اٹھانا ہے اور جس کی ذمہ داریوں کو آپ نے نباہنا ہے.یہ وہ امانت ہے جس کی طرف موسیٰ کو اس وقت میں ایک چھوٹے دائرہ کے اندر القوی الامین“ کہا گیا تھا.لیکن تمہارا دائرہ وسیع ہو گیا.صرف یہود تمہارے مخاطب نہیں.نہ تمہاری کوششوں کے نہ تمہاری توجہ کئے نہ تمہاری دعاؤں کے کہ اللہ تعالیٰ ان کے نفوس سے ان کے شر کو نکالے اور محمد اللہ کا نور ان کے دلوں میں بھر دے اور نہ صرف عیسائی تمہاری اس جدوجہد سے باہر ہیں دنیا کی کون سی قوم اور ملک ہے جو تمہاری اس عظیم جد و جہد سے باہر رہنے والا ہے.اتنی بڑی جدو جہد جس قوم کے بچوں نے کرنی ہو اور جس قوم کے بچوں کی ہر نسل کے بعد

Page 395

392 فرموده ۱۹۷۳ء دو مشعل راه جلد دو اس بڑھتی ہوئی کوششوں کے اوقات میں ایک وقت میں تو انشاء اللہ جب اپنے عروج کو پہنچ جائیں گے تو کوششوں کی شکلیں بدل جائیں گی.لیکن جب تک عروج کا وہ آخری نقطہ میں نہیں ملتا جب تک دنیا کے گھر گھرپر محمد نے کا جھنڈا انہیں لہرا تا جب تک تو حید کی تعلیم ہر دل میں گھر نہیں کر جاتی اور شیخ کی طرح گڑ نہیں جاتی اس وقت تک اس مہم کی کوشش میں ہر نسل پر پہلی نسل سے زیادہ ذمہ داری پڑ رہی ہے اور جس طرح پہلے انبیاء نے دوسری امتوں کو درجہ بدرجہ تربیت کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچایا تھا کہ وہ محمد ﷺ کی لائی ہوئی ذمہ داری نباہ سکیں اسی طرح آپ نے اپنی تربیت بھی کرنی ہے اور اپنے بعد نسلاً بعد نسل زیادہ سخت بوجھ اٹھانے کی تربیت بھی کرتے چلے جانا ہے.یہاں تک کہ اسلام اپنے اس معراج کو پالے جو معراج محمد مصطفی صلی اللہ کے قدموں کو چھونے والا اور اللہ تعالیٰ کی برکتوں کو کامل طور پر نوع انسانی کے لئے حاصل کرنے والا ہو.ہماری نوجوان نسل بہت ہی اچھی نسل پس یہ دوذمہ داریاں ہیں جن کی طرف آپ کو توجہ کرنی چاہیے.یہ ذمہ داریاں ہیں جن کے لئے ہم آپ کو سائیکل سواری، گھڑ سواری اور ورزش وغیرہ کی طرف توجہ دلا رہے ہیں اور میں سوچتا ہوں تو میرا دل خدا کی حمد سے بھر جاتا ہے.میں نے یورپ میں اور انگلستان میں اُن لوگوں کو کہا کہ میں نے بہت سوچا اور بہت غور کیا اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہو کہ اللہ تعالی نے ہمیں نو جوان نسل بہت ہی اچھی نسل، بہت ہی قربانیاں دینے والی اور جذبہ رکھنے والی نسل دی ہے.اور اس واسطے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کوشش میں برکت بھی ڈالے گا اور اچھے نتائج بھی نکالے گا.کیونکہ جب قوم قربانیاں دینے کے لئے تیار ہو جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کی وارث بنتی ہے جن کا تصور بھی وہ لوگ جن کو خدا کے فضلوں کی پہچان نہیں اپنے ذہنوں میں نہیں لا سکتے.اللہ تعالیٰ میری اس خواہش اور میری اس امید اور میرے جائزہ کے مطابق بلکہ اس سے بھی بڑھ کر آپ کو اپنا خادم بنائے اور ہر ایک کو اپنی راہ میں قربانیاں دینے کی ہمت دے اور آپ کی قربانیاں قبول فرمائے.اور مقبول قربانیوں کے نتیجہ میں اور مقبول عبادات کے نتیجہ میں اور مقبول دعاؤں کے نتیجہ میں جو ان گنت اور بے شمار برکات آسمانوں سے نازل ہوتی ہیں وہ برکات موسلا دھار بارش سے بھی تیزی کے ساتھ آپ پر آپ کے خاندانوں پر آپ کے علاقوں پر آپ کے گھروں پر آپ کی نسلوں پر برسیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کی جنتوں میں آپ رہنے والے ہوں اور دوسروں کے لئے نمونہ ہوں اور خدا کی جنتوں کی طرف دوسروں کو بلانے والے ہوں اور اس کوشش میں آپ اللہ کے فضل سے کامیاب ہوں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اب میں دعا کر وا دیتا ہوں.دعا تو ہم ہر وقت کرتے ہیں.یہاں بھی کبھی میں پہلے دعا کروادیتا ہوں آج بعد میں کروارہا ہوں.یعنی پہلے تلاوت کے بعد ہی کبھی دعا ہو جاتی ہے لیکن ایک احمدی اور دعا یہ ایک ہی چیز کے دو نام سمجھنے چاہیں.کیونکہ وہ احمدی کیسا جو ہر وقت دعا میں لگا نہیں رہتا.ہم تو ہر وقت دعا کرتے ہیں.ہماری توجہ

Page 396

دوم فرموده ۱۹۷۳ء 393 دومشعل خدا کی طرف ہے لیکن دعا کا ایک روایتی طریق ہے.اس کے مطابق اب میں دعا کروادیتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس اجتماع سے بھی زیادہ سے زیادہ برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ ربوہ کی پاک فضا سے پاکیزگی کے حصول کی توفیق عطا کرے اور اللہ تعالیٰ آپ کے نفوس اور آپ کی روحانیت ہر دو میں بہت برکت ڈالے اور اللہ تعالیٰ آپ کو محمد اللہ ( جو دنیا کے محسن اعظم تھے ) کے نقوش پر چل کر ایک محسن وجود بنائے اور دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھے اور دنیا کا ذرہ ذرہ اس بات پر گواہ ہو کہ آپ دکھ پہنچانے کے لئے نہیں بلکہ سکھ پہنچانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور دنیا نے آپ سے بہت کچھ لیا.آپ نے دنیا سے کچھ نہیں لیا.یہ چیز ہے جو کامیاب ہوتی ہے اور انشاء اللہ ہوگی.آؤ دعا کر لیں ! (روز نامه الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۷۳ء)

Page 397

394 فرموده ۱۹۷۳ء دومشعل راه جلد دوم ۲ نومبر ۱۹۷۳، کوسید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث نے خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے اکتیسویں ۳۱ سالانہ اجتماع میں جو اختتامی خطاب فرمایا تھا اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورہ آل عمران کی آیت ااا کا یہ حصہ پڑھا:- اور پھر فرمایا:- كنتم خيرامة اخرجت للناس مجلس خدام الاحمدیہ کا یہ اجتماع اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ بہت ہی خوبیاں اکٹھی ہو جانے کی وجہ سے بڑا ہی کامیاب رہا ہے.الحمد لل ثم الحمد للہ.سائیکل چلانے کی تحریک میں نے ایک تو ماضی قریب میں سائیکل چلانے کی ترغیب دی تھی.اس کا ذکر میں نے اپنی افتتاحی تقریر میں بھی کیا تھا کہ اس اجتماع پر بیرون ربوہ سے آنے والے کئی خدام سائیکلوں پر سوار ہو کر آئے.چنانچہ ایسے خدام ایک طرف کراچی سے سائیکلوں پر روانہ ہوئے اور دوسری طرف راولپنڈی اور پشاور سے نہیں آئے ان کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہیئے تھی) سیالکوٹ سے، غرض چاروں طرف سے سائیکلوں پر یہاں پہنچے ہیں.بعض خدام جو دور سے آنے والے ہیں مثلاً کراچی اور تھر پارکر وغیرہ سے انہوں نے لگا تار ۸۰ اور ۱۰۰ میل روزانہ کے حساب سے سائیکلنگ کی اور اس طرح اس بڑے کام کی ایک خوش کن ابتداء ہو گئی ہے جس کی طرف میں نے نو جوانان احمدیت کو متوجہ کیا تھا.علاوہ ازیں میں نے اس سال مجلس شوری کے موقع پر جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ خیر امت کی صفات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ سائیکلوں پر ونفوذ بھیج کر اپنے ضلع کے ہر گاؤں اور ہر قصبے سے ملاپ کریں.پہلے سال کا جو کام تھا وہ اکتوبر کے آخر تک ختم ہو جانا تھا.میں نے شوریٰ پر یہ بھی اعلان کیا تھا کہ جو ضلع اس عرصہ میں دوسروں کے مقابلے میں اول آئے گا اس کو میں ایک ہزار روپے انعام دوں گا.اس تحریک کی بنیادی غرض یہ تحریک اپنے اندر بہت سے مفید پہلو رکھتی ہے.اور اس کی بنیادی غرض اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں مضمر ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ سے فرمایا کہ تم خیر امت ہو اس لئے بھی کہ

Page 398

فرموده ۱۹۷۳ء 395 د دمشعل ر ن راه جلد دوم اخرجت للناس “ ہو.اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو گو یا بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے دنیا میں پیدا کیا ہے.اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ہر ملک اور ہر ملک کے ہر شہر اور ہر قصبے اور ہر آبادی کیساتھ ہمارا ایک زندہ اور ہمیشہ قائم رہنے والا ملاپ ہونا چاہیئے.ورنہ ہم ان کے لئے عملاً خیر اور بھلائی کے سامان پیدا کر ہی نہیں سکتے.کیونکہ جس شخص کو آپ جانتے ہی نہیں یا جن لوگوں کے مصائب جن کی مشکلات اور جن کی ضرورتوں کا آپ کو علم ہی نہیں ہے یا جن کے حالات آپ کی نظر سے اوجھل ہیں ان کے لئے آپ بھلائی کا ذریعہ نہیں بن سکتے کیونکہ آپ نے اپنی بھلائی کا دائرہ عوام الناس تک نہیں پھیلایا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق یہ فرمایا کہ یہ وہ امت ہے جو اخرجت للناس ہے.امت مسلمہ دنیا کے عوام کی بھلائی اور خیر خواہی اور خدمت اور ہمدردی کے لئے قائم کی گئی ہے.گویا حضرت نبی اکرم ﷺ کیساتھ تعلق رکھنے والی امت کا یہ مقصد قرار دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے خیر اور بھلائی کو اپنا شعار بنائے.پس اس تحریک کی بنیادی غرض یہی تھی کہ ہم (احمدیوں کو ) اور خصوصاً احمدی نوجوانوں کو چاہیئے کہ گاؤں گاؤں اور قصبے قصبے اور ڈیرے ڈیرے پر پہنچیں اور لوگوں سے ملاپ کریں اور ملاپ کے بعد پھر جب ان کے ساتھ مل بیٹھیں تو ان سے کہیں کہ اگر کوئی کام ہو تو وہ ہمارے پاس آئیں ہم ان کی مدد کریں گے.یہ بھی پتہ کریں کہ اگر کوئی ایسا غریب آدمی ہے جو کھانے کا محتاج ہے تو اس کے کھانے کا انتظام کریں اور اگر کوئی شخص بیمار ہے اور علاج کروانا چاہتا ہے تو اس کے لئے دو مہیا کریں.مجلس مشاورت کی اہمیت غرض یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس کی ابتداء میں نے اس علان کے ساتھ کی تھی کہ احباب جماعت خصوصاً نو جوان پاکستان کے ہر شہر ہر قصبہ اور ہر گاؤں سے سائیکل کے ذریعہ ملاپ کریں.اس غرض کے لئے چھ ماہ کا عرصہ مقرر کیا گیا تھا.یہ تھوڑا عرصہ ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن میں نے عمد ا تھوڑا عرصہ مقرر کیا تھا کیونکہ مشاورت کے بعد مشاورت تک انتظار نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی مشاورت ایسا موقع ہوتا ہے جہاں ہم اس قسم کے کاموں کا جائزہ لیں.لیکن آج چونکہ خدام الاحمدیہ ہمارے سامنے بیٹھے ہیں اور ہر جگہ سے اپنے اجتماع میں شمولیت کے لئے آئے ہوئے ہیں.یہاں ہم کھیلوں کی بھی باتیں کرتے ہیں.ہم خدام کو کچھ ذہنی نشو ونما کے لئے بھی بتاتے ہیں.خدام کی روحانیت کو اور زیادہ بلند کرنے کے لئے ہماری کچھ تمنائیں ہوتی ہیں جن کا ہم یہاں اظہار کرتے ہیں اور کچھ نیکی کی راہیں ہیں جن کی ہم نشاندہی کرتے ہیں.لیکن مشاورت کا یہ ماحول نہیں ہوتا اس میں تو ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے جو جماعتی منصوبے ہیں ان کے متعلق بہت سی باتیں ایجنڈے پر ہوتی ہیں جن پر مشاورت کے دوران غور کیا جاتا ہے.غرض مشاورت کا ماحول ان اجتماعات کے ماحول سے بالکل مختلف ہوتا ہے.اس لئے ہم نظیمی کاموں کا جائزہ بالعموم اجتماعوں کے موقعہ پر لیتے ہیں.مثلاً خدام الاحمدیہ کا

Page 399

396 فرموده ۱۹۷۳ء د و مشعل راه جلد دوم اجتماع ہے اور خدام کے ساتھ اطفال الاحمدیہ کا اجتماع ہے، لجنہ اماءاللہ کا اجتماع ہے اور پھر انصار اللہ کا اجتماع ہے جس میں جماعت کے چھوٹے اور بڑے بچے اور بوڑھے مرد اور عورت سب کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلا کر آگے سے آگے بڑھنے کی تلقین کی جاتی ہے.چنانچہ میری اس تحریک پر گزشتہ چھ ماہ میں جماعت نے جو کوشش کی وہ اگر چہ ایسی تو نہیں کہ اس کے متعلق ہم یہ کہ سکیں کہ جماعت نے بحیثیت مجموعی کوشش کا حق ادا کیا ہے لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ بعض ضلعوں نے اس میں کوشش کا حق ادا کیا ہے.اس سلسلہ میں سب سے پہلے میں ضلع سرگودھا کو لیتا ہوں.ضلع سرگودھا میں کل گاؤں ۱۰۷۸ ہیں ان کے کہنے کے مطابق ۱۰۳۹ ہیں ) اور ضلع سرگودھا کی جماعت کے سائیکل وفود نے ۱۰۷۸ گاؤں میں سے ۱۰۳۹ گاؤں سے اپنا ملاپ قائم کیا.ان کے ممبران سائیکل وفود کی مجموعی تعداد ( غالباً ایک سے زائد دفعہ گئے ہوں گے ) ۳۱۶۳ ہے.اور ان گاؤں یا قصبوں میں وہاں کے جن سرکردہ لوگوں سے انہوں نے باتیں کیں اُن کی تعداد ۶ ۳۹۷ ہے.پھر اس عرصہ میں انہوں نے جو فاصلہ طے کیا، وہ ۶۱۹۲ میل ہے اور ابھی ان میں تیرہ رپورٹیں غیر معینہ ہیں.جہاں تک سرگودھا کی جماعتوں کا تعلق ہے وہاں ایسے گاؤں بھی ہیں جہاں احمدیوں کے ایک ایک دو دو گھرانے آباد ہیں.لیکن ابھی تک ایسی جگہوں پر جماعتیں قائم نہیں ہو سکیں اور بہت سے دیہات میں با قاعدہ جماعتیں قائم ہیں.اس سے ہمارے سامنے یہ چیز آئی کہ اس ضلع میں ابھی تبلیغ میں وسعت پیدا کرنے کی بہت ضرورت ہے.تاہم صحیح صورت حال ہمارے سامنے آ گئی اور اب ہمارے لئے خدمت خلق کے طور پر منصوبے بنانے کے لئے آسانی ہوگئی.اور دوسرے اس سے یہ بات بھی نمایاں ہو کر سامنے آگئی کہ سرگودھا کی جماعتوں نے ضلع بھر کے ۱۰۶۸ گاؤں میں سے ۱۰۳۹ گاؤں کا سائیکلوں پر دورہ کر کے بڑی ہمت کا ثبوت دیا ہے.گوان کا کہنا یہ ہے کہ جو نقشہ ان کے پاس ہے اس کے حساب سے صرف ۱۰۳۹ء گاؤں ہی ہیں.دوسرے نمبر ضلع تھر پار کر آیا ہے.ضلع تھر پارکر میں کل ۱۳ے گاؤں ہیں جن میں سے ۴۰۹ گاؤں میں ہمارے سائیکل سوار وفود گئے اور وہاں کے لوگوں سے ملاپ کیا.جماعتوں کی تعداد کے لحاظ سے ان کا کام بڑا اچھا رہا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں بھی اس کام کوسو فیصد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ربوہ کے ذمہ تحصیل چنیوٹ لگائی گئی تھی جس کے ۳۵۸ گاؤں ہیں جن میں سے ۱۴۱ گاؤں کاربوہ کے خدام نے سائیکلوں پر دورہ کیا لیکن اس میں وہ گاؤں شامل نہیں جن تک سیلاب کے دنوں میں ربوہ کے نوجوان بڑی ہمت سے اور انتہائی قربانی کی مثالیں کرتے ہوئے پہنچے اور انہوں نے اپنے سیلاب زدہ بھائیوں کی ہر قسم کی مدد کی.سیلاب زدہ علاقے چونکہ اس رپورٹ میں شامل نہیں وہ ایک علیحدہ سکیم تھی ورنہ ربوہ کا ملاپ عملاً بہت زیادہ گاؤں کے ساتھ ہو گیا ہے.ضلع لائل پور کے ۱۳۵۹ گاؤں ہیں.گویا لائل پور کے گاؤں سرگودھا سے زیادہ ہیں.لیکن دورہ سرگودھا نے

Page 400

فرموده ۱۹۷۳ء 397 د دمشعل تل راه جلد دوم کیا ۱۰۳۹ گاؤں کا اور لائل پور نے کیا صرف ۲۴۷ گاؤں کا.لائل پور اس لحاظ سے بہت پیچھے رہ گیا ہے حالانکہ ان کو پیچھے نہیں رہنا چاہیئے تھا.اسی طرح لاہور کے ضلع میں ۹۰۰ گاؤں ہیں اور صرف ۱۱۴ گاؤں کا دورہ کیا گیا ہے.کراچی کے ماحول میں جو گاؤں ہیں ان کی تعداد نہیں بتائی گئی لیکن انہوں نے دورہ کیا ہے صرف ۹۷ گاؤں کا.ضلع شیخوپورہ (جہاں کے امیر چوہدری محمد انور حسین صاحب ہیں اور اس وقت یہاں بیٹھے ہوئے ہیں) کے ۱۰۹۳ گاؤں ہیں اور دورہ کیا گیا ہے صرف ۷۸ گاؤں گا.ساہیوال نے اپنے ضلع کے گاؤں کی تعداد نہیں بتائی البتہ ۹۱ گاؤں کا دورہ کیا گیا ہے.ان نوضلعوں میں سے (جن کی رپورٹ اس وقت میرے سامنے ہے ) ضلع سیالکوٹ سب سے پیچھے رہ گیا ہے.اس ضلع کے ۲۹۴۱ گاؤں ہیں اور صرف ۴۷ گاؤں کا دورہ کیا گیا ہے حالانکہ وہاں جماعتیں زیادہ ہیں.وہاں کے احمدیوں کی تعداد ضلع سرگودھا کے احمدیوں سے کہیں زیادہ ہے.اس لئے وہاں کے قائد ضلع خدام الاحمدیہ اور امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع سیالکوٹ کو اس طرف فوری طور پر توجہ کرنی چاہیئے.غرض اس چھ ماہ کی کوشش میں ضلع سرگودھا اول آیا.اور نہ صرف اوّل آیا بلکہ بہت اچھی فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوا ہے.یعنی انہوں نے ۱۰۷۸ گاؤں میں سے ۱۰۳۹ گاؤں کا دورہ کیا.صرف ۳۹ گاؤں کا وہ دورہ نہیں کر سکے.اس لئے اول آنے والوں کے لئے میں نے ایک ہزار روپے کا جو انعام مقرر کیا تھا ( مجھے اس کی رپورٹ کل ملی تھی.میں نے پیسے اس وقت بھجوا دیئے تھے لیکن چونکہ میں نے کچھ کوائف بتائے تھے اس لئے یہ انعام علیحدہ دینا چاہتا تھا) وہ ضلع سرگودھا کے قائد خدام الاحمدیہ آکر حاصل کر لیں.اللہ تعالیٰ ان کے کاموں میں بہت برکت ڈالے اور انہیں احسن جزادے اور دوسروں کے لئے وہ موثر نمونہ بھی بنیں.( اس موقعہ پر قائد صاحب ضلع سرگودھا مکرم چوہدری ریاض احمد صاحب نے حضور کے دست مبارک سے انعام حاصل کیا ) مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ لاہور کیوں پیچھے رہ گیا ہے.لاہور تو سائیکلوں کا گھر ہے.وہاں تو جمعہ کے روز دارالذکر میں اتنے سائیکل ہوتے ہیں کہ اگر ان میں سے ہر سائیکل کی پانچ پانچ گاؤں میں جانے کی ڈیوٹی لگا دی جاتی تو لاہور والے آگے نکل جاتے.کیونکہ سائیکل وفود کے ذریعے جو کام ہوا اور اس کے جو خوشکن نتائج نکلے (جن کے بتانے کی اس وقت گنجائش نہیں ہے ) وہ بڑے حسین ہیں، بہت دلچسپ ہیں اور بڑے خوش کن ہیں.اس لذت سے لاہور کو محروم نہیں رہنا چاہیئے تھا.اکثر دیکھا گیا ہے کہ کہیں پلاؤ پکا ہوا ہو تو انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے بھی حصہ ملے.لیکن اس سے کہیں زیادہ مسرت والی چیزوں سے پتہ نہیں کیوں بعض ضلعوں کے خدام نے منہ پھیر لیا اور خود کو ان سے محروم کر لیا.مجالس کی نمائندگی اجتماع میں پانچ سالہ نمائندگی کا گوشوارہ اس وقت میرے سامنے ہے.اس گوشوارہ کے مطابق ۱۹۲۹ ء یعنی

Page 401

398 فرموده ۱۹۷۳ء دد د و مشعل راه جلد دوم آج سے پانچ سال پہلے مجلس خدام الاحمدیہ کے اس اجتماع میں ۲۵۰۰ ( دو ہزار پانچ صد ) خدام شامل ہوئے تھے اور اس کے مقابلہ میں امسال ۴۳۲۹ خدام شامل ہوئے ہیں.یہ تعداد دوگنی تو نہیں لیکن قریبا دوگنی ہوگئی ہے.لیکن جہاں تک مجالس کی نمائندگی کا تعلق ہے اس سال تعداد میں چند مجالس کم شامل ہوئی ہیں.ہو سکتا ہے یہ کمی بعض علاقوں میں سیلاب وغیرہ کی وجہ سے واقع ہوگئی ہو.بہر حال ۱۱ مجالس کی کمی ہے اور اگر چہ یہ کوئی زیادہ کمی تو نہیں ہے لیکن ایک مجلس کی کمی بھی مجھے فکر میں ڈالتی ہے اور آپ کو بھی فکر میں ڈالنا چاہیئے.اس سال مجالس کی نمائندگی کا ضلع وار گوشوارہ حسب ذیل ہے:.ضلع راولپنڈی.........کی ضلع جہلم...کی مجالس میں سے.١٢............مجالس میں.سے.ضلع گجرات..........کی ضلع کیملپور کی ضلع سرگودها..........کی ضلع جھنگ............کی ضلع لائکپور کی ضلع میانوالی..........کی ۲۹ ۸۰ مجالس میں سے.مجالس میں سے............مجالس میں سے..................مجالس میں سے....مجالس میں سے....مجالس میں سے.۲۳ ۲۲ ۶۲.ضلع لاہور بہت اچھا رہا ہے وہ اس میں بہت آگے نکل گیا ہے.اس ضلع کی مجالس کی کل تعداد ۳۰ ہے اور اس میں اس شامل ہوئی ہیں.اس میں تو کوئی اور ضلع لاہور کا مقابلہ نہیں کر سکتا.ضلع سیالکوٹ.........کی ۷۷........مجالس میں.سے.ضلع گوجرانوالہ..کی ۳۴ مجالس میں سے.۱۲.ضلع شیخو پوره کی ۵۶........مجالس میں سے ضلع ملتان.کی مجالس میں سے.۱۴.ساہیوال کی ۱۵.مظفر گڑھ..کی ۲۷ ۱۳ مجالس میں سے.مجالس میں سے ۵۶ ۱۳۳ ۱۳۹۰ ۱۸ ۱۸ 11 ۱۶.ڈیرہ غازی خان.......کی ۱۷.بہاولپور کی ۱۸.بہاولنگر 19.رحیم یارخاں...........کی.مجالس میں سے.۴ ۱۷ ۲۸ 5.......۱۸......مجالس میں سے..مجالس میں سے.مجالس میں سے.......۶ شامل ہوئی ہیں.رحیم یارخاں میں بھی چونکہ سیلاب کا بہت زور تھا.وہاں ہماری ۱۴/۱۳ جماعتیں سیلاب سے شدید متاثر ہوئی

Page 402

فرموده ۱۹۷۳ء 399 د دمشعل قل راه جلد دوم تھیں اس لئے ضلع رحیم یار خان سے مجالس کی کم نمائندگی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے.بہر حال ۱۸ میں سے ۶ مجالس کی نمائندگی غیر معمولی کمی ظاہر کر رہی ہے.اس کا بظاہر سیلاب ہی کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے.اسی طرح بہاولپور کے بعض علاقے ہیں، ڈیرہ غازی خان کے بعض علاقے ہیں جہاں سیلاب کی وجہ سے نقصان ہوا ہے.لیکن ساہیوال کی ۲۷ مجالس میں سے ۱۸ مجالس کی شمولیت اور اسی طرح شیخو پورہ کی ۵۶ مجالس میں سے ۳۹ کی شمولیت خاصی کمی کی نشاندہی کرتی ہے.گو ضلع شیخو پورہ کے متعلق تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہاں بھی ۱۲/۱۰ جماعتیں سیلاب سے متاثر ہوئیں.اس لئے نمائندگی پر اثر پڑا لیکن ساہیوال میں تو شاید سیلاب نہیں آیا.واللہ اعلم.امت محمدیہ کی فضیلت میں نے اپنی پہلی تقریر میں خدام کے سامنے بعض ضروری باتیں رکھی تھیں آج میں اسی کے تسلسل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو خیر امت ہی نہیں ٹھہرایا بلکہ اسے اخرجت للناس بھی کہا ہے.جہاں تک رب العالمین کی ربوبیت کا تعلق ہے قرآن کریم نے اس مضمون کو جس وضاحت اور جس حسین پیرایہ میں بیان کیا ہے، پہلی کتب نے نہ اس طرح بیان کیا اور نہ وہ ایسا کر سکتی تھیں کیونکہ پہلے انبیاء میں سے کوئی بھی رحمۃ العالمین نہیں تھا پہلے انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قوم کے لئے اور محدود زمانوں کے لئے رحمت اور روشنی اور برکات کا موجب ضرور بنے لیکن یہ شرف صرف ہمارے سید المرسلین حضرت محمد رسول ﷺ کو حاصل ہوا.آپ رحمتہ اللعالمین بن کر دنیا کی طرف مبعوث ہوئے.آپ نے جس گروہ اور امت کو تربیت دی براہ راست اپنے زمانہ میں یا بعد میں اپنی قوت قدسیہ کے ذریعہ ( یعنی روحانی طور پر ) تربیت یافتہ وجودوں کی پیدائش کا موجب بنے وہ آنحضرت ﷺ کے عشق میں فنا ہو گئے اور اپنے پیدا کرنے والے رب کی محبت میں غرق ہو گئے اور ایک نیستی کی چادر اوڑھ لی.اور اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ توفیق پائی کہ وہ خدا کے بندوں کی خدمت کریں اور پیار سے ان کے دل جیتیں اور ان کے اندر ایک عظیم روحانی تبدیلی پیدا کریں تا کہ وہ حقیقی معنوں میں خیر امت بن جائیں.قرآن کریم - خاتم الکتب غرض قرآن کریم ساری دنیا کے لئے خاتم الکتب کی حیثیت سے ”مبارک ہو کر آیا ہے یعنی یہ نہ صرف پہلی تمام صداقتوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے بلکہ سب بنیادی صداقتوں پر مشتمل ہے.یہ ان کی ایک حسین تصویر پیش کرتا ہے.یہ ان تمام چیزوں کا ذکر کرتا ہے جن کی بنی نوع انسان کو قیامت تک ضرورت پڑنی تھی.اس لحاظ سے یہ خاتم الکتب ٹھہرا کیونکہ یہ اگلی اور پچھلی سب صداقتوں کا جامع ہے.اس طرح اور اسی وجہ سے امت محمدیہ وہ امت بنی جو اخرجت للناس “ ہے.چنانچہ چودہ سو سال سے ہمیں اس سلسلہ میں عملاً ایک جد و جہد نظر آ رہی ہے جو

Page 403

400 فرموده ۱۹۷۳ء د و مشعل راه جلد دوم دد اخرجت للناس “ کی بشارت اور اس کی حقیقت کی غماز ہے.یہی جد و جہداب بھی جاری رہنی چاہیئے تا کہ یہ امت حقیقی معنے میں اخرجت للناس بن جائے کیونکہ ” اخرجت للناس کا کمال جلوہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کے دائرہ سے باہر سوائے چوہڑے چماروں کے اور کوئی باقی نہ رہے اور ایسا دن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے آنے والا ہے.یعنی یہ پیشگوئی پوری ہوگی کہ یہ امت حقیقتا اور عملاً بھی (ویسے تو کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ ہی اخرجت للناس رہی ہے ) تمام نوع انسان کے لئے خیر و برکت کا موجب بن جائے.اس کی خیر اور اس کی برکات سے فائدہ اٹھا کر تمام نوع انسانی امت واحدہ مسلمہ بن جائیں.آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں یعنی آخری زمانہ میں امت واحدہ کا ظہور مقدر ہے.اور یہ آخری زمانہ مہدی معہود کا زمانہ ہے.چنانچہ پہلے نوشتوں میں بھی، قرآن کریم کی آیات میں بھی اور خود آنحضرت ﷺ کے ارشادات میں بھی اس طرف اشارہ موجود ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا اور وہ زمانہ قرب قیامت کا زمانہ ہوگا اور اس لئے امت محمدیہ الله کا آخری دور ہو گا جب مہدی معہود مبعوث ہوگا اور شیطان سے آخری مذہبی اور روحانی جنگ لڑی جائے گی.میں نے اپنی بہنوں کو بھی اس طرف توجہ دلائی تھی اور اسی بڑے قصے کو مختصر کر کے اپنے بچوں کو بھی بتایا تھا کہ ہے تو یہ قصہ طویل کیونکہ اس کا آغار حضرت آدم کی بعثت سے ہوا.حضرت آدم کی بعثت کے وقت پر جو پہلی شرعی وحی نازل ہوئی تھی جس نے انسانوں کے گروہ کو اکٹھا کیا تھا اور خدا تعالیٰ کی ہدایت اور نور سے روشناس کرایا تھا، وہی انسان اور شیطان میں وجہ مخاصمت بن گئی.چنانچہ اس وقت شیطان نے خدا سے یہ اجازت مانگی تھی کہ میں تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا.آخری جنگ غرض حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک انسان اور شیطان کے درمیان یہ جنگ جاری ہے.الہی نوشتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ جنگ مہدی معہود کے زمانہ میں آخری مرحلے میں داخل ہو گی.شیطان کے ساتھ خدا کے نیک بندوں کی آخری جنگ مہدی معہود کے زمانہ میں لڑی جائے گی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ اس کے متعلق فرمایا ہے:- ” جب سے کہ خدا نے انسان کو بنایا ہے اس کا قانون قدرت یہی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ وہ نوع انسان میں ایک وحدت نوعی پیدا کرنے کے لئے ان میں سے ایک شخص پر ضرورت کے وقت میں اپنی معرفت تامہ کا نور ڈالتا ہے.اور اس کو اپنے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف کرتا ہے اور اپنی کامل محبت کا جام اس کو پلاتا ہے اور اس کو اپنی پسندیدہ راہ کی پوری بصیرت بخشتا ہے اور اس کے دل میں جوش ڈالتا ہے تا کہ وہ دوسروں کو بھی اس نور اور بصیرت اور محبت کی طرف کھینچے جو اس کو عطا کی گئی ہے اور اس طرح پر باقی لوگ اس سے تعلق پیدا کر کے اور اسی

Page 404

دومشعل قل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۳ء کے وجود میں شمار ہو کر اور اس کی معرفت سے حصہ لے کر گناہوں سے بچتے اور تقویٰ طہارت میں ترقی کرتے ہیں.اس قانون قدیم کے لحاظ سے خدا نے اپنے پاک نبیوں کی معرفت یہ خبر دی ہے کہ جب آدم کے وقت سے چھ ہزار برس قریب الاختتام ہو جائیں گے تو زمین پر بڑی تاریکی پھیل جائے گی اور گناہوں کا سیلاب پورے زور سے بہنے لگے گا اور خدا کی محبت دلوں میں بہت کم اور کالعدم ہو جائے گی.تب خدا محض آسمان سے بغیر زمینی اسباب کے آدم کی طرح اپنی طرف سے روحانی طور پر ایک شخص میں سچائی اور محبت اور معرفت کی روح پھونکے گا اور وہ مسیح بھی کہلائے گا کیونکہ خدا اپنے ہاتھ سے اس کی روح پر اپنی ذاتی محبت کا عطر ملے گا اور وعدہ کا مسیح جس کو دوسرے لفظوں میں خدا کی کتابوں میں سیح موعود بھی کہا گیا ہے.شیطان کے مقابل پر کھڑا کیا جائے گا اور شیطانی لشکر اور مسیح میں یہ آخری جنگ ہوگا اور شیطان اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ اور تمام ذریت کے ساتھ اور تمام تدبیروں کے ساتھ اس دن روحانی جنگ کے لئے تیار ہو کر آئے گا اور دنیا میں شر اور خیر میں کبھی ایسی لڑائی نہیں ہوئی ہوگی جیسے کہ اس دن ہوگی کیونکہ اس دن شیطان کے مکائد اور شیطانی علوم انتہا تک پہنچ جائیں گے اور جن تمام طریقوں سے شیطان گمراہ کرسکتا ہے.وہ تمام طریق اس دن مہیا ہو جا ئینگے تب سخت لڑائی کے بعد جو ایک روحانی لڑائی ہے خدا کے مسیح کو فتح ہوگی اور شیطانی قوتیں ہلاک ہو جائیں گی اور ایک مدت تک خدا کا جلال اور عظمت اور پاکیزگی اور توحید زمین پر پھیلتی جائے گی اور وہ مدت پورا ہزار برس ہے جو ساتواں دن کہلاتا ہے.بعد اس کے دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا.سو وہ میسیج میں ہوں اگر کوئی چاہے تو قبول کرے.401 لیکچر لا ہور صفی ۳۲ ۳۳ روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲ ۱۷ صفحه ۱۷۳) یہی وہ آخری جنگ ہے جو شر اور خیر کے درمیان لڑی جانے والی ہے.یہی وہ آخری جنگ ہے جس میں اسلام نے تمام ادیان باطلہ پر غلبہ حاصل کرنا ہے.یہی وہ جنگ ہے جو آخری ہے اس معنی میں کہ اس کے بعد بیرونی محاذ پر اسلام کی کوئی جنگ نہیں لڑی جائے گی.کیونکہ بیرونی محاذ ہی ختم کر دیا جائے گا.چنانچہ یہ وہ آخری جنگ ہے جس میں شر کی یلغار کا آغاز قریباً انیسویں صدی میں ہوا اور جس میں روز بروز شدت پیدا ہوتی چلی گئی.یہاں تک کہ جب مہدی معہود کی بعثت ہوئی تو اس وقت اسلام کے خلاف حملہ اپنے پورے عروج پر پہنچ چکا تھا.اسلام کے خلاف ادیان باطلہ کا ایسا خطر ناک حملہ تھا کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.گویا ساری دنیا اسلام کے خلاف صف آرا تھی.ایک طرف دہریت تھی، دوسری طرف یہودیت تھی، تیسری طرف عیسائیت تھی اور چوتھی طرف ہندو اور دوسرے گروہ تھے جو اسلام سے سخت عنا در کھتے اور اسے صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے.

Page 405

402 فرموده ۱۹۷۳ء دو مشعل راه جلد دوم اسلام کے خلاف دیگر مذہبی قوتوں کا اکٹھا ہونا گویا تمام ادیان باطلہ نے مل کر اور شرک اور دہریت کو ساتھ ملا کر اسلام پر ایک زبردست ہلہ بول دیا تھا اور ایک زبر دست یلغار کر دی تھی ایسی زبر دست یلغار خود یلغار کرنے والوں کو اس وقت یہ یقین ہو گیا تھا کہ وہ اسلام کو مٹادینے میں کامیاب ہو جائیں گے.اس حد تک یقین تھا کہ پادری عمادالدین جو بھی ایک بہت بڑے بزرگ مولوی سمجھے جاتے تھے اور بعد میں عیسائی ہو گئے.انہوں نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ملک ہند میں عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ اگر کسی کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مسلمان کو دیکھے تو اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکے گی کیونکہ ایک مسلمان بھی ملک ہند میں باقی نہیں رہے گا.براعظم افریقہ کے متعلق عیسائیوں نے یہ خواب دیکھا تھا کہ یہ تو مسیح کی جھولی میں ہے مگر جب مہدی معہود کی بعثت ہوئی تو ہندوستان سے مسلمانوں کو مٹانے اور افریقہ کو اپنے خداوند یسوع مسیح کے قدموں میں گرا ہوا پانے کے خواب دیکھنے والوں کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے.عیسائیوں نے صرف ہندوستان اور افریقہ کے متعلق خواب نہیں دیکھے تھے بلکہ انہوں نے تو یہ خواب بھی دیکھا تھا کہ مکہ اور مدینہ پر خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا لہرائے گا.انہوں نے کیوں ایسے خواب دیکھے.اس لئے کہ ان کا حملہ بڑا سخت تھا.ان کا حملہ اتناز بردست تھا کہ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.اب بھی جب ہم سوچتے ہیں تو ہمارے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.غرض شیطانی طاقتوں کی حملہ آور فوج بڑی زبردست تھی مگر اسلام کی مدافعت کرنے والا ایک شخص بھی نہیں تھا.الا ماشاء اللہ کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے گروہ تھے جن میں دشمن سے تاب مقابلہ نہ تھی.اس لئے جب مقابلہ ہی نہ ہو جب سرحدوں کی چوکیاں خالی پڑی ہوں اور دشمن زبر دست ہو تو وہ یہی اندازہ لگایا کرتا ہے کہ وہ جیت جائے گا.عین اس وقت جب دنیا کی ظاہر بین نگاہ نے اسلام کو مٹتے ہوئے دیکھا آسمان سے آواز آئی کہ ہم مہدی معہود کو کھڑا کر رہے ہیں اور اب تم عیسائیت اور دیگر مخالفوں کے ساتھ ان کا مقابلہ دیکھو.حضرت مسیح موعود کی بعثت چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عین ضرورت کے وقت مبعوث ہوئے.آپ کو یہ روحانی جنگ لڑنے کے لئے جو ہتھیار دیئے گئے ان میں دفاعی ہتھیار بھی تھے یعنی اسلام پر جو اعتراضات ہو رہے تھے آپ نے منقولی اور معقولی رنگ میں ان کے جوابات دیئے.آپ نے اسلام کے دفاع کے ساتھ ساتھ ادیان باطلہ کے خلاف جارحانہ کاروائی بھی کی.آپ کو روحانی طور پر جو اعجاز بخشا گیا تھا اس کا کوئی مقابلہ نہ کر سکا.ہندوؤں کی طرف سے لیکھر ام اور عیسائیوں کی طرف سے ڈوئی بھی اسلام پر حملہ آور افواج کے سالار تھے مگر وہ ہلاک ہوئے

Page 406

د دمشعل راه فرموده ۱۹۷۳ء 403 قل راه جلد دوم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان بن گئے.علاوہ اور نشانوں کے یہ دو نشان بھی ثابت کر گئے کہ ہندوؤں اور عیسائیوں کے نمائندے اللہ کے قہر کے طمانچے کی زد میں ہیں.وہ اسلام پر فتح حاصل نہیں کر سکتے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ اسلام کے خلاف ادیان باطلہ بالخصوص عیسائیت کی یلغار روک دی گئی، ان کا حملہ پسپا کر دیا گیا.آج کی دنیا کو نظر آ رہا ہے.اس شخص کو بھی نظر آ رہا ہے جو یہ سمجھتا تھا کہ افریقہ کا براعظم ان کی جیب میں ہے.عیسائیت پسپا ہورہی ہے.چنانچہ عیسائیوں کی بڑی بڑی بین الاقوامی کا نفرنسوں میں یہ رونا رویا جا رہا ہے ( ہمارے پاس ان کے حوالے موجود ہیں) کہ بڑا ظلم ہو گیا وہ افریقہ جسے ہم نے اپنی جیب میں سمجھ رکھا تھا وہاں کی یہ حالت ہے کہ ہم ایک عیسائی بناتے ہیں اور احمدیت اس کے مقابلے میں دس مسلمان بنا رہی ہے.پس یہ وہ حملہ آور فوج تھی جسے یہ وہم ہو گیا تھا کہ وہ اسلام کو ملیا میٹ کر دے گی، وہ اسلام کا نام و نشان مٹا دے گی مگر وہ پسپا ہوئی اور دشمنوں کے منصوبے ناکام ہوئے.لیکن ہمارا کام ختم نہیں ہوا کیونکہ مہدی معہود کے ذمہ دو کام تھے.ایک اسلام کا دفاع کرنا ایسا دفاع کہ اس سے بہتر اور موثر دفاع ممکن نہ ہو.اور دوسرے ادیان باطلہ پر جارحانہ حملہ کرنا ( روحانی طور پر حملہ کر نامراد ہے ڈنڈے کے زور سے نہیں ) یعنی روحانی طور پر ادیان باطلہ کے خلاف یلغار کرنا.یہاں تک کہ ساری دنیا کے ادیان کے مقابلہ میں ساری دنیا کی دہریت کے مقابلہ میں اور ساری دنیا کے شرک کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو جانا اور دشمنان اسلام کی افواج کو پسپا کر کے شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانا حتی کے اس کرہ ارض پر اسلام کے دشمنوں کے لئے کوئی جگہ باقی نہ رہے.اور اسلام دنیا کے کناروں تک پھیل جائے.اور اسلام کا نور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور دنیا کا ہر دل حضرت محمد مصطفی ﷺ کی حسین تعلیم کا گرویدہ ہو کر آپ کے قدموں میں آگرے.اور خدائے واحد و یگانہ کی تو حید کا پرستار بن جائے اور ہمارے رب اور اس دنیا کے رب جو رب العالمین ہے، رحمان اور رحیم ہے اور مالک یوم الدین ہے.جس کا مالکانہ تصرف اس عالمین کے ذرہ ذرہ میں کارفرما ہے.اس کی توحید کا جھنڈا ہر سینہ میں گاڑ دیا جائے.اور ہر ذہن نور اسلام سے منور ہو جائے.ہر شخص نور فراست پانے والا اور خدا کے سامنے جھک کر خدا سے اس کے پیار اور اس کے رحمتوں کے حاصل کرنے والا بن جائے.غرض یہ وہ عظیم الشان مہم ہے جو حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کیساتھ شروع ہو چکی ہے وہ بگل بجا دیا گیا.جو گو یا ابتداء تھی.غلبہ اسلام کی مہم کی اور اب غلبہ اسلام کی شاہراہ پر ہم ہر روز آگے ہی آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور اس کی رحمتوں سے اور اس بشارتوں کے عین مطابق وہ دن جلد طلوع ہونے والا ہے.کہ جب دنیا میں سوائے اسلام کے اور کوئی مذہب نہیں ہوگا.اور سوائے محمد مصطفی میں اللہ کے دنیا کا اور کوئی محبوب باقی نہیں رہے گا.خدائے واحد و یگانہ کی پرستش ہوگی.اور اسی پر دل نثار ہوگا.اور اسی منبع فیوض سے خدا کا بندہ ہر رحمت اور ہر فیض حاصل کرے گا.

Page 407

404 فرموده ۱۹۷۳ء دو مشعل راه جلد دوم پس یہ وہ جنگ ہے جو دیگر مذاہب اور اسلام کے درمیان جاری ہے.اس جنگ کو فتح کرنے کے لئے ہم سب کو تیار کیا جارہا ہے.یہ وہ عظیم الشان ذمہ داری ہے.جسے ہم نے بہر حال نباہنا ہے.اسی لئے میں نے اپنی بہنوں اور بچوں سے کہا تھا کہ ہم ان کو مفلوج نہیں دیکھنا چاہتے.کیونکہ جماعت احمد یہ ایک مفلوج کی حیثیت سے نہ یہ جنگ لڑ سکتی ہے اور نہ یہ جنگ جیت سکتی ہے.اسلام کے نزدیک مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں.برکات کے حصول کے لحاظ سے بھی اور ذمہ داریوں کے بوجھ کو اٹھانے کے لحاظ سے بھی دونوں ایک مقام پر کھڑے ہیں.چنانچہ قرآن کریم کہتا ہے.من عمل صالحاً من ذكر او انثى وهو مومن فلنحيينه حيوة طيبة.(النخل ۹۸) یعنی نیکی کے حصول میں مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے.اس لئے اسلام کی اس آخری جنگ کو جیتنے کے لئے مردوں اور عورتوں کو شانہ بشانہ کام کرنا پڑے گا.یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت احمد یہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے جس پر ایک بہت بڑی مہم سر کرنے کی ذمہ داری عائد کر دی گئی ہے.یہ اتنی عظیم جنگ ہے کہ تمام دنیا اسلام کو مٹانے کے درپے اور کھلم کھلا حملہ آور ہے.یہ جنگ اتنی عظیم جنگ ہے کہ انسانی تاریخ میں اتنی بڑی جنگ پہلے کبھی نہیں لڑی گئی.ساری دنیا کی طاقتیں اس روحانی جنگ میں اسلام کے مقابل پر آگئی ہیں.دنیوی جنگوں میں تو بعض علاقے باہر رہ جاتے ہیں.پچھلی دو جنگیں عالمگیر جنگیں کہلاتی ہیں ان میں بھی دنیا کے کئی حصے شامل نہیں ہوئے تھے.میرے خیال میں تو دنیا کا صرف ۱/۵ حصہ عملاً شامل ہوا تھا مگر یہ وہ جنگ ہے جس میں ساری دنیا حصہ لینے والی ہے اور اس کا مقابلہ کرنے والی جماعت احمد یہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو کسی ملک میں زیادہ ہے اور کسی میں کم.پانچ اس ملک میں ہیں اور پانچ ہزار اس ملک میں اور پانچ لاکھ تیسرے ملک میں ہیں.غرض ساری دنیا میں بکھری ہوئی ایک چھوٹی سی جماعت ہے لیکن اس کے مقابلے میں ساری دنیا کی مذہبی اور نظریاتی طاقتیں اکٹھی ہوگئی ہیں اور وہ اسلام کو مٹادینا چاہتی ہیں.کیا ایسی صورت میں ہم ایک لمحہ کے لئے بھی سستی اور غفلت برت سکتے ہیں ؟ نہیں ہرگز نہیں.پھر میں نے بچوں سے بھی کہا تھا کہ وہ شیطان سے آخری جنگ لڑنے کے لئے تربیت حاصل کر رہے ہیں اور کل انہوں نے اگلی صفوں میں داخل ہو جانا ہے.مجھے پتہ لگا تو میں بڑا خوش ہوا کہ بچے صبح اٹھ کر یہی نعرے لگا رہے تھے کہ وہ شیطان سے آخری جنگ لڑیں گے.حضرت مسیح موعود کی بعثت کا واقعہ ایک عظیم واقعہ ہے پس یہ کوئی بھولنے والی چیز نہیں ہے.یہ ایک بہت زبردست واقعہ ہے جو دنیا میں رونما ہو چکا ہے.اگر کسی گھر میں یا کسی خاندان میں ایک برکت والا بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو برسوں اسے یادرکھا جاتا ہے تو پھر دنیا میں یہ جو

Page 408

فرموده ۱۹۷۳ء 405 د مشعل راه جلد دوم عظیم واقعہ رونما ہو چکا ہے یعنی مہدی معہود مبعوث ہو گئے اور مسیح موعود آگئے، اسے کوئی معمولی واقعہ نہیں سمجھنا چاہئے.یہ تو وہ عظیم الشان واقعہ ہے جس کے ساتھ یہ اعلان ہوا تھا کہ وہ حضرت محمد ﷺ کا محبوب اور فاتح جرنیل ہوگا.وہ آنحضرت ﷺ کی اس پیشگوئی کو کہ تمام ادیان باطلہ مغلوب ہو جائیں گے پورا کرے گا.اور اسلام کو ساری دنیا پر غالب کر دے گا.اب یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے.غرض بڑی اہم ہے یہ جنگ اور بڑا اہم ہے یہ جہاد نبی اکرم ﷺ سے پہلے دنیا میں کبھی اس قسم کا جہاد نہیں کیا گیا.حضرت نبی اکرم ﷺ کے بعد چودہ سو سالہ زمانہ یونہی نہیں گزر گیا بلکہ اس میں آہستہ آہستہ تربیت کا سلسلہ جاری رہا.دنیا میں کبھی کسی جگہ اور کبھی کسی جگہ یہ مہم جاری رہی.کبھی افریقہ میں، کبھی یورپ میں اور کبھی ایشیا میں ذہن انسانی کی تربیت ہوتی رہی.چنانچہ جب ذہن انسانی اور نسل انسانی اس بات کے قابل ہو گئی کہ وہ اسلام کی اس روحانی فوج میں بطور ایک فاتح سپاہی کے شامل ہو کر حصہ لے تو آنحضرت اللہ کے محبوب مہدی معہود کی بعثت ہوئی.حضرت مہدی معہود علیہ السلام نے اپنے آقا و مولا حضرت محمدمصطفی ﷺ کی طرف سے اس جنگ کے خاتمہ اور آخری فتح کے سامان پیدا کرنے تھے گو یہ جنگ تو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بعثت اور قرآن کریم کے نزول کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی لیکن ظاہر ہے جس وقت جنگ شروع ہوتی ہے.اسی وقت فتح تو نہیں ہو سکتی.عالمگیر جنگیں سالہا سال تک چلیں.عرب میں قبائل کی چھوٹی چھوٹی جنگیں ۴۰، ۴۲۰ اور ۰ ۷۰۷ سال تک چلتی تھیں.مگر یہ تو کوئی چھوٹی جنگ نہیں تھی.یہ تو شیطان سے آخری جنگ تھی جس کی ابتداء آنحضرت ﷺ کی بعثت سے ہوئی.آپ نے اس کے خلاف کامیاب آغاز فرمایا.اور پھر چودہ سو سال کے ایک لمبے زمانہ پر پھیلی ہوئی کشمکش اور مجاہدہ کے بعد اس کی انتہاء اور کامیاب خاتمہ مہدی معہود کے زمانہ میں مقدر تھا.اس کے بعد اسلام کے سوا د نیا میں کوئی مذہب باقی نہیں رہے گا اور قرآن کریم کے سوا کوئی کتاب نہیں رہے گی کیونکہ یہی ایک کامل مذہب اور کامل شریعت ہے.بچوں کی تربیت پس یہ زمانہ ایسا نہیں جس میں ہم ذرا بھی غفلت برتیں اور ستی سے کام لیں.اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سنبھال لیں ان کی بہترین رنگ میں تربیت کریں تا کہ جب ان کے کام کرنے کا وقت آئے تو وہ بھی اسلام کی اس جنگ میں شیطان کے خلاف ڈٹ جائیں اور اپنی صفوں میں کوئی رخنہ نہ پیدا ہونے دیں.کیونکہ جس طرح دنیوی جنگوں میں لوگ شہید ہو جاتے ہیں اسی طرح اس روحانی جنگ میں بھی شہید ہو جاتے ہیں.دراصل شہید صرف وہی شخص نہیں ہوتا جس نے خدا کی راہ میں تلوار سے اپنی گردن کٹوادی ہو.شہید وہ بھی ہوتا ہے اور زیادہ بڑا شہید ہوتا ہے جس نے خدا کی راہ میں زندگی وقف کر دی ہو اور اس کی زندگی کا ہرلمحہ خدا کی راہ میں قربان ہوتا رہا ہو.اگر جان دینے کا سوال پیدا ہوتا تو یہ بھی اس کے لئے کوئی مشکل بات نہ تھی کیونکہ اس نے جان

Page 409

406 فرموده ۱۹۷۳ء دو مشعل راه جلد د دوم زیادہ عزیز چیزیں خدا کی راہ میں قربان کر دیں.پس میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب صف اول میں شہید ہوں گے.خدا کی راہ میں قربان ہوں گے تو ان کی جگہ لینے کے لئے دوسرں کو تیار ہونا چاہیئے.تاکہ ہماری صفوں میں کوئی رخنہ پیدا نہ ہو.اس وقت ہماری صفوں میں وسعت پیدا ہو رہی ہے.جماعت احمدیہ کی حرکت میں تیزی پیدا ہو رہی ہے.یہ حرکت متوازی نہیں ہے بلکہ ہر قدم وسعت پیدا کر رہا ہے.اس میں پھیلاؤ ہے.اس کی حرکت میں تیزی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری صف اول کی لمبائی ہر لمحہ بڑھتی چلی جارہی ہے اور ہمیں ہر لمحہ خدا کی راہ میں فدا ہونے والوں ضرورت ہے جو اسلام اور شیطان کی اس آخری جنگ میں کامیابی سے اور فاتحانہ رنگ میں حصہ لے سکیں.اس لئے ہمارے بچوں کی ( جو تعداد میں بہر حال ہم سے زیادہ ہیں) تربیت ہونی چاہیئے تاکہ ہماری صفوں میں کسی وقت بھی کوئی رخنہ رونما نہ ہو.عورتوں کی تعلیم و تربیت کی اہمیت علاوہ ازیں ہماری ماں اور ہماری بیوی ہماری بہن اور ہماری بچی کو بھی اس صف میں ہمارے پہلو بہ پہلو کھڑا ہونا چاہیئے.یہ نہیں ہو سکتا کہ ہماری عورت (جس کی تعداد ۵ فیصد ہے ) وہ تو مفلوج ہو کر چار پائی پر پڑی ہو اور ہم یہ گمان کریں کہ ہم اس جنگ کو جو اتنی اہم اور اتنی عظیم جنگ ہے اور بہت بڑی قربانیوں کا مطالبہ کرنے والی جنگ ہے اس کو ہم جیت لیں گے درآنحالیکہ ہم آدھے جسم کے ساتھ اس کے خلاف صف آراء ہوں یہ تو ناممکن ہے.اس لئے اس روحانی جنگ میں ہمیں لاز ما عورتوں کو بھی شامل کرنا پڑے گا.لیکن سوال یہ ہے کہ بھی مفلوج کو بھی کسی نے بھرتی کیا ہے؟ ظاہر ہے فوج میں تو اس شخص کولیا جاتا ہے جو صحت مند ہو.اس لئے اگر ہم نے اجتماعی طور پر ترقی کرنی ہے اور پوری جماعت کو آگے بڑھنا ہے تو عورتوں کی تعلیم وتربیت ضروری ہے.میں نے عورتوں کے اجتماع میں کہا تھا کہ میں مردوں سے کہوں گا کہ وہ عورتوں کو سمجھائیں اور ان کی تربیت کریں.اس لئے میں خدام سے بھی یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنی ماؤں کو سمجھائیں، وہ اپنی بہنوں کو سمجھائیں اور جو خدام شادی شدہ ہیں وہ اپنی بیویوں کو سمجھائیں.یہ مسئلہ بڑا نازک ہے یاد رکھو ہم اپنی عورتوں کو عضو معطل بنا کر گھروں میں نہیں بٹھا سکتے.اور یہ بھی یا درکھو کہ ہم ان کو شیطان کی بیٹی بنا کر شیطان کی گود میں بھی نہیں بھیج سکتے.اسلام میں عورت کا مقام اور پردہ ہماری عورتوں کو میدان جہاد میں نکلنا بھی پڑے گا.مگر شیطان کی آنکھ اس کے چہرے کو کبھی نہیں دیکھ سکے گی.اس کو پردہ بھی کرنا پڑے گا اس کو مردوں کے شانہ بشانہ کام بھی کرنا ہو گا.کیا صحابیات میدان جنگ میں نہیں جاتی تھیں؟ کیا آنحضرت ﷺ کی ازدواج مطہرات جنگ میں شامل نہیں ہوتی تھیں؟ وہ شامل ہوتی تھیں لیکن

Page 410

فرموده ۱۹۷۳ء 407 د دمشعل را کل راه جلد دوم پورے وقار کیساتھ.وہ جنگ میں حصہ لیتی تھیں لیکن پورے تدبر کے ساتھ.وہ جنگ میں شریک ہوتی تھیں اور ایک عمدہ نمونہ دکھاتی تھیں.اسی طرح اب ہماری عورتوں کو بھی اس روحانی جنگ میں بہترین نمونہ بن کر شامل ہونا پڑے گا اور مردوں کے ساتھ باوقار طریق پر باہر نکلنا پڑے گا.اسلام نے عورتوں کے لئے گھروں ہی میں جگہ مقررنہیں کی.اسلام کا یہ منشاء نہیں ہے کہ عورتیں گھروں ہی میں بندر ہیں اور روٹیاں پکانے اور اپنے خاوندوں کی مٹھیاں بھرنے میں لگی رہیں.اُن کا یہی کام نہیں ہے ہمیں ان کے لئے یہ سوچنا پڑے گا کہ انہیں دینی کاموں میں بھی زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کا موقع ملے.تاہم اس میں شک نہیں ہے کہ گھر کا کام کاج کرنا بھی عورت کی ذمہ داری ہے.گھر کے کام بھی اسے کرنے ہوں گے.اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ تدبیر کرنی ہوگی کہ اسے زیادہ سے زیادہ وقت ملے قرآن کریم کے پڑھنے کا اور قرآن کریم کے علوم سیکھنے کا میدان جہاد میں نکلنے کا اور جب بھی وہ اپنے مبلغ خاوند کے ساتھ باہر جائے تو اشاعت اسلام کے سلسلہ میں مضامین لکھنے کا اور دشمنان اسلام کے اعتراضات کے جواب دینے کا.غرض تبلیغ واشاعت اسلام کی عالمگیر مہم میں عورتوں کو شریک کرنے کے لئے ان میں وہی خصوصیات اور وہی روح پیدا کرنی ہوگی جو صحابیات میں کارفر ماتھی.عورتوں اور خصوصاً مبلغین کی بیویوں سے حضور کی نیک توقعات مبلغوں کے ساتھ ان کی بیویوں کو باہر نہ بھیجوانے کی گواور بھی بہت مصلحتیں تھیں لیکن مجھے مجبورا اور دکھی دل کیساتھ یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ میں مبلغ کے ساتھ اس کی بیوی بھجوانے کی اجازت نہیں دوں گا اس لئے کہ بعض مبلغوں کی بیویوں نے بیرونی ممالک میں بہت گندہ نمونہ دکھایا.ایسی عورتیں بجائے خود مجاہدہ بننے کے اس فوج کو جو دشمن کے خلاف صف آراء تھیں اس کو بدنام کرنے والی اور کمزور بنانے والی بن گئیں لیکن میرا بھی اور آپ کا بھی یہ دکھ دور ہونا چاہیے تاکہ میں بشاشت کیسا تھ ان کے باہر جانے کی منظوری دے سکوں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے ہماری ایک مجاہدہ (جسے دوبارہ باہر بھجوا دیا گیا ہے ) غانا میں بہت اچھا کام کرتی رہی ہے.حتی کہ اب میں نے ۱۹۷۰ء میں مغربی افریقہ کا دورہ کیا تو میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ ہمارے بعض مبلغ اس سے اچھا بھی کام کر رہے ہیں یا نہیں.میں نے دیکھا وہ بچوں کو قرآن کریم پڑھاتیں اور ان کی زبان میں اس کے مطالب سمجھاتی تھیں.ہماری اس مجاہدہ نے بڑی پیاری بات کی.کہنے لگیں جب مجھے میرے خاوند کیساتھ یہاں بھیج دیا گیا تو سوائے پنجابی اور تھوڑی سی اردو کے مجھے اور کوئی زبان نہیں آتی تھی.میں نے یہاں آ کر سوچا بی ان کا اپنا بیان ہے ) کہ مجھے کوئی زبان تو سیکھنی چاہیئے.انگریزی سیکھوں جو یہاں کام آتی ہے یا خود ان کی مقامی زبان سیکھوں جو بچوں کی تعلیم و تربیت میں کام آ سکتی ہے.چنانچہ میرے دماغ نے فیصلہ کیا کہ میں یہاں کی مقامی زبان سیکھوں.میں نے جلد ہی مقامی زبان سیکھ لی اور بچوں کو قرآن کریم، اس کا ترجمہ اور تفسیری معنے سکھانے شروع کر دئیے.چنانچہ اس طرح ہماری اس مجاہدہ نے تربیت کے

Page 411

408 فرموده ۱۹۷۳ء د مشعل راه جلد دو دد میدان میں ایک نہایت اہم کردار ادا کیا.ویسی عورت ہو تو ہم اس کو ہزار بار باہر بھجوانے کے لئے تیار ہیں.لیکن اگر مرد بیچارے مظلوم افریقنوں میں یہ لیکچر دے رہا ہوں کہ ہم محمد اور محمد (ع) کے رب العالمین کی محبت کا پیغام تمہارے پاس لیکر آئے ہیں اور انکی بیویاں گھروں میں یہ نمونہ دکھا رہی ہوں کہ جس چار پائی پر ایک افریقن بیٹھ جائے اس پر وہ عورت نہ بیٹھے تو پھر کیسے کام چلے گا.پس اگر ہماری عورت حقیقی معنوں میں مجاہدہ بن جائے تو ہم اس کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اگر وہ جھتی ہے کہ میں ایک مبلغ کی بیوی ہوں اس لئے میں جو مرضی کروں میری گرفت نہیں ہونی چاہیئے.تو یہ تو نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آخری جنگ کے لڑنے کے لئے خلافت کا ایک سلسلہ جماعت احمدیہ میں قائم کیا ہے.اس لئے ایسی مستوارات کیساتھ نرمی کا برتاؤ نہیں کیا جائے گا.غرض میں نے لجنہ کے اجتماع میں کہا تھا کہ میں مردوں سے کہوں گا کہ وہ تمہاری تربیت کریں.اس سلسلہ میں پہلے میں خدام سے یہ کہوں گا کہ ان میں سے بہت سے شادی شدہ ہیں.اگر شادی شدہ نہیں تب بھی بہت سے خدام سمجھدار ہیں وہ اپنے اپنے گھروں میں جا کر عورتوں کو سمجھا ئیں اور ان کو بتائیں کہ تمہارا یہ مقام ہے.تم نے اسلام کی اس آخری جنگ میں مردوں کے شانہ بشانہ لڑنا ہے.پس یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں ہمیں ایک لمحہ کے لئے غافل نہیں ہونا چاہیئے ورنہ ہم اس جنگ کو کس طرح جیت سکتے ہیں.ہمارے کئی احمدی دوست سوچنے لگ جاتے ہیں ( کچھ تو ویسے ہی کمزور ہو جاتے ہیں.الہی بشارتوں کے پورا ہونے پر ان کو کامل یقین نہیں رہتا ) اور کہتے ہیں کہ ساری دنیا کے ہتھیار غیر مسلموں کے پاس ہیں ہم کیسے کامیاب ہوں گے.مگر ایسے لوگ حضرت نبی اکرم ﷺ کے زمانہ پر نگاہ نہیں ڈالتے.جتنا اب فرق ہے اُس زمانہ میں شاید کچھ زیادہ ہی تھا.عرب کے غریب لوگ تھے ان کا معاشرہ غریبانہ تھا.وہ اونٹوں کا دودھ پی کر اپنی زندگیاں گزارتے تھے.بایں ہمہ انہوں نے بھی یہ نہ سوچا تھا کہ ساری دنیا کے خزانے تو کسری کے پاس جمع ہیں.ساری دنیا کی دولت تو قیصر نے سمیٹ رکھی ہے ہم کیسے کامیاب ہوں گے.انہوں نے صرف ایک بات سوچی تھی اور وہی بات ہمیں بھی سوچنی پڑے گی کہ خدا نے کہا ہے کہ تم غالب آؤ گے اس لئے ہم غالب آئیں گے.دولت نہیں تو کیا ہوا سیاسی اقتدار نہیں تو کیا فرق پڑتا ہے.خدا تعالیٰ جو ہر چیز پر قادرا نہ تصرف رکھتا ہے اور جو اصل مالک ہے تمام خزانوں کا اس نے کہا ہے تم جیتو گے اس لئے ہم جیتیں گے.میں تمہیں کہتا ہوں کہ اسی خدا نے جس نے ابتدائے اسلام میں اسلام کو ساری معروف دنیا میں غالب کر دیا تھا وہ اب بھی اسلام کو غلبہ عطا کریگا.کیونکہ اس نے آنحضرت ﷺ کو یہ بشارت دے رکھی ہے کہ اسلام کا آخری غلبہ مہدی معہود کے زمانہ میں مقدر ہے.اس کے بعد ساری جنگیں ختم ہو جائیں گی.میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اس حدیث کی (کہ مہدی جنگوں کو ختم کر دے گا) ایک تشریح یہ بھی ہے کہ وہ جنگوں کو ختم کر دیگا اس معنی میں کہ اسلام کا نہ کوئی معاند باقی رہے گا نہ کوئی مقابلہ میں فوج ہوگی اور نہ لڑائی کا سوال پیدا ہوگا.کیونکہ آخری لڑائی جیت لی جائے گی.اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے گا تو

Page 412

دومشعل نعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۳ء پھر بیرونی محاذ ہی ختم ہو جائیگا.گویا یہ حدیث اسلام کے آخری غلبہ کیطرف بھی اشارہ کرتی ہے.اسلام کی حسین تعلیم اور اشتراکیت کی ناکامی 409 جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے آج شیطان اپنے سارے مکائد کیساتھ میدان میں آ گیا ہے اور اسلام کے خلاف ہر جگہ رخنے ڈال رہا ہے.چنانچہ میں تو اپنوں سے بھی، پاکستانی بھائیوں سے بھی اور دنیا کے سارے انسانوں سے بھی یہ کہوں گا کہ تم ہمارے سامنے سرمایہ داری کی باتیں نہ کرو کیونکہ جسمانی قوتوں کی نشوونما کے بعد بھی سرمایہ داری جو کچھ سوچ سکی اس سے کہیں زیادہ حسین اور کہیں زیادہ اچھی اور کامیاب ہونے والی تعلیم تو اسلام نے ہمیں دی ہے.اسی طرح ہمارے سامنے روسی اشتراکیت کی بات نہ کرو کیونکہ روی اشتراکیت سے کہیں زیادہ حسین اسلامی تعلیم ہے جس کے سامنے اشتراکیت ٹھہر نہیں سکتی.میں نے یورپ میں لوگوں سے باتیں کیں مگر کسی ایک شخص نے مجھے یہ نہیں کہا کہ آپ کی دلیل مجھے قائل نہیں کر رہی.میں نے انہیں بتایا کہ سرمایہ دارانہ انقلاب کے بعد روس کا اشترا کی انقلاب آیا اور انہوں نے دو نعرے لگائے جو بظاہر بڑے اچھے تھے یہ ہم تسلیم کرتے ہیں اس لئے کہ ہمیں خدا نے کہا ہے ہمیشہ انصاف پر قائم رہو.اس لئے ہم مانتے ہیں کہ جب انہوں نے کہا:- To each according to his needs.کہ ہر ایک کو اس کی ضرورتوں کے مطابق دیا جائے گا تو ہم نے کہا بڑی اچھی بات ہے.شاباش تم بڑے اچھے ہو اور پھر انہوں نے کہا : - Proledariat unit of the world کہ دنیا کے سارے غریب عوام اکٹھے ہو جائیں ان کی بھلائی کے لئے انقلاب برپا کیا گیا ہے.تو ہم نے کہا بڑی اچھی بات ہے.دنیا کے سارے غریبوں کو اپنی بھلائی کے لئے اکٹھے ہو جانا چاہیئے.لیکن جو ہمیں عملاً نظر آیا وہ یہ تھا کہ کہا تو یہ تھا کہ:- To each according to his needs یعنی ہر ایک کو اس کی ضرورتوں کے مطابق دیا جائے گا لیکن اشتراکیت کے کسی بھی بڑے آدمی نے یہ نہیں لکھا کہ انسان کی ضرورت ہے کیا ؟ یعنی ضرورت کی تعریف ہی نہیں کی.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیکوسلوا یکین کمیونسٹ کی ضرورتیں اور سمجھ لی گئیں اور سفید روس کی ضرورتیں اور سمجھ لی گئیں.نتیجہ یہ ہوا کہ مشرقی روس جہاں تاشقند وغیرہ ہمارے مسلمانوں کے علاقے ہیں ان کی ضرورتیں اور سمجھ لی گئیں اور ماسکو میں رہنے والے سفید فام روسی اشترا کیوں کی ضرورتیں اور سمجھ لی گئیں.گویا کسی کو زیادہ دے دیا اور کسی کو کم دے دیا کیونکہ ضرورت کی تعریف ہی کوئی نہیں کی گئی تھی.پھر روسی اشتراکیوں نے کہا تھا:-

Page 413

410 فرموده ۱۹۷۳ء د مشعل راه جلد دوم Prolodariat of the world unit یعنی دنیا کے غریب اور مظلوم لوگو! اکٹھے ہو جاؤ.تمہاری بھلائی کے لئے ایک انقلاب آ گیا ہے مگر آج حالت یہ ہے کہ روس کا نام سن کر دنیا کے غرباء کے ساٹھ فیصد سے زیادہ حصے کی جان نکلتی ہے.غریب اور مظلوم انسان جس کا استحصال کیا گیا تھا اس کے اتنے بڑے حصے کے دلوں میں اس حد تک خوف اور دہشت اور ہر اس پیدا ہو چکا ہے کہ روس کا نام لیں تو کانپنے لگ جاتے ہیں.غرض ساٹھ فیصد سے زائد غریب اور مظلوم انسانوں کے دل میں اس کیفیت کا پیدا ہو جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اشتراکیوں کا یہ نعرہ کہ دنیا کے غریب اور مظلوم اکٹھے ہو جائیں نا کام ہو چکا ہے.پس ہم سے کارل مارکس اور اینجلز، لین اور سٹالن کی باتیں مت کرو.کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی شکل میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر جو شریعت نازل فرمائی ہے اس میں انسان کی بہبود کے متعلق جو کچھ بتایا گیا ہے.وہاں تک مارکس اور لینن کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا تھا.پچھلے الیکشن کے دنوں میں مجھے پتہ لگا کہ پیپلز پارٹی کے ایک صاحب ہیں جو Left (لیفٹ یعنی کمیونزم) کی طرف جھکے ہوئے ہیں ان سے میں نے کہا.غریب آدمی نے آپ کا کیا قصور کیا ہے کہ آپ اس کے اتنے خلاف ہو گئے ہیں.میں نے کہا روسی اشتراکی نظام کے نتیجہ میں تم اسے اٹھنی دینا چاہتے ہو مگر اسلام کہتا ہے کہ اس کا روپے کا حق ہے.روسی اشتراکیت کے نتیجہ میں تم اس کی جو اٹھنی مارنا چاہتے ہو ظاہر ہے اس نے تمہارا کوئی قصور کیا ہو گا.تب ہی تم چاہتے ہو کہ اس کو اس کی اٹھنی سے محروم کر دیا جائے.پس روسی اشتراکیت کا ہمارے سامنے ذکر نہ کرو.کیونکہ جس تعلیم نے، جس ہدایت نے معاشرہ کے جن اصولوں نے ہمارے دلوں کو موہ لیا اور اپنا گرویدہ بنالیا ہے، اشتراکیت تو اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی.باقی رہا چین کا سوشلسٹ نظام تو وہ ابھی جوانی کی حدود میں داخل ہورہا ہے.اگر اس کو ارتقائی دور صحیح مل گئے اگر وہ ان چاروں قوتوں اور استعدادوں کی جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دی ہیں، صحیح نشو و نما کر سکا یعنی مادی، ذہنی اور اخلاقی ترقی کے ساتھ ساتھ اس نے روحانی ترقی بھی کر لی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مسلمان ہو جائے گا.پس اگر اس نے روحانی ترقی بھی کر لی تو وہ کامیاب ہو جائے گا اور اگر اس نے روحانی طور پر ترقی نہ کی تو وہ بھی مفلوج ہے.آخر مفلوج بھی تو کئی قسم کے ہوتے ہیں.ایک مفلوج وہ ہے جس کے دنوں ہاتھ اور دونوں پاؤں مارے ہوئے ہیں ایک مفلوج وہ ہے جس کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں مارا ہوا ہے.اور ایک وہ شخص ہے جس کے دونوں پاؤں اور ایک ہاتھ سلامت ہے صرف ایک ہاتھ مارا ہوا ہے، مفلوج تو وہ بھی ہے.غرض سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب چار فطری صلاحیتیں انسان میں ودیعت کی گئی ہیں، جب ان چار فطری صلاحیتوں کے وجود کی ایسی دلیلیں جن کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہم پیش کرتے ہیں اور ہر شخص کے سامنے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں اور پھر جب اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسان کو خدا کے قرب اور اس محبت کو پانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر لاکھ سے او پر انبیاءعلیھم السلام کی گواہیاں موجود ہیں

Page 414

دو مشعل را س راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۳ء 411 جن کے متعلق معاندین نے بھی یہ کہا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے اور پھر دوسرے لاکھوں، کروڑوں اولیاء اللہ کی گواہیاں موجود ہیں جو اسلام سے پہلے بھی اور بعد میں بھی پیدا ہوتے رہے ہیں.جب ان راستبازوں کی جنگی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہے اور جن کا زمانہ آدم سے لے کر آج تک پھیلا ہوا ہے یہ گواہی موجود ہے کہ انسان کو روحانی استعداد میں بھی دی گئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی نشو ونما بھی ہوتی رہی ہے، خود ہم نے روحانی طور پر اللہ تعالیٰ کی صفات کے حسین جلوے دیکھے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو پایا.پس لاکھوں راستبازوں کی گواہی کے بعد اگر آج کوئی شخص روحانی طاقتوں کا انکار کرتا ہے تو اُس کی سمجھ بوجھ پر میں لاز ما شک وشبہ پیدا ہوگا.غرض اگر انسان کو روحانی طاقتیں دی گئیں اور یقیناً انسان کو جسمانی دینی اور اخلاقی طاقتوں کے علاوہ روحانی طاقتیں بھی دی گئی ہیں.تو پھر آج دنیا میں وہ کون سا ازم (نظریہ ) ہے جو دعوی کرتا ہو کہ وہ ان روحانی طاقتوں کی صحیح نشو و نما کرنے کا بھی اہل ہے.ان کو تو روحانی طاقتوں کا پتہ ہی نہیں ہے وہ یہ دعوی کیسے کر سکتے ہیں.پس ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ ہم سے سرمایہ داری اشتراکیت اور سوشلزم کی باتیں نہ کرو.ہم سے ہمارے پیارے رب اور ان کے رسول ﷺ کی باتیں کرو کہ جن کے نام کو بلند کرنے کے لئے آج ہماری جماعت روحانی جنگ لڑ رہی ہے.اور یہ وہی جنگ ہے جس کے متعلق خدائے قادر وتوانا کی بشارت ہے کہ یہ جنگ اسلام کی فتح پر منتج ہوگی.اسلام ساری دنیا پر غالب آئے گا.پس خدام کو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ وہ بشارتیں ہیں جو ہمیں دی گئی ہیں.یہ وہ حسین کلمات ہیں جو ہمیشہ ہمارے کانوں میں پڑتے اور ہمارے دماغوں میں گونچتے رہنے چاہیئیں.ہمارے خدام اس فوج کے سپاہی ہیں جو صف اول میں لڑ رہے ہیں.صف اوّل صرف وہی نہیں ہوتی جو محاذ پر برسر پیکار ہوتی ہے وہ بھی صف اوّل ہی ہوتی ہے جو محاذ پر جانے کے لئے تیاری کر رہی ہوتی ہے.اس تیاری میں بھی فرق نہیں آنا چاہیے.ہم تو روز خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور رحمتوں کے نظارے دیکھ رہے ہیں.اسلام کے حق میں ایک انقلاب عظیم بپا ہو چکا ہے.وہ لوگ جن کی زبانیں آنحضرت ﷺ کو برا کہتے نہ ھتی تھیں اس سفر میں جب میں نے ان کے سامنے اسلام کی تعلیم پیش کی تو ان میں سے کسی نے اپنا سر نفی میں نہیں بلایا بلکہ وہ اپنا سر اثبات میں ہلاتے رہے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ ٹھیک ہے.اسلام کی اچھی تعلیم ہے جسے وہ پسند کرتے ہیں.اس سے اور بہت سی باتیں نکلتی ہیں جن کے بیان کرنے کا یہ وقت نہیں ہے.بہر حال یہ ایک حقیقت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ حقیقت اتنی اہم ہے کہ اس زمانے میں اس سے اہم اور کوئی حقیقت نہیں ہے کہ مہدی معہود کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب عظیم بپا ہو چکا.بگل بجادیا گیا.آسمانوں سے یہ آواز بلند ہوگئی کہ شیطان کے مقابلہ میں جس آخری غلبہ کی پیشگوئی کی گئی تھی اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کی جو بشارتیں دی گئیں تھیں.ان کے پورا ہونے کا وقت آگیا اور جماعت احمدیہ کو اس کے لئے تیار کیا گیا ہے.یہ ایک

Page 415

412 فرموده ۱۹۷۳ء د و مشعل راه جلد دوم ایسا واقعہ ہے کہ سرمایہ دارانہ انقلاب روسی اشترا کی انقلاب اور چین کا سوشلسٹ انقلاب اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتے.پس تم اپنی کمزوریوں پر استغفار کے پردے ڈالو.اپنی غفلتوں کو تو بہ کی راہوں کے ذریعہ پیچھے چھوڑ جاؤ اور خدا تعالی کی طرف جھکو اور اسی سے ہر قسم کی مدد چاہو.ایاک نعبد کی رو سے تم یہ سمجھو کہ خدا نے تمہیں جو طاقت دی ہے تم اس کا صحیح اور پورا استعمال کرو گے.اسی پر بس نہ کرو بلکہ خدا کے حضور عاجزانہ جھکو اور کہو کہ اے ہمار.رب! تو نے ہمیں اسلام کی جنگ لڑنے کی طاقت دی تھی ہم نے اس سے پورا فائدہ اٹھایا مگر وہ تو کافی نہیں ہے.کیونکہ محاذ بڑا وسیع ہے اور ہم چھوٹی سے جماعت ہیں.دشمن دولت مند ہے اور ہم غریب ہیں.دشمن جدید ہتھیاروں حتی کہ ایٹم بموں سے لیس ہے اور ہمارے پاس سوائے ان روحانی ہتھیاروں کے جو تو نے ہمیں دیئے ہیں اور کچھ بھی نہیں ہے.اے خدا تو ان روحانی ہتھیاروں میں ایسی برکت ڈال ان میں ایسی تاثیر پیدا کردے کہ دنیا کے سارے مادی ہتھیار ان کے سامنے بیج ہو جائیں.غرض جو ہتھیار آپ کے ہاتھ میں دیا گیا ہے وہ اخرجت للناس “ کا ہتھیار ہے.آپ کے سارے ہتھیار اسی ایک نقطہ کے گردگھومتے ہیں کہ آپ نے بنی نوع انسان کی بے لوث خدمت کرنی ہے ، آپ نے کسی کو دکھ نہیں پہنچانا بلکہ ہر ایک کو سکھ پہنچانے کے انتظام کرنے کی کوشش کرنی ہے.اللہ تعالیٰ ہماری اس کوشش کو قبول فرمائے.دنیا کے دکھ دور ہو جائیں اور ان کے لئے سکھ کے سامان پیدا ہو جائیں، راحت کے سامان پیدا ہو جائیں.یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد ہماری کوششیں گھومتی ہیں.ہم دنیا کی بھلائی کے لئے ہیں.ہمیں لوگوں کی خدمت کرنے کا مقام زیب دیتا ہے کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو خدا ملتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی خوب فرمایا ہے کہ اے خدا! جو تیرا ہو گیا اور اس کی گود میں تو نے اپنے سارے جہانوں کو ڈال دیا لیکن جو تیرا ہو گیا وہ ان سارے جہانوں کو لے کر کیا کرے اس لئے ہمیں اس دنیا کی دولت اور اقتدار سے کیا تعلق ہمارے لئے تو خدا کا پیار اور اس کی محبت کافی ہے.ہمیں دنیا کی طاقت سے کیا سروکار ہمیں تو روحانی طاقت کی ضرورت ہے جس سے ہم اسلام کی روحانی جنگ جیت سکیں اور اپنے پیدا کرنے والے رب کے حضور اور اپنے محبوب آقا حضرت محمد اللہ کے سامنے سرخرو ہو جائیں ہمیں ان کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے.پس خدام کو یا درکھنا چاہیئے کہ ان کے سامنے ایک عظیم الشان مهم در پیش ہے.اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے تیاری کی ضرورت ہے.وہ خود بھی تیار ہوں اپنوں کو بھی تیار کروائیں.چھوٹے بڑوں کو اور بڑے چھوٹوں کو ”ذکر“ کے حکم کے مطابق یاد دہانی کرائیں.اپنے گھروں میں عورتوں سے بھی کہیں کہ یہ چین اور آرام سے بیٹھنے کا وقت نہیں ہے یہ کچھ کرنے کا وقت ہے.ایک جنگ لڑی جارہی ہے یہ ایک آخری اور تعظیم جنگ ہے جس صلى الله میں آنحضرت ﷺ کے روحانی جرنیل مہدی معہود کے پیرو اور متبعین برسر پیکار ہیں.پس میں جماعت کے چھوٹوں اور بڑوں مردوں اور عورتوں سے کہتا ہوں کہ اس جنگ میں تم ہی غالب آؤ گے تم ہی فاتح ہو گے.انتم

Page 416

دومشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۳ء 413 الأعلون کی رو سے تم ہی اعلیٰ یعنی غالب ہو گے تمہیں دنیا کی کوئی طاقت مغلوب نہیں کر سکے گی مگر ایک شرط ہے.ان کنتم مومنین.تم اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں سے اپنی جھولیاں بھرتے چلے جانا.اب میں آخر میں یہ اعلان بھی کر دینا چاہتا ہوں کہ آپ نے اپنی مجلس شوری میں آئندہ دو سال کے لئے صدر مجلس خدام الاحمدیہ کے متعلق اپنی آراء کا اظہار کیا.مکرم ابوالعطاء صاحب ( جن کو میں اپنی طرف سے انتخاب کرانے کے لئے نمائندہ بنا کر بھیجا تھا) کی رپورٹ کے مطابق مکرم مرزا غلام احمد صاحب ایم.اے کو ۴ ۴۷ ووٹ ملے ہیں اور مکرم لیق احمد طاہر کو ۴۷۸ ووٹ ملے ہیں اور مکرم عطاء المجیب راشد صاحب کو ۵۳۶ ووٹ ملے ہیں.میں آپ کی رائے کے مطابق ہی فیصلہ دیتا ہوں اور عطاء المجیب صاحب کو آئندہ دو سال کے لئے خدام الاحمدیہ کا صدر منتخب کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ انہیں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور خدام الاحمدیہ کوعملی میدان میں آگے سے آگے لے جانے کی طاقت بخشے.نئے صدر کا اعلان اور جانے والے صدر کے لئے حضور کے تعریفی کلمات ہمارے چوہدری حمید اللہ صاحب نے بڑی محنت سے بڑی جانفشانی سے اور بڑے اخلاص سے کام کیا ہے اور جو نتائج نکلے ہیں ان کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ بڑی دعاؤں کے ساتھ اور بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں احسن جزا دے اور اللہ تعالیٰ بعد میں آنے والوں کو یہ سمجھے عطا کرے کہ ایک جگہ ٹھہر نا جماعت احمدیہ اور اس کی تنظیموں کی موت اور ہلاکت کے مترادف ہے.ہمارا کوئی قدم نہ پیچھے ہٹنا چاہیئے نہ ایک جگہ کھڑا رہنا چاہیئے.ہم آگے ہی آگے بڑھنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں ایک جگہ ٹھہر نے کے لئے نہیں بنائے گئے.اس لئے خدا کرے عطاء المجیب صاحب کو اور بعد میں آنے والے لوگوں کو بھی حقیقت سمجھ میں آ جائے اور وہ دن رات ایک کر کے مجلس کی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی سعی بھی کریں اور خود دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی سعی مشکور بنائے ان کی کوششوں میں برکت ڈالے اور کامیابی عطا فرمائے.اب خدام کھڑے ہو کر اپنا عہد دہرائیں.انصار بھی اس میں شامل ہو جائیں.چنانچہ عہد دہرانے کے بعد حضور نے فرمایا) اب دعا ہو گی اور اس کے بعد آپ کو الوداع کہا جائیگا.اللہ تعالیٰ آپ کو سفر و حضر میں اپنی حفظ و امان میں رکھے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو یہاں کی برکات سے زیادہ سے زیادہ حصہ اپنے ساتھ لے جانے کی توفیق عطا فرمائے اور ان برکات سے استفادہ کرنے کی آپ کو ہمیشہ توفیق ملتی رہے.اس عظیم مہم کے نتیجہ میں جس کا میں نے ذکر کیا ہے جو عظیم ذمہ داریاں آپ کے کندھوں پرڈالی گئ ہیں اللہتعالی آپ کے کندھوں کو اس قدر طاقت عطا فرمائے کہ آپ بشاشت کے ساتھ ان ذمہ داریوں کو اٹھا اور نباہ سکیں.آؤ دعا کر لیں.

Page 417

414 فرموده ۱۹۷۳ء د و مشعل راه جلد دوم دو (بحوالہ ماہنامہ خالد دسمبر ۱۹۷۳ء) مجلس خدام الاحمدیہ کی زندگی قیامت تک ممتد ہے محترم چوہدری حمید اللہ صاحب کے صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے عہدہ سے سبکدوش ہونے پر حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ کا خطاب ( یکم دسمبر ۱۹۷۳ء) حضور نے فرمایا: آج کی تقریب کے دو پہلو ہیں.ایک کا تعلق جانے کے ساتھ ہے اور ایک کا تعلق آنے کے ساتھ ہے.مجلس خدام الاحمدیہ کے ایک صدر تو کامیاب صدارت کے بعد اس کام کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں مشغول ہورہے ہیں اور ایک نوجوان ان کی جگہ صدارت کی ذمہ واریاں اُٹھا رہے ہیں.جانے والے کے متعلق تو دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ احسن جزاء دے اور آنے والے کے متعلق یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہترین اور مقبول خدمت کی توفیق عطا کرے.مجلس خدام الاحمدیہ مختلف ادوار میں سے گزر کر اس مقام تک پہنچی ہے جہاں دنیا اسے آج دیکھ رہی ہے.ابتداءاس کی ایک چھوٹے سے بیج کی مانند تھی اور اس وقت ایک صحت مند بھر پور جوانی والے خوبصورت درخت کی شکل یہ پیج اختیار کر گیا ہے.ہر صدارت نے اپنی صدارت کے زمانہ میں دو کام کئے.کسی نے بہت ہی اچھے طریقہ پر اور کسی نے درمیانے طریقہ پر اور کسی نے اپنا وقت گزارا بعض پہلوؤں کے لحاظ سے.بہر حال دو کام کئے ہر صدارت نے.ایک جو روایات بن چکی تھیں ان کو قائم رکھنے کی سعی اور دوسرے جو ضروریات پیدا ہو چکی تھیں ان سے نپٹنے کے لئے کوشش.ایک زندہ وجود کو یہی دو کام کرنے پڑتے ہیں.درخت کی شاخیں تنے سے ابتداء سے ہی نکل آتی ہیں.مختلف درختوں کی عمروں کے لحاظ سے اپنی عمر کے مختلف اوقات میں درمیان کا تنا جو ہے وہ اپنی شاخیں نکالتا ہے.پھر شاخ خود تنے کی طرح اُس تنے سے بھی

Page 418

فرموده ۱۹۷۳ء 415 د دمشعل را نعل راه جلد دوم موٹی ، جو اُس کی شکل ہوتی ہے پھیلتا ہے اور اس کی اپنی شاخیں نکلتی ہیں اور وہ خوبصورتی کا باعث بنتا ہے.تنا بلند ہوتا ہے، کچھ اور شاخیں نکالتا ہے.اسی طرح اپنی زندگی کے دور کو پورا کرتا ہے.اور مجلس خدام الاحمدیہ کی زندگی قیامت تک کے لئے ممتد ہے کیونکہ اس تنظیم کا تعلق نبی اکرم ﷺ کے اس مہدی کی جماعت کے ساتھ ہے جس کے متعلق یہ بشارت دی گئی ہے کہ قیامت تک کی ذمہ واریاں اس کی جماعت پر ڈالی جائیں گی.قیامت تک وہ ذمہ داریاں جن کا تعلق اصولاً بھی اور تفصیلا بھی امت محمدیہ سے اور اسلام سے ہوگا.چونکہ جماعت احمدیہ کی زندگی قیامت تک ممتد ہے اس لئے جماعت احمدیہ کی تمام ذیلی تنظیموں کی زندگی بھی قیامت تک ممتد ہے.اور ہر دور جس میں سے بنیادنی تنظیم، اصلی تنظیم یعنی جماعتی تنظیم یا اس کی ذیلی تنظیمیں جس میں سے گزریں ہر دور میں پہلی خوبصورتی اور حسن اور جمال کو محفوظ رکھنا اور اس میں زیادتی کرتے چلے جانا یہ فرض بن جاتا ہے ان لوگوں کا جن کے ہاتھ میں اس کی قیادت دی جاتی ہے.ہم کہیں ٹھہر نہیں سکتے کیونکہ ٹھہر ناموت کے مترادف ہے.یہ ایک بنیادی اصول ہے زندگی کا.جب زندگی ٹھہر جاتی ہے تو بالکل موت واقع ہو جاتی ہے.اس لئے ہر نئے آنے والے صدر پر پہلے سے زیادہ ذمہ واریاں عائد ہوتی ہیں کیونکہ اس سے پہلے کے صدر نے دو سال پہلے سے قبل کی حالت کو قائم رکھ کے آگے بڑھنا ہے.اور اس صدر نے اس وقت کے لحاظ سے پہلے کی حالت جس میں مزید دو سال کی کیفیت شامل ہوگئی اسے قائم رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے.کام میں وسعت پیدا ہوتی ہے.نئی ہدایات مرکز ہدایت یعنی خلافت سے جاری ہوتی ہیں.نئی ذمہ داریاں نئے حالات کے مطابق ڈالی جاتی ہیں.پرانی روایات کو قائم بھی رکھنا ہوتا ہے اور نئی ضرورتوں کے حصول کے لئے اور نئے مسائل کے سمجھانے کے لئے نئی کوشش نئے عزم کے ساتھ بھی کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ عزیز بھائی اور بچے حمید اللہ صاحب کو جو انہوں نے جماعت کے لئے کیا جس رنگ میں ذمہ داریوں کو نبھا یا اس پر انہیں احسن جزاء دے اور انہیں بھی توفیق دے کہ مزید جوذ مہ داریاں اور دوسرے شعبوں کی جس رنگ میں بھی ان کے کندھوں پہ پڑیں آخر وقت تک انہیں وہ اسی طرح خوش اسلوبی سے نبھاتے چلے جائیں اورا دا کرتے چلے جائیں اور جو ان کی جگہ لے رہے ہیں خدا انہیں بھی ہر وقت چوکس رہ کر ہمت اور عزم کے ساتھ تندہی کے ساتھ ، فراست کے ساتھ ، تقوی اور طہارت کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ کو آگے سے آگے لے جانے کی توفیق عطا کرے.(ماہنامہ خالد دسمبر ۱۹۷۳ء)

Page 419

دومشعل دوم فرموده ۱۹۷۴ء 416 رگی کی سالانہ کی سے خلیات میں ۲ مئی ۱۹۷۴ء کی اکیسویں سالانہ تربیتی کلاس کی اختتامی تقریب سے حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو خطاب - مکمل متن تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.مجھے افسوس ہے کہ بیماری کی وجہ سے میں اس سے قبل آپ سے مل نہیں سکا.نہ باتیں کر سکا ہوں.کئی سال میرے لئے گرمی مستقل بیماری بن گئی ہے.گرمی لگ جاتی ہے جس کو انگریزی میں ہیٹ سٹروک Heat Stroke کہتے ہیں اور وہ بڑی تکلیف دہ چیز ہے.گرمی کا بھی اثر ہے.میں باہر گیا ہوا تھا.راولپنڈی میں مجھے Summer Diarrhoea سمر ڈائیریا جو وبا کی صورت میں پھیلا ہوا ہے اس کا حملہ ہو گیا.اس نے بڑا کمزور کر دیا اور کبھی بیچ میں دوران سر یعنی چکروں کی تکلیف بھی ہو جاتی ہے جو کل بہت زیادہ تھی.مجھے خوف لاحق ہوا کہ یہاں آج میں آ سکوں گا یا نہیں.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور ایک مختصر سی ملاقات کا موقع مل گیا ہے.احمدی کی زندگی جو بنیادی حقیقت ایک احمدی کی زندگی کی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اور آپ کے سامنے بڑے اہم کام ہیں جو ہم نے کرنے ہیں.بڑی وزنی ذمہ داریاں ہیں جو ہم پر ڈالی گئی ہیں.بہت بوجھ ہیں جنہیں اٹھانے کی ہمیں تلقین کی گئی ہے اور حکم دیا گیا ہے.اگر صرف یہ بات ہوتی تو ہمارے دل دھڑ کنے لگتے ، خوف ہم پر طاری ہوتا، لیکن جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے ایک احمدی کو اس آخری انتہائی جنگ کیلئے منتخب کیا جو اس زمانہ میں ہونے والی تھی اور جس کے نتیجہ میں ہمیشہ کیلئے اسلام ساری دنیا پر غالب آنے والا تھا.وہاں اس نے ہمیں یہ خوشخبری بھی دی کہ تمہارے اوپر بوجھ تو بہت ڈالا جارہا ہے لیکن جتنا بھی بوجھ ڈالا جائے گا اور حالات تم سے جتنی بھی قربانیوں کا مطالبہ کریں گے اتنی ہی طاقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں دے دی جائے گی.اب دیکھو میرے اس زمانہ خلافت میں سب سے پہلے ایک تحریک فضل عمر فاؤنڈیشن کے نام سے حضرت مصلح موعود کی یاد میں ہوئی.کچھ خدمت انسانی کے کام اور کچھ بھلائیوں کے تسلسل کو قائم رکھنے کا کام ذہن میں تھا اور کچھ قربانی اس وقت جماعت نے تین سال سے کچھ زائد عرصہ میں دی ( تقریباً ۳۷ لاکھ ).اس کے بعد نصرت جہاں کا منصو بہ اللہ تعالیٰ نے ذہن میں ڈالا اور اس کے لئے جماعت نے علاوہ دیگر چندوں کے ۵۳ لاکھ سے کچھ زائد ، رضا کارانہ اور طوعی ، مالی قربانی میں حصہ لیتے ہوئے رقم جمع کی.اور ۱۹۷۰ ء کے اس منصوبہ کے بعد ۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ پر جوصد سالہ جو بلی اور دوسری صدی کے استقبال کا منصوبہ جماعت کے سامنے رکھا گیا.اس کے لئے جیسا کہ الفضل میں آپ

Page 420

417 فرموده ۱۹۷۴ء دومشعل راه جلد دوم پڑھ چکے ہوں گے یا آپ کے علم میں لایا جانا چاہئے تھا ( کیونکہ جماعت پر جو اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں جماعت کے بڑے چھوٹے مردو زن کو اس کا علم ہونا چاہئے ) میری طرف سے اڑھائی کروڑ روپے کا اعلان ہوا تھا.اور پھر جوں جوں حالات واضح ہوتے گئے اور میں نے جماعت میں جذبہ دیکھا.میں نے اپنے اندازے لگائے.دعاؤں کے بعد اس وقت جلسہ سالانہ پر بھی میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کر دیا تھا کہ اگر چہ اڑھائی کروڑ روپے کی میں اپیل کرتا ہوں لیکن مجھے امید ہے کہ یہ رقم پانچ کروڑ تک پہنچ جائے گی.یہ دسمبر ۱۹۷۳ء میں میرا اندازہ تھا لیکن دسمبر ۱۹۷۳ء کے بعد اپریل تک چار مہینے گزرے ہیں.اس عرصہ میں جوں جوں حالات سامنے آتے رہے اور دعاؤں کی توفیق بھی ملتی رہی ، خواہش بھی بڑھتی گئی اور جماعت کا جذبہ بھی بڑھتا گیا.مشاورت کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے ایک خوشخبری دی تھی اور اسی کی تائید میں جماعت کو اللہ تعالیٰ نے رویا صالحہ کے ذریعہ خوشخبریاں دیں.اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے اور مشاورت پر میں نے اعلان کیا کہ غالباً 9 کروڑ 53 لاکھ کے وعدے آچکے ہیں اور اب اس سے بڑھ گئے ہیں.جس کا اعلان میں کل انشاء اللہ تعالیٰ جمعہ میں کروں گا.بہر حال 9 کروڑ سے اوپر وعدے مشاورت کے موقعہ پر پہنچ گئے تھے.اتنے تھوڑے عرصہ میں یعنی تین سال کے اندر بیس گنا زیادہ ترقی کر جانا اور پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دینا خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے بغیر ممکن نہیں.آپ یہاں کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں.اگر کھیلوں کی زبان میں بات کریں تو کوئی پانچ فی صد سے کوئی دو فیصد سے کوئی ایک فیصد سے اور کوئی اعشاریہ کچھ فیصد کے فرق سے ریکارڈ توڑا کرتا ہے.لیکن جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہیں گنا یعنی دو ہزار فیصد یعنی سو کے مقابلہ میں دو ہزار کی نسبت سے اپنے طوعی اور رضا کارانہ جذبہ اور ایثار کا مظاہرہ کیا اور ۵۳ لاکھ سے بڑھ کر مشاورت پر یہ رقم ساڑھے نو کروڑ تھی جو اب بڑھ چکی ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ جو بوجھ اٹھانے کی توفیق عطا کرتا ہے وہ ہمیں بتارہا ہوتا ہے کہ کس نسبت سے بوجھ ہم پر زیادہ ڈالا گیا ہے.جہاں یہ حقیقت ہے کہ نصرت جہاں منصوبہ کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو محض اپنے فضل سے نہ ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں ) سو کے مقابلہ میں دو ہزار یعنی ۲۰ سو فیصد زیادہ قربانیوں کی توفیق دی تو اس اصول کے مطابق جو میں نے ابھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ جتنا بوجھ ڈالتا ہے اس کے مطابق توفیق اور طاقت بھی عطا کرتا ہے.ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جو قربانیاں ہم نے دی ہیں اور جو بوجھ ہم پر ڈالا گیا ہے جس کے نتیجہ میں عام مالی قربانی کے علاوہ ہم نے قربانی دینی اور ایثار کا اظہار کرنا ہے اور جو ہم نے جدوجہد کرنی ہے وہ ۷۰ء کے مقابلہ میں اس زمانہ میں جس میں ہم داخل ہو چکے ہیں ہیں گنا زیادہ ہے یعنی اس میں ۲۰ سو فیصدی کا اضافہ ہوا ہے.عمر کے لحاظ سے اس کا اثر ہماری جماعت پر دو قسم کا پڑتا ہے.ایک وہ لوگ ہیں جو بلوغت کو پہنچنے کے بعد جماعت احمدیہ کے ایک عظیم انقلابی جہاد میں حصہ لے رہے ہیں.ان کو پہلے سے ہیں گنا زیادہ قربانی کے ساتھ اور جذبہ کے ساتھ اور عزم کے ساتھ اس جہاد میں حصہ لینا پڑے گا.یہ آثار ہیں کیونکہ اتنی طاقت ہمیں مل گئی.جہاں

Page 421

دومشعل قل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۴ء 418 بوجھ دیکھتے ہیں اس کے مقابلہ میں ہم خدا تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یہ امید رکھتے ہیں کہ جماعت کو اتنی زیادہ توفیق مل جائے گی.اور جب ہم توفیق دیکھتے ہیں تو جو اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دیتا ہے اور ہماری نظر کے سامنے آتی ہے.اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اسی نسبت کے ساتھ ہم پر زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک منصوبہ بنایا اور وہ منصوبہ ہے اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کا.وہ منصوبہ یہ ہے تمام ملکوں اور ان میں بسنے والے انسانوں کے دل جیت کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دینے کا.یہ اتنا بڑا ز بر دست منصوبہ ہے کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اور آج پھر کہتا ہوں آپ کے کانوں میں بار بار یہ بات ڈالنا چاہتا ہوں کہ آدم کی پیدائش کے بعد سے اتنا بڑا منصوبہ بھی نہیں بنایا گیا.آدم سے لے کر آج تک اتنی زبر دست جنگ روحانی جنگ (مادی ہتھیاروں سے نہیں ) شیطانی قوتوں کے خلاف نہیں لڑی گئی جتنی اس زمانہ میں جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے لڑی جانے والی ہے.ہمارا ہادی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا سپہ سالار، ہمارا سپریم کمانڈر، ہمارا ہادی، ہمیں راہ راست دکھانے والا اور اپنی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اس پر قائم رکھنے والا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.باقی جس طرح سپریم کمانڈر کے ماتحت ایک زمانہ میں مختلف محاذوں پر مختلف جرنیل لڑ رہے ہوتے ہیں مثلاً ہمارے ہاں اس وقت پاکستان کی بری فوج کو جو د نیوی فوج ہے پانچ حصوں میں تقسیم کر کے پانچ کور کمانڈرز مقرر کئے گئے ہیں اور اس کے علاوہ فضائیہ کا ایک انچارج ہے اور بحریہ کا ایک انچارج ہے.تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جو کمانڈر انچیف یا سپریم کمانڈر یا سپہ سالار اعظم ہے اس کے اختیارات میں فرق پڑ گیا یا اس کی کمان اس سے چھین لی گئی.یہ مطلب نہیں نکلتا ہم پر مخالف اعتراض کرتے ہیں اس لئے میں یہ بات آپ کو سمجھا رہا ہوں.اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو سپریم کمانڈر ہے اس کا مقام بہت بڑا ہے مثلاً پاکستان میں اگر پانچ کور کمانڈر ہیں تو امریکہ میں میرے خیال میں سو کے قریب یقینا ہوں گے.پھر جو ہتھیار ہیں اس لحاظ سے فوج کی تقسیم ہے.مثلاً بری فوج ہے.فضائیہ ہے، بحریہ ہے، اور اب انسان نے ترقی کی اور نئے سے نئے ہتھیار بنالئے.پہلے لڑنے والی فوج کے یہ تین باز و سمجھے جاتے تھے اور اب دنیا کے بعض ملکوں نے تین کی بجائے پانچ باز و بنالئے ہیں.میزائل جو زمین سے اڑ کر جہازوں کو نشانہ کرتی ہے یاز مین سے زمین پر نشانہ کرتی ہے.وہ اتنی ترقی کر گئی ہے کہ جس طرح فضائیہ کا ایک علیحدہ بازو ہے میزائل کا بھی علیحدہ باز و بنالیا گیا ہے اور ابھی ماضی قریب میں Rocketory را کٹری جو میزائل سے مختلف ہے ایک ملک نے اس کا علیحدہ باز و بنا لیا.اور پانچ بازو ہو گئے.جب فوج کے تین باز و تھے اس وقت سپریم کمانڈر کا یا سالار اعظم کا جو مقام تھا وہ دنیاوی لحاظ سے اتنا بڑا نہیں تھا جتنا بڑا مقام اب اس ملک کے سپریم کمانڈریا کمانڈر انچیف کا ہو گیا ہے جس میں تین کی بجائے پانچ باز و فوج کے ہیں.لیکن ہم روحانی جہاد اور روحانی مقابلوں اور عظیم روحانی جنگ اور روحانی قربانیوں

Page 422

419 فرموده ۱۹۷۴ء دو مشعل راه جلد دوم کی بات کر رہے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لئے روحانی فوجوں کے سالار اعظم بنا دیئے گئے ہیں یعنی آپ کو خاتم النبیین کا لقب عطا ہوا ہے.اور آپ کے ماتحت جن سالاروں نے پیدا ہونا تھا ان کی تعداد تین، چار، دس یا دس سو نہیں بلکہ ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ جب تنزل کے آثار تھے.اس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ امت محمدیہ میں لاکھوں لاکھ مقربین الہی پیدا ہوئے اور مقرب الہی ہی روحانی فوج کا سالار ہوتا ہے اور اس وقت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہو گئے.مسیح دنیا کی طرف آگئے.اس عظیم جنگ کا معرکہ.جنگ تو شروع ہوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ لیکن.اس جنگ کا آخری معرکہ جس کی شدت انسانی عقل اپنے تصور میں نہیں لاسکتی وہ زمانہ آگیا مہدی آگئے اور اسلام کے اندر شیطان سے جو آخری معرکہ ہونا تھا اس کا زمانہ آ گیا.اسی لئے ہمارے چودہ سو سالہ عرصہ میں جو کتب مسلمان علماء اور اولیا ء اور خدا کے برگزیدہ اور مقربین نے لکھی ہیں اللہ تعالیٰ نے اتنا عظیم مقام ان کو مہدی کا بتایا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے خود انہیں علم دیا تھا کہ اس کا مقام اور شان کیا ہوگی اتنا عظیم مقام اور شان بتائی ہے کہ ہم حیران ہوتے ہیں جب ان کتب کو پڑھتے ہیں کہ ان بزرگوں کی طرف منسوب ہونے والوں نے مہدی کا زمانہ تو پایا مگر اسے شناخت نہیں کیا اور ان کے جو ہادی اور رہنما تھے جن کی طرف یہ منسوب ہوتے ہیں انہوں نے مہدی کا زمانہ تو نہیں پایا مگر اسے شان اور مقام کے لحاظ سے شناخت کیا اور اس کی عظمت اور شان کے متعلق اپنی کتب میں لکھا.یہ جنگ شروع ہو چکی ہے اور جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں اس جنگ میں اس آخری معرکہ میں جو معرکہ مہدی موعود نے اسلام کی خاطر اور تو حید کو قائم کرنے کیلئے اور نوع انسانی کے دل جیت کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دینے کیلئے لڑنا تھا اس معرکہ میں بھی یہ وقت جس میں ہم اس جلسہ سالانہ کے بعد داخل ہو گئے ہیں یہ بڑی ہی اہمیت کا مالک ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو میں دیکھ رہا ہوں اور جو میرے کان آسمانی آواز سن رہے ہیں اور جو میری قوت شامہ خوشبو سونگھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ جو اس صدی کے یعنی جماعت احمدیہ کی زندگی کی پہلی صدی کے یہ آخری پندرہ سال ہیں اس صدی کے یہ پندرہ سال اس لحاظ سے سب سے اہم ہیں کہ اس صدی میں اس سے قبل وہ تیاری جو دوسری صدی کیلئے ہمیں پہلی صدی میں کرنی تھی اتنی شدت اور اتنی وسعت کے ساتھ اور اتنے بڑے پیمانہ پر بھی نہیں کی جو ان پندرہ سال کے اندر ہم نے کرنی ہے اور پھر اس کے بعد ہماری زندگی کی اس--- معرکہ کی زندگی کی یہ معرکہ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا اور جیسا کہ قرآن کریم میں اشارے پائے جاتے ہیں قریباً دوصدیوں اور کچھ سالوں تک پھیلا ہوا ہے ) جو چیز میں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ پہلی صدی تیاری کی تھی چنانچہ ہم مثلاً پچاس ملکوں میں چلے گئے.اب ان اگلے پندرہ سال میں ہم امید کرتے ہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں ہم چلے جائیں گے.ہم پچاس ایسے ملکوں میں چلے گئے جہاں کے چندے بھی ہمارے رجسٹروں پر آتے ہیں اور دنیا کا بہت بڑا حصہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس عظیم جہاد کے احاطہ میں اور دائرہ کے اندر لے لیا ہے لیکن کچھ ملک ابھی ایسے ہیں جہاں اکا دُکا احمدی ہو گا لیکن وہاں جماعتیں نہیں ہیں.نہ جماعت فی الحال بن سکتی

Page 423

ل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۴ء 420 دومشعل ہے کیونکہ کوئی ایک احمدی ایک شہر میں اور کوئی دوسرا دو سو میل دور.میں نے بتایا تھا کہ سوڈان میں ایک ہی خاندان ۱۹۳۰ ء میں احمدی ہوا اور وہ ابھی تک احمدی ہے اس کا رابطہ مرکز سے کوئی نہیں تھا.اب اچانک ہوا وہ بھی مغربی افریقہ کے ایک ملک میں.تو اس طرح احمدی تو شاید ہر ملک میں ہوگا لیکن جہاں جماعتیں بنائی جاسکیں ایسے حالات میں وہ کام بھی ہم نے ان پندرہ سالوں میں کرنا ہے اور بہت سی تیاری کرنی ہے تو یہ صدی دوسری صدی کے استقبال اور اس کی تیاریوں کی تکمیل کیلئے ہے اور تیاری کے نقطہ نگاہ سے اس صدی کے یہ سال بہت اہم ہیں آپ خود سوچیں اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی ، صحت مند، تقویٰ کی بنیادوں پر گذرنے والی زندگی عطا کرے آپ میں سے ایسے بھی ہیں کہ جب وہ اس صدی میں داخل ہو رہے ہوں گے تو تمیں پینتیس سال کے ہوں گے، کوئی چالیس سال کی عمر کو پہنچ رہے ہوں گے اور اس صدی میں داخل ہو رہے ہوں گے بہر حال جونئی اور جوان نسل ہے اس کی ذمہ داریاں بڑوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں کیونکہ بڑے تو اپنی عمر کے لحاظ سے اپنے وقت میں اس دنیا کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے انعام حاصل کرنے کیلئے دوسری دنیا میں چلے جاتے ہیں یہی اللہ تعالیٰ کا قانون ہے لیکن اکثر نوجوان اور بچے ( اطفال بھی یہاں آئے ہوئے ہیں) جس وقت اپنی بھر پور جوانی میں پہنچیں گے اور جس وقت انتہائی قربانیوں کا وقت آئے گا اور وہ اللہ کے فضل سے قربانیاں دے رہے ہو نگے.ان کے اوپر بڑا بوجھ پڑے گا اسی لئے ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ ہمارے بچے اور خدام آئیں اور خدام الاحمدیہ کے منتظمین کو اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ صحیح رنگ میں آپ کی تربیت کرنے کی توفیق دے بہت سے مضامین ہیں جو نئے ہیں اس لئے کہ نئے مسائل کو ان کے ذریعہ ہم نے حل کرنا ہے ان کی طرف معلوم نہیں آپ کو توجہ دلائی گئی ہے یا نہیں مجھے تو افسوس ہے کہ میں بیماری کی وجہ سے زیادہ آپ کے پاس نہیں آسکا.بہر حال ذمہ داریاں آپ پر بے حد پڑنے والی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو یہ بشارت دی ہے کہ جتنی بھی زمانہ کے حالات کے مطابق اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ پر ذمہ داریاں ڈالے گا اسی کے مطابق اپنے فرشتوں کی افواج کو بھیج کر اور اپنی رحمت کے دروازے آسمانوں سے کھول کر آپ کے لئے ان ذمہ داریوں کے اٹھانے کی توفیق و ہمت حاصل کرنے کے سامان بھی پیدا کرے گا اور آپ کی طاقتوں میں اضافہ کرے گا اور کوئی بوجھ جو آپ کے کندھوں پر ڈالا جائے گا وہ نا قابل برداشت نہیں ہوگا.یہ آپ کبھی نہیں کہیں گے کہ بوجھ تو زیادہ ڈال دیا گیا مگر اس کے مقابلہ میں ہمارے رب نے ہمیں طاقت نہیں دی کہ حالات کے مطابق اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ پر ذمہ داریاں ڈالے گا، اسی کے مطابق اپنے فرشتوں کی افواج کو بھیج کر اور اپنی رحمت کے دروازے آسمانوں سے کھول کر آپ کے لئے ان ذمہ داریوں کے اٹھانے کی توفیق و ہمت حاصل کرنے کے سامان بھی پیدا کرے گا اور آپ کی طاقتوں میں اضافہ کرے گا اور کوئی بوجھ جو آپ کے کندھوں پر ڈالا جائے گا وہ نا قابل برداشت نہیں ہوگا.یہ آپ کبھی نہیں کہیں گے کہ بوجھ تو زیادہ ڈال دیا گیا مگر اس کے مقابلہ میں ہمارے رب نے ہمیں طاقت نہیں دی کیونکہ اسلام کہتا ہے کہ جتنا بوجھ ہمارا رب ہم پر ڈالے گا اسی کے مطابق ہمیں طاقت بھی دیتا چلا جائے گا.اسی کے لئے ہمیں یہ دعا سکھائی

Page 424

421 فرموده ۱۹۷۴ء د و مشعل راه جلد دوم گئی ہے وَلَا تَحْمِلُ علينا اصرا كما حملته على الذين من قبلنا ربنا ولا تحملنا مالا طاقة لنابه - اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہماری طاقت میں تو اضافہ نہ کر لیکن ہمارے بوجھ میں کمی کر دے اس آیت کا یہ مفہوم نہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے بوجھ میں تو اضافہ کر لیکن ہماری طاقتوں میں اسی کے مطابق اضافہ کرتا چلا جا اور یہ نسبت قائم رہے کہ جتنی ذمہ داری ڈالی گئی اتنی طاقت بھی دے دی گئی.اس کے لئے بھی دعا کیا کرو.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کو اسلام اور احمدیت کی روح کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور آپ کے دلوں میں یہ بشاشت بھر دے کہ اس دنیا کی قربانیاں اور تکالیف کو برداشت کرنا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مقابلہ میں کوئی چیز ہی نہیں اور ہر قربانی دے کر ہر چیز اس کے حضور پیش کر کے عاجزانہ اس کے سامنے جھکتے ہوئے اس سے دعائیں کرتے رہیں.ہم بھی اور آپ بھی یعنی بڑی نسل بھی اور چھوٹی نسل بھی ، سب مرد و زن عاجزانہ دعائیں کرتے رہیں کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق جوں جوں ہماری ذمہ داریاں بڑھاتا چلا جائے اور ہمارے بوجھوں کو اور بھی بو جھل کرتا چلا جائے اس کے مقابلہ میں اسی کے مطابق ہماری طاقتوں میں اضافہ کرنے والا ہو.ہماری بشاشتوں میں اضافہ کرنے والا ہو.گذشتہ تین ساڑھے تین سال میں جماعت احمد پر پر (چونکہ اس منصوبہ کے ماتحت نئی ذمہ داریاں پڑنے جماعت احمد مجیدی والی تھیں) میں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہیں گنازیادہ اپنا فضل کیا اور یہ فضل نمایاں کر کے آپ کے سامنے کر دیا.آپ کے دل اس کی حمد سے بھر گئے اور آپ کے سر اُس کے آستانہ پر پہلے سے بھی زیادہ جھک گئے.لیکن وہ جو پ کو پہچانتے نہیں آپ کی مخالفتوں میں لگے ہوئے ہیں وہ پہلے سے ہیں گنا سے بھی زیادہ گھبرا گئے کہ یہ کیا ہو گیا اور عجیب و غریب باتیں انہوں نے اب کرنی شروع کی ہیں جو نہ عقل کے معیار پر پوری اترتی ہیں نہ انصاف کے معیار پر پوری اترتی ہیں، نہ اخلاق کے معیار پر پوری اترتی ہیں.نہ تقویٰ کے معیار پر پوری اترتی ہیں.نہ انسانیت کے معیار پور پوری اترتی ہیں.ان کے لئے بھی دعائیں کریں کہ خدا نے آپ کے دل میں کسی شخص کی دشمنی نہیں پیدا کی بلکہ آپ حقیقی معنی میں وہ قوم ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمرنگ ہو کر حقیقتا اخر جت للنَّاس کے مصداق دنیا کی بھلائی اور بہبود کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور نباہنے کی توفیق عطا کرے اور اپنے فضلوں کا زیادہ وارث بنائے.آواب دعا کرلیں.( بحوالہ روز نامہ الفضل ۱۴ مئی ۱۹۷۴ ء )

Page 425

دومشعل فرموده ۱۹۷۴ء دوم 422 پیغام خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خدام الاحمدیہ کے نام نونهالان جماعت! السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ آپ کے اخلاص میں برکت دے.غلبہ اسلام کی اس مہم میں آپ کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور ہر کے غلبہ کرحصہ قربانی پیش کرنے کی توفیق دے اور اسے قبول فرمائے.آمین ہمارا خدا بے حد پیار کرنے والا خدا ہے ہم نے ہمیشہ اس کے پیار کے حسین جلوے دیکھے اور اس کے احسانات کو بارش کے قطروں کی طرح نازل ہوتا دیکھا.ہر آڑے وقت میں وہ ہماری مدد کے لئے آیا.اُس نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا.پس آپ بھی اس کے باوفا بندے بنیں کبھی اُس سے بے وفائی نہ کریں.اسی پر توکل رکھیں اور کبھی اس کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین ۷ نومبر ۱۹۷۴ء مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث (بحوالہ ماہنامہ خالد نومبر ۱۹۷۴ء)

Page 426

423 فرموده ۱۹۷۵ ء د و مشعل راه جلد دوم دد پیغام (فرموده ۲ مئی ۱۹۷۵ء) مجلس خدام الاحمدیہ کی بائیسویں سالانہ تربیتی کلاس ۱۸ اپریل ۱۹۷۵ء سے شروع ہو کر مئی ۱۹۷۵ء کو بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوگئی.اختتامی اجلاس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی علالت طبع کے باعث تشریف نہ لا سکے.کلاس کے اختتام پر حضور انور کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا جو درج ذیل ہے.”اپنے رب کریم سے کبھی بے وفائی نہیں کرنی.غلبہ اسلام کے لئے جس جہاد میں ہم مشغول ہیں.جہاد کے اس میدان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جانے سے زیادہ لعنت کا کوئی گناہ نہیں“.(بحوالہ ماہنامہ خالد جون ۱۹۷۵ء)

Page 427

دومشعل دوم فرموده ۱۹۷۵ء 424 عزیز بھائیو اور بہنو! پیغام امام جماعت احمدیہ کا احباب جماعت کے نام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ گذشتہ کئی ماہ سے خاکسار بیمار چلا آ رہا ہے.اگر چہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی افاقہ ہے لیکن ابھی پوری صحت ہونے میں نہیں آرہی.طبی مشورہ بھی یہی ہے.بزرگان جماعت پاکستان بھی یہی مشورہ دے رہے ہیں اور بیرون پاکستان کے دوست بھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ میں باہر جا کر تشخیص اور علاج کراؤں.اس لئے دُعاؤں اور استخارہ کے بعد چند ہفتوں کے لئے پاکستان سے باہر جارہا ہوں.سب دوست دعا فرما دیں کہ اللہ الشافی اپنے فضل و کرم سے تشخیص و علاج کا یہ زمانہ مختصر کر دے اور میں جلد تر صحت کے ساتھ واپس لوٹوں.آمین ہمارے رب کریم نے جو ذمہ داریاں ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالی ہیں اور ان فرائض کی ادائیگی پر جن بشارتوں کا وعدہ کیا ہے.وہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم کامل اطاعت کے ساتھ ، پورے جذبہ ایثار کے ساتھ ، ساری شرائط کے ساتھ عمل صالح کے ہر پہلو کو حسین بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کا نمونہ پورے اندرونی اتحاد کے ساتھ اور بنی نوع انسان کی کامل ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں اور حضرت خاتم الانبیاء محمدرسول اللہ ﷺ کے اسوہ کے مطابق، اپنی زندگیاں ڈھالنے والے ہوں.یاد رکھیں کہ ہم کسی کے بھی دشمن نہیں سب کے لئے ہی دعا کرنے والے ہیں.سب کے لئے ہی اپنے رب کریم سے خیر کے طالب ہیں اور پورا بھروسہ رکھتے ہیں کہ ہمارا محبوب خدا دنیا کی نجات کے سامان پیدا کرے گا اور نوع انسانی اس کے قدموں میں اکٹھی ہو جائے گی اور امت واحدہ بن جائے گی.ہر دل میں محمد رسول اللہ ﷺ کا پیار موجزن ہو جائے گا.پس آپس میں بھی پیار اور اتحاد سے رہیں اور نوع انسانی کے لئے بھی دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کہ دکھوں کو حقیقی سکھ میں بدل دے.جہاں آپ میرے لئے اور جماعت کے لئے دعائیں کر رہے ہوں گے وہاں اپنے وطن عزیز کے لئے بھی دعائیں کریں کہ خوشحالی و استحکام اور ترقیات کے سامان پیدا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اُس کی رحمت

Page 428

425 فرموده ۱۹۷۵ء دد د و مشعل راه جلد دوم کے سایہ میں.اس کی رضا کی جنتوں میں آپ بھی اور ہم بھی اپنی زندگی کے دن گزار ہیں.آمین آپ کے لئے ہر آن دعائیں کرنے والا آپ کا امام خاکسار مرتوا ناصر احمد خلیفة اصبح الثالث (بحوالہ ماہنامہ خالد ستمبر ۱۹۷۵ء)

Page 429

دومشعل دوم فرموده ۱۹۷۶ء 426 ۱۱۶ پریل ۱۹۷۶ ء بعدنمازعصر ایوان محمو در بوہ میں سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی ۲۳ ویں تربیتی کلاس کا افتتاح کرتے ہوئے جو خطاب فرمایا تھا اس کا مکمل متن.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: ہمارے نوجوانوں کی یہ ۱۳ ویں تربیتی کلاس ہے.اس کلاس میں اس وقت تک شامل ہونے والوں کی تعداد گزشتہ سال سے کم ہے.باوجود اس کے کہ خدام الاحمدیہ کی مرکزی انتظامیہ کو باہر سے جو اطلاعات موصول ہوئی تھیں، ان کے مطابق پچھلے سال کے مقابلہ میں تعداد زیادہ ہونی چاہئے تھی.لیکن عملاً یہ تعداد پچھلے سال جیسی نہیں ہے.اس کی کوئی وجہ ہوگی.اس وجہ کا ہمیں علم ہونا چاہیئے.مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کو چاہیئے کہ وہ جائزہ لے کر مجھے رپورٹ کریں کہ کیا وجہ ہے باوجود اطلاع کے باہر سے آنے والے نمائندگان کی تعداد کم ہے.یہ ایک تربیتی کلاس ہے اور ہر تربیتی کام ایک خاص مقصد کے حصول کے لئے ہوتا ہے.انسان خود اپنے نفس ہی کو تربیت نہیں دیتا بلکہ قرآن کریم کے اس ارشاد کے مطابق کہ سخر لكم ما فی السموت و ما في الارض جميعاً منه (الجاثیہ: ۱۴.خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ہر شے کو انسان کے خادم کے طور پر بنایا گیا ہے اس لئے انسان اپنے ان خدام سے یعنی کائنات کی ہر شے کو بتاتا ہے کہ میں تجھ سے کیا خدمت لینی چاہتا ہوں.جس طرح گھر کے نوکر کو یا بہتر مثال آج کل کے لحاظ سے یہ ہوگی کہ کسی کارخانے کے مزدور کو مالک کہتا ہے کہ یہ کام کرنا ہے اور وہ اس کے مطابق کام کرتا ہے.پس اسی طرح انسان بھی کائنات کی ہر شے کو بتا تا ہے یا بتانے کی کوشش کرتا ہے یا اسے یہ بتانا چاہیے کہ میں نے تم سے کیا خدمت لینی ہے.پس جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے انسان کے بہت سے ایسے خدام ہیں.جن کا خود انسان کو بھی پتہ نہیں.لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے.اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایٹم (باریک ذرہ) جس سے ہم بنے ہیں، انسان کو اس کی طاقت کا پتہ نہیں تھا اس لئے اس نے اپنے کام کے لئے اسے تربیت نہیں دی تھی.یہ علیحدہ بات ہے کہ جب اسے معلوم ہوا تو اس نے ایٹم سے زیادہ تر جو کام لینا چاہا، وہ اس کی اپنی ہی ہلاکت کا کام تھا.یہ ایسی ہی حماقت ہے جیسے کوئی آقا اپنے غلام سے کہے کہ مجھے قتل کر دو.پرانے زمانہ میں بادشاہ ہوا کرتے تھے.ان کے بہت سے غلام ہوا کرتے تھے.اب تو غلامی کا زمانہ گزرگیا ہے لیکن اس وقت اگر کوئی بادشاہ کہتا اے فلاں جو میرے غلام ہو.تم چھرا اٹھاؤ اور میری گردن کاٹ دو.چنانچہ ایسے ہی انسان نے کیا.ایٹم کی جو طاقت ہے اس کو معلوم کرنے کے بعد اس کو یعنی اپنے خادم کو یہ حکم دیا کہ اے انسان کے خادم ! تو

Page 430

427 فرموده ۱۹۷۶ء د و مشعل راه جلد دوم انسان کی تباہی کے سامان پیدا کر.یہ بڑی احمقانہ بات ہے لیکن بہر حال انسان ہی سے حماقتیں سرزد ہوتی ہیں اور اس سے ایک بڑی حماقت یہ سرزد ہوئی کہ خدا نے ایٹم کو اس کا خادم بنایا تھا لیکن بجائے اس کے کہ وہ یہ کہتا کہ انسان کی خدمت کے لئے تو کوشاں رہ اور تو انسان کی ترقی کے لئے سامان پیدا کر.اس نے اپنے خادم کو کہا کہ وہ انسان کو ہلاک کرے.پس میں اس وقت بتا یہ رہا ہوں کہ ہر وہ چیز جو خدمت پر مامور ہے، اسے بتایا جاتا ہے کہ اس نے انسان کی کیا خدمت کرنی ہے اور پھر اس کے مطابق اس کی تربیت کی جاتی ہے مثلا گھوڑا ہے اور یہ بھی کائنات کی ایک چیز ہے اور اسے بھی انسان کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اب یہ نہیں ہوسکتا کہ ہر جنگی گھوڑا پہلے دن سے انسان کی خدمت کرنے لگ گیا ہو.گو اس وقت بھی بعض علاقوں میں جنگلی گھوڑے پائے جاتے ہیں.لیکن شروع میں تو کہتے ہیں کہ جنگلی گھوڑے ہی تھے جن کو پھر انسان نے پکڑ کر پالا.پھر آگے کئی لحاظ سے ان کی تربیت کی مگر یہ ایک الگ مسئلہ ہے اور ایک علیحدہ مضمون ہے جس میں جانے کی اس وقت ضرورت نہیں ہے.میں بتا یہ رہا ہوں کہ جہاں تک گھوڑے سے خدمت لینے کا تعلق ہے گھوڑے جنگل سے بھاگے ہوئے انسان کی جھونپڑیوں تک نہیں پہنچے اور اسے یہ نہیں کہا کہ اے انسان! تو ہم سے خدمت لے.شروع میں تو انسان جھونپڑیوں میں رہتا تھا یا اس سے بھی پہلے غاروں میں رہتا تھا.ظاہر ہے ایسا نہیں ہوا.قرآن کریم نے جہاں یہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے اس کا ئنات کو پیدا کیا ہے وہاں یہ بھی فرمایا لیس للانسان الا ما سعى انسان ان سے حقیقی خدمت لینے کی کوشش کرے گا اور وہ کوشش صحیح راہ پر ہوگی تو وہ تمہاری اپنی ہی خدمت کریں گے جتنی خدمت ان سے لو گے.اسی لئے گھوڑے کو سدھانا پڑتا ہے.انگریزی میں کہتے ہیں بریک (Break) کرنا لیکن ہم کہتے ہیں گھوڑے کو سدھانا اور یہی زیادہ اچھا لفظ ہے.انگریز کہتا ہے گھوڑے کی عادتیں تو ڑنی پڑتی ہیں جب کہ ہم کہتے ہیں انسان گھوڑے کو اپنے ساتھ مانوس کرتا ہے اور اسے آہستہ آہستہ یہ سکھاتا ہے کہ وہ اس کا کہنا مانے اور ہلکے سے اشارہ پر دائیں مڑ جائے یا بائیں طرف چلنا شروع کر دے یا ٹھہر جائے.یا اگر کھڑا ہے تو دوڑنے لگ جائے.غرض ایک نامعلوم سا اشارہ ہوتا ہے جسے گھوڑا سمجھنے لگ جاتا ہے لیکن یہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب وہ تربیت پا کر اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ انسان کے اشاروں کو سمجھنے لگ جاتا ہے.اسی طرح ہر چیز جس سے کوئی خدمت لینی ہوتی ہے، اس کو بتانا پڑتا ہے اور اس کے مطابق اس کی تربیت کرنی پڑتی ہے اور اس معاملہ میں کوئی انسان مستشنیٰ نہیں.انسانوں میں سے خصوصاً ہمارے پیارے آقا محمد ﷺ کی امت جسے امت مسلمہ کہتے ہیں.اس کے افراد بھی مستثنی نہیں کیونکہ قرآن کریم میں اس امت کے افراد کو جو پہلے دن سے یعنی وہ پہلا شخص جو محمد اللہ کے ہاتھ پر ایمان لایا اور اسلام لایا.اس پہلے شخص سے لے کر قیامت تک، اس آخری شخص تک جو اسلام کے اندر رہے گا اور قیامت آئے گی اور دنیا مٹ جائے گی.یہ کیسے ہوگا اور کب ہو گا.اس کے ساتھ ہمیں تعلق نہیں.اور نہ سوچنے کی ضرورت ہے.ہمیں آج کی دنیا کے متعلق سوچنا اور مجھنا ہے اس کے مطابق اپنے آپ کو تربیت دینا ہے.بنی نوع

Page 431

و مشعل راه جلد دوم انسانی کی خدمت اور بھلائی کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے فرموده ۱۹۷۶ء 428 بہر حال امت مسلمہ کے ہر فرد کو خواہ اس کا تعلق جب میں بول رہا ہوں یعنی حال سے ہو یا ماضی سے ہو اور یا مستقبل سے ہو یعنی آئندہ آنے والی نسلوں سے ہو.ہر شخص کو مخاطب کر کے یہ کہا کسنتم خير امة اخرجت لسلناس تم بہترین امت ہو اس لئے کہ نوع انسانی کی خدمت اور بھلائی کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے.غرض نہ صرف یہ کہ انسان انسان کا خادم بھی ہے بلکہ انسان ، انسان کا سب سے بڑا خادم ہے اور انسانوں ہی سے حضرت نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لاتے ہیں اور اسلام کی سچائی اور اسکی حقانیت کے قائل ہیں اور قرآن کریم کی عظمت کے آشنا ہیں اور محمد رسول اللہ ہے کے عشق کا دعوی کرتے ہیں، وہ بنی نوع انسان کے سب سے زیادہ خادم ہونے چاہئیں.پس آج کی دنیا میں ہمارے لئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے اور جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے قرآن کریم کی رو سے ہر احمدی جو اپنے آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتا ہے ، اس کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کی اس رنگ میں خدمت کرے کہ اس میں ان کی بھلائی پوشیدہ ہو اور یہ کوشش کرے کہ جس طرح اس کے دل اور اس کی روح نے اپنے پیدا کرنے والے رب کو پہچانا اور اس کے پیار کو حاصل کیا اسی طرح اس کا ہر بھائی اور اسکی ہر بہن خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات سے واقف ہو.خدا تعالیٰ کی صفات کا عرفان اور اس کی معرفت حاصل ہو.خدا تعالیٰ کی اس معرفت کے نتیجہ میں اسلامی تعلیم کی رو سے جوذمہ داریاں انسان خود محسوس کرتا ہے، ان کو وہ نباہنے والا اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا ہو.پس ہماری زندگی کا مقصد نوع انسانی کی وہ خدمت ہے جس کی طرف اسلام ہمیں بلاتا ہے.ہماری تربیت کی یہی غرض ہے.خواہ اس کا ذریعہ تربیتی کلاسز ہوں.جمعہ کے خطبات ہوں ، جماعت کی دیگر اجتماعی سرگرمیاں ہوں مثلاً مختلف جلسے ہوتے ہیں.مختلف اجتماعات ہوتے ہیں یا مختلف تنظیمی کاروائیاں ہوتی ہیں اور وہ سب اس غرض سے ہوتی ہیں کہ ہمارے احمدی بچے جن کو ہم تنظیمی لحاظ سے اطفال الاحمدیہ کہتے ہیں یا ہمارے احمدی نوجوان جن کو ہم خدام الاحمدیہ کہتے ہیں.یا وہ بڑی عمر کے احمدی دوست جن کو ہم انصار اللہ کہتے ہیں اور ہماری احمدی بزرگ مائیں اور ہماری بہنیں اور دوسری مستورات جو مذہبی رشتہ کے لحاظ سے سب ہماری بہنیں ہیں.غرض ان سب کی اس رنگ میں تربیت کرنا کہ وہ اس خدمت کو بجالائیں جس کی طرف قرآن کریم ہمیں بلاتا ہے مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم سب اپنے دل میں اس خدمت کے کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہوں اور اسکے مطابق ذہنی طور پر ترقی بھی کر چکے ہوں.اور عملاً ان کو شعور بھی ہو یعنی عمل کرنے کے اہل ہوں اور نوع انسانی کی خدمت بھی کر سکیں.اس خدمت کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے.اسلام کی حقیقت کو جاننا اور پہچاننا.چنانچہ یہ تربیتی کلاس ایک حد تک اسی پہلو کو اجاگر کرے گی.کیونکہ دو ہفتے کے اس مختصر سے کورس میں سارا اسلام تو نہیں سکھایا جا سکتا.ہزاروں چیز میں ہیں جن کے مجموعہ کا نام اسلام ہے.اگر ایک ایک چیز کو ہم اٹھا کر پرے رکھتے جائیں اور

Page 432

429 فرموده ۱۹۷۶ء د و مشعل راه جلد دوم دد کہیں یہ نہیں اگلی چیز کو لیتے ہیں تو پھر اسلام کبھی حاصل نہیں ہوتا اور اگر ہم آہستہ آہستہ ان بے شمار حسین چیزوں میں سے کچھ نہ کچھ لیتے چلے جائیں تو جتنا جتنا ہم اپنے علم میں اور حسن اسلام کی معرفت میں آگے بڑھتے چلے جائیں گے.اتنی اتنی اہمیت اس بات کی پیدا ہوتی چلی جائے گی کہ ہم اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کر سکیں.حضرت مسیح موعود کا ایک الہام اور اس کی تشریح پس میں اس کلاس کے طلباء سے کہتا ہوں کہ یہاں انہیں دو باتوں کا خیال رکھنا ہوگا.ایک یہ کہ ان کے اساتذہ یا معلم یا مقررین مختلف موضوعات پر جو تقاریر کریں گے.ان کو وہ غور سے سنیں اور جن کو لکھنا آتا ہے وہ مختصر نوٹ لیتے جائیں.خدا کرے سب کو لکھنا پڑھنا آتا ہو.لیکن جن کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا وہ غور سے سنیں اور جن کو آتا ہے وہ مختصر اشارے ضرور نوٹ کرتے چلے جائیں تا کہ آئندہ ان کو مضمون یادرہ سکے.جب وہ اپنے نوٹ دیکھیں گے تو بعض باتیں یا ان کی تفاصیل جو انسان کے ذہن سے اتر جاتی ہیں، پھر تازہ ہو جائیں گی.قرآن کریم نے ہمیں جو بنیادی باتیں بتائیں ہیں ان میں سے ایک بڑی بنیادی بات کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام اشارہ کر رہا ہے رب ارنی حقائق الاشیاء حقائق حیات یا حقائق اشیاء کو انسان خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر حاصل نہیں کر سکتا.ان کا علم حاصل نہیں کر سکتا.حقائق کا علم حاصل نہیں ہوسکتا اور نہ وہ ان کو جان سکتا ہے اس لئے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہو لیکن خدا تعالیٰ کی مدد انسان کو دعا کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.چنانچہ میں تو یہ خواہش رکھتا ہوں کہ ایک احمدی بچہ جو بالکل چھوٹی عمر کا ہے اور ابھی اطفال کی تنظیم میں شامل ہونے کی عمر کو نہیں پہنچا، اس کو بھی اس کی مائیں اور اس کے بزرگ اور بڑے بھائی دعا کی طرف ہمیشہ متوجہ رکھیں کیونکہ ہماری زندگی کی روح در اصل خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہے مگر یہ دعا کے بغیر ، خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر خدا تعالیٰ کے سامنے جھکے بغیر اور خدا تعالیٰ کے حضور عاجزی کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی اس لئے اے عزیز بچو! اگر تم یہاں سے اور سبقوں کے ساتھ یہ بنیادی سبق بھی سیکھ لو.یعنی یہ کہ خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا.اور خدا تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت عاجزانہ دعاؤں کے بغیر مل نہیں سکتی اس لئے ہر وقت اور ہر آن پنے رب کریم کی طرف جھکتے ہوئے اس سے عاجزانہ دعائیں کرتے رہنا چاہئے.پس اگر تم بھی عملاً دعا کرنا شروع کر دو تو سمجھو کہ گویا زندگی کا جو مقصد ہے اس کے حصول کی راہ تمہیں حاصل ہوگئی.دعا کی اہمیت پس دعا بڑی ضروری ہے.یہ ایک بہت وسیع مضمون ہے جسے مختصراً ایک فقرہ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی نصرت دعا کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی اس لئے اے عزیز بچو! تم دعائیں کرو اور بہت دعائیں کرو.ابھی تو تم بچے ہو.جوں جوں تم بڑے ہوگے اور تمہاری عقلیں تیز ہوں گی ( کئی تو اب بھی شعور رکھتے ہیں ) تو دیکھو گے کہ

Page 433

ل راه جلد دوم فرمودہ ۱۹۷۶ء 430 دومشعل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کے مضمون پر بہت کچھ لکھا ہے.تم اسے غور سے پڑھو.یہ مجھے معلوم نہیں کہ اس عرصہ میں تمہیں مطالعہ کرنے کے لئے کتنا وقت ملے گا.جب بھی تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کا موقع ملے اس کلاس کے دوران یا بعد میں کسی اور وقت، تو جہاں اور مضامین پڑھو وہاں خاص طور پر پہلے دعا کے حصے کو پڑھو اور اس پر غور کرو اور اس کی جو اہمیت ہے، اس کو سمجھنے کے قابل بنو اور اس کے پس پردہ خدا تعالیٰ کی جوشان نظر آتی ہے اس سے لطف اندوز ہو کہ کس طرح ایک عاجز بندے کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنے قانون قدرت کو بھی ایک اور قانون قدرت سے بدل دیتا ہے.وہ بھی اسی کا قانون ہے.یہ نہیں کہ کسی اور ہستی کا قانون ہے مگر جو ظاہری قانون قدرت یا سنت اللہ ہے ایک اور قانون سے بدل جاتی ہے مثلاً آگ جلاتی ہے اور پانی میں آگ کو بجھانے کی خاصیت ہے.ان چیزوں کے نیچے خدا کی ایک اور قدرت کام کر رہی ہے.گویا بعض اوقات خدا کی ایک اور قدرت اس ظاہری قانون قدرت کو بدل دیتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو آگ ٹھنڈی ہوگئی.اب یہ نئے فلسفہ والے اور دھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا.میں کہتا ہوں یہ اسی طرح ممکن ہو گیا جس طرح کہ آگ کے لئے یہ ممکن ہوا کہ وہ لکڑی کو جلائے.پس اس مضمون کو سمجھنا میرے لئے تو کوئی مشکل نہیں.اس واسطے کہ مجھے یقین کامل حاصل ہے اور میں علی وجہ البصیرت اور ایک لمحہ کی ہچکچاہٹ کے بغیر کہتا ہوں کہ آگ اس لئے نہیں جلاتی کہ وہ آگ ہے بلکہ آگ اسلئے جلاتی ہے کہ خدا نے اسے کہا ہے کہ جلائے اور وہ جلانے لگ گئی.اسی خدا نے جب اسے یہ کہا کہ نہیں جلانا تو نہیں جلائے گی.اس واسطے میرے لئے تو کوئی الجھن نہیں ہے اور میں بڑے اطمینان اور دلی سکون کے ساتھ اس حقیقت سے واقفیت رکھتا ہوں اور اپنی زندگی میں ان چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہوں لیکن بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کو ابھی کچھ سیکھنا ہے اور جس کو یہ نکتہ سمجھ آ جائے کہ خدا کا حکم قانونِ قدرت کو مئوثر بنا تا ہے.اسی حکم کو ہم قانونِ قدرت کہنے لگ گئے ہیں یعنی یہ اسی کی سنت ہے اور اسی کا ایک اور قانون ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کہہ دیتا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا تو نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایک آدمی بیمار ہو جاتا ہے.اس کی بیماری بڑھتی چلی جاتی ہے.وہ امیر آدمی ہے بڑے بڑے ڈاکٹروں کے پاس جاتا ہے اور بڑے پیسے خرچ کرتا ہے.( میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودات کا مفہوم بیان کر رہا ہوں) روپے پیسے والوں کا جیسا کہ آجکل طریق ہے، وہ انگلستان چلے جاتے ہیں.یورپین ممالک میں چلے جاتے ہیں.امریکہ چلے جاتے ہیں.خدا نے انہیں دولت دی ہے وہ بے شمار دولت خرچ کرتے ہیں لیکن ان میں سے کئی ایک کو ڈاکٹر کہتے ہیں تمہارا مرض لاعلاج ہے.وہ اسے کہتے ہیں ہمیں جو علم تھا.جن ادویہ کو ہم جانتے تھے یا جو علاج ہم کر سکتے تھے اور جو تدابیر ہم اختیار کر سکتے تھے وہ ساری اختیار کی جا چکیں لیکن ہمیں تو یہ نہیں لگتا کہ کیا قصہ ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قصہ تو آسان ہے.خدا تعالیٰ ایسے شخص کے وجود کے ذروں کو حکم دیتا ہے کہ میں نے عام قانون کے مطابق تمہیں ایسا بنایا تھا کہ یہ ادویہ تمہارے اوپر اس رنگ میں اثر انداز ہوں جس رنگ میں ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ ادویہ مئوثر ہو جاتی ہیں اس

Page 434

431 فرموده ۱۹۷۶ء دو ہوتا د و مشعل راه جلد دوم لئے اے انسانی جسم کے ذرو! تم ادویہ کا اثر قبول کرتے تھے اور صحت مند ہو جاتے تھے.خدا فرماتا ہے میں نے دواؤں کے اجزاء سے کہا بلکہ حکم دیا ہوا تھا کہ تم انسانی جسم پر اس رنگ میں اثر انداز ہو جس میں وہ چاہتا ہے اور یہ خدا کا بڑا عجیب حکم ہے.مثلاً ایک دوائی ہے وہ جسم کے کسی نہ کسی خاص حصہ پر اثر کرتی ہے.ہمارا جسم گوشت پوست کا بنا ہوا ہے.کمر کے بعض حصوں کا یا ٹانگوں کا یا دل کا لوتھڑا وہ بھی گوشت ہی کا ٹکڑا ہے یا جگر ہے اور وہ بھی گوشت ہی ہے.اب دیکھو بعض ادویہ ایسی ہیں جو صرف جگر پر اثر کرتی ہیں.پنڈلی کے گوشت پر اثر نہیں کرتیں.بعض ادویہ پنڈلی کے گوشت پر اثر کرتی ہیں لیکن دل کے گوشت پر اثر نہیں کرتیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا ان کو حکم ہے ہے کہ تم نے فلاں جگہ اثر کرنا ہے اور فلاں جگہ اثر نہیں کرنا اس لئے جب خدا تعالیٰ کسی کو ہلاک کرنا چاہتا ہے یا کسی پر اپنی عظمت کو ظاہر کرنا چاہتا ہے (دونوں صورتیں ہو سکتی ہیں) تو خدا تعالیٰ پہلے یہ حکم دیتا ہے کہ اے جسم کے ذرو! ادویہ کا اثر قبول کرنے سے انکار کر دو.اور ادویہ کے اجزاء کو یہ حکم دیتا ہے کہ تم اب انسانی جسم پر اثر نہیں کرو گے.یعنی اس مخصوص انسان کے جسم پر اثر نہیں کرو گے جس کا میں مثالاً ذکر کر رہا ہوں.پھر ساری دنیا کے ڈاکٹر کوشش کر بیٹھتے ہیں اور اپنی تدبیروں کو انتہاء تک پہنچا لیتے ہیں لیکن ادویہ کا اس جسم پر کوئی اثر نہیں ہوتا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ خدا کا ایک بندہ وہ خود یا اس کے لئے کوئی اور دردمند انسان خدا کے حضور شفاء کے لئے دعا کرتا ہے.اس کی صحت اور اس کی زندگی کے دراز ہونے کی دعا مانگتا ہے تب خدا تعالیٰ آسمان سے دو حکم نازل کرتا ہے ایک یہ کہ انسانی جسم کے ذروں کو کہا جاتا ہے کہ تمہیں جو حکم دیا گیا تھا کہ ادویہ کے اثر کو قبول نہ کرو وہ حکم اب واپس لیا جاتا ہے اب تم دواؤں کے اثر کو قبول کرو اور ادویہ کے اجزاء کو آسمان سے اللہ تعالیٰ کا حکم آتا ہے کہ اب تم اس انسان کے لئے موثر بن جاؤ.چنانچہ وہ انسان چنگا بھلا ہو جاتا ہے اور ڈاکٹر دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں.ان کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ مریض کیسے ٹھیک ہو گیا.- ہماری ایک احمدی خاتون کو کینسر تھا بیماری بڑھتی چلی گئی.دوائیں ناکارہ ثابت ہوئیں یہاں تک کہ لاہور کے چوٹی کے فزیشنز (اطباء) نے جو کینسر کے علاج کے ماہر سمجھے جاتے تھے.انہوں نے مریضہ کے رشتہ داروں سے کہا کہ بیماری اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے.اب مریضہ کا بچنا ممکن نہیں رہا.انہوں نے کہا کہ ان کے اندازہ کے مطابق بس دو چار ہفتے تک اور زندہ ہے.پھر یہ مر جائے گی.اب یہ تمہاری مرضی ہے اسے ہسپتال ہی رہنے دو یا اگر چاہو تو اسے آکے لے جاؤ تا کہ وہ اپنے رشتہ داروں عزیزوں اور سہیلیوں سے مل لے.زندگی کے ان چند عارضی ہفتوں میں اپنے عزیزوں اور سہیلیوں میں اس کی طبیعیت بہل جائے گی.چنانچہ اس کے رشتہ دار اسے اپنے گھر لے گئے.اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے ہماری اس بہن کے ایک عزیز کو خواب میں بتایا کہ اسکو فلاں دوائی دو، وہ اثر کرے گی.ساری دوائیں تو انسان کے علم میں نہیں ہوتیں.چنانچہ وہ ہیں جنگل میں وہ بوٹی ملتی تھی.انہوں نے اس کو لیا اور استعمال کروایا.خدا کی یہ شان کہ وہ مریضہ اچھی ہو گئی.جب دو تین مہینے کے بعد اس میں دوبارہ جان آگئی اور وہ پوری طرح صحت مند ہو گئی.تو اس کے رشتے دارا سے اسی چوٹی کے فزیشن کے پاس لے گئے اور بتایا

Page 435

د د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۶ء 432 کہ اسے کینسر ہو گیا تھا اور اب دیکھو یہ کس طرح اچھی ہو گئی ہے.تو وہی ڈاکٹر جس نے یہ کہا تھا کہ اس کی زندگی کے چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں اس لئے اس کو ہسپتال سے گھر لے جاؤ ، اسے صحت مند دیکھ کر کہنے لگا کس احمق ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اسے کینسر ہے.اب وہ کیا کہتے کہ وہ احمق ڈاکٹر تم ہی تھے.اس طرح کے ایک نہیں ، درجنوں نہیں ، بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں واقعات ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے غیر معمولی طور پر شفاء عطا فرمائی.اس سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ ہمارا خدا کتنی قدرتوں کا مالک ہے.اصل حاکم تو وہی ہے.باقی تو اس دنیا میں سارے پر دے ہیں.لیکن جتنا جتنا کوئی اپنی عملی زندگی میں اپنے ماحول میں خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے نشان دیکھتا ہے اتنا زیادہ اس کی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے.میں بتایہ رہاہوں کہ یہ وہ اللہ ہے جسے اسلام نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور یہی وہ اللہ ہے جس کی مدد اور نصرت کے بغیر کوئی چیز ممکن نہیں ہے.اور اس کی مدد اور نصرت کے لئے دعائیں کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دعائیں اس کی مدد اور نصرت کو جذب کرتی ہیں جب دعا اپنی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے اور عاجزی اپنی حدود کو Touch کرنے لگتی ہے تو اس وقت خدا تعالیٰ کا اگر اور جب رحم جوش میں آجائے تو وہ اپنے عام قانون کے نیچے ایک خاص قانون چلاتا ہے اور یہ بھی اسی کا بنایا ہوا قانون ہے.یہ نہیں کہ وہ اپنے قانون کو توڑتا ہے بلکہ ایک قانون کے نیچے ایک اور قانون کارفرما ہے.وہ اس پس پردہ قانون کی تاروں کو کھینچتا اور اپنی قدرت کے معجزانہ تصرفات کو اپنے بندہ کے لئے ظاہر کرتا ہے.پس یہ وہ خدا ہے جس کی طرف اسلام ہمیں بلاتا ہے اور یہی وہ اللہ ہے جس کے ساتھ تمہارا بھی اور میرا بھی ایک ذاتی اور زندہ تعلق قائم ہونا چاہیئے.یہ ٹھیک ہے کہ چھوٹی عمر کے بچے اپنی دینی اور عقلی استعدادوں کے لحاظ سے ابھی اس قابل نہیں کہ وہ اس کی گہرائیوں اور وسعتوں کو سمجھ سکیں لیکن اس راہ پر انہیں ضرور اسی کم سنی کے ایام میں گامزن ہو جانا چاہیئے تا کہ خدا کرے وہ خوش قسمت دن بھی ان پر طلوع کرے جب وہ واقعی میں اپنے زندہ خدا سے زندہ تعلق رکھنے والے بن جائیں.آمین اب ہم دعا کے ساتھ خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی اس تربیتی کلاس کا افتتاح کرتے ہیں.

Page 436

433 فرموده ۱۹۷۶ء دومشعل راه جلد دوم ربوه ۱۸، شهادت ۱۳۵۵ بهش ( ۱۸ اپریل ۱۹۷۶ء بروز اتوار ) اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے ساتھ مجلس خدام الامہ یہ مرکز یہ کا بتیسواں سالانہ اجتماع شروع ہو گیا.اجتماع کا افتتاح سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے نہایت بصیرت افروز خطاب اور اجتماعی دعا کے ساتھ ہوا.حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد پہلے یہ بتایا کہ خدام کا یہ اجتماع پورا اجتماع نہیں ہے کیونکہ دراصل یہ گزشتہ سال منعقد ہونا چاہیے تھا مگر اس وقت چونکہ یہ کسی غلط نہی کی وجہ سے منعقد نہ ہو سکا اس لئے اب تلافی مافات کے طور پر یہ یک روزہ اجتماع منعقد ہوا ہے.اسی سال کے دوران اپنے وقت پر خدا تعالیٰ کے اسے پھر خدام کا سالانہ اجتماع اپنی جملہ روایات کے مطابق منعقد ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ.اس کے بعد حضور نے فرمایا نو جوان خادم کی عمر در اصل عمل کی عمر ہے.جہاں ذہنی اعمال کیلئے ذہنی شعور و فراست کی ضرورت ہوتی ہے وہاں جسمانی عمل کیلئے جسمانی طاقت درکار ہوتی ہے.اس وقت میں خدام کو ان کی ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جن کا تعلق جسمانی طاقت سے ہے.قرآنی اصطلاح میں اعمال مختلف قسم کے ہوتے ہیں ایک عمل صالح اور ایک عمل سدیم.پھر اعمال صالح میں سے بھی ایسے ہوتے ہیں جو حسن عمل کی تمام رعنائیاں لئے ہوئے ہوتے ہیں.دراصل اسلام کے نزدیک روحانی ترقیات کی کوئی انتہاء نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے نزدیک اعمال کا سلسلہ مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے اور ہر لحظہ انسان قرب الہی کی طرف حرکت کرتا چلا جاتا ہے.البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ مرنے کے بعد امتحان کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے.اس دنیا میں جو اعمال ہیں ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو معاشرہ میں فساد، قانون شکنی اور دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے کا موجب ہوتے ہیں.مومن ہمیشہ ایسے اعمال سے اجتناب کرتا ہے.وہ پہلے عمل صالح کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر وہ احسن عمل یعنی بہترین اور آئیڈیل عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے.حقوق اللہ اور حقوق العباد سے تعلق رکھنے والے بعض ظاہری اور بعض منفی اعمال کی تشریح اور ان کی حکمتیں بیان کرنے کے بعد حضور نے فرمایا حقوق العباد کی ادائیگی کا جو حصہ خاص طور پر خدام الاحمدیہ کے سپر د کیا گیا ہے اس کی طرف میں اس وقت خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں پیش آمدہ حالات کی کوئی ایسی تلخی ہر گز تمہارے ذہنوں میں نہیں ہونی چاہیے جو تمہارے خدمت کے جذبہ میں کمی کا موجب ہوں.ہمیں جو کا فرکہا جاتا ہے یہ ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے.قرآن کریم کی رو سے حقیقی مسلمان وہ ہے جو تقی ہو اور یہ فیصلہ کرنا کسی انسان کا کام نہیں بلکہ صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے کہ کون متقی ہے اور کون متقی نہیں ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.فـلا تـــز کــو انفسكم هو اعلم بمن اتقى (سورۃ النجم آیت ۳۳) خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں غلبہ اسلام کیلئے جس مہدی

Page 437

فرمودہ ۱۹۷۶ء 434 د دمشعل را ل راه جلد دوم موعود کو مبعوث کیا ہے اس پر خدا تعالیٰ نے وحی اور الہام کے ذریعہ یہ ظاہر کیا اور یہ گواہی دی کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ مسلمان ہیں.لہذا ہمارا یہ ایمان ہے اور ہم اپنے اس ایمان پر علی وجہ البصیرت قائم ہیں کہ خدا نے ہمیں مسلمان قرار دیا ہے.بیشک ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ملک کی قومی اسمبلی نے ہمیں صرف قانونی یا دستوری اغراض کیلئے مسلمان نہیں سمجھا لیکن ایک مسلمان اپنے اسلام کیلئے کسی قانون یا دستور کا محتاج نہیں ہے.اس کی تو ساری کوشش دعاؤں اور مجاہدات کے ساتھ یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح وہ خدا کی نگاہ میں مسلمان قرار پائے.اس کے نزدیک تو زندگی کا مزا ہی اس میں ہے کہ اسے خدا کا پیار حاصل ہو جائے اور جسے خدا کا پیار حاصل ہو جائے اور وہ خدا کی نگاہ میں منتقی اور مسلمان قرار پائے اسے بھلا اور کیا چاہیے.آخر میں حضور نے فرمایا پس کسی تلخی کی وجہ سے بنی نوع انسان کی بے لوث خدمت کے جذبہ میں ہرگز کوئی کمی نہ آنے پائے.تمہارا فرض ہے کہ پہلے کی طرح اب بھی پوری بشاشت ،شرح صدر اور وقار کے ساتھ اور والہانہ جذبہ کے ماتحت بلا امتیاز ہر انسان کی خدمت کرو.تمہیں یہ خیال تک نہیں آنا چاہیے کہ لوگوں نے تمہیں کیا کہا یا کیا سمجھا.یاد رکھو کوئی ہمارا دشمن نہیں ہے.ہم نے کسی سے نہیں لڑنا البتہ باطل خیالات کو ہم مٹانا چاہتے ہیں اور یہ دشمنی نہیں بلکہ سراسر خیر خواہی ہے.پس جس حد تک بھی اللہ تعالیٰ نے تمہیں طاقت دی ہے تم بلا امتیا ز سب کی خدمت کرنے کی کوشش کرو، حسن عمل کا اعلیٰ نمونہ پیش کرو اور اپنے تئیں حقیقی معنوں میں خادم سمجھو.اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو سمجھ لو کہ تم نے اپنے مقصد کو پا لیا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.اس کے بعد حضور نے پر سوز اجتماعی دعا کرائی اور پھر پونے دس بجے کے قریب واپس تشریف لے گئے.حضور کے تشریف لے جانے کے بعد پروگرام کے مطابق اجتماع کی کارروائی دن بھر جاری رہی.(الفضل ۱۹، اپریل ۱۹۷۶ء)

Page 438

435 فرمودہ ۱۹۷۷ء دومشعل راه جلد دوم مورخہ ۴، نبوت ۱۳۵۶ بهش بمطابق ۴ ، نومبر ۱۹۷۷ء مسجد اقصی کے صحن میں سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے جو خطاب فرمایا تھا اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: - خدام الاحمدیہ کے نمائندے ہر سال اپنے سالانہ اجتماع میں شمولیت اختیار کرتے تھے اور یہاں ان کو ان کے کاموں اور ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی جاتی تھی.لیکن درمیان میں ایک لمبا وقفہ آ گیا اور اس وقفے کی بعد اب چوتھے سال یہ اجتماع ہورہا ہے.اس دوران عمر کے لحاظ سے چار گروہ اطفال سے خدام میں شامل ہو چکے ہیں اور چار گر وہ خدام الاحمدیہ سے نکل کر انصار اللہ میں جاچکے ہیں اور جو دوسرے خدام ہیں ان کو بھی اس اجتماع کے موقعہ پر مرکز میں آنے کے بعد نیکی کی باتیں اور اسلام کی باتیں سننے کے جو مواقع ملتے تھے ان سے وہ حصہ نہیں لے سکے.اس لئے آج اس وقت میں مختصر ا آپ کو آپ کا مقام یاد دلانے کی کوشش کروں گا.خدام الاحمدیہ کا مقام اور ذمہ داری جب تک انسان کو یہ پتہ نہ ہو کہ اس کا مقام کیا ہے اور اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس پر بوجھ کیا ڈالا گیا ہے اور اس کیلئے انعام کیا مقرر کئے گئے ہیں اس وقت اس کے دل میں کام کیلئے دلچسپی اور بشاشت پیدا نہیں ہوتی.اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اسلام کی تعلیم کو سمجھنے لگ جائیں اور فرائض اسلام کو اسلامی ہدایت و شریعت نے ان پر جوفرائض ڈالے ہیں ان کو پہچانے لگیں اور جو انعام اس پر دیئے گئے ہیں وہ ان کی نظر کے سامنے ہوں تو ان کے دل میں ایک بشاشت پیدا ہوتی ہے کہ کام تو ہم نے تھوڑا سا کیا ہے لیکن اس کے بدلے میں غیر متناہی انعامات کا ہم سے وعدہ کیا ہے اور آپ نے فرمایا کہ جس مسلمان کے دل میں اسلام کیلئے بشاشت پیدا ہو جائے تو اس کو کوئی خطرہ نہیں رہتا کہ کہیں وہ گمراہ نہ ہو جائے یا اسے ٹھوکر نہ لگ جائے اور شیطان کا حملہ اس پر کامیاب نہ ہو جائے کیونکہ بشاشت ان ساری چیزوں کے بعد پیدا ہوتی ہے یعنی ایک انسان اسلام کی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہے پھر ان کو تولتا ہے پھر ان کا اندازہ لگاتا ہے کہ کس قسم کی ذمہ داریاں ہیں اور پھر وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ہماری طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ ہم پر نہیں ڈالا گیا بلکہ خدا تعالیٰ نے جو قو تیں اور استعدادیں ہر میدان میں آگے بڑھنے کیلئے ہمیں عطا کی تھیں ان کے عین مطابق ہم پر ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں پھر وہ یہ جانتا ہے کہ جو کچھ بھی ہم اس چھوٹی سی زندگی میں کریں اس کے مقابلہ میں ابدی جنتوں کا وعدہ ہے نہ ختم ہونے والے انعامات کا

Page 439

فرمودہ ۱۹۷۷ء 436 و مشعل راه جلد دوم وعدہ.جن کی آپس میں نسبت ہی کوئی نہیں.یہ محض فضل الہی اور خدا تعالیٰ کی رحمت ہے جو انسان کو اتنے بڑے انعامات کا وارث بنادیتی ہے ورنہ اردو میں ایک محاورہ مشہور ہے کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ.ہمارے اعمال کیا حیثیت رکھتے ہیں.اگر انہی کے مطابق جزا دی جاتی تو اس عمر کے مطابق ہو جاتی.مثلاً اگر کسی نے ساٹھ سال نیکیاں کی ہیں تو اسے ساٹھ سال کیلئے جنت مل جاتی اگر کسی نے اسی سال خدا تعالیٰ کی خاطر تقوی شعاری سے کام لیا ہے تو اسی سال کیلئے خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتیں اس کے نصیب میں لکھ دی جاتیں.لیکن یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ انسان اس مختصری زندگی میں جو کچھ تھوڑا بہت خدا کے حضور پیش کرتا ہے.جب اللہ تعالیٰ اس کی کوشش کو قبول کر لے تو اسے وہ جنتیں ملتی ہیں اور وہ انعامات ملتے ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں جن کا کوئی خاتمہ نہیں اور پھر مرنے کے بعد نہیں بلکہ اس زندگی میں اس کیلئے ایک جنت شروع ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے سائے تلے ہنستا مسکراتا، مخالف قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.پس میرا مقصد اس وقت مختصر تقریر سے یہ ہے کہ میں کوشش کروں کہ آپ اپنے مقام کو پہنچاننے لگیں.نب کریم ﷺ کی بعثت کے ساتھ نوع انسانی جس کا تعلق ہمارے آدم کے ساتھ ہے کی زندگی میں ایک ایسا انقلاب بپا ہو گیا اور ایک ایسی انقلابی حرکت پیدا ہوگئی کہ جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی اور نہ قیامت تک اس قسم کا عظیم انقلاب بپا ہو سکتا ہے.انقلابی حرکت یا انقلاب (ایک چیز جو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے وہ نہیں) بلکہ زمین و آسمان تہ و بالا کر دیئے جائیں اور ایک نئی زمین ہو اور نیا آسمان پیدا ہو جائے.یہ ہے انقلاب.تاہم انسان اپنی کوشش میں انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی ارتقائی مراحل میں سے گذرتا ہے.ترقی کرتا ہے چھوٹے سے بڑا ہوتا ہے.جو کمزور قو میں ہیں وہ طاقتور ہو جاتی ہیں جو سائنس اور تحقیق اور علم میں پیچھے ہوتی ہیں وہ آگے نکل جاتی ہیں وہ زمین کو چھوڑ کر چاند پر پہنچ جاتی ہیں اور دنیا کو اکٹھا کرنے کے خواب دیکھنے لگتی ہیں.اشتراکی انقلاب نے ساری دنیا کے انسان کے ایک حصہ کو جس کو ہم ایک بڑا حصہ کہہ سکتے ہیں اکٹھا کرنے کے خواب دیکھے تھے.جب انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ Proletariat of world unite کہ سارے غریب اور وہ لوگ جن پر ظلم ہورہا ہے جن کا استحصال کیا جارہا ہے اکٹھے ہو جاؤ.ہم تم سب کو ساتھ ملا کر تمہیں ظلم سے نجات دلائیں گے.استحصال سے تم چھٹکارا حاصل کرو گے اور پھر ترقیات کی راہ پر اور آگے بڑھیں گے.لیکن ابھی کتنا وقت گزرا.ساٹھ سال کے قریب سمجھ لیں آپ ، اور ابھی سے ان کی حرکت آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف ہونی شروع ہوگئی ہے اور وہ جنہوں نے ساری دنیا کے Proletariat (پرولیٹریٹ ) کو یہ کہا تھا کہ unite ( یونائٹ) اکٹھے ہو جاؤ ہم تمہارے ساتھ مل کر تمہاری قیادت کر کے تمہیں ہدایت دے کر اوپر ہی اوپر لے جاتے چلے جائیں گے.وہی لوگ جو ساری دنیا کے Proletariat کو ، غریب اور مظلوم کو اکٹھا کر رہے تھے انہوں نے بعض دوسری قوموں کے ساتھ مل کر اپنے تاثرات کا دائرہ مقرر کر لیا کہ دنیا کے یہ حصے میرے influence ( انفلوئنس) اور یہ حصے تمہارے influence میں ہوں گے.یعنی جن کے ساتھ لڑائی تھی جن کو

Page 440

437 فرمودہ ۱۹۷۷ ء د و مشعل راه جلد دوم وہ ظالم کہ رہے تھے دنیا کے Proletariat کا ایک حصہ ان کے سپر د کر دیا.پس وہ جو ساری دنیا کو اکٹھا کر کے ایک انقلاب بر پا کرنے کا منصوبہ تھا وہ تو زون کی اس تقسیم کے نتیجہ میں دھڑام سے زمین پر گر گیا اور کامیاب نہیں ہوا.عظیم انقلاب نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ سے ایک عظیم انقلاب دنیوی بھی اور روحانی بھی باہوا اور کہا گیا کہ یہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا چلا جائے گا یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ ساری دنیا کے انسانوں کو صرف Proletariat کو نہیں بلکہ مظلوم کو بھی اور ظالم کو بھی اپنے احاطہ میں لے لے گا.مظلوم کو مظلومیت سے نجات دلائے گا اور ظالم کو اس کے اندر جو ظلم کرنے کی خرابی اور بدی پائی جاتی ہے اس سے نجات دلائے گا.اور ہر دوخدا تعالیٰ کی رحمت کے سائے تلے اکٹھے ہو جائیں گے.بتایا یہ گیا کہ یہ عظیم انقلاب جو محمد ﷺ کے ذریعہ شروع ہوا ہے آخری زمانہ کے آنے تک ( یعنی جس کو آخری زمانہ کہا گیا ہے اس کی ابتدا ء تک) تو اس کی شکل یہ بنے گی کہ مد و جزر ہوگا.کبھی دنیا کے ایک حصہ میں نیکی کا اور تقویٰ کا اور انصاف اور عدل کا اور پیار کا اور بھائی چارے کا اور خیر خواہی کا انقلاب بپا ہوگا.اور دوسری طرف ایک تنزل شروع ہو جائے گا.لیکن مجموعی طور پر آسمانوں کی طرف بلند ہوتا ہوا ایک گراف بنے گا.پھر خیر القرون کی تین صدیوں کے بعد یعنی محمد رسول اللہ علیہ کی صدی اور بعد کی دوصدیاں گزرنے کے بعد پھر ایک تنزل کا زمانہ آئے گا لیکن وہ ناکامی کا زمانہ نہیں ہوگا یعنی وہ زمانہ ایسا نہیں ہوگا کہ ہم کہیں کہ انقلاب نا کام ہوگیا بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ انقلاب کے اندر ایک سستی پیدا ہوگئی اور جس تیزی کے ساتھ وہ آسمانی رفعتوں کی طرف بڑھ رہا تھا وہ تیزی باقی نہیں رہی اور اس کے ایک حصہ میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوگئیں.بہت سے بد اثرات آگئے.بہت سی بدعات آ گئیں بہت سے ظلم داخل ہو گئے لیکن ایک حصہ ایسا بھی رہا جس کو محاورے میں Hard Core (ہارڈ کور ) کہا جاتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے ایسے فدائی اور جاں نثار کہ جن کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ پر قربان اور اس کی تعلیم اور ہدایت کی اشاعت کیلئے وقف تھا.ایسے لوگ بھی موجود تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ جو تنزل کا زمانہ تھا جس کو نبی اکرم ﷺ نے فیج اعوج کا زمانہ قراردیا ہے.جس میں ظلمات میں پھر ایک حرکت پیدا ہوئی، اور انقلاب کی رفتار میں ، اس کی حرکت میں ایک کمی اور سستی پیدا ہوگئی اس میں بھی خدا تعالیٰ کے مقربین دریائے عظیم کی طرح تھے.لیکن یہ نہیں ہے کہ اس کی خبر نہ دی گئی ہو بلکہ پہلے سے خبر دی گئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ پہلی تین صدیوں میں یہ انقلاب عظیم ترقی کرے گا.پھر اس میں ستی پیدا ہوگی.اور پھر ایک ہزار سال تک اس میں آہستہ آہستہ ستی بڑھتی چلی جائے گی.لیکن اس وقت بھی انقلابی گروہ اپنے مقام کو پہنچانتا ہوگا اور پختگی کے ساتھ اپنے مقام پر کھڑا ہوگا اور پھر ایک حرکت آسمانوں کی طرف شروع ہوگی اور پھر آخری جنگ ہوگی نیکی کی بدی کے ساتھ اور صلاحیت کی شیطانی طاقتوں کے ساتھ اور نور کی ظلمت کے ساتھ اور پھر وہ بڑھتی

Page 441

د دمشعل دوم فرمودہ ۱۹۷۷ء 438 چلی جائے گی یہاں تک کہ آخری کامیابی محمد رسول اللہ ﷺ کے انقلاب کو حاصل ہو جائے گی اور دوسرے سارے انقلاب دب جائیں گے اور ناکام ہو جائیں گے اور ختم ہو جائیں گے اور اپنی شکست کو تسلیم کرلیں گے اور پھر وہ انقلابی بھی محمد رسول اللہ علیہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے.سرمایہ دارانہ انقلاب خدا تعالیٰ کی یہ عجیب شان ہے کہ محمد رسول اللہ ہے کے ذریعہ دنیا میں جو انقلاب پیدا کیا گیا جو حرکت قائم کی گئی اس کے اس دور میں جو آخری زمانے کے قرب کا زمانہ تھا اور آخری دور کی ابتداء کا زمانہ تھا (یعنی آخری زمانے کا ابتدائی حصہ اور اس سے کچھ پہلے کا زمانہ ) اس میں تین زبر دست غیر اسلامی انقلابی حرکتیں پیدا کی گئی.یعنی وہ انقلابی حرکتیں تو تھیں لیکن اسلامی نہیں تھیں.ایک حرکت پیدا ہوئی سرمایہ داروں کی سرمایہ دارانہ نظام انقلابی نظام ہے اور بڑا زبردست انقلابی نظام ہے.سرمایہ دارانہ انقلابی نظام کے اس دور میں صنعت نے انقلابی ترقی کی، زراعت نے انقلابی ترقی کی ، علوم نے انقلابی ترقی کی.ذرائع آمد و رفت اور نقل و حمل نے انقلابی ترقی کی.یعنی انسان کو جلد تر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا انتظام ہوا.اس کی آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا انتظام ہوا ( ٹیلیفون) اس کے پیغام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا انتظام ہوا ( ٹیلیگراف اور ٹیلیکس وغیرہ ) انسان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کیلئے موٹر ، ہوائی جہاز اور دخانی کشتیاں بن گئیں.غرض سرمایہ دارانہ انقلاب بڑا عظیم انقلاب تھا اس میں چھاپے خانے بن گئے.کتابیں کثرت سے شائع ہونے کا امکان ہو گیا اور نوع انسانی کو اس سرمایہ دارانہ انقلاب نے ایک دوسرے کے بہت قریب کر دیا اور سرمایہ دارانہ انقلاب اگر چه غیر اسلامی انقلاب ہے لیکن اس نے اسلامی انقلاب کیلئے راہ ہموار کر دی اور اس کیلئے سہولتیں بہم پہنچا دیں.روسی انقلاب اس کے بعد جو دوسرا انقلاب آیا وہ Russian Revolution (رشین ریوولیوشن ) کی شکل میں آیا.روی انقلاب سرمایہ دارانہ انقلاب کی بنیادوں پر علمی تحقیق میں زیادہ توجہ دے کر آگے بڑھا ہے اور اس وقت وہ باہر کی دنیا میں غالبا سب سے زیادہ آگے نکل چکا ہے.اس کے بعد پھر اس کی نقل کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ ممالک امریکہ اور دوسرے یورپین ممالک اس کے پیچھے چلے.تاہم روسی انقلاب نے سرمایہ دارانہ مادی انقلاب کے اوپر ایک ذہنی انقلاب کی عمارت بنائی اور اگرچہ اس ذہنی انقلاب نے نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کی بجائے بہت حد تک نقصان پہنچایا.لیکن اس نے بھی محمد اللہ کے عظیم انقلاب کو عروج پر پہنچانے کی جو تحریک شروع ہو چکی ہے اس کیلئے بہت سی سہولتیں پیدا کر دیں اور اسلام سے باہر تیسرا انقلاب اخلاقی آیا.یہ اخلاقی انقلاب پہلے دو

Page 442

439 فرمودہ ۱۹۷۷ء د و مشعل راه جلد دوم دد انقلابوں کی عمارت پر تیسری منزل ہے.سوشلزم سرمایہ دارانہ انقلاب پہلی منزل، پھر علمی اور ذہنی انقلاب یعنی روسی انقلاب دوسری منزل اور اس پر تیسری منزل اخلاقی انقلاب، وہ ہے Chiness Socialism (چائنیز سوشلزم ) ہر انقلاب نے اپنے سے پہلے منزل کے اوپر عمارت بنائی.گویا پہلوں سے بھی فائدہ اٹھایا.چینی انقلاب Russian Intellectual Revolution (رشین اسٹیلیکچوئل ریوولیوشن) نے سرمایہ دارنہ انقلاب کے اوپر اپنی عمارت کھڑی کی اور چین کے اخلاقی انقلاب نے جو ابھی اپنے بچپنے میں ہے سرمایہ دارانہ انقلاب اور ذہنی انقلاب روسی کمیونزم کے اوپر اخلاق کی ایک منزل کی بنیاد رکھی روسی انقلاب نے اخلاق کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور ان کی کتب میں کبھی ایسے اقتباسات بھی ہمیں نظر آجاتے ہیں کہ انہوں نے اخلاق کو حقارت سے دیکھا ہو کہ یہ کیا چیز ہے؟ حالانکہ خدا تعالیٰ نے جو زبر دست صلاحیتیں اور قو تیں انسان کو دی ہیں ان میں سے ایک حصہ اخلاقی طاقتوں کا بھی ہے.بہر حال ان تین انقلابوں نے جو کہ غیر اسلامی تھے اسلامی انقلاب کیلئے جو اپنی ذات میں ایک زبردست روحانی انقلاب ہے راہ ہموار کر دی.وہ عظیم روحانی انقلاب جس نے اخلاقی قدروں اور ذہنی قوتوں اور سرمایہ دارانہ نظام میں خدا تعالیٰ کی نعمتوں ان اسباب سے فائدہ اٹھا کر اپنا کام کرنا تھا اور ہر ایک چیز کو انسان کی روح میں جلا پیدا کرنے کیلئے استعمال کرنا تھا اور اس عظیم انقلاب نے اپنا کام شروع کر دیا ہے.صلى الله میں نے بتایا ہے کہ محمد ﷺ کے زمانہ سے یہ انقلاب شروع ہوا.تین سو سال تک اس میں بڑی وسعت پیدا ہوئی.اس اسلامی انقلاب کی یہ جماعتیں اپنے اپنے قائدین کی قیادت میں دنیا کے مختلف حصوں میں انقلاب کی شاہراہ پر آگے ہی آگے بڑھ رہی تھیں لیکن محمد اللہ کے انقلاب عظیم کا نوع انسانی کو جو ایک خاندان بناد.منصوبہ تھا اس مقصد کو پورا کرنے والی کوئی طاقت ہمیں ان کے اندر نظر نہیں آتی بلکہ ان میں اختلاف کی بہت سی وجوہ پیدا ہوگئیں.کہا گیا کہ هو الذی ارسل رسوله بالهدی و دين الحق ليظهره على الدين كله صلى الله ولو كره المشركون (الصف آیت۱۰ ) کہ محمد ﷺ آگئے.ایک کامل اور مکمل شریعت اور ہدایت انسان کے ہاتھ میں دے دی گئی اور ایک انقلاب عظیم بپا ہو گیا.لیظهره علی الدین کلہ.اب اس انقلاب عظیم کے نتیجہ میں اسلام تمام ادیان پر غالب آئے گا.اور تمام از مز (Isms) اور اصول اور فلسفے جو اخلاقیات پر بحث کر رہے ہیں اور ذہنی قوتوں پر بحث کر رہے ہیں ان سب کی غلطیوں کو ظاہر کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے ماننے والوں کو اللہ تعالیٰ اتنا علم دے گا کہ وہ آج کی علم میں آگے بڑھی ہوئی دنیا کے نہ صرف غلط حملوں سے اسلام کو بچائیں گے بلکہ ان کی تحقیق کی غلطیوں کو ثابت کریں گے اور خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ ایسا ہی ہورہا ہے.مثلاً میں باہر جاتا ہوں (خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ) اور ان کے بڑے بڑے سکالرز سے بات کرتا ہوں تو

Page 443

د و مشعل راه جلد دوم فرمودہ ۱۹۷۷ء الله 440 اللہ تعالیٰ مجھے ان کو یہ بتانے کی توفیق دیتا ہے کہ تم نے جوریسرچ کی ہے اس کے اندر یہ غلطیاں ہیں اور اسلام نے جو اصول ہمارے سامنے رکھے ہیں وہ ان چیزوں سے کہیں بالا ہیں جو تمہاری تحقیق نے علم کے میدان میں دریافت کی ہیں.ھوالذی ارسل رسوله بالهدى و دين الحق ليظهره على الدين كله - یہ کام اس انقلاب عظیم کا عروج ہے کہ اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب آجائے اور نوع انسانی کو امت واحدہ بنادے اور یہ اس کی صلى الله اصل غرض ہے محمد ﷺ کے ذریعے آپ کی بعثت کے ساتھ جو انقلاب عظیم برپا ہوا اس کا اصل مقصد یہی تھا کہ سارے کے سارے انسان کیا مغرب میں بسنے والے کیا مشرق میں بسنے والے کیا شمال میں کیا جنوب میں کیا براعظموں میں کیا جزائر میں سارے کے سارے ایک خاندان کی طرح ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر یہ مقصد آپ کی زندگی میں ہی یا پہلی تین صدیوں میں پورا ہو جا تا تو لوگ سمجھتے کہ چونکہ آخری مقصد پورا ہو گیا ہے اس لئے آپ کا زمانہ بھی ختم ہو گیا.یہ مدعی اللہ کا انقلاب ہے اور محمد ﷺ کی قوت قدسیہ اور روحانی افاضہ کے ذریعہ سے ہی اس نے پیدا ہونا ہے.لیکن اس کے آخری مقصد کے پورا ہونے کا تعلق آخری زمانہ سے ہے اور وہ یہ زمانہ ہے ( آپ صلعم ) کے ایک خادم مسیح موعود کا زمانہ ! اپس آپ وہ لوگ ہیں جن کے کندھوں پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ محمد ﷺ کو جو بشارت دی گئی تھی کہ آپ کو جو دین دیا گیا ہے جو شریعت عطا کی گئی ہے.جو مذہب دیا گیا ہے یعنی اسلام وہ تمام نوع انسانی کو امت واحدہ بنادے گا اس کیلئے آپ جد و جہد کریں.اسلام ایک انقلاب عظیم ہے، اتناز بردست انقلاب کہ نہ پہلے کبھی آیا اور نہ آئندہ کبھی آئے گا.اس کے نتیجے میں سارے انسان ہینکڑوں قسم کی بولیاں بولنے والے، جن کی عادتیں مختلف ، جن کا رہن سہن مختلف، سارے کے سارے انسان اسلام کی روشنی حاصل کرنے کے بعد محمدعلیہ کے جھنڈے تلے جمع کر دئیے جائیں گے اور یہ کام مہدی کے زمانہ میں مقدر تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اور صرف آپ نے ہی نہیں فرمایا بلکہ پہلوں نے بھی لکھا ہے.امت کے جو بڑے بڑے بزرگ علماء پہلے گزرے ہیں انہوں نے بھی کہا ہے کہ آیت ھو الذی ارسل رسول بالهدى و دين الحق ليظهره على الدين كله کے مطابق ساری دنیا میں اسلام کا کامل غلبہ آخری زمانہ میں مہدی کے ہاتھ سے ہوگا جو کہ محمد علیہ کا ایک روحانی فرزند ہے.جس کا پیار اپنے آقا محمد اللہ سے اتنا عظیم ہے کہ جب آپ محمد ﷺ کی بات کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی روح کی صرف یہی پکار ہے کہ میں تو کوئی چیز نہیں ہوں سب کچھ محمد یا اللہ کا ہے اور انہی کی خدمت پر میں مقر ر کیا گیا ہوں.احمدی کی ذمہ داری محمد اللہ کے اس خادم نے محمد ی ہے کے اس روحانی فرزند نے ایک ایسی جماعت پیدا کرنی ہے اور خدا کے منل سے پیدا کی ہے جن کے ذریعہ سے، جن کی دعاؤں کے ذریعہ سے، جن کی مالی قربانیوں کے ذریعہ سے ، جن

Page 444

441 صلى الله فرمودہ ۱۹۷۷ ء د و مشعل راه جلد دوم دد کی وقت کی قربانیوں کے ذریعے سے، جن کے ایثار کے نتیجہ میں ، جن کے مجاہدہ کی وجہ سے دنیا میں یہ انقلاب عظیم اپنے عروج پر پہنچنے والا ہے اور آپ میں سے ہر شخص اس جماعت کا ایک فرد ہے.جس کے ذریعہ سے یہ کام ہوگا.محمد ﷺ نے بھی فرمایا اور پہلے بزرگوں نے بھی آپ کی احادیث اور اقوال کو سمجھ کر یہ فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے یہی سمجھایا اور آپ کو یہ بشارتیں دیں کہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں بنی نوع انسان ایک خاندان بنا دئیے جائیں گے.اب آپ سوچیں کہ اس ذمہ داری کے نتیجہ میں آپ کو کیا کیا کچھ چھوڑنا پڑے گا اور کیا کیا کچھ لینا پڑے گا.اصل بات یہ ہے کہ ہر احمدی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا سب کچھ اپنے خدا کے حضور پیش کر دے اور خدا تعالیٰ سے یہ مانگے کہ اے خدا ہر وہ چیز جس کی اس انقلاب عظیم کو کامیاب کرنے کیلئے ضرورت ہے وہ ہمیں عطا کر دے.بڑی ذمہ داری ہے، بڑی ذمہ داری ہے، آدمی سوچتا ہے تو بہت پریشان ہوتا ہے اپنی کمزوریوں کو دیکھتا ہے تو ہمت ٹوٹنے لگتی ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے جو بشارتیں دی ہیں خدا تعالیٰ نے جو وعدے کئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے جو یہ اعلان کیا ہے کہ میں اپنے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کیا کرتا.اپنے وعدے پورے کیا کرتا ہوں اس پر ہمارا بھروسہ ہے.ایک طرف نیستی کا اقرار ہر احمدی کا اقرار ہے کہ ہم لاشئی محض ہیں اور ہم کوئی چیز نہیں.اور ایک طرف یہ اعلان ہے کہ جس عظیم ہستی کا ہم نے دامن پکڑا ہے یعنی اللہ تعالیٰ وہ ساری قدرتوں کی مالک ہے اور اس کے آگے کوئی چیز انہونی نہیں اور یہ اعلان کہ جس عظیم انسان محمد خاتم الانبیاء کا عشق ہمارے دل میں پیدا ہوا ہے اس کے افاضۂ روحانی کی کوئی حد بست نہیں کی جاسکتی بلکہ وہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے اور ہر ضرورت کو پورا کرنے والا ہے.دعا اور درود اسی واسطے میں نے آج کہا تھا کہ ہمارا یہ اجتماع جو کئی سال کے وقفہ کے بعد ہوا ہے اس کی خصوصیت میں دعا اور درود قرار دیتا ہوں کہ دعائیں کریں اور درود بھیجیں.دعا آپ سبھی عاجزی سے کر سکتے ہیں جب آپ اپنے مقام کو پہچانتے ہوں جب آپ اپنی ذمہ داریوں کو جانتے ہوں.جب آپ اس انقلاب عظیم کا احساس اپنے دل میں پیدا کریں.اور جب آپ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ اپنی کوشش سے ہم نوع انسان کا دل محمد ﷺ کیلئے نہیں جیت سکتے.اور یہ سچی بات ہے کہ نہیں جیت سکتے جب تک آسمان سے فرشتے نازل ہو کر ہماری مدد نہ کریں.اس وقت تک ہم نوع انسانی کا دل کیسے جیت سکتے ہیں؟ پیدا کرنے والے رب کیلئے اور محمد مال اللہ کیلئے محمدمے کے جھنڈے تلے نوع انسانی ضرور جمع ہوں گی کیونکہ یہ خدا کا وعدہ ہے اور یہ پورا ہوکر رہے گا.لیکن جس چیز کی ہمیں فکر کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی ہرنسل اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور اس کے مطابق قربانیاں دینے کیلئے تیار ہو.اسی لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں کہا تھا.فلا تخشو هم واخشونی (البقرۃ آیت ۱۵۱) دنیا کی کسی چیز کا الله

Page 445

فرمودہ ۱۹۷۷ء 442 د مشعل راه جلد دوم رمیرے دل میں پیدا نہ بلکہ میری خشیت پیدا ہو.اور ہر وقت تمہیں یہ خوف رہے کہ تمہاری کسی غلطی کے نتیجہ میں کہیں میں تم سے ناراض نہ ہو جاؤں.اگر یہ احساس دل میں پیدا ہو جائے.اگر اس احساس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ ہم سے جو تقاضا کرتا ہے وہ ہم پورا کرنے لگ جائیں.اگر اس احساس کے نتیجہ میں ہم بنی نوع انسان کے خیر خواہ بن جائیں.اگر ہم راتوں کو اُٹھ کر ان لوگوں کیلئے دعائیں کریں جو ہمارا نام بھی حقارت سے لیتے ہیں تو ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے ہوں گے.روس میں بسنے والے یا امریکہ میں رہائش پذیر ہمیں حقارت سے دیکھتے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں.لیکن وہ نادان ہیں ان کو پتہ نہیں کہ جو کچھ انہوں نے حاصل کیا ہے وہ کچھ چیز نہیں.اور جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے وہ اس کے مقابلہ میں ایک عظیم چیز ہے.لیکن ان کو بتانا ، ان کو سمجھانا، حسن اور احسان کے ذریعہ سے ان کے دلوں کو خدا اور اس کے رسول ﷺ کیلئے جیتنا یہ میرا اور آپ کا کام ہے اور ہر آنے والی نسل کا کام ہے.غلبہ اسلام کی صدی اور اس کے لئے تیاریاں صلى الله ہم نے کچھ اندازے لگائے میرا اندازہ ہے کہ آنے والی صدی جس میں کہ اب گیارہ بارہ سال رہ گئے ہیں.غلبہ اسلام کی صدی ہے.اس اگلی صدی میں یعنی جماعت احمدیہ کے قیام کی دوسری صدی میں دنیا میں ایسے انقلابی حالات پیدا ہو جائیں گے کہ اب جو دنیا کہتی ہے کہ یہ کیا پاگلوں والی باتیں کرتے ہیں.ایک اتنی سی جماعت ہے، غریب جماعت، دھتکاری ہوئی جماعت جو برسراقتدار نہیں ہے.ساری دنیا کی طاقتیں اس کے خلاف ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم نے ساری دنیا کے دل خدا اور اس کے رسول کیلئے جیت لینے ہیں.اس دنیا کا ایک حصہ سمجھنے لگے گا کہ جو کچھ کہا گیا اس میں صداقت معلوم ہوتی ہے اور ایک حصہ تو اسلام کی گود میں آجائے گا اور محمد اے کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گا.پس اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے.اور اس سے پہلے پہلے تیاری کا زمانہ ہے صدی کے آنے میں جو گیارہ بارہ سال رہ گئے ہیں ان میں ہمیں سب سے زیادہ تو دعاؤں کے ساتھ تیاری کرنی چاہیے دعا اس انسان کیلئے بھی کہ جو آپ کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے.دعا اس انسان کیلئے بھی کہ جو پ کی باتوں کو جوخدا نے محمد ﷺ کے طفیل آپ کو بتا ئیں سنتا ہے اور آپ کو پاگل سمجھتا ہے اور دعا اس انسان کیلئے بھی کہ جو اپنی گندی زیست میں اس طرح پھنسا ہوا ہے کہ اس کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں اور یہ انقلاب اب آہستہ آہستہ نظر آنے لگ گیا ہے.جب ان لوگوں سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ تعلیم تو بڑی اچھی ہے لیکن اور لیکن کے آگے ان کا مطلب ہوتا ہے کہ جس زندگی میں ہم پھنس گئے ہیں اور گندی عادتیں پڑگئی ہیں.عیش وعشرت میں ہم پڑے ہوئے ہیں اس زندگی کو چھوڑنے کیلئے ہم تیار نہیں.تعلیم کے حسن اور خوبی کا اقرار تو بہت سے کر لیتے ہیں لیکن عملاً اس کو قبول کر کے اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال کر اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو صحیح طور پر نشو و نما دے کر اس انقلاب عظیم کو پیدا کرنے کی مہم کا ایک حصہ بن جانے کیلئے تیار نہیں ہوتے جو ہر لحاظ سے ایک حقیقی

Page 446

443 فرمودہ ۱۹۷۷ء انقلاب ہے.د و مشعل راه جلد دوم دد کتب حضرت مسیح موعود کے مطالعہ کی اہمیت پس یہ ہے ایک احمدی کا مقام اور اس کو سمجھنے کیلئے اور اس کو یا در کھنے کیلئے پہلی اور آخری ضروری چیز یہ ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو کثرت سے پڑھا کریں.کیونکہ انہوں نے ہی ہمیں یہ باتیں بتائی ہیں.ہمیں یہ بتانے والا کون ہے؟ کہ یہ آخری زمانہ ہے اور وہ انقلاب عظیم جو محمد ﷺ کی بعثت سے شروع ہوا تھا وہ اس زمانہ میں اپنے عروج کو پہنچنے والا ہے اور نوع انسان امت واحدہ اور ایک خاندان بننے والی ہے.ہمیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا ہے اور کسی نے نہیں بتایا.اور پھر اس مقصد کے حصول کیلئے جس چیز کی ضرورت تھی.علمی لحاظ سے یا اخلاقی لحاظ سے یا روحانی لحاظ سے یا مجاہدہ کے لحاظ سے یا ایثار کے لحاظ سے یا قربانی کے لحاظ سے اس کا علم بھی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جو کچھ بھی لکھا یا کہا ہے وہ قرآن عظیم کی تفسیر ہے یا محمد اللہ کے ارشادات کی شرح ہے اس لئے کہ قرآن کریم ایک کامل اور مکمل ہدایت ہے اور دنیا میں کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا اور نہ جن سکتی ہے کہ جو دنیا میں آکر یہ اعلان کرے کہ میں قرآن کریم سے یہ چیز زائد تمہیں بتا رہا ہوں جو قرآن کریم نے نہیں بتائی تھی اور تمہارے لئے ضروری ہے.یا یہ چیز اس میں سے نکال رہا ہوں اس کی اب ضرورت نہیں رہی.قرآن کریم میں ہے اور پہلے وقتوں میں اس کی ضرورت ہوگی لیکن اب اس کی ضرورت نہیں.قرآن کریم میں کوئی ناسخ اور منسوخ نہیں.کوئی آیت قرآن کریم کی منسوخ نہیں.کوئی لفظ قرآن کریم کا منسوخ نہیں.کوئی حرف قرآن کریم کا منسوخ نہیں کوئی زیر زبر اور پیش اور کوئی نقطہ قرآن کریم کا منسوخ نہیں.یہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام.ہمیں دی ہے.آج کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ، آج کی ذمہ داریوں کو نباہنے کیلئے اور یہ انقلاب عظیم جو اپنے عروج کی طرف حرکت میں آ گیا ہے اس حرکت کا ایک حصہ بنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا پڑ ضروری ہے.ایک بات میں بتادوں اور میں اپنے تجربے سے کہتا ہوں اور علی وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جوتفسیر قرآنی ہمارے ہاتھ میں دی ہے وہ اتنی عظیم ہے کہ آپ کی کوئی کتاب لے لو چھوٹی ہو یا بڑی اور اس کو سو دفعہ پڑھو سو دفعہ ہی آپ کو اس میں سے نئے معانی نظر آجائیں گے.یہ اس قسم کی تفسیر ہے.آپ کی کتب عام کتابوں کی طرح نہیں بلکہ خدا سے سیکھی ہیں.قرآن کریم کی یہ تیسر محمد اللہ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اور آپ پر فدا ہو کر فنافی الرسول کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو خدا نے سکھائی اور خدا خود آپ کا معلم بن گیا.اور عظیم ہے آپ کا کلام اور اس میں اتنا پیار ہے ایک طرف اپنے رب کریم کے ساتھ اور دوسری طرف محمد کے ساتھ کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے اور بات بھی درست ہے کیونکہ اتناعظیم انقلاب بپا کرنے والی

Page 447

د دمشعل دوم فرمودہ ۱۹۷۷ء 444 ہستی یعنی محمدعا ہے کہ تیرہ سو سال سے بلکہ اب چودہ سو سال ہو گئے.ایک انقلابی حرکت شروع ہوئی لیکن اس پر بڑے حملے ہوئے اور اس تعلیم پر ہزار ہا اعتراضات ہوئے.عیسائیت کو چیلنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ عیسائیوں کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ ہر سال تم کئی ہزار اعتراض اسلام پر کر دیتے ہو اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو قیامت تک پتہ نہیں لگ سکتا کہ عیسائیت کچی ہے یا اسلام.اس لئے آؤ فیصلہ کرلیں میں تمہیں ایک گر بتاتا ہوں ایک فیصلے کا طریق بتاتا ہوں اور وہ بڑا عظیم ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم چیز آپ کو سکھائی.آپ نے فرمایا کہ ساری دنیا کے پادری سر جوڑیں اور فیصلہ کریں کہ اسلام پر سب سے زیادہ وزنی اعتراض کونسا پڑتا ہے.وہ سوچ کر اس نتیجہ پر پہنچیں کہ اس اعتراض سے زیادہ وزنی اور کوئی اعتراض اسلام پر نہیں.اور جس کے متعلق تم نے فیصلہ کیا ہو کہ یہ اسلام پر سب سے وزنی اعتراض ہے اس کو میرے سامنے پیش کرو.میں اس اعتراض کو رد کروں گا اور جس جگہ تم نے اعتراض کیا ہے اس جگہ سے اسلام کا حسن نکال کر تمہارے سامنے پیش کروں گا کہ یہ جائے اعتراض نہیں ہے بلکہ بہت عظیم تعلیم اس کے اندر پوشیدہ ہے جس پر تم اعتراض کر رہے ہو.اور اگر میں ایسا کردوں اور جس اعتراض کے متعلق تم سب سر جوڑ کر اس فیصلہ پر پہنچے ہو کہ اس سے زیادہ وزنی اور کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اگر اس کو میں باطل قرار دے دوں تو جو اعتراضات خود تمہارے نزدیک اس سے کم وزن والے ہیں وہ خود بخو دور ہو جائیں گے اور لمبی بحث کی ضرورت نہیں ہوگی.آج سے قریبا ستر سال پہلے عیسائیت کو یہ چیلنج دیا گیا تھا لیکن انہوں نے یہ چیلنج قبول نہیں کیا.۶۷ء میں ڈنمارک میں مجھے عیسائی پادریوں کے دو گروہ ملے تھے.میں نے ان کو کہا کہ اتنا لمبا زمانہ گزرا تمہیں یہ چیلنج دیا گیا تھا تم نے اب بھی اعتراض کرنے نہیں چھوڑے اسلام پر.حالانکہ تمہیں یہ کہا گیا تھا کہ ایک دفعہ فیصلہ کر لو کہ اسلام سچا ہے یا عیسائیت کچی ہے.اور میں نے انہیں کہا کہ تم یہ بہانہ نہیں کر سکتے کہ تم یہ کہ دو کہ جس نے پہیلنج دیا تھا اس کا توبر المبازمانہ گزر ۱۹۹۸ء میں وصال ہو گیا تھا.اگر آج ہم چیلنج قبول کر لیں تو کس کو جا کر کہیں کہ ہم نے چیلنج قبول کر لیا ہے.ہم سے آکر مقابلہ کرو اس لئے کہ میں نائب مہدی ومسیح کی حیثیت سے اور خلیفہ اسیح کی حیثیت سے تمہیں کہتا ہوں کہ تم چیلنج قبول کرو میں تمہارے اعتراض کا جواب دوں گا.یہ ۶۷ ء کی بات ہے اس کو بھی دس سال ہو گئے.لیکن انہوں نے چیلنج قبول نہیں کیا اور اپنی خفت مٹانے کیلئے انہوں نے کہا یہ کہ :- (ڈنمارک کا ایک صحافی ہے دو سال ہوئے یہاں بھی آیا تھا.اس نے مجھے بتایا کہ پادری وہاں کہتے ہیں کہ ) وہ تو ہمارے ساتھ بڑے تیز ہو گئے تھے.میں نے اس کو کہا کہ میں تیز نہیں ہوا تھا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے انہیں کہا تھا کہ لمبا زمانہ ہوا یہ چیلنج دیا گیا تھا تم اس کو قبول کرو اور مقابلہ کرتے ہیں وہ حیران ہو کر کہنے لگا اچھا یہ بات ہے تو میں جا کر اپنے اخبار میں ان کی خبر لیتا ہوں.پتہ نہیں خبر ملی یا نہیں لی.بہر حال اس کو یہ بات سمجھ آگئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة

Page 448

445 فرمودہ ۱۹۷۷ء صلى دو مشعل راه جلد دوم والسلام نے اللہ تعالیٰ سے قرآن کریم کا علم حاصل کر کے دنیا کے جس قدر اعتراض اسلام پر پڑ سکتے ہیں ان کو دور کرنے کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.روس کے اور دہریوں کے اسلام پر بے شمار اعتراضات ہیں لیکن وہ لوگ ہم سے بات نہیں کر سکتے.ہم عقلی دلائل دیں گے وہ مذہب کو نہیں مانتے.لیکن ایک مذہبی دلائل ہوتے ہیں اور ایک عقلی دلائل ہوتے ہیں.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کی روشنی میں عقلی دلائل سے ثابت کریں گے کہ اسلام پر تمہارے جو اعتراضات ہیں وہ باطل ہیں اور بودے ہیں اور ان کے اندر ذرہ بھر بھی حقیقت نہیں اور ساری دنیا کو یہ چیلنج ہے لیکن اس لئے نہیں کہ اس سے میری کوئی بزرگی یا آپ کی کوئی بزرگی ثابت ہو بلکہ اس لیئے کہ تا خدا تعالیٰ کی توحید قائم ہو اور محمد ﷺ کی عظمت انسان پر ظاہر ہو اسی لئے یہ سارا انتظام کیا گیا ہے.محمد اللہ کی بعثت کے بعد اب ہر دو جہاں ، یہ دنیا اور دوسری دنیا محمد عیہ کی ہے.ساری کائنات ہی محمد ہ کی ہے لو لاک لما خلقت الافلاک.لیکن بعثت نبوی کے ساتھ ایک عقلمند انسان پر علی وجہ البصیرت یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ کائنات واقعی محمد نے کی ہے کیونکہ محد عملے کے مقابلہ میں کسی میدان میں بھی کوئی شخص نہیں ٹھہر سکتا.اس قدر عظمت ہے آپ میکی پس اپنے مقام کو پہچا نو اور دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں بھی اور مجھے بھی محمد دا اللہ کا سچا خادم بنے کی توفیق عطا کرے تا کہ مہدی علیہ السلام کی بعثت کا جو مقصد ہے وہ پورا ہو اور نوع انسانی اسلام کے آخری غلبہ کے بعد محمد علی کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے اور ایک خاندان بن جائے.آمین صلى الله (روز نامہ الفضل ربوہ جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۷۷ء)

Page 449

دومشعل دوم فرمودہ ۱۹۷۷ء 446 ۶ نومبر ۱۹۷۷ء کی سہ پہر کو مسجد اقصی کے صحن میں سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے جو الوداعی خطاب فرمایا تھا اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: - ہمارا قدم آگے بڑھنا چاہیے ہمارے سالانہ اجتماع ہر سال ہوا کرتے ہیں لیکن بیچ میں کچھ وقفہ پڑ گیا.۷۳ء کے بعد چوتھے سال یہ اجتماع ہوا ہے.کچھ اس کی وجہ سے اور کچھ میں سمجھتا ہوں مرکزی منتظمین کی سستی کی وجہ سے ۷۳ء کی نسبت اس اجتماع میں کم مجالس شامل ہوئی ہیں حالانکہ ۷۳ء کی نسبت بیسیوں نئی مجالس اور جماعتیں پاکستان میں قائم ہو چکی ہیں.امسال شامل ہونے والی مجالس کی تعدا د ۴۹۳ ہے جبکہ ۷۳ء میں ۵۴۶ تھی.خدام بیرون ۱۹۵۴ اور ربوہ کے ۱۸۵۶ کل خدام ۳۸۱۰.اب جو غلطی ہوگئی وہ تو ہو گئی.اللہ تعالیٰ معاف فرمائے.آئندہ سال یہ غلطی نہیں ہونی چاہیے.ہمارا قدم آگے بڑھنا چاہیے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے ذمہ چندہ اطفال الاحمدیہ وقف جدید لگایا گیا ہے.یعنی احمدی گھرانوں میں چھوٹی عمر کے اطفال اور ناصرات (بھائیوں اور بہنوں) کے ذمہ سالِ رواں کے لئے مجموعی طور پر ایک لاکھ کا بجٹ تجویز ہوا تھا اس میں سے وعدے ۶۸ ہزار کے ہوئے اور وصولی اس وقت تک صرف ۲۸ ہزار کی ہے.اس لئے میں خدام الاحمدیہ کے ہر جگہ کے مقامی عہدیداران ، خواہ وہ اس اجتماع میں شامل ہوئے ہیں یا سستی کی وجہ سے نہیں آسکے، کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ایک تو اپنے بجٹ کے مطابق وعدے پورا کرنے کی کوشش کریں اور دوسرے وصولی کی رفتار بھی بڑھائیں اس وقت تک وصولی غالباً نصف ہونی چاہیے تھی اس میں ۲۸ ہزار کی کمی ہے اس کمی کو پورا کرنے کی طرف توجہ کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.میں نے جمعہ کے روز اپنی افتتاحی تقریریا میں آپ بھائیوں اور بچوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا بپا کردہ انقلاب عظیم آخری زمانے میں عروج کی منزلیں طے کرنے کے لئے زمانہ کے لحاظ سے اپنے دوسرے دور میں داخل ہو چکا ہے اور اس زمانہ کے متعلق قرآن کریم میں پیشگوئی کی گئی ہے اور محمد رسول اللہ اللہ کے ذریعہ امت ( یہ تقریر اسی جلد کے صفحہ 435 پر درج ہے.ایاز )

Page 450

447 فرمودہ ۱۹۷۷ ء د و مشعل راه جلد دوم محمدیہ کو بشارتیں دی گئی ہیں کہ لیظهره علی الدین کلہ کی بشارت کے مطابق دینِ اسلام تمام ادیان اور تمام از مز (ISMS) پر غلبہ حاصل کرے گا.میں علی الدین کلہ کے معنی محض مذاہب نہیں کرتا بلکہ انسانی دماغ میں حمدن اور معاشرہ اور اقتصادیات کے جو اصول بنا لیے ہیں اور جولوگوں کے نزدیک مذہب کے قائمقام بن چکے ہیں ان کو بھی میں اس میں شامل کرتا ہوں یعنی میرے نزدیک لیسظهره علی الدین کله کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دین اسلام کی صداقت عیسائیوں پر تو واضح ہو جائے گی لیکن کمیونسٹ دہریوں پر واضح نہیں ہوگی بلکہ جو اشترا کی نظام ہے جسے انہوں نے مذہب کی بجائے اپنے ملک اور اپنے زیر اثر علاقوں میں قائم کر رکھا ہے اس پر بھی اسلام اپنے روحانی اور اخلاقی اور علمی اصول کے ذریعہ غالب آئے گا اور ان سے بھی اپنا سکہ منوائے گا اور ان اقوام کو بھی جو مذہب کے نام سے تو دور ہٹ چکی ہیں لیکن جنہوں نے اپنی عملی زندگی کے لئے فلسفیانہ اصول بنالئے ان کو ماننا پڑے گا کہ نہ کوئی پرانادین اس زمانے میں کام آتا ہے اور نہ ان کی عقل ان کو نجات کی راہ دکھلا سکتی ہے اور اس کے نتیجہ میں نوع انسانی امت واحدہ بن کر اور ایک خاندان کے طور پر محمدعلی علیہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے انقلاب عظیم اور دو بنیادی مطالبے یہ انقلاب عظیم جو محمد اللہ کے ذریعہ آج سے قریباً چودہ سو سال پہلے پا کیا گیا تھا وہ اب جیسا کہ میں نے بتایا ہے اپنے عروج کو یعنی جب اس نے اپنی انتہا کو پہنچنا ہے اور اس نے آخری غلبہ حاصل کرنا ہے ، اس دور میں داخل ہو چکا ہے.اس انقلاب عظیم حرکت کا اپنے آخری دور میں داخل ہو جانا ہم سے دو بنیادی مطالبے کر رہا ہے، اس وقت میں انہی دو مطالبوں کے متعلق آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.پہلا مطالبہ اول: نوع انسانی کوامت واحدہ بنا کر اور ایک خاندان کی حیثیت میں محمد ہے کے جھنڈے تلے جمع کرنے کا کام ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہماری اپنی صفوں میں کامل اور پختہ اتحاد قائم ہو.چنانچہ میں نے اس سے پہلے انصار اللہ کے اجتماع میں بتایا تھا کہ اسلام کے پہلے دور یعنی اسلام کی نشاۃ اولی کی پہلی تین صدیوں میں خصوصاً اسلام کے ذریعہ اور محمد مے کے افاضہ روحانیہ کے نتیجہ میں انسانی زندگی میں بڑی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن ایک چیز بڑی نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ اس اتحاد میں جو اسلام کے پہلے دور کا اتحاد ہے انتشار بھی بڑا نمایاں ہے.مثلاً ہم فقہ کو لے لیتے ہیں.فقہ بھی دراصل عام قانون سے ملتی جلتی ہے یعنی جب عام قانون کو الہی تعلیم ہدایت کے مطابق مدون کیا جاتا ہے تو وہ فقہی مسائل بن جاتے ہیں مثلا لین دین کے مسائل ہیں.لڑائی جھگڑے دور کرنے کے مسائل ہیں.میاں بیوی کے تعلقات کے مسائل ہیں.تجارتوں کے مسائل

Page 451

فرمودہ ۱۹۷۷ء 448 د دمشعل را کل راه جلد دوم ہیں.تجارتوں میں شراکت کے مسائل ہیں.ایک دوسرے کے اموال کی حفاظت کرنے.اموال غصب نہ کرنے.بد دیانتی نہ کرنے اور خیانت نہ کرنے وغیرہ کے بارہ میں سارے قوانین کو فقہاء نے اسلامی ہدایت کی روشنی میں مدون کیا ہے.اگر چہ اسلام سے پہلے بھی دنیا کا قانون موجود تھا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے فقہائے اسلام نے دن رات ایک کر کے نوع انسانی کی اس میدان میں جو خدمت کی اس نے پہلی بار انسان کی آنکھ کھولی کہ اس رنگ میں یہ قوانین ہمارے سامنے آنے چاہئیں.ٹھیک ہے دنیا میں بعض پرانے قوانین ایسے ہیں جو بعض قوموں نے بنائے ہیں اور جن کا نام یورپ آج بھی لے رہا ہے لیکن وہ بنیادی حسن اور وہ بنیادی کمال ان قوانین کے اندر ہمیں نظر نہیں آتا.یہ اسلام ہی تھا جس نے انسان کی سوچ اور سمجھ اور عقل اور فکر کا دھارا اس طرف موڑ ا جس طرف انسان کی فطرت کا تقاضا تھا.پس اگر چہ فقہائے اسلام نے بڑا کام کیا.آئمہ اربعہ نے بڑی محنتیں کیں.انہوں نے نوع انسانی کے لئے بڑی تکالیف اٹھا ئیں اور بنی نوع انسان کے ہاتھ میں ایک خوبصورت فقہ اور قانون دیا لیکن اس کے باوجود امت مسلمہ میں چار مختلف گروہ بن گئے.ایک حنفی فقہ کو ماننے والے ہیں، ایک شافعی فقہ کو ماننے والے ہیں ، ایک مالکی فقہ کو ماننے والے ہیں اور ایک حنبلی فقہ کو ماننے والے ہیں.پھر آگے ہر ایک میں اندرونی اختلاف ہیں.پس اتحاد کے اندر انتشار کہ لیا جائے یا انتشار کے اندر اتحاد کہہ لیا جائے ایک ہی بات ہے.یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ انتشار کلی طور پر ایسا انتشار تھا جس نے امت مسلمہ کے ٹکڑے ٹکڑ.کر دیے تھے اور ان کا آپس میں کوئی اتصال ہی نہیں رہا تھا.ٹکڑے تو کر دیے تھے لیکن ان کا اتصال بھی قائم رہا کیونکہ وہ سب متفق تھے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات پر.وہ سب متفق تھے، محمد اللہ کے فضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہونے پر.وہ سب متفق تھے اسلام کے دین الہی ہونے پر کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر کامل اور مکمل شریعت نازل فرمائی ہے اور وہ تمام متفق تھے اس بات پر کہ قرآن کریم ایک عظیم ہمیشہ رہنے والی ہدایت پر مشتمل ہے جو بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے انسان کے ہاتھ میں دی گئی ہے.غرض جو بنیادی مسائل تھے ان میں متفق تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات پر متفق ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ نے جو یہ فرمایا تھا کہ میں اپنی ذات اور صفات میں بے مثل ہوں اور تمام صفات حسنہ سے متصف ہوں اور کوئی عیب اور نقص اور کمی اور برائی میری طرف منسوب نہیں ہو سکتی ان باتوں میں آگے اختلاف ہو گیا کسی نے کسی جگہ ٹھوکر کھالی اور کسی نے کسی جگہ ٹھوکر کھالی لیکن بنیادی طور پر اتحاد بھی بڑا ہے اور انتشار بھی بہت ہے.اس انقلاب عظیم کی حرکت کے پہلے دور میں دونوں چیزیں ایک ہی وقت میں ہمیں نظر آ رہی ہیں.پس چونکہ نوع انسانی کو امت واحدہ بنا دینا نبی اکرم ﷺ کی پیشگوئیوں اور ارشادات کے مطابق مسیح اور مہدی علیہ السلام اور آپ کی جماعت کا کام ہے اس لئے آپ کی جماعت میں کسی قسم کا انتشار نہیں ہونا چاہیے.واعتصموا بحبل الله جميعاً ولا تفرقوا کی روسےاتحاد و اتفاق کا کامل نمونہ ، جس میں کوئی رخنہ نہ ہو وہ ہماری جماعت میں نظر آنا چاہیے.

Page 452

449 فرمودہ ۱۹۷۷ء دوسرا مطالبہ.بیجہتی دو مشعل راه جلد دوم دد دوم : اس انقلاب عظیم کا اپنے دوسرے دور میں داخل ہو جانے کی وجہ سے دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ دینِ اسلام کے غلبہ کے لئے اور نوع انسانی کو امت واحدہ بنانے کے لئے جو منصوبے تیار کئے جائیں اور جو تدابیر اختیار کی جائیں ان میں بھجہتی پائی جائے اور اس کی ضرورت خصوصاً اس لئے بھی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جہاں انسان پر روحانی ترقیات کے بے انتہا دروازے کھولے ہیں وہاں اس کو شیطانی وساوس اور شیطانی رخنوں سے حفاظت نہیں دی.انسان کو قرآن کریم کے ذریعہ کامل ہدایت دی لیکن ساتھ ہی اس کو آزادی دی اور فرمایا اما شاکر او اما كفورا چاہو تو خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن کر اسلامی تعلیم پر عمل کرو اور اگر چاہو اپنی مرضی سے کفران نعمت کرو اور غلط راہوں پر پڑھ جاؤ ایک دوسری جگہ فر ما یا حق آ گیا ہے فمن شاء فليؤمن ومن شاء فليكفر دوسری طرف قرآن کریم نے شیطان کے متعلق تمثیلی زبان میں ذکر کیا ہے.میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ شیطان کیا ہے اور وہ کس طرح انسان پر حملے کرتا ہے.یہ بحث میرے مضمون سے تعلق نہیں رکھتی میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کہتا ہے شیطان کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے لیکن ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ وہ جتنا مرضی زور لگالے جو خدا کے بندے ہیں وہ تو خدا کے بندے ہی رہیں گے.اب چونکہ ساری دنیا کو ساری نوع انسانی کوامت واحدہ بنانا ہے اور امت واحدہ بنا کر خدا تعالیٰ کے قدموں میں جمع کرنا ہے اس لئے عقلاً بھی اس وقت شیطان کا حملہ اتناز بردست ہونا چاہیئے کہ اس سے پہلے اتناز بر دست حملہ بھی نہ ہوا ہو چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.اسی قانونِ قدیم کے لحاظ سے خدا نے اپنے پاک نبیوں کی معرفت یہ خبر دی ہے کہ جب آدم کے وقت سے چھ ہزار برس قریب الاختتام ہو جائیں گے تو زمین پر بڑی تاریکی پھیل جائے گی اور گناہوں کا سیلاب بڑے زور سے بہنے لگے گا اور خدا کی محبت دلوں میں بہت کم اور کالعدم ہو جائے گی تب خدا محض آسمان سے بغیر زمینی اسباب کے آدم کی طرح اپنی طرف سے روحانی طور پر ایک شخص میں سچائی اور محبت اور معرفت کی روح پھونکے گا اور وہ میسج بھی کہلائے گا کیونکہ خدا اپنے ہاتھ سے اس کی روح پر عطر ملے گا اور وہ وعدہ کا مسیح جس کو دوسرے لفظوں میں خدا کی کتابوں میں مسیح موعود بھی کہا گیا ہے شیطان کے مقابل پر کھڑا کیا جائے گا اور شیطانی لشکر اور مسیح میں یہ آخری جنگ ہوگا اور شیطان اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ اور تمام ذریت کے ساتھ اور تمام تدبیروں کے ساتھ اس دن اس روحانی جنگ کے لئے تیار ہو کر آئے گا.اور دنیا میں شر اور خیر میں کبھی ایسی لڑائی نہیں ہوئی ہوگی جیسے کہ اس دن ہوگی کیونکہ اس دن شیطان کے مکائد اور شیطانی علوم انتہاء تک پہنچ جائیں گے اور جن تمام طریقوں سے شیطان گمراہ کر سکتا ہے وہ تمام طریق اس دن مہیا ہو جائیں گے تب سخت لڑائی کے بعد جو ایک روحانی لڑائی ہے خدا کے مسیح کو

Page 453

د دمشعل دوم فرمودہ ۱۹۷۷ء 450 فتح ہوگی اور شیطانی قوتیں ہلاک ہو جائیں گی اور ایک مدت تک خدا کا جلال اور عظمت اور پاکیزگی اور تو حید زمین پر پھیلتی جائے گی اور وہ مدت پورا ہزار برس ہے جو ساتواں دن کہلاتا ہے بعد اس کے دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا.سو وہ میچ میں ہوں اگر کوئی چاہے تو قبول کرے“ لیکچر لا ہور صفحہ ۳۲ ۳۳ بحوالہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۷۸-۱۷۹) خلافت احمد یہ عظمت واہمیت پس چونکہ یہ شیطان کے ساتھ آخری جنگ ہے اور چونکہ یہ شر اور خیر کے درمیان آخری معرکہ آرائی ہے اور چونکہ شیطان کی ساری کی ساری تدبیریں اس میں استعمال کی جانے والی ہیں اس لئے آپ نے فرمایا کہ دنیا میں ایسی جنگ جو دین اور لادینیت، خیر اور شر کے درمیان لڑی جانی ہے.وہ آدم کی نسل میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی.اور یہ وہی زمانہ ہے جس میں ہم داخل ہو چکے ہیں.اس جنگ میں شیطان کو مغلوب کرنے کے لئے اور اسے اس کی تدبیروں میں نا کام کرنے کے لئے اور اسلام کے حق میں آخری فتح حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جو منصوبے تیار کئے جائیں ان کے اندر یکجہتی ہو یہ نہیں کہ افریقہ میں کوئی اور منصوبہ تیار کیا جارہا ہے.یورپ میں کوئی اور منصوبہ تیار کیا جارہا ہے.امریکہ میں کوئی اور منصوبہ تیار کیا جارہا ہے.دوسرے ممالک اور جزائر وغیرہ میں کوئی اور منصوبہ تیار کیا جارہا ہے لیکن یحجہتی اس صورت میں پیدا ہو سکتی ہے کہ ایک وجود ہو جو منصوبہ تیار کرنے والا ہو اور وہ وجود جو ہے وہ جماعت احمدیہ کی خلافت ہے.آپ میں سے بہت سے سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی خلافت کس چیز کا نام ہے اور بہت سے نہیں سمجھتے.اس خلافت کی ایک صفت یہ ہے کہ اس خلافت کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ میں اس خلافت کے ذریعہ اپنی قدرتوں کا زبردست ہاتھ دکھاؤں گا.یہ خدا تعالیٰ کی تائید یافتہ خلافت ہے.اس خلافت کا ایک وجود ہے، خلافت تو روح ہے اور اس کا جسم بھی ہے.( یعنی جماعت احمدیہ جسم ہے ) روح اور جسم مل کر ایک وجود بنتے ہیں.خلیفہ وقت اور جماعت احمد یہ.ایک ہی چیز کے دونام ۶۷ء میں ڈنمارک میں کوپن ہاگن کے مقام پر چند عیسائی پادری مجھ سے ملنے آئے ان میں سے ایک نے مجھے کہا کہ جماعت احمدیہ میں آپ کا کیا مقام ہے.میں نے اسے جواب دیا کہ میرے نزدیک آپ کا سوال درست نہیں ہے اس لئے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا امام اور جماعت احمد یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یعنی خلیفہ وقت اور جماعت دونوں مل کر ایک وجود بنتے ہیں اسی لئے خلافت کا یہ کام ہے کہ وہ جماعت کے دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرے، خلیفہ وقت آپ کے لئے دعا کریں.خلیفہ وقت بعض دفعہ ایسے حالات آتے ہیں کہ وہ ہفتوں ساری ساری رات آپ کے لئے دعائیں کر رہا ہوتا ہے جیسے ۷۴ء کے حالات میں دعائیں کرنی پڑیں.

Page 454

451 فرمودہ ۱۹۷۷ ء «مشعل راه جلد دوم میرا خیال ہے کہ دو مہینے تک میں بالکل سو نہیں سکا تھا کئی مہینے دعاؤں میں گزرے تھے.پس خلیفہ وقت وہ وجود ہے جو آپ کے رنج میں شریک ہو.آپ کی خوشیوں میں شریک ہو.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کے مطابق وہ پ کی دنیوی بھلائی کے لئے دعائیں کرنے والا ہو.وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ کے مطابق آپ کی روحانی بھلائی کے لئے دعائیں کرنے والا ہو.اور یہ دعائیں کرنے والا ہو کہ شیطان کے حملے کبھی بھی کسی احمدی کے خلاف کامیاب نہ ہوں اور ہمیشہ شیطان ناکام رہے اور خالی یہی نہیں یعنی یہ یک طرفہ چیز نہیں بلکہ خلیفہ وقت مخلصین کی جماعت کے ساتھ مل کر وہ وجود بنتے ہیں جنہوں نے شیطان کے خلاف یہ جنگ لڑنی ہے.میں تو ایک عاجز بندہ ہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ جماعت کس طرح میرے لئے دعائیں کرتی ہے.وہ میرے اور اپنے مقاصد کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتی ہے.وہ جماعت کی پریشانیوں میں جب خلیفہ وقت کو پریشان ہونا پڑتا ہے تو پھر جماعت ایک اور لحاظ سے پریشان ہو جاتی ہے کہ ان حالات میں امام وقت کو پریشانی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے.اللہ تعالی حالات بدلے اور یہ پریشانی دور ہو.جس طرح انگلی کو تکلیف پہنچے تو انسان کی روح تڑپ اٹھتی ہے اور اگر کسی کو ذہنی کوفت ہو تو سارا جسم کوفت محسوس کر رہا ہوتا ہے یہی حال خلیفہ وقت اور جماعت احمدیہ کا ہے.پس یہ سمجھنا غلط ہے کہ خلیفہ وقت کوئی اور چیز ہے اور جماعت احمد یہ کوئی اور چیز.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر بڑا فضل کیا ہے.جماعت احمدیہ اور امام جماعت احمد یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں دونوں کے مجموعہ سے ایک چیز بنتی ہے جو اپنے اندر یکجہتی کی علامت ہے اور اس انقلاب عظیم کو اپنے انتہائی عروج تک پہنچانے کا جو منصوبہ ہے اس میں کامیابی کے لئے بہتی ضروری ہے.ایک تو اندرونی طور پر جماعت میں کوئی تفرقہ نہ ہو وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَّلَا تَفَرَّقُوا كا حكم ہمیشہ سامنے رہے اور ہر پہلو سے تفرقہ سے بچا جائے اور دوسرے یہ کہ جو غلبہ اسلام کے لئے کام کئے جاتے ہیں اور منصوبے بنائے جاتے ہیں ان میں یجہتی ہو.کسر صلیب کانفرنس کا عظیم الشان منصوبہ چنانچہ ایک منصوبہ ہے جس پر انشاء اللہ اگلے سال جون میں کام شروع ہوگا اور جس کی رو سے عیسائیت کو اسلام کی طرف ایک خاص منصوبے کے ماتحت دعوت دینی ہے، یہ منصوبہ تیار ہو گیا ہے.اب ساری جماعت چونکہ ایک ہے جماعت نے مشورہ کیا.میں نے ان سے مشورہ کیا اور وہ منصوبہ تیار ہو گیا اس پر کام شروع ہو گیا.ساری دنیا کے بعض پادری اور غیر پادری جو سکالرز اور محقق ہیں ان کو اکٹھا کرنے کی سکیم ہے اور وہاں دوست یہ مقالے پڑھیں گے کہ حضرت مسیح موعود اور مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر ایک لمبا زمانہ گزرا دنیا میں یہ اعلان کیا تھا کہ یہ دعویٰ غلط ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہو گئے تھے اور پھر دوبارہ اٹھائے گئے اور آسمانوں پر چلے گئے تھے اور یہ کہ وہ زندہ ہیں اور واپس آئیں گے.یہ ساری باتیں غلط ہیں.حضرت مسیح ناصری

Page 455

دومشعل راه جلد دوم فرمودہ ۱۹۷۷ء 452 علیہ السلام جو حضرت موسی کی امت کے مسیح اور خدا تعالیٰ کے ایک پیارے بندے تھے وہ خدا کے ایک رسول تھے.وہ ایک نہایت عاجز بندے تھے اور انہوں نے اپنی زندگی میں عاجزانہ راہیں اختیار کی ہوئی تھیں ان کو خدا بنا لینا یا خدا کا بیٹا تصور کر لینا بڑا ظلم ہے انسان کا اپنے اوپر اور دوسرے انسانوں پر بھی.عیسائیوں نے بڑا شور مچایا اور بہت بڑے بڑے دعوے کئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے دعوے سے معا پہلے کے جو پندرہ بیس سال ہیں وہ عیسائی پادریوں کے سال تھے.اس زمانے میں جانتے ہو؟ انہوں نے کیا کیا دعوے کئے تھے انہوں نے یہ دعوے کئے تھے کہ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے (نعوذ باللہ ) جب خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا مکہ اور مدینہ پر لہرائے گا عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب افریقہ کا بر اعظم خداوند یسوع مسیح کی جھولی میں ہوگا.انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ ہندوستان کے رہنے والوں میں سے (اس وقت ہندوستان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی ) اگر کسی کے دل میں کبھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی ایک مسلمان کا چہرہ دیکھ لے مرنے سے پہلے تو ایک مسلمان بھی نہیں ہوگا ہندوستان میں جس کا چہرہ دیکھ کر وہ اپنی یہ خواہش پوری کر سکے.پس اس قسم کے دعوے تھے جو عیسائی پادری کر رہے تھے تب خدا تعالیٰ نے غلبہ اسلام کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا کیا اور فرمایا میں تیرے ساتھ ہوں تو اکیلا ہے تو کیا ہوا میری مدد تیرے شامل حال رہے گی.اُٹھ اور غلبہ اسلام کے لئے کام کر.تب آپ نے وہ گوشہ تنہائی چھوڑا جس میں دنیا سے چھپ کر اپنے رب کریم کی عبادت میں آپ مشغول رہا کرتے تھے اور اسی میں خوش تھے اور وہاں سے نکلنا نہیں چاہتے تھے.لیکن خدا نے فرمایا میں تجھے کہ رہا ہوں اُٹھ اور دینِ اسلام کی خدمت کر.چنانچہ مخالفین اسلام خواہ وہ عیسائی ہوں یا دوسرے مذاہب یا از مز (ISMS) یا سکول آف تھاٹ (Schools of Thought) کے ساتھ ان کا تعلق ہو ان کے مقابلہ میں خدا نے آپ کو ایسے دلائل سکھائے کہ آپ نے مخالفین اسلام کا منہ بند کر دیا اور اب یہ حال ہے کہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر کے مقابلہ میں وہ کسی احمدی سے بات نہیں کرتے بڑے بڑے پادریوں نے بہت سارے علاقوں میں عیسائیوں کو یہ ہدایتیں دی ہوئی ہیں کہ کسی احمدی بچے تک سے خواہ وہ ساتو میں آٹھویں کا طالب علم ہی کیوں نہ ہو اس سے بھی بحث نہ کرو اور نہ کوئی کتاب لے کر پڑھو.حضرت مسیح موعو علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے.آپ نے اپنی کتاب "مسیح ہندوستان میں اور اس کے علاوہ اور بھی کئی کتب میں لکھا کہ حضرت مسیح افغانستان کے راستے کشمیر گئے اور وہاں وہ فوت ہوئے.یوز آسف شہزادہ نبی نام سے وہاں وہ پکارے گئے اور وہاں وہ دفن ہیں.ان کی قبر اب تک موجود ہے.عیسائیوں نے اس پر ہنسی اڑائی تمسخر کیا.وہ سمجھتے تھے ایک چھوٹے سے قصبے میں رہنے والا شخص ان کا کیا بگاڑ لے گا.مگر اس مدعی کے پیچھے خدا تعالیٰ کی جو طاقت کام کر رہی تھی ان کی دنیوی نگا ہیں اس طاقت کو نہیں دیکھ رہی تھیں.آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اپنے الہام سے جو باتیں بتائی ہیں یہی لوگ جوہنسی اور ٹھٹھا کر رہے ہیں اور اسلام کی دشمنی پر کمر بستہ ہیں، خود تحقیق کریں گے اور جو میں نے باتیں بتائی ہیں ان کے دلائل اکٹھے کریں

Page 456

453 فرمودہ ۱۹۷۷ ء دومشعل راه جلد دوم گے.چنانچہ اس زمانہ میں ان لوگوں نے بیسیوں سینکڑوں دلائل اکٹھے کر دئے اس بیان کی صداقت پر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق دیا تھا کہ وہ صلیب پر نہیں مرے.صلیب پر سے زندہ اترے.زندہ رہے.بنی اسرائیل کی جو کھوئی ہوئی بھیڑیں تھیں یعنی جو مختلف قبائل ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے ان کو اکٹھا کرنے کے لئے وہ آئے تھے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اب حالت یہ ہے کہ اسی مذاکرہ کے سلسلہ میں جو اگلے سال گرمیوں میں ہو گا کئی ایک عیسائی پادریوں نے تحقیق کی ہے اور کتابیں لکھی ہیں.ایک پادری کو لکھا کہ شامل ہو تو اس نے کہا ہاں کوشش کروں گا کہ ضرور آؤں اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ جب سے میں نے اپنی تحقیق کی کتاب شائع کی ہے کہ واقعی حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے اور کشمیر گئے اور وہاں فوت ہوئے ہیں تو لوگوں نے مجھے احمدی کہنا شروع کر دیا ہے.وہ کوئی یورپین یا امریکن عیسائی ہے.غرض روحانی اور اخلاقی دنیا میں ایک زبردست انقلاب آنا شروع ہو گیا ہے.میں بتا یہ رہا ہوں کہ غلبہ اسلام کے لئے اور بنی نوع انسان کے دل محمد مال اللہ کے لئے جیتنے کی خاطر جو منصوبے ہیں جب تک ان منصوبوں میں پچھہتی نہ ہو اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.پھر تو یہ ہوگا کہ کوئی منصوبہ دائیں طرف کھینچ رہا ہوگا اور کوئی بائیں طرف کھینچ رہا ہوگا اور نوع انسانی کو وہ فائدہ نہیں ہوگا جوخدا تعالیٰ کی بشارتوں اور اس کے احکام کے مطابق ہمارے مدنظر ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے شیطان خاموش تو نہیں بیٹھ سکتا وہ تو وسوسہ ڈالتا ہے.اس کا تو کام ہی یہ ہے.خدا تعالیٰ نے اس کام کے لئے اسے اجازت دی ہے.جس طرح اسلام کے حق میں انقلاب عظیم شدت اختیار کر رہا ہے.اسی طرح شیطان کے حملے میں بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ایک شدت پیدا ہورہی ہے اور شیطان کے حملے بنیادی طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک جماعت مومنین میں اندرونی طور پر تفرقہ اور بداعتقادات پیدا کرنے کی کوشش اور دوسرے مخالفین اسلام کو اکسانا کہ شاباش آگے بڑھو تم ہی جیتو گے.اور جب شیطان ہار جاتا ہے تو آرام سے کہہ دیتا ہے میں تو تم سے دھوکا کر رہا تھا.جھوٹے وعدے دے رہا تھا.ہارنے کے بعد وہ یہ زبان استعمال کرتا ہے لیکن شکست سے پہلے وہ یہ کہہ رہا ہوتا ہے شاباش تم نے ہی جیتنا ہے تیز ہو جاؤ اسلام کے مٹانے کے دن آگئے ہیں وغیرہ وغیرہ.میں کہتا ہوں اسلام کے مٹانے کے دن نہیں آئے.اسلام کے غلبہ کے دن آگئے ہیں.انشاء اللہ میں آپ کو شیطانی وسوسے کی ایک مثال دیتا ہوں.حد بث مجددین اور اس کی عرفان انگیز تشریح قرآن کریم نے کہا ہے کہ گاہے گاہے سال میں ایک آدھ بار منافقین کو جو شیطان کا آلہ کار بن جاتے ہیں جھنجھوڑتے رہنا چاہیئے تا کہ وہ اپنے مقام کو پہنچا نہیں اور حدیث شریف میں یہ جو آیا ہے کہ ہر صدی کے سر پر ایسے لوگ ہوں گے جو تجدید دین کا کام کریں گے اس کو لے کر اور باقی ہر چیز کو پس پشت ڈال کر انہوں نے بعض لوگوں

Page 457

د مشعل راه جلد دوم فرمودہ ۱۹۷۷ء 454 د کے دماغوں میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہ ہیں تو گنتی کے چند ہی مگر اس وقت زیادہ تر کراچی کی جماعت میں تیزی دکھا رہے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں ایسے لوگوں سے جو وسوسہ ڈالتے اور جماعت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تم بھول میں ہو.خدا تعالیٰ کی یہ پیاری جماعت اور اس کے یہ پیارے نو جوان اور میرے بچے تمہاری دھوکا دہی میں بھی نہیں آئیں گے انشاء اللہ.اب میں مختصراً کچھ اس حدیث کے متعلق کہنا چاہتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کہ اس حدیث کے بارہ میں پہلوں نے کیا کہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا فرمایا اور اس حدیث کا مقام کیا ہے.یہ حدیث جو صحاح ستہ میں سے صرف ایک کتاب میں صرف ایک بار بیان ہوئی ہے، یہ ہے:.إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلَّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِ دُلَهَا دِيْنَهَا.کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت کے لئے ”من“ کھڑے کرے گا (مسن پر میں خاص زور دے رہا ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کئی لوگ ایسے پیدا کرے گا جو دین کی تجدید کریں گے اور اس کی رونق کو بڑھانے والے ہوں گے اور اگر بدعتیں بیچ میں داخل ہوگئی ہوں گی تو وہ ان کو نکالیں گے اور اسلام کا نہایت صاف اور خوبصورت چہرہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے پیش کریں گے.یہ حدیث ابو داؤد میں ہے.مستدرک میں ہے اور شاید ایک اور کتاب میں بھی ہے.صرف تین کتابوں میں ہمیں یہ حدیث ڈھونڈنے سے ملی ہے.اس کے مقابلے میں یہیں بتا دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں مہدی اور صیح ہوں.مسیح کے متعلق میں نے جو حوالہ پڑھ کر سنایا ہے اس میں آپ نے فرمایا ہے کہ جس مسیح کے متعلق خبر دی گئی تھی کہ وہ شیطان کے ساتھ آخری جنگ لڑے گا وہ میں ہی مسیح موعود ہوں آپ نے فرمایا کہ مسیح کے متعلق بشارتیں دی گئی ہیں جو کئی ہزار کتب میں پائی جاتی ہیں.کئی ہزار کتابوں میں یہ بشارت ہے کہ مسیح آئیں گے ، ان کتابوں میں لکھا ہے کہ مسیح کی یہ علامتیں ہوں گی.مہدی کی یہ علامتیں ہوں گی.نبی اکرم ﷺ نے بڑے پیار سے فرمایا ہے کہ ان لمهدینا ہمارے مہدی کے لئے خدا تعالیٰ نے اس کی صداقت کے دو نشان ایسے مقرر کئے ہیں جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کی صداقت کے لئے مقرر نہیں کئے.اس فقرے میں بڑا پیار ہے اور اس میں مہدی کی نمایاں اور ارفع حیثیت بتائی گئی ہے.غرض حدیث کی رو سے نبی اکرم ﷺ کو مہدی مسیح سے جو پیار ہے اسے دیکھ کر آدمی حیران ہو جاتا ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ مہدی کا یہ کام ہو گا کہ اسلام کو تمام بدعات سے پاک کر کے اس کا جو چمکدار چہرہ ہے اور روحانی حسن سے بھری ہوئی جو اصلی شکل ہے.اسے دنیا کے سامنے پیش کرے گا لیکن دنیا کو اسلام کے غبار آلود چہرہ کو دیکھنے کی اتنی عادت پڑ چکی ہوگی کہ وہ کہیں گے کہ تم کوئی نیا دین لے آئے ہو، ہم تو اسلام اسے نہیں سمجھتے.غرض آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہدی دین اسلام کو بدعات سے پاک کر کے پیش کرے گا اور لوگ یہ کہیں گے کہ تم نے اپنا نیا دین بنالیا ہے.مہدی اور مسیح کے متعلق سینکڑوں ایسی احادیث ہیں جو پچھلے دو چار سال میں ہمارے سامنے آئی ہیں.جب نئی کتابیں چھپ کر ہمارے سامنے آئیں تو وہ احادیث بھی سامنے آگئیں

Page 458

455 فرمودہ ۱۹۷۷ء د و مشعل راه جلد دوم دد خصوصاً وہ کتابیں جو اسیران سے بڑی خوبصورت چھپی ہوئی آئی ہیں.انہوں نے بڑی محنت سے ان روایات کو اکٹھا کیا ہے اور سنبھال کر رکھا ہوا ہے.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں ہر صدی پر مجدد آنے کی جو حدیث ہے وہ حدیث کی صرف دو تین کتابوں میں ہے مگر کسی حدیث کی کتاب میں مجھے کوئی ایسی حدیث نہیں ملی جس میں یہ کہا گیا ہو کہ مجدد کی علامت یہ ہے یا اس کے لئے یہ نشان ظاہر کیا جائے گا.کسی ایک جگہ بھی نبی اکرم میں اللہ نے ایسا نہیں فرمایا اور نہ قرآن کریم میں اس کا ذکر آیا ہے.میں نے جب اس حدیث پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس حدیث میں یہ ہے ہی نہیں کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئے گا.اس حدیث میں تو یہ ہے کہ ہر صدی کے سر پر من آئے گا.یعنی ایسے نائب رسول آئیں گے جو تجدید دین کا کام کریں گے.من کے معنی عربی لغت کے لحاظ سے ایک کے بھی ہیں دو کے بھی ہیں اور کثرت کے بھی ہیں پس اگر کثرت کے معنی لئے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ ہر صدی کے سر پر کثرت سے ایسے لوگ موجود ہوں گے ( یعنی آنحضرت میہ کے خلفاء اور خیار وابرار ) جو دین اسلام کی خدمت میں لگے ہوں گے.اس میں کسی ایک شخص واحد کا کوئی ذکر نہیں ہے.لا الله لسان العرب عربی لغت کی ایک مشہور کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ من کا لفظ تكون لـلـواحــد والاثنين والجمع كہ يہ لفظ واحد کے لئے بھی دو کے لئے بھی اور جمع کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور قرآن کریم کی لغت مفردات امام راغب میں ہے کہ يعبر به من الواحد والجمع والمذكر والمونث کہ اس سے واحد بھی مراد لی جاتی ہے اور جمع بھی مراد لی جاتی ہے.مذکر بھی مراد لیا جاتا اور مونث بھی مراد لی جاتی ہے.ان معنوں کے لحاظ سے حدیث کا یہ مطلب ہوگا کہ ہر صدی کے سر پر ایسے مرد بھی ہوں گے نیز خدا تعالیٰ کی درگاہ میں پہنچی ہوئی ایسی مستورات بھی ہوں گی.یعنی مرد بھی خدمت دین میں لگے ہوئے ہوں گے اور مستورات بھی.جب ہم قرآن عظیم کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ”من“ کا لفظ واحد بھی استعمال ہوا ہے اور جمع میں بھی استعمال ہوا ہے.سورہ بقرہ میں بلى من اسلم وجهه لله و هو محسن فله اجره عند ربه - کہ جو شخص بھی اپنی توجہ اور اپنے سارے وجود کو خدا تعالیٰ کی طرف جھکا دے اور جو شرائط عبادات ہیں ان کو پوری طرح بجالائے تو فله اجره عند ربه تو ایسے ہر شخص کے لئے خدا کے نزدیک اجر ہے.اور پھر فرمایا ولا خوف علیہم اور یہاں من کے متعلق جمع کا صیغہ آگیا کہ یہ لوگ نہ خوفزدہ ہوتے ہیں کسی چیز سے اور حزن کرتے ہیں.سورہ یونس میں فرمايا ومنهم من يستمعون الیک.یستمعون عربی زبان میں جمع کا صیغہ ہے.اس جگہ من کے معنی بہت سے ایسے لوگوں کے ہیں جو بظاہر تیری طرف کان لگاتے ہیں اور سنتے ہیں لیکن وہ سن نہیں رہے ہوتے اور پھر سورہ تغابن میں ہے.ومن يومن بالله و يعمل صالحا يكفّر عنه سياته و يدخله جنت تجرى من تحتها الانهر خلدين فيها.کہ جو کوئی بھی اللہ پر ایمان لائے گا عمل صالح کرے اللہ تعالیٰ کے فضل اس پر نازل ہوں گے اور جنات میں ان کو داخل کیا جائے گا.خلدين فيها ابدا.اور وہ سارے کے سارے ان جنتوں میں رہنے والے ہوں گے.من کا مفہوم خلدین میں بیان کر دیا.

Page 459

دومشعل تل راه جلد دوم فرمودہ ۱۹۷۷ء 456 جب ہم پہلے بزرگ محققین اور اولیاء اللہ کے اقوال کو دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ انہوں نے بھی من کے وہی معنے کئے ہیں جو میں اوپر بتا چکا ہوں.مسن يجدد کے متعلق امام المناوی فرماتے ہیں کہ اس میں من سے مراد ایک یا ایک سے زیادہ آدمی ہو سکتے ہیں.علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ہر ایک قوم کا دعوی ہے کہ اس حدیث سے اس کا امام ہی مراد ہے لیکن ظاہر بات یہی ہے کہ اس کو ہر ایک گروہ کے علماء پر چسپاں کیا جانا چاہیے.اور علقمی کہتے ہیں کہ تجدید سے مراد یہ ہے کہ اسلام کی جن باتوں پر عمل مٹ گیا ہے ان کو وہ از سر نو زندہ کرے اور وہ کہتے ہیں کہ خوب یاد رکھو مجدد کوئی دعوئی نہیں کرتا بلکہ اس کا علم لوگوں کو بعض قرائن اور حالات اور ان کی خدمات سے ہوتا ہے جو وہ اسلام کی کرتا ہے.شیخ محمد طاہر گجراتی (۱۵۰۹-۱۵۷۸) جو سولہویں صدیں میں ایک بہت بڑے عالم گزرے ہیں انہوں نے اس حدیث پر یہ نوٹ دیا ہے کہ اس کے مفہوم کے متعلق اتفاق ہی نہیں.علماء نے اختلاف کیا ہے.یعنی اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ کون مجد د تھا کس صدی کا اور کون نہیں تھا اور ان میں سے ہر ایک فرقہ نے اسے اپنے امام پر چسپاں کیا ہے مگر بہتر یہ ہے کہ اسے عام مفہوم پر محمول کیا جائے اور فقہاء سے مخصوص نہ کیا جائے کیونکہ مسلمانوں کو اولی الامر یعنی جو بادشاہ ہیں اور جو محدث ہیں اور جو قراء ہیں اور جو وعظ ہیں اور جو زاہد ہیں ان سب سے بہت فائدہ حاصل ہوتا ہے اس لئے وہ سارے مجدد ہیں اور حدیث سے مراد یہ ہے کہ ہر صدی جب گزرے گی تو یہ لوگ زندہ ہوں گے.یہ نہیں کہ کوئی صدی ان کا نام ونشان مٹاڈالے اور حدیث میں اس کے متعلق اشارہ ہے.وہ لکھتے ہیں کہ حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ جو لوگ ہر صدی کے سر پر تجدید کا کام کریں گے وہ بڑے بڑے بزرگوں کی ایک جماعت ہوگی.چنانچہ پہلی صدی میں حضرت عمر بن عبد العزیز اور فقہاء اور محدثین اور ان کے علاوہ دوسرے طبقات میں سے بھی بے شمار بزرگ تجدید دین کرنے والے ہیں و غيرهم مالا يحصى یعنی جن کو گنا نہیں جاسکتا اتنے مسجد دصدی کے سر پر حضرت عمر بن عبد العزیز کے ساتھ انہوں نے جمع کر دیئے ہیں.اسی طرح انہوں نے جتنے ان کو یاد تھے ہر صدی کے سر پر ایک سے زیادہ علماء ان کا ذکر کر دیا ہے.ایک اور کتاب ہے درجات مرقاۃ الصعود الی سنن ابی داؤد “ اس میں ابو داؤد کی مذکورہ حدیث کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ انسب یہ ہے کہ حدیث کو عام مفہوم پر چسپاں کیا جائے.پس اس سے لازم آتا ہے کہ جو صدی کے سر پر مبعوث ہو وہ ایک فرد نہ ہو بلکہ ہو سکتا ہے ایک یا ایک سے زائد ہوں کیونکہ گوامت اسلام کو فقہاء سے جو فائدہ پہنچتا ہے وہ بھی عام ہے لیکن اسے جو فائدہ ان کے علاوہ اولی الامر اور محدثین اور قراء اور واعظوں اور زیاد کے مختلف درجات سے پہنچتا ہے وہ بھی بہت زیادہ ہے.کیونکہ ہر فن اور علم کا ایک فائدہ ہے جو دوسرے سے حاصل نہیں ہوتا.دراصل حفاظت دین میں قانون سیاست کی حفاظت اور ادب کا پھیلانا بہت اہم ہے کیونکہ اسی سے انسان کے خوف کی حفاظت ہوتی ہے اور قانون شرعی قائم ہوتا ہے اور یہ کام حکام کا ہے.پس جو قانون شریعت نافذ کرنے والے حکام ہیں شیخ محمدطاہر گجراتی کے نزدیک وہ اسی طرح مجدد ہیں جیسے ایک فقیہ مجدد ہوتا ہے یا جیسے صوفی بزرگ اور دعا گو لوگ مجدد ہیں.

Page 460

457 فرمودہ ۱۹۷۷ء د مشعل راه جلد دوم.پس زیادہ بہتر اور مناسب یہی ہے کہ مانا جائے کہ اس حدیث میں ہر صدی کے سر پر ایسے بزرگوں کی ایک جماعت موجود ہونے کی طرف اشارہ ہے جو لوگوں کیلئے دین کو تازہ کریں گے اور تمام دنیا میں اس کی حفاظت کریں گے.علماء کے ایک گروہ نے یہ لکھا ہے کہ یہ ذمہ داری تو ساری امت کی تھی یعنی امت مسلمہ کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دین اسلام کی تجدید کرے.جس طرح ہم آپ کو کہتے ہیں کہ آپ دین سیکھیں اور اس کو ساری دنیا میں پھیلائیں لیکن چونکہ سارے نہیں کرتے اس لئے ہر صدی میں ایک جماعت پیدا ہو جاتی ہے جو فرض کفایہ کے طور پر یہ کام کرتی ہے.کیونکہ وہ جماعت کام کرتی ہے اس لئے کہ جو نہیں کام کرتا اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کر دیتا ہے اور اگر یہ بھی کام نہ کریں تو ان کے گناہ بھی معاف نہیں ہوں گے.پس حدیث شریف میں کسی ایک کے آنے کا ذکر نہیں نہ لغوی معنوں کے لحاظ سے اور نہ جو پہلے علماء تھے جن کے چند حوالے میں نے پڑھے ہیں ان کے اقوال کے مطابق اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو اس کی تفسیر کی ہے اس کے مطابق.میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے میرے مسیح ہونے کے متعلق اتنی کثرت سے احادیث پائی جاتی ہیں کہ ان کی تعداد ہزاروں تک جاپہنچتی ہے.پھر میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ حضرت مسیح اور مہدی علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق نشانات بتائے گئے ہیں مثلاً قرآن کریم میں ہے کہ مسیح کے زمانہ میں کتابیں شائع کرنے کیلئے پر یس نکلیں گے.کتابوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کا سامان پیدا ہو جائے گا.جماعت احمدیہ کے کسی مبلغ کو افریقہ بھیجنا ناممکنات میں سے نہیں ہوگا بلکہ ذرائع آمد ورفت اتنے ترقی کر چکے ہوں گے کہ جہاں انسان سالوں میں نہیں پہنچ سکتا تھا وہاں گھنٹوں میں پہنچ جائے گا.یہاں سے انگلستان کی ساری اُڑان بمشکل نو دس گھنٹے کی ہے.اسی طرح ہمارے مبلغ جو افریقہ جاتے ہیں ہوائی جہازوں کے ذریعہ ان کے اصل اڑنے کا وقت ۱۰.گھنٹے ہے.بیچ میں ہوائی جہاز ٹھہر جاتا ہے اور کچھ زیادہ وقت لے لیتا ہے.اب ایک ہفتے میں لوگ قریباً تین دفعہ ساری دنیا کا چکر لگا لیتے ہیں.ہمارے مسلمان سیاح کو علم کے حصول کیلئے آدھی دنیا میں جانا ہوتا تھا تو وہ ساری عمر کیلئے گھر والوں کو الوداع کہہ کر نکلتا تھا.لیکن اب ایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کیلئے ہوائی جہازوں کی سہولتیں میسر ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں ایک بنیادی اصول بتایا ہے اور وہ یہ کہ حدیث یعنی وہ ارشاد جو نبی کریم اللہ کی زبان سے نکلا اور پھر اسے روایہ محفوظ کیا گیا.وہ ذرہ بھر بھی نہ قرآن پر کوئی چیز زائد کرتا ہے اور نہ کم کرتا ہے.اس اصول کو تم اچھی طرح سے سمجھ لو اور ذہن میں رکھو.اب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو اس کے شروع سے آخر تک گویا سارے قرآن میں تجدید دین یا مجدد کا کوئی لفظ نہیں ملتا.تب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو دوسری بات بتائی اس کے مطابق غور کرنا پڑے گا.آپ نے فرمایا نبی کریم اللہ نے جو بھی فرمایا ہے وہ قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہے.پھر آپ ے یہ فرمایا کہ محمد ﷺ کا بڑا ارفع اور بلند مقام تھا.خدا تعالیٰ سے آپ معلم سیکھتے تھے.یہ تو ہم مانتے ہیں کہ آپ قرآن کریم کی کسی آیت کی اتنی دقیق تفسیر کر جائیں صلى الله

Page 461

فرمودہ ۱۹۷۷ء 458 د دمشعل تل راه جلد دوم کہ عام آدمی کے دماغ کو اس کے ماخذ کا پتہ نہ لگے اور سمجھ میں نہ آئے کہ یہ کس آیت کی تفسیر ہے.آپ نے فرمایا کسی کو سمجھ آئے یا نہ آئے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر نہ ہو.اگر تجدید دین والی یہ حدیث درست ہے ( اور ہے یہ درست تو یہ قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہونی چاہیے اور اگر یہ قرآن کریم کی کسی آیت کی بھی تفسیر نہیں ( میں سمجھتا ہوں کہ یہ کہنا غلط ہو گا یہ ضرور کسی آیت کی تفسیر ہے ) تو پھر اس کو ہم یہ کہیں گے کہ یہ حدیث صحیح نہیں.کسی راوی نے کہیں سے غلط بات اٹھالی اور آگے بیان کر دی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ جس آیت کی تفسیر ہے وہ آیت استخلاف ہے جس کی ابھی قاری صاحب نے تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وعد الله الذين امنوا منكم و عملوا الصلحت ليستخلفنهم في الارض كما استخلف الذين من قبلهم و ليكمنن لهم دينهم الذي ارتضى لهم و ليبدلنهم من بعد خوفهم امنا يعبدونني لا يشركون بى شيئًا ومن كفر بعد ذلک فاولئک هم الفاسقون (النورآيت (۵۶) اس آیت کریمہ کو آیت استخلاف کہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے خلیفہ اور مسجد کا لفظ اکٹھا استعمال کیا ہے ہمیں بتانے کیلئے کہ جہاں ہم مجدد بولتے ہیں وہاں سے مراد خلیفہ ہوتا ہے کیونکہ اگر یہ حدیث قرآن کریم کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتی تو ہمیں یہ حدیث چھوڑنی پڑے گی.آیت استخلاف اب میں آیت استخلاف کو لیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آیت استخلاف کے جو معنے گئے ہیں اس سے پہلے جو بات میں بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ نے فرمایا نبی کریم ﷺ کی بعثت کے بعد اب ہر خیر کے آزادانہ حصول کے ذرائع بند ہو گئے یعنی کوئی شخص بھی اپنے طور پر آزادانہ خدا تعالیٰ سے کوئی خیر حاصل نہیں کر سکتا.یعنی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی شخص کا نبی کریم ہاتھ سے کوئی تعلق اور واسطہ نہ ہو اور اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی بشارت مل جائے، کوئی روحانی مقام مل جائے یا کوئی رتبہ مل جائے.آپ نے فرمایا جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے نبی کریم میلے کے افاضہ روحانیہ کی ضرورت نہیں اور وہ آپ کے روحانی افاضہ کے بغیر کوئی مقام حاصل کر سکتا ہے خواہ وہ کتنا چھوٹا مقام کیوں نہ ہو تو وہ ذریت شیطان ہے.پس جب یہ حقیقت ہمارے سامنے آئی کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد (اصل میں تو پہلے بھی یہی تھا لیکن وہ ذرا دقیق مسئلہ ہے اور ہمیں اس کے بیان کرنے کی اس وقت ضرورت نہیں.بہر حال ) اگر ہمیں ہر خیر محمد میں اللہ کے افاضہ روحانیہ کے نتیجہ میں مانی ہے تو جس حد تک ہمیں یہ خیر ملے اور اس سے ہم دوسروں کوفائدہ پہنچائیں تویہ گویا محمد اللہ کی نیابت میں ہم فائدہ پہنچا ہے ہوں گے.یعنی جو دوسرے کو ہم سے کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے یا ہم اسے جو فائدہ پہنچارہے ہیں وہ دراصل محمد اس کے کی

Page 462

459 فرمودہ ۱۹۷۷ ء د مشعل راه جلد دوم نیابت میں ہم پہنچارہے ہیں اور اسی نائب کو خلیفہ کہتے ہیں.یہ عام معنے ہیں اور اس معنی میں امت محمدیہ میں ہر وہ شخص جس نے محمد رسول الله الا اللہ کے افاضہ رحانیہ کے ذریعہ کوئی خیر حاصل کی یا کوئی فائدہ حاصل کیا اور اسے لوگوں تک پہنچایا وہ اپنے محدود دائرے میں نبی کریم ﷺ کا خلیفہ اور نائب ہے اور ساری امت محمدیہ نبی کریم اللہ سے فیض حاصل کر رہی ہے سوائے منافقوں کے جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں یا ان لوگوں کے جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے فی قلوبھم مرض کہ ان کے دل بیمار ہیں یا ان لوگوں کے جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ہم تو ان کو بلندیوں کی طرف لے جانا چاہتے تھے لیکن اخلد الی الارض وہ ازمین کی طرف جھک گئے.اس فیض کی دوحد بندیاں ہیں.ایک تو انسان کی اپنی استطاعت ہے یعنی خدا تعالیٰ نے کسی کو جتنی طاقت نبی اکرم سے فیوض حاصل کرنے کی دی ہے اس طاقت کے مطابق ہی وہ فیوض حاصل کر سکتا ہے.مثلا کسی کو صدیق بننے کی طاقت دی وہ صدیق بن سکتا ہے.کسی کو شہید بننے کی طاقت دی وہ شہید بن سکتا ہے.کسی کو صالح بننے کی طاقت دی وہ صالح بن سکتا ہے.جس آدمی کو صرف صالح بننے کی طاقت دی گئی ہے وہ صالح کی بجائے شہید نہیں بن سکتا جس کو صرف شہید بنے کی طاقت دی گئی ہے وہ صدیق نہیں بن سکتا.ہر شخص اپنی خدا دا د استعداد اور صلاحیت کے مطابق دنیا میں بھی ترقی کرتا ہے اور روحانیت میں بھی ترقی کرتا ہے.یہ ایک واضح مسئلہ ہے.تاہم یہ جو صلاحتیں اور قوتیں ہیں ان میں بڑا فرق ہے اور یہ فرق کیوں ہے؟ یہ ایک علیحدہ سوال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر بھی بڑی سیر حاصل بحث کی ہے لیکن اس مضمون سے میری تقریر کا تعلق نہیں.پس ایک یہ حد بندی ہے کہ ہر شخص کا جو دائرہ استعداد ہے اس دائرے سے وہ باہر قدم نہیں رکھ سکتا.یہ ناممکنات میں سے ہے دوسرے یہ کہ انسانی ترقیات کیلئے جو دائرہ استعداد ہے اس کے اندر اس کو مجاہدہ کرنا پڑتا ہے.اگر ایک شخص کو صدیق بننے کی طاقتیں خدا نے دی تھیں اپنے فضل اور رحمت کے ساتھ لیکن اس نے دین کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور بجائے صدیق بننے کے وہ چور بن گیا تو اس نے کچھ بھی نہ حاصل کیا.لیکن اگر وہ صدیق نہیں بنا، شہید بھی نہیں بنا، صالح بن گیا تو دائرہ استعداد اس کا ایسا تھا کہ وہ صدیق بن سکتا تھا لیکن اس کی اپنی تدبیر اور مجاہدہ اس کے مطابق نہیں تھا اس کی اپنی کوشش، اس کی اپنی لگن، اس کے دل میں یہ جلن کے اے خدا جتنا میری جھولی میں آسکتا ہے وہ مجھے دیدے.رب اني لما انزلت الى من خير فقیر ہر خیر جو تو مجھے دے سکتا ہے دے دے.خدا تعالیٰ کو تو پتہ ہے کہ کس قسم کی استعداد میں نے دی ہے.پس یہ وہ حدود ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے انسان ترقی کر سکتا ہے.وہ اپنے دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتا.دائرہ استعداد کے اندر اپنے ایثار ، اپنے اخلاص، خدا تعالیٰ سے اپنی محبت اور محمد اللہ سے عشق کے مطابق اس کی صلاحیت اور قوت کا جو دائرہ ہے وہ اس کی انتہاء کو پہنچ سکتا ہے اور جو شخص بھی اس کوشش اور مجاہدہ میں دعاؤں کے ذریعہ سے اور خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اور عاجزانہ اور متضرعانہ دعائیں کر کے خدا تعالیٰ سے خیر مانگتا ہے اور پھر

Page 463

دومشعل دوم فرمودہ ۱۹۷۷ء 460 اس کو کچھ ملتا ہے تو یہ محمد کے افاضہ روحانیہ کے طفیل ملتا ہے اور اس حد تک وہ آپ کا خلیفہ اور نائب ہے کیونکہ آگے پھر اس سے لوگوں کو فیض ملتا ہے.کیونکہ محمد ہے تو ہ عظیم ہستی ہیں جن کے متعلق کہا گیا ہے لعلک باخع نفسك الا يكونوا مومنین کہ تیرا کوئی دشمن ہی نہیں.جولوگ تیرے بد ترین دشمن ہیں ان کیلئے بھی تیری یہ حالت ہے کہ وہ تو اپنی جان دینے کیلئے تیار ہے کہ کسی طرح وہ ایمان لے آئیں اور خد تعالیٰ کے قہر اور اس کے غضب سے محفوظ ہو جائیں.اس لئے جو شخص محمد رسول اللہ اللہ کے افاضہ روحانیہ سے کچھ حاصل کرتا ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ صرف اپنی جگہ کھڑا رہے اور اس خیر کو جو اسے حاصل ہوئی ہے اپنے تک محدود رکھے بلکہ وہ اسے آگے پہنچاتا ہے اور اس میں دوسروں کو بھی اپنے ساتھ حصہ دار بناتا ہے اور افاضہ خیر اس لئے ہوا کہ اس نے ایک حد تک ایک دائرہ میں محمد ﷺ کو اسوہ حسنہ بنایا.وہ اسے اپنے پاس کیسے رکھ سکتا ہے.صلى الله جنگ خندق کے موقع پر کھانے کی بڑی کمی ہو گئی تھی اس لئے آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ بھوک سے بے حال ہو گئے تھے.بزرگوں کا یہ تجربہ ہے کہ اگر بھوک کی تکلیف ہو یعنی پیٹ میں کچھ نہ ہو، پیٹ خالی ہو تو اس سے جو پیٹ کو تکلیف ہوتی ہے اس کو دور کرنے کی ایک ترکیب یہ بھی ہے کہ پیٹ پر پتھر رکھ کر اس کو کسی کپڑے سے باندھ لیں.کپڑے سے بندھا ہوا وہ پتھر معدے کو دبادے گا تو بھوک کا احساس زیادہ شدت سے نہیں رہے گا.غرض بھوک کی جب یہ حالت تھی تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! اب تو حد ہوگئی.ہماری تکلیف انتہاء کو پہنچ گئی.کھانا ملتا نہیں.کفار کی فوج نے ہمارا گھیراؤ کیا ہوا ہے.ہمارے کھانے پینے کی چیزیں باہر سے آتی تھیں ان کے رستے بند ہو گئے ہیں.وہ اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر کہنے لگا یہ دیکھیں! یہ حال ہو گیا ہے.اب ہمیں پتھر باندھنے پڑ گئے ہیں.تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو پھر یہ بھی دیکھو.آپ نے اپنے پیٹ پر سے کپڑا اٹھایا تو اس کے ایک پتھر کے مقابلے میں آپ نے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے تھے.اس حالت میں ایک صحابی جن کے پاس گھر میں تھوڑا سا آنا تھا اور ایک بکر وٹا تھا انہوں نے بکروٹا ذبح کیا اور صاف کرنے کے بعد بیوی سے کہا تم کھانا تیار کرو میں محمد ﷺ کے کان میں جا کر کہتا ہوں کہ میں نے آپ کی دعوت کی ہے کھانا تیار ہے آ کر کھالیں.وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.اس کو یہ پتہ تھا کہ دس پندرہ آدمیوں سے زیادہ یہ کھانا پورا نہیں ہوسکتا.وہ آہستہ سے کہنے لگا یا رسول اللہ ہمارے گھر میں کچھ کھانا تیار ہے حضور آکر کھانا کھا لیں.اسے پتہ تھا کہ کئی دنوں کے فاقے ہیں.جب آپ نے یہ سنا تو آپ کا اسوہ حسنہ دیکھیں کہ آپ نے یہ اعلان کر دیا کہ اے لوگو! فلاں شخص نے ہماری دعوت کی ہے چلو چل کر کھانا کھا لیں.اس حالت میں پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے ہیں آپ اکیلے نہیں جاتے بلکہ باقی لوگوں کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں.میں آپ کو بتارہا ہوں کہ جس نے محمد یا اللہ کے فیض سے کچھ حاصل کیا ہے اس کے متعلق یہ سمجھ لیں کہ وہ اپنے تک اسے محدود نہیں رکھ سکتا.اس نے بہر حال اپنے ساتھ اور وں کو بھی حصہ دار بنانا ہے.چنانچہ جب آنحضرت امیہ نے اعلان فرمایا تو بہت سارے لوگ جو جا سکتے تھے وہ تیار ہو گئے.آپ نے اس صحابی سے کہا واپس اپنے گھر جاؤ اور بیوی سے کہو جب تک میں نہ آؤں اس وقت تک سالن برتنوں صلى الله

Page 464

461 فرمودہ ۱۹۷۷ ء د و مشعل راه جلد دوم دد میں نہ ڈالے بس پتیلے کے اندر رکھے اور روٹیاں پکانا بھی شروع نہ کرے.وہ دوڑا دوڑا گھر گیا اور بیوی سے کہا.دیکھنا سالن کو ہاتھ نہ لگانا اور آٹا بھی اسی طرح رہنے دو آنحضرت یہ تشریف لا رہے ہیں.وہ اپنے دل میں کہنے لگا پتہ نہیں کیا حال ہوگا آنحضرت ﷺ نے سب میں اعلان کر دیا کہ آجاؤ کھانا کھا لو.خیر آپ تشریف لائے اور آپ نے سالن پر بھی اور آٹے پر بھی دعا کی اور پھر اپنے ہاتھ سے تقسیم کرنا شروع کر دیا.چنانچہ سالن بھی کافی ہو گیا اور روٹیاں بھی کافی ہوگئیں.ویسے یہ کھانا کافی نہیں ہوسکتا تھا.یہ خدا تعالیٰ کی شان ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک الله نشان دکھایا.پس میں بتا یہ رہا ہوں کہ جس شخص نے محمد اللہ سے فیض حاصل کیا وہ اس کو ایک کنجوس آدمی کی طرح اپنے تک محدود کیسے رکھ سکتا ہے.جو آدمی اس عظیم نفی کی سخاوت سے سیراب ہوا ہو جس کی سخاوت کا انسان تصور بھی نہیں صلى الله.کر سکتا ( ع ) اور اس کے اسوہ حسنہ پر چل کر اس نے کچھ حاصل کیا ہو وہ تو اس فیض کو آگے بانٹے گا.جب وہ بانٹے گا تو نائب کے طور پر بانٹے گا وہ اپنی طرف سے تو نہیں بانٹے گا اور اس حد تک وہ خلیفہ بن گیا.تو گویا خلفاء کی لاکھوں کی فوج ہے جو محمدعا اللہ سے فیض حاصل کر کے آگے پہنچاتے ہیں.دوسرا وعده آیت استخلاف میں دوسرا وعدہ یہ ہے ، جو بزرگ ہیں وہ بھی جیسا کہ میں نے بتایا ہے گنتی کے تو نہیں.مثلاً کہا گیا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے ساتھ اتنے بزرگ اولیاء اللہ تھے کہ جن کا کوئی شمار نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں ان کے دین کی تجدید کیلئے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی ہوتے تھے.امت محمدیہ تو بڑی وسعتوں والی امت ہے اور یہ تو ساری دنیا میں پھیلنے والی ہے اس میں تو سینکڑوں کے مقابلے میں ہزاروں ہوں گے مگر یہ خلفاء ہیں.خلفاء کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ جس ” طرح كما استخلف الذين من قبلھم میں ” کہا مشابہت کیلئے آیا ہے یعنی جس طرح امت موسویہ میں ایک وقت میں چار چار سو نبی ہوتے تھے اسی طرح امت محمدیہ میں چار چار سو سے نہیں زیادہ خلفائے محمد ہوں گے جو دین کی خدمت کرنے والے ہوں گے اور چونکہ انہوں نے تجدید کرنی ہے اس لئے وہ مجدد بھی ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ ہر نبی مجدد ہے لیکن ہر مجدد نبی نہیں.تھوڑی سی تجدید دین کرنے کے لحاظ سے امت کی اکثریت بطور خلیفہ محمد یا اللہ مجد بھی ہے وہ تجدید دین کرتے ہیں لیکن نبی تو نہیں بن گئے.ہر خلیفہ مجدد ہوتا ہے اس وقت جماعت احمدیہ میں تیسرے خلیفہ کا زمانہ گزررہا ہے.چنانچہ مجھ سے پہلے ہر دو خلفاء کا اور میرا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر خلیفہ مجدد بھی ہوتا ہے لیکن ہر مجد دخلیفہ نہیں ہوتا کیونکہ خلافت ایک بہت اونچا مقام ہے

Page 465

فرمودہ ۱۹۷۷ء 462 د دمشعل را ل راه جلد دوم ایسے مسجد سے جو خلیفہ نہیں یعنی اس معنی میں جس کو ہم خلافت راشدہ کہتے ہیں.حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پہلے خلفاء ہوں گے پھر بادشاہت شروع ہو جائے گی اور پھر آخری زمانے میں منہاج نبوت پر خلفاء کا زمانہ آجائے گا اور یہ کہہ کر آپ خاموش ہو گئے.جس کا مطلب یہ ہے کہ پھر اس کا سلسلہ قیامت تک چلے گا.یہی مطلب ہم لیتے ہیں کیونکہ یہی مطلب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیا ہے.ایک لحاظ سے محمد اللہ سے فیض حاصل کرنے والا ہر شخص آیت استخلاف کے ماتحت آپ کا نائب ہے اور اسی کو ہم خلیفہ کہتے ہیں اور ایک دوسرے لحاظ سے انبیائے بنی اسرائیل کے مقابلے میں انعامات نبوت حاصل کرنے والے اس سے زیادہ تعداد میں جتنے امت موسویہ میں تھے امت محمدیہ میں وہ خلفاء ہیں.یہ ایک دوسرا سلسلہ خلافت کا ہے اور ایک تیسر اسلسلہ خلافت کا ہے اور یہ تیسر ا سلسلہ خلافت کا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اس سلسلہ خلافت میں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں گن کر اور شمار کر کے ہمیں بتایا ہے کہ وہ تیرہ خلیفے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد تیرہ امت موسویہ یعنی بنی اسرائیل میں اور تیرہ ہی محمد ہے کے بعد امت محمدیہ میں ہوئے اور ان تیرہ سے تیرھواں اور آخری میں ہوں.اور یہ خلافت کا ایک علیحدہ سلسلہ ہے.آپ نے فرمایا میں مجددالف آخر ہوں.میں امام آخر الزماں ہوں.میں آخری ہزار سال کا آدم ہوں مختلف الفاظ استعمال کر کے آپ نے اپنے مقام کو ظاہر کیا.پس یہ جو سلسلہ خلافت ہے اس میں تیرہ خلیفے ہیں چودھواں کوئی نہیں.اس کی گنجائش ہی کوئی نہیں.ہاں بنی اسرائیل کے انبیاء کے مقابلے میں ہزاروں کی تعداد میں محمد علیہ کے خلفاء آتے رہیں گے.ان کو انعامات نبوت ملیں گے مقام نبوت ان کو نہیں ملے گا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے آج اسلام کی جو جنگ لڑی جارہی ہے اس میں اتحاد اور یک جہتی کی ضرورت ہے اس لئے جماعت کے اندر ایک ایسا اتحاد ہونا چاہیئے جس میں انتشار کا شائبہ تک نہ ہو اور جو شیطانی تدبیریں اور منصوبے ہیں ان کے خلاف ایسا منصوبہ اور تدبیر کی جائے جس میں پوری یک جہتی ہو.یہ نہ ہو کہ کچھ ادھر سے دباؤ پڑ رہا ہو اور کچھ ادھر سے دباؤ پڑ رہا ہو.اس یک جہتی اور اس اتحاد کو قائم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایا کہ تیرے بعد میں ایک ایسا سلسلہ خلافت قائم کر رہا ہوں جو قیامت تک قائم رہے گا ( میں آپ کا کوئی اقتباس نہیں پڑھ رہا.کم و بیش اپنے الفاظ میں بتارہا ہوں اس لئے ہو سکتا ہے کہ الفاظ میں کچھ فرق پڑ جائے) آپ نے فرمایا میں خدا تعالیٰ کی مجسم قدرت ہوں.خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اپنی زبر دست قدرت کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ کہ میرے بعد خدا تعالیٰ بعض اور وجودوں کے ہاتھ پر اپنی زبر دست قدرت کو ظاہر کرے گا.اور یہ خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی شان ہے کہ اسلام کو غالب کرنے کیلئے اس نے ایک نظام قائم کر دیا ہے.فرمایا ایک زبر دست قدرت جو میرے بعد تمہیں ملنے والی ہے یہ بالا تصال یعنی کسی وقفے کے بغیر قیامت تک تمہارے ساتھ رہے گی.پھر آپ نے ایک دوسری جگہ فرمایا جب قیامت کا زمانہ آئے گا تو وہ نسل آدم پر قیامت ہے.ہمارے آدم کی نسل تباہ ہو جائے گی.

Page 466

463 فرمودہ ۱۹۷۷ء دد و مشعل راه جلد دوم حضرت مسیح موعود محض مسجد دنہیں امام آخرالزمان بھی ہیں میں مختصر بتا دیتا ہوں آپ سن لیں اور یا درکھیں.آپ نے فرمایا ہے کہ اس معمورہ دنیا میں یعنی یہ جو ہماری زمین ہے اس میں ایک آدم پیدا نہیں ہوا بلکہ بیسیوں سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدم ہمارے آدم سے پہلے پیدا ہو چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ قانون نافذ ہے کہ ہر آدم کا دور سات ہزار برس کا ہوتا ہے یعنی ہر آدم کے آنے کے سات ہزار سال بعد اس کی نسل پر قیامت آجاتی ہے اور اگر خدا چاہے تو ایک اور آدم پیدا کر دیتا ہے.اب ہمارے اس آدم کی نسل کی جو عمر ہے اس کے ساتویں ہزار میں داخل ہو گئے ہیں اور یہ آخری ہزار سال خدا اور اس کے مسیح کا ہے.اور یہ ہزار سال صلاحیت اور نیکی کا اور تقویٰ کا ہے.یعنی اسلام سب ادیان پر غالب آجائے گا.پھر اسلام کا دور شروع ہو جائے گا.اس کے بعد کسی مسیح کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.بعض لوگ کہتے ہیں کہ پھر نبی پیدا کرنے کی خدا تعالیٰ کی جو طاقت ہے کیا وہ ختم ہو جائے گی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کہتے ہیں ہمارے آدم کی نسل میں ایک لاکھ بیس ہزار یا بعض کہتے ہیں ایک لاکھ بیس ہزار نبی پیدا ہوئے.اگر اس آدم کی نسل پر قیامت برپا ہوئی اور ایک اور آدم پیدا ہوگیا تو ایک لاکھ چوبیس ہزار اور نبی پیدا ہو جائے گا.پس خدا تعالیٰ کی یہ طاقت ہے کہ وہ نبی پیدا کرتا ہے.اس کی یہ طاقت بند تو نہیں ہوئی.صرف اس نبوت کے مخاطب ابنائے آدم جو ہمارا آدم ہے، وہ نہیں ہوں گے بلکہ ابنائے آدم آخر جو بعد میں آنے والا آدم ہے اس کے ہوں گے.ہمیں نہیں پتہ نہ ہمیں اس میں کوئی دلچسپی ہے، اپنی خیر منانی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول نہ لیں.اس کے بعد ہمیں پتہ نہیں اس دنیا میں سو آدم آتا ہے یا ہزار آدم آتا ہے یا ایک لاکھ آدم آجاتا ہے.لیکن اگر ایک لاکھ آدم آئے اور ایک لا کھ کو ایک لاکھ میں ہزار سے ضرب دے دو پھر بارہ ارب نبی تو آگئے.اس لئے اللہ تعالیٰ کی ذات پر کوئی اعتراض نہیں پیدا ہوتا.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ منافق جب یہ کہتا ہے تو وہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کو گرا کر کہتا ہے کہ آپ مجدد تھے اور صدی کے آخر میں ایک اور مجدد آئے گا.لیکن سنو آپ محض مجد نہیں تھے آپ مسیح بھی تھے، آپ مہدی بھی تھے، آپ امام آخر الزماں بھی تھے آپ مجددالف آخر بھی تھے، آپ محمد اللہ کے سب سے زیادہ محبوب بھی تھے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو فرمایا ہے کہ قیامت تک کا زمانہ تمہارا زمانہ ہے.اس لئے کوئی شخص آپ سے یہ زمانہ چھینے کیلئے تو نہیں آسکتا البتہ آپ کا خادم ہو کر آ سکتا ہے.مگر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے جو خادم آئے ہیں وہ خلفائے سلسلہ حقہ احمد یہ ہیں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خادموں کے لشکر میں شامل ہو کر اور پھر مسیح موعود علیہ السلام اپنے ان تمام خدام کے لشکر کے ساتھ محمد ماہ کے دربار میں بطور ایک خادم کے کھڑے ہوئے ہیں.اللهم صل علی محمد و ال محمد.اب ہم عہد دہرائیں گے.اس کے بعد ہم دعا کریں گے.پھر میں آپ کو السلام علیکم کہوں گا اور آپ کو رخصت کروں گا.میری دعا ہے سفر و حضر میں اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو.عہد دہرانے کے بعد حضور کی اقتداء میں دعا پر یہ با برکت اجتماع اختتام پذیر ہوا.( بحوالہ روزنامه الفضل ۲۱ مئی ۱۹۷۸ء)

Page 467

مشعل راه جلد دوم د را فرموده ۱۹۷۸ء سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے سالانہ اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے ۱/۲۰اکتو بر ۱۹۷۸ء ۴ بجے شام خدام سے جو خطاب فرمایا اس کا مکمل متن درج ذیل ہے.464 تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - سب سے پہلے تو میں حکومت کا شکر یہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ہمیں پھر سے کھلی فضاء میں خدام الاحمدیہ کا اجتماع منعقد کرنے کی اجازت دی.اللہ تعالیٰ انہیں جزاء دے.میں ایک لمبا عرصہ ملک سے باہر رہا ہوں اور باہر جا کر وہیں کے اخبار دیکھنے ہوتے ہیں جو کہ ہر ملک متعلق اپنی مخصوص قسم کی باتیں لکھتے ہیں.یہاں آ کر مجھے اس بات سے خوشی ہوئی کہ حکومت وقت کے نزدیک حالات اتنے سدھر گئے ہیں کہ پہلے تبلیغی جماعت کا جلسہ ہوا اور وہ پر امن طور پر ہو گیا پھر ملتان میں سنیوں کی طرف سے بہت بڑا اجتماع ہوا.میں نے پڑھا تو نہیں کہ اس میں کتنے آدمی تھے لیکن جو تصویر میں نے اخبار میں دیکھی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کئی لاکھ کا اجتماع تھا اور وہ بڑے امن سے گزر گیا.حکومت نے اس کی اجازت دی اور اب یہ ہمارا مختصر سا اجتماع منعقد ہورہا ہے.یہ واقعات یہ جلسے بتا رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں جو ایک غلط قسم کی فضا پیدا ہوگئی تھی وہ سدھرنے لگی ہے اور حالات پہلے سے بہت بہتر ہو چکے ہیں.فالحمد للہ علی ذلک یہ زمانہ اسلام کے غلبہ کا زمانہ ہے ہم یہ کہتے ہیں اور بشارتوں کے مطابق یہ کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود مہدی موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اس غرض کے لئے آلہ کار بنایا ہے کہ اسلام دنیا میں غالب ہو.ساری دنیا میں تمام ممالک میں اس کرہ ارض کے کونے کونے میں براعظموں میں بھی اور جزائر میں بھی.اس دنیا پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں جس کے متعلق ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں اسلام اس زمانہ میں غالب آئے گا تو ہمیں بعض تو میں دنیوی لحاظ سے بہت ترقی یافتہ نظر آتی ہیں اور وہ اتنی مہذب ہیں کہ بہت سے دوسرے ممالک جن کا ان قوموں کے ساتھ عقیدہ اور عادہ روایۃ اور ثقافتہ کوئی تعلق نہیں ہے وہ بھی ان کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں اور اس نقل پر فخر کرتے ہیں.باوجود یہ سمجھے جانے کے کہ وہ بہت ہی مہذب اقوام ہیں اور انہوں نے بعض میدانوں میں بے شک ترقی بھی کی ہے لیکن ان کی حالت کوئی ایسی اچھی نہیں ہے.جب ہم انہیں غور سے دیکھتے ہیں اور ان کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی تہذیب میں ہمیں بہت سی بنیادی کمزوریاں نظر آتی ہیں.ان میں ایک یہ ہے جس کا

Page 468

465 فرموده ۱۹۷۸ء د و مشعل راه جلد دوم دد میں نے بعض پر یس کا نفرنسز میں ذکر بھی کیا کہ جب ظلم کی انتہاء ہو تو اگر اس کے مقابلے میں ایک اور ظلم ہو اور پھر اس کے بعد ایک اور ظلم ہو اور اس کے ردعمل میں ایک اور ظلم ہو تو یہ ظلم کا ایک بڑا ہی وسیع دائرہ بن جائے گا"vicious circle سر ظلم کا ردعمل ظلم ظلم ک ردعمل ظلم ظلم کا ردعمل ظلم اس دائرے کو دوہی چیز میں کاٹ کر ظلم کی جگہ انصاف کا ماحول پیدا کر سکتی ہیں.ایک یہ کہ اگر یہ ظلم جنگوں کی شکل میں ظاہر ہو تو جیتنے والی اقوام شکست خوردہ اقوام کو معاف کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں.اگر وہ معاف کر دیں گی تو ظلم کا خاتمہ ہو جائے گا.یا اگر یہ نہیں تو مظلومیت یعنی ظلم سہہ لینا اور اس کا جواب نہ دینا بھی ظلم کا دروازہ بند کر دیتا ہے کیونکہ یہ vicious" "circle ویشس سرکل چالو ہی تب رہتا ہے جب اس کا رد عمل بھی ظلم ہو.اسلام کا حسن سلوک اور جنگ عظیم اس سفر میں ایک پریس کانفرنس میں پہلے تو میں نے صحافیوں سے کہا کہ اسلام کے متعلق مجھ سے جو مرضی پوچھو میں جواب دوں گا لیکن وہ خاموش رہے تو میں نے کہا کہ اچھا آپ چاہتے ہیں کہ میں پہلے بات کروں.چنانچہ میں نے یہ بات کی کہ آپ کی تہذیب دنیا میں بڑی اچھی سمجھی جاتی ہے مگر اس میں بنیادی نقائص بھی ہیں.یہ فرینکفورٹ (جرمنی) کی بات ہے.میں نے انہیں کہا کہ آپ لوگوں نے دو عالمگیر جنگیں لڑیں عیسائیوں نے عیسائیوں سے لڑائی کی اور ایک جنگ میں ایک طرف عیسائیوں کے ساتھ کیمونزم یاد ہر یت بھی شامل ہو گئی.ان جنگوں کے جو واقعات محفوظ کئے گئے ان میں مجھے کہیں یہ نظر نہیں آیا کہ اتحادیوں نے جرمنوں اور ان کے ساتھیوں کے زیادہ آدمی قتل کئے یا جرمن قوم اور اس کے ساتھیوں نے اتحادیوں کے زیادہ آدمی قتل کئے.یہ کہیں نہیں ملتا کہ جانی نقصان کے لحاظ سے کس نے دوسرے کی نسبت زیادہ ظلم کیا لیکن جب دو تو میں آپس میں جنگ کرتی ہیں تو بہر حال ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب ایک قوم جیت جاتی ہے اور دوسری شکست کھاتی ہے.میں نے انہیں کہا کہ دونوں دفعہ ایسا ہوا کہ اتحادی جیتے اور جرمن قوم نے شکست کھائی.تم لوگوں نے اپنے آدمی بھی مروائے اور شاید ان سے زیادہ مروائے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جان لینے کے لحاظ سے تم سے زیادہ ظالم تھے مگر وہ جیت گئے اور انہوں نے تمہیں معاف نہیں کیا.ان پر اتنا تاوان جنگ ڈالا گیا جو قوموں کی کمر توڑ دینے والا ہے مگر وہ قوم بڑی سخت ہے اس کو بھی سہہ گئی.پھر ان کے ساتھ حقارت کا سلوک کیا وہاں پر چھاؤنیاں ڈال لیں اور بہت برا سلوک ان سے کیا.پہلی جنگ عظیم کے بعد اسی قسم کا سلوک تھا جس کے نتیجے میں انسان کو دوسری جنگ عظیم لڑنی پڑی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اسی قسم کا ظلم تھا جس کے نتیجے میں اب وہ ڈر رہے ہیں کہ تیسری جنگ عظیم جو بڑی ہولناک ہوگی اس کا سامنا نہ کرنا پڑے.میں نے انہیں کہا کہ یہ تو تمہارے حالات ہیں لیکن انسانی تاریخ میں ایک اور واقعہ بھی گزرا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک شخص پر رؤسائے مکہ نے ۱۳ سال تک مکی زندگی میں انتہائی مظالم ڈھائے اور جب وہ یعنی محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے تو پھر آپ کا پیچھا کیا اور تلوار کے زور سے دل

Page 469

فرموده ۱۹۷۸ء 466 د و مشعل راه جلد دوم کے خیالات کو بدلنے کے لئے انہوں نے گردنیں اڑائیں اور کم و بیش سات سال تک یہ مظلومیت کی حالت مدنی زندگی میں بھی رہی.میں سال تک آپ پر مظالم ڈھائے گئے.دونوں جنگوں میں جو کہ عظیم جنگیں کہلاتی ہیں اتنی لمبی تکلیف کسی قوم نے نہیں اٹھائی.لیکن ہیں سالہ مظالم سہنے کے بعد جب خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے حالات بدل دیئے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ کی فصیلوں پر کھڑے تھے اور اس وقت حالات اتنے بدل چکے تھے کہ رؤسائے مکہ میں اتنی سکت بھی نہیں تھی کہ تلوار میان سے نکالتے اور تلوار کا مقابلہ تلوار سے کرتے جو لوگ ہیں سیال تک لڑتے آئے تھے وہ اس دن بھی خواہ ہارنے والی جنگ لڑتے لیکن لڑتے.مگر ان میں اتنی سکت بھی نہیں تھی.اور آپ میں دنیوی نقطہ نگاہ سے اتنی طاقت تھی کہ جو چاہتے ان سے سلوک کرتے اور رؤسائے مکہ جب اپنے نفس پر غور کرتے تھے تو یہی خوف رکھتے تھے کہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے گا.لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جو سلوک کیا وہ یہ تھا کہ ”جاؤ میں تم سب کو معاف کرتا ہوں اس کے بعد عرب میں جنگ ختم ہوگئی.پھر کسری نے ایک نئی جنگ کی طرح ڈالی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اور ان کو بھی مسلمانوں نے معاف کر دیا.پھر قیصر سامنے آیا.جس طرح اب دو عالمگیر جنگیر ہوئی ہیں اسی طرح اس وقت دنیا کی دو بڑی طاقتیں اسلام کے مقابلہ پر آئیں لیکن ان کے ساتھ اسلام کے ماننے والوں نے جو حسن سلوک کیا وہ اپنی تاثیر کے لحاظ سے اتنا ز بر دست تھا کہ انہوں نے ان کے دل خدا اور خدا کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیت لئے.دوسری بات میں نے انہیں یہ کہی کہ ہیں تو آپ تہذیب یافتہ لیکن آپ کی تہذیب اس بات کو برداشت نہیں کرتی کہ پورا سچ دلیری کے ساتھ بولیں.سچ کے اندر تھوڑا سا جھوٹ ملاتے ہیں تب بات کرتے ہیں.میں نے ان کو کہا کہ یہ Civilization Compromise of (کمپرومائز ) کرتے ہو اور یہ صرف بولنے کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ان کا یہی حال ہے.میں نے ان کو ایک مثال دی.میں نے کہا کہ ایک فلم بنانے والی پارٹی امریکہ سے پاکستان آئی اور وہ لداخ کی طرف جارہی تھی.لداخ اب دو حصوں میں بٹ چکا ہے.ایک حصہ پاکستان میں ہے اور دوسرا ہندوستان میں ہے.چنانچہ وہ یہاں بھی اور دوسرے حصے میں بھی گئے.اس فلم کا نام انہوں نے رکھا تھا In Quest of Christ یعنی مسیح کی تلاش میں چونکہ بعض تاریخوں میں آیا ہے کہ حضرت مسیح واقعہ صلیب کے برسوں بعد ان علاقوں میں پھرتے رہے اور یہاں انہوں نے یہودیوں کے اندر تبلیغ کی اس لئے ان کے نشان تلاش کرنے کے لئے ایک ٹیم یہاں بھیجی گئی ان کی لیڈر ایک عورت تھی جس نے پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی وہ سارے اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے میں نے انہیں کہا کہ مجھے ایک بات بتاؤ تم لوگ in quest of Christ یعنی مسیح کی تلاش میں لداخ جارہے ہو اگر تمہیں واقعہ میں وہاں ایسے ثبوت مل جائیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ صلیب کے ۰،۶۰،۵۰،۴۰،۳۰ ۷ سال کے بعد ان لوگوں میں زندگی گزارتے رہے تو کیا تم یہ ثبوت اپنی فلم میں سینما ہال

Page 470

467 فرموده ۱۹۷۸ء دو مشعل راه جلد دوم میں جا کر دکھا دو گے؟ تو وہ عورت کہنے لگی کہ لولو ہم نے اپنا سارا سرمایہ ضائع کرنا ہے؟ میں نے کہا کہ یہ تو تمہاری حالت ہے تم سچ بول ہی نہیں سکتے.سچ کے ساتھ کچھ جھوٹ بھی ملاتے ہو تب بات کرتے ہو.سچائی اور قولِ سدید کی تعلیم قرآن کریم نے ہمیں جو تعلیم دی ہے وہ صرف یہ نہیں کہ سچ بولنا ہے بلکہ اس کے ساتھ کہا کہ قول سدید کہنا ہے یعنی سچ بھی بڑا اعلیٰ قسم کا جس کے اندر کوئی ہیر پھیر اور چالا کی نہ ہو.بعض سچ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں بولنے والا چالا کی بھی کر جاتا ہے لیکن اسلام یہ نہیں کہتا بلکہ وہ قول سدید کی تعلیم دیتا ہے.اور ہم نے سوچا آپ بھی سوچیں کہ اس کے بغیر دنیا میں امن قائم ہی نہیں ہو سکتا.اگر ہر شخص دوسرے پر اعتبار ہی نہ کرے تو امن کی فضا کیسے پیدا ہوگی.پھر تو بدظنی کی فضا ہوگی کہ میرے ساتھ بات کرتے ہوئے کوئی چالا کی کر گیا ہوگا.لیکن اگر طرہ امتیاز یہ ہو کہ یہ قول سدید کہنے والی قوم ہے تو پھر ہر شخص کو پتہ ہوگا کہ جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں.امن اور آشتی کی فضا ہوائی باتیں کرنے سے نہیں پیدا ہوتی.اسلام کا نام اللہ تعالیٰ نے اسلام رکھا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت لے کر آئے اللہ تعالیٰ نے اس مذہب کا نام اسلام رکھا اور اس کے ماننے والوں کا نام مسلم رکھا اور یہ کوئی منطق یا فلسفہ یا افسانہ یا لطیفہ تو نہیں ہے بلکہ اسلامی تعلیم نے عملاً ایسی فضا پیدا کی کہ یہ امن کا مذہب بن گیا، یہ آشتی کا مذہب بن گیا، یہ صلح کا مذہب بن گیا، یہ اطمینان قلب کا مذہب بن گیا اور اپنی تعلیم کے لحاظ سے اس نے اس قسم کی فضا پیدا کی کہ کسی کو کسی سے کوئی خطرہ باقی نہیں رہنے دیا اور میں نے انہیں یہی کہا کہ اگر امن چاہتے ہوتو سچ بولو اور خالی سچ نہیں بلکہ قول سدید سے کام لو.سیدھا سچ ہو جس کے اندر کوئی ہیر پھیر نہ ہو.یہ جو میں نے کہا وہ لوگ Compromise کرتے ہیں یعنی سچ کے ساتھ جھوٹ کی اور قدرتی کھانوں کے ساتھ بناوٹی کھانوں کی ملاوٹ کرتے ہیں.اب وہاں شور پڑ گیا ہے ایک دن میرے سامنے ٹی وی tv پر آ گیا کہ اس کھانے کی وجہ سے اتنی بیماریاں اور فوڈ پوائزنگ کے اتنے کیس ہونے لگ گئے ہیں.فوڈ پوائزنگ ایک بڑی سخت قسم کی بیماری ہے جس میں زہریلے کھانے کے ساتھ جسم کے اندر زہر پیدا ہو جاتا ہے اور یہ سب موجودہ تہذیب کی ایجادات کے نتیجہ میں ہے.دوائیں لے لیں ، ان میں سچ کے ساتھ جھوٹ.سچ تو قانون قدرت ہے جب اس سے ادھر ادھر ہو جاؤ گے تو ضرور پھنس جاؤ گے.مثلاً خدا تعالیٰ نے افیم پیدا کی ہے اور اس کے بہت سے فوائد ہیں.یہ ایک مرکب دوائی ہے خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے جو چیزیں پیدا ہوتی ہیں وہ مفردات نہیں ہوتیں بلکہ مرکب ہوتی ہیں اور افیم ایک بڑا ز بر دست مرکب ہے.کئی سال ہوئے میں نے اس کے بارے کسی رسالے میں جو آخری مضمون پڑھا تھا اس کے مطابق ان کی سائنس اس وقت تک افیم کے ۳۴ اجزاء علیحدہ کر چکی تھی اور ابھی اور نکل رہے تھے.پتہ نہیں اب ان کو ملا کر ۵۰،۴۰ یا ۷۰ ۸۰ ہو چکے ہوں گے.خدا تعالیٰ نے تو ایک گن کہہ کر ان کو ملا دیا اور میں نے بہت غور کیا اس ترکیب کے اندر اللہ نے بڑا توازن پیدا

Page 471

دومشعل کیا ہے.راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۸ء 468 اربوں بیماروں کو طبیب نے نسخہ میں ڈال کر افیم دی اور دنیا کی تاریخ میں ایک مثال بھی نہیں ہے کہ کسی کو اس کی عادت پڑ گئی ہو.اس لئے کہ جس شکل میں خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ نے اس کو بنایا تھا وہ اس شکل میں اس کو دی گئی.پھر ان کے سچ اور جھوٹ کا یہ حال ہے کہ انہوں نے تجزیہ کر کے اور اجزاء علیحدہ علیحدہ کر کے ان کا استعمال شروع کر دیا اور مرکب تو ان سے صحیح بن ہی نہیں سکتا تھا جو خدا تعالیٰ نے بنایا تھا بنادیا.اور یہ صرف میری منطقی یا فلسفیانہ تنقید نہیں ہے بلکہ میں نے لندن میں احمدی ڈاکٹروں کے ساتھ بات کی تو ایک ڈاکٹر میرے پاس ایک رسالہ لے آیا.کہنے لگا کہ یہ ہر سال میڈیکل ایسوسی ایشن کی طرف سے چھپتا ہے اور ہر سال اس میں ۲۰۱۵ نئی دواؤں کا ذکر ہوتا ہے جو کہ انسان نے تجزیہ کر کے بنائی ہیں اور ۲۰۱۵ ایسی دوائیں ہوتی ہیں جن کی پہلے بڑی تعریف ہوتی رہی ہے اور اب ان کے متعلق یہ نوٹ ہوتا ہے کہ یہ بڑی خراب ہیں، یہ زہر ہیں ان کو ہاتھ نہ لگانا.ہر سال یہ ہورہا ہے اچھی تم نے ترقی کی ہے کہ ایک سال زہر کھلاتے رہے اور اگلے سال معافی مانگ لی.خدا تعالیٰ نے تو اعلان کیا تھا اور ہمیں بھی نصیحت کی تھی کہ وضع الميزان ( رحمان: ۸) خدا تعالیٰ نے ہر چیز میں توازن کا اصول قائم کیا ہے الا تطغوا فی المیزان اس اصول کو نہ تو ڑنا.انہوں نے وہ اصول تو ڑا اور اب اس کی سزا بھگت رہے ہیں.نئی سے نئی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں اور ان کو پتہ ہی نہیں لگ رہا اب انہوں نے ایک اور طریق بنالیا ہے جس بیماری کا پتا نہ لگے کہتے ہیں کہ تمہیں الرجی ہے.الرجی کے معنی ہوتے ہیں کہ ہمیں نہیں پتا لگ رہا کہ تمہیں کیا بیماری ہے حالانکہ خدا تعالیٰ نے انہیں رستے بتائے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی تفسیر میں کہا تھا کہ لكل داء دواء پھر سچ اور جھوٹ والی بات یہاں بھی آجاتی ہے.ایک چیز اچھی ہوتی ہے لیکن چونکہ اس میں نفع نہیں ہوتا کہتے ہیں کہ یہ اچھی نہیں.ایک بہترین جرم کش دوائی شہد کی مکھی بناتی ہے.اس میں انسان کا ہاتھ نہیں ہے اس لئے کسی کمپنی کو اس کا فائدہ نہیں.مکھی بیچاری تو پیسے نہیں لیتی وہ مفت بنادیتی ہے قرآن کریم میں اعلان کیا گیا تھا سخر لكم ما في السموت وما فى الارض جميعا منه (الجاثية: ١٤) شہد کی مکھی کو بھی ہمارا خادم بنایا گیا ہے اور بحیثیت خادم وہ ہمارے لئے دنیا کی جتنی جرم کش دوائیں انسان بنا چکا ( اور جو زہر ہیں اور ان کے غلط استعمال سے لاکھوں آدمی مر چکے ہیں ) ان سے ہزار درجے اچھی دوائی بناتی ہے.لیکن چونکہ وہ کھی نے بنادی اور اس میں وہ نفع نہیں جو ان کی اپنی بنائی ہوئی گندی ادویہ میں ہے.اس واسطے کہتے ہیں کہ اس کو ہم دوائی ہی تسلیم نہیں کرتے.ان میں سے بعض آدمی نکل آتے ہیں جو اس پر تجربے بھی کر رہے ہیں اور یورپ میں ہزاروں آدمیوں پر چھپ چھپ کر تجربہ کیا ہے.ایک شخص پر کسی نے مقدمہ کر دیا تھا کہ یہ دوائی

Page 472

469 فرموده ۱۹۷۸ء دو مشعل راه جلد دوم نہیں ہے یہ کیوں بنا کر تقسیم کرتا ہے.میں نے یہاں استعمال کی چونکہ وہ وائرس بھی مارتی ہے اس لئے فلو کے لئے بہت اچھی ہے اور جرم کش اتنی ہے کہ ہمارے ایک دوست کو ذیا بیطس کی بیماری میں کار بنکل ہو گیا تھا جو کہ مہلک ہوتا ہے.وہ کیل والا پھوڑا ہوتا ہے اور اندر ہی اندر پھیلتا رہتا ہے.ڈاکٹر کئی مہینے تک علاج کرتے رہے اور آرام نہیں آرہاتھا مجھے پتہ لگا تو میں نے وہی دوائی جو شہد کی مکھی نے بنائی ہے اس کی دو ٹیو میں ان کو دیں اور ابھی وہ دو شیو نہیں ختم نہیں ہوئی تھیں کہ کار بنکل بالکل صاف ہو گیا.لیکن وہ مارکیٹ میں نہیں آئی.پہلے تو بہت چھپ چھپ کر دیتے تھے اب کچھ تھوڑا سا ظاہر ہونے لگ گئے ہیں.غرض سچ میں جھوٹ، کھانے میں ملاوٹ یعنی کچھ اچھی چیزیں کچھ بری اور دوائیوں میں ملاوٹ کچھ اچھی دوائیں کچھ بری دوائیں.مجھے ۱۹۷۵ ء میں ڈاکٹر نے ایک دوائی دے دی تھی کہ ذیا بیطیس کے لئے بہت اعلیٰ دوائی ہے آپ ضرور کھائیں اور ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ۱۹۷۶ء میں وہاں سے خط آنے شروع ہو گئے کہ خدا کے لئے آپ اسے چھوڑ دیں اب سارے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ بعض دفعہ جان لیوا ثابت ہوتی ہے انسان کو مار دیتی ہے ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ مفید دوائی مہلک بن گئی غرض یہ لوگ اس قسم کی زندگی گزار رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بہت تہذیب یافتہ ہیں.ایک طرف تو کہتے ہیں کہ انسانیت کا احترام قائم ہونا چاہئے اور دوسری طرف وہ مغربی ممالک جو بڑے اور طاقتور ہیں وہ ان مغربی ممالک کے جو چھوٹے ہیں اور تعداد کے لحاظ سے کم ہیں اور ان کے ملک کی زمین کم ہے بعض حصوں پر چپ کر کے قبضہ کر لیتے ہیں.ابھی میرے آنے سے ایک مہینہ پہلے یہ واقعہ ہوا کہ ایک بہت بڑے ملک نے ایک چھوٹے سے ملک کے ایک جزیرے پر بغیر ایک گولی چلائے آ کر قبضہ کر لیا.یہ تو احترام کرتے ہو تم ان کی ملکیت کا اور ان کی عزت کا کہ پوچھا بھی نہیں آ کر قبضہ کر لیا اور پھر بھی مہذب کے مہذب ہو.یہ چیزیں آدمی کو بڑی پریشان کرنے والی ہیں.ان ترقی یافتہ اقوام کو اندر سے ایک ایسا گھن کھا رہا ہے اور ان کی ہلاکت کے دن نزدیک سے نزدیک تر آ رہے ہیں اور ان کے لئے اس ہلاکت سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اسلام کی تعلیم کو سمجھیں اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوں.یہ امر کہ وہ اسلام کی تعلیم کو سمجھیں اس کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ان کو سمجھانے والا ہو.اس زمانے کی ضروریات اور خرابیاں اور بہت سی باتیں میں ان کو بتاتا تھا اور اسلام کی تعلیم بھی بتا تا تھا.یہ سب کچھ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سیکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ساری دنیا میں اعلان کیا ہے الخير كله في القرآن کہ میں اپنے گھر سے کچھ نہیں لایا میں نے جو کچھ پایا ہے وہ قرآن کریم سے ہی حاصل کیا ہے.

Page 473

مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۸ء 470 ساری خیر قرآن کریم میں ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں قرآن عظیم کی عظیم تعلیم آپ نے پائی ایسی تعلیم کہ جس میں بے حد حسن پایا جاتا ہے حسن کس کو کہتے ہو تم ؟ سارے بچے بھی سمجھ لیں.حسن اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس وقت وہ سامنے آئے تو اس میں قوت جذب پائی جائے اور وہ انسان کو اپنی خوبصورتی کے نتیجے میں اپنی طرف کھینچتی ہو.سارے حواس کے لئے ایک حسن ہے.نظر کا بھی حسن ہے.مثلاً جب گلاب کے پھول کی پتیاں پوری طرح کھلی ہوئی ہوں اور مرجھانے کی طرف مائل نہ ہوں اور اس کا رنگ بہت اچھا ہو تو نظر اس کو دیکھتی ہے اور اس سے بڑی لذت اٹھاتی ہے آنکھ اس کو حسین دیکھتی ہے اور اس کی طرف کھنچتی ہے.لوگ گلاب کا پھول تو ڑ کر اپنے بٹن ہول میں لگا لیتے ہیں.پھر کان کا حسن ہے کوئی بڑی اچھی تلاوت کر رہا ہو تو بہت لطف آتا ہے.کئی دفعہ ہماری مسجد میں اذان ہوتی ہے تو دوست میرے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ یہ کیسی بدصورت آواز والا آدمی آپ نے یہاں مؤذن مقرر کر دیا ہے جو اذان ٹھیک نہیں دیتا.مؤذن اچھا ہونا چاہئے پس کان کا بھی ایک حسن ہے.اسی طرح سارے ظاہری اور باطنی حواس کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک حسن پیدا کیا ہے اور سارے ظاہری اور باطنی حواس کے لئے جو حسن حقیقی ہے وہ قرآن کریم اور اسلامی تعلیم کے اندر پایا جاتا ہے.اسی واسطے جب ہم اسلام کی صحیح تعلیم اور حسین تعلیم اور حقیقی تعلیم ان ممالک کے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تو باوجود اس کے کہ وہ مفلوج زندگی گزار رہے ہیں آدھے ٹھیک ہیں اور آدھے غلط ہیں ان کا آدھا جسم ٹھیک ہے اور آدھے جسم پر فالج ہے وہ آگے سے یہ سوال کر دیتے ہیں جیسا کہ ایک پریس کانفرنس میں ایک سمجھدار اور سلجھی ہوئی طبیعت کا صحافی مجھے کہنے لگا کہ اتنی حسین تعلیم ہے آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ نے اسے ہمارے عوام تک پہنچانے کا کیا انتظام کیا ہے؟ اس کو میں نے سمجھایا کہ چھوٹی سی جماعت ہے اتنے پیسے نہیں ہیں لیکن اس کے اس فقرے نے مجھے اتنا جھنجھوڑا کہ میں نے یورپ کے ہر ملک کے مبلغ کو کہا کہ پتہ کرو کہ اگر اسلام کی تعلیم کے بارہ میں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں ایک خط ان تک پہنچایا جائے تو کیا خرچ آئے گا.سوئٹزر لینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے مگر وہاں ہر چیز بڑی منتظم ہے.وہاں کے ڈاک خانے نے کہا کہ صرف ایک خط پہنچانے پر ۱۴ لاکھ روپیہ خرچ آئے گا اور ایک خط ڈالنا تو کافی نہیں اور ڈالنے چاہئیں پھر اور پھر اور ہمارے پاس ابھی پیسے نہیں.چنانچہ میں نے اس کو کہا کہ ایک دن آئے گا جب ہم کچھ کریں گے.لیکن اس نے اس دن مجھے اتنا ہلا دیا تھا کہ میں مجبور ہو گیا سوچنے پر ، اور معلومات حاصل کرنے پر ، اور دعائیں کرنے پر کہ اللہ تعالیٰ اس کے سامان پیدا کرے.چنانچہ میں نے پوچھا اور اس کے مطابق کچھ کام کئے.لیکن بہر حال ابھی ہماری طاقت نہیں ہے.ہم نے دنیا کو غلط بات تو نہیں کہنی.یہ حقیقت ہے کہ ابھی ہم ایسا نہیں کر سکتے.اس دفعہ ایک صحافیہ ملی.پر یس کا نفرنس میں آٹھ دس مردوزن بیٹھے ہوئے تھے جب وہ کمرے سے باہر نکلی تو اس نے آنسوؤں سے رونا شروع کر دیا اور ہمارے آدمیوں میں سے ایک کو کہنے لگی کہ اسلام کی تعلیم ایسی اچھی ہے مجھے یہ بتاؤ کہ تم اتنی دیر کے بعد ہمارے ملک میں کیوں آئے ہو.تمہیں پہلے آنا چاہئے تھا.اس کا

Page 474

471 فرموده ۱۹۷۸ء دد دو مشعل راه جلد د دوم مطلب یہ تھا کہ ہم گندگی میں دھنستے چلے جارہے ہیں تم نے ہماری پر واہ ہی نہیں کی کہ ہم کس گندگی کے اندر پھنسے ہوئے ہیں تم لوگوں نے ہم سے بے اعتنائی کی حالانکہ اتنی اچھی تعلیم تمہارے پاس ہے.ہر احمدی کا فرض...حضور کی کتب پڑھے میں اپنے متعلق ہی بات کروں گا ہمیں دوسروں سے کیا.ہمارا یہ ایمان ہے کہ یہ حسین تعلیم ہم ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر قرآنی ( جو آپ نے تفصیلی اور اصولی طور پر بیان کی ) کے بغیر بتا ہی نہیں سکتے.اس واسطے ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ اگر پڑھنا جانتا ہے تو اسے پڑھے اور اگر نہیں جانتا تو سنے.بعض دفعہ حضور ایک فقرہ لکھتے ہیں اور آپ ساری عمر بھی گزار دیں تو اس فقرے کا مضمون ختم نہیں ہوگا.ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کتاب کا ایک فقرہ اٹھایا اور پانچ سات خطبات جمعہ اس ایک فقرے پر دے دیئے.تنا مضمون اس کے اندر بھرا ہوا تھا.ایک اور فقرہ ہے اگر آپ سارے جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ساری عمر اس پر تحقیق کرتے رہیں تب بھی اس کے معنی ختم نہیں ہوں گے.مگر میں آج بتاؤں گا نہیں.عملی نمونہ دکھائیں جب ہم ان کے سامنے یہ تعلیم پیش کرتے ہیں تو وہ آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں عملی نمونہ دکھاؤ.اس لئے ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم ان کو اپنا عملی نمونہ دکھائیں عملی نمونے کے لئے میں مختصر دو تین باتیں کہوں گا.ایک تو یہ ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے امن کے ، انصاف کے حقوق کی ادائیگی کے، پیار کے، بے لوث خدمت کے، خیر خواہی کے اور کسی کو دکھ پہنچانے کے لحاظ سے یہ سلامتی کا مذہب ہے.خدا تعالیٰ نے اسلام کہا ہے.میں نے بار بار آپ سے کہا اور بیعت میں بھی یہ فقرہ زائد کر دیا کہ میں کسی کو دکھ نہیں پہنچاؤں گا.پس یہ اسلام ہے اور اس کے مقابلے میں ”فساؤ ہے.جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یونہی رنجش پیدا کرنا ادھر کی ادھر لگانا ، چغلیاں کرنا، غیبت کرنا وغیرہ.جن چیزوں سے اسلام نے روکا ہے بعض لوگ ان کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس طرح فساد پیدا کرتے ہیں.قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے کہا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ملک میں فساد پیدا کرنے کے لئے دوڑتے پھرتے ہیں کیا ان کو پتہ نہیں ؟ کہ خدا تعالیٰ فساد سے پیار نہیں کرتا بلکہ انسان فساد پیدا کر کے خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آتا ہے.جماعت احمدیہ کی نوے سالہ زندگی یہ ہے اپنے اور دوسرے اچھی طرح سن لیں کہ جماعت احمدیہ نے کبھی بھی بحیثیت جماعت نہ کسی سٹرائیک میں حصہ لیا ہے اور نہ فساد میں ۱۹۷۴ ء میں جماعت نے بڑی اجتماعی قربانی کی لیکن میں انفرادی مثال دے دیتا ہوں.۱۹۷۴ ء کے فسادات میں بھٹو صاحب کی حکومت میں بعض ایسے لوگ بھی مار دیئے گئے جن کے پاس بندوق پڑی ہوئی تھی لیکن انہوں نے بندوق نہیں چلائی اور خود مر گئے.جو شخص اپنی حفاظت پر قادر نہیں ہے اور دلیری سے مرجاتا ہے وہ بھی بڑا دلیر

Page 475

شعل راه جلد دوم دومشعل فرموده ۱۹۷۸ء 472 ہے لیکن جو شخص صرف اسلام کی خاطر بدی کا مقابلہ بدی سے نہیں کرتا اور فساد پیدا نہیں کرنا چاہتا اور جان دے دیتا ہے اس کی تو شان ہی کچھ اور ہے.نوے سالہ زندگی میں دوا یک انفرادی مثالیں ایسی ہیں کہ جو غلط فہمی سے جہالت سے یا نوجوانی کی حماقت سے سٹرائیک میں شامل ہو گئے مگر جماعت نے اسے برداشت نہیں کیا.اس واسطے ہماری سختی تو بالکل پاک ہے.کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ جماعت نے کبھی فساد کیا ہو اور ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم ہر موقع پر فساد سے بچے ہیں.بلکہ ہم نے اس حد تک قربانی کی کہ ۱۹۵۳ء میں باہر سے آئے ہوئے بچوں نے کالج پر پتھراؤ کیا.اس وقت کالج لاہور میں تھا.ہم حیران ہوئے کہ اندر سے بھی پتھراؤ ہوا.ہم نے کہا یہ کیا بات ہوگئی ہمارا احمدی بچہ تو پتھر کے مقابلہ میں پتھر نہیں چلاتا.چنانچہ پتہ یہ گا کہ غیر احمدی بچے جو کالج میں پڑھتے تھے اور ہوٹل میں بھی رہتے تھے ان کے ساتھ اتنا حسن سلوک تھا کہ جب ان کو غصہ آیا تو وہ ضبط نہیں کر سکے اور انہوں نے پتھراؤ کے مقابلہ میں پتھراؤ کر دیا.لوگوں کو اس کا پتہ لگ گیا اور منیر انکوائری میں ایک صاحب کی طرف سے جو بہت بڑے افسر تھے یہ واقعہ پیش ہو گیا.سارا کچھ ہونے کے بعد یہ ایک واقعہ کہ تعلیم الاسلام کالج کے اندر سے بھی تو پتھر کے مقابلے میں پتھر آ گیا تھا.جب انہوں نے یہ کہا تو سپر نٹنڈنٹ صاحب دوڑتے ہوئے میرے پاس آئے کہ آپ کو واقعہ تو یہ ہوا تھا.میں نے کہا مجھے پتہ ہے.کہنے لگے کہ پھر یہ پیش کر دینا چاہئے کہ پتھراؤ کرنے والے احمدی نہیں تھے.میں نے کہا کہ نہیں.میں یہ پیش نہیں کروں گا.اس واسطے کہ جنہوں نے ہمارے پیار میں پتھر کا جواب پتھر سے دیا تھا ہم ان پر بھی حرف نہیں آنے دیں گے اور خود وہ الزام سہہ لیں گے.پس نوے سالہ زندگی میں جماعت احمدیہ نے کبھی سٹرائیک کی نہ فساد کیا نہ کوئی احتجاجی کالا بلایا کالا بیج لگایا اور نہ کوئی احتجاج کیا.ہمارا احتجاج تو ایک ہی در پر ہے اور وہ ہمارے خدا کا در ہے.دوسری چیز جو میں مختصراً کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اسلام نے بیچ بولنے پر اور جھوٹ سے اجتناب کرنے پر بڑا زور دیا ہے.جھوٹ بعض دفعہ تمام برائیوں کی جڑ بن جاتا ہے.ایک گناہ کیا اور غلطی کی اور پھر اس کو چھپانے کے لئے ایک جھوٹ اور پھر اس جھوٹ کو چھپانے کے لئے ایک اور جھوٹ اور اس طرح ایک لمبا سلسلہ شرور ہوجاتا ہے.اس واسطے مسلمان کی زندگی میں جوشان ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ غلطی کرتا ہے تو استغفار کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے جھوٹ نہیں بولتا.استغفار اور تو بہ جھوٹ کے مقابلے میں ہے.وہ یہ نہیں کہتا کہ میں نے یہ کام نہیں کیا بلکہ خود خدا کو کہتا ہے کہ اے خدا میں غلطی کر بیٹھا ہوں تو مجھے معاف کر دے.وہ اپنی غلطی کا اقرار کرتا ہے اسے چھپانے کی کوشش نہیں کرتا اور اس ہستی کے سامنے اقرار کرتا ہے جسے سب قدرت ہے اور اگر وہ سزادینا چاہے تو اس پر قادر ہے.وہ علام الغیوب ہے اس سے کچھ چھپایا نہیں جاسکتا لیکن خود اس کے سامنے جا کر یہ مان لینا کہ رب انی ظلمت نفسی و اعترفت بذنبی میں اعتراف گناہ کرتا ہوں فاغفر لي ذنوبی پس تو میرے گناہ بخش دے.

Page 476

473 فرموده ۱۹۷۸ء د و مشعل راه جلد دوم دد یہ ایک مسلمان کی شان ہے وہ کسی صورت میں کسی کے سامنے بھی جھوٹ نہیں بولتا.اس دنیا کی کیا حقیقت اور اس کی عزتیں کیا چیز.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے ایک بڑے فخش گناہ کا ارتکاب کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے پاس آ گیا.کہنے لگا کہ یا رسول اللہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے.اور میں نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد خدا تعالیٰ مجھے جہنم میں پھینک دے اور میں دوسری زندگی میں سزالوں آپ مجھے سزا دے دیں.آپ نے اس کو تالا ادھر منہ کر لیا مگر جب اس نے اصرار کیا تو آپ نے اسے سزا دی اور اس کے نتیجہ میں اس شخص کی جان نکل گئی.کسی نے اس شخص کے لئے طعنہ اور تحقیر کا لفظ استعمال کیا اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑے سخت غصہ میں آئے کہ تم کیسی باتیں کرتے ہو وہ شخص تو ایک پاک حیثیت میں اپنے خدا سے جا ملا کیونکہ اس نے گناہ کی سزا پالی اور تمہیں تو پتہ نہیں کہ تم کس حالت میں خدا کے پاس جاؤ گے.پس تمہاری حالت کسی کو دھتکارنے کی نہیں ہے بلکہ استغفار کرنے کی ہے.استغفار کرو اور گناہوں کی معافی مانگو اور جنسی نہ کرو.غرض بیچ دین کی بنیاد بنتا ہے.جو شخص جھوٹ بولے گا وہ تو دین کے لحاظ سے ختم ہو گیا اور دنیا کے لحاظ سے بھی وہ ختم ہو جاتا ہے.امانت سے کام لینا اس کے ساتھ تیسری چیز ہے امانت سے کام لینا اور خیانت نہ کرنا.امانت کے معنی لغت عربی میں یہ ہیں کہ وہ فرائض اور حقوق جو اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں ان کو ادا کرنا.ایک تو عام امانت ہے کہ فلاں شخص بڑا امین ہے، بڑا امانتدار ہے کوئی چیز اس کے پاس رکھوائیں تو اسے سنبھال کر رکھتا ہے اور واپس کرتا ہے.یہ بھی امانت کے معنی میں شامل ہے لیکن لغت عربی میں امانت کے ایک معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو فرائض قائم کئے ہیں اور جو حقوق انسان کو دیئے ہیں ان کی ادائیگی کرنا.اس وقت دنیا میں بہت کم عقلیں ہیں جو انسان سے پیار کر کے اس کے حقوق اسے دینے کے لئے تیار ہوں اور یہ ہمارا فرض ہے ماڈرن سویلائز یشن کی ایک اور کمزوری یہ ہے اور میں بعض دفعہ مذاق بھی کیا کرتا ہوں کہ تمہارا مزدور اپنے حقوق کے حصول کے لئے سٹرائیک کرتا ہے لیکن اسے یہ علم نہیں کہ اس کے حقوق کیا ہیں.وہ اندھیرے میں کام کر رہا ہے.اس کو یہ سمجھ نہیں کہ میرا حق کیا ہے اور کہتا ہے کہ میں اپنا حق لینا چاہتا ہوں اور اس کے لئے میں سٹرائیک کر رہا ہوں.پھر میں ان کو سمجھاتا ہوں کہ اسلام نے حقوق قائم کئے ہیں.اسلام بڑا عظیم مذہب ہے.دو تین سال پہلے ایک جگہ میں نے کہا میں تمہیں پہلے کہہ دیتا ہوں کہ جو اسلامی تعلیم میں بیان کروں گا تمہیں یہ جرات ہی نہیں ہوگی کہ تم کہو کہ یہ غلط ہے اور ہم اسے تسلیم نہیں کرتے بلکہ تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ ٹھیک ہے اور کسی کو جرات نہیں ہوئی یہ کہنے کی کہ نہیں یہ تعلیم ٹھیک نہیں.سب نے کہا کہ ٹھیک ہے اور بڑی اچھی تعلیم ہے.غرض امانت سے کام لینا اور امانت میں اور خیانت نہ کرنے کا

Page 477

د فرموده ۱۹۷۸ء 474 مشعل راه جلد دوم مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان انسان کے درمیان جو ہزار ہا قسم کے حقوق قائم کئے ان کی ادائیگی کرنا.مثلاً باپ کے حقوق بیٹے پر ، بیٹے کے حقوق باپ پر، خاوند کے بیوی پر ، بیوی کے خاوند پر، ہمسائے کے حقوق ہمسائے پر قوموں کے قوموں پر پھر بچوں کے حقوق ہیں علمی لحاظ سے اور کھانے پینے کے لحاظ سے وغیرہ وغیرہ.ہزار ہاتم کے حقوق ہیں اور قرآن کریم نے ان کی تفصیل بتائی ہے اور قرآن کریم نے ہمارے سامنے یہ تعلیم رکھ کر کہا کہ لا تخونو الله والرسول خدا تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے جو عہد کیا ہے اس میں خیانت سے کام نہ لینا اور خدا تعالیٰ سے جو عہد کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ تم امانتدار بنو گے اور خدا تعالیٰ نے جو حقوق قائم کئے ہیں ان کو قائم کرو گے.اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص خواہ تمہارا کتنا ہی دشمن کیوں نہ ہو تم نے اس کے ساتھ بے انصافی نہیں کرنی.بے انصافی کرنی ہی نہیں چاہے کچھ ہو جائے.یہ اس لئے نہیں کہ تمہارا دل بڑا وسیع ہے اور تمہارا سینہ بڑا فراخ ہے بلکہ اس لئے کہ تمہارا رب تمہیں کہتا ہے کہ ایسا نہ کرو.لا يجر منكم شنان قوم على الا تعدلوا اعدلو هو اقرب للتقوى (المائدة: 9).کسی کو تم سے دشمنی ہو تو ہوتی رہے تم نے کسی سے دشمنی نہیں کرنی اور صرف دشمنی نہ کرنے کا سوال نہیں بلکہ اس کے حقوق اس کو دلوانے ہیں.اور ہماری نوے سالہ زندگی میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ کا معاند ترین دشمن ضرورت کے وقت جماعت کے اکابر کے پاس مدد کے لئے آیا ہو اور انہوں نے مدد کرنے سے انکار کیا ہو.لمبی چوڑی تفصیل ہے جس میں میں اس وقت نہیں جاؤں گا.جس کا حق ہے وہ اسے ملنا چاہئے قطع نظر اس کے کہ میرے ساتھ اس کے ذاتی کیا تعلقات ہیں، قطع نظر اس کے کہ جماعت کے متعلق اس کی کیا رائے ہے، قطع نظر ہر چیز کے خدا نے اس کا جو حق قائم کیا ہے اس حق کو میں اور تم غصب نہیں کر سکتے.یہ ہے اسلامی تعلیم پس اخلاقی لحاظ سے اپنا ایک مقام پیدا کر وا گر دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے تو محض منہ کی باتوں سے ایسا نہیں کر سکتے وہ نمونہ مانگتے ہیں.تم کہو کہ ہم اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.انسانی کمزوریاں ہمارے ساتھ ہیں ہم غلطی بھی کر جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے معافیاں بھی مانگتے ہیں.سب کچھ ہے لیکن ہم اپنی سی کوشش کرتے ہیں کہ ہم عمل کریں اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کریں.اگر ہم خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لیں اور خدا کے ہور ہیں تو خدا تعالیٰ نے الہاماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اور آپ کے ذریعے ہمیں بھی بتایا ہے کہ ” جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دل کی یہ کیفیت بیان کی ہے کہ جس کو خدامل جائے اس کو کسی اور چیز کی کیا ضرورت ہے آپ نے فارسی کے ایک شعر میں کہا ہے کہ اے خدا جس کا تو ہو جائے اس نے دنیا کولیکر

Page 478

475 فرموده ۱۹۷۸ء دومشعل راه جلد دوم کیا کرنا ہے.تو مل گیا تو سب کچھ مل گیا.خلاصہ یہ کہ احمدی فساد نہیں کرتا، فساد کے حالات میں ملوث نہیں ہوتا، لوگوں کی خیر خواہی کرتا ہے، ان کے حقوق ان کو ادا کرتا ہے، سچ بولتا ہے، اسلامی اخلاق کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے کوشش کرتارہتا ہے اور خدا کے پیار کو حاصل کرنے کی انتہائی کوشش کرتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک نہایت ہی میٹھی اور مفید اور پیاری چیز بنی نوع انسان کے سامنے پیش کی ہے تم اس مطبخ کے داروغہ ہو اس وقت.پھیلاؤ یہ خوان اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرو تا کہ دنیا ہلاکت سے بچ جائے.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھے بھی اس کی توفیق عطا کرے.(بحوالہ روزنامه الفضل ۱۶/ نومبر ۱۹۷۸ء)

Page 479

مشعل راه جلد دوم د را فرموده ۱۹۷۸ء 476 سید نا حضرت خلیفة مسح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے۲۱ اکتوبر ۱۹۷۸ء بعد دو پہر اطفال الاحم یہ کے سالانہ اجتماع سے جو خطاب فرمایا تھا اس کا متن پیش خدمت ہے.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: - نبی اکرم محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے.بچہ بچہ ہی ہوتا ہے خواہ کسی مسند پر بیٹھا ہوا ہو.بعض اطفال نے اس وقت میرے سامنے جو حرکتیں کی ہیں انہیں دیکھ کر مجھے یہ حدیث یاد آ گئی اور میں اس کا ذکر بچوں کو سمجھانے کے لئے کرنا چاہتا ہوں ان پر غصہ کا اظہار نہیں کرنا چاہتا.اطفال ساری دنیا سے آگے نکل سکتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ہر بچہ میں بڑی قوت اور طاقت رکھی ہے اور صلاحیت پیدا کی ہے تا کہ اگر اس کی صحیح نشو و نما ہو جائے تو وہ علم میں آگے بڑھے مہارت میں آگے بڑھے.دین میں آگے بڑھے.چنانچہ اگر دین کی خدمت کا جذ بہ پیدا ہو تو ہمارے اطفال ساری دنیا سے آگے نکل سکتے ہیں.لیکن عملاً ساری دنیا سے پیچھے ہیں.میں نے یورپ میں بھی بچے دیکھے ہیں ان کو دین کا تو کچھ پتہ نہیں.دنیوی لحاظ سے بھی اب ان میں کچھ کمزوری آتی جارہی ہے لیکن بڑی محنت سے پڑھنے والے ہوتے ہیں.دسویں میں پڑھنے والا بچہ چوٹی کے فلاسفروں کی باتوں کو سمجھ لیتا ہے.مثلاً کینٹ ان کا مشہور فلاسفر ہے اس کے فلسفہ کی موٹی موٹی باتیں بچوں کو سمجھا دی جاتی ہیں.بعض لوگوں نے اس موضوع پر سادہ زبان میں کتابیں بھی لکھی ہیں.لیکن یہاں بی اے کے طالب علم کو بھی ان باتوں کا پتہ نہیں ہوتا.ہم یہ چاہتے ہیں کہ بڑے بڑے علماء کو دین کی باتوں کا پتہ ہونہ ہو ہمارے بچوں کو ضرور پتہ ہو.اس لئے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ ہمارے اطفال کے کان میں ضرور دین کی باتیں پڑنی چاہئیں.ابھی ابھی میں لجنہ اماءاللہ کے اجتماع سے تقریر کر کے آ رہا ہوں.لجنہ کے اجتماع میں شامل ہونے والی مستورات میں سے کچھ تو اطفال کی مائیں ہوں گی.کچھ بہنیں ہوں گی اور کچھ رشتہ دار عورتیں ہوں گی وہ انہیں بتائیں گی کہ میں نے بچوں کے بارہ میں ان سے کیا کہا ہے.وہ بچوں سے کسی قسم کا سلوک کریں اور ان کی کس طرح تربیت کریں.یورپ اور امریکہ کو ہمارے بچوں کا انتظار ہے موجودہ مہذب دنیا میں یورپ ہے امریکہ ہے جو اپنے آپ کو بہت ترقی یافتہ کہتے ہیں اور مجھتے ہیں کہ وہ علم

Page 480

477 فرموده ۱۹۷۸ء دو مشعل راه جلد دوم و عمل میں دنیا سے بہت آگے نکل گئے ہیں لیکن اے میرے پیارے بچو! وہ تمہارا انتظار کر رہے ہیں.تمہیں پتہ ہے وہ کیوں انتظار کر رہے ہیں؟ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان کی عقلیں تو ہو گئیں ناکام.اب ان کی عقلوں کو روشنی اور جلا دینے کے لئے دین اسلام کی ضرورت ہے.اس لئے آج جو بچے ہیں اگلے آٹھ دس سال میں ان کو خوب دین کا علم سکھا کہ اُن کے پاس بھیجیں تا کہ وہ ان کے مسائل جن کو ان کی عقلیں سلجھا نہیں سکیں، وہ جاکر دین کی تعلیم کی روشنی میں سمجھائیں کہ کس طرح وہ اپنے مسائل کو حل کریں.پس وہ لوگ تو تمہاری انتظار میں ہیں اور تم نے اگر اس طرف توجہ نہ دی تو پھر یہ خلا کس طرح پورا ہو گا.تم میں کچھ بچے تو توجہ دیتے ہوں اور کچھ توجہ نہیں دیتے ہوں گے.میں نے ایسے کم عمر احمدی بچے یہاں بھی اور یورپ میں بھی دیکھے ہیں جو نماز فرفر سناتے ہیں.پیرس میں ایک مسلمان کہنے لگا میں تو دیکھتا ہوں بڑے بڑے لوگوں کو کلمہ بھی ٹھیک طرح نہیں آتا.نماز کے معنے نہیں آتے.وہ جس آدمی سے بات کر رہا تھا.وہ اتفاقاً احمدی تھا اس نے ایک احمدی بچے کو بلایا اور اس نے کہا کلمہ سناؤ نماز سناؤ.اس نے سنانا شروع کر دیا.وہ حیران ہو کر کہنے لگا اچھا.اس قسم کے بچے بھی ہیں دنیا میں.اس نے کہا ہاں یہ احمدی بچہ ہے تو پھر اسے پتہ لگا کہ وہ احمدی بچے سے باتیں کر رہا ہے.کر تم احمدی بچے ہو غرض تم صرف بچے نہیں ہو تم احمدی بچے ہو.تم اس بات کو یاد رکھو.اگر میں یہ بات تمہیں سمجھانے میں کامیاب ہو جاؤں تو میں سمجھوں گا کہ آج میرے یہاں آنے کا مقصد پورا ہو گیا.جب میں یہ کہتا ہوں کہ تم صرف بچے نہیں تو میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بچے تو جانوروں کے بھی ہوتے ہیں لیکن تم جانور کے بچے نہیں ہو.تم انسان کے بچے ہو.پھر انسان انسان کے بچوں میں بھی فرق ہوتا ہے.مثلاً ایک شخص دہر یہ ہے اور خدا کو نہیں مانتا تم دہریے کے بچے بھی نہیں ہو.تم احمدی بچے ہو تمہارا نام اطفال الاحمدیہ ہے.پس تم اپنے اس مقام کو یاد رکھو کہ تم اس جماعت کے نو نہال ہو جس نے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے اس لئے جو کام ایک احمدی بچے کو کرنا چاہیئے وہ تم نے کرنا ہے.جو کلمہ خیر ایک احمدی بچے کو بولنا چاہیئے وہ تمہاری زبان سے نکلنا چاہیئے.اور جو بات ایک احمدی بچے کو سوچنی چاہیئے وہ تمہیں سوچنی چاہیئے.پس جب میں کہتا ہوں کہ تم احمدی بیچے ہو تو تمہارا عمل، تمہاری گفتگو اور تمہاری سوچ احمدیت کی تعلیم کے مطابق ہونی چاہیئے.تمہارا کام کرنا.بولنا اور سوچنا قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہونا چاہیئے.قرآن کریم ایک بڑی عظیم کتاب ہے یقیناً بہت ہی عظیم ہے.تمہارے دماغوں میں تو بوجہ بچپن اس کی عظمت آ نہیں سکتی وہ تو اتنی عظیم کتاب ہے کہ اس کی عظمت کا ہمارے دماغ بھی احاطہ نہیں کر سکتے.قرآن کریم اتنی عظیم کتاب ہے کہ اس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا:-

Page 481

مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۸ء 478 تنزيل من رب العلمين (الواقعه (۸۱) قیامت تک کے مسائل کو حل کرنے کے علوم اس کے اندر موجود ہیں.پس جن مسائل کا ہمیں پتہ ہی نہیں اور دوسوسال کے بعد جو مسئلہ لوگوں کے سامنے آئے گا اس کا حل تو اگر چہ موجود ہے لیکن وہ مسئلہ اور اس کا حل ہمارے ذہن میں اس وقت نہیں آسکتا لیکن یہ وہ زمانہ ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالی سے علم پا کر قرآن کریم کی ایسی تفسیر بیان فرمائی ہے جس میں قرآن کریم کے ذریعہ مسائل کو حل کرنے کی تفصیلی رہنمائی یا اجمالی اشارے موجود ہیں.ویسے قرآنی علوم کا انکشاف ہر زمانہ میں آہستہ آہستہ ہوتا رہا ہے.جس طرح تم نے اپنی ماں کی گود میں سے نکل کر پہلے گھٹنوں کے بل چلنا شروع کیا.پھر تم نے قدم چلنا شروع کیا، پھر تم نے اپنے صحن کے اندر کر کڑے مارے پھر تمہیں سکول میں داخل کر دیا گیا.پھر تم سات سال کی عمر میں اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں شامل ہو گئے اور آج تم میرے سامنے بیٹھے ہو.یہ ایک حرکت ہے جو ترقی پر دلالت کرتی ہے.یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ ہر دن جو چڑھتا ہے اس سے گو یا تمہاری زندگی کا ایک دن بڑھ گیا اور تمہاری عمر کا ایک دن کم ہو گیا.اگر تم میں سے فرض کریں کسی کی عمر سو سال ہے تو ہر آنے والا کل بظاہر اس کی زندگی کو بڑھارہا ہوتا ہے لیکن فی الحقیقت آج کی نسبت اس کی عمر کا ایک دن کم ہورہا ہوتا ہے.پس وقت گزر رہا ہے کام بہت سے کرنے والے ہیں اس لئے اسلام یہ نہیں کہتا کہ تم کھیل نہیں یا ہنسو نہیں.اسلام کہتا ہے کھیلنے اور ہنسنے کے وقت خوب کھیلوا اور ہنسو.دو طرح سے لوگ ہنستے ہیں.ایک یہ کہ مثلا گاؤں میں بچے ایک دوسرے کو گالی دے کر ہنستے ہیں.یہ تو ہنسنے کی بات نہیں.بداخلاقی کا مظاہرہ کر کے خود ہی ہنستے چلے جانا یہ تو ٹھیک نہیں.یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی کہے میں تو اتنا برا ہوں.میں کسی کو گالی دیتا ہوں اور خود ہی قہقہہ مار کر ہنس پڑتا ہوں.یہ تو جنون کی کیفیت ہے یا جہالت کی کیفیت ہے.اسلام کہتا ہے تم ہنسو لیکن ہنسنے کی جگہ ہنسو.ہم پر خدا تعالیٰ کے بڑے احسان ہیں جب ہم خدا تعالیٰ کا پیار دیکھتے ہیں تو ہمارے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے.جیسے خوبصورت پھول کو دیکھ کر چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے.خدا تعالیٰ کا یہ نشان دیکھ کر کہ وہ ہمیں کھانے کو دیتا ہے ہم اس پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور مسکراتے ہوئے کھاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں کھانا ہضم کرنے کی توفیق دیتا ہے.ہمارا جسم مضبوط ہو جاتا ہے.ہمارے دماغ مضبوط ہو جاتے ہیں.پھر ہم علم کے میدان میں بڑے بڑے لوگوں کا مقابلہ کرتے ہیں.گو بحیثیت مجموعی ہماری قوم دنیا کی دوسری ترقی یافتہ اقوام کا علم کے میدان میں کما حقہ مقابلہ نہیں کر سکتی.لیکن جماعت احمدیہ سے باہر بھی اور جماعت احمدیہ میں بھی حالانکہ تعداد میں تھوڑی سی جماعت ہے بہت سے ایسے بچے ہوتے ہیں جو ذہین ہوتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے ایسے بچوں پر بھی اور ہم پر بھی کہ انہیں اتنی عقل دی اور علم دیا اور ان کو یہ توفیق عطا کی کہ وہ اپنے علم سے فائدہ اٹھائیں اور وقت ضائع نہ کریں.لیکن کھیلنا بھی ضروری ہے

Page 482

479 فرموده ۱۹۷۸ء دو مشعل راه جلد دوم دد اور ورزش بھی ضروری ہے.اس لئے تم سیر کرو غلیل سے فاختہ کا شکار کر کے بڑا مزے دار گوشت کھاؤ تمہیں کون منع کرتا ہے.مزے کرو.یہ جائز مزے ہیں.ان سے اسلام نے نہیں روکا.یہ چیزیں تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں.ساری دنیا کی اچھی چیزیں محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے غلاموں کے لئے پیدا کی گئی ہیں.اسی لئے ایک روایت میں آپ کے متعلق کہا گیا ہے :- الله لولاک لما خلقت الافلاک کہ اگر محمد رسول اللہ علیہ کی پیدائش مقصود نہ ہوتی یعنی خدا تعالیٰ کے علم کامل میں اور منصوبہ باری تعالیٰ میں نہ ہوتا کہ خدا نے محمد اللہ جیسا انسان پیدا کرنا ہے تو یہ دنیا پیدا نہ کرتا.گو آپ اس دنیا کی سب چیزوں سے فائدہ نہ اٹھا سکے اس لئے کہ آپ نے ایک مدت تک عمر پائی اور اس کے بعد آپ کا وصال ہو گیا.اب جو لوگ آپ کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور آپ سے پیار کرنے والے ہیں اور آپ کے مخلص فدائی ہیں.میرا یہ پختہ عقیدہ ہے دنیا کی ہر اچھی چیز محمد عے کے طفیل ان کے لئے پیدا کی گئی ہے.بعض چیزیں مسلمان فدائی کوملتی ہیں اور بعض نہیں مانتیں تو ان کا ثواب لکھا جاتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے تم پر اتنا بڑا احسان کیا.عقل دے دی.بعض بچے اپنی عقل ضائع کر دیتے ہیں.نہ پڑھنے والوں کی مجلس میں شامل ہو جاتے ہیں اور اپنا وقت اور اپنی صلاحیت ضائع کرتے ہیں.وہ بڑا ظلم کرتے ہیں.اپنے نفس پر بھی اور اپنی قوم پر بھی.کیونکہ ترقی کرنے والے جتنے بچے قوم میں پیدا ہوں گے اتنی ہی قوم زیادہ ترقی کرے گی.دو سال کی بات ہے ہمارا ایک لڑکا ایم ایس سی فزکس میں یہاں اول آیا.اس نے اتنے نمبر لئے کہ لوگ حیران تھے اس کا ریکارڈ کون تو ڑے گا.وہ پی ایچ ڈی کرنے کے لئے انگلستان گیا.انگریزوں میں بڑا تکبر پایا جاتا ہے انہوں نے کہا ہم نے تمہیں پی ایچ ڈی کلاس میں نہیں لینا کیونکہ تم پاکستان سے آئے ہو.وہاں تو کوئی اچھی طرح پڑھاتا نہیں اس لئے تم پہلے ایم ایس سی کرو پھر تمہیں پی ایچ ڈی میں داخل کریں گے.یہ ۱۹۷۶ء کی بات ہے.اتفاقا میں بھی ان دنوں وہیں تھا.جماعت ہی اس کو پڑھا رہی تھی.کیونکہ ہمارا کوئی ذہین بچہ ایسا نہیں جسے جماعت چھوڑ دیتی ہو کہ وہ خراب ہو جائے.ہم اسے خدا تعالیٰ کے فضل سے سنبھال لیتے ہیں.چنانچہ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا آپ نے مجھے کہا تھا پی ایچ ڈی کرو لیکن یہ لوگ کہتے ہیں پہلے ایم ایس سی کرو مجھے بتائیں میں کیا کروں.میں نے کہا تم ایم ایس سی میں داخل ہو جاؤ.چنانچہ وہ دوبارہ ایم ایس سی میں داخل ہو گیا ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ یو نیورسٹی کہنے لگی نہیں تیرا علم بڑا ہے تم پی ایچ ڈی کر لو.وہ پی ایچ ڈی میں داخل ہو گیا اور وہ پی ایچ ڈی جسے انگریز لڑ کے تین تین چار چار سال میں کرتے ہیں اس نے دو سال میں کر لی اور ابھی اس کا نتیجہ نہیں نکلا تھا کہ آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی بڑی بڑی یونیورسٹیاں اس کو لیکچر دینے کے لئے بلاتی ہیں.

Page 483

مشعل راه جلد دوم ہر بچے کو جو صلاحیت ملی ہے اُسے ضائع نہ کرے فرموده ۱۹۷۸ء 480 پیارے بچو! تم میں سے ہر ایک بچہ اگر چاہے تو ایسا بن سکتا ہے.اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں صلاحیت دی ہے تو اسے ضائع نہ کرو.اگر تم اپنی ذہانت سے پورا پورا فائدہ اٹھاؤ گے تو کوئی کسی لائن میں آگے نکلے گا اور کوئی کسی لائن میں آگے نکلے گا.پھر اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمہارے حصے میں خوشیاں آئیں گی.اس وقت کی تمہاری جو خوشیاں ہیں بچپن کی وجہ سے ان خوشیوں کے معنے بھی تمہیں نہیں آتے.لیکن اگر عملی میدان میں دوسروں سے آگے نکلو گے تو اس سے جو خوشیاں حاصل ہوں گی وہ کہیں زیادہ اچھی ہوں گی.ان سے تمہارے خاندان کا نام بلند ہو گا.تمہارے مالی حالات اچھے ہو جائیں گے دنیا میں تمہارے لئے ایک عزت کا مقام پیدا ہو جائے گا.خدا کی راہ میں تم کام کرو گے تو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں تمہاری عزت پیدا ہوگی اور تم قوم اور ملک کے لئے باعث فخر بن جاؤ گے.تمہارے والدین ہمیشہ تمہارے لئے دعائیں کرتے ہیں اب تم ان کو یہ بدلہ دو گے کہ وہ بھی فخر کریں کہ ان کے بچے ایسے نیک نکلے ہیں جنہوں نے اپنے اوقات کو ضائع نہیں کیا بلکہ اپنے اوقات کو صحیح مصرف میں لائے ہیں.پس جیسا کہ میں نے کہا ہے اسلام کوئی پوستیوں کا مذہب نہیں.اسلام تو انسان کا مذہب ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو جسم دیا ہے.جسمانی طاقتیں دی ہیں.جسمانی طاقت کو قائم رکھنے کے لئے اچھا اور متوازن کھانا ہے.جو اس کے لئے مہیا کیا ہے قرآن کریم نے کہا ہے کہ ہر چیز میں توازن ہونا چاہیئے اس لئے ہماری غذا متوازن ہونی چاہیئے.اب آج کی دنیا میں سائنسدانوں نے بڑے فخر سے کہا ہے کہ انہوں نے متوازن غذا کا اصول بنایا ہے.حالانکہ قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے سے میزان کا قانون بنایا ہوا ہے اور ہدایت دی ہے کہ اس مطابق کھانا کھاؤ اور ہضم کرنے کی کوشش کرو.آخر جسم میں طاقت اور جان ہوگی تو عقل بھی تعلیم کا بوجھ اٹھائے گی.میں نے دیکھا ہے میں کالج میں پڑھاتا رہا ہوں.بڑی دیر کی بات ہے ایک طالب علم جس نے بی اے کا امتحان دینا تھا اس کے چہرے پر داغ پڑے ہوئے تھے اور ایسے داغ صحت کی کمزوری کی وجہ سے پڑ جاتے ہیں.مجھے اپنے آپ پر بڑا غصہ آیا یہ سوچ کر کہ میں نے اس کا خیال نہیں رکھا.چند مہینوں کے بعد اس کا امتحان ہے اس کو کھانے کے لئے حسب ضرورت نہیں ملا اس لئے کمزور ہو گیا ہے.میں ان دنوں کھلاڑیوں کو مختلف شکلوں میں سویا بین کھلایا کرتا تھا.لیکن جو طالب علم محنت کرنے کی وجہ سے کمزور ہوتے تھے ان کی طرف میری توجہ نہیں گئی تھی.چنانچہ میں نے پھر محنتی طلبہ کے لئے بھی سامان کیا اور جب اس لڑکے کو میں نے سویا بین دی جو بڑی اچھی چیز ہے تو دس پندرہ دن کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر صحت کی سرخی آگئی.ایسی صورت میں طالبعلم چاہے سولہ گھنٹے روزانہ پڑھے اس کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی.لیکن اگر صحت ٹھیک نہیں ہوگی تو زیادہ پڑھائی نہیں کر سکے گا.پھر اسی طرح توجہ بڑی ضروری ہے اگر توجہ نہ ہو مثلاً اطفال الاحمدیہ کے اس اجتماع میں بچے بیٹھے ہیں اگر کسی کی توجہ ادھر ادھر ساتھیوں کی طرف ہو تو وہ میری بات نہیں سن سکے گا.جب سنے گا نہیں تو اسے یاد نہیں رکھے

Page 484

481 فرموده ۱۹۷۸ء دو مشعل راه جلد دوم گا.جب یاد نہیں رکھے گا تو اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا.یہ ایک موٹی بات ہے.یہ کوئی فلسفہ تو نہیں کہ بچوں کی سمجھ میں نہ آسکے.پس توجہ کو قائم رکھنے کے لئے بھی اپنی طاقت اور صحت اچھی ہونی چاہیئے.پھر اخلاق اچھے ہونے چاہئیں اخلاقی لحاظ سے تمہیں نہایت عمدہ نمونہ دکھانا چاہیئے.ایسا عمدہ نمونہ کہ دنیا دیکھے اور حیران ہو کہ اچھا یہ احمدی ہے اس کے اتنے اچھے اخلاق ہیں.اسلام امن اور آشتی کا مذہب ہے.اسلام ہمدردی اور خیر خواہی کا مذہب ہے.اسلام خدمت خلق کا مذہب ہے اسلام خدمت خلق کا مذہب ہے اسلام پیار اور صحت کا مذہب ہے.اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ کسی آدمی سے دشمنی نہیں کرنی.ہر ایک کی خیر خواہی کرنی ہے وہ چاہے جو مرضی کرتا رہے.تم میں سے اکثر بچے ایسے ہوں گے جن کو پتہ نہیں کہ ہے، میں جماعت احمدیہ پر کیا حالات گزرے تھے.تاہم ایسے بچے بھی موجود ہیں جن کو پتہ ہے کہ میں نے اس وقت جماعت سے کہا تھا کہ جو بھی حالت تم پر گزرے تم نے کسی سے غصہ نہیں کرنا بلکہ ہنتے رہنا ہے اور دعائیں کرتے رہنا ہے.جماعت احمد یہ خدا کی ایسی پیاری جماعت ہے.یہ جو تمہارے بڑے ہیں تمہاری طرح بچے تھے لیکن انہوں نے نیکی کی باتیں سن سن کر ایسا اچھا نمونہ دکھایا کہ ہمارے مخالفین حیران ہو گئے اور یہ باتیں کرتے ہوئے سنے گئے کہ یہ عجیب قوم ہے.ہم ان کو دکھ پہنچارہے ہیں اور یہ ہیں کہ ان کے چہرے پر غصے اور دشمنی کا کوئی اثر نہیں.مخالفتوں میں بھی وہ ہنستے اور مسکراتے رہے اور دعائیں دیتے رہے.ہمیشہ مسکراتے ہیں ان ہی دنوں ایک دفعہ ہمارے دو مبلغین کو ۲۵-۳۰ آدمیوں نے اتنا مارا کہ ان کا منہ سوج گیا اور ان کی گردن فٹ بال کی طرح موٹی ہوگئی.ان میں سے ایک میرے پاس آیا.میں نے کہا دیکھو! میں کہا کرتا ہوں مسکراتے رہو اب بھی میں تمہیں کہتا ہوں مسکراتے رہو.تم ایک بات یادرکھو جو ورم تمہاری گردن اور چہرے پر ہے یہ ۴۸ گھنٹے کے اندر اندر دور ہو جائے گی لیکن جو خوشی ہمیں خدا نے پہنچائی ہے وہ تو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے.ہمیں خدا نے یہ کہا ہے کہ تم خوش ہو اور اس لئے خوش ہو کہ اسلام کی تازگی اور اس کے غلبہ کے دن آگئے ہیں تو اگر یہ بشارت موجود ہے اور اسلام کی تازگی اور غلبہ کے دن آچکے ہیں تو پھر ہم خواہ مخواہ روئیں اور منہ کیوں بسور ہیں.پھر ہمیں کس بات کا غم اور کس چیز کا غصہ.ہم تو اسی طرح مسکرا ئیں گے جس طرح خوشی کے وقت مسکراتے ہیں.خیر میں نے اس کو تسلی دی اور وہ چلا گیا.لیکن اس نوجوان مبلغ کے ذہن پر اتنا اثر تھا کہ گھڑی دیکھ کر پورے ۴۸ گھنٹے کے بعد میرے پاس آیا اور کہنے لگا میں اس لئے ملنے آیا ہوں کہ آپ دیکھ لیں آپ نے کہا تھا کہ تمہاری ورم ۴۸ گھنٹے کے اندر دور ہو جائے گی.اب دیکھ لیں نہ میرے چہرے پر ورم باقی ہے اور نہ میری گردن پر.میں نے کہا

Page 485

دو مشعل را راه جلد دوم بس ٹھیک ہے.چھلانگیں مارو.فرموده ۱۹۷۸ء 482 ہم اس لئے خوش نہیں کہ ہماری جیبیں خدا تعالیٰ نے نوٹوں سے بھر دی ہیں جو چوری بھی ہو جاتے ہیں.اور گم بھی ہو جاتے ہیں جن سے ہم غلط چیزیں بھی خرید لیتے ہیں.بعض دفعہ ہم سڑی ہوئی چیز میں خرید لیتے ہیں اور بیمار ہو جاتے ہیں.نوٹ کا تو کوئی قصور نہیں اسے تو آپ جہاں خرچ کرنا چاہیں چلا جائے گا.اس میں تو عقل نہیں.لیکن جو خوشی ہمارے خدا نے ہمیں پہنچائی ہے وہ تو یہ ہے کہ اسلام کی ترو تازگی اور خوشحالی اور اس کے غلبہ کے دن آگئے ہیں اس لئے ہم خوش ہیں اور جب تک ساری دنیا اسلام کے اندر داخل نہیں ہو جاتی ہماری یہ خوشیاں اسی طرح رہیں گی اور جو بشارت ہے وہ عمل میں آہستہ آہستہ بدل رہی ہے.ساری دنیا نے مسلمان ہونا ہے لیکن ایک دن میں ساری دنیا نے مسلمان نہیں ہونا.اب ایک محتاط اندازہ کے مطابق جماعت احمد یہ اپنی کوششوں سے مغربی افریقہ میں ۵ لاکھ سے زیادہ عیسائیوں کو مسلمان بنا چکی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس پر دنیا حیران ہو رہی ہے.پس خدا تعالیٰ نے یہ جو کہا تھا کہ یہ غلبہ اسلام کے دن ہیں اور مہدی کو اس غرض کے لئے بھیجا ہے اور جماعت احمدیہ کو اس کام کے لئے قائم کیا ہے.خدا کا یہ وعدہ پورا ہونا شروع ہو گیا ہے.اسلام کے غلبہ کے آثار دکھائی دینے لگ گئے ہیں.ایک وہ وقت تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی مسیحیت اور مہدویت سے چند سال پہلے عیسائیوں نے یہ اعلان کرنے شروع کر دیے تھے کہ وہ ساری دنیا پر چھا جائیں گے.ان کا ایک خطرناک اعلان یہ تھا کہ نعوذ باللہ وہ وقت قریب ہے جب خانہ کعبہ پر خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا لہرائے گا اور ایک پادری نے تو یہاں تک کہد یا تھا کہ ہندوستان میں اگر کوئی شخص یہ خواہش کرے گا کہ مرنے سے پہلے کسی مسلمان کا چہرہ تو دیکھ لے تو اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوگی.گو یا ہندوستان میں کوئی ایک مسلمان بھی نہیں رہے گا.سب کے سب عیسائی ہو جائیں گے ان دعووں کی گونج کے اندر خدا کے اس شیر نے اور محمدعلی اللہ کے اس روحانی فرزند نے کھڑے ہو کر یہ دعوی کیا کہ میں تم پر غالب آؤں گا خدا کے نام اور محمد ﷺ کے کلمہ کو بلند کرتے ہوئے اور اب یہ حال ہے کہ میں نے اپنے حالیہ دورہ کیورپ میں پہلی دفعہ بتایا کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے پانچ لاکھ سے زیادہ عیسائی صرف مغربی افریقہ میں مسلمان بناچکے ہیں.ولا فخر.اس میں ہمارا کوئی فخر نہیں.خدا تعالیٰ کی مہربانی ہے تو جب میں یہ کہتا تھا تو لوگوں کے منہ سے بات نہیں نکلتی تھی.وہ تو اس گھمنڈ میں تھے کہ ہندوستان میں کوئی مسلمان نہیں رہے گا اور خانہ کعبہ پر نعوذ باللہ مسیح کی الوہیت یعنی شرک کا جھنڈا لہرانے میں وہ کامیاب ہو جائیں گے یعنی جو کام محمد ا ہے نے اپنے ہاتھ سے کیا تھا اور خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا اور اسے ہمیشہ کے لئے شرک سے پاک کر دیا تھا.اس مشن میں عیسائی محمد ﷺ کو نا کام کردیں گے اور شرک یعنی الوہیت مسیح کا جھنڈا وہاں لہرائیں گے.صلى الله صلى الله خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق اور بشارتوں کے مطابق مسیح اور مہدی کو امت محمدیہ میں پیدا کر دیا.

Page 486

483 فرموده ۱۹۷۸ء دو د و مشعل راه جلد دوم وہ اکیلا تھا غیروں نے تو کیا اپنوں نے بھی اسے نہیں پہچانا مگر اس نے کہا خدا تعالیٰ مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے.خدا کہتا ہے تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.دنیا نے مختلف پہلوؤں سے دنیا کے مختلف کنارے بنائے ہیں اور ان کے نام بھی رکھے ہوتے ہیں.مثلاً انگلستان کے جنوب مغرب میں ایک چھوٹا سا کونہ ہے جہاں زمین تنگ ہوتے ہوتے ایک نقطہ سا بن کر رہ گئی ہے.اس کو وہ انگریزی میں LAND'S END یعنی زمین کا کنارہ کہتے ہیں.چنانچہ انگلستان میں آواز پہنچ گئی اور اب تو وہاں مسیح کی صلیبی موت سے نجات پر جو کا نفرنس ہوئی ہے اس سال جون کے شروع میں اس کا اتناز بر دست اثر ہوا کہ اس نے عیسائی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے.اب عیسائی دنیا میں یہ احساس دن بدن پیدا ہو رہا ہے کہ وہ اپنے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں.ان کی زندگی ناکام زندگی بن کر رہ گئی ہے اور یہ کہ وہ دن بدن ہلاکت کی طرف جارہے ہیں.اب وہ کہتے ہیں کہ تم ہمیں دین اسلام سکھاؤ.کون ان کو اسلام سکھائے.ایک آدمی.دس آدمی یا سو آدمی تو سارے یورپ کے ہر شہر میں جا کر اسلام نہیں سکھا سکتے.تم جو میرے سامنے بیٹھے ہو تم میں سے آدمی نکلنے چاہئیں جو دین سیکھیں اور اس نیت سے سیکھیں کہ دنیا کے کونے کونے میں جائیں گے.اسلام کی تبلیغ کریں گے.توحید کی تبلیغ کریں گے.اور محمد اللہ کے حسن واحسان کو دنیا کے سامنے پیش کریں گے.قرآن کریم کی حسین تعلیم دنیا کے سامنے پیش کریں گے.قرآن کریم کی تعلیم اتنی پیاری ہے کہ اس سے غیر مسلم بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے.۶۷ء کی بات ہے یورپ کے دورہ کے دوران میں لندن گیا.وہاں ایک حصہ میں بہت سے احمدی بستے تھے انہوں نے کہا ہمارے پاس آئیں.چنانچہ میں وہاں چلا گیا.وہاں انہوں نے ایک لیکچر کا بھی پروگرام بنایا ہوا تھا.اس میں غیر مسلم بھی آئے ہوئے تھے جن کا مختلف مذاہب سے تعلق تھا.مجھے خیال آیا.اچھا موقع ہے.میں اسلام کا تعارف کرادیتا ہوں.میں نے اس وقت مضمون ہی یہ چنا.چنانچہ میں نے کھڑے ہو کر کہا.تم اسلام پر ایمان نہیں لاتے لیکن پھر بھی اسلام تمہارا خیال رکھتا ہے.میں نے اس کے متعلق سات آٹھ مثالیں دیں.میں نے کہا تم قرآن کو نہیں مانتے لیکن قرآن کہتا ہے مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ تمہارے (غیر مسلموں کے ) جذبات کا بھی خیال رکھیں.تم قرآن کریم کو نہیں مانتے لیکن قرآن کہتا ہے کہ جس طرح مسلمان پر افتراء نہیں کرنا اور جھوٹ نہیں بولنا اسی طرح غیر مسلم کے خلاف بھی جھوٹ نہیں بولنا.تم قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے لیکن قرآن کریم کہتا ہے جس طرح مسلمان کا مال ناجائز طور پر نہیں کھانا اس طرح غیر مسلم کا مال بھی ناجائز طور پر نہیں کھا نا.میں نے مختصر دو دو تین تین منٹ میں یہ باتیں بتا ئیں تو وہ میرے پیچھے پڑ گئے کہ ہمارے ہاں آکر ہماری عبادت گاہ میں بھی تقریر کریں لیکن چونکہ پہلے سے پروگرام بنا ہوا تھا اس لئے میرے پاس وقت نہیں تھا.میں نے کہا مجبوری ہے بعد میں کسی وقت فرصت ملی تو تقریر کروں گا.غرض قرآن کریم نے اتنا احسان کیا ہے بنی نوع انسان پر کہ شرک کے خلاف تو تعلیم دی.خانہ کعبہ کے بتوں کو توڑا گیا.لیکن تعلیم یہ دی کہ تم نے بتوں کو گالی نہیں دینی.اب بہت تو پتھر ہے

Page 487

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۸ء 484 لکڑی کا بنا ہوتا ہے.اسے کوئی گالی دے تو چونکہ اس کے اندر کوئی احساس اور زندگی نہیں.وہ تو ایک بے جان چیز ہے اسے کیا دکھ پہنچے گا.مطلب یہ تھا کہ بت پرست کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچاؤ.تم ان کو پیار سے سمجھاؤ.شرک کے خلاف اور توحید کے حق میں تعلیم بتاؤ.شرک کے نقائص بتاؤ لیکن ان کے بتوں کو گالیاں نہ دو تا کہ بت پرستوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے.آج کے احمدی بچے کل کے جوان پس تم بچے ہو لیکن مجھے تم بچے نظر نہیں آتے.تم تو کل کے جوان ہو.تم تو مستقبل کے اسلام کے پہلوان ہو پس اس نہج پر تمہاری تربیت ہونی چاہیئے.اور تمہیں اپنے دلوں میں یہ عہد کرنا چاہیئے کہ دنیا جو مرضی کہے اور جو مرضی کر لے تم ہمیشہ دنیا کے سامنے اسلام کا عمدہ نمونہ پیش کرو گے اور اسلام کی حسین تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرو گے.یہ تمہیں میری نصیحت ہے.اس کو ہمیشہ یاد رکھو.اور اب اس کے ساتھ میں آپ سے رخصت ہوتا ہوں.( بحوالہ تشخيذ الاذهان نومبر دسمبر ۱۹۷۸ء)

Page 488

485 فرموده ۱۹۷۹ء دد د و مشعل راه جلد دوم سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے خدام الاحمدیہ مرکز بیدر بوہ کے ۳۴ ویں سالانہ اجتماع سے مورخہ ۲۲ اکتوبر ۱۹۷۸ء کو جو اختتامی خطاب فرمایا تھا اس کا مکمل متن درج ذیل ہے.حضور نے سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- احمدی مسلمان کے عقائد آپ احمدیت کی طرف منسوب ہوتے ہیں، خدام الاحمدیہ ہیں.ہم سب احمدیت کی طرف منسوب ہوتے ہیں احمدی ہیں.حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے ہمارا نام احمدی مسلمان رکھا ہے..ہم اسلامی عقائد رکھتے ہیں بعض لوگوں میں کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں ان سے میرا تعلق نہیں.اپنے عقائد سے میرا تعلق ہے.عقائد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ گاہے گا ہے احباب جماعت کے سامنے آتا رہتا ہے.اسی سلسلہ میں آج میں اپنے احمدیوں کے احمدیت کے عقائد کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.میں کوشش کروں گا کہ جہاں تک ممکن ہو سادہ زبان استعمال کروں تا کہ وہ سب اطفال بھی جو اس اجتماع میں شامل ہیں.اپنی عقل اور علم کے مطابق احمدیت کے عقائد کو سمجھ سکیں تاہم کچھ باتیں تو ایسی بھی ہوتی ہیں جو بچوں کی سمجھ سے بالا ہوتی ہیں حتی کہ بعض باتوں کو تو کئی خدام بھی نہیں سمجھ سکتے لیکن میں اپنی طرف سے آسان زبان میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کروں گا.ہم احمدی مسلمان ہیں اور ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں.وہ خدا جو واحد لاشریک ہے.وہ ایک ہے اور اُس کا کوئی شریک نہیں وہ واحد ہے اپنی ذات میں بھی اور اپنی صفات میں بھی.نہ اس کی ذات میں اس کا کوئی شریک ہے اور ان کی صفات میں اس کا کوئی شریک ہے.وہ بے مثل و مانند ہے.وہ یکتا ہے اور اس جیسا اور کوئی نہیں.وہ اپنی ذات اور صفات میں منفرد ہے.کوئی دوسرا اس کا مثل اور اس جیسا نہیں ہے.وہ ہر قسم کے نقائص کمزوریوں اور رکوتاہیوں سے پاک ہے.کوئی نقص اور کمزوری اُس کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی.اسے کبھی اونگھ نہیں آتی کیونکہ اونگھنا بھی ایک کمزوری ہے مگر خدا تعالیٰ ہر کمزوری سے منزہ ہے.وہ ایک لمحہ تو کیا لمحہ کے اربویں حصہ کے لئے بھی اپنی مخلوق سے بے خبر نہیں ہوتا.اُسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند کی ضرورت ہے.خدا تعالی خالق ہے.دنیا کی ہر چیز نے اُس نے پیدا کی ہے اس لئے وہ ہر چیز کا مالک ہے.وہ جی ہے اپنی ذات میں وہ زندہ ہے اور اس عالمین کی کوئی چیز اس کے سہارے کے بغیر زندہ نہیں.دنیا کی کوئی چیز بھی جب تک خدا تعالیٰ جو الحی ہے اُسے زندگی عطا نہ کرے زندہ نہیں ہوسکتی اور نہ زندہ رہ سکتی ہے اور نہ اس کا وجود قائم رہ سکتا

Page 489

دو فرموده ۱۹۷۸ء 486 مشعل راه جلد دوم ہے.ہمارا خدا قیوم خدا ہے.کائنات کے ہر حصہ کے ساتھ اس کا ذاتی تعلق قائم ہے یعنی یہ کائنات اور اس کی ہر شے ہر آن اور لحظہ اسی سے زندہ اور اسی کے سہارے قائم ہے.وہ بصیر ہے ہر چیز کو دیکھتا ہے مگر انسانوں کی طرح نہیں دیکھتا.میرا اور آپ کا دیکھنا دو چیزوں کا محتاج ہے.ایک تو ہم اپنی آنکھوں کے محتاج ہیں جو خدا نے ہمیں دی ہیں دوسرے بیرونی روشنی کے محتاج ہیں.آنکھوں والے ہوتے ہوئے بھی اگر رات کے وقت ہم مکان کی ساری کھڑکیاں اور دروازے بند کر لیں، کوئی در زباقی نہ رہے اور روشنی کی کوئی شعاع کمرے میں نہ آئے تو ہماری آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں.آنکھیں ہیں مگر دیکھ نہیں سکتیں لیکن خدا تعالی دیکھتا ہے.بایں ہمہ نہ ظاہری آنکھ کا وہ محتاج ہے اور نہ بیرونی روشنی کا.وہ اپنی ذات میں دیکھنے کی طاقت رکھتا ہے.پھر شنوائی ہے.انسان اور دوسرے حیوانات بھی سنتے ہیں.مخلوق میں سے جو بھی سنتا ہے اسے ظاہری طور پر دو چیزوں کی ضرورت ہے ایک کانوں کی ضرورت ہے اور دوسرے صوتی لہروں کی ضرورت ہے.اگر کان ہوں لیکن صوتی لہر نہ ہو یا کان تک نہ پہنچ سکے یا کان کو بند کر دیا جائے اور آواز اس کے اندر نہ جا سکے تو کان کسی آواز کو سن نہیں سکے گا.کان ہیں لیکن جب ان کا تعلق صوتی لہر سے قطع کر دیا جائے تو وہ سننا بند کر دیتے ہیں.مگر خدا تعالیٰ نہ کان کا محتاج ہے نہ صوتی لہروں کا وہ کسی مادی کان سے سنتا نہیں نہ ہی اسے سننے کے لئے صوتی لہروں کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ ہے ایک چیز کو جانتا ہے.اس کے ظاہر کو بھی جانتا ہے اور اس کے باطن کو بھی جانتا ہے.دنیا کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں.دنیا کی کسی چیز کا ظاہر اور باطن اس سے پوشیدہ نہیں مثلاً ہمارا اپنا جسم ہے یہ بھی ایک عالمین ہی ہے.خدا تعالیٰ نے اسے بڑا عجیب کارخانہ بنا دیا ہے.جسم میں پانی کا اپنا ایک نظام ہے مٹھاس کا اپنا ایک نظام ہے.ہزار ہا مختلف نظام ہیں جو جسم کے اندر پائے جاتے ہیں بلکہ ان میں با ہمی ربط کا نظام قائم ہے ہم خود اپنے جسم کے غیر متناہی پہلوؤں کا علم نہیں رکھتے مگر خدا تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.خدا تعالیٰ ہر ایک چیز کو جانتا ہے ہر ایک چیز اس کے علم میں ہے اور وہ متصرف بالا رادہ ہے جب چاہے اور جو چاہے کر دیتا ہے.حضرت صحیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ انسان جب اپنی نالائقی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اسے شفاء حاصل ہوتب خدا تعالیٰ کے دو حکم اُس کے متعلق جاری ہوتے ہیں.اس کے جسم کے ذرات پر خدا تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوتا ہے کہ وہ کسی دوا کا اثر قبول نہ کریں چنانچہ وہ کسی دوا کا اثر قبول نہیں کرتے.دوسرے ہر دوا پر خدا کا حکم نازل ہوتا ہے کہ وہ شخص مذکور پر کوئی اثر نہ کرے چنانچہ وہ دوا استعمال کرتا ہے لیکن دوا بے اثر ثابت ہوتی ہے.پھر خدا تعالیٰ اس مریض کی دعاؤں کو سن کر یا کسی اور نیک بندے کی اس (مریض) کے حق میں دعا سن کر اسے شفا دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو دو نئے حکم نازل کرتا ہے ایک انسانی جسم کے ذرات کو حکم ہوتا ہے کہ وہ دوا کے اثرات کو قبول کریں اور دوا کو حکم دیتا ہے کہ اس شخص کے جسم کے ذرات پر اپنا اثر کر وتب وہ صحت یاب ہو جاتا ہے.اب وہی دوا جو مہینہ بھر اور بعض دفعہ دو مہینے یا دو سال تک اثر نہیں کر رہی ہوتی دعا کے نتیجہ میں وہ اثر انداز ہوتی ہے اور انسان معجزانہ رنگ میں شفا پا جاتا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کی آیات ظاہر ہوتی ہیں.پس نہ صرف یہ

Page 490

487 فرموده ۱۹۷۸ء دو مشعل راه جلد دوم دد کہ خدا تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے بلکہ وہ ہر چیز سے تعلق بھی رکھتا ہے اور اس کا تعلق تبدیلی پیدا کرتا ہے ارادہ سے کیونکہ وہ متصرف بالا رادہ ہستی ہے.یہ ہمارا خدا ہے.جس پر ہم احمدی ایمان لاتے ہیں.ہمارا خدا ازلی ابدی خدا ہے.یہ ایک محاورہ ہے جسے ہمیں سمجھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے یعنی خدا ہمیشہ سے ہے.اور ہمیشہ رہے گا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمانے کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہے.زمانہ تو اُس نے پیدا کیا ہے زمانہ تو اس کے لئے اُسی طرح ہے جس طرح مٹھی کے اندر کوئی چیز بند ہو.خدا تعالیٰ کی خدائی میں زمان و مکان گھرے ہوئے ہیں.جہاں زمانہ ختم ہو جاتا ہے وہاں خدا کی خدائی ختم نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ اپنے وجود اپنی زندگی اور اپنی قیومیت کے لئے اور اپنی صفات کے اظہار کے لئے کسی زمانے کا محتاج نہیں ہے اور نہ کسی مکان کا محتاج ہے.خدا کی ذات وصفات کے متعلق میں نے مختصراً اس وقت جو کچھ بیان کیا ہے وہ قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں بیان کیا ہے.ہستی باری تعالیٰ کے متعلق قرآن تعلیم بہت وسیع اور گہری ہے.اس کی گہرائیوں میں جانے کا اس وقت موقع نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں کئی جگہ اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے جسے سمجھنے کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے.صفات الہیہ کے حسین جلوے پس یہ ہمارا خدا ہے جس کے اندر کوئی نقص اور برائی نہیں ہے.وہ تمام عیوب سے منزہ اور تمام صفات حسنہ سے متصف ہے.ہم اس خدا پر ایمان لاتے ہیں.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ تمام صفات جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور جو کم و بیش سو کے قریب ہیں ان کے علاوہ بھی فرمایا ہے له الاسماء الحسنی گویا اللہ تعالی تمام اچھی صفات سے متصف ہے.چنانچہ ہر سوچنے والے آدمی کے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ ہماری دنیا سے باہر کوئی ایسا دنیا بھی ہو جہاں ہماری دنیا میں اللہ تعالیٰ کی جو صفات جلوہ گر ہو رہی ہیں ان کے علاوہ یا ان کے سوا کوئی اور صفات بھی ظاہر ہورہی ہوں تو یہ ممکن ہے کہ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے جلوے غیر محدود ہیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے غیر محدود جلوے ظاہر ہوتے ہیں یہی نہیں بلکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے.كل يوم هو فی شان خدا تعالیٰ کی ہر صفت کا ہر نیا جلوہ پہلے سے مختلف ہوتا ہے اور اس کا ثبوت یہ پنڈال دے رہا ہے جہاں اس وقت سات آٹھ ہزار آدمی بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ایک دوسرے کی شکلیں مختلف ہیں.حالانکہ ایک خدا نے سب کو پیدا کیا ہے جب سے آدم پیدا ہوئے اُس وقت سے اب تک بے شمار انسان پیدا ہوئے لیکن کوئی دو آدمی اپنی شکل میں ایک جیسے نہیں.( ٹویوٹا کاریں بنانے والے بعض دفعہ ایک ہی ماڈل کی ہزاروں لاکھوں کاریں بنادیتے ہیں.ایک ہی مشین میں سے اس کی باڈی نکالتے ہی اس لئے شکل بالکل ایک جیسی ہوتی ہے.چنانچہ اس کی Monotony ( یکسانیت) کو توڑنے کے لئے اُن کے رنگ مختلف کر دیتے ہیں

Page 491

و «مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۸ء 488 لیکن خدا ایسا نہیں خدا تعالیٰ کے کام عجیب شان اپنے اندر رکھتے ہیں اُس کی صفت کا ہر جلوہ کل یوم ھو فی شان کا مظہر ہوتا ہے.میں نے شاید پہلے بھی بتایا تھا اب پھر بتا دیتا ہوں ہمارا ایک بڑا ذہین بچہ تھا.اس کو میں نے یہی مسئلہ سمجھایا اور بتایا کہ قرآن کریم کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کا ہر جلوہ ایک نئی شان کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے.وہ ایٹم کے بارہ میں مزید ریسرچ کرنے کے لئے حکومت مغربی جرمنی کے وظیفے پر جرمنی گیا تو وہاں اس نے اپنے پروفیسروں سے کہا کہ وہ اس موضوع پر ریسرچ کرنا چاہتا ہے کہ تابکاری کا اثر گیہوں پر اور قسم کا ہے، مکئی پر اور قسم کا ہے اور چاول پر اور قسم کا.اُس کے پروفیسر اُسے کہنے لگے کیا تم پاگل ہو گئے ہو؟ ہمارے دماغ میں تو کبھی یہ بات نہیں آئی تمہارے دماغ میں کیسے آگئی.اُس نے بعد میں مجھے بتایا کہ آپ نے کل یوم ھو فی شان کے بارہ میں بتایا تھا.اس کے مطابق میں نے اپنے پروفیسروں سے باتیں کیں.بڑی مشکل سے اس موضوع پر ریسرچ کرنے کے لئے اجازت ملی اور جب ریسرچ کی تو یہی نتیجہ نکلا کہ اٹامک انرجی کا اثر گیہوں پر اور رنگ میں ظاہر ہوتا ہے اور چاول پر اور رنگ میں ظاہر ہوتا ہے.چنانچہ اُس کی اس ریسرچ پر اس کے جرمن پروفیسر بڑے حیران ہوئے.یہ تو قرآن کریم کی تعلیم کی برکت تھی میں تو ایک واسطہ بن گیا قرآن کریم کی تعلیم سکھانے کا اللہ تعالیٰ کے فضل غرض اللہ وہ کامل صفتوں کا مالک خدا ہے جس پر ہم احمدی ایمان لاتے ہیں اور کوئی چیز اس کے سامنے آن ہونی نہیں.ایک دفعہ مجھے ایک دوست کا دعا کے لئے خط ملا جس میں اُس نے اپنے حالات کچھ اس طرح بیان کئے ہوئے تھے کہ بظاہر یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ اس کا کام ہو جائے گا لیکن اس نے لکھا کہ دعا سے دل تسلی پکڑتا ہے.اس لئے میں آپ کو دعا کے لئے رکھ رہا ہوں.میں نے اُس کا خط پڑھا اور قریب تھا کہ میں یہ لکھ دیتا کہ پھر خدا کی رضا پر راضی رہو اُس وقت خدا تعالیٰ نے اپنے پیار سے مجھے جھنجھوڑا اور مجھے یہ کہا کیا تم احمدیوں کو یہ سبق دینا چاہتے ہو کہ انسان کی زندگی میں کوئی ایسا موقع بھی آتا ہے جب خدا تعالیٰ بھی اُس کی مدد نہیں کر سکتا.چنانچہ میں کانپ اُٹھا کہ یہ میں کیا غلطی کرنے لگا تھا اور میں نے اپنے ہاتھ سے لکھا خدا تعالیٰ سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے وہ ہر چیز پر قادر ہے.چنانچہ جس بات کی ہزار میں سے ایک کی بھی امید نہ تھی دس پندرہ دن کے بعد اُس کا خط آیا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میرا کام ہو گیا ہے.۷۴ء کا ابتلاء ۷۴ء میں جماعت احمدیہ نے بڑی تکلیف کے دن گزارے.ساری جماعت کا درد مجھے بھی اٹھا نا پڑتا ہے.جماعت میں سے جس دوست کو بھی تکلیف پہنچتی ہے وہ تو اس کے لئے بڑے دکھ درد کا موجب ہوتی ہی ہے لیکن میں بھی اپنی جگہ بڑی پریشانی میں وقت گزارتا ہوں چنانچہ ۷۴ء میں بھی بڑی پریشانی رہی.بڑی دعائیں کیں.

Page 492

489 فرموده ۱۹۷۸ء د و مشعل راه جلد دوم دد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُس وقت جو جو باتیں بتائی تھیں اُن پر ابھی اللہ تعالیٰ تین سال نہیں گزرے تھے کہ وہ با تیں پوری ہوگئیں.الحمد للہ علی ذلک.اسلام نے ہمیں یہ تعلیم بھی دی ہے کہ خدا تعالیٰ وہ ہستی ہے جس نے ہمیں وہ تمام صلاحیتیں اور استعداد میں دے دی ہیں جن کو ہم صحیح طریق پر استعمال میں لا کر خدا کا قرب اور اُس کا پیار حاصل کر سکتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وسخرلكم مافي السموت ومافي الارض جميعا منه (الجاثیه : ۱۴) یہ سارا عالمین جس کے کناروں تک انسان کی دور بینیں بھی نہیں پہنچ سکتیں اس میں ہر چیز کو انسان کی خدمت پر لگا دیا ہے تا کہ وہ اپنی خدا دصلاحیتوں سے کما حقہ فائدہ اُٹھاتے ہوئے خدا کی رضا کو حاصل کرے اور اُس کا مقرب بندہ بن سکے.اللہ تعالیٰ کی ذاتی محبت پس خدا تعالیٰ بڑا احسان کرنے والا ہے.وہ ہمارا بڑا پیارا رب ہے.اُس کا پیار حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت ضروری ہے اس کے بغیر انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کا پیار پیدا نہیں ہوتا.غرض الہی صفات کی معرفت کے ساتھ وابستہ ہے اُس کی محبت اور یہ خوف کہ خدا اتنی عظیم ہستی ہے جس نے اپنے پیارکو ہم پر ظاہر فرمایا وہ کہیں ہم سے ناراض نہ ہو جائے.جب انسان کے اندر یہ احساس اور محبت پیدا ہو جاتی ہے تو پھر یہ محبت ذاتی بن جاتی ہے محبت ذاتی شروع ہوتی ہے.اس بات کے احساس سے کہ خدا تعالیٰ بہت احسان کرتا ہے اور انتہاء ہوتی ہے اس معرفت پر کہ خدا تعالیٰ حسن و احسان میں یکتا ہے.خدا کی محبت میں انسان ہر دوسری چیز کو بھول جاتا ہے حتی کہ اپنا وجود بھی گم ہو جاتا ہے بالفاظ دیگر انسان خدا تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی کیا ہے؟ اس کے متعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پڑھتا ہوں.اسلام اور اقرآن کریم کی جو شریعت ہمیں ملی ہے اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں ہمیں کیا کچھ ملتا ہے؟ اس ضمن میں آپ فرماتے ہیں:- از انجملہ ایک مقام محبت ذاتی کا ہے جس پر قرآن شریف کے کامل متبعین کو قائم کیا جاتا ہے اور اُن کے رگ وریشہ میں اس قدر محبت الہیہ تاثیر کر جاتی ہے کہ اُن کے وجود کی حقیقت بلکہ ان کی جان کی جان ہو جاتی ہے اور محبوب حقیقی سے ایک عجیب طرح کا پیار اُن کے دلوں میں جوش مارتا ہے اور ایک خارق عادت اُنس اور شوق اُن کے قلوب صافیہ پر مستولی ہو جاتا ہے کہ جو غیر سے بکلی منقطع کر دیتا ہے اور آتش عشق الہی ایسی افروختہ ہوتی ہے کہ جو ہم

Page 493

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۸ء صحبت لوگوں کو اوقات خاصہ بدیہی طور پر مشہود اور محسوس ہوتی ہے بلکہ اگر محبان صادق اس جوش محبت کو کسی حیلہ اور تدبیر سے پوشیدہ رکھنا بھی چاہیں تو یہ ان کے لئے غیر ممکن ہو جاتا ہے جیسے عشاق مجازی کے لئے بھی یہ بات غیر ممکن ہے کہ وہ اپنے محبوب کی محبت کو جس کے دیکھنے کے لئے دن رات مرتے ہیں اپنے رفیقوں اور ہم صحبتوں سے چھپائے رکھیں بلکہ وہ عشق جو ان کے کلام اور اُن کی صورت اور اُن کی آنکھ اور اُن کی وضع اور اُن کی فطرت میں گھس گیا ہے.اور اُن کے بال بال سے مترشح ہورہا ہے وہ ان کے چھپانے سے ہرگز چھپ ہی نہیں سکتا اور ہزار چھپائیں کوئی نہ کوئی نشان اس کا نمودار ہو جاتا ہے اور سب سے بزرگ تر اُن کے صدق قدم کا نشان یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب حقیقی کو ہر یک چیز پر اختیار کر لیتے ہیں اور اگر آلام اس کی طرف سے پہنچیں تو محبت ذاتی کے غلبہ سے برنگ انعام ان کو مشاہدہ کرتے ہیں اور عذاب کو شربت عذب کی طرح سمجھتے ہیں.کسی تلوار کی تیز دھار اُن میں اور اُن کے محبوب میں جدائی نہیں ڈال سکتی اور کوئی بلیہ عظمی اُن کو اپنے اس پیارے کی یادداشت سے روک نہیں سکتی.اُسی کو اپنی جان سمجھتے ہیں اور اُسی کی محبت میں لذات پاتے اور اسی کی ہستی کو ہستی خیال کرتے ہیں اور اسی کے ذکر کو اپنی زندگی کا ماحصل قرار دیتے ہیں.اگر چاہتے ہیں تو اسی کو اگر آرام پاتے ہیں تو اسی سے.تمام عالم میں اُسی کو رکھتے ہیں.اور اسی کے ہورہتے ہیں.اُسی کے لئے جیتے ہیں اُسی کے لئے مرتے ہیں.عالم میں رہ کر پھر بے عالم ہیں اور با خود ہو کر پھر بے خود ہیں.نہ عزت سے کام رکھتے ہیں نہ نام سے نہ اپنی جان سے نہ اپنے آرام سے بلکہ سب کچھ ایک کے لئے کھو بیٹھتے ہیں اور ایک کو پانے کے لئے سب کچھ دے ڈالتے ہی.لا یدرک آتش سے جلتے جاتے ہیں اور کچھ بیان نہیں کر سکتے کہ کیوں جلتے ہیں اور تفہیم اور تفہیم سے صم بکم ہوتے ہیں اور ہر یک مصیبت اور ہر یک رسوائی کے سہنے کو تیار رہتے ہیں اور اس سے لذت پاتے ہیں“.490 (براہین احمد یه صفحه ۵۳۹ صفحه ۵۴۰ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳ بحوالہ روحانی خزائن نمبرا جلداول) ایک مسلمان جو قر آنی تعلیم پر عمل کرتا ہے اور اس کو سمجھ کر اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو کر الہی محبت حاصل کرتا ہے اس کے دل میں اس حد تک اللہ تعالیٰ کی ذاتی محبت پیدا ہوتی ہے جس کا اس حوالہ میں ذکر کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنی ایک یہ صفت اور عادت بھی بیان فرمائی ہے کہ جب وہ اپنے کسی بندے سے پیار کرتا ہے تو اس پیار کا اظہار بھی کرتا ہے.اس لئے جہاں تک اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم کی سمجھ عطا فرمائی اور محمد رسول اللہ اللہ کے ارشادات کو سمجھنے کی توفیق بخشی ہے اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے پیار کی آواز اور اس کا اظہار مختلف طریقوں سے ہوتا ہے اس کا دروازہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور محمد علی اللہ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں

Page 494

491 فرموده ۱۹۷۸ء د و مشعل راه جلد دوم دد قیامت تک کھلا ہے یہ ہمارا ایمان ہے.میں اپنے ایمان کے متعلق باتیں کر رہا ہوں.یہ احمدیوں کا ایمان ہے کہ یہ دروازہ بھی بند نہیں ہوسکتا اسی لئے میں نے کئی جگہ احمدیوں سے پوچھا کہ بتاؤ تم نے کچی خوا نہیں دیکھیں تو مجھے کوئی ایسا احمدی نہیں ملایا احمدیوں کا کوئی ایسا گھرانہ نہیں پایا جس نے کسی نہ کسی رنگ میں خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل نہ کیا ہو اور اُس کے پیار کا مشاہدہ نہ کیا ہو.پس یہ ہے ہمارا خدا جو اپنی ذات میں اکیلا ہے جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور کوئی اس کا کفو نہیں.وہ جی ہے وہ قیوم ہے نہ اُسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند.وہ بصیر ہے وہ سمیع ہے وہ علیم ہے وہ خبیر ہے وہ قدوس ہے وہ عزیز ہے وہ خالق ہے وہ مالک ہے وہ حاکم ہے اس معنی میں کہ الحکم للہ.اس دنیا میں حکم اسی کا چلتا ہے.وہ متصرف بالا رادہ ہے.یہودیوں کے بعض فرقے کہتے ہیں خدا نے دنیا کو پیدا کیا اور علیحدہ ہوکر بیٹھ گیا.وہ کہتے ہیں خدا ایک عظیم ہستی ہے اور انسان ایک عاجز بندہ پھر امن کے ساتھ تعلق کیوں رکھے.ہمدا خدا ایسا خدا نہیں ہے.تعلق کیوں رکھنے کا سوال تو شاید ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن اس نے جواب دیا اور کہا ہے کہ میں تعلق رکھتا ہوں.یہ اُس کی شان ہے.اس لئے جیسا کہ یہودیوں کے بعض فرقے کہتے ہیں وہ Impersonal God یعنی مخلوق سے لاتعلق خدا نہیں ہے بلکہ personel God یعنی مخلوق سے ذاتی تعلق رکھنے والا ہمارا خدا ہے.مثلاً جب مجھے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا آپ کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا کوئی ضرورت آپڑتی ہے تو ہم جانتے ہیں کہ ہمارے لئے صرف ایک ہی در کھلا ہے اور وہ ہمارے پیارے رب کریم کا در ہے.پس ہمیں کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے ہم ہر آن اس خدا کے حضور جھکتے ہیں جو بڑی شان کا مالک ہے، تمام صفات حسنہ سے متصف ہے ہر قسم کے عیوب اور کمزوریوں سے مبرہ اور ہر قسم کے شرک سے منزہ ہے.خدا بولتا ہے دعاؤں کو سنتا ہے اور جب پیار کرنے پر آتا ہے تو اپنے پیارے بندوں کے لئے ایک دنیا کو ہلا کر رکھ دیتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اے خدا یہ تو ٹھیک ہے کہ تو نے یہ کہا ہے کہ جو تیرا ہو جائے ہر دو جہان اس کے ہو جاتے ہیں لیکن جہاں تک ہمارے دل کی کیفیت کا سوال ہے وہ تو یہ ہے کہ جسے تو مل جائے اُس نے ہر دو جہان کو لے کر کیا کرنا ہے جب تیرا پیارل گیا تو گویا سب کچھیل گیا.آنحضرت م تخلیق کائنات کے اصل سبب پس ہمارا پہلا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ ہم خدائے واحد و یگانہ کے پرستار ہیں.ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں.ہم اس کے عبد ہیں اور عبودیت کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں.عبودیت کا ایک تقاضا یہ ہے کہ قرآن کریم نے ہمیں کہا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کریں اور چونکہ یہ ایک ایسا فقرہ تھا جسے سمجھنا مشکل تھا.اس لئے ہمیں یہ بتایا گیا کہ محمد رسول اللہ ہے خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم ہیں اور یہ ہمارا

Page 495

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۸ء 492 وسرا بنیادی عقیدہ ہے.ہم دل سے یقین کرتے ہیں کہ آنحضرت اللہ خدا کے نہایت ہی پیارے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.آپ افضل الرسل ہیں.ہمارا اس بات پر بھی پختہ یقین ہے کہ آپ کے متعلق یہ جو کہا گیا ہے.لولاک لما خلقت الافلاک یہ بالکل درست اور سچ ہے کیونکہ اگر محمد ﷺ کا وجود منصو بہ باری تعالیٰ میں نہ ہوتا تو اس کا ئنات کو بھی پیدا نہ کیا جاتا.ہم اس بات پر بھی پختہ یقین رکھتے ہیں کہ آدم سے لے کر آنحضرت ﷺ کی بعثت تک جتنے انبیاء صلحاء اولیا قطب اور بزرگ گزرے ہیں سب نے آپ سے فیض لیا ہے لیکن آپ پر کسی کا احسان نہیں ہے.ہر ایک کا ہاتھ آپ کے سامنے بڑھا اور آپ نے اس ہاتھ پر کچھ رکھا لیکن آپ کا ہاتھ کسی کے سامنے نہیں بڑھا اور کسی اور سے کچھ وصول نہیں کیا.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے آنحضرت عم تخلیق کا ئنات کا اصل سبب ہیں.علاوہ ازیں ایک حدیث نبوی ہے جو حدیث کی مشہور کتاب مسند احمد بن حنبل میں درج ہے.حضرت امام احمد بن حنبل ایک فقہی مسلک کے بانی ہیں جسے حنبلی فقہ کہا جاتا ہے.آپ بڑے پایہ کے بزرگ ہیں.آپ نے اپنی مسند میں یہ حدیث بیان کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں اس وقت خاتم الانبیاء تھا کہ ابھی آدم کا وجود بھی دنیا میں نہیں تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک لاکھ ہیں ہزار یا کچھ زیادہ یا جتنے مرضی انبیاء کہہ لیں جو آدم کی نسل میں پیدا ہوئے وہ سارے صلى الله کے سارے محمد رسول اللہ ﷺ کے خاتم الانبیاء کے مقام پر فائز ہونے کے بعد آئے یہ نہیں کہ آنحضرت ما بعثت کے وقت خاتم الانبیاء بنائے گئے تھے اور آپ سے پہلے جو نبی تھے وہ گزر گئے اور ان کا آپ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا.آنحضرت یه آدم سے پہلے اور ایک لاکھ بیس ہزار انبیاء سے بھی پہلے خاتم الانبیاء تھے.یہ کوئی فلسفیانہ بحث نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے.یہ کوئی تھیوری نہیں ہے.جو آئندہ کے لئے پیش کی جاتی ہے یا کوئی Invention (ایجاد ) نہیں ہے کہ جس میں تبدیلی ممکن ہو.مثلاً موٹروں، ہوائی جہازوں، مشینوں اور دواؤں کے اندر ترمیم اور تبدیلی ہوتی رہتی ہے یہ اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت کا ئنات ہے.جس طرح خدا تعالیٰ کی وحدانیت بنیاد ہے.اس کائنات کی اسی طرح یہ بھی آدم کے ساتھ تعلق رکھنے والی جو دنیا ہے اس کی بنیادی حقیقت محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کا خاتم الانبیاء ہونا ہے.حضرت نبی اکرم ﷺ پر قرآن کریم نازل ہوا.یہ ایک کامل اور مکمل کتاب ہے.اس میں وہ تمام صداقتیں پائی جاتی ہیں جو پہلی شریعتوں کے اندر موجود ہیں تو کیا کوئی آدمی یہ سوچ بھی سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کو پہلی شرائع کا محتاج بنایا ہے؟ یعنی کچھ تو رات سے لے لیا اور کچھ لے لیا کسی اور شریعت سے.گویا جتنی شریعتیں آچکی ہیں ان میں سے تھوڑا تھوڑا لے لے کر قرآن کریم بنالیا.ایسا ہر گز نہیں ہے.اور نہ ہی فيها كتب قيمة کے یہ معنے ہیں چونکہ زمانہ کے لحاظ سے قرآن کریم کا نزول پیچھے ہوا اس لئے انسانی عقل یا میں کہوں گا

Page 496

493 فرموده ۱۹۷۸ء د و مشعل راه جلد دوم دد سارے انسانوں کی عقل اس حقیقت تک نہیں پہنچتی تھی.اس لئے کہا گیا فيها كتب قيمة خود قرآن کریم نے اس کے کچھ اور معنے گئے ہیں.قرآن کہتا ہے کہ اس نے ماقبل شرائع سے لے کر اپنے یہ صداقتیں نہیں رکھیں بلکہ ان شرائع کے اندر قرآن کریم سے لے لے کر صداقتیں رکھی گئی تھیں.چنانچہ اس حقیقت کی طرف سورہ آل عمران کی ۲۴ ویں آیت اشارہ کرتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- اوتو انصيبا من الكتب پھر اسی آیت میں آتا ہے کہ جب ان کو اسی الکتاب کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اعراض کرتے ہیں.یہودیوں کی اپنی کتاب یعنی موسوی شریعت میں قرآن کریم کی صداقتوں کا ایک حصہ رکھا گیا اور اس پر وہ فخر کرنے لگ گئے لیکن جس کامل کتاب کا وہ حصہ تھا جب اس کی طرف ان کو بلایا جاتا ہے تو وہ اعراض کرتے ہیں.ظاہر ہے کہ یہ تو بڑی نا معقول بات ہے کہ جو چھوٹا سا حصہ قرآن کریم کا تھا اس پر وہ (یہود ) ناز کرنے لگ گئے اور جب کامل اور مکمل قرآن ان کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اس سے منہ پھیر لیا یہ کہتے ہوئے کہ انہیں اس کی ضرورت نہیں.اگر اس کامل کتاب کی انہیں ضرورت نہیں تو او تسوانصيبا من الکتب کی رو سے انہیں اس کا جو حصہ ملا اس کی بھی پھر انہیں ضروت نہیں رہتی.پس اگر چہ عام انسانوں کو سمجھانے کے لئے قرآن کریم نے اس قسم کے محاورے استعمال کئے ہیں لیکن اصل حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے جو باتیں بیان کرنی چاہیے تھیں وہ خود قرآن کریم کے اندر موجود ہیں.قرآن کریم اپنی تفسیر اور اپنی عظمت اور شان کے اظہار کے لئے کسی کا محتاج نہیں ہے.وہ خود اپنی تفسیر کرتا ہے اور اپنی عظمت اور شان کو ظاہر کرتا ہے.چنانچہ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق فرمایا ہے.دوسری طرف فرمایا:.فيها كتب قيمة اوتو انصيبا من الكتب یعنی اہل کتاب کی کتب مقدسہ میں قرآن کریم کا ہی ایک حصہ موجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کی تشریح میں بہت مثالیں دی ہیں.ایک مثال آپ نے یہ دی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قرآن کریم کی تعلیم کا یہ حصہ دیا گیا: جزاء سيئة سيئة مثلها اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے وقت یہود کی حالت بڑی کمزور تھی.وہ بزدل

Page 497

فرموده ۱۹۷۸ء د و مشعل راه جلد دوم ہو گئے تھے.ان کی گردنیں جھکی رہتی تھیں اس لئے ان کو ابھارنے کا سوال تھا.چنانچہ ان کو یہ حکم دیا کہ جزاء سيئة سيئة مثلها 494 تاہم یہ ایک عارضی نظام تھا مستقل نظام تو قرآنی شریعت نے بنی نوع انسان کو دیا ہے.پھر جب یہود کی حالت بدل گئی تو وہ بڑے Aggressive بن گئے یعنی ہر وقت آمادہ پر کار بن کر دوسری انتہاء پر چلے گئے تو اس وقت حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت ہوئی.آپ نے قرآنی تعلیم کے دوسرے حصے یعنی فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ پر زور دیا جس کا عملی نمونہ ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا بھی آگے کر دینے کی صورت میں ظاہر ہوا.گویا یہ تعلیم بھی بگڑ گئی اور عیسائیت دوسری انتہاء پر چلی گئی.ان دونوں کو ملا دیں تو وہ بہر حال قرآن کریم کی صداقت بن جاتی ہے.پس ہمارا یہ ایمان ہے کہ محمد رسول اللہ علہ آدم کی پیدائش سے بھی پہلے خاتم الانبیاء تھے اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ تمام انبیاء اور صلحاء اور اولیاء اور بزرگ جو آنحضرت ﷺ سے پہلے گزرے ہیں انہوں نے تمام روحانی برکات آپ ہی کے طفیل حاصل کی ہیں.بالواسطہ حاصل کیں.یعنی یہودیوں نے جو تو رات پر ایمان لائے اور ان میں سے جس حصے نے خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کیا وہ بواسطہ موسیٰ حاصل کیا لیکن قرآن کریم ہی کی تعلیم کے ایک حصے سے برکت حاصل کی اور جو عیسائیت پر بعثت نبوی تک کا زمانہ گزرا اس میں خدا سے پیار کرنے والے بہت سے بزرگ پیدا ہوئے.انہوں نے خدا کے پیار کو حاصل کیا اس کی رحمتوں کا نزول ہوا جتنا بھی ہوا وہ بہر حال قرآن کریم کے ایک حصے کی برکت سے ہوا گویا یہ برکت بواسطہ مسیح ملی لیکن دراصل آنحضرت ماہ کے طفیل ملی.یہ ہے حقیقت ہمارے نزدیک ہمارے آدم کے سلسلہ انبیا کی!.خدائے واحد پر ایمان پس ہمارا پہلا ایمان ہے خدائے واحد و یگانہ پر جو صفات حسنہ سے متصف ہے ، جس کے اسماء الحسنی ہیں جس میں کوئی برائی اور کمی اور نقص اور عیب نہیں پایا جاتا.وہ ازل سے ہے اور ابد تک ہے.اس نے کائنات پیدا کی جو بہت ہی وسیع ہے جس میں خدا تعالیٰ کی عظیم شان نظر آتی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے یہ اعلان کیا.انا زينا السماء الدنيا بزينة الكواكب (اصفت :) بعض دفعہ کوئی آدمی شیطان کا چیلہ بن کر استکبار کرتا ہے لیکن اس کی حیثیت یہ ہے کہ وہ پہلے آسمان سے ستاروں کی کنہ تک بھی نہیں پہنچ سکتا.اس وقت تک بڑی Sophisticated دور بینیں ایجاد ہو چکی ہیں لیکن ان کے ذریعے بھی انسان ستاروں کے کناروں کو معلوم نہیں کر سکا.اس قسم کی ریسرچ کرنے والوں کے نزدیک ابھی تو انہوں نے کناروں کو صرف کریدا ہے.پنجابی میں اسے کہتے ہیں تھوڑا سا پھوریا.قرآن کریم نے سات آسمانوں کا ذکر کیا ہے جن میں سے پہلے آسمان کے ستاروں کے متعلق انسانی معلومات کا یہ حال ہے کہ ابھی تو

Page 498

495 فرموده ۱۹۷۸ء د و مشعل راه جلد دوم دو انسان نے اسے صرف ” پھوریا ہے اور فخر کرنے لگ گیا ہے.ابھی تو اس کے پرے چھ اور آسمان باقی ہیں.پھر ہم اس خدا پر ایمان لاتے ہیں جو اپنے پیارے بندوں کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے پیارے بندے اس کی راہ میں جان دینے کے لئے تیار ہوتے ہیں.آنحضرت محسنِ اعظم اسی طرح ہم اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ محمد رسول اللہ نے دنیا کے حسن اعظم ہیں.آپ انسانیت کے محسن ہیں اس لئے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے آپ نے آدم پر بھی احسان کیا.قرآن کریم کی شریعت میں سے تمدن کا ایک حصہ اُن کو دیا گیا.پھر اس سلسلہ میں حضرت نوح علیہ السلام آگئے.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام آگئے.علی ہذا القیاس ایک لاکھ ہیں یا چوبیس ہزار انبیاء گزرے ہیں اور ان میں پتہ نہیں کتنے بی ایسے بھی تھے جن پر شریعتیں نازل ہوئیں مگر ان میں سے اکثر شریعتوں کو خدا کی حکمت کا ملہ کے ماتحت یا در رکھنے کی ضروت نہیں سمجھی گئی کیونکہ جس انسان کامل کے لئے خدا نے دنیا پیدا کی تھی وہ مبعوث ہو گیا.قرآن کریم انسان کے ہاتھ میں دے دیا گیا.یہ بڑی عجیب کتاب ہے علوم سے بھری ہوئی اور برکات سے معمور.غرض ہمارا یہ ایمان اور پختہ عقیدہ ہے کہ حضرت نبی کریم ملا فضل الرسل ہیں.آپ سب سے بڑے رسول ہیں.خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب ہیں.اللہ تعالیٰ نے جتنا پیار آنحضرت ام سے کیا ہے اتنا پیار کسی اور نبی اور انسان سے نہیں کیا.آپ نفر رسل ہیں.آدم سے لے کر سب انبیاء کے بھی آپ محسن ہیں.آپ کا وجود آدم سے لے کر قیامت تک کے ہر انسان کے لئے مجسم احسان ہے.آج یورپ بھی آپ کے حسن و احسان کا محتاج ہے.اہل یورپ کے دل میں آہستہ آہستہ یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ محمد رسول اللہ مال اللہ کے فیض سے مستفیض ہو کر لوگ آئیں اور ان کے مسائل حل کریں اور انشاء اللہ العزیز احباب جماعت وہاں جائیں گے اپنی روحانی قوتوں کے ساتھ اور ان کے مسائل کو بھی حل کریں گے.پس ہم محمد رسول اللہ علیہ کی عظمت شان پر پختہ ایمان رکھتے ہیں اور ہم دل سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله یہ ایک صداقت اور حقیقت ہے کہ جس نے خدا کا پیار حاصل کرنا ہواسے محمد ﷺ کی اتباع کرنی پڑے گی.آپ کو چھوڑ کر کوئی بلند روحانی رتبہ تو کیا کوئی شخص خدا کا عام پیار بھی حاصل نہیں کر سکتا.آپ خدا تعالیٰ کے اتنے پیارے اور محبوب ہیں کہ آپ کے مقابلے پر کھڑے ہونے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا سوائے شیطان لعین کے.قرآن کریم پرایمان پھر قرآن کریم پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں.اس کی صداقت کے متعلق کچھ باتیں میں نے بیان کر دی ہیں.

Page 499

فرموده ۱۹۷۸ء 496 د دمشعل را شعل راه جلد دوم یہ مضمون بہت وسیع ہے میں نے اسے مختصر کرنے کی کوشش کی ہے.قرآن کریم اپنی عظیم کتاب ہے کہ اس میں انسان کی تمام ضروریات کا حل موجود ہے علمی لحاظ سے بھی اور عمل کر کے فائدہ اٹھانے کے لحاظ سے بھی.قرآن کریم کی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر محمد ﷺ نے اپنا جو فیضان جاری کیا ہے اس کے نتیجہ میں انسان خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لیتا ہے.پھر دنیوی لحاظ سے میں نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے دنیا کے چوٹی کے دانشوروں میں سے بعض کے ساتھ باتیں کی ہیں اور ہر ایک کو اس بات کا قائل کیا ہے کہ تمہارے علم کے متعلق بھی قرآن کریم ہمیں بنیادی حقیقت بتاتا ہے جسے بعض دفعہ تم خود بھول جاتے ہو.مثلاً کیمسٹری (کیمیا) کا علم ہے.میں اس مضمون کا گریجوایٹ نہیں.نہ میں نے سکول میں کیمسٹری پڑھی ہے اور نہ کالج میں لیکن ابھی پچھلے دنوں ایک احمدی طالب علم سے میری ملاقات ہوئی جو کیمسٹری میں پی.ایچ.ڈی کر رہا ہے اُس کو میں نے کیمیا کے متعلق بتا نا شروع کیا اور جب یہ کہا کہ میں نے کیمیا کے متعلق قرآن کریم سے سیکھا ہے تو وہ حیران ہو کر میرا منہ دیکھنے لگا کیونکہ وہ حقیقت جو مختلف علوم کے اساتذہ کو معلوم نہیں وہ قرآن کریم ہمیں سکھاتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم بڑی عظیم کتاب ہے اور بڑی برکتوں والی کتاب ہے.احباب جماعت کو چاہیئے کہ وہ اس پر غور کیا کریں اور دعائیں کیا کریں کیونکہ جب خدا تعالیٰ ہمیں دنیا کا ہادی بنانا چاہتا ہے تو ہماری لئے یہ از بس ضروری ہے کہ ہم ہمیشہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں قرآن کریم کی ہدایت اور روشنی اور نور بھی عطا فرمائے.اس کے بغیر تو جماعت احمد یہ دنیا کو ہدایت نہیں دے سکتی.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم ایک کامل اور مکمل کتاب ہے.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کی کوئی آیت یا آیت کا کوئی ٹکڑا منسوخ نہیں ہوسکتا.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کا کوئی لفظ منسوخ نہیں ہوسکتا.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کے کسی لفظ کا کوئی حرف منسوخ نہیں ہوسکتا.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی زیرز بر اور پیش بدلی نہیں جاسکتی اور قرآن کریم کی تعلیم میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کیا جا سکتا.بعض نادان لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں چودہ سو سال پہلے کی کتاب ہے آج کے مسائل کو کیسے حل کرے گی.خود میرے سامنے ہر قسم کے لوگ بات کرتے ہیں چودہ سو سال پہلے نازل ہونے والی کتاب آج کے زمانہ کے مسائل کو بھلا کیسے حل کر سکتی ہے.میں ایسے لوگوں سے کہا کرتا ہوں کہ چودہ سو سال پہلے جس خدا نے اس کتاب کو نازل کیا تھا وہ آج کے مسائل بھی جانتا تھا اس لئے یہ آج کے مسائل کو حل کر سکتی ہے.اور کیسے حل کرے گی یہ تو ایک فلسفہ ہے.رہی حقیقت تو تم کوئی مسئلہ پیش کرو میں اسے قرآن کریم سے حل کر کے بتا دیتا ہوں کیونکہ اس کے اندر علوم کے ع دریا بہہ رہے ہیں.عظ پس یہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم بڑی عظمتوں والی کتاب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں سات سو کے قریب احکام پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک تمہارے ساتھ بحث کرے گا مرنے کے بعد کہ تم نے مجھ پر عمل کیا تھا یا نہیں.گویا ہم سارے قرآن کریم پر عمل کرنا ضروری سمجھتے ہیں.یہ نہیں

Page 500

497 فرموده ۱۹۷۸ء د و مشعل راه جلد دوم دد کہتے کہ جی شراب تو گرم ملکوں کے لئے حرام ہوئی تھی ہم ٹھنڈے ملکوں کے رہنے والے پی لیا کریں گے.وہ خدا جس نے زمین کو پیدا کیا ہے کیا وہ ٹھنڈے اور گرم علاقوں سے واقفیت نہیں رکھتا تھا ؟ تم اسے آج بتا رہے ہو.غرض قرآن کریم کا ہر حکم قابل عمل ہے اس لئے میں تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ واپس جا کر اپنی بیویوں کو بھی سمجھاؤ کہ وہ پردہ کیا کریں قرآن کریم نے پردہ کا حکم دیا ہے انہیں بہر حال پردہ کرنا پڑے گا یا وہ جماعت کو چھوڑ دیں کیونکہ ہماری جماعت کا یہ موقف ہے کہ قرآن کریم کے کسی حکم سے تمسخر نہیں کرنے دیا جائے گا نہ زبان سے اور نہ عمل سے.اس پر دنیا کی ہدایت اور حفاظت کا انحصار ہے.اسی میں دنیا کی بھلائی کا راز مضمر ہے اور اسی پر ہماری ترقی اور خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کا دارو مدار ہے.ہر احمدی اپنے اندر روح بلالی پیدا کرے 9966 حضرت نبی کریم ﷺ کی بعثت کے شروع زمانہ میں آپ کے ماننے والوں کو بڑا دکھ دیا گیا.اس دکھ اور درد کی ایک لمبی داستان ہے اس کو تو میں اس وقت دہر انہیں سکتا میں صرف ایک مثال لیتا ہوں اور وہ اس شخص کے بارہ میں ہے جو عربی النسل نہیں تھا ہماری طرح ایک عجمی تھا اور وہ تھا ملکہ کے ایک رئیس امیہ کا غلام بلال اللہ تعالیٰ نے اس حبشی کے دل میں اپنا نور بھر دیا تھا اور آنحضرت ﷺ سے پیار پیدا کر دیا تھا چنا نچہ آپ کی صحبت میں اسے خدا تعالیٰ سے اس قدر محبت اور پیار پیدا ہو گیا تھا کہ غلامی کی حالت میں اس کا مالک اسے مکہ کے پتے ہوئے صحرا میں لے جاتا پتھریلی زمین پر نگا کر کے لٹا دیتا اور پیتے ہوئے پتھر اس کے سینے پر رکھتا اور اس سے کہتا خدا واحد و یگانہ کی پرستش چھوڑ کر لات و عزمی کی پرستش کر و اور محمد ﷺ کا کفر کرو آپ کا انکار کرو تو اس کے حلق سے اس حالت میں بھی جو آواز نکلتی تھی وہ یہ تھی احد احد " خدا واحد ویگانہ ہے خدا واحد یگانہ ہے.ہر احمدی میں یہی روح بلالی پیدا ہونی چاہیئے.اگر دنیا کی ساری طاقتیں ہمارے حقوق کو غصب کر کے (یہ بھی ننگا کر دینے کے مترادف ہے ) اور انسانی اقدار کو پس پشت ڈال کر اپنے غضب کی تپتی ہوئی ریت پر ہمیں لٹا کر اور تعصب کے سارے پہاڑ ہمارے سینوں پر رکھ دیں اور کہیں کہ خدائے واحد و یگانہ کا انکار کرو اور محمد ﷺ کا کفر کرو تو ہماری روح کی آواز یہی ہوگی.احد احد اللہ اکبر خاتم الانبیاء زندہ باد.پس دنیا کی کوئی طاقت ہم سے ہمارا ایمان نہیں چھین سکتی انشاء اللہ تعالی.میرا یہ پیغام لے کر آپ یہاں سے واپس جائیں اور ہر ایک احمدی کو یہ بتائیں کہ وہ اپنے اندر روح بلالی پیدا کرے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.اب میں دعا کے ساتھ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کا اختتام کروں گا.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنا مقام پہچاننے کی توفیق عطا کرے اور خدا اور خدا کے رسول ﷺ پر جو ہمارا پختہ ایمان ہے اس پر وفا کے ساتھ ثبات قدم عطا کرے اور پختہ عزم بخشے اور ہمارا تعلق محبت جو اپنے رب سے ہے اس کو مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا جائے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو ہم سب حاصل کرنے والے اور محمد کے عشق میں مستانہ وار اپنی زندگیاں گزارنے والے

Page 501

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۸ء 498 ہوں.خدا تعالیٰ آپ کے سفر و حضر میں آپ کا حافظ و ناصر ہو.آپ کے تعلق داروں، ہمسایوں اور علاقے پر بھی نل نازل فرمائے اور اس دنیا کو انسان کے ہاتھ کے پیدا کردہ شر سے محفوظ رکھے اور وہ ہدایت جو قرآنی تعلیم کی شکل میں بنی نوع انسان کی طرف آئی لوگ اسے سمجھنے لگیں اور انہیں خدا تعالیٰ کی توحید حقیقی کے سمجھنے اور محمد رسول اللہ وہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جانے کی توفیق عطا ہو.اللھم آمین.آؤ اب ہم دعا کرتے ہیں.ہو.آؤاب ( بحوالہ روزنامه الفضل ربوه ۲۵ نومبر ۱۹۷۸ء)

Page 502

499 فرموده ۱۹۷۸ء دد دو مشعل راه جلد دوم سالانہ تربیتی کلاس ۷۹ء کا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے خطبہ جمعہ میں افتتاح فرمایا.تربیتی کلاس میں شامل ہونے والے خدام کو نصائح فرمائیں.مکمل متن تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- مجلس خدام الاحمدیہ ہر سال ایک تربیتی کلاس منعقد کیا کرتی ہے.آج سے اس سال کی تربیتی کلاس شروع ہورہی ہے.مجھ سے انہوں نے یہ خواہش کی تھی کہ میں افتتاح کروں عصر کے بعد اس کلاس کا.ان سے تو میں نے معذرت کر دی.پھر مجھے خیال آیا کہ اس کلاس کا افتتاح اس خطبہ میں کر دوں اور یہ اس لئے کہ زیادہ گرمی میں میں تکلیف محسوس کرتا ہوں.کیونکہ ماضی میں کئی بار مجھ پر لو لگنے کا حملہ ہوا جس کو انگریزی میں ہیٹ سٹروک کہتے ہیں اور اس کے بعد سے گرمی میری بیماری بن چکی ہے.چند دنوں سے گرمی کا ہم سے پیار شدت اختیار کر گیا ہے اور رات کو واپڈا ہم سے روٹھ گئی تھی اور بہت سے گھرانے.شاید سینکڑوں کی تعداد میں ایسے ہیں جو پنکھا استعمال کرتے ہیں.مجھے بتایا گیا کہ ان کو بہت تکلیف اٹھانی پڑی رات کو.ایک دوست کہنے لگے کے آج آپ کے خطبہ جمعہ میں بہت سے دوست سور ہے ہو نگے کیونکہ رات کو انہیں جاگنا پڑا ہے.مگر میرا ایسا خیال نہیں.اس لئے کہ اس وقت میں اپنے ان بچوں کی کلاس کا افتتاح کر رہا ہوں اس خطبہ میں اور ان سے میں اپنے نہایت ہی پیاروں کی پیاری باتیں کرنا چاہتا ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کی باتیں جو ہمارا محبوب اور مقصود اور معبود ہے اور اس عظیم ہستی اور خدا کے محبوب کی باتیں (یعنی محمد ﷺ کی ) جنہوں نے خدا کے پیار کو بھی حاصل کیا.انتہائی پیار کو کہ کسی اور انسان نے خدا کی محبت کے لحاظ سے اس سے بلند مقام حاصل نہیں کیا اور اتنا بڑا احسان کیا نوع انسانی پر کہ خد تعالیٰ کے پیار کے حصول کی تمام راہیں انسان پر آپ نے کھول دیں.یہ زمانہ آپ کے ایک غلام کا زمانہ ہے یہ زمانہ محمد عا کے ایک پیارے شاگرد.روحانی فرزند.آپکے ایک غلام ایک ایسے پیار کرنے والے کا زمانہ ہے جس نے اپنی ساری زندگی محمد ﷺ میں فنا ہو کر گزاری تا کہ آپ کے دین کو استحکام ہو اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ دین اسلام ساری دنیا میں الہی وعدوں کے مطابق غالب آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دو بنیادی سبق ہمیں دیئے ہیں اور ان دو بنیادی اسباق کی طرف میں اپنے نو جوانوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.

Page 503

مشعل راه جلد دوم توحید حقیقی فرموده ۱۹۷۸ء 500 ایک بنیادی سبق ہے تو حید حقیقی کا خالص تو حید کا.محمد رسول اللہ اللہ نے جو قرآن عظیم انسان کے ہاتھ میں دیا اس قرآن میں اللہ تعالیٰ کی توحید پر بڑا زور دیا گیا ہے.ایک تو یہ کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو سمجھنے کی راہیں کھولیں اس کی معرفت اس کا عرفان حاصل کرنے کے جو طریقے ہیں وہ بتائے.خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق بھی ہمیں بہت کچھ بتایا گیا اور اس کی صفات کے متعلق بھی ہمیں بہت کچھ بتایا گیا قرآن عظیم میں اور ہمارے جو اپنے رب کریم سے تعلقات ہونے چاہئیں ان کے متعلق بھی بہت کچھ بتایا گیا اور ہمیں کہا گیا کہ اللہ عظیم ہستی ہے لیکن وہ اپنے بندوں سے پیار کرنا چاہتا ہے.وہ جو سر چشمہ حیات ہے ہمیشہ زندہ رہنے والا اور زندہ رکھنے والا وہ یہ چاہتا ہے کہ ایک زندہ تعلق اس کے بندوں کا اس کے ساتھ ہو جائے.ہمیں قرآن عظیم بتا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں بھی واحد لاشریک ہے اور بے مثل و مانند ہے نہ اس کی صفات کسی اور میں صحیح معنی میں عظمت و جلال کے ساتھ پائی جاتی ہیں.یہ تو صحیح ہے کہ خود اسی نے یہ منصوبہ بنایا نوع انسان کو پیدا کر کے کہ انسان بحیثیت نوع کے اس کی صفات کے مظہر بنیں اور ہر فرد واحد انسانوں میں سے اپنی اپنی قوت اور طاقت اور صلاحیت اور استعداد کے مطابق خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنی صفات پر چڑھائے.لیکن یہ رنگ جو انسان اپنی صفات پر چڑھاتا ہے اس سے انسان خدا نہیں بن جاتا خدا تعالیٰ کی روشنی کا خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنتا ہے.اس کے متعلق شاید چند فقرے میں بعد میں بھی کہوں.اس کی وضاحت کرنے کے لئے.بہر حال ہمارا خدا جس پر ہم ایمان لائے وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے کوئی ایسی صفت جواللہ میں ہنی چاہیے نہیں کہ اس میں نہ ہو.ہر صفت حسنہ اس میں پائی جاتی ہے اور ہر قسم کے عیب اور نقص اور کمزوری سے وہ پاک ہے اسی واسطے ہم اس کی تسبیح کرتے اور کس قدوسیت کا اعلان کرتے ہیں.ہر شے کے کرنے پر وہ قادر ہے.جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے کر سکتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اگر اللہ اسے کرنا چاہے.اسے روک نہیں سکتی.اور دنیا کا کوئی منصوبہ اگر اللہ نہ کرنا چاہے اس سے کوئی کروا نہیں سکتا.حکم اسی کا چلتا ہے.بادشاہت اسی کی ہے.انسان کو اسی نے آزادی دی.اپنے دائرہ کے اندر لیکن ہر انسان کا وجود نوے فی صد سے بھی زیادہ اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے لحاظ سے آزاد نہیں بلکہ اس کے حکم کا تابع ہے.دل کی حرکت ہے.آپ اپنی مرضی سے دل کی حرکت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے.قانون الہی آپ کے دلوں کی حرکت پر متصرف یہ جولوتھڑا ہمارے سینے کے اندر دل کہلاتا ہے اور حرکت کرتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کے قانون کے تابع ہے اس میں انسان آزاد نہیں ہے.پھر دوران خون ہے.بے شمار نظام جسمانی ہیں.کہنے والوں نے یہ کہا اور سوچنے والوں نے اسے صحیح سمجھا کہ ایک انسان کا وجود بھی سارے جہانوں کی طرح بہت عظیم بڑی وسعتوں والا ہے.ایک نظام کے بعد دوسرا نظام انسان کے علم میں آیا.جسم میں پانی کا نظام.ہم پانی پیتے ہیں.پانی پر ہماری زندگی کا بہت حد تک مدار ہے.پانی ہمارے جسم کے مختلف حصوں میں جاتا ہے.پانی مختلف حصوں سے نکل کے خارج ہوتا ہے ہمارے جسم سے اس کو کہتے ہیں نظام Water)

Page 504

501 فرموده ۱۹۷۸ء د و مشعل راه جلد دوم دد (Metabolison ایک دنیا ہے ایک کارخانہ ہے جو پانی کو کنٹرول کر رہا ہے.ہمارے جسم میں شکر ہے.شکر جو ہے وہ جسم کے لئے ضروری حصہ ہے.ہمارے جسم میں ایک کارخانہ ایسا لگا ہوا کہ جو کہ Starch کو کاربو ہائیڈریٹس کو شکر میں بیٹھے میں تبدیل کرتا ہے اور پھر اس سے وہ جسمانی طاقت کے سامان پیدا کرتا ہے.بہت بڑا کارخانہ ہے اور ایسے شعبے ہیں اس کارخانے میں کہ جس دن آپ (ایک صحت مند انسان ) دو چھٹانک میٹھا کھا ئیں تو جسم میں وہ شعبہ جو ہے وہ دو چھٹانک میٹھا ہضم کرنے کے سامان پیدا کرتا ہے.ایسے کیمیاوی اجزاء پیدا کرتا ہے کہ دو چھٹانک میٹھا ہضم ہو جاتا ہے.اور اگر کسی دن کوئی شخص نالائتی کرے اور دوست کے ہاں گیا ہے اور گرمی کے دن ہیں اور اس کے دوست نے آئس کریم بنائی ہے اور وہ لذیذ ہے بہت.وہ دوست کے ہاں بیٹھ کے دو آئس کریم کھا جاتا ہے.یا زردہ یا فرنی زیادہ کھا جائے یا شربت پی جائے گرمی میں بہت زیادہ تو یہ جو شعبہ ہے یہ اسی کے مطابق کیمیائی اجزاء پیدا کر دیتا ہے اور انسان بیمار نہیں ہوتا بلکہ ایک دن میں اس شعبہ نے دو چھٹانک میٹھے کو ہضم کرنے کا انتظام کیا جو (Sugar Metabolism کا ایک حصہ ہے ) اور دوسرے دن اس نے آدھ سیر میٹھا ہضم کرنے کا سامان پیدا کر دیا.اسی طرح ہم پروٹین.لحمیات کھاتے ہیں اور اس کی بہت سی قسمیں ہیں اور بہت سے Enzyme ہیں جو مختلف قسم کی لحمیات اور معدنیات کو ہضم کر رہے ہیں.یعنی جتنا اندر اور گہرے چلے جاؤ ایک کے بعد دوسری چیز ہمیں نظر آتی ہے.اتنا بڑا نظام کہ ساری دنیا ایک طرف اور ایک انسان کے جسم کا نظام اس کے مقابلہ میں دوسری طرف.اور یہ سارا آزاد نہیں.یہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کام کر رہا ہے.آزادی انسان کو صرف اس دائرہ کے اندر دی گئی ہے کہ جس دائرہ میں جو اعمال کئے جاتے ہیں ان کے اوپر جزاء یا سزا کا سوال پیدا ہوتا ہے.کہ خدا تعالیٰ اس کے بدلے میں نعماء نازل کرے گا یا اس کے بدلے میں خدا تعالیٰ کی قہری تجلی نازل ہوگی.ایک بد بخت انسان پر.اور وہ بھی خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہے.اگر وہ نہ چاہتا تو کوئی انسان زبر دستی آزادی خدا عز وجل سے چھین نہیں سکتا تھا.جزاء کا نظام اس نے روحانی زندگی میں مقرر کیا لیکن کہا ایک محدود زندگی گزارنے والے انسان نے سوچا کہ میں اپنی عمر میں ۳۰ سال ۵۰ سال ۸۰ سال ۱۰۰ سال میں کتنی نیکیاں کرلوں گا کہ وہ مجھے ابدی جنت کا مستحق بنا دیں.اس نے سوچا میں اتنی نیکیاں تو نہیں کر سکتا.خدا نے کہا.گھبراؤ نہیں تمہیں تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دوں گا.( قرآن کریم میں کھل کے یہ بات بیان ہوئی ہے لیکن ابدی جنت کے پھر بھی تم وارث نہیں ہو سکتے اس لئے میں اس سے بڑھ کے اور بھی دوں گا.تا کہ تم ابدی جنتوں کے وارث ہو سکو.کسی کو کھنہ پہنچا ؤ اور بنی نوع انسان کے ہمدرد اور غمخوار بنو ہمارا خدا جو ہے وہ ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اسی پر پورا بھروسہ اور کامل تو کل رکھیں ہمارا خدا ہم سے مطالبہ یہ کرتا ہے کہ ہم کسی کی خشیت اپنے دل میں پیدانہ کریں سوائے اس کے فلا تخشو هم واخشونی (البقرہ:۱۵۱) کا

Page 505

دد فرموده ۱۹۷۸ء 502 مشعل راه جلد دوم اعلان کیا قرآن کریم نے.ہمارا خدا ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے رنگ میں رنگین ہو کر جس طرح اس نے اپنی مخلوق کی بھلائی کے لئے بے شمار چیزیں پیدا کر دیں اسی طرح تم اس کی مخلوق کی بھلائی کے لئے اپنی زندگی کا ہر لحظہ وقف رکھو اور کسی کو دکھ نہ پہنچا ؤ اور بنی نوع انسان کے ہمدرد اور غمخوار بنو.ہمارا خدا ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ شرک بالکل نہیں کرنا قبر پرستی بالکل نہیں کرنی انسانوں کو خدا بالکل نہیں بنانا.سارے انسانوں کو ایک مقام پر لا کے کھڑا کر دیا.اس لعنت سے محفوظ کرنے کے لئے قبر پرستی نہ کہیں آجائے امت مسلمہ میں.نبی کریم ﷺ نے جہاں یہ فرمایا کہ جعلت لى الارض مسجداً ساری کی ساری زمین میرے لئے مسجد بنائی گئی ہے وہاں یہ بھی فرمایا کہ دو جگہیں ہیں جہاں تم نے خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں کرنی.خدائے واحد و یگانہ کی عبادت بھی دو جگہ نہیں کرنی.ایک لٹرین میں جہاں تم گند کرتے ہو اور دوسرے قبرستان میں.ان جگہوں میں خدا کی عبادت بھی نہیں کرنی تا کہ شرک کے خیالات و ساؤس سے تمہیں محفوظ رکھا جائے اور کوئی دوسرا بدظنی کرتے ہوئے تمہیں مشرک نہ سمجھنے لگ جائے.بدھی کے مواقع سے دوسروں کو بھی بچالیا.ہمارا خدا عظیم خدا ہے.دعاؤں کو وہ قبول کرتا ہے.وہ پیار کرتا ہے.اگر اس کے پیار کے حصول کے جو طریق اسی کے بتائے ہوئے ہیں ان کے اوپر ہم چلیں.اور اس دنیا میں پیار کے جو صحیح تقاضے سمجھے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ اسی طرح پیار کا اظہار کرتا ہے.مثلاً جب ایک انسان دوسرے سے پیار کرے اور چاہے کہ وہ دوسری ہستی مجھ سے بھی پیار کرے.مجھ سے ہمکلام ہو.مجھ سے باتیں کرے.قرآن کریم نے یہ درواز ے محمد عے کے طفیل امت مسلمہ کے لئے کھلے رکھے ہیں.دوست خدا بنتا ہے پیار کرتا ہے اور یہ تو مہربانی ہے خدا کی اپنے عاجز بندوں سے وہ پیار کرتا ہے اور اس سے دوستانہ سلوک روا رکھتا ہے اور اس مہربانی کے نتیجہ میں وہ ان کی مدد کو آتا ہے ان کی نصرت کرتا ہے وہ ان کے دکھوں کو دور کرتا ہے وہ ان کو جب آزماتا ہے تو ان کی شان کو بلند کرنے کے لئے وہ آزمائش ہوتی ہے جب وہ امتحان میں پاس ہوتے ہیں تو ان کو اس قدر انعام ملتا ہے کہ دنیا کا دماغ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا.تو ہر لحاظ سے وہ اپنے پیار کا اظہار کرتا ہے وہ کہتا ہے میں تمہارے ساتھ ہوں اس واسطے کسی سے تم نے گھبرانا نہیں کسی کی طرف تم نے ہاتھ نہیں بڑھانا.مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا.وہ کہتا ہے کہ جب میں تمہیں آزماؤں تو گلے شکوے نہیں کرنے.میں نے تمہارا امتحان لینا ہے کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ تم مجھ سے پیار کرتے ہو اس دعوئی میں تم سچے ہو یا نہیں.تو پہلا سبق اے میرے عزیز بچھو ہمیں قرآن کریم نے محمد علی نے یہ دیا جو آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے دہرایا اور تاکید کی اس بات کی کہ اس سبق کو بھی اپنی زندگی کے ایک لحظہ کے لئے بھی بھولنا مت وہ یہ ہے کہ خدائے واحد ویگانہ پر ویسا ایمان رکھو جیسا ایمان قرآن عظیم کی شریعت ہمیں کہتی ہے کہ رکھو.قرآن کریم نے کھول کے بیان کیا.آپ کے اسباق کے اندر ممکن ہے تفاصیل آئیں اس کی ممکن ہے نہ آئیں.بعض باتیں میں نے بیان کر دی بعض آپ سیکھتے رہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتب

Page 506

503 فرموده ۱۹۷۹ء د و مشعل راه جلد دوم دد پڑھیں گے آپ کے سامنے آجائیں گی.محمد کی کامل اتباع اسلام کا دوسرا سبق جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیا.اس زمانے میں دنیا بھول گئی تھی وہ یہ کہ خدا کا پیارا اگر حاصل کرنا ہو تو محمد ﷺ کی کامل اتباع کرنی پڑے گی.اور کامل اتباع کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ پیار کرنا پڑے گا محمد ﷺ سے.بغیر حقیقی پیار کے انسان اتباع نہیں کیا کرتا اور اس کا اعلان خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ کہہ کے کیا کہ:.قل ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله (ال عمران: ۳۲) قیامت تک کے انسان کو کہہ دواے محمد (ﷺ) کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے پیار کرتے ہو.حقیقی پیار.اور چاہتے ہو کہ خدا بھی تم سے پیار کرے تو خدا کے پیار کو حاصل کرنے کا طریق اور خدا سے پیار کے اظہار کرنے کا طریق یہ ہے (اتبعونی) کہ محمد ﷺ کی کامل اتباع کرو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا.یحببکم اللہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو تم حاصل کر لو گے.محمد ی ﷺ کی عظمت اور آپ کے جلال اور آپ کے مقام کو پہچانا اور ہر وقت اس عظمت و جلال کو سامنے رکھ کر آپ پر درود بھیجتے رہنا.یہ ایک احمدی مسلمان کا بنیادی فرض ہے.یہ دوسرا سبق ہے جو ہمیں سکھایا گیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے.میں صرف ایک چھوٹا سا حوالہ اس وقت آپ کو سنانا چاہتا ہوں.آپ فرماتے ہیں:- میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار دروداور سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا ء معلوم نہیں ہوسکتا اواس کی تاثیر قدسی کا اندازہ انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے...اس کے مرتبہ کوشناخت نہیں کیا گیا.وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین اور آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں.وہی ہے جوسر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار اور افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کی گیا ہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتاوہ محروم از لی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فرنعمت ہوں

Page 507

فرموده ۱۹۷۹ء د دمشعل راه راه جلد دوم گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے پائی.زندہ خدا کی شناخت ہمیں اس کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اس وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں“.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۱۵ - ۱۱۲ بحوالہ کتاب - مرزا غلام احمد صفحه ۴۰۰-۴۰۱) 504 یہ جو میں نے چھوٹا سا اقتباس پڑھا اس میں جو باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہیں وہ یہ ہیں :- نمبر ایک نبی اکرم و توحید حقیقی کو قائم کرنے والے ہیں.(۲) نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ سے انتہائی درجہ پر محبت کرنے والے ہیں.(۳) نبی اکرم انتہائی درجہ پر بنی نوع کے ہمدرد اور غم خوار ہیں (۴) اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو تمام انبیاء پر فضیلت بخشی.اور پانچویں یہ کہ انتہائی محبت آپ نے اپنے رب کریم سے کی اور انتہائی ہمدردی اور غم خواری آپ نے بنی نوع سے کی اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تمام انبیاء پر آپ کو فضیلت بخشی اور دوسری طرف آپ کو بنی نوع انسان کے لئے حقیقی معنی میں اور یقینی طور پر حسن اعظم بنا کر بھیجا.اتنا احسان ہے محمد اللہ کا بنی نوع انسانی پر کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ آپ سر چشمہ ہیں ہر ایک فیض کا.کوئی فیض بنی نوع انسان کے اندر بعثت نبوی ﷺ کے بعد نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس فیض کا تعلق محمد ﷺ کے سرچشمہ سے نہ ہو.ہر فیض ہر انسان نے (فیض چھوٹا ہو یا بڑا) محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے ہی حاصل کرنا ہے.اور وہ شخص جو یہ اقرار نہ کرے اور کہے کہ میں خدا تعالی کے فیض کو محمد اللہ سے تعلق پیدا کئے بغیر حاصل کر سکتا ہوں.اور وہ شخص جو یہ نہ کہے اور یہ اقرار نہ کرے کہ مجھے فیض باری کے حصول کے لئے محمد یا ہے کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے.یاوہ شخص جو یہ کہے کہ میں نے جو فیض اور فضیلت حاصل کی ہے وہ محمد علی کے بغیر حاصل کی ہے وہ ذریت شیطان ہے.نمبر ۶.ہر ایک فضیلت کی کنجی محمد ان کو دی گئی ہے جب تک آپ تالا نہ کھولیں کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی.ہر ایک معرفت کا خزانہ محمد ﷺ کواللہ تعالی کی طرف سے عطا ہو چکا ہے.جو شخص محمد اللہ کے طفیل صلى الله اور آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی معرفت میں آگے بڑھنے کی سعی نہیں کرتا.وہ محروم از لی ہے نمبرے.ہم ہیں کیا ؟ ہم لاشے محض ہیں.ہم کا فرنعمت ہوں گے اور ناشکرے ہوں گے اگر یہ نہ کہیں کہ زندہ خدا کی شناخت اس کامل نبی کے ذریعہ ہم نے پائی.اور یہ محمد ﷺ کا ہی فیضان ہے کہ آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں محمد ﷺ کی اتباع کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اپنے عاجز بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے اور اس سے بڑی نعمت اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی.

Page 508

505 فرموده ۱۹۷۹ء د و مشعل راه جلد دوم دد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مثال دی ہے اور اس میں ساری باتوں کا خلاصہ بیان کر دیا ہے.وہ مثال یہ ہے کہ آپ آفتاب ہدایت ہیں.یعنی ہدایت کا ایک سورج ہے اور وہ محمد یتے ہیں.جو شخص سورج کے سامنے کھڑا ہوگا.اس پر اس کی شعاعیں پڑیں گی لیکن جو شخص کمرے میں داخل ہو کر دروازے بند کر دے تو وہ روشنی سے محروم ہو جائے گا.جو شخص محمد اللہ کے سامنے ادب سے کھڑا نہیں ہوگا تو وہ محمد ﷺ کی شعاع سے محروم ہو جائے گا.آپ کی شعاع دھوپ کی طرح ہے.ہم اس وقت تک منور رہ سکتے ہیں جب تک ہم آپ کے سامنے کھڑے رہیں اور ہم پر آپ کی شعاع پڑتی رہے.آپ سے دوری کی راہوں کو اختیار کرنے والے خدا کے غضب کو بلانے والے ہیں اور جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے یعنی عبد بننے کے لئے اس مقصد میں ناکام ہونے والے ہیں.پس دوسرا بنیادی سبق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دیا ہے وہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ علیہ آفتاب ہدایت ہیں اور یہ محض فلسفہ یا لفاظی نہیں ہے بلکہ امت محمدیہ میں کروڑوں ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے محمد ﷺ کی اتباع خلوص نیت اور اخلاص سے کر کے آپ کے نور سے روشنی حاصل کی اور اپنے آپ کو منور کیا اور تمام نعمتوں کو پایا.پس اے میرے بچو! ابھی سے یہ عزم کرو کہ تم روحانی ترقی کے ان دروازوں سے داخل ہو کر جو خدا نے اسلام کے ذریعہ کھولے ہیں محمد ﷺ کے نور سے منور ہو گے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے ہو گے.خدا کرے کہ آپ کے لئے بھی یہی مقدر ہو اور ہمارے لئے بھی یہی مقدر ہو“.(آمین) (بحوالہ ماہنامہ خالد جنوری ۸۰ صفحه ۱۱ تا ۲۰)

Page 509

مشعل راه جلد دوم د را فرموده ۱۹۷۹ء خدام الاحمدیہ کی سالانہ تربیتی کلاس کی اختتامی تقریب سے حضور کا خطاب- (خلاصہ ) 506 حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا جس زمانہ میں ہم اور آپ پیدا ہوئے ہیں یہ ترقیات کا زمانہ ہے.یہ ترقیات دو قسم کی ہیں اور انہوں نے بنی نوع انسان کو دو حصوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے.ایک تو دنیوی ترقیات ہیں جن کے زیر اثر انسانوں کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں.اس ضمن میں حضور نے سائنسی ترقی اور نت نئی ایجادات اور انسانی زندگی پر ان کے اثرات کا کسی قدر تفصیل سے ذکر فر مایا اور علی الخصوص انسان کے چاند پر پہنچنے اور ستاروں اور سیاروں تک پہنچنے کی کوششوں کی طرف بھی اشارہ فرمایا.دنیوی ترقیات اور اشاعت اسلام اس کے بعد حضور نے خاص اس زمانہ میں روحانی ترقی کے غیر معمولی سامانوں کا اشارہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیوی ترقیات کی وجہ سے دنیا بھر میں جو انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہ اشاعت اسلام میں ممد ثابت ہورہی ہیں.چنانچہ چھاپہ خانوں کی ایجاد کتب کی وسیع پیمانے پر اشاعت کے انتظامات نیز ٹیلیفون، ٹیلیگراف ٹیکس ریڈیو اور ٹیلیویژن کی ایجادات نے اشاعت اسلام کے کاموں میں بھی سہولتیں پیدا کر دی ہیں.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ انسان جو چاند اور ستاروں تک پہنچنے کی جد و جہد کے دوران آسمان کی کھال کی کھوج لگانے میں الجھا ہوا ہے وہ اسلام کی آغوش میں آکر روحانی ترقیات بھی حاصل کرے اور پرواز کرتا ہوا ساتویں آسمان تک جاپہنچے.پہلے زمانوں میں ہزاروں مسلمان ایسے گزرے ہیں جو آنحضرت امیہ کی کامل اتباع کر کے ساتویں آسمان تک پہنچے اور انہوں نے دوسروں کو سماء روحانی کا پرندہ بنانے کا کارنامہ انجام دیا.حضور نے فرمایا اب خدا تعالیٰ نے عالمی بنیادوں پر یہی کارنامہ سرانجام دینے کی ذمہ داری ہمارے اور آپ کے کندھوں پر ڈالی ہے.وہ چاہتا ہے کہ روئے زمین پر ایسا حسین معاشرہ قائم ہو جائے جو انسانی دکھوں اور مصیبتوں کا خاتمہ کر دے اور ایسی روحانی خوشی و خوشحالی سب انسانوں کو میسر آ جائے کہ وہ اس دنیا میں ہی جنت میں زندگی بسر کرنے لگیں اور اگلے جہان میں بھی جنت ہی ان کا ٹھکا نہ ہو.احمدی نوجوانوں کا کام اس کا نام ہے اسلامی معاشرہ.اس معاشرہ کو قائم کرنا آپ ( یعنی احمدی نو جوانوں) کا کام ہے.آپ نے اپنے عملی نمونہ سے دنیا والوں پر یہ ثابت کرنا ہے کہ اس وقت جو زندگی وہ گزار رہے ہیں وہ بہت ہی کم تر

Page 510

507 فرموده ۱۹۷۹ ء دو مشعل راه جلد د دوم اور حقیر ہے اس زندگی سے جو اسلامی تعلیم پرعمل کرکے وہ اسلامی معاشرہ میں گزار سکتے ہیں.اس ضمن میں حضور نے بعض ایسے اخلاق اور اوصاف کا ذکر کیا جن پر اسلامی معاشرہ کی بنیاد استوار ہوتی ہے.ان میں سے بالخصوص حضور نے راست گفتاری عدل و انصاف‘ ایفائے عہد دوسروں کے جذبات کے احترام عیوب کی اشاعت سے اجتناب غیبت سے پر ہیز اور دیانت وامانت سے متعلق اسلامی تعلیم اور اس کی باریکیوں اور حکمتوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور اُن کے نتیجہ میں قائم ہونے والے معاشرہ کے حسن کو بالوضاحت بیاں فرمایا.حضور نے فرمایا کہ اسلامی معاشرہ اتنا حسین معاشرہ ہے کہ اگر آپ اپنے آپ کو اسلامی تعلیم کا مجسم عملی نمونہ بنالیں اور اسطرح اپنے وجودوں میں دوسروں کو اسلامی معاشرہ کی جھلک دکھانے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر دنیا والے خود بخود داس سے متاثر ہوکر اسلام اور اس کے حسین معاشرے کی طرف کھنچے چلے آئیں گے.حضور نے طلباء کو خاص طور پر مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اپنے کو محض بچہ نہ سمجھیں بلکہ ایسا بچہ سمجھیں جس نے اسلام کی لازوال اور بے مثال تعلیم کا عملی نمونہ پیش کر کے دنیا کو اسلام کی طرف لانا اور ساری دنیا میں اسلامی معاشرہ کو قائم کرنا ہے.خدا کرے کہ ہم اپنی زندگیوں میں روئے زمین پر وہ حسین اسلامی معاشرہ قائم ہوتے دیکھ لیں جس کی بدولت انسانوں کے لئے یہ دنیا جنت بن جائے اور اگلے جہان میں بھی انہیں جنت ملے.اس پر معارف اور بصیرت افروز خطاب کے بعد جو ایک گھنٹہ تک جاری رہا حضور نے دعا کرائی جس میں جملہ طلباء شریک ہوئے اور اس طرح خدام الاحمدیہ کی ۲۵ دیس تربیتی کلاس اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں پر نہایت کامیابی اور خیر و خوبی سے اختتام پذیر ہوئی.فالحمد للہ علی ذلک (الفضل ۳ مئی ۱۹۷۹ء)

Page 511

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۹ء 508 خطبه جمعه فرموده ۱۴۰ ستمبر۱۹۷۹ء بمقام مسجد اقصی ربوه تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- دوست جانتے ہیں کہ کئی دفعہ دو ایک سال ہوئے مجھے (Heat Stroke) لو لگنے کا عارضہ ہو چکا ہے.اور جسے اس طرح گرمی بیماری کی شکل پیدا کر دے وہ گرمی سے ہمیشہ ہی تکلیف اٹھاتا ہے.گرمی بیماری بن جاتی ہے.آج بھی بجلی ہم سے روٹھی ہوئی ہے اور گرمی بھی ہے میں مختصراً آپ سے کچھ کہوں گا.ہر جماعت کی نمائندگی لازمی جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگلے ماہ ۱۹ ۲۰ ۲۱ کو خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہو رہا ہے اور اس.ایک ہفتہ بعد انصار اللہ کے اجتماع کی تاریخیں مقرر ہیں.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح خیر رکھے اور خیر سے یہ اجتماعات منعقد ہوں.پہلے بھی میں نے توجہ دلائی ہے کہ دکر کے ماتحت.اس وقت بھی میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں خدام الاحمدیہ کی عمر کی نمائندگی ہر جماعت سے ہونی چاہیے.خدام الاحمدیہ کے اجتماع سوائے چند تنزل کے سالوں کے ہمیشہ ہی پہلے سے بڑھ چڑھ کر تعداد کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں.لیکن میرے دل میں یہ خواہش ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جماعتی تربیت کیلئے یہ ضروری ہے کہ خدام وانصار کے اجتماع میں جماعت ہائے احمد یہ پاکستان کی تمام جماعتیں شمولیت اختیار کریں.یہ درست ہے کہ بعض جماعتیں بڑی ہیں اور بعض تعداد میں بڑی ہی مختصر.بعض دفعہ دو چار گھرانوں پر مشتمل ایک جماعت ہوتی ہے.یہ بھی درست ہے کہ بعض جماعتیں فعال ہیں.تندہی سے اپنے دینی فرائض انجام دینے والی ہیں اور بعض سست ہیں اور ان کی اصلاح کی ضرورت ہے.یہ بھی صحیح ہے کہ بعض اضلاع کے امراء اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے اور وقت خرچ کرتے اور توجہ سے کام لیتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ جو ان کی ذمہ داریاں ہیں وہ پوری طرح ادا کریں اور بعض اضلاع کے امراء نسبتا سست ، پوستی اور کمزوری دکھانے والے ہیں.یہ بھی درست ہے کہ ہمارے بعض مربی صاحبان کو اللہ تعالیٰ ایثار کے ساتھ اور محبت و پیار کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی تو فیق عطا کرتا ہے اور وہ جماعت کیلئے ایک نمونہ بنتے اور حقیقی معنی میں قائد ہوتے ہیں اور اپنے پیچھے دوسروں کو نیکی کی راہوں پر چلاتے ہیں.لیکن ہمارے بعض مربی ایسے بھی ہیں جو اپنے کام کی طرف توجہ نہیں دیتے.جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور نبی کریم ﷺ کے مشن کے ساتھ پیار اس طرح نہیں جس طرح آگ بھڑک رہی ہو اور بے چین کر دینے والی ہو اور اس کے نتیجہ میں وہ علاقے جن میں کام کر رہے ہوتے

Page 512

509 فرموده ۱۹۷۹ء دو مشعل راه جلد دوم ہیں سست ہو جاتے ہیں اور ان مربی اصحاب کو ایک منٹ کیلئے بھی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی حالانکہ ان کی تو نیندیں حرام ہونی چاہئیں اگر کسی جگہ وہ سنتی اور کمزوری اور کوتاہی دیکھیں.یہ سب باتیں اپنی جگہ درست لیکن یہ بھی درست ہے کہ میری یہ خواہش ہے کہ کوئی ایسی جماعت نہ رہے جس کا کوئی نمائندہ اس اجتماع میں شامل نہ ہو.اس لئے میں امرائے اضلاع کو اور مربی صاحبان کو اور ان کو جو ان لوگوں کی نگرانی کرنے والے ہیں یہ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ذمہ دار ہیں اس بات کے کہ ہر جماعت سے خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں نمائندہ آئے.اگر چھوٹی جماعت ہے ایک نمائندہ آئے مگر آئے ضرور.ہر جماعت سے انصار اللہ کے اجتماع میں نمائندہ شامل ہو خواہ ایک ہی ہوا گر وہ چھوٹی جماعت ہے لیکن آئے ضرور.ہمارے اجتماعات کی غرض ہمارے یہ اجتماع دنیوی میلے نہیں.یہ اجتماع ذہنی اور اخلاقی تربیت کیلئے منعقد کئے جاتے ہیں.ذہنی تربیت کیلئے اس معنی میں کہ بہت سی نیکی کی باتیں شامل ہونے والوں کے کانوں میں پڑتی ہیں اور ذہنوں میں جلا پیدا ہوتا ہے اور اخلاقی لحاظ سے اس معنی میں کہ اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے خدام وانصار کو کہ حقیقی مسلمان بننے کی کوشش کرو.(خُلُقُه القرآن) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ایک نمونہ ہیں آنے والی نسلوں کیلئے معنی میں کہ آپ کے اندر دو خصوصیات نمایاں طور پر پائی جاتی تھیں.ایک آپ حنیف تھے دوسرے آپ مسلم تھے.حنيفاً مسلماً ہر وقت خدا تعالیٰ کے حضور جھکے رہنے والے اور ہردم اللہ تعالیٰ کے احکام بجالانے والے اطاعت کرنے والے.یہ نمونہ ایسا ہے جسے نظر انداز آنے والی نسلیں بھی نہیں کر سکتیں.نمایاں طور پر.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں یہ دو باتیں قرآن عظیم کے بیان کے مطابق پائی جاتی ہیں.حنیفاً مسلماً.آپ کی زندگی کے متعلق تو اس وقت میں کچھ کہنا نہیں چاہتا.مختصر کہنا چاہتا ہوں.قرآن کریم فرماتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے قریب تر دو گروہ ہیں ایک وہ جو آپ پر ایمان لائے اور آپ کی جماعت میں شامل ہو گئے اور ایک و گر وہ جو محمد ﷺ پر ایمان لایا اور امت مسلمہ میں شامل ہوا.نبی اکرم ﷺ کی بعثت کیلئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور نوع انسانی کی خاطر عاجزانہ دعائیں بھی کیں اور نبی اکرم یا اللہ کی عظمت ان کے سامنے صلى الله بیان کی اور غور سے دیکھا جائے تو صدیوں صدیوں اپنی نسل کو اس بات کیلئے تیار کیا کہ جب محمد ہے جیسا وجود پیدا ہو تو اسے قبول کریں اور اس قابل ہو جائیں اس عرصہ میں کہ جو ذمہ داریاں کامل طور پر ایک کامل کتاب کے نازل ہونے کے ساتھ امت مسلمہ پر پڑنے والی تھیں جن کے پہلے مخاطب یہ لوگ ہونے والے تھے ان کو اٹھانے کیلئے وہ تیار ہوں.صلى الله

Page 513

د د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۹ء 510 ایک مسلمان کی بنیادی خصوصیت پس ایک مسلمان کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حنیف بھی ہوا اور مسلم بھی ہو.خدا تعالیٰ کے حضور ہر آن عاجزانہ جھکنے والا بھی ہو اور خدا تعالیٰ کی کامل اطاعت کرنے کی کوشش کرنے والا بھی ہو.یہ دونوں باتیں ہزار ہا پہلو اپنے اندر رکھتی ہیں.ایک ایسا درخت ہیں جس کی ہزار ہا شاخیں ہیں.بعض پہلو ایسے ہیں جو ہم خدام الاحمدیہ میں نمایاں دیکھنا چاہتے ہیں.بعض پہلو ایسے ہیں جو ہم انصار اللہ کے نام سے جو جماعت موسوم ہے ان میں دیکھنا چاہتے ہیں.ہر دو پہلو کا تعلق جیسا کہ قرآن کریم نے ہمیں بتایا اس حقیقت سے باندھا گیا ہے، وابستہ کیا گیا ہے کہ بنی نوع انسان کی خیر خواہی اور خدمت کرنی ہے اور نوع انسانی کے سکھ کا سامان پیدا کرنا، اُن کے دکھوں کو دور کر کے.یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے اُمت مسلمہ پر کنتم خير امة اخرجت للناس کے اعلان میں.خدام الاحمدیہ اور خدمت خدمت، خدام الاحمدیہ کا نام بھی یہ ذمہ داری بتاتا ہے، بہترین خدمت انسان دعا کے ذریعہ سے نوع انسانی کی کر سکتا ہے.انسان یا انسانوں کی کوئی جماعت اپنے طور پر کس قسم کی کوئی طاقت نہیں رکھتی جب تک اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُن کو تو فیق عطا نہ کرے اور دنیا میں کوئی تبدیلی رونما ہو نہیں سکتی جب تک خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اپنی منشاء کے مطابق خیر کی تبدیلی رونما کرنے کے سامان پیدا نہ کرے.اس واسطے سب سے کارگر اور مؤثر حربہ ہتھیار جو ایک مسلمان کو دیا گیا ، وہ (ایٹم بم نہیں ) دعا کا ہتھیار ہے اور اس سے زیادہ کارگر اور ہتھیار نہیں اور دوسرے نمبر پر جو ہتھیار دیا گیا ہے وہ ( ہائیڈ روجن بم کا ہتھیار نہیں یا اس سے بھی مہلک ہتھیار ہے ) بلکہ محبت اور شفقت، بے لوث خدمت اور لعلک باخع نفسک کا کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے وہ کیفیت سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اندر پیدا کرنا، اس سے تعلق رکھتی ہے.بعض پہلو ایسے ہیں جو خدام الاحمدیہ سے تعلق رکھنے والے ہیں.بعض پہلو ایسے ہیں جو انصار اللہ سے تعلق رکھتے ہیں.ان اغراض کو سامنے رکھ کے بار بار یاد دہانی کرانے کیلئے یہ اجتماع ہر سال ہوتے ہیں.جماعت دعا کرے جیسا کہ میں نے شروع میں دعا کی کہ اللہ سب خیر رکھے اور خیر سے یہ اجتماع منعقد ہوں اور خدا تعالیٰ جس مقصد کیلئے یہ اجتماع منعقد ہوتے ہیں اس مقصد کے حصول کے سامان پیدا کرے اور ہر جماعت کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ اس میں حصہ لینے والی ہو اور امرائے اضلاع اور مربیان کو اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے عہدیداروں کو اللہ تعالیٰ ہمت عطا کرے کہ وہ اس بات میں کامیاب ہوں کہ کوئی جماعت ایسی نہ رہے جس کا نمائندہ نہ آیا ہو.اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں پھر آئندہ سال پہلے کی نسبت زیادہ جماعتوں کی نمائندگی ہوگی.اس لئے کہ ہر سال نئی جماعتیں بن جاتی ہیں اور پھر ایسے سامان پیدا ہوں خدا کرے کہ زیادہ سے زیادہ نئی جماعتیں بنیں.زیادہ سے زیادہ نئی جماعتوں کے نمائندے ہوں

Page 514

511 فرموده ۱۹۷۹ء د و مشعل راه جلد دوم دد اور ہر سال جس طرح موسم بہار میں زندہ درخت ایک نئی شان اور پہلے سے بڑھ کرشان کے ساتھ انسان کی آنکھوں کے سامنے اپنی سبزی کو ظاہر کرتے ہیں اور اپنے حسن کو پیش کرتے ہیں اس سے زیادہ ہمارے اجتماع عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے دنیا کی نگاہ اور اللہ تعالیٰ کے حضور حسن بیان اور حسن عمل کو پیش کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور عقل عطا کرے.ہمت اور عزم دے اور کامیابی کی انتہاء ہمارے لیے مقدر کر دے.آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۱۸ ستمبر ۱۹۷۹ء)

Page 515

مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۹ء 512 حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ ۱۹ را کتوبر۱۹۷۹ء کی افتتاحی تقریب خطاب فرمایا.متن پیش خدمت ہے.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے خدام کی حاضری کے بارہ میں فرمایا:.امسال میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ تمام جماعتوں کے نمائندے اس اجتماع میں شامل ہوں.نمائندے شام تک آتے رہتے ہیں بعض مجبوریوں کی بناء پر بعض لوگ کل بھی آئے ہیں تھوڑے بہت اکا دُگا.اس وقت تک جوشکل نکلی ہے وہ یہ ہے کہ گذشتہ برس آخری دن ۶۵۳ مجالس شامل ہوئی تھیں اور آج پہلے دن ۶۷۷ مجالس شامل ہوئی ہیں.آخری دن سے زیادہ ہیں مگر کوئی زیادہ فرق نہیں ہے.اور ممالک بیرون پچھلے ۴ امسال ۶ خدام بیرون پچھلے سال ۲۹۰۲.امسال ۳۱۳۹.یہ پہلے دن ہی فرق پڑا ہے خدا کرے آجائیں اور دوست.کچھ تھوڑی سی بیداری پیدا ہوئی ہے پہلے کے مقابلہ میں.قرآن کریم کے ذریعہ ہر ایک کے حقوق کا قیام پھرفرمایا: - پہلے بھی کئی بار اپنے خطبات میں میں یہ بات بتا چکا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو عظیم شریعت بنی نوع انسان کی طرف لیکر آئے قرآن عظیم کی شکل میں پہلی دفعہ انسان نے یہ دیکھا کہ دنیا کی ہر چیز کے حقوق قائم بھی کئے گئے اور ان کی حفاظت بھی کی گئی.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف انسانوں کیلئے رحمت نہیں تھے بلکہ رحمۃ للعالمین تھے.ساری کائنات کیلئے کائنات کی ہر شے کیلئے رحمت بن کر دنیا کی طرف مبعوث ہوئے اور نوع انسانی اس کائنات کا ایک حصہ ہے اور ایسا ہے جس کے لئے نہ صرف اس جہاں کی نعماء باری مقدر ہیں بلکہ مرنے کے بعد ایک زندگی بھی موعودہ ہے یعنی جس کا وعدہ دیا گیا ہے اس کو اور یہاں نہ سمجھ میں آنے والی نہایت ہی عظیم.اس دنیا کے مقابلے میں بہت حسین بہت زیادہ سرور پیدا کرنے والی نعماء انسان کی اُخروی زندگی سے تعلق رکھنے والی ہیں.انسان کے علاوہ کائنات کی کوئی ایسی شئے نہیں کہ جس کو دنیوی فنا کے بعد پھر جنت میں لے جایا جانا ہو اور وہاں اس کو نعماء ملنی ہوں.انسان کو اس جہان میں اس لحاظ سے سب سے بڑا حصہ ملا کہ اس کو یہ قو تیں اور استعداد یں دی گئیں کہ دنیا کی ہر چیز سے وہ فائدہ اٹھائے تا کہ اخروی زندگی میں ایک تربیت یافتہ اور کامل نشو و نما حاصل کرنے کے بعد وہ داخل ہونے والا ہو.اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ انسان کے جو حقوق قائم کئے گئے ہیں وہ کسی اور نوع کے قائم نہیں کئے گئے ہیں.

Page 516

513 فرموده ۱۹۷۹ ء د و مشعل راه جلد دوم دد حقوق کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں.( تمہید کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آرہا ہوں ) کہ تین پہلو سے ہم حقوق انسانی کو دیکھ سکتے ہیں ایک وہ حقوق ہیں جو ہر فرد واحد کو اپنے نفس کیلئے ادا کرنے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَق یاد رکھو کہ تمہارے نفوس کے بھی تمہارے نفوس پر کچھ حقوق ہیں.موٹی مثال جو آسانی سے انسان سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام میں رہبانیت جائز نہیں.نہ اس قسم کا فقر جیسے غیر مذاہب کے فقیر جنگلوں میں جا کے دنیا کی ان نعمتوں سے خود کو محروم کر لیتے ہیں جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے پیدا کی تھیں.اس قسم کا فقر جو ہے اس کی اجازت انسان کو نہیں دی گئی.وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ اس کے آگے دو پہلو ہیں.ایک یہ کہ جو تیرے نفس کا حق ہے اور تو ادا کر سکتا ہے اسے ادا کرنا فرض ہے اور دوسرے یہ کہ جو تیرا حق نہیں ہے وہ اپنے نفس کو نہ دے کہ خدا تعالیٰ ناراض ہو کر سزادینے کیلئے تیار ہو جائے.ایک پہلو یہ ہے حقوق کا.حقوق کے متعلق اسلامی تعلیم ایک پہلو یہ ہے کہ جو ہر انسان نے دوسرے انسان کے مثلاً زید کے حقوق ادا کرنے ہیں.مادی دنیا کو اگر ہم دیکھیں تو دنیا میں اس کا ئنات میں جو چیز بھی پیدا کی گئی ہے وہ نوع انسانی کا مشترکہ ورثہ ہے کسی ایک شخص یا کسی ایک ملک یا کسی ایک گروہ کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس ساری کائنات کو پیدا نہیں کیا بلکہ نوع انسانی کا مشترکہ ورثہ ہے یہ.اور ہر شخص کے ذمے یہ فرض عائد کیا گیا ہے اسلام میں کہ وہ دیکھے کہ دنیا کے کسی انسان کے کوئی حقوق تلف تو نہیں ہورہے.تو ایک پہلو حقوق سے تعلق رکھنے والا حقوق کے حصول کے ساتھ ہے حق لینے کے ساتھ.حق لینے میں بہت کی پابندیاں لگائیں.اُخروی نعماء کے حصول کیلئے بہت سی ایسی تعلیمیں ہمیں نظر آتی ہیں کہ اگر تھوڑ احق اپنا اس دنیا میں چھوڑ دو گے تو بہت زیادہ تمہیں اللہ تعالیٰ جزاء دوسری دنیا میں دے دے گا.مثلاً اگر کسی شخص نے اس کی کوئی حق تلفی کی ہے تو اسلامی تعلیم میں دو حق بنتے ہیں اس شخص کے جس کی حق تلفی ہوئی.ایک یہ کہ وہ اپنی حق تلفی کا بدلہ لے.مثلاً اگر ایک شخص نے دوسرے کے سوروپے مار لئے تو جس کے وہ سوروپے تھے اس کا اسلام نے حق قائم کیا کہ وہ اپنے سوروپے وصول کرے ایک یہ.دوسرا اسلام نے یہ کہا کہ ایک اس سے بھی بہتر سودا تمہیں بتاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اگر تم یہ سمجھو کہ حق تلف کرنے والے کو اگر تم نے سوروپیہ معاف کر دیا تو اس کی اصلاح ہو جائے گی اور بہت سارے لوگوں کی حق تلفی کی جو اس نے ایک عادت ڈالی ہوتی ہے اس سے وہ چھٹکارا حاصل کر لے گا اور وہ جو خدا سے دور جارہا ہے دور نہیں جائے گا.بلکہ خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لے گا.فمن عفا واصلح اگر اصلاح کی صورت ہے تو اس کو معاف کر دو.تو یہ دو صورتیں اس حکم میں پائی جاتی ہیں.پس ایک تو یہ صورت ہے اپنے نفس کے حقوق ادا کرنے کی.دوسری صورت جو اپنے حقوق حاصل کرنے کی ہے اس میں آگے دو شکلیں بنتی ہیں.حقوق حاصل کرنے والے دو جماعتوں میں بٹ جاتے ہیں ایک کو قرآنی اصطلاح میں سائل کہا گیا ہے اور دوسرے کو محروم کہا گیا ہے.

Page 517

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۹ء 514 یعنی (۱) اگر وہ اپنا حق تلف ہوتا دیکھے تو مطالبہ کرے کہ میرے حقوق کیوں تلف ہو رہے ہیں مجھے دو میرے حقوق.قرآن کریم کی اصطلاح میں یہ سائلین کی جماعت ہے.اور یا (۲) وہ بعض فتنوں سے معاشرے کو بچانے کی خاطر خاموشی اختیار کرے یا خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کیلئے خاموشی اختیار کرے تو ایسے لوگ قرآنی اصطلاح میں ”محروم کی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں یعنی اپنے حق کے لئے شور نہیں مچاتے.کہتے ہیں ہم خاموشی اختیار کر لیتے ہیں تاکہ نوع انسانی کا کوئی گروہ یا اس زمین کا کوئی خطہ کسی قسم کے فتنہ وفساد میں نہ پڑ جائے.اس وقت میں ان دونوں میں سے کسی ایک کے متعلق تفصیل سے بات نہیں کرنا چاہتا.یعنی حقوق نفس کی ادائیگی وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَق کی تفصیل میں میں نہیں جانا چاہتا اور جو حق لینے کا سوال ہے اس کے متعلق بھی میں کچھ نہیں کہنا چاہتا.ایک تیسرا پہلو ہے ”حق“ کا.اور وہ ہے حق ادا کرنا.اس وقت اس کے متعلق میں کہنا چاہتا ہوں.ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ ہر شخص کے حقوق کی ادائیگی کرے خلوص نیت کے ساتھ، بیدار اور چوکس رہ کر.اور اس کی لمبی تفصیل ہے.موٹی موٹی باتیں میں پہلے بتا دوں.ایک یہ ہے کہ مال کے لحاظ سے جو دوسروں کے حقوق ہیں وہ ان کو دئیے جائیں خواہ وہ وَفِی اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوم.(الذاريات: ۲۰) سائل کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ہوں.ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ دیکھے کہ کسی کی دنیا میں حق تلفی تو نہیں ہو رہی.اور اگر اسے نظر آ رہی ہو تو جہاں تک اس کے اختیار میں ہو پیار کے ساتھ اور معاشرے کی فضا کو منتشر اور پراگندہ کئے بغیر اور فساد پیدا کئے بغیر اس کو حق دلانے کی کوشش کرے.اور اگر خود اس کے ذمے حق ہو تو دینے کی کوشش کرے.مالی لحاظ سے کوئی شخص ایسا اس دنیا میں نہیں ہونا چاہئے کہ جو اس کا حق ہے وہ اسے نہ ملے.اور یہاں میں وضاحت کر دوں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ قرآن کریم کی تعلیم سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ ہر فرد واحد کا یہ حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو قو تیں اور استعداد میں جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی طور پر کسی کو دی ہیں ان کی نشو ونما کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ اسے ملنی چاہئے.یہ اس کا حق ہے اور جب نشو و نما اپنے کمال تک پہنچ جائے تو اس کمال پر اس قوت اور استعداد کو قائم رکھنے کیلئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اسے ملے.ہر شخص دنیا کا صحت مند جسم رکھتا ہو.ہر ذہین بچہ زیادہ سے زیادہ تعلیم جو وہ حاصل کر سکتا ہے حاصل کرے.اور ہر ذہین بچہ جب اپنی تعلیم سے فراغت حاصل کرے تو اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء:۵۹) کے مطابق اہلیت کے مطابق اس کی تقرری ہو.اور اعتقاد کا تعصب یا علاقائی تعصب یا ملکی تعصب یا خاندانی تعصب یا قومی تعصب اس حق کی ادائیگی میں روک نہ بنے.اخلاقی لحاظ سے ہر فرد کا اور مجموعی طور پر قصبوں میں رہنے والے گاؤں اور شہروں میں رہنے والے ڈسٹرکٹس یا علاقوں میں رہنے والے ملکوں میں رہنے والے دنیا میں رہنے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسا معاشرہ قائم کریں کہ جس میں گندگی پنپ ہی نہ سکے.اور یہ معاشرے کا دباؤ ہے کہ (ایک مثال دے دوں ) جلسہ سالانہ کے موقعہ پر

Page 518

515 فرموده ۱۹۷۹ء دد دو مشعل راه جلد دوم اس چھوٹے سے قصبہ میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ انسان جمع ہو جاتے ہیں یہاں کی آبادی ملا کے.مرد بھی ہوتے ہیں عورتیں بھی ہوتی ہیں بچے بھی ہوتے ہیں.بوڑھے بھی ہوتے ہیں.یہاں ہمارا جو معاشرہ ہے اللہ کے فضل سے اس وقت تک یہ حال ہے.اور خدا کرے کہ قیامت تک ہمارے مرکز کا یہی حال رہے شائد آپ یہ محسوس نہیں کرتے کیونکہ آپ کو عادت پڑ گئی ہے.مگر بیرون پاکستان سے آنے والے احمدی یا عیسائی یا دوسرے لوگ جو بھی آتے ہیں وہ حیران ہوتے ہیں کہ سڑک کے ایک طرف عورتیں جارہی ہیں دوسری طرف مرد جارہے ہیں اور کوئی مرد آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھ رہا کہ ہمارے دوسری طرف سڑک کے کس قسم کی مخلوق ہے جو چل رہی ہے.کوئی آوازہ نہیں کسا جاتا ہے دنیا کے سارے ممالک میں سوائے ربوہ کے آپ کو یہ نظارہ نظر آ جاتا ہے راہ چلتی لڑکی کو چھیڑ نے کا نظارہ کہیں زیادہ کہیں کم.کہیں عیسائیوں کے علاقے ہیں جہاں کم نظر آتا ہے کہیں دہریوں کے علاقے ہیں جہاں کم نظر آتا ہے کہیں عیسائیوں کے اور دہریوں کے علاقے ہیں.جہاں یہ نظارہ زیادہ نظر آتا ہے لیکن صرف یہ ایک مقام ہے کہ جس میں کوئی واقعہ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی لڑکی یا عورت پر آوازہ کسا گیا ہو.سوائے اس کے کہ بعض دفعہ غیر تربیت یافتہ غیر احمدی باہر سے آجاتا ہے اور وہ اپنی عادت سے مجبور ہو کر پوری طرح ہماری فضاء کے دباؤ کے نیچے نہیں آتا اور منہ سے اس کے اس قسم کی بات نکلتی ہے لیکن چند منٹ کے اندر ہی اس کو احساس ہو جاتا ہے کہ اُس نے غلطی کی اور اس کو معافی مانگنی پڑتی ہے.تو یہ معاشرے کا کام ہے اور یہ ہر احمدی کا کام ہے کہ ایسا معاشرہ پیدا ہوا ایسی فضا پیدا ہو کہ جو اخلاقی اقدار اسلام قائم کرنا چاہتا ہے وہ دنیا میں قائم ہوں اور اتنا حسن پیدا ہو جائے اتنا سکون پیدا ہو جائے ذہنی طور پر اور اتنا امن پیدا ہو جائے علاقے میں اگر یہ اسلامی معاشرہ قائم ہو جائے.اغوا ہے بچوں کا.بڑی سخت لعنت ہے.اور لیکن یہاں میرے علم میں تو نہیں کوئی واردات اگر کوئی ہوئی ہے تو اس میں ہم ملوث نہیں.باہر سے آیا ہوا کوئی Gang گینگ ہوتو ہو.ہمیں اپنے وطن سے بڑا پیار ہے یہ بات بھی میں واضح کر دوں کہ اس قسم کی گندی باتیں جو ہیں ہزار میں ۹۹۹ پاکستان کے شہری شریف ہیں اور ان میں ملوث نہیں.اور ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے اس قسم کے گندے افعال کو برا سمجھتے ہیں اور اسلامی اقدار پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن میں بعض دفعہ مذاق میں کہا کرتا ہوں کہ ہماری شرافت گونگی ہے بولتی نہیں جہاں بولنا چاہئے.اگر ہماری شرافت کو زبان مل جائے تو اسلامی اقدار ہمارے معاشرہ میں بہت جلد پیدا ہو جائیں اور ہمارا تعلق تو صرف اپنے ملک سے ہی نہیں.حب الوطن من الایمان اپنے وطن سے بڑا پیار ہے ہمیں اور ہر نیک قدم جو ہم اٹھائیں گے اس کے اچھے اثرات سب سے پہلے ہمارے ملک میں ہی ظاہر ہونگے لیکن میرے مخاطب ساری دنیا کے احمدی اور میرا مسئلہ ساری دنیا کا مسئلہ ہے خواہ وہ دہر یہ ملک ہو یا عیسائی ملک ہو یا بدھ مذہب ہو (افریقہ میں بعض علاقے ایسے ہیں) بہر حال وقت آ گیا ہے کہ کوئی گروہ انسانوں میں سے اسلامی اقدار کو قائم کرنے کا

Page 519

فرموده ۱۹۷۹ء 516 د دمشعل راه نعل راه جلد دوم بیڑہ اٹھائے.اور اس کے لئے اپنی نوجوان نسل کو اور اپنے اطفال کو تیار کرے اور ان کے ذہن میں بار بار یہ بات ڈالے کہ تمہارے اوپر یہ ذمہ داری ہے.دوسرے کے حقوق تم نے ادا کرنے ہیں اور اسی طرح بار بارسنیں گے جب بڑے ہونگے سوچیں گے بات ان کی عقل میں آئے گی کہ جو باتیں ہمیں کہی جارہی ہیں اس کی ضرورت ہے تو ایک نیک تبدیلی آہستہ آہستہ جو پیدا ہو رہی ہے.اس سے سارے متاثر ہوں گے.پھر صداقت جس کو جہاں نظر آئے گی وہ قبول کرے گا اسے.اسلام نے یہ کہا ہے کہ ہر شخص کا حق ہے خواہ اس کا عقیدہ کچھ ہی ہو خواہ وہ خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر ہو اس کا یہ حق ہے کہ اس کا معاشرہ گندگی سے پاک ہو.شرافت ہی شرافت ہو حسن عمل ہو.جہاں زبان کی مٹھاس ہو جہاں فکر و تدبر میں عظمت ہو جہاں محبت اور پیار کی فضا ہو.پھر روحانیت ہے ( ہر شخص کے حقوق میں بتارہا ہوں) روحانی لحاظ سے ہر شخص کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی روحانی طاقتوں کو نشوونما کے کمال تک پہنچائے اور انسان کی روحانی طاقتوں کی نشو ونما کا کمال یہ ہے کہ اس کا اپنے پیدا کرنے والے رب کریم سے ایک زندہ تعلق پیدا ہو جائے اور وہ اس کے پیار کے جلوے اپنی زندگی میں دیکھنے لگے اور اس کی پیاری اور میٹھی آواز اس کے کان سنیں اور اس کے وجود کے اندر ایک انقلاب عظیم بپا کر دیں اور اس کی ہئیت بدل دیں اور اس کے وجود کے سارے گندوں کو جلا کے خدا کے قدموں میں اس کو لا کھڑا کریں اور نوع انسانی کا بہترین خادم بن جائے وہ.تو میں بتا یہ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں ہر فرد واحد کے حقوق قائم کئے ہیں کہ جسمانی حقوق غذا کے لحاظ سے، کپڑے کے لحاظ سے طبی امداد کے لحاظ سے Shelter شیلٹر کے لحاظ سے کہ گرمی سردی بارش اور دھوپ اسے تکلیف نہ دے اور یہ سارے حقوق اس کے پورے کئے جائیں اور پھر ذہنی حقوق ہیں.ذہنی لحاظ سے ہر بچے کی اگر پرورش کرتی نوع انسانی تو اس وقت تک دنیا میں جتنے سائنسدان ہیں جن کی تحقیق اور جن کی لگن نے اور جن کے دل کے اس جذبہ نے کہ وہ خادمِ انسانیت بنیں انسان کو جہاں تک اس وقت پہنچایا ہے اس سے ہزار گنا زیادہ علمی فضا کی رفعتوں میں انسان پہنچ چکا ہوتا لیکن یہ بدقسمتی ہے انسان کی کہ ابھی تک خدا تعالیٰ نے جو ہ تعلیم دی کہ ہر شخص کو اس کا حق دیا جائے وہ اس تعلیم کو سمجھا نہیں اور اگر ایک بچے کو یہ حق ملا اورتعلیمی میدان میں اس نے ترقیات کے مدارج طے کئے وہاں نو ایسے تھے یا شاید نانوے ایسے تھے کہ جن کو وہ حق نہیں ملا اور وہ جو اپنے روشن ذہن اور دینی استعداد سے نوع انسانی کی خدمت کر سکتا تھا اس سے صرف وہی نہیں بلکہ نوع انسانی بھی محروم ہو گئی.اچھے اخلاق پیار کی فضا پیدا کرنا تو بہر حال معاشرے سے متعلق ہے یعنی اجتماعی زندگی سے اس کا بہت بڑا تعلق ہے.روحانیت کا بھی اس سے تعلق ہے لیکن روحانیت کا ایک بڑا حصہ پوشیدہ ہے.ایک حصہ ظاہر بھی ہے جونمو نہ بنتا ہے دوسرے کیلئے.ان چاروں (یعنی جسمانی، ذہنی، اخلاقی ، روحانی قوتوں میں سے ہر ایک دولت کا مطالبہ کر رہی ہے.مثلاً

Page 520

517 فرموده ۱۹۷۹ء دد دو مشعل راه جلد دوم متوازن اور طیب غذا ملے ہر انسان کو.اس کی تفصیل میں میں نہیں جاؤں گا.اتنا کافی ہے کہ متوازن طبیب غذا ملے ہر ایک کو.متوازن طبیب غذا کو ہضم کرنے کیلئے جس قسم کی اُس فرد واحد کو ورزش کی ضرورت ہے اس کا سامان پیدا کیا جائے.وہ بھی پیسہ مانگ رہا ہے.پھر اس صحت مند جسم سے نوع انسانی جوفائدہ اٹھا سکتی ہے اس مقام پر ہر فرد کو رکھا جائے تا کہ وہ دوسرے انسانوں کا خادم بن کر ان کی خدمت میں لگا رہے اور ان کے فائدے کے کام کرنے والا ہو.پھر ذہن ہے ذہنی قوت اور استعداد کا نشو ونما اور اس کو صحت مند رکھنا یہ اور چیز ہے مثلاً جو ذہین افراد ہیں ان کے اور جو پہلوان ہیں ان کے کھانوں میں فرق ہے.بڑا ز بر دست فرق ہے.جس قسم کے پہلو ان کے جسم کو کھانے چاہئیں.اس سے بالکل مختلف کھانے ایک ذہین دماغ کو چاہئیں.اور اس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے (طب کی تحقیق کی رو سے بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں.بڑی مہارت کے ساتھ غذاؤں کا انتخاب کرنا پڑتا ہے اللہ تعالیٰ نے ایسے دماغ پیدا کئے ہیں جو اس فن میں یعنی غذاؤں کے علم میں طبی مہارت حاصل کر سکیں ایسے دماغوں سے کام لینا چاہئے.پھر اسلام کے اخلاقی اقدار میں وہ چاہئیں ہمیں ایسے مومن بندے چاہئیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق زار ہوں کیونکہ اخلاق کا معلم نوع انسانی کیلئے بعثت نبوی کے بعد سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی نہیں اور وہ عشاق محمد بتا ئیں دنیا کو کہ اسلامی اقدار کیا ہیں.وہ بتا ئیں دنیا کو کہ وہ شہر.رؤسائے مکہ جہاں بستے تھے جنہوں نے اڑھائی سال تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب متبعین کو بھوکا مارنے کی کوشش کی تھی.ہجرت کے بعد مدینہ میں جب ان رؤساء کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام ملا کہ کیا اپنے بھائیوں کو بھوکا مارو گے؟ رؤساء مکہ کو خدا تعالیٰ نے سبق دینے کیلئے وہاں قحط کے آثار پیدا کئے اسی وقت آپ نے حکم دے دیا کہ ان کو راشن بھجوانے کا انتظام کرو تو یہ جو اخلاقی اقدار اسلام کے ہیں یہ دنیا میں وہی قائم کر سکتا ہے.اسلامی تعلیم کے مطابق جو اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والا ہو.میرا مطلب ان اسلامی اقدار سے ہے جو فطرت انسانی کا حصہ ہیں اور سارے اسلامی اقدار فطرت انسانی کا حصہ ہیں اس واسطے کوئی مسلمان ہے یا نہیں ہے وہ اس دائرہ کے اندر آ جاتا ہے اور ان کو اس دائرہ کے اندر لانا چاہئے.نیز فرما یاؤ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا ليَعْبُدُونِ (الذاریات: ۵۷) روحانی لحاظ سے ہر فرد کا یہ حق ہے کہ روحانی رفعتوں کے حصول کی جو قوت اور استعدادا سے خدا تعالیٰ نے دی تھی اس کے مطابق اس کی پرورش کی جائے یہ اس کا حق ہے اور اس کے لئے مثلاً کتابوں کی اشاعت کی ضرورت ہے.واقفین کی ضرورت ہے.ہر ہر قدم جو ہے وہ پیسہ مانگتا ہے.خود نگی اٹھا کے دین اسلام کی خدمت.قربانی کا مطالبہ کرتی ہے.اس کے لئے احمدی ذہن کو تیار ہونا چاہئے.پھر جذبات کے حقوق ہیں (میں چند مثالیں دوں گا) اس قدر خیال رکھا ہے جذبات کا کہ مشرک جو سب سے بڑا گناہ کرنے والا.

Page 521

مشعل راه جلد دوم شرک معاف نہ کرنے کی حکمت اور مفہوم فرموده ۱۹۷۹ء 518 قرآن کریم کی رُو سے شرک کا گناہ معاف نہیں کیا جاتا.پچھلے ایک خطبے میں بھی میں نے کہا تھا کہ قرآن کریم نے کہا ہے شرک کا گناہ معاف نہیں ہوتا.باقی سارے گناہ میں معاف کر دوں گا.شرک کو معاف نہیں کروں گا.تو جو مشرک ہے کیا اس کو خدا تعالیٰ کی رحمت سے اللہ تعالیٰ نے ( قرآن کریم کی تعلیم میں ) کلی طور پر محروم کر دیا ہے؟ یہ تو رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ میں جس رحمت خداوندی کا اعلان کیا گیا ہے بظاہر اس کے خلاف ہے.میرے ذہن میں یہ تھا کہ میں بات سمجھا نہیں یہ نہیں ہو سکتی اسلامی تعلیم.تو پھر میرا ذہن اس طرف گیا کہ یہ کہنا کہ میں شرک کے گناہ کو معاف نہیں کروں گا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں شرک کے گناہ کی جو سزا ہے اس میں کمی نہیں کروں گا.پس مشرک پر خدا تعالیٰ کی رحمت اس شکل میں نازل نہیں ہوتی کہ کلی طور پر اس کو خدا معاف کر دے.لیکن اس شکل میں ضرور نازل ہوتی ہے کہ خدا کہتا ہے مثلاً سوا کا ئیاں سزا ہے تمہاری تو پچاس میں معاف کر دیتا ہوں کئی معاف نہیں کی.وہ بھی رحمت کا ایک جلوہ ہے کہ اگر پچاس ہزار سال اس نے دوزخ میں جلنا تھا تو اس کو کہا کہ تمہیں پچاس سال کے بعد جہنم سے نکال لوں گا.معاف تو نہیں کیا دوزخ کی سزا اس کو مل گئی لیکن پوری بھی نہیں ملی رحمت نے جوش مارا اور اس کی سزا میں کمی کر دی.سزا معاف کرنا اور چیز ہے سزا میں کمی کر دینا دوسری چیز ہے.تو یہ جو روحانی پہلو ہے ہر انسان سے تعلق رکھتا ہے ان سے بھی جنہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم زمین سے خدا کے نام اور آسمانوں سے خدا کے وجود کو مٹادیں گے ان کے متعلق بھی خدا نے کہا کوشش کرو کہ وَمَ خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ یہ لوگ بھی میرے بند بن جائیں.ان کو خدا کا بندہ بنانے کیلئے یوگوسلاویہ کے دہر یہ کمیونسٹ نے تو کوشش نہیں کرنی.ان کو خدا کا بندہ بنانے کیلئے جماعت احمدیہ نے کوشش کرنی ہے اور کر رہے ہیں.مثلاً ڈنمارک میں عبدالسلام میڈیسن جو آج ان کا نام ہے.بڑے سخت عالی قسم کے کمیونسٹ تھے تابط شر (۱) یعنی اپنی پتلون میں چھرارکھا کرتے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ عالی کے تھے تابدار ( رکھا کرتےتھےاور پھر نے فضل کیا.بڑی رحمت ان پر نازل ہوئی اور جماعت احمدیہ کو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ توفیق ملی کہ اسلام کا حسن ان کے سامنے اس طرح پیش کریں کہ وہ اس کا گرویدہ ہو جائے.پھر قرآن سے پیار پیدا ہوا.پھرانہوں نے قرآن سیکھا سمجھا.اس کا مطالعہ کیا اور اپنی زبان میں اس کا ترجمہ کر دیا.جو بڑا مقبول ہوا ان کے ملک میں تو یہ تبدیلی ذہنی، روحانی ان میں پیدا ہوئی.روحانی طور پر کہ ایک خدا کے منکر خدا کے دشمن خدا کے نام کو زمین سے مٹانے کیلئے تیار نیز آسمانوں سے بھی.خدا کا عاشق بن گیا اور اب اس سے کوئی بات کرے اسلام کے متعلق تمہیں کیا پھل ملے اسلام لانے کے.تو وہ بڑے سکون اور بڑے وجد کے ساتھ کہتا ہے کہ مجھے کچی خوا ہمیں آنے لگ (۱) مشہور عرب شاعر اور بہا در جنگجو اس کا نام ”ثابت بن جابر بن سفیان تھا.اس کی بہادری ، شجاعت اور جنگی کارناموں کے قصے معروف ہیں.ہ ہمیشہ تلوار یا چھرا اپنی بغل میں دبائے رکھتا ، جس کی بناء پر اس کو تا با شر‘ کا لقب دیا گیا.( ناقل)

Page 522

519 فرموده ۱۹۷۹ء دو مشعل راه جلد دوم گئیں.میرا خدا سے تعلق پیدا ہو گیا مجھے یہ پھل ملا ہے اسلام لانے کا.یہ تبدیلی آپ بھی پیدا کر سکتے ہیں.آپ کو کرنی چاہئے کوئی احمدی کھڑے ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ نوع انسانی جائے جہنم میں.مجھے کیا.نوع انسانی نے جہنم میں نہیں جانا.کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا تھا کہ میرا فدائی میرا ایک غلام ایسا پیدا ہو گا جو اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرے گا.اس کو ماننے والے ہیں آپ.اتنا بڑا گناہ ہے شرک.مگر پھر بھی مشرک کے جذبات کا بھی خیال رکھا گیا.قرآن نے کہا مشرک کے جذبات کو بھی ٹھیس نہیں لگانی تم نے.لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ الله (الانعام: ۱۰۹) جو بتوں کی پرستش کرنے والے ہیں تم نے ان کو بُرے ناموں سے یاد نہیں کرنا.گالی دو گے جذبات کو ٹھیس لگے گی.بت کو بھی برانہیں کہنا کیونکہ بت پرست کو اس سے تکلیف پہنچے گی.اب جو پتھر کا بت ،لکڑی کا بت، ہاتھی دانت کا بت ، تانبے اور پیتل کا بت اور خدا جانے کس کس چیز کا بت ، آٹے کا بت بنا دیا انہوں نے.گالی آپ دیں گے بت کے تو کان نہیں نہ وہ سنتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے نہ اسے کوئی تکلیف ہو سکتی ہے جب منع کیا گیا کہ لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ الله تو مراد یہ تھی کہ جو بت کی پرستش کرنے والا ہے اس کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانی.اس قدر جذبات، احساسات کا خیال رکھنے والا مذہب ہے.یہ ہے اسلام.یہ ہے اسلام کی تعلیم کہ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا ایک حق خدا تعالیٰ نے یہ قائم کر دیا اسلام میں کہ ہر انسان کے جذبات واحساسات کا خیال رکھا جائے گا یہ اس کا حق ہے.اور کوئی شخص خواہ وہ خدا تعالیٰ کا سب سے پیارا ہو وہ مشرک کے جذبات کو ٹھیس نہیں لگائے گا.اس کے جذبات کو ٹھو کر نہیں.کیونکہ لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ کا جو حکم ہے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الہاما قرآن کریم میں یہ اعلان کیا.اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام : ۱۶۴) کہ سب سے پہلے اس حکم پر میں عمل کرنے والا ہوں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو حید کو قائم کرنے کیلئے آئے اور آپ نے یہ اعلان بھی کیا کہ اس حکم پر سب سے پہلے.سب سے زیادہ میں عمل کرنے والا ہوں.مشرک کے جذبات کو بھی میں ٹھیس نہیں لگاؤں گا.ہر حکم جو اسلام نے دیا وہ کوئی نہ کوئی حق ہے انسان کا جسے قرآن قائم کرتا اور اس کی حفاظت کرتا ہے اس حکم کے ساتھ اور ہر نبی یعنی ہر وہ حکم جس میں روکا گیا ہے کہ یہ نہ کرو کسی نہ کسی حق کو اس کا کرنا نقصان پہنچانے والا تھا.حق تلفی کرنے والا تھا.اس سے روک دیا گیا.حق تلفی نہیں کرنی.مثلا ہر شخص کی عزت قائم رکھنا ضروری ہے.اس واسطے یہ کہا گیا.افتراء سے کام نہیں لینا یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان پر افتراء نہیں کرنا.کسی انسان پر بھی افتراء نہیں کرنا.عزت و احترام کو قائم کیا.عزت و احترام کو اس قدر تاکید سے قائم کیا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال ہمارے سامنے ہے.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرِ مِثْلُكُمْ (الکہف: 1) اعلان کر دو دنیا میں نوع انسانی کے کانوں میں یہ بات جا کے کہو کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.اس شخص کی زبان سے یہ اعلان کروایا جس کے متعلق کہا گیا تھا لو لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک.یہ کائنات تیری وجہ سے ہم نے پیدا کی ہے تجھے پیدا نہ کرنا

Page 523

فرموده ۱۹۷۹ء 520 د دمشعل نعل راه جلد دوم ہوتا تو کائنات بھی نہ بنائی جاتی.اور ساتھ یہ اعلان بھی کروا دیا اللہ نے قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرُ مِثْلُكُمْ اور عجیب اس کا اثر انسانی دماغ پر پڑتا ہے.قرآن کریم کی آیات کا اتنا عظیم اثر ہوتا ہے غیر مسلموں پر کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.اب یہی قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ کو لو ٹا چی من غانا میں ایک قصبہ ہے وہاں ہمارا جلسہ تھا نانا کا سب سے بڑا عیسائی پادری وہاں آیا ہوا تھا یہ دیکھنے کیلئے کہ کیا منصوبے سکیمیں اسلام کو پھیلانے کیلئے بنارہے ہیں.لیکن بیٹھا اس طرح ہوا تھا کہ بڑا پادری ہوں میں.لات پہ لات رکھ کے اور بالکل Indifferente کوئی دلچسپی نہیں ہے مجھے.ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کر رہا تھا تقریر کرتے ہوئے میں نے کہا دیکھو جو Paramount Prophet پیرا ماؤنٹ پرافٹ تھا.یعنی سب سے بڑا پرافٹ Prophet محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے منہ سے خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کروا يا قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ اعلان کر دو سب کو تم بھی اس کے مخاطب ہو کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.یہ شرف انسانی ہے میں نے کہا Those who are Junior to him like moses and christ اور ان کے ماننے والے، انگریزی میں تقریر تھی.میں نے کہا کہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نچلے درجے پر پیغمبر ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوئے یا حضرت عیسی علیہ السلام ہوئے یا ان کے ماننے والے جو ہیں ان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اپنی برتری کا دعویٰ کریں تم پر.میں تو تقریر کر رہا تھا مجھے بتانے والوں نے بتایا کہ وہ لاٹ پادری صاحب اس طرح اچھلے کہ جس طرح کسی نے ان کو سوئی چبھودی ہو کہ یہ کیا اعلان کر دیا انہوں نے کیونکہ وہاں تو وہ لاٹ بن کے رہتے تھے.شرف انسانی کو اسلام نے قائم کیا بات یہ ہے کہ شرف انسانی کو جس طرح اور جس رنگ میں اسلام نے قائم کیا ہے کسی اور مذہب نے کسی اور نبی نے قائم نہیں کیا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کیا ہے.اور آپ دوستوں نے یہ بات عملاً اور قولاً اور خدمۂ یعنی خدمت کے ذریعہ سے اور حقوق ادا کر کے اور دوسروں کے حقوق کی حفاظت کر کے جہاں تک تمہاری طاقت میں ہو یہ ثابت کرنا ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے واقعہ میں اشرف المخلوقات بنایا ہے.ساری مخلوقات میں سب سے زیادہ عزت واحترام والا یہی تو ہے جس سے خدا پیار کرتا اور دوسری زندگی دے دی.اس کی روح کو قائم رکھا اور اس دنیا میں بھی ہمکلام ہو گیا انسان سے اور یہ دروازہ کسی پہ بند نہیں جو خدا سے پیار کرنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جس نے بھی خلوص سے کھٹکھٹایا اس کے لئے یہ کھولا گیا.پچھلے سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسر صلیب کی جو کا نفرنس ہوئی تھی اس میں ان سب غیر مسلموں کو مخاطب کر کے میں نے کہا تھا کہ تم کدھر پھر رہے ہو کس بھول میں ہو.یہ دروازہ تو ہر کھٹکھٹانے والے کے لئے کھولا جاتا ہے آگے بڑھو آزما کے تو دیکھو.خدا کے در کا دروازہ کھٹکھٹاؤ.وہ کھولے گا.تم کہاں مسیح کی صلیب اٹھائے پھرتے ہو جس خدا کے بندے نے اٹھائی تھی اٹھالی.اس نے ایک قربانی دے دی خدا کے لئے اور صلیب پر چڑھ گیا اور خدا نے اپنے پیار کا اظہار کیا اور صلیب سے زندہ اتار لیا اس کو.اس نے قربانی دینے میں کوئی دریغ نہیں کیا.خدا

Page 524

521 فرموده ۱۹۷۹ء دد د و مشعل راه جلد دوم تعالیٰ نے پیار کے سلوک میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہ مرنے کیلئے تیار تھا.خدا نے اس کو مرنے نہیں دیا.اس نے کہا میں تجھے زندہ رکھوں گا.۱۲۰ سال تک جو جوانی میں ۳۳ سال کی عمر میں جان دینے کیلئے تیار ہوا تھا.۱۲۰ سال تک خدا نے اس کو زندگی عطا کی.بڑا معجزہ ہے اس کی ساری زندگی اور ہم دعائیں کرتے ہیں حضرت مسیح علیہ السلام کیلئے.کیونکہ جن علاقوں میں وہ پھرے ہیں ان میں یہودی قبائل کو ذہنی طور پر تیار کیا تھا اس بات کیلئے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت قریب ہے جب وہ آئیں تو مان لینا.اور جس وقت اسلام ان علاقوں میں گیا تو قریباً سارے کے سارے یہودی قبائل مسلمان ہو گئے.وہ افغانستان اور ایران کے شمالی حصوں میں اور ہندوستان اور کشمیر اور گلگت وغیرہ کی طرف گئے تھے شاید کوئی اکا دُکا بچ گیا ہو.اس وقت تو کوئی آثار ایسے نظر نہیں آتے کہ ان میں کوئی اسلام سے باہر رہ گیا ہو تو بڑی خدمت کی ہے بنی اسرائیل کی اس معنی میں کہ وہ نور جو اپنی انتہاء کو پہنچ کر دنیا کی طرف آیا تھا اس سے جہاں ان کے دوسرے قبائل نے آنکھیں بند کیں انہوں نے نہیں کیں اور قبول کر لیا.بہر حال ہر انسان کی عزت اور احترام کو قائم کرنا یہ ایک حق ہے جو اسلام نے قائم کیا ہے.میں بتا یہ رہا ہوں کہ ہر حکم جو اسلام نے دیا وہ ہمارے اپنے فائدے کے لئے ہے اور ہر حکم ایک حق قائم کرتا ہے انسان کا.اور اس کی حفاظت کا حکم ہے اس میں اور ہر چیز جس سے منع کیا گیا (نہی جسے کہتے ہیں نوا ہی جمع ہے اس کی وہ روکا اس لئے نہیں گیا کہ ہمیں تکلیف پہنچے بلکہ اس لئے روکا گیا ہے کہ ان میں سے ہر چیز ہر فعل جس سے روکا گیا ہے ان حقوق کو پامال کرنے والا اور تلف کرنے والا تھا جو خدا نے قائم کئے تھے خدا نے انسان کے حقوق کی حفاظت کی اور انسان کو کہا یہ باتیں نہ کرنا.تمہارے حقوق تمہارے اپنے ہاتھوں تلف ہو جائیں گے.میں نے بتایا تھا کہ میں آج اصولوں کی باتیں کروں گا تو یہ ایک اصول ہے جس کی یہ ساری تمہید بن جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے کہا كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران: ۱۱۱) تم بنی آدم میں سب سے اچھی امت ہو اس لئے کہ بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے تمہیں قائم کیا گیا ہے.یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے چند الفاظ ہیں مگر جس عظمت پر جس رفعت پر ایک مسلمان کو بٹھایا گیا ہے اگر وہ اسے یادرکھے تو دنیا سے ہرقسم کا فساد دور ہو جائے اور ہر طرح امن قائم ہو جائے اور پیار اور اخوت پیدا ہو جائے اور ہر ایک کو اس کے حقوق ملنے لگ جائیں اور کسی کی حق تلفی نہ ہو اور مسرتوں سے بھر پور اور خوشحال زندگی انسان گذار نے لگے اور یہ دنیا بھی جنت بن جائے.یہ ذمہ داری اے میرے پیارے بچو! اور جوانو! اور بڑو! اور مردو! اور عور تو ! تم پر ہے.تم اسے نہ بھولو.یہ دنیا تو عارضی اور چند روزہ ہے.ہر ایک نے یہاں سے جانا ہے لیکن اس چیز کا خیال رکھو اور اس کے لئے کوشش کرو کہ جب ہم اس دنیا سے نکلیں اور دوسری دنیا میں داخل ہوں تو وہاں خدا تعالیٰ کے فرشتے خدا کی ساری ہی صلاحیتوں کے ساتھ ہمارے استقبال کیلئے کھڑے ہوں.اھم آمین.(ماہنامہ خالد نومبر دسمبر ۱۹۷۹ء)

Page 525

د مشعل راه جلد دوم د را فرموده ۱۹۷۹ء سید نا حضرت خلیفہ اصبح الثالث نے ۲۰اکتوبر ۱۹۷۹ء واطفال الاحمدیہ کے مرکزی سالانہ اجتماع سے جو خطاب فرمایا تھا.مکمل متن پیش خدمت ہے.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- 522 اطفال کے نظام کیلئے ایک بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جھنڈیاں ۲ فٹ اونچی ہونی چاہئیں تا کہ میرے اور تمہارے درمیان حائل نہ ہو جائیں.فرمایا تم ہو اطفال احمدیہ، جماعت احمدیہ میں پیدا ہونے والے یا جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہونے والے اطفال ( بچے ) جن کو ہماری اصطلاح میں سات سے پندرہ سال کا بچہ کہتے ہیں.بچے بچے میں طفل طفل میں بڑا فرق ہے.ساری دنیا میں انسان بستے ہیں.ساری دنیا کے انسان بچے پیدا کرتے ہیں.سارے ملکوں میں اطفال رہتے ہیں اور ساری دنیا کے اطفال کے ایک حصے کی عمر سات سے پندرہ سال ہے.دنیا میں بعض ایسے اطفال ہیں کہ جن کو احساس ہے کہ ہمارا مستقبل، ہماری آئندہ زندگی اندھیرے میں ہے اور ناکامیوں میں ہے جس طرح افریقہ کے ممالک کے جو بچے تھے ( اب تو وہاں حالات تبدیل ہو گئے ہیں) پچھلی صدی اور اس سے پہلی صدی میں وہاں کے بچے ہر وقت ڈرتے رہتے تھے کہ کسی وقت عیسائی سفید فام قو میں ہمیں قید کر کے ، غلام بنا کے اپنے ملکوں میں نہ لے جائیں.انہوں نے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ان بچوں کو بڑوں کے ساتھ ، بڑوں کے علاوہ ماں باپ سے چھڑوا کے، اور بعض دفعہ ماں باپ کو بھی ساتھ قید کیا اور امریکہ میں لے گئے اور اتنی خطرناک قسم کی تکلیفیں ان کو پہنچائی گئیں.مثلاً سولہ سولہ گھنٹے ان سے کام لیا.اب اتنا سا بچہ جو میرے سامنے بیٹھا ہے اس سے کمزور صحت والے بچوں سے سولہ سولہ گھنٹے کام لیتے تھے.کھیتوں میں زمینداروں کے غلام ، کارخانوں میں کارخانہ داروں کے غلام تو ایک وہ بچے بھی ہیں دنیا میں.اب بھی ہیں جن کا کوئی مستقبل نہیں اور وہ اسے جانتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائیں آپ ان بچوں میں سے نہیں ہیں جن کو یہ خطرہ لاحق ہو کہ ہمیں غلام بنا کے دنیا کی کسی منڈی میں بیچ دیا جائے گا.کہتے ہیں کہ خفیہ طور پر اب بھی غلاموں کی منڈیاں پائی جاتی ہیں ( واللہ اعلم بالصواب ) جہاں بچوں کو اغوا کر کے لے جاتے ہیں اور بیچا جاتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جہاں تک مجھے علم ہے کوئی احمدی بچہ اس ظلم کا نشانہ نہیں بنا ایک تو یہ بچے ہوئے نا.پھر بعض بچے وہ ہیں جن کا مستقبل یا جن کی آئندہ زندگی اتنی اندھیری نہیں.تھوڑی سی تعلیم دے دیتے ہیں.مثلاً جب انگریز حاکم ہوا اور اس نے تعلیم دینی شروع کی تو وہ کہتا تھا کہ دسویں جماعت تک تعلیم دے دو اور ان سے کلر کی کا کام لو.یہ جو حساب کرنا ہے یا چھوٹے موٹے کام میں حکومت کے وہ ان سے لیا کرو.ہم اونچے لوگ ہیں، ہم یہ کام کیوں کریں، ہمارے بچے یہ کام کیوں کریں.یعنی تھوڑا سا پڑھا بھی دیا اور حقارت کی نظر سے

Page 526

523 فرموده ۱۹۷۹ء د و مشعل راه جلد دوم دد بھی دیکھا، ذلیل بھی کیا، کم تنخوا میں دے کے ان سے کام بھی لیا اور بڑا لمبا عرصہ کام لیا.کوئی سو سال دوسو سال دنیا کے بعض بچوں پر بعض قوموں کے بچوں پر، بعض علاقوں کے بچوں پر یہ واقع بھی گزرا.مگر تم احمدی بچے ہو اور تم وہ بچے نہیں ہو.تو خدا کا شکر کرو تم ان بچوں میں شامل نہیں ہو.پھر بعض بچے ایسے ہیں جن کو پڑھایا جاتا ہے اور ان کی پڑھائی میں ان کے نصاب میں یہ بھی حصہ شامل ہے کہ خدا نہیں ہے.کورس کا یہ حصہ ہوتا ہے کہ اللہ سے دور کر دینا ہے دماغ کو عجیب لغو باتیں کر کے زہر بھرتے ہیں بچوں کے دماغوں میں.حالانکہ ہم جانتے ہیں اور ہمارے بچے بھی جانتے ہیں کہ اللہ ہے اور اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے.۱۹۷۴ء میں جب تکلیف میں تھی جماعت.اور روزانہ قریباً ، گھنٹے مختلف جماعتوں کے جو دوست آتے تھے ان سے میں ملتا تھا ان کی تکلیف سنتا تھا میں ان کو تسلی دلاتا تھا، چہروں کی جوگھبراہٹیں ہیں کوشش کرتا تھا کہ وہ دور ہو جائیں اور وہ مسکرانے لگ جائیں.اس میں ایک بات یہ بھی میں ان کو کہتا تھا کہ بچے بھی ساتھ آجاتے تھے.تمہاری طرح کے چھوٹے چھوٹے سے.میں کہتا تھا بچو! بتاؤ تم میں سے کسی کو سچی خواب آئی؟ تو بہت سارے بچے کھڑے ہو جاتے تھے اور کہتے تھے ہمیں آئی.بچے کو خدا تعالیٰ بچے کی زبان میں بات بتاتا ہے.ایک بچے کو آئن سٹائن کی تھیوری یا ڈاکٹر سلام نے جس نئی تحقیق پر نوبل پرائز لیا ہے وہ تو خدا نہیں بتائے گا جس کا سر پیر ہی نہ بچے کو پتہ لگے.بچے سے تو خدا کا پیار یہ ہے کہ ایسی بات کرے جو اسے سمجھ آ جائے.مثلاً ایک بچہ کھڑا ہوتا تھا اور کہتا تھا کہ ساڈی مہیں نے بچہ دیناں کی اور میں خواب وچ ویکھیا کہ کٹی ہوئی ہے اب یہ بچے کی زبان ہے.اب جو بچہ بھینس کے پیٹ میں ہے اس کے متعلق کسی کو یہ پتہ نہیں کہ وہ کٹا ہے یا کٹی ہے.صرف خدا کو پتہ ہے اور اس کے خواب کے مطابق کٹا یا کٹی کا ہو جانا بتاتا ہے کہ خواب بتانے والی ذات علام الغیوب ہے جسے پتہ ہے یعنی بھینس کا بچہ جب پیٹ کے اندھیروں میں تھا اس وقت خدا تعالیٰ کی روشنی سے تو وہ باہر نہیں تھا نا.خدا کو پتہ تھا اور خدا نے ایک احمدی بچے سے اس طرح پیار کیا.یہ بتانے کیلئے کہ میں اس جماعت سے بہت پیار کرنے والا ہوں، تیاری کرو میرے پیار کو حاصل کرنے کیلئے.لیکن جو میں اب بتا رہا ہوں وہ ہے اس سے الٹ بات کہ سکولوں میں یہ کوشش کی جاتی ہے ( اس موقعہ پر بجلی کی روبند ہوگئی تو حضور نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے بچوں کو بتایا یہ سبز چائے کا قہوہ ہے جس کے اندر کوئی مٹھاس نہیں صرف گرمی ہے اور اگر تم میں سے کسی کے منہ میں ڈالی جائے تو کہو گے او ہوں یہ کیا ہے کوئی مزہ ہی نہیں.مگر میرے لئے مفید ہے، گلے کوگرم رکھتی ہے.اس لئے میں نے ایک گھونٹ پی لیا ہے.ہم میں سے بہتوں کو عادت ہے ختی برداشت کرنے کی.یہ تو کوئی چیز ہی نہیں پھیکا.کسیلا قہوہ.میں کونین کی گولی منہ میں ڈال کے اچھی طرح چبا کے کھا جاتا ہوں اور ایک دن میں نے ایک دوست کو کہا تم بھی کھاؤ گے.کہتا ہاں میں بھی کھاؤں گا.میں نے کہا اچھا دونوں کھاتے ہیں میں نے بھی منہ میں ڈالی اور اس نے بھی ڈالی اس کی ساری رگیں پھول گئیں.دو دن تک وہ ہنستا تھا تو لوگ سمجھتے تھے رورہا ہے لیکن مجھ پر کچھ اثر نہ ہوا.بڑی کڑواہٹیں برداشت کی ہیں تمہارے لئے بھی.میں خدام الاحمدیہ کا صدر بھی رہا ہوں بڑا لمبا عرصہ.تمہارے لئے

Page 527

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۹ء 524 بھی کڑواہٹیں برداشت کیں.پھر دوبارہ بجلی کی روآ جانے پر فرمایا ) روس میں اور دوسرے کمیونسٹ ممالک میں تمہاری عمر کے بچوں پر یہ زور لگایا جاتا ہے کہ وہ خدا سے دور ہو جائیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی بھاری اکثریت سے وہ محروم ہو جاتے ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے نعمتیں دو قسم کی دی ہیں.ظاهرة وباطنة قرآن کریم نے کہا ہے ایک ظاہری نعمتیں ہیں.اچھی غذا ہے، متوازن غذا ہے.دودھ ہے جو ہر بچے کو پینا چاہیے اور نہیں ملتا ہے چاروں کو.اور لحمیات ہیں.لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ متوازن غذا کسے کہتے ہیں.لیکن قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے.ایک تو یہ ہے (۲) پھر سردی گرمی سے بچنے کیلئے لباس ہے گھر ہے (۳) اگر انسان اپنی غلطی سے بیمار ہو جائے تو خدا تعالیٰ نے اسے شفا دینے کیلئے دوائیں بنائی ہیں.خدا تعالیٰ نے دعا کا نظام جاری کیا ہے.دوا کے ساتھ دعا کرو تو جلدی شفا ہو جاتی ہے.ہمارے ڈاکٹر جو افریقہ میں گئے ہیں ان کو اتنی شہرت ملی خدا کے فضل سے کہ ان کے مریض جن کے متعلق یورپ کے ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ لاعلاج ہیں اور ان کا آپریشن ہو ہی نہیں سکتا.احمدی ڈاکٹر نے آپریشن کیا اور وہ کامیاب ہوا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمسایہ ممالک جہاں ہمارے ہسپتال نہیں وہاں کے بڑے بڑے امیر لوگوں نے ہمارے ہسپتالوں میں (جہاں ہسپتال ہیں وہاں آکے علاج کروانا شروع کر دیا تو یہ ممالک جو بچے کے ذہن سے خدا کی یاد مٹانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی بچے پر ظلم کر رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی یہ نعمت کہ وہ بیمار ہوتو دعا سے اس کی تکلیف جلدی دور ہو جائے.اس سے اس کو محروم کر دیا اور جب دنیا کا سہارا کوئی نہ ہو اللہ کے منکر وایا تو سہارا بنو خدا کی جگہ اور وہ تو طاقت ہی نہیں ) تو جب دنیا کے سارے سہارے ٹوٹ جاتے ہیں اور کسی جگہ روشنی نظر نہیں آتی اس وقت خدا آتا ہے اور کہتا ہے میں تیرا خدا ہوں.تجھے گھبراہٹ کی کیا ضرورت ہے.پھر یہ تو اس دنیا کی ہوئی نا بات.پھر انسان نے مرنا ہے، اس کی روح زندہ رہے گی اور یہ دنیا جو ہے یہ میں سال چالیس سال پچاس سال (اگر بچپن میں نہ بھی کوئی مرے لمبی عمر پائے ) ۶۰ سال، ۷ سال کوئی اکا دکا سو ایک سو دس ، ایک سو بیس سال تک.اکثر سو سال کے اندر اندر مر جاتے ہیں.لیکن روح زندہ ہے اور وہ جنت میں جائے گی نہ ختم ہونے والی زندگی.اور خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور رحمت سے یہ جنت کی نعمتیں ہیں.اللہ کی رضا کی جنتوں میں جوا سے ملیں گی.تو یہ ممالک جو ہیں بچوں کو خدا تعالیٰ کی اتنی عظیم اور نہ ختم ہونے والی نعمتوں سے محروم کر رہے ہیں.یہ بھی بچے ہیں دنیا میں.تو شکر کر خدا کا اور احمد پڑھو کہ تم وہ بچے نہیں ہو جن کے دماغوں سے خدا تعالیٰ کا نام مٹایا جارہا ہے بلکہ تم وہ بچے ہو جن کی زندگیوں میں خدا تعالیٰ کی زندہ قدرتوں کے جلوے ظاہر ہوتے ہیں اور تم خود بھی گواہ ہو اس کے اور تمہارے بڑے بھی گواہ ہیں کہ خدا تعالیٰ غیب کی باتیں جانتا ہے.یہ سو سالہ زندگی بھی اگر ہو تو کیا زندگی ہے.اس کے بعد جہنم میں چلا جائے، خدا کی خفگی اور اس کا قہر نازل ہورہا ہو.اور ایک طرف جنتی ہیں جن کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ صرف نیکی ہی کی خواہشیں کریں گے اور ہر خواہش ان کی پوری ہو جائے گی.اس دنیا میں تو کوئی نیک سے نیک آدمی بھی نہیں جس کی ہر خواہش پوری ہو.ہو ہی نہیں سکتی لیکن وہ ایسی زندگی ہے اتنی بڑی

Page 528

525 فرموده ۱۹۷۹ء د و مشعل راه جلد دوم نعمتوں سے ان بچوں کو محروم کیا جارہا ہے جن کے دماغ سے خدا کا نام مٹایا جارہا ہے اور کہتے ہیں ہم بڑا احسان کر رہے ہیں.اپنے دادا کا نام یا درکھنے کیلئے تو نام بتایا جاتا ہے لیکن ہستی باری تعالیٰ کے متعلق یہ کہہ دیا کہ اگر خدا ہے تو خود بخود ہی ان کو پتہ لگ جائے گا.پھر دادا کا نام کیوں یاد کرواتے ہو آپ ہی پتہ لگ جائے گا.تو باپ کا نام کیوں بتاتے ہو گھر والے وہ آپ ہی پتہ لگ جائے گا.خود بخود پتہ نہیں لگا کرتا.جو حقیقتیں ہیں اس دنیا میں ان کا اظہار کیا جاتا ہے، ان کا علم دیا جاتا ہے، پڑھایا جاتا ہے، تب پتہ لگتا ہے.دیکھو یہ بجلی ہے.یہ کتنی بڑی حقیقت ہے.ایک دنیا کو اس نے روشن کیا.اور یہ بجلی آواز بھی دور تک پہنچارہی ہے اور روشنی بھی رات کو کرتی ہے.کتنا فائدہ پہنچایا ہے دنیا کو.اب کوئی پاگل ہی ہوگا جو کہے کہ بجلی تو ہے اس کے اور تحقیق کرنے کی ، اس کا علم دینے کی ، اس کا علم سیکھنے کی کیا ضرورت ہے.بجلی ہے آپ ہی پتہ لگ گا انسان کو.سارے کہیں گے یہ پاگل ہو گیا ہے.اسی طرح جو کہتا ہے کہ خدا کا نام بتانے کی کیا ضرورت ہے بچے کو خود بخودہی پتہ لگ جائے گا وہ بھی سوجھ بوجھ سے کام نہیں لے رہا.اور ایسے ممالک میں بسنے والے بچوں کا مستقبل بھی روشن نہیں.ایسے بچوں کے مقابلہ میں تمہارا مستقبل، اے احمدی بچو! کہیں زیادہ روشن ، خوشحال اور خوشیوں سے معمور ہے.پھر سرمایہ دار ممالک ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ بس کسی مذہب کی طرف منسوب ہو جانا کافی ہے.وہ دین اور مذہب کے حقیقی ثمرات سے محروم ہیں.ان کی ساری کوششیں دنیا کیلئے ہیں، مگر جہاد اور مجاہدہ کی روح سے محروم.اسلام نے بھی بہت زور دیا ہے کوشش اور سعی پر اور فرمایا ہے :- لیس للانسان الا ما سعی مگر خدا کہتا ہے میری نعمتیں دنیوی بھی دینی بھی بے شمار ہیں لیکن جتنی کوشش کرو گے اتنا پاؤ گے.لیس للانسان الا ما سعی مگر ساتھ یہ بھی فرمایا دنیا کیلئے کوشش بھی دین کی خاطر ہونی چاہیے.بہر حال بچے بچے میں بہت فرق ہے.تمہارا مستقبل دنیا کے سارے بچوں سے زیادہ روشن ہے.اس لئے کہ تمہیں خدا نے وعدہ دیا کہ تمہارے ذریعہ سے اسلام غالب آئے گا.جب تم بڑے ہوگے، دین اسلام سیکھو گے، دعائیں کرو گے، زندہ خدا سے تمہارا زندہ تعلق پیدا ہو جائے گا، خدا کی راہ میں تم قربانیاں کرنے والے ہو گے تمہارے دل میں نوع انسانی کا درد ہو گا.جو خدا سے دور ہیں ان کیلئے تمہارے دل تڑپیں گے تمہارے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگی کہ یہ بھی خدا کو پہچانیں اور محمد اللہ کے پیار کے حلقے کے اندر داخل ہو جائیں، تمہارے ذریعہ سے تمہاری تربیت کے بعد اللہ تعالیٰ تمام دنیا میں اسلام کو غالب کرے گا.خدا تعالیٰ کی محبت کو قائم کرے گا، محمد کا جھنڈا ہر دل میں گاڑا جائے گا اور قریہ قریہ میںمحمد محمد نے کی آواز گونجے گی.وہ وقت آنے والا ہے اور اس وجہ سے تمہارا خدا تم سے بے حد پیار کرے گا.اور تمہارا مستقبل یہ ہے.ذمہ داری ہے تمہاری بڑی لیکن اتنے عظیم وعدے ہیں دین و دنیا کی ترقیات کے جب تم ان لوگوں کی خدمت کرو گے اور خدا کے قریب لاؤ گے اور اتنی نعمتیں ان کے سامنے رکھ دو گے خدا تعالی کی تو کتناوہ بدلہ تمہیں دیں گے.پیار کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں تمہارا پیار ہوگا اور پھر کس چاہت اور خوشی سے وہ تمہاری باتوں پر کان دھریں گے اور تمہارے پہلو میں قدم سے قدم ملائے

Page 529

دد مشعل راه دوم فرموده ۱۹۷۹ء 526 قرب الہی کی راہوں پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے.اللہ تعالی تمہیں اطفال احمد یہ یعنی احمدیت کے اطفال کے مقام کو پہچانے کی توفیق عطا کرے اور اس بات کو جانے کی توفیق عطا کرے کہ تم سب سے زیادہ خوش نصیب بچے ہو آج کی دنیا میں.دنیا کا کوئی خطہ کوئی قوم کوئی مذہب، کوئی ازم ایسا نہیں جس کے بچے تم سے زیادہ خوش قسمت ہوں.خدا کرے کہ عملاً بھی تم اسی طرح خوش قسمت بنو جس طرح وعدوں اور بشارتوں کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں خوش قسمت بنادیا ہے.آمین.(روز نامہ الفضل ربوہ ۷ نومبر ۱۹۷۹ء)

Page 530

527 فرموده ۱۹۷۹ء د و مشعل راه جلد دوم دد سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث نے ۲۱ اکتوبر۱۹۷۹ءکوخدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے جو اختتامی خطاب فرمایا تھا اس کا مکمل متن پیش خدمت ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.رَضِيْنَا بِاللهِ رَبًّا.ہما ر رب کریم بڑا ہی دیا لو ہے.آسمانوں اور زمین کو ہمارے لئے اس نے اپنی نعماء سے بھر دیا ہے ہر مادی چیز جس کی ہمیں ضرورت تھی ہماری فطرت کو ہمارے جسموں کو ، ہماری روح کو ، اس کے قرب میں آسمانوں تک پہنچنے کیلئے وہ سب کچھ اس نے ہمارے لئے آسمانوں اور زمین میں مہیا کر دیا اور اس نے ہمیں وہ سب طاقتیں عطا کیں جن کے حسن کا ہر پہلو سے پیارا ہے.اور جس کے ہر پہلو کو حسین بنانا ہمارا کام ہے ہماری ہدایت کے لئیے اس نے اپنے فضل سے رحمتہ للعالمین کو ہمارا ہادی اور رہبر بنا کر بھیجا جو ایک کامل اور مکمل تعلیم لے کر آئے.جس تعلیم نے ہمارے وجود کے درخت کی ہر شاخ کو بار آور کیا اور جس نے ہماری روح کو اللہ کے نور سے منور کیا.اس رہبر سے، اس ہادی سے بھی ہم خوش ہیں.وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا.ہم راضی ہیں محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنہوں نے ہمارے سامنے ایک کامل اور حسین تر اسوہ پیش کیا.اور ہمارے لئے اس بات کو ممکن بنا دیا کہ ہم میں سے ہر ایک شخص اپنی اپنی استعداد کے دائرہ میں انتہائی رفعتوں کو حاصل کر سکے جس نے بنی نوع انسانی سے اس قدر پیار کیا کہ اس کے لئے خدا کے حضور کچھ اس طرح دعائیں مانگیں کہ وہ قبول ہوئیں.اور نوع انسانی کو یہ وعدہ دیا گیا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں سب کے سب انسان خدائے واحد و یگانہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کریں گے جن کے دل خدا تعالیٰ کی حمد سے ہمیشہ معمور رہیں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار جن کے سینوں میں موجزن رہے گا.یہ وعدہ جو دیا گیا تھا اس وعدہ کے پورا ہونے کا زمانہ آ گیا ہے اور خدا تعالیٰ کی تدبیر اور تقدیر حرکت میں ہے.اور دنیا کے گوشے گوشے میں انقلابی تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں.اس انقلاب عظیم نے جماعت احمدیہ کو جو ایک غریب جماعت، جو ایک دھتکاری ہوئی جماعت، جو ایک بے بس جماعت اور سیاست سے جو محروم جماعت ہے.اسے زمین سے اٹھا کر آسمانوں تک پہنچا دیا.اور ہر آن خدا تعالیٰ کے فضل بارش کی طرح نازل ہورہے ہیں.اس کی رحمت کے دوتازہ نمونے یہ ہیں کہ جماعتہائے احمد یہ یورپ اور انگلستان کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ ایک بڑی جائیداد انہوں نے اشاعت اسلام کے لئے ناروے میں خرید لی ہے الحمد للہ اور یہ بھی توفیق انہیں دی کہ چین کے ملک میں جو Catholiaism کا گھر ہے.ایک زمین خریدی گئی ہے اور اس زمین کے متعلق وہاں کی لوکل باڈی نے اور حکومت نے بھی لکھ کر یہ اجازت دی ہے کہ وہاں

Page 531

دد شعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۷۹ء 528 جماعت احمدیہ کا مشن ہاؤس اور خدا کا گھر مسجد بنائی جاسکتی ہے.الحمد للہ اب سوائے دو ایک جگہ کے جہاں کوشش ہو رہی ہے یورپ کے ہر ملک میں خدا کے نام کو بلند کرنے کیلئے اور حمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو پھیلانے کیلئے مشن ہاؤس اور مساجد بن چکی ہیں.یہ جماعت مرنے کے لئے نہیں زندہ کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے ہم اپنے رب کریم کا شکر ادا کر سکیں.دنیا نے کہا تھا کہ ہم اس جماعت کو اپنے پاؤں تلے روند دیں گے.خدا کے فعل نے ثابت کیا کہ یہ جماعت مرنے کیلئے نہیں زندہ کرنے کیلئے قائم کی گئی ہے.قرآن کریم کے تراجم اور قرآن کریم کی تفسیر کے کثرت سے شائع کرنے کا انتظام ہورہا ہے.اس منصوبہ کی ابتداء ہو چکی ہے کہ امریکہ میں ایک ملین ( دس لاکھ ) قرآن کریم کے مترجم نسخے شائع کئے جائیں.تجربہ ایک ایک بڑے چھاپہ خانے نے ہیں ہزار نسخے طبع کرنے شروع کئے ہیں اور امید ہے کہ نومبر کے مہینے میں یہ ۲۰ ہزار نسخے وہ طبع کر کے ہمیں دے دیں گے.اس کے چند صفحات نمونہ کے طور پر ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں.طباعت کا معیار بہت اچھا ہے اور بڑے سستے داموں وہ اسے طبع کر رہے ہیں.یہ ۲ ہزار نسخے سارے امریکہ میں پھیلا کے مزید آرڈر لئے جائیں گے وہاں تھوک فروش ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہمیں کئی لاکھ نسخے دے دو لیکن وہ نمونہ مانگتے تھے.نمونہ تیار ہوگیا اور روک دور ہوگئی.راہ ہموار ہوگئی اور خدا تعالی کے فضل پر ہم امید رکھتے ہیں کہ اگلے چند سالوں کے اندر لاکھوں کی تعداد میں قرآن کریم امریکہ کے ملک میں تقسیم ہو جائے گا.اسی طرح سوئٹزرلینڈ اور جرمنی میں دو جگہ تقاریر (مذاکرہ) کا انتظام کیا گیا.جس میں ان ممالک کے حالات کے لحاظ سے کثرت سے لوگ شامل ہوئے اور اسلام کی تعلیم سننے کی طرف عوام کو توجہ پیدا ہورہی ہے اور ان کے عوام کو اسلام کی تعلیم سنانے کے لئے ہمیں تیاری کرنی چاہیئے جس کے لئے ہمیں مذہبی تعلیم یافتہ نو جوانوں کی ضرورت ہے.اس کے لئے جامعہ احمدیہ میں پڑھنا ضروری نہیں.ہر احمدی جوان کو زیادہ سے زیادہ توجہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کرنا چاہئے.انگریزی دان طبقہ کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کا انگریزی ترجمہ نہایت اچھی شکل میں بلند پایہ طباعت اور عمدہ کاغذ پر کتابی شکل میں شائع ہونا شروع ہو گیا ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جسے پڑھ کر ہر پڑھنے والا اسلام کے حسن اور اسلام کے دلائل کی جو تاثیر ہے اس کا قائل ہو جاتا ہے.پس ہمیں خود بھی پڑھنا چاہئے اور اپنے واقفوں کو بھی پڑھانا چاہئے.خصوصاً غیر مسلم واقفین کو ، واقف کار دوستوں کو.یہ جو بارش ہورہی ہے رحمت کی تم میں سے کوئی شخص یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس کے قطروں کو تم گن سکتے ہو.مگر خدا کے فضلوں کی ہم پر جو بارش ہورہی ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہیں.

Page 532

529 فرموده ۱۹۷۹ء د و مشعل راه جلد دوم دو پس آج میرا یہ پیغام ہے جماعت کے بڑوں اور چھوٹوں کی طرف کہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے حمد وثناء کے ترانے گاتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جاؤ.خدا کے فرشتے تمہارے ساتھ ہونگے.خدا کے فرشتے آسمانوں سے تمہاری مدد کو اتریں گے اور تم اپنی زندگی کا مقصد اپنی زندگیوں ہی میں پورا ہوتے دیکھ لو گے.انشاء الله ( بحوالہ ماہنامہ خالد صفحه ۲۵ تا ۲۸ نومبر، دسمبر ۱۹۷۹ء)

Page 533

ود مشعل راه جلد دوم را فرموده ۱۹۷۹ء 530 محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم.اے سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اعزاز میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے مورخہ ۷ نومبر ۱۹۷۹ء بعد نماز ظہر ایوان مو در بوہ میں ایک الوداعی تقریب منعقد کی گئی اس موقع پر سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر خطاب فرمایا.جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کے بعد حضور نے فرمایا :- الوداعی اور استقبالیہ تقریبات ایک رنگ تو یہ رکھتی ہیں کہ بس ایک روایت چلی آرہی ہے ایسی تقریبات کے پیچھے جب زندہ جماعتیں ایسی تقریبات منائیں.ایک زندہ حقیقت ہوتی ہے اور زندہ حقیقت یہ ہے جو ایک شاعر نے کہا ہے کہ : - اذا سي قوول ــــــــــا قَالَ الْكِرَامُ فَعُول کہ جب ہمارا ایک سردار اپنی جگہ چھوڑتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا سردار لیتا ہے اور آنے والا بھی اپنی زبان سے شرافت کا اظہار کرنے والا اور اپنے بلند کردار کی غمازی کرنے والا ہوتا ہے.اور اس کے اعمال بھی ایسے ہوتے ہیں جو میرے الفاظ میں اسلام کے نزدیک ایک بزرگ مسلمان کے ہونے چاہئیں اور یہ زندگی کی علامت ہے.زمانہ حرکت میں ہے انسانوں کی تاریخ حرکت میں ہے.زندگی کے ساتھ قول اور فعل ہر دو لگے ہوئے ہیں.نیکی کی باتیں کرنا نیکی کی باتیں سننا اور ایسے اعمال بجالانا جود نیا میں امن اور آشتی پیدا کرنے والے ہوں ، جو بنی نوع انسان کو محبت اور پیار کے رشتے میں باندھنے والے ہوں، جو دنیا کی ظلمات دور کر کے نور کے پھیلانے والے ہوں.جس رنگ میں بھی جس مقام پر بھی جس ذمہ داری کے عہدہ پر بھی جس حیثیت میں بھی کوئی شخص ہے وہ ساری عمر ہی اپنی ذمہ داریوں کو نباہتا اور کچھ (کنٹری بیوٹ )Contribute کرتا ہے یعنی انسانیت کی فلاح اور بہبود کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے اور ایک مجاہدہ میں جہاد کرتے ہوئے نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ اس حقیقت پر جماعت احمدیہ کو قائم رکھے.حرکت کئی قسم کی ہے.ایک حرکت یہ کہ بچہ پیدا ہوتا ہے.پھر بڑا ہوتا ہے.پھر اطفال میں شامل ہوتا ہے پھر خدام الاحمدیہ میں آتا ہے پھر انصار اللہ میں جاتا ہے.جب بلوغت کو پہنچتا ہے ذمہ داریاں اس کی بڑھ جاتی ہیں.بلوغت سے پہلے (عمل کے لحاظ سے بلوغت ہے ) اس کی ذمہ داری ہے کہ بالغ ہونے کے بعد جو ذمہ داری پڑے گی اس کے لئے تیاری کرے.ایک تو یہ حرکت ہے.ایک دوسری حرکت ہے نوع انسان کی.ایک نسل کے بعد دوسری نسل.دوسری نسل کے بعد تیسری نسل.یہ حرکت بھی جاری ہے کیونکہ اس دنیا میں

Page 534

531 فرموده ۱۹۷۹ء د و مشعل راه جلد دوم دد جتنی اہمیت مادہ کو ہے اتنی ہی اہمیت زمانہ کو بھی ہے اور آج کا یہ زمانہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے.اور بڑے لمبے صے پر پھیلا ہوا ہے قریباً ایک صدی ختم ہونے کو ہے اور جماعت احمد یہ اپنی زندگی کی نئی صدی میں اور نوع انسانی عظیم انقلابوں کی جو بنیاد رکھی گئی ہے.اس کی نئی صدی میں داخل ہونے والی ہے اور نسلاً بعد نسل جماعت احمدیہ کو اپنی ذمہ داریاں سمجھ کے ان کی ادائیگی کی کوشش کرتے چلے جانا ہے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے اس کے فضل اور اس کی رحمت کو جذب کرتے ہوئے شاہراہ غلبہ اسلام میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جانا ہے.میں بڑی دیر سے کہہ رہا ہوں کہ جو میں نے اندازے کئے ہیں میرے نزدیک ہماری زندگی کی دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ابھی تین صدیاں ختم نہیں ہوں گی کہ میری بعثت کا مقصد پورا ہو جائے گا اور بہت بھاری اکثریت نوع انسانی کی خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلال اور رسالت کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں جو قرآن کریم کی تفسیر ہیں نیز قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں میرا یہ عقیدہ ہے.میرا یہ اندازہ ہے کہ دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے.اور اسی کے لئے یہ سارا کام ہو رہا ہے.سارے انقلابات بپا ہورہے ہیں.جماعت احمدیہ کا یہی کام ہے تو خدا تعالیٰ کا یہی منشا ہے اور جو زندگی خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق نہیں گذرتی ، وہ ہلاکت کی زندگی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے اور اپنی منشاء کے مطابق ہمیں زندہ رہنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا کرے.دعا کر لیں.(ماہنامہ خالد صفحه ۲۹ تا ۳۱ نومبر دسمبر ۱۹۷۹ء)

Page 535

ود مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۰ء 532 سید نا حضرت خلیفہ اصبح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع ے نومبر ۱۹۸۰ء میں جو خطاب فرمایا تھا اس کا مکمل متن پیش خدمت ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ہم اللہ کے فضل سے چودہویں صدی کو الوداع کہہ رہے ہیں اور پندرہویں صدی کا استقبال کر رہے ہیں کیوں؟ اس کا کوئی جواب ہونا چاہیئے کوئی غرض اور مقصد ہونا چاہیئے کہ کیوں ہم چودہویں صدی کو الوداع کہنے کے لئے اس قدر تقریبات کر رہے ہیں، پروگرام بنا رہے ہیں اور اسی طرح پندرہویں صدی کے استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں، کس غرض سے کر رہے ہیں ہم.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے ہم پر فرض تھا کہ ہم ایسا کرتے.چودہویں صدی میں چودہویں صدی نے کیا پایا اور چودہویں صدی میں اسلام کو کیا ملا ؟ اس وقت جو گفتگو میں آپ سے کروں گا اگر اس کا کوئی عنوان رکھا جا سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ چودہویں صدی میں چودہویں صدی نے کیا پایا اور چودہویں صدی میں اسلام کو کیا ملا؟ چودہویں صدی جو ہے اس کے دو رخ ہیں.ایک بڑا تکلیف دہ بڑا بھیا نک اور دوسرا بڑا ہی عظیم برکتوں والا.اس زمانے پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ قصہ یوں ہے کہ چودہویں صدی شروع ہونے سے معاقبل عیسائیت بڑے زوروں پر تھی اور ان کے دماغ بہت اونچے ہو چکے تھے.ہندوستان میں ایک پادری عمادالدین تھے وہ ایک بہت بڑے مسلمان عالم تھے.پھر عیسائی ہو گئے اور پادری بنے اور انہوں نے ایک مضمون لکھا جو ہندوستان سے باہر کسی جگہ کسی جلسے میں پڑھنا تھا انہوں نے خود نہیں جا سکے لیکن وہاں وہ مضمون پڑھا گیا اور ہمارے پاس یہاں موجود ہے لائبریری میں.یہ تیرھویں صدی کے آخر کی بات تیزی کے ساتھ عیسائیت بڑھ رہی ہے کہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ اگر ہندوستان میں رہنے والے کسی شخص کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مرنے سے پہلے کسی مسلمان کا منہ تو دیکھ لے تو اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوگی یعنی سارے ہندوستان میں ایک بھی مسلمان نہیں رہے گا.یہ ان کے اندازے تھے.اندازے اس وجہ سے تھے کہ عیسائی حکومتیں بڑی طاقتور تھیں، بڑی مالدار تھیں اور ان کے ساتھ چمٹا ہوا چرچ جو تھا وہ بھی مالدار تھا اور ایکٹیو (Active) تھا اور ایک صاحب اقتدار حکومت کے زیر پرستی وہ کام کر رہا تھا اور کپڑے دینے کے لئے ان کے پاس ذرائع موجود تھے ، دودھ بانٹنے کے لئے ، گندم تقسیم کرنے کے لئے ،

Page 536

533 فرموده ۱۹۸۰ء د و مشعل راه جلد دوم دد طالبعلموں کو وظائف دینے کے لئے سامان تھے اور ہر طرف برٹش ایمپائر کا اونچا نام تھا اور پادری کے ہاتھ میں خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا تھا اور وہ اسے بڑے جوش وخروش سے لہرا رہے تھے.اسی زمانہ میں اس حد تک پہنچے کہ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ زمانہ عنقریب آنے والا ہے جب مکہ پر خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا لہرائے گا.اور جھوٹی خوشیوں سے معمور، فخر سے گردنیں تانے ہوئے ، بڑے جوش کے ساتھ بڑھتے ہوئے وہ چودہویں صدی میں جب داخل ہوئے تو ان کے سامنے محمد ﷺ جو خدا تعالیٰ کے ایک زبر دست جلالی جرنیل تھے ان کا ایک شاگرد اور روحانی فرزند کھڑا تھا جس نے کہا بس آگے نہیں بڑھنا ( نعرے) یہ دیکھا چودہویں صدی نے اپنی ابتدا میں.چودہویں صدی اور اسلام کا عروج و زوال.الله پھر چودہویں صدی نے جہاں ذلتیں دیکھیں اسلام کی جہاں تنزل دیکھا اسلام کا ( ہماری اپنی غلطیاں تھیں کوتا ہیاں تھیں وہ بھی ہم نے دیکھنا تھا) وہاں نبی اکرم ﷺ کی تیرہ صد سالہ پہلے کی عظیم پیشگوئیاں پوری ہوتے دیکھیں ایک نہیں دو نہیں بلکہ یہ زمانہ ان عظمتوں سے بھر پور دیکھا.اس صدی نے اسلام کا ضعف بھی دیکھا.اس صدی نے اسلام کی عظمت اور جلال بھی دیکھا.اس صدی نے اذا الشمس كورت (التکویر:۲) محمد ﷺ جوحقیقی سورج تھے اس عالمین کے ( یہ ہمارا سورج تو اس کے مقابلے میں کچھ چیز نہیں ہے ) ان کے اوپر غفلتوں کا اور عدم شناخت کا پردہ بھی دیکھا اوراس محمد اللہ کی عظمتوں کے نشان بھی دیکھے (نعرے).واذا النجوم انکدرت (التکویر: ۳) اس صدی نے ان کو جن کے ذمے یہ سمجھا جاتا تھا کہ دین کو زندہ رکھنا ہے اور سنت نبوی کو قائم رکھنا ہے ان کو اس طرح آسمان رفعت اسلام سے گرتے دیکھا جس طرح بعض راتوں میں آپ تارے ٹوٹتے دیکھتے ہیں.اور اسی زمانہ میں اسلام کے علم کلام میں وہ رفعت اور بلندی اور عظمت پیدا ہوئی محمد اللہ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں کہ مثلاً کیتھولزم (Catholicisom) کیتھولیک جو فرقہ ہے یہ عیسائیوں میں سب سے مضبوط ، سب سے امیر، سب سے پھیلا ہوا، سب سے منتظم سب سے طاقتور ہے اور سمجھتا ہے کہ ہم بڑے فہیم ، بڑے زور آور ہیں، انہیں اپنے ماننے والوں کو یہ ہدایت دینی پڑی کہ نہ کسی احمدی سے تم نے بات کرنی ہے نہ ان سے کوئی رسالہ وغیرہ لے کر پڑھنا ہے.(نعرے) جہاں مغرور کو بلندی سے گرتے پایا، وہاں ایک طفل احمدیت کو رفعتیں حاصل کرتے ہوئے دیکھا.ہمارا ایک بچہ مشرقی افریقہ میں تھا اس کی زندگی میں برکت ڈالے.بچپن سے ہی اسے شوق تھا تبلیغ کا اور اتوار کو وہ چھوٹے چھوٹے رسالے لے کے سڑک کی پیومنٹ (Pavement) پر کھڑا ہو جاتا اور جس شخص کے متعلق اندازہ لگا تا کہ یہ پڑھنا لکھنا جانتا ہے اس کے ہاتھ میں کوئی رسالہ دے دیتا.ایک دن اس نے دیکھا کہ امیرانہ لباس پہنے ایک افریقین پاس سے گزر رہا ہے.اس نے اس کے ہاتھ میں رسالہ دیا.اس نے بڑی خوشی سے اس کو لیا اور چلتے ہوئے اس کو کھول کے پڑھنا بھی شروع کیا.چند قدم آگے جانے کے بعد واپس آیا اور کہا یہ لو

Page 537

دومشعل تل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۰ء 534 پکڑو اپنا رسالہ اس نے کہا کیوں کیا ہو گیا ہے اسے، ابھی تو آپ نے بڑے شوق سے لیا تھا.اس نے کہا تم احمدی ہو؟ اس نے کہا ہاں، میں احمدی ہوں.کہنے لگا ہمارے پر یسٹ (Priest) نے ہمیں کہا ہے کہ کسی احمدی سے کوئی صلى الله کتاب لے کے نہیں پڑھنی.اس زمانہ میں نبی اکرم ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق و اذا الصحفُ نُشرت (التکویرنا) کے جلوے دیکھے.جو پہلی صدیاں تھیں چودہویں صدی سے پہلے وہ جہالت کی صدیاں تھیں.کچھ ابھر رہا تھا علم لیکن اس طرح نہیں جو چودہویں صدی میں ابھرا.حقیقت یہ ہے کہ سپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد یورپ کو علمی میدان میں بڑا دھکا لگا کیونکہ سپین کے مسلمان علمی میدان میں ان کے قائد اور استاد تھے اور اس کے نتیجہ میں ایک زمانہ آیا جب ایک طرف مسلمان علم سے غافل ہو گیا اور دوسرے طرف عیسائیوں کا وہ منبع جہاں سے وہ علم سیکھتے تھے خشک ہو گیا یعنی انہوں نے اپنے استاد کو خو قتل کر دیا، بھگا دیا، ماردیا، گھر سے بے گھر کر دیا، وہ درسگا ہی نہیں رہیں جہاں سے اپنی علمی پیاس بجھایا کرتے تھے.یہ پیش گوئی نبی اکرم ﷺ کی کہ واذا الصحف نُشِرَتْ (التکویر: ۱۱).یہ پیشگوئی دو پہلو رکھتی ہے عام طور پر ایک پہلو پر زور دیا جاتا ہے وہ بڑا اہم ہے ایک نقطہ نگاہ سے لیکن دوسرا بھی کم اہم نہیں ایک یہ ہے کہ اس زمانہ میں جو اسلام کی اصطلاح میں آخری زمانہ ہے اس زمانہ میں کثرت سے طباعت کا، مطبع خانوں کا انتظام ہو جائے گا اور جہاں پہلے خال خال کہیں کوئی کتاب مالتی تھی بڑی کثرت سے کتابیں لوگوں کو ملنے لگ جائیں گی دوسرا پہلو یہ ہے کہ ( بلکہ مجھے یوں کہنا چاہیئے کہ اس کے تین پہلو ہیں) دوسرا پہلو یہ ہے کہ لوگ جو علم کی طرف سے توجہ چھوڑ بیٹھیں گے چودہویں صدی میں پھر علم کی طرف انسان توجہ کرنے لگے گا اور یہ اس لئے پیش گوئی تھی کہ اصل علم تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کی طرف لے جانے والا ہے.یہ سارا انتظام اس لئے کیا جارہا تھا کہ جب مہدی علیہ السلام خالص اسلام دنیا کے سامنے رکھیں نبی اکرم ﷺ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ، تو ایسے سامان بھی موجود ہوں جو دنیا کے ہر کونے میں آپ کے کلام کو پہنچا سکیں.اور تیسرا پہلو اس پیشگوئی کا یہ ہے کہ تحقیق کے میدان میں انسان کی کاوش پھر شدت اختیار کرے گی یعنی تحقیق شروع ہو جائے گی.اب دیکھو تحقیق کے میدانوں میں انسان کی سعی اور جد و جہد اپنے عروج کو پہنچی ہے چودھویں صدی میں اور مطبع خانہ بھی چھاپنے کا جو علم ہے وہ بھی اپنے عروج کو پہنچا چودہویں صدی میں مثلاً کمپیوٹر (Computer) کے ذریعہ کمپوز (Compose) کرنا.ہمارے نائیجیریا مشن نے قریباً پندرہ ہزار پونڈ کا ایک کمپیوٹر ایسا لیا ہے جو کمپوز کرتا ہے انگریزی کے حروف کو اور عربی اور اردو بھی اس پہ ہوسکتی ہے اگر آپ وہ حصے بھی منگوالیں.تو اتنا آسان ہے اتنی خوبصورت وہ لکھائی ہے.تو کمپیوٹر تو ہے ہی دوسری جنگ عظیم کے بعد کی ایجاد جس کا مطلب ہے کہ چودہویں صدی جب قریباً تیسرے کوارٹر میں داخل ہو چکی تھی یعنی پچاس اور پچھتر سال کے اندر یہ ایجادیں ہوئیں.

Page 538

535 فرموده۰ ۱۹۸ء د و مشعل راه جلد دوم دو تحصیل علم کی اہمیت اسی طرح عظیم پیشگوئی ہے بہت عظیم یعنی چودہ سو سال پہلے یا چودہویں صدی کے شروع سے بات کریں تو تیرہ سو سال پہلے حال یہ تھا کہ مدینہ میں مسلمان قرآن کے عاشق ، ان کو چھپا ہوا قرآن کریم نہیں ملتا تھا.بڑی مشکل میں تھے.اس واسطے جب ایران نے چھیڑ چھاڑ کی اور غیر ملکوں کے ساتھ جنگ ہوئی تو بعض قیدیوں کو اس شرط پر جلد چھوڑنے کا وعدہ دے دیا گیا کہ وہ مسلمان بچوں کو لکھنا سکھا دیں گے.اتنی اہمیت دی گئی تحصیل علم کو.ن والقلم وما يسطرون (القلم:۲) پہلے تو صرف ہاتھ ہی سے لکھا جاتا تھا مگر قرآن عظیم کا مسلمان کے دل میں اتنا پیار پیدا کر دیا گیا کہ ہندوستان کے بعض بادشاہ ایسے گزرے ہیں جو بادشاہت کے ساتھ قرآن کریم کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے بڑے خوبصورت خط کیساتھ اور پیسہ تھا ان کے پاس سنہری روشنائی سے لکھتے تھے.بہر حال بڑا پیار تھا ان کو.ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے میرے پاس بھی پڑے ہیں کچھ.قرآن کریم ہاتھ سے لکھ رہے ہیں کوئی نسخہ چار سال میں لکھا گیا.کسی پر کم وقت خرج آیا.کجا وہ دن اور اب قرآن کریم کی اشاعت کا زمانہ آیا تو اب یہ حال ہے کہ امریکہ میں جب ہم نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ شائع کرنا چاہا تو جس فرم کے ساتھ بات ہورہی تھی اس سے سب باتیں طے ہوگئیں تو میرا خیال ہے کہ انہوں نے دو ہفتے یا تین ہفتے میں ہیں ہزار قرآن کریم کے نسخے ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیئے.یعنی اتناترقی کر گیا ہے زمانہ.اور جو خدا تعالیٰ نے میرے دماغ میں ڈالا تھا کہ ملنیز (Millions) کی تعداد میں (ملین کہتے ہیں دس لاکھ کو ) قرآن کریم کے تراجم دنیا میں پھیلائے جائیں اس وقت سوچتے تھے کہ کس طرح چھپیں گے اتنے اور اب اس تجربے نے بتادیا کہ انسان چودہویں صدی میں اس مقام تک واذا الصحف نشرت (التکویر:1) کی پیشگوئی کے مطابق پہنچ چکا ہے کہ وہ قرآن کریم کی اس قسم کی خدمت بجالائے ، بجالا سکے.بیسیوں پیش گوئیاں ہیں بڑی عظمتوں والی.کہا گیا تھا واذا الوحوش حشرت (التکویر : 1) وحشی قوموں کو متمدن بنایا جائے گا چودہویں صدی میں.وہ وحشی قومیں افریقہ کی جن پر اس سے قبل ظلم ہورہا تھا امریکن ان کو غلام بنا کے لے گیا اور وہ غلام جو ہیں آج وہ متمدن ہو کے سب سے زیادہ عزت والے مقام پر نظر آتے ہیں.واشنگٹن کا مئیر ہے مثلاً اور وہ آج کل افریقہ سے جو آئے ہوئے تھے غلام ان کی نسل سے ہے واذا الوحوش حشرت (التکویرآیت:۲) وحشیوں کو متمدن بنا دیا جائے گا.وحشی کو پڑھا لکھا کر مہذب بنادیا گیا.اگر وہ وحشی رہتے تو ان کو اسلام سکھا نا زیادہ مشکل ہوتا بجائے اس کے اب وہ متمدن ہیں اور سمجھدار ہیں اور پڑھے لکھے ہیں اور دل رکھتے اور ہمت والے ہیں اور ان کو اسلام سکھانا اب مشکل نہیں رہا.اب یہ حال ہے وہاں کئی ہزار احمدی ہو چکا ہے.چودہویں صدی میں اور سینکڑوں عورتیں وہاں کی برقع پہن کے نقاب اوڑھ کے سارے کام کر رہی ہیں.اپنے کام میں حرج نہیں ہونے دیا.ان کو سمجھایا گیا تھا کہ اسلامی تعلیم کام میں حارج نہیں.برقع نہیں کام میں حارج.۷۶ء میں گیا تو ایک بڑی سادہ سی احمدی بہن کہنے لگی کہ میں فلاں تاریخ کو پریذیڈنٹ سے مل کر اس کے

Page 539

د فرموده ۱۹۸۰ء 536 مشعل راه جلد دوم ہاتھ میں قرآن کریم کا ترجمہ دے کے آئی ہوں.اتنا پیار ان کو ہو گیا ہے قرآن کریم سے کہ جو ایک دو تین سال پرانے خاندان ہیں احمدیت میں جو پانچ جلدوں کی ہماری تفسیر ہے انگریزی کی وہ ساری کی ساری انہوں نے پڑھی ہوئی ہے.بعض دفعہ رات کو کوئی آیت سمجھ نہ آئے تو مبلغ کو فون کر دیتے ہیں کہ اس آیت کی یہ تفسیر کی گئی ہے.مجھے سمجھ نہیں آ رہی سمجھاؤ مجھے مبلغ کو بھی ہر چیز ہر وقت یاد تو نہیں رہتی.اس کو مشکل پڑ جاتی ہے پھر وہ سمجھاتا ہے.بعض دفعہ دو دو گھنٹے بات کرتے رہتے ہیں.وہاں ٹیلیفون کا سسٹم یہ ہے کہ اتنی دیر چاہیں آپ فون کرتے ر ہیں آپ کو کوئی ٹوکنے والا نہیں صرف بل وصول کر لیتے ہیں.وہ کوئی پر اوہ نہیں کرتے دو گھنٹے کا بل دے دیں گے.دین سیکھتے جائیں گے.تو واذا الصحف نشرت (التکویر: ۱۱) معمولی اعلان نہیں.بیسیوں زبر دست پیشگوئیاں ہیں خدا کے کلام میں جن کے متعلق مفسر کہتے ہیں کہ یہ ساری باتیں آخری زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں.آج کل کی متمدن دنیا نے جو عجیب و غریب ایجادات کی ہیں ان سب کا ذکر قرآن کریم نے یہ کہہ کے کیا کہ یہ اسلام کی خاطر ہو گا، آخری زمانہ میں برکات اسلام پھیلانے کے لئے یہ ساری چیزیں ہوں گی ایسی ایسی سواریاں نکل آئیں گی.ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایسی سواری ہوگی جس کے پیٹ میں روشنی ہوگی.کسی زمانہ میں پادری مذاق بھی اڑاتا رہا اور آج اسلام ان کا مذاق اڑاتا ہے.خاموشی کے ساتھ.ہوائی جہاز پیٹ میں روشنی ، ریل پیٹ میں روشنی.بعض نادان سمجھتے تھے کہ کوئی گدھا ایسا بن جائے گا جس کے پیٹ میں روشنی ہوگی او ران کو بیچ میں بٹھا دیا جائے گا.پیٹ کے.اب سمندری جہاز ، ہوائی جہاز، ریل، موٹر ، موٹر کے اندر بھی سوچ (Switch ) لگا ہوا ہوتا ہے.ضرورت پڑے آپ روشنی کر لیتے ہیں اندر لیکن ہوائی جہاز کے اندر تو اتنی روشنی ہوتی ہے جیسے دن چڑھا ہو.اسی طرح ریل کا حال ہے.ہمارے ملک کی نہیں پتہ نہیں یہاں تو فیوز ہو جاتے ہونگے وہاں بھی لیکن امریکہ وغیرہ Conetinent ( کانٹینینٹ ) وغیرہ اتنی روشن ہوتی ہے آپ آرام سے پڑھ سکتے ہیں.تو یہ پیشگوئی یہی تھیں ناں کہ میں کہتا ہوں یہ بتا رہی تھی کہ مہدی کے زمانہ میں اسلام کے متعلق جو شخص علم حاصل کرنا چاہتا ہے جب وہ ریل میں سفر کر رہا ہو گا اس کا وقت ضائع نہیں ہوگا.وہاں بھی وہ اسلام کے متعلق نبی اکرم ﷺ کی سوانح کے متعلق کتب آسانی سے پڑھ سکے گا ورنہ تو مسافر کا وقت ضائع ہو جائے.دریاؤں کے پھاڑنے کی پیشگوئی نیز زمین و آسمان کے متعلق پیش گوئیاں ہیں.اس چودہویں صدی صلى الله میں محمد ﷺ کی عظمت کو ہر آن محسوس کیا ( نعرے) چاند سورج گرہن کا نشان پھر چودہویں صدی نے محمد یا اللہ کی عظمت کو اس طرح ظاہر کیا کہ آپ کی پیشگوئی کے مطابق مقررہ دن اور رات میں چاند اور سورج کو گرہن لگا نہ ایک دفعہ بلکہ دو دفعہ یکے بعد دیگرے پہلے ایک سال میں ایک خطہ ارض پر اور دوسرے سال میں دوسرے خطہ ارض پر.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس پیشگوئی کے متعلق فرماتے

Page 540

ہیں.537 فرموده۰ ۱۹۸ ء دد د و مشعل راه جلد دوم صحیح دارقطنی میں یہ ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں ان لمهدينا ايتين لم تـكـونــا مـنذ خلق السموت والارض ينكسف القمر لاول ليلة من رمضان وتنكسف الشمس في النصف منه (دار قطنی جلد اول صفحہ ۱۸۸) یعنی ہماری پیارے مہدی کے لئے ( بڑا ہی پیارا یہ فقرہ ہے ساڈا مہدی، ہمارے مہدی کے لئے ) دو نشان ہیں اور جب سے کہ زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا.یہ دونشان کسی اور مامور اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے.ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینے میں چاند کا گرہن اس کی اول رات میں ہوگا یعنی تیرہویں تاریخ میں اور سورج کا گرہن اس کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں ہوگا یعنی اسی رمضان کے مہینے کی اٹھائیس ۲۸ تاریخ کو اور ایسا واقعہ ابتدائے دنیا سے کسی رسول یا نبی کے وقت میں کبھی ظہور میں نہیں آیا.صرف مہدی معہود کے وقت اس کا ہونا مقدر ہے.اب تمام انگریزی اور اردو اخبار اور جملہ ماہرین ہیت اس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانہ میں ہی جس کو عرصہ قریباً بارہ سال کا گزر چکا ہے اسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا.(حقیقۃ الوحی صفحه ۱۹۴-۱۹۵) اور اس کی تاریخیں یہ ہیں.پہلی بار چاند کا گرہن ۲۱ مارچ ۱۸۹۴ ء اور سورج کا گرہن ۶ اپریل ۱۸۹۴ ء اسی رمضان میں اور دوسری بار امریکہ میں دیکھا گیا.چاند کا گرہن 11 مارچ ۱۸۹۵ء اور سورج کا گرہن ۲۶ مارچ ۱۸۹۵ ء یعنی دونوں دفعہ رمضان کے مہینہ میں یکے بعد دیگرے دوسالوں میں انہیں تاریخوں میں یہ نشان ظاہر ہوا اور میتین“ دونشان کر کے جو بتایا گیا تھا وہ ظاہر ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ جو فقرہ ہے نا کہ لم تكونا منذ خلق السموت والارض اس کے معنی ہیں کہ ہمیں انسانی تاریخ میں کوئی ایسا مامور یا کوئی ایسا مدعی مہدویت نہیں ملتا کہ جس نے یہ کہا ہو کہ میری سچائی کے ثبوت پر یہ نشان ظاہر ہوا.اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ تاریخ میں یہ بھی کہیں نہیں ملتا کہ کسی نے یہ کہا ہو کہ میری سچائی کے لئے یہ نشان ظاہر ہوگا.ایک یونیک (Unique) ایک ایسالا ثانی نشان ہے اور ایساز بر دست کہ جس کی مثال نہ انسانی تاریخ میں ہے نہ انسانی عقل ایسی تجویز کر سکتی ہے.نہ انسانی ہاتھ اور نہ انسان کی سائنس ایسا کر دکھا سکتی ہے.کس کی طاقت ہے کہ وہ چاند اور سورج پر حکومت کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے لئے آپ کے زمانہ میں یہ نشان ظاہر ہوئے اور اس سے ثابت ہوا محمد ا کی ایک عظیم انسان تھے (نعرے) جنہوں نے قریباً تیرہ سو سال پہلے ایسی پیشگوئی کی اور عظیم تھا وہ انسان محمد کا محبوب جسے محمد ہو نے سلام بھیجا

Page 541

د دمشعل راه باراه جلد دوم فرموده ۱۹۸۰ء 538 صرف اُس ایک کو امت محمدیہ میں سے، جس کی خاطر خدا تعالیٰ نے چاند اور سورج کو گرہن لگا کے بہت سی باتیں انسان کو سکھائیں اگر وہ سمجھنا چاہے (نعرے) جہاں چودہویں صدی نے محمد اللہ کی عظمتوں کے ثبوت کے لئے چاند اور سورج کو گرہن ہوتے دیکھا وہاں چودہویں صدی نے محمد اللہ کی عظمتوں کو دلوں میں گاڑنے کے لئے مہدی کو اپنے اندر پایا ( نعرے) محمد کے محبوب مہدی آگئے.یہ چودہویں صدی نے نشان دیکھا.عظیم عظمتوں والی ہے یہ صدی (ایک دوست نے چودہویں صدی زندہ باد کا نعرہ لگایا تو اس پر حضور نے فرمایا ) چودہویں صدی واقعہ میں زندہ ہے.اس معنی میں کہ جس زندگی کی بنیاد اس صدی میں رکھی گئی ہے وہ حیات، وہ زندگی قیامت تک قائم رہے گی (نعرے) ہمیں چودہویں صدی نے مہدی دیا.ہمیں چودہویں صدی نے مہدی کے ذریعے محمد یا اللہ کی قوت قدسیہ کے نتیجے میں ایک زندہ خدا کے ساتھ ایک زندہ رشتہ عطا کیا نعرے) ہمیں چودہویں صدی میں محمد کے محبوب مہدی نے محمد کی محبت عطا کی (نعرے) اور یہ محبت ہمارے دلوں میں کچھ اس طرح گاڑ دی گئی کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمارے دلوں سے محمد ہے کے لئے اس محبت کو نکال کے باہر نہیں پھینک سکتی (نعرے) ہمیں، ہمیں، ہمیں محمد اللہ کے محبوب مہدی نے وہ قرآن پھر دوبارہ دیا جو دوسروں نے کپڑوں میں لپیٹ کے طاق نسیاں پر رکھا ہوا تھا (نعرے) اور ہمیں یہ علم عطا کیا کہ ہر آنے والی نسل نئے مسائل لے کر دنیا میں پیدا ہوتی ہے اور دنیا میں ایک ہی کتاب ہے قرآن عظیم جو ہر آنے والی نسل کے سب تازہ مسائل کو حل کرنے کی طاقت رکھتی ہے.(نعرے) ہمیں مہدی علیہ السلام نے اسلام کے لئے ایک زندہ جوش عطا کیا کہ ہم اس کی خاطر اور خدا اور محمد میں لے کے نام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے دنیا کے کونے کونے میں جائیں اور نوع انسانی کے دل محبت اور پیار کے ساتھ اور اللہ کے نور اور محمد کے حسن کے ساتھ جیتیں اور انہیں ایک جھنڈے تلے جمع کرنے کی کوشش کریں (نعرے) بڑا ہی.بڑا ہی عظیم ہے ہمارا اللہ جو کائنات کی ہر شے کا نور اور ہر شے کی زندگی کا سرچشمہ ہے ، بڑا پیار کرنے والا، بڑا خیال رکھنے والا ، معاف کرنے والا، رفعتیں عطا کرنے والا، تکالیف دور کرنے والا، دعاؤں کو سننے والا ، رحمت کے سامان پیدا کرنے والا، جو انہونی چیز ہے اُسے بنا دینے والا ، جو وعدے ہیں وہ ہماری زندگیوں میں پورے کرنے والا ہے اور بڑا ہی عظیم ہے اور بڑا ہی عظیم ہے انسانوں میں محمد ہے جس کے لئے، جس کے طفیل اس کا ئنات کو پیدا کیا، جس کی روحانی قوت ، جس کی قوت قدسیہ ہر جگہ پھیلی نظر آتی ہے ہمیں، جس کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں ہمیں وہ ملا جسے ہم نے محمد کے قدموں میں بیٹھے پایا مہدی علیہ السلام (نعرے)

Page 542

539 فرموده ۱۹۸۰ء د مشعل راه جلد دوم چودہویں صدی نے ، چودہویں صدی نے ہمیں خدا ملا دیا ، چودہویں صدی نے ہم پر محمد کا حسن ظاہر کر دیا، چودہویں صدی نے قرآن کی عظمتیں واضح کر دیں، چودہویں صدی نے مہدی ہمیں دیا.وہ ساری کمزوریاں تیری اے چودہویں صدی آج ہم نے معاف کیں اور تیری عظمتوں کو ہماری نسلیں بھی یادرکھیں گی.خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے آمین.(سید نا ناصر نمبر ماہنامہ خالدار اپریل مئی ۱۹۸۳ء)

Page 543

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۰ء 540 ۱۰ نومبر ۱۹۸۰ سیدنا حضرت امام جماعت احمد یہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے احمدی طالب علموں کی تنظیم احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے پہلے ایک روزہ کنونشن سے خطاب فرمایا.(خلاصہ) بڑھیں ، بڑھیں ، بڑھیں آگے بڑھیں بڑا فرمایا:- خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ احمدی طالب علم تحقیق اور علم کے میدان میں ساری دنیا سے آگے نکل جائیں.احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا یہ پہلا کنونشن دس نومبر کو احاطہ مجلس انصاراللہ میں منعقد ہوا.حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے تشریف لا کر طالب علموں سے خطاب فرمایا: - حضور ایدہ اللہ نے احمدی طالب علموں کو علم کے میدان میں آگے سے آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ دنیا کے کسی حصہ میں آپ سے تعصب برتا جائے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ خدا تعالیٰ آپ سے تعصب کرے گا اگر زمین کا ایک حصہ آپ کو رد کرے گا تو دوسرا حصہ آپ کو ہاتھوں ہاتھ لے گا.اس لئے بڑھیں، ھیں ، بڑھیں آگے بڑھیں.تحقیق کا میدان نہ ختم ہونے والا ہے حضور نے فرمایا کہ تحقیق کا میدان نہ ختم ہونے والا ہے اور یہ سلسلانسل درنسل جاری رہتا ہے.لیکن اس کے لئے غذا کی بھی ضرورت ہے.آپ نے فرمایا کہ سلسلہ میں سویا لیسی تھین Soya Lacithin ایسی چیز ہے جو طالب علموں کے لئے خصوصا بہت مفید ہے.اس چیز کا اتنا فائدہ ہے.کہ اگر آپ کوئی اقتباس عام طور پر دس منٹ میں یاد کرتے ہیں.تو سو یا لیسی تھین کے استعمال سے یہ اقتباس چھ منٹ میں یاد ہوسکتا ہے حضور نے فرمایا کہ یہ مہنگی چیز ہے اور ہمارے ملک میں غربت بہت ہے اور دولت کی تقسیم کا نظام بھی ناقص ہے.اس لئے یہ چیز عام استعمال میں نہیں آتی.حضور نے فرمایا کہ اسلام کہتا ہے کہ جس کا جو حق ہے وہ اسے ملنا چاہئے اب اگر بچوں کو بچپن میں نے کہ کا جو ملنا بچپن کی عمر میں دودھ ملے اور گائے کا دودھ ملے تو اس سے ذہن تیز ہو جائے گا.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے سویا بین کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جس کا ذکر حضور کر رہے ہیں وہ yelloro.Manchurian Variety اس میں ۲۴ فیصد تیل ہوتا ہے اس تیل میں لیسی تھین ہوتی ہے.حضور نے انگلستان کے ایک ذہین احمدی نوجوان ڈاکٹر کا ذکر فرمایا جو کہ وہاں پر تحقیق کر رہا ہے اور بتایا کہ اس نے لیسی تھین کا

Page 544

541 فرموده ۱۹۸۰ء د مشعل راه جلد دوم دو استعمال شروع کرنے کے بعد بتایا کہ اسے پہلے میں ایک ہفتے میں چھ صفحے اپنی تحقیق کے ٹائپ کیا کرتا تھا اور اس میں کئی غلطیاں بھی ہوتی تھیں اس نے بتایا کہ لیسی تھین کے استعمال کے بعد سے دو ہفتوں میں پچاس صفحے لکھے ہیں اور اس میں معمولی غلطی کے سوا کوئی غلطی نہیں تھی.احمدی طالب علموں کو حضور کا خاص تحفہ حضور رحمہ اللہ نے از راہ شفقت عنایت اعلان فرمایا کہ ہر یونیورسٹی اور بورڈ کے تین چوٹی کے احمدی طالب علم منتخب کر کے ان کے کوائف مجھے بھیجے جائیں.ایسے طالب علموں کی کل تعداد ۲۰ ہو اور یہ وہ طالب علم ہوں.جنہوں نے اگلے سال امتحان دینا ہو.حضور نے فرمایا کہ ایک سال کے لگ بھگ عرصے میں میری طرف سے ان کی سویا لیسی تھین ۱۲۰۰ ملی گرام کا کورس کروایا جائے گا.اور اس کے نتائج دیکھے جائیں گے.حضور نے فرمایا کہ اللہ فضل کرے تو عین ممکن ہے کہ سارے کے سارے اول آجائیں.حضور نے فرمایا کہ میرا دل کرتا ہے کہ ہر بورڈ یو نیورسٹی میں چوٹی کی پانچ پوزیشنیں احمدی طالب علموں کی ہوں.حضور رحمہ اللہ نے اپنے خطاب میں احمدی طالب علموں کو ایک اہم نکتے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے بتایا کہ قرآن عظیم نے اس کا ئنات کے متعلق جو بنیادی نکتہ ہمیں بتایا ہے وہ یہ ہے کہ یہ منتشر اشیاء کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ایک منطقی مجموعہ ہے.( کائنات کی ہر چیز کا دوسری چیز سے تعلق ہے ) اور اس نے اس ساری بات کو ایک جملے ( ووضع المیز ان ) میں بیان کیا ہے.حضور نے اس اصولی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے احمدی طالب علموں کی متوجہ کیا کہ وہ اپنی تحقیق کا رخ اس مرکزی نکتے کی طرف رکھیں.الفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۸۰ء)

Page 545

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۱ء 542 حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے سالانہ اجتماع مجلس اطفال الاحد یہ مرکز یہ منعقدہ ۱۸ نومبر ۱۹۸۰ء میں جو خطاب فرمایا اس کا متن پیش خدمت ہے.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- زمانہ بڑی تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے اور وہ لوگ جو د نیوی علوم میں بہت آگے نکل چکے ہیں، اسلام کی طرف واپس آنے کی کوشش کر رہے ہیں.اور تم سے جب تم بڑے ہو جاؤ گے وہ اسلام کے متعلق باتیں پوچھیں گے.اس لئے میں نے اپنے بچوں کے لئے ایک تعلیمی منصو بہ بنایا ہے.جس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ کوئی احمدی بچہ دوسرے سے پیچھے نہ رہے گا بلکہ آگے بڑھے گا.انشاء اللہ تعلیمی منصوبه اور ہزاروں ہزاروں ہزاروں ایم ایس سی.ایم اے.پی ایچ ڈی وغیرہ دوسرے علوم کے میدانوں میں اول دوم سوم چهارم، پنجم صف اول میں آنے والے احمدی چاہئیں.اس لئے جن کو تم میں سے اللہ تعالیٰ نے ذہن دیئے ہیں اور آگے نکلنے کی طاقت عطا کی ہے.انہیں ضرور آگے نکلنا چاہیئے اور اپنی زندگیوں کو برباد نہیں کرنا چاہیئے.اس کے لئے جو منصوبہ ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر وہ بچہ جو آگے بڑھ سکتا ہے لیکن اپنے خاندان کے حالات کے نتیجہ میں وہ آگے نہیں بڑھ سکتا یا اپنے علاقہ کے حالات کے نتیجہ میں وہ آگے نہیں بڑھ سکتا اس کو جماعت سنبھالے اور گی اور سہارا دے گی.دعاؤں کے ساتھ بھی اور مالی وسائل کے ساتھ بھی.اور اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور کوئی بھی وہ بچہ جو آگے بڑھنے کی قابلیت رکھتا ہے اور عزم اور شوق رکھتا ہے وہ ایسا نہیں رہے گا جس کا شوق پورا نہ ہو اور وہ آگے نہ بڑھ سکے.اطفال یہ عہد کریں تم جو چھوٹے اطفال یہاں ہو اس وقت عہد کرو کہ ہم نے کسی سے پیچھے نہیں رہنا علم میں.اور جو نتیجے نکلیں تمہارے پہلی کا.دوسری کا ( پہلی والے تو تم یہاں نہیں ہو گے لیکن وہاں تک میرا پیغام پہنچا دینا ).تیسری جماعت کا.چوتھی کا.پانچویں کا.چھٹی کا.ساتویں کا.آٹھویں مڈل کا.وظائف کا امتحان بھی ہوتا ہے.اس میں جاؤ سارے وظائف لے لو اور نویں دسویں کا اور گیارہویں بارہویں، تیرہویں، چودھویں، پندرہویں، سولہویں اور پھر پی ایچ ڈی وغیرہ.ہر جگہ آگے بڑھتے چلے جاؤ اور تمہارے نام ہم نے لکھے ہیں اور پھر رجسٹروں پر چڑھ گئے

Page 546

543 فرموده ۱۹۸۱ء دد د و مشعل راه جلد دوم ہیں.اگر نہیں چڑھے تو چڑھ جائیں گے.پھر وہ کارڈز پر چڑھ جائیں گے.پھر کمپیوٹر (Computer) انشاء الله اللہ توفیق دے گا خرید لیں گے.کمپیوٹر کے بھیجے کے اندر ان کو داخل کر دیا جائے گا.دماغ میں کمپیوٹر کے.اور جماعت.خدا کی یہ جماعت.خدا کے فضل سے اللہ کے نام کو بلند کرنے کے لئے اور محمد ہی کی عظمت کو اس دنیا میں قائم کرنے کے لئے اس عمر سے تمہارا جائزہ لیتی رہے گی.اور جہاں کہیں تمہیں دیکھے گی کہ کوئی تمہیں تکلیف ہوگئی ہے تو کمپیوٹر بتائے گا.وہ ہر سال تمہاری تعلیم کا نتیجہ بتائے گا.تو جماعت کوشش کرے گی ساری جماعت مل کئے دعا اور تدبیر کے ساتھ کہ تمہیں گرنے نہ دے بلکہ سہارا دے کر آگے ہی آگے لے جائے.جو دوست سمجھدار ہیں اور ابھی احمدی نہیں.ان کے سامنے جب یہ چیز آتی ہے تو وہ کہتے ہیں.پھر ہم کیوں نہیں کرتے.میں تو کہتا ہوں ”ہم بھی کریں“.یعنی ان کی طرف سے کہتا ہوں.کون کہتا ہے نہ کرو علم کی تحقیق میں تو مقابلہ جو ہے وہ تازیانہ ہے.کوڑا ہے.جو طالب علم کو محقق کو لگتا ہے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں اور جب تک کوئی مقابلے میں نہ ہوگا ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور مسابقت کی روح کیسے پیدا ہوگی.اس واسطے ہم کہتے ہیں ساری دنیا آکے علم کے میدان میں احمدی بچوں اور نو جوانوں سے مقابلہ کرے.اور ہم دعا کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنے گا.احمدی بچے اور نو جوان اور محققین احمدی جو ہیں، دنیا کے ہر ملک کے ذہین تر بچوں سے آگے نکلیں گے.انشاء اللہ ابھی میرے اس سفر کے دوران ایک احمدی بچے نے انگلستان میں بارہ سال سے جو ایک ریکارڈ قائم تھا.قانون کے میدان میں.اس علم قانون کے میدان میں ایک کسی انگریز کا ریکارڈ یعنی اتنے نمبر لئے تھے کہ اس کے بعد پچھلے بارہ سال میں کسی نے اس سے زیادہ نمبر نہیں لئے اور پھر اب بارہ سال کے بعد ایک احمدی نے وہ ریکارڈ توڑ دیا اور اس سے آگے نکل گیا.تو خدا آج تمہیں دینے کے لئے تیار ہے.خدا کرے کہ تم اس سے لینے کے لئے تیار ہو جاؤ اور خدا کرے کہ میری یہ دعا قبول ہو جائے.آمین (بحوالہ ماہنامہ تشحید الا ذبان ربوہ جنوری ۱۹۸۱ صفحه ۵ تا صفحه ۸)

Page 547

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۱ء 544 خدام الاحمد یہ مرکزیہ کے زیرا ہتمام ہونے والی تربیتی کلاس سے سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نے مئی ۱۹۸۱ ء بعد نماز عصر ایوان محمود میں جو اختتامی خطاب فرمایا اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: - مجھے افسوس ہے کہ جو چودہ دن آپ نے اس تربیتی کلاس کے لئے ربوہ میں گزارے ان ایام میں میں ربوہ سے غیر حاضر رہا.ایک وجہ تو یہ تھی کہ جو سفر ایک لمبا سفر قریباً چار ماہ کا میں نے تین براعظم میں اشاعت اسلام کے لئے کیا واپسی پر اجتماعات آگئے ، پھر جلسہ آ گیا، پھر دوسرے ضروری کام.تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں باوجود کوشش کے ایک دن بھی آرام کے لئے نہیں نکال سکا اور اس کا اثر میری قوت اور طاقت پر پڑنا تھا اور میں نے کمزوری محسوس کی اور خصوصاً اس وجہ سے کی مجھے گردوں کی انفیکشن کی تکلیف ۲۵ مارچ ۸۰ء کو ہوئی اور تیرہ مہینے وقفے وقفے کے بعد لیکن لمبا عرصہ دوائی کھانے میں گزارا.اینٹی بائیوٹک اور سلفر ہمارے ڈاکٹر دیتے رہے.تیرہ مہینے کے بعد میرے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ میری بیماری میرے جسم میں ضعف پیدا کر رہی ہے یا ڈاکٹروں کی دوائیں مجھے کمزور کر رہی ہیں.تو تیرہ مہینے کے بعد میں نے بغاوت کی ان ادویہ کے خلاف اور چھوڑ دیں ڈاکٹروں کی ہدایت کے باوجود اور یہاں سے میں چلا گیا بظاہر آرام کرنے کے لئے مگر میرا آرام بھی اسی طرح کا ہوتا ہے کہ میں جب اسلام آباد پہنچا تو میں نے جماعت سے کہا، تین دن میرے آرام کے ہیں میں کسی سے ملاقات وغیرہ نہیں کروں گا.اور وہ تین دن اس ڈاک کے دیکھنے میں لگ گئے جو بیماری کی وجہ سے Arear میں پڑی ہوئی تھی.مجھے آرام مل گیا اس لئے کہ میرا دماغ جو یہ کوفت محسوس کر رہا تھا کہ کچھ ڈاک دیکھنی رہتی ہے وہ کوفت نہیں رہی باقی.بہر حال آب و ہوا بدلنے سے فائدہ ہوتا ہے اور دوا چھوڑنے اور جگہ چھوڑنے کے نتیجہ میں میں نے محسوس کیا کہ میری صحت عود کر رہی ہے اور میری طاقت بڑھ رہی ہے اور مجھے نقصان نہیں پہنچا.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.اس کے فضل نے مجھے کافی حد تک بغیر ان ادویہ کے صحت عطا کر دی.میں کہتا ہوں بغیر ان ادویہ کے اس لئے کہ دوائی تو انسان کو ضرور کھانی چاہیئے ورنہ ناشکری ہے کیونکہ ادویہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کی ہیں.یہ دن آپ کے یہاں گزرے میرے وہاں گزرے.آج ایسا ہوا خدا کا کرنا کہ میں اچانک یہاں پہنچ گیا.سارا دن گرمی کا سفر کرتے ہوئے اور وہیں سے میں نے اطلاع دی تھی کہ اگر میں پانچ بجے سے پہلے پہنچ جاؤں تو شاید پانچ بجے آجاؤں گا یہاں.اپنے چھوٹے بچوں ، بھائیوں سے ملاقات کروں گا کچھ تھوڑی سی تو ہو جائے گی ملاقات.الحمدللہ ثم الحمد للہ وہ ملاقات ہوگئی.

Page 548

545 فرموده ۱۹۸۱ء د و مشعل راه جلد دوم دو ہر قسم کے سوال کریں آپ نے مختلف موضوعات پر سبق سیکھے.آپ کو پڑھایا گیا.کچھ آپ نے تقریریں سنیں.کچھ واللہ اعلم آپ کو وقت ملنا چاہئے تھاملا یا نہیں، جس کی مرے ذہن میں اس وقت حاضر نہیں بات.پروگرام تو آیا تھا میرے پاس کہ آپ کو وقت ملنا چاہیئے سوالات کرنے کا (اس موقع حضور نے محترم صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ مکرم محمود احمد صاحب سے دریافت فرمایا کہ طلباء کو سوالات کا موقع دیا جاتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ موقع طلباء کو دیا جاتا ہے.ناقل ) سوالات کے لئے ایک بات ضروری ہے کہ یہ کہا جائے کہ ہر قسم کا سوال کرو.بہت سے بچے اور نو جوان شرماتے ہیں کہ پتہ نہیں غلط قسم کا سوال نہ ہو جائے.ہر قسم کا سوال ہمیں فائدہ پہنچائے گا اور آپ کو بھی فائدہ پہنچائے گا.اس واسطے آئندہ یا درکھیں جو ادھر ادھر کی آپ نے اپنے متعلق ، جماعت احمدیہ کے متعلق ، اسلام کے متعلق، ہمارے محبوب اللہ کے متعلق ، محمد اللہ کے متعلق باتیں سنی ہوں وہ بیان کر دیا کریں یہاں آئے.سوال کیا کریں کہ یہ لوگ اس طرح کہتے ہیں یا ہمارے دماغ میں یہ الجھن ہے اس کو دور کریں.اسی سفر کے دوران ایک اچھے پڑھے لکھے مسلمان سے میری ملاقات ہوئی.وہ باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ یہ کیا کہ ایک شخص کو آپ نے کہدیا کہ وہ نوع انسانی میں سب سے بڑا ہے یعنی محمد.تو ایسے مسلمان بھی ہیں.تو مجھے غصہ نہیں آیا رحم آیا.انہوں نے یہ فقرہ کہا اس وقت تھا جب مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا تھا اور ہمیں آپس میں باتیں کرتے ہوئے قریباً چالیس منٹ گزر چکے تھے.میں نے کہا میں بڑا خوش ہوں کہ آپ نے مجھ سے یہ سوال کیا.اس لئے بھی خوش ہوں کہ میں تو جود ہر یہ اور عیسائی ہیں ان کو بھی یہ سمجھا دیتا ہوں، دیتا رہا ہوں اپنے دوروں میں کہ واقعہ میں وہ محمد و نوع انسانی میں سب سے بڑے انسان ہیں.تم تو ایک مسلمان کے بچے ہو.تمہیں آسانی سے سمجھا دوں گا.لیکن اس وقت میرے پاس وقت نہیں.ایک دفعہ پھر ملیں گے.ایک غیر مسلم کا کتاب لکھنا جس میں آنحضرت مہ کو پہلے نمبر پر لکھا تو اس قسم کی باتیں مسلمان کہلانے والے بھی کرتے ہیں.آپ کے دماغ میں یہ چیزیں نہیں رہنی چاہئیں.یہ عجیب بات ہے کہ جو غیر مسلم دماغ ہے آج کی دنیا میں ان میں سے بہت سے ذمین دماغ اس نتیجے پر پہنچے ہیں.ایک شخص نے نوع انسانی کے یہ جو ابتک گزر چکے ہیں اس نے تو یہی بنانا تھا ایک سوسب سے بڑے آدمی کے اوپر ایک کتاب لکھی ہے موٹی سی اور نمبر ایک محمد ﷺ.اور پھر وہ لمبا سا مضمون ہے.لکھنے والا عیسائی ہے اور اس نے لکھا ہے کہ میں نے بڑا غور کیا اور وہ تمام باتیں جو ایک بڑے انسان میں پائی جانی چاہیئیں اور وہ اس نے بیان کی ہیں (لمبا مضمون ہے ) وہ میں نے سب سے زیادہ ان صفات کا مالک محمد ﷺ کو پایا ہے ، اس کے اوپر عیسائیوں نے بڑے اعتراض بھی کئے ہیں.یہ تم نے کیا کر دیا مسیح کو رکھنا تھا نمبر ایک.اس نے کہا، میں نے جس کو نمبر ایک دیکھا

Page 549

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۱ء 546 اسے نمبر ایک کہد یا.میری نظر نے مسیح علیہ السلام کو نمبر ایک نہیں دیکھا.میں نے مسیح علیہ السلام کو نمبر ایک نہیں کہا.میں نے محمد ﷺ کو انسانیت میں نمبر ایک پایا اور دیکھا.میں نے انہیں نمبر ایک کہ دیا.اور بہت ساری ایسی مثالیں ملتی ہیں.اس وقت میں لمبی بات نہیں کرنا چاہتا اپنی کمزوری کی وجہ سے سفر کی کوفت کی وجہ سے بھی اور آپ کو بھی ہم نے جھنجھوڑا ہوگا.اگر میں یہاں ہوتا تو ضرور جھنجھوڑتا چودہ دن اچھی طرح.اس وقت تو آپ کے نئے ایڈیشنز (Additions) از دیاد علم کا وقت نہیں.جو آپ نے حاصل کیا ہے اس کی جگالی کرنے کا.جس طرح جانور بعض کھا لیتے ہیں نا بڑے معدے میں رکھ لیتے ہیں پھر آہستہ آہستہ چباتے ہیں.ہم امید رکھتے ہیں کہ آپ سوچیں گے اور چبائیں گے اور اپنی پرسنیلٹی (Personality) کا ، اپنے وجود کا ، اپنے ذہن کا ، ان اچھی اسلامی باتوں کو حصہ بنائیں گے جو آپ نے یہاں ایک، دو، دس، پچاس، سومختلف دماغ مختلف تعداد میں پوائنٹس (Points) اٹھاتے ہیں اسلام کے متعلق.ان سب کو آپ اپنے ذہن کا اور اپنے وجود کا حصہ بنائیں گے.قرآن کریم تمام علوم کا منبع ہے میں ایک بنیادی چیز آپ کو کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جو قرآن عظیم محمد نے بنی نوع انسان کے لئے لے کر آئے تمام علوم کا، خواہ وہ بظاہر دنیوی علوم کہلاتے ہوں یا دینی کہلاتے ہوں ، تمام علوم کامنبع اور سر چشمہ قرآن کریم ہے.بڑی عظیم کتاب ہے.تو اس کو پیار سے اور توجہ سے پڑھنے کی عادت ڈالیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس حقیقت کو ایک بڑے پیارے اپنے منظوم کلام میں ایک مصرعے میں یوں بیان کیا.جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا بڑا عجیب اعلان ہے.صداقت ہے یہ اور یہ سلوگن (Slogan) نہیں ہے.سلوگن جو ہے وہ تو رشیا کا یہ کہنا ، رشین کمیونزم کا کہ To each according to his needs یہ سلوگن ہے اس لئے کہ بڑی آسان مقبولیت کے حصول کا ایک انہوں نے ذریعہ بنایا ہے اور اس حد تک غفلت برتی اپنے سلوگن سے کہ Needs لفظ استعمال کیا اور کسی ان کے بڑے نے Needs کی تعریف اپنی کتاب میں نہیں لکھی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو اپنے بنائے انہوں نے غلط فہمی کے نتیجے میں ہم سمجھتے ہیں وہ بن گئے.مثلاً چیکوسلواکیہ کمیونسٹ ہو گیا.ان اپنوں کی بھی ضرورت پوری کرنے کی بجائے اپنی فوجیں لیکر ان پر حملہ آور ہو گئے یعنی کمیونسٹ رشیا، چیکوسلواکین ، رشین کمیونٹی ، رشین نیشن، جو تھی اس کے اوپر حملہ آور ہو گیا.اور توپوں سے گولے بھی گرے.ہوائی جہازوں سے ہزاورں بم بھی گرائے گئے.لاکھوں گولیاں رائفلوں سے چلیں ان کے خلاف.ایک کمیونسٹ ملک ایک کمیونسٹ ملک کے خلاف یہ سب کچھ کر رہا ہے اور سلوگن (Slogan) یہ تھا کہ چیکوسلواکیہ کی ضرورت ہوگی وہ اسے دی جائیگی.تو آدمی سوچتا ہے، یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا اس وقت جب کمیونسٹ رشیا، کمیونسٹ چیکوسلواکیہ

Page 550

547 فرموده ۱۹۸۱ء د و مشعل راه جلد دوم دد سے یہ سلوک کر رہا تھا واقعہ میں کمیونسٹ چیکوسلواکیہ کو ان گولیوں کی ان Bombs کی ، ان توپ کے گولوں کی ضرورت تھی جس کا اعلان کیا گیا تھا.تو ہماری عقل کہے گی، آپ کی عقل کہے گی.ہر سوچنے والے کی عقل کہے گی نہیں.اس کی ضرورت نہیں تھی ان کو.اسلام کا نور اور قوت تو میں کہتا ہوں یہ سلوگن نہیں ہے کہ قرآن کریم سے ہر چیز جو ہے وہ نکلتی ہے.میں باہر جاتا ہوں.بڑے ان کے دنیوی جو چوٹی کے دماغ ہیں ان سے میری ملاقات ہوتی ہے ہمیشہ ہی ہوتی ہے.گزشتہ برس تو خاص طور پر میں نے تاکید کی تھی کہ مجھ سے تقریریں نہیں کرواؤ گے تم بلکہ اپنے اپنے ملک کے جو چوٹی کے دماغ ہیں ان سے میری ملاقات کرواؤ تا کہ میں ان کو بتاؤں کہ اسلام کس قدر عظیم مذہب ہے.کتنا نور اس میں پایا جاتا ہے.کتنا حسن اس کے اندر ہے کتنی قوت احسان اس میں ہے.بلا امتیاز عقیدہ ہر ایک کی خدمت میں لگا ہوا ہے یہاں تک کہ جو اللہ تعالیٰ کے شریک بنانے والے ہیں ان کو تنبیہہ بھی کرتا ہے اور یہ اعلان بھی کرتا ہے ولا تسبوا الذين يدعون من دون الله (الانعام : ۱۰۹) بتوں کو برا بھلا نہیں کہنا، گالی نہیں دینی بت کو.تو یہ عظمت ہے قرآن عظیم کی.تو اس سے تو آپ ہر روز برکت لے سکتے ہیں.برکت سلوگن والی نہیں.ایسی برکت جو آپ کی زندگی میں اور وجود میں نور اور حسن اور قوت احسان اور ایثار اور بے لوث خدمت کا جذبہ پیدا کرنے والی ہو.تو اس بنیادی چیز کو یادرکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کو ان تمام برکات کا وارث بنائے جو ایک مسلمان بنا کرتا ہے خدا تعالیٰ کی رحمت سے اور وہ تمام بشارات جو قرآن کریم نے ایک مسلمان کو دی ہیں وہ اس کے حامل ہوں آپ.ہمارے جو بزرگ مسلمان بادشاہ تھے ان کا یہ قاعدہ تھا ( ہمارے مغل بادشاہ بھی گزرے ہیں.بابر ہے ، کہ ہے ، ہمایوں وغیرھم ہیں ان کا قاعدہ تھا کہ یہ بڑے جرنیل کو بلا کے کہتے تھے کہ میں نے تجھے دس ہزاری کا عہدہ اور مقام دیا.جس کا مطلب تھا کہ تو دس ہزار سپاہیوں پر مشتمل فوج رکھ سکتا ہے.یہ دس ہزاری کے عہدے کا یہ مطلب تھا.کسی کو سات ہزاری کا کسی کو پانچ ہزاری کا کسی کو تین ہزاری کا ، اسی طرح وہ عہدے دیتے تھے.لیکن جس کو دس ہزاری کا عہدہ دیتے تھے اسے اتنی جائیداد بھی دیتے تھے کہ جس سے وہ دس ہزار فوج کو پال سکے.تو وہ اس کے ساتھ یہ لازم و ملزوم سمجھتا ہے.عقل بھی یہی کہتی ہے ورنہ تو یہ ایک گڑیا اور گڈے کا کھیل بن جائیگا نا.دس ہزار گڈے بھی نہیں رکھ سکتا بغیر اس جائیداد کے کوئی شخص.اس کے اوپر بھی بڑا خرچ ہو جائے دس ہزار گڈوں پر.اس نے تو دس ہزار انسانوں کو پال کے، ان کی صحت کو قائم رکھ کے، ان کی قوت برداشت کو بڑھا کر ، ان کی صبر کی طاقت میں ازدیاد پیدا کر کے، ان کو ان کی اتنی مشق کروا کے کہ دنیا میں کوئی ویسا سپاہی نہ ہو اس قسم کا وہ سپاہی چاہتے تھے.اس کے لئے جس چیز کی ضرورت تھی وہ جائیداد میں دے دیتے تھے.جائیداد کا میں نے سوچا ساری

Page 551

فرموده ۱۹۸۱ء 548 د و مشعل را نعل راه جلد دوم جائیدادسپاہی پر خرچ کرتے تو پھر تو کوئی دلچسپی ان کے لئے نہ ہوتی تو ۱۰/ ۷ اس جائیداد کا وہ دس ہزار سپاہی پر خرچ کرتے تھے اور Fully Equipped اور Maintained وہ فوج اور ۱۰/ ۳ وہ اپنی ذات پہ خرچ کرتے تھے.ان کا اپنا بھی ایک رعب ہونا چاہیئے تھا اتنے بڑے جرنیل کا.تو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں کہا.ہو سـمـكـم المسلمين (الج : ۷۹) اس نے تمہارا نام مسلمان تو ایک مسلمان بڑا ہی نادان اور ناسمجھ ہوگا اگر وہ یہ سمجھے کہ ایک بادشاہ تو جب دس ہزاری کا عہدہ دیتا تھا تو دس ہزار کی پرورش کے لئے جائیداد بھی دیتا تھا اور خدا جب مسلمان کا مقام کسی کو عطا کرے اپنی رحمت سے تو وہ قوتیں اسے عطا نہ کرے جو ایک مسلمان کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے چاہیں.جن کی اسے حاجت ہے اور وہ بشارتیں نہ دے جو اس ایثار اور قربانی کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے پیار کو ظاہر کرنے کے لئے دیتا ہے اور جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے.قرآن کریم کی عظمت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ محض یہ نہیں کہا کہ المسلمین خدا تمہیں مسلمان کہتا ہے اور بناتا ہے.کسی انسان کا کام ہی نہیں کہ کسی کو مسلمان یا غیر مسلم بنائے یہ اعلان کیا گیا ہے اس آیت میں ھو سمکم المسلمن اور ساتھ یہ کہا کہ یہ جو قرآن ہم دے رہے ہیں بنیادی طور پر دو چیزیں اس کے اندر پائی جاتی ہیں:.هدی.ایک تو جو میری نگاہ میں مسلمان ہوں گے میری رحمت کے نتیجے میں فضل کے نتیجہ میں ان کی ہدایت کے سارے سامان اس قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں.و بشرى للمسلمين.اور یہ قرآن ان مسلمانوں کے لئے بشارتوں سے بھرا ہوا ہے جو میری نگاہ میں مسلمان ہیں اور جن کو میں مسلمان کہتا ہوں.وہ مضمون میرے ذہن میں آیا ہے.میں جمع کر رہا ہوں.اپنے خیالات کو اور حوالوں کو قرآن کریم کی آیات سے ہی.میرا خیال ہے پچاس ہو، ڈیڑھ سو پتہ نہیں کتنی وہ بشارتیں ملیں گی.مثلاً قرآن کریم کہتا ہے کہ جو خدا کی نگاہ میں مسلمان ہوگا فرشتوں کا اس پر نزول ہوگا.کوئی انسان کسی کو مسلمان کا لقب دے کے تو فرشتوں کو حکم دے سکتا ہے کہ اس کے اوپر نازل ہوا کرو.دے ہی نہیں سکتا یعنی کسی انسان کا کام ہی نہیں دوسرے کو مسلمان بنانا.مسلمان خدا تعالیٰ کی نگاہ میں یا مثلاً انتم الاعلون ان کنتم مومنین (آل عمران (۱۴۰) ہر شعبہ زندگی میں بالا دستی اے مسلمانو تمہاری رہے گی.ایک شرط ہے ایمان کے تقاضے پورے کرتے چلے جاؤ.وہی مسلمان حقیقی مسلمان کے لئے بشارت اتنی زبر دست ہے کوئی حد نہیں.غلبہ.غلبہ آرٹ کے میدن میں بھی.غلبہ علم کے میدان میں بھی ، غلبہ اخلاق کے میدان میں بھی ، غلبہ خدمت کے میدان میں بھی.ہر شعبہ زندگی میں بالا دستی مسلمان کو ملے گی.حقیقی مسلمان کو.جس کو نہیں ملتی اس کو اپنی فکر کرنی چاہیئے کہ خدا تعالیٰ جھوٹ تو نہیں بولتا.خدا تعالی بد عہدی تو نہیں کرتا.خدا تعالیٰ بے وفائی تو نہیں کرتا.جو وہ کرتا ہے اس کے لئے کوئی مشکل نہیں.میرے اور

Page 552

549 فرموده ۱۹۸۱ء دومشعل راه جلد دوم تیرے لئے تو مشکل ہے وعدہ کر کے بعض دفعہ نباہنا مشکل بن جاتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے تو محسن کرنا ہے اور اس کا کام ہو جانا ہے.اس کو کوئی زور نہیں لگانا پڑتا.اس کو کوئی تھکا دینے والی محنت نہیں کرنی پڑتی.اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ بھی فرما دیا ہے کہ اپنے اسلام کے لئے کسی کے سرٹیفیکیٹ کی تلاش میں نہ رہنا.اس نے کہا ہے کہ میرے لئے سلمان بنو.اور میری بشارتیں حاصل کرو اور وہ ایک دو نہیں بیسیوں ہیں.شاید سو سے بھی اوپر ہیں.قرآن کریم ہماری ساری ضرورتیں پوری کرتا ہے.اس میں ہر علم ہے فزکس، کیمسٹری، تاریخ، جغرافیہ علم نجوم ، درختوں کا ، جانوروں کا، ہر قسم کا علم اس میں ہے.قرآن کریم کو غور سے پڑھو.اللہ ہم کو اس حقیقت کے سمجھنے کی توفیق دے ہم خدا کی نگاہ میں مسلمان ٹھہر نے والے ہوں.وہ ہمیں حقیقی مسلمان کا مقام دے کر ان بشارتوں کا وارث بنائے اور ان ساری بشارتوں کو ہمارے حق میں پورا کر دے.اس کے بعد حضور نے دعا کروائی.یه خطاب روز نامه الفضل ۱۲ ، ۱۳ مئی ۱۹۸۱ ء کے شماروں میں شائع ہوا)

Page 553

مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۱ء 550 پیغام حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کا مجالس اطفال الاحمد بیاریسہ (بھارت) کے سالانہ اجتماع کے لئے حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پیغام کا مکمل متن درج ذیل ہے :- بسم اللہ الرحمن الرحیم پیارے بچو! السلام علیکم ورحمة الله و بركاة محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ تم ۷ ارجون سے ۲۱ جون ۱۹۸۱ ء تک سورو میں اڑیسہ کے سارے اطفال کا اجتماع کر رہے ہو.میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس اجتماع کو بہت برکت دے.آمین.مجھے امید ہے کہ اس اجتماع میں شامل ہو کر اچھی اچھی باتیں سیکھو گے اور ان پر پوری طرح عمل کرو گے.میں پچھلے سال سے احمدی بچوں کو کہ رہا ہوں کہ وہ بہت دل لگا کر پڑھیں اور اپنی کلاس میں اور سکول میں اول آنے کے لئے محنت کریں اور اپنے امتحان کے نتیجہ سے مجھے خط لکھ کر اطلاع دیا کریں.بہت سے بچے میری اس بات پر عمل کر رہے ہیں.اور مجھے خط لکھ کر اپنی پڑھائی کے متعلق بتاتے رہتے ہیں.لیکن ابھی کچھ بچے ایسے ہیں جن تک میری یہ آواز نہیں پہنچی.میں امید کرتا ہوں کہ تم جو اس اجتماع میں شریک ہورہے ہو میری بات پر عمل کرو گے اور مجھے خط لکھ کر اطلاع کرتے رہو گے کہ تمہاری پڑھائی کیسی ہو رہی ہے اور امتحان میں تمہارا نتیجہ کیسا رہا ہے.ایک بات تم ہمیشہ یاد رکھنا اور وہ یہ کہ تم معمولی بچے نہیں ہو تم حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے بچے ہو اور تمہارا یہ فرض ہے کہ تم جو کام بھی کرواتنی محنت سے کرو کہ باقی سب کو پیچھے چھوڑ جاؤ اور ہر میدان میں سب سے آگے نکل کر مجھے اور اپنے ماں باپ کو خوشی پہنچاؤ.میں تمہیں بہت پیار کرتا ہوں.اور ہمیشہ تمہارے لئے دعائیں کرتارہتا ہوں.تم بھی اپنے لئے ، اپنے ماں

Page 554

551 فرموده ۱۹۸۱ء د مشعل راه جلد دوم دد باپ کے لئے ، جماعت کے لئے اور میرے لئے بہت دعائیں کیا کروں.خدا تمہارے ساتھ ہو اور تمہار حافظ و ناصر ہو.آمین! والسلام (مرزا ناصر احمد ) ( تشحیذ الا ذہان جنوری ۱۹۸۲ء)

Page 555

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۱ء حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۸ ستمبر ۱۹۸۱ءکو بیت اقصیٰ ربوہ میں جو خطبہ جمعہ ارشاد فر مایا اس کا متن پیش خدمت ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- 552 اکتوبر کے آخر میں خدام الاحمدیہ اطفال الاحمدیہ لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ اور انصار اللہ کے اجتماع ہوں گے.ہے.آج میں ان اجتماعات کی تیاری اور اہمیت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولوارادوا الخروج لاعدو اله عدة (التوبة آيت : ۴۷) قرآن کریم کی یہ بھی ایک عظمت ہے کہ وہ ایک واقعہ کی اصلاح جب کرتا ہے تو چونکہ یہ ابدی صداقتوں پر مشتمل ہے اُس کا بیان اس طرح کرتا ہے کہ واقعہ کیطرف اشارہ بھی ہو جائے اور ایک بنیادی اصول اور حقیقت بھی بیان کر دی جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کمزوروں کے متعلق اور منافقوں کے متعلق جو جہاد میں نہیں نکلے اور بعد میں عذر کرنے شروع کئے کہ یہ وجہ تھی اور یہ وجہ تھی ہمارے گھر ننگے تھے ڈکیتی کا خطرہ تھا وغیرہ وغیرہ.اس لئے ہم نہیں جاسکے ورنہ دل میں بڑی تڑپ تھی بڑی خواہش تھی ہمارے سینوں میں بھی مومنوں کے دل دھڑک رہے ہیں وغیرہ.اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ تم جھوٹ بولتے ہو تمہارا ارادہ تمہاری نیت کبھی بھی جہاد میں شامل ہونے کی نہیں ہوئی.اور دلیل یہاں یہ دی ہے کہ اگر ان کا ارادہ ہوتا تو اس کے لئے تیاری بھی ہوتی.جس شخص نے اُس زمانہ کے حالات کے مطابق نہ کبھی تلوار رکھی نہ نیزہ نہ تیر کمان نه زرہ نہ خود نہ نیزے کا فن سیکھا نہ تلوار چلانے کی مشق کی نہ تیر کمان ہاتھ میں پکڑا وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ عارضی ضرورتوں کی وجہ سے میں اس جہاد سے محروم ہو رہا ہوں ورنہ دل میں تڑپ تو بہت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دل میں اگر تڑپ ہوتی اگر تمہارا ارادہ اور نیت خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی ہوئی تو اس کے لئے تمہیں تیاری کرنی پڑتی.جو مسئلہ زیر بحث ہے یہاں یعنی جہاد بالسیف اُس کے لئے تیاری دو طرح کی ہے.ایک جہاد کے لئے اسلحہ وغیرہ کی تیاری.اُس وقت رضا کا رفوج تھی اپنے ساتھ کھانے کا سامان لے کے جاتے تھے اس کی تیاری اور دوسرے مشق ہے تھوڑا کھا کے بھوکا رہ کے مشقت برداشت کرنے کی تیاری تلوار اس طرح چلانے کی تیاری کہ جب کسری کے ساتھ مقابلہ ہوا بعد میں تو کچھ عرصہ حضرت خالد بن ولید بھی اس محاذ پر سپہ سالار کے طور پر لڑ رہے

Page 556

553 فرموده ۱۹۸۱ء دد دو مشعل راه جلد دوم تھے.چار پانچ لڑائیاں انہوں نے وہاں لڑیں.پھر وہ قیصر کے مقابلہ پر چلے گئے.مسلمان فوج چار ہزار گھوڑ سوار اور چودہ ہزار پیادہ تھی اور ان کے مقابلہ میں ہمیشہ قریباً چار گنا زیادہ فوج کسری کی ہوتی تھی.ایک دن کی لڑائی اگر آٹھ گھنٹے کی مجھی جائے تو ہر دو گھنٹے کے بعد کسری کی فوجوں کا کمانڈر اگلی لڑنے والی صفوں کو پیچھے ہٹا لیتا تھا اور تازہ دم فوج آگے بھیج کے ان کی صفیں بنالیتا تھا.طریقہ یہ ہوتا تھا کہ درمیان لڑنے والوں کے درمیان سے وہ آگے بڑھتے تھے اور محاذ کو سنبھال لیتے تھے اور لڑنے والے پیچھے ہٹ جاتے تھے.اور مسلمان فوج کا ہر سپاہی آٹھ گھنٹے لڑتا تھا.کسری کا سپاہی ہر دو گھنٹے کے بعد تازہ دم آگے آتا تھا.لیکن باوجود اس کے کہ کسری کے تازہ دم فوجیوں کا وہ مقابلہ کر رہے ہوتے تھے آٹھ گھنٹے ( اپنی زندگی کی حفاظت کی تو انہیں پرواہ نہیں تھی لیکن ) خدا کے نام پر محمد ﷺ کی جان نثاری کا یہ مقابلہ تھا کہ آٹھ گھنٹے لڑتے چلے جاتے تھے.کسی کے دل میں یہ خواہش ہو کہ وہ ان حالات میں آٹھ گھنٹے دشمن کا مقابلہ کرئے اُس دشمن کا کہ ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج اس کے سامنے آ رہی ہے وہ اس وقت تک ایسا نہیں کر سکتا جب تک تیاری نہ کی ہو اس کے لئے یعنی آٹھ گھنٹے لگا تار تلوار چلانے کی مشق نہ کی ہو اور آٹھ گھنٹے تلوار چلانے کے بعد وہ تھکاوٹ محسوس نہ کرے مزید ٹرائی کے لئے تیار ہو.صلى الله اگر نیت ہو تو تیاری کی جاتی ہے تو ایک تیاری تو اسلحہ خریدنے کی ہے.دوسری تیاری اُس اسلحہ کے استعمال کی ہے.مسلمان کے لئے تیاری یک ایسے استعمال کی تھی کہ اپنے سے کہیں زیادہ تعداد میں دشمن اور ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج کا مقابلہ کبھی پانچ گنا زیادہ ان کی فوج انہی اٹھارہ ہزار کے مقابلہ میں.جس کا مطلب یہ تھا کہ قریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد تازہ دم فوج سامنے آ گئی.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کہتے ہو کہ تڑپ بڑی تھی ہم بھی پکے مومن ہیں مگر مجبوریاں ایسی آگئیں کوئی بچہ بیمار ہو گیا.بہانہ جوطبیعت.گھر خطرے میں پڑ گیا، یہ ہو گیا وہ ہو گیا ورنہ پیچھے رہ نہ جاتے.خدا کہتا ہے تم جھوٹ بولتے ہو.اور دلیل یہ کہ اگر تمہیں خواہش ہوتی جہاد پر نکلنے کی تو اس کے لئے ہر ممکن تیاری کی ہوتی.نہ تم نے اسلحہ پر مال خرچ کیا، نہ تم نے اسلحہ چلانے کی مشق کی ضرورت کے مطابق مشق مشق اتنی کہ مثلاً میں نے تیراندازی کا نام لیا ابھی ایک بار جب خالد بن ولید ہی قیصر کی فوجوں کے خلاف لڑرہے تھے تو دمشق کا محاصرہ کیا ہوا تھا.قیصر کی فوج کا جو کمانڈر تھا اس نے جہالت سے مسلمان پر رعب ڈالنے کے لئے یہ نہ سمجھتے ہوئے کہ مسلمان پر رعب نہیں ڈالا جاسکتا کیونکہ وہ تو صرف خدا سے ڈرتا ہے یہ منصوبہ بنایا کہ نوجوان لڑکیوں اور راہبوں، پادریوں کو فوجی لباس پہنا کے اور ہاتھ میں نیزے دے کر اور تلواریں لٹکا کے فصیل کے اوپر کھڑا کر دیا.کئی ہزار مردوزن کو.خالد بن ولید کی دور بین آنکھ مومنانہ فراست رکھنے والی.انہوں نے کہا اچھا میرے ساتھ مذاق کر رہے ہو تم.آپ نے اپنی پیادہ فوج کو پیچھے کیا اور تیر اندازوں کو آگے بلایا.اور تیراندازوں کو یہ حکم دیا کہ تم یہ جو سامنے تمہارے کھڑے

Page 557

فرموده ۱۹۸۱ء 554 و د مشعل راه جلد دوم ہیں ہم پر رعب ڈالنے کے لئے ان میں سے ایک ہزار کی آنکھ نکال دو تیر سے.اور گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں ان تیراندازوں نے ایک ہزار کی آنکھ میں نشانہ ٹھیک بٹھایا اور آنکھ نکال دی.اس کے مقابلہ میں مشہور ہے کہ ایک بادشادہ بیوقوف تھا وہ سمجھتا تھا میں بڑا بہادر ما ہر فن ہوں، جنگ جو ہوں تو مشق کر رہا تھا اور کوئی نشانہ بھی اس کا بگو آ ئی (Bulls eye) پر نشانہ پر نہ بیٹھا تھا.کوئی دس گزا دھر پڑتا تھا کوئی دس گز ادھر پڑتا تھا.کوئی راہی گذر رہا تھا اس نے سوچا بادشاہ سے مذاق کر رہے ہیں سارے.جہاں وہ نشانہ ماررہا تھا وہ وہاں کھڑا ہو گیا جا کے.تو حواری خوشامد خورے کہنے لگے نہ نہ پرے ہٹ پرے ہٹ مرنا چاہتا ہے؟ بادشادہ سلامت تیراندازی کر رہے ہیں.اس نے کہا کہ صرف یہ جگہ محفوظ ہے جہاں تیر نہیں لگ رہا.باقی دائیں بھی لگ رہا ہے بائیں بھی لگ رہا ہے او پر بھی نکل رہا ہے ورے بھی پڑ رہا ہے اس جگہ پر نہیں آرہا.ایک وہ تیرانداز تھا اور ایک یہ تیرانداز کہ ایک ہزار انسان کی آنکھ میں نشانہ مارا ٹھیک اور وہ جو سپہ سالار نے رعب ڈالنا چاہا تھا مسلمان پر وہ نا کام ہو گیا.وہ سب بھاگے اُس طرف سے جہاں ان پر تیر پڑ رہے تھے اور شہر کے دوسری طرف جا کے اور دروازہ کھول کے باہر نکل گئے اور سارے شہر میں شور مچا دیا کہ مسلمانوں نے ہمارے انکھیں نکال دی ہیں.خدا کہتا ہے:- لوارادوا الخروج لاعدوله عدة اور اس زمانہ کا مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ تیاری کا یہ مطلب ہے کہ اگر یہ حکم ہو کہ ایک ہزار آنکھ نکال وہ ایک ہزار آنکھ نکال دی جائے گی.یہ ہے تیاری! تیاری کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج سامنے آ جائے تو آٹھ گھنٹے ایک مسلمان لڑتا رہے گا کامیابی کے ساتھ لڑے گا اور فاتح ہوگا.ہر روز ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج سے لڑنے کے بعد شام جو نتیجہ نکلتا تھا وہ کسری کی اسی نوے ہزار فوج کی شکست اور ان اٹھارہ ہزار مسلمان.دُعا گو اللہ تعالیٰ پر توکل رکھنے والے توحید خالص پر قائم ہونے والے مسلمان کی فتح.یہ نتیجہ نکلتا تھا.تیاری اس کا نام ہے قرآن کریم کے نزدیک جو مسلمان نے سمجھا.تاریخ میں آتا ہے کہ اتنی تیاری کرواتے تھے اپنے بچوں کو کہ بارہ سال کا بچہ آٹھ سال کے بھائی کے سر پر سیب رکھ کے تیر سے اڑا دیتا تھا.اگر دو تین انچ بھی نشانہ سے نیچے پڑے تو ماتھے پر لگ جائے اور مر جائے بھائی.لیکن اس کو پتہ تھا کہ میرا تیر سوائے سیب کے کسی اور چیز کو نہیں لگ سکتا اور یہ مشق اور مہارت تھی.یہ ان کی کھیل تھی.زمانہ بدل گیا ہے اس واسطے میں اپنے خدام اور انصار اور اطفال اور ناصرات سے کہتا ہوں کہ آج کی جنگ جن ہتھیاروں سے لڑنی ہے ان ہتھیاروں کی مشق، مہارت اور آپ کا ہنر اور پریکٹس کمال کو پہنچی ہوئی ہو.شکل بدلی ہوئی ہوگی.اُس زمانے میں دفاع کے لئے اور دشمن کے منصوبہ کو نا کام بنانے کے لئے مادی اسلحہ کی بھی

Page 558

555 فرموده ۱۹۸۱ء دو مشعل راه جلد دوم دد ضرورت تھی.غیر مادی ہتھیاروں (بصائر وغیرہ) کے استعمال میں بھی ان کو مہارت حاصل تھی.مگر ہمارے ہتھیار صرف وہ بصائر ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے.بصائر سے مراد دلائل ہیں.بصیرت کی جمع بصائر ہے ایک تو ہے نا آنکھ کی نظر.ایک ہے روحانی نظر جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ ولكن تعمى القلوب التي في الصدور صلى الله آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں روحانی طور پر وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں دھڑک رہے ہوتے ہیں.ایک تو ہماری جنگ بصائر کے ساتھ ہے اور بصائر کہتے ہیں وہ دلیل جو فکری اور عقلی طور پر برتری رکھنے والی اور مخالفین کو مغلوب کرنے والی ہو ہمارے ہتھیار (نمبر دو) نشان ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کا اظہار جو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو اس لئے اور اس وقت عطا کرتا ہے جب وہ محمد ﷺ کی جنگ لڑ رہے ہوں.اس کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے.دعاؤں کے ساتھ اسے جذب کیا جاسکتا ہے.اس کے لئے بصائر سیکھنے دعائیں کرنے کے جو مواقع ہیں اُن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے.اس واسطے جو آنے والے ہیں انکو آج ہی سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ جس مقصد کے لئے ہمیں بلایا جارہا ہے انہیں پورا کرنے کے سامان کر لے.ہمیں بلایا جا رہا ہے باتیں دین کی سننے کے لئے کچھ باتیں کہلوانے کے لئے ہم تقریریں کرتے ہیں یہاں آ کے خدا کرے اس میں بصائر ہوں، آیات کا ذکر ہو.نور ہم نے پھیلانا ہے وہ نور ہم حاصل کرنے والے ہوں، اپنی زندگیوں میں اسے قائم کرنے والے ہوں، اپنے اعمال صالحہ میں اس کو ظاہر کرنے والے ہوں، ظلمات دنیا کو نور میں بدلنے والے ہوں.جو اجتماع ہور ہے اس میں دو طرح کے نظام ہیں جن کی پوری تیاری ہونی چاہیئے.ایک تو جو شامل ہونے والے ہیں.خدام اطفال ناصرات چوکس اور بیدار مغز لے کر یہاں آئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمت اور اُس کے نور اور محمد اللہ کے پیار اور خدا تعالیٰ کے عشق سے اپنی جھولیاں بھر کر واپس جائیں.اس کے لئے ابھی سے تیاری کریں.استغفار کریں.لاحول پڑھیں.شیطان کو اپنے سے دور رکھنے کی کوشش کریں.خدا سے دعائیں مانگیں کہ ہماری زندگی کا جو مقصد ہے حاصل ہو.ایک ہی ہے مقصد ہماری زندگی کا.اس کے علاوہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں اور مقصد یہ ہے کہ اس دنیا میں آج سارے انسانوں پر اسلام اپنے دلائل اپنے نور اپنے فضل اپنی رحمت اور اپنے احسان کے نتیجہ میں غالب آئے اور محمد اے کے جھنڈے تلے نوع انسانی جمع ہو جائے.دوسری تیاری کرنی ہے منتظمین نے.وہ بھی بغیر تیاری کے کچھ دے نہیں سکتے.ایک تو وہ ہیں جو لینے والے ہیں اور معطی حقیقی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس لئے میں نے کہا اُس کا دروازہ کھٹکھٹاؤ تا کہ تمہاری جھولیاں بھر جائیں.ایک ہیں دینے والے اور جو دینے والے ہیں ان کو قرآن کریم نے دو تین لفظوں میں بیان کیا کہ السمومسنون حقا “.مومن مومن میں فرق ہے.ایک وہ گروہ ہے جو محض عام مومن نہیں بلکہ هسم السمومنون حقا.جن کے متعلق میں نے پچھلے خطبے میں بتایا تھا خدا نے یہ کہا کہ اے محمد !

Page 559

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۱ء 556 حسبك الله ومن اتبعك من المومنین (الانفال آیت ۶۵) کہ تیرے لئے وہ مومن کافی ہیں جو تیری کامل اتباع کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی وحی پر پورا عمل کرنے والے الله جن راہوں پر محمد ﷺ کے نقش قدم ہیں اور ان نقوش قدم کو دیکھ کر ان راہوں کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہیں.کامل متبعین.خدا تعالیٰ کے حکم سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا.ان اتب الا مايوحى الى خدا تعالیٰ کی وحی کو ہی سب کچھ سمجھنے والے اور اس سے باہر کسی چیز کی احتیاج نہ رکھنے والے.ایسا بننا چاہئے منتظمین کو بھی.دعاؤں کے ساتھ.آپ اپنا پروگرام بناتے ہیں.اس میں برکتیں بھی پڑسکتی ہیں اور برکتیں نہیں بھی پڑسکتیں.دعائیں کریں گے تو بابرکت ہو جائیں گے.دعائیں کریں گے آپ کے منہ سے نکلا ہوا ایک فقرہ دنیا میں ایک انقلاب عظیم بپا کر دے گا.مثال دیتا ہوں.میں تو بڑا عاجز بندہ ہوں.اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے.پچھلے سال ہی دورے پر میرے منہ سے یہ فقرہ نکلوایا کہ :- Love For All Hatred For None ہر ایک سے پیار کرو کسی سے نفرت نہ کرو.اتنا اثر کیا.اس فقرے نے کہ ابھی مہینہ ڈیڑھ مہینہ ہوا ہالینڈ میں ہمارا سالانہ جلسہ ہوا ہیگ میں ہماری مسجد اور مشن ہاؤس ہے وہاں کے میئر کو انہوں نے بلایا.وہ آئے.میئر کی ان ملکوں میں بڑی پوزیشن ہوتی ہے اور انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں تم احمدیوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تمہارے امام نے جو تمہیں سلوگن دیا تھا کہ Love for all hatred for none کہ ہر ایک سے پیار کرو دیا نفرت کسی سے نہ کرو میں تم سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تم ہالینڈ کے گھر گھر میں یہ فقرہ پہنچا دو کیونکہ ہمیں اس کی ضرورت ہے.ایک فقرہ انقلاب پیدا کر سکتا ہے.ایک گھنٹے کی تقریر سوکھے گھاس کی طرح ہاتھ سے چھوڑ وزمین پر گر جائیے گی.جب تک خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو انسان کامیاب نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگتے ہوئے منتظمین ان اجتماعات کا انتظام کریں اور خدا تعالیٰ کا فضل اور رحمت مانگتے ہوئے شامل ہونے والے ان میں شامل ہوں تا کہ ہم اپنی زندگیوں کے مقصد کو پانے والے ہوں.آمین اس بات کی ذمہ داری کی ہر جماعت سے چھوٹی ہو یا بڑی نمائندہ ان اجتماعات میں آئے سوائے اس کے کہ بعض اکا دُکا استثنائی طور پر ایسی جماعتیں ہیں جس میں سارے ہی خدام ہیں بڑی عمر کا وہاں کوئی نہیں.نئی جماعت بن گئی نو جوانوں کی.وہاں سے کوئی انصار اللہ کے اجتماع میں ممبر کی حیثیت سے نہیں آئے گا.بعض ایسے ہو سکتے ہیں کہ جو دو چار وہاں بڑی عمر کے ہیں اور ابھی خدام الاحمدیہ کی عمر کا کوئی نہیں.اطفال اور ناصرات کی عمر کے تو یقینا ہوں گے وہ کوشش کریں جن کی نمائندگی ہوسکتی ہے.وہ ہو جائے.ہر جماعت کی نمائندگی اپنے اپنے اجتماع میں ہونی چاہیئے.اس کی ذمہ داری ایک تو خودان تنظیموں پر ہے.لیکن اس کے علاوہ تمام اضلاع کے امراء کی میں ذمہ داری لگاتا ہوں اور تمام اضلاع میں کام کرنے والے مربیوں اور معلموں کی یہ ذمہ داری لگاتا ہوں

Page 560

557 فرموده ۱۹۸۱ء دو مشعل راه جلد د دد دوم کہ وہ گاؤں گاؤں.قریہ قریہ جائے.جاتے رہ کر.ایک دفعہ نہیں جاتے رہ کر.ان کو تیار کریں کہ کوئی گاؤں یا قصبہ جو ہے یا شہر جو ہے وہ محروم نہ رہے نہ پنجاب میں، نہ سرحد میں نہ بلوچستان میں نہ سندھ میں اور اس کے متعلق مجھے پہلی رپورٹ امرائے اضلاع اور مربیان کی طرف سے عید سے دو دن پہلے اگر مل جائے تو عید کی خوشیوں میں شامل یہ خوشی بھی میرے لئے اور آپ کے لئے ہو جائے گی.اور دوسری رپورٹ پندرہ تاریخ کو یعنی جو اجتماع ہے خدام الاحمدیہ کا غالبا ۲۳ کو ہے تو اس سے پہلے جمعہ کو سات دن پہلے وہ رپورٹ ملے کہ ہم تیار ہیں.ہر جگہ سے ہر ضلع سے ہر گاؤں ہر قریہ ہر قصبہ ہر شہر اس ضلع کا جو ہے اس کے نمائندے آئیں گے.یہ انتظام جو ہے جس کے متعلق میں بات کر رہا ہوں اس کے بھی آگے دو حصے ہو گئے.ایک کے متعلق میں نے پہلے بات کی تھی جو یہاں کے رہنے والے ہیں.ایک کے متعلق میں اب بات کر رہا ہوں کہ اس وقت نوع انسانی ایک خطر ناک ایک ہولناک ہلاکت کی طرف حرکت کر رہی ہے.اس قسم کی خطرناک حرکت ہے جو انسان کو تباہ کرنے والی ہے اور عقل میں نہیں ان کے آرہی بات کہ ہم کیا کر رہے ہیں.اس واسطے تمام احمدی یہ دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو سمجھ اور فراست عطا کرے کہ اپنے ہی ہاتھ سے اپنی ہلاکت کے سامان نہ کرے.اور خدا تعالیٰ ان کو اس عظیم ہلاکت سے جس کے متعلق پیشگوئیاں بھی ہیں بچالے.ہرانذاری پیشگوئی دعا اور صدقہ کے ساتھ مل جاتی ہے.ان کو تو سمجھ نہیں، انہوں نے اپنے لئے دعا نہیں کرنی.مجھے اور آپ کو تو سمجھ ہے.ہمیں ان کے لئے دعا کرنی چاہیئے اور صدقہ دینا چاہیئے اجتماعات پر صدقہ دینا چاہیئے نوع انسانی کو ہلاکت سے بچانے کے لئے اپنی طاقت کے مطابق ہم صدقہ دیں گے اجتماعات کے موقع پر لجنہ اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ یہ تین انتظامات ۲۱/۲۱ بکروں کی قربانی نوع انسان کو ہلاکت سے بچانے کے لئے ان اجتماعات کے موقع پر دیں گے انشاء اللہ اللہ تعالیٰ فضل کرے انسان پر کہ وہ بہکا ہوا انسان اندھیروں میں بھٹکنے والا انسان اُس روشنی میں واپس آ جائے جو محمد رسول اللہ نے نوع انسانی کی بھلائی اور ترقیات کے لئے آسمانوں سے لے کر آئے ہیں.ہر بچہ میٹرک تک پڑھ جائے اس کی ذمہ داری امرائے اضلاع پر ہے تنظیم انصار اللہ پر ہے تنظیم خدام الاحمدیہ پر ہے ، جماعت پر ہے ضرور کوشش کریں کہ ہر احمدی بچہ کم از کم میٹرک تک پڑھ جائے دس سال کے اندر اندر اور پھر وہ بچے جب دسویں پاس کریں اور یہ پتہ لگے ہمیں کہ بعض بڑے ذہین ہیں تو ان کے آگے پڑھانے کا جماعت ذمہ لے وہ انتظام کرے.تا کہ خدا تعالیٰ نے جو اتنا بڑا ہم پر احسان کیا کہ ہم غریبوں کے گھروں میں ذہین بچے پیدا کر دیے اور ذہانت سے ہماری جھولیاں بھر دیں ہم ان سے بے اعتنائی کر کے ناشکرے نہ بننے والے ہوں.کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے شکر گزار بندوں سے پیار کرتا اور وہ جو شکر نہیں کرتے ، غصے کی نگاہ ان پر ڈالتا ہے.

Page 561

دومشعل ، دوم حسین اخلاق اپنا ئیں فرموده ۱۹۸۱ء 558 پروگرام کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ جماعت احمد یہ بحیثیت جماعت اسلام کے حسین اخلاق پر قائم ہو.اور اصلاح یافتہ معاشرہ اپنے ماحول میں پیدا کرنے کی کوشش کر کے معاشرہ کی برائیوں سے خود کو محفوظ رکھنا اور معاشرہ کو برائیوں سے بچانا آپ کی ذمہ داری ہے اور آپ کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ جو کوئی بھی معاشرہ کو برائیوں سے بچانے کی کوشش میں ہو اس کو آپ کو پورا تعاون حاصل ہو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں اخلاق کو کامل کرنے کے لئے بھی مبعوث ہوا ہوں.اس وقت چند موٹی باتیں میں آپ کو بتا دوں :- - کوئی احمدی جھوٹ نہیں بولتا.کسی احمدی کو گالی دینے کی عادت نہیں ہونی چاہئے.خصوصاًد یہاتی جماعتیں اس طرف متوجہ ہوں.ہر احمد ہی اپنی بات کا پکا ہو جو عہد کرے وہ پورا کرے جو بات کہے اس کے مطابق اس کا عمل ہو یہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے جور بخشیں پیدا ہو جاتی ہیں جماعت کے اندر یا باہر اس قسم کی رنجشیں نہ پیدا ہونے دے.کوئی احمدی اپنے احمدی بھائی سے نہ دوسرے بھائیوں سے لڑائی جھگڑا نہیں کرے گا.اگر احمدیوں میں باہمی کوئی اختلاف پیدا ہو جائے تو جہاں تک قانون ملکی اجازت دیتا ہو اس اختلاف کو جماعتی مصالحت کے ذریعہ سے دور کیا جائے اور آپس کی رنجش ہرگز پیدا نہ ہونے دی جائے.کوشش کرو کہ پیار سے رہو.کوشش کرو کہ پیار کے ساتھ دنیا کے دل خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتو.اگر تم ایسا کرو گے تو خدا کے پیار کو حاصل کر لو گے اگر تم خدا کے پیار کو حاصل کر لو گے تو ہر دو جہان کی نعمتیں تمہیں مل جائیں گی.پھر کسی اور چیز کی تمہیں ضرورت نہیں رہے گی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.( بحوالہ روزنامه الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۸۱ء)

Page 562

559 فرموده ۱۹۸۱ء د و مشعل راه جلد دوم دد حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ ۲۳ اکتوبرا ۱۹۸ء کے افتتاحی تقریب میں جو خطاب ارشاد فرمایا اس کا متن پیش خدمت ہے.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہمارا یہ اجتماع پندرھویں صدی ہجری کا پہلا اجتماع ہے اس لحاظ سے بہت سی اہمیتیں اور خصوصیات اس سے وابستہ ہیں.اس لئے میں نے یہ تحریک کی تھی کہ ہر جماعت کے نمائندے اس میں شامل ہوں اور انصار اللہ کے اجتماع میں بھی پاکستان کی سب جماعتوں کے نمائندے شامل ہوں.دوسری بات یہ کہ پندرھویں صدی ہجری کی ابتداء اور جماعت احمدیہ کے قیام کی دوسری صدی کی ابتداء میں قریبا نو سال کا فرق ہے.یہ ایک وقت میں نہیں آئیں اور اس میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں نظر آتی ہیں.جیسا کہ ابھی میں بیان کروں گا.زمانے کا یہ فرق بڑا اہم ہے.یہ جو نو سالہ زمانہ ہے اس سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ کی تائید اور توفیق سے صد سالہ جوبلی منصوبہ کا اجراء کیا گیا تھا.اس غرض سے کہ ہم آنے والی صدی جو جماعت احمدیہ کے قیام کی دوسری صدی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کی وجہ سے اور اس نتیجہ میں غلبہ اسلام کی صدی ہے.اس کے استقبال کے لئے تیاری کرلیں.یہ زمانے کا جو فرق ہے نو سالہ اس کی اہمیت اس لئے ہے کہ ہمارے قیام کی دوسری صدی جو غلبہ اسلام کی صدی ہے اور پندرھویں صدی ہجری اور ہمارے قیام کی صدی کے درمیان یہ نو سال آئے ہوئے ہیں ” صد سالہ جوبلی منصوبہ کے اعلان پر کئی سال گزر گئے اور نو سال پیچھے سال سے میں شمار کر رہا ہوں.اب تو عملاً آٹھ سال رہ گئے ہیں.پندرھویں صدی ہجری ۸۰ء میں شروع ہوئی تھی.اس صدی کا یہ پہلا اجتماع ہے ) جو کام شروع ہو گئے تھے ان میں تیزی پیدا کرنے کا وقت آگیا اور اس ایک سال کے اندر اللہ تعالیٰ کے اس قدر فضل ہم نے دیکھے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.اس ایک سال میں خدا تعالیٰ کی عظمتوں کے جو نشان اور اس کے پیار کے جو جلوے جماعت احمدیہ نے دیکھے وہ دیکھ کر ہماری عقل دنگ رہ جاتی ہے.خدا تعالیٰ کے کسی ایک فضل کے مقابلے میں بھی انسان کی جو ایک ذرہ نا چیز ہے کوئی حیثیت نہیں.وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھ میں کوئی خوبی یا بڑا ئی تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ احسان کیا.لیکن اتنے عظیم واقعات رونما ہونے لگے.ہمارے جیسے ناچیز انسانوں کے لئے کس منہ سے کن الفاظ میں حمد ادا ہو.مثلاً اس ایک سال میں ایک تو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو جاپان میں ایک نہایت موزوں مقام پر نو تعمیر مکان خریدنے کی توفیق عطا کی اور اس کے لئے خرچ کا انتظام خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے تین ملکوں میں

Page 563

فرموده ۱۹۸۱ء 560 د و مشعل راه جلد دوم پہلے سے کیا ہوا تھا.جب مجھ سے پوچھا گیا کہ یہاں مکان مل سکتا ہے تو میں نے تحریک جدید سے یہ سوال کیا کہ آپ اس کی ادائیگی کہاں سے کریں گے؟ میرے خیال میں دو لاکھ ستر یا اسی ہزار ڈالر کا وہ مکان ہے جس کا مطلب ہے قریباً تمیں لاکھ روپے کا تو انہوں نے مجھے کہا کہ پاکستان سے باہر مشرقی ممالک میں ہماری ایک جماعت ہے اس جماعت نے کہا ہے کہ ہم ایک لاکھ ڈالر وہاں بھیجوا دیں گے اور میرے لئے حیرت کے بات یہ تھی کہ اوّل: ان کے پاس یہ ایک لاکھ ڈالر جمع کیسے رہا؟ دوسرے یہ کہ وہاں بھی اقتصادی حالات ایسے ہیں کہ بڑا مشکل تھا ان کے لئے فارن اینج کی اجازت لے کر ایک لاکھ ڈالر اپنے ملک سے باہر بھجوانا.انہوں نے کہا ہمیں اجازت بھی مل جائے گی اور ہم بھجوا بھی دیں گے.اور باقی جو رہ جاتا ہے ایک لاکھ ستر اسی ہزار وہ امریکہ اور مغربی جرمنی کے پاس پیسے پڑے تھے، انہوں نے کہا پیسوں کی کوئی فکر نہیں ہے.آپ اجازت دیں میں نے سوچا.میں نے دعا کی پھر جب میرا انشراح ہو گیا پانچ دس دن کے بعد تو میں نے انہیں اجازت دے دی.اس وقت تک وہ مکان جو مرزا مبارک احمد صاحب نے پہلے دیکھا تھا وہ بک چکا تھا.لیکن اس سے نسبتاً بہتر مکان چند ہزار ڈالر کی زیادتی کے ساتھ ہمیں اسی علاقے میں مل گیا.قرطبہ میں مسجد کی بنیاد دوسری ہماری بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ قرطبہ ایک صوبہ ہے پین کا.قریباً ۴۵ ۷ سال قبل مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کو بھولنے کے نتیجہ میں عیسائیوں سے شکست کھائی اور یہ صوبہ عیسائیوں کے پاس چلا گیا.اور ۴۵ ۷ سال تک وہاں کوئی مسجد نہیں بنائی گئی.پچھلے سال میں نے اس صوبہ میں مسجد کی بنیاد رکھی.اللہ تعالیٰ نے وہاں زمین خریدنے کا انتظام کر دیا.اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کر دیا کہ حکومت وقت نے ہمیں وہاں مسجد بنانے کی اجازت دے دی اور اللہ تعالیٰ نے یہ اتفاق بھی پیدا کر دیا کہ وہاں ایک چھوٹے سے قصبہ کے میئر کہنے لگے کہ حکومت وقت نے جو مذہبی آزادی کا اعلان کیا اس کے بعد آپ پہلی جماعت ہیں جن کو توفیق ملی ہے اس ملک میں مسجد بنانے کی.یعنی اس آزادی کے اعلان کے بعد اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے ہمیں توفیق عطا کر دی اور اب اس مسجد کی تعمیر قریباً مکمل ہو چکی ہے.صرف میناروں کے اوپر کے حصے تیار ہونے والے رہتے ہیں.باقی بلڈنگ پوری تیار ہوگئی ہے.فرش ہوگئے ، بجلی لگ گئی.پلستر ہو گئے.غسل خانے اور باورچی خانے ہیں وہاں دو ان کے اندرفٹنگز (Fittings) ہو گئیں.صرف مینار بنے رہ گئے اس میں.اس واسطے دیر ہوئی کہ انہوں نے پہلے جو ڈیزائن بنایا تھا اس کو بدلنا چاہتے تھے.میں نے انہیں کہا تھا مجھ سے پوچھے بغیر نقشہ نہیں بدلنا.اس پر کچھ وقت لگا.اب مجھے اطلاع ملی ہے کہ پتھر کا جو مینار بنارہے ہیں وہ قادیان کے مینارہ کا عکس ہے.میں نے انہیں ہدایت دی تھی اگر بیس فٹ اونچا مینار ہے تو میں فٹ میرے بھیجے ہوئے نقشہ کے مطابق بناؤ.اس کے مطابق وہ بن رہے ہیں مینار اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا ( بہت سے آپ میں سے بھول گئے ہوں گے دہرا دیتا ہوں ) اس زمین

Page 564

561 فرموده ۱۹۸۱ء دو مشعل راه جلد دوم کے دوطرف ان کی بڑی سڑک گزر رہی ہے.جس میں چار Lanes ہیں اور قرطبہ سے میڈرڈ جانے والی شاہراہ پر یہ زمین ہے جس میں پہاڑی کا شبہ ہے اس کے سب سے اوپر کے پوائنٹ (Point) پر مسجد بن رہی ہے.ہر آنے جانے والے کی نظر پڑتی رہے گی اس مسجد پر اور اس عبارت پر بھی کہ لا اله الا الله محمدرسول الله اور تیسرے یہ کہ پانچ سات سال ہوئے کینیڈا میں کیلگری کے شہر میں ایک چھوٹی سی جماعت پیدا ہوگئی.یہاں سے گئے.دوسرے ملکوں سے آئے.بہر حال وہاں ایک چھوٹی سی جماعت ہے.انہوں نے ایک گھر خریدنے کے لئے چندہ اکٹھا کیا تا کہ نماز وہاں اکٹھے پڑھ سکیں.بچوں کی تربیت ہو سکے.ان کو قرآن کریم ، قاعدہ یسر نالقرآن، دینی باتیں سکھائی جاسکیں.جب تک جماعت کا گھر نہ ہو اس وقت تک صحیح تربیت نہیں ہو سکتی.انہوں نے لکھا کہ ایک چھوٹا سا مکان شہر کے اندر ہمیں مل رہا ہے قریباً ستر ہزار ڈالر کا.آدھی رقم ہم نے آپس میں مل کے اکٹھی کر لی ہے.بقیہ کی رقم ہمیں قرض دے دی جائے.ہم سال بہ سال قسط وار رقم ادا کر دیں گے.ہر چیز ہر عمل کا بابرکت ہونے کے لئے دعا پر انحصار ہوتا ہے.دعائیں کیں.جب انشراح ہوا میں نے کہا لے لو.یہ نہیں پتہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم یہ کیا مہربانی کرنا چاہتا ہے.یہ پانچ سات سال پہلے کی بات ہے.اب مجھے چند ہفتے ہوئے یہ خط ملا ان کا کہ شہر سے سات میل کے فاصلے پر چالیس ایکٹر زمین اور جو موجودہ مشن ہاؤس ہے اس سے کئی گنا بڑا اور اچھا بنا ہوا مکان ہے مل رہا ہے.ان کی خواہش تھی کہ اگر پھر میرا اتفاق ہو وہاں جانے کا تو اتنی بڑی جگہ ہے کہ ہمارا قافلہ بھی وہاں ٹھہر سکتا ہے اور تین لاکھ پچاس ہزار ڈالرکو وہ جگہ مل رہی تھی.تو خط پڑھ کے یہ احساس ہوتا تھا کہ اب انہوں نے ستر ہزار سے چھلانگ ماری تین لاکھ پچاس ہزار پر لیکن آگے لکھا کہ رقم کی ہمیں اس لئے فکر نہیں کہ وہ جو ستر ہزار ڈالر کا مکان لیا تھا وہ چار لاکھ نہیں ہزار ڈالر میں بک جائے گا اور فرق قیمت خرید اور قیمت فروخت کا ٹھیک ستر ہزار ہے.میرے ذہن میں آیا کہ ہمارے خدا نے پیار سے کہا.یہ پکڑا اپنی رقم ستر ہزار اور ساری کی ساری تین لاکھ پچاس ہزار کا میں انتظام کر دوں گا اور انتظام کر دیا.اس وقت گفت و شنید ہو رہی تھی.اجازت لے رہے تھے وہ.اب ان کی تار مجھے مل گئی ہے کہ اس کا معاہدہ Sign ہو چکا ہے دستخط ہو گئے ہیں اور تین لاکھ میں ہزار میں وہ چالیس ایکٹر ازمین اور بہت بڑا مکان مل گیا.اب آپ یہ سوچیں.دنیا ہم پہ اعتراض کرتی اور ہمیں طعنے دیتی ہے کہ یہ جو تم اتنے پیسے خرچ کر دیتے ہو یہ ضرور کوئی دنیوی طاقت اور ایجنسی اور Source of سرمایہ ہے جو تمہیں رقم دیتا ہے.اب یہاں تو یہ ہوا کہ جو پیسے ہم نے لگائے ہوئے تھے وہ بھی اللہ تعالیٰ نے واپس کر دئیے اور کہا ایک پیسہ جماعت کا نہیں لگنے دوں گا.سارے کے سارے کا میں نے انتظام کر دیا ہے.اب قیمت کا بڑھانا تو ہمارے اختیار میں نہیں تھا.میں ہنسا کرتا ہوں ایسے لوگوں سے بات کرتے ہوئے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ اسرائیل ہمیں پیسے دے سکتا ہے (جو نہیں دیتا ).یا

Page 565

فرموده ۱۹۸۱ء 562 مشعل راه جلد دوم امریکہ ہمیں پیسے دے سکتا ہے جن سے ہم نہیں لیتے.یا پچھلے سال یہ لطیفہ ہوا کہ ایک جوڑا یعنی میاں بیوی پھر رہے تھے قرطبہ کی مسجد میں.جب ان کو پتہ لگا کہ ہم نے سنگ بنیاد رکھا قرطبہ کے قریب تو بڑے آرام اور معصومیت سے میاں کہنے لگا کہ اچھا! پتہ لگ گیا.تم نے سعودی عرب سے پیسے لئے ہوں گے.ان لوگوں کے خیال میں اگر کوئی ہستی پیسے نہیں دے سکتی تو وہ اللہ ہے جو ساری دنیا کے خزانوں کا مالک ہے.ہمارا پیارا رب.اللہ اکبر اللہ اکبر (نعرے) یہ صدی غلبہ اسلام کی صدی اس ایک سال میں خدا تعالیٰ نے پیار کیا.تو یہ جو نو سال کا وقفہ ہے.دوسری صدی شروع ہونے میں اس کی تو برکتوں کے ساتھ ابتداء ہوگئی.پندرھویں صدی ہجری جو ہے وہ بھی غلبہ اسلام کی صدی جو ہماری زندگی کی دوسری صدی وہ بھی غلبہ اسلام کی صدی بنی اکرم ﷺ کی دعاؤں کی برکتیں لئے اصلی اور حقیقی پندرھویں صدی ہجری شروع ہوگئی.اس زندگی کے ساتھ جماعت کے قیام کے ساتھ تعلق رکھنے والی دوسری صدی آٹھ سال بعد شروع ہو رہی ہے.بڑی اہمیت ہے ان نو سالوں میں.ان نو سالوں میں ہم نے استقبال جو اگلی صدی کا کرنا ہے اس میں اپنی قربانیاں دے کے اپنے نفس کی اصلاح کر کے ایک مضبوط ہر لحاظ سے پالنڈ (Polished) اور مہذب جماعت کا ایک حصہ قائم کرنا ہے.اس نو سال میں بنیاد رکھی جانے والی ہے.قربانیاں اپنی انتہاء کو پہنچ جائیں گی.اس کے لئے آپ کو تیار ہونا چاہیئے.عشق کی مستی.اخلاص اور ایثار کی شعائیں ساتوں آسمانوں کی رفعتوں کو چھونے لگیں گی.جو یہ نو سال ہیں وہ آنیوالے حالات کی وسعتوں کے لئے بطور بنیاد کے ہوں گے اور آنیوالے حالات اپنی وسعتوں کے اعتبار سے ہم سے چار مطالبات کرتے ہیں.اور یہ چار مطالبات ہماری زندگیوں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں.اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی توجہ ہر غیر سے ہٹا کر اللہ جو ہمیں پیدا کرنے والا ہے اس کی طرف مرکوز کریں اور فنا کا چولہ پہن کر اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کا عہد کریں.چارمطالبات یہ زمانہ ہم سے کرتا ہے (الف) یہ مطالبہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی طاقتیں ہمیں عطا کی ہیں ان کی نشو ونما کو کمال تک پہنچانا.جسمانی طاقتوں کی نشو و نما کو کمال تک پہنچانا بڑا ضروری ہے.آنحضرت مہ نے اس پر زور دیا.قرآن کریم نے ایک بڑے لطیف انداز میں اس کا ذکر کیا.ہر فطرتی طاقت (جسمانی طاقت بھی ہماری فطرت کا ہی ایک حصہ ہے) مجاہدہ کے ذریعے درجہ بدرجہ بتدریج ترقی کرتی اور کمال کو پہنچتی ہے.یہ ایک دن کا کام نہیں.کہ جادو پڑھا آپ نے اور پھونک ماری آپ کی جسمانی طاقتیں جو ہیں وہ اپنے کمال نشو ونما تک پہنچ جائیں.نہیں بلکہ یہ

Page 566

563 فرموده ۱۹۸۱ء دد د و مشعل راه جلد د ، دوم خدا تعالیٰ کا قانون ہے جو اس کائنات میں ہمیں نظر آرہا ہے.انسان میں بھی یہی جاری ہے.انسان کے متعلق جب بات کرتا ہوں تو کہتا ہوں کہ ہر فطرتی طاقت مجاہدہ کے ذریعے اور درجہ بدرجہ بتدریج کمال کو پہنچتی ہے.اس کے لئے مسلسل ایک مجاہدے کی ایک جد وجہد کی ایک سعی کی ضرورت ہے.اور جو حالات ہیں آنے والے زمانہ مستقبل کے وہ ہم سے جو چار مطالبات کر رہے ہیں ان میں سے (الف) یہ ہے کہ :- جماعت احمد یہ دنیا میں سب سے زیادہ صحت مند جماعت ہو.بڑا ضروی ہے یہ.پہلے زمانہ میں نبی کریم اللہ سے جو تربیت حاصل کرنے والے تھے بڑا ہی کمال جسمانی صحت کے لحاظ سے ان میں پیدا ہوا تھا.ایک مثال دیتا ہوں کسری کے مقابلے میں لڑنے والے مسلمان سارا دن تین چار بار تازہ دم سپاہیوں سے لڑائی لڑنے والے تھے.دو گھنٹے لڑ کے کسریٰ کی سپاہ کی ایک صف پیچھے ہٹ جاتی تھی.تازہ دم آگے آجاتی تھی.مسلمان صبح سے شام تک لڑتے تھے اور راتوں کو اٹھ کے تہجد پڑھتے تھے.اگر جسمانی طاقت ان میں نہ ہوتی تو حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح ان کے منہ سے بھی یہ نکلتا کہ دل اور روح تو چاہتی ہے کہ ایسا کرو لیکن جسم روح اور دل کا ساتھ نہیں دیتا.مسلمانوں کی روح اور ان کے دل جو تھے جو وہ مطالبہ کر رہے تھے ان کے جسم ان کا ساتھ دے رہے تھے.کافی لمبا عرصہ تک اس قسم کے جسم انہوں نے بنائے رکھے اپنے محنت کش، جفا کش، تھکتے ہی نہیں تھے.پتہ نہیں کس چیز کے بنے ہوئے تھے.ایک واقعہ میں نے پڑھا.جب نپولین ایک جگہ جنگ لڑ رہے تھے.ان کا کیمپ کوئی پچانوے میں محاذ جنگ سے پیچھے تھا.پہاڑی علاقہ تھا بہت کٹھن راستے ان کو ایک دن بہت زبر دست فتح حاصل ہوئی محاذ پر لڑنے والے جرنیل نے تفصیلی رپورٹ لکھی اور صبح کو ایک جرنیل کو بلایا.اس کو کہا کہ یہ رپورٹ فوری طور پر نپولین کے ہاتھ میں پہنچنی چاہئے کیونکہ عظیم فتح ہمیں ہوئی ہے اور یہ سامنے عرب گھوڑا ہے اس پر سوار ہو جاؤ اور دوڑ و.پچانوے ۹۵ میل پہاڑی راستوں پر عرب گھوڑے کو دوڑا تا ہوا جب وہ نپولین کے کیمپ پہ پہنچا تو نیچے اترا اور جس افسر کی ذمہ داری تھی رپورٹ لینا اس نے اس کے ہاتھ میں رپورٹ پکڑائی اور خود مر کے گر پڑا.اور عرب گھوڑا جس کی نسل نے بنی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کی تربیت سے تربیت پائی تھی وہ اپنا پاؤں زمین پر مار رہا تھا کہ ابھی میں تھر کا نہیں.مجھے اور چلاؤ.اتنا فرق.اسی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک عرب گھوڑی ایک سوستر، ۷ امیل بغیر کھائے پیئے کے سرپٹ دوڑتی چلی گئی.اور یہ واقعہ ہے کہانی نہیں.بھائی دس بارہ سال کا اپنے بھائی کے سر پر سیب رکھ کر تیر سے اُڑا دیتا تھا.اس وقت میں نشانے کی بات نہیں کر رہا.میں اس مہارت کے حصول کے لئے جو محنت اسے کرنی پڑی اس کی بات کر رہا ہوں.سارا سارا دن وہ اس مہارت کو حاصل کرنے میں لگاتا تھا.

Page 567

مشعل راه جلد دوم اپنے بچوں کو سنبھالیں فرموده ۱۹۸۱ء 564 اب آنے والے زمانہ میں اپنے بچوں کو سنبھالیں انصار اور خدام الاحمدیہ اس کی عملاً کئی شکلیں ہوں گی.جتنی توفیق ملی.(ویسے تو مضمون لمبا ہے ) بتاؤں گا.دنیا میں سب سے زیادہ صحت مند جماعت احمدیہ کو ہونا چاہیئے اگر انہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں.جو موٹی موٹی باتیں ہیں، صحت مند ہونے کے لئے وہ یہ ہیں کہ طیب غذا ہو.طیب غذا کا مطلب ہے کہ جو اچھی بھی ہو اور اس کے جسم سے مطابقت بھی کھاتی ہو.ہر غذا ہر آدمی کے لئے ٹھیک نہیں، طیب نہیں.دوسرے یہ کہ متوازن غذا ہو.خالی آٹا کھانے سے صحت اچھی نہیں رہتی.خالی گوشت کھانے صحت اچھی نہیں رہتی.خالی تر کاریاں کھانے سے صحت اچھی نہیں رہتی.خالی پھل کھانے سے صحت اچھی نہیں رہتی.خالی دودھ پینے سے صحت اچھی نہیں رہتی.خالی اخروٹ اور بادام اور پستہ وغیرہ کھانے سے صحت اچھی نہیں رہتی.بلکہ اب تو بڑی تفصیل میں انسانی دماغ نے تحقیق کی اور بہت ساری شکلیں بنا کے صحیح توازن انسانی غذا میں قائم کر دیا جس کے نتیجے میں انسان کی صحت بہت اچھی ہو جاتی ہے.اپنی صحتوں کی فکر کریں اور تیسری چیز یہ کہ جو کھایا جائے اسے بچایا جائے.یعنی ورزشیں ایسی ہونی چاہئیں جن سے غذا جزو بدن بن جائے اور یہ ہاکی وغیرہ کی بات نہیں میں کہ رہا بلکہ ہر احمدی ہر عمر کا احمدی، ہر جنس کا مردوزن احمدی جو ہے وہ کھانا ہضم کرنے کے سامان پیدا کرے.جو مختلف ہیں.مثلاً میں نے (اب زیادہ باہر نہیں نکل سکتا تو ) گھر میں اپنے کمرے میں ہی ایسا سائیکل رکھا ہے جو مجھے بتا دیتا ہے کہ میں نے اتنے کلو میٹر سائیکل پر سفر کر لیا ہے.تو ورزش جنہوں نے کرنی ہوا انہوں نے اپنے لئے طریقے نکال لئے.صحت کے اچھے رکھنے کے لئے چوتھی چیز جو ہے وہ اخلاقی بدیوں سے بچنا ہے.یہ نہایت ضروری ہے.جو شخص پہنی آوارگی میں مبتلا ہو اس کی صحت بھی ٹھیک نہیں رہتی.جو شخص جسمانی بدیوں میں مبتلا ہو اس کی صحت بھی اچھی نہیں رہتی.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو کسی سمجھدار آدمی سے چھپی ہوئی نہیں.پھر سب کچھ کرنے کے بعد ایک یہ چیز ہے جو سب سے اہم ہے کہ دعا کے ذریعے اللہ جل جلالہ کی رحمت کو جذب کیا جائے.قرآن کریم نے بڑے حسین پیرایہ میں بتایا کہ صحتیں اچھی رکھو.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق جن پر انہوں نے احسان کر کے ان کے ڈنگر کو پانی پلا دیا تھا اور لڑکی نے اپنے باپ کو کہا کہ جسے تو اجرت پر رکھے سب سے اچھاوہ ہے السقوی الامین (القصص: ۲۷) جوطاقتور ہو اور جسمانی طور پر بددیانتی نہ کرتا ہو.جس کی طاقت

Page 568

565 فرموده ۱۹۸۱ء د و مشعل راه جلد دوم نہ ہوگی وہ جسمانی بددیانتی کرے گا مثلاً جانور چرانے کے لئے باہر گیا ہے.اتنی طاقت نہیں ہے کہ سارا دن جانوروں کے ساتھ پھرے.ایک درخت کے نیچے بیٹھ جائے گا چاہے بھیڑیا بھیٹروں کو کھا جائے.تو القوی ہو جو جسمانی کمزوری کے نتیجہ میں بددیانتی کا مرتکب نہیں ہوگا اور الامین، اخلاقی کمزوری کی وجہ سے وہ بددیانتی کا مرتکب نہیں ہوگا.جو قوی بھی ہوگا، دیانتدار ہوگا اپنے جسم کی صحت کے لحاظ سے اور امین بھی ہوگا.اپنے اچھے اخلاق کے لحاظ سے وہ دیانتدار ہوگا.جس میں دو دیانتداریاں پائی جائیں گی.اس سے اچھا اور کونسا مزدور تمہیں مل سکتا ہے.حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ قیامت والے دن سب سے پہلا سوال خدا تعالیٰ بندے سے یہ کرے گا.میں نے تجھے بڑی اچھی صحت دی تو نے اس سے کیا کام لیا.دوسرا مطالبہ یہ ہے :- دینی قوتوں کی نشو و نما ذہنی قوتوں کی نشو و نما کو کمال تک پہنچایا جائے.اب جو پڑھنے والے بچے ہیں بڑا ذہین بچہ ہو.جس بچے میں خواہ کتنا میں خواہ کتنا ہی ذہین ہو ہنی آوارگی پیدا ہو جائے وہ پڑھائی میں اچھا نہیں رہ سکتا.تو ذہنی قوتوں کی صحیح نشو ونما نہیں ہوگی.اس کے اندر کوئی بدی نہیں ہوگی.بہت سارے میں نے ایسے بچوں کو دیکھا ہے کوئی بدی نہیں.کوئی بدا خلاقی نہیں ہے لیکن ذہنی آوارگی ہے.وقت ضائع کرنا گپیں مارنا' دوست مل گئے ہیں، لطیفے سنائے جارہے ہیں اور پڑھائی کی طرف توجہ نہیں.یہ ذہنی آوارگی ہے.میں اس ذہنی آوارگی کی بات کر رہا ہوں اس وقت.ذہنی قوتوں کی کامل نشو ونما کے لئے یہ ضروری ہے کہ دینی آوارگی سے بچا جائے اور پڑھائی پر توجہ قائم رکھنے کی عادت ڈالی جائے اور مجاہدہ کے ذریعے بتدریج ذہنی ورزشیں کرا کے زیادہ بوجھ ڈالا جائے ذہن کے اوپر.عمر کے لحاظ سے بھی جوں جوں عمر بڑھتی جائے اور جسم کی طاقت بڑھتی جائے زیادہ گھنٹے پڑھنے والا ہو.آکسفورڈ میں Balliol کالج کے طلبہ جہاں میں پڑھ رہا تھا جو اچھے ذہین لڑکے محنت کرنے والے تھے وہ کلاسز کے علاوہ اتوار سمیت ہفتے کے سات دن بارہ تیرہ گھنٹے روزانہ پڑھا کرتے تھے.اگر ہم نے اس نوجوان نسل کا مقابلہ کرنا ہے تو سکم از کم اتنا پڑھیں Plus ہماری دعائیں ان سے آگے نکل جائیں گے لیکن اگر ہم ناشکری کرتے ہوئے خدا کی ان سے کم پڑھیں اور دعا بھی نہ کریں تو ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.لیکن نہ کر سکنے کا زمانہ گذر چکا اب.میں بتا رہا ہوں آپ کو.اب ہمیں کرنا پڑے گا مجاہدہ ذہنی ورزش زیادہ بوجھ ڈالتے چلے جانا.تیسرے یہ کہ چوکس اور بیدار رہنا.اس کی بھی عادت ہوتی ہے.دو آدمی گزرتے ہیں ایک راستے پر.ایک شخص جو چوکس اور بیدار ہے سو چیزیں اس کی نظر پکڑتی ہے اور ایک دوسرا شخص ہے.اس سے پوچھا جائے تو وہ ایک دو سے زیادہ بتا ہی نہیں سکتا.مشاہدہ کی عادت نہیں.میں مثلاً یورپ میں پھرتا ہوں.میں آدھا تجربہ وہاں

Page 569

فرموده ۱۹۸۱ء 566 و مشعل راه جلد دوم اپنی آنکھ سے حاصل کر لیتا ہوں.ان کے درخت درختوں کی عمران کے فاصلے مجھے کسی سے پوچھتے نہیں پڑتے.موٹر گزررہی ہوتی ہے.میں اپنے اندازے لگا تا چلا جاتا ہوں.تو یہ صرف میرے لئے دروازہ نہیں کھلا.ہم میں سے ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے چوکس اور بیدار رہ کر زندگی گذارنے کا دروازہ کھلا رکھا ہے.چوتھے تیز نظر یعنی اتنی تیز کہ جو دوسری نظر دس سیکنڈ میں اس چیز کو Grasp کرتی ہے ، پکڑتی ہے جزو دماغ بناتی ہے.اس کے بیسویں حصے میں آدھے سیکنڈ میں وہی چیز اس کے دماغ کا جزو بن جاتی ہے.جس کا مطلب ہے کہ مشاہدہ کی عادت ڈالنا اور اس عادت کی نشو و نما کو بھی کمال تک پہنچانا.ذہنی قوتوں کی نشو و نما کے لئے جو چیزیں چاہیں وہ میں گنا رہا ہوں) پانچویں چیز یہ کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے غیر محدود تعداد میں بکھرے پڑے ہیں.اس لئے ہمیں اپنے اندر یہ عادت پیدا کرنی چاہیئے کہ ہم صفات باری کے جلووں سے پیار کریں اور ان کے مطالعہ سے فطری اور ذہنی لذت محسوس کریں.بڑی عجیب ہے یہ لذت.مثلاً بارش ہوئی موسم بدل رہا ہے.کھڑکی کے سامنے بیٹھ کر صبح کا ناشتہ کرتا ہوں.سامنے یکھتے ہیں میں بھی، منصورہ بیگم بھی کہ درختوں کی شکل ہی بدلی ہوئی ہے.ان کے اوپر سبزہ خوبصورتی ، جوانی ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اپنی اس وقت کی زندگی سے لذت محسوس کر رہے ہیں.تو صفات باری سے پیار کرنا ذہنی قوتوں کی نشونما کے لئے ضروری ہے.اور صفات باری کے جلووں کے مطالعہ سے فطری ذہنی ( میں نے جان کے فطری ذہنی“ کہا ہے کہ فطرت میں تو ہے.ہمیں اس کو ذہنی بھی بنانا پڑے گا.یعنی کانشس مائند Conscious Mind میں اپنے لانا پڑے گا ) ذہنی لذت محسوس کرنا.یہ جو صفات باری کے جلوے ہیں یہ بنیادی طور پر دو قسموں میں دوگروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں.نکلیں لاوہ جلوے جن کے نتیجے میں ساری دنیا کے علوم اور سائنسز (Sciences) اور وہ جلوے نمبر ۲ جو سارے انسانوں کی ہدایت کا سرچشمہ ہیں.قرآن کریم کی آیات.ہماری زندگی کے ہر پہلو کے متعلق ہمیں ہدایات دے دی ہیں.اور ہم سے وعدہ ہے.ہمیں خدا نے طاقت دی.ہمیں خدا نے سمجھ دی.ہمیں خدا نے بشارتیں دیں اور ان بشارتوں میں سے ایک یہ ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:- اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے پھر آپ فرماتے ہیں:- ( تذكرة الشهادتين صفحه ۶۴) اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی

Page 570

567 فرموده ۱۹۸۱ء کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گئے“.د و مشعل راه جلد دوم دد (تجلیات الہیہ صفحہ ۷ ) ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک ہم تمام مہذب قوموں کو یہ جو دنیا کی مہذب قومیں ہیں نا چاند تک پہنچ گئیں.دوسرے ستاروں کی تصویریں یہاں لا رہی ہیں اور بڑا کچھ انہوں نے صفات باری کے جلووں میں سے علم حاصل کیا ) جب تک ہم علم کے میدان میں ان کو شکست نہیں دیتے ہم اسلام کو غالب نہیں کر سکتے.اخلاقی استعدادوں کی نشو و نما اس واسطے ضروری ہے کہ ہر احمدی کا ذہن کامل نشو و نما حاصل کرے کیونکہ اتنی ذمہ داریاں ہیں ہم پر.اب مثلاً ایک کروڑ ہے احمدی.پتہ نہیں کتنی آبادی ہے.تو دس دس ہیں ہیں سوسو مختلف دماغ تمہارے سامنے رکھے گئے.ان کو پڑھاؤ سبق اسلام کے تمہیں مشکل پڑ جائے گی اگر ابھی سے اس کے لئے تیاری نہ کی.اور تیسرا مطالبہ جو ہم سے یہ حالات کر رہے ہیں کہ اخلاقی استعدادوں کی نشو ونما کو کمال تک پہنچائیں.اخلاقی استعدادوں کی نشو و نما کا اور ان کے کمال تک پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے اخلاق ہیں.قرآن کریم میں اس کی صفات بیان ہوئی ہیں وہ ہماری زندگی میں ہمارے افعال اور اعمال میں پیدا ہو جائیں.مثلاً خدا تعالیٰ رحم کرنے والا ہے.عفو ہے اس کا.جس طرح وہ عفو کرتا ہے ویسے بنو.خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر میں ہر ایک کو اس کے گناہ کے نتیجے میں پکڑنا چاہوں تو دنیا کی آبادی ختم ہو جائے.بڑا معاف کرتا ہے وہ اور یہ جو اس نے کہا کہ میرے خیال میں ایک ہزار میں سے نو سوننانوے ۹۹۹ ایسے گناہ ہوں گے ) میں اس دنیا میں تمہیں سزا نہیں دیتا.جب دوسری دنیا میں جاؤ گے تو میری رحمت کے دو جلوے ظاہر ہوں گے.انسانوں پر.ان کی روحوں پر نئے جسم جو ان کو ملیں گے ان پر.ایک یہ کہ جو جنت کے مستحق ہوں گے میری نگاہ میں وہ جنت میں بھیجے جائیں گے اور ہر شام ان کی اس دن کی صبح سے مختلف اور ہر صبح ان کی پہلی شام سے مختلف.(چوبیس گھنٹے کا اگر دن ہم سمجھیں.پستہ نہیں وہ کیا دن ہوگا اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن تمہیں سمجھانے کے لئے میں یہ اگر فرض کرلوں کہ وہ چوبیس گھنٹے کا دن ہے ) تو بارہ گھنٹے کے اندر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت ان کی زندگیوں میں ایک نہایت حسین اور پر لذت انقلاب عظیم بپا کر دے گی اور جن کو وہ اپنی رحمت کے نتیجہ میں یہاں سزا نہیں دیتا اور دوزخ میں وہ چلے گئے وہ ان کی اصلاح کا سامان کرتا ہے وہاں.اس بات کو قرآن کریم نے کھول کے بیان کیا ہے مگر لوگ سمجھتے نہیں اور انسان جلدی تیار ہو جاتا ہے اس کو جہنم میں پہنچانے کے لئے.میرا اور تیرا کام ہی نہیں ہے کسی کو جہنم میں پہنچا نا.خدا نے کہا ہے کہ میں اس لئے سزا نہیں دیتا تا کہ ان کو مہلت ملے کہ وہ تو بہ اور استغفار کریں اور میں ان کو معاف کروں.رحمت نہیں ہے یہ کافر کے متعلق یہ الفاظ بولے.فاسق کے متعلق یہ الفاظ بولے.فاجر کے متعلق یہ الفاظ بولے.قرآن کریم میں منافق

Page 571

فرموده ۱۹۸۱ء 568 د دمشعل را دوم کے متعلق یہ الفاظ بولے اور مرتد کے متعلق یہ الفاظ بولے اور مرتد کے جو قرآن کریم نے معنی کیے تھے آج دنیا ان معنوں کو بھی بھول گئی.اس بحث میں میں اس وقت پڑنا نہیں چاہتا.تو یہاں سزا نہ دینا اس لئے ہے کہ شاید تو بہ کر لے.وہاں جہنم میں بھیجنا اس لئے ہے کہ رحمت نازل ہو اور جتنی جتنی وہ اصلاح کرتا جائے.اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قریب ہوتا جائے.ایک دن مجھے خیال آیا کہ قرآن کریم نے فرما یار حمتی وسعت کل شی (الاعراف آیت: ۱۵۷) قرآن کریم نے یہ بھی کہہ دیا کہ میں شرک کو معاف نہیں کروں گا یہ کیا ؟ دونوں میں جوڑ کیسے میرا دماغ جوڑے؟ تو خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھایا کہ میں نے انہیں کہا کہ پوری سزا دوں گا مشرک کو.یہ کہا ہے معاف نہیں کروں گا.یعنی سزا کچھ نہ کچھ ضرور دوں گا.غیر مشرک کو پوری کی پوری معافی بھی مل سکتی ہے.یعنی کسی ایک گناہ کی بھی سزا نہ ملے.یا کسی ایک گناہ کے ایک ہزارویں حصے کی بھی سز انہیں دوں گا.پوری معافی مل جائے گی.لیکن مشرک کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوگا.لیکن رحمتی وسعت کل شی.ایک مشرک کو جو مستحق تھا کہ ایک کروڑ سال وہ جہنم میں گزارے اسے ایک سال جہنم میں رکھ کر سزا دیدی اور پھر معاف کر دیا.اللہ بڑا رحم کرنے والا ہے لیکن اس کی رحمتوں کو انسانی دماغ بعض دفعہ محدود کرنا شروع کر دیتا ہے.اس واسطے مجھ سے تو کوئی پوچھے کہ کافر جہنم میں جائے گا؟ میں کہوں گا مجھے کیا پتہ جائے گا یا نہیں.میرا کام ہی نہیں یہ.میرا یہ کام ہے کہ اس کو سمجھاؤں.اگر وہ کفر پہ مرے تو پھر میرا تو اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا.میں اس دنیا میں ہوں.وہ چلا گیا یہاں سے پھر يغفر لمن يشاء ويعذب من يشاء (المائدہ آیت: ۱۹) جس کو چاہیے گا معافی دے دے گا.خالق ہے.مالک ہے.کسی کی گرفت اس پر نہیں.جس کو چاہے گا معاف کر دے گا.جس کو چاہے گا سزادے دے گا لیکن اس کے نتیجے میں ہمیں بے فکرے نہیں بن جانا چاہیئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایک سیکنڈ کا جو قہر ہے اور غضب ہے وہ بھی انسان برداشت نہیں کر سکتا.ایک تو اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے اپنی زندگی میں پیدا کرو اپنے اعمال میں اپنی صفات میں اور دوسرے اس کے لئے یہ ضروری ہے اخلاقی استعدادوں کی کامل نشو و نما کے لئے کہ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا.کسان خلقه القرآن (مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحه ۹) نبی اکرم مال لینے کے اخلاق قرآن کریم کی کامل اتباع تھی.آپ بھی قرآن کریم کی وحی کی کامل اتباع کر کے نبی کریم کے اس اسوہ پر عمل کرتے ہوئے کہ ان اتبع الا ما يوحی الی (یونس آیت.۱۶) جو مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے میں اس کی اتباع کرتا ہوں.قرآن کریم نے جو اخلاق پیدا کے محمد ﷺ میں، ہم میں وہ نہیں پیدا ہو سکتے.کیونکہ ہماری استعداداتی نہیں ہے.لیکن ہماری استعداد اس اسوہ پر ان کے نقش قدم پر چل کے اپنے کمال کو پہنچ سکتی ہے.محمد ﷺ اپنی استعداد کے مطابق اپنے کمال کو پہنچے.ہم میں سے ہر ایک اپنی استعداد کے مطابق اپنے کمال کو پہنچ سکتا ہے.اس کے لئے مطہر بننے کی ضرورت ہے.کیونکہ فرمایا.لايسمسه الا المطهرون (الواقعہ آیت ۸۰) محض ظاہری اتباع وحی الله

Page 572

569 فرموده ۱۹۸۱ء د و مشعل راه جلد دوم قرآنی کی کافی نہیں پاکیزہ راہوں کو اختیار کرنا اور عاجزانہ بندھنوں میں خود کو باندھ کر فنا کا جبہ اوڑھ لینا یہ ضروری ہے.قرآنی تعلیم کے متعلق آپ نے بہت کچھ سنا.یہ جو تسخلقوا باخلاق اللہ ہے ( میں اخلاق کی اور پاکیزگی کی بات کر رہا ہوں) اس کے متعلق میں آپ کو یہ کہنا چاہتا ہوں.قرآن ہماری جان ہے.قرآنی تعلیم کو ہماری روح میں اسی طرح گردش کرنا چاہئے جس طرح ہمارے جسم میں ہمارا خون گردش کر رہا ہے.اس کے بغیر ہم اچھے اخلاق تخلقوا باخلاق اللہ اور خلقه القرآن کے مطابق اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتے.روحانی صلاحیتوں کی نشو ونما چوتھا مطالبہ ہم سے یہ کیا گیا کہ روحانی صلاحیتوں کی نشو ونما کوکمال تک پہنچانا.روحانی صلاحیتوں کی نشو ونما اپنے کمال کو تب پہنچتی ہے جب بندہ کا اپنے رب سے زندہ تعلق پیدا ہو جاتا ہے.بندہ ایک عاجز بندہ ہے اور ہمارا رب شہنشاہوں کا بھی شہنشاہ.اس رفعت اس بلندی تک کوئی انسان پہنچ نہیں سکتا.یہ اپنی جگہ درست.لیکن اپنی مہربانی سے اس نے یہ انتظام کیا کہ اس کا یہ عاجز بندہ اس کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ہر آن اس کے فضلوں کو حاصل کر سکتا اور ہر لحظہ رحمتیں اس پر نازل ہو سکتی ہیں اللہ تعالیٰ کی.جب یہ زندہ تعلق پیدا ہو جائے تو ایک نئی زندگی ملتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اعلان کیا گیا نبی کریم ہے کے متعلق کہ محمد کی آواز پر لبیک کہو کہ وہ اس لئے تمہیں بلا رہا ہے کہ وہ تمہیں زندہ کرے.جو خدا میں فانی ہو جاتا ہے وہ نئی زندگی پاتا ہے اور اس نئی زندگی کی جو علامتیں قرآن کریم میں مذکور ہوئی ہیں ان میں سے چند ایک میں بتا دیتا ہوں:.صلى الله قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں محبت میں مست ہو کر فانی ہو جانے والے انسان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے.فرشتے ان پر نازل ہوتے ہیں.دوسرے یہ کہ فرشتے اس سے یا ان سے ہمکلام ہوتے ہیں.تیسرے یہ کہ فرشتے ان کو جنت کی بشارت دیتے ہیں.چوتھے یہ کہ فرشتوں کا ان کے پاس آنا بطور دوست کے ہوتا ہے.بڑی مہربانی ہے خدا فرشتوں کو کہے کہ میں نے تمہیں ان کا دوست بنا دیا.جس طرح ہجرت کے بعد مدینہ میں نبی اکرم ﷺ نے مہاجرین اور انصار کو بھائی بھائی بنا دیا تھا.خدا تعالی کہتا ہے.ان الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا تتنزل عليهم الملائكة الاتخافوا ولا تحزنوا وابشروا بالجنة التي كنتم توعدون نحن اوليؤكم في الحيوة الدنيا و في الآخرة.( حم السجده آیت: ۳۱-۳۲) اس دنیا میں ہم تمہارے دوست ہیں اور گونگے دوست نہیں ہیں وہ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا وہ ہمکلام ہوتے ہیں اور یہیں ہماری دوستی ختم نہیں ہوگی بلکہ مرنے کے بعد بھی ہم تمہارے دوست ہیں.

Page 573

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۱ء 570 جونئی زندگی پاتا ہے اس کے متعلق یہ اعلان ہوا جو بڑاز بر دست وانتم الاعلون ان کنتم مومنین آل عمران آیت : ۱۴۰) ہر شعبہ زندگی میں (اچھی طرح سنیں) ہر شعبہ زندگی میں بالا دستی تمہاری ہوگی اگر تمہارا زنده تعلق زنده خدا سے ہوگا.ہر شعبہ زندگی میں بالا دستی تمہاری ہوگی.ایک شرط ہے ان کنتم مومنین ایمان کے تقاضوں کو پورے کرتے چلے جاؤ اور ہر شعبہ زندگی میں بالا دستی کو حاصل کرتے چلے جاؤ.حضرت اقدس فرماتے ہیں:.”خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الہی اور تو بہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے.سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہوگا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا.(اشتہار ۴ مارچ ۱۸۸۹ء) مغربی اقوام کو ہم شکست نہیں دے سکتے.جب تک صحت کے میدان میں ہم انہیں شکست نہ دیں.یعنی صحت کے لحاظ سے جسمانی صحت کے لحاظ سے ہم ان سے آگے نکلنے والے ہوں.زیادہ جانفشانی سے کام کرنے والے ہوں.زیادہ ہمت رکھنے والے ہوں عزم پختہ رکھنے والے ہوں.تھکنے والے نہ ہوں جیسا کہ میں نے بتایا لڑائیوں میں صحابہ نے اور تابعین نے یہ ثابت کیا.مغربی اقوام و دیگر غیر مسلم اقوام کو جب تک ہم علم کے میدان میں شکست نہ دیں گئے شکست نہیں دے سکتے.اتنا آگے نکل گئے ایک حصہ علم جو روحانی اخلاقی علم ہے ان میں نہیں.یہ درست ہے لیکن جو دوسرے علوم ہیں ان میں تو وہ آگے نکل گئے اور جیسا کہ میں نے بتایا وہ بھی صفات باری تعالیٰ کے جلوے ہیں جن کا علم انہوں نے حاصل کیا.تو جب تک علم کے میدان میں ان اقوام کو شکست نہیں دیں گے.اسلام غالب نہیں آئے گا اور جب تک اخلاقی اعجاز دکھا کر اخلاق کے میدان میں انہیں شکست نہیں دیں گے اسلام ان خطہ ہائے ارض میں غالب نہیں آئے گا.اور جب تک نشان اور معجزہ اور قبولیت دعا کے نتیجہ میں انہیں باور نہیں کرا دیتے کہ روحانیت ہے اور اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کیا جاسکتا ہے اسلام کو غالب نہیں کر سکتے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سوٹے نے فرعون کی فرعونیت کے اثر دہا کا سر کچلا.اس وقت جماعت احمدیہ کی عاجزی کی پتلی سی کمزور چھڑی کے ساتھ خدا تعالی یہ معجزہ دکھانا چاہتا ہے کہ ان تمام طاقتور قوموں کا سر کچلا جائے اور ان کا غرور توڑ دیا جائے اور ان کا تکبر مٹی میں ملا دیا جائے.(بحوالہ روزنامه الفضل ربوہ.جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۸۱ء)

Page 574

دو د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۱ء 571

Page 575

مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۱ء 572 حضرت خلیفہ اصسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ ۲۵ اکتو برا ۱۹۸ء کی اختتامی تقریب میں خطاب ارشاد فر مایا اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے.ربوه ۲۵ اکتو بر حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ اور لجنہ اماءاللہ مرکز ی ربوہ کے سالانہ اجتماعات کے آخری روز خدام ولجنات اور دیگر زائرین کو خطاب سے نوازا.حضور کا یہ خطاب اجتماع خدام کے ساتھ ساتھ لجنہ اماءاللہ کے اجتماع میں بھی سنایا گیا.حضور انور نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ چار قو تیں اور استعداد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو عطا کی گئی ہیں.جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی.ان میں سے ہر استعداد کے میدان میں احمدی مردوں اور عورتوں کو ساری دنیا سے آگے نکل جانا چاہئے.حضور نے فرمایا کہ اسی طرح ہی اسلام دنیا میں غالب آ سکتا ہے.حضور نے صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ محترم محمود احمد صاحب کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ برکت اسی کو ملے جو مخلصانہ نیت سے خلافت کی اتباع کرے کیونکہ ساری برکتیں اسی نظام سے وابستہ ہیں.اس کے سوا کوئی بات اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا مرتبہ حاصل نہیں کر سکتی.مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے ۳۷ ویں سالانہ اجتماع کا اختتامی خطاب ارشاد فرمانے کے لئے حضور انور ساڑھے تین بجے کے قریب مقام اجتماع واقع گھوڑ دوڑ گراؤنڈ تشریف لائے.حضور کی کار کے مقام اجتماع میں داخل ہوتے ہی سٹیج سے دھیمی آواز میں لالہ لہ اللہ کا ورد شروع کیا گیا.پنڈال کے باہر صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ محترم محمود احمد صاحب اور ان کی مجلس عاملہ کے ارکان نے حضور انور کا استقبال کیا.حضور انور کے پنڈال میں داخل ہوتے ہی جملہ حاضر میں خدام ، اطفال اور انصار زائرین احتراما کھڑے ہو گئے.سٹیج سے اس وقت جو نعرے لگائے گئے اور جن کا خدام نے پور جوش و جذبہ سے فلک شگاف آوازوں میں جواب دیا وہ یہ تھے.نعرہ تکبیر، حضور خاتم الانبیاء زنده باد، اسلام زندہ باد، خانه کعبه پائندہ باد، احمدیت زنده باد، ناصر الدین زنده باد فاتح الدین زندہ باد، امن کا سفیر مرزا ناصر احمد زندہ باد، مرزا غلام احمد کی جے، خلافت احمد یہ زندہ باد اور خلیفہ ز والقر نین زندہ باد.نعروں کی گونج ختم ہونے کے بعد حضور نے جملہ حاضرین کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا اور خدام کو بیٹھنے کی ہدایت فرمائی.اس کے بعد صدر محترم محمود احمد صاحب نے پندرہ بار اللہ اکبر کا نعرہ لگایا.ان کے اللہ اکبر کہنے کے جواب میں خدام بھی پورے جوش اور ولولہ سے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر ان کا جواب دیتے رہے.اس کے بعد چند مرتبہ انہوں نے لا الہ الا اللہ کا ورد کیا.اس کے بعد تلاوت قرآن کریم سے اختتامی اجلاس کا باضابطہ آغاز ہوا جو کہ

Page 576

573 فرموده ۱۹۸۱ء دد د و مشعل راه جلد دوم مکرم لئیق احمد صاحب طاہر نے کی.اس کے بعد حضور نے سب خدام سے کھڑے ہو کر ان کا عہد دو ہروایا.بعد ازاں مکرم صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب نے حضرت اقدس کا شیریں کلام نہایت مؤثر انداز میں ترنم سے پڑھ کر سنایا.بعد ازاں حضور نے بورڈ اور یو نیورسٹیوں کے امتحانات میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کرنے والے طلباء کو تحفے تقسیم فرمائے اور بعد میں اجتماع کے مقابلوں میں اہم پوزیشنیں حاصل کرنے والوں کو انعامات عطا فرمائے.حضور تین بج کرترین منٹ پر منبر پر تشریف لائے اور خدام اور دیگر حاضرین کو اپنے خطاب سے نوازا.حضور انور کا خطاب چار بج کر پچپن منٹ تک جاری رہا.اس طرح حضور نے قریباً ایک گھنٹہ خطاب فرمایا جس کے بعد حضور نے دعا کروائی اور السلام علیکم ورحمہ اللہ برکاۃ اور خدا حافظ و ناصر فرما کر واپس تشریف لے گئے.حضور انور نے اپنے خطاب کا آغاز تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت سے فرمایا.حضور نے اپنے خطاب کے آغاز میں خلافت (قدرت ثانیہ ) کے نظام کی برکات اور اہمیت پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ ساری برکات اسی انظام سے وابستہ ہیں جو کہ ب ساری دنیا میں پھیل گیا ہے.حضور نے فرمایا کہ میں سب کے لئے دعائیں کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت سے ان کی قبولیت کے نشان بھی دکھلاتا ہے.حضور نے فرمایا کہ ہر احمدی جو خدا پر تو کل رکھتا ہے اس یقین پر قائم ہے کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے اللہ تعالیٰ غیرت رکھتا ہے اور اس کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے اور جو بھی شخص اللہ تعالیٰ کی اتباع میں سلسلہ کے لئے غیرت دکھاتا ہے وہی کامیابی اور برکتیں حاصل کرتا ہے اور جو شخص یہ سمجھتا کہ مجھ میں بہت سی قابلیتیں ہیں اور اب میں اپنے زور سے کامیابیاں حاصل کروں گا اور مجھے خلافت کی دعاؤں کی کوئی ضروت نہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتا.حضور نے اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کی غیرت کا ایک واقعہ بطور مثال سنانے کے بعد فرمایا کہ خدا نے حضرت اقدس کو ایک مقصد کے لئے بھیجا ہے اور وہ مقصد مرزا غلام احمد قادیانی کی عزت کو قائم کرنا نہیں بلکہ حمد صلی اللہ لیہ وسلم کی عزت کو ساری دنیا میں قائم کرنا ہے.اس مقصد کے لئے جو چاہئے تھا اللہ نے ہمیں دے دیا ہے.علم اور دلائل کی دولت عطا کرنے کے علاوہ ہمارے دلوں میں اپنے جانی دشمنوں کا بھی پیار پیدا کر دیا ہے.حضور نے اس ضمن میں ۱۹۷۴ء کے بعض ایمان افروز واقعات سنائے اور فرمایا کہ محمد صلی اللہ علہ وسلم کے طفیل بڑی برکتیں حاصل ہوتی ہیں.ہر انسان جو پیدا ہوا ہے اس نے مرنا ہے لیکن خلافت کا سلسلہ ایسا ہے کہ ایک شخص جو جاتا ہے وہ برکتوں سے بھری ہوئی جھولی پیچھے چھوڑ جاتا ہے.حضور نے فرمایا کہ پچھلے سال خدام الاحمدیہ کے صدر کا جو انتخاب ہوا اس میں ووٹوں کے لحاظ سے محمود احمد صاحب ( موجودہ صدر خدام الاحمدیہ ) پانچویں نمبر پر تھے اور میں یہ سبق جماعت کو دینا چاہتا تھا کہ جن چار کو ووٹ زیادہ ملے ان کے کام میں برکت ان کے ووٹوں کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ جو مخلصانہ نیت سے خلافت کی اتباع کرے گا وہی برکت حاصل کرے گا.چنانچہ پانچویں نمبر پر جو محمود احمد بنگالی صاحب تھے ان کو میں نے صدر مقرر کر دیا.بڑے مخلص آدمی ہیں اللہ ان کے اخلاص میں ترقی دے.بڑا کام کیا دعائیں لیں.

Page 577

فرموده ۱۹۸۱ء 574 د و مشعل راه جلد دوم حضور نے ۱۹۶۰ ء سے لے کر اب تک مختلف صداران مجالس خدام الاحمدیہ کے زمانوں میں اجتماعات میں مجالس کی نمائندگی کے گراف کا ذکر کرنے اور اس میں ایک مرحلہ پر درمیان میں تنزل کے علاوہ تدریجی ترقی کی طرف اشارہ کرنے کے بعد فرمایا میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کامیابی ووٹ لینے والوں کو نہیں خلیفہ وقت کی دعائیں حاصل کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے.پچھلی دفعہ پانچویں نمبر پر ووٹ لینے والے صاحب کو صدر بنایا گیا تھا ان کے پہلے سال اے کے مجالس حاضر تھیں اور دوسرے سال یعنی اس سال ۸۱۸ مجالس حاضر ہیں.حضور نے فرمایا امسال لجنہ نے بھی میری تحریک پر زیادہ بہتر رد عمل کا مظاہر کیا ہے.حضور نے محترم صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب کی کارکردگی کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرمایا ممالک بیرون میں خدام الاحمدیہ کی مجالس اور تنظیم کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر تھی.اس صورت حال میں پچھلے سال خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے درخواست کی کہ بیرونی ممالک میں دو سال کے اندر اندر دو مساجد کے قیام کے لئے یورپ اور امریکہ کے خدام سے رقم اکٹھی کرنے اور مساجد تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے جس کا مطلب یہ تھا جگہ کے لئے ۴ لاکھ پاؤنڈ یعنی قریباً اسی لاکھ پاکستانی روپیہ اکٹھا کرنا تھا.حضور نے فرمایا کہ ان ممالک میں خدام کی جو تنظیم تھی اس کے پیش نظر میرا خیال نہیں تھا کہ خدام اس کو بہت جلدا کٹھا کر لیں گے.مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ مرزا فرید احمد کے دورے کے نتیجے میں ۴، ۵ مہینے کے اندر اندر ۲ لاکھ ۲۰ ہزار پاؤند یعنی قریباً ۵۲ لاکھ رو پیدا کٹھا ہو کر بنک میں جمع ہو چکا ہے.تین لاکھ پاؤنڈ بھی شاید اور تھوڑے عرصے میں ہو جائے.حضور نے فرمایا کہ زمین حاصل کرنے کے راستے میں بڑی مشکلات تھیں.ایک جگہ دیکھی کسی احمدی نے کہا کہ یہاں تو زلزلے آتے ہیں ، مکان گر جاتے ہیں، میں نے کہا کہ یہ بات تو میرے لئے اور اچھی ہے کہ لوگ یہاں سے بھاگیں گے تو زمین ستی مل جائے گی.اور زلزلے کا مجھے کوئی خوف نہیں مجھے خدا پر یقین ہے جس نے ہمارے حضرت اقدس سے یہ کہلوایا کہ مجھے آگ سے مت ڈراؤ.آگ تو ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے اور یہ زلزلہ بھی تو زیرزمین آگ کی وجہ سے ہی آتا ہے.حضور نے فرمایا کہ انشاء اللہ جلسے سے پہلے پہلے یہ زمین مل جائے گی اور امید ہے کہ ایک سال کے اندراندر مسجد بھی بن جائے گی.حضور نے فرمایا کہ اس علاقے میں بڑے سخت کٹر عیسائی ہیں لیکن متعصب نہیں ہیں.حضور نے فرمایا کہ میں آج اس اجتماع میں مرکز احمدیت ربوہ سے پاکستان کے تمام خدام کی طرف سے اپنے ان تمام بھائیوں کو جزاکم اللہ کہتا ہوں جو یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں بسنے والے ہیں.انہوں نے انتہائی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے گھر کے لئے دی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بہتر سے بہتر جزا دے اور ترقیات کی راہوں پران کے قدم اور تیز کر دے.آمین حضور نے محترم صاحبزادہ صاحب کے کام کی تعریف فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب نے جو کام کیا ہے وہ قابل قدر ہے.یہ میں اس لئے نہیں کہ رہا کہ وہ میرا بیٹا ہے.بلکہ میں خلیفہ وقت کی حیثیت سے

Page 578

575 فرموده ۱۹۸۱ء دو مشعل راه جلد دوم اس کام کو سراہتا ہوں.وہ ایک خادم ہے اس نے دن رات کام کر کے یہ کامیابی حاصل کی.وہ یہ کام ہرگز نہ کر سکتا تھا ہاں اللہ تعالیٰ نے اس کے کام میں برکت ڈالی.حضور نے فرمایا کہ یہ بڑی رقم ہے.ہمارے پاکستان کی کل جماعت کا جو چندہ ہے اس کے ۵۰ فیصد سے زائد ہے.صاحبزادہ صاحب نے ان لوگوں سے پیار بھی کیا.سمجھایا بھی جھنجھوڑا بھی.میں خلیفہ وقت کی حیثیت سے آپ سب کی طرف اسے ایک انعام دیتا ہوں.حضور انور نے یہ کہہ کر محترم صاحبزادہ صاحب کو آواز دی اور فرمایا :- ادھر آؤ محترم صاحبزادہ صاحب اس وقت پنڈال کے پچھلے حصے میں کھڑے حضور کا خطاب سن رہے تھے.حضور کا ارشادسن کر وہ تیزی سے آئے.تمام نظریں صاحبزادہ صاحب کی طرف اٹھ گئیں.حضور نے بھی اپنا خطاب روک دیا اور مڑ کر صاحبزادہ صاحب کا انتظار کرنے لگے.یہ لمحے بڑے یاد گار تھے.پندرہ ہزار کا مجمع اشتیاق سے سانس رو کے حضور انور اور صاحبزادہ صاحب کی طرف دیکھ رہا تھا کہ دیکھیں امام وقت ایک محنتی خادم کو اس کی عظیم اور تاریخی خدمات پر کیا انعام مرحمت فرماتے ہیں.سٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگوں نے ادھر ادھر ہٹ کر صاحبزادہ صاحب کو راستہ دیا اور حضور نے اس محنتی اور لائق خادم کا سر اپنے مبارک ہاتھوں میں تھام کر ان کے ماتھے کے دائیں طرف بوسہ دیا.درجنوں کیمروں کی فلیش لائٹس چمکیں اور یہ تاریخی لحہ ہمیشہ کے لئے کیمروں میں محفوظ کر لیا گیا.حضور کا بوسہ حاصل کرنے کے بعد محترم صاحبزادہ صاحب نے حضور انور سے مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل کی.واپس جاتے ہوتے صاحبزادہ صاحب جذبات کا جوش سے آبدیدہ ہو گئے اور رومال نکال کر اپنے آنسو خشک کرتے رہے.حضور نے پھر فرمایا ہر آدمی جو نیک نیتی سے کام کرے اس کا نتیجہ اللہ تعالی دیتا ہے.اس ضمن میں حضور نے برطانیہ کے مشنری انچارج محترم شیخ مبارک احمد صاحب کا ذکر فرمایا جن کی مساعی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک سال کے اندر اندر برطانیہ میں پانچ مشن ہاؤس قائم کروا دیئے.حضور نے فرمایا کہ جب انہوں نے یہ اعلان کیا تو ان کی بات ایک گپ لگتی تھی اور پریس کانفرنس میں جب مجھ سے یہ پوچھا گیا کہ کیا واقعی ایک سال میں برطانیہ میں پانچ مراکز احمدیت قائم ہو جائیں گے تو میں نے یہ سوچ کر ہاں کر دی کہ اب انہوں نے کہہ دیا ہے تو خدا تعالیٰ بھی غیرت رکھنے والا ہے وہ ضرور برکت ڈالے گا.جب کام شروع کیا گیا تو اس کام کے لئے ایک پیسہ بھی نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے نتیجہ میں سال سوا سال میں پانچ مراکز قائم کر دیئے.سید نا حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے چار قو تیں اور استعدادیں انسان کو عطا کی گئی ہیں.یہ جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی استعدادیں ہیں.احمدی مردوں اور عورتوں کو ہر استعداد کے میدان میں ساری دنیا سے آگے نکل جانا چاہئے.حضور نے فرمایا کہ اس کے بغیر اسلام دنیا پر غالب نہیں آ سکتا.

Page 579

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۱ء 576 اجتماع خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کے اختتامی اجلاسوں میں دونوں تنظیموں کے اراکین کو بیک وقت خطاب کرتے ہوئے حضور نے بتایا کہ حضور نے اجتماع کے اختتامی روز جو کچھ بیان کیا تھا وہ ایک لمبے مضمون کا خا کہ تھا.حضور نے فرمایا کہ ابھی اس سکیم کے صرف عنوان بتائے گئے ہیں مگر میں چاہتا ہوں کہ اس پر عمل ابھی سے شروع ہو جائے.خداداد استعدادوں کی نشوونما کے پروگرام کے ایک عملی پہلوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے سویا بین استعمال کرنے کی طرف توجہ دلائی.حضور نے فرمایا کہ میں بیس سال سے جماعت کو اس کی طرف توجہ دلا رہا ہوں.سویا بین کا ایک بڑا فائدہ یہ کہ ہے کہ اس کے استعمال سے دل پر کبھی بیماری حملہ نہیں کرتی.حضور نے فرمایا کہ چین میں دل کی بیماری ہے ہی نہیں.یورپ کے رہنے والے حیران ہیں کہ یہ کیسی قوم ہے جس کو دل کی بیماری لاحق ہی نہیں ہوتی.یورپ کے بڑے بڑے ڈاکٹر چین آئے ریسرچ کی تو پتہ چلا کہ ان کے ہر کھانے میں سویا بین شامل جس کی وجہ سے دل پر چربی دیگر روغنی مادے جمع نہیں ہوتے.حضور نے فرمایا کہ سویا بین میں سارے معلوم وٹامنز موجود ہیں.سارے معدنی اجزاء ا سکے اندر ہیں.حضور نے ایک احمدی کا واقعہ سنایا جس نے کہ آپ تو ہمیں اب بتارہے ہیں امریکہ کے ہر شخص کو سویا بین کے فوائد معلوم ہیں.امریکہ میں اس کی بڑی انڈسٹری قائم ہے.حضور نے فرمایا کہ صرف وعظ و نصیحت کافی نہیں.خدام الاحمدیہ ایسا انتظام کرے کہ لوگوں کو اس کے کھانے کی عادت پڑ جائے.حضور نے فرمایا کہ میرے پاس ایک ایسی کتاب ہے جس میں سویا بین پکانے کی تین سو سے زائد ترکیبیں موجود ہیں.لجنات کھیلوں کی کلب قائم کریں حضور انور نے صحت کو ٹھیک رکھنے اور اچھا بنانے کے لئے فرمایا کہ ہر اس جگہ جہاں لجنہ قائم ہے لجنات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ تیار ہو جائیں میں جو مطالبہ کروں گا آپ کو اسے پورا کرنا ہو گا.حضور نے فرمایا کہ ایک سال کے اندراندرا گلے اجتماع سے قبل سارے پاکستان میں تحصیل لیول پر یعنی ایک تحصیل میں جس ایک جگہ سے بڑی لجنہ ہے وہاں پر یہ کلب قائم ہو جائے.حضور نے فرمایا کہ اس مقصد کے لئے زمین کا حصول ایک مسئلہ ہے چنانچہ زمین نو سال کے لئے کرائے پر لے لیں اور سال کا کرایہ مجھ سے لے لیں.ایک کچی اونچی دیوار اس کے گرد بنادیں.جھولا لگائیں یہ بڑی اچھی ورزش ہے.چھوٹے بچوں کے لئے پھسلنے والی جگہیں بنادیں.اس طرح کی دیگر چیزیں بنائیں اس کے لئے چار کنال جگہ کافی ہے.عورتوں کو جب وقت ملے وہ اس جگہ آئیں ورزش کریں.کھیلیں کو دیں.حضور نے فرمایا کہ عورت گھر میں اکیلی بیٹھی رہتی ہے.بہت سا وقت بیکار گزر جاتا ہے مستورات کو چاہئے ایسی جگہ بنا کر وہاں جائیں وہیں پر وڈیو کا انتظام کیا جائے.مناسک حج اب وڈیو پر آگئے ہیں.احمدی عورتوں کے علاوہ دیگر عورتوں کو بھی دکھائے جائیں وہ بھی اس سے بڑی لطف اندوز ہونگی.حضور نے

Page 580

577 فرموده ۱۹۸۱ء د و مشعل راه جلد دوم فرمایا کہ احمدی تو پیدا ہی اس لئے ہوا ہے کہ کسی سے دشمنی نہیں کرنی.پیار ہی پیار ہے، بڑے مزیدار پہاڑی چشمے کے ٹھنڈے پانی کی طرح اس کا پیار ہے اور اس کا اثر انشاء اللہ د نیا قبول کرے گی.خدام بھی کلب بنا ئیں حضور نے لجنات کے علاوہ خدام کو بھی متوجہ کیا کہ وہ بھی ایک سال کے اندر اندر ہر تحصیل کی سطح پر کلب قائم کریں جس میں میروڈ بہ، کبڈی وغیرہ کھیلیں کھیلی جائیں.حضور نے فرمایا.میر وڈ بہ ورزش والی بڑی اچھی کھیل ہے.میں خود بھی کھیلتا رہا ہوں حضور نے فرمایا اس کے علاوہ سائیکل چلانا بڑی اچھی ورزش ہے.سویا بین کی طرح یہ بھی دل کی بیماریوں کے لئے بڑی اچھی ہے اس کے علاوہ ان کلبوں میں ڈنڈ پہیلینا اور طاقتور ہونے کی دیگر ورزشیں کرائیں جاسکتیں ہیں.حضور نے فرمایا کہ یہ طاقت دنیا کو دکھ پہنچانے کے لئے نہیں ہے بلکہ سکھ پہنچانے کے لئے ہے.نیز فرمایا کہ خدام کو میں یہ پروگرام اس لئے دے رہا ہوں کہ ورزشی کھیلیں تنظیم کی عمدہ مثال ہیں.اس لئے عملی پروگرام یہ ہوگا کہ ہر مہینے دو تحصیلوں کا مقابلہ ہو.ہر سہ ماہی میں ضلع کا مقابلہ ہو.ہر چھ ماہ میں ایک بار کمشنری کا اور سال میں ایک بار یہاں اجتماع میں ملکی سطح کے مقابلے ہوں.حضور نے فرمایا کہ کھانا اتنا کھاؤ جو ہضم کولو اور اتنا ہضم کرو کہ طاقت حاصل ہو اور اتنی طاقت حاصل ہو کہ دنیا کہ کوئی قوم تمہیں مدد کے لئے بلائے تم فوراً پہنچ سکو.حضور نے مدد کرنے کے سلسلے میں فرمایا کہ ضلع فیصل آباد کی مجلس خدام الاحمدیہ نے بڑا اچھا کام کیا ہے سات ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا بڑا اچھا کام کیا.اس علاقے میں سیلاب آیا تھا اور بیماریاں پھوٹ پڑی تھیں.اخلاقی استعدادوں کی ترقی حضور نے اپنے تازہ پروگرام کے عملی حصہ میں اخلاقی استعدادوں کی ترقی کے ضمن میں فرمایا ہر مجلس میں ۳ سے ۹ تک ایسے خدام ہوں جو یہ عہد کریں کہ مر جائیں گے لیکن بداخلاقی نہیں کریں گے اور یہ بھی عہد کریں کہ اپنی جان دیدیں گے لیکن کسی اور کو بداخلاقی نہیں کرنے دیں گے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا کرے.حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے ہیں ان میں سے کوئی حکم ایسا نہیں جو انسانی طاقت سے بالا ہو.دین میں آسانی رکھی گئی ہے مشکل نہیں ہے.اللہ چاہتا ہے کہ جتنی جتنی جس کسی کو طاقت میسر ہے وہ اتنا اتنا اپنی صلاحیتوں میں کمال حال کرے اور اپنی صلاحیتوں کو انتہا تک پہنچائے.حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مرد اور عورت کے لئے اس کی کامل ترقی کے سامان بھیج دیئے ہیں اور اب وہ اس راہ سے بھٹک جائے اس کے بارے اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوفرما دیا ہے کہ اسے کہہ دے کہ اس کے بارے میں مجھ پر کوئی الزام نہیں.نبی

Page 581

د فرموده ۱۹۸۱ء 578 مشعل راه جلد دوم کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے ذریعے سے کامل کتاب آ گئی ہے.اس پر کامل عمل کرنے کا نمونہ میں نے پیش کر دیا ہے اور اللہ نے فطرت انسانی کے مطابق ہدایت کا ہر راستہ مقرر کر دیا ہے اور اس تعلیم میں نہ کوئی کمی ہے اور نہ کوئی زیادتی ہے.اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جی کی کہ میرے کامل اتباع کر و استقامت کے ساتھ میرے دامن کو تھامے رہو اور ساری دنیا بھی کہہ دے کہ اللہ کے دامن کو چھوڑ دو تو چھوڑنا نہیں اور استقامت کے ساتھ اور صبر کے ساتھ اس وقت تک میرا دامن تھامے رکھو جب تک اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ نہ کردے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ جب میں کسی کو انعام دینے کا فیصلہ کرتا ہوں تو ساری دنیا کی طاغوتی طاقتیں مل کر بھی اس انعام کو نہیں چھین سکتیں ، اس لئے تم کمزور ہوتے ہوئے غم نہ کھانا اور پورے تو کل اور پوری امید کے ساتھ اللہ تعالی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی اتباع میں زندگی گزارنی ہے.حضور نے فرمایا کہ اسی طرح سے ہم نے اپنی زندگیوں کو گزارنا ہے اور اسی طرح اپنے اوقات کو صرف کرنا ہے.اللہ کرے ایسا ہی ہو.حضور انور کی دعائیں آخر میں حضور نے فرمایا کہ اب ہم دعا کریں گے.پہلے ہم اپنے لئے دعا نہیں کریں گے بلکہ پہلے ہم دین اسلام کے لئے دعا کریں گے اور امت مسلمہ کے لئے دعا کریں گے.دین اسلام لئے یہ دعا کریں گے کہ خدا تعالیٰ ان کمز ور لوگوں کو جو اسلام سے دور ہیں اسلام کے قریب کر دے.وہ کروڑوں سینے جن کے دلوں میں اسلام کے نور کی موجیں موجزن ہونی چاہئے تھے، وہ سارے شہر وہ ساری حویلیاں اسلام کو واپس دیدے ہر دل جو کسی سینہ میں دھڑک رہا وہ الا الہ الا اللہ کا ورد کرنے والا ہو.حضور نے فرمایا کہ ہم نوع انسانی کے لئے دعائیں کریں گے.نوع انسانی ہلاکت کے جس گڑھے کی طرف جارہی ہے میں سوچتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے جاتے ہیں.یہ کتنی خوفناک بات ہے اسے تم سوچ بھی نہیں سکتے اور میں بتاتے ہوئے بھی گھبراتا ہوں.ان قوموں کو (جو سوچتی ہیں کہ انہوں نے آسمانوں کی رفعتیں حاصل کرلی ہیں حالانکہ وہ زمین کی گہرائیوں میں ہیں ) بظاہر ایسا ہی دکھائی دیتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں تباہی سے نہیں بچا سکتی جب تک خدا خود ان کی انگلی پکڑ کر نہ بچائے.حضور نے فرمایا کہ ہم دعا کریں گے کہ وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہیں خدا انہیں نور، سلامتی اور حسن عطا کرے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل بچے معنوں میں بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والے ہوں.حضور نے فرمایا کہ دعا کر میں مظلوم احمدیوں کے لئے مظلوم اس لحاظ سے کہ انسان آپ پر ظلم کرتا ہے.لیکن ایک لحاظ سے آپ مظلوم نہیں ہیں وہ اس لحاظ سے کہ آپ کے بارے میں خدا نے خود کہا کہ تم میری امان میں ہو.حضور نے فرمایا کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مختلف قومیتوں کے ان احمدیوں کے لئے بھی دعائیں کریں جو ہمت کے ساتھ نڈر اور بے خوف ہو کر جماعت احمدیہ کے لئے کام کرتے ہیں ان میں سیاہ فام بھی ہیں،

Page 582

579 فرموده ۱۹۸۱ء د و مشعل راه جلد دوم دد امریکی بھی ہیں، یورپین بھی اور مشرقی علاقوں کے لوگ بھی.وہ خدام کے کارکنوں اور عہدیداروں سے بھی بعض اوقات زیادہ کام کرتے ہیں لیکن کسی کو بتاتے بھی نہیں کسی پر احسان نہیں جتاتے ڈرتے ڈرتے کام کرتے چلے جاتے ہیں.جو کتاب حضرت اقدس کی ملے پڑھ جاتے ہیں.حضور نے حاضر خدام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ بھی پڑھا کریں یہ بہت بڑا خزانہ ہے جس کی قیمت دنیا مل کر بھی ادا نہیں کر سکتی.حضور نے فرمایا :- خدا کے خزانے پاؤ ، آگے بڑھو ، آگے بڑھو ، آگے بڑھو ! اس کے بعد حضور نے ہاتھ اٹھ کر پر سوز اجتماعی دعا کروائی اس کے بعد خدا حافظ اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکتہ کہہ کر واپس تشریف لے گئے.(بحواله الفضل (۳۰،۲۹ اکتو برا ۱۹۸ء)

Page 583

و مشعل راه جلد دوم د فرموده ۱۹۸۱ء 580 سید نا حضرت اقدس خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے۱۳ نومبر ۱۹۸ء کوخدام الاحمدیہ کے گیسٹ ہاؤس میں عشائیے میں از راہ شفقت شرکت فرمائی اور خدام کو اپنے خطاب سے نوازا.فرمایا:- پہلے تو میں نے کہا تھا اس کا جواب الجواب بھی صدر صاحب دیدیں.پھر مجھے خیال آیا کہ انفارل (Informal) کچھ باتیں کہہ دوں جومزید دعا کا تقاضا کرتی ہیں.میرے دل میں خواہش یہ ہے کہ خدا کرے کہ ایسا ممکن ہو جائے کہ آئندہ سال اللہ تعالیٰ جب سپین کی مسجد کے افتتاح کی توفیق دے تو اسی موقع پر اٹلی کی مسجد مشن ہاؤس کے افتتاح کا بھی سامان پیدا ہو جائے.ان ملکوں میں اس قسم کی چھوٹی چھوٹی عمارتیں جو اس وقت ہم بنا سکتے ہیں، پانچ چھ مہینے کے اندر تعمیر ہو جاتی ہیں، آسانی کے ساتھ.اٹلی میں ابھی زمین کے متعلق آخری فیصلہ نہیں ہوا لیکن امید ہے کہ بیس نومبر تک آخری فیصلہ ہو جائے گا.( محترم نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ) ان کو لکھ دینا آفتاب کو کہ ہیں، کیس کو فون کے اوپر اطلاع دیدیں.اور ان کو یہ بھی لکھنا ہے کہ وہاں کے آرکیٹیکٹ کو بھی کہیں کہ وہ دوتین نقشے جو بنا رہا ہے ( محترم نائب صدر صاحب سے مخاطب ہو کر وہ تو ابھی بھیج دیتا ہے ) وہ لے کے آئیں گے.اگر جنوری میں بھی ہو جائے ہمارا معاہدہ تو وہ آسانی سے بنا سکتا ہے.کم از کم اتنی تعمیر ہو سکتی ہے کہ اس کا افتتاح بھی آگے پیچھے ہو جائے.یہ اس صدی ہجری کا دوسرا سال شروع ہوا ہے ناں اب یکم محرم سے.تو اگلے یکم محرم سے پہلے اگر ان دو مساجد اور کیلگری کا بھی (افتتاح) ہو جائے تین مسجدوں کا تو بڑی چیز ہے ایک سال کے اندر.پہلے تو جو حالات تھے کئی سالوں کے بعد ایک ایسا موقع آتا تھا اور اس میں بھی مستورات بڑا حصہ لے گئیں.کیونکہ مرد نے ( یہ فرق ہے دو کی قربانی میں ) اپنی کمائی میں سے قربانی دینی ہوتی ہے.عورت نے اپنی پس خوردہ میں سے قربانی دینی ہوتی ہے جو اُس نے اکٹھا کیا ہوتا ہے.تحفہ ملا خاوند نے زیور بنا کے دیا اُس کو.کئی عورتوں نے سارا زیورلا کے دے دیا تھا مساجد کے لئے.ویسے خدا تعالی قرض رکھتا نہیں.بڑا دیتا ہے.تو عورتیں لے گئیں تو اب اب خدام الاحمدیہ تو پہلی دفعہ آئے نامیدان میں.جماعت بحیثیت جماعت جس میں انصار اور خدام اور مستورات شامل ہیں، انہوں نے بھی بہت ہیں مسجدیں بنائیں اور اب ” خدام آئے ہیں.اب مشکل یہ ہے کہ پاکستان سے رقم باہر نہیں جاسکتی.تو یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان سے باہر بسنے والے نوجوان خدام احمدیوں نے اتنی بڑی قربانی دے دی کہ دو مسجدیں

Page 584

581 فرموده ۱۹۸۱ء ہو جائیں.د و مشعل راه جلد دوم دو خدام الاحمدیہ کی قربانی سے مساجد کی تعمیر برازیل جو ہے اس پہ کچھ وقت لگے گا.جگہ کے انتخاب پھر زمین کے انتخاب بہت سارا وقت.ایک سال یا دو سال پیچھے ڈالی جاسکتی ہے.اٹلی کی اگر مسجد بن جائے تو پھر عملاً صرف فرانس رہ جاتا ہے.اس کے لئے میں کوشش کر رہا ہوں.اگلے سال میرا خیال ہے کہ خود اس علاقے میں جائے پھر کے تو ان کو بتا دوں کہ اس جگہ تلاش کریں.مشکل یہ ہے کہ جو میں بات کہتا ہوں وہ انہیں سمجھ ہی نہیں آتی.میں کہتا ہوں مجھے جنگل میں چاہیئے.وہ مجھے رپورٹ دیتے ہیں کہ ہم نے شہر کے اندر ایک جگہ پانچ گز کی ڈھونڈ لی ہے.بہر حال ویسے جو قربانی دی ہے ایک نوجوان نے (بہت سارے کمزور بھی ہیں.وہ تو رہتے ہی ہیں ساتھ.ٹھیک بھی ہوتے جاتے ہیں ساتھ ساتھ ) وہ بڑی امید افزاء ہے.یعنی جان پڑی ہے پہلی دفعہ اتنی.مالی قربانی کے معیار کی طرف توجہ ایک تو ظلم یہ ہوا ہے کہ وہاں جو ہمارے مبلغ گئے ہیں باہر لئیق صاحب سمیت انہوں نے کوئی تربیت نہیں کی احمدیوں کی یعنی ان کو پتہ ہی نہیں تھا.یعنی افریقہ کے احمدیوں کو جلدی پتہ لگ گیا کہ ہم نے مالی قربانی دینی ہے اور پاکستانی احمدی جو امریکہ میں ہے یا انگلستان میں ہے اس کو نہیں پتہ لگا کہ ہم نے مالی قربانی دینی ہے.بڑا ظلم ہوا ہے.اب یہ پہلی دفعہ اُن کو جس طرح پکڑ کے لایا جاتا ہے اور پھل پھر آدمی حاصل کرتا ہے.درخت سے وہ حالت پیدا ہوئی ہے.اتنی خدا نے رزق میں برکت دی کہ میں سوچ رہا تھا کہ اگر صرف امریکہ کے ایک حصے کے احمدیوں کا ایک حصہ شرع کے مطابق چندہ دے تو جو میں نے اعلان کیا ہے کہ ایک ملین قرآن کریم انگریزی کے ترجمے والے امریکہ میں پھیلائے جائیں یہ چھ مہینے کے اندر ہو سکتا ہے لیکن یہ بڑی کمزور دکھائی ہے پتہ نہیں کیوں.بہر حال وہ جو ہونا تھاوہ تو ہو گیا پیچھے کسی کو دیکھنا ہی نہیں چاہیئے.میری تو عادت نہیں.میں تو آگے دیکھا کرتا ہوں.اب یہ سوال کہ جو وہاں خدام میں پہلی دفعہ عادت پڑی ہے نا اس طرح دینے کی اس کو بھولنے نہیں دینا ان کو.ایک دفعہ حضرت صاحب سے ( حضرت مصلح موعود موعود نوراللہ مرقدہ.ناقل ) سے کسی نے پوچھا کہ اتنی جماعت مالی قربانی دینے والی ہے.آپ ہر دو چار سال کے بعد کوئی نئی سکیم پیش کر دیتے ہیں اور طوعی قربانیاں، نیم طوعی.آپ نے کہا ان کو جماعت کو زندہ رکھنے کے لئے.اس کے علاوہ چارہ ہی کوئی نہیں.اب وہ جو دو آنے چار آنے دے کے ابدی دعاؤں کے حقدار بن گئے حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنی کتابوں میں ان کا نام لکھ دیا.چندہ لکھ دیا دو آنے چار آنے پانچ آنے آٹھ آنے روپیہ.اب ان کی اولادوں میں سے ۲×۵ ہزار پونڈ

Page 585

د مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۱ء 582 چندہ دینے والے پیدا ہو گئے.ایک لنڈن میں ہمارے احمدی ہیں.میرا خیال تھا کہ وہ کچھ ست ہیں.مجھے پتہ لگا کہ لنڈن کے جو مختلف ، انہوں نے مشن ہاؤس اب خریدے ہیں سنٹر اپنے اس میں اس اکیلے شخص نے سترہ ہزا ر پونڈ دیا.تو وہ مجھے جلدی پتہ لگ گیا.ورنہ میری طبیعت میں تھا کہ کبھی میں اس کو نصیحت کروں گا.تو مجھے کہہ دیتا کہ میں تو دے رہا ہوں تو مجھے سبکی اٹھانی پڑتی نا.غلط سمجھ کے اس کے متعلق.تو یہ دو چیزیں (میں نے بتایا ہے پہلے بھی ) ضروری نہیں ایک جیب میں پیسہ ہو ایک دل میں اخلاص اگر جیب میں پیسہ نہ ہو تو کہاں سے دے.اور اگر پیسہ ہو اور اخلاص نہ ہو تو کیسے د.مبغلین کو نصیحت یہ جو ہیں نا ہمارے مبلغ ( کچھ یہاں ہیں) یہ مجھے بڑا تنگ کرنے لگ گئے ہیں.اچھا ہے وہ کوئی پانچ.دس.پندرہ.میں کو نکال دیا جائے بجائے اس کے کہ سارے مبلغوں پر بدنامی کا دھبہ لگے.یعنی اب جامعہ احمدیہ کا ایک طالب علم اور چوری کی اس کو عادت اور جھوٹ کی عادت.میرے پاس آیا معافی کے لئے اور جھوٹ بول رہا تھا مجھ سے.پہلے دو فقروں میں ہی میں سمجھ گیا کہ یہ شخص اب میرے ساتھ جھوٹ بول رہا ہے.میں بالکل خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا.آخر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ان سے کہیں جامعہ کو کہیں کہ مجھے بیٹھنے دیں کلاس میں.میں نے کہا یہ سوال نہیں ہے کہ تمہیں بیٹھنے دیں یا نہ.سوال یہ ہے کہ تمہارا وقف تو ڑیں یا نہ توڑیں.اور پھر باہر جا کے جھوٹ.یہ تو یوں تھا اور وہ دوں تھا.اب میں نے یہ بنا دیا ہے (مجھے پھر خیال آیا بہر حال جماعت کو بدظنی سے بچانا بھی تو میرا کام ہے نا) وہ کورٹ مارشل (Court Martial) دس.پندرہ.میں آدمیوں کے سامنے اس کی رپورٹ پڑھی جائے.اب میں نے اسی کے متعلق ( گوجرانوالہ کا تھاوہ) کہ گوجرانوالہ کے امیر کو بلاؤ کورٹ مارشل میں.وہاں کے مبلغوں کو بلاؤ.اس کے باپ کو بلاؤ.صدر عمومی کو بلاؤ.امور عامہ کو بلاؤ تحریک کو بلاؤ.اصلاح وارشاد کو بلاؤ.ساروں کے سامنے اور پھر جامعہ بتائے کہ یہ کیس ہے اس لڑکے کا.بتاؤ کیا کہتے ہو؟ سب نے کہا کہنا کیا ہے.نکالو اس کو باہر.پھر کہے اگر مجھے انہوں نے نکالا تو پھر گوجرانوالہ سے کوئی لڑکا جامعہ میں نہیں آئے گا.مجھے جس نے کہا میں نے کہا اس کو کہو کہ اگر تمہارے جیسے لڑکے گوجرانوالہ نے پیدا کرنے ہیں تو اچھا ہے نہ آئیں.مجلس عاملہ کو نصائح ویسے ہر جگہ بڑے مخلص بھی دے رہا ہے ہمیں.اور یہ جو نئی نسل پیدا ہورہی ہے ان میں اچھے برے ہیں بہت زیادہ اچھے ہیں لیکن یہ ہے کہ ایک تو جو افسر ہے ذمہ دار اُس کا فرض ہے کہ چھوٹا سا داغ پن پوائنٹ Pin) Point) کے مطابق ہے اُسی وقت اس کو پکڑے بجائے اس کے کہ آدھا سیب خراب ہو جائے.پھر تو وہ پھینکنے کے

Page 586

583 فرموده ۱۹۸۱ء د و مشعل راه جلد دوم قابل ہوجاتا ہے نا.اس طرح تو چاقو کی نوک کے اوپر وہ داغ جو ہے وہ نکل آتا ہے ذرا سا دھبہ.یہ خدام الاحمدیہ کی مجلس عاملہ میں میں باتیں کر رہا ہوں آپ کو بتانے کے لئے سبق دے رہا ہوں.اس طرح کام کرو.پیار کرو.مدد کرو.نصیحت کرو.سمجھاؤ.غصے کبھی نہ ہو.لیکن خدا کو ناراض کرنے کے لئے اُسے معاف نہ کرو.یعنی ایسی معافی جس سے خدا ناراض ہوتا ہو.وہ تو خراب ہے.اپنے آپ کو جہنم میں کیوں بھیج رہے ہیں آپ.رافة فی دین اللہ سے منع کیا ہے نا قرآن کریم نے.وہ اسی لیے کیا ہے.جو خدا تعالیٰ نے قانون بنایا ہے اس کی پابندی کرو.لیکن یہ مطلب نہیں نفرت نہیں کرنی.کوشش کرو پورا بچانے کی سدھارنے کی اصلاح کی.لیکن جماعت کو کسی فرد پہ قربان نہیں کیا جاسکتا، نہ کسی گروہ پہ قربان کیا جا سکتا ہے.زندہ رہنے والی تو جماعت ہے.یعنی جو اچھے ہیں ہم میں سے انہوں نے بھی تو قیامت تک زندہ نہیں نا رہنا.جماعت نے تو قیامت تک زندہ رہنا ہے.اٹلی میں مسجد کی تعمیر کا منصوبہ پھر اٹلی اٹلی میں اس وقت دو زمینیں ہیں اچھی.ایک ہے پہاڑی طبہ ساڑھے تین ایکٹر زمین پاسچر لینڈ (Pasture Land) خالی پتھر نہیں پڑے ہوئے وہاں.( محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا ) تم نے دیکھا ہے نا.اور دینا ایک ہے گاؤں شاید قصبہ.یہاں سے پچاس کلو میٹر ٹی سٹے پچاس کلومیٹر یوگوسلاویہ اور سوکلو میٹر آسٹریا.یہاں زلزلے بہت آتے تھے اور میں نے پسند کیا تھا یہ ایریا.مجھے کسی نے کہا زلزلے بہت آتے ہیں.میں نے کہا اسی واسطے تو میں پسند کر رہا ہوں.کیونکہ ہمارے خدا تعالیٰ نے کہا ہے ہمیں آگ سے مت ڈراؤ.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.زلزلہ ہے ہی آگ.زمین کے اندر کی آگ ہے نا باہر نکلتی ہے.وہ سڑک جہاں ہر ایشیا کا موٹر والا گزرتا ہے اس سڑک کے اوپر ہے.کیونکہ یوگوسلاویہ سے اندر آتے ہیں ناں.فولڈرز کی سیکیم تو اس لحاظ سے فولڈرز کی جو سکیم بڑی کامیاب اس سال ہوئی ہے ابھی دس فیصد ہوئی ہے لیکن اس میں بڑی کامیابی ہے.ایک ایک دن میں کئی ہزار فولڈ رکئی ہزار آدمیوں کے ہاتھ میں پکڑا دیا جو ایک سال میں کئی ہزار آدمیوں سے بات نہیں کرتے تھے اسلام کی.اتنا بڑا دروازہ کھل گیا ہے.اور یہ تو سڑک ہے یعنی ہندو بھی وہاں سے گزرے گا.سکھ بھی گزرے گا.مسلمان بھی گزرے گا.اب یہ تجربہ ہوتا ہے.اب فولڈر تقسیم کئے ہیں تو مطالبہ آ گیا کہ ہمیں پشتو کا فولڈر بھی چاہیئے.مطالبہ ہو گیا پشتو کا فولڈر دو ناروے میں کہ اُردو کا دو عربی کا دو.تو ہمیں تو خیال تھا نا کہ یورپین زبانوں کا ہی دیں.لیکن اب یہ مہاجر پٹھان بہت سارا چلا گیا.وہ پشتو اور فارسی کا ماہر ہے.

Page 587

د د مشعل راه جلد دوم عربی کے وہاں جاتے ہیں.فرموده ۱۹۸۲ء 584 محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے دریافت کرنے پر حضور نے فرمایا.یہ جگہ ) ٹی سٹے سے پچاس کلومیٹر ورے ہے.یعنی میلانو (Milano) سے جائیں تو پہلے یہ آئے گا اور پھر پچاس کلو میٹریوں رائٹ (Right) گھوم کے.ٹرکی کا راستہ ہے یہ.یہ کر اس کانٹی نینٹ (Cross Continent) سڑک ہے.یہاں سے یوگوسلاویہ میں گھس جاتے ہو.پھر ادھر سے ادھر آ جاتے ہو ونیس سے نکلنے کے بعد.ویس دائیں طرف رہ جاتا ہے.وینس جو ہے یہ سیدھے سڑک اگے آ رہی ہے اس علاقے کو یوگوسلاویہ کی طرف اور دائیں طرف گھوم جاتے ہیں.وینس سے ایک سو بیس ۱۲۰ کلو میٹر ہے لیکن اسی سڑک سے گھومتے ہیں.یہی سڑک دائیں طرف گھوم کے وینس جاتی ہے اور پھر آگے جا کے تو پھر دائیں طرف گھومتے ہیں سمندر کے دوسرے کنارے کی طرف ٹی سے.اور سیدھے چلے جائیں تو لو گوسیلا و یہ بائیں گھوم جائیں.وہ بھی اچھی خاصی بڑے سڑک ہے جو آسٹریا کو جاتی ہے.یہ عجیب بات ہے کہ اٹلی نے سڑکیں بہت اچھی بنائی ہیں پر لا علاقہ تو میں نے نہیں دیکھا اور لا تو دیکھا ہے.سائز برگ (Salzburg) اور انزبرگ (Ennsburg یہ تو خوبصورت ہیں.دُنیا جہاں کا یہ ظاہری حسن اللہ میاں نے وہاں پیدا کر دیا.اور انز برگ (Ennsburg) کے علاقے کے لوگ بڑے اچھے ہیں.وہاں تو ایک دن کے لئے گئے تھے.دل کرتا ہے یہاں بھی ایک زمین خرید لیں.ایک دوست سے مخاطب ہوتے ہوئے حضور نے فرمایا) جہاں سے آپ نے پاس کراس (Cross) کیا ہے وہاں سے بائیں انز برگ ہے اور ئیں طرف سالز برگ ہے.انز برگ سے جائیں تو سیدھے وہ ادھر چلی جاتی ہے.بائیں مڑ کے پھر جانا پڑتا ہے وی آنا کی طرف.پہاڑی علاقہ ہے.برفانی نالے ہیں.پانی کے نالے کافی آتے ہیں اوپر سے تو یہ دعا کریں کہ یہ بھی اگلے سال مل جائے ہمیں اور مشن.یہ جو ہے مثلاً روم یہ تو سارے ( ان کا جو ہے دارالخلافہ ) بدمعاشی کے اڈے ہیں.اور ویسے بھی وہ روم پوپ کی وجہ سے ان میں تعصب زیادہ ہے.ایک ہے اپنے مذہب یعنی عقیدے میں پکا ہونا وہ تعصب نہیں ہوتا.ایک تعصب ہے.وہاں نچلے علاقے میں اسلام کے خلاف تعصب ہے.یہ کٹر ہیں کیتھولک، لیکن بڑے ملنسار بڑے اچھے.یہ ( نائب صدر صاحب ) تو کہتا ہے کہ بہت ہی اچھے ہیں.(لنڈن کے ایک دوست نے عرض کی کہ وہاں البانین بھاگ کر گئے ہوئے ہیں.تو حضور نے فرمایا ) نہیں وگوسلاویہ کا ساؤتھ (South) جو ہے وہ یوگوسلاویہ نے جنگ کر کے البانیہ کا ایک حصہ اپنے اندر شامل کیا ہوا ہے.وہ البانیہ نہیں بھاگے.وہ تو بھاگنا چاہتے ہیں اب وہاں سے.یہ جگہ بہت اچھی ہے.اور دوسرے یہ ہے کہ ایک دو دن کا ویزا تو بارڈر کے اوپر مل جاتا ہے.تو ہمارا مبلغ تین دن کے لئے ہر مہینے بھی جاسکتا ہے یوگوسلاوین احمدیوں سے ملاقات کرنے اُدھر آسٹریا میں.اسی واسطے اس کو پسند کیا تھا میں نے.اچھا جی.اللہ تعالیٰ سب کو احسن جزا دے.اور دعا کر لیتے ہیں اب.

Page 588

فرموده ۱۹۸۱ء د و مشعل راه جلد دوم (بحوالہ ماہنامہ خالد ر بوه ستمبر ۱۹۸۲ ء صفحہ نمبر۷ تا صفحه ۱۴) 585

Page 589

د و مشعل راه جلد دوم فرموده ۱۹۸۲ء 586 سیدنا وامامنا حضرت اقدس خلیفه امسیح الثالث نے مورخہ ۶ ہجرت ۱۳۶۱ (۶مئی ۱۹۸۲ء) بعد نماز عصر ایوان محمود میں خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی سالانہ تربیتی کلاس سے جو اختتامی خطاب فرمایا اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.(غیر مطبوعہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: - قرآن کریم کی ضرورت یہ جو ہمارا زمانہ ہے جس میں میں اور تم زندگی گزار رہے ہو اس زمانہ میں قرآن کریم کی ضرورت کا احساس بہت زیادہ بڑھ گیا ہے.اس لئے کہ انسان کی بے راہ روی اس زمانہ میں بہت زیادہ ہوگئی ہے.بے راہ روی کا مطلب یہ ہے کہ سیدھے راستے کو چھوڑ کے ٹیڑھے راستے کو اختیار کیا بہتوں نے.پیار کے راستے کو چھوڑ کے نفرت کے راستے کو اختیار کیا بہتوں نے امن کے راستہ کو چھوڑ کے جنگ اور فساد کی راہ کو اختیار کیا بہتوں نے.اچھے عمدہ اور حسین اخلاق کی راہوں کو چھوڑ کے بدتہذیبی کی راہوں کو اختیار کیا بہتوں نے ایک گند مچ گیا.ایک گند پیدا ہو گیا انسانی زندگی میں.اور انسان کو یہ پتہ نہیں لگ رہا کہ اس گند کو وہ دور کیسے کرے؟ اور سوچنے والا دماغ اور سمجھنے والی روح بجھتی ہے کہ اس گند کو سوائے قرآنی تعلیم کے کسی اور طریقہ سے دور نہیں کیا جاسکتا.آپ لوگ بچے میرے یہاں اس لئے جمع ہوئے کہ تربیتی کلاس میں تربیت حاصل کریں.مختلف پہلوؤں سے خدام الاحمدیہ کے نظام نے آپ کی تربیت کا انتظام کیا.لیکن بنیادی چیز ایک ہی تھی کہ آپ کو قرآن کریم کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق زندگی گزارنے کے طریقے بتائے جاسکیں.کبھی نام لے کر ایسا کیا گیا ہو گا، کبھی بغیر نام لئے.لیکن جن رستوں کی نشاندہی، جن رستوں کے متعلق آپ کو بتایا گیا وہ قرآن کریم کے بتائے ہوئے راستے ہی تھے.قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے.جس زاویہ سے بھی دیکھیں اس کی عظمتیں انسانی ذہن سے بالا ہیں.یک عظمت اس کی یہ ہے کہ چھوٹی سی یہ ہدایت ہے.بڑی کتاب نہیں ہے قرآن کریم کی شریعت قرآن کریم کے الفاظ جو ہیں عربی کے جس میں قرآن کریم نازل ہوا اللہ تعالیٰ کی وحی محمد ﷺ پر یہ بہت چھوٹی کتاب ہے اور اس ے اور سے ایک سہولت یہ پیدا کی گئی کہ امت مسلمہ میں ہر صدی میں لاکھوں ایسے بچے اور بڑے پیدا ہوئے جنہوں نے

Page 590

587 فرموده ۱۹۸۲ء د و مشعل راه جلد دوم دد قرآن عظیم کو زبانی یاد کر لیا حفاظ کہلائے جاتے ہیں.تو حفظ کیا انہوں نے قرآن کریم.اور اگر یہ حجم کے لحاظ سے سے بڑی ہوتی تو اس کو حفظ کرنا آسان نہ ہوتا.اگر یہ اپنی تربیت کے لحاظ سے اس سے مختلف ہوتی جو ہمیں نظر آتی ہے تب بھی یاد نہ ہو سکتی.مثلاً اگر کوئی بچہ قرآن کریم کا ایک صفحہ یاد کرنے پر جتنا وقت خرچ کرتا ہے.میرا خیال ہے کہ اگر اس سے دس گناہ زیادہ وقت بائیبل کے ایک صفحے کو یاد کرنے پر خرچ کرے تو بائیل کا ایک صفحہ یاد نہیں ہو سکے گا.کیونکہ ترتیب ہی ایسی ہے.کہ انسان کا دماغ اپنے حافظہ میں اسے محفوظ کرنے سے عاجز آ جاتا ہے.کوئی حسن اور ترتیب الفاظ کے لحاظ سے اور (جن کو معانی آتے ہیں ) معانی کے لحاظ سے نہیں پائی جاتی اس قسم کی که انسان آسانی سے اسے یادکر سکے.اس چھوٹی سی کتاب میں انسان کی ساری ضرورتیں ہر نسل انسانی کی ہر ضرورت قیامت تک کے لئے جو تھی وہ پوری کر دی گئی اور ہر روح جو بعثت نبوی ﷺ سے لے کر قیامت تک انسانی جسم میں پیدا کی گئی اس کی پیاس کو بجھانے کے لئے یہ چھوٹی سی کتاب جو ہے وہ کافی ہے اور ہر انسان اربوں ارب ہمارے شمار میں ہی نہیں.ہر نسل آتی ہے بہت بڑی دنیا میں پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کی جگہ دوسری نسل آجاتی ہے.قیامت تک چلتا رہے گا یہ سلسلہ.بے شمار یعنی جس کو ہم شمار میں نہیں لا سکتے اتنے انسان پیدا ہوئے اور ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے.اپنی ذہنی صلاحیتوں اور قوتوں کے لحاظ سے کوئی دو انسان برابر کے نہیں.اور ہر دماغ جو ہے وہ ضرورت محسوس کرتا نے بعض ہدایتوں کی کوئی ایسی چیز ہو جس کا سہارا لے کر وہ صحیح راستہ پر آگے سے آگے بڑھتا چلا جائے اور جس غرض کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے.اسے وہ حاصل کر سکے.یہ بھی عظمت ہے.بڑی عظیم چیز ہے یہ.اور شرط ایک لگائی گئی قرآن کریم کے معارف حاصل کرنے کے لئے اور اس کی روح کو اپنی روح میں جذب کرنے کے لئے ایک شرط ہے اور وہ شرط ہے تقویٰ کی.اور شروع میں ہی اعلان کیا گیا کہ: هدى للمتقين (البقره آیت:۳) کہ جو متقی ہو گا وہی قرآن کریم کی ہدایت سے فائدہ اٹھا سکے گا، وہی فائدہ اٹھانے کے لئے قرآن کریم کے معارف اور مطالب کو سمجھ سکے گاھدی للمتقین.تو دنیا کا کوئی علم علم روحانی ، علم قرآنی سے باہر ایسا نہیں جس کے حصول کے لئے یہ شرط ہو.یہ ایک ما بہ الامتیاز ہے دنیوی علوم رسمی علوم بھی ان کو کہا جاتا ہے ظاہری علوم بھی کہا جاتا ہے دنیوی علوم یہ سائنسز جو انسان اپنی عقل سے حاصل کرتا ہے.وحی کے ذریعہ تو سائنس کی ایجادات (اس طرح مجھے کہنا چاہیئے کہ بالکل واضح وحی کے ذریعہ تو انسان کو نہیں سکھائی گئیں.ویسے تو اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے سامان جب تک نہ پیدا کرے ان میدانوں میں بھی انسان آگے نہیں بڑھ سکتا.لیکن وہ ایک علیحدہ مضمون ہے اس وقت میں ایک دوسرا مضمون روحانی بیان کر رہا ہوں.ایک دہر یہ بھی آج کی دنیا میں بڑا بلند پایہ سائنسدان بن گیا، ہزاروں دہر یہ بن گئے.تثلیث کو ماننے والے بھی سائنسدان بن گئے.لیکن ہر مسلمان بھی قرآن کریم کے معانی سمجھے والا نہیں بن سکتا.

Page 591

فرموده ۱۹۸۲ء 588 د دمشعل راه باراه جلد دوم اس واسطے کہ جو شرط لگائی تھی اور جو معیار قائم کیا گیا تھا لا يمسه الا المطهرون (الواقعہ آیت: ۸۰) میں کہ پاکیزگی اور طہارت اور تقویٰ کے بغیر (هدی للمتقین ) کوئی شخص قرآنی علوم اور معارف اور اس کے چھپے ہوئے اسرار اور اس کی تعلیم سے صحیح استفادہ نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا ایک زندہ تعلق نہ پیدا ہو جائے.احمدی طفل یا خادم اور غیر میں فرق مجھے افسوس ہے کہ ہمارے جو مبلغین اور مربی ہیں وہ بھی گاؤں گاؤں میں پھرتے ہیں اس بات پر اتنا زور نہیں دیتے جتنا دینا چاہیئے کہ ایک احمدی طفل یا خادم یا ایک احمدی نوجوان اور ایک غیر میں فرق ہی یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا ہر فرد اس صداقت پر اجتماعی زندگی گزار رہا ہے کہ اجتماعی زندگی جماعت احمدیہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی یہ ہے کہ ایک زندہ خدا ہے جس کے ساتھ اجتماعی زندگی میں جماعت کا ایک زندہ تعلق ہے.اور یہ برکتیں محمد رسول اللہ اللہ کے طفیل ہمیں ملی ہیں.آپ کو چھوڑ کے آپ سے دور ہو کر آپ سے پیار نہ کرتے ہوئے بھی یہ چیز ہمیں نہیں مل سکتی تھی.آپ سے پیار کے نتیجہ میں ( قرآن کریم نے اس کا اعلان کیا، اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں) اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے بعد خدا تعالیٰ کی پناہ میں آجانے کے بعد یعنی تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں خدا تعالیٰ کی مدد کے حصول کی خواہش رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ آگے بڑھ رہی ہے.روحانی فوائد کے علاوہ جماعت احمدیہ کو ان ظاہری علوم میں بھی بڑا فائدہ پہنچا ہے اس لحاظ سے کہ اگر آپ نہیں (اور کیوں آپ نہیں ؟ آپ کو بھی دعائیں کرنی چاہئیں ) تو آپ سے تعلق رکھنے والے بیسیوں بعض دفعہ سینکڑوں دل ایسے ہیں جو متضرعانہ عاجزی کے ساتھ تضرع کے ساتھ روتے ہوئے خدا کے حضور جھکتے اور اس سے آپ کے دماغ کی دنیوی علوم کے حصول کے لئے جزا اور روشنی طلب کرتے ہیں اور خدا سے وہ طلب کرتے ہیں اور پاتے ہیں.تو هدى للمتقین ، قرآن کریم کی ہدایت صرف اس کو ملتی ہے جو خدا تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتا اور اس کی پناہ میں آ جاتا ہے اس کے سائے میں اپنی زندگی گزارتا ہے جو اپنے ہر فعل کو خدا تعالیٰ کے اخلاق کی روشنی میں دیکھتا اور پر کھتا ہے اور اس راہ پر نشو و نما کرتا ہے اس کی کہ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے اخلاق اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلووں کا رنگ اس کے اوپر آئے اور عام زبان میں ہم کہتے ہیں کہ وہ انتہائی اعلیٰ مقام تہذیب کے اوپر کھڑا ہو جائے مہذب ہو.زبان ستھری، کان جو ہیں ان کو غیبت سننے وقت ضائع کرنے کے لئے گئیں مارنے کی باتیں جو ہوتی ہیں، ان کی عادت ہی نہ ہو.کان کے اندر جو آواز پڑے وہ پاک ہو.زبان سے جو آواز نکلے وہ ستھری ہو.دماغ میں جو خیالات آئیں وہ مطہر ہوں یہ خدا سے ڈرتے ہوئے اپنی زندگیوں کے دن لیکن دنیا کی نگاہ میں ہنستے مسکراتے بشاشت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھنے والے بچو! تم ہو وہ بچے.

Page 592

589 فرموده ۱۹۸۲ء دد د و مشعل راه جلد دوم قرآن کریم نے هدى للمتقین اور لایمسه الا المطهرون کہہ کے عظمتوں کے عظیم دروازے ہماری زندگیوں میں کھولے اور زمین سے اٹھا کر آسمانی رفعتوں تک پہنچانے کے سامان ہمارے لئے پیدا کئے.باقی جو مجاہدہ کرے گا جو کوشش کرے گا جو خدا سے مانگے گا وہ پائے گا.آپ میں اور غیر میں ایک امتیاز ہے.آپ میں اور غیر میں جو یہ امتیاز ہے.یہ ہر ایک کو نظر آنا چاہیئے.آپ کو بھی احساس ہونا چاہیئے کہ مجھ میں اور غیر میں کیا فرق ہے اور غیر کو بھی یہ احساس ہونا چاہیئے کہ آپ میں اور اس میں کیا فرق ہے؟ بعض دفعہ شرم بھی آتی ہے کہ بعض احمدی بھی کمزوری دکھا جاتے ہیں.مثلاً دیانتداری کے معاملے میں لا کھ دو لاکھ میں ایک آدھ احمدی بھی ایسا ہو جاتا ہے.لیکن دنیا جس مقام پر افراد جماعت احمدیہ کو دیکھتی ہے وہ یہ ہے کہ بعض دفعہ ایک غیر احمدی احمدی کے پاس آ کر یہ کہتا ہے کہ فلاں شخص ہے اس کے پاس میری سفارش کر دو اور وہ احمدی ہے وہ آپ کی بات مان جائے گا اور وہ احمدی نہیں ہوتا.جو ہوتا ہے وہ یہ کہ وہ دیانت دار ہوتا ہے.اور جو احمدی نہیں ہوتے، سمجھتے ہیں کہ احمدیوں سے باہر تو کوئی دیانتدار ہو ہی نہیں سکتا.چونکہ یہ دیانتدار ہے ضروری ہے کہ یہ احمدی ہوگا.اس مفروضے کے اوپر وہ آجاتے ہیں.اور بعض احمدی ہیں جو دیانت کے اس معیار پر قائم نہیں رہتے اور ہمارے لئے دکھ اور خفت کے سامان پیدا کرتے ہیں.ہم جس دور میں داخل ہو چکے ہیں، آپ کی عمر چھوٹی ہے.آپ کو احساس نہیں ہوگا ہم جو ایک عمر گزار چکے ہیں اور دنیا کو اچھی طرح دیکھا اور پرکھا ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس وقت آپ بھر پور جوانی میں اور فعال زندگی میں داخل ہوں گے تو روحانی جنگ اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہوگی.اس وقت ایک تو زمانہ نوع انسانی اپنی فلاح اور بہبود یعنی اپنی بھلائی کے لئے اپنی خوشحالی کے لئے اور اپنی اس غرض کے لئے کہ ہلاکت سے بچنے کے سامان ہوں، وہ آپ کی محتاج ہوگی اور اگر آپ نے ان کی ہدایت کے سامان اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ کیے تو یہ دنیا فنا ہونے کے کنارے پر کھڑی ہے بالکل جس طرح یہاں سے بس ایک قدم آگے لیا اور نیچے جاپڑی.اس وقت یہ حالت ہے.کھیلیؤ اس غرض سے کہ تمہارے اندر طاقت پیدا ہو وہ بوجھ اٹھانے کی جو عنقریب تمہارے کندھوں پر پڑنے والا ہے.بعض رپورٹیں میرے پاس مثلاً یہ آ جاتی ہیں کہ ہمارا بچہ جو ہے وہ کھیل میں بڑا اچھا ہے لیکن کھیلنے کے بعد ( ہمارے ملک میں تو عام طور کھیلیں عصر اور مغرب کے درمیان ہوتی ہیں) وہ گھر آتا ہے عشاء کی نماز کے بھی ایک گھنٹے کے بعد اور دوستوں میں کمپیں مارتا رہتا ہے اپنی کھیل کے متعلق.اس غرض کے لئے تو نہیں ہم لوگ انتظام کرتے، تمہاری ورزشوں کا یا اللہ تعالیٰ نے تمہاے گھروں میں دولت دے کر تمہاری ورزش کا انتظام اس غرض سے نہیں کیا.کھاؤ اس لئے نہیں کہ بنیوں کی طرح موٹے ہو جائیں گے تمہارے پیٹ بلکہ اس لئے کہ تمہارے مسلز جو ہیں اتنے مضبوط ہوں گے کہ دنیا کی کوئی طاقت کاری ضرب تمہارے جسموں کو نہیں لگا سکے گی.ورزش کرو.اپنے جسموں کو بناؤ.میں حیران ہوتا ہوں.جس وقت جنگ کی شکل کچھ اور تھی، سارا دن یا دن کا کچھ حصہ

Page 593

فرموده ۱۹۸۲ء 590 د مشعل راه جلد دوم تلوار چلا تا تھا ایک سپاہی دشمن کے مقابلہ میں.اس وقت کسری کے مقابلہ میں جب کسری نے ( بہت بڑی طاقت Millions) کی یعنی لکھو کھا لکھوکھا کی فوج ان کے پاس) اور حملہ کر دیا مسلمانوں پر سازش کر کے.پہلے ابتداء کی انہوں نے ہی وہ سازش کی تھی اور پھر اٹھارہ ہزار مسلمان اور ہر جنگ جو دوسرے تیسرے چوتھے دن ہوئی ہے ان کے مقابلہ میں تازہ دم فوج آتی تھی.ان کا کمانڈر انچیف بھی ایک نیا آدمی بڑا تجربہ کار اس زمانے میں (اب تمغے دیتے ہیں نا اپنے جرنیلوں کو ) اس وقت کسری نے یہ کہا ہوا تھا کہ یہ یہاں تک پہنچا ہوا یعنی جس کو یہاں کور کمانڈر کہا جاتا ہے آج کل قریباً اس معنی میں یعنی جس کے ماتحت.ستر اسی ہزار کی فوج ہے.اس کو ایک لاکھ ہیرے جڑے ہوئے ٹوپی پہننے کی اجازت تھی اور اس کی Treasury اس کا خزانہ کسری کا اس کو وہ ٹوپی دیتا تھا نشان اس کا کہ بہت بڑا وہ ہے جرنیل.اگر آٹھ گھنٹے کی جنگ ہو اور اٹھارہ ہزار سے چار گنا زیادہ سامنے فوج ہو تو ہر دو گھنٹے کے بعد کسری کی فوج کی لڑنے والی صنفیں پیچھے ہٹ جاتی تھیں اور تازہ دم پچھلی صف جو تھی وہ آگے آجاتی تھی اور چار دفعہ ہوتا تھا دن میں ایسا.اور مسلمان صبح سے شروع کرتا تھا اور آٹھ گھنٹے تک تلوار چلاتا رہتا تھا.خدا کے فضل نے یہ طاقت دی تھی.ابھی حال ہی میں ایک نئی چیز میرے سامنے آئی وہ یہ کہ جو شخص مثلاً اپنے دائیں بازو سے کام لے رہا ہے سخت کام مثلاً آجکل گندم کائی جارہی ہے نا تو بڑا بوجھ ہے.اس مزدور پر جو دوسروں کی جائے گندم کاٹ رہے ہیں.صبح لگتے ہیں اور شام تک کاٹتے رہتے ہیں داتری چل رہی ہے نا اس طرح داتری سے وہ کاٹ رہے ہیں اور ایسے کیسز (Cases) ہیں کہ بہتوں میں کلاٹ (Clot) ہو جاتا ہے اور موت بھی ہو جاتی ہے داتری چلا کے.اور آٹھ گھنٹے مسلمان تلوار چلاتا تھا اور تاریخ میں کہیں ایک واقعہ بھی نہیں ایسا کہ جہاں اس کے خون میں Clot ہوا ہو لوتھڑا جم گیا ہوخون کا اور ہارٹ فیل ہو گیا ہو اس قسم کی خدا تعالیٰ نے ان کو سمجھ عطا کی اور اس طرح انہوں نے ورزشیں کیں اور مضبوط بنایا اپنے جسموں کو کہ عملاً یعنی ایک تو یہ تھا نا کہ چار گنا فوج سے وہ لڑ رہے تھے اور بالکل نڈر ہو کر ایک لحظہ کے لئے بھی یہ خوف نہیں پیدا ہوتا تھا ان کے دل میں کہ ہم شکست کھا جائیں گے کیونکہ ان کا تو کل اپنے ہتھیار پر یا اپنی مہارت پر یا اپنے جسموں کی مضبوطی پر یا اپنی چالاکیوں پر نہیں تھا.ان کا تو کل تھا اپنے پیدا کرنے والے اس رب پر جس نے محمد رسول اللہ لہ کے ذریعہ سے ان کو یہ بشارت دی تھی.انتم الاعلون ان كنتم مومنین(آل عمران: ۱۴۰) ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے چلے جانا اور کوئی غیر تم پر غالب نہیں آسکتا.عجیب ہے یہ واقعہ کہ ہر دو گھنٹے کے بعد تازہ دم فوج سے لڑرہے ہیں اور فاتح ہوتے ہیں اور ہر دو گھنٹے کے بعد تازہ دم صفیں آگے آرہی ہیں اور شکست کھا رہی ہیں.اتنا بھروسہ تھا.ہم طارق کی کشتیاں جلانے کا بھی ذکر کرتے ہیں.انہی میدانوں میں ایک دن خالد بن ولیڈ نے اٹھارہ ہزار فوج میں سے چار ہزار گھوڑ سوار فوج نکال لی اور صرف چودہ ہزار کو دشمن کے سامنے رہنے دیا.کس امید پر ؟ ان کو پتہ تھا مسلمان پیٹھ نہیں دکھاتا.لڑتا رہے گا.

Page 594

591 فرموده ۱۹۸۲ء د و مشعل راه جلد دوم دد پیچھے بہے گا ضرور وزن ہے اس کو دھکیلتا ہے وزن پیچھے لیکن پیٹ نہیں دکھائے گا.اور ان چار ہزار گھوڑ سوار فوج کو کہا جب میں اشارہ کروں پیچھے سے حملہ کرنا ایرانی فوج پر اور اس عرصے میں ( تاریخ کہتی ہے مجھے صحیح یاد نہیں) وہ میں دو میل پیچھے ہے.کیونکہ چودہ ہزار کے مقابلہ میں ستر اسی ہزار کی فوج کا دباؤ جو تھا وہ دباؤ ہی ان کو پیچھے دھکیل رہا تھا.یعنی تلوار چلاتے ہوئے ان کو قدم بہ قدم پیچھے ہٹنا پڑ رہا تھا اور پھر جب اشارہ کیا تو انہوں نے پیچھے سے حملہ کہ اور وہ بظاہر شکست کی تصویر فتح کی حقیقت میں تبدیل ہوگئی.ی تو کل کا نتیجہ تھا.یہ تقوی کا نتیجہ تھایہ خدا تعالیٰ کو پہچان کے اپنی زندگیاں گزارنے کا نتیجہ تھا.یہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ جو متقی ہو گا خدا تعالیٰ ان کی راہوں کو ہموار کرے گا اور ان کی کامیابیوں کے سامان پیدا کرے گا.یہ نتیجہ تھا اس بات کا کہ اللہ سب سے زیادہ طاقتور ہے اور جس سے وہ پیار کرتا ہے کوئی غیر اس کے اوپر غالب نہیں آ سکتا.اور کھلے بندوں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا اعلان کیا.چودہ سو سال ان مسلمانوں نے جو اس لعلیم پر کما حقہ پوری طرح مومنون حقا کی جماعتیں بنتے ہوئے کاربند رہے یہ نظارے دیکھے.تلوار خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے ہاتھ سے اس زمانہ میں چھین لی نہیں رہنے دی.اس لئے کہ غلطی سے پہلے زمانوں میں بھی تلوار کے ذریعہ سے اسلام نہیں پھیلا تھا.دشمن کا مقابلہ کرنے اور اپنے دفاع کے لیے تلوار کا استعمال کیا گیا تھا.لیکن یہ جو پادری اور دوسرے متعصب غیر مسلم تھے انہوں نے غلط اعتراضات اسلام اور محمد پر کرنے شروع کئے.تب خدا نے کہا جب ابو جہل کے ساتھیوں کی طاقت کے مقابلہ میں اسلام دشمن طاقتیں کروڑوں گنے زیادہ ہو چکی ہوں گی (اب ابو جہل کی تلوار کے مقابلے میں ایٹم بم کی جو طاقت ہے آج کی دنیا کی وہ کروڑوں گنے زیادہ ہے یا نہیں ہے؟) اس وقت میں مسلمان کے ہاتھ سے تلوار لے لوں گا اور کہوں گا کہ بغیر تلوار کے ان کا مقابلہ کرو اور مجھ پر تو کل رکھو.بغیر تلوار کے تم دوسرے ذریعے ہیں ان کا دل جیتو گے اور یہ اپنی طاقت تمہارے خلاف استعمال نہیں کریں گئے تمہارے قدموں میں لاکے ڈال دیں گے اور محمد الیہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے ہونگے.بہت بڑا کام ہے جو آپ کے سپر د کیا گیا ہے، بہت ہی بڑا.میرے جیسا عاجز انسان کوئی اور عاجز انسان جو خدا کے حضور دعائیں کرنے والے اور غور کرنے والے ان باتوں کے ہیں، اپنے الفاظ میں اس مقصد کی اہمیت اور عظمت کو بیان نہیں کر سکتے، لیکن ہے بڑا عظیم کام.جس حد تک ممکن ہو ہر وقت اپنے دماغ میں یہ رکھو کہ میں احمدی طفل یا خادم ہوں اور میرے اوپر جو ذمہ داری ہے وہ آج کی دنیا میں کسی اور پر ذمہ داری نہیں ہے اور اگر میں نے غلطی کی تو دنیا کی نوع انسانی کی ہلاکت ممتد ہو جائے گی یعنی نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ یہ انسان انسانیت جو ہے وہ ہلاک ہو جائے گی اور اگر میں نے اپنی حقیر کوششوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لیا تو مجھے بھی خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتیں مل جائیں گے اور میرے بھائی انسان بھی شیطان کی سلطنت سے باہر کھینچ لئے جائیں گے اور خدا تعالیٰ کے پیار کے اور رحمت کے سایہ میں آجائیں گے اور ان کی زندگیوں کا مقصد بھی انہیں حاصل

Page 595

592 ہو جائے گا اور یہ دنیا بھی ایک جنت بن جائے گی اور مرنے کے بعد جو جنتوں کا وعدہ ہے نوع انسانی اس کی مستحق ٹھہرے گی.چار پانچ دن سے بڑی شدید پیچش اور مروڑ کا حملہ رہا ہے مجھ پر اور گرمی بیماری ہے.لیکن بہر حال میں بڑا خوش ہوں آج یہاں آنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے دی اور میں آپ سے ملا اور دعائیں کرنے کا موقع بھی ملا اور آگے بھی آپ کے چہرے میرے ذہن میں رہیں گے اور کچھ باتیں ضروری میں نے کی ہیں آپ بھولیں بالکل اتنا بڑا فرق ہے آپ میں اور آپ کے غیر میں کہ آج تو آپ بھی نہیں پہچانتے.آنے والے مورخین جو ہیں وہ تو آپ میں سے ایک ایک پر ایک ایک کتاب لکھ جائیں گئے اگر آپ صحیح راستے پر چلتے رہے.اس اگر کے ساتھ میں یہ کہ رہا ہوں.کیونکہ آپ کے ذریعے نوع انسانی کے اس نازک دور میں ایک انقلاب عظیم بیا ہونے والا ہے.خدا کرے کہ آپ اس انقلاب عظیم کو بپا کرنے میں کامیاب ہو جائیں.آمین.دعا کرلیں دعا کے بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ کہ کر حضور واپس تشریف لے گئے.

Page 596

آبادی بعض دوسرے کروں پر آبادی کے 1 اسلام کو غالب کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے سپر د کیا ہے مخالفین اسلام کے مقابلے میں جماعت کو دیے جانے والے ہتھیار بارے میں حضرت مسیح موعود کا بیان 315 ایک احمدی کی ذمہ داری آزمائش اور تکلیف میں الہی حکمتیں 287 238 239 440 77 74 ء کا ابتلاء اور حضور کی دعائیں اجتماع ہمارے اجتماعات کی غرض اجتماعات کی تیاری اور اسکی اہمیت ہماری روح ہلاک ہونے والی نہیں 488 یہ جماعت مرنے کے لئے نہیں زندہ کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے 522 509 552 جماعت احمدیہ پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ معقول نہیں ہوتا اجتماعات میں ہر ایک کی نمائندگی ضروری 508 قادیان کے ابتدائی سالانہ اجتماع کی 309 جماعت احمد یہ پیدا ہی خدمت کے کیفیت اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت احمدیت لئے ہوئی ہے 525 25 449 احمدی نے آگے ہی آگے بڑھنا ہے 231 ہراحمدی کے چہرے پر بشاشت ہونی ایک احمدی کے عقائد ہمارے بنیادی عقائد 485 309 آسمانی فیصلہ اور جماعت احمدیہ کا فرض 294 چاہئے ہم ہمیشہ مسکراتے رہیں گے جماعت احمد یہ دنیا میں سب سے زیادہ جماعت احمدیہ کے غلبہ کے متعلق خدائی بشارتیں آج دنیا کو بچانے کے لئے صرف جماعت احمد یہ ہے ایک احمدی کی زندگی 267 237 342,416 243 244 صحت مند جماعت ہو 563 جماعت احمدیہ کی افریقہ میں خدمات 233 احمدیت سے لڑنا کوئی معمولی بات نہیں 311 اخلاق حسین اخلاق اپنا ئیں 558

Page 597

اخلاقی استعدادوں کی نشو و نما کریں 238,567 2 اسلام سادہ زندگی کا مذہب ہے فتح اسلام کا مقدر ہے بعض اخلاقی اقدار جنہیں یا درکھنا چاہیئے 26 اسلام ایک انقلابی مذہب ہے 43 272 270 خوش خلقی اور اس کا اثر 242 اسلام اسلام قیامت تک کے مسائل کوحل کرانے کے قابل ہے اسلام غالب آئے گا 51 اسلام دل جیتنے کی طاقت رکھتا ہے 270 270 غلبہ اسلام کی صدی اور اسکی تیاری 442 اسلامی جنگ کے ہتھیار قرآنی ہدایت اسلام نے شرف انسانی کو قائم کیا اسلام تلوار سے کبھی نہیں پھیلا 520 589 اور انوار قرآن 365 اسلام کے خلاف دیگر مذہبی قوتوں ہمارے قیام کی دوسری صدی غلبہ کا اکٹھا ہونا 402 اسلام کی صدی یہ زمانہ اسلام کے غلبہ کا ہے اسلام امن اور آشتی اور خدمت خلق 559 464 اسلام کی حسین تعلیم اور اشتراکیت کی ناکامی اکل حلال 409 255 کا مذہب ہے 481 الله تعالى دنیا بھر کی ایجادات اسلام کی خاطر 536 اللہ تعالیٰ نے ایک تو ازن قائم کیا ہے 468 اسلام کا حسن سلوک اور جنگ عظیم اسلام کے لئے کسی سرٹیفیکیٹ کی 465 صفات الہیہ کے جلوے 487 اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے ضرورت نہیں 549 اس کی ذات وصفات کی معرفت ضروری اسلام اور عیسائیت کے مابین طریق فیصلہ اور حضور کا چیلنج 81 اسلام میں رہبانیت کو پسند نہ کرنے کی حکمت 6 ہے صفات باری تعالیٰ کے بیان کی اہمیت 286 امت امت محمدیہ کی فضلیت 399 482,283

Page 598

امت مسلمہ بخیر امت ہے امت محمدیہ پر آنحضرت کے بے شمار احسانات امانت کی اہمیت انسان 382 261 473 3 انبیاء کی بعثت پیشگوئی واذالصحف نشرت اور کمپیوٹر وغیرہ کی پیشگوئی ہمیں انسان سے دشمنی کا سبق نہیں دیا گیا 236 پوپ انسان.انسان کا سب سے بڑا خادم 428 (ت) 300 534 233 ہم بنی نوع انسان کے بے لوث خدمت کرنے والے ہیں 378 تجارت کے سنہری اصول نوع انسانی ہلاکت کے گڑھے کی طرف تحریک فضل عمر فاؤنڈیشن جارہی ہے 577 انصار الله 307,510,539,428,552 انصار اللہ کے رومال کی تجویز انکساری تواضع انقلاب موجودا انقلابات سوشلزم وغیرہ اور ان کی خامیاں اور اہمیت وغیرہ پر تبصرہ 346 250 371 تحقیق کا میدان نہ ختم ہونے والا ہے 540 416 تربیتی کلاس میں نمائندگی اور اس کی اہمیت تربیتی کلاس میں تدریس کے بارے میں ہدایات 39,338 369,426,42,39,269 ترقی یافتہ قوموں کی تہذیب میں بنیادی کمزوریاں دنیاوی ترقیات.اسلام کی اشاعت 464 365,271,438,409 (ب) براڈ کاسٹنگ اسٹیشن کی تجویز برقع کام میں حارج نہیں ہوتا بنی اسرائیل کی تربیت کے لئے ہزاروں 256 535 میں معاون ثابت ہو رہی ہیں تزکیه نفس 506 254 تعلیم و تربیت کی اصل بنیاد.قرآن کریم 369 تعلیمی اداروں کے قومیائے جانے پر حضور کا بصیرت افروز تبصره 349

Page 599

4 بچوں کے لئے حضور کا تعلیمی منصوبہ 542 چاند سورج گرہن کا نشان تفسير آیت استخلاف کی تفسیر كل يوم هو في شان بسم اللہ الرحمن الرحیم سورة التين تقوى لباس تقوی اور اس کی اہمیت تنظيم برے ماحول سے محفوظ رکھنا ذیلی تنظیموں کا کام ہے توحید باری تو کل اور اسکی حقیقت (ج، چ) جرمن فوج کی ایک خوبی جھنڈا آنحضرت کے جھنڈے کا رنگ جھوٹ جھوٹ کے نقصان جھوٹ کبھی اختیار نہ کرو چائے.ابتداء اور فوائد و نقصان 458 487 9 363 280 262 313,309 283 250 283 473 54 355 536,62 چودہویں صدی نے ہمیں کیا دیا 538,532 سورۃ فاتحہ کا چیلنج پادریوں کے سامنے 473 (ح) حدیث ( وہ احادیث جن کے حضور نے تشریح فرمائی) حدیث کے بارے حضرت مسیح موعود کا بنیادی اصول حدیث مجددین کی تشریح لكل داء دواء لولاک لما خلقت الافلاک وان لنفسک علیک حق اذا تواضع العبد.كان خلقه القرآن 457 453 468 292,479 240 252 278 حضور تگا فرمان که خاتمہ بالخیر کی دعا کرو 290 یہ ارشاد کہ دس سال تک کے بچے نماز کے لئے تیار کرو جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو خدا سے مانگو ہر کام سے پہلے بسم اللہ کا حکم مہدی جنگوں کو ختم کرے گا 279 251 9 408

Page 600

569 ترسیل کی اہمیت روحانی صلاحیتوں کی نشو و نما (ز) یہ زمانہ محمد کے پیارے شاگرد اور ایک غلام کا زمانہ ہے اس زمانہ کے ہم سے چار مطالبات یہ زمانہ غلبہ اسلام کا زمانہ ہے 499 562 531 یہ آخری زمانہ مہدی معہود کا زمانہ ہے 400 (س) سائنس کی اہمیت اور اس کی طرف توجہ 225 223 382 383 384 471 467 5 21 6 565 527 513 247 5 دو فریق میرے پاس آتے ہیں...جو اپنے خاندان پر خرچ کرتا ہے وہ صدقہ ہے میں نے تجھے بڑی اچھی صحت دی تو نے اس سے کیا کام لیا رضينا بالله ربا..حقوق حقوق کے متعلق اسلامی تعلیم حلم خادم کا ایک وصف حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پر معارف تشریح حقوق نفس اور ان کے خیال رکھنے کا حکم 240 لیکن.....حیات آخرت کا عقیدہ اور علمی ترقی ایسے سائنسدان جو خدا کی ہستی کے منکر سائیکل چلانے کی تحریک اور اس کی اہمیت وافادیت اجتماع پر سائیکل سفر کے ذریعہ آنے والے خدام مجھے بڑی جلدی ایک لاکھ احمدی سائیکل چاہیئے احمدی سائیکل وہ ہے جسے احمدی 225 (j) 565 34 پراس کا اثر ذہنی قوتوں کی نشو و نما ذہانت کے لئے امانت دار ہونا ضروری ہے (ر) رپورٹ چلاتا ہو جماعت احمدیہ نے کبھی بھی سٹرائیک میں مجالس کی کارگزاری اور رپورٹ کی حصہ نہیں لیا سچائی اور قول سدید کی تعلیم

Page 601

6 ہم حق چھوڑتے ہیں لیکن سچ کو نہیں چھوڑ سکتے یہ جذبہ ہر احمدی کے اندر پیدا ہونا صحت جسمانی صحت جسمانی کی اہمیت چاہیئے سکاؤٹنگ سوالات کا جب موقع ملے تو ہر قسم کے سوال کرو سویا بین کے استعمال کی تحریک اور افادیت خدام الاحمدیہ کے ذمہ سو یا لیسی تھین اور سو یا بین پر تحقیق (ش) شرک سے اجتناب کی تعلیم شرک سے بچنے کا گر شرک معاف نہ کرنے کی حکمت شعور اور عرفان 257 27 345 545 575 540 288 290 518 357 صحت جسمانی اور ذہانت کی طرف ہمیں خاص توجہ کرنی چاہیئے مجلس صحت مغربی اقوام کو ہم شکست نہیں دے سکتے جب تک صحت کے میدان میں ہم انہیں شکست نہ دیں اپنی جسمانی قوتوں کی نشو و نما کو عروج تک پہنچاؤ ورزش وغیرہ صحتوں کی فکر کریں کھیلیں ضرور لیکن....صحابہ اور آنحضرت کی قوت برداشت اور جسمانی محنت بیماری اور صحت کے متعلق حضرت شہد کی لکھی جو جرم کش دوائی بناتی ہے 468 مسیح موعود کا ایک بنیادی اور حسین مضمون زیادہ بڑا شہید وہ ہوتا ہے جس نے خدا کی راہ میں زندگی وقف کر دی شیطان کے ساتھ نیک بندوں کی یہ آخری جنگ (ص) 405 400 33 33 35 375 570 387 364 587 33 33 347 صبر کے مختلف معانی اور ان کی تشریح 293 حضور کی بڑی بیٹی کا پہلالڑ کا ہوتے ہی فوت ہو گیا لیکن بچی کا صبر کہ مسکراتے ہوئے حضور سے ملی معاشرے کی اصلاح اور ترقی کے لئے 246

Page 602

5 22 22 249 280 535 352 16 352 7 بنیادی اصول_ دیانت اور صداقت 370 صدر یہ فرض ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ کا جو بھی کوئی ان کا صدر کسی عرصہ میں رہے عبادت کی نسبت خدا تعالیٰ کو اعمال زیادہ محبوب ہوتے ہیں حقیقی عزت دنیا کی عزتیں عارضی_حقیقی عزت وہ وہ اس کے ممنون اور مشکور ہوں...38 ہے جو اللہ کی طرف سے بندے کو ملتی میں خدام الاحمدیہ کا صدر بھی رہا ہوں بڑا ہے لمبا عرصہ تمہارے لئے بھی کرواہیں...523 عفت اور اس کی تشریح عقال عرب کا ایک لباس تحصیل علم کی اہمیت علم ،فکر اور عقل وتدبر کی تشریح علم کے حصول کے دوذ رائع 416,559 256 533 562 صد سالہ جوبلی منصوبہ صدق مقال چودہویں صدی اور اسلام کا عروج یہ صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے ہماری زندگی کی دوسری صدی غلبہ اسلام علم کا ایک حصہ تعلیمی ادارے سے متعلق کی صدی ہے 531 ہے افریقہ میں ظاہری صفائی کا معیار بہتر ہے 254 علمی ترقی کو بار آور کرنے کا اسلامی (افریقہ کے ) نوجوان طلباء کے نام ضروری پیغام احمدی طلباء سے خطاب 226 540 طریق 222 علمی ترقی کی جدوجہد اور اس کی اہمیت 221 علم میں اضافہ کرنے کا طریق ترقیات عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے تھوڑا سا علم حاصل کر کے تکبر میں آ جانا والے کو ملتی ہیں (ع) عادت بری چیز ہے چاہے کسی چیز کی بھی ہو 373 26 اور عالم کہلوانا 339 353 ہماری علمی پسماندگی اور اس کا علاج 223 علم کے میدان میں ہمارا کام کم نہیں ہوا 358 علم انعامی 4

Page 603

عیسائیت کا افریقہ میں جانا اور.....عیسائیت کو چیلنج 253 444 عیسائیت کی قابل رحم حالت اور...79 عیسائیت میں دلچپسی کی کمی ایک پادری کا عیسائی عقائد سے دستبرداری کا اعلان 80 80 00 ایک پادری کا تحقیق شائع کرنا کہ مسیح صلیب پر نہیں مرے بلکہ کشمیر گئے 453 In Quest of Christ نامی فلم 466 (غ) غض بصر کی عادت ڈالیں امریکنوں کا افریقین قوم کو غلام بنانا غلیل رکھنے کی تحریک فولڈرز کی سکیم 368 535 388 582 (ق) 8 347 24 22 433 406 406 368 412 407 عمل عملی کام کے لئے تجربہ کی اہمیت جو شخص قرآن کے مطابق کام نہیں کرے گا وہ کام عمل صالح نہیں ایمان کے ساتھ عمل صالحہ کی شرط اور اس کی حکمت عمل صالح اور اعمال سدیمہ اسلام میں عورت کا مقام اور پردہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کی اہمیت احمدی عورتوں کو بھی ساتھ شریک ہونا پڑے گا عورتوں سے بھی کہیں یہ چین اور آرام سے بیٹھنے کا وقت نہیں ہے عورتوں اور خصوصاً مبلغین کی بیویوں سے حضور کی نیک توقعات 73 صحابیات کا میدان جنگ میں شامل ہونا 406 قائدین ضلع کی ذمہ داری عیسائیت کے اسلام کے خلاف منصوبے 402 قائد کی خوبی اور اس کا مقام ( قائد اس کو عیسائی پادریوں کا دعویٰ اسلام کے خلاف کہتے ہیں جس کا اپنا نفس باقی نہ رہے) 261 580 3 قربانی مالی قربانی کے معیار کی طرف توجہ اس وقت احمدیت کی حالت ہم سے انتہائی قربانی کا مطالبہ کر رہی ہے 422 532 452 اور مسیح موعود کا اعلان عیسائیت کی بڑھتی ہوئی یلغار اور مسیح موعود کا دفاع عیسائی پادریوں کے دعوے

Page 604

9 قیامت کا نمونہ فروری اور مئی کے درمیان کا زمانہ ہے گرم_خادم کا ایک وصف اور اس کی تشریح (ک) 79 247 مربیان کے بارے میں کہ بعض کام کرتے ہیں بعض نہیں ایک مبلغ کی بیوی کا گھانا میں بہترین کام اور حضور کا اظہار خوشنودی 508 407 مجددین اور مقربین پر کفر کے فتوے 359 کسر صلیب کانفرنس کا عظیم الشان منصوبہ 451 حدیث مجددین کے بارے حضور کی کسر صلیب کانفرنس کیمونزم کا نقص عرب کا ایک لباس عقال (ل،م) 520 546,289 280 عارفانه تفسیر مذہب افیون نہیں بن سکتا خدا کا نام مسلمان رکھنا اور مسلمان قوم کے لئے بشارتیں 453 289 548,547 دنیا کا اصل مسئلہ اقتصادی نہیں بلکہ محبت اور مساوات کا مسئلہ ہے لباس میں پابندی کڑی نہیں.افراط و تفریط سے بچنا چاہیئے لجنہ اماءاللہ 281 552,74,571 لجنات کو کھیلوں کے کلب بنانے کی تحریک لجنہ کے رومال کی تجویز 575 345 انسان انسان سے پیار نہیں کرتا مجلس مشاورت کی اہمیت قوت مشاہدہ اور اس کی اہمیت مشاہدہ کی عادت ڈالیں 235 395 372 565 287 لوائے احمدیت کے لئے حضرت مصلح موعود منافقین_اور جماعت کا فرض منافق کی علامت کہ جوڈیوٹی لگائی جائے کی ایک کمیٹی جس کے ممبر حضور بھی تھے 345 بعض مبلغین کے بارے میں حضور کے دکھ کا اظہارا اور گوجرانوالہ کے ایک طالب علم جامعہ کے بارے میں اظہار خیال 581 اس سے بہانے سے......حقیقی مومن کی پہچان (نو) نشانہ کی مہارت 280 22 563

Page 605

10 تیراندازی اور نشانہ کی مشق 553,554 نے بتائے تھے نصرت جہاں کا منصوبہ 416 نصرت جہاں ریز روفنڈ کا قیام اور مخالفین وقار عمل کی اہمیت 30 کسی کام کو بھی ذلیل اور حقیر نہ سمجھے 27 کا الزام نفاق اور ارتداد شروع زمانہ سے ساتھ چلا آ رہا ہے ایک احمدی عورت کا نماز چھوڑ دینا اور 257 اور اس ضمن میں حضور کی ہدایات اور راہنمائی 24 24 276 وقار عمل کے لئے سامان جمع رکھنے کا ارشاد اور اس کا فائدہ 27 27 حضور کا دعا کرنا اور دوائی استعمال کروانا 291 ربوہ کے اجتماعی وقار عمل میں حضور کی عملی نمونہ دکھائیں 471 شرکت اور خطاب اگر کسی کام کی نیت ہو تو اس کے لئے تیاری وقار عمل کے لئے حضور کا لائحہ عمل کی جاتی ہے 553 وقف جديد 367 367 ہمارے بچے وقف جدید کا بوجھ اٹھائیں 47 والدین_اسلامی ماحول پیدا کرنے کے لئے والدین کا کردار ماؤں کا کردار کہ بچوں کو چندہ دینے کی عادت ڈالیں ہمیں اپنے وطن سے بڑا پیار ہے 49 18 515 اپنے وطن عزیز کے لئے دعائیں کریں 424 اٹھالیں تمہاری ماں یعنی مادر وطن آج تمہیں بلا رہی ہے وقار عمل ہمیں وقار عمل ان طریقوں پر شروع کر دینا چاہئیے جو ہمیں حضرت مصلح موعود 298 وقف جدید کے چندہ کے لئے حضور کی بچوں کو اپیل اگر خدا تعالیٰ احمدی بچوں کو توفیق دے تو جماعت بچے وقف جدید کا سارا بوجھ ہمدردی مخلوق یہود کا خدا کے بارے میں نظریہ یہود کی حکومت اور انجام یہود کا ظلم جرمن پر 18 18 252 491 236 301

Page 606

392 390 390 382 302 11 خدام الاحمدیہ خدام الاحمدیہ 552,530,428,327 اللہ تعالیٰ نے ہمیں نوجوان نسل بہت ہی اچھی.بہت ہی قربانیاں دینے والی اور جذبہ رکھنے والی نسل دی 414 مجلس خدام الاحمدیہ کی زندگی قیامت تک ممتد ہے حضرت مصلح موعود کی تڑپ کہ نو جوانوں خدام الاحمدیہ بین الاقوامی خدمت پر کی ایک تنظیم ان کی تربیت کے لئے ہو 38 مامور ہے ہم خادم کی حیثیت سے پیدا ہوئے اور تی تنظیم بڑی چھوٹی سی ابتداء سے شروع ہوئی تھی اور آج یہ بڑی خوش کن اور بڑی خادم کے مقام پر کھڑے رہنا ہماری زندگی کا معراج ہے خدام الاحمدیہ بڑی ذمہ داریوں کی حامل ہماری ایک مجلس ہے خادم کا مقام 24 اچھی صورت میں اور بڑی وسعتوں میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہے خدام الاحمدیہ کالائحہ عمل وہ جو حضرت مصلح موعودؓ نے سامنے رکھا یا وہ لائحہ عمل ہے جو میں اب تمہارے لئے بناؤں 24 غلبہ اسلام اور خدام الاحمدیہ کے فرائض 295 خدام الاحمدیہ کے وہی کام اسلامی اصطلاح خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض کہ آنے والی نسلوں کی تربیت اس رنگ میں کی جائے کہ کی روسے اعمال صالحہ شمار ہونگے جو خلیفہ وقت کی ہدایت کے مطابق کئے جائیں گے 23 نبی اکرم کی عظمت اور جلال کا اظہار ہو 266 مہتممین خدام الاحمدیہ سے حضور کا خطاب 3 قیادت ہے اس وقت ایک صحت مند بھر پور جوانی والے خوبصورت درخت کی شکل یہ خدام الاحمدیہ کے نظام کی اصل روح خدام الاحمدیہ کا قیام اور ذمہ داری 250 435 خدام الاحمدیہ کے کاموں کی عمارت کی بنیاد 54 مجلس خدام الاحمدیہ کے لئے ضروری ہے 414 بیج اختیار کر گیا

Page 607

تعداد میں اپنی زندگیاں وقف کریں 8 ہمارے نو جوانوں کو چاہیئے کہ وہ اسلام 8 کی خدمت کی طرف متوجہ ہوں لا ہور میں خدام الاحمدیہ کے خدمت خلق 12 4 4 کہ وہ اپنے ہر مبر کواپنی ہر مجلس کو اٹھا کر کم سے کم معیار تک لے جائیں مرکزی اور علاقائی عہد یداروں کی ذمہ داری خادم کار و مال اور اس کی تیاری کی تفصیل 345 کے کام 30 ہر احمدی اپنے اندر روح بلالی پیدا کرے 497 ہمیں کسی تکلیف میں بھی عار نہیں ہونا چاہیئے 31 ایک احمدی طفل خادم اور غیر میں فرق 586 پیغام آپ کے ذریعہ نوع انسانی کے اس نازک دور میں ایک عظیم انقلاب بپا اپنے نفسوں پر اس موت کو وارد کریں...35 40 41 428 433 آپ نو جوانوں کا فرض ہے.کہ یہاں (مرکز ) آئیں اور دین سیکھیں آپ میں سے ہر ایک نے اسلام کا سپاہی بننا ہے ہماری زندگی کا مقصد نوع انسانی کی وہ خدمت ہے جس کی طرف اسلام ہمیں بلاتا ہے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی وہ جو خدام الاحمدیہ کے سپرد ہمارا ہر خادم قیادت کی اہلیت رکھنے والا ہو 346 صرف دعوی یا تعلیم کافی نہیں تمہاری 340 زندگیوں میں تمہارے اخلاق میں تمہاری عادات میں اسکا رنگ نظر آنا چاہیئے حضرت مسیح موعود کے فرمودہ بارہ اوصاف 590 424 506 510 ہونے والا ہے آپس میں پیار اور اتحاد سے رہیں احمدی نوجوان کا کام.اسلامی معاشرے کا قیام خدام الاحمد سیہ سے توقع خدمت خدام الاحمدیہ کا قیام میذمہ داری بتاتا ہے 510 عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے 529 52 حمد و ثناء کے ترانے گاتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاؤ ہمارے سارے پروگرام کی بنیاد خشیت اللہ اور تقوی پر ہے ہمارے احمدی نو جوان زیادہ سے زیادہ

Page 608

13 جو ایک خادم میں ہونے ضروری ہیں 241 آپ پچکے، بچے اور حقیقی خادم بنیں 241 بنی نوع انسان کے خادم بن جائیں 230 ہمارے خادم اس فوج کے سپاہی ہیں جو صف اول میں لڑ رہے ہیں خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا کرو 411 366 کسی دن یہ مقابلہ ہو جائے گا خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں گھوڑے زیادہ آتے ہیں یا سائیکل آتے ہیں 388 نا ئب صد رخدام الاحمدیہ کا بیرون ملک 573 مساجد کے بنوانے کا کام تفصیل خدام کو کھیلوں کا کلب بنانے کی تحریک 576 خدام الاحمدیہ کے چندے سے مساجد 579 ہم آگے ہی آگے بڑھنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں ہم کہیں ٹھہر نہیں سکتے کیونکہ ٹھہر ناموت کے مترادف ہے اپنا وقت ضائع نہ ہونے دیں ایک احمدی نوجوان کی غیرت کا تقاضا ہے کہ وہ تھکے نہ اور ہر کام کر سکے جن مقاصد کے حصول کا تم ارادہ اور عزم رکھتے ہو.ان کے حصول کے لئے جس قسم کی تیاری کی ضرورت ہے وہ تمہیں کرنا پڑے گی تم نے سب سے آگے نکلنا ہے ساری دنیا سے آگے نکلنا ہے قوی بنو بلکہ امین بنو خدا کے حضور عاجزانہ جھکو 413 415 384 385 386 390 390 412 تربیتی کلاس کے طلباء کو حضور کی نصائح 16 مجلس خدام الاحمدیہ کا ریز ورفنڈ سے قومی فنڈ میں رقم دینا 32 خدام الاحمدیہ سے اجتماعی و قائمل کی اپیل 31 مجلس خدام الاحمدیہ کے کاموں میں وقت دینے کی برکت 46 خدا کا حقیقی خادم تو وہ ہوتا ہے جو نبی حکم ملا کام کے لئے تیار 282 اطفال الاحمدیہ اطفال الاحمدیہ 345,428,530,522 اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کے قیام کا مقصد 1 حضور کا اطفال الاحمدیہ کے نام پہلا پیغام 1 اطفال کی ذمہ داری بڑے ہو کر آپ نے تبلیغ اسلام اور قوموں کی تربیت کی ذمہ داری سنبھالنی ہے 1 اپنے بچوں کو سمجھائیں 564

Page 609

14 تم صرف بچے نہیں تم احمدی بچے ہو 477 تم تو کل کے جوان ہو اگر دین کی خدمت کا جذبہ پیدا ہو تو ہمارے اطفال ساری دنیا سے آگے نکل سکتے ہیں ہر بچے کو جو صلاحیت ملی ہے اسے ضائع نہ کرے ہمیشہ مسکراتے رہیں 484 476 480 481 55 عاجزانہ راہیں اختیار کرو بچوں کی ذمہ داری کہ پڑھ کے سیکھیں 59 والدین کی ذمہ داری کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کا دھیان رکھیں دنیا کے بچوں کا مقابلہ ہمارے ان اطفال 60 سے ہےاور افریقن بچوں کی سنجیدگی کی مثال 263 صوبہ سرحد کے اطفال اور خدام کی نمایاں کسی کو دکھ نہ پہنچاؤ اور بنی نوع انسان کے اطفال اجتماع ہمدرد اور غمخوار بنو اطفال عہد کریں کہ ہم نے کسی سے پیچھے نہیں رہنا ساری دنیا کے علم کے میدان میں احمدی 502 542 حاضری اجتماع میں اور حضور کی خوشنودی 260 اس میں ہر مجلس کی نمائندگی ضروری ہونی چاہئیے بچوں اور نو جوانوں پر زیادہ بوجھ 260 307 اپنے بچوں کو سمجھا ئیں اور بہترین رنگ 405 ایورپ اور امریکہ کو ہمارے بچوں کا انتظار ہے 476 بچوں اور نوجوانوں سے مقابلہ کرے 543 میں تربیت کریں بچوں کو اپنے نتائج حضور کی خدمت میں لکھنے کی تحریک تم معمولی بچے نہیں ہو 550 550 ہراحمدی بچہ کم از کم میٹرک تک ضرور پڑھے 557 تمہارا مستقبل دنیا کے سارے بچوں سے زیادہ روشن ہے بچوں کو بھی کچی خوا ہیں اے میرے پیارے بچو! 525 523

Page 610

اسلامی اصول کی فلاسفی الفضل ابوداؤد تجلیات الهیه تذكرة الشهادتين تشخیز الا ذہان 24 کتابیات 279 416 454,456 567 566 2 قرآن سے محبت تھی اور خود اپنے ہاتھ سے قرآن کو لکھتے قرآن کریم تمام علوم کا منبع ہے 535 546 اس زمانہ میں قرآن کی ضرورت کا احساس بڑھ گیا ہے قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے 584 584 قرآن کے ذریعہ ہر ایک کے حقوق کا قیام 512 حقیقۃ الوحی 504 در مشین.کثرت سے پڑھنے کی تلقین 239 قرآن کی اشاعت کا منصوبہ درجات مرقاة الصعود الى سنن ابی داؤد 456 قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے کتب Das Capital 332 528 حضرت مسیح موعود کا مطالعہ ضروری ہے 68 قرآن مجید قرآن کریم کی عظمت قرآن کا احسان انسانیت پر قرآن کی عظمتوں کو پھیلانے کے لئے قرآن کریم سے اتنا پیار کرو.....41 2 حضرت مسیح موعود کی بعثت ہوئی قرآن مجید کی پر حکمت تعلیم پر عمل کتاب البریه پیرا ہونے کا طریق 278 کنز العمال قرآن میں تمہاری عزت و شرف کا سامان ہے 377 لسان العرب لیکچر لاہور قرآن کریم خاتم الکتب 399 مستدرک (حاکم) صبح کے وقت ہر احمدی تلاوت کرے 2 دنیا کا کوئی علم قرآن کریم سے باہر نہیں 584 مسیح ہندوستان میں بعض مسلمان بادشاہوں کا ذکر جنہیں 83 41 241 252 455 401,450 454 452

Page 610