Language: UR
بانی خدام ااحمدیہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے مجلس خدام الاحمدیہ کے متعلق فرمودات کا مجموعہ ہے جوآپ کی تحریرات اور خطابات سے ماخوذ ہے۔ قریبا 600 صفحات پر مشتمل ان قیمتی نصائح کا مطالعہ خدام کو وہ جوش و ولولہ بخشتا ہے کہ ’’سست کبھی گام نہ ہو‘‘کی نصیحت پر عمل پیرا ہونے لگتے ہیں۔ کتاب کے آخر پر تفصیلی انڈیکس کے علاوہ شروع میں فہرست مضامین دی گئی ہے۔
احمدی خدام کی تربیت کے لئے قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی“ مشعل را جلد اول خدام الاحمدیہ سے متعلق لمصلح الموعود حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود کے خطبات و تقاریر کا مجموعہ
نام کتاب تعداد حالیہ اشاعت زیر اہتمام مطبع : : مشعل راه جلد اوّل 2500 مئی 2004ء نظارت نشر و اشاعت، قادیان پرنٹویل پریس، امرتسر MASHAL-E-RAH Copies : 2500 (Part 1) First & Second Edition Published by: Majlis Khuddamul Ahmadiyya, Rabwah Present Edition in India 2004 Published by: Nazarat Nashro Ishaat, Qadian Printed at: Printwell, 146 Industrial Focal Point Amrtisar.ISBN : 81-7912-057-0
دیباچہ مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام اس مبارک ہستی کے ذریعہ ہوا جس کے بارے میں اللہ تعالی نے خود فرمایا تھا کہ: ''وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا..او علومِ ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا، جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا ، ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا، تو میں اس سے برکت پائیں گی ،، حضرت مصلح موعود...صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی نے عالمگیر غلبہ اسلام کے لئے جن عظیم الشان تحریکوں کی بنیاد رکھی ان میں سے ایک اہم اور دور رس نتائج کی حامل عظیم الشان تحریک مجلس خدام الاحمدیہ ہے، جس کا قیام 1938 ء کو عمل میں آیا.آپ نے اس مجلس کی بنیا در کھتے ہوئے فرمایا تھا: فرمایا: د میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے (دشمن کے ) ان حملوں کا کیا جواب دیا جائے گا.ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے اور اسی کا ایک حصہ خدام الاحمدیہ ہے اور در حقیقت یہ روحانی ٹریننگ اور روحانی تعلیم و تربیت کا زمانہ ہے اور ٹرینگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے، لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو ر ہا مگر جب قوم تربیت پا کر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے...،، تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحه: ۴۴۵) ” میری غرض اس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اسی طرح نسلاً بعد نسل دلوں میں دفن ہوتی چلی جائے آج ہمارے دلوں میں دفن ہے تو کل وہ ہماری اولادوں کے دلوں میں دفن ہو اور پرسوں ان کی اولادوں کے دلوں میں یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہو جائے ہمارے دلوں کے ساتھ چمٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کرے جو دنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو.“ (الفضل ۱۷ فروری ۱۹۳۹ء) ایک اور موقعہ پر فرمایا:
”میں نے متواتر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی نئی نسلیں جب تک اس دین اور ان اصول کی حامل نہ ہوں جن کو خدا تعالی کی طرف سے اس کے نبی اور مامور دنیا میں قائم کرتے ہیں اس وقت تک اس سلسلہ کی ترقی کی طرف کبھی بھی صحیح معنوں میں قدم نہیں اٹھ سکتا.میں چاہتا ہوں کہ باہر کی جماعتیں بھی اپنی اپنی جگہ خدام الاحمدیہ نام کی مجالس قائم کریں خدام الاحمدیہ سے مراد یہی ہے کہ احمدیت کے خادم یہ نام انہیں یہ بات بھی ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا کہ وہ خادم ہیں مخدوم نہیں.‘‘ (الفضل ۱۰ اپریل ۱۹۳۸ء) مجلس خدام الاحمدیہ کے کاموں کی برکت اور عظمت کا ذکر کرتے ہوئے ہماری راہنمائی یوں فرماتے ہیں: اس بات کو مد نظر رکھیں کہ ان کا تعداد پر بھروسہ نہ ہو بلکہ کام کرنا ان کا مقصود ہو اپنا عملی نمونہ بہتر سے بہتر دکھانا چاہیے..تم سمجھو کہ صرف تم پر ہی اس کام کی ذمہ داری عائد ہے...یہ وہم اپنے دلوں سے نکال دو کہ لوگ تمہارے ساتھ شامل نہیں ہوتے تم اگر نیک کاموں میں سرگرمی سے مشغول ہو جاؤ تو میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ لوگوں پر اس کا اثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ،سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع کر سکتا ہے، سورج مغرب کی بجائے مشرق میں ڈوب سکتا ہے مگر ممکن ہی نہیں کہ کسی نیک کام کو جاری کیا جائے اور وہ ضائع ہو جائے یہ ممکن ہی نہیں کہ تم نیک کام کرو اور خدا تمہیں قبولیت نہ دے اگر تم یہ کام کرو تو گو دنیا میں تمہارا نام کوئی جانے یا نہ جانے مگر خدا تمہارا نام جانے گا اور جس کا نام خدا جانتا ہو اس سے زیادہ مبارک اور خوش قسمت اور کوئی نہیں ہو سکتا.“ (الفضل ۱۰ اپریل ۱۹۳۸ء) الغرض اس عظیم الشان اہمیت کی حامل تحریک مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کے اغراض اور اس کے مقاصد اور اس کے دور رس نتائج کی بابت حضرت مصلح موعود...بانی مجلس خدام الاحمدیہ کے خطبات و تقاریر اور ارشادات کا مجموعہ مشعل راہ آپ کی خدمت میں پیش ہے.ان خطبات کا مطالعہ نہ صرف مجلس کے کاموں کی عظمت اور تعارف میں راہنمائی کرے گا بلکہ تاریکی کے لمحات میں مشعل راہ ثابت ہوگا...جیسا کہ حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے جب آپ صدر مجلس خدام الاحمدیہ ھے میں خطبات کے متعلق فرمایا تھا کہ " تاریکی کی گھڑیوں میں ان خطبات نے میری ڈھارس باندھی تھی اگر آپ کے دل میں کبھی
مایوسی کے خیالات پیدا ہوں.تاریک بادل کبھی آپ کو آگھیر میں یا کبھی آپ کے دل میں اگر یہ خیال پیدا ہو کہ اتنا عظیم الشان کام ہم کیسے سرانجام دے سکتے ہیں.اتنا بڑا بوجھ ہمارے کمزور کندھے کس طرح بہاریں گے تو آپ ان خطبات کی طرف رجوع کریں.آپ نئی ہمت اور پختہ عزم لیکر اپنے کام کے لئے کھڑے ہوں گے اور یہ یقین ہر وقت آپ کے ساتھ رہے گا کہ دور کا راستہ پر خار ضرور ہے مگر را ہر اپنے فن کا ماہر ہے اور بے شک چاروں طرف سے " شیطان تیروں کی بوچھاڑ کر رہا ہے مگر اَلاِمَامُ جُنةٌ يُقْتَلُ مِنْ وَرَاءِ....مجھے امید ہے کہ خدام ان خطبات و تقاریر کو پڑھیں گے.اور اسکی روشنی میں مجالس کے کاموں کو ، اس کے اغراض و مقاصد کے مطابق تیز سے تیز تر کریں گے...حضرت مصلح موعود کا ایک بہت بڑا احسان خدام الاحمدیہ پر ہے....اور اس احسان کا بدلہ یہی ہے کہ ہم تمام خدام حضور کی توقعات کے مطابق خود بھی عمل کریں اور مجالس کو بھی ان راہوں پر گامزن کرنے کی بھر پور کوشش کریں.اور عمل کے ساتھ ساتھ ہمارے دل بھی اس عظیم محسن کے لئے دعاؤں کے تشکر آمیز جذبات سے لبریز ہوں اور حضور کی بلندی درجات کے لئے ہر لحہ دعا گو ہوں.حضرت مصلح موعود کے لئے بھی ، حضرت خلیفہ اسح الثالث کے لئے بھی اور موجودہ امام ہمام حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت وسلامتی کے لئے بھی جن کے مبارک عہد خلافت میں مجلس خدام الاحمدیہ نے ایک اور سنگ میل عبور کیا اور عالمگیر حیثیت اختیار کی جس کے خوشنما پھولوں کی مہک اب شیر یں ثمرات کا روپ اختیار کر چکی ہے.آپ کے عہد پر سعادت میں اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہورہا ہے.اللہ تعالی ہم سب کو مقبول خدمت دین کی توفیق دے اور اس خدا داد خلافت کی ڈھال کے پیچھے رہ کر ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کی توفیق دے اور ہر میدان میں اس امام کا مگار کی قیادت میں آگے بڑہنے کی توفیق دے.آمین
پیش لفظ محض اللہ تعالی کے فضل اور رحم کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کو مشعل راہ (جلد اول) کو دوبارہ شائع کرنے کی تو فیق مل رہی ہے.اس جلد میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی وہ تقاریر اور خطبات جمعہ شامل ہیں جن میں حضور نے خدام الاحمد بیہ کے متعلق یا خدام کو مخاطب کر کے ہدایات اور نصائح فرمائیں.مشعل راہ پہلی مرتبہ دسمبر 1970ء میں مکرم و محترم چوہدری حمید اللہ صاحب کے زمانہ صدارت میں شائع ہوئی.اس وقت محترم محمد شفیق صاحب قیصر اور بعض دوسرے دوستوں نے اس کی اشاعت کے لئے بہت محنت اور جانفشانی سے کام کیا.فجز اھم اللہ احسن الجزاء.اب جبکہ اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا جارہا ہے اب اس ایڈیشن میں متن اور مضامین میں کوئی کمی بیشی نہیں کی گئی البتہ ہر خطبہ اور تقریر کے شروع میں بعض اہم نکات ایک صفحہ پر عناوین کے طور پر جلی حروف میں لکھے گئے ہیں اور اسی طرح مضمون کے اندر بعض اہم فقرات کو نمایاں کیا گیا ہے نیز کلام محمود سے حضرت مصلح موعود کا کچھ منظوم کلام بھی شامل کیا جا رہا ہے ایسا ہی کتاب کے آخر پر مشعل راہ کا تفصیلی انڈیکس پہلی مرتبہ شامل کیا جارہا ہے.خاکسارا اپنے ان تمام دوستوں کا شکر گذار ہے جنہوں نے مختلف مواقع پر اس کام میں مدد کی خصوصا مکرم ڈاکٹر محمد احمد صاحب اشرف مکرم ڈاکٹر سلطان احمد صاحب مبشر، عزیزم مکرم اسفند یار منیب صاحب اور عزیزم مکرم منصور احمد صاحب نور الدین اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دوسرے عزیز طلباء جامعہ احمدیہ کا بھی ممنون ہے جنہوں نے اس کتاب کی پروف ریڈنگ اور دیگر کاموں میں تعاون کیا.اور اسی طرح مکرم مقصود احمد صاحب گوندل، مکرم سید صہیب احمد صاحب اور مکرم اقبال احمد زبیر صاحب جنہوں نے اس کتاب کی کمپوزنگ کی اور ایسا ہی ان احباب کو بھی اللہ تعالی اپنی بہترین جزاء سے نوازے جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت کے دوسرے مراحل میں ہر ممکن تعاون کیا.فجر اسم الله حسن الجزاء فی الدنیا والاخرة ی جلد حضرت ایت اسی اثانی کے طلبات وتاری پرمشقت ہے دوسری جلد حضرت دایت اسی اثار اور حضرت ماریہ اسے خلیفہ الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تقاریر وخطبات پر مشتمل ہوگی.انشاء اللہ تعالی
خادم کا عہد أَشْهَدُ اَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ میں اقرار کرتا ہوں کہ دینی، قومی اور ملی مفاد کی خاطر میں اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گا.اسی طرح خلافتِ احمدیہ کے قائم رکھنے کی خاطر ہر قربانی کیلئے تیار رہوں گا اور خلیفۂ وقت جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے، اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا.(انشاء اللہ تعالی)
ز بسم الله الرحمن الرحيم لوح الصدى یعنی حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کا پیغام نوجوانان احمدیت کے نام ہر قوم کی زندگی اس کے نوجوانوں سے وابستہ ہے کس قدر ہی محنت سے کوئی کام چلایا جائے اگر آگے اس کے جاری رکھنے والے لوگ نہ ہوں تو سب محنت غارت جاتی ہے اور اس کام کا انجام ناکامی ہوتا ہے.گو ہمارا سلسلہ روحانی ہے ، مگر چونکہ مذکورہ بالا قانون بھی الہی ہے اس لئے وہ بھی اس کی زد سے بچ نہیں سکتا.پس اس کا خیال رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے ، ہم پر واجب ہے کہ آپ لوگوں کو ان فرائض پر آگاہ کردیں.جو آپ پر عائد ہونے والے ہیں اور ان راہوں سے واقف کر دیں جن پر چل کر آپ منزل مقصود پر پہنچ سکتے ہیں.اور آپ پر فرض ہے کہ آپ گوش ہوش سے ہماری باتوں کو سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں تاخد اتعالیٰ کی طرف سے جو امانت ہم لوگوں کے سپرد ہوئی ہے اس کے کما حقہ ادا کرنے کی توفیق ہمیں بھی اور آپ لوگوں کو بھی ملے.اس غرض کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے مندرجہ ذیل نظم لکھی ہے جس میں حتی الوسع وہ تمام صیحتیں جمع کر دی ہیں جن پر عمل کرنا سلسلہ کی ترقی کے لئے ضروری ہے.گو نظم میں اختصار ہوتا ہے مگر یہ اختصار ہی میرے مدعا کیلئے مفید ہے.کیونکہ اگر رسالہ لکھا جا تا تو اس کو بار بار پڑھنا وقت چاہتا، جو ہر شخص کو میسر نہ ہو سکتا.مگر نظم میں لمبا مضمون تھوڑی عبارت میں آجانے کے باعث ہر ایک شخص آسانی سے اس کا روزانہ مطالعہ بھی کر سکتا ہے.اور اس کو
خ ایسی جگہ بھی لٹکا سکتا ہے جہاں اس کی نظر اکثر اوقات پڑتی رہے اور اس طرح اپنی یاد کو تازہ رکھ سکتا ہے.خوب یاد رکھو کہ بعض باتیں چھوٹی معلوم ہوتی ہیں عمران کے اثر بڑے ہوتے ہیں.نہیں اس میں لکھی ہوئی کوئی بات چھوٹی نہ سمجھو اور ہر ایک بات پر عمل کرنے کی کوشش کرو.تھوڑے ہی دن میں اپنے اندر تبدیلی محسوس کرو گے اور کچھ ہی عرصہ کے بعد اپنے آپ میں اس کام کی اہلیت پیدا ہوتی دیکھو گے جو ایک دن تمہارے سپرد ہونے والا ہے.یہ بھی یاد رکھو کہ تمہارا ایسی فرض نہیں کہ اپنی اصلاح کرو بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ اپنے بعد میں آنے والی نسلوں کی بھی اصلاح کی فکر رکھو اور ان کو نصیحت کرو کہ وہ اگلوں کی فکر رکھیں.اور اسی طرح یہ سلسلہ ادائے امانت کا ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہو تا چلا جاوے تاکہ یہ دریائے فیض جو خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا ہے ہمیشہ جاری رہے اور ہم اس کام کے پورا کرنے والے ہوں جس کے لئے آدم اور اس کی اولاد پیدا کی گئی ہے.خدا تمہارے ساتھ ہو.اللھم آمین.خاکسار مرزا محموداحمد خلیفتہ المسیح الثانی
1 نظم نونهالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو -۲- چاہتا ہوں کہ کروں چند نصائح تم کو.تا کہ پھر بعد میں مجھ پر کوئی الزام نہ ہو جب گذر جائیں گے ہم تم پہ پڑے گا سب بار ستیاں ترک کرد طالب آرام نه جب تک انسان کسی کام کا عادی اپنے آپ کو نہ بنالے اس کا کرنا دو بھر ہو جاتا ہے پس یہ غلط خیال ہے کہ جب ذمہ داری پڑے گی دیکھا جائے گا.آج ہی سے اپنے آپ کو خدمت دین کی عادت ڈالنی چاہئے.ہو خدمتِ دیں کو تم اک فضل الہی جانو! اُس کے بدلہ میں کبھی طالب انعام نہ ہو کبھی خدمت دین کر کے اس پر فخر نہیں کرنا چاہئے یہ خدا کا فضل ہوتا ہے کہ وہ
2 کسی کو خدمت دین کی توفیق دے.نہ ہندو کا احسان کہ وہ خدمت دین کرتا ہے اور یہ تو حد درجہ کی بیوقوفی ہے کہ خدمت دین کر کے کسی بند و پر احسان رکھے یا اس سے کسی خاص سلوک کی امید رکھے.(۵) دل میں ہو سوز تو آنکھوں سے رواں ہوں آنسو تم میں اسلام کا ہو مغز فقط نام نہ اس زمانہ کا اثر اس قسم کا ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز و نیاز کرنے کو بھی وضع کے خلاف سمجھتے ہیں اور خدا کے حضور میں ماتھے کا خاک آلود ہونا بھی انہیں ذلت معلوم ہوتا ہے حالانکہ اس کے حضور میں تذلل ہی اصل عزت ہے.سر میں نخوت نہ ہو آنکھوں میں نہ ہو برق غضب نہ ہو دل میں کینہ نہ ہو لب پہ کبھی دُشنام نہ ہو ۷.خیر اندیشی احباب رہے مد نظر چینی نہ کرو مفسد و تمام نہ ہو
3 چھوڑ دو حرص کرد زهد و قناعت پیدا زر نہ محبوب بنے یم دلآرام نہ ہو اس زمانہ میں مادی ترقی کے اثر سے روپے کی محبت بہت بڑھ گئی ہے.اور لوگوں کو ہر ایک معاملہ میں روپے کا خیال زیادہ رہتا ہے.روپے کمانا بُر انہیں لیکن اس کی محبت خدا تعالیٰ کی محبت کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتی جو شخص رات دن اپنی تنخواہ کی زیادتی اور آمد کی ترقی کی فکر میں لگارہتا ہے اس کو خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کا موقع کب مل سکتا ہے.مومن کادل قانع ہونا چاہئے ایک حد تک کوشش کرے پھر جو کچھ ملتا ہے اس پر خوش ہو کر خدا تعالیٰ کی نعمت کی قدر کرے اس بڑھی ہوئی حرص کا نتیجہ اب یہ نکل رہا ہے کہ لوگ خدمت دین کی طرف بھی پوری توجہ نہیں کر سکتے اور دینی کاموں کے متعلق بھی ان کا یہی سوال رہتا ہے کہ ہمیں کیا ملے گا اور مقابلہ کرتے رہتے ہیں کہ اگر فلاں دنیا کا کام کریں تو یہ ملتا ہے اس دینی کام پر یہ ملتا ہے ہمارا کس میں فائدہ ہے گویاوہ دینی کام کسی کا ذاتی کام ہے جس کے بدلہ میں یہ معاوضہ کے خواہاں ہیں حالانکہ وہ کام ان کا بھی کام ہے اور جو کچھ ان کو مل جاتا ہے وہ اللہ تعالٰی کے فضلوں میں سے ہے اور اس مال کی محبت کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا کا امن اٹھ رہا ہے.ضروریات ایسی شے ہیں کہ ان کو جس قدر بڑھاؤ بڑھتی جاتی ہیں.پس
4 قناعت کی حدبندی توڑ کر پھر کوئی جگہ نہیں رہتی جہاں انسان قدم ٹکا سکے.کروڑوں کے مالک بھی تنگی کے شاکی نظر آتے ہیں جس کے ہاتھ سے قناعت گئی اور مال کی محبت اس کے دل میں پیدا ہوئی.وہ خود بھی دکھ میں رہتا ہے اور دوسروں کو بھی دکھ دیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تو اس کا تعلق ہو ہی نہیں سکتا.-۹- رغبت دل سے ہو پابند نماز و روزه ا نظر انداز کوئی حصہ احکام مال ہو پاس تو دو اس سے زکوۃ و صدقہ نہ ہو فکر مسکیں رہے تم کو غم ایام نہ ہو فکر مسکیں رہے یعنی یہ غم نہ ہو کہ اگر غریب کی مدد کریں گے تو ہمار اروپیہ کم ہو جائے گا.پھر ضرورت کے وقت کیا کریں گے جو اس وقت محتاج ہے.اس کی دستگیری کرو اور آئندہ ضروریات کو خدا پر چھوڑ دو.11 حسن اُس کا کبھی کھلتا نہیں یہ یاد رہے دوش مسلم پہ اگر چادر احرام نہ ہو حج ایک نہایت ہی ضروری فرض ہے.نئی تعلیم کے دلدادہ اس کی طرف سے
5 1 (۱۳) بہت غافل ہیں.حالانکہ اسلام کی ترقی کے اسباب میں سے یہ ایک بڑا سبب ہے.طاقت حج سے یہ مراد نہیں کہ کروڑوں روپیہ پاس ہو.ایک معمولی حیثیت کا آدمی بھی اگر اخلاص سے کام لے تو جج کے سامان مہیا کر سکتا ہے.عادت ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں دل میں ہو عشق صنم اب پہ مگر نام نہ ہو نماز کے علاوہ ایک جگہ بیٹھ کر تسبیح و تحمید و تکبیر کرنایا کاموں سے فراغت کے وقت تسبیح و تحمید و تکبیر کرنا دل کو روشن کر دیتا ہے اس میں آج کل لوگ بہت ستی کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روحانی صفائی بھی حاصل نہیں ہوتی نمازوں کے پہلے یا بعد اس کا خاص موقع ہے.عقل کو دین پر حاکم نہ بناؤ ہر گز تو خود اندھی ہے گر نیر الہام نہ ہو ہر ایک شخص کا فرض ہے کہ مذہب کو سچا سمجھ کر مانے.یو نہی اگر سچے دین کو بھی مان لیا جائے تو کچھ فائدہ نہیں.لیکن جب پوری طرح یقین کر کے ایک بات کو مانا جائے تو پھر کسی کا حق نہیں کہ اس کی تفصیلات اگر اس کی عقل کے مطابق نہ ہوں تو ان پر حجت کرے.روحانیات کا سلسلہ تو خدا تعالی کی طرف :
سے قائم ہے پس عقل اور مذہب کا مقابلہ نہیں بلکہ عقل کو مذہب پر حاکم بنانے سے یہ مطلب ہوگا کہ آیا ہماری عقل زیادہ معتبر ہے یا خدا تعالی کا علم نعوذ باللہ من ذالک.ہاں یہ بات دریافت کرنی بھی ضروری ہے کہ جس چیز کو ہم مذہب کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ مذہب کا حصہ ہے بھی یا نہیں.جو صداقت بھی ہو تم شوق سے مانو اس کو علم کے نام سے پر تابع اوھام نہ ہو آج کل یورپ سے جو آواز آوے اور وہ کسی فلاسفر اور سائنسدان کی طرف منسوب ہو تو جھٹ اس کا نام علم رکھ لیا جاتا ہے اور اس کے خلاف کہنے والوں کو علم کا دشمن کہا جاتا ہے.یہ نادانی ہے.جو بات مشاہدوں سے ثابت ہو اس کا انکار کرنا جہالت ہے لیکن بلا ثبوت صرف بعض فلسفیوں کی تھیوریوں کو علم سمجھ کر قبول کرنا بھی کم عقلی ہے.اس وقت بہت سے یورپ کے نو ایجاد علوم قیاسات تھیوریوں سے بڑھ کر حقیقت نہیں رکھتے ان کے اجزاء ثابت ہیں لیکن ان کو ملا کر جو نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ بالکل غلط ہوتا ہے لیکن علوم جدیدہ کے شیدائی اس امر پر غور کئے بغیر ان وہموں کی اتباع کرنے لگ جاتے ہیں.
7 -۱۵ دشمنی ہو نہ محبانِ محمدؐ سے تمہیں جو معاند ہیں تمہیں ان سے کوئی کام نہ ہو امن کے ساتھ رہو فتنوں میں حصہ مت لو باعث فکر و پریشانی حکام نه ہو مومن کا فرض ہے کہ جائے حقارت اور نفرت سے کام لینے کے محبت سے کام لے اور امن کو پھیلائے.مومن کا وطن سب دنیا ہے.اس سے جہاں تک ممکن ہو تمام فریقوں میں جائز طور پر صلح کرانے کی کوشش کرے اور قانون کی پابندی کرے ؟ ۱۷.اپنی اس عمر کو اک نعمت عظمیٰ سمجھو.بعد میں تا کہ تمہیں شکوہ ایام نہ ہو حُسن ہر رنگ میں اچھا ہے مگر خیال رہے دانہ سمجھے ہو جسے تم وہ کہیں دام نہ ہو اچھی بات خواہ دین کے متعلق ہو خواوردنیا کے متعلق اچھی ہی ہوتی ہے مگر بہت دفعہ بری باتیں اچھی شکل میں پیش کی جاتی ہیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہئے.انگریزی کی مثل ہے "Every Thing Glitter is not Gold''
8 00 19 تم مدبر ہو کہ جرنیل ہو یا عالم ہو ہم نہ خوش ہونگے کبھی تم میں گر اسلام نہ ہو دنیاوی ترقی کے ساتھ اگر دین نہیں تو ہمیں کچھ خوشی نہیں ہو سکتی.کیونکہ اگر یہ اصل مقصد ہوتی تو پھر ہمیں اسلام اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی پھر مسیحیت جو اس وقت ہر قسم کے دنیاوی سامان رکھتی ہے اس کو کیوں نہ قبول کر لیتے.سلف رپکٹ کا بھی خیال رکھو تم بے شک یہ نہ ہو پر کہ کسی شخص کا اکرام نہ ہو آج کل لوگ سلف رسپکٹ کے نام سے بزرگوں کا ادب چھوڑ بیٹھے ہیں.حالانکہ صحیح تربیت کے لئے ادب کا قائم رکھنا ضروری ہے.اگر ادب نہ ہو تو تربیت بھی درست نہیں ہو سکتی.سلف رسپکٹ کے تو یہ معنی ہیں کہ انسان کمینہ نہ بنے نہ بے ادب ہو جائے.٣١ عسر ہو ئیر ہو، تنگی ہو کہ آسائش ہو ۲۱ کچھ بھی ہو بند مگر دعوت اسلام نہ ہو کسی زمانہ کسی وقت کسی حالت میں اسلام کی تبلیغ کو نہ چھوڑو.ایک دفعہ اس کے خطرناک نتائج دیکھ چکے ہو.نہ تنگی تمہاری کو ششوں کو سست کرے کہ ہر
9 ۲۳) تکلیف سے نجات اسی کام سے وابستہ ہے اور نہ ترقی تم کو ست کر دے کیونکہ جب تک ایک آدمی بھی اسلام سے باہر ہے تمہارا افرض ادا نہیں ہو اور ممکن ہے کہ وہ ایک آدمی کفر کا بیج بن کر ایک درخت اور درخت سے جنگل من جائے.تم نے دنیا بھی جو کی فتح تو کچھ بھی نہ کیا نفس وحشی و جفا کیش اگر رام نہ ہو سب سے پہلا فرض اصلاح نفس ہے.اگر اس کے ظلم ہوتے رہیں اور اس کی اصلاح نہ ہو تو دوسروں کی اصلاح تم کو اس قدر نفع نہیں پہنچا سکتی.من و احسان سے اعمال کو کرنا نہ خراب رشتہ وصل کہیں قطع بام نہ ہو انسان نیکی کرتے کرتے کبھی خدا تعالیٰ کا پیارا بنے والا ہوتا ہے کہ احسان جتا کر پھر وہیں آ گرتا ہے.جہاں سے ترقی شروع کی تھی اور چوٹی پر پہنچ کر گر جاتا ہے اس کی ہمیشہ احتیاط رکھنی چاہئے کیونکہ وہ محنت جو ضائع ہو جاتی ہے حوصلہ کو پست کر دیتی ہے.بھولیو مت کہ نزاکت ہے نصیب نسواں مرد وہ ہے جو جفاکش ہو گل اندام نہ ہو صفائی اچھی چیز ہے مگر نازک بدنی اور جسم کے سنگار میں مشغول رہنا اور حسن
10 ظاہری کی فکر میں رہنا یہ مرد کا کام نہیں عورتوں کو خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ علاوہ دوسرے فرائض کی ادائیگی کے جو بحیثیت انسان ہونے کے ان کے ذمہ ہیں مرد کی اس خواہش کو بھی پورا کریں.مرد کے ذمہ جو کام لگائے گئے ہیں وہ جفاکشی اور محنت کی برداشت کی عادت چاہتے ہیں.پس جسم کو سختی برداشت کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور چونکہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے اس لئے زینت اور سنگار میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے.۲۵ شکل ئے دیکھ کے گرنا نہ مگس کی مانند دیکھ لینا کہ کہیں درد ستر جام نہ جس طرح بری چیز اچھی کی شکل میں پیش ہو جائے تو دھو کہ لگ جاتا ہے اسی طرح کبھی اچھی چیز کے اندر بری مل جاتی ہے اور اس کے اثر کو خراب کر دیتی ہے پس ہر ایک کام کو کرتے وقت اور ہر ایک خیال کو قبول کرتے وقت یہ بھی سوچ لینا چاہئے کہ اس کا کوئی پہلو تو برا نہیں.اگر مخفی طور پر اس میں برائی ملی ہوئی ہو تو اس سے بچنا چاہئے.ہو
11 یاد رکھنا کہ کبھی بھی نہیں پاتا عزت یار کی راہ میں جب تک کوئی بدنام نہ ہو بعض لوگ دینی کاموں میں حصہ لینے سے اس خیال سے ڈرتے ہیں کہ لوگ برا کہیں سے یا فنسی کریں گے حالانکہ خدا تعالیٰ کی راہ میں بد نام ہو نا ہی اصل عزت ہے اور کبھی کسی نے دینی عزت حاصل نہیں کی جب تک دنیا میں پاگل اور قابل ہنسی نہیں سمجھا گیا.-۲۷ کام مشکل ہے بہت منزل مقصود ہے دُور ۲- اے مرے اہل وفا ست ست کبھی گام نہ ہو -۲۸ گامزن ہو گے رو صدق و صفا پر گر تم کوئی مشکل نہ رہے گی جو سرانجام نہ ہو ٢٩ حشر کے روز نہ کرنا ہمیں رسوا و خراب پیارو آموخته درس وفا خام نه یعنی جو کچھ دین کی محبت اور خدا تعالیٰ سے عشق کے متعلق ہم سے سیکھ چکے ہو اس کو خوب یاد کرو ایسا نہ ہو کہ یہ سبق کچار ہے اور قیامت کے دن سنانہ سکو اور ہو
12 ہیں، جنہیں اس سبق کے پڑھانے کا کام سپرد کیا ہے شرمندگی اٹھانی پڑے.دوسروں کے شاگر د فر فر سنا جاویں اور تم یونہی رہ جاؤ.فرسنا -۳۰ ہم تو جس طرح نے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو -۳۱ میری تو حق میں تمہارے یہ دعا ہے پیارو اللہ کا سایہ رہے ناکام نہ ہو - ظلمت رنج و غم و درد و دَرد سے محفوظ رہو میر انور درخشندہ رہے شام نہ ہو والسلام مع الاكرام خاکسار مرزا محمود احمد خلیفۃ المسح الثانی
13 (احمدی نوجوانوں سے خطاب) قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی نوجوان اپنے اندر ایسی روح پیدا کر میں کہ احمدیت کا حقیقی مغزا نہیں میسر آجائے حکم دو تو محبت اور پیار اور سمجھا کر دو میانہ روی اور حکمت قومی ترقی کی روح پیدا کرنے میں محمد ہیں قوم کے دماغوں کی تربیت صحابہ کرام کی مانند ہو کھے پن اور سستی کی عادت قوموں کو تباہ کر دیتی ہے ں جھوٹ کی لعنت صرف عہدوں کیلئے دوڑ لگانے والے لعنت ہوتے ہیں اپنی قوم اور نفس عورتوں اور بچوں کا تعاون کام کرنے والا عزت کا مستحق ہے.یہ مت خیال کرو کہ تمہارے ممبر کم ہیں یا تم کمزور ہو خدام الاحمدیہ کا قیام تحریک جدید کی کامیابی کیلئے لیڈر بنانا خدا کا کام ہے.حضرت خلیفۃ السیح الثانی کا حضرت مسیح موعود کے سرہانے ایک تاریخی عمد
14 ” میں نے متواتر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی.نئی نسلیں جب تک اس دین اور ان اصول کی حامل نہ ہوں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے نبی اور مامور دنیا میں قائم کرتے ہیں.اس وقت تک اس سلسلہ کا ترقی کی طرف کبھی بھی صحیح معنوں میں قدم نہیں اٹھ سکتا.بے شک ترقی ہوتی ہے.مگر اس طرح کہ کبھی ترقی ہوئی اور کبھی رک گئی.کبھی بڑھ گئے اور کبھی رخنہ واقع ہو گیا.اس طرح وہ الہی سلسلہ پہاڑوں کی طرح اونچا نیچا ہو تا چلا جاتا ہے.لیکن بہر حال رخنہ بری چیز ہے.کوئی اچھی چیز نہیں.اور ہمیں اس کو جلد سے جلد دور کرنا چاہئے.مگر یہ رخنے آج ہم میں ہی پیدا نہیں ہوئے.پہلی قوموں اور پہلے زمانوں میں بھی موجود تھے.جن کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض لوگ ہماری جماعت پر یہ اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ اگر یہ الہی سلسلہ ہے تو اس میں فلاں نقص کیوں ہے.حالانکہ یہ باتیں پہلے زمانوں میں بھی تصویر مگر اس کے یہ معنی اسلام اور احمدیت کی تعلیمات کی حقیقی روح نو جوانوں میں جلوہ گر ہو نہیں کہ ان چیزوں کو قائم رکھا جائے.بلکہ ہمیں ان امور کی اصلاح کا فکر کرنا چاہئے.اور وہ اصلاح اسی رنگ میں ہو سکتی ہے کہ
15 نوجوانوں کو اس امر کی تلقین کی جائے کہ وہ اپنے اندر ایسی روح پیدا کریں کہ اسلام اور احمدیت کا حقیقی مغزا نہیں میسر آجائے.اگر ان کے اندر اپنے طور پر یہ بات پیدا ہو جائے تو پھر کسی حکم کی ضرورت نہیں رہتی.حکم دینا کوئی ایسا اچھا نہیں ہو تا.دنیا میں بہترین مصلح وہی سمجھا جاتا ہے جو تربیت کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں ایسی روح پیدا کر دیتا ہے کہ اس کا حکم مانالوگوں کے لئے آسان ہو جاتا ہے اور وہ اپنے دل پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم باقی الہامی کتب پر فضیلت رکھتا ہے.اور الہامی کتابیں تو یہ کہتی ہیں کہ یہ کرو اور وہ کرو.مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ اس لئے کرو.اس لئے کرو.گویا وہ خالی حکم نہیں دیتا.بلکہ اس حکم پر عمل کرنے کی انسانی قلوب میں رغبت بھی پیدا کر دیتا ہے.تو سمجھانا اور سمجھا کر قوم کے افراد کو ترقی کے میدان میں اپنے ساتھ لئے جانا یہ کامیابی کا ایک اہم گر ہے.اور قرآن کریم نے اس پر خاص زور دیا ہے.چنانچہ سورہ لقمان میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے جو نصیحتیں بیان کی گئی ہیں.ان میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ واقصد فی منيك و اغضُضُ مِنْ صَوتک ( آیت:۲۰) کہ تمہارے ساتھ چونکہ کمزور لوگ بھی ہوں گے.اس لئے ایسی طرز پر چلنا کہ کمزور رہ نہ جائیں.بیشک تم آگے بڑھنے کی بھی کوشش کرو.مگر اتنے تیز بھی نہ ہو جاؤ کہ کمزور طبائع بالکل رہ جائیں.دوسرے جب بھی تم کوئی حکم دو محبت پیار اور سمجھا کر دو.اس حکم دو تو محبت اور پیار اور سمجھا کر دو طرح نہ کہو کہ ہم یوں کہتے ہیں.بلکہ ایسے رنگ میں بات پیش کرو کہ لوگ اسے سمجھ سکیں.اور وہ کہیں کہ اس کو تسلیم کرنے میں تو ہمارا اپنا فائدہ ہے.وَاعْضُضُ مِنْ صوتک کے یہی معنی ہیں.گویا میانہ روی اور پر حکمت میانہ روی اور حکمت قومی ترقی کی روح پیدا کرنے میں محمد ہیں کلام یہ دو چیزیں مل کر قوم میں ترقی کی روح پیدا کیا کرتی ہیں.اور پر حکمت کلام کا بہترین طریق یہ ہے کہ دوسروں میں ایسی روح پیدا کر دی جائے.کہ جب انہیں کوئی حکم دیا جائے تو سننے والے کہیں.کہ یہی ہماری اپنی خواہش تھی.یہی وقت ہو تا ہے کہ جب کسی قوم کا قدم ترقی کی طرف سرعت کے ساتھ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے مگر جب امام کچھ کہے اور ماموم کچھ سمجھے.امیر کوئی حکم دے اور مامور اس سے کوئی مطلب لے اور سمجھنے اور سمجھانے کی کشمکش جاری رہے.وہ حکم دے اور یہ کہے کہ مجھے پہلے اس کی غرض اور اس کا فائدہ سمجھا دیجئے اور جب سمجھایا جائے تو کے میری سمجھ میں نہیں آیا.تو ایسی صورت میں کبھی بھی قومی ترقی نہیں ہوتی.لیکن جب امیر اور مامور کے آپس میں ایسے تعلقات ہوں.یا تربیت دماغی ایسے رنگ میں ہو چکی ہو کہ امیر جب کوئی حکم دے تو سب لوگ یہ سمجھیں کہ اس میں ہمارا فائدہ ہے اور یہی ہماری اپنی خواہش تھی.تو اس وقت یقینا وہ ترقی کر جاتی ہے.ہمارے ملک میں مثل ہے کہ "سو سیانے نے اکو مت." یعنی اگر سو عظمند تو ہو وہ سب ایک ہی بات پر متفق ہوں گے.یہ نہیں ہو تاکہ کوئی کچھ کہے
16 اور کوئی کچھ.اسی طرح اگر ہم ساری جماعت کو عقلمند بنا دیں تو سب کی ایک ہی رائے ہو اور متحدہ عزم ، متحدہ ارادے اور متحدہ کوششیں اپنے اندر جو اثر رکھتی ہیں وہ بہت وسیع ہوتے ہیں.لیکن اگر امیر کی عقل تو تیز ہے لیکن مامور کی نہیں.مامور قدم قدم پر ٹھر جاتا ہے اور کہتا ہے ، مجھے سمجھا لیجئے.ایسا نہ ہو مجھے کوئی غلطی لگ جائے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس امیر کی کوششیں بار آور نہیں ہو تیں اور قوم کامیابی کا پھل کھانے سے محروم رہتی ہے.تو بهترین ذریعہ قومی ترقی کا یہ ہوتا ہے کہ ساروں کی قوم کے دماغوں کی تربیت صحابہ کرام کی مانند عقل تیز کر دی جائے.ادھر انہیں حکم ملے اور ادھر طبائع اس پر عمل کرنے کے لئے پہلے ہی تیار ہوں اور وہ کہیں کہ ہم تو پہلے ہی اس کے منتظر تھے.حدیثوں میں ایسے بہت سے واقعات آتے ہیں کہ جب قرآنی احکام نازل ہوتے تو صحابہ کہتے ہم تو پہلے ہی ان احکام کے منتظر تھے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ فورا عمل کی طرف متوجہ ہو جاتے اور بحث اور غلط بحث سے بچ جاتے.پس ایسے ذرائع کو اختیار کرنا چاہئے جن سے قوم کے دماغ کی تربیت ہو اور خصوصاً نوجوانوں کے دماغ کی تربیت ہو.کیونکہ زیادہ تر کاموں کی ذمہ داری آئندہ نوجوانوں پر ہی پڑنے والی ہوتی ہے.اگر نوجوانوں میں بری باتیں پیدا ہو جائیں.مثلا سکتے پن کی عادت پیدا ہو جائے سکتے پن کی تباہ کن عادت ہاستی کی عادت پیدا ہو جائے یا جھوٹ کی عادت پیدا ہو جائے تو یقینا آج نہیں تو کل وہ قوم تباہ ہو جائے گی.بالخصوص جھوٹ تو ایسا خطرناک مرض ہے کہ یہ انسان کے ایمان کو جڑھ سے اکھیڑ دیتا ہے.جھوٹ کی لعنت بعض دفعہ پندرہ پندرہ سال تک ہم ایک شخص کے متعلق یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ وہ بڑا بزرگ اور راستباز انسان ہے.مگر پھر پتہ لگتا ہے کہ وہ بڑا کذاب ہے.دیکھتا کچھ ہے اور بیان کچھ کرتا ہے.مگر یہ باتیں بچپن میں ہی پیدا ہوتی ہیں.پس نوجوانوں میں اگر اس قسم کی باتیں پیدا کر دی جائیں اور ان کے اخلاق کو صحیح رنگ میں ڈھالا جائے تو یقیناً قوم کی ترقی میں بہت مددمل سکتی ہے.مثلاً میں نے تحریک جدید جاری کی.اس میں اگر غور کر کے دیکھا جائے تو کامیابی عورتوں اور بچوں کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتی.اگر عور تیں اور بچے ہمارے ساتھ تعاون نہ کریں تو یقیناً جماعت کا ایک حصہ اس پر عمل کرنے سے رہ جائے گا.لیکن اگر عورتیں اور بچے اس میں شامل ہوں تو ہمارے کام میں بہت سہولت پیدا ہو سکتی ہے مثلاً سادہ کپڑے ہیں یا زیورات کی کمی ہے یا ایک خاص عرصہ تک زیور بالکل نہ بنوانا ہے اب جب تک عورتیں اس میں شریک نہ ہوں ان باتوں پر کس طرح عمل ہو سکتا ہے یا ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے اس میں اگر بچے اور نوجوان شریک نہ ہوں تو یہ سکیم کس طرح چل سکتی ہے.یا مثلاً نکما نہ رہنا ہے.اب سکتے پن کی عادت بچوں میں ہی ہو سکتی ہے بڑے تو اپنی اپنی جگہ کام کر رہے ہوتے ہیں اور ان میں سے کئی آسودہ حال ہوتے ہیں لیکن ان کی نئی نسل یہ کہنا شروع کر دیتی ہے کہ ہمارے ابانواب.ہمارے ابا فلانے ہم فلاں کام کیوں کریں ، اس میں ہماری ہتک ہے.اور پھر تمام خرابیاں اسی سے پیدا ہوتی ہیں
17 حالانکہ اگر ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی جائے اور ان کے قلوب پر اس کا نقش کر دیا جائے.کہ جو شخص کام کرتا ہے کام کرنیوالا عزت کا مستحق ہے اور نکما بیٹھنے والا باعث ننگ و عار ہے وہ عزت کا مستحق ہے.اور جو کام نہیں کرتا بلکہ نکمارہتا ہے وہ اپنی قوم اور اپنے خاندان کے لئے عار اور تنگ کا موجب ہے اور یہ کہ معمولی دولتمند یا زمیندار تو الگ رہے ، اگر ایک بادشاہ یا شہنشاہ کا بیٹا بھی نکمارہتا ہے تو وہ بھی اپنی قوم اور اپنے خاندان کے لئے عار کا موجب ہے اور اس چمار کے بیٹے سے بد تر ہے جو کام کرتا ہے.تو یقینا اگلی نسل درست ہو سکتی ہے.اور پھر وہ نسل اپنی اگلی نسل کو درست کر سکتی ہے اور وہ اپنے سے اگلی نسل کو یہاں تک کہ یہ باتیں قومی کیریکٹر میں شامل ہو جائیں اور ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو جائیں.کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ جو باتیں قوم کی عادت بن جاتی ہیں وہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جاتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عادت ایک لحاظ سے بری ہے مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ ایک لحاظ سے وہ اچھی بھی ہوتی ہے.جب کوئی قوم بیدار ہو اور عادت کا فائدہ.قوم کے سو جانے کے باوجو د عادت باقی رہتی ہے اس وقت وہ اپنے اند ر ا چھی عادتیں پیدا کر لے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ قوم سو جاتی ہے تو اس کی عادت اس کے ساتھ رہتی ہے اور اس طرح وہ نیکی ضائع نہیں جاتی بلکہ محفوظ رہتی ہے چاہے وہ خود اس سے فائدہ نہ اٹھائے بلکہ کوئی اور اس سے فائدہ اٹھائے.اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ دنیا میں تین قسم کے انسان ہوتے ہیں.ایک کی مثال تو اس کھیت کی سی ہوتی ہے جس میں پانی آتا ہے اور وہ اسے اپنے اندر جذب کر لیتا ہے نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ اس میں سے خوب کھیتی نکلتی ہے.اور ایک کی مثال اس زمین کی سی ہوتی ہے جس میں پانی آکر جمع تو ہو جاتا ہے مگر کھیتی نہیں اگتی دوسرے لوگ اس پانی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ایک کی مثال اس کنکریلی زمین کی سی ہوتی ہے جہاں پانی آتا ہے تو نہ اس زمین میں جذب ہوتا ہے اور نہ اس میں محفوظ رہتا ہے.اسی طرح انسان بھی تین قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو وہ ہوتے ہیں جو الہی نور اپنے اندر جذب کرتے ، اس سے فائدہ اٹھاتے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں.اور ایک ایسے ہوتے ہیں جو خود تو فائدہ نہیں اٹھاتے مگر جس طرح بعض زمینوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے اسی طرح عادت کے طور پر بعض نیک کام ان میں پائے جاتے ہیں اور اس کا گو انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچے مگر کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ نیکی محفوظ رہتی ہے.مثلاً اگر باپ التزام کے ساتھ سوچ سمجھ کر نماز پڑھنے کا عادی ہے اور اس کا بیٹا نماز کا تارک ہے تو پوتا بہر حال نماز کا تارک ہوگا.کیونکہ اس نے اپنے باپ کو نماز پڑھتے کبھی نہیں دیکھا ہو گا.لیکن اگر بیٹا نماز تو پڑھتا ہے مگر عاد تا پڑھتا ہے ، دلی ذوق و شوق کے ساتھ نماز نہیں پڑھتا.تو گو وہ اس فائدہ سے محروم رہے جو حقیقی نماز پڑھنے والوں کو حاصل ہوتا ہے مگر نماز اس کے بیٹوں تک ضرور پہنچ جائے گی.اور ممکن ہو گا کہ وہ اگلی نسل نماز سے حقیقی فائدہ حاصل کرلے.
18 عادت کی بدولت اگلی نسل میں نیکی کا حقیقی روح کے ساتھ زندہ ہو جانے کا امکان رہتا ہے.تو عاد تا جو نیکیاں پیدا ہو جائیں.وہ بھی قوم کو فائدہ پہنچاتی ہیں.اور گو عادت کی وجہ سے وہ قوم اس سے خود فائدہ نہ اٹھائے مگر وہ نیکی راستہ میں برباد نہیں ہو جاتی بلکہ اگلے لوگوں تک پہنچ جاتی ہے.اور ان میں سے جو فائدہ اٹھانے کے اہل ہوں.وہ فائدہ اٹھا لیتے ہیں.اسی لئے جب کسی قوم میں تین چار نسلیں اچھی گزر جائیں اس کے معیاری اخلاق دنیا میں قائم رہتے ہیں.مٹتے نہیں اور اگر ایک دو نسلوں میں ہی کمزوری آجائے تو وہ اخلاق راستہ میں ہی فنا ہو جاتے ہیں.پس اگر کئی اچھی نسلیں گزر جائیں.اور ان میں نیکیاں عادت کے طور پر پیدا ہو جائیں تو کو کوئی زمانہ ایسا آجائے کہ وہ اصل نیکی کی روح سے محروم ہو جائے مگر چونکہ اس کا ظاہر باقی ہو گا.اس لئے بعد میں آنے والے اس سے پھر زندگی حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ نمونہ ان کے پاس موجود ہو گا.تو اولادوں کی درستی اور اصلاح اور نوجوانوں کی درستی اور اصلاح اور عورتوں کی درستی اور اصلاح یہ نہایت ہی ضروری چیز ہے.اگر دوست چاہتے ہیں کہ وہ تحریک جدید کو کامیاب تحریک جدید کی کامیابی کیلئے خدام الاحمدیہ کا قیام بنا ئیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح ہر جگہ لجنات اماءاللہ قائم ہیں اسی طرح ہر جگہ نوجوانوں کی انجمنیں قائم کریں.قادیان میں بعض نوجوانوں کے دل میں اس قسم کا خیال پیدا ہوا تو انہوں نے مجھ سے اجازت حاصل کرتے ہوئے ایک مجلس خدام الاحمدیہ کے نام سے قائم کر دی ہے.چونکہ ایک حد تک کام میں ایک دوسرے کے ذوق کا ملنا بھی ضروری ہو تا ہے اس لئے شروع میں میں نے انہیں یہ اجازت دی ہے کہ وہ ہم ذوق لوگوں کو اپنے اندر شامل کریں.لیکن میں نے انہیں یہ ہدایت بھی کی ہے کہ جہاں تک ان کے لئے ممکن ہو باقی لوگوں کو بھی اپنے اندر شامل کریں.مگر میں نے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ نوجوانوں میں کام کرنے کی روح پیدا ہو.یہ ہدایت کی ہے کہ جو لوگ جماعت میں تقریر و تحریر میں خاص مهارت حاصل کر چکے ہوں.ان کو اپنے اندر شامل نہ کیا جائے.جس کی وجہ سے بعض دوستوں کو غلط فہمی بھی ہوئی ہے چنانچہ ہماری جماعت کے ایک مبلغ مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور کہنے لگے.کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں.میں نے کہا میں تو ناراض نہیں.آپ کو یہ کیونکر و ہم ہوا کہ میں ناراض ہوں.وہ کہنے لگے مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے مجلس خدام الاحمدیہ میں میری شمولیت کی اجازت نہیں دی.میں نے کہا یہ صرف آپ کا سوال نہیں.جس قدر لوگ خاص مہارت رکھتے ہیں ان سب کی شمولیت کی میں نے ممانعت کی ہے.اور اس کی وجہ یہ
19 ہے کہ اگر بڑے آدمیوں کو بھی ان میں شامل ہونے کی اجازت دے دی جائے.تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ پریذیڈنٹ بھی انہی کو بنائیں گے.مشورے بھی انہی کے قبول کریں گے اور اس طرح اپنی عقل سے کام نہ لینے کی وجہ سے وہ خود بدھو کے بدھو رہیں گے مثلاً اگر میں کسی انجمن یا جلسہ میں شامل ہوں تو یہ قدرتی بات ہے کہ چونکہ جماعت کے اعتقاد کے مطابق خلیفتہ المسیح سے بڑا مقام اور کوئی نہیں.اس لئے وہ کہیں گے کہ خلیفتہ المسیح کو ہی پریذیڈنٹ بنایا جائے.نتیجہ یہ ہو گا کہ جو تربیت پریذیڈنٹی سے حاصل ہوتی ہے وہ بیچ میں ہی رہ جائے گی اور جماعت اس قسم کے تجربے سے محروم رہ جائے گی.پس میں نے خاص طور پر انہیں یہ ہدایت دی ہے کہ جن لوگوں کی شخصیتیں نمایاں ہو چکی ہیں ان کو اپنے اندر شامل نہ کیا جائے.تا انہیں خود کام کرنے کا موقع ملے.ہاں دوسرے درجہ یا تیسرے درجہ کے لوگوں کو شامل کیا جا سکتا ہے تا انہیں خود کام کرنے کی مشق ہو.اور وہ قومی کاموں کو سمجھ سکیں اور انہیں سنبھال سکیں.چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ اس وقت تک انہوں نے جو کام کیا ہے ، اچھا کیا ہے اور محنت سے کیا ہے.میں سمجھتا ہوں اگر میں انہیں یہ اجازت دے دیتا کہ وہ پرانے مبلغین مثلاً مولوی ابو العطاء اللہ دته صاحب یا مولوی جلال الدین صاحب شمس اور اس قسم کے دوسرے مبلغوں کو بھی اپنے اندر شامل کرلیں تو جو اشتہارات اس وقت انہوں نے لکھے ہیں سب وہی لکھتے ، وہی اعتراضات کے جوابات دیتے اور دوسرے نوجوانوں کو کچھ بھی پتہ نہ ہو تا کہ اعتراضات کا جواب کس طرح دیا جاتا ہے.پس میں نے انہیں ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے سے روک دیا.میں نے کہا تم مشورہ بے شک لو مگر جو کچھ لکھو وہ تم ہی لکھو.تا تم کو اپنی زمہ داری محسوس ہو.گو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شروع میں وہ بہت گھبرائے.انہوں نے ادھر ادھر سے کتابیں لیں اور پڑھیں.لوگوں سے دریافت کیا کہ فلاں بات کا کیا جواب دیں.مضمون لکھے اور بار بار کاٹے مگر جب مضمون تیار ہو گئے اور انہوں نے شائع کئے تو وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے اور میں سمجھتا ہوں وہ دوسرے مضمونوں سے دوسرے نمبر پر نہیں ہیں.گوان کو ایک ایک مضمون لکھنے میں بعض دفعہ مہینہ مہینہ لگ گیا اور ہمارے جیسا شخص جسے لکھنے کی مشق ہو ، شاید ویسا مضمون گھنٹے دو گھنٹے میں لکھ لیتا.اور پھر کسی اور کی مدد کی ضرورت بھی نہ پڑتی.مگر وہ دس بارہ آدمی ایک ایک مضمون کے لئے مہینہ مہینہ لگے رہے.لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جو اسلامی لٹریچر ان کی نظروں سے پوشیدہ تھاوہ ان کے سامنے آگیا اور دس بارہ نوجوانوں کو پڑھنا پڑا.اور اس طرح ان کی معلومات میں بہت اضافہ ہوا.یہ تو اگر اس قسم کے علمی کام یہ انجمنیں کریں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ اسلامی تاریخ کی کتابیں اسلامی تفسیر کی کتابیں ، حدیث کی کتابیں فقہ کی کتابیں ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں اور اسی طرح اور بہت سی کتب ان کے زیر نظر آجائیں گی اور انہیں اپنی ذات میں بہت بڑا علمی فائدہ حاصل ہو گا.دوسرا فائدہ جماعت کو اس قسم کی انجمنوں سے یہ پہنچے گا کہ اسے کئی نئے مصنف اور مولف مل جائیں گے.تیسرا فائدہ یہ ہو گا کہ نوجوانوں میں اعتماد نفس پیدا ہو گا اور انہیں یہ خیال آئے گا کہ ہم بھی کسی کام کے اہل ہیں.اب اگر میں بڑے آدمیوں کو بھی انہیں اپنے اندر شامل کرنے کی اجازت دے دیتا تو یہ سارے فوائد جاتے رہتے.لیکن یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ
20 تصنیف کا کام ہمیشہ نہیں ہوتا اور نہ ہر شخص کر سکتا ہے.کیونکہ ہر شخص نہ عربی میں احادیث پڑھ سکتا ہے، نہ عربی تفسیریں دیکھ سکتا ہے نہ عربی کتب کا مطالعہ کر سکتا ہے.پس ان کے لئے اور کاموں کی بھی ضرورت ہے.اور میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کے اصول پر کام کرنے کی عادت ڈالیں.نوجوانوں کے اخلاق کی درستی کریں.انہیں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی ترغیب دیں.سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کریں.دینی علوم کے پڑھنے اور پڑھانے کی طرف توجہ کریں اور ان نوجوانوں کو اپنے ساتھ شامل کریں جو واقعہ میں کام کرنے کا شوق رکھتے ہوں.بعض طبائع صرف چوہدری بننا چاہتی ہیں.کام کرنے کا شوق ان میں نہیں ہو تا.ایسوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.کیونکہ یہ لوگ صرف پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بننا چاہتے ہیں.اور ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جس دن پریذیڈنٹ یا سیکرٹری کے انتخاب کا سوال ہو فوراً آجائیں گے اور پھر کبھی شکل بھی نہیں دکھائیں گے لیکن جب دوبارہ انتخاب کا سوال ہو تو پھر اپنے پندرہ میں چیلے لے کر آجائیں گے.جنہیں پہلے سے یہ سکھا دیں گے کہ ہمیں ووٹ دینا اور اس طرح پھر پریذیڈنٹ یا سیکرٹری بن جائیں گے اور خیال کریں گے کہ ان کی زندگی کا مقصد پورا ہو گیا.حضرت خلیفتہ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ ایک جگہ ایک مجلس قائم ہوئی تو اس میں بڑا تفرقہ پیدا ہو گیا.میں نے پوچھا کیا ہوا تو انہوں نے بتایا کہ آپس میں خوب لڑائی ہوئی ہے ایک کہتا ہے میں پریذیڈنٹ بنوں گا اور دوسرا کہتا ہے میں بنوں گا.آپ فرماتے تھے کہ میں نے کہا تم یوں کیوں نہیں کرتے کہ ایک کو پریذیڈنٹ بنا دو دو سرے کا نام صدر رکھ دو، تیسرے کو مربی بنادو اور چوتھے کو چیئر مین قرار دے دو.وہ یہ سنکر بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے اسی طرح کیا.ایک کے متعلق کہہ دیا کہ یہ مربی صاحب ہیں اور چپکے سے اس کے کان میں کہہ دیا کہ جی مربی ہی سب سے بڑا ہوتا ہے.صدر کی کیا حیثیت ہوتی ہے.پھر دوسرے کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ آپ ہیں صدر اور دیکھئے صدر ہی سب سے بڑا ہوتا ہے کیونکہ سب سے نمایاں جگہ اس کو ملتی ہے.مربی کا کیا ہے وہ تو گھر بیٹھا رہتا ہے.پھر تیسرے کے پاس گئے اور کہنے لگے.آپ ہمارے پریذیڈنٹ ہیں.صدر تو ملاؤں قل اعوذیوں کا لفظ ہے.آپ موجودہ زمانہ کے روشن دماغ انسانوں کی طرف دیکھئے.وہ اپنے میں سے بہترین شخص کو پریذیڈنٹ بناتے ہیں چنانچہ ہم آپ کو اپنا پریذیڈنٹ بناتے ہیں پھر چوتھے کے پاس گئے اور کہنے لگے آپ ہمارے چیئر مین ہیں.چنانچہ سب خوش ہو گئے.کیونکہ انہیں کام سے کوئی غرض نہ تھی.انہیں صرف اتنا شوق تھا کہ جب مثلا کسی ڈپٹی کمشنر کو چٹھی لکھنی پڑی تو نیچے لکھ دیا مربی مسلم ایسو سی ایشن.دوسرے نے لکھ دیا.چیئر مین مسلم ایسو سی ایشن.تیسرے نے لکھ دیا صدر مسلم ایسوسی ایشن.چوتھے نے لکھ دیا.پریذیڈنٹ مسلم ایسوسی ایشن.محض یہ بتانے کے لئے ہم مسلمانوں کے سردار ہیں.ورنہ کام کچھ نہیں کرتے.تو بعض لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے عہدے لینے کے لئے مجالس میں شامل ہوتے ہیں.ایسے لوگ لعنت ہوتے ہیں اپنی قوم کے لئے اور لعنت ہوتے ہیں پنے نفس کیلئے.وہ وہی ہیں جن کے متعلق خدا تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے.
21 فويل للمينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلاتِهِمْ سَاهُونَ الذِينَ هُمُ رابونَ (الماعون آیت ۵ تا ۷) لِلْمُصَلِينَ ریا ہی ریا ان میں ہوتی ہے.کام کرنے کا شوق ان میں نہیں ہو تا.تو میں نے انہیں نصیحت کی ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے اندر مت شامل کریں جو کام کرنے کیلئے تیار نہ ہوں بلکہ انہی کو اپنے اندر شامل کریں جو یہ اقرار کریں کہ وہ بے قاعدگی کے ساتھ نہیں بلکہ با قاعدگی کے ساتھ کام کیا کریں گے.بے قاعدگی کے ساتھ کام میں کبھی برکت نہیں ہوتی.اگر تھوڑا کام کیا جائے لیکن مسلسل کیا جائے تو وہ اس کام سے زیادہ بہتر ہو تا ہے جو زیادہ کیا جائے لیکن تو اتر اور تسلسل کے ساتھ نہ کیا جائے.میں چاہتا ہوں کہ باہر کی جماعتیں بھی اپنی اپنی جگہ خدام الاحمدیہ نام کی مجالس قائم کریں.یہ ایسا ہی نام ہے جیسے لجنہ اماءاللہ الجنہ اماءاللہ کے معنی ہیں.اللہ کی لونڈیاں.اور خدام الاحمدیہ سے مراد بھی یہی ہے کہ احمدیت کے خادم.یہ نام انہیں یہ بات بھی ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا کہ وہ خادم ہیں ، مخدوم نہیں.یہ جو بعض لوگوں کے دلوں میں خیال پایا جاتا ہے کہ کاش ہم کسی طرح لیڈر بن جائیں یہ بیہودہ خیال ہوتا ہے.لیڈر بنانا خدا کا کام ہے اور جس کو خدا لیڈر بنانا چاہتا ہے اسے پکڑ کر بنا دیتا ہے." لیڈر بنا ناخدا کا کام ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں تحریر فرمایا ہے کہ میں پوشیدگی کے حجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے.اس نے گوشہ تنہائی سے مجھے جبرا نکالا.میں نے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں نہ اور پوشیدہ مروں.مگر اس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت دوں گا." (حقیقته الوحی صفحه ۱۴۹) پھر حضرت خلیفتہ المسیح الاول کو ہم نے دیکھا ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی مثال.انکسار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں آپ ہمیشہ پیچھے ہٹ کر بیٹھا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آپ پر نظر پڑتی تو آپ فرماتے مولوی صاحب آگے آئیں اور آپ ذرا کھسک کر آگے ہو جاتے.پھر دیکھتے تو فرماتے مولوی صاحب اور آگے آئیں.اور پھر آپ ذرا اور آگے آجاتے.خود میرا بھی یہی حال تھا.جب حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی وفات کا وقت قریب آیا.اس وقت میں نے یہ دیکھ کر کہ خلافت کے لئے بعض لوگ میرا نام لیتے ہیں اور بعض اس کے خلاف ہیں یہ ارادہ کر لیا تھا کہ قادیان چھوڑ کر چلا جاؤں.تاجو فیصلہ ہونا ہو میرے بعد ہو.مگر حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ میں نہ جاسکا.پھر جب حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی وفات ہو گئی تو اس وقت میں نے اپنے دوستوں کو اس بات پر تیار کر لیا کہ اگر اس بات پر اختلاف ہو کہ خلیفہ کسی جماعت میں سے ہو تو ہم ان لوگوں میں سے (جواب غیر مبائع ہیں) کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلیں.اور پھر میرے اصرار پر میرے تمام رشتہ داروں نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ اس امر کو تسلیم کر لیں تو اول تو عام رائے لی جائے.اور اگر اس سے وہ اختلاف کریں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کر لیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو.اور اگر وہ یہ بھی قبول نہ کریں تو ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر
22 لی جائے اور میں یہ فیصلہ کر کے خوش تھا کہ اب اختلاف سے جماعت محفوظ رہے گی.چنانچہ گذشتہ سال حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے بھی حلفیہ بیان شائع کرایا تھا کہ میں نے حافظ صاحب کو انہی دنوں کہا تھا کہ "اگر مولوی محمد علی صاحب کو اللہ تعالی خلیفہ بنادے تو میں اپنے تمام متعلقین کے ساتھ ان کی بیعت کرلوں گا“ (الفضل ۲ اگست ۱۹۳۷ء) لیکن اللہ تعالٰی نے دھکا دے کر مجھے آگے کر دیا.تو اللہ تعالیٰ جس کو بڑا بنانا چاہے وہ دنیا کے کسی کو نہ میں پوشیدہ ہو.خد اتعالیٰ اس کو نکال کر آگے لے آتا ہے.کیونکہ خدا تعالی کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہو سکتی.چنانچہ اس کے لئے میں پھر حضرت لقمان والی مثال دیتا ہوں.حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ابنى إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرَدَلٍ فَتَكُن فِي صَحْرَةٍ أَو فِي الأَسْمَوتِ أو فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللهُ (لقمان آیت ۱۷) کہ اے میرے بیٹے اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی چیز ہو اور وہ کسی پتھر میں پوشیدہ ہو یا آسمانوں اور زمین میں ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو نکال کر لے آئے گا.اس کے معنی یہی ہیں کہ اگر تمہارے دل میں ایمان ہو.تو خدا تعالیٰ تمہیں خود اس کام پر مقرر کرے گا.جس کے تم اہل ہو.تمہیں خود کسی عہدہ کی خواہش نہیں کرنی چاہئے.تو وہ لوگ جو خدمت خلق کو اپنا مقصود قرار دیتے ہیں.وہی ہر قسم کی عزت کے مستحق ہیں.پھر اگر خدا تعالیٰ تمہیں خود مخدوم بنانا چاہے تو ساری دنیا مل کر بھی اس میں روک نہیں بن سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو خدا تعالیٰ کے مسیح اور مامور تھے.اور پھر ایسے مامور تھے جن کی تمام انبیاء نے خبر دی.ان کا ذکر تو بڑی بات ہے میں اپنے متعلق ہی شروع سے دیکھتا ہوں کہ مخالفتیں ہوتی ہیں اور اتنی شدید ہوتی ہیں کہ ہر دفعہ لوگ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب کی دفعہ یہ مخالفانہ ہوائیں سب کچھ اڑا کر لے جائیں گی.مگر پھر وہ اس طرح بیٹھ جاتی ہیں.جس طرح جھاگ بیٹھ جاتی ہے، تو جس کو اللہ تعالی قائم کرنا چاہے اس کو کوئی مٹا نہیں سکتا.پس تمہیں اپنے دلوں میں سے ہر قسم کی نمود کا خیال مٹاکر ہر قسم کی نمود کا خیال مٹاکر کام کرنا چاہیئے کام کرنا چاہتے.بیڑ بولا ہونا کوئی خوبی کی بات نہیں ہوتی.حضرت عائشہ اللہ نے ایک دفعہ بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ تیز کلامی میں مشغول ہیں.صحابہ چونکہ سادہ کلام کرنے کے عادی تھے اس لئے حضرت عائشہ الینا نے یہ معمولی فقرہ فرما دیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو باتیں کرتے دیکھا ہے.آپ تو اس طرح تیز تیز باتیں نہیں کیا کرتے تھے.اب ایک نیک شخص اور مومن انسان کو یہ فقرہ بالکل کاٹ دینے والا ہے.اور وہ اسی سے سمجھ سکتا ہے کہ کس رنگ میں گفتگو کرنی چاہئے تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ زبان کے رس میں ساری کامیابی ہے.حالانکہ اصل چیز باتیں کرنا نہیں بلکہ کام کرنا ہے.مگر میں انہیں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں یعنی یہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ کو بھی اور ان مجالس خدام الاحمدیہ کو بھی جو میرے اس خطبہ کے نتیجہ میں قائم ہوں کہ وہ اس بات کو مد نظر ر کھیں کہ ان کا تعداد پر بھروسہ نہ ہو بلکہ کام کرنا ان کا مقصود ہو.یہ بات میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں لیکن آج مجھے اس
23 طرف خاص توجہ اس لئے ہوئی ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ کے ایک عہدہ دار کی مجھے چٹھی ملی ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے اس مجلس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے اور بعض لوگ جو پہلے اس میں شامل تھے وہ اب پیچھے ہٹ گئے ہیں.حالانکہ اس بات پر بجائے رنجیدہ ہونے کے انہیں خوش ہونا چاہئے تھا.کیونکہ میری تعلیم یہی ہے کہ کام کرنے والے چاہئیں.ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ محض تعداد بڑھانے کے شوق میں نا اہلوں کو بھی شامل کر لیا جائے ہم سے زیادہ تعداد شیعوں کی ہے اور ان سے بھی زیادہ حنفیوں کی ہے.پھر غیر مسلموں کو جمع کیا جائے تو وہ مسلمان کہلانے والوں سے زیادہ ہیں.پس اگر تعداد کی زیادتی پر ہی مدار رکھا جائے تو پھر تو انسان کو باطل کی طرف جھکنا پڑتا ہے.حالانکہ نیک کام ہمیشہ نیک بنیاد سے ہوتے ہیں.میں کہتا ہوں.یہ سوال نہیں کہ تمہارے دس ممبر ہیں.یا ہیں.یا پچاس یا سو.اگر مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک سیکرٹری یا پریذیڈنٹ ہی کسی کرتی.مرتب) ہاتھ میں لے لے اور گلیوں کی صفائی کرتا پھرے.یا لوگوں کو نماز کے لئے بلائے.یا کوئی غریب بیوہ جس کے گھر سود الا کر دینے والا کوئی نہیں.اسے سودالا کر دے دیا کرے.تو بے شک پہلے لوگ اسے پاگل کہیں گے مگر چند دنوں کے بعد اس سے باتیں کرنی شروع کر دیں گے.پھر انہی میں سے بعض لوگ ایسے نکلیں گے جو کہیں گے کہ میں اجازت دیں کہ ہم بھی آپ کے کام میں شریک ہو جائیں.اس طرح وہ ایک سے دو ہوں گے ، دو سے چار ہوں گے اور بڑھتے بڑھتے ہزاروں نہیں لاکھوں تک پہنچ سکتے ہیں..تو نیک کام کرتے وقت کبھی یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ کتنے آدمی اس میں شریک ہیں.اگر وہ کام جسے تم کرنا چاہتے ہو واقعہ میں نیک اور پسندیدہ ہے تو تھوڑے ہی دنوں میں تم ایک سے دس ہو جاؤ گے.پھر دس سے سو بنو گے اور سو سے ہزار ہو جاؤ گے.کیونکہ نیک کام اثر کئے بغیر نہیں رہتا.آج کل یورپ میں ایک بہت بڑی انجمن ہے جس کی نہ صرف روٹری کلب کی تاریخ ( تاریخ ترقی) یورپ میں بلکہ سارے ایشیاء میں شاخیں ہیں.روٹری کلب اس کا نام ہے اور لاکھوں اس کے ممبر ہیں.یہ کلب امریکہ سے شروع ہوئی تھی.پہلے اس میں صرف تین آدمی شامل تھے.لوگ ان سے مخول کرتے ، انہیں پاگل اور احمق قرار دیتے.مگر وہ خاموشی سے اپنے کام میں مشغول رہے یہاں تک کہ سال دو سال کے بعد سات آٹھ ممبر ہو گئے.اور بھر تین چار سال کے بعد تو سینکڑوں تک نوبت پہنچ گئی.اب اسے قائم ہوئے غالبا میں پچیس سال گذر چکے ہیں اور اس کے لاکھوں ممبر یورپ اور ایشیا میں موجود ہیں.تو یہ خیال پیدا ہو جانا کہ ہماری مجلس میں کم آدمی شامل ہیں، زیادہ شامل ہونے چاہئیں یہ بھی بتاتا ہے کہ مخفی طور پر دل میں شہرت کی خواہش ہے.ورنہ مقصد ہو تو تعداد کا خیال بھی دل میں نہ آئے.اور میں تو سمجھتا ہوں.بجائے اس کے کہ وہ تعداد بڑھانے کے شوق میں کام نہ کرنے والوں کو اپنے اندر شامل کریں جنہیں بعد میں نکالنا پڑے.یہ زیادہ بہتر ہے کہ صرف کام کرنے والوں کو اپنے اندر شامل کیا جائے اور جو کام کرنے کا شوق نہیں رکھتے انہیں شامل نہ کیا جائے.کیونکہ اندر سے گند کا نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے.لیکن باہر سے گند نہ آنے دینا بہت
24 آسان ہو تا ہے.پس ان کو اپنے نمونہ سے ایک نیک مثال قائم کرنی چاہئے.پھر خود بخود نوجوانوں کے دلوں میں تحریک پیدا ہو گی اور وہ بھی ان کے کام میں شریک ہونے کی خواہش کریں گے.کیونکہ وہ دیکھیں گے کہ باوجود کام کرنے کے یہ زندہ اور ہشاش بشاش ہیں پھر ہمارا کیا بگڑتا ہے اگر ہم بھی کام کریں اور نیک نامی حاصل کریں.دنیا میں کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے اتنا وقت فلاں کام کے لئے دے دیا.تو دوستوں سے گئیں ہانکنے کے لئے ہمارے پاس کوئی وقت نہیں رہے گا اور اس طرح ہماری ساری بشاشت اور زندہ دلی ماری جائے گی.مگر جب وہ دیکھتے ہیں کہ کام کرنے والوں کے چہرے بھی ویسے ہی ہشاش بشاش ہیں اور پھر زائد بات یہ ہے کہ انہیں لوگوں میں نیک نامی حاصل ہے تو پھر وہ بھی سمجھتے ہیں کہ دوستوں میں بیٹھ کر دو دو چار گھنٹے گپیں ہانکنے کی نسبت یہ بہتر ہے کہ خدمت خلق کا کوئی کام کیا جائے.پس افراد کا ان کو کوئی خیال نہیں کرنا چاہئے جو شخص ان کی مجلس میں شامل نہیں ہو تا اس کے متعلق انہیں کوئی شکوہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنا عملی نمونہ بہتر سے بہتر دکھانا چاہئے.اگر تم نوجوانوں کے لئے کامل نمونہ بن جاؤ تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ تم سے نہ ملیں.وہ اگر نہ ملیں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ تمہارے نمونہ میں کوئی نقص ہے.یہاں بھی اور باہر کی جماعتوں میں بھی کئی غربا ہوتے ہیں.کئی بیمار ہوتے ہیں جنہیں کوئی دوائی لا کر دینے والا نہیں ہو تا.کئی بیوائیں ہوتی ہیں جنہیں سودا سلف لا کر دینے والا کوئی نہیں ملتا.آخر یہ کتنی بے شرمی کی بات ہے کہ ایک شخص بازار میں کسی دوکان پر یا اپنے کسی دوست کے مکان پر بیٹھ کر دو دو تین تین گھنٹے گیں مارتا چلا جاتا ہے.مگر جب اسے کہا جاتا ہے کہ آؤ اور خدمت خلق کے لئے تھوڑا سا وقت دو تو وہ کہنے لگ جاتا ہے کیا کروں.بڑا کام ہے.ذرا بھی فرصت نہیں ملتی.حالانکہ جس وقت وہ گئیں مار رہا ہوتا ہے.جب وہ اپنے نہایت ہی قیمتی وقت کا خون کر رہا ہوتا ہے اسی وقت اس کے محلہ میں ایک بیوہ عورت کے بچے بلک بلک کر رو رہے ہوتے ہیں اور اس کے پاس کوئی ایسا شخص نہیں ہو تا جو اسے آٹالا کر دے یا دال لا کر دے.آخر یہ لوگ خدا کو کیا جواب دیں گے.کیا جس وقت وہ یہ کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی وقت نہیں تھا اس وقت خدا یہ نہیں کہے گا کہ تیرے پاس دو منے گئیں ہانکنے کیلئے تو تھے مگر تجھے پندرہ منٹ کی فرصت نہیں تھی کہ تو اس بیوہ کے بچوں کے لئے سود الا کر دے دیتا.تو تم اپنا عملی نمونہ جس وقت لوگوں کے سامنے پیش کرو گے.یہ ناممکن ہے کہ لوگ تم میں شامل ہونے کی خواہش نہ کریں.یہ سلسلہ تو خدا کا ہے اور اس میں اس کے وہ بندے شامل ہیں جن کو خدا نے اپنی رضا کے لئے چن لیا.میں کہتا ہوں ایک کافر سے کافر بھی نیک نمونہ دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.حضرت خلیفتہ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے ایک استاد مولوی رحمت اللہ صاحب تھے جو بعد میں مدینہ چلے گئے.وہ بڑے نیک اور بزرگ تھے مگر عیسائی مذہب سے انہیں کوئی واقفیت نہ تھی ایک دفعہ عیسائیوں کے ساتھ ان کا مباحثہ قرار پایا.ان کے مقابلہ میں جو پادری تھا وہ بڑا ہو شیار اور عالم تھا مگر یہ صرف قرآن اور حدیث جانتے تھے اور چونکہ دانا اور سمجھدار تھے اس لئے کہتے تھے کہ اگر میں نے قرآن اور حدیث کو اس کے سامنے پیش کیا تو وہ کہہ دے گا کہ
25 میں ان کو نہیں مانتا.دلیل ایسی چاہئے جسے یہ بھی تسلیم کرے اور وہ مجھے آتی نہیں.آخر کہنے لگے لوگوں سے کیا کہنا ہے.آؤ خدا سے دعا کرتے ہیں.چنانچہ انہوں نے دعا کی.رات کو گیارہ بجے کے قریب ان کے دروازہ پر کسی نے دستک دی.انہوں نے دروازہ کھولا تو ایک شخص جبہ پہنے ہوئے اندر داخل ہوا.اور کہنے لگا صبح آپ کا فلاں پادری سے مباحثہ ہے میں بھی پادری ہوں.مگر میں سمجھتا ہوں کہ توحید کے معاملہ میں آپ حق پر ہیں.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ بعض حوالے نوٹ کرلیں کیونکہ ممکن ہے ان حوالوں کا آپ کو علم نہ ہو چنانچہ اس نے تمام حوالے لکھوا دیئے.اور صبح جب مناظرہ ہوا تو وہ پادری یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ انہیں تو کسی حوالہ کا علم نہ تھا اب یہ کیا ہوا کہ یہ کہیں یونانی کتب کے حوالے دے رہے ہیں تو کہیں عبرانی کتب کے حوالے پڑھ رہے ہیں.کہیں انگریزی کتب سے اقتباس پیش کر رہے ہیں تو کہیں بائیبل سے توحید کی تعلیم سنا رہے ہیں غرض انہوں نے زبردست بحث کی اور اس پادری کو سخت شکست اٹھانی پڑی.اسی طرح وہ روزانہ رات کو آتا اور حوالے لکھا جاتا اور صبح آپ خوب دھڑلے سے پیش کرتے بعد میں یہ مباحثہ انہوں نے کتابی صورت میں شائع کر دیا اور مظاہرالحق * اس کا نام رکھا.ہندوستان میں لوگوں نے اس کتاب سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے.اب دیکھو اس پادری کی طبیعت پر حق کا اثر تھا اس نے جب دیکھا کہ آج حق مظلوم ہے تو اس کی حمایت کا اسے جوش آگیا اور اس نے کہا آج تو حید کہیں شکست نہ کھا جائے چنانچہ وہ رات کو آتا اور حوالے لکھا جاتا اور گو وہ لوگوں سے چھپ کر آیا مگر بہر حال آتو گیا.تو جب کوئی شخص نیک کام کرنے کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ خود بخود لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کر دیتا ہے.اور وہ اس کی تصدیق اور تائید کرنے لگ جاتے ہیں.پس قادیان کے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنا نیک نمونہ دکھا ئیں خصوصیت سے میں مجلس خدام الاحمدیہ کے اس رکن کو مخاطب کرتا ہوں جس نے مجھے خط لکھا.اور میں اسے کہتا ہوں کہ تم بھول جاؤ اس امر کو کہ قادیان میں کوئی اور شخص بھی ہے.تم سمجھو کہ صرف تم پر ہی اس کام کی ذمہ داری عائد ہے.کیونکہ وہ شخص ہرگز مومن نہیں ہو سکتا جو کہتا ہے کہ میری یہ ذمہ داری ہے اور فلاں کی وہ ذمہ داری ہے.مومن وہ ہے جو سمجھتا ہے کہ صرف اور صرف میری ذمہ داری ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم میں ایام سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم تجھ سے پوچھیں گے کسی اور سے نہیں.مگر اس سے مراد بھی صرف رسول کریم میں نہیں.بلکہ ہر مومن مراد ہے.اور خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں تم میں سے ہر شخص سے یہ سوال کروں گا کہ تم نے کیا کیا.مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی ہے اپنے ایک فعل پر جو گو ایک بچگانہ فعل تھا.مگر جس طرح بدر کے موقعہ پر ایک انصاری نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے.دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا.جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے اور اس صحابی کو اپنے اس فقرہ پر ناز تھا.
26 اسی طرح مجھے بھی اپنے اس فعل حضرت مسیح موعود کی نعش مبارک کے سرہانے حضور کا عہد پر ناز ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہوئے تو چونکہ آپ کی وفات ایسے وقت میں ہوئی.جب کہ ابھی بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئی تھیں.اور چونکہ میں نے عین آپ کی وفات کے وقت ایک دو آدمیوں کے منہ سے یہ فقرہ سنا کہ اب کیا ہو گا.عبدالحکیم کی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعتراض کریں گے.محمدی بیگم والی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعتراض کریں گے وغیرہ وغیرہ.تو ان باتوں کو سنتے ہی پہلا کام جو میں نے کیا وہ یہ تھا کہ میں خاموشی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاش مبارک کے پاس گیا اور سرہانے کی طرف کھڑے ہو کر میں نے خدا تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہا.اے خدا میں تیرے مسیح کے سرہانے کھڑے ہو کر تیرے حضور یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی پھر گئی تو میں اس دین اور اس سلسلہ کی اشاعت کے لئے کھڑا رہوں گا جس کو تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم کیا ہے.میری عمر اس وقت انیس سال کی تھی اور انیس سال کی عمر میں بعض اور لوگوں نے بھی بڑے بڑے کام کئے ہیں مگر وہ جنہوں نے اس عمر میں شاندار کام کئے ہیں وہ نہایت ہی شاذ ہوئے ہیں.کروڑوں میں سے کوئی ایک ایسا ہوا ہے.جس نے اپنی اس عمر میں کوئی شاندار کام کیا ہو.بلکہ اربوں میں سے کوئی ایک ایسا ہوا ہے اور مجھے فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس موقع پر یہ فقرہ کہنے کا موقع دیا.تو مومن کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ سمجھے اصل ذمہ دار میں ہوں.جب کسی شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ میں اور فلاں ذمہ دار ہیں.وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان ضائع ہو گیا اور اس کے اندر منافقت آگئی.ہم میں سے ہر شخص سمجھتا اور کچے دل سے اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ احمدیت کچی ہے اور اسلام سچاند ہب ہے.مگر کیا اگر فرض کر لیا جائے کہ کسی وقت سب لوگ فوت ہو جائیں گے یا مقطوع النسل ہو جائیں یا نعوذ باللہ مرتد ہو جائیں اور صرف اکیلا کوئی شخص باقی رو جائے تو وہ اس کام کو چھوڑ دے گا.یقینا وہ اس کام کو کبھی نہیں چھوڑے گا.بلکہ وہ سمجھے گا کہ اس کام کے کرنے کا بہترین وقت یہی ہے کیونکہ جتنے تھوڑے لوگ ہوں گے اسی قدر محم میں تعلیم کا سایہ زیادہ عمدگی سے ان پر پڑے گا.اگر ایک سیر بھر مصری سمندر میں ڈال دی جائے تو مٹھاس کا پتہ تک نہیں لگ سکتا..لیکن اگر گلاس دو گلاس میں اتنی مصری ملا دی جائے تو بہت زیادہ میٹھا ہو جائے گا.اسی طرح محمد ملی و یا لیلیوم کا سایہ جب ہزار دو ہزار یا لا کھ دو لاکھ نفوس پر پڑے گا تو وہ پھیل جائے گا.لیکن جب وہ ایک ہی شخص پر پڑے گا تو وہ مجسم محمد بن جائے گا.پس اگر ایک نیکی میں تمہیں اکیلے کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو تمہارا دل خوشی سے بلیوں اچھلنا چاہئے کیونکہ تم اس کام میں محمد ا تیل مل کے کل کامل بنو گے اور دوسرا کوئی ایسا شخص نہیں ہو گا جو رسول کریم ملی ریلی کا سایہ لے رہا ہو.پس یہ و ہم اپنے دلوں سے نکال دو کہ لوگ تمہارے ساتھ شامل نہیں ہوتے.
27 اگر نیک کاموں میں سرگرمی سے مشغول ہو جاؤ تعاون کرنے والے خود بخود آملیں گے ہم نیک کاموں میں سرگرمی سے مشغول ہو جاؤ تو میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ لوگوں پر اس کا اثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع کر سکتا ہے.سورج مغرب کی بجائے مشرق میں ڈوب سکتا ہے مگر یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی نیک کام کو جاری کیا جائے اور وہ ضائع ہو جائے.یہ ممکن ہی نہیں کہ تم نیک کام کرو اور خدا تمہیں قبولیت نہ دے.رسول کریم ملی و یا لیلی نے قبل از وقت ہمیں بتا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقبولیت خداتعالی بخشتا ہے جب کوئی شخص مقبول ہو جاتا ہے تو وہ اپنے فرشتوں کو پتہ دیتا ہے.اور کہتا ہے فلاں بندہ میری نگاہ میں مقبول ہے پھر وہ اگلے فرشتوں کو بتاتے ہیں اور وہ اپنے سے اگلے فرشتوں کو فیوضع له القبول فی الارض یہاں تک کہ دنیا کے لوگوں کے دلوں میں اس کی قبولیت پیدا کر دی جاتی ہے.مگر اس مقبولیت کا پیمانہ تمہارے دل کا اخلاص ہے.تمہارے دل کا اخلاص جتنا زیادہ ہو گا اتنی ہی زیادہ یہ مقبولیت ہوگی اور تمہارے دل کا اخلاص جتنا کم ہو گا اتنی ہی کم یہ مقبولیت ہو گی.پس میں یہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان کو بھی نصیحت کرتا ہوں اور ان بیرونی جماعتوں کو بھی جن کے نوجوان اس مجلس کی نقل میں کام کرنے کیلئے تیار ہوں.کہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس نیت سے کام کریں کہ صرف کام کرنے والے نوجوان اپنے اندر شامل کریں گے.تعداد بڑھانے کے لئے ہر شخص کو شامل نہیں کیا جائے گا.اسی طرح جو تجربہ کار لیکچرار یا تجربہ کار لکھنے والے ہیں ان کو شروع میں اپنے اندر شامل نہ کیا جائے.بیشک نگرانی کیلئے کسی وقت ان سے مشورہ لے لیا جائے.مگر انہیں اپنا ممبر نہ بنائیں تادہ ان کے کام پر حاوی نہ ہو جائیں اور ان کی عقلیں ان کی عقلوں کے مقابلہ میں پست نہ ہو جائیں...کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک بڑے درخت کے نیچے اگر ایک چھوٹا پودا لگا دیا جائے تو چند ہی دنوں میں سوکھ جاتا ہے.اسی طرح حسب راستے لوگوں کو اپنے اندر شامل کیا جائے تو چھوٹوں کا ذہنی ارتقاء رک جاتا ہے.مگر میں نے دیکھا ہے قاریان میں یہ مرض نہایت شدت سے پھیلا ہوا ہے.کوئی جلسہ ہو کوئی ٹی پارٹی ہو.کوئی دعوت ہو اس میں مجھے ضرور شامل کریں گے جس کا یقینا انہیں یہ نقصان پہنچتا ہے کہ انہیں خود اٹھنے اور کام کرنے کا موقع نہیں.رسول کریم ملی تعلیم کے زمانہ میں ایسا طریق بہت کم نظر آتا ہے.اور گو صحابہ رسول کریم م ایم کو بلاتے بھی تھے مگر مہ قع کی حیثیت سے لیکن ہاں تو یہ حال ہے کہ جنازہ بھی خلیفتہ المسیح پڑھائیں.نکاح بھی خلیفتہ المسیح پڑھائیں.کوئی عوت ہو تو اس میں بھی وہ ضرور شامل ہیں.کوئی لیمہ ہو تو اس میں بھی ضرور شامل ہوں.اسی طرح مبلغ کے جانے کی تعرب جوت وہ شامل ہوں اور آنے کی ہو لو تب بھی وہ شامل ہوں.عرض خلفہ سے اتنے کاموں کی امید کی جاتی ہے کہ جس میں شامل ہونے کے بعد دین کی ترقی اور اس کے کاموں میں حصہ لینے کا اس کیلئے کوئی دقت ہی نہیں رہنا.اور اس کا کام صرف اتاہی رہ جاتا ہے کہ دعوتیں کھائیں.ملانوں کی טלי
28 طرح پیٹ پر ہاتھ پھیرا، ڈکار لیا اور سو رہے.یہ ایک مرض ہے جس کے نتیجہ میں افراد کا ذہنی ارتقاء مارا جاتا ہے.کیونکہ وہ ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور بڑے درخت کے نیچے جو پودے لگے ہوئے ہوں وہ نشو و نما نہیں پاتے.پھر اس کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ جب کوئی اور تحریک کرتا ہے تو لوگ اس کی بات پر کان نہیں دھرتے اور وہ میرے پاس آتا ہے.اور کہتا ہے کہ آپ اس امر کے متعلق تحریک کریں.میں اس وقت دل میں ہنستا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ سزا ہے جو ان لوگوں کو اس لئے مل رہی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو یہ عادت ڈان دی ہے کہ جب تک کوئی بات خلیفہ نہ کئے اس کا ماننا کوئی ایسا ضروری نہیں ہو تا.حالانکہ دینی مشاغل اور قرآن کا درس و تدریس اور دوسرے ایسے ہی بیسیوں کام میں خلیفہ کے کہنے کی کیا ضرورت ہے.یا کسی ناظر کے کہنے کی کیا ضرورت ہے.ہر شخص کو اپنی اپنی جگہ دلی شوق سے یہ کام کرنے چاہئیں اور اگر وہ آجائیں.تو سارا کام انہیں کا دماغ کر رہا ہو گا.اور باقی لوگ خاموش بیٹھے رہیں گے.اور اس کا نتیجہ قوم کے لئے مہلک ہو گا.اس لئے قرآن کریم میں اللہ تعالٰی مومنوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.لا تسلُوا عَنْ اشْيَاء إِنْ تُبْدُ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ یعنی اے مومنو! تم بہت باتوں کے متعلق سوالات نہ کیا کرو.کیونکہ اگر خدا ان باتوں کو بیان کرے گا تو تمہیں دکھ پہنچے گا.اب سوال یہ ہے کہ کہ دکھ کیوں پہنچے گا.کیا خدا کے احکام دکھ دینے والے ہوتے ہیں.خدا کا تو ہر حکم انسان کے لئے باعث رحمت ہے.پھر اس کا کیا مطلب ہے کہ اگر خدا نے ان باتوں کو بیان کیا تو تمہیں دکھ پہنچے گا.بعض لوگ نادانی سے یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے بار بار سوال کیا تو خدا ناراض ہو کر تمہیں کوئی سخت حکم دے دے گا.یعنی جب مثلا یہ پوچھا کہ دو نمازیں پڑھنی چاہیں یا پانچ تو خدا کہے گا اچھا تم نے تو یہ پوچھا ہے میں بطور سزا تمہیں کہتا ہوں کہ تم چھ نمازیں پڑھا کرو مگر یہ بیوقوفی کی بات ہے.خدا کو ئی تھکنے والا وجود نہیں کہ ایک دو سوالوں سے وہ نعوذ باللہ گھبرا جائے گا اور اکتا کر سخت حکم دینے شروع کر دے گا.اس کا مطلب یہی ہے افراد جماعت کو اپنی عقلوں اور قوائے دماغیہ کو استعمال کرنے کی تلقین کہ اگر تم ہر بات مجھے سے دریافت کرو گے اور اپنی عقلوں پر زور نہیں ڈالو گے تو تمہارے قوائے دماغیہ کمزور اور بیکار ہو جائیں گے.کیونکہ جس عضو سے ایک عرصہ تک کام نہ لیا جائے وہ بیکار ہو جاتا ہے.ہاتھ سے کام نہ لیا جائے تو ہاتھ خشک ہو جاتا ہے.دماغ سے کام نہ لیا جائے تو دماغ کمزور ہو جاتا ہے.پس فرماتا ہے اگر تم ہم سے پوچھو گے تو گو ہم تمہیں وہ بات بتا دیں گے مگر پھر تم فقیہہ نہیں رہو گے.بلکہ نقال بن جاؤ گے.حالانکہ قوم کی ترقی کے لئے فقیہوں کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے.مگر وہ یہ بھی یاد رکھیں کہ کام تحریک جدید کے اصول پر کریں.میں نے بارہا کہا ہے کہ الامام جنه يقاتل من ورائه تمہارا کام بے شک یہ ہے کہ تم دشمن سے لڑو.مگر تمہارا فرض ہے کہ امام کے پیچھے ہو کر لڑو.پس کوئی نیا پروگرام بنانا تمہارے لئے جائز نہیں.پروگرام تحریک جدید کا ہی ہو گا اور تم تحریک جدید کے والٹیر ز ہو گے.تمہارا فرض ہو گا کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو.تم سادہ زندگی بسر کرو.تم دین کی تعلیم
29 دو.تم نمازوں کی پابندی کی نوجوانوں میں عادت پیدا کرو.تم تبلیغ کے لئے اوقات وقف کرو.اس طرح باہر جو انجمنیں بنیں وہ بھی اسی رنگ میں کام کریں.مگر موجودہ حالات میں جس طرح قادیان کی لجنہ کو میں نے باہر کی لجنات پر ایک برتری اور فوقیت دی ہوئی ہے.اسی طرح میں اعلان کرتا ہوں کہ موجودہ ابتداء میں دو سال کے لئے خدام الاحمدیہ قائم ہوئی حالات میں عارضی طور پر سال دو سال کیلئے قادیان کی مجلس خدام الاحمدیہ کی بیرونی جماعتوں کی مجالس خدام الاحمدیہ شاخیں ہوں گی.اور ان کا فرض ہو گا کہ اس انجمن کے ساتھ اپنی انجمنوں کا الحاق کریں اور اس انجمن کی اپنے آپ کو شاخ سمجھیں.اسی طرح ہر جگہ ان کا یہ کام ہو گا کہ وہ سلسلہ کا لٹریچر پڑھیں.نوجوانوں کو دینی اسباق دیں.مثلا صبح کے وقت یا کسی اور وقت ایک دوسرے کو پڑھایا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنے کے لئے کہا جائے اور پھر ان کا امتحان لیا جائے.اسی طرح وہ خدمت خلق کے کام کریں اور خدمت خلق کے کام میں یہ ضروری نہیں کہ خدمت خلق مسلمان غریبوں اور مسکینوں اور بیواؤں کی خبر گیری کی جائے.بلکہ اگر ایک ہندو یا سکھ یا عیسائی یا کسی اور مذہب کا پیرو کسی دکھ میں مبتلا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اس کے دکھ کو دور کرنے میں حصہ لو.کہیں جلسے ہوں تو اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کر دو میں نے اسی قسم کے مقاصد کے لئے احمد یہ نیشنل لیگ کو ر قائم کرنے کی اجازت دی تھی مگر مجھے افسوس ہے کہ اس کا بہت سا وقت لیفٹ اور رائٹ میں ہی خرچ ہو گیا.وہ اپنے دائیں اور بائیں تو دیکھتے رہے.مگر انہوں نے اپنے سامنے کبھی نہ دیکھا.میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے اس وقت تک کوئی مفید کام نہیں کیا.انہوں نے بھی بعض مفید کام کئے ہیں.خصوصاً جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اور دوسرے اجتماعوں کے مواقع پر ان کا جو انتظام ہوتا ہے وہ بہت اچھا ہوتا ہے مگر قواعد کرنے کے علاوہ یا بعض جسمانی خدمات کے علاوہ اور جن کاموں کی میں ان سے امید رکھتا تھا وہ پورا نہیں ہوا.میرے پاس لیگ کو ر کے قواعد کرانے والے افسروں نے اپنے کام کی فہرست پیش کی ہے کہ وہ فلاں فلاں کام کرتے رہے ہیں میں خطبہ میں ان کے کام کے اس حصہ کا خود ہی اعتراف کر چکا ہوں.میرا اظہار خیال قواعد سکھانے والوں کے مطابق نہیں انہوں نے با قاعدگی سے کام کیا ہے اور اس کا مجھے اعتراف ہے.جو شکوہ میں نے کیا ہے وہ لیگ کا ہے کہ دوسری اغراض جو علاوہ قواعد کے تھیں وہ انہوں نے باجود درجنوں دفعہ مجھ سے مشورہ لینے کے پوری نہیں کیں.بہر حال میں امید کرتا ہوں کہ اگر نیشنل لیگ نے یہ مقصد پورا نہیں کیا.تو اب مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان ہی اس مقصد کو پورا کر نیکی سلسلہ کے درد کو اپنا درد سمجھیں کوشش کریں گے اور اپنی زندگی کو کار آمد بنا ئیں گے اور سلسلہ کے درد کو اپنا درد سمجھیں گے.لیکن جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں.مجلس خدام الاحمدیہ میں جو بھی شامل ہو.وہ یہ
30 اقرار کرے کہ میں آئندہ یہی سمجھو نگا.کہ احمدیت کا ستون میں ہوں.اور اگر میں ذرا بھی ہلا اور میرے قدم ڈگمگائے تو میں سمجھوں گا کہ احمدیت پر زد آ گئی.حضرت طلحہ ایک بہت بڑے صحابی گزرے ہیں.ان کا ایک ہاتھ لڑائی کے موقعہ پر شل حضرت طلحہ کا نمونہ ہو گیا تھا.بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو جنگیں ہو ئیں ان میں کسی موقعہ پر ایک شخص نے طنز ا حضرت طلحہ کو لنجا کہہ دیا.حضرت طلحہ نے کہا.تمہیں پتہ بھی ہے میں کس طرح لنجا ہوا.پھر انہوں نے بتایا کہ احد کے موقعہ پر جب رسول کریم ملی الم پر کفار نے حملہ کر دیا اور اسلامی لشکر پیچھے ہٹ گیا تو اس وقت کفار نے یہ سمجھتے ہوئے کہ صرف محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات ہی ایک ایسا مرکز ہے جس کی وجہ سے تمام مسلمان مجتمع ہیں ، آپ پر پتھر اور تیر برسانے شروع کر دیئے.میں نے اس وقت دیکھا کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں کوئی تیر رسول کریم ملی کے چہرہ مبارک پر آکر نہ لگے چنانچہ میں نے اپنا بازو رسول کریم ملی وی کے منہ کے آگے کر دیا.کئی تیر آتے اور میرے بازو پر پڑتے مگر میں اسے ذرا بھی نہ ہلا تا.یہاں تک کہ تیر پڑتے پڑے میرا بازو شل ہو گیا.کسی نے پوچھا جب تیر پڑ رہے تھے تو اس وقت آپ کے منہ سے کبھی اف کی آواز بھی نکلتی تھی یا نہیں کیونکہ ایسے موقعہ پر انسان بے تاب ہو جاتا اور درد سے کانپ اٹھتا ہے.انہوں نے کہا.میں اف کس طرح کرتا.جب انسان کے منہ سے اف نکلتی ہے تو وہ کانپ جاتا ہے.پس میں ڈرتا تھا کہ اگر میں نے اف کی تو ممکن ہے میرا ہاتھ کانپ جائے اور کوئی تیر رسول کریم میں نا لیوں کو جاکر لگ جائے.اس لئے میں نے اف بھی نہیں کی.دیکھو کتنا عظیم الشان سبق اس واقعہ میں پنہاں ہے.طلحہ جانتے تھے کہ آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی حفاظت میرا ہاتھ کر رہا ہے.اگر میرے اس ہاتھ میں ذرا بھی حرکت ہوئی تو تیر نکل کر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جا لگے گا.پس انہوں نے اپنے ہاتھ کو نہیں ہلایا.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس ہاتھ کے پیچھے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ ہے.اسی طرح اگر تم بھی اپنے اندر یہ احساس پیدا کر و.اگر تم بھی یہ سمجھنے لگو کہ ہمارے پیچھے اسلام کا چہرہ ہے اور اسلام اور محمد میں ایک یا دو نہیں بلکہ ایک ہی ہیں.تو تم بھی ایک مضبوط چٹان کی طرح قائم ہو جاؤ اور تم بھی ہر وہ تیر جو اسلام کی طرف پھینکا جاتا ہے اپنے ہاتھوں اور سینوں پر لینے کیلئے تیار ہو جاؤ.پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارے ممبر کم ہیں یا تم کمزور ہو.خدام الاحمدیہ کے پیچھے اسلام کا چہرہ ہے بلکہ تم یہ سمجھو کہ ہم جو خادم احمد نیت میں جمارے پیچھے اسلام کا چہرہ ہے.تب بے شک تم کو خدا تعالیٰ کی طرف ایسی طاقت ملے گی جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکے گا.میں تم اپنے عمل سے اپنے آپ کو مفید وجود بناؤ.غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرو.نہ صرف اپنے مذہب کے غریبوں اور مسکینوں کی بلکہ ہر قوم کے غریبوں اور بے کسوں کی.تادنیا کو معلوم ہو کہ احمدی اخلاق کتنے بلند ہوتے ہیں.مشورہ دینے کے لحاظ سے میں ہر وقت تیار ہوں.مگر میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نمایاں شخصیتوں کو اپنا ممبر مت بناؤ.کیونکہ بڑے درخت کے نیچے اگر آؤ گے تو تمہاری اپنی شاخیں سوکھ جائیں گی.اسی طرح سچائی
31 کو اپنا معیار قرار دو.قواعد کے تیار کرنے میں میں انشاء اللہ تمہاری ہر طرح مددکروں گا.سر دست یہ نصیحت کرتا ہوں.کہ تم ہر ممبر سے یہ اقرار لو کہ اگر وہ جھوٹ بولے گا اور اس کا جھوٹ ثابت ہو جائے گا تو وہ خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار رہے گا.جب تم سچاں پر نمازوں میں با قاعدگی خدمت دین کیلئے رات دن مشغول رہنے کا طریقہ قائم ہو جاؤ گے.جب تم نمازوں میں با قاعدگی اختیار کر لو گے.جب تم دین کی خدمت کیلئے رات دن مشغول رہو گے.تب جان لینا کہ اب تمہار ا قدم ایسے مقام پر ہے جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں.اسی طرح تمہیں چاہئے کہ تم تحریک جدید کے متعلق میرے گذشتہ خطبات سے تمام ممبران کو واقف کرو.اور ان سے کہو کہ وہ اوروں کو واقف کریں.اور پھر ہر شخص اپنی ماں اپنی بہن اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو ان سے واقف کرے.اسی طرح میں لجنات اماء اللہ کو نصیحت کرتا ہوں.کہ وہ اس رنگ میں کام کریں اور جہاں جہاں لجنہ ابھی تک قائم نہیں ہوئی.وہاں کی عورتیں اپنے ہاں لجنہ اماءاللہ قائم کریں اور وہ بھی اپنے آپ کو تحریک جدید کی والٹیر ز سمجھیں اور اسلام کی ترقی کے لئے اپنی زندگی کو وقف قرار دیں.اگر تم یہ کام کرو تو گو دنیا میں تمہارا نام کوئی جانے یا نہ جانے.(اور اس دنیا کی زندگی خدا تمہارا نام جانے گا کی حقیقت ہے ہی کیا.چند سال کی زندگی ہے اور بیس) مگر خدا تمہارا نام جانے گا.اور جس کا نام خدا جانتا ہو اس سے زیادہ مبارک اور خوش قسمت اور کوئی نہیں ہو سکتا." (خطبه جمعه فرموده یکم اپریل ۱۹۳۸ء مطبوعہ اخبار الفضل ۱۰ اپریل ۱۹۳۸ء)
چینی عہد نه گرتے پڑتے جو ہیں خالق کرو اہل وفا عبید شکنی نہ کرو ہو جاؤ اہل شیطاں نہ بنو اہل خدا ہو جاؤ ور مولی رہا ہو جاؤ ت خفا أن اور پروانے کی مانند فدا ہو جاؤ سے خفا ہو جاؤ جو ہیں اس در سے جُدا اُن سے جُدا ہو جاؤ حق کے پیاسوں کے لئے آب بقا ہو جاؤ خشک کھیتوں کے لئے کالی گھٹا ہو جاؤ دین کے لئے بادِ صبا ہو جاؤ کفر و بدعت کے لئے دست قضا ہو جاؤ خرو بروئے رو بادشاہی کی تمنا داور محشر جاؤ کاش تم حشر کے دن عہدہ برآ ہو جاؤ نہ کرو ہرگز تم کوچه یار یگانہ کے گدا ہو جاؤ بحر عرفان میں تم غوطے لگاؤ ہر دم بانی کعبہ کی تم کاش دُعا ہو جاؤ وصل مولیٰ کے جو بھوکے ہیں انہیں کو سیر کرو وہ کرو کام کہ تم خوانِ بدی ہو جاؤ قطب کا کام دو تم ظلمت و تاریکی میں بھولے بھٹکوں کے لئے راہ نما ہو جاؤ ہو جاؤ پاشید مریم کافور ہو تم زخموں پر دل بیمار کے کے ورمان روا طالبان ریخ جاناں کو دکھاؤ دلبر عاشقوں کے لئے تم قبلہ نما ہو جاؤ امر معروف کو تعویذ بناؤ جاں کا بے کسوں کے لئے تم منعقدہ کشا ہو جاؤ دم عیسی سے بھی بڑھ کر ہو دُعاؤں میں اثر بیضا مورد فضل و کرم وارث ایمان هدی عاشق احمد بنو موسیٰ کا و عصا ہو جاؤ محبوب خدا ہو جاؤ
33 عمر کوئی چیز نہیں اصل چیز امنگ اور حوصلہ ہے اسلام کی فتح ہو کر رہے گی اور حضرت مسیح موعود کے ہاتھوں ہو گی ہمارے نوجوانوں کا اسلام کی فتح میں کیا کردار ہونا چاہئے کا شرارتیں اور فتنے مٹانے کیلئے نہیں اس کی عزت اور عظمت کو ظاہر کرنے کیلئے تم میں سے جو اللہ کے گروہ میں شامل ہو گا وہ لازوال عزتیں پائے گا اسلام اور اللہ تعالیٰ کی محنت ، نیکی سچائی ہمت اپنے دلوں میں پیدا کرو دنیا کی بہتری کی کوشش میں لگ جاؤ بنی نوع کی خدمت کا شوق اپنے دلوں میں پیدا کرو تم جو آج اس قدر کمزور سمجھے جاتے ہو تم ہی دنیا کے روحانی بادشاہ ہو گے دنیا پر قیامت نہیں آئے گی جب تک تم کو بادشاہوں سے بڑا اور تم پر ظلم کرنے والوں کو اد فی نوکروں سے بھی بد تر نہیں بنا دیا جائے گا اپنے دلوں میں عزم پیدا کرو کہ ہم نے خدا تعالی کو حاصل کرنا ہے
34 ” میں نے گذشتہ جمعہ میں نوجوانوں کی تنظیم کے متعلق خطبہ پڑھا تھا اور آج اسی سلسلہ میں بعض اور باتیں کہنا چاہتا ہوں.لیکن میرے ان خطبات کے یہ معنی نہیں کہ کسی خاص عمر کے آدمی خصوصیت کے ساتھ میرے مخاطب ہیں.کیونکہ گو یہ صحیح ہے کہ نوجوان کی اصطلاح ایک خاص عمر کے آدمی کے لئے بولی جاتی ہے.لیکن حقیقتاً انسان نوجوان عمر کے لحاظ سے نہیں بلکہ دل کے لحاظ سے ہوتا ہے.یہ ضروری نہیں کہ وہ شخص جس کی عمر اٹھارہ سے چالیس سال ہے، ضرور نوجوان ہو.بالکل ممکن ہے کہ اس عمر کا انسان بوڑھا ہو اور اپنی طاقتوں کو ضائع کر چکا ہو.اور یہ ضروری نہیں چالیس سال سے زیادہ عمر کا آدمی ضرور ادھیڑ یا بوڑھا ہو.یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بظاہر بوڑھایا ادھیڑ عمر کا نظر آتا ہو.لیکن اس کا دل خداتعالی کے سلسلہ کی خدمت کے لئے نوجوانوں سے بھی زیادہ نوجوان ہو.حضرت رسول کریم ملی ۶ سال کی عمر میں فوت ہوئے.مگر کون کہہ سکتا ہے کہ ایک دن بھی آپ پر ایسا آیا جب آپ بوڑھے تھے.چالیس سال کی عمر میں جب آپ پر وحی نازل ہوئی آپ" کے اندر جو جوانی تھی، ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس سے بہت زیادہ جو ان آپ وفات کے وقت تھے کیونکہ ایمان انسان کی جوانی کو بڑھاتا اور حوصلوں کو بلند کرتا ہے.پس گو ظاہری الفاظ میں میرے مخاطب نوجوان ہیں مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ جو لوگ عمر کے لحاظ سے اس حد سے آگے گزر چکے ہیں جسے جوانی کی حد کہا جاتا ہے ، وہ میرے مخاطب نہیں ہیں.جن لوگوں کے دل جو ان ہیں اور اپنے اندر سلسلہ کی خدمت کے لئے ایک جوش پاتے ہیں.ان کی عمر خواہ کتنی بھی کیوں نہ ہو.وہ میرے ویسے ہی مخاطب ہیں جیسے چالیس سال سے کم عمر کے لوگ.مولوی عبداللہ صاحب غزنوی ایک مشہور بزرگ پنجاب میں گزرے ہیں.وہ دراصل رہنے والے تو افغانستان کے تھے مگر حکومت افغانستان نے بوجہ ان کے اہل حدیث خیالات کے ان کو ملک سے نکال دیا تھا.ان کی اولاد انہی کی پیشگوئی کے مطابق ہمارے سلسلہ کی شدید مخالف ہے.مگر ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق بہت سے رؤیا و کشوف ہوئے تھے.گو وہ آپ کے دعوئی سے قبل ہی فوت ہو گئے اور سلسلہ میں داخل نہ ہو سکے.ان کے متعلق ایک عجیب واقعہ بیان کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی ضعیف ہو چکے تھے اور مرض الموت میں مبتلا تھے کہ کوئی شخص ان کے پاس آیا.ان کی بزرگی کی وجہ سے لوگ ان سے اپنے ذاتی معاملات میں بھی مشورے لیا کرتے تھے.جیسے آج ہم سے بھی لے لیتے ہیں.کوئی مرید ان کے پاس آیا اور کہا کہ میری لڑکی جوان
35 ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کی شادی کا کوئی انتظام ہو جائے.مولوی صاحب کے ساتھی جو اس وقت وہاں موجود تھے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے چار پائی پر لیٹے لیٹے ہی فرمایا کہ میرے ساتھ ہی شادی کر دو.بعض لوگ اس واقعہ کو ایک ہنسانے والا واقعہ خیال کرتے ہیں مگر یہ واقعہ ایسا نہیں.ہر شخص اپنی نیت کے مطابق پھل پاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ان کا دلی جوش ان کو یہ خیال بھی آنے نہیں دیتا تھا کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں.باوجودیکہ ان کا جسم جواب دے چکا تھا.مگر ایمان کی وجہ سے دین کی خدمت کے لئے جو روحانی قوت وہ اپنے اندر محسوس کرتے تھے اس کے ماتحت ان کو کبھی یہ خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ بوڑھے ہو گئے ہیں.ایک صحابی کا واقعہ بھی اس سے مشابہ ہے.حضرت انس بن مالک ہی ایک ایسے شخص ہیں جو رسول کریم مالی کے خادم کہلاتے ہیں.ان کے سوا رسول کریم ملی اهل لالی نے کوئی خادم نہیں رکھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو حضرت انس کی والدہ انہیں آپ کے پاس لائیں اور عرض کیا کہ یا رسول الله ما ل ا ل لم مرد تو اور طرح خدمت کر کے ثواب حاصل کرتے ہیں.مگر میں عورت ہوں اور تو کچھ نہیں کر سکتی.یہ میرا لڑکا ہے جسے میں آپ کی خدمت کیلئے پیش کرتی ہوں.یہ آپ کی خدمت کرے گا.حضرت انس کی عمر اس وقت دس بارہ سال کی تھی.اور وہ آنحضرت کی وفات تک آپ کی خدمت کرتے رہے.ان کی وفات ایک سو دس یا ایک سو بیس سال کی عمر میں ہوئی.یہ اختلاف اس وجہ سے ہے کہ اس زمانہ میں پیدائش کی تاریخیں عام طور پر یاد نہیں رکھی جاتی تھیں.مسلمان چونکہ بہت بڑے مورخ تھے اس لئے وفات کی تاریخیں تو پوری طرح محفوظ ہو گئیں مگر پیدائش کی تاریخیں اسلام سے پہلے زمانہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے محفوظ نہیں ہو سکیں.حضرت انس ” جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بعض لوگ ان کی عیادت کے لئے گئے اور کہا کہ آپ حضرت رسول کریم ملی کے صحابی اور خادم ہیں.ہمیں کوئی خدمت بتائیے.انہوں نے جواب دیا کہ آپ لوگ میری کیا خدمت کر سکتے ہیں.ہاں اگر ہو سکے تو میری شادی کرا دیں.میں نے رسول کریم ملی ایل لیلی سے سنا ہے کہ جو شخص بغیر شادی کے فوت ہو تا ہے وہ بطال ہے.بطال اسے کہتے ہیں جس کی عمر ضائع گئی.حضرت انس کی بیوی ان سے کچھ ہی عرصہ پہلے فوت ہوئی تھیں.اس لئے انہوں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اگر میری شادی کرا دو تو میں بطال نہ کہلاؤں.رسول کریم م کا مطلب تو یہ تھا کہ جو شخص اپنی زندگی بھر شادی نہیں کرتا اور اس کی اولاد نہیں ہوتی وہ بطال ہے.کیونکہ اسلام نے رہبانیت کو ناجائز رکھا ہے.مگر حضرت انس نے رسول کریم میں اللہ کی لفظی بات کو پورا کرنے کے لئے یہ بھی پسند نہ کیا کہ چند دن کی عمر بھی بطال گزاریں حالانکہ اس وقت وہ عمر کی اس حد سے گذر چکے تھے جس میں بچے پیدا ہو سکتے ہیں.یہ بھی دراصل ان کے دلی جوش کا نتیجہ تھا.دین کی خدمت کا جو احساس ان کے دل میں تھا.اس کے ماتحت اگر چہ جسم جواب دے چکا تھا مگر کام کی امنگ روح میں موجود تھی اور اس کے ماتحت وہ بعض اوقات یہ بھول جاتے تھے کہ ہم بوڑھے ہو چکے ہیں یا ہمارے جسم اب جواب دے چکے ہیں.
36 پس عمر کوئی چیز نہیں بلکہ در حقیقت انسان کی امنگ اور حوصلہ اصل چیز عمر نہیں امنگ اور حوصلہ ہے ہوتا ہے جو خدا کے حضور ا سے مقرب بنا دیتا ہے.اور جو اس کی کوششوں کو ہر زمانہ میں جاکر تو جوانوں سے آگے بڑھا دیتا ہے.پس ان خطبات میں اگر چہ بظاہر میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کی عمر چالیس سال سے کم ہے.مگر حقیقت وہ لوگ بھی میرے مخاطب ہیں جن کی عمر خواہ کتنی ہو مگر خدمت دین میں وہ دوسروں سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور یہ لوگ ظاہری نوجوانوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہوتے ہیں.کیونکہ نوجوانوں کے تو جسم بھی کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں مگر ان کے جسم جواب دے چکے ہوتے ہیں.اور ان کی مثال ان غرباء کی ہوتی ہے جن کے پاس دولت نہیں ہوتی مگر چندوں کے وقت وہ دوسروں سے پیچھے رہنا گوارا نہیں کرتے.قرآن کریم میں اشارہ ایک ایسے واقعہ کا ذکر آتا ہے جس کی تفصیلات احادیث سے یوں معلوم ہوتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم ملی ایل لیلی نے چندہ کی تحریک کی.ایک صحابی مجلس سے اٹھے اور جاکر کنوئیں پر کام کیا اور وہاں سے کچھ جو مزدوری کے طور پر حاصل کر کے لائے اور رسول کریم ملی کی خدمت میں پیش کر دیئے.مختلف لوگ چندے لا رہے تھے.کوئی سینکڑوں اور کوئی ہزاروں روپے.مگرانہی میں یہ صحابی بھی وہ جو لے کر آئے جو دونوں ہاتھوں میں تھے اور لاکر رسون کریم متی والی دیوی کی خدمت میں پیش کر دیئے.اس پر منافق ہے اور کہا کہ ان جوؤں سے دنیا فتح کی جائے گی.انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہزاروں روپوں سے زیادہ تھے کیونکہ اس کے پاس کچھ نہیں تھا.مگر اس نے خیال کیا کہ میں دوسروں سے پیچھے کیوں رہوں.اپنے جسم سے کام لیا.مزدوری کی اور جو ملا لا کر حاضر کر دیا.یہی حال ان بو ڑھوں کا ہے جن کے جسم اگر چہ جواب دے چکے ہیں مگر دل جو ان ہیں اور وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ثواب میں پیچھے رہیں.اللہ تعالٰی کے نزدیک وہ جو ان ہی ہیں بلکہ جوانوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہیں.جس طرح غریب لوگ باوجو د تھوڑی رقم دینے کے کئی زیادہ دینے والوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہوتے ہیں..اس تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا خدمت دین کیلئے تقویٰ اور کوشش ضروری ہے ہوں اور نوجوانوں کو توجہ دلا تا ہوں کہ وہ اپنی حالت کو سدھارنے اور دین کی خدمت کیلئے تقویٰ اور سعی سے کام لینے کی طرف توجہ کریں.آج اسلام غربت میں ہے اور اگر آج کوئی جماعت اسے قائم نہ کرے تو تھوڑے عرصہ میں کوئی اس کا نام لیوا بھی باقی نہ رہے گا.ہندو اور عیسائی تو اسے مٹانے میں لگے ہی ہوئے ہیں مگر مسلمان کہلانے والے بھی اصلاحات کے نام سے اس کی تعلیم کو مٹانے کے لئے طرح طرح کی کو ششیں کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کو جو قرآن کریم میں ہے بدل دیں.ایسے کئی بڑے بڑے مسلمان کہلانے والے موجود ہیں.اور دو سرے مسلمان ان پر فخر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ اسلام کی ترقی کے سامان کر رہے ہیں.حالانکہ یہ ترقی نہیں بلکہ تنزل ہے اور ذلت ہے.ایسے وقت میں ضرورت ہے ایک ایسی جماعت کی جو اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھر قائم کرے.اور اسی لئے اللہ تعالٰی نے
37 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے.ظاہری حالات کے لحاظ سے آپ کو ایسے وقت میں بھیجا گیا ہے کہ دنیا میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ دعوی عقل کے مطابق ہے.اسلام جس صورت میں رسول کریم میں میں لائے ، مٹ چکا ہے اور ہر دنیا دار یہ سمجھتا ہے کہ پھر اسی صورت میں قائم نہیں کیا جا سکتا.آج ایک مسلمان بھی ایسا نہیں ملے گا جو دیانتداری سے یہ سمجھتا ہو کہ اسلامی پر وہ پھر دنیا میں قائم کیا جا سکتا ہے اور غیر تو ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال دل میں نہیں لا سکتے.خود مجھے ایک بڑے سرکاری افسر نے نہایت ہی حیرت سے پوچھا کہ کیا آپ بھی یہی خیال کرتے ہیں کہ اسلامی پر دہ اب دنیا میں قائم ہو سکتا ہے.اس کا مطلب یہ تھا کہ میں تو آپ کو عظمند سمجھتا ہوں کیا آپ بھی ایسی جہالت کی بات کے قائل ہیں.میں نے جواب دیا کہ پردہ سے زیادہ اہم امور ہیں جن میں تبدیلی کو ناممکن سمجھا جاتا تھا.مگر ان میں تبدیلیاں ہوتی ہیں.میں نے اس افسر سے کہا کہ آپ تو تاریخ دان ہیں کیا آپ کو ایسے امور معلوم ہیں یا نہیں کہ جن کے متعلق یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان میں تبدیلی نہیں ہو سکتی مگر آخر ہو گئی.اس نے کہا کہ ہاں ایسے امور تو ہیں.میں نے کہا جب مثالیں موجود ہیں تو باقی صرف یقین کی بات رہ جاتی ہے.مجھے یہ یقین ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا اور آپ سمجھتے ہیں، نہیں ہو سکتا.آج سے ۲۵ سال قبل کون کہہ سکتا تھا کہ یورپ میں ڈیما کریسی کا خاتمہ ہو جائے گا.صرف پچیس سال قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ تمام بادشاہتیں مٹ کر ان کی جگہ جمہوری سلطنتیں قائم ہو جائیں گی مگر آج علی الاعلان جرمنی، اٹلی اور پین میں ڈیما کریسی کی ہنسی اڑائی جارہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کیسے بیوقوف وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ڈیما کریسی کے ذریعہ کسی ملک کی ترقی ہو سکتی ہے.سارے افراد کہاں اتنے " عظمند ہو سکتے ہیں کہ ملکی ترقی کے وسائل کو سمجھ سکیں.صرف چند لوگ ہی ایسے ہو سکتے ہیں اور ان کے پیچھے چل کر ہی ترقی ہو سکتی ہے.انگلستان کے سیاستدانوں کی آج سے صرف ۲۵ سال قبل کی کتابیں پڑھو.ان میں اس خیال کا شائبہ بھی نہیں ملے گا جو آج دنیا میں قائم اور رائج ہے.ان کتابوں میں یہی ہے کہ ہم نے دنیا میں ڈیما کریسی کے اصول کو قائم کیا ہے اور آج ہم اس میں کامیاب ہو گئے ہیں اور دنیا میں یہی اصول غالب ہے.مگر آج ان میں سے کئی ایک کی تقریریں شائع ہو چکی ہیں جن میں انہوں نے کہا ہے کہ آج سوائے انگلستان کے ڈیماکریسی کے اصول کہیں بھی قائم نہیں.کتنا بڑا فرق ہے کتنا قلیل زمانہ اور کتنا وسیع تغیر ہے.پس اگر دنیا کے لوگوں کی کوششوں سے دنیا کے خیالات تبدیل ہو سکتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے کیوں نہیں ہو سکتے.فرق صرف یقین اور ایمان کا ہے.لوگ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کے خیالات میں تبدیلی کا ذریعہ یونیورسٹیاں اور بڑے بڑے بار سوخ لیڈر ہیں.اور وہی دنیا کے خیالات کو بدل سکتے ہیں.مگر ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی مدد سے یہ تغیر ہو سکتے ہیں.تغیرات کے ہونے میں کسی کو شک نہیں.فرق صرف یہ ہے کہ اسلام کے مخالف کہتے ہیں.کہ دنیا چو نکہ ان باتوں کو ماننے کے لئے تیار نہیں، اس لئے یہ تبدیلی ہو کر رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جوار شاد فرمایا وہ اس زمانہ میں غیر ممکن نظر آتا ہے آج سارے کے سارے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اپنی اصلی صورت میں دوبارہ قائم نہیں ہو سکتا.
38 مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی ہے کہ اسلام کے غلبے پر یقین رکھو کہ وہ خدا کا وعدہ ہے اسی صورت میں اسلام دوبارہ قائم کیا جائے گا.صرف اسلام کا نام قائم نہیں ہو گا بلکہ اس کی صورت بھی وہی ہو گی.آج ٹر کی اسلام کی تعلیم میں تمام تبدیلیوں کے بعد یہ کہتا ہے کہ مسلمان کامیاب ہو گئے.ایران تمام تغیرات کے باوجود مسلمانوں کی کامیابی کادعویٰ کرتا ہے.ان ممالک میں سود قائم کیا گیا ہے.پردہ اڑا دیا گیا ہے.قرآن کریم کو عربی میں پڑھنے سے روکا جاتا ہے.عربی کیریکٹر اور حروف کو مٹانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے.ایشیائی خصوصاً عربی لباس کو مٹانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے.اور ان سب باتوں کے باوجود کہا یہ جاتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہماری فتح اسلام کی فتح ہے.حالانکہ ان ممالک کی فتح اسلام کی فتح نہیں کہی جاسکتی.انگریزوں کو اگر فتح ہو تو یہ کسی مذہب کی نہیں بلکہ انگریز قوم کی فتح سمجھی جائے گی.کیونکہ انگریز کسی مذہب کا نام نہیں.مگر اسلام مذہب کا نام ہے.اگر وہ قائم نہیں ہو تا تو اسلام کی بهر حال شکست ہے اور فتح ان لوگوں کی ہو گی جو اپنے ملک میں ایک نیا نظام قائم کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کے لئے حضرت مسیح موعود اسلام کی کیسی فتح کے مدعی ہیں ؟ ایسی فتح کے مدعی نہیں.آپ نے یہ دعوی کیا ہے کہ پھر اسلام کو فتح حاصل ہوگی اور ہم نے یہ فتح حاصل کرنی ہے.مگر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس کام کی راہ میں کس قدر مشکلات حائل ہیں.ایک ایک قدم بڑھانا مشکل ہو رہا ہے.بیرونی مخالفتوں کے علاوہ جماعت میں لوگوں کے اندر وسو سے پیدا ہو رہے ہیں.کئی منافق ہیں جو فتنے پیدا کرتے رہتے ہیں.میں نے تحریک کی کہ لوگوں کو نبوت کے طریق پر لانا چاہئے اور اس پر میں اعتراض سن رہا ہوں کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس طریق پر نہیں چلاتے تھے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ورثہ پر کوئی زور نہیں دیا اور جماعت میں اسے قائم نہیں کیا.تو کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمیشہ کے لئے ورثہ کے حکم کو مٹادینا چاہئے.ای طرح داڑھی رکھنے کا مسئلہ ہے آپ نے داڑھی کے بارے میں حضرت مسیح موعود کا ارشاد فرمایا.کہ ہم تو نصیحت کر دیتے ہیں جسے ہمارے ساتھ محبت ہو گی وہ خود رکھے گا.ہماری داڑھی ہے اور جو ہمارے ساتھ محبت کرے گا وہ خود رکھ لے گا.تو کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ اب ہمیں داڑھی رکھنے پر کوئی زور نہیں دینا چاہئے.میرے پیش کردہ اصول پر اگر اعتراض کیا جائے.تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ سوائے ان چند عقائد کے جن کے پھیلانے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں زور دیا گیا اور کسی بات کو جاری کرنا جائز نہیں.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اس پیشگوئی کے ماتحت کہ جماعت کی ترقی آہستہ آہستہ ہوگی.ان باتوں کو بعد میں آنیوالوں کے لئے چھوڑ دیا.کیونکہ اس وقت جماعت اتنی پھیلی ہوئی نہیں تھی.اور کسی نظام کے ذریعہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرانا مشکل تھا.پس اگر اس اصل کو مان لیا جائے کہ جس بات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جبر سے کام نہیں لیا
39 ہمیں بھی زور نہیں دینا چاہئے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جماعت احمدیہ کے لئے قرآن کریم پر عمل کرنا ضروری نہیں لیکن اگر یہ بات درست نہیں تو ماننا پڑے گا کہ ہر مناسب موقعہ پر اس کے لئے کوشش کی جاسکتی ہے.میرا نظریہ یہ ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ اسلام کی تعلیم کو قائم کرنے کے لئے پوری کوشش کریں خواہ پچاس سال کا عرصہ کیوں نہ گذر چکا ہو.اور معترض کا مقام یہ ہے کہ لوگ آزاد ہیں.جس طرح چاہیں کریں.گویا اس کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ اسلام کا قیام اصل غرض نہیں.اصل غرض صرف یہ ہے کہ احمدی کہلایا جائے.اور میرا یہ کہ اصل چیز صحیح اسلامی تعلیم کا قیام ہے.صرف منہ سے احمدی کہلانا کوئی چیز نہیں.اس میں شبہ نہیں کہ دنیوی نقطہ نگاہ سے اس کا اصول صحیح سمجھا جا سکتا ہے.کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اسلامی تعلیم کا قیام ناممکن ہے مگر میں اسے بالکل ممکن سمجھتا ہوں.اور یقین رکھتا ہوں کہ یہ ہو کر رہے گا.وہ اپنے ایمان کے مطابق بات کرتا اور مایوسی کا اظہار کرتا ہے اور میں اپنے ایمان کے مطابق امید پر قائم ہوں.اور دراصل مقابلہ اس کی مایوسی اور میرے ایمان کا ہے.ایک طرف اس کی مایوسی ہے جو کہتی ہے کہ چھوڑ دو اس کوشش کو.اس میں کامیابی نہیں.اور دوسری طرف میرا ایمان کہتا ہے کہ یہ ہو سکتا ہے اور ضرور ہو کر رہے گا.اس لئے ہمیں جلدی سے اسے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا اس کا ثواب ہمیں ہی ملے.دوسروں کو کیوں ملے.بعد میں آنیوالوں کے لئے اللہ تعالیٰ ثواب حاصل کرنے کے اور سامان پیدا کر دے گا.اور اس جدوجہد میں جسے میں شروع کرنا چاہتا ہوں کامیابی کے لئے بہترین وجود نوجوان ہی ہو سکتے ہیں.مثلا ورثہ کو ہی لے لو.والدین کی وفات کے بعد ورثہ انہی کے ہاتھ میں آنا ہے اور وہی اس کو تقسیم کرنیوالے ہو نگے.وہ اگر چاہیں تو اپنی بہنوں اور ماؤں کو حصہ دیں.اور چاہیں تو نہ دیں.قانون ان پر کوئی جبر نہیں کرتا.بلکہ قانون تھوڑا سا جبر اس رنگ میں کرتا ہے کہ وہ حصہ نہ دیں.اگر ہمارے نوجوان اس بات کے لئے تیار ہو جائیں اور کہیں کہ خواہ ہمارے لئے کچھ بچے یا نہ بچے اور خواہ ہم غریب ہو جائیں ہم دریہ کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ہی تقسیم کریں گے.تو ہر شخص یہ تسلیم کرے گا کہ یہ جماعت ہے جس نے اسلام کی تعلیم کو عملاً دنیا میں قائم کر دیا ہے.پس اگر ہمارے نوجوان اصلاح کرلیں اور اقرار کرلیں کہ نوجوان اسلامی تعلیم کو قائم کرنیکا عہد کریں جس طرح بھی ہو اسلام کی تعلیم کو قائم کریں گے تو مایوس ہو لوگ خود بخود اپنی شکست کا اقرار کر لیں گے.کیونکہ جب کوئی واقعہ ہو جائے تو پھر اعتراض خود بخود مٹ جاتے ہیں.جو لوگ بھی خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کرنے والے ہوں گے.خدا تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ وہی کامیاب ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک شعر کرامات الصادقین میں ہے جس کا پہلا مصرعہ آپ فرماتے ہیں الہامی ہے اور وہ شعر یہ ہے.واني انا الرحمن ناصر حربية ومن كان من حزبي فيعلى ويُنصر
40 ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں رحمٰن ہوں.جس کی دین اور بخشش اور رحمت سب پر وسیع ہے.اور کافر و مومن میں کوئی فرق نہیں کرتی ہے اور میرے دین کے جو مخالف ہیں، میری رحمت ان کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے.دیکھو سانس لینے کے لئے ہوا اور پانی اور روشنی کا سامان میں نے ان کے لئے بھی جو میرے دین کی مخالفت کرتے ہیں ویسا ہی کیا وا ہے جیسا مومنوں کے لئے کیونکہ میں رحمن ہوں.پھر یہ کوئی کیونکر خیال کر سکتا ہے کہ جو میرا ہو جائے میں اسے چھوڑ دوں گا اور اس کی مدد پر کمر بستہ نہیں ہوں گا.گویا پہلے مصرعہ کا نتیجہ آگے بیان کیا ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے حزب ہو جاتے ہیں.انہیں غلبہ دیا جاتا ہے اور مدد کی جاتی ہے.پس جو بھی اللہ تعالیٰ کی جماعت میں داخل ہو جائے اسے مدد ملنا یقینی ہے کیونکہ جو ر ضمن اپنے دین کے مخالفوں کو بھی فیض سے محروم نہیں رکھتا.یہ کیونکر ممکن ہے کہ جو اس کا ہو جائے وہ اس کی مدد نہ کرے.وہ ماں جو غیر کے بچہ سے محبت کرتی اور پالتی ہے اپنے بچے کے ساتھ اس کی محبت کا اندازہ کرنا بالکل آسان ہے خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں غیر سے بھی حسن سلوک کرتا ہوں.میرا سورج ہے وہ تم کو ہی نہیں بلکہ ہندوؤں اور سکھوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی بھی فائدہ پہنچاتا ہے.بلکہ یہ تو پھر بھی خدا کے کسی نہ کسی رنگ میں قائل ہیں ، دھریوں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے.خداتعالی کے بادل آتے ہیں.مگر کیا کبھی تم نے دیکھا کہ وہ مومن کے کھیت کو تو سیراب کریں اور غیر مومنوں کے کھیتوں کو چھوڑ دیں.کیا کبھی یہ ہوا ہے کہ اس کی ٹھنڈی ہوائیں تمہارے لئے تو ٹھنڈی اور آرام پہنچانے والی ہوں مگر کافروں کے لئے گرم لوبن جائیں.وہ اسی طرح ان کو بھی لذت پہنچاتی ہیں جس طرح تمہیں.تو جو رحمن خدا ہے اور جس کے فضلوں کا سلسلہ استناد سیع ہے کیا تم خیال کرتے ہو کہ جو اس کا ہو جائے وہ اسے چھوڑ دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور الہام ہے جو دراصل پنجابی کا ایک پر انا شعر ہے.مگر آپ پر بھی الہاما نازل ہوا ہے اور وہ یہ کہ " جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو " یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کا ہو جائے اللہ تعالی ساری دنیا کو اس کا بنا دیتا ہے اور ذرہ ذرہ اس کی تائید میں لگا دیتا ہے.شرارتیں بھی ہوتی ہیں مخالفتیں بھی مخالفتیں اور فتنے مومنوں کی جماعت کی ترقی کیلئے اٹھتے ہیں ہوتی ہیں اور فتنے بھی اٹھتے ہیں مگر اسے مٹانے کیلئے نہیں بلکہ اس کی عزت اور عظمت کو ظاہر کرنے کیلئے.ایک شخص اپنے گھر میں بیٹھا رہتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تباہ نہیں ہوا.تو لوگ کہتے ہیں کہ تم پر کوئی آفت تو آئی نہیں تم تباہ نہ ہوئے تو کونسے تعجب کی بات ہے.مگر ایک کو لوگ سمندر میں پھینکتے ہیں.آگ میں ڈالتے ہیں مگر وہ نہیں مرتا تو دوسرے اس سے لازماً مرعوب ہوتے اور سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کوئی غیر معمولی آدمی ہے.ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو آگ میں نہیں جلے اور ہم سب کا یہاں موجود ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم آگ میں نہیں جلائے گئے.مگر کیا ہمارا نہ جلنا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نہ جلنا ایک ہی بات ہے.کیا اگر کوئی کہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا تھا.تو تم بھی اس کے جواب میں کہہ سکتے ہو کہ ہمیں بھی نہیں جلایا.ظاہر ہے کہ ان دونوں باتوں میں کوئی نسبت
41 ہی نہیں.تم کو آگ میں ڈالا ہی نہیں گیا.مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا اور پھر وہ نہیں جلے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر حملے ہوتے ہیں مگر اللہ تعالی ان کو تباہی سے بچاتا ہے تاوہ کہہ سکیں کہ ان کو تباہ کرنے کی کوششیں کی گئیں.مگر وہ تباہ ہوئے نہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دعویٰ کہ وہ آگ میں نہیں جلے ان کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے.مگر تمہارا یہ کہنا کہ تم آگ میں نہیں جلے ایک پاگل کی بڑ سمجھی جائے گی.کیونکہ تمہیں جلانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کے لئے بادشاہ اور رعایا سب نے اکٹھے ہو کر کوشش کی.اور آپ کو آگ میں ڈال کر جلانا چاہا.مگر اللہ تعالی نے بارش نازل کر کے آگ کو بجھا دیا اور ایک ایسا نشان ظاہر کیا جس سے سب مخالف مرعوب ہو گئے.اور انہوں نے اپنا ارادہ ہی چھوڑ دیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تباہ کرنے کی کوششیں کی گئیں.مگر خد اتعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ محفوظ رکھا اور به آخری غلبہ ہی خدا تعالیٰ کا نشان ہوتا ہے.اور یہ ہی ثابت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کو وہ عظمت اور شان حاصل ہے جو دو سروں کو نہیں اور یہ مقام کسی سے مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آئے اور اسے حاصل کرے.پس یہ خیال مت کرو کہ یہ مقام محمد مصطفی ملی یا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت عیسی علیہ السلام یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے مخصوص ہے.نبوت اور چیز ہے اور یہ مقام اور چیز ہے.اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید حاصل کرنے کے لئے نبوت شرط اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت جذب کرنا يد اور نصرت جذب کرنا نہیں بلکہ یہ کامل مومن کو حاصل ہو سکتی ہے.دیکھو حضرت امام حسین نبی نہ تھے اور بظاہر ان کو یزید کے مقابلہ میں شکست بھی اٹھانی پڑی.یزید اس وقت تمام عالم اسلام کا بادشاہ تھا اور اس وقت چونکہ تمام متمدن دنیا پر اسلامی حکومت تھی اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ تمام دنیا کا بادشاہ تھا.اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک دنیا پر اس کے رشتہ داروں کی حکومت رہی اور اس وقت منبروں پر حضرت علی اور آپ کے خاندان کو گالیاں دی جاتی تھیں.یزید کو اتنی بڑی حکومت حاصل تھی کہ آج کل کسی کو حاصل نہیں.آج انگریزوں کی سلطنت بہت بڑی سمجھی جاتی ہے.مگر ذرا مقابلہ تو کریں بنو امیہ کی حکومت سے جن کے خاندان کا ایک فرد یزید بھی تھا، انگریزوں کی حکومت کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں.فرانس سے شروع ہو کر چین ، مرا کو الجزائر ، طرابلس اور مصر سے ہوتی ہوئی عرب ہندوستان ، چین افغانستان ایران روس کے ایشیائی حصوں پر ایک طرف اور دوسری طرف ایشیائے کو چک سے ہوتے ہوئے یورپ کے کئی جزائر تک یہ حکومت پھیلی ہوئی تھی.اس قدر وسیع سلطنت آج تک کسی کو حاصل نہیں ہوئی.موجودہ زمانہ کی دس پندرہ سلطنتوں کو ملا کر اس کے برابر علاقہ بنتا ہے.اور اتنی بڑی سلطنت کا ایک بادشاہ ہو تا تھا.جن میں سے قریباً ہر ایک حضرت علی اور آپ کے خاندان کو اپنا دشمن سمجھتا تھا.اس لئے منبروں پر کھڑے ہو کر ان کو گالیاں دی جاتی تھیں اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ ساری دنیا میں امام حسین کی عزت پھر قائم ہو گی.اور اس وقت کوئی و ہم بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یزید
42 کو بھی لوگ گالیاں دیا کریں گے.مگر آج نہ صرف تمام اس علاقہ میں جہاں امام حسین کو گالیاں دی جاتی تھیں.بلکہ دوسرے علاقوں میں بھی کیونکہ بعد میں اسلامی حکومت اور بھی وسیع ہو گئی تھی.گو وہ ایک بادشاہ کے ماتحت نہ رہی.سب جگہ یزید کو گالیاں دی جاتی ہیں اور حضرت امام حسین کی عزت کی جاتی ہے.گو آپ نبی نہ تھے صرف ایک برگزیدہ انسان تھے اور حق کی خاطر کھڑے ہوئے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی دی.بظاہر دشمن یہ سمجھتا ہو گا کہ اس نے آپ کو شہید کر دیا.مگر آج اگر یزید دنیا میں واپس آئے (اگر چہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت نہیں کہ مردے دنیا میں واپس آئیں تو کیا تم میں سے کوئی یہ خیال کر سکتا ہے کہ وہ یزید ہونے کو پسند کرے گا.جس دن حضرت امام حسین شہید ہوئے.وہ کس قدر غرور اور فخر کے ساتھ اپنے آپ کو دیکھتا ہو گا اور اپنی کامیابی پر کس قدر نازاں ہو گا.لیکن آج اگر اسے اختیار دیا جائے کہ وہ امام حسین کی جگہ کھڑا ہو نا چاہتا ہے یا یزید کی جگہ تو وہ بغیر ایک لمحہ کے توقف کے کہہ اٹھے گا کہ میں دس کروڑ دفعہ امام حسین کی جگہ کھڑا ہونا چاہتا ہوں.اور اگر حضرت امام حسین سے کہا جائے کہ وہ یزید کی جگہ ہونا پسند کریں گے یا اپنی جگہ تو وہ بغیر کسی لمحہ کے توقف کے کہہ اٹھیں گے کہ دس کروڑ دفعہ اسی جگہ پر جہاں وہ پہلے کھڑے ہوئے تھے.کسی اور سے فیصلہ کرانے کی ضرورت نہیں.اگر یزید خود آئے تو اس کا اپنا فیصلہ بھی یہی ہو گا.فرعون اپنے زمانہ حکومت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کیا سمجھتا ہو گا.وہ ہنستا اور کہتا تھا کہ یہ شخص پاگل ہے.اس کا دماغ خراب ہے.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے اپنی قوم کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے مجنون ہے.لیکن اگر آج فرعون کی روح دوبارہ دنیا میں لائی جائے تو بتاؤ کیا وہ اسی تخت پر بیٹھنا پسند کرے گا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ادنیٰ خادموں میں کھڑا ہونا.وہ بغیر ایک لمحہ کے سوچنے کے کہہ اٹھے گا کہ میں موسیٰ کے ادنی ترین خادموں میں کھڑا ہو نا زیادہ پسند کرتا ہوں.حضرت عیسی علیہ السلام کو جن لوگوں نے پھانسی دی.وہ افسر اور وہ مجسٹریٹ جس نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ شخص حکومت کا مخالف اور لائق تعزیر ہے.اور وہ علماء جنہوں نے یہ کہا کہ یہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے.اگر آج انہیں دوبارہ دنیا میں لایا جائے اور پوچھا جائے کہ بقول ان کے وہ ذلیل ، ا چھی جو اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے.ان کے ساتھ کھڑا ہونا وہ زیادہ پسند کریں گے یا اس بات کو کہ ان کو روم کا شہنشاہ بنا دیا جائے.تو وہ ایک منٹ کے لئے بھی غور کئے بغیر کہ اٹھیں گے وہ ان ماچھیوں کی رفاقت کو زیادہ پسند کرتے ہیں.آج پیٹر اور یعقوب کے نام پر کروڑوں عیسائی جان دینے کے لئے تیار ہیں.مگر اس زمانہ کے گورنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو کوئی جانتا بھی نہیں.پس تم میں سے بھی جو حزب اللہ میں اپنے آپ کو شامل کرلے گا اللہ تعالی کی نصرت اس کی ویسی ہی مدد کرے گی.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ گھبرا جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت کے بعض مجسٹریٹ جماعت کے خلاف بہت برے ریمارکس کرتے ہیں.مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے ہی ریمارکس حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کے زمانہ میں ہوتے تھے.رسول کریم میلی لی کے زمانہ میں بھی ایسی باتیں کہی جاتی تھیں.لیکن انہیں بادشاہوں اور گورنروں اور افسروں کو اگر سو دو سو سال بعد دنیا میں لایا جائے تو
43 یہی کہیں گے کہ وہ باتیں سب جھوٹ تھیں.اور ہمیں اس سلسلہ کی ادنی خدمت ہی زیادہ پسند ہے.جھوٹ خواہ کسی بادشاہ کی زبان سے نکلے یا وزیر کی زبان ہے.خواہ کسی وائسرائے کی زبان سے نکلے یا گور نر کی زبان سے آخر جھوٹ ہے اور جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے.ظلم کبھی کسی کو عزت نہیں دے سکتا اس لئے اگر تم ظلم کو نکال دو اور حزب اللہ میں داخل ہو جاؤ اپنے اندر سے علم کو نکال دو اور حزب اللہ میں داخل ہو جاؤ تو تمہیں کوئی خفیہ تدبیریں اور منصوبے جیسے آج بعض حکام کی مدد سے کئے جا رہے ہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے.یہ سب جھاگ ہے اور جھاگ ہمیشہ مٹ جاتی ہے اور پانی قائم رہتا ہے.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ تم حزب اللہ بن جاؤ.اسلام اور اللہ تعالیٰ کی محبت ، نیکی، سچائی ہمت اپنے دلوں میں پیدا کر و.دنیا کی بہتری کی کوشش میں لگ جاؤ.اور بنی نوع کی خدمت کا شوق اپنے دلوں میں پیدا کرو.اسلام کا کامل نمونہ بن جاؤ.پھر خواہ دنیا تمہیں سانپ اور بچھو بلکہ پاخانہ اور پیشاب سے بھی بد تر سمجھے تم کامیاب ہو گے اور خواہ کتنی طاقتور حکومتیں تمہیں مٹانا چاہیں.وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گی.اور تم جو آج اس قدر کمزور سمجھے جاتے ہو.تم ہی دنیا کے روحانی بادشاہ ہو گے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم کو دنیا کی بادشاہت مل جائے گی بلکہ میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ تم تحصیلدار بن جاؤ گے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ تم ایک کانسٹیبل ہی بن جاؤ گے.ظاہری حیثیت خواہ تمہاری چپڑاسی سے بھی بد تر ہو.مگر دنیا پر قیامت نہیں آئے گی کہ جب تک کہ تم کو بادشاہوں سے بڑا اور تم پر ظلم کرنے والوں کو ادنی نوکروں سے بھی بد تر نہیں بنا دیا جائے گا.قرآن کریم یہی بتاتا ہے کہ تم پر ظلم کرنے والوں کو جب تک ذلیل ترین وجودوں کی شکل میں اور تم کو معزز ترین صورت میں پیش نہ کیا جائے ، قیامت قائم نہیں ہو گی.بے شک تم مر چکے ہو گے.بلکہ تم میں سے بعض کی نسلیں بھی باقی نہ ہو نگی.مگر نیک نامی کے مقابلہ میں نسلیں چیز ہی کیا ہیں.آج یہ بحث ہوتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی اولاد تھی یا نہیں.لیکن کیا ان کی اولاد نہ ہونے سے یا اگر تھی تو معلوم نہ ہونے سے ان کی عزت کو کوئی نقصان پہنچا ہے.ان کی زندگی میں روم کے بادشاہ کو شاید ان کا علم بھی نہ ہو.مگر آج روم کی ہی حکومت نہیں.بلکہ ویسی ہی بیسیوں اور حکومتیں ان کی روحانی بادشاہت کے ماتحت ہیں.اٹلی، جرمنی، فرانس ، سپین ، آسٹریا، ہنگری، پولینڈ رومانیہ بلغاریہ اور چیکو سلاو یکیہ سب حضرت عیسی علیہ السلام کی روحانی رعایا ہیں.اس زمانہ میں رومی سلطنت کا ایک چپڑاسی بھی آکر کہتا کہ چلئے آپ کو بلاتے ہیں تو آپ کی مجال نہ ہو سکتی تھی کہ انکار کریں.اس وقت آپ کے مخالف آپ کو دکھ دینے کے لئے مشہور کرتے تھے کہ آپ حکومت کے دشمن ہیں اور خود بادشاہ بنا چاہتے ہیں جیسا کہ آج کل ہمارے مخالف ہمارے خلاف شور کرتے ہیں.ایک دفعہ اس سلسلہ میں آپ سے سوال کیا گیا کہ کیا قیصر روم کو ٹیکس دینا جائز ہے.اس سوال سے یہ غرض تھی کہ اگر تو ب کہیں گے کہ ٹیکس دینا جائز ہے تو یہودی کہہ سکیں گے کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ کس طرح ہو سکتا ہے جو روم کو ٹیکس دینا جائز قرار دیتا ہے.اور اگر کہیں گے کہ
44 ٹیکس مت دو تو حکومت کا باغی قرار پائیں گے.آپ نے اس سوال کا جواب ایک اور سوال سے دیا کہ روم کے سپاہی آپ لوگوں سے کیا مانگتے ہیں.اس کے جواب میں سوال کرنے والوں نے کہا کہ روپیہ مانگتے ہیں.اس پر آپ نے کہا کہ روپیہ پر کس کی تصویر ہے.سوال کرنے والوں نے کہا کہ روم کے بادشاہ کی.اس پر آپ نے فرمایا.جو چیز قیصر کی ہے وہ اسے دو اور جو خدا کی ہے وہ خدا کو دو.(متی باب ۲۲ آیت ۲۱) اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تم سے فقط دین مانگتا ہوں ٹیکس بادشاہ کا حق ہے وہ اسے دو.یہی ہم کہتے ہیں کہ جو چیز انگریز کی ہے وہ اسے دو.انگریز ٹیکس مانگتا ہے جو اسے دینا چاہئے.مگر ہم دن مانگتے ہیں.انگریز دل نہیں مانگتا.اور مانگ بھی نہیں سکتا جو تلوار روپیہ لیتی ہے وہ اس کے پاس ہے اور جو دل لیتی ہے وہ ہمارے پاس ہے.پس میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ حزب اللہ بنو.پھر دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہیں کامیاب کرتی ہے.اب بھی تمہیں اس کی نصرت حاصل ہے.مگر پھر خصوصی اور فردی نصرت حاصل ہو گی.آج کل کی نصرت کی مثال تو ویسی ہی ہے جیسے کسی کے گھر کو آگ لگے تو لوگ اس کا سامان اٹھا اٹھا کر باہر نکالتے ہیں.عزت تو اس کی ہوتی ہے مگر ساتھ ہی اس کے نوکر کا سامان بھی باہر اٹھا لاتے ہیں.محلہ کے لوگ بھی پہنچ جاتے ہیں.فائر بریگیڈ بھی پولیس بھی فرض کرو مکان کسی گور نر یا ڈپٹی کمشنر کا ہو تو جس جوش سے لوگ اس کا سامان نکالتے ہیں اس جوش سے اگر اس کے نوکر کے گھر میں آگ لگے تو کبھی نہ نکالیں گے.لیکن اسی نوکر کا سامان جب آقا کے سامان کے ساتھ ملا ہو تا ہے تو اس کو بھی احتیاط سے نکال لیا جاتا ہے.لیکن یہ نکالنا طفیلی ہوتا ہے اسی طرح اب بھی اللہ تعالیٰ تمہاری مدد تو کرتا ہے.مگر یہ لیکن اگر تم حزب الله مدد طفیلی ہے.اگر تم حزب اللہ میں داخل ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ کی ذاتی نصرت حاصل ہو جائے گی میں داخل ہو جاؤ تو پھر تمہیں ذاتی نصرت بھی حاصل ہو گی اور طفیلی بھی.اس وقت تمہاری نصرت اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ سمجھتا ہے اس کی ذلت سے سلسلہ کی ذلت ہوگی.مگر حزب اللہ میں داخل ہونے کے بعد اس لئے بھی نصرت ہو گی کہ اللہ تعالیٰ کہے گا اس کی ذلت سے میری ذلت ہو گی.اگر یہ بد نام ہوا تو چونکہ یہ میرا دوست ہے اس لئے مجھ پر الزام آئے گا کہ میں نے دوست سے وفاداری نہیں کی.دیکھو اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات میں کتنا عظیم الشان نشان دکھایا ہے.گو تم نے اس زمانہ کو نہیں پایا.مگر ہم نے اسے پایا اور دیکھا ہے.پس اس قدر قریب کے زمانہ کے نشانات کو اپنے خیال کی آنکھوں سے دیکھنا تمہارے لئے کوئی زیادہ مشکل نہیں.اور نشانات کو جانے دو بیت مبارک کو ہی دیکھو.بیت مبارک میں ایک ستون مغرب بیت مبارک کی ترقی سے مشرق کی طرف کھڑا ہے.اس کے شمال میں جو حصہ بیت کا ہے.یہ اس زمانہ کی بیت تھی اور اس میں نماز کے وقت کبھی ایک اور کبھی دو سطریں ہوتی تھیں.اس ٹکڑا میں تین دیوار میں ہوتی
45 تھیں.ایک تو دو کھڑکیوں والی جگہ میں جہاں آج کل پریدار کھڑا ہوتا ہے اس حصہ میں امام کھڑا ہو ا کر تا تھا اور پھر جہاں اب ستون ہے وہاں ایک اور دیوار تھی اور ایک دروازہ تھا.اس حصہ میں صرف دو قطار میں نمازیوں کی کھڑی ہو سکتی تھیں اور فی قطار غالبا پانچ سات آدمی کھڑے ہو سکتے تھے.اس حصہ میں اس وقت کبھی ایک قطار نمازیوں کی ہوتی اور کبھی دو ہوتی تھیں.مجھے یاد ہے کہ جب اس حصہ بیت سے نمازی بڑھے اور آخری یعنی تیسرے حصہ میں نمازی ہوئے تو ہماری حیرت کی کوئی حد نہ رہی تھی.گویا جب پندرھواں یا سولہواں نمازی آیا تو ہم حیران ہو کر کہنے لگے کہ اب تو بہت لوگ نماز میں آتے ہیں.تم نے غالبا غور کر کے وہ جگہ نہیں دیکھی ہو گی.مگر وہ ابھی تک موجود ہے.جاؤ اور دیکھو.کا طریق تھا کہ وہ پرانی باتوں کو کبھی کبھی عملی رنگ میں قائم کر کے بھی دیکھا کرتے تھے.اس لئے تم بھی جا کر دیکھو اس حصہ کو الگ کر دو جہاں امام کھڑا ہو تا ہے اور پھر وہاں فرضی دیوار میں قائم کرو اور پھر جو باقی جگہ بچے اس میں جو سطریں ہوں گی ان کا تصور کرو.اور اس میں تیسری سطر قائم ہونے پر جو ہمیں حیرت ہوئی کہ کتنی بڑی کامیابی ہے اس کا قیاس کرو.اور پھر سوچو کہ خدا تعالیٰ کے فضل جب نازل ہوں تو کیا سے کیا کر دیتے ہیں.مجھے یاد ہے ہمارا ایک کچا کوٹھا ہو تا تھا اور بچپن میں کبھی کھیلنے کے لئے ہم اس پر چڑھ جایا کرتے تھے.اس پر چڑھنے کے لئے جن سیڑھیوں پر ہمیں چڑھنا پڑتا تھا وہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کے پاس سے پڑھتی تھیں.اس وقت ہماری تائی صاحبہ جو بعد میں آکر احمدی بھی ہو گئیں.مجھ دیکھ کر کہا کرتی تھیں کہ ” جیسو جیا کاں او ہو جئی کو کو " میں بوجہ اس کے کہ میری والدہ ہندو ستانی ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ بچپن میں زیادہ علم نہیں ہو تا.اس پنجابی فقرہ کے معنی نہیں سمجھ سکتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ میں نے اپنی والدہ صاحبہ سے اس کے متعلق پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے فرمایا کہ اس کے سننے یہ ہیں کہ جیسا کوا ہو تا ہے ویسے ہی اس کے بچے ہوتے ہیں.کوے سے مراد (نعوذ باللہ تمہارے ابا میں اور کو کو سے مراد تم ہو.مگر پھر میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے کہ وہی تائی صاحبہ اگر میں کبھی ان کے ہاں جاتا تو بہت عزت سے پیش آتیں.میرے لئے گدا بچھاتیں اور احترام سے بٹھاتیں اور ادب سے متوجہ ہو تیں اور اگر میں کہتا کہ آپ کمزور ہیں.ضعیف ہیں ، ہمیں نہیں یا کوئی تکلف نہ کریں تو وہ کہتیں آپ تو میرے پیر ہیں.گویا وہ زمانہ بھی دیکھا جب میں کو کو تھا اور وہ بھی جب میں پیر بنا اور ان ساری چیزوں کو دیکھ کر تم سمجھ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ جب دنیا کو بدلنا چاہتا ہے تو کس طرح بدل دیتا ہے.پس ان انسانوں کو دیکھو اور ان سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے اندر وہ تبدیلی پیدا خدا تعالیٰ کے محبوب بن جاؤ کرو کہ جو تمہیں خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دے اور تم حزب اللہ میں داخل ہو جاؤ.مجھے افسوس ہے کہ تمہید میں ہی زیادہ وقت صرف ہو گیا اور ابھی گھنٹی نے بتایا ہے کہ ساڑھے تین بج چکے ہیں.پس چونکہ تھوڑی دیر میں ہی عصر کا وقت ہو جائے گا.اس لئے میں مضمون کو ختم نہیں کر سکتا.اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں اسے ختم کروں گا.لیکن اس وقت پھر اختصار سے جماعت کے نوجوانوں کو خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر کے.توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دوں میں ایک عزم اور ارادہ لے کر کھڑے ہوں کہ ہم نے
46 خداتعالی کو حاصل کرنا ہے.اور اس طرز پر اپنی زندگیاں گزاریں کہ ان کا وجو د ہی خداتعالی کا نشان بن جائے.یہ نہ ہو کہ صرف ان کی زبانیں نشانات بیان کریں بلکہ ایسا ہو کہ ان کے جسم بھی خدا تعالیٰ کا نشان بن جائیں اور یہ کچھ بعید نہیں کیونکہ خدا تعالٰی نے ان کے لئے بھی اپنے فضلوں کے دروازے ویسے ہی کھلے رکھے ہیں جیسے ان سے پہلوں کے لئے کھولے گئے تھے." (خطبه جمعه فرموده ۱۸ اپریل ۱۹۳۸ء.الفضل ۱۱۳اپریل ۱۹۳۸ء)
47 تمام احمدی جماعتیں اپنے اپنے ہاں نو جوانوں کو منظم کریں چھوٹے بچوں کی تربیت کا بھی انتظام کیا جاۓ قوموں کی ترقی کا نوجوانوں سے گہرا تعلق مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کی ضرورت سلسلہ کے وقار کا تحفظ اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کیلئے کام کی ترغیب مجلس خدام الاحمدیہ کا مقصد ال بچوں میں اخلاق حسنہ کی داغ بیل ڈالنا بچوں میں تین بنیادی عادات پیدا کریں ا محنت کی عادت ۲ - بیچ کی عادت ۳- نماز کی عادت خطبه جمعه فرموده ۱۵- اپریل ۱۹۳۸ )
48 گذشتہ خطبات میں میں نے مجالس خدام الاحمدیہ کے متعلق بعض باتیں کہی تھیں اور اسی سلسلہ میں میں آج پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قومی نیکیوں کے تسلسل کے قیام کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس قوم کے بچوں کی تربیت ایسے ماحول اور ایسے رنگ میں ہو کہ وہ ان اغراض اور مقاصد کو پورا کرنے کے اہل ثابت ہوں جن اغراض اور مقاصد کو لے کر وہ قوم کھڑی ہوئی ہو.جب تک کسی قوم کا کوئی خاص مقصد اور مدعا نہیں ہو تا ، اس وقت تک اس کے لئے صرف اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کو اس زمانہ کی ضرورت کے مطابق کوئی تعلیم دلا دے یا عام علوم سے واقفیت بہم پہنچا دے یا بعض پیشے انہیں سکھا دے.جب کوئی قوم اتنا کام کر لیتی ہے تو وہ اپنے فرض سے سبکدوش سمجھی جاتی ہے.لیکن جب کوئی قوم ایک خاص قوم کامد عا اور مقصد نو جوانوں کے دماغوں میں راسخ کر دیا جائے مقصد اور مدعا لے کر کھڑی ہوئی ہو تو اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس مقصد اور مدعا کو نوجوانوں کے ذہنوں میں پورے طور پر داخل کرے اور ایسے رنگ میں ان کی عادات اور خصائل کو ڈھالے کہ وہ جب بھی کوئی کام کریں خواہ عاد تاکریں یا بغیر عادت کے کریں، وہ اس جہت کی طرف جارہے ہوں جس جہت کی طرف اس قوم کے اغراض و مقاصد اسے لئے جار ہے ہوں.جب تک کسی قوم کے نوجوان اس رنگ میں کام نہیں کرتے اس قوم کی ترقی کا نو جوانوں سے گہرا تعلق وقت تک اسے ترقی حاصل نہیں ہوتی.رسول کریم ملایر جب تشریف لائے ہیں اس وقت عرب کا کوئی مذہب نہیں تھا.اس وجہ سے جو بات بھی آپ بیان فرماتے وہ عربوں کے لئے نئی ہوتی اور ان میں سے ہر شخص جو مسلمان ہو تا ، اس بات کو ذہن میں رکھ کر مسلمان ہو تا تھا کہ پچھلی تمام باتیں اس نے ترک کر دینی ہیں.پس اس زمانہ میں مسلمان ہونے کا مقصد اور مدعا آپ ہی آپ سامنے آجا تا تھا اور کوئی خاص زور دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی کیونکہ یک دفعہ ہر شخص یہ فیصلہ کر لیتا تھا کہ اسے اپنی گذشتہ تمام باتیں ترک کرنی پڑیں گی اور نئے مقاصد ، نئی اغراض ، نئی شریعت اور نئے احکام اس کے سامنے ہونگے.خالص تشریعی سلسلے کے مقابلے پر خالص اصلاحی سلسلے کو زیادہ دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن جب کوئی ایسا سلسلہ شروع ہو جس کی بنیاد پہلے مذہب پر ہو اور وہ خالص اصلاحی سلسلہ ہو ، تشریعی نہ ہو تو اس کے لئے اس مقام میں پہلی جماعتوں سے زیادہ وقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض قسم کی دقتیں پہلی جماعت کو زیادہ ہوتی ہیں.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض قسم کی ، قتیں اصلاحی سلسلہ کو زیادہ ہوتی ہیں.چنانچہ انہی دقتوں میں سے ایک وقت یہ ہے کہ ایسے سلسلہ کے افراد کو اس سلسلہ کے مقاصد اور
49 اغراض سمجھانے کے لئے جد و جہد کرنی پڑتی ہے.جب نوجوانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ تمہارا دین کوئی نیا دین نہیں تو قدرتی طور پر ان کا ذہن یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ سوائے چند مستثنیات کے جن میں ہمارے آباء نے غلطی کی اور وہ اصل شریعت سے دور جاپڑے ، ہر پچھلی چیز کو ہم نے قائم کرنا ہے.اس وجہ سے ان کے ذہن میں کوئی امتیازی بات نہیں آتی اور وہ اس امر کے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ہم میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے لیکن جب نیا دین ہو یا پہلے دین کی بعض باتوں میں تغیر و تبدل ہو تو وہ ہر قدم کے اٹھاتے وقت یہ پوچھ لیتے ہیں کہ کیوں جی ایہ کام ہم نے اس طرح کرنا ہے یا اس طرح.حضرت مسیح ناصری کے زمانہ میں جب آپ کے متبعین کے دلوں میں فقیہیوں اور فریسیوں کے متعلق یہ سوال پیدا ہوا کہ ہم ان کی باتوں کو مانیں یا نہ مانیں اور انہوں نے حضرت مسیح ناصری سے یہی سوال کیا تو چونکہ معلوم ہوتا ہے اس زمانہ میں شریعت موسویہ میں لوگوں نے زیادہ تغیر پیدا نہیں کیا تھا.چند نئی باتیں تھیں جو حضرت مسیح نے اپنے پیاز کی وعظ میں بتا دیں اس لئے حضرت مسیح نے فرمایا فقیہہ اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں.پس جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کزو او ر مانو.لیکن ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں ".(متی ۲-۲۳/۳) گویا بد عقیدگی ان میں کم تھی اور بد اعمالی زیادہ تھی.اسی لئے آپ نے یہ ہدایت دی کہ جو قیمی اور فریبی کہتے ہیں اس پر بے شک عمل کرو مگر ان کے اعمال کی نقل نہ کرو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے زمانہ کی حالت اس زمانہ سے بالکل مختلف ہے.اس زمانہ میں مشالا تو رات میں بہت سے تغییرات کئے جاچکے ہیں مگر باوجو د تغیرات کے اور باوجود تحریف والحاق کے یہودی اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ ہماری کتاب محفوظ ہے.مگر ہمیں ایک ایسی قوم سے واسطہ پڑا ہے جو اس کے بالکل انٹ چلتی ہے.یعنی تو رات میں تو تبدیلی ہو چکی تھی اور یہودی قوم یہ اصرار کرتی تھی کہ اس میں تبدیلی نہیں ہوئی مگر قرآن جو کہ بالکل محفوظ ہے.اس کے متعلق مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اس کی کئی آیتیں منسوخ ہیں.اب یہ کتنا عظیم الشان اختلاف ہے.اس زمانہ کے یہودیوں اور اس زمانہ کے مسلمانوں میں وہ باوجود کتاب کے بگڑ جانے کے کہتے تھے کہ ہماری کتاب بالکل محفوظ ہے اور مسلمان باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کہتاہے کہ اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار میں اور اس کے ایک حرف اور ایک شعشہ کی تبدیلی بھی ناممکن ہے مسلمان یہ کہتے ہیں اس کی بہت سی آیتیں منسوخ ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں قرآنی احکام پر عمل کرنے کا جوش باقی نہیں رہا.کیونکہ انہیں خدا تعالیٰ کے کلام میں شک پیدا ہو گیا اور جب کسی حکم کے متعلق شک پیدا ہو جاتا ہے تو جوش عمل باقی نہیں رہتا اور ہر بیت پر عمل کرتے وقت انسانی قلب میں یہ وسوسہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ممکن ہے جس آیت پر میں عمل کر رہا ہوں یہ منسوخ ہی ہو.چنانچہ پانچ آیتوں سے لیکر چھ سو آیتوں تک منسوخ قرار دی جاتی ہیں.یعنی بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ قرآن کریم کی پانچ آیتیں منسوخ ہیں اور بعض نے زیادہ.یہاں تک کہ بعض علماء نے منسوخ آیات کی تعداد چھ سو تک پہنچادی ہے.اب چھ سو آیتیں قرآن مجید کا ایک معتد بہ حصہ ہیں جن کو اگر الگ کر لیا جائے تو ایک خاصہ حصہ علیحدہ ہو جاتا ہے مگر مسلمانوں کو اس امر کی کوئی پرواہ نہیں.ان کی کتابوں میں یہ باتیں لکھی ہوئی ہیں اور اب تک مسلمان اس کے
50 قائل ہیں.شیعہ لوگوں نے گو اس رنگ میں قرآنی آیات کو منسوخ قرار نہیں دیا مگر انہوں نے اتنا ضرور کہہ دیا ہے کہ قرآن کریم کے بعض حصے اڑا لئے گئے ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اور اس کی صفات کے متعلق مسلمانوں میں بیسیوں غلطیاں پائی جاتی ہیں.یہ نہیں کہ شروع سے مسلمانوں میں یہ غلطیاں پائی جاتی تھیں.بلکہ قریب زمانہ میں آکر مسلمانوں میں یہ غلطیاں پیدا ہوئی ہیں ورنہ قرون اولیٰ کا لٹریچر انہیں عقائد کی تائید کرتا ہے جو آج ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں.سوائے اس حصہ قرآن کی تشریح کے جو اس زمانہ سے تعلق نہیں رکھتا تھا بلکہ موجودہ زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.قرآن کریم کے بعض حصے ایسے ہیں جو پہلے زمانہ سے تعلق رکھتے تھے اور بعض حصے ایسے ہیں جو خصوصیت سے اس زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں.پس جو حصہ قرآن کریم کا پہلے زمانہ سے تعلق رکھتا تھا اس میں قرون اولی کے صحابہ ، آئمہ اور مجددین ہماری ہی تائید میں نظر آتے ہیں اور یہ تمام ان کی کتابوں میں اب تک موجود ہیں.گو بد قسمتی سے مسلمان انہیں بھول چکے ہیں.غرض اس وقت نہ صرف مسلمانوں کے اعمال میں نقص ہے بلکہ ان کے عقائد اور ان کے خیالات بھی قابل اصلاح ہیں.ایسی حالت میں جب تک نوجوانوں میں بیداری پیدا نہ کی جائے اور انہیں یہ ہدایت نہ کی جائے کہ وہ اپنا قدم پھونک پھونک کر رکھیں اس وقت تک ہم میں بھی بعض غلطیاں پیدا ہونے کا امکان ہے.ہم ہمیشہ کہتے رہتے ہیں اور یہی صحیح امر ہے که قرآن کریم کی تبدیلی ناممکن ہے.ہم ان غلطیوں کو دور کرنے کیلئے کھڑے ہوئے ہیں جو مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں.اس ہم صرف ان غلطیوں کو دور کرنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے خدام الاحمدیہ کا قیام ضروری ہے کیلئے کھڑے ہوئے ہیں جو مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں اور چونکہ اس رنگ میں انسان بعض دفعہ ست بھی ہو جاتا ہے.اس لئے اپنے کام کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں بہت زیادہ بیداری اور ہوشیاری کی ضرورت ہے.میں نے بتایا تھا کہ قوم کے نوجوانوں کے اندر اس قسم کی بیداری اور ہوشیاری پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر جگہ مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی جائے اور اس میں ایسے نوجوان شامل کئے جائیں جو عملی رنگ میں اپنی ایسی اصلاح کرنے کیلئے تیار ہوں کہ ان کا وجود دوسروں کے لئے نمونہ بن جائے.علاوہ ازیں بعض اور بھی نقائص ہیں جو مسلمانوں میں پائے جاتے.زمانہ کی مخفی رو کا اثر ہماری جماعت پر نہ ہو.خدام الاحمدیہ کے قیام کے غرض و غایت اور جو زمانہ کی مخفی رویا ورثہ کے اثرات کے ماتحت ہماری جماعت کے بعض افراد میں بھی پائے جاتے ہیں.ایسی مجالس کے قیام کی ایک غرض ان نقائص کو دور کرنا بھی ہوگی.مثلا ہندوستانی ایک عرصہ سے غلامی کی زندگی بسر
51 کرتے چلے آرہے ہیں.اور میں نے بار ہا بتایا ہے کہ غلامی کی زندگی اپنے ساتھ بعض نہایت ہی تلخ اور ناخوشگوار نتائج لاتی ہے.مثلاً غلامی کی ذہنیت جن لوگوں کے اندر پیدا ہو جائے وہ کبھی کوئی بڑا کام غلام قوم اور آزاد قوم میں فرق نہیں کر سکتے.فاتح اقوام ہمیشہ اس کوشش میں رہتی ہیں کہ غیر حکومتوں کے مقابلہ میں ہماری تجارت اعلیٰ ہو ، غیر حکومتوں کے مقابلہ میں ہماری دفاعی کوششیں مضبوط ہوں ، غیر حکومتوں کے مقابلہ میں ہمارا تعلیمی معیار زیادہ بلند ہو ، غیر حکومتوں کے مقابلہ میں ہماری صنعت و حرفت نہایت بلند پایہ ہو اسی طرح اور بیسیوں باتیں ہیں جو ان کے دلوں میں جوش پیدا کرتی رہتی ہیں اور ہر سال ان باتوں پر جھگڑے رونما ہوتے رہتے ہیں.جس کے نتیجہ میں قوم میں بیداری اور بلند خیالی پیدا ہو جاتی ہے مگر غلام قوم کے معنی یہ ہیں کہ اس کی تمام جد وجہد صرف اس امر پر آکر ختم ہو جاتی ہے کہ مزدوری کی اور پیٹ پال لیا یا مدرسے گئے اور تعلیم حاصل کرلی.بظاہر یہ ایک آرام کی زندگی نظر آتی ہے مگر دماغی لحاظ سے قتل عامہ کی حیثیت رکھتی ہے.کیونکہ تمام قوم کا ذہن مردہ کر دیا جاتا ہے اور وہ قوم مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے.اس کی مثال بالکل اس طوطے کی سی ہو جاتی ہے جسے کئی سال تک پنجرے میں بند رکھنے کے بعد جب آزاد کیا جاتا ہے تو وہ ادھر ادھر پھدک کر پھر پنجرے میں ہی آ بیٹھتا ہے.کیونکہ اڑنے کی ہمت اس میں باقی نہیں رہتی.اسی طرح غلام قوموں میں سستی اور غفلت کو امن اور آرام سمجھا جاتا ہے اور امنگوں کا فقدان اس قوم میں اطمینان قرار پاتا ہے.جب ان میں سے کوئی شخص یہ کہہ رہا ہو تا ہے کہ میں بڑے اطمینان کی زندگی بسر کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرا دل امنگوں سے بالکل خالی ہے اور جب وہ یہ کہتا ہے کہ دیکھو مجھے کیا امن اور چین نصیب ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر قسم کی جد وجہد اور ترقی کے راستے مسدود ہو چکے ہیں.غرض ان عیوب اور نقائص کو دور کرنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے.کیونکہ ہمیں جو تعلیم دی گئی ہے وہ انسانی امنگوں اور جذبات کو کچلتی نہیں بلکہ انہیں بڑھاتی اور ترقی دیتی ہے.وہ تعلیم ہمیں یہی بتاتی ہے کہ خدا نے کسی انسان کو غلام نہیں بنایا اور کوئی انسان کسی دوسرے کو غلام بنا بھی نہیں سکتا جب تک وہ خود غلام نہ بن جائے.اس تعلیم کے ماتحت ہمیں یہ یقین رکھنا چاہئے کہ ترقی کا جب کوئی ایک راستہ ہمارے لئے مسدود ہو جائے تو اللہ تعالٰی بعض اور راستے ہمارے لئے کھول دیتا ہے اور اگر ہم ان راستوں کو اختیار کریں تو بالکل ممکن ہے کہ جو آج ہم پر افسر ہیں وہ کل ہمارے غلام ہو جائیں.مثلا انہیں ذرائع میں سے ایک ذریعہ اخلاقی برتری کے ہوتے ہوئے کوئی قوم غلام نہیں رہ سکتی تبلیغ ہے یا اپنی اخلاقی برتری کا ثبوت مہیا کرنا ہے.دنیا میں اخلاقی برتری کے ہوتے ہوئے کبھی کوئی قوم غلام نہیں ہو سکتی.غلام وہی قوم ہو گی جو اخلاق میں بھی پست ہو گی.ہمارے ملک میں عام طور انگریزوں کو برا سمجھا جاتا ہے لیکن اگر ان بعض خیالات اور عقائد کو مستثنیٰ کر کے جن میں ہمارا اور ان کا اختلاف ہے اور جن میں ہم انہیں غلطی پر سمجھتے ہیں، عملی رنگ میں ان کو
52 دیکھا جائے تو ایک ہندوستانی اور انگریز میں زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے.ایک انگریز کی کوشش ، اس کی جد وجہد اس کی قربانی اور اس کا ایثار اتنا نمایاں ہوتا ہے کہ ایک ہندوستانی کی جدوجہد کی اس سے کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی.وہ یورپ سے چلتے اور ہندوستان میں آکر سالہا سال تک تبلیغ کرتے ہیں.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ یہ پادری کیا ہیں.انگریزوں نے انہیں اپنے سیاسی غلبہ کے حصول کا ایک ذریعہ بنایا ہوا ہے.پھر اگر ان کی تبلیغ کا ذکر آئے تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اجی ان کی تبلیغ اپنے فائدہ کیلئے ہے.مگر سوال یہ ہے کہ وہ اپنے فائدہ کے لئے جو قربانیاں کرتے ہیں کیا اس قسم کی قربانیاں ایک ہندوستانی نہیں کر سکتا؟ وہ چالیس چالیس پچاس پچاس بلکہ ساتھ ساٹھ سال تک ہندوستان میں رہتے ہیں.یہیں بوڑھے ہوتے اور یہیں مرجاتے ہیں اور واپس جانے کا نام تک نہیں لیتے.مگر ایک ہندوستانی یا تو آوارہ ہو کر گھر سے نکلے گا یا اگر آوارہ نہ ہو گا تو غیر ملک میں جانے کے چند سال کے بعد ہی شور مچانا شروع کر دے گا کہ مجھے واپس بلوالو.غرض یا تو وہ آوارہ ہو کر گھر سے نکلتا ہے اور اگر آوارہ ہو کر گھر سے نہیں نکلتا تو غیر ممالک میں ہمیشہ بے کل رہتا ہے اور واپسی کے لئے کوشش کرتا رہتا ہے.اس کے مقابلہ میں یورپین قومیں آوارہ ہو کر اپنے ممالک سے نہیں نکلتیں.وہ کام کے لئے نکلتی ہیں اور پھر جب کسی دوسرے ملک میں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں تو گھبراتی نہیں اور جو تکلیف بھی انہیں برداشت کرنی پڑے ، اسے خوشی سے برداشت کرتی ہیں.مگر یہ نتیجہ ہے ان کی آزادی اور حریت کا اور ہمارے آدمیوں کی سستی اور غفلت نتیجہ ہے ان کی غلام ذہنیت کا.اگر یہ ذہنیت مٹ جاتی اور وہ سمجھ لیتے کہ ترقی کا صرف ایک ہی ذریعہ نہیں ہو تا بلکہ اور بھی بیسیوں ذرائع خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں تو وہ سستی اور غفلت میں مبتلا ہونے کے بجائے جد و جہد کرتے اور ایثار و قربانی سے کام لیتے اور پھر دیکھتے کہ اس کے کیسے خوشگوار نتائج نکلتے ہیں.جیسے ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب ایک ایسا طبقہ پیدا ہو چکا ہے جو یہ آواز سنتے ہی کہ آؤ اور خدمت دین کیلئے اپنی زندگی وقف کر دو‘ نہایت خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی وقف کر دیتا اور غیر ممالک میں نکل جاتا ہے.چنانچہ بعض تو بغیر کسی سرمایہ کے غیر ممالک میں کام کر رہے اور نہایت اچھا نمونہ دکھا رہے ہیں.خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض و غایت جماعت میں ارتقائی روح پیدا کرنا تو مجالس خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ نوجوانوں کے سامنے وہ مقاصد رکھے جائیں جن کے بغیر ان میں ارتقائی روح پیدا نہیں ہو سکتی اور جن کے بغیر جماعت کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی.ہمیں اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے اس وقت ایک ذہنی آزادی عطا کی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ہم میں سے ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ تھوڑے عرصہ کے اندرہی (خواہ ہم اس وقت تک زندہ رہیں یا نہ رہیں.لیکن بہر حال وہ عرصہ غیر معمولی طو.پر لمبا نہیں ہو سکتا، ہمیں تمام دنیا پر نہ صرف عملی برتری حاصل ہو گی بلکہ سیاسی اور مذہبی بر تری بھی حاصل ہو جائے
53 اب یہ خیال ایک منٹ کے لئے بھی بچے احمدی کے دل میں غلامی کی روح پیداہی نہیں ہو سکتی کسی ہے احمدی کے دل میں غلامی کی روح پیدا نہیں کر سکتا.جب ہمارے سامنے بعض حکام آتے ہیں تو ہم اس یقین اور وثوق کے ساتھ ان سے ملاقات کرتے ہیں کہ کل یہ نہایت ہی عجز اور انکسار کے ساتھ ہم سے استمداد کر رہے ہونگے.ہم انگریزی قوم کو عارضی طور پر مسلمانوں پر غالب دیکھتے ہیں.مگر مستقل طور پر اسے اسلام کا غلام بھی دیکھ رہے ہیں.ہماری مثال اس وقت ایسی ہی ہے جیسے کوئی بڑا آدمی جب کسی چھوٹے آدمی کے ہاں بطور مہمان جاتا ہے تو کچھ عرصہ کیلئے وہ اس کے قوانین کا پابند ہو تا ہے جیسے رسول کریم میں دل والوں نے بھی فرمایا ہے کہ خواہ کوئی کتنا بڑا آدمی ہو جب کسی دوسری جگہ جائے تو وہاں کے امام کے تابع ہو کر رہے ، خواہ وہ امام چھوٹا ہی ہو.اسی طرح جب گورنر کسی دورہ پر جاتا ہے تو گو وہ بڑا ہوتا ہے مگر ڈپٹی کمشنر کی مرضی اور اس کے بنائے ہوئے پروگرام کے ماتحت اسے کام کرنا پڑتا ہے.حضرت عمرؓ جب شام میں گئے تو حضرت ابو عبیدہ جو وہاں کے امیر تھے.انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کا پروگرام کیا ہو گا.حضرت عمرؓ نے فرمایا.یہاں میرا پروگرام نہیں بلکہ تمہارا پروگرام ہو گا اور جو کچھ تم کہو گے اسی طرح میں کروں گا.اب حضرت عمرؓ کا اس وقت ماتحتی قبول کر لینا یہ معنی نہیں رکھتا کہ حضرت عمرؓ نے دوسرے کی غلامی پسند کرلی.عمر بہر حال عمرؓ تھے.وہ حاکم تھے ، روحانی بادشاہ تھے اور خلیفہ وقت تھے.حضرت ابو عبیدہ ان کے تابع تھے مگر تھوڑی دیر کے لئے حضرت عمرؓ نے بھی ان کی ماتحتی اختیار کرلی.اسی طرح ہم جو دنیوی حکام کو ملتے ہیں تو اس رنگ میں ملتے ہیں کہ انہیں اس وقت عارضی طور پر ہم پر برتری حاصل ہے.مگر ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ کل وہ ہمارے شاگرد ہوں گے اور ہر قسم کی ترقی کے حصول کے سبق وہ ہم سے سیکھیں گے.اگر اس خیال کو ہم اپنی جماعت کے افراد کے ذہنوں میں پورے طور پر زندہ رکھیں اور اسے مضبوط کرتے چلے جائیں تو ایک منٹ کے لئے بھی ہماری جماعت کے نوجوانوں کے دلوں میں غلامی کا خیال پیدا نہیں ہو سکتا.جیسے اس بالا افسر کے دل میں غلامی کا خیال پیدا نہیں ہو سکتا جو تھوڑی دیر کے لئے کسی چھوٹے افسر کے ہاں جاتا اور اس کے پروگرام کا پابند ہو جاتا ہے.خدام الاحمدیہ کی غرض وغایت.سلسلہ کے وقار اور اسلام و احمدیت کی ترقی کے ضامن پس جماعت کے تمام دوستوں کو چاہئے کہ اپنے اپنے ہاں نوجوانوں کو منظم کریں اور ان کی ایک مجلس بنا کر خدام ا الاحمدیہ اس کا نام رکھیں اور انہیں سلسلہ کے وقار کے تحفظ اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے کام کرنے کی ترغیب دیں.گذشتہ خطبہ میں میں نے اس امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی.گو اتفاقی طور پر وقت زیادہ ہو جانے کی وجہ سے میں بعض باتیں بیان نہیں کر سکا تھا اور میں نے کہا تھا کہ اگلے خطبہ میں میں ان باتوں
54 کو بیان کروں گا.اس وقت میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگلے جمعہ کو تمام جماعتوں کے نمائندے آنے والے ہیں شاید آج اس مضمون کا کچھ حصہ رہ جانے میں یہی حکمت ہو کہ میں جماعت کے تمام دوستوں کو براہ راست اس امر کی طرف توجہ دلاؤں کیونکہ اخبار میں خطبہ کا پڑھ لینا اور بات ہے اور زبان سے کوئی بات سننا اور اثر رکھتا ہے.پس اب چونکہ تمام جماعتوں کے نمائندے یہاں آئے ہوئے ہیں اس لئے میں ان سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں میں جا کر نو جوانوں میں یہ تحریک کریں کہ وہ خدام الاحمدیہ نام کی مجالس قائم کریں.اس مجلس کے قواعد میں تجویز کر رہا ہوں اور بعض موٹے موٹے قواعد جو میں نے بتائے تھے وہ تو غالبا مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان نے شائع بھی کر دیئے ہیں.لیکن بہر حال تفصیلی قواعد انہیں پہنچ جائیں گے.اس وقت اس کے ایک اور حصہ کی طرف میں جماعت کے دوستوں کو بالخصوص مرکزی مجلس خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں اور وہ یہ کہ نوجوانی میں بے شک خدمت دین کا کام کرنا اچھا ہوتا ہے کیونکہ ادھیڑ عمر میں بعض دفعہ انسان ان کاموں کے کرنے کی ہمت کھو بیٹھتا ہے.مگر اس سے بھی بڑھ کر ایک اور کام ہے اور وہ یہ کہ بچوں کے بچوں میں اخلاق حسنہ کی داغ بیل ڈالنا اندر بھی یہی جذبات اور یہی خیالات پیدا کئے جائیں کیونکہ بچپن میں ہی اخلاق کی داغ بیل پڑتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض کاموں کی داغ بیل جوانی میں پڑتی ہے.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض کاموں کی داغ بیل بچپن میں پڑتی ہے.جوانی میں جن کاموں کی داغ بیل پڑتی ہے وہ بالعموم عملی ہوتے ہیں.جن کے ذریعے انسان کا ذہن برے اور بھلے کی تمیز کر لیتا ہے مگر قومیں صرف برے اور بھلے کی تمیز سے ہی ترقی نہیں کیا کرتیں بلکہ قوم کی ترقی کے لئے اچھی عادتوں کا ہونا بھی ضروری ہو تا ہے.بے شک عادت بعض لحاظ سے نقصان رساں بھی ہوتی ہے ، مگر عادت در حقیقت قومی ترقی کا ایک ضروری حربہ بھی ہوتی ہے.کسی قوم کو نیک اخلاق کی عادت ڈال دو وہ خود بخود باقی اقوام پر غالب آنے لگ جائے گی.اسی طرح جب کسی قوم میں بد عادات پیدا ہو جائیں وہ خود بخود گرتی چلی جاتی ہے اور اگر اسے کسی بات کی بھی عادت نہ ڈالو تو اس قوم میں ایک تزلزل رہے گا.کبھی اخلاقی رو غالب آگئی تو وہ ترقی کر جائے گی اور اگر اخلاقی رو دب گئی تو وہ گر اخلاقی رود بنے نہ پائے جائے گی.تو اصل حقیقی چیز یہ ہے کہ اچھی عادت بھی ہو اور علم بھی ہو.مگر یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جنب عادت کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے اور علم کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے.عادت کا زمانہ بچپن کا زمانہ ہوتا ہے اور علم کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتا ہے.پس خدام الاحمدیہ کی ایک شاخ ایسی بھی کھولی جائے جس میں پانچ چھ سال عمر کے بچوں سے لے کر پندرہ سولہ سال کی عمر تک کے بچے شامل ہو سکیں یا اگر کوئی اور حد بندی تجویز ہو تو اس کے ماتحت بچوں کو شامل کیا جائے.
55 بهر حال بچوں کی ایک الگ شاخ ہونی چاہئے اور بچوں کی اصلاح کے نگران بڑی عمر کے لوگ ہوں ان کے الگ نگران مقرر ہونے چاہئیں.مگر یہ امرید نظر رکھنا چاہئے کہ ان بچوں کے نگران نوجوان نہ ہوں بلکہ بڑی عمر کے لوگ ہوں.پس خدام الاحمدیہ کو اس مقصد کے ماتحت اپنے اندر کچھ بوڑھے نوجوان بھی شامل کرنے چاہئیں.یعنی ایسے لوگ جن کی عمریں گو زیادہ ہوں مگر ان کے دل جوان ہوں او ر وہ خدمت دین کے لئے نہایت بشاشت اور خوشی سے کام کرنے کے لئے تیار ہوں.ایسے لوگوں کے سپرد بچوں کی نگرانی کی جائے اور ان کے فرائض میں یہ امر داخل کیا جائے کہ وہ بچوں کو پنجوقتہ نمازوں میں باقاعدہ لائیں ، سوال و جواب کے طور پر دینی اور مذہبی مسائل سمجھائیں ، پریڈ کرائیں اور اسی طرح کے اور کام ان سے لیں.جن کے نتیجہ میں محنت کی عادت ، بیچ کی عادت اور بچوں میں تین بنیادی عادات پیدا کر دی جائیں نماز کی عادت ان میں پیدا ہو جائے.اگر یہ تمین عادتیں ان میں پیدا کر دی جائیں تو یقیناً جوانی میں ایسے بچے بہت کار آمد اور مفید ثابت ہو سکتے ہیں.پس بچوں میں محنت کی عادت پیدا کی جائے ، سچ بولنے کی عادت پیدا کی جائے اور نمازوں کی با قاعدگی کی عادت پیدا کی جائے.نماز کے بغیر اسلام کوئی چیز نہیں.اگر کوئی قوم چاہتی ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں میں اسلامی روح قائم رکھے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی قوم کے ہر بچہ کو نماز کی عادت ڈالے.ای طرح سچ کے بغیر اخلاق قومی ترقی کے تین معیار.اطفال کی تربیت کا اصولی پروگرام درست نہیں ہو سکتے.جس قوم میں سچ نہیں ، اس قوم میں اخلاق فاضلہ بھی نہیں اور محنت کی عادت کے بغیر سیاست اور تمدن کوئی چیز نہیں.جس قوم میں محنت کی عادت نہیں اس قوم میں سیاست اور تمدن بھی نہیں.گویا یہ تین معیار ہیں جن کے بغیر قومی ترقی نہیں ہوتی.پس خدام الاحمدیہ کے ارکان کو چاہئے کہ اپنی ایک شاخ بچوں کی بھی قائم کریں.مگر ان کے نگران ایسے لوگ مقرر کریں جو کم سے کم چالیس سال کے ہوں اور بہتر ہو گا اگر وہ اس سے بھی زیادہ عمر کے ہوں اور اپنے اندر ہمت اور استقلال رکھتے ہوں.ان کے سپرد یہ کام کیا جائے کہ وہ بچوں کو اپنی نگرانی میں کھلائیں انہیں وقت ضائع کرنے سے بچائیں، نمازوں کے لئے باقاعدہ لے جائیں اور اخلاق فاضلہ ان میں پیدا کریں اور گو تفصیلی طور پر تمام اخلاق کا پیدا کرنا ہی ضروری ہے مگر یہ تین باتیں خاص طور پر ان میں پیدا کی جائیں.یعنی نمازوں کی باقاعدگی کی عادت ، سچ کی عادت اور محنت کی عادت.باقی ہمارے ملک میں بعض اور بھی اخلاقی خرابیاں ہیں جن کا دور کرنا ضروری ہے.
56 مثلاً ہمارے ملک میں گالی دینے کا عام طور پر رواج ہے اور اس بچوں سے گالی گلوچ کی عادت دو ر کرو میں شرم و حیا سے کام نہیں لیا جاتا.مجھے یاد ہے حضرت خلیفتہ المسیح الاول کو جب چوٹ لگی تو مرہم پٹی کرنے کے لئے ایک مخلص دوست مقرر تھے.مگر ان کی زبان پر بہن کی گالی بہت چڑھی ہوئی تھی.ایک دن جب کہ حضرت خلیفہ اول کے پاس ہم سب بیٹھے ہوئے تھے اور باہر سے بھی کچھ مهمان آئے ہوئے تھے.ایک دوست نے بر سبیل تذکرہ دریافت کیا.ابھی حضرت صاحب کا زخم اچھا نہیں ہوا.اس پر وہ بے اختیار زخم کو بہن کی گالی دے کر کہنے لگے یہ اچھا ہونے میں آتا ہی نہیں.حضرت خلیفہ اول اس وقت سامنے بیٹھے تھے اور باقی سب دوست بھی موجود تھے.ان کے منہ سے جب اس مجلس میں یہ گالی نکلی تو ہم سب پر ایک سکتے کی حالت طاری ہو گئی.مگر پھر ہم یہی سمجھ کر خاموش ہو رہے کہ ان بیچاروں کو اس گالی کی عادت پڑی ہوئی ہے.تو گالی دینے کی عادت ہی جب کسی شخص میں پیدا ہو جاتی ہے اس کا مٹانا بہت مشکل ہو جاتا ہے.اسی طرح اور کئی قسم کی بری عادتیں ہیں جو ہمارے ملک میں لوگوں کے اندر پائی جاتی ہے.ان عادتوں کو مٹاکر ان کی جگہ اگر نیک عادتیں پیدا کر دی جائیں تو لازماً قوم کی اصلاح ہو سکتی ہے.پس مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان کا صرف یہی فرض نہیں کہ وہ نوجوانوں کی اصلاح کریں بلکہ ان کا ایک فرض یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کی اصلاحی شاخ الگ قائم کریں اور اس کے ذریعہ جو چھوٹی عمر کے بچے ہیں ان کی تربیت کریں.میں اس کے لئے بھی انشاء اللہ تعالیٰ انہیں قواعد تیار کر دوں گا.سر دست جو تین باتیں میں نے بتائی ہیں ان پر انہیں عمل کرنا چاہئے.یعنی بچوں میں نماز کی عادت ، بیچ کی عادت اور محنت کی عادت پیدا کرنی چاہئے.محنت کی عادت میں آوارگی سے بچنا خود بخود آ جاتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ یہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ بھی اور بیرونی جماعت کی مجالس بھی ان اصول کے ماتحت اپنے کام کو محنت سے سرانجام دیں گی.اور خدمت خلق کے کام کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھیں گی.میں خدمت خلق کے کام کو عار نہ سمجھو نے بار ہا بتایا ہے کہ خدمت خلق کے کام میں جہاں تک ہو سکے وسعت اختیار کرنی چاہئے اور مذہب اور قوم کی حد بندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر مصیبت زدہ کی مصیبت کو دور کرنا چاہئے.خواہ وہ ہندو ہو یا عیسائی ہو یا سکھ.ہمارا خدا رب العالمین ہے اور جس طرح اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اسی طرح اس نے ہندوؤں اور سکھوں اور عیسائیوں کو بھی پیدا کیا ہے.پس اگر خدا ہمیں توفیق دے تو ہمیں سب کی خدمت کرنی چاہئے.یہاں قادیان میں بعض مجبوریوں کی وجہ سے ہم عارضی طور پر ہندوؤں سے سودا نہیں خریدتے.مگر بیسیوں ہندو اور سکھ ہمارے پاس امداد کے لئے آتے رہتے ہیں اور ہم ہمیشہ ان کی امداد کرنے رہتے ہیں.ایک دفعہ کانگریس کی ایک مشہور لیڈ ریہاں آئیں اور انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ یہاں کے ہندوؤں کو بہت تکلیف ہے.میں نے کہا میں ایسی بیسیوں مثالیں دے سکتا ہوں کہ جب یہ ہندو میرے پاس آئے اور میں نے ان کی امداد کی اور ان پر بڑے بڑے احسان کئے.چنانچہ بعض واقعات میں نے انہیں بتائے بھی.وہ میری
57 باتیں سن کر حیران ہو گئیں اور کہنے لگیں یہ بات ہے.میں نے کہا آپ ان سے پوچھ لیجئے کیا آیا فلاں فلاں مواقع پر میں نے ان کی مدد کی ہے یا نہیں.اور اب بھی میں ان کے ساتھ خدمت خلق رنگ، نسل، خون مذہب کی تمیز سے بالا ہو کر کرو موقعہ ملنے پر حسن سلوک ہی کرتا ہوں.مگر انہوں نے پھر ہندوؤں سے پوچھا نہیں.شاید میری بات پر ہی اعتماد کر لیا یا انہیں پوچھنے کا موقعہ نہ ملا تو حسن سلوک میں کسی مذہب کی قید نہیں ہونی چاہئے اور جو شخص بھی اس قسم کے حسن سلوک میں مذہب کی قید لگاتا اور اپنے ہم مذہبوں کی خدمت کے کام کرنا تو ضروری سمجھتا مگر غیر مذہب والوں کی خدمت کرنا ضروری نہیں سمجھتا وہ اپنا نقصان آپ کرتا ہے اور دنیا میں لڑائی جھگڑے کی روح پیدا کرتا ہے.پھر جو تبلیغی جماعتیں ہوتی ہیں ان کے لئے تو یہ بہت ہی ضروری تبلیغی جماعتوں کیلئے ایک ضروری امر ہوتا ہے کہ وہ ساری قوموں سے حسن سلوک کریں اور کسی کو بھی اپنے دائرہ احسان سے باہر نہ نکالیں تا تمام قومیں ان کی مداح بنیں.پس وہ خدمت خلق کے کاموں میں مذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر حصہ لیں اور جماعت کے جو اغراض اور مقاصد ہیں ان کو ایسی وفاداری کے ساتھ لے کر کھڑے ہو جائیں کہ خدا تعالیٰ کے راستے میں ان کے لئے اپنی جان قربان کر دینا کوئی دو بھر نہ ہو.جب کسی قوم کے نوجوانوں میں یہ روح پیدا ہو جائے کہ اپنے قومی اور مذہبی مقاصد کی تکمیل کے لئے جان دے دینا وہ بالکل آسان سمجھنے لگیں اس وقت دنیا کی کوئی طاقت انہیں مار نہیں سکتی.جس چیز کو مارا جا سکتا ہے وہ جسم ہے.مگر جس شخص کی روح ایک خاص مقصد لیکر کھڑی ہو جائے اس روح کو کوئی فنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، بلکہ ایسی قوم کا اگر ایک شخص مرے تو اس کی جگہ دس پیدا ہو جاتے ہیں.میں ہمیشہ یہ سمجھا کرتا جسم مر سکتا ہے لیکن اعلیٰ مقصد کو لے کر اٹھنے والی روح نہیں مرسکتی ہوں کہ تھے کھانوں میں جو یہ ذکر آتا ہے کہ فلاں نے ایک دیو مارا تو اس کے خون کے قطروں سے دس دیو اور پیدا ہو گئے.یہ ذہنی قتل کے نا ممکن ہونے کو ایک تمثیل کے رنگ میں بیان کیا گیا ہے اور اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ جب کسی قوم کے ذہن میں راسخ طور پر کوئی نیک عقیدہ پیدا ہو جائے اس وقت اسے کوئی قتل نہیں کر سکتا اور اگر اس قوم کے کسی فرد پر کوئی شخص ہاتھ اٹھاتا ہے اور اسے قتل کرتا ہے تو اس کی موت ایسی شاندار موت ہوتی ہے کہ ہزاروں اس کے قائم مقام پیدا ہو جاتے ہیں.دنیا میں ہمیشہ یہ نظارہ نظر آیا ہے اور اب بھی یہ نظارہ نظر آسکتا ہے.بشرطیکہ ہمارے نوجوان یہی روح اپنے اندر پیدا کریں.پھر نہ انہیں وطن میں کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ غیر ملک میں ان کو کوئی مٹا سکتا ہے کیونکہ وہ اس روح کے نتیجے میں وہی لوگ بن جائیں گے جن کو ؛ ہی دنیا میں خدا تعالیٰ ایسی زندگی دے دیتا ہے جس پر موت نہیں آتی اور ایسی حیات دے دیتا ہے جس پر فناطاری نہیں ہوتی.چونکہ اب نماز کے بعد
58 مجلس شوریٰ کا اجلاس شروع ہونے والا ہے اس لئے میں خطبہ کو اسی پر ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو فرض شناسی کی توفیق عطا فرمائے اور جماعت کے دوسرے افراد کے دلوں میں بھی ایسی روح پیدا کرے کہ وہ دوبارہ اسی اسلام کو دنیا میں قائم کر کے دکھا دیں جس اسلام کو آج سے تیرہ سو سال پہلے رسول کریم علی نے قائم فرمایا تھا." (خطبه جمعه فرموده ۱۵ اپریل ۱۹۳۸ ء از اخبار الفضل ۲۲۴ اپریل ۱۹۳۸ء)
59 ایثار کی حقیقی روح خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد دوسروں کو نفع پہنچانا اپنا منتہی قرار دے ایثار کی خوانسان کو خدا کا مظہر بنادیتی ہے کی وہ طریق ہے جس کے ماتحت کسی انسان کی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کہلاتی ہے ان کا موں میں وہی خوشبو سمائی ہوئی ہوتی ہے جو خوشبو کی زندگی کا اصل مقصود ہوتی ہے جب محض اللہ کوئی شخص کام کر تا ہے.....خطبه جمعه فرموده ۳- جون ۱۹۳۸ء)
60 ایثار کی حقیقی روح ۳ جون ۱۹۳۸ء کو سید نا حضرت مصلح موعود نے ایک معرکہ الاراء خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.جس میں حضور نے فلسفہ دعا پر روشنی ڈالتے ہوئے مومنین کے منعم علیہ گروہ کی امتیازی صفات کی وضاحت فرمائی.حضور نے نبوت صدیقیت ، شہادت اور صالحیت کے مقامات اور ان کی خصوصیات کا تفصیل سے ذکر فرمایا.حضور نے منتظم علیہ گروہ کے تعیین کے بعد أَمَّا بِعَمَةِ رَبِّكَ فَحَدت کی تغییر کرتے ہوئے فرمایا کہ مومن کیلئے تحدیث بالنعمت ضروری ہے.تحدیث بالنعمت کے وسیع مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو عملی رنگ میں فائدہ پہنچایا جائے یعنی جو کچھ خدا تعالیٰ دے اس سے دوسروں کو متمتع کیا جائے.گویا حقیقی مومنوں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ دین ، عرفان ، علم اور دیگر خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے دوسروں کو بھی متمتع کرتے ہیں.ایثار ، ہمدردی اور دوسرے تمام انسانوں کو فائدہ پہنچانے کی یہ روح جماعت کے ہر فرد کے رگ و پے میں کار فرما ہونی چاہئے کیونکہ یہ روح انسان کو خد اتعالیٰ کا مظہر بنادیتی ہے.(مرتب) ” میں نے جو خدام الاحمدیہ نام کی ایک مجلس قائم کی ہے اس کے ذریعہ اس روح کو میں نے جماعت میں قائم کرنا چاہا ہے اور اس کے ہر رکن کا یہ فرض قرار دیا ہے کہ وہ اپنی قوتوں کو ایسے رنگ میں استعمال کرے کہ اپنے فوائد کو وہ بالکل بھلا دے اور دوسروں کو نفع پہنچانا اپنا منتہی قرار دے دے.چنانچہ جہاں جہاں بھی اس کے ماتحت کام کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسرے لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں اور خود انہوں نے بھی اپنی روحانیت میں بہت بڑا فرق محسوس کیا ہو گا.کیونکہ جب کوئی شخص ایک منٹ کے لئے بھی اپنے فوائد کو نظر انداز کر کے دوسرے کو فائدہ پہنچانے کے خیال سے کوئی کام کرتا ہے ، اس ایک منٹ کے لئے وہ خدا تعالیٰ کا مظہر بن جاتا ہے.کیونکہ خدا ہی ہے جو اپنے فائدہ کے لئے کوئی کام نہیں کرتا ایثار کی خوانسان کو خدا کا مظہر بنا دیتی ہے بلکہ وہ سروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے تمام کام کرتا ہے.وہ رو تمنی ہے اور اس بات سے بے نیاز ہے کہ اسے کوئی فائدہ ہو.وہ جو بھی کام کرتا ہے مخلوق کے لئے کرتا ہے.پس جس گھڑی بندہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جس کا فائدہ اس کی ذات کو نہیں پہنچتا بلکہ دوسروں کو پہنچتا ہے تو اس گھڑی میں وہ خدا نما آئینہ ہوتا ہے.جس میں سے خدا تعالیٰ کا چہرہ نظر آ رہا ہوتا ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جو چیز ایک وقت
61 انسان کے ساتھ وابستہ ہوگی وہ بعد میں بھی اپنا اثر دکھائے گی.دیکھو رسول کریم ملی و یا لیلی نے فرمایا ہے کہ جب تم جمعہ کیلئے آؤ تو اپنے کپڑوں کو خوشبو لگا کر آؤ.اب خوشبو لگانا ایک منٹ کا کام ہے.مگر وہ خوشبو بعد میں بھی گھنٹہ دو گھنٹہ ایک دن دو دن بلکہ ہفتہ ہفتہ تک جیسی جیسی قیمتی خوشبو ہوتی ہے، قائم رہتی ہے.بارش برستی ہے اور وہ محدود وقت میں برستی ہے مگر اس کی ٹھنڈک کا اثر دنوں چلا جاتا ہے.آگ جلتی ہے تو گو بعد میں بجھ بھی جاتی ہے مگر کمرے میں پھر بھی بہت دیر تک گرمی قائم رہتی ہے.اسی طرح جب کوئی مومن خد ا نما ہو جاتا ہے اور وہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جس میں وہ اپنے فائدہ کو بالکل نظر انداز کر دیتا ہے اور محض دو سروں کو فائدہ پہنچانا اپنا منتہی قرار دے لیتا ہے تو اس وقت وہ خدا تعالیٰ کا مظہر ہو جاتا ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ عطر کا ایک چھینٹا جب کپڑوں پر پڑے تو کئی کئی دن تک انسانی دماغ کو معطر رکھے.سورج چڑھے اور اس کے غروب ہونے کے بعد بھی زمین سے گرمی کی لپٹیں آتی رہیں.بارش برسے اور اس کے کئی کئی دن بعد بھی ٹھنڈک محسوس ہوتی رہے.مگر خدا کسی جسم میں آئے اور اس کا اثر کام کے ختم ہوتے ہی غائب ہو جائے.اگر تم ایک منٹ کے لئے بھی خدا تعالیٰ کا مظہر بن جاتے ہو تو یقینا اس کے گھنٹوں بعد کی تمہاری حالت بھی خدا نما ہو گی.اور تم ایک منٹ میں جو کام کرو گے اس کے بدلہ کئی گھنٹوں کے لئے خدا تعالیٰ کے مظہر بن جاؤ گے اور اگر تم اس ایک منٹ کو ترقی دیتے چلے جاؤ تو پھر تم چوبیس گھنٹے ہی خدا تعالیٰ کے مظہر بن سکتے ہو چاہے دنیا کے نزدیک تم نے خدمت خلق کے لئے ایک یا دو گھنٹہ وقت دیا ہو.جس طرح آگ بجھ جاتی ہے مگر کمرہ پھر بھی گرم رہتا ہے.بارش برس جاتی ہے مگر خنکی پھر بھی قائم رہتی ہے.اس طرح ہوتے ہوتے تمہاری یہ حالت ہو جائے گی کہ تمہارا گھنٹہ دو گھنٹہ کا کام اپنے اثرات کے لحاظ سے چومیں گھنٹوں پر پھیل جائے گا اور پھر کل کا کام اس اثر کو اور بڑھائے گا اور پر سوں کا کام اس اثر کو اور ترقی دے گا.یہاں تک کہ بالکل ممکن ہے بلکہ غالب ترین بات یہ ہے کہ تمہاری روحانیت اس قدر ترقی کر جائے اور تمہاری نیتیں اتنی صاف ہو جائیں کہ وہ دو گھنٹے کا کام نہ صرف تمہیں باقی بائیس گھنٹوں کے لئے خدا تعالیٰ کا مظہر بنادے بلکہ جب د و سرا دن چڑھے تو اس دن جو کام تم خدا تعالیٰ کے نمونہ پر کرو صرف اسی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے مظہر نہ بنو بلکہ پہلے دن کی مظہریت بھی ابھی باقی ہو اور وہ دونوں مل کر تمہارے نور کو اور بھی بڑھا دیں اور ہوتے ہوتے ایک غیر محدود ذخیرہ انوکاسات الہیہ کا تمہارے جسم میں جمع ہو جائے.آخر یہی وہ طریقہ ہے جس کے ماتحت کسی انسان کی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کہلاتی ہے ورنہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس قسم کا بنایا ہے اس کے لحاظ سے چومیں گھنٹے وہ مسلسل اللہ تعالٰی کا مظہر نہیں بن سکتا.آج تک کوئی نبی بھی ایسا نہیں آیا جو سو تانہ ہو یا کھانا نہ کھاتا ہو یا پانی نہ پیتا ہو یا پاخانہ پیشاب نہ کرتا ہو یا نما تا د ھوتا نہ ہو یا بیوی بچوں کا فکر نہ کرتا ہو.یہ ساری ضروریات نبیوں کے ساتھ بھی لگی ہوئی تھیں.پھر کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کی ہر حرکت اور ان کا ہر سکون اپنی راہ میں قرار دیا اور کیونکر کہہ دیا کہ ان کا ہر کام میری رضا کے لئے ہے.اس کی تہہ میں دراصل وہی بات ہے جو میں نے بتائی ہے اور جس کی مثال میں میں نے بتایا ہے کہ عطر لگانے کے بعد تم گھنٹوں بلکہ دنوں تک اس کی خوشبو محسوس کرتے ہو.کمرہ
62 میں آگ جلاتے ہو تو اس کے بجھنے کے بعد بھی اس کی گرمی محسوس کرتے ہو.اسی طرح انبیاء خدا تعالیٰ کی محبت میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ جب وہ سوتے ہیں اس وقت بھی ان پر یہی محویت طاری ہوتی ہے.جب اٹھتے ہیں اس وقت بھی یہی محویت ہوتی ہے.جب کھاتے ہیں اس وقت بھی اور جب پیتے ہیں اس وقت بھی.اس طرح ان کی نیند بھی خدا کے لئے ہوتی ہے اور ان کی بیداری بھی ان کا کھانا بھی خدا کے لئے ہوتا ہے اور ان کا پینا بھی.اسی طرح ان کا اٹھنا ان کا بیٹھنا ، ان کا نہانا ان کا پیشاب پاخانہ کرنا سب خدا کے لئے ہوتا ہے.وہ کام دنیا کو دنیا کے نظر آتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ اس کے لئے ہوتے ہیں.کیونکہ ان کاموں میں وہی خوشبو سائی ہوئی ہوتی ہے جو خوشبو ان کی زندگی کا اصل مقصود ہوتی ہے تو جب محض اللہ کوئی شخص کام کرتا ہے اس وقت اس کی باقی گھڑیوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے." (خطبہ نمبر۷ افرموده ۳ جون ۱۹۳۸ء مطبوعہ ۱۰ جون ۱۹۳۸ء صفحہ ۷۶)
63 ہر احمدی نوجوان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اسے خدا تعالیٰ نے " قصر احمدیت کی ایک اینٹ بنایا ہے خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے والوں کے اعمال جاری رہتے ہیں دین کی راہ میں قربانی بہترین چیز ہے اصل چیز جس کا قائم رہنا ضروری ہے وہ اسلام اور احمدیت ہے ( تقریر فرموده ۳- اگست ۱۹۳۸ء)
64 ۳ اگست ۱۹۳۸ء بعد نماز عصر طلباء و کارکنان تحریک جدید نے بورڈنگ تحریک جدید میں بعض مبلغین کے اعزاز میں ایک دعوت چائے دی.جس میں سیدنا حضرت خلیفہ الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقعہ پر حضور نے جو تقریر فرمائی اس میں خدام الاحمدیہ سے متعلق حصہ درج ذیل ہے خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ ایک مومن کے ساتھی جب تک زندہ رہتے ہیں اور دین کی خدمات سر انجام دیتے ہیں مرنے والے کو اس حیثیت سے جس میں وہ مرا ثواب ملتا رہتا ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ سبق دیا ہے کہ ایسے موقعہ پر جو شہادت پا جائیں ان کو زندہ رکھنا ضروری ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصوة والسلام نے شہید کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ بہت جلد اعلیٰ مدارج حاصل کر لیتا ہے.اس لئے نہیں کہ تھوڑی خدمت کے بدلہ میں اسے اعلیٰ مدارج حاصل ہو جاتے ہیں بلکہ اس لئے کہ تھوڑے دن خدمت کر کے وہ اسی راہ میں جان دے دیتا ہے.اگر وہ زندہ رہتا تو اس کے نیک اعمال کا تسلسل جاری رہتا.مگر خدا تعالیٰ نے اپنے منشاء کے ماتحت اسے توڑا اور اسے شہادت دے دی تاکہ بعد کے آنے والے زندہ رہیں.اس وجہ سے خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے والوں کے اعمال جاری رہتے ہیں.وہ جن کے ساتھ زندگی میں مل کر کام کرتے تھے ان کے اعمال جس قدر ثواب کے مستحق ہوں گے اس قدر ثواب شہادت پانے والوں کو بھی ملے گا.یعنی جس درجہ اور جس درجہ کی قربانی کرنے والا کوئی شہید ہو گا.اسی درجہ کے مطابق اسے انعام ملیں گے اور موت اس سے اس کو محروم نہیں کر سکے گی.دیکھو بعض صحابہ ایسے تھے کہ انہیں اسلام لائے دو چار ہی دن گزرے تھے کہ لڑائی میں شہادت پاگئے.کیا ان کے اعمال ختم ہو جائیں گے ؟ ہر گز نہیں، بلکہ ان کو اس وقت تک وسعت دی جائے گی جب تک کہ ان کے ساتھ صحابہ زندہ ہیں.غرض دین کی راہ میں قربانی بہترین چیز ہے اور جنہیں یہ حاصل ہو ان کی قدر دوسروں کی نسبت بہت زیادہ ہونی چاہئے.قرآن کریم نے ایسا ہی کیا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ آپ دعا کیا کرتے تھے کہ مجھے شہادت حاصل ہو اور مدینہ میں ہی ہو.آخر انہیں حاصل ہو گئی اور مدینہ میں ہی حاصل ہوئی.مگر تعجب ہے ان جیسے انسان نے یہ دعا کس طرح کی.مدینہ میں انہیں شہادت ملنے کے یہ معنی تھے کہ دشمن مدینہ پر حملہ کرے اور وہ اس قدر غلبہ پالے کہ مسلمانوں کے خلیفہ کو قتل کر دے مگر باوجود اس کے حضرت عمر شہادت کے لئے دعا کیا کرتے تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا درجہ ہے کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ اس کی تمنا کیا کرت تھے.یہ روح اور یہ ولولہ ہر احمدی کو اور خاص کر ہر احمدی نوجوان کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہیئے اور ایک ایک طالب علم
65 کے ذہن نشین یہ بات کر دینی چاہیئے کہ اصل چیز جس کا قائم رہنا ضروری ہے وہ اسلام اور احمدیت ہے.ہر احمدی قصر احمدیت کی اینٹ ہے اور اگر کسی وقت کسی اینٹ کو اس لئے توڑ کر پھینکنا پڑے کہ قصر احمدیت کے لئے میں مفید ہے تو اسے اپنی انتہائی خوش قسمتی سمجھنا چاہیئے.دیکھو اینٹ جب تک مکان کی دیوار میں لگی رہے صرف اینٹ ہے لیکن مکان میں اگر کسی جگہ سوراخ ہو جائے جس میں سے پانی اندر آنے لگے اور اس وقت ایک اینٹ نکال کر اسے پیسا جائے اور اس طرح مسالہ بنا کر سوراخ کو بند کر دیا جائے تو وہ اینٹ مکان بن جائے گی.اسی طرح جو شخص قوم کے لئے فنا ہو جاتا ہے وہ ثابت کر دیتا ہے کہ اس نے قوم کے لئے قربانی کی اور جو قوم کو فائدہ پہنچانے کے لئے اپنے آپ کو قربان کر دیتا ہے وہ خود نہیں رہتا بلکہ قوم بن جاتا ہے.یہ ہے وہ روح جو ہر احمدی نوجوان کے دل میں پیدا کرنی چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ جن میں یہ روح پیدا ہو جاتی ہے وہ معمولی انسان نہیں رہتے.ان کے چہروں سے ان کی باتوں سے اور ان کے اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زند دانسان نہیں بلکہ مجسم موت ہیں.بدر کے موقع پر جب کفار نے اسلامی لشکر کا جائزہ لینے کیلئے آدمی بھیجے تو انہوں نے آکر کہا کہ.سواریوں پر ہمیں آدمی نظر نہیں آتے بلکہ موتیں نظر آتی ہیں.ان سے نہیں لڑنا چاہئے ورنہ ہماری خیر نہیں.جب نوجوانوں میں ہمیں یہ روح نظر آجائے گی اور ہم دیکھیں گے کہ وہ اسلام کے لئے قربان ہونے کے منتظر بیٹھے ہیں اور پر تولے ہوئے اس بات کے منتظر ہیں کہ کفر کی چڑیا آئے اور وہ اس پر جھپٹ پڑیں.اس دن ہم سمجھیں گے کہ تحریک جدید کا بورڈنگ بنانے کا جو مقصد تھاوہ حاصل ہو گیا.تقریر فرموده ۳ اگست ۱۹۳۸ء - الفضل ۱۳ اپریل ۱۹۶۱ء)
67 ہماری جماعت جن اعلیٰ مقاصد کیلئے قائم کی گئی ہے ان کے حصول کے لئے آئندہ نسلوں کی اصلاح نہایت ضروری ہے ہمیں مسلمانوں کے اس تنزل سے سبق سیکھنا چاہئے عظیم الشان انعامات بغیر بڑی قربانیوں کے نہیں مل سکتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی کہ دہلی احمدیت کو قبول کرنے سے محروم نہ رہے ایسا عزم اور ارادہ رکھنے والے نوجوانوں کی اب بھی ضرورت ہے خطبه جمعه فرموده ۲۸ اکتوبر ۱۹۳۸ء)
68..دوسری ضروری چیز مجالس خدام الاحمدیہ کا قیام اور اس میں شمولیت ہے.میں نے اس بارہ میں بھی ابھی تک کوئی پابندی نہیں لگائی لیکن اگر کوئی باہر رہ جاتا ہے اور خدام الاحمدیہ میں شامل نہیں ہو تا تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہے.ہمیں نوجوانوں کو ایسے رنگ میں سمجھانا چاہئے کہ کوئی نوجوان اس میں شامل ہونے سے نہ رہے.یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ جو بڑے کام ہوتے ہیں ان کی تکمیل کے لئے ایک لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ عظیم الشان انعامات جن کے مانگنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، وہ بغیر بڑی قربانیوں کے نہیں مل سکتے.یہ بھی ایک غلطی تھی جس نے مسلمانوں کو تباہ کیا کہ انہوں نے سمجھ لیا صحابہ پر تمام ترقی ختم ہو گئی ہے.حالانکہ اگر یہ صحیح ہو تو پھر ہمیں کیا ملے گا.حقیقت یہ ہے کہ اس عقیدہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچا ہے.خدا تعالیٰ نے تو قرآن کریم میں اهدنا الصراط المُقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ العمت عليهم کہہ کر یہ دعا سکھائی ہے کہ تم بڑے سے اَنْعَمْتَ بڑے انعام طلب کرو.پس جب دعا سکھانے والے نے محل سے کام نہیں لیا' دینے والے کے ہاں کمی نہیں تو مانگنے والا کیوں مایوس ہو.صحابہ کے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی جب تک لوگ اس بات کو سمجھتے رہے ان کو اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے رتبے دیئے اور انہوں نے لوگوں کے سامنے دعوئی بھی کئے.لیکن جب ان کے دماغ چھوٹی چھوٹی باتوں پر راضی رہنے لگ گئے تو وہ تنزل میں گر گئے.ہمیں مسلمانوں کے اس تنزل سے سبق حاصل کرنا چاہنے اور خدا تعالیٰ سے اس کی بڑی سے بڑی نعمت طلب کرنی چاہئے.ہاں روحانی نعمتوں کو معین طور پر مانگنانا دانی ہو تا ہے.طبیب کو ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ بہتر سے بہتر نسخہ دے مگر یہ کہنا کہ معجون فلاسفہ دو یا ایسٹرن سیرپ دو بیوقوفی ہے.خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مانگنے والے کے لئے کونسی روحانی نعمت بہتر ہو گی.مثلاً ایک شخص فضلوں کی توفیق اور اس کے ذریعہ قرب الہی مانگتا ہے حالانکہ ہو سکتا ہے کہ اس کے لئے روزوں سے ترقی مقدر ہو.پس روحانی انعامات کو معین طور پر مانگنا قرب الہی کے دروازہ کو اپنے اوپر بند کرنا ہے.ہاں جسمانی طور پر اولاد و غیرہ کے لئے کسی معین نعمت کا طلب کرنا منع نہیں لیکن روحانی لحاظ سے ہمیں اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ اعلیٰ سے اعلیٰ انعامات طلب کرنے چاہئیں اور اس امر کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ کو نسا انعام ہمیں دیتا ہے کیونکہ وہی اس امر کو بہتر سمجھ سکتا ہے کہ ہمارے قومی اور ہماری دماغی بناوٹ کے مناسب حال کو نسا روحانی انعام ہے.غرض نسلوں کو درست رکھنا اعلیٰ مقاصد کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے مگر اس کے لئے ایک نظام کی ضرورت ہے اور اس نظام کو قائم کرنے کے لئے مختلف تحریکات ہوتی رہتی ہیں.وہ لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کہ یہ نئی چیزیں ہیں وہ غلطی پر ہیں اگر حالات کے مطابق ہم تبدیلی اختیار نہیں کریں گے تو عقلمندی سے بعید ہو گا جیسے اگر کوئی شخص موٹر کو تعیش کی چیز سمجھ کر اس سے کام نہ لے باریل کے ہوتے ہوئے پیدل سفر کرنے پر اصرار کرے تو یہ اس کی نادانی ہو گی.پس ضروری ہے کہ انعامات کے حصول کے لئے مقررہ نظام کے ماتحت سب دوست مل کر کام کریں.
69 حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب دہلی تشریف لائے اور آپ یہاں کے بزرگوں کے مزارات پر تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا یہاں اتنے اولیاء اللہ دفن ہیں کہ اگر یہاں کے زندے توجہ نہ کریں گے تو ان بزرگوں کی رو میں تڑپ تڑپ کر فریاد کریں گی اور خدا تعالیٰ کا کام پورا ہو کر رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہشات میں سے ایک خواہش یہ بھی تھی کہ دہلی احمدیت کو قبول کرنے سے محروم نہ رہے.پس سمجھ لو کہ آپ کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے کتنی عظیم الشان کو ششوں کی ضرورت ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ میں جب لکھنو طب پڑھنے کے لئے گیا تو مجھ سے میرے استاد نے پوچھا کہ تمہارا کہاں تک طب پڑھنے کا ارادہ ہے.مجھے اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ سب سے بڑا طبیب کون گذرا ہے.مگر میرے منہ سے بے ساختہ نکالا کہ افلاطون کے بر ابر - افلاطون اگر چہ فلاسفر تھا مگر ان کے استاد نے کہا شاباش تم نے بڑے آدمی کا نام لیا ہے اس سے تمہارا ارادہ بہت بلند معلوم ہوتا ہے، تم کچھ نہ کچھ ضرور بن جاؤ گے ایسا عزم اور ارادہ رکھنے والے نوجوانوں کی اب بھی ضرورت ہے.یاد رکھو حقیقی انسان وہی ہے جس کے مرنے پر لوگوں کو یہ خیال ہو کہ آج فلاں کی موت سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے اس کو پر کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا.میں نے دیکھا ہے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کی تربیت میں ابھی بہت نقص ہے اور اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے مجھے اکثر بچوں کی پیشانی پر ابھی وہ بات نظر نہیں آتی جو ان کے نور ایمان کو کامل طور پر ظاہر کرنے والی ہو.بہت تھوڑے بچے اور نوجوان میں نے ایسے دیکھے ہیں جن کی پیشانی پر میں نے اھدنا الصراط المستقیم لکھا ہوا دیکھا ہو اور وہ خدا تعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنے کے لئے پوری جد و جہد کرتے ہوں.(خطبه جمعه فرموده ۲۸ اکتوبر ۱۹۳۸ء مقام دہلی الفضل ۱۵ جون ۱۹۶۰ء)
70 چند زر میں نصائح آرام سے بیٹھے رہنے اور اعتراض کرنے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو دنیا میں اپنے اصول کی خوبیاں ثابت کریں جب کسی کو اعلیٰ ملازمت ملتی ہے تو اس میں ایک قسم کا کبر پیدا ہو جاتا ہے.مگر ایک احمدی کو ایسا نہیں ہونا چاہئے احمدیت کا کام ساری دنیا میں انصاف قائم کرنا ہے ایک احمدی دوسرے احمدی کا روحانی رشتہ دار ہے (تقریر فرموده ۱۱- نومبر ۱۹۳۸ء)
71 ۱۱نومبر ۱۹۳۸ء جامعہ احمدیہ مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ اور طلباء کی طرف سے مدرسہ احمدیہ کے صحن میں حضرت مولوی شیر علی صاحب حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی ولایت سے کامیاب مراجعت کی خوشی میں ایک دعوت چائے دی گئی تھی.جس میں سید نا حضرت خلیفۃ ابیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.ایڈریس اور جواب ایڈریس کے بعد حضرت خلیفۃ السیح الثانی نے ایک مبسوط تقریر فرمائی.جس میں حضور نے مبلغین سلسلہ کے متعلق جماعت پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں ان کی طرف دوستوں کو توجہ دلائی اور بالآخر حضور نے اپنے بچوں کو نہایت قیمتی نصائح فرمائیں.میں اپنی جماعت کے نوجوانوں کو خصوصاً اور دوسرے احباب کو عموماً یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ملک اور قوم کے قانونی وجود کو سمجھیں.آرام سے بیٹھے رہنے اور اعتراض کرنے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں.نادان لوگ اعتراض کرتے ہیں اور مبلغین کی قربانیوں کی قدر نہیں کرتے.ان کے نزدیک گویا یہ لوگ ان کے باپ دادوں کا قرضہ اتار رہے ہیں.وہ اپنی نادانی سے یہ نہیں سمجھتے کہ یہ لوگ ہمارا ہی کام کر رہے ہیں.ایسے لوگوں کی مثال اس عورت کی سی ہے جو ایک اور عورت کے گھر آٹا پینے کے لئے گئی.اس نے اس سے چکی مانگی.گھر کی مالکہ نے اسے چکی دے دی.تھوڑی دیر کے بعد اس کے دل میں خیال آیا کہ یہ رات آٹا پیتے پیتے تھک گئی ہو گی اور اس کی مدد کروں.چنانچہ اس نے اسے کہا کہ بہن تم تھک گئی ہو گی تم ذرا آرام کر لو میں تمہاری جگہ چکی پیستی ہوں.وہ عورت چکی پر سے اٹھ بیٹھی اور ادھر اُدھر پھرتی رہی.اچانک اس کی نظر ایک رومال پر جاپڑی، جس میں روٹیاں تھیں.اس نے وہ رومال کھولا اور گھر کی مالکہ کو کہا، بہن تو میرا کام کرتی ہے تو میں تیرا کام کرتی ہوں اور یہ کہہ کر اس نے روٹی کھانی شروع کر دی.تو بعض لوگ اس قسم کی روح ظاہر کرتے ہیں.بجائے اس کے کہ وہ مبلغ کا شکریہ ادا کریں اور اس کی قربانیوں کی قدر کریں وہ ان پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں.گویادہ مبلغ ان کے باپ دادے کا قرض دار تھا اور اب وہ قرضہ ادا کر رہا ہے اور اگر اس نے قرضہ کی ادائیگی میں ذرا بھی سستی دکھائی تو اس کے گلے میں پیسہ ڈال کر وصول کر لیا جائے گا.اس قسم کے اعتراضات کرنے والے بڑے بے شرم ہیں وہ یہ دیکھتے ہی نہیں کہ یہ ہمارا حق ادا کر رہا ہے اور جس کام کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہم پر رکھی ہے اسے یہ سر انجام دے رہا ہے.وہ اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوتے ہیں اور اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں ایسے لوگ قومی شخصیت کی حقیقت کو نہیں سمجھتے صرف فردی شخصیت کو سمجھتے ہیں.پس ہماری جماعت کے ان لوگوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور اس کی اصل حقیقت سے واقف ہونا چاہئے.ان ایڈرئیسوں میں ہمارے بچوں کے آنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے.جسمانی طور پر بچوں کا آنا بے شک خوشی کا
72 موجب ہوتا ہے اور اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا.میں غلط بیانی کروں گا اگر کہوں کہ مجھے ان بچوں کے آنے کی خوشی نہیں ہوئی.دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں جو ایسے موقع پر خوش نہ ہو.باپ یا بھائی یا بیٹے کے آنے کے علاوہ کسی کا کوئی دوست بھی آئے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کے دل میں خوشی کے جذبات پیدا نہ ہوں.لیکن جس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھڑا کیا ہے اس نے ہم میں ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ صرف جسمانی قرب ہمارے دلوں میں حقیقی راحت پیدا نہیں کر سکتا.بے شک ایسے مواقع پر انسان کو خوشی ہوتی ہے اور بہت سا اطمینان بھی انسان حاصل کر لیتا ہے لیکن پھر بھی درمیان میں ایک پردہ حائل ہوتا ہے جو بعض دفعہ ہمارے قرب کو بعد میں تبدیل کر دیتا ہے.پس حقیقی خوشی ہمیں اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس پردہ کو بھی دور نہ کیا جائے.اس ایڈریس میں مظفر احمد سلمہ ربہ کی آمد اور اس کی کامیابی کا بھی ذکر کیا گیا ہے.میں اس موقعہ پر انہیں ان کے ہی ایک قول کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو انہوں نے کچھ عرصہ پہلے کہا تھا.پہلے وہ زبانی تھا اور اب اس پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے.مظفر احمد جب آئی.سی.ایس میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے یہ محسوس کیا کہ نوکری انہیں پسند نہیں تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ استعفے دینے کے لئے تیار ہیں.مگر انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ اسلامی تعلیم یہ نہیں کہ ہم دنیا کو چھوڑ کر بزدلی سے ایک طرف ہو جائیں.ہم دنیا میں جس غرض کے لئے کھڑے ہوئے نہیں اس کے لئے بحیثیت جماعت ہم پر فرض ہے کہ ہم دنیوی طور پر بھی سلسلہ کے اصولوں کی خوبیاں ثابت کریں اور اگر ہم دنیا کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں تو پھر ہم اپنے اصولوں کی خوبیاں ثابت نہیں کر سکتے.پس ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اس رنگ میں بھی دنیا میں اپنے اصول کی خوبیاں ثابت کریں.ملازمت کرنا کوئی معیوب امر نہیں بلکہ اگر کوئی شخص بلاوجہ ملازمت کو ترک کر دیتا ہے تو ایسے آدمی کی قربانی کوئی بڑی قربانی نہیں کہلا سکتی.البتہ وہ شخص جسے سچ بولنے کی عادت ہو اور اس کا طریق کار انصاف پر مبنی ہو.اگر اس سے ظلم کروانے اور جھوٹ بلوانے کی کوشش کی جائے اور ایسا شخص نوکری چھوڑ دے تو اس کی قربانی حقیقی قربانی ہو گی کیونکہ اس نے تقویٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے ملازمت کو ترک کیا ہے.ایک اور بات یہ بھی مد نظر رکھنی چاہیئے کہ جب کسی کو کوئی اعلی ملازمت ملتی ہے تو اس میں ایک قسم کا کبر پیدا ہو جاتا ہے.مگر ایک احمدی کو ایسا نہیں ہونا چاہئے.ہماری جماعت میں کمزور لوگ بھی ہیں اور غریب بھی ہیں.ترقی ملنے سے بعض لوگوں میں کبر اور غرور پیدا ہو جاتا ہے اور وہ غریبوں سے ملنا عار سمجھنے لگ جاتے ہیں.ایسے لوگ در حقیقت انسانیت سے بھی جاتے رہتے ہیں.پس پہلی ذمہ داری جوان پر عائد ہوتی ہے وہ احمدیت کی ہے.احمدیت کا کام ساری دنیا میں انصاف قائم کرنا ہے اور پھر ایک احمدی دوسرے احمدی کا روحانی رشتہ دار ہے.اس لئے ہر احمدی سے محبت اور خوش خلقی سے پیش آنا چاہیے.تم جب ایک احمدی سے ملو تو تمہیں ایسی ہی خوشی حاصل ہو جیسے اپنے
73 بھائی سے ملتے وقت ہوتی ہے.لیکن چونکہ بعض ادنی درجہ کے لوگ اخلاق فاضلہ کو چھوڑ کر نا جائز فائدہ کے حصول کی بھی کوشش کیا کرتے ہیں اس لئے میری نصیحت یہ ہے کہ ایسے مواقع پر ہمیشہ اپنی ذمہ داری کو ملحوظ رکھو اور انصاف سے کام لو اور ایسی سفارشوں سے اپنے کانوں کو بہر ارکھو.ایک اور بات ان کو یہ یاد رکھنی چاہیئے کہ ہر قوم اپنے ماحول میں ترقی کرتی ہے، دوسروں کے ماحول میں ترقی نہیں کر سکتی.جو شخص دوسروں کے ماحول کو لے کر ترقی کرتا ہے وہ ذلیل ہو جاتا ہے.حال ہی میں مسلمانوں کا ایک بہت بڑا آدمی چل بسا ہے یعنی کمال اتاترک.اس شخص نے اپنے وطن اور قوم کے لئے بڑی خدمات کی تھیں.کوئی آدمی بھی ایسا نہیں جو اس کی قربانیوں کو عظمت اور احترام کی نگاہ سے نہ دیکھتا ہو مگر ایک خطر ناک غلطی اس سے یہ ہوئی کہ اس نے اپنی قوم میں مغربیت کا اثر قائم کر دیا.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے ترکوں کو جسمانی آزادی دلا دی مگر ساتھ ہمیشہ کے لئے ترکوں کو ذہنی غلام بھی بنادیا.ہمیں یہ طریق اختیار نہیں کرنا چاہیئے.ہم جن مقاصد کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں ان میں سے ایک مقصد مغربی تمدن کو کچلنا بھی ہے.مغربی تمدن اس وقت دنیا کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے.ہمیں اس سے کسی صورت میں بھی متاثر نہیں ہونا (الفضل ۸ اپریل ۱۹۶۱ء) چاہئے.
پر واولہ دل کی تلاش ہمنشیں تجھ کو ہے اک پُر امن منزل کی تلاش مجھ کو اک آتش فشاں پر ولولہ دل کی تلاش سعی پیہم اور گنج عافیت کا جوڑ کیا مجھ کو ہے منزل سے نفرت تجھ کو منزل کی تلاش ڈھونڈتی پھرتی تھی شمع نور کو محفل کبھی اب تو ہے خود شمع کو دُنیا میں محفل کی تلاش یا تو سرگرداں تھا دل جستجوئے یار میں یا ہے اس یارِ ازل کو خود مرے دل کی تلاش میں وہ مجنوں ہوں کہ جس کے دل میں ہے گھر یار کا اور ہوگا وہ کوئی جس کو ہے محمل کی تلاش گلشن عالم کی رونق ہے فقط انسان سے گل بنانے ہوں اگر تو نے تو کر گل کی تلاش اس رُخ روشن سے مٹ جاتی ہیں سب تاریکیاں عاشق سفلی کو ہے کیوں اس میں ایک تل کی تلاش آسمانی میں عدد میرا زمینی ، اس لئے میں فلک پر اڑ رہا ہوں اس کو ہے بل کی تلاش
75 حمدیت یعنی حقیقی اسلام کی ترقی کے دو ذریعے تربیت اور اصلاح وارشاد خدام الاحمدیہ کے نیک کاموں کا اثر آئندہ نسلوں کو بھی متاثر کرے گا مجلس خدام الاحمدیہ تحریک جدید کی فوج ہے جس کام کو شروع کر میں اسے استقلال سے کرتے چلے جائیں ( خطبه جمعه فرموده ۱۸ نومبر ۱۹۳۸ء)
76 احمدیت کی ترقی کے ساتھ اسلام کی ترقی اور اسلام کی ترقی کے ساتھ دنیا کی ترقی وابستہ ہے اور احمدیت کی ترقی کے لئے دو کام کرنے نہایت ضروری ہیں.ایک تعلیم و تربیت کا اور دوسرا تبلیغ واشاعت کا.ان کے بغیر جماعت نہ پھیل سکتی ہے اور نہ اس کے پھیلنے کا کوئی فائدہ ہے.یعنی تبلیغ کے بغیر جماعت کی ترقی نہیں ہو سکتی اور صحیح تربیت کے بغیر احمدیت کا پھیلنا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.فرض کر و احمدی ساری دنیا میں پھیل جائیں مگر مذ ہبی، سیاسی اقتصادی، تمدنی اور تعلیمی ماحول وہی رہے جو پہلے تھا تو ایسی احمدیت کے پھیلنے کا فائدہ کیا اور اگر احمد یوں میں وہ روح نہ ہو جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے اور ایک ظالم کی بجائے اگر دوسرا ظالم کھڑا ہو گیا تو اس سے بنی نوع انسان کو کیا فائدہ پہنچے گا.پس تعلیم اور تربیت دو نہایت ہی اہم کام ہیں اور انہی دونوں کاموں کو تحریک جدید میں مد نظر رکھا گیا ہے.تعلیم و تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سادہ غذا سادہ لباس خود ہاتھ سے کام کرنا سینماکاترک، غریبوں کی امداد بور ڈنگ تحریک جدید اور ورثہ وغیرہ کا کام تجویز کئے گئے ہیں اور یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کو کسی وقت بھی ترک نہیں کیا جاسکتا.بعض تو موجودہ صورت میں ہی قابل عمل رہیں گی اور انہیں کسی وقت میں بھی چھوڑا نہیں جاسکتا لیکن بعض میں حالات کے ماتحت کچھ تبدیلیاں ہو سکتی ہیں.عملی طور پر بعض حصوں کے متعلق مجلس خدام الاحمدیہ جد و جہد کر رہی ہے اور جہاں تک اس کے ایک سال کے کام کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں اس نے نہایت شاندار کام کیا ہے اور اگر وہ اسی طرح استقلال سے کام جاری رکھے اور نہ صرف اپنے موجودہ معیار کو قائم رکھے بلکہ اسے بڑھاتی چلی جائے تو وہ ایک عمدہ نمونہ قائم کر سکتی ہے.مجالس خدام الاحمدیہ کے نوجوانوں کو یادرکھنا چاہیئے کہ ان کے کام کے اثرات صرف موجودہ زمانہ کے لوگوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ اگر وہ اسی خوشدلی اور اخلاص کے ساتھ کام جاری رکھیں گے تو آئندہ نسلوں تک ان کے نیک اثرات جائیں گے اور جس طرح آج صحابہ کا ذکر آنے پر بے اختیار رضی اللہ عنھم دور ضواعنہ کا فقرہ زبان سے نکل جاتا ہے اسی طرح ان کا نام لے کر آئندہ آنے والی نسلوں کا دل خوشی سے بھر جائے گا اور وہ ان کی ترقی مدارج کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں گے.لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ جس کام کو شروع کریں اسے استقلال سے کرتے چلے جائیں.جو شخص بھی اسی جدو جہد میں کھڑا ہو گا وہ گر جائے گا اور سلامت وہی رہے گا جو اپنے قدم کی تیزی میں کمی نہیں آنے دے گا.مجلس خدام الاحمدیہ تحریک جدید کی فوج ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس فوج میں داخل ہوں گے اور اپنی عملی جدوجہد سے ثابت کر دیں گے کہ انہوں نے اپنے فرائض کو سمجھا ہوا ہے.( خطبه جمعه فرموده ۸ ۱نومبر ۱۹۳۸ء - مطبوعه اخبار الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۳۸ء)
77 مجلس خدام الاحمدیہ اور جنہ اماءاللہ کے قیام کی غرض وغایت قوموں کی کامیابی کیلئے کسی ایک نسل کی درستی کافی نہیں ہوتی خدام الاحمدیہ کو عمدگی اور سہولت سے کام کرنے کے لئے مالی امداد کی ترغیب ہٹلر کا احمدیت کی طاقت کا اقرار و اظہار جو قوم عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتی اس قوم کے مردوں کی بھی اصلاح نہیں ہوتی کام کر کے کھانے کی عادت ڈالنی چاہیئے.انسداد بیکاری کے لئے کوششیں و قار عمل اور اس کا طریق کار اور دور رس اثرات خطبه جمعه فرموده ۳ فروری ۱۹۳۹ء)
78 ” میں نے پہلے بھی متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ قوموں کی کامیابی کے لئے کسی ایک نسل کی درستی کافی نہیں ہوتی.جو پروگرام بہت لمبے ہوتے ہیں وہ اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب کہ متواتر کئی نسلیں ان کو پورا کرنے میں لگی رہیں.جتن وقت ان کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہو اگر اتنا وقت ان کو پورا کرنے کے لئے نہ دیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ کسی صورت میں مکمل نہیں ہو سکتے.اور اگر وہ مکمل نہ ہوں تو اس کے معنی یہ ہو نگے کہ پہلوں نے اس پروگرام کی تکمیل کے لئے جو محنتیں کوششیں اور قربانیاں کی ہیں وہ بھی سب رائیگاں گئیں.مثلاً ایک جھونپڑا ہے اس کے بنانے کے لئے مہینہ کا وقت درکار ہے.اب اگر کوئی شخص پندرہ دن کام کر کے اسے چھوڑ دیتا ہے تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ جھونپڑا نا مکمل رہے گا اور رفتہ رفتہ بالکل خراب ہو جائے گا.اسی طرح اگر ایک مکان ہے جس کی تعمیر کے لئے تین مہینوں کی ضرورت ہے اگر اس پر کوئی شخص مہینہ ڈیڑھ مہینہ خرچ کر کے چھوڑ دیتا ہے تو وہ بھی کبھی مکمل نہیں ہو سکتا اور گو پہلے آدمی سے اس نے زیادہ وقت صرف کیا ہو گا.مگر جس کام کے لئے وہ کھڑا ہوا تھا وہ چونکہ تین مہینے کا تھا اس لئے باوجود ڈیڑھ مہینہ خرچ کرنے کے وہ ناکام رہے گا.اس کے مقابلہ میں اگر ایک بہت بڑا محل ہے جو دو تین سال میں تیار ہو سکتا ہے تو اس پر اگر کوئی شخص سال بھی خرچ کر دیتا ہے تو نتیجہ اچھا نہیں نکل سکتا.وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ پہلے کا جب مہینہ میں کام ختم ہو سکتا تھا اور دوسرے کا تین مہینہ میں تو میں سال بھر کام کر کے بھی اپنے کام کو کیوں ختم نہیں کر سکتا.اس لئے کہ جو کام اس نے شروع کیا تھا وہ تین سال کی مدت چاہتا تھا.اگر یہ سال یا دو سال لگاتا بھی ہے اور پھر کام کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے اپنے دو سال ضائع کر دیئے.پھر بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو تکمیل کے لئے پندرہ ہیں بلکہ تمہیں سال چاہتے ہیں.اگر میں تمیں سال میں تکمیل کو پہنچنے والا کام کوئی شخص پندرہ سال کرتا اور پھرا سے چھوڑ دیتا ہے تو وہ کام یقیناً خراب ہو جائے گا.کیونکہ اس کام کے لئے ہیں یا تمہیں سال کی ضرورت تھی.اسی طرح بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو سینکڑوں سال چاہتے ہیں.اگر ان سینکڑوں سال چاہنے والے کاموں کو کوئی شخص پچاس ساٹھ یا سو سال کر کے چھوڑ دے تو لا زمادہ خراب ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ نکتہ سکھانے کے لئے اور یہ بتانے کیلئے کہ بعض چیزوں کی تکمیل وقت کے ساتھ مقید ہوتی ہے.اپنے کاموں کے لئے بھی مختلف اوقات مقرر کر دیئے ہیں.بعض نادان اعتراض کرتے ہیں کہ جب خدا کن فیکون کہنے والا ہے تو اس کیلئے یہ کیا مشکل ہے کہ وہ ایک سیکنڈ میں تمام کام کرلے.یہ درست ہے کہ خدا اگر چاہے تو ایک سیکنڈ میں ہی تمام کام کرلے لیکن اگر خدا ایک سیکنڈ میں تمام کام کر دیتا تو انسان میں استقلال کا مادہ پیدا نہ ہوتا اور اس کے سامنے کوئی ایسی مثال نہ ہوتی جس سے وہ سمجھ سکتا کہ استقلال کیا چیز ہے.مگر اللہ تعالٰی کو دیکھو کوئی کام ایسا ہے جو وہ ہمیں اکیس دن میں کرتا ہے.مثلاً مرغی کے بچے پیدا کرنے کے لئے تین ہفتے کافی ہوتے ہیں.پھر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کو وہ چھ مہینے میں کرتا ہے جیسے بکری کا بچہ ہے اس کے پیدا کرنے میں اللہ تعالی چھ مہینے لگا دیتا ہے.پھر کچھ کام ایسے ہیں جن کو وہ نو مہینے میں کرتا ہے جیسے انسان کا بچہ ہے اس کام کو وہ نو مہینے
79 میں کرتا ہے.پھر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو سال چاہتے ہیں جیسے گھوڑی کا بچہ ہے کہ وہ سال میں پیدا ہو تا ہے.پھر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو پانچ دس بلکہ بعض ہیں سال میں مکمل ہوتے ہیں.جیسے پھلدار درخت ہیں کوئی ان میں سے تین چار سال میں پھل دیتا ہے.کوئی سات سال میں پھل دیتا ہے.کوئی دس سال میں پھل دیتا ہے.کوئی پندرہ سال میں پھل دیتا ہے.گویا یہ کام خدا تعالیٰ کئی سالوں میں جا کر کرتا ہے.اسی طرح وہ اپنے اوقات کی لمبائی کو بڑھاتا چلا گیا ہے.یہاں تک کہ بعض کام اللہ تعالیٰ لاکھوں سالوں میں کرتا ہے جیسے پتھر کا کو ئلہ ہے.پہلے عام طور پر لوگ پتھر کے کو کلہ سے واقف نہیں ہوتے تھے.مگر اب تو دیہات میں بھی مشینیں لگ جانے کی وجہ سے گاؤں کے لوگ بھی پتھر کے کو مکہ سے واقف ہو گئے ہیں اور چونکہ پتھر کے کوئلہ کے استعمال میں خرچ کی کفایت ہوتی ہے اس لئے کئی لوگ پتھر کا کو ئلہ استعمال کرنے لگ گئے ہیں.اب یہ پتھر کا کو ئلہ انہی درختوں سے بنا ہے جن کی لکڑیاں کاٹ کاٹ کر جلائی جاتی ہیں.مگر یونہی نہیں بلکہ کئی لاکھ سال تک یہ درخت زمین میں دفن رہے اور کئی لاکھ سال تک زمین میں دفن رہنے کے بعد یہ درخت پتھر کے کوئلہ کی شکل میں بدل گئے.تو اللہ تعالیٰ نے پتھر کا کو ئلہ بنانے کیلئے کئی لاکھ سال لگا دیئے.اس میں اللہ تعالیٰ نے در حقیقت یہی بتایا ہے کہ وقت کی لمبائی یا چھوٹائی بھی چیزوں کی خوبصورتی اور عمدگی کے لئے ضروری ہے.طب ہی کو دیکھو.بعض اعلیٰ ادویہ ایسی ہیں کہ ان کے اجزاء بالعموم وہی ہیں جو ہمیشہ استعمال میں آتے رہتے ہیں.لیکن ان کو کچھ عرصہ تک دفن کرنے کی وجہ سے ان ادویہ کی حالت ہی بدل جاتی ہے.مثلاً بر شعشا ایک دوائی ہے جو نزلہ کیلئے نہایت مفید ہے.اب اگر برشعشا کے اجزاء کو ملا کر فوری طور پر استعمال کر لیا جائے تو وہ کوئی نفع نہیں دیں گے.برشعشا کا پورا نفع انسان کو اسی صورت میں حاصل ہو گا جب کہ اسے چالیس دن تک غلہ میں دفن رکھا جائے.اب دوائیں وہی ہونگی جو چالیس دن پہلے ہوں گی مگر جو نفع چالیس دن غلہ میں دفن کرنے کے بعد حاصل ہو گا وہ پہلے حاصل نہیں ہو گا.ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ کیا حماقت ہے.جب دوائیں وہی ہیں تو مزید چالیس دن غلہ میں دبانے سے کیا فائد ہ.سو اصل بات یہ ہے.وقت اپنی ذات میں بعض چیزوں کا ضروری جزو ہے.جب تک دواؤں کے ساتھ وقت کو نہ ملایا جائے دوا اچھی نہیں بنے گی.پس صرف دوائیں نہیں بلکہ دوائیں مع وقت اس کا جزو بنتی ہیں.پھر بعض دوائیں ایسی ہیں جنہیں چھ ماہ کے لئے دفن کرنا پڑتا ہے اور اگر انہیں چھ ماہ بند کر کے نہ رکھا جائے.تو کبھی فائدہ نہیں دیتیں.اسی طرح بعض دوائیں سال سال اور بعض دو دو سال کے بعد کھانے کے قابل بنتی ہیں.وہی اجزاء اگر اسی وقت باہم ملا کر کھا لو تو کیا فائدہ نہیں دیں گے لیکن اگر دو سال کے بعد کھاؤ تو تریاق بن جائیں گے.تو بعض دوائیں اکیلی فائدہ نہیں دیتیں.بلکہ وقت بھی ان کے ساتھ شامل کیا جاتا ہے اور ایسی ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں اشیاء ہیں جن کا وقت خود ایک اہم جزو ہوتا ہے.کوئی نئی چیز ان میں داخل نہیں کی جاتی.صرف وقت ان کے ساتھ شامل کر لیا جاتا ہے اور وہ کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں اور جب وقت شامل نہیں ہو تا تو وہ مفید نہیں ہو تیں.یہی حال اللہ تعالی کی تعلیمات کا ہے.اس کی بعض تعلیمیں بھی تبھی پختہ ہوتی ہیں اور تبھی ان کا قوام عمدہ اور اعلیٰ ہوتا ہے جب متواتر کئی
80 نسلیں ان کو اختیار کرتی چلی جائیں.جب مسلسل کئی نسلیں ان تعلیموں پر عمل کرتی چلی جاتی ہیں.تب وہ ایک نئی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور دنیا کے لئے حیرت انگیز طور پر مفید بن جاتی ہیں.خصوصاً جو جماعت اور جو نظام جمالی رنگ میں ہو یعنی عیسوی سلسلہ کے اصول کے مطابق وہ ایک لمبے عرصہ کے بعد پختہ ہو تا ہے.بلکہ بعض دفعہ دو دو تین تین سو سال کے بعد اسے پختگی حاصل ہوتی ہے.گویا اس کی مثال ان اعلیٰ درجہ کی معجونوں یا بر شعشا کی قسم کی دواؤں کی سی ہوتی ہے جو ایک لمبے عرصہ کے بعد اپنی خوبی ظاہر کرتی ہیں.ہمارا سلسلہ بھی عیسوی سلسلہ ہے اور سلسلہ احمدیہ کی تاثیرات لمبے عرصہ کے بعد ظاہر ہوں گی اس کی خوبیاں بھی سبھی ظاہر ہو سکتی ہیں جب ایک لمبے عرصہ تک انتظار کیا جائے.جس طرح بعض دواؤں کو ایک لمبے عرصہ تک دفن رکھ کر انہیں مفید بنے کا موقع دیا جاتا ہے اور اگر یہ موقعہ نہ دیا جائے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم عمد ا اس دوائی کو خراب کرتے ہیں.اسی طرح ضروری ہوتا ہے کہ جمالی تعلیموں کے نیک نتائج کا بھی ایک لمبے عرصہ تک انتظار کیا جائے.مگر دواؤں میں سے تو کوئی دوائی زمین میں دفن کی جاتی ہے کوئی جو میں دفن کی جاتی ہے کوئی گیہوں میں دفن کی جاتی ہے.مگر جمالی تعلیم ایک لمبے عرصہ تک اپنے دلوں میں دفن کی جاتی ہے.جب ایک لمبے عرصہ تک اس تعلیم کو اپنے دلوں میں جگہ دی جائے تو یہ اعلیٰ درجہ کی معجون بن جاتی ہے.ایسی معجون جو تریاق ہوتی ہے اور جو مردہ کو بھی زندہ کر دیتی ہے.پس قانون قدرت کا یہ نکتہ ہمیں بھلا نہیں دینا چاہئے.نادانی کی وجہ سے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب اجزاء وہی ہیں تو وقت کی کیا ضرورت ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قانون قدرت میں ایسی کئی مثالیں رکھ دی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض چیزوں کے لئے وقت کی لمبائی بھی ایک جزو ہوتی ہے.اس لئے میں نے جماعت میں مجلس خدام الاحمدیہ کی مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض و غایت بنیاد رکھی ہے.میری فرض اس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اسی طرح نسلا بعد نسل دلوں میں دفن ہوتی چلی جائے.آج وہ ہمارے دلوں میں دفن ہے تو کل وہ ہماری اولاد کے دلوں میں دفن ہو اور پرسوں ان کی اولاد کے دلوں میں.یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہو جائے.ہمارے دلوں کے ساتھ چمٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کرلے جو دنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو.اگر ایک یا دو نسلوں تک ہی یہ تعلیم محدود رہی تو کبھی ایسا پختہ رنگ نہ دے گی جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے.جلسہ سالانہ کے موقعہ پر مجالس خدام الاحمدیہ کا جو اجتماع ہوا تھا، اس میں میں نے خدام الاحمدیہ کو خصوصاً اور باقی جماعت کو عموماً اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اس کام میں خدام الاحمدیہ کی مدد کی جائے.پھر جلسہ سالانہ کے موقعہ پر بھی میں نے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ اس جماعت کی مالی امداد کرنا یہ بھی ایک ثواب کا کام ہے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہوئی ہے ان کا فرض ہے کہ وہ
81 تھوڑی بہت جس قدر بھی مدد کر سکتے ہوں ضرور کریں تاکہ خدام الاحمدیہ عمدگی اور سہولت کے ساتھ اپنا کام کر سکیں.کئی نادان ہیں جو اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ انگریزوں کے فلاں کام تو خوب چلتے ہیں مگر ہمارے کام اس طرح نہیں چلتے.اور وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کے کام کے تسلسل کے پیچھے با قاعدہ دفتر ہو تے ہیں.باقاعدہ کام کرنے والے ہوتے ہیں.باقاعدہ خط و کتابت ، سفر اور اجتماعات وغیرہ کے لئے روپیہ ہوتا ہے اور جب سب چیزیں انہیں میسر ہوں تو ان کے کام کیوں نہ چلیں.مگر ہمارے ہاں نہ سرمایہ ہوتا ہے نہ پورے وقت کے ایسے کار کن ہوتے ہیں جو تجربہ کار ہوں اور نہ عام ضروریات کے لئے کوئی روپیہ ہوتا ہے اور پھر اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ لوگ متواتر کام نہیں کرتے.جب نیشنل لیگ قائم ہوئی تو اس وقت بھی میں نے انہیں یہ نصیحت کی تھی کہ اب تو تم جوش میں یہ خیال کر لو گے کہ ہم سارا کام خود ہی کر لیں گے.مگر کاموں کو جب بڑھایا جائے تو ضروری ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے مستقل عملہ ہو جو رات دن کام کرتا رہے تاکہ تسلسل قائم رہے.مگر انہوں نے میری بات کو اچھی طرح نہ سمجھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے کام میں خرابی پیدا ہو گئی.قادیان میں اگر نیشنل لیگ کو ر کا کام کچھ لمبا چلا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں ایک مستقل آدمی مقرر ہے جس کا فرض یہی ہے کہ وہ نیشنل لیگ کو ر کا کام کرے اور چونکہ مستقل طور پر یہ کام اس کے سپرد ہے اس لئے لازماً اسے اپنی توجہ اس کام کی طرف رکھنی پڑتی ہے.یہی وجہ ہے کہ یہاں نیشنل لیگ کو ر زیادہ کامیاب رہی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر جگہ مستقل آدمی نہیں رکھے جاسکتے.لیکن اگر بعض سرکل اور دائرے مقرر کر دیے جاتے اور ان میں نیشنل لیگ کے آدمی دورہ کرتے رہتے تو یقینا ان کی کوششوں کے بہت زیادہ شاندار نتائج نکلتے مگر انہوں نے چونکہ اس پہلو کو نظرانداز کر دیا اور اپنی قربانی اور ایثار پر حد سے زیادہ انحصار کر لیا.اس لئے ان کے کام میں خرابی واقع ہو گئی.حالانکہ بعض چیزیں اخلاص سے نہیں بلکہ نظام نظام کی اہمیت سے تعلق رکھتی ہیں اور جب تک نظام کی پابندی نہ ہو اس وقت تک کامیابی نہیں ہوتی.تو مذہبی تعلیموں کی اشاعت کے لئے خصوصا عیسوی نقش پر آنے والی اور جمالی رنگ اپنے اندر رکھنے والی تعلیموں کے لئے ایک لمبے عرصہ تک مسلسل اور متواتر کام کر نیکی ضرورت ہوتی ہے.اور یہ تسلسل تبھی قائم رہ سکتا ہے جب آئندہ اولادوں کی اصلاح کی جائے.جس شخص کے دن میں اخلاص پیدا ہو ہجائے وہ تو اپنی موت تک اس راستہ کو نہیں چھوڑتا.اور چاہے اس کی گردن پر تلوار رکھ دی جائے وہ اپنی اولاد کی اصلاح کے خیال سے غافل نہیں رہتا.ہاں جب مرجائے تو پھر وہ اپنی اولاد کی اصلاح کا ذمہ دار نہیں.ذمہ داری صرف زندگی تک عائد ہوتی ہے اور نہ جس دن کوئی شخص مرجائے اسی دن وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتا ہے اور تو اور حضرت عیسی علیہ اسلام جو خدا تعالیٰ کے ایک نبی ہیں ان سے بھی قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا تو نے لوگوں ، یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کا شریک ٹھہرایا جائے تو حضرت عیسی علیہ السلام یہی جواب دیں گے کہ حضور جب تک میں زندہ رہالوگوں کا ذمہ وار رہا لیکن جب آپ نے مجھے وفات دے دی تو پھر مجھے کیا پتہ کہ لوگ کیا
82 الله کر رہے ہیں.اب دیکھو حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک نبی ہیں مگر موت کے بعد لوگوں میں کسی خرابی کے پیدا ہونے کی ان پر بھی ذمہ داری نہیں لیکن اگر حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کا کوئی مثیل کھڑا ہو جاتا جو لوگوں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاتا اور یا حضرت عیسی علیہ السلام کا کام ان کے حواریوں کی طرف منتقل ہو جاتا تو یقیناً حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی اس قدر خرابی رونما نہ ہوتی جس قدر کہ خرابی رونما ہوئی.رسول کریم ملی لیل کے بعد اگر اسلام میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں میں سے آپ کو ایسی اولاد میں عطا کی تھیں جنہوں نے اپنے باپ دادا کے کام کو سنبھال لیا اور وہ سلسلہ چلتا چلا گیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا اور یہی وعدہ ہے جو در حقیقت آپ کی سب سے بڑی فضیلت ہے کہ رانا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون کہ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ اس کی حفاظت کریں گے اور تمہاری اولادوں میں سے ہی ایسے لوگ کھڑے کر دیں گے جو اسلام کے گرتے ہوئے جھنڈے کو سنبھال لیں گے اور اسلام کو ترقی اور عروج کی منزلوں تک لے جائیں گے.یہی وعدہ ہے جو رسول کریم متی و لیلی کی دوسرے انبیاء پر عظمت اور بڑائی ثابت کرتا ہے.انبیاء سابقین کے کاموں کے تسلسل کے قیام کا کوئی ذریعہ نہیں تھا.مگر رسول کریم ملی لیلی لیلی سے نہ صرف خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا کہ قریب کے زمانہ میں تیری جماعت دین کی خدمت کرے گی بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر آئندہ بھی کوئی خرابی پیدا ہو گی تو تیری روحانی اولاد میں سے ہم کسی شخص کو کھڑا کر دیں گے اور وہ پھر تیری عظمت کو دنیا میں قائم کر دے گا.چنانچہ اس زمانہ میں جب رسول کریم ملی یا لیو کو لوگوں نے بالکل بھلا دیا.جب تعلیم اسلام سے وہ کو سوں دور جا پڑے.جب رسول کریم ملی ال ای میل کی اولاد کہلانے والے اپنے آبائی مذہب کی تحقیر و تذلیل پر اتر آئے تو مسلمانوں میں سے ہی ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم میل ل ل ا ل ورم کا روحانی بیٹا قرار دے کر کھڑا کر دیا اور اس نے پھر اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ قائم کر دیا.اب اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کی حفاظت کا یہ سامان نہ ہو تا اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت نہ ہوتی تو آج اسلام کی کونسی چیز باقی رہ گئی تھی.مگر اس کامل تباہی میں سے زندگی کے آثار کس طرح پیدا ہوئے ؟ اسی طرح پیدا ہوئے کہ اللہ تعالٰی نے امت محمدیہ میں سے ایک شخص کو کھڑا کیا اور اسے وہ تمام قوتیں دیں جو رسول کریم ملی الا اللہ کے ایک روحانی بیٹے میں موجود ہونی چاہئیں.وہ آیا اور اس نے اسلام کو اس رنگ میں مذاہب عالم پر غالب اور برتر ثابت کیا کہ اب بجائے بڑھاپے کے اس میں جوانی کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں اور دنیا ان جوانی کے آثار کو محسوس کر رہی ہے.کجا تو وہ زمانہ تھا کہ لوگ کہتے تھے اب اسلام مٹا کہ مٹا اور کجا یہ زمانہ ہے کہ اب لوگ تسلیم کر رہے ہیں کہ اسلام حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ مذاہب عالم کی طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے.ہٹلر جو جر منی کا ڈکٹیٹر ہے ، اس نے کئی سال ہوئے جب کہ ابھی وہ بر سر اقتدار نہیں آیا تھا ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ہے " میری جدوجہد.اس کتاب میں اس نے اپنے اغراض اور اپنی کوششوں کے مقاصد بیان کئے
83 ہیں.یہ ایک نہایت عجیب اور لطیف کتاب ہے.میں مدت سے اس کی تلاش میں تھا مگر مجھے ملتی نہ تھی.اب تو دو تین سال سے یہ کتاب ہندوستان میں آئی ہوئی ہے مگر اتفاق ہے کہ یہ کتاب مجھے نہ ملی.اب کے جو میں لا ہو ر گیا تو یہ کتاب مجھے مل گئی اور میں نے اسے پڑھا.مجھے اس کتاب کے ایک فقرہ سے گو وہ حقیقت کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا معلوم نہیں ہو تا، مجھے بہت ہی مزہ آیا کیونکہ اس میں احمدیت کی طاقت کا اقرار کیا گیا ہے.ہٹلر اس کتاب میں عیسائیوں کے متعلق لکھتا ہے کہ وہ سخت غلط راستہ پر چل رہے ہیں اور وہ حکومتوں کو اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ گر جاؤں کے معاملہ میں دخل دیں کیونکہ گر جا کے ارباب عقل سے کام نہیں لے رہے اور خواہ مخواہ حکومتوں کے معاملات میں دخل دے رہے ہیں.وہ لکھتا ہے میری سمجھ میں نہیں آیا کہ مذہب کو سیاسیات کا ہتھیار کیوں بنایا گیا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ مذہب کو مذہب کی حدود میں رکھتے انہوں نے اسے سیاسی قوت کے حصول کا ایک ذریعہ بنالیا ہے اور انہی اغراض کے ماتحت لاکھوں مشنری ایشیا اور افریقہ میں پھیلا رکھے ہیں تاکہ ان کو سیاسی اقتدار حاصل ہو اور اس امر کا خیال نہیں کیا جاتا کہ کروڑوں عیسائی خود یورپ میں دہر یہ ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے انہیں بچے مذہب کی اشاعت کی فکر نہیں بلکہ سیاسی طاقت کے حصول کی فکر ہے.اگر انہیں یہی خواہش ہوتی کہ لوگوں کو بچے مذہب کا راستہ بتایا جائے تو انہیں چاہئے تھا کہ بجائے غیروں کے وہ اپنوں کی فکر کرتے مگر وہ اپنوں کی تو فکر نہیں کرتے اور دوسروں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مذہب ان کے مد نظر نہیں.پھر اس کے ساتھ ہی وہ لکھتا ہے کہ گو یہ ایشیا اور افریقہ میں اپنا مذ ہب پھیلانے کی جد و جہد کر رہے ہیں.مگر ایشیا اور افریقہ میں بھی ان کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں کیونکہ وہاں مسلمان مشنری لوگوں کو اسلام میں واپس لا رہے ہیں اور عیسائی مشنریوں سے زیادہ کامیاب ہیں.اب وہ مشنری جو اسلام کی صحیح خدمت کر رہے ہیں اور عیسائیوں کا مقابلہ کر کے لوگوں کو پھر اسلام میں واپس لا رہے ہیں سوائے احمدیوں کے اور کون ہیں؟ پس اس فقرہ میں گو احمد یہ جماعت اس کے ذہن میں نہیں.پھر بھی اس نے جماعت احمدیہ کی طاقت کا اقرار کیا ہے اور وہ لکھتا ہے کہ ایشیا اور افریقہ میں جو لوگ اسلام کو پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کو پھر اسلام میں واپس لا رہے ہیں ان کی جدوجہد کے مقابل پر مسیحی مشنری ناکام ہو رہے ہیں.تو حق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کے بعد جو تسلسل اسلام میں اللہ تعالٰی نے قائم کر دیا ہے اس کا دنیا کے قلوب پر نہایت گہرا اثر ہے.یا تو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اسلام مٹا اور یا اب یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسلام میں دوبارہ زندگی پیدا ہو گئی ہے اور وہ پھر دوسرے مذاہب کا مقابلہ کرنے لگ گیا ہے.اس عظیم الشان تغیر پر جہاں ہمارا حق ہے کہ ہم خوش ہوں.وہاں ہمیں یہ امر بھی کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ اگر ہم نے اس تسلسل کو قائم نہ رکھا تو یہ ہماری موت کی علامت ہوگی.پس ضروری ہے کہ ہم اس تسلسل کو قائم رکھیں.مصلح انبیاء ہمیشہ فاصلہ فاصلہ پر آیا کرتے ہیں اور یہ کام ان کی امتوں کا ہو تا ہے کہ وہ اپنی اولادوں کی اصلاح
84 کریں اور ان کے دلوں میں انبیاء کی تعلیمات کو مضبوطی سے گاڑ دیں اور اس طرح مذہب کی طاقت کو بڑھاتے جائیں.ایک لمبے عرصہ کے بعد جب عالمگیر تنزل ہو جائے تو اس وقت اللہ تعالی کی طرف سے کوئی مصلح نبی مبعوث ہوا کرتا ہے ، اس سے پہلے نہیں.ہمارا جو زمانہ ہے یہ بھی ایسا نہیں کہ اس میں جلدی ہی کوئی اور نبی مبعوث ہو.ہم اللہ تعالی کی طاقتوں کو محدود نہیں کرتے.اس سے یہ کوئی بعید بات بھی نہیں کہ وہ کسی اور نبی کو بھیج دے لیکن بظاہر یہ ایسا زمانہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جماعت کو ایک نئے نبی کی قیادت میں کام کرنے کی بجائے خلفاء موعود و غیر موعود کی قیادت کے ماتحت کام کرنا ہو گا.پس ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں تک اسلام تربیت اولاد ایک اہم فرض ہے کی تعلیم کو محفوظ رکھتا چلا جائے اور در حقیقت اسی غرض کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ کی انجمن قائم کی ہے تا جماعت کو یہ احساس ہو کہ اولاد کی تربیت ان کا اہم ترین فرض ہے.رسول کریم ملا ل ا ل لا میں نے یہ نکتہ ایسے اعلیٰ طور پر بیان فرمایا ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.یہ امر ہر شخص جانتا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی اصلاح میں سے مقدم اصلاح لڑکیوں کی ہوتی ہے کیونکہ وہ آئندہ نسل کی مائیں بننے والی ہوتی ہیں اور ان کا اثر اپنی اولاد پر بہت بھاری ہو تا ہے.یہی وجہ ہے کہ جو قوم عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتی مرد و زن دونوں کی اصلاح کی اہمیت اس قوم کے مردوں کی بھی اصلاح نہیں ہوتی.اور جو قوم مردوں اور عورتوں دونوں کی اصلاح کی فکر کرتی ہے ، وہی خطرات سے بالکل محفوظ ہوتی ہے.رسول کریم میں نے اس نکتہ کو کیا ہی لطیف پیرایہ میں بیان فرمایا ہے.آپ ایک دفعہ مجلس میں بیٹھے تھے.صحابہ آپ کے گرد حلقہ باندھے تھے.آپ نے فرمایا جس مسلمان کے گھر میں تین لڑکیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرے تو اس مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت واجب ہو جاتی ہے.اب بظا ہر کوئی ایسا شخص جو قومی ترقی کے اصول سے ناواقف ہو کہہ سکتا ہے کہ یہ کونسی بات ہے.بھلا تین لڑکیوں کی اصلاح سے جنت مل سکتی ہے.وہ سمجھتا ہے کہ تین لڑکیوں کی تربیت کوئی ایسی اہم بات نہیں.حالانکہ جو شخص تین لڑکیوں کی اچھی تربیت کرتا ہے وہ صرف تین کی ہی تربیت نہیں کرتا بلکہ ہزاروں لاکھوں اسلام کے خادم پیدا کرتا ہے.کیونکہ وہ لڑکیاں اچھے لڑکے پیدا کرنے کا موجب بنیں گی اور وہ لڑکے اسلام کے لئے اچھے قربانی کرنے والے ثابت ہوں گے.آج کل لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ ایک کان سے بات سنتے اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں.مگر صحابہ پر اللہ تعالیٰ نے بے انتہا کرم نازل فرمائے ان میں یہ ایک ایسی صحابہ کرام کی ایک خاص خوبی خوبی تھی کہ اسے دیکھ کر دل عش عش کر اٹھتا ہے کہ وہ رسول کریم کے چھوٹے سے چھوٹے فقرہ کی بھی بڑی قدر کرتے تھے.اب یہی روایت جو میں نے بیان کی ہے اس زمانہ کے لوگ اسے سنیں تو اکثر ایک کان سے سن کر دوسرے سے باہر نکال دیں گے گویا کوئی بات ہی نہیں ہوئی ، بلکہ
85 ممکن ہے بعض یہ اعتراض شروع کر دیں کہ بھلا تین لڑکیوں کا جنت سے کیا تعلق ؟ اور جو اس حدیث سے لذت بھی پائیں گے وہ اس کی حقیقت پر غور نہیں کریں گے مگر صحابہ جو اس بات کو مشتاق رہا کرتے تھے کہ رسول کریم م لی کی چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی فائدہ اٹھائیں.انہوں نے جب یہ بات سنی تو وہ جن کی تین لڑکیاں تھیں وہ اس خوشی سے بیتاب ہو گئے کہ وہ ان کی اچھی تربیت کر کے جنت کے حقدار بن جائیں گے مگر وہ جن کی تین لڑکیاں نہیں تھیں بلکہ دو تھیں ان کے چہروں پر افسردگی چھا گئی اور انہوں نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! اگر کسی کی دولڑکیاں ہوں ؟ آپ نے فرمایا.اگر کسی کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان دونوں کی اچھی تربیت کرے تو اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت واجب ہو جاتی ہے.جب آپ نے یہ بات فرمائی تو وہ لوگ جن کی صرف ایک لڑکی تھی وہ افسردہ اور تربیت اولاد کی اہمیت مغموم ہو گئے اور انہوں نے کہا.یا رسول اللہ ! اگر کسی کی دو لڑکیاں نہ ہو بلکہ صرف ایک لڑکی ہو تو وہ کیا کرے ؟ آپ نے فرمایا اگر کسی کی ایک ہی لڑکی ہو اور وہ اسے اچھی تعلیم دے اور اس کی اچھی تربیت کرے تو اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت واجب ہو جاتی ہے.گویا رسول کریم نے اس حدیث کے ذریعہ یہ نکتہ ہم کو بتایا کہ قومی نیکیوں کے تسلسل کو قائم رکھنا انسان کو جنت کا مستحق بنا دیتا ہے.کیونکہ جو قومی تسلسل قائم رکھتا ہے وہ دنیا میں ہی ایک جنت پیدا کرتا ہے اور یہی قرآن کریم نے بتلایا ہے کہ جسے اس دنیا میں جنت ملی اسے ہی اگلے جہان میں جنت ملے گی.جو اس جہان میں اندھا رہاوہ اگلے جہان میں بھی اندھا رہے گا.اور جو اس جہان میں آنکھوں والا ہے وہی اگلے جہان میں بھی بینا آنکھوں والا ہے.تو جو شخص اپنی لڑکی کی اچھی تربیت کرتا ہے، اس میں دین کی محبت پیدا کرتا اور اسے خدا تعالیٰ کے احکام کا فرمانبردار بناتا ہے وہ ایک لڑکی کی تربیت نہیں کرتا بلکہ ہزاروں نیک اور پاک خاندان پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.پس چونکہ وہ دنیا میں نیکی کا ایک محل تیار کرتا ہے اس لئے اللہ تعالٰی بھی فرماتا ہے کہ چونکہ اس نے اسلام کے مکان کی حفاظت کا سامان مہیا کیا ہے اس لئے میں بھی قیامت کے دن اس کے لئے ایک عمدہ محل تیار کروں گا.تو اپنی اولادوں کی مسلسل تربیت کو جاری رکھنا ایک اہم سوال ہے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی اہمیت اور لڑکوں اور لڑکیوں میں سے لڑکیوں کی تربیت کا سوال زیادہ اہمیت رکھتا ہے مگر چونکہ لڑکیوں نے نوکریاں نہیں کرنی ہو تیں اس لئے بالعموم لوگ ان کی تعلیم و تربیت سے غافل رہتے ہیں یا اگر توجہ بھی کرتے ہیں تو زیادہ توجہ نہیں کرتے.حالانکہ انہی لڑکیوں نے آئندہ نسلوں کی ماں بنتا ہو تا ہے اور چونکہ یہ کل کو مائیں بننے والی ہوتی ہیں اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت کی طرف زیادہ توجہ کی جائے.اگر مائیں درست ہوں گی تو لڑکے آپ ہی درست ہو جائیں گے اور اگر ماؤں کی اصلاح نہ ہوگی تو لڑکوں کی بھی اصلاح نہیں ہو گی.اسی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے مدرسہ بنات کی تعلیم کے متعلق خاص طور پر زور دیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ اس کے نصاب کو بدل دینا چاہئے اور لڑکیوں کو ایسی تعلیم دینی چاہئے جس کے نتیجہ میں ان
86 میں قومی روح پیدا ہو اور اسلام کی محبت ان کے قلوب میں موجزن ہو.شروع شروع میں تو کچھ لوگوں نے میری مخالفت کی یا ان کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا چاہئے کہ انہوں نے اسے پسند نہ کیا اور کئی سال تک مجلس شوری کے پروگرام سے یہ معاملہ پیچھے ہتا چلا گیا.مگر آخر جب میں نے زیادہ زور دیا تو اس وقت جماعت میں یہ احساس پیدا ہوا کہ مدرسہ بنات میں اصلاح ہونی چاہئے چنانچہ وہ اصلاح کی گئی اور اس کا نہایت ہی خوشگوار نتیجہ خدا تعالی کے فضل سے اب نظر آنے لگ گیا ہے اور لڑکیوں میں دینی تعلیم بہت حد تک ترقی کر گئی ہے.بلکہ بعض دفعہ لڑکیوں کے مضامین دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کیونکہ وہ بہت سے لڑکوں کے مضامین سے بھی اچھے ہوتے ہیں.اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور کارکنان نے میری اس سکیم کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف اپنی زیادہ سے زیادہ توجہ مبذول رکھی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے نہایت ہی خوشکن نتائج پیدا ہوں گے.لیکن ابھی تک یہ تعلیم قادیان تک ہی محدود ہے اور بیرون جات کی احمدی لڑکیاں اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتیں.اس کے لئے ضروری ہے کہ قادیان میں لڑکیوں کے لئے جلد سے جلد ایک بورڈنگ ہاؤس قائم کیا جائے.جس میں بیرون جات کی لڑکیاں آکر ٹھہر سکیں اور وہ مدرسہ بنات سے دینی تعلیم حاصل کر سکیں.دوسرے یہ بھی ضروری ہے کہ اس مدرسہ کی بیرون جات میں شاخیں کھولی جائیں تاکہ ان میں بھی انہی اصول پر تعلیم کا سلسلہ جاری ہو جن اصول پر قادیان میں جاری ہے تاکہ وہ اچھی مائیں بہنیں اور اچھی نسلیں پیدا کر کے ان کی احمدیت کے نقطہ نگاہ سے پرورش کر سکیں.اسی طرح لڑکوں کی تربیت کیلئے میں نے مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی ہے.مجھے خوشی ہے کہ خدا تعالی کے فضل سے یہ جماعت اچھا کام کر رہی ہے.گو اتنا اچھا نہیں جتنا قومی وسعت کے لحاظ سے ضروری ہے بلکہ اس کا سینکڑواں حصہ بھی نہیں.ابھی سینکڑوں ایسی جماعتیں ہیں جہاں مجالس خدام الاحمدیہ قائم نہیں اور سینکڑوں کام ہیں جو ابھی انہوں نے کرنے ہیں.ابھی تک صرف بیسیوں جماعتیں بنی ہیں اور وہ بھی پوری طرح کام نہیں کر رہیں اور جو کر رہی ہیں ، وہ اپنے کام کی اہمیت کو نہیں سمجھیں.در حقیقت اس وقت تک صرف دس پندرہ جماعتیں ہی ہیں جو اچھا کام کر رہی ہیں.لیکن بہر حال اس کام کی بنیاد پڑگئی ہے اور جب کسی کام کی بنیاد پڑ جائے تو ضرورت پر اسے زیادہ وسیع بھی کیا جا سکتا ہے.میں نے پہلے بھی خدام الاحمدیہ کی مضبوطی کیلئے عہدیداران جماعت کے تعاون کی اہمیت توجہ دلائی تھی اور اب پھر جماعتوں کے پریذیڈنٹوں ، سیکرٹریوں اور دوسرے تمام افراد کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خدام الاحمدیہ کے ساتھ تعاون کریں اور نوجوانوں کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہوں.اسی طرح مان باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس میں داخل کریں تا ان کی اچھی تربیت ہو.جب تک ماں باپ اور جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اس طرف توجہ نہیں کریں گے.جب تک وہ خدام الاحمدیہ کو کوئی اور چیز سمجھیں گے اور اپنے آپ کو کوئی اور چیز سمجھیں گے ، اس وقت تک پوری کامیابی نہیں ہو سکتی.پس ضروری ہے کہ ماں باپ بھی
87 اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور جماعتیں بھی اپنے فرض کو سمجھیں اور جو لوگ اس میں داخل نہیں انہیں مجبور کریں کہ وہ اس میں داخل ہوں اور جو داخل ہو چکے ہیں ان کی نگرانی کریں کہ آیا وہ پروگرام کے مطابق عمل کرتے ہیں یا نہیں.عورتوں کی تربیت کے لحاظ سے میں نے اس کی دوسری شاخ لجنہ اماءاللہ کے نام سے قائم کی ہوئی ہے.یہ لجنہ صرف دو جگہ اچھا کام کر رہی ہے ایک قادیان میں دوسرے سیالکوٹ میں.قادیان میں لجنہ کا زیادہ تر کام جلسے کرانا سلسلہ کے کاموں سے عورتوں کو واقف رکھنا، صنعت و حرفت کی طرف غریب عورتوں کو متوجہ کرنا اور انہیں کام پر لگانا.یہ کام گو آہستہ آہستہ ہو رہا ہے لیکن اگر استقلال اور ہمت سے اس کام کو جاری رکھا گیا تو میں امید کرتا ہوں کہ وہ بیواؤں اور یتامی کا مسئلہ حل کرنے میں کسی دن کامیاب ہو جائیں گی.لجنہ کے اس کام میں تاجروں کی امداد کی بھی ضرورت ہے.انہیں چاہئے کہ لجنہ جو چیزیں بنوائے وہ انہیں بیچ دیا کریں.اس میں ان کا بھی فائدہ ہو گا.کیونکہ آخر وہ نفع ہی پر بیچیں گے اور غرباء کا بھی فائدہ ہے کہ ان کے گزارہ کی صورت ہوتی رہے گی.میں چاہتا ہوں کہ اس کام کو اتنا وسیع کیا جائے کہ نہ صرف قادیان میں بلکہ بیرونی جماعتوں میں بھی کوئی بیوہ اور غریب عورت ایسی نہ رہے جو کام نہ ملنے کی وجہ سے بھو کی رہتی ہو.ہمارے ملک میں یہ ایک بہت بڑا عیب ہے کہ بھوکا رہنا پسند کریں گے مگر کام کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے.یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے اور یہ مانگ کر کھانے کی بجائے کما کر کھانا چاہئے اصلاح اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ہر شخص یہ عہد کر لے کہ وہ مانگ کر نہیں کھائے گا بلکہ کما کر کھائے گا.اگر کوئی شخص کام کو عیب سمجھتا اور پھر بھوکا رہتا ہے تو اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں.لیکن اگر ایک شخص کام کیلئے تیار ہو لیکن بوجہ کام نہ ملنے کے وہ بھوکا رہتا ہو تو یہ جماعت اور قوم پر ایک خطرناک الزام اور اس کی بہت بڑی بہتک اور سبکی ہے.پس کام مہیا کرنا جماعتوں کے ذمہ ہے لیکن جو لوگ کام نہ کریں اور سستی کر کے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالیں ان کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ ان کے اپنے نفسوں پر ہے کہ انہوں نے باوجود کام ملنے کے محض نفس کے کسل کی وجہ سے کام کرنا پسند نہ کیا اور بھوکا رہنا گوارا کر لیا.میرا پروگرام یہ ہے کہ لجنہ کا کام جب یہاں کامیاب ہو جائے تو باہر بھی اسے جاری کیا جائے.یہاں تک کہ کوئی بیوہ اور یتیم عورت ایسی نہ رہے جو خود کام کر کے اپنی روزی نہ کماتی ہو.اس جد وجہد میں اگر ہم کامیاب ہو جائیں تو پھر انہی لوگوں کا بار جماعت پر رہ جائے گا جو بالکل ناکارہ ہیں.جیسے اندھے ہوئے یا لولے اور اپاہج ہوئے.گوہر اندھا نا کارہ نہیں ہو تا بلکہ کئی اندھے بھی بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں.بہر حال جس حد تک اندھوں وغیرہ کیلئے بھی کام مہیا ہو سکتا ہو اس حد تک ہمیں ان کے لئے بھی کام مہیا کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ وہ خود کام کر کے کھائیں.
بریکاری کے انسداد کیلئے اپنے اپنے حلقے میں ذی علم اصحاب سے لیکچر کروائے جائیں معاملہ میں محلوں کے پریذیڈنٹوں کے تعاون کی ضرورت ہے.اگر محلوں کے پریذیڈنٹ مختلف مقررین سے اپنے اپنے محلہ میں وقتا فوقتا ایسے لیکچر دلاتے رہا کریں کہ نکما بیٹھ کر کھانا نہایت غلط طریق ہے.کام کر کے کھانا چاہئے اور کسی کام کو اپنے لئے عار نہیں سمجھنا چاہئے تو امید ہے کہ لوگوں کی ذہنیت بہت کچھ تبدیل ہو جائے.میں نے دیکھا ہے قادیان میں ابھی ایک اچھا خاصا طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جنہیں جب کوئی کام دیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس کام کے کرنے میں ہماری بنک ہے.حالانکہ ہتک کام کرنے میں نہیں بلکہ نکما بیٹھ کر کھانے میں ہے.رسول کریم صلی اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ لوگوں سے مانگ کر کھانا ایک لعنت مانگ کر کھانا ایک لعنت ہے ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے رسول کریم سے کچھ مانگا بعض لوگ صلی اسی کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کسی غیر سے تھو ڑا مانگتے ہیں.ہم تو سلسلہ سے مانگتے ہیں اس کا جواب اسی واقعہ میں آجاتا ہے جو میں بیان کرنے لگا ہوں.کیونکہ اس نے بھی کسی غیر سے نہیں بلکہ رسول کریم میں سے مانگا تھا) آپ نے ات کچھ دے دیا.وہ لیکر کہنے لگا.یا رسول اللہ اکچھ اور دیجئے.آپ نے پھر اسے کچھ دے دیا.وہ پھر کہنے لگا.یا رسول اللہ کچھ اور دیجئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ نے اسے فرمایا.کیا میں تم کو کوئی ایسی بات نہ بتاؤں جو تمہارے اس مانگنے سے بہت زیادہ بہتر ہے.اس نے کہا.کیوں نہیں یا رسول اللہ ! فرمائیے کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا.سوال کرنا خدا تعالیٰ کو پسند نہیں.تم کوشش کرو کہ تمہیں کوئی کام مل جائے اور کام کر کے کھاؤ.یہ دوسروں سے مانگنے اور سوال کرنے کی عادت چھوڑ دو.اس نے کہا.یا رسول اللہ ! میں نے آج سے یہ عادت چھوڑ دی.چنانچہ واقعہ میں پھر اس نے اس عادت کو بالکل چھوڑ دیا.اور یہاں تک اس نے استقلاں دکھایا کہ جب اسلامی فتوحات ہوئیں اور مسلمانوں کے پاس بہت سامان آیا اور سب کے وظائف مقرر کئے گئے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بلوایا اور کہا یہ تمہارا حصہ ہے تم اسے لے لو.وہ کہنے لگا.میں نہیں لیتا.میں نے رسوں کریم ملی لیلی سے یہ اقرار کیا تھا کہ میں ہمیشہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاؤں گا.سو اس اقرار کی وجہ سے میں یہ مان نہیں لے سکتا.کیونکہ یہ میرے ہاتھ کی کمائی نہیں.حضرت ابو بکر نے کہا یہ تمہارا اللہ ہے.اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں.وہ کہنے لگا.خواہ کچھ ہو، میں نے رسون کریم میں ان سے اقرار کیا ہوا ہے کہ میں بغیر محنت کئے کوئی ماں نہیں لوں گا.اب اس اقرار کو مرتے دم تک پورا کرنا چاہتا ہوں اور یہ ماں نہیں لے سکتا.دو سرے سال حضرت ابو بکر رضی تعالیٰ عنہ نے پھر اسے بلایا اور فرمایا کہ یہ تمہار ا حصہ ہے ات لے لو.مگر اس نے پھر کہا میں نہیں لوں گا.میں نے رسول کریم میں سے اقرار کیا ہوا ہے کہ میں محنت کر کے ماں کھاؤں گا.یونہی مفت میں کسی جگہ سے مال ہیں اوں گا.تیسرے سال انہوں نے پھر اس کا حصہ دینا چاہا.مگر اس نے پھر انکار کر دیا.پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عالی عنہ فوت ہو گئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے.انہوں نے بھی ایک دفعہ است بلایا اور کہا یہ
89 تمہارا حصہ ہے ، لے لو.وہ کہنے لگا میں نے رسول کریم میں لیا اور ہم سے عہد کیا تھا کہ میں کبھی سوالی نہیں کروں گا اور ہمیشہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاؤں گا.یہ مال میرے ہاتھ کی کمائی نہیں.اس لئے میں اسے نہیں لے سکتا اور میں ارادہ رکھتا ہوں کہ اپنی موت تک اس اقرار کو نباہتا چلا جاؤں.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت اصرار کیا مگر وہ انکار کرتا چلا گیا.آخر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا.اے مسلمانو! میں خدا کے حضور بری الذمہ ہوں.میں اسکا حصہ اسے دیتا ہوں مگر یہ خود نہیں لیتا.اسی صحابی کے متعلق یہ ذکر آتا ہے کہ ایک جنگ میں یہ گھوڑے پر سوار تھے کہ اچانک ان کا کوڑا ان کے ہاتھ سے گر گیا.ایک اور شخص جو پیادہ تھا اس نے جلدی سے کوڑا اٹھا کر انہیں دینا چاہا تو انہوں نے کہا.اے شخص میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کہ تو اس کوڑے کو ہاتھ نہ لگا ئیو.کیونکہ میں نے رسول کریم میلی لیلی اقرار کیا ہوا ہے کہ میں کسی سے سوال نہیں کروں گا اور خود اپنا کام کروں گا.چنانچہ عین جنگ کی حالت میں وہ اپنے گھوڑے سے اترے اور کوڑے کو اٹھا کر پھر اس پر سوار ہو گئے.ے یہ تو لوگوں کو بتانا چاہئے کہ مانگ کر کھانا ایک بہت بڑا عیب ہے تاکہ اس نقص کی اصلاح ہو.بعض نادان اس موقعہ پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم غرباء کی مدد سے گریز کرتے ہیں.حالانکہ یہاں گریز کا کوئی سوال ہی نہیں.ہمارے پاس حکومت تو ہے نہیں کہ جبرا لوگوں پر ٹیکس عائد کر کے اپنے خزانے بھر لیں اور پھر انہیں لوگوں میں تقسیم کر دیں.یہی وجہ ہے کہ جو ذمہ داریاں خلفائے اول پر عائد تھیں وہ ہم پر نہیں.ان کے پاس اموال قانونی طور پر آتے تھے مگر ہمارے پاس اس رنگ میں اموال نہیں آتے بلکہ ایسے اموال حکومت ہند کے خزانہ میں جاتے ہیں.پس ہم مجبور ہیں کہ مال کی تقسیم میں احتیاط سے کام لیں.لیکن اگر بالفرض اس رنگ میں اموال آتے بھی ہوں تو سوال یہ ہے کہ کیا میں نے وہ مال کھا لینا ہے.اس مال نے تو بہر حال سلسلہ پر خرچ ہونا ہے تو مجھے اس بات کا کیا شوق ہے کہ میں زید کو دوں اور بکر کو نہ دوں.یا مجھے اس سے کیا ہے کہ وہ روپیہ ریویو آف ریلیجز پر خرچ ہوتا ہے یا کسی غریب شخص پر خرچ ہوتا ہے.اگر اسلام کا فائدہ اس میں ہے کہ سلسلہ کا روپیہ ایک غریب کو مل جائے تو اس میں مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے.میری غرض تو اس قسم کی نصائح سے یہ ہے کہ ہماری جماعت میں عزت نفس کا مادہ پیدا کرنا چاہئے جماعت کے اخلاق بلند ہو جائیں اور اس میں عزت نفس کا مادہ پیدا ہو جائے اور لوگ یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نفس کو بھی کوئی شرف بخشا ہوا ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ اس کی قدروقیمت کو سمجھتے ہوئے بلاوجہ اس کی تحقیر نہ کریں.یہ روح ہے جو میں جماعت میں پیدا کرنا چاہتا ہوں اور یہی وہ تعلیم ہے جو رسول کریم اللہ نے دی.پس یہ روپیہ مجھے تو نہیں ملتا کہ مجھے یہ فکر ہو کہ فلاں کو نہ ملے اور فلاں کو مل جائے.اگر یہ روپیہ مجھے ملتاتو کسی کو بد ظنی کا موقعہ مل سکتا تھا اور وہ خیال کر سکتا تھا کہ شاید میں نے اپنے ذاتی فائدہ کے لئے دوسروں کو اس سے
90 محروم کرنے کا ارادہ کر لیا ہے.مگر جب یہ روپیہ میرے پاس نہیں آتا نہ میری ضروریات پر خرچ ہو تا ہے تو مجھے اس میں ذاتی دلچپسی کیا ہو سکتی ہے.پس مجھے ذاتی دلچسپی اس میں کوئی نہیں.ہاں اتنی دلچپسی ضرور ہے کہ میں چاہتا ہوں جماعت کے اخلاق بہت بلند ہوں اور وہ دوسروں سے مانگنے کی عادت ترک کر دیں.پس پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو چاہئے کہ وہ جماعت کے دوستوں کے سامنے یہ مسائل واضح کرتے رہا کریں.میں نے دیکھا ہے اسی نقص کی وجہ سے کہ لوگوں کو مسائل بتائے نہیں جاتے قادیان میں مردوں اور عورتوں کو بلاوجہ سوال کرنے کی عادت ہے اور بجائے کام کرنے کے وہ مانگ کر کھا لینا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں.حالا نکہ ہمیشہ کام کر کے کھانے کی عادت ڈالنی چاہئے اور یہی کام کر کے کھانے کی عادت ڈالنی چاہئے عادت ہے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے.ہاں جہاں کام نہ ملتا ہو وہاں کام مہیا کرنا پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کا کام ہے لیکن جب کام مل جائے تو پھر اس کے کرنے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہئے..پس کام مہیا کر نا ہمارا کام ہے.گو پھر حکومت افراد جماعت کو روزگار مہیا کرنے میں مدد دینی چاہئیے نہ ہونے کی وجہ سے ہم پوری طرح اس فرض کو سرانجام نہیں دے سکتے.مگر پھر بھی ہمارا فرض ہے کہ جس حد تک ہم کام مہیا کر سکتے ہوں اس حد تک جماعت کے دوستوں کے لئے کام مہیا کریں.میں نے بتایا ہے کہ لجنہ اس سلسلہ میں عورتوں کے متعلق مفید کام کر رہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آہستہ آہستہ مجلس خدام الاحمدیہ بھی یہ کام اپنے لائحہ عمل میں شامل کرلے.اور بے کار مردوں کے متعلق ان کا یہ فرض ہو کہ وہ ان کے لئے کام مہیا کریں.بظاہر یہ کام مشکل ہے لیکن اگر وہ سمجھ سے کام لیں گے اور غور کرنے کی عادت ڈالیں گے تو وہ کئی ایسی سکیمیں بنا سکیں گے جن کے ماتحت بریکاروں کو کام پر لگایا جا سکے گا.جب اس قسم کے بے کار لوگ کام پر لگ جائیں گے تو اس سے نہ صرف بے کاروں کو فائدہ پہنچے گا بلکہ سلسلہ کو بھی مالی لحاظ سے فائدہ پہنچے گا.کیونکہ وہ چندے دیں گے اور اس طرح سلسلہ کو مضبوطی حاصل ہو گی.پس یہ اس شخص کا ہی نہیں بلکہ سلسلہ کا بھی فائدہ ہے.یہ ایک اہم کام ہے جس کی طرف جماعتوں کے پریذیڈنٹوں ، سیکرٹریوں اور مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبران کو توجہ کرنی چاہئے.اسی طرح مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبران کو چاہئے کہ وہ ایک پروگرام بنا کر اس کے ماتحت کام کیا کریں.یونہی بغیر سوچے سمجھے کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو تا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اب بھی ہاتھ سے کام کرتے ہیں مگر وہ کام کسی پروگرام کے مطابق نہیں ہو تا.حالانکہ جس طرح بجٹ تیار کئے جاتے ہیں اسی طرح انہیں اپنے کام کے پروگرام وضع کرنے چاہئیں.مثلاً ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے.اس بارہ میں یونہی بغیر پروگرام کے ادھر ادھر کام کرتے پھرنے کی بجائے اگر وہ کسی ایک سڑک کو لے لیں اور اپنے پروگرام میں یہ بات شامل کر لیں کہ انہوں نے سڑک پر بھرتی ڈال کراسے ہموار کرنا اور اس کے گڑھوں کو پر کرنا ہے یا اسی طرح کا کوئی اور کام اپنے ذمہ لے لیں اور اسے وقت معین کے
91 ر مکمل کریں تو یہ بہت عمدہ نتیجہ پیدا کرے گا.بہ نسبت اس کے کہ بغیر ایک معین پروگرام کے وہ کام کرتے جائیں.مگر یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ بھرتی کے کیا معنی ہیں.گذشتہ سال جلسہ سالانہ پر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب آئے تو انہوں نے مجلس خدام الاحمدیہ کے اراکین سے کہا کہ اب کی دفعہ جب کام کرو تو مجھے بھی بلا لینا چنانچہ انہوں نے انہیں بلالیا اور وہ بھی ہاتھ سے کام کرتے رہے.مگر چوہدری صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے میں مجھے معلوم ہوا کہ ان کے کام میں ایک نقص بھی ہے اور وہ یہ کہ سڑک پر جب وہ مٹی ڈال رہے تھے تو سڑک کے پاس ہی ایک گڑھا کھود کر وہاں سے مٹی لے آتے تھے.میں نے انہیں کہا کہ اسکا تو یہ مطلب ہے کہ آج آپ سڑک کے گڑھے پر کریں اور کل آپ ان گڑھوں کو پر کرنے لگ جائیں جو اس سڑک پر مٹی ڈالنے کے لئے آپ نے کھود لیے ہیں.تو یہ ایک نقص ہے جو خدام الاحمدیہ کے کام میں ہے اور اسے دور کرنا چاہئے.مگر اس کے علاوہ ضروری بات یہ ہے کہ وہ ایک سڑک یا ایک گلی لے لیں اور اس کی صفائی اور مرمت اس حد تک کریں کہ اس سڑک یا گلی میں کوئی نقص نہ رہے.مثلا وہ ایک سڑک کو درست کرنا چاہتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ انجنیئروں سے مشورہ لیں اور ان سے پوچھیں کہ یہ سڑک کس طرح درست ہو سکتی ہے پھر جو طریق وہ بتائیں اور جو نقشہ انجنیئر تجویز کریں.اس کے مطابق وہ اس سڑک کی درستی کریں اور چھ مہینے یا سال جتنا وقت بھی اس پر صرف ہو اتنا وقت اس پر صرف کیا جائے اور اس سڑک کو انجنیئر کے بتائے ہوئے نقشہ کے مطابق درست کیا جائے.مگر اب یہ ہوتا ہے کہ چند مٹی کی ٹوکریاں ایک گڑھے میں ڈال دی جاتی ہیں اور چند دوسرے گڑھے میں اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ کوئی کام ہوا ہے.پس پہلی ہدایت تو یہ ہے کہ کوئی ایک کام شروع کیا جائے اور اسے ایسا مکمل کیا جائے کہ کوئی انجنیئر بھی اس میں نقص نہ نکال سکے.دوسری بات یہ ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ دوسرے آدمیوں سے کوئی کام نہیں لیا جاتا.حالانکہ خدام الاحمدیہ کے کام کرنے کے یہ معنی نہیں کہ دوسروں کے لئے اس میں حصہ لینا ممنوع ہے.شعبہ امور عامہ رفاہ عامہ کے کاموں میں خدام الاحمدیہ سے تعاون کرے جو لوگ میرے خطبات سنا کرتے ہیں ، وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ میں نے امور عامہ کو بار بار ہاتھ سے کام کرنے کے پروگرام کی طرف توجہ دلائی ہے.بلکہ بعض دفعہ میں نے اتنی سختی سے کام لیا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان میں ذرا بھی حس ہوتی تو وہ اس کام کی طرف ضرور توجہ کرتے مگر سال گزر گیا اور ابھی تک وہ ایسی نیند سوئے پڑے ہیں کہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے.امور عامہ کی غفلت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ہم لوگ جن کا دل چاہتا ہے کہ رفاہ عام کے کاموں میں حصہ لیں، اس سے محروم رہتے ہیں اور کوئی کام نہیں کر سکتے.پس چونکہ امور عامہ سویا پڑا ہے اس لئے میں مجلس خدام الاحمدیہ کو توجہ دلا تا ہوں کہ وہ صرف ممبران سے ہی کام نہ لیا کریں بلکہ بعض دنوں میں وہ عام
92 اعلان کر کے باقی جماعت کے دوستوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا کریں بلکہ وہ کام کرنے کے لئے مجھے بھی بلا لیا کریں.آخر اگر ہاتھ سے کام کرنا ثواب ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم دوسروں کو تو کہیں کہ اس ثواب میں حصہ لیں مگر خود اس ثواب میں شامل نہ ہوں.یہ تو منافقت ہوگی کہ ہم دو سروں کو تو کہیں کہ فلاں کام بڑا اچھا ہے مگر خو دگھر میں بیٹھ رہیں.ہاں اگر اس کام سے زیادہ بہتر اور زیادہ ضروری کام ہم کوئی کر رہے ہوں تو اس صورت میں بے شک اس کام میں حصہ نہ لینا حرج کی بات نہیں لیکن اگر اور کوئی ایسا ضروری کام نہ ہو تو میرے نزدیک اس وقت ہر چھوٹے بڑے کو اس کام میں حصہ لینا چاہئے اور میں چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے ممبران اپنے کام میں ہمیں بھی شمولیت کا موقعہ دیں.اور یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ امور عامہ سویا ہوا ہے اور اسے اس طرف کوئی توجہ نہیں.و قار عمل کیلئے تعین وقت کے سلسلہ میں حصہ لینے والوں کی سہولت کو مد نظر رکھا میرے نزدیک مجلس خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ مہینہ دو مہینہ میں ایک دن ایسا مقرر کر دیں جس میں جائے.ساری جماعت کو شمولیت کی دعوت دیں.بلکہ میرے نزدیک شاید یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ بجائے ایک گھنٹہ کام کرنے کے سارا دن کام کے لئے رکھا جائے.ایک گھنٹہ کا تجربہ کوئی ایسا مفید ثابت نہیں ہوا.پس آئندہ کے لئے بجائے ایک گھنٹہ کے سارا دن رکھا جائے.اور کوشش کی جائے کہ مہینہ دو مہینہ میں ایک دن تمام لوگ اس کام میں شریک ہوں.بلکہ میرے نزدیک لوگوں کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ دو مہینہ میں ہی ایک دن ایسا ر کھا جائے جس میں تمام لوگ صبح سے شام تک اپنے ہاتھ سے کام کریں.اس طرح سال میں چھ دن بن جاتے ہیں سال میں چھ مرتبہ صبح و شام تک کام کرنے کا پروگرام اس کے لئے یا توجمعہ کا دن رکھ لیا جائے کہ اس دن دفاتر میں چھٹی ہوتی ہے اور یا پھر آخری جمعرات کا دن رکھا جائے کہ اس دن بھی مدرسوں اور دفتروں وغیرہ میں چھٹی ہوتی ہے.تاجروں کے لئے تو کوئی مشکل ہے ہی نہیں.وہ ہر دن چھٹی کر سکتے ہیں.پس دو مہینہ میں ایک دن ایسا مقرر کیا جائے اور اس میں سارا دن کام کیا جائے.شاید سارا دن کام کرنا نتائج کے لحاظ سے زیادہ مفید ثابت ہو.اس طرح سال میں چھ دن بن جاتے ہیں اور اگر ایک دن میں ایک ہزار آدمی بھی صبحت لے کر شام تک کام کریں تو چھ ہزار مزدور کا کام بن جاتا ہے اور چھ ہزار مزدور کا کام کوئی معمولی کام نہیں ہو تا بلکہ بہت اہم اور شاندار ہو تاہے.بلکہ میرے نزدیک قادیان میں ہاتھ سے کام کرنے والے کم از کم چار ہزار افراد میں او.اگر چار ہزار کی نسبت رکھی جائے تو چو ہیں ہزار مزدور بن جاتے ہیں.اور چو ہیں ہزار مزدوروں کا نام ار ایک پروگرام کے ماتحت ہو تو بہت بڑا تغیر پیدا کر سکتا ہے.بے شک ہم لوگ جو کام کے عادی نہیں مزدوروں جتہ نا کام
93 نہیں کر سکتے.لیکن اگر ہم مزدوروں کے کام کا دسواں حصہ بھی کریں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ سال میں اڑھائی ہزار مزدوروں نے کام کیا اور اڑھائی ہزار مزدوروں کا کام بھی کوئی معمولی کام نہیں ہو تا.اگر چھ آنے ہر مزدور کی یومہ اجرت فرض کی جائے تو قریباً ایک ہزار روپے کا کام ہم سال میں صرف چھ دن دے کر کر سکتے ہیں.پس خدام الاحمدیہ کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کا کام صرف اپنے تک ہی محدو! نہیں رکھنا چاہئے.بلکہ بعض کام جن میں ساری جماعت کی شمولیت مفید نتائج پیدا کر سکتی ہو ان میں ساری جماعت کو شمولیت کا موقعہ دینا چاہئے.پس میں قادیان کے خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سال میں چھ دن ایسے مقرر کریں جن میں یہاں کی تمام جماعت کو کام کرنے کی دعوت دی جائے بلکہ مناسب یہی ہو گا کہ وہ ابتداء میں چھ دن ہی رکھیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں دو مہینہ میں ایک دن کام کر لینا کوئی بڑی بات نہیں.مثلاً آخری جمعرات ہو تو اس دن عام اعلان کر دیا جائے کہ آٹھ دس سال کے بچوں سے لیکر ان بوڑھوں تک جو چل پھر سکتے اور کام کاج کر سکتے ہیں فلاں جگہ جمع ہو جائیں.ان سے فلاں کام لیا جائے گا.پھر پہلے سے پروگرام بنایا ہوا ہو و قار عمل کے کام کو خاص پروگرام کے تحت سرانجام دیا جائے کہ فلاں سڑک پر کام کرتا ہے.فلاں جگہ سے مٹی لینی ہے.اتنی بھرتی ڈالنی ہے.اس اس ہدایت کو مد نظر رکھنا ہے..اور جماعت کے انجنیز اس تمام کام کے نگران ہوں اور جماعت کے انجنیئر اس کام کی نگرانی کریں ان کا منظور کردہ نقشہ اوکوں کے سامنے ہو اور اس کے مطابق سب کو کام کرنے کی ہدایت دی جائے.میں سمجھتا ہوں اگر پہلے سے ایک سکیم مرتب کر لی جائے تو آسانی سے بہت بڑا کام ہو سکتا ہے.غرض حکیم اور نقشے پہلے تیار کر لیں اور اس دن جس طرح فوج پریڈ کرتی ہے اسی طرح ہر شخص حکم ملنے پر اپنے اپنے حلقہ کے ماتحت پریڈ پر آجائے.دیکھو قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن اور کافر اپنے اپنے لیڈروں کے پیچھے آئیں گے.رسول کریم ملی یا اللہ نے فرمایا ہے کہ اس دن ہر نبی اپنا اپنا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہو گا اور ہرنبی کے ساتھ اس کی امت ہو گی.یہ نہیں ہو گا کہ قیامت کے دن شور پڑا ہوا ہو اور کوئی کدھر جا رہا ہو اور کوئی کدھر.بلکہ ہر شخص اپنے اپنے لیڈر کے جھنڈے کے نیچے ہو گا.اس میں در حقیقت اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ جب بہت بڑے اجتماع ہوں تو اس وقت حلقوں اور دائروں کا مقرر کرنا ضروری ہوتا ہے.مثالا ہر محلہ والے اپنے اپنے محلہ کے پریذیڈنٹ یا کسی اور افسر کی ہدایات کے ماتحت کام کریں.یا لوگوں کے حلقوں میں کوئی اور تقسیم ہو سکتی ہو تو وہ کرلی جائے.ہر ماں یہ شخص کسی نہ کسی حلقہ میں ہو اور کام شروع کرنے ت دو دن پہلے ہر شخص کو بتا دیا جائے کہ تم نے فلاں حلقہ میں فلاں کام کرنا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس طریق پر اگر یک تو دونوں کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہو جا.ہیں.و سرے ے اس مشتر کہ جد و جہد کے نتیجہ میں کوئی مفید نام بھی ہو جائے گا.اب دارا نت دا را فضل اور دوسرے محلوں کو دیکھ لو.ان کی کلیاں
94 کس قدر گندی ہیں.پھر ان محلوں میں کئی گڑھے ہیں.اونچی نیچی جگہیں ہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو ان گڑھوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے.جس کے نتیجہ میں نہ صرف ملیریا اور ٹائیفائیڈ پھیلتا ہے بلکہ بعض دفعہ انسانی جانیں بھی تلف ہو جاتی ہیں.تھوڑا ہی عرصہ ہوا ایک خطرناک حادثہ یہاں ہوا اور وہ یہ کہ حافظ غلام رسول صاحب و زیر آبادی کی آخری بیوی کا اکلوتا لڑ کا ایسے ہی ایک پانی سے بھرے ہوئے گڑھے میں گر کر ڈوب گیا.یہ ہماری غفلتوں کا ہی نتیجہ ہے.اگر ہم غفلت نہ کرتے اور گڑھوں کو اب تک پر کر دیتے تو یہ واقعہ کیوں ہو تا.کہا جاتا ہے کہ جس زمین میں یہ واقعہ ہوا ہے اس میں ہندوؤں کا بھی دخل ہے.لیکن اگر اس کے گرد دیوار ہی بنا دی جاتی تب بھی یہ واقعہ نہ ہوتا اور اس ایک واقعہ کے بعد اب یہ کب اطمینان ہو گیا ہے کہ آئندہ ایسا واقعہ کوئی نہیں ہو گا.مگر اس دن تو جس نے یہ واقعہ سنا افسوس کر دیا لیکن دوسرے ہی دن اثر جاتا رہا اور یہ خیال بھی نہ رہا کہ ہمیں اس قسم کے گڑھوں کو پر کرنے کا فکر کرنا چاہئے تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں اسی طرح پانی کی گندگی کی وجہ سے ہر سال ملیریا آتا ہے اور دس دس پندرہ پندرہ دن ایک شخص بیمار رہتا ہے.ملیریا کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ گڑھوں میں پانی جمع رہتا ہے اور اس کی سڑانڈ کی وجہ سے مچھر پیدا ہو جاتے ہیں جو انسانوں کو کاٹتے اور ملیریا میں مبتلا کر دیتے ہیں.اس بخار کی وجہ سے لوگ پندرہ پندرہ دن تک بیمار رہتے ہیں اور اگر دس دن بھی ایک شخص کے بیمار رہنے کی اوسط فرض کر لی جائے اور ایک گھر کے پانچ افراد ہوں تو سال میں ان کے پچاس دن محض ملیریا کی وجہ سے ضائع چلے جاتے ہیں.حالانکہ اگر وہ چھ دن بھی کوشش کرتے تو ملیریا کو جڑھ سے نابود کر دیتے مگر لوگ دوائیوں پر پیسے الگ خرچ کرتے ہیں ، تکلیف الگ اٹھاتے ہیں، طاقتیں الگ ضائع کرتے ہیں ، عمرمیں الگ کم ہوتی ہیں ، موتیں الگ ہوتی ہیں اور پھر سال میں پچاس دن بھی ان کے ضائع چلے جاتے ہیں.مگر تھوڑا سا وقت خرچ کر کے قبل از وقت ان باتوں کا علاج نہیں کرتے.وہ کام جو میں بتا تا ہوں صفائی اور حفظان صحت کے لحاظ سے وقار عمل کے دور رس اثرات اگر دوست کرنے لگ جائیں تو ان کی صحتیں بھی درست رہیں گی.ان کے پیسے بھی بچیں گے.ان کے محلوں کی شکل و صورت بھی اچھی ہو جاۓ گی.ان کا نیک اثر بھی لوگ قبول کریں گے اور ان کے پچاس دن بھی بچ جائیں گے.گویا خدا بھی راضی ہو جائے گا.لوگ بھی تعریف کریں گے اور خود بھی فائدہ اٹھائیں گے.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگ اس بات کی اہمیت کو نہیں سمجھتے.وہ عدم صفائی کی وجہ سے جانی قربانیاں بھی کرتے ہیں.اپنے بیوی بچوں کو بھی تکلیف میں ڈالتے ہیں اور اپنے روپیہ کو بھی برباد کرتے ہیں.مگر اس آسان سادہ اور صحت بخش طریق کو اختیار کرنے کیلئے شوق سے تیار نہیں ہوتے.حالانکہ ملیریا ایسا خطرناک اثر انسانی طبیعت پر چھوڑ جاتا ہے کہ وہ بچے جو ملیریا زدہ ہوتے ہیں ، جب بڑے ہوتے ہیں تو ان کے دل بالکل مردہ ہوتے ہیں ، ان کی امنگیں کو تاہ ہوتی ہیں اور ان کے خیالات نہایت پست ہوتے ہیں اور جوان ہونے سے پہلے ہی وہ بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں.حالانکہ اس کا
95 علاج ان کے بس میں ہوتا ہے اور وہ اگر چاہیں تو آسانی سے ملیریا کا قلع قمع کر سکتے ہیں.یہی حال صفائی کا ہے.ہمارے ملک کے لوگ گندگی اور غلاظت کو دور کرنے کا خیال تو نہیں کرتے مگر بیماری کے ذریعہ اپنے اوقات اور اپنے اموال اور اپنی صحت کی بربادی قبول کر لیتے ہیں.ٹائیفائیڈ ہمیشہ اس گند اور پاخانہ کی وجہ سے پھیلتا ہے جو گلیوں میں جمع رہتا ہے اور جس میں ایسے مریضوں کے پاخانے بھی شامل ہوتے ہیں.وہ پاخانہ پہلے تو گلیوں میں ہوتا ہے پھر جب بارش ہوتی ہے تو زمین میں جذب ہو جاتا ہے.اور پھر کنوؤں کے پانی میں مل کر لوگوں کے پینے میں استعمال ہونے لگتا ہے اور اس طرح تمام شہر میں ٹائیفائیڈ پھیل جاتا ہے.قادیان کی نئی آبادی نہایت کھلے مقامات میں ہے اور بڑے بڑے شہروں کی آبادی کے مقابلہ میں نہایت پر فضا اور صحت بخش ہے.اور اگر ظاہری حالت کو دیکھا جائے تو یہاں کے لوگوں کی صحت بہت اعلیٰ ہونی چاہئے.مگر واقعہ یہ ہے کہ یہاں ٹائیفائیڈ بڑی کثرت سے ہو تا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ پاخانہ اور گند جو گلیوں میں جمع ہوتا ہے بارش کے دنوں میں زمین کے اندر جذب ہو جاتا ہے اور پھر کنوؤں کے پانی میں مل کر لوگوں کو مرض میں مبتلا کر دیتا ہے.پس ہم لوگ بلا وجہ قربانی کرتے ہیں اور بلا وجہ بیماریوں پر روپیہ ضائع کرتے اور پھر پچاس دنوں کا ضیاع بھی کرتے ہیں.مگر وہ طریق اختیار نہیں کرتے جس میں خدا تعالیٰ کی بھی خوشنودی ہے اور اپنا فائدہ بھی ہے.اگر خدام الاحمدیہ کے ممبران یہ کام کریں اور پوری تندہی اور محنت کے ساتھ اس طرف توجہ کریں تو میں سمجھتا ہوں ایک سال کے اندر ہی وہ قادیان میں ایسا الشان تغیر پیدا کر سکتے ہیں کہ جلسہ سالانہ پر آنے والے لوگ حیران ہو جائیں گے اور وہ کہیں کہ یہ قادیان پہلا قادیان نہیں اور پھر ایک سال کے بعد ہی وہ دیکھیں گے بیماریاں بھی مٹ گئی ہیں لوگوں کی صحتیں بھی درست ہو گئی ہیں اور ان کا روپیہ بھی بچ گیا ہے.یوں تو بیماریاں دنیا میں رہتی ہی ہیں کیونکہ بعض کمزور طبع لوگ ہوتے ہیں جو امراض کا جلد شکار ہو جاتے ہیں.لیکن کم سے کم لوگ ان بیماریوں سے بچ سکتے ہیں جو وبائی صورت میں ایک مہلک رنگ اختیار کر لیتی ہیں.یہ میں نے ایک مثال دی ہے ورنہ اصل مضمون میں یہ بیان کر رہا تھا کہ سلسلہ کے ہر محکمہ کو کام ایک پروگرام کے ماتحت کرنا چاہئے.تا ہر وقت وہ آنکھوں کے سامنے رہے اور اس کے پورا کرنے کا خیالی رہے.ور نہ دن بہت نازک آرہے ہیں اور اگر اس وقت اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہ کی گئی تو پھر اصلاح کا وقت ہاتھ سے نکل جائے گا." (خطبه جمعه فرموده ۳ فروری ۱۹۳۹ء مطبوعہ ”الفضل ۱۷فروری ۱۹۳۹ء)
ذکر خدا پر زور دے ذکر خُدا پر زور دے ظلمت دل مٹائے جا گوہر شب چراغ بن دُنیا میں جگمگائے جا دوستوں دشمنوں میں فرق و اب سلوک یہ نہیں آپ بھی جام نے اُڑا غیر کو بھی پلائے جا خالی اُمید ہے فضول نعي عمل بھی چاہیے ہاتھ بھی تو بلائے جا اس کو بھی بڑھائے جا جو لگے تیرے ہاتھ سے زخم نہیں علاج ہے میرا نہ کچھ خیال کر زخم یونہی لگائے جا مانے نہ مانے اس سے کیا بات تو ہوگی دو گھڑی قصه دل طویل کر بات کو تو بڑھائے جا کشور دل کو چھوڑ کر جائیں گے وہ بھلا کہاں آئیں گے وہ یہاں ضرور تو انہیں بس بلائے جا منزل عشق ہے کٹھن راہ میں رابزن بھی ہیں پیچھے نہ مڑ کے دیکھ تو آگے قدم بڑھائے جا عشق کی سوزشیں بڑھا جنگ کے شعلوں کو دبا پانی بھی سب طرف چھڑک آگ بھی تو لگائے جا
97 0 O مجلس خدام الاحمدیہ کے پروگرام میں سے بعض باتیں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کا قیام.قومی تحریک کے دوا هم بازو خدام الاحمدیہ نوجوانوں میں قومی اور ملی روح پیدا کرے قوم اور قومی روح کا حقیقی مفہوم ہمارا اصلی پروگرام قرآن کہ یم ہے، خدام الاحمدیہ قرآن کریم باترجمہ پڑھنے پڑھانے کا انتظام کرے آوارگی سب بیماریوں کی جڑ ہے خدام الاحمدیہ کا فرش ہے کہ پاؤں سے آوارگی کو دور کرے کھیلنا آوارگی میں داخل نہیں །
98 " میں نے پچھلے خطبہ میں اس امر کا ذکر کیا تھا کہ خدام الاحمدیہ اپنے کام ایک پروگرام کے ماتحت کریں جیسی جماعت کا وجود ایک نہایت ہی ضروری اور اہم کام ہے اور نوجوانوں کی درستی اور اصلاح اور ان کا نیک کاموں میں تسلسل ایک ایسی بات ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.میں نے بتایا تھا کہ مستورات کی اصلاح کے لئے لجنہ اماءاللہ کا قیام اور مردوں کی اصلاح کیلئے خدام الاحمدیہ کا قیام گویا دونوں ہی قومی تحریک کے دو بازو ہیں اور تربیت کی تکمیل کے لئے نہایت ضروری امور میں سے ہیں.میں نے خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی کہ ان کو اپنے کام ایک پروگرام کے ماتحت کرنے چاہئیں.یہ نہیں کہ بغیر پروگرام کے کام کرتے رہیں کیونکہ اس طرح بغیر پروگرام کے کام کرنے سے چنداں فائدہ نہیں ہو تا.آج میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کو اپنے قریب مستقبل میں اور بعید میں بھی بعض باتیں اپنے پروگرام میں شامل کرنی چاہئیں.ممکن ہے ان کے سوا بعد میں بعض اور باتیں بھی شامل ہوتی جائیں.لیکن مستقبل قریب میں انہیں مندرجہ ذیل باتوں پر خاص توجہ کرنی چاہئے ان میں سے بعض تو ایسی ہیں کہ وہ ہمیشہ ہی ان کے کام کے ساتھ وابستہ رہنی چاہئیں اور بعض ایسی ہیں جو مختلف زمانوں میں مختلف شکلیں بدل سکتی ہیں.ان کے فرائض میں سے پہلا فرض یہ ہونا چاہئے خدام الاحمد یہ نوجوانوں میں قومی روح پیدا کرے کہ اپنے ممبروں میں قومی روح پیدا کر یں.قوم کا لفظ آجکل اتنابد نام ہو چکا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول اس سے چڑ جایا کرتے تھے.جب کوئی شخص آپ کے سامنے کہتا کہ ہماری قوم تو آپ فرمایا کرتے کہ ”ہماری قوم کیا ہوتی ہے ؟ ہمارا مذ ہب کہنا چاہئے.لیکن در حقیقت بات یہ ہے کہ جہاں یہ لفظ نسلی امتیاز پر دلالت کرتا ہے وہاں مذہبی امتیاز پر بھی دلالت کرتا ہے.چنانچہ خود قرآن کریم میں بھی اس کی مثال موجود ہے جیسا کہ اِن قَومِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا - حضرت خلیفته المسیح الاول کا اعتراض بوجہ اس غلط استعمال کے تھا جو آجکل اس لفظ کا ہو رہا ہے اور جب کسی لفظ کا اس طرح غلط استعمال عام ہو جائے تو بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے.جب قوم کا لفظ نسلی یا سیاسی جتھے کے معنوں میں استعمال ہونے لگے اور مذہب کا جبھہ اس سے مراد نہ ہو تو اس کا استعمال قابل اعتراض ہے کیونکہ دنیا میں اسلام کی غرض یہ ہے کہ تمام سیاسی، نسلی اور اقتصادی جتھوں کو مٹادے اور بنی نوع انسان میں ایک عام اخوت کی تعلیم رائج کرے.پس اس لفظ کے غلط استعمال کی وجہ سے اگر کبھی اس لفظ کو استعمال سے خارج کر دیا جائے تو یہ کوئی بری بات نہیں لیکن اپنے وسیع معنوں میں یہ لفظ برا نہیں.غرض خدام الاحمدیہ کو یاد رکھنا چاہئے کہ قومی اور ملی روح کا پیدا کرنا ان کے ابتدائی اصول میں سے ہے.اس سال جلسہ سالانہ پر میں نے جو تقریر کی تھی اس میں بتایا تھا کہ نبوت کی پہلی غرض ملی روح کا پیدا کر نا تھا.چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت اور شریعت کا مرکزی نقطہ ملی روح پیدا کرنا ہی تھا.اس وقت لوگ گناہ سے واقف نہ تھے اور نہ ہی ثواب کی زیادہ راہیں ابھی تک کھلی تھیں.اس وقت حضرت آدم کی نبوت کی غرض یہی تھی کہ
99 تعاون کی روح جو ایک حد تک ابھر چکی تھی اسے مکمل کریں اور اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملی روح کا سبق وہ سبق ہے جو ہمارے پہلے روحانی باپ نے دیا اور سب سے پہلا الہام جو اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہو اوہ ملی روح کے لئے ہی تھا یعنی یادم اسكُرُ أَنتَ وَ رُو جُكَ الجنة اے آدم تو اور تیرے ساتھی جنت میں رہو.یعنی اکھٹے مل کر تعاون کے ساتھ رہو اور ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہ کرو.زوج کے معنی بیوی کے بھی ہوتے ہیں مگر ساتھی کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام حضرت مسیح موعود کے الہامات قرآن کریم کی تفسیر ہیں کے الہامات میں جہاں یہ لفظ بیوی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے وہاں کئی الہام ایسے ہیں جن میں یہ جماعت کے معنوں میں آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات در اصل قرآن کریم کی تفسیر ہیں اور الفاظ قرآنی کے جو معنی اس زمانہ میں مخفی تھے اللہ تعالی نے آپ کے الہامات میں ان کا استعمال کر کے وہ معانی ظاہر فرما دیئے ہیں اور اگر کوئی شخص آپ کے الہامات کا مطالعہ کرتا رہے تو قرآن کریم کی تفسیر میں اس کا علم بہت وسیع ہو سکتا ہے اور آپ کے الہاموں میں زوج کا لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے.کہیں اس کے معنی بیوی کے ہیں اور کہیں مخلص جماعت کے اور زوج کے معنوں میں یہ امتیاز معلوم کرنے کے بعد جب اسے قرآن کریم کی اس آیت پر چسپاں کریں تو وسیع مطالب کھل جاتے ہیں.غرض یادم اسكن انتَ وَزَرُ جُكَ الحنة کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ آدم اور اس کی بیوی جنت میں رہیں.مگر اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ آدم اور اس کے مخلص ایک جگہ مل کر رہیں اور محبت سے رہیں.تعاون کا مفہوم جنت کے لفظ سے نکلتا ہے.جنت کی تشریح تعاون کا مفہوم.جماعتی نظام کو نمایاں کرو اسلام نے یہ کی ہے کہ دلوں سے کینہ و بغض نکال دیا جائے گا اور جب یہ حکم ہو کہ جنت میں رہو تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اپنی زندگی میں جنت کی کیفیات پیدا کرو اور باہم تعاون کے ساتھ رہو.ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ سے بچو.جماعتی نظام کو نمایاں کرو اور شخصی وجود کو اس کے تابع رکھو.اور دراصل اس کے بغیر حقیقی تعاون کبھی ہو ہی نہیں سکتا.حقیقی تعاون کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ انسان شخصی آزادی کو قربان کر دے.دو شخص اکٹھے چل رہے ہیں.ایک تیز چلنے والا ہے اور دو سوا کمزور اب دونوں کے اکٹھا چلنے کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ تیز چلنے والا اپنی رفتار کو کم کر دے اور آہستہ چلنے لگے کیونکہ کمزور تو تیز نہیں چل سکتا.ایک بوڑھا جو لاٹھی ٹیک کر چلتا ہے اور ایک تیز چلنے والا نوجوان اکٹھے چلیں اور بوڑھا یہ امید رکھے کہ نوجوان آہستہ چلے اور نوجوان یہ کہ بوڑھا تیز چلے تارونوں اکٹھے چل سکیں تو تم سمجھ سکتے ہو کہ دونوں میں سے کس کی امید جائز سمجھی جائے گی یقینا بوڑھے کی کیونکہ بوڑھا اگر کوشش بھی کرے تو بھی تیز نہیں چل سکتا لیکن نوجوان آہستہ چل سکتا ہے اور اگر چاہے تو اپنی رفتار کو سست کر کے بوڑھے کو
100 ساتھ لے جاسکتا ہے اور اس لئے دونوں میں سے وہی مطالبہ صحیح ہو سکتا ہے جو ممکن ہے.نوجوان اگر یہ مطالبہ کرے کہ بوڑھا تیز چل کر اس کے ساتھ ملے تو اس کا یہ مطالبہ بے وقوفی کا مطالبہ سمجھا جائے گا کیونکہ تیز چلنا بوڑھے کے لئے ممکن ہی نہیں.ہاں وہ خود تیز چلنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی آہستہ چل سکتا ہے لیکن جب یہ ایسا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اپنی آزادی پر قید لگاتا ہے.خدا تعالی نے اسے طاقت دی ہے کہ چار پانچ میل ایک گھنٹہ میں طے کر جائے مگر چونکہ اس کا ساتھی بوڑھا ہے اور پون میل سے زیادہ نہیں چل سکتا، اس لئے یہ بھی اپنی رفتار اتنی ہی کر لیتا ہے اور اتنا ہی چلتا ہے.اس کا اتنی کم رفتار سے چلنا اس کی اپنی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اپنے بوڑھے اور کمزور ساتھی کو بھی ساتھ لے جاسکے اور یہی حقیقی تعاون ہے کہ انسان کو اختیار اور طاقت حاصل ہو رتبہ حاصل ہو ، روپیہ موجود ہو مگر وہ ان کے متعلق اپنے اختیارات پر خود قید میں لگا دے.روپیہ خرچ کرنے کے لئے موجود ہو مگر کم خرچ کرے یا اسے دو سروں کے لئے خرچ کرنے لگے.موجود ہونے کے باوجود کم خرچ کرنے کی مثال روزہ ہے اور دوسروں کی خاطر خرچ کرنے کی مثال صدقہ ہے.روزہ میں کم خرچ کیا جاتا ہے.ایک امیر آدمی بھی سب کچھ موجود ہونے کے باوجود اپنی شکل قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر مقدم کرے غریبوں کی سی بنا تا ہے.دراصل سحری کی غرض یہی ہے کہ انسان جو بھی کھاتا ہے چوری چھپے کھاتا ہے اور جب لوگوں کے سامنے آتا ہے تو ایسی حالت میں کہ اس کے چہرہ سے فاقہ کشی اور غربت کے آثار ہویدا ہوتے ہیں اور اس طرح وہ جسے کھانے کو ملتا ہے اور وہ بھی جسے نہیں ملتا سب یکساں نظر آتے ہیں.جو کچھ کھانا ہو تا ہے وہ سحری کے وقت ہی کھا لیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کے سامنے آنے کے وقت سب کی شکلیں غربت ظاہر کر رہی ہوتی ہیں.حج کی بھی یہی صورت ہے سب کے لئے حکم ہے کہ ایک چادر لپیٹ لو اور اس طرح لباس میں تکلفات کوٹ صدری، قمیض ، بنیان و غیرہ اڑ گئیں.پھر اس چادر کی سلائی کو بھی روک دیا کیونکہ سب فیشن دراصل سلائی سے ہی پیدا ہوتے ہیں.صرف ایک کپڑا پہننے کی اجازت ہے اور سب کے لئے یہی حکم ہے.اسی طرح ہماری شریعت نے دونوں رنگ رکھتے ہیں.کہیں تو کم خرچ کرنے کو کہا اور کہیں دوسروں کے لئے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے.روپیہ موجود ہے مگر انسان اس کا استعمال نہیں کر سکتا اس لئے کہ اپنے غریب یا نادار بھائی کے مشابہ نظر آسکے یا چیز موجود ہے مگر اللہ تعالی کا حکم ہے کہ دوسرے کو دے دو اور اسی کا نام ملی روح ہے یعنی اپنی طاقتوں کو اور ذرائع کو مقید اور محدود کر دیا جائے اور اس ملی روح کے کمال کا نقطہ یہ ہے کہ انسان کے اندر یہ بات پیدا ہو جائے کہ جہاں میری ذات کا مفاد میری قوم کے مفادت ٹکرائے وہاں قومی مفاد کو مقدم کروں گا اور اپنی ذات کو نظر انداز کر دوں گا اور جب کسی جماعت میں یہ پیدا ہو جائے تو وہ کسی سے ہارتی نہیں.صحابہ کرام کی حالت ہمارے سامنے ہے.رسول کریم ملی دلیل اللہ کی ذات کے لئے صحابہ جو قربانیاں کرتے تھے وہ بھی دراصل اسلام کے لئے ہی تھیں کیونکہ وہ آپ کو اسلام کا مکمل نمونہ خیال کرتے تھے اور اس لئے آپ کے مقابلہ میں اپنی
101 شخصیتوں کو بالکل نظر انداز کر دیتے تھے.مذہبی جماعتوں میں تو یہ روح بہت بڑی ہوتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ دنیوی قوموں میں بھی جب یہ بات پیدا ہو جائے تو وہ بہت ترقی کر جاتی ہیں.آج کل دیکھ او انگلستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی یہ موضوع زیر بحث آتا رہتا ہے کہ عورت کا کام کیا ہے.بڑے بڑے لوگ ہمیشہ اس پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں.مگر کیا مجال جو کوئی یہ کہنے کی جرات کر سکے کہ عورت کا کام یہ ہے کہ وہ گھر کی چار دیواری میں بیٹھے.اگر کوئی شخص ایسی بات کہہ دے تو ایک طرف عورتیں اس کے پیچھے پڑ جائیں کی کہ یہ ہماری آزادی کا دشمن ہے اور دوسری طرف اخبارات میں مرد اسے غیر مہذب اور غیر متمدن کہیں گے لیکن جرمنی میں ہٹلر نے کہہ دیا کہ عورت کا کام یہ ہے کہ اپنے گھر میں بیٹھے اور سب نے اسے تسلیم کر لیا.جو بات یہاں ہندوستان میں جو ایک غلام ملک ہے ، کہنے کی جرات نہیں کرتا وہ ایک آزاد ملک میں کہی گئی اور سب نے اسے بلا چون و چرا تسلیم کر لیا ، حالانکہ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ یورپ میں اس کا سمجھنا بالکل ناممکن ہے کہ عورت گھر میں کس طرح رہ سکتی ہے مگر ہٹلر نے جو حکم دیا اسے سب نے تسلیم کیا اور عمل کیا.اگر چہ کوئی ایسا طبقہ ہو سکتا ہے جو دل سے اس خیال کے ساتھ متفق نہ ہو مگر یہ جرات کسی کو نہیں ہوئی کہ مقابلہ پر آئے.یہاں بڑے بڑے شہروں مثلا لاہور ، دہلی ، شملہ میں آئے دن عورت مرد کی مساوات کا شور رہتا ہے.مساوات کے یوں تو سب ہی قائل ہیں مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ مساوات ہے کسی معاملہ ہیں.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ جموں میں ایک حج اسی موضوع پر ان سے بحث کرنے لگا کہ مرد و عورت میں مساوات ہوئی ہو رہی ہے.آپ نے فرمایا کہ پچھلی مرتبہ آپ کی بیوی سے لڑ کا ہو ا تھا.اب کے آپ کے ہو نا چاہئے.یہ جواب سن کر وہ کہنے لگا کہ میں نے سنا ہوا کروہ تھا مولوی بد تہذیب ہوتے ہیں مگر میں آپ کو ایسا نہ سمجھتا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ آپ بھی ایسے ہی ہیں.آپ نے فرمایا کہ اس میں بد تہذیبی کی کوئی بات نہیں.میں نے تو ایک مثال دی تھی اور آپ کو بتایا تھا کہ جب فطرت نے دونوں کو الگ الگ کاموں کے لئے پیدا کیا ہے تو اس مساوات کے شورت کیا فائدہ ؟ تھی تو یہ سچائی مگر ایسے جنگے طور پر پیش کی گئی کہ اسے بری گئی اور شاید اس کے حالات کے لحاظ سے حضرت خلیفہ اون کے لئے اس کے سوا چارہ نہ ہو.حقیقت یہ ہے کہ مساوات بے شک ہے مگر دونوں نے کام الگ الک میں اس بات کو پیش کرنے کی کسی کو جرات نہیں ہوتی کیونکہ قومی روح موجود نہیں.ہر شخص اپنی ذات کو دیکھتا ہے.اگر عورتوں کے لئے یہ قربانی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں تو مرد کے لئے بھی اس کے مقابلہ میں یہ بات ہے کہ میدان جنگ میں جاکر سر کٹوائے.لیکن چونکہ قومی اور ملی روح موجود نہیں اس لئے ان باتوں کو کوئی پیش کرنے کی جرات نہیں کرتا.لیس خدام الاحمدیہ اس بات کو اپنے پروگرام میں خاص طور پر ملحوظ بار بار دہرانے کی اہمیت رکھیں کہ قومی اور ریلی روح کا پید اگر نانہایت ضروری ہے.اصولی پر ہر ایک سے یہ اقرار دیا جائے اور اتے بار بارہ ہرایا جائے.محض اقرار کافی نہیں ہو تا بلکہ بار بار : هر انا اشد ضروری ہو تاب.آج علم النفس کے ماہر اس بات پر بڑا زور دیتے ہیں کہ دہرانے سے بات اچھی
102 طرح ذہن نشین ہو جاتی ہے لیکن ان کی یہ بات جب میں پڑھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح آج سے چودہ سو سال قبل اسلام نے اسی بات کو پیش کیا ہے.اسلام ہی ہے جس نے نہایت مختصر الفاظ میں مذہب کا خلاصہ پیش کر دیا ہے.لا الہ الا الله محمدٌ رَسُولُ اللہ کیا ہے ؟ یہ اسلامی تعلیم کا خلاصہ ہے اور جب میں علم النفس کا یہ مسئلہ پڑھتا ہوں تو حیران ہو تا ہوں کہ یہ لوگ آج تحقیقا تیں کر رہے ہیں.ہٹلر آج کہتا ہے ، لیکن محمد رسول اللہ لی لی نے چودہ سو سال قبل یہ نکتہ بتا دیا تھا.ہٹلر نے اپنی تصنیف میں لکھا ہے کہ میں نے قومی ترقی کے ذرائع پر بڑا غور کیا اور آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ قومی ترقی کے اسباب کو تھوڑے سے تھوڑے لفظوں میں بیان کرنا چاہئے جو بار بار لوگوں کے سامنے آتے رہیں اور وہ انہیں بار بار دہراتے رہیں اس طرح وہ انسانی دماغ میں جذب ہو جائیں گے.لیکن اسلام میں یہ بات پہلے ہی سے موجود ہے.لا اله الا الله محمد رسول اللہ کیا ہے؟ یہ اسلام کی تعلیم کا خلاصہ ہے.اسے نمازوں میں اذانوں میں اسلام لانے کے وقت، غرضیکہ بار بار دہرانے کا حکم ہے اور اس طرح بار بار جو چیز دہرائی جائے وہ زیادہ سے زیادہ پختہ ہو جاتی ہے.پس خدام الاحمدیہ کو بھی چاہئے کہ ان کو چھوٹے سے چھوٹے فقروں میں لائیں اور پھر ہر میٹنگ کے موقع پر بار بار ان کو دہرایا جائے.مثلا یہ فقرہ ہو سکتا ہے کہ میں اپنی جان کی اسلامی اور ملی فوائد کے مقابلہ میں کوئی پروا نہیں کروں گا.جب کوئی مجلس ہو ، ہر شخص باری باری پہلے اسے دہرائے اور پھر کام شروع ہو.اسی طرح جب ختم ہو تو بھی اسے دہرایا جائے اور اس طریق سے یہ بات دماغ میں جذب ہو سکتی ہے.قومی روح سے نوجوانوں کو سرشار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بار بار ان کے سامنے بعض نادان خیال کر لیتے ہیں کہ قواعد میں کوئی بات رکھ دینا ہی کافی ہو تا ہے اور اس اسے واضح کیا جائے طرح وہ دل میں داخل ہو جاتی ہے حالانکہ یہ بات فطرت انسانی کے بالکل خلاف ہے.اگر ایسا ہو سکتا تو اسلام کی تعلیم کے خلاصہ کے بار بار دہرائے جانے کا حکم دینے کی کیا ضرورت تھی ؟ پس اس قسم کا کوئی فقرہ بنایا جائے اور ایسا انتظام کیا جائے کہ وہ بار بار دہرایا جاتا رہے مثلا یہ کہ میں جماعتی اور ملی ضرورتوں کے مقابلے میں اپنی جان و مال اور کسی چیز کی کوئی پروا نہیں کروں گا اور پھر ایسا انتظام ہو کہ اسے بار بار دہرایا جائے.ایسے فقروں کو بار بار دہرانے سے ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ذہنیتوں میں ایسی تبدیلی ہو جائے گی کہ بعض اوقات مخلصوں میں بھی بغاوت کا جو مادہ پیدا ہو جاتا ہے، اس کا احتمال نہیں رہے گا.دیکھو اسلام نے لا الہ الا الله محمد رسول الله کو بار بار دوہرانے کا جو حکم دیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کبھی کوئی مسلمان یہ نہیں کہے گا کہ میں خدا کو نہیں مانت یا محمد رسول اللہ مال یا ای میل کو نہیں مانتا.آپ کو کئی ایسے مسلمان ملیں گے جو کہ دیں گے کہ جاؤ میں روزہ نہیں رکھتا.میں نماز نہیں پڑھتا مگر ایسا کوئی شخص جو اپنے آپ کو مسلمان بھی سمجھتا ہو نہیں ملے گاجو کسے گا
103 کہ میں خدا کو نہیں مانتا یا محمد رسول اللہ لا الا اللہ کو نہیں مانتا اس لئے کہ نماز اور روزہ کی تعلیم بار بار اس کے سامنے دہرائی نہیں گئی مگر لا الہ الا الله محمد رسول اللہ بار بار دہرایا جاتا رہا ہے.الها پس خدام الاحمدیہ انفرادی روح کو ملی روح پر قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے تمام ذرائع استعمال کریں اور اس کے لئے کوئی موزوں فقرہ بھی بنایا جائے جو کام شروع کرتے وقت بھی اور ختم کرتے وقت بھی دو ہرایا جائے اور نعرے بھی لگائے جائیں لیکن ایک بات کا خیال رکھا جائے کہ قومی روح توحید باری کے بغیر نہیں ہو سکتی اس لئے ایسے فقرہ میں توحید کا اقرار بھی ہو اور رسول کریم ملی یا یو ایم کی صداقت کا بھی اور پھر وہ چھوٹا بھی ہو اور ہر موقعہ پر اسے بار بار دہرانے کا انتظام بھی کیا جائے.پھر جب بھی کوئی جماعتی تحریک ہو وہ اپنے نوجوانوں کا جائزہ لیتے رہیں کہ اس میں انہوں نے کیا حصہ لیا ہے.سب اپنے اپنے ہاں کام کریں مگر ان سب سے رپورٹ لی جائے کہ کیا کیا ہے.اس طرح بھی کام کرنے کی ایک رو پیدا ہوتی ہے اور پہلے جو غفلت کر رہے ہوتے ہیں ان کو بھی توجہ پیدا ہو جاتی ہے.دوسری خدام الاحمدیہ کو نو جوانوں کو اسلامی تعلیم اور اس کی روح سے واقف کرنا چاہئے بات جو انہیں اپنے پروگرام میں شامل کرنی چاہئے وہ اسلامی تعلیم سے واقفیت پیدا کرنا ہے.یہ ایک مذہبی انجمن ہے سیاسی نہیں اور اس لئے اصل پروگرام یہی ہے.باقی چیزیں تو ہم حالات اور ضروریات کے مطابق لے لیتے ہیں یا ملتوی کر دیتے ہیں.لیکن ہمارا اصل پروگرام تو وہی ہے جو قرآن کریم میں ہے.لجنہ ہمار ا جماعتی پروگرام قرآن کریم ہے اماءاللہ ہو ، مجلس انصار ہو خدام الاحمدیہ ہو ، نیشنل لیگ ہو " غرضیکہ ہماری کوئی انجمن ہو اس کا پروگرام قرآن کریم ہی ہے اور جب ہر ایک احمدی یہی سمجھتا ہے کہ قرآن کریم میں سب ہدایات دے دی گئی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی مضر نہیں تو اس کے سوا اور کوئی پروگرام ہو ہی کیا سکتا ہے.حقیقت یہی ہے کہ اصل پروگرام تو وہی ہے اس میں سے حالات اور اپنی ضروریات کے مطابق بعض چیزوں پر زور دے دیا جاتا ہے.لیکن جب روزے رکھے جا رہے ہوں تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ حج منسوخ ہو گیا بلکہ چونکہ وہ دن روزوں کے ہوتے ہیں اس لئے روزے رکھے جاتے ہیں.جب ہم کوئی پروگرام تجویز کرتے ہیں تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ اس وقت یہ امراض پیدا ہو گئے ہیں اور ان کے لئے یہ قرآنی نسخے ہم استعمال کرتے ہیں.اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ سارا پروگرام سامنے ہو اور اس میں سے حالات کے مطابق باتیں لے لی جائیں.لیکن اگر سارا پروگرام سامنے نہ ہو تو اس کا ایک نقص یہ ہو گا کہ صرف چند باتوں کو دین سمجھ لیا جائے گا.
104 پس خدام الاحمدیہ کا اہم فرض خدام الاحمدیہ قرآن کریم با ترجمہ پڑھنے پڑھانے کا انتظام کریں یہ ہے کہ اپنے ممبروں میں قرآن کریم با ترجمہ پڑھنے اور پڑھانے کا انتظام کریں اور چونکہ وہ خدام الاحمدیہ ہیں صرف اپنی خدمت کے لئے ان کا وجود نہیں اس لئے جماعت کے اندر قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کرنا ان کے پروگرام کا خاص حصہ ہونا چاہئے.خدام الاحمدیہ آوارگی کے انسداد کیلئے کوشاں رہے.والدین اور اساتذہ تعاون کریں تیسری بات جو ان کے پروگرام میں ہونی چاہئے وہ آوارگی کا مٹانا ہے.آوارگی بچپن میں پیدا ہوتی ہے اور یہ سب بیماریوں کی جڑھ ہوتی ہے.اس کی بڑی ذمہ داری والدین اور استادوں پر ہوتی ہے.وہ چونکہ احتیاط نہیں کرتے ، اس لئے بچے اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں.دیکھو رسول کریم میں ہم نے اس کے مٹانے کے لئے کتنا انتظام کیا ہے کہ فرمایا بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان اور تکبیر کہی جائے اور اس طرح عمل سے بتا دیا کہ بچہ کی تربیت چھوٹی عمر سے شروع ہونی چاہئے.آپ نے فرمایا ہے کہ بچوں کو مساجد اور عید گاہوں میں ساتھ لے کر جانا چاہئے.خود آپ کا اپنا طریق بھی یہی تھا.آج کل تو یہ حالت ہے کہ سترہ اٹھارہ سال کے نوجوان بھی بے ہودہ حرکت کرے تو والدین کہ دیتے ہیں کہ ابھی ”نیانا" یعنی کم عمر ہے.لیکن ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عباس حدیثیں سناتے ہیں جبکہ ان کی عمر صرف تیرہ سال کی ہے.امام مالک کے درس میں امام شافعی شریک ہونے کے لئے گئے.ان کے درس میں بیٹھنے کے لئے یہ ضروری شرط تھی کہ طالب علم قلم دوات لے کر بیٹھے اور جو کچھ وہ بتا ئیں ، نوٹ کرتا جائے.امام شافعی کی عمر اس وقت صرف نو سال کی تھی.امام مالک نے انہیں بیٹھے دیکھا تو کہا بچے تم کیوں بیٹھے ہو ؟ امام شافعی نے جواب دیا کہ درس میں شامل ہونے کے لئے آیا ہوں.آپ نے پوچھا کہ اب تک کیا پڑھا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ یہ پڑھ چکا ہوں.اس پر امام مالک نے کہا تم بہت کچھ پڑھ چکے ہو مگر میرے درس میں بیٹھنے کا یہ طریق نہیں.یہاں تو قلم دوات لے کر بیٹھنا چاہئے.امام شافعی نے کہا کہ میں کل بھی بیٹھا تھا.آپ دوسرے طلباء سے مقابلہ کرالیں.امام صاحب نے سوال کیا اور انہوں نے ٹھیک جواب دیا.امام صاحب کی عادت تھی کہ اگلے روز نوٹوں کو سنتے اور کوئی غلطی ہوتی تو اس کی اصلاح کر دیتے تھے.اس دن جو انہوں نے گزشتہ نوٹ سننے شروع کئے تو جب پڑھنے والا غلطی کر تا امام شافعی ”جھٹ اس کو ٹوک دیتے کہ امام صاحب نے یوں نہیں بلکہ یوں فرمایا تھا.چنانچہ امام مالک نے ان کو بغیر قلم دوات کے اپنے درس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی حالانکہ اور کسی کو اس کی اجازت نہ تھی.یہ بات کیوں تھی اس لئے کہ ماں باپ نے شروع میں ہی ان کو علم کے حصول میں لگا دیا تھا.مگر ہمارا " نیا نا پن " یعنی بچپن اٹھارہ میں سال تک نہیں جا تا.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عمر کے دو ہی حصے سمجھے جاتے ہیں.ایک وہ جب بچہ سمجھا جاتا ہے اور ایک وہ
105 1 جب وہ بیکار بوڑھا ہوتا ہے اور اس طرح کام کا کوئی وقت آتا ہی نہیں.ایک دفعہ ایک عورت جس کی عمر کوئی پینسٹھ سال کی ہو گی مجھ سے کوئی بات کر رہی تھی اور بار بار کہتی تھی کہ " ساڑے یتیماں تے رحم کرو " یعنی ہم قیموں پر رحم کریں.یہ کوئی پانچ سات سال کی بات ہے اور اس وقت اس کی عمر پینسٹھ سال کی ہوگی تو گویا ہمارے ہاں یا تو آدمی بچہ ہوتا ہے اور یا پیر فرتوت جسے پنجابی میں سترا بترا کہتے ہیں.یہ بہت حماقت کی بات ہے کہ بچوں کو چھوٹا سمجھ کر انہیں آوارہ ہونے دیا جائے.اگر بچوں سے صحیح طور پر کام لیا جائے تو وہ کبھی آوارہ ہو ہی نہیں ہو سکتے.اگر انہیں گلیوں اور بازاروں میں آوارہ پھرنے کی بجائے مجلسوں میں بٹھایا جائے تو بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں.میری تعلیم تو کچھ بھی نہ تھی لیکن یہ بات تھی کہ حضرت مسیح علم آوارگی کو دور کرنے سے بڑھتا ہے موعود علیہ السلام کی مجلس میں جابیٹھتا تھا.حضرت خلیفہ اول کی مجلس میں چلا جاتا تھا.کھیلا بھی کرتا تھا.مجھے شکار کا شوق تھا.فٹ بال بھی کھیل لیتا تھا.لیکن گلیوں میں بیکار نہیں پھرتا تھا بلکہ اس وقت مجلسوں میں بیٹھتا تھا اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بڑی بڑی کتابیں پڑھنے والوں سے میرا علم خدا تعالی کے فضل سے زیادہ تھا.علم گدھوں کی طرح کتابیں لاد لینے سے نہیں آجا تا.آوارگی کو دور کرنے سے علم بڑھتا ہے اور ذہن میں تیزی پیدا ہوتی ہے.پس اساتذہ افسران تعلیم اور خدام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ بچوں سے آوارگی کو دور کریں.یہ آوارگی کا ہی اثر ہے کہ ہم ادھر نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں اور ادھر گلی میں بچے گالیاں بک رہے ہوتے ہیں.اگر تو وہ نماز ہی نہیں پڑھتے تو دو ہرے مجرم ہیں.نہیں تو یہی جرم کافی ہے.فحش گالیاں ماں بہن کی وہ سکتے ہیں اور کسی شریف آدمی کو خیال نہیں آتا کہ ان کو روکے.(بیت) مبارک کے سامنے کھیلنے والے بچے نوے پچانوے فی صدی احمدیوں کے بچے ہی ہو سکتے ہیں.تھوڑے سے غیروں کے بھی ہوتے ہوں گے مگر میں نے اپنے کانوں سے بنا ہے احمدیوں کے بچے گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور ان کے ماں باپ اور اساتذہ کو احساس تک نہیں ہو تاکہ ان کی اصلاح کریں.گلیوں سے گاتے ہوئے اور ایک دوسرے کی گردن میں باہیں ڈال کر گزر ناو قار کے پھر میں نے دیکھا ہے مدرسہ احمدیہ کے طلباء گلیوں میں سے گزرتے ہیں تو گاتے جاتے ہیں حالانکہ یہ خلاف ہے وقار کے سخت خلاف ہے اور اس کے یہ معنے ہیں کہ شرم و حیا جو دین کا حصہ ہے بالکل جاتی رہی ہے.پھر میں نے دیکھا ہے نوجوان ایک دوسروں کی گردن میں با ہیں اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلے جارہے ہیں حالانکہ یہ سب باتیں وقار کے خلاف ہیں.مجھے یاد ہے میرا ایک دوست تھا.بچپن میں ایک دفعہ ہم دونوں ہاتھ
106 میں ہاتھ ڈالے بیٹھے تھے کہ حضرت خلیفہ اول نے دیکھا.میری تو آپ بہت عزت کیا کرتے تھے اس لئے مجھے تو کچھ نہ کہا لیکن اس کو اس قدر ڈانٹا کہ مجھے بھی سبق حاصل ہو گیا.ہمارے ملک میں کہتے ہیں کہ ”تی اے نی میں تینوں کہاں نو ایس نی توں کن رکھ " یعنی بات تو میں اپنی لڑکی سے کہتی ہوں مگر بہو اسے غور سے سنے اسی طرح حضرت خلیفہ اول نے اسے ڈانٹا مگر مجھے سبق ہو گیا کہ یہ بری بات ہے.میں نے دیکھا ہے کہ نوجوانوں کو اسلامی آداب سکھانے کی طرف توجہ ہی نہیں کی جاتی.نوجوان بے تکلفانہ ایک دوسرے کی گردن میں باہیں ڈالے پھر رہے ہوتے ہیں.حتی کہ میرے سامنے بھی ایسا کرنے میں انہیں کوئی باک نہیں ہو تا کیونکہ ان کو یہ احساس ہی نہیں کہ یہ کوئی بری بات ہے.ان کے ماں باپ اور اساتذہ نے ان کی اصلاح کی طرف کبھی کوئی توجہ ہی نہیں کی.حالانکہ یہ چیزیں انسانی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کی بچپن میں تربیت کا اب تک مجھ پر اثر ہے اور جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے.ایک دفعہ میں ایک لڑکے کے کندھے پر کہنی ٹیک کر کھڑا تھا کہ ماسٹر قادر بخش صاحب نے جو مولوی عبد الرحیم صاحب درد کے والد تھے اس سے منع کیا اور کہا کہ یہ بہت بری بات ہے.اس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہوگی لیکن وہ نقشہ جب بھی میرے سامنے آتا ہے ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے.اسی طرح ایک صوبیدار صاحب مراد آباد کے رہنے والے تھے.ان کی ایک بات بھی مجھے یاد ہے.ہماری والدہ چونکہ دلی کی ہیں اور دلی بلکہ لکھنو میں بھی تم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں.بزرگوں کو بے شک آپ کہتے ہیں لیکن ہماری والدہ کے بزرگ چونکہ یہاں تھے نہیں کہ ہم ان سے آپ کہہ کر کسی کو مخاطب کرنا بھی سیکھ سکتے.اس لئے میں دس گیارہ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تم ہی کہا کرتا تھا.اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے مدارج بلند کرے.صوبیدار محمد ایوب خان صاحب مراد آباد کے رہنے والے تھے.گورداسپور میں مقدمہ تھا اور میں نے بات کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تم کہہ دیا.وہ صوبیدار صاحب مجھے الگ لے گئے اور کہا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ہیں اور ہمارے لئے محل ادب ہیں لیکن یہ بات یادرکھیں کہ تم کا لفظ برابر والوں کے لئے بولا جاتا ہے ، بزرگوں کے لئے نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے اس کا استعمال میں بالکل برداشت نہیں کر سکتا.یہ پہلا سبق تھا جو انہوں نے اس بارہ میں مجھے دیا.پس بڑوں کا فرض ہے کہ چھوٹوں کو یہ آداب سکھا ئیں.اگر ایک ہی شخص کے تو ان پر اثر نہیں ہو تا.بچے سمجھتے ہیں یہ ضدی سا آدمی ہے یونہی ایسی باتیں کرتا رہتا ہے.اگر باپ کے اور ماں نہ کہے تو سمجھتے ہیں باپ ظالم ہے.اگر یہ اچھی بات ہوتی تو ماں کیوں نہ کہتی.اگر ماں باپ کہیں اور استاد نہ کہے تو سمجھتے ہیں اگر یہ اچھی بات ہوتی تو استاد کیوں نہ کہتا اور اگر استاد بھی کے اور دوسرا کوئی نہ کے تو سمجھتے ہیں اگر یہ اچھی بات ہوتی تو کوئی دوسرا شخص کیوں نہ کہتا لیکن اگر ماں باپ بھی کہیں ، استاد بھی کہیں اور دوسرے لوگ بھی کہتے رہیں تو وہ بات ضرو ر دل میں راسخ ہو جاتی ہے.
107 ایک چھوٹا سا ادب خطبہ کو توجہ سے سننا ہے اور میں کئی بار اس کی طرف توجہ بھی دلا چکا ہوں.مگر میں نے دیکھا ہے لوگ برابر باتیں اور اشارے کرتے رہتے ہیں اور اساتذہ یا دوسرے لوگ کوئی اخلاقی دباؤ نہیں ڈالتے کہ جس سے اصلاح ہو.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ عادت ہمیشہ ہی چلتی چلی جاتی ہے.ایک دفعہ میں نے دیکھا میں خطبہ پڑھ رہا تھا.ایک شخص کو میں قریبا پندرہ منٹ تک دیکھتا رہا کہ وہ اپنے ایک بعد میں آنے والے دوست کو برابر اشارے کرتا رہا کہ آگے آجاؤ.اگر بچپن میں ماں باپ یا استاد یا دوسرے لوگ اسے یہ بتاتے کہ یہ نا جائز ہے اور کہ جب تمہاری اپنی ہدایت کا سوال پیدا ہو جائے تو دوسرے کو گمراہی سے بچانے کا موقعہ نہیں ہو تا تو وہ اس گناہ کا مرتکب نہ ہو تا.یہ اس جوش کی وجہ سے کہ دوست آگے آجائے اور خطبہ سن لے اسے اشارے کرتا تھا لیکن وہ شرم کی وجہ سے آگے نہ بڑھتا تھا اور اگر یہ مسئلہ بچپن سے ہی اس کے ذہن نشین ہو تا تو کبھی دوسری طرف اس کی نظر ہی خطبہ کے دوران نہ اٹھتی اور اس طرح کسی کو اشارے کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا اور یہ دوسرے کی ہدایت کے جوش میں خود گمراہی کا مرتکب نہ ہو تا.بچوں کو ہر وقت اچھے کاموں میں مصروف رکھنے سے آوارگی کا امکان نہیں رہتا یہ تربیت تعلق رکھنے والے مسائل ہیں.اور ان سے آوارگی دور ہوتی ہے.پھر بچہ کو ہر وقت کسی نہ کسی کام میں لگائے رکھنا چاہئے.میں کھیل کو بھی کام ہی سمجھتا ہوں، یہ کوئی آوارگی نہیں.آوارگی میرے نزدیک فارغ اور بیکار بیٹھنے کا نام ہے یا اس چیز کا کہ گلیوں میں پھرتے رہے.اس بات کا اچھی طرح خیال رکھنا چاہئے کہ بچے یا پڑھیں یا کھیلیں یا کھائیں اور یا کھیل آوارگی نہیں سوئیں.کھیل آوارگی نہیں.اس لئے اگر وہ دس گھنٹے بھی کھیلتے ہیں، کھیلنے دو.اس سے ان کا جسم مضبوط ہو گا اور آوارگی بھی پیدا نہ ہو گی.پس کھیلنا بھی ایک کام ہے جس طرح کھانا اور سونا بھی کام ہے.مگر خالی بیٹھنا اور باتیں کرتے رہنا آوارگی ہے.اس لئے خدام الاحمدیہ کو کوشش کرنی چاہئے کہ جماعت کے بچوں میں یہ آوارگی پیدا نہ ہو.کسی کو یونہی پھرتے دیکھیں تو اس سے پوچھیں کہ کیوں پھر رہا ہے.اگر باز نہ آئے تو محلہ کے پریذیڈنٹ کو رپورٹ کریں اور ان سب باتوں کے لئے اصول وضع کریں جن کے ماتحت کام ہو.میں نے دیکھا ہے کئی لوگ گھنٹوں دکانوں پر بیٹھے فضول باتیں کرتے رہتے ہیں حالانکہ اگر اسی وقت کو وہ تبلیغ میں صرف کریں تو کئی لوگوں کو احمدی بنا سکتے ہیں لیکن فضول وقت ضائع کر دیتے ہیں اور اگر کام کے لئے پوچھا جائے تو کہہ دیتے کہ فرصت نہیں حالانکہ اگر فرصت نہیں ہوتی تو دوکانوں پر کس طرح بیٹھے باتیں کرتے رہتے ہیں.ایک اور ذریعہ نوجوانوں میں علمی اور دینی موضوعات پر گفتگو کرنے کا شوق پیدا کیا جائے اصلاح کا یہ بھی ہے کہ بیٹھ کر علمی اور دینی باتیں کی جائیں.اچھے انداز میں گفتگو کرنا بھی ایک خاص فن ہے.ایسی مجلسوں میں علمی
108 اور دینی باتیں ہوں لیکن بحث مباحثہ نہ ہو.اس چیز کو بھی میں آوارگی سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک یہ بات سب سے زیادہ دل پر زنگ لگانے والی ہے.مباحثہ کرنے والوں کے مد نظر تقوی نہیں بلکہ مد مقابل کو چپ کرانا ہو تا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ مباحثات سے بچتا ہوں اور میری تو یہ عادت ہے کہ اگر کوئی مباحثانہ رنگ میں سوال کرے تو ابتداء میں ایسا جواب دیتا ہوں کہ کئی لوگوں نے کہا ہے کہ انہوں نے کسی سوال پر پہلے پہل میرا جواب سن کر یہ خیال کیا کہ شاید میں جو اب نہیں دے سکتا اور دراصل ٹالنے کی کوشش کرتا ہوں.مگر جب کوئی پیچھے ہی پڑ جائے تو جواب کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اور پھر خداتعالی کے فضل سے ایسا جواب دیتا ہوں کہ وہ بھی اپنی غلطی محسوس کرلیتا ہے.یاد رکھو سچائی کے لئے کسی بحث کی ضرورت نہیں ہوتی.میں نے ہمیشہ ایسی ڈیبیٹیں کرنا سخت مضر ہے باتوں سے روکا ہے ڈیبیٹنگ (DEBATING) کلبیں بھی میرے نزدیک آوارگی کی ایک شاخ ہے اور میں اس سے ہمیشہ روکتا رہتا ہوں.لیکن یہ چیز بھی کچھ ایسی راسخ ہو چکی ہے کہ برابر جاری ہے حالانکہ اس سے دل پر سخت زنگ لگ جاتا ہے.ایک شخص کسی چیز کو مانتا نہیں مگر اس کی تائید میں دلائل دیتا جاتا ہے تو اس سے دل پر زنگ لگنا لازمی امر ہے.مجھے ایک واقعہ یاد ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طریق ایمان کو خراب کرنے والا ہے.مولوی محمد احسن صاحب امروہوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا کہ مولوی بشیر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت موید اور میں مخالف تھا.مولوی بشیر صاحب ہمیشہ دوسروں کو براہین احمدیہ پڑھنے کی تلقین کرتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ شخص مجدد ہے.آخر میں نے ان سے کہا کہ آؤ مباحثہ کر لیتے ہیں.مگر آپ تو چونکہ موید ہیں، آپ مخالفانہ نقطۂ نگاہ سے کتابیں پڑھیں اور میں مخالف ہوں اس لئے موافقانہ نقطۂ نگاہ سے پڑھوں گا.سات آٹھ دن کتابوں کے مطالعہ کے لئے مقرر ہو گئے اور دونوں نے کتابوں کا مطالعہ کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ میں جو مخالف تھا احمدی ہو گیا اور وہ جو قریب تھے بالکل دور چلے گئے.ان کی سمجھ میں بات آگئی اور ان کے دل سے ایمان جاتا رہا.تو علم النفس کے رو سے ڈیبیٹس کرنا سخت مضر ہے اور بعض اوقات سخت نقصان کا موجب ہو جاتا ہے.یہ ایسے باریک مسائل ہیں جن کو سمجھنے کی ہر مدرس اہلیت نہیں رکھتا.ابھی تھوڑا عرصہ ہوا یہاں ایک ڈیبیٹ (DEBATE ہوئی اور جس کی شکایت مجھ تک پہنچی تھی.اس میں اس امر پر بحث تھی کہ ہندوستان کے لئے مخلوط انتخاب چاہئے یا جداگانہ.حالانکہ میں اس کے متعلق اپنی رائے ظاہر کر چکا ہوں اور یہ سوء ادبی ہے کہ اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ میں ایک امر کے متعلق اپنی رائے ظاہر کر چکا ہوں پھر اس کو زیر بحث لایا جائے.جن امور میں خداتعالی یا اس کے رسول یا اس کے خلفاءاظہار راۓ کر چکے ہوں ، ان کے متعلق بحث کرنا گستاخی اور بے ادبی میں داخل ہے.کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ تو محض کھیل ہے.لیکن کیا کوئی کھیل کے طور پر اپنے باپ کے سر میں جوتیاں مار سکتا ہے.تو ڈیبیٹس(DEBATES) سے زیادہ حماقت کی کوئی بات نہیں.ہر احمدی وفات مسیح کا قائل ہے مگر ڈیبیٹ کے لئے بعض حیات مسیح کے دلائل
109 دینے لگتے ہیں.میں تو ایسے شخص سے یہی کہوں گا کہ بے حیاء خداتعالی نے تجھے ایمان دیا تھا مگر تو کفر کی چادر اوڑھنا چاہتا ہے.پس یہ ڈیبیٹس بھی آوارگی میں داخل ہیں.اگر خدا تعالی نے تمہیں یہ توفیق دی ہے کہ حق بات کو تم مان لیا تو اس کا شکریہ ادا کردنه که خواہ مخواہ اس کی تردید کرو.بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس سے عقل بڑ ہے لیکن اس عقل کے بڑھانے کو کیا کرنا ہے جس سے ایمان جاتا رہے.دونوں باتوں کا موازنہ کرنا چاہئے.اگر ساری دنیا کی عقل مل جائے اور ایمان کے پہاڑ میں سے ایک ذرہ بھی کم ہو جائے تو اس عقل کو کیا کرنا ہے.یہ کوئی نفع نہیں بلکہ سرا سر خسران اور تباہی ہے.پس یہ بھی آوارگی میں داخل ہے اور میں نے کئی دفعہ اس سے روکا ہے مگر پھر بھی ڈیبیٹیں ہوتی رہتی ہیں.جس طرح کوڑھی کو خارش ہوتی ہے اور وہ رہ نہیں سکتا اسی طرح ان لوگوں کو بھی کچھ ایسی خارش ہوتی ہے کہ جب تک ڈیبیٹ نہ کرالیں ، چین نہیں آتا.اور پھر دینی اور مذہبی مسائل کے متعلق بھی ڈیبیٹیں ہوتی رہتی ہیں حالانکہ وہ تمام مسائل جن کی صداقتوں کے ہم قائل ہیں یا جن میں سلسلہ اظہار رائے کر چکا ہے ان پر بحث کرنا دماغی آوارگی ہے اور حقیقی ذہانت کے لئے سخت مضر ہے.میں نے سو دفعہ بتایا ہے کہ اگر اس کے بجائے یہ کیا جائے کہ دوست اپنی اپنی جگہ مطالعہ کر کے آئیں اور پھر ایک مجلس میں جمع ہو کر یہ بتائیں کہ فلاں مخالف نے یہ اعتراض کیا ہے بجائے اس کے کہ یہ کہیں کہ میں یہ اعتراض فلاں مسئلہ پر کرتا ہوں.اگر مولوی شاء اللہ صاحب یا مولوی ابراہیم صاحب یا کسی اور مخالف کے اعتراض پیش کئے جائیں اور پھر سب مل کر جواب دیں اور خود اعتراض پیش کرنے والا بھی جواب دے تو یہ طریق بہت مفید ہو سکتا ہے.مگر ایسا نہیں کیا جا تا بلکہ ڈیبیٹوں کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور انگریزوں کی نقل کی جاتی ہے کہ ”ہاؤس" یہ کہتا ہے.ہماری مجلس شوری میں بھی یہ " ہاؤس " کا لفظ داخل ہو گیا تھا مگر میں نے تنبیہہ کی.اس پر وہاں سے تو نکل گیا ہے مگر مدرسوں میں رواج پکڑ رہا ہے.میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح کہنے سے اس بات میں کونسا سرخاب کا پر لگ جاتا ہے.سیدھی طرح کیوں نہیں کہہ دیا جاتا کہ جماعت کی یہ رائے ہے اس کے یہ معنے ہیں کہ دماغ کو کفر کی کاسہ لیسی میں لذت اور سرور حاصل ہو تا ہے.خدام الاحمدیہ نوجوانوں کو جسمانی اور دماغی آوارگیوں سے بچانے کی مقدور بھر کوشش کریں.پس خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ اس قسم کی آوارگیوں کو خواہ وہ دماغی ہوں یا جسمانی ، روکیں اور دور کریں.کھیلنا آوارگی میں داخل نہیں.ایک دفعہ مجھے رویا میں بتایا گیا ایک شخص نے خواب میں ہی مجھے کہا کہ فلاں شخص ورزش کر کے وقت ضائع کر دیتا ہے اور میں رویا میں ہی اسے جواب دیتا ہوں کہ یہ وقت کا ضیاع نہیں.جب کوئی اپنے قومی کا خیال نہیں رکھتا تو دینی خدمات میں پوری طرح حصہ نہیں
110 لے سکتا.اس میں اللہ تعالی نے مجھے سبق دیا تھا کیونکہ مجھے ورزش کا خیال نہیں تھا.تو ورزش بھی کام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مونگریاں اور مدر پھیرا کرتے تھے بلکہ وفات سے سال دو سال قبل مجھے فرمایا کہ کہیں سے مونگریاں تلاش کرو.جسم میں کمزوری محسوس ہوتی ہے چنانچہ میں نے کسی سے لا کر دیں اور آپ کچھ دن انہیں پھراتے رہے بلکہ مجھے بھی بتاتے تھے کہ اس اس رنگ میں اگر پھیری جائیں تو زیادہ مفید ہیں.پس ورزش انسان کے کاموں کا حصہ ہے.ہاں گلیوں میں بیکار پھرنا بیکار بیٹھے باتیں کرنا اور بحثیں کرنا آوارگی ہے اور ان کا انسداد خدام الاحمدیہ کا فرض ہے.اگر تم لوگ دنیا کو وعظ کرتے پھرو لیکن احمدی بچے آوارہ پھرتے رہیں تو تمہاری سب کو ششیں رائیگاں جائیں گی.پس تمہارا فرض ہے کہ ان باتوں کو روکو.دکانوں پر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے والوں کو منع کرو اور کوئی نہ مانے تو اس کے ماں باپ استادوں کو اور محلہ کے افسروں کو رپورٹ کرو کہ فلاں شخص آوارہ پھر تایا فارغ بیٹھ کر وقت ضائع کرتا ہے.پہلے پہل لوگ تمہیں گالیاں دیں گے، برا بھلا کہیں گے اور کہیں گے کہ آگئے ہیں خدائی فوجدار اور طنزیہ رنگ میں کہیں گے کہ بس پکے احمدی تو یہ ہیں ہم تو یونہی ہیں لیکن آخر وہ اپنی اصلاح پر مجبور ہوں گے اور پھر تمہیں دعائیں دیں گے جیسا کہ میں نے بتایا ہے جن لوگوں نے میری تربیت میں حصہ لیا اور کوئی اچھی بات بتائی ، جب بھی وہ یاد آتی ہے میرے دل سے ان کے لئے دعا نکلتی ہے.پس آوارگی کو مٹانا بھی خدام الاحمدیہ کے فرائض میں سے ہے.اب چونکہ دیر ہو گئی ہے.اس لئے باقی باتیں پھر بیان کروں گا." (خطبه جمعه فرموده ۱۰ فروری ۱۹۳۹ء مطبوعہ الفضل امارچ ۱۹۳۹ء)
111 مؤذنوں کی اذانیں درست کرنے کی طرف خاص توجہ کریں ہماری جماعت تلوار سے جیتنے والی نہیں بلکہ نظام اور تبلیغ سے جیتنے والی ہے ہر فرد میں یہ روح پیدا ہو کہ وہ موت کو غداری پر ترجیح دے گا قومی دیانت ، تجارتی دیانت اور اخلاقی دیانت اپنے اندر پیدا کرو خدام الاحمدیہ نوجوانوں میں سچ بولنے کی عادت ڈالے اور ہر خادم سے سچ بولنے کا عہد لے دو اہم اخلاق، دیانت اور بیچ (خطبه جمعه فرموده ۷ ۱- فروری ۱۹۳۹ء)
112 " میرا آج کا خطبہ بھی گزشتہ دو خطبات کے سلسلہ میں ہی ہے.مگر پیشتر اس کے کہ میں اصل مضمون کو شروع کروں.میں قادیان کے خدام احمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ مختلف بیوت الذکر کے موذنوں کی اذانیں درست کرائیں.بعض جگہ پر بلاوجہ موذن عربی عبارت کا ایسا ستیا ناس کر دیتے ہیں کہ واقف آدمی کے کانوں پر وہ بہت گراں گزرتا ہے.میں نے کئی دفعہ اس طرف توجہ دلائی ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک اس طرف توجہ ہوئی نہیں.جن حروف کا ادا کرنا ہمارے لئے مشکل ہے ان کے متعلق ایک پنجابی سے یہ امید رکھنا کہ وہ اہل عرب کے لہجہ کو ادا کرے بالکل غلط ہے اور میں اس پر زور نہیں دیتا.میں صرف اس حصہ کی درستی کا مطالبہ کرتا ہوں جس حصہ کی درستی ہمارے اختیار میں ہے اور باوجود اختیار میں ہونے کے اس کی درستی کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.تو خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ اپنے میں سے پانچ سات نوجوانوں کو جو عربی تعلیم سے واقف ہوں ، اذان کے الفاظ سے اچھی طرح واقفیت کرا دیں.اس کے بعد مختلف بیوت الذکر میں (اور کوشش کرنی چاہئے کہ یہ لوگ ایسے ہی ہوں جن کا تعلق مختلف بیوت الذکر سے ہو.) ان کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ جو باقاعدہ موذن ہیں، ان کی اذانوں کی اصلاح کریں اور دوسرے لوگ بھی جو باقاعدہ موذن نہیں اگر ان کی کوئی غلطی دیکھیں تو انہیں ٹوک دیا کریں تاکہ انہیں اپنی اصلاح کا خیال پیدا ہو.مثلاً ابھی جو اذان ہوئی ہے اس میں موذن نے حسی کے بعد اتنا لمبا الف استعمال کیا ہے جو نہ تو جائز ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہوتی ہے.مگر عام پنجابی لہجہ یہی اختیار کرتا ہے اور پنجابی موزن حسی نہیں بلکہ حیا کہتا ہے.وہ سمجھتا ہے شاید اس طرح آخر میں الف زائد کر دینے اور اسے لمبا کر دینے سے آواز اونچی ہو جاتی ہے حالانکہ عرب لوگ بھی اذان دیتے ہیں اور وہ بغیر جیسا کہنے کے کام چلا لیتے ہیں.بایں ہمہ ان کی آواز میں اتنی بلند ہوتی ہیں اور ان کی اذان اپنی ذات میں ایسی مسرت انگیز آواز کی حامل ہوتی ہے کہ وہ ایک شیریں راگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے.مکہ مکرمہ میں چن کر موذن مقرر کئے جاتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے اذان دیتے وقت ان کی آوازیں اتنی دلکش اور لطیف ہوتی ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے انسان اس آواز کے ساتھ ہی زمین سے اٹھ کر آسمان کی طرف جا رہا ہے.تو حقیقت یہ ہے کہ اس لفظ کی خوبصورتی الف چھوڑ دینے میں ہے اس کے استعمال کرنے میں نہیں اور جب الف اس لفظ میں ہے ہی نہیں تو اس کے استعمال کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں ہو سکتے.پس اگر وہ آئندہ کے لئے جی کے بعد الف استعمال نہ کیا کریں تو میں سمجھتا ہوں ان کی اذان پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو جائے.اسی طرح اور بھی بہت سے نقائص ہیں جو ہمارے پنجاب میں بوجہ عربی زبان کی ناواقفیت کے اصرار سے چلتے چلے جاتے ہیں اور میں خدام احمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس نقص کی اصلاح کی کوشش کریں.اس کے بعد میں آج کے مضمون کو لیتا ہوں.گذشتہ خطبہ میں میں نے خدام احمدیہ کے مقاصد میں سے تین ضروری مقاصد کو لیا تھا اور بتایا تھا کہ ان کی طرف خصوصیت سے ان ایام میں انہیں توجہ کرنی چاہئے اور وہ یہ تھے:.
113 اول: انہیں اپنے ممبروں کے اندر اور دوسری جماعت کے اندر بھی قومی روح پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جماعتی کاموں کے لئے قربانی کا مادہ پیدا کرنا چاہئے.یہ پہلا مقصد ہے جو انہیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے.دوسری بات میں نے کسی تھی کہ اسلامی تعلیم سے واقفیت پیدا کی جائے.تیسری بات میں نے یہ کبھی تھی کہ آوارگی اور بیکاری کا ازالہ کیا جائے.اب میں چوتھی بات خدام الاحمدیہ کو نو جوانوں میں اخلاق حسنہ پیدا کرنے پر زور دینا چاہئے بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ اچھے اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.اچھے اخلاق میں سے میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے بہترین اخلاق جن کا پیدا کرنا کسی قوم کی زندگی کے لئے نہایت ضروری ہے وہ بیچ اور دیانت ہیں.اور بھی بہت سے اخلاق ہیں مگریچ اور دیانت نہایت اہمیت رکھنے والے اخلاق ہیں.جس قوم میں سچ پیدا ہو جائے اور جس قوم میں دیانت آ جائے وہ قوم نہ کبھی ذلیل ہو سکتی ہے اور نہ کبھی غلام بنائی جاسکتی ہے.سچائی اور دیانت دونوں کا فقدان ہی کسی قوم کو ذلیل بنا تا اور ان دونوں کا فقدان ہی کسی قوم کو غلام بنا تا ہے.ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ ہندوستان کی قومی دیانت کے فقدان نے ہندوستان کو انگریزوں کا غلام بنادیا غلامی کا ہمیشہ رونا روتا ہے لیکن اگر تم غور سے دیکھو تو تمہیں معلوم ہو کہ ہندوستان کی غلامی کا موجب انسی دو چیزوں کا فقدان ہے.تم ہندوستان کی تاریخ کو پڑھ جاؤ.اتنے بڑے وسیع ملک کا انگریزوں کے ماتحت آجانا محض بد دیانتی کی وجہ سے تھا.انگریزی فوجیں جو شروع زمانہ میں بعض دفعہ سینکڑوں کی تعداد سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں کبھی ہندوستان پر غالب نہیں آسکتی تھیں اگر ہندوستانیوں میں دیانت پائی جاتی.بعض دفعہ تو تاریخ پڑھ کر یوں معلوم ہو تا ہے کہ گویا یہ ساری بات ہی جھوٹی ہے اور عقل تسلیم نہیں کرتی کہ مدر اس کے ایک چھوٹے سے علاقہ میں اقامت پذیر چند سو انگریز ہندوستان کی بڑی طاقتوں اور حکومتوں کو زیر کرتے چلے جائیں.عقل اس کے باور کرنے سے انکار کرتی ہے کیونکہ انسانی فطرت اس حد تک اخلاق کی گراوٹ کو تسلیم کرنا برداشت نہیں کرتی جس قسم کی گراوٹ اس زمانہ میں ہندوستانیوں میں پائی جاتی تھی.کسی جگہ پر تو شہزادوں کو رشوت دے دی جاتی ہے کہ اگر تم اپنے باپ یا بھائی سے بغاوت کرو تو ہم تم کو اس کی جگہ گدی پر بٹھا دیں گے اور وہ بد دیانت اور ذلیل انسان اس رشوت کو قبول کر لیتے ہیں.کسی جگہ وزراء کو یہ امید دلا دی جاتی ہے کہ ہم تمہاری ایک ریاست قائم کر دیں گے یا تم کو اس ریاست کا قبضہ دے دیں گے یا اور کوئی بڑا عہدہ دے دیں گے اور وہ ننگ انسانیت اس رشوت کو قبول کر لیتے ہیں اور انہی چالبازیوں کے ساتھ اور انہی رشوتوں کے ذریعہ یورپین اقوام جو نہایت قلیل تعداد میں ہندوستان میں آئیں
114 ہندوستان کے ایک گوشہ سے بھرے ہوئے بادل کی طرح بڑھنا شروع کر دیتی ہیں اور سارے ملک پر چھا جاتی ہیں.مرہٹوں کی طاقت یا نظام حیدر آباد کی طاقت کے مقابلہ میں مدراس میں انگریزوں کی دسویں حصہ کے برابر بھی طاقت نہیں تھی.اسی طرح سراج الدولہ کی طاقت کے مقابلہ میں بنگال میں انگریزوں کی طاقت دسویں حصہ کے بھی نہ تھی مگر باوجود اس کے مقابلہ میں وہ ہار جاتے ہیں اور انگریز جیت جاتے ہیں.1 اس تمام فتح اور شکست کی تہہ میں ایک وجہ نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ بڑے بڑے وزراء اور افسررشوت خور تھے یا وہ کسی اور لالچ میں آجاتے تھے.اگر یہ بد دیانتی نہ ہوتی تو کبھی ہندوستان پر انگریزی حکومت قائم نہ ہو سکتی لیکن اس بد دیانتی کی موجودگی میں اگر انگریزی حکومت نہ ہوتی تو فرانسیسی حکومت ہوتی.اگر فرانسیسی حکومت نہ ہوتی تو ہر تگیزی حکومت ہوتی.اگر ہر تگیزی حکومت نہ ہوتی تو کوئی اور حکومت ہوتی.بہر حال یہ ملک اس قابل نہ تھا کہ اپنا بوجھ آپ اٹھا سکتا.بد دیانتی کے بوجھ نے ان لوگوں کی کمریں خم کر دی تھیں اور لالچ کے بار ان لوگوں کو ایسا جھکا دیا تھا کہ وہ شریف لوگوں میں سیدھا چلنے کے قابل نہیں رہے تھے.وہ شکار تھے دنیا کا.اگر انگریز نہ آتے تو کوئی اور آتا.بہر حال وہ خود اپنی حکومت سنبھالنے کے نا قابل تھے.اوپر سے لے کر نیچے تک سب جگہ بد دیانتی پائی جاتی تھی.پھر وسط ہند میں آکر لکھنو اور اس کے بعد دہلی میں جو کچھ ہوا وہ بھی بددیانتی کا کرشمہ ہے.غدر" کی بغاوت جب ہوئی تو اس وقت ہندوستانیوں نے چاہا کہ اپنے آپ کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرلیں اور ایسے کئی مواقع آئے جبکہ دہلی کی حکومت غالب آنے کے بالکل قریب تھی لیکن خود ملک کے اندرونی غداروں اور بد دیانتوں نے ان مواقع کو ضائع کر دیا.یہ مشہور تاریخی واقعہ ہے کہ ایک موقعہ پر انگریزی فوج پر نہایت آسانی کے ساتھ گولہ باری کی جاسکتی تھی.میں نے خود دہلی میں وہ موقعہ دیکھا ہے.مگر زینت محل جو بادشاہ کی چہیتی ملکہ تھی اسے انگریزوں نے رشوت دے رکھی تھی اور اسے کہا تھا کہ اگر تم ہمار ا ساتھ دو گی تو تمہارے بیٹے کو تخت مل جائے گا.جب دہلی کے فوجی افسروں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ قلعہ پر تو ہیں رکھ کر چلائی جائیں اور بادشاہ نے بھی ان کا مشورہ قبول کر لیا تو انگریزی فوج کی طرف سے زینت محل کو پیغام پہنچا کہ اگر تم نے اس موقعہ پر تو ہیں چلنے دیں تو تمہاری تمام امیدیں ہوا ہو جائیں گی.تریا چر تر تو ہمارے ملک میں مشہور ہی ہے.جب بادشاہ نے تو میں چلانے کا حکم دیا تو بیگم کو بناوٹی طور پر غش پر غش آنے لگ گئے اور اس نے بادشاہ سے کہا کہ توپ کی آواز سے میرا دل دہل جاتا ہے.اگر آپ نے تو پوں کا چلنا بند نہ کیا تو میں مرجاؤں گی.پس خدا کے لئے تو پوں کا چلنا بند کرائیں اور اگر تو ہیں چلانا ضروری ہے تو اپنے ہاتھ سے پہلے مجھے قتل کر دیں تا کہ میں ان کی آواز نہ سن سکوں.بادشاہ بھی دھوکے میں آگئے اور گولہ باری کا حکم منسوخ کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک ہی مقام جہاں سے کامیابی کے ساتھ انگریزی فوجوں پر حملہ ہو سکتا تھا.اس پر سے گولہ باری بند کر دی گئی اور انگریزی فوجیں غالب آگئیں.خود بادشاہ کا وزیر اعظم اندر سے انگریزوں سے ملا ہوا تھا اور انگریزوں کو با قاعدہ اندرونی خبریں پہنچتی رہتی تھیں.
115 اودھ کی حکومت بھی اسی طرح تباہ ہوئی.وہاں کے لوگوں کا تمام روپیہ کلکتہ کے انگریزی بنک میں جمع تھا.جب انگریزوں نے اس علاقہ پر حملہ کیا تو انہوں نے لوگوں کو کہا بھیجا کہ اگر تم نے ذرا بھی ہمارے خلاف آواز اٹھائی یا مقابلہ کیا تو تمہارا تمام روپیہ ضبط کر لیا جائے گا.جب تک ان کے روپے جمع نہیں تھے اس وقت تک تو انہیں یہ لالچ دیا گیا کہ اگر تم اپنے روپے ہمارے بنک میں جمع کرو گے تو تمہیں بہت کچھ سود ملے گا.اور جب روپیہ جمع ہو گیا اور اودھ پر انہوں نے حملہ کی تیاری کی تو سب کو نوٹس دے دیا کہ اگر تم نے ہمارا مقابلہ کیا تو سب روپیہ ضبط کر لیا جائے گا.نتیجہ یہ ہوا کہ جب انگریزی فوج اندر داخل ہوئی تو ایک شخص بھی ان کے مقابلے کے لئے کھڑا نہ ہوا.اب اس میں بھلا انگریزوں یا کسی اور قوم کا کیا قصور ہے.یہ خود اپنی قوم کا قصور ہے کہ لوگ اپنے اخلاق کی کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتے.جب کبھی ہندوستان میں کانگریس کا شور بلند ہوا ہے میں نے ہمیشہ انہیں یہی کہا ہے کہ تم اس وقت تک حکومت نہیں کر سکتے جب تک لوگوں کے اند ر بد دیانتی پائی جاتی ہے.ہاں اگر قومی طور پر تم دیانت کو لوگوں کے اندر قائم کر دو تو پھر میں اس بات کا ذمہ وار ہوں کہ انگریز آپ ہی آپ تم سے صلح کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے.اب بھی دیکھ لو کیا ہو رہا ہے.گو کئی صوبوں میں کانگرسی وزارتیں قائم ہو چکی ہیں مگر انہی صوبوں میں خطرناک طور پر رشوتیں چل رہی ہیں اور اب تو گاندھی جی نے بھی اخبار میں لکھا ہے کہ بعض واقعات میرے سامنے ایسے آئے ہیں جن سے یہ بات درست معلوم ہوتی ہے.تو جب تک کسی قوم میں دیانت نہیں اس وقت تک نہ اس قوم میں حکومت رہ سکتی ہے نہ حکومت لے سکتی ہے اور اگر بالفرض وہ کبھی اپنی کثرت تعداد کی بناء پر حکومت لے بھی لے تو وہ حکومت کو سنبھال نہیں سکتی.مگر یہ چیز صرف حکومت سے تعلق نہیں رکھتی کہ یہ کہا جائے کہ آپ حکومتوں کی بات لے بیٹھے ہیں جماعت احمدیہ کی بات کیوں نہیں کرتے.حقیقت یہ ہے کہ طاقت اور جتھا حکومتوں سے ہی وابستہ نہیں ہو تا بلکہ قوموں سے بھی وابستہ ہو تا ہے اور بعض تو میں تو تلوار سے جیتی ہیں اور بعض نظام اور تبلیغ سے جیتی ہیں.ہماری جماعت تلوار سے جیتنے جماعت احمد یہ جیسے جمالی سلسلوں کے لئے قومی دیانت کی اہمیت والی نہیں بلکہ نظام اور تبلیغ سے جیتنے والی ہے اور نظام اور تبلیغ سے جیتنے والی جماعتوں کو دیانت کی ان جماعتوں سے بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جو تلوار سے جیتی ہیں اس لئے کہ جن قوموں کے پاس تلوار ہو وہ تو بد دیانتوں کا تلوار سے سرا ڑا سکتی ہیں مگر جن کے پاس تلوار نہ ہوا نہیں بد دیانتی بہت زیادہ نقصان پہنچایا کرتی ہے کیونکہ ان کے پاس بد دیانتوں کا کوئی علاج نہیں ہو تا.انگریزوں میں یا فرانسیسیوں میں یا جرمنوں میں جب کوئی شخص غداری کرتا ہے تو انگریز ، فرانسیسی اور جر من اس پر مقدمہ کرتے اور مجرم ثابت ہونے پر اسے مار ڈالتے ہیں.مگر جن کے پاس حکومت نہیں ہوتی اور جو تلوار سے کامیاب نہیں ہونا چاہتے بلکہ نظام اور تبلیغ سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں ان میں جب کوئی غدار پیدا ہو جاتا
116 ہے تو وہ اس کا سوائے اس کے اور کیا علاج کر سکتے ہیں کہ دلائل سے اس کا مقابلہ کریں مگر اس رنگ میں مقابلہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ غدار شور مچاتا رہتا ہے اور اس کو دیکھ کر بعض اور لوگ بھی جن کی فطرت میں غداری کا مادہ ہو تا ہے یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ ان کے پاس طاقت تو ہے نہیں چلو ہم بھی ذرا شور مچادیں چنانچہ وہ بھی جماعت کو بد نام کرنے لگ جاتے ہیں.اس قسم کے مفاسد کو دور کرنے کا صرف ایک ہی علاج ہے.اور وہ موت کو غداری پر ترجیح دینی چاہئے یہ کہ غداری کا قلع قمع کر دیا جائے اور غداری کا قلع قمع اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک قوم میں ایسی روح پیدا نہ ہو کہ اس کا ہر فرد موت کو غداری پر ترجیح دے اور وہ کہیں کہ ہم مر جائیں گے مگر غداری نہیں کریں گے.یہ بد دیانتی کبھی انفرادی ہوتی ہے اور کبھی قومی.انفرادی بد دیانتی اقتصادیات کو بالکل تباہ کر دیتی ہے.میں جب کشمیر گیا تو مجھے معلوم ہوا کشمیر کے تاجروں کی صرف چاندی کے کام کی ایک کروڑ روپیہ کی تجارت یورپ والوں سے تھی.اب ایک کروڑ روپیہ کی تجارت کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں پچیس لاکھ روپیہ انہیں بطور منافع حاصل ہو تا تھا.کام کی مزدوری الگ تھی لیکن مجھے بتایا گیا کہ اب یہ تجارت سولہ لاکھ روپیہ تک کی رہ گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کے لوگ کہتے ہیں یہاں کے مال کا کوئی معیار نہیں.کبھی کوئی چیز بھیج دیتے ہیں اور کبھی کوئی.کبھی تو نہایت اعلی مال روانہ کریں گے اور کبھی اس میں کھوٹ ملا دیں گے حالانکہ اگر وہ دیانتداری سے کام کرتے تو آج وہ ایک کروڑ کی تجارت تین چار کروڑ تک پہنچی ہوئی ہوتی.پہلے زمانہ میں تو تجار تیں بہت کم تھیں.تجارت میں زیادتی اسی زمانہ میں ہوئی ہے.پھر اگر اس زمانہ میں جبکہ تجارت کا رواج بہت کم تھا انکی ایک کروڑ روپیہ تجارت ہو سکتی تھی تو لا زما اب وہ تجارت تین چار کروڑ روپیہ کی ہو جاتی مگر بجائے اس کے کہ ان کی تجارت تین چار کروڑ روپیہ تک ترقی کرتی اور کروڑ ڈیڑھ کروڑ روپیہ انہیں نفع حاصل ہو تا.پہلی تجارت بھی گر گئی اور وہ ایک کروڑ سے اتر کر سولہ لاکھ روپیہ تک آگئی.اگر وہ تھوڑے سے نفع کی خاطر بد دیانتی کر کے اپنے کام کو نقصان نہ پہنچاتے تو نتیجہ یہ ہو تاکہ ان کی یہ تجارت خوب چلتی.مگر چونکہ انہوں نے بد دیانتی کی اس لئے تجارت میں نقصان ہو گیا.تو انفرادی اعتبار بھی دیانت سے ہی قائم رہتا ہے.انگریزوں کو ہی دیکھ لو.ان کے کئی لوگ دشمن ہیں مگر وہ دشمن بھی یہ اقرار کرتے ہیں کہ تجارت کے معاملہ میں انگریزوں پر زیادہ اعتبار کیا جا سکتا ہے.وہ اتنا اعتبار جرمنوں پر نہیں کریں گے.وہ اتنا اعتبار جاپانیوں پر نہیں کریں گے جتنا اعتبار وہ انگریزوں پر کریں گے کیونکہ انگریزوں نے دیانتداری کے نتیجہ میں اعتماد پیدا کر لیا ہے.میں نے دیکھا ہے جاپانیوں پر بھی لوگ زیادہ اعتبار نہیں کرتے اور جاپان سے تجارت کرنے والوں کے ہمیشہ دیوالیے نکلتے رہتے ہیں.میں نے ایک دفعہ کلکتہ کے چند تاجروں سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے جاپانی تجارت کرنے والے دیوالیے کیوں نکالتے رہتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ جاپانی تاجر عجیب قسم کی حرکت کرتے ہیں.وہ پہلے اپنی
117 ایک چیز کی ایک رقم معین کر کے اطلاع دے دیتے ہیں.مثلا وہ بوٹ بناتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ اس کی قیمت ایک روپیہ فی جوڑا ہے.اب اتنا سستا بوٹ دیکھ کر بڑے بڑے تاجرا نہیں آرڈر دے دیتے ہیں.کوئی ایک لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے.کوئی دولاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے کوئی تین لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے اور کوئی چار لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے.ابھی وہ مال پہنچتا نہیں کہ اطلاع آجاتی ہے اب اس بوٹ کے بارہ آنے ہو گئے ہیں.یہ دیکھ کر وہ تاجر جنہوں نے پہلی دفعہ مال نہیں منگوایا تھا کئی لاکھ کا آرڈر دے دیتے ہیں مگر ان کا مال بھی ابھی ان تک نہیں پہنچتا که اطلاع آجاتی ہے کہ اس بوٹ کی قیمت آٹھ آنے ہو گئی ہے.اس قدر ستا بوٹ دیکھ کر پھر اور لوگ انہیں آرڈر دے دیتے ہیں.اب گو اس طرح ان کا مال زیادہ بک جاتا ہے مگر وہ پہلا تا جر جس نے پانچ لاکھ روپیہ کا مال منگوایا تھا اس کو اڑھائی لاکھ کا نقصان ہو جاتا ہے اور اس طرح آئندہ کے لئے وہ جاپانی تاجروں سے مال منگوانے میں بہت زیادہ احتیاط سے کام لینے لگتا ہے.گو چیزوں کے زیادہ سستا ہونے اور ان کی زیادہ بکری ہو جانے کی وجہ سے جاپانی تاجروں کو ابھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ ایک غلط راستہ پر چل رہے ہیں مگر انجام کار ایسی عادت مفید ثابت نہیں ہوتی اور وہ نقصان پہنچا کر رہتی ہے.گو جاپانی مال میں بددیانتی نہیں کرتے مگر چونکہ وہ قیمتوں کو بڑھاتے گھٹاتے رہتے ہیں اس لئے گو ابھی اپنی چیزوں کو زیادہ ستا فروخت کرنے کی وجہ سے انہیں نقصان نہیں پہنچا مگر جب بھی برابر کی قیمت کا سوال آجاتا ہے اس وقت واقف تاجر انگریزی مال کو جاپانی مال پر ترجیح دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جاپانی ٹھگی کر لیتے ہیں مگر انگریز ٹھگی نہیں کرتے.انگریزوں سے اتر کر امریکہ اور جرمنی کے لوگ ہیں اور ان سے اتر کر اور ممالک کے لوگ.مگر ہندوستانی تجارت میں اتنا خطرناک طور پر بد نام ہے کہ کوئی قوم اس پر اعتبار نہیں کرتی.مکہ مکرمہ میں سب سے زیادہ حج کے لئے جانے والے ہندوستانی ہی ہوتے ہیں مگر جانتے ہو وہاں ہندوستانی کا کیا نام ہے ؟ وہاں ہندوستانی کو بطال کہا جاتا ہے یعنی وہ سخت جھوٹا اور بددیانت ہوتا ہے.جب بھی کسی ہندوستانی کا ذکر ان کے سامنے آئے گا وہ کہیں گے ہندی بطال یعنی ہندوستانی سخت جھوٹا اور دھوکے باز اور چور ہوتا ہے.وہ جاوی پر اعتبار کر لیں گے.وہ چینی پر اعتبار کر لیں گے ، وہ افغان پر اعتبار کر لیں گے ، وہ مصری پر اعتبار کرلیں گے ، وہ ایرانی پر اعتبار کرلیں گے ، وہ روسی پر اعتبار کرلیں گے مگر جس وقت کسی ہندوستانی کا سوال ان کے سامنے آئے گاوہ کہیں گے ”ہندی بطال " ہندی بڑا جھوٹا اور چور ہوتا ہے.ہندوستانی ہی سب سے زیادہ مکہ مکرمہ کی محبت کا دعوی کرتا ہے.ہندوستانی ہی مقامات مقدسہ کی حفاظت میں سب سے زیادہ حصہ لیتا ہے اور ہندوستانی ہی سب کے آگے رہنے کی کوشش کرتا ہے.مگر وہاں کے لوگوں پر اس نے کیا اثر ڈالا ہے.یہی کلمہ ” ہندی بطال".اگر ان کے اخلاق اچھے ہوتے تو جس طرح انہوں نے باہر کے لوگوں کے لئے قربانیاں کی تھیں اسی طرح کوئی ان کے لئے بھی تو قربانی کرتا.مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ترکوں کی خلافت پر حملہ ہوتا ہے تو ہندوستانی مسلمان اس کی حفاظت کے لئے آگے بڑھتے ہیں.مصر پر انگریزوں کے دانت تیز ہوتے ہیں تو ہندوستان کے مسلمان اس کے مقابلہ کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیتے ہیں.افغانستان پر حملہ ہو تا ہے تو ہندوستانی مسلمان
118 طرب ہو جاتے ہیں.ایران خطرہ میں ہوتا ہے تو ہندوستانی مسلمان چیخ اٹھتے ہیں.گویا دنیا جہان کا در دہندوستان کے مسلمان کے سینہ میں ہے اور جہاں کہیں کسی مسلمان کو تکلیف پہنچتی ہے وہ اس کے اثر سے مضطرب اور بے چین ہو جاتا ہے.مگر جب ہندوستان کے مسلمانوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو مصر کے لیڈر بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان بڑے احمق ہیں.جب! انہیں آزادی مل رہی ہے تو وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر کام کیوں نہیں کرتے.ترک بھی کہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان بڑے احمق ہیں.انہیں عظمندی کے ساتھ کام کرنا نہیں آتا.ایرانی بھی کہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان بیوقوف ہیں اور افغانی بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان عقل اور سمجھ سے عاری ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے کیریکٹر کا برا اثر ان لوگوں کے دلوں پر ہے اور اسی کیریکٹر کے بداثر کی وجہ سے وہ ان کی قربانی کی بھی قدر نہیں کرتے.وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی قربانی بھی ان کی کمزوری کی علامت ہے.جس طرح ایک کمزور انسان بعض دفعہ جوش میں آجاتا ہے مگر اس کا جوش کسی نیکی کی وجہ سے نہیں بلکہ طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے اسی طرح وہ خیال کرتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی قربانی بھی کسی نیکی کی وجہ سے نہیں بلکہ کمزوری کی وجہ سے ہے.اگر یہاں کے آٹھ کروڑ مسلمانوں کے اندر صحیح اخلاق ہوتے تو یہ آٹھ کروڑ مسلمان بھی ہندوستان کو بچا سکتا تھا.بلکہ آٹھ کروڑ کیا.اگر چار کروڑ با اخلاق مسلمان بھی ہندوستان میں موجود ہو تا تو کوئی غیر حکومت اس ملک کی طرف اپنی آنکھ نہیں اٹھا سکتی تھی.بھلا چار کروڑ مسلمانوں کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتے تھے چند ہزار انگریز یا چند ہزار فرانسیسی یا پرتگیزی.پھر چار کروڑ ہی نہیں اگر دو کروڑ دیانت دار مسلمان بھی ہندوستان میں موجود ہوتے تب بھی یہ ملک دوسروں کا غلام نہیں ہو سکتا تھا.اگر اس وقت مسلمانوں کی حکومت میں دو کروڑ ایسے مسلمان موجود ہوتے جو اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے تو کس کی طاقت تھی کہ وہ ہندوستان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکتا.بلکہ میں کہتا ہوں اگر ایک کروڑ بھی دیانتدار مسلمان ہو تا.ایک کروڑ نہیں پچاس لاکھ ہی ہوتے.پچاس لاکھ نہیں پچیس لاکھ ہی ہوتے پچیس لاکھ نہیں بارہ لاکھ ہی دیانتدار مسلمان موجود ہوتے تو بھی آج ہمارے ملک کی وہ حالت نہ ہوتی جو نظر آ رہی ہے.بارہ لاکھ دیانتدار مسلمانوں کی موجودگی کے معنے یہ تھے کہ ایک لاکھ جان نثار سپاہی میسر آسکتا تھا اور اگر ایک لاکھ جان نثار سپاہی اس وقت موجود ہو تا تو انگریزوں اور فرانسیسیوں کی مجموعی طاقت بھی ان کا مقابلہ نہ کر سکتی.کسی ملک کی آبادی کے آٹھ فیصدی حصہ کا سپاہی ہونا معمولی بات ہے.جو جنگی قو میں ہوتی ہیں ان میں بعض دفعہ سولہ فیصدی تک سپاہی ہوتے ہیں اور جب انتہائی خطرہ کا وقت آتا ہے تو تمہیں بلکہ چالیس فیصدی آبادی بھی لڑائی کے لئے تیار ہو جاتی ہے.بہر حال کسی ملک کا جو ادنیٰ سے ادنی فوجی معیار ہے اگر وہی ہمارے ملک میں قائم ہو تا تو بارہ لاکھ مسلمانوں میں سے ایک لاکھ سپاہی ضرور مل جاتا اور اعلیٰ معیار کے رو سے پونے پانچ لاکھ مسلمان انگریزوں کے مقابلہ کے لئے تیار ہوتے.اب اگر اتنی بڑی تعداد ہندوستان میں موجود ہوتی تو کون سی قوم تھی جو ہندوستان کو فتح کر سکتی.یقینا نہ انگریز ہندوستان کو فتح کر سکتے نہ فرانسیسی اسے فتح کرنے کی طاقت رکھتے اور نہ
.119 پر تگیزی اسے فتح کرنے کی طاقت رکھتے.مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت صرف چند ہزا ر یا چند سو ایسے لوگ تھے جو دیانتدار تھے اور جو ملک کے لئے قربانی کرنے کی روح اپنے اندر رکھتے تھے.باقی جس قد ر تھے وہ ٹھگ تھے وہ فریبی تھے ، وہ دھو کے باز تھے وہ رشوت خوار تھے وہ نمک حرامی کرتے تھے اور غیروں سے رشوتیں لے لے کر اپنے ملک کی حکومت کو آپ تباہ و برباد کرنے کے درپے ہو رہے تھے.کیا ہی بد قسمت وہ ملک ہے جس میں ۳۳ کروڑ کی آبادی ہو مگر ملک کی خاطر چار پانچ ہزار آدمی بھی اس میں وفادار نہ ہو.اس سے زیادہ بد قسمتی کی مثال اور کیا ہو سکتی ہے.پھر ملک کو جانے دو عقل کے ساتھ تو انہوں نے اپنے ساتھ بھی وفاداری نہیں کی.حکومت تو گئی ہی تھی، تجارت کیوں گئی مگر ان کے ہاتھ سے تجارت کا نکل جانا بھی بتا تا ہے کہ یہ اپنے نفس اور اپنی ذات کے بھی وفادار نہیں.اگر ان میں اپنے نفس کے ساتھ وفاداری کا ہی مادہ ہو تا تو ان کے ہاتھ سے تجارت کبھی نہ جاتی.تو بد دیانتی ایسی چیز ہے جو بد دیانتی قومی اور انفرادی دونوں لحاظ سے قوموں کو تباہ کرتی ہے قوموں اور افراد کو چاہ کر دیتی ہے.مگر جس قوم میں دیانت آ جائے اسے ہر جگہ عزت حاصل ہوتی ہے اور کوئی اسے ذلیل نہیں کر سکتا.اسی طرح انفرادی دیانت جب کسی قوم میں پیدا ہو جاتی ہے تو وہ اقتصادی طور پر بڑھتی چلی جاتی ہے.مگر یہ انفرادی دیانت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک تجارتی دیانت اور ایک اخلاقی دیانت.جن قوموں میں اخلاقی دیانت نہ ہو مگر تجارتی دیانت ہو وہ بھی نہیں گر تیں.چنانچہ ہندوؤں کو ہی دیکھ لو.بننے میں اخلاقی دیانت نہیں مگر تجارتی دیانت ہے تجارتی دیانت کے بل بوتے پر بعض اقوام کی ترقی اور اس وجہ سے وہ تجارت میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے.یہودیوں میں بھی اخلاقی دیانت نہیں لیکن تجارتی دیانت ہے.یہی وجہ ہے کہ ان کی تجارت روز بروز بڑھ رہی ہے.اسی طرح جس قوم میں اخلاقی دیانت پیدا ہو جائے اس کا اخلاقی طور پر دوسروں کے قلوب پر سکہ بیٹھ جاتا ہے اور اس قوم کے افراد جہاں جاتے ہیں لوگ ان سے مشورہ لیتے اور ان کی باتوں پر اپنے کاموں کا انحصار رکھتے ہیں.لیکن جس قوم میں قومی دیانت بھی ہو ، تجارتی دیانت بھی ہو اور اخلاقی دیانت بھی ہو وہ قوم تو ایک پہاڑ ہوتی ہے.یہ ممکن ہے کہ ہمالیہ پہاڑ کو اڑایا جا سکے مگر یہ ممکن نہیں کہ اس قوم کو برباد کیا جاسکے.ایسی قوم نہ صرف خود محفوظ ہوتی ہے بلکہ اور لوگوں کی حفاظت کا بھی موجب ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ اور قومیں حوادث اور مصائب سے بچائی جاتی ہیں.اور وہ دنیا کے لئے ایک تعویذ ہو جاتی ہے.پس میں خدام الاحمدیہ خدام الاحمد یہ نوجوانوں میں قومی ، تجارتی اور اخلاقی دیانت پیدا کرے سے کہتا ہوں کہ تینوں قسم کی دیانتیں تم لوگوں کے اندر پیدا کرو جس کا ذریعہ تمہارے پاس موجود ہے کیونکہ نوجوانوں کی باگ تمہارے
120 ہاتھ میں دی گئی ہے.تم نوجوانوں میں قومی دیانت بھی پیدا کرو تم نوجوانوں میں تجارتی دیانت بھی پیدا کرو اور تم نوجوانوں میں اخلاقی دیانت بھی پیدا کرو.تجارتی دیانت کے معنے صرف تجارت اور لین دین کے معاملات میں ہی دیانت تجارتی دیانت کا مفہوم دارانہ رویہ اختیار کرنے کے لئے نہیں بلکہ نوکری بھی اس میں شامل ہے کیونکہ نوکر اپنا وقت دوسرے کو دیتا ہے.پس جس طرح ہر تاجر کا فرض ہے کہ وہ تجارت میں دیانتداری سے کام لے اسی طرح ہر ملازم کا بھی فرض ہے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ کام کرے.دیا : نتدار نوکر کی ہر کوئی قدر کرتا اور اسے بلا بلا کر رکھتا ہے.لیکن اگر کسی کے متعلق ثابت ہو جائے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ کام نہیں کر تا تو اس کی قدر دلوں سے اٹھ جاتی ہے.پس قومی دیانت، تجارتی دیانت اور اخلاقی دیانت اپنے اندر پیدا کرو.اخلاقی دیانت کے معنے یہ ہیں کہ باوجود اس کے کہ اپنے قول کی بیچ کرنے پر تم اخلاقی دیانت کا مفہوم کو نقصان پہنچتا ہو اپنے قوم کی بچ کرتے ہوئے نقصان اٹھا کر بھی اپنے قول کو پورا کرو اور اسے ضائع نہ ہونے دو.ایک قصہ مشہور ہے جو گو ہماری ہی قوم کا ہے مگر افسوس ہے کہ ہماری روایتیں بھی ہمارے ذریعہ محفوظ نہیں بلکہ انگریزوں کے ذریعہ محفوظ ہیں.جب ہم مدرسہ میں پڑھا کرتے تھے ، اس وقت ریڈیو میں ایک یوسف ہسپانوی کا قصہ آتا تھا جو اخلاقی دیانت کی بہترین مثال ہے.یوسف سپین کا ایک مشہور تاجر اور رئیس تھا.ایک دفعہ کسی شخص نے اس کے اکلوتے لڑکے کو قتل کر دیا.یوسف کو اس کا علم نہیں تھا کہ اس کا لڑکا مارا گیا ہے.پولیس اس قاتل کے پیچھے بھاگی اور وہ قاتل آگے آگے بھاگا.دوڑتے دوڑتے وہ شخص اسی مکان کے اندر آ گیا جہاں یوسف رہتا تھا اور اس سے کہنے لگا کہ مجھے پناہ دو.پولیس میرے تعاقب میں آرہی ہے.اسے معلوم نہ تھا کہ میں نے اسی شخص کے بیٹے کو قتل کیا ہے اور یوسف کو بھی معلوم نہ تھا کہ یہ میرے بیٹے کا قاتل ہے.عربوں کا یہ ایک خاص قومی کیریکٹر ہے کہ جب ان کے گھر میں کوئی شخص آکر ان سے پناہ کا طلب گار ہو تو وہ انکار نہیں کر سکتے اور اسے ضرور پناہ دے دیتے ہیں.یوسف نے بھی کہا کہ بہت اچھا تم میری پناہ میں ہو.تھوڑی دیر کے بعد پولیس والے آئے اور انہوں نے پوچھا کہ یہاں کوئی شخص دوڑتے دوڑتے آیا ہے وہ ایک شخص کا قاتل ہے اور ہم اسے گرفتار کرنا چاہتے ہیں.یوسف نے کہا یہاں تو کوئی نہیں.دراصل یوسف نے اسے ادھر ادھر گھر میں کہیں کھسکا دیا تھا.اس طرح اپنی بات بھی کچی کرلی اور واقعہ بھی ظاہر نہ ہونے دیا چنانچہ پولیس واپس چلی گئی.تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ نوکر اس کے لڑکے کی لاش اٹھا کر پہنچ گئے اور انہوں نے کہا کہ اسے ابھی کسی شخص نے قتل کر دیا ہے.وہ اپنے لڑکے کی لاش دیکھتے ہی ساری حقیقت سمجھ گیا اور بھانپ گیا کہ جس شخص کو میں نے پناہ دی ہے وہی، میرے لڑکے کا قاتل ہے مگر اس کے اندر کوئی لغزش پیدا نہ ہوئی اور اس نے پھر بھی پولیس کو یہ نہ بتا.کہ جس شخص نے میرے بیٹے کو قتل کیا ہے اسے میں نے فلاں جگہ چھپارکھا ہے.جب لوگ ادھر ادھر ہو گئے تو وہ اس شخص کے پاس گیا اور اسے کہا کہ جس شخص کو تم نے مارا ہے وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے مگر چونکہ میں تمہیں پناہ دینے
121 کا وعدہ کر چکا ہوں اس لئے میں تجھے کچھ نہیں کہتا بلکہ میں خود تجھے بھاگنے کا سامان دیتا ہوں.یہ میری اونٹنی لے اور یہ سامان اس پر لاد اور یہاں سے کسی دوسری طرف نکل جا چنانچہ وہ اونٹنی پر سوار ہوا اور بھاگ کر کسی اور علاقہ کی طرف نکل گیا.یہ اخلاقی دیانت ہے.اس میں اس کا اپنا کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان تھا مگر چونکہ وہ قول دے چکا تھا اور اس میں کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی بھی نہیں تھی اس لئے اس نے اپنا قول نہ چھوڑا اور گو دوسرے شخص نے اس کے اکلوتے بیٹے کو مار دیا تھا مگر پھر بھی اس کی جان کو بچا دیا.تو فردی دیانت بھی نہایت اہم ہوتی اور دلوں کو ہلا دیتی ہے.اسی طرح ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص قتل کے جرم میں پکڑا گیا.اس نے کہا کہ مجھے کچھ مہلت دیجئے کیونکہ میرے پاس بعض یتامی کی امانتیں ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ گھر جا کر وہ امانتیں انہیں واپس کر دوں.وہ ایک بدوی تھا اور بدویوں کا پکڑنا نہایت مشکل ہو تا ہے کیونکہ سینکڑوں میل کا صحرا ہو تا ہے جس میں وہ رہتے ہیں اور آج اگر یہاں ہوتے ہیں تو کل وہاں.کوئی ایک مقام ان کا ہو تا نہیں کہ وہاں انہیں تلاش کیا جاسکے اور اگر ہاتھ سے نکل جائیں تو پھر ان کا ڈھونڈنا بہت مشکل ہو تا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم کوئی ضمانت دو تو ہم تمہیں چھوڑ دیتے ہیں.بغیر ضمانت کے ہم تمہیں چھوڑ نہیں سکتے.اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ایک صحابی کی طرف جو ابو ذر یا ابوالدردا تھے مجھے اس وقت صحیح نام یاد نہیں اشارہ کر کے کہا یہ میرے ضامن ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا ضمانت دیتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں میں اس کی ضمانت دیتا ہوں.اب ایک قاتل کی ضمانت دینے کے معنے یہ تھے کہ اگر وہ مقررہ وقت پر نہ پہنچے تو مجھے مار ڈالنا.ان کی ضمانت پر حضرت عمر رضی اللہ نے اسے چھوڑ دیا اور وہ چلا گیا.جب وہ دن آیا جو اس کی سزا کے لئے مقرر تھا تو لوگ اس بدوی کا انتظار کرنے لگے کہ کب آتا ہے مگر وقت گذرتا جائے اور اس کی آمد کا کوئی پتہ نہ لگے.آخر اس صحابی کے دوستوں کے دلوں میں تشویش پیدا ہوئی اور انہوں نے اس سے پوچھا کہ آپ جانتے بھی ہیں وہ ہے کون؟ انہوں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں وہ کون تھا؟ وہ کہنے لگے تو پھر آپ نے ضمانت کیوں دی ؟ انہوں نے کہا اس نے مجھ پر اعتبار کیا تھا تو میں کیوں اعتبار نہ کرتا.خیران کے دوستوں کے دلوں میں بے چینی پیدا ہو گئی کہ نہ معلوم اب کیا ہو گا.مگر جب عین وہ وقت پہنچا جو اس کی سزا کے لئے مقرر تھا تو لوگوں نے دیکھا کہ دور سے ایک غبار اڑتا چلا آ رہا ہے.سب لوگوں کی آنکھیں اس طرف لگ گئیں.ابھی تھوڑی ہی دیر گزری کہ انہوں نے دیکھا ایک سوار نہایت تیزی سے گھوڑا دوڑا تا چلا آ رہا ہے یہاں تک کہ گھوڑے کا پیٹ زمین سے لگ رہا ہے.جب وہ قریب پہنچا تو ادھر وہ گھوڑے سے اترا اور ادھر اس گھوڑے نے دم دے دیا اور مرگیا.یہ سوار وہی شخص تھا جس کی اس صحابی نے ضمانت دی تھی.وہ کہنے لگا میرے پاس امانتیں کچھ زیادہ تھیں ان کو واپس کرنے میں مجھے دیر ہو گئی اور میں اپنے گھوڑے کو مار تا ہوا اسے نہایت تیزی سے دوڑا تا ہوا یہاں پہنچا تاکہ میرے ضامن کو کوئی تکلیف نہ پہنچے.تو دیانت ایسی چیز ہے کہ باوجود اس کے ان واقعات پر سینکڑوں سال گزر گئے آج بھی ہم ان واقعات کو پڑھتے ہیں تو یوں محسوس ہو تا ہے کہ ہم اس گناہ سے بھری ہوئی
122 دنیا میں نہیں بلکہ ایک ایسی جنت میں ہیں جو خوبیاں ہی خوبیاں اپنے اندر رکھتی ہے حالانکہ یہ انفرادی واقعات ہیں.کروڑوں اور اربوں میں سے کسی ایک انسان کا واقعہ ہے مگر یہ ایک واقعہ بھی انسانیت کو اتنا خوبصورت کر کے دکھا دیتا ہے کہ دنیا کے سارے گناہ نگاہوں سے پوشیدہ ہو جاتے ہیں.اسی طرح تجارتی دیانت کی بھی ہمارے اباء میں مثالیں پائی جاتی ہیں.چنانچہ تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص گھوڑے کو فروخت کرنے کے لئے بازار میں لایا اور اس نے کہا کہ اس کی پانچ سو درہم قیمت ہے.ایک صحابی نے اس کو دیکھا اور پسند کیا اور کہا کہ میں یہ گھوڑا لیتا ہوں مگر اس کی قیمت میں پانچ سو درہم نہیں بلکہ دو ہزار درہم دوں گا کیونکہ یہ گھوڑا نہایت اعلیٰ قسم کا ہے اور اس کی قیمت اتنی تھوڑی نہیں جتنی تم بتاتے ہو.اس پر گھوڑا بیچنے والا اصرار کرنے لگا کہ میں پانچ سو درہم لوں گا اور گھوڑا خریدنے والا اصرار کرنے لگا کہ میں دو ہزار درہم دوں گا.ایک کہتا کہ اے شخص تجھے گھوڑے کی پہچان نہیں یہ گھوڑا زیادہ قیمت کا ہے اور دوسرا کہتا کہ میں صدقہ لینا نہیں چاہتا، میں اپنے گھوڑے کو جانتا ہوں اس کی قیمت پانچ سو درہم ہی ہے.اس کے کتنا الٹ نظارہ آج دنیا میں نظر آتا ہے.وہاں تو یہ تھا کہ چیز خرید نے والا قیمت بڑھاتا تھا اور بیچنے والا قیمت گرا تا تھا اور یہاں یہ حال ہے کہ دو دو آنے کی چیز بعض دفعہ دس دس روپے میں فروخت کی جاتی ہے.بمبئی میں میں نے ان دو سفروں میں جو حال ہی میں میں نے کئے ہیں نہیں دیکھا لیکن آج سے پندرہ میں سال پہلے میں نے جو سفر کئے تھے ان میں دو دفعہ خود میرے ساتھ ایسا واقعہ ہوا.بمبئی میں چونکہ عام طور پر نووار دلوگ آتے رہتے ہیں اور وہ قلموں کی شناخت کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے اس لئے بعض لوگوں نے وہاں یہ طریق اختیار کیا ہوا ہے کہ جب کسی اجنبی شخص کو دیکھیں گے اسے آملیں گے اور کہیں گے کہ میں مسافر ہوں مگر کرایہ کم ہو گیا ہے فلاں جگہ جانا چاہتا ہوں.میرے پاس یہ قلم ہے اس کی پندرہ روپے قیمت ہے مگر آپ دس روپے ہی دے دیں تو میرا کرایہ بن جائے گا.اب وہ قلم چھ سات پیسے کا ہو تا ہے مگر بعض دفعہ کوئی ایسا اناڑی بھی انہیں مل جاتا ہے جو اس ملمع کو دیکھ کر جو ٹین کے خول پر چڑھا ہوا ہوتا ہے سمجھتا ہے کہ یہ سودا بڑا ستا ہے اور وہ دس روپے پر اس سے قلم لے لیتا ہے حالانکہ وہ پانچ سات پیسے کا قلم ہو تا ہے.پھر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو جھگڑا شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قیمت زیادہ ہے ذرا کم کرو.اس طرح وہ دس روپے سے نو روپے پر آتا ہے.پھر آٹھ اور سات پر سات سے چھ پر چھ سے پانچ پر پانچ سے چار پر حتی کہ بعض دفعہ وہی قلم جس کی قیمت وہ پہلے پندرہ روپے بتلاتے ہیں چھ سات آنے پر دیتے ہیں اور لینے والا سمجھتا ہے کہ میں نے خوب لوٹا.حالانکہ پھر بھی وہی شخص انہیں لوٹ کر لے گیا ہوتا ہے کیونکہ وہ قلم چند پیسوں کا ہوتا ہے اور وہ کئی آنے بٹو ر لیتا ہے.خود میرے ساتھ بھی ایک دفعہ ایسا ہی ہوا مگر مجھے چونکہ بعض دوستوں نے یہ بات بتادی تھی اس لئے میں نے فورا کہہ دیا کہ مجھے ضرورت نہیں.مگر وہ کہنے لگا دس نہ سہی نوہی دے دیں.نو نہ سہی آٹھ ہی دے دیں.آٹھ نہ سہی سات ہی دے دیں.سات نہ کسی چھ ہی دے دیں.اچھا! پانچ روپے ہی دے دیں.جب میں نے کہا میں کہہ چکا ہوں کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں تو کہنے لگا اچھا چار ہی دے دیجئے ، تین ہی دید یجئے دو
123 ہی دید بیجئے ، چلئے ایک روپیہ ہی دے دیں.پھر وہ اس سے بھی نیچے اترا کہنے لگا آٹھ آنے ہی دے دیں.سات آنے ہی دے دیں.چلو چھ آنے ہی دے دیں.مگر میں نے کہا جب میں نے کہہ دیا ہے کہ میں نے نہیں لینا تو میں چھ آنے بھی کیوں دوں.اسی طرح کشمیر میں میں نے دیکھا ہے.وہاں لوگ مشک کا نافہ لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے اندر ایک تولہ مشک ہے اور اس کی اصلی قیمت بتیس روپے ہے مگر چونکہ ہمیں روپے کی سخت ضرورت ہے اس لئے ہم آپ کو چومیں پچیس روپے میں نافہ دے سکتے ہیں.پھر وہی نافہ جس کی قیمت وہ پچیس روپے بتاتے ہیں بعض دفعہ آٹھ آنہ میں بھی دے دیتے ہیں اور جب تم آٹھ آنہ میں مشک کا نافہ لے کر یہ سمجھتے ہو کہ دنیا کے سب سے بڑے ماہر تاجر تم ہو کیونکہ تم نے ایک شخص سے مشک کا نافہ آٹھ آنے میں لے لیا تو اس وقت بھی تم دھو کا خوردہ ہوتے ہو کیونکہ جب اسے کھول کر دیکھا جاتا ہے تو اس میں سے کبوتر کے جمے ہوئے خون کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا اور تمہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ بڑے ماہر تم نہیں بلکہ بڑا ٹھگ وہی تھا جو تمہیں لوٹ کر لے گیا.وہ نافہ کے باہر تھوڑی سی مٹک مل دیتے ہیں اور اند ر کبوتر کا خون بھر دیتے ہیں.کبوتر کے خون کی بعض دوائیوں سے بالکل مشک کی سی شکل ہو جاتی ہے اور ناواقف آدمی سمجھتا ہے کہ آج میں نے بڑا ستا سودا کیا.میں نے آٹھ آنہ میں مشک کا نافہ خرید لیا حالانکہ اس میں صرف کبوتر کا خون ہوتا ہے اور کبوتر کے خون کی قیمت تو ایک پیسہ بھی نہیں ہوتی.پھر قومی دیانت کو لے لو.یا تو یہ حال ہے کہ کم سے کم آٹھ کروڑ مسلمان قومی دیانت کا مطلب اور مفہوم ہندوستان میں موجود ہیں اور چند سو انگریز اس ملک پر قبضہ کر لیتے ہیں اور یا یہ حال نظر آتا ہے کہ بدر کے میدان میں عرب کا ایک ہزار نہایت تجربہ کار سپاہی مکہ کی طرف سے لڑنے آتا ہے.ان کے مقابلے میں صرف تین سو تیرہ آدمی ہیں.ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے کبھی تلوار چلائی ہی نہیں اور دو تو ان میں پندرہ پندرہ سال کے لڑکے ہیں اور سپاہی کہلانے کے مستحق صرف دو سو کے قریب آدمی ہیں اور یہ بھی کوئی بڑے پائے کے سپاہی نہ تھے.سوائے چند کے مثلاً حضرت حمزہ ، حضرت علی حضرت ابو بکر حضرت عمر حضرت طلحہ اور حضرت زبیر.یہ ایسے خاندانوں میں سے تھے جن میں بچپن سے ہی فنون جنگ سکھائے جاتے تھے اور یہی چند آدمی تھے جو خاص طور پر ماہر فن سمجھے جاتے تھے.باقی سب معمولی سپاہی تھے.مگر مکہ کی طرف سے آنے والے لشکر میں ایک ایک آدمی ایسا تھا جو ہزار ہزار پر بھاری سمجھا جاتا تھا اور وہ تمام کے تمام فنون جنگ میں نهایت ماہر تھے.جب مسلمانوں اور کفار کا لشکر آمنے سامنے ہوا تو اس وقت کسی نے سوال پیدا کر دیا کہ اس لڑائی کا فائدہ کیا ہے.وہ تھوڑے سے آدمی ہیں اور ہیں بھی قریباً سب مکہ کے.انصاری اس جنگ میں بہت ہی کم ہیں.پس یہ سب ہمارے بھائی بند ہیں اگر ہم مارے گئے تب بھی اور اگر یہ مارے گئے تب بھی دونوں صورتوں میں مکہ میں ماتم ہو جائے گا.اس کی بات کو تو لوگوں نے نہ سنا.مگر انہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو پتہ لگانے کے لئے بھیجا کہ مسلمان کتنے ہیں اور ان کے ساز و سامان کا کیا حال ہے.معلوم ہوتا ہے وہ آدمی نہایت ہی ہوشیار تھا.جب
124 وہ آیا تو اس نے پہلے تو وہ جگہ دیکھی جہاں مسلمانوں کا کھانا تیار ہو رہا تھا.پھر اس نے سواریوں کا اندازہ لگایا اور واپس جاکر کہا کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ مسلمان تین سو سوا تین سو کے قریب ہیں.یہ کیسا صحیح اندازہ تھا جو اس نے لگایا مسلمان واقعہ میں تین سو تیرہ ہی تھے.مگر اس نے کہا اے میرے بھائیو! میرا مشورہ یہ ہے کہ تم لڑائی کا خیال چھوڑ دو.ابو جہل یہ سن کر جوش میں آگیا اور اس نے کہا کیوں ڈر گئے ؟ وہ کہنے لگا میں ڈر گیا ہوں یا نہیں اس کا پتہ تو میدان جنگ میں لگ جائے گا مگر میں یہ مشورہ تمہیں دے اس لئے رہا ہوں کہ میں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر آدمیوں کو چڑھے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ موتیں دیکھی ہیں جو ان اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھیں.ان میں سے ہر شخص اس نیت اور اس ارادے کے ساتھ آیا ہوا ہے کہ میں مٹ جاؤں گا مگر ناکام و نامراد واپس نہیں جاؤں گا.ان میں سے ہر شخص کا چہرہ بتا رہا ہے کہ وہ سب کے سب یا تو خود فنا ہو جائیں گے یا تم کو فنا کر دیں گے.پس یہ مت خیال کرو کہ یہ لڑائی ویسی ہی ہوگی جیسے عام لڑائیاں ہوتی ہیں بلکہ یہ ایک نہایت ہی اہم اور فیصلہ کن جنگ ہو گی اور یا تو وہ تمہیں فنا کر دیں گے اور اگر وہ تمہیں فنا نہ کر سکے تو وہ خود سب کے سب ڈھیر ہو جائیں گے مگر میدان جنگ سے اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹا ئیں گے.اور ایسی قوم کو دبانا ہی مشکل ہوتا ہے جس کا ہر فرد مرنے کے لئے تیار ہو.یہ کیسا شاندار فقرہ ہے جو اس کی زبان سے نکلا کہ مسلمانوں میں سے ہر شخص اپنے گھر سے اسی نیت اور اسی اراده کے ساتھ نکلا ہے کہ میں فتح یا موت میں سے ایک چیز کو حاصل کئے بغیر واپس نہیں لوٹوں گا.کیا مختصر سے فقرہ میں اس نے ان تمام قلبی جذبات کا اظہار کر دیا ہے جو مسلمانوں کے قلوب میں موجزن ہو رہے تھے.یہ فقرہ ان تاریخی فقرات میں سے ہے جو ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں کہ اے بھائیو! میں نے آدمی نہیں دیکھے بلکہ موتیں دیکھی ہیں جو اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھیں.پھر دیکھ لو وہی ہوا جو اس نے کہا تھا.وہ واقعہ میں موتیں بن کر ظاہر ہوئے یا تو وہ مرگئے یا انہوں نے کفار کو مار دیا.جن کے لئے موت مقدر تھی وہ تو مر گئے اور جن کے لئے موت مقدر نہیں تھی انہوں نے مکہ والوں کا ایسا تہس نہس کیا کہ مکہ کے ہر گلی کوچہ میں ماتم بپا ہو گیا.ہزار آدمی کا ایک ایسے شہر سے نکل کر لڑائی کیلئے تیار ہو جانا جس میں دس پندرہ ہزار آدمی رہتے ہوں معمولی بات نہیں.ہر بارہ آدمی کے پیچھے ایک آدمی کا مارا جانا یا زخمی ہونا کوئی کم صدمے والی بات نہیں ہوتی.لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ جو آدمی مارے گئے وہ چوٹی کے آدمی تھے تو ہم اور بھی زیادہ آسانی کے ساتھ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مکہ والوں کی کیا حالت ہوئی ہو گی.ان مارے جانے والے لیڈروں میں سے ایک ایک آدمی ایسا تھا جس پر ہزاروں کا گزارہ تھا.ابو جمل عتبہ اور شیبہ یہ سب مکہ کے لیڈر تھے.بیسیوں ان کے نوکر تھے.بیسیوں ان کے غلام تھے.بیسیوں ان کی تجارت پر کام کرتے تھے اور بیسیوں کی حفاظت کے یہ ذمہ وار تھے.پس ان میں سے ایک ایک آدمی تھائی یا چوتھائی شہر کا زمہ وار تھا اور اس ایک آدمی کا مرنا صرف اس کے رشتہ داروں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہزاروں اور لوگوں کے لئے بھی ماتم کا موجب تھا.اس جنگ میں شکست کھانے کے بعد مکہ والوں کی ایسی دردناک کیفیت ہو گئی کہ انہوں نے سمجھا اگر آج ماتم کیا گیا تو مکہ کی تمام عزت خاک میں مل جائے
125 گی.پس عرب کے ان لیڈروں نے جو زندہ تھے آپس میں مشورہ کر کے فیصلہ کر دیا کہ کوئی شخص بد ر کے مقتولین کا ماتم نہ کرے اور اگر کوئی شخص ماتم کرے تو اسے قوم سے نکال دیا جائے.اس کا بائیکاٹ کیا جائے اور اس پر جرمانہ کیا جائے.عرب ایک قبائلی قوم ہے اور جو قبائلی قومیں ہیں ان میں قومی روح انتہا درجہ کی شدید ہوتی ہے.پس اس حکم کی خلاف ورزی ان کے لئے ناممکن تھی.مائیں اپنے کلیجوں پر سل رکھ کر باپ اپنے دلوں کو مسوس کر اور بچے اپنی زبانوں کو دانتوں تلے دبا کر بیٹھ کر گئے اور ان کے لبوں سے آہ بھی نہیں نکلتی تھی کیونکہ ان کی قوم کا یہ فیصلہ تھا کہ آج رونا نہیں تا محمد ملی و لی لی ہے اور اس کے ساتھی خوش نہ ہوں اور وہ یہ نہ کہیں کہ دیکھا ہم نے مکہ والوں کی کیسی شکست دی.مگر دل تو جل رہے تھے ، سینوں میں سے تو شعلے نکل رہے تھے ، جگر تو ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے تھے.وہ دروازے بند کر کے تاریک گوشوں میں بیٹھتے اور دبی ہوئی آواز کے ساتھ روتے تاکسی کو یہ پتہ نہ لگے کہ وہ رو رہا ہے مگر یہ رونا ان کی تسلی کا موجب نہیں تھا.کیونکہ انسان غم کے وقت دوسرے سے تسلی چاہتا ہے.بیوی چاہتی ہے کہ خاوند مجھ سے دکھ درد کرے اور خاوند چاہتا ہے کہ بیوی مجھ سے دکھ درد کرے.باپ چاہتا ہے کہ بیٹا میرے غم میں حصہ لے اور بیٹا چاہتا ہے کہ باپ میرے غم میں حصہ لے.اسی طرح ہمسایہ چاہتا ہے کہ ہمسایہ والے میرا غم بنائیں اور اگر کوئی ایسا ماتم ہو جائے جس کا اثر سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں پر ہو تو اس وقت سب لوگ چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کر دیں اور اس طرح اپنے دکھ درد کو کم کریں.پس تنہائی کے گوشوں میں بیٹھ کر رونا ان کی تسلی کا موجب نہیں تھا.مہینہ گزر گیا اور برابر یہ حکم نافذ رہا.اس عرصہ میں وہ آگ جو انہوں نے اپنے سینہ میں دبا ر کھی تھی سلگتی رہی.آخر مہینہ کے بعد ایک دن ایک مسافر وہاں سے گذرا.اس کی ایک اونٹنی تھی جو راہ میں ہی مرگئی.وہ اونٹنی کے غم میں چیچنیں مار کر رو تا جارہا تھا اور کہتا جا رہا تھا.ہائے میری اونٹنی مرگئی.ہائے میری اونٹنی مرگئی.تب مکہ کا ایک بوڑھا شخص جو اپنے مکان کے دروازے بند کر کے اندر بیٹھا ہوا تھا اس نے اپنے مکان کے دروازے کھول دیئے اور بازار میں آکر زور زور سے اس نے پیٹنا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس شخص کو اپنی اونٹنی پر تو رونے کی اجازت ہے مگر میرے تین جوان بیٹے مارے گئے اور مجھے رونے کی اجازت نہیں دی جاتی.یہ ایک نعرہ تھا جو اس نے لگایا جس نے مکہ میں ایک شعلہ کا کام دیا.اس کے بعد نہ کسی کو قانون کا خیال رہا نہ قوم اور برادری سے اخراج کی دھمکی کا خیال رہا.معاملہ کے گھروں کے تمام دروازے کھل گئے اور چوکوں اور بازاروں میں عورتیں اور بچے پیٹنے لگ گئے.یہ وہ موتیں تھیں جو تین سو تیرہ جان باز صحابہ کی شکلوں میں ظاہر ہو ئیں.جب ایک ملک الموت ساری دنیا کی جان نکال لیتا تھا تو اگر انسان بھی ملک الموت کا نمائندہ بن جائے اور کہے کہ میں مرجاؤں گا مگر اپنے کام سے نہیں ہٹوں گا تو اسے کون مار سکتا ہے اسلام ظلم کی اجازت نہیں دیتا.اسلام قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا.مگر اسلام اس معاملہ میں کوئی استثناء نہیں کرتا کہ اگر کوئی مسلمان ڈر کر یا غداری سے کام لے کر میدان جنگ سے بھاگ آئے تو سوائے جہنم کے اس کا کوئی ٹھکانا نہیں.وہ لا الہ الا اللہ پڑھنے والا ہو گا.وہ محمد رسول اللہ کہنے والا ہو گا.وہ نمازیں
126 پڑھنے والا ہو گا.وہ زکوۃ دینے والا ہو گا.وہ سارے ہی احکام اسلام کی پابندی کرنے والا ہو گا مگر خدا اسے فرمائے گا کہ تمہارا ٹھکانا دوزخ کے سوا اور کہیں نہیں کیونکہ تم قومی غداری کے مجرم ہو.تو قومی غداری ایک نہایت ہی خطرناک جرم ہے.صحابہ کو ہی دیکھ لو.انہوں نے قومی دیانت کا کیسا شاندار نمونہ دکھایا.ایسا اعلی نمونہ کہ شدید ترین دشمن بھی ان کی اس خوبی کا اعتراف کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا پر غالب آئے اور یہی وہ چیز ہے جسے ہم اپنے اندر پیدا کر کے دنیا پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں.یقین یا درکھو جو قوم مرنے مارنے پر تلی ہوئی ہو اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا.اگر اس پر کوئی حملہ بھی کرے تو مٹتی نہیں بلکہ ابھرتی ہے اور گرتی نہیں بلکہ ترقی کرتی ہے.تو تمہارا ایک کام یہ ہے کہ تم نوجوانوں میں قومی دیانت پیدا کرو.اسی طرح ان میں تجارتی دیانت پیدا کر دیا زیادہ وسیع لفظ اگر استعمال کیا جائے تو اس کے لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تم معاملاتی دیانت پیدا کرو اور اخلاقی دیانت کے پیدا کرنے سے بھی غافل نہ رہو.اگر تم بار بار نوجوانوں کو یہ سبق دو.اگر تم دیکھتے رہو کہ تم میں سے کسی میں دیانت کا فقدان تو نہیں ہو رہا اور اگر تم اپنے دوستوں اپنے ہمسایوں ، اپنے رشتہ داروں ، اپنے اہل محلہ اور اہل شہر میں یہ روح پیدا کرنے کی کوشش کرو تو یقیناً تم ایک ایسا کام کرتے ہو جو احمدیت کو زندگی بخشنے والا ہے.باقی رہا سچ.سوچ بھی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا.سارے فساد اور لڑائی جھگڑے محض جھوٹ سے پیدا ہوتے ہیں.لوگوں کو اگر ایک دوسرے پر اعتبار نہیں آتا یا تعلقات میں کشیدگی ہوتی ہے تو محض اس لئے کہ وہ بچ نہیں بولتے.مگر جس کی سچائی پر لوگوں کو یقین ہو اس کے متعلق وہ ایسی باتیں بھی ماننے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں جن باتوں کو وہ کسی دوسری صورت میں تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم میں اللہ کے پاس آیا.وہ معلوم ہو تا ہے کوئی موٹی عقل کا آدمی تھا جس نے اسلام پر غور کیا مگر اسلام کی صداقت اس پر کسی طرح منکشف نہ ہوئی.مگر پھر اس کے دل میں شبہ بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ اگر اسلام سچا ہی ہوا تو میں خدا تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا.رسول کریم میں چونکہ صدوق مشہور تھے اور ہر شخص اس بات کو تسلیم کرتا تھا کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے اس لئے اس نے فیصلہ کیا کہ اس امر کا بھی آپ سے ہی فیصلہ کرائے اور اسی شخص سے جو مدعی ہے دریافت کرے کہ کیا وہ اپنے دعوی میں سچا ہے یا نہیں.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جو شخص مدعی ہے اسی سے وہ پوچھنے آتا ہے کہ کیا آپ واقعہ میں مدعی ہیں یا یونسی کہہ رہے ہیں.وہ چونکہ رسول کریم ملی تیم کی رسالت کا قائل نہیں تھا اس لئے اس نے آتے ہی کہا کہ اے محمد ! م ل ل ل ا ل ہی میں تجھ سے ایک سوال کرتا ہوں تو خدا کی قسم کھا کر مجھے اس کا جواب دے.رسول کریم میں اللہ نے فرمایا بہت اچھا جو بات تم دریافت کرنا چاہتے ہو دریافت کرو.اس نے کہا تو آپ خدا کی قسم کھا کر بتائیں کہ کیا آپ نے جو دعوی کیا ہے یہ خدا کے حکم کے مطابق کیا ہے اور کیا واقعہ میں خدا نے آپ کو رسول بنایا ہے ؟ رسول کریم میں ان کی ہیلی نے فرمایا میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے خدا نے ہی رسول بنا کر بھیجا ہے.اس نے کہا اگر یہ بات ہے تو ہاتھ لائیے میں ابھی آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں.اب
127 مدعی رہی ہے.اسی کے سچ اور جھوٹ پر بحث ہے مگر چونکہ دنیوی زندگی میں وہ آپ کی سچائی کا قائل تھا اس لئے اُس نے اپنی آخرت بھی آپ کے سپرد کر دی اور فیصلہ کر لیا کہ جب دنیوی معاملات میں جھوٹ نہیں بولتا تو یہ ممکن ہی نہیں کہ دینی معاملات میں جھوٹ بولے.تو سچائی ایک ایسی چیز ہے کہ وہ انسان کے رعب کو قائم کر دیتی ہے.تم اگر سچ بولنے کی ہمیشہ تلقین کرتے رہو تو تمہارا ایک ایک فرد ہزاروں کے برابر سمجھا جائے گا.لوگ تبلیغ کرتے اور بعض دفعہ شکایت کرتے ہیں کہ اس تبلیغ کا اثر نہیں ہو تا لیکن اگر سچائی کامل طور پر ہماری جماعت میں پھیل جائے اور لوگ بھی یہ محسوس کرنے لگ جائیں کہ اس جماعت کا کوئی فرد جھوٹ نہیں بولتا تو چاہے آج کے لوگ نہ مانیں مگر ان کی اولاد میں اس بات پر مجبور ہوں گی کہ احمدیت کی صداقت کو تسلیم کریں کیونکہ جب ان کی اولادیں سنیں گی کہ فلاں شخص تھا تو بڑا سچا مگر ہمیشہ جھوٹ کی طرف لوگوں کو بلاتا رہا تو وہ حیران ہوں گی اور یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں گی کہ جنہوں نے ان لوگوں کو غلط عقائد میں مبتلا سمجھا انہوں نے غلطی کی.خدام الاحمدیہ نوجوانوں میں سچ بولنے کی عادت ڈالے اور ہر خادم سے سچ بولنے کا تو نوجوانوں کو نیچ بولنے کی عادت ڈالو اور خدام الاحمدیہ کے ہر ممبر سے یہ اقرار لو کہ وہ سچ بولے گا.عہد لے اگر وہ کسی وقت سچ نہ بولے تو تم خود اسے سزا دو.میں نے بار ہا جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ طوعی نظام ہے اور طوعی نظام والے کو سزا دینے کا بھی اختیار ہوتا ہے.پس اگر تم سزا دو تو تمہیں کوئی قانون اس سے نہیں روکتا.قانون تمہیں اس بات سے روکتا ہے کہ تم جبرا کسی کو سزا دو.لیکن جو شخص آپ ایک نظام میں شامل ہو تا اور آپ کہتا ہے کہ مجھے بے شک سزا دے لو اسے سزا دینے میں کوئی قانون روک نہیں.بے شک بعض قسم کی سزائیں ایسی ہیں جنہیں قانون نے روک دیا مثلا قتل ہے اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے بھی کہے کہ مجھے قتل کر دو تو دوسرا شخص اسے قتل نہیں کر سکتا.یہ صرف حکومت کا ہی کام ہے کہ وہ مجرم کو قتل کی سزا دے لیکن اس سے اتر کر جو معمولی سزائیں ہیں وہ طوعی نظام میں دی جاسکتی ہیں.مدرس روز لڑکوں کو پیٹتے ہیں مگر کوئی قانون انہیں اس سے نہیں روکتا اس لئے کہ طالب علم اپنی مرضی سے سکول میں جاتا اور وہ اپنی مرضی سے ایک نظام کا اپنے آپ کو پابند بناتا ہے.پس جب وہ اپنی خوشی اور مرضی سے ایک نظام کو قبول کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ سزا کو بھی برداشت کرے.پس تم اپنے اندر اسی شخص کو شامل کرو جو تمہارے نظام کی پابندی کرنے کے لئے تیار ہو اور جب کوئی شخص اس اقرار کے بعد تمہارے نظام میں شریک ہو تا ہے اور پھر کسی عہد کی خلاف ورزی کرتا ہے تو تمہارا اختیار ہے کہ تم اس کو سزا دو.پس اگر کوئی جھوٹ بولے تو تم خود اس کو سزا دو اور جس طرح مرغی اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے اسی طرح تم سچائی کی حفاظت کرو.مرغی کس قدر کمزور جانور ہے لیکن جب اس کے بچوں پر کوئی بلی یا کتا حملہ کر دے تو وہ بلی اور کتا کا بھی مقابلہ کر لیتی ہے.پس جس طرح وہ اپنے
128 بچوں کی حفاظت کرتی ہے اسی طرح تم سچ کی حفاظت کرو اور کوشش کرو کہ تمہارا ہر ممبر سچا ہو اور سچائی میں تمہارا نام اس قدر روشن ہو جائے کہ خدام الاحمدیہ کا نمبر ہو نا ہی اس بات کی ضمانت ہو کہ کہنے والے نے جو کچھ کہا ہے وہ صحیح ہے اور جب بھی لوگ ایسے شخص کے منہ سے کوئی روایت سنیں وہ کہیں کہ یہ روایت غلط نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کا بیان کرنے والا خدام الاحمدیہ کا ممبر ہے.جب تم اس مقام کو حاصل کر لو گے تو تمہاری تبلیغ کا اثر اتنا وسیع ہو جائے گا کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں اور تم ہزاروں عیوب قوم میں سے دور کرنے کے قابل ہو جاؤ گے.پس دیانت اور سچائی کو خاص طور پر اخلاق فاضلہ میں سے چن لو اور دیانت اور سچائی.دو اہم ترین خلق بھی بہت سے ضروری اخلاق ہیں مگر ان دو اخلاق کو میں نے خصوصیت کے ساتھ چنا ہے.ان کو ہمیشہ اپنے مد نظر رکھو اور ان کے علاوہ بھی جس قدر نیک اخلاق ہیں وہ اپنے اندر پیدا کرو.مثلاً اعلیٰ اخلاق میں سے ایک ظلم نہ کرنا ہے مگر چونکہ خدام الاحمدیہ کے اساسی اصول میں خدمت خلق بھی شامل ہے اس لئے میں نے علیحدہ اس کو بیان نہیں کیا کیونکہ وہ شخص جس کا فرض یہ ہو کہ وہ دوسروں کی خدمت کرے وہ کسی پر ظلم نہیں کر سکتا.پس میں نے اس کو اسی لئے چھوڑ دیا ہے کہ یہ بات تمہارے نام اور تمہارے اساسی اصول کے اندر شامل ہے لیکن بہر حال اور جس قدر اچھے اخلاق ہیں وہ سب اپنے اندر پیدا کرو.انسان اگر تلاش کرے تو اسے بیسیوں اخلاق معلوم ہو سکتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ دو اہم اخلاق ہیں جن کا اپنے اندر پیدا کرنا نہایت ضروری ہے.ایک دیانت اور دو سرا سچ.ان کے علاوہ ایک اور بھی اہم خلق ہے مگر اس کا ذکر انشاء اللہ پھر کروں گا.بہر حال اخلاق فاضلہ میں سے سچ اور دیانت کو اپنے اندر پیدا کرنے کی خاص طور پر کوشش کرو.اگر تم ان دو اخلاق کو جماعت کے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاؤ تو تم جماعت کی اتنی بڑی خدمت کرتے ہو کہ اس کی قیمت کوئی انسان نہیں لگا سکتا.صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی جو عالم الغیب ہے اور وسیع سے وسیع گہرائیوں کو ناپ سکتی ہے ، تمہاری اس خدمت کا اندازہ لگا سکتی اور تمہیں بڑے سے بڑا بدلہ دے سکتی ہے." (خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ فروری ۱۹۳۹ء مطبوعه الفضل مورخه ۱۵ مارچ ۱۹۳۹ء)
129 مجلس خدام الاحمدیہ کے فرائض میں سے ایک اہم فرض ہاتھ سے کام کرنے کی عادت نکما پن.غلامی کے اثرات کو پیدا کرتا ہے وقار عمل کی تحریک کے دو اہم فوائد کوئی جائز کام اور پیشہ ذلیل نہیں سڑکوں اور گلیوں کی صفائی ه شجر کاری کے فوائد اور اہمیت بناؤ سنگار اور حقیقی صفائی میں فرق خطبه جمعه فرموده ۲۴ فروری ۱۹۳۹ء)
130 خدام الاحمدیہ کے مقاصد میں سے چار ہاتھ سے کام کرنے کی عادت اور اس کی اہمیت و افادیت کے متعلق میں اس وقت تک توجہ دلا چکا ہوں اور آج پانچویں امر کے متعلق توجہ دلاتا ہوں اور وہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے.یہ معاملہ بظاہر چھوٹا سا نظر آتا ہے لیکن دراصل یہ اپنے اندر اتنے فوائد اور اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کا اندازہ الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا.در اصل دنیا کی اقتصادی حالت اور اخلاقی حالت اور اس کے نتیجہ میں مذہبی حالت جو ہے اس پر علاوہ دینی مسائل کے جو چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں ان میں سے یہ مسئلہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے.اقتصادی اور اخلاقی حالت کی تباہی بہت کچھ مبنی ہے ان دو باتوں پر کہ دنیا میں بعض لوگ کام کرنا چاہتے ہیں اور ان کو کام ملتا نہیں اور بعض ایسے لوگ ہیں کہ انہیں کام کرنے کے مواقع میسر ہیں مگر وہ کام کرتے نہیں.یہ تمام آج کل کی لڑائیاں، یہ بالشوازم یہ فیسی ازم کی تحریکیں ، سوشلزم اور کیپٹلزم کے دنیا پر حملے.یہ سب در حقیقت اس چھوٹے سے نقطہ کے ارد گرد گھوم رہے ہیں.لاکھوں کروڑوں انسان ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ کام کریں مگر انہیں کام میسر نہیں آتا اور لاکھوں کروڑوں انسان ایسے ہیں جو کام کر سکتے ہیں مگر کرتے نہیں.جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں ملتا نہیں اس کی بنیاد بھی در حقیقت اسی مسئلہ پر ہے کہ کچھ لوگ دنیا میں ایسے ہیں کہ جو کام کر سکتے ہیں انہیں مواقع میسر ہیں مگر وہ کرتے نہیں.یہ لوگ آگے پھر دو گروہوں میں تقسیم شدہ ہیں.ایک وہ جن کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ باقی دنیا کو ہماری خدمت کرنی چاہئے اور ہم گویا ایک ایسا وجود ہیں جو دنیا سے خدمت لینے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.یہ گردہ فطرتی طور پر اس ہتھیار کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے جواتے لوگوں سے زیادہ سے زیادہ خدمت لینے کے قابل کر دے اور وہ دولت ہے.جب انسان یہ سمجھے کہ اس کی عزت اور امن و راحت کا انحصار دولت پر ہے تو وہ لازمی طور پر اپنی دولت کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے.یہ ایک طبعی چیز ہے.ہم اس اصول کو غلط کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں دولت سے عزت اور راحت حاصل ہوتی ہے.مگر یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے وہ اسے بڑھانے میں غلطی کرتا ہے.وہ اپنے نقطہ نگاہ سے بالکل صحیح کرتا ہے.مومن یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ساری عزت خداتعالی کے ساتھ تعلق میں ہے اور کیا ہم اسے روکیں گے کہ یہ تعلق نہ بڑھا.یا اگر وہ یہ کو شش کرے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ غیر طبعی فعل کرتا ہے.جب اس کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام عزتیں اور راحتیں خدا تعالی سے تعلق کے ساتھ وابستہ ہیں تو وہ قدرتی طور پر کوشش کرے گا کہ اس تعلق کو بڑھائے.اسی طرح جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ساری عزت اور راحت و امن دولت میں ہے تو ضرور ہے کہ وہ دولت بڑھانے کی کوشش کرے گا اور اس کی اس کوشش پر ہم کوئی اعتراض نہیں کر سکتے کیونکہ یہ طبعی تقاضا ہے.ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کا یہ خیال غلط ہے کہ ساری عزت اور راحت دولت سے وابستہ ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے دولت میں اضافہ کی کوشش کرنا غیر طبعی فعل ہے.جس طرح ہم اس شخص کو جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ عزت اور راحت تعلق باللہ میں ہے، اس سے باز نہیں رکھ سکتے کہ وہ خدا تعالی سے تعلق
131 بڑھائے.دنیا میں ہزاروں لاکھوں انبیاء آئے ہیں جن کی زندگی کا دارومدار اور انحصار ہی تعلق باللہ پر ہوتا ہے اور پھر ان کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا اسی تعلیم پر یقین ہوتا ہے.لوگوں نے کس طرح کو ششیں کیں کہ ان کو اس راستہ سے ہٹا دیں مگر کیا انہوں نے اس کو چھوڑا؟ ان کو طرح طرح کے عذاب دیئے گئے دکھ پہنچائے گئے مگر انہوں نے اپنا راستہ نہ چھوڑا کیونکہ ان کا یہی عقیدہ تھا کہ تمام عزت اور راحت اسی سے ہے.اسی طرح جس شخص کو یہ یقین ہو کہ اس کی ساری عزت و راحت دولت جمع کرنے میں ہے خواہ کتنی کوشش کی جائے وہ دولت جمع کرنا کبھی نہیں چھوڑے گا.دو سری طرف جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو اس میں دولت کمانے سے منع نہیں کیا گیا.قرآن کریم میں مومن اور خالص مومنوں کے لئے بعض احکام ہیں اور ان میں ڈھیروں ڈھیر مال کا ذکر ہے چنانچہ حکم ہے کہ اگر کسی نے بیوی کو ڈھیروں ڈھیر مال بھی دیا ہو تب بھی یہ جائز نہیں کہ طلاق دیتے وقت اسے واپس لے اور ظاہر ہے کہ ڈھیروں ڈھیر مال کسی کے پاس ہو گا تو دے گا.نہیں تو کہاں سے دے گا.کنگال آدمی ڈھیروں ڈھیر مال کہاں سے دے سکتا ہے.اگر دولت کمانا منع ہو تا تو ایسی مثالیں بھی قرآن کریم میں نہ ہو تیں.پھر قرآن کریم میں زکوۃ کا حکم ہے جو مال پر ہی دی جاتی ہے.پھر تقسیم ورثہ کا حکم ہے.اگر دولت کمانا جائز نہ ہو تا تو تقسیم ورثہ کا حکم ہی نہ ہوتا اور اسی طرح صدقہ خیرات کے حکم بھی قرآن کریم میں نہ ہوتے.اگر یہ احکام یونسی تھے تو یہ کیوں نہ بتایا کہ اگر کسی کے گھر میں شراب کا مٹکا ہے تو اسے یوں تقسیم کیا جائے یا یہ کہ کسی مسلمان کے گھر میں سور کا گوشت ہو تو اسے یوں تقسیم کیا جائے.اسلام میں دولت کمانا منع نہیں.اس دولت کے فائدہ سے لوگوں کو محروم کرنا پس اگر دولت کمانا اسلام میں منع ہو تا تو ایسے احکام بھی نہ ہوتے.اسلام نے دولت کمانے ناپسندیدہ ہے.سے منع نہیں کیا بلکہ جس چیز سے منع کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اس دولت کو محفوظ کر کے ایسے رنگ میں رکھ لیتا ہے کہ دنیا کو اس کے فائدہ سے محروم کر دیتا ہے.روپیہ کو بنکوں میں جمع رکھا جاتا ہے یا خزانوں میں دفن کر دیا جاتا ہے اور اس طرح خود تو اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے مگر وہ دولت دوسروں کے کام نہیں آسکتی.جس چیز سے اسلام روکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح دولت کو محفوظ نہ کرلو کہ دوسرے اس کے فائدہ سے محروم رہ جائیں اور یہ کہ سود نہ لو کیونکہ اس سے دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں جمع ہو جاتی ہے اور باقی لوگ محروم رہ جاتے ہیں.جس دولت سے دنیا کو فائدہ پہنچے اس سے اسلام نے نہیں روکا.جس کا فائدہ صرف مالک کو ہو اس سے روکتا ہے.جو لوگ سود پر روپیہ لیتے ہیں لوگ ان کو کروڑوں روپیہ دیتے ہیں کہ نفع ملے گا.اس طرح وہ
132 روپیہ سمیٹ لیتے ہیں اور روپیہ چند ہاتھوں میں جمع ہو جاتا ہے.پہلے تو لوگ ان کو اس لئے روپیہ دیتے ہیں کہ سود ملے گا لیکن آخر کار ان کے دست نگر ہو جاتے ہیں اور اس طرح جو روپیہ جمع کرتے ہیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ روپیہ جمع کرتے چلے جائیں تا دو سروں سے غلامی کروا سکیں اور خدمت کر سکیں.اس چیز سے قرآن کریم نے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں قیامت کے دن اسے جلا کر ان کے بدن کو داغ دیا جائے گا.اس سونا چاندی سے مراد استعمال والا سونا چاندی نہیں جو جائز طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں زکوۃ کا حکم ہے اور حدیثوں میں یہ تفاصیل بیان کی گئی ہیں کہ اتنے سونے اور اتنی چاندی پر اتنی زکوۃ دینی چاہئے.اگر سونا چاندی پاس رکھنا ہی منع ہوتا تو اس پر زکوۃ کے کوئی معنے ہی نہ تھے.کیا شراب پر بھی زکوۃ ہے.تو یہ درمیانی رستہ ہے جو اسلام نے بتایا ہے اور ایسی دولت سے منع کیا ہے جس کے فائدہ سے وسرے لوگ محروم رہ جائیں.جو لوگ اس طرح دولت جمع کرتے ہیں وہ آرام طلب ہو جاتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہاتھ سے کام نہیں کرتے.ان کے مد نظر ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس روپیہ ہو تو لوگوں رو سے کام لیں.خود چار پائی پر بیٹھے ہیں اور دو سرے کو نکتے بیٹھنے والے دنیا میں غلامی کے جراثیم پھیلاتے ہیں.حکم دیتے ہیں کہ پاخانہ میں لوٹا رکھ آؤ اور اس قدر سکتے ہو جاتے ہیں کہ پاخانہ سے واپس آتے ہوئے لوٹا ء ہیں چھوڑ آتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ او کمبخت کہاں گیا الو ٹا اٹھالا.ان کو کوئی کام کرنا نصیب نہیں ہوتا اور چونکہ ان کو دوسروں سے کام لینے کی عادت ہو جاتی ہے اس لئے یہی لوگ ہیں جو دنیا میں غلامی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں بلکہ ان کا وجو د غلامی کا منبع ہو تا ہے او ز دنیا میں ان کے ذریعہ غلامی اس طرح پھیلتی ہے.یہ لوگ چاہتے ہیں کہ دنیا کی حالت ایسی رہے کہ اس میں ایک طبقہ ایسے لوگوں کا رہے جو ان کی خدمت کرتے رہیں اور وہ اس کے لئے کوشش بھی کرتے رہتے ہیں جس طرح حکومت کو گھوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لئے وہ زمینداروں کو مربعے دیتی ہے کہ گھوڑے پالیں اسی طرح جو لوگ اس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ ہاتھ سے کام نہ کریں یا بعض کاموں میں اپنی ہتک سمجھیں وہ لازماً کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کا کچھ حصہ غریب رہے اور ان کی خدمت کرتا رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر دنیا کی حالت اچھی ہو جائے تو وہ کام کس سے لیں گے.یہ باریک باتیں شاید زمینداروں کی سمجھ میں نہ آسکیں.اس لئے میں اسے ایک موٹی مثال سے واضح کر دیتا ہوں جس سے ہر شخص اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے.ایک دفعہ مجھے اطلاع ملی کہ شکر گڑھ کی تحصیل میں بعض ادنی اقوام ہیں جن کو آریہ ہند و بنارہے ہیں اور مجھے اطلاع ملی کہ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اگر مسلمان ہم کو اپنے ساتھ ملالیں تو ہم مسلمان ہو جائیں گے.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہندو ہو کر بھی ہماری حالت اچھی نہ ہوگی.کئی پیغام مجھے آئے اور میں نے ایک دو مبلغ وہاں بھیج دیئے کہ جاکر ان میں تبلیغ کریں اور پھر ہم ان کے لئے انتظام کرنے کی کوشش کریں گے.پہلے پہل تو مجھے رپورٹ ملتی رہی کہ وہاں بڑا اچھا
133 کام ہو رہا ہے اور امید ہے کہ سینکڑوں ہزاروں لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں گے مگر دن بارہ روز کے بعد یہ رپورٹیں آنی شروع ہو ئیں کہ سخت مخالفت ہو رہی ہے اور ہمارے مبلغوں کو لوگ اپنے گاؤں میں ٹھہرنے تک نہیں دیتے.یہ رپورٹیں سن کر مجھے بہت حیرانی ہوئی کیونکہ وہ سارا علاقہ مسلمانوں کا ہے اور مجھے امید تھی کہ مسلمان ضرور مدد کریں گے لیکن مجھے بتایا گیا کہ اس علاقہ کے ذیلدار نے جو مسلمان ہے سب کام چھوڑ چھاڑ کر ہماری مخالفت شروع کر رکھی ہے اور بعض نمبرداروں کو ساتھ لے کر وہ ہمارے آدمیوں کے پیچھے پیچھے پھرتا اور ہر گاؤں میں پہنچ کر لوگوں سے کہتا ہے کہ ان کو یہاں ٹکنے نہ دو اور اس کی وجہ وہ یہ بتاتا ہے کہ اگر انہوں نے ان لوگوں کو مسلمان بنالیا تو پھر ہمارے جو جانور مرجایا کریں گے انہیں کون اٹھا کر لے جایا کرے گا اور ان کی کھالیں کون ا تارا کرے گا.اگر ان لوگوں میں یہ عادت نہ ہوتی کہ ایک خاص قسم کے کام نہیں کرنے تو ان کو اس مخالفت کی ضرورت محسوس نہ ہوتی.تو بعض قسم کے کام کرنا امراء اپنی ہتک سمجھتے ہیں.زمینداروں میں بھی یہ عادت ہے کہ وہ بعض خاص قسم کے کام خود کرنا بہتک سمجھتے ہیں اور ان کو کمیوں کے کام سمجھتے ہیں.ان کمیوں کی اصلاح کا سوال جب بھی پیدا ہو گا، زمیندار فورا لڑائی پر آمادہ ہو جائیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس طرح ہمارے کام رک جائیں گے.جب قادیان میں چوہڑوں کو اسلام میں داخل کرنے کا سوال پیدا ہوا تو میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی کہ بعض احمد یوں نے مجھ سے کہا کہ اگر یہ مسلمان ہو گئے تو ہمارے گھروں کی صفائی کون کرے گا.یہ دقت ان کو صرف اس وجہ سے نظر آئی کہ ان کو ایک خاص قسم کا کام کرنے کی بالکل عادت نہ تھی اور جسے بالکل ہی کام کرنے کی عادت نہ ہو اسے غصہ آئے گا جب وہ یہ محسوس کرے گا کہ اب اس کی خدمت کرنے والے نہیں رہیں گے.اگر زمینداروں کو یہ عادت ہوتی کہ اپنے مردہ جانوروں کو خود ہی باہر پھینک دیں تو شکر گڑھ کی تحصیل کے زمیندار ہماری مخالفت نہ کرتے.تو میرا مطلب یہ ہے کہ ایک تو کام کرنے کی عادت پیدا کی جائے اور دوسرے کسی کام کو ذلیل نہ سمجھا جائے.ہاں نو کر رکھ لینا اور بات ہے اگر کسی کا کام زیادہ ہو جسے وہ خود نہ کر سکتا ہو تو کسی کو مدد گار کے طور پر رکھ سکتا ہے.بعض بڑے زمیندار بھی اپنے ساتھ ہالی رکھ لیتے ہیں لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے ہل نہیں چلاتے وہ خود بھی چلاتے ہیں اس لئے ان کو یہ فکر نہیں ہو تاکہ اگر ہالی نہ رہے تو وہ کیا کریں گے کیونکہ وہ خود بھی ہل چلانے میں عار نہیں سمجھتے لیکن جن کاموں کو لوگ اپنے لئے عار سمجھتے ہیں ان کے کرنے والوں کی اصلاح کا اگر سوال پیدا ہو تو وہ ضرور ناراض ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد یہ ہتک والا کام ہمیں خود کرنا پڑے گا اور اس لئے جب میں کہتا ہوں کہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے تو اس میں دونوں باتیں شامل ہیں یعنی یہ بھی اس میں شامل ہے کہ کسی
134 کام کو اپنے لئے عار نہ سمجھا جائے.یوں تو سارے ہی لوگ ہاتھ سے کام کرتے ہیں.میں جو لکھتا ہاتھ سے کام کرنے کا مطلب و مفہوم ہوں یہ بھی ہاتھ سے ہی کام ہے.کیا ہاتھ سے نہیں تو زبان سے - لکھا جاتا.پس ہاتھ سے کام کرنے کو جب میں کہتا ہوں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ عام کام جن کو دنیا میں عام طور پر برا سمجھا جاتا ہے ان کو بھی کرنے کی عادت ڈالی جائے.مثلاً مٹی ڈھونا یا ٹوکری اٹھانا ہے کسی چلانا ہے.اوسط طبقہ اور امیر طبقہ کے لوگ یہ کام اگر کبھی کبھی کریں تو یہ ہاتھ سے کام کرنا ہو گا ورنہ یوں تو سب ہی ہاتھ سے کام کرتے ہیں.یہ کام ہمارے جیسے لوگوں کے لئے ہیں کیونکہ ہمیں ان کی عادت نہیں اگر ہم نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو ہو سکتا ہے کہ ہماری عادتیں ایسی خراب ہو جائیں یا اگر ہماری نہ ہوں ہماری اولادوں کی عادتیں ایسی خراب ہو جائیں کہ وہ ان کو برا سمجھنے لگیں اور پھر کوشش کریں کہ دنیا میں ایسے لوگ باقی رہیں جو ایسے کام کیا کریں اور اسی کا نام غلامی ہے.پس جائز کام کرنے کی عادت ہر شخص کو ہونی چاہئے تاکسی کام کے متعلق یہ خیال نہ ہو کہ یہ برا ہے.ہمارے ملک کی ذہنیت ایسی بری ہے کہ عام طور پر لوگ لوہار ، ترکھان وغیرہ کو کمین سمجھتے ہیں اور جس طرح لوہار ، ترکھان اور چوہڑوں کو ذلیل سمجھتے ہیں ، اسی طرح دوسرے لوگ ان کو ذلیل سمجھتے ہیں.اگر کسی شخص کا اب کا پولیس یا فوج میں سپاہی ہو جائے اور سترہ روپیہ ماہوار تنخواہ پانے لگے تو اس پر بہت خوشی کی جاتی ہے.لیکن اگر وہ پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار کمانے والا ترکھان یا لوہار بن جائے تو تمام قوم روئے گی کہ اس نے ہماری ناک کاٹ ڈالی کیونکہ اسے کمیوں کا کام سمجھا جاتا ہے.تو میرا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے کاموں کی جماعت میں عادت ڈالی جائے.ایک طرف تو کام کرنے کی عادت ہو اور دوسری طرف ایسے کاموں کو عیب نہ سمجھنے کی.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جماعت کا کوئی طبقہ ایسا نہیں رہے گا کہ جو کسی حالت میں بھی یہ کوشش کرے کہ دنیا میں ضرور کوئی نہ کوئی حصہ غلام رہے.اور اگر کبھی اس کی اصلاح کا سوال پیدا ہو تو اس میں روک بنے جیسے جب یہاں چوہڑوں کو داخل اسلام کرنے کا سوال پیدا ہوا تو بعض لوگ گھبرانے لگے تھے.جماعت کے کچھ لوگ بڑھئی بنیں کچھ لوہار بنیں کچھ ملازمتیں کریں.غرضیکہ کوئی خاص کام کسی سے منسوب نہ ہو تاوہ ذلیل نہ سمجھا جائے.اس تحریک سے دو ضروری فوائد حاصل ہوں گے.ایک تو نکما پن وقار عمل کی تحریک کے دو اہم فوائد دور ہو گا اور دوسرے غلامی کو قائم رکھنے والی روح کبھی پیدا نہ ہو گی.یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ فلاں کام برا ہے اور فلاں اچھا ہے.برا کام کوئی نہ کرے اور اچھا چھوٹے بڑے سب کریں.برا کام مثلاً چوری ہے یہ کوئی نہ کرے اور جو اچھے ہیں ان میں سے کسی کو عار نہ سمجھا جائے تا اس کے کرنے والے ذلیل نہ سمجھے جائیں اور جب دنیا میں یہ مادہ پیدا ہو جائے کہ کام کرنا ہے اور نکما نہیں رہنا اور کسی کام کو ذلیل نہیں سمجھنا تو اس طرح کوئی طبقہ ایسا نہیں رہے گا جو دنیا میں غلامی چاہتا ہو.اسی
135 لئے میں نے کوشش کی تھی کہ ملازموں کی تنخواہیں بڑھ جائیں تا لوگ ملازم کم رکھیں اور اپنے کام خود کریں.اب تو یہ حالت ہے کہ نو کر دو چار روپے میں مل جاتے ہیں.اسی لئے ذرا کسی کے پاس پیسے ہوتے ہیں تو جھٹ وہ نو کر رکھ لیتا ہے اور اسی طرح اس میں سستی اور غفلت پیدا ہو جاتی ہے.ہمارے ملک میں یہ سستی اور غفلت اس حد تک ترقی کر گئی ہے کہ معمولی لوگ بھی اپنا اسباب اٹھانا بہتک سمجھتے ہیں حالا نکہ ولایت میں بڑے بڑے لکھ پتی خود اپنا اسباب اٹھا لیتے ہیں.جب میں ولایت میں گیا تو میرے ساتھی باوجود یکہ غرباء کے طبقہ میں سے ہی تھے.امراء تو ہم میں ہیں ہی نہیں ، سب غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود اپنا اسباب اٹھانے سے گھبراتے تھے.جب میں فرانس میں سے گزرا تو امریکہ کے کچھ لوگ میرے ہم سفر تھے.وہ دس بارہ آدمی تھے جو یورپ کی سیر کرنے کے لئے آئے تھے.ان کے تمول کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ وہ ایسے ہوٹلوں میں ٹھہرتے تھے جہاں پند رہ میں روپیہ روزانہ فی کس خرچ ہوتا ہے اور اس طرح میرا اندازہ ہے کہ ان کے کھانے پینے کا خرچ چار پانچ ہزار روپیہ ماہوار ہو گا.کرائے الگ تھے.وہ فرسٹ کلاس میں سفر کرتے تھے اور اس طرح پندرہ میں ہزار روپیہ ان کا کرایوں وغیرہ پر بھی خرچ ہوا ہو گا اور اس طرح میرا اندازہ ہے کہ ان کا کل خرچ ساٹھ ستر ہزار روپیہ ہوا ہو گا جس سے ان کے تمول کا حال معلوم ہو سکتا ہے لیکن جب وہ گاڑی سے اترے تو میں نے دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک دو دو تین تین گھڑیاں اور بکس اٹھائے جا رہا ہے.مگر ہمارے دوستوں کی یہ حالت تھی کہ مجھے تو انہوں نے کہہ دیا کہ آپ چلئے ہم اسباب لاتے ہیں.میں ان کی باتوں میں آگیا اور آگے چلا آیا مگر بہت دیر ہو گئی اور کوئی نہ آیا.جہاز کے افسر نے بھی مجھے کہا کہ آپ سوار ہوں.جہاز بالکل روانہ ہونے کے لئے تیار ہے مگر میں نے کہا کہ ابھی تو میرے ساتھی اور اسباب نہیں آیا.آخر میں واپس آیا اور وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ اسباب اٹھانے کے لئے قلی نہیں ملتے اور ہمارے دوست حیران تھے کہ کیا کریں.اس وقت اتفاقاً کچھ آدمیوں کا انتظام اسٹیشن والوں نے کر دیا اور کچھ سامان ہمارے بعض دوستوں نے اٹھایا اور اس طرح جہاز پر پہنچے.جب ہم لندن پہنچے تو دوسرے روز ہی مجھے معلوم ہوا کہ ہماری پارٹی میں اختلاف ہے.بعض چہروں سے بھی ناراضگی کے آثار دکھائی دیتے تھے.میں نے تحقیقات کی کہ اس کی وجہ کیا ہے تو معلوم ہوا کہ جب گاڑی سے اترے تو یہ سوال پیدا ہوا کہ سامان مکان کی چھت پر پہنچانے کے لئے قلیوں کی ضرورت ہے مگر قلی ملتے نہیں.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ان دنوں وہاں تھے اور ہمارے ساتھ ہی ٹھرے تھے اور مکان کے انتظام کے لئے پہلے سے مکان میں آگئے تھے.مجھے بتایا گیا کہ جب انہوں نے یہ حال دیکھا تو اپنے ایک جرمن معزز دوست کے ساتھ مل کر انہوں نے اسباب اوپر پہنچانا شروع کیا جس پر بعض اور دوست بھی شامل ہو گئے اور چونکہ چوہدری صاحب نے ملامت کی کہ آپ لوگ خود کیوں اسباب نہیں اٹھاتے ؟ بعض ساتھیوں نے اسے برا منایا اور رنجش پیدا ہوئی.جن صاحب کو یہ امرسب سے زیادہ بر الگا وہ ہماری جماعت کے تازہ باغیوں کے سردار صاحب تھے.لیکن یورپ کے لوگ اس بات میں کوئی
136 عار نہیں سمجھتے.وہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو دوسروں سے کام لیتے ہیں مگر سفر وغیرہ کے مواقع پر اسباب اٹھانے میں وہ بھی تامل نہیں کرتے.غرض کام نہ کرنے کی عادت انسان کو بہت خراب کرتی ہے.کسی ملک میں جو مثالیں بنی ہوئی ہوتی ہیں وہ دراصل اس ملک کی حالت پر دلالت کرتی ہیں اور قوم کا کیریکٹر ان میں بیان ہوتا ہے.ہمارے ملک میں یہ مشہور ہے کہ کوئی سپاہی سفر پر جا رہا تھا کہ اسے آوازیں آنی شروع ہو ئیں کہ میاں سپاہی ! ذرا ادھر آنا اور جلدی آنا.بڑا ضروری کام ہے.وہ ایک ضروری کام سے جار ہا تھا اور پچاس ساٹھ گز کے فاصلہ سے اسے یہ آواز آرہی تھی مگر خیر وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ دو آدمی لیے ہوئے ہیں ان میں سے ایک اسے کہنے نگا کہ میاں سپاہی ! یہ میری چھاتی پر پیر پڑا ہے اسے اٹھا کر میرے منہ میں ڈال دو.یہ سن کر اسے بہت غصہ آیا اور اس نے اسے گالیاں دیں اور کہا کہ تو بڑا نالائق ہے.میں ضروری سفر پر جا رہا تھا تم نے مجھے پچاس ساٹھ گز کے فاصلہ پر سے بلایا.تمہاری چھاتی پر بیر تھا جسے تم خود بھی اٹھا کر کھا سکتے تھے.تم کوئی لولے لنگڑے تو نہ تھے کہ مجھے اتنی دور سے بلایا.اس پر دوسرے شخص نے کہا کہ میاں سپاہی ! جانے دو کیوں اتنا غصہ کرتے ہو.یہ شخص تو ہے ہی ایسا.یہ کسی کام کا نہیں اور اس قابل نہیں کہ اس کی اصلاح ہو سکے.اس کی سستی کی تو یہ حالت ہے کہ ساری رات کتا میرا منہ چاہتا رہا اور اس سے اتنا نہ ہو سکا کہ اسے ہشت ہی کر دے.اس مثال میں ہمارے ملک کی بے عملی کا نقشہ کھینچا گیا ہے.اس میں شک نہیں کہ ہر ملک میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں مگر یہاں بہت زیادہ ہیں یہاں جو کام کرنے والے ہیں.وہ بھی بہت ست ہیں.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ یہاں جو مزدور اینٹیں اٹھاتے ہیں وہ اس طرح ہاتھ لگاتے ہیں کہ گویادہ انڈے ہیں.آہستہ آہستہ اٹھاتے ہیں اور پھر اٹھاتے اور رکھتے وقت کمر سیدھی کرتے ہیں پھر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کہتے ہیں کہ لاؤ ذرا حقہ کے تو روکش لگالیں.لیکن ولایت میں میں نے دیکھا ہے کہ حالت ہی اور ہے.حافظ روشن علی صاحب مرحوم کو میں نے ایک دفعہ توجہ دلائی.انہوں نے کہا میرا بھی خیال اسی طرف تھا.گویا ایک ہی وقت دونوں کو اس طرف توجہ ہوئی.حافظ صاحب نے کہا کہ ان لوگوں کو دیکھ کر یہ معلوم نہیں ہو تاکہ یہ کام کر رہے ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آگ لگی ہوئی ہے اور بجھارہے ہیں.کوئی سستی ان میں نظر نہیں آتی.ایک دفعہ ہم گھر میں بیٹھے تھے.کھڑکی کھلی ہوئی تھی کہ گلی میں چند عورتیں نظر آئیں جو لباس سے آسودہ حال معلوم ہوتی تھیں مگر نہایت جلدی جلدی چل رہی تھیں.میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ ان کو کیا ہو گیا ہے.حافظ صاحب ذہین آدمی تھے ، سمجھ گئے اور کہنے لگے کہ میں نے یہاں کسی کو چلتے دیکھا ہی نہیں سب لوگ یہاں دوڑتے ہیں.غرض وہاں کے لوگ ہر کام ایسی مستعدی سے کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.لیکن ہمارے ملک میں جدھر دیکھو.سخت غفلت اور ستی چھائی ہوئی ہے.کسی کو چلتے دیکھو تو ستی کی ایسی لعنت ہے کہ چاہتا ہے ہر قدم پر کیلے کی طرح گڑ جائے.یہاں جو کام کرنے والے ہیں وہ بھی گویا سکتے ہی ہیں.اور جو ست ہیں وہ کام کرتے ہی نہیں.ان سے تو اللہ کی پناہ.ان کی حالت تو وہی ہے کہ بیر اٹھا کر منہ میں ڈال نہیں سکتے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس کے ساتھی کی ، جس نے کہا تھا کہ ساری
137 رات کتا میرا منہ چاہتا رہا اور اس نے ہشت نہ کی.کمبخت تو نے آپ ہی کیوں نہ ہشت کہہ دیا.حضرت خلیفتہ المسیح اول ایک شخص کے متعلق سنایا کرتے تھے.وہ ایک گاؤں کا رہنے والا اور اچھا مخلص احمدی تھا.زمین وغیرہ اچھی تھی اور باپ نے کچھ روپیہ بھی چھوڑا تھا.وہ یہاں آیا اور شہری لوگوں سے اس کے تعلقات ہوئے تو دماغ بگڑ گیا اور لگار و پید اڑانے.جس کے نتیجہ میں روپیہ میں کمی آنے لگی.حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ اسے کام کرنے کی طرف توجہ دلائی تو اس نے کہا کہ میری تو یہ حالت ہے کہ اگر میں لا ہو ر جاؤں اور میرے پاس کوئی ٹرنک یا اسباب نہ ہو تو اپنا رومال قلی کو پکڑا دیتا ہوں تاکہ دیکھنے والے یہ تو سمجھیں تا کوئی شریف آدمی جا رہا ہے.شریف بننا کوئی آسان کام تو نہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے اپنی ساری دولت لٹادی اور آخر لڑکیوں کو ساتھ لے کر عیسائی ہو گیا.اس کی لڑکیاں بھی اب عیسائی ہیں گو ان میں سے بعض دل میں سمجھتی ہوں کہ عیسائیت سچاند ہب نہیں مگر بہر حال وہ عیسائی ہیں.تو کام کرنے کی عادت ڈالنا نہایت ہی اہم چیز ہے اور اسے جماعت کے اندر پیدا کرنا نہایت ضروری ہے تا جو لوگ ست ہیں وہ بھی چست ہو جائیں اور ایسا تو کوئی بھی نہ رہے جو کام کرنے کو عیب سمجھتا ہو.جب تک ہم یہ احساس نہ مٹادیں کہ بعض کام ذلیل ہیں او ر ان کو کرنا کوئی جائز کام اور پیشہ ذلیل نہیں ہنگ ہے یا یہ کہ ہاتھ سے کام کما کر کھانا ذلت ہے اس وقت تک ہم دنیا سے غلامی کو نہیں مٹا سکتے.لوہار بڑھئی، دھوبی نائی غرض یہ کہ کسی کا کام ذلیل نہیں.یہ سارے کام دراصل لوگ خود کرتے ہیں.ہر شخص تزئین کرتا ہے.اپنی داڑھی مونچھوں کی صفائی کرتا ہے.یہی حجام کا کام ہے.بچہ پیشاب کر دے تو امیر غریب ہر ایک اسے دھوتا ہے جو دھوبی کا کام ہے.تو یہ سب کام انسان کسی نہ کسی رنگ میں خود کرتا ہے.مگر اس طرح کہ کسی کو پتہ نہ لگے اور خود بھی محسوس نہ کرے.لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ ایسے رنگ میں کرے کہ وہ سمجھتا ہو کہ گو یہ کام برا سمجھا جاتا ہے مگر دراصل برا نہیں اور اس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں.ہر انسان اپنی طہارت کرتا ہے.یہ کیا ہے ؟ یہی چوہڑوں والا کام ہے اور جب تک کوئی شخص یہ چوہڑوں والا کام نہ کرے لوگ اسے پاگل سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ غلیظ اور کوئی ہوتا نہیں.تو جب تک ایسے تمام کام کرنے کی عادت نہ ہو ان کے کرنے والوں کی اصلاح بری لگتی ہے.جیسے یہاں چوہڑوں کی اصلاح پر بعض لوگوں کو گھبراہٹ ہوئی تھی.حالانکہ مکہ اور مدینہ میں کوئی چوہڑے نہ ہوتے تھے.آخر وہاں گزارہ ہوتا ہی تھا اور اب تو ولایت میں بلکہ ہندوستان میں بمبئی اور کلکتہ وغیرہ میں بھی ایسے پاخانے بنا دئے گئے ہیں کہ چوہروں کی ضرورت ہی نہیں رہی.لاہور میں بھی اس کا انتظام زیر تجویز ہے.پاخانہ میں جاؤ تو نلکے لگے ہوئے ہیں فارغ ہونے کے بعد نلکا کھول دو.زمین کے نیچے سرنگیں بنی ہوئی ہیں جن میں سے پاخانہ بہہ کر جنگل میں چلا جاتا ہے اور وہاں کھاد کے کام آتا ہے.بہر حال کسی جماعت کا یہ خیال کرنا کہ اس کے بعض افراد گندے ہیں اور بعض اچھے ہیں ، ایسا ذلیل خیال ہے کہ اس سے زیادہ ذلیل اور نہیں ہو سکتا.اگر واقعی کسی کے اندر گند ہے تو اس کی اصلاح
138 کرنی چاہئے.لیکن اگر وہ اچھے ہیں تو ان سے نفرت کرنا اپنے اوپر اور اپنی قوم کے اوپر ظلم ہے.چونکہ اپنے اپنے طور پر ہاتھ سے کام کرنے وقار عمل کی تحریک کا قومی اقتصادیات پر خوشگوار اثر کی نگرانی نہیں ہو سکتی اس لئے میں نے تحریک کی تھی کہ قومی طور پر یہ کام کیا جائے اور سڑکیں بنائی اور نالیاں درست کی جائیں تانگرانی ہو سکے اور دو سروں کو بھی تحریک ہو.اس کے سوا بھی اس میں کئی فائدے ہیں.مثلاً جس قوم میں یہ عادت پیدا ہو جائے اس کی اقتصادی حالت اچھی ہو جائے گی.اس سے سوال کی عادت دور ہو جائے گی.اس کے افراد میں سستی نہیں پیدا ہو گی.پھر جن لوگوں کی اقتصادی حالت اچھی ہو گی وہ چندے بھی زیادہ دے سکیں گے.بچوں کو تعلیم دلا سکیں گے اور اس طرح ان کی اخلاقی حالت درست ہو گی.تو اس کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں مگر سب سے اہم امر یہ ہے کہ اس سے مذہب کو تقویت ہوتی ہے اور دنیا سے غلامی مٹتی ہے.جب تک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کو ہاتھ سے کام کرنے کی عادت نہیں وہ کوشش کریں گے کہ ایسے لوگ دنیا میں موجود رہیں جو ان کی خدمت کرتے رہیں اور دنیا ترقی نہ کرے.میری غرض یہ ہے کہ اس کام کو نہایت اہمیت دی جائے اور پورے اہتمام سے شروع کیا جائے.افسوس ہے اس وقت تک کوئی مستعدی نہیں دکھائی گئی.یہاں بھی خدام الاحمدیہ کو یہ کام شروع کر دینا چاہئے اور پھر دوسرے گاؤں اور شہروں میں بھی شروع ہو نا چاہئے.گاؤں کے لوگوں کو صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئے.گاؤں میں بہت گند ہوتا ہے اور گاؤں کا دیہاتی علاقوں میں وقار عمل کے بہت مواقع موجود ہیں تو کیا کہنا مجھے خود کئی لوگوں نے یہ طعنے دیئے ہیں کہ سب سے زیادہ گند یہاں احمد یہ چوک میں ہوتا ہے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اپنے ساتھ بعض انگریز دوستوں کو یہاں لاتے رہے ہیں.وہ سب اس بات کی تو تعریف کرتے ہیں کہ محلے بہت اچھے ہیں.سڑکیں چوڑی ہیں مگر صفائی نہ ہونے کی شکایت وہ بھی کرتے تھے.رسول کریم ملی و یا لیلی نے فرمایا ہے کہ رستہ سے کانٹا ہٹا دینا بھی نیکی ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو رستہ پر پاخانہ پھرتا ہے اس پر لعنت ہوتی ہے.مگر شاید لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ راستہ پر پاخانہ کرنا ہی لعنت کا موجب ہے.گھر میں سے خواہ دس آدمیوں کا پاخانہ اٹھا کر گلی میں پھینک دو یہ کوئی بری بات نہیں.میں پوچھتا ہوں کیا قادیان کی کوئی بھی گلی ہے جو صاف رہتی ہو.رسول کریم میں نے گلی میں پاخانہ بیٹھنے سے کیوں منع فرمایا ؟ اس لئے کہ اس سے گندگی پھیلتی ہے.وبائیں اور بیماریاں پھیلتی ہیں.آپ نے ایک کے پاخانہ کرنے کو منع فرمایا ہے.مگر تم ہو کہ دس کا پاخانہ گلی میں پھینک دیتے ہو اور پھر سمجھتے ہو کہ اس سے تم پر کوئی لعنت نہیں پڑتی.پھر میں نے دیکھا ہے جانور ذبح کر کے بال پر او جھڑیاں اور ان کا پاخانہ وغیرہ سب گلی میں پھینک دیا جاتا ہے.مرغیاں آکر ان کو نوچتی ہیں.آنت تو ڑ کر الگ کر لیتی ہیں اور پاخانہ الگ ہو جاتا ہے اس پر پھر مکھیاں آکر بیٹھتی ہیں اور وہی پھر آئے اور کھانے کی چیزوں پر بیٹھتی ہیں.پھر لوگ اسے کھا کر پاخانہ کرتے
139 ہیں اور پھر اس پر مکھیاں بیٹھ کر دوسری کھانے کی چیزوں پر بیٹھتی ہیں اور جس طرح بادل سمند ر سے بنتے اور پھر پانی بن کر سمندر میں چلے جاتے ہیں اسی طرح اس گندگی کا بھی حال ہے.بعض لوگ تو ایسے احمق ہیں کہ وہ گندہ رہنے کو نیکی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ صفائیاں کرنا انگریزوں کا کام ہے.ہم مومن اور مخلص ہیں.ہمیں ان باتوں سے کیا؟ وہ مومن مخلص اسے سمجھتے ہیں جو زیادہ گندہ ہو.زمانہ کتنا بدل جاتا ہے.میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی کے حالات ایک تاریخ کی کتاب میں پڑھ رہا تھا.گو اس زمانہ میں مسلمانوں میں تنزل کے آثار شروع ہو گئے تھے مگر پھر بھی میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب میں نے دیکھا کہ اس میں صفحوں کے صفحے اس موضوع پر لکھے ہوئے ہیں کہ ایک یورپین عیسائی اور شامی مسلمان میں کیا فرق ہے.اور فرق یہ بتائے گئے ہیں کہ مسلمان صفائی اور نظافت ایمان کا حصہ ہے.تصوف کا غلط مفہوم صاف ستھرا ہوتا ہے.اس کا بدن اور اس کے کپڑے اور مکان صاف ہوتا ہے لیکن یورپین گندہ ہوتا ہے.اس کے بال اور ناخن بڑھے ہوئے ہوتے ہیں.اس کا بدن اور لباس غلیظ ہوتا ہے.یہ اس زمانہ کے مسلمانوں کی حالت تھی مگر آج کیا ہے ؟ آج ایشیا کا مسلمان غلیظ اور یورپین عیسائی صاف ستھرا ہوتا ہے.پھر وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ عجیب بات یہ ہے کہ عیسائیوں کو سمجھاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں تصوف یہی ہے.اور بعینہ آج یہ حالت مسلمانوں کی ہے.آج مسلمان ایسا ہی سمجھتے ہیں.وہی چیزیں جو عیسائیوں میں تھیں آج ان میں آگئی ہیں اور جو ان میں تھیں وہ عیسائیوں میں چلی گئی ہیں.بالکل الٹ معاملہ ہو گیا ہے.جس طرح بچے کھیلتے ہیں اور ایک دوسرے کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا ہے.جو نیچے ہوتا ہے وہ کہتا ہے میرے کو ٹھے کون چڑھی.یعنی میرے مکان کی چھت پر کون چڑھا ہے ؟ اوپر والا جواب دیتا ہے کانٹو.نیچے والا کہتا ہے اتر کانٹو میں چڑھاں یعنی کا نٹوا ترو اب میری باری چڑھنے کی ہے.اس پر اوپر والا اتر کر گھوڑا بن جاتا ہے اور جو گھوڑا تھاوہ سوار ہو جاتا ہے.میں دیکھتا ہوں یورپین عیسائیوں اور ایشیائی مسلمانوں میں بالکل ایسا ہی کھیل کھیلا گیا ہے.ایک وقت تھا جب کہا جاتا تھا کہ کون غلیظ ہے ؟ تو جواب ملتا تھا عیسائی.اور جب کہا جاتا تھا کون صاف ہے ؟ تو جواب ملتا تھا مسلمان.مگر آج جب کہا جاتا ہے کون صاف ہے ؟ تو جواب ملتا ہے عیسائی اور جب کہا جاتا ہے کون غلیظ ؟ تو جواب ملتا ہے مسلمان.مگر اس تجویز پر عمل کر کے ہر جگہ کے احمدی اس حالت کے بر عکس نقشہ دکھا سکتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ ابھی یہاں بھی عمل شروع نہیں ہوا.خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لیں اور دوسروں کو سمجھائیں اور عملاً کام کریں.میں نے جو اعلان عملی کام کے متعلق کیا تھا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ خدام الاحمدیہ اس سے غافل نہیں ہیں.جو کام ان کے سپرد کیا گیا تھا اس کے لئے انجینئروں کے مشورہ کی ضرورت ہے جو لیا جا رہا ہے اور اس کے بعد کام شروع کر دیا جائے گا.مگران کا صرف یہی کام نہیں بلکہ اور بھی کئی کام ہیں.
140 جب تک یہ شروع نہیں ہوتا وہ یہ دیکھیں کہ لوگ سڑکوں اور گلیوں کو صاف ستھرارکھنے کی مہم گلیوں میں گند نہ پھینکیں اور اگر کوئی پھینکے تو سب مل کر اسے اٹھا ئیں.تھوڑی سی محنت سے صفائی کی حالت اچھی ہو سکتی ہے.گاؤں میں رہنے والے احمدیوں کو بھی صفائی کی طرف خاص توجہ چاہئے.میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ صفائی کا خیال نہیں رکھتے.میں نے دیکھا ہے بعض زمیندار عورتیں بیعت کے لئے آتی ہیں.کسی کے بچہ نے فرش پر پاخانہ کر دیا تو اس نے ہاتھ سے اٹھا کر جھولی میں ڈال لیا اور سمجھ لیا کہ بس صفائی ہو گئی.ان کے جانے کے بعد ہم اسے دھوتے ہیں.لیکن وہ اپنی طرف سے سمجھ لیتی ہیں کہ بس صفائی ہو چکی.یہ حالت میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے اور ایک دفعہ نہیں بیسیوں دفعہ.اب غور تو کرو.محمد رسول اللہ لا لا لا لیا جو فرماتے ہیں کہ رستہ میں پاخانہ کرنے والے پر خدا کی لعنت ہوتی ہے کیا وہ اس نظارہ کو برداشت کر سکتے تھے.پھر یہی نہیں میں نے بعض زمیندار عورتوں کو اپنے دوپٹہ سے بچہ کی طہارت کرتے دیکھا ہے.وہ یہ سمجھ لیتی ہیں کہ بس بچہ کی صفائی ہو گئی اور یہ خیال بھی نہیں کرتیں کہ بچہ کا پاخانہ اپنے سر پر رکھ رہی ہیں.ہمارے ملک میں گندگی کا مفہوم بالکل بدل گیا ہے اور یہ ہاتھ سے کام نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے.یہ سب کسل اور سستی ہے کہ کون اٹھے اور کون دھوئے ؟ اور کون صفائی کرتا پھرے.میں نے خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی کہ وہ اس کام کو خاص طور پر شروع کریں اور اب بھی جب تک وہ سکیم نہ بنے ہر محلہ کے ممبر ذمہ دار سمجھے جائیں اس محلہ کی صفائی کے.پہلے لوگوں کو منع کرو اور سمجھاؤ کہ گلی میں گند نہ پھینکیں اور اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں تو پھر خود جا کر اٹھا ئیں.جب وہ خود اٹھا ئیں گے تو پھینکنے والوں کو بھی شرم آئے گی اور جب عورتیں دیکھیں گی کہ وہ جو گند گلی میں پھینکتی ہیں وہ ان کے باپ یا بھائی یا بیٹے کو اٹھانی پڑتی ہے تو وہ سمجھیں گی یہ برا کام ہے اور وہ اس سے باز رہیں گی.لوگ ہزار یا پانچ سو یا کم و سڑکوں اور گلیوں کے کنارے موزوں جگہ پر گڑھا بنایا جائے بیش روپیہ لگا کر مکان بنا لیتے ہیں مگر یہ نہیں کرتے کہ چند فٹ کا ایک چھوٹا سا گڑھا گلی میں بنوالیں اور اس گلی کے سنہ مکانوں والے اس میں گندی چیزیں پھینکیں اور پھر صفائی کرنے والے آکر وہیں سے لے جائیں.یورپ میں میں نے دیکھا ہے سب سڑکوں پر ایسے گڑھے ہوتے ہیں جن کے اوپر ڈھکنے پڑے رہتے ہیں لوگ اس میں گندی چیزیں پھینک جاتے ہیں اور سرکاری آدمی آکر اٹھاتے جاتے ہیں.اگر یہ طریق یہاں بھی اختیار کر لیا جائے تو بہت مفید ہو گا.اگر ہر گلی والے صفائی کے خیال سے ایسا گڑھا بنوا ئیں تو اس پر زیادہ سے زیادہ چار پانچ روپیہ خرچ ہو گا اور میرے نزدیک وہ پانچ چھ سال تک کام دے سکتا ہے.اس کے بعد بھی اگر مرمت کی ضرورت پیش آئے تو اس پر روپیہ دور د پیر سے زیادہ خرچ نہ ہو گا اور اگر گلی میں دس گھر ہوں تو آٹھ آٹھ آنہ ہر
141 ایک کے حصہ میں آئیں گے اور پھر اس خرچ کو پانچ سال پر لے جایا جائے تو سات پیسے فی سال کا خرچ ہو گا.اگر اس خرچ سے صفائی کی حالت اچھی ہو جائے تو کتنا ستا ہے.اس سے انسان آنحضرت مالی کی لعنت سے بھی بچ سکتا ہے.اس قسم کی صفائی اگر سب جگہ جاری کی جائے تو یہ ایک بڑی نیکی ہوگی.دیہات میں بھی اس کی طرف توجہ کی جانی چاہئے.وہاں لوگ گندگی کو روڑی کے نام سے محفوظ رکھتے ہیں.حالانکہ گو ر نمنٹ کی طرف سے بارہا اس حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے کہ اس طرح کھاد کا مفید حصہ ضائع ہو جاتا ہے.نوشادر وغیرہ کے جو اجزاء اس میں ہوتے ہیں وہ سب اڑ جاتے ہیں.کھاد تبھی اچھی ہو سکتی ہے جب زمین میں دفن ہو.نگی رہنے سے سورج کی شعاعوں کی وجہ سے اس کی طاقت کا مادہ اڑ جاتا ہے.اس لئے اچھی کھاد وہ ہے جو زمین میں دفن رہے.تو جو رو ڑیاں دیہات میں رکھی جاتی ہیں وہ گند ہوتا ہے ، کھاد نہیں.گوبر اور دوسری غلاظت کو کھاد کی شکل میں تبدیل کر کے پیش بہا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے پھر اس میں روڑی کے علاوہ زمینداروں کے مد نظر ایک اور سوال اپلوں کا ہوتا ہے جو وہ جلاتے ہیں حالانکہ یہ کتنی غلیظ بات ہے کہ پاخانہ سے روٹی پکائی جائے.مانا کہ وہ پاخانہ جانور کا ہے مگر کیا جانور کا پاخانہ کھانے کے لئے کوئی تیار ہو سکتا ہے.اسی پر رکھ کر پھلکے سینکتے ہیں اور پھر انہیں کھاتے ہیں.بائبل میں یہود کی سزا کے متعلق آتا ہے.تم انسان کے پاخانہ سے روٹی پکا کر کھاؤ گے.( حز قیل ب ۴ آیت (۱۲) گو وہاں انسانی پاخانہ کا ذکر ہے مگر جانور کا پاخانہ بھی تو گندی شے ہے.خواہ نسبتا کم ہو.اس سے روٹی پکانی بھی یقیناً ایک سزا ہے.مگر دیہات میں اس کی آگ جلائی جاتی ہے.اس سے کھانا پکایا جاتا ہے.حالا نکہ اگر درخت لگانے کی عادت ڈالی جائے تو یہ کئی لحاظ سے مفید ہو.شجر کاری کے فوائد اور اہمیت جلانے کے لئے لکڑی بھی مل جائے سایہ بھی ہو اور پھر ایسے درخت لگائے جاسکتے ہیں جن کا فائدہ بھی ہو.مثلاً شہتوت کے درخت ہیں.ان پر اگر ریشم کے کیڑے چھوڑ دئے جائیں تو ایک ایک درخت پر دس روپیہ کاریشم تیار ہو سکتا ہے اور اگر دو چار درخت ہی اس کے لگا لئے جائیں تو گھر والوں کے کپڑے ہی اس کی آمد سے تیار ہو سکتے ہیں اور لکڑی بھی جلانے کے لئے کافی مل سکے گی.پھر جس جگہ درخت ہوں وہاں بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں اور جہاں درخت نہ ہوں وہاں بارش کم ہوتی ہے.اور جب ہو تو مٹی بہہ بہہ کر وہ جگہ نشیب بن جاتی ہے.غرضیکہ بیسیوں فوائد ہیں مگر اپلوں کے استعمال سے زمینداران محروم رہتے ہیں.اس کی وجہ سے درخت کی ضرورت بہت کم محسوس کی جاتی ہے، اس لئے لوگ لگاتے ہی نہیں.صرف ہل وغیرہ کے لئے لکڑی کی ضرورت ان کو پیش آتی ہے.باقی کھانا وغیرہ گوبر سے پکا لیتے ہیں.ہاتھ سے کام میں جو صفائی کا حصہ ہوتا ہے اس کے ضمن میں میں نے یہ مثال دی ہے.اس تحریک
142 کو عام کرنا چاہئے اور ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ اسے اس طرح پھیلائیں کہ اس کا اثر نمایاں طور پر نظر آنے لگے.کوئی کام اس وقت تک مفید نہیں ہو سکتا جب تک قوم پر اس کا اثر نہ ہو.رسول کریم ملی لی نے ایک شخص کو دودھ پینے کے لئے دیا.اس نے پیا تو آپ نے فرمایا اور پیو.اس نے اور پیا تو آپ نے فرمایا اور پیو.اس نے کہا یا رسول اللہ ! اب تو میرے مساموں میں سے دودھ بہنے لگا ہے.آپ کا مطلب یہ تھا کہ خدا تعالی جو نعمت دے اس کے آثار چہرہ پر ظاہر ہونے چاہئیں.پس ہمارے سب کام اس رنگ میں ہونے چاہئیں کہ ان کا اثر ظاہر ہو جائے.میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں اس صفائی کا بھی قائل نہیں بناؤ سنگار اور حقیقی صفائی میں فرق ہوں جیسی بعض انگریز کرتے ہیں کہ ذرا سا دھبہ کپڑا میں لگ گیا تو اسے اتار دیا یا جیسا کہ آج کل کے بعض نوجوان کرتے ہیں کہ بالوں کو برش کرتے رہے.کئی کئی گھنٹے بالوں اور چہرہ کی صفائی میں لگا دیتے ہیں.میرا مطلب صرف اس صفائی سے ہے جو صحت پر اثر ڈالتی ہے.یہ کوئی صفائی نہیں کہ داڑھی اور مونچھوں کو مونڈتے اور بالوں کو کنگھی اور برش کرتے رہتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت کی نئی نئی شادی ہوئی ہے.یہ صفائی نہیں بلکہ لغویت اور بیہودگی ہے.ہاں جہاں گندگی اور غلاظت ہوا سے دور کرنا چاہئے.اگر اس سنگار کا نام صفائی ہے تو پھر تو لندن کے چند کروڑپتی ہی صفائی رکھ سکیں گے جو یو ڈی کولون پانی میں ڈال کر نہاتے ہیں.اگر ہمارے غریب زمیندار ایسی صفائی رکھنے لگیں تو ہر سال ایک گھماؤں زمین بیچ کر نہانے کا ہی انتظام کر سکتے ہیں.مگر یہ کوئی صفائی نہیں بلکہ تعیش ہے.وہ صفائی جو اسلام چاہتا ہے یہ ہے کہ گند نظرنہ آئے اور صحت خراب نہ ہو.پھر بعض لوگ ایسے صفائی پسند ہوتے ہیں کہ مصافحہ بھی کسی سے نہیں کرتے کہ اس طرح کیڑے لگ جاتے ہیں.یہ بھی صفائی نہیں بلکہ جنون ہے.ایسی صفائی جو اخلاق کو تباہ کر دے جائز نہیں.بعض لوگ کسی کے ساتھ برتن میں کھانا نہیں کھاتے.یہ بھی ان کے نزدیک صفائی ہے.مگر ایسی صفائی سے اسلام منع کرتا ہے جو صفائی اخوت اور محبت میں روک ہو ، وہ بے دینی ہے.پس ہر کام کے وقت اس کی خوبی اور برائی کا موازنہ کر کے دیکھنا چاہئے.مصافحہ کرنے سے اگر فرض کرو کوئی بیمار بھی ہو جائے یا سال میں آٹھ دس آدمی اس طرح مر بھی جائیں تو اس محبت اور پیار کے مقابلہ میں جو اس سے پیدا ہو تا ہے اور ان دوستیوں کے مقابلہ میں جو اس سے قائم ہوتی ہیں اس کی حقیقت ہی کیا ہے ؟ اگر محبت کے ذریعہ لاکھوں آدمی بچیں اور آٹھ دس مر بھی جائیں تو کیا ہے.دیکھنا تو یہ چاہئے کہ نقصان زیادہ ہے یا فائدہ اور جو چیز زیادہ ہو اس کا خیال رکھنا چاہئے کیونکہ ہر بڑی چیز کے لئے چھوٹی قربان ہوتی ہے.پس ایسی صفائی جس سے تعیش اور وقت کا ضیاع ہو یا محبت میں روک ہو اسے مٹانا چاہئے.ہندوؤں میں یہ
143 صفائی ہوتی ہے کہ بیوی ایک پتہ لے کر الگ بیٹھ جاتی ہے اور خاوند الگ اور برہمن ہر ایک کی طرف کتے کی طرح روٹی پھینکتا جاتا ہے.مجھے بھی ایک دفعہ ایک ایسی دعوت کھانے کا اتفاق ہوا جو آریہ پرتی ندھی سبھا کے مرکز میں تھی.سب کے آگے علیحدہ علیحدہ پتے اور ان پر کچوریاں وغیرہ رکھ دی گئیں.یہاں تو خیر تھی.لیکن اس کے بعد کی ذلت کو کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا.رسوئیا آکر دروازہ میں کھڑا ہو گیا اور پوچھنے لگا کہ کس کو کتنی کچوریاں چاہئیں.دو چاہئیں یا ایک یا پونی یا آدھی یا پاؤ.اتنی احتیاط تھی کہ جسے پاؤ کی ضرورت ہے اسے آدھی نہ چلی جائے تاباقی پاؤ ضائع نہ ہو اور پھر وہیں سے ہر ایک کے آگے جتنی وہ مانگتا پھینک دیتا تھا اور نشانہ اس کا واقعی قابل تعریف تھا.میں نے تو کہہ دیا کہ مجھے تو کوئی ضرورت نہیں.تو جس صفائی سے وقت ضائع ہو یا محبت میں فرق آئے یا انسانی تعلقات میں فرق آئے ، وہ جائز نہیں اور یہ پہلو میں نے اس لئے واضح کر دیا ہے کہ کوئی غلو میں اس طرف نہ نکل جائے اور تیل ، کنگھی ، چوٹی اور سرمہ کے استعمال کو ہی صفائی نہ سمجھ لیا جاوے.یہ صفائی نہیں خطبه جمعه فرموده ۲۴ فروری ۱۹۳۹ ء مطبوعہ الفضل ۷ امارچ ۱۹۳۹ء) ہے.
آؤ محمود ذرا حال پریشاں کردیں اور اس پردے میں دشمن کو پشیماں کردیں خنجر ناز پہ ہم جان کو قرباں کردیں اور لوگوں کے لئے راستہ آساں کردیں کھینچ کر پرده رُخ یار کو عریاں کردیں وہ ہمیں کرتے ہیں ہم ان کو پریشاں کردیں کہ گداگر کو سلیماں کردیں وہ کریں کام کہ شیطاں کو مسلماں کردیں وہ ہم پہلے ان آرزوؤں کا کوئی ساماں کردیں دل میں پھر اس شہ خوباں کو مہماں کردیں ایک ہی وقت میں چھپتے نہیں سورج اور چاند یا تو رخسار کو یا ابرو کو غریاں کردیں آج بے طرح چڑھی آتی ہے لعل لب پر ان کو کہدو کہ وہ زلفوں کو پریشاں کردیں آدمی ہو کے تڑپتا ہوں چکوروں کی طرح کبھی بے پردہ اگر وہ زیخ تاباں کردیں دفعہ ویکھ چکے موسیٰ تو پردہ کیسا ان سے کہدو کہ وہ اب چہرہ کو عریاں کردیں اور پھر جان کو ہم ہدیۂ جاناں کردیں اک دل میں آتا ہے کہ دل بیچ دیں دلدار کے ہاتھ وہ کبریں دم کہ مسیحا کہ بھی حیرت ہو جائے شیر قالیس کو بھی ہم شیر نیستاں کردیں
145 خدام الاحمدیہ کے فرائض ه قومی روح کا اپنے اندر پیدا کرنا O جماعتی کاموں میں دلی شوق کے ساتھ حصہ لینا ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہنا تنظیم کا مادہ اپنے اندر پیدا کرنا اسلامی تعلیم سے واقفیت ! آوارگی اور بے کارمی کا ازالہ اچھے اخلاق خصوصا بیچ اور دیانت داری کا پیدا کرنا اور ہاتھ سے کام کرنا نوجوانوں میں ڈمانت پیدا کرنے کی کو شش کرنا ه جب ذمہ داری کا کام لو تو پوری تندہی اور خوش اسلوبی سے سر انجام دو ه نوجوانوں کی نظر وسیع ہونی چاہئیے 0 انجمن تشحید الا ذبان اور ذہانت اعزازی کاموں میں بوقت ضرورت سزا کی اہمیت ذہانت پیدا کرنے کے دو اہم ذرائع 1- محبت ۲- سزا ه خدام الاحمدیہ کے ارکان محفلت یا کوتاہی پر سردار داشت کرنے کا عہد کریں یا خدام الاحمدیہ اپنے اندر استقلال پیدا کرنے کی کو شش کرے باجماعت نمازا استقلال کا مادہ پیدا کرتی ہے خطبه جمعه فرموده ۳ مارچ ۱۹۳۹ء )
146 " آج میں خدام الاحمدیہ کو ان کے بعض اور فرائض کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس وقت تک میں:.(1) قومی روح کا اپنے اندر پیدا کرنا ، جماعتی کاموں میں دلی شوق کے ساتھ حصہ لے کر ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہنا اور تنظیم کا مادہ اپنے اندر پیدا کرنا.(۲) اسلامی تعلیم سے واقفیت.(۳) آوارگی اور بے کاری کا ازالہ.(۴) اچھے اخلاق خصوصا سچ اور دیانت کا پیدا کرنا اور (۵) ہاتھ سے کام کرنا.ان پانچ امور کی طرف انہیں توجہ دلا چکا ہوں.آج میں اسی سلسلہ میں ایک اور ضروری امر کی طرف انہیں توجہ دلاتا ہوں جو میرے نزدیک نہایت ہی اہم ہے مگر اس کی طرف توجہ بہت ہی کم کی جاتی ہے.مجھے ان لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے بعد جن سے کام کرنے کا مجھے موقعہ ملا ہے اور وہ جو ان بھی ہیں اور بوڑھے بھی وہ پڑھے لکھے بھی ہیں اور ان پڑھ بھی.ہندوستانیوں کے متعلق ایک نہایت ہی تلخ تجربہ ہوا ہے جو ہمیشہ میرے دل پر ایک پتھر کی طرح بوجھ ڈالے رکھتا ہے اور وہ یہ کہ ایک لمبے عرصہ کی غلامی کے بعد ہندوستانی عقل اور ذہانت کو بالکل کھو چکے ہیں.وہ جب بھی کوئی کام کریں گے اس کے اندر حماقت اور بے وقوفی ضرور ہوگی الا ماشاء اللہ چند لوگ اگر مستثنی ہوں تو اور بات ہے لیکن ایسے لوگ بھی ایک فیصدی سے زیادہ نہیں ہیں.اب سو میں سے ایک کی آبادی سو کا بوجھ کس طرح اٹھا سکتی ہے.اگر سو میں سے ساٹھ ستر آدمی فرض شناس اور ذہین ہوں تو وہ بقیہ تمہیں چالیس کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں لیکن جس ملک کے سو آدمیوں میں سے ننانوے ذہانت سے عاری ہوں اور سو میں سے صرف ایک شخص ذہین ہو تو اس کے متعلق جس قدر بھی مایوسی ہو کم ہے.کوئی کام دے دیا جائے اس میں ضرور کچھ نہ کچھ حماقت اور بے وقوفی دکھانا ہندوستانی شاید اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے اور جب وہ بے وقوفی کرتا ہے اور اسے سمجھایا جاتا ہے کہ وہ ایسی بے وقوفی نہ کیا کرے تو وہ اس سے الٹا نتیجہ نکالتا ہے اور جو اسے تعلیم دی جائے اسے وہ ہمیشہ اپنے لئے گالی اور ہتک سمجھتا ہے اور جس طرح بچھو نیش لگاتا ہے اسی طرح وہ اس نصیحت کے بدلے دو سرے کو نیش لگانے کی کوشش کرتا ہے.یہ ایک نہایت ہی تلخ بات ہے جو میرے تجربہ میں آئی ہے.ابھی کل ہی کی بات ہے ایک عزیز نوجوان نے مجھ سے ذکر کیا کہ فوج میں جہاں کہیں مخلص احمدی دیکھے گئے ہیں ، وہ ہمیشہ دوسروں سے زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سچا ایمان اور سچا اخلاص ذہانت ضرور پیدا کر دیتا ہے کیونکہ عدم ذہانت در اصل توجہ کی کمی کا نام ہے اور کامل توجہ کا نام ہی ذہانت ہے.جب انسان کسی امر کی طرف کامل توجہ کرتا ہے تو اس کے چاروں کو نے اس کے سامنے آجاتے ہیں مگر جب کبھی وہ پوری توجہ نہیں کرتا اس کے کئی گوشے اس کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں.چار پانچ ہندوستانی اکٹھے سفر کر رہے ہوں اور
147 ان کے سامنے کوئی معاملہ پیش آجائے تو وہ کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگ جائیں گے.ایک کے گالیوں کرنا چاہئے دوسرا کے گایوں نہیں دوں کرنا چاہئے.اب وقت گزر رہا ہے، کام خراب ہو رہا ہے مگر وہ بے وقوفی کی بحثیں کرتے رہیں گے.کبھی ان کے دماغ میں یہ بات نہیں آئے گی کہ اس بحث سے زیادہ حماقت کی بات اور کوئی نہیں.تم اپنے میں سے ایک شخص کو آگے کرو اور اس کے فیصلہ کو تسلیم کر لو مگر یہ حماقت یہاں تک بڑھی ہوئی ہے کہ جس شخص کے فیصلہ کو وہ تسلیم کرنے کا دعوی بھی کریں گے اس کے فیصلوں پر بھی جھٹ اعتراض کر دیں گے اور اگر اعتراض نہیں کریں گے تو کم از کم اس کے معاملات میں دخل دینے کی ضرور کوشش کریں گے.میں خلیفہ ہوں اور جماعت میری اطاعت کا اقرار کئے ہوئے ہے مگر میرا قریبا نوے فیصدی تجربہ ہے کہ جب بھی میں کوئی کام کرنے لگوں ہر شخص مجھے مشورہ دینے لگ جاتا ہے.اب ساری سکیم سوچی ہوئی میرے ذہن میں موجود ہوتی ہے مگر وہ خواہ مخواہ دخل دے کر کام کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ وہی احمقانہ عادت ہے جو تمام ہندوستانیوں کے اندر پائی جاتی ہے کہ وہ کبھی بھی صحیح لیڈری کو تسلیم نہیں کریں گے.بھلا ایک شخص جو لڑائی کے لئے لوگوں کو جمع کر کے لے جا رہا ہو ، دشمن سر پر کھڑا ہو اور حالت ایسی ہو کہ ایک لمحہ کا ضیاع بھی سخت نقصان پہنچانے والا ہو، اس وقت اگر تم راستہ روک کر کھڑے ہو جاؤ اور اسے مشورہ دینے لگ جاؤ تو اس کا سوائے اس کے اور کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ تم اپنے لوگوں کو تباہ کرانا چاہتے ہو پس یہ مشورہ نہیں بلکہ اپنی حماقت اور نادانی کا مظاہرہ ہوتا ہے.کسی بیمار کے پاس دو ہندوستانی ڈاکٹر چلے جائیں ، وہ بجائے اس کے کہ متفقہ طور پر اس کے لئے کوئی علاج تجویز کریں ، آپس میں لڑنا شروع کر دیں گے.وہ کہے گا یہ دوا دینی چاہئے یہ کسے گاوہ دوا دینی چاہئے.بیمار مر رہا ہو گا اور یہ آپس میں بحث کر رہے ہوں گے.غرض کبھی بھی ضرورت اور محل کے موقع پر وہ اس امر کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے کہ اپنے میں سے ایک شخص کو آگے کر دیں اور جو کچھ وہ کہے اس کے مطابق کام کریں.استثنائی طور پر اگر بعض دفعہ کوئی لطیف بات کسی کو سوجھ جائے تو اس کے بتانے میں کوئی حرج نہیں ہو تا مگر ہندوستانی ذہنیت یہ ہے کہ وہ ہر بات میں خواہ مخواہ دخل دیں گے اور بجائے کسی کی صحیح لیڈری پر اعتماد کرنے کے اپنی بات پر زور دیتے چلے جائیں گے اور کہیں گے کہ یوں کرنا چاہئے خواہ ان کی بات کس قدر ہی احمقانہ کیوں نہ ہو اور خواہ اس شخص کی سکیم سے وہ کتنے ہی نا واقف کیوں نہ ہوں.تو یہ مادہ ہندوستانیوں کے دلوں میں نہایت ہی گہرے طور پر راسخ ہو چکا ہے اور چونکہ اکثر احمدی ہندوستانی ہیں وہ بھی ایک حد تک اس مرض میں مبتلا ہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میرے دل میں کبھی مایوسی پیدا نہیں ہوئی لیکن اگر کبھی میرے دل میں مایوسی کے مشابہ کوئی کیفیت پیدا ہوئی ہے تو وہ اسی حالت پر ہوئی ہے جو ہندوستانیوں میں عام طور پائی جاتی ہے اور جس سے احمدی بھی مستثنیٰ نہیں کہ وہ چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی کبھی نظام کے مطالبہ کو پورا نہیں کر سکتے.میں نے ہمیشہ سفروں میں دیکھا ہے باوجود اس کے کہ عملہ کے سات آٹھ آدمی ساتھ ہوتے ہیں اور معمولی سو پچاس کے لگ بھگ چیزیں ہوتی ہیں ، وہ ضرور کچھ نہ کچھ سامان پھینک کر آجاتے ہیں اور جب پوچھا جاتا ہے تو -
148 ایک کہتا ہے میں نے سمجھا تھا کہ اس کا دوسرے نے خیال رکھا ہو گا اور دوسرا کہتا ہے میں نے سمجھا تھا اس کا خیال فلاں نے رکھا ہو گا.یہ عجیب نادانی ہے کہ ہر شخص دوسرے کو ذمہ وار قرار دیتا ہے.جب تم اتنا کام بھی نہیں کر سکتے تو تم ساری دنیا کو کہاں سنبھال سکو گے مگر اس کی وجہ محض بے توجہی ہے اور پھر میں نے دیکھا ہے جب انہیں نصیحت کی جائے تو وہ ایک دوسری نادانی کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور خیال کرنے لگتے ہیں کہ شاید اپنے نقصان کی وجہ سے انہیں غصہ چڑھا ہوا ہے حالانکہ مجھے غصہ ان کی ذہانت کے فقدان پر آ رہا ہوتا ہے.ہماری جماعت میں ایک شخص ہو ا کر تا تھا اب تو وہ مر گیا ہے اور مرا بھی بری حالت میں ہے اس نے ایک دفعہ کچھ اور دوستوں سمیت میرے پہرہ کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا.میں خود تو کسی کو پہرہ کے لئے نہیں کہتا لیکن جب کوئی پسرہ کے لئے اپنی خوشی سے آجائے تو اسے روکتا بھی نہیں.اس وقت ہم نہر پر گئے ہوئے تھے اور ہمارا خیمہ ایک طرف لگا ہوا تھا.اس نے کہا ہم آپ کا پہرہ دیں گے.گرمیوں کے دن تھے ، مجھے تکان محسوس ہوئی اور میں خیمہ میں جاکر سو گیا.تھوڑی دیر کے بعد جب میں اٹھا تو میں نے گھر والوں سے دریافت کیا کہ خیمہ میں جو میری چھتری لٹک رہی تھی وہ کہاں گئی ؟ انہوں نے کہا کہ ہم لوگ تو باہر گئے ہوئے تھے اور ابھی واپس آئے ہیں ہمیں معلوم نہیں کہ کون لے گیا.خادمہ سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگی کہ ایک آدمی خیمہ کے پاس آیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ حضرت صاحب کی چھتری دے دو چنانچہ میں نے چھتری اٹھا کر اسے دے دی.میں نے جب باہر جا کر دریافت کیا تو ہر ایک شخص نے لاعلمی ظاہر کی کہ ہمیں نہیں معلوم کون خیمہ کے پاس گیا اور چھتری مانگ کر لے گیا.غرض کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون شخص تھا.کوئی چور تھا یا کوئی دشمن تھا جو صرف یہ بتانے کے لئے اندر آیا تھا کہ تمہارے پہروں کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ ایسے شخص کو چھتری لینے سے کیا حاصل ہو سکتا تھا.اس کی غرض محض یہ بتانا ہو گی کہ تم اتنے غافل ہو کہ میں تمہارے گھر کے اندر داخل ہو کر ایک چیز اٹھا سکتا ہوں.اگر کسی مصلحت یا اخلاق کی وجہ سے میں نے تم پر حملہ نہیں کیا تو اور بات ہے ورنہ میں اندر ضرور داخل ہو گیا ہوں اور تمہاری ایک چیز بھی اٹھا کر لے آیا ہوں مگر تمہیں اس کی خبر تک نہیں ہوئی.بہر حال مجھے جب یہ بات معلوم ہوئی تو میں نے اس پر اظہار ناراضگی کیا اور کہا کہ ایسے پہرہ کا فائدہ کیا ہے ؟ اس پر وہی آدمی جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہنے لگا کہ اگر مجھے پتہ لگ جائے کہ آپ نے وہ چھتری کہاں سے خریدی تھی تو میں ویسی ہی چھتری خرید کر آپ کی خدمت میں پیش کردوں.اب دیکھو یہ کتنی کمینہ اور ذلیل ذہنیت تھی اس شخص کی کہ اس نے میری ناراضگی کی حقیقت کو سمجھنے کی تو کوشش نہ کی اور یہ سمجھا کہ میری ناراضگی چھتری کے نقصان کی وجہ سے ہے.میری ناراخستگی کی جب زمہ داری کا کام لو تو پوری تندہی اور خوش اسلوبی سے سرانجام دو وجہ تو یہ تھی کہ جب تم ایک ذمہ داری کا کام لیتے ہو تو تمہارا فرض ہے کہ اس کام کو پوری تندہی اور خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دو اور اگر تم وہ کام نہیں کر سکتے تو تمہارا اس کی بجا آوری کے لئے ذمہ واری قبول کرنا حماقت ہے مگر اس
149 نے سمجھا کہ میری خفگی اس لئے ہے کہ میری چھتری گم ہو گئی ہے اور وہ کہنے لگا کہ اگر مجھے پتہ لگ جائے کہ آپ نے چھتری کہاں سے خریدی تھی تو میں ویسی ہی چھتری خرید کر آپ کو دے دوں.اب یہ اتنی کمینہ ذہنیت ہے کہ مجھے اس کا خیال کر کے اب بھی پسینہ آجاتا ہے اور میں حیران ہوتا ہوں کہ کیا اتنا ذلیل اور کمینہ انسان بھی کوئی ہو سکتا ہے.وہ احمد ی تھا گو بعد میں عملاً مرتد ہو گیا مگر بہر حال وہ کہلا تا احمدی تھا.تو ہندوستانیوں میں یہ ایک نہایت ہی احمقانہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ کبھی بھی چاروں طرف نگاہ نہیں ڈالیں گے.میں اگر مثالیں دوں تو چونکہ بہت سے لوگوں پر زد پڑتی ہے اس لئے فورا پتہ لگ جائے گا کہ یہ فلاں کی بات ہو رہی ہے اور یہ فلاں کی.پس میں مثالیں نہیں دیتا.یہ جو مثال میں نے پیش کی ہے یہ بہت ہی پرانی ہے اور وہ آدمی خاص عملے کا بھی نہ تھا اور اب تو وہ مر بھی چکا ہے اس لئے میں نے یہ مثال دے دی ورنہ میں اس مہینہ کی دس ہیں ایسی مثالیں دے سکتا ہوں جو نہایت ہی احمقانہ ہیں اور جن کو میں اگر بیان کروں تو تم میں سے ہر شخص انہیں سن کر ہنسے گا لیکن جب خود تمہارے سپر دو ہی کام کیا جائے گا تو تم بھی وہی حماقت کرو گے جو دوسروں نے کی.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ذہانت کی کوئی قیمت نہیں سمجھی جاتی.سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کو طلبہ میں ذہانت پیدا کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے ہمارے سکولوں اور کالجوں میں طالب علموں کی ذہانت کی ترقی کے لئے قطعی طور پر کوئی کوشش نہیں کی جاتی.استاد اور پروفیسر محض کتابیں پڑھا دیتے ہیں اور طالب علموں کو الفاظ رٹا دیتے ہیں لیکن خالی لفظوں کو لے کر کسی نے کیا کرنا ہے.اگر ایک پڑھا لکھا شخص ہو لیکن ذہین نہ ہو تو اس سے بہت زیادہ کام وہ شخص کر سکتا ہے جو گو پڑھا ہوا نہ ہو مگر ذہین ہو.کیا ہٹلر جرمنی کا سب سے زیادہ پڑھا ہوا شخص ہے.کیا مسولینی اٹلی کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ انسان ہے.کیا اتا ترک برکی کا سب سے زیادہ عالم تھا.کیا لیفن رشیا کا سب سے زیادہ پڑھا ہوا شخص تھا.یہ سارے ہی اپنی اپنی جگہ معمولی تعلیم حاصل کئے ہوئے تھے.مسولینی کی تعلیم مڈل تک ہے.ہٹلر کی تعلیم انٹرنس جتنی ہے.اتا ترک گو ایک کالج میں پڑھا مگر وہ نہایت ہی چھوٹے درجہ کا کالج تھا اور اس کی تعلیم بھی انٹرنس جتنی ہے مگر کیا چیز ہے جس نے ہٹلز، مسولینی ، اتاترک اور لینن کو اپنے ملکوں کا لیڈر بنا دیا.وہ ذہانت ہے جس نے ان لوگوں کو اپنے ملک کا لیڈر بنایا ، علم نہیں.جب علم والے اپنی کتابوں پر نگاہ ڈالے بیٹھے تھے اس وقت یہ لوگ ساری دنیا پر نگاہ ڈالے ہوئے انسانی فطرت کی گہرائیوں کے مطالعہ میں مشغول تھے اور آخر وہاں سے وہ اپنی قوم کی مراد کا وہ موتی لے آئے جس کے لئے وہ بے تابانہ جستجو کر رہے تھے.پس ذہانت بالکل اور چیز ہے اور علم اور چیز.علم بھی اچھی چیز ہے مگر ذہانت کے بغیر علم کسی کام کا نہیں ہو تا.میں نے بتایا ہے کہ میں اس کے متعلق مثالیں نہیں دے سکتا کیونکہ میں اگر مثالیں دوں تو وہ لوگ بالکل نگے ہو جائیں جن کے وہ واقعات ہیں اور سب کو ان کا پتہ لگ جائے اس لئے میں بعض پرانے لوگوں کے قصے یا
150 لطائف بیان کر دیتا ہوں جن سے ذہانت اور علم کا فرق ظاہر ہو سکتا ہے.کہتے ہیں کوئی بادشاہ تھا.اس نے اپنے ملک کے ایک مشہور جو تشی کو بلایا اور اپنا لڑ کا اس کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ اسے علم جو تش سکھا دو چنانچہ وہ اسے لے گیا اور مدت تک سکھاتا رہا.جب اس نے تمام علم اسے سکھا دیا تو وہ بادشاہ کے پاس اسے لایا اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت! میں نے جو تش کا تمام علم اسے پڑھا دیا ہے اب آپ چاہیں تو اس کا امتحان لے لیں.بادشاہ نے اپنی انگوٹھی کا نگینہ اپنے ہاتھ میں چھپا کر لڑکے سے پوچھا کہ تم علم جو تش سے بتاؤ کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے.لڑکے نے حساب لگایا اور کہا چکی کا پاٹ.بادشاہ نے اس جوتشی کی طرف دیکھا اور کہا تم نے اسے کیا پڑھایا ہے.وہ کہنے لگا حضور ا چکی کا پاٹ بھی پتھر کا ہوتا ہے اور نگینہ بھی پتھر کا ہے.پس میرا علم تو صحیح ہے باقی اگر آپ کے لڑکے میں ذہانت نہ ہو اور وہ اتنی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ چیکی کا اٹ ہاتھ میں نہیں آسکتا تو میں کیا کر سکتا ہوں.میرا علم تو بالکل صحیح ہے..اسی طرح میں نے یہ لطیفہ کئی دفعہ سنایا ہے جو دراصل حضرت خلیفہ اول سے میں نے سنا ہوا ہے کہ کوئی لڑکا تھا اسے گاؤں کے بعض بڑے بڑے لوگوں نے کسی دوسرے علاقہ میں طب پڑھنے کے لئے بھیجا کیونکہ ان کے ہاں کوئی طبیب نہیں تھا.انہوں نے خیال کیا کہ اگر یہ لڑ کا طب پڑھ گیا تو ہماری ضرورت پوری ہو جائے گی اور آئے روز جو ہمیں طبیب کے نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف رہتی ہے، یہ رفع ہو جائے گی.وہ لڑکا دوسرے علاقہ کے ایک مشہور طبیب کے پاس پہنچا اور کہنے لگا مجھے اپنے علاقہ کے روساء نے آپ کے پاس طب پڑھنے کے لئے بھیجا ہے کیونکہ ہمارے ہاں کوئی طبیب نہیں.وہ کہنے لگا بڑی اچھی بات ہے اس سے زیادہ نیکی کا کام اور کیا ہو سکتا ہے.طب سے خدمت خلق ہوتی ہے اور لوگوں کو نفع پہنچتا ہے.پس یہ بہت ہی ثواب کا کام ہے.تم میرے پاس رہو.میں تمہیں تمام طب سکھا دوں گا چنانچہ وہ ان کے پاس رہنے لگ گیا.دوسرے ہی دن وہ کسی مریض کو دیکھنے کے لئے چلے گئے اور انہوں نے اس لڑکے کو اپنے ساتھ لے لیا.جب مریض کے پاس پہنچے تو وہ اس کے پاس بیٹھ گئے.نبض دیکھی ، حالات پوچھے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ آپ نے کل کہیں چنے تو نہیں کھائے ؟ وہ کہنے لگا ہاں کچھ چنے کھائے ہی تھے.وہ کہنے لگے آپ کا معدہ کمزور ہے.ایسی ثقیل چیز آپ کو ہضم نہیں ہو سکتی.پیٹ کا دردای وجہ سے ہے آپ ایسی چیزیں نہ کھایا کریں.پھر ایک نسخہ لکھ کر اسے دے دیا اور واپس آگئے.جب گھر پر پہنچے تو لڑکا کہنے لگا کہ مجھے اجازت دیجئے میں اب واپس جانا چاہتا ہوں.وہ کہنے لگے ہیں ! اتنی جلدی ! تم تو طب پڑھنے کے لئے آئے تھے.وہ کہنے لگا بس طب میں نے سیکھ لی ہے.ذہین آدمی کے لئے تو کوئی دقت ہی نہیں ہوتی.وہ کہنے لگے میں نے تو تمہیں ابھی ایک سبق بھی نہیں دیا تم نے طب کہاں سے سیکھ لی.وہ کہنے لگا ذہین شخص کو بھلا سبقوں کی کیا ضرورت ہے.میں خدا کے فضل سے ذہین ہوں.میں نے تمام طب سیکھ لی ہے.انہوں نے بہتیرا سمجھایا کہ یہاں رہو اور مجھ سے با قاعدہ طب پڑھو مگر وہ نہ مانا اور واپس آ گیا.لوگ اسے دیکھ کر بڑے متعجب ہوئے اور کہنے لگے کہ اتنی جلدی آگئے.وہ کہنے لگا ذہین آدمی کے لئے طب سیکھنا کوئی مشکل امر نہیں.میں تو جاتے ہی تمام طب
151 سیکھ گیا.خیر انہی دنوں کوئی رئیس بیمار ہو گیا اور اس نے اس لڑکے کو علاج کے لئے بلایا.یہ گیا.نبض دیکھی.حالات پوچھے اور پھر کہنے لگا آپ رئیس آدمی ہیں بھلا آپ کو ایسی چیزیں کہاں ہضم ہو سکتی ہیں.اچھا بتائیے کیا آپ نے کل گھوڑے کی زین تو نہیں کھائی.وہ کہنے لگا کیسی نا معقول باتیں کرتے ہو.گھوڑے کی زین بھی کوئی کھایا کرتا ہے.وہ کہنے لگا آپ مانیں یا نہ مانیں کھائی آپ نے گھوڑے کی زمین ہی ہے.نوکروں نے جو دیکھا کہ یہ ہمارے آقا کی ہتک کر رہا ہے تو انہوں نے اسے خوب پیٹا.وہ مار کھاتا جائے اور کہتا جائے کہ تشخیص تو میں نے ٹھیک کی ہے اب تم میری بات نہ مانو تو میں کیا کروں.آخر انہوں نے پوچھا تیرا اس سے مطلب کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ جس طبیب سے میں نے طب سیکھی ہے وہ ایک دن مجھے ساتھ لے کر ایک مریض دیکھنے کے لئے گئے.میں ان کی حرکات کو خوب تاڑ تا رہا.میں نے دیکھا کہ حکیم صاحب نے ادھر ادھر نظر دوڑائی اور چند چنے کے دانے جو چار پائی کے نیچے گرے ہوئے تھے ، وہ اٹھالئے اور پہلے تو ان دانوں سے کھیلتے رہے پھر مریض سے کہنے لگے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے چنے کھائے ہیں اور اس نے اقرار کیا کہ واقع میں میں نے چنے کھائے ہیں.میں اس سے فورا سمجھ گیا کہ جب کسی مریض کو دیکھنے کے لئے جانا پڑے تو جاتے ہی اس کی چار پائی کے نیچے نظر ڈالنی چاہئے اور جو چیز اس کی چارپائی کے نیچے ہو اس کے متعلق یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے کھانے سے مریض بیمار ہوا ہے.اب میں جو یہاں آیا تو آتے ہی میں نے ان کی چارپائی کے نیچے نظر ڈالی تو مجھے گھوڑے کی زین نظر آئی.پس میں سمجھ گیا کہ یہ گھوڑے کی زمین کھا کر ہی بیمار ہوئے ہیں.اب دیکھو جس چیز کا نام اس نے ذہانت رکھا ہوا تھا، وہ ذہانت نہیں تھی بلکہ حماقت اور بے وقوفی تھی اور گو اس مثال پر تم سب ہنس پڑے ہو مگر اس قسم کی بے وقوفیاں تم بھی کرتے رہتے ہو.الا ماشاء اللہ جیسے میں نے بتایا ہے سو میں سے ایک ممکن ہے ، ذہین ہو لیکن سو میں سے نانوے یقیناً ذہانت سے عاری ہوتے ہیں.ہندوستان کی ۳۳ کروڑ آبادی ہے اور سو میں ایک کے ذہین ہونے یہ معنی ہیں کہ اس ملک میں صرف ۳۳ لاکھ آدمی ذہین ہیں.اب ۳۳ لاکھ بھلا ۳۳ کروڑ کا بوجھ کس طرح اٹھا سکتا ہے.گو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک فی صدی کی نسبت بھی خاص ہو شیار جماعتوں میں پائی جاتی ہوگی ، عام جماعتوں میں ایک فی صدی کی نسبت بھی نہیں اور اس کا احساس مجھے اسی وقت ہوا ہے کیونکہ جب میں نے ۳۳ کروڑ کا سواں حصہ ۳۳ لاکھ نکالا تو میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ یہ اندازہ غلط ہے کیونکہ ہندوستان میں ہر گز ۳۳ لاکھ ذہین آدمی نہیں ہیں.اگر اتنے ذہین آدمی ہوتے تو اس ملک کی کایا پلٹ جاتی.ممکن ہے ہماری جماعت میں جسے ہر وقت علمی باتیں سنائی جاتی ہیں ایک فی صدی کی نسبت سے ذہین آدمیوں کا وجود پایا جاتا ہو لیکن اور جماعتوں میں ایک فی صدی کی نسبت بھی نہیں.وہ کبھی بات کو چاروں گوشوں سے نہیں دیکھیں گے اور ہمیشہ غلط نتیجہ پر پہنچیں گے.ابھی پچھلے سفر میں جب میں کراچی گیا تو وہاں بغداد سے ہماری جماعت کے ایک دوست میرے پاس آئے اور انہوں نے کھجوروں کا ایک بکس پیش کیا اور کہا کہ یہ کھجور میں بغداد کی جماعت نے بھجوائی ہیں.ہم کراچی میں
152 ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اور اس کے دو کمرے کرایہ پر ہم نے لئے ہوئے تھے.ایک مردانہ تھا اور ایک زنانہ.میں نے وہ کھجوروں کا بکس اسی جگہ رکھوا دیا جہاں باقی اسباب پڑا تھا اور پھر مجھے اس کا خیال بھی نہ رہا.جب ہم بمبئی پہنچے تو میری ہمشیرہ نے کسی موقعہ پر کھانا کھانے کے بعد کہا کہ اس وقت کچھ میٹھے کو جی چاہتا ہے.میں چونکہ کھجوروں کا ان سے ذکر کر چکا تھا اس لئے انہوں نے پوچھا کہ وہ کھجوریں کہاں گئیں.اس پر مجھے ان کا خیال آیا اور میں نے اپنے ہمراہیوں سے پوچھا کہ وہ کھجوروں کا بکس کہاں گیا.جن صاحب سے پوچھا تھا انہوں نے جواب دیا کہ ایک بکس تو ہمارے کمرہ میں ضرور تھا مگر چونکہ ہم قادیان سے وہ بکس نہیں لے گئے تھے اس لئے میں نے اور میرے ہمراہی نے وہ بکس اسباب سے الگ کر کے رکھ دیا کہ شاید کسی اور کا ہو.میں نے انہیں بتایا کہ یہ بکس بغداد کی جماعت کی طرف سے بطور تحفہ آیا تھا اور میں نے اسباب میں رکھوا دیا تھا.جب کمرہ ہمارا تھا اور اسباب بھی ہمارا تھا تو آپ لوگوں کو یہ کیونکر خیال ہوا کہ اسے الگ نکال کر رکھ دیں ، کسی اور کا ہو گا.آخر دوسرے کسی شخص کو یہ خیال کیونکر پیدا ہو سکتا تھا کہ وہ اپنا اسباب اٹھا کر ہمارے کمرہ میں آکر رکھ جائے.لوگ تو دوسروں کا اسباب اٹھایا کرتے ہیں.اپنا اسباب دوسرے کے گھر میں تو کوئی آکر رکھ کر جاتا نہیں.اس پر انہوں نے کہا کہ ہم نے سمجھا کہ کسی احمدی کا بکس ہو گا.میں نے کہا اگر یہ خیال تھا تب بھی اسے ساتھ رکھنا چاہئے تھا کیونکہ اس وقت ہم تو وہ کمرہ خالی کر رہے تھے اور احمدی ہماری وجہ سے ہی وہاں آتے تھے.وہاں اسے چھوڑ دینے کے یہ معنی تھے کہ اپنے بھائی کا اسباب ضائع ہونے دیا جائے کیونکہ کمرہ خالی کر دینے کے بعد کون اس کی حفاظت کر سکتا تھا.اس صورت میں بھی آپ کا فرض تھا کہ بکس ساتھ رکھ لیتے اور جب ساحل سمندر پر دوست رخصت کرنے کے لئے آتے تو ان سے پوچھتے کہ اگر کسی دوست کا یہ سامان رہ گیا ہو تو وہ لے لیں مگر سب سے مقدم یہ امر تھا کہ مجھ سے پوچھتے کہ یہ زائد سامان کیسا ہے.کوئی چیز یہاں سے تو نہیں خریدی.اس کو سن کر وہ دونوں دوست جن کے ذمہ سامان کی حفاظت تھی ، مسکرا پڑے کہ یہ خیال ہی نہیں آیا.اب یہ کتنی بڑی سادگی ہے.ایک کمرہ کرایہ پر لیا جاتا ہے.اس میں اپنا تمام اسباب رکھا جاتا ہے مگر روانگی کے وقت ایک بکس اسی جگہ چھوڑ دیا جاتا ہے اور سالار کارواں سے پوچھا تک نہیں جاتا کہ صندوق بھی ہمارا ہی ہے یا کسی اور کا.کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ میں نے خود کوئی وہاں سے سودا منگوایا ہو اور اسے اس صندوق میں بند کر دیا گیا ہو مگر محض اس لئے اسے چھوڑ دیا گیا کہ قادیان سے چلتے وقت ہم اس صندوق کو اپنے ہمراہ نہیں لائے تھے اور یہ خیال ہی نہیں آیا کہ دریافت تو کر لیا جائے کہ یہ صندوق ہے کس کا؟ اگر وہ ذہانت سے کام لیتے تو انہیں چاہئے تھا کہ وہ اس صندوق کو بھی اٹھاتے اور مجھ سے پوچھتے کہ یہ کس کا ہے.جب وہ میرے کمرے میں پڑا ہوا تھا تو بہر حال میرا ہی ہو سکتا تھا.اگر دو مسافروں کا وہاں سامان ہو تا تب تو شبہ ہو سکتا تھا کہ یہ سامان شاید میرا ہے یا اس کا مگر جب ان کمروں میں ہی ہم تھے تو کس کی عقل ماری ہوئی تھی کہ وہ اپنا اسباب اٹھا کر ہمارے کمرہ میں رکھ دے یا گھر سے ٹرنک لا کر ہمارے ٹرنکوں میں ملا دے.پھر وہ کہنے لگے ہم نے
153 سمجھا شاید یہ جماعت والوں کا اسباب ہے حالانکہ اول تو ہم ہوٹل میں ٹھرے ہوئے تھے اور وہاں جماعت کا سامان کس طرح نہیں آسکتا تھا لیکن اگر بالفرض ان کے نزدیک یہ کسی جماعت کے دوست کا ہی صندوق تھا تو بہر حال انہیں یہ تو سمجھنا چاہئے تھا کہ اب ہم نے دوبارہ اس ہوٹل کے کمرہ میں نہیں آنا.پس انہیں چاہئے کہ وہ اس صورت میں بھی اس صندوق کو اٹھاتے اور جہاز تک لاکر دریافت کرتے کہ یہ کس احمدی کا صندوق ہے.اس طرح بات بھی کھل جاتی اور چیز بھی ضائع نہ ہوتی کیونکہ اگر بالفرض وہ کسی احمدی بھائی کا سامان ہو تا تو بھی اس کی حفاظت ہمارے ذمہ تھی کیونکہ وہ ہمارے کمرہ میں تھا اور انہیں چاہئے تھا کہ دونوں صورتوں میں وہ اسباب اٹھاتے اور ساتھ لے جاتے مگر جب میں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو کہنے لگے خیال ہی نہیں آیا اور یہی جواب ہے جو ہر ہندوستانی غلطی کے موقع پر دیا کرتا ہے اور جب اس سے بھی زیادہ ناراضگی کا اظہار کیا جائے تو دو سرا قدم وہ یہ اٹھاتا ہے کہ کہہ دیتا ہے غلطی ہو گئی معاف کر دیجئے.میں چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ اپنے کام میں اس امر کو بھی مد نظر ر کھیں اور نوجوانوں کے ذہنوں کو تیز کریں.ہم نے بچپن میں جو سب سے پہلی انجمن بنائی تھی اس کا نام تشحید انجمن تشحیذ الاذہان اور ذہانت الا زبان تھا یعنی ذہنوں کو تیز کرنے کی انجمن.اس کے نام کا تصور کر کے بھی میرا ایمان تازہ ہو جاتا اور میرا دل خوشی سے بھر جاتا ہے کہ انبیاء کے ذہن کیسے تیز ہوتے ہیں اور کس طرح وہ معمولی باتوں میں بڑے بڑے اہم نقائص کی اصلاح کی طرف توجہ دلا دیتے ہیں کہ آج ایک وسیع تجربہ کے بعد جو بات مجھ پر ظاہر ہوئی ہے اس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہایت سادگی کے ساتھ صرف دو لفظوں میں توجہ دلا دی تھی کیونکہ جب ہم نے ایک انجمن بنانے کا ارادہ کیا تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کا کوئی نام تجویز فرمائیں تو آپ نے اس انجمن کا نام ” تشحيذ الاذہان تجویز فرمایا یعنی ذہنوں کو تیز کرنا.رسالہ تشعیذ الاذہان بعد میں اسی وجہ سے اس نام پر جاری ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انجمن کا نام تشحیذ الاذہان رکھا تھا اور چونکہ اسی انجمن نے یہ رسالہ جاری کیا اس لئے اس کا نام بھی تشحیذ الاذہان رکھ دیا گیا.پس ہماری انجمن کا نام ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ” تشحیذ الاذہان" رکھا تھا یعنی وہ انجمن جس کے ممبران کا یہ فرض ہے کہ وہ ذہنوں کو تیز کریں اور در حقیقت بچپن میں ہی ذہن تیز ہو سکتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس لحاظ سے بہت بڑی ذمہ داری استادوں پر عائد ہوتی ہے مگر افسوس ہے کہ ہم اپنے بچوں کے بہت سے اوقات کتابوں میں ضائع کر دیتے ہیں اور وہ حقیقی فائدہ جس سے قوم ترقی کرتی ہے اس کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ ہمارا فرض ہے کہ ہماری کھیلیں اس رنگ کی ہوں جن سے ہمارے ذہن تیز ہوں.ہماری تعلیم اس رنگ کی ہو جس سے ہمارے ذہن تیز ہوں.ہماری انجمنوں کے کام اس رنگ کے ہوں جن سے ہمارے
154 ذہن تیز ہوں اور یہ چیز علم سے بھی مقدم ہونی چاہئے کیونکہ تھوڑے علم سے انسان نجات پاسکتا ہے لیکن ذہن کے کند ہونے کی وجہ سے خواہ انسان کے پاس کتنا بڑا علم ہو نجات سے محروم رہ جاتا ہے.ہم یورپین قوموں کو دیکھتے ہیں.ایک لمبے تجربہ کی وجہ سے ان میں ذہانت کا نہایت بلند معیار قائم ہے حالا نکہ وہ شراب نوش قومیں ہیں.وہ سور کھاتی ہیں مگر باوجود شراب نوش اور مردار خور ہونے کے ان کے ذہن نہایت تیز ہوتے ہیں کیونکہ ایک وسیع تجربہ نے ان کے دماغوں میں نہایت صفائی پیدا کر دی ہے.پچھلے دنوں جب جنگ کا خطرہ پیدا ہوا تو انگریز مدبرین نے ہر طرح کی کوشش کر کے اس جنگ کو روکا مگر جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ لڑائی میں کودنا پسند نہیں کرتے تھے یا بزدلی اس کی محرک تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے سارے ملک کے انتظام پر نگاہ ڈالی اور انہوں نے محسوس کیا کہ ابھی ہمارے اندر کئی قسم کی خامیاں ہیں اور اگر ہم اس وقت لڑ پڑے تو ہماری شکست کا خطرہ ہے.پس وہ بزدلی یا بے غیرتی کی وجہ سے پیچھے نہیں ہے جیسا کہ غلطی سے سمجھا جاتا ہے بلکہ انہوں نے جب اپنے انتظام پر نگاہ دوڑائی تو انہیں اپنے انتظام میں بعض نقائص اور خلل نظر آئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس وقت لڑنا ٹھیک نہیں.بے شک ان کے پاس جنگ کا سامان بھی کم تھا مگر جیسا کہ بعض مدبرین نے کہا ہے اگر جنگ میں وہ کو دپڑتے تو وقت پر تمام سامان مہیا کیا جاسکتا تھا مگر انہوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے تمام سامان مہیا بھی کر لیا تب بھی ہمار ا نظام ابھی ایسا مکمل نہیں کہ ہم اس سامان سے پورا فائدہ اٹھا سکیں.پس انہوں نے دانائی سے کام لے کر جنگ کے خطرہ کو دور کر دیا لیکن اگر کوئی ایشیائی ہو تاتو وہ ایسے موقعہ پر سوائے اس کے اور کچھ نہ کہتا کہ غیرت، غیرت کو دپڑو اور مرجاؤ حالانکہ قوم کا صرف مرجانا ہی کام نہیں ہو تا بلکہ فتح پانا بھی کام ہو تا ہے.تو ہمارے نوجوانوں کو زمین بننا چاہئے اور ان کی نظر وسیع نوجوانوں کی نظر وسیع ہونی چاہیئے ہونی چاہئے.وہ جب بھی کوئی کام کریں انہیں چاہتے اس کے سارے پہلوؤں کو سوچ لیں اور کوئی بات بھی ایسی نہ رہے جس کی طرف انہوں نے توجہ نہ کی ہو.یہی نقص ہے جس کی وجہ سے میں نے دیکھا ہے کہ روحانیت میں بھی ہمارے آدمی بعض دفعہ فیل ہو جاتے ہیں اور وہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں مگر ہمیں خداتعالی کی محبت حاصل نہیں ہوتی حالا نکہ میں نے بار ہا بتایا ہے کہ صرف نمازیں پڑھنے سے خدا تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ اس کا قرب انسان کو حاصل ہو سکتا ہے.حقیقی دین تو ایک مکمل عمارت کا نام ہے مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم مکمل عمارت کا فائدہ صرف ایک دیوار سے حاصل کرنا چاہتے ہو.تم خود ہی بتاؤ اگر کسی قلعہ کی تین دیوار میں توڑ دی جائیں اور صرف ایک دیوار باقی رہنے دی جائے تو کیا اس ایک دیوار کی وجہ سے اس قلعہ کے اندر رہنے والا محفوظ رہ سکتا ہے.یقین جب تک اس کی چاروں دیوار میں مکمل نہیں ہوں گی اس وقت تک اس قلعہ کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.
155 اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قرب محض تمام احکام اسلام پر عمل پیرا ہو کر خدا کا قرب میسر آتا ہے نمازوں کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اور جس قدر احکام اسلام ہیں ان سب پر عمل کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے.اگر تم نماز یں تو پڑھتے ہو لیکن تم میں جھوٹ کی عادت ہے یا نمازیں تو پڑھتے ہو مگر روزے نہیں رکھتے یا روزے تو رکھتے ہو مگر زکوۃ نہیں دیتے یا زکوۃ تو دیتے ہو مگر مالدار ہونے کے باوجود اور سفر کی سہولت ہونے کے باوجو د حج نہیں کرتے یا تم نماز میں بھی پڑھتے ہو ' روزے بھی رکھتے ہو ، حج بھی کرتے ہو مگر کسی غریب کا مال ظالمانہ طور پر کھا جاتے ہو تو تمہارا یہ امید کرنا کہ تمہاری نمازیں، تمہارے روزے اور تمہارا حج تمہیں فائدہ دے نادانی ہے کیونکہ تم اپنی روحانی عمارت کو چاروں گوشوں سے مکمل نہیں کرتے.تم اگر ایک طرف پچاس فٹ چوڑی دیوار بھی کھڑی کر دیتے ہو تو وہ تمہیں فائدہ نہیں پہنچا سکتی لیکن اگر تم چار انچ کی دیوار چاروں طرف بنا کر اس پر چھت ڈال لو تو وہ عمارت تمہیں سردی گرمی سے محفوظ رکھ سکتی اور خطرات سے بچا سکتی ہے بلکہ چار انچ موٹی دیوار کیا اگر تم سرکنڈے لے کر ان کا ایک جھونپڑا بنالو یا بانس کی تیلیوں سے ایک جھونپڑی بنا لو تو گو وہ مضبوط نہیں ہوگی مگر تم اس میں امن سے رہ سکو گے.تم سوفٹ چوڑی صرف ایک دیوار کھڑی کر کے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے لیکن اگر تم آدھ انچ کی سرکنڈے کی دیواریں چاروں طرف کھڑی کر دو جیسا کہ عام طور پر بیٹ کے علاقہ میں زمیندار لوگ بناتے ہیں تو تم اس سے وہ تمام فائدے اٹھاؤ گے جو ایک مکمل عمارت سے اٹھائے جاسکتے ہیں کیونکہ تم اس جھونپڑی میں وہ تمام شرائط پوری کر دو گے جو ایک مکان کی تعمیر کے لئے ضروری ہیں.تم اس میں رات کو سو بھی سکو گے.تم سردی سے بھی بچ سکو گے.تم بارش سے بھی محفوظ رہو گے اور چوروں سے بھی بچ رہو گے کیونکہ چور آخران سرکنڈوں کو توڑکر اندر داخل ہو گا اور جب وہ اندر داخل ہونے کے لئے سرکنڈے توڑے گا تو تمہاری آنکھ کھل سکتی اور تم اس کا مقابلہ کر سکتے ہو.اسی طرح تم اس جھونپڑی میں بیٹھ کر پر وہ قائم رکھ سکتے ہو اور اگر میاں بیوی اندر بیٹھ کر اختلاط کر رہے ہوں تو کوئی ان پر نظر نہیں ڈال سکتا لیکن اس کی بجائے اگر تم سوفٹ چوڑی دیوار ایک طرف کھڑی کر دو اور باقی اطراف کو خالی رہنے دو تو تمہیں ان فوائد میں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.اسی طرح اگر تم نمازیں پڑھتے ہو اور اس قدر تعمد اور احتیاط کے ساتھ پڑھتے ہو کہ ایک نماز کا بھی ناغہ نہیں ہونے دیتے لیکن تم روزوں میں ست ہو یا اگر تم روزوں میں تو اس قدر چست ہو کہ سال میں سے چھ مہینے روزے رکھتے ہو مگر ز کوۃ نہیں دیتے یا زکوۃ میں تو چست ہو مگر صدقہ و خیرات دینے میں ست ہو یا صدقہ و خیرات دینے میں تو اس قدر چست ہو کہ اپنا سارا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں غریبوں اور مسکینوں کو دے دیتے ہو لیکن جھوٹ بول لیتے ہو تو تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جو صرف ایک طرف دیوار کھڑی کر کے اس سے پورے مکان کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں اگر تم تھوڑا سا مال صدقہ و خیرات کر دیتے ہو اور زیادہ صدقہ نہیں کرتے.نمازیں صرف پانچ وقت کی پڑھتے ہو ، نوافل اور تہجد ادا نہیں کرتے.رمضان کے صرف تمہیں روزے رکھتے ہو لیکن نفلی روزوں کے رکھنے
156 کا خیال نہیں کرتے.صدقہ و خیرات میں بھی کچھ ایسے دلیر نہیں لیکن تھوڑا بہت دے دیتے ہو یا کم سے کم اگر زکوۃ تم پر فرض ہو تو تم اس کی ادائیگی میں تساہل سے کام نہیں لیتے تو تم یقینا اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لو گے کیونکہ گو تم نے محل تیار نہیں کیا مگر تم نے سرکنڈوں کی دیواریں بنا کر ایک چھت ڈال لی ہے اور اس وجہ سے تم اس بات کے مستحق ہو گئے ہو کہ تم مکان کا فائدہ حاصل کر لو.یہی وہ چیز ہے جس کو ذہانت کہتے ہیں یعنی اپنے علم کو ایسے طرز پر کام میں لانا اور اس سے فائدہ اٹھا نا کہ انسان کی چاروں طرف نگاہ رہے اور کوئی گوشہ اس کی نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے.اسی ذہانت کا یہ کرشمہ ہے کہ جب کسی ذہین آدمی سے بات کی جائے تو وہ فورا سمجھ جاتا ہے کہ یہ بات مجھ سے کیوں کی جارہی ہے.کہنے والے کا مقصد کیا ہے.کن حالات میں یہ مجھ سے بات کر رہا ہے.اس میں کہنے والے کا کیا فائدہ ہے اور میرا اس میں کوئی فائدہ ہے یا نقصان اور کیوں میرے ساتھ بات کی جارہی ہے.اس کا کیا مقصد اور کیا مدعا ہے مگر دوسرا آدمی بے وقوفی کر کے کچھ کا کچھ نتیجہ نکال لیتا ہے.پس ذہین وہ شخص ہے جو چاروں گوشوں پر نگاہ رکھے مگر وہ جو صرف علم کی حد تک محدود رہتا ہے اور بات کی تہہ تک نہیں پہنچتا اسے ہم ذہین نہیں کہہ سکتے جیسا کہ میں نے اپنے بعض سفروں کا حال بیان کیا ہے.اب اگر میرے ساتھ سفر کرنے والے ذہین ہوتے تو وہ کہتے کہ ہمیں کوئی ایسا پہلو اختیار نہیں کرنا چاہئے جو بعد میں کسی خفت اور بدنامی کا موجب ہو اور انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ جب سفروں میں چیزوں کے گم ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے تو وہ ایسا طریق اختیار کریں جس سے کسی قسم کی غلطی نہ ہو.ریکار ڈ اور انڈیکس کی اہمیت سٹیٹکس (STATICS) کا طریق ایجاد کیا ہے.اگر ریکارڈ نہ ہو تو گزشتہ امور سے فائدہ اٹھانے میں سخت دقت پیش آتی ہے.اب سب دنیا میں دفتر موجود تھے ، رجسٹر موجود تھے خطوط موجود تھے ، کاغذات موجود تھے مگر ریکار ڈ اور سٹیٹکس نہ رکھے جاتے تھے.انگریزوں نے جب ان چیزوں کو دیکھا تو انہوں نے ذہنی طور پر فیصلہ کیا کہ اپنے کاموں سے تجارب حاصل کرنے کے لئے کوئی طریق ایجاد کیا جائے چنانچہ انہوں نے ریکار ڈرکھنے اور سٹیٹکس کا طریق ایجاد کیا.گویا علم موجود تھا مگر لوگ ذہانت سے کام نہ لینے کی وجہ سے اس کی حفاظت سے غافل تھے.انگریزوں نے اس علم کو ذہانت سے کام لیتے ہوئے اپنے تجربوں سے فائدہ اٹھانے کا ایک ذریعہ نکال لیا.اسی طرح روزانہ ہمارے مشاہدہ میں بات آتی ہے کہ دو شخص ہیں.دونوں کے پاس کتابیں ہیں مگر ایک نے ان کتابوں کا انڈیکس بنایا ہوا ہو تا ہے اور دوسرے نے انڈیکس نہیں بنایا ہو تا.اب وہ جس نے انڈیکس بنایا ہوا ہو تا ہے، وہ اپنی ذہانت کی وجہ سے زیادہ فائدہ اٹھالیتا ہے مگر دو سرا عدم ذہانت کی وجہ سے باوجود اس کے کہ علم اس کے پاس بھی موجود ہے اس طرح فائدہ نہیں اٹھا سکتا جس طرح ذہین شخص اٹھاتا ہے تو نو جوانوں کو ذہین بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.ممکن ہے کوئی کہے کہ ہم انہیں ذہین کس طرح بنا سکتے ہیں.کئی ہیں جو سخت کند ذہن ہوتے ہیں اور انہیں ہزار بار بھی کوئی بات سمجھائی جائے تو وہ ان کی سمجھ میں انگریزوں نے اسی ذہانت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریکارڈ اور
157 نہیں آتی پھر سب کو ہم کس طرح ذہین بنا سکتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ گو انسانی طاقتیں محدود ہیں مگر جس قسم کی قوتیں اللہ تعالیٰ نے انسانی دماغ میں رکھی ہوئی ہیں وہ ایسی ہیں کہ محنت اور دباؤ سے وہ تیز ہو جاتی ہیں اور عقل اور فطانت کی جنس تھوڑی بہت اللہ تعالیٰ نے ہر دماغ میں رکھی ہوئی ہے سوائے اس کے جو پاگل ہو اور ایسا شخص ہزاروں میں سے کوئی ایک ہو تا ہے.باقی جس قدر اوسط دماغ رکھنے والے انسان ہیں ان کے اندر ہر قسم کا مادہ موجود ہو تا ہے.وہ ذہانت بھی رکھتے ہیں وہ فطانت بھی رکھتے ہیں، وہ عقل بھی رکھتے ہیں وہ فکر بھی رکھتے ہیں وہ علم بھی رکھتے ہیں ، وہ شعور بھی رکھتے ہیں وہ احساس بھی رکھتے ہیں اور جب کوئی شخص ان قوتوں کو ترقی دینا چاہے تو وہ ترقی دے سکتا ہے.یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ انتہا درجہ کا فطین ذہانت اور فطانت کی قدرتی قوت کو ترقی دی جاسکتی ہے نہ بنے اور انتہادرجہ کا کی نہ بنے وہ انتہا وہ ذ درجہ کا زمین نہ بنے وہ انتہا درجہ کا حساس نہ بنے اور انتہا درجہ کا باشعور نہ بنے وہ انتہا درجہ کا فقید نہ بنے وہ انتہا درجہ کا مفکر نہ بنے مگر وہ اوسط درجے کا فطین ایک اوسط درجے کا زمین اور ایک اوسط درجہ کا مفکر اور فقید بن سکتا ہے اگر کوشش کرے.پس خدام الاحمدیہ کا کام اس طرز پر ہونا چاہئے کہ نوجوانوں میں ذہانت پیدا ہو.ممکن ہے وہ کہیں ہمیں یہ باتیں نہیں آتیں اور ہم سمجھ نہیں سکتے کہ کس طرح اس کام کو چلا ئیں.سو وہ میرے پاس آئیں اور مجھ سے مشورہ لیں.مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تمام باتیں آتی ہیں.میں انہیں باتیں بتاؤں گا.آگے عمل کرنا ان کا کام ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ میری باتوں پر عمل کریں تو نو جوانوں میں بہت جلد ذہانت پیدا ہو سکتی ہے.ذہانت دراصل نتیجہ ہے کامل توجہ کا.اگر ہم کامل توجہ کی عادت ڈال لیں تو ذہانت کامل توجہ کا نتیجہ ہے لازما ہمارے اندر ذہانت پیدا ہوگی اور یہ ذہانت پھر ایک مقام پر ٹھہر نہیں جاتی بلکہ ترقی کرتی رہتی ہے.میں نے اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے خدام الاحمدیہ کے کارکنان کو نصیحت کی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی اپنے فرائض کی بجا آوری میں غفلت سے کام لیتا ہے تو اسے سزا دو کیونکہ توجہ پیدا کرنے کے مختلف سامانوں میں سے ایک سامان ڈر بھی ہے یعنی انسان کو یہ خیال کہ اگر میں ناکام رہا تو مجھے سزا ملے گی.یورپین لوگوں میں ذہانت کی سزا کی اہمیت اور یورپ میں ذہانت کے معیار کی ترقی کا ایک راز ترقی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ مجرم کو سزا دینے میں سخت سنگدل ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں یہ ہو تا ہے کہ جب کسی سے کوئی قصور سرزد ہو اور اسے سزا دی جائے تو وہ اپنے قصور کے ازالہ کے لئے صرف اتنا کافی سمجھتا ہے کہ پیسے کے دسویں حصہ کا کاغذ لیا
158 اور پیسے کے بیسویں حصہ کی سیاہی اور لکھ دیا حضور میری توبہ! میرا قصور معاف فرمائیں.آپ سے زیادہ رحیم بھلا کون ہو سکتا ہے.آپ رحیم کریم اللہ کے نمائندے ہیں اور اگر چومیں گھنٹے کے اندر اندر اسے جواب نہ دیا شخص جائے کہ اچھا تمہیں معاف کر دیا گیا ہے تو تمام معززین کی چٹھیوں پر چٹھیاں آنی شروع ہو جائیں گی کہ فلاں بڑا پشیمان ہے.وہ اب تو بہ کرتا ہے.اسے معاف کیا جائے.تم اس قسم کا تمسخر کسی زندہ قوم میں نہیں دیکھ سکتے.تم چلے جاؤا انگستان میں تم چلے جاؤ جرمنی میں تم چلے جاؤ ا مریکہ میں تم چلے جاؤ اٹلی میں ، تم چلے جاؤ فرانس میں ، تم کسی ایک جگہ بھی ایسا تمسخر ہوتے نہیں دیکھو گے.تم سو میں سے ایک احمق بھی ایسا نہیں دیکھو گے جو قصور کے بعد کاغذ اور قلم دوات لے کر بیٹھ جائے اور معافی کی درخواست لکھنا شروع کر دے اور تم کوئی ایسا احمق نہیں دیکھو گے جو ایسے شخص کی سفارش کرے مگر ہمارے ہندوستان میں یہ عام بات ہے اور یہ مرض اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اس کے نتیجہ میں عجیب عجیب نظارے بعض دفعہ دیکھنے میں آئے ہیں چنانچہ اس سلسلہ میں ایک امر کا میرے دل پر بہت گہرا اثر ہے.جب تشعیہ الاذہان کی انجمن قائم ہوئی تو اس وقت ہم میں سے ایک شخص سے ایک غلطی ہوئی.اس نے بعد میں تو بہ بھی کی.قربانی بھی کی اور نقصان بھی اٹھایا مگر اس وقت اس سے غلطی ہو گئی.اس شخص کے اخلاص کا تم اس سے اندازہ کر لو کہ وہ ایک معقول تنخواہ چھوڑ کر یہاں صرف دس روپے ماہوار پر ہماری انجمن میں ملازم ہو گیا تھا.یہ شخص ہماری انجمن کے ابتدائی ممبروں میں سے تھا.ضمناً میں یہ بتادیتا ہوں کہ جس وقت میں نے یہ انجمن قائم کی تھی اس وقت ہم صرف سات لڑکوں نے اسے اپنے خرچ پر جاری کیا تھا.اس وقت تحریک جدید کے ایک سو چالیس لڑکے ہیں مگر وہ ان سات جدی ما کام کر کے بھی نہیں دکھا سکتے.ہم کل سات لڑکے تھے مگر ہم نے دس روپے ماہوار کا ایک نوکر بھی رکھا ہوا تھا.ہماری مالی حالت اس وقت جو کچھ تھی اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے تین روپیہ ماہوار وظیفہ ملا کر تا تھا جو قلم دوات کاغذ اور دوسری ضروریات پر میں خرچ کیا کرتا مگر ان تین روپوں میں سے بھی ایک روپیہ ماہوار اس انجمن پر خرچ کرتا تھا.اسی طرح باقی لڑکوں کا حال تھا.اُسی سرمایہ سے آہستہ آہستہ ہم نے رسالہ جاری کیا اور چونکہ رسالہ پر ہم خود محنت کیا کرتے تھے اس لئے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اچھا سرمایہ جمع ہو گیا اور ہمارا کام عمدگی سے چلنے لگا اور ہم نے کام کی سہولت کے لئے دس روپیہ ماہوار پر ایک آدمی رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس دوست نے اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کر دیا.وہ آدمی بہت نیک تھا.غریبوں کی مدد کیا کرتا.رفاہ عام کے کاموں میں حصہ لیتا اور نماز روزہ کا بھی پابند تھا مگر بعض دفعہ آدمی سے کوئی کو تاہی ہو ہی جاتی ہے اس سے بھی ایک دفعہ یہ کو تاہی ہوئی کہ انجمن کا کچھ روپیہ اس نے اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کر لیا اور خیال کر لیا کہ اگلی تنخواہوں سے آہستہ آہستہ ادا کردوں گا.اس امر کا جب ہمیں علم ہوا تو یہ معاملہ ہماری کمیٹی میں پیش ہوا.اس وقت ہم میں سے کچھ کالج کے سٹوڈنٹس بھی تھے کیونکہ ہم سات لڑکوں میں سے کچھ انٹرنس پاس کر کے جلدی کالج میں داخل ہو گئے.جب یہ معاملہ ہماری کمیٹی میں پیش ہوا تو جو کالج کے سٹوڈنٹ تھے انہوں نے
159 اس امر پر زور دینا شروع کیا کہ اس شخص کو سخت سزا دینی چاہئے کیونکہ اس نے بد دیانتی کی ہے اور اسے بد دیانتی کے جرم میں علیحدہ کر دینا چاہئے.میں نے اس کے مقابلہ میں کہا اس میں کوئی شبہ نہیں ، اس شخص سے قانونی بد دیانتی ضرور ہوئی ہے لیکن فیصلہ کرتے وقت ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ اس شخص کا ماحول کیا ہے اور آیا اس سے جو بد دیانتی سرزد ہوئی ہے یہ نا سمجھی کی وجہ سے سرزد ہوئی ہے یا شرارت کی وجہ سے سرزد ہوئی ہے.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ بد دیانتی اس نے شرارت کے طور پر کی اور انجمن کو نقصان پہنچانے کے لئے کی ہے تو اسے واقعہ میں سخت سزا ملنی چاہئے لیکن اگر یہ ثابت ہو کہ اس نے شرار تا ایسا نہیں کیا محض غفلت کی وجہ سے اس نے ایسا کیا ہے اور یہ خیال کر کے کچھ روپیہ خرچ کر لیا ہے کہ اگلی تنخواہ میں سے دے دوں گا تو کو بد دیانتی یہ بھی ہے مگر یہ شرارت والی بد دیانتی سے مختلف ہے اور ہمیں سزا میں نرمی کرنی چاہئے چنانچہ میں نے کہا اس شخص نے ہماری خاطر ایک اچھی نوکری چھوڑی اور یقینا وہ نوکری جو ہماری ہے ، یہ اس کی پہلی نوکری کا قائم مقام نہیں ہو سکتی.پس جب اس کی ہماری خاطر قربانی ثابت ہے تو گو اس کا فعل بد دیانتی ہی قرار دیا جائے گا مگر یقیناوہ اس حد تک نہیں جس حد تک شرارتی بد دیانتی ہوتی ہے.ہمارے ساتھیوں میں سے ایک دوست یہ تمام تقریریں سنتے رہے اور خاموشی سے بیٹھے رہے اور انہوں نے اس میں کوئی دخل نہ دیا مگر جب بحث لمبی ہو گئی تو وہ جوش سے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ لوگ کیا بیوقوفی کی باتیں کر رہے ہیں.نہ کالج والوں کی بات میری سمجھ میں آتی ہے اور نہ (میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) ان کی.یہ دونوں کہتے ہیں کہ اس شخص نے بد دیانتی کی.فرق صرف یہ ہے کہ ایک فریق کہتا ہے اس نے شرارت والی بد دیانتی کی اور دوسرا کہتا ہے یہ نادانی کی بد دیانتی ہے.ایک کہتا ہے سزا دینی چاہئے اور دوسرا کہتا ہے سزا نرم دینی چاہئے مگر دونوں اس کو بد دیانت قرار دیتے ہیں اور اس کے فعل کو قابل سزا قرار دیتے ہیں حالانکہ بات دونوں کی غلط ہے اور خواہ مخواہ اس مجلس میں بلا کر ہمارا وقت ضائع کیا گیا ہے.آپ لوگ مجھے یہ بتائیں کہ یہ جو مجلس تشحیذ الاذہان کا روپیہ ہے یہ آپ کا ہے یا خدا کا.ہم نے کہا خدا کا.وہ کہنے لگے جب خدا کا ہے تو اگر خدا کے بندے نے کچھ روپیہ لے لیا تو تم ہو کون جو اسے بد دیانت اور خائن قرار دو.ہم نے اس پر انہیں بہتیرا سمجھایا اور دلیلیں دیں کہ آپ کی یہ بات درست نہیں مگروہ یہی کہتے چلے گئے کہ مال بھی خدا کا اور بندہ بھی خدا کا.میری سمجھ میں تو اور کوئی بات آتی ہی نہیں.ہم نے کہا اس کا تو یہ مطلب ہے کہ دینی خزانہ میں سے جو روپیہ کسی کے ہاتھ آئے وہ اٹھا کر چلتا بنے مثلا صد را انجمن احمدیہ میں مال آتا ہے تو محاسب صاحب سیف اٹھا کر گھر لے جائیں اور کہیں خدا کا مال اور خدا کا بندہ.جب مال خدا کا ہے تو میرا اسے اپنے نفس پر خرچ کرنا کہاں گناہ ہوا اور جب ہم انہیں پکڑیں تو وہ کہیں اچھا تاؤ تم نے خدا کی خاطر مال دیا تھایا نہیں اور جب ہم کہیں کہ ہاں دیا تھا تو وہ کہیں کہ بس پھر میں بھی اس کا بندہ ہوں اور خدا کا بندہ خدا کا مال لے جارہا ہے.وہ کہنے لگے اگر کوئی لے جاتا ہے تو لے جائے ہمیں اس میں دخل نہیں دینا چاہئے.ہم نے انہیں بہت ہی سمجھایا مگر یہ مسئلہ کچھ اس طرح ان کے دماغ میں مرکوز تھا کہ آخر تک ہماری بات ان کی سمجھ میں نہ آئی کیونکہ وہ
160 ایسے معاملات میں سزا کے قائل ہی نہ تھے.اس واقعہ سے تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسے معاملات میں موقع کے مناسب حال سز اذہانت کو تیز کرتی ہے ہماری ذہنیتیں کسی قسم کی ہو رہی ہیں حالانکہ حق یہ ہے کہ سزا ذ ہن کو تیز کرتی ہے اور جس طرح دنیوی انتظامات میں سزا دینا ضروری ہے اور اس سے قوم میں ایسا احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ لوگ غلطی سے حتی الوسع بچنے لگ جاتے ہیں اور ذہن تیز ہو جاتے ہیں.ہمارے ملک میں عام طور یہ خیال کرتے ہیں کہ سزا دینا ایک ظلم ہے اور صرف اظهار ندامت کافی نہیں جن لوگوں سے غلطی ہوتی ہے خصوصاً جب کہ وہ اعزازی کارکن ہوں، وہ اور ان کے دوست خیال کرتے ہیں کہ ایسے موقعہ پر صرف اظہار ندامت کافی ہو نا چاہئے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے کاموں میں اپنے دماغوں کو پوری طرح نہیں لڑاتے اور آہستہ آہستہ قوم کے ذہن کند ہوتے چلے جاتے ہیں.اگر وہ ان کاموں میں سزا کو ضروری قرار دیتے تو ضرور احتیاط سے کام کرنے کے عادی ہو جاتے اور ذہن تیز ہوتے جاتے.میں نے دیکھا ہے کہ جب کسی سے غلطی ہو اور اسے سزا دینے کی تجویز ہو تو بڑے بڑے لوگ فورا اس کی سفارشیں لے کر میرے پاس پہنچ جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اللہ تعالی سے زیادہ کون رحیم ہے مگر وہ بھی ایسے موقعہ پر سزا دیتا ہے.ذرا غور تو کرو اگر یہ اصول درست ہو اور قیامت کے دن بھی ایسا ہی ہو تو قرآن کریم میں جو کچھ آخرت کے متعلق آیا ہے وہ کس طرح مضحکہ انگیز طور پر ایک تماشہ بن جائے مثلاً اگر فرعون کی سزا ملنے لگے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کھڑے ہو کر کہیں کہ حضور اس سے غلطی ہو گئی ہے.اب یہ معافی طلب کرتا ہے اسے اب معاف کر دیا جائے تو کیا خد اتعالیٰ اسے معاف کر دے گا اور کیا اس قسم کی معافی اس روحانیت کی تکمیل کا موجب ہو گی جو اللہ تعالی پیدا کرنا چاہتا ہے یا مثلا جب ابو جہل کو سزا ملنے لگے تو رقعوں کا ڈھیر خدا تعالیٰ کے سامنے لگ جائے اور پندرہ میں محضر نامے پیش ہو جائیں جن پر لوگوں کی طرف سے یہ درخواست ہو کہ اسے معاف کیا جائے تو کیا خد اتعالیٰ اسے معاف کر دے گا ؟ اگر اس قسم کے رقعے آنے لگیں تو پھر تو خداتعالی کے گا جب سب فیصلے تم نے خود ہی کرنے ہیں تو میں کس لئے یہاں بیٹھا ہوں.اٹھاؤ دوزخ اور سب کو معاف کرو.پس اگر خداتعالی کا کسی سز ابلا اور عذاب نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے لئے رحمت کا خزانہ ہے کو سزا دینا ظلم نہیں اور کسی کا کوئی حق نہیں کہ اس کے سامنے سفارش کرے تو کیا میں یا تم خدا تعالٰی سے زیادہ رحم اپنے اندر رکھتے ہیں کہ ہم سزا کو ایک بلا اور عذاب تصور کرتے ہیں.یہ یقینا دماغ کی کمزوری اور ذہانت کی کمی کی علامت ہے اور یہ یقینا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم سمجھتے ہی نہیں کہ سزا کیوں مقرر کی گئی ہے.سزا ایک بہت بڑے فائدہ کی چیز
161 ہے.سزا بنی نوع انسان کے لئے ایک رحمت کا خزانہ ہے.اگر یہ فائدہ کی چیز نہ ہوتی تو ہمارا خدا کبھی ملک یوم الدین نہ بنتا.ہمارا خدا کبھی تہار نہ بنتا.وہ صرف رحیم اور کریم ہی ہو تا مگر وہ رحیم اور کریم ہی نہیں بلکہ شدید العقاب اور شديد البطش بھی ہے.پھر کیا تم سمجھتے ہو کہ صرف میں منصف ہوں یا تم منصف ہو لیکن ہمارا خد ا ظالم ہے کیونکہ وہ بنی نوع انسان کو سزا بھی دیتا ہے.اس سے زیادہ بے حیائی کا عقیدہ اور کون سا ہو سکتا ہے اور اس سے زیادہ بے ہودہ بات اور کیا ہو سکتی ہے.پس یقیناً مجرم کو سزا دینا ضروری ہے.یقیناً سزا کے بعد قوم ترقی کرتی ہے اور یقینا سزا کے بغیر صحیح ذہانت پیدا نہیں ہوتی.جب کسی کو علم ہو کہ اگر میں نے فلاں کام خراب کیا تو مجھے سزا ملے گی تو وہ اپنے دماغ پر زور ڈال کر ہوش سے کام کرے گا تاکہ اسے سزا نہ ملے اور جب وہ ہوش سے کام لے گا تو وہ سزا سے بچ جائے گا اور اس کا ذہن بھی تیز ہو جائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ذہانت پیدا کرنے کا ذہانت پیدا کرنے کے دو اہم ذریعے (۱) محبت (۲) سزا پہلا ذریعہ محبت ہے چنانچہ دیکھ لو ماں کسی طرح ہر وقت اپنے بچہ کا فکر رکھتی ہے.اس کا یہ فکر ہی اس کی ذہانت کا موجب ہے.فرق صرف یہ ہے کہ اس کی ذہانت محدود ہوتی ہے اور ذہین شخص کی ذہانت وسیع ہوتی ہے ورنہ بیوقوف شخص بھی بعض دفعہ ایسے معاملہ میں آکر بڑا ذہین بن جاتا ہے جس میں اس کا ذاتی فائدہ ہوتا ہے لیکن وہ ذہین نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس کی ذہانت محدود اور وقتی ہوتی ہے اسی طرح ماں بھی اپنے بچہ کے متعلق برای ذہانت سے کام لیتی ہے اور اس کی ہر ضرورت کا فکر رکھتی ہے لیکن اس کی یہ ذہانت محدود ہوتی ہے.بہر حال ذہانت یا محبت سے پیدا ہوتی ہے یا خوف سے پیدا ہوتی ہے.خوف کے وقت بھی انسانی ذہن خوب تیز ہو جاتا ہے یا پھر تجربہ سے انسانی ذہن تیز ہو جاتا ہے.یہی چند امور جن کا ذہانت کے پیدا کرنے میں بہت بڑا دخل ہے مگر جو محدود ذہانت ہو اس کا کسی خاص پہلو میں تو فائدہ ہو سکتا ہے مگر باقی امور میں نہیں.ایسا شخص کو اپنے فائدہ یا اپنے بچے کے فائدہ کے لئے بڑی ذہانت کا ثبوت دے گا مگر قوم کے لئے وہ مفید نہیں ہو گا کیونکہ اس کی ذہانت محدود ہے.انہی محدود ذہینوں میں سے میں نے ماں کو پیش کیا ہے.وہ عام طور پر اپنے بچہ کے متعلق ایسی ایسی فکر میں رکھتی ہے کہ دوسرے حالات میں ویسی فکر میں انسان کو نہیں سوجھ سکتیں.وہ بعض دفعہ اپنے بچہ کے متعلق اتنا سوچتی ہے کہ کہتی ہے میں دس سال کے بعد یہ کروں گی اور وہ کروں گی تو اس ذہانت کی محرک محبت ہے.اسی طرح کبھی خوف ذہانت کا محرک ہو جاتا ہے.میں اس وقت جس ذہانت کی طرف توجہ دلا رہا ہوں وہ عام ذہانت ہے.محبت بے شک پہلی چیز ہے جو ذہانت کو پیدا کرتی ہے مگر یہ محبت تو ایمان پہلے ہی پیدا کر رہا ہے اور خصوصاً جب قومی کاموں میں نوجوان حصہ لیں گے اور قومی روح اپنے اندر پیدا کریں گے جس کا پیدا کرنا میں ان کے مقاصد میں سے ایک مقصد قرار دے چکا ہوں تو لازماً محبت بھی پیدا ہوگی اور محبت کے نتیجہ میں جو ذہانت پیدا ہوتی ہے وہ بھی ان میں رونما ہو گی مگر دوسرا حصہ ذہانت کا سزا سے مکمل ہوتا ہے.
162 خدام الاحمدیہ کے ارکان مفوضہ فرائض میں غفلت یا کوتاہی پر سزا برداشت کرنے کا عمد اسی لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ خدام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ہر ممبر سے یہ اقرار لیں کہ اگر کریں اس نے اپنے مفوضہ فرائض کی ادائیگی میں غفلت یا کو تاہی سے کام لیا تو وہ ہر سزا برداشت کرنے کے لئے تیار رہے گا اور خدام الاحمدیہ کے ممبران کا فرض ہے کہ وہ خود اس کے لئے سزا تجویز کریں.اگر وہ سزا بھگتنے کے لئے تیار نہ ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ خدام الاحمدیہ میں شامل رہنے کے قابل نہیں اور اگر وہ سزا بھگت لے گا تو یقینا وہ اگلی دفعہ پہلے سے زیادہ اچھا کام کرے گا.اگر کوئی اس پر معترض ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ کیوں سزا دی جاتی ہے تو اسے کہنا چاہئے کہ کیوں اس نے محبت کے جذبہ کے ماتحت پہلے ہی کام ٹھیک نہ کیا.اگر وہ محبت کامل سے کام لیتا تو اس کے کام میں کوئی خرابی پیدا نہ ہوتی اور اسے سزا بھی نہ ملتی مگر جب محبت والا ذریعہ اس نے چھوڑ دیا اور محبت کی کتاب سے اس نے سبق نہیں لیا تو اب ضروری ہے کہ اسے سزا کی کتاب سے سبق دیا جائے.بہر حال اگر وہ سبق قیمتی ہے جس کے سیکھنے کے لئے وہ اس مجلس میں شامل ہوا تھا تو جائز ذریعہ بھی اس کے لئے اختیار کیا جائے“ وہ اچھا ہے اور اگر سبق اچھا نہیں تو پھر اس کے لئے کسی قربانی کی ضرورت نہیں خواہ وہ کس قدر معمولی اور حقیر کیوں نہ ہو.تو خدام الاحمدیہ کو نو جوانوں کے اندر ذہانت پیدا کرنی چاہئے.میں ذہانت پیدا کرنے کے ذرائع بتانے کے لئے ہر وقت تیار ہوں.صرف ایک بات ہے جس کے لئے انہیں تیار رہنا چاہئے اور وہ یہ کہ جب کسی سے کوئی قصور سرزد ہو تو وہ اس سزا کو برداشت کرنے کے لئے ہر وقت آمادہ رہے کیونکہ اس کے بغیر کبھی ذہانت پیدا نہیں ہو سکتی.جب یہ ذہانت کسی انسان کے اندر پیدا ہو جائے تو پھر اس کا علم اور ترقی کرتا ہے اور جب انسان بہت زیادہ ذہین ہو جاتا ہے تو اس کا علم لدنی بڑھنے لگتا ہے.کتابی علم صرف کتابیں پڑھنے سے بڑھتا ہے مگر لدنی علم ذہانت سے بڑھتا ہے.جس طرح ذہین آدمی اگلے شخص کی ہر بات سے صحیح نتیجہ نکالتا ہے اسی لدنی علم ذہانت سے بڑھتا ہے طرح جس شخص کا ذہانت کے بعد علم لدنی بڑھنے لگتا ہے وہ خداتعالی کے ارادہ اور اس کی منشاء کو اس کی صفات سے پہچان جاتا ہے.وہ زمین کو دیکھ کر وہ آسمان پر نظر دوڑا کر وہ پہاڑوں کی طرف نگاہ اٹھا کر وہ ذرے ذرے اور بات بات کو دیکھ کر فورا تا ڑ جاتا ہے الہی منشاء کیا ہے اور رفتہ رفتہ ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کی دعا ئیں بہت زیادہ قبول ہونے لگتی ہیں اور گو خدا تعالی کے لئے تو اس لفظ کا استعمال مناسب نہیں مگر انسانی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا مزاج دان ہو جاتا ہے.جس طرح وہ شخص جو کسی دوسرے کا مزاج دان ہوتا ہے ، اس سے بہت جلد اپنی بات منوا لیتا ہے اسی طرح یہ بھی خدا تعالیٰ کا مزاج دان ہو جانے کی وجہ سے اس سے وہ باتیں منوا لیتا ہے جو دوسرے لوگ منوا نہیں سکتے.
163 دیکھو میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ دعا کرتے وقت صفات الہیہ کو مد نظر رکھنا چاہئے اور جس قسم کی دعا کی جائے ، اس قسم کی صفات الہیہ کو جنبش میں لانے کی کوشش کی جائے مگر میں نے ایک شخص کو ایک دفعہ دیکھا وہ دعا کر رہا تھا.اس قدر سوز اور اس قدر تضرع سے کہ اس کے آنسو بہہ رہے تھے اور اس کا جسم کانپ رہا تھا مگر وہ دعا یہ کر رہا تھا کہ اے رحیم و کریم تو میرے فلاں دشمن کو تباہ کر دے.اب بتاؤ رحیم و کریم کسی دشمن کو کیوں تباہ کرنے لگا.وہ تو جب بھی یہ سنے گا کہ اے رحیم و کریم فلاں دشمن کو ہلاک کر دے تو وہ کہے گا میں تو رحیم و کریم ہوں میں اسے معاف کرتا ہوں.تو اس قسم کی دعامانگنا اللہ تعالیٰ کی مزاج دانی کے خلاف ہے کہ خدا کی اس صفات کو حرکت میں لانا جو لوگوں پر رحم کرنے والی ہے اور کہنا یہ کہ وہ دوسرے کو عذاب دے.کیا جب کسی نے کسی دوسرے شخص کے بچہ کو باپ سے سزا دلوانی ہو تو وہ اس سے جاگر یہ کہا کرتا ہے کہ آپ کے بچے نے فلاں قصور کیا ہے، اسے سزا دیں یا وہ یہ کہا کرتا ہے کہ اپنے پیارے بچے کو تھپڑ مار دیں.وہ تو جب کہے گا کہ اے مہربان باپ اپنے پیارے بچے کو تھپڑ مار دیں تو اس کا باپ بجائے اسے مارنے کے اسے پیار کرنے لگ جائے گا کیونکہ اس نے پیار کے جذبہ کو برانگیختہ کرنے والے الفاظ کا استعمال کیا ہے.ذہانت کی بدولت انسان ایسے مقام پر پہنچتا ہے جب اس کی دعائیں دو بسروں کی نسبت تو ذہانت کی وجہ سے ہی انسان دنیا میں ترقی کرتا ہے ' ذہانت کی وجہ سے ہی انسان اس زیادہ قبول ہوتی ہیں مقام پر پہنچتا ہے جب اس کی دعائیں دوسروں کی نسبت زیادہ قبول ہونے لگتی ہیں اور ذہانت کی وجہ سے ہی اگر ہم انسانی اصطلاح استعمال کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا تعالی کا مزاج دان ہو جاتا ہے اور اس طرح وہ ہر روز اپنے علم اور اپنے عرفان میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے.اس کے ساتھ ہی میں ایک اور بات بھی کہہ دینا چاہتا ہوں مگر میں اسے لمبا نہیں کروں گا بلکہ مختصر الفاظ میں ہی اس کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں اور وہ یہ کہ خدام الاحمدیہ کا ساتواں فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر استقلال پیدا کرنے کی کوشش کریں.استقلال اس بات کو کہا جاتا ہے کہ کسی کام کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے انسان برابر اپنے کام میں لگا ر ہے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمارے سپرد جو کام کیا گیا.ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیوں ہمارے سپرد کیا گیا ہے حالانکہ استقلال کے معنے ہی یہ ہیں کہ انسان جس کام پر مقرر کیا جائے خواہ اس کام کی غرض اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے اسے کرتا چلا جائے.اس مادہ کو بھی خدام الاحمدیہ مختلف تجارب سے بڑھا سکتے ہیں مثلاً روزانہ یا ہفتہ وار خدام الاحمدیہ کی حاضری لیں اور جو نہ آئیں یا کبھی آجائیں اور کبھی نہ آئیں ان کے نام نوٹ کریں اور سمجھ لیں کہ ان میں استقلال کا مادہ نہیں.پھر ان غیر مستقل مزاج ممبروں کو توجہ دلاؤ کہ اپنے نقص کو رفع کریں اور اپنے اندر استقلال پیدا کریں اور جب دیکھیں کہ وہ پھر بھی توجہ نہیں کرتے تو اپنے
164 افسروں کے پاس ان کی شکایت کریں.وہاں بھی اگر اصلاح نہ ہو تو پھر ان سے اعلیٰ افسروں کے پاس اور پھر ان سے اعلیٰ افسروں کے پاس یہاں تک کہ ہوتے ہوتے خلیفہ وقت کے سامنے بھی ان کے ناموں کو رکھا جا سکتا ہے مگر ضروری ہے کہ پہلے خود ان کا علاج سوچا جائے اور ان سے عدم استقلال کا مرض دور کرنے کے لئے کوئی مناسب تجویز کی جائے مثلاً ایک علاج یہی ہو سکتا ہے کہ روزانہ کوئی کام انہیں کرنے کے لئے دیا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ وہ با قاعدہ اس کام کو کرتے ہیں یا نہیں.یہ ضروری ہے کہ وہ کام ایسا ہو جو سب کو نظر آتا ہوں خواہ کتناہی حقیر نظر آنے والا کیوں نہ ہو مثلا یہ کام بھی ہو سکتا ہے کہ اسے کہہ دیا جائے کہ روزانہ دس بجے اپنے گھر سے باہر نکل کر پانچ منٹ اپنے مکان کا پہرہ دے.بظاہر یہ ایک بیوقوفی کی بات دکھائی دے گی مگر تمہیں تجربہ کے بعد معلوم ہو جائے گا کہ اس بظاہر بیوقوفی والی بات پر عمل کرنے کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ اس میں استقلال کی عادت پیدا ہو جائے گی اور در حقیقت کسی ایک کام کا بھی باقاعدگی کے ساتھ کرنا انسان کے اندر استقلال کا مادہ پیدا کر دیتا ہے.ہم پانچ وقت جو روزانہ باجماعت نماز استقلال کا مادہ پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے نمازیں پڑھتے ہیں یہ بھی استقلال پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں.اسی لئے میں یہ کہا کرتا ہوں کہ جس نے ایک نماز بھی چھوڑی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے سب نمازیں چھوڑ دیں مگر جو شخص پانچوں وقت کی نماز میں با قاعدہ پڑھنے کا عادی ہے اس کی طبیعت میں ایک حد تک ضرور استقلال پایا جاتا ہے.مگر جو شخص دس سال کے بعد بھی ایک نماز چھوڑ دیتا ہے وہ عدم استقلال کا مریض ہے.پس اپنے اندر استقلال پیدا کرنے کی کوشش کرو چاہے کسی چھوٹی سی چھوٹی بات پر مداومت کے ذریعہ کیوں نہ ہو.تم کہہ سکتے ہو کہ جب کوئی شخص نماز پڑھتا ہے تو ہمیں کوئی اور ایسا کام اس کے سپرد کرنے کی کیا ضرورت ہے جو استقلال پیدا کرنے والا ہو مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ تم اس کی نمازوں کی نگرانی نہیں کر سکتے لیکن جو کام تم اس کے سپرد کرو گے اس کی نگرانی تم ضرور کرو گے.پھر ممکن ہے وہ نمازیں پڑھتا ہی نہ ہو یا پانچ میں سے تین نمازیں پڑھتا ہو اور دو چھوڑ دیتا ہو یا چار پڑھتا ہو اور ایک چھو ڑ دیتا ہے یا مہینہ میں سے کوئی ایک نماز چھوڑ دیتا ہو تو اس بات کا تمہیں پتہ نہیں لگ سکتا کہ وہ نمازوں میں با قاعدہ ہے یا نہیں کیونکہ وہ ذاتی عبادت ہے اور ذاتی عبادت کی دوسرا شخص مکمل نگرانی نہیں کر سکتا لیکن وہ حکم جو تم خود دوسرے کو دو گے اس کی نگرانی بھی کرو گے اور اس طرح اس کے اندر استقلال کا مادہ پیدا ہو تا چلا جائے گا.میں اس کے لئے بھی مناسب قواعد تجویز کر کے خدام استقلال کا مادہ پیدا کرنے کی مختلف تدابیر الاحمدیہ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوں.انہیں چاہئے کہ وہ ان تمام باتوں کو جو خطبات میں میں نے بیان کی ہیں بار بار لیکچروں کے ذریعہ خدام الاحمدیہ کے سامنے دہراتے رہیں.کبھی دیکھا کہ کوئی شخص استقلال اپنے اندر نہیں رکھتا تو اس کو استقلال پر لیکچر دینے کے لئے
165 کہہ دیا.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے نفس میں شرمندگی پیدا ہوگی اور وہ آئندہ کے لئے اس نقص کو دور کرنے کی کوشش کرے گا یا دوسرے لوگ جن کی زبانوں میں اللہ تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے ان سے لیکچر دلائے جائیں.پس لیکچروں کے ذریعہ سے حاضری لگانے کے ذریعہ سے اپنی سوسائٹی میں بار بار ایسے ریزولیوشنز پاس کرنے کے ذریعہ سے ، نگرانی کے ذریعہ سے اور ایسے کام دینے کے ذریعہ سے جن کو روزانہ با قاعدگی کے ساتھ کرنا پڑے نوجوانوں کے اندر استقلال کا مادہ پیدا کیا جا سکتا ہے اور میں خدام الاحمدیہ کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں.میں باوجود اس کے کہ کئی خطبات پڑھ چکا ہوں، ابھی تک وہ باتیں ختم نہیں ہو ئیں جو خدام الاحمدیہ کے میں ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں.اب تک میں سات فرائض کی طرف خدام الاحمدیہ کو توجہ دلا چکا ہوں اور دو باتیں ابھی رہتی ہیں.انہیں انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ میں بیان کروں گا.اب میں خدام الاحمدیہ سے صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ باتیں تو بہت کچھ بیان ہو چکی ہیں ، اب انہیں کوئی عملی قدم بھی اٹھانا چاہئے.میرا خیال تھا کہ میں جلدی ہی تمام باتیں بیان کر لوں گا مگر خطبے بہت لمبے ہو گئے ہیں.ان خطبوں کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ بعض دفعہ پچھلی باتیں انسان بھول جاتا ہے اور جب ان کی طرف توجہ کرتا ہے تو پہلی باتیں ان کے ذہن سے اتر جاتی ہیں.پس اب جس قدر جلدی ہو سکے کام کو عملی رنگ میں شروع کر دینا چاہئے کیونکہ تازہ بتازہ علم انسان جلد استعمال کر لیتا ہے اور جس قدر پرانا ہو جائے اتنا ہی اس پر عمل کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کا مددگار ہو".(خطبه جمعه فرموده ۳ مارچ ۱۹۳۹ء مطبوعه الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۳۹ء)
راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو ہو فضل تیرا یا یا کوئی ابتلا ہو راضی ہیں ہیں ہم اس میں جس میں تری رضا ہو جاؤں میں تو اس کی پروا نہیں ہے کچھ بھی میری فنا حاصل دین ہو میں جوش غیرت اور آنکھ میں حیا ہو ہو ذکر تیرا دل میں تری وفا ہو شیطان کی حکومت جائے اس جہاں حاکم تمام دنیا میرا مصطفى ہو میری کٹ جائے کاش یونہی روح میری مجده میں سامنے خدا ہو 888888
167 خدام الاحمدیہ کی غرض اس احساس کو اجاگر کرنا ہے کہ وہ احمدیت کے خادم ہیں تم دنیا میں ایک خدا انما وجود بنو یاد رکھو آرام سے زندگی بسر کرنے والوں کے لئے احمدیت میں کوئی جگہ نہیں تم کو خدا نے ایک عظیم الشان کام کے لئے پیدا کیا ہے مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ تم بچے بہادر بن جاؤ سچا بہادر وہ ہے جو جرأت سے غلطی کا اقرار کرے اور جھوٹ نہ ہوئے اور مظالم کے بالمقابل صبر کرے ( تقریر بر موقعه سالانہ اجتماع ۶ فروری ۱۹۴۱ء)
168 آج میں اپنے گزشتہ خطبات کے سلسلہ میں خدام الاحمدیہ کے قریب کے پروگرام کے متعلق دو اور ضروری امور بیان کرتا ہوں.سات امر میں پہلے بیان کر چکا ہوں.آٹھواں امر یہ ہے کہ انسانی صحت دماغ پر خاص اثر کرتی ہے.ہزاروں کام دنیا جسمانی صحت کا دماغی صحت سے گہرا تعلق کے ایسے ہیں جو صحت جسمانی سے تعلق رکھتے ہیں گو وہ دین کا حصہ نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خالص دماغی کام انسان چار پائی پر لیٹے ہوئے بھی کر سکتا ہے لیکن بعض قسم کی صحت کی خرابی دماغ کے اندر بھی خرابی پیدا کر دیتی ہے.ہر انسان ایسا نہیں ہو تاکہ بیماری کی حالت میں بھی اس کا دماغ کام کر رہا ہو.یہ ایک بار یک مضمون ہے اور اس کے بیان کا یہاں موقع نہیں.حقیقت یہ ہے کہ جو حقیقی صحت ہوتی ہے وہ جسم کے اعضاء کی بیماریوں کے ساتھ اتنا تعلق نہیں رکھتی جس قدر کہ اس کی اندرونی طاقتوں کے ساتھ.انسانی جسم کی طاقت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک اعضاء کی ظاہری بیماری اور ایک جسم کی قوت برداشت یا حقیقی صحت.کبھی کبھی یہ قوت برداشت قدرتی طور پر اتنی زبر دست ہوتی ہے کہ ظاہری بیماریاں آکر بھی اسے توڑ نہیں سکتیں.ایسی صورت میں انسانی دماغ ہر حالت میں کام کر سکتا ہے مگر بعض حالات میں قوت برداشت بھی کمزور ہوتی ہے اور ظاہری عوارض بھی لگے ہوتے ہیں.ایسا انسان بیماری کے ساتھ دماغی قابلیت بھی کھو تا چلا جاتا ہے.عام قانون یہی ہے کہ جو اوسط درجہ کی قوت برداشت کا انسان ہو ، اس کی خرابی صحت کے ساتھ دماغ پر برا اثر ضرور پڑتا ہے.کم سے کم ستی کسل اور ہمت کی کمی ضرور پیدا ہو جاتی ہے اور کسل اور سستی اور ہمت کی کمی بھی ایسے امور ہیں کہ اگر کسی قوم میں پیدا ہو جائیں تو خطرناک نتائج ظاہر ہونے لگتے ہیں.یہ بات ظاہر ہی ہے کہ خواہ قوت برداشت کیسی ہو بیماری میں انسان بعض کام نہیں کر سکتا مثلا اگر نظر کمزور ہو تو خواہ دماغی قابلیت کتنی ہی زبر دست کیوں نہ ہو ، انسان لڑائی کے قابل نہیں ہوتا اور وہ فوج میں بھرتی کے لئے موزوں نہیں سمجھا جاتا کیونکہ فوج کے لئے جس قسم کی قوت کی ضرورت ہے ، وہ اسے حاصل نہیں ہوتی اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا خصوصاً بچپن میں لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے.ورزشوں کی عادت جو ڈالی جاتی ہے وہ اس لئے ہوتی ہے کہ انسان کے جسم میں چستی اور ورزش کے فوائد پھرتی پیدا ہو اور اس کے اعضاء درست رہیں اور اس کی ہمت بڑھے.ورزش سے پسینہ آتا ہے جس سے بہت سے زہر دور ہوتے ہیں اور اس لئے ورزش کو نظر انداز کر کے کلی طور پر بچہ کو دماغی کام میں لگانا دماغ کو کمزور کرنے کا موجب ہوتا ہے.بچپن میں کھیل کود اور ورزش انسان کی فطرت میں اس لئے رکھی گئی ہے تاکہ اس کی جسمانی قوت برداشت بڑھ جائے.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ الصَّبِيُّ صَبى ولو كان لا یعنی بچہ بچہ ہی ہے خواہ وہ آئندہ نبی ہونے والا ہو.بے شک وہ چند سالوں کے بعد نبی بن جائے گا مگر بچپن کی حالت میں اس کی خواہشات ضرور ایسی ہی ہوں گی جو بچپن سے مناسبت رکھتی ہوں
169 گی.وہ کھیلے گا بھی کو دے گا بھی اور ان تمام حالات سے گزرے گا جن میں سے بچے عام طور پر گزرتے ہیں.بچپن کی حالت کے لئے جو لوازم مخصوص ہیں کوئی بچہ خواہ بڑا ہو کر نبی ہونے والا ہو ، وہ بھی ان میں سے ضرور گزرے گا اور اس کی یہ حالت بعد کی زندگی میں اس کے لئے کسی اعتراض کا موجب نہیں ہو سکتی.پس اس عمر میں ورزش کے ذریعہ بچہ کی تربیت اشد ضروری ہوتی ہے اور اسے کلی طور پر دماغی کام میں لگا دینا خطر ناک ہو تا ہے.اس زمانہ میں اس کی صحیح تربیت کا طریق وہی ہے جو اسے کھیل کو د سکھائے.پہلے تو جب وہ بہت چھوٹا ہو بچپن میں تعلیم کا ایک بہترین ذریعہ سبق آموز کہانیاں بھی ہیں کہانیوں کے ذریعہ اس کی تربیت ضروری ہوتی ہے.بڑے آدمی کے لئے تو خالی وعظ کافی ہوتا ہے لیکن بچپن میں دلچسپی قائم رکھنے کے لئے کہانیاں ضروری ہوتی ہیں.یہ ضروری نہیں کہ وہ کہانیاں جھوٹی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں کہانیاں سنایا کرتے تھے.کبھی حضرت یوسف کا قصہ بیان فرماتے.کبھی حضرت نوح کا قصہ سناتے اور کبھی حضرت موسیٰ کا واقعہ بیان فرماتے مگر ہمارے لئے وہ کہانیاں ہی ہوتی تھیں گو وہ تھے کچے واقعات.ایک حاسد و محسود کا قصہ الف لیلہ میں ہے وہ بھی سنایا کرتے تھے.وہ سچا ہے یا جھوٹا بہر حال اس میں ایک مفید سبق ہے.اسی طرح ہم نے کئی ضرب الامثال جو کہانیوں سے تعلق رکھتی ہیں ، آپ سے سنی ہیں.پس بچپن میں تعلیم کا بہترین ذریعہ کہانیاں ہیں.گو بعض کہانیاں بے معنی اور بیہودہ ہوتی ہیں مگر مفید اخلاق سکھانے والی اور سبق آموز کہانیاں بھی ہیں اور جب بچہ کی عمر بہت چھوٹی ہو تو اس طریق پر اسے تعلیم دی جاتی ہے.پھر جب وہ ذرا ترقی کرے تو اس کے لئے تعلیم و تربیت کی بہترین چیز کھیلیں ہیں.کتابوں کے ساتھ جن چیزوں کا علم دیا جاتا ہے کھیلوں سے عملی طور پر رہی تعلیم دی جاتی ہے مگر کہانیوں کا زمانہ کھیل سے نیچے کا زمانہ ہے لیکن کوئی عقلمند کبھی یہ پسند نہیں کر تاکہ اس کے بچوں کو کہانیاں سنانا یا کہانیاں بتانا کلی طور پر کسی جاہل کے سپرد کر دیا جائے یا بچوں ہی کے سپرد کر دیا جائے بلکہ اس کام پر ہر قوم کے بڑے بڑے ماہرین فن لگے رہتے ہیں.دنیا کے بہترین مصنف جو لاکھوں روپے سالانہ کماتے ہیں وہ کہانیاں ہی لکھتے ہیں گو اب بہت سی کہانیاں بڑے لوگوں کو مد نظر رکھ کر لکھی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کہانیاں اگر بڑے لوگوں کے لئے ہوں تو وہ بھی بچپن ہی سے تعلق رکھتی ہیں کیونکہ در حقیقت وہ انسان کی بچپن کی حالت سے ہی تعلق رکھتی ہیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان پر بڑی عمر میں بھی بچپن کے زمانہ کے دورے آتے رہتے ہیں اور اسی وقت وہ کہانیوں کی طرف راغب ہوتا ہے یعنی اس کا دماغ تھک کر سنجیدہ اور مشکل طریق پر دنیا سے سبق حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتا اور اس وقت وہ چاہتا ہے کہ کہانیوں کے ذریعہ سے دنیا کے تجارب اور علوم حاصل کرے.پس وہ بھی بچپن کے مشابہ ایک حالت ہے اور اس کام کے لئے قوموں کے بہترین دماغ لگے رہتے ہیں اور یہ کافی نہیں سمجھا جانا کہ کم علم اور جاہل لوگ اس کام کو کریں لیکن تعجب ہے کہ اس کے بعد کے زمانہ کی تعلیم کے
170 انتظام کے لئے جو کھیل کا زمانہ ہے اور جس میں کھیل کے ذریعہ علم کا سکھانا ضروری ہوتا ہے اور اس عمر کے لئے جب بچہ علم کی سب سے مضبوط بنیاد قائم کر رہا ہوتا ہے، ایسے جاہلوں پر بچوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے جو انسانی فطرت کا مطالعہ کرنے کی قابلیت ہی نہیں رکھتے.یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنے بچہ کے لئے جب وہ بہت چھوٹی عمر کا ہو اعلیٰ درجہ کے درزی سے سوٹ سلوائے مگر جب وہ بڑا ہو کر سوسائٹی میں ملنے جلنے لگے تو اس کے لئے کپڑے کسی گاؤں کی در زن سے سلوائے حالانکہ چھوٹا بچہ تو جیسے بھی کپڑے پہن لے کوئی حرج نہیں ہو تا لیکن بڑا ہو کر کپڑوں کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے.بعض پابندیاں بڑے آدمیوں کے لباس کے لئے قانون کی طرف سے ہوتی ہے.بعض اصول صحت کی طرف سے اور بعض سوسائٹی کی طرف سے اور وہ ان کا خیال رکھنے کے لئے مجبور ہوتا ہے مگر کس قدر عجیب بات ہو گی کہ اس زمانہ کا لباس تو کسی اناڑی کے سپرد کر دیا جائے مگر جب وہ بہت چھوٹا بچہ ہو تو اس کے لئے اعلیٰ درجہ کے درزی سے سوٹ سلوائے جائیں.بچپن کے زمانہ میں پہلا زمانہ وہ ہوتا ہے جب بچے کو کہانیوں کے ذریعہ دلچسپی پیدا کی جاتی اور تعلیم دی جاتی ہے.اس زمانہ کے متعلق دنیا کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کی دماغی قابلیت رکھنے والوں کے سپرد یہ کام ہونا چاہئے اور اس بات کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور اس بات کو نہایت ضروری اور مناسب سمجھتے ہیں کہ کہانیوں کو ایسے رنگ میں بچہ کے سامنے پیش کیا جائے کہ جس سے وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے.اسے ایسی کہانیاں سنائی جائیں جو اس کے اخلاق کو بلند ، نظر کو وسیع اور اس کے اندر ہمت پیدا کرنے والی ہوں اور اس کے اندر قومی ہمدردی کا مادہ پیدا کریں مگر اس کے بعد کا زمانہ جو زیادہ اہم ہوتا ہے اور جو کھیل کود کا زمانہ ہے، حیرت ہے کہ بنی نوع نے اس کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس ہی نہیں کیا کہ وہ بھی اسی طرح اعلیٰ درجہ کے لوگوں کی نگرانی میں ہونا چاہئے.کہانیوں کے متعلق تو یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کے بچوں کی زندگی میں کھیل کود کی اہمیت دماغوں اور فاضل لوگوں کی تیار کردہ ہوں اور ایسے رنگ کی ہوں کہ جس سے بچوں کو فائدہ پہنچے مگر کھیل کے زمانہ کا کوئی خیال ہی نہیں رکھا جا تا اور یہ کہ دیا جاتا ہے کہ یہ کھیل کو د بچوں کا کام ہے ، بڑوں کا اس میں دلچسپی لینا مناسب نہیں حالانکہ اگر کھیل کو د بچوں کا کام ہے تو کہانیاں بھی تو بچوں سے ہی تعلق رکھتی ہیں.پھر جب ابتدائی عمر کی کھیل یعنی کہانیوں کے متعلق احتیاط کی جاتی ہے تو کیوں بڑی عمر کی کھیل میں اس سے زیادہ احتیاط نہ برتی جائے.اس زمانہ میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ تو کہانیوں کے زمانہ سے بہت زیادہ اہم ہوتی ہے.پس میں خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ بچوں کسی قسم کی کھیل اعلیٰ تعلیم بن جاتی ہے کے کھیل کود کے زمانہ کو وہ زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کریں اور کوشش کریں کہ کھیلیں ایسی ہوں کہ جو نہ صرف جسمانی قوتوں کو بلکہ ذہنی قوتوں کو
171 بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں اور آئندہ زندگی میں بھی بچہ ان سے فائدہ اٹھا سکے.ان میں تین باتوں کا خیال رکھا جائے.ایک تو جسم کو فائدہ پہنچے.دوسرے ذہن کو فائدہ پہنچے اور تیسرے وہ آئندہ زندگی میں ان کے کام آسکیں.جس کھیل میں یہ تینوں باتیں ہوں گی وہ کھیل کھیل ہی نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم بھی ہوگی اور وہ طالب علم کے لئے ایسی ہی ضروری ہوں گی جیسی کتابیں.جب میں کہتا ہوں کہ کھیلیں ایسی ہوں جو ذہنی تربیت کے لئے مفید ہوں تو میرا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ بچوں کی دلچسپی بھی قائم رہے.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ایک فلسفہ بن جائے اور بچوں کو زبر دستی کھلانی پڑیں.ایسی کھیل ذہنی نشو و نما کا موجب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی جسم اس سے پورا فائدہ اٹھا سکتا ہے.میں نے بارہا اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ یہ کام نہایت آسانی سے کیا جا سکتا ہے اور ورزش کے شعبہ کو مفید بلکہ مفید ترین بنایا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس میں تین باتوں کا خیال رکھا جائے.ایک تو یہ کہ وہ آئندہ زندگی میں بھی مفید ثابت ہونے والی ہوں.نہ صرف بچپن میں بلکہ بڑے ہو کر بھی فائدہ دینے والی ہوں.بچپن میں کھیل کا جو فائدہ ہوتا ہے وہ بھی حاصل ہو.جسم بھی مضبوط ہو اور ذہن بھی ترقی کرے.بچپن میں جو کہانیاں بچوں کو سنائی جاتی ہیں ان کا مقصد ایک تو یہ ہو تا ہے کہ بچہ شور نہ کرے اور ماں باپ کا وقت ضائع نہ کرے لیکن اگر وہ کہانیاں ایسی ہوں جو آئندہ زندگی میں بھی فائدہ دیں تو یہ کتنی اچھی بات ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں کہانیاں سنایا کرتے تھے.کہانیاں سنانے کا جو فائدہ اس وقت ہو تا ہے وہ بھی ان سے حاصل ہو تا تھا.اگر اس وقت آپ وہ کہانیاں نہ سناتے تو پھر ہم شور مچاتے اور آپ کام نہ کر سکتے.پس یہ ضروری ہو تاکہ ہمیں کہانیاں سنا کر چپ کرایا جاتا اور یہی وجہ تھی کہ رات کے وقت ہماری دلچسپی کو قائم رکھنے کے لئے آپ بھی جب فارغ ہوں، کہانیاں سنایا کرتے تھے تاہم سو جائیں اور آپ کام کر سکیں.بچہ کو کیا پتہ ہو تا ہے کہ اس کے ماں باپ کتنا بڑا کام کر رہے ہیں.اسے تو اگر دلچسپی کا سامان مہیانہ کیا جائے تو وہ شور کرتا ہے اور کہانی سنانے کا مقصد یہ ہو تا ہے کہ بچے سو جاتے ہیں اور ماں باپ عمدگی سے کام کر سکتے ہیں اور کہانیوں کی یہ ضرورت ایسی ہے جسے سب نے تسلیم کیا ہے گو وہ عارضی ضرورت ہوتی ہے.اس وقت اس کافائدہ صرف اتنا ہو تا ہے کہ بچہ کو ایسی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ محو ہو کر سو جاتا ہے.ماں باپ کا مقصد یہ ہو تا ہے کہ ہمارا اوقت ضائع نہ ہو اس لئے وہ اسے لٹا کر کہانیاں سناتے ہیں یا ان میں سے ایک اسے ملاتا ہے اور دوسرا کام میں لگا رہتا ہے یا پھر ایک سناتا ہے اور باقی خاندان آرام سے کام کرتا ہے.اگر اس وقت فضول اور لغو کہانیاں بھی سنائی جائیں تو یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے مگر ہم اس پر خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ایسی کہانیاں اسے سنائیں کہ اس وقت بھی فائدہ ہو یعنی ہمارا وقت بچ جائے اور پھر وہ آئندہ عمر میں بھی اسے فائدہ پہنچائیں اور جب کہانیوں کے متعلق یہ کوشش کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کھیل کے معاملہ میں بچوں کو یونہی چھوڑ دیں کہ جس طرح چاہیں ، کھیلیں.اگر یہ طریق کھیلوں کے متعلق درست ہے تو کہانیوں کے متعلق کیوں اسے اختیار نہیں کیا جاتا اور کیوں نہیں بچوں کو چھوڑ دیا جاتا کہ جیسی کہانیاں ہوں سن لیں.جب کہانیوں کے متعلق ہمارا یہ نظریہ ہے کہ وہ ایسی ہوں جو اسے
172 سلا بھی دیں اور عمدہ باتیں بھی سکھائیں تو کھیلوں کے متعلق یہی نظریہ کیوں پیش نظر نہ رکھا جائے.کیوں نہ بچوں کو ایسی کھیلیں کھلائی جائیں جن سے ان کا جسم بھی مضبوط ہو، ذہن بھی ترقی کرے اور پھر وہ آئندہ زندگی کے لئے سبق آموز بھی ہوں..مثلاً میں نے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر بھی بتایا تھا کہ تیرنا ہے.یہ کھیل کی کھیل ہے.اس تیرا کی کی افادیت میں مقابلے کرائے جائیں تو بہت دلچسپی پیدا ہو سکتی ہے.غوطہ زنی میں لوگ مقابلے کرتے ہیں اور ایسی دلچسپی پیدا ہوتی ہے کہ مقابلہ کرنے والے اس وقت یہی سمجھتے ہیں کہ گویا زندگی کا مقصد یہی ہے.بچوں کے لئے تیرنا بھی ایسی ہی دلچسپی کا موجب ہو سکتا ہے جیسافٹ بال کرکٹ یا ہاکی وغیرہ اور پھر یہ ان کے لئے آئندہ زندگی میں مفید بھی ہو سکتا ہے.کبھی کشتی میں آدمی سفر کر رہا ہو بہشتی ڈوب جائے تو وہ اپنی جان بچا سکتا ہے یا کنارے پر بیٹھا کوئی کام کر رہا ہو اور کوئی ڈوبنے لگے تو اسے بچا سکتا ہے.تو تیر نا صرف اس زمانہ کے لئے کھیل ہی نہیں بلکہ آئندہ زندگی میں اسے فائدہ دینے والی چیز ہے.وہ بحری فوج میں آسانی سے داخل ہو سکتا ہے.جہاز رانی میں اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے گویا یہ تمام عمر میں اسے فائدہ پہنچانے والا ہنر ہے اور اس لئے ایسی کھیل کے بجائے جو صرف بچپن میں کھیل کے ہی کام آئے یہ ایک ایسی کھیل ہے جو ساری عمر اس کے کام کے کام آسکتی ہے.نشانہ بازی تیراندازی اور غلیل چلانا اسی طرح تیراندازی ہے.غلیل چلانا ہے.اس سے ورزش بھی ہوتی ہے.بچے شکار کے لئے باہر جاتے ہیں اور دور نکل جاتے ہیں اور اس طرح تازہ ہوا بھی کھاتے ہیں.بدن بھی مضبوط ہوتا ہے.خلیل چلانے سے جسم میں طاقت آتی ہے.اس کے مقابلے کرائے جاسکتے ہیں کہ کون زیادہ دور تیر پھینکتا ہے یا خلیلہ پھینک سکتا ہے.غلیل جتنی سخت ہو مگر لچکنے والی ہو اتنا ہی خلیلہ زیادہ دور جاتا ہے مگر اسے پچکانے کے لئے طاقت ضروری ہوتی ہے.جتنا کوئی زیادہ مضبوط ہو اتنا ہی زیادہ دور خلیلہ پھینک سکتا ہے کیونکہ وہ اتنا ہی غلیل کو زیادہ کھینچ کر لچکا سکتا ہے.یہ چیز ورزش کا بھی موجب ہے.شکار کے لئے زیادہ چلنا پڑتا ہے.تازہ ہوا کھانے کا بھی موقع ملتا ہے اور پھر یہ ساری عمر کام آتی ہے.خلیل چلانے والا بندوق کا نشانہ بندوق پکڑتے ہی سیکھ سکتا ہے.ہم بچپن میں غلیل چلایا کرتے تھے اور مجھے یاد نہیں کہ کسی نے کبھی مجھے بندوق کا نشانہ سکھایا ہو.پہلی دفعہ شیخ عبدالرحیم صاحب کہیں سے بندوق مانگ کر لائے.میں اس وقت بہت چھوٹا تھا اور وہ پہلا نشانہ تھا.انہوں نے پیچھے سے پکڑ رکھا اور میں نے بندوق چلائی.گو میں خود بھی گر پڑا مگر جس جانور کا نشانہ کیا تھا، وہ بھی گر گیا.ادھر میں گرا اور ادھر وہ.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ جو سپاہیوں میں بھرتی ہوتے ہیں وہ مدتوں اس وجہ سے افسروں کی گھر کیاں کھاتے ہیں کہ ٹھیک نشانہ نہیں کر سکتے اور اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ بچپن میں کوئی ایسا کام نہیں کیا ہو تاکہ نشانہ کی مشق ہو سکے.اگر بچپن میں تیر یا فلیلہ چلانے کی مشق ہو تو جب بھی بندوق چلانے لگیں، فور انشانہ درست ہو سکتا ہے اور پھر اس سے بچپن میں صحت بھی درست
173 ہو سکتی ہے.اچھی ہوا سے تر و تازگی حاصل کر سکتے ہیں.ذہنوں میں بھی روشنی پیدا ہو سکتی ہے اور پھر بڑے ہو کر یہی کھیل ان کے لئے ایک ہنر ثابت ہو سکتا ہے.اسی طرح دوڑنا ہے جو اپنی ذات میں بہت دلچسپ کھیل ہے.اس کے بھی مقابلے دوڑنا ایک مفید ورزش کرائے جاتے ہیں جن سے لاتوں کو بڑا فائدہ ہو تا ہے.لوگ ایسی ورزشیں کرتے ہیں کہ جن سے جسم کا ایک حصہ تو مضبوط ہو تا ہے مگر باقی کمزور ہو جاتے ہیں لیکن دو ڑ نالاتوں کے لئے بھی مفید ہے اور پیٹ کے لئے بھی.جو لوگ دوڑنے کے عادی ہوں ان کا پیٹ نہیں بڑھتا.یہ کھیل بھی ہے اور آئندہ زندگی میں بھی بڑے کام کی چیز ہے.اگر انسان سپاہی ہو تو دشمن کے تعاقب کے لئے یا اگر کسی وقت پیچھے ہٹنا پڑے تو اپنی جان بچانے کے کام آسکتا ہے.آئے دن ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ چور مال لے کر بھاگ جاتے ہیں کیونکہ ان کو بھاگنے کی مشق ہوتی ہے مگر گاؤں والے ہانپتے ہوئے پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ ان کو مشق نہیں ہوتی.اگر بھاگنے کی مشق ہو تو چوروں کو پکڑ سکتے ہیں.اسی طرح بیسیوں مواقع زندگی میں ایسے آتے ہیں کہ اگر انسان کو بھاگنے کی مشق ہو تو کام سدھر جاتے ہیں.اسی طرح اور بیسیوں ایسی کھیلیں ہیں جو مفید ہو سکتی ہیں.دو تین روز ہوئے بورڈنگ ہائی سکول میں ایک جلسہ ہوا تھا جس میں میں نے ایسی کھیلیں تفصیل سے بیان کی تھیں جن سے ذہنی ترقی کا کام لیا جا سکتا ہے اور وہ کھیلوں کا کام بھی دے سکتی ہیں اور پھر آئندہ زندگی میں بھی مفید ہو سکتی ہیں.اس وقت میں وہ ساری تو بیان نہیں کر سکتا صرف مثال کے طور پر چند ایک بیان کر دیتا ہوں مثلاً میں نے بتایا تھا کہ ہمارے ملک میں بعض ایسی کھیلیں ہیں جو ذہنی ترقی کے لئے مفید ہو سکتی ہیں مگر ان سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا جاتا.بچپن میں ایک کھیل یہ کھیلی جاتی ہے کہ ایک بچہ آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتا ہے.بچپن کی بعض کھیلیں لاتیں لمبی کر لیتا ہے.ایک اس کے پیچھے بیٹھ کر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیتا ہے.پھر ایک ایک کر کے دو سرے لڑکے اس کی ٹانگوں پر سے گزرتے ہیں اور پیچھے بیٹھنے والا پوچھتا ہے کہ کون گزرا.اسے اجازت نہیں ہوتی کہ گزرنے والے کے جسم کو ہاتھ لگائے.صرف لباس کی آواز سے وہ پہچانتا ہے کہ کون گزرا.اگر وہ ٹھیک بتادے تو کامیاب سمجھا جاتا ہے اور دوسرا ہار جاتا ہے.اس کھیل سے شنوائی کی طاقت اور توجہ کا مادہ بڑھتا ہے.یہ کھیل چھوٹے بچوں کی ہے مگر اسے بنانے والے نے اس میں بہت حکمت رکھی ہے.جس کے کان عادی ہو جائیں کہ کپڑے کی آواز سے آدمی کو پہچان لے یا خیال سے معلوم کرے کہ کون گزرا ہے تو وہ پولیس اور سکاؤٹ میں کتنا مفید ثابت ہو سکتا ہے.ایسا شخص اگر پولیس میں جائے گا تو یقینا بہت ترقی کرے گا.پھر ایک کھیل یہ ہوتا ہے کہ پیچھے سے آکر نوجوان حواس خمسہ کی قوت کو مشق سے بڑھائیں آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا.جس کی آنکھیں اس
174 طرح بند کر دی جائیں اس کا حق ہوتا ہے کہ پہچانے اور ہاتھ کو ہاتھ لگا کر پہچانے.اس طرح ہاتھوں کے لمس سے پہچانے کی مشق ہوتی ہے.یہ کھیل رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھی ثابت ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی بہت بد صورت اور کریہہ المنظر تھے.قد چھوٹا تھا اور جسم پر بال بڑے بڑے تھے.ایک دفعہ وہ بازار میں مزدوری کر رہے تھے.پسینہ بہہ رہا تھا اور گرمی کی وجہ سے سخت گھبرائے ہوئے تھے اور ایسا معلوم ہو تا تھا کہ ابھی لڑ پڑیں گے.پیچھے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آئے.آپ کو ان کی حالت پر رحم آیا اور ان کی دلجوئی کرنا چاہی اور ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے جس کے معنے یہ تھے کہ بتاؤ کون ہے.انہوں نے ہاتھ پر ہاتھ پھیرا.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جسم بہت نرم تھا اس لئے وہ پہچان گئے اور مذاق کے لئے آپ کے جسم مبارک کے ساتھ اپنا پسینہ والا جسم ملنے لگے اور کہا یا رسول اللہ ! میں نے پہچان لیا ہے.یہ کھیل بھی در حقیقت اپنے اندر ایک عمدہ مشق رکھتی ہے بشرطیکہ بچوں کو عمد گما کے ساتھ کھلائی جائے اور کوشش کی جائے کہ پورا پورا فائدہ حاصل ہو.یہ کھیلیں ایسی ہیں کہ ان سے اتنی مشق ہو جاتی ہے کہ انسان بڑے بڑے کمالات ظاہر کر سکتا ہے.میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے کہ امریکہ کی ایک قوم ہے جسے ریڈ انڈین یعنی سرخ ہندوستانی کہا جاتا ہے کیونکہ جب یورپ والے پہلے پہل امریکہ گئے تو ان کا خیال تھا کہ ہندوستان یہی ہے بعد میں معلوم ہوا کہ ہندوستان اور ہے.ان لوگوں کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے اس لئے ان کو ریڈ انڈین کہتے ہیں.انہوں نے کانوں کی مشق میں بہت کمال حاصل کیا ہو تا تھا.لوگ پہلے زمانہ میں ان کو مزدوری پر جنگلوں میں راہنمائی کے لئے لے جاتے تھے یا جب چور یا ڈا کو لوٹ مار کر کے بھاگتے تھے تو ان میں سے کسی کو لالچ دے کر ساتھ لے جاتے تھے اور جنگل میں چھپ جاتے تھے.کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ زمین پر کان لگا کر دو تین میل کے فاصلہ پر سے بتادیتے تھے کہ گھوڑے فلاں جہت سے دوڑے آ رہے ہیں اور یہ کوئی معجزہ نہیں نہ ہی وہ کوئی غیر معمولی انسان ہوتے ہیں بلکہ یہ صرف مشق کی بات ہے.اس قوم نے کانوں کی مشق سے ایسے اصول دریافت کرلئے ہیں کہ ایسی باتیں معلوم کر لیتے ہیں جو دو سروں کو معلوم نہیں ہو سکتیں اور اس طرح چوریا ڈاکو ان کی اطلاع پر وہاں سے بھاگ کر دو سری جگہ جا چھپتے.اگر آنکھوں سے دیکھ کر چھپنے کی کوشش کی جائے تو بچنا محال ہو جاتا ہے کیونکہ سوار پکڑ سکتے ہیں مگر جب دو تین میل کے فاصلہ پر سے ہی اطلاع مل جائے تو ان کے وہاں پہنچنے تک وہ آگے نکل کر جاسکتے ہیں.اس طرح زبان ، ناک ہاتھ اور کان کی مشق بہت کام آنے والی چیزیں ہیں.ان سے ذہانت میں بھی ترقی ہوتی ہے.ذہانت حواس خمسہ کی تیزی کا نام ہے اور جو اس کی تیزی کے لئے ایسی کھیلیں ایجاد کی جاسکتی ہیں بلکہ ہمارے بزرگوں نے ایجاد کی ہوئی ہیں جو کھیل کی کھیل ہیں اور آئندہ زندگی کے فوائد بھی ان میں مخفی ہیں.خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ اس بات کو اپنی سکیم میں شامل کریں اور جماعت میں ان کو رائج کریں.میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی کہا تھا کہ جماعت ورزش جسمانی کی طرف خاص طور پر زور دے اور اب میں یہ کام بھی خدام الاحمدیہ کے سپرد کرتا ہوں کیونکہ یہ نوجوانوں سے تعلق رکھتا ہے.پس خدام الاحمدیہ اسے
175 قادیان میں بھی اور باہر بھی شروع کریں.مجھ سے مشورہ کر کے وہ ایسی سکیمیں تیار کر سکتے ہیں کہ جن کے ذریعہ ایسی کھیلیں جماعت میں جاری کی جا سکیں جو آئندہ زندگی میں کام آنے والی ہوں.نویں بات جس کی طرف میں خدام الاحمدیہ کو نوجوان علم کا نور عام کرنے کی کوشش کریں توجہ دلاتا ہوں وہ علم کا عام کرتا ہے.میں پہلے ان کو توجہ دلا چکا ہوں کہ ان کا فرض ہے کہ علم سیکھیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کسی شخص کا نیکی حاصل کرنا اسے بچا نہیں سکتا جب تک اس کے ارد گرد بھی نیکی نہ ہو.آپ اپنے بچے کو کتنا سچ بولنے کی عادت کیوں نہ ڈالیں وہ کبھی سچا نہیں ہو سکتا جب تک اس کے محلہ میں دوسرے بچے جھوٹ بولتے ہیں.پس ان کا اپنا علم حاصل کر لینا کام نہیں آسکتا جب تک کہ دوسروں میں تعلیم کی اشاعت نہ کریں.کچھ عرصہ سے میں نے ان کے سپرد یہ کام کیا ہوا ہے کہ قادیان میں کوئی ان پڑھ نہ رہے اور جب یہاں یہ کام ہو جائے گا تو پھر باہر بھی اسے شروع کیا جائے گا.انہوں نے کچھ عرصہ سے اس کے متعلق کوئی رپورٹ مجھے نہیں بھیجی اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام ہو رہا ہے یا نہیں.یہ کام اتنا اہم تھا کہ ان کو یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ اس کے متعلق ہفتہ واری رپورٹ ضروری ہے مگر آج میں یہ کام پھر خصوصیت کے ساتھ ان کے سپرد کرتا ہوں اور ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ اسے پہلے یہاں شروع کریں اور پھر باہر اور کوشش کریں کہ سال دو سال کے عرصہ میں کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو پڑھا ہوا نہ ہو خواہ احمدی عورت ہویا مرد بچہ ہو یا بوڑھا سب پڑھے ہوئے ہونے چاہئیں.اس کے لئے چھوٹے سے چھوٹا معیار مقرر کر لیا جائے اور پھر اس کے مطابق سب کو تعلیم دی جائے.یا درکھنا چاہئے کہ جب تک علم عام نہ ہو ، جماعت پورا خدام الاحمدیہ ہر احمدی کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں قائدہ نہیں اٹھا سکتی.اس زمانہ میں علم کتابی ہو گیا ہے مگر پہلے زمانہ میں زبانی ہو تا تھا.پہلے زمانہ میں علم کا نوں کے ذریعہ سکھایا جا تا تھا مگر اب کتابوں کے ذریعہ.اس لئے خدام الاحمدیہ کو کوشش کرنی چاہئے کہ ہر احمدی لکھنا پڑھنا سیکھ جائے.عربوں میں زبانی حفظ کرنے کا رواج تھا اور اس کا یہاں تک اثر ہے کہ صرف و نحو کی بعض کتابیں وہ ہر طالب علم کو حفظ کراتے ہیں.پرانے زمانہ میں علماء کے لئے قرآن کریم کو حفظ کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا.حدیثوں کو یاد کرنا محدثین کے لئے ضروری ہو تا.شاعروں میں شعر زبانی یاد کرنے کا رواج تھا.صرفی نحوی صرف و نحو کی کتابیں یاد کرتے تھے.فقہاء فقہی کتابیں حفظ کرتے تھے مگر آج کل تو قرآن کریم کا حفظ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا.کتابیں عام ہیں ، جب ضرورت ہوئی، دیکھ لیا مگر اس زمانہ میں کتابیں عام نہ تھیں اس لئے حفظ کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا یہاں تک کہ اس زمانہ میں کتاب لکھنا یا پڑھنا موجب عار سمجھا جاتا تھا اور اس کے یہ معنے سمجھے جاتے تھے کہ حافظہ کمزور ہے.وہ شاعر شاعر ہی نہیں سمجھا جاتا تھا جس کے شعر لکھے جائیں.اس کے یہ معنے ہوتے تھے کہ گویا اس کی قوم نے اس کی قدر نہیں کی.اگر قوم قدر کرتی
176 تو اس کے شعر حفظ کرتی.اسی واسطے جو بڑے بڑے شعراء ہوتے تھے ، ان کے ساتھ ایسے لوگ رہتے تھے جو ان کے شعر حفظ کرتے.ان کو راویہ کہا جاتا تھا اور توجہ اور مشق سے حافظے اتنے تیز ہو جاتے تھے کہ بعض کو لاکھ لاکھ دو دو لاکھ اور تین تین لاکھ شعر زبانی یاد ہوتے تھے.ایران کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ تھا.اس زمانہ میں وہاں عربی کا زیادہ رواج تھا.اسلامی ممالک میں زیادہ تر یہی زبان رائج ہوتی تھی.بادشاہ کو سخاوت کی عادت تھی.شعراء آتے ، شعر سناتے اور بڑے بڑے انعام پاتے تھے.وزیر نے اس سے کہا کہ شعراء تو اس طرح لوٹ کر لے جائیں گے اور خزانے میں کمی آجائے گی اس لئے آپ ہر ایک کو انعام نہ دیا کریں بلکہ قید لگادیں کہ صرف اسی شاعر کو انعام دوں گا جو کم سے کم ایک لاکھ شعر سنا سکتا ہو.بادشاہ نے یہ مان لیا اور اعلان ہو گیا کہ جب تک کسی شاعر کو کم سے کم ایک لاکھ شعر یاد نہ ہوں وہ دربار شاہی میں باریابی حاصل نہ کر سکے گا.اب لاکھ شعر کا یاد کرنا ہر ایک کے لئے تو مشکل ہے.کسی کو پانچ ہزار دس ہزار یاد ہوتے کسی کو میں ہزار کسی کو تمھیں یا چالیس ہزار اور اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام ادباء اور شعراء کو موقعہ نہیں مل سکتا تھا اور وہ بھوکے مرنے لگے.ان کو خیال آیا کہ اس طرح تو ملک کے علم ادب کو نقصان پہنچے گا.اس زمانہ میں وہاں ایک بہت بڑے اور مشہور ادیب تھے.سب اکٹھے ہو کر ان کے پاس پہنچے اور کہا اس سے ملک کے علم ادب کو بہت نقصان پہنچے گا اس لئے آپ بادشاہ سے ملیں اور اس بات پر آمادہ کریں کہ ایک لاکھ کی تعداد میں کمی کر دے.وہ بالکل الگ تھلگ رہتے تھے.بادشاہ نے بعض دفعہ ان کو بلوایا بھی تھا مگر انہوں نے انکار کر دیا تھا چونکہ وہ اپنی ذات میں اپنے آپ کو ادب کا بادشاہ سمجھتے تھے مگر یہ چونکہ ایک ادبی خدمت خدمت تھی اس لئے وہ بادشاہ سے ملنے کے لئے تیار ہو گئے.چنانچہ وہ گئے اور اطلاع کرائی.دربانوں نے نام پوچھا مگر انہوں نے نام بتانے سے انکار کر دیا اور کہا ایک شاعر ملنا چاہتا ہے.دربانوں نے کہا کہ شاعروں کے لئے یہ شرط ہے کہ انہیں کم سے کم ایک لاکھ شعر باد ہونا چاہئے.پہلے درباری امتحان لیں گے اور اگر کوئی ایک لاکھ شعر سنا سکے تو اسے باریابی کا موقع دیا جائے گاورنہ نہیں.انہوں نے پیغامبر سے کہا جا کر بادشاہ سے پوچھو کہ وہ کون سے ایک لاکھ شعر سننا چاہتا ہے ، اسلام کے زمانہ کے یا زمانہ جاہلیت کے ؟ مردوں کے یا عورتوں کے ؟ میں ہر قسم کے ایک ایک لاکھ شعر سنانے کو تیار ہوں.جب بادشاہ کو یہ اطلاع پہنچی تو وہ سمجھ گیا.انہی کا نام لیا اور کہا کہ وہی ہوں گے.ننگے پاؤں بھاگ آیا اور کہا کہ فرمائیے کیا خدمت ہے.انہوں نے کہا کہ آپ کے س حکم سے ملک پر یہ ظلم ہو رہا ہے کہ اس کے ادب کو نقصان پہنچ رہا ہے.اس شرط کے ہوتے ہوئے کوئی خاص شاعر ہی باریاب ہو سکتا ہے اور جو اتنا بڑا ادیب ہو اسے آپ کی مدد کی کیا احتیاج ہو سکتی ہے اور وہ دربار میں کیوں آئے گا.اسے تو گھر بیٹھے ہی روزی ملے گی اس لئے اسے منسوخ کر دیں.بادشاہ نے کہا بہت اچھا میں اسے منسوخ کرتا ہوں اور جب یہ شرط لگائی تھی تو میرا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ شاید آپ اسے منسوخ کرانے کے لئے آئیں.تو حافظہ پر زور دینے کی وجہ سے پرانے زمانہ میں ایسے ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جو لاکھوں شعر زبانی یاد رکھتے تھے.کہتے ہیں امام شافعی نے پانچ سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کر لیا تھا.بوجہ حافظہ پر عام طور پر زور
177 دینے کے اس زمانہ میں لوگوں کے حافظے بہت تیز ہوتے تھے.ایک دو دفعہ ہی بات سن کر یاد کر لیتے تھے مگر اب کتابوں کے عام ہو جانے کی وجہ سے حافظہ کی تیزی کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے.اس لئے خدام الاحمدیہ کو ضمنی طور پر اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک قوم کی عام رغبت اس طرف نہ ہو ایک دو کی کوشش سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.پہلے زمانہ میں حافظہ کے ذریعہ لوگ عالم ہوتے تھے مگر آج کل کتابیں پڑھنے سے ہوتے ہیں.اس لئے جماعت کے ہر فرد کو کچھ نہ کچھ لکھنا پڑھنا آنا چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ بدر کی جنگ میں جو کفار قید ہوئے ان میں سے جو فدیہ ادا نہ کر سکتے تھے آپ نے ان کے لئے یہ شرط لگائی کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں اور جب انہوں نے سکھا دیا تو ان کو چھوڑ دیا.تو خدام الاحمدیہ کو تعلیم کے عام کرنے کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے.اگر وہ یہ کر لیں تو جماعت کے اخلاق بھی بلند ہو سکتے ہیں.پڑھنا آتا ہو تو وہ حضرت صاحب کی کتب بھی پڑھ سکیں گے.دینی کتب کا مطالعہ کریں گے.تصوف کی کوئی کتاب پڑھیں گے اور ان کا وقت ضائع بھی نہ ہو گا.کتابیں پڑھنے سے ان کا ذہن صیقل ہو گا اور پھر ا خلاق بلند ہوں گے.یہ نو چیزیں ہیں جو میں خدام الاحمدیہ کے لئے پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کو خصوصیت سے سامنے رکھ کر وہ کام کریں گے اور ان کو اپنا قریبی مقصد قرار دیں گے اور پھر اس کے حصول کے لئے پوری پوری کوشش کریں گے.اس کے ساتھ کچھ اور مضامین بھی ہیں مگر اب چونکہ کافی وقت ہو گیا ہے اس لئے اسی پر بس کرتا ہوں.اسی ہفتہ میں خدام الاحمدیہ کی طرف سے مجھے ایک درخواست آئی تھی کہ وہ تفصیلی ہدایات کے لئے مجھے ملنا چاہتے ہیں.وہ مل کر مجھ سے ہدایات لے سکتے ہیں.عملی سکیم اور کام کرنے کا طریق یہ ایک علیحدہ مضمون ہے جو صرف ان سے ہی تعلق رکھتا ہے اس لئے جب وہ ملیں گے تو ان کے سامنے ہی اسے بیان کروں گا.میں امید کرتا ہوں کہ وہ استقلال اور ہمت سے کام کریں گے اور ایسے رنگ میں کریں گے کہ ساری جماعت کو شامل کر سکیں گے اور میں نے اسی غرض سے یہ خطبات پڑھے ہیں.چند افراد کی حیثیت ایسی نہیں ہوتی کہ ان کے لئے اتنے خطبے پڑھے جائیں اس لئے ان کو ایسے رنگ میں کام کرنا چاہئے کہ وہ ساری جماعت پر حاوی ہو اور مستقل حیثیت اختیار (خطبه جمعه فرموده ۱۰ مارچ ۱۹۳۹ء مطبوعه الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۳۹ء) کر سکے.
توحید بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے حاصل ہو تم کو دید کی لذت خدا کرے کی ہو لب پہ شہادت خدا کرے ایمان کی ہو دل میں حلاوت خدا کرے جائے ایسی نیکی کی عادت خدا کرے سرزد نہ ہو کوئی بھی شرارت خدا کرے رہے دلوں پہ شریعت خدا کرے حاصل ہو مصطفیٰ کی رفاقت خدا کرے.مٹ جائے دل سے زنگ رذالت خدا کرے آجائے پھر سے دور شرافت خدا کرے میل جائیں تم کو زہد و امانت خدا کرے مشہور ہو تمہاری دیانت خدا کرے بڑھتی رہے ہمیشہ ہی طاقت خدا کرے جسموں کو چھو نہ جائے نقاہت خدا کرے مل جائے تم کو دین کی دولت خدا کرے چمکے فلک تاره قسمت خدا کرے مل جائے جو بھی آئے مصیبت خدا کرے پہنچے نہ تم کو کوئی اذیت خدا کرے منظور ہو تمہاری اطاعت خدا کرے مقبول ہو تمہاری عبادت خدا کرے سن لے ندائے حق کو یہ اُمت خدا کرے پکڑے بزور دامن ملت خدا کرے چھوٹے کبھی نه جام سخادت خدا کرے ٹوٹے کبھی نہ پائے صداقت خدا کرے.مرہو خدا کی قضا پر ہمیش تم لب پر نہ آئے حرفِ شکایت خدا کرے احسان و لطف عام رہے سب جہان پر کرتے رہو ہر اک سے مروت خدا کرے گہوارہ علوم تمہارے بنیں قلوب پھٹکے نہ پاس تک بھی جہالت خدا کرے بدیوں سے پہلو اپنا بچائے رہو مدام تقویٰ کی راہیں طے ہوں بعجلت خدا کرے سننے لگے وہ بات تمہاری بذوق و شوق دنیا کے دل سے دور ہو نفرت خدا کرے اخلاص کا درخت بڑھے آسمان تک بڑھتی رہے تمہاری ارادت خدا کرے پھیلاؤ سب جہان میں قولِ رسول کو حاصل ہو شرق و غرب میں سطوت خدا کرے پایاب ہو تمہارے لئے بحر معرفت گھل جائے تم یہ راز حقیقت خدا کرے.ترقی کی جانب قدم ہمیش ٹوٹے کبھی تمہاری نہ ہمت خدا کرے دین و نشر ہدایت کے کام پر مائل رہے تمہاری طبیعت خدا کرے راضی مربو رہے
179 نوجوانوں کا گروہ ہی ایسا گروہ ہے جس کی زندگی پر قومی زندگی کا انحصار ہوتا ہے ه نوجوانوں کے اخلاق سدھارنے سے جماعت کو عظیم الشان فائدہ انبیاء پر ایمان لانے والے زیادہ تر نوجوان ہی ہوتے ہیں خدام الاحمدیہ کا کام کوئی معمولی کام نہیں دلائل مذہبی دعائیں اور اخلاق فاضلہ ہمارے ہتھیار ہیں خدام الاحمدیہ اپنے پروگرام کو ہمیشہ سامنے رکھے خدام الاحمدیہ روحانی ٹریننگ ہے اور روحانی تعلیم و تربیت ہے اس فوج کی جس نے احمدیت کے دشمنوں سے مقابلہ کرنا ہے جو نہی ان کے کانوں میں خلیفہ وقت کی طرف سے کوئی آواز آئے اس وقت جماعت کو یہ محسوس نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے احمدیت اپنے شکار پر باز کی طرح گرے گی اور تمام دنیا کے ممالک کو اسلامی تعلیمات کے آگے سر نگوں کر دے گی
180 میں نے خدام الاحمدیہ کو گزشتہ پانچ چھ خطبات میں ایسے امور کی طرف توجہ دلائی ہے جن کی طرف توجہ کر کے وہ جماعت کے لوگوں میں بیداری اور دینداری پیدا کر سکتے ہیں اور نوجوانوں کا گر وہ ہی ایک ایسا گر وہ ہے جس کی زندگی پر قومی زندگی کا انحصار ہوتا ہے کیونکہ کسی اگلی پود کا درست ہو نا قومی عمر کو نہایت لمبے عرصہ تک پھیلا دیتا ہے مثلاً اگر انسان کی اوسط عمر ساٹھ سال سمجھی جائے اور نوجوانوں کی جماعت درست ہو جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اگر نوجوانوں کو میں سال کا بھی فرض کر لیا جائے تو اس قوم کی عمر مزید چالیس سال تک لمبی ہو سکتی ہے.ایک ساٹھ سالہ بوڑھے کی درستی صرف ایک یا دو سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے.ایک پچاس سالہ عمر والے انسان کی درستی اوسطاً دس سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے.ایک چالیس سالہ شخص کی درستی انداز ا ہیں سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے اور تیس سالہ عمر والے کی درستی قوم کو انداز اتمیں سال تک فائدہ پہنچا سکتی ہے لیکن اگر ہمیں سالہ نوجوانوں کی درستی کر دی جائے تو وہ چالیس سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتے اور اس کی خصوصیات اور روایات کو قائم رکھ سکتے ہیں اور چالیس سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں ہو تا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چونکہ انسان کی اوسطاً عمر ساٹھ ستر سال کے درمیان ہے اور ادھر دس گیارہ سال کا لڑکا جوانی کے قریب پہنچ جاتا ہے اس لئے در حقیقت اگر نوجوانوں کی درستی کر لی جائے تو وہ چالیس سال ہی نہیں بلکہ پچاس سے ساٹھ سال تک قوم کی حفاظت کا موجب بن جاتے ہیں اور پچاس ساٹھ سال تک کسی قوم کی نشو و نما کا موقعہ مل جانا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی.اگر وہ قوم ہمت والی ہو ، اگر وہ مشکلات اور مصائب سے گھبرانے والی نہ ہو اگر خدا کے وعدے اور اس کی نصرتیں اس کے ساتھ ہو اور اگر اس قوم کے نوجوان اور بوڑھے درست ہوں اور ان کا اخلاقی اور مذہبی معیار بہت بلند ہو تو وہ پچاس ساٹھ سال کے اندراندر تمام دنیا پر چھا جانے کے قابل ہو جاتے ہیں.در حقیقت اتار چڑھاؤ ہی ہے جو قوموں کو نقصان پہنچایا کرتا اور ان کی ترقیات کو روک دیتا ہے یعنی ایک وقت تو وہ جوش میں آجاتی اور بڑے زور شور سے کام شروع کر دیتی ہیں مگر دوسرے وقت گر جاتی ہیں.ایک وقت تو ان کی ہمتیں نہایت بلند ہوتی ہیں اور وہ مردانہ وار مصائب کے مقابلہ کا تہیہ کر کے ترقی کی طرف بڑھنا شروع کر دیتی ہیں مگر دوسرے وقت بالکل دب جاتی اور پستی کی طرف گرنا شروع کر دیتی ہیں.ایسی صورت میں اس قوم کی پستی کا زمانہ اس کے ان فوائد کو کمزور کر دیتا ہے جو اس نے اپنی ترقی کے ایام میں حاصل کئے ہوتے ہیں مگر جب تمام قوم کا قدم یکساں طور پر آگے کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہو تو پچاس ساٹھ سال دنیا بھر میں تغیر پیدا کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں.نوجوانوں کے اخلاق سدھارنے سے جماعت کو عظیم الشان فائدہ لیس و سکتا ہے نوجوانوں کو درست کرنے اور ان کے اخلاق سدھارنے سے جماعت کو عظیم الشان فائدہ پہنچ سکتا ہے اور میں خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنے کام کی عظمت کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے.خدام الاحمدیہ کے وہ ممبر جو یہ
181 سمجھتے ہیں کہ خدام الاحمدیہ دوسری انجمنوں کی طرح ایک انجمن ہے ، وہ ہرگز اس قابل نہیں کہ انہیں اس میں شامل رکھا جائے.اسی طرح وہ ممبر جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک کمیٹی بنا کر سلسلہ کی خدمت کا جزوی طور پر کچھ کام کریں گے ، وہ بھی اپنے کام کی اہمیت اور اس کی عظمت سے بالکل ناواقف ہیں.حقیقت یہ ہے کہ کسی قوم کے نوجوانوں کی درستی ہی اصل کام ہوا کرتا ہے اور یہی کام ہے جو قوموں کی ترقی کے راستہ میں محمد اور معاون ہوا کرتا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت رسول کریم" پر نوجوانوں کی جماعت ہی ابتداء میں ایمان لائی تھی انبیاء علیہم السلام پر f ابتدائے زمانہ میں ایمان لانے والے زیادہ تر نوجوان ہی ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ بوڑھے بوڑھے اس کے سلسلہ میں شامل ہوں اور چند روز خدمت کر کے وہ وفات پا جائیں اور سلسلہ کی تعلیم کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے والے کوئی نہ رہیں.پس وہ بوڑھوں کی بجائے زیادہ تر نوجوانوں کو اپنے سلسلہ میں شامل کرتا ہے اور نوجوانوں کی جماعت کو ہی نبی کی تربیت میں رکھ کر درست کرتا ہے تاکہ وہ نبی کی وفات کے بعد ایک لمبے عرصہ تک اس کے لائے ہوئے نور کو دنیا میں پھیلا سکیں اور اس کی تعلیم کی اشاعت اور ترویج میں حصہ لے سکیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو آپ کے مقرب ترین صحابہ قریباً سارے ہی ایسے تھے جو عمر میں آپ سے چھوٹے تھے.حضرت ابو بکر آپ سے اڑھائی سال عمر میں چھوٹے تھے.حضرت عمر آپ سے ساڑھے آٹھ سال عمر میں چھوٹے تھے اور حضرت علیؓ آپ سے انتیس سال عمر میں چھوٹے تھے اسی طرح حضرت عثمان ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی ہیں سال سے لے کر پچیس سال تک آپ سے عمر میں چھوٹے تھے.یہ نوجوانوں کی جماعت تھی جو آپ پر ایمان لائی اور اس جوانی کے ایمان کی وجہ سے ہی مسلمانوں کی جماعت کو یہ فائدہ پہنچا کہ چونکہ یہ ایک لمبے عرصہ تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں رہے تھے اور پھر ان کی عمریں چھوٹی تھیں اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی یہ لوگ ایک عرصہ دراز تک لوگوں کو فیض پہنچاتے رہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دعوی نبوت کے بعد تئیس سال کے قریب زندہ رہے ہیں.اب اگر ساٹھ سالہ بوڑھے ہی آپ پر ایمان لاتے اور نوجوان طبقہ اس میں شامل نہ ہو تا تو نتیجہ یہ ہو تاکہ ان میں سے اکثر مکہ میں ہی وفات پا جاتے اور مدینہ کے لوگوں کے لئے نئی ٹریننگ شروع کرنی پڑتی کیونکہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ پہنچتے تو پہلی تمام جماعت ختم ہو چکی ہوتی اور آپ کو ضرورت محسوس ہوتی کہ ایک اور جماعت تیار کریں جو اسلام کی باتوں کو سمجھے اور آپ کے نمونہ کو دیکھ کر وہی نمونہ دوسروں کو اختیار کرنے کی تلقین کرے.اگر ایسا ہو تا تو اسلام کے لئے کس قدر مشکلات ہو تیں مگر اللہ تعالٰی نے ایسا نہیں ہونے دیا.اس لئے ایسا انتظام فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو بجائے کسی نئی جماعت کی ٹرینگ کے وہی نوجوان جو مکہ میں آپ پر ایمان لائے تھے اس قابل
182 ہو چکے تھے کہ فوجوں کی کمان اپنے ہاتھ میں لیں چنانچہ گیارہ سال کا علی مدینہ پہنچتے وقت چو بیس سال کا جوان تھا اور سترہ سال کا زبیر مدینہ جاتے وقت تمہیں سال کا جوان تھا.یہی حال باقی نوجوان صحابہ کا بھی تھا.کوئی ان میں سے تمیں سال کا تھا کوئی چونتیس سال کا تھا اور کوئی پینتیس سال کا تھا.پس بجائے اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نئے سرے سے ایک جماعت بنانی پڑتی، جب آپ مدینہ میں پہنچے اور کام وسیع ہو گیا تو آپ کو انہی نوجوانوں میں سے بہت سے مدرس مل گئے جنہوں نے مکہ میں آپ سے سبق حاصل کیا تھا اور پھر اور دس سال تک مدینہ میں بھی انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی میں رہنے کا موقعہ مل گیا.اور جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو اسلام کو ابتدائی دور میں نوجوانوں نے تقویت بہم پہنچائی اس وقت چوبیس سال کا علی" چونتیس سال کا جوان تھا اور ابھی ایک لمبا عرصہ کام کا ان کے سامنے پڑا تھا.اسی طرح وہ زبیر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لاتے وقت سترہ سال کا تھا وہ اس وقت چالیس سال کا جوان تھا.تو یہ نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں باوجود تئیس سال آپ کے ساتھ کام کرنے کے ، جب آپ فوت ہوئے تو ابھی ان کے سامنے ان کی زندگی کے ہیں تمھیں سال کام کرنے کے لئے پڑے تھے اور پھر ہر ایک نے آپ کی وفات کے بعد اپنی اپنی عمر کے مطابق کام کیا چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد اڑھائی سال کام کرنے کا موقعہ ملا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد ساڑھے آٹھ سال کام کرنے کا موقعہ ملا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد میں سال کام کرنے کا موقعہ ملا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد چھبیس سال کام کرنے کا موقعہ ملا.یہی حال طلحہ اور زبیر کا بھی ہوا حتی کہ بعض صحابہ اس قسم کے بھی تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پچاس پچاس سال تک زندہ رہے اور بعض ایسے بھی تھے گو ان کی تعداد بہت کم ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ستر اسی سال زندہ رہے.یہ نتیجہ تھا اس بات کا کہ نوجوانوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت ڈالی اور وہی نوجوان درست ہو کر ایک لمبی عمر تک خدمت اسلام کرتے رہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ پہنچے تو اس وقت حضرت انس کی عمر دس سال کی تھی.دس سال وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں رہے اور جب میں سال کے ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وفات پاگئے مگر خود حضرت انس کی وفات ایک سو دس سال میں جاکر ہوئی.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے نوے سال بعد تک انہیں لوگوں کو اسلام کی تعلیم سکھانے کا موقعہ ملا.بوجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے وقت بہت نوجوان ہونے اور بہت لمبی عمر پانے کے یہ سب سے آخر میں فوت ہونے والے صحابی تھے.اب دیکھ لو اللہ تعالٰی نے اس سلسلہ کو کہاں تک ممتد کر دیا مگر بہر حال اس سلسلہ کا امتداد نوجوانوں کے ذریعہ ہی
183 ہوا.اگر ستر اسی سال کے بوڑھے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے تو وہ کہاں کام کر سکتے تھے.اول تو ان کی حالتوں کا سدھرناہی مشکل تھا اور اگر وہ درست بھی ہو جاتے تو ان میں سے اکثر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں ہی فوت ہو جاتے اور اگر چند لوگ زندہ بھی رہتے تو پانچ سال سات سال کے بعد وہ بھی ختم ہو جاتے اور جماعت میں کوئی ایسا شخص نہ رہتا جو اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقف و آگاہ ہو تا.پس ابتدائی زمانہ میں نوجوانوں کا اسلام میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت تھی اور یہی وہ تدبیر تھی جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دشمن کا مقابلہ کیا اور اس نے نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تیار کر دی جس نے آپ کی شاگردی میں رہ کر آپ سے تعلیم حاصل کی حتی کہ بعض نے تو اپنا بچپن آپ کی نگرانی میں ہی گزارا جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں کہ وہ گیارہ سال کی عمر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شامل ہو گئے تھے.اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ایک لمبے عرصہ تک آپ کا تربیت یافتہ گروہ دنیا میں موجود رہا اور اس نے اپنی تعلیم اور تربیت سے ایک اور نئی اور اعلیٰ درجہ کی جماعت پیدا کر دی جو ان کی وفات کے بعد اسلام کے جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں تھامی رہی.پس خدام الاحمدیہ کا کام کوئی معمولی کام نہیں.یہ نہایت ہی خدام الاحمدیہ کا کام کوئی معمولی کام نہیں اہمیت رکھنے والا کام ہے اور در حقیقت خدام الاحمدیہ میں داخل ہونا اور اس کے مقررہ قواعد کے ماتحت کام کرنا ایک اسلامی فوج تیار کرنا ہے اور ہماری فوج وہ نہیں جس کے ہاتھوں میں بندوقیں یا تلواریں ہوں بلکہ ہماری فوج وہ ہے جس نے دلائل سے دنیا پر غلبہ حاصل کرنا ہے.ہماری تلواریں اور ہماری بندوقیں وہ دلائل ہیں جو احمدیت کی صداقت کے متعلق ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں.ہماری بندوقیں اور ہماری تلوار میں وہ دعائیں ہیں جو ترقی احمدیت کے متعلق ہم ہر وقت مانگتے رہتے ہیں اور ہماری بندوقیں اور ہماری تلواریں وہ اخلاق فاضلہ ہیں جو ہم سے صادر ہوتے ہیں.پس دلائل مذہبی دعائیں اور دلائل مذہبی دعائیں اور اخلاق فاضلہ ہی ہمارے ہتھیار ہیں اخلاق فاضلہ یہی ہماری تو ہیں اور یہی ہماری تلواریں ، انہی تو پوں اور انہی تلواروں سے ہم نے دنیا کے تمام ادیان کو فتح کر کے اسلام کا پرچم لہرانا اور ان پر غلبہ و اقتدار حاصل کرنا ہے اور اگر نوجوانوں میں یہ مہم جاری رہی تو ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت جلد ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی مسلح فوج تیار کرلیں گے جس کے مقابلہ میں کوئی دشمن نہیں ٹھہر سکے گا اور واقعہ میں اگر ہماری جماعت کے نوجوان مذہب کی تعلیم سے واقف ہو جائیں ، اگر وہ ان دلائل سے واقف ہو جائیں جو غیر مذاہب کے مقابلہ میں ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں اور اگر وہ دعاؤں سے کام لیں تو دنیا کا کون سا انسان ہے جو ان کے مقابلہ میں ٹھہر سکتا ہو.
184 بچپن سے میں نے مہاشات کے میدان میں قدم رکھا ہوا ہے.گو مجھے اس قسم کے مباحثات سے نفرت ہے جو مولوی کیا کرتے ہیں مگر دوسروں سے علمی تبادلہ خیالات میں بچپن کے زمانہ سے کرتا چلا آ رہا ہوں.پس اس بارے میں میرا پینتیس سالہ تجربہ یہ ہے کہ میں نے آج تک دنیا میں ایک انسان بھی ایسا نہیں دیکھا جو کوئی ایسی بات پیش کر سکے جو قرآنی اور احمدی تعلیم کے مقابلہ میں معقول بھی قرار دی جاسکے.ہر مذہب کے پیروؤں سے میں نے باتیں کیں اور ہر قسم کے علوم رکھنے والوں سے میری گفتگو میں ہو ئیں مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ایسا ہوا کہ یا تو ان کے اپنے ساتھیوں نے اقرار کیا کہ ہمارے آدمی کو جواب نہیں آیا اور یا انہوں نے کہا کہ ہمارے آدمی نے تعصب اختیار کر لیا ہے ورنہ آپ کے مقابلہ میں جو بات پیش کی جارہی ہے یہ کوئی معقول نہیں.دنیا کا کوئی اعتراض ایسا نہیں جو قرآن مجید پر پڑتا ہو اور اس کا کافی اور شافی جواب ہمارے پاس موجود نہ ہو یا اللہ تعالیٰ ایسے موقعوں پر مجھے جواب سمجھا نہ دیتا ہو بلکہ میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ اللہ تعالیٰ ایسے سوالوں کے جواب بھی سمجھا دیتا ہے جو در حقیقت خارج از ضرورت ہوتے ہیں اور جنہیں پیش کرنا کوئی معقولیت نہیں ہوتی.دنیا میں ایسی کئی باتیں ہوتی ہیں جن کا دریافت کرنا کوئی فائدہ نہیں پہنچا تا.اب اگر کوئی شخص ایسا سوال کرے اور اس کا جواب نہ دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا مثلا اگر کوئی پوچھے کہ ظہر کی چار رکھتیں کیوں مقرر ہیں اور مغرب کی تین کیوں اسی طرح عشاء کی چار رکعتیں کیوں ہیں اور فجر کی دو کیوں تو اس بات کا جواب دینا ہمارے لئے کوئی ضروری نہیں.اگر ہم نماز پڑھنے والے کا خدا تعالیٰ سے تعلق ثابت کر سکتے ہیں.اگر نماز کے متعلق یہ دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ روحانی ترقی کا صحیح ذریعہ ہے تو اس کے بعد کسی کا یہ کہنا کہ مغرب کی تین رکعتیں کیوں ہیں اور فجر کی دوکیوں یا ظہر، عصر اور عشاء کی فرض نماز کی چار چار رکعتیں کیوں ہیں ، ایک غیر ضروری سوال ہے.خدا تعالیٰ کی ان رکعتوں کے مقرر کرنے میں باریک دربار یک عمتیں ہیں جو ضروری نہیں کہ انسان کی سمجھ میں آسکیں اور اس کا ان حکمتوں کی دریافت کے پیچھے پڑنا نادانی ہے.اس کا کام صرف یہ ہے کہ جب اس پر یہ بات کھل گئی ہے کہ نماز پڑھنا خداتعالی کا حکم ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو تا ہے تو وہ نماز پڑھے.اسے اس سے کیا کہ تین رکعتیں کیوں ہیں اور چار کیوں.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بتایا تھا کہ ایک دفعہ میں باہر سفر میں تھا کہ میرے لئے ایک دوائی کی ضرورت محسوس ہوئی.قریب ہی ہسپتال تھا.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب وہاں دوا لینے گئے.سول سرجن صاحب جو اس وقت ہسپتال میں موجود تھے انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ انہیں ہسپتال لے آئیں.میری مدت سے یہ خواہش ہے کہ انہیں دیکھوں.اس طرح میں اپنی خواہش کو بھی پورا کر سکوں گا اور انہیں دیکھ کر کوئی نسخہ بھی تجویز کردوں گا چنانچہ میں گیا اور اس نے دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کو ایک نسخہ لکھوایا.اس میں صرف تین دوا ئیں پڑتی تھیں.ایک ٹنکچر نکس وامیکا تھی دوسرا سوڈا بائی کارب اور تیسری دوائی مجھے یاد نہیں رہی.اس نے کہا کہ یہ نسخہ ہے جو تیار کر کے انہیں استعمال کرایا جائے.پھر وہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی طرف مخاطب ہوا اور
185 ان سے کہنے لگا میں نے فلاں دوائی کے اتنے قطرے لکھے ہیں.اور فلاں دوائی کی مقدار اتنے گرین لکھی ہے.میں بوڑھا ہونے کو آگیا ہوں اور چند مہینوں میں ریٹائر ہونے والا ہوں.میں نہیں بتا سکتا کہ ایک دوا کے اتنے قطروں میں کیا حکمت ہے اور دوسری دوا کے اتنے گرین ہونے میں کیا حکمت ہے مگر یہ یاد رکھئے کہ اگر آپ میرے نسخہ سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو قطروں اور گرینوں میں کوئی فرق نہ کیجئے.یہ نسبت اگر قائم رہے گی تو نسخہ فائدہ دے گا اور اگر آپ نے نسبت قائم نہ رکھی تو پھر میں اس نسخہ کے مفید ہونے کا ذمہ دار نہیں.اگر آپ پوچھیں کہ ان دواؤں کی مختلف نسبتوں میں کیا حکمت ہے تو یہ میں بتا نہیں سکتا مگر میرا ہمیشہ کا تجربہ ہے کہ یہی نسبت اگر اس نسخہ میں قائم رکھی جائے تو فائدہ ہوتا ہے ورنہ نہیں ہو تا.اب اس نسخہ کی دواؤں کے اور ان کی نسبت میں کوئی حکمت ضرور تھی اور اس ڈاکٹر کا وسیع تجربہ یہی بتا رہا تھا کہ اگر اس نسبت کو قائم رکھا جائے تو فائدہ ہوتا ہے اور اگر قائم نہ رکھا جائے تو فائدہ نہیں ہو تا مگر وہ بتا نہیں سکتا تھا کہ اس میں کیا حکمت ہے اور اس نے ڈاکٹر صاحب کو بار بار کہا کہ اس نسخہ کے اجزاء کے اوزان میں کمی بیشی نہ ہو کیونکہ اسی نسبت سے ہزاروں لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے اور اگر اس نسبت کو قائم نہ رکھا جائے تو فائدہ نہیں ہوتا.ای طرح اللہ تعالیٰ کی بعض باتوں کی اللہ تعالی کی بعض باتوں کی حکمت انسانی سمجھ میں نہیں آتی حکمت انسانی سمجھ میں نہیں آتی مگر بہر حال جب ان باتوں کے فوائد ظاہر ہوں تو انسان حکمت معلوم کرنے کے جنون میں فائدہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہو تا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا ہی لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ تم نے کبھی کسی باپ کو نہیں دیکھا ہو گا جس کی اپنے بیٹے سے اس لئے محبت کم ہو گئی ہو کہ اسے معلوم نہیں کہ اس کی تلی کہاں ہے اور اس کا معدہ کہاں ہے اور اس کا جگر کہاں ہے اور اس کے پھیپھڑے کہاں ہیں.ہزاروں لاکھوں زمیندار ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ انسان کا دل کہاں ہو تا ہے اور اس کا گردہ ، جگر معدہ اور پھیپھڑے کہاں ہوتے ہیں.شاید تم میں سے ، کئی اپنے دل میں کہتے ہوں گے کہ یہ کون سی بڑی بات ہے.ہم جانتے ہیں کہ دل کہاں ہو تا ہے اور جگر کہاں ہو تا ہے اور تلی کہاں ہوتی ہے اور معدہ کہاں ہوتا ہے مگر میں تمہیں بتاؤں اگر تم کسی ڈاکٹر کے سامنے کہو کہ جگر یہاں ہوتا ہے اور معدہ یہاں تو وہ فورا تمہیں بتا دے گا کہ تم غلط سمجھتے ہو.پھر ان لوگوں کو جانے دو جو جانتے ہی نہیں کہ معدہ ، تلی ، جگر ، گردہ اور پھیپھڑے وغیرہ کہاں ہوتے ہیں.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں ان باتوں کا علم ہے ، میں نے دیکھا ہے ان میں سے دس میں سے نو ہمیشہ انتڑیوں کی جگہ کو معدہ سمجھتے ہیں یعنی جو قولون (colon) کی بڑی انتری ہوتی ہے ، ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ ہمیشہ اس کو معدہ سمجھتا ہے اور دل میں یہ خیال کر کے خوش رہتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ڈاکٹری میں بھی جانتا ہوں.وہ ہمیشہ انتڑیوں کی جگہ کو معدہ سمجھتا ہے اور ہاتھ لگا کر کہتا ہے میرے معدے میں درد ہو رہا ہے حالانکہ وہ درد معدہ میں نہیں بلکہ انتری میں ہوتا ہے.تو تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی صحیح طور پر ان اعضاء کا علم نہیں ہو تاکجا یہ کہ غیر تعلیم یافتہ طبقہ کو ان باتوں کا علم ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
186 کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ اس علم کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ کہہ دے کہ میں اس وقت تک اپنے بیٹے سے محبت نہیں کر سکتا جب تک اس کا پیٹ چاک کر کے یہ دیکھ نہ لوں کہ اس کا معدہ کہاں ہے اور جگر کہاں ہے اور تلی کہاں ہے اور پھیپھڑے کہاں ہیں.پھر جب اپنے بیٹے کے متعلق انسان ایسی بحثوں میں نہیں پڑتا تو خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق وہ کیوں آپریشن کرنا چاہتا ہے اور کیوں یہ خیال کرتا ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق میرا فلاں فلاں سوال حل نہ ہو جائے اس وقت تک میرا دل اس سے محبت نہیں کر سکتا.اگر خدا تعالیٰ کے بے شمار احسانات انسانوں پر ثابت ہو جائیں.اگر یہ واضح ہو جائے کہ انسان کو ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا کی ضرورت ہے.اگر اس کے قرب کی راہیں انسان پر کھل جائیں.اگر عرفان اور محبت الہی کی ضرورت انسان پر واضح ہو جائے اور اگر یہ بات کھل جائے کہ ہر انسان اس بات کا محتاج ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے تو پھر انسان کو اس سے کیا کہ خدا تعالی ازلی ابدی کیونکر ہو گیا.وہ غیر محدود کس طرح ہو گیا.اس نے نیست سے ہست کس طرح کر دیا.تم ان باتوں کو چھوڑ دو کہ ان کا محبت الہی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ کسی انسان کی یہ طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے بے انتہاء اندرونی اسرار کو معلوم کر سکے.تو ہر بات کی حکمت سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ محبت کے لئے صرف اس قدر معرفت ضروری ہے کہ انسان کو وہ محاسن اور خوبیاں معلوم ہو جائیں جو اس کے محبوب کے اندر ہوں.اسے اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ یہ بھی دیکھے کہ اس کے محبوب کا جگر کہاں ہے اور معدہ اور گردے اور پھیپھڑے کہاں ہیں مگر پھر بھی بعض دفعہ اللہ تعالیٰ ایسی باتوں کی کمتیں سمجھا دیتا ہے جن کی حکمتیں معلوم کرنے کی محبت اور معرفت کے لئے ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ان حکمتوں کا اس سے کوئی تعلق ہو تا ہے.تھوڑے ہی دن ہوئے ایک دوست نے مجھ سے مغرب کی فرض نماز کی تین رکعتیں کیوں مقرر ہیں سوال کیا کہ مغرب کی فرض نماز کی تین رکعتیں کیوں مقرر ہیں اور ان رکھتوں کی تعداد تین مقرر کرنے میں کیا حکمت ہے.میں چونکہ بعض خطبات اور خطوط وغیرہ میں نماز کی رکھتوں کی حکمت کے متعلق وقتا فوقتا بعض باتیں بیان کر چکا ہوں اس لئے میں نے انہیں کہا کہ بعض دوستوں کے خطوں کے جوابات اور خطبوں وغیرہ میں ایسی باتیں چھپ چکی ہیں.آپ اگر چاہیں تو انہیں تلاش کر کے دیکھ لیں.وہ ایک دعوت کا موقعہ تھا جب یہ سوال میرے سامنے پیش ہوا اور پھر اس کے بعد ا.باتیں شروع ہو گئیں اور اس سوال کا خیال میرے ذہن سے بالکل جاتا رہا.اس کے بعد ایک دن گزرا پھر دوسرا دن گزرا اور پھر تیسرا دن شروع ہو گیا.تیسرے دن مغرب کی نماز کے بعد سنتیں پڑھ کر میں تشہد میں بیٹھا تھا اور سلام پھیرنے کے قریب تھا کہ یک دم اللہ تعالیٰ نے مغرب کی نماز کی تین رکعتیں مقرر کرنے کی ایک جدید حکمت میرے دل میں ڈال دی اور عین سلام پھیرنے کے قریب جس طرح بجلی کی رو جسم میں سرایت کر جاتی ہے اسی طرح وہ علم میرے دل پر
187 نازل ہوا اور وہ یہ تھا کہ نماز یں اللہ تعالیٰ نے دو قسم کی بنائی ہیں.کچھ فرض نمازوں کا تو وہ حصہ جو دن میں ادا کیا جاتا ہے اور کچھ فرض نمازوں کا وہ حصہ ہے جو رات کے وقت ادا کیا جاتا ہے کیونکہ دن اور رات کی نمازوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے کہ انہیں خوشی کی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئیے اور مصیبتوں کے وقت میں بھی اس کی عبادت میں مشغول رہنا چاہئے.ترقی کے زمانہ میں بھی اس کی طرف جھکنا چاہئے اور تنزل کے زمانہ میں بھی اس کے دروازہ پر گرا رہنا چاہئے.تو اس حکمت کے پیش نظر اللہ تعالٰی نے اپنی عبادت کو دو حصوں میں منقسم کر دیا اور ایک حصہ تو دن میں رکھا اور دوسرا حصہ رات میں.اس طرح پانچ نمازیں چوبیس گھنٹوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں اور تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد انسان کو نماز پڑھنی پڑتی ہے.دوسری طرف ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون نظر آتا ہے کہ وہ طاق اللہ تعالی طاق چیزوں کو پسند کرتا ہے چیزوں کو پسند کرتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالی طاق چیزوں کو پسند کرتا ہے.وہ خود بھی ایک ہے اور دوسری اشیاء کے متعلق بھی وہ یہی پسند کرتا ہے کہ وہ طاق ہوں چنانچہ یہ حکمت ہمیں ہر جگہ نظر آتی ہے مگر یہ ایک الگ اور وسیع مضمون ہے جس کو اس وقت بیان نہیں کیا جا سکتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تمام قانون قدرت میں اللہ تعالیٰ نے طاق کو قائم رکھا ہے اور اس کے ہر قانون پر طاق حاوی ہے.قرآن کریم کے محاوروں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محاوروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سات کے عدد کو تکمیل کے ساتھ خاص طور پر تعلق ہے چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے دنیا کو سات دن میں بنایا.اسی طرح انسان کی روحانی ترقیات کے سات زمانے ہیں.پھر آسمانوں کے لئے بھی قرآن کریم میں سبع سموات کے الفاظ آتے ہیں اور یہ طاق کا عدد ہے.تو طاق کا عد داللہ تعالیٰ کے حضور خاص حکمت رکھتا ہے اور اس کا مظاہرہ ہم تمام قانون قدرت میں دیکھتے ہیں.اب اس قانون کے مطابق اگر فرض نمازوں کی رکعات کو جمع کرو تو وہ طاق ہی بنتی ہیں چنانچہ ظہر کی چار عصر کی چار ، مغرب کی تین ، عشاء کی چار اور فجر کی دو کل سترہ رکعات ہوتی ہیں اور اس طرح فرض نماز کی رکعتوں میں اللہ تعالٰی نے طاق کی نسبت کو قائم رکھا ہے.پس چونکہ اللہ تعالیٰ کے تمام کاموں میں طاق مد نظر رکھا گیا ہے اس لئے پانچ نمازوں میں سے ایک فرض نماز کی رکھتیں تین کردی گئیں تاکہ طاق کے متعلق اللہ تعالیٰ کا جو قانون ہے وہ نمازوں میں بھی آجائے.اسی طرح و تروں کی نماز کو طاق اس لئے بنایا گیا ہے کہ نوافل بھی طاق ہو جائیں اور اسی وجہ سے وتروں کو معمولی سنتوں سے زیادہ وقعت دے دی گئی ہے تاکہ مسلمان انہیں ضرور ادا کرے اور اس کے نوافل طاق ہو جایا کریں اور یہی وجہ ہے کہ وتروں کے سوا اور کوئی نفل طاق نہیں ہو تا تا دو طاق مل کر جفت نہ ہو جائیں اور یہی حکمت ہے کہ
188 رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر کبھی عشاء کے وقت وتر پڑھ لیتے تو تہجد کے وقت ایک رکعت پڑھ کرا نہیں جفت کر دیتے تاکہ تہجد کے آخر میں آپ کو تر پڑھ سکیں اور ان کے پڑھنے سے نوافل جفت نہ ہو جائیں.اب اس پر سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ مغرب کی نماز کی ہی تین رکھتیں کیوں مقرر کی گئی ہیں کسی اور نماز کی تین رکھتیں کیوں مقرر نہیں کردی گئیں تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سوال کا بھی جواب سمجھایا اور وہ یہ کہ دن کی نمازوں کی رکعات ہیں آٹھ اور رات کی فرض نمازوں کی رکعات ہیں نو.چنانچہ دیکھ لو مغرب کی تین ، عشاء کی چار اور فجر کی دو کل نو رکعت بنتی ہیں.چونکہ مغرب کی نماز سورج ڈوبنے کے بعد پڑھی جاتی ہے اور فجر کی نماز سورج نکلنے سے پہلے پڑھی جاتی ہے اس لئے یہ دونوں نمازیں بھی دراصل رات کی ہی نمازیں ہیں.اور ان نمازوں کی ایک رکعت مصیبتوں کے وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکنا چاہئے زیادہ کرنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ انسان کو تکلیفوں اور مصیبتوں کے وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکنا چاہئے تاکہ وہ اس کے فضلوں کو جذب کر سکے.اسی لئے دن کے وقت اللہ تعالی نے آٹھ رکعات نماز کی رکھیں اور رات کے وقت نو.باقی رہا مقام کا سوال کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایک رکعت کی زیادتی مغرب میں کیوں کی ہے کسی اور نماز میں کیوں نہیں کر دی تو اس کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا اور وہ یہ کہ صبح کے وقت اللہ تعالیٰ کے فرشتے خاص طور پر نازل ہوتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کو بندوں کی تلاوت قرآن کی خبر دیتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جب انسان سو کر اٹھتا ہے تو اس وقت اس کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے اور نئے دور کے ابتداء کے وقت ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنے اند ر بلند ارادے پیدا کرے اور کہے کہ میں یوں کروں گا میں ووں کروں گا اور یہ تمام باتیں چونکہ قرآن کریم میں موجود ہیں اس لئے جب سو کر اٹھنے کے بعد انسان کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے ، اسے اس کے روحانی پروگرام کی طرف توجہ دلانے کے لئے اسلام نے اس وقت قرآن کریم کی لمبی تلاوت مقرر کر دی اور حکم دیا کہ فجر کی نماز میں قرآن کریم کی لمبی تلاوت کی جائے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا معاملہ احکام میں یسر کا ہے ،عسر کا نہیں اس لئے فجر کی نماز اس نے باقی تمام نمازوں سے چھوٹی کر دی تاکہ لمبی تلاوت کی جاسکے.پس فجر کی نماز کو تو اس نے چھوٹا کیا لیکن تلاوت قرآن کو لمبا کر دیا کیونکہ اس وقت اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے مضامین بار بار سامنے آئیں.پس فجر کی نماز کو چھوٹا کرنا ضروری تھا تا تلاوت کو لمبا کیا جاسکے.یہ نماز در حقیقت عصر کی نماز کے مقابل پر ہے اور ظاہر میں اس کے عدد کو عصر کے ساتھ اس طرح بھی مشابہت ہو جاتی ہے کہ عصر کے ساتھ کوئی سنت موکدہ نہیں ہیں اور صبح کے ساتھ دو سنتیں ایسی ہیں جو عام موکدہ سنتوں سے بھی زیادہ موکدہ ہیں.اس طرح صبح کی رکعتیں بھی چار ہو جاتی ہیں اور عصر کی بھی چار ہوتی ہیں.اس کے مقابل پر عشاء کی نماز ظہر کے مقابل پر ہے اور اس میں دو سنتیں اور تین و ترلازمی ہیں.وتر کی رکعت نکال دی جائیں تو چار نوافل ہو جاتے ہیں.یہ ظہر کی دود و سنتیں فرض کر کے ظہر کی سنتوں کے برابر ہو جاتی ہیں لیکن اگر چھ یا آٹھ سنتیں قرار دی جائیں تو پھر یہ کم
189 رہ جاتی ہیں لیکن جب دیکھا جائے کہ اس کے بعد تجد پر زور دیا گیا ہے تو ظہر کے نوافل کی کمی کا ازالہ اس سے ہو جاتا ہے.علاوہ ازیں وتروں کے بعد بھی دو نفل رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاص تعمد سے بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے.اس سے بھی ظہر اور عشاء کی رکعات برا بر ہو جاتی ہیں مگر یہ ایک وسیع مضمون ہے میں نے اشار تا اس کی طرف توجہ دلائی ہے.غرض عشاء کی نماز جو عصر کی نماز کے مقابلہ میں تھی اس میں کسی زیادتی کی گنجائش نہیں تھی.صرف مغرب کی نماز ہی رہتی تھی جسے طاق بنانے کے لئے اس میں ایک رکعت کی زیادتی کی جاسکتی تھی.اس حکمت کے ماتحت خد اتعالیٰ نے مغرب کی نماز کی تین رکعتیں مقرر کر دیں کیونکہ کسی نماز کا تین رکعت پر مشتمل ہو نا نمازوں کے طاق بنانے کے لئے ضروری تھا اور ادھر ضروری تھا کہ یہ زیادتی رات کی نمازوں میں کی جائے یہ جتانے کے لئے کہ مصیبت کے وقت انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے مگر رات کی نمازوں میں سے فجر میں یہ زیادتی نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ وہاں لمبی تلاوت قرآن کا حکم دے دیا گیا تھا.عشاء کی نماز میں بھی یہ زیادتی نہیں ہو سکتی تھی صرف مغرب کی نماز رہتی تھی.سوخدا نے مغرب کی نماز میں مسلمانوں کو تین رکعت پڑھنے کا حکم دے دیا.اب بظاہر اس حکمت کے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جس پر امنا و صدقنا کہنا چاہئے نہ یہ کہ تفصیلات میں پڑکر انسان بار یک دربار یک حکمتیں معلوم کرنے کی کو شش کرے اور اگر ایسی ہی باتوں میں انسان مصروف ہو جائے تو کہہ سکتا ہے کہ پہلے رکوع کیوں رکھا اور سجدہ بعد میں کیوں رکھا کیوں نہ سجدہ پہلے رکھ دیا اور رکوع بعد میں اور گو اس میں بھی عمتیں ہیں مگر تمہارا کام یہ نہیں کہ تم ان باتوں میں اپنا وقت ضائع کرو.تمہیں جب رکوع کرنے کو کہا جاتا ہے تو تم رکوع کرو.جب سجدہ کرنے کو کہا جاتا ہے تو سجدہ کرو.تم پر جب نماز کی حقیقت منکشف ہو چکی ہے تو تمہارا یہ کام ہے کہ جس طرح خدا نے نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے اسی طرح تم نمازیں پڑھو نہ یہ کہ چھوٹی چھوٹی بات کی حکمت دریافت کرنے کے پیچھے لگ جاؤ.تو ضروری نہیں ہو تا کہ ان باتوں کی ظلمتیں سمجھائی جائیں مگر بعض دفعہ اللہ تعالی سمجھا بھی دیتا ہے اور اس طرح قرآنی علوم کھولتا رہتا ہے.بہر حال مباحثات کے باب میں میرا وسیع تجربہ یہ ہے کہ قرآنی علوم کا مقابلہ کوئی دشمن نہیں کر سکتا قرآنی علوم ایسے ہیں کہ ان کا مقابلہ کوئی دشمن نہیں کر سکتا.اگر ہماری جماعت کے نوجوان ان قرآنی علوم کو سیکھ لیں تو جو دلائل اور براہین کی لڑائی ہے اس میں کوئی بڑے سے بڑا لشکر بھی ان کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا.دوسری چیز عمل ہے.اگر نوجوان اخلاق فاضلہ سیکھ لیں اور پھر عملی طور پر بھی ان کا قدم ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا چلا جائے تو دنیا کیا بڑے بڑے دینوں پر بھی وہ غالب آسکتے ہیں.تیسری چیز سامانوں کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کامیابی سے محروم رہ جاتا ہے.اس کے لئے میں نے دعا کا طریق بتایا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل نازل
190 ہوں اور ہمارے سامانوں کی کمی کو پورا کر دیں اور یقینا اگر ہماری جماعت کے نوجوان نہ صرف دلائل سے کام لینے والے ہوں، نہ صرف اخلاق فاضلہ کے مالک ہوں بلکہ دعاؤں سے بھی کام لینے کے عادی ہوں تو ان کے مقابلہ میں کوئی طاقت نہیں ٹھر سکتی.میں نے خدام الاحمدیہ کے سامنے ایک پروگرام خدام الاحمدیہ اپنے پروگرام کو ہمیشہ سامنے رکھے پیش کر دیا ہے اور میں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان باتوں کو یا درکھیں جو میں نے بیان کی ہیں اور ہمیشہ اپنے آپ کو قومی اور ملکی خدمات کے لئے تیار رکھیں.دنیا میں قریب ترین عرصہ میں عظیم الشان تغیرات رونما ہونے والے ہیں اور در حقیقت تحریک جدید ایک ہنگامی چیز کے طور پر میرے ذہن میں آئی تھی اور جب میں نے اس تحریک کا اعلان کیا ہے اس وقت خود مجھے بھی اس تحریک کی کئی حکمتوں کا علم نہیں تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک نیت اور ارادہ کے ساتھ میں نے یہ سکیم جماعت کے سامنے پیش کی تھی کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ جماعت کی ان دنوں حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے شدید ہتک کی گئی تھی اور سلسلہ کا وقار خطرے میں پڑ گیا تھا.پس میں نے چاہا کہ جماعت کو اس خطرے سے بچاؤں مگر بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی رحمت انسانی قلب پر تصرف کرتی اور روح القدس اس کے تمام ارادوں اور کاموں پر حاوی ہو جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں میری زندگی میں بھی یہ ایسا ہی واقعہ تھا جب کہ روح القدس میرے دل پر اترا اور وہ میرے دماغ پر ایسا حاوی ہو گیا کہ مجھے یوں محسوس ہوا گویا اس نے مجھے ڈھانک لیا ہے اور ایک نئی سکیم ، ایک دنیا میں تغیر پیدا کر دینے والی سکیم میرے دل پر نازل کردی اور میں دیکھتا ہوں کہ میری تحریک جدید کے اعلان سے پہلے کی زندگی اور بعد کی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے.قرآنی نکتے مجھ پر پہلے بھی کھلتے تھے اور اب بھی کھلتے ہیں مگر پہلے کوئی معین سکیم میرے سامنے نہیں تھی جس کے قدم قدم کے نتیجہ سے میں واقف ہوں اور میں کہہ سکوں کہ اس رنگ میں ہماری جماعت ترقی کرے گی مگر اب میری حالت ایسی ہی ہے کہ جس طرح انجنیئر ایک عمارت بناتا اور اسے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ عمارت کب ختم ہو گی.اس میں کہاں کہاں طاقچے رکھے جائیں گے.کتنی کھڑکیاں ہوں گی.کتنے دروازے ہوں گے.کتنی اونچائی پر چھت پڑے گی.اسی طرح دنیا کی اسلامی فتح کی منزلیں اپنی بہت سی تفاصیل اور مشکلات کے ساتھ میرے سامنے ہیں.دشمنوں کی بہت سی تدبیریں میرے سامنے بے نقاب ہیں.اس کی کوششوں کا مجھے علم ہے اور یہ تمام امور ایک وسیع تفصیل کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں.تب میں نے سمجھا کہ یہ واقعہ اور فساد خد اتعالیٰ کی خاص حکمت نے کھڑا کیا تھا تا وہ ہماری نظروں کو اس عظیم الشان مقصد کی طرف پھرا دے جس کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو بھیجا.پس پہلے میں صرف ان باتوں پر ایمان رکھتا تھا مگر اب میں صرف ایمان ہی نہیں رکھتا بلکہ میں تمام باتوں کو دیکھ رہا ہوں.میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ کو کس کس رنگ میں نقصان پہنچایا جائے گا.میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ پر کیا کیا حملہ کیا جائے گا اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے ان حملوں کا کیا جواب دیا جائے گا.
191 ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے اور اسی کا ایک حصہ خدام الاحمدیہ ہیں.اور در حقیقت یہ روحانی ٹریننگ اور خدام الاحمدیہ روحانی ٹرینینگ اور روحانی تعلیم و تربیت ہے روحانی تعلیم و تربیت ہے اس فوج کی، جس فوج نے احمدیت کے دشمنوں سے مقابلہ میں جنگ کرنی ہے.جس نے احمدیت کے جھنڈے کو فتح اور کامیابی کے ساتھ دشمن کے مقام پر گاڑنا ہے.بے شک وہ لوگ جو ان باتوں سے واقف نہیں وہ میری ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہر شخص قبل از وقت ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا.یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے جو وہ اپنے کسی بندے کو دیتا ہے.میں خود بھی اس وقت تک ان باتوں کو نہیں سمجھا تھا جب تک اللہ تعالی نے مجھ پر ان امور کا انکشاف نہ کیا.پس تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے اور بے شک تم کہہ سکتے ہو کہ ہمیں تو کوئی بات نظر نہیں آتی لیکن مجھے تمام باتیں نظر آرہی ہیں.آج نوجوانوں کی ٹرینینگ اور ان کی تربیت کا زمانہ ہے اور ٹرینینگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے.لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو رہا مگر جب قوم تربیت پا کر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے.در حقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اٹھنے پر اٹھے اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہے اور یہ چیز ہماری جماعت میں ابھی پیدا نہیں ہوئی.ہماری جماعت میں قربانیوں کا مادہ بہت کچھ ہے مگر ابھی یہ جذبہ ان کے اندر کمال کو نہیں پہنچا کہ جونہی ان کے کانوں میں خلیفہ وقت کی طرف سے کوئی آواز آئے اس وقت جماعت کو یہ محسوس نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں نے ان کو اٹھا لیا ہے اور صور اسرافیل ان کے سامنے پھونکا جا رہا ہے.جب آواز آئے کہ بیٹھو تو اس وقت انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں کا تصرف ان پر ہو رہا ہے اور وہ ایسی سواریاں ہیں جن پر فرشتے سوار ہیں.جب وہ کھے بیٹھ جاؤ تو سب بیٹھ جائیں.جب کے کھڑے ہو جاؤ تو سب کھڑے ہو جائیں.جس دن یہ روح ہماری جماعت میں پیدا ہو جائے گی اس دن جس طرح باز چڑیا پر حملہ کرتا اور اسے توڑ مروڑ کر رکھ دیتا ہے اسی طرح احمدیت اپنے شکار پر گرے گی اور تمام دنیا کے ممالک چڑیا کی طرح اس کے پنجہ میں آجائیں گے اور دنیا میں اسلام کا پرچم پھر نئے سرے سے لہرانے لگ جائے گا." (خطبہ جمعہ فرموده ۷ امارچ ۱۹۳۹ء مطبوعہ الفضل ۷ اپریل ۱۹۳۹ء)
192 خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ مؤذنوں کو درست اذانیں " سکھائیں میں نے غالباً ایک سال کا عرصہ ہوا خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی صحیح تلفظ اور اچھی آواز کی اہمیت کہ قادیان میں جو لوگ اذانیں دیتے ہیں ان کی اذانوں کی اصلاح کر دیں.اب تو ان میں بہت سے مولوی فاضل بھی شامل ہو چکے ہیں.خود ان کے صدر مولوی فاضل اور حافظ ہیں اس لئے یہ کام ان کے لئے بہت آسان ہے مگر اب یہ مرض بجائے کم ہونے کے زیادہ شاندار ہو رہا ہے.ابھی جو اذان کہی گئی ہے یوں معلوم ہو تا تھا کہ موذن کے حلق میں آلو پھنسا ہوا ہے.وہ ہر لفظ کو آؤں کہہ کر ادا کرتا ہے.پہلے تو میں نے توجہ دلائی تھی کہ حسی کو حایا کہا جاتا ہے مگر آج صرف حسی کہا گیا ہے یعنی دوسری یا ء ا ڑ گئی ہے.اذان کا درست طور پر یاد کر لینا معمولی سی بات ہے اور اس کے خوبصورت یا بد صورت ہونے کا طبائع پر اثر پڑتا ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک مسجد کے پاس ایک سکھ رئیس رہا کرتا تھا.اس نے ایک دفعہ اس مسجد میں اذان دینے والے کو کچھ تحفہ دیا.پگڑی اور دس بارہ روپے اسے دے دیئے اور کہا کہ یہ نذر ہے اس لئے کہ آپ آئندہ اذان کہنی چھوڑ دیں.اس نے پوچھا کہ کیوں تو وہ کہنے لگا کہ آپ کی آواز ایسی اچھی ہے کہ میری بیٹی کہتی ہے کہ مجھے مسلمانوں کا مذہب بہت اچھا لگتا ہے اس لئے یہ نذر لے لو اور بھی میں پیش کرتا رہوں گا اور اذان کہنا چھوڑ دو.وہ بے چارہ معمولی حیثیت کا آدمی تھا.لالچ میں آگیا اور اذان کہنی چھوڑ دی.دوسرا جو اس کی جگہ مقرر ہوا اس کی آواز نہایت مکروہ تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ چند روز کے بعد اس سکھ رئیس کی لڑکی نے کہا کہ اباجی معلوم ہوتا ہے ، میری رائے غلط تھی.مسلمانوں کا مذہب کوئی ایسا اچھا معلوم نہیں ہو تا.تو ظاہری باتوں کا بھی طبائع پر اثر ہوتا ہے.ہندوستانی ل سے پہلے ایک آؤ کی ظاہری باتوں کا طبائع پر اثر آواز نکالتے ہیں اور اس طرح پو را زور لگا کر اس آؤ کو نکالتے ہیں جس طرح مزدور کہا کرتے ہیں کہ ”لا دے زور " مگر عربی طریق یہ نہیں وہ ال کہیں گے جیسے برتن میں کوئی چیز ڈالی جائے تو اسے جھنکار پیدا ہوتی ہے.یہ عربی زبان کی ایک خوبی ہے کہ اس میں ایک موسیقی پائی جاتی ہے اور کسی زبان میں یہ بات نہیں اور عربی کی اس خوبی کا بہترین نمونہ قرآن کریم نے پیش کیا ہے.دنیا کی کوئی اور ایسی کتاب نہیں جس کی نثر ترتیل کے ساتھ پڑھی جاسکے جس طرح کہ قرآن کریم پڑھا جا سکتا ہے.
193 اردو انگریزی یا کسی اور زبان کی کوئی اور ایسی کتاب نہیں جس کی عبارت اس طرح پڑھی جاسکے جس طرح ہم ترتیل کے ساتھ الحمد لله رب العالمین پڑھتے ہیں.اس کی بجائے اگر انگریزی کی یہ عبارت ہم ترتیل کے ساتھ پڑھیں "I will go there " تو وہ اس قدر مضحکہ خیز ہو جائے گی کہ ہر سننے والا ہنس پڑے گا مگر عربی کے الفاظ ایسے ہیں کہ ان کا اتار چڑھاؤ بالکل نظم کا سا ہوتا ہے.اس کی حرکات اپنے اندر خصوصیات رکھتی ہیں اور جب تک ان کی اتباع نہ کریں یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا منہ چڑا رہے ہیں.اکسنٹ (ACCENT) پر جتنا زور عربی نے دیا ہے اور کسی زبان نے نہیں دیا.ہر لفظ کی اس کے اتار چڑھاؤ سے اچھی یا بری شکل بن جاتی ہے اور ان کی کمی بیشی سے معنے بھی بدل جاتے ہیں.مثلاً "ل " کے معنی ضرور کے ہیں لیکن اگر ذر المبا کر دیں اور "لا" کہیں تو اس کے معنی نہیں ہوں گے.تو حرکت کے ذرا چھوٹا یا بڑا کر دینے سے معنی بالکل بدل جاتے ہیں.قرآن کریم میں یتقون اور یتقون کے الفاظ آتے ہیں.یتقون کے معنی ہیں وہ ڈرتے ہیں اور یتقون کے معنی ہو جائیں گے وہ مجھ سے ڈرتے ہیں تو جزم اور زیر کے فرق سے معنوں میں بہت سا فرق پڑ جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة خدا تعالی کے کلام کو بیان کرنے کی بہترین استعداد عربی میں ہے و السلام کے پاس ایک مرتبہ ایک پادری آیا.اس نے کہا کہ عربی زبان کوئی ایسی زبان نہیں کہ جس میں خدا کا کلام نازل ہو یہ تو بدوؤں کی زبان ہے.آپ نے فرمایا کہ نہیں خدا کا کلام بیان کرنے کی جو استعداد عربی زبان میں ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں مگر اس پادری کا دعویٰ تھا کہ انگریزی کا مقابلہ عربی زبان ہرگز نہیں کر سکتی.آپ نے اسے کہا کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو بیان کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ زبان ایسی ہو جو بڑے سے بڑا مضمون چھوٹے سے چھوٹے الفاظ میں ادا کر سکے.اس نے کہا ہاں.انگریزی میں ہی یہ خصوصیت ہے.آپ نے فرمایا اچھا اگر میرا پانی کہنا ہو تو انگریزی میں کیا کہیں گے اس نے کہا ”مائی واٹر.آپ نے فرمایا عربی میں صرف ”مائی "کہہ دینا کافی ہو گا گویا انگریزی میں واٹر زائد ہے.آپ کا یہ فرمانا بالکل خدائی تصرف کے ماتحت تھا ورنہ آپ تو انگریزی جانتے ہی نہ تھے.اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کے منہ سے ایسا فقرہ کہلوا دیا جس سے عربی کا اختصار انگریزی کے مقابلہ میں واضح ہو گیا حالانکہ شاذ کے طور پر کوئی ایسا فقرہ بھی ہو سکتا ہے جس کا انگریزی ترجمہ عربی سے مختصر ہو مگر آپ کے منہ سے اسی فقرہ کا نکلنا تصرف الہی کے ماتحت تھا کہ ایسا فقرہ آپ کے منہ سے نکلا کہ جس کا آدھا حصہ ہی عربی میں انگریزی کے پورے فقرے کے معنے دیتا ہے.تو عربی زبان میں کئی خصوصیات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی نثر ترتیل کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہے اور زبانوں میں یہ بات نہیں.ان کو اگر اس رنگ میں پڑھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ منہ چڑایا جا رہا ہے.پس خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ تمام بیوت کے موذنوں کو درست اذان سکھائیں اور ان کو الفاظ پر بلاوجہ زور دینے اور گولائی دینے سے روکیں".(خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جنور کی ۱۹۴۰ء مطبوعہ انفضل ۳ مئی ۱۹۴۰ء)
ہو چکا ہے ختم اب چگر تری تقدیر کا سونے والے اُٹھ کہ وقت آیا ہے اب تدبیر کا شکوه جور فلک کب تک رہے گا بر زبان دیکھ تو اب دوسرا رُخ بھی ذرا تصویر کا کاغذی جامہ کو پھینک اور آہنی زرہیں پہن وقت اب جاتا رہا ہے شوخی تحریر کا نیزه دشمن تیرے سینہ میں پیوستہ نہ ہو اس کے دل کے پار ہو سو فار تیرے تیر کا اپنی خوش اخلاقیوں سے موہ لے دشمن کا دل دلبری کر چھوڑ سودا نالہ دل گیر کا مدتوں کھیلا کیا ہے لعل و گوہر سے عدد اب دکھا دے تو ذرا جو ہر اُسے شمشیر کا پیٹ کے دھندوں کو چھوڑ اور قوم کے فکروں میں پڑ ہاتھ میں شمشیر کے عاشق نہ بن کف گیر کا ملک کے چھوٹے بڑے کو وعظ کر پھر وعظ کر وعظ کرتا جا نہ کچھ بھی فکر کر تاثیر کا کل کے کاموں کو بھی ممکن ہو اگر تو آج کر اے مری جاں وقت یہ ہرگز نہیں تاخیر کا ہو چکی مشق ستم اپنوں کے سینوں پر بہت اب ہو دشمن کی طرف رُخ خنجر و شمشیر کا اے میرے فرہاد رکھ دے کاٹ کر کوہ وجبل تیرا فرض اولیں لانا ہے جوئے شیر کا ہو رہا ہے کیا جہاں میں کھول کر آنکھیں تو دیکھ وقت آپہنچا ہے تیرے خواب کی تعبیر کا ***
195 دنیا ہمیشہ اماموں کی محتاج رہے گی.بار بار امام آنے کی ضرورت مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد.سب نوجوانوں کی اصلاح اور دوسروں کو مفید دینی کاموں میں لگانا ہر زمانہ کا جہاد الگ الگ ہو تا ہے تعلیم قرآن کے کام کی اہمیت خدام الاحمدیہ میں شمولیت لازمی ہے ه اطفال الاحمدیہ خدام الاحمدیہ انصار اللہ ان مجالس میں شامل ہونا در حقیقت اپنے ایمان کی حفاظت کرنا ہے (خطبہ جمعہ فرموده ۲۶ جولائی ۱۹۴۰ء)
196 " حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے متعلق ایک دعا کی تھی وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے اور وہ دعا یہ تھی کہ رتن کو ابعث فِيهِمْ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ أيتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِم (البقرہ:۱۳۰) اے میرے رب ! تو ان میں ایک نبی مبعوث فرما جس کا کام یہ ہو کہ يَتْلُوا عَلَيْهِم ایتِكَ وه تیری آیتیں انہیں پڑھ کر سنائے.وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والحكمة اور شریعت کے احکام اور ان کی عمتیں انہیں سمجھائے.ویز تحبهم اور انہیں پاک کرے یا یزکیھم کے دوسرے معنوں کے مطابق انہیں ادفی حالتوں سے ترقی دیتے دیتے اعلیٰ مقامات تک پہنچا دے.یہ دعا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی ہے اس کے بالمقابل انہوں نے اپنی اولاد کے متعلق ایک عام دعا بھی کی ہے.چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کے بعض احکام کی انہوں نے فرمانبرداری کی اور اللہ تعالٰی نے ان کی اس خدمت کو قبول کیا اور فرمایا کہ ہم تم کو امام بناتے ہیں.تو رانٹی جاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِ ماما کی خبر سننے کے بعد انہوں نے فرمایا و من ذریتی (البقرہ: ۱۲۵) میری امامت تو میرے زمانہ کے لوگوں تک ختم ہو جائے گی.لیکن دنیا تو اماموں کی ہمیشہ محتاج رہے گی اور جب دنیا ہمیشہ اماموں کی دنیا ہمیشہ اماموں کی محتاج رہے گی محتاج رہے گی.تو اے خدا میری ذریت میں سے بھی امام مقرر کئے جائیں.گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ کوئی نبی ہمیشہ ہمیش کے لئے دنیا کے لئے رہبر نہیں رہ سکتا.بلکہ بار بار خدا تعالیٰ کی طرف سے امام آنے کی ضرورت ہوتی ہے.اب بار بار امام آنے کی ضرورت ایک طرف وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار امام آنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی اولاد میں سے متواتر امام بنائے جانے کی درخواست کرتے ہیں اور دوسری طرف مکہ سے تعلق رکھنے والے سلسلہ کے متعلق یوں دعا فرماتے ہیں.رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُم کہ اے میرے رب! ان میں ایک رسول بھیج.اب سوال یہ ہوتا ہے کہ یہاں انہوں نے صرف ایک رسول مبعوث کئے جانے کی کیوں دعا کی.جب کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایک رسول کافی نہیں ہو تا.بلکہ دنیا ہمیشہ رسولوں کی محتاج رہتی ہے اور اسی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ میری امامت کبھی اچھے نتیجے پیدا نہیں کر سکتی جب تک میری اولاد میں سے بھی امام نہ ہوں اور جب تک ہدایت کا وہ پیج جو میرے ہاتھوں سے بویا جائے اس کا بعد میں بھی نشو و نمانہ ہو تا رہے.میں تو امام ہو گیا.لیکن اگر بعد میں دنیا گمراہ ہو گئی تو میری امامت کیا نتیجہ پیدا کرے گی.حضرت عیسی علیہ السلام جو آپ کی ذریت سے تعلق رکھنے والے اماموں میں سے ایک امام ہیں ان کے متعلق بھی قرآن کریم میں ذکر آتا ہے.کہ قیامت کے دن جب خداتعالی ان سے پوچھے گا کہ تیری قوم جس شرک
197 میں مبتلا ہوئی کیا اس کی تو نے لوگوں کو تعلیم دی تھی.اور کیا تو نے یہ کہا تھا کہ میری اور والدہ کی پرستش کرو.تو اس کے جواب میں وہ کہیں گے وَ كُنتُ عَلَيْهِم شَهِيدا مَا دُمتُ فِيهِمْ فَلَما توفيتنِي كُنت انت الرقيب عَلَيْهِم (المائدہ: ۱۱۸) کہ جب تک میں ان میں رہا' ان کی نگرانی کر تا رہا مگر جب مجھے وفات دے دی گئی تو حضور پھر میں کیا کر سکتا تھا اور مجھے کیو نکر معلوم ہو سکتا تھا کہ میری قوم بگڑ گئی ہے.گویا حضرت عیسی علیہ السلام بھی یہ امر تسلیم کرتے ہیں کہ نبی کا اثر کا اثر ایک عرصہ تک ہی چلتا ہے ایک عرصہ تک ہی چلتا ہے.اس کے بعد اگر قوم بگڑ جاتی ہے تو كُنت انت الرقيب عَلَيْهِم خدا تعالیٰ کو ان کی ہدایت کا کوئی اور سامان کرنا پڑتا ہے.یہ بھی تصدیق ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی کہ کو مین در سی یعنی میری ذریت میں سے بھی ایسے لوگ ہونے چاہئیں ور نہ دنیا کی ہدایت قائم نہیں رہ سکتی.تو حضرت عیسی علیہ السلام کا بیان ایک اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا دو.یہ اس بات کے شاہد ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی کہ دنیا میں ہدایت کے قیام کے لئے متواتر اماموں کا ہونا ضروری ہے.جب متواتر اماموں کا ہونا ضروری ہے اور اس کے بغیر ہدایت قائم نہیں رہ سکتی.تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کے کیا معنے ہوئے کہ رَبَّنَا وَ أَبَعَثُ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْهـ اے میرے رب ان میں ایک رسول بھیج.پھر تو انہیں یہ دعا مانگنی چاہئے تھی کہ رَبَّنَا و ابعث فِيهِمُ رُسُلًا مِنْهُم يَتْلُونَ عَلَيْهِمُ ابْتِكَ و يُعلِمُونَهُمُ الكتب والحكمة ويركُونَهُم - کہ اے میرے رب ! ان میں بہت سے انبیاء بھیجیو جو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر انہیں سنائیں اور تیری شریعت کے احکام اور ان کی عظمتیں انہیں بتائیں اور انہیں اپنی قوت قدسیہ سے پاک کرتے رہیں.مگر وہ تو یہی دعا کرتے ہیں کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُم - ا میرے رب! ان میں ایک رسول بھیج.يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ایک وہ تیری آیتیں پڑھے نہ کہ پڑھیں.ويُعلِمُهُ:م:UAGE TAKENALTAGEحكمة اور وہ ان کو کتاب اور حکمت سکھائے نہ کہ سکھائیں ویزکیھم اور وہ ان کو پاک کرے.نہ کہ پاک کریں.مگر خود وہی دوسرے موقعہ پر دعا کے ذریعہ اس امر کا اقرار کر چکے ہیں کہ میری نبوت کافی نہیں ہو سکتی.جب تک میری اولاد میں سے بھی انبیاء نہ ہوں.اور جب تک نبیوں کا ایک لمبا سلسلہ دنیا میں قائم نہ ہو اس ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ کیوں دعا کی.کہ ان میں ایک نبی معبوث کیجیئں.یہ ایک سوال ہے جس کو اگر ہم قرآن کریم سے ہی حل نہ کر سکیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر خطرناک الزام آتا ہے.کہ انہوں نے ایک ایسی دعا کی جس سے دنیا کو ہدایت کامل نہیں مل سکتی تھی.اور دنیا کے لئے نور کا ایک رستہ کھولتے ہوئے انہوں نے اسے معا بند کر دیا.یہ تو کہا جا سکتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذہن آگے کی طرف گیا ہی نہیں.انہوں نے صرف یہ چاہا کہ میرے بعد ایک نبی آجائے.اور آئندہ کے متعلق وہ خود دعا کرتا رہے.مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری دعا نے بتادیا کہ ان کے دل میں یہ خیال آیا ر دو اے
198 اور انہوں نے اس کے متعلق دعا بھی کی.چنانچہ فرمایا و من ذریتی که میری اولاد میں سے بھی ائمہ ہوتے رہیں.تو یہ کہنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بعد کے زمانہ کی ضروریات کی طرف ذہن ہی نہیں گیا بالکل غلط ہے.کیونکہ ان کی دوسری دعا نے بتا دیا.کہ انہیں قیامت تک لوگوں کی ہدایت کا خیال تھا اور جب انہیں اس امر کا خیال تھا او ر وہ سمجھتے تھے کہ ائمہ کا ہمیشہ آتے رہنا ضروری ہے تو پھر اس دعا پر انہوں نے کیوں کفایت کی کہ خدایا ان میں ایک رسول بھیج.جو انہیں تیری آیات پڑھ پڑھ کر سنائے انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے.اس سوال کا جواب ہمیں قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتا ہے.چنانچہ سورہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ القُدرسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيم - هُوَ الذي بَعَتَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والحكمة (الجمعہ : ۳۴۲) یہ وہی الفاظ ہیں جو حضرت رور ابراہیم علیہ السلام نے دعا کرتے ہوئے استعمال کئے تھے.فرماتا ہے وہ خدا بڑی بلند شان والا ہے جس نے ابراہیم کی دعا کو سن کر اسپین میں اپنا رسول مبعوث کیا.یتلوا عليهم ایتہ وہ ان کو اس کی آیتیں پڑھ پڑھ کر بناتا ہے.ویزکیھم اور ان کو پاک کرتا ہے.ويُعلمهم الكتب و الحكمة اور ان کو آسمانی کتاب کو سمجھاتا اور شرائع کی بار یک دربار یک حکمتیں بتاتا ہے.یہ بتا کر کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول ہو گئی.اور اب اس اعتراض کا ازالہ کرتا ہے جو بعض طبائع میں پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا نا مکمل ہے کیونکہ جہاں اپنی اولاد کے متعلق عام دعا انہوں نے یہ کی تھی کہ ان میں متواتر رسول آتے رہیں.وہاں مکہ والوں کے متعلق انہوں نے صرف یہ دعا کی کہ ان میں سے ایک رسول مبعوث ہو.چنانچہ فرماتا ہے.و اخرین مِنهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ ان دعاؤں میں بے شک ایک فرق ہے.مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ابراہیمی اولاد کے بعض حصوں میں ایسے نبی آنے تھے جنہوں نے اپنی ذات میں مستقل ہونا تھا.مگر ابراہیم علیہ السلام نے مکہ والوں کے متعلق جو دعا کی وہ صرف ایسے رسول کے متعلق تھی جس نے ایک ہی رہنا تھا اور جس کے متعلق یہ مقدر تھا کہ آئندہ دنیا میں ہمیشہ اس کے اظلال داتباع پیدا ہوتے رہیں.پس چونکہ یہ خدا کا فیصلہ تھا کہ اس رسول نے بار بار متبع اظلال کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہوتے رہنا ہے اس لئے بالفاظ دیگر اماموں کا سلسلہ بھی ہمیشہ قائم رہنا تھا اور رسول بھی ایک ہی رہنا تھا کیونکہ ان کی امامت اور رسالت جدا گانہ نہیں ہوئی تھی.بلکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت ورسالت میں شامل ہونی تھی.یہی وجہ ہے کہ اس دعا کے نتیجہ میں چونکہ ایک ایسار سول آنا مقدر تھا جس نے بار بار اپنے اظلال کے ذریعہ دنیا میں آنا تھا اس لئے رملا کہنے کی ضرورت نہ تھی.بلکہ رسولا ہی کہنا چاہئے تو اخرين مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِھم میں اس اعتراض کا جواب دے دیا گیا ہے کہ جہاں انہوں نے اپنی اولاد کے متعلق عام دعا کی وہاں تو ان میں بار بار رسول اور امام بھیجنے کی التجا کی.مگر جہاں مکہ والوں کے متعلق خاص طور پر دعا کی تو وہاں صرف ایک رسول بھیجنے کی رابهم
199 دعا کردی.اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ بے شک مکہ والوں کے متعلق انہوں نے اعتراض کا جواب بھی دعا کی تھی کہ ان میں ایک رسول آئے مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ رسول ایسا کامل تھا کہ اس پر اس قسم کی موت آہی نہیں سکتی تھی کہ اس کی تعلیم کا اثر لوگوں کی طبائع پر سے کلیتہ جاتا رہے.بلکہ مقدر یہ تھا کہ جب بھی طبعی طور پر یہ اثر جاتا رہے گا خدا اسی رسول کو دوبارہ مبعوث کر دے گا اور چونکہ اس رسول نے اپنے متبع اظلال کے ذریعہ بار بار دنیا میں آنا تھا اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت سے رسول مانگنے کی کوئی ضرورت نہ تھی.غرض اللہ تعالٰی نے بتا دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَ أبعث فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهم تو اس رسولا منهم سے مراد خاتم النبیین تھا.اور چونکہ خاتم النبیین کی نبوت میں بعد میں آنے والے تمام نبیوں اور رسولوں کی نبوت شامل تھی.اس لئے یہ ضرورت ہی نہ تھی کہ رسولا منھم کی بجائے رُسُلًا منھم کہا جاتا.رسول کریم صل کی بعثت پس ہمیں اس آیت سے یہ نکتہ معلوم ہوا کہ رسول کریم ملی کی بعثت اپنی ذات میں ہی بعد میں آنے والے رسولوں اور اماموں کی خبر دیتی تھی.آپ کے علاوہ دنیا میں اور کوئی ایسار سول نہیں جو اپنی ذات میں آنے والے انبیاء کی خبر دیتا ہو.موسیٰ کانفس اپنی ذات میں منفرد تھا.داؤد کا نفس اپنی ذات میں منفرد تھا اسی طرح اور انبیاء کے نفوس اپنی اپنی ذات میں منفرد تھے.اس میں کوئی شبہ نہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد انبیاء آئے.مگر وہ ان کے ظل نہیں تھے.بلکہ تابع تھے.عیسی موسی" کے ظل ان معنوں میں نہیں تھے جن معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم میں کے ظل ہیں.یوں تو ظل پہلوں کے بھی ہوتے رہے ہیں مگر اس ظلیت کے معنی صرف مشابہت کے ہوا کرتے تھے جیسے حضرت عیسی الیاس کے ظل تھے.مگر ظل کے یہ معنی نہیں تھے کہ وہ الیاس کے ماتحت تھے.وہاں ایک تابع ہو سکتا تھا جو ظل نہ ہو.اور ایک ظل ہو سکتا تھا جو تابع نہ ہو.عیسی علیہ السلام ظل تھے الیاس کے مگر الیاس کے تابع نہ تھے.بلکہ تابع وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہی تھے.تو ظلیت اور اتباع الگ الگ چیزیں ہوا کرتی تھیں.طلیت کے معنی صرف اس جیسا" کے ہوا کرتے تھے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خبر دی کہ میرے بعد ایک میرے جیسا رسول آئے گا.اب اس سے مراد رسول کریم میل ل ل ا ل ولی تھے مگر رسول کریم ملی حضرت موسیٰ کے تابع نہیں تھے.پس پہلے انبیاء میں یہ ہو سکتا تھا کہ ایک نبی کسی دوسرے نبی کا ظل تو ہو مگر تابع نہ ہو یا تابع تو ہو مگر ظل نہ ہو جیسے حضرت عیسی علیہ السلام تابع تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ، مگر وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ظل نہیں تھے اسی طرح وہ ظل تھے الیاس کے مگر وہ ان کے تابع نہ تھے بلکہ تابع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تھے.
200 مگر یہاں جو خبر دی گئی کہ وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا هم اس میں کام ”وہی رسول" کے معنی بھی وہی رکھا گیا ہے جو م م م لی لی نے کیا اور نام بھی وہی رکھا گیا ہے جو آپ کا تھا کیونکہ فرمایا و اخرين منهم لما يلحقوا بهم وہی رسول پھر آخرین میں مبعوث ہو گا اور وہی رسول کے معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ صفات بھی ویسی ہوں گی.کام بھی وہی ہو گا اور نام بھی وہی ہو گا.گویا صفات کے لحاظ سے وہ ظل ہو گا رسول کریم میں ریلی کا اور کاموں کے لحاظ سے وہ تابع ہو گا رسول کریم میں الا یہ کا.جس طرح وہ صلی دوم صلی علمی روم نمازیں پڑھا کرتے تھے اسی طرح یہ نمازیں پڑھے گا.جس طرح وہ روزے رکھا کرتے تھے اسی طرح یہ روزے رکھے گا.جس طرح وہ زکوۃ دیا کرتے تھے اسی طرح یہ زکوۃ دے گا جس طرح وہ احکام الہیہ پر چلتے تھے اسی طرح یہ احکام الہیہ پر چلے گا.یہ تابعیت ہے جو اسے رسول کریم ملی و یا لیلی کی حاصل ہو گی اور دوسری طرف جو آپ کی خصلتیں ہونگی وہی اس کی خصلتیں ہوں گی اور جو آپ کے اخلاق ہوں گے وہی اس کے اخلاق ہوں گے.اور یہ اس کے ظل ہونے کا ثبوت ہو گا.مگر حضرت عیسی علیہ السلام نے الیاس والے کام نہیں کئے.الیاس نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق تعلیم دی اور حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق تعلیم دی.پس گو وہ ظل تھے الیاس کے.مگر الیاس کے تابع نہیں تھے بلکہ تابع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہی تھے.لیکن محمد ملا لی ایم کے متعلق فرما دیا کہ آپ کی نیابت میں جو لوگ کھڑے ہوں گے وہ آپ کے ظل بھی ہو نگے اور آپ کے تابع بھی ہوں گے اور یہ دونوں باتیں ان میں پائی جاتی ہوں گی.اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں بارہا اپنے متعلق یہ ذکر فرمایا ہے کہ میں امتی نبی ہوں یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقطہ نگاہ سے میں امتی ہوں.مگر تم لوگوں کے نقطہ نگاہ سے میں نبی ہوں.جہاں میرے اور تمہارے تعلق کا سوال آئے گا وہاں تمہیں میری حیثیت وہی تسلیم کرنی پڑے گی جو ایک نبی کی ہوتی ہے.جس طرح نبی پر ایمان لانا ضروری ہو تا ہے اسی طرح مجھ پر ایمان لانا ضروری ہو گا.جس طرح نبی کے احکام کی اتباع فرض ہوتی ہے اسی طرح میرے احکام کی اتباع تم پر فرض ہوگی.مگر جب میں محمد صلی اللہ کی طرف مونہہ کر کے کھڑا ہوں گا تو اس وقت میری حیثیت ایک امتی کی ہوگی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فرمان میرے لئے واجب التعمیل ہو گا اور آپ کی رضا اور خوشنودی کا حصول میرے لئے ضروری ہو گا.گویا جس طرح ایک ہی وقت میں دادا اور باپ اور پوتا اکٹھے ہوں تو جو حالت ان کی دادا اور باپ اور پوتا ہوتی ہے وہی مالی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے.ایک باپ جب محمد اپنے باپ کی طرف مونہہ کرتا ہے تو وہ باپ کی حیثیت نہیں رکھتا.بلکہ بیٹے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن وہی باپ جب اپنے بیٹے کی طرف مونہہ کر کے کھڑا ہوتا ہے تو اس کی حیثیت باپ کی ہو جاتی ہے اور بیٹے کا فرض ہوتا ہے کہ اس کا ہر حکم مانے.بیٹا یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب تم اپنے باپ کی طرف مونہ کر کے کھڑے تھے تو اس وقت تمہاری حیثیت تھی نہ کہ باپ کی.تو اب تمہاری حیثیت باپ کی کسی طرح ہو سکتی ہے کیونکہ اب اس کا مونہہ اپنے باپ کی
201 طرف نہیں بلکہ اپنے بیٹے کی طرف ہو گا.یہی حیثیت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی عطا فرمائی ہے.وہ امتی بھی ہیں اور نبی بھی.وہ نبی ہیں ہم لوگوں کی نسبت سے اور وہ امتی ہیں محمد علی ایم کی نسبت سے.عیسی نبی تھے موسیٰ کی طرف مونہہ کر کے بھی.صرف اپنی امت کی طرف مونہہ کر کے ہی نبی نہیں تھے.اسی طرح داؤد نبی تھے موسیٰ کی طرف مونہہ کر کے بھی.صرف اپنی امت کی طرف منہ کر کے نبی نہیں تھے.اسی طرح سلیمان ، ذکریا اور یھی بھی نبی تھے موسیٰ کی طرف موہنہ کر کے بھی یہ نہیں کہ صرف اپنی امت کی طرف مونہہ کر کے نبی ہوں اور موسیٰ کی طرف مونہہ کر کے امتی.مگر رسول کریم ملی والی ہر ایک کے ذریعہ یہ عجیب قسم کی نبوت جاری ہوئی کہ ایک ہی نبی جب ہماری طرف مخاطب ہوتا ہے تو وہ نبی ہوتا ہے اور جب محمد علی سے مخاطب ہوتا ہے تو امتی بن جاتا ہے.اور وہ کسی ایسے کام کا دعویدار نہیں ہو سکتا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا بلکہ اس کا فرض ہو تا ہے کہ اسی کام کو چلائے جس کام کو محمد میں نے چلایا.کیونکہ فرماتا ہے وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بھم اللہ تعالیٰ اسے آخرین میں بھی مبعوث کرے گا جو ابھی پیدا نہیں ہوئے گویا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دوبارہ بعثت ہو گی.اور یہ ظاہر ہے کہ محمد میل الایام کے دو کام نہیں ہو سکتے.وہی کام جو آپ نے پہلے زمانہ میں کئے وہی آخری زمانہ میں کریں گے.اس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح ناصری کے بھی ظل یا مثیل تھے مگر آپ سے ان کو صرف قلیت کا تعلق تھا تابعیت کا نہیں کیونکہ گو آپ کو نام مسیح کا دیا گیا تھا.کام مسیح کا نہیں دیا گیا تھا کام آپ کو محمد رسول اللہ میں یا اللہ کا سپرد کیا گیا تھا جیسا کہ سورہ جمعہ سے ثابت ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو مشابہت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہے وہ زیادہ شدید ہے بہ نسبت اس کے جو آپ کو مسیح ناصری سے حاصل ہے اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد جس میرا سب مدار پس ہماری جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر ایمان لاتی ہے اس کے افراد کو یہ امرا چھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ یا تو وہ یہ دعویٰ کریں کہ حضرت مرزا صاحب کو وہ کوئی ایسا نبی سمجھتے ہیں جنہوں نے رسول کریم میل کی اتباع اور آپ کی غلامی سے آزاد ہو کر مقام نبوت حاصل کیا ہے.اس صورت میں وہ بے شک کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ہمارا نبی آزاد ہے اس لئے ہم نئے قانون بنائیں گے اور جو کام ہماری مرضی کے مطابق ہو گاو ہی کریں گے اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کریں گے.پس اگر ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ ہمارا نبی مستقل ہے اور وہ رسول کریم م لیلی کی غلامی اور آپ کے احکام کی اتباع سے آزاد ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم یا صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت نہیں.جو باتیں ہمیں اچھی لگیں گی اور جو ہماری مرضی کے مطابق ہوں گی صرف ان میں حصہ لیں گے.باقی کسی میں حصہ نہیں لیں گے.لیکن اگر ہمارا یہ دعوئی ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سورہ جمعہ کے مطابق امتی نبی ہیں اور ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ رسول کریم ملی یہ ہی وہ رسولاً
202 ہیں جن کی نبوت و رسالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت شامل ہے.تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو کام کئے وہی کام مسیح موعود کے بھی سپرد ہیں.اور جو کام صحابہ نے کئے وہی کام جماعت احمدیہ کے ذمہ ہیں.مگر میں تعجب سے دیکھتا ہوں کہ ایک طرف تو ہماری جماعت کے دوست یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم ملی ایل ایل ایل کے کامل ظل اور امتی نبی ہیں اور وہی شریعت جو رسول کریم میں نے قائم فرمائی اسی کو دوبارہ قائم کرنا ہماری جماعت کا فرض ہے اور دوسری طرف جماعت کا ایک حصہ صحابہ کے طریق عمل کی جگہ ایک نئی راہ پر چلنا چاہتا ہے.اور اس راستہ کو اختیار ہی نہیں کرتا جو رسول کریم ملی و الم کے صحابہ نے اختیار کی.گویا ان کی مثال بالکل شتر مرغ کی سی ہے کہ جہاں درجوں اور انعامات کا سوال آتا ہے وہاں تو کہہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رسول کریم مال الالم کوئی الگ وجود نہیں بلکہ آپ کی بعثت در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی بعثت ثانیہ ہے.اس وجہ سے جو صحابہ کا مقام وہی ہمار امقام.چنانچہ وہ اس قسم کے استدلال کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں آتا ہے تل من الأولين وثلة من الأخرين (الواقعہ:۴۰-۴۱) کہ جیسے اولین میں سے ایک بہت بڑی جماعت نے خدا کا قرب حاصل کیا اسی طرح آخرین خدا کی بہت بڑی رحمتوں کے مستحق ہوں گے.و کیا یہ پس جیسے صحابہ کی جماعت تھی ویسی ہی ہماری جیسے صحابہ کی جماعت تھی ویسی ہی ہماری جماعت ہے جماعت ہے.جیسے وہ رسول کریم میں کی بعثت اوٹی سے مستفیض ہوئے اسی طرح ہم رسول کریم میں والی دیوی کی بعثت ثانیہ سے مستفیض ہوئے.پس ہم میں اور صحابہ میں کوئی فرق نہیں مگر جب قربانی کا سوال آتا ہے تو ایسے لوگ کہتے ہیں کہ وہ زمانہ اور تھا اور یہ زمانہ اور ہے.گویا وہ بالکل شتر مرغ کی طرح ہیں جو اپنی دونوں حالتوں سے فائدہ تو اٹھالیتا ہے مگر کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہو تا.کہتے ہیں کسی شتر مرغ سے کسی نے کہا کہ آؤ تم پر اسباب لادیں کیونکہ تم شتر ہو (شتر کے معنی اونٹ ہیں اور مرغ کے معنی ہیں پرندہ) وہ کہنے لگا کیا پرندوں پر بھی کسی نے اسباب لادا ہے ؟ اس نے کہا اچھا تو پھر اڑ کر دکھاؤ.کہنے لگا کبھی اونٹ بھی اڑا کرتے ہیں.پس جس طرح شتر مرغ اڑنے کے وقت اونٹ بن جاتا ہے اور اسباب لادتے وقت پرندہ.اسی طرح ہماری جماعت کا جو حصہ کمزور ہے کرتا ہے.یعنی جب قربانی کا وقت آتا ہے تو وہ کہتا ہے ہمارا حال اور ہے اور صحابہ کا حال اور.مگر جب درجوں اور انعامات اور جنت کی نعماء کا سوال آتا ہے تو کہتا ہے سبحان اللہ حضرت صاحب تو رسول کریم ملی والا مولوی کے کل تھے.پس جو حال صحابہ کا وہی حال ہمارا.میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ کوئی پور بیا مرگیا تھا.ہو رہے عام طور پر دھوبی ہوتے ہیں.اس کی عورت نے باقی دھوبیوں کو اطلاع دی اور سب اکٹھے ہو گئے.رسم و رواج کے مطابق عورت نے ان سب کے سامنے رونا پیٹنا شروع کر دیا.ان میں طریق یہ ہے کہ جب کوئی مر جاتا ہے تو عورتیں اور لڑکیاں اکٹھی ہو کر پیٹتی ہیں اور مردا نہیں تسلی دیتے ہیں.اس ہو رہیے کی عورت نے بھی رونا پیٹنا شروع کر دیا اور روتے روتے اس قسم کی باتیں شروع کیں.کہ
203 ارے اس نے فلاں جگہ سے اتنا روپیہ لینا تھا.اسے اب کون وصول کرے گا.ایک پوربیا آگے بڑھ کر کہنے لگا.اری ہم ری ہم.وہ کہنے لگی اس نے ادھیارے پر گائے دی ہوئی تھی اب اسے کون لائے گا.وہی پور بیا پھر بولا اور کہنے لگا.اری ہم ری ہم.پھر وہ روئی اور کہنے لگی ارے اس کی تین ماہ کی تنخواہ مالک کے ذمہ تھی.اب وہ کون وصول کرے گا.وہ پور بیا پھر آگے بڑھا اور کہنے لگا.اری ہم ری ہم.پھر وہ عورت رو کر کہنے لگی.ارے اس نے فلاں کا دو سو روپیہ قرض دینا تھا.اب وہ قرض کون دے گا.اس پر وہ پور بیا باقی قوم کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا.ارے بھئی میں ہی بولتا جاؤں گا یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا.ان کمزور احمدیوں کی بھی یہی حالت ہے.جہاں جنت کی نعماء اور مدارج کا سوال آتا ہے وہاں تو کہتے ہیں.ارے ہم رے ہم.مگر جب یہ کہا جاتا ہے کہ صحابہ نے بھی قربانیاں کی تھیں تم بھی قربانیاں کرو تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم ہی بولتے جائیں یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا.یہ حالت بالکل غیر معقول ہے اور اسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مستقل نبی تھے تو بے شک کسی نئی شریعت نئے نظام اور نئے قانون کی ضرورت ہو سکتی ہے.لیکن اگر وہ محمد صلی اللہ کے تابع اور امتی نبی ہیں تو پھر جو محمل الا اللہ کا حال تھا وہی مسیح موعود کا حال ہے اور جو ان کے صحابہ کا حال تھا وہی ہمارا حال ہے.مگر یہ کمزور لوگ جب اپنی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو اس وقت تو قرآن کریم کی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات پڑھ پڑھ کر اپنے سر ہلاتے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لئے یہ انعام بھی ہے اور ہمارے لئے وہ انعام بھی ہے.مگر جب کام کا سوال آتا ہے تو کوئی یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ اگر میں کام پر گیا تو میری دکان خراب ہو جائے گی.اور کوئی یہ عذر کرنے لگ جاتا ہے کہ میں اپنے بیوی بچوں کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جاسکتا.حالانکہ صحابہ کی بھی دکانیں تھیں اور صحابہ کے بھی بیوی بچے تھے.مگر انہوں نے ان باتوں کی کوئی پروا نہیں کی تھی.پھر اگر ہم بھی صحابہ کے نقش قدم پر ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رسول کریم میل ل ل ا ل لیلی کے نقش قدم پر تو ان باتوں سے ڈرنے اور گھبرانے کے معنے کیا ہوئے.ہمارا مذہب یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام رسول کریم میں یا اللہ کے کل اور آپ کے تابع تھے.ان کی تمام عزت اور ان کا تمام رتبہ اسی میں تھا کہ خدا نے ان کو محمد ملی کا عکس بنا دیا تھا اور وہ اسی کام کے لئے مبعوث کئے گئے تھے جس کام کے لئے محمد م ل ل ل ا للہ آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے مبعوث ہوئے بلکہ قرآنی اصطلاح میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہو کر تشریف لے آئے.اور یہ ایک بہت بڑی عزت کی بات ہے مگر ساتھ ہی بہت بڑی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اگر محمد ملا اور دوبارہ زندہ ہو کر تشریف لے آئے ہیں تو صحابہ کو بھی تو دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آجانا چاہئے.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہ کام کئے ہیں جو رسول کریم میں نے کئے تھے تو ہمارے کام وہ ہیں جو صحابہ نے کئے.صحابہ کو ہر سال چار چار پانچ لڑائیاں لڑنی پڑتی تھیں اور بعض لڑائیوں میں مہینہ ڈیڑھ مہینہ صرف ہو جاتا تھا.گویا بعض سالوں میں انہیں آٹھ آٹھ نو نو مہینے گھروں سے باہر رہنا پڑا ہے.پھر
204 انہیں کوئی گزارہ نہیں ملتا تھا.دال روٹی اور نمک کے لئے بھی پیسہ تک نہیں ملتا تھا.بیوی کا کام تھا کہ وہ بعد میں اپنی روزی آپ کمائے اور جانے والوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے خرچ پر جائیں.حتی کہ لڑائی پر جانے والوں کو راشن تک نہیں ملتا تھا.بلکہ ہر شخص کا فرض ہو تا تھا کہ وہ اپنی روٹی کا آپ انتظام کرے.اس کے مقابلہ میں میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں ان باتوں کا احساس ہی نہیں.یہ تو میں نہیں کہتا کہ سب میں احساس نہیں.مگر بہر حال جن کے دلوں میں یہ احساس ہے ان کے مقابلہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے دلوں میں کوئی احساس نہیں اور اس وجہ سے ہم محض اس بات سے تسلی نہیں پاسکتے کہ جماعت کے ایک حصہ میں ان باتوں کا احساس ہے.جب تک جماعت کا ایک حصہ ہمیں ایسا بھی نظر آتا ہے جو اس احساس سے بالکل خالی ہے اور دعویٰ یہ کرتا ہے کہ اسے صحابہ کی مماثلت حاصل ہے.خواہ وہ کتنا بھی تھوڑا ہے جب تک اس کے اس غیر معقول رویہ کی اصلاح نہ کی جائے گی اس وقت تک ہم چین اور آرام سے نہیں بیٹھ سکتے.میں نے سب نوجوانوں کی اصلاح اور دوسروں کو مفید دینی کاموں میں لگانے کے تعلیم و تربیت کی اہمیت لئے مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی تھی.مگر ان کی رپورٹ ہے کہ بعض نوجوان ایسے ہیں کہ جب ہم کوئی کام ان کے سپرد کرتے ہیں.تو پہلا قدم ان کا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کام کے کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے.لیکن اگر زور دیا جائے تو وہ مان تو لیتے ہیں اور کہتے ہیں.اچھا ہم یہ کام کریں گے مگر پھر دوسرا قدم ان کا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کام کو کرتے نہیں ، یہی کہتے رہتے ہیں کہ ہم کریں گے.کریں گے.مگر عملی رنگ میں کوئی کام نہیں کرتے.اس کے بعد جب ان کے لئے سزا مقرر کی جاتی ہے تو وہ اس سزا کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم استعفے دے دیں گے.مگر سزا برداشت نہیں کریں گے.اس قسم کے لوگوں کو یا د رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ بچے احمدی نہیں.کیا منافقوں کے سوا مخلص صحابہ میں سے تم کوئی مثال ایسی پیش کر سکتے ہو کہ ان میں سے کسی نے کام کرنے سے اس طرح انکار کر دیا ہو یا کیا رسول کریم میں لیا لیلی نے کبھی اس بات کو برداشت کیا؟ پھر اس جماعت میں سے ایسا نمونہ دکھانے والوں کو ہم صحابہ کا نمونہ کس طرح قرار دے سکتے ہیں.ہم تو ان کو انہی میں شامل کریں گے جو صحابہ کے زمانہ میں ایسے کام کرتے رہے ہیں یعنی منافق لوگ.اس میں شبہ نہیں کہ اس زمانہ میں تلوار کا جہاد تھا اور آج تلوار کا جہاد ہر زمانہ کا جہاد الگ الگ ہوتا ہے نہیں.لیکن ہر زمانہ کا جہاد الگ الگ ہو تا ہے.رسول کریم می کے زمانہ میں تلوار کا جہاد تھا اور ممکن ہے اس قسم کے لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ اگر کسی وقت تلوار کے جہاد کا موقعہ آیا تو وہ سب سے آگے آگے ہوں گے لیکن میں سمجھتا ہوں اگر کبھی تلوار کے جہاد کا موقعہ آیا تو ایسے لوگ سب سے پہلے بھاگنے والے ہونگے.پس جب وہ کہتے ہیں کہ یہاں کونسا تلوار کا جہاد ہو رہا ہے.اگر تلوار کا جہاد ہو تو وہ شامل ہو جائیں.تو یا تو وہ اپنے نفس کو دھوکا دیتے ہیں یا جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور میرے خیال میں تو وہ
205 جھوٹ ہی بول رہے ہوتے ہیں.کیونکہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مہینہ میں دو دن دکان بند کرنے کے لئے تو تیار نہ ہو اور وہ جہاد کے لئے سال میں سے آٹھ ماہ گھر سے باہر رہ سکتا ہو.یہ فیصلہ کرنا کہ اس زمانہ میں کس قسم کے جہاد کی ضرورت ہے.خدا کا کام ہے اور یہ خدا کا اختیار ہے کہ وہ چاہے تو ہمارے ہاتھ میں تلوار دے دے چاہے تو قلم دے دئے.اور چاہے تو تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا جہاد مقرر کر دیے اور اللہ تعالیٰ نے اس تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا جہاد زمانہ میں تلوار کا جہاد نہیں رکھا بلکہ تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا جہاد رکھا ہے اور یہی وہ جہاد ہے جس کا سورہ جمعہ کی ان آیات میں ذکر ہے جن میں رسول کریم ﷺ کی بعثت ثانیہ کی خبر دی گئی ہے.چنانچہ خلوا عليهم آیتہ میں ہر مومن کا یہ فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے نشانات الہیہ کو بیان کرے یعنی انہیں تبلیغ کرے.میرسیم میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ انہیں پاک کرے یعنی ھم دعاؤں کے ذریعہ تزکیہ نفوس کرے یا یزکیھم کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ لوگوں کو بڑھائے.اگر وہ دنیوی علوم میں دوسروں سے پیچھے ہوں تو اس میدان میں ان کو آگے لے جائے.تعداد میں کم ہوں تو تعداد میں بڑھائے.مالی حالت کمزور ہو تو اس میں بڑھائے.غرض جس رنگ میں بھی کمی ہو انہیں بڑھاتا چلا جائے.گویا لوگوں کی مالی اور اقتصادی ترقی میں حصہ لے.يعلمهم الکتب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ان کو قرآن سکھائے.کو الححمہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ احکام شریعت کی حکمتوں اور ان کے اسرار سے لوگوں کو آگاہ کرے.اس آیت کے اور بھی معنی ہیں جن کو میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی اس تقریر میں بیان کیا ہوا ہے جو خلافت کے آغاز میں میں نے کی تھی اور جو " منصب خلافت" کے نام سے چھپی ہوئی ہے.لیکن یہ پانچ موٹی موٹی باتیں ہیں.ا.تبلیغ کرنا.۲.قرآن پڑھانا.۳.شرائع کی ظلمتیں بتانا.۴.اچھی تربیت کرنا.۵.قوم کی دنیوی کمزوریوں کو دور کر کے انہیں اسے ترقی کے میدان میں بڑھانا.رض یہ پانچ ذمہ داریاں صحابہ پر تھیں اور یہی صحابہ کے پانچ کام جنہیں ہمیں بھی سرانجام دینا ہے پانچوں ذمہ داریاں ہم پر عائد ہیں.تبلیغ ہمارے ذمہ ہے.تعلیم ہمارے ذمہ ہے.احکام کی حکمتیں بتانا ہمارے ذمہ ہے اور جماعت کی مالی اور اقتصادی حالت کی درستی اور اس کی پستی کو دور کرنا ہمارے ذمہ ہے.اگر ہم یہ پانچ کام نہیں کرتے تو ہم جھوٹے اور کذاب ہیں اگر ہم اپنے آپ کو کہتے ہیں.انہی کاموں میں سے ایک کام کے متعلق میں نے کچھ عرصہ ہوا قادیان کی جماعت کو توجہ دلائی تھی اور میں نے کہا تھا کہ کم سے کم قادیان میں کوئی ان پڑھ نہیں رہنا چاہئے.مگر خدام الاحمدیہ کی طرف سے مجھے رپورٹ ملی ہے کہ جہاں باقی سب محلوں نے کام ختم کر لیا ہے وہاں بیت فضل سے تعلق رکھنے والے تعاون نہیں کر رہے ( اس سے مراد دار الفضل والے نہیں بلکہ وہ محلہ ہے جسے محلہ آرائیاں بھی
206 کہتے ہیں) اس محلہ کے لوگ نہ تو نمازوں کے لئے باقاعدہ جمع ہوتے ہیں نہ پڑھانے کے لئے جاتے ہیں اور نہ ہی پڑھنے کے لئے آتے ہیں.اسی طرح مجھے ہمیں لوگوں کی ایسی لسٹ دی گئی ہے جنہیں اس محلہ کے ان پڑھوں کو تعلیم دینے کے لئے مقرر کیا گیا مگر کسی نے کوئی عذر کر دیا اور کسی نے کوئی اور جس نے مان بھی لیا وہ بھی پڑھانے کے لئے نہیں گیا.اور جب ان میں سے بعض کو کہا گیا کہ تمہیں اس جرم کی سزا دی جائے گی تو ان میں سے رونے کہا کہ ہم خدام الاحمدیہ سے استعفیٰ دے دیں گے.مگر انہیں یا درکھنا چاہئے وہ خدام الاحمدیہ سے استعفیٰ نہیں دے سکتے بلکہ انہیں احمدیت سے استعفے دینا پڑے گا.یہ پانچ کام ہیں جو مجھ میں نے کئے.یہی پانچ کام ہیں جو صحابہ نے کئے اور یہی پانچ کام ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئے.ہر شخص جو یتلوا عـلـيـهـم ایـتـه کے مطابق تعلیم قرآن کا کام نہیں کرتا تعلیم قرآن کے کام کی اہمیت بلکہ تعلیم قرآن کے کام سے گریز کرتا ہے.وہ اس سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے.ہر شخص جو تبلیغ سے گریز کرتا ہے وہ تبلیغ سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے.ہر شخص جو دوسروں کی تربیت سے گریز کرتا ہے وہ تربیت کرنے سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے.ہر شخص جو شرائع کی متیں بتانے سے گریز کرتا ہے وہ شرائع کی حکمتیں بتانے سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے.اور ہر شخص جو تزکیہ نفوس یا جماعت کی اقتصادی اور مالی ترقی کی تجاویز میں حصہ لینے سے گریز کرتا ہے ، وہ تزکیہ نفوس یا جماعت کی اقتصادی اور مالی ترقی کی تجاویز میں حصہ لینے سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے.ایسے شخص کی نہ احمدیت کو کوئی ضرورت ہو سکتی ہے اور نہ اس کے لئے کوئی وجہ ہے کہ وہ احمدیت میں داخل رہے اور یہ کہہ کر وہ احمدی ہے اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے.یا اگر اپنے نفس کو دھوکا نہیں دیتا تو جھوٹا اور مکار ہے.اور ہر گز اس قابل نہیں کہ وہ مومنوں کی جماعت میں شامل رہ سکے.یہ پانچ کام ضروری ہیں اور جماعت کے ہر فرد کو ان میں حصہ لینا پڑے گا.اور جب تک وہ طوعا یا کرہا ان کاموں میں حصہ نہیں لیں گے وہ کبھی صحیح صحیح معنوں میں صحابہ کے مثیل معنوں میں صحابہ کے مثیل نہیں کہلا سکیں گے.آخر تمہیں غور کرنا چاہئے کہ کیا صحابہ اپنی مرضی سے ہی تمام کام کیا کرتے تھے.وہ اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کرتے تھے بلکہ رسول کریم ادلے کے احکام کی متابعت میں تمام کام کرتے تھے.رسول کریم علیه السلام فرماتے تھے کہ جہاد کیلئے چلو اور رسب چل پڑتے تھے اور جو نہ چلتا تھا اسے جبری طور پر لے جایا جاتا تھا.میں نے چاہا تھا کہ طوعی طور پر جماعت کو ان قربانیوں میں حصہ لینے کیلئے آمادہ کیا جائے.مگر معلوم ہو تا ہے ساری جماعت طوعی طور پر قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ منافقوں پر مشتمل ہے اور وہ ہمیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ ہم اسے اپنی جماعت میں سے خارج کر دیں یا اگر وہ منافق نہیں تو ایسے کون لوگ ہیں جو ڈنڈے کے محتاج ہیں اور جیسے رسول کریم صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان لوگوں کو سزا دی تھی جو جہاد کے لئے
207 ر نہیں گئے تھے اسی طرح وہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں سزا دی جائے اور جبرا ان سے احکام کی تعمیل کرائی جائے.ڈنڈے سے میری مراد سوٹا نہیں بلکہ جبرا اور حکم مراد ہے.بهر حال ان لوگوں نے مجھے مجبور کر دیا قادیان میں خدام الاحمدیہ کا کام طوعی نہیں بلکہ جبری ہو گا ہے کہ میں جماعت کے سامنے یہ اعلان کر دوں کہ آج سے قادیان میں خدام الاحمدیہ کا کام طوعی نہیں بلکہ جبری ہو گا.ہر وہ احمدی جس کی پندرہ سے چالیس سال تک عمر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پندرہ دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میں اپنا نام لکھا دے.اگر ۱۵ سے ۴۰ سال تک کی عمر کا کوئی احمدی ۱۵ دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میں اپنا نام نہیں لکھائے گا تو پہلے اسے سزا دی جائے گی اور اگر اس سے بھی اس کی اصلاح نہ ہوئی تو اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا.اس کے لئے کسی کو تحریک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.خدام الاحمدیہ ہر گز کسی کے پاس نہ جائیں.ہاں ہر بیت الذکر میں وہ اپنے بعض آدمی مقرر کر دیں.اور ہر نماز کے بعد اعلان ہو تا رہے کہ فلاں وقت سے لیکر فلاں وقت تک ہمارا آدمی بیت الذکر میں بیٹھے گا جس نے خدام الاحمدیہ میں اپنا نام لکھانا ہو وہ اسے نام لکھا اور محلہ کے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کا فرض ہے کہ محلہ کے پریڈیڈ نٹوں اور سیکرٹریوں کا فرض اس کے متعلق خدام الاحمدیہ کی طرف سے جو بھی اعلانات آئیں ان کے سنانے کا فوری طور پر انتظام کریں.جو پریذیڈنٹ یا سیکرٹری اس میں غفلت سے کام لے گاوہ مجرم سمجھا جاوے گا اور اسے سزا دی جائے گی.غرض تمام بیوت الذکر میں خدام الاحمدیہ اعلان کرا دیں کہ فلاں وقت سے لیکر فلاں وقت تک اس بیت الذکر میں ہمار ا فلاں آدمی بیٹھے گا اسے نام لکھا دیا جائے.بلکہ انہیں اپنے بعض آدمی قریب کے دیہات میں بھی مقرر کر دینے چاہئیں.جیسے نواں پنڈ وغیرہ ہے.اس پندرہ دن کے عرصہ میں جو شخص خدام الاحمدیہ میں اپنا نام نہیں لکھائے گا ہم پہلے اس پر کیس چلا ئیں گے.اگر کوئی معذور ثابت ہوا.مثلاً ان دنوں وہ قادیان میں موجود نہ تھا یا چار پائی سے ہل نہیں سکتا تھا تو اس کو خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کا دوبارہ موقع دیتے ہوئے باقی ہر ایک کو جس نے ان دنوں خدام الاحمدیہ میں اپنا نام نہیں لکھایا ہو گا سزا دی جائے گی.اور اگر وہ سزا برداشت کرنے کیلئے تیار نہ ہو گا تو اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا.اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ ہم سزا نہیں لیتے.ہم خدام الاحمدیہ کے ممبر نہیں رہنا چاہئے.ان کے متعلق خدام الاحمدیہ فورا ایک کمیٹی بٹھا دیں جو تحقیق کرے کہ ان پر جو الزام لگایا گیا ہے وہ درست ہے یا نہیں.پھر جن کا جرم ثابت ہو جائے انہیں تین تین دن کے مقاطعہ کی سزادی جائے.ان تین دنوں میں کسی کو اجازت نہیں ہو گی کہ ان سے بات چیت کرے نہ باپ کو اجازت ہوگی نہ ماں کو اجازت ہو گی.نہ بیوی کو اجازت ہوگی نہ بیٹے کو اجازت ہو گی.اور نہ کسی
208 اور قریبی رشتہ دار اور دوست کو اجازت ہو گی.اسی طرح ان دنوں میں انہیں قادیان سے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں ہو گی.مبادا وہ خیال کرلیں کہ ان دنوں وہ قادیان سے چلے جائیں گے اور اس طرح اپنی شرم کو چھپالیں گے.بلکہ انہیں قادیان میں رہتے ہوئے یہ تین دن پورے کرنے پڑیں گے اور ان کی کسی قریب ترین ہستی کو بھی ان سے بولنے کی اجازت نہیں ہو گی.ہاں انہیں صبح شام روٹی پہنچانا خدام الاحمدیہ کا کام ہو گا.اسی طرح جن لوگوں نے وعدہ کر کے کام نہیں کیا (سوائے دسویں جماعت کے طلباء کے جن کو مقرر کرنے میں خود خدام الاحمدیہ کے افسروں کی غلطی ہے) ان کے الزام کی بھی تحقیق کی جائے اور جب الزام ان پر ثابت ہو جائے تو ان کو ایک ایک دن کے مقاطعہ کی سزادی جائے.اس عرصہ میں ماں اور باپ اور بیوی اور بچوں اور دوسرے تمام رشتہ داروں کا فرض ہے کہ جس طرح ایک گندہ چیتھڑا اپنے گھر سے نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح وہ اسے اپنے گھر سے نکال دیں.باپ بچے کو نکال دے.بھائی دوست و غیرہ سب اس دن کے لئے اس سے قطع تعلق کر لیں اور وہ گھر کو چھوڑ کر مسجد یا کسی اور مناسب مقام پر چلا جائے اور چو ہمیں گھنٹے تک لگا تار و ہیں رہے ہاں ان لوگوں کو بھی کھانا پہنچا نا خدام الاحمدیہ کا کام ہو گا.مگر میں سمجھتا ہوں کام کی ذمہ داری صرف پندرہ سے چالیس سال کی عمروالوں پر ہی نہیں بلکہ اس سے اوپر اور نیچے والوں پر بھی ہے.اس لئے میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ ایک مہینہ کے اندر اندر خدام الاحمدیہ آٹھ سے پندرہ سال کی عمر تک کے بچوں کو منظم کریں اور اطفال الاحمدیہ کے نام سے ان کی ایک جماعت بنائی جائے اور میرے ساتھ مشورہ کر کے ان کے لئے مناسب پروگرام تجویز کیا جائے.اسی طرح چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدر آدمی ہیں وہ انصار اللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنا ئیں اور قادیان کے وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اوپر ہیں اس میں شریک ہوں.ان کے لئے بھی لازمی ہو گا کہ وہ روزانہ آدھ گھنٹہ خدمت دین کے لئے وقف کریں.اگر مناسب سمجھا گیا تو بعض لوگوں سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں تین دن یا کم و بیش اکٹھے بھی لئے جاسکتے ہیں.مگر بہر حال تمام بچوں بوڑھوں اور نوجوانوں کا بغیر استثناء کے قادیان میں منظم ہو جانالازمی ہے.مجلس انصار اللہ کے عارضی پریذیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب ہوں گے اور سیکرٹری کے فرائض سرانجام دینے کیلئے میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد چوہدری فتح محمد صاحب اور خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو مقرر کر تا ہوں.تین سیکرٹری میں نے اس لئے مقرر کئے ہیں کہ مختلف محلوں میں کام کرنے کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے.ان کو فورا قادیان کے مختلف حصوں میں اپنے آدمی بٹھا دینے چاہئیں اور چالیس سال سے اوپر عمر رکھنے والے تمام لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا چاہئے.یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ لوگوں کو کس قسم کے کام میں سہولت ہو سکتی ہے.اور جو شخص جس کام کے لئے موزوں ہو اس کے لئے اس سے نصف گھنٹہ روزانہ کام لیا جائے.یہ نصف گھنٹہ کم سے کم وقت ہے اور ضرورت پر اس سے بھی زیادہ وقت لیا جا سکتا ہے.یا یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ کسی سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ
209 میں دو چار دن کے لئے جائیں.جس دن وہ اپنے آپ کو منظم کرلیں اس دن میری منظوری سے نیا پریذیڈنٹ اور نئے سیکرٹری مقرر کئے جاسکتے ہیں.سر دست میں نے جن لوگوں کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے ، وہ عارضی انتظام ہے اور اس وقت تک کے لئے ہے جب تک سب لوگ منظم نہ ہو جائیں.جب منظم ہو جائیں تو وہ چاہیں تو کسی اور کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بنا سکتے ہیں.مگر میری منظوری اس لئے ضروری ہوگی، میرا ان دونوں مجلسوں سے ایسا ہی تعلق ہو گا جیسے مربی کا تعلق ہوتا ہے اور ان کے کام کی آخری نگرانی میرے ذمہ ہوگی یا جو بھی خلیفہ وقت ہو.میرا اختیار ہو گا کہ جب بھی میں مناسب سمجھوں ان دونوں مجلسوں کا اجلاس اپنی صدارت میں بلالوں اور اپنی موجودگی میں ان کو اپنا اجلاس منعقد کرنے کے لئے کہوں.یہ اعلان پہلے صرف قادیان والوں کے لئے ہے اس لئے ان کو میں پھر متنبہ کرتا ہوں کہ کوئی فرد اپنی مرضی سے ان مجالس سے باہر نہیں رہ سکتا سوائے اس کے جو اپنی مرضی سے ہمیں چھوڑ کر الگ ہو جانا چاہتا ہو.ہر شخص کو حکما اس تنظیم میں شامل ہو نا پڑے گا اور اس تنظیم کے ذریعہ علاوہ اور کاموں کے اس امر کی بھی نگرانی رکھی جائے گی.کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے جو بیت الذکر میں نماز با جماعت ہر شخص کو نماز با جماعت کا پابند کیا جائے بڑھنے کا پابند نہ ہو سوائے ان زمینداروں کے جنہیں کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے یا سوائے ان مزدوروں کے جنہیں کام کیلئے باہر جانا پڑ تا ہے.گو ایسے لوگوں کے لئے بھی میرے نزدیک کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہئے جس کے ماتحت وہ اپنی قریب ترین بیت الذکر میں نماز باجماعت پڑھ سکیں.اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس تو اکثر جگہ قائم رہی ہیں.اب انہیں ہر جگہ چالیس سال سے زائد عمر والوں کے لئے مجالس انصار اللہ قائم کرنی چاہئیں.ان مجالس کے وہی قواعد ہوں گے جو قادیان میں مجلس انصار اللہ کے قواعد ہوں گے مگر سر دست باہر کی جماعتوں میں داخلہ فرض کے طور پر نہیں ہو گا بلکہ ان مجالس میں شامل ہونا ان کی مرضی پر موقوف ہو گا.لیکن جو پریذیڈنٹ یا امیریا سیکرٹری ہیں ان کے لئے لازمی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مجلس میں شامل ہوں.کوئی امیر نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو.کوئی پریذیڈنٹ نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو اور کوئی سیکر ٹری نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا نمبر نہ ہو.اگر اس کی عمر پند رہ سال سے اوپر اور چالیس سال سے کم ہے تو اس کے لئے خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ضروری ہو گا.اور اگر وہ چالیس سال سے اوپر ہے تو اس کے لئے انصار اللہ کا ممبر ہونا ضروری ہو گا.اس طرح سال ڈیڑھ سال تک دیکھنے کے بعد خدا نے چاہا تو آہستہ آہستہ باہر بھی ان مجالس میں شامل ہو نالازمی کر دیا جائے گا کیونکہ احمدیت صحابہ کے نقش قدم پر ہے.صحابہ سے جب جہاد کا کام لیا جاتا تھا تو ان کی مرضی کے مطابق نہیں لیا جاتا تھا بلکہ کہا جاتا تھا کہ جاؤ اور کام کرو.مرضی کے مطابق کام کرنے کا میں نے جو موقع دینا تھاوہ قادیان کی جماعت کو میں دے چکا ہوں اور جنہوں نے ثواب حاصل
210 کرنا تھا انہوں نے ثواب حاصل کر لیا ہے.اب ۱۵ سے ۴۰ سال تک کی عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ میں شامل ہونا لازمی ہے اور اس لحاظ سے اب وہ ثواب نہیں رہا جو طوعی طور پر کام کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہو سکتا تھا.بے شک خدمت کا اب بھی ثواب ہو گا لیکن جو طوعی طور پر داخل ہوئے اور وفا کا نمونہ دکھایا وہ سابق بن گئے.البتہ انصار اللہ کی مجلس چونکہ اس شکل میں پہلے قائم نہیں ہوئی اور نہ کسی نے میرے کسی حکم کی خلاف ورزی کی ہے اس لئے اس میں جو بھی شامل ہو گا اسے وہی ثواب ہو گا جو طوعی طور پر نیک تحریکات میں شامل ہونے والوں کو ہوتا ہے.میں ایک دفعہ پھر جماعت کے کمزور حصہ کو اس امر کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں کہ دیکھو شتر مرغ کی طرح مت بنو.جو کچھ بنو اس پر استقلال سے کاربند رہو.اگر تمہارا یہ دعوی ہے کہ تم رسول کریم میں کے ا صحابہ کے مثیل ہو تو تمہیں اپنے اندر صحابہ کی صفات بھی پیدا کرنی چاہئیں اور صحابہ کے متعلق یہی ثابت ہے کہ ان سے دین کا کام حکما لیا جاتا تھا.پس جب صحابہ کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ دینی احکام کے متعلق کسی قسم کی چون و چراکریں تو تمہیں یہ اختیار کس طرح حاصل ہو سکتا ہے.یا تو یہ کہو کہ حضرت مرزا صاحب نبی نہیں تھے اور چونکہ وہ نبی نہیں تھے اس لئے ہم بھی نہیں اور نہ صحابہ سے ہماری مماثلت کے کوئی معنے ہیں.مگر اس صورت میں تمہارا مقام قادیان میں نہیں بلکہ لاہور میں ہو گا.کیونکہ وہی لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب رسول کریم ی یا امیر کے حل کامل نہیں تھے جس کے لازی معنی یہ بنتے ہیں کہ جب مرزا صاحب نبی نہیں تھے تو وہ بھی نہیں مگر ان میں بھی شتر مرغ والی بات ہے کہ وہ دعوئی تو یہ کرتے ہیں کہ مرزا صاحب رسول کریم ملی ایم کے کل کامل یعنی نبی نہیں تھے مگر کہتے اپنے آپ کو ہی ہیں.حالانکہ کہ اگر مرزا صاحب نبی نہیں تو وہ صحابی کس طرح ہو گئے.چنانچہ بار بار ہمارے مقابلہ میں غیر مبالکین نے اپنے اکابر کو صحابہ کے طور پر پیش کیا ہے.گویا مولوی محمد علی صاحب تو...بن گئے مگر مرزا صاحب ان کے نزدیک " مخصوص عالم " ہی رہے.پس ایسے لوگوں کا مقام لاہو ر ہے قادیان نہیں.ہر چیز جہاں کی ہو وہیں بجتی ہے.ان کو بھی چاہئے کہ قادیان سے اپنا تعلق تو ڑ کر لاہور سے اپنا تعلق قائم کر لیں.پھر ہم ان کاموں کے متعلق ان سے کچھ نہیں کہیں گے.مگر جب تک وہ ہم میں شامل رہیں گے ہم ان سے دین کی خدمت کا کام نظام کے ماتحت ضرور کرائیں گے اور اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ ایسے کمزور لوگوں کو اپنی جماعت سے خارج کر دیں.میں نے متواتر بتایا ہے کہ کوئی جماعت کثرت تعداد سے نہیں جیتی.قرآن کریم نے بھی اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ كُم مِنْ فِئَةٍ قليلةٍ غَلَبَتْ فَتَةٌ كَثِيرَةً بِاذْنِ اللهِ (البقرة :۲۵۰) یعنی کئی دفعہ قلیل التعداد جماعتیں کثیر تعداد رکھنے والی اقوام پر غالب آجایا کرتی ہیں.پس محض کثرت کچھ چیز نہیں اگر اس کثرت میں ایمان اور اخلاص نہیں.پھر میں کہتا ہوں اگر یہ لوگ ہم میں شامل ہی رہیں تو کسی قوم کے مقابلہ میں بھلا ہمیں کونسی غیر معمولی فوقیت حاصل ہو سکتی ہے.ہندوستان میں سب سے کم تعداد سکھوں کی سمجھی جاتی ہے مگر وہ بھی تھیں چالیس لاکھ ہیں.اور ہم تو ان سکھوں کے مقابلہ میں بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے.
211 آج سے چھ سال پہلے مئی ۳۴ء میں سردار کھڑک سنگھ صاحب جو سکھوں کے بے تاج بادشاہ کہلایا کرتے تھے ، یہاں آئے اور انہوں نے بسراواں میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا قادیان میں احمدی سکھوں پر سخت ظلم کر رہے ہیں.اگر احمدی اس ظلم سے باز نہ آئے تو قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی.بلکہ ان کے ایک ساتھی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قادیان کی اینٹیں سمندر میں پھینک دی جائیں گی.مجھے جب یہ رپورٹ پہنچی تو میں نے ایک اشتہار لکھا.جس میں میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ احمدیوں کے مظالم کی داستان بالکل غلط ہے.اگر آپ اس علاقہ کے سکھوں کو قسم دے کر پوچھیں تو ان میں سے ننانوے فیصدی آپ کو یہ بتائیں گے کہ میں اور میرا خاندان اور میرے ساتھ تعلق رکھنے والے ہمیشہ سکھوں سے محبت کا برتاؤ کرتے چلے آئے ہیں.چنانچہ میں نے اپنے حسن سلوک کے کئی واقعات تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے پیش کئے.اسی ضمن میں مجھے یہ رپورٹ بھی ملی کہ ایک احراری نے ان کے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سکھ بڑے بے غیرت ہیں کہ احمدی ان کے گرو کو مسلمان کہہ کر ان کی بنک کرتے ہیں اور پھر بھی ان کو جوش نہیں آتا.میں نے ان کو سمجھایا کہ رسول کریم میں اللہ کی بعثت کے بعد مسلمانوں کے نزدیک دنیا میں دوہی گروہ ہیں.یا مسلمان یا کافر.اس احراری کے نزدیک باو ا صاحب کو مسلمان کہنے سے ان کی بہک ہوتی ہے تو اس سے پوچھیں کہ وہ باو اصاحب کو کیا سمجھتا ہے.اگر تو وہ مسلمان ولی اللہ سے بڑھ کر باو ا صاحب کو کوئی درجہ دے تو آپ سمجھ لیں کہ وہ آپ کا خیر خواہ ہے اور اگر اس کا یہ مطلب ہو کہ باوا صاحب چونکہ بانی اسلام میں لی لی لیلی کے منکر تھے اس لئے کافر تھے.تو آپ بتائیں کہ بادا صاحب کی ہتک کرنے والا وہ ہوا یا ہم.ہم تو انہیں مسلمان ولی اللہ کے معنوں میں کہتے ہیں اور مسلمان ولی اللہ سے مسلمانوں کے نزدیک صرف رسول اور پیغمبر ہی ہوتے ہیں.پس ہمارا ان کو مسلمان کہنا کسی تحقیر کی وجہ سے نہیں ہو تا بلکہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم ان کو ویسا ہی قابل عزت سمجھتے ہیں.جیسے ہمارے نزدیک مسلمان اولیاء قابل عزت ہوتے ہیں.ہمارا انہیں مسلمان کہنے سے یہ مقصد نہیں ہو تا کہ وہ نعوذ باللہ ان ادنے لوگوں کی طرح تھے جو سکھوں کے گاؤں میں بستے ہیں اور گو مسلمان کہلاتے ہیں مگر اسلام سے انہیں کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہو تا.کیونکہ ہم ان کی دنیوی حیثیت سے ان کو مسلمان نہیں کہتے بلکہ ان کو دینی لحاظ سے مسلمان کہتے ہیں اور دینی لحاظ سے مسلمان کے معنے ولی اللہ کے ہوا کرتے ہیں.مگر عام طور پر چونکہ سکھوں کے گاؤں میں مسلمان کمین ہوا کرتے ہیں اور دنیا داروں کی نگاہ میں کمین حقیر خیان کئے جاتے ہیں.اس لئے وہ خیاں کر لیتے ہیں کہ جیسے ہمارے گاؤں کے کمین مسلمان ہیں ویسا ہی مسلمان یہ ہمارے باو اصاحب کو سمجھتے ہیں.حالانکہ ہم اس نقطہ نگاہ سے انہیں مسلمان نہیں کہتے بلکہ مسلمان کا لفظ ان کے ولی اللہ ہونے کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں.اگر آپ کو یہ لفظ برا محسوس ہو تا ہے تو آپ ہی بتائیں کہ ہم انہیں کیا کہیں.ہمارے نزدیک تو مسلمانوں کے سوا جتنے لوگ ہیں ،سب کافر ہیں اور دو ہی اصطلاحیں مسلمانوں میں رائج ہیں.یا کافر کی اصطلاح یا مسلمان کی اصلاح.اگر بادا صاحب مسلمان معنے ولی اللہ نہیں تو دوسرے لفظوں میں وہ نعوذ باللہ کا فر اور خدا سے دور تھے.اب آپ ہی سوچ لیں کہ اوپر
212 باد اصاحب کو مسلمان کہنے سے ان کی ہتک ہوتی ہے یا ان کو مسلمان نہ کہنے سے ان کی ہتک ہوتی ہے.احرار کا تو اس اعتراض سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ احمدی باد ا صاحب کی تعریف کیوں کرتے ہیں ،مگر سکھ ناواقفیت کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ احرار ان کی تائید کر رہے ہیں اور احمدی انہیں گالی دے رہے ہیں.میں نے جب یہ اشتہار شائع کیا تو چونکہ وہ آدمی سمجھدار تھے اس لئے انہوں نے دوسرے ہی دن جلسہ گاہ میں سٹیج پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہا کہ تم نے مجھے سخت ذلیل کرایا ہے کیونکہ جو باتیں تم نے مجھے بتائی تھیں وہ اور تھیں اور جو باتیں اس اشتہار میں لکھی ہیں وہ بالکل اور ہیں.میرا انشاء اس مثال سے یہ ہے کہ باوجود اس بات کے کہ سکھ تمام قوموں میں سے کم ہیں.پھر بھی وہ اپنے آپ کو اتنے طاقتور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک موقعہ پر ہمیں یہ نوٹس دے دیا کہ وہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اور ایک نے تو یہاں تک کہدیا کہ قادیان کی اینٹیں سمندر میں پھینک دی جائیں گی.تو قومی لحاظ سے غیر اقوام کے مقابلہ میں ہم پہلے ہی تھوڑے ہیں.پھر اگر ان منافق طبع لوگوں کو اپنی جماعت سے نکال دینے پر بھی ہم تھوڑے ہی رہتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنے سے زیادہ نہیں ہو سکتے تو کوئی وجہ نہیں کہ جب ان کا وجود دوسرے لوگوں کے لئے مضر ثابت ہو رہا ہے انہیں جماعت سے خارج نہ کیا جائے.لیکن اگر خدا کے رسولوں کی جماعتیں کثرت تعداد کی بناء پر نہیں بلکہ خدا کی نصرت اور اس کی مدد کے ساتھ جیتا کرتی ہیں تو اس صورت میں خواہ یہ لوگ نکل جائیں پھر بھی گو ہم موجودہ وقت سے تھوڑے ہو جائیں گے مگر شکست نہیں کھا سکتے.ممکن ہے پیغامی یہ کہنا شروع کر دیں کہ پہلے تو اپنے زیادہ ہونے کو صداقت کی دلیل قرار دیتے تھے.اب کہتے ہیں کہ تھوڑے ہو کر بھی ہم ہی حق پر رہیں گے.ایک ہی وقت میں یہ تمہاری دو باتیں کس طرح درست ہو سکتی ہیں.سو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میری دونوں باتیں درست ہیں.جب میں یہ کہتا ہوں کہ ہم تھوڑے ہو کر بھی شکست نہ کھائیں گے اس وقت بھی میں ایک حقیقت بیان کرتا ہوں اور جب کہتا ہوں کہ ہم زیادہ ہیں اس لئے حق پر ہیں تو اس وقت بھی میں ایک حقیقت بیان کیا کرتا ہوں.ہم تھوڑے ہیں غیر اقوام کے مقابلہ میں اور ہم زیادہ ہیں اس لحاظ سے کہ نبی کی جماعت کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے.پس جب میں نے یہ کہا کہ ہم تھوڑے ہو کر بھی شکست نہیں کھا سکتے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا زیادہ حصہ ہم سے الگ ہو جائے گا اور قلیل حصہ ہمارے ساتھ رہ جائے گا.کیونکہ جماعت کی اکثریت بہر حال ہمارے ساتھ رہے گی اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نبی کی جماعت کی اکثریت گمراہ ہو جائے.اگر کسی وقت اکثریت کو غلطی لگے تو وہ غلطی پر قائم نہیں رہ سکتی بلکہ چند دنوں میں ہی اسے غلطی کی اصلاح کا موقع مل جاتا ہے جیسا کہ صحابہ کے زمانہ میں حضرت علی کی خلافت کے عہد میں ہوا.پس میں نے اپنے آپ کو تھو ڑا دنیا کی اقوام کے مقابلہ میں قرار دیا ہے.اور میں نے یہ نہیں کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت قلیل رہ جائے گی.کیونکہ جب تک جماعت کے دلوں میں نور ایمان باقی ہے یہ ناممکن ہے کہ اس کی
213 اکثریت بگڑ جائے.پھلنے والے پھلیں گے.گرنے والے گریں گے اور جدا ہونے والے جدا ہوں گے مگر اکثریت پھر بھی ہمارے ساتھ ہی رہے گی.پس پیغامی یا ان کے گماشتے مصری میرے ان الفاظ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.اکثریت ہمارے ساتھ ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی.اگر بعض منافق یا کمزور طبع لوگ اپنی ایمانی کمزوری کا ثبوت دیتے ہوئے ہم سے الگ ہو جائیں گے تو وہ پھر بھی اکثریت قرار نہیں پائیں گے.بلکہ اکثریت ہمارے ساتھ رہے گی اور وہ ہمارے مقابلہ میں تھوڑے ہی رہیں گے.کیونکہ نبیوں کی جماعتوں کے اندر شروع زمانہ میں منافق اور فتنہ و فساد پیدا کرنے والے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں اور مومن زیادہ ہوتے ہیں.پس جب میں اپنے متعلق تھوڑے کا لفظ بولتا ہوں.تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ ہم احمدی کہلانے والوں کے مقابلہ میں تھوڑے ہیں بلکہ غیر اقوام مراد ہوتی ہیں.اور میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کے مقابلہ میں بالکل قلیل ہیں.لیکن احمدی کہلانے والے غیر مبایعین کے مقابلہ میں ہم زیادہ ہیں.اور زیادہ ہی رہیں گے.انشاء اللہ پس میں اس خطبہ کے ذریعہ جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو پوزیشن ہم نے دیانتداری کے ساتھ تعلیم کی ہوئی ہے ، ہمیں اس کے مطابق اپنے اعمال میں بھی تغیر پیدا کرنا چاہئے.اسی طرح صحابہ کی جو پوزیشن ہمارے نزدیک مسلم ہے وہی پوزیشن ہمیں اختیار کرنی چاہئے.صحابہ کی پوزیشن یہ تھی کہ انہیں حکم دیا جاتا اور وہ فورا اطاعت کے لئے کھڑے ہو جاتے اور یہی پوزیشن ہماری ہونی چاہئے.جو شخص یہ پوزیشن اختیار نہیں کرتا ہم یہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو امتی نبی مانتا ہے.کیونکہ امتی نبی ماننے کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ جو کچھ صحابہ نے کیا وہی ہم کریں اور اگر کوئی شخص صحابہ کے سے کام نہیں کرتا تو اس کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آزاد نبی مانتا ہے.اس صورت میں اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو سکتا.کیونکہ ہم جسے مسیح موعود تسلیم کرتے ہیں وہ رسول کریم میل ل ل ل لیول کا امتی ہے.ہم کسی ایسے شخص پر ایمان لانے کے لئے تیار نہیں جو اپنے آپ کو مستقل نبی قرار دے اور رسول کریم میں دل کی دیوی کی غلامی سے آزاد ہو کر نبوت کا دعویٰ دنیا کے سامنے پیش کرے.لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے.کیونکہ آپ کو خدا نے بھی نبی قرار دیا اور اس کے رسول نے بھی نبی قرار دیا اور ہمارے نزدیک ایسا شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کو کلیہ تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے، وہ خدا کو بھی جھوٹا کہتا ہے اور خدا کے رسول کو بھی جھوٹا کہتا ہے اس لئے ان کا راستہ اور ہے اور ہمارا راستہ اور..پس میں قادیان کی جماعت کو آئندہ تین گروہوں میں تقسیم کرتا جماعت کی تین گروہوں میں تقسیم ہوں.اول اطفال احمد یہ آٹھ سے پندرہ سال تک.دوم خدام الاحمدیہ پندرہ سے چالیس سال تک.- -
214 سوم : انصار اللہ چالیس سے اوپر تک.ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی عمر کے مطابق ان میں سے کسی نہ کسی مجلس کا ممبر بنے.خدام احمد یہ کا نظام ایک عرصہ سے قائم ہے.مجالس اطفال احمد یہ بھی قائم ہیں.البتہ انصار اللہ کی مجلس اب قائم کی گئی ہے اور اس کے عارضی انتظام کے طور پر مولوی شیر علی صاحب کو پریذیڈنٹ اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم.اے خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب اور چوہدری فتح محمد صاحب کو سیکر ٹری بنایا گیا ہے.یہ اگر کام میں سهولت کے لئے مزید سیکرٹری یا اپنے نائب مقرر کرنا چاہیں تو انہیں اس کا اختیار ہے.ان کا فرض ہے کہ تین دن کے اندر اندر مناسب انتظام کر کے ہر محلہ کی بیت الذکر میں ایسے لوگ مقرر کر دیں جو شامل ہونے والوں کے نام نوٹ کرتے جائیں.اور پندرہ دن کے اندراندر اس کام کو تکمیل تک پہنچایا جائے.اس کے لئے قطعاً اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ محلوں میں پھر کر لوگوں کو شامل ہونے کی تحریک کریں بلکہ وہ بیت الذکر میں بیٹھ رہیں جس نے اپنا نام لکھانا ہو وہاں آجائے اور جس کی مرضی ہو ممبر بنے اور جس کی مرضی ہو نہ بنے.جو ہمارا ہے وہ آپ ہی ممبر بن جائے گا اور جو ہمارا نہیں اسے ہمارا اپنے اندر شامل رکھنا بے فائدہ ہے.پندرہ دن کے بعد مردم شماری کر کے یہ تحقیق کی جائے گی کہ کون کون شخص باہر رہا ہے.اگر تو کوئی شخص دیدہ دانستہ باہر رہا ہو گا تو اسے کہا جائے گا کہ چونکہ تم باہر رہے ہو اس لئے اب تم باہر ہی رہو.مگر جو کسی معذوری کی وجہ سے شامل نہ ہو سکا ہو گا اسے ہم کہیں گے کہ گھر کے اندر تمہارے تمام بھائی بیٹھے ہیں آؤ اور تم بھی ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ.اس طرح پندرہ دن کے اندر اندر قادیان کی تمام جماعت کو منظم کیا جائے گا اور ان سے وہی کام لیا جائے گا جو رسول کریم میم کے صحابہ رضی اللہ عنم سے لیا گیا.یعنی کچھ تو اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو تبلیغ کریں.کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو قرآن اور حدیث پڑھائیں.کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کریں.کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ تعلیم و تربیت کا کام کریں اور کچھ یزکیھم کے دوسرے معنوں کے مطابق اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کی دنیوی ترقی کی تدابیر عمل میں لائیں.یہ پانچ کام ہیں جو لازماً ہماری جماعت کے ہر فرد کو کرنے پڑیں گے اسی طرح جس طرح جماعت فیصلہ کرے اور جس طرح نظام ان سے کام کا مطالبہ کرے.جو شخص کسی واقعی عذر کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکتا.مثلا وہ مفلوج ہے یا اندھا ہے یا ایسا بیمار ہے کہ چل پھر نہیں سکتا.ایسے شخص سے بھی اگر عقل سے کام لیا جائے تو فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.الا ماشاء اللہ.مثلاً اسے کہہ دیا جائے کہ اگر تم کچھ اور نہیں کر سکتے تو کم سے کم دو نفل روزانہ پڑھ کر جماعت کی ترقی کے لئے دعا کر دیا کرو.پس ایسے لوگوں سے بھی اگر کچھ اور نہیں تو دعا کا کام لیا جاسکتا ہے.در حقیقت دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں جو کوئی نہ کوئی کام نہ کر سکے.قرآن کریم سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ دنیا میں وہی شخص زندہ رکھا جاتا ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں کام کر کے دوسروں کے لئے اپنے وجود کو فائدہ بخش ثابت کر سکتا ہے اور ادنی سے
215 ادفی حرکت کا کام جس میں جسمانی محنت سب سے کم برداشت کرنی پڑتی ہے ، دعا ہے.ہاں بعض کے کام بالواسطہ بھی ہوتے ہیں جیسے پاگل نہ دعا کر سکتے ہیں اور نہ کچھ اور کام کر سکتے ہیں.ایسے لوگ صرف عبرت کا کام دیتے اور لوگ انہیں دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں.مگر ایسا معذور میرے خیال میں قادیان میں کوئی نہیں.نیم فاتر العقل و چار ضرور ہیں.مگر پورا پاگل میرے خیال میں کوئی نہیں.لیکن یہ لوگ بھی اتنا کام تو ضرور کر رہے ہیں کہ لوگوں کے لئے عبرت کا موجب بنے ہوئے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست اپنے مقام کو سمجھتے ہوئے ایسے رنگ میں کام کریں گے کہ ان میں سے کوئی بھی باغیوں کی صف میں کھڑا نہیں ہو گا.اگر کوئی شخص ان مجالس میں سے کسی مجلس میں بھی شامل نہیں ہو گا تو وہ ہر گز جماعت میں رہنے کے قابل نہیں سمجھا جائے گا.پس ان مجالس میں شامل ہو نادر حقیقت اپنے ایمان کی حفاظت کرنا اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا عملی رنگ میں اقرار کرنا ہے.جو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ہم پر عائد ہیں اور خدا اور اس کے رسول نے جو احکام دیئے ہیں ان کے نفاذ او را جراء میں حصہ لینا صرف میرا فرض نہیں بلکہ ہر شخص کا فرض ہے.آخر میں نے (نعوذ باللہ ) محمد رسول الله ل ل ا ل ل ویلی کو رسول بنا کر نہیں بھیجا تھا.نہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو (نعوذ باللہ ) رسول کریم میل یا اللہ کا آخری مظہر بنا کر بھیجا.نہ صحابہ کو میں نے بنایا اور نہ تم کو میں نے بنایا.یہ خدا کا کام ہے.جو اس نے کیا.میرا کام تو ایک مزدور کا سا ہے اور میرا فرض ہے کہ خدا نے جس فقرہ کو جہاں رکھا ہے وہاں اس کو رکھ دوں.پس میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ میں وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا نے کہا.اگر کوئی شخص اسے تسلیم نہیں کرتا تو اسے ثابت کرنا چاہئے کہ وہ بات خدا نے نہیں کی ورنہ وہ میرا انکار نہیں کرتا بلکہ خدا تعالیٰ کا انکار کرتا ہے.(خطبہ جمعہ فرموده ۲۶ جولائی ۱۹۴۰ء مطبوعہ الفضل یکم اگست ۱۹۴۰ء)
جان قربان راه خدا میں بڑھاؤ قدم تم طریق وفا میں فرشتوں سے مل کر اڑو تم ہوا میں مہک جائے خوشبوئے ایماں فضا میں ہوا کیا کہ دشمن ابلیس پیارو خُدا نے نوازا ہے ہر دوسرا میں مثنوی میں نہ بانگ درا میں ہے.قرآن میں جو سرور اور لذت زنده تیرے ہی دم تو مشہور عالم ہو گھر وفا میں ت محبت رہے خدا کی کی نظر میں رہے تو ہمیشہ ہو مشغول دل تیرا ذکر خدا میں غیر کے غم میں مرنے کی عادت مہارت ہے غیروں کو جور و جفا میں مساوات اسلام قائم کرو تم رہے فرق باقی نه شاه و گدا میں
217 جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ اپنی عمر کے لحاظ سے اطفال ، خدام یا انصار اللہ کی تنظیموں میں شامل ہو صرف شامل ہو نا کافی نہیں بلکہ اپنے اعمال کو ان مجالس کے اغراض و مقاصد کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرو اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیں کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی واحد جماعت آپ ہی ہیں اپنے اوقات اموال اور جانوں کی قربانی پیش کریں اپنے عملی نمونہ کو اسلام کے مطابق بناؤ
218 دوستوں کو معلوم ہے کہ میں نے جماعت کو تین حصوں میں منتظم کرنے کی جماعت کی تین ذیلی تنظیمیں ہدایت کی تھی.ایک حصہ اطفال احمد یہ کا یعنی پندرہ سال تک کی عمر کے لڑکوں کا.ایک حصہ خدام الاحمدیہ کا یعنی سولہ سال سے چالیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کا اور ایک حصہ انصار اللہ کا جو چالیس سال سے اوپر کے ہوں، خواہ کسی عمر کے ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ نوجوان جو خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کی عمر رکھتا ہے.لیکن وہ اس میں شامل نہیں ہوا، اس نے ایک قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے اور اگر کوئی شخص ایسا ہے جو چالیس سال سے اوپر کی عمر رکھتا ہے مگر وہ انصار اللہ کی مجلس میں شامل نہیں ہوا تو اس نے بھی ایک قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے اور اگر کوئی بچہ اطفال احمد یہ میں شامل ہونے کی عمر رکھتا تھا اور اس کے ماں باپ نے اسے اطفال احمدیہ میں شامل نہیں کیا تو اس کے ماں باپ نے بھی ایک قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے.مگر مجھے امید رکھنی چاہئے کہ ایسے لوگ یا تو بالکل نہیں ہوں گے یا ایسے قلیل ہوں گے کہ ان قلیل کو کسی صورت میں بھی جماعت کے لئے کسی دھبہ یا بدنامی کا موجب قرار نہیں دیا جا سکتا.کیونکہ قلیل استثناء کسی جماعت کے لئے بدنامی کا موجب نہیں ہوا کرتے.آج ہم صحابہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور بسا اوقات کہتے ہیں کہ وہ سب کے سب ایسے تھے.حالانکہ ان صحابہ کہلانے والوں میں سے بھی بعض لوگ ایسے تھے جن کا نام قرآن کریم میں منافق رکھا گیا ہے.پھر ہم کیوں کہتے ہیں کہ سارے صحابی ایسے تھے اور کیوں ان کا نام زبان پر آتے ہی ان کے لئے ہم دعا ئیں کرنے لگ جاتے ہیں.اسی لئے کہ منافق نہایت قلیل تھے اور قلیل التعداد ہونے کی وجہ سے وہ کسی شمار میں نہیں آسکتے تھے.ایک حسین انسان کسی خفیف سے جسمانی نقص کی وجہ سے مثلا اگر اس کی انگلی پر مسہ نکلا ہوا ہو یا فرض کرو اس کی کمر پر کوئی داغ ہو.بد صورت نہیں کہلا سکتا.اور نہ مسے یا داغ کی وجہ سے اس کے حسن میں کوئی فرق آ سکتا ہے.اگر ہم ایسے شخص کو حسین کہیں تو لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ تم نے اس بات کا استثنی نہیں کیا کہ اس کی کمر پر داغ ہے یا اس بات کا استثنی نہیں کیا کہ اس کی انگلی کی پشت پر مسہ نکلا ہوا ہے.بے شک مہ ایک نقص ہے.بے شک داغ ایک نقص ہے لیکن ایسے مقام پر مسے یا داغ کا ہونا جہاں نظر نہ پڑ سکے یا خاص طور پر وہ حسن کو بگاڑ کر نہ رکھ دے حسن کے خلاف نہیں ہو تا.ایک شخص جسے سال دو سال میں ایک دو دن کے لئے نزلہ ہو جاتا ہے یا چھینکیں آنے لگ جاتی ہیں اسے لوگ بیمار نہیں کہتے بلکہ تندرست ہی کہتے ہیں.اسی طرح اگر کسی جماعت میں منافقوں کی قلیل تعداد موجود ہو تو اس قلیل تعداد کی بناء پر وہ خراب نہیں کہلاتی.غرض ہم صحابہ کو اس لئے اچھا کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ بعض ظاہر میں صحابہ کہلانے والے ایسے تھے جو منافق تھے.پھر بھی منافقوں کی تعداد نہایت قلیل تھی.ورنہ ظاہری طور پر جس طرح انصار اور مہاجر رسول کریم ل لیول پر ایمان لائے تھے.اسی طرح منافق ایمان لائے تھے وہ اسی زمانہ میں ایمان لائے جس زمانہ میں صحابہ ایمان لائے.انہوں نے بیعت کے وقت وہی کلمات کے جو صحابہ نے کہے اور انہوں نے بھی اسی رنگ میں اظہار عقیدت کیا جس رنگ میں صحابہ نے کیا.مگر صحابہ تو کچھ عرصہ کے بعد اپنے اخلاص میں اور بھی ترقی کر گئے.لیکن
219 منافق اپنے اخلاق میں کم ہوتے چلے گئے.پس کوئی ایسا ظاہری فرق نہیں جس کی بناء پر ایک کو ہم صحابی کہیں اور دوسرے کو نہ کہیں.سوائے اس کے کہ ایک نے اپنی منافقت کے اظہار سے بتایا کہ وہ صحابی کہلانے کا مستحق نہیں اور دوسرے نے اپنے ایمان اور اخلاص کے اظہار سے بتا دیا کہ وہ صحابی کہلانے کا مستحق ہے.ورنہ ظاہری طور پر ہے.منافق بھی نمازوں میں شامل ہو جاتے تھے اور منافق بھی صحابہ کے ساتھ جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوتے تھے.چنانچہ صریح طور پر حدیثوں میں آتا ہے کہ بعض غزوات میں منافق بھی شامل ہوئے.غزوہ تبوک میں بھی بعض ایسے شقی القلب اور منافق لوگ تھے جو آگے بڑھ کر راستہ میں اس لئے چھپ کر بیٹھ گئے تھے کہ اگر رسول کریم.اکیلے آتے ہوں تو آپ کو قتل کر دیں اور وہ غزوہ تبوک میں صحابہ کی صف میں شامل ہوئے.مگر باو بنو د اس کے صحابہ کی تعریف میں کوئی کمی نہیں آتی.ان کی شان میں کوئی فرق نہیں آتا اور ہر مسلمان کا دل صحابہ کی محبت اور ان کی تعریف سے لبریز ہو تا ہے.کیونکہ منافقوں کی تعداد اتنی قلیل اور صحابہ کی تعداد اتنی کثیر تھی اور پھر صحابہ اپنے اخلاص اور اپنی محبت میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ منافق پیٹھ کے پیچھے چھپے ہوئے ایک داغ یا انگلی کے ایک مسہ سے بڑھ کر حیثیت نہیں رکھتے تھے اور ایسا داغ یا مہ کسی حسین کے حسن میں کوئی فرق نہیں لایا کرتا.پس میں امید کرتا ہوں کہ اس قسم کے لوگ تھوڑے ہوں گے.کیونکہ خدا نے ہماری جماعت کو صحابہ کے نقش قدم پر بنایا ہے اور یقینا ہم میں منافقوں کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ وہ جماعت کے لئے کسی صورت میں بھی بدنامی کا موجب نہیں ہو سکتے.بے شک میں جماعت کو اور زیادہ پاک کرنے ، اسے روحانی ترقی کے میدان میں پہلے سے اور زیادہ قدم آگے بڑھانے اور اسے اپنے جسم پر سے معمولی سے معمولی دھبے اور داغ دور کرنے کی ہمیشہ تلقین کیا کرتا ہوں اور جماعت کو اپنے خطبات کے ذریعہ ہمیشہ نصیحت کرتا رہتا ہوں مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ جماعت کے معتد بہ حصہ میں نقص پائے جاتے ہیں یا جماعت ان کمزوروں کی وجہ سے بد نام سمجھی جا سکتی ہے.معتر نین کی نگاہ میں تو جماعت ہر وقت بد نام ہی ہوتی ہے اور جو شخص اعتراض کرنے پر ایک دفعہ مل جائے وہ بہانے بنا بنا کر اعتراض کیا کرتا ہے.مگر ان کی نگاہ میں جماعت کی جو بدنامی ہوتی ہے وہ شرفاء کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتی.پس جب میں کہتا ہوں کہ جماعت ان لوگوں کی وجہ سے بد نام نہیں ہو سکتی تو اس کے معنی صرف یہ ہوتے ہیں کہ شرفاء کے طبقہ میں جماعت بد نام نہیں ہو سکتی ورنہ مخالف کی نگاہ میں تو ہم ہمیشہ بد نام ہی ہیں.خواہ ہم میں بعض کمزور افراد ہوں یا نہ ہوں اور دراصل ایسے لوگوں کی نگاہ میں تو محمد رسول اللہ ملی یا یہ بھی بدنام ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی بدنام ہیں اور اسی طرح اور تمام انبیاء اور مامورین بد نام ہیں.بلکہ انبیاء تو کیا ان کی نگاہ میں خدا تعالیٰ بھی بد نام ہے.تم بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگوں کی مجلسوں میں بیٹھ کر دیکھ لو.وہ ہمیشہ اس قسم کے سوالات کرتے ہوئے دکھائی دیں گے کہ خدا نے اس دکھ کی دنیا میں ہمیں کیوں پیدا کیا.پھر وہ برملا کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ خدا قحط ڈالتا ہے.وہ بیماریاں پیدا کرتا ہے.وہ زلزلے بھیجتا ہے.وہ ظلم کرتا ہے.وہ امن برباد کرتا ہے.غرض لوگ تو کہا کرتے ہیں "پانچوں عیب شرعی مگر ان کے نزدیک سینکڑوں عیب خدا تعالیٰ میں پائے جاتے
220 ہیں اور جن کی نگاہ میں خدا تعالیٰ میں بھی عیب ہی عیب ہوں ان کے نزدیک اس کے انبیاء کب عیوب سے پاک سمجھے جاسکتے ہیں.پس میں ایسے شقی القلب لوگوں کا ذکر نہیں کرتا وہ انسانیت سے دور چلے گئے اور انصاف کا دامن انہوں نے چھوڑ دیا.میں صرف شریف الطبع لوگوں کا ذکر کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی نگاہ میں چند منافقوں کے پائے جانے کی وجہ سے ہماری جماعت بد نام نہیں ہو سکتی.چنانچہ دیکھ لو باوجود اس کے کہ ہماری جماعت میں بعض لوگ ایسے موجود ہیں جو ست ہیں.مگر پھر بھی غیر احمدی شرفاء یہی کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ سے بڑھ کر دین کی خدمت کرنے والی اور کوئی جماعت نہیں.اسی طرح احمدیوں میں بعض بے نماز بھی ہوتے ہیں مگر وہ نہیں کہتے کہ احمدیوں میں سو میں سے ایک یا دو بے نماز ہیں بلکہ لوگوں کا سمجھدار اور شریف الطبع طبقہ یہی کہتا ہے کہ احمدی بڑے نمازی ہوتے ہیں.اسی طرح سارے احمدی تو با قاعدہ چندے نہیں دیتے کچھ لوگ ست بھی ہیں مگر تم شریف الطبع لوگوں سے یہی سنو گے کہ احمدی بڑا چندہ دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کی اکثریت نیکی پر قائم ہے اور وہ بعض افراد کی کمزوری کو دیکھ کر ساری جماعت پر الزام عائد نہیں کرتے.مگر وہ لوگ جو اپنے اندر شرافت نہیں رکھتے ، وہ کسی ایک کمزور احمدی کو دیکھ کر ہی کہنے لگ جاتے ہیں کہ احمدی بے نماز ہیں یا احمدی چندوں میں ست ہیں.بے شک ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے لوگوں کا منہ بند کرنے کی کوشش کریں.ہمارا فرض ہے کہ ہم جماعت کی ایسی تربیت کریں کہ اس میں ایک شخص بھی ایساد کھائی نہ دے جو چندہ نہ دیتا ہو.اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو نماز کا پابند بنائیں اور اس قدر کوشش کریں کہ ایک بھی بے نماز نہ رہے اور اس مقصد کے لئے میں اگر کوئی خطبہ پڑھوں اور جماعت کو بیدار کرنے اور اس کی قوت عملیہ میں حرکت پیدا کرنے کی کوشش کروں تو یہ کوئی معیوب بات نہیں.بلکہ اچھی بات ہے.کیونکہ ایک خرابی بھی ہم میں کیوں موجود رہے.لیکن اس نیکی کو سو فیصدی مکمل کرنے کے لئے ہم اپنی طرف سے جو کوشش کریں اس کے یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ ہماری جماعت میں نیکی ہی نہیں.نیکی تو موجود ہے اور جماعت کی اکثریت میں موجود ہے مگر اسے تمام پہلوؤں سے مکمل کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وقتا فوقتا بعض کمزور لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے.غیر احمدیوں سے ہی پوچھ کر دیکھ لو.جہاں جہاں احمدی موجود ہیں وہ ان کے متعلق یہی رائے دیں گے کہ احمدی بڑے بچے ہوتے ہیں.احمدی بڑے نیک ہوتے ہیں.احمدی بڑے نمازی اور خدا تعالیٰ کے دین کے لئے قربانی کرنے والے ہوتے ہیں.حالانکہ ان احمدیوں میں کمزور بھی ہوتے ہیں.لیکن شریف الطبع لوگوں کا یہی دستور ہے کہ وہ اکثریت کی نیکی کا ذکر کرتے ہیں اور بعض افراد کی کمزوری کو نظر انداز کر دیتے ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کا نمونہ ایسا ہی ہو گا اور جیسا کہ میرے پاس رپورٹیں پہنچتی رہی ہیں ان میں سے غالب اکثریت نے اس تنظیم میں اپنے آپ کو شامل کر لیا ہے.لیکن میں دوستوں سے یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ محض ظاہری شمولیت کافی نہیں جب تک وہ عملی رنگ میں بھی کوئی کام نہ کریں.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ
221 اپنے عملی نمونہ سے یہ ثابت کر دیں گے کہ دنیا میں خدا تعالی کی واحد جماعت آپ ہی ہیں اور یہ ثبوت اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ آپ لوگ اپنے اوقات کی قربانی کریں.اپنے مالوں کی قربانی کریں.اپنی جانوں کی قربانی کریں اور خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور احمدیت کی ترویج کے لئے دن رات کوشش کرتے رہیں.اگر ہم یہ نہیں کرتے اور محض اپنا نام لکھا دینا کافی سمجھتے ہیں تو ہم اپنے عمل سے خدا تعالیٰ کی محبت کا کوئی ثبوت نہیں دیتے.پس صرف ان مجالس میں شامل ہونا کافی نہیں بلکہ اپنے اعمال ان مجالس کے اغراض و مقاصد کے مطابق ڈھالنے چاہئیں.خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال سے خدمت احمدیت کو خدام الاحمدیہ کا فرض ثابت کر دیں.انصار اللہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال سے دین اسلام کی نصرت نمایاں طور پر کریں اور اطفال احمدیہ کا فرض ہے کہ ان کے اعمال اور ان کے اقوال تمام کے تمام احمدیت کے قالب میں ڈھلے ہوئے ہوں.جس طرح بچہ اپنے باپ کے کمالات کو ظاہر کرتا ہے ، اسی طرح وہ احمدیت کے کمالات کو ظاہر کرنے والے ہوں.یہی غرض اس نظام کو قائم کرنے کی ہے اور یہی غرض انبیاء کی جماعتوں کے قیام کی ہوا کرتی ہے.مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہماری اس تنظیم سے بعض لوگوں میں ایک بے چینی سی پیدا ہو گئی ہے.چنانچہ تھوڑے ہی دن ہوئے کسی اخبار کا ایک مضمون میرے سامنے پیش کیا گیا جس میں اس بات پر بڑے غصے کا اظہار کیا گیا تھا کہ انہوں نے کہا ہے جو شخص خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے سے دور بھاگے گا وہ خدام الاحمدیہ سے دور نہیں بھاگے گا بلکہ احمدیت سے دور بھاگے گا.کہتے ہیں ”ماں سے زیادہ چاہے ، کٹنی کہلائے بھلا ان کو احمدیوں سے کیا واسطہ.ایک جماعت کا امام ایک نظام کا حکم دیتا ہے اور جماعت والے اس نظام کو قبول کر لیتے ہیں.وہ اپنی جماعت سے راضی اور جماعت اپنے امام سے راضی.پھر ان کو بیٹھے بٹھائے کیوں آپچ و تاب اٹھنے لگتے ہیں.میں اگر کسی کو کہتا ہوں کہ اس نے اگر فلاں بات پر عمل نہ کیا تو جماعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہے گا.تو وہ میری بات کو خوشی سے سنتا اور اس پر عمل کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے.اسی طرح میں بوجہ جماعت کا امام ہونے کے وہی بات کہہ سکتا ہوں جس میں لوگوں کا فائدہ ہو.پھر جب کہ جماعت بھی اپنے فائدہ کو سمجھتی ہوئی ایک بات پر عمل کرتی ہے اور امام بھی وہی بات کہتا ہے جس میں جماعت کا فائدہ ہو تو کسی دوسرے کو اس میں دخل دینے کا کیا حق ہے.علاوہ ازیں یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ میں ، جس کے ساتھ جماعت کا تعلق ہے ، اگر جماعت کے بعض افراد کو ان کی کو تاہی کو دور کرنے کے لئے کوئی تنبیہ کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اگر انہوں نے یہ عمل نہ کیا تو وہ ہماری جماعت میں نہیں رہیں گے تو اس پر انہیں تو بجائے ناراض ہونے کے خوش ہو نا چاہئے کہ اب جماعت کم ہو جائے گی مگر ہوا یہ کہ وہ مخالفت میں اور بھی بڑھ گئے.میں نے جیسا کہ ابھی کہا ہے جماعت کی اصلاح کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ خدام الاحمدیہ یا دوسری
222 مجالس میں شامل نہ ہوئے تو ان کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہے گا اور انہیں جماعت سے الگ سمجھا جائے گا.یہ فقرہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں کہ جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں.جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے.وہ میری جماعت میں سے نہیں.جو شخص بد رفیق کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں اور جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا.وہ میری جماعت میں سے نہیں.اب اس کے یہ معنی نہیں کہ جو شخص بھی ایسا ہو گا.اسے ہم اپنی جماعت سے نکال دیں گے.بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کا میرے ساتھ کوئی حقیقی تعلق نہیں ہو گا.(خطبه جمعه فرموده ۲۳ اگست ۱۹۴۰ء مطبوعہ الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۶۱ء)
223 ہر قوم اور ہر جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خیالات کو احسن طریق سے دنیا میں پھیلائے ہماری جماعت کے ہر فرد کو دوسروں کے اعتراضات اور ان کے جواب کا بخوبی علم ہونا چاہیئے تاکہ وہ علی وجہ البصیرت ایمان پر قائم ہوں مذاہب دنیا میں امن پیدا کرنے کے لئے آتے ہیں اعتقادات کی بنیاد د لائل اور شواہد پر ہونی چاہیئے جماعت کے افراد کو دوسرے کے دلائل سے آگاہ ر کھیں اپنے آدمیوں کو شیر کی طرح دلیر بناؤ ( خطبه جمعه فرموده یکم نومبر ۱۹۴۰ء )..
224 میں ایک اور امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ چند دن ہوئے ہماری جماعت کے ایک دوست نے مجھے ایک خط لکھا.جس کا مضمون یہ تھا کہ میں بازار میں سے گذر رہا تھا کہ مجھے ایک مخالف شخص نے کچھ ٹریکٹ دینے چاہے جس کے لینے سے میں نے انکار کر دیا.لیکن اس نے اصرار کیا اور کہا کہ آپ لوگوں کو چاہئے کہ ہماری باتوں کو سنیں اور ٹریکٹ لینے سے انکار نہ کریں.اس دوست نے لکھا ہے کہ مجھے ایک عام اعلان کے ذریعہ جماعت کے دوستوں کو ایسے لوگوں کا لٹریچر پڑھنے سے روک دینا چاہئے کیونکہ اس طرح جماعت کا کمزور طبقہ متاثر ہوتا ہے اور خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو.میں اس بارہ میں پہلے بھی اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں.اور اب پھر کہتا ہوں کہ میرے نزدیک پبلک جگہوں میں یا ایسے مقامات میں جہاں کسی خاص قوم کو کوئی امتیازی حق حاصل نہ ہو.وہاں اس کا کوئی حصہ نہ ہو اور بظاہر امن میں خلل واقع ہونے کا کوئی اندیشہ نہ ہو.ہر شخص آزادی کے ساتھ ہر شخص آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کو پھیلانے کا حق رکھتا ہے اپنے خیالات کو پھیلانے کا حق رکھتا ہے اور اگر ہم اسے روک دیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ بیرونی مقامات میں جب ہمارا کوئی احمدی ٹریکٹ وغیرہ تقسیم کرنے لگے اور دوسرے لوگ اسے روک دیں یا ٹریکٹ لینے اور پڑھنے سے انکار کر دیں تو وہ بھی اپنے رویہ میں حق بجانب سمجھے جائیں.حالانکہ اگر کسی جگہ ہمارا کوئی احمدی اپنے ٹریکٹ تقسیم کرتا ہے اور لینے والا نہیں لیتا تو یہ امر اس کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے مگر بہر حال ہم غیروں کو اپنے ٹریکٹ دیتے ہیں اور جب دیتے ہیں تو جو حق ہمیں حاصل ہے ، وہی حق دوسروں کو بھی حاصل ہو نا چاہئے.مذاہب دنیا میں امن پیدا کرنے کیلئے آتے ہیں ، فساد مذاہب دنیا میں امن پیدا کرنے کیلئے آتے ہیں پیدا کرنے کے لئے نہیں آتے اور اگر ہم ایک بچے پیدا مذہب پر قائم ہیں تو لازماً ہمیں دنیا کو وہ حریت اور آزادی دینی ہوگی جس کے بغیر دنیا کبھی ترقی نہیں کر سکتی.یہ تو لینے والے کا اختیار ہے وہ چاہے تو لے اور چاہے تو نہ لے.مثلا فرض کرو کسی کے ہاتھ میں پہلے ہی بہت سی کتابیں ہوں یا اور کوئی سامان اس نے اٹھایا ہوا ہو تو کہہ سکتا ہے کہ میں اس وقت نہیں لے سکتا یا ممکن ہے وہ ٹریکٹ اس نے پڑھا ہوا ہو تو اس صورت میں بھی وہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے اس ٹریکٹ کی ضرورت نہیں.اسی طرح اگر اسے پڑھنے کی فرصت ہی نہیں یا اس عذر کی بناء پر بھی وہ کوئی ٹریکٹ لینے سے انکار کر سکتا ہے.لیکن اگر دینے والا دیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دوسرا شخص غلطی پر ہے اور میرا فرض ہے کہ میں اس کی اصلاح کروں تو اگر دیانتداری کے ساتھ اس کی نیت اسی حد تک ہے اور وہ دوسرے کی خیر خواہی و اصلاح کے جذبہ کے ماتحت اپنا کوئی ٹریکٹ دو سرے کو پڑھنے کیلئے دیتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے تقسیم کرنے یا اپنی جماعت کے دوستوں کو ان کے لینے اور پڑھنے سے منع کریں.جس چیز کو اسلام ناجائز قرار دیتا ہے اور جسے ہم نا پسند کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اشتہار بازی یا ٹریکٹوں
225 کی تقسیم وغیرہ سے کوئی فتنہ اٹھایا جائے اور یا پھر ہم اس امر کو نا پسند کرتے ہیں کہ کوئی شخص رات کو اٹھ کر کسی کے خلاف کارٹون لگا دے.اگر اس میں جرات اور دلیری ہے تو وہ کیوں اپنی پنچایت اپنی مجلس، اپنی جماعت اور اپنی قوم کے بزرگوں کے سامنے اس معاملہ کو نہیں رکھتا اور انہیں کیوں نہیں بتا تا کہ فلاں خرابی کو دور کرنا چاہئے اس کے معنے تو یہ ہیں کہ اس نے ایک بے دلیل بات بیان کر دی مگر جو جواب دینے والا ہے وہ حیران ہے کہ وسوسہ ڈال کر وہ بھاگ کہاں گیا.تو یہ چیزیں ہیں جنہیں ہم نا پسند کرتے ہیں.لیکن علی الاعلان کسی کو اشتہار یا ٹریکٹ دنیا ہرگز کوئی ناپسندیدہ طریق نہیں.بشرطیکہ اس میں گالیاں نہ ہوں اور بشر طیکہ اس کی نیت فساد کی نہ ہو.اگر اس طریق کو روک دیا جائے تو مذہب دنیا میں کبھی پھیل ہی نہیں سکتا.آخر رسول کریم میل ل ل و ریلی کے جو مخالف تھے ، انہیں آپ کی باتیں سننا ناگوار ہی گذر تا تھا.مگر کیا اس وجہ سے انہیں حق تھا کہ وہ رسول کریم ملی یم کو اپنی باتوں کے پھیلانے سے روک دیتے یا اس زمانہ میں تو پریس نہیں تھا.مگر کیا موجودہ زمانہ میں غیر احمدیوں کو حق حاصل تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ کہتے کہ آپ ہم میں اپنے اشتہار یا ٹریکٹ کیوں تقسیم کرتے ہیں.پس اس قسم کی باتوں کو روکنا حماقت کی بات ہے.ہر قوم کا حق ہے کہ وہ اپنے خیالات کو احسن طریق پر دنیا میں پھیلائے اور چاہے تو اشتہار تقسیم کرے اور چاہے تو ٹریکٹ دے.یہ لینے والے کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو لے اور چاہے تو نہ لے.مگر کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کو اپنے لٹریچر کی تقسیم سے روک دے.یہ تو اشاعت لٹریچر کے متعلق میں نے ایک اصول بیان کیا ہے.لیکن میں اسی حد تک اپنی بات کو محدود نہیں رکھتا.بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ میرے نزدیک کسی قوم کو بھورے میں بٹھا دینا اس سے انتہا درجہ کی دشمنی اور اس کی ترقی کی جڑ پر اپنے ہاتھوں سے تبر رکھنا ہے.جو قوم بھورے میں بند کر کے بٹھا دی بجائے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی اور نہ کبھی عزت اور عروج کو حاصل کر سکتی ہے.ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے بچوں کو گھروں میں سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں اور انہیں تاکید کرتے رہتے ہیں کہ دیکھنا با ہر نہ جانا.دیکھنا فلاں فلاں سے نہ ملنا.وہ اپنے ماں باپ کی موجودگی میں تو الگ تھلگ رہتے ہیں.لیکن جب ان کے سروں سے ماں باپ کا سایہ اٹھ جاتا ہے تو وہ اول درجہ کے آوارہ ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کے جذبات دبے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ نہ معلوم فلاں فلاں لڑکے میں کیا بات ہے کہ ہمارے ماں باپ ہمیں ان سے ملنے نہیں دیتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ماں باپ سر پر نہیں رہتے تو چونکہ ان کے دل میں مدتوں سے جذبات دبے ہوئے ہوتے ہیں.وہ ان سے ایسے شوق اور ایسی محبت سے ملتے ہیں کہ بہت جلد خراب ہو جاتے ہیں.لیکن دوسرا لڑکا جس کی گو جائز نگرانی کی جاتی ہو مگر اسے لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے بھی منع نہ کیا جاتا ہو.وہ جب آوارہ لڑکوں کو دیکھتا اور ان کے انجام پر نظر دوڑاتا ہے تو کبھی خالی نہیں کرتا اور بالعموم اس کا ایسا مضبوط کیریکٹر رہتا ہے کہ لوگ اس پر ڈورے نہیں ڈال سکتے.
226 مسلمانوں کے تنزل کا بھی زیادہ تر یہی سبب ہوا کہ وہ غیر مذاہب کی کتب مسلمانوں کے تنزل کا سبب کے پڑھنے سے غافل ہو گئے.چنانچہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ مسلمان کسی عیسائی کی کتاب نہیں پڑھیں گے.کسی ہندو کی کتاب نہیں پڑھیں گے.کسی اور مذہب والے کی کتاب نہیں پڑھیں گے.صرف اپنے ہی مذہب کی کتاب پڑھتے رہیں گے.نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ چونکہ انہیں پتہ ہی نہیں ہو تاکہ عیسائی کیا کہتے ہیں.ہندو کیا باتیں پیش کرتے ہیں.اس لئے جب ہند و یا عیسائی ان سے کسی مذہبی مسئلہ پر گفتگو کرتے ہیں تو وہ آسانی سے ان کا شکار ہو جاتے ہیں.لیکن عیسائی دوسرے مذاہب کی کتب کو خوب غور سے پڑھتے ہیں اور خواہ ان کے سامنے کتنی ہی زبردست دلیلیں پیش کی جائیں ان پر کوئی اثر نہیں ہو تا.پس بجائے اس کے کہ میں اس قسم کے لٹریچر کی اشاعت کو نا پسند کروں اور جماعت کو اس کے پڑھنے سے روک دوں.میں تحریک کرتا ہوں کہ جماعت کو اپنی فرصت کے اوقات میں اس قسم کا لٹریچر ضرور پڑھنا چاہئے.اگر تمہیں معلوم ہی نہیں کہ مخالف کیا کہتا ہے تو تم اس کا جواب کیا دو گے ؟ اور اگر ہماری جماعت کے بعض لوگ اتنے ہی کمزور ہیں کہ وہ مخالف کی ایک کتاب پڑھ کر اپنا ایمان چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائیں گے تو ایسے لوگوں کو سنبھالنے سے کیا فائدہ؟ ایک شاعر نے طنز ا کہا ہے کہ "کیا ڈیڑھ چلو پانی ایمان بہہ گیا" اس نے تو ایک ناجائز چیز کا ذکر کر کے کہا ہے کہ کیا میں اس کا ڈیڑھ چلو پی کر ہی کا فر ہو گیا مگر جو جائز باتیں ہیں ان کے متعلق ہم یہ کہاں فرض کر لیں کہ ہماری جماعت میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کا ایمان مخالفوں کا ایک اشتہار یا صرف ایک ٹریکٹ یا ایک کتاب پڑھنے سے ہی ضائع ہو جائے گا اور وہ ایسا متاثر ہو گا کہ احمدیت کو چھوڑ دے گا اور اگر کوئی متاثر ہو گا تو اسی وجہ سے کہ ہم نے اسے احمدیت کی حقانیت کے دلائل پوری طرح نہیں سمجھائے ہوں گے.حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی قوم دوسروں کا لٹریچر پڑھنے سے غافل ہو جاتی ہے تو وہ اپنی اس ذمہ داری کی جو قوم کے تمام افراد کو صحیح تعلیم دینے سے تعلق رکھتی ہے ادا کرنے میں سست ہو جاتی ہے.اس قوم کے افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ جب ہم نے دوسروں کا لٹریچر پڑھنے سے اپنی تمام قوم کو منع کر دیا ہے تو وہ غیر کے اثرات سے متاثر ہی کب ہو گی.گویا وہ اصلاح کا ایک شارٹ کٹ تجویز کرتے ہیں.حالانکہ اس سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن راستہ اور کوئی نہیں.جب ہم اپنی جماعت کے افراد کو یہ آزادی دیں گے کہ وہ دوسروں کے لٹریچر کو بھی پڑھیں تو لازما ہمیں یہ فکر رہے گا کہ ہم دوسروں کے پیدا کردہ شبہات کا بھی ازالہ کریں اور اس کے تردیدی دلائل ان کے ذہن نشین کریں.لیکن اگر ہم انہیں دوسروں کا لٹریچر پڑھنے سے ہی منع کر دیں گے تو لازما ہم تعلیمی پہلو میں ست ہو جائیں گے اور ہمیں یہ احساس نہیں رہے گا کہ دوسروں کے دلائل کا جواب بھی اپنے افراد کو سکھانا چاہئے.چنانچہ فرض کرو اگر ہم کہہ دیں کہ جماعت کا کوئی شخص دوسروں کا لٹریچر نہ پڑھے تو چونکہ حیات مسیح کے دلائل جو وہ پیش کرتے ہیں ، انہی کی کتب میں سے مل سکتے ہیں.اس لئے یہ دلائل ہماری جماعت کی نظروں
227 سے مخفی رہیں گے اور ان کا کوئی جواب ہمارے افراد کو نہیں آئے گا.اسی طرح ہم وفات مسیح کے دلائل بھی زیادہ توجہ سے اپنے افراد کو نہیں سکھا سکیں گے کیونکہ وفات مسیح کے دلائل کی ضرورت بھی حیات مسیح کے دعوئی کے مقابلہ میں ہی پیش آیا کرتی ہے لیکن اگر دوسرا شخص حیات مسیح کے دلائل پیش کرے اور وہ دلائل ہماری جماعت کے افراد کے سامنے آتے رہیں.تو ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ انہیں وفات مسیح کے دلائل بھی سمجھائیں.اسی طرح اگر ہم کہہ دیں کہ مسئلہ نبوت کے بارہ میں کسی مخالف کی کوئی کتاب نہ پڑھی جائے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی جماعت کو اپنے عقیدہ کے دلائل بتانے میں بھی ہم ست ہو جائیں گے اور جو لوگ وفات مسیح یا مسئلہ نبوت کو ہم میں مانے والے ہوں گے ، وہ بھی علی وجہ البصیرت ان مسائل پر قائم نہیں ہوں گے بلکہ تقلیدی رنگ میں ہوں گے.حالانکہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان دلائل اعتقادات کی بنیاد ودلائل اور شواہد پر ہونی چاہئے اور شواہد کی بناء پر اپنے تمام اعتقادات رکھے.چنانچہ قرآن کریم میں رسول کریم ملی و اسلام کا یہی دعوئی بیان ہوا ہے کہ میں اور میرے متبع دلائل سے اسلام کو مانتے ہیں مگر تم اپنی باتوں پر بے دلیل قائم ہو اور جو قوم کسی بات کو بے دلیل مان لیتی ہے ، وہ کبھی برکت حاصل نہیں کر سکتی.برکت اسی کو حاصل ہوتی ہے جو بادلیل مانے چاہے وہ بچے مذہب میں ہی کیوں شامل نہ ہو.اگر ایک مسلمان اس لئے خدا کو ایک سمجھتا ہے کہ اس کی ماں باپ خدا کی وحدانیت پر ایمان رکھتے تھے.اگر ایک مسلمان اس لئے نمازیں پڑھتا ہے.کہ اس نے اپنے ماں باپ کو ہمیشہ نمازیں پڑھتے دیکھا.اگر ایک مسلمان اس لئے روزے رکھتا ہے کہ اس نے اپنے ماں باپ اور اپنی قوم کے افراد کو روزے رکھتے دیکھا.اگر ایک مسلمان اس لئے زکوۃ دیتا ہے کہ اس کی قوم زکوۃ دیتی ہے اور اگر ایک مسلمان اس لئے حج کرتا ہے کہ اور لوگوں کو بھی وہ حج کرتے دیکھتا ہے تو قیامت کے دن اس کی توحید اس کی نمازیں اس کے روزے اس کی زکوۃ اور اس کا حج اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے بلکہ خدا کہے گا کہ بے شک تم نے توحید کے عقیدہ پر ایمان رکھا.مگر میں اس کا ثواب تمہارے ماں باپ کو دوں گا جنہوں نے دلائل سے میری وحدانیت پر ایمان رکھا تھا.اسی طرح بے شک تم نے نمازیں بھی ھیں ، تم نے روزے بھی رکھے ، تم نے زکوۃ بھی دی ، تم نے حج بھی کیا مگر چونکہ یہ تمام اعمال تم نے دوسروں کو دیکھ کر کئے اور خود ان اعمال کی حقیقت اور حکمت کو نہ سمجھا.اس لئے جو لوگ نماز میں سمجھ کر پڑھا کرتے تھے.روزے سمجھ کر رکھا کرتے تھے.زکوۃ سمجھ کر دیا کرتے تھے اور حج سمجھ کر کیا کرتے تھے میں ان تمام نیکیوں کا ثواب ان کو دوں گا نہ کہ تمہیں.اس طرح ہر نیکی کا ثواب مارا جائے گا اور وہ ان لوگوں کو دیا جائے گا.جنہوں نے سوچ سمجھ کر نیکیاں کی ہوں گی.پس یہ طریق بڑا خطرناک ہے.جو قوموں کو تباہ و برباد کر دینے والا ہے اور یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے جس کو جلد سے جلد دور کرنا چاہیے.بے شک ایسی باتیں جن سے فتنہ پیدا ہونے کا امکان ہو.ان سے روکنا ہمارے لئے
228 ضروی ہو تا ہے.مگر لٹریچر ایسی چیز نہیں کہ اس کے پڑھنے سے کسی کو روکا جاسکے.بلکہ میں تو کہوں گا کہ ہماری جماعت کے افراد میں سے جن کو بھی فرصت ہو وہ مخالفین کے لٹریچر کو ضرور پڑھیں.ہاں ہمارا یہ مطالبہ ہر وقت رہے گا کہ وہ صرف مخالفانہ لٹریچر کو ہی نہ پڑھیں بلکہ اپنے لٹریچر کو بھی بار بار پڑھیں.پس میں تمہیں دوسروں کے اشتہارات یا پمفلٹ یا کتب پڑھنے سے منع نہیں کرتا.بلکہ میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم عیسائیوں کی کتابیں بھی پڑھو.تم یہودیوں کی کتابیں بھی پڑھو.تم آریوں کی کتابیں بھی پڑھو اور جتنی جتنی تمہیں فرصت ہو اس کے مطابق ان کے لٹریچر کا مطالعہ جاری رکھو.یہ مطالعہ تمہارے لئے مضر نہیں بلکہ مفید ہے اور جتنا زیادہ یہ مطالعہ بڑھے گا اتنا ہی تمہارا کیریکٹر مضبوط ہو گا اور دوسروں کے حملوں سے تم محفوظ رہو گے.کیونکہ تم جانتے ہو گے کہ تمہارا مخالف کیا کہتا ہے اور تمہارے پاس اس کا کیا جواب ہے ؟ اب اگر میرے سامنے کوئی عیسائی آئے اور کہے کہ مسیح ابن اللہ تھے تو مجھ پر اس کی بات کا کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مسیح کو کن معنوں میں ابن اللہ کہا گیا ہے.میں جانتا ہوں کہ مسیح ایک بشر تھا.میں جانتا ہوں کہ اس کے ابن اللہ ہونے کے کیا دلائل ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جن قرآنی آیات سے وہ مسیح کے ابن اللہ ہونے کا استدلال کرتے ہیں ان کا کیا مفہوم ہے ؟ میں نے ان کے اعتراضوں کو پڑھا.ان کے جوابات کو سمجھا اور مجھے یقین حاصل ہو گیا کہ جن آیات سے وہ حضرت مسیح کے ابن اللہ ہونے کا استدلال کرتے ہیں ، ان کے معنے وہ نہیں جو وہ کرتے ہیں.بلکہ اور ہیں.مثلاً اگر کوئی عیسائی کہے کہ قرآن میں حضرت مسیح کے متعلق روح منه (النساء: ۱۷۲) کے الفاظ آتے ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ روح اللہ تھے تو میں اس سے قطعا نہیں گھبراؤں گا.کیونکہ مجھے اس اعتراض کا جواب آتا ہے اور جب آتا ہے تو میرے لئے گھبرانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے.تو غیروں کی باتوں کا پڑھنا بشر طیکہ جس مذہب میں انسان داخل ہو اس کی اسے پوری واقفیت حاصل ہو نہ صرف جائز ہے بلکہ نہایت ضروری اور مفید ہے.بلکہ اگر کبھی فرصت ہو تو اس قسم کے ٹریکٹوں کو بیوت الذکر میں پڑھ کر سنا دینا چاہئے اور جماعت کے دوستوں کو بتانا چاہئے کہ دوسروں نے یہ یہ اعتراض کیا ہے اور ان اعتراضات کے یہ یہ جوابات ہیں مگر اس قسم کے ٹریکٹوں کا سنانا باقی تمام ضروریات پر مقدم نہیں کر لینا چاہئے.یعنی یہ نہیں ہونا چاہئے کہ قرآن کا درس چھوڑ دیا جائے.حدیث کا درس چھوڑ دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا درس چھوڑ دیا جائے.اسی طرح اور وعظ و نصیحت کی باتوں کو چھوڑ دیا جائے اور مخالف ٹریکٹوں کو سنانا شروع کر دیا جائے.یہ سخت بد دیانتی ہے کہ انسان جس مذہب میں شامل ہو اس کے متعلق تو ابھی سے پوری واقفیت حاصل نہ ہو اور دوسروں کے لٹریچر کو پڑھنے میں وہ مشغول ہو جائے تم پہلے اپنی جماعت کے لٹریچر کو پڑھو اور جب احمدیت کے عقائد احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کے دلائل سے تم پوری طرح آگاہ ہو جاؤ تو پھر تمہارا حق ہے کہ دوسروں کی کتابوں کو بھی پڑھو اور اگر تمہیں اپنے مذہب کی تعلیم پر غور کرتے ہوئے یہ خیال پیدا ہو تا ہے کہ تمہار امذ ہب سچا نہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم سچائی کی کسی اور مذہب میں تلاش کرو.تاکہ تم اگر سچ پر قائم نہیں تو کم از کم تم خدا
229 سے یہ کہہ سکو کہ تم نے سچ کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی.میں اس بارہ میں جماعت کے اندر بیداری پیدا کرنے کے لئے انصار اللہ اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ خدام الاحمدیہ سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ہر سال ایک ہفتہ ایسا منایا کریں جس میں وہ جماعت کے افراد کے سامنے مختلف تقاریر کے ذریعہ نہ صرف اپنی جماعت کے عقائد بیان کیا کریں بلکہ یہ بھی بیان کیا کریں کہ دوسروں کے کیا اعتراضات ہیں اور ان اعتراضات کے کیا جوابات ہیں ؟ ہر بیت الذکر میں اس قسم کی تقریریں ہونی چاہئیں اور جماعت کے دوستوں کو بتانا چاہئے کہ لوگ یہ یہ اعتراضات کرتے ہیں اور ان اعتراضات کے یہ جوابات ہیں.فرض کرو خلافت کا مسئلہ جس رنگ میں ہماری جماعت کی طرف پیش کیا جاتا ہے وہ غلط ہے تو کیوں کسی کا حق نہیں کہ وہ ہمیں سمجھائے.یا فرض کرو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی نہیں تو جو شخص ہمیں سمجھاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی نہیں وہ ہمارا محسن ہے نہ کہ دشمن بشر طیکہ وہ شرارت یا بد دیانتی نہ کر رہا ہو.مگر مشکل یہ ہے کہ ہمارے بعض مخالف سنجیدگی اور شرافت کے ساتھ بات نہیں کرتے اور پھر جو حوالے پیش کرتے ہیں.ان میں بھی دیانت سے کام نہیں لیا جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ لکھا ہوتا ہے اور وہ کسی اور رنگ میں اسے پیش کر رہے ہوتے ہیں.اگر وہ شرافت کے ساتھ اپنے عقائد کو پیش کریں تو ان کی باتیں خوشی کے ساتھ سننے کے لئے تیار ہیں.قادیان میں ایک دفعہ آریوں کے جلسہ پر دیا نند کالج کے ایک پروفیسر صاحب آئے.ان دنوں میں اس بیت اقصیٰ میں درس دیا کرتا تھا.جلسہ سے فارغ ہو کر مجھے ملنے کے لئے اسی بیت میں آگئے.میں نے ان سے کہا کہ قادیان ایسا مقام ہے جس میں ہماری تعد اد دو سروں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے.پس یہاں آپ کا آنا اسی صورت میں فائدہ بخش ہو سکتا تھا جب آپ اپنے خیالات سے ہمیں آگاہ کرتے ورنہ آپ کے اپنے آدمی تو جانتے ہی ہیں کہ آپ کے کیا عقائد ہیں اور ان عقائد کے کیا دلائل ہیں.اگر یہاں آکر بھی آپ نے اپنے آدمیوں کے سامنے ہی ایک تقریر کر دی.تو اس کا کیا فائدہ ہوا.فائدہ تو تب ہو تا جب آپ ہمیں بتاتے کہ آپ کے مذاہب کی کیا تعلیم ہے؟ وہ کہنے لگے بات تو ٹھیک ہے.مگر میں نے سمجھا کہ آپ اپنے آدمیوں کو ہماری باتیں سننے کے لئے کب اکٹھا کر سکتے ہیں ؟ میں نے ان سے کہا.یہ غلط ہے.بيت الذکر ہمارا سب سے مقدس مقام ہوتا ہے اور بيت الذکر ہمار ا سب سے مقدس مقام ہوتا ہے پھر یہ بیت الذکر تو وہ ہے جسے ہم بیت اتمی قرار ا دیتے ہیں.آپ آئیں اور اس بیت الذکر میں تقریر کریں.میں اپنی جماعت کے دوستوں سے کہوں گا کہ وہ آپ کی تقریر کو سنیں چنانچہ اس بیت الذکر میں دیا نند کالج کے پروفیسر صاحب نے تقریر کی اور حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے ان سے تبادلہ خیالات کیا.تو خیالات کا تبادلہ بڑی بابرکت چیز ہے.اگر ہماری جماعت التزام کے ساتھ دوسروں کے خیالات کو سنے ان کے لٹریچر کو پڑھے اور ان کے دلائل کو معلوم کر کے ان کے جوابات کو جماعت کے ہر فرد کے ذہن میں اچھی طرح راسخ کر دے.
230 تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کا ہر فرد ہماری جماعت کا ہر فرد ایمانی لحاظ سے مضبوط ہو ایمانی لحاظ سے مضبوط ہو ایمانی لحاظ سے اتنا مضبوط ہو جائے کہ کوئی شخص اسے ورغلانہ سکے.اگر خدا تعالی کی ہستی کے متعلق اسے کوئی دھوکا دینا چاہے گا تو وہ فورا ہو شیار ہو جائے گا اور کہے گا مجھے خوب معلوم ہے کہ تم اعتراض کرنا چاہتے ہو.تم بے شک اعتراض کرو.مگر مجھے ان کے جوابات بھی معلوم ہیں اور ان جوابات کے مقابلہ میں تمہارے اعتراضات کوئی حقیقت نہیں رکھتے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی صفات کے متعلق اگر کوئی اعتراض کرے گا تو وہ گھبرائے گا نہیں بلکہ ان کا جواب دینے کے لئے فور اختیار ہو جائے گا.اسی طرح رسول کریم ملی دلیل اللہ کی رسالت اسلام کی صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت اور جماعت احمدیہ کی حقانیت کے متعلق جب بھی کوئی اس کے دل میں وسوسہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا وہ عمدگی کے ساتھ اس کے وساوس کا ازالہ کر دے گا اور اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہو گا.یہ وہ مقام ہے جس پر اگر ہم اپنی جماعت کو کھڑا کہ میں تو ہم اس سے حقیقی نیکی کرنے والے ہوں گے.یہ کوئی نیکی نہیں کہ ہم پچاس یا ساٹھ یا سو آدمیوں کو دوسروں سے چھپا کر خدا تعالیٰ کے پاس لے جائیں.کیونکہ خدا چوروں کی طرح دوسروں کی نظر سے چھپ چھپ کر آنے والوں کو پسند نہیں کرتا.بلکہ وہ ان کو پسند کرتا ہے جو دھڑلے سے سب کے سامنے آئیں اور علی الاعلان آئیں.اگر تم خدا کے پاس ایک بھی ایسا شخص لے کر حاضر ہوتے ہو جسے دنیا کا کوئی آدمی گمراہ نہیں کر سکتا تو خدا بہت زیادہ خوش ہو گا بہ نسبت اس کے کہ تم سو یا ہزار ایسے آدمی اس کے سامنے پیش کرو جنہیں دوسروں کے عقائد سے بے خبر رکھا گیا ہو اور جنہیں چوری چھپے اپنے مذہب میں شامل کر لیا گیا ہو.خدا تعالٰی تعداد کی زیادتی کو دیکھ کر خوش نہیں ہو گا.بلکہ وہ کہے گا کہ میں ان سو یا ہزار کو کیا کروں ان میں سے تو ہر شخص آسانی سے دوسروں کا شکار ہو سکتا اور گمراہی اور ضلالت کے گڑھے میں گر سکتا ہے.پس یا د رکھو خدا کے حضور وہی مقبول ہوتے ہیں جن کا ایمان علی وجہ البصیرت ہو اور جو دو سرے کے ہر اعتراض کا جواب دینے کی طاقت رکھتے ہوں.چنانچہ قرآن کریم میں اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ رسول کریم ملی ام سے فرماتا ہے قل هذه سيلي ادعوا إلى الله على بصيرة أنا وَ مَنِ اتَّبَعَنِي - (يوسف : ١٠٩) كه اے محمد رسول اللہ ا ل ا ل لی تو لوگوں سے کہہ دے کہ میری سچائی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تم جو باتیں کہتے ہو اس کی تمہارے اپنے آدمی کوئی دلیل نہیں جانتے.اس کے مقابلہ میں میں اور میرے پیرو ہر بات کی دلیل رکھتے ہیں اس لئے ہم بچے ہیں اور تم بچے نہیں.یکا در پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کا جماعت کے افراد کا ایمان بصیرت پر قائم کریں ایمان بصیرت پر قائم کریں اور یہ وہ ذمہ داری ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عائد کی گئی ہے اور زمہ واری سے بچنا نیکی نہیں ہوتی بلکہ ذمہ واری کو ادا کرنا نیکی ہوتی ہے.پس ہمارے ذمہ یہ فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو دینی مسائل سے آگاہ کریں اور انہیں ان
231 مسائل میں ایسا پختہ کریں کہ انہیں کوئی گمراہ نہ کر سکے.اگر ہم افراد کی اس رنگ میں تربیت نہیں کریں گے اور پھر یہ امید رکھیں گے کہ کسی مخالف کی باتوں سے وہ متاثر بھی نہ ہوں.تو یہ ایسی ہی بات ہو گی جیسے کہتے ہیں کہ " آپے میں رجی بچی آپے میرے بچے جیون " یعنی خود بخود گھر میں بیٹھے فرض کر لیا کہ ہمارا ہر فرد دینی مسائل سے آگاہ ہے اور پھر خود بخود یہ نتیجہ نکال لیا کہ اب نہیں کوئی گمراہ نہیں کر سکتا.حالانکہ جب تک انہیں دوسرے کے لٹریچر کا علم نہیں ہو گا اور انہیں معلوم نہیں ہو گا کہ اس کے اعتراضات کے کیا جوابات ہیں.اس وقت تک بالکل ممکن ہے کہ وہ اس کا شکار ہو جائیں اور اس کی فتنہ انگیز باتوں سے متاثر ہو جائیں.پس ہماری جماعت کے افراد کو شکاری ہماری جماعت کے افراد کو شکاری پرندے بننا چاہئے پرندے بننا چاہئے.انہیں وہ باز بننا چاہئے جو روحانی لحاظ سے اپنے شکار پر حملہ آور ہوتا اور اسے اپنے قبضہ و تصرف میں لے آتا ہے اسے چوہوں کی طرح اپنی بلوں میں سر چھپانے والی قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.بلکہ کامیاب وہی قوم ہوا کرتی ہے جو بازوں اور شکروں کی طرح ہوتی ہے.مجھے حضرت خلیفہ اول کے عہد میں جب کبھی باہر تقریر کے لئے جانا پڑتا تو مجھے یہ بات بیان کرتے ہمیشہ مزا آ جاتا کہ لوگ یہ شور مچاتے ہیں کہ انہوں نے مرزا صاحب کو شکست دے دی.حالانکہ جب آپ نے دعویٰ کیا اس وقت آپ اکیلے تھے.مگر جس طرح شیر بھیڑوں کے گلے پر حملہ کرتا اور ان میں سے کئی بھیڑیں اٹھا کر لے جاتا ہے.اسی طرح حضرت مرزا صاحب نے ہزاروں نہیں لاکھوں کو اپنے ساتھ ملالیا.اب فرض کرو بھیڑیں ایک کروڑ ہوں اور شیر صرف ایک ہو لیکن وہ ان کروڑ بھیڑوں میں سے سو کو اٹھا کر لے جائے تو بہر حال فاتح شیر ہی کہلائے گا نہ کہ بھیڑیں.اسی طرح بے شک مخالف زیادہ ہیں اور احمدی کم مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا جس کثرت کے ساتھ غیر احمدیوں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آدمی کھینچے اس کا سینکڑواں حصہ بھی کوئی مخالف ہم میں سے لوگوں کو لے گیا.اگر نہیں تو کامیاب وہ کس طرح ہو گئے.کامیاب تو وہی ہوا جو اکیلا اٹھا اور لاکھوں کو اس نے اپنے ساتھ ملالیا.پھر اگر کوئی برگشتہ بھی ہوا تو خدا نے اس کی جگہ ہمیں کئی مخلصین دے دیئے.قرآن کریم خود بچے سلسلہ کی صداقت کا معیار یہ بیان فرماتا ہے.کہ اگر اس میں سے ایک شخص بھی مرتد ہوتا ہے تو اس کی جگہ ہم ایک قوم کو لے آتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہمیشہ ہمارے ساتھ رہا ہے.پس یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے کیونکہ ہم تھوڑے ہو کر جیتے چلے جاتے ہیں اور وہ زیادہ ہو کر ہارتے چلے جاتے ہیں.آخری زمانہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام امرت سر تشریف لے گئے تو بڑی سخت مخالفت ہوئی اور لوگوں نے آپ پر پتھر پھینکے.ان دنوں امرتسر میں ہماری جماعت کے ایک دوست تھے جو کچھ پڑھے لکھے تو نہیں تھے.مگر یوں سمجھدار آدمی تھے.پرانے زمانہ میں ایک دستور تھا جسے شاید آج کل کے احمدی نہ جانتے ہوں اور وہ یہ کہ جب لڑکے والے لڑکی لینے جاتے تھے تو ، مستورات لڑکی والوں کے گھر میں اکٹھی ہوتی تھیں.وہ لڑکے والوں کو خوب گالیاں دیا کرتی تھیں ان گالیوں کو پنجابی میں سٹھنیاں کہا کرتے تھے.وہ خیال کرتی
232 تھیں کہ ان سٹھنیوں سے نکاح بابرکت ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب امرت سر تشریف لے گئے.تو وہاں کے ایک رئیس محمد شریف صاحب کے ہاں ٹھرے جو کشمیری خاندان میں سے تھے.لوگوں کو جب آپ کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے آپ کو خوب گالیاں دیں.سیاپے کئے اور جہاں آپ ٹھہرے ہوئے تھے.وہاں بھی آ آکر گالیاں دیتے رہے.جب آپ وہاں سے تشریف لے آئے تو کسی مخالف نے اس احمدی سے کہا کہ دیکھا تمہارے مرزا کو کیسی گالیاں ملیں.وہ کہنے لگا گالیوں کا کیا ہے.آخر تم میں سے ہی اتنے آدمیوں نے بیعت بھی تو کی ہے.رہا گالیاں ، سو ان کا کیا ہے ، سٹھنیاں تو تم نے دینی ہی تھیں.کیونکہ مرزا صاحب تمہارے آدمی جو لے گئے.تو جو قوم خدا تعالیٰ کی برکت کے نیچے ہوتی ہے.وہ لوگوں کو کھینچے چلی جاتی ہے.ہم دوسروں کے مقابلہ میں مال و دولت اور تعداد کے لحاظ سے بہت کمزور ہیں.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ اسلام کے میدان میں ہمارا اس قدر رعب ہے کہ چرچ آف انگلینڈ کی طرف سے ایک کمیٹی اس غرض کے لئے بٹھائی گئی تھی کہ وہ یہ تحقیق کرے کہ افریقہ میں عیسائیت کی ترقی کیوں رک گئی ہے.اس کمیٹی نے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں سات مقامات پر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ احمدی اب لوگوں کو عیسائی نہیں ہونے دیتے.بلکہ جو عیسائی ہو چکے ہیں ان کو بھی ہم سے چھین کر لے جاتے ہیں.چرچ آف انگلینڈ کی سالانہ آمد ساٹھ کروڑ روپیہ تک ہے مگر ہمیں ہزاروں روپے بھی بمشکل میںہ آتے ہیں اور پھر ہمیں ان ممالک میں کام کرنا پڑتا ہے جہاں سینکڑوں سال سے عیسائی اپنی تبلیغ کرتے چلے آرب ہیں مگر باوجود اس کے سات جگہ انہوں نے تسلیم کیا کہ احمدیوں نے ان کی ترقی بند کر دی ہے.تو کثرت سے اس ہے.قسم کی مثالیں پائی جاتی ہیں.جہاں عیسائیوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ احمدیت نے عیسائیت کو بڑھنے سے روک دیا ہے.حالانکہ عیسائی چالیس کروڑ کے قریب ہیں.پھر انہیں حکومت حاصل ہے.ان کے پاس روپیہ اور طاقت ہے مگر پھر بھی ہر جگہ انہیں شکست ہوتی چلی جاتی ہے.ابھی سیرالیون میں میں نے اپنا ایک مبلغ بھجوایا تھا.جس کی رپورٹیں الفضل میں شائع ہوتی رہتی ہیں.ان رپورٹوں میں بھی یہی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں عیسائی رئیس مسلمان ہو گیا اور فلاں معزز عیسائی نے اسلام کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا.پادریوں نے جب یہ حالت دیکھی تو وہ کمشنر کے پاس پہنچے اور پہلے تو یہ کہا یہ باغی ہیں اور پھر یہ شور مچایا کہ ان کی تقریروں سے ملک میں فتنہ پیدا ہوتا ہے.انہیں روکا جائے.اس پر ہمارے مبلغوں نے جب اصل حقیقت بتائی تو کمشنر نے کہا کہ میں اب اس علاقہ کا دورہ کروں گا اور پادریوں کو ڈانٹوں گا کہ وہ آپ لوگوں کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کیوں کرتے ہیں.اگر انہیں مقابلہ کا شوق ہے تو مذہبی رنگ میں مقابلہ کر لیں.یہی حال یہاں ہے.چنانچہ کوئی سال ایسا نہیں گذر تاجس میں چار پانچ ہزار کے قریب آدمی ان میں سے نکل کر ہم میں شامل نہ ہو جاتے ہوں.لیکن ان میں سے شاذ و نادر کے طور پر ہی کوئی ادھر جاتا ہے اور اگر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اور کئی آدمی بھجوا دیتا ہے.یہ فوقیت اور برتری جو ہماری جماعت کو حاصل ہے در حقیقت اس علم کی وجہ سے ہے جو جماعت کو دیا جاتا ہے اور جس کے بعد کوئی شخص دوسروں کے قریب میں نہیں آتا.
233 پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو دوسروں کے دلائل سے آگاہ رکھیں اور ہر فرد کے یہ ذہن نشین کریں کہ دو سرا کیا کہتا ہے اور اس کے اعتراضات کا کیا جواب ہے اور میں اس غرض کے لئے انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ سے کہتا ہوں کہ وہ سال میں ایک ایسا ہفتہ مقرر کریں.جس میں ان کی طرف سے یہ کوشش ہو کہ وہ جماعت کے ہر فرد کو نہ صرف اپنی جماعت کے مسائل سے آگاہ کریں.بلکہ یہ بھی بتائیں کہ دوسروں کے کیا کیا اعتراضات ہیں اور ان اعتراضات کے کیا کیا جوابات ہیں.یہ تعلیم کا سلسلہ زبانی ہونا چاہئے اور پھر زبانی ہی ان کا امتحان بھی لینا چاہئے تا جماعت میں بیداری پیدا ہو اور وہ دوسروں کے ہر حملہ سے اپنے آپ کو پوری ہوشیاری سے بچا سکے.مگر یہ نہ ہو کہ تم اپنی کتابیں پڑھنی چھوڑ دو اور دوسروں کی کتابیں پڑھنے میں ہی مشغول ہو جاؤ.پہلے اپنے سلسلہ کی کتابیں پڑھو.ان کو یاد کرو.ان کے مضامین کو ذہن نشین کرو اور جب تم اپنے عقائد میں پختہ ہو جاؤ تو مخالفوں کی کتابیں پڑھو.مگر چوری چھپے نہ پڑھو بلکہ علی الاعلان پڑھو اور سب کے سامنے پڑھو.اور پھر مخالف دلائل کا پوری مضبوطی سے رد کرو اور دوسروں اپنے آدمیوں کو شیر کی طرح دلیر بناؤ کے مقابلہ میں ایک شیر کی طرح کھڑے ہو جاؤ نا تمہارے متعلق کسی کو یہ و ہم نہ ہو کہ دوسرا تمہیں ورغلا سکے گا.بلکہ جب وہ تمہیں چھیڑے تو ہر شخص کا دل اس یقین سے بھرا ہوا ہو کہ اب تم ضرور کوئی نہ کوئی شکار پکڑ کر لے آؤ گے.پس تم اپنے آدمیوں کو شیر کی طرح دلیر بناؤ.انہیں بلوں میں چھپنے والے چوہے نہ بناؤ.تم تجربہ کے بعد خود بخود دیکھ لو گے کہ اس کے بعد جماعت روحانی لحاظ سے کتنی مضبوطی حاصل کر لیتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمارے پاس سچائی ہے تو ہمیں مخالف کی کسی بات کا کیا خوف ہو سکتا ہے.وہ لاکھ اعتراض کرے.خدا اس کے تمام اعتراضات کو باطل کر دے گا.میرا اپنا تجربہ ہے کہ مخالف خواہ کیسا ہی اعتراض کرے خدا تعالیٰ اس کا کوئی نہ کوئی جواب ضرور سمجھا دیتا ہے.تھوڑا ہی عرصہ ہوا چھوٹی بیت الذکر میں ایک شخص آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ میں نے آپ سے ایک سوال کرنا ہے.میں نے کہا کرو.وہ کہنے لگا.میں چاہتا ہوں کہ آپ مرزا صاحب کی صداقت قرآن کریم سے ثابت کریں.میں نے کہا سارا قرآن مرزا صاحب کی صداقت سے بھرا پڑا ہے.میں کس کس آیت کو پڑھوں.وہ کہنے لگا آخر کوئی آیت تو پڑھیں.میں نے کہا کہ جب ہم نے کہہ دیا ہے کہ سارا قرآن ہی آپ کی صداقت سے بھرا ہوا ہے.تو کسی ایک آیت کا سوال ہی کیا ہے.تم خود کوئی آیت پڑھ دو.میں اسی سے حضرت مرزا صاحب کی صداقت ثابت کرنے کے لئے تیار ہوں.قرآن کی بعض آیتیں لمبے چکر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت بنتی ہیں اور بعض آیتوں سے سیدھے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہو جاتی ہے.مگر مجھے یقین تھا کہ خدا اس کی زبان پر کوئی ایسی آیت ہی لائے گا جس سے وہ فورا پکڑا جائے گا.چنانچہ اس نے جھٹ یہ آیت پڑھ دی کہ وَ مِنَ النَّاسِ مَن يَقولُ آمَنَّا بِالله وَبِالْيَوْمِ الْآخِرَ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِيین - (البقرہ:9) اور کہا کہ اس سے مرزا صاحب کی
234 صداقت ثابت کیجئے.میں نے کہا اس آیت میں کن لوگوں کا ذکر ہے.کہنے لگا مسلمانوں کا.میں نے کہا جب رسول کریم میل کے زمانہ میں مسلمان بگڑ سکتے ہیں تو اب کیوں نہیں بگڑ سکتے اور جب آج بھی مسلمان بگڑ سکتے ہیں.تو ان کی اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے کسی کو آنا چاہئے یا نہیں.تمہاری دلیل یہی ہے کہ محمد ملالی کے بعد کسی مصلح اور مامور کے آنے کی ضرورت ہی کیا ہے مگر قرآن کہتا ہے کہ محمد ملی یا لالی کے بعد تو کیا محمد علی الم کے زمانہ میں بھی بعض لوگ گمراہ تھے اور جب آپ کے زمانہ میں بھی بعض لوگ گمراہ تھے.تو آپ کے بعد تو بدرجہ اولی مسلمان گمراہ ہو سکتے ہیں اور جب گمراہ ہو سکتے ہیں تو لازماً خدا کی طرف سے مصلح بھی آسکتا ہے.پس یا تو یہ مانو کہ امت محمدیہ کبھی گمراہ نہیں ہو سکتی اور اگر ایسا کہو تو یہ قرآن کے منشاء کے خلاف ہو گا.کیونکہ جو آیت تم نے پڑھی ہے ، اس میں یہی ذکر ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں.مگر حقیقت میں وہ مومن نہیں اور جب امت محمدیہ گمراہ ہو سکتی ہے تو اس کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور بھی آسکتا ہے.یہ بات جو میں نے اس کے سامنے کسی یونسی مشغلہ کے طور پر نہیں کہہ دی تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن سارے کا سارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ہے.جس طرح تو رات کا جتنا سچا حصہ ہے وہ سارے کا سارا رسول کریم میں اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے.جس طرح انجیل کا جتنا سچا حصہ ہے وہ سارے کا سارا رسول کریم میں لی لی لیلی کی صداقت کا ثبوت ہے.اسی طرح قرآن سارے کا سارا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سچائی کا ثبوت ہے.قرآن سارے کا سارا حضرت عیسی علیہ السلام کی سچائی کا ثبوت ہے.قرآن سارے کا سارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ہے.جس طرح قرآن سارے کا سارا رسول کریم ملی و یا لیلی کی صداقت کا ثبوت ہے اس کی طرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ کان خـلـقـه القـرآن یعنی قرآن اور محم م ل ل ل ل ل لا میں کوئی فرق نہیں.بلکہ قرآن کی ہر آیت محمد میل کی صداقت ثابت کرتی ہے.پس جماعت میں بیداری جماعت میں بیداری پیدا کرو.انہیں دینی اور مذہبی مسائل سکھاؤ پیدا کرو.انہیں دینی اور مذہبی مسائل سکھاؤ.انہیں دوسروں کے خیالات کو پڑھنے دو اور اگر وہ خود نہیں پڑھتے تو خود انہیں پڑھ کر سناؤ اور پھر ان کے ہر اعتراض کا انہیں جو اب بتاؤ.مگر بالعموم ایک غلطی یہ کی جاتی ہے کہ اپنے جواب کو تو مضبوط رنگ میں بیان کیا جاتا ہے اور دوسروں کے اعتراض کو بو دا کر کے پیش کیا جاتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب لوگ اصل اعتراض کو دیکھتے ہیں.تو خیال کر لیتے ہیں کہ ہمارے لوگ بھی جھوٹ بول لیتے ہیں.یہ طریق بالکل غلط ہے.تمہیں چاہئے کہ مخالف کی دلیل کو پوری مضبوطی سے بیان کرو اور اس کا کوئی پہلو بھی ترک نہ کرو تا اپنے اور بیگانے یہ نہ کہہ سکیں کہ اعتراض کے ایک حصہ کو تو لے گیا ہے اور دوسرے حصہ کو چھوڑ دیا گیا ہے.میں ایک دفعہ لاہور گیا اور وہاں ”مذہب کی ضرورت " پر میں نے ایک تقریر کی.ابتدائی تقریر میں میں نے بیان کیا کہ مذہب
235 پر آج کل کیا کیا حملے کئے جا رہے ہیں اور کون کون سے اعتراضات کئے جاتے ہیں جن کے رو سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ دنیا کو مذہب کی ضروت نہیں.اس کے بعد میں نے ان تمام اعتراضات کے جواب دیئے.اسی دن شام کو یا دوسرے دن ایک ایم.اے کا غیر احمدی سٹوڈنٹ مجھے ملنے کے لئے آیا اور کہنے لگا.میں نے کل آپ کی تقریر سنی ہے.آپ نے جو اعتراضات بیان کئے تھے وہ تو اتنے زبردست تھے کہ میں نے سمجھا کہ جتنے اعتراض مذہب پر کئے جاتے ہیں وہ سب کے سب بیان کر دیئے گئے ہیں.مگر آپ کے بعض جوابات سے میری پوری تشفی نہیں ہوئی.میں نے اسے کہا کہ اپنی تشفی کو سردست رہنے دو.مگر یہ بتاؤ کہ کوئی اعتراض میں نے چھپایا تو نہیں.کہنے لگا ہم نے تو جس قدر اعتراضات مذہب کے متعلق سنے ہوئے تھے وہ سب کے سب آپ نے بیان کر دیئے ہیں.میں نے کہا تو خیر جواب کسی اور وقت سمجھ آجائیں گے.تو مخالف کے دلائل کو پورے طور پر بیان کرنا ضروری ہوتا ہے.مثلا کفارے کا مسئلہ ہے.اسے جس رنگ میں ہمارے علماء کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے ، وہ بالکل غلط ہے.آج کل عیسائی کفارہ کو اس طریق پر پیش نہیں کرتے بلکہ انہوں نے آہستہ آہستہ اسے ایک فلسفیانہ مضمون بنایا ہے.اسی طرح تناسخ کا مسئلہ بیان کرتے وقت عام طور پر سنی سنائی باتیں بیان کر دی جاتی ہیں.حالانکہ جس رنگ میں آج کل تاریخ کا مسئلہ پیش کیا جاتا ہے وہ بالکل اور ہے اسی طرح شرک کے مسئلہ کو فلسفیانہ رنگ دے دیا گیا ہے.مثلا فلسفی دماغ والے بت پرست آج کل یہ نہیں کہتے کہ ہم بت کو سجدہ کرتے ہیں بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی توجہ قائم رکھنے کے لئے بت کی طرف اپنا مونہہ کرتے ہیں.اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ یہ بت خدا کی بعض صفات کے قائم مقام ہیں.اب اگر شرک کے مسئلہ کو صرف اس رنگ میں بیان کر دیا جائے کہ بعض لوگ خدا کی بجائے بتوں کی پرستش کرتے ہیں.تو اس سے بت پرستوں کی پوری تسلی نہیں ہو سکتی.پس مخالفین کے اعتراضات کو کھول کھول کر بیان کرنا چاہئے اور ان کے اعتراض کی کسی شق کو چھپانا نہیں چاہئے.اس اعتراض کے لئے میں نے اعلان کیا ہے کہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو ہر سال ایک ہفتہ ایسا منانا چاہئے.جس میں خدا تعالیٰ کی ہستی ، رسول کریم ملی کی نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت خلافت اور دیگر مسائل اسلامی کے متعلق احمدیت کے عقائد کو دلائل کے ساتھ بیان کیا جائے اور پھر بتایا جائے کہ ان اعتقادات پر مخالفین کی طرف سے یہ یہ اعتراضات کئے جاتے ہیں اور ان اعتراضات کے یہ یہ جوابات ہیں.اس کے بعد لوگوں کا زبانی امتحان لیا جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ انہوں نے ان باتوں کو کہاں تک یاد رکھا ہے.چونکہ صرف ایک ہفتہ میں ان تمام مسائل کے متعلق جماعت کے دوستوں کو پوری واقفیت حاصل نہیں ہو سکتی.اس لئے ہر سال یہ طریق جاری رہنا
236 چاہئے اور کبھی کوئی مسائل بیان کر دیے جائیں اور کبھی کوئی.یہاں تک کہ ہماری جماعت کا ہر فرد اتنا ہوشیار ہو جائے کہ اگر اسے کسی وقت مخالفین کی لائبریری میں بھی بٹھا دیا جائے تب بھی وہ وہاں سے فاتح ہو کر نکلے.مفتوح اور مغلوب ہو کر نہ نکلے.(خطبه جمعه فرموده یکم نومبر ۱۹۴۰ء مطبوعہ الفضل ۷ ۱ اگست ۱۹۶۰ء)
237 نوجوان اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کریں قوم کے لئے قربانی بھی عزت کا موجب ہے سادہ زندگی اختیار کرنے کا مطالبہ قومی فرائض سے ایک اہم ترین فرض بچوں کی صحیح طریق پر پرورش کرنا بھی ہے بچوں کو روزہ رکھنے نماز کی ادائیگی کے لئے توجہ کرنی چاہیئے ورزش کی عادت ڈالنی چاہیئے بچوں کو محنت و مشقت کا عادی بنایا جائے خطبه جمعه فرموده ۶ دسمبر ۱۹۴۰ء
238 نوجوان اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کریں اور ثواب کے اس غیر معمولی موقعہ سے فائدہ اٹھا ئیں.یوں تو اللہ تعالی کے فضلوں کے دروازے ہمیشہ ہی کھلے رہتے ہیں.مگر انبیاء کے زمانہ میں ایسے کھلتے ہیں کہ دو سرے زمانوں میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی.انبیاء کے زمانہ میں غیر معمولی طور پر یہ دروازے کھلے ہوتے ہیں اور اس زمانہ کی قربانیاں بہت قیمت رکھتی ہیں.مسلمانوں میں ایسے بادشاہ بھی گذرے ہیں جنہوں نے بادشاہتیں ترک کر دیں اور فقیر ہو گئے.مگر اکثر لوگ ان کے نام سے بھی آگاہ نہیں ہیں.لیکن حضرت ابو بکر اور عمر نے ہزار دو ہزار روپے کی جائدادیں دیں اور سب لوگ اس قربانی سے واقف ہیں.مالی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ان سے بہت زیادہ قربانیاں کرنے والے بھی موجود ہیں.مگر ان کی وہ قدر و منزلت نہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کے حالات میں بڑا فرق ہے.جسب بعض بادشاہوں نے بادشاہتیں چھوڑیں.تو اس وقت مسلمان بادشاہ تھے اور بادشاہت چھوڑنے والے یہ جانتے تھے کہ ہماری اس قربانی سے ہماری قوم نقصان کو نہیں پہنچے گی.لیکن حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے جب قربانی کی تو جانتے تھے کہ بظا ہر وہ اپنا اور اپنی اولاد کا خون کر رہے ہیں.اسی طرح آج جو نوجوان سلسلہ کے لئے زندگی وقف کرتا ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ایسا شخص جو تیرنا نہ جانتا ہو ، سمندر میں کو دپڑتا ہے.اس وقت چاروں طرف دشمن ہی دشمن ہیں اور اس لئے دین کا کام کرنا بڑی بہادری کی بات ہے.بزدل تو سمجھے گا کہ میں مارا جاؤں گا.مگر جس کے دل میں ایمان ہے اور جرات ہے وہ سمجھتا ہے میں سمندر میں گر کر ہلاک نہیں ہو رہا بلکہ حفاظت اسلام کی مضبوط عمارت کی بنیادی اینٹ بن رہا ہوں.اس لئے اس کی یہ قربانی اپنے ساتھ ایسی برکات رکھتی ہے جس کا مقابلہ کوئی دوسری قربانی نہیں کر سکتی.کون شخص ہے جو آج اسے عقلمند کے گا جو احمدیت کے لئے قربانی کرتا ہے.اس وقت تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ چند پاگل لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں ، دنیا کا مقابلہ کرلیں گے.لیکن مومن سمجھتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آواز آئی ہے.جس کا میں جواب دے رہا ہوں.یہ تو علیحدہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں کامیابی کا وعدہ دیا گیا ہے.لیکن اگر یہ وعدہ نہ بھی ہو تو بھی میرا فرض ہے کہ اس آواز پر لبیک کہوں.دنیا میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ مائیں اپنے بچوں کے لئے مرجاتی ہیں.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بچہ بیمار ہوا.ماں اس کی تیمار داری کرتی رہی.بچہ تو صحت یاب ہو گیا مگر ماں مرگئی.کیا یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ماں کو اس خدمت کے صلہ کی امید ہوتی ہے.ہر گز نہیں.اور جب ایک ماں اپنے بچے کے لئے بغیر کسی صلہ کے لالچ کے جان دے سکتی ہے.تو کیا مومن ہی خدا تعالیٰ کے لئے کسی بدلہ کے خیال کے بغیر قربانی نہیں کر سکتا.پس یہ غلط ہے کہ مومن اس لئے قربانی کرتا ہے کہ اسے قوم کے لئے قربانی بھی عزت کا موجب ہے ترقیات کی امید ہوتی ہے.اگر ترقیات کے وعدے نہ ہوتے.فرض کرو حیات بعد الموت نہ ہو.جنت دوزخ بھی نہ ہو تب بھی مومن خد اتعالیٰ کے لئے قربانی کرنے میں کبھی تامل نہ کرے گا.عام لوگ جو قوم کے لئے قربانیاں کرتے ہیں یا ملک کے لئے کرتے ہیں.کیا ان کو یقین ہو تا
239 ہے کہ مرنے کے بعد اس کا کوئی صلہ انہیں ملے گا.سو میں سے ایک بھی اس بات کا قائل نہ ہو گا.مگر پھر بھی دیکھو لوگ کس طرح جانیں دیتے ہیں.پس یہ خیال بالکل غلط ہے کہ مومن کی قربانی صلہ کے لالچ کی وجہ سے ہوتی ہے.انبیاء کے ابتدائی زمانہ میں تو صلہ کی امید کا خیال بھی غلطی ہے.اس لئے یہ زمانہ قربانی کے لئے بہترین زمانہ ہوتا ہے.دوسروں کی قربانیاں ملک و قوم کے لئے ہوتی ہیں.مگر ان کی قربانیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ تم نے ملک کے لئے قربانیاں کیں اور تم جانتے تھے کہ تمہارا ملک شوکت و عظمت رکھتا ہے ، اس کے لئے قربانی تمہارے لئے عزت کا موجب ہے.قوم کے لئے قربانی بھی عزت کا موجب ہے.جو لوگ قوم کے لئے مرجاتے ہیں ان کی کس قدر عزت ہوتی ہے.ایسی موت تو آدمی کو قومی لیڈر بنا دیتی ہے.ایسے لوگوں کی اولاد کے لئے بھی ترقی یافتہ قومیں انتظام کرتی ہیں.اور ایسے لوگوں کو یہ تو اطمینان ہوتا ہے کہ ہماری اولاد خراب نہ ہوگی.سینکڑوں واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ کسی سے کسی کی دشمنی ہوتی ہے مگر وہ کسی چوہڑے وغیرہ سے اپنے دشمن کو قتل کرا دیتا ہے.زمیندار کہتا ہے کہ فلاں آدمی کو مار ڈالو.اول تو میں تمہیں مقدمہ سے بچانے کی کوشش کروں گا لیکن اگر سزا پا جاؤ گے تو تمہارے بیوی بچوں کے گزارہ کا انتظام کر دوں گا.وہ سمجھتا ہے کہ اول تو ضروری نہیں کہ میں پکڑا جاؤں اور اگر پکڑا جاؤں تو سزا بھی پا جاؤں اور اگر سزا بھی ہو جائے تو کیا ہے ؟ بیوی بچے تو آرام سے گزارہ کریں گے اس لئے اس لالچ میں آ کر وہ یہ فعل کر لیتا ہے.پس لوگ ایسی قربانیاں کرتے ہیں.پڑھے لکھے لوگ ملک و قوم کے لئے قربانیاں کرتے ہیں.مگر ان کو اپنی اس قربانی کی کامیابی کا یقین ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ اس کا صلہ ان کو یا ان کے بیوی بچوں کو ملے گا اور ایسی قربانیاں مشکل نہیں.لیکن دین کے لئے آج قربانی کرنا مشکل ہے کیونکہ موجودہ حالات میں یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے.اس رستہ پر چلنا ایسا ہی ہے جیسے انسان دریا کے ایسے کنارے پر چلے جو اندر دھنستا جا رہا ہو اور گرتا جاتا ہو.ظاہر ہے کہ ایسے کنارے پر کوئی ظاہر بین کبھی عمارت نہیں بنایا کرتا.کیونکہ در یا کاپانی وہاں غار بنا رہا ہو تا ہے.ایسی جگہ عمارت بنانا کسی ہمت والے کا ہی کام ہے.پس یہی وقت قربانی کا ہے.جو نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں.چاہئے کہ ان کا اخلاق اور عملی نمونہ اچھا ہو اور وہ پختہ عزم کر کے آئیں.میری غرض ان واقفین سے یہ ہے کہ ان میں سے ہی قاضی تیار کروں.ان میں سے ہی مفتی تیار کروں اور ان میں سے ہی مدرس ہوں اور ان میں سے ہی مربی اور تعلیم و تربیت دینے والے ہوں.لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جو نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں.وہ اخلاقی طور پر اپنے آپ کو مفید وجود بنائیں.جب ان میں سے کسی کو قاضی بنایا جائے تو وہ ایسا نمونہ دکھائے کہ لوگ تسلیم کریں کہ وہ انصاف سے کام کرتا ہے.جب کسی کو مفتی بنایا جائے تو لوگ محسوس کریں کہ اس نے جو فتوی دیا ہے ، صحیح ہے اور جب کوئی مربی بنے تو لوگ محسوس کریں کہ وہ جو بات بھی کرتا ہے خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر کرتا ہے نہ کہ دشمن کو زیر کرنے کے لئے.یہ نہ ہو کہ وہ نفسانی رو میں بہہ جائے.دراصل تمسخرو ہی کرتا ہے جو دلیل نہیں دے سکتا.یہ چیز اس کی علمی
240 کمی کا ثبوت ہوتی ہے.بے شک لطیفہ گو اور تمسخر کرنے والا بعض اوقات مجلس پر چھا جاتا ہے.لیکن اس مجلس سے نکلنے کے بعد اس کے اپنے دل پر بھی اور سامعین کے دل پر بھی زنگ لگا ہوا ہو تا ہے.بے شک اس وقت وہ مجلس کو خوش کر لیتا ہے.مگر جب وہاں سے نکلتا ہے تو خدا تعالیٰ کو چھوڑ چکا ہو تا ہے اور شیطان اس کی گردن پر سوار ہو چکا ہوتا ہے.حقیقی مبلغ وہی ہے جس کے دل میں ہار جیت کا کوئی سوال نہ ہو.جس کو ہر وقت یہ خیال رہے کہ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو خد اتعالیٰ کے نزدیک قابل گرفت ہو.کئی دفعہ پہلے بھی یہ واقعہ میں سنا چکا ہوں کہ جس زمانہ میں مولوی محمد حسین صاحب تعلیم حاصل کر کے بٹالہ آئے.تو ان کے خلاف بہت شور تھا کہ پیروں فقیروں کے منکر ہیں.لوگ ان کی بہت مخالفت کرتے تھے.انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی وہاں تشریف لے گئے.بعض حنفیوں نے سوچا کہ ہمارے ایک حنفی عالم آگئے ہیں.ان کو مولوی محمد حسین صاحب کے مقابلہ پر لے چلیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ اپنے آپ کو حنفی کہا کرتے تھے.آپ سے لوگوں نے کہا تو آپ نے فرمایا.اچھا چلتے ہیں.اگر کوئی بات ہوئی تو کریں گے.لوگ مجلس میں اکٹھے ہوئے.آپ بھی تشریف لے گئے.آپ فرماتے کہ ہم کو اہلحدیث کے متعلق زیادہ واقفیت اس زمانہ میں نہ تھی.اس لئے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ آپ کے عقائد کیا ہیں تاکہ بحث سے پہلے یہ تو معلوم ہو کہ آپ کہتے کیا ہیں؟ مولوی محمد حسین صاحب نے کھڑے ہو کر بیان کیا کہ ہم خدا کو مانتے ہیں.رسول ملی ایم کیو ایم کو مانتے ہیں.قرآن کو خدا تعالی کا کلام مانتے ہیں.قرآن کریم کو حدیث پر مقدم کرتے ہیں.اور حدیث کو خیالی آراء پر مقدم کرتے ہیں.غالی اہلحدیثوں کا عقیدہ تو اس سے سخت ہوتا ہے مگر ممکن ہے مولوی محمد حسین صاحب نے مصلحت وقت کے ماتحت یہ بات کہہ دی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ باتیں سنکر فرمایا کہ یہ باتیں تو بالکل معقول ہیں.میں ان کا جواب کیا دوں.چونکہ اس جواب سے حنفیوں کو کچھ ذلت محسوس ہوئی.اس لئے انہوں نے بہت برا بھلا کہنا شروع کیا اور طنزیں کرنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہم وہاں سے آگئے اور خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا.رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اس ترک بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا." تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا.اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے " ( تذکرہ صفحہ ۹) پس میں چاہتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے جو مربی تیار ہوں ، وہ بھی تقویٰ کے ماتحت کام کریں.سنجیدگی کا دامن کبھی نہ چھوڑیں اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو ہمیشہ ر نظر رکھیں.ان کا مقصد بحث کبھی نہ ہو.بلکہ ایسا نمونہ پیش کریں کہ دوسروں میں جو خرابیاں ہیں ، وہ دو رہو سکیں اور ایسی سد سکندری کا کام دیں جو یا جوج ماجوج کے حملوں کو روک دے.پس اس کام کے متعلق اپنی زندگیاں وقف کرنے کی تحریک میں جماعت کے نوجوانوں کو کرتا ہوں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے لئے گریجوایٹ کی شرط ہے.لیکن اگر کوئی آخری سالوں میں تعلیم پارہا ہو تو وہ بھی اپنا نام پیش کر سکتا ہے.وہ اپنی تعلیم جاری رکھے.پاس ہونے کے بعد انتخاب کے لئے ہم اسے بلا لیں گے.انٹرنس پاس مولوی فاضل بھی اپنے نام
241 دے سکتے ہیں.اور اسی طرح یہاں کے سکول میں تعلیم پانے والے وہ میٹرک جنہوں نے سائنس کی ہوئی ہو.باہر میٹرک پاس کرنے والے کام نہیں دے سکتے.کیوں کہ یہاں پڑھنے والوں کو تھوڑا بہت قرآن کریم اور عربی آجاتی ہے ، باہر نہیں.پس ایسے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں.طالب علم بھی اپنے نام پیش کر سکتے ہیں جنہیں امتحان پاس کرنے کے بعد انتخاب کے لئے بلا لیا جائے گا.پس نوجوان اپنے آپ کو ان شرائط کے ماتحت وقف کریں تا اس جماعت کو اور آگے بڑھایا جاسکے.دوسری بات جس کی طرف میں جماعت کے دوستوں کو اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں ، وہ سادہ سادہ زندگی زندگی ہے.اب اللہ تعالی نے ایسے حالات دنیا میں پیدا کر دیئے ہیں کہ جن لوگوں کی نقل کر کے ہمارے ملک کے لوگ عیش پرستی میں مبتلا ہوئے.وہ جنگ کے مصائب میں مبتلا ہو کر مجبور اسادگی اختیار کر رہے ہیں.اور اب تو ان کی سادگی ہماری اختیار کردہ سادگی سے بھی بہت آگے بڑھ گئی ہے.ہم نے یہ تو کہا ہے کہ ایک سالن کھاؤ.مگر یہ نہیں کہا کہ چار پھلکے ہی کھاؤ.مگر یورپ کے ممالک میں تو اب آنے کا راشن ملتا ہے.ایک شخص مقررہ مقدار سے زیادہ نہیں لے سکتا.ہم نے سالن میں گھی ڈالنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی.کوئی شخص جتنا ڈال سکے ڈالے.مگر وہاں تو ایک چھٹانک سارے ہفتہ کے لئے مل سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں اور وہ گھی کی صورت میں نہیں بلکہ کچھ گھی ، کچھ تیل اور کچھ چربی ہوتی ہے.انداز ا دو تولہ چربی.دو تولہ تیل اور ایک تولہ مکھن ملتا ہے.یہی حال لباس اور دوسری چیزوں کا ہے.جب ان لوگوں کی یہ حالت ہے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ہمیں کس قدر سادگی کی ضرورت ہے.پس دوستوں کو ہمیشہ ایک کھانے کا التزام رکھنا چاہئے.ہاں جمعہ کے رو زیا مہمان وغیرہ آنے پر دو ہو سکتے ہیں یا مہمان کی عادت کے مطابق اس کے لئے انتظام ہو سکتا ہے.غیر احمدی معززین آجائیں.تو کئی کئی کھانوں کے بغیر ان کی تسلی نہیں ہوتی.ایسی صورت میں اجازت ہے ورنہ ایک پر ہی کفایت کرنی چاہئے.اور پھر اس میں بھی سادگی کا پہلو مد نظر رکھنا چاہئے تا غریب بھائیوں اور دوسروں میں یکسانیت پیدا ہو سکے.یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص ایک ہی کھانا کھائے مگر روزانہ پلاؤ ہی کھا تا ر ہے.مگر یہ بھی جائز نہیں اور پھر اس سے صحت بھی خراب ہو جائے گی.انسان کی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے چاول گوشت پھل ، سبزی وغیرہ ہر چیز ضروری ہے اور ان سب چیزوں کا استعمال ہونا چاہئے.یہ نہیں کہ روز ایک ہی چیز کھائی جائے.جو شخص کہے کہ میں روز ہی روغن جوش استعمال کروں گا وہ اسراف کے علاوہ بیمار بھی ہو جائے گا.ایک دوست کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ ان کی صحت بہت خراب رہتی تھی.کئی علاج کئے مگر آرام نہ ہوا.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ان دنوں ابھی پٹیالہ میں تھے یہاں نہ آئے تھے.وہ ان کے پاس گئے.وہاں سے انہوں نے لکھا کہ اب مجھے افاقہ ہے اور یقین ہو گیا ہے کہ اچھا ہو جاؤں گا.ڈاکٹر صاحب نے میری بیماری سمجھ لی ہے.اصل بات یہ تھی ان کو متواتر کثرت کے ساتھ مرغن کھانے کھانے سے تکلیف تھی.تو اس قسم کی غذا ئیں صحت کو برباد کر دیتی ہیں.اگر کوئی شخص کہے کہ میں روزانہ گھی پیا کروں گا تا موٹا ہو جاؤں گا تو اس کا دماغ مارا جائے گا.پس ایک کھانے میں بھی
242 سادگی ضروری ہے.سادگی قوم کو مستقل طور پر قربانی کرنے کے لئے تیار کر دیتی ہے.اس سادگی میں لباس کی سادگی بھی شامل ہے.زیور کی بھی.میرے سامنے کئی مثالیں ہیں کہ بعض دوست پہلے سے بڑھ کر اب قربانیاں کرنے کے قابل ہو گئے.پہلے ان کے اخراجات زیادہ تھے مگر سادگی اختیار کرنے کی وجہ سے اخراجات کم ہو گئے اور وہ زیادہ قربانی کرنے کے قابل ہو گئے.پس سادہ زندگی اختیار کرنے سے دین کے لئے زیادہ قربانی کی توفیق حاصل ہو سکتی ہے اور اس طرح سے عورتیں اور بچے بھی ثواب میں شریک ہو سکتے ہیں.میرا مطلب یہ نہیں کہ غذا میں کمی کر کے بچوں کی صحت خراب کر دی جائے.اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.قومی فرائض سے ایک اہم ترین فرض بچوں کی صحیح طریق پر پرورش کرنا بھی ہے کیونکہ قوم کا آئندہ بوجھ ان کے کندھوں پر پڑنے والا ہوتا ہے.اگر وہ کمزور ہوں تو اس بوجھ کو نہیں اٹھا سکیں گے.اس لئے ان کو خوراک پوری دینی ضروری ہے.ہاں اس میں سادگی کا خیال رکھنا چاہئے.اور فضول خرچی کی عادت نہیں ڈالنی چاہئے.ان کو دینی ارکان کا پابند بنایا جائے.بلوغت سے قبل کبھی کبھی روزہ بھی رکھوانا چاہئے.اس سے ان کی صحت خراب نہیں ہوتی بلکہ یہ صحت کے لئے فائدہ بخش چیز ہے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ بچوں کو نماز کے لئے نہیں جگاتے.وہ سمجھتے ہیں ابھی نیان (بچہ) ہے.یہ درست نہیں ان کو نمازوں کی باقاعدگی کا عادی بنانا چاہئے.پھر ورزش کی عادت بھی ڈالنی چاہئے.کئی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ خدام الاحمدیہ والے ورزش کراتے ہیں.یہ شکایت ایسی ہی ہے جیسے کسی شخص کو جو دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا.کسی نے کہا کہ اٹھ کر سایہ میں ہو جاؤ.تو اس نے کہا کہ کیا دو گے.بچوں کے ورزش کرنے سے خدام الاحمدیہ والوں کو کیا ملتا ہے.اس سے تمہارا ہی فائدہ ہے کہ تمہارے بچوں کی صحت درست ہو جائے گی.اخلاق درست ہوں گے اور چستی و چالا کی پیدا ہوگی.اگر وہ تندرست و توانا ہو کر زیادہ کمائیں گے.تو کیا خدام الاحمدیہ والوں کو کچھ دے دیں گے.ہمارے ملک میں بچوں کو محنت کا عادی نہیں بنایا جاتا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر بھی سکتے ثابت ہوتے ہیں.یورپ میں بچوں کو محنت کا عادی بنایا جاتا ہے جس سے بڑے ہو کر بھی وہ کام کے قابل ہوتے ہیں.پس دوست اس بات کا خیال رکھیں کہ جہاں بچوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جائے کہ ان کی صحت بگڑ جائے.وہاں ان کی تربیت کا بھی خیال رکھا جائے.انہیں محنت و مشقت کا عادی بنایا جائے.مشکلات کے برداشت کرنے کی مشق کرائی جائے اور انہیں اپنے اوقات کو ضائع کرنے سے روکا جائے.کیونکہ جن نوجوانوں میں یہ عیوب ہوں وہ ملک، قوم بلکہ ساری دنیا کے لئے مصیبت کا موجب ہوتے ہیں اور جو شخص تمہارے بچہ کی ایسی تربیت کرنے میں مدد دیتا ہے جس سے وہ محنت اور مشقت کا عادی ہو.وہ تمہارا دشمن نہیں بلکہ دلی دوست ہے اور اگر تم اسے چھوڑتے ہو تو پھر کوئی دوست تمہیں نہیں ملے گا." وو خطبہ جمعہ فرموده ۲ دسمبر ۱۹۴۰ء مطبوعہ الفضل ۶۴ جولائی ۱۹۶۰ء)
احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن کا صحیح نمونہ پیش کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے اپنے افعال و کردار کو اس مقصد کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرو یہ عزم کر لو کہ ہم نے ساری دنیا کو محمد رسول اللہ لے کے قدموں میں لا ڈالنا ہے مرکز میں آنے کی اہمیت اور حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں نوجوانوں کا ( مرکز ) قادیان میں باقاعدگی سے آنا اجتماع میں شامل نہ ہونے والے خدام پر حضور کا اظہار افسوس حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد ترقیوں اور کامیابیوں کے لئے مصائب سے گذرنا ضروری ہے ے گذرنا ضروری ہے
244 میرا دل تو آج چاہتا تھا کہ میں بہت سی باتیں اس اجلاس میں کہوں لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت پرسوں سے میری آواز بیٹھتی چلی جارہی ہے اور آج تو ایسی بیٹھی ہوئی ہے اور گلا ایسا ماؤف ہے کہ اگر میں زیادہ یر تک تقریر کروں تو ممکن ہے گلے کو کوئی مستقل نقصان پہنچ جائے اور مجھے اس بات کا ذاتی تجربہ بھی ہے.میری آواز پہلے بہت بلند ہوا کرتی تھی.ایسی بلند کہ بعض دوستوں نے بتایا کہ چھوٹی بیت الذکر میں آپ کی قرات سن کر اور سمجھ کر مدرسہ احمدیہ میں نماز پڑھی ہے.یہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کی بات ہے.مگر ایک دفعہ میرا اسی طرح گلا بیٹھا ہوا تھا کہ میں اپنے ایک عزیز کے ہاں گیا.اس نے کہا آپ قرآن بہت اچھا پڑھتے ہیں.میں گراموفون ریکارڈ بھروانا چاہتا ہوں.آپ کسی سورۃ کی تلاوت کر دیں.میں نے معذرت کی کہ مجھے نزلہ و زکام ہے اور گلا بیٹھا ہوا ہے.مگر انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ میں تو آج اس غرض کے لئے تیار ہو کر بیٹھا ہوں.چنانچہ میں نے سورہ فاتحہ یا کوئی اور سورۃ ( مجھے اس وقت صحیح طور پر یاد نہیں رہا ) ریکارڈ میں بھروادی.اس کے بعد میری آواز جو بیٹھی ہوئی تھی وہ تو درست ہو گئی مگر آواز کی بلندی میں قریباً ۲۵ فیصدی کی ہمیشہ کے لئے کمی آگئی.تو ایسی حالت میں زیادہ بولنا بہت دفعہ مضر ہو تا ہے.کھانسی کی حالت میں تو میں کافی تقریر کر لیا کرتا ہوں اور اس کی میں چنداں پرواہ نہیں کیا کرتا مگر گلے کی خراش اس سے مختلف چیز ہے.خدام الاحمدیہ کا یہ اجلاس اس لحاظ سے پہلا اجلاس ہے کہ اس میں باہر سے بھی دوست تشریف لائے ہیں.گو میں نہیں کہہ سکتا کہ میں ان کے آنے کی وجہ سے پورے طور پر خوش ہوں کیونکہ جہاں تک مجھے علم ہے بہت کم دوست باہر سے آئے ہیں اور خدام الاحمدیہ کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے.شاید کل تعداد کا چھٹا یا ساتواں یا آٹھواں یا نواں بلکہ دسواں حصہ آیا ہے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس مجلس میں بیٹھنے والے اکثر دوست گورداسپور کے ضلع کے ہیں اور ان میں سے بھی اکثر زمیندار ہیں جن کے لئے پیدل سفر کرنا کوئی مشکل نہیں ہو تا.ان کا اس جگہ آنا زمینداروں کی تعلیم کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے بے شک ایک قابل قدر قربانی ہے مگر ان کے آنے کی وجہ سے اس مجلس کے افراد کی تعداد کا بڑھ جانا دوسرے شہروں کے خدام الاحمدیہ کے لئے کوئی خوش کن امر نہیں ہو سکتا.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور ان رپورٹوں سے جو میرے پاس پہنچتی رہی ہیں اندازہ لگا سکا ہوں.گورداسپور کو چھوڑ بیرو نجات سے دواڑھائی سو آدمی آیا ہے اور یہ تعداد خدام الاحمدیہ کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت کم ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی قریب میں ہی جلسہ سالانہ گذرا ہے.لیکن نوجوانوں کی ہمت اور ان کا ولولہ اور جوش ان باتوں کو نہیں دیکھا کرتا.یہ جلسہ تو ایک مہینہ کے بعد ہوا ہے.میں جانتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں کئی نوجوان ایسے تھے جو لاہور قادیان آنے کی اہمیت سے ہر اتوار کو با قاعدہ قادیان پہنچ جایا کرتے تھے.مثلا چو ہد ری فتح محمد صاحب ان چوہدری دنوں کالج میں پڑھتے تھے مگر ان کا آنا جانا انتا با قاعدہ تھا کہ ایک اتوار کو وہ کسی وجہ سے نہ آسکے تو حضرت مسیح موعود
245 علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھ سے پوچھا.محمود افتح محمد اس دفعہ نہیں آیا.گویا ان کا آنا جانا انتنا با قاعدہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کے ایک اتوار کے دن نہ آنے پر تعجب ہوا اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ وہ کیوں نہیں آئے.وہ بھی کالج کے طالب علم تھے.کالج میں پڑھتے تھے اور ان کے لئے بھی کئی قسم کے کام تھے.پھر وہ فیل بھی نہیں ہوتے تھے کہ کوئی شخص کہہ دے وہ پڑھتے نہیں ہوں گے.پھر وہ کوئی ایسے مالدار بھی نہیں تھے کہ ان کے متعلق یہ خیال کیا جا سکے کہ انہیں اڑانے کے لئے کافی روپیہ ملتا ہو گا.میں سمجھتا ہوں لاہور کے کالجوں کے جو سٹوڈنٹس یہاں آئے ہوئے ہیں یا نہیں آئے.ان میں سے نوے فیصدی وہ ہوتے ہیں جن کو اس سے زیادہ گزارہ ملتا ہے جتنا چوہدری فتح محمد صاحب کو ملا کر تا تھا.مگر وہ با قاعدہ ہر اتوار کو قادیان آیا کرتے تھے.اسی طرح اور بھی کئی طالب علم تھے جو قادیان آیا کرتے تھے.گو اتنی باقاعدگی سے نہیں آتے تھے.مگر بہر حال کثرت سے آتے تھے.اس وقت لاہور میں احمدی طالب علم دس بارہ تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک دو کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی دس میں سے دو تین تو ایسے تھے کہ وہ ہفتہ وار یا قریباً ہفتہ وار قادیان آیا کرتے تھے اور نصف تعداد ایسے طالب علموں کی تھی جو مہینے میں ایک دفعہ یا دو دفعہ قادیان آتے تھے اور باقی سال میں چار پانچ دفعہ قادیان آ جاتے تھے اور بعض دفعہ کوئی ایسا بھی نکل آتا جو صرف جلسہ سالانہ پر آجاتا تھا.مگر اب صرف ہیں پچیس فیصدی طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو قادیان میں سال بھر میں ایک دفعہ آتے ہیں یا ایک دفعہ بھی نہیں آتے.آخر یہ فرق اور امتیاز کیوں ہے؟ میں نے کہا ہے اگر تمہاری مالی حالت ان لڑکوں سے کمزور ہوتی جو اس وقت کالج میں پڑھتے تھے تو میں سمجھتا کہ یہ مالی حالت کا نتیجہ ہے اور اگر یہ بات ہوتی کہ اب تمہیں دین کے سیکھنے کی ضرورت نہیں رہی، تمہارے لئے اس قدر اعلیٰ درجہ کے روحانی سامان لاہور اور امرت سر اور دوسرے شہروں میں موجود ہیں کہ تمہیں قادیان آنے کی ضرورت نہیں تو پھر بھی میں سمجھتا کہ یہ بات کسی حد تک معقول ہے.لیکن اگر نہ تو یہ بات ہے کہ تمہاری مالی حالت ان سے خراب ہے اور نہ یہ بات درست ہے کہ باہر ایسے سامان موجود ہیں جن کی موجودگی میں تمہیں قادیان آنے کی ضرورت نہیں اور پھر اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ اب قادیان کا سفر بالکل آسان ہے یہ بات میری سمجھ سے بالکل بالا ہے کہ کیوں ہماری جماعت کے نوجوانوں میں اس قسم کے غفلت پائی جاتی ہے.پہلے شام کی گاڑی سے ہمارے طالب علم بٹالہ میں اترتے اور گاڑی سے اتر کر راتوں رات پیدل چل کر قادیان پہنچ جاتے.یا آٹھ نو بجے صبح اترتے تو بارہ ایک بجے دوپہر کو قادیان پہنچ جاتے تھے.طالب علم ہونے کی وجہ سے بالعموم ان کے پاس اتنے کرائے نہیں ہوتے تھے کہ وہ یکہ یا ٹانگہ لے سکیں.ایسے بھی ہوتے تھے جو سیکوں میں آجایا کرتے تھے مگر ایسے طالب علم بھی تھے جو پیدل آتے اور پیدل جاتے تھے.مگر اب ریل کی وجہ سے بہت کچھ سہولت ہو گئی ہے.ریل وقت بچالیتی ہے.ریل کوفت سے بچالیتی ہے اور ریل کا جو کرایہ آج کل بٹالہ سے قادیان کا ہے وہ اس کرایہ کے نصف کے قریب ہے جو ان دنوں یکہ والے وصول کیا کرتے تھے.اس زمانہ میں ڈیڑھ دو روپیہ میں یکہ آیا کرتا تھا.اور ایک یکہ میں تین سواریاں ہوا کرتی تھیں.گویا کم سے کم آٹھ آنے ایک آدمی کا صرف ایک طرف کا
246 کرایہ ہو تا تھا.مگر آج کل چھ سات آنے میں بٹالے کا آنا جانا ہو جاتا ہے.تو جو دقتیں مالی لحاظ سے پیش آسکتی تھیں یا وقت کے لحاظ سے پیش آسکتی تھیں ، وہ کم ہو گئی ہیں اور جو ضرور تیں قادیان آنے کے متعلق تھیں وہ ویسی ہی قائم ہیں.پس میں ان خدام کے توجہ نہ کرنے کی وجہ سے جو اس اجتماع میں نہیں آئے.افسوس اور تعجب کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کی غرض ان میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ وہ احمدیت کے خادم ہیں اور خادم وہی ہوتا ہے جو آقا کے قریب رہے.جو خادم اپنے آقا کے قریب نہیں رہتا.وقت کے لحاظ سے یا کام کے لحاظ سے وہ خادم نہیں کہلا سکتا.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے باہر سے آنے والوں کی تعدا بہت کم ہے اور اگر گورداسپور کے دیہات کے افراد نہ آجاتے اور قادیان کے لوگ بھی اس جلسہ میں شامل نہ ہو جاتے تو یہ جلسہ اپنی ذات میں ایک نہایت ہی چھوٹا سا جلسہ ہوتا اور ایسا ہی ہو تا جیسے مدرسہ احمدیہ یا ہائی سکول میں طالب علموں کے جلسے ہوتے ہیں بلکہ ان سے بھی چھوٹا.میں جماعت کے نوجوانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کے سپرد ایسے کام کئے گئے ہیں جو دنیا میں عظیم الشان روحانی انقلاب پیدا کرنے والے ہیں.موجودہ دنیا کی کایا پلٹنے کے لئے اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد الصلوۃ والسلام کو معبوث فرمایا ہے.دنیا کی تہذیب اور دنیا کے تمدن کی وہ عمارت جو تمہیں اس وقت دکھائی دے رہی ہے ، اس کی صفائی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے.اس کی لپائی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے.اس کے پوچنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے.اس پر رنگ و روغن کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے.اس کا پلستر بدلنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے.اس کی چھت پر مٹی ڈالنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے.اس کی کانسوں کو درست کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے.اس کے ٹوٹے ہوئے فرش کو بدلنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بھیجے گئے.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی نے اس لئے بھیجا ہے کہ اپنی زندگیوں میں اسلامی تعلیم کا کامل نمونہ پیش کر کے توڑ دو اس تهذیب و تمدن کی عمارت کو جو اس وقت دنیا میں اسلام کے خلاف کھڑی ہے.ٹکڑے ٹکڑے کر دو اس قلعہ کو جو شیطان نے اس دنیا میں بنایا ہے.اسے زمین کے ساتھ لگا دو بلکہ اس کی بنیادیں تک اکھیڑ کر پھینک دو اور اس کی جگہ وہ عمارت کھڑی کرو جس کا نقشہ محمد رسول اللہ لی لی نے دنیا کو دیا ہے.یہ کام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا اور اس کام کی اہمیت بیان کرنے کے لئے کسی لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت نہیں.ہر انسان سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کے جس گوشہ میں سے ہم جائیں.دنیا کی جس گلی میں سے ہم گذریں دنیا کے جس گاؤں میں ہم اپنا
247 قدم رکھیں وہاں ہمیں جو کچھ اسلام کے خلاف نظر آتا ہے، اپنے نیک نمونہ سے اسے مٹاکر اس کی جگہ ایک ایسی عمارت بنانا جو قرآن کریم کے بتائے ہوئے نقشہ کے مطابق ہو ، ہمارا کام ہے.پس تم سمجھ سکتے ہو کہ تمہارا چلن اور تمہار ا طور اور تمہارا طریق اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے.اسی وقت محمد رسول اللهم ل ل ا ل لیلی کے منشاء کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے.اسی وقت زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کے منشاء کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے جبکہ تم دنیا میں ایک خدا نما و جو د بنو اور اسلام کی اشاعت کے لئے کفر کی ہر طاقت سے ٹکر لینے کے لئے تیار رہو.یہ نہیں کہ دنیا تم کو اپنا سمجھتی ہو اور تم اس کو اپنا سمجھتے ہو.بے شک انسان بحیثیت انسان ہونے کے تمہارا محبوب ہونا چاہئے کیونکہ اس کی اصلاح کے لئے تمہیں کھڑا کیا گیا ہے.لیکن جہاں انسان بحیثیت انسان ہونے کے تمہارا محبوب ہونا چاہئے کیونکہ اسی کی درستی اور اصلاح کے لئے تم کھڑے کئے گئے ہو ، وہاں اس کے خلاف اسلام کردار سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے.کیونکہ تم اس کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں ، اسے اپنے پیچھے چلانے کے لئے کھڑے کئے گئے ہو.اگر تم ایسا نہیں کرتے ، اگر تم اس کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہو ، اگر تم اس کے ناجائز افعال کی اصلاح سے غافل رہتے ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارے اند ر منافقت کی رگ پائی جاتی ہے اور تم اپنے فرائض کی بجا آوری سے غافل ہو.مجھے ہمیشہ حیرت آتی ہے ان لوگوں پر جو میرے پاس شکایتیں لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں ، ہم کیا کریں.میں انہیں کہتا ہوں تم اس بات پر کیوں غور نہیں کرتے کہ لوگ تمہاری کیوں مخالفت کرتے ہیں.اگر وہ اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ وہ تمہارے متعلق غلط فہمی کا شکار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ تم اسلام کے دشمن ہو تو اس مخالفت کو دور کرنے اور ان کو اپنا دوست بنانے کے دو ہی طریق ہو سکتے ہیں.یا تو تمہیں اپنے دعوئی احمدیت کو چھوڑنا پڑے گا اور تمہیں بھی ویسا ہی بننا پڑے گا جیسے تمہارا مخالف ہے.پھر بے شک وہ تمہاری طرف محبت کا ہاتھ بڑھا کر کہے گا کہ ہم دونوں ایک جیسے ہیں اور یا پھر تمہیں کو شش کر کے اس کو بھی اپنے جیسا بنانا پڑے گا اور درست طریق یہی ہے کہ تم اسے بھی اپنے اندر شامل کرنے کی کوشش کرو.اس صورت میں بھی وہ تمہاری طرف اپنا ہاتھ بڑھا کر کے گا کہ یہ میرا محسن ہے اور تمہاری آپس کی مخالفت ختم ہو جائے گی.لیکن اگر تم اس طریق کو اختیار نہیں کرتے اور یہ شور مچاتے چلے جاتے ہو کہ لوگ ہمارے دشمن ہیں تو اس سے زیادہ بیوقوفی کی علامت اور کیا ہو سکتی ہے.اگر تم نے احمدیت کو سمجھا ہے اور اگر تم نے احمدیت کے مغز کو حاصل کیا ہے تو تمہیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ سوائے اس کے کہ کوئی شخص سچائی کی تحقیق کر رہا ہو اور اس پر ایک حد تک سچائی کھل چکی ہو.یا سوائے ان کے جو مادر پدر آزاد ہوتے ہیں.وہ مسلمان کہلاتے ہیں مگر مسلمان نہیں ہوتے.عیسائی کہلاتے ہیں مگر عیسائی نہیں ہوتے.یہودی کہلاتے ہیں مگر یہودی نہیں ہوتے.ہندو کہلاتے ہیں مگر ہندو نہیں ہوتے.باقی کسی انسان سے تمہارا یہ امید کرنا کہ جس عظیم الشان کام کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو اس میں تمہاری کوئی مخالفت نہ کرے ایک بالکل احمقانہ اور مجنونانہ خیال ہے.یہ مخالفت اسی صورت میں ختم ہو
248 سکتی ہے جب تم ان کو اپنا دوست بنائو او روہ دوست اسی صورت میں بن سکتے ہیں جب تم ان کی غلط فہمیوں کو دور کر دو اور انہیں اسلام اور احمدیت کی برکات سے روشناس کرو.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرو اور اس خیال میں مت رہو ( خصوصا میں زمینداروں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں) کہ فلاں مشکل پیدا ہو گئی ہے کسی آدمی کو قادیان بھیجا جائے جو کسی ناظر سے ملے.ناظر خدا نہیں.میں خدا نہیں.جب خدا نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ جو لوگ اس کے دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہوں گے انہیں ابتلاؤں اور امتحانوں کی بھٹی میں سے گذرنا پڑے گا تو کوئی انسان تمہاری کیا مدد کر سکتا ہے.اگر تم آرام کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ آرام سے زندگی بسر کرنے والوں کے لئے احمدیت میں کوئی جگہ نہیں کیونکہ احمدیت اس لئے نہیں آئی کہ اپنے عقائد کو ترک کر کے اور مداہنت سے کام لے کر دنیا سے صلح کرلے.احمدیت اس لئے نہیں آئی کہ گاؤں کے چند نمبردار اس کا اقرار کرلیں اور وہ تمہیں دکھ نہ دیں.احمدیت اس لئے نہیں آئی کہ چند بڑے بڑے چوہدری اس کی صداقت کا اقرار کر لیں.بلکہ احمدیت اس لئے آئی ہے کہ سارے گاؤں، سارے شہر، سارے صوبے‘ سارے ملک اور سارے براعظم محمد رسول الله علی ایم کیو ایم کے قدموں میں ڈال دیئے جائیں.پس یہ چیزیں حقیقت ہی کیا رکھتی ہیں کہ ان کی طرف توجہ کی جائے.جس دن یہ آگ تم میں پیدا ہو گئی ، تم اپنے آپ کو مضبوطی میں ایک پہاڑ محسوس کرو گے.لیکن جب تک یہ آگ تم میں پیدا نہیں ہوگی تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش رہو گے.جیسے بیمار مر رہا ہو تا ہے تو وہ افیون کی گولی کھالیتا ہے.افیون کی گولی سے اس کا درد بیشک کم ہو جائے گا مگر اسے آرام نہیں آئے گا.اس کے مقابلہ میں عقل مند انسان افیون نہیں کھائے گا بلکہ وہ کہے گا کہ میں درد برداشت کرلوں گا مگر صحیح رنگ میں اپنا علاج کراؤں گا.اس صورت میں وہ بیچ بھی جائے گا.پس ان چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی پرواہ مت کرو.تم کو خدا نے عظیم الشان کام کے لئے پیدا کیا ہے.مگر تمہاری مثال بعض دفعہ ویسی ہی ہو جاتی ہے جیسے مشہور ہے کہ کشمیر کے مہاراجہ نے ڈوگروں کی فوج کے علاوہ ایک دفعہ کشمیریوں کی بھی فوج بنائی مگر اس سے مراد وہ کشمیری نہیں جو پنجاب میں رہتے ہیں اور جو ہر لڑائی میں ڈنڈا لے کر آگے آجاتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں کشمیری آکر بہادر ہو جاتا ہے اور کشمیر میں پنجابی جا کر بزدل ہو جاتا ہے.بہر حال مہاراجہ نے کشمیریوں کی بھی ایک فوج تیار کی.ایک دفعہ سرحد پر لڑائی ہوئی اور گورنمنٹ برطانیہ کو مختلف راجوں مہاراجوں نے اپنی اپنی ریاستوں کی طرف سے فوجی امداد دی.کشمیر کے مہاراجوں نے بھی اس فوج کو سرحد پر جانے کا حکم دیا اور کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ تم اچھی طرح لڑو گے.سالہا سال تو ہم سے تنخواہ لیتے رہے ہو.اب حق نمک ادا کرنے کا وقت آیا ہے اس لئے تم سے امید کی جاتی ہے کہ تم اس نازک موقعہ پر اپنے فرائض کو عمدگی سے سر انجام دو گے.کشمیریوں نے جواب دیا کہ سرکار ہم نمک حرام نہیں.ہم خدمت کے لئے ہر وقت حاضر ہیں مگر حضور کے یہ خادم سپاہی ایک بات عرض کرنا چاہتے ہیں.لڑائی کا موقعہ تھا اور مہاراجہ ان کو خوش کرنے کے لئے تیار تھا.اس نے سمجھا اگر یہ راشن بڑھانے کا مطالبہ کریں گے تو راشن بڑھا دوں گا.تنخواہ میں زیادہ کا مطالبہ کریں گے تو تنخواہ زیادہ
249 کردوں گا.چنانچہ اس نے کہا تاؤ کیا چاہتے ہو.کشمیری کہنے لگے حضور ہم نے سنا ہے پٹھان ذرا سخت ہوتے ہیں.ہمارے ساتھ پہرہ ہونا چاہیئے.گویا وہ جان دینے کو تیار ہیں.لڑائی پر جانے کے لئے آمادہ ہیں.مگر کہتے ہیں پٹھان ذرا سخت ہوتے ہیں ساتھ پہرہ ہونا چاہئے.وہ لوگ جو احمدیت میں داخل ہیں مگر پھر خیال کرتے ہیں کہ فلاں نے چونکہ ہمیں مارا پیٹا ہے.اس لئے دو ڑو اور قادیان چل کر شکایت کرو.وہ بھی درحقیقت ایسے ہی ہیں.وہ بھی کہتے ہیں ہمارے ساتھ کسی ناظر کا پہرہ ہونا چاہئے.ایسا شخص سپاہی کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا.سپاہی وہی کہلا سکتا ہے جو بہادر ہو اور ہر مصیبت کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو.در حقیقت احمدیت قبول کرنا اوکھلی میں سر دینے والی بات ہے.کسی نے کہا ہے اوکھلی میں سر دینا تو موہلوں کا کیاؤ ر.یعنی اوکھلی میں سر دے دیا تو اس ڈنڈے کا جس سے چاول کوئے جاتے ہیں کیا ڈر ہو سکتا ہے.اسی طرح جب کوئی شخص احمدیت میں داخل ہو تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت مجھ پر مصائب بھی آئے تو میں ان تمام مصائب کو برداشت کروں گا اور کسی موقع پر بھی قدم پیچھے نہیں ہٹاؤں گا.پس یاد رکھو وہ کامیابیاں اور ترقیاں جو آنے والی قربانیوں کی ضرورت اور ان کے ثمرات ہیں ان کے لئے مصائب کی بھٹی میں سے گذرنا تمہارے لئے ضروری ہے.اس کے بعد کامیابیاں بھی آئیں گی.خواہ وہ تمہاری زندگی میں آئیں یا تمہاری موت کے بعد.شریف آدمی یہ نہیں دیکھا کر نا کہ قربانی کا پھل اسے کھانے کو ملتا ہے یا نہیں بلکہ وہ قربانی کرتا چلا جاتا ہے اور بسا اوقات ایسا ہو تا ہے کہ قربانی کا پھل چکھنے کا اسے موقع بھی نہیں ملتا کہ وہ وفات پا کر اپنے رب کے حضور پہنچ جاتا ہے.تم اگر غور کرو تو تم میں سے اچھے کھاتے پیتے وہی نکلیں گے جن کے باپ دادا نے خود نہیں کھایا اور کنگال وہی نکلیں گے جن کے باپ دادا نے جو کچھ کمایا تھا وہ کھا لیا.آخر یہ بڑے بڑے زمیندار جو آج تمہیں نظر آ رہے ہیں کیسے بن گئے ؟ یہ بڑے زمیندارای طرح بنے کہ ان کے باپ دادوں نے تنگی سے گزارہ کیا اور ایک ایک پیسہ بچا کر ایک کنال یہاں سے اور ایک کنال وہاں سے خریدی.پھر رفتہ رفتہ ایک گھماؤں زمین ہو گئی اور پھر ایک سے دو اور دو سے چار اور چار سے دس اور دس سے پندرہ اور پندرہ سے ہیں گھماؤں زمین کے وہ مالک بن گئے اور جب وہ مرے تو ان کی اولاد نے ان کی زمینوں سے فائدہ اٹھایا.مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اولاد ناخلف ہوتی ہے وہ باپ دادا کی جائیداد کو اڑا دیتی اور آہستہ آہستہ مقروض ہو جاتی ہے اور وہی زمین جو ان کے باپ دادا نے بڑی مشکلات سے اکٹھی کی ہوتی ہے بنیوں کے قبضہ میں چلی جاتی ہے.اور جب آگے ان کی اولاد آتی ہے تو وہ بھوکوں مرنے لگتی ہے اور وہ ان بنیوں کو گالیاں دیتی ہے جو ان کی زمینوں پر قبضہ کئے ہوئے ہوتے ہیں.حالانکہ انہیں گالیاں اپنے ماں باپ کو دینی چاہئیں جو اپنی اولاد کا حصہ کھا گئے.تو باپ دادوں کی محنت ہمیشہ اولاد کے کام آتی ہے اور اگر کوئی شخص محنت نہیں کرتا تو اس کی اولاد بھی ات
250 محنت کے فوائد سے محروم رہتی ہے.تم غریب سہی.تم کنگال سہی.لیکن اگر تم میں سے کسی کی ایک کنال زمین بھی ہے تو جب تم اس زمین پر کھڑے ہوتے ہو تو یوں سمجھتے ہو کہ یہاں سے امریکہ تک سب جگہ تمہاری ہی حکومت ہے اور تمہارا دل اتنا بہادر ہوتا ہے اور تم کہتے ہو تمہیں کسی کی کیا پر واہ ہے اور اگر تمہاری ایک گھماؤں زمین ہوتی ہے یا دس گھماؤں زمین ہوتی ہے یا ہیں گھماؤں زمین ہوتی ہے تو پھر تو تمہاری یہ حالت ہوتی ہے کہ تم ایک طرف کھڑے ہو کر کہتے ہو کہ ہماری ایک پہیلی اس سرے پر ہے اور ایک پہلی اس سرے پر.خواہ درمیان میں دس زمینداروں کی اور بھی زمینیں ہوں مگر ایسی حالت میں جب تم اپنی زمین پر تکبر کے ساتھ کھڑے ہوتے ہو.ایک شخص پھٹے پرانے کپڑوں میں تمہارے پاس آجاتا ہے اور کہتا ہے، میں مسافر ہوں ، میری مدد کی جائے.تم اس سے پوچھتے ہو تم کون ہو اور وہ کہتا ہے سید.یہ سنتے ہی تم فورا اپنی چادر اس کے لئے بچھا دیتے ہو اور اس کے ساتھ ادب سے باتیں کرنا شروع کر دیتے ہو.آخر اس کے ساتھ کون سی طاقت ہے جو تمہیں اس بات پر مجبور کر دیتی ہے کہ تم اس کے ساتھ عزت سے پیش آؤ اور اس سے ادب کا سلوک کرو.وہ یہی طاقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو محمد رسول الله عملی کی طرف منسوب کرتا ہے.پس اس کی طاقت اپنی نہیں بلکہ محمد رسول اللہ علیم کی طاقت ہے.جو آپ نے سادات میں منتقل کی اور جو آپ نے ہر مسلمان کے اندر منتقل کی اور ہر ایک نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس طاقت کو اپنے اندر جذب کر کے اس سے فائدہ اٹھایا.ابو بکر نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا.عمر نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا.عثمان نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا.علی نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا.طلحہ اور زبیر نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا اور تمہارے باپ دادا نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا.اب تم جیسا کام کرو گے دنیا میں ویسا ہی تغیر پیدا ہو گا اور جتنا زور سے گیند پھینکو گے اتنا ہی دو ر وہ چلا جائے گا.پس یہ نادانی کا خیال ہے جو بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے ان قربانیوں سے کیا فائدہ اٹھانا ہے.اگر ہماری قوم ہمارے خاندان اور ہماری نسل کے لئے عزت کا مقام حاصل ہو جائے تو دراصل وہ عزت ہمیں ہی حاصل ہو گی.پس اس قسم کے وسوسوں کو چھوڑ کر اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو جو تمہیں دین کے لئے ہر قسم کی قربانیوں پر آمادہ کر دے اور تمہیں سچا بہادر بنادے.میں نے جب مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی تھی تو در حقیقت میں نے تم سے یہ امید کی تھی کہ تم بچے بہادر بن جاؤ اور سچا بہادر وہ ہوتا ہے جو جھوٹ سے کام نہیں لیتا.جو شخص دلیری سے کسی فعل کا ارتکاب کرتا ہے مگر بعد میں اپنے اس فعل پر بشر طیکہ وہ برا ہو ، نادم ہوتا ہے اور اسے چھپانے کی کوشش نہیں کرتا، وہ سچا بہادر ہے.لیکن اگر وہ کوئی غلطی تو کرتا ہے مگر پکڑا جاتا ہے تو کہتا ہے میں نے یہ فعل نہیں کیا تو وہ جھو ٹا بہاد رہے.اگر وہ اس کام کو اچھا نہیں سمجھتا تھا تو اس نے وہ کام کیا کیوں اور اگر غلطی سے کرلیتا ہے تو پھر دلیری سے اس کا اقرار کیوں نہیں کرتا.اسلام جس بہادری کا تم سے تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ تم بے شک معاف کرو مگر اس وقت جب تم اپنے عفو سے بہادر کہلا سکو.تم بے شک چشم پوشی کرو مگر اس وقت جب تم چشم پوشی سے بہادر کہلا سکو.تم بیشک غریب
251 پروری کرو مگر اسی وقت جب تک غریب پروری سے بہادر کہلا سکو.تم بے شک مظلوم بنو مگر اسی وقت جب تم مظلوم بن کر بہادر کہلا سکو اور اگر تمہارا دین اور تمہارا ایمان کہتا ہے کہ اب چشم پوشی کا وقت نہیں.اب پیچھے ہٹنے کا وقت نہیں تو اس صورت میں تم اپنا فرض ادا کرنے کے لئے آگے بڑھو اور پھر جو کچھ درست سمجھتے ہو اس کو دلیری سے کرو.مجھے حیرت آتی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ ایک احمدی دوسرے کو گالی دیتے سنکر جوش میں آجاتا اور خود بھی اس کے مقابلہ میں گالی دے دیتا ہے.حالانکہ اسلام یہ سکھاتا ہے کہ تم گالی سنکر صبر کرو یا اگر کوئی شخص تمہیں تھپڑ مارتا ہے اور تم بھی جواب میں اسے تھپڑ مارتے دیتے ہو تو یہ اسلامی بہادری نہیں.اسلامی بہادری یہ ہے کہ جب کوئی شخص تمہیں تھپڑ مارے تو تم اسے کہو کہ تم نے جو کچھ کیا ناواقفیت سے کیا مگر میرا مذ ہب مجھے یہی کہتا ہے کہ میں دوسرے کو معاف کروں.اس لئے میں تمہیں کچھ نہیں کہتا بلکہ معاف کرتا ہوں.بشرطیکہ تم یہ سمجھو کہ اس کو معاف کرنے کا فائدہ ہے اور یا د رکھو کہ نوے فیصدی فائدہ ہی ہو تا ہے." پس بہادری یہ ہے کہ تم نوے فیصدی لوگوں سے کہہ دو کہ بے شک ہمیں مار لو.ہم تمہیں کچھ حقیقی شجاعت نہیں کہیں گے بشرطیکہ تمہارے بازو میں طاقت ہو.بشرطیکہ تمہاری آنکھوں میں حدت ہو اور بشرطیکہ تمہارا سینہ ابھرا ہوا ہو.تب بے شک تمہارے اس عضو کا دوسرے پر اثر پڑے گا.لیکن اگر تم کبڑے ہو تمہارا ہاتھ خالی ہو ، تمہارے بازو دبلے پتلے ہوں، تمہاری آنکھوں میں چمک نہ ہو اور تم دوسرے کو یہ کہو کہ میں تمہیں معاف کرتا ہوں تو ہر شخص یہی کہے گا.عصمت بی بی از بے چادری " مقابلہ کی طاقت نہیں اور زبان سے معاف کیا جاتا ہے.دیکھو اسلام تم سے صبر کا مطالبہ کرتا ہے.اسلام تم سے رحم کا مطالبہ کرتا ہے.اسلام تم سے عفو کا مطالبہ کرتا ہے لیکن اسلام تم سے بہادری کا بھی مطالبہ کرتا ہے.اگر تم دس آدمیوں کو پچھاڑ سکتے ہو لیکن جب کوئی شخص تمہیں تھپڑ مارتا ہے تو تم گردن جھکا کر یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلے آتے ہو کہ میں نے تمہیں معاف کیا تو سارا گاؤں تمہارے اس فعل سے متاثر ہو گا.لیکن اگر تم کمزور ہونے کی وجہ سے ایک شخص کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے اور پھر اسے کہتے ہو کہ میں نے تمہیں معاف کیا تو ہر شخص تم پر ہنسے گا اور کہے گا کہ یہ معاف کرنے والا جھوٹا ہے.جانتا ہے کہ اگر میں نے ہاتھ اٹھایا تو دوسرا تھپڑ مار کر میرے سارے دانت تو ڑ دے گا اس لئے یونہی اس نے کہہ دیا ہے کہ میں نے معاف کیا ورنہ جانتا ہے کہ مقابلہ کرنے کی اس میں ہمت نہیں.میں نے اگر تمہیں ورزش کی نصیحت کی تو اس لئے کہ اگر اسلام کے احکام کے ماتحت تم کسی وقت عفو سے کام لو تو لوگ تمہارے اس عفو کو بزدلی کا نتیجہ نہ سمجھیں.دھوکا اور فریب نہ سمجھیں.جب تمہارے بازو میں یہ طاقت ہو کہ تم ایک دفعہ کسی پر ہاتھ اٹھاؤ تو اس کے دو چار دانت نکال دو اور پھر اس کے قصور پر اسے معاف کر دو تو دیکھو اس کا کتنا اثر ہوتا ہے.لوگ زبر دست کی معافی سے متاثر ہوتے ہیں.کمزور کی معافی سے متاثر نہیں ہوتے.اور بہادری اس کی سمجھی جاتی ہے جس میں طاقت ہو اور پھر عفو سے کام لے.حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک لڑائی میں شامل تھے.ایک بہت بڑا دشمن جس کا مقابلہ بہت کم لوگ کر
252 سکتے تھے ، آپ کے مقابلہ میں آیا اور کئی گھنٹے تک آپ کی اور اس یہودی پہلوان کی لڑائی ہوتی رہی.آخر کئی گھنٹے کی لڑائی کے بعد آپ نے اس یہودی کو گرا لیا اور اس کے سینہ پر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ خنجر سے اس کی گردن کاٹ دیں کہ اچانک اس یہودی نے آپ کے منہ پر تھوک دیا.آپ فورا اسے چھوڑ کر سیدھے کھڑے ہو گئے.وہ یہودی سخت حیران ہوا اور کہنے لگا.یہ عجیب بات ہے کہ کئی گھنٹے کی کشتی کے بعد آپ نے مجھے گرایا اور اب یکدم مجھے چھوڑ کر الگ ہو گئے ہیں.یہ آپ نے کیسی بیوقوفی کی ہے.حضرت علیؓ نے فرمایا.میں نے بے وقوفی نہیں کی بلکہ جب میں نے تمہیں گرایا اور تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو یکدم میرے دل میں غصہ پیدا ہوا کہ اس نے میرے منہ پر کیوں تھو کا ہے.مگر ساتھ مجھے خیال آیا کہ اب تک تو میں جو کچھ کر رہا تھا خدا کے لئے کر رہا تھا.اگر اس کے بعد میں نے لڑائی جاری رکھی تو تیرا خاتمہ میرے نفس کے غصہ کی وجہ سے ہو گا.خدا کی رضا کے لئے نہیں ہو گا.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس وقت میں تجھے چھوڑ دوں.جب غصہ جاتا رہے گا تو پھر خدا کے لئے میں تجھے گرالوں گا.تو انہیں اپنے عمل کے پاکیزہ ہونے کا اس قدر احساس تھا کہ انہوں نے اس خطرہ کو تو برداشت کر لیا کہ دشمن سے دوبارہ مقابلہ ہو جائے مگر یہ مناسب نہ سمجھا کہ ان کے اعمال میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہو.میں چاہتا ہوں کہ تمہارے اعمال بھی خدا کے لئے ہوں.ان میں نفسانیت کا کوئی شائبہ نہ ہو.ان میں بزدلی کا کوئی شائبہ نہ ہو اور ان میں تقویٰ کے خلاف کسی چیز کی آمیزش نہ ہو.لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم میں سے ہر شخص اتنا مضبوط اتنا بها در اتنا دلیر اور اتنا جری ہو کہ جب تم کسی کو معاف کرو تو لوگ خود بخود یہ کہیں کہ تمہارا عفو خدا کے لئے ہے.کمزور ہونے کی وجہ سے نہیں.ایسی قربانی دلوں کو موہ لیتی ہے اور ایسے انسان پر حملہ کرنا آسان نہیں ہو تا کیونکہ حملہ کرنے والے کا دل فتح ہو جاتا ہے.مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ ہمیشہ یاد رہتا ہے.میں چھوٹا تھا کہ میں نے اور دوسرے بچوں نے مل کر جہلم سے ایک کشتی منگوائی.وہ کشتی نیلام ہوئی تھی اور ہمیں سستی مل گئی تھی.یوں تو ویسی کشتی ان دنوں سو سوا سو روپیہ میں تیار ہوتی تھی مگر ہمیں صرف سترہ روپیہ میں مل گئی.چھبیس روپے کرایہ لگا.جب وہ یہاں آگئی تو جو خرید نے والے تھے ، ان میں سے کئی باہر چلے گئے اور آخری نگران میں ہی مقرر ہوا.ہم نے اس کو ایک زنجیر سے باندھ کر ڈھاب کے کنارے رکھا ہوا تھا.بعض دفعہ جب ہم وہاں موجود نہ ہوتے تو لڑکوں نے کشتی کو کھول کرلے جانا اور خوب کو دنا اور چھلانگیں لگانا اور چونکہ وہ بے احتیاطی سے استعمال کرتے تھے اس لئے کشتی کے تختے روز بروز ڈھیلے ہوتے چلے گئے.میں نے اس کے انسداد کے لئے کچھ دوست مقرر کر دیے اور انہیں کہہ دیا کہ تم نگرانی رکھو اور پھر کسی دن اگر لڑکے کشتی کو کھول کر پانی میں لے جائیں تو مجھے اطلاع دو.چنانچہ ایک دن قادیان کے بہت سے لڑکے اکٹھے ہو کر وہاں گئے ، انہوں نے کشتی کھولی اور خوب کو دنا پھاند نا شروع کر دیا.اسی طرح پانی میں کوئی کشتی کو ادھر سے کھینچتا کوئی ادھر سے.مجھے بھی اطلاع ہوئی.میں غصے سے ہاتھ میں بید لئے دوڑتا ہوا وہاں
253 چلا گیا اور وہاں چاروں طرف لڑکے مقرر کر دیئے کہ کسی کو بھاگنے نہیں دینا.جب لڑکوں نے ہمیں دیکھا تو انہوں نے ادھر ادھر بھاگنا چاہا.مگر چاروں طرف آدمی کھڑے تھے.آخر وہ اسی طرف آئے جس طرف میں کھڑا تھا اور کشتی کو کنارے پر لگاتے ہی سب بھاگ کھڑے ہوئے.اور تو نکل گئے لیکن ایک قصاب کالڑ کا میں نے پکڑ لیا اور گو وہ مجھ سے بہت مضبوط تھا اور اس کا جسم بھی ورزشی تھا مگر میں جانتا تھا کہ وہ میرا مقابلہ نہیں کر سکے گا.کچھ اس میں فطرت کی اس کمزوری کا بھی دخل تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ یہ لوگ ہم پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ہم یہاں کے مالک ہیں.غرض بچپن کی جو نا عقلی ہوتی ہے کہ انسان اپنے رعب سے بعض دفعہ ناجائز فائدہ اٹھا لیتا ہے.اس کے مطابق میں نے بھی زور سے ہاتھ اٹھا کر اسے مارنا چاہا.اس نے پہلے تو اپنا مونسہ بچانے کے لئے ہاتھ اٹھایا جس پر مجھے اور زیادہ طیش آیا اور میں نے زیادہ سختی سے اسے تھپڑ مارنا چاہا مگر ابھی اسے تھپڑ نہیں مارا گیا تھا کہ اس نے اپنا مونہہ میرے سامنے کر دیا اور کہنے لگالوجی مار لو.اس پر یکدم میرا ہاتھ نیچے گر گیا اور میں شرمندہ ہوا کہ فتح آخر اس کی ہوئی حالانکہ جسمانی لحاظ سے وہ گو مجھ سے طاقتور تھا.مگر رعب کے لحاظ سے وہ مجھ سے کمزور تھا.لیکن چونکہ اس نے مقابلہ سے انکار کیا اور کہا کہ مار لو تو میری انسانیت نے مجھے کہا.اب اگر تو نے اسے مارا تو تو انسان کہلانے کا مستحق نہیں رہے گا.لیکن اگر وہ تندرست اور زبر دست نوجوان ہونے کی بجائے ایک چھوٹا سا بچہ ہو تا.اس کی پیٹھ میں خم ہو تا.اس کے سینہ میں گڑھا پڑا ہوا ہوتا.اس کی گردن دبلی پتلی ہوتی.اس کی ناک سے رال بہہ رہی ہوتی اور وہ کہتا مار لو تو مجھ پر کچھ بھی اثر نہ ہوتا.کیونکہ میں جانتا کہ اس میں مقابلہ کی طاقت ہی نہیں.پس میں نے اگر جسمانی ورزش کی ہدایت دی ہے تو اس لئے کہ تمہاری قربانی دنیا کو سچی معلوم ہو.یہ نہ ہو کہ تم ماریں بھی کھاؤ اور قربانی بھی بچی معلوم نہ ہو.وہ مارلوگوں کے لئے ہدایت کا موجب بنتی ہے جو طاقت رکھتے ہوئے کھائی جائے.مگر جو مار بزدلی کی وجہ سے کھائی جائے اس سے حقارت اور نفرت بڑھتی ہے.جب لوگ یہ سمجھیں کہ وہ ایک تھپڑ مار میں تو دوسرا دو تھپڑ مار سکتا ہے.وہ اگر ایک گال پر خراش پیدا کریں تو دوسرا ان کے دانت نکال سکتا ہے.وہ اگر کھوپڑی پر چوٹ لگا ئیں تو دوسرا ان کے سر پھوڑ سکتا ہے.تو اگر ایسی طاقت رکھنے والا انسان ایک کمزور انسان سے کہے کہ میں تم سے مار کھا لیتا ہوں تو دوسرے انسان کے دل پر ضرور چوٹ پڑتی ہے.اور سمجھتا ہے کہ کوئی ایسی طاقت ہے جس نے اسے اتنی بڑی قربانی کرنے پر آمادہ کر دیا اور وہ سچائی کو قبول کر لیتا ہے.محمد رسول اللہ ملی کو دیکھو.آپ نے مکہ میں صبر کیا اور ایسا صبر کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.مگر لوگ کہہ سکتے تھے کہ نعوذ باللہ بزدل ہے اس لئے لڑائی سے کنارہ کرتا ہے.مگر پھر اللہ تعالٰی آپ کو مدینہ میں لے گیا اور وہاں فوجوں کی کمان آپ کو کرنی پڑی اور ایسے ایسے مواقع آئے جن میں آپ کو اپنی بہادری کے جوہر دکھانے پڑے.احد کے موقعہ پر ہی ایک شخص جو مکہ کا بہت بڑا جرنیل تھا، آگے آیا اور اس نے کہا کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا.اس لئے میرے مقابلہ میں محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کو ہی نکالا جائے.صحابہ
254 بڑے بہادر اور تجربہ کار تھے.وہ شمشیر زنی سے واقف تھے.وہ نیزہ بازی کو خوب جانتے تھے.وہ لڑائی کے اصول اور فن کے ماہر تھے.وہ سارے اس نیت سے کھڑے ہو گئے کہ ہم مر جائیں گے مگر اس شخص کو محمد رسول اللہ میل تک پہنچنے نہیں دیں گے.لیکن آپ نے فرمایا رستہ چھوڑ دو.صحابہ نے آپ کے حکم کے ماتحت رستہ خالی کر دیا.اس پر وہ جرنیل شیر کی طرح گر جتا ہوا آپ کے مقابلہ میں آیا.آپ نے اپنا نیزہ بڑھا کر اس پر وار کیا اور اس کی گردن پر ایک معمولی ساز خم لگا دیا.وہ اسی وقت چیخ مار کر واپس لوٹ گیا.لوگوں نے اس سے کہا کہ تم نے یہ کیا کیا.یا تو اس بہادری سے حملہ کرنے کے لئے گئے تھے اور یا اس بزدلی کے ساتھ واپس بھاگ آئے اور پھر تمہارا تو زخم بھی کوئی بڑا نہیں.اس نے کہا بے شک یہ ایک چھوٹا سا زخم ہے.لیکن مجھے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ سارے جہنم کی آگ اس میں بھر دی گئی ہے جو مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی.یہ ایک نشان تھا جو خدا تعالیٰ نے دکھایا.لیکن محمد رسول اللہ میں اسلام کا یہ فرمانا کہ میرے لئے رستہ چھوڑ دو اس نے بتا دیا کہ مکہ میں کفار کے مظالم آپ کمزوری یا بزدلی کی وجہ سے برداشت نہیں کرتے تھے بلکہ بہادری اور طاقت کے ہوتے ہوئے برداشت کرتے تھے.یہی وجہ تھی کہ آپ کی قربانیوں کو دیکھ کر لوگ ہدایت پا جاتے تھے.قرآن آپ نے سنایا اور سالوں سنایا مگر حمزہ پر جو آپ کے چچا تھے، کوئی اثر نہ ہوا.توحید کے وعظ آپ نے کئے اور سالوں کئے مگر حمزہ پر کوئی اثر نہ ہوا.اصلاحی تعلیم آپ نے دی اور سالوں دی، مگر حمزہ پر کوئی اثر نہ ہوا.نمازیں آپ نے پڑھیں اور پڑھائیں اور سالوں پڑھیں اور پڑھائیں ، مگر حمزہ" پر کوئی اثر نہ ہوا.آپ نے صدقے دیئے اور دلائے اور سالوں صدقے دیئے اور دلائے مگر آپ کے چا حمزہ پر کوئی اثر نہ ہوا.لیکن ایک دن آپ خانہ کعبہ سے باہر پتھر کی ایک چٹان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو جہل آگیا اور اس نے پہلے تو آپ کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور پھر غصہ میں اس نے زور سے آپ کے منہ پر ایک تھپڑ مار دیا.حمزہ کی ایک لونڈی اس وقت دروازہ میں کھڑی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی.وہ اس کو برداشت نہ کر سکی اور اندر ہی اندر سارا دن کڑھتی رہی.حمزہ شکار کے بہت شوقین تھے اور وہ گھوڑے پر چڑھ کر شکار کے لئے حرم سے باہر نکل جایا کرتے تھے.اس دن وہ شکار کر کے فخر سے گھر میں داخل ہونے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہی لونڈی جو دیر سے ان کے گھر میں رہتی تھی اور جس نے رسول کریم ملی و یا لیلی کے بچپن کا زمانہ دیکھا ہوا تھا اور جو آپ سے آپ کے دادا کو محبت تھی ، اسے بھی جانتی تھی.وہ بیٹھی ہوئی رو رہی ہے.حمزہ نے پوچھا.بی بی کیوں روتی ہو.عرب کے لوگ گھر کی پرانی ماماؤں اور خادماؤں کی بڑی عزت کرتے تھے.انہوں نے سمجھا کسی نے اس کی ہتک کی ہوگی اور اب میرا فرض ہے کہ میں اس ہتک کا بدلہ لوں.لونڈی نے اپنا سر او پر اٹھایا اور کہا بڑے بہادر بنے پھرتے ہو.حمزہ نے کہا کیوں کیا ہوا؟ کون سی شکایت پیدا ہو گئی ہے.وہ کہنے لگی.تم ہتھیار لگائے پھرتے ہو اور آج آمنہ کے بیٹے کو بغیر کسی قصور کے ابو جہل نے مارا ہے.حمزہ وہیں سے پلٹے اور جہاں ابو جہل مکہ کے دوسرے سرداروں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا.وہاں پہنچے اور اس کے سر پر زور سے کمان مار کر کہا.محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صبر کیا اور تم نے اس پر ظلم کیا.تم اگر اپنے آپ کو بہادر سمجھتے ہو اور تم میں
255 طاقت ہے تو آؤ اور مجھ سے مقابلہ کر لو.اس کے بعد وہ اس جوش کی حالت میں رسول کریم ملی دیوی کے پاس تشریف لے گئے.جس شخص کے دل پر قرآن سننے کا اثر نہیں ہوا تھا.جس شخص کے دل پر توحید کے وعظوں سے کوئی اثر نہیں ہوا تھا.جس شخص کے دل پر اخلاق کے نمونے اور تعلیم نے کوئی اثر نہیں کیا تھا.جس شخص کے دل پر صدقہ و خیرات نے کوئی اثر نہیں کیا تھا.چونکہ وہ بہادر تھا.یہ چیزا سے کاٹ کر رکھ گئی کہ ایک بہادر آدمی صبر کرتا ہے اور ظالم سے مار کھا لیتا ہے.چنانچہ انہوں نے آپ کے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا.اشھد ان لا اله الا الله و اشهدان محمدا عبده و رسوله - میں ایمان لاتا ہوں کہ خدا ایک ہے اور میں ایمان لاتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہادر نہ ہوتے.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دلیر نہ ہوتے.اگر محمد رسول اللہ صلی و شجاع نہ ہوتے تو آپ کا صبر حمزہ کی ہدایت کا موجب کبھی نہیں ہو سکتا تھا.کیونکہ کمزور تو صبر کیا ہی کرتا ہے.بے شک کمزوروں پر ظلم بھی لوگوں کے دلوں میں رحم پیدا کرتا ہے مگر وہ ظلم صرف رحم پیدا کرتا ہے ، ہدایت کا موجب نہیں ہو تا.ہدایت ہمیشہ طاقتور کے ظلم کے نتیجہ میں ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے.کمزور کے ظلم کو دیکھ کر لوگ رو دیتے ہیں.آہیں بھر دیتے ہیں مگر کمزور کے ظلم کو دیکھ کر مذہب تبدیل نہیں کرتے.مذہب اسی وقت تبدیل کرتے ہیں ، جب وہ ایک بہادر اور جری انسان کو گالیاں سنتے اور صبر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں.تب وہ کہتے ہیں کہ اس کا صبر کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ خدائی حکم کی وجہ سے ہے.پس جب میں تمہیں کہتا ہوں کہ اپنے وقتوں میں سے کچھ وقت کھیلوں میں لگاؤ بچے بہادر بنو تو میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم اتنا وقت دنیا کے کاموں میں خرچ کرو بلکہ میں تمہیں اصلاح و ہدایت کا بہترین نمونہ بتانا چاہتا ہوں.جب تم کبڈی کھیلتے ہو یا کوئی اور کھیل کھیلتے ہو اس نیت اور اس ارادہ سے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے تو در حقیقت تم نیکی کرتے ہو.کیونکہ تمہارا یہ سب کام لوگوں کی ہدایت اور اسلام کو پھیلانے کے لئے ہے.پس بہادر بنو اور بچے بہادر بنو.جیسا کہ میں نے بتایا ہے.سچا بہادر وہ ہے جو ظلم کے وقت صبر سے کام لیتا اور طاقت رکھتے ہوئے عفو سے کام لیتا ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی جب قربانی کا وقت آتا ہے.وہ عواقب سے نہیں ڈرتا.بعض لوگ اس کے برے معنے لیتے ہوئے میری طرف غلط باتیں منسوب کیا کرتے ہیں مگر میں ان کے اعتراضوں سے ڈر کر اس سچائی کو نہیں چھپا سکتا جس کے بغیر اخلاق مکمل نہیں ہو سکتے اور جس کا دوسروں کو سکھانا میرا فرض ہے.میں تمہیں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ کسی موقع پر اسلام کی خاطر جان قربان کرنے کی ضرورت ہے اور تمہیں اس بات کا موقع ملتا ہے اور تمہارے ہاتھ سے کسی کو نادانستہ طور پر کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے تو پھر یہ نہ کہو کہ میں وہاں نہیں تھا بلکہ دلیری سے کہو کہ میں نے ہی یہ فعل کیا ہے اور سچائی کو ایک لمحہ کے لئے بھی ترک نہ کرو.اگر تم ظلم کے سہتے وقت یہ نمونہ دکھاؤ کہ تم سے کمزور تمہارے منہ پر تھپڑ مارے اور تم اپنی دوسری گال بھی اس کی طرف یہ کہتے ہوئے پھیر دو کہ اے
256 میرے بھائی اگر تو مجھے مارنے پر ہی خوش ہے تو بے شک مجھے مار لے مگر خدا کی باتیں تھوڑی دیر کے لئے سن لے.تو تمہارے اس نمونہ سے سارا گاؤں متاثر ہو گا اور اگر کبھی تمہیں نظلم کا مقابلہ کرنا پڑے اور تمہارے ہاتھوں سے دوسرے کو نادانستہ طور پر کوئی نقصان پہنچ جائے اور معاملہ عدالت میں جائے تو تم عدالت میں جا کر بھی صاف طور پر کہو کہ اے حاکم میں نے ان حالات میں یہ فعل کیا ہے اور جھوٹ بول کر اپنے آپ کو بچانے کی کبھی کوشش نہ کرو.اگر تم ایسا کرو تو تمہاری کامیابی اور ترقی یقینی ہے.لیکن اگر گالی کے مقابلہ میں تم بھی گالی دو گے.مار کے مقابلہ میں تم بھی مارو گے تو تمہارے اس فعل کی وجہ سے احمدیت کو کوئی ترقی نہیں ہو گی.پس تم ان دونوں طریقوں کو اختیار کرو.ماریں کھاؤ اور کھاتے چلے جاؤ.پٹو اور پٹتے ہی چلے جاؤ سوائے اس کے کہ خدا اور رسول کا حکم کے کہ اب تمھاری جان کا سوال نہیں ، اب تمہارے آرام کا سوال نہیں.اب دین کی حفاظت کا سوال ہے.ایسی صورت میں میری نصیحت تمہیں یہی ہے کہ تم مقابلہ کرو اور اس نیکی کے حصول سے ڈرو نہیں.اگر مظلوم ہوتے ہوئے اور دفاع کرتے ہوئے تمہارے ہاتھوں سے نادانستہ طور پر کسی کو کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے اور در حقیقت تم ظالم نہیں ہو تو تمہارے لئے جنت کے دروازے اور زیادہ کھل جاتے ہیں.پس بہادر بنو.اسی طرح کہ جب لوگ تم پر ظلم کریں تو تم عفو اور چشم پوشی اور در گذر سے کام لو.مگر جب دیکھو کہ چشم پوشی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور تمہیں دفاع اور خود حفاظتی کے لئے مقابلہ کرنا پڑتا ہے تو پھر دلیری سے اس کا مقابلہ کرو اور اگر اس دوران میں تمہارے ہاتھوں سے کسی کو کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے تو پھر صاف کہہ دو کہ میں نے ایسا کیا ہے اور جھوٹ بول کر اپنے فعل پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہ کرو.تقریر ۶ فروری ۱۹۴۱ء بر موقعه سالانہ اجتماع مطبوعه الفضل ۲ اکتوبر ۴ اکتوبر ۶ اکتوبر ۱۹۷۰ء)
257 روحانیت کی ترقی کے لئے اخلاق فاضلہ کا حصول نہایت ضروری ہے ه نماز اور گر جا کی عبادت میں فرق اخلاق روحانیت کا جسم ہے.اخلاق کی اہمیت کو سمجھیں افراد کا محنت نہ کرنا ایک قومی جرم ہے محنت اور سچائی کی اہمیت غیبت، چغل خوری دھوکہ اور ظلم کی عادت سے بچو خدام الاحمدیہ کو چاہیئے کہ بچوں اور نوجوانوں میں اسلامی اخلاق پیدا کریں خطبه جمعه فرموده ۲۸ فروری ۱۹۴۱ء)
258 دنیا میں ہر ایک چیز کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن ہوتا ہے.ظاہر اپنی جگہ پر ایک ضروری چیز ہے اور باطن اپنی جگہ پر ایک ضروری چیز ہے اور ان دونوں کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسے انسان کے لئے جسم اور روح دونوں کا وجود نہایت اہم ہوتا ہے.روح بغیر جسم کے خواہ وہ کتنا ہی لطیف کیوں نہ ہو کوئی کام نہیں کر سکتی اور جسم بغیر کسی روح کے کوئی اختیاری فائدہ نہیں پہنچا سکتا.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی قسم کا بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا کیونکہ جس قسم کے فوائد کسی جسم میں پائے جاتے ہیں وہی اس کی روح بھی کہلا ئیں گے.مثلاً پاخانہ ایک فضلہ ہے جو پھینک دیا جاتا ہے مگر فضلہ میں بھی ایک روح موجود ہوتی ہے اور وہ روح زمین کی قوت پرورش کو بڑھانے کی طاقت ہے جو اس میں پائی جاتی ہے.پس وہ خالی جسم نہیں بلکہ اس میں روح بھی ہے.ہاں اگر کھا د بلحاظ کھاد کے مر چکی ہو یعنی وہ ایسے رنگ میں خراب ہو چکی ہو کہ وہ کھاد کا کام بھی نہ دے سکے تو وہ بے شک وہ جسم بے روح کہلائے گی.ورنہ ہر روح جسم کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے یہاں تک کہ جب لوگ خواب دیکھتے ہیں تو اس وقت بھی صرف روح کوئی نظارہ نہیں دیکھتی بلکہ خواب میں اس روح کو ایک نیا جسم مل جاتا ہے اور روح اس جسم کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے.مثلاً جب تم خواب میں دیکھتے ہو کہ تم لا ہو ر جار ہے ہو یا خواب میں دیکھتے ہو کہ تم ہوا میں اڑ رہے ہو یا خواب میں دیکھتے ہو کہ تم دریا میں تیر رہے ہو یا خواب میں دیکھتے ہو کہ تم کسی دور دراز کے سفر پر جا رہے ہو یا خواب میں دیکھتے ہو کہ تم کوئی چیز کھا رہے ہو.تو اس وقت تمہارا جسم چار پائی پر ہی ہوتا ہے.تم بے شک اپنے آپ کو دیکھتے ہو کہ تم دریا میں تیر رہے ہو لیکن تمہارا جسم اس وقت کسی دریا میں نہیں بلکہ چارپائی پر ہوتا ہے.اسی طرح تم بے شک دیکھتے ہو کہ تم سفر پر جارہے ہو لیکن تمہارا جسم چار پائی پر ہی پڑا ہوا ہو تا ہے.مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تم خواب میں اپنے آپ کو تیرتے دیکھتے ہو یا یہ دیکھتے ہو کہ تم کہیں سفر پر جا رہے ہو تو تم خالی روح نہیں دیکھتے بلکہ اپنے ساتھ اپنا ایک جسم بھی دیکھتے ہو اسی طرح جب تم اپنے آپ کو ہوا میں اڑتے دیکھتے ہو تو اس وقت خالی روح نہیں ہوتی بلکہ ایک جسم کو بھی اپنے ساتھ دیکھتے ہو.اسی طرح خواب میں جب تم کوئی چیز کھاتے ہو یا کوئی چیز پیتے ہو یا کسی سے لڑتے ہوئے اپنے آپ کو دیکھتے ہو یا کسی سے صلح کرتے ہوئے اپنے آپ کو دیکھتے ہو یا کسی سے محبت کرتے ہوئے اپنے آپ کو دیکھتے ہو تو تم اپنا ایک جسم بھی محسوس کرتے ہو.یہ نہیں ہو تاکہ صرف روح ہی ہو اور جسم اس کے ساتھ کوئی نہ ہو.پس وہ جسم ایک علیحدہ چیز ہوتا ہے.تمہارا ظاہری جسم نہیں ہو تا کیونکہ یہ جسم تو اس وقت چار پائی پر پڑا ہوا ہو تا ہے اور یہ بالکل ناممکن ہے کہ ایک ہی جسم ایک وقت میں چار پائی پر بھی ہو اور دریا میں بھی تیر رہا ہو یا چار پائی بھی ہو اور پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہو یا چارپائی پر بھی ہو اور دور دراز کا سفر بھی کر رہا ہو یا چار پائی پر پڑا سو بھی رہا ہو اور کسی سے لڑ جھگڑ بھی رہا ہو یا ایک ہی وقت میں وہ تندرست بھی ہو اور بیمار بھی ہو.غرض وہ ایک نیا جسم ہوتا ہے جو روح کو ملتا ہے کیونکہ روح بغیر جسم کے نہیں رہ سکتی.اسی طرح مرنے کے بعد ہر شخص کو ایک نیا جسم ملے گا.وہاں خالی روح نہیں ہوگی بلکہ ایک جسم بھی اس کے ساتھ ہو گا اور وہ جسم لطیف ہو گا جیسے خواب میں انسان کو ایک
259 لطیف جسم ملتا ہے.خواب میں جسم تو ایسا لطیف ہوتا ہے کہ انسان تو یہ دیکھ رہا ہو تا ہے کہ وہ ہزاروں کا مقابلہ کر رہا ہے یا دریا میں تیر رہا ہے یا پہاڑوں سے گزر رہا ہے یا بڑے بڑے ہاتھیوں اور گھوڑوں کو وہ ایک چپت رسید کرتا ہے اور وہ تمام اس کے مطیع اور فرمانبردار ہو جاتے ہیں.مگر اس کے پاس لیٹی ہوئی بیوی اور اس کے بچے ان نظاروں میں سے کوئی نظارہ بھی نہیں دیکھ رہے ہوتے.یہ تو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ میں ہزاروں انسانوں کے ساتھ لڑ رہا ہوں اور وہ یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اس کی ناک پر مکھی بھن بھن کر رہی ہے اور یہ اسے اڑا بھی نہیں سکتا.وہ تو دیکھتا ہے کہ میں سفر کر کے ہزاروں میل دور نکل گیا ہوں اور یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اس نے ایک کروٹ تک نہیں بدلی.پس وہ جسم جو انسان کو خواب میں ملتا ہے ، ایک روحانی جسم ہوتا ہے جسے وہ خود تو دیکھ رہا ہوتا ہے مگر اس کے بیوی بچوں کو نظر نہیں آتا کیونکہ انسان کی مادی آنکھیں صرف کثیف جسم دیکھنے کی طاقت رکھتی ہیں.اسی وجہ سے جن باتوں کو ایک خواب دیکھنے والا شخص اپنی روحانی آنکھوں حیات بعد الممات کی وضاحت سے دیکھتا یا اپنے روحانی کانوں سے سنتا ہے انہیں جسمانی آنکھیں نہیں دیکھتیں اور نہ جسمانی کان ان باتوں کو سن سکتے ہیں.پس وہ ایک جسم تو ہو تا ہے مگر اس جسم سے بہت اعلیٰ اور وہ ان آنکھوں سے نظر نہیں آسکتا.پھر صرف خواب پر ہی منحصر نہیں.اس دنیا میں بھی اس قسم کی کئی چیزیں پائی جاتی ہیں.مثلاً میں نے اس وقت عینک لگائی ہوئی ہے اگر عینک کے شیشہ میں سے میں ایک سلائی گزاروں تو وہ نہیں گزرے گی.مگر میری آنکھ کی بینائی اس میں سے گزر رہی ہے اور مجھے پتہ بھی نہیں چلتا کہ میری آنکھوں اور لوگوں کے درمیان کوئی چیز حائل ہے.پس باوجود اس کے کہ میری آنکھوں اور لوگوں کے درمیان ایک روک حائل ہے اور ۱۰/ ۱ یا ۱/۱۲ اینچ کا شیشہ آنکھ کے سامنے ہے میں سب کو دیکھ رہا ہوں حالانکہ بظاہر یہ چاہئے تھا کہ مجھے اس روک کی وجہ سے کچھ نظر نہ آتا.مگر حالت یہ ہے کہ مجھے اس شیشہ کی وجہ سے بجائے کچھ نظر نہ آنے کے زیادہ نظر آ رہا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ شیشے کا جسم کثیف نہیں بلکہ وہ ایک شفاف جسم ہے اور میری بینائی کے رستہ میں روک نہیں بلکہ بوجہ اس کے کہ اس کی ساخت اور اس کا شیشہ میری آنکھ کے مطابق ہے وہ میری بینائی کو تیز کر رہا ہے.تو دنیا میں خدا تعالیٰ نے ایسی مادی چیزیں بھی رکھی ہوئی ہیں کہ جن میں سے دوسری چیز نظر آجاتی ہے اور وہ روک نہیں بنتیں.مثلاً اگر تم لیمپ جلاؤ اور اس پر چمنی نہ ہو تو اس میں سے تمہیں اندھیرا سادکھائی دے گا اور اس سے دھواں اٹھتا ر ہے گا.لیکن جو نہی تم اس پر چمنی رکھو اس کی روشنی بیسیوں گنا بڑھ جائے گی.حالانکہ چمنی بظا ہر ماس کی روشنی میں روک بنتی ہے.مگر چونکہ اس کو جو جسم ملتا ہے وہ نہایت شفاف قسم کا ہوتا ہے.اس لئے بوجہ شفاف ہونے کے وہ اس روشنی کو روکتا نہیں بلکہ اسے زیادہ اچھا بنا دیتا ہے.اسی طرح خواب میں انسان کو جو روحانی جسم ملتا ہے وہ بھی ایک شفاف چیز ہوتی ہے اور اس وجہ سے گووہ جسم کا ہی کام دیتی ہے مگر اس دنیا کے لوگ اسے دیکھ نہیں سکتے.وہ صرف ظاہری جسم کو دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں.ان کی بینائی ایسی تیز نہیں ہوتی کہ وہ ان مادی آنکھوں سے روحانی جسم کو بھی دیکھ سکیں.یہی حال اگلے جہان میں ہو گا اور وہاں ہر انسان کو لطیف قسم کا
260 ایک روحانی جسم ملے گا.بلکہ وہاں کا جہان چونکہ اس جہان سے بہت زیادہ لطیف اور وسیع ہے اس لئے خواب کی حالت میں انسان کو جو جسم ملتا ہے وہ جسم اس سے بھی زیادہ شفاف اور مصفی ہو گا اور اسی لئے وہ جسم ان آنکھوں اور قومی سے نظر نہیں آسکتا.تو ہر چیز کے لئے ایک جسم کی ضرورت ہوتی ہے مگر وہ جسم اپنی اپنی حالت کے مطابق بدلتے چلے جاتے ہیں.جتنی روح کثیف ہوتی ہے اتنا ہی اس کو جسم کثیف ملتا ہے اور جتنی روح شفاف ہوتی ہے اتنا ہی اس کو جسم بھی شفاف ملتا ہے.چنانچہ روح کی حالت جو خواب میں ہوتی ہے وہ اس سے زیادہ صاف ہوتی ہے جو جاگتے ہوئے روح کی حالت ہوتی ہے اور مرنے کے بعد جو حالت ہوگی وہ خواب کی حالت سے بھی زیادہ مصفی اور اعلیٰ ہو گی اور انسان کو خواب کے جسم سے بھی زیادہ شفاف جسم اللہ تعالیٰ کے طرف سے عطا کیا جائے گا.بہر حال ہر روح کے لئے ایک جسم ضروری ہوتا ہے اور کوئی جسم روح کے بغیر کار آمد نہیں ہو سکتا.جس طرح دنیا میں ہر انسان کا ایک مادی جسم ہوتا ہے اور جسم میں روح ہوتی ہے عبادات کا ظاہر اور باطن اسی طرح مذہب اور روحانیت کے بھی جسم ہوتے ہیں اور انسان کی ذہنی اور دماغی ترقیات کے بھی جسم ہوتے ہیں.مثلاً اسلام نے نماز کی ادائیگی کے لئے بعض خاص حرکات مقرر کی ہوئی ہیں.اب اصل غرض تو نماز کی یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو.اس کی صفات کو انسان اپنے ذہن میں لائے اور ان کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کرے.اس کا قرب اسے حاصل ہو اور اس کا عشق اس کی غذا ہو.ان باتوں کا ہاتھ باندھنے یا سیدھا کھڑے ہونے یا زمین پر جھک جانے سے کیا تعلق ہے ؟ ظاہر ہے کہ انسان اگر سرسری نگاہ سے اس بات کو دیکھے تو اسے نماز کی اصل غرض کے مقابلہ میں یہ باتیں بظاہر بے جوڑ دکھائی دیں گی.مگر چونکہ کوئی روح جسم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی اس لئے خدا تعالیٰ نے جہاں نماز کا حکم دیا وہاں بعض خاص قسم کی حرکات کا بھی حکم دے دیا.جن مذاہب نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا اور انہوں نے اپنے پیروؤں کے لئے عبادت کرتے وقت حرکات کو ضروری قرار نہیں دیا وہ رفتہ رفتہ عبادت سے ہی غافل ہو گئے ہیں اور اگر ان میں کوئی نماز ہوتی بھی ہے تو ایک تمسخر سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.مثلا عیسائیوں میں یہ طریق ہے کہ وہ ہفتہ میں ایک دن عبادت کے لئے گر جا میں اکٹھے ہوتے ہیں.پادری لیکچر دیتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہتے ہیں.بلکہ بعض تو لکھتے ہیں کہ گرجوں میں نوجوان تو صرف نوجوان عورتیں دیکھنے کے لئے جاتے ہیں.اس سے زیادہ ان کے جانے کی اور کوئی غرض نہیں ہوتی.گویا ان کے مذہب نے عبادت کا ایک تھوڑا سا حصہ جو رکھا تھا اسے بھی ان لوگوں نے ملاقات کا ذریعہ اور مقام بنالیا اور عبادت کی غرض و غایت کو بالکل فراموش کر دیا.یہی وجہ ہے کہ صحیح رنگ میں خدا تعالٰی کی عبادت کرنے والے عیسائیوں میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں.اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لئے روزانہ پانچ وقت کی نمازیں مقرر نماز اور گر جا کی عبادت میں فرق ہیں اور باوجود اس کے کہ ایک مسلمان کو دن رات میں پانچ مرتبہ بیت الذکر میں جانا پڑتا ہے اور عیسائی ہفتہ میں ایک مرتبہ گر جا جاتے ہیں.بیوت الذکر گرجوں کی نسبت زیادہ بھری ہوئی
261 ہوتی ہیں بلکہ اس گئی گذری حالت میں بھی بیت الذکر میں جانے والے مسلمان زیادہ ملیں گے اور گر جائیں جانے والے عیسائی کم ملیں گے اس لئے کہ ان کے لئے بعض قواعد اور اصول وضع کر دیئے گئے ہیں اور ان قواعد اور اصول کو پورا کرتے ہوئے جو شخص بیت الذکر میں جاتا ہے وہ لازماً اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے.اگر خالی دل کی عبادت ہی کافی سمجھ لی جاتی تو نتیجہ یہ ہو تاکہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح ست ہو جاتے اور تھوڑے ہی عرصہ میں وہ نماز سے بالکل غافل ہو جاتے.کیونکہ کسی کو یہ کہنے کے لئے کہ میں دل میں خدا تعالی کو یاد کر رہا ہوں انسان جھوٹ سے بھی کام لے سکتا ہے مگر ایک مسلمان ایسا نہیں کہہ سکتا.کیونکہ پہلے وضو کرنا پھر چل کر مسجد میں آنا اور پھر تمام لوگوں کا اکٹھے ہونا اور اس طرح اجتماعی رنگ میں سب کا عبادت کرنا ایسی باتیں ہیں جو نماز سے غافل نہیں ہونے دیتیں اور اگر کوئی غفلت کرے تو وہ فورا نظر آجاتا ہے.چنانچہ غور کر کے دیکھ لو مسلمانوں میں ایسے لوگ بہت کم ہوں گے جو کبھی بھی مسجد نہ جا ئیں.بہت سے لوگ تو ایسے ہیں جو پانچ وقت مسجد میں جاتے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور جو اس میں کسی قدرست ہیں.وہ تین یا چار نمازوں میں چلے جاتے ہیں اور جو اس سے بھی زیادہ ست ہیں وہ دو وقت کی نماز میں شامل ہو جاتے ہیں اور جو اس کے بھی پابند نہیں وہ ایک نماز میں شامل ہو جاتے ہیں.اور اگر کوئی کسی نماز کے لئے بھی بیت الذکر میں نہ جائے تو جمعہ پڑھنے کے لئے ضرور چلا جاتا ہے اور جو جمعہ کا بھی پابند نہیں ہو تاوہ عیدین میں شامل ہو جاتا ہے.بہر حال کسی نہ کسی نماز میں وہ ضرور شامل ہوتا ہے.اور ایسے لوگ مسلمانوں میں بہت ہی کم ملیں گے جنہوں نے دو دو یا چار چار سال تک کوئی ایک نماز بھی نہ پڑھی ہو.اس کے مقابلہ میں لاکھوں لوگ ایسے مل جائیں گے جنہوں نے چالیس چالیس سال تک گرجے کا منہ نہیں دیکھا ہو گا.یہی حال ہندوؤں وغیرہ کا ہے.ان میں بھی عبادت کا بہت کم رواج ہے.جنہوں نے بت خانے بنا کر ان پر پھول چڑھانا اور ان کے آگے سجدہ کرنا عبادت قرار دیا ہے ، ان میں تو پھر بھی عبادت زیادہ پائی جاتی ہے.مگر آریوں نے چونکہ اس طریق کو غلط قرار دے دیا اس لئے اب ہزاروں میں سے کوئی ایک آریہ ہی ہو گا جو دیا نند جی کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عبادت کرتا ہو.اخباروں میں وہ شور مچائیں گے.جلسوں میں وہ تقریر میں کریں گے.مذہب کی سچائی پر وہ دھواں دھار لیکچر دیں گے.مگر ان میں سے شاید کوئی ایک سور ما اور قومی خادم ایسا نکلے گا جو سال بھر میں ایک دفعہ دیا نند جی کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق عبادت کرنے والا ہو.تو ظاہری جسم بھی ایک بڑی مفید اور کار آمد چیز ہے اور جن قوموں نے عبادت میں جسم کو شامل نہیں کیا وہ رفتہ رفتہ عبادت سے بالکل غافل ہو گئی ہیں.اسی طرح عبادت میں روزہ شامل ہے اور ظاہر ہے کہ دیگر اسلامی عبادات کی فضیلت اور برتری بھوکا پیاسا رہنا ایک جسم ہے روح نہیں.چنانچہ رسول کریم میل و یا لیلی فرماتے ہیں کہ اصل روزہ تو دل کا روزہ ہے مگر چونکہ خالی دل کا روزہ کوئی انسان نہیں رکھ سکتا.اس لئے خدا تعالیٰ نے بھوکا پیاسا رہنا بھی ضروری قرار دے دیا.پھر حج ایک عبادت ہے اور اس کی اصل غرض یہ ہے
262 کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو توڑ کر دل سے خدا کا ہو جائے.مگر اس غرض کو پورا کرنے کے لئے خدا تعالٰی نے ایک ظاہری حج بھی رکھ دیا اور صاحب استطاعت لوگوں پر یہ فرض قرار دے دیا کہ وہ گھر بار چھوڑ کر مکہ جائیں.سب مسلمان جمع ہوں اور اس طرح اپنے وطن اور عزیز و اقربا کی قربانیوں کا سبق سیکھیں.بے شک حقیقی حج یہی ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو منقطع کر کے خدا کا ہو جائے مگر اس کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک ظاہری جسم بھی رکھ دیا.یہی حال صدقہ و خیرات کا ہے.حقیقی طہارت اور پاکیزگی تو انسان کے خیالات کی ہے.لیکن اس کے ساتھ خدا تعالٰی نے مال کی پاکیزگی بھی ضروری قرار دے دی کیونکہ اس کے بغیر اسے جسم حاصل نہیں ہو سکتا.اگر خالی لوگوں کی خیر خواہی کا حکم دے دیا جاتا تو لوگ اس حکم کو بھول جاتے مگر اب چونکہ خدا تعالیٰ نے اس خیر خواہی کا یہ نشان رکھ دیا ہے کہ انسان غریبوں کو صدقہ و خیرات دے اس لئے جب بھی وہ روپیہ دینے لگتا ہے اسے یہ حکم یاد آجاتا ہے اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ اصل حکم یہ ہے کہ میں سب کا خیر خواہ بنوں اور حتی المقدور انہیں فائدہ پہنچاؤں.ور نہ انسان ان سے تو محبت کیا ہی کرتا ہے جن سے اس کے دوستانہ تعلقات ہوں.اسلام یہ ایک زائد حکم دیتا ہے در کہ انسان ان سے بھی حسن سلوک کرے جن سے اسے کوئی فائدہ نہ پہنچا ہو بلکہ جن سے فائدہ پہنچنے کی کوئی امید بھی نہ ہو.اور یہ نیکی قائم نہیں رہ سکتی تھی جب تک وہ صدقہ و خیرات نہ دے اور جب تک وہ عملاً غرباء اور مساکین سے حسن سلوک نہ کرے.پس غریبوں کی محبت کا خیال اور ان سے حسن سلوک کرنے کی تعلیم جو ہے اسے قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے صدقہ و خیرات کا حکم دے دیا.اب جو شخص سال بھر میں ایک دفعہ زکوۃ دیتا ہے یا و قانو قا صدقہ و خیرات دیتا رہتا ہے اس کے دل میں تو غریبوں کی محبت رہ سکتی ہے.مگر جو ایسا نہیں کرتا اس کا دل بھی غریبوں کی محبت سے خالی ہو جاتا ہے.اسی طرح خدا نے روحانیت کے جو جسم بنائے ہیں ان میں سے ایک جسم اخلاق روحانیت کا جسم ہیں اخلاق ہیں.اخلاق روحانیت کا نام نہیں اور نہ روحانیت اخلاق کا نام ہے.مگر اخلاق روحانیت کے لئے بمنزلہ جسم ضرور ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات انسان کو نظر نہیں آتی.صرف اس کا حسن اس کی صفات پر غور کر کے نظر آسکتا ہے.پس چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات مخفی اور وراء الوراء ہے.اس لئے اس نے اپنی محبت بندوں کی محبت اور ان کے ساتھ نیک تعلقات رکھنے سے وابستہ کر دی ہے.جب ان میں سے ایک چیز کو تم حاصل کر لو گے تو لا زماد دوسری چیز بھی تمہیں حاصل ہو جائے گی.گویا یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں.جسے براہ راست خدا تعالیٰ کی محبت حاصل ہو گی وہ خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا ہونے کے بعد بندوں کی محبت سے اپنے دل کو لبریز پائے گا.جیسے رسول کریم ملی الا اللہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنی فتدلی.یعنی ہمارا یہ رسول پہلے خدا کے قریب ہوا اور پھر نیچے اترا.گویا خدا کی محبت محمد سلیم کو پہلے حاصل ہوئی اور پھر اس کے ساتھ ہی بنی نوع انسان کی محبت آپ کے دل میں ایسی پیدا ہوئی کہ آپ اس جذبہ کو برداشت نہ کر سکے اور ان کی ہدایت کی طرف متوجہ ہو گئے.مگر کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جنہیں پہلے بنی نوع انسان کی محبت
263 حاصل ہوتی ہے اور پھر وہ خدا تعالیٰ کی محبت کی طرف لوٹتے ہیں.گویا روحانی کمال کے حصول کے دونوں ذریعے ہیں.کبھی خدا سے پہلے محبت ہوتی ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے دل میں بندوں کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور خدا سے محبت اس کے بعد پیدا ہوتی ہے.محمد م کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوئی اور پھر وہی محبت بنی نوع انسان کی.یہ محبت وہی ہوتی ہے.مگر جن کو کسب سے محبت حاصل ہوتی ہے ، ان کے دل میں پہلے بنی نوع انسان سے محبت پیدا ہوتی ہے اور وہ ان کے لئے ہر قسم کی قربانی کرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان کے تعلقات بنی نوع انسان سے کامل ہو جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ سے بھی ان کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے.پس خدا تعالی کو پانے کے لئے یہ دونوں ذرائع ہیں.کوئی خدا کو اس طرح پالیتا ہے اور کوئی اس طرح.کوئی خدا سے مل کر بندوں کو پالیتا ہے اور کوئی بندوں سے مل کر خدا کو پالیتا ہے.جہاں وہب ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل انسان کے شامل حال ہوتا ہے.وہاں پہلے خدا کی محبت ملتی ہے اور پھر بندوں کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے اور جہاں کسب اور محنت کا دخل ہو وہاں پہلے بندوں کی محبت پیدا ہوتی ہے اور پھر خدا کی محبت.گویا ایک تو نیچے سے اوپر جاتا ہے اور دوسرا اوپر سے نیچے آتا ہے.تو ان اخلاق کا اپنے اندر پیدا کرنا دین کی حفاظت کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے.یہ اخلاق آگے کئی قسم کے ہوتے ہیں.بعض براہ راست بنی نوع انسان سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض بالواسطہ تعلق رکھتے ہیں.مثلاً غریب کی مدد کرنا.یہ تو ہر شخص کو نظر آتا ہے کہ ایک ثواب کا کام ہے اور اس کا دوسروں کو فائدہ پہنچتا ہے.مگر سچ کے متعلق انسان نہیں سمجھتا کہ ان کے بولنے سے بنی نوع انسان کا کیا فائدہ ہو گا.حالانکہ سچ بولنا بھی انہی نیکیوں میں ہے جن سے انسان کو فائدہ پہنچتا ہے.جو شخص سچ نہیں بولے گا وہ لازماً دوسرے کو دھوکا دے گا اور دھو کا ایک ایسی چیز ہے جس سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے.مثلاً ایک شخص کسی سے پوچھے کہ فلاں شخص قادیان میں ہے جو لا ہو ر گیا ہوا ہے اسے معلوم ہو کہ وہ لا ہو ر گیا ہوا ہے مگر جھوٹ بول دے اور کہہ دے کہ قادیان میں ہی ہے.تو اب دوسرا شخص اس سے ملنے کے لئے جائے گا.فرض کرو.اس کا مکان میل بھر دو ر ہے تو وہ ایک میل کا چکر کاٹ کر اس کے مکان پر پہنچے گا اور جب اس کے متعلق دریافت کرے گا تو گھر سے پتہ لگے گا کہ وہ تو کل کا لا ہو ر گیا ہوا ہے.اب خود ہی سوچو کہ اس نے جھوٹ بول کر ایک شخص کو کتنا نقصان پہنچایا.یا فرض کرو ایک شخص نے مثلاً زید سے معاہدہ کیا ہوا تھا کہ تم لاہور چلو میں وہاں تم سے کل چل کر مل جاؤں گا.اب جب کل آتا ہے اور وہ شخص ایک تیسرے شخص سے اس بارہ میں پوچھتا ہے کہ کیا وہ لاہور چلا گیا ہے اور جب وہ جھوٹ بول کر کہتا ہے کہ نہیں تو لا زمان یہ شخص بھی اب لاہور نہ جائے گا اور دوسرے شخص کے سامنے جھوٹا بنے گا اور اس دوسرے شخص کا بھی سفر ضائع جائے گا.تو بظا ہر انسان یہ خیال کرتا ہے کہ سچ بولنے کا کسی دوسرے کے ساتھ کیا تعلق ہے.حالانکہ اگر ایک شخص سچ بولتا ہے تو وہ سب کو آرام پہنچاتا ہے اور اگر ایک شخص جھوٹ بولتا ہے تو وہ سب کو تکلیف پہنچاتا ہے.اسی طرح محنت کرنا بھی انہی اخلاق میں سے ہے جن کا دوسروں کے ساتھ تعلق ہوتا.
264 ہے.بظاہر انسان سمجھتا ہے کہ میں کام کروں یا نہ کروں.دوسروں کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے.حالانکہ وہ مشین کا ایک پر زہ ہوتا ہے اور اس کی خرابی کے ساتھ ساری مشین کی خرابی اور اس کی عمدگی کے ساتھ ساری مشین کی عمدگی وابستہ ہوتی ہے.اگر یہ پر زہ ناکارہ ہو گا تو مشین پر لازماً اثر پڑے گا.جیسے دو بیل ایک گاڑی میں جتے ہوئے ہوں تو کیا ایک کہہ سکتا ہے کہ یہ عمل میری مرضی پر منحصر ہے کہ میں چلوں یا نہ چلوں.وہ دونوں چلیں گے تو گاڑی چلے گی.اور اگر ان میں سے کوئی ایک بھی رہ جائے گا تو گاڑی نہیں چل سکے گی.اسی طرح تمام بنی نوع انسان مشین کے پرزے ہیں.ایک ملک کے رہنے والے اپنی حدود میں مشین کے پرزے ہیں اور ایک شہر کے رہنے والے ان پر زوں سے زیادہ قریب کے پرزے ہیں.اگر ان میں سے ایک بھی صحیح طور پر اپنے فرائض کو سرانجام نہیں دے گا تو لازماً اس کا دوسروں پر بھی اثر پڑے گا.قادیان میں اس کی مثالیں کثرت سے ملتی رہتی ہیں.ایک شخص محنت نہیں کرتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کے گزارہ کی کوئی صورت اختیار کرتا ہے.لوگ اسے سمجھاتے ہیں کہ دیکھو مزدوری کرو محنت کرو اور اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا انتظام کرو.مگر وہ کہتا ہے کہ تم کو کیا میں محنت کروں یا نہ کروں یہ میرا اختیار ہے.تمہیں اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے.اب بظا ہر یہ جواب صحیح معلوم ہو تا ہے مگر جب نتیجہ دیکھا جائے تو اس کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے اور وہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اس کی بیوی بچے کہتے پھرتے ہیں کہ ہم بھو کے مر گئے.ہمارا کوئی خیال کرے.اب ایک تو وہ غریب یتیم ہوتے ہیں جن کو کما کر کھلانے والا کوئی نہیں ہوتا اور ایک یہ غریب ہوتے ہیں کہ ان کا کمانے والا موجود ہے مگر وہ کماتا نہیں اور محنت سے جی چراتا ہے.اگر وہ محنت سے کام کرتا اور خود کما کر بیوی بچوں کو کھلا تا تو صدقہ و خیرات کا ایک حصہ اس کے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کی بجائے ان غرباء پر خرچ کیا جاتا جن کو کما کر کھلانے والا کوئی نہیں اور حق محقدار رسید پر عمل ہو تا.لیکن اگر بعض گھروں میں کمانے والے تو موجود ہیں مگر وہ کما کر نہ لائیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ صدقہ و خیرات کی رقم بٹ جائے گی اور کچھ تو ان غرباء کو ملے گی جن کا کمانے والا کوئی نہیں اور کچھ ان کو ملے گی جن کے کمانے والے تو ہیں مگر وہ محنت نہیں کرتے اور اس طرح اصل مستحقین کی روٹی آدھی ہو جائے گی.آخر محلے والوں کے پاس کوئی جادو تو نہیں ہو تاکہ وہ جتنا روپیہ چاہیں دوسروں کو دے دیں.وہ اپنے اخراجات میں سے تنگی برداشت کر کے کچھ روپیہ بچاتے اور غرباء کو دیتے ہیں.مگر یہ سکتے لوگ غرباء کے حصہ کو کھا جاتے اور اپنی قوم اور اپنے محلہ والوں پر ایک بوجھ بنے رہتے ہیں.اگر اس قسم کے لوگوں کے بیوی بچے دوسروں سے مانگیں نہ اور یہ نہ کہیں کہ ہمیں کچھ دو ہم بھوکے مر رہے ہیں تو کم از کم یہ ضرور کہیں گے کہ ہمیں اتنا ادھار دو.جو لوگ شریف ہوتے ہیں وہ ان کو دے تو دیتے ہیں مگر دل میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ نہ ان لوگوں نے روپیہ کمانا ہے اور نہ اس سے ہمیں واپس مانا ہے.اب دیکھ لو محنت کرنے کا اثر قوم پر پڑایا نہیں.پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ بیوی بچوں کو قادیان میں چھوڑ کر آپ کہیں باہر بھاگ جاتے ہیں.نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ ان کے بیوی بچے سلسلہ پر بار بن جاتے ہیں اور پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کے پاس چٹھیوں پر چٹھیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں کہ ہم بھو کے مر
265 گئے.ہمارا کوئی انتظام کیا جائے.اب بظاہر تو ایسا شخص جو بیوی بچوں کو قادیان میں بٹھا کر آپ کہیں غائب ہو جائے کہہ سکتا ہے کہ کسی کو مجھ پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے.بیوی بچے چھوڑے ہیں تو میں نے اور اگر مریں گے تو میرے بیوی بچے مریں گے نہ کہ کسی اور کے.لیکن اگر یہی اصل قوم اختیار کرلے اور ان کی طرف توجہ نہ افراد کا محنت نہ کرنا ایک قومی جرم ہے کرے تو آیا تمام جماعت ایک ملامت کے نیچے آجائے گی یا نہیں کہ فلاں آدمی بھوکے مر گئے اور جماعت نے ان کی طرف کوئی توجہ نہ دی.تو یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ لوگوں کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے.ان کا تعلق ہے اور ضرور ہے کیونکہ اگر وہ ان کی خبر نہ لیں تو بد نام ہو جائیں.پس قوم ان کی خبر گیری کرنے پر مجبور ہوتی ہے.حالانکہ اگر ایسے لوگ خود محنت کریں اور مشقت کا کام کر کے اپنی روزی کمائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اور ان کے بیوی بچے قوم پر بار ثابت ہوں.پس محنت نہ کرنا بھی کسی کا ذاتی فعل نہیں بلکہ ایک قومی جرم ہے.اسی طرح گو آج کل یہ بات کسی قدر کم ہو گئی ہے مگر پہلے بالعموم مسلمان تاجر اور کارخانہ دار بھی ہندوؤں کو ملازم رکھتے تھے ، مسلمانوں کو نہیں اور جب پوچھا جائے کہ مسلمانوں کو ملازم کیوں نہیں رکھتے تو ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ کوئی مسلمان دیانتدار نہیں ملتا.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.مسلمانوں میں بھی بڑے بڑے دیانتدار لوگ پائے جاتے ہیں.مگر جانتے ہو اس کی تہہ میں کیا بات ہے.اصل بات یہ ہے کہ جب مسلمانوں کا ایک حصہ بعض افراد کی غلطیوں سے قومیں بدنام ہو جاتی ہیں بد دیانت ہو گیا تو اس نے باقیوں کو بھی بد دیانت مشہور کر دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ چند بد دیانت اور خائن مسلمانوں کی وجہ سے سب مسلمانوں کو نوکری ملنا مشکل ہو گئی.گویا ان بد دیانتوں نے نہ صرف اپنا ہی رزق بند کیا بلکہ دوسرے مسلمانوں کے رزق کو بھی بند کیا.لوگوں میں یہ عام رواج ہوتا ہے کہ جب انہیں کسی شخص سے نقصان پہنچتا ہے تو وہ اس کی تمام قوم کا نام لے کر کہتے ہیں کہ وہ سب قوم ایسی ہی ہے.ہم اپنے کاموں میں بھی دیکھتے ہیں کہ جہاں کسی احمدی سے کوئی غفلت ہوتی ہے سب لوگ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ بس جی دیکھ لیا احمدی ایسے ایسے ہوتے ہیں.بلکہ خود بعض دفعہ احمدی بھی اس قسم کے الفاظ اپنی زبان سے نکال دیتے ہیں.اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ایسے مقامات میں بعض کار خانے اوروں کو ملازم رکھ لیتے ہیں مگر احمد یوں کو نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ احمدی اچھے نہیں ہوتے ہیں.اب کوئی احمدی ایسا ہوا ہو گا جس نے اپنا برا نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہو گا.مگر اس ایک کی وجہ سے بد نام ساری قوم ہوئی.لیکن اگر اس میں محنت کی عادت ہوتی.اگر وہ دیانت اور امانت کے ساتھ کام کرنے کا عادی ہو تا تو نہ صرف وہ اپنی روٹی کما سکتا بلکہ دوسرے احمدیوں کی روٹی کا بھی انتظام ہو جاتا.کیونکہ لوگ کہتے یہ احمدی تھا جس نے بڑی دیانتداری سے کام کیا.اب اور کاموں پر بھی ہم احمدیوں کو ہی مقرر کریں گے تاکہ ہمارے کام خوش اسلوبی سے ہوتے رہیں.غرض اگر ایک آدمی اچھا کام کرتا ہے تو دوسرے کی روٹی کا دروازہ بھی کھل جاتا ہے اور اگر ایک آدمی اپنے فرائض کی
266 ادائیگی میں غفلت اور کو تاہی سے کام لیتا ہے تو اور لوگوں کی روٹی بھی بند ہو جاتی ہے.تو اخلاق میں سے بعض بظا ہر انسان کی اپنی ذات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.لیکن در حقیقت ان کا تعلق تمام قوم کے ساتھ ہو تا ہے.جیسے جھوٹ ہے یا سستی ہے یا غفلت ہے یا دھوکہ اور فریب ہے.یہ ساری بدیاں ایسی ہیں کہ جن کے متعلق بظاہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ ان کا صرف اس کی ذات کے ساتھ تعلق ہے حالانکہ وہ ویسے ہی قوم کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جینے ان کا تعلق اس کی ذات کے ساتھ ہوتا ہے اور اگر وہ ان اخلاق کی درستی نہ کرے تو تمام قوم کو نقصان پہنچتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں میں اخلاق کی طرف بہت ہی کم توجہ ہے.جماعت کے لئے اخلاق کی اہمیت بلکہ ابھی تک احمدیوں نے بھی اخلاق کی اہمیت کو نہیں سمجھا.میرے سامنے اس وقت تحریک جدید کے بورڈنگ کے بیچے بیٹھے ہیں.میں نے تحریک جدید کے مطالبات میں ایک شق اخلاق فاضلہ کی بھی رکھی ہوئی ہے.مگر میں نہیں سمجھتا کہ ان بچوں کے سپرنٹنڈنٹ اور اساتذہ وغیرہ اخلاق کی اہمیت کو ان پر پورے طور پر ظاہر کرتے ہیں.اس لئے تحریک جدید کے بورڈنگ سے نکل کر جو طالب علم باہر گئے ہیں.ان کے متعلق بھی کوئی زیادہ اچھی رپورٹیں نہیں آرہی ہیں حالانکہ ان کے ماں باپ کی اپنے بچوں کو تحریک جدید کے بورڈنگ میں داخل کرنے کی اصل غرض یہ تھی کہ تعلیم کے علاوہ ان کی اعلیٰ تربیت ہو.ان میں محنت کی عادت ہوتی.ان میں اعلیٰ درجہ کی دیانت پائی جاتی.ان میں ہمدردی کا مادہ ہو تا.ان میں سچ کا مادہ ہو تا.ان میں قربانی اور ایثار کا مادہ ہوتا.اسی طرح وہ ہر کام کے کرتے وقت عقل سے کام لیتے اور وقت کی پابندی کرتے اور یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ جب تک ان کو بار بار دہرایا نہ جائے اور جب تک بچوں کو ان باتوں پر عمل نہ کرایا جائے اس وقت تک وہ قوم اور دین کے لئے مفید ثابت نہیں ہو سکتے.یہ اخلاق ہی ہیں جو انسان کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتے ہیں.چنانچہ جن لوگوں کو محنت سے کام کرنے کی عادت ہوتی ہے وہ خواہ کسی ملک میں چلے جائیں انہیں کامیابی ہی کامیابی حاصل ہوتی چلی جاتی ہے.مگر جو ست ہوتے ہیں، انہیں گھر بیٹھے بھی کوئی کام نظر نہیں آتا.میں نے دیکھا ہے بعض افسر سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے محکمہ میں کوئی کام ہی نہیں.انہیں کبھی یہ سوچنے کی توفیق ہی نہیں ملتی کہ ہمارے سپرد جو کام ہوا ہے اس کی کیا کیا شاخیں ہیں اور کس طرح وہ اپنے کام کو زیادہ وسیع طور پر پھیلا سکتے ہیں اور اس کے شاندار نتائج پیدا کر سکتے ہیں.وہ صرف استاہی کام جانتے ہیں کہ رجڑوں اور کاغذات پر دستخط کئے اور فارغ ہو کر بیٹھ رہے.لیکن اسی جگہ اور اس دفتر میں جب کوئی کام کرنے والا افسر آتا ہے تو وہ اپنے کام کی ہزاروں شاخیں نکالتا چلا جاتا ہے اور اسے ہر وقت نظر آتا رہتا ہے کہ میرے سامنے یہ کام بھی ہے میرے سامنے وہ کام بھی ہے.یوروپین قوموں کو دیکھ لو.یہ جہاں جاتی ہیں انہیں کام نظر آجاتا ہے.ہندوستانی کہتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے.مگر یورپین لوگوں کو ہندوستان میں بھی دولت نظر آ رہی ہے اور وہ اس دولت کو سمیٹتے چلے جاتے ہیں.اسی طرح سیلونی کہتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے.مگر انگریزوں کو
267 سیلون میں بھی دولت دکھائی دیتی ہے.افغانی کہتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے مگر انگریزوں کو افغانستان میں بھی دولت دکھائی دیتی ہے.پھر عرب جیسے سنگلاخ خطہ اور اس کے جنگلوں میں بھی انگریزوں کو دولت دکھائی دیتی ہے.مصر جیسی وادی میں بھی انہیں دولت دکھائی دیتی ہے.چین جاتے ہیں تو وہاں دولت کمانے لگ جاتے ہیں.مگر چینی کہتے ہیں ہمیں کچھ نہیں ملتا.تو یہ انگریزوں کی نظر کی تیزی اخلاق فاضلہ سے حاصل ہوتی ہے نظر کی تیزی کا ثبوت ہے کہ وہ جہاں جاتے ہیں انہیں دولت دکھائی دینے لگ جاتی ہے اور یہ نظر کی تیزی اخلاق فاضلہ سے ہی حاصل ہوتی ہے.اگر کسی قوم میں اخلاق فاضلہ پیدا ہو جائیں تو اس کے افراد کی نظر اسی طرح تیز ہو جاتی ہے.غرض قربانی اور ایثار کا مادہ ایسی چیز ہے جو انسان کی ہمت کو بڑھاتا ہے.اور سچ بولنا ایک ایسا وصف ہے جو انسان کا اعتبار قائم کرتا ہے اور محنت کی عادت ایک ایسی چیز ہے جو کام کو وسعت دیتی ہے اور جب کسی شخص میں یہ اخلاق فاضلہ پیدا ہو جائیں تو ایسا آدمی ہر جگہ مفید کام کر سکتا اور ہر شعبہ میں ترقی حاصل کر سکتا ہے.پس میں تحریک جدید کے کارکنوں کو خصوصیت سے اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سچ بولنے کی اہمیت یہ امر طالب علموں کے ذہن نشین کرتے رہیں کہ انہیں ہمیشہ سچائی سے کام لینا چاہئے اور محنت کی عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے اور اس امر کو ان کے اتنا ذہن نشین کریں کہ یہ امران کے دل کی گہرائیوں میں اتر جائے کہ ان باتوں کو چھوڑنا ایسا ہی ہے جیسے طاعون میں گرفتار ہونا.آخر وجہ کیا ہے کہ ایک چور مل جاتا ہے تو وہ دوسرے کے دل میں چوری کی محبت پیدا کر دیتا ہے.ایک جھوٹا اور کذاب انسان مل جاتا ہے تو وہ دوسرے کو جھوٹ اور کذب بیانی کی عادت ڈال دیتا ہے.ایک ست اور غافل انسان کسی دوسرے کے پاس رہتا ہے تو اسے بھی اپنی طرح ست اور غافل بنا دیتا ہے.اگر ان بدیوں کے مرتکب اثر پیدا کر لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ کارکنوں کے دلوں میں سوز و گذار پیدا ہو جائے اور وہ اخلاق کی اہمیت کو سمجھ جائیں تو بچوں میں سچ بولنے کی عادت پیدا نہ کر سکیں.ان میں محنت کی عادت پیدا نہ کر سکیں اور کیوں بچے ان اخلاق فاضلہ سے دوری کو ایک عذاب نہ سمجھنے لگیں.اگر متواتر طالب علموں کو بتایا جائے کہ جھوٹ بولنا ایک عذاب ہے اور ایسا ہی ہے جیسا طاعون یا ہیضہ میں مبتلا ہو جانا.اگر متواتر طالب علموں کو بتایا جائے کہ سستی اور غفلت ایک عذاب ہے اور ایسا ہی ہے جیسے طاعون یا ہیضہ میں گرفتار ہو جانا یا بھڑکتی ہوئی آگ میں گر جانا.اسی طرح تمام اخلاق فاضلہ ان کے ذہن نشین کرائے جائیں تو کیا وجہ ہے کہ ان میں بیداری پیدا نہ ہو اور وہ صحیح اسلامی اخلاق کا نمونہ نہ بنیں.مگر اس کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ طالب علموں کے سامنے متواتر لیکچر دیئے جائیں اور انہیں بتایا جائے کہ جھوٹ کیا ہو تا ہے.سچ کیا ہو تا ہے.سچ بولنے کے کیا فوائد ہیں اور جھوٹ بولنے کے کیا نقصانات ہیں.میرے نزدیک سو میں سے نوے انسان یہ سمجھتے ہی نہیں کہ سچ کیا ہوتا ہے.یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جتنا زیادہ کسی بات کو دہرایا جائے اتنا ہی لوگ اس کو کم سمجھتے ہیں.تم کسی شخص سے پوچھو.حتی کہ کسی گاؤں کے رہنے والے شخص سے
268 بھی دریافت کرو کہ سینما کیا ہو تا ہے تو وہ ضرور اس کی کچھ نہ کچھ تشریح کر دے گا.لیکن اگر تم اس سے پوچھو کہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کی کیا تشریح ہے یا اسلام کو تم نے کیوں مانا تو وہ ہنس کر کہہ دے گا کہ یہ باتیں مولویوں سے دریافت کریں.آخر یہ فرق کیوں ہے اور کیوں وہ سینما کی تشریح تو کسی قدر کر سکتا ہے مگر یہ نہیں بتا سکتا ہے کہ اس نے اسلام کو کیوں قبول کیا اسی لئے کہ وہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کو ہر وقت رہتا رہتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مجھے اس کے سمجھنے کی ضرورت نہیں.مگر سینما کا لفظ وہ کبھی کبھی سنتا ہے اور اس لئے لوگوں سے پوچھ لیتا ہے کہ یہ سینما کیا چیز ہے.مگر لا الہ الا اللہ کو چونکہ اس نے بچپن سے سنا ہو تا ہے اس لئے وہ خیال کر لیتا ہے کہ مجھے اس کے متعلق کسی سے کچھ پوچھنے کی ضروت نہیں.تم میں سے کسی کے بچہ نے اگر ریل کو نہیں دیکھا اور کسی دن تم ریل دکھانے کے لئے لے جاؤ تو وہ جاتے ہی تم پر سوالات کی بوچھاڑ کر دے گا.اگر پنجابی ہو گا تو اپنے باپ سے کہے گا کہ باپو ایہہ کس طرح چلدی اے.کبھی کہے گا کیا یہ دھوئیں کے ساتھ چلتی ہے اور کبھی یہی خیال کرنے لگ جائے گا کہ اس کے اندر کوئی جن بیٹھا ہے جو اسے حرکت میں لاتا ہے.غرض وہ تھوڑے سے وقت میں تم سے بیسیوں سوالات کر دے گا.لیکن کیا اس نے کبھی تم سے یہ پوچھا کہ سورج کیوں بنا ہے ؟ اس کی روشنی کہاں سے آتی ہے ؟ اس کے اندر گرمی کس طرح پیدا ہوتی ہے اور اس کی روشنی اور گرمی ختم کیوں نہیں ہو جاتی؟ وہ کبھی تم سے یہ سوالات نہیں کرے گا.لیکن انجن کے متعلق تم سے بیسیوں سوالات کر دے گا.اس لئے کہ انجن اس نے ایک نئی چیز کے طور پر دیکھا ہے اور سورج کو اپنی پیدائش سے ہی وہ دیکھتا چلا آیا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے اس کے متعلق کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں.پس جتنی زیادہ کوئی چیز کسی انسان کے سامنے آتی ہے اتنا ہی وہ اس کی حقیقت اور ماہیت سے ناواقف ہوتا ہے.یہ ایک قانون ہے جو فطرت انسانی میں داخل ہے کہ جو چیز کبھی کبھار سامنے آئے گی اس کے متعلق وہ سوالات کی بوچھاڑ کر دے گا اور جو بار بار سامنے آتی رہے گی.اس کے متعلق وہ کبھی کوئی سوال نہیں کرے گا کیونکہ بار بار سامنے آنے سے دریافت کرنے کی حس ہی ماری جاتی ہے اور انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ مجھے اس کا علم ہے.حالانکہ اس علم نہیں ہو تا.چنانچہ تم کسی سے پوچھ کر دیکھ لو کہ سچ کیوں بولنا چاہئے.وہ کبھی تم کو اس سوال کا صحیح جواب نہیں دے سکے گا.تم اپنے محلہ میں ہی کسی دن لوگوں سے دریافت کر کے معلوم کر سکتے ہو کہ آیا وہ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں یا نہیں.جب تم کسی سے پوچھو گے کہ سچ بولنا چاہئے یا نہیں تو وہ کہے گا کہ ضرور سچ بولنا چاہئے.مگر جب پوچھا جائے کہ سچ کیوں بو نا چاہئے تو وہ ہنس کر کہہ دے گا کہ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ بیچ کا لفظ بار بار سن کر لوگوں کے دنوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ یہ چیز کسی دلیل کی محتاج نہیں.حالانکہ یہ بھی ویسی ہی دنیل کی محتاج ہے جیسے اور باتیں دلیل کی محتاج ہیں.تو لوگ سچ کی تعریف سے بھی واقف نہیں ہوتے.وہ بیچ کی ضرورت سے بھی واقف نہیں ہوتے.وہ بیچ کے فوائد سے بھی واقف نہیں ہوتے وہ بچ کو چھوڑنے اور جھوٹ بولنے کے نقصانات سے بھی واقف نہیں ہوتے.مگر جب ان سے بچ کے بارے میں کچھ پوچھا جائے تو وہ کہہ دیں گے کہ یہ بھی کوئی پوچھنے والی
269 بات ہے.میرے پاس کئی لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احمدیت کی صداقت کا کیا ثبوت ہے.میں نے حضرت خلیفہ اول کو دیکھا کہ آپ سے جب بھی کوئی شخص یہ سوال کرتا.آپ ہمیشہ اسے یہ جواب دیا کرتے کہ تم نے دنیا میں کسی سچائی کو قبول کیا ہوا ہے یا نہیں.اگر کیا ہوا ہے تو جس دلیل کی بناء پر تم نے اس سچائی کو قبول کیا ہے وہی دلیل احمدیت کی صداقت کا ثبوت ہے.اس کے جواب میں پوچھنے والا بسا اوقات یا تو ہنس کر خاموش ہو جاتا یا جو دلیل پیش کرتا اسی سے آپ اس کے سامنے احمدیت کی صداقت پیش فرما دیتے.میرا بھی یہی طریق ہے اور میں نے اپنے تجربہ میں اسے بہت مفید پایا ہے چنانچہ مجھ سے بھی جب کوئی شخص یہ سوال کرتا ہے کہ احمدیت کی صداقت کا کیا ثبوت ہے تو میں اسے یہی کہا کرتا ہوں کہ تم پہلے یہ بتاؤ کہ تم م م ل ا ل و لیموں کو کیوں مانتے ہو اور کن دلائل سے آپ کی صداقت کے قائل ہو.جو دلائل رسول کریم ملی دیوی کی صداقت کے تمہارے پاس ہیں.وہی دلائل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے میں پیش کرنے کے لئے تیار ہوں.اس کے جواب میں کئی لوگ تو خاموش ہی ہو جاتے ہیں اور کئی یہ کہہ دیتے ہیں کہ رسول کریم ملی لی کی صداقت کے دلائل ہم کیا بتا ئیں ؟ وہ تو ظاہرہی ہیں.پھر جب ان کے اس جواب پر جرح کی جاتی ہے تو صاف کھل جاتا ہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ وہ رسول کریم ملی کو کیوں سچا سمجھتے ہیں.میرے پاں آج تک اس قسم کے جتنے لوگ آئے ہیں ان میں سے نوے فیصدی کا میں نے یہی حال دیکھا ہے.سو میں سے دو چار ایسے بھی ہوئے ہیں جنہوں نے کوئی جواب دیا ہے.مگر ان کا وہ جواب بھی بہت ہی ادھورا تھا.مثلا یہی کہہ دیتے ہیں کہ چونکہ رسول کریم میں کیو ایم کی پیشگوئیاں پوری ہوئیں.اس لئے ہم آپ کو سچا سمجھتے ہیں اور اس طرح وہ خود ہی قابو میں آجاتے ہیں.کیونکہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی بہت سی پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں.تو جو سچائی ہر وقت انسان کے سامنے رہتی ہے اسے وہ کرید نے کا عادی نہیں ہو تا اور نہ اس کے دلائل اسے معلوم ہوتے ہیں.اس لئے یہ کہنا کہ سچائی وغیرہ کے بارہ میں کسی کو سمجھانے کی کیا ضرورت ہے یہ عام باتیں ہیں جو تمام لوگ جانتے ہی ہیں ، بہت بڑی غفلت ہے.کیونکہ جو چیزیں زیادہ سامنے آتی ہیں وہی اس بات کا حق رکھتی ہیں کہ ان کے متعلق بار بار سمجھایا جائے اور بار بار ان کے ولا ئل بیان کئے جائیں.کیونکہ لوگ بار بار سامنے آنے والی چیزوں کے متعلق سوال نہیں کیا کرتے.بلکہ وہ غیر معروف چیزوں کے متعلق زیادہ سوال کیا کرتے ہیں.قادیان میں قرآن کریم کا درس تو اکثر ہوتا ہی رہتا ہے.تم غور کر کے دیکھ لو کہ وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ کے متعلق سوالات کرنے والے ہیں وہ بہت ہی تھوڑے ہوتے ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق اس سے زیادہ سوال کرتے ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کا ذکر آجائے تو اور زیادہ سوالات کرتے ہیں.لیکن جب آدم علیہ السلام کا قصہ آجائے تو بے تحاشا سوالات کرنے لگ جاتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا دل میں بے اختیار گدگدیاں ہونی شروع ہو گئی ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ آدم کا واقعہ بہت دور کا ہے اور محمد میم کے معجزات کا بار بار ذکر سن کر اعتراض کا خیال دل میں پیدا نہیں ہو تا.میرا یہ مطلب نہیں کہ ان باتوں کے دلائل موجود نہیں.بلکہ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دلائل سے
270 ناواقفیت ہے اور اس کی وجہ کسی بات کا بار بار سامنے آتے رہنا ہے.لوگ اس چیز کے بار بار سامنے آنے کی وجہ سے دلائل پر غور نہیں کرتے اور اس کی حقیقت معلوم کرنے سے غافل رہتے ہیں.پس تم مت خیال کرو کہ جب تم کہتے ہو کہ سچ بولنا چاہئے تو تمہارا بچہ بھی جانتا ہے کہ سچ کیوں بولنا چاہئے.وہ اس بات کو ہرگز نہیں جانتا کہ سچ کیوں بولنا چاہئے.بلکہ تم مجھے یہ کہنے میں معاف کرو کہ تم جو کہتے ہو کہ ہمارا بچہ جانتا ہے کہ اسے سچ کیوں بولنا چاہئے تم خود بھی نہیں جانتے کہ سچ کیوں بولنا چاہئے.اسی طرح تم میں سے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کو یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ محنت کریں.یہ بات تو سب جانتے ہیں.وہ مجھے یہ کہنے میں معاف کریں کہ ان کے بچے تو کیا وہ خود بھی نہیں جانتے کہ محنت کس قدر ضروری چیز ہے.حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں کے متعلق اساتذہ بچوں کے دلوں میں تلاش اور جستجو کا مادہ ابھاریں بہت زیادہ زور دینے اور بار بار توجہ دلانے اور زیادہ سے زیادہ ان کی اہمیت لوگوں کے ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہے.ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے کانوں میں بار بار یہ باتیں ڈالیں.اسی طرح اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ طالب علموں کے دماغوں میں ان چیزوں کو راسخ کر دیں اور ان باتوں کی کرید تلاش اور جستجو کا مادہ ان میں پیدا کریں.کیونکہ لوگ سچائی کو نہیں جانتے کہ وہ کیا چیز ہوتی ہے.وہ صرف سچ کا لفظ جاننا کافی سمجھ لیتے ہیں.اسی طرح وہ نہیں جانتے کہ محنت کتنی ضروری چیز ہے.بلکہ وہ صرف محنت کے لفظ کو رٹ لینا اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے کافی سمجھتے ہیں.اسی طرح لوگ جھوٹ سے بچنے کے الفاظ تو سنتے ہیں مگر جانتے نہیں کہ جھوٹ کیا ہوتا ہے.اسی طرح انہوں نے بنی نوع انسان کی محبت اور خیر خواہی کے الفاظ سنے ہوئے ہوتے ہیں.مگر جانتے نہیں کہ محبت اور خیر خواہی کیا ہوتی ہے.اسی طرح انہوں نے غیبت کا لفظ سنا ہوا ہوتا ہے مگر جانتے نہیں کہ غیبت کیا ہوتی ہے.یہ نہیں کہ ہماری شریعت میں ان چیزوں کا حل موجود نہیں.حل موجود ہے.قرآن کریم نے ان امور کی وضاحت کر دی ہے.احادیث میں رسول کریم ملی یا اللہ نے تمام باتوں کو کھول کر بیان کر دیا ہے.مگر لوگ کہتے ہیں کہ ان باتوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ملی و ایلیا رام نے فرمایا کہ غیبت نہیں کرنی چاہئے.اس پر ایک شخص نے کہا.یا رسول اللہ ! اگر میں اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کروں.جو اس میں فی الواقعہ موجود ہو تو آیا یہ بھی غیبت ہے.رسول کریم ملی ﷺ نے فرمایا غیبت اس کا تو نام ہے کہ تم اپنے بھائی کا اس کی عدم موجودگی میں کوئی ایسا عیب بیان کرو جو فی الواقعہ اس میں پایا جاتا ہے اور اگر تم کوئی ایسی بات کہو جو اس میں نہ پائی جاتی ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہو گا.اب دیکھو رسول کریم میں لالا لیلی نے اس مسئلہ کو حل کر دیا اور بتادیا کہ غیبت اس بات کا نام نہیں کہ تم کسی کا وہ عیب بیان کرو جو اس میں پایا ہی نہ جاتا ہو.اگر تم ایسا کرو گے تو تم مفتری ہو.تم جھوٹے ہو.تم کذاب ہو.مگر تم غیبت کرنے والے نہیں.
271 غیبت یہ ہے کہ تم اپنے کسی بھائی کا کوئی سچا عیب اس کی عدم غیبت سے بچنا نہایت ضروری ہے موجودگی میں بیان کرو.یہ بھی منع ہے اور اسلام نے اس سے تختی کے ساتھ روکا ہے.مگر باوجود اس کے کہ محمد لی لی نے اس بات کو ساڑھے تیرہ سو سال سے حل کر دیا ہے اور قرآن میں اس کا ذکر موجود ہے.اگر اب بھی کوئی غیبت کر رہا ہو اور اسے کہا جائے کہ تم غیبت مت کرو تو وہ جھٹ کہہ دے گا کہ میں غیبت تو نہیں کر رہا.میں تو بالکل سچا واقعہ بیان کر رہا ہوں.حالانکہ ساڑھے تیرہ سو سال گذرے رسول کریم میں یہ فیصلہ سنا چکے اور علی الاعلان اس کا اظہار فرما چکے ہیں.مگر اب بھی اگر کسی کو روکو تو وہ کہہ دے گا کہ یہ غیبت نہیں یہ تو بالکل سچی بات ہے.حالانکہ کسی کا اس کی عدم موجودگی میں سچا عیب بیان کرنا ہی غیبت ہے اور اگر وہ جھوٹ ہے تو تم غیبت کرنے والے نہیں بلکہ مفتری اور کذاب ہو.یہ چیزیں ہیں جن کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے.مگر بوجہ اس کے کہ بار بار ان کے الفاظ کانوں میں پڑتے رہتے ہیں لوگ حقیقت معلوم کرنے کی جستجو نہیں کرتے.پس ان باتوں پر بار بار زور دو اور اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ جب تک یہ جسم مکمل نہیں ہو گا اس وقت تک مذہب کی روح بھی قائم نہیں رہ سکتی.گویا ایمان ایک روح ہے اور اخلاق فاضلہ اس روح کا جسم ہیں.پس میں تحریک جدید کے تمام کارکنوں اور خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نو جوانوں میں ان باتوں کو پیدا کرنے کی کوشش کریں.سپرنٹنڈنٹ کو چاہئے کہ وہ بچوں کے کانوں میں یہ باتیں بار بار ڈالیں اور ماں باپ کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو ان باتوں پر پختگی کے ساتھ قائم کریں اور کوشش کریں کہ ان میں جھوٹ کی عادت نہ ہو.غیبت کی عادت نہ ہو.چغل خوری کی عادت نہ ہو.ظلم کی عادت نہ ہو.دھوکہ اور فریب کی عادت نہ ہو.غرض جس قدر اخلاق ہیں وہ ان میں پیدا ہو جائیں اور جس قدر بدیاں ہیں ان سے وہ بچ جائیں تا کہ وہ قوم کا ایک مفید جسم بن سکیں.اگر ان میں یہ بات نہیں تو وفات مسیح پر لیکچر دینا یا منہ سے احمدیت زندہ باد کے نعرے لگاتے رہنا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.کیونکہ کوئی روح بغیر جسم کے نہیں رہ سکتی اور کوئی جسم بغیر روح کے مفید کام نہیں کر سکتا.جسم کی مثال ایک پیالے کی سی ہے اور روح کی مثال دودھ کی ہی.جس طرح دودھ بغیر پیالہ کے زمین پر گر جاتا ہے.اسی طرح اگر اخلاق فاضلہ کا جسم تیار نہیں ہو گا تو تمہارے لیکچر اور تمہاری تمام تقریر میں زمین پر گر کر مٹی میں دھنس جائیں گی.لیکن اگر اخلاق فاضلہ کا پیالہ تم ان کے دلوں میں رکھ دو گے تو پھر وعظ بھی انہیں فائدہ دے گا اور تقریریں بھی ان میں نیک تغیر پیدا کر دیں گی." خطبه جمعه فرموده ۲۸ فروری ۱۹۴۱ء مطبوعه الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۴۱ء)
>>>>>>>>>>>>>>>>>>; ٨٨٨٨٨٨٨٨MMMMMMMMMMMMMMMMMMMMMMMMMMMMMMMMMAAAAAA زندہ ہیں یہی افسانے دو دشمن کو ظلم کی برچھی سے تم سینہ و دل بر مانے دو یہ درد رہے گا بن کے دوا تم صبر کرو وقت آنے دو ی عشق و وفا کے کھیت کبھی خوں سینچے بغیر نہ پہنیں گے اس راہ میں جان کی کیا پروا جاتی ہے اگر تو جانے دو تم دیکھو گئے کہ انہی میں سے قطرات محبت نیکیں گے بادل آفات و مصائب کے چھاتے ہیں اگر تو چھانے دو صادق ہے اگر تو صدق دکھا قربانی کر ہر خواہش کی ہیں جنسِ وفا کے ماپنے کے دُنیا میں یہی پیمانے دو جب سونا آگ میں پڑتا ہے تو کندن بن کے نکلتا ہے پھر گالیوں سے کیوں ڈرتے ہو دل جلتے ہیں جل جانے دو عاقل کا یہاں پر کام نہیں وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں مقصود میرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو وہ اپنا سر ہی پھوڑے گا وہ اپنا خون ہی بیٹی کا دشمن حق کے پہاڑ سے گر منکراتا ہے ٹکرانے دو یہ زخم تمہارے سینوں کے بن جائینگے رشک چمن اس دن ہے قادر مطلق یار مرا تم میرے یار کو آنے دو جو بچے.مومن بن جاتے ہیں موت بھی اُن سے ڈرتی ہے تم سچے مومن بن جاؤ اور خوف کو پاس نہ آنے دو یا صدق محمد عربی ہے یا احمد ہندی کی ہے وفا باقی تو پرانے قصے میں زندہ ہیں یہی افسانے دو وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں یہ کیا ہی ستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو میخانہ وہی ساقی بھی وہی پھر اس میں کہاں غیرت کا مل ہے دشمن خود بھینگا جس کو آتے ہیں نظر شمخانے دو محمود اگر منزل ہے کٹھن تو راہ نما بھی کامل ہے تم اُس پہ تو کل کر کے چلو آفات کا خیال ہی جانے دو *** >>>>>>>>>>>>>>>
273 ه انصار اللہ خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کے قیام کی چھ اہم اغراض ۱ ایمان بالغیب ۲- اقامت الصلوة ۳ - خدمت خلق ۴- ایمان بالقرآن ۵- بزرگان دین کا احترام ۶ - یقین بالاخرة اسلام کی بنیاد تقویٰ پر ہے جماعت کی تعداد میں اضافہ جہاں عزت ملتا ہے وہاں بعض اوقات ایسے رخنہ پیدا کرنے کا موجب بھی ہوتا ہے جو تباہی کا باعث ہوتا ہے مسلمانوں کی مردم شمار کی جو قومیں تبلیغ میں زیادہ کو شش کرتی ہیں ان کی تربیت کا پہلو کمزور ہو جایا کرتا ہے ) تقریر فرموده ۲۷, سمبر ۱۹۴۱ء)
274 اب میں احباب کو مجلس انصار اللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.جماعت کے احباب یا چالیس سال سے کم عمر کے ہیں یا چالیس سال سے زیادہ عمر کے اور میں نے چالیس سال سے کم عمر والوں کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ اور زیادہ عمر والوں کے لئے مجلس انصار اللہ قائم کی ہے یا پھر عورتیں ہیں.ان کے لئے لجنہ اماء اللہ قائم کی ہے.میری غرض ان تحریکات سے یہ ہے کہ جو قوم بھی اصلاح وارشاد کے کام میں پڑتی ہے، اس کے اندر ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے کہ اور لوگ ان کے ساتھ شامل ہوں اور یہ خواہش کہ اور لوگ جماعت میں شامل ہو جائیں ، جہاں جماعت کو عزت بخشتی ہے وہاں بعض اوقات جماعت میں ایسا رخنہ پیدا کرنے کا موجب بھی ہو جایا کرتی ہے جو تباہی کا باعث ہوتا ہے.جماعت اگر کرو ڑ دو کروڑ بھی ہو جائے اور اس میں دس لاکھ منافق ہوں تو بھی اس میں اتنی طاقت نہیں ہو سکتی جتنی کہ اگر دس ہزار مخلص ہوں تو ہو سکتی ہے.یہی وجہ ہے کہ چند صحابہ نے جو کام کئے ، وہ آج چالیس کروڑ مسلمان بھی نہیں کر سکتے.ایک دفعہ آنحضرت ملی و یا لیلی نے مسلمانوں کی مردم شماری کرائی تو ان کی تعداد مسلمانوں کی مردم شماری سات سو تھی.صحابہ نے خیال کیا کہ شاید آپ نے اس واسطے مردم شماری کرائی ہے کہ آپ کو خیال ہے کہ دشمن ہمیں تباہ نہ کر دے اور انہوں نے کہا.یا رسول اللہ اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں.کیا اب بھی یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ کوئی ہمیں تباہ کر سکے گا.یہ کیسا شاندار ایمان تھا کہ وہ سات سو ہوتے ہوئے یہ خیال تک بھی نہیں کر سکتے تھے کہ دشمن انہیں تباہ کر سکے گا.مگر آج صرف ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان ہیں.اگر حالت یہ ہے کہ جس سے بھی بات کرو اندر سے کھو کھلا معلوم ہو تا ہے اور سب ڈر رہے ہیں کہ معلوم نہیں کیا ہو جائے گا.کجا تو سات سو میں اتنی جرات تھی اور کجا آج سات کروڑ بلکہ دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان ہیں مگر سب ڈر رہے ہیں اور یہ ایمان کی کمی کی وجہ سے ہے.جس کے اند ر ایمان ہوتا ہے وہ کسی سے ڈر نہیں سکتا.ایمان کی طاقت بہت بڑی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واقعہ ہے.ایک دفعہ آپ گورداسپور میں تھے میں وہاں تو تھا مگر اس مجلس میں نہ تھا جس میں یہ واقعہ ہوا.مجھے ایک دوست نے جو اس مجلس میں تھے ، سنایا کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور بعض دوسرے احمدی بہت گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ فلاں مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ ہے لا ہو ر گیا تھا.آریوں نے اس پر بہت زور دیا کہ مرزا صاحب ہمارے مذہب کے سخت مخالف ہیں ان کو ضرور سزا دے دو.خواہ ایک ہی دن کی کیوں نہ ہو.یہ تمہاری قومی خدمت ہو گی اور وہ ان سے وعدہ کر کے آیا ہے کہ میں ضرور سزا دوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات سنی تو آپ لیٹے ہوئے تھے.یہ سنکر آپ کہنی کے بل ایک پہلو پر ہو گئے اور فرمایا خواجہ صاحب آپ کیسی باتیں کرتے ہیں.کیا کوئی خدا تعالی کے شیر پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے.چنانچہ اللہ تعالٰی نے اس مجسٹریٹ کو یہ سزادی کہ پہلے تو اس کا گورداسپور سے تبادلہ ہو گیا اور پھر اس کا تنزل ہو گیا.یعنی وہ ای.اے.سی سے منصف بنا دیا گیا اور فیصلہ دوسرے مجسٹریٹ نے آکر کیا.تو ایمان کی طاقت بڑی زبردست ہوتی ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.پس جماعت میں نئے
275 لوگوں کے شامل ہونے کا اس صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے کہ شامل ہونے والوں کے اندر ایمان اور اخلاق ہو.صرف تعداد میں اضافہ کوئی خوشی کی بات نہیں.اگر کسی کے گھر میں دس سیر دودھ ہو تو اس میں دس سیر پانی ملا کر وہ خوش نہیں ہو سکتا کہ اب اس کا دودھ میں سیر ہو گیا ہے.خوشی کی بات یہی ہے کہ دودھ ہی بڑھایا جائے اور دودھ بڑھانے میں ہی فائدہ ہو سکتا ہے.جو قو میں تبلیغ میں زیادہ کوشش کرتی ہیں ان کی تربیت کا پہلو کمزور ہو جایا کرتا ہے اور ان مجالس کا قیام میں نے تربیت کی غرض سے کیا ہے.چالیس سال سے کم عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ اور چالیس سال سے اوپر عمر والوں کے لئے انصار اللہ اور عورتوں کے لئے لجنہ اماء اللہ ہے.ان مجالس پر در اصل تربیتی ذمہ داری ہے.یاد رکھو کہ اسلام کی بنیاد اسلام کی بنیاد تقویٰ پر ہے تقویٰ پر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک شعر لکھ رہے تھے.ایک مصرعہ آپ نے لکھا کہ ہر اتقاء اک نیکی کی جڑ ای وقت آپ کو دوسرا مصرعہ الہام ہو ا جو یہ ہے کہ اگر جڑ رہی ہے کچھ رہا ہے" اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر جماعت تقویٰ پر قائم ہو جائے تو پھر وہ خود ہر چیز کی حفاظت کرے گا.نہ وہ دشمن سے ذلیل ہو گی اور نہ اسے کوئی آسانی یا زمینی بلائیں تباہ کر سکیں گی.اگر کوئی قوم تقوی پر قائم ہو جائے تو کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی.قرآن کریم کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.السمه ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتقين (البقره: ۲ - (٣) لا ريب فيه تو قرآن کریم کی ذاتی خوبی بتائی اور دوسروں سے تعلق رکھنے والی خوبی یہ بتائی کہ ھدی للمتقین.یعنی یہ کلام متقی پر اثر کرتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص تو روٹی کھاتا اور اس سے طاقت حاصل کر کے کھڑا ہو تا ہے اور دوسرے کو دو آدمی پکڑ کر کھڑا کرتے ہیں.غیر متقی کو جو ہدایت ہوتی ہے وہ تو ایسی ہوتی ہے جیسے دو آدمی کسی کو کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کر دیں.مگر جو متقی ہے وہ اس سے غذا لیتا اور طاقت حاصل کرتا ہے.ہم اگر ترقی کر سکتے ہیں تو قرآن کریم کی مدد سے ہی.اور قرآن کریم کہتا ہے کہ اس کی غذا متقی کے لئے ہی طاقت اور قوت کا موجب ہو سکتی ہے.اگر کسی شخص کے معدہ میں کوئی خرابی ہو تو اسے گھی دودھ ، مرغ ، بادام ، پھل اور کتنی اعلیٰ غذائیں کیوں نہ کھلائی جائیں ، اسے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا بلکہ الٹا اسے ہیضہ ہو جائے گا.غذا اسی صورت میں فائدہ دے سکتی ہے جب وہ ہضم ہو.اگر ہضم نہ ہو تو الٹا نقصان کرتی ہے اور قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ غذا ایسی ہے جو مومن کے معدہ میں ہی ٹھہر سکتی ہے.پس اگر یہ سچ ہے کہ ہم نے قرآن کریم سے فائدہ اٹھانا ہے اور اس سے فائدہ اٹھائے بغیر ہم کوئی ترقی نہیں کر سکتے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ كل بركة من محمد صلى الله عليه وسلم فَتار كل من علم و تعلم یعنی تمام
276 برکت محمد ملی وی کی وجہ سے ہے.پس بڑا ہی مبارک ہے وہ جس نے سکھایا اور بڑا ہی مبارک ہے وہ جس نے سیکھا.اس میں محمد سے مراد در اصل قرآن کریم ہی ہے.کیونکہ آپ ہی قرآن کریم کے الفاظ لائے ہیں.پس جماعت کا تقویٰ پر قائم ہونا بے حد ضروری ہے.اس زمانہ میں مومن اگر ترقی کر سکتے ہیں تو قرآن کریم پر چل کر ہی اور اگر یہ غذا ہضم نہ ہو سکے تو پھر کیا فائدہ اور اگر اسے ہضم کرنا چاہتے ہو تو متقی ہو.ابتدائی تقویٰ جس سے قرآن کریم کی غذا ہضم ہو سکتی ہے.وہ کیا ہے.وہ ایمان کی درستی ہے.تقویٰ کے لئے پہلی ضروری چیز ایمان کی درستی تقویٰ کے لئے پہلی ضروری چیز ایمان کی درستی ہے ہی ہے.قرآن کریم نے مومن کی علامت یہ بتائی ہے کہ یومنون بالغیب.ہر شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ میں متقی کیسے بنوں.پس اس کی پہلی علامت ایمان بالغیب ہے یعنی اللہ تعالی ملائکہ قیامت اور رسولوں پر ایمان لانا.پھر اس ایمان کے نیک نتائج پر ایمان انا بھی ایمان بالغیب ہے.اللہ تعالٰی 'ملائکہ قیامت اور رسالت نظر نہیں آتی.اس لئے اس کے دلائل قرآن کریم نے مہیا کئے ہیں اور وہ دلا کل ایسے ہیں کہ انسان کے لئے ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا.مگر کئی لوگ ہیں جو غور نہیں کرتے.آجکل ایمان بالغیب پر لوگ تمسخر اڑاتے ہیں.جو لوگ خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں ، بعض لوگ ان کا تمسخر اڑاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تم تعلیم یافتہ ہو کر خدا کو مانتے ہو.پھر قیامت اور مرنے کے بعد اعمال کی جزا سزا پر بھی لوگ تمسخر اڑاتے ہیں.ملائکہ بھی اللہ تعالی کا پیغام اور دین لانے والے ہیں.اور یہ سب ابتدائی صداقتیں ہیں.مگر لوگ ان سب باتوں کا تمسخر اڑاتے ہیں.یہ سارا ایک ہی سلسلہ ہے اور جس نے اس کی کڑی کو بھی چھوڑ دیا.وہ ایمان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.نیک نتائج پر ایمان لانا بھی ایمان بالغیب میں شامل ہے اور یہی تو کل کا مقام ہے.ایک شخص اگر دس سیر آٹا کسی غریب کو دیتا ہے اور یہ امید رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر اسے ملے گا تو وہ گویا غیب پر ایمان لاتا ہے.وہ کسی حاضر نتیجہ کے لئے یہ کام نہیں کرتا بلکہ غیب پر ایمان لانے کی وجہ سے ہی ایسا کر سکتا ہے.بلکہ جو شخص خدا تعالی پر ایمان نہیں رکھتا وہ بھی اگر ایسی کوئی نیکی کرتا ہے تو غیب پر ایمان کی وجہ سے ہی کر سکتا ہے.فرض کرو.کوئی شخص قومی نقطہ نگاہ سے کسی غریب کی مدد کرتا ہے تو بھی یہی سمجھ کر کرتا ہے کہ اگر کسی وقت مجھ پر یا میرے خاندان پر زوال آیا تو اسی طرح دوسرے لوگ میری یا میرے خاندان کی مدد کریں گے.تو تمام ترقیات غیب پر مبنی ہیں.کیونکہ بڑے کاموں کے نتائج فور انہیں نکلتے اور ایسے کام جن کے نتائج نظر نہ آئیں حو صلہ والے لوگ ہی کر سکتے ہیں.قربانی کا مادہ بھی ایمان بالغیب ہی انسان کے اندر پیدا کر سکتا ہے.گویا قرآن کریم نے ابتداء میں ہی ایک بڑی بات اپنے ماننے والوں میں پیدا کر دی.چنانچہ وہ صحابہ جو بدر اور احد کی لڑائیوں میں لڑے کیا وہ کسی ایسے نتیجے کے لئے لڑے تھے جو سامنے نظر آ رہا تھا.نہیں.بلکہ ان کے دلوں میں ایمان بالغیب تھا.بدر کی لڑائی کے موقع پر مکہ کے بعض امراء نے صلح کی کوشش کی.مگر بعض ایسے لوگوں نے جنہیں نقصان پہنچا ہوا تھا.شور مچادیا
277 کہ ہرگز صلح نہیں ہونی چاہئے.آخر ایک شخص نے کہا کہ کسی آدمی کو بھیجا جائے جو مسلمانوں کی تعداد کا اندازہ کر کے آئے.چنانچہ ایک آدمی بھیجا گیا اور اس نے آکر کہا کہ اے میری قوم! میرا مشورہ یہی ہے کہ ان لوگوں سے لڑائی نہ کرو.انہوں نے کہا کہ تم بتاؤ تو سہی کہ ان کی تعداد کتنی ہے اور سامان وغیرہ کیا ہے.اس نے کہا کہ میرا اندازہ ہے کہ مسلمانوں کی تعداد ۳۱۰ اور ۳۳۰ کے درمیان ہے اور کوئی خاص سامان بھی نہیں.لوگوں نے پوچھا کہ پھر جب یہ حالت ہے تو تم یہ مشورہ کیوں دیتے ہو کہ ان سے لڑائی نہ کی جائے.جب ان کی تعداد بھی ہم سے بہت کم ہے اور سامان بھی ان کے پاس بہت کم ہے.اس نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں.میں نے جو چہرہ بھی دیکھا، میں نے معلوم کیا کہ وہ تہیہ کئے ہوئے ہے کہ وہ خود بھی مر جائے گا اور تم کو بھی مار دے گا.چنانچہ اس کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ ابو جہل میدان میں کھڑا تھا اور عکرمہ امور خالد بن ولید جیسے بہادر نوجوان اس کے گرد پہرہ دے رہے تھے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں.میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو دونوں طرف پندرہ پندرہ سال کے بچے کھڑے تھے.میں نے خیال کیا کہ میں آج کیا جنگ کر سکوں گا جبکہ میرے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے بچے ہیں.لیکن ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکے نے آہستہ سے مجھے کہنی ماری اور پوچھا.چاوہ ابو جہل کون ہے جو رسول کریم میں ایم کو دکھ دیا کرتا ہے.میں نے خدا سے عہد کیا ہے کہ آج اسے ماروں گا.ابھی وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ دوسرے لڑکے نے بھی اسی طرح آہستہ سے کہنی ماری اور مجھ سے یہی سوال کیا.میں اس بات سے حیران تو ہوا مگر انگلی کے اشارہ سے بتایا کہ ابو جہل وہ ہے جو خود پہنے کھڑا ہے اور ابھی میں نے انگلی کا اشارہ کر کے ہاتھ نیچے ہی کیا تھا کہ وہ دونوں بچے اس طرح اس پر جا گرے جس طرح چیل اپنے شکار پر جھپتی ہے اور تلواریں سونت کر ایسی بے جگری سے اس پر حملہ آور ہوئے کہ اس کے محافظ سپاہی ابھی تلواریں سنبھال بھی نہ سکے تھے کہ انہوں نے ابو جہل کو نیچے گرا دیا.ان میں سے ایک کا بازو کٹ گیا.مگر قبل اس کے کہ باقاعدہ جنگ شروع ہو ابو جہل مہلک طور پر زخمی ہو چکا تھا.یہ کیا چیز تھی جس نے ان لوگوں میں اتنی جرات پیدا کر دی تھی.یہ ایمان بالغیب ہی تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ہر وقت قربانیوں کی آگ میں جھونکنے کے لئے تیار رہتے تھے اور یہ ایمان بالغیب ہی تھا جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں یہ یقین پیدا ہو چکا تھا کہ دنیا کی نجات اسلام میں ہی ہے اور خواہ کچھ ہو ہم اسلام کو دنیا میں غالب کر کے رہیں گے.پس مجلس انصار اللہ خدام الاحمدیہ اور بلجنہ اماءاللہ کا کام یہ ہے کہ جماعت میں تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں.اور اس کے لئے پہلی ضروری چیز ایمان بالغیب ہے.انہیں اللہ تعالیٰ ملائکہ قیامت ، رسولوں اور ان شاندار اور عظیم الشان نتائج پر جو آئندہ نکلنے والے ہیں.ایمان پیدا کرنا چاہئے.انسان کے اندر بزدلی اور نفاق وغیرہ اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب دل میں ایمان بالغیب نہ ہو.اسی صورت میں انسان سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے یہ بھی اگر چلا گیا تو پھر کچھ نہ رہے گا اور اس لئے وہ قربانی کرنے سے ڈرتا ہے.یومنون بالغیب کے
278 ایک معنے امن دینا بھی ہے یعنی جب قوم کا کوئی فرد باہر جاتا ہے تو اس کے دل میں یہ اطمینان ہو نا ضروی ہے کہ اس کے بھائی اس کے بیوی بچوں کو امن دیں گے.کوئی قوم جہاد نہیں کر سکتی جب تک اسے یہ یقین نہ ہو کہ اس کے پیچھے رہنے والے بھائی دیانتدار ہیں.پس ان تینوں مجلسوں کا ایک یہ بھی کام ہے کہ جماعت کے اندر ایک ایسی امن کی روح پیدا کریں.ان تینوں مجالس کو کوشش کرنی چاہئے کہ ایمان بالغیب ایک میخ کی طرح ہر احمدی کے دل میں اس طرح گھو جائے کہ اس کا ہر خیال ہر قول اور ہر عمل اس کے تابع ہو اور یہ ایمان قرآن کریم کے علم کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا.جو لوگ فلسفیوں کی جھوٹی اور پر فریب باتوں سے متاثر ہوں اور قرآن کریم کا علم حاصل کرنے سے غافل رہیں ، وہ ہر گز کوئی کام نہیں کر سکتے.پس مجالس انصار اللہ خدام الاحمدیہ اور لجنہ کا یہ فرض ہے اور ان کی یہ پالیسی ہونی چاہئے کہ وہ یہ باتیں قوم کے اندر پیدا کریں اور ہر ممکن ذریعہ سے اس کے لئے کوشش کرتے ر ہیں.لیکچروں کے ذریعہ اسباق کے ذریعہ اور بار بار امتحان لے کر ان باتوں کو دلوں میں راسخ کیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو بار بار پڑھایا جائے.یہاں تک کہ ہر مرد عورت اور ہر چھوٹے بڑے کے دل میں ایمان بالغیب پیدا ہو جائے.دوسری ضروری چیز نماز پوری شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے.قرآن کریم نے دوسری چیز نماز کا قیام يؤدون الصلوة کہیں نہیں فرمایا.یا یصلون الصلوة نہیں کیا بلکہ جب بھی نماز کا حکم دیا ہے.يقيمون الصلوہ فرمایا اور اقامت کے معنے باجماعت نماز ادا کرنے کے ہیں اور پھر اخلاص کے ساتھ نماز ادا کرنا بھی اس میں شامل ہے.گویا صرف نماز کا ادا کرنا کافی نہیں بلکہ نماز باجماعت ادا کرنا ضروری ہے اور اس طرح ادا کرنا ضروری ہے کہ اس کے اندر کوئی نقص نہ رہے.اسلام میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ قائم کرنے کا حکم ہے اس لئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ نماز پڑھنے پر خوش نہ ہو بلکہ نماز قائم کرنے پر خوش ہو.پھر خود ہی نماز قائم کر لینا کافی نہیں بلکہ دوسروں کو اس پر قائم کرنا چاہئے.اپنے بیوی بچوں کو بھی اقامت نماز کا عادی بنانا چاہئے.بعض لوگ خود تو نماز کے پابند ہوتے ہیں مگر بیوی بچوں کے متعلق کوئی پرواہ نہیں کرتے.حالانکہ اگر دل میں اخلاص ہو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ بچے کا یا بیوی کا یا بہن بھائی کا نماز چھوڑنا انسان گوارا کر سکے.ہماری جماعت میں ایک مخلص دوست تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں.ان کے لڑکے نے مجھے لکھا کہ میرے والد میرے نام الفضل جاری نہیں کراتے.میں نے انہیں لکھا کہ آپ کیوں اس کے نام الفضل جاری نہیں کراتے تو انہوں نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مذہب کے معاملہ میں اسے آزادی حاصل ہو اور وہ آزادانہ طور پر اس پر غور کر سکے.میں نے انہیں لکھا کہ الفضل پڑھنے سے تو آپ سمجھتے ہیں اس پر اثر پڑے گا اور مذہبی آزادی نہ رہے گی.لیکن کیا اس کا بھی آپ نے کوئی انتظام کر لیا ہے کہ اس کے پروفیسر اس پر اثر نہ ڈالیں.کتابیں جو وہ پڑھتا ہے وہ اثر نہ ڈالیں.دوست اثر نہ ڈالیں اور جب یہ سارے کے سارے اثر ڈال رہے ہیں تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ اسے زہر تو کھانے دیا جائے اور تریاق سے بچایا جائے.تو میں بتا رہا تھا کہ اقامت نماز
279 ضروری ہے اور اس میں خود نماز پڑھنا دوسروں کو پڑھوانا اخلاص اور جوش کے ساتھ پڑھنا‘ باوضو ہو کر ٹھر ٹھر کر با جماعت اور پوری شرائط کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے.اس کی طرف ہمارے دوستوں کو خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.مجھے افسوس ہے کہ کئی لوگوں کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ خود تو نماز پڑھتے ہیں مگر ان کی اولاد نہیں پڑھتی.اولاد کو نماز کو پابند بنانا بھی اشد ضروری ہے اور نہ پڑھنے پر ان کو سزا دینی چاہئے.ایسی صورت میں بچوں کا خرچ بند کرنے کا تو حق نہیں.ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ میں خرچ تو دیتا رہوں گا مگر تم میرے سامنے نہ آؤ جب تک تم نماز کے پابند نہ ہو.ہاں اگر کوئی بچہ کہہ دے کہ میں مسلمان نہیں ہوں تو پھر البتہ حق نہیں کہ اس پر زور دیا جائے لیکن اگر وہ احمدی اور مسلمان ہے تو پھر اسے سزا دینی چاہئے اور کہہ دینا چاہئے کہ آج سے تم ہمارے گھر نہیں رہ سکتے جب تک کہ نماز کے پابند نہ ہو جاؤ.تیسری چیز و مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ، یعنی اللہ تعالی نے جو کچھ دیا ہے اس میں تیسری چیز خدمت خلق سے خرچ کیا جائے.خدا تعالیٰ کی دی ہوئی پہلی چیز جذبات ہیں.بچہ جب ذرا ہوش سنبھالتا ہے تو محبت اور پیار اور غصہ کو محسوس کرتا ہے.خوش ہوتا اور ناراض ہوتا ہے.پھر پیدائش سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ نے انسان کو آنکھیں ناک، کان اور ہاتھ پاؤں دیئے ہیں.پھر بڑا ہونے پر علم ملتا ہے.طاقت ملتی ہے.ان سب میں سے تھوڑا تھوڑا خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے.یہ مطالبہ ایساو سیع ہے کہ اس کی تفصیل کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں اور اس پر ہزار صفحہ کی کتاب لکھی جا سکتی ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں.بہت سے ہیں جو تھوڑا بہت صدقہ دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ اس مطالبہ کو پورا کر دیا.حالانکہ یہ بہت وسیع ہے.جہاد کا حکم بھی اس کا ایک جزو ہے.بعض امراء صدقہ دے دیتے ہیں.کچھ پیسے خرچ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس حکم کی تعمیل کر دی.حالانکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ انہوں نے خدا تعالٰی کی دی ہوئی بہت سی چیزوں میں سے ایک کو خرچ کر دیا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب کچھ جو تمہیں دیا گیا ہے ان سب میں سے کچھ کچھ خرچ کرو.ہماری تائی صاحبہ تھیں.اسی پچاسی سال کی عمر میں سارا سال روئی کو کتوانا پھرائیاں بنانا ، پھر جلا ہوں کو دے کر اس کا کپڑا بنوانا اور پھر رضائیاں اور تو شکیں بنوا کر غریبوں میں تقسیم کرنا ان کا دستور تھا اور اس میں سے بہت سا کام وہ اپنے ہاتھ سے کرتیں.جب کہا جاتا کہ دوسروں سے کرالیا کریں تو کہتیں اس طرح مزا نہیں آتا.تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہر چیز کو خدا تعالی کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے.مگر کتنے لوگ ہیں جو ایسا کرتے ہیں.بعض لوگ چند پیسے کسی غریب کو دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ اس پر عمل ہو گیا.حالانکہ یہ درست نہیں.جو شخص پیسے تو خرچ کرتا ہے مگر اصلاح وارشاد کے کام میں حصہ نہیں لیتا وہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اس حکم پر عمل کر لیا ہے یا جو یہ کام بھی کرتا ہے مگر ہاتھ پاؤں اور اپنی طاقت کو خرچ : نہیں کرتا.بیواؤں اور یتیموں کی خدمت نہیں کرتا.وہ بھی نہیں کہہ سکتا.اس نے اس پر عمل کر لیا ہے.تو اللہ تعالی کی راہ میں ساری قوتوں کو صرف کرنے کا حکم ہے.جذبات کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں صرف کرنا ضروری
280 ہے.مثلاً غصہ چڑھا تو معاف کر دیا.اسی کے ماتحت ہاتھ سے کام کرنا اور محنت کرنا بھی ہے اور میں خدام الاحمدیہ کو خصوصیت سے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خدمت خلق کی روح نو جوانوں میں پیدا کریں.شادیوں ، بیا ہوں اور دیگر تقریبات میں کام کرو.خواہ وہ کسی مذہب کے لوگوں کی ہوں.اس کے بعد فرمایا وَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا اُنْزِلَ إِلَيْكُ اس میں.عورتوں کے حقوق ادا کرو ایمان بالقرآن کا حکم ہے مگر اس کو صرف مانا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ہر حکم کو اپنے اوپر حاکم بنانا ضروری ہے.اس سلسلہ میں میں نے احباب کو یہ نصیحت کی تھی کہ قرآن کریم نے عورتوں کو حصہ دینے کا جو حکم دیا ہے، اس پر عمل کریں اور چند سال ہوئے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر میں نے احباب سے کہا تھا کہ کھڑے ہو کر اس کا اقرار کریں اور اکثر نے کیا بھی تھا.مگر میرے پاس شکایتیں پہنچتی رہتی ہیں کہ بعض احمدی نہ صرف یہ کہ خود حصہ نہیں دیتے بلکہ دوسروں سے لڑتے ہیں کہ تم بھی کیوں دیتے ہو.مسلمانوں نے جب عورتوں سے یہ سلوک شروع کیا تو خدا تعالیٰ نے ان کو عورتیں بنا دیا.انہیں ماتحت کر دیا اور دو سروں کو ان پر حاکم کر دیا.انہوں نے عورتوں کو ان کے حق سے محروم کیا تو خدا تعالیٰ نے ان سے حکومت چھین کر انگریزوں کو دے دی.انہوں نے عورتوں کو نیچے گرایا اور خدا تعالیٰ نے ان کو گرا دیا.لیکن اگر تم آج عورتوں کو ان کے حقوق دینے لگ جاؤ اور مظلوموں کے حق قائم کرو تو خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اتریں گے اور تمہیں اٹھا کر اوپر لے جائیں گے.پس عورتوں کے حقوق ان کو ادا کرو اور ان کے حصے ان کو دو.مگر اس طرح نہیں جس طرح کا ایک واقعہ میں نے پہلے بھی کئی بار سنایا ہے.ایک احمدی تھے.ان کی دو بیویاں تھیں.قادیان سے ایک دوست ان کے پاس گئے تو ان کو معلوم ہوا کہ وہ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں.انہوں نے نصیحت کی کہ یہ ٹھیک نہیں.اس نے کہا کہ میں نے تو اپنا یہ اصول بنا رکھا ہے کہ جب ایک غلطی کرے تو اسے تو اس کی غلطی کی وجہ سے مارتا ہوں اور دوسری کو ساتھ اس لئے مارتا ہوں کہ وہ اس پر ہنسے نہیں.جو دوست قادیان سے گئے تھے.انہوں نے بہت سمجھایا کہ یہ اسلام کی تعلیم کے خلاف بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسے سخت ناپسند فرماتے ہیں.اس نے سن کر کہا کہ اچھا پھر تو بہت بڑی غلطی ہوئی.اب کیا کروں.کیا معافی مانگوں ؟ انہوں نے کہا ہاں معافی مانگ لو.وہ گھر پہنچے اور بیویوں کو بلا کر کہا کہ مجھ سے تو بڑی غلطی ہوتی رہی ہے جو میں تم کو مار تا رہا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ تو گناہ ہے اور حضرت صاحب اس پر بہت ناراض ہوتے ہیں اس لئے مجھے معافی دے دو.وہ دل میں خوش ہو ئیں کہ آج ہمارے حقوق قائم ہونے لگے ہیں.بگڑ کر کہنے لگیں کہ تم مارا ہی کیوں کرتے ہو.اس نے کہا کہ بس غلطی ہو گئی اب معاف کر دو.وہ کہنے لگیں کہ نہیں ہم تو معاف نہیں کریں گی.اس پر اس نے کہا کہ سیدھی طرح معافی دیتی ہو یا لا ہواں چھل.یعنی کھال ادھیڑوں.وہ سمجھ گئیں کہ بس اب یہ بگڑ گئے ہیں.جھٹ کہنے لگیں کہ نہیں ہم تو یونہی کہہ رہی تھیں.آپ کی مار تو ہمارے لئے پھولوں کی طرح ہے.ہندوستان میں عورتوں کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے.کتے کو اس طرح نہیں مارا جاتا، بیلوں اور
281 جانوروں کو بھی اس طرح نہیں مارا جاتا.جس طرح عورتوں کو مارا جاتا ہے اور عورتوں کے ساتھ ان کے اس سلوک کا یہ نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عورتوں کی پوزیشن دے دی ہے.جب عورت کی عزت نہ کی جائے تو اولاد کے دل میں بھی خساست پیدا ہوتی ہے.باپ خواہ سید ہو لیکن اگر اس کی ماں کی عزت نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو انسان کا بچہ نہیں بلکہ ایک انسان اور حیوان کا بچہ سمجھتا ہے.اور اس طرح وہ بزدل بھی ہو جاتا ہے.پس عورتوں کی عزت قائم کرو.اس کا نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ تمہارے بچے اگر گیدڑ ہیں تو وہ شیر ہو جائیں گے.یومِنُونَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیكَ کے بعد ایمان بِمَا اُنْزِلَ مِن قَبلِكَ کا حکم ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ دوسروں کے بزرگوں کا جائز ادب اور احترام کرو.گویا اس میں صلح کی تعلیم دی گئی ہے.پھر اس میں یہ بھی تعلیم ہے کہ تبلیغ میں نرمی اور سچائی کا طریق اختیار کرو.آخری چیز یقین بالا خرت ہے.اس کے معنے دو ہیں.ایک تو مرنے کے بعد زندگی کا یقین ہے.آخری چیز بعض دفعہ انسان کو قربانیاں کرنی پڑتی ہیں مگر ایمان بالغیب کی طرف اس کا ذہن نہیں جاتا.اس وقت اس بات سے ہی اس کی ہمت بندھتی ہے کہ میری اس قربانی کا نتیجہ اگلے جہان میں نکلے گا.پھر اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ انسان ایمان رکھے کہ خدا تعالیٰ مجھے پر بھی اسی طرح کلام نازل کر سکتا ہے جس طرح اس نے پہلوں پر کیا.اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت پیدا نہیں ہو سکتی.خد اتعالیٰ سے محبت وہی شخص کر سکتا ہے جو یہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ میری محبت کا صلہ مجھے ضرور دے سکتا ہے.جس کے دل میں یہ ایمان نہ ہو وہ خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کر ، پس یہ چھ کام ہیں جو انصار اللہ خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کے ذمہ ہیں.ان کو چاہئے کہ پوری کوشش کر کے جماعت کے اندر ان امور کو رائج کریں تاکہ ان کا ایمان صرف رسمی ایمان نہ رہے بلکہ حقیقی ایمان ہو جو انہیں اللہ تعالیٰ کا مقرب بنا دے اور وہ غرض پوری ہو جس کے لئے میں نے اس تنظیم کی بنیاد رکھی ہے." ( تقریر فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۴۷ء مطبوعه الفضل ۲۶اکتوبر ۱۹۶۰ء)
وُہ دِل کو جوڑتا تو ہیں دلفگار ہم ہے وہ جان بخشتا ہے تو ہیں جاں نثار ہم دولہا ہمارا زندہ جاوید ہے جناب کیا ہے وقوف ہیں کہ بنیں سوگوار ہم در اُس کا آج گر نہ گھلا خیر کل سہی جائیں گے اس کے در پہ یونہی بار بار ہم تدبیر ایک پردہ ہے تقدیر اصل ہوں گے بس اس کے فضل سے ہی کامگار ہم کوئی عمل بھی کر نہ سکے اُس کی راہ میں رہتے ہیں اس خیال سے ہی شرمسار ہم سے تو کوئی بنا نہ کام روئیں گے اُس کے سامنے اب زار زار ہم دُنیا کی متوں اٹھ کر دشمن ہے گا رہے پرده کسی ہے ہم دن تو دیکھنا باندھے کھڑے ہیں سامنے اس کے قطار ٹوٹیں گے اس کی گود میں جا کر بہار ہم خوش کہ نعمت دنیا ملی اسے قسمت نے کیا جوڑ ملایا ہے دیکھنا وہ خالق جہاں ہے تو مُشتِ غبار ہم
283 نماز باجماعت پڑھنے کی سخت تاکید ” میرے پاس شکایتیں پہنچتی رہتی ہیں کہ بعض لوگ نمازوں میں ست ہیں اور بالکل ہی نہیں پڑھتے.میں اس نقص کو دیکھتے ہوئے خصوصیت سے قادیان کے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ سے کہتا ہوں کہ نماز کے متعلق ان میں سے ہر ایک شخص اپنے ہمسایہ کی اسی طرح جاسوسی کرے جس طرح پولیس مجرموں کی جاسوسی کا کام کیا کرتی ہے.جب تک رات اور دن ہم میں سے ہر شخص اس طرف متوجہ نہ ہو کہ ہمارا ہر فرد خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا بچہ ہو یا جو ان نماز با قاعدگی کے ساتھ ادا کرے اور کوئی ایک نماز بھی نہ چھوڑے اس وقت تک ہم کبھی بھی اپنے اندر جماعتی روحانیت قائم نہیں کر سکتے اور نہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو سکتے ہیں.مثلاً میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ نمازوں کے وقت نمازوں کے وقت دکانیں بند ہونی چاہئیں دکانیں کھلی نہیں ہونی چاہئیں.آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کی دکان کھلی بھی رہے اور پھر اس کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ وہ نماز با جماعت بھی ادا کرتا ہے.پس میں انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نمازوں کے وقت دوکانداروں کی نگرانی رکھیں اور جس شخص کی دکان کھلی ہو اس کی دکان پر نشان لگادیں اور اسی دن اس کی میرے پاس رپورٹ کریں.اگر نمازوں کے وقت کوئی شخص اپنی دکان کو کھلا رکھتا ہے تو اس کے سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں ہو سکتے کہ اس کے دل میں نماز کا احترام نہیں.اس وقت بہر حال ایک احمدی کہلانے والے کو اپنی دکان بند کرنی چاہئے اور نماز با جماعت کے لئے بیت الذکر میں جانا چاہئے.اگر خطرہ ہو کہ دکانیں بند ہو ئیں تو کوئی دشمن نقصان نہ پہنچا دے تو ایسی صورت میں باری باری پہرے مقرر کر سکتے ہیں.مگر یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ دکاندار اپنی دکانوں پر ہی بیٹھے رہیں اور نماز کے لئے بیت میں نہ جائیں.پہرہ ایک قومی فرض ہے اور جب کوئی شخص پہرے پر ہو تو وہ اپنے فرض کو ادا کرنے والا سمجھا جاتا ہے، نماز کا تارک نہیں سمجھا جاتا لیکن بغیر اس کے اگر کوئی شخص بیت میں نہیں جاتا تو وہ نماز کا تارک ہے.پس آج سے میں انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کا فرض مقرر کرتا ہوں کہ وہ قادیان : رہی مجرم اور قومی مجرم میں اس امر کی نگرانی رکھیں کہ نمازوں کے اوقات میں کوئی دکان کھلی نہ رہے.میں اس کے بعد ان لوگوں کو مذہبی مجرم سمجھوں گا جو نماز باجماعت ادا نہیں کریں گے اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو قومی مجرم سمجھوں گا کہ انہوں نے نگرانی کا فرض ادا نہیں کیا.ہم پر اس شخص کی کوئی ذمہ داری
284 نہیں ہو سکتی جو بے نماز ہے اور ایسے شخص کا یہی علاج ہے کہ ہم اس کے احمدیت سے خارج ہونے کا اعلان کر دیں گے.مگر جو منتظم ہیں وہ بھی مجرم سمجھے جائیں اگر انہوں نے لوگوں کو نماز با جماعت کے لئے آمادہ نہ کیا.وہ صرف یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے کہ ہم نے لوگوں سے کہہ دیا تھا.اگر لوگ نماز نہ پڑھیں تو ہم کیا کریں.خدا نے ان کو طاقت دی ہے اور ان کو ایسے سامان عطا کئے ہیں جن سے کام لے کر وہ اپنی بات لوگوں سے منوا سکتے ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ لوگ ان کی بات نہ مانیں.وہ انہیں نماز با جماعت کے لئے مجبور کرسکتے ہیں اور اگر وہ مجبور نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے اخراج از جماعت کی رپورٹ کر سکتے ہیں اور مجھے ان کے حالات سے اطلاع دے سکتے ہیں.بہر حال کوئی نہ کوئی طریق ہونا چاہئے جس سے ان لوگوں کا پتہ لگ سکے جو بظاہر ہمارے ساتھ ہیں مگر در حقیقت ہمارے ساتھ نہیں.یہ نہیں ہو سکتا کہ ایسے لوگ ہمارے ساتھ لٹکتے چلے جائیں اور اپنی اصلاح بھی نہ کریں.اس کے نتیجہ میں اور لوگوں پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور وہ بھی نمازوں میں ست ہو جاتے ہیں.میں آج سے خود اپنے طور پر بھی انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے اس کام کی نگرانی کروں گا.اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں بھی اپنے بچوں اور نوجوانوں اور عورتوں اور مردوں کو نماز باجماعت کی پابندی کی عادت ڈالنی چاہئے اور اگر اس بات میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے تو وہ ہر گز اللہ تعالیٰ کے حضور سر خرو نہیں ہو سکتے چاہے وہ کتنے ہی چندے دیں اور چاہے کتنے ریزولیوشن پاس کر کے بھجوا دیں".(خطبه جمعه فرموده ۵ جون ۱۹۴۲ء مطبوعہ الفضل ۷ جون ۱۹۴۲ء)
285 ایمان لانے والوں کے دو نام نوجوان صرف ان ناموں کو ہی اپنے سامنے رکھیں تو ان کی زندگی کی کایا پلٹ سکتی ہے مسلم کی حقیقی تعریف جن قوموں میں قربانی کی روح ہوتی ہے وہ اپنے بھائیوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ہر قسم کے ایثار سے کام لینے کیلئے تیار رہتی ہیں میں اپنی جماعت کے نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاق میں تغیر پیدا کریں اپنی جوانی کو اسلام کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کریں اگر آج وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں گے توان کا بڑھاپا نہایت خوبصورت ہو گا (خطبہ جمعہ فرموده ۱۳ جولائی ۱۹۴۲ء)
286 میں بیماری اور کمزوری کی وجہ سے آج زیادہ بول نہیں قرآن کریم میں ایمان لانے والوں کے دو نام سکتا.صرف اختصار اجماعت کے دوستوں کو عام طور پر اور نوجوانوں کو خصوصیت کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کے دو نام رکھے گئے ہیں.ایک مومن اور ایک مسلم.مسلم نام قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے اس امت کا ر کھا گیا ہے اور مومن بھی ایک تاریخی نام ہے جو ہر اس جماعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی لائی ہوئی صداقتوں پر ایمان لاتی ہو.اگر ہمارے نوجوان صرف ان ناموں کو ہی اپنے سامنے رکھیں تو ان کی زندگیوں کی کایا پلٹ سکتی ہے.مسلم کے معنے ہیں فرمانبردار اور مسلم کے معنے ہیں تکالیف سے نجات دینے والا.یعنی جنگ مسلم کی تعریف و فساد کو دور کرنے والا.جو شخص دنیا میں سلامتی پیدا کرتا ہے اور سلامتی کی باتوں پر عمل کرتا ہے اور سلامتی کا ہی لوگوں کو وعظ کرتا ہے وہ مسلم ہے.اسی طرح جو شخص فرمانبرداری اور اطاعت کی روح اپنے اندر پیدا کرتا ہے وہ مسلم ہے.پہلا تعلق انسان کا اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہوتا ہے.پس وہ شخص جو اللہ تعالی کا فرمانبردار بن جاتا ہے ، وہ مسلم ہو تا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام کے آگے اپنے آپ کو کلیتہ ڈال دیتا ہے اور یہی اسلام کی توضیح اور اس کی صحیح تشریح ہے.دوسرا تعلق انسان کا اپنی ذات سے ہوتا ہے.پس جو شخص اپنی ذات کو فتنوں میں پڑنے سے بچالیتا ہے.شرارتوں میں پڑنے سے بچالیتا ہے.بددیانتیوں خیانتوں اور فلموں میں پڑنے سے بچالیتا ہے.جھوٹ ، فریب ، دعا کپٹ ، بغض اور کینہ سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے وہ بھی مسلم ہے کیونکہ اس نے اپنی جان کو سلامتی عطا کی اور وہ مسلم ہے کیونکہ اس نے اللہ تعالے کی فرمانبرداری اور اطاعت میں یہ کام کیا.پھر جو شخص اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انبیاء کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتا ہے وہ مسلم ہے.جو شخص ان کی باتوں پر عمل کرتا ہے وہ مسلم ہے.جو شخص اپنی قوم کے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ مسلم ہے.جو شخص اپنے ہمسایوں اور رشتہ داروں کو امن دیتا اور فساد اور خونریزی ان کے لئے پیدا نہیں کرتاوہ مسلم ہے.مگر و شخص اس کے خلاف عمل کرتا ہے وہ غیر مسلم ہے.چاہے وہ دن رات اپنے آپ کو مسلم کہتا رہے کیونکہ نام کے ساتھ کوئی چیز بدل نہیں جاتی.ہم دیکھتے ہیں بچے بعض دفعہ ایسی حالت میں جب کہ ان کے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں ہوتی کھیلتے ہوئے دو سرے بچے کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں لو میں تمہیں آم دیتا ہوں.تم کھالو.یا پیسہ دیتا ہوں تم لے لو حالا نکہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا.اب بچوں کا ایسا فعل ایک مذاق کے طور پر تو کام آسکتا ہے ، یہ فائدہ تو ہو سکتا ہے کہ ماں باپ یا بھائی وغیرہ ہنس پڑیں یا جس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ایسا کہا جاتا ہے وہ ہنس پڑے اور سمجھے کہ مجھ سے مذاق کیا گیا ہے لیکن اس سے کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہو سکتا.خیالی طور پر تم کسی کو دنیا کی بادشاہت بھی بخش دو تو اس کے حالات میں کوئی تغیر نہیں آئے گا لیکن حقیقی طور پر تم کسی کو ایک پیسہ بھی دے
287 دو تو وہ اس سے فائدہ اٹھالے گا.پس تم بھی اگر صرف اسلام کے نام سے کام لو تو تم دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے لیکن اگر تم اسلام کے مفہوم کے مطابق تھوڑا سا عمل بھی کرو تو بہت کچھ فائدہ حاصل کر سکتے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتے ہو.کوئی شخص سارا دن اپنے آپ کو مسلم مسلم کشتار ہے تو اللہ تعالی کا قرب اسے حاصل نہیں ہو سکتا لیکن اگر وہ خدا تعالی کی خاطر ایک منٹ بھی ذکر الہی کے لئے بیٹھ جا نا یا خدا تعالی کی صفات پر غور کرتا ہے تو ایسا انسان خدا تعالی کا مقرب ہو جائے گا.گو وہ روزانہ صرف ایک منٹ ہی ذکر الہی کرے مگر سارا دن اپنے آپ کو مسلم مسلم کہنے سے کچھ نہیں بن سکتا.ایک شخص اگر رات دن اپنے آپ کو مسلم مسلم کہتا رہتا اور اپنی مسلمانی کے نعرے لگاتا رہتا ہے تو اس کے ان نعروں اور اپنے آپ کو مسلم قرار دینے سے اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا.لیکن اگر وہ محمد میں لا دیوی کی کسی ایک ہی حدیث پر کسی دن عمل کر لیتا ہے تو وہ اتناہی محمد مٹی ایم کے قریب ہو جاتا ہے.ایک شخص اپنے ہمسایوں کو دکھ دیتا ہے.انہیں تکلیف میں مبتلا رکھتا ہے.ان کے حقوق کا کوئی خیال نہیں رکھتا لیکن اپنے آپ کو مسلم مسلم کہتا رہتا ہے، تو اس کے اس قول سے لوگ خوش نہیں ہوں گے.وہ کتنا ہی کہتا رہے کہ میں اپنے ہمسایوں کا خیر خواہ ہوں.ان سے محبت رکھتا ہوں.ان کی تکلیفوں پر بے چین ہو جاتا ہوں اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھتا ہوں.لوگ اس کی ان باتوں پر کبھی خوش نہیں ہو سکتے.لیکن اگر وہ ایک وقت چاہے اس کے گھر میں دال ہی پکی ہوئی ہو.تھوڑی سی دال اپنے ہمسایہ کے گھر تحفہ کے طور پر بھیج دیتا ہے تو سب اس سے خوش ہو جائیں گے اور سمجھیں گے کہ اس نے قول سے نہیں اپنے عمل سے اپنی محبت اور خلوص کا ثبوت دیا ہے.یہی حال ایمان کا ہوتا ہے.انسان اپنے ایمان کا دن رات ڈھنڈورا پیٹتا رہے تو اسے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا لیکن اگر وہ اپنے ایمان کا ڈھنڈورا پیٹنے کی بجائے تھوڑا سا خد اتعالیٰ کی توحید پر یقین لے آتا ہے.تھوڑا سا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر یقین لے آتا ہے.تھوڑا سا قرآن کریم کی صداقت پر یقین لے آتا ہے تو بہت ممکن ہے یہ یقین اور ایمان اسے بہت دور تک لے جائے.ممکن ہے وہ تھوڑا سائقین جو اس کے دل میں خدا تعالی کی وحدانیت پر پیدا ہوا ہے اسے ایک دن بہت بڑا موحد بنا دے.ممکن ہے کہ وہ تھوڑا سا یقین جو اس کے دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر پیدا ہوا ہے بیج کی طرح پھیلنا شروع کر دے اور کسی وقت کھیت بن کر اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے مرتبہ تک پہنچا دے.ممکن ہے کہ وہ تھوڑا سا یقین جو اس کے دل میں قرآن کریم کی صداقت پر پیدا ہوا ہے کسی وقت کھیت بن کر پھیل جائے اور ایک دن ایسا آئے جب کہ وہ قرآن کریم کا عارف بن جائے.لیکن اگر اس کے دل میں کوئی ایمان نہیں اور وہ مونہہ سے سارا
288 دن کہتا رہتا ہے کہ میں خدا پر ایمان رکھتا ہوں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہوں.قرآن کریم پر ایمان رکھتا ہوں تو اس کے نتیجہ میں کوئی کھیتی پیدا نہیں ہوگی کیونکہ کھیتی نفی سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ کسی بیج سے پیدا ہوتی ہے.پس ہماری جماعت کے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اعمال میں اس امر کو مد نظر رکھا کریں کہ ان کا نام کیا رکھا گیا ہے.اللہ تعالٰی نے ان کا نام مسلم رکھا ہے.پس انہیں سوچنا چاہئے کہ کیا واقعہ میں وہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں اور کیا واقعہ میں وہ دنیا کے لئے امن کا موجب ہیں.ہمیں تو نظر آتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بعض دفعہ نوجوان دوسروں پر خونی حملہ کر دیتے ہیں اور پھر دعوی یہ کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں.دعوئی یہ کرتے ہیں کہ وہ احمدی ہیں حالانکہ اپنے عمل سے وہ اپنے آپ کو نہ احمدی ثابت کر رہے ہوتے ہیں نہ مسلمان.احمدیت تو اسلام کا ہی دوسرا نام ہے.کوئی الگ مذہب نہیں.موجودہ زمانہ میں چونکہ مسلمان حقیقت اسلام سے بے گانہ ہو چکے تھے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کا نام احمد یہ جماعت رکھ دیا تاکہ دنیا کو معلوم کہ آج حقیقی اسلام کو ماننے والے دنیا میں احمدیوں کے سوا اور کوئی نہیں ورنہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ احمدیت اسلام کے سوا کوئی اور چیز ہے.جب ہم احمدیت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہمار ا مطلب صرف یہ ہو تا ہے کہ اسلام کی جو تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے اس کو مانے والے ہم ہیں.یہ معنی نہیں ہوتے کہ اسلام کے سوا ہم نعوذ باللہ کسی اور مذہب کے پیرو ہیں.پس اگر کوئی شخص اپنے عمل میں تبدیلی نہیں کرتا اور وہ اس بات کو ثابت نہیں کر دیتا کہ وہ واقعہ میں لوگوں کا خیر خواہ ہے اور وہ خود بھی امن سے رہتا اور دوسروں کے امن میں بھی خرابی پیدا نہیں کرتا اس وقت تک وہ احمدی کہلا کس طرح سکتا ہے؟ در حقیقت ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو جماعت اور قوم کو بد نام کرنے والے ہوتے ہیں ورنہ ایک مومن کو تو لوگوں کا اتنا خیر خواہ ہونا چاہئے کہ اسے ہر قسم کی تکالیف اٹھا کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر کوئی شخص اپنے نفس پر ہر قسم کی تکالیف برداشت کر کے دوسروں کو فائدہ پہنچائے تو اسے بھی کوئی نقصان نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر شخص جو دوسرے کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ در حقیقت اپنے لئے بھی فائدے کا ایک راستہ کھولتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف ہوتی ہے دوسرے لوگ اسے مدد دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.گویا جب سارے لوگ اخلاق سے کام لینے والے ہوں تو کسی کو کوئی گھاٹا نہیں رہ سکتا.مشہور واقعہ ہے کہ نپولین ایک دفعہ اپنی فوج کے ساتھ کسی دلدل میں سے گزر رہا تھا کہ اس کی فوج کے سپاہی سخت تھک گئے اور انہوں نے شکایت کی کہ اب ہم سے چلا نہیں جاتا.وہ چونکہ دلدل کی جگہ تھی اس لئے
289 اگر وہ اسی جگہ بیٹھ جاتے تو اندر دھنس کر سب کے آلات خراب ہو جاتے.اوزار اور ہتھیار خراب ہو جاتے.کپڑے خراب ہو جاتے اور ان کے لئے کام کرنا مشکل ہو جاتا.افسروں نے کہا کہ یہاں تو آرام کرنے کی کوئی صورت نہیں.دلدل سے باہر نکل کر آرام کیا جا سکتا ہے.مگر سپاہیوں نے کہا کہ ہم چلنے سے بالکل معذور ہیں.ہم اس قدر تھک چکے ہیں کہ اب ہم سے ایک قدم بھی اٹھایا نہیں جا سکتا.آخر یہ بات نپولین تک پہنچی.اس نے کہا یہ کوئی مشکل امر نہیں.میں تم سب کو آرام دے دیتا ہوں.تم کہیں سے ایک کرسی لا دو.وہ ایک کرسی جو غالباًا بادشاہ کے لئے رکھی ہوئی تھی، لے آئے اور نپولین اس پر بیٹھ گیا.پھر اس نے ایک افسر کو کہا کہ آؤ اور میری گودی میں بیٹھ جاؤ.وہ نپولین کی گودی میں بیٹھ گیا تو اس نے حکم دیا کہ اسی طرح یکے بعد دیگرے ایک ایک آدمی دوسرے کی گودی میں بیٹھتا چلا جائے اور ایک حلقہ بنالیا جائے.چنانچہ سب لوگ اسی طرح بیٹھتے چلے گئے.جب آخری آدمی نپولین کی پشت کی طرف پہنچاتو نپولین نے اسے کہا کہ میرے نیچے سے کرسی نکال دو اور اپنی ٹانگوں پر مجھے بٹھا لو.چنانچہ کرسی نکال کر دو سروں کو دے دی گئی اور پھر جو لوگ باقی رہ گئے تھے وہ اس کرسی کے ذریعے اسی طرح بیٹھتے چلے گئے اور اس طرح ساری فوج کو آرام مل گیا.جب ہم بچے تھے تو ہم نے خود اس کا تجربہ کر کے دیکھا ہے.ذرا بھی بوجھ محسوس نہیں ہوتا اور سب کو آرام حاصل ہو جاتا ہے.اب بظاہر اس میں ایک آدمی نے دوسرے کو اٹھایا ہوا ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ہر شخص دوسرے کو آرام پہنچا رہا ہو تا ہے.یہی حال اخلاق کا ہے.اگر ایک شخص جوش کے وقت اپنے غصہ کو دبالیتا ہے تو در حقیقت وہ دوسرے کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ جب اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ بھی اسی طرح اپنے غصہ کو دبالے.پھر اس دوسرے سے تیرے کو تحریک ہوتی ہے اور تیسرے سے چوتھے کو تحریک ہوتی ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص فتنہ سے محفوظ رہتا ہے اور انہیں اس بات کی عادت ہو جاتی ہے کہ وہ اشتعال کے وقت اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں.بظاہر یہ ایک شخص کی قربانی نظر آتی ہے مگر در حقیقت یہ قربانی نہیں بلکہ نیکی کا ایک بیج ہوتا ہے جس سے دوسرے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور خود بھی اسے فائدہ ہوتا ہے.تو اخلاقی قربانیاں اور مذہب کی تعلیمیں نہایت ہی مفید چیزیں ہوتی ہیں اور ان پر عمل کرنا دنیا میں امن کے قیام کے لئے ضروری ہوتا ہے.یہ ایک غلط خیال ہے جو بعض لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ اگر ہم ان تعلیموں پر عمل کریں تو ہمارا یہ حرج ہو گا ہمار ا وہ حرج ہو گا.یہ سب آنکھ کا دھوکا ہو تا ہے.اگر خدا تعالٰی کی تعلیم کے مطابق عمل کیا جائے تو اس قسم کی تکلیف جو دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے برداشت کی جائے ، انسان کے لئے راحت کا موجب بن جاتی ہے اور ایسا شخص جو اپنی زندگی کا مقصد دو سروں کو.
290 آرام پہنچانا سمجھتا ہو ا سے جب خود کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو تمام لوگ اس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بے چین ہو جاتے ہیں اور انہیں اس وقت تک اطمینان نہیں آتا جب تک اس کی تکلیف کو دور نہ کرلیں.ہم نے دیکھا ہے جن قوموں میں قربانی کی روح ہوتی ہے وہ ایسا ہی کرتی ہیں اور اپنے بھائیوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہر قسم کے ایثار سے کام لینے کے لئے تیار رہتی ہیں.ہمارے بعض دوست ایک دفعہ بمبئی گئے اور وہ تبلیغ کے لئے بعض بوہرہ قوم کے تاجروں سے ملے تو دوران گفتگو میں ہمارے دوستوں نے ان سے دریافت کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ کی قوم کے سب لوگوں کی مالی حالت اچھی ہے اور کسی کی تجارت گری ہوئی نظر نہیں آتی.انہوں نے بتایا کہ ہم میں سے جب کسی شخص کی تجارت گر جاتی ہے اور اس کی مالی حالت سخت کمزور ہو جاتی ہے تو ہمارے ہاں یہ دستور ہے کہ وہ ہماری پنچایت میں درخواست دیتا ہے کہ میری تجارت گر گئی ہے اور پنچایت والے کوئی ایک چیز فروخت کرنے کے لئے اسے دے دینے کا فیصلہ کر دیتے ہیں.مثلا دیا سلائی بظاہر ایک چھوٹی سی چیز ہے مگر پنچایت فیصلہ کر دے گی کہ تمام دیا سلائیاں اسے دے دی جائیں.چنانچہ ہم میں سے جن جن تاجروں کے پاس دیا سلائیاں ہوں گی وہ اسے دے دیں گے اور کہیں گے کہ اتنی قیمت میں ہم نے دیا سلائیاں فروخت کرنی تھیں تم اس سے زیادہ قیمت پر دیا سلائیاں فروخت کر کے اصل قیمت ہمیں دے دینا اور نفع خود رکھ لینا.اس فیصلہ کے مطابق تمام قوم اسے دیا سلائیاں دے دیتی ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد دوکان پر جب گاہک آتا ہے اور کہتا ہے کہ دیا سلائی چاہئے تو دوکاندار جواب دے دیتا ہے کہ دیا سلائی تو ختم ہو چکی ہے.آپ کو اگر ملے گی تو فلاں سیٹھ کی دوکان سے ملے گی.پھر وہ دوسری دوکان پر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ دیا سلائی چاہئے.وہ دوکاندار بھی جواب دیتا ہے کہ دیا سلائی تو ختم ہو چکی ہے ہاں اگر آپ لینا چاہیں تو آپ کو فلاں سیٹھ کی دوکان سے ملے گی.آخر اسی طرح دس ہیں دوکانوں پر وہ جاتا ہے اور جب کسی دوکان سے بھی اسے دیا سلائی نہیں ملتی تو اس پر اس بات کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اب مجھے دیا سلائی جس قیمت پر بھی مل جائے لے لینی چاہئے.چنانچہ وہ اسی دوکان پر جاتا ہے جس کا سب نے اسے پتہ بتایا ہو تا ہے اور وہی دیا سلائی جو چار آنے گرس ہوتی ہے وہ دوکاندار چھ آنے گرس دیتا ہے اور خریدار اس قیمت پر بھی دیا سلائی کا میسر آنا غنیمت سمجھ کر خرید لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر میں نے یہاں سے بھی دیا سلائی نہ لی تو پھر مجھے کہیں سے نہیں ملے گی.یہ فائدہ جو بو ہروں کو حاصل ہے در حقیقت انہیں اپنے جتھے کی وجہ سے حاصل ہے.علاوہ ازیں اس میں
291 اس بات کا بھی ایک حد تک دخل ہو تا ہے کہ بالعموم بڑے شہروں میں باہر سے جو تاجر سودا خریدنے کے لئے آتے ہیں وہ شہر کے خاص خاص حلقوں سے ہی سودا خریدنے کے عادی ہوتے ہیں اور اگر ان حلقوں میں انہیں کسی چیز کے متعلق یہ معلوم ہو جائے کہ وہ کسی اور دوکان سے نہیں بلکہ فلاں دوکان سے ہی مل سکتی ہے تو اس اثر کے ماتحت جو اس حلقہ سے انہوں نے قبول کیا ہوا ہوتا ہے اسی دوکان پر چلے جاتے ہیں اور وہ دوکاندار زیادہ گراں قیمت پر ہر چیز فروخت کر کے نفع خود رکھ لیتا اور اصل قیمت مالکوں کو واپس کر دیتا ہے اور اس طرح تھوڑے دنوں کے اندر اندر پھر ہزاروں لاکھوں روپیہ کا مالک ہو جاتا ہے.اسی طرح وہ بعض دفعہ کسی کو مٹی کے تیل کا ٹھیکہ دے دیتے ہیں.بعض دفعہ کوئی اور چیز فروخت کرنے کے لئے دے دیتے ہیں اور باقی تمام قوم کے افراد سختی سے اس بات کی پابندی کرتے ہیں کہ خود اس چیز کو فروخت نہ کریں.اب بظا ہر یہ ایک قربانی معلوم ہوتی ہے مگر در حقیقت یہ ہر ایک کے فائدہ اور ترقی کا ایک ذریعہ ہے.کسی کو کیا پتہ کہ کل اس کی کیا حالت ہو جائے اور اگر آج اس کا لاکھوں روپیہ کا کاروبار ہے تو کل اس کی تجارت گر جائے اور اس کی مالی حالت کمزور ہو جائے.ایسی حالت میں یہی قانون اس کی ترقی کا بھی موجب بن سکتا ہے.پس گو یہ ایک قربانی معلوم ہوتی ہے مگر در حقیقت سب کی ترقی کا ذریعہ ہے اور اس کا فائدہ کسی ایک فرد کو نہیں بلکہ تمام قوم کو پہنچتا ہے.ہمارے قادیان میں صرف چند احمدی تاجر ہیں لیکن اگر یہاں اس طریق کو جاری کیا جائے تو میرا خیال ہے ان میں سے کئی برا منائیں گے اور کہیں گے کہ ہمارا نقصان کر دیا ہے حالانکہ اگر کل ان کی اپنی حالت خراب ہو تو ای قانون سے وہ خود بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں.بہر حال انہوں نے بتایا کہ اس دستور کی وجہ سے ہماری قوم گرتی نہیں بلکہ جب بھی کسی کو تجارت میں خسارہ ہوتا ہے، باقی قوم کے افراد کسی ایک چیز کے متعلق فیصلہ کر لیتے ہیں کہ یہ ہم فروخت کر کے نفع نہیں اٹھائیں گے بلکہ اصل قیمت پر اپنے بھائی کے پاس فروخت کر دیں گے تاکہ نفع سے وہ اپنی حالت کو بہتر بنا سکے.اس طرح نہ صرف ان کا بھائی ترقی کر جاتا ہے بلکہ ان کو بھی کوئی نقصان نہیں ہو تا کیونکہ اور بیسیوں چیزیں ان کی دوکان پر فروخت کرنے کے لئے موجود ہوتی ہیں.تو اخلاق اور اسلامی تعلیم پر عمل شروع میں کڑوا معلوم ہوتا ہے مگر ان چیزوں کا نتیجہ بڑا میٹھا ہو تا ہے.پس میں اپنی جماعت کے نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاق میں تغیر پیدا کریں اور اپنی جوانی کو اسلام کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کریں.اگر آج وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں گے.اپنے اخلاق کو درست کریں گے اور اپنی جوانی کے ایام کو اسلامی تعلیم کے ماتحت بسر کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کا بڑھاپا نہایت خوبصورت ہو گا اور وہ اپنی عمر کے آخری
292 ایام اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پورے اطمینان اور سکون کے ساتھ گزار سکیں گے لیکن اگر آج انہوں نے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھا اور اپنی جوانی کے ایام اسلام کے خلاف عمل کرتے ہوئے بسر کر دیئے تو ان کا بڑھاپا ان کے لئے عبادت کا وقت نہیں ہو گا بلکہ وہ شیطان کی جنگ میں ہی اپنی عمر کے آخری ایام ضائع کر دیں گے.انسان جوانی میں کئی قسم کی حرکات کر بیٹھتا ہے جن پر بڑھاپے میں اسے افسوس آتا ہے اور کہتا ہے کاش میں ایسانہ کر تا مگر اس وقت عادتیں پڑ چکی ہوتی ہیں اور انسان باوجود کوشش اور خواہش کے ان عادتوں کو نہیں چھوڑ سکتا.وہ دیکھتا ہے کہ موت قریب آتی جا رہی ہے.عمر گھٹتی جا رہی ہے.زندگی کے دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں مگر ادھر ا سے نظر آتا ہے کہ فلاں بدی میرے اندر پائی جاتی ہے.فلاں برائی میرے اندر موجود ہے.پس وہ دل ہی دل میں کڑھتا ہے اور بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرے، شیطان کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے اپنی زندگی کے آخری ایام گزار دیتا ہے.پس اپنی جوانی کے ایام کو اسلام کے احکام کے ماتحت گزار نے کی کوشش کرو.اپنے جو شوں سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ بلکہ اپنے تمام قومی اور اپنی تمام طاقتوں کو بر محل استعمال کر کے ان سے صحیح رنگ میں کام لو.اگر تم اپنی طاقتوں سے صحیح طور پر فائدہ اٹھاؤ گے تو یاد رکھو جس طرح دریاؤں سے نہریں نکلتی اور بڑے بڑے علاقوں کو سرسبز و شاداب کر دیتی ہیں اسی طرح تم دنیا کو فائدہ پہنچاؤ گے لیکن اگر تم اپنی طاقتوں سے ناجائز فائدہ اٹھاؤ گے تو جس طرح سندھ کے دریا نے طغیانی سے ضلعوں کے ضلعے تباہ کر دیئے ہیں اسی طرح تم دنیا کے امن کو تباہ و برباد کرنے والے ثابت ہو گے.انسان کو خداتعالی نے جو طاقتیں اور قوتیں دی ہیں وہ در حقیقت ایک دریا کی طرح ہیں.اگر ان طاقتوں سے صحیح فائدہ اٹھایا جائے تو وہ نہروں کی طرح دنیا کو فائدہ پہنچاتی ہیں لیکن اگر ان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو طغیانی والے دریاؤں کی طرح اردگرد کی تمام چیزوں کو ویران کر دیتی ہیں ".(خطبہ جمعہ فرموده ۳۱ جولائی ۱۹۴۲ء مطبوعه الفضل مورخہ ۶ اگست ۱۹۴۲ء)
293 خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد نوجوانوں میں دینی روح کا قیام بنی نوع انسان کی بہتری کیلئے خدمت کا جذبہ نماز کی فلاسفی کیا ہے کچی قربانی کا مفہوم - ابتلاؤں کی فلاسفی و قار عمل اور خدمت خلق کی حقیقی روح نوجوانوں کو ذکر الہی کی رغبت دلائی جائے نماز با جماعت کی تلقین ، آداب بیوت الذکر اور خشیت اللہ کی رغبت دلائی جائے خطبه جمعه فرموده ۱ ستمبر ۱۹۴۲ء
294 " آج کا خطبہ میں خدام خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد.نوجوانوں میں دینی روح کا قیام الاحمدیہ کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں.خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ تھی کہ نوجوانوں میں دینی روح پیدا کی جائے اور ان کے قلوب میں دین کے لئے اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے.چونکہ ہر باطن کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ہر مغز کے لئے ایک چھلکا اس کی حفاظت کے لئے ضروری ہوتا ہے اس لئے بعض قوانین ایسے مقرر کئے گئے جن کا منشاء یہ تھا کہ وہ مغز جو اس تحریک کے چلانے کا اصل مقصد ہے ، محفوظ رہے.مگر ہو سکتا ہے بعض لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے اس کے چھلکے کو ہی اصل مغز سمجھ لیں اور اس کے ظاہر کو ہی باطن خیال کر کے اس وہم میں مبتلا ہو جائیں کہ جو کام ان کے سپرد کیا گیا تھا اس کو انہوں نے پورا کر لیا ہے اور اس قسم کے دھو کے طبعی طور پر انسان کو لگتے ہی رہتے ہیں.نماز کو ہی لے لو.نماز ایک چھلکا ہے.ایک ظاہر ہے اس باطن اور اس مغز کا جو خدا اپنے بندوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے.نماز کیا ہے ؟ اس میں الفاظ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی تصویر کھینچ کر بندے کے سامنے رکھ دی گئی نماز کی فلاسفی ہے اور اس تصویر کو سامنے لا کر خیالی طور پر بندہ اپنے خدا سے باتیں کرتا ہے.جب وہ کہتا ہے ایاک نعبد وایاک نستعین تو اس وقت خدا تو اس کے سامنے نہیں ہو تا.وہ ہزاروں پر دوں بلکہ ان گنت پردوں میں چھپا ہوا اس کی نظروں سے پوشیدہ ہوتا ہے مگر چونکہ اس نے لفظی تصویر خداتعالی کی کھینچ لی ہوتی ہے اس لئے اس کے لئے جائز ہو جاتا ہے کہ وہ نماز میں ایاک نعبد و ایاک نستعین کیے.یہ تصویر اس کے سامنے اس لئے رکھی جاتی ہے تاکہ جب اسے خدا تعالیٰ کی زیارت نصیب ہو وہ اسے پہچان جائے.گویا نماز کیا ہے؟ ایک تصویر ہے.ویسی ہی جیسے کسی کا چھوٹا بچہ ہو اور وہ اسے بچپن میں ہی چھوڑ کر کہیں چلا جائے تو ماں اسے ہمیشہ اس کے باپ کی تصویر دکھاتی رہے کہ یہ تیرا ابا ہے.یہ تیرا ابا ہے تاکہ جب اس کا باپ گھر آئے تو اس سے مونہ نہ موڑلے اور یہ نہ کہے کہ میں نہیں جانتا یہ کون ہے.چونکہ اس نے بار بار اپنے باپ کی تصویر دیکھی ہوگی اس لئے جب وہ باپ کو اصل صورت میں دیکھے گا تو فورا اسے پہچان لے گا اور سمجھ جائے گا کہ یہ میرا باپ ہے.اسی طرح نماز میں خدا تعالیٰ کی ہستی کی لفظوں میں تصویر کھینچی جاتی ہے کہ وہ رب ہے.وہ رحمن ہے.وہ رحیم ہے.وہ مالک یوم الدین ہے.وہ انسان کو صراط مستقیم پر چلانے والا ہے.وہ ضلالت اور غضب کے راستوں سے بچانے اور محفوظ رکھنے والا ہے.وہ اعلیٰ ہے.وہ عظیم ہے.وہ سبحان ہے.وہ اکبر ہے.وہ تمام حمدوں کا مالک ہے.ہر قسم کی تعریفیں اسی کے لئے ہیں.ہر قسم کی قربانیاں اسی کے لئے ہیں اور ہر قسم کی عبادتوں کا وہی مستحق ہے.یہ خدا تعالیٰ کی ایک تصویر ہے.مثبت تصویر نہ کہ منفی.جب کسی ہستی میں انسان کو یہ صفات نظر آجائیں گی وہ فورا سمجھ جائے گا کہ یہ خدا ہے.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے.قیامت کے دن خدا تعالیٰ ایک غیر شکل میں بندوں کے سامنے ظاہر ہو گا اور انہیں کہے گا میں تمہارا خدا ہوں تم مجھے سجدہ کرو.بندے استغفار کرتے
295 ہوئے کہیں گے کہ تو ہمارا خدا نہیں ہو سکتا.ہم تجھے سجدہ کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ہم تجھے نہیں پہچانتے.تب وہ اس شکل میں جو انہیں بتائی گئی تھی ظاہر ہو گا اور تمام بندے سجدے میں گر جائیں گے.اس میں در حقیقت اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک قسم کی تصویر لوگوں کے سامنے رکھی ہوئی ہے تاکہ وہ اسے دیکھتے رہیں.دیکھتے رہیں اور دیکھتے رہیں اور اس کے اوصاف کو اچھی طرح یاد کر لیں تاکہ جب خدا تعالیٰ ان کے سامنے آئے اس جہان میں یا اگلے جہان میں وہ اسے فور پہچان لیں.اب دیکھو دنیا میں کس کس طرح لوگ خدا تعالیٰ سے دوسروں کو پھیرنا چاہتے ہیں.کوئی کہتا ہے حضرت کرشن خدا تھے.کوئی حضرت رام چندر کو خدا کہتا ہے اور کوئی حضرت علی کی خدائی کا قائل ہے.مگر وہ جس نے نماز میں لفظی تصویر خدا تعالیٰ کی دیکھی ہوتی ہے وہ ان کے قریب میں نہیں آسکتا اور اگر آجائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اس نے خدا تعالیٰ کی تصویر نہیں دیکھی.یہی وجہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا کہ جس نے مجھے نہیں پہچانا اس نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی نہیں پہچانا کیونکہ آنے والے مسیح کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ حلیہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشابہ ہو گا مگر حلیہ میں مشابہت سے مراد ناک کان اور آنکھ میں مشابہت نہیں بلکہ اس حلیہ سے مراد روحانی حلیہ ہے جو اصل چیز ہے ورنہ ایسے ناک کان اور آنکھ تو ہر ایک کے ہوتے ہیں.صرف روحانی آنکھیں اور روحانی کان اور روحانی ناک اور روحانی خوبصورتی ہی ہے جس میں دوسرے لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل مشابہ نہیں ہو سکتے تھے.صرف مسیح موعود کے متعلق ہی لکھا تھا کہ وہ آپ کے کامل مشابہ ہو گا.پس جس نے قرآن میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تصویر دیکھ لی تھی.جس نے حدیث میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر دیکھ لی تھی کس طرح ہو سکتا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کی شکل میں دیکھے اور نہ پہچانے مگر جس نے آپ کو دیکھ کر بھی نہیں پہچانا، اس کے متعلق سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تصویر بھی نہیں دیکھی تھی.جب وہ دعوی کرتا تھا کہ اس نے قرآن میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تصویر دیکھی ہوئی ہے.جب وہ دعویٰ کرتا تھا کہ اس نے حدیث میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر دیکھی ہوئی ہے تو وہ اپنے اس دعوئی میں جھوٹا تھا.حقیقت یہ تھی کہ اس نے آپ کی تصویر نہ قرآن میں دیکھی تھی نہ حدیث میں ، ورنہ ممکن ہی نہیں تھا کہ مسیح موعود جو اپنے روحانی حلیہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بالکل مشابہ تھے ، اس کے سامنے آتے اور وہ آپ کے وجود میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تصویر کو نہ دیکھ لیتا.اگر ایک شخص ہمارے سامنے کسے کہ میں نے آم کھایا ہوا مگر جب اس کے سامنے ہم آم لا کر رکھیں تو اس کی طرف وہ توجہ ہی نہ کرے اور جب اس سے پوچھا جائے کہ یہ کیا پھل ہے تو وہ کسے مجھے علم نہیں.تو ہم سمجھ جائیں گے کہ جب اس نے یہ کہا تھا کہ میں نے آم کھایا ہوا ہے تو اس نے جھوٹ سے کام لیا تھا.اسی طرح جب غیر اللہ کی شکل میں کوئی شخص آئے اور کہے کہ میں اللہ ہوں اور کوئی دوسرا شخص اس کے دھوکہ میں آجائے تو اس کے معنے یہی ہوں گے کہ اس نے قرآن میں حدیث
296 میں اور نماز میں اللہ تعالٰی کی شکل نہیں دیکھی تھی.اگر اس نے اللہ تعالٰی شکل دیکھی ہوتی تو وہ اس کے فریب میں نہ آتا.دنیا میں تم نے جس شخص کو اچھی طرح دیکھا ہوا ہوتا ہے تم اس کے متعلق کسی فریب میں نہیں آسکتے اور اگر دھو کہ کے طور پر کسی اور شخص کے متعلق تمہیں کوئی کہے کہ فلاں شخص ہے تو تم فورا کہہ دیتے ہو کہ میں اسے خوب جانتا ہوں یہ شخص وہ نہیں کوئی اور ہے.اسی طرح نماز ایک تصویر ہے جسے ہر مسلمان کے سامنے دن رات میں پانچ دفعہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس تصویر کو اچھی طرح ذہن نشین کرلے.پس در حقیقت نماز ایک تصویر یا ایک چھلکے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی اور تصویر اور اصل میں گو ظاہری لحاظ سے مشابہت ہوتی ہے مگر حقیقی خواص میں مشابہت نہیں ہوتی.رستم کی تصویر ہو تو اسے ایک بچہ بھی پھاڑ سکتا ہے مگر رستم کو پہلوان بھی گرا نہیں سکتا.اسی طرح شیر کی تصویر ہو تو اسے ایک چوہا بھی کھا سکتا ہے مگر کیا تم سمجھتے ہو کہ اصل شیر کو چو ہاکھا سکتا ہے.پس تصویر اور اصل میں صرف ظاہری طور پر مشابہت پائی جاتی ہے حقیقی پر نہیں.اس لئے نماز بوجہ تصویر ہونے کے صرف ایک ظاہر ہے، باطن اس کا اور ہے اور وہ باطن اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا قرب ہے یعنی انسان اللہ تعالٰی کی محبت میں اس قدر ترقی کرے کہ اسے اپنی روحانی آنکھوں سے خدا تعالیٰ نظر آنے لگ جائے یا کم سے کم اس کے دل میں یہ یقین پیدا ہو جائے کہ میرا خدا مجھے دیکھ رہا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ عبادت کیا ہے؟ عبادت یہ ہے کہ تو ایسا سمجھے کہ گویا خدا تجھ کو نظر آ رہا ہے اور اگر تجھے یہ مقام میسر نہیں تو تیرے اند ر کم سے کم یہ یقین ہونا چاہئے کہ میرا خدا مجھے دیکھ رہا ہے.یہ کیفیت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بتائی کہ نماز پڑھتے وقت کم سے کم تمہیں یقین ہونا چاہئے کہ تمہارا خدا تمہیں دیکھ رہا ہے یہ تصویری زبان میں پہلا روحانی قدم ہے جو اٹھنا چاہئے کہ ہر شخص کم سے کم ایسے مقام پر ہو کہ جب وہ نماز پڑھ رہا ہو تو ا سے یقین ہو کہ کوئی خدا ہے جو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر واقعہ میں کوئی رب ہے.رحمن ہے.رحیم ہے.مالک یوم الدین ہے.تمام عبادات کا مستحق ہے.اعلیٰ ہے.سبحان ہے.اکبر ہے تو کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ہم اس کی نظروں سے اوجھل ہیں.پس جب وہ تصویری زبان میں نماز پڑھ رہا ہو تو کم سے کم اس کے دل میں اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہئے کہ اس کا خدا اسے دیکھ رہا ہے.اس کے بعد جب محبت الہی میں بڑھتے بڑھتے وہ اللہ تعالی کی یاد میں منہمک ہو جاتا ہے اس کا ذکر اس کی غذا بن جاتا اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کے عشق سے بھر جاتا ہے تو اس وقت خدا اس کے سامنے آجاتا ہے اور اس وقت وہ صرف اس یقین پر نہیں ہو تاکہ خدا اسے دیکھ رہا ہے بلکہ وہ خود خدا کو دیکھنے لگ جاتا ہے.بہر حال نماز کی صورت ایک قشر کی سی ہے.اگر کوئی شخص اس پر بس کرلے اور سمجھ لے کہ میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ رکوع میں چلا گیا ہوں یا میں نے خدا تعالٰی کو سجدہ کر لیا ہے یا اس کے حضور کھڑے ہو کر ہاتھ باندھ لئے ہیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ اصل حقیقت کی تلاش نہیں کر رہا، قشر پر ہی خوش ہو گیا ہے.
297 خدام الاحمديه خدام الاحمدیہ کے قوانین قشر ہیں.خدام کو ان کی روح مد نظر رکھنی چاہئے کے لئے جی جو قوانین مقرر کئے گئے ہیں وہ بھی در حقیقت قشر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے.چنانچہ یہ جو کہا گیا ہے کہ خدام الاحمد یہ روزانہ کچھ وقت ہاتھ سے کام کیا کریں.سڑکوں کو درست کیا کریں.گڑھوں کو پر کیا کریں اور اسی طرح خدمت خلق کے اور کام سرانجام دیا کریں.ان کا مقصد یہ ہے کہ ان کے اندربنی نوع انسان کی ہمدردی کا سچا جذبہ پیدا ہو اور جب لوگوں پر کوئی عام مصیبت کا وقت آئے تو وہ اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے آگے بڑھیں اور کسی قسم کا کام کرنے میں عار محسوس نہ کریں لیکن اگر ان کاموں کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں بنی نوع انسان کی ہمدردی کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا.اگر وہ اپنے سیکرٹری یا کسی اور افسر کے بلانے پر ہاتھ سے کام کرنے کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں لیکن جب ان کا ہمسایہ کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اس کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے.تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ چھلکے کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں، حقیقت کو اخذ کرنے کی انہوں نے کوشش نہیں کی.ان کی مثال بالکل ان لوگوں کی سی ہے جو کہتے تھے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تصویر کو قرآن میں دیکھ لیا ہے.ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر کو حدیثوں میں دیکھ لیا ہے اور ہم آپ کو خوب پہچانتے ہیں مگر جب انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسیح موعود کی شکل میں دیکھا تو آپ کا انکار کر دیا اور نہ صرف انکار کیا بلکہ آپ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا.اگر ایسے لوگ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ہوتے تو یقیناً آپ کا بھی انکار کرتے اور آپ پر بھی کفر کا فتویٰ لگا دیتے.میں دیکھتا ہوں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ ۱۹۴۲ء میں خدمت خلق کا موقعہ کھو دینے کا قلق میں خدام الاحمدیہ کے امتحان کا ایک موقعہ پیدا ہوا تھا جس میں اگر وہ چاہتے تو کوشش کر کے کامیابی حاصل کر سکتے تھے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس امتحان میں خدام الاحمدیہ بری طرح ناکام ہوئے ہیں.تھوڑا ہی عرصہ ہوا بڑے بڑے سیلاب آئے ہیں اور ان سیلابوں سے بڑی تباہی ہوئی ہے.مگر مجھے افسوس ہے کہ جہاں تک مجھے علم ہے خدام الاحمدیہ نے اس موقعہ پر کوئی کام نہیں کیا اور اگر کیا ہے تو مجھے اس کا علم نہیں ہوا.یاد رکھو وہ سپاہی ملک کے لئے کبھی مفید نہیں ہو سکتا جو پریڈ تو کرتا رہے مگر لڑائی کے وقت گھر میں بیٹھ رہے.پریڈ تو لڑائی کے لئے ہی کی جاتی ہے.اگر کسی نے لڑائی میں شامل نہیں ہو نا تو وہ پریڈ پر اپنا وقت کیوں ضائع کرتا ہے.اس دفعہ ضلع لاہور میں ، ضلع شیخوپورہ میں اور ضلع فیروزپور میں سیلابوں سے بڑی تباہیاں آئی ہیں اور ہر جگہ مجالس خدام الاحمدیہ موجود تھیں مگر میرے پاس جو رپورٹیں آئی ہیں ان میں اس امر کا کوئی ذکر نہیں کہ اس موقعہ پر خدام الاحمدیہ نے لوگوں کی کیا خدمت کی ہے اور اس مصیبت کے وقت انہوں نے کس کس رنگ میں ہمدردی ظاہر کی.حالانکہ اس موقعہ پر بعض ہندوؤں نے ، بعض سکھوں نے اور بعض اور اقوام کے لوگوں نے بڑی خدمت کی ہے.یہاں تک کہ گورنمنٹ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ انہوں
298 نے لوگوں کی بہت مدد کی ہے مگر مجھے یہ معلوم کر کے نہایت ہی افسوس ہوا کہ ان میں خدام الاحمدیہ کا نام نہیں تھا.اگر ایسی مصیبت کے وقت بھی خدام الاحمدیہ لوگوں کی مدد کرنے کے لئے تیار نہیں تو پھر ہم نے ان کی پریڈوں کو کیا کرنا ہے.یہ جو کسی کسی دن وقت مقررہ پر ہاتھ سے کام کرنا ہو تا ہے یہ بچی قربانی نہیں ہوتی.کچی قربانی وہی ہوتی ہے جب اچانک کوئی مصیبت آجائے اور اسی کچی قربانی کا مفہوم ابتلاؤں کی فلاسفی وقت لوگوں کی امداد کے لئے اپنی جان ومال اور آرام و آسائش کو قربان کر دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قسم کے ابتلاء آیا کرتے ہیں.ایک ابتلاء تو ایسا ہوتا ہے جس میں بندے کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے اوپر کوئی سزا لے لے.جیسے اگر کسی کو کہا جائے کہ وہ اپنے آپ کو کوڑے مارے تو لا زیادہ احتیاط سے کام لے گا.اول تو زور سے نہیں مارے گا اور پھر کسی ایسی جگہ نہیں مارے گا جو نازک ہو اور جہاں زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہو.مگر جب دوسرا شخص کو ڑا مارے تو اس وقت وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ زور سے پڑتا ہے یا ہلکا پڑتا ہے اور کہاں لگتا ہے اور کہاں نہیں لگتا.اسی طرح فرماتے تھے وضو بھی ایک ابتلاء ہے.سخت سردی میں جب انسان وضو کرتا ہے تو لازماً اسے تکلیف ہوتی ہے مگر اسے اختیار ہوتا ہے کہ اگر چاہے تو پانی گرم کرے اور اس طرح اس تکلیف کی شدت کو اپنے لئے کم کرلے لیکن ایک اور ابتلاء ایسا ہوتا ہے جس میں بندے کا کوئی اختیار نہیں ہو تا.بیماری آتی ہے اور اس کے کسی بچے کو چمٹ جاتی ہے یا اسے اپنی بیوی سے بڑی محبت ہوتی ہے مگر وہ سخت بیمار ہو جاتی ہے یا بیوی کو خاوند سے بڑی محبت ہوتی ہے اور وہ کسی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے.یہ ابتلاء ایسا ہے جو اس کے اختیار سے باہر ہے اور اس کی چوٹ ایسی سخت ہوتی ہے کہ مدتوں تک اسے تڑپاتی رہتی ہے.پھر آپ فرمایا کرتے کہ در حقیقت یہیں ابتلاء انسان کے ایمان کی آزمائش کا ذریعہ ہوتے ہیں اور اسی وقت معلوم ہوتا ہے کہ کون اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان رکھتے اور کون سچا ایمان نہیں رکھتے.جس وقت اس قسم کے مصائب اور ابتلاء آتے ہیں اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ اب دن ہے یا رات یا لوگوں کے آرام کرنے کا وقت ہے یا کام کرنے کا.مثلاً گزشتہ دنوں سیلاب آئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں دیکھا کہ ہر رات کو آیا ہے یا دن کو.کام کے وقت تو تم کہہ دیتے ہو کہ ایسا وقت مقرر کرو جب سورج اونچا نہ آیا ہو اور خدام آپس میں مشورہ کر کے اعلان کر دیتے ہیں کہ چونکہ سخت گرمی پڑ رہی ہے اس لئے علی الصبح کام شروع کر دیا جائے گا اور آٹھ یا نو بجے بند کر دیا جائے گا.پھر کچھ لوگ کو زے لے کر ادھر ادھر دوڑتے پھرتے ہیں کہ کسی کو پیاس لگی ہو تو وہ پانی پی لے.ایک ڈاکٹر پٹیاں اور ضروری سامان لے کر بیٹھا ہو تا ہے کہ اگر کسی کو کوئی چوٹ لگ جائے تو اس کی مرہم پٹی کر دی جائے.غرض جس قدر سہولت کے سامان تمہیں میسر آسکتے ہیں تم ان سے کام لیتے ہو لیکن جس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے سیلاب آجائے تو اس وقت خدام الاحمدیہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ دریائے راوی کو تھوڑی دیر کے لئے روک دیا جائے.ابھی ہمارے خدام بیدار نہیں ہوئے یا نو بجے کے بعد سیلاب آنا بند ہو جائے کیونکہ اس کے بعد لڑکوں نے
299 سکول جانا ہے.جس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی عذاب آتا ہے اس وقت وہ نہ دن دیکھتا ہے نہ رات اور لوگوں کا بھی فرض ہوتا ہے کہ قطع نظر اس سے کہ اس وقت رات ہو یا دن ایک دوسرے کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور در حقیقت خدام الاحمدیہ کا قیام اسی لئے کیا گیا تھا.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب سیلاب آیا تو تمام مقامات کے خدام الاحمدیہ اپنے اپنے گھروں میں سوئے رہے یہاں تک کہ شاہدرہ کی جماعت کے متعلق مجھے یہ شکایت پہنچی کہ وہاں جب سیلاب آیا تو شاہدرہ کے خدام میں سے ایک شخص بھی لوگوں کی مدد کے لئے نہ آیا بلکہ لاہور سے بعض خدام مدد کے لئے پہنچے.اس کے یہ معنے نہیں کہ میں لاہور والوں کی تعریف کر رہا ہوں.انہوں نے بھی قابل تعریف نمونہ نہیں دکھایا.لاہور ایک بہت بڑا شہر ہے اور شاہد رہ وغیرہ اس کے قریب ہیں.ایسے موقعہ پر انہیں چاہئے تھا کہ وہ اپنے سب کام کاج چھوڑ کر لوگوں کی خدمت کرتے مگر جہاں تک میری اطلاعات ہیں ، مجھے افسوس ہے کہ یہ کام خدام الاحمدیہ نے نہیں کیا.پس ایک طرف میں خدام الاحمدیہ کے افسروں کو توجہ دلاتا و قار عمل اور خدمت خلق کی حقیقی روح ہوں کہ کیا وہ قشیر خوش ہیں اور کیا اتنی سی بات پر ہی ان کے دل تسلی پاچکے ہیں کہ وہ چھلکے اور ظاہر کی درستی میں لگے رہتے ہیں اور مہینہ دو مہینہ کے بعد ایک دن لوگوں کو پانی پلا پلا کر اور سانس دلا دلا کر اور ڈاکٹری مدد پہنچا پہنچا کر کچھ کام کرالیتے ہیں اور اگر وہ صرف اسی بات پر خوش ہیں تو میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس قسم کے کاموں کا دنیا کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.یہ شو تو ہے.نمائش تو ہے.پریڈ تو ہے لیکن اگر اصل موقعہ پر کام نہ کیا جائے تو پھر یہ کام پریڈ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا.صرف شو اور نمائش کی حیثیت رکھتا ہے.پس میں خدام الاحمدیہ کے افسروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان تمام علاقوں کی مجالس کے پاس جہاں جہاں سیلاب آئے ہیں، اپنے آدمی بھیجوا کر پتہ لگائیں کہ وہاں کی مجالس نے سیلاب کے موقعہ پر لوگوں کی کیا خدمت کی ہے اور آیا وہ خدمت ایسی تھی جو ان کے شان کے شایاں تھی.پھر اگر ثابت ہو کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس نے اپنے فرض کی بجا آوری میں غفلت سے کام لیا ہے تو ان کو سرزنش اور تنبیہ کی جائے.یہی وہ اصل غرض تھی جس کے لئے وہ اتنے سالوں سے تیاری کر رہے تھے مگر جب وقت آیا اور وہ دن آیا جس کے لئے انہیں تیار کیا جارہا تھا تو انہوں نے اپنے فرائض کو فراموش کر دیا اور اس نہایت ہی قیمتی موقعہ کو ضائع کر دیا.حضرت مسیح ناصری نے انجیل میں کیا ہی لطیف تمثیل بیان فرمائی ہے کہ کچھ عورتیں تھیں جو دولہا کے انتظار میں کھڑی رہیں.کھڑی رہیں.کھڑی رہیں اور کھڑی رہیں.جب دولہا کے آنے میں بہت دیر ہو گئی تو ان میں سے بعض کے پاس تیل ختم ہو گیا اور انہوں نے دوسری عورتوں سے کہا کہ اس وقت دکانوں میں تیل مل نہیں سکتا.کچھ تیل ہم کو بھی دے دو تاکہ ہم اپنی مشعلوں کو روشن رکھیں.تب جن کے پاس تیل تھا انہوں نے کہا ہم تم کو کس طرح تیل دے سکتی ہیں.ہمارے پاس جو تیل ہے وہ صرف اپنی ضرورت کے لئے ہے.تم اپنے گھروں کو
300 جاؤ اور جس طرح ہو سکے ، تیل لاؤ.چنانچہ وہ تیل لینے کے لئے اپنے گھروں کو لوٹ گئیں.ادھر وہ تیل لینے گئیں اور ادھر دولہا آگیا.وہ جن کے پاس تیل تھا انہیں دولہا اپنے ساتھ لے گیا اور اس نے قلعہ کے اندر جاکر اس کا دروازہ بند کر لیا.اتنے میں دوسری عورتیں بھی آپہنچیں اور انہوں نے دروازے پر دستک دی کہ ہم آگئی ہیں، ہمارے لئے دروازہ کھولا جائے.دولہا نے کہا تم میری دلہنیں نہیں ہو.میری دلہنیں وہ ہیں جو میرے انتظار میں کھڑی رہیں اور میرے ساتھ قلعہ کے اندر آئیں..اسی طرح خدا تعالیٰ جب اپنے بندوں سے ملنے کے لئے آتا ہے تو وہ کبھی سیلابوں اور ابتلاؤں کی فلاسفی سیلابوں کی صورت میں آتا ہے.کبھی زلزلوں کی صورت میں آتا ہے اور کبھی بیماریوں کی صورت میں آتا ہے.جو لوگ خدمت خلق کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کا وصال حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کر کے اس کے قرب کو پالیتے اور اس کی رضا کو حاصل کر لیتے ہیں.گویا ان کی مثال ان دلنوں کی سی ہوتی ہے جن کے پاس تیل تھا اور جب دولہا آیا تو وہ اس کے ساتھ چل پڑیں مگر جو لوگ ایسے موقعہ پر دوسروں کی خدمت کرنے سے گریز کرتے ہیں ان کی مثال ان دلہنوں کی سی ہوتی ہے جن کا تیل ختم ہو گیا اور وہ دولہا کے ساتھ نہ جاسکیں.نتیجہ یہ ہوا کہ دولہا نے انہیں اپنی دلہنیں بنانے سے انکار کر دیا.پس خدام الاحمدیہ کے وہ افسر جنہوں نے اس موقعہ پر غفلت اور کو تاہی سے کام لیا ہے ، ان کے متعلق تحقیق کر کے انہیں سرزنش اور تنبیہ کرنی چاہئے.ان کا فرض تھا کہ وہ رات دن کام کرتے اور اس خطرناک مصیبت کے وقت لوگوں کی ہر رنگ میں اعانت کر کے اپنے فرض کو ادا کرتے مگر انہوں نے بہت بڑی کو تاہی سے کام لیا ہے اور اب خدام الاحمدیہ کے افسروں کا یہ کام ہے کہ ان کو سرزنش کریں.دو تین سال تک انہیں محنت کرانے کا کیا فائدہ ہوا جب عین اس موقعہ پر جب کہ خدا نے ان کا امتحان لیا وہ فیل ہو گئے.اگر وہ اس امتحان میں شامل ہو جاتے اور خراب پرچے کرتے تب بھی وہ اتنا کہہ سکتے تھے کہ ہم امتحان میں تو شامل ہو گئے.یہ دوسری بات ہے کہ ہمارے پرچے اچھے نہیں ہوئے مگر ان کی تو یہ کیفیت ہے کہ وہ اس امتحان میں شامل ہی نہیں ہوئے.امتحان کے کمرہ میں انہوں نے قدم بھی نہیں رکھا اور پرچے کو انہوں نے ہاتھ بھی نہیں لگایا.کیا تم سمجھتے ہو ایسے لوگوں کو خدائی یونیورسٹی کی طرف سے کوئی سند ملے گی.سند کیا وہ تو ایسے لوگوں کا نام اپنے رجسٹروں سے نکال باہر کرے گی.پھر صرف باہر کے خدام الاحمدیہ پر ہی نہیں بلکہ مرکز پر بھی مجھے افسوس ہے کہ اس نے اب تک کیوں اس بارہ میں کوئی قدم نہیں اٹھایا اور کیوں مجھے کہنے کی ضرورت پیش آئی.انہیں تو چاہئے کہ جب بھی سنیں کہ لوگوں پر کوئی عام مصیبت آگئی ہے ، وہ اس کو دور کرنے کے لئے ایسے رنگ میں کام کریں جو دو سروں سے بہت زیادہ شاندار اور ممتاز ہو.ہم صرف اتنی بات پر خوش نہیں ہو سکتے کہ ہمارے خدام نے دوسرے لوگوں جتنا کام کیا ہے بلکہ ہماری خوشی اور ہماری مسرت اس بات میں ہے کہ ہماری جماعت کے خدام الاحمدیہ دوسری تمام اقوام کے نوجوانوں سے زیادہ نمایاں حصہ خدمت خلق میں لیں.پس خدام الاحمدیہ کے افسر
301 اس امر کی تحقیق کریں اور جنہوں نے اس موقعہ پرستی دکھائی ہے ان کو سرزنش کریں.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اب اللہ تعالٰی دوبارہ تمہارا امتحان لینے کے لئے پھر دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ کو غرق کر دے.خدا نے ایک بار تمہارا امتحان لیا اور اس میں تم فیل ہو گئے اور بری طرح فیل ہوئے.اب یہ نہیں ہو سکتا کہ تمہار ا دوبارہ امتحان لینے کے لئے اللہ تعالی دوبارہ لوگوں کو غرق کرے اور پھر سیلابوں سے تباہی آئے.یہ سیلاب اور قحط وغیرہ اللہ تعالی کے بعض اور قوانین کے ماتحت آتے ہیں اور اس کی سنت ہے کہ وہ ایسے عذاب مسلسل نہیں بلکہ کچھ عرصہ کے بعد بھیجا کرتا ہے.ایسے موقعہ پر خدمت خلق کرنے والی جماعتیں اپنے آپ کو پاس کرا لیتی ہیں مگر جو لوگ خدمت سے محروم رہتے ہیں وہ نیکی کے ایک بہت بڑے موقعہ کو اپنے ہاتھ سے ضائع کر دیتے ہیں.دوسری بات جس کی طرف میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ بارشوں کی دوسری بات کثرت کی وجہ سے اس دفعہ قادیان میں بہت سے غرباء کے مکان گر گئے ہیں.ان مکانوں کی مرمت اور تعمیر میں خدمت خلق کرنے والوں کو حصہ لینا چاہئے.میں اس موقعہ پر ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں جن کو معماری کا فن آتا ہے کہ وہ اپنی خدمات اس غرض کے لئے پیش کریں.آج کل عام طور پر عمارتوں کے کام بند ہیں اور وہ اگر چاہیں تو آسانی سے اپنے اوقات اس خدمت کے لئے وقف کر سکتے ہیں.پس جن معماروں کو خدا تعالی توفیق دے وہ ایک ایک دو دو تین تین چار چار دن جس قدر خوشی کے ساتھ دے سکتے ہوں دیں تاکہ غرباء کے مکانوں کی مرمت ہو جائے.مزدور مہیا کر نا خدام الاحمدیہ کا کام ہو گا.اس صورت میں بعض اور چیزوں کے لئے بہت تھوڑی سی رقم کی ضرورت ہوگی جس کے متعلق ہم کوشش کریں گے کہ چندہ جمع ہو جائے.مگر جہاں تک خدمت کا کام ہے ، خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ اس کو خود مہیا کرے.اس طرح خدا تعالی کے فضل سے بہت ہی کم خرچ پر غرباء کے مکانات کی مرمت ہو جائے گی.تیسری چیز جس کی طرف میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا تیسری چیز ہے نماز ایک قشر ہے اور اس کی اصل غرض یہ ہے کہ دلوں میں اللہ تعالٰی کی محبت اور ذکر الہی کا انس پیدا ہو.اس لئے میں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نوجوانوں میں اس نوجوانوں کو ذکر الہی کی رغبت دلائی جائے قسم کے وعظ کثرت سے کرائیں ذکر الہی کا انس آج کل مغربی اثر کے ماتحت بہت کچھ کم ہوتا جاتا ہے.جن میں ذکر الہی کی اہمیت بیان کی گئی ہو اور انہیں بتایا جائے کہ جب تک وہ بیت میں بیٹھنے اور ذکر الہی کرنے کی عادت اختیار نہیں کریں گے ، اس وقت تک خدا تعالی کے فضلوں کے نشانات کا وہ مشاہدہ نہیں کر سکیں گے.اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دیدار بچے رؤیا و کشوف اور الہامات وغیرہ انہیں نہیں ہو سکیں گے جب تک وہ ذکر الہی کی طرف توجہ نہیں کریں گے.خالی خولی نماز پڑھ کر چلے جانا اور باقی وقت گپوں میں ضائع کر دینا بہت بری بات ہے.اس سے دل سخت ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے انوار
302.قلب پر نازل نہیں ہوتے.الا ماشاء اللہ کسی پر احسان کر کے خدا تعالیٰ کوئی نور نازل کر دے تو اور بات ہے.پس خدام الاحمدیہ کے افسروں کو چاہئے کہ وہ خصوصیت سے مختلف بیوت الذکر اور مختلف حلقوں میں اس قسم کے وعظ کرائیں تاکہ نوجوانوں کے دلوں میں عبادت اور ذکر الہی کا شوق پیدا ہو.اب تک خدام الاحمدیہ کی طرف سے اس قسم کی بہت کم کوشش کی گئی ہے.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اول تو نوجوان بیت الذکر میں کم آتے ہیں اور جو آتے ہیں وہ اس تاڑ رہتے ہیں کہ امام کب آتا ہے تاکہ وہ اسی وقت بیت الذکر میں آئیں جب امام آئے.اس سے پہلے انہیں بیت میں آکر بیٹھنا نہ پڑے.گویا بیوت الذکر ان کے نزدیک ایسی چیز ہوتی ہے جیسے انگاروں پر چلنا.جس طرح انگاروں پر چلنے والا جلدی جلدی چلتا ہے کہ کہیں میرے پیر نہ جل جائیں اسی طرح وہ بھی چاہتے ہیں کہ بیت الذکر میں تھوڑے سے تھوڑا عرصہ ٹھر میں اور جلد سے جلد چلے جائیں.پھر بجائے اس کے کہ وہ بیت الذکر میں خاموشی سے بیٹھیں اور اللہ بیوت الذکر سے تعلق اور ذکر الہی تعالی کا ذکر کریں ، دو دو مل کر باتیں کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ بیوت الذکر اس لئے نہیں ہو تیں کہ ان میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کی جائیں.بیت الذکر میں یا تو دینی باتیں ہونی چاہئیں اور یا پھر انسان کو ذکر الہی میں مشغول رہنا چاہئے.جب تک نوجوانوں میں یہ روح پیدا نہیں ہوتی میں نہیں سمجھ سکتا ان میں خشیت اللہ کس طرح پیدا ہو سکتی ہے اور جب تک کسی کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت پیدا نہیں ہوتی ، ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ وہ ایک سچا احمدی ہے.ہاں اگر خدا کی محبت پیدا ہو جائے تو رفته رفتہ باقی تمام خوبیاں پیدا ہو جاتی ہیں.اگر کسی کے دل میں خدا کی محبت نہ ہو تو اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ریت میں کیلا گاڑا ہوا ہو.بظاہر وہ گڑا ہوا نظر آتا ہے لیکن اگر ذرا بھی اسے ٹھو کر لگائی جائے تو وہ فورزا کھر جاتا ہے لیکن جس دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے کسی مضبوط چٹان میں کوئی کیلا گاڑ دیا جائے.ایسے کیلے کو اگر ہتھوڑے بھی مارو تو وہ ملنے کا نام نہیں لے گا.پس اصل چیز ذکر الہی خدا تعالیٰ کی محبت اور بیوت الذکر کے ساتھ تعلق ہے.خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ نوجوانوں میں یہ باتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں.ان پر ذکر الہی کی اہمیت واضح کریں.ان کے دلوں میں اللہ تعالٰی کی محبت پیدا کریں اور انہیں بیوت الذکر میں زیادہ وقت صرف کرنے کی عادت ڈالیں.میں نے دیکھا ہے خدام الاحمدیہ نے نماز با جماعت میں نوجوانوں کی سستی کو دور کرنے کی کوشش کی اور قادیان میں اپنی اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب ہو گئے.اب اس سبق کو وہ نوجوانوں کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کریں کہ وہ بیوت الذکر کے ساتھ تعلق رکھیں.ذکر الہی کی عادت ڈالیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں.اس کے بعد انہیں خود بخود نظر آجائے گا کہ نوجوانوں کے اخلاق کی بہت کچھ اصلاح ہو گئی ہے.اب تو بعض دفعہ انہیں نوجوانوں میں بلا وجہ جوش نظر آجاتا ہے.بعض دفعہ ان میں پاگل پن کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.بعض دفعہ وہ گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں.اسی طرح وہ بعض دفعہ اور ابتلاؤں میں پڑ جاتے ہیں لیکن اگر وہ ان امور کی طرف توجہ
303 کریں گے اور نوجوانوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں گے.تو یہ نقائص اور عیوب خود بخود کم ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ جہاں خدا تعالیٰ کی محبت آجاتی ہے شیطان وہاں سے پرے بھاگا کرتا ہے.وہاں آیا نہیں کرتا".(خطبہ جمعہ فرموده ۱۱ ستمبر ۱۹۴۲ء مطبوعه الفضل ۱۷ ستمبر ۱۹۴۲ء)
بتاؤں تمہیں کیا کہ کیا چاہتا ہوں ہوں بندہ مگر میں خُدا چاہتا ہوں میں اپنے سیاہ خانہ دل کی خاطر وفاؤں کے خالق وفا چاہتا ہوں جو پھر سے ہرا کردے خشک پودا ہر مجھے پیر ہرگز نہیں ہے کسی وہی خاک جس سے بنا میرا پتلا چمن کے لئے وہ صبا چاہتا ہوں ނ میں دُنیا میں سب کا بھلا میں اس خاک کو دیکھنا چاہتا ہوں نکالا مجھے جس نے میرے چمن سے میں اس کا بھی دل ہے پیدا چاہتا ہوں سے بھلا چاہتا ہوں کہ لے کر قفس کو اُڑا چاہتا ہوں میرے بال پر میں وہ ہمت کبھی جس کو رشیوں نے منہ سے لگایا وہی جام آب میں پیا چاہتا ہوں رقیبوں کو آرام و راحت کی خواہش مگر میں تو کرب و بلا چاہتا ہوں دکھائے جو ہر دم تیرا حُسن مجھ کو میری جاں ! میں وہ آئینہ چاہتا ہوں
305 شعائر اللہ اور قومی شعائر کی حفاظت کیلئے تمہیں ہر وقت تیار رہنا چاہئے ه لفظی اور تمثیلی زبان کی اہمیت وافادیت قوموں میں جھنڈے کی اہمیت اور اس کا احترام لاہور کے ایک خادم کا جھنڈے کیلئے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا اور حضرت خلیفۃ المسیح کا اظہار خوشنودی وہی لوگ عزت کے مستحق سمجھے جاتے ہیں جو اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کیلئے تیار رہتے ہیں جو لوگ موت کو قبول کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں ان کو اور ان کی اولادوں کو ہمیشہ کی زندگی حاصل ہو جاتی ہے میں تمہیں شعائر اللہ اور قومی شعائر کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے کی ہدایت کرتا ہوں میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا اور اس کے دین کیلئے تمہیں بلایا جائے اس وقت تم اپنی جانوں کی اتنی قیمت بھی نہ سمجھو جتنی ایک مری ہوئی لکھی کی ہوتی ہے کسی چیز کو خدا کے مقابلہ میں مت کھٹڑ اکرو چیز خطبه جمعه فرموده ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۲ء)
306 دنیا میں دو قسم کی زبانیں بولی جاتی ہیں اور وہ دونوں زبانیں اپنی اپنی جگہ پر بہت بڑی اہمیت رکھتی ہیں.ان میں سے ایک زبان تو لفظی ہوتی ہے اور ایک زبان تمثیلی ہوتی ہے.اپنی اپنی جگہ پر ان دونوں کو اہمیت حاصل ہے اور در حقیقت ان دونوں زبانوں کے بغیر کوئی کام چل ہی نہیں سکتا.لفظی زبان کے متعلق تو سب ہی جانتے ہیں کہ اس کے بغیر گزارہ ممکن نہیں ہو تا.کوئی عربی میں کلام کرتا ہے.کوئی فارسی میں کلام کرتا ہے.کوئی اردو میں کلام کرتا ہے.کوئی انگریزی میں کلام کرتا ہے.کوئی جرمن میں کلام کرتا ہے اور کوئی فرانسیسی زبان میں کلام کرتا ہے اور اس طرح تمام لوگ اپنے اپنے مافی الضمیر کو الفاظ میں ادا کرتے ہیں مگر باوجود اس لفظی زبان کے “ ہر زبان کے آدمی تمثیلی زبان کے بھی محتاج ہوتے ہیں.کبھی یہ تمثیلی زبان اخفاء کے لئے استعمال کی جاتی ہے.جیسے دو آدمی باتیں کر رہے ہوتے ہیں اور ایک تیسرا آدمی ان دو میں سے ایک کے ساتھ کوئی ایسی بات کرنا چاہتا ہے جو وہ دوسروں سے چھپانا چاہتا ہے اور وہ اسے کسی اشارے سے اپنے مافی الضمیر سے اطلاع دے دیتا ہے.مثلاً اگر ان دو میں سے ایک شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ جس کام کے لئے اسے بلایا جارہا ہے اس کا کسی اور کو بھی علم ہو تو دو سرا آنے والا آدمی پشت سے اسے اشارہ کر دیتا ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ادھر چلو.ادھر کا اشارہ وہ اس طرف انگلیاں کر کے کر دیتا ہے اور چلو کا اشارہ وہ ہاتھ کو حرکت دے کر کر دیتا ہے.اب ہاتھ کو پیچھے کی طرف حرکت دینے کے معنے ہماری زبان میں یہ نہیں ہیں کہ پیچھے چلو.مگر اس اشارہ سے وہ سمجھ جاتا ہے کہ پیچھے کی طرف ہاتھ کو حرکت دینے کے معنے یہ ہیں کہ چلو اور جس طرف اشارہ کیا گیا ہے اس طرف اشارہ کرنے کے یہ معنے ہیں کہ ادھر چلو.اگر یہ زبان نہ ہوتی تو دوسرا شخص اختفاء سے کام نہ لے سکتا بلکہ اسے بلا کر لے جانا پڑتا جس سے دوسرے کے دل میں شبہ پیدا ہو تاکہ اسے نہ معلوم کس غرض کے لئے بلایا گیا ہے.اسی طرح فوجوں میں یہ زبان کام آتی ہے.فوجوں میں جھنڈیوں کے اشارہ سے لوگ اپنا مطلب بیان کر دیتے ہیں.مختلف رنگ کی جھنڈیاں ہوتی ہیں اور مختلف تعداد اس کی حرکتوں کی مقرر ہوتی ہے جن سے مختلف مطالب بیان کئے جاتے ہیں یا شیشے پر روشنی ڈال کر اس کی چمک سے اطلاع دے دیتے ہیں.اس کی چمک میں کوئی الفاظ نہیں ہوتے ہیں بلکہ انہوں نے بعض اشارے مقرر کئے ہوئے ہوتے ہیں کہ اتنی بار چمک کے یہ سننے ہیں.اس رخ کی چمک کے یہ معنے ہیں اور اس رخ کی چمک کے یہ معنے ہیں.یہ ایک ضرورت ہے جو جنگ کی حالت میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور اس غرض کے لئے فوجوں کو خاص طور پر ٹریننگ دی جاتی ہے.یہی تصویری زبان ایک لیکچرار کے بھی کبھی کبھی کام تی ہے.وہ تقریر کرتا ہے اور زور دار الفاظ اپنی تقریر میں لاتا ہے جس سے سامعین کو اپنے دلی خیالات سے واقف کرنا اس کا مقصود ہو تا ہے لیکن کبھی کبھی اس کے دل میں اتنا جوش پیدا ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے الفاظ کے ذریعہ میں ان پر اتنا اثر نہیں ڈال سکتا جتنا لفظی زبان کے ساتھ تمثیلی زبان ملا کر اثر ڈال سکتا ہوں.چنانچہ اس غرض کے لئے وہ کسی وقت اپنے ہاتھ کو زور سے نیچے کی طرف جھٹک دیتا ہے.اب اس کا تقریر کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کو نیچے کی طرف جھٹک دینا بے کار نہیں ہو تا بلکہ اگر اچھا لیکچرار اچھے موقعہ پر اچھے طریق سے اس تمثیلی زبان کو اپنی لفظی
307 زبان کی تائید میں استعمال کرتا ہے تو سامعین پر اس کا ضرور اثر ہوتا ہے.اسی طرح وہ کبھی اپنے ہاتھ کو دائیں طرف جھٹکا دے دیتا ہے.کبھی بائیں طرف جھٹکا دے دیتا ہے اور یہ جھٹکے اس کی لفظی زبان میں زیادہ زور پیدا کر دیتے ہیں.یہی زبان مذاہب میں بھی استعمال کی جاتی ہے.مثلا نماز کو ہی لے لو.اس میں لفظی زبان کے ساتھ تصویری زبان بھی شامل ہے.ہماری غرض نماز میں یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہم اپنی محبت اور اپنے عشق اور اپنے انکسار اور اپنے بجز کا اظہار کریں.زبان سے جو الفاظ ہم نکالتے ہیں وہ ان ساری باتوں کو ادا کر رہے ہوتے ہیں.جب ہم الخما لله رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّين (الفاتحہ : ۲ تا ۴) کہتے ہیں تو یہ ہمارے اس سے تعلق کا اظہار ہوتا ہے کہ تو ہی ہمارا رب ہے.تو ہی رحمن ہے.بغیر مانگے اور طلب کئے تو ہم پر اپنی نعمتیں نازل کرتا ہے.ہماری ضرورتیں تو ہی پورا کرنے والا ہے.تو جب فیصلہ کرتا ہے تو نہایت سچا اور صحیح ہوتا ہے.پھر ہم اس کے حضور اپنے بجز اور انکسار کے اظہار کے لئے ایاک نعبدو ایاک نستعين (الفاتحہ (۵) کہتے ہیں.اس سے بڑھ کر بجز کا اور کیا اظہار ہو سکتا ہے کہ ہم کہتے ہیں ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں.پھر اپنی درخواستیں پیش کرنے کے لئے اهدنا الصراط المستقيم ) صراط الذين انعمت عليهم (الفاتحہ : ۷۶) سے زیادہ اور کیا الفاظ ہو سکتے ہیں.مگر جہاں ہم یہ الفاظ بیان کرتے ہیں وہاں ہم سینہ یا ناف پر ہاتھ بھی باندھتے ہیں جو ایک تصویری زبان ہے اور جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم مئودبانہ طور پر اور ملتجیانہ طور پر تیرے سامنے ایک سوالی کی حیثیت میں کھڑے ہیں.اسی طرح ہم جب ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہتے ہیں تو وہ بھی ایک تصویر کی زبان ہوتی ہے.ہم اپنے عمل سے اس وقت ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ نماز کے علاوہ ہم کسی اور طرف توجہ نہیں کر رہے.ہم اس وقت بالکل خاموش ہوتے ہیں.کوئی شخص ہم سے بات کرے تو ہم اس کا جواب نہیں دیتے.مگر پھر بھی تصویر کی زبان میں ہم اپنے ہاتھ اٹھاتے ہیں جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اب ہم ساری دنیا سے قطع تعلق کر چکے ہیں.ہم رکوع میں اس کی تسبیح و تمجید کرتے اور اس کی عظمت بیان کرتے ہیں مگر ساتھ ہی تمثیلی زبان میں ہم جھک بھی جاتے ہیں.ہم سجدے میں جا کر خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتے اور اس کی علوشان کا اقرار کرتے ہیں.مگر ساتھ ہی تصویری زبان میں اس کے سامنے اپنا سر بھی رکھ دیتے ہیں.ہم نہایت ہی لطیف الفاظ میں تشہد میں خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہیں مگر ساتھ ہی تمثیلی زبان میں اس کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ جاتے ہیں.غرض جو جو اغراض اور مقاصد ہم الفاظ میں بیان کرتے ہیں انھی کو ہم تمثیلی زبان میں تمثیلی زبان کی اہمیت بھی بیان کرتے ہیں.جس سے معلوم ہو تاہے کہ ہمارے مذہب نے بھی تمثیلی زبان کی اہمیت اور اس کی عظمت کو تسلیم کیا ہے.دوسرے مذاہب میں بھی یہ بات اپنے اپنے رنگ میں پائی جاتی ہے بلکہ ہماری تمثیلی زبان سے بہت زیادہ پائی جاتی ہے.عیسائیوں میں اس حد تک غلو کرتے ہیں کہ وہ ایک خاص مقام خاص شکل کا بناتے ہیں.جہاں پادری کھڑا ہوتا ہے ، وہاں شمعیں جلائی جاتی ہیں اور ان شمعوں کی تعداد
308 مقرر ہوتی ہے کہ اتنی شمعیں جلائی جائیں اور وہ شمعیں ایسی ہوں.اسی طرح اور کئی قسم کی تمثیلیں ہیں جن پر عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں میں عمل کیا جاتا ہے.اسی طرح ہندوؤں کے مندروں میں ہوتا ہے.تو تمثیلی زبان کی ضرورت کو تمام مذاہب نے تسلیم کیا ہے.پھر ہم اللہ تعالیٰ کے کلام کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح لفظوں میں الہام نازل کرتا ہے اسی طرح وہ تمثیل میں بھی الہام نازل کرتا ہے.جس طرح وہ کسی بندے کو لفظوں میں کہہ دیتا ہے کہ میں تم کو علم بخشوں گا اسی طرح وہ کبھی تمثیلی زبان میں بھی اس کو دودھ کا پیالہ دے دیتا ہے اور انسان رؤیا میں دیکھتا ہے کہ اسے کسی نے دودھ کا پیالہ دیا ہے اور وہ اس نے پی لیا ہے.دوسرے لفظوں میں اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس کو علم عطا فرمائے گا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے خواب کی حالت میں دودھ کا پیالہ ملنے کا ذکر کیا تو آپ م نے فرمایا اس سے مراد علم ہے.تو خواب میں اگر دودھ کا پیالہ کسی شخص کو ملے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالی اسے علم عطا فرمائے گا لیکن اس مفہوم کو اگر لفظوں میں ادا کیا جائے تو الفاظ یہ بنیں گے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں تم کو علم بخشوں گا.اسی طرح خدا تعالیٰ کسی کو یوں بھی فرما دیتا ہے کہ تم نزلہ سے بیمار ہونے والے ہو اور کسی کو گدلا پانی دکھا دیتا ہے جس سے وہ کھیل رہا ہوتا ہے یا اس میں تیر رہا ہو تا ہے.جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اسے نزلہ یا نزلہ کی قسم کی کوئی اور بیماری ہونے والی ہے.جیسے انفلوئنزا ہے یا نمونیہ ہے جس میں نزلہ اعضا پر گرتا ہے اور انسان کو بیمار کر دیتا ہے.اسی طرح وہ کسی کو کہہ دیتا ہے کہ تمہیں غم پہنچے گا اور کسی کو خواب میں چنے دکھا دیتا ہے یا کچا گوشت دکھا دیتا ہے یا بینگن دکھا دیتا ہے یا گنے دکھا دیتا ہے اور ان کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ کوئی غم پہنچنے والا ہے.اسی طرح کسی کو وہ یہ کہہ دیتا ہے کہ تمہارا بیٹا مرنے والا ہے اور کسی کو یہ دکھا دیتا ہے کہ وہ ایک بکرا ذبح کر رہا ہے.غرض وہ کبھی لفظوں میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا اور کبھی تمثیلی زبان میں ان کو بیان کرتا ہے.ہم الفاظ میں سارے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک خدا کے ماننے والے ہیں اور سارے کے سارے ایک نقطہ مرکزی پر جمع ہیں مگر کبھی ہم اس بات کو تمثیلی زبان میں ادا کرتے ہیں جب کہ ہم حج کے لئے جاتے ہیں اور سارے ملکوں سے مسلمان خانہ کعبہ میں اکٹھے ہوتے ہیں.یہ حج کے لئے تمام مسلمانوں کا اکٹھا ہونا کیا ہے ؟ یہ تمثیلی زبان میں اس امر کا اقرار ہوتا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک ہیں.اسی طرح ہم مونہہ سے کہتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے لئے سارے کام چھوڑنے کے لئے تیار ہیں لیکن ہم تمثیلی زبان میں بھی ایسا کرتے ہیں چنانچہ جب نماز کا وقت ہو تا ہے تو تمام لوگ بیت میں اکٹھے ہو جاتے ہیں.اسی طرح جمعہ کے دن اردگرد کے علاقہ کے لوگ جمعہ پڑھنے کے لئے ایک مسجد میں اکٹھے ہو جاتے ہیں.یہ مسجد میں مسلمانوں کا نماز کے لئے اکٹھا ہو نا کیا ہے؟ یہ تمثیلی زبان میں اس امر کا اقرار ہوتا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے لئے اپنے تمام کام کاج چھوڑنے کے لئے تیار ہیں.جب بھی اس کی طرف سے آواز آئے گی ہم فورا اس پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہو جائیں گے.یہ جو تمثیلی زبان کے اشارے ہوتے ہیں ان کا بھی اسی رنگ میں اعزاز کیا جاتا ہے جس رنگ
309.میں لفظی کلام کا اعزاز کیا جاتا ہے.جس طرح ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم قرآن کریم کی وحی کا ادب اور احترام ہیں اسی طرح ہمیں یہ بھی حکم ہے کہ ہم شعائر اللہ کا ادب اور احترام کریں.شعائر اللہ کیا ہیں؟ وہ در حقیقت ایک تمثیلی زبان ہیں.صفا اور مردہ ایک تمثیلی زبان ہیں.منی ایک تمثیلی زبان ہے.مزدلفہ ایک تمثیلی زبان ہے.فرض یہ سب تمثیلی زبان ہیں.انبیاء کا وجود بھی اپنی ذات میں ایک تمثیلی زبان ہو تا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اتحاد کا ایک نقطہ ہوتے ہیں.تو جہاں الفاظ کے احترام کا ہمیں حکم ہے وہاں خدا تعالیٰ کی تمثیلی زبان کے احترام کا بھی ہمیں حکم ہے.جس طرح ہمیں یہ حکم ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف کوئی جھوٹا کلام منسوب مت کرو.یہ مت کہو کہ خدا نے ہم کو یہ الہام کیا ہے حالا نکہ خدا نے تم کو کوئی الہام نہ کیا ہو.اسی طرح ہمیں یہ بھی حکم ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف جھوٹے طور پر کوئی تمثیلی زبان بھی منسوب مت کرو.یہ نہ کہو کہ خواب میں ہم نے گنے دیکھے ہیں یا چنے دیکھے ہیں حالانکہ تم نے نہ گنے دیکھے ہوں نہ چنے دیکھے ہوں.تو دونوں چیزوں کا ادب اور احترام کیا گیا ہے اس کا بھی اور اس کا بھی.اس تمثیلی زبان کو بعض لوگوں نے اتنی عظمت دے دی ہے کہ وہ اس کی تعظیم خدا تعالیٰ کے برابر کرنے لگ گئے ہیں.چنانچہ جیسے مذہب میں تمثیلی زبانیں ہوتی ہیں اسی طرح سیاسیات میں بھی تمثیلی زبانیں ہوتی ہیں اور سیاسی تمثیلی زبان میں ہر قوم کا ایک جھنڈا ہوتا ہے جس کا ادب اور احترام کیا جاتا ہے.دنیا میں آج تک مختلف اقوام اپنے اپنے جھنڈے رکھتی چلی آئی ہیں اور وہ ان جھنڈوں کو خاص عزت اور عظمت دیتی ہیں یہاں تک کہ جو قربانی اپنی قوم کی معزز ترین اور محبوب ترین ہستی کے لئے کی جاتی ہے، وہ قربانی وہ قومیں ان جھنڈوں کے لئے کرتی ہیں اور قوموں کے لئے یہ بات بڑی ذلت کا موجب سمجھی جاتی ہے اگر ان کا جھنڈا کوئی دشمن چھین کر لے جائے.وہ اس جھنڈے کو بچانے کے لئے اس سے زیادہ کوشش کرتی ہیں جتنی کوشش وہ اپنے آدمیوں کی جان بچانے کے لئے کرتی ہیں.حالانکہ آدمی تلوار چلاتے ہیں.توپ چلاتے ہیں.دفاع کرتے ہیں.دشمن سے لڑتے ہیں مگر باوجود اس کے کہ جھنڈا بے جان ہو تا ہے چونکہ تمثیلی زبان میں اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ یہ ہماری قوم کی عزت ہے اس لئے لوگ جھنڈے کے لئے آدمیوں کو جو کام کرنے والے ہوتے ہیں ، قربان کر دیتے ہیں اور اس کپڑے اور لکڑی کو بچانے کے لئے بیسیوں نہیں سینکڑوں جانیں قربان کر دیتے ہیں.
310 پھر بعض قوموں نے تو اس قدر غلو کیا ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی توحید کو بھی اس پر قربان کر دیا ہے.مثلاً ہندوستان میں ہی قومی جھنڈ الہرایا جاتا اور پھر اسے سلام کیا جاتا اور اس کے آگے جھکا جاتا ہے حالانکہ سلام جاندار چیزوں کو کیا جاتا ہے.چنانچہ بعض دفعہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلاف کا ایک موجب یہ بات بھی ہو جاتی ہے.مسلمانوں میں سے جو موحد ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم جھنڈے کو سلام کرنے کے لئے تیار نہیں.اس پر ہندو ناراض ہوتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ان کے دلوں میں اپنی قوم کی محبت نہیں.حالانکہ مومن اسی حد تک اپنے تعلقات رکھ سکتا ہے جس حد تک خدا تعالیٰ نے ان تعلقات کے رکھنے کا حکم دیا ہے.وہ ملک کی خاطر یا قوم کی خاطر خد اتعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے باہر نہیں جاسکتا.غرض جھنڈے کو سلام کرنے کی غرض انہوں نے یہی رکھی ہے کہ لوگ اس سے وہ انتہا درجہ کی محبت کریں جو محبت وہ اپنے مذہب سے کرتے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے اپنی ہمسایہ قوم سے لڑائی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا کیونکہ وہ چاہتے ہیں چاہے مسلمانوں سے لڑائی ہو جائے جھنڈے کا سلام ضرور قائم کر دیا جائے.یورپین قوموں میں یہ رواج پایا جاتا ہے کہ وہ جھنڈے کو دیکھ کر اپنا سر ننگا کر دیتے ہیں اور بعض لوگ جھنڈے کے آگے جھک جاتے ہیں حالانکہ سوائے خدا کے اور کسی کے آگے اعزازی جھکنا جائز نہیں.یہ سب باتیں مشرکانہ ہیں اور ایک مسلم ان میں سے کوئی بات بھی اختیار نہیں کر سکتا.مگر باوجود اس کے ہم اس امر سے انکار نہیں کر سکتے کہ تمثیلی زبان بہت بڑی اہمیت رکھنے والی چیز ہے اور تمثیلی زبان میں جن چیزوں کو عزت کا موجب سمجھا جائے ان کی حفاظت کرنامذہب کے خلاف نہیں بلکہ مذہب کا ہی حصہ ہے.اب ایک بیت الذکر کی اینٹیں ویسی ہی ہوتی ہیں جیسے کسی اور مکان میں اینٹیں لگی ہوئی ہوتی ہیں.ایک ہی بھٹے سے وہ اینٹیں آتی ہیں.ایک ہی آگ سے وہ پکی ہوئی ہوتی ہیں.ایک ہی چمپنی نے ان کی دود کشی کی ہوئی ہوتی ہے.ایک ہی مستری نے وہ اینٹیں پتھوائی ہوتی ہیں جو بعض دفعہ ایک چوڑھا چمار بھی ہو سکتا ہے.پھر انہی اینٹوں سے ایک سکھ کا مکان بنتا ہے.ایک ہندو کا مکان بنتا ہے.ایک عیسائی کا مکان بنتا ہے.ایک مسلمان کا مکان بنتا ہے مگر کسی مکان کو کوئی خاص عظمت حاصل نہیں ہوتی لیکن انہی اینٹوں سے بنی ہوئی بیت الذکر کے لئے مسلمان اپنی جانیں دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.اس لئے کہ بیت الذکر تصویری زبان میں خدا تعالیٰ کی عبادت کا نشان ہوتی ہے.حالانکہ ایک چوڑھے یا جمار نے وہ اینٹیں پاتھی ہوتی ہیں.ایک ہی قسم کا کوئلہ ان پر خرچ ہوا ہو تا ہے.ایک ہی قسم کے آدمیوں نے جو بعض اوقات شرابی اور بد کار بھی ہو سکتے ہیں ان کو تیار کرنے میں حصہ لیا ہوتا ہے.مگر جب وہ اینٹیں بیت الذکر کو جاکر لگتی ہیں تو ان کو خاص عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جانے لگتا ہے.اس لئے نہیں کہ وہ اینٹیں اپنی ذات میں قابل عزت ہیں بلکہ اس لئے کہ ان اینٹوں سے بیت الذکر بنتی ہے اور ان اینٹوں کے گرانے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ بیت الذکر گرائی جاتی ہے اور بیت الذکر کے گرانے کے یہ معنے سمجھے جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کو نقصان پہنچایا جاتا ہے.اسی طرح کسی بزرگ کے سامنے کوئی شخص اگر اس سے اونچی جگہ پر آکر بیٹھ رہے تو سب لوگ اسے بے ادب اور گستاخ کہنے لگ جائیں گے یا باپ تو نیچے بیٹھا ہو اور بیٹا اوپر بیٹھ رہے تو سب لوگ کہیں گے
311 یہ بڑا بے حیاء اور بے شرم ہے ، باپ نیچے بیٹھا ہوا ہے اور بیٹا اوپر بیٹھ گیا ہے حالانکہ عملی طور پر اس نے اپنے باپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہو تا.باپ اگر نیچے بیٹھا ہوتا ہے تو اپنی مرضی سے بیٹھا ہو تا ہے اور بیٹا اگر اوپر بیٹھ رہتا ہے تو اس لئے بیٹھتا ہے کہ اسے اوپر بیٹھنے سے آرام حاصل ہوتا ہے مگر تصویری زبان میں چونکہ اوپر اور نیچے کے معنے عزت اور ذلت یا اعلیٰ اور ادنی کے سمجھے جاتے ہیں اس لئے باوجود اس کے کہ بیٹے کے اوپر بیٹھنے سے باپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا وہ اگر اوپر بیٹھ جاتا ہے تو سب لوگ اسے برا سمجھتے ہیں اس لئے کہ تصویری زبان میں اوپر اور نیچے کا مفہوم اعلیٰ اور ادنی کے معنوں میں سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے عمل سے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ میں اعلیٰ ہوں اور میرا باپ ادنی ہے یا میں بڑا ہوں اور میرا باپ چھوٹا ہے.اسی تصویر کی زبان کے لحاظ سے جب کسی بیت الذکر کو گرایا جاتا ہے تو یہ نہیں سمجھا جاتا کہ چند اینٹوں کو گرا دیا گیا ہے بلکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ بیت الذکر پر حملہ کر کے خدا تعالیٰ کی عبادت کو نقصان پہنچایا گیا ہے.میں نے ابھی جھنڈے کی مثال دی تھی اور میں نے بتایا تھا کہ قوموں میں جھنڈے کا بڑا ادب اور احترام کیا جاتا ہے.بعض دفعہ دشمن سے اس کا جھنڈا چھینے کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کی جاتی ہیں اور بعض دفعہ اپنا جھنڈا بچانے کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کی جاتی ہیں اور یہ شرک نہیں ہو تا بلکہ جیسے باپ کے سامنے اس کے بیٹے کا اوپر بیٹھنا سب لوگ ناجائز سمجھتے ہیں اس لئے کہ اس طرح تمثیلی زبان میں باپ کی ہتک ہوتی ہے.اسی طرح تمثیلی زبان میں چونکہ قوم کا جھنڈا چھینے جانے کے معنے اس کی عزت و آبرو کے خاک میں مل جانے کے ہیں اس لئے تو میں اپنی جانیں قربان کر دیتی ہیں مگر یہ برداشت نہیں کر سکتیں کہ ان کا جھنڈا دشمن کے قبضہ میں چلا جائے.فرانس کا ایک مشہور واقعہ ہے اس جنگ میں نہیں بلکہ اس سے پہلے کی ایک جنگ میں ایک دفعہ جرمن والوں نے فتح پائی اور فرانس کی حکومت نے جرمنی سے صلح کرلی.صلح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو فوج آگے لڑ رہی ہے اس کا جھنڈا جرمنوں کے حوالے کر دیا جائے.جس وقت یہ اطلاع اس فوج کو پہنچی وہ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے اور انہوں نے کہا ہم یہ نہیں کر سکتے کہ اپنا جھنڈا دشمنوں کے حوالے کر دیں.صلح کرنی اور بات ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنا جھنڈا اپنے ہاتھ سے دشمن کے حوالے کر دیا جائے.افسروں نے کہا ہم اس بارہ میں کیا کر سکتے ہیں.یہ ہماری حکومت کا فیصلہ ہے اور اب لازماً ہمیں لڑائی چھوڑنی پڑے گی مگر اس بات میں ہم بھی تم سے متفق ہیں کہ اپنا جھنڈا دشمن کو دے دینا ایسی ذلت ہے جس سے بڑی اور کوئی ذلت نہیں.مگر طے شدہ شرائط میں سے کسی شرط کو تو ڑ دینے کے یہ معنی تھے کہ پھر لڑائی مول لے لی جائے اور یا پھر دشمن کی طرف سے کوئی بھاری سزا قبول کی جائے.چنانچہ وہ سب حیران تھے کہ کیا کریں.اتنے میں ایک کرنیل اٹھا.اس نے اپنے جھنڈے کو اتارا اور قریب ہی کھانا پکانے کے لئے آگ جل رہی تھی اس میں وہ جھنڈا اس نے ڈال دیا اور پھر آگ میں جھنڈا ڈالنے کے بعد چیچنیں مار کر رونے لگ گیا.جھنڈا جلانے کے معنے یہ تھے کہ ہم نے اپنی قوم کا جھنڈا دشمن کے ہاتھ میں نہیں جانے دیا اور اس کے رونے کے یہ معنی تھے کہ مجھے اپنے ہاتھ سے اپنی قوم کا جھنڈا تلف کرنا پڑا.
312 گویا اس نے دونوں کام کرلئے.اپنے خیال میں اپنی قوم کی عزت کو بھی بچالیا اور پھر اپنے ہاتھ سے اپنی قوم کا جھنڈا تلف کرنے پر اس نے اپنے درد کا بھی اظہار کر دیا.وہ ایک فوجی افسر تھا اور فوجی افسر کے لئے آنسو بہانا بھی برا سمجھا جاتا ہے مگر وہ اس وقت چیچنیں مار کر رونے لگ گیا.بظاہر ایک انسان حیران ہو تا ہے کہ یہ کیسی عجیب بات ہے.ایک سمجھدار اور عقلمند انسان تھوڑے سے کپڑے اور لکڑی کے ضائع ہونے پر رو رہا ہے.مگر جب کسی قوم کے افراد کے دلوں میں اس کے جھنڈے کی عظمت قائم کر دی جاتی ہے تو وہ انہیں اس بات کے لئے تیار کر دیتی ہے کہ اگر اپنے جھنڈے کی حفاظت کے لئے انہیں اپنی جانیں بھی قربان کرنی پڑیں تو بلا دریغ جانیں قربان کر دیں کیونکہ اس وقت تھوڑی سی لکڑی اور کپڑے کا سوال نہیں ہو تا بلکہ قوم کی عزت کا سوال ہو تا ہے جو تمثیلی زبان میں ایک جھنڈے کی صورت میں ان کے سامنے موجود ہوتا ہے.میں نے کئی دفعہ پہلے بھی بیان کیا ہے کہ ہمیں صحابہ میں بھی اس قسم کی مثال نظر آتی ہے.ایک جنگ میں ایک مسلمان افسر کے پاس اسلامی جھنڈا تھا.وہ لوگ شاندار جھنڈے نہیں بنایا کرتے تھے بلکہ ایک معمولی سی لکڑی پر کالا کپڑا باندھ لیتے تھے.مگر چاہے وہ کالا کپڑا ہوتا چاہے اس جھنڈے کی معمولی لکڑی ہوتی اس وقت سوال قوم کی عزت کا ہوا کر تا تھا.یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ جھنڈا قیمتی ہے یا معمولی بلکہ وہاں صرف اس بات کو ملحوظ رکھا جاتا تھا کہ قوم کی عزت اس بات میں ہے کہ اس جھنڈے کی حفاظت کی جائے.بہر حال اس لڑائی میں عیسائیوں نے جن کے خلاف جنگ ہو رہی تھی خاص طور پر اس جگہ حملہ کیا جہاں مسلمانوں کا جھنڈا تھا.حضرت جعفر کے پاس یہ جھنڈا تھا اور یہ جنگ جنگ موتہ تھی.انہوں نے جب حملہ کیا تو حضرت جعفر" کا ایک ہاتھ کٹ گیا.انہوں نے جھٹ اس جھنڈے کو دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیا.جب دشمن نے دیکھا کہ جھنڈا پھر بھی نیچے نہیں ہوا تو اس نے دوبارہ حملہ کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا دوسرا ہاتھ بھی کٹ گیا جس میں انہوں نے جھنڈا تھاما ہوا تھا.انہوں نے فورا جھنڈے کو دونوں لاتوں سے پکڑ لیا مگر چونکہ لاتوں سے زیادہ دیر تک جھنڈا پکڑا نہیں جا سکتا تھا اس لئے انہوں نے زور سے آواز دی کہ کوئی مسلمان آگے آئے اور اس جھنڈے کو پکڑے اور انہوں نے کہا مسلمانو! دیکھنا اسلام کا جھنڈ ایچا نہ ہو.اب تھا تو وہ کپڑے کا یا معمولی لکڑی کا جھنڈ امگر اس کا نام انہوں نے اسلام کا جھنڈا ر کھا کہ گو ہے تو وہ لکڑی کا.ہے تو وہ معمولی سے کپڑے کا مگر بہر حال اسلام کا جھنڈا ہے اس لئے اس کی حفاظت ضروری ہے.چنانچہ ایک اور افسر نے آگے بڑھ کر اس جھنڈے کو پکڑ لیا.میرا خیال ہے کہ غالبا وہ حضرت خالد بن ولید تھے جنہوں نے وہ جھنڈا پکڑا.تو دیکھو ایک کپڑے کی چیز ہے معمولی لکڑی کی چیز ہے اور اسلام کے نزدیک اس کپڑے یا لکڑی کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں.مگر جس حد تک قومی اعزاز کا سوال ہے اسلام اس سے منع نہیں کرتا.انہوں نے کہا یہ اسلام کا جھنڈا ہے دیکھنا یہ گرنے نہ پائے اور رسول کریم لی لی نے بھی ان کی اس بات کو نا پسند نہیں کیا بلکہ بعض دفعہ خود رسول کریم ملی لیے ایسی چیزوں کی عظمت قائم کرنے کے لئے فرما دیا کرتے تھے کہ یہ جھنڈا کون شخص لے گا.چنانچہ بعض لڑائیوں میں آپ نے فرمایا ہے کہ میں جھنڈا اس شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اس کی عزت کو قائم کرے گا اور صحابہ ایک دو سرے سے بڑھ بڑھ کر اس
313 اس جھنڈے کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے.اسی طرح ایک دفعہ آپ ایک تلوار لائے اور فرمایا یہ تلوار میں شخص کو دوں گا جو اس کا حق ادا کرے گا.کئی لوگوں نے اپنے آپ کو اس کے لئے پیش کیا مگر آپ نے ان میں سے کسی کو نہ دی.اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ آگئے اور رسول کریم صلی یا لیلی نے وہ تلوار ان کو دے دی اور آپ نے فرمایا علی میں امید کرتا ہوں کہ تم اس تلوار کا حق ادا کرو گے.چنانچہ جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کا حق ادا کر دیا اور ایسے طور پر جنگ میں حصہ لیا کہ دشمن کو شکست ہو گئی.ایک احمدی نوجوان کا جھنڈے کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس کی حفاظت کرنا رسول کریم ملی کی اس سنت کی پیروی میں ہم نے بھی اپنی جماعت کا اور حضور کا اظہار خوشنودی ایک جھنڈا بنایا ہے.ابھی پچھلے دنوں خدام الاحمدیہ کا ایک جلسہ ہوا تھا.اس جلسہ میں باہر کی جماعتوں کی طرف سے بھی لوگ آئے تھے.اس میں ایک ایسے واقعہ کا مجھے علم ہوا جو ایک حد تک میرے لئے خوشی کا موجب ہوا اور میں سمجھتا ہوں جس نوجوان سے یہ واقعہ ہوا ہے وہ اس قابل ہے کہ اس کی تعریف کی جائے.اس لئے میں یہ واقعہ اپنے خطبہ میں بیان کر دیتا ہوں.واقعہ یہ ہے کہ لاہور کے خدام جب جلسہ میں شمولیت کے لئے آرہے تھے تو اس وقت جبکہ ریل سٹیشن سے نکل چکی تھی اور کافی تیز ہو گئی تھی ایک لڑکے سے جس کے پاس جھنڈا تھا ایک دوسرے خادم نے جھنڈ ا مانگا.وہ لڑکا جس نے اس وقت جھنڈا پکڑا ہوا تھا ایک چھوٹا بچہ تھا.اس نے دوسرے کو جھنڈا دے دیا اور یہ سمجھ لیا کہ اس نے جھنڈا پکڑلیا ہے.مگر واقعہ یہ تھا کہ اس نے ابھی جھنڈے کو نہیں پکڑا تھا.اس قسم کے واقعات عام طور پر ہو جاتے ہیں.گھروں میں بعض دفعہ دوسرے کو کہا جاتا ہے کہ پیالی یا گلاس پکڑاؤ اور دوسرا برتن اٹھا کر دے دیتا ہے اور یہ خیال کر لیتا ہے کہ اس نے پہلی یا گلاس کو پکڑ لیا ہو گا مگر اس نے ابھی ہاتھ نہیں ڈالا ہو تا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ برتن گر جاتا ہے.اسی طرح جب اس سے جھنڈا مانگا گیا اور اس نے جھنڈا دوسرے کو دینے کے لئے آگے بڑھا دیا تو اس نے خیال کیا کہ دوسرے نے جھنڈا پکڑ لیا ہو گا مگر اس نے ابھی پکڑا نہیں تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ جھنڈا ریل سے باہر جاپڑا.مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ چھو ٹالڑ کا جس کے ہاتھ سے جھنڈا گر ا تھا فور انیچے کودنے لگا مگر وہ دو سر الڑ کا جس نے جھنڈ امانگا تھا اس نے اسے فورا روک لیا اور خود نیچے چھلانگ لگادی.لاہور کے خدام کہتے ہیں ہم نے اسے اوندھے گرے ہوئے دیکھ کر سمجھا کہ وہ مر گیا ہے مگر فورا ہی اٹھا اور جھنڈے کو پکڑ لیا اور پھر ریل کے پیچھے دوڑ پڑا.ریل تو وہ کیا پکڑ سکتا تھا.بعد میں کسی دوسری سواری میں بیٹھ کر اپنے قافلہ سے آملا.میں سمجھتا ہوں اس کا یہ فعل نہایت ہی اچھا ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی تعریف کی جائے.خدام الاحمدیہ نے اس کے لئے انعام مقرر کیا تھا اور تجویز کیا تھا کہ اسے ایک تمغہ دیا جائے مگر اس وقت یہ روایت میرے پاس غلط طور پر پہنچی تھی.اس لئے میں نے اسے
314 وہ انعام نہ دیا.بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ صحیح بات یہ ہے کہ جھنڈا اس کے ہاتھ سے نہیں گرا تھا بلکہ دوسرے کے ہاتھ سے گرا تھا.پہلے مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ اس کے ہاتھ سے جھنڈا گر ا تھا.بہر حال یہ ایک نہایت ہی قابل تعریف فعل ہے.خدام الاحمدیہ سے ہمیشہ اس بات کا اقرار لیا جاتا ہے کہ وہ شعائر اللہ کا ادب اور احترام کریں گے.اسی طرح قومی شعائر کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں گے.اس اقرار کو پورا کرنے میں لاہور کے اس نوجوان نے نمایاں حصہ لیا ہے اور میں اس کے اس فعل کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا.اس نوجوان کا نام مرزا سعید احمد ہے اور اس کے والد کا نام مرزا شریف احمد ہے.بظاہر یہ سمجھا جائے گا کہ اس نوجوان نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا مگر جہاں قومی شعائر کی حفاظت کا سوال ہو وہاں اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اور در حقیقت وہی لوگ عزت کے مستحق سمجھے جاتے ہیں جو اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار رہتے ہیں.وہ لوگ جو اپنی جان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں انہی کی جانیں دنیا میں سب سے زیادہ سستی اور بے حیثیت سمجھی جاتی ہیں.آخر غلام قومیں کون ہوتی ہیں.وہی لوگ غلام بنتے ہیں جو اپنی جانوں کو قربان کرنے سے ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم مر نہ جائیں.وہ ایک وقت کی موت قبول نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ انہیں بعض دفعہ صدیوں کی موت دے دیتا ہے.غدر کا مشہور واقعہ ہے کہ انگریزوں نے ظفر شاہ کی ایک بیوی پر اثر ڈالا ہوا تھا جو بادشاہ کو بہت پیاری تھی اور اس سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر تو نے ہمار ا ساتھ دیا تو ہم تیرے بیٹے کو بادشاہ بنادیں گے.اس لڑائی میں ایک وقت انگریزی فوج نے ایک ایسی جگہ تو ہیں لگائیں جہاں سے قلعہ پر کامیاب حملہ کیا جا سکتا تھا.ان توپوں پر ایک ایسی جگہ سے زد پڑتی تھی جو ملکہ کے محل کے سامنے تھی.اس جگہ تو ہیں لگادی جاتیں تو انگریزی حملہ بے کار ہو جاتا تھا.انگریز سمجھتے تھے کہ اگر اس موقعہ پر شاہی قلعہ کے اس مقام سے گولہ باری کی گئی تو ان کے لئے فتح پانا بالکل ناممکن ہو جائے گا.چنانچہ انہوں نے بیگم کو پیغام بھجوایا کہ جس طرح بھی ہو سکے یہاں سے توپ اٹھوا دو.اس نے بادشاہ کو کہلا بھیجا کہ میں نے سنا ہے کہ میرے محل کے سامنے تو پ رکھی گئی ہے.آپ اسے اٹھوادیں ورنہ میں تو توپ کی آواز سے مرجاؤں گی.بادشاہ نے کہا یہ ایک فوجی سوال ہے اور اس تکلیف کو تمہیں برداشت کرنا چاہئے.اگر اس جگہ سے ہم انگریزوں پر گولہ باری نہیں کریں گے تو ہم کبھی فتح حاصل نہیں کر سکیں گے.مگر وہ برابر اصرار کرتی رہی آخر بادشاہ کے حکم سے فوجیوں نے توپ داغ دی.توپ کا داغنا ہی تھا کہ اس کی بیوی نے ہسٹیریا کا دورہ بنالیا اور شور مچانے لگ گئی کہ ہائے میں مرگئی.ہائے میں مرگئی.چونکہ بادشاہ بھی ایسا تھا جسے ملک اور قوم سے اتنی محبت نہیں تھی جتنی محبت اسے اپنی بیوئی سے تھی اور اس کی طبیعت میں عیاشی پائی جاتی تھی اس نے حکم دے دیا کہ میری بیوی کو تکلیف ہوتی ہے.یہاں سے توپ اٹھالی جائے.چنانچہ اسے اٹھالیا گیا مگر نتیجہ کیا ہوا.نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بیٹے نے بادشاہ تو کیا بنا تھا شہزادہ بھی نہ بنا اور آخر فقیروں کی موت مرا اور پھر اس کے بعد وہ قوم قریباً ایک سو سال ہونے کو آیا کہ اب تک انگریزوں کی غلام چلی آتی ہے.اس عرصہ میں ہم نے اپنی آنکھوں سے دہلی میں بعض پانی پلانے والے اور بعض حقہ پلانے والے لوگ دیکھے جن کے متعلق لوگوں
315 نے بتایا کہ کہ یہ شاہی خاندان میں سے ہیں.اگر وہ لوگ اپنی جانوں کی کوئی قیمت نہ سمجھتے تو یہ ذلت اور رسوائی کا دن دیکھنا انہیں کیوں نصیب ہو تا.یہ تو اس بیگم کا فریب تھا کہ میں مرنے لگی ہوں لیکن اگر فرض کرو اگر وہ مرنے بھی لگتی اور کسی دوسری جگہ توپ رکھنے سے اس کی جان بچ سکتی تو اس کا فرض یہ تھا کہ وہ بادشاہ کو کہلوا بھیجتی کہ بادشاہ تم مجھے مرنے دو تاکہ قوم اور ملک زندہ ہو کیونکہ وہی قومیں دنیا میں زندگی پاتی ہیں جو اپنی جان کو حقیر سمجھتی ہیں.جس قوم میں زندگی کی قیمت آگئی اس قوم کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں رہتی.مگر جو قوم موت کو معمولی بات سمجھتی ہے اس قوم کو ابدی حیات حاصل ہو جاتی ہے.در حقیقت حیات موت کے گلے ملنے سے ہی میسر آتی ہے.دنیا میں زندگی اور باعزت زندگی کا اور کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ انسان موت کو قبول کرلے.جو لوگ موت قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ان کو اور ان کی اولادوں کو ہمیشہ کی زندگی حاصل ہو جاتی ہے.مگر جو اپنے لئے اور اپنی اولادوں کے لئے زندگی تلاش کرتے پھرتے ہیں ان کے پیچھے پیچھے ہر وقت موت دوڑتی رہتی ہے.دنیا میں اللہ تعالیٰ نے یہ عجیب قانون بنایا ہے کہ جن چیزوں کے پیچھے بھا گو وہ آگے آگے بھاگتی ہیں.جو شخص زندگی کے پیچھے بھاگتا ہے زندگی اس کے آگے آگے بھاتی ہے اور موت اسے آکر پکڑ لیتی ہے اور جو شخص موت کے پیچھے بھاگتا ہے موت اس کے آگے آگے بھاگتی ہے اور زندگی اسے آکر پکڑ لیتی ہے.جو قو میں مال اور دولت کے پیچھے بھاگتی ہیں دولت ان کے آگے آگے بھاگتی ہے اور جو لوگ اپنے مال اور دولت کو حقیر خیال کرنے لگ جاتے ہیں انہیں یہ دولت اتنی کثرت سے ملتی ہے کہ ان کے پیچھے پیچھے بھاگی پھرتی ہے.زمیندار ہر سال غلہ اپنے گھر سے نکالتا اور زمین میں جاکر پھینک آتا ہے.اس کا اپنے گھر سے غلہ نکال کر زمین میں ڈال آنا آخر کیا ہوتا ہے.اس غلے کو بظا ہر ضائع اور تباہ کرنا ہی ہو تا ہے مگر پھر وہی غلہ اس کے پیچھے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے.اگر وہ اس غلے کو بچا کر رکھے تو کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ اسے اتنی کثرت سے غلہ مل سکتا ہے.اگر وہ کہے کہ میں اپنے دانوں کو کیوں زمین میں ڈالوں.معلوم نہیں اگلے سال غلہ پیدا ہو یا نہ ہو یا کیا پتہ وہ سیلاب سے خراب ہو جائے یا پرندے آئیں اور اسے چن چن کر کھا جائیں اور اس طرح غلے کو اپنے گھر میں سنبھال کر رکھ لے تو اس کے گھر میں آئندہ سال کبھی غلہ نہیں آئے گا.ہاں جو زمیندار کھیتوں میں اپنے غلہ کو پھینک دے گا اور اس کے ضائع ہونے کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا اس کے گھر کثرت سے غلہ آجائے گا.تو وہی تو میں دنیا میں عزت حاصل کیا کرتی ہیں جو اپنی عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہیں اور وہی تو میں دنیا میں زندگی حاصل کیا کرتی ہیں جو اپنی زندگی کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہیں.قربانی کے بغیر دنیا میں عزت اور نیک نامی حاصل کرنے کا اور کوئی طریق نہیں.کہتے ہیں پرانے زمانے میں ایک بادشاہ تھا.وہ ایک دفعہ کہیں جارہا تھا کہ اس نے راستہ میں دیکھا ایک بڑھا ایک درخت لگا رہا ہے مگر وہ درخت ایسا تھا جو بیسیوں سال کے بعد پھل دیتا تھا.بادشاہ اسے دیکھ کر کہنے لگا بڑھے تمہاری عقل ماری گئی ہے.تم اسی نوے سال کے ہو گئے ہو.اگر تم اس سال نہ مرے تو اگلے سال مرجاؤ گے.مگر تم درخت وہ لگا ر ہے ہو جو ہمیں پچیس سال کے بعد پھل دیتا ہے.یہ تم کیا کر رہے ہو.بڑھے نے کہا
316 بادشاہ سلامت! آپ بادشاہ ہو کر کیسی غیر معقول بات کر رہے ہیں.ہمارے باپ دادا نے درخت لگائے اور ہم نے ان کے پھل کھائے.اب ہم درخت لگائیں گے اور ہماری اولادیں ان کا پھل کھائیں گی.اگر ہمارے باپ دادا قربانی نہ کرتے اور وہ بھی یہی کہتے کہ ہم کیوں درخت لگا ئیں.ہم انہیں کیوں پانی دیں.ہم کیوں ان کی نگہداشت کریں اور کیوں ان پر محنت کریں تو ہم ان درختوں کے پھل کہاں سے کھاتے.اسی طرح ہم اگر اس خیال میں رہیں گے کہ ہم نے تو مر جانا ہے.اب ہم نے درخت لگا کر کیا کرنا ہے تو ہماری اولادیں ان درختوں کا پھل کہاں سے کھائیں گی.بادشاہ کو اس بڑھے کی یہ بات بہت ہی پسند آئی اور اس کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ زہ یعنی تم نے کیا ہی اچھی بات کہی ہے اور بادشاہ نے یہ حکم دیا ہوا تھا کہ جب میں کسی کی بات سے خوش ہو کر زہ کہوں تو اسے فورا دو ہزار درہم انعام دے دیئے جایا کریں.اس کے وزیر کے پاس ہمیشہ ایسی تھیلیاں رہتی تھیں.جو نہی بادشاہ نے کہا زہ تو وزیر نے جھٹ دو ہزار درہم کی تھیلی اس بڑھے کے سامنے رکھ دی.بڑھے کے ہاتھ میں جب روپیہ آیا تو وہ کہنے لگا بادشاہ سلامت ابھی آپ طعنے دے رہے تھے کہ تو نے اس درخت کا پھل تھوڑا کھانا ہے تو تو اس وقت تک مرجائے گا اور تیری اولادیں اس کا پھل کھائیں گی حالانکہ اگر میری اولادیں اس کا پھل کھاتیں تب بھی میں ہی اس کا پھل کھاتا.مگر میں نے تو یہ درخت لگاتے لگاتے اس کا پھل کھالیا.بادشاہ کے منہ سے پھر نکلا زہ یعنی کیا ہی اچھی بات کہی ہے اور وزیر نے جھٹ ایک دوسری تحصیلی دو ہزار درہم کی اس کے سامنے رکھ دی.پھر بڑھا کہنے لگا دیکھئے بادشاہ سلامت آپ کیا اعتراض کرتے تھے.لوگ تو درخت لگاتے ہیں اور کئی سال کے بعد جب اس کا پھل پیدا ہو تا ہے تو سال میں صرف ایک دفعہ اس کا پھل کھاتے ہیں مگر میں نے تو ایک گھنٹہ میں اس کا دو دفعہ پھل کھالیا.بادشاہ کہنے لگازہ اور وزیر نے جھٹ ایک تیسری تحصیلی دو ہزار درہم کی اس کے سامنے رکھ دی.پھر بادشاہ اپنے وزیر سے کہنے لگا چلو یہاں سے.یہ بڑھا تو ہمیں لوٹ لے گا.تو حق یہی ہے کہ قربانیاں ہی ہیں جو اچھا پھل لاتی ہیں.یہ ہے تو ایک لطیفہ مگر حقیقت یہی ہے کہ قربانی کرنے والے وقت سے بہت پہلے اپنی قربانی کا پھل کھالیتے ہیں.ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو تا کہ انہیں ان کی قربانی کا پھل ملنے والا ہے.مگر اللہ تعالیٰ جو عرش سے ان کی قربانیوں کو دیکھتا ہے ان کو ان کا پھل کھلا دیتا ہے.مکہ میں جو لوگ قربانیاں کرتے رہے تھے کب ان کے و ہم اور گمان میں بھی یہ بات آسکتی تھی کہ عنقریب وہ اس کا پھل کھالیں گے.وہ اسی نوے یا سو آدمیوں کی جماعت جو ہر روز لوگوں کے ظلموں کے نیچے دبی ہوئی تھی.جنہیں پتھروں پر گھسیٹا جا تا تھا.جنہیں کوڑے مارے جاتے تھے.جن میں سے بعض کو قتل بھی کر دیا جاتا تھا اور جنہیں آخر اپنا گھر بار چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر کے جانا پڑا اب وہ اس بات کا قیاس بھی کر سکتے تھے کہ ہم لوگ اپنی زندگی میں اپنی ان قربانیوں کا پھل کھالیں گے.لیکن یہ اسی نوے یا سو آدمیوں کی جماعت جسے تیرہ سال کفار نے ظلموں کا تختہ مشق بنائے رکھا، مدینہ میں ابھی دو سال نہیں گزرے تھے کہ اس کے ہاتھوں سے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا دشمن تہ تیغ ہو گیا اور جو روزانہ ان پر ظلم کرتے اور انہیں قسم قسم کے دکھ پہنچایا کرتے تھے ان کا نام و نشان تک مٹ گیا.بدر کی جنگ میں جو کچھ ہوا.مکہ
317 کی زندگی میں مسلمانوں کا وہم اور خیال بھی اس طرف نہیں جاسکتا تھا.پھر ابو جہل کے متعلق ان میں سے کوئی شخص یہ قیاس بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اس طرح لڑائی کے میدان میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارا جائے گا اور اسے مارنے والے مدینہ کے دو چھوٹے چھوٹے لڑکے ہوں گے.مگر تیرہ سال ظلم سہنے کے بعد ایک چھوٹی سی جماعت میں اتنا جوش پیدا ہو گیا کہ انہوں اپنے دشمن کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور وہی لوگ جو ذلیل سمجھے جاتے تھے دنیا میں عزت کے ساتھ دیکھے جانے لگے.اس کی آخر کیا وجہ تھی.یہی وجہ تھی کہ انہوں نے قربانیاں کیں اور اللہ تعالٰی کی راہ میں کسی قسم کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہ کیا.وہ خدا کے نام کی عزت کے لئے مرگئے اور جب انہوں نے خدا کے نام کی عزت کے لئے مرنا قبول کر لیا تو خدا نے کہا کہ اب میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تمہیں ذلیل اور رسوا ہونے دوں.وہ سب کے سب کیا مرد اور کیا عورتیں اور کیا بچے خدا تعالیٰ کے دین کے لئے ہر قسم کی موت خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے.انہوں نے کہا ہم خدا کے لئے ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں.ہم خدا کے لئے ہر قسم کی ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں.ہم خدا کے لئے ہر قسم کی موت برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں.تب خدا نے کہا اب میری غیرت بھی برداشت نہیں کر سکتی کہ میں تمہیں ذلت اور رسوائی سے مرنے دوں.میں تمہیں زندہ رکھوں گا اور عزت سے زندہ رکھوں گا.کیا ہی خوشی کا مقام ہو تا تھا ان کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں کسی تکلیف کا برداشت کرنا اور کس مسرت سے وہ ان مصائب کو برداشت کیا کرتے تھے.اس کے لئے حضرت عثمان بن مطعون کا ایک واقعہ نہایت ہی دردناک اور ایمان افروز ہے.میں نے یہ واقعہ پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے جو اس امر کو واضح کرتا ہے کہ وہ لوگ خدا تعالی کی راہ میں کس خوشی سے تکالیف برداشت کیا کرتے تھے.حضرت عثمان بن مظعون ایک بہت بڑے رئیس کے لڑکے تھے.ان کا باپ بچپن میں فوت ہو گیا تھا اور وہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ مسلمان ہو گئے.مکہ میں جس طرح اور مسلمانوں پر ظلم کئے جاتے تھے اسی طرح عثمان بن مطعون کو بھی مختلف مظالم کا تختہ مشق بنایا جا تا تھا.آخر ایک دفعہ انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے جائیں.چنانچہ وہ اس ارادہ سے جارہے تھے کہ انہیں ایک رئیس نے دیکھ لیا جو ان کے باپ کا دوست تھا.اس نے ان سے پوچھا کہ عثمان کہاں کی تیاریاں ہیں.انہوں نے کہا مکہ والوں کے ظلم سے تنگ آکر میں حبشہ کی طرف ہجرت کر کے جا رہا ہوں.وہ رئیس چونکہ ان کے باپ کا دوست تھا.اس لئے کہنے لگا عثمان میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تو مکہ چھوڑ کر چلا جائے.میں تیرے باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا.تو آج سے میری پناہ میں آجا.تجھے مکہ والے کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکیں گے.عربوں میں دستور تھا کہ جب ان میں سے کوئی شخص کسی کو اپنی پناہ میں لے لیتا تو پھر اس پر کوئی شخص ہاتھ نہیں اٹھا سکتا تھا.انہوں نے کہا بہت اچھا.عام طور پر دستور یہ تھا کہ خانہ کعبہ کی مسجد میں جا کر اعلان کر دیا جاتا کہ میں فلاں کو اپنی پناہ میں لیتا ہوں.اس دستور کے مطابق وہ بھی خانہ کعبہ کی مسجد میں گیا اور اس نے اعلان کر دیا کہ عثمان آج سے میری پناہ میں ہے.چنانچہ اس کے بعد وہ آرام سے زندگی بسر کرنے لگے اور کسی کو یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ ان پر ہاتھ اٹھائے.
318 ایک دن وہ بازار میں سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے بعض غلام صحابہ کو دیکھا کہ ان کے پاؤں میں رسیاں بندھی ہوئی ہیں.لڑکے انہیں پتھروں پر گھسیٹ رہے ہیں.انہیں مارتے جارہے ہیں اور کہتے ہیں تم کہولات اور عزی بھی اپنے اندر خدائی صفات رکھتے ہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نعوذ باللہ جھوٹے ہیں مگر وہ اس کے جواب میں یہی کہتے اشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشْهَدَانْ مُحَمَّدَ اعْبُدَهُ وَرَسُولَهُ عثمان نے جب ان کی یہ قربانی دیکھی تو اسی وقت واپس لوٹے اور اس رئیس سے جاکر کہنے لگے کہ اپنی پناہ واپس لے لو.اس نے کہا کیوں؟ کیا تمہار ا دماغ پھر گیا ہے.میں نے اگر پناہ واپس لے لی تو تمہیں سخت تکلیف پہنچے گی.وہ کہنے لگے ہاں یہ مجھے معلوم ہے.مگر میں نے آج اپنے بھائیوں کو اس اس طرح مظالم کا شکار ہوتے دیکھا ہے اور میری غیرت اس امر کو برداشت نہیں کر سکتی کہ میں تو تمہاری پناہ میں رہوں اور وہ لوگ تکلیفیں اٹھائیں.جوان کا حال ہے وہی میں اپنے لئے پسند کرتا ہوں.چنانچہ اس نے پھر خانہ کعبہ کی مسجد میں جاکر اعلان کر دیا کہ اے لوگو ! میں نے عثمان سے اپنی پناہ واپس لے لی ہے.اب میں اس کا ذمہ وار نہیں ہوں.کچھ دنوں کے بعد حج کا موسم آیا اور عرب میں یہ قاعدہ تھا کہ حج کے موقعہ پر مکہ میں بڑے بڑے خطیب اور شعراء اکٹھے ہوتے جو لیکچر دیتے اور اشعار سناتے.عرب کے ایک مشہور شاعر لبید گزرے ہیں.جنہوں نے بعد میں اسلام بھی قبول کر لیا تھا.وہ اس موقع پر ایک بہت بڑی مجلس میں اپنا قصیدہ سنارہے تھے اور تمام رؤسا واہ واہ کہہ رہے تھے.لبید اس زمانہ میں عرب کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے تھے.شعر سناتے سناتے انہوں نے ایک مصرع یہ پڑھا: الَّا كُلُّ شَيْىٰ مَا خَلَا اللَّدْ بَاطِلُ یعنی سنو اخد اتعالیٰ کے سواد نیا کی سب چیزیں فانی ہیں.انہوں نے یہ مصرع پڑھا تو حضرت عثمان کہنے لگے واد و اد کیا اچھا مصرع کہا ہے.تم بالکل ٹھیک کہتے ہو.کیونکہ اس مصرع میں توحید کا مضمون پایا جاتا تھا وہ تصدیق کرنے سے رک نہ سکے.لبید یہ سنتے ہی بگڑ گئے اور انہوں نے کہا اے مکہ کے لوگو! کیا تم میں اب کوئی ادب باقی نہیں رہا.میں بڑی عمر کا آدمی ہوں.اسی نوے سال میری عمر ہو چکی ہے.سارا عرب میرے اشعار کو اپنے سر اور آنکھوں پر رکھتا ہے اور میرا کلام اپنے اندر ایسے محاسن اور عمتیں رکھتا ہے کہ سب لوگ اس کی قدر کرتے ہیں.ایسی صورت میں کیا تم سمجھتے ہو میرے کلام کو درست قرار دینے کے لئے ایک انیس سالہ لڑکے کا دار دینا کوئی وقعت رکھتا ہے اور کیا وہ اگر میرے شعر کو درست قرار دے گا تو وہ درست ہو گا اور اگر وہ ٹھیک نہیں کہے گا تو وہ ٹھیک نہیں ہو گا.اس لڑکے کا میرے اس مصرع کے متعلق یہ کہنا کہ یہ ٹھیک ہے یہ بھی میری ہتک ہے.میرے شعر اس چھوٹے سے لڑکے کی تصدیق کے محتاج نہیں ہیں.چنانچہ سب نے اسے ڈانٹنا شروع کیا کہ لڑکے! آرام سے شعر سن.درمیان میں تو کیوں بولتا ہے.وہ خاموش ہو گئے.اس کے بعد پھر اس نے اگلا مصرع پڑھا کہ : وَ كُلِّ نَعِيمِ لَا مَحالَهُ رَائِلَ اور ہر ایک نعمت یقیناً آخر تباہ ہو جائے گی.اب پھر عثمان بول پڑے اور کہنے لگے یہ بالکل جھوٹ ہے.جنت ہمیشہ
319 قائم رہے گی.جو شخص عثمان کے ایک مصرع کو ٹھیک کہنے پر ناراض ہو گیا تھا تم سمجھ سکتے ہو کہ جب اس کے دوسرے مصرع کو جھوٹ کہہ دیا گیا تو وہ کس قدر ناراض ہوا ہو گا.اس نے شعر پڑھنے بند کر دیئے اور کہا میں اب کوئی شعر نہیں سناؤں گا.اب مکہ شریفوں کی جگہ نہیں رہا اور یہاں کسی کی عزت محفوظ نہیں.اس کا یہ کہنا تھا کہ لوگوں میں جوش پیدا ہو گیا اور سب عثمان بن مطعون کو مارنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں اتنامارا اتنا مارا کہ وہ لہولہان ہو گئے.اسی دوران ایک شخص نے زور سے ان کی ایک آنکھ پر گھونسہ مارا جس سے ان کی آنکھ کا ڈیلا نکل کر باہر آگیا.اس مجلس میں وہ رئیس بھی موجود تھا.جو حضرت عثمان بن مطعون کے والد کا دوست تھا.ایک طرف اس پر اپنی قوم کا رعب تھا اور دوسری طرف اس کے اپنے ایک پرانے دوست یعنی عثمان کے والد سے جو تعلقات تھے وہ اسے یاد آگئے اور اس نے خیال کیا کہ عثمان کا باپ اس سے کیسا حسن سلوک کیا کرتا تھا.مگر آج اس کے بیٹے کی کیا حالت ہو رہی ہے.اس شش و پنج کی حالت میں جیسے کسی کے نو کر بچے کو جب اس کے آقا کا کوئی لڑکا مارتا ہے تو ماں اپنے آقا کے لڑکے کو تو مار نہیں سکتی النا اپنے بچے کو مارتی ہے کہ تو وہاں کیوں گیا تھا اور در حقیقت وہ محبت کی مار ہوتی ہے.اسی طرح ان کے باپ کا وہ دوست غصہ سے کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا عثمان ! میں نے نہیں کہا تھا کہ تو میری پناہ میں سے نہ نکل.اب تھا تو وہ غصہ مگر اس کا موجب در حقیقت وہ محبت تھی جو اسے اس کے باپ سے تھی.مطلب یہ تھا کہ تو میری پناہ سے نکلا تو آج مجھے بھی یہ دیکھ دیکھنا پڑا کہ تیری ایک آنکھ نکل گئی.حضرت عثمان نے آگے سے جواب دیا کہ چچا تم اس ایک آنکھ کا ذکر کرتے ہو میری تو اس راہ میں دوسری آنکھ بھی نکلنے کے لئے تیار ہے.یہ وہ قربانیاں تھیں جو خدا تعالیٰ کے لئے انہوں نے کیں اور پھر دو سال کے اندر اندر ان کی تلواروں کے نیچے ان کے دشمنوں کی گردنیں آگئیں اور وہی سردار جو رسیاں باندھ باندھ کر انہیں گلیوں میں گھسیٹا کرتے تھے ایسے ذلیل ہو گئے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں.آج لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے ظلم کئے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کفار نے ان سے سینکڑوں گنا زیادہ ان پر تختیاں کی تھیں.وہ صحابہ جو غلام کہلاتے تھے ان کی ٹانگوں میں رسیاں باندھ باندھ کر انہیں گلیوں میں پتھروں پر گھسیٹا جا تا تھا اور انہیں اس قدر مارا اور پیٹا جا تا تھا کہ ان کا تمام جسم زخمی ہو جاتا تھا.اس زمانہ میں مکہ میں کچے مکان زیادہ تھے اور پکے کم تھے اور جہاں کچے مکان زیادہ ہوں وہاں گلیوں میں پانی کی رو روکنے کے لئے ایک خاص قسم کے پتھر رکھ دیئے جاتے ہیں جنہیں پنجابی میں کھنگر کہتے ہیں.قادیان میں بھی پہلے گلیوں میں اس قسم کے کھنگر ہوا کرتے تھے اور یہ کھنگر اس لئے رکھے جاتے ہیں تاکہ پانی سے مکانات کو نقصان نہ پہنچے.ان پتھروں پر خالی بیٹھنا بھی مشکل ہو تا ہے مگر صحابہ کو ان پر گھسیٹا جاتا تھا اور اس طرح ان کو انتہاء درجہ کی تکلیف پہنچائی جاتی تھی.ایک صحابی کہتے ہیں میں نے ایک دفعہ ایک دوسرے صحابی کی پیٹھ دیکھی تو مجھے ان کا چمڑا ایسا معلوم ہوا کہ گویا وہ آدمی کا چمڑا نہیں بلکہ کسی جانور کا چمڑا ہے.میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ کو یہ کوئی بیماری ہے.وہ ہنس کر کہنے لگے یہ بیماری نہیں بلکہ ہمیں مکہ میں پتھروں پر گھسیٹا جاتا تھا جس کی وجہ سے پیٹھ کا چمڑا ایسا سخت ہو گیا.مگر دیکھو پھر انہی غلام صحابہ کو خدا تعالیٰ نے کیسی
320 عزت دی.جب انہوں نے خدا تعالٰی کے لئے قربانیاں کیں.جب لوگ انہیں کہتے کہ تم شرک کرو اور وہ بلند آواز سے کہنے لا الہ الا اللہ جب لوگ انہیں کہتے کہ تم محمد صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو گالیاں دو اور وہ کہتے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالٰی کے بچے رسول ہیں.تو خدا تعالیٰ ان کی اس قربانی کو آسمان سے دیکھتا اور وہ اپنے فرشتوں سے کہتا کہ جاؤ اور دنیا میں میرے ان بندوں کی ہمیشہ کے لئے عزت قائم کر دو.چنانچہ پھر وہ دن آیا جب خدا تعالیٰ نے ان کی عزت قائم کی اور مکہ کے رؤسا اور بڑے بڑے سرداروں کو ذلیل کر دیا.حضرت عمرؓ ایک دفعہ اپنی خلافت کے زمانہ میں مکہ میں حج کے لئے گئے اور مکہ کے بڑے بڑے سرداروں اور رؤسا کے لڑکے جواب اسلام قبول کر چکے تھے ، حضرت عمر کے ملنے کے لئے آئے.حضرت عمر نے ان کا مناسب احترام کیا اور ان سے باتیں شروع کر دیں.ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ انہی غلاموں میں سے جو مکہ کی گلیوں میں پتھروں پر گھسیٹے جاتے تھے بعض صحابہ حضرت عمر کی ملاقات کے لئے آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان نوجوانوں سے کہا ذرا پیچھے ہٹ جاؤ.وہ پیچھے ہٹ گئے.اتنے میں ایک دوسرا غلام آگیا.پھر تیسرا غلام آگیا اور پھر چو تھا غلام آ گیا.بہت سے غلام صحابہ اس وقت مکہ میں جمع تھے اور سب ایک ایک کر کے حضرت عمرؓ کی ملاقات کے لئے آنے شروع ہو گئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر غلام کے آنے پر ان نوجوانوں سے کہتے کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ جو تیوں تک جا پہنچے.یہ دیکھ کر وہ اٹھ کر باہر چلے گئے اور انہوں نے باہر آکر ایک دوسرے سے کہا دیکھا آج ہماری کیسی بے عزتی ہوئی ہے.وہ غلام جو کل تک ہمارے گھروں میں جھاڑو دیا کرتے تھے.جو ہمار ا پانی بھرا کرتے تھے.جو ہمارے لئے گھاس کھود کر لایا کرتے تھے.جو ہمارے گھوڑوں کے لئے چارہ تیار کیا کرتے تھے.آج بادشاہی دربار میں ان کو آگے بٹھایا گیا اور ہمیں ہر بار پیچھے ہٹا دیا گیا.مگر اب وہ ایمان لا چکے تھے اور اب شیطانی وساوس ان پر پورا غلبہ نہیں پاسکتے تھے.ان میں سے ایک نوجوان بولا اور اس نے کہا اس میں کس کا قصور ہے؟ ہمارا اور ہمارے باپ دادوں کا یا حضرت عمرؓ کا.انہوں نے کہا قصور تو ہمارے باپ دادوں کا ہی ہے.اس نے کہا تو پھر اس میں شکوے کی کونسی بات ہے.انہوں نے کہا ہم شکوہ نہیں کرتے.ہم صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا اس ذلت کو دور کرنے کا کوئی طریق نہیں.ان میں سے ایک نے کہا کہ چلو یہی بات حضرت عمرؓ سے دریافت کر لیتے ہیں.چنانچہ وہ پھر سب کے سب حضرت عمرؓ کی مجلس میں گئے اور ان سے کہا کہ ہم آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتے ہیں.حضرت عمر سمجھ گئے اور انہوں نے کہا میں امید کرتا ہوں کہ تم میرے آج کے سلوک سے برا نہیں مناؤ گے کیونکہ میں اس میں بالکل مجبور ہوں.یہ وہ لوگ ہیں جو محمد علی لایر کے دربار میں معزز سمجھے جاتے تھے.اس لئے یہ نہیں ہو سکتا کہ ان کے خادم کے دربار میں وہ پیچھے رہیں.انہیں لازماً آگے بٹھایا جائے گا اور مجھ پر میرے آقا کی طرف سے جو ذمہ داریاں ہیں ان کی وجہ سے میں اس بارہ میں بالکل مجبور ہوں.انہوں نے کہا ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا نے جو مظالم کئے تھے اس کے نتیجہ میں یہی کچھ ہونا چاہئے تھا.مگر ہم آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا اس ظلم اور تعدی کا ہماری جانوں کے لئے کوئی
321 کفارہ نہیں ؟ حضرت عمرؓ تھوڑی دیر خاموش رہے اس کے بعد آپ نے سر اٹھایا.اس وقت قیصر کی فوجوں سے اسلامی فوجوں کی جنگ ہو رہی تھی.آپ نے شام کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا وہاں ایک جنگ ہو رہی ہے.تم اگر اس جنگ میں چلے جاؤ تو شاید ان گناہوں کا کفارہ ہو جائے.انہوں نے اسی وقت اپنی سواریاں کہیں اور سب کے سب اس جنگ میں شامل ہونے کے لئے چلے گئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سب کے سب وہیں الله مارے گئے.واپس نہیں آئے.تو دیکھو یہ عزت تھی جو خدا تعالیٰ نے ان کو ان کی قربانیوں کے بدلہ میں دی.اگر جس وقت بلال اور مصعب اوریا سڑ کو تپتی ہوئی ریت پر لٹایا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا تم کہولات اور منات کی پرستش میں ہی عزت ہے.وہ کہہ دیتے کہ ہاں لات اور منات کی پرستش میں ہی عزت ہے تو کیا تم سمجھتے ہو انہیں یہ عزت حاصل ہو سکتی تھی.اسی طرح جس وقت انہیں پتھروں پر گھسیٹا جا تا تھا.انہیں مارا اور پیٹا جاتا تھا.اگر وہ اپنی جانوں کی پرواہ کرتے ہوئے کفار کی ہاں میں ہاں ملا دیتے اور جب انہیں کہا جاتا کہ کہو محمد جھوٹا ہے تو وہ کہہ دیتے محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نعوذ باللہ جھوٹا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو ان کو یہ عزت حاصل ہو سکتی تھی.بلال کو رسول کریم صلی اللہ نے اذان پر مقرر کیا ہوا تھا.وہ حبشی تھے اور اشہد ان لا اله الا اللہ نہیں کہہ سکتے تھے بلکہ اسهد ان لا اله الا اللہ کہتے.بعض لوگ ہنستے کہ انہیں صحیح لفظ بھی ادا کرنا نہیں آتا.ایک دفعہ رسول کریم میل ل ل ل لیلی نے لوگوں کو اسی طرح بلال کی اذان پر بنتے ہوئے سنا تو فرمایا خدا عرش پر بلال کی اذان کی تعریف کرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کوش اور اس سے کوئی غرض نہیں.خدا تعالیٰ تو ان پتھروں کو دیکھ رہا تھا جن پر بلال کو گھسیٹا جاتا تھا.مگر باوجود اس شدید تکلیف کے وہ یہی کہتے اسهد ان لا الہ الا الله وحده لاشريك له واسهدان محمدا عبده ورسولہ.لوگوں کی نظروں سے وہ ریت کے ذرے اوجھل تھے.لوگوں کی نظروں سے وہ ریت کے ذرے پوشیدہ تھے کیونکہ ریت کے بعض اور ذروں نے ان کو نگاہوں سے مخفی کر دیا تھا مگر خدا تعالی کے سامنے وہ سرخ سرخ ذرے موجود تھے جن کو بلال کے خون نے سرخ کر دیا تھا.تو جو لوگ قومی اور ملی مفاد کے لئے قربانی کرتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو کبھی ذلیل نہیں کرتا.جو شخص خدا کے لئے مرتا ہے وہ ہمیشہ کی زندگی پاتا ہے اور جو شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے خدا تعالی کے فرشتے اس سے کہتے ہیں مراو ر ہمیشہ کے لئے مر.مگر جہاں میں یہ کہتا ہوں وہاں میں یہ کے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ ایسے موقعہ پر یہ محبتیں کبھی کبھی شرک کا رنگ بھی اختیار کر لیا کرتی ہیں.جیسے میں نے بتایا ہے کہ کانگریسی اپنے جھنڈے کو سلام کرتے ہیں اور بعض قو میں جھنڈے کے سامنے اس طرح جھک جاتی ہیں جیسے رکوع کیا جاتا ہے.یہ سب ناجائز اموپر ہیں.پس جہاں تم شعائر اللہ کی حفاظت کرو اور قومی شعائر کا ادب اور احترام اپنے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرد وہاں تم اس بات کو بھی یاد رکھو کہ ان چیزوں کو کبھی ایسا مقام مت دو کہ یہ زندہ خدا کی جگہ لے لیں.ہمارا خد ا واحد خدا ہے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا جائز نہیں.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ جن چیزوں کو ہم خادم سمجھتے ہیں ان کو آقا کی جگہ دے دیں.اس سے زیادہ بیوقوفی اور حماقت کی بات اور کوئی
322 نہیں ہو سکتی.پس جہاں میں تمہیں شعائر اللہ اور قومی شعائر کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا اور اس کے دین کے لئے تمہیں بلایا جائے اس وقت تم اپنی جانوں کی اتنی قیمت بھی نہ سمجھو جتنی ایک مری ہوئی مکھی کی ہوتی ہے.وہاں میں تمہیں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ کسی چیز کو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں مت کھڑا کرو.ہمارا خدا ایک خدا ہے اس کی قدرتوں میں کوئی شریک نہیں.اس کی حکومت میں کوئی شریک نہیں.اس کی عبادت میں کوئی شریک نہیں.جو شخص کسی کو خدا تعالیٰ کا شریک قرار دیتا ہے چاہے شریک قرار دیا جانے والا خد اتعالیٰ کا نبی اور رسول ہی کیوں نہ ہو وہ راندہ درگاہ ہو جاتا ہے.مگر جو تمام چیزوں کو اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے.خدا کو خدا کی جگہ دیتا ہے.رسول کو رسول کی جگہ دیتا ہے.شعائر کو شعائر کی جگہ دیتا ہے.وہی خدا تعالیٰ کے حضور عزت پاتا ہے.اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی.( خطبه جمعه فرموده ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۲ء.مطبوعہ الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۲ء)
323 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ سے حضرت مصلح موعود کا خطاب انتخابات اور اجتماع کے موقعہ پر مقابلہ جات کیلئے راہنمائی ا انتخاب کے موقعہ پر کسی قسم کا پرو پیگنڈا د نہیں ہو نا چاہئے.یہ اسلامی ہدایت ہے جو شخص اپنے لئے ووٹ مانگتا ہے یا کسی دوسرے کی رائے کو کسی دوسرے کے حق میں بدلنے کی کو شش کرتا ہے وہ قوم کا مجرم ہے مقابلہ مشاہدہ معائنہ کی اہمیت.حواس خمسہ کو ترقی دینے کی ایک کوشش تمہارا حقیقی کام اخلاقی اور علمی رنگ میں ترقی کرتا ہے ننگے سر پھر نا اسلامی تہذیب کے خلاف ہے ( تقریر سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ ۱۸ اکتوبر ۱۹۴۲ء)
324 مجھے معلوم ہوا ہے کہ گذشتہ سال بیرونی خدام کی حاضری دو سو پچاس کے قریب تھی اور اس سال بیرونی خدام کی حاضری ۲۸۶ ہے.اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ قادیان کے ارگرد بہت سی نئی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں اور اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم کو روز بروز زیادہ مکمل ہوتے چلے جانا چاہئے میرے نزدیک یہ حاضری تسلی بخش نہیں.کہا جاتا ہے کہ ملازم پیشہ لوگوں کو اس دفعہ رخصتیں نہیں مل سکیں مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں گزشتہ سال بھی ملازم پیشہ لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی.اس لئے یہ اثر در حقیقت زمینداروں کی کمی کی وجہ سے پڑا ہے.ابھی مجھے بتایا گیا ہے کہ ملازمت پیشہ لوگ باوجو د رخصت نہ ملنے کے زیادہ تعداد میں شریک ہوئے ہیں.اس لئے حاضری میں کمی زمینداروں کی طرف سے ہی ہوئی ہے.میرے نزدیک اس قسم کی ریلی میں یہ نہیں ہونا چاہئے کہ سارے خدام آئیں بلکہ ان کے نمائندے ہی اس موقعہ پر آنے چاہئیں.ہاں اگر کوئی شخص شوق سے آنا چاہے تو اسے آنے کی اجازت ہونی چاہئے.یہ پابندی نہیں ہونی چاہئے کہ نمائندوں کے سوا اور کوئی نہ آئے.پھر ان نمائندوں کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ یہاں کی کارروائیوں کو نوٹ کریں اور اپنی اپنی مجالس میں اسی لائن پر خدام الاحمدیہ کا اجتماع کریں.مگر جیسا کہ میں نے کہا ہے جو شخص اپنی مرضی اور خواہش سے آنا چاہے اسے روکنا نہیں چاہئے بلکہ اسے بھی شامل ہونے کی اجازت دینی چاہئے (سوائے مجلس کے کہ جس میں صرف نمائندے ہونے چاہئیں ورنہ رائے شماری غلط ہو جائے گی ) پھر یہ امر مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ صدر کے انتخاب کے موقعہ پر ہر جماعت کا ووٹ اس جماعت کے افراد کے لحاظ سے شمار ہونا چاہئے.در حقیقت اصول یہی ہوتا ہے کہ چونکہ جماعت کے تمام افراد جمع نہیں ہو سکتے اس لئے ان کا نمائندہ جب کسی رائے کا اظہار کرتا ہے تو وہ رائے تمام جماعت کی سمجھی جاتی ہے.اس وجہ سے اس کا ووٹ ایک نہیں ہو گا بلکہ جس قدر اس جماعت کے افراد ہوں اسی قدر اس کے ووٹ سمجھے جانے چاہئیں.مثلاً فرض کرو لاہور کی جماعت والے کسی ایک شخص کو بھیج دیتے ہیں اور لاہور کی جماعت کے ممبر ڈیڑھ سو ہیں تو جب ووٹ لیا جائے گا اس ایک شخص کا ووٹ ڈیڑھ سو ووٹ کا قائمقام سمجھا جائے گا.ایسے موقعہ پر پہلے سے آئندہ سال کے لئے عہدہ داروں کے نام منگوا لینے چاہئیں اور ان ناموں کی بیرونی جماعتوں کو اطلاع دے دینی چاہئے کہ فلاں فلاں نام صدارت کے لئے تجویز کئے گئے ہیں.ان کے متعلق اپنی جماعت کی رائے دریافت کر کے اپنے نمائندہ کو اطلاع دے دی جائے.مگر اس بات کا نہایت سختی سے انتظام کرنا چاہئے کہ انتخاب کے موقعہ پر کسی قسم کا پراپیگنڈہ نہ ہو.یہ اسلامی ہدایت ہے اور جو شخص اس ہدایت کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ مجرم ہے.ہر شخص کی جو ذاتی رائے ہو وہی اسے پیش کرنی چاہئے.جو شخص دوسرے سے یہ کہتا ہے کہ میرے حق میں ووٹ دو یا کسی دوسرے شخص کی رائے کو کسی دوسرے کے حق میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے وہ قوم کا مجرم ہے اور ایسے شخص کو سخت سزا دینی چاہئے تاکہ آئندہ جماعت کے قلوب میں یہ امر راسخ ہو جائے کہ ہم نے ایسے انتخابات میں کبھی بھی دوسرے کی رائے کی پیچھے نہیں چلنا بلکہ جو ذاتی رائے ہو اسی کو پیش کرنا ہے.ہاں جیسا کہ صحابہ کے
325 طریق سے معلوم ہوتا ہے.عین مجلس میں ایک دوسرے کو اپنے اپنے دلائل پیش کرنے کا حق حاصل ہے.چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا جب خلافت کے لئے انتخاب ہوا تو اس پہلی خلافت کے موقعہ پر انصار اور مہاجرین دونوں گروہوں نے اپنے اپنے دلائل دیئے.مہاجرین نے اس بات کے دلائل دیئے کہ کیوں مہاجرین میں سے خلیفہ ہونا چاہئے اور انصار نے اس بات کے دلائل دیئے کہ کیوں کم سے کم انصار میں سے بھی ایک خلیفہ ہونا چاہئے.انصار کہتے تھے کہ ہم اس بات کے مخالف نہیں کہ مہاجرین میں سے کوئی خلیفہ ہو.ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے بھی ایک خلیفہ ہو اور مہاجرین میں سے بھی ایک خلیفہ ہو.غرض مجلس میں دلائل دیئے جاسکتے ہیں مگر یہ جائز نہیں کہ الگ اور مخفی طور پر دوسروں کو تحریک کی جائے کہ فلاں کے حق میں رائے دی جائے.اس قسم کا پراپیگنڈہ اسلام کے بالکل خلاف ہے.ہاں جیسا کہ میں نے بتایا ہے مجلس میں آکر اپنے اپنے دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں.مثلا فرض کرو صدر کے انتخاب کے موقعہ پر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ نئے آدمیوں کو کام کرنے کا موقع دیا جائے تو وہ یہ دلیل دے سکتا ہے کہ میں پرانے صدر کے خلاف نہیں مگر اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ نے آدمیوں کو کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے تاکہ انہیں بھی تجربہ حاصل ہو اور وہ بھی اس قسم کی ذمہ داری کا کام کرنے کے قابل ہو سکیں.اس کے مقابلہ میں جو شخص پرانے صدر کا حامی ہو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ جب ایک شخص کو تجربہ حاصل ہو چکا ہے تو اگر اسے ہٹا دیا جائے تو خدام الاحمدیہ کو اس کے تجربہ سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.غرض اپنے اپنے رنگ میں دونوں فریق دلائل دے سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج کی بات نہیں بلکہ اس طرح علمی ترقی ہوتی ہے.ہاں اس وقت وقتی طور پر ایسا صدر ہونا چاہئے جو زبر دست اور بارعب ہو اور کسی کو مقررہ حدود سے باہر نہ نکلنے دے بلکہ جیسے پارلیمنٹ کے جلسوں میں ایسے موقع پر صدر کو سپاہیوں کی ایک جمعیت دے دی جاتی ہے نا کہ اگر کوئی نا فرمانی کرے تو پولیس کے ذریعہ اس کا تدارک کیا جائے اسی طرح انتخابات کے موقع پر جو وقتی طور پر صدر مقرر ہو اس کے ساتھ بھی نوجوانوں کا ایک گروہ ہونا چاہئے تاکہ اگر کوئی شخص نافرمانی کرے تو اسے مجلس سے نکالا جا سکے یا اسے مناسب سزا دی جائے.اسی طرح دوسرے لوگ بھی صد ر اس وقت جو بھی حکم دے اس کو دلیری سے اور بغیر کسی کے لحاظ کے پورا کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں.اس رنگ میں اگر کوئی کام کیا جائے اور باہر سے آنے والوں کی رائے ان کی جماعت کی تعداد کو ملحوظ رکھ کر شمار کی جائے تو اس طرح نہ صرف جماعتوں کو ان کا ایک حق دیا جا سکے گا بلکہ مرکز کو بھی آئندہ یہ خیال رہے گا کہ وہ ہر جماعت کی تعداد کو محفوظ رکھے.فرض کرو ایک شخص کہتا ہے ہماری جماعت کی تعداد دو سو ہے.ایسے موقع پر اگر مرکز کے پاس اس جماعت کی تعداد محفوظ ہوگی تو وہ بتا سکے گا کہ یہ تعداد درست ہے یا نہیں یا اس تعداد میں اتنی کمی بیشی ہے.پس اس کے نتیجہ میں ایک طرف تو مرکز کو توجہ رہے گی کہ وہ تمام جماعتوں کو ایک نظام کے ماتحت لانے کی کوشش کرے اور دوسری طرف جماعتوں کو یہ احساس پیدا ہو گا کہ ہماری جماعت کی تعداد زیادہ ہو اور ہم وقت سے پہلے پہلے اپنی تعداد کو درج رجسٹر کرالیں.پس ایک تو آئندہ سال سے اس بات کا انتظام کرنا چاہئے.
326 دوسرے قادیان کے محلوں میں سے بھی ایسے موقع پر ان کے صرف نمائندے ہی آنے چاہئیں تاکہ جب انتخاب ہو تو اس وقت ہجوم نہ ہو.ہر محلے والے اپنے اپنے آدمی بھیج دیں اور ان کا فرض ہو کہ جب انتخاب کا وقت آئے تو وہ اکثریت کی رائے کو پیش کر دیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ کچھ لوگوں کی رائے ایک طرف ہو سکتی ہے اور کچھ لوگوں کی رائے دوسری طرف ہو سکتی ہے اور اس طرح ان لوگوں کو جن کی رائے عام انتخاب کے موقع پر نہ پیش کی جائے گلہ اور شکوہ پیدا ہو سکتا ہے مگر بہر حال چونکہ عام طریق یہی ہے کہ اکثریت کی رائے کو پیش کیا جاتا ہے.اس لئے جماعت کی رائے وہی سمجھی جائے گی جو اکثریت کی رائے ہوگی.بے شک اکثریت کی رائے میں بھی نقص ہو سکتا ہے مگر بہر حال اس ناقص دنیا میں ناقص قوانین میں سے جو زیادہ بہتر ہو اسی کو اختیار کیا جائے گا.پس قادیان سے بھی انتخاب کے موقع پر محدود آدمی شامل ہونے چاہئیں.مثلا دار الرحمت والے ایک نمائندہ بھیج دیں.دار الانوار والے ایک نمائندہ بھیج دیں.اسی طرح باقی محلوں والے ایک ایک نمائندہ بھیج دیں مگر عام ریلی کے سلسلہ میں قادیان والوں کو لازماً حاضر ہو نا چاہئے اور جو باہر کی مجالس ہیں ان کے متعلق کوئی قانون مقرر کر لیا جائے.مثلاً پچاس ممبروں پر وہ ایک نمائندہ بھیج دیں یا تھیں ممبروں پر ایک نمائندہ بھیج دیں بلکہ ہو سکتا ہے آئندہ بڑھتے بڑھتے ہمیں فی ہزار ایک پانی دس ہزار ایک نمائند ہ لینا پڑے.مثلا لا ہو ر کسی وقت سارے کا سارا احمدی ہو جاتا ہے اور لاہور کی آبادی پانچ لاکھ ہے تو اس میں اگر تین لاکھ پندرہ سے چالیس سال عمر والے سمجھ لئے جائیں اور نصف تعداد عورتوں کی نکال دی جائے تو ڈیڑھ لاکھ آدمی رہ جائیں گے.اب اگر ہم سو سو پر ایک نمائندہ لیں تو ڈیڑھ ہزار نمائندے بن جائیں گے اور اگر دس دس ہزار پر ایک نمائندہ لیں تو پند رہ نمائندے آئیں گے.اسی طرح اگر کسی وقت لاہور میں خدام کی اتنی کثرت ہو جائے کہ ان کا کوئی ایک اجتماع نہ ہو سکے تو وہ ایسے مواقع پر مختلہ وار نمائندے بھیج سکتے ہیں.مگر بہر حال ان کے ووٹ اسی قدر سمجھے جانے چاہئیں جس قدر ان کے حلقہ کی جماعت کی تعداد ہو.پس ایک تو میں یہ ہدایت دیتا ہوں.دوسرے ریلی کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ اس میں قادیان کے سب لوگوں کو حاضر ہونا چاہئے مگر باہر سے صرف نمائندے بلائے جائیں.ہاں اگر کوئی شخص اپنے شوق سے آنا چاہے تو اس کے لئے شامل ہونے کا دروازہ کھلا رکھنا چاہئے.اب میں خدام الاحمدیہ کے کام کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.میں نے کل خدام الاحمدیہ کو کام کرتے دیکھا ہے اور مجھ پر یہ اثر ہے کہ اس دفعہ اصول کو مد نظر رکھ کر کام کیا گیا ہے.چنانچہ جب مشاہدہ و معائنہ کا مقابلہ ہو رہا تھا تو میں نے دریافت کیا کہ تم کس طرح اس کے متعلق فیصلہ کرو گے.اس پر انہوں نے بتایا کہ ہم نے خود مشاہدہ و معائنہ کر کے اس کے بعض پوائنٹ مقرر کئے ہوئے ہیں.جن کو دیکھ کر ہم اس بارہ میں آسانی سے فیصلہ کر سکتے ہیں.اسی طرح آواز کی بلندی کے مقابلہ میں ایک ترتیب سے نشان لگائے گئے ہیں اور اس میں تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھا گیا ہے.آواز کی صفائی کا بھی لحاظ رکھا گیا تھا اور آواز کے دور تک پہنچنے کا بھی لحاظ رکھا گیا تھا.گویا جو پہلو ضروری ہیں ان کو انہوں نے ملحوظ رکھا تھا.ایک کمی ہے جو دور کی جانی چاہئے.آئندہ ہر بڑی جماعت کو ہر عملی
327 مقابلہ میں اپنے نمائندے بھیجنے کے لئے مجبور کرنا چاہئے تاکہ تربیت کی طرف مجالس کو زیادہ سے زیادہ توجہ ہو.میرے نزدیک تمام مشقوں میں سے ایک نہایت ہی اہم مشق جس سے دشمن کے مقابلے میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور جس کی طرف ہماری جماعت کے ہر فرد کو توجہ کرنی چاہئے.جو اس خمسہ کو ترقی دینے کی کوشش ہے.یہ ایک نہایت ہی اہم اور ضروری چیز ہے.میں نے افسوس سے یہ امر سنا ہے کہ اس دفعہ وقت کی کمی کی وجہ سے اس قسم کے مقابلے کم رکھے گئے ہیں.در حقیقت یہ توازن کی غلطی تھی ورنہ ان مقابلوں کے لئے زیادہ وقت مقرر کرنا چاہئے تھا.مثلاً ناک کی جس ہے.یہ ایک اعلیٰ درجہ کی حس ہے اور اس سے بڑے بڑے کام لئے جاسکتے ہیں.ناک کی حس اگر تیز ہو تو اس سے صرف خوشبو اور بدبو کا احساس ترقی نہیں کرتا بلکہ یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ کس کس قوم میں کس کس قسم کی بو پائی جاتی ہے.وحشی اقوام میں یہ حس اتنی تیز ہوتی ہے کہ وہ سونگھ کر بتا دیتی ہیں کہ یہاں سے فلاں قوم کا آدمی گزرا ہے.مختلف قوموں میں خاص خاص قسم کی بو پائی جاتی ہے.مثلاً مجھ پر یہ اثر ہے کہ میں جتنے انگریزوں سے ملا ہوں مجھے ان سے ایک قسم کی مچھلی کی بو آتی ہے.اب اگر میرا یہ اثر صحیح ہو اور ہماری ناک کی جس تیز ہو تو خواہ ہماری آنکھیں بند ہوں ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی انگریز کھڑا ہے یا اگر ہمارے قریب سے کوئی انگریز گزرے گا ہم فورا پہچان جائیں گے کہ کوئی انگریز گزر رہا ہے.اسی طرح افغانستان کے باشندوں میں میں نے محسوس کیا ہے کہ ان سے اس کھال کی سی جس پر برسات گزری ہو بو محسوس ہوتی ہے.اب اگر میرا یہ خیال صحیح ہو یا پچاس فی صدی ہی درست ہو تو کسی علاقہ میں سے گزرتے ہوئے اگر وہاں چھان ہوں گے ہم فورا اپنی ناک کی جس سے پہچان لیں گے کہ یہاں پٹھان رہتے ہیں.فرض کرو پٹھان ہمارے دوست ہیں اور جنگ کے موقعہ پر ہمیں ان کی امداد کی ضرورت ہے تو ہم اپنی اس ناک کی جس سے کام لے کر فورا اپنے دوستوں کو شناخت کرلیں گے اور ان کی مدد حاصل کرلیں گے.اس قسم کی بو کا احساس، خصوصا بند کمروں میں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہاں جو زیادہ دیر تک رہتی ہے.بعض دفعہ ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد بھی کسی کمرہ میں آؤ اور تمہاری ناک کی جس تیز ہو تو تمہیں فورا پتہ لگ جائے گا کہ اس کمرہ میں کس قسم کے لوگ ٹھرے ہیں.میں نے دیکھا ہے میرے کمرہ میں عطر پڑا ہوا ہو تا ہے اور بعض دفعہ میری بیویاں وہاں آکر عطر لگاتی ہیں تو بعض دفعہ گھنٹوں بعد جب میں اس کمرہ میں آتا ہوں تو فورا پہچان لیتا ہوں کہ کسی نے یہاں فلاں عطر لگایا ہے حالانکہ وہ عطر گھنٹوں پہلے لگایا گیا ہو تا ہے.اسی طرح ہندوستانیوں اور انگریزوں کے عطر کی خوشبو میں فرق ہو تا ہے.ہندوستانی عام طور پر دیسی عطر لگاتے ہیں مگر انگریز ہمیشہ الکوحل سیٹس لگاتے ہیں.بعض ہندوستانی بھی اگر چہ اب میٹس لگانے لگ گئے ہیں مگر انگریز کبھی دیسی عطر نہیں لگاتے.اب اگر کہیں سے ہمیں دیسی چنبیلی کے عطر کی خوشبو آئے یا دیسی گلاب کے عطر کی خوشبو آئے تو ہم فور افیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہاں سے کوئی ہندوستانی گزرا ہے.اسی طرح اور بہت ی معلومات خوشبو کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہیں اور بعض لوگ تو اس جس کو ایسا تیز کر لیتے ہیں کہ حیرت آتی ہے.ولایت میں جو خوشبو کے کارخانے ہیں ان کا دار و مداد ہی ایسے لوگوں پر ہو تا ہے.چنانچہ بعض کار خانوں
328 والے ہزاروں روپیہ ماہوار تنخواہ دے کر ایسے لوگوں کو ملازم رکھتے ہیں جو خوشبو سونگھ کر بتادیتے ہیں کہ اس میں فلاں فلاں چیزیں پڑی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ کسی ایک کار خانے کی خوشبو مشہور ہو جاتی ہے.اب دوسرے لوگ چاہتے ہیں کہ اس کی نقل کریں اور ویسی ہی خوشبو خود بھی تیار کریں.اس غرض کے لئے وہ ماہرین کو ملازم رکھتے ہیں.وہ لوگ ان خوشبوؤں کو سونگھ کر جن کی نقل تیار کرنی ہو بتادیتے ہیں کہ اس میں فلاں فلاں چیزیں پڑی ہیں.اس میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں.مگر بہر حال انہیں خوشبو کی بنیادی اشیاء معلوم ہو جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ وہ اسی بنیاد پر خود بھی ویسی ہی خوشبو تیار کر لیتے ہیں.اسی طرح بعض لوگوں کی مزے کی حس اتنی تیز ہوتی ہے کہ حیرت آتی ہے اور یہ حس بھی بہت حد تک بڑھائی جا سکتی ہے.کئی لوگ ایسے موجود ہیں جو دوائیاں چکھ کر بتا دیتے ہیں کہ اس میں فلاں فلاں دوائیاں پڑی ہیں.قصہ مشہور ہے کہ ایک طبیب کی کسی دوائی کا بہت شہرہ ہو گیا مگر وہ اس دوائی کا نسخہ کسی کو نہیں بتا تا تھا.اسی زمانہ میں ایک اور مشہور طبیب تھا.جس کی مزے کی حس بہت تیز تھی اور وہ چیکھ کر بتا سکتا تھا کہ اس میں فلاں فلاں دوائیاں پڑی ہوتی ہیں.مگر اس طبیب کو وہ دوائی ملتی نہیں تھی.جو مریض اس طبیب کے پاس آتا اسے وہ اپنے سامنے دوائی کھلا دیتا تھا.ساتھ دوائی نہیں دیتا تھا.اب خوف سے کہ کہیں یہ دوائی دوسرے طبیب کے پاس نہ پہنچ جائے اور وہ اس کا نسخہ نہ معلوم کرلے.اس طبیب نے بڑی کوشش کی کہ کہیں سے دوائی مل جائے مگر نہ ملی.آخر وہ مریض اور اندھا بن کر اس طبیب کے پاس گیا اور اپنی شکل میں بھی تبدیلی کرلی.سر پر ایک بڑا سا کپڑا لپیٹ لیا اور اندھا اور مریض بن کر اس کے پاس پہنچا اور اپنے مرض کی علامتیں و ہی بتائیں جن پر وہ دوائی استعمال کی جاتی تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دھوکے میں آگیا اور اس نے ایک گولی اسے دے دی.اس نے وہیں گولی اپنے مونہ میں ڈال لی اور مونہہ میں ڈالتے ہی دواؤں کے نام گننے شروع کر دیئے.یہاں تک کہ وہ ننانوے نام گن گیا.جب نانوے نام گن چکا تو اس کا سانس ٹوٹ گیا.طبیب کہنے لگا الحمد للہ کہ تمہیں سویں دوا کا پتہ نہیں لگا.اس نسخہ میں سو دوائیاں پڑتی تھیں.نانوے تم نے گن لیں.سویں کا تمہیں پتہ نہیں لگ سکا.اس لئے اب تم یہ نسخہ مکمل نہیں کر سکو گے.تو ایسے لوگ بھی ہیں جن کے چکھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے.ولایت میں شراب کے جو کار خانے ہیں ان میں بعض دفعہ پانچ پانچ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پر ایسے لوگ ملازم رکھے جاتے ہیں جو شراب کو چکھ کر یہ بتا دیتے ہیں کہ یہ شراب فلاں سن کی شراب کے مطابق ہے اور فلاں شراب کا ذائقہ فلاں سن کی شراب سے ملتا ہے.ہمارے ملک کی شراب تولسی دودھ اور شربت ہے اور ہمارے ملک نے اس میں کوئی خاص ترقی نہیں کی.چاہے سو سال کے پرانے برتن میں ہی لسی کیوں نہ ہو وہ اسے پی جاتے ہیں اور انہیں ذائقہ میں کوئی فرق محسوس نہیں ہو تا.مگر ولایت میں پانچ پانچ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پر ایسے لوگ ملازم رکھے جاتے ہیں جو شرابوں کو چکھتے رہتے ہیں اور چکھ کر بتا دیتے ہیں کہ اس شراب کا مزہ فلاں سن کی شراب سے ملتا ہے اور اس شراب کا مزہ فلاں سن کی شراب سے ملتا ہے..بلکہ پانچ پانچ ہزار روپیہ تنخواہ کا بھی میں نے کم حساب لگایا ہے.میں نے پانچ پانچ
329 ہزار پونڈ سالانہ ان کی تنخواہ پڑھی ہے اور اس لحاظ سے انہیں پانچ ہزار روپیہ سے زیادہ ماہوار ملتا ہے.ان کا کام یہی ہو تا ہے کہ سارا دن بیٹھے ہوئے شرا میں چکھتے رہتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس کا انگور فلاں سن کے انگور سے مشابہ ہے اور یہ شراب فلاں سن کی شراب کے مطابق ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شراب تو پانچ روپے بوتل کے حساب سے فروخت ہوتی ہے اور ایک دیسی ہی شراب صرف ذائقہ کے تغیر کی وجہ سے دو سو روپے بوتل کے حساب سے فروخت ہوتی ہے.غرض چکھنے کی جس کو ترقی دے کر ایسے ایسے کام کئے جاتے ہیں کہ حیرت آتی ہے.ای طرح کانوں کی حس ہے.اس کو بڑھا کر بھی حیرت انگیز کام لئے جاسکتے ہیں.امریکہ کے ریڈ انڈ - لنز نے اس میں اتنی ترقی کی ہے کہ وہ زمین پر کان لگا کر یہ بتا دیتے ہیں کہ اتنے سوار مثلا دو چار میل کے فاصلہ پر سے آرہے ہیں.اس کا راز یہ ہے کہ گھوڑوں کے چلنے کی وجہ سے زمین میں حرکت پیدا ہوتی ہے.وہ حرکت دو سرے کو معلوم بھی نہیں ہوتی مگر انہوں نے کانوں کی حس بڑھا کر اتنی مشق کی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ فور از مین پر کان لگا کر اس حرکت کو معلوم کر لیتے ہیں اور میلوں میں سے سواروں کے آنے کی آواز سن لیتے ہیں.زیادہ سوار ہوں تو پانچ پانچ میل سے آواز سن لیتے ہیں.ایک دو ہوں تو نسبتا کم فاصلہ سے اور اگر کوئی پیدل آرہا ہوں تو بھی پچاس سو گز کے فاصلہ سے ہی اس کے آنے کی آہٹ معلوم کر لیتے ہیں.اسی طرح وہ انسانی قدموں کی آواز سے یہ پہچان لیتے ہیں کہ یہ کسی یورپین کا قدم ہے یا دیسی کا.اسی طرح وہ بو سونگھ کر بتا دیا کرتے ہیں کہ ہماری طرف کوئی آدمی آرہے ہیں.چنانچہ ریڈ انڈ- لنز پر حملہ کرتے وقت ہمیشہ یہ ہدایت دی جاتی تھی کہ کبھی اس طرف سے حملہ کے لئے نہ جاؤ جس طرف سے ہوا آرہی ہو کیونکہ وہ بو سونگھ کر سمجھ جایا کرتے ہیں کہ ادھر سے اجنبی لوگ آرہے ہیں.جانوروں میں بھی یہ حس بڑی تیز ہوتی ہے.شکاری ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ ادھر سے شکار کے لئے نہ جاؤ کیونکہ ہوا اسی طرف جارہی ہے اور جانور ہو اسے انسان کی بو سونگھ کر سمجھ جاتا ہے کہ میرے شکار کے لئے کوئی شخص آرہا ہے اور بو سونگھتے ہی اڑ جاتا ہے.ہم نے خود تجربہ کر کے دیکھا ہے کہ ہوا کی طرف سے شکار کرنے کے لئے جاؤ تو جانور پہلے ہی اڑ جاتا ہے کیونکہ اسے انسان کی خوشبو آجاتی ہے تو مختلف کام کرنے میں انسان کی حسیں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہیں.اسی طرح نظر کی حس بڑی اہم چیز ہے اور انسان اس جس سے کام لے کر بڑے بڑے اہم نتائج نکال لیتا ہے.مشہور قصہ ہے جو بچپن میں ہم اپنی کتابوں میں پڑھا کرتے تھے کہ کوئی شخص کہیں سے گزرا اور اس نے کہا کہ یہاں سے کوئی اونٹ گزرا ہے جس پر فلاں فلاں چیز لدی ہوئی تھی اور اس کی ایک آنکھ کافی تھی اور دانتوں میں نقص تھا.لوگ بڑے حیران ہوئے کہ اسے کس طرح پتہ لگ گیا.آخر اس نے بتایا کہ میں نے
330 مختلف جگہوں پر گیہوں کے دانے پڑے ہوئے دیکھے تھے.جس سے میں یہ سمجھا کہ اونٹ پر گیسوں لدا ہو ا تھا.اسی طرح تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر مجھے تیل کا ایک ایک قطرہ گرا ہوا دکھائی دیا.جس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اونٹ پر تیل بھی تھا.اس کے بعد میں نے اونٹ کے کانے ہونے کا نتیجہ اس طرح نکالا کہ میں نے دیکھا رستہ میں صرف ایک طرف کی جھاڑیوں اور درختوں کے پتے کھائے ہوئے تھے دوسری طرف کی جھاڑیوں اور درختوں کے پتے سلامت تھے.میں نے سمجھا کہ اونٹ ضرور کانا تھا.تبھی اس نے ایک طرف کے پتوں کو تو کھایا مگر دو سری طرف کے پتوں کو چھوڑ دیا اور اس کے دانت کا نقص میں نے اس طرح معلوم کیا کہ ایک پتے کو میں نے غور سے دیکھا تو اس پر ایک دانت کا نشان نہیں ملتا تھا.اس سے میں نے سمجھ لیا کہ اونٹ کے دانتوں میں نقص تھا.اب بظا ہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر انسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے اس نے بڑے بڑے نتائج نکال لئے.تو یہ مشقیں نہایت ہی اہم ہیں.اسی طرح ذائقہ کی مشق ہے.لمس کی مشق ہے.ان تمام مشقوں سے بڑے بڑے کام لئے جاسکتے ہیں.لمس کی مشق سے ہی ایسے ایسے کام کئے جاسکتے ہیں کہ دوسرے ان کا قیاس بھی نہیں کر سکتے.اگر دشمن ہمارے پاس ہی ہو اور ہم اپنے کسی آدمی کے ذریعہ دشمن کے متعلق دو سروں کو اطلاع دینا چاہتے ہوں تو ایسے وقت پر لمس کی قوت ہی کام آسکتی ہے.اگر ہماری یہ قوت درست ہو تو ہم دو سرے کے ہاتھ پر تمام ضروری باتیں انگلی سے لکھ دیں گے اور وہ ان باتوں کا علم حاصل کر کے ان کے مطابق کارروائی کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا.مگر یہ قوت بہت بڑی مشق چاہتی ہے کیونکہ ہاتھ پر انگلی سے حروف ڈالنا اور پھر دوسرے کا یہ سمجھ جانا کہ کیا حروف ڈالے گئے ہیں، یہ آسان کام نہیں بلکہ ایک لمبی مشق چاہتا ہے.یہ چیزیں ایسی ہی ہیں جن سے جنگ میں بہت بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے.اس جس کو تیز کرنے کے لئے لمبی مشق کی ضرورت کا اس طرح پتہ لگ سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص انگلی سے دوسرے کے ہاتھ پر لکھنے کی کوشش کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ اول تو خود لکھنے والا ہی بھول جائے گا کہ اس نے کیا لکھا تھا.پھر پڑھنے والا بھی ایک لمبے عرصہ کی مشق کے بعد ہی سمجھ سکتا ہے کہ کسی نے اس کے ہاتھ پر کیا لکھا ہے.فرض کرو ایک شخص انگلی سے دوسرے کے ہاتھ پر " احمد " لکھتا ہے.اب یہ یقینی بات ہے کہ وہ پہلی دفعہ یہ نہیں سمجھ سکے گا کہ اس کے ہاتھ پر کیا لکھا گیا ہے.جب تم بتاؤ گے کہ تم نے ”احمد“ لکھا ہے تو آہستہ آہستہ وہ سمجھے
331 جائے گا کہ جب تم انگلی سے اس کے ہاتھ پر لکھتے ہو تو الف کی شکل کی اسے یوں حس محسوس ہوتی ہے.ح کی شکل کی حس اس طرح محسوس ہوتی ہے اور جب م لکھا جاتا ہے تو اس سے اس کے ہاتھ میں فلاں قسم کی حس پیدا ہوتی ہے.اسی طرح آہستہ آہستہ وہ اس فرق کو بھی محسوس کرلے گا کہ صرف م لکھنے کی حس کیسی ہوتی ہے اور جب م اور دال کو اکٹھا لکھا جائے تو اس وقت کیسی حس پیدا ہوتی ہے.مثلاً ہم داد لکھتے ہیں تو اس میں دونوں دالیں الگ الگ ہوتی ہیں لیکن احمد " میں دال میم کے ساتھ مل جاتی ہے اور اس فرق کی وجہ سے دونوں کو الگ الگ شناخت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.اگر اس حس کو تیز کر لیا جائے تو تم اس سے بڑے بڑے کام لے سکتے ہو.فرض کرد اندھیرے میں تمہارا دشمن تمہارے قریب بیٹا ہے اور تم سمجھتے ہو اگر تم نے زبان سے اپنے کسی دوست کو کوئی ہدایت دی تو دشمن خبردار ہو جائے گا.اس وقت تم آسانی کے ساتھ اس جس سے کام لیتے ہوئے دوسرے کے ہاتھ پر انگلی سے لکھ دو گے کہ میں یہاں بیٹھا ہوں.تم واپس جاؤ اور مرکز میں جاکر اطلاع دو کہ دشمن اتنی تعداد میں موجود ہے.اس طریق سے دشمن کو کچھ بھی علم نہیں ہو گا کہ تم نے دوسرے کو کیا ہدایت دی ہے مگر تم اپنا یہ پیغام مرکز میں پہنچادو گے.اس کے بعد دوسرے کے لئے بھی کوئی اشارہ مقرر ہو نا چاہئے.مثلا یہ کہ وہ ہاتھ دبا دے جس کا مطلب یہ ہو کہ میں نے تمہارے پیغام کو سمجھ لیا ہے.پھر اگر وہ مرکز میں جائے او روہاں سے مدد لے آئے مگر تم وہاں موجود نہ ہو تو وہ تم وہاں اپنی کوئی علامت چھوڑ جاؤ گے.مثلا کاغذ پر یہ لکھ کر چھوڑ جاؤ گے کہ دشمن فلاں طرف جا رہا ہے.میں اس کا بچھا کر رہا ہوں ، تم بھی اس طرف آجاؤ یا کوئی اور علامت چھوڑ جاؤ گے.پرانے زمانے میں ساتھ ساتھ رنگ ڈالتے جاتے تھے جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس رنگ کے پیچھے پیچھے آجاؤ.اس زمانہ میں بعض اور طریقوں سے بھی کام لیا جاسکتا ہے.مثلا یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ کنکر لئے جائیں اور ان پر تھوڑا سا عطر ڈال دیا جائے اور اپنے ساتھیوں کو بتا دیا جائے کہ رستہ میں تمہیں کئی کنکر نظر آئیں گے.جن کنکروں سے تمہیں فلاں عطر کی خوشبو آئے ان کنکروں کو علامت سمجھنا اور جس طرف وہ کنکر چلے جائیں اسی طرف تم بھی چلے جانا یا اگر یہ علامت نہ ہو تو وہ ایسا کر سکتا ہے کہ ہاتھ پر عطر مل لے اور راستہ میں دس دس گز کے فاصلہ پر کسی پتھر پر ہاتھ ملتا چلا جائے.نتیجہ یہ ہو گا کہ بعد میں اس کے ساتھی آئیں گے اور وہ پتھروں کو سونگھ سونگھ کر اصل مقام تک پہنچ جائیں گے.تو یہ ایسی چیزیں ہیں جن سے کام کرنے میں بڑی بھاری مدد ملتی ہے.
332 اسی طرح لاٹھی چلانے کا فن نہایت اعلیٰ درجے کی چیز ہے اور مجھ پر اس کے متعلق پہلے بہت اچھا اثر تھا لیکن آخر ایک اناڑی اور واقف کی جب آپس میں لڑائی ہوئی تو اناڑی نے بہت اچھا کام کیا مگر واقف رہ گیا.میں دیکھنا بھی یہی چاہتا تھا کہ مقررہ اصول کے مطابق مارنے والے ایسی لڑائیوں میں کس حد تک کامیاب ہوا کرتے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ حساب سے مارنا ایک اچھی چیز ہے مگر آخر دوسرے نے تو حساب کو نہیں دیکھنا.وہ تو بے تحاشا مار تا چلا جائے گا.اس لئے اپنے فن میں ماہر اس شخص کو کہا جائے گا جو ہر ایسے شخص کے حملہ سے اپنے آپ کو بچا سکے جو اصول کو نظر انداز کر کے بے تحاشا مارنے کے لئے دوڑ پڑتا ہو.اگر یہ خوبی کسی میں نہیں اور وہ صرف مقررہ اصول کے مطابق لاٹھی چلانا اور اس کے مطابق روکنا جانتا ہے اپنے آپ کو اناڑیوں کے حملہ سے جو بغیر کسی اصول کے مارتے ہیں بچا نہیں سکتا تو اسے ہم ہر گز اچھا سپاہی نہیں کہہ سکتے کیونکہ دشمن اصول کو نہیں دیکھا کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لطیفہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا جسے بیٹھے بیٹھے یہ جنون پیدا ہوا کہ ملک میں اتنی بڑی فوج بالکل بے فائدہ ہے اور اس پر جو کچھ روپیہ خرچ ہو رہا ہے ضائع جارہا ہے.آخر یہ قصائی کس کام کے ہیں.رو ز بکرے ذبح کرتے ہیں اور روزانہ چھرا چلاتے ہیں.یہ سب ہماری فوج ہے.ان کے ہوتے ہوئے کسی اور فوج کی ضرورت نہیں.چنانچہ اس نے تمام فوج کو موقوف کر دیا اور قصائیوں کے نام حکم جاری کر دیا کہ اگر ملک پر کوئی دشمن حملہ آور ہوا تو تمہیں اس کے مقابلہ کے لئے نکلنا پڑے گا.کسی بادشاہ نے جب یہ سنا کہ اس طرح بادشاہ کا دماغ خراب ہو گیا ہے اور اس نے تمام فوج موقوف کر دی ہے تو اس نے حملہ کر دیا.بادشاہ نے فور اقصابوں کے نام حکم بھیجا کہ لڑائی کے لئے میدان میں جاؤ.چنانچہ سب قصاب لڑنے کے لئے چلے گئے اور بادشاہ اس انتظار میں اپنے دربار میں بیٹھ گیا کہ ابھی وہ قصاب دشمن کی لاشوں کو گھسیٹتے ہوئے لے آئیں گے مگر تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ قصائی فریاد فریاد کرتے ہوئے بادشاہ کے دربار میں آئے.بادشاہ نے کہا کیا ہوا.قصائی کہنے لگے حضور دشمن کو سمجھائیے.ہم تو دو دو چار چار آدمی مل کر ان میں سے ایک شخص کو پکڑتے ہیں اور اس کی ٹانگیں باندھ کر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر اسے ذبح کرتے ہیں مگر " اوہ تے دوا دو ماری جاندے نے " یعنی وہ بے تحاشہ مارتے جاتے ہیں اور کسی اصول کی پرواہ نہیں کرتے.اتنے میں دشمن بھی آپہنچا اور اس نے ملک پر قبضہ کر لیا.تو اصل غرض دشمن کو مارنا ہوتی ہے.یہ نہیں ہوتی کہ تم دائیں طرف مار و یا بائیں طرف مار و.جب تک اس رنگ میں مشق نہ ہو اور جب تک لاٹھی چلانے والا ہر اس شخص کے حملہ کو روک نہیں سکتا جو بے تحاشا اور بقول پنجابیوں کے دوا دو مارتا چلا جاتا ہو اس وقت تک ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سپاہی ہے.اسے ہم قصائی تو کہہ سکتے ہیں مگر سپاہی نہیں کہہ سکتے.ایک دفعہ یہاں قادیان میں اجمیر کا ایک شخص آیا.وہ سارے ہندوستان میں لاٹھی کے فن کا بہت بڑا ماہر سمجھا جاتا تھا.میں ان دنوں شملہ میں تھا.یہاں کے دوستوں نے اسے میرے پاس بھیجوا دیا اور لکھا کہ اگر اس شخص کی خدمات حاصل کرلی جائیں تو جماعت کے لوگوں کو یہ فن آجائے گا اور اس کا ہمیں بہت بڑا فائدہ ہو گا.وہ بڈھا آدمی تھا اور اپنے آپ کو بڑا ہو شیار سمجھتا تھا.میں نے اس سے کہا کہ آپ اپنا !
333 فن دکھائیے.اس نے لاٹھی لے کر ادھر ادھر ناچنا شروع کر دیا.کبھی دائیں طرف مڑتا اور کبھی بائیں طرف.میں نے کہا میں اسے فن تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں.میں ایک شخص کو مقرر کرتا ہوں جو آپ پر حملہ کرے.اگر اس کے حملہ سے آپ نے اپنے آپ کو بچالیا تو میں سمجھ لوں گا کہ بے شک آپ کو فن آتا ہے.بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کالڑ کا عزیز عبد القادر جس کی عمر اس وقت چودہ پندرہ سال تھی اس وقت وہاں موجود تھا.میں نے اسے چھڑی دی اور کہا اسے مارو.اس نے ایک دو حملوں میں ہی اسے ضرب لگادی اور اس کافن اس کے کسی کام نہ آیا.میں نے اسے کہا یہ تو کوئی فن نہیں.ایک بچہ بھی آپ پر اپنے حملہ میں کامیاب ہو گیا ہے.وہ کہنے لگا یہ تو اناڑی ہے.کوئی فن کا ماہر میرے مقابلہ میں لائیں.میں نے کہا کہ مقابلہ تو اناڑیوں سے ہی ہو گا.لڑائی میں ٹورنامنٹ تو نہیں ہو تا کہ ایک طرف سے بھی فن کے ماہر نکلیں اور دوسری طرف سے بھی فن کے ماہر نکلیں اور وہ اپنے اپنے اصول کے مطابق لڑنا شروع کر دیں.لڑائی میں تو ایسا ہی ہو گا کہ دوسرا فریق اندھادھند مارنے کی کوشش کرے گا.اس پر وہ بڑھا چلا گیا اور اس نے سمجھا کہ یہ بڑے ہی بیوقوف لوگ ہیں جو فن کی قدر کرنا نہیں جانتے.حالانکہ ہم تو اسی کو فن سمجھتے ہیں کہ چاہے کوئی غصہ میں مارے چاہے اصول کو نظر انداز کر کے بے تحاشا مارے، ہر صورت میں وہ اس کے حملہ سے اپنے آپ کو بچالے اور اگر کوئی شخص ایسے حملہ سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا تو وہ لاٹھی کے فن کا ماہر نہیں بلکہ ایک کھیل کھیلتا ہے.پس آئندہ اس کی بھی مشق کرائی جائے اور اناڑیوں سے حملہ کرا کر دیکھا جائے کہ وہ کس حد تک ان حملوں سے اپنے آپ کو بچاسکتے ہیں.اسی طرح صرف ایک شخص کے حملہ سے اپنے آپ کو بچالینا کوئی خاص خوبی نہیں بلکہ فن میں ایسی مہارت حاصل کرنی چاہئے کہ اگر ایک وقت میں دو دو تین تین چار چار شخص بھی حملہ کردیں تو وہ ان سب کے حملہ سے اپنے آپ کو بچالے.ایسے شخص کو ہم بے شک یہ کہہ سکیں گے کہ وہ اپنے فن کا ماہر ہے.لیکن اگر وہ اناڑیوں کے حملہ تے تو اپنے آپ کو نہیں بچا سکتا.ہاں چار گنگا سکھے ہوئے اس پر حملہ کرتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو بچالیتا ہے تو ایسے شخص کو ہم اچھا کھلاڑی تو کہہ سکیں گے اچھا فوجی او راچھا سپاہی نہیں کہہ سکیں گے.اس کے بعد میں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ باتیں تو تمہاری حقیقی کام اخلاقی اور علمی رنگ میں ترقی کھیلوں سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کافائدہ تمہارے جسموں کو پہنچ سکتا ہے لیکن تمہارا کام صرف ان کھیلوں کی طرف متوجہ ہونا اور اپنے جسموں کو درست کرناہی نہیں بلکہ تمہارا حقیقی کام اخلاقی اور علمی رنگ میں ترقی کرنا ہے.میں نے اپنے خطبات میں بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے اور اس وقت بھی میں ایک ٹریکٹ میں جو دفتر خدام الاحمدیہ نے شائع کیا ہے ، یہی پڑھ رہا تھا کہ خدام الاحمدیہ کو مذہبی اخلاقی اور علمی رنگ میں کام کرنے کے لئے منظم کیا گیا ہے.پس انہیں اپنے اس کام کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.انہیں چاہئے تھا کہ اس موقعہ پر ان کاموں کے بھی مقابلے رکھتے.جب خدام الاحمدیہ کا اصل کام یہ ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلیمی اور اخلاقی اور مذہبی رنگ کے مقابلے اپنے ایسے اجتماع میں نہ رکھے جائیں.میرے
334 نزدیک آئندہ ایسے موقعہ پر بعض لیکچر ایسے رکھنے چاہئیں جن میں موٹے موٹے مسائل کے متعلق اسلام اور احمدیت کی تعلیم کو بیان کر دیا جائے.اس طرح بعض امتحان مقرر کرنے چاہئیں اور دیکھنا چاہئے کہ خدام الاحمدیہ کو احمدیت اور اسلام سے تعلق رکھنے والے مسائل سے کسی حد تک واقفیت ہے.جس طرح آئی.سی.ایس میں ایک جنرل نالج کا پرچہ ہوتا ہے اسی طرح احمدیت کے متعلق ایک جنرل نالج کا پرچہ رکھنا چاہئے اور مختلف سوالات نوجوانوں سے دریافت کرنے چاہئیں.مثلا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتنی عمر تھی یا آپ کے کسی الہام کو پیش کر کے پوچھ لیا جائے کہ اس کا کیا مفہوم ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب کے متعلق دریافت کیا جائے کہ وہ کس موضوع پر ہے یا یہ دریافت کیا جائے کہ تمہارے نزدیک وفات مسیح کی سب بڑی دلیل کیا ہے.یا نبوت کی کیا تعریف ہے یا ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کس قسم کی نبوت کو جائز سمجھتے ہیں اور کس قسم کی نبوت کو جائز نہیں سمجھتے.یہ اور اسی قسم کے اور سوالات نوجوانوں سے دریافت کئے جائیں اور اس طرح پتہ لگایا جائے کہ انہیں مذہبی مسائل سے کہاں تک واقفیت ہے.اس طرح علمی مذاق بھی ترقی کرے گا اور جو لوگ ست ہوں گے وہ بھی چست ہو جائیں گے.اسی طرح اخلاق کے متعلق مختلف قسم کے سوالات دریافت کرنے چاہئیں.مثلا یہ کہ اگر تم کو کوئی گالی دے تو تم کیا کرو گے یا اگر تم کو کوئی شخص مارنے لگ جائے تو تم کس حد تک مار کھاؤ گے اور کس حد تک اس کا مقابلہ کرو گے.اسی طرح یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر تم دشمن کا مقابلہ کرو تو کس حد تک اس کا مقابلہ کرنا شریعت کے مطابق ہو گا اور کیسا مقابلہ شریعت کے خلاف ہو گا یا اگر کوئی شخص گالی دے تو کس حد تک صبر کرو گے اور کس حد تک خاموش رہنا بے غیرتی بن جائے گا.پھر یہ کہ اگر تم گالی کا جواب دو تو کس حد تک شریعت تمہیں جواب دینے کی اجازت دیتی ہے اور کس حد تک نہیں دیتی.ہمارے ملک میں عام طور پر چوہڑوں اور چماروں کی گالیاں ماں بہن کی ہوتی ہیں.اب فرض کرو تمہارا ذہن کسی کی گالیاں سن کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ چپ رہنا بے غیرتی ہے، مجھے ان گالیوں کا جواب دینا چاہئے تو ایسے موقعہ پر بے شک شریعت یہ کہے گی کہ اگر تم جواب دینا چاہتے ہو تو دو.مگر شریعت اس بات کو جائز قرار نہیں دے گی کہ تم بھی اس کے جواب میں ماں بہن کی گالیاں دینے لگ جاؤ.یہ تو تم دوسرے کو کہہ سکتے ہو کہ تم بڑے کمینے اور بد اخلاق ہو.تم نے بہت بڑا ظلم کیا جو ایسی گندی گالیاں دیں.مگر شریعت تمہیں اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ جس طرح اس نے ماں بہن کی گالیاں دی ہیں اسی طرح تم بھی ماں بہن کی گالیاں دینی شروع کر دو.پس نوجوانوں سے دریافت کرنا چاہیئے کہ جب کوئی شخص تمہیں گالیاں دے تو کس حد تک شریعت تمہیں اس کے جواب کی اجازت دیتی ہے اور کس حد تک نہیں دیتی.ان سوالات کا فائدہ یہ ہو گا کہ اس طرح نوجوانوں کے متعلق ہمیں یہ علم حاصل ہو تا رہے گا کہ وہ اسلامی مسائل کو کس حد تک سمجھتے ہیں اور خود ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ انہیں ہر کام کے کرتے وقت اسلامی شریعت پر عمل کرنا چاہئے اور اسے کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.
335 پس یہ حصے بھی ریلی میں شامل ہونے چاہئیں اور میرے نزدیک اگر ان پر زور دیا جائے تو یہ حصے بھی ایسے ہی دلچسپ بن جائیں گے جیسے کھیلیں دلچسپ ہوتی ہیں.ایسا امتحان اگر توجہ کی جائے انسانی زندگی میں حرکت ، دلچسپی اور سرور پیدا کر دیتا ہے.امریکہ میں ایک دفعہ حکومت نے جوئے کے خلاف قانون جاری کر دیا.پولیس چلتی گاڑیوں میں گھس جاتی اور جب لوگوں کو جوا کھیلتے دیکھتی تو انہیں فور اگر فتار کر لیتی.جب لوگوں نے دیکھا کہ ان کی دلچپسی کا یہ سامان جاتا رہا ہے تو انہوں نے اپنی دلچسپی کے لئے ایک اور راہ نکال لی.چنانچہ ایک اخبار نے لکھا کہ آخر لوگوں نے اس قانون کا تو ڑ سوچ ہی لیا اور وہ اس طرح کہ جب انہوں نے دیکھا کہ پولیس جو او غیرہ نہیں کھیلنے دیتی تو ایک شخص نے ایک دن مصری کی ایک ڈلی نکال کر سامنے رکھ دی اور دو سرے کو کہا کہ وہ بھی مصری کی ایک ڈلی نکال کر سامنے رکھ دے اور پھر فیصلہ یہ کیا کہ جس کی ڈلی پر سب سے پہلے لکھی بیٹھے گی وہ جیت جائے گا اور اسے دوسرا شخص اتنے ڈالر انعام دے گا.غرض اس طرح انہوں نے کھیل کھیلنا شروع کر دیا.کسی کو احساس بھی نہیں ہو تا تھا کہ جوا کھیلا جا رہا ہے.وہ یہ دیکھتا کہ مصری کی دو ڈلیاں ، پڑی ہوئی ہیں مگر در حقیقت ان مصری کی ڈلیوں سے ہی جوا کھیلا جا رہا ہو تا تھا مگر کسی کو پتہ نہیں لگتا تھا.وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اگر کبھی شور پیدا ہوا تو ہم آرام سے مصری کی ڈلی اٹھائیں گے اور منہ میں ڈال لیں گے.جوئے کا کوئی نشاں باقی نہیں رہے گا لیکن اس معمولی سی بات نے ان میں غیر معمولی دلچسپی پیدا کر دی کیونکہ اب خالی مصری کی ڈلی کا سوال نہیں رہا تھا بلکہ اس کے ساتھ جوئے کو لگا دیا تھا اور چانس اور عقل یہی دو مقابلے انسانی زندگی کو دلچسپ بناتے ہیں.اب دیکھ لو وہی لکھی جو پہلے گزرتی تو کسی کو اس کا احساس بھی نہیں ہو تا تھا.اس مقابلے کے بعد کیسی دلچسپ چیز بن گئی اور کس طرح ہر شخص بے تابی اور اضطراب کے ساتھ مکھی کا انتظار کرتا ہو گا.کبھی کہتا ہو گا لو مکھی قریب آگئی.لواب تو بیٹھنے ہی لگی اور کبھی افسوس کے ساتھ کہتا ہو گا مکھی آئی تو سہی مگر چلی گئی.گویا یہ بھی ویسا ہی دلچسپ مقابلہ ہو گیا جیسے کشتیوں کا مقابلہ ہوتا ہے.کیونکہ دلچپسی خون کے جوش سے پیدا ہوتی ہے اور جس مقابلہ میں انسانی خون کے اندر جوش پیدا ہو جائے یا مقابلہ میں انسان کو لذت آنی شروع ہو جاتی ہے.پس بے شک یہ سوالات علمی مذاق کے ہیں مگر اس علمی مذاق کو بھی دلچسپ بنایا جا سکتا ہے.صرف عقل اور سمجھ سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے.جو لوگ عقل اور سمجھ سے کام لیتے ہیں وہ ہر کام میں دلچسپی پیدا کر لیتے ہیں اور جو عقل سے کام نہیں لیتے انہیں بڑے بڑے دلچسپ کاموں میں بھی کوئی لذت محسوس نہیں ہوتی.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر نماز کی ادائیگی بہت ہی گراں گزرتی ہے اور وہ بڑی مشکل سے نماز ادا کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جنہیں نماز میں ایسی لذت آتی ہے کہ اس سے بڑھ کر انہیں اور کسی کام میں لذت نہیں آتی.وہ نماز کو ایسا ہی سمجھتے ہیں جیسے کوئی تیر انداز نشانہ پر تیر لگانے کی کوشش کرتا رہا ہو.جس طرح تیر انداز کا جب کوئی تیر نشانہ پر جا لگتا ہے تو وہ خوشی سے چلا اٹھتا ہے کہ لووہ تیر نشانہ پر جالگا.اسی طرح نمازی اپنی ہر نماز پر خوش ہو تا ہے اور فرط مسرت سے بے اختیار کہہ اٹھتا ہے میرا تیرا اپنے نشانہ پر جالگا.اسی طرح پر سبحان ربی العظیم جو اس کی
336 زبان سے نکلتا ہے اسے وہ صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں سمجھتا بلکہ اس کے دل اور دماغ میں یہ خیال موجود ہوتا ہے کہ یہ وہ خط ہے جو میں اپنے خدا کے پاس بھیج رہا ہوں.پس ہر سبحان ربی العظیم اسے مزیدار لگتا ہے.ہر رکوع میں اسے مزہ آتا ہے.ہر سجدہ میں اسے لذت آتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے خدا کو بلاوا بھیج رہا ہوں.اس کا سبحان ربی الا علی کہنا کیا ہوتا ہے ؟ ایک خط ہو تا ہے.ایک چٹھی ہوتی ہے جو وہ اپنے خدا کے پاس بھیجتا ہے اور اس سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اس کی مدد کے لئے آئے.جیسے مچھلیاں پکڑنے والے دریا میں کنڈیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں اور اگر ذرا بھی رہی ہلتی ہے تو ان کا دل دھڑکنے لگ جاتا ہے کہ آگئی مچھلی.اسی طرح جب ایک مومن تسبیح کرتا ہے تو اس کا دل دھڑکنے لگ جاتا ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں میرا رب مجھ سے ملنے کے لئے آجائے گا.غرض انسان اگر چاہے تو اپنے ہر کام کو دلچسپ بنا سکتا ہے اور در حقیقت یہ صرف خیالات بدلنے کی بات ہوتی ہے.اگر ہم ضرورت اور اہمیت کو سمجھ لیں تو ہر چیز کو دلچسپ بنا سکتے ہیں.پس علمی اور اخلاقی مقابلے بھی دلچسپ بنائے جاسکتے ہیں اور میں خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ وہ ایسے اجتماع کے موقعہ پر اس قسم کے مقابلے ضرور رکھا کریں.اسی طرح ہر سال اس قسم کے سوالات بھی کرنے چاہئیں کہ بتاؤ اس سال قرآن کریم کی سورتیں کس کس نے حفظ کی ہیں اور کتنی حفظ کی ہیں.پھر جو شخص سب سے زیادہ قرآن کریم حفظ کرنے والا ثابت ہو اسے انعام دیا جائے.اسی طرح احادیث کے متعلق سوال کیا جائے کہ اس سال کتنی احادیث حفظ کی گئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کے متعلق سوال کیا جائے کہ وہ کتنی پڑھی گئی ہیں.اس طرح نو جوانوں میں علمی مذاق ترقی کرے گا اور ہر سال ان کو یہ تحریک ہوتی چلی جائے گی کہ وہ مذہبی اور اخلاقی امور کی طرف توجہ کریں.نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کا دین بھی ترقی کرے گا.تبلیغ بھی ترقی کرے گی اور اسلامی مسائل کی حقیقت بھی ان پر زیادہ واضح ہو جائے گی.اسی طرح قرآن کریم کے ترجمہ کے متعلق ہر سال سوال کرنا چاہئے کہ خدام میں سے کتنے ہیں جنہیں سارے قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے.فرض کرو اس وقت مقامی اور بیرونی خدام آٹھ نو سو کے قریب ہیں تو ان سب سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ ان میں کتنے ہیں جنہیں سارے قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے.بلکہ یہ سوال میں اسی وقت کر لیتا ہوں تاکہ معلوم ہو کہ کتنے نوجوان سارے قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں.(اس کے بعد حضور نے تمام خدام سے فرمایا کہ قادیان کے رہنے والوں میں سے جو نوجوان سارے قرآن کا ترجمہ جانتے ہوں وہ کھڑے ہو جائیں.اس پر ۱۵۲ نوجوان کھڑے ہوئے.پھر حضور نے فرمایا بیرونی خدام میں سے جن کو سارے قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہو وہ کھڑے ہو جائیں.اس پر صرف ۳۲ نوجوان کھڑے ہوئے.سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا ، قادیان کے خدام میں سے ۱۵۲ نوجوان ایسے ہیں جنہیں سارا قرآن شریف با ترجمہ آتا ہے اور بیرونی خدام میں سے صرف ۳۲ ایسے ہیں جنہوں نے سارا قرآن شریف پڑھا ہوا ہے.دیکھو یہ ہمارے لئے کیسی آنکھیں کھولنے والی بات ہے اور کس طرح یہ افسوسناک حقیقت ہم پر روشن ہوئی ہے کہ ہم میں سے بہت سے تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی قرآن شریف اچھی طرح نہیں
337 پڑھا.اب وہ نوجوان جنہوں نے پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا ہوا ہے کھڑے ہو جائیں.وہ لوگ بھی دوبارہ کھڑے ہونے چاہئیں جنہوں نے سارا قرآن شریف پڑھا ہوا ہے کیونکہ وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے پندرہ پاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا ہوا ہے.(اس پر قادیان کے خدام میں سے ۲۴ اور بیرونی خدام میں سے چالیس کھڑے ہوئے.حضور نے فرمایا) قادیان کے خدام میں ۱۲۴۹ ایسے ہیں جنہیں پندره سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے.گویا سارا قرآن کریم پڑھنے والوں کے مقابلہ میں قریبا ایک سو سے زیادہ ہیں اور بیرونی جماعتوں میں سے چالیس ایسے ہیں جنہیں پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے.گویا سارا قرآن شریف پڑھے ہوئے نوجوانوں کے مقابلہ میں صرف آٹھ زیادہ ہیں.میں قادیان کے ان ۹۷ اور بیرونی مجالس کے آٹھ نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ خود ہی غور کریں.کس طرح دروازے کے قریب پہنچ کر وہ اندر داخل ہونے سے محروم بیٹھے ہیں.جب پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن شریف پڑھ چکے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ باقی قرآن شریف پڑھنے کی طرف بھی وہ توجہ نہ کریں.اب میرے پاس وقت نہیں ورنہ میں دریافت کر تا کہ دس سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ کتنے نوجوانوں کو آتا ہے اور پھر دریافت کر تاکہ پانچ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ کن کن کو آتا ہے تاکہ اگلی دفعہ اندازہ کیا جا تا کہ پانچ سے دس اور دس سے پندرہ اور پندرہ سے ہیں اور ہمیں سے تھیں پارے کس نے پڑھ لئے ہیں.بہر حال ہمیں قرآن شریف کے ترجمہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ رہے جسے قرآن کریم نہ آتا ہو.اگر ہم کبڈی کے مقابلہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اگر ہم دوڑ کے مقابلہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ کتنے افسوس کی بات ہو گی اگر ہم قرآن شریف کی تعلیم اور اس کے مطالب کو سمجھنے میں ایک دوسرے کے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں بعض چیزوں میں رشک جائز ہوتا ہے اور انہی جائز باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دینی معاملات میں نیکی اور تقویٰ کے امور میں اور اعمال صالحہ کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے.میں امید کرتا ہوں آئندہ سال نوجوان زیادہ سے زیادہ اس قسم کے مقابلوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے اور جماعتیں اس امر کو مد نظر رکھیں گی کہ ان میں سارا قرآن شریف با تر جمہ جاننے والے زیادہ سے زیادہ لوگ موجود ہوں.ہم لوگوں کی سہولت کے لئے یہ تجویز کر سکتے ہیں کہ قادیان کے جو محلے ہیں ان میں بعض معلم مقرر کر دیے جائیں جو دو مہینے کے اندر اندر لوگوں کو قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا دیں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ترجمہ والا قرآن شریف سامنے رکھ لیا جائے تو تعلیم یافتہ انسان آسانی سے نصف پارہ کے ترجمہ کو روزانہ سمجھ سکتا ہے.ابتداء میں یہ خیال کرنا کہ قرآن شریف کا ایک ایک لفظ آجائے صحیح نہیں ہوتا اور جو لوگ اس رنگ میں کوشش کرتے ہیں وہ ابتدائی پاروں میں ہی رہ جاتے ہیں.کیونکہ وہ چاہتے ہیں ان پر ساری آیات حل ہو جائیں اور چونکہ ساری آیات ان پر حل نہیں ہو تیں اس لئے وہ آگے نہیں پڑھ سکتے.میں نے بتایا ہے کہ میں اس
338 غرض کے لئے بعض علماء مقرر کر سکتا ہوں جو مختلف محلوں میں دوماہ کے اندر اندر قرآن شریف کا ترجمہ لوگوں کو پڑھا دیں.اسی طرح بیرونی جماعتیں اگر چاہیں تو ان کی تعلیم کے لئے بھی بعض آدمی بھجوائے جاسکتے ہیں بشرطیکہ ان کی رہائش اور کھانے کا وہ انتظام کر دیں.مگر اس قسم کے معلم زیادہ نہیں مل سکتے.دو چار ہی مل سکتے ہیں.ان کے متعلق ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ انہیں دوماہ کی تنخواہ تحریک جدید سے دلا دی جائے.اس عرصہ میں وہ بیرونی جماعتوں کو قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا دیں گے اور پھر ہر سال اس تحریک کو جاری رکھا جائے گا تاکہ ہماری جماعت کے تمام افراد قرآن کریم کے ترجمہ اور اس کے مفہوم سے آشنا ہو جائیں.اس کے بعد میں خدام الاحمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ خدام کی عمر ہی ایسی ہے جس میں مومن شکل اور مومن دل کا سوال پیدا ہوتا ہے.دنیا میں کئی قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں.بعض تو ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل بھی مومن ہوتی ہے اور دل بھی مومن ہوتا ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل تو مومنوں والی ہوتی ہے مگر دل کا فر ہوتا ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل تو کافروں والی ہوتی ہے مگر دل مومن ہوتا ہے اور بعضوں کی شکل بھی کافروں والی ہوتی ہے اور دل بھی کافروں والا ہو تا ہے.گویا مومن دل اور کافر شکل مومن شکل اور کا فردل اور مومن دل اور مومن شکل اور کافر دل اور کافر شکل یہ چار قسم کے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں.جس کا دل بھی مومن ہے اور شکل بھی مومن ہے وہ بڑا مبارک انسان ہے کیوں کہ اس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور اس کا باطن بھی اچھا ہے.ایسا شخص جب خدا تعالیٰ کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پہچان لیتا ہے اور کہتا ہے یہ میرا بندہ ہے اور جب وہ بندوں کی طرف مونہہ کرتا ہے تو بندے بھی کہتے ہیں یہ شخص خدا تعالیٰ کے دین کا سپاہی ہے اور جس کی شکل مومنوں والی ہے مگر دل کا فر ہے وہ جب دنیا کی طرف مونہہ کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ بھی اسلام کی شوکت بڑھانے کا موجب ہے.مگر جب خد اتعالیٰ کی طرف جاتا ہے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ اسلام کا غدار ہے اور جس کی شکل کا فروں والی ہے مگر دل مومن ہے اسے جب مومن بندے دیکھتے ہیں یہ اسلام کی شوکت کو کم کرنے کا موجب ہے.مگر جب وہ خدا تعالیٰ کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالی کہتا ہے اس بندے کا میرے ساتھ تعلق ہے مگر وہ اس بات پر افسوس کرتا ہے کہ یہ شخص اتنی دور سے میرے ملنے کے لئے آیا لیکن دروازے پر آکر بیٹھ گیا ہے.ایک دو قدم اور اٹھائے تو مجھ تک پہنچ سکتا ہے مگر وہ دو قدم نہیں اٹھاتا اور دروازے پر آکر بیٹھ جاتا ہے.اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی شخص سترہ سو گز چل کر تو اپنے محبوب سے ملنے کے لئے چلا جائے مگر جب ساٹھ گز باقی رہ جائیں تو وہیں بیٹھ جائے.ایسا شخص قریب پہنچ کر بھی خدا تعالیٰ کے دیدار سے محروم رہتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کی حالت پر افسوس کرتا ہے کہ وہ مجھے سے ملنے کے لئے تو آیا مگر چند قدم نہ اٹھانے کی وجہ سے پیچھے بیٹھ رہنے پر مجبور ہو گیا.پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل بھی کافروں والی ہوتی ہے اور دل بھی کافروں والا ہوتا ہے.ایسے لوگوں سے کسی کو دھو کہ نہیں لگتا کیونکہ ان کا بھی ظاہر اور باطن یکساں ہوتا ہے.یہ وہ زمانہ ہے جس میں عیسائیت نے اگر دلوں کو کافر نہیں بنایا تو اس نے انسانی
339 اور دود چہروں کو ضرور کا فر بنا دیا ہے اور بہت سے نوجوان اس مرض میں مبتلا ہیں کہ وہ مغربی تہذیب اور مغربی تمدن کے دلدادہ ہو رہے ہیں.وہ اپنے سروں کے بال اپنی داڑھیوں اور اپنے لباس میں مغرب کی نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی شکل کافروں والی بن جاتی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسکن تشبه بقوم فهو منهم جو شخص اپنی ظاہری شکل کسی اور قوم کی طرح رکھتا ہے وہ ہم میں سے نہیں.یعنی جب ہم کسی کو دیکھیں گے کہ اس کی شکل ہندوؤں سے ملتی ہے یا عیسائیوں سے ملتی ہے تو ہمیں اس پر اعتبار نہیں آئے گا اور ہم سمجھیں گے کہ یہ بھی انہی سے ملا ہوا ہے اور جب ہمیں اعتبار نہیں آئے گا تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی ذمہ داری کا کام اس کے سپرد نہیں کیا جائے گا اور اس طرح وہ نیکی کے بہت سے کاموں سے محروم ہو جائے گا.پس میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ مومن دل اور مومن شکل بنا ئیں اور مغربیت کی تقلید کو چھوڑ دیں.میں نے پچھلے سال بھی بتایا تھا کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم مغربی تہذیب کو تباہ کر دو اور اس کی بجائے اسلام کی تعلیم اسلام کے اخلاق اسلام کی تہذیب اور اسلام کے تمدن کو قائم کرو.بے شک تم اسلامی تمدن تبلیغ کے ذریعے قائم کرو گے تلوار کے ذریعے نہیں.مگر تبلیغ کے لئے بھی تو یہ بات ضروری ہے کہ مبلغ کی شکل مومنانہ ہو.پس میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان کی ظاہری شکل اسلامی شعار کے مطابق ہونی چاہئے اور انہیں اپنی ڈاڑھیوں میں بالوں میں اور لباس میں سادگی اختیار کرنی چاہئے.اسلام تمہیں صاف اور نظیف لباس پہننے سے نہیں روکتا بلکہ وہ خود حکم دیتا ہے کہ تم ظاہری صفائی کو ملحوظ رکھو اور گندگی کے قریب بھی نہ جاؤ.مگر لباس میں تکلف اختیار کرنا منع ہے.اسی طرح تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کوٹ کے کالر کو دیکھنا کہ اس پر گر د تو نہیں پڑ گئی.یہ ایک نغو بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بعض لوگ اچھے اچھے کپڑے لاتے تھے اور آپ ان کپڑوں کو استعمال بھی کرتے تھے مگر کبھی لباس کی طرف ایسی توجہ نہیں فرماتے تھے کہ ہر وقت برش کردار ہے ہوں اور دل میں یہ خیال ہو کہ لباس پر کہیں گرد نہ پڑ جائے.برش کروانا منع نہیں مگر اس پر زیادہ زور دینا اور اپنے وقت کا بیشتر حصہ اس قسم کی باتوں پر صرف کر دینا پسندیدہ نہیں سمجھا جا سکتا.میں نے خود کبھی کوٹ پر برش نہیں کروایا نہ میرے پاس اتنا وقت ہوتا ہے اور نہ مجھے کبھی اس بات کی پر واہ ہوئی ہے.ممکن ہے میں نے چار کوٹ پھاڑے ہوں تو ان میں سے ایک کو کبھی ایک یا دو دفعہ برش کیا ہو.بعض لوگ اعتراض بھی کرتے ہیں مگر میں یہی کہتا ہوں کہ میرے پاس ان باتوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت نہیں.آپ کو اگر بڑا لگتا ہے تو بے شک لگے.اسی طرح کوٹ کے گریبان پر گردن کے قریب بعض دفعہ میل جم جاتی ہے.مگر میرے نزدیک وہ میل اتنی اہم نہیں ہوتی جتنا میرا وقت قیمتی ہوتا ہے.ہاں اگر کوئی شخص اس میل کو دور کر دے یا کوٹ پر برش کر لیا کرے تو یہ منع نہیں.ہم جس چیز سے منع کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان ظاہری باتوں کی طرف اتنی توجہ کی جائے کہ یہ خیال کر لیا جائے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری ہتک ہو جائے گی.میں نے دیکھا ہے بعض دوست دعوت کے موقع پر رونے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے پاس فلاں قسم کا کوٹ نہیں.فلاں قسم کی پگڑی نہیں.اس کے بغیر ہم دعوت میں کس
340 طرح شامل ہوں حالانکہ انسان کے پاس جس قسم کا لباس ہو اسی قسم کے لباس میں اسے دو سروں سے ملنے کے لئے چلے جانا چاہئے.اصل چیز تو نگ ڈھانکنا ہے.جب ننگ ڈھانکنے کے لئے لباس موجود ہے اور اس کے باوجود کوئی شخص کسی شخص کی ملاقات سے اس لئے محروم ہو جاتا ہے کہ کہتا ہے میرے پاس فلاں قسم کا کوٹ نہیں یا فلاں قسم کا کرتہ نہیں تو یہ دین نہیں بلکہ دنیا ہے.اسی طرح اگر کسی کے پاس ٹوپی ہو تو اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ ٹوپی اپنے سر پر رکھ لے لیکن اگر ٹوپی اس کے پاس موجود نہیں تو وہ ننگے سر ہی دوسرے کے ملنے کے لئے جاسکتا ہے.اگر اس وقت وہ محض اس لئے کسی کو ملنے سے ہچکچاتا ہے کہ ٹوپی اس کے پاس موجود نہیں تو وہ بھی تکلف سے کام لینے والا سمجھا جائے گا.مجھ سے ایک دفعہ احمدیہ ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ صاحب نے دریافت کیا کہ بعض لڑکے ننگے سرا دھرادھر چلے جاتے ہیں اور ٹوپی سر پر نہیں رکھتے.اس بارہ میں آپ کی کیا رائے ہے.میں نے کہا ٹوپی کے بغیر کہیں جانا اسلام کے خلاف نہیں لیکن یہ اسلامی تہذیب کے خلاف ضرور ہے.انہیں چاہئے کہ وہ بلا وجہ ایسا نہ کیا کریں.اگر ان کے پاس ٹوپی ہو تو سر پر ٹوپی رکھ لیا کریں.ہاں اگر ٹوپی نہ ہو تو ننگے سر بھی جاسکتے ہیں.بہر حال مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر ہمیں کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئے.مغربی تہذیب یہ سکھاتی ہے کہ ٹوپی کے اتارنے میں عظمت ہے.چنانچہ عیسائیوں میں جب بادشاہ کے سامنے لوگ جاتے ہیں ٹوپی سر سے اتار لیتے ہیں.اسی طرح عورت کے سامنے جائیں گے تو ٹوپی اتار لیں گے لیکن اسلامی تہذیب یہ ہے کہ ٹوپی پہنی چاہئے.یورپین تہذیب یہ کہتی ہے کہ عورت اپنے سر کو نگا رکھے لیکن اسلامی تہذیب یہ سکھاتی ہے کہ عورت اپنے سر کو ڈھانک کر رکھے.چنانچہ فقہاء نے اس بات پر بحثیں کی ہیں اور انہوں نے لکھا ہے کہ نماز میں اگر عورت کے سر کے بال ننگے ہوں تو اس کی نماز نہیں ہوتی.پس میں نے انہیں کہا کہ آپ لڑکوں کو یہ بتائیں کہ اسلامی شعار ٹوپی پہننے میں ہے ٹوپی اتارنے میں نہیں.ہاں اگر کسی کے پاس ٹوپی نہ ہو تو وہ ننگے سر بھی مسجد میں نماز کے لئے جا سکتا ہے.جس طرح مغربیت ہو گی کہ کسی کے پاس ٹوپی ہو اور وہ پھر بھی اسے نہ پہنے اور ہر وقت بالوں کی مانگ نکالنے ، تیل ملنے اور کنگھی کرنے میں ہی مصروف رہے اسی طرح اگر کسی کے پاس ٹوپی نہ ہو اور پھر بھی وہ مسجد میں نہ جائے یا کوئی اور کام کرنے سے ہچکچائے تو یہ بھی اسلام کے خلاف ہے کہ کوئی شخص خاص قسم کی دھاری دار قمیض پہنناہی ضروری سمجھے اور اگر اس رنگ کی قمیض نہ ملے تو کوئی اور قمیض پہننا اپنے لئے ہتک کا موجب سمجھے.اسی طرح یہ بھی اسلام کے خلاف ہو گا کہ کسی کے پاس قمیض تو ہو مگر وہ ننگے بدن پھرنے لگ جائے.اسلام جسمانی حسن کی زیادہ نمائش پسند نہیں کرتا کیونکہ اس طرح کئی قسم کی بدیاں پیدا ہو جاتی ہیں لیکن اسلام یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی ننگے بدن پھرنے لگ جائے کیونکہ ننگے بدن پھرنا بھی کئی قسم کی بدیاں پیدا کرنے کا موجب بن جاتا ہے.جس طرح اسلام یہ نہیں کہ خاص قسم کی پتلون ہو.اس میں کسی سلوٹ کا نشان نہ ہو اور اس پر خاص قسم کا کوٹ ہو.اسی طرح اسلام یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ اگر تمہارے پاس پاجامہ نہ ہو تو تم یہ کہو کہ ہم تہہ بند باندھ کر کہیں نہیں جاسکتے.اگر تمہارے پاس پاجامہ ہو اور تم پاجامہ کی بجائے لنگوٹی باندھ کر کہو کہ یہ
341 سادگی ہے تو یہ اسلام کے خلاف ہو گا اور اگر تم خاص قسم کی پتلون اور کوٹ پر زور دو تو یہ بھی اسلام کے خلاف ہو گا کیونکہ پاجامہ کے ہوتے ہوئے لنگوٹی باندھنا بھی تکلف ہے اور خاص قسم کے کوٹ اور پتلون پر زور دینا بھی تکلف ہے.جس طرح یہ تکلف ہے کہ انسان شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر گھنٹہ گھنٹہ دو دو گھنٹے اپنی آرائش میں مشغول رہے اور استرے اور صابن سے اپنی داڑھی کے بالوں کو اس طرح صاف کرے جس طرح ماں کے پیٹ سے اس کے کلے نکلے تھے.اسی طرح یہ بھی تکلف ہے کہ انسان ننگے بدن پر بھیجھوت مل کر بیٹھ جائے.وہ بھی تکلف کرنے والا ہے جو کوٹ اور پتلون پہن کر اور داڑھی منڈا کر اور بالوں میں مانگ نکال کر اور نکٹائی پہن کر باہر نکلتا ہے اور وہ بھی تکلف سے کام لیتا ہے جو باوجو د مقدرت کے ننگے بدن لنگوٹی یا تہ بند باندھ کر نکل کھڑا ہو تا ہے.پھر جس طرح وہ تکلف کرتا ہے جو کوٹ اور پتلون پہن کر اس طرح چلتا ہے کہ یہ معلوم نہیں ہو تا کوئی آدمی چل رہا ہے بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مشین چل رہی ہے.میں نے ہاؤس آف لارڈز کے جلسوں میں انگریز نوابوں کو اس طرح چلتے دیکھا ہے.مجھے تو ان کو دیکھ کر ایسا ہی معلوم ہو تا تھا جیسے کوئی آدمی بے ہوش ہو اور اس کے ساتھ ڈنڈے باندھ کر کوئی کل لگا دی گئی ہو.بالکل معلوم ہی نہیں ہو تا تھا آدمی چل رہے ہیں.ایسی آہستگی سے اور سوچ سوچ کر قدم اٹھاتے ہیں کہ ان کا چلنا بھی تکلف معلوم ہوتا ہے.اس کے مقابلہ میں جو شخص بلا وجہ دوڑ پڑتا ہے وہ بھی تکلف سے کام لیتا ہے.اسی لئے رسول کریم میں ان کی ہیلی نے دوڑ کر نماز باجماعت میں شامل ہونے سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ انسانی وقار کے خلاف ہے اور اس میں تکلف پایا جاتا ہے.اسلام ہم کو یہ سکھاتا ہے کہ ہم کسی بات میں غلو نہ گریں اور ہر بات میں نیچر اور فطرت کو ملحوظ رکھیں.ہاں جس حد تک نیچر ہماری ترقی میں روک بنتا ہو اس حد تک اس کو اختیار کرنا ضروری نہیں.مثلاً جسم کو ننگا رکھنا ہے.ممکن ہے کوئی شخص کہے کہ جب ہر بات میں نیچر کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے تو جسم کو کپڑوں سے کیوں ڈھانکا جاتا ہے.ننگے بدن کیوں نہیں پھرا جاتا.سو یہ بھی درست نہیں کیونکہ اس حد تک نیچر کے پیچھے چلنا انسانی ترقی میں روک پیدا کرتا ہے.یہ نیچر کا فیصلہ بڑی عمر والوں کے متعلق نہیں بلکہ بچوں کے متعلق ہے.اسی طرح ناخن بڑھا لینا یہ بھی نیچر کا تقبع نہیں بلکہ اپنے آپ کو وحشی ثابت کرنا ہے.گو آج کل مغربیت کے اثر کے ماتحت فیشن ایبل عورتوں نے بھی ناخن بڑھانے شروع کر دیئے ہیں.یورپین عورتیں تو اس میں اس قدر غلو سے کام لیتی ہیں کہ وہ آدھ آدھ انچ تک اپنے ناخن بڑھا لیتی ہیں اور پھر سارا دن ان ناخنوں سے میل نکالنے انہیں صاف کرنے اور ان پر رنگ اور روغن کرنے میں صرف کر دیتی ہیں.مگر وہ اتنا بڑا گڑھا ہو تا ہے کہ آسانی سے تمام میل نہیں نکل سکتی.نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ کچھ تو وہ میل نکالتی ہیں اور کچھ اس میل کو چھپانے کے لئے اس پر روغن کرتی ہیں اور چونکہ ناخنوں کی میل کی وجہ سے پھر بھی کچھ نہ کچھ بد بو آتی ہے اس لئے پھر یو ڈی کلون کا استعمال کرتی ہیں.گویا وہ اپنی عمر کا ایک معتد بہ حصہ صرف ناخنوں کی صفائی پر ہی خرچ کر دیتی ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کو برباد کر دیتی ہیں.اس قسم کی باتوں میں دوسروں کی تقلید اختیار کرنا محض مغربیت ہے اور جب ہم کہتے ہیں مغربیت کے اثر سے متاثر مت ہو تو اس کے معنے یہی ہوتے ہیں
342 کہ اپنے اوقات کو ظاہری جسم کی صفائی اور اس کے بناؤ سنگھار کے لئے اس قدر خرچ نہ کرو کہ اور کاموں میں حرج واقع ہونے لگ جائے اور تم دینی کاموں میں حصہ لینے سے محروم رہ جاؤ.مرد کا حسن اس کے بناؤ سنگھار میں نہیں بلکہ اس کی طاقت الله اللہ ہوں مرد کا حسن اس کے کام میں ہے اور کام میں ہے.چنانچہ وہ لوگ جو دنیا میں کام کرنے والے ہیں عورتیں ان سے شادی کرنے کے لئے بیتاب رہتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے ساتھ شادی کرنے میں ان کی عزت ہے اور ایسے مرد سے وابستہ ہو نا کبھی پسند نہیں کرتیں جو محض ظاہری بناؤ سنگھار کی طرف توجہ رکھتا ہو اور کام کوئی نہ کرتا ہو.حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ رسول کریم ملی یا اللہ کے پاس بسا اوقات پورے کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے مگر پھر انہی حدیثوں میں ہمیں یہ نظارہ بھی نظر آتا ہے کہ مجلس لگی ہوئی ہے.رسول کریم میں وعظ فرما رہے ہیں کہ اتنے میں ایک عورت آتی ہے اور کہتی ہے کہ یا رسول اللہ میں اپنا نفس آپ کو دیتی ہوں.غور کرو یہ کتنی بڑی قربانی ہے.میرے نزدیک اپنی زبان سے ایسی بات کہنا ایک عورت کے لئے فریج ہو جانے کے مترادف ہے.وہ آتی ہے اور اپنا نفس رسول کریم ملی ایل ایل ایل کے لئے پیش کر دیتی ہے حالانکہ اسی مجلس میں اس کا باپ موجود ہوتا ہے.اس کا بھائی موجود ہوتا ہے اور اس کے اور رشتہ دار موجود ہوتے ہیں.آخر اس کی کیا وجہ تھی.یہی وجہ تھی کہ جب وہ رسول کریم ملی دلیل اللہ کے وعظ سنتیں.آپ کی تقریریں سنتیں.آپ کی خدمت اسلام کو دیکھتیں.آپ کے اس سلوک کو دیکھتیں جو آپ بنی نوع انسان سے کیا کرتے تھے تو ان کی محبت جنون کی حد تک پہنچ جاتی اور وہ ہر چیز کو بھول کر رسول کریم می یا اللہ کی مجلس میں آکر کہہ دیتیں یا رسول اللہ ! ہم آپ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہیں.رسول کریم ملا لا لا لا اور ہر ایک سے کس طرح شادی کر سکتے تھے.آپ ان سے فرماتے کہ تم مجھے اپنے متعلق اختیار دے دو اور جب وہ اختیار دے دیتیں تو آپ ان کا کسی اور مناسب شخص سے نکاح کر دیتے.اس قسم کا کوئی ایک واقعہ نہیں ہوا بلکہ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ مجلس لگی ہوئی ہوتی اور عورت آکر کہہ دیتی کہ یا رسول اللہ میں آپ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں.قرآن نے بھی ان کی اس محبت کو برا نہیں سمجھا بلکہ فرمایا ہم تمہارے اس فعل کو برا نہیں سمجھے.مگر ایسا صرف ہمارے رسول کو کہنا جائز ہے اور کسی کو تم ایسا نہیں کہہ سکتیں اور گورسول کریم مل ل ل ل ل لیلی نے ساری عمر ایسی عورتوں میں سے کسی ایک سے بھی شادی نہیں کی تاکہ لوگ اس سے کوئی غلط نتیجہ نہ نکال لیں مگر قرآن نے ان عورتوں کو برا نہیں کہا بلکہ اسے ان کے روحانی عشق کا مظاہرہ قرار دیا ہے.اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جو سارا دن بناؤ سنگھار کرتے رہتے ہیں ان کو ایسی فدائی عورتیں کہاں ملتی ہیں.پس در حقیقت مرد کا حسن اس کے کام میں ہے ، ظاہری بناؤ سنگھار میں نہیں.مشہور ہے کہ عبد الرحیم خان خاناں جو ایک بہت بڑے جرنیل اور بڑے بہادر اور سخی گزرے ہیں انہیں ایک عورت نے لکھا کہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں.عبدالرحیم خان خاناں نے لکھا کہ مجھے آپ اس بات میں معذور سمجھیں.وہ عورت کسی اچھے خاندان میں سے تھی.اس نے پھر لکھا کہ میں تو مررہی ہوں اور
343 چاہتی ہوں کہ آپ سے ضرور شادی کروں.انہوں نے پوچھا کہ آخر مجھ سے شادی کرنے سے تمہاری غرض کیا ہے.وہ کہنے لگی میں نے آپ کے اخلاق ، آپ کی شجاعت اور آپ کی سخاوت کو دیکھا ہے اور میرا جی چاہتا ہے کہ میری بھی ایسی ہی اولاد ہو.عبد الرحیم خان خاناں لطیفہ سنج تھے.انہوں نے اسے لکھا بیگم یہ تو ضروری نہیں کہ اگر تم مجھ سے شادی کرو تو میری اولاد ضرور میرے جیسی ہی پیدا ہو ہاں چونکہ تم کو میری جیسی اولاد کی خواہش ہے اس لئے میں آج سے تمہارا بیٹا ہوں اور آپ میری ماں ہیں.جو خدمت میں اپنی ماں کی کیا کرتا ہوں آئندہ وہی خدمت آپ کی کیا کروں گا.تو دیکھو یہ اخلاق کا ہی نتیجہ تھا.وہ چونکہ اچھے اخلاق والا انسان تھا اس لئے اس نے قلوب پر اثر ڈال لیا.تو ظاہری بناؤ سنگھار کی بجائے اچھے اخلاق دلوں پر اثر کیا کرتے ہیں اور اگر جسمانی لحاظ سے دیکھو تو پھر بھی جو لوگ مضبوط جسم رکھنے والے اور اچھے کام کرنے والے ہوں انہی کی زیادہ محبت قلوب میں پیدا ہوتی ہے اور یہ محبت بڑی پاکیزہ اور ہر قسم کی گندگی سے منزہ ہوتی ہے.مگر جو شخص اپنا وقت چھوٹی چھوٹی باتوں میں ضائع کر دیتا ہے.وہ نیکی کے بڑے بڑے کاموں سے محروم رہ جاتا ہے.پس میں خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے کاموں کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کریں اور اپنے اعمال اسلام کی تعلیم کے مطابق بنائیں.چونکہ اب تین بجے کی گاڑی پر خدام نے واپس جانتا ہے اس لئے میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ اگلے سال خدام الاحمدیہ کو وہ اس سے بھی اچھا اور بہتر کام کرنے کی توفیق عطا کرے.اللهم آمین.تقریر سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ ۱۸ اکتوبر ۱۹۴۲ء.مطبوعہ الفضل ۸۴۷ نومبر ۱۹۴۲ء) "
345 ذیلی تنظیموں کے قیام کی غرض و غایت ه نیکی، تقویٰ عبادت گزاری، دیانت راستی اور عدل و انصاف ہماراسب سے اہم فرض یہ ہے کہ اس پیغام کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوا دنیا کے کناروں تک پہنچائیں ہر جماعت تبلیغ میں حصہ لے نوجوانوں کے اندر یہ روح پیدا کریں کہ وہ بیداری کی زندگی اختیار کریں (خطبه جمعه فرموده ۵ جنوری ۱۹۴۳
346 ذیلی تنظیموں کے قیام کی غرض وغایت ایک طرف ہماری جماعت کو نیکی ، تقویٰ عبادت گزاری دیانت راستی اور عدل وانصاف میں ایسی ترقی کرنی چاہئے کہ نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی اس کا اعتراف کریں.اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کی تحریکات جاری کی ہیں.گو میں نہیں کہہ سکتا کہ ان میں کہاں تک کامیابی ہو گی.بہر حال یہی ایک ذریعہ مجھے نظر آیا جو میں نے اختیار کیا اور اس سب کا یہ کام ہے کہ نہ صرف اپنی ذات میں نیکی قائم کریں بلکہ دوسروں میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور جب تک حتمی طور پر جبر و ظلم ، تعدی بد دیانتی ، جھوٹ وغیرہ کو نہ مٹادیا جائے اور جب تک ہر امیر غریب اور چھوٹا بڑا اس ذمہ داری کو محسوس نہ کرے کہ اس کا کام یہی نہیں کہ خود عدل و انصاف قائم کرے بلکہ یہ بھی کہ دوسروں سے بھی کرائے خواہ وہ افسر ہی کیوں نہ ہو ہماری جماعت اپنوں اور دوسروں کے سامنے کوئی اچھا نمونہ نہیں قائم کر سکتی.اسی طرح اگر جماعت تعداد کے لحاظ سے بھی ترقی نہ کرے تو دنیا فوائد حاصل نہیں کر سکتی.وہ بادل جو صرف ایک گاؤں پر برس جائے اتنا مفید نہیں ہو سکتا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا باول قادیان یا زیادہ سے زیادہ چند بستیوں پر برس جائے اور چند کھیت ہی اس سے فائدہ اٹھائیں تو یہ امر یادر کھے جانے کے قابل نہیں ہو گا.لیکن اگر وہ دنیا کے ہر کھیت کو سیراب کرے اور ہر فرد کو تازگی بخشے تو یہ ایک تاریخ میں یاد رکھے جانے کے قابل بات ہو گی اور دنیا ہمارے نام کو عزت اور احترام سے یاد رکھے گی.پس ہمارا سب سے اہم فرض یہ ہے کہ اس پیغام کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوا دنیا کے کناروں تک پہنچائیں.تبلیغ بہت ضروری ہے مجھے افسوس ہے کہ ہمارا محکمہ تبلیغ بھی اس کام کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھتا.اس کا زور اتناہی ہے جتنا تین چار گاؤں کی پنچایت کا ہو تا ہے.نہ محکمہ تبلیغ میں وہ جوش ہے نہ مبلغوں میں اور نہ جماعتوں میں.ابھی چند لوگوں کو جماعت میں داخل کر کے ہم خوش ہو جاتے ہیں.میں نے ”الفضل“ میں پڑھا کہ پیغامیوں کے ساتھ سارے سال میں صرف دوسو اشخاص شامل ہوئے ہیں اور ہماری جماعت میں دو ہزار.مگر کیا کبھی تم نے یہ بھی سوچا
347 کہ سال میں دو ہزا بہ کے معنے ہیں ایک صدی میں دو لاکھ.ایک سو صدی یعنی دس ہزار سال میں دو کروڑ اور یہ بھی کوئی تعداد ہے ؟ ہمارے لئے سال میں دو تین بلکہ چار ہزار احمدی بنانا تو افسوس کی بات ہونی چاہئے.جب تک جماعت کے ہر فرد کے اندر یہ آگ نہ ہو کہ اس نے ہر ایک اپنے قریب باعد بعید کے شخص کو بھی جماعت میں داخل کرنا ہے اور جب تک لوگ افواج در افواج احمدیت میں داخل نہ ہوں ، ہماری حیثیت محفوظ نہیں ہو سکتی اور ذمہ واری ختم نہیں ہو سکتی پس میں ان دونوں امور کی طرف پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں.ہر ضلع میں ہمارے جلسے ہونے چاہئیں.متواتر انفرادی تبلیغ بھی نہایت ضروری ہے مگر تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ جلسوں کے بغیر وہ جوش جماعت میں پیدا نہیں ہو تا جو انفرادی تبلیغ کے لئے ضروری ہے پس کوشش کی جائے کہ کم سے کم ہر سال ہر تحصیل میں ہمارا جلسہ ضرور ہو.پھر اس کے ساتھ انفرادی تبلیغ کو بھی منظم کیا جائے.خصوصیت سے اضلاع گورداسپور سیالکوٹ اور گجرات میں.ان تینوں اضلاع کی طرف خصوصیت سے توجہ کی جائے.گورداسپور کے ضلع میں احمدیت کا مرکز ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قادیان میں پیدا کیا.گجرات کا ضلع سب سے پہلے احمدیت میں آگے بڑھا.ایک وقت تھا جب گجرات کے احمدی سب سے زیادہ تھے اور سیالکوٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دوسر اوطن ہے.ان اضلاع کی آبادی کی کثرت سے اضلاع سرگودھا، منٹگمری لائلپور اور ملتان کے اضلاع میں جاکر آباد ہوئی ہے اس لئے ان اضلاع کی طرف بھی زیادہ توجہ کرنی چاہئے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ سالوں پر سال گزرتے چلے جاتے ہیں اور ان میں نہ کوئی جلسہ ہوتا ہے اور نہ تبلیغ جو نہایت افسوسناک بات ہے.پس چاہئے کہ دوست سستی اور غفلت کو دور کریں.تین چار ماہ کے اندر اندر ہر تحصیل یا اپنے علاقہ کے مرکز احمدیت میں جلسہ کر کے غور کیا جائے کہ کس طرح اور کن ذرائع سے اس علاقہ میں تبلیغ کو وسیع کیا جا سکتا ہے.اگر دوست اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں تو ایک ہی سال میں ہر جگہ ہیں تمہیں چالیس لوگ آسانی سے جماعت میں داخل ہو سکتے ہیں اور صرف پنجاب میں ہی چند ماہ میں بیس تیس ہزار احمد کی ہو جاتے ہیں.گو یہ بھی بہت تھوڑی تعداد ہے لیکن اگر یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو جوں جوں جماعت بڑھتی جائے گی ترقی کی یہ رفتار بھی بڑھتی جائے گی اور اگلی طاقت پچھلی سے زیادہ ہو گی.پس دوست اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور کوشش کریں کہ کم سے کم جن اضلاع میں زیادہ جماعتیں ہیں (ایسے اضلاع پنجاب میں ۱۶.۷ اہوں گے ) ان کی ہر تحصیل یا اس علاقہ کے مرکز احمدیت میں جلسہ کیا جائے اور ایسی سکیم بنائی جائے کہ ہر جماعت تبلیغ میں حصہ لے سکے اور ایسی تدابیر لوگوں کو بتائی جائیں کہ وہ کس طرح اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو تبلیغ کر سکتے ہیں.میں تحریک جدید کے
348 نوجوانوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں.وہ اگر چہ خود تو فارغ نہیں ہیں اور تعلیم حاصل کر رہے ہیں مگر اس خیال کو دوسروں میں زندہ رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں.وہ اپنے اپنے وطن میں خط و کتابت کے ذریعہ دوستوں اور رشتہ داروں کو تحریک کر سکتے ہیں کہ جلسے منعقد کریں اور تبلیغ میں پورے جوش سے حصہ لیں.خدام الاحمدیہ مبلغوں پر اور تبلیغ کے دفتر پر اس کام کے لئے زور دے سکتے ہیں اور نوجوانوں کے اندر یہ روح پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ بیداری کی زندگی اختیار کریں.اگر وہ ایسا کر میں تو اس کام کے لئے رستہ تیار کرنے والے ہوں گے جس پر وہ آئندہ زندگی میں چلنے والے ہیں.“ خطبه جمعه فرموده ۵ جنوری ۱۹۴۳ء مطبوعه الفضل ۲۱ فروری ۱۹۴۳ء)
349 " وقف زندگی کی تحریک پس جماعت کی ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں.نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں.تحریک جدید میں جنہوں نے حصہ لیا ہے وہ اور بڑھ کر حصہ لیں.اس سال کے جن کے بتائے ہیں وہ ادا کریں.اب نیا سال آنے والا ہے اور وہ اس دور کا آخری سال ہے.اس کے لئے کیا ذمہ داریوں کے لحاظ سے اور کیا آخری منزل کے لحاظ سے زیادہ زور لگانا چاہئے.پھر نہ معلوم نئی تحریک کس قسم کی ہو گی.بہر حال اسے تو اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے وہ آپ بہتر سمجھادے گا.مگر ہمیں ابھی سے کیا مالی لحاظ سے اور کیا وقتی لحاظ سے تیاری شروع کر دینی چاہئے.نوجوانوں میں دین کا شوق پیدا کیا جائے اور وہ پہلے سے تیاری کر لیں تاکہ جب سلسلہ کے پھیلانے کے دن آئیں یہ تیاری ہمارے کام آسکے اور جس جس قربانی کی بھی اشاعت اسلام کے لئے ضرورت ہو ہم اس سے دریغ نہ کریں اور ہم پہلی قوموں سے اچھا نمونہ دکھانے کی کوشش کریں.“ ( خطبه جمعه فرموده ۱۰ ستمبر ۱۹۴۳ء مطبوعه الفضل ۳۱اکتوبر ۱۹۴۳ء)
351 نوجوانان جماعت سے دین کیلئے زندگی وقف کرنے کا مطالبہ اسلام کی ترقی اور غلبہ تلوار سے نہیں تبلیغ سے ہوگا ضروری ہے کہ جماعت کا ہر فرد تبلیغ کرے ایک نقص یہ ہے کہ دوستوں میں کام کرنے میں سستی کی عادت ہے جو شخص ایک دفعہ اپنی زندگی وقف کرتا ہے وہ خدا کے ہاں ہمیشہ واقف سمجھا جاتا ہے وقف کی اہمیت خدمت دین اور ثواب حاصل کرنے کا نادر موقعہ ( خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر ۱۹۴۳ء )
352 نوجوانان جماعت سے دین کے لئے زندگیاں وقف کرنے کا مطالبہ → میں نے آج عید کے خطبہ میں اس امر کی طرف جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ موجودہ جنگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کا قطعی فیصلہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی دنیوی طاقتوں کو جو اسلام سے اختلاف رکھتی ہیں، تلوار سے مٹانا ظاہری سامانوں کے لحاظ سے ناممکن ہے لیکن تبلیغ اور روحانیت سے مٹانانہ صرف ممکن ہی ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے موعود بھی ہے.اس زمانہ میں اسلحہ جنگ کی کثرت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تلوار جہانتک اسلام کی ترقی اور غلبہ کا تعلق ہے قطعی طور پر ناکام رہے گی اور تبلیغ کا میاب ہوگی.اور ہم دیکھتے ہیں کہ ظاہری علامتیں بھی ایسی ہیں جو اسی بات پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ دشمنان اسلام جہاں ہتھیاروں اور مادی طاقتوں پر زیادہ سے زیادہ بھر وسہ کر رہے ہیں وہاں ان میں مذہبی یقین کم سے کم ہو تا چلا جاتا ہے.اگر ایک طرف مادی طاقت پر بھر وسہ بڑھتا جاتا ہے تو دوسری طرف روحانی طاقت پر بھروسہ کم ہو تا جاتا ہے اور ہوشیار مخالف کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ مخالف کے قلعہ پر اس جگہ سے حملہ کرتا ہے جہاں دیوار سب سے زیادہ کمزور ہو.اس وقت اسلام کے دشمنوں کے قلعہ کی مادی دیوار میں زیادہ سے زیادہ مضبوط ہیں.البتہ روحانی دیوار میں خطر ناک رخنے ہیں اور کسی نادان کا ہی یہ کام ہو سکتا ہے کہ مضبوط چٹانوں اور دیواروں کے ساتھ سر پھوڑ تا رہے اور جہاں سے دیوار گری ہوئی ہو وہاں سے اندر داخل نہ ہو.آج دشمن کا قلعہ مذہبی نقطہ نگاہ سے گر رہا ہے اور اس جہت سے بہت کمزور ہو چکا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ الہی منشاء ازل سے یہی تھا کہ اس زمانہ میں دونوں طاقتوں کو جمع کر کے ایک ایسا مضبوط قلعہ تیار کرے کہ جو ہر طرح مکمل ہو.دنیوی طاقت تو خودان قوموں نے قائم کر لی ہے اور روحانی طاقت احمد بیت کے ذریعہ ان کو مل جائے اور اس طرح ایک ایسا قلعہ تیار ہو جائے جس کی کوئی بھی دیوار کمزور نہ ہو.
353 جماعت کی مالی قربانی اور اخلاص کا تذکرہ اس کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ جماعت کا ہر فرد تبلیغ کرے وہاں ایک خاص جماعت کا ہونا بھی ضروری ہے جو اسلام کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دے.اس کی طرف میں نے جماعت کو متواتر توجہ دلائی ہے.کچھ نوجوان آگے آئے بھی ہیں مگر جس حد تک ضروری ہے اس تک نہیں.پچھلے سالوں میں مالی قربانی کے لحاظ سے جماعت نے نہایت اعلی نمونہ پیش کیا ہے ایسا نمونہ کہ جس پر فخر کیا جاسکتا ہے اور پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں اور کوئی قوم ایسی نہیں جو دلی جوش اور ارادہ کے ساتھ ایسی قربانی کرے.بغیر کسی جبر یا قانون کے اور بغیر کسی ایسے محکمہ کے جو لوگوں کی آمدنیوں کا حساب کر کے ان پر ٹیکس لگائے.محض اپنے ارادہ سے اتنی قربانی کرنے والی اور کوئی قوم دنیا میں نہیں.جنگ کے زمانہ میں چونکہ ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے اس لئے لوگ زیادہ قربانی کرتے ہیں مگر جو قربانی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ کرتی ہے ویسی جنگ کے زمانہ میں بھی دوسری قومیں بہت کم کرتی ہیں.ہماری جماعت کو کوئی ظاہری جنگ در پیش نہ تھی.روحانی جنگ تھی اور وہ جارہی ہے اور جاری رہے گی.مگر ظاہری جنگ کے نہ ہونے کے باوجود جماعت کے بڑے حصہ نے قربانی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے.اس سے زیادہ لوگ اس لئے شامل نہیں ہو سکے کہ تحریک جدید میں شامل ہونے کے لئے شرط لگادی گئی تھی کہ کم سے کم اتنی رقم دے کر اس میں شمولیت اختیار کی جاسکتی ہے، اس لئے باقی لوگ مجبورا شریک نہ ہو سکے.ان کا شامل نہ ہو سکنا اس وجہ سے نہ تھا کہ ان کے دل میں شوق نہ تھا بلکہ یہ وجہ تھی کہ ان میں شامل ہو سکنے کی طاقت نہ تھی.پس جن میں شامل ہونے کی طاقت تھی ان کا اندازہ کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسی نوے فیصدی دوستوں نے مالی قربانی کا قابل یاد گار نمونہ پیش کیا ہے لیکن تبلیغ کے لئے وقف زندگی کا نمونہ ایسا شاندار نہیں جو جماعت نے مالی قربانی کے لحاظ سے دکھایا ہے.ابھی بہت سے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اپنے اوقات کو کلی طور پر دین کی خدمت میں لگانے کے لئے تیار ہوں.پھر میں نے ایک اور نقص دیکھا ہے کہ دوستوں میں کام کرنے میں سستی کی عادت ہے.جسے کسی کام پر مقرر کیا جائے وہ غفلت کرتا ہے.یہ عادت اہم مہمات کے سر کرنے کے لئے سخت مضر ہے اور فتح کے وقت کو پیچھے ڈال دینے والی عادت ہے.اس کی اصلاح بھی اسی صورت ہو سکتی ہے کہ اپنی زندگیوں کو وقف کرنے والوں کی ایک ایسی جماعت ہو جو ایک خاص پروگرام کے ماتحت تعلیم و تربیت حاصل کرے اور پھر وہی روح دوسروں میں پیدا کرنے کی کوشش کرے.اس لئے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اپنی زندگیوں کو دین کے لئے وقف کریں.
354 جو شخص وقف کرتا ہے اس کا وقف ہمیشہ قائم رہتا ہے اس سلسلہ میں جماعت کے دوستوں کو ایک اور امر کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں جس کی طرف پہلے توجہ نہیں اور پہلے میں نے اسے بیان بھی نہیں کیا.ہر شخص جو اپنی زندگی وقف کرتا ہے" اس کے وقف کرنے کے یہ معنے نہیں کہ اس کا وقف ضرور قبول کر لیا جائے.پیش کرنے والوں میں سے جو کام کے لئے موزوں سمجھے جاتے ہیں، ان کو لے لیا جاتا ہے اور باقی کو چھوڑ دیا جاتا ہے.لیکن جو شخص ایک دفعہ اپنی زندگی وقف کرتا ہے وہ خدا کے ہاں ہمیشہ ہی وقف سمجھا جاتا ہے.میرے اسے رد کرنے کے یہ معنے نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے ہاں بھی رد ہو گیا ہے.چاہے ہم اسے قبول نہ کریں وہ خدا تعالیٰ کے ہاں وقف ہے.چاہے باہر جا کر کوئی اور نوکری ہی کر رہا ہو جب بھی وقف زندگی کے لئے جماعت سے مطالبہ کیا جائے اسکا فرض ہے کہ پھر اپنے آپ کو پیش کرے.خواہ پھر رد کر دیا جائے اور رد کرنے کی صورت میں اگر وہ کوئی اور کام بھی کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت وہ دین کی خدمت میں صرف کرے ورنہ وہ شدید وعدہ خلافی کا مر تکب سمجھا جائے گا.جب ایک شخص خدا تعالیٰ کے ساتھ وعدہ کرتا ہے کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرتا ہے اور پھر امام جماعت بلکہ نبی کے رد کر دینے پر بھی وہ سمجھتا ہے کہ چونکہ مجھے قبول نہیں کیا گیا اس لئے میں آزاد ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وعدہ خلافی کا مر تکب سمجھا جائے گا بلکہ اپنے آپ کو پیش کر دینا تو در کنار جو شخص اپنے دل میں بھی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے لئے وقف ہوں تو پھر کسی وقت بھی اس کا اپنے آپ کو وقف کی ذمہ داریوں سے آزاد سمجھنا شدید وعدہ خلافی ہے.کسی کا اسے قبول کرنے سے انکار اس کے وقف کو نہیں بدل سکتا.اس کے رد کرنے کے معنی تو صرف یہ ہیں کہ وہ اس خاص جماعت میں شامل نہیں ہو سکتا جس سے اس وقت کوئی کام لیا جاتا ہے اور یہ عدم شمولیت اس کے وقف کو بدل نہیں سکتی.باچہ جس دن سے کوئی وقف کا ارادہ کرتا ہے وہ چاہے اس ارادہ کا اظہار بھی کسی کے سامنے نہ کرے وہ خدا تعالیٰ کے ہاں وقف ہے اور اس سے کسی صورت میں بھی اپنے آپ کو آزاد سمجھنا وعدہ خلافی ہے.کامل مومن وہ ہے جو دل کے ارادہ پر بھی پختہ رہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص صدقہ کا ارادہ کرے اس کے لئے صدقہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے.جو شخص نفل پڑھنے کا ارادہ کرے اس کے لئے پڑھنا ضروری ہو جاتا ہے.پس کامل مومن کا ارادہ بھی اسے باندھ دیتا اور پابند کر دیتا ہے.لیکن اگر کوئی ادنی مومن ہے تو جب وہ ایک بار اپنے آپ کو وقف کر چکا تو خواہ اسے قبول نہ بھی کیا جائے
355 وہ آزاد نہیں ہو سکتا.دینی خدمت کے لئے قبول نہ کئے جانے کی صورت میں اگر وہ مثلاً ڈاکٹری کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ ڈاکٹری کے کام کو کم سے کم وقت میں محدود کرے اور باقی وقت دین کی خدمت میں لگائے اگر کوئی انجینئر ہے تو چاہیے کہ کم سے کم وقت انجینئر نگ کے کام پر صرف کرے اور زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت پر.اگر وہ کوئی ملازمت اختیار کرتا ہے تو چاہئے کہ ملازمت کے لئے جتن وقت دینا اس کے لئے لازمی ہے اس کے سواباقی وقت کا کثیر حصہ دینی خدمت میں گزارے اور پھر اس تاک میں رہے کہ کب دینی خدمت کے لئے آگے بڑھنے کا مطالبہ ہو تا ہے اور جب بھی ایسی آواز اس کے کان میں پڑے اسے چاہئیے کہ پھر اپنے آپ کو پیش کرے اور کہے کہ میں واقف ہوں پہلے فلاں وقت مجھے نہیں لیا گیا تھا اب میں پھر پیش کرتا ہوں اور خواہ وہ ساری عمر بھی نہ لیا جائے.مگر اس کا یہ فرض ہے کہ ہمیشہ اپنے آپ کو واقف ہی سمجھے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ وعدہ خلاف اور غدار سمجھا جائے گا.پس جس نے کسی وقت بھی اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کیا وہ اس سے کبھی آزاد نہیں ہو سکتا.میرا یا کسی اور کا اسے کسی وقت قبول نہ کرنا اسے وقف کی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں کر سکتا.کیونکہ وقف تو ایک عہد ہے خدا تعالیٰ اور بندے کے درمیان اور کوئی قبول کرے یا نہ کرے یہ عہد ہر گز نہیں ٹوٹ سکتا باسہ اگر صرف دل میں ہی وقف کا اردہ کیا جائے چاہے اظہار نہ ہو تو بھی نہیں ٹوٹ سکتا.پس وقف کے قبول کئے جانے یا نہ کئے جانے کا کوئی سوال نہیں.جو شخص وقف کرتا ہے اس کا وقف ہمیشہ قائم رہتا ہے اور خدمت دین کی ایک صورت کے لئے اسے قبول نہ کئے جانے کے یہ معنے نہیں کہ وہ دین کی کسی اور رنگ میں خدمت کرنے کی ذمہ داری سے بھی سبکدوش ہو گیا.اگر ایک شخص کی آنکھیں خراب ہیں اور اسے فوج میں بھرتی نہیں کیا جاتا تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اب وہ ہمیشہ کے لئے ملک کی خدمت کے فرض سے آزاد ہو گیا.کیونکہ اگر وہ با قاعدہ لڑنے والی فوج میں شامل نہیں کیا گیا تو کئی اور صورتوں میں وہ خدمت ملک کر سکتا ہے.کلرک بن سکتا ہے 'زخمیوں کے لئے پٹیاں بنانے کا کام کر سکتا ہے ایسی تحریکیں کر سکتا ہے جن سے فوجی بھرتی میں امداد مل سکے.اور نہیں تو عوام میں بے چینی پیدا کرنے والی غلط افواہوں کی تردید کر کے ایک اہم خدمت سر انجام دے سکتا ہے..غرض جو شخص کسی خاص وقف کی تحریک میں نہ لیا جانے کی صورت میں یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ اب وقف کی ذمہ واری سے وہ آزاد ہو گیا ہے وہ ایسا ہی احمق ہے جیساوہ والنٹیر احمق ہے جو فوج میں بھرتی ہونے کے لئے گیا اور اسے فوج کے قابل نہ سمجھ کر آزاد کر دیا اور اس نے ملک کی خدمت کی ذمہ داری سے اپنے آپ کو آزاد سمجھ لیا.اگر وہ کامل مومن ہے تو صرف دل میں ارادہ کرنے سے اور اگر ادنی مومن ہے تو اپنے آپ کو پیش کر دینے کے بعد وہ
356 ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کے ہاں وقف ہے خواہ اسے کوئی قبول کرے یا نہ کرے.پس جو نوجوان اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں وہ یادر کھیں کہ وہ قیامت تک وقف ہیں اور جواب میری اس تحریک پر یا کبھی آسند و اپنے آپ کو پیش کریں وہ بھی اس بات کو یاد رکھیں کہ وقف کی بڑی اہمیت ہے.اس لئے جو اپنے آپ کو پیش کرے اچھی طرح سوچ سمجھ کر کرے.یہ بات اب تک میں نے واضح نہ کی تھی اور اب ایک واقف کی ایک تحریک سے مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ مضمون میں نے پہلے بیان نہیں کیا اس لئے اب اسے بیان کر دیا ہے تا جو لوگ اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں وہ گناہ گار نہ ہوں اور جو آئندہ پیش کریں سوچ سمجھ کر کریں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئیے کہ جب اسلام کو سپاہیوں کی ضرورت ہو تو جو شخص طاقت اور اہلیت رکھنے کے باوجود آگے نہیں آتا وہ گنہگار ہے.اس لئے جو نوجوان اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہوں اور اس ذمہ واری کو نباہ سکتے ہوں وہ پیش کریں.ایسے نوجوانوں کے لئے خدمت دین اور ثواب حاصل کرنے کا یہ نادر موقع ہے.ایسا نادر موقع کہ جو شاید آئندہ نہ مل سکے.انبیاء کے قریب کے زمانہ میں ایسے مواقع مل سکتے ہیں.مگر جب ترقیات حاصل ہو جائیں تو پھر ایسے مواقع نہیں مل سکتے.“ خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر ۱۹۴۳ء مطبوعه الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۴۳ء)
357 سلسلہ کی اغراض کے لئے بشاشت سے روپیہ دینے سے روپے میں برکت پڑتی ہے ۲۶ نومبر ۱۹۴۳ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے تحریک جدید کے دسویں سال کے چندہ کی تحریک فرماتے ہوئے ایک پر معارف خطبہ ارشاد فرمایا جس میں جماعت کو اس طرح توجہ دلائی کہ تحریک جدید میں حصہ لینے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو پانچ ہزار سپاہی دئیے جانے کی خبر دی گئی تھی.اس ضمن میں حضور نے خدام الاحمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ وقت کی قربانی کرتے ہوئے لوگوں کو تحریک جدید میں حصہ لینے کی تلقین کریں.خدام الاحمدیہ سے متعلق اقتباس ذیل میں درج کیا جا رہا ہے.(مرتب) ئیں امید کرتا ہوں کہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ یہ دونوں اپنے وقت کی قربانی کر کے زیادہ سے زیادہ کانوں تک اس آواز کو پہنچانے کی کوشش کریں گے اور اس غرض کے لئے خاص طور پر جلسے منعقد کر کے لوگوں کو تحریک کرینگے کہ وہ اس چندہ میں حصہ لیں.اس طرح وہ ہر جگہ ایسے آدمی مقرر کر دیں جو ہر احمدی تک یہ آواز پہنچا دیں اور اسے دین کے اس خدمت میں حصہ لینے کی تحریک کریں مگر جبر سے نہیں زور سے نہیں، محبت اور اخلاق سے تحریک کرو اور کسی کو اس میں شامل ہونے کیلئے مجبور مت کرو جو شخص محبت اور اخلاص سے اس تحریک میں حصہ لیتا ہے وہ خود بھی بابرکت ہے اور اس کے روپیہ میں بھی برکت ہو گی لیکن وہ جو مجبوری سے اور کسی کے زور دینے پر اس تحریک میں حصہ لیتا ہے اس کے دیے ہوئے رو پیہ میں کبھی برکت نہیں ہو سکتی.پس کسی کو جبرا اس تحریک میں شامل کر کے اس برکت کو کم مت کرو بلکہ اگر تمہیں ایسار و پیہ ملتا بھی ہے تو اسے دور پھینک دو کہ وہ ہمارے لئے نہیں بلکہ شیطان کے لئے ہے.ہمارے لئے وہی روپیہ ہو سکتا ہے جو خدا کے لئے دیا جائے اور جسے ہم خدا کے سامنے پیش کرنے میں فخر محسوس کر سکیں“.(الفضل یکم دسمبر ۱۹۴۳ء)
359 ہر احمدی نوجوان کا خدام الاحمدیہ میں شامل ہونا لازمی ہے جو قوم اپنی آئندہ نسل کی روحانی ترقی کا خیال نہیں رکھتی اس کا روحانی فیض بید ہو جاتا ہے میں خدام کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نوجوانوں میں ذکر اللہی نمازوں کی پابندی اور عمدگی کے ساتھ ادا کرنے اور تہجد پڑھنے کی عادت ڈالیں نماز کو وقار اور عمدگی کے ساتھ ادا کرنا چاہئے خدام کا فرض ہے کہ کوشش کریں سو فیصدی نوجوان تہجد کے عادی ہوں نوجوانوں کو محنت اور مشقت برداشت کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے چار ہزار گناکام کرنے کی ضرورت ہے خطبه جمعه فرموده ۲۳ جون ۱۹۴۴ء
360 اللہ تعالیٰ کے قانون میں ہمیں یہ بات نظر آتی ہے کہ جو چیزیں اپنی ضرورت کے زمانہ تک چلتی چلی جاتی ہیں، ان میں تناسل کا سلسلہ جاری نہیں ہوتا.مثلاً سورج ہے.جب تک سورج چلے گا یہ دنیا بھی اس کے ساتھ چلے گی.جب سورج فنا ہو جائے گا تو اس کے ارد گرد کے جو گرے ہیں وہ بھی فنا ہو جائیں گے.اس لئے اللہ تعالی نے سورج کے لئے تناسل کا سلسلہ جاری نہیں کیا.تناسل کا سلسلہ جاری کرنے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس چیز کا قائم مقام پیدا ہو اور سورج کے قائم مقام کی چونکہ ضرورت نہیں، اس نے اپنے مقصد تک اپنے آپ کو لے جانا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے سلسلہ تناسل جاری نہیں کیا.جب وہ فنا ہو جائے گا اللہ تعالیٰ اسی طرح کا اور سورج پیدا کر دے گا.اسی سورج میں سے اور سورج نکالنے کی ضرورت نہیں.اسی طرح پہاڑ ہیں.جو پہاڑ اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں وہی چلے جاتے ہیں.کبھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ آج ہمالیہ نے بچہ دیا ہے.یا آج ہمالیہ مر گیا.آج فلاں چٹان نے بچہ دیا یا آج فلاں چٹان مر گئی.آج لو باد نیا میں مر گیا یا آج لوہے کے ہاں بچہ پیدا ہوا اس لئے کہ جب تک لوہے کی ضرورت ہے وہی لوہا دنیا میں کام آتا رہیگا.اس لئے ان چیزوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے سلسلہ تناسل جاری نہیں کیا.مگر وہ چیز میں جو اپنے قومی مقصد و مدعا کے حصول سے پہلے ختم ہو جاتی نہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے تناسل کا سلسلہ جاری کیا ہے.جب تک دنیا ہے اور انسان اس میں آباد ہیں ، سواری اور بوجھ اٹھانے کے لئے گھوڑوں کی ضرورت ہے.خچروں اور گدھوں کی ضرورت ہے.مگر یہ چیزیں مرتی ہیں.گھوڑے مر جاتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ اور گھوڑے پیدا کر دیتا ہے.فیچر میں مرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اور فیچر میں پیدا کر دیتا ہے.گدھے مرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور گدھے پیدا کر دیتا ہے.ان کے لئے سلسلہ تناسل جاری ہے.یہی حال انسان کا ہے.انسان کو اللہ تعالیٰ نے خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے.وہ مقصد کسی خاص انسان کے ساتھ وابستہ نہیں.کوئی ایک انسان نہیں جس کے ساتھ انسانی پیدائش کی غرض پوری ہو جاتی ہو اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسانی پیدائش کا ایک لمبا سلسلہ جاری کیا ہے تاجب تک اس مقصد کی تکمیل کا وقت آئے انسان دنیا میں موجود رہے اور خدا تعالیٰ سے ملنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے.مگر چونکہ انسان مرتے ہیں اس لئے ان میں سلسلہ تناسل جاری کیا گیا ہے.ایک انسان مر تا ہے تو اس کے پیچھے دو تین چار پانچ یا کم وبیش بچے اس کے قائم مقام موجود ہوتے ہیں.تو جہاں تک جسمانیات کا تعلق ہے انسان میں تناسل کا سلسلہ موجود ہے.اس کے مقابلہ میں رُوحانی حالت ہے.اس کے لئے بھی تناسل کا سلسلہ ضروری ہے کیونکہ جب تک تناسل کا سلسلہ جاری نہ ہو ، ایک نسل کے بعد پھر کفر و بدعت دنیا میں پھیل جائے جس طرح جسمانی لحاظ سے سلسلہ تناسل ضروری ہے اسی طرح روحانی لحاظ سے بھی ضروری ہے.جس طرح جسمانی نسل چلانے کے لئے مردو عورت باہم ملتے ہیں اور بچہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح روحانی نسل کے لئے مامور اور مرید یا معلم اور متعلم کا ملناضروری
361 ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نبی آتا ہے اور اس کی امت کے لوگ اس کے ساتھ ملتے ہیں.اس کے حسن کو اپنے دلوں پر نقش کر لیتے ہیں اور اس کی تعلیمات کو سکھتے ہیں اور جس طرح جب ایک انسان فوت ہو تا ہے تو اس کا حسن اس کے بعد بھی اس کی اولاد میں موجود ہوتا ہے ، نبی اور مامور کے بعد اس کے متبعین میں اس کا حسن منتقل ہو جاتا ہے جس طرح ایک انسان کی وفات کے بعد اس کی جسمانیت اس کی اولاد میں منتقل ہو جاتی ہے اسی طرح نبی اور مامور کی وفات کے بعد اس کا نور اور اس کی روحانیت اس کے متبعین میں منتقل ہو جاتی ہے.اگر اس کی اولاد ایسی نہیں جو ر جو لیت سے محروم ہو تو وہ پھر آگے ایسے لوگ جنتی ہے جن میں اس کا اثر موجود ہوتا ہے اور پھر وہ آگے اس سلسلہ کو چلاتے جاتے ہیں حتی کہ وہ زمانہ آجاتا ہے جب روحانی نسل روحانی طور پر بانجھ اور نامرد پیدا ہوتی ہے اور نسل بید ہو جاتی ہے مگر چونکہ جسمانی نسل نہیں ہوتی اور سلسلہ تناسل جاری ہو تا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ایک نیا رو حانی آدم پیدا کر تا ہے.مگر سوال یہ ہے کیا اس نئے آدم کے پیدا کئے جانے سے پچھلی امت کی ذمہ داریاں ختم ہو جاتی ہیں.ہر گز نہیں.وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ نیا آدم جو پیدا ہو گیا اس لئے ہماری زمہ داری ختم ہو گئی.خدا تعالیٰ ان سے کے گا کہ اگر میں نے نیا آدم پیدا کیا تو اس لئے کہ تمہاری وجہ سے روحانی سلسلہ بند ہو گیا اور اس سلسلہ کو بند کرنے کی وجہ سے وہ خدا تعالیٰ کی لعنت کے نیچے آجاتے ہیں.اگر کوئی شخص کسی کے بچہ کو مار دے اور کہے کہ کیا ہوا مار دیا.ماں باپ ابھی زندہ ہیں اور بچہ پیدا کر سکتے ہیں تو کیا اس کے ماں باپ اس کو چھوڑ دیں گے.اسی طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو یہ جواب دے گا کہ میں نے نیا آدم تو اس مجبوری کی وجہ سے پیدا کیا کہ پہلا سلسلہ تم نے بند کر دیا.اگر تم اسے جاری رکھتے تو نیا آدم پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی.تو روحانی نسل کا جاری رکھنا بلکہ آئندہ نسل کو پہلی سے بہتر بنانے کی کوشش کرنا نہایت ضروری ہے.انگریزوں کی خواہ کوئی کتنی برائی کرے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ لوگ اپنے ملک میں بھی اور یہاں بھی ہمیشہ بیج کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور ہمیشہ کو شش کرتے رہتے ہیں کہ پیج پہلے سے اچھے ہوں.ہندوستان میں پہلے گندم بہت ادنیٰ قسم کی ہوتی تھی.دانے بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے اور جھاڑ بھی بہت کم ہو تا تھا.بے شک ایک قسم کی گندم یہاں ہوتی تھی جسے وڈ اٹک کہتے تھے اس کا دانہ بے شک موٹا ہو تا تھا.مگر اسے ہونا اور پرورش کرنا بہت مشکل تھا.عام طور پر جو گندم یہاں ہوتی تھی.اس کے وانے چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے مگر انگریزوں نے بیجوں کو ترقی دے دے کر کئی قسم کی اعلیٰ درجہ کی گندم پیدا کر دی ہے.کوئی ۵۱۸ ہے.کوئی ۵۹۱ وغیرہ وغیرہ ہے اور اس طرح بڑھاتے بڑھاتے کئی قسمیں گندم کی پیدا کر لی ہیں جن کا دانہ بھی اچھا ہو تا ہے اور جھاڑ بھی زیادہ ہوتا ہے.اسی طرح کپاس کا حال ہے.اس کے بیج کو ترقی دے کر ایسی اقسام پیدا کر لی ہیں کہ دیسی روئی سے بہت اعلیٰ روئی پیدا ہونے لگی ہے جس کے ریشے بھی لمبے ہوتے ہیں.قیمت زیادہ ہوتی ہے.دیسی روئی اگر بارہ روپے من بکتی ہے تو وہ بائیس روپے من بکتی ہے.جھاڑ بھی زیادہ ہو تا
362 ہے.کپڑا بھی اس سے عمدہ اور نرم تیار ہوتا ہے.تو اللہ تعالیٰ جس قوم کو پیدا کرتا ہے اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ صرف یہ نہ دیکھے کہ وہ ایمان لے آئی ہے بلکہ یہ بھی دیکھے کہ اس کی آئندہ نسل پہلی نسل سے اچھی ہو.اگر پہلے لوگ آدھ گھنٹے تہجد پڑھتے ہیں تو اگلی نسل کے لوگ ایک گھنٹہ پڑھنے والے ہوں.ایک اگر نماز کو اس طرح پڑھتی ہے کہ پانچ نمبر ملتے ہیں تو اگلی نسل ایسی ہونی چاہئے کہ جو سات آٹھ نمبر حاصل کرنے والی ہو.پہلی نسل کی نسبت دوسری نسل عرفان میں زیادہ ہو.اگر اس بات کا خیال رکھا جائے تو دنیا میں ہدایت پھیل سکتی ہے.ورنہ اگر یہ نہ ہو تو قوم کا روحانی فیض بند ہو جائے گا.بچپن میں ہمیں کئی دفعہ لدھیانہ آنا جانا پڑتا تھا.وہاں ایک دریا جسے بڑھا دریا کہتے ہیں.اس کا پانی بہت کم ہے اور وہ ریت میں ہی جذب ہو جاتا ہے.اسی طرح جو قوم اپنی آئندہ نسل کی روحانی ترقی کا خیال نہیں رکھتی اس کا روحانی فیض ہید ہو جاتا ہے.اسی غرض کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ کا قیام کیا تھا.بڑوں کا فرض ہے کہ نوجوانوں کی اصلاح کریں مگر میں نے خدام الاحمدیہ کی تحریک اس لئے جاری کی کہ اگر بڑے نوجوانوں کی اصلاح کے کام میں سستی کریں تو نوجوان خود اس کی کوشش کریں.پہلے یہ صرف قادیان کے لئے ہی تھی.پھر قادیان میں اُسے لازمی قرار دیا گیا اور باہر کی جماعتوں میں جو عہد یدار چالیس سال سے کم عمر کے ہوں ان کے لئے خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ضروری قرار دے دیا گیا.خدام الاحمدیہ کی انجمن میں شمولیت لازمی ہے اب تک یہ صرف تجربہ ہی تھا اب اسے مستقل کیا جارہا ہے اور میں یہ قاعدہ بنانے والا ہوں کہ ہندوستان میں جہاں جہاں بھی جماعت ہے وہاں کے نوجوانوں کے لئے جو پندرہ سال سے زیادہ اور چالیس سال سے کم عمر کے ہوں، مجلس خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا لازمی ہو گا اور ضروری ہوگا کہ وہ اس میں شامل ہوں اور مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ قریب زمانہ میں اس کا اعلان کرنے والی ہے اور اس خطبہ کے ذریعہ میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ جو نوجوان اس میں شامل نہ ہو گا یہ سمجھا جائے گا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے آمادہ نہیں اور وہ اپنی زبان سے اپنے آپ کو قومی غدار قرار دیتا ہے اور ہر وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کو اس میں شامل کرنے میں حصہ نہ لیں گے ، سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے بچوں کو سچا مسلمان بنانے کی خواہش نہیں رکھتے اور ہر وہ جماعت جو اس تحریک کو کامیاب بنانے میں حصہ نہ لے گی اور اپنے نوجوانوں کو اس میں شامل ہونے پر مجبور نہ کرے گی، سمجھا جائے گا کہ وہ اپنا فرض ادا نہیں کر رہی.قومی زندگی میں نوجوانوں کا کردار جیسا کہ میں نے بتایا ہے.قومی زندگی کے لئے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ قوم کے نوجوان پہلے سے بہتر ہوں
363.پس اس کے لئے میں خدام کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نوجوانوں میں ذکر الہی ، نمازوں کی پابندی اور عمدگی کے ساتھ ادا کرنے اور تہجد پڑھنے کی عادت ڈالیں.مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک خدام میں یہ باتیں پوری طرح نظر نہیں آتیں.نماز مغرب کے بعد بیت مبارک میں جو مجلس ہوتی ہے اس میں بعض دفعہ کوئی ایسا بھی سوال کر دیتا ہے جو عقل کے خلاف ہو تا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ اس پر نوجوان ہنس پڑتے ہیں.پھر میں نے دیکھا ہے کہ کھٹاکھٹ کی وجہ سے وہ نماز خراب کرنے لگ جاتے ہیں.ابھی میں سنتیں ہی پڑھ رہا ہوتا ہوں کہ وہ نیچے سے اوپر آنے لگ جاتے ہیں اور اس طرح نماز خراب کرتے ہیں اور ان کو یہ خیال نہیں آتا کہ اس طرح شور کر کے نماز خراب نہ کریں.نماز کو وقار اور عمدگی کے ساتھ ادا کرنا چاہئے تنظیم کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ تعلیم دی جائے اور نوجوانوں کو سمجھانا چاہئے کہ نماز بہت ضروری چیز ہے.اسے وقار کے ساتھ اور عمدگی کے ساتھ ادا کرنا چاہئے.اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم ابھی ایک رکعت سنتوں کی بھی پوری کر نہیں پاتے کہ وہ نماز ختم کر کے اوپر آنے لگ جاتے ہیں.گویا ایک رکعت ختم کرنے سے بھی پہلے وہ دونوں رکعت سنتیں ادا کر لیتے ہیں اور نماز فرض کی جور کعتیں ان کی باقی ہوتی ہیں وہ بھی پوری کر لیتے ہیں.نیچے عام طور پر وہی لوگ ہوتے ہیں جو بعد میں اگر جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور جب تک میں آدھی سنتیں ادا کرتا ہوں وہ ساری نماز ختم کر کے اوپر آنا شروع کر دیتے ہیں اور دوسروں کے آدھی نماز ادا کرنے تک وہ سنتیں بھی ادا کر لیتے ہیں اور فرض بھی پورے کر لیتے ہیں صرف اس لئے کہ وہ آگے جگہ حاصل کر سکیں.وہ نہ صرف اپنی نماز کو وقار اور عمدگی کے ساتھ ادا نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی نماز بھی خراب کرتے ہیں حالانکہ اگر وہ قریب جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے انہیں پہلے آنا چاہئے.نماز کو ہمیشہ آہنگی اور وقار کے ساتھ ادا کرنا چاہئے.اسی طرح ذکر الہی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر نماز کے بعد ۳۳ دفعہ تسبیح ۳۳ دفعہ تحمید اور ۳۴ دفعہ تکبیر کہنی چاہئے.اور جو لوگ نیچے سے اتنی جلدی اوپر چڑھنے لگتے ہیں وہ یہ ذکر بھی نہیں کرتے ہو نگے.گویا ایک تو وہ جلدی جلدی نماز ادا کرتے اور دوسر اذکر الہی بھی نہیں کرتے اور جو لوگ مجلس میں تو آتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے ان کے آنے کا کیا فائدہ؟ کچھ مدت ہوئی ایک خطبہ میں نمازوں کو اچھی طرح ادا کرنے کی طرف میں نے توجہ دلائی تھی.اس وقت میں نے دیکھا کہ وہ آدمی جو کسی گاؤں کے رہنے والے معلوم ہوتے تھے نماز کو بہت اچھی طرح ادا کر رہے تھے.مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ گاؤں کے رہنے والے بھی وقار آہستگی اور عمدگی سے نماز پڑھ رہے ہیں.گاؤں کے لوگ تو سن کر عمل کرنے لگے مگر کس قدر افسوس ہے کہ قادیان کے نوجوان اس طرف توجہ نہیں کرتے اور نماز جلدی جلدی ختم کر کے دوڑتے ہوئے اوپر آنے لگتے ہیں اور
364 کھٹاکھٹ کے شور سے دوسروں کی نماز بھی خراب کرتے ہیں صرف اس لئے کہ مجلس میں اچھی جگہ مل سکے.روحانیت کو مارنے والی باتیں (۱) نماز جلدی جلدی پڑھنا.(۲) نماز کے وقت شور کرنا.(۳) ذکر الہی سے غفلت برتنا حالانکہ اگر ان کی یہ خواہش ہے تو انہیں چاہئے کہ پہلے آئیں.ایک تو پیچھے آنا.پھر جلدی جلدی نماز ختم کرنا.ذکر الہی نہ کرنا اور دوسروں کی نماز بھی خراب کرنا.یہ سب روحانیت کو مارنے والی باتیں ہیں.پھر تہجد کی عادت بھی نوجوانوں میں بہت کم ہے.خدام کا فرض ہے کہ کوشش کریں سو فیصدی نوجوان نماز تہجد کے عادی ہوں.یہ ان کا اصل کام ہو گا جس سے سمجھا جائے گا کہ دینی روح ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہو گئی ہے.قرآن کریم نے تہجد کے بارہ میں اشدوطا (المزمل) فرمایا ہے یعنی یہ نفس کو مارنے کا بڑا کارگر حربہ ہے.پس خدام الاحمدیہ کو دیکھنا چاہئے.کہ کتنے نوجوان با قاعدہ تہجد گزار ہیں اور کتنے بے قاعدہ ہیں.باقاعدہ تہجد گزار وہ سمجھے جائیں گے جو سو فیصدی تہجد ادا کر میں سوائے اس کے کہ کبھی بیمار ہوں یارات کو کسی وجہ سے دیر سے سوئیں یا سفر سے واپس آئے ہوں اور صبح اٹھ نہ سکیں اور بے قاعدہ وہ سمجھے جائیں گے جو ہفتہ میں ایک دو دفعہ ہی ادا کریں.باقاعدہ تہجد ادا کر نے کا مطلب یہ ہے کہ سو فیصدی تہجد گزار ہوں.الا ماشاء اللہ.سوائے ایسی کسی صورت کے کہ وہ مجبوری کی وجہ سے ادانہ کر سکیں اور خدا تعالیٰ کے حضور ایسے معذور ہوں کہ اگر فرض نماز بھی جماعت کے ساتھ ادانہ کر سکیں تو قابل معافی ہوں.اگر یہ بات ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہو جائے تو ان میں ایسا ملکہ پیدا ہو جائے گا کہ وہ دین کی باتوں کو سیکھ سکیں گے اور اگر یہ نہیں تو باقی صرف مشق ہی رہ جاتی ہے جو انگریز جرمن اور امریکن بھی کرتے ہیں بلکہ وہ ہمارے نوجوانوں کی نسبت زیادہ کرتے ہیں.نوجوانوں کو محنت مشقت برداشت کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے اسی طرح دیانت ، محنت اور مشقت برداشت کرنے کی عادت بھی ہمارے نوجوانوں میں ہونی چاہئے.ہمارے ملک میں مشقت برداشت کرنے کی عادت بہت کم ہے.جہاں کوئی ایسا کام پیش آیا جس میں محنت اور مشقت کی ضرورت ہوتی ہے تو فورا دل چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ ہمیں سب سے زیادہ محنت اور مشقت برداشت کرنے کی عادت کی ضرورت ہے.چار ہزار گنا زیادہ کام کرنے کی ضرورت میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ دنیا میں ہماری حیثیت چار ہزار کے مقابلہ میں ایک کی ہے اور جب تک
365 ہم دوسروں کی نسبت چار ہزار گنا زیادہ کام نہ کریں، کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں.مثل مشہور ہے کہ جتنا گڑ ڈالا جائے اتنا ہی میٹھا ہو گا.پس جتنی محنت ہم کریں گے اتنی ہی کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے.جب ہمارا مقابلہ ایسے لوگوں سے ہے جو ہم سے چار ہزار گنا ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کوشش کرے کہ اس کا کام وقت ، مشق ، نیک نیتی ، قربانی اور اخلاص کے لحاظ سے ایسا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور چار ہزار افراد کے کام کے بر ابر شمار ہو سکے.تب ہم امید کر سکتے ہیں کہ ہم دنیا پر غالب ہوں گے کیونکہ گو ہم تعداد میں کم ہوں گے مگر قربانی میں چار ہزار کے برابر ہوں گے.( خطبه جمعه فرموده ۲۳ جون ۱۹۴۴ء مطبوعہ الفضل ۷ جولائی ۱۹۴۴ء)
کو نمازی بخش کوتاہ کو پھر درازی بخش خاکساروں کو سرفرازی بخش بخش اوا جیت لوں تیرے واسطے سب دل پانی کردے علوم قرآں کو ہائے جاں نوازی گاؤں گاؤں میں ایک رازی بخش روح فاقوں سے ہورہی ہے نڈھال ہم کو پھر نعمت حجازی بخش جھوٹ کو ناز مغرب ہے چاروں شانے پر مائل اپنے بندوں کو نیازی بخش بے نیازی چت کردین مومنوں کو وہ راستبازی بخش روح اقدام و دور مین نگاه پائے اقدس کو چوم لوں بڑھ کر مجھ کو تو ایسی پاکبازی سرگرانی میں عمر گزری ہے کفر کی کی چیره دستیوں کو بخش مروری اسلام سید الانبياء کی امت کو سرفرازی , نگاه بازی بخش قلب شیر بخش بخش ہوں جہاں گرد ہم میں پھر پیدا درازی بخش جو ہوں غازی بھی وہ نمازی بخش رسند باد اور پھر محمود محمود میرا مجھے کو تو سیرت ایازی بخش جہازی بخش ***
367 یلی تنظیموں کا مقصد اسلامی عقائد کے قیام میں مدد انصار اللہ " خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کی تنظیموں کے قیام میں حکمت ه نیک کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کریں ه تنظیم کی اہمیت اور افادیت ذہین بچوں پر نیک باتوں کا نمایاں اثر ہوتا ہے تمام دنیا کی اصلاح کرنا ہمارا مقصد ہے جماعتی تنظیم اور اصلاح کے بغیر ہم ساری دنیا کو متوجہ نہیں کر سکتے فرائض منصبی کو دیوانہ وار سر انجام دینے کی ضرورت دنیا میں امن قائم کرنے کے بنیادی اصول اہل یورپ اسلام پر غور کرنے پر مجبور ہو جائیں گے جنون کی کیفیت کی ضرورت ایک آگ ہو جو ہمارے سینہ میں ہر وقت سلگتی رہتی ہو خطبه جمعه فرموده ۲۹ ستمبر ۱۹۴۴ء
368 ہ میں نے جماعت کو کچھ عرصہ سے تین مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے تاکہ جماعت کا سارازور اور اس کی طاقت اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں صرف ہو.اسلامی عقائد کے قیام میں وہ مشغول ہو جائے اور اعمال خیر کی ترویج میں اس کی تمام مساعی صرف ہونے لگ جائیں.جماعت کے یہ تین اہم ترین حصے انصار الله خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ ہیں.ذیلی تنظیموں کی نفسیاتی اہمیت یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جس قسم کا کوئی آدمی ہوتا ہے اسی قسم کے لوگوں کی وہ نقل کرنے کا عادی ہوتا ہے.بوڑھے عام طور پر بوڑھوں کی نقل کرتے ہیں اور نوجوان عام طور پر نوجوانوں کی نقل کرتے ہیں اور بچے عام طور پر بچوں کی نقل کرتے ہیں.کہتے تھے کہ کوئی بچہ تھا جو مکان کی چھت پر چڑھ کر اس کے کنارہ کی طرف چلا گیا اور آہستہ آہستہ ایسی جگہ پہنچ گیا کہ قریب تھا کہ وہ نیچے گر جائے.وہ چھت کے کنارے پر کھڑے ہو کر بازار کی طرف کھڑے ہو کر جھانک رہا تھا کہ اس کی ماں نے اسے دیکھ لیا اور اس نے گھبرا کر اسے پکڑنا چاہا.تاکہ وہ کہیں نیچے نہ گر جائے.بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر ان کو پکڑنے کے لئے کوئی دوڑے تو وہ اور آگے کی طرف بھاگتے ہیں..جب اس کی ماں نے گھبراہٹ کی حالت میں اسے پکڑنا چاہا تو کسی سمجھدار انسان نے اسے دیکھ لیا اور اسے کہا کہ یہ بیوقوفی نہ کرنا.اگر تم نے ایسا کیا تو بچہ آگے کی طرف دوڑے گا اور نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ نیچے گر جائے گا.اگر تم بچے کو آرام سے نیچے اتارنا چاہتی ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ اس کے پیچھے کی طرف کوئی بچہ لا کر بٹھا دیا جائے اسے دیکھ کر یہ پیچھے مڑ جائے گا اور یا کوئی شیشہ رکھ دیا جائے.اس شیشہ کو جب یہ دیکھے گا تو اپنا عکس اس میں دیکھ کر خیال کرے گا کہ یہ بھی کوئی بچہ ہے اور جب یہ اس کی طرف جھکے گا تو سمجھے گا کہ دوسرا بچہ بھی میری طرف جھک رہا ہے اس طرح وہ دوسرے بچہ کے خیال کے ماتحت اسی جگہ بیٹھ جائے گا اور اس کے گرنے کا خطرہ جاتا رہے گا.چنانچہ وہ شیشہ لائی یا کوئی بچہ لا کر اس کے نیچے بٹھا دیا اور اس طرح سلامتی کے ساتھ نیچے اتارنے میں کامیاب ہو گئی.تو دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ ایک قسم کی چیزیں ایک دوسرے کی طرف زیادہ جھکتی ہیں.نوجوان قدرتی طور پر یہ خیال کرتے ہیں کہ بوڑھوں کا کیا ہے وہ اپنی عمر میں گزار چکے ہیں اور ہم وہ ہیں جو ابھی جوانی کی عمر میں سے گذر رہے ہیں.اس وجہ سے اگر کوئی بوڑھا انہیں نصیحت کرے کہ اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے.اپنے اشغال اور افعال میں نیکی اور تقویٰ مد نظر رکھنا چاہئے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جو اخلاق اور مذہب کے خلاف ہو تو وہ اس کی بات کو مذاق میں اڑا دیتے ہیں.اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور خیال کرتے ہیں بوڑھوں کا کیا ہے یہ اپنے وقت میں تو مزے اٹھا چکے ہیں اور اب ہمیں نصیحت کرنے لگے ہیں کہ ہم ہر قسم کے کاموں سے اجتناب کریں.
369 لیکن اگر ویسی ہی نصیحت انہیں کوئی نوجوان کرے تو وہ اس کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم اپنی عمر عیش و عشرت میں گزار کر اب ہمیں نصیحت کرنے لگ گئے ہو بلکہ وہ مجبور ہوتے ہیں کہ اس کی نصیحت پر کان دھر میں اور اس کی بات کو تسلیم کریں.کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ نصیحت کرنے والا بالکل ہمارے جیسا ہے.یہ بھی اسی عمر کا ہے جو ہماری عمر ہے.اس کا بھی ایسا ہی دل ہے جیسا ہمارا دل ہے.اس کے اندر بھی ویسے ہی جذبات اور احساسات ہیں جیسے جذبات اور احساسات ہمارے اندر ہیں لیکن جب یہ بھی ہمیں نصیحت کر رہا ہے تو ہمیں ضرور اس کی بات پر غور کرنا چاہئے.اور اگر کچھ نوجوان ایسے بھی ہوں جو اس کی نصیحت پر عمل کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو کم سے کم وہ اعتراض کا کوئی اور طریق اختیار کریں گے ، یہ نہیں کہیں گے کہ خود جوانی کی عمر میں مزے اٹھا کر اب ہمیں روکا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم نیکی کی طرف توجہ کریں.اسی طرح بچے بچوں کے ذریعہ بہت جلد سمجھ سکتے ہیں اور بوڑھے بوڑھوں کے ذریعہ باتیں سمجھنے کے عادی ہوتے ہیں.اگر کسی بوڑھے کے پاس کوئی نوجوان جا کر کہے کہ جناب فلاں بات اس طرح ہے اور آپ اس طرح کر رہے ہیں تو وہ فورا اس کی بات سنتے ہی کہہ دے گا کہ میاں کوئی عقل کی بات کرو تم ابھی کل کے بچے ہو اور میں بوڑھا تجربہ کار ہوں.تم ان باتوں کی حقیقت کو کیا سمجھو.میں خوب جانتا ہوں کہ بات کس طرح ہے اور نیکی اور تقویٰ کا کونسا پہلو ہے.اسی طرح اگر کوئی بچہ بوڑھے کو نصیحت کرے تو وہ نصیحت کی بات اس بچہ کے منہ سے سن کر ہنس پڑے گا اور کہے گا یہ پاگل ہو گیا ہے.ابھی تو خود نا تجربہ کار ہے.بچپن کے زمانہ میں ہے اور مجھے نصیحت کر رہا ہے.لیکن اگر بوڑھا بوڑھے کو نصیحت کرے تو وہ ضرور اس کی نصیحت پر کان دھرے گا کیونکہ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم تجربہ میں مجھ سے کم ہو میں تمہاری بات کس طرح مان سکتا ہوں.غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم عمر ہی اپنے ہم عمروں کو اچھی طرح سمجھا سکتے ہیں بلکہ میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے اگر عمر میں پانچ دس سال کا فرق ہو تب بھی دوسرا شخص سمجھتا ہے کہ میں تو دوسروں کو نصیحت کرنے کا حق رکھتا ہوں مگر کوئی دوسرا شخص جو عمر میں مجھ سے کم ہو چاہے چند سال ہی کم ہو یہ حق نہیں رکھتا کہ مجھے نصیحت کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں صدرانجمن احمدیہ کے اجلاس میں جب مختلف معاملات پر بحث ہوتی تو بسا اوقات خواجہ کمال الدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب ایک طرف ہوتے اور بعض دوست دوسری طرف.ان میں سے شیخ رحمت اللہ صاحب مولوی محمد احسن صاحب امر وہی سے عمر میں صرف چار پانچ سال چھوٹے تھے مگر میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ جب آپس میں کسی بات پر بحث شروع ہو جاتی تو مولوی محمد احسن صاحب امروہی شیخ رحمت اللہ صاحب کو مخاطب کر کے کہتے کہ تم تو ابھی کل کے بچے ہو تمہیں کیا پتا کہ معاملات کو کس طرح طے کیا جاتا ہے.میرا تجربہ تم سے زیادہ ہے.اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہی درست ہے حالانکہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی اور شیخ رحمت اللہ صاحب کی عمر میں صرف چار پانچ سال کا فرق تھا.مگر چار
370 پانچ سال کے تفاوت سے ہی انسان خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ مجھے اس بات کا حق حاصل ہے کہ دوسروں پر حکومت کروں.مجھے حق حاصل ہے کہ میں دوسروں کو نصیحت کا سبق دوں اور ان کا فرض ہے کہ میری اطاعت کریں اور جو کچھ میں کہوں اس کے مطابق عمل مجالا ئیں.پس ایسی صورت میں اگر کوئی نوجوان کسی بوڑھے کو نصیحت کرے گا تو یہ صاف بات ہے کہ بجائے نصیحت پر غور کرنے کے لئے اس کے دل میں غصہ پیدا ہو گا کہ یہ نوجوان مجھے نصیحت کرنے کا کیا حق رکھتا ہے.اس طرح بجائے بات کو ماننے کے وہ اور بھی بگڑ جائے گا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ ایک انسان ایک بچہ کے منہ سے بھی نصیحت کی بات سن کر سبق حاصل کر لیتا ہے مگر ایسا شاذو نادر کے طور پر ہوتا ہے اسی طرح بعض دفعہ ایک نوجوان کے منہ سے کوئی بات سن کر ایک بوڑھا بھی سبق حاصل کر سکتا ہے مگر ایسا بہت کم اتفاق ہوتا ہے.عمر کے تفاوت کے ماتحت چاہے ایک بڑی عمر والا بے وقوف ہی کیوں نہ ہو وہ یہی سمجھتا ہے کہ میرا حق ہے کہ میری بات کو مانا جائے کیونکہ میں بڑی عمر کا ہوں دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مجھے نصیحت کرے یا مجھے کسی نقص کی طرف اصلاح کی توجہ دلائے.یہی حکمت ہے جس کے ماتحت میں نے انصار اللہ خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ تین الگ الگ جماعتیں قائم کی ہیں تاکہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کا مادہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ پیدا ہو.بچے بچوں کی نقل کریں.نوجوان نوجوانوں کی نقل کریں اور بوڑھے بوڑھوں کی نقل کریں.جب بچے اور نوجوان اور بوڑھے سب اپنی اپنی جگہ پر یہ دیکھیں گے کہ ہمارے ہم عمر دین کے متعلق رغبت رکھتے ہیں.وہ اسلام کی اشاعت کی کوشش کرتے ہیں.وہ اسلامی مسائل کو سیکھنے اور ان کو دنیا میں پھیلانے میں مشغول ہیں.وہ نیک کاموں کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں تو ان کے دلوں میں شوق پیدا ہو گا کہ ہم بھی ان نیک کاموں میں حصہ لیں اور اپنے ہم عمروں میں نیکی کے کاموں میں آگے نکلنے کی کوشش کریں.دوسرے وہ جو رقابت کی وجہ سے عام طور پر دلوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے وہ بھی پیدا نہیں ہو گا.جب بوڑھا بوڑھے کو نصیحت کرے گا.نوجوان نوجوان کو نصیحت کرے گا اور بچہ بچے کو نصیحت کرے گا تو کسی کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہو گا کہ مجھے کوئی ایسا شخص نصیحت کر رہا ہے جو عمر میں مجھ سے چھوٹا یا عمر میں مجھ سے بڑا ہے.وہ سمجھے گا کہ میرا ایک ہم عمر جو میرے جیسے خیالات اور میرے جیسے جذبات اپنے اندر رکھتا ہے مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس وجہ سے اس کے دل پر نصیحت کا خاص طور پر اثر ہو گا اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائے گا.مگر یہ تغیر اسی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے جب جماعت میں یہ نظام پورے طور پر رائج ہو جائے اور کوئی بچہ کوئی نوجوان اور کوئی بوڑھا ایسانہ رہے جو اس نظام میں شامل نہ ہو.اگر جماعت کے چند بوڑھے اس مقصد کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں.اگر جماعت کے چند نوجوان اس
371 نظام کو جاری کرنے کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں.اگر جماعت کے چند بچے اس امر کی اہمیت کو سمجھ کر اکٹھے ہو جاتے ہیں تو ان چند نوجوان چند بوڑھوں اور چند بچوں کی وجہ سے اس نظام کے وسیع اثرات ظاہر نہیں ہو سکتے اور نہ اس کے نتیجے میں ساری دنیا میں بیداری پیدا ہو سکتی ہے.تنظیم کی اہمیت اور افادیت ساری دنیا میں اس تحریک کو قائم کرنے ساری دنیا کو بیدار کرنے اور ساری دنیا کو اس نظام کے اندر لانے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اپنے آپ کو اس قدر منظم کر لیں کہ وہ یقینی اور حتمی طور پر کہہ سکیں کہ ہم نے اپنی اندرونی تنظیم کا کام اس کے تمام پہلوؤں کے لحاظ سے پوری خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کر لیا جائے.اسی طرح بچے اپنے آپ کو خدام الاحمدیہ کی مدد سے اس قدر منظم کرلیں کہ تنظیم کا کوئی پہلو نا قص نہ رہے اور ان کا اندرونی نظام ہر جہت سے مکمل ہو جائے.یہی حال انصار اللہ کا ہو کہ وہ اپنے آپ کو اس قدر منتظم کر لیں، اس طرح ایک نظام میں اپنے آپ کو منسلک کر لیں کہ وہ مسرت کے ساتھ یہ اعلان کر سکیں کہ ہم نے اپنی اندرونی تنظیم پورے طور پر مکمل کرلی ہے.اب ہم میں اس تنظیم کے لحاظ سے کسی قسم کی خامی اور نقص باقی نہیں رہا.جب خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور اطفال الاحمدیہ تینوں اپنے آپ کو اس رنگ میں منظم کرلیں گے اور اپنی اندرونی خامیوں کو کلیتہ دور کر دیں گے تب وہ اس قابل ہو سکیں گے کہ دوسروں کی اصلاح کریں اور تب دنیا مجبور ہو گی کہ ان کی باتوں کو سنیں اور ان پر غور کرے.ذہین بچوں پر نیک باتوں کا نمایاں اثر ہوتا ہے میں نے دیکھا ہے بعض بچے چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں لیکن چونکہ وہ ذہین ہوتے ہیں اور دین کی باتوں کو سمجھتے ہیں اس لئے ان کا طبعی طور پر دوسرے بچوں پر نمایاں اثر ہوتا ہے اور وہ بھی اس رنگ کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیو نکہ وہ رنگ ان کو خوبصورت دکھائی دیتا ہے اور وہ باتیں ان کو جاذبیت رکھنے والی معلوم ہوتی ہیں.ہمارا ایک عزیز بچہ ہے.تین چار سال اس کی عمر ہے مگر زمین اور ہوشیار ہے.وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ باہر گیا ہوا ہے.جس گھر میں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں اس گھر کے بچوں پر اتنا اثر ہوا کہ انہی میں سے ایک لڑکے نے مجھے خط لکھا کہ آپ اپنے فلاں بچہ کو اجازت دیں کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر ایک دفعہ میوزیکل کانسرٹ دیکھ لے مگر وہ مانا نہیں اس نے کہا ہے کہ ہم ایسی چیز میں نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ہمیں ایسی چیزیں دیکھنے سے منع کیا گیا ہے.اس نے یہ بھی لکھا کہ مجھے اس کی باتیں سن کر احمدیت کے متعلق رغبت پیدا ہو گئی ہے وہ بھی ایک چھوٹا بچہ ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ
372 ہمارے عزیز کی طرح وہ بھی ذہین ہے اور بات کو بہت جلدی سمجھ جاتا ہے.پس ایک چھوٹی عمر کے بچے کا دوسرے سے یہ کہنا کہ ہم میوزیکل کانسرٹ میں شامل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہمیں ان چیزوں کے دیکھنے سے منع کیا گیا ہے اور پھر دوسرے لڑکے کا میری طرف خط لکھنا کہ اسے ایک دفعہ اجازت دیجئے کہ وہ میوزیکل کانسرٹ دیکھ لے بتاتا ہے کہ بچوں میں یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سنبھال سکیں اور نوجوانوں میں بھی یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سنبھال سکیں اور بوڑھوں میں یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے تجربہ اور علم اور اپنی عقل سے دوسروں کی راہنمائی کر سکیں مگر یہ فرض اپنی پوری خوش اسلوبی سے اس وقت تک ادا نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہماری جماعت کے تمام نوجوان تمام بوڑھے اور تمام بچے اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے.تمام دنیا کی اصلاح کرنا ہمارا مقصد ہے ہماری جماعت کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے.تمام دنیا کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھکانا ہے.تمام دنیا کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرنا ہے.تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کرنا ہے.مگر یہ عظیم الشان کام اس وقت تک سر انجام نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ ہماری جماعت کے تمام افراد خواہ بچے ہوں یا نوجوان ہوں یا بوڑھے ہوں اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے اور اس لائحہ عمل کے مطابق دن اور رات عمل نہیں کرتے جو ان کے لئے تجویز کیا گیا ہے.دنیا میں ہمیشہ یہی طریق ہوتا ہے کہ پہلے اندرونی کمروں کی صفائی کی جاتی ہے.پھر بیرونی کمروں کی صفائی کی جاتی ہے.پھر صحن کی صفائی کی جاتی ہے.یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی شخص ڈیوڑھی یا باہر کی گلی کو تو صاف کرنے لگ جائے اور اس کے اندرونی کمروں میں گند پھر اہوا ہو.ہمیشہ بیر ونی صفائی سے پہلے اندرونی صفائی کی جاتی ہے.باہر کی سڑکوں اور گلیوں اور صحن وغیرہ کو صاف کرنے سے پہلے اندرونی کمروں کی غلاظت اور گند کو دور کیا جاتا ہے.اس کے بعد بیرونی کمروں کی صفائی کا وقت آتا ہے.پھر صحن کی صفائی کی طرف توجہ کی جاتی ہے.پھر گلی کی صفائی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور جب تمام ان مراحل کو طے کیا جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو توفیق عطا فرما دیتا ہے کہ وہ میونسپل کمیٹی کی شکل میں سارے شہر کی صفائی کا اہتمام کریں.پھر اس سے ترقی کر کے اللہ تعالیٰ بعض اور لوگوں کہ یہ توفیق عطا فرما دیتا ہے کہ وہ ایک حکومت کی شکل میں سارے ملک کی صفائی کا انتظام کریں.- جماعتی تنظیم اور اصلاح کے بغیر ہم ساری دنیا کو متوجہ نہیں کر سکتے بہر حال یہ تدریج ضروری ہے.اور بغیر جماعتی تنظیم اور اصلاح کو مکمل کرنے کے ہم ساری دنیا کی طرف
373 توجہ نہیں کر سکتے.جب ہم اپنی اصلاح کو مکمل کر لیں.جب ہم اپنے داخلی نظام کو مکمل کر لیں گے.جب ہم تمام جماعت کے افراد کو ایک نظام میں منسلک کر لیں گے تو اس کے بعد ہم بیرونی دنیا کی اصلاح کی طرف کامل طور پر توجہ کر سکیں گے.فرائض منصبی کو دیوانہ وار سر انجام دینے کی ضرورت اس اندرونی اصلاح اور تنظیم کو مکمل کرنے کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ انصار اللہ اور اطفال احمد یہ تین جماعتیں قائم کی ہیں اور یہ تینوں اپنے اس مقصد میں جو ان کے قیام کا اصل باعث ہے اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب انصار اللہ خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ اس اصل کو مد نظر رکھیں جو حيت ما كنت فولو او جُوهَكُمْ شَطَرَهُ (بقرة : ١٥١) میں بیان کیا ہے کہ ہر شخص اپنے فرض کو سمجھے اور پھر رات اور دن اس فرض کی ادائیگی میں اس طرح مصروف ہو جائے جس طرح ایک پاگل اور مجنون تمام اطراف سے اپنی توجہ کو ہٹا کر صرف ایک بات کے لئے اپنے تمام اوقات کو صرف کر دیتا ہے.جب تک رات او ردن انصار اللہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے.جب تک رات اور دن اطفال الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے تمام اوقات کو صرف نہیں کر دیتے اس وقت تک ہم اپنی اندرونی تنظیم مکمل نہیں کر سکتے اور جب تک ہم اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے اس وقت تک ہم بیرونی دنیا کی اصلاح اور اس کی خرابیوں کے ازالہ کی طرف بھی پوری طرح توجہ نہیں کر سکتے.مغربی استعمار کے ظالمانہ ارادے یاد رکھو وہ دن قریب ترین آتے جاتے ہیں جب دنیا کسی نہ کسی فیصلہ پر پہنچنے کی کو شش کرے گی.اس وقت فاتح مغربی اقوام کے دماغ اس طرف مائل ہو رہے ہیں کہ وہ جنگ کے بعد مفتوح قوموں کو بالکل کچل کر رکھ دیں اور ان کو ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیں.گویا پرانے زمانہ میں جس غلامی کا دنیا میں رواج تھا، اسی غلامی کو بلکہ اس سے بھی بد تر غلامی کو وہ اب پھر دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہیں اور ان اقوام میں سے بعض سر کردہ لوگ اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ پرانے زمانہ کے غلاموں سے بدترین سلوک جرمنی اور جاپان کے ساتھ کریں.دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لو کہ جیسے ابتدائی ایام میں آرین اقوام نے ہندؤوں کی دیگر اقوام سے سلوک کیا تھا اور انہوں نے ان اقوام کے لئے بعض خاص پیشے مقرر کر دیے تھے اور کہہ دیا تھا کہ وہ ان پیشوں کے علاوہ اپنی معاش کے لئے کوئی اور
374 ذریعہ اختیار نہیں کر سکتے اور نہ ترقی کے لئے کوئی تدبیر اختیار کر سکتے ہیں اسی طرح آج انگلستان کے بعض اکابرین کی طرف سے یہ آواز میں اٹھ رہی ہیں کہ جنگ کے بعد خبر منی اور جاپان دونوں کے لئے بعض پیشے مقرر کر دئیے جائیں گے اور فیصلہ کر دیا جائیگا کہ وہ ان مخصوص پیشوں کے علاوہ اور کوئی پیشہ اختیار نہیں کر سکتے.ایک نئے نظام کی ضرورت جس کی بنیاد ر تم اور عدل ہو یہ چیزیں جب ظاہر ہوتی ہے اس وقت طبائع قدرتی طور پر فیصلہ کی طرف مائل ہوتی ہیں اور وہ اس نتیجہ پر پہنچتی ہیں کہ موجودہ نظام کے علاوہ کوئی اور نظام دنیا میں رائج ہونا چاہئے جو کمزور کی حق تلفی نہ کرے اور طاقتور کو نا جائز حقوق نہ دے.پس اگر جنگ کے بعد مفتوح اقوام سے اس قسم کا وحشیانہ سلوک کیا گیا جس قسم کا وحشیانہ سلوک اچھوت اقوام سے کیا گیا تھا تو یہ لازمی بات ہے کہ یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی اور جاپان میں بھی اور جرمنی میں بھی دنیا میں موجودہ نظام کے خلاف آواز میں اٹھنی شروع ہو جائینگی.طبائع میں ایک ہیجان پیدا ہو جائے گا اور لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا ہو نا شروع ہو جائیگا کہ موجودہ نظام تسلی بخش نہیں اور وہی وقت ہو گا جب گرم گرم لوہے پر چوٹ لگا کر اسے اسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ڈھالا جا سکے گا.دیکھو قرآن کریم نے لیگ آف نیشنز کے بعض اصول بیان کئے اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ جب تک ان اصول پر لیگ آف نیشنز کی بنیاد نہیں رکھی جائے گی اس وقت تک دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکے گا.میں نے ۱۹۲۴ء میں اپنی کتاب احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں ان اصول کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بیان کیا تھا.اسی طرح جب میں ولایت گیا تو وہاں مختلف لیکچروں میں نہایت وضاحت اور تفصیل کے ساتھ میں نے ان اصول کا ذکر کیا.اس کے بعد ۱۹۳۵ء میں جلسہ سالانہ کے موقعہ پر میں نے اپنے ایک لیکچر میں جو سیاسیات عالم کے متعلق تھا اس امر کو پھر بڑی تفصیل سے بیان کیا تھا.لیگ آف نیشنز کی ناکامی کے بنیادی سبب اور بتایا تھا کہ جب کسی قرآنی اصول پر لیگ آف نیشنز کی بنیاد نہیں رکھی جائے گی اس وقت دنیا بین الا قوامی جھگڑوں سے کبھی امن حاصل نہیں کر سکتی.یہ تمام اصول میری کتاب میں چھپے ہوئے موجود ہیں اور دنیادیکھ سکتی ہے کہ وہ کیسے پختہ اور شاندار اور کیسے زبر دست اصول ہیں.آج لیگ آف نیشنز اگر اپنے مقصد میں ناکام ہوئی ہے تو اسی وجہ سے کہ ان اصول کو اس نے اپنے نظام میں شامل نہیں کیا تھا.انہی اصولوں میں سے ایک اصل میں نے یہ بیان کیا تھا کہ یہ خیال کر لینا کہ اس نظام کے قیام کے لئے کسی فوجی طاقت کی ضرورت نہیں نادانی اور حماقت ہے.یہ نظام قائم نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ساتھ فوج کی بہت بڑی طاقت نہ ہو تا کہ جب بھی کوئی قوم لیگ آف نیشنز
375 کے فیصلہ کی خلاف ورزی کرے اس کے خلاف طاقت کا استعمال کر کے اسے اپنے ناجائز طریق عمل سے روک دیا جائے.غرض میں نے وضاحت کے ساتھ اس امر کا ذکر کر دیا تھا کہ لیگ آف نیشنز اس وقت تک صحیح معنوں میں قائم نہیں ہو سکتی اور نہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتی ہے کہ جب تک اس کے ساتھ فوجی طاقت نہ ہو.میں نے یہ اصل اپنی کتاب میں بیان کیا.اپنے لیکچروں میں بیان کیا اور بار بار اس بات پر زور دیا مگر یورپین لوگوں کی طرف سے ہمیشہ یہی کہا گیا کہ یہ بالکل غلط ہے.ہم تو دنیا کو لڑائی سے بچانا چاہتے ہیں اور آپ پھر ایسی تجویز پیش کر رہے ہیں جس میں فوج اور طاقت کا استعمال ضروری قرار دیا گیا.انگلستان میں جب میرے لیکچر ہوتے تو ان کے بعد عام طور پر لوگ میں کہا کرتے کہ یہ تو وہی پرانی جنگی سپرٹ ہے جو دنیا میں پہلے سے قائم ہے.ہمارے نزدیک یہ تجویز درست نہیں.ہم نے لیگ کے اصول ایسے رکھتے ہیں جن میں فوجی طاقت کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آسکتی.اس کے اصول میں یہی روح کام کر رہی ہے کہ فوجی طاقت سے نہیں بلکہ دوسروں کو سمجھا کر صلح اور پیار کی طرف مائل کیا جائے اور اسے بد عنوانیوں سے روکا جائے.انسانی فطرت ایسی ہے کہ جب کسی غلط بات پر قائم ہو جائے تو خواہ اسے ہزار دفعہ کہا جائے وہ اپنی بات کو غلط تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی.یورپین مدبرین نے اس وقت میری بات کو قابل اعتنانہ سمجھا مگر آج تمام مدبرین یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس فوجی طاقت نہیں ہے.اگر اس کے پاس فوجی طاقت ہوتی تو اس کا یہ انجام نہ ہوتا.حالانکہ یہ وہ اصول ہے جو قرآن کریم نے آج سے پونے چودہ سو سال پہلے سے بیان کیا ہوا ہے.قرآن کریم میں موجود ہے اور میں نے بڑی وضاحت سے آج سے کئی سال پہلے اس کا اپنی کتابوں اور لیکچروں میں ذکر کر دیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ لیگ آف نیشنر کے ساتھ فوجی طاقت ہونا نہایت ضروری ہے.لیکن اس وقت توجہ نہیں دی گئی جس کا نتیجہ نہایت تلخ اور افسوسناک نکلا.اسی طرح ایک دوسری بات بھی میں نے اپنی کتاب ”احمدیت “ میں بیان کی ہوئی ہے جس کو آج میں بڑی زور سے بیان کر دیتا ہوں.پہلی بات کے متعلق لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اس کا علم نہیں تھا کہ آپ نے اس اصول کا ذکر کیا ہوا ہے.اس لئے اب میں دوسری بات کو ایک دفعہ پھر وضاحت کے ساتھ بیان کر دیتا ہوں کیونکہ وہ بھی ایسی اہم ہے کہ اس ہدایت کی خلاف ورزی دنیا میں کبھی نیک نتائج پیدا نہیں کر سکتی اور ہمارے غیر ممالک کے مبلغین کو چاہئے کہ فوری طور پر اس اصل کی اشاعت شروع کر دیں تا بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ وقت پر ہمیں اس طرف توجہ نہیں دلائی گئی تھی.مفتوح قوم کے حقوق کے بارے میں قرآن کریم کی تعلیم دوسر کی بات جو میں نے قرآن کریم کی روشنی میں بیان کی ہوئی ہے، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب
376 تم طاقت استعمال کر کے جڑی ہوئی اور نا فرمان پارٹی کو مفتوح کر لو.اس پر پوری طرح غلبہ واقتدار حاصل کر لو اور تم آخر میں اپنے اور دوسروں کے حقوق کے متعلق فیصلہ کرنے لگو تو یاد رکھو اس وقت جوش میں مفتوح قوم پر اپنا غصہ مت نکالوبلکہ جس حد تک جھگڑا ہو صرف اس حد تک اپنے فیصلوں کو محدود رکھو.یہ نہ ہو کہ جوش اور غصہ کی حالت میں تم اپنی حدود سے متجاوز ہو جاؤ اور اس پر مظالم کرنے لگ جاؤ یا کوشش کرو کہ وہ قوم اسی طرح کچلی جائے کہ آئندہ صدیوں تک تمہارے مقابلہ میں سر نہ اٹھا سکے.تمہارا فرض ہے تم صرف جھگڑے تک اپنے فیصلوں کو محدود رکھو اور ناجائز پابندیاں نا جائز قیود اور ناجائز دباؤ مفتوح قوم پر مت ڈالو.اگر تم ایسا کرو گے تو اس کے نتیجہ میں پھر فساد پیدا ہو گا.پھر بد امنی پیدا ہو گی.پھر لڑائی شروع ہو گی اور پھر دنیا کا امن برباد ہو جائے گا.یہ اصول ہے جس کو میں نے بڑی وضاحت سے اپنی کتاب میں بیان کیا ہوا ہے.مگر میں دیکھتا ہوں جس طرح مغربی اقوام نے پہلے اصول کی خلاف ورزی کی تھی اسی طرح آج وہ اس اصول کی خلاف ورزی کے لئے تیار ہو رہی ہے.چنانچہ اس قسم کی آواز میں اٹھنی شروع ہو گئی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ کے بعد جب روس بر طانیہ امریکہ اور چین سب طاقتیں مل کر دنیا میں امن قائم کریں گی تو جرمنی اور جاپان سے نہ صرف وہ تمام چیزیں لے لی جائیں گی جن پر انہوں نے غاصبانہ قبضہ کیا تھابلکہ ان کی بغاوت کی سزا کے طور پر ہمیشہ کے لئے ان کی قوت کو کچل دیا جائے گا اور انہیں انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا جائے گا.ابتدائی انسانی حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ ہر شخص کو اس بات کا اختیار حاصل رہے وہ جو پیشہ اپنے لئے مناسب سمجھتا ہے، اس پیشہ کو اپنی زندگی کا جز بنالے.اگر وہ تجارت کرنا چاہتا ہے تو تجارت کرے.زراعت کرنا چاہے تو زراعت کرے.صنعت و حرفت اختیار کرنا چاہتا ہے تو صنعت و حرفت اختیار کرے.سائنس کی طرف توجہ کرنا چاہتا ہے تو سائنس کی طرف توجہ کرے.مگر اس حق سے ہی جر منی اور جاپان کو محروم کرنے کی سکیمیں تیار ہو رہی ہیں.کہا جاتا ہے کہ ان کے انڈسٹریل سکول بند کر دئیے جائیں گے - انڈسٹریل سوسائٹیاں توڑ دی جائیں گی اور ان کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ صرف زمیدارہ کریں اور ضرورت سے زائد ان کے پاس ہے ان سے خرید لیا جائے یہ وہی سلوک ہے جو ہندؤوں نے اچھوت اقوام سے روا ر کھا اور جن کی بناء پر انہوں نے مدتوں تک اچھوتوں کو سر نہ اٹھانے دیا.گویاوہی سلوک جو ہندؤوں نے اچھوت اقوام سے کیا تھا اب خطرہ ہے کہ مغربی اقوام اپنی مفتوح قوموں سے ویسا ہی سلوک کریں اور پھر دنیا کے ایک طبقہ کو بدترین غلامی کے چکر میں پھنسادیں.کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہندؤوں نے تو اچھوت اقوام سے ہزاروں سال تک فائدہ اٹھالیا.اب ممکن ہے مغربی اقوام بھی اس طریق سے ایک لمبے عرصہ تک فائدہ اٹھائیں - ہندؤوں کی تاریخ بہت مبالغہ آمیز ہے.اس لحاظ سے ہزاروں سال کہنا تو صحیح نہیں ہو سکتا لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں انہوں نے ڈیڑھ دو ہزار سال تک اچھوت اقوام کو اپنا ما تحت رکھا اور اس طرح ان سے فائدہ اٹھاتے رہے.پس اس مثال کی بناء پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اب ممکن ہے یہ قومیں دوسر نیا
377 قوموں کو اچھوت بنا کر ان سے لمبے عرصہ تک فائدہ اٹھاتی رہیں لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ گو اچھوت قوموں سے ہندو ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہندوستان کے ایک طبقہ کو اچھوت بنا کر خود ہندو قوم بھی ایک ہزار سال سے مغلوب ہوتی چلی آئی ہے.یہ الگ بات ہے کہ وہ چوہوں سے مغلوب نہیں ہوئی، وہ سانپوں سے مغلوب نہیں ہوئی، وہ بیلوں سے مغلوب نہیں ہوئی مگر وہ پہلے یونانیوں اور پھر پٹھانوں اور بعد میں مغلم ما سے مغلوب ہو گئی.اب اس مغلوبیت کی وجہ یہی تھی کہ ملک کی اکثریت ایسی تھی جسے حکومت سے کوئی ہمدردی نہ تھی.اس کے معاملات میں اسے کوئی دلچسپی نہ تھی اور اس کی خیر خواہی اور بھلائی اس کے مد نظر نہیں تھی کیونکہ وہ سمجھتی تھی ہم خواہ جیئیں یا مریں حکومت کو ہمارے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اچھوت اقوام کے ساتھ آرین اقوام نے ذلت کا سلوک روارکھا.ان کے حقوق کو تلف کیا اور ان کی ترقی کو روک دیا مگر اسی وجہ سے خدا نے اور قوموں کو کھڑا کر دیا جنہوں نے مقابلہ کیا.اس طرح وہی قوم جس نے اچھوتوں کو ذلیل کیا تھا، اسے خود دوسروں کا محکوم بننا پڑا.اسی طرح بالکل ممکن ہے اگر فاتح مغربی اقوام جر منی اور جاپان سے اچھوتوں والا سلوک کریں تو گو جر منی اور جاپان سے یہ قومیں ذلت نہ اٹھائیں.مگر اس ظلم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بعض اور قو میں کھڑی کر دے جن کا مقابلہ ان کے لئے آسان نہ ہو.پس دنیا پھر خدانخواستہ ایک غلطی کرنے والی ہے.پھر خدانخواستہ ایک ظلم کا بیج بونے والی ہے.پھر ایک ایسی حرکت کرنے والی ہے جس کا نتیجہ کبھی اچھا پیدا نہیں کر سکتا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کر ہیں کہ وہ اس غلطی سے حاکم اقوام کو بچائے اور دوسری طرف ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو اس غلطی سے آگاہ کریں اور تبلیغ اسلام کے متعلق زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا ئیں.اس جنگ کے بعد کم سے کم دو ملک ایسے تیار ہو جائیں جو ہماری باتوں پر سنجیدگی سے اور متانت کے ساتھ غور کریں گے یعنی جرمنی اور اور جاپان.یہ دونوں ملک ایسے ہیں جو ہماری باتیں سننے کے لئے تیار ہو جائیں گے خصوصاًجر منی ایک ایسا ملک ہے جو اس لحاظ سے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے.اہل یورپ اسلام پر غور کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ہم ان لوگوں کے پاس پہنچیں گے اور انہیں بتائیں گے کہ دیکھو عیسائیت کتنی ناکام رہی کہ عیسائیت کی قریبا دو ہزار سالہ غلامی کے بعد بھی تم غلام کے غلام رہے اور غلام بھی ایسے جنکی مثال سوائے پرانے زمانہ.کے اور کہیں نظر نہیں آسکتی.اس وقت ان کے دل اسلام کی طرف راغب ہوں گے اور ان کے اندر یہ احساس پیرا ہو گا کہ آؤ ہم عیسائیت کو چھوڑ کر اسلام پر غور کریں.اور دیکھیں کہ اس نے ہمارے دکھوں کا کیا علاج تجویز کیا ہوا ہے.پس وہ وقت آنے والا ہے جب جرمنی اور جاپان دونوں کے سامنے ہمیں عیسائیت کی ناکامی اور اسلامی اصول کی برتری کو
378 نمایاں طور پر پیش کرنا پڑے گا.اسی طرح انگلستان اور امریکہ اور روس کے سمجھدار طبقہ کو (اور کوئی ملک ایسے سمجھدار طبقہ سے خالی نہیں ہوتا ) اسلام کی ہر تعلیم کی برتری بتا سکیں گے.مگر یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہماری طاقت منظم ہو.جب ہماری جماعت کے تمام افراد زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہوں.جب کثرت مبلغین ہمارے پاس موجود ہوں اور جب ان مبلغین کے لئے ہر قسم کا سامان ہمیں میسر ہو.اسی طرح یہ کام اس وقت ہو سکتا ہے جب جماعت کے تمام نوجوان پورے طور پر منظم ہوں اور کوئی ایک مرد بھی ایسا نہ ہو جو اس تنظیم میں شامل نہ ہو.وہ سب کے سب اس ایک مقصد کے لئے کہ ہم نے دنیا میں اسلام اور احمدیت کو قائم کرنا ہے اس طرح رات اور دن مشغول رہیں جس طرح ایک پاگل اور مجنون شخص تمام جہات سے اپنی توجہ ہٹا کر صرف ایک کام کی طرف مشغول ہو جاتا ہے.وہ بھول جاتا ہے اپنی بیوی کو.وہ بھول جاتا ہے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اور صرف ایک مقصد اور ایک کام اپنے سامنے رکھتا ہے.جنون کی کیفیت کی ضرورت اگر ہم جنون کی کیفیت اپنے اندر پیدا کر لیں اور اگر ہماری جماعت کا ہر فرد دن اور رات اس مقصد کو اپنے سامنے رکھے تو یقینا اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے کاموں میں برکت ڈالے گا اور اس کی کوششوں کے حیرت انگیز نتائج پیدا کر نا شروع کر دے گا.اب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کا دنیا میں غیر معمولی رعب پایا جاتا ہے اور بہت سے شہر ایسے ہیں جہاں احمدیہ انجمنیں قائم ہو چکی ہیں.بے شک ایسے بھی کئی شہر ہیں جن میں کوئی احمدی نہیں اور ایسے بھی شہر ہیں جن میں صرف ایک ایک احمدی ہے مگر باوجود اس کے ہندوستان میں ہماری جماعت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے اور لوگوں کے دل محسوس کرتے ہیں کہ یہ کام کرنے والی' دنیا میں ترقی کرنے والی زندہ قوم ہے.اسی طرح تم مصر چلے جاؤ - عرب چلے جاؤ اور شام چلے جاؤ - ترکی چلے جاؤ -سب جگہ لوگوں کو یہی کہتا سنو گے کہ جماعت احمد یہ بہت بڑا کام کر رہی ہے حالانکہ ساری دنیا میں ہمارے صرف آٹھ دس مبلغ ہیں اور تعداد کے لحاظ سے ہم دوسروں کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتے بلکہ بوجہ اس کے کہ ہماری جماعت کے افراد دوسروں سے بہت زیادہ قربانی اور ایثار کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور اسلام کی اشاعت کے لئے وہ جس قدر کو شش کرتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی دوسرے مسلمانوں میں نظر نہیں آتا.جہاں چلے جاؤ احمدیت کی تعریف میں لوگ رطب اللسان ہوں گے اور وہ اس حقیقت کو بر ملا بیان کر رہے ہوں گے کہ جماعت احمدیہ ایک زندہ جماعت ہے.
379 احمدیہ جماعت کی فعالیت کا ذکر اغیار میں یورپ اور امریکہ جیسے ممالک میں اس وقت تک قریباً بارہ کتابیں ایسی چھپ چکی ہیں جو احمدیت کے متعلق ہیں یا ان کتابوں میں احمدیت کے متعلق کوئی نہ کوئی مضمون لکھا گیا ہے.ان سب کتابوں میں یورپین اور عیسائی مصنفین نے اقرار کیا ہے کہ مسلمانوں میں صرف جماعت احمد یہ ہی ایک کام کرنے والی اور ہر قسم کی قربانیوں میں حصہ لینے والی قوم ہے.اگر عیسائیت کو آج کسی قوم سے خطرہ ہے تو وہ صرف احمدی قوم ہے.کسی مذہب یا مذہب کے کسی فرقہ سے عیسائیت کو اتنا خطرہ نہیں.........جتنا احمدیت سے ہے حالانکہ ہم اپنی جماعت کے جو حالات جانتے ہیں، ان حالات سے ہم سمجھتے ہیں کہ ظاہری طاقت کے لحاظ سے ہم دوسروں کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.پس جب ہماری تھوڑی سی کوشش ، تھوڑی سی قربانی اور تھوڑی سے جدو جہد کے بعد دنیا پر اس قدر رعب پڑ سکتا ہے تو اگر ہماری ساری جماعت منظم ہو جائے.اگر ہماری جماعت کے نوجوان بھی اور بوڑھے بھی اور بچے بھی اپنی اندرونی اصلاح کرنے کے بعد بیرونی دنیا کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائیں تو غور کرنا چاہئے ہمارے اس رعب میں کتنا بڑا اضافہ ہو سکتا ہے.جماعتی رعب میں کس طرح اضافہ ہو سکتا ہے ؟ یقیناً موجودہ رعب سے ہزاروں گنار عب ہماری جماعت کا ہو سکتا ہے اور موجودہ تعداد سے ہزاروں گنا تعداد ہماری جماعت کی بڑھ سکتی ہے.اور نہ صرف رعب اور تعداد کے لحاظ سے ہماری جماعت میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ ہم موجودہ کام سے ہزاروں گنا زیادہ کام کر کے دنیا کو دکھا سکتے ہیں.اب بھی ہماری یہ حالت ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم کمزور ہیں.ہمارے پاس سامان نہیں ہے.ہمارے پاس طاقت اور دولت نہیں ہے پھر بھی بعض ممالک میں احمدیت کی دھاک بیٹھ چکی ہے مثلاً افریقہ ایک بہت بڑابر اعظم ہے.اس نصف بر اعظم میں ہمارا تبلیغ کرنا ایسا ہی ہے جیساروس کے کنارہ سے جاپان تک کے علاقہ کو تبلیغ کی جائے.ہمارے اس وسیع علاقہ میں صرف چار مبلغ کام کر رہے ہیں مگر ان چار مبلغوں کی تبلیغ کے نتیجہ میں افریقہ کے سارے کنارہ میں ایک دھوم مچی ہوئی ہے.ہزارہا لوگ ہیں جو احمدیت قبول کر چکے ہیں.گورنمنٹ ہے تو اس پر جماعت کا اثر ہے اور یورپین مصنفین کھلے بندوں تسلیم کرتے ہیں کہ عیسائیت کے مقابلہ میں جماعت احمدیہ کے مشنری اس علاقہ میں جو کچھ کر رہے ہیں وہ عیسائیت کے لئے نہایت خطر ناک ہے.غرض گورنمنٹ کیا اور پبلک کیا سب جماعت احمدیہ کی طاقت کو تسلیم کرتے ہیں اور دلائل کے میدان میں ہمار ا مقابلہ کرنے سے گھبراتے ہیں حالانکہ ہمارے وہاں صرف چار مبلغ ہیں چار مبلغ ایک ضلع کے لحاظ سے بھی بہت کم ہیں مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت ہمارے شامل حال ہے اور وہ اپنے
380 فضل سے ہماری ناچیز کو ششوں میں بھی برکت پیدا کر دیتا ہے اس لئے ان چار احمدی مبلغین کا ایک وسیع علاقہ پر حیرت انگیز اثر ظاہر ہو رہا ہے.وہ علاقہ اتنا وسیع ہے کہ اس کی لمبائی کئی ہزار میل کی ہے اور اس علاقہ کو اگر ایک جہاز طے کرنے لگے تو اسے بھی سات آٹھ دن لگ جاتے ہیں مگر اتنے وسیع علاقہ میں صرف چار احمدی مبلغین کی تبلیغ کے نتیجہ میں جماعت کی دھاک بیٹھ چکی ہے اور ہر جگہ یہ احساس پایا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا مقابلہ کرنا کوئی آسان بات نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہاں بعض مقامی مبلغ بھی کام کر رہے ہیں، مگر وہ بھی ہمارے بعض مبلغین نے ہی تیار کئے ہیں اس لئے ان کا کام بھی ایک لحاظ سے ہمارے مبلغین کا کام ہے.پس اگر چار مبلغین کے نتیجہ میں ایک وسیع بر اعظم کے لوگوں میں اتنابڑا تغیر پیدا ہو سکتا ہے تو اگر ہماری ساری جماعت اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے کھڑی ہو جائے اور دن اور رات اس کام میں لگ جائے.وہ اپنے آرام کو نظر انداز کر دے.اپنی سہولت کو پس پشت پھینک دے اور دیوانہ وار اس کام میں مشغول ہو جائے تو گو ہماری تعداد تھوڑی ہے.ہمارے پاس اور اقوام کے سلسلہ میں سامان بہت کم ہے مگر یقین اس مجنونانہ کوشش کے نتیجہ میں دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر رونما ہو جائے گا اور ایک بڑا انقلاب الہی ہاتھوں سے ظاہر ہو گا.بے شک آج ہمارے دعوؤں کو جنون سمجھا جاتا ہے.آج ہمارے دعوؤں پر ہنسی اڑائی جاتی ہے، آج ہمارے کاموں کی تحقیر کی جاتی ہے لیکن اگر ہماری جماعت اپنی کوشش کو اسی طرح بڑھاتی چلی جائے تو کل دنیا میں یہ سمجھا جائے گا کہ ان ہاتھوں سے اس عظیم الشان قربانی کی وجہ جس کا نمونہ اس جماعت نے دکھایا.یہ کام ہونا لازمی اور ضروری تھا.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہمارے اندر ایک مجتو بانہ جوش پیدا ہو جائے.ایک آگ ہو جو ہمارے سینہ میں ہر وقت سنگتی رہی ہو.بے تابی ہو جو ہمیں کسی پہلو چین نہ لینے دیتی ہو اور ہم پورے عزم اور استقلال کے ساتھ اس بات پر قائم ہوں کہ ہماری زندگیوں کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اسلام اور احمدیت پر عمل اور اسلام اور احمدیت کے لئے قربانی.“ ( خطبه فرموده ۲۹ ستمبر ۱۹۴۴ء مطبوعه الفضل ۱۱ اکتوبر ۱۹۴۴ء)
383 تین چیزیں جن کی طرف خدام الاحمدیہ کو خصوصیت سے توجہ کرنی چاہئے سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا خطاب اسلام کا پیغام - عیسائیت کے پیغام کے بالمقابل مذہب کا خلاصہ کیا ہے کامیابی کے لئے کسی نصب العین کا ہو نا ضروری ہے خدام الاحمدیہ کے تمام کارکنوں اور اراکین کو علم ہو کہ انہوں نے کیا کہنا ہے اور کیا کرنا ہے اسلام کی مکمل واقفیت نوجوانوں کے لئے اشد ضروری ہے قرآن و حدیث سے روگردانی کفر ہے.قرآن کریم باترجمہ جاننے کی تلقین حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا خلفاء کسی لکھی ہوئی کتب کا امتحان لینے کی سکیم خدام میں محنت کی عادت پیدا کرنا بہت ضروری ہے کھیل کو د میں شمولیت اور اس کی باقاعدہ نگرانی ( تقریر فرموده ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۴ء)
384 ” مجھے مسوڑھوں کی سوزش اور دانتوں کے درد کی وجہ سے بولنا تو نہیں چاہئے لیکن چونکہ میں گذشتہ سال بھی خدام الاحمدیہ کے جلسہ میں تقریر نہیں کر سکا اس لئے باوجود تکلیف کے میں نے یہی فیصلہ کیا کہ مجھے کچھ نہ کچھ اس موقعہ پر ضرور آپ کے سامنے بیان کرنا چاہئے.جب میں گھر سے چلنے لگا تو قدرتی طور پر میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں آج کس مضمون پر تقریر کروں.اس خیال کے پیدا ہوتے ہی دو مضمون میرے ذہن میں آئے.جن میں سے ایک مضمون فورا ہی اپنی ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے ایسی صورت اختیار کر گیا کہ میں نے سمجھانہ یہ موقع اس مضمون کے مناسب حال ہے اور نہ وقت اتنا ہے کہ میں اس مضمون کے متعلق اپنے خیالات پوری طرح ظاہر کر سکوں.وہ مضمون اپنی ذات میں ایک کتابی صورت کی تمہید بنے کے قابل ہے.تھوڑے سے وقت میں اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا جاسکتا.تب میں نے دوسرا مضمون لے لیا.در حقیقت میر انشایہ تھا کہ یہ دوسرا مضمون اس تمہید کی تفصیل ہو لیکن وہ تمہید ایسارنگ اختیار کر گئی کہ میرے نزدیک وہ زیادہ اہم کتاب کی تمہید بنے کے قابل ہے.اس لئے میں نے دوسرے حصہ کو جسے میں اس تمہید کی تفصیل کے طور پر بیان کرنا چاہتا تھا، منتخب کر لیا اور میں نے سمجھا کہ اس مضمون کو میں چھوٹا بھی کر سکتا ہوں اور بچوں کے لحاظ سے اس کا بیان کرنا زیادہ مناسب بھی ہے.جماعتی تنظیم کے دو حصے میں نے بار ہا بیان کیا ہے کہ ہماری جماعت کی تنظیم در حقیقت دو حصے رکھتی ہے جن میں سے ایک حصہ اس لحاظ سے زیادہ اہم ہے کہ ہماری جماعت دوسری جماعتوں سے مختلف ہے اور دوسرا حصہ اس لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے بغیر قوم فعال نہیں بن سکتی.حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم کسی مقصد کو لے کر کھڑی نہیں ہوتی، نہ اس میں اپنے کام کے متعلق جوش پیدا ہوتا ہے اور نہ اس کا ترقی کی طرف سرعت کے ساتھ قدم بڑھ سکتا ہے.اسی طرح اگر کسی قوم میں صحیح قوت عملیہ نہ پائی جائے اور وہ ان طریقوں کو اختیار نہ کرے جن کے ذریعہ قوم اپنے خیالات اور اپنے عقائد کو کامیاب طور پر دنیا میں پھیلا سکتی ہے تو اس وقت بھی وہ قوم کامیاب نہیں ہو سکتی.پس ایک طرف ہمارے لئے اس امر کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ آیا کوئی اہم مقصد ہمارے سامنے ہے یا نہیں تا کہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم نے کیا کہنا ہے اور دوسری طرف ہماری تربیت اس رنگ میں ہونی چاہئے کہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے.ہم نے کیا کہتا ہے ہم نے کیا کرنا ہے ؟ ہر قوم کی ترقی کے لئے بنیادی طور پر یہ امر نہایت ہی ضروری ہے کہ اسکا ہر فردان دو فقروں کو اچھی
385 طرح جانتا اور سمجھتا ہو کہ ہم نے کیا کہنا ہے جس کے اندر ہم نے کیا کرنا ہے بھی شامل ہے اور دوسرے یہ کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے.جب یہ دونوں باتیں حل ہو جائیں اور پھر جو کچھ ہم نے کہنا ہو وہ اپنے اندر اہمیت بھی رکھتا ہو تو ہماری کامیابی میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا.یہی وہ چیز ہے جسے یورپ کے لوگ آجکل خاص طور پر اہمیت دیتے ہیں.بالخصوص اخبارات کے نمائندے جب کسی لیڈر سے ملتے ہیں تو اس سے کہتے ہیں آپ کا پیغام کیا ہے یعنی آپ دنیا کو وہ کون سی بات بتانا چاہتے ہیں جسے وہ جانتی نہیں یا جس کو وہ بھول چکی ہے اور اسے یاد دلانے کی ضرورت ہے.لیکن چونکہ وہ ایک عظیم الشان مضمون کو چند لفظوں میں بیان کرنا چاہتے ہیں اس لئے بسا اوقات بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں.مسیحیت کی شریعت کے احترام کے بارے میں غلطی در حقیقت یہ غلط فہمی اور چین نامہ نگاروں اور اور چنین مصنفین کو مسیحیت سے لگی ہے.مسیحیت نے یہ کہہ کر کہ شریعت لعنت ہے ، تمام مذہبی تفصیلات کو بے کار قرار دے دیا ہے اور صرف ایک نقطہ نگاہ پیش کیا ہے کہ ”خدا محبت ہے“.اس ایک نقطہ کو لے کر انہوں نے باقی ساری چیزوں کو ترک کر دیا ہے.اور پھر ”خدا محبت ہے “ کی ترجمانی بھی انہوں نے خدا کے سپرد نہیں کی بلکہ اپنے ذمہ لے لی ہے.پس چونکہ انہوں نے مذہب کے معنی ایک فقرہ کے کرلئے ہیں اور چونکہ اس ایک فقرہ کے نتیجہ میں انہوں نے خدا اور اس کے رسولوں کو مذہب کی تفصیلات بیان کرنے سے چھٹی دے دی ہے اور ان کو اس کام سے بالکل معطل کر دیا ہے اس لئے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ باقی مذاہب بھی کسی ایک نقطہ یا کسی ایک فقرہ میں ساری تفصیلات کو بیان کر سکتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باقی مذاہب کے بھی بعض خلاصے ہیں مگر ان مذاہب کے پیرؤوں سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ انہوں نے ان خلاصوں کو اتنا پھیلایا نہیں کہ دنیا ان خلاصوں سے ہی سمجھ سکتی کہ وہ مذاہب دنیا کے سامنے کون سا پیغام لے کر کھڑے ہوئے ہیں.اسلام کا پیغام " مثلا اسلام کو لے لو.اسلام بھی کہتا ہے کہ خدا محبت ہے اور اسلام نے بھی اپنے مذہب کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے." لا اله الا الله محمد رسول الله - مگر جس طرح عیسائیت نے خدا محبت ہے “ کی تشریح مختلف جہتوں اور مختلف شعبوں سے مختلف عبارتوں میں انسانی جذبات سے وابستہ کر کے کی ہے، اُس طرح لا اله الا الله محمد رسول اللہ کی تشریح نہیں کی گئی.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب خدا محبت ہے کی ایک چھوٹی سی تشریح بھی کسی نامہ نگار کے سامنے بیان کی جاتی ہے تو وہ متاثر ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ دنیا کے لئے کار آمد باتیں ہیں.
386 لیکن اگر تم کسی نامہ نگار کے سامنے یہ کہو کہ میں دنیا کے لئے یہ پیغام لایا ہوں کہ لا الہ الا الله محمد رسول الله تو چونکہ اس کی بار بار اور مختلف پیراؤں سے تشریح نہیں کی گئی اس لئے اس خلاصہ سے تعلق رکھنے والے کئی مضامین کی باریکیاں ان کی وسعتوں اور اس کے وسیع دائرے اس کے ذہن میں نہیں آتے.وہ حیران ہو جاتا ہے اور وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ وہ اسلام جس کا دعوی ہے کہ خدا ایک ہے اور جس کا دعویٰ ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں.اس کے ایک فقرہ میں دنیا کے لئے نیا پیغام کون سا ہے.یہ تو وہی پرانی بات ہے جو ایک لمبے عرصہ سے اسلام کی طرف سے پیش کی جارہی ہے.حالانکہ خدا ایک ہے اتنا وسیع مضمون ہے کہ اس کا کروڑواں حصہ بھی اس فقرہ میں بیان نہیں کیا گیا ہے کہ " خدا محبت ہے بلکہ بچی بات تو یہ ہے کہ لا اله الا الله محمد رسول اللہ کے مقابلہ میں اس فقرہ کی اتنی حیثیت بھی نہیں جتنی ہاتھی کے مقابلہ میں مچھر کی ہوتی ہے.فرق صرف یہ ہے کہ وہ فقرہ یاد کر لیا گیا ہے اور یہ فقرہ یاد نہیں کرایا گیا.اس فقرہ کے مطالب کو بار بار لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور اس فقرہ کے مطالب کو لوگوں کے سامنے بار بار نہیں رکھا گیا.اسی وجہ سے جب ہم لوگوں کے سامنے یہ وسیع مضمون بیان کرتے ہیں تو وہ حیران ہو جاتے ہیں کہ ہم اس بات کو جو دنیا کو پہلے بھی معلوم ہے ایک نیا پیغام کس طرح قرار دے رہے ہیں.حالانکہ اصل کو تاہی ان کی اپنی نظر کی ہوتی ہے چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہو تا ہے کہ جب ان کے سامنے ان تمام وسیع مضامین کا ایک مجموعہ لا اله الا الله محم محمد رسول اللہ کے الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے تو وہ متاثر نہیں ہوتے لیکن جب ان کے سامنے اسلام کے اس خلاصہ کا ہزارواں بلکہ کروڑواں حصہ نکال کر پیش کیا جاتا ہے اور اس کی ایک تشریح ان کے سامنے کی جاتی ہے تو وہ اس سے متاثر ہو جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز واقعہ میں ایسی ہے جو دنیا کے لئے ایک نیا پیغام کہلا سکتی ہے.مذہب کا خلاصہ کیا ہے ؟ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا سے تعلق پیدا کیا جائے اور بنی نوع انسان سے شفقت کی جائے.یہ خلاصہ اگر ہم لوگوں کے سامنے بیان کریں تو تمام یورپین مصنف اور نامہ نگار اسے ایک نیا پیغام قرار دیں گے اور وہ اس سے متاثر ہوں گے اور وہ تسلیم کریں گے کہ یہ نظریہ یقینا ایسا ہے جو دنیا کے سامنے بار بار آنا چاہئے اور جس کو قائم کرنے کے لئے ہمیں اپنی انتہائی کوششیں صرف کرنی چاہئیں لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ خلاصہ آگے پھر خلاصہ ہے لا الہ الا الله.محمد رسول اللہ کا.کلمہ طیبہ میں بے شمار مضامین موجود ہیں در حقیقت لا اله الا الله محمد رسول اللہ بہت سے وسیع مضامین پر مشتمل ہے جن میں سے
387 صرف ایک مضمون کا خلاصہ وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمایا ہے لیکن اسلام کے اس پیش کردہ خلاصہ کو نہ جاننے کی وجہ سے یورپین نامہ نگار لا اله الا الله محمد رسول اللہ سے متاثر نہیں ہوں گے.ہاں اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس خلاصہ کو پیش کیا جائے کہ مذہب کی اہم اغراض دو ہیں.خدا سے تعلق اور بنی نوع انسان سے محبت - تو ساری دنیا اس سے متاثر ہو گی اور وہ سمجھے گی کہ ترقی کا یہ ایک نیا پہلو ہمارے سامنے رکھا گیا ہے اور ایک نئی چیز ہے جو ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے.عیسائی اگر کوشش کریں تو وہ بھی ” خدا محبت ہے “ میں سے یہ دونوں باتیں نکال سکتے ہیں لیکن وہ اس امر سے انکار نہیں کر سکتے کہ یہ ایک نیا طریق بیان ہے جس سے بنی نوع انسان کو نیکی کی طرف متوجہ کیا جا سکتا ہے.کامیابی کے لئے کسی نصب العین کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے پس ہمارے سامنے کوئی نہ کوئی مقصد ہونا چاہئے کیونکہ کسی مقصد کو اپنے سامنے رکھے بغیر انسان کو کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.دنیا کا یہ مطالبہ ہے کہ ہم اسے کوئی پیغام دیں اور گو مغربی لوگ اس پیغام کا دائرہ نہایت محدود رکھتے ہیں.لیکن بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ایک مختصر پیغام دنیا میں عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے تو تفصیلی پیغام یقینا زیادہ عظمت اور قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اپنے مقاصد کی اہمیت کو سمجھیں اور ان کے مطابق دنیا میں تغیر پیدا کرنے کی کوشش کریں.پس سب سے پہلی چیز جس کی ہمیں ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے کوئی مقصد ہونا چاہئے جس کی بناء پر ہم کہہ سکیں کہ ہم نے لوگوں سے کچھ کہنا ہے.دوسرے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس.طرح کہنا ہے.کس طرح کہنے میں بھی بہت بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے.سکول کا کورس ایک ہو تا ہے.یونیورسٹی ایک ہوتی ہے مگر اس فرق کی وجہ سے کہ ایک شخص جانتا ہے کہ اس نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا چاہئے اور دوسرا اس امر سے ناواقف ہو تا ہے.ایک شخص تو ترقی کرتے کرتے محکمہ تعلیم کا ڈائرکٹر مقرر ہو جاتا ہے اور دوسرا اسی ڈگری کا حو سکول کی مدرسی میں ہی اپنی ساری عمر گزار دیتا ہے.اس ایثار کی وجہ سے دنیا میں قابلیت کے الگ الگ رواج تجویز کر دئیے گئے ہیں.کسی درجہ کی قابلیت کا نام لوگوں نے پرائمری رکھا ہوا ہے کسی درجہ کی قابلیت کا نام لوگوں نے مدل رکھا ہوا ہے اور کسی درجہ کی قابلیت کا نام لوگوں نے انٹرنس رکھا ہوا ہے اور کسی درجہ کی قابلیت کا نام لوگوں نے ایف.اے اور بی.اے رکھا ہوا ہے.تو کس طرح کہنے کا فرق بھی زمین و آسمان کا تغیر پیدا کر دیتا ہے.پرائمری کے بعض طالبعلم ایسے ہوتے ہیں جو آئندہ مڈل میں تعلیم پانے والوں کے لئے نمونہ پینے والے ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ادنی سے ادنی سکول کے لئے بھی ذلت کا موجب ہوتے ہیں.کچھ پرائمری کے ماسٹر اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ ان
388 کو ترقی دے کر مڈل کی تعلیم ان کے سپرد کی جائے اور بعض ماسٹر کچھ کہنے سے اس طرح ناواقف ہوتے ہیں کہ ان کا پرائمری میں رکھا جانا بھی انسپکٹروں کی ناواقفی یا جنبہ داری اور لحاظ کی بناء پر ہوتا ہے، ذاتی قابلیت کا اس میں دخل نہیں ہو تا.تو کہنے کے طریق سے بھی انسان کی علمی زندگی میں بہت بڑا فرق پیدا ہوتا ہے.وہ کتابیں مقرر ہوتی ہیں جن سے پرائمری کا امتحان پاس کیا جاتا ہے.وہ کتابیں مقرر ہوتی ہیں جن سے مڈل اور انٹرنس اور ایف اے اور بی.اے کے امتحانات پاس کئے جا سکتے ہیں لیکن پڑھانے والوں کے نقص یا ان کی خوبی کی وجہ سے بعض کے شاگر دبالکل نالائق رہتے ہیں اور بعض کے شاگر د اعلی درجہ کی قابلیت حاصل کر لیتے ہیں.تو صرف اتنا ہی ضروری نہیں کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ ہم نے کچھ کہنا ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے اور وہ طریق ہمارے فرائض کی ادائیگی میں مد ہو سکتے ہیں یا نہیں.یہی دو چیزیں ہیں جن کو گذشتہ تقاریر میں مختلف پہلوؤں سے میں نے خدام الاحمدیہ کے سامنے رکھا اور یہی وہ چیز ہے جسے آج میں پھر خدام الاحمدیہ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں.جس طرح پرانی شراب نئی بوتلوں میں پیش کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کے لئے وہ دل کشی اور جاذبیت کا موجب ہو سکے اسی طرح آج میں اسی پرانی شراب کو جسے میں بارہا پیش کر چکا ہوں نئی یو تلوں میں تمہار نے سامنے رکھ رہا ہوں.یہ امر ا چھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جب تک خدام کے کارکن اور خدام الاحمدیہ کے تمام رکن اس بات کو مد نظر نہیں رکھیں گے کہ ہم نے کیا کہنا ہے اور پھر جو کچھ کہنا ہے اس کے متعلق تمام خدام کے ذہنوں میں یہ امر مستحضر نہیں ہو گا کہ اسے کس طرح کہنا ہے اس وقت تک اس انسٹی ٹیوٹ اور اس محکمہ یا ادارہ کی کامیابی قطعا غیر یقینی اور شکی ہو گی بلکہ بعض صورتوں میں یہ لاعلمی نهایت خطرناک نتائج پیدا کرنے کا موجب بن سکتی ہے.اگر ہماری جماعت کے نوجوانوں کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ انہوں نے کیا کہنا ہے تو وہ قومی خیالات کو مٹانے والے ہوں گے اور اگر انہیں معلوم نہیں ہو گا کہ انہوں نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے اور اس کے پیش کرنے کا صحیح طریق کیا ہے تب بھی جس مقصد کو لے کر وہ کھڑے ہوئے ہیں اس کو وہ قائم نہیں کر سکتے.جس طرح چھت پر پڑے ہوئے پانی کو نکالنے کے لئے جب صحیح راستہ اختیار نہیں کیا جاتا تو وہ چھت میں سوراخ بنا کر مکان کو گرانے کا موجب بن جاتا ہے اسی طرح اگر نوجوانوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ انہوں نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے تو اس وقت تک بھی وہ قوم کی تصحیح خدمت کبھی سر انجام نہیں دے سکتے.اسلام کی مکمل واقفیت نوجوانوں کے لئے اشد ضروری ہے پس یہ دونوں باتیں خدام الاحمدیہ کے لئے ضروری ہیں.ان کے لئے ضروری ہے کہ انہیں اسلام کی مکمل واقفیت ہو اور ان کے لئے ضروری ہے کہ ان کو اسلام کے پیش کرنے کا صحیح طریق معلوم ہو کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ سب کا سب اسلام کا بیان ہو چکا ہے.اگر خدام الاحمدیہ اسلام کے مفہوم اور اس کی
389 تعلیم کو اچھی طرح سمجھ لیں تو ان کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں رہ سکتی کیونکہ اسلام حاوی ہے تمام اعلیٰ تعلیموں پر اور جو شخص اسلام کی تعلیم سے مکمل طور پر آگاہ ہو اسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ اس نے دنیا سے کیا کہنا ہے.پس اصل چیز اسلام ہی ہے اگر ہم اس کا نام احمدیت رکھتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ احمدیت اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز ہے بلکہ اسلام کا نام ہم احمدیت اس لئے رکھتے ہیں کہ لوگوں نے اسلام کو ایک غلط رنگ دے دیا تھا اور ضروری تھا کہ اسلام کے غلط مفہوم کو واضح کرنے اور اسلام کی حقیقت کو روشن کرنے کے لئے کوئی امتیازی نشان قائم کیا جاتا اور وہ امتیازی نشان احمدیت کے نام کے ذریعہ قائم کیا گیا ہے ورنہ اسلام کا ایک شعفہ بھی ایسا نہیں جسے کوئی شخص بدل سکے بلکہ ایک شععہ تو کیا ایک زبر اور زیر بھی ایسی نہیں جو تبدیل کی جاسکے.قرآن و حدیث سے روگردانی کفر ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ فرمایاوہ سب کا سب خدا کے کلام سے ماخوذ ہے بلکہ نہ صرف آپ نے جو کچھ کہاوہ قرآن اور حدیث سے ماخوذ ہے بلکہ آپ نے جو کچھ کہا وہ قرآن کریم میں موجود ہے اور وہی کچھ کہا جو حدیث میں موجود ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اگر قرآن اور احادیث میں بیان کردہ اسلامی تعلیم سے الگ ہو کر ایک شعفہ بھی بیان کیا جائے بلکہ ایک زبر اور زیر کا بھی اضافہ کیا جائے تو وہ یقینا کفر ہو گا‘ الحاد ہو گا اور اس کی اشاعت سے دنیا میں میں علم نہیں پھیلے گا بلکہ جہالت اور بے دینی میں ترقی ہو گی.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآنی تعلیم کو سمجھیں اور اس کو اپنے دلوں اور دماغوں میں پوری مضبوطی سے قائم کریں.قرآن کریم باترجمہ جاننے کی تلقین میں نے کہا تھا کہ ہر احمدی نوجوان کا یہ فرض ہے کہ وہ قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہو.اصل میں تو یہ ہر احمد کی نوجوان کا فرض ہے کہ وہ عربی جانتا ہو لیکن کم سے کم اتنا تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن کریم میں کیا لکھا ہے اور خدا ہم سے کن باتوں کا مطالبہ کرتا ہے.عربی جاننے سے یہ سہولت حاصل ہو جاتی ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کا مفہوم سمجھنے کی منزلیں جلد طے ہو جاتی ہیں لیکن اگر کوئی شخص زیادہ عربی نہ جانتا ہو تو اسے کم سے کم اتنی عربی تو ضرور آنی چاہئے کہ قرآن کریم کے ترجمہ کو وہ سمجھ سکے.میں نے ۱۹۴۲ء کے اجتماع کے موقعہ پر سوال کیا تھا کہ کتنے خدام ہیں جنہیں قرآن کا سارا ترجمہ آتا ہے اُس وقت سات آٹھ سو میں سے قادیان کے خدام میں سے ۱۵۲ اور بیرونی خدام میں سے ۳۲ کھڑے ہوئے تھے (الفضل ۸ نومبر ۱۹۴۲ء) اب میں دو سال کے بعد پھر یہی سوال کرتا ہوں.میرے اس سوال کے مہمان مخاطب نہیں بلکہ صرف خدام اور اطفال مخاطب ہیں.جو خدام اور اطفال اس وقت پہرے پر یا کسی ڈیوٹی پر مقرر ہیں وہ بیٹھ جائیں تاکہ تعداد شمار کرنے میں کوئی غلطی نہ ہو ( حضور کے
390 اس ارشاد پر سب بیٹھ گئے تو حضور نے فرمایا) قادیان کے خدام الاحمدیہ یا اطفال الاحمدیہ کے وہ ممبر جو قرآن کریم کا سارا تر جمہ پڑھ چکے ہوں کھڑے ہو جائیں (حضور کے اس ارشاد پر ۸۸ ادوست کھڑے ہوئے) حضور نے فرمایا بیرونی خدام کو شامل کر کے ساری تعداد ایک ہزار کے قریب ہے.پس اس کے معنے یہ ہوئے کہ قادیان کے خدام میں سے قریباً اکیس فی صدی نوجوان قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں.(اس کے بعد فرمایا) اب جو دوست باہر سے بطور نمائندہ آئے ہیں اور جن کی تعداد ایک سو ہے.ان میں سے جنہوں نے سارا قرآن کریم ترجمہ سے پڑھا ہوا ہے وہ کھڑے ہو جائیں.(۲۳ دوست کھڑے ہوئے.فرمایا) یہ تعداد قادیان والوں سے بھی زیادہ رہی ہے.صرف اتنا فرق ہے کہ قادیان والوں میں ۲۷۰ کے قریب اطفال بھی ہیں.(سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا- یہ تعداد بھی نہایت افسوسناک ہے.قرآن شریف ہی تو وہ چیز ہے جس پر ہمارے دین کی بنیاد ہے.اگر ہمارے چنیدہ نوجوانوں میں سے بھی صرف ۲۰ فیصدی قرآن جانتے ہیں کہ اگر ہم ساروں کو شامل کر لیں تو غالباً چار پانچ فیصدی نوجوان ایسے نکلیں گے جو قرآن کو جانتے ہونگے اور پچانوے فی صد ایسے نوجوان نکلیں گے جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے ہوں گے.تم خود ہی سوچ لو.جس قوم کے صرف چار پانچ فیصدی قرآن کا ترجمہ جانتے ہوں اور پچانوے فیصد نہ جانتے ہوں کیا اس کی کامیابی کی کوئی صورت بھی ہو سکتی ہے.ہم اپنی قوت واہمہ کو کتنا ہی وسیع کر لیں اور ہم اس و ہم کو شک بلکہ خیال فاسدہ کی حد تک لے جائیں تب بھی جس قوم کے پچانوے فیصدی افراد قرآن نہ جانتے ہوں اور صرف پانچ فیصد قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہوں اس کی ترقی اور کامیابی کی کوئی صورت انسانی و ہمہ اور خیال میں بھی نہیں آسکتی.میں نے بارہا توجہ دلائی ہے کہ جب تک قرآن کریم سے ہر چھوٹے بڑے کو واقف نہیں کیا جاتا اس وقت تک ہمیں اپنی کامیابی کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے اور اگر ہم رکھتے ہیں تو ہم ایک ایسا نقطہ نگاہ اپنے سامنے رکھتے ہیں جو عظمندوں کا نہیں بلکہ مجنونوں اور پاگلوں کا ہوتا ہے.آج میں اس امر کی طرف جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں اور نوجوانوں کو خصوصیت کے ساتھ یہ نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی جلد سے جلد کوشش کرنی چاہئے.میں نے اعلان کیا تھا کہ جو انجمنیں قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے کی خواہش کریں گی اور وہ اپنی اس خواہش سے ہمیں اطلاع دیں گی ان کو مرکز کی طرف سے قرآن کریم پڑھانے والے بھجوائے جائیں گے.مگر تجربہ سے یہ طریق کامیاب ثابت نہیں ہوا.جماعت کے ایک ایک فرد کو قرآن کریم کا ترجمہ آنا چاہئے اس لئے اب میں یہ ہدایت دیتا ہوں کہ ہر سال مرکز کی طرف سے باہر سے آنے والے خدام کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھانے کا انتظام کیا جائے اور ہر جماعت کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنا ایک ایک نمائندہ یہاں تعلیم حاصل
391 کرنے کے لئے بھیجے.یہاں ان کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھانے کا باقاعدہ انتظام کیا جائے گا اور اس کے بعد ان کو اس امر کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا کہ وہ باہر اپنی اپنی جماعتوں میں قرآن کریم کا درس جاری کریں اور جن کو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں آتا ان کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھائیں.یہاں تک کہ ہماری جماعت میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے.نہ بچہ نہ جوان نہ بوڑھا جسے قرآن کریم کا ترجمہ نہ آتا ہو.پس آج میں یہ نئی ہدایت دیتا ہوں کہ ہر خدام الاحمدیہ کی جماعت میں سے ایک ایک نمائندہ قرآن کریم کے اس درس میں شامل ہونے کے لئے بلوایا جائے تاکہ وہ اور لوگوں کو اپنی جماعت میں تعلیم دے سکیں.میں ابھی یہ نہیں کہتا کہ جبر اہر جماعت میں سے ایک ایک نما ئندہ بلوایا جائے مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ مرکز کو اتنی کوشش ضرور کرنی چاہئے جو جبر کے قریب قریب ہو.گویا جبر بھی نہ ہو اور معمولی کوشش بھی نہ ہو بلکہ پوری کوشش کی جائے کہ ہر جماعت کے نمائندے قادیان بلوائے جائیں اور ان کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا جائے.تعلیم القرآن کلاس اس غرض کے لئے ہر سال ایک ماہ کی مدت کافی ہے.اس ایک مہینہ میں باہر سے آنے والے نمائندگان کو پڑھانے کے لئے جماعت کے چوٹی کے علماء مقرر کئے جاسکتے ہیں اور خدام الاحمدیہ اگر چاہیں تو اس ماہ میں مجھ سے بھی مدد لے سکتے ہیں.ہم اس ایک ماہ کے درس کے لئے انہیں اپنی جماعت کے چوٹی کے عالم دے دیں گے جو آنے والوں کو قرآن کریم پڑھا دیں گے.یہ ضروری نہیں کہ پہلے سال میں انہیں قرآن کریم کا مکمل ترجمہ پڑھا دیا جائے.اگر ایک ماہ میں دس یا پندرہ سپارے بھی پڑھا دئیے جائیں تو اگلے ایک یادو سالوں میں وہ سارا تر جمہ پڑھ سکتے ہیں.اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو تین سال کے اندر اندر ہر جماعت میں ایسے آدمی پیدا ہو جائیں گے جو قرآن کریم کو اچھی طرح جانتے ہوں گے اور دوسروں کو بھی قرآن کریم پڑھا سکیں گے.تعلیم القرآن کلاس میں صرف و نحو کی بنیادی تعلیم کا انتظام کیا جائے قرآن کریم کے ترجمہ اور اس کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے کسی قدر صرف و نحو کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے.اس غرض کے لئے ایک کورس مقرر کیا جائے گا تاکہ وہ صرف و نحو سے بھی واقف ہو جائیں.ممکن ہے صرف و نحو کے اس کورس کی وجہ سے قرآن کریم کا ترجمہ زیادہ نہ پڑھا جا سکے.لیکن اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آئندہ سالوں میں صرف و نحو جانے کی وجہ سے زیادہ عمدگی سے قرآن کریم کا بقیہ حصہ پڑھ سکیں گے اور زیادہ عمدگی سے دوسروں کو پڑھا سکیں گے.جب تک تھوڑی بہت صرف و نحو نہ آتی ہو اس وقت تک دوسروں کو پڑھانا آسان نہیں بلکہ مشکل
392 ہوتا ہے.میری دوسری ہدایت تعلیمی نقطہ نگاہ سے یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ کا نہ صرف قرآن کریم کے ترجمہ سے بلکہ بعض اور دینی علوم سے بھی واقف ہونا ضروری ہے مگر وہ علوم آہستہ آہستہ ہی حاصل ہو سکتے ہیں.فوری طور پر ان کا حاصل ہو نانا ممکن ہے اور اصل بات تو یہ ہے کہ سارے علوم قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں.اگر انسان کو قرآن کا صحیح علم ہو تو اسے اور علوم خود بخود حاصل ہو جاتے ہیں اور اسی مقصد کے لئے میں نے یہ ہدایت دی ہے کہ ہر سال یہاں بیرونی جماعتوں سے آنے والے نمائندگان کو قرآن کریم پڑھانے کا انتظام ہونا چاہئے.تعلیم القر آن کلاس کے بارے میں دوسری ہدایات مگر جب تک یہ سکیم مکمل نہیں ہوتی اور جب تک دو تین سال کے بعد یہاں سے تعلیم حاصل کر کے لوگ اپنی اپنی جماعتوں میں درس شروع نہیں کر دیتے، اس وقت تک ضروری ہے کہ دینی علوم سے جماعت کے لوگوں کو واقف رکھنے کے لئے بعض اور ذرائع پر بھی عمل کیا جائے.جب انہیں دینی لحاظ سے مکمل واقفیت حاصل ہو جائے گی تو اس کے بعد یہ سوال پیدا ہو گا کہ انہوں نے جو کچھ سیکھا ہے اسے لوگوں کے سامنے کس طرح پیش کرنا چاہئے.خدام الاحمدیہ نے اپنی واقفیت بڑھانے کے لئے کچھ عرصہ سے ایک طریق جاری کیا ہوا ہے جو بہت مفید ہے اور وہ طریق یہ ہے کہ ہر سال حضرت مسیح موعود کی کتابوں میں سے کسی کتاب کا یا میری لکھی ہوئی کتابوں میں سے کسی کتاب کا وہ امتحان لیتے ہیں.یہ طریق یقینا مفید ہے اور اس میں شامل ہو کر ہر شخص اپنی دینی معلومات میں بہت کچھ اضافہ کر سکتا ہے.اس کے علاوہ میں آجکل حدیث کی ایک نئی کتاب مرتب کر رہا ہوں.جس میں ایک ہزار حدیثیں جمع ہوں گی.آٹھ سو احادیث مرتب کی جاچکی ہیں.صرف دو سو حد یشیں باقی ہیں.ان کا بھی انشاء اللہ جلدی انتخاب کر لیا جائے گا اور پھر اس کتاب کو شائع کر کے اسے مدرسہ احمدیہ کے نصاب میں شامل کر دیا جائے گا.حدیث کی اس کتاب کا امتحان ہر خادم کے لئے لازم قرار دیا جائے گا تا کہ ہم میں سے ہر شخص کو معلوم ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری عملی زندگی کے متعلق کیا ہدایات دی ہیں.جس طرح میر کی سکیم کے ماتحت آئندہ قرآن کریم کا درس ہوا کرے گا اسی طرح حدیث کی اس کتاب کو بھی انشاء اللہ پڑھایا جائیگا تا کہ حدیث سے بھی ہر شخص کو مس اور موانست پیدا ہو جائے.گویا دینی واقفیت کے لئے یہ تین چیزیں ضروری ہیں.اوّل قرآن کریم کا ترجمہ - دوم ریت - سوم حضرت مسیح موعود کی کتب - حدیث کی واقفیت کے لئے میں نے بتایا ہے کہ کتاب لکھی جارہی ہے اور عنقریب چھپنے والی ہے.ہر خادم کے لئے اس کتاب کا پڑھنا اور پھر اس کتاب کے امتحان میں شامل ہونا لازمی ہو گا کیونکہ اس کتاب میں ایسی حدیثیں جمع کی گئی ہیں جو اعلیٰ درجہ کے کیر کر کے متعلق ہیں یا انسانی فرائض اور ذمہ
393 داریوں سے تعلق رکھتی ہیں اور یا پھر ہمارے عقائد کے متعلق ہیں.اکثر حدیثیں منتخب کر لی گئی ہیں صرف تھوڑا سا حصہ باقی ہے جس کے متعلق میں امید کرتا ہوں کہ وہ بھی جلد پورا ہو جائے گا.اس کے علاوہ میری یہ بھی خواہش ہے کہ علماء کی مجلس سے مشورہ لے کر ایک مختصر کو رس شائع کیا جائے جو عقائد فقہ اور اخلاق پر مشتمل ہو.یعنی کتاب تو ایک ہو مگر اس کا ایک باب علم العقائد کے متعلق ہو.ایک باب علم الاعمال کے متعلق ہو جس میں فقہی کتابوں میں سے موٹے موٹے عنوانات کے لئے جائیں اور ان کے متعلق جو ضروری مسائل ہیں وہ جمع کر دیے جائیں.اور تیسر ا حصہ علم الاخلاق کے متعلق ہو جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اخلاق کے متعلق کیا تعلیم دی ہے.میرا منشاء یہ ہے کہ ایک مختصر سی کتاب تیار ہو جائے جو اڑھائی تین سو صفحوں سے زائد نہ ہو اور جس میں یہ تینوں باب الگ الگ ہوں تاکہ پڑھنے اور یاد کرنے میں سہولت ہو اور پھر اس کورس کا بھی ہر خادم کے لئے پڑھنا ضروری قرار دیا جائے.دوسر ا حصہ یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے اس کے متعلق ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے کس طرح کہنا ہے.در حقیقت ہمارے اخلاق کبھی بھی درست نہیں ہو سکتے جب تک ہم اس امر کو اچھی طرح ذہن نشین نہیں کر لیتے کہ ہمیں دوسروں سے کوئی بات کس طرح کہنی چاہئے.مگر یہ امر یاد رکھو کہ کہنا چاہئے “ میں ”کرنا چاہئے “ بھی شامل ہے.جس طرح ہم نے کیا کہنا ہے “ میں ”کیا کرنا چاہئے “ بھی شامل ہے اسی طرح کس طرح کہنا چاہئے “ میں کس طرح کرنا چاہئے “ بھی شامل ہے.اس کی طرف بھی بہت توجہ کی ضرورت ہے.علمی حصہ کی کمی بعض اور ذرائع سے پوری ہوتی رہتی ہے.مثلا سلسلہ کی طرف سے مختلف کتابیں چھپتی رہتی ہیں.اخبار شائع ہوتا ہے اور اس طرح علمی لحاظ سے جماعت کے سامنے ہمیشہ مفید معلومات پیش ہوتے رہتے ہیں.لیکن ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا چاہئے اور کس طرح کرنا چاہئے.اس کی خالص ذمہ داری خدام الاحمدیہ پر عائد ہوتی ہے.مگر میں دیکھتا ہوں اس لحاظ سے ابھی بہت بڑی کمزوری پائی جاتی ہے.عملی نمونے کی اہمیت مثلاً علمی لحاظ سے تبلیغ ہمار ا سب سے اہم فرض ہے مگر تبلیغ اچھی طرح تبھی ہو سکتی ہے جب تبلیغ کرنے والے کا عملی نمونہ اعلیٰ درجہ کا ہو.مگر میں نے دیکھا ہے کہ ابھی تک اس قسم کی شکایتیں آتی رہتی ہیں کہ نوجوان کہیں باہر سفر پر جاتے ہیں تو ان میں سے بعض ریلوں کے ٹکٹ نہیں لیتے.بعض غلط ڈبوں میں بیٹھ جاتے ہیں یا دوسروں سے دوستی پیدا کر کے سینما دیکھنے چلے جاتے ہیں یا آپس میں کسی بات پر اختلاف ہو جائے تو جلدی غصہ میں آجاتے ہیں یا جلدی لڑائی شروع کر دیتے ہیں یا اگر انہیں قاضی کے سامنے کسی معاملہ میں بیان دینا ہے اور وہ بیان ان کے کسی دوست کے خلاف پڑتا ہو یا ان کے ماں باپ یا رشتہ دار کے خلاف پڑ تا ہو تو وہ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں یا
394 اگر انہیں کسی ذمہ داری کے کام پر مقرر کیا جائے تو پوری طرح اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتے یا اگر روپیہ ان کے ہاتھ دیا جائے تو دیانتدار ثابت نہیں ہوتے.چنانچہ اس قسم کی شکایات میرے پاس کثرت سے پہنچتی رہتی ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ خدام الاحمدیہ کے قیام کی وجہ سے ان شکایتوں میں کوئی کمی آئی ہو.حالانکہ اصل کام یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ کے عہدہ دار نوجوانوں کے اخلاق کی نگرانی رکھیں اور ان کو اسلامی رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کریں.میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ تعلیمی حصہ کی طرف توجہ نہ کریں یا اس میں سستی اور غفلت سے کام لیں.میر امطلب یہ ہے.تعلیمی حصہ بعض اور ذرائع سے بھی جماعت کے سامنے بار بار آتارہتا ہے مگر عملی نگرانی کا کام ست ہے.یعنی ہم نے جو کچھ کہنا ہے اسے کس طرح کہنا چاہئے اور جو کچھ کرنا ہے، کس طرح کرنا چاہئے.یہ کام ہے جو خدام الاحمدیہ کا ہے پس اس کے ہر فرد کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کون سے اخلاق ہیں جو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں جن کے بعد ہم اپنی تعلیم دنیا تک صحیح رنگ میں پہنچا سکتے ہیں.اگر ہمارے اندر سچائی نہیں.اگر ہمارے اندر دیانت نہیں.اگر ہمارے اندر محنت کی عادت نہیں.اگر ہمارے اندر عقل نہیں.اگر ہمارے اندر عزم نہیں.اگر ہمارے اندر قربانی اور ایثار کا مادہ نہیں تو ہم اپنے پیغام کو خواہ کتنے ہی شاندار الفاظ میں دنیا کے سامنے پیش کریں اور خواہ کس قدر اس کی تشریح اور تفصیل بیان کریں، ہر گز ہر گز اور ہر گز ہم دنیا پر غالب نہیں آسکتے اور ہماری ناکامی اور نامرادی اور شکست میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا.پس ضروری ہے کہ اس پہلو کو نمایاں کیا جائے اور نوجوانوں کے اخلاق کی نگرانی رکھی جائے.جہاں وہ لوگ جو بڑی عمر کے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ علمی پہلو کو نمایاں کریں کیونکہ آئندہ تمام کام نوجوانوں کو ہی کر نا پڑیگا.پس خدام الاحمدیہ کی نگرانی کی جائے اور ان میں قوت عملیہ پیدا کی جائے.دیانت کے بلند معیار تک پہنچنے کی ضرورت مجھے افسوس کے سہاتھ بیان کرنا پڑتا ہے کہ نوجوانوں کے متعلق مجھے نہایت ہی تلخ تجارب ہوئے ہیں.شاید اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت سندھ کی زمینوں کا کام اس لئے میں نے اپنے ذمہ لیا تھا.اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مجھ پر اپنی جماعت کے نوجوانوں کے اخلاق کی حقیقت منکشف کرنا چاہتا تھا.باوجود اس کے کہ مجھے فرصت نہیں تھی اور باوجود اس کے کہ مجھے ان کاموں کے علاوہ تحریک جدید کا بوجھ بھی مجھ پر پڑا ہوا تھا، پھر بھی میں نے سندھ کی زمینوں کا کام اپنی نگرانی میں لے لیا اور مجھے نہایت افسوس کے ساتھ معلوم ہوا کہ ابھی تک دیانت بھی بعض احمد یوں میں نہیں پائی جاتی اور ابھی تک کام کرنے کا صحیح مفہوم بھی بعض نوجوان نہیں جانتے.ایسے ایسے آدمی بھی ہماری جماعت میں ہیں کہ اگر ان کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ چوبیس گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ بھی اپنا فرض منصبی ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور ایسے بھی ہیں جو سلسلہ کی ضروریات کے لئے اپنے اوقات کی ادنیٰ سے ادنی قربانی کرنے کے لئے بھی
395 تیار نہیں ہوتے.چنانچہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ باوجود اس کے کہ سلسلہ کے نفع اور نقصان کا سوال در پیش تھا بعض نوجوان چھ سات گھنٹے کام کرنے کے بعد گھروں میں بیٹھ گئے اور سلسلہ کا دس بیس ہزار روپیہ کا نقصان ہو گیا.اس میں وہ بھی شامل ہیں جو مجاہد کہلاتے ہیں اور وہ بھی شامل ہیں جو مجاہد تو نہیں کہلاتے مگر عام خدام میں سے ہیں.خدام میں محنت کی عادت پیدا کرنا بہت ضروری ہے پس یہ حصہ نہایت ضروری ہے اور قوم کے نوجوانوں میں محنت سے کام کرنے کی عادت پیدا کر نا خدام الاحمدیہ کا اہم فرض ہے.مرکزی کارکنوں کو چاہئے کہ وہ ایسے طریق ایجاد کریں جن سے انہیں معلوم ہو سکے کہ ہر احمدی جو مجلس خدام الاحمدیہ کا نمبر ہے وہ کیا کام کرتا ہے اور اگر کسی کے متعلق معلوم ہو کہ وہ کوئی کام نہیں کر رہا تو اسے کسی نہ کسی کام پر مجبور کیا جائے.ہمہ گیر نگرانی کی ضرورت اسی طرح آپ لوگوں کو سکولوں اور بور ڈنگوں وغیرہ کا معائنہ کر کے افسروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے اور ایسی سکیمیں سوچنی چاہئیں جن سے لڑکے پڑھائی میں غفلت نہ کریں.اسی طرح کھیل کود میں بھی وہ با قاعدگی سے حصہ لیں.آپ لوگوں کو اس امر کی نگرانی کرنی چاہئے کہ کسی محلہ میں کوئی لڑکا آوارہ نہ پھرے.آپ لوگوں کو اس امر کی نگرانی کرنی چاہئے کہ کون کون سے نوجوان ہیں جو لغو باتیں کرنے کے عادی ہیں اور پھر ان نوجوانوں کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.اب لوگوں کو اس امر کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ دکانوں پر خرید وفروخت کرتے ہوئے دوکاندار اور تاجر دیانتداری سے کام لیتے ہیں یا نہیں.اسی طرح اور معاملات میں ان کی دیانت اور امانت کا کیا حال ہے.یہ تمام امور ایسے ہیں جن کی نگرانی رکھنا خدام الاحمدیہ کا کام ہے مگر اب تک اس لحاظ سے خدام الاحمدیہ نے اپنی ذمہ داری کو پوری طرح محسوس نہیں کیا.میرے پاس رپورٹیں پہنچ رہی ہیں کہ کئی مہینوں سے قادیان میں بلیک مارکیٹ جاری ہے اور دکاندار دھوکہ سے گراں قیمت پر اپنی اشیاء فروخت کرتے رہتے ہیں.اگر کوئی شخص دکان پر گاہک عن کر آئے تو وہ انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فلاں چیز نہیں ہے لیکن اگر وہ ایک کی بجائے دوروپے دے دے تو چوری چھپے وہ اسے چیز لا کر دے دیتے ہیں.مگر باوجود اس کے کہ خدام الاحمدیہ کا نظام اتنا وسیع بنا دیا گیا ہے کہ ہر پندرہ سے چالیس سالہ عمر کے نوجوان کا اس مجلس میں شامل ہو نا ضروری ہے ، پھر بھی اس حرکت کا انسداد نہیں کیا گیا بلکہ جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے کئی مہینوں سے قادیان میں ایسا ہو رہا ہے.مجھے بتایا گیا کہ قادیان میں مجلس خدام الاحمدیہ کے آٹھ سو ممبر ہیں.میں اس تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے کہتا ہوں اگر مجلس خدام الاحمدیہ اپنے فرائض کو پوری خوش اسلوبی سے ادا کر رہی ہوتی اور اس کے آٹھ سو جاسوس قادیان کے گلی کوچوں
396 تخ میں موجود ہوتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ ان آٹھ سو جاسوسوں کے ہوتے ہوئے قادیان میں بلیک مارکیٹ جاری رہتی اور دھو کہ بازی سے گراں قیمت پر اشیاء فروخت ہوتی رہتی ہیں.دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہے.یا تو ان آٹھ سو جاسوسوں میں سے ایک حصہ کو اپنی قوم کا غدار کہنا پڑے گا اور یا یہ ماننا پڑے گا کہ ان کو اپنے فرائض سے ایسا غافل رکھا گیا ہے کہ انہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ انہیں کام کس طرح کرنا چاہئے ورنہ اگر یہ بات ہو رہی ہے اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ سے قادیان کے دوکانداروں میں یہ عادت پیدا ہو گئی ہے اور دوسری طرف قادیان میں مجلس خدام الاحمدیہ کے آٹھ سو یا آٹھ سو پچاس جاسوس موجود ہوتے تو یہ نا ممکن تھا کہ ان کی موجودگی میں یہ بات جاری رہتی.میں جاسوس کا لفظ ان کی اہمیت کو نمایاں کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہوں ورنہ جاسوس کا لفظ جس قسم کے لوگوں کے لئے آجکل استعمال کیا جاتا ہے، اس قسم کی جاسوسی اسلام میں منع ہے.میں نے صرف ان کے فرائض پر زور دینے کے لئے یہ لفظ استعمال کیا ہے ورنہ صحیح الفاظ یوں ہیں کہ اگر احمدیت کے اخلاق کے آٹھ سو نمائندے قادیان میں موجود ہوتے اور کوئی گھر ایسا نہ ہو تا جس میں ایک نمائندہ موجود نہ ہو تایا اگر کوئی گھر خالی ہو تا تو اس کے قریب کے گھر میں اخلاق احمدیت کا نمائندہ موجود ہو تا تو اس قسم کے حالات پیدا ہونے پر ان میں سے ہر آگے بڑھتا اور کہتا.میں اپنے باپ کے خلاف شہادت دیتا ہوں یا اپنے چچا کے خلاف شہادت دیتا ہوں یا اپنے دوست کے خلاف شہادت دیتا ہوں کہ وہ گراں قیمت پر چوری چھپے اشیاء فروخت کر رہا ہے.جس طرح قرآن کریم نے کہا ہے کہ اگر تمہیں اپنے باپ یا اپنی ماں یا بھائی یا اپنے کسی رشتہ دار کے خلاف گواہی دینا پڑے تو تم خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے نڈر ہو کر گواہی دے دو اور رشتہ داری کی کوئی پرواہ نہ کرو اسی طرح اگر خدام الاحمدیہ یہ جذبہ اپنے اندر پیدا کر چکے ہوتے تو ہر محلہ میں سے ایسے نوجوان نکل کر کھڑے ہو جاتے جو ہمارے پاس اگر کہتے.ہمارے باپ کے پاس فلاں چیز موجود ہے مگر وہ دکان پر تو کہہ دیتا ہے کہ میرے پاس نہیں لیکن اگر کوئی چوری چھپے زیادہ قیمت دے تو دے دیتا ہے.اسی طرح اگر کوئی اور نوجوان نکلتا اور کہتا کہ میری ماں جو کپڑا بیچا کرتی ہے وہ دکان پر تو یہ کہہ دیتی ہے کہ میرے پاس فلاں کپڑا نہیں ہے لیکن جب کوئی گھر میں اگر زیادہ قیمت دے دیتا ہے تو اس قیمت پر وہ کپڑا نکال کر اسے دے دیتی ہے.اگر خدام الاحمدیہ نے اپنے فرائض کو ادا کیا ہوتا اور اگر ہر نوجوان کے دل میں اخلاق کی اہمیت کو قائم کیا ہو تا تو ہمیں آج اپنے اندر وہی نظارہ نظر آتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں صحابہ کے اخلاق کا نظر آتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک منافق نے کہہ دیا کہ مدینہ چل لینے دو وہاں سب سے زیادہ معزز آدمی یعنی نعوذ باللہ عبد الله اعن ابی ابن سلول سب سے زیادہ ذلیل شخص یعنی نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مدینہ سے نکال دے گا.جب اس نے یہ بات کہی تو ا سکے بعد سب سے پہلا شخص جو شکایت لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا اسی عبد اللہ عن ابی ابن سلول کا بیٹا تھا.اس نے کہایا
397 رسول اللہ میرے باپ نے ایسا کہا ہے اور اس کے فعل کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں ہو سکتی.یارسول اللہ میں صرف یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ میرے باپ کے قتل کا حکم نافذ فرما ئیں تو مجھے اس قتل پر مقرر کیا جائے کسی اور کو مقرر نہ کیا جائے کیونکہ اگر کسی اور نے میرے باپ کو قتل کیا تو ممکن ہے کہ میرے دل میں اس کے خلاف جوش پیدا ہو اور میں کسی خلاف شریعت فعل کا ارتکاب کر بیٹھوں.تو اگر واقعہ میں خدام میں یہ جذبہ پیدا ہو گیا ہو تا اور وہ جرائم کی شفاعت کو سمجھتے تو بجائے اس کے کہ اس موقعہ پر ہمیں تحقیق کرنی پڑتی کہ کون کون لوگ ایسے ہیں جو اس جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں، ہر شخص آگے بڑھتا اور کہتا کہ میراباپ یا میر ابھائی یا میری ماں یا میرا فلال رشتہ دار یہ جرم کر رہا ہے اور میں اس کے خلاف اپنی شہادت پیش کرتا ہوں.فردی جرم بے شک ایسی چیز ہے کہ جس پر پر دو ڈالا جاسکتا ہے لیکن قومی جرائم پر کبھی پردہ نہیں ڈالا جا سکتا.اگر قومی جرائم پر بھی پردہ ڈالا جائے تو قومی ترقی بالکل رک جائے اور اس کے افراد اعلیٰ اخلاق کو بالکل کھو بیٹھیں.قومی جرائم کے ارتکاب پر ضروری ہوتا ہے کہ ہر محلہ بلکہ ہر گھر میں سے لوگ نکلیں اور بدی کا ارتکاب کرنے والوں کار از کھول دیں.جب قومی جرائم کے ارتکاب پر اس طرح راز کھولے جائیں تو جن لوگوں کی اصلاح اور ذرائع سے نہیں ہو سکتی ان کی اصلاح اس طریق سے ہو جاتی ہے اور جبری طور پر ان میں نیکی پیدا ہو جاتی ہے.بدی پر جرات انسان کو اس وقت ہوتی ہے کہ جب اسے یقین ہو تا ہے کہ میرے دوست یا میرے رشتہ دار میرے راز کو ظاہر نہیں کرینگے لیکن اگر اسے یقین ہو کہ میں نے جو بھی برا فعل کیا اسے میرے دوست خود بخود ظاہر کر دینگے تو وہ کبھی برے افعال کی جرات نہیں کر سکتا.دیکھو چور ہمیشہ رات کی تاریکی میں چوری کرنے کی کوشش کیا کرتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا انتظام ہو تا کہ جو نہی کوئی چور سیندھ لگا تا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ستارہ ایسا ظاہر ہو جاتا جس کی چمک اور روشنی کی وجہ سے فورا اسے دیکھ لیتے کہ کوئی شخص چوری کر رہا ہے تو کیا اس کے بعد کسی ایک شخص کو بھی چوری کی جرات ہو سکتی.یقینا کوئی شخص چوری نہ کرتا کیونکہ وہ ڈر تاکہ ادھر میں نے چوری کی اُدھر میری گرفتاری عمل میں آجائے گی اور لوگوں کو پتہ لگ جائے گا کہ اس فعل کا ارتکاب کس نے کیا ہے.اسی طرح اگر ہم سے ہر شخص اپنی سوسائٹی کے لئے ایک چمکتا ہوا ستارہ بن جائے تو کمزور لوگوں کو اخلاق اور شریعت کے خلاف افعال کرنے کی جرات نہ رہے اور وہ بھی نیکی اور تقویٰ کے لباس میں ملبوس ہو جائیں.یہی امید اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے رکھتا ہے کہ وہ سب کے سب ہدایت اور رہنمائی کے چمکتے ہوئے ستارے بنیں اور جب کوئی شخص اس برائی کا ارتکاب کرے وہ اس پر اسی وقت اپنی روشنی ڈال دے تا آئند دوہ اپنی اصلاح کر سکے اور قومی ترقی میں روک واقع نہ ہو.یہ خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض ہے اور میں اللہ تعالی کا اپنے انبیاء کے ذریعہ ایک روحانی جماعت قائم کرنے سے منشاء ہوتا ہے.پس تم کو اپنا نور اتنا پھیلانا چاہئے کہ تمہاری وجہ سے تاریکی کا کہیں نام و نشان نہ رہے اور اگر بعض لوگ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے قومی
398 جرائم کا ارتکاب کریں تو تمہارا فرض ہے کہ تم ان کو فورا ظاہر کر دو.بے شک اگر کسی شخص میں کوئی فردی کمزوری پائی جاتی ہے تو تم اس کے عیب کو نہ ظاہر کر دو بلکہ علیحدگی میں اس کو سمجھاؤ اور دل میں اس کی ہدایت اور اصلاح کے لئے دعائیں کرتے رہا کرو.تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم فردی کمزوریوں کا لوگوں میں ذکر کرتے پھر ولیکن جس طرح فردی جرائم کو ظاہر کرنا گناہ ہے اسی طرح قومی جرائم کا چھپانا گناہ ہے.جب تمہیں قومی جرائم کا علم ہو تو تمہارا فرض ہے کہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو ظاہر کرو.ہر مجلس اصلاح اخلاق کے سلسلہ میں ریکارڈ اپنے پاس رکھے میرے نزدیک اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ہر مجلس اصلاح اخلاق کے سلسلہ میں اپنے پاس ریکارڈ رکھے جس میں یہ ظاہر ہو سکے کہ کن کن اخلاق کی طرف ہمیں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.میں نے بتایا کہ فردی جرائم میں صرف نصیحت کرنا کافی ہے جرم کرنے والے نام کو ظاہر کرناضروری نہیں لیکن ریکارڈ میں بغیر نام ظاہر کرنے کے اس امر کی صراحت کی جاسکتی ہے کہ ہم نے اتنے لوگوں کو فلاں فلاں فردی جرائم کی بناء پر نصیحت کی اور ان کو اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے.اسی طرح جب قومی جرم کا ارتکاب کرے تو اس کا بھی ریکارڈ میں ذکر آنا چاہئے.اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہر مجلس یہ بتا سکے گی کہ سو میں سے اتنے فیصدی فلاں جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں.اتنے فیصدی لوگوں میں فلاں قسم کی کمزوری پائی جاتی ہے اور اتنے فیصد لوگ فلاں عیب میں مبتلا ہیں.بے شک اگر ان لوگوں کا نام ظاہر کیا جائے گا تو شریعت کے خلاف ہو گا لیکن بغیر نام کی صراحت کے ایک عام ریکارڈ کے ذریعہ یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کن کن اخلاق کی نوجوانوں میں کمی ہے اور کن امور کی طرف ہمیں توجہ کرنے کی ضرورت ہے.مثلاً سچائی ہے.ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہر مجلس میں کتنے فیصدی نوجوان سچائی اختیار کرنے میں اعلیٰ نمونہ نہیں دکھا رہے یا اشاعت فحش ایک جرم ہے.ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کتنے لوگ ہمارے اندر موجود ہیں.بہر حال اخلاق کی نگہداشت خدام الاحمدیہ کا ایک اہم فرض ہے اور ہر رکن کے لئے اس بات کا سمجھنا ضروری ہے کہ قومی جرم کا چھپانا ایک خطر ناک جرم ہے جس طرح فردی جرم کو ظاہر کرنا جرم ہے.قومی جرم اور فردی جرم میں فرق قومی جرم سے مراد در حقیقت دو قسم کے جرائم ہوتے ہیں.اول وہ جرم جو قوم کے خلاف ہوتے ہیں اور جن کا قومی لحاظ سے شدید نقصان ہو تا ہے.دوسرے وہ افعال جو کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچانے کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں.مثلاً ایک شخص کسی دوسرے پر قاتلانہ حملہ کرنے کے متعلق کوئی بات کر رہا ہو تو اس کا علم کسی اور شخص کو ہو جائے تو یہ فردی جرم نہیں ہو گا بلکہ قومی جرم ہو گا کیونکہ اس کا نقصان قوم کے ایک فرد کو پہنچنے کا
399 امکان ہے.اس صورت میں اگر وہ اخفا سے کام لیتا ہے اور دوسرا شخص حملہ کر کے قتل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ جس نے بات کو سنا تھا اور جسے اس سازش کا پہلے سے علم ہو چکا تھا مگر اس نے ظاہر نہیں کیا وہ بھی اس قتل میں شریک سمجھا جائے گا.اگر یہ وقت پر بتا دیتا تو اصلاح کی جاسکتی تھی لیکن چونکہ اس نے وقت پر نہیں بتایا اس لئے وہ بھی قاتل سمجھا جائے گا اور شریعت کے نزدیک مجرم ہو گا.پس قومی جرم سے مراد وہ جرم ہیں جن کا ضرر کسی دوسرے انسان کو پہنچ سکتا ہو اور فردی جرم سے مراد وہ جرم ہے جس کا ضرر کسی دوسرے کو نہ پہنچتا ہو یا کسی ایسے گذشتہ جرم کا ذکر کرنا جو خواہ اپنی ذات میں قومی جرم ہو لیکن وہ حال سے منقطع ہو چکا ہو وہ بھی فردی جرم سمجھا جائیگا.مثلا فرض کرو ایک شخص نے آج سے دس سال پہلے کوئی چوری کی تھی اور چوری کرنا ایک قومی جرم ہے لیکن اگر کوئی شخص کسی کے دس سالہ گذشتہ چوری کے واقعہ کا ذکر کرتا ہے تو اس چوری کو قومی جرم نہیں بلکہ فردی قرار دیا جائیگا.ایسی صورت میں ضروری ہو گا کہ وہ دوسرے کے ما پر پردہ ڈالے اور اس کا لوگوں میں اظہار نہ کرے.دس سال پہلے اگر اس نے کسی کی پنسل چرالی تھی یا ایسی ہی کوئی چیز چرالی تھی تو گو چوری کے لحاظ سے اس کا یہ جرم کم نہیں مگر چونکہ اس پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اس لئے اب اس کا اظہار کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.اب اس چوری کا علاج سوائے اس کے کچھ نہیں کہ انسان تو بہ کرے اپنے گذشتہ قصور پر استغفار کرے اور آئندہ کے لئے یہ عہد کرے کہ وہ ایسا فعل کبھی نہیں کرے گا.بہر حال استنالمبا عرصہ گزرنے پر اس کا یہ فعل قومی جرم نہیں رہا بلکہ ایک فردی جرم بن گیا ہے.پس ہر وہ جرم جس کا ازالہ نہیں ہو سکتایا جس فعل کے دوبارہ ہونے کا امکان نہیں وہ فردی جرم ہے اور ہر وہ جرم جس کا ازالہ ہو سکتا ہے اور جس کا اثر قوم پر پڑتا ہے تو وہ قومی جرم ہے.پس قومی اور فردی جرائم میں جو فرق ہے وہ بار بار نوجوانوں کو بتانا چاہئے تاکہ ایک طرف جہاں لوگوں میں تجس کا مادہ پیدا نہ ہو وہاں دوسری طرف لوگوں کے اخلاق کی نگرانی ہو سکے اور معلوم ہو سکے کہ کون لوگ اخلاقی حصوں پر عمل کرنے میں سستی سے کام لے رہے ہیں.اگر خدام الاحمدیہ کی طرف سے اس میں اصلاح اخلاق کی کوشش کی جاتی تو میرے سامنے یہ ذکر نہ آتا کہ قادیان میں مخفی طور پر بعض لوگ گراں قیمت پر اشیاء فروخت کر رہے ہیں.مجھے معلوم نہیں کہ قادیان میں ایسا ہو تا ہے یا نہیں ہو تا لیکن اگر ہو تا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدام الاحمدیہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں بالکل ناکام رہے ہیں.ان کے نمائندے ہر محلہ میں موجود ہیں.ہر گھر میں موجود ہیں اور وہ اگر چاہتے تو اس نقص کا آسانی کے ساتھ ازالہ کر سکتے تھے لیکن چونکہ انہوں نے اس طرف توجہ نہیں کی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ذمہ داری خدام الاحمدیہ کے کارکنوں پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے یہ باتیں بار بار اپنے نمائندوں کے سامنے نہیں رکھیں ورنہ اس سستی اور غفلت کا ان کی طرف سے مظاہرہ نہ ہوتا.
400 آپس میں لڑائی جھگڑے کی عادت تیسری چیز لڑائی جھگڑا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ یہ عادت ابھی برابر جاری ہے.ذراسی بات ہوتی ہے لیکن اس پر آپس میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے.یہ بھی ایک خطر ناک نقص ہے جس کا ازالہ ضروری ہے.بسا اوقات انسان ہنسی مذاق میں کوئی بات کہہ رہا ہوتا ہے مگر دوسرا اس مزاح کو برداشت نہ کر کے لڑائی جھگڑے کی صورت پیدا کر دیتا ہے حالانکہ ایسے حالات میں بات کو ہنسی میں ٹال دینا زیادہ مناسب ہوا کرتا ہے مگر بعض دفعہ ایک شخص غصیلا ہو تا ہے اور مزاح کو برداشت نہ کر کے وہ لڑ پڑتا ہے.جہاں ایسی صورت پیدا ہو وہاں دوسرے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ خاموش رہے اور وہاں سے اٹھ کر چلا جائے.ہر بات جو نا پسند ہو اس پر لڑائی شروع کر دینا، معاملہ کو بلاوجہ طول دینا اور تفرقہ و شقاق کی صورت پیدا کر کے مقاطعہ کی نوبت پہنچانا اور بول چال بند کر دینا ہر گز ایک مومن کے شایان شان نہیں.اگر ہر شخص کو اس امر کی اجازت دے دی جائے کہ جس سے چاہے بول چال بید کر دے، جس سے چاہے تفرقہ اختیار کرلے تو قوم کی ٹوٹتے ٹوٹتے کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہ جاتی.یہ باتیں ہیں جن کی طرف خدام الاحمدیہ کو میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دلاتا ہوں اور ہدایت کرتا ہوں کہ انہیں جہاں بھی پتہ لگے کہ دو احمدی نوجوان کسی وجہ سے آپس میں گفتگو نہیں کرتے تو ان کے اس فعل کو قومی جرم قرار دیا جائے اور انہیں نصیحت کی جائے کہ مقاطعہ کرنایا بول چال بند کر دینا ان کے لئے جائز نہیں ہے.یہ تین چیزیں ہیں جن کی طرف میں اس وقت خصوصیت سے خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں اور ا بات تو یہ ہے کہ درد کی وجہ سے مضمون کا تسلسل بھی قائم نہیں رہا اور اب مزید کچھ کہنا میرے لئے ناممکن ہے.اس لئے میں انہی تین شقوں پر آج کی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے کارکنوں کو اور تمام خدام اور اطفال کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمادے اور ہر قدم پر وہ آپ لوگوں کی راہنمائی فرمادے تاکہ وہ باتیں جو آپ کو معلوم ہیں ان پر آپ عمل کر سکیں اور جو باتیں معلوم نہیں وہ خدا تعالیٰ خود آپ لوگوں کو سکھائے تا کہ آپ دین کی باتوں کو اچھی طرح جانیں اور ہمیشہ ان پر عمل کرتے رہیں.آمین.“ ( تقریر بر موقعه سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ مورخه ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۴ء مطبوعه الفضل ۹ نومبر ۱۹۴۴ء)
401 شعار اسلامی کی اہمیت ” میں جماعت کے نوجوانوں کو عموماً اور قادیان کے نوجوانوں کو خصوصاً اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ گذشتہ سالور میں کئی دفعہ میں نے بیان کیا ہے کہ ہماری جماعت کے افراد کو اسلام کے شعار پر عمل کرنا چاہئے مگر مجھے افسوس ہے کہ اس طرف ابھی تک توجہ نہیں ہوئی.میں نے خدام الاحمدیہ کو بھی توجہ دلائی تھی لیکن انہوں نے بھی توجہ نہیں کی.میں نے کہا تھا کہ ہر ایک خادم کی نگرانی کی جائے کہ وہ نماز باجماعت ادا کرتا ہے یا نہیں نماز باجماعت کی نگرانی کی جائے لیکن بجائے میری اس ہدایت پر عمل کرنے کے اب ہو نا یہ ہے کہ کئی ایسے لوگوں کو خدام الاحمدیہ کا افسر مقرر کیا جاتا ہے جو کہ خود ہفتہ ہفتہ تک مسجد میں نہیں گھتے حالانکہ یہ ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ پانچوں وقت کی نماز باجماعت ادا کرے سوائے اس کے کہ وہ بیمار ہو.بیماری کی حالت میں اللہ تعالٰی نے اجازت دی ہے کہ وہ گھر پر نماز پڑھ سکتا ہے.اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ نوجوانوں کے چہروں سے داڑھیاں غائب ہوتی جارہی داڑھی رکھنا بھی شعار اسلامی ہے ہیں.وہ دن بدن ان کو چھوٹا کرتے جارہے ہیں حالانکہ ہم نے خشخشی کی اجازت تو ان لوگوں کو دی تھی جو استرا پھیرتے تھے.انہیں کہا گیا تھا کہ تم استرانہ پھیرو اور چھوٹی چھوٹی خشخشی داڑھی ہی رکھ لو لیکن یہ جواز جو استرا والوں کے لئے تھا اس پر دوسرے لوگوں نے بھی عمل کرنا شروع کر دیا اور جن کی بڑی داڑھیاں تھیں ، ان میں سے بھی بعض نے اس جواز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خشخشی کرلیں حالانکہ جو از تو کمزوروں کے لئے ہو تا ہے.ہمار ا مطلب تو یہ تھا کہ جب استرا پھیرنے والے خشخشی داڑھیاں رکھ لیں گے تو ہم انہیں کہیں گے اب اور زیادہ بڑھاؤ اور آہستہ آہستہ وہ بڑی داڑھی رکھنے کے عادی ہو جائیں گے لیکن اس جواز کا الٹا مطلب لیتے ہوئے بعض لوگوں نے بجائے داڑھیاں بڑھانے کے ، خشخشی کرلیں.اگر ایک مریض کو ڈاکٹر شور با پینے کے لئے کہے تو کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ پولیس ڈنڈے لے کر تمام لوگوں کو شور با پینے مجبور کرے کہ ڈاکٹر کا حکم ہے کہ شور با دینا چاہئے.ڈاکٹر کا حکم تو مریض کے متعلق ہے نہ کہ دوسروں کے لئے.چونکہ جو لوگ داڑھی منڈوانے کے عادی ہوتے ہیں وہ یکدم داڑھی نہیں رکھ سکتے اس لئے ہم نے ان کو اجازت دے دی کہ اچھا تم خشخشی رکھ لو.اس سے ہمارا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ جن کی داڑھیاں بڑی ہیں ' وہ بھی خشخشی کرلیں.پر اغیار تمہاری وضع قطع اور لباس کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ تم میں اپنے مذہب کیلئے کتنی غیرت ہے اصل بات یہ ہے کہ گو داڑھی کو مذہب میں کوئی بڑا دخل نہیں لیکن اغیار تمہاری داڑھیوں کو سر کے بالوں کو اور تمہارے کپڑوں کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ تم اپنے مذہب کے لئے کتنی غیرت اپنے اندر رکھتے ہو اور تم اسلامی شعار کو قائم کرنے کی کس قدر کوشش کرتے ہو.پہلے مسلمانوں نے چونکہ داڑھی کے معاملے میں کمزوری دکھائی ہے اس لئے فوجوں اور پولیس میں مسلمانوں کو داڑھی منڈوانے پر مجبور کیا جاتا ہے.جب مسلمان یہ کہتے ہیں کہ آخر سکھ بھی تو داڑھیاں رکھتے ہیں، ان سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا تو اسے جواب دیتے ہیں کہ وہ سارے کے سارے داڑھیاں رکھتے ہیں، اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مذہب میں داڑھی رکھنے کا حکم ہے لیکن تمہارے اکثر مسلمان منڈواتے
402 ہیں ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ تمہارے ہاں کوئی حکم نہیں.تم اپنی مرضی سے رکھنا چاہتے ہو.ہمارے ایک واقف زندگی جواب تحریک جدید میں کام کر رہے ہیں ، وہ پہلے پولیس میں تھے.انہوں نے میرے اعلانات پر داڑھی رکھ لی اس پر افسر نے انہیں تنگ کرنا شروع کر دیا آخر جب زیادہ تنگ کیا گیا تو انہوں نے استعفی دے دیا.ایک فوجی احمد ی کو داڑھی رکھنے پر افسر نے فوجی حوالات میں دے دیا.یہ واقعات ہر جگہ ہو رہے ہیں لیکن اگر سارے مسلمان داڑھی رکھیں تو کوئی افسر بھی ان کو داڑھی منڈوانے پر مجبور نہیں کر سکتا.مسلمان سکھوں سے پچیس گناہ زیادہ ہیں لیکن گورنمنٹ داڑھی کے معاملہ میں سکھوں کا حکومت پر رعب مسلمانوں کو تو داڑھیاں منڈوانے پر مجبور کرتی ہے اور سکھوں کو داڑھیاں منڈوانے پر مجبور نہیں کرتی کیونکہ وہ سکھوں سے ڈرتی ہے.گورنمنٹ جانتی ہے اگر ان کو مجبور کیا گیا تو وہ نوکریاں چھوڑ کر گھر چلے جائیں گے اور سکھوں نے چونکہ اس معاملہ میں جرات دکھائی ہے اس لئے گورنمنٹ ان کو مجبور نہیں کرتی.اگر مسلمان بھی جرات سے کام لیں تو ان کا بھی رعب قائم ہو جائے.اگر باقی مسلمان یہ جرات نہیں دکھاتے تو کم سے کم احمدیوں میں یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہم داڑھیاں نہیں منڈوا ئیں گے.لیکن بجائے اس کے ہمارے نوجوان یہ ثابت کرتے کہ ہم اسلام پر عمل کرنے سے نہیں ڈرتے اب وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہم سے اسلام کے حکموں پر عمل نہیں ہو سکتا.ہمارے نوجوان اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے داڑھیاں رکھیں تو لوگ ہم پر نہیں گے.لیکن تم نے کبھی سوچا ہے کہ تمہارے اس فعل سے کیا نتیجہ نکلتا داڑھی نہ رکھنے کا دور رس اثر.اسلام پر زد ہے.جب تم داڑھی منڈواتے ہو یا چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھتے ہو تو تم اپنے منہ سے اقرار کرتے ہو کہ اسلام کے احکام پر عمل نہیں ہو سکتا.پھر تم یہ بتاؤ تم دوسروں پر کیا اثر ڈال سکتے ہو اور تم انہیں کس طرح کہہ سکتے ہو کہ ہم اسلام کے حکموں پر عمل کرنے والے ہیں اور پھر کتنے شرم کی بات ہے کہ ایک انگریز جو یہاں مسلمان ہوا اس نے تو مسلمان ہونے کے بعد داڑھی رکھ لی حالا نکہ انگریزوں میں سب ہی داڑھی منڈواتے ہیں.اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی قربانی کا ثبوت دیا کہ میں اسلام کے احکام پر عمل کر کے دکھا سکتا ہوں.اس کو اس کے ملک کے لوگوں نے حیرت کی نظر سے دیکھا اور ولایت کے اخباروں میں اس کے متعلق نوٹ بھی شائع ہوئے.بعض لوگوں نے اس سے پوچھا تم داڑھی رکھتے ہو لیکن لباس انگریزی پہنتے ہو.اس کی کیا وجہ ہے تو اس نے جواب دیا کہ کپڑوں کے متعلق مجھے اسلام نے کوئی خاص حکم نہیں دیا اور نہ اسلام مجھے ان کپڑوں کے پہننے سے منع کرتا ہے لیکن اسلام مجھے داڑھی رکھنے کا حکم دیتا ہے اس لئے میں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے.جس طرح ایک انگریز کے داڑھی رکھنے پر انگلستان کے لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا اسی طرح ہندوستان کے لوگ تمہارے داڑھی نہ رکھنے پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں.لوگوں کو تمہارے اندرونے کی صفائی کے متعلق کیا علم ہو سکتا ہے.ان کی نظر تو ظاہر پر ہی پڑتی ہے اگر تم ظاہر کو درست نہیں کرتے تو لوگ تمہارے دلوں کی صفائی کے بھی قائل نہیں ہو سکتے.پھر جب غیروں کے ہاتھ ایک چھوٹی سے بات بھی آجائے تو وہ اسے خوب بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں کہ احمد ہی ایسے ہوتے ہیں.خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو اپنے حلقوں میں داڑھی کے حق میں موثر پراپیگنڈا کرنے کی پس میں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے حلقہ میں داڑھی کے متعلق خوب ہدایت پراپیگنڈہ کریں.خدام نوجوانوں کو سمجھائیں اور انصار اللہ بڑوں کو سمجھائیں اور یہ کوشش کی جائے کہ جو شخص داڑھی منڈوا تا ہے ، وہ خشخشی داڑھی رکھے اور جو خشخشی رکھتا ہے وہ ایک انچ یا آدھ انچ بڑھائے پھر ترقی کرتے کرتے سب کی داڑھی حقیقی داڑھی ہو جائے.
403 داڑھی رکھنے کی حکمتیں اسلام کے تمام احکام میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے اور حکم میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے.کوئی ایک حکم بھی بغیر مصلحت کے نہیں.داڑھی رکھنے میں بھی کئی حکمتیں اور کئی مصالح ہیں.یہ جسمانی صحت کے لئے مفید ہے اور جماعتی تنظیم کے لئے بھی بہت فائدہ مند ہے.سکھوں کے کیس اور داڑھی پر سختی سے پابند ہونے کی وجہ سے کوئی شخص ان کے مذہب پر حملہ نہیں کرتا کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ داڑھی اور کیس پر اس قدر سختی سے پابند ہیں اور اس معاملہ میں دخل اندازی کو پسند نہیں کرتے ، اگر ان کی کسی مذہبی بات میں دخل اندازی کی تو وہ یقینا کٹ مریں گے.اسی طرح ہماری جماعت میں بھی اسلامی شعائر کو قائم رکھنے کا احساس ہو جائے اور وہ سختی سے اس پر پابند ہو جائے تو یقیناً اس کا بھی لوگوں کے دلوں میں رعب قائم ہو جائے گا اور لوگ یہ سمجھنے لگ جائیں گے کہ یہ لوگ اپنی بات کے پکے ہیں اور کسی کی رائے کی پرواہ نہیں کرتے.جب یہ لوگ داڑھی کے معاملہ میں اس قدر سختی سے پابند ہیں اور باقی اسلام کے وہ کیوں پابند نہ ہوں گے.اگر ہم نے ان کی کسی دینی بات میں دخل اندازی کی تو یہ لوگ مر جائیں گے مگر اپنی بات کو پورا کر کے چھوڑیں گے.اس کے مقابل میں اگر لوگ یہ دیکھیں کہ تم لوگوں کی باتوں سے ڈر کر داڑھی منڈوا دیتے ہو یا چھوٹی کر لیتے ہو تو وہ خیال کریں گے جو لوگ دنیا کی باتوں سے ڈر جاتے ہیں، وہ گورنمنٹ کے قانون اور پولیس کے ڈنڈے سے کیوں موعوب نہ ہوں گے.تمہارا داڑھیوں کے معاملہ میں کمزوری دکھانا جماعت کے رعب اور اثر کو بڑھانے کا موجب نہیں بلکہ رعب او ر ا ثر کو گھٹانے کا موجب ہے.پھر نمازوں کی پابند می اس سے زیادہ اہم ہے.داڑھی تو ایک ظاہری چیز ہے.نماز نماز روحانیت کا سر چشمہ روحانیت کا سرچشمہ ہے اور بندے کے لئے اللہ تعالی کا مقرب بننے کا ذریعہ ہے.تم یہ جانتے ہو کہ اگر کوئی شخص سنکھیا کھالے تو یقیناً مرجاتا ہے اسی طرح تمہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نماز نہ پڑھنا بھی سنکھیا کھانے سے کم نہیں.فرق صرف اتنا ہے کہ یہ سنکھیا ایسا ہے جو قیامت کے دن اپنا اثر دکھائے گا اور انسان کو ابد الاباد تک کی دوزخ میں ڈال دے گا.پس یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ سنکھیا مارتا نہیں بلکہ یہ سنکھیا ایسا ہے جو بہت سی اکٹھی موتیں انسانیت پر وارد کردے.انسان کو موت آئے گی لیکن وہ مر نہیں سکے گا.سنکھیا کوئی اتنا مضر نہیں جتنا نماز نہ پڑھنا مضر ہے کیونکہ سنکھیا کھانے سے تو انسان پر ایک موت واقع ہوتی ہے لیکن نماز نہ پڑھنے کے نتیجے میں انسان جو سنکھیا کھاتا ہے وہ ایسا ہے کہ اکٹھی کئی موتیں انسان پر لے آتا ہے.اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے.لَا يَمُوتُ فِيهَا وَ لَا يَحي - کہ دوزخ میں انسان نہ مرسکے گا اور نہ ہی زندہ رہے گا ہر وقت اس کو موت آتی رہے گی لیکن اس کے باوجود وہ مر نہیں سکے گا.موت کی تکلیف اٹھانے کے بعد وہ بے حس نہیں ہو گا کہ اسے باقی موتوں سے نجات حاصل ہو جائے.جتنے عیب ، جتنی ستیاں اور جتنی بدیاں ہوں گی ، وہ سب موت کی شکل میں اس کے سامنے نمودار ہوں گی اور ہر بدی اس کے لئے ایک موت لائے گی.ایک نماز نہ پڑھنے کی وجہ ایک موت ہوئی.اور پھر دو سوی موت دو سری نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے.تیسری موت تیری نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے.اسی طرح جھوٹ بولنے اور بد دیانتی اور بے ایمانی کرنے کی وجہ سے اس پر موتیں وارد ہوں گی.پس نماز نہ پڑھنا ایک ایسا زہر ہے جو انسان کو ابد الاباد کے دوزخ میں ڈال کر اس پر کئی موتیں وارد کرتا ہے ، اس سے بچنا چاہئے اور نمازوں میں با قاعدگی اختیار کرنی چاہئے.اسی طرح سچ ایک ایسی چیز ہے.جو قومی وقار کو قائم کرتا ہے اور سچ بولنے والی قوم تمام دنیا میں اپنی اس سچ بولنے کی اہمیت خوبی کی وجہ سے قابل تعظیم سمجھی جاتی ہے.اگر انسان سچ بولے تو دوسرا شخص مرعوب ہو جاتا ہے.مجھے یاد ہے کہ میں ساری عمر میں سوائے ایک شخص کے مرعوب نہیں ہوا.مجھے ایک شخص کے متعلق معلوم ہوا کہ اس نے خطا کی ہے.وہ اکیلے کی خطا تھی.کوئی شخص اس پر گواہ نہ تھا.جب مجھے اس کی اطلاع ہوئی تو میں نے خیال کیا کہ چونکہ موقع کا گواہ کوئی
404 نہیں اس لئے وہ کہہ دے گا کہ میں نے ایسا نہیں کیا.میں نے اسے بلایا اور پوچھا تو اس نے صاف طور پر اقرار کیا کہ ہاں میں نے یہ خطا کی ہے.جب اس نے صاف طور پر اقرار کر لیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے میرے منہ پر مہر لگادی ہے.میں نے السلام علیکم کہہ کر رخصت کر دیا.تو گناہ میں بھی سچ ایک قسم کا غلبہ رکھتا ہے اور جھوٹ نیکی میں بھی شکست دلاتا ہے.فرض کرو کوئی شخص کسی کے پاس اپنا مال رکھواتا ہے اور پھر خود ہی کسی وقت وہ مال اٹھا کر لے جاتا ہے اور پوچھنے پر انکار کر دیتا ہے کہ میں نے نہیں لیا تو گو مال اس کا ہی تھا لیکن وہ جھوٹ بولنے کی وجہ سے گناہگار ہو گیا اور ہر شخص جسے اس بات کا علم ہو گا وہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھے گا کہ اس نے اپنا مقام ضائع کر لیا.لیکن سچ کے یہ معنے بھی نہیں ہوتے کہ دوسرے پر ہر بات ظاہر کر دی جائے اور نہ ہی کوئی خص دوسرے کو ہر ایک بات ظاہر کرنے پر مجبور کر سکتا ہے.ہاں جن باتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ اور اس کا ر سول حکم دیتا ہے، ان کو بیان کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہو نا گو اس کے لئے بھی کچھ پابندیاں ہیں مثلاً قاضی کو بھی ہر بات پوچھنے کا اختیار نہیں دیا گیا بلکہ اس کے متعلق تعیین کر دی گئی ہے کہ قاضی اس قسم کا سوال کر سکتا ہے اور اس قسم کا سوال نہیں کر سکتا.ہمارا خد اغفار اور ستار ہے.وہ غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کر سکتا ہے.اس لئے ہر بات کا اعلان ضروری نہیں ہاں جو بات تم سے قاضی پوچھے وہ تم بیان کر دو.اگر تم کو شریعت کے احکام کا علم ہو جائے تو تمہارے لئے سچ بولنا کوئی مشکل نہ رہے.مثلا کوئی شخص تم سے پوچھتا ہے کہ تم فلاں جگہ گئے اور تم نہیں بتانا چاہتے تو جھوٹ نہ بولو.اس سے کہہ دو کہ میں نہیں بتانا چاہتا.اسی طرح شریعت نے بے شک قاضی کو سوال کرنے کا حق دیا ہے لیکن بعض باتیں ایسی ہیں جن میں قاضی کو بھی سوال کرنے کا حق نہیں ہو تا.مثلا شریعت کہتی ہے کہ بدکاری کے جب تک چار گواہ نہ ہوں اس وقت تک ان کی گواہی قبول نہ کی جائے لیکن کسی موقعہ پر کوئی شخص اکیلا گواہ ہے اور معاملہ کسی طرح قاضی کے پاس پہنچتا ہے اور قاضی اس کو گواہی کے لئے بلاتا ہے تو وہ قاضی کو کہہ سکتا ہے کہ میں نے دیکھایا نہیں دیکھا اس کا سوال نہیں لیکن آپ کو گواہی لینے کا حق نہیں جب تک کہ چار گواہ نہ ہوں.غرض اس صورت میں شریعت قاضی کو مجرم ٹھراتی ہے کہ اس نے اس سے کیوں شہادت طلب کی اور اس شخص نے شریعت کی ہتک نہیں کی بلکہ قاضی نے شریعت کی ہتک کی ہے کہ صرف ایک آدمی سے گواہی مانگی پس شریعت کے مسائل کی ہتک کی ہے.پس شریعت کے مسائل کو سمجھو اور سچ کو اپنا شعار بناؤ.جب دنیا پر ثابت ہو جائے گا کہ تم سچ بولتے ہو تو تمہارا مظلوم ہو نا دنیا پر روز روشن کی طرح ظاہر ہو جائے گا اور دنیا تمہاری طرف مائل ہو جائے گی.اگر تمہارا ایک آدمی ایک طرف ہو گا اور ہزار آدمی ایک طرف ہو گا تو بھی دنیا یہ کے گی کہ جو بات یہ ایک آدمی کہتا ہے ، وہ صحیح ہے اور جو بات یہ ہزار آدمی کہتا ہے ، وہ غلط ہے.شملے میں ایک انگریز افسر تھا.اس کے ساتھ میرے کچھ تعلقات ہو گئے اور وہ مجھ سے لمتا رہتا تھا.اس طرح اسے ہماری جماعت کے متعلق معلوم ہو گیا کہ لوگ سچ بولتے ہیں.میرا ایک عزیز جو فوج میں ملازم تھا، اس کا افسر اس پر خفا ہو گیا اور اس کے خلاف گورنمنٹ کے پاس رپورٹ کر دی اور اس کی ملازمت خطرے میں پڑ گئی.اس نے شرم کے مارے مجھے اطلاع نہ دی.جب مجھے اس معاملہ کا علم ہوا تو میں نے اس انگریز سیکرٹری کو کہلا بھیجا کہ اصل میں واقعات اس طرح ہیں.میں نے تحقیقات کرلی ہے.میں یہ نہیں چاہتا کہ ناجائز طور پر اس کی مدد کی جائے.اگر اس کا قصور ثابت ہو جائے تو بے شک اسے سزادی جائے لیکن میری تحقیق سے اس کا قصور ثابت نہیں ہو تا.آپ مہربانی کر کے اس بالا افسر سے اتنا کہہ دیں کہ وہ فیصلہ کرے تو ماتحتوں کی رائے پر عمل نہ کرے بلکہ خود اس معاملے کی تحقیقات کرے.اس نے اس کا وعدہ کیا.چنانچہ اس نے جو چٹھی اس محکہ کے ڈائریکٹر کو لکھی اس کی ایک کاپی مجھے خان صاحب منشی برکت علی صاحب نے ( جو آجکل جائنٹ نا ظر بیت المال ہیں) بھجوائی.اس وقت خان صاحب اس محکمہ میں افسر تھے.اس چٹھی میں یہ لکھا تھا کہ فلاں افسر کے خلاف رپورٹ ہوئی ہے.میں چاہتا ہوں کہ اس معاملہ کو آپ خود مسل پڑھ کر فیصلہ کریں.ماتحتوں کی رپورٹوں پر فیصلہ نہ کریں.آگے اس نے لکھا تھا کہ گو اس کے خلاف ایک انگریز افسر نے شکایت کی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جس شخص نے میرے پاس سفارش کی ہے ، وہ ایسار است باز ہے کہ جب تک اس نے پوری تحقیق نہ کرلی ہو وہ
405 سفارش نہیں کر سکتا تھا اس لئے میں اس بات کو محکمانہ رپورٹ پر ترجیح دیتا ہوں.اب دیکھو جس شخص کی رپورٹ کو وہ رد کر رہا تھا وہ انگریز اور اپنے محکمہ کا افسر تھا لیکن اسے چونکہ یہ یقین ہو گیا تھا کہ میں واقعہ کی بلا تحقیق تائید نہیں کر سکتا اس لئے اس نے نہایت دلیری کے ساتھ لکھ دیا کہ خود ر پورٹ کرنے والا افسر انگریز ہے لیکن جس شخص نے میرے پاس سفارش کی ہے ، وہ کبھی ایک غلط واقعہ کی تائید نہیں کر سکتا اس لئے اس کی بات درست ہے اور محکمانہ رپورٹ غلط.پس سچائی کو اپنا شیوہ بناؤ کیونکہ سچائی دلوں کو موہ لیتی ہے اور دوسرے کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی.سچائی کو اپنا شیوہ بناؤ میں پھر قادیان کے نوجوانوں کو خصوصاً توجہ دلاتا ہوں کہ وہ شعار اسلام کو قائم کرنے کی کوشش کریں.خصوصا سے میرا مطلب یہ ہے کہ قادیان کا مرکز ہے اس لئے مرکز کے نوجوانوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ورنہ میرا مطلب یہ نہیں کہ لاہور والے یا دوسری جگہوں والے بیشک شعار اسلامی کی پابندی نہ کریں اور وہ اپنی داڑھیاں بے شک منڈواتے رہیں بلکہ سب کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اچھا نمونہ پیش کریں.اگر تم داڑھیاں رکھو گے ، دنیا میں اسلام کا رعب قائم ہونا شروع ہو جائے گا اور لوگ خیال کریں گے کہ اس دہریت کی زندگی میں اس فلسفیانہ فضا میں اس عیاشی اور نزاکت کی صدی میں جبکہ دنیا داڑھیوں سے نسی اور ٹھٹھا کر رہی ہے ، یہ لوگ اسلام کے اس حکم پر عمل کرتے ہیں اور کسی کی رائے کا خیال نہیں کرتے واقعی ان کے دلوں میں اسلام کا درد ہے اور یہ لوگ وہی کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے.صرف قادیان والوں سے میرا یہ خطاب نہیں بلکہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس حکم کو مد نظر رکھے.پھر نمازوں کے متعلق سختی سے پابندی کی جائے اور ہر ایک شخص کے متعلق نوٹ کیا جائے کہ وہ باجماعت نماز ادا کرتا ہے یا نہیں.اسی طرح سچائی پر خصوصیت کے ساتھ کار بند ہونے کی کوشش کی جائے.اگر انسان سچ پر کار بند ہو جائے تو وہ تمام گناہوں سے بچ سکتا ہے.تم ہمیشہ سچ کی تائید کرو اور سچ کو پھیلانے کی کوشش کرو.میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے دباؤ کے ماتحت بہت سے لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے.جماعتی دباؤ ایک بہت بڑا حربہ ہے.تم غیر احمدیوں سے کئی دفعہ سنتے ہو کہ احمدیت تو کچی ہے لیکن رشتہ دار نہیں چھوڑے جاسکتے اور رشتہ داروں کی مخالفت برداشت نہیں ہو سکتی.پس اگر قومی دباؤ جھوٹ کی تائید میں ہو گا تو جھوٹ پھیلے گا.اگر قومی دباؤ سچ کی تائید میں ہو گا تو بیچ پھیلے گا اور لوگوں کو امن ملے گا کیونکہ سچ سے دنیا میں ہمیشہ امن قائم ہوتا ہے.تم اس قومی دباؤ سے فائدہ اٹھاؤ." (خطبه جمعه فرموده ۱۴ فروری ۱۹۴۵ء مطبوعه الفضل ۲۱ فروری ۱۹۴۵ء)
406 قومی ترقیات دیانت اور سچائی کے ساتھ وابستہ ہیں خدام الاحمدیہ کا دعوی ہے کہ ہم خدمت خلق کرتے ہیں.الفضل میں چھپتا رہتا ہے کہ ہم نے خدمت خلق کا یہ کام کیا.فلاں کے کھیت کی منڈیر بنائی فلاں کے کھیت کو پانی دیا اور فلاں کا کھیت کاٹا.بے شک وہ بھی خدمت خلق ہے لیکن یہ خدمت خلق نہایت ہی ضروری ہے.آیا خدام نے کبھی یہ خدمت بھی کی ہے.میں ان کو اس خدمت خلق کی طرف توجہ سچائی اور دیانت قائم کرنا بھی ایک طرح سے خدمت خلق ہے.دلاتا ہوں جو غیر کی بھی خدمت ہے اور اپنی بھی خدمت ہے کہ سچائی اور دیانت قائم کی جائے.میں نے بار بار خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی ہے مگر اس وقت تک باوجو د توجہ دلانے کے انہوں نے اخلاق کی درستگی کی طرف توجہ نہیں کی.یہ کہ کسی کے کھیت کو پانی دے دیا یا منڈیر بنادی.اس سے کیا بنتا ہے.اصل کام تو قوم کے اندر سچائی اور دیانت کو قائم کرنا ہے.جب وہ اس چیز کو قائم کریں گے تو نہ صرف وہ ایک کھیت کو تباہ ہونے سے بچائیں گے بلکہ ہزاروں ہزار آدمیوں کو بچائیں گے جنہوں نے ان مکاروں کا شکار ہو نا تھا.آخر بد دیانت آدمی اپنا پیہ نہیں کھاتا، دوسروں کا کھاتا ہے.اپنی بدنامی نہیں کرتا بلکہ ساری قوم کی بدنامی کا موجب ہوتا ہے روپیه اے پس قومی ترقیات تمام کی تمام دیانت اور قومی ترقیات تمام کی تمام دیانت اور سچائی کے ساتھ وابستہ ہیں.سچائی کے ساتھ وابستہ ہیں اور جس قوم میں یہ دونوں چیزیں پائی نہیں جاتیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.ایک شخص کسی انگریزی فرم کو آرڈر دے کر گھر آجاتا ہے اور سے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوتا اور اگر وہ کسی ہندوستانی فرم کو آرڈر دے کر واپس آتا ہے تو اس کا دل گھٹتا رہتا ہے کہ خبر نہیں پتھر یا کیا چیز بھیج دیں.اسی بد دیانتی کی وجہ سے ہندوستان کی ترقی رکی ہوئی ہے.جو دکاندار دیانتدار ہو گا اس پر لوگ اعتبار کریں گے اور بغیر کسی فکر اور ہچکچاہٹ کے اس کو آرڈر دے آئیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ کبھی ناقص چیز نہیں دے گا.پس قومی ترقی امانت اور دیانت کی شہرت کے ساتھ ہوتی ہے ، اگر تمام احمدی دیانتدار ہونگے تو جہاں بھی کوئی احمدی دوکاندار ہو گا لوگ اس کے پاس جائیں گے کہ اس سے سودا اچھا ملتا ہے.چلو اس کے پاس چلیں اور کہیں گے ، ہے تو کافر پر ہے دیانتدار اور سب سودا لوگ اس سے خریدیں گے لیکن اگر قادیان کا احمدی دکاندار بھی ایک من آئے میں سیر بھر مٹی ملا دیتا ہے تو اس کے اندر وہ کونسی چیز ہے جس کی وجہ سے لوگ احمدیت کی طرف توجہ کریں گے اور جو چیز اس کو دوسرے دوکانداروں سے ممتاز کرنے والی ہے ، میں نے خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر خدام کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ اس کی نگرانی کریں.انہوں نے کچھ دن کام بھی کیا تھا مگر انہوں نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی.اگر ہر خادم اس بات کا فیصلہ کرلے کہ میں نے بد دیانتی کو مٹانا ہے.اگر اس کا باپ دکاندار ہے تو باپ سے کہہ دے تمہیں بد دیانتی نہیں کرنے دوں گا اگر اس کے بھائی دوکاندار ہیں تو بھائیوں سے کہ دیں کہ میں تمہیں بد دیانتی نہیں کرنے دوں گا.اگر اس کے دوست اور رشتہ دکاندار ہیں تو دوستوں اور رشتہ داروں سے کہہ دے کہ میں تمہیں بد دیانتی نہیں کرنے دوں گا.اگر اس کی بیوی دوکان کرتی ہے تو بیوی سے کہہ دے کہ میں تمہیں بدیانتی نہیں کرنے دوں گا اور اگر تم باز نہ آئے اور اصلاح نہ کی تو میں تمہارے خلاف گواہی دوں گا تو مجھے امید ہے کہ اگر ہر خادم یہ فیصلہ کرے تو ایک گھنٹہ کے اندر اندر اس عیب کی اصلاح ہو سکتی ہے.اگر تمہارا بھائی تاجر ہے اور وہ بد دیانتی کرتا ہے اور اگر
407 تمہاری ماں تاجر ہے اور وہ بد دیانتی کرتی ہے.اگر تمہاری بیوی تاجر ہے اور وہ بد دیانتی کرتی ہے تو یہ بد دیانتی اس وقت تک ہے جب تک ان کو یقین ہے کہ تم ان کی محبت کی خاطر ان کی رپورٹ نہیں کرو گے لیکن جب ان کو معلوم ہو جائے گا کہ تم ان کی محبت کی پرواہ نہیں کرو گے اور تم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر وہ بد دیانتی سے باز نہ آئے تو تم اس کی رپورٹ کرو گے تو کیا ہو سکتا ہے کہ وہ دوسرے منٹ میں بددیانتی کریں.باپ کے گا بیٹا پچھلا جانے دو ، آئندہ میں کبھی بد دیانتی نہیں کروں گا.بھائی کہے گا پچھلا معاف کر دو ، آج سے میں باز آیا.بیوی کے گی کہ یہ قصور معاف کر دو ، آئندہ یہ حرکت نہیں کرونگی.پس جب تم یہ تنبیہہ کر دو گے اور ایسے موقعہ پر ان کی محبت کو قربان کر دو گے تو تم دیکھو گے کہ ایک گھنٹہ کے اندر اندر بد دیانتی مٹ جائے گی.پس قوم کی اصلاح تمہارے ہاتھوں میں ہے.بیٹے کی اصلاح باپ کے ہاتھ قوم کی اصلاح افراد کے ہاتھوں میں ہے میں ہے.بھائی کی اصلاح بھائی کے ہاتھ میں ہے بیوی کی اصلاح خاوند کے ہاتھ میں ہے اور ماں کی اصلاح بیٹوں کے ہاتھ میں ہے.اگر تم اس طریق کو استعمال کرو تو چند دن نہیں بلکہ ایک گھنٹہ کے اندر ساری قوم کی اصلاح ہو سکتی ہے لیکن اگر تمہارا دوست دیکھتا ہے کہ وہ بد دیانتی کرے گا تو تم اس پر پردہ ڈالو گے اور جھوٹ بولو گے تو تم اس کو بھی غرق کرتے ہو اور آپ بھی غرق ہوتے ہو.کیا تم اس کو پسند کرتے ہو کہ اس کی بد دیانتی پکڑی جائے اور اس کی سزا میں اسے پانچ دس گالیاں یا دو چار تھپڑ پڑیں.یا تم اس کو پسند کرتے ہو کہ اس کو لاکھ سال تک جلتی ہوئی جہنم میں ڈالا جائے تو تمہارا دوست ان پانچ دس گالیوں یا دو چار تھپڑوں سے اگر بچنا بھی چاہتا ہو تو تمہارا فرض ہے کہ تم اس کو گھسیٹ کر لاؤ اور اسے تھپڑ اور گالیاں دلاؤ تاکہ اس کی سزا اسی دنیا میں ختم ہو جائے اور وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائے.اگر تمہیں خدا پر ایمان نہیں تو پھر بے شک تم اس کو انسانوں کی سزا سے بچاؤ کیونکہ تم سمجھتے ہو کہ خدا کی کوئی سزا نہیں ، اس سے بچنے کی کوئی ضرورت نہیں.انسان کی سزا ہے اس سے میں بچاتا ہوں.پس ایسی بے ایمانی کی صورت میں ہی ہو سکتا ہے.کہ تم اس کو می جرائم میں کسی کی رعایت کرنا خطرناک ہے سزا سے بچانے کی کوشش کرو.ورنہ قومی جرائم میں کسی کی رعایت کرنا خطرناک چیز ہے.ہاں فردی خرابی میں پردہ پوشی کرنا بے شک اعلیٰ صفت ہے.ایک ایسا جرم ہے جس کا زید یا بکر سے تعلق ہے.مثلا زید سے کوئی غلطی ہوئی یا بکر سے کوئی غلطی ہوئی جس کا صرف ان کے ساتھ ہی تعلق ہے تو ہمارا فرض ہے کہ پردہ پوشی سے کام لیں.خدا تعالی ان کے گناہ بھی معاف کرے اور ہمارے گناہ بھی معاف کرے.مگر ایسا جرم جو قوم کے اخلاق بگاڑنے والا ہے اور جس کا اثر ساری قوم پر پڑتا ہے ، ہر شخص جو اس کا ارتکاب کرتا ہے، وہ بھی قوم کا دشمن ہے اور ہر شخص جو اس پر پردہ ڈالتا ہے، وہ بھی قوم کا دشمن ہے اور ہر وہ شخص جس کے دل میں اس جرم کو دور کرنے کی خواہش نہیں ، وہ بھی قوم کا دشمن ہے.پس آج سے تم یہ فیصلہ کر لو کہ جھوٹ اور بد دیانتی کو مٹانا ہے.تم یہ کر کے دیکھ لو.اگر یہ دونوں چیزیں تم اپنے اندر پیدا کر لو گے تو تم دیکھو گے کہ شدید سے شدید دشمن بھی تمہاری تعریف کرنے پر مجبور ہو گا اور اپنی ضرورتوں کے موقع پر وہ تم پر اعتبار اور اعتماد کرے گا.پس میں جماعت کو آنے والے خطرہ سے جس کی الوصیت میں خبر دی گئی تھی ، آگاہ کرتا ہوں اور یہ نہیں کہ آگاہ کر دینے سے میں اپنے آپ کو ذمہ داری سے آزاد سمجھتا ہوں بلکہ جب تک مجھے خدا تعالی توفیق دے میں اپنی ذمہ داری کو پورے طور پر ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور میرا ہی نہیں بلکہ تم میں سے ہر شخص کا فرض ہو گا کہ اس خطرہ سے آگاہ رہے جس کے متعلق آج سے سینتیس سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خبردار کیا تھا.اگر پھر بھی وہ چور تمہارے گھر میں گھس
408 آئے تو تم سے زیادہ ابلہ کون ہو گا کہ خدا کے مامور نے سینتیس سال پہلے بتا دیا تھا کہ شیطان فلاں طرف سے آئے گا.مگر پھر بھی تم نے احتیاط نہ کی اور اسے گھر میں گھنے دیا.پس اب بھی تمہارا فرض ہے کہ ہشیار ہو جاؤ اور قومی عزت کو ہمیشہ مد نظر رکھو اور اس کے تحفظ کو ترجیح دو کمریں کس لو اور قومی عزت کو بچانے اور قومی ناک کو بچانے کے لئے مجرموں اور غداروں کو نکال باہر کرو خواہ وہ تمہارا باپ ہو، خواہ وہ تمہارا بھائی ہو خواہ وہ تمہاری ماں ہو خواہ وہ تمہاری بیوی ہو اور خواہ وہ تمہارا دوست ہو.اور کوشش کرو کہ اللہ تعالٰی کا سلسلہ نیک نامی اور اعلی اخلاق کے ساتھ ترقی کرے.یا د رکھو قومی اخلاق اسی وقت غالب ہو سکتے ہیں جب قوم غالب ہو اور جب احمدیت غالب آئے گی تو اس وقت ہمارے یہ اخلاق کام نہیں آئینگے جو آج میرے اند یا تمہارے اندر پائے جاتے ہیں بلکہ وہ اخلاق کام آئیں گے اور ان سے دنیا کی اصلاح ہو گی جو اس وقت جماعت کے اندر پائے جاتے ہوں گے.اس وقت یہ کام نہیں آئیں گے بلکہ اس شخص کے اخلاق کام آئیں گے جو اس وقت جماعت کے سر پر ہو گا.جب جماعت میں حکومت آئے گی کیونکہ یہ کام اس نے کرنا ہے کہ ان اخلاق کو دنیا پر غالب کرے.میں تو واعظ ہوں.سیاست میرے پاس نہیں ، غلبہ مجھے حاصل نہیں.میرے پاس تو اتنی بھی طاقت نہیں جتنی کم سے کم اقلیت کو حاصل ہے.ہندوستان میں سب سے چھوٹی مینارٹی سکھوں کی ہے.مجھے تو اتنی بھی طاقت حاصل نہیں جو سکھوں کو ہے.تو میرے اندر کتنے ہی بلند اخلاق ہوں ، وہ دنیا کی اصلاح میں کام نہیں آسکتے.ہاں اس شخص کے اخلاق کام آئیں گے جو اس وقت جماعت کے سر پر ہو گا.جب جماعت کو غلبہ حاصل ہو گا.میں تو وعظ کرتا ہوں لیکن وعظ کیا قرآن مجید میں کم ہے.اچھے سے اچھا و عظ قرآن مجید میں موجود ہے.اچھے سے اچھا و عظ حدیث میں موجود ہے.اگر قرآن مجید اور حدیث کے وعظ نے کام نہ دیا تو میرا وعظ کیا کام دے گا.پس وہی اخلاق کام دیں گے جو اس وقت جماعت میں جماعت کے اخلاق کی درستی کا کام ہمیشہ جاری رہنا چاہئے موجود ہوں گے جب جماعت کو غلبہ حاصل ہو گا اور جو اس وقت جماعت کے سر پر ہو گا.اس لئے اس وقت تک اخلاق کی درستی کا کام کرتے جاؤ جب تک کہ جماعت کو غلبہ حاصل ہو.اگر اس وقت تک تم برابر اخلاق کو درست رکھتے گئے تو جب غلبہ ملے گا وہ غلبہ نیکی کا ہو گا.پس جماعت کی حالت کم از کم اس وقت تک نیک ہونی چاہئے.جب تک یہ حالت قائم رہے گی، اس وقت تک جماعت بڑھتی جائے گی اور جب یہ حالت نہ رہے اور خرابی پھیل جائے تو پھر ترقی رک جاتی ہے.پھر کسی مامور کے ذریعہ سے ترقی حاصل ہو تو ہو اس جماعت کے اخلاق سے نہیں ہو سکتی.پس ہمارا فرض ہے کہ ان اخلاق کو کم از کم اس دن تک جاری رکھیں جس دن کہ احمدیت کو غلبہ حاصل ہو تاکہ یہ اخلاق ساری دنیا میں جاری ہو جائیں اور دنیا تسلیم کرے کہ مسیح موعود علیہ السلام نے آکر ان اخلاق کو جاری کیا.اگر آج ہم نے ان اخلاق کو مار دیا تو کل کو خراب اخلاق دنیا میں جاری ہوں گے اور جب جماعت میں حکومت آئے گی تو وہ مسیح موعود علیہ السلام کی حکومت نہیں ہو گی.وہ محمد میں لی لی ایم کی حکومت نہیں ہوگی بلکہ وہ شیطان کی حکومت ہوگی اور اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی جماعت کو اس لئے تو پیدا نہیں کیا کہ ان کے ذریعہ انسانوں کی گردنیں شیطان کے قبضہ میں چلی جائیں.پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی قوم کے اخلاق کو درست رکھیں اور وہ آگے اپنی اولادوں کے اخلاق کو درست کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ یہ اخلاق رواج پا جائیں اور جب احمدیت کا غلبہ ہو اور دنیا کی اصلاح کا کام احمدیت کے سپرد ہو تو احمدیت دنیا کے اخلاق درست کر دے اور دنیا تسلیم کرلے کہ محمد رسول اللہ میں لیا اور پھر شیطان کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے.اس کام کے لئے اگر ہماری
409 راتوں کی نیندیں حرام ہو جائیں ، ہمارے دنوں کا آرام اڑ جائے ، ہمارے دلوں کا چین اور سکینت کھویا جائے تو یہ کوئی بڑی تکلیف نہیں بلکہ عین حق ہو گا جو ہم نے ادا کیا.اللہ تعالی رحم فرمائے اور ان بلاؤں سے ہمیں اس سے زیادہ نجات دے جتنی کہ طاعون اور ہیضہ سے بچنے کی بندے تمنار کھتے ہیں.آمین." ) فرموده ۱۶ فرور بی ۱۹۴۵ء مطبوعه الفضل ۲۲ فروری ۱۹۴۵ء)
410 خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ مشورہ دیں کہ آئندہ نسلوں میں قربانی محنت اور کام بروقت کرنے کی روح کس طرح پیدا کی جائے؟ ” میں نے بار بار جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ قومیں اگلی نسل سے بنا کرتی ہیں.کوئی قوم اپنی زندگی کا اعتبار نہیں کر سکتی اگر اس کی اگلی نسل کار آمد ، نیک اور محنتی نہ ہو.جب کبھی قوم پر زوال آتا ہے تو آئندہ نسلوں سے آتا ہے اور جب بھی ترقی ہوتی ہے تو وہ بھی آئندہ نسلوں سے ہوتی ہے.دوام بخشنے والی چیز اولاد ہی ہے.اگر اولا د انسان کو حاصل ہوتی ہے تو اس خاندان کا نام رہتا ہے اور اگر اچھی اولاد حاصل ہوتی ہے تو اس کے مذہب اور اس کی قوم کا نام رہتا ہے.اللہ تعالٰی نے جو انسان کے اند ر اولاد کی خواہش رکھی ہے ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالٰی بنی نوع انسان کو دوام بخشنا چاہتا ہے.ہر ماں اور ہر باپ ایک لڑکے یا لڑکی کی جستجو میں رہتے ہیں.جن گھروں میں اولاد نہیں ہوتی ، باپ بھی اور مائیں بھی سخت غمزدہ ہوتی ہیں.کبھی طبیبوں سے علاج کراتے ہیں ، کبھی دائیوں سے مشورے لیتے ہیں، کبھی دعائیں کرتے اور دعا ئیں کراتے ہیں کہ ہمارے ہاں اولاد نہیں اولاد ہو جائے حالانکہ اولاد کیا فائدہ پہنچاتی ہے ؟ کچھ بھی نہیں.ہزاروں ہزار انسان دنیا میں ایسے ہیں پچاس، ساٹھ یا ستر فیصد ی نہیں بلکہ نوے فیصدی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی اولاد سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا.اگر تو نوے فیصدی لوگ ایسے ہوتے کہ ان کی اولاد انہیں فائدہ پہنچاتی اور ان کی خبر گیری کرتی تو ہم سمجھتے کہ اولاد کی خواہش انسان کے اندر اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ وہ اولاد سے فائدہ اٹھائے.مگر ہم تو دیکھتے ہیں کہ ادھر اولاد جوان ہوتی ہے اور ادھر وہ بیوی بچوں کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے.سینکڑوں بوڑھے میرے ذاتی علم میں اس بات کے محتاج تھے کہ ان کی خبر گیری کی جاتی مگر ان کے لڑکوں یا لڑکیوں نے ان کی طرف توجہ نہیں کی کیونکہ وہ لڑکیاں اپنے خاوندوں یا لڑ کے اپنی بیویوں کے چونچلوں میں مشغول ہو گئے.یہ نظارہ عام طور پر دنیا میں نظر آتا ہے کہ گھروں میں ماں باپ کی قدر نہیں کی جاتی گو بعض قدر کرنے والے بھی ہوتے ہیں مگر وہ خدمت سے قاصر رہتے ہیں.ادھر وہ جوان ہوئے اور ادھر ان کے ماں باپ دنیا سے چل بسے.تو جب بالعموم یہ بات دنیا میں نظر آتی ہے تو ان حالات میں یہ شدید خواہش جو انسان کے دل میں اولاد کے متعلق پائی جاتی ہے وہ دماغی تاثرات کا نتیجہ نہیں قرار پا سکتی بلکہ معلوم ہو تا ہے ، محض طبعی خواہش ہے کہ وہ عقلی خواہش کی بنیاد ہمیشہ دلیل اور تجربہ پر ہوتی ہے لیکن طبعی خواہش کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں ہوتی.پس جب دنیا میں اس بات کی کوئی دلیل نظر نہیں آتی تو معلوم ہوا کہ یہ طبعی خواہش ہے جو خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان میں تسلسل قائم رکھنے کے لئے رکھی ہوئی ہے.کہتے ہیں کہ اولاد سے نام قائم رہتا ہے مگر نام کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو کہاں قائم رہتا ہے.کوئی پوچھے کہ تمہارے پڑدادا کا نام کیا ہے تو کہہ دیتے ہیں پتہ نہیں حالانکہ پڑدادا قریب کی چیز ہے.پڑدادا کے معنی ہیں باپ کا دا دا.تو دنیا میں ہزاروں لاکھوں آدمی ایسے ہیں جو اپنے پڑدادا کا نام نہیں جانتے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی اس مسجد کے دروازہ پر کھڑا
411 ہو جاۓ اور ہر گزرانے والے سے پوچھے کہ تمہارے پڑدادا کا کیا نام ہے تو مجھے یقین ہے کہ پچاس فیصدی لوگ یہ کہیں گے کہ ہمیں پتہ نہیں.جب میں خطبہ کے بعد گھر آیا تو مجھے ایک خاتون نے بتایا کہ ہم پانچ عورتیں اکٹھی بیٹھی ہوئی تھیں ، خطبہ کے بعد ہم نے ایک دو سرے سے اس کے پڑدادا کا نام پوچھا تو پانچ میں سے صرف ایک کو پڑدادا کا نام معلوم تھا.جب اتنی جلدی لوگ اپنے باپ دادوں کا نام بھول جاتے ہیں تو پھر اس دلیل کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے کہ اولاد ہوگی تو ہمارا نام قائم رہے گا.نام کہاں قائم رہتا ہے ؟ کتنے لوگوں کی اولاد ہے کہ جو اپنے ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کا ذکر کرتی ہے ؟ ان لوگوں کو دیکھ لو جن کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور سوچو تو سہی کہ وہ کتنی دفعہ اپنے ماں باپ کا ذکر خیر کرتے ہیں؟ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے والدین کو یاد رکھتے ہیں.تحریک جدید میں حصہ لینے والوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حصہ لیا ہے مگر یہ لوگ دس فیصدی بھی نہیں بلکہ پانچ فیصدی بھی نہیں.پانچ فیصدی کے حساب سے پانچ ہزار میں سے اڑھائی سو بنتے ہیں مگر میرے خیال میں تو اڑھائی سو بھی ایسے نہیں جنہوں نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حصہ لیا ہو.(بعد میں اندازہ لگوایا گیا تو وہ لوگ جنہوں نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حصہ لیا ہے صرف دو سو کے قریب ہیں).تو ماں باپ کا تعلق بالکل قریب کا تعلق ہے مگر لوگ ان کو بھی یاد نہیں رکھتے.ماں باپ کس طرح تکلیف اٹھا کر اور اپنی ضرورت کو پیچھے ڈال کو بچوں کی پرورش کرتے اور ان کو پڑھاتے لکھاتے ہیں لیکن وہی بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے والدین پر ایک پیسہ خرچ کرنے میں بھی دریغ محسوس کرتے ہیں.میرے پاس کئی ایسے جھگڑے آتے ہیں اور ماں باپ آکر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہم ضعیف ہو گئے ہیں اور ہمارے لڑکے ہماری خدمت نہیں کرتے.جب لڑکوں سے پوچھا جائے تو کہتے ہیں تنخواہ تھوڑی ہے.دو اڑھائی سو روپیہ تو ملتا ہے.مشکل سے اپنا گزارہ ہوتا ہے.ان کی خدمت کہاں سے کریں؟ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے ماں باپ کا گزارہ ان سے بھی کم تھا لیکن اس کے باوجود ان پر خرچ کرتے تھے.غرض ہر نسل کی نظر آگے کی طرف جارہی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کے اندر اولاد کی خواہش کا مادہ اس لئے رکھا ہے تاکہ بنی نوع انسان کے تسلسل کو جاری رکھیں.اگر یہ خواہش نہ ہوتی تو دنیا کے واقعات کو دیکھ کر اکثر ماں باپ اولاد پیدا کرنے کے مخالف ہوتے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ماں باپ مصیبتیں اٹھاتے ہیں، دکھ سہتے ہیں ، بھوکے رہتے ہیں.بچہ جننے کی وجہ سے ماؤں کو ہزاروں قسم کی بیماریاں لگ جاتی ہیں.پھر بھی ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بچے ہو جائیں.بچوں سے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا سوائے نیک اور وفاشعار اولاد کے.پھر بھی چھ چھ سات سات بچے ہونے پر بھی اگر درمیان میں وقفہ پڑ جائے تو عورتیں کہتی ہیں مدت سے بچہ نہیں ہوا.ایک بچہ اور ہو جائے.ساری عمر عورت کا خون اولاد کے پیدا کرنے سے بہتا چلا جاتا ہے مگر وہ پرواہ نہیں کرتی.کئی عورتیں منہ سے تو کہتی ہیں کہ ہمیں اولاد کی خواہش نہیں مگر ان کی باتوں سے عیاں ہو جاتا ہے کہ وہ صرف شرم و حیا کی وجہ سے ایسا کہہ رہی ہیں ورنہ ان کا دل اولاد نہ ہونے کی وجہ سے زخمی ہوتا ہے.پس اولاد کی خواہش ایک طبعی خواہش ہے اور یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے اس کے پیچھے جو جذ بہ خداتعالی نے رکھا ہے وہ یہی ہے کہ نسل انسانی قائم رہے گو انسان اس کو شکل یہ دیتا ہے کہ نام قائم رہے اور گو نام بھی کچھ مدت تک قائم رہتا ہے.باپ کا نام بیٹے نے یاد رکھا یا دادا کا نام پوتے نے یاد رکھا اور بعض خاندانوں میں چار چار پانچ پانچ پشت تک بھی نام قائم رہتا ہے لیکن بعض جگہ نام بالکل قائم نہیں رہتا.بیٹے باپ کا نام لینا اور یہ کہنا کہ ہمارے باپ کا یہ نام تھا پسند نہیں کرتے بلکہ وہ جگہیں چھوڑ دیتے ہیں جہاں ان کے باپ نے غربت میں زندگی گزاری ہو کیونکہ اس جگہ رہنا وہ ہتک سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی ہندو کا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ اس نے مصیبت اٹھا کر اور تکلیف برداشت کر کے اپنے لڑکے کو پڑھایا لکھایا اور اسے گریجویٹ کرایا.اس وقت گریجویٹ ہونا بھی بڑی بات تھی.اس لئے وہ ای.اے.سی ہو گیا.باپ اس بات کو سن کر کہ میرا ، :
412 بیٹا ڈ پٹی ہو گیا ہے ، بہت خوش ہوا.اس وقت بڑے سے بڑا درجہ یہی سمجھا جاتا تھا کہ کوئی ہندوستانی ای.اے.سی ہو جائے.اس وقت اسے گورنری کے برابر سمجھا جاتا تھا.اس لئے وہ بڑے شوق سے اپنے بیٹے سے ملنے کے لئے گیا کہ ذرا میں بھی جا کر اس کی عزت میں شریک ہوں اور میں بھی لوگوں سے سلام کراؤں کہ میرا بیٹا ڈپٹی ہے.جب یہ وہاں پہنچا تو ڈپٹی صاحب کرسیاں بچھا کر بیٹھے ہوئے تھے اور اس کے دوست ای.اے.سہی ، تحصیلدار رؤسا اس کے پاس بیٹھے تھے.وہ تمام بونڈ سوٹڈ اور عمدہ لباس میں تھے.یہ بھی اپنی دھوتی جنیو اپنے ایک کرسی پر جا کر بیٹھ گیا.اس کے لباس سے غربت ٹپکتی تھی.پہلے بھی غریب تھا پھر لڑکے کی تعلیم اور پڑھانے لکھانے پر جو کچھ تھا وہ سب خرچ ہو چکا تھا.اب اس کا سارا اثاثہ دھوتی اور جنیو ہی رہ گیا تھا.یہ بڑے فخر سے جا کر کرسی پر بیٹھ گیا.اول تو اسے امید تھی کہ میرا بیٹا آگے آکر گلے ملے گا جیسا پہلے ملا کرتا تھا مگر بیٹے نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا.اب تو اس بات میں کچھ کمی آگئی ہے مگر پہلے زمانہ میں چونکہ ہندوستانیوں کو اعزاز بہت کم ملتا تھا اس لئے ایسے لوگ دوسرے لوگوں کو بہت حقیر سمجھتے تھے چنانچہ اس مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے بھی ایک شخص کو جو اس قسم کا گند الباس پہنے ، میلی سی دھوتی اور جنیو لٹکائے ہوئے تھا کرسی پر بیٹھے دیکھا تو اس امر کو برا منایا اور حقارت سے کہنے لگے کہ یہ کون بد تہذیب ہے جو بائیں ہیئت ہماری مجلس میں آبیٹھا ہے.اس نالائق بیٹے نے بھی اپنی عزت جتانے کے لئے ، جسے وہ عزت سمجھتا تھا کہا ایہہ ساڈے گھر دے ٹلئے نے." یعنی ہمارا اپر انا نوکر ہے اس لئے گستاخ ہو گیا ہے.باپ نے سنا اور حقیقت سمجھ لی کہ میرے بیٹے کے دماغ میں تغیر آچکا ہے.وہ غصہ سے کھڑا ہو گیا اور ان لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ ”جی میں انہاں دائہلیا نہیں اینہاں دی ماں دانہ یا ہاں." یعنی میں ان کا نوکر نہیں ، ان کی ماں کا نوکر ہوں، اس فقرہ سے وہ لوگ حقیقت سمجھ گئے.ان کے اندر کچھ حیا تھی.وہ اس کے بیٹے کو ملامت کرنے لگے اور کہا کہ بڑا افسوس ہے.آپ کو چاہئے تھا کہ آپ ہمیں ان سے ملواتے اور ان سے انٹروڈیوس (Introduce) کراتے.لاعلمی میں ان کی شان میں ہم سے ایسے الفاظ نکل گئے جو نامناسب تھے.تو ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ماں باپ کی کمزوری اور ان کی ادنی حالت کو دیکھ کر اپنی جگہیں چھوڑ دیتے ہیں ، ملک بدل لیتے ہیں ، وطن جانا چھوڑ دیتے ہیں تاکہ پتہ نہ لگ جائے کہ ان کے ماں باپ غریب تھے اور تاکہ وہ غریب والدین کی اولاد ہونے کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں ذلیل نہ ہو جا ئیں.پس دونوں قسم کے گروہ پائے جاتے ہیں اور جو گروہ ماں باپ کا نام قائم رکھنے والا ہے، وہ بھی لمبے عرصے تک نام قائم نہیں رکھ سکتا.اگر ماں باپ کا نام لمبے عرصہ تک قائم رکھنا ممکن ہو تا تو ہمارے ملک میں میراثیوں کو جو شجرہ نسب یاد کرایا جاتا ہے یہ نہ کرایا جاتا.کسی نے شعر کہا ہے.عجب طرح کی ہوئی فراغت جو بار اپنا گدھوں پر ڈالا تو جس طرح گدھوں پر بوجھ ڈال کر فراغت حاصل کی جاتی ہے، یہ بھی اسی طرح کی فراغت ہے کہ میراثیوں کو اپنے باپ دادوں کے نام یاد کرا دیئے جاتے ہیں اور کہہ دیا جاتا ہے کہ چلو چھٹی ہوئی.اب باپ دادا کا نام یا د رکھنے کی زحمت سے آزادی حاصل ہو گئی ہے.پس انسان کے اندر اولاد کی خواہش پیدا کرنے میں اصل حکمت یہ نہیں کہ باپ دادا کا نام قائم رکھا جائے بلکہ اصل میں تو خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ بنی نوع انسان کے تسلسل کو اس حکمت کے ماتحت قائم رکھا جائے اور اس حکمت کے ماتحت اس نے ماؤں اور باپوں کے دلوں میں اولاد کی خواہش پیدا کر دی ہے اور سب مرد اور سب عورت الا ما شاء اللہ جس کی فطرت مسخ ہو چکی ہو یا اپنی قوت مرد ہی کھو چکا ہو اس خواہش کے ماتحت ہی اولاد پیدا کرتے چلے جاتے ہیں.گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہو تا فاقے کر رہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی قبروں پر جاکر منتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ اولاد ہو جائے.بھلا کوئی پوچھے ایک روٹی میں تم گزارہ کرتے ہو.اگر ایک اور آگیا تو تم نصف کھاؤ گے.اگر ان کو یہ سمجھاؤ تو کہتے ہیں ہاں جی ہم آدھی ہی کھالیں گے مگر بچہ
413 ہو جائے.تو یہ انسانی فطرت کا ایک تقاضا ہے اور نسل انسانی کے قائم رکھنے کے لئے خدا نے اولاد کی خواہش پیدا کر دی ہے.اس کے مقابلہ میں دین اور تقوی کو قائم رکھنے کے لئے اچھی نسل کا تقاضا ہوتا ہے.جس طرح نسل انسانی کے قائم رکھنے کے لئے اولاد کا تقاضہ ہوتا ہے اسی طرح نیک اور متقی نسل قائم رکھنے کے لئے اچھی اولاد کا تقاضا ہوتا.جس طرح وہ تقاضا اگر ماں باپ کے دماغوں میں کمزور ہو جائے تو نوع انسانی تباہ ہو جائے اسی طرح اگر یہ تقاضا کمزور ہو جائے کہ دین اور تقوے کو قائم رکھنے کے لئے نیک اولاد پیدا کریں جو کام کرنے والی اور محنتی ہو تو قوم تباہ ہو جائے.ذرا ایک منٹ کے لئے اس بات کا خیال کر کے تو دیکھو کہ اگر عورتوں اور مردوں کے دل سے اولاد پیدا کرنے کی خواہش مٹ جائے تو کیا نسل انسانی مٹ نہ جائے گی اور دس پندرہ یا بیس سال کے اندر نئی اولاد کا ملنا مشکل ہو جائے گا کہ نہیں.اسی طرح سوچ لو کہ اگر نیک اور محنتی نسل پیدا کرنے کی خواہش مٹ جائے تو پندرہ بیس سال تک مذہب تباہ ہو جائے گا کیونکہ جب نیک نسل پیدا کرنے کی خواہش نہ ہوگی تو وہ تدابیر بھی اختیار نہیں کی جائیں گی جن سے آئندہ نسل نیک ، متقی ، دیندار اور محنتی ہو.جس طرح محض اولاد پیدا کرنے کے لئے لوگ دعائیں کراتے ہیں اور و ہمی لوگ تو ٹونے ٹوٹکے کرتے ہیں، قبروں پر جاتے ہیں ، چڑھاوے چڑھاتے ہیں اسی طرح ایک مذہبی انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر اچھی نسل پیدا کرنے کی خواہش ہو اور وہ خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایسے ذرائع استعمال کرے جن سے اولاد نیک ، متقی ، دیندار اور محنتی ہو.میں نے بارہا جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ سلسلہ اچھے نام کے ساتھ اور حقیقی معنوں میں قائم رہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسل کو ایک متقی اور محنتی بنا ئیں.آج دنیا میں مسلمان کہلانے والے بھی موجود ہیں.عیسائی کہلانے والے بھی موجود ہیں.ہندو کہلانے والے بھی موجود ہیں.آخر یہ سب مذاہب شیطان کی طرف سے تو نہیں تھے ، خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے.اللہ تعالٰی نے ہی کرشن کو بھیجا تھا.اللہ تعالی نے ہی رامچندر کو بھیجا تھا.اللہ تعالی نے ہی حضرت مسیح کو بھیجا تھا.یہ نہیں کہ چونکہ ان کو نعوذ باللہ شیطان نے بھیجا تھا.اس لئے ان کی قومیں شیطان کے قبضہ میں چلی گئیں بلکہ جس خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا.اسی خدا نے آپ کے آقا محمد مصطفی میں یہ کہ ہم کو بھیجا.اسی خدا نے محمد رسول اللہ میں لال ہی ہم سے پہلے حضرت عیسی (علیہ السلام) کو بھیجا.اسی خدا نے حضرت موسی کو بھیجا.اسی خدا نے حضرت کرشن کو بھیجا اور اسی خدا نے حضرت رام چندر کو بھیجا تھا اور جن معجزات اور جن کرامات کے ساتھ خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو قائم کیا، ان سے بڑھ کر معجزات اور کرامات کے ساتھ خدا تعالٰی نے محمد رسول اللہ میں امی کی جماعت کو قائم کیا اور گو ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جو معجزات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملے تھے سوائے آنحضرت مینی والی ریلی کے جو آپ سے بہر حال بلند مرتبت تھے اور کسی نبی کو ایسے معجزات نہیں ملے مگر بہر حال خدا کی قدرتوں سے ہی عیسی کی جماعت قائم ہوئی.خدا کی قدرتوں کے ساتھ ہی موسی کی جماعت قائم ہوئی.خدا کی قدرتوں کے ساتھی ہی کرشن کی جماعت قائم ہوئی اور خدا کی قدرتوں کے ساتھ ہی رامچندر کی جماعت قائم ہوئی مگر کہاں ہیں اب وہ نشانات اور کہاں ہیں اب وہ معجزات جو دلوں کو پگھلا دیتے تھے اور جو حیوانوں کو انسان اور انسان کو فرشتے اور فرشتہ خصلت انسانوں کو خدا کے مقرب اور عرش نشین بنا دیتے تھے.کہاں ہیں وہ کرامتیں اور وہ معجزات جو را چچند راور کرشن نے دکھائے جنہوں نے ہندؤوں کی کایا پلٹ دی تھی.کہاں ہیں وہ نشانات جو قرآن مجید میں خداتعالی فرماتا ہے کہ نو بڑے بڑے نشانات حضرت موسی کو دیئے گئے تھے.کیا ان نشانات میں سے نصف یا ان کا چوتھا حصہ یا ان کا کوئی حصہ بھی اب دنیا میں باقی ہے ؟ حضرت عیسی کی نسبت عیسائی بیان کرتے ہی ہیں، مسلمان بھی ان کو ایسا بڑھا چڑھا کر دکھاتے ہیں کہ حضرت عیسی کو تمام انبیاء سے بڑھا دیتے ہیں.ان کے معجزات میں سے علم غیب.جانوروں کا پیدا کرنا.مردوں کو زندہ کرنا.بیماروں کو پھونک مار کر شفا دینا بہت کچھ بیان کرتے ہیں لیکن جو معجزات بھی تھے ، بڑے یا چھوٹے ' وہ انبیاء کی سنت کے مطابق تھے.کیا ان معجزات
414 میں سے کوئی بھی باقی ہے.حضرت مسیح نے کہا ہے کہ اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو گا اور تم پہاڑوں کو حکم دو گے کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جائیں تو تمہارے حکم سے پہاڑ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جائیں گے.مگر کیا ان معجزات میں سے کچھ بھی اب بھی باقی ہے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان دنیا نے کہاں جنا اور کب جن سکتی ہے.وہ جو تمام بنی نوع انسان کا مقصود اور مدعا تھا جس کی خاطر دنیا پیدا کی گئی جو کرامتیں آپ نے دکھا ئیں اور جو معجزات آپ سے ظاہر ہوئے.صحابہ کرام کی قوت عملیہ ، تقوی اور اخلاص سے پتہ لگتا ہے کہ ان کا سکھانے والا کتنا بڑا انسان تھا.مگر کیا وہ کرامتیں اور وہ نشانات مسلمانوں کے دلوں میں بھی گدگدی اور ان کے دفاع میں بھی ہیجان پیدا کرتے ہیں.مگر ایک ذرہ بھر حرکت بھی تو ان میں نہیں پائی جاتی.آخر یہ کیوں ہے؟ صرف اس لئے کہ بعد میں آنے والی نسلوں نے نشانات دکھانے والے سے قطع تعلق کر لیا ورنہ خدا تعالی میں نشان دکھانے کی قدرت تو پھر بھی موجود تھی اور نسل بھی موجود تھی مگر اس زنجیر کے ٹوٹ جانے اور تسلسل کے کٹ جانے کی وجہ سے وہ ان نشانات سے فائدہ حاصل نہ کر سکی.پس جو پہلوں سے ہو ا ر ہی ہمارے ساتھ بھی ہو گا کیونکہ جو قانون پہلے تھا وہی اب بھی جاری ہے.ابھی تو ہماری ابتدائی حالت ہے.ابھی تو ہماری حالت ایسی ہی ہے جیسے کو نپل نکلتی ہے.اگر اس حالت میں بھی ایثار کا مادہ کم ہو جائے ، قربانی کا مادہ کم ہو جائے.عقل اور محنت سے کام کرنے کا مادہ کم ہو جائے اور دنیا داری بڑھ جائے تو یقینا ہمیں مستقبل کے آنے سے پہلے ہی موت کے لئے تیار ہو جانا چاہئے.میں نے بار بار اس بات کی طرف جماعت کو توجہ دلائی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی اس طرف پوری توجہ نہیں کی گئی.ہمارے نوجوان جو آگے آرہے ہیں، ان کے اندر محنت کی عادت کم ہے کام سے جی چراتے ہیں ، ذکر الہی کا مادہ ان میں کم ہے.میں نے خدام کو کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ نوجوانوں کے اندر وہ یہ مادہ پیدا کریں.مگر جہاں انہوں نے کچھ کام کیا ہے وہاں یہ حقیقی کام صفر کے برابر نظر آتا ہے.مجھے سب سے زیادہ جماعت کے لوگوں سے کام پڑتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ حقیقی قربانی اور محنت نوجوانوں میں کم نظر آتی ہے اور تو اور یہ واقفین جو کہتے ہیں ہم نے زندگی قربان کر دی ہے ان واقفین میں سے بھی بعض غیر معقول دماغ کے ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہم نے کام کی ڈائری اس لئے نہیں دی کہ وقت زیادہ ہو گیا تھا.ایک طرف وہ قوم ہے جسے ہم کا فر اور بے دین کہتے ہیں جو چھ چھ سات سات دن بغیر آرام کئے متواتر میدان جنگ میں لڑتے ہیں اور دوسری طرف یہ نوجوان ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کی ہیں لیکن یہ کہتے ہیں کہ چونکہ چھ بجے تک کام کیا تھا اور وقت زیادہ ہو گیا تھا اس لئے ڈائری لکھنی مشکل تھی.اگر ایک دن زیادہ پڑھنا پڑ جائے تو کہتے ہیں آج زیادہ پڑھنا پڑ گیا تھا اس لئے باقی کام نہیں کیا.اگر ان کا یہ حال ہے جو واقفین ہیں اور جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے لئے ہم سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں تو غیر واقفین کا کیا حال ہو گا.ان کے اندر بھی ابھی وہ بیداری اور وہ روح نظر نہیں آتی اور ان کے اندر بھی ابھی وہ ارادہ پیدا نہیں ہوا کہ ان میں سے کسی کے سپرد کوئی کام ہو تو وہ کہے کہ میں مرجاؤں گا مگر اپنے کام کو پورا کر کے چھوڑوں گا.اگر ان کے اندر عام مومن کے ایمان کا کروڑاں حصہ بلکہ دس کروڑواں حصہ بھی ہو تا تو اگر سارا دن کام کرنے کے بعد بارہ گھنٹے اور لگتے تھے تو ان کے اندر یہ خیال پیدا نہیں ہونا چاہئے تھا کہ انہوں نے بارہ گھنٹے یا میں گھنٹے یا چوبیس گھنٹے کام کیا ہے.اس لئے اب کام ختم کرنے سے پہلے آرام کرنا چاہئے.زیادہ سے زیادہ یہی ہو تاکہ یہ کام کرتے کرتے مرجاتے اور کیا ہو تا؟ پاگل ہی ہیں جو کہا کرتے ہیں کہ مرنے سے بڑھ کر کوئی اور مصیبت ہوتی ہے.کہتے ہیں کسی مجسٹریٹ نے ایک ملزم کو یہ سزا سنائی کہ اس کو پھانسی دے دی جائے تو وہ کہنے لگا کہ اس سے تو بہتر ہے کہ مجھے مروا ہی دیں.تو اس قسم کی باتیں جاہلوں اور پاگلوں کی طرف منسوب کی جاسکتی ہیں مگر ایک واقف جو یہ کہہ کر آتا ہے کہ میں مرنے کے لئے آیا ہوں کیا اس کے منہ سے اس قسم
415 کے لفظ بیہودہ پوچ عذر نکلنے زیب دیتے ہیں.ایک شخص کو جو واقف زندگی تھا میں نے کام کے لئے سندھ بھیجا.چار دن کے بعد وہ بھاگ آیا اور آکر خط لکھ دیا کہ وہاں کام سخت تھا اس لئے میں اس کام کو چھوڑ کر بھاگ آیا ہوں اور اب روزانہ معافی کے خطوط لکھتا رہتا ہے حالانکہ دینی جنگ کے میدان سے بھاگنے والے کو قرآن کریم جہنمی قرار دیتا ہے اس کے لئے معافی کیسی؟ یہ تحریک جدید کے واقف زندگی ہیں.ان کی مثال کشمیریوں کی سی ہے جن کے متعلق کہتے ہیں کہ راجہ نے ان کو بلایا اور کہا کہ سرکار کو لڑائی پیش آگئی ہے.سرکار نے ہم سے بھی مدد کے لئے فوج مانگی ہے.میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم بھی لڑنے کے لئے جاؤ.جو افر راجہ سے بات کرنے کے لئے آیا تھا اس نے کہا.حضور کا نمک کھاتے رہے ہیں.آپ کا حکم سر آنکھوں پر.ساری عمر آپ کا نمک اس لئے تو کھاتے رہے ہیں کہ لڑائی کریں.اگر مہاراج اجازت دیں تو میں ذرا فوجیوں سے بات کر آؤں.مہاراج نے اجازت دے دی.جب فوجیوں سے بات کر کے واپس آیا تو عرض کی کہ مہاراج فوج تیار ہے ان کو کوئی عذر نہیں مگر وہ ایک عرض کرتے ہیں.راجہ نے کہا کیا؟.کہنے لگا.حضور سنا ہے پٹھانوں کے ساتھ لڑائی ہے.پٹھان بہت سخت ہوتے ہیں.اگر ہمارے ساتھ پرہ کا انتظام ہو جائے تو ہم لڑائی کے لئے تیار ہیں.تو ایسے ہی ہمارے نوجوان پیدا ہو رہے ہیں.وہ قربانیوں کے موقعہ سے ڈرتے ہیں.محنت سے کام کرنے سے ڈرتے ہیں اور پھر وہ اپنے آپ کو واقف زندگی اور مجاہد کہتے ہیں اور ہر شخص اپنے نام کے.ساتھ واقف زندگی اور مجاہد لکھنے کے لئے تیار ہے.مگر کام کرنے کے وقت ان کی جان نکلتی ہے.مگر بہر حال یہ لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے کچھ نہ کچھ قربانی کی ہے.ان میں بعض ایسے ہیں جو دنیوی طور پر اس سے زیادہ کما سکتے تھے جتنا ان کو یہاں گزارہ ملتا ہے لیکن دوسرے نوجوانوں کی حالت تو اور بھی بد تر ہے.میں نے بار بار توجہ دلائی ہے مگر خدام نے کوئی ایسار استہ نہیں نکالا جس کے ساتھ نوجوانوں کو باقاعدہ اور متواتر کام کرنے کی عادت ہو اور وہ یہ نہ کہیں کہ وقت زیادہ ہو گیا تھا اس لئے کام رہ گیا بلکہ ان کے دل میں یہ احساس ہو کہ جو کام ہمارے سپرد کیا جائے ، ہم نے اسے ضرور کرتا ہے اور اسے ختم کر کے چھوڑنا ہے چاہے ڈیسک پر بیٹھے بیٹھے یا میز پر بیٹھے بیٹھے یا فرش پر بیٹھے بیٹھے یا چلتے چلتے یا کام کرتے کرتے میری جان ہی کیوں نہ نکل جائے.جب تک یہ مادہ اور یہ حس پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے اور کبھی بھی ہم تسلی اور اطمینان کے ساتھ یہ امانت اگلی نسل کے سپرد نہیں کر سکتے.احمدیت کی محبت ، اخلاص اور تربیت جھگڑوں سے روکتی ہے مگر لوگ معمولی معمولی بات پر جھگڑتے ہیں.عہدوں پر جھگڑ کر ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں.یہ سارا نقص اس وجہ سے ہے کہ احمدیت کی محبت دل میں نہیں.اگر احمدیت کی محبت ہوتی تو کچھ بھی ہو جاتا وہ اس کی پرواہ نہ کرتے.یہ لوگ ہسپتالوں میں جاتے ہیں.عدالتوں میں جاتے ہیں.کہیں ان کو چپڑاسی تنگ کرتے ہیں.کہیں ان کو کمپو نڈر دق کرتے ہیں.یہ ان ساری ذلتوں کو برداشت کرتے ہیں ، اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے عزیز کی جان یا ہماری عزت خطرے میں ہے.اگر اسلام کی جان اور اسلام کی عزت کی قدر ان کے دل میں ہوتی تو یہ ذرا ذرا سی بات پر کیوں جھگڑتے.تو فرق یہی ہے کہ اپنے عزیز کی جان یا اپنی عزت ان کو زیادہ پیاری ہے اس لئے کچھریوں یا ہسپتالوں میں مجسٹریٹوں یا ڈاکٹروں کی جھڑکیاں کھاتے ہیں اور برداشت کرتے ہیں ان سے گالیاں سنتے ہیں اور بنتے ہوئے کہتے چلے جاتے ہیں کہ حضور ہمارے مائی باپ ہیں جو چاہیں کہہ لیں مگر خدا کے سلسلہ اور خدا کے نظام میں معمولی بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے.وہاں ہسپتالوں میں دائیاں اور نرسیں ان کو جھڑکتی ہیں.ڈاکٹر حقارت سے کہتا ہے چلے جاؤ تو یہ دروازہ کے پاس جا کر چھپ کر کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے اس کو ناراض کیا تو میرے عزیز کی جان خطرہ میں پڑ جائیگی لیکن ان کو احمدیت عزیز نہیں ہوتی ، اسلام عزیز نہیں ہو تا ، اس لئے سلسلہ اور نظام کی خاطر ادنی سا برا کلمہ سننے کی تاب نہیں رکھتے.
416 دوسری چیز محنت ہے.اگر واقعہ میں احمدیت کی محبت ہوتی تو ضرور نوجوانوں کے اندر محنت کی بھی عادت ہوتی مگر ان کے کاموں میں محنت اور باقاعدگی سے کام کرنے کی عادت بالکل نہیں اور اگر کوئی کسی کو اچھی بات بھی کہہ دے تو وہ چڑ جاتا ہے کہ اس نے مجھے ایسی بات کیوں کی.پس میں پھر ایک دفعہ خدام کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مشورہ کر کے میرے سامنے تجاویز پیش کریں.میں نے بھی اس پر غور کیا ہے اور بعض تجاویز میرے ذہن میں بھی ہیں لیکن پہلے جماعت کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ وہ مشورہ دیں کہ آئندہ نسلوں میں قربانی اور محنت اور کام کو بروقت کرنے کی روح پیدا کرنے کے لئے ان کی کیا تجاویز ہیں مگر یہ شرط ہے کہ جو شخص تجویز پیش کرے ، وہ اپنی اولاد کو پہلے پیش کرے.بعض لوگ لکھنے کو تو لکھ دیتے ہیں کہ اس طرح سلوک کیا جائے.اس طرح نوجوانوں پر سختی کی جائے مگر جب خودان کے بیٹوں کے ساتھ سختی کی جائے تو شور مچانے لگ جاتے ہیں تو جو شخص اپنی تجاویز لکھے وہ ساتھ ہی یہ بھی لکھے کہ میں اپنی اولاد کے متعلق سلسلہ کو اختیار دیتا ہوں کہ وہ جو قانون بھی بنائیں ، میں اپنی اولاد کے ساتھ اس سلوک کو جائز سمجھوں گا.اسی طرح خدام الاحمدیہ آپس میں مشورہ کر کے مجھے بتائیں کہ نوجوانوں کے اندر محنت اور استقلال سے کام کرنے کی عادت پیدا کرنے کے لئے ان کی کیا تجاویز ہیں.نوجوان کام کے موقعہ پر سو فیصدی فیل ہو جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں ، یہ مشکل پیش آگئی اس لئے کام نہیں ہو سکا.وہ نوے فیصدی بہانہ اور دس فیصدی کام کرتے ہیں.یہ حالت نہایت خطرناک ہے اس کو دیر تک برداشت نہیں کیا جا سکتا.پس خدام مجھے بتائیں کہ نوجوانوں کے اندر محنت سے کام کرنے اور فرائض کو ادا کرنے میں ہر قسم کے بہانوں کو چھوڑنے کی عادت کس طرح پیدا کی جائے.مشورہ کے بعد ان تجاویز پر غور کر کے پھر میں تجاویز کروں گا اور جماعت کے نوجوانوں کو ان کا پابند بنایا جائے گا.پہلے اسے اختیار رکھیں گے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون کون سے ماں باپ ہیں جو اپنے بچوں کو سلسلہ کی تعلیم دلانا اور ان کی تربیت کرانا چاہتے ہیں اور جس وقت ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے اور ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا طریق درست ہے تو پھر دو سرا قدم ہم یہ اٹھا ئیں گے کہ اسے لازمی کر دیا جائے.بہر حال یہ کام ضروری ہے.اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو احمد بیت کی مثال اس دریا کی ہوگی جو ریت کے میدان میں جا کر خشک ہو جائے اور جس طرح بعض بڑے بڑے دریا صحراؤں میں جا کر اپنا پانی خشک کر دیتے ہیں.پانی تو ان میں اس طرح آتا ہے مگر صحرا میں جا کر خشک ہو جاتا ہے.چھوٹی چھوٹی تالیاں پہاڑوں میں سے گذرتی ہوئی میلوں میل تک چلی جاتی ہیں مگر بڑے بڑے دریا ریت کے میدانوں میں جاکر خشک ہو جاتے ہیں.پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارے اندر معرفت کا دریا بہہ رہا ہے.اگر تم میں سستی کم محنتی اور غفلت کا صحرا پیدا ہو گیا تو یہ دریا اس کے اندر خشک ہو کر رہ جائے گا.چھوٹی چھوٹی ندیاں مبارک ہوں گی جو پہاڑوں کی وادیوں میں سے گزر کر میلوں میل تک چلتی چلی جاتی ہیں مگر تمہارا دریا نہ تمہارے لئے مفید ہو گا اور نہ دنیا کے لئے مفید ہو گا.پس یہ آفت اور مصیبت ہے جس کو ٹلانا ضروری ہے.اس آفت کو دور کرنے کے لئے پہلے میں جماعت کے دوستوں سے فرداً فرداً اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ سے بحیثیت جماعت مشورہ چاہتا ہوں.انصار اللہ سے اسلئے کہ وہ باپ ہیں اور خدام الاحمدیہ سے بحیثیت نوجوانوں کی جماعت ہونے کے کہ ان پر ہی اس سکیم کا اثر پڑنے والا ہے اور ہر فرد سے جس کے ذہن میں کوئی نئی یا مفید تجویز ہو ، پوچھتا ہوں کہ وہ مجھے مشورہ دے.پھر میں ان سب پر غور کر کے فیصلہ کروں گا کہ آئندہ نسل کی اصلاح کے لئے ہمیں کون سا قدم اٹھانا چاہئے." (خطبه جمعه فرموده ۴ مئی ۱۹۴۵ء مطبوعه الفضل ۱ مئی ۱۹۴۵ء)
417 خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے قیام کی غرض.جماعتی استحکام ہے کچھ دن ہوئے میرے پاس ایک شکایت پہنچی غالبا دار الرحمت غربی کے خدام الاحمدیہ کی طرف سے ان کے صدر کے پاس ایک شکایت کی گئی جس کی ایک نقل شکایت کنندہ نے میرے پاس بھی بھیج دی ہے.وہ شکایت یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ کے چندہ کے لئے جب نوجوان انصار اللہ کے پاس گئے تو انہوں نے نہ صرف چندہ دینے سے انکار کیا بلکہ قسم قسم کے طعنے بھی دیئے.تمہارا ہمارے ساتھ کیا واسطہ ہے ؟ تم خدام ہو ، ہم انصار ہیں.تم خدام ہمارا کیا کام کرتے ہو جس کا بدلہ میں ہم تمہیں چندہ دیں.اگر یہ رپورٹ درست ہے تو جہاں تک چندہ کا سوال ہے میں خدام سے یہ کہوں گا ان کے لئے اس بات پر برا منانے کی وجہ ہی کیا تھی.خدام سب کے سب اطفال تو نہیں ہیں.اطفال الاحمدیہ اور خدام الاحمدیہ میں فرق ہے.خدام الاحمدیہ سے مراد وہ تمام نوجوان ہیں جو پندرہ سے چالیس سال کی عمر کے ہیں اور یہ ظاہر بات ہے“ چالیس سال کی عمر تک نوجوان بے کار نہیں رہتے.بالعموم اٹھارہ انہیں یا بیس سال کی عمر میں وہ کام پر لگ جاتے ہیں گویا پندرہ سال کی عمر سے خدام الاحمدیہ کے ممبر شروع ہوتے ہیں.ہیں سال کی عمر تک وہ کسی نہ کسی کام پر لگ جاتے ہیں اور پچیس سال تک وہ اس جماعت میں شامل رہتے ہیں.ان میں سے پانچواں حصہ ایسے خدام کا لیا جا سکتا ہے جو بر سر کار نہیں لیکن باقی ۴/۵ یعنی اسی فیصد حصہ ایسے نوجوانوں کا ہے جو کام پر لگے ہوئے ہیں.اگر تو خدام الاحمدیہ کی جماعت پندرہ سولہ یا سترہ اٹھارہ سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہوتی تو وہ کہہ سکتے تھے ، ہم تو کماتے نہیں.ہم اپنے لئے روپیہ کہاں سے لائیں.ہم نے تو بہر حال بڑوں سے مانگنا ہے.مگر جبکہ خدام الاحمدیہ کے ممبر تمام نوجوان ہیں جو پندرہ سے چالیس سال کی عمر کے ہیں اور ان میں سے اسی فیصد نوجوان ایسے ہیں جو ملازمتیں رکھتے ہیں یا تجارتی کاروبار میں مصروف ہیں تو ان کو اپنے کاموں کے لئے دوسروں سے مانگنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی.اگر مرکزی دفاتر کے کارکنوں، قادیان کے دوکانداروں کو ہی دیکھا جائے تو میں سمجھتا ہوں ان میں سینکڑوں کی تعداد ایسے لوگوں کی نکلے گی جو اپنی عمر کے لحاظ سے خدام الاحمدیہ میں شامل ہیں اور جب اس کثرت کے ساتھ بر سر کار افراد خدام الاحمدیہ کی تنظیم میں شامل ہیں تو میرے نزدیک نوجوانوں کو اپنا بوجھ خود اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.آخر وجہ کیا ہے کہ وہ انصار کے پاس جائیں اور ان سے اپنے لئے چندہ مانگیں.ہر شخص کے اندر غیرت ہونی چاہئے اور ہر جماعت کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنی ضروریات اپنے افراد کے ذریعہ پوری کرے سوائے اس کے کہ کوئی کام پیش آجائے جس کا بوجھ وہ خود نہ اٹھا سکتی ہو اور جس کے لئے دوسروں کی امداد کے بغیر گزارہ نہ ہو.ورنہ عام دفتری ضرورتوں کے لئے جو چندے کرنے پڑتے ہیں وہ بہر حال جماعت کی طاقت کے اندر ہوتے ہیں اور ان کا پورا کرنا ہر جماعت کا اپنا فرض ہوتا ہے.میں کہتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ قادیان میں سے پندرہ سو بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ رنگروٹ باہر جا چکا ہے، اگر اب بھی گنا جائے ،اب بھی قادیان میں نوجوانوں کی تعداد بہت کافی نکل آئے گی.اگر وہ معمولی رقوم بھی چندہ میں ادا نہ کر سکیں تو یہ ان کا اپنے منہ سے اپنی شکست کا اقرار کرنا ہو گا.پس میرے نزدیک اول تو ان کو انصار اللہ کے پاس جانا ہی نہیں چاہئے تھا اور اگر گئے تھے تو ان کے انکار پر برا نہیں منانا چاہئے تھا.جو شخص اپنی حد سے آگے نکل جائے اس کو لازما اس قسم کا تلخ جواب سننا پڑتا ہے.اگر ایسا شخص دوسرے کے پاس جائے اور اسے کے اپنا مکان میرے لئے خالی کر دو اور وہ آگے سے انکار کر دے تو بجائے اس کے کہ کوئی مالک
418 مکان کو ملامت کرے کہ ہر شخص اس قسم کے مطالبہ کرنے والے سے کہے گا کہ تم گئے ہی کیوں تھے اور تم نے اس سے یہ مطالبہ کیوں کیا کہ اپنا مکان خالی کر دو.اگر اس نے انکار کر دیا ہے تو بہر حال برا منانے کی کوئی وجہ نہیں ، اس کا حق تھا کہ وہ تمہیں کے تم اپنے گھر بیٹھو میں تمہاری اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں.پس میرے نزدیک انصار اللہ سے چندہ مانگ کر خدام الاحمدیہ نے غلطی کی.خدام الاحمدیہ کی جو عمر میں نے مقرر کی ہے وہ ایسی نہیں کہ ان کے پاس بر سر کار نوجوانوں کی کمی ہو اور وہ اس بات پر مجبور ہوں کہ چالیس سال سے بڑی عمر والوں سے بھی اپنی ضروریات کے لئے چندہ کا مطالبہ کریں.چالیس سال ایسی عمر ہے جس میں ایک ملازم شخص اپنی ملازمت کی اکثر عمر گزار چکا ہو تا ہے.ہیں سال کی عمر میں عموماً ملازمت اختیار کی جاتی ہے اور پچپن سال کی عمر میں پنشن ہو جاتی ہے.گویا ملازمت والی عمر میں سے میں نے ہمیں سال خدام الاحمدیہ کو دیئے ہیں اور پندرہ سال میں نے انصار اللہ کو دیئے ہیں.لوگوں کی بیس سالہ ملازمت سے خدام فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور لوگوں کی پندرہ سالہ ملازمت سے انصار فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس کے مقابل میں انصار کو عمر کا وہ حصہ دیا گیا ہے جس میں وہ صرف پندرہ سال فائدہ اٹھا سکتے ہیں.تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اپنے اخراجات کے لئے انصار اللہ کے پاس جاتے اور ان سے چندہ کا مطالبہ کرتے لیکن اگر وہ گئے ہی تھے تو انصار کا جواب بھی مجھے اس کشمیری کا واقعہ یاد دلاتا ہے جو ہمارے ملک میں ایک مشہور مثال کے طور پر بیان کیا جاتا ہے.خدام الاحمدیہ کوہ قاف سے آنے والی پریوں کا نام نہیں بلکہ خدام الاحمدیہ نام ہے ہمارے اپنے بچوں کا اور خدام الاحمدیہ کے سپرد یہ کام ہے کہ وہ بچوں کو محنت کی عادت ڈالیں اور ان میں قومی روح پیدا کریں.ان کے سپرد یہ کام نہیں گو ا خلا قا یہ بھی ہونا چاہئے کہ وہ بحیثیت خدام کے بھی لوکل انجمن کے ساتھ مل کر کام کریں کیونکہ خدام الاحمدیہ کا ہر ممبر مقامی انجمن کا بھی ممبر ہوتا ہے.یہ تو نہیں ہو تاکہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کی وجہ سے لوکل انجمن کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا.ہر احمدی جو چالیس سال سے خدام اور انصار مقامی انجمن کے بھی ممبر ہیں اور اس سے علیحدہ نہیں.کم عمر کا ہے وہ خدام الاحمدیہ کا ممبر ہے.ہر احمدی جو چالیس سے نیچے یا چالیس سال سے اوپر ہے وہ مقامی انجمن کا بھی ممبر ہے.اس سے کوئی علیحدہ چیز نہیں.پس خدام الاحمدیہ کے یہ معنے نہیں کہ وہ جماعت احمد یہ مقامی کے ممبر نہیں ہیں بلکہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے مجموعے کا نام مقامی انجمن ہے.مثلالاہور کی انجمن ہے یا دہلی کی انجمن ہے یا پشاور گجرات اور سیالکوٹ کی انجمن ہے یا امرت سر کی انجمن ہے.ان انجمنوں کے کیا معنے ہیں.ان انجمنوں کے معنے ہیں کہ گو فردا فردا ہر شخص جو چالیس سال سے کم عمر کا ہے ، وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہے اور فردا فردا ہر شخص جو چالیس سال سے زیادہ عمر کا ہے، وہ انصار اللہ میں شامل ہے مگر ان خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے مجموعے کا نام ہے جماعت احمد یہ لاہور یا جماعت احمد یہ دہلی یا جماعت احمد یہ پشاور یا جماعت احمدیہ گجرات یا جماعت احمد یہ سیالکوٹ یا جماعت احمد یہ امرتسر.پس میں تو سمجھ ہی نہیں سکا کہ اس میں اختلاف کی کون سی بات ہے یا کس بناء پر خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ آپس میں اتحاد نہیں کر سکتے.خدام الاحمدیہ کے معنے صرف اتنے ہیں کہ وہ نوجوانوں کو آوارہ گردی سے بچائیں اور انہیں کام کی عادت ڈالیں.بے شک ان میں نقائص بھی ہیں مگر جہاں تک میرا تجربہ ہے اور جو روایتیں میں نے سنی ہیں، ان کی بناء پر میں کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ خدام الاحمدیہ میں صحیح طور پر شامل ہوتے ہیں، ان میں کام کرنے کی عادت ضرور پیدا ہو جاتی ہے.ذاتی طور پر بھی میں نے دیکھا ہے کہ خدام الاحمدیہ میں جن نوجوانوں کو کام کرنے کا موقعہ ملا ہے، وہ بہت زیادہ ذہین اور بہت زیادہ تجربہ کار ہو گئے ہیں اور اب
419 بڑے بڑے کام ان کے سپرد کئے جاسکتے ہیں.مجھے ایک کارخانہ والوں نے بتایا کہ انہوں نے خدام الاحمدیہ کے ایک رکن کو ملازم رکھا تو وہ کام کا انتا عادی ثابت ہوا کہ وہ نہ رات کو رات سمجھتا اور نہ دن کو دن.بالکل دوسرے انسانوں سے علیحدہ معلوم ہوتا.یہی خدام الاحمدیہ کی غرض ہے کہ وہ نوجوانوں میں کام کرنے کی عادت پیدا کریں.پس یہ تو نہیں کہ دار البرکات کے خدام کوہ قاف سے آئے ہوئے ہیں جو دوسروں سے الگ ہیں اور یہ بھی نہیں کہ دار لبراکات کے خدام دار الفضل یا دار الرحمت سے آئے ہوئے ہیں کہ لوگ کہہ سکیں کہ ہمیں ان سے کیا غرض ہے.پس وہ جنہوں نے کہا کہ ہم انصار کو تم خدام سے کیا غرض ہے خدام الاحمدیہ انصار اللہ کے بیٹوں کا نام ہے انہوں سوچنا چاہئے تھا کہ خدام الاحمدیہ کوئی الگ چیز نہیں بلکہ خدام الاحمدیہ ان کے اپنے بیٹوں کا نام ہے.پس جب انہوں نے کہا کہ ہمیں خدام الاحمدیہ سے کیا غرض ہے تو دوسرے الفاظ میں انہوں نے یہ کہا کہ ہمیں اس سے کیا غرض ہے کہ ہمارے بیٹے جیتے ہیں یا مرتے ہیں.مگر کیا کوئی بھی معقول انسان ایسی بات کرتا ہے.خدام الاحمدیہ کی جماعت تو صرف نوجوانوں کی اصلاح کے لئے قائم کی گئی ہے.ایسی صورت میں وہ کون سے ماں باپ ہیں جو یہ کہہ سکیں کہ ہم اپنے بیٹوں کی اصلاح ضروری نہیں سمجھتے.ہم نہیں چاہتے کہ ان میں قومی روح پیدا ہو ہم نہیں چاہتے کہ ان میں کام کرنے کی عادت پیدا ہو.یا ہم نہیں چاہتے کہ ایک تنظیم میں شامل ہونے کی وجہ سے ان میں اطاعت کا مادہ پیدا ہو.میں نے بتایا ہے کہ مجھے انصار اللہ کے جواب پر ایک کشمیری کی مثال یاد آگئی.کہتے ہیں ایک کشمیری پنجاب میں آیا.گرمی کا موسم تھا.جیٹھ ہاڑ کے دن تھے.ایک دن چلچلاتی دھوپ میں بیٹھ گیا حالانکہ پاس ہی ایک دیوار کا سایہ موجود ہے.کشمیری سے کہا کہ میاں کشمیری تم یہاں کیوں بیٹھے ہو.تمہارے پاس ہی فلاں جگہ سایہ ہے، اس کے نیچے بیٹھ جاؤ.کشمیری صاحب نے یہ سنتے ہی اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور کہا.اگر میں وہاں جا بیٹھوں تو تم مجھے کیا دو گے ؟ یہی دار البرکات کے انصار کا حال ہے.ان سے کہا گیا کہ ہم تمہارے بیٹوں کی اصلاح کی طرف توجہ کریں.انہوں نے جواب میں کہا کہ تم ہمیں کیا دیتے ہو کہ ہم تمہیں چندہ دیں.یہ کہنا کہ خدام الاحمدیہ کیا کام کرتے ہیں ، میرے نزدیک درست نہیں کیونکہ جہاں تک میرا تجربہ ہے اس وقت تک انصار نے بہت کام کیا لیکن خدام نے ان سے زیادہ کام کیا ہے.گودہ اپنے کام کے لحاظ سے اس حد تک نہیں پہنچے جس حد تک میں انہیں پہنچانا چاہتا ہوں مگر بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انصار اللہ نے خدام الاحمدیہ کی تنظیم اور ان کے کام کے مقابلہ میں دس فیصدی کام بھی پیش کیا.گو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انصار کی تنظیم خدام کے کئی سال بعد شروع ہوئی ہے.میں نے ان کو بھی بار بار توجہ دلائی ہے مگر افسوس ہے کہ انصار اللہ نے ابھی تک فرائض کو نہیں سمجھا.میں نے کہا تھا کہ چونکہ بوڑھے آدمی زیادہ کام نہیں کر سکتے اس لئے بڑی عمر والوں کے ساتھ ایسے سیکرٹری مقرر کر دیئے جائیں جو اکتالیس یا بیالیس سال کے ہوں تاکہ ان کے میں بھی تیزی پیدا ہو.کچھ دن ہوئے میں نے انصار اللہ کے ایک ممبر سے پوچھا کہ میری اس تجویز کے بعد بھی انصار اللہ میں بیداری پیدا نہیں ہوئی.اس کی کیا وجہ ہے؟ اس نے بتایا سیکرٹری تو مقرر کر دیئے ہیں مگر ابھی ان کے سپرد کام نہیں کیا گیا.بہر حال انصار الله کا وجود اپنی جگہ نہایت ضروری ہے کیونکہ تجربہ جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے.اسی طرح امنگ اور جوش جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے.خدام الاحمدیہ نمائندے ہیں جوش اور امنگ کے اور انصار اللہ نمائندے ہیں تجربہ اور حکمت کے.اور جوش اور امنگ اور تجربہ اور حکمت کے بغیر کبھی کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی.پس مجھے تعجب ہے انصار اللہ کے اس جواب پر اور تعجب ہے خدام الاحمدیہ کی اس کم ہمتی پر اور میں حیران ہوں کہ
420 وہ ان کے پاس مانگنے ہی کیوں گئے تھے اور اگر انہوں نے کچھ دینے سے انکار کیا تھا تو کیوں انہوں نے اس انکار کو خوشی سے برداشت نہ کر لیا اور سارے اخراجات کو اپنے اوپر نہ لے لیا.میں تو سمجھتا ہوں اگر وہ نوجوانوں سے اپنی ضروریات کے لئے ہزار ہا روپیہ بھی جمع کرنا چاہیں تو وہ آسانی سے کر سکتے ہیں.اس وقت ان کا سارے سال کا خرچ چار پانچ ہزار روپیہ سے زیادہ نہیں ہو تا.کیا اتنی معمولی رقم بھی وہ جمع نہیں کر سکتے ؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر وہ صحیح طور پر کام کریں تو چو میں پچیس ہزار روپیہ سالانہ سہولت جمع کر سکتے ہیں لیکن اگر ان پر کوئی مشکل آئی بھی تھی تو انہیں ایسے لوگوں کو مخاطب کرنا چاہئے جو بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ کام کرتے اور بالفرض روپیہ کی کمی کی وجہ سے ان کے کام بالکل ہی رک جاتے تب بھی ان کے لئے گلے اور شکوے کی کوئی بات نہیں تھی.بچے مصائب اور مشکلات کے وقت ہمیشہ اپنے ماں جماعت کے روحانی باپ کی افراد جماعت سے شفقت باپ کے پاس جاتے ہیں.اگر خدام الاحمدیہ جماعت کی حقیقت کو سمجھتے تو اگر ان کے جسمانی ماں باپ نے یہ کہہ دیا تھا کہ ہمیں اپنے بچوں کی ضرورت کی کوئی پروا نہیں ، ہم ان کی ضروریات کے لئے کوئی چندہ نہیں دے سکتے تو خدا نے اس جماعت کو یتیم نہیں بنایا تھا.تو وہ اپنے روحانی باپ کے پاس جاتے اور کہتے کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں رہا اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ اپنے روحانی باپ کے پاس جاتے تو اس کی طرف سے انہیں وہ جواب نہ ملتا جو جسمانی ماں باپ سے ملا.وہ محبت اور پیار کے ساتھ تمہاری ضرورتوں کو پورا کرتا اور تمہیں یہ شکوہ پیدا نہ ہو تاکہ ہم اپنے کاموں کو کس طرح چلائیں یا اپنی ضروریات کس طرح پوری کریں.مجھے جہاں اس کام کی خوشی ہوتی ہے کہ خدام عمدہ سکیمیں تیار کرتے رہتے ہیں، وہاں میں نے بار بار اس امر پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ خدام الاحمدیہ کو جتنا مشورہ مجھ سے ملنا چاہئے اتنا مشورہ وہ لیتے نہیں.اگر لیتے تو زیادہ اچھا کام کر سکتے اور زیادہ عمدگی سے اپنی ضرورتوں کو پورا کر سکتے.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں کیونکہ بعض دفعہ باہر بھی ایسے جھگڑے پیدا ہوئے ہیں.اس لئے میں خدام کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ صرف خدام الاحمدیہ کے ممبر نہیں بلکہ مقامی جماعت کے بھی ممبر ہیں.خدام الاحمدیہ کا کام لوکل انجمن کے کام کے علاوہ زائد طور پر ان کے سپرد کیا گیا ہے.پس قومی انجمن کے عہدیدار ہوں خواہ وہ مقامی انجمن کے احکام کی پیروی خدام کے لئے ضروری ہے سیکرٹری ہوں یا پریذیڈنٹ ان کے احکام کی پیروی ہر خادم کے لئے ضروری ہے البتہ کوئی سیکرٹری یا کوئی پریذیڈنٹ جماعتی طور پر خدام الاحمدیہ کو کسی کام کا حکم دینے کا مجاز نہیں.وہ فردا فردا نہیں کہہ سکتا ہے کہ آؤ اور فلاں کام کرو مگر لو کل انجمن کا پریذیڈنٹ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ خدام کو بحثیت خدام یہ کہے کہ آؤ اور فلاں کام کرو اس کو چاہئے کہ اگر خدام خدام کے زعماء وغیرہ لوکل انجمن کے امیر یا پریزیڈنٹ سے تعاون کریں الاحمدیہ سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو ان کے زعیم کو مخاطب کرے اور کہے کہ مجھے فلاں کام کے لئے خدام کی مدد کی ضرورت ہے.اور زعیم کا فرض ہے کہ وہ لوکل انجمن کے پریذیڈنٹ کے احکام کو پورا کرنے کی کوشش کرے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدام الاحمدیہ کو جماعت میں تفرقہ اور شقاق کا موجب بناتا ہے.اسی طرح انصار اللہ کو تنظیم کے لحاظ سے علیحدہ ہیں مگر بہر حال وہ لوکل انجمن کا
421 ایک حصہ ہیں، ان کو بھی کوئی پریذیڈنٹ بحیثیت جماعت حکم نہیں دے سکتا.ہاں فرد افردا وہ انصار اللہ کے ہر ممبر کو اپنی مدد کے لئے بلا سکتا ہے.انصار اللہ کا فرض ہے کہ وہ لوکل انجمن کے پریذیڈنٹ کے ساتھ پورے طور پر تعاون کریں.بہر حال کوئی پریذیڈنٹ انصار اللہ کو بحیثیت انصار الله یا خدام الاحمدیہ کو بحیثیت خدام الاحمدیہ کسی کام کا حکم نہیں دے سکتا.وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ چونکہ تم احمدی ہو اس لئے آؤ اور فلاں کام کرو مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ آؤ انصار یہ کام کردیا آؤ خدام یہ کام کرو.خدام کو خدام کا زعیم مخاطب کر سکتا ہے اور انصار کو انصار کا زعیم مخاطب کر سکتا ہے.مگر چونکہ لوکل انجمن ان دونوں پر مشتمل ہوتی ہے.انصار بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور خدام بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اس لئے گو وہ بحیثیت جماعت خدام اور انصار کو کوئی حکم نہ دے سکے مگر وہ ہر خادم اور انصار اللہ کے ممبر کو ایک احمدی کی حیثیت سے بلا سکتا ہے اور خدام اور انصار دونوں کا فرض ہے کہ اس کے احکام کی تعمیل کریں.میں حیران ہوں کہ جہاں باقی مقامات پر آرام سے کام چل رہا ہے وہاں قادیان میں کیوں اختلاف پیدا ہو گیا.یہاں تو علاوہ محلوں کی انجمنوں کے ایک لوکل انجمن بھی موجود ہے.اگر دار البرکات کے انصار اپنے فرائض کو سمجھنے کے قابل نہیں تھے یا دار البرکات کے جو خدام ہیں ان میں سے بعض کے ساتھ وہ صلح اور محبت سے کام نہیں کر سکتے تو پریذیڈنٹ کا فرض تھا کہ وہ اس جھگڑے کو دور کرتا.در حقیقت اگر ایسے مواقع پیش آجائیں تو اس وقت بہترین طریق یہ ہوتا ہے کہ پریذیڈنٹ جھگڑے کو نبٹانے کی کوشش کرے.مثلا جب قادیان کے ایک محلہ میں جھگڑا پیدا ہو گیا تھا تو اس وقت لوکل انجمن کے پریز ڈینٹ کا فرض تھا کہ اس جھگڑے کو دور کرنے کی کوشش کرتا.وہ مقامی پریذیڈنٹ کو بھی بلا تا.انصار اور خدام کے زعماء کو بھی بلاتا اور پھر اگر ضرورت سمجھتا تو مرکز کو لکھ کر انصار اللہ اور خدام کا ایک ایک نمائندہ بلایا جاتا اور تحقیق کرکے فیصلہ کیا جاتا کہ قصور کس کا ہے.مگر مجھے افسوس ہے کہ نہ قادیان کی لوکل انجمن نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا نہ خدام نے اس جھگڑے کو دور کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ انصار اللہ نے اس طرف کوئی توجہ کی.خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ جماعت کے اتحاد کو مستحکم بنانے کے لئے ہیں نہ کہ اسے نقصان حالا نکہ یہ جھگڑے اگر اسی طرح بڑھتے چلے جائیں اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کا وجود جماعت پہنچانے کے لئے میں دو نئی جماعتیں پیدا کرنے کا موجب بن جائے تو یہ تنظیم بجائے انعام کے ہمارے لئے وبال بن جائے گی اور بجائے اتحاد کو ترقی دینے کے ہم میں تفرقہ اور تنزل پیدا کر دے گی.خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو دو علیحدہ علیحدہ وجود نہیں بنایا گیا بلکہ ایک کام اور ایک مقصد کے لئے ان کے سپرد دو علیحدہ علیحدہ فرائض کئے گئے ہیں اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گھر میں سے کسی کے سپر د خدمت کا کوئی کام کر دیا جاتا ہے.اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ اس کا کوئی مستقل وجود گھر میں پیدا ہو گیا ہے بلکہ وہ بھی جانتا ہے اور دوسرے لوگ بھی جانتے ہیں کہ وہ گھر کا ایک حصہ ہے.کام کو عمدگی سے چلانے کے لئے اس کے سپرد کوئی ڈیوٹی کی گئی ہے.اسی طرح خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں مقامی انجمن کے بازو ہیں اور ہر شخص کو خواہ وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہو یا انصار اللہ میں اپنے آپ کو محلہ کی یا اپنے شہر کی یا اپنے ضلع کی انجمن کا ایک فرد سمجھنا چاہئے اور بجائے اس کے ساتھ ٹکرانے کے صلح اور آشتی سے کام لینا چاہئے.میں نے بتایا ہے کہ جب اس سم کا کوئی اختلاف ہو ، اس وقت پریذیڈنٹ پر اختلاف کو دور کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اگر ضلع میں جھگڑا ہو تو
422 ضلع کے پریذیڈنٹ کا شہر میں جھگڑا ہو تو شہر کے پریذیڈنٹ کا محلہ میں جھگڑا ہو تو محلہ کے پریڈیڈ نٹ کا فرض ہے کہ وہ دونوں فریق کو جمع کریں اور ان کے شکوے سن کر باہمی اصلاح کی کوشش کریں اور اگر اس سے اصلاح نہ ہو سکے تو وہ لوکل انجمن کے سامنے معاملہ رکھیں.پھر لوکل انجمن کا فرض ہے کہ وہ لوکل مجلس انصار اللہ اور لوکل مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک ایک نمائندہ بلوائے اور اس طرح ملا کر جھگڑے کو دور کرنے کی کوشش کرے اور در حقیقت ہماری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے قیام سے یہ ہے کہ جماعت کو ترقی حاصل ہو.یہ غرض نہیں کہ تفرقہ اور شقاق پیدا ہو.پس میرے نزدیک اس معاملہ میں خدام الاحمدیہ کی بھی غلطی ہے انصار اللہ کی بھی غلطی ہے.لوکل انجمن کی بھی غلطی ہے اور اگر اس رنگ میں یہ معاملہ لوکل انصار اللہ تک پہنچ گیا تھا تو پھر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی بھی غلطی ہے کہ اس نے اس جھگڑے کو دور نہ کیا.آخر جب کوئی جھگڑا پیدا ہوتا ہے اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے.یہ نہیں ہو تا کہ بغیر کسی سبب کے ہی جھگڑا پیدا ہو جائے.جب کسی انسان کے پیٹ میں درد ہوتا ہے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کے اندر ضرور کوئی نقص پیدا ہو گیا ہے یا اس کی انتڑیوں میں نقص ہے یا معدہ میں نقص ہے یا جگر میں پھوڑا ہے یا پتہ میں پتھری ہے یا گر دہ میں پتھری ہے.بہر حال کوئی نہ کوئی پیٹ درد کی وجہ ہوگی.اس طرح جب لڑائی ہو جاتی ہے یا تفرقہ اور شقاق کی کوئی صورت رونما ہوتی ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بات ہوتی ہے.بعض دفعہ وہ بات اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ سننے والا حیران رہ جاتا ہے.مگر بہر حال چونکہ موجود ہوتی ہے اس لئے جب تک اس کا ازالہ نہ کیا جائے تفرقہ اور شقاق دور نہیں ہو سکتا.میری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم چار ذیلی تنظیمیں عمارت کی چار دیواروں کی طرح ہیں سے یہ ہے کہ عمارت کی چاروں دیواروں کو مکمل کر دوں.ایک دیوار انصار اللہ ہیں، دوسری دیوار خدام الاحمدیہ اور تیسری اطفال الاحمدیہ اور چوتھی دیوار لجنات اماء اللہ ہیں.اگر یہ چاروں دیوار میں ایک دوسری سے علیحدہ علیحدہ ہو جائیں تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہو سکے گی.عمارت اس وقت مکمل ہوتی ہے جب اس کی چار دیواریں آپس میں جڑی ہوئی ہوں.اگر وہ علیحدہ علیحدہ ہوں تو وہ چار دیوار میں ایک دیوار جتنی بھی قیمت نہیں رکھتیں کیونکہ اگر ایک دیوار ہو تو اس کے ساتھ ستون کھڑا کر کے چھت ڈالی جاسکتی ہے لیکن اگر ہوں تو چاروں دیوار میں لیکن چاروں علیحدہ علیحدہ کھڑی ہوں تو ان پر چھت نہیں ڈالی جاسکے گی اور اگر اپنی حماقت کی وجہ سے کوئی شخص چھت ڈالے گا تو وہ گر جائے گی کیونکہ کوئی دیوار کسی طرف ہوگی اور کوئی دیوار کسی طرف.ایسی حالت میں ایک دیوار کا ہونا زیادہ مفید ہوتا ہے بجائے اس کے کہ چار دیواریں ہیں اور چاروں علیحدہ علیحدہ ہوں.پس خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنے آپ کو تفرقہ اور شقاق کا موجب نہیں بنانا چاہئے.اگر کسی حصہ میں شقاق پر سی حصہ میں شقاق پیدا ہوا تو خدا تعالیٰ کے سامنے تو وہ جواب دہ ہوں گے ہی میرے سامنے بھی وہ جوابدہ ہوں گے یا جو بھی امام ہو گا اس کے سامنے انہیں جوابدہ ہونا پڑے گا کیونکہ ہم نے یہ مواقع ثواب حاصل کرنے کے لئے مہیا کئے ہیں اس لئے مہیا نہیں کئے کہ جماعت کو طاقت پہلے سے حاصل ہے اس کو بھی ضائع کر دیا جائے.“ (خطبہ جمعہ فرموده ۲ جولائی ۱۹۴۵ء مطبوعہ الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۴۵ء)
423 مجلس خدام الاحمدیہ کا پروگرام صرف قواعد بنانے سے کچھ نہیں بنتا ان کے نتائج کی طرف خیال رکھیں ه انسپکٹروں کا تقرر ضروری ہے ه وقار عمل اور عمومی صفائی O ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں خدمت خلق کے کام اطفال کی تربیت کی طرف عمومی توجہ مسلسل دینے کی ضرورت ه تعلیم تربیت اور تبلیغ کے امور ذہانت و جسمانی صحت.نوجوانوں کی صحت کی طرف جلد توجہ کریں تقریر فرمودہ سالانہ اجتماع خدام الاحمد یه ۲۱ اکتوبر ۱۹۴۵ء)
424 " میں نے اس دفعہ کے پروگرام میں دیکھا ہے کہ یہ مجلس خدام الاحمدیہ کا ساتواں سالانہ جلسہ ہے.سات کا عدد اسلامی اصطلاح میں تکمیل پر دلالت کرتا ہے.پس ہر ایک خادم احمدیت کو اپنے دل میں غور کرنا چاہئے کہ آیا ان سات سالوں میں اس کی یا اس کے محلہ کی یا اس کے شہر کی یا اس کی قوم کی تکمیل ہو گئی ہے.سات سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں.رسول کریم میل ل ل ل لو ہم نے ہجرت کے سات سال بعد یعنی آٹھویں سال تمام عرب پر غلبہ حاصل کر لیا تھا اور وہ ملک جو ایک سرے سے دوسرے سرے تک اسلام کی مخالفت میں کھول رہا تھا اور اس کا جوش دوزخ کی آگ کو مات کر رہا تھا ، عاشقوں اور فدائیوں کے طور پر آپ کے قدموں میں اگر ا.اس سات سال کے عرصہ میں صحابہ نے ملک کی حالت کو بدل ڈالا، قلوب کی حالت کو بدل ڈالا اور ان کے اندر زمین و آسمان کے فرق کی طرح امتیاز قائم کر دیا.پس خدام الاحمدیہ کو بھی سوچنا چاہئے کہ انہوں نے اس سات سال کے عرصہ میں ملک کو چھوڑ کر ، ضلع کو چھوڑ کر ، شہر کو چھوڑ کر محلہ کو چھوڑ کر گھر کو چھوڑ کر اپنے دل میں کیا فرق اور امتیاز پیدا کیا ہے.انسان دوسروں کے متعلق ہزاروں باتیں کہتا ہے.اگر حق قبول کرنے کے متعلق کوئی بات ہو تو لوگ فورا دوسروں کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ نادان لوگ ہیں ، سنتے نہیں.جاہل لوگ ہیں کسی بات پر غور نہیں کرتے.دنیا کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور دین کی طرف توجہ نہیں کرتے.لیکن اگر یہی باتیں ان کے اندر پائی جائیں تو کیا یہی باتیں وہ اپنے متعلق کہنے کو تیار ہوتے ہیں.اپنے ہمسایہ کے متعلق ہمیشہ کہتے رہیں گے کہ بڑا ضدی ہے مانتا نہیں.دو تین سال سمجھاتے ہو گئے ہیں پھر بھی نہیں سمجھتا.لیکن اگر ان کے اپنے متعلق یہی سوال ہو تو کیا وہ اپنے نفس کے متعلق بھی یہی کہیں گے کہ بڑا ضدی ہے ، نہیں مانتا.بہت سمجھایا ہے ، نہیں سمجھتا.ہمسائے کے متعلق یہ عذر کر دیتے ہیں کہ سنتا ہی نہیں بڑا جاہل ہے.مگر کیا اپنے نفس کے متعلق بھی یہی کہیں گے کہ سنتا ہی نہیں ، بڑا جاہل ہے.اپنے ہمسائے کے متعلق تو کہہ دیتے ہیں کہ سارا دن دنیا کے کاموں میں مشغول رہتا ہے دین کے کاموں کی طرف توجہ نہیں کرتا مگر کیا اپنے نفس کے متعلق بھی یہی کہیں گے کہ سارا دن کام میں لگا رہتا ہوں اس لئے دین کے کاموں کی طرف توجہ نہیں کر سکتا.غرض وہ کونسا جواب ہے جو اپنے ہمسائے کے لئے دیتے ہیں اور اپنے لئے بھی وہی جو اب پسند کرتے ہوں.اگر کوئی شخص ان کی طرف سے یہی جواب دے تو لال لال آنکھیں نکال کر دیکھیں گے اور کہیں گے اس نے میری ہتک کر دی.پس یہ ایک اہم سوال ہے اور ہر خادم کو اس امر کے متعلق غور کرنا چاہئے کہ اس سات سال کے عرصہ میں اس نے کیا کیا.جہاں تک اہم باتوں کا سوال ہے ، ابھی تک خدام ان میں بہت پیچھے ہیں.حاضری سالانہ اجتماع کی حاضری کو ہی دیکھ لو کتنی کم ہے.بیرونی جماعتوں کی طرف سے پچھلے سال چودہ نمائندے آئے تھے اور اس سال اکتیس نمائندے آئے ہیں.ہماری جماعتیں آٹھ سو سے زیادہ ہیں اور جو جماعت آٹھ سو سے زیادہ شاخیں رکھتی ہو ، اس کے صرف اکتیس نمائندے آئیں تو یہ کوئی اچھا نمونہ نہیں بلکہ ایسا نمونہ ہے جسے دشمن کے سامنے پیش کرتے ہوئے ہمارے ماتھے پر پسینہ کے قطرے آجاتے ہیں.ہم دوسروں کو برا کہتے ہیں لیکن
425 اپنی حالت بعض باتوں میں ان سے زیادہ کمزور ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت کا نمونہ اکثر باتوں میں دوسری جماعتوں کی نسبت اچھا ہے لیکن بعض باتوں میں ہم ابھی تک ان کا مقابلہ نہیں کر سکے.مثلا خاکساروں کی تعداد ہماری تعداد سے بہت کم ہے اور ہماری جماعت ان کی نسبت بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے اور ان سے بہت زیادہ مقامات پر پائی جاتی ہے.اگر خاکساروں کی طرف سے کسی جگہ پر جانے کا اعلان ہو جائے.تو بسا اوقات دو دو تین تین ہزار آدمی دو تین مہینے تک ایک ہی شہر میں پڑے رہتے ہیں.ان کی کبھی یہ غرض ہوتی ہے کہ مسٹر محمد علی جناح پر اثر ڈالیں یا گاندھی جی پر اثر ڈالیں اور کبھی یہ غرض ہوتی ہے کہ لکھنؤ جا کر مدح صحابہ کے جھگڑے کا فیصلہ کرائیں اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو جاتے ہیں اور ہر شخص اپنے کھانے اور دوسرے اخراجات کا خود ذمہ دار ہوتا ہے.مگر ہمارے خدام کی یہ حالت ہے کہ اپنے سالانہ اجتماع پر کل اکتیس جماعتوں نے نمائندے بھیجے ہیں.بے شک ایک سو اکسٹھ خدام اور بھی اپنے طور پر شامل ہوئے ہیں لیکن اپنی خوشی سے شامل ہونا اور بات ہے اور اپنے فرض کو پورا کرنا اور بات ہے.اور یہ ایک سو اکسٹھ خدام جو آئے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہوں گے جو قریب ترین جگہوں کے رہنے والے ہوں گے یا ایسے ہوں گے جنہوں نے قادیان آنا تھا اور انہوں نے اپنا پروگرام اس اجتماع کے ساتھ متعلق کر لیا.ان کا آنا خدام الاحمدیہ کے جلسہ کے لئے نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ جس طرح عام طور پر لوگ قادیان آتے رہتے ہیں اسی طرح وہ بھی آئے لیکن اگر وہ بلا استثناء سارے کے سارے خدام الاحمدیہ کے جلسہ کے لئے ہی آئے ہوں تو بھی اس کے یہ معنی ہیں کہ تمام جماعت میں سے صرف ایک سو اکسٹھ خادم ایسے ہیں جنہوں نے اپنے کاموں کا حرج کیا اور خوشی سے خدام الاحمدیہ کے جلسہ میں شامل ہوئے اور اس کے ساتھ یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ آٹھ سو جماعتوں میں سے صرف اکتیں جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے اپنا فرض ادا کیا.مجھے کہا گیا ہے کہ ہم نے الفضل میں اعلان کیا تھا لیکن چونکہ الفضل ہر جگہ نہیں پہنچتا اس لئے آٹھ سو جماعتوں میں سے صرف اکتیس نمائندے آئے ہیں.میرے نزدیک یہ بات ماننے کے قابل نہیں کہ آٹھ سو میں ے صرف اکتیس جگہ الفضل پہنچتا ہے اور باقی جگہوں میں نہیں پہنچتا.یہ تو میں مان سکتا ہوں کہ آٹھ سو میں سے سے سویا دو سو جگہیں ایسی ہو سکتی ہیں جہاں الفضل نہیں پہنچتا لیکن یہ کہ آٹھ سو میں سے صرف اکتیس جگہ الفضل پہنچتا ہے ، یہ میں ماننے کیلئے تیار نہیں.اگر فرض کر لیں کہ آٹھ سو میں سے دو سو جماعتیں ایسی ہیں جہاں الفضل نہیں پہنچتا اور چھ سو جماعتیں ایسی ہیں جہاں الفضل پہنچتا ہے تو اگر چھ سو جماعتوں میں سے چھ سات سو نمائندے ہوتے تو خیال کیا جا سکتا تھا کہ باقی جماعتوں میں الفضل نہیں پہنچتا اس لئے ان کے نمائندے نہیں آئے لیکن آٹھ سو میں سے تیس چالیس نمائندوں کا آنا خوشکن بات نہیں اور الفضل کا نہ پہنچنا میرے نزدیک کافی جواب نہیں ہو سکتا.پس میرے نزدیک اس میں بہت حد تک ذمہ داری مرکزی ادارے کی ہے.مرکز کو چاہئے کہ انسپکٹر بھیج کر اپنی جماعتوں کی تنظیم کرے کیونکہ بغیر انسپکٹروں کے ان بیماروں کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور نہ بیرونی جماعتیں پورے طور پر مرکز کی آواز کو سن سکتی ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ بہت سی غلطیاں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ مرکز
426 کی آواز صحیح طور پر لوگوں تک نہیں پہنچتی.صرف قواعد بنانے سے کچھ نہیں بنتا بلکہ ان قواعد کے نتائج کی طرف خیال رکھنا چاہئے کہ کیسے نتائج پیدا ہوتے ہیں.اگر ان قواعد کو بدلنے کی ضرورت ہو تو ان کو بدل دیا جائے.اگر ان میں اصلاح کی ضرورت ہو تو ان میں اصلاح کر دی جائے.دیکھوڈی روح اور غیر ذی روح چیزوں کے قواعد میں ذی روح اور غیر ذی روح کے قواعد میں فرق کتابڑا فرق ہے.غیر ذی روح چیزوں کے قواعد نہیں بدلتے اور ذی روح چیزوں کے قواعد ہر منٹ اور ہر سیکنڈ بدلتے چلے جاتے ہیں.پھر ذی روح چیزوں کے دو حصے ہیں.ایک انسان اور دوسرے حیوان.ان دونوں کے قواعد میں بھی بہت بڑا فرق ہے.مثلاً انسانی خوراک اور جانوروں کی خوراک میں کتنا فرق ہے.آدم کے زمانہ سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے سے گائے اور بیل گھاس کھاتے ہیں اور ان کے لئے غذا کے بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا.بعض جانور ایسے ہیں کہ جب سے پیدا ہوئے گوشت کھاتے ہیں جیسے شیر اور چیتے وغیرہ اور بعض گھاس اور بعض پتے کھاتے چلے آئے ہیں مگر اس کے مقابل پر انسان کی یہ حالت ہے کہ اگر گھر میں ایک ہی قسم کا کھانا دو تین دن تک پکے تو لڑائی شروع ہو جاتی ہے.خاوند بیوی سے خفگی کا اظہار کرتا ہے کہ اتنے دن سے گھر میں ایک ہی کھانا پک رہا ہے اور کوئی چیز پکانے کے لئے نہیں رہی.پس کجا جانور کہ ان کی خوراک ساری عمر دلتی ہی نہیں اور کجا انسان کہ اگر ایک ہی قسم کی غذا سے دو دن کھانی پڑے تو گھر والوں کو صلواتیں سنانا شروع کر دیتا ہے.پس انسانوں اور جانوروں میں بہت بڑا فرق ہے.اس کے بعد اگر نباتات کو دیکھا جائے تو یہ فرق اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے.نباتات کی جو غذا ئیں ہیں وہ بھی ابتداء سے آخر تک ایک ہی طرح چلتی چلی جاتی ہیں مگر ساتھ ہی وہ جگہ بھی ایک ہی رکھتا ہے.جانور اپنی جگہ بدل لیتے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں مگر درخت پہلو بھی نہیں بدلتے جس جگہ پیدا ہوتے ہیں اسی جگہ مرجاتے ہیں.ہیں ، پچیس ، پچاس ، سویا ہزار سال بھی عمر ہو اس میں وہ کبھی بھی اپنے مقام کو نہیں بدلتا.جہاں انسانوں اور حیوانوں میں غذا کے بدلنے کا فرق ہے وہاں نباتات اور حیوانات میں جگہ کے بدلنے کا فرق ہے.انسان اور حیوان دونوں جگہ بدل لیتے ہیں لیکن حیوان غذا ئیں نہیں بدلتے اور انسان اپنی غذا ئیں بدل لیتے ہیں.نباتات غذا ئیں بھی نہیں بدلتے اور جگہ بھی نہیں بدلتے.بعض درخت بیسیوں اور بعض سینکڑوں سال ایک ہی جگہ پیدا ہو کر رہ جاتے ہیں.پس انسان کو دوسری اشیاء سے یہی امتیاز حاصل ہے کہ اس کے حالات دوسری مخلوقات کے مقابل پر جلد جلد بدلتے ہیں اور ہر انسان کا دوسرے انسان سے بھی فرق ہوتا ہے.تو یقیناً ہر زمانہ اور بعض دفعہ ہر جماعت الگ قسم کے قواعد کی محتاج ہوتی ہے مگر بعض نادان منتظم یہ خیال کر لیتے ہیں کہ ہر حالت میں ایک ہی علاج ہونا چاہئے.وہ قانون پاس کر دیتے ہیں اور اس قانون کو پاس کرنے کے بعد یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اس قانون سے ہر شخص کا علاج ہو جائے گا اور یہ قانون ہر شخص کی حالت کے مطابق ہو گا حالانکہ یہ بات ناممکن ہے.ہر انسان کی حالت دوسرے انسان سے الگ ہوتی ہے.ہر جماعت کی حالت دوسری جماعت سے الگ ہوتی ہے اور ہر ایک
427 جماعت کے مختلف لوگوں کی حالت ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوتی ہے.جب تک ان تمام حالات کا اندازہ نہ کیا جائے اور ان کے مطابق علاج نہ سوچا جائے ، وہ بے اثر اور بے فائدہ ثابت ہو گا.خواہ وہ علاج کتنا اعلیٰ درجہ کا اور بے نظیر کیوں نہ ہو.کام قواعد سے نہیں چلا کرتے بلکہ قواعد کے ساتھ ان کے نتائج کی طرف بھی نگاہ رکھنی چاہئے.یہ ایک ناتجربہ کاری کی حالت ہوتی ہے کہ انسان قانون بنا دے لیکن اس کے نتائج پر غور نہ کرے.میرے نزدیک جیوریز (Juries) کا صرف یہی فرض نہیں کہ وہ بیٹھیں، اور قواعد بنا دیں بلکہ ان قواعد کے نتائج سے پورے طور پر آگاہ ہونا بھی جیوریز کا فرض ہے اور انہیں علم ہونا چاہئے کہ انہیں ان قواعد کے بنانے سے کس حد تک اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی ہے.ہر قاعدہ کو جاری کرنے کے بعد دوباتیں دیکھنی چاہئیں.اول یہ کہ آیا وہ قاعدہ پورے طور پر جاری ہوا ہے یا نہیں.دوسرے یہ کہ اس کے نتائج کیسے پیدا ہوئے ہیں.اگر کسی جگہ پر بھی اس کے نتائج پیدا نہیں ہوئے تو وہ قاعدہ غلط ہے اور اگر بعض جگہ پیدا ہوئے ہیں اور بعض جگہ پیدا نہیں ہوئے تو یا تو اس قاعدہ پر عمل نہیں کیا گیا اور اگر وہاں اس قاعدہ پر عمل کرنے کے باوجود اچھے نتائج پیدا نہیں ہوئے تو ماننا پڑے گا کہ وہ قاعدہ اس مقام و گر وہ کے لئے مفید نہ تھا اور اس کا علاج کچھ اور تھا اور اگر عمل کے بعد بھی اصلاح نہیں ہوئی تو کوئی اور ذریعہ اصلاح کا سوچنا چاہئے.اگر ایک ہی علاج تمام انسانوں کے لئے کافی ہو تا تو قرآن مجید میں ہر مسئلہ کے متعلق ایک ہی دلیل بیان ہوتی لیکن ہم دیکھتے ہیں ، قرآن مجید ہر رکوع میں ایک نئی دلیل دیتا ہے بلکہ ہر آیت میں ایک نئی دلیل دیتا ہے.پس مختلف انسانوں کے علاج مختلف ہوتے ہیں.مختلف روحانی بیماریوں کے علاج مختلف ہوتے ہیں اور مختلف وقتوں کے علاج مختلف ہوتے ہیں.ایک وقت میں ہم ایک دلیل موثر دیکھتے ہیں لیکن دوسرے وقت میں وہ دلیل بے فائدہ اور بے اثر نظر آتی ہے.ایک دلیل، ایک انسان کے لئے تو بہت موثر نظر آتی ہے مگر دوسرے کے لئے بے اثر نظر آتی ہے.پس اگر ہم نے انسانوں سے معاملہ کرنا ہے تو ہمیں ان مشکلات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا جو ان کے راستہ میں پیش آتی ہیں.جب تک ہم پوری کوشش کے ساتھ مختلف افراد کی بیماریوں اور ان بیماریوں کی نوعیتوں کی تشخیص نہیں کر لیتے اس وقت تک نہ ہم بیماری کا پتہ لگا سکتے ہیں اور نہ اس کا صحیح علاج کر سکتے ہیں.اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے ، مرضوں کا صحیح طور پر علاج بغیر انسپکڑوں کا تقرر ضروری ہے انسپکٹروں کے نہیں ہو سکتا.پس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کو چاہئے کہ وہ اپنے انسپکڑوں کو مختلف علاقوں میں دوروں کے لئے بھیجے.جب وہ دوروں سے واپس آئیں تو ان سے صحیح حالات معلوم کئے جائیں اور انسپکٹروں سے دریافت کیا جائے کہ ستی دکھانے والی جماعتوں کی ستی کی وجوہ کیا ہیں اور پھر اس کا علاج کیا جائے.مرکز میں بیٹھے رہنے سے ان حالات کا صحیح طور پر پتہ نہیں چل سکتا اور مرکز پر بیرونی جماعتوں کا قیاس نہیں کیا جا سکتا.مرکز میں دفتر موجود ہے اور پھر جہاں ہر قسم کی واقفیت رکھنے والے آدمی پائے جاتے ہیں.مگر کیا جو سامان قادیان کی مجالس کو حاصل ہیں وہی کیا باقی مجالس کو بھی حاصل ہیں.قادیان میں علم
428 والے آدمیوں کی بہتات ہے اور اعلیٰ قابلیت رکھنے والوں کی بہتات ہے ، نصیحت اور وعظ کرنے والوں کی بہتات ہے ، جماعت کی کثرت کی وجہ سے ہر قابلیت کا آدمی مل سکتا ہے لیکن ان حالات کو بیرونی جماعتوں پر چسپاں نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہر جگہ نہ اتنی قابلیتوں کے آدمی مل سکتے ہیں نہ اتنے علم دوست ہیں ، نہ وہاں اتنے وعظ و نصیحت کرنے والے میسر آسکتے ہیں.نہ وہاں جماعت کی اتنی کثرت ہے کہ خدام الاحمدیہ کے نظام کو جماعتی طور پر دباؤ ڈال کر قائم کیا جا سکتا ہو بلکہ بعض مقامات میں ایک احمدی ہے.بعض میں دو بعض میں تین ، بعض میں چار یا اس سے کم و بیش احمدی ہیں اور بعض مقامات ایسے ہیں جہاں کوئی احمدی بھی تعلیم یافتہ نہیں.بعض جگہوں پر قابل آدمی مل سکتے ہیں ، بعض جگہوں پر نہیں مل سکتے اور بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں قابل آدمی تو موجود ہیں لیکن ان کی قابلیت چھپی ہوئی ہے.جب تک ان کو ابھارا نہ جائے اس وقت تک وہ قابلیتیں ہمارے کام نہیں آسکتیں.پس ضروری ہے کہ انسپکٹر مقرر کئے جائیں جو باہر کی جماعتوں کی پورے طور پر نگرانی کریں اور جو قانون مرکز میں جاری کئے جائیں ، ان کو رواج دینے کی کوشش کریں.اب میں جن امور کو بیان کرنا چاہتا ہوں، ان میں سے بعض قادیان کے خدام سے متعلق ہیں اور و قار عمل بعض باہر سے آنے والے خدام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.آئندہ پروگرام میں ان امور کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے.قادیان میں ایک ایسی چیز ہے جو ہمیشہ باہر سے آنے والوں پر برا اثر ڈالتی ہے اور وہ قادیان کی عمومی صفائی قادیان کی عدم صفائی اور محلوں کا گند ہے.اگر ذرا سی بارش ہو جائے تو چلنا پھرنا مشکل ہو جاتا ہے اور ہر گھر کے آگے پاخانہ اور ردی چیزوں کے ڈھیر اس طرح پڑے ہوتے ہیں گویا ہماری گلیاں گاؤں کی گلیاں نہیں بلکہ پاخانہ کے پھینکنے کی جگہیں ہیں.اس کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ جو لوگ باہر سے آتے ہیں ان پر بہت برا اثر پڑتا ہے.مجھے یاد ہے کہ تقریبا پچیس یا چھبیس سال کا عرصہ ہوا.اس وقت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ابھی زندہ تھے کہ ڈاکٹر ز ویمر جو ساری اسلامی دنیا میں شہرت رکھتے ہیں اور جتنے اسلامی دنیا میں کام کرنے والے عیسائی مشنری ہیں ، ان میں سب سے زیادہ شہرت رکھنے والے ہیں.یہ امریکہ کے رہنے والے ہیں.شکاگو سے چلے اور انہوں نے سارے اسلامی ممالک کا دورہ کیا.ہندوستان آنے پر انہوں نے گورداسپور کے پادری کو لکھا کہ میں قادیان دیکھنا چاہتا ہوں.اس وقت گورداسپور میں پادری گارڈن صاحب ہوتے تھے.وہ بہت اعلیٰ درجہ کی پنجابی بولتے تھے ، اتنی اچھی کہ کم سے کم میں تو کہہ سکتا ہوں کہ میں ان کے پاسنگ بھی نہیں بول سکتا.پادری گارڈن صاحب کے ساتھ وہ قادیان آئے اور مجھ سے ملنے کی خواہش کی.جب تک میں ان سے نہ مل سکا اس وقت تک وہ قادیان اور اس کے دفاتر دیکھتے رہے، اس دوران میں جب کہ وہ قادیان کو دیکھ رہے تھے ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کو انہوں نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے شوق تھا کہ میں دیکھوں کہ اسلام شہروں کے متعلق کس قسم کا انتظام کرتا ہے چنانچہ آج میری خواہش پوری ہو گئی ہے اور میں نے قادیان آگر شہروں کے متعلق
429 اسلامی انتظام دیکھ لیا.مطلب یہ تھا کہ قادیان کی گلیاں بہت گندی اور خراب ہیں.کیا اسلام یہی سکھاتا ہے ؟ اگر احمدیت کی حکومت ہوئی تو قادیان کو تم نمونہ کے طور پر پیش کرو گے ؟ خلیفہ رشید الدین صاحب کی طبیعت مزاحیہ تھی اور بعض دفعہ ان کا ذہن بہت اچھا چل جاتا تھا.انہوں نے جواب میں کہا.ابھی تو اسلامی زمانہ آیا ہی نہیں.یہ تو پہلے مسیح کے انتظام کا نظارہ ہے کیونکہ اس وقت یہاں انگریزی حکومت ہے.یہ تھا تو ایک لطیفہ اور سنے والا اس جواب کو سن کر خاموش بھی ہو گیا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک انگریزی حکومت کا دخل ہے ، وہ اس کام کو کرائے یا نہ کرائے اس کے متعلق تو بحث ہی نہیں ، اس میں ہمار ا بھی کچھ دخل ہے.اور جہاں تک ہمارا دخل ہے ہمیں اپنا فرض ادا کرنا چاہئے.وقتی طور پر کسی کامنہ بند کرنا اور بات ہے لیکن حقیقت بعض دفعہ اور ہوتی ہے.میں اسی دن سے ہمیشہ محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں اسلامی نمونہ دکھانا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے کہ قادیان نہایت صاف ستھرا مقام بن جائے.جہاں تک گلیوں کی چوڑائی کا سوال ہے ، میں نے کھلی گلیاں رکھنے کا حکم دیا ہوا ہے کیونکہ رسول کریم میلی لی ایم کی احادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا.گلیاں چوڑی ہونی چاہئیں.میں نے سر دست اندازہ لگا کر پندرہ میں فٹ کی وہ گلیاں رکھی ہیں جو مکانوں سے بڑی سڑکوں پر ملتی ہیں اور ان پر تانگہ گذار نامد نظر نہیں اور جن پر تانگے وغیرہ گزار نے مقصود ہیں ، وہ تھیں فٹ کی رکھی ہیں اور بڑے راستے پچاس فٹ کے رکھے ہیں اور دار الانوار میں پچھتر فٹ کی سڑکیں رکھی ہیں لیکن جہاں تک صفائی کا سوال ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے.سڑکوں میں بے شمار گڑھے پائے جاتے ہیں.بعض لوگ سڑکوں سے مٹی کھود کر گھروں کی لپائی کر لیتے ہیں اور یہ ایک بڑا نقص ہے جس کی وجہ سے محلوں کی صفائی قریباً ناممکن ہو جاتی ہے.پھر لوگ گھروں سے پاخانے نکال کر اور کوڑا کرکٹ اٹھا کر سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں.اس سے مکھیاں پیدا ہوتی ہیں ، مچھر پیدا ہوتے ہیں اور مچھر سے بخار پیدا ہوتا ہے.بیمار بچے کا پاخانہ اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دیتے ہیں.مکھیاں اس پر بیٹھتی ہیں اور بیماری کا مادہ لے کر کسی دوسرے شخص پر جا بیٹھتی ہیں اور اس وجہ سے اس شخص کو بھی وہی بیماری لگ جاتی ہے.اس گندگی کی وجہ سے قادیان میں ٹائیفائیڈ کثرت سے ہوتا ہے اور چند سالوں سے تو اتنی کثرت سے ہوتا ہے کہ شائد کسی اور جگہ اتنا ٹائیفائڈ نہ ہو تا ہو گا.یہ حالات ایسے ہیں جو باہر سے آنے والوں پر برا اثر ڈالتے ہیں.میں نے جماعت کو عموما اور خدام کو خصوصاً اس امر کی ہدایت کی تھی کہ وہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں اور کسی کام کو بھی عار نہ سمجھیں اور اس کے لئے میں نے ایک مفصل سکیم خدام الاحمدیہ کے سامنے پیش کی تھی کہ وہ اس طریق پر کام کریں.میری اس سکیم پر جس حد تک عمل کیا گیا ہے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور میری وہ سکیم سکڑ سکڑ کر مل کی شکل اختیار کر گئی ہے.پہلے روزانہ آدھ گھنٹے کام کا اہتمام کیا گیا.پھر کہا گیا کہ روزانہ آدھ گھنٹہ مشکل ہے، ہفتہ میں ایک بار ہو جائے تو غرض پوری ہو سکتی ہے.پھر سوال اٹھایا گیا کہ ہر ہفتہ وقار عمل کرنا مشکل ہے.اگر پندرہ
430 دن کے بعد وقار عمل کر لیا جائے تو اس میں بہت حد تک آسانی ہو سکتی ہے.پھر یہ سوال اٹھایا گیا کہ پندرہ دن کے بعد تمام خدام جمع نہیں ہو سکتے ، اگر اسے ماہوار کر دیا جائے تو تمام خدام کو جمع ہونے میں سہولت رہے گی.اور پھر ماہوار کی بجائے سال میں پانچ دن و قار عمل منانا کافی سمجھا گیا.اب مجھے علم نہیں کہ وہ پانچ دن بھی و قار عمل منایا جاتا ہے یا نہیں.اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سال میں پانچ دن وقار عمل کیا جاتا ہے تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ سال میں صرف پانچ دن اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی کیا عادت پیدا ہو سکتی ہے.وہ مقصد جو میرے مد نظر تھا کہ اپنے ہاتھ سے کام کی عادت پیدا ہو اور کسی کام کو کرنے میں عار نہ محسوس کی جائے وہ بالکل پورا نہیں ہو رہا.اس قسم کاوقار عمل منانے والوں کی مثال بالکل اس شیر گودوانے والے کی سی ہے جس کو شیر گودنے والا جب سوئی مار تا تو وہ شیر گودنے والے سے پوچھتا کہ کیا گودنے لگے ہو.وہ کہتا کہ شیر کی دم گودنے لگا ہوں تو اسے کہتا کہ بغیر دم کے شیر بن سکتا ہے یا نہیں.شیر گودنے والا کہتا کہ ہاں شیر بن تو سکتا ہے تو وہ کہتا کہ اسے چھوڑ دو.پھر وہ کوئی دوسرا عضو گودنے لگتا تو اس کے متعلق بھی یہی کہتا کہ اسے چھوڑ دو.ہر عضو کے متعلق وہ یہی کہتا کہ اسے چھوڑ دو اور باقی حصہ بناؤ.آخر شیر گودنے والا سوئی رکھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اب تو سارا شیر ہی اڑ گیا ہے ، میں کیا بناؤں.یہی حالت ہمارے خدام کی ہے کہ وقار عمل سارے سال میں پانچ دن کر لینا کافی سمجھ لیا گیا ہے (اس تقریر پر تین ماہ سے زائد ہو چکے ہیں.لیکن باوجود اس کے اس بارہ میں خدام نے کوئی تبدیلی نہیں کی.یہ حالت خدام الاحمدیہ کے مرکز کی حد درجہ افسوس ناک اور مردنی کی علامت ہے) وقار عمل کو اس لئے دیر کے بعد کرنا کہ شہر کے تمام لوگ اس میں شامل ہو جائیں ، میرے نزدیک درست نہیں.اگر آپ لوگ دو ماہ یا تین ماہ کے بعد وقار عمل کرتے ہیں تو کیا شہر کے تمام لوگ سو فیصدی آجاتے ہیں.جو لوگ نہیں آنا چاہتے وہ سال میں ایک دفعہ وقار عمل ہونے پر بھی نہیں آئیں گے.یہ ضروری نہیں کہ تمام لوگ شامل ہوں تب کسی کام کو کیا جائے بلکہ جو کام بھی کرنا ہو اس کے متعلق تحریک کر دی جائے اور بار بار اعلان کر دیا جائے.جتنے لوگ شامل ہو جائیں اتنے ہی سہی.پھر آہستہ آہستہ خود بخود ان کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی اور آپ اپنی کوششوں سے اگر آپ دیانتدار ہوں گے ، اس تعداد کو بڑھاتے چلے جائیں گے.پس یہ ضروری ہے کہ روزانہ کام کرنے کی عادت پیدا کی جائے اور کام کی نوعیت کو بدل دیا جائے.مثلاً ہر محلہ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنا کر اس محلہ والوں کے ذمہ لگا دیئے جائیں اور ان کا روزانہ کام یہ ہو کہ ان کی صفائی درستی اور پانی کے نکاس وغیرہ کا خیال رکھیں اور ہر محلہ کے خدام اپنے محلہ کی صفائی کے ذمہ وار قرار دیئے جائیں.اور بجائے مہینہ یا دو مہینہ کے بعد جمع ہو کر کسی سڑک پر مٹی ڈالنے کے ، میرے نزدیک یہ طریق بہت مفید ثابت ہو گا کہ گلیاں اور سڑکیں محلہ وار تقسیم کر دی جائیں کہ فلاں گلی اور سڑک کا فلاں محلہ ذمہ دار ہے اور اس کی صفائی اور درستی نہ ہونے کی صورت میں اس سے پوچھا جائے گا.اسی طرح محلہ کے گھروں کے متعلق بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنا کر خدام میں تقسیم کر دیئے جائیں اور وہ ان گھروں کے سامنے کی صفائی کے ذمہ وار ہوں گے.ہر مہینہ ایک دن
431 معائنہ اور مقابلہ کے لئے مقرر کیا جائے اور تمام محلوں کا دورہ کر کے دیکھا جائے کہ کس محلہ کی صفائی سب سے اچھی ہے.جس محلہ کی صفائی سب سے اچھی ہو اس کے خدام کو کوئی چیز انعام کے طور پر دی جائے تاکہ تمام محلوں میں ایک دوسرے سے مسابقت کی روح پیدا ہو.اگر اس طرح کام کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ نہایت ہی عمدہ طور پر قادیان کی صفائی کو قائم رکھا جا سکتا ہے.ایسے محلے جو بہت گندے ہوں، ان محلوں کے خدام کی پہلے دو سرے محلوں کے خدام مدد کریں اور ایک دفعہ اچھی طرح صفائی کرا دی جائے اس کے بعد وہ خود اس کی صفائی کے ذمہ وار ہوں.محلوں میں صفائی رکھنا کوئی مشکل بات نہیں.اگر خدام تھوڑی بہت توجہ صفائی کی طرف رکھیں اور محلوں میں رہنے والے دوسرے لوگ بھی خدام سے تعاون کریں تو یہ بات بہت آسان ہو جاتی ہے.اس بات کو دل سے نکال دینا چاہئے کہ جب تک محلہ کے تمام خدام کسی کام میں شریک نہیں ہوتے اس وقت تک کسی کام کو شروع ہی نہ کیا جائے.حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کام کا موقعہ آئے گا مخلص اور دیانت دار خدام ہی آگے آئیں گے اور وہی شوق سے اسے سرانجام دیں گے اور جو اخلاص اور دیانت داری سے کام کرنا نہیں چاہتا اس کے لئے سو بہانے ہیں.کہتے ہیں ” من حرامی جھتاں ڈھیر." یعنی اگر کام کرنے کو جی نہ چاہتا ہو تو انسان کو سینکڑوں حجتیں اور بہانے سوجھ جاتے ہیں اور یہ حجتوں والے تو سال میں ایک دفعہ بھی وقار عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے.ایسے لوگوں کے نہ آنے کی وجہ سے کام کو پیچھے نہیں ڈالنا چاہئے.جن لوگوں کے اندر اخلاص ہے ، ان کو کیوں ایسے لوگوں کی خاطر کام سے روک رکھا جائے.اب تو تم دو ماہ کے بعد ایک دن وقار عمل کرتے ہو.اگر تم دس سال کے بعد بھی ایک دن مقرر کرو تو بھی نہ آنے والے غائب ہی ہونگے اور تمہاری حاضری پھر بھی سوفی صدی نہیں ہو گی.دس سال کے بعد بھی جو دن تم وقار عمل کا مقرر کرو گے وہی دن ایسا ہو گا جس دن ان کو کام ہو گا اور شیطان ان کے دلوں میں یہ وسوسہ پیدا کر دے گا کہ آج تو مجھے فلاں کام بہت ضروری ہے.اگر آج وہ کام نہ کیا تو مجھے بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا.نو سال گیارہ مہینے اور انتیس دن تک تو انہیں وہ کام یاد نہ آیا لیکن چونکہ تم نے تیسویں دن وقار عمل مقرر کر دیا اس لئے اسے بھی کام یاد آگیا.دس سال تو کیا اگر سو سال کے بعد بھی ان کو وقار عمل میں شامل ہونے کے لئے کہا جائے تو اس وقت بھی ان کے پاس کوئی نہ کوئی بہانہ موجود ہو گا.ایسے لوگوں کی پروا نہیں کرنی چاہئے.ایسے لوگوں کا نہ آنا زیادہ بہتر ہوتا ہے بہ نسبت ان کے آنے کے.پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ کتنے آتے ہیں اور کتنے نہیں آتے.جو آتے ہیں انہیں اپنے ساتھ لے کر کام شروع کر دیں.اگر ابتداء میں کام کرنے والوں کی تعداد دس یا پندرہ فی صدی ہو تو وہ خود بخود بڑھ جائے گی اور آہستہ آہستہ بڑھتی چلی جائے گی اور آخر وہ دن آجائے گا کہ کام کرنے والوں کی تعداد نانوے فی صدی ہوگی اور نہ کرنے والوں کی تعداد ایک فی صدی ہو گی.بن سمجھتا ہوں کہ اگر استقلال سے کام کیا جائے تو یہ بات کوئی مشکل نہیں.اگر دس فیصدی خدام کو بھی ہاتھ سے کام کرنے کی عادت پڑ جائے تو یہ کوئی بات نہیں.پس کام کو ابتداء میں
432 اس طریق پر جاری کیا جائے کہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنا کر کام شروع کر دیا جائے اور جوں جوں خدام کی حاضری بڑھتی جائے ، کام کو وسیع کرتے چلے جائیں.بے شک شروع میں سو فیصدی حاضری نہ ہو.اس بات کی پروانہ کرتے ہوئے کام کو جاری رکھا جائے.جتنے خدام خوشی سے آئیں ان سے کام کراتے رہیں اور جو نہ آئیں ان پر جبر نہ کیا جائے.ہاں ان کو بار بار تحریک کی جائے کہ وہ بھی کام میں شامل ہوں لیکن جبر نہ کیا جائے کیونکہ جبر کرنے سے بغاوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور بغاوت کے جذبات کو دبانے کے لئے سزائیں دینی پڑتی ہیں اور سزائیں دینے سے عدم تعاون کی روح پیدا ہوتی ہے اس لئے ابتداء میں جبر نہ کیا جائے اور آہستہ آہستہ تحریک کر کے تمام خدام کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی جائے اور آخر قادیان کے تمام خدام کے لئے اس میں شامل ہو نالازمی کر دیا جائے.جب قادیان میں اس طور پر تنظیم مکمل ہو جائے تو اسی طریق پر بیرونی جماعتوں میں جہاں جماعت کثرت سے ہو.اور نگرانی کے سامان موجود ہوں.کام کو شروع کیا جائے.مثلاً پہلے لاہور امر تسر اور پشاور کی جماعتوں میں اسی طریق پر کام کیا جائے.پہلے ان میں بھی جبر نہ کیا جائے اور جو خوشی سے شامل ہو نا چاہیں ان سے کام لیا جائے اور باقی خدام کو آہستہ آہستہ اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی جائے.جب وہ منتظم ہو جائیں تو ان جماعتوں میں بھی شامل ہونا ضروری قرار دے دیا جائے.(مگر یہ مطلب نہیں کہ اس پروگرام کو سالوں میں پھیلا کر مطلب ہی فوت کر دیا جائے) اس طرح جوں جوں ان کی تعداد بڑھتی جائے ، وہ اپنے کام کو وسیع کرتے جائیں.پس پہلے تحریک کی جائے.اس تحریک پر ہی دس پندرہ فی صدی اپنے آپ کو باقاعدہ کام کرنے کے لئے پیش کر دیں گے.ان کی نگرانی کی جائے اور ان سے با قاعدہ پروگرام کے ماتحت کام لیا جائے اور باقی کو تحریک کرتے رہیں.جب وہ دوسرے خدام کو کام کرتے دیکھیں گے تو وہ بھی شامل ہو جائیں گے.پس یہ کوشش کی جائے کہ با قاعدگی کے ساتھ کام ہو اور قادیان کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے.ایک اور چیز جو کہ بہت اہم ہے اور بہت زیادہ توجہ کے قابل ہے، وہ یہ ہے کہ برسات کے پانی کا نکاس قادیان میں برسات کا پانی جو آتا ہے اس کے نکاس کی کوئی صورت پیدا کی جائے.برسات کے دنوں میں ہماری سڑکیں ایسی معلوم ہوتی ہیں گویا وہ ندی نالے ہیں اور اس کثرت سے پانی آتا ہے کہ چلنا پھرنا مشکل ہو جاتا ہے.گورنمنٹ کے افسروں نے جو سکیمیں اس پانی کے روکنے کے لئے سوچی ہیں ان پر خرچ کا اندازہ دو تین لاکھ کا ہے.ہماری ٹاؤن کمیٹی بھی اس خرچ سے ڈر جاتی ہے اور دوسرے لوگ بھی اس خرچ سے ڈرتے ہیں اس لئے کوئی شخص بھی اس پانی کو روکنے کے لئے قدم نہیں اٹھاتا.میرے خیال میں اگر اپنی جماعت کے اوور سیروں سے مشورہ کیا جائے اور ان کو تمام مواقع پانی کے آنے اور نکلنے کے دکھا دئیے جائیں تو وہ بہت حد تک مفید مشورہ دے سکیں گے.پھر وہ جینا مشورہ دیں اس کے مطابق خدام کام کریں.اگر وہ ایک محلہ کی طاقت کا کام ہو تو ایک محلہ اور اگر سب خدام کے مل کر کرنے کا کام ہو تو سب مل کر اس کام کو کریں اور اگر مقامی جماعت کی مدد کی ضرورت ہو تو وہ بھی خدام کے ساتھ تعاون کرے یہ بہت بڑا
433 کام ہے.میں سمجھتا ہوں اگر خدام اس کام کو کریں تو وہ قادیان کے لوگوں کو بہت سی تکالیف اور بیماریوں سے بچانے والے ہوں گے.پس اس کام کی طرف خدام کو خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.اس کے علاوہ ہر محلہ میں جو یتامی بیوگان اور مساکین ہوں ، ان سب کی خبر گیری کی جائے.اگر خدمت خلق انہیں طبی امداد کی ضرورت ہو تو طبی امداد بہم پہنچائی جائے یا ان کا کوئی اور کام ہو تو وہ کیا جائے.اسی طرح وہ لوگ جو فوج میں جاچکے ہیں اور ان کے گھروں میں کوئی سودا سلف لا کر دینے والا نہیں ، ان کا بھی خیال رکھا جائے اور اگر ان گھروں میں کوئی بیمار ہو تو اسے دوائی لا کر دی جائے.میں نے دیکھا ہے بعض غریب عورتیں ایک دفعہ اپنا زیور بیچ کر معمولی سا گزارہ کے لئے مکان تو بنالیتی ہیں لیکن اس کے بعد ان میں طاقت نہیں ہوتی کہ مزدور لگا کر مکان کی لپائی کرا سکیں اور ان کے گھر میں کوئی مرد بھی نہیں ہو تا جو لپائی کا انتظام کر سکے.اس طرح وہ گھر گرنے شروع ہو جاتے ہیں اور ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ پہچانے بھی نہیں جاتے.ایسے گھروں میں خدام جائیں ، ان کی دیواروں اور چھتوں کی لپائی کریں.یہ ایک ایسا کام ہے جو ہر دیکھنے والے کے دل پر اثر کرتا ہے.قومی کاموں میں جہاں ہزاروں انسان کام کر رہے ہوں کوئی انسان بھی بہتک محسوس نہیں کرتا.کیونکہ اس کے دو سرے ساتھی اس کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن انفرادی کاموں کے کرنے میں انسان ہتک محسوس کرتا ہے.میرا مقصد وقار عمل سے یہی تھا کہ قومی کاموں کے علاوہ جہاں تک ہو سکے ، خدام انفرادی کام بھی کریں اور غریبوں ، یتیموں اور بیواؤں کے کام کرنے میں عار محسوس نہ کریں.انفرادی کاموں کی نوعیت بدلتی رہتی ہے اور وہ روزانہ ضروریات کے مطابق تدریجا گھٹائے یا بڑھائے جا سکتے ہیں.اطفال الاحمدیہ کے کام کے متعلق مجھے زیادہ علم نہیں کہ کسی طور پر محلوں میں ان کی تربیت کا کام اطفال احمدیہ جاری ہے اور کس رنگ میں ان کی تعلیم و تربیت کی جاتی ہے.میرے خیال میں وقتا فوقتا اطفال کے سامنے اخلاق کے متعلق تفصیلا بحث آتی رہنی اخلاق کی تفصیلات چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ کون کون سے اعمال ہیں جو آج کل عام ہیں اور وہ در حقیقت اسلامی نقطۂ نگاہ سے برے ہیں اور کون سے اعمال ہیں جو برے سمجھے جاتے ہیں اور وہ در حقیقت اسلامی نقطۂ نگاہ کے مطابق ہیں.اس کے علاوہ چھوٹی چھوٹی کتابیں اور رسالے اسلامی اخلاق کے متعلق لکھے جائیں.اخلاق کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بھی حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں.ممکن ہے کہ بعض اعمال پہلے برے ہوں اور آج اچھے ہوں یا پہلے اچھے سمجھے جاتے ہوں اور آج برے ہوں.اس بات کا پتہ لگانے کے لئے کہ کن حالات میں کون سے اعمال اچھے اور کون سے برے ہوتے ہیں ، اصولی اعمال کا جاننا ضروری ہوتا ہے.جیسے قرآن کریم میں چار چیزیں حرام قرار دی گئی ہیں.باقی چیزیں جتنی ان کے مشابہ ہوتی جائیں گی اتنی اتنی ان میں حرمت قائم ہوتی جائے گی.حرمت کا کامل نمونہ وہی چار چیزیں ہیں.ان کی حرمت بلا واسطہ ہے اور یہ چاروں
434 چیزیں آئیڈیل (Ideal ہیں یعنی باقی چیزوں کے متعلق ان سے اندازہ کیا جاسکتا ہے.جیسے ماڈل سکول ہوتے ہیں، وہ معیاری ہوتے ہیں باقی سکولوں کے لئے اور باقی سکول ان کی نقل کرتے ہیں اور ان سے مشابہت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف وہ چار چیزیں ہی حرام ہیں اور باقی چیزوں میں سے کوئی خرام نہیں بلکہ باقی چیزوں کی حرمت بالواسطہ ہے یعنی جتنی جتنی ان حرام چیزوں سے ان کی مشابہت قائم ہوتی جائے گی اتنی اتنی زیادہ حرمت ان میں قائم ہوتی جائے گی اور جتنی ان کی مشابہت میں کمی ہو گی اتنی ہی حرمت میں کمی ہوتی جائے گی.اسی وجہ سے بعض چیزوں کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ یہ ممنوع ہیں اور بعض کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ مشتبہ ہیں اور بعض کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ جائز ہیں.قرآن کریم میں خنزیر کے کھانے کی حرمت بیان کی گئی ہے مگر جس طرح مجبوری کی حالت میں خنزیر کا گوشت کھایا جا سکتا ہے اسی طرح ایک عورت مجبوری کی حالت میں ڈاکٹر کے سامنے ننگی بھی ہو سکتی ہے بشرطیکہ ڈاکٹر کے لئے اسے ننگا کرنا ضروری ہو مگر اس مجبوری کی حالت کو دیکھ کر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عورت کے جسم کو ننگا کرنے کی حرمت جاتی رہی.حرمت تو ویسی ہی قائم ہے لیکن مجبوری کی وجہ سے عورت کو ننگا کرنا جائز ہو گیا.اسی طرح قتل بھی ایسی چیز ہے جو بوقت مجبوری جائز ہو جاتا ہے مثلاً لڑائی میں یا عدالت کے فیصلہ کے بعد لیکن اس کے باوجود نا پسندیدہ ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ملا نے کسی کو قتل نہیں کیا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آدم کے دو بیٹوں کی مثال بیان کی ہے کہ ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قربانی قبول نہ ہوئی.جس کی قربانی قبول نہ ہوئی اس نے دوسرے سے کہا کہ میں تجھے مار ڈالوں گا.جس کی قربانی قبول ہو گئی تھی ، اس نے کہا کہ تو بے شک مجھے قتل کر دے.میں تجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہیں ، اٹھاؤں گا.مفسرین نے اس تمثیل کے متعلق عجیب عجیب واقعات لکھے ہیں اور اس تمثیل کو آدم کے دو بیٹوں پر چسپاں کیا ہے..حالانکہ اس کی تمثیل میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ملی ایم کی حالت بیان کی ہے.دشمن لڑائی کے لئے مقابل پر آتے تھے اور آپ ان کو قتل کرنے پر قادر ہوتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ نے کسی کو قتل نہیں کیا.اصولی طور پر سارے کے سارے گناہ اپنی ذات میں برے ہوتے ہیں لیکن بعض حالات میں ان کی اجازت دی جاتی ہے.مثلا قتل کرنا کتنا بڑا گناہ ہے مگر بعض حالات میں شریعت نے قتل کی اجازت دی ہے جیسے جہاد کا حکم ہے.اگر جہاد میں کوئی شخص اپنے دشمن کو قتل کرتا ہے تو وہ گنہگار نہیں ہو تایا جیسے تو رات اور حدیث میں زانی کو رجم کرنے کا حکم ہے.اگر مرد اور عورت شادی شدہ ہوں اور چار شہادتوں سے یہ ثابت ہو جائے کہ انہوں نے زنا کیا ہے تو ان کی سزا رجم ہے یعنی پتھر مار مار کر ان کو مار دینا چاہئے.گو اس مسئلہ کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اگر اختلاف کے پہلو کو چھوڑ دیا جائے تو بھی احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ بعض لوگوں کو رجم کی سزادی گئی تھی.اب دیکھو قتل اپنی ذات میں کتنا بڑا گناہ ہے لیکن شریعت نے ان حالات میں قتل کی اجازت دی ہے گو یہ اجازت مجبوری کی حالت میں دی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ لوگ ایک شخص کو پکڑ کر رسول کریم ملی کے پاس لائے کہ یا رسول اللہ ! اس شخص نے زنا کیا ہے.گواہوں کی شہادت سے یہ بات ثابت ہو گئی.آپ نے
435 فرمایا.اسے سنگسار کر دو لیکن آپ نے خود اسے سنگسار نہیں کیا بلکہ سمجھا کہ جب دوسرے لوگ اس کام کو کر سکتے ہیں تو میں کیوں اس فعل میں شریک ہوں.پس رسول کریم می لی مین نے کسی قتل میں حصہ نہیں لیا خواہ وہ جائز تھا کیو نکہ اصولی طور پر انسان کی جان لینا منع ہے.پس اخلاق میں سے بعض اصولی ہوتے ہیں اور بعض فروعی.جو اخلاق اصولی طور پر برے ہوں وہ ہر حالت میں برے ہیں.خواہ وہ بعض حالات میں جائز بھی ہو جائیں لیکن پھر بھی کراہت کی حدود کے اندر رہتے ہیں.جیسے قاتل کو قتل کرنایا زانی کو رحم کرنا.گو ان کو قتل کرنا جائز ہے لیکن چونکہ اصولی طور پر انسان کو قتل کرنا برا ہے اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اعلیٰ اخلاق والے انسان کے نزدیک یہ اعمال مرغوب ہیں." حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس شکایت کی گئی کہ فلاں باورچی لنگر خانہ کی تربیت و اصلاح چیزوں میں سے کچھ کھا جاتا ہے اور کچھ گھر لے جاتا ہے.آپ یہ شکایت سن کر خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا.پھر کچھ دنوں کے بعد آپ کے پاس شکایت کی گئی کہ لنگر خانے کا باورچی کھانا کچھ خود کھا جاتا ہے اور کچھ گھر لے جاتا ہے.آپ پھر بھی خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا.پھر کچھ دنوں کے بعد اس کی شکایت کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اگر وہ اتنا نیک ہو تا تو اللہ تعالیٰ اسے ایسے کام پر لگا تا ہی کیوں ؟ آپ لوگ گرمی میں پنکھے کے نیچے بیٹھے ہوتے ہیں اور پانی میں برف ڈال کر پیتے ہیں اور وہ گرمی میں تنور میں جھونک رہا ہو تا ہے.اس کے اندر ایسی عادات تھیں تبھی تو خدا نے اسے پکڑا ہوا ہے.ہم اسے نصیحت تو کریں گے لیکن ” مرے کو مارے شاہ مدار " وہ تو پہلے ہی مرا ہوا ہے اسے اور کیا سزا دیں.اسے تو اپنے افعال کی خود ہی سزا مل رہی ہے.تو بعض افعال ایسے ہوتے ہیں جن میں اپنی ذات میں سزا پائی جاتی ہے اور ان افعال کے کرنے والوں کو سزا ملتی رہتی ہے.اس قسم کی اخلاقی کمزوریوں کا ضرر چونکہ اس فعل کے کرنے والے تک ہی محدود رہتا ہے اور باقی لوگ اس کے ضرر سے محفوظ ہوتے ہیں اس لئے اس پر چشم پوشی بھی جائز ہے لیکن اگر ایسی اخلاقی کمزوری ہو جس سے دو سروں کو بھی نقصان پہنچتا ہو اور اس کے نقصان کا دائرہ وسیع ہو تو اس کے انسداد کے متعلق شریعت کا حکم ہے اسے فوراً روکا جائے اور اس کے کرنے والے کو سزا دی جائے.ایسے اخلاق جن سے دوسروں کو ضرر پہنچتا ہے سب کے سب اصولی اخلاق کے تحت ہیں.ان کے علاوہ فروعی اخلاق ہیں.وہ چونکہ روزانہ بدلتے رہتے ہیں اس لئے ان کو کون گن سکتا ہے.یہ وہ افعال ہیں جن کے متعلق صوفیاء نے کہا ہے کہ اعلیٰ درجہ کے لوگوں کی بدیاں نچلے درجہ کے لوگوں کی نیکیاں ہوتی ہیں.پس فروعی اخلاق تو حسب مراتب بدلتے چلے جاتے ہیں، ان کو گننا مشکل ہے.صرف اصولی اخلاق گنے جاسکتے ہیں.میں سمجھتا ہوں اگر اصولی اخلاق کی کتاب بن جائے اور وہ کتاب سب خدام کو پڑھائی جائے اور کوشش کی جائے کہ وہ اسے اچھی طرح یاد کریں تو یہ چیز خدام کے لئے بہت مفید ہو سکتی ہے.اگر اصولی اخلاق کا انسان کو علم ہو جائے تو فروعی اخلاق کے متعلق خود بخود واقف ہو جاتا ہے.
436 اصولی اخلاق اور فروعی اخلاق کی مثال بیج اور درخت کی سی ہے.بیج کتنا چھوٹا ہوتا ہے مگر اس کا نتیجہ کتنے بڑے درخت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے.اس بیج کے متعلق انسان وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا کہ اس سے اتنا بڑا درخت پیدا ہو سکتا ہے اور وہ درخت اس قسم کے پھل دے سکتا ہے مگر اس چھوٹے سے بیج سے بڑے بڑے درخت پیدا ہوتے ہیں جن کے نیچے لوگ بیٹھتے اور آرام کرتے ہیں.ان کے پھل کھاتے ہیں اور دوسرے فوائد ان سے حاصل کرتے ہیں.تم بڑ کے درخت کو ہی دیکھ لو.اس کا بیج کتنا چھوٹا ہو تا ہے مگر جو درخت اس کے بیج سے پیدا ہوتا ہے ، وہ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ چار چار سو پانچ پانچ سو تک آدمی اس کے نیچے آرام کر سکتے ہیں.تو بیج کو دیکھ کر انسان یہ قیاس نہیں کر سکتا کہ اس سے اتنا بڑا درخت پیدا ہو سکتا ہے.اسی طرح روحانی اخلاق سے بھی پورے طور پر فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا جب تک کہ ان کی فروع نہ نکلیں اور جس طرح فروع کا اندازہ انسان پہلے نہیں لگا سکتا اسی طرح فروعی اخلاق کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کیونکہ فروعی اخلاق کی یہ حالت ہے کہ ان میں سے بعض اخلاق ایسے ہیں جو ایک وقت ایک شکل میں ہوتے ہیں اور دوسرے وقت دوسری شکل اختیار کر لیتے ہیں.ان کی ایک حالت نہیں رہتی.ایک وقت وہ اچھے سمجھے جاتے ہیں اور دوسرے وقت میں وہی اخلاق برے سمجھے جاتے ہیں.اس لئے فروعی اخلاق کی نگرانی مشکل ہوتی ہے.ہاں صحبت صالح انسان کے اندر جلا پیدا کرتی ہے اور وہ فروعی اخلاق کے متعلق ان کی حالت کے لحاظ سے امتیاز کر سکتا ہے.بہر حال پہلے اصولی اخلاق کا جاننا ضروری ہوتا ہے اور اخلاق کی نگرانی کے لئے میرے خیال میں ضروری ہے کہ خدام الاحمدیہ اپنے ہاں ایک سیکرٹری مقرر کرے جو اخلاق کی نگرانی بھی کرے اور ساتھ ہی تعلیم کی نگرانی کی طرف خاص توجہ دے.جیسا کہ میں نے پرسوں کے خطبہ میں کہا ہے اخلاق کی ، نگرانی کے لئے تعلیم کی نگرانی ضروری ہے اور یہ اصل کام ہے.جہاں جہاں خدام الاحمدیہ کی جماعتیں قائم ہیں وہاں ایک ایسا سیکرٹری مقرر کیا جائے جو دس سال سے میں سال کے لڑکوں کی فہرست تیار کرے کہ کتنے لڑکے اس جماعت میں ہیں.ان میں سے کتنے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کتنے لڑکے تعلیم حاصل نہیں کر رہے.جو تعلیم حاصل نہیں کر رہے ، ان کے والدین کو توجہ دلائے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں.اگر اس کے کہنے کے باوجود والدین تعلیم دلانے کے لئے تیار نہ ہوں تو وہ اپنے طور پر مرکز میں رپورٹ کرے کہ مرکز ان کی رپورٹ سے تمام حالات سے آگاہ ہو جائے.(افسوس ہے تین ماہ میں اس بارہ میں کوئی بھی کارروائی نہیں ہوئی) بہر حال میں چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ جہاں تک ہو سکے تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کریں.یہ ضروری نہیں کہ مدرسے ہی جاری کئے جائیں بلکہ اگر خدام الاحمدیہ ایسا کریں تو میرے نزدیک یہ طول عمل ہو گا.میرا مطلب تعلیم کو عام کرنے سے یہ ہے کہ خدام الاحمد یہ نوجوانوں اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھیں.جو بچے تعلیم کے قابل ہیں ان کو تعلیم میں لگایا جائے اور نوجوانوں کے اندر دینی تعلیم کا شوق پیدا کیا جائے اور وعظ و نصیحت کو کام میں لاتے ہوئے لوگوں کے اندر تعلیم سے دلچپسی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور جہاں زیادہ مشکلات ہوں اس کے متعلق مرکز کو
437 اطلاع دیں.مرکز جس حد تک ان کی مدد کر سکتا ہو کرے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر خدام الاحمدیہ پوری محنت اور کوشش سے کام کریں تو دو تین سال میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد پہلے کی نسبت دگنی تگنی ہو سکتی ہے.اسی طرح خدام الاحمدیہ کے تبلیغی سیکرٹری مقرر کئے جائیں.ان کا کام یہ ہو کہ وہ خدام کو تبلیغ کے سیکرٹری تبلیغ کی طرف متوجہ رکھیں اور انہیں تحریک کریں کہ وہ تبلیغ کے لئے کچھ نہ کچھ وقت دیا کریں مگر تبلیغ اس طرح نہ کی جائے جس طرح آج کل کی جاتی ہے بلکہ تبلیغ کرنے والے سے دریافت کیا جائے کہ وہ رشتہ داروں میں تبلیغ کرنا چاہتا ہے یا دوسرے لوگوں میں.اگر وہ رشتہ داروں میں کرنا چاہے تو اسے اس کے مناسب حال معلومات بہم پہنچائی جائیں.اگر غیروں میں کرنا چاہتا ہے تو معلوم کرنا چاہئے کہ ہندوؤں کو تبلیغ کرنے کا شوق رکھتا ہے یا سکھوں کو تبلیغ کرنے کا شوق رکھتا ہے یا یہودیوں کو تبلیغ کرنے کا شوق رکھتا ہے یا عیسائیوں میں تبلیغ کرنے کا شوق رکھتا ہے.پھر جس مذہب سے اسے دلچسپی ہو اس کے متعلق اس کی تیاری کا انتظام کیا جائے.وہ انتظام اس طرح ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ جو مختلف مذاہب کے متعلق وسیع معلومات رکھتے ہوں ، وہ ان مذاہب کے متعلق لیکچر دیں اور خدام کو دلائل وغیرہ نوٹ کرا دیئے جائیں.مثلاً ختم نبوت ، وفات مسیح، قرآن مجید کا تحریف سے پاک ہونا، ناسخ و منسوخ آیات کے متعلق بحث الہام کی ضرورت ، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد بھی سلسلہ الہام جاری ہے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کس قسم کی نبوت جاری ہے.اس قسم کے سوالات کے جوابات نوٹ کرا دیے جائیں.پھر جو نوجوان تبلیغ کے لئے جائیں اور جو اعتراضات ان پر ہوں ، وہ ایک رجسٹر میں درج کئے جائے رج کئے جائیں اور جو خادم باہر سے آئے وہ تمام اعتراضات جو اس پر تبلیغ کے دوران میں ہوں لکھ کر یا لکھوا کر محلہ کے سیکرٹری کو دے دے جو اسے رجسٹر میں درج کر دے اور تبلیغ کے دورمان میں اگر کوئی گنوار سے گنوار شخص بھی کوئی اعتراض کرے تو اس کے اعتراض کو اہم تسلیم کرتے ہوئے اس کا جواب دیا جائے.اسے یہ کہہ کر خاموش کرنے کی کوشش نہ کی جائے کہ یہ تو جاہلوں اور بیوقوفوں کا سوال ہے.حقیقت یہ ہے کہ بیچ پر ہمیشہ اعتراض ہوتے ہیں اور سب کے سب خواہ بظا ہر معقول نظر آتے ہوں، بیوقوفی پر ہی مبنی ہوتے ہیں.قرآن کریم پر لوگوں نے جو اعتراض کئے اور جن کا اس نے جواب دیا ہے کیا وہ معقول تھے.اگر وہ معقول تھے تو پھر ان کا جواب دینے کی ضرورت کیا تھی.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک سائیں بھنگ پیا کر تا تھا اور اسے بھنگ پینے کی وجہ سے اکثر قبض رہتی تھی.حضرت خلیفہ اول...اسے شربت بنفشہ اور عرق بادیان دیتے تھے.چونکہ شربت میٹھا ہو تا تھا اس لئے وہ ہر روز آجاتا.کسی نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہیں ہر روز قبض رہتی ہے.کہنے لگا میٹھا شربت مل جاتا ہے اس لئے ہر روز آجاتا ہوں.ایک دن اس سے حضرت خلیفہ اول نے پوچھا سائیں! کوئی نماز روزہ بھی کرتے ہو یا نہیں.وہ کہنے لگا میں ایسی نماز نہیں پڑھتا جیسی آپ پڑھتے ہیں.یہ بھی کوئی نماز ہے کہ اپنے محبوب کے دربار میں گئے اور آدھ گھنٹہ کے بعد پیٹھ پھیر کر بھاگ آئے.ہم نے ایسی نماز کی نیت باندھی ہے کہ اگلے جہان ہی چل کر السلام علیکم کہیں گے.کسی جاہل نے
438 اسے یہ بتا دیا کہ خدا تعالیٰ کا خیال مستقل نماز ہے جو کبھی نہیں ٹوٹتی اور وہ اسی خیال کو پکڑ کر بیٹھ گیا.اس قسم کے شبہات اور وساوس لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور کئی نادان ان پر کار بند بھی ہو جاتے ہیں.جب تک ان کو دلائل کے ساتھ رد نہ کیا جائے اس وقت تک ایسے لوگ ہدایت کس طرح پاسکتے ہیں.ہم یہ احمقانہ خیال ہے کہہ کر اپنی ذمہ داری سے بری نہیں ہو جاتے.پس یہ ضروری امر ہے کہ ہر محلہ یا شہر میں ایسے رجسٹر موجود ہوں اور ہر تبلیغ کرنے والے پر جو اعتراضات مخالفین کی طرف سے ہوں ، وہ اس رجسٹر میں لکھے جائیں.اگر خود لکھا پڑھا نہ ہو تو سیکرٹری کو لکھا دے.دو تین ماہ کے بعد وہ اعتراضات مرکز میں آجائیں.مرکز والے ان اعتراضوں کے جواب شائع کریں.ان جوابات میں ہزاروں ہزار آدمیوں کے سوالات کے جواب آجائیں گے اور جن لوگوں کے دلوں میں ایسے خیالات ہوں گے وہ ان جوابات کو پڑھ کر ان خیالات کو ترک کر دیں گے اور اس طرح ہر مضمون کے متعلق پاکٹ بکیں بن جائیں گی اور تبلیغ کرنے والوں کو تبلیغ میں بہت آسانی ہوگی اور اس کا فائدہ بھی ہو گا کہ ہر سال دو سال میں لوگوں کے ایک معتدبہ حصہ کے مرضوں کی تشخیص ہو جائے گی اور اس بات کا علم ہو تا رہے گا کہ آج کل دشمن کس پہلو سے حملہ کرنا چاہتا ہے.عظمندوں کے سوالوں کا جواب دینا زیادہ آسان ہوتا ہے بہ نسبت جاہلوں کے سوالوں کے.جاہل آدمی طریقت اور شریعت کی الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ مولوی شریعت کے متعلق جو سوال ہوں ان کا جواب تو دے سکتے ہیں لیکن ہم طریقت کے پابند ہیں.ہمارے سوالوں کے جواب مولویوں کے پاس نہیں.پس ایسے لوگوں کے سوالوں کو اس نگاہ سے دیکھا جائے کہ ہم نے ان کا بھی علاج کرنا ہے.تمام دنیا کے لوگ ارسطو اور افلاطون نہیں ہو سکتے.دنیا میں ہر قسم کے لوگوں کا پایا جانا ضروری ہے.پس جس علم کا کوئی شخص مالک ہو اسی کے مطابق اس سے گفتگو کرنی پڑے گی..چونکہ ہم نے ہر مرض کا علاج کرنا ہے اور شیطان کے پیدا کردہ وساوس اور شبہات کو دور کرنا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر ایک سوال کا جواب مدلل طور پر دیں.یہ طریقہ جو میں نے بیان کیا ہے میرے نزدیک تبلیغی لحاظ سے بہت مفید ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر انجمن دیا نتداری سے ان سوالوں کو جمع کرے تو ایک سال کے جمع شدہ سوالوں کے جواب میں دس پندرہ ضخیم کتابیں بن سکتی ہیں.پس حق پر جس قدر اعتراض ہوتے ہیں سب ہی غیر معقول ہوتے ہیں.صرف فرق یہ ہو تا ہے کہ بعض اس شکل میں پیش کئے جاتے ہیں کہ بہت سے لوگ ان سے دھوکا کھا سکتے ہیں اور بعض اس شکل میں پیش ہوتے ہیں کہ بہت کم لوگ ان سے دھوکا کھا سکتے ہیں.پس جب قرآن کریم بھی غیر معقول اعتراضوں کا جواب دیتا ہے اور ہماری کیا بہتی ہے کہ ہم کہیں کہ ہم پر مدلل اور معقول اعتراض کئے جائیں تو ہم جواب دیں گے ورنہ نہیں.پس اس بات کا خیال نہ کیا جائے کہ یہ سوال مدلل ہے اور یہ سوال غیر مدلل ہے.
439 آئندہ سات سالہ پروگرام اس کے بعد میں خدام کو اس طرح توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آئندہ سالوں میں ہاتھ سے کام کرنے کی و قار عمل روح کو دوبارہ زندہ کیا جائے اور خدام سے ایسے کام کرائے جائیں جن میں وہ ہتک محسوس کرتے ہوں اور وہ کام انفرادی طور پر کرائے جائیں.جس وقت قادیان کے تمام خدام جمع ہوں اور وہ سب ایک ہی کام کر رہے ہوں تو انہیں اس وقت کسی کام میں ہتک محسوس نہیں ہوتی کیونکہ ان کے دو سرے ساتھی بھی ان کے ساتھ اسی کام میں شریک ہوتے ہیں لیکن اگر ایک خادم اکیلا کوئی کام کر رہا ہو اور اس کے ساتھی اسے دیکھیں تو وہ ضرور ہتک محسوس کرے گا.میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ اجتماعی طور پر کوئی کام نہ ہو.بے شک اجتماعی طور پر بھی ہو لیکن انفرادی کام کے مواقع بھی کثرت سے پیدا کئے جائیں.مثلاً کسی غریب کا آٹا اٹھا کر اس کے گھر پہنچا دیا جائے یا کسی غریب کا چارہ اٹھا کر اس کے گھر پہنچا دیا جائے یا کسی غریب کی روٹیاں پکوا دی جائیں.جب خادم روٹیاں پکوانے جائے گا تو دل میں ڈر رہا ہو گا کہ مجھے کوئی دیکھ نہ لے اور اگر کوئی دوست اسے رستے میں مل جائے تو اسے کہے گا میری اپنی نہیں فلاں غریب کی ہیں.اس کا یہ اظہار کرنا اس بات کی دلیل ہو گا کہ وہ اس کام کو ہتک آمیز خیال کرتا ہے.یہ پہلا قدم ہو گا.اسی طرح بعض اور کام اسی نوعیت کے سوچے جاسکتے ہیں ایسے کام کرانے سے ہماری غرض یہ ہے کہ کسی خادم میں تکبر کا شائبہ باقی نہ رہے اور اس کا نفس مرجائے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہر ایک کام کرنے کو تیار ہو جائے.ایک اور بات جو بہت زیادہ توجہ کے قابل ہے ، وہ یہ ہے کہ خدام کی سختی کے ساتھ نگرانی کی تربیت و اصلاح جائے کہ وہ باجماعت نماز ادا کرتے ہیں یا نہیں.ابھی تک محلوں سے اطلاعات آتی رہتی ہیں کہ بعض خادم نمازوں میں ست ہیں اور باوجو د بار بار کہنے کے اپنی اصلاح نہیں کرتے.زعماء کو چاہئے کہ ان کی طرف خاص توجہ کریں.خدام کے عہدیداران ان کے پاس جائیں اور انہیں سمجھائیں.اگر اس کے باوجود وہ توجہ نہ کریں تو محلہ کے پریذیڈنٹ اور دوسرے دوست انہیں سمجھائیں.اگر اس کے بعد بھی وہ نمازوں میں ستی کریں تو ان کے نام میرے سامنے پیش کئے جائیں.یہ ایک بہت ضروری حصہ ہے خدام الاحمدیہ کے پروگرام کا.خدام الاحمدیہ کے پروگرام میں یہ بات بھی شامل ہونی چاہئے کہ خدام کی پڑھائی کا ذیار کیا جائے اور اس بات کی نگرانی کی جائے کہ کون کون خادم سٹڈی کے وقت گلیوں میں پھرتا ہے.ا س بات کی نگرانی کے لئے کچھ خادم ہر روز مقرر کئے جاسکتے ہیں.ان کو جہاں کوئی خادم بازار میں پھر تا ہوا مل جائے اسے پوچھیں کہ تمہارا سٹڈی کا وقت ہے اور تم بازار میں کیوں پھر رہے ہو.اگر اس بات کی نگرانی کی جائے تو ایک تو طالب علموں میں آوارہ گردی کی عادت نہ رہے گی اور دوسرے وہ پڑھائی میں زیادہ دلچسپی لیں گے.
440 ہمارے طالب علموں کی پڑھائی کی موجودہ حالت بہت قابل افسوس ہے اور ہمارے سکول کے نتائج اس وقت تمام سکولوں سے بد تر ہیں.میں نے نظارت تعلیم و تربیت کو یہ ہدایت کی ہے کہ صرف ان استادوں کو ترقیاں دی جائیں جن کے نتائج اوسط سے پانچ فیصد کی زیادہ ہوں.اس پر ناظر صاحب تعلیم مجھے ملنے آئے اور کہا کہ آپ کے مقرر کردہ قاعدہ کے مطابق تو سارے سکول میں صرف ایک استاد ایسا ہے جسے ترقی مل سکتی ہے.میں نے کہا کہ سارے پنجاب میں میٹرک کے نتیجہ کی اوسط ۷۶ فیصدی ہے.گورنمنٹ سکولوں کا نتیجہ تو۹۹ فیصدی بلکہ بعض کاسو فیصدی ہے لیکن آپ کہتے ہیں کہ اوسط پر پانچ فیصدی زائد کرنے سے صرف ایک استاد کو ترقی مل سکتی ہے.اچھا آپ ان استادوں کو ترقیاں دے دیں جن کا نتیجہ اوسط کے برابر ہو تو وہ کہنے لگے.اس قاعدہ کے ماتحت بھی صرف دو استاد آتے ہیں.پھر میں نے کہا کہ اچھا اوسط سے پانچ فیصدی کم پر ترقی دے دیں تو وہ کہنے لگے.اس قاعدہ کے ماتحت بھی صرف چار استاد آتے ہیں.اس پر میں نے انہیں کہا کہ کیا باقیوں کو جماعت کے لڑکے فیل کرنے کی خوشی میں ترقیاں دی جائیں ؟ ہمارے استاد اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور لڑکوں کی نگرانی کی طرف کماحقہ توجہ نہیں کرتے.اس میں شک نہیں کہ بہت حد تک نتیجہ کی ذمہ داری لڑکوں پر بھی ہے لیکن جہاں تک نگرانی کا تعلق ہے ، میں اس کی ذمہ داری استادوں پر ڈالتا ہوں کہ انہوں نے کیوں ان کی نگرانی نہیں کی.جہاں تک شوق پیدا کرنے کا سوال ہے خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ وہ طلباء کے لئے ایسے طریق سوچیں جن کی وجہ تے خدام میں تعلیم کا شوق ترقی کرے.بہر حال نگرانی سب سے زیادہ ضروری چیز ہے.پڑھائی کے وقت سب خدام گھروں میں بیٹھ کر پڑھائی کریں اور جو طالب علم یا ہر پھر تا ہوا پکڑا جائے اس سے باز پرس کی جائے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر خدام اس پر عمل کریں تو جن طالب علموں کو باہر پھرنے کی عادت ہے وہ خود بخود گھر میں سٹڈی کرنے پر مجبور ہوں گے کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ باہر تو پھر نہیں سکتے.چلو کوئی کتاب ہی اٹھا کر پڑھ لیں.ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے ” جاندے چور دی لنگوٹی ہی سہی" یعنی جاتے چور کی لنگوٹی ہی سہی.اگر چور چوری کر کے بھاگا جا رہا ہو تو تم اس سے اور کچھ نہیں چھین سکتے.تو اس کی لنگوٹی ہی چھین لو.آخر کچھ نہ کچھ تو تمہارے ہاتھ آ جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ایک فقیر تھا جو اکثر اس کمرے کے سامنے جہاں پہلے محاسب کا دفتر تھا، بیٹھا کرتا تھا.جب اسے کوئی احمد کی احمد یہ چوک میں سے آتا ہوا نظر آتا تو کہتا.ایک روپیہ دے دے.جب آنے والا کچھ قدم آگے آجاتا تو کہتا اٹھنی ہی سہی.جب وہ کچھ اور آگے آتا تو کہتا چونی ہی سہی.جب اس کے مقابل پر آجاتا تو کہتا دو آنے ہی دے دے.جب اس کے پاس سے گزر کر دو قدم آگے چلا جاتا تو کہتا ایک آنہ ہی سہی.جب کچھ اور آگے چلا جاتا تو کہتا ایک پیسہ ہی دے دے.جب کچھ اور آگے چلا جا تا تو کہتاد ھیلاہی سہی.جب جانے والا اس موڑ کے قریب پہنچتا جہاں سے بیت اقصیٰ کی طرف مڑتے ہیں تو کہتا پکوڑا ہی دے دے.جب دیکھتا کہ آخری نکڑ پر پہنچ گیا ہے تو کہتا مرچ ہی دے دے.وہ روپیہ سے شروع کرتا اور
441 مرچ پر ختم کرتا.اسی طرح کام کرنے والوں کو بھی یہی سمجھنا چاہئے کہ کچھ نہ کچھ تو ہمارے ہاتھ آہی جائے گا.اگر پہلی دفعہ سو میں سے ایک پڑھائی کی طرف توجہ کرے گا تو اگلی دفعہ دو ہو جائیں گے.اس سے اگلی دفعہ چار ہو جائیں گے اور اس طرح آہستہ آہستہ بڑھتے چلے جائیں گے.پس کام کرو اور پھر نتیجہ دیکھو.جب دنیوی کام بے نتیجہ نہیں ہوتے تو کس طرح سمجھ لیا جائے کہ اخلاقی اور روحانی کام بغیر نتیجہ کے ہو سکتے ہیں لیکن جن کے من حرامی ہیں وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو کام کرتے ہیں لیکن نتیجہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، کہنے سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے تو اپنی طرف سے پوری محنت کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ ہم سے دشمنی نکال رہا ہے.یہ کہنا کس قدر حماقت اور بیوقوفی کی بات ہے.گویا اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو کام ہم کرتے ہیں اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ مرتب ہو تا ہے لیکن اچھے یا برے نتیجہ کا دارو مدار ہمارے اپنے کام پر ہوتا ہے.کسی شخص نے ۱/۱۰ حصہ کسی کام کے لئے محنت کی تو قانون قدرت یہی ہے کہ اس کا ۱/۱۰ نتیجہ نکلے.اب اس کے ۱۰/ ا حصہ نکلنے کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کی وجہ سے ۱/۱۰ حصہ نتیجہ نکلا اور نہ اس نے محنت تو زیادہ کی تھی.قانون قدرت کسی محنت کو ضائع نہیں کرتا لیکن شرارتی نفس یہ کہتا ہے کہ میں نے تو اپنا سارا فرض ادا کر دیا تھا لیکن اللہ میاں اپنا فرض ادا کرنا بھول گیا.اس سے بڑا کفر اور کیا ہو سکتا ہے.پس جہاں تک محنت اور کوشش کا سوال ہے نتائج ہمارے ہی اختیار میں ہیں.اگر نتیجہ اچھا نہیں نکلتا تو سمجھ لو کہ ہمارے کام میں کوئی غلطی رہ گئی ہے.کوشش کرنی چاہئے کہ ہر کام کے نتائج کسی معین صورت میں ہمارے سامنے آ آئندہ ریکارڈ رکھا جائے سکیں.اگر ہمارے پاس ریکارڈ محفوظ ہو تو ہم اندازہ کر سکیں گے کہ پچھلے سال سے اس سال نمازوں میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی.تعلیم میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی.اخلاق میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی.کتنے خدام پچھلے سال باہر کی جماعتوں سے سالانہ اجتماع میں شمولیت کے لئے آئے اور کتنے اس سال آئے ہیں.اسی طرح باہر کی خدام الاحمدیہ کی جماعتیں بھی اپنے ہاں ان باتوں کا ریکارڈ رکھیں کہ پچھلے سال تعلیم کتنے فیصدی تھی اور اس سال کتنے فیصدی ہے.اخلاق میں کتنے فیصد کی ترقی ہوئی اور یہ قانون بنا دیا جائے کہ ہر جماعت یہاں اجتماع کے موقع پر اپنی رپورٹ پڑھ کر سنائے تاکہ تمہیں معلوم ہو سکے کہ تمہارا اقدم ترقی کی طرف جا رہا ہے یا تنزل کی طرف.اس میں شبہ نہیں کہ کبھی اندازہ میں غلطی بھی ہو سکتی ہے لیکن عام طور پر اندازہ صحیح ہو تا ہے.اگر یہ طریقہ اختیار کیا جائے تو کچھ نہ کچھ قدم ضرور ترقی کی طرف اٹھے گا.صحیح اندازہ لگانے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ دس فیصدی کام اس رپورٹ میں سے کم کر دیا جائے مثلاً کسی جماعت کی ترقی بارہ یا پندرہ فیصدی ہے تو اس میں سے دس فیصدی کم کرنے کے بعد ہم کہیں گے کہ اس جماعت نے دس فیصدی ترقی کی ہے.پھر تمام جماعتوں کا آپس میں مقابلہ کیا جائے کہ تبلیغی طور پر کونسی مجلس اول ہے.تعلیم میں کونسی مجلس اول ہے.اخلاق کی ترقی میں کونسی مجلس اول ہے.ہاتھوں سے کام کرنے میں کونسی مجلس اول ہے.نمازوں کی با قاعدگی میں کونسی مجلس اول
442 ہے.اس قسم کے مقابلوں سے ایک دوسرے سے بڑھنے کی روح ترقی کرے گی اور اگر کسی مجلس کا کام فرض کرو پچھلے سال بھی دس فیصد ی تھا اور اس سال بھی دس فیصدی ہے تو اس کے متعلق سوچنا چاہئے کہ کیا وجوہ ہیں جو اس مجلس کی ترقی میں روک ہیں.پس ایسے ذرائع سوچے جاسکتے ہیں جن سے معین نتیجہ نکالا جاسکتا ہے.سات سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں.رسول کریم ملی تو دلیل ہی کا حکم ہے سات سال کے بچے کو نماز پڑھنے کے لئے کہنا چاہئے اور اگر دسن سال کی عمر میں نماز نہ پڑھتا ہو تو اسے مار پیٹ کر نماز پڑھانی چاہئے.گویا پہلے سات سال ترغیب و تحریص کے ہیں اور اگلے سات سال میں سختی بھی کی جاسکتی ہے.پندرہ سال کی عمر میں رسول کریم می لی لی نے بعض لوگوں کو جہاد میں شامل ہونے کی اجازت دی ہے.پس اگر آج ساری ذمہ داریاں تم پر نہیں ہیں تو آج سے آٹھ سال بعد تمہیں تمام ذمہ داریاں اپنے اوپر لینی ہونگی اور خدا تعالیٰ کے نزدیک تم ایک ایسے مقام پر پہنچ جاؤ گے جس مقام پر پہنچ کر جہاد فرض ہو جاتا ہے.پس جس دور میں تم داخل ہو رہے ہو نہایت نازک دور ہے اور جو ذمہ داریاں تم پر پڑنے والی ہیں وہ بہت بڑی ہیں گو پہلے بھی تم ذمہ داریوں سے خالی نہیں لیکن آئندہ ذمہ داریاں ان سے بڑھ کر ہوں گی.پر میرے نزدیک پچھلے سات سال تم نے ضائع کر دیئے ہیں.ائندہ سات سال میں اپنی کمی کو پورا کرو اگر آئندہ سات سال بھی آپ لوگوں نے ضائع کر دیئے تو آپ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مورد الزام ہونگے.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور سوچ سمجھ سے کام لیتے ہوئے ہر کام کو پہلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ چلانے کی کوشش کرو.اندھا دھند قانون بنا دینا کوئی فائدہ نہیں دیتا جب تک کسی قانون کے متعلق یہ ثابت نہ ہو جائے کہ یہ واقعی مفید ہے اور ہر جگہ جاری کیا جا سکتا ہے.اسی طرح اندھا دهند قانون بنانے والوں کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک مثال سنایا کرتے تھے کہ ایک ملا تھا اور اس کے ساتھ اس کا کنبہ بھی تھا.وہ دریا کے کنارے کشتی پر سوار ہونے کے لئے آئے.ملاح ان کے لئے کشتی لینے گیا.کشتی چونکہ کنارے کے پاس ہی تھی، ملانے دیکھا کہ ملاح کے ٹخنوں تک پانی آتا ہے.اس نے اندازہ لگایا کہ اتنے فٹ تک پانی ٹخنوں تک آتا ہے.دریا کی چوڑائی اتنی ہے.اس لحاظ سے زیادہ سے زیادہ پانی کمر تک آ جائے گا حالانکہ دریا کے متعلق اس قسم کا اندازہ لگانا حد درجہ کی حماقت ہے کیونکہ دریا میں اگر ایک جگہ ٹخنے تک پانی ہو تو اس کے ساتھ ہی ایک فٹ کے فاصلہ پر بانس کے برابر ہو سکتا ہے مگر اس ملانے اربعہ سے نتیجہ نکالا کہ پانی کمر تک آئے گا.یہ خیال کرتے ہوئے اس نے کشتی کا خیال چھوڑ دیا اور سب بیوی بچوں کو لے کر دریا عبور کرنے لگا.ابھی تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ پانی بہت گہرا ہو گیا اور سب غوطے کھانے لگے.خود تو وہ تیرنا جانتا تھا اس لئے اس نے اپنی جان بچالی مگر بیوی بچے سب ڈوب گئے.دوسرے کنارے پر پہنچ کر پھر اربعہ لگانے لگا کہ شائد پہلے میں نے اربعہ لگانے میں غلطی کی ہے لیکن دوبارہ وہی نتیجہ نکلا تو وہ کہنے لگا کہ "اربعہ نکلا جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں" پس بعض حالات ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں اربعہ نہیں لگایا جا سکتا.ہر ایک چیز کا اندازہ الگ الگ طریقہ پر کیا جاتا ہے
443 اور ہر ایک بیماری کا علاج الگ الگ ہوتا ہے.خالی قانون بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو تاجب تک حالات کو مد نظر رکھا جائے.پس میں آئندہ دیکھوں گا.میں یہ نہیں سنوں گا کہ کون سیکرٹری تھا اور کس نے اسے سیکرٹری بنایا.مجھے تو کام سے غرض ہے کہ خدام نے نمازوں میں کتنی ترقی کی اور سادہ زندگی کے کن کن اصول پر انہوں نے عمل کیا.تعلیم میں کتنی ترقی کی.کتنے لڑکوں نے انٹرنس کتنے لڑکوں نے ایف اے اور بی اے کے امتحان دیئے.کتنے لڑکے انٹرنس کے بعد کالجوں میں داخل ہوئے.کتنے لڑکوں نے مڈل اور پرائمری کے امتحان دیے.کتنے لڑکوں نے تبلیغ میں حصہ لیا.ان کے ذریعہ کتنے آدمی احمدی ہوئے.کتنے خدام نے زندگی وقف کی.تھوڑے دن ہوئے میں نے وقف تجارت کی تحریک کی ہے اور قادیان میں بیسیوں لڑکے ایسے ہیں جو بے کار ہیں اور ان کے ماں باپ گندم کے لئے منظوریاں لیتے پھرتے ہیں.عرضی میں لکھتے ہیں کہ میں سال کا لڑکا ہے مگر بے کار ہے.مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جس لڑکے کے والدین کی یہ حالت ہے وہ بے کار کیوں بیٹھا ہے.محلہ کا پریذیڈنٹ سفارش کرتا ہے کہ یہ امداد کے بہت مستحق ہیں.میں کہتا ہوں، ایسے لڑکے امداد کے مستحق نہیں بلکہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو بید لگائے جائیں.اسی طرح بعض لوگوں کے متعلق سفارش کی جاتی ہے کہ یہ فلاں کے گھر میں کام کرتے ہیں وہاں سے انہیں آٹھ روپے ملتے ہیں لیکن آٹھ روپے میں گزارہ نہیں ہوتا اس لئے ان کو گندم دی جائے.ایسے لوگوں کے متعلق بھی مجھے یہ خیال آتا ہے کہ اگر یہ لوگ کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے تو کیوں پھیری کا کام نہیں کر لیتے ، پھیری والے ہر روز دو تین روپے کما لیتے ہیں.اگر کسی سے پوچھا جائے کہ آپ کالر کا کیوں بے کار ہے تو کہتے ہیں فلاں قسم کا کام ملتا ہے لیکن اس کی مرضی ہے کہ مجھے اس قسم کا کام ملے تو میں کروں اس لئے بے کار ہے ( جلسہ کے دنوں میں ایک دوست ملے کہ میرے لڑکے کو چپڑاسی کروا دیں.میں نے کہا کہ گورنمنٹ ورکشاپ میں ملازم کروا دیتا ہوں دو چار سال میں اسی روپے کمانے لگے گا.آپ چپڑاسی کیوں بنواتے ہیں.اس پر انہوں نے فرمایا کہ لڑکے کی مرضی چپڑاسی ہونے کی ہی ہے) ایسے لڑکوں کی عقلوں کو درست کرنا چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ بیکاری ایک ایسی چیز ہے جو جماعتی لحاظ سے اور شخصی لحاظ سے دونوں طرح سخت مضر ہے.میرا خیال ہے کہ صرف قادیان میں سے دو تین سو آدمی ایسے نکل آئیں گے جو ایسے وقت میں جب کہ ہر طرف روزگار مل رہے ہیں، بے کار بیٹھے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں.وہ جماعت پر بار بن رہے ہیں.وہ اپنے رشتہ داروں پر بار بن رہے ہیں.وہ اپنے گھر والوں پر بار بنے ہوئے ہیں.اگر وہ اپنے آپ کو وقف کریں تو تبلیغ کی تبلیغ اور کام کا کام.ہمارے ہاں مثل مشہور ہے " نالے حج نالے بیوپار "یہ تبلیغ کی تبلیغ ہو گی اور بیوپار کا بیوپار ہو گا.بلکہ ایک اور بات جس کی طرف میں خدام الاحمدیہ کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ذہانت و جسمانی صحت ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی صحبتیں نہایت کمزور ہیں اور دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہیں.جب میں نوجوانوں کی صحتیں دیکھتا ہوں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے.ہم لوگ جو اپنے آپ کو
444 کمزور صحت والے خیال کرتے ہیں ان نوجوانوں سے اچھے ہیں.آج کل کے نوجوانوں کے قد بہت چھوٹے ہیں یا بہت پتلے دبلے یا بہت موٹے جو موٹاپا کہ بیماری کی ایک قسم ہوتی ہے.چہرے زرد ہیں اور چہروں پر جھریاں پڑی ہوتی ہیں گویا ان پر جوانی آنے سے پہلے ہی بڑھاپے کا زمانہ آجاتا ہے.کہتے ہیں کوئی بڑھا بازار میں پاؤں پھسلنے کی وجہ سے گر پڑا تو بولا.ہائے جوانی ایعنی اب جوانی جو کہ تنومندی اور قوت کے دن تھے ، جاتے رہے اور میں محض بڑھاپے کی وجہ سے گر گیا ہوں.جب اٹھا تو اس نے دیکھا کہ اس کے ارد گرد کوئی آدمی نہیں تو اس پر بولا.” پھٹے منہ.جوانی ویلے توں کیڑا بہادری".یعنی تیرے منہ پر پھٹکار پڑے تو جوانی کے وقت کونسا بہادر تھا.ہمارے نوجوانوں کا بھی یہی حال ہے.ان پر جوانی آنے سے پہلے ہی بڑھاپے کا زمانہ آجاتا ہے.اگر نوجوانوں کی صحتوں کی یہی حالت رہی تو یہ خطرے سے خالی نہیں.پس خدام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ نوجوانوں کی صحت کی طرف جلد توجہ کریں." اور ان کے لئے ایسے کام تجویز کریں جو محنت کشی کے ہوں اور جن سائنس اور مشینری کے کام سیکھو کے کرنے سے ان کی ورزش ہو اور جسم میں طاقت پیدا ہو مثلا ہر جماعت میں جتنے پیشہ ور ہیں ان سے کہا جائے کہ وہ خدام کو سائیکل کھولنا اور جو ڑنا یا موٹر کی مرمت کا کام یا موٹر ڈرائیونگ سکھا دیں.یہ کام ایسے ہیں کہ ان میں انسان کی صحت بھی ترقی کرتی ہے اور انسان ان کو بطور ہابی (Hobby) کے سیکھ سکتا ہے اور اگر اسے شوق ہو تو اس میں بہت حد تک ترقی بھی کر سکتا ہے.سکھ قوم کے مالدار ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ قوم لاری ڈرائیونگ اور لوہار کے کام میں سب سے آگے ہے اور پنجاب میں تمام لاریاں اور مستری خانے ان کے قبضہ میں ہیں.جس جگہ جاؤ تمہیں لاری ڈرائیور سکھ ہی نظر آئے گا حالا نکہ سکھ پنجاب میں کل دس بارہ فیصدی ہیں لیکن سفر کے تمام ذرائع انہوں نے اپنے قبضہ میں لے رکھے ہیں.کسی سڑک پر کھڑے ہو جاؤ کسی ضلع یا تحصیل میں چلے جاؤ تم دیکھو گے کہ سائیکلوں پر گذرنے والوں میں سے دو تہائی سکھ ہوں گے اور ایک تہائی ہندو یا مسلمان ہوں گے اور اگر تم گاؤں میں چلے جاؤ تو تم دیکھو گے کہ ایک سکھ سائیکل پر سوار ہے اور اپنی بیوی کو پیچھے بٹھائے لئے جا رہا ہے.موٹروں کی درستی کے جتنے کارخانے ہیں ان میں سے اکثر سکھوں کے ہیں.بندوق بنانے کارتوس بنانے لاریاں بنانے “ سائیکل بنانے مشینری بنانے کے جتنے کارخانے ہیں ، سب سکھوں کے ہیں کیونکہ جتنی سہولت ان کو ان چیزوں کے بنانے میں ہے دوسرے لوگوں کو نہیں.اول تو ہمارے مسلمانوں کے پاس موٹریں ہی نہیں اور اگر کسی کے پاس ہے بھی تو وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کے اندر کیا ہے.اگر کسی جگہ موٹر یا لاری خراب ہو جائے تو پھر سورن سنگھ کی منتیں کریں گے کہ اسے درست کر دو.حقیقت یہ ہے کہ جتنا روپیہ سکھوں کے پاس ہے اتنا قومی طور پر ہندوؤں کے پاس بھی نہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ قوم محنت کی بہت عادی ہے.لاہور میں ایک سکھ نوجوان سے جو کہ بی.اے پاس تھا اور بانسوں اور رسیوں کی دوکان کرتا میں نے پوچھا کہ آپ ملازمت کیوں نہیں کر لیتے.وہ کہنے لگا کہ میرے دو سرے ساتھیوں
445 میں سے جو ملازم ہیں کوئی چالیس روپے لیتا ہے کوئی پچاس روپے اور میں تین چار سو روپیہ ماہوار کمالیتا ہوں.مجھے نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ اگر جماعت ان کاموں میں ترقی کرنے کی کوشش کرے تو وہ دوسری جماعتوں سے پیچھے رہ جائے.اگر ہماری جماعت میں سے پانچ چھ فیصدی لوگ مستری ہو جائیں تو پھر امید کی جا سکتی ہے کہ ہمارے لوگ مشینری میں کامیاب ہو سکیں گے کیونکہ ان لوگوں کو آرگنائز (Organise) کر کے آئندہ ان کے لئے زیادہ اچھا پروگرام بنایا جا سکتا ہے اور کچھ اور لوگوں کو ان کے ساتھ لگا کر کام سکھایا جا سکتا ہے.اس وقت میرے نزدیک اگر مرکزی مجلس ایک موٹر خرید سکے تو یہ بہت مفید کام ہو گا.اس کے ذریعہ خدام کو موٹر ڈرائیونگ کا کام سکھایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ موٹر کی عام مرمت کیا ہوتی ہے.جو خادم سیکھیں ان میں سے بعض مختلف جگہوں پر موٹر کی مرمت کی دکان کھول لیں.یہ بہت مفید کام ہے.اس میں جسمانی صحت بھی ترقی کرے گی اور آمدنی کا ذریعہ بھی ہو گا.اس کے علاوہ نوجوانوں کو گھوڑے کی سواری ، سائیکل کی سواری سکھائی جائے.سائیکل کی سواری کے ساتھ یہ بات بھی ضروری ہوتی ہے کہ اسے کھولنا اور مرمت کرنا آتا ہو کیونکہ بعض اوقات چھوٹی سی چیز کی خرابی کی وجہ سے انسان بہت بڑی تکلیف اٹھاتا ہے.پس ہمارے خدام کو مشینری کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے آج کل مشینوں میں برکت دی ہے.جو شخص مشینوں پر کام کرنا جانتا ہو ، وہ کسی جگہ بھی چلا جائے اپنے لئے عمدہ گزارہ پیدا کر سکتا ہے.آج کل تمام قسم کے فوائد مشینوں سے وابستہ ہیں اور جتنا مشینوں سے آج کل کوئی قوم دور ہو گی اتنی ہی وہ ترقیات میں پیچھے رہ جائے گی اسی طرح اگر خدام لوہار ، ترکھان، بھٹی اور دھونکنی کا کام سیکھیں تو ان کی ورزش کی ورزش بھی ہوتی رہے گی اور پیشہ کا پیشہ.بھی ہے.چونکہ خدام کے لئے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنا ضروری ہے.اگر خدام ایسے کام کریں تو وہ ایک طرف ہاتھ سے کام کرنے والے ہونگے اور دوسری طرف اپنا گزارہ پیدا کرنے والے ہونگے.اپنے ہاتھ سے کام کرنا یہ ہمارا طرہ امتیاز ہونا چاہئے جیسے بعض تو میں اپنے اندر بعض خصوصیتیں پیدا کر لیتی ہیں.وہ قومیں جو سمندر کے کنارے پر رہتی ہیں وہ نیوی میں بڑی خوشی سے بھرتی ہوتی ہیں لیکن اگر انفنٹری میں بھرتی ہونے کے لئے انہیں کہا جائے تو اس کے لئے ہر گز تیار نہیں ہوں گے اور اگر پنجاب کے لوگوں کو نیوی میں بھرتی ہونے کے لئے کہا جائے تو وہ اس سے بھاگتے ہیں لیکن انفنٹری میں خوشی کے ساتھ بھرتی ہوتے ہیں اور یہ صرف عادت کی بات ہے.پس ہمارے خدام کو یہ ذہنیت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے کہ یہ مشینوں کا زمانہ ہے اور آئندہ زندگی میں وہ مشینوں پر ا کام کریں گے.اگر کار خانوں میں کام نہ کر سکو تو ابتداء میں لڑکوں میں ان کھیلوں کا ہی رواج ڈالو جن میں لوہے کے پرزوں سے مشینیں بنانی سکھائی جاتی ہیں.مثلاً لوہے کے ٹکڑے ملا کر چھوٹے چھوٹے پل بناتے ہیں.پنگھوڑے ، ریلیں اور اسی کی بعض اور چیزیں تیار کی جاتی ہیں.ایسی کھیلوں سے یہ فائدہ بھی ہو گا کہ بچوں کے ذہن انجنیئر نگ کی طرف مائل ہونگے.
446 یہ سائنس کی ترقی کا زمانہ ہے.اس لئے خدام الاحمدیہ کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد سائنس کے ابتدائی اصولوں سے واقف ہو جائے اور ابتدائی اصول اس کثرت کے ساتھ جماعت کے سامنے دو ہرائے جائیں کہ ہمارے نائی.دھوبی بھی یہ جانتے ہوں کہ پانی دو گیسوں آکسیجن اور ہائیڈ روجن سے بنا ہوا ہے یا روشنی آکسیجن لیتی ہے اور کار بن چھوڑتی ہے.اگر ا سے آکسیجن نہ ملے تو بجھ جاتی ہے.جب ان ابتدائی باتوں سے اکثر لوگ واقف ہو جائیں گے تو بعد میں آنے والے ان سے اوپر کے درجہ پر ترقی پا جائیں گے.ایڈ سن جس نے ایک ہزار ایجادیں کی ہیں وہ ایک کار خانے میں چپڑاسی تھا.کارخانے میں جو تجربات ہوتے وہ ان کو غور سے دیکھتا رہتا.اس کی اس دلچسپی کو دیکھ کر ایک افسر نے اسے ایسی جگہ مقرر کر دیا.جہاں وہ کام بھی سیکھ سکتا تھا.پھر اسے ایسی درسگاہ میں داخل کرا دیا گیا.جہاں وہ ایک حد تک علمی سائنس سے واقف ہو سکے.آخر وہ ایجادیں کرنے لگ گیا اور آج وہ دنیا کا سب سے بڑا موجد سمجھا جاتا ہے.بجلی فونوگراف ٹیلیفون اسی طرح کی اور بہت سی چیزیں اس نے ایجاد کیں اور بعض چیزوں میں ایسی شاندار ترمیم کی کہ وہ ایک نئی چیز بن گئیں.پس جن لوگوں کے دماغ سائنس سے مانوس ہوں وہ دوسری کتابوں سے مدد لے کر ترقی کر جائیں گے.بعض لوگ بظاہر سکتے اور بے عقل سمجھے جاتے ہیں لیکن جب ان کا دماغ کسی طرف چلتا ہے تو حیران کن نتائج پیدا کرتا ہے.یہ ضروری نہیں کہ جو بہت زیادہ عقلمند اور ہوشیار نظر آئے وہی سائنس میں ترقی کرے.اس وقت قادیان میں سب سے زیادہ کامیاب کار خانہ میاں محمد احمد خان کا ہے.کچھ دن ہوئے مجھے ایک سائنس کا پروفیسر ملا تھا.اس نے مجھے حیرت کے ساتھ کہا کہ میک اور کس نے بہت ترقی کی ہے اور ان کی بعض چیزیں بہت قابل تعریف ہیں.لیکن میاں محمد احمد خان جو اس کارخانہ کے موجد ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی ٹوپی رکھ کر بھول جاتے ہیں کہ کہاں رکھی ہے اور بعض دفعہ ٹوپی ان کے سر پر ہوتی ہے اور وہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں.ایک دفعہ ایسا ہی ہوا کہ ان کی ٹوپی ان کے سر پر تھی اور وہ اپنے ماموں میاں بشیر احمد صاحب کی ٹوپی بغل میں دبا کر چل پڑے.میاں صاحب نے دیکھا کہ میری ٹوپی لئے جارہے ہیں تو بلا کر کہا کہ اگر ٹوپی کی ضرورت ہے تو بے شک لے جاؤ ورنہ تمہاری ٹوپی تمہارے سر پر ہے.غرض ایک طرف تو ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہو تاکہ میری ٹوپی میرے سر پر ہے یا نہیں ، دوسری طرف سائنس میں ان کا دماغ خوب چلتا ہے.تو بظاہر بعض لوگ ایسے نظر آتے ہیں کہ جن کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ تو کوئی کام بھی نہیں کر سکیں گے لیکن جب ان کا دماغ کسی طرف چل پڑتا ہے تو وہ دنیا کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں.پس میں ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاں ہمارے دوست دینی علوم سے واقف ہوں ، وہاں کچھ نہ کچھ انہیں سائنس کے ابتدائی اصول سے ضرور واقفیت ہونی چاہئے کیونکہ ان کا جاننا بھی اس زمانہ کے لحاظ سے بہت ضروری ہے.آج میں نے اتنا وسیع پروگرام آپ لوگوں کو بتا دیا ہے کہ اگر آپ اس کے مطابق کام کریں تو دو تین سال
447 میں جماعت کی کایا پلٹ جائے گی اور جماعت اپنے پہلے مقام سے بہت بلند مقام پر پہنچ جائے گی اور دشمن تسلیم کریں گے کہ اس جماعت کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے.دشمن جب بھی جماعت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے گا اس کی نظریں خیرہ ہو جائیں گی.میری صحت تو اچھی نہیں تھی.لیکن اس کے باوجود میں طبیعت پر بوجھ ڈال کر آگیا ہوں.رات سے اسہال ہو رہے ہیں.اگر بیٹھوں تو کھڑا نہیں ہو سکتا.اگر کھڑا ہوں تو بیٹھ نہیں سکتا.اب میں دعا کر کے جلسہ کو ختم کرتا ہوں." تقریر سالانہ اجتماع خدام الاحمدیه فرموده ۲۱ اکتوبر ۱۹۴۵ء)
449 جماعت کے نوجوانوں کو تجارت کی طرف توجه کرنی چاہئے جماعت کو کس طرح کے واقفین کی ضرورت ہے نوجوانوں کو وقف زندگی کی تحریک ه جب تک ہم میں سے ہر مرد اور عورت میں فدائیت اور جانثاری کا یہ جذبہ پیدا نہ ہو اس وقت تک ہم ایک مضبوط اور ترقی کرنے والی قوم کی بنیاد نہیں رکھ سکتے تجارت کے فوائد اور برکات فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۴۵ء)
450 ” ہماری جماعت کو اب تجارت کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے.میں نے بار ہ بتایا ہے کہ تجارت ایسی چیز ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا میں بہت بڑا اثر و رسوخ پیدا کیا جا سکتا ہے.ہمارے دو نوجوان افریقہ گئے.ایک کو ہم نے کہا کہ تمہیں خرچ کے لئے ہم پچیس روپے ماہوار دیں گے مگر دو سرے سے ہم نے کہا کہ تمہارے اخراجات برداشت کرنے کی ہمیں توفیق نہیں.اس نے کہا.توفیق کا کیا سوال ہے.میں خود محنت مزدوری کر کے اپنے لئے روپیہ پیدا کرلوں گا.سلسلہ پر کوئی بار ڈالنے کے لئے تیار نہیں.ہم نے کہا یہ تو بہت مبارک خیال ہے.اگر ایسے نوجوان ہمیں میسر آجائیں تو اور کیا چاہئے چنانچہ وہ دونوں وہاں گئے اور انہوں نے پندرہ روپیہ چندہ ڈال کر تجارت شروع کی.اب ایک تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ وہی نوجوان جنہوں نے پندرہ روپے سے تجارت شروع کی تھی اب تک ہزار روپیہ تبلیغی اخراجات کے لئے چندہ دے چکے ہیں اور اپنا گزارہ بھی اتنی مدت سے عمدگی کے ساتھ کرتے آرہے ہیں.اسی قسم کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں اور اس ملک میں بعض نوجوان ہزار ہزار دو دو ہزار روپیہ کے ساتھ آئے اور اب وہ لاکھ لاکھ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ کے مالک ہیں...میں نے بڑی وضاحت سے جماعت کے نوجوانوں کو بار بار سمجھایا کہ دیکھو تمہیں بطور حق کے ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا.تمہیں اپنے پاس سے کھانا کھانا پڑے گا.تمہیں پیدل سفر کرنا پڑے گا.تمہیں فاقے کرنا پڑیں گے.تمہیں ماریں کھانی پڑیں گی.تمہیں ہر قسم کی تکالیف برداشت کرنی پڑیں گی اور تمہارا فرض ہو گا کہ ان تمام حالات میں ثابت قدم رہو اور استقلال سے خدمت دین میں مصروف رہو.یہ سبق میں اپنے خطبات میں دہراتا اور بار بار دہراتا ہوں.پھر میں اس پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ نوجوانوں کو خود انٹرویو کے لئے اپنے سامنے بلاتا ہوں اور کہتا ہوں دیکھو تم نے میرے خطبات تو پڑھ لئے ہوں گے.اب پھر مجھ سے سن لو.تمہیں کوئی پیسہ نہیں ملے گا.کیا تمہیں منظور ہے.وہ کہتے ہیں منظور ہے.پھر کہتا ہوں تمہیں پیدل سفر کرنا پڑے گا اس کے لئے تیار ہو.وہ کہتے ہیں پوری طرح تیار ہیں.پھر کہتا ہوں تمہیں جنگلوں میں جانا پڑے گا کیا اس کے لئے تیار ہو.وہ کہتے ہیں ہم جنگلوں میں جانے کے لئے بھی تیار ہیں.پھر کہتا ہوں تمہیں فاقے بھی آئیں گے کیا تم فاقہ کے لئے تیار ہو.وہ کہتے ہیں ہم فاقہ کے لئے بھی تیار ہیں.میں کہتا ہوں تمہیں لوگوں سے ماریں کھانی پڑیں گی ، کیا تم اس کے لئے بھی تیار ہو.وہ کہتے ہیں ہم ماریں کھانے کے لئے بھی تیار ہیں.غرض یہ سب انہیں خوب یاد کرایا جاتا اور بار بار ان کے سامنے دہرایا جاتا ہے اس کے بعد جب ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سبق ان کو خوب یا د ہو چکا ہو گا تو ہم کہتے ہیں جاؤ سندھ میں جو سلسلہ کی زمینیں ہیں ان پر کام کرو.منشی کا کام تمہارے سپرد کیا جاتا ہے.جاتے ہیں تو تیسرے دن مینجر کی طرف سے تار آجاتا ہے کہ منشی صاحب بھاگ گئے ہیں کیونکہ وہ کہتے تھے میرا دل یہاں نہیں لگتا.کوئی ایک مثال ہو تو اسے برداشت کیا جائے دو مثالیں ہوں تو انہیں برداشت کیا جائے.مگر ایسی کئی مثالیں ہیں کہ بعض نوجوانوں نے ہر قسم کی تکالیف برداشت کرنے کا عہد کرتے ہوئے اپنی زندگیاں وقف کیں مگر جب ان کو سلسلہ کے کسی کام پر مقرر کیا گیا تو بھاگ گئے محض اس لئے کہ تکالیف ان سے برداشت نہیں ہو سکتیں.اس قسم کے مواد کو لے کر کوئی
451 جرنیل کیا لڑ سکتا ہے.آدمی کو کم از کم یہ تو تسلی ہونی چاہیے کہ میں بھی جان دینے کے لئے تیار ہوں اور میرا ساتھی بھی خدا تعالیٰ کے دین کے لئے اپنی جان دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے مگر یہاں یہ حالت ہے کہ بعض نوجوان اپنی زندگی وقف کرتے ہیں اور پھر ذرا سی محنت اور ذراسی تکلیف پر کام چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں اور جب ان میں سے کسی کو سرزنش کی جاتی ہے تو جماعتیں اس کو اپنے گلے سے لپٹا لیتی ہیں اور لکھتی ہیں کہ آپ کو اس کے متعلق کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ورنہ یہ آدمی بڑا مخلص ہے اور سلسلہ کے لئے بڑی قربانی کرنے والا ہے حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ جب ایسا شخص واپس آتا تو بیوی اپنے دروازے بند کر لیتی اور کہتی کہ میں تمہاری شکل دیکھنے کے لئے تیار نہیں.بچے اس سے منہ پھیر لیتے اور کہتے کہ تم دین سے غداری کا ارتکاب کر کے آئے ہو ، ہم تم سے ملنے کے لئے تیار نہیں.دوست اس سے منہ موڑ لیتے کہ ہم تم سے دوستی رکھنے کے لئے تیار نہیں ، تم نے تو موت تک اپنی زندگی سلسلہ کے لئے وقف کی تھی.اب تم خود واپس نہیں آسکتے.تمہاری روح ہی آسکتی ہے مگر روح بھی یہاں نہیں آئے گی اللہ تعالیٰ کے حضور جائے گی اس لئے تمہارا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں مگر بعض جماعتیں ایسے لوگوں کو بڑے پیار سے گلے لگاتی اور سینہ سے چمٹانے لگ جاتی ہیں.ہم جب بچے تھے تو حضرت (اماں جان) ہمیں کہانی سنایا کرتی تھیں کہ ایک جولاہا کہیں کھڑا تھا کہ بگولا اٹھا اور وہ اس کی لپیٹ میں اڑتے اڑے کسی شہر کے پاس آگر ا.اس شہر میں ایک نیم پاگل بادشاہ رہا کرتا تھا اور اس کی ایک خوبصورت لڑکی تھی.کئی شہزادوں نے رشتہ کی درخواست کی مگر اس نے سب درخواستوں کو رد کر دیا اور کہا کہ میں اپنی لڑکی کی شادی کسی فرشتہ سے کروں گا جو آسمان سے اترے گا.کسی اور کو رشتہ دینے کے لئے تیار نہیں.جوں جوں دن گزرتے گئے لڑکی کی عمر بھی بڑی ہوتی گئی.ایک دن وہ جو لا ہا بگولے کی لپیٹ میں جو اس شہر کے قریب آکر ننگ دھڑنگ گرا تو لوگ دوڑتے ہوئے بادشاہ کے پاس گئے اور کہنے لگے.حضور آسمان سے فرشتہ آگیا ہے.اب اپنی لڑکی کی اس سے شادی کر دیں.بادشاہ نے اپنی لڑکی کی جولا ہے سے شادی کر دی.وہ پہاڑی آدمی تھا.نرم نرم گدیلوں اور اعلیٰ اعلیٰ کھانوں کو وہ کیا جانتا تھا.اسے سب سے بہتر یہی نظر آتا تھا کہ زمین پر ننگے بدن سوئے اور روکھی سوکھی روٹی کھائے مگر جب بادشاہ کا داماد بنا تو اس کی خاطر تواضع ہونے لگی.نوکر کبھی اس کے لئے پلاؤ پکا ئیں.کبھی زردہ پکائیں.کبھی مرغا تیار کریں.پھر جب بستر پر لیٹے تو نیچے بھی گریلے ہوتے اور اوپر بھی اور کئی خادم اسے دبانے لگ جاتے.کچھ عرصہ کے بعد وہ اپنی ماں سے ملنے کے لئے آیا.ماں نے اسے دیکھا تو گلے سے چمٹالیا اور رونے لگی کہ معلوم نہیں اتنے عرصہ میں اس پر کیا کیا مصیبتیں آئی ہوں گی.جولاہا بھی چیچنیں مار مار کر رونے لگ گیا اور کہنے لگا.اماں میں تو بڑی مصیبت میں مبتلا رہا.ایک ایک دن گزارنا میرے لئے مشکل تھا.کوئی ایک تکلیف ہو تو بیان کروں.میرے تو پور پور میں دکھ بھرا ہوا ہے.اماں کیا بتاؤں مجھے صبح شام لوگ کیڑے پکا کر کھلاتے (چاول جو اسے کھانے کے لئے دیئے جاتے تھے ، ان کا نام اس نے کیڑے رکھ دیا) پھر وہ نیچے بھی روئی رکھ دیتے اور اوپر بھی اور مجھے مارنے لگ جاتے یعنی دبانے کو اس نے مارنا قرار دیا.اس طرح ایک ایک کر کے اس نے سارے انعامات گنانے شروع کئے.ماں
452 نے یہ سنا تو چیچنیں مار کر رونے لگ گئی اور کہنے لگی." ہے پت تجھ پہ یہ دکھ." یعنی اتنی چھوٹی سی جان اور یہ یہ مصیبتیں.یہی حال بعض واقفین کا ہے کہ جماعتیں ان کو گلے لپٹاتی ہیں اور کہتی ہیں." ہے پت تجھ پہ یہ یہ دکھ." بہر حال ہمیں واقف چاہئیں مگر بزدل اور پاگل واقف نہیں بلکہ وہ ہر قسم کے شدائد کو خوشی کے ساتھ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں.میں جہاں واقفین میں سے اس حصہ کی مذمت کرتا ہوں وہاں میں دوسرے حصہ کی تعریف کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا.خدا تعالیٰ کے فضل سے نوجوانوں میں ایسے واقفین زندگی بھی ہیں جنہیں ہر قسم کے خطرات میں ہم نے ڈالا مگر انہوں نے ذرا بھی پرواہ نہیں کی.وہ پوری مضبوطی کے ساتھ ثابت قدم رہے اور انہوں نے دین کی خدمت کے لئے کسی قسم کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا.چونکہ ہمیں اسلام کی تبلیغ وسیع کرنے کے لئے ابھی مبلغین کے ایک لمبے سلسلہ کی ضرورت ہے اس لئے میں جماعت کے نوجوانوں کو پھر وقف زندگی کی تحریک کرتا ہوں اور ماں باپ کو اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتا ہوں کہ جب تک ہر باپ یہ اقرار نہیں کرتا کہ میں اپنی اولاد کو اسلام کے لئے قربان کرنے کو تیار ہوں.جب تک ہر ماں یہ اقرار نہیں کرتی کہ وہ دین کے لئے اپنی اولاد کو قربان کرنا اپنے لئے سعادت کا موجب سمجھے گی ، اس وقت تک ہم دین کی ترقی کے لئے کوئی مضبوط اور پائیدار بنیاد قائم نہیں کر سکتے.ہم میں سے ہر مرد اور ہر عورت کا یہ ایمان ہونا چاہئے کہ اگر دین کے لئے اس کی اولاد قائم ہو جائے گی تو اس کی موت انتہائی سکھ کی موت ہوگی اور اگر سلسلہ کے لئے اس کی اولاد ہر قسم کی قربانی سے کام نہیں لے گی تو اس کی موت کی گھڑیاں انتہائی دکھ اور تکلیف میں گذریں گی.یہ ایمان ہے جو ہمارے اندر پیدا ہونا چاہئے.جب تک ہم میں سے ہر مرد اور عورت میں فدائیت اور جاں نثاری کا یہ جذبہ پیدا نہ ہو اس وقت تک ہم ایک مضبوط اور ترقی کرنے والی قوم کی بنیاد نہیں رکھ سکتے.ایک اعلان میں نے یہ کیا تھا کہ جماعت کے نوجوان اپنے آپ کو اس رنگ میں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کریں کہ مرکز کی طرف سے انہیں جہاں بھی تجارت کرنے کے لئے کہا جائے گا وہاں وہ جائیں گے اور اپنے ذاتی کاروبار کے ساتھ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ بھی کرتے رہیں گے.تجارت ایک ایسی چیز ہے جس میں انسان بغیر کسی خاص سرمایہ کے بہت تھوڑی محنت کے ساتھ کامیاب ہو سکتا ہے.جو لوگ اس طرف توجہ کریں گے وہ نہ صرف اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے روزی کا سامان پیدا کریں گے بلکہ دین کی خدمت کے لئے چندہ بھی دے سکیں گے اور سلسلہ کی اشاعت کو بھی وسیع کرنے کا موجب بنیں گے.ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے آپ کو تجارت کے لئے وقف کریں.اگر انہیں کام سیکھنے کی ضرورت ہوئی تو ہم کام سکھائیں گے.انہیں تجارت کے لئے موزوں مقام بتائیں گے.انہیں کارخانوں سے مال، دلوا دیں گے اور اگر کوئی مشکل پیش آئے گی تو اس کو دور کرنے کی کوشش کریں گے.افریقہ میں ایسا ہی ہوا کہ بعض لوگ وہاں تجارت کے لئے گئے تو ہم نے اپنی ضمانت پر انہیں کارخانوں سے مال دلوا دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے عرصہ میں ہی وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو گئے.اگر ہماری جماعت کے نوجوان اس طرف توجہ کریں تو ہم قلیل ترین عرصہ میں
453 سارے ملک میں اپنے تاجر اور صناع پھیلا سکتے ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ جس جس علاقہ میں ہمارا تاجر اور صناع ہو گا ان علاقوں میں صرف ان کی تجارت اور صنعت ہی کامیاب نہیں ہو گی بلکہ جماعت بھی پھیلے گی." ( فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۴۵ء مطبوعہ الفضل ۱ جولائی ۱۹۶۲ء)
454 "مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ ہمارا کوئی آدمی ایسا نہیں رہنا چاہئے جو قرآن کریم نہ پڑھ سکتا ہو انہوں نے قرآن کریم کی طرف سے توجہ ہٹالی ہے اور دوسری طرف چلے گئے ہیں حالانکہ یہ ایک نہایت ہی قیمتی چیز خدا تعالی کی طرف سے عظیم الشان نعمت کے طور پر مسلمانوں کو ملی تھی.اب جماعت احمدیہ کو اس کی طرف پوری توجہ کرنی چاہئے اور ہمارا کوئی آدمی ایسا نہیں رہنا چاہئے جو قرآن کریم نہ پڑھ سکتا ہو اور جسے اس کا ترجمہ نہ آتا ہو.اگر کسی شخص کو اس کے کسی دوست کا کوئی خط آجائے تو جب تک وہ اسے پڑھ نہ لے اسے چین نہیں آتا اور اگر خود پڑھا ہوا نہ ہو تو یکے بعد دیگرے دو تین آدمیوں سے پڑھائے گا.تب اسے یقین آئے گا کہ پڑھنے والے نے صحیح پڑھا ہے.لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خط آئے اور اس کی طرف توجہ نہ کی جائے.عام طور دیکھا گیا ہے کہ غرباء قرآن کریم پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور امراء اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے حالانکہ جو شخص دنیاوی لحاظ سے کوئی علم رکھتا ہے یا امیر ہے ، اس کے لئے قرآن کریم کا پڑھنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اس کو قرآن کریم کے پڑھنے کے مواقع میسر آسکتے ہیں.میرے نزدیک ایسے لوگ جو کہ تعلیم یافتہ ہیں مثلا ڈاکٹر ہیں، وکیل ہیں ، بیرسٹر ہیں ، انجنیر ہیں ، وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ مجرم ہیں کیونکہ وہ اگر قرآن کریم پڑھنا چاہتے تو بہت آسانی سے اور بہت جلدی پڑھ سکتے تھے.پس ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ گنہگار ہیں.دوسرے لوگوں کے متعلق تو یہ خیال جا سکتا ہے کہ ان کا حافظہ کام نہیں کرتا تھا لیکن ان لوگوں کے دماغ تو روشن تھے اور حافظہ کام کرتا تھا.تبھی تو انہوں نے ایسے علوم سیکھ لئے.ایسے لوگوں سے اللہ تعالی کہے گا کہ تمہیں دنیوی علوم کے لئے تو وقت اور حافظہ مل گیا لیکن میرے کلام کو سمجھنے کے لئے نہ تمہارے پاس وقت تھا اور نہ ہی تمہارے پاس حافظہ تھا.ایک غریب آدمی کو دن میں دس بارہ گھنٹے اپنے پیٹ کے لئے بھی کام کرنا پڑتا ہے لیکن باوجود اس کے وہ قرآن کریم پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک امیر آدمی یا ایک وکیل یا ایک بیر سٹریا ایک ڈاکٹر جن کو چند گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے ان کے لئے قرآن کریم پڑھنا کیا مشکل ہے.یہ سب سستی اور غفلت کی علامت ہے.اگر انسان کو شش کرے تو بہت جلد اللہ تعالٰی اس کے لئے رستہ آسان کر دیتا ہے.دوسری دنیا تو پہلے ہی دنیا کمانے میں منہمک ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتی.اگر ہماری جماعت بھی اسی طرح کرے تو کتنے افسوس کی بات ہو گی.حقیقت یہ ہے کہ دنیا علم و ہنر اور دوسری ایجادوں میں تو ترقی کرتی جا رہی ہے لیکن چونکہ قرآن کریم سے دور جا رہی ہے اس لئے وہی چیزیں اس پر تباہی اور بربادی لا رہی ہیں.جب تک لوگ قرآن کریم کی تعلیمات کو نہیں اپنا ئیں گے.جب تک قرآن کریم کو اپنار ہبر نہیں مانیں گے اس وقت تک چین کا سانس نہیں لے سکتے.یہی دنیا کا مداوا ہے.ہماری جماعت کو کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا قرآن کریم کی خوبیوں سے واقف ہو اور قرآن کریم کی تعلیم لوگوں کے سامنے بار بار آتی رہے تاکہ دنیا اس مامن کے سایہ تلے آکر امن حاصل کرے“.فرموده ۱۰ مئی ۱۹۴۶ء.مطبوعہ الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۷۰ء)
455 لوکل انجمن اور خدام الاحمدیہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۱۰ مئی ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب مجلس عرفان میں بعض تربیتی امور کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :."کل مجھے ایک شکایت قادیان سے پہنچی تھی اور آج اسی قسم کی ایک شکایت جماعت دہلی کی طرف سے موصول ہوئی ہے کہ لوکل انجمن اور خدام الاحمدیہ میں بعض دفعہ کسی معاملہ کے متعلق اختلاف پیدا ہو جاتا ہے.میں ایک خطبہ میں تفصیل کے ساتھ ان امور کا ذکر کر چکا ہوں.میرے نزدیک ان میں اختلاف اور ٹکراؤ کی کوئی وجہ نہیں.معلوم نہیں کہ لوگ کس طرح ٹکراؤ پیدا کر لیتے ہیں.جو شخص چالیس سال سے کم عمر کا ہے وہ خدام کا ممبر ہے اور جو اس سے زائد عمرکا ہے وہ انصار اللہ کا نمبر ہے.خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض نوجوانوں کی تربیت اور ان کو کام کرنے کی عادت ڈالنا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کے نتائج اللہ تعالی کے فضل سے نہایت خوش کن اور اچھے نکل رہے ہیں.باقی استثنائی صورتیں تو ہر قوم میں ہوتی ہیں اور کوئی قوم بھی سوفیصدی نیک نہیں ہوتی.جو لوگ ست اور کمزور ہوتے ہیں ، ان کو پیار اور محبت سے سمجھانا چاہئے.لڑنے اور کڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو تا.باقی رہا انجمن کا معاملہ.سو اس کے متعلق یا د رکھنا چاہئے کہ قانونی لحاظ سے کام کی ذمہ وار انجمن ہے.خدام تو زائد کام کرنے والے ہیں.اسی وجہ سے انجمن کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کو خدام الاحمدیہ کے عہدیداروں پر فوقیت حاصل ہے اور ہر خادم انفرادی لحاظ سے انجمن کے نظام کے تابع ہے.اگر کوئی خادم اپنے آپ کو تابع نہیں سمجھتا تو وہ غلطی پر ہے.لیکن خدام الاحمدیہ کو اپنے دائرہ میں ایک حق حاصل ہے اور وہ یہ کہ خدام الاحمدیہ کی حیثیت میں ان کو حکم دینا کسی انجمن کے پریذیڈنٹ کا کام نہیں.خدام کو بحیثیت خدام ان کے زعیم یا قائد ہی حکم دے سکتے ہیں.ہاں احمدی ہونے کی حیثیت میں پریذیڈنٹ یا سیکر ٹری یا دوسرے کار کن جو کام کرانا چاہیں اس کے لئے حکم دے سکتے ہیں اور خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ اس کی تعمیل کریں".فرموده ۱۰ مئی ۱۹۴۶ء.مطبوعہ الفضل ۱ ستمبر ۱۹۶۰ء)
456 ہر احمدی کو بچوں اور نوجوانوں کی اصلاح کے لئے کوشاں رہنا چاہئے فرمایا :." آج میں خدام الاحمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتاہوں کہ دنیا میں صرف کام کو ہی نہیں دیکھا جاتا بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کام کس طرح سے سرانجام دیا گیا ہے.اگر کوئی کام بھونڈے طریق سے کیا جائے تو خواہ وہ اچھا ہی ہو اس کا دوسروں پر برا اثر پڑتا ہے اور اگر برا کام بھی عمدہ طریق سے کیا جائے تو گو وہ کام کرنے والے کے لئے تو نا جائز ہی ہو گا لیکن دوسروں پر اس کا اچھا اثر پڑے گا اور وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے.مثلاً اگر کوئی شخص ریاکاری کے ساتھ کسی ایسے شخص کے ساتھ جس سے وہ دل میں عداوت رکھتا ہے حسن سلوک کرے تو دیکھنے والے تو یہی سمجھیں گے کہ اس کا طریق عمل قابل رشک ہے اور ہمیں بھی ایسا ہی طریق اختیار کرنا چاہئے.پس خدام الاحمدیہ کو ہمیشہ غور کرتے رہنا چاہئے کہ لوگ ہمارے کام کی وجہ سے ہم سے محبت کرتے ہیں یا ہمارے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور اگر دوسروں پر ان کے کام کا اچھا اثر نہ ہو تو انہیں غور کرنا چاہئے کہ ہمارے کام میں کچھ بھونڈا پن تو نہیں جس کی وجہ سے لوگ ہمارے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور پھر جو نقائص اور عیوب انہیں اپنے اندر نظر آئیں ان کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اسی طرح میں انصار کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ بچوں کی تربیت نہایت ضروری چیز ہے اور ان کی نگرانی نہ کرنا ایک خطرناک غلطی ہے.آخر خدام کوئی غیر تو نہیں ہیں.انصار کی اپنی ہی اولادیں ہیں مگر بجائے اس کے کہ وہ ان کو بچوں کی طرح سمجھا ئیں الٹا اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں.گویا انہیں اپنا بیٹایا اپنا بھائی بھول جاتا ہے اور یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ خدام میں یہ نقص ہے اور خدام میں وہ نقص ہے.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ خدام ہمارے ہی بیٹے ہیں.خدام کوئی آسمان سے تو گرے نہیں.وہ ان کی اپنی اولاد میں ہیں.وہ احمدی محلوں میں رہنے والے بچے ہیں اور خدام کے باپ یا چچا انصار ہیں.پس خدام الاحمدیہ کو بھی اپنے کاموں کا جائزہ لینا چاہئے اور ان نقائص کو دور کرنا چاہئے جن کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اعتراض پیدا ہوتا ہے اور انصار کو بھی خدام کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے".فرمایا :.کل ایک صاحب نے ایک بات پیش کی تھی.گو انہوں نے تعلیم کی کمی کی وجہ سے نامناسب رنگ میں پیش کی تھی کہ محلہ دار الفضل کے خدام ان کا گھوڑا کھول کر لے گئے اور اس پر سواری کرتے رہے.میں نے بتایا تھا کہ وہ ان دو چار لڑکوں کا نام بحیثیت خادم کے کیوں پیش کرتے ہیں.کیا وہ کام انہوں نے بحیثیت خادم کیا تھا.اگر بڑی عمر کا کوئی آدمی غلطی کرے تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ انصار اللہ ایسا کرتے ہیں.پس ان لڑکوں کا فعل بحیثیت
457 خدام نہ تھا.اس لئے یہ کہنا کہ خدام الاحمدیہ اس طرح کرتے ہیں درست نہیں اور جب یہ واقعہ ہوا تھا تو محلہ کے پریذیڈنٹ کا فرض تھا کہ وہ اس کی تحقیقات کرتا اور اخلاق کی درستی ہر انسان کا فرض ہے چاہے وہ عہدیدار ہے یا نہیں اور اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ صحیح رنگ میں بچوں کی تربیت نہیں کرتے اور اگر کوئی شخص اصلاح کرنا چاہتا ہے تو اس سے جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں.گویا بجائے ان کو برے کاموں سے روکنے کے ان کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں.جو والدین ایسا کرتے ہیں وہ اپنی حماقت کا ثبوت دیتے ہیں.بچپن میں تو وہ ان کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں لیکن جب بچہ جوان ہو جاتا ہے اور بد اخلاقیوں سے باز نہیں آتا اور والدین کو ٹھکرا دیتا ہے تو پھر چیخنا شروع کر دیتے ہیں کہ دعا فرمائیں بچے کی اخلاقی حالت بہت خراب ہو گئی ہے حالانکہ ابتداء میں یہی لوگ اس کو خراب کرنے والے ہوتے ہیں.قصہ مشہور ہے کہ کسی ڈاکو کو پھانسی کا حکم ملا.جب حکام اسے پھانسی دینے لگے تو اس سے پوچھا گیا کہ اگر تمہاری کوئی خواہش ہو تو بتاؤ تاکہ وہ پوری کر دی جائے.اس نے کہا میں اپنی والدہ سے ملنا چاہتا ہوں.اس کی ماں کو بلایا گیا.اس نے کہا میں علیحد گی میں بات کرنا چاہتا ہوں.اس خیال سے کہ اب تو اس نے مرجاتا ہے اسے علیحدگی میں بات کرنے کی اجازت دے دی گئی.چند منٹ بعد اس کی ماں کی شیخ سنائی دی.افسر دوڑے دوڑے وہاں پہنچے کہ کیا ہو گیا ہے تو انہوں نے دیکھا کہ اس نے دانت مار کر اپنی ماں کا کلہ زخمی کر دیا تھا.افسروں نے اسے لعنت ملامت کی کہ ظالم اب تو تم سولی کے تختے پر لٹکنے والے ہو.ایسی حالت میں بھی تم سولی سے باز نہیں آئے اور تم نے اپنی ماں کا کلہ کاٹ کھایا ہے.اس نے کہا آپ لوگ نہیں جانتے کہ میں نے کلہ کیوں کاٹا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ آج پھانسی کے تختہ پر مجھے میری ماں ہی لٹکا رہی ہے.وہ اس طرح کہ جب میں بچپن میں چھوٹی چھوٹی چیزیں چوری کر کے لاتا تھا تو وہ مجھ سے لے کر چھپا لیتی تھی اور اگر کوئی میرے متعلق شکایت کرتا تھا تو اس سے لڑنے لگ جاتی تھی.میں اس وقت نا واقف تھا.مجھے بچپن میں ہی چوری کی عادت پڑ گئی.پھر میں نے بڑی چوریاں کرنی شروع کر دیں اور اب چوری کرتے ہوئے مجھ سے ایک آدمی قتل ہو گیا جس کی وجہ سے میں پھانسی دیا جا رہا ہوں.اسی وجہ سے میں نے اپنی ماں کے کھلے کو کاٹا ہے کہ اصل مجرم میری ماں ہی ہے.حقیقت یہی ہے کہ لوگ ابتداء میں اپنی اولادوں کی تربیت کی فکر ابتداء سے ہی تربیت کریں نہیں کرتے اور اگر کوئی کہے تو اس سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور ہر شخص اپنے لڑکے کو معصوم سمجھتا ہے.دوسرے کے لڑکے کے متعلق تو وہ کوئی بات سن بھی لیتا ہے لیکن اپنے لڑکے کے متعلق کوئی بات نہیں سن سکتا بلکہ اگر کوئی کہے تو الٹا اسے ڈانٹنا شروع کر دیتا ہے کہ آپ پہلے اپنے بچے کی تو خبر لیں.ان کی مثال ویسی ہی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی نمبردار گاؤں کے کسی شخص سے کٹورا مانگ کرلے گیا.جب بہت دن گزر گئے اور نمبردار نے کور اواپس نہ کیا تو وہ خود کٹورا لینے کے لئے نمبردار کے مکان پر گیا.جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ نمبردار اس میں ساگ کھا رہا ہے.اس نے کہا نمبر دار جی ! یہ کوئی اچھا طریق تو نہیں کہ آپ
458 بر تن مانگ کر لے آتے ہیں اور پھر اس میں ساگ ڈال کر کھانا شروع کر دیتے ہیں اور پھر ایک گالی نکال کر کہنے لگا کہ میں بھی ایسا ویسا ہوں اگر تمہارا کٹورا مانگ کر نہ لے جاؤں اور اس میں پاخانہ ڈال کر نہ کھاؤں.تو ایسے لوگ بھی بجائے دل کی صفائی کا ثبوت دینے کے دل کی گندگی کا ثبوت دیتے ہیں.بجائے اس کے کہ وہ خوش ہوں کہ کسی نے میرے لڑکے کی بیماری کا پتہ دے دیا ہے الٹالڑنا شروع کر دیتے ہیں.یہ طریق نہایت نا پسندیدہ ہے.ہماری جماعت کے ہر شخص کا فرض ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کے اخلاق کی درستی کے لئے کوشاں رہے.بالعموم نوجوان نوجوانوں کی بیچ کر جاتے ہیں اور ان کی غلطیوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ جب کسی کو کسی دوسرے شخص کی غلطی کی اطلاع ملے تو اسے اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.(فرموده ۱۹ مئی ۱۹۴۶ء.مطبوعہ الفضل ۷ استمبر ۱۹۶۱ء)
459 دو کام کا وقت یہی ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے چاروں طرف تحریک پیدا ہو رہی ہے اور لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مبلغ بھیجو مگر مشکل یہی ہے کہ ہمارے پاس مبلغ بھی کم ہیں اور روپیہ بھی کافی نہیں.اس وقت ہماری مثال وہی ہے جو احد کے مردوں کی تھی کہ کپڑوں کی کمی کی وجہ سے جب صحابہ ان کے سرڈھانکتے تھے تو پاؤں ننگے ہو جاتے تھے اور پاؤں ڈھانکتے تھے تو سر ننگے ہو جاتے تھے.آخر رسول کریم میل ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پاؤں پر از خر گھاس ڈال کر دفن کر دو.اس وقت جو لوگ مکمل مبلغ نہیں وہ اپنے آپ کو پیش کریں تو اذخر گھاس کا کام دے سکتے ہیں.پھر ہمارے اداروں کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ جلدی جلدی مبلغ پیدا ہوں.اس وقت بیرونی ممالک میں جو بیداری پیدا ہوئی ہے، یہ جنگ کی وجہ سے ہوئی ہے.لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ دنیا کی زندگی تو بالکل بے حقیقت چیز ہے دین کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اس رو سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے ورنہ کچھ عرصہ کے بعد یہ حالت نہیں رہے گی.ہمارے تعلیمی اداروں کو بھی چاہئے کہ وہ جلدی جلدی نوجوانوں کو تعلیم سے فارغ کریں.کام کا وقت یہی ہے.اس وقت جتنا کام ایک اکیلا مبلغ کر سکتا ہے بعد میں اتنا کام دس مبلغ بھی نہیں کر سکیں گے.تمام اداروں میں تعلیم پانے والے طالب علموں کو بھی چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت صرف کر کے اور زیادہ سے زیادہ محنت کر کے تعلیم کو مکمل کرنے کی کوشش کریں.اس وقت پانچ سو سے ہزار تک مبلغین کی بیرونی ممالک میں ضرورت ہے.تعلیمی اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنے ہاں اس قسم کے بورڈ لگا ئیں کہ اس درسگاہ کے اتنے طلباء نے خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے اور اس بہال اتنے طلباء دین کی خدمت کے لئے باہر جانے والے ہیں.جامعہ احمدیہ کی تو غرض ہی یہی ہے کہ مبلغین تیار کئے جائیں.باقی درسگاہوں میں سے تعلیم الاسلام ہائی سکول نے بہت اچھا نمونہ پیش کیا ہے اور سینکڑوں طالب علموں کے نام پیش کئے ہیں.ابھی تک کالج نے کوئی اچھا نمونہ پیش نہیں کیا.شاید اس وجہ سے کہ وہ دنیا کمانے کے قریب پہنچ جاتے ہیں.اس لئے ان میں زندگی وقف کرنے کی رغبت پیدا نہیں ہوتی.اگر اس قسم کے بورڈ لگا دیئے جائیں تو دوسروں کے لئے تحریک کا باعث ہوتے ہیں.اسی طرح ہمارے تجارتی ادارے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ نفع مند ثابت کرنے کی کوشش کریں تاکہ خدمت دین کے لئے جو روپے کی ضرورت ہے وہ بھی پوری ہوتی رہے".(فرمودہ ۲۷ مئی ۱۹۴۶ء.مطبوعہ الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۶۰ء)
460 فرمایا :.نوجوانوں کو مستعدی سے کام کرنا چاہئے ” میں نے گزشتہ ایام میں یہاں کی مقامی مجلس خدام الاحمدیہ کو ایک جھگڑے کے متعلق تحقیقات کرنے کے لئے کہا تھا.آج پانچ دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک مجھے ان کی طرف سے کوئی رپورٹ نہیں ملی.ہمارے نوجوانوں میں دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ مستعدی کے ساتھ کام کرنے کی عادت ہونی چاہئے کیونکہ ہمارے پاس آدمی تھوڑے ہیں اور کام بہت زیادہ ہے.ہمارا کام صحیح طور پر تبھی چل سکتا ہے جب کہ ہمارا ایک آدمی کئی کئی آدمیوں کا کام سنبھال لے.اگر اس طرح ستی سے کام کئے جائیں تو کئی قسم کے نقصانات کا احتمال ہو سکتا ہے.فرض کرو کسی کے ہاں نقب لگے اور سراغ رساں کہے کہ میں تو دو تین دن کے بعد آؤں گا تو چوری کا کیسے پتہ لگ سکتا ہے.وہ پیروں کے نشانات وغیرہ تبھی دیکھ سکتا ہے جب کہ وہ فور موقع پر پہنچ جائے لیکن وہ اگر کئی دن کے بعد موقع پر پہنچے تو کوئی سراغ نہیں لگا سکے گا.پس ہمارے نوجوانوں کو جلدی جلدی کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور سستی اور غفلت کو ترک کرنا چاہئے.فرموده ۲۸ مئی ۱۹۴۶ء.مطبوعہ الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۶۰ء)
461 فرمایا:.خدمت دین کے لئے زندگی وقف کرنے والے لڑکے " آج ان لڑکوں کا انٹرویو لیا گیا ہے جنہوں نے خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں مگر ابھی تک ان کا میٹرک کا نتیجہ نہیں نکلا.یہ سترہ لڑکے تھے جو انٹرویو کے لئے آئے.مجھے یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی کہ دو لڑکوں کے سوا باقی سب لڑکوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ وہ فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوں گے.پھر ان سترہ لڑکوں میں سے تین چار کے سوا باقی سب نے سائنس لی ہوئی ہے.اگر وہ سائنس لے کر فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوں تو اور بھی خوشی کی بات ہے کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہو گا کہ ان لڑکوں نے بہت زیادہ محنت کی ہے اور یہ بھی کہ لڑکے ذہین اور ہوشیار ہیں.
462 دنیا میں ہمیشہ ذہین اور ہوشیار ہی اعلیٰ ذہین نوجوان دین و دنیا میں زیادہ ترقی کر سکتے ہیں کارنامے سرانجام دیا کرتے ہیں اور زندگی کے تمام شعبوں میں ذہانت ان کے لئے نئے نئے رستے کھول دیتی ہے.ذہین آدمی اپنی اور اپنی قوم کی مشکلات کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور جوں جوں انسان کی ذہانت ترقی کرتی ہے اسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس زیادہ ہوتا جاتا ہے.پھر یہ بات بھی تجربہ میں آئی ہے کہ کہ ذہین لوگ ہی دین میں بھی زیادہ ترقی کرتے ہیں.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں آپ کا ایک نوکر پیرا ہو تا تھا.وہ پالم پور کا رہنے والا تھا.اس کے رشتہ دار اسے علاج کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس لے کر آئے کیونکہ اسے گنٹھیا کی بیماری تھی.اس سے پہلے وہ اسے بعض حکیموں کے پاس لے کر گئے تو وہ بڑی بڑی فیسیں مانگتے تھے اور وہ دے نہ سکتے تھے.آخر کسی نے انہیں بتایا کہ اسے مرزا صاحب کے پاس لے جاؤ.وہ روٹی بھی دیں گے اور علاج بھی کریں گے.چنانچہ اس کے رشتہ دار سے آپ کے پاس چھوڑ کر چلے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا علاج شروع کیا اور وہ اچھا ہو گیا.ایک دو سال کے بعد اس کے رشتہ دار اسے لینے کے لئے آئے تو اس نے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جب میں بیمار تھا اس وقت تو تم پھینک کر چلے گئے اور اب جب کہ میں کام کاج کے قابل ہو گیا ہوں تم مجھے واپس لے جانا چاہتے ہو.جس نے میرا علاج کیا اور جس نے مجھے کھانا کھلایا وہی میرا اصل رشتہ دار ہے.میں تمہارے ساتھ نہیں جاتا.اس میں عقل اتنی کم تھی کہ وہ کہا کرتا تھا کہ سرسوں کے تیل اور مٹی کے تیل میں کیا فرق ہوتا ہے.وہ بھی تیل ہے اور یہ بھی تیل ہے.چنانچہ وہ مٹی کا تیل دال میں ڈال کر کھا لیتا تھا اور باوجود اس کے کہ وہ ایک لمبا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہاویسا ہی کو رے کا کو را رہا.اس کے ذہن کی یہ حالت تھی کہ اسے کوئی بات یاد ہی نہ رہتی تھی.اسے اپنی وفات تک بھی نماز پڑھنی نہیں آئی تھی حالانکہ وہ پچیس تیس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہا.وہ باہر سے جو مہمان آتے تھے انہیں صبح و شام کھانا کھلایا کرتا تھا.حضرت خلیفہ اول کو اسے نماز پڑھوانے کا بہت شوق تھا کیونکہ آپ یہ ناپسند فرماتے تھے کہ ایک بے نماز شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈیوڑھی پر بیٹھے.آپ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح وہ نماز پڑھنے لگ جائے تاکہ لوگوں پر برا اثر نہ ہو.آپ نے ایک دن اسے فرمایا کہ پیرے نماز پڑھا کرو.کہنے لگا میں کیا کروں مجھے نماز یاد ہی نہیں ہوتی.آپ نے فرمایا اچھا تم صرف سبحان اللہ سبحان اللہ ہی کہتے رہا کرو.ایک دفعہ آپ نے اسے نماز کی عادت ڈالنے کے لئے فرمایا کہ اگر تم پانچ نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھ لو تو میں تمہیں دو روپے انعام
463 دوں گا.انعام کے شوق میں اس نے عشاء کی نماز سے باجماعت نماز پڑھنی شروع کی اور اگلے دن عشاء کے وقت اسے دو روپے ملنے تھے.اس وقت چونکہ مہمان تھوڑے ہوتے تھے.ان کے لئے ہمارے گھر میں کھانا تیار ہو جاتا تھا اور پیرا کھا نالا کر مہمانوں کو کھلا دیتا تھا.اگلے دن اس نے پانچ نمازیں پوری کر کے انعام لینا تھا.وہ مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ رہا تھا کہ اندر سے خادمہ نے آوازیں دینی شروع کیں کہ پی یا کھانا لے جا.چار پانچ دفعہ جو اس نے آواز دی اور پیرا نہ بولا تو آخر خادمہ نے کہا اچھا میں جا کر بی بی جی سے کہتی ہوں.اس پر پیرا نماز میں ہی بول پڑا اور کہنے لگا ذرا ٹھہر جا اکو رکعت رہ گئی ہے.ہنے آیا.یعنی ذرا ٹھہر جا ایک ہی رکعت رہ گئی ہے.ابھی آتا ہوں.جب نماز سے فارغ ہوئے تو کسی نے اسے کہا کہ نماز میں نہیں بولنا چاہئے.اس طرح نماز ٹوٹ جاتی ہے.وہ حیران ہو کر کہنے لگا اچھا اتنی بات سے بھی نماز ٹوٹ جاتی ہے.گویا یہ بات اس کے لئے حیرت انگیز تھی کہ بولنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول اور مولوی عبد الکریم صاحب کی صحبت سے فیض یاب ہوتے ہوئے کہاں سے کہاں نکل گئے.اسی طرح ہم رسول کریم ملی الم کے زمانہ میں دیکھتے ہیں کہ ہر شخص اپنے اپنے ذہن کے مطابق روحانیت سے حصہ پاتا تھا اور اپنے ذہن کے مطابق رسول کریم می داریم کی صحبت سے فائدہ حاصل کرتا تھا.حضرت ابو ہریرہ جو حدیث کے سب سے بڑے راوی ہیں ، تفقہ میں کمزور تھے لیکن روایت بیان کرنے میں ان کا حافظہ خوب کام کرتا تھا.اس کے مقابلہ میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی روایات بہت کم ہیں لیکن وہ اپنی ذہنی تیزی کی وجہ سے ان سے بہت آگے نکل گئے ہیں.پس ذہنی تیزی ایک بڑی نعمت ہے.جو لڑ کے ذہین ہوتے ہیں وہ اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ ان کے والدین کس مشکل کے ساتھ ان کا خرچ برداشت کرتے ہیں.اس لئے وہ کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے والدین کا روپیہ ضائع نہ ہو اور وہ پورے زور کے ساتھ محنت کرتے ہیں اور اچھے نمبروں پر پاس ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جو لڑ کے کند ذہن ہوتے ہیں انہیں کچھ بھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کے والدین کس طرح پیٹ پر پتھر باندھ کر اور دوسرے بعض بھائیوں کا حق چھین کر انہیں دے رہے ہیں.وہ کھیل کود میں دن رات مصروف رہتے ہیں.سہ ماہی میں فیل ہوتے ہیں تو ششماہی میں پاس ہونے کا ارادہ کرتے ہیں.ششماہی بھی بغیر تیاری کے گزر جاتی ہے تو سالانہ امتحان کے نزدیک آکر بالکل دل چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب کیا کریں ہمیں تو کچھ آتا ہی نہیں.والدین اس کے لئے فاقے کاٹتے ہیں اور اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ پڑھائی میں ان کا دل ہی نہیں لگتا.ہمارے ملک کے گزارے کتنے قلیل ہیں.ان قلیل گزاروں میں سے بھی بچا کر والدین ان کو پڑھائی کے لئے خرچ دیتے ہیں مگر پھر بھی وہ اس کی قدر نہیں کرتے.ہمارے ملک کی مالی حالت اتنی گری ہوئی ہے کہ میرے خیال میں اور کسی ملک کی مالی حالت ایسی گری ہوئی نہ ہوگی.یورپین ملکوں کے مزدور بھی ہمارے ای.اے.سہی سے زیادہ تنخواہ لیتے ہیں لیکن اگر یہاں کوئی ای.اے.سی ہو جائے تو اس کا قدم زمین پر نہیں پڑتا.نتھنے پھلا پھلا کر چلتا ہے اور ہر انسان کو قہر آلود نگاہوں
464 سے دیکھتا ہے او اس کا لڑکا تو یہ کہتا ہے کہ شاید میں ہی عنان حکومت سنبھالوں گا.میرے لئے کسی علم اور تجربہ کی ضرورت نہیں.وہ ہر ایک سے الجھنا چاہتا ہے اور ہر ایک کو یہ بتا تا ہے کہ میرا باپ ای.اے.سہی ہے.اسی طرح انگریزی گورنمنٹ نے جو خطابوں کا سلسلہ جاری کیا ہوا ہے اس نے بھی بہت سے لوگوں کو ناکارہ بنا دیا ہے.بس خان بہادروں اور خان صاحبی کے شوق میں سب کچھ بھول جاتے ہیں.یہ باتیں بتاتی ہیں کہ ابھی ہمارے ملک کے لوگوں میں ذہانت پیدا نہیں ہوئی.مجھے اس بات سے خوشی ہوئی کہ زندگی وقف کرنے والے اچھے ذہین لڑکے ہیں.اگر ان کا خیال درست نکلا اور ایسا نہ ہوا کہ مجھے ان کے متعلق یہ سمجھنا پڑے کہ انہوں نے مبالغہ سے کام لیا ہے تو اس کے نتائج جتنے اعلیٰ ہوں گے ان کا قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا.زیادہ سے زیادہ نوجوان خدمت دین کیلئے اپنے آپکو پیش کریں فرمایا: ”میں دوسرے نوجوانوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ان کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہئے اور خدمت اسلام کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہئے.دنیا میں اعداد و شمار کا مقابلہ ذہانت ہی کر سکتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ كُمُ مِنْ فِئَةٍ قويلَةٍ غَلَبَتْ فَنَةٌ كَرَهُ بِإِذْنِ اللهِ کہ کئی گروہ ایسے ہوتے ہیں جن کی تعداد تھوڑی ہوتی ہے لیکن بوجہ ہمت اور ذہانت کے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کثیر التعداد گروہوں پر غالب آجاتے ہیں.اگر ہمارے نوجوان اچھی طرح محنت کریں اور کوشش کر کے اعلیٰ قابلیتیں پیدا کریں تو ہم تھوڑے ہو کر بھی کامیاب ہو سکتے ہیں.پس ہماری کامیابی ہمارے طالب علموں کے ہاتھ میں ہے.ہمارے نوجوان اگر اعلیٰ قابلیتیں پیدا کر لیں تو دنیا کے اعداد و شمار ہمارے راستے میں روک نہیں بن سکتے کیونکہ لوگ جب یہ دیکھیں گے کہ دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان بھی احمدی ہے.دنیا کا سب سے بڑا محقق بھی احمد ی ہے.دنیا کا سب سے بڑا مولوی بھی احمد کی ہے.دنیا کا سب سے بڑا انجنیئر بھی احمدی ہے.دنیا کا سب سے بڑا ڈاکٹر بھی احمدی ہے.دنیا کا سب سے بڑا بیر سٹر بھی احمدی ہے.دنیا کا سب سے بڑا صناع بھی احمدی ہے تو وہ احمدیت کی طرف تو جہ کئے بغیر نہیں رہ سکتے.اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر احمدی کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ چوٹی کا آدمی بنے.فارسی کا ایک مقولہ ہے "کسب کمال کن که عزیز جہاں شوی" فارسی کا ایک مقولہ ہے "کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی".اگر ہمارے نوجوان ہر فن میں کمال پیدا کر لیں تو ترقی کرنا بہت آسان ہو جائے کیونکہ ایسی صورت میں ہمارا مبلغ جہاں بھی تبلیغ کر رہا ہو گا وہاں یہ بات اس کی مدد کر رہی ہوگی کہ یہ اس قوم کا مبلغ ہے جس میں ایسے ایسے اعلیٰ پایہ کے انسان پائے جاتے ہیں.جب کوئی قوم قابلیت اور لیاقت میں بڑھ جاتی ہے تو اس کے ہر فرد کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور اس کی بات تو جہ سے سنی جاتی ہے.پس ہمارے نوجوانوں کو زندگیاں سدھارنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنی نگاہوں کو اونچا کرنا چاہئے اور یہ عزم کر لینا چاہئے کہ میں نے فلاں فن میں چوٹی کا آدمی بنتا ہے یا اسی کوشش میں فنا ہو جانا ہے ".( فرمودہ ۲۹ مئی ۱۹۴۶ء.مطبوعہ الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۶۰ء)
465 سلسلہ کو دونوں قسم کے علماء کی ضرورت ہے.علم دین کے ماہرین دنیاوی علوم کے ماہرین دو واقفین زندگی میں دو قسم کے آدمی ہیں.ایک وہ جن کا رجحان اس طرف ہے کہ دین کا علم سیکھ کر دین کی خدمت کریں اور دوسرے وہ جن کا رجحان اس طرف ہے کہ دنیا کا علم سیکھ کر دین کی خدمت کریں.سلسلہ کیلئے دونوں قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے تا ہر قسم کے کاموں کو جاری کیا جاسکے".فرموده ۳۰ مئی ۱۹۴۶ء.مطبوعہ الفضل ۲۵ ستمبر ۱۹۶۰ء)
466 خدام الاحمدیہ ایسی کھیلیں رائج کریں جو آئندہ زندگی میں بھی کام آئیں " آج خدام الاحمدیہ کو ایک اور ہدایت دینا چاہتا ہوں.یہ ہدایت پہلے بھی میں بارہا دے چکا ہوں کہ نوجوانوں میں ایسی کھیلیں رائج کی جائیں جو ان کی آئندہ زندگی میں کام آئیں.میں ۱۹۴۱ء سے یہ بتاتا چلا آ رہا ہوں لیکن ابھی تک خدام نے اس طرف توجہ نہیں کی.مثلاً دوڑنے کی مشقیں ہیں.آگ بجھانے کی مشق ہے.آگ میں سے کود کر نکلنے کی مشق ہے.اونچی جگہ سے کودنے کی مشق ہے.تیرنے کی مشق ہے.یہ سب ہنر ایسے ہیں جن سے مردانگی پیدا ہوتی ہے اور یہ باتیں آئندہ زندگی میں کام آتی ہیں.اس کے علاوہ کان ناک اور آنکھ کی قوتیں بڑھانے کے متعلق میں نے کہا تھا.مشق کرنے سے یہ قوتیں زیادہ تیز ہو جاتی ہیں اور ایسا آدمی جس کی یہ قوتیں تیز ہوں بہت سے ایسے کام کر سکتا ہے جسے عام آدمی نہیں کر سکتے".اس کے بعد حضور نے باری باری دریافت فرمایا کہ گذشتہ تین ماہ میں بحیثیت خدام الاحمدیہ تیرنا‘ کان ناک اور آنکھ کی قوت بڑھانے کی مشق یا آگ بجھانے کی مشق کتنے خدام نے کی ہے مگر کسی سوال کے جواب میں کوئی خادم کھڑا نہ ہوا.اس پر حضور نے فرمایا:." سارے کاموں میں صفر ہے تو پھر کام کیا ہوا.اگر امام کا بتایا ہوا کام نہیں کیا جاتا تو جو کچھ کیا جاتا ہے وہ صفر کے برابر ہے حالانکہ امام کا بتایا ہوا کام کرنے سے ہی اچھے نتائج نکل سکتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ الفضل میں بھی خدام الاحمدیہ کی طرف سے یہ تو شائع ہوتا رہتا ہے کہ خدام یوں کریں اور ووں کریں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا.تم ایسے لوگوں کو الگ کرو اور کام کرنے والوں کے سپرد کام کرو.یہ کام کرنے کا طریق نہیں کہ باتیں کرتے رہیں مگر عملی طور پر کچھ بھی نہ کریں.اعلانات کی بجائے اگر خدام کچھ کر کے دکھا ئیں تو باہر کے خدام بھی سمجھ لیں گے کہ انہیں کیا کرنا چاہئے لیکن چونکہ یہاں کے خدام زیادہ کام نہیں کرتے اس لئے باہر کے خدام پر بھی ان کا اثر نہیں پڑتا.وہ سمجھتے ہیں کہ جس قدر کام مرکز میں خدام کر رہے ہیں وہ ہم بھی کر رہے ہیں.ان کے ہاتھ میں الفضل ہے اس.وہ اعلانات کر لیتے ہیں، ہمارے ہاتھ میں الفضل ہوتا تو ہم بھی اعلانات کرتے رہتے".فرموده ۲ جون ۱۹۴۶ء.مطبوعہ الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۶۰ء)
467 جماعت کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی کوشش کی فرمایا :.جائے " آج میں بعض امور کے متعلق جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.غالبا پچھلے سال میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں اور وہ لوگ جنہیں استطاعت نہیں ، انہیں چاہئے کہ وہ سب مل کر اپنے گاؤں کے کم از کم ایک اچھے اور ہونہار طالب علم کو اعلیٰ تعلیم ولا ئیں اور پھر وہ طالب علم جب بر سر کار ہو تو آگے کسی اور طالب علم کی پڑھائی کا بوجھ اٹھائے.اس طرح وہ طالب علم دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائے گا اور دوسرے طالب علموں میں بھی تعلیم کا شوق پیدا ہو گا.ترقی کرنے والی قوم کے لئے ایک نہایت اہم سوال ہوتا ہے کہ اس کے جوان زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ ہوں کیونکہ تعلیم یافتہ آدمی بات کی تہہ تک جلدی پہنچ جاتا ہے اور جس پیشے کو وہ اختیار کرتا ہے اس میں بہت جلد مہارت حاصل کر لیتا ہے اور ہر وقت یہ بات اس کے مد نظر رہتی ہے کہ میں قوم کا ایک مفید جزو بنوں اس لئے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں.اگر تعلیم کی طرف پوری توجہ دی جائے اور جس رفتار سے اس وقت طالب علموں کی تعداد بڑھ رہی ہے اسے پڑھانے کی کوشش کی جائے تو آئندہ دس سالوں میں ہماری جماعت میں ساٹھ فی صدی لوگ تعلیم یافتہ ہو جائیں گے.اگر ہر سال ایک ہزار طالب علم کالجوں میں جائیں تو ان میں سے کم از کم پانچ سو گریجوایٹ نکل سکتے ہیں اور اسی قدر ہر سال پنجاب میں مسلمان طالب علم گریجوایٹ بنتے ہیں گویا تعلیمی لحاظ سے ہم سارے مسلمانوں کے برابر ہو جائیں گے.اس سال تعلیم الاسلام کالج میں ۱۰۲ طالب علم آچکے ہیں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ رفتار ترقی پر ہے اور پہلے کی نسبت قریباً ۵۰ فی صدی کی زیادتی ہوئی ہے اور یہ بات خوشکن ہے.اسی طرح اگر باہر کے کالجوں میں بھی اس سال زیادہ احمدی طالب علم داخل ہوئے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ہم تعلیمی لحاظ سے ملک پر غلبہ حاصل کرلیں گے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں خود اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ضرورت ہے.ہمیں عربی اور انگریزی کے گریجوایٹوں کی ضرورت ہے جنہیں ہم غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے بھیج سکیں اور وہ وہاں کے علوم اور زبانیں سیکھ کر تبلیغ کریں.اس طرح تھوڑے ہی عرصہ میں ہمارے علماء کو یہ فوقیت حاصل ہو جائے گی کہ وہ عالم ہونے کے ساتھ مختلف زبانیں بھی جانتے ہوں گے اور وہ مختلف زبانوں میں لیکچر دے
468 سکیں گے.تعلیم یافتہ طبقہ پر غیر زبان جاننے کا بہت اثر ہوتا ہے اور جو شخص دو چار غیر ملکی زبانیں جانتا ہو اس کے متعلق تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ بہت بڑا عالم ہے اسے فلاں فلاں زبان بھی آتی ہے.رو زیادہ حضرت مسیح علیہ السلام کا ایک معجزہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے حواری غیر زبانوں میں باتیں کرتے تھے.اگر ہمارے نوجوان بھی غیر ممالک میں جائیں اور غیر زبانیں سیکھیں تو وہ مسیح ناصری کے حواریوں سے یقیناً بڑھ جائیں اور یہ صورت تبھی پیدا ہو سکتی ہے جب کہ ہماری جماعت میں کثرت سے گریجوایٹ بنیں اور ان سے ہمیں سینکڑوں گریجوایٹ تبلیغ اسلام کے کام کے لئے مل جائیں.یہ ناممکن بات ہے کہ تمام کے تمام گریجوایٹ تبلیغ اسلام کے لئے باہر چلے جائیں.بعض کو بعض سرکاری ملازمتوں میں داخل کرانا بھی ضروری ہوتا ہے.اسی طرح بعض کی صحت اجازت نہیں دیتی کہ وہ لمبے سفر کر سکیں ، ان کو بھی غیر ممالک میں بھجوایا نہیں جاسکتا.پھر ہمارے سرے ادارے ہیں ان میں بھی گریجوائیوں کی ضرورت رہتی ہے.ان ضروریات کے پیش نظر ہمیں زیادہ سے دہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ضرورت ہے.مگر یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ ہمارے نوجوان محنت اور ایثار کے ساتھ تعلیم حاصل کریں اور اس جذبہ کو لے کر باہر نکلیں کہ ہم نے تمام دنیا کی خدمت کرنی ہے.ترقی کرنے والی قوم میں ایڈو سنچرس روح کا ہونا نہایت لازمی بات ہے.انگریزوں کو دیکھو کہ کس طرح ان کے نوجوانوں کے ایک طبقہ نے اپنی زندگیاں غیر ممالک میں گزار دیں اور ایسے وقتوں میں گزاریں جب کہ ریل ، تار اور ڈاک کا کوئی نظام نہ تھا مگر ان مصائب کو برداشت کرنے کے بعد انہوں نے اپنی قوم کی ترقی کے راستے کھول دیئے.آج دوسری اقوام انگریزوں کو حسد کی وجہ سے برا بھلا کہتی ہیں کہ انہوں نے ناحق دوسرے ممالک پر قبضہ کر لیا ہے لیکن ان کو کس نے منع کیا تھا کہ وہ اپنے گھروں سے نہ نکلیں اور غیر ممالک پر جا کر قبضہ نہ کریں.جولوگ تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھا کر کسی چیز کو حاصل کرتے ہیں وہی اس کے مستحق ہوتے ہیں.اب ہمارے لئے موقعہ ہے کہ ہم باہر نکلیں.اگر ہمارے نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اور اعلیٰ قابلیت پیدا کر کے باہر نکلیں اور قربانی اور ایثار کے ساتھ لوگوں کی خدمت کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ملک کی غیر ممالک میں عزت قائم نہ ہو بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح تبلیغ اسلام بھی زیادہ موثر ہو گی.باوجود اس کے کہ عیسائی مذہب میں کوئی جذب اور کشش کا سامان موجود نہیں پادریوں کی قربانی اور ایثار کی وجہ سے ہزار ہا ہندوستانیوں نے اسے قبول کر لیا تھا.پس اگر عیسائی اس قدر کامیاب ہو سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ احمدی سچائی کو لے کر نکلیں اور وہ کامیاب نہ ہوں.ان حالات کو پیدا کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے طالب علم بہت بلند خیال اور عالی حو صلہ ہوں.وہ سمجھ لیں کہ وہ دنیا میں بہت بڑے کام سرانجام دینے کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے دوسرے ممالک کی راہنمائی کرنی ہے اور انہیں اخلاق اور تہذیب سکھانا ہے.اگر انہیں غربت کی حالت میں بھی دوسرے ممالک کی قیادت اور راہنمائی کا درجہ حاصل ہو جائے تو وہ اس لاکھوں روپیہ سے بہتر ہے جو وہ اپنے ملک میں کما سکتے ہیں.ہر شخص پر ایک ذمہ داری ہوتی ہے.رسول کریم می فرماتے ہیں تكلكم راع ومحتكم
469 مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ کہ تم میں ہر شخص گڈریا ہے اور اس سے اس کے ریوڑ کے متعلق سوال کیا جائے گا.جس طرح طالب علموں کے لئے ضروری ہے کہ محنت اور جانفشانی سے کام کریں اور اپنے اندر اعلیٰ قابلیت پیدا کریں اسی طرح اساتذہ پر بھی نہایت اہم ذمہ داری ہے کہ وہ بھی نہایت محنت اور کوشش کے ساتھ طالب علموں کو پڑھائیں.ان کی زندگیاں طالب علموں کے لئے وقف ہو جانی چاہئیں.اساتذہ اور پروفیسر اگر محنت اور دیانتداری سے کام کریں تو جو عزت اور ثواب ان کو حاصل ہو گا وہ غیر فانی ہو گا اور کئی نسلوں تک ان کو یہ ثواب حاصل ہو تا رہے گا اور طالب علموں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے سکول اور کالج کا نام روشن کریں اور وہ اس ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو سکتے جب تک وہ اپنے سکول اور کالج کو دوسرے سکولوں اور کالجوں سے ممتاز نہ کرلیں.اگر ہمارے طالب علم اس طور پر کام کریں تو یہ بات تبلیغ اسلام میں بہت مدد دے گی اور خود بخود باہر کے طالب علم اس طرف کھنچے چلے آئیں گے اور پھر جماعت کی علمی برتری بھی قائم ہو جائے گی.ہمارے مربیوں اور محصلوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اصل کام کے علاوہ جماعت کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلاتے رہیں.اصل ثواب تو انہیں ایسے کاموں کا ہی ملے گا.چندہ کی وصولی تو ان کا فرض ہے جو وہ ادا کر رہے ہیں.دوسری چیز جس کی طرف میں دوستوں کو آج قرآن مجید کو حفظ کرنانہایت اعلیٰ درجے کی نیکی ہے توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ قرآن کریم حفظ کرنا ہے.یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے مگر افسوس ہے اس طرف بہت کم توجہ دی جا رہی ہے.حفاظ دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں.قرآن کریم حفظ کرنے کی عادت ڈالنے کے لئے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ کچھ ایسے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں جو ایک حصہ قرآن کریم کا حفظ کریں اور اس طرح مجموعی طور پر کئی قرآن کریم کے حافظ بن جائیں.جو دوست اس تحریک میں حصہ لینا چاہتے ہوں وہ اپنے نام لکھا دیں.( اس پر ۲۸۶ احباب نے اپنے نام پیش کئے حضور نے فرمایا ) قرآن کریم کے ۲۸۶ رکوع ترتیب واران میں تقسیم کر دیئے جائیں اس طرح ہفتہ میں نصف قرآن کریم یا د ہو جائے گا.اگر اس تحریک کو زیادہ بڑھایا جائے تو ممکن ہے کہ ایک ہفتہ میں پورا قرآن کریم حفظ ہو جایا کرے.اگر اس طرف تھوڑی سی توجہ بھی کی جائے تو چند سالوں میں سینکڑوں حافظ ہو جائیں گے ".تقریر فرموده ۲۱ جون ۱۹۴۶ء.مطبوعہ الفضل ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۰ء)
دکھوں اور مصائب کے زمانے میں سونا موت سے کسی طرح کم نہیں اسلام کا شاندار ماضی مسلمانوں کی کمزور حالت ہمیں دعوت عمل دے رہی ہے اگر تم اپنے عہد کو پورا کرتے جاؤ تو دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی تمہارے رستے میں روک نہیں بن سکتی باتوں کا زمانہ گذر گیا عمل کرنے کا زمانہ ہے دنیا کے بادشاہ موتیوں اور ہیروں کے نذرانے قبول کرتے ہیں ہمارے خدا کے دربار میں خون دل کے قطرے قبول کئے جاتے ہیں
472 باتوں کا وقت گزر چکا.اب عمل اور صرف عمل کرنے کا وقت ہے! مجھ سے خدام الاحمدیہ دہلی کے عہدیداروں نے یہ خواہش کی ہے کہ میں ان کو کچھ نصیحتیں کروں.جہاں تک باتوں کا تعلق ہے وہ بہت ہو چکی ہیں اور باتوں کا زمانہ بہت لمبا ہو گیا ہے.باتیں یا سونے کے لئے کی جاتی ہیں یا کام کرنے کے لئے کی جاتی ہیں.راتوں کو مائیں بچوں کو سلانے کے لئے باتیں سناتی ہیں اور دن کو لوگ آپس میں باتیں کرتے ہیں کہ اس طرح ان کو کوئی معقول بات مل جائے جو ان کے کام میں آسانی پیدا کر دے.ہماری باتیں سونے کے لئے نہیں ہو سکتیں کیونکہ ایسے مصائب اور دکھوں کے زمانہ میں سونا موت سے کسی طرح کم نہیں ہو سکتا.باقی رہی دوسری باتیں جو کام میں آسانی پیدا کرتی ہیں وہ بھی کافی ہو چکی ہیں اور مزید باتوں کی کوئی خاص ضرورت نظر نہیں آتی.ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے ۵۶ سال ہو گئے ہیں.جس نے اس عرصہ میں باتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی وہ اب آئندہ کی باتوں سے کیا فائدہ اٹھائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالی نے لاکھوں نشانات دکھائے.جس شخص نے ان نشانات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی آئندہ ظاہر ہونے والے نشانات اسے کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں"." کیا ابھی باتوں کا وقت ختم نہیں ہوا اور کیا اب تک کام کا وقت نہیں آیا.کیا اب تک کافی نصیحتیں نہیں ہو چکیں جن کے بعد طریق عمل اور ہدایت کار استہ واضح ہو جاتا ہے.اگر تمہارا طریق عمل یقینی طور پر واضح ہے تو زمانہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ تم اپنی زندگی کو اس سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش کرو.اگر تمہاری آنکھیں کھلی ہیں.اگر تم اپنے اندر فکر کا مادہ رکھتے ہوں تو تمہیں سوچنا چاہئے کہ مسلمان کیا تھے اور کیا بن گئے اور مسلمان کہاں تھے اور کہاں سے کہاں پہنچ گئے".مسلمان نوجوان جغرافیہ پڑھتے ہیں.نقشہ دیکھتے ہیں.میں سمجھ نہیں سکتا کہ ان کے اسلام کا شاندار ماضی دل کیوں بیٹھ نہیں جاتے.کیوں ان کے دلوں میں درد اور اضطراب پیدا نہیں ہو تا.ایک دن وہ تھا کہ سارا نقشہ اسلامی حکومتوں کے رنگ سے رنگین تھا یا آج یہ حالت ہے کہ یورپین حکومتیں دنیا پر چھائی ہوئی ہیں اور مسلمان ان کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتے.حالانکہ ایک زمانہ وہ تھا کہ اسلامی رنگ نقشہ میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھرا ہوا تھا.چین میں سینکڑوں سال تک مسلمانوں نے حکومت کی ہے.یہاں تک کہ آج بھی جاپانی مائیں اپنے بچوں کو یہ کہہ کر ڈراتی ہیں کہ چپ کر.چپ کر جو گو (یعنی مسلمان ) آگیا.امریکہ میں بھی بعض مسجدیں پائی گئی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ وہاں تک مسلمان پھیلے ہوئے تھے اور فلپائن وغیرہ میں بھی مسلمان موجود تھے.غرض کوئی گوشہ دنیا کا ایسا نہ تھا جہاں اسلامی حکومت قائم نہ تھی.وہ حکومتیں ملکی حکومتیں تھیں.امپیریلزم نہ تھا.الا ماشاء اللہ اگر کسی زمانہ کے مسلمانوں نے کوئی غلطی کی ہو تو وہ اپنی غلطی کے
473 آپ زمہ دار تھے.اسلام ذمہ دار نہیں.مجھے حیرت آتی ہے کہ ان باتوں کو معلوم کر کے بھی مسلمانوں کے دلوں میں معمولی سی گدگدی بھی پیدا نہیں ہوتی.” جب اسلام کی حالت ایسی کمزور ہے مسلمانوں کی کمزور حالت ہمیں دعوت عمل دے رہی ہے اور تم اپنی آنکھوں سے یہ چیز دیکھ رہے ہو تو کون سا سبق باقی ہے جو تم سیکھنا چاہتے ہو.کیا زمین نے تمہیں سبق نہیں سکھایا.کیا آسمان نے تمہیں سبق نہیں سکھایا.کیا ارد گرد کے ہمسایوں نے تمہیں سبق نہیں سکھایا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ چاروں طرف ہمارے نشان ظاہر ہو رہے ہیں.مگر لوگ اندھے ہو کر چلتے ہیں.تم ہی بتاؤ کہ کونسی سیکھنے والی بات رہ گئی ہے اور کیوں تمہارا اقدم عمل کی طرف نہیں اٹھتا.کس دن کا تمہیں انتظار ہے.میں حیران ہوں کہ جو لوگ اپنے وقتوں اور جائیدادوں کی قربانیاں نہیں کر سکتے وہ اپنے نفوس کی قربانیاں کس طرح پیش کر دیں گے.یہ بات یا د رکھو کہ قومی عزت بغیر قربانیوں کے قائم نہیں ہو سکتی.وہ لوگ جنہیں اپنی قومی عزت کا خیال نہیں اور وہ لوگ جن میں قومی غیرت موجود نہیں وہ انسان کہلانے کے مستحق نہیں.وہ دنیا میں ایسے ہی پھرتے ہیں جیسے گائیں اور بھیڑیں پھرتی ہیں.وہ لوگ اپنی قوم کے لئے کسی فائدے کا موجب نہیں"." الله ایک دوسرے سے بڑھ کر قربانیاں کرنے کیلئے تم احمدیت میں شامل ہوئے ہو تعالی سب سے زیادہ وفادار ہے.جو شخص اس سے وفاداری کرتا ہے اللہ تعالیٰ کبھی اس سے بے وفائی نہیں کرتا.پس اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مورد بننا چاہتے ہو تو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.تم لوگ ایک ہاتھ پر جمع ہوئے ہو.اس لئے نہیں کہ مل کر دعوتیں اڑاؤ اور عیش و عشرت کے دن بسر کرو بلکہ تم لوگ اس لئے آگے آئے ہو کہ ہم اسلام کے لئے قربانیاں کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنا واحد مقصد قرار دیں گے.تم اس سلسلہ میں اس لئے نہیں داخل ہوئے کہ مائدے پر بیٹھ کر تھے اڑاؤ بلکہ تم اس لئے اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہو کہ ہم ایک دو سرے سے بڑھ چڑھ کر قربانیاں کریں گے اور اسلام کی حکومت کو دنیا بھر میں از سر نو قائم کریں گے.پس اپنے اس عہد کو ہمیشہ مد نظر رکھو.اگر تم اپنے عہد کو پورا کرتے جاؤ تو دنیا کی کوئی طاقت بلکہ دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی تمہارے رستے میں روک نہیں بن سکتیں.کیونکہ جب تم اللہ تعالیٰ کے ہو جاؤ گے تو پھر اللہ تعالیٰ خود تمہارے لئے کامیابی کے سامان پیدا کرے گا اور تمہارے لئے کامیابی کے رستے کھول دے گا.باتوں کا زمانہ گزر گیا اور اب باتوں کا زمانہ نہیں بلکہ عمل کرنے کا زمانہ یہ عمل کرنے کا زمانہ ہے ہے.اللہ تعالیٰ اب دیکھنا چاہتا ہے کہ ان بڑے بڑے دعووں کے بعد تم کتنے قطرے خون دل کے اس کے حضور میں پیش کرتے ہو.دنیا کے بادشاہ موتیوں اور ہیروں کی نذریں قبول کرتے
474 ہیں مگر زمین و آسمان کا مالک اور سب بادشاہوں کا بادشاہ یہ دیکھتا ہے کہ کتنے قطرے خون دل کے کوئی شخص ہمارے حضور پیش کرتا ہے.ہمارے خدا کے دربار میں ہیروں اور موتیوں کی بجائے خون دل کے قطرے قبول کئے جاتے ہیں.دنیا کی قومیں تو اسی زندگی کو ہی اپنا مقصود قرار دیتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے بندوں کا اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ ان کی حقیقی اور نہ مٹنے والی زندگی اگلے جہان سے شروع ہو گی اس لئے وہ موت سے نہیں ڈرتے "......پس ہماری خوشی اور ہماری راحت اسی بات " ظاہری گند سے روحانی گند زیادہ خطرناک ہے میں ہے کہ ہم اللہ تعالی کے ہو جائیں اور اسی کے لئے زندگی بسر کریں.بے شک تمہارا یہ کام بھی ہے کہ تم گلیوں اور شہروں کو صاف کرو.لوگوں کے آرام کا باعث نو لیکن اس ظاہری گند سے روحانی گند زیادہ خطرناک ہے.اہل مغرب نے ظاہری صفائی پر بہت زور دیا اور جسمانی صفائی کے بہت سے انتظام کئے ہیں لیکن روحانی صفائی کا علاج ان کے پاس نہیں.جسمانی گند سے جسم مرتا ہے لیکن روحانی گند سے روح مرجاتی ہے اور یہ چیز قابل برداشت نہیں کیونکہ روح کے مرنے سے انسان دائمی طور پر جہنمی بن جاتا ہے.جسمانی گند کا اثر روحانی گند کے مقابلہ میں بہت محدود ہوتا ہے.پس تم بے شک ظاہری صفائی کا بھی خیال رکھو لیکن اس سے زیادہ فکر تمہیں روحانی گند کو دور کرنے کے لئے ہونا چاہئے.اس روحانی گند کو دور کرنے کی کوشش کرو اور قربانی کے معیار کو بہت بلند کرو........دو سری مسلمان دنیا اگر اسلام کے پھیلانے میں کو تاہی سے کام لیتی ہے تو وہ اتنی مجرم نہیں جتنے تم مجرم ہو کیونکہ تم یہ دعوی کرتے ہو کہ ہم خدام احمدیت ہیں اور ہمارے ذریعہ اسلام تمام دنیا پر غالب آئے گا.خدا تعالٰی کے کام تو ہو کر رہیں گے لیکن اگر تم نے اپنے فرائض کو سرانجام نہ دیا تو پھر تم خدا تعالیٰ کے سامنے کچے خادموں کی حیثیت میں پیش نہیں ہو سکتے کیونکہ تمہارے عمل تمہارے دعووں کو جھوٹا کر کے دکھا رہے ہوں گے.پس اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرو اور وہ تبدیلی ایسی ہو کہ ہر کس و ناکس کو معلوم ہو جائے کہ یہ لوگ اب کوئی نئی چیز بن گئے ہیں.اب باتیں کرنے اور سننے کا وقت ختم ہو گیا ہے.اب اس بات کی ضرورت ہے کہ باتیں کم کی جائیں اور اپنی تنظیم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے.یہ اللہ تعالٰی کی سنت ہے کہ انبیاء کی انبیاء کی جماعتوں کی مخالفت اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جماعتوں کی مخالفتیں ہوتی ہیں اور ان کو سخت سے سخت مصائب سے دو چار ہونا پڑتا ہے.وہی سنت ہمارے لئے جاری ہے.حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رسول کریم ملی الی تک جو سلوک باقی انبیاء کی جماعتوں سے ہو ا ر ہی ہم سے ہو گا.اللہ تعالٰی حضرت آدم کا دشمن نہ تھا.اللہ تعالیٰ حضرت نوح کا دشمن نہ تھا.اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم کا دشمن نہ تھا.اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ اور عیسی کا دشمن نہ تھا.اللہ تعالیٰ رسول کریم میل ل ل ا للہ کا دشمن نہ تھا اور ہمارا رشتہ دار نہیں کہ ہم ان تکلیفوں سے بیچ جائیں.جب تک تم آگ کی بھٹی میں ڈالے نہیں جاتے اور آروں سے چیرے نہیں جاتے اس وقت تک تم
475 کامیاب نہیں ہو سکتے.پس تیاری کرو تا آنے والے امتحانوں میں فیل نہ ہو جاؤ.بغیر تیاری کے تم ہرگز ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے.اگر تم دین کے لئے قربانیاں کرنے سے گھبراتے ہو تو تم ایسی چیز اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے میسر ہوتی ہے نہیں جس کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک حفاظت کی ضرورت ہو.تم اپنے لئے موت اور صرف موت میں ہی زندگی تلاش کرو.جب موت تمہاری نظروں میں معمولی اور حقیر چیز بن جائے گی تو تم تمام دنیا پر بھاری ہو جاؤ گے اور دنیا تمہارے مقابلہ سے عاجز آجائے گی.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور انہیں ہمت کے ساتھ ادا کرتے جاؤ اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ جب تک صحیح طور پر کوشش نہیں کی جائے گی اس وقت تک صحیح نتائج نہیں نکلیں گے ".فرموده ۲۹ ستمبر ۱۹۴۷ء.مطبوعہ الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۶۰ء)
476 مغرب سے طلوع شمس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ کی ایک پیشگوئی ہمارے نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے اکتوبر ۱۹۴۶ء بعد نماز عصر جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے جناب مولوی جلال الدین صاحب شمس کی انگلستان سے کامیاب مراجعت اور جناب منیر آفندی الحصنی صاحب امیر جماعت احمد یہ دمشق کی تشریف آوری پر ایک دعوت چائے دی تھی جس میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقعہ پر حضور نے جو پر معارف تقریر فرمائی تھی وہ نو جوانوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے ذیل میں اسے درج کیا جاتا ہے.حضور نے فرمایا :.دو چونکہ مغرب کی نماز کا وقت ہونے والا ہے.اس لئے میں بہت مختصر تقریر کروں گا.میں اس وقت صرف ایک بات کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.باتیں تو کئی تھیں مگر چونکہ نماز کا وقت تنگ ہے اس لئے میں صرف اس امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالٰی اور اس کے انبیاء کے کلام کے کئی بطن ہوتے ہیں اور ہر بطن اپنے اپنے وقت پر پورا ہوتا ہے.رسول کریم ملی مال کی ہیلی نے قرآن کریم کے متعلق فرمایا ہے کہ اس کے سات بطن ہیں اور سات مطنوں میں سے آگے ہر بطن کی الگ الگ تفاسیر ہیں.اسی طرح ایک ایک آیت سینکڑوں اور ہزاروں معانی پر مشتمل ہے.غلطی سے مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ قرآن کریم صرف چند تفسیروں میں محصور ہے.انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ہر معنے جو عربی زبان سے درست ثابت ہوتے ہیں.ہر معنے جسے عربی صرف و نحو برداشت کرتے ہیں اور ہر سمنے جو قرآن کریم کی ترتیب سے نکلتے ہیں، وہ درست اور صحیح ہیں کیونکہ اگر وہ معنے خدا تعالیٰ کے مد نظر نہ ہوتے تو وہ ان معنوں کی ضرور تردید کرتا اور ایسے الفاظ نہ بولتا جن سے نئے معنے تو پیدا ہوتے مگر وہ معنے اللہ تعالٰی کے منشاء یا انسانی عقل کے خلاف ہوتے.بہر حال اس موقعہ پر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رسول کریم ملی ایم کی ایک حدیث میں اس زمانہ کے متعلق ایک اشارہ پایا جاتا ہے (گو اس کے بعض
477 اور معنے بھی ہیں ، رسول کریم ملی علیه السلام فرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں مغرب سے سورج کا طلوع ہو گا اور جب یہ واقعہ ہو گا تو اس کے بعد ایمان نفع بخش نہیں رہے گا.۱۹۳۴ء میں احرار نے ہمارے خلاف ایجی ٹیشن شروع کی اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے احمدیت کا خاتمہ کر دیا ہے اور ۱۹۳۴ء سے ہی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک نئی زندگی بخشی اور اسے ایک ایسی طاقت عطا فرمائی جو اس سے پہلے اسے حاصل نہیں تھی.اس نئی زندگی کے نتیجہ میں ہماری جماعت میں قربانی کا نیا مادہ پیدا ہوا.ہماری جماعت میں اپنے نفوس اور اپنے ابوال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کرنے کا نیا جوش پیدا ہوا اور ہماری جماعت میں دین اسلام کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے اعلاء کے لئے باہر جانے کا نیا ولولہ اور نیا جوش موجزن ہوا.چنانچہ پہلے بیسیوں اور پھر سینکڑوں نوجوانوں نے اس غرض کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا اور میں نے خاص طور پر ان کی دینی تعلیم کا قادیان میں انتظام کیا تاکہ وہ باہر جا کر کامیاب طور پر تبلیغ کر سکیں.اس عرصہ میں جنگ کی وجہ سے ہمارے پہلے مبلغ باہر رکے رہے اور نئے مبلغوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ جنگ کے خاتمہ پر ہم نے ساری دنیا میں اپنے مبلغ اس طرح پھیلا دیئے کہ احمدیت کی تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی.باقی مسلمانوں میں تو اس کی کوئی مثال تھی ہی نہیں.ہماری جماعت میں بھی جو قربانی کی عادی ہے ، اس قسم کی کوئی مثال پہلے نظر نہیں آتی.جب مبلغ تیار کر کے بیرونی ممالک میں بھیجے گئے تو خدا تعالیٰ کی مشیت اور رسول کریم می لوی کی پیشگوئی کے ماتحت ہمارا جو لشکر گیا ہوا تھا اس میں سب سے پہلے شمس صاحب مغرب سے مشرق کی طرف آئے.پس اس پیشگوئی کا ایک بطن یہ بھی تھا کہ آخری زمانہ میں اللہ تعالٰی اسلام کی فتح اور اسلام کی کامیابی اور اسلام کے غلبہ اور اسلام کے استعلاء کے لئے ایسے سامان پیدا کرے گا جن کی مثال پہلے مسلمانوں میں نہیں ملے گی اور اس وقت سورج یعنی شمس مغرب سے مشرق کی طرف واپس آئے گا.ہمارے مولوی جلال الدین صاحب کا نام شمس ان کے والدین نے نہیں رکھا.ماں باپ نے صرف جلال الدین نام رکھا تھا مگر انہوں نے باوجود اس کے کہ وہ شاعر بھی نہیں تھے یونہی اپنے نام کے ساتھ شمس لگالیا تاکہ اس ذریعہ سے رسول کریم ملی کی یہ پیشگوئی پوری ہو کہ جب شمس مغرب سے مشرق کی طرف آئے گا تو اس وقت ایمان نفع بخش نہیں ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ اس وقت اسلام اور ایمان کے غلبہ کے آثار شروع ہو جائیں گے اور یہی معنی صحیح اور درست ہیں.بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جب کوئی پیشگوئی پوری ہو تو اسی وقت اس کے تمام پہلو اپنی تکمیل کو پہنچ جانے چاہئیں حالانکہ ایسا نہیں ہو تا.تو رات اور بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم مال کے متعلق یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ جب آپ ظاہر ہوں گے تو اس وقت کفر بالکل تباہ ہو جائے گا حالانکہ جب آپ ظاہر ہوئے تو آپ کے ظہور کے ساتھ ہی کفر تباہ نہیں ہوا.در حقیقت اس پیشگوئی کا مطلب یہ تھا کہ رسول کریم مالی تعلیم کے ظہور اور آپ کی بعثت کے ساتھ کفر کی تباہی کی بنیاد رکھی جائے گی.اسی طرح اس پیشگوئی کے بھی یہ معنے نہیں کہ جب شمس صاحب آجائیں گے تو اس کے بعد لوگوں کے لئے ان کا ایمان
478 نفع بخش ثابت نہیں ہو گا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تبلیغ اسلام کی خاص بنیا د رکھی جائے گی اور اس وقت اسلام کو اتنا غلبہ حاصل ہو گا کہ لوگوں کا ایمان لانا اتنا نفع بخش نہیں ہو گا جتنا پہلے ہو سکتا تھا.پہلے تو اسلام کی آواز ایسی ہی ہوگی جیسے ایک وحید و طرید انسان کی ہوتی ہے مگر پھر دنیا کے چاروں طرف مبلغ پھیل جائیں گے.قرآن کے تراجم شائع کر دیئے جائیں گے.لٹریچر شائع ہو نا شروع ہو جائے گا اور اس کے بعد ایک انسان اسلام کی آواز کو اس طرح نہیں سنے گا جیسے اجنبی آواز ہوتی ہے بلکہ وہ اس آواز کو اس طرح سنے گا جیسے ایک شناخت شدہ آواز ہوتی ہے اور ایسی آواز کا انکار اتنا آسان نہیں ہو تا جتنا ایک منفرد آواز کا انکار آسان ہوتا ہے.یہی معنے اس پیشگوئی کے ہیں کہ اس وقت ایمان قبول کرنا اتنا مشکل نہیں رہے گا جتنا پہلے ہوا کرتا تھا.اس وقت اسلام پھیلانے والے بڑی کثرت سے پھیل جائیں گے.لوگ اسلام کی تعلیم سے مانوس ہو جائیں گے اور اسلام قبول کرنا ان کے لئے پہلے جیسا دو بھر نہیں رہے گا.یہ مفہوم ہے جو اس پیشگوئی کا ہے.پھر وہ زمانہ بھی آجائے گا جب اس پیشگوئی کا دوسرا بطن پورا ہو گا اور مغرب سے اسلام کے مبلغ نکلنے شروع ہوں گے اور مغرب میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو بجائے اسلام کو مٹانے کے اسلام کی تبلیغ کے لئے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے.پھر وہ زمانہ بھی آئے گا جب اس دنیا پر صرف اشرار ہی اشرارہ رہ جائیں گے اور جبھی سورج بھی مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع کرے گا اور دنیا تباہ ہو جائے گی.یہ سارے بطن ہیں جو اپنے اپنے وقت پر پورے ہوں گے.لیکن میں سمجھتا ہوں اس کا ایک بطن یہ بھی ہے جو شمس صاحب کے آنے سے پورا ہوا اور جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول کریم میں کی پیشگوئی کے مطابق ہمارا اس وقت کا روحانی حملہ جارحانہ ہو گا جو زیادہ سے زیادہ قوی ہو تا چلا جائے گا.پس ہماری جماعت کے دوستوں پر بھی اور جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.جب جارحانہ اقدام کا وقت آتا ہے تو یکے بعد دیگرے قوم کے نوجوانوں کو قربانی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے.جب لڑائی نہیں ہوتی تو اس وقت فوجوں کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی لیکن جب جارحانہ اقدام کا وقت آتا ہے تو جس طرح ایک تنور والا اپنے تنور میں پتے جھونکتا چلا جاتا ہے اسی طرح نوجوانوں کو قربانی کی آگ میں جھونکنا پڑتا ہے اور یہ پرواہ نہیں کی جاتی کہ ان میں سے کون بچتا ہے اور کون مرتا ہے.ایسے موقعہ پر سب سے مقدم ، سب سے اعلیٰ اور سب سے ضروری یہی ہوتا ہے کہ جیسے پروانے شمع پر قربان ہوتے چلے جاتے ہیں اسی طرح نوجوان اپنی زندگیاں اسلام کے احیاء کے لئے قربان کر دیں کیونکہ ان کی موت کے ساتھ ان کی قوم اور دین کی زندگی وابستہ ہوتی ہے.اور یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ اگر قوم اور دین کی زندگی کے لئے دس لاکھ یا دس کرو ڑیا دس ارب افراد بھی مرجاتے ہیں تو ان کی پرواہ نہیں کی جاسکتی اگر ان کے مرنے سے ایک مذہب اور دین زندہ ہو جاتا ہے.پس ہمارے نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے".(فرموده ۱۶ اکتوبر ۱۹۴۶ء.مطبوعہ الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۶۱ء)
479 اپنی ساری طاقتیں اور صلاحیتیں کام اور صرف کام کیلئے وقف کر دو یادر کھو عمل کے بغیر دنیا میں کوئی قوم کامیابی حاصل نہیں کر سکتی کامیاب تنظیم کیلئے راہنما اصول کام کی صلاحیت کے لحاظ سے ہمیں یور چین اقوام کا مقابلہ کرنا ہو گا ورزش کی ضرورت اور اہمیت اپنے مقام کو سمجھو اور اپنے فرائض کا صحیح احساس پیدا کرو تمہارے اندر ہر وقت بیداری اور ہو شیاری نظر آنی چاہئے کام سے بھاگنے اور گریز کی عادت کو ختم کریں مجبوری اور پابندی کے طوق کو اتار پھینکیں تقریر فرمودہ سالانہ اجتماع خدام الاحمد یه ۲۰ اکتوبر ۱۹۴۲ء)
480 مجبوریاں اور پابندیاں ہمارے ملک کا خاصہ ہو گئی ہیں.ہمارا کوئی پروگرام ایسا نہیں ہوتا جس کا خاتمہ مجبوریوں اور پابندیوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا کر نہیں ہو تا.دنیا کے پردہ پر باقی اقوام کے پروگرام میں بہت ہی کم پروگرام ایسے ہوتے ہیں جن میں مجبوریوں اور پابندیوں کا ذکر کیا جائے لیکن ہمارے ملک کے افراد کی زبان پر آخری الفاظ مجبوری اور پابندی کے ہی ہوا کرتے ہیں.اللہ ہی بہتر جانے کہ یہ لعنت کا طوق ہمارے ملک کی گردن سے کب دور ہو گا اور کب مجبوری اور پابندی بجائے قاعدہ کے استثناء بن جائے گا.یہ کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ کسی کام میں مجبوری اور پابندی نہیں ہوتی.حضرت علی فرماتے ہیں عرفت ربي بفشخ الْعَزائِمِ بعض دفعہ بڑے بڑے پختہ عزائم کرنے کے باوجود مجھے پیچھے ہٹنا پڑا اور مجھے معلوم ہوا کہ میرے اوپر ایک خدا بھی ہے لیکن یہ استثناء ہے اور اس استثناء کا قاعدہ کی جگہ پر استعمال اس سے بھی زیادہ حماقت ہے جیسے یہ خیال کر لینا ایک احمقانہ امر ہے کہ کسی قاعدہ میں استثناء نہیں ہوا کرتا.یہ صحیح ہے کہ ہمارے مذہب میں بھی بعض استثنائی صورتوں کا ذکر کیا گیا ہے.مثلاً ہمارے مذہب میں یہ اجازت پائی جاتی ہے کہ اگر کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکو تو بیٹھ کر نماز پڑھ لو.اگر بیٹھ کر نماز نہ پڑھ سکو تو لیٹ کر نماز پڑھ لو.اگر لیٹ کر نماز نہ پڑھ سکو تو سر کی جنبش سے نماز پڑھ لو.اگر سر کی جنبش سے بھی نماز نہ پڑھ سکو تو محض انگلی کی جنبش سے نماز پڑھ لو.اگر انگلی کی جنبش سے بھی نماز نہ پڑھ سکو تو آنکھوں کے اشاروں سے نماز پڑھ لو اور اگر آنکھوں کے اشاروں سے بھی نماز نہ پڑھ سکو تو پھر دل میں ہی نماز پڑھ لو.اگر ہمارے مذہب میں یہ حکم نہ ہو تا تو سینکڑوں نہیں ہزاروں ہزار آدمی نماز سے محروم ہو جاتے.مسلمان اس وقت چالیس پچاس کروڑ ہیں اور ان چالیس پچاس کروڑ میں سے دو تین کروڑ ہر وقت ایسے بیمار ہو سکتے ہیں کہ انکے لئے حرکت کرنا یا کھڑا ہو نا مشکل ہو.ایسے لوگوں کے لئے اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی سبیل نہ رکھی ہوتی اور کوئی راستہ ان کے لئے تجویز نہ کیا ہو تا تو وہ نماز سے محروم ہو جاتے.پس اسلام کی یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ اس نے ہر قسم کی طبائع کا لحاظ رکھا اور اپنے احکام کے ساتھ استثنائی صورتوں کے جواز کا بھی راستہ کھول دیا.جب ہم دشمن کے سامنے اسلام کی خوبیاں بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے مذہب میں یہ جائز ہے کہ اگر کوئی شخص کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر نماز پڑھ لے.اگر بیٹھ کر نماز نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر نماز پڑھ لے.اگر لیٹ کر نماز نہ پڑھ سکے تو انگلی کے اشارے سے نماز پڑھ لے.اگر انگلی کے اشارہ سے نماز نہ پڑھ سکے تو اپنی آنکھوں کی جنبش سے نماز پڑھ لے اور اگر اپنی آنکھوں کی جنبش سے بھی نماز پڑھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل میں ہی نماز کے کلمات ادا کر لیا کرے اور ہم یہ بات ایک عیسائی کے سامنے بیان کرتے ہیں یا ایک یہودی کے سامنے بیان کرتے ہیں یا ایک ہندو کے سامنے بیان کرتے ہیں یا ایک زرتشتی کے سامنے بیان کرتے ہیں اور اس کا وہ مذہب جو رسم و رواج کے بندھنوں میں جکڑا ہوا ہوتا ہے اس قسم کی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتا تو اس کا سر جھک جاتا ہے.اس کی آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور ہماری گردن فخر سے تن جاتی ہے.اس لئے نہیں کہ ہم نے بہادری کا کام کیا بلکہ اس لئے کہ ہمیں خدا نے ایک ایسی تعلیم دی ہے جو اپنے اندر استثناء بھی رکھتی ہے.یہ چیز تو یقینا
481 شاندار ہے اور دشمن پر اس کا اثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.لیکن اگر ہم مساجد میں جائیں اور دیکھیں کہ تمام نمازی لیٹے ہوئے ہیں.کوئی انگلی کے اشارہ سے نماز پڑھ رہا ہے.کوئی محض آنکھوں کی حرکت دے کر ہی فریضہ نماز ادا کر رہا ہے اور کوئی دل میں نماز کے کلمات پڑھ رہا ہے تو کیا اس نظارہ کے بعد تم دنیا کی کسی قوم کے سامنے بھی سر اونچا کر سکتے ہو.کیا تمہار ا سینہ اس نظارہ کو دیکھ کر فخر سے تن سکتا ہے.یا کیا دشمن کے سامنے تم اپنی گردن اونچی کرسکتے ہو.ہر شخص تمہاری طرف حقارت کی نگاہ سے دیکھے گا اور کہے گا تمہاری قوم مریضوں کی قوم ہے.تمہاری قوم قدم قدم در گور لوگوں کی قوم ہے.یہ آج مری یا کل.اس نے بھلا دنیا میں کیا تغیر پیدا کرنا ہے.اب دیکھ لو وہی چیز جو استثنائی صورت میں ہمارے لئے عزت کا موجب ہو سکتی ہے عام حالات میں ہمارے لئے نہایت ہی ذلت اور شرمندگی کا موجب بن جائے گی اور ہم آنکھیں اٹھا کر چلنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے.پس یہ صحیح ہے که عرفت کرتی بفسخ العزائم.ہم نے اپنے رب کو فتح عزائم سے ہی دیکھا ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہمارے فسخ عزائم کی اب اتنی کثرت ہو گئی ہے کہ حضرت علی نے تو کہا تھا عَرَفْتُ رَبِّي بِفَشَحَ الْعَزائِم لیکن ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ نسيت ربي بفسخ العزائم میں نے اپنے عزائم کو تو ڑ تو ڑ کر اپنے خدا کو بالکل بھلا دیا ہے.اگر میرے اندر اپنے عزائم کو پورا کرنے کی کوئی بھی نیت ہوتی تو میں اپنے ارادوں کو اتنا نہ تو ڑتا بلکہ خدا تعالی کے خوف اور اس کے تقویٰ سے متاثر ہو کر کچھ نہ کچھ اپنے عزائم کو پورا کرنے کی کوشش کرتا.میں سمجھتا ہوں اگر کوئی شخص اپنا پورا زور لگا کر کسی بات پر عمل کرتا ہے تب بے شک اس کا حق ہو تا ہے کہ وہ کسے مجبوری اور پابندی فلاں کام میں روک بن گئی ہے لیکن ابھی تک ایسا کام کرتے ہوئے ہم نے خدام کو نہیں دیکھا کہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ اس کے بعد واقعہ میں ان کے لئے مزید کام کرنے میں کوئی مجبوری اور معذوری حائل تھی.میں یہ سمجھتا ہوں یہاں کوئی ایک شخص بھی کھڑے ہو کر نہیں کہہ سکتا کہ اس نے ایک ہفتہ بھی خدام کو ایسے رنگ میں کام کرتے دیکھا ہے کہ اس کے بعد ان سے کسی اور کام کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا اور اگر کیا جائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں.اس وقت تمہارے ماں باپ یہاں بیٹھے ہیں.تمہارے بڑے بھائی یہاں بیٹھے ہیں.تمہارے بزرگ اور رشتہ دار یہاں بیٹھے ہیں.کیا وہ قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں کو اتنا کام کرتے دیکھا ہے کہ اس سے زیادہ کام کرنے کی ان سے امید کرنا حماقت اور نادانی ہے.اگر ایسا ہو تو پھر بے شک فسخ عزائم بھی تمہارے لئے ایک زیور بن جائے گا جو تمہارے لئے زینت اور حضرت علی کے قول کے مطابق خدا تعالیٰ کی شناخت کا ایک ذریعہ ہو گا لیکن اگر تم نے اتنی جد و جہد بھی نہیں کی جتنی جد وجہد یورپین اقوام اپنے دنیوی مقاصد کے لئے کر رہی ہیں تو تمہارا فتح عزائم کو پابندی اور مجبوری کا نتیجہ سمجھنا اللہ تعالیٰ کے قانون کی بنک ہے.لوگ کہتے ہیں اس ملک میں ملیریا بہت ہے اور اسی کے زہر کا یہ نتیجہ ہے کہ طبائع میں جمود اور تکاسل پایا جاتا ہے.لیکن اگر یہ درست ہو تب بھی اس حالت کو بدلنا ہمارا فرض ہے.اگر ہم نے دنیا میں کوئی نیک تبدیلی پیدا کرنی ہے تو یقیناً ہمارا فرض ہے کہ ہم اس امر کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں کہ وہ چیز جو ہمارے بڑوں
482 سستی کا موجب ہوئی تھی وہ آئندہ نئی نسل میں پیدا نہ ہو.اگر نئی نسل میں پہلوں سے زیادہ سستی پیدا ہوتی ہے تو یقینا یہ چیز ہمارے لئے فخر کا موجب نہیں ہو سکتی نہ اس بستی کے نتیجہ میں ہمارا کام صحیح طور پر ہو سکتا ہے اور نہ ہم اپنی تنظیم کے اعلیٰ ہونے کا دعوی کر سکتے ہیں کیونکہ تنظیم وہی کامیاب ہوتی ہے جس کی اگلی کڑی پہلی کڑی سے زیادہ مضبوط ہو اور جس کے نتیجہ میں آئندہ نسل پہلوں سے زیادہ فرض شناس اور کام کرنے والی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اسی ملیریا زدہ ہندوستان کے اندر فاقہ میں اپنے اوقات بسر کرنے والے اور بہت کم خوراک استعمال کرنے والے لوگ ہماری جماعت میں پائے جاتے تھے مگر ان کے اخلاص اور ان کی قربانی اور ان کی مستعدی اور ان کی جانفشانی کی یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے کوئی حکم سنتے تو وہ راتوں رات بٹالہ یا گورداسپور یا امر تسر پہنچ جاتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم کی تعمیل کر کے واپس آتے.اب بجائے اس کے کہ ہمیں ترقی ہوتی ، ہمیں اس میں تنزل کے آثار نظر آرہے ہیں.حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ پہلے اگر سلسلہ کا کام پیش آنے پر ہماری جماعت کے لوگ پیدل بٹالہ امر تسر اور گورداسپور پہنچ جاتے تھے تو آج کل کے خدام لاہور گجرات اور پشاور جانے کیلئے تیار ہو جاتے.تب ہم سمجھتے کہ یہ چیز ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے اور ہماری بیماری کو آئندہ نسل نے اپنے جسم میں سے دور کر دیا ہے ، آئندہ نسل پہلے سے بہتر پید اہورہی ہے اگلی اس سے بہتر پیدا ہو گی یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ہمارے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ ہم کام کی صلاحیت کے لحاظ سے یورپین اقوام کا مقابلہ کر سکیں گے.لیکن اگر یہ بات ہمیں نصیب نہیں اور اگر ہم کم سے کم کام کر سکتے ہیں تو یہ ہمارے لئے موت کی علامت ہے.ہمارے لئے رونے کا مقام ہے خوشی اور مسرت کا نہیں.یہ چیز ہے جو خدام الاحمدیہ سے تعلق رکھتی ہے اور یہ چیز ہے جو خدام الاحمدیہ کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے.باقی جلسے کرنا، تقریر میں کرنا اور کچھ شعر و غیرہ پڑھ دینا کوئی چیز نہیں.جیسے ثاقب صاحب نے ابھی نظم پڑھی ہے مگر نہ اس سے ثاقب صاحب کا دل ہلا نہ سننے والوں کا دل ہلا اور نہ واہ واہ اور سبحان اللہ کا شور بلند ہوا.پرانے زمانے میں کم سے کم اتنی بات تو تھی کہ خواہ بناوٹ اور تکلف سے ہی سہی بہر حال جب ایک شاعر
483 اپنے شعر سناتا تو لوگ ہال کھیلنے اور ناچنے اور سرمار نے لگ جاتے.تم اس کو بناوٹ ہی کہو مگر وہ اتنا تو کہہ سکتے تھے کہ ہمارے شعروں میں یہ اثر ہے کہ لوگ ناچتے اور سرمار نے لگ جاتے ہیں لیکن آج کل شعروں میں کیا ہو تا ہے صرف لفاظی اور لفاظی اور لفاظی اور لفاظی.میں نے پچھلی دفعہ سب سے زیادہ زور اس امر پر دیا تھا کہ تم عملی رنگ میں کام کرو اور دنیا کے سامنے اپنے کام کا نمونہ پیش کرو.اس وقت یورپ تو الگ رہا ہندوؤں میں بھی تم سے بہت زیادہ چستی اور بیداری پائی جاتی ہے اور وہ بہت زیادہ اپنی تنظیم کی طرف متوجہ ہیں.مگر تم نے س طرف توجہ نہیں کی حالانکہ عمل کے بغیر دنیا میں کبھی کوئی قوم کامیابی حاصل نہیں کر سکتی.میرے پاس رپورٹ کی گئی ہے کہ خدام الاحمدیہ کا معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ انڈر نر شڈ Under nourshed ہیں یعنی ان میں سے بہت سے نوجوان مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ سے کمزور ہیں.مگر انڈر نر شڈ کے یہ معنی نہیں کہ انہیں غذا کافی نہیں ملتی بلکہ در حقیقت اس کے یہ معنے ہیں کہ ان کی غذا صحیح طور پر ہضم نہیں ہوتی.میں نے بہت مطالعہ کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اکثر موٹے آدمی بہت ہی کم غذا کھایا کرتے ہیں.جب بھی میں نے تحقیق کی ہے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ دیلے آدمی زیادہ کھاتے ہیں اور موٹے آدمی کم.اس کی وجہ یہ ہے کہ موٹے آدمی کے معدہ میں ایسا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے کہ جب غذا اندر جاتی ہے تو انسانی جسم کی مشینری اس غذا کو شکر میں تبدیل کر دیتی ہے اور اس طرح اسے دوسروں کی نسبت بہت کم غذا کی ضرورت محسوس ہوتی ہے.پس کمزوری کی اصل وجہ غذا کی قلت نہیں بلکہ اس کا بہت بڑا تعلق انسان کی قوت ہاضمہ کے ساتھ ہے.اگر کسی شخص کے معدہ میں کوئی ایسی تبدیلی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ روٹی چاہے کس قدر کھائے فضلہ زیادہ پیدا ہو تا ہے تو وہ دس روٹیوں سے اتنا فائدہ نہیں اٹھا سکے گا جتنا دوسرا شخص صرف ایک روٹی کھا کر اٹھالے گا.یہ چیزیں ایسی ہیں جن کا انسان کی قوت ہاضمہ کے ساتھ تعلق ہے.پھر بہت کچھ نشاط اور عزم سے بھی یہ امور تعلق رکھتے ہیں اور تھوڑی تھوڑی غذا سے بھی انسان میں نہایت اعلیٰ درجہ کی قوت عملیہ پیدا ہوتی ہے.اگر غذا کے ساتھ ورزش رکھی جائے اور پھر غذا کے استعمال کے وقت بشاشت اور نشاط کو قائم رکھا جائے تو غذا ایسے طور پر جزو بدن ہوتی ہے کہ انسان کے تمام قومی میں ایک طاقت محسوس ہونے لگتی ہے جسے ہمارے ملک میں انگ لگنا کہتے ہیں اور یہ چیز اس کی ترقی اور راحت کا موجب ہوتی ہے.پس غذا کے صحیح نہ ملنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ لوگوں کو غذا کی کمی کی شکایت ہے بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ انہیں غذا کے استعمال کا صحیح طریق معلوم نہیں.اگر صحیح طور پر غذا کھائی جائے تو تھوڑی سے تھوڑی غذا بھی انسان کے اندر بہت بڑی قوت عملیہ پیدا کر دیتی اور اس کے قلب میں نئی امنگ اور نیا جوش بھر دیتی ہے.صحابہ کو کون سی غذا ملتی تھی.بہت سے صحابہ کہتے ہیں کہ ہمیں کبھی پیٹ بھر کر روٹی نہیں ملی.اس کے مقابلہ میں دیکھ لو یہاں کتنے لوگ ہیں جن کو پیٹ بھر کر کھانا میسر نہیں آتا.یہاں شائد چند گھر ایسے ہوں تو ہوں جو کبھی ناواقفی کی وجہ.
484 سے بھوکے رہ جائیں لیکن صحابہ میں تو اکثر ایسے تھے جن کو پیٹ بھر کر روٹی نہیں ملتی تھی مگر اس کے باوجو دانہوں نے اپنے کام اتنی علو ہمتی سے سر انجام دیئے ہیں کہ دین تو دین رہا دنیا کے کاموں میں بھی وہ ایک نمونہ قائم کر گئے ہیں.اس کی یہی وجہ تھی کہ ان کے اندر ایک غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اور یہ تغیر ہمارے ہاتھوں سے پیدا ہو کر رہے گا.یہ چیز تھی جو ان کی امنگوں کو قائم رکھتی تھی.یہ چیز تھی جو ان کی ہمتوں کو بلند رکھتی تھی.یہ چیز تھی جو ان کے عزم اور ان کے ارادہ کو کبھی متزلزل نہیں ہونے دیتی تھی اور یہ چیز تھی جو انہیں ترقی کے میدان میں ہمیشہ آگے ہی آگے اپنا قدم بڑھانے پر مجبور کرتی تھی.تمہارے جسم پر کبھی پھٹا ہوا کپڑا ہو تو تم رونے لگ جاتے ہو اور کہتے ہو ہماری قسمت کیسی پھوٹ گئی کہ ہمیں پہننے کے لئے پھٹا ہوا کپڑا ملا.مگر صحابہ کو پھٹا ہوا کپڑا بھی ملتا تو ان کا سر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جاتا.ان کی زبان اس کے احسان کے ذکر سے تر ہو جاتی اور وہ کہتے کتنا اچھا کپڑا ہے جو ہمارے خدا نے ہمیں دیا.انہیں اگر ایک سوکھی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑا بھی چار دن کے بعد ملتا تو خوشی سے ان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی اور وہ کہتے الحمد للہ خدا نے ہمیں اپنے انعام سے نوازا.یہی وجہ ہے کہ انہیں جو فائدہ سوکھی روٹی کے ٹکڑوں نے دیا وہ تمہیں پلاؤ اور قورمہ بھی نہیں دیتے.آج جسے پلاؤ ملتا ہے وہ پلاؤ تو کھاتا جاتا ہے مگر ساتھ ہی اس حسرت سے اس کا دل کباب ہو رہا ہوتا ہے کہ پلاؤ کے ساتھ زردہ نہیں.جسے پلاؤ اور زردہ میسر آئے وہ پلاؤ اور زردہ کھاتے ہوئے خون کے آنسو بہا رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے پلاؤ اور زردے کو میں کیا کروں، فرنی تو اس کے ساتھ نہیں ہے.جسے دال ملتی ہے وہ گوشت کے لئے روتا ہے.جسے گوشت ملتا ہے وہ چاولوں کے لئے تڑپتا ہے.جسے کھانے کے لئے چار روٹیاں ملتی ہیں وہ کہتا ہے چار روٹیوں سے کیا بنتا ہے ، ملتیں تو چھ ملتیں.جسے دو ملتی ہیں وہ ایک ایک لقمہ زہر مار کر رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے دو روٹیاں بھی کوئی روٹیاں ہیں، ملتی تو چار ملتیں اور جس کو ایک روٹی ملتی ہے وہ روٹی بھی کھاتا جاتا ہے مگر ساتھ ہی اس کا خون کھول رہا ہوتا ہے کہ میں کتنی بڑی مصیبت میں گرفتار ہو گیا، مجھے کھانے کے لئے صرف ایک روٹی مل رہی ہے.وہاں روکھی سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی ملتا تھا تو صحابہ کہتے کہ ہم اس ٹکڑے کے بھی مستحق نہ تھے.یہ خدا کا فضل ہے کہ اس نے یہ ٹکڑا ہمیں عنایت کیا.نتیجہ یہ ہو تا تھا کہ وہ روکھی روٹی کا ٹکڑا ان کے انگ لگ جاتا تھا.ان کے اندر علو ہمتی پیدا کر تا تھا اور ان کے جذ بہ شکر گزاری کو اور بھی بڑھا دیتا تھا.فتح مکہ کے دن جس دن عرب کا مقام امارت ختم ہوا اور رسول کریم ملی ای دل والے دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے مکہ کے بڑے بڑے صنادید جن کی ساری زندگی اسلام کی دشمنی میں گزری تھی گردن جھکائے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ نے ان کے سامنے یہ اعلان کیا کہ جاؤ میں تمہیں کچھ نہیں کہتا.تم سب میری طرف سے آزاد ہو.یہ اعلان کرنے کے بعد آپ اپنی پھوپھی کے پاس گئے اور فرمایا پھو پھی کچھ کھانے کو ہے.پھوپھی نے کہا میرے عزیز بچے! اگر میرے پاس کچھ کھانے کو ہوتا تو میں تمہیں خود ہی بلا کر کیوں نہ کھلا دیتی.
485 میرے گھر میں تو سوائے ایک سوکھی روٹی کے جو کئی دن سے پڑی ہوئی ہے اور کچھ نہیں.آپ نے کہا دکھا ئیں تو سمی وہ کون سی روٹی ہے.جب وہ سوکھی روٹی رسول کریم میں دیوی کی خدمت میں لائیں تو آپ نے فرمایا پھو پھی ! یہ تو بہت ہی اچھی روٹی ہے.اس کے سوا اور کیا چاہئے کہ آپ افسردہ ہو رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ میرے گھر میں کھلانے کو کچھ نہیں.پھر فرمایا پانی ہے ؟ آپ کی پھوپھی پانی لائیں تو رسول کریم ملی و یا لیلی نے وہ سوکھی روٹی اس پانی میں بھگو دی.اس کے بعد فرمایا سالن ہے.پھوپھی نے کہا سالن ہمارے گھر میں کہاں سے آیا ؟ اگر ہو تا تو میں پہلے نہ لے آتی.میرے پاس تو صرف تھوڑا سا کھٹا سرکہ پڑا ہے.رسول کریم میلی لی نے فرمایا سرکہ سے اچھا سالن اور کیا ہو گا؟ لا ئیں اس سے روٹی کھالوں چنانچہ سرکہ لایا گیا اور آپ نے اس سے بھگوئی ہوئی روٹی کھائی.یہ انگ لگنے والا کھانا تھا کہ رسول کریم میل ل ل ل لو ہم نے سرکہ کو بھی خدا کی نعمت سمجھا اور سوکھی روٹی اس کے ساتھ کھا الله الله کر اس کے فضل کا شکر ادا کیا.پس در حقیقت ہاضمہ انسان کی اس بشاشت سے پیدا ہوتا ہے جو دل میں پیدا ہوتی ہے.اگر خوشی سے ایک معمولی چیز بھی کھائی جائے تو وہ بہت زیادہ قوت پیدا کرتی ہے لیکن اگر رنج سے اچھی سے اچھی چیز بھی کھائی جائے تو وہ انسان کے اندر کوئی قوت پیدا نہیں کرتی.تم لوگ ہر چیز کے متعلق یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں زیادہ ملنی چاہئے تھی مگر کم ملی.مگر وہ ہر چیز کے متعلق یہ سمجھتے تھے کہ ہمیں کم ملنی چاہئے تھی مگر زیادہ ملی.اس وجہ سے ان کی ایک ایک روٹی انہیں وہ فائدہ پہنچادیتی تھی جو تمہیں دس دس روٹیاں بھی فائدہ نہیں پہنچاتیں.مجھے بتایا گیا ہے کہ تم کمی غذا کا شکار ہو لیکن میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں تمہیں نہیں ہیں رونیاں بھی اپنے سامنے کھلاؤں تو تم پہلے سے زیادہ دبلے ہوتے چلے جاؤ کیونکہ تم میں امنگ نہیں اور تم میں سے بعض نے ابھی ایمان کی حلاوت بھی نہیں چکھی.تمہارے دل اس حقیقت سے قطعی طور پر بے خبر ہیں کہ تمہیں خدا نے ایک عظیم الشان روحانی کام کے لئے پیدا کیا ہے اور جسے خدا روحانی انقلاب کے تغیر کے لئے پیدا کرے اس کے مقابلہ میں دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی بیچ ہو تا ہے.اگر بجائے اس کے کہ تم اپنے مقام کو سمجھو اور اپنے فرائض کا صحیح احساس پیدا کرو تم نہایت ادنی اور ذلیل اور چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف متوجہ ہو جاتے ہو اور کہتے ہو مجھے یہ نہیں ملا مجھے وہ نہیں ملا.جب تک تمہارے اندر یہ احساس پیدا نہ ہو کہ تمہیں خدا نے کسی غرض کے لئے پیدا کیا ہے اور جب تک تم اپنے درجہ کو نہ پہچانو اس وقت تک تم نے کام کیا کرنا ہے.تم کو خدا نے اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ تمہارا دل خوشی کی لہروں سے ہر وقت پر رہنا چاہئے اور تمہارے اندر ہر وقت بیداری اور ہوشیاری نظر آنی چاہئے.اگر یہ چیز تمہارے اندر پیدا ہو جائے تو فوری طور پر تم میں ایسی قوت پیدا ہو جائے کہ قلیل سے قلیل خوراک بھی تمہیں کام کرنے کے قابل بنادے.میں نے دیکھا ہے کہ آج کل کے نوجوانوں سے بڑھے زیادہ کام کر لیتے ہیں.ڈلہوزی جاتے ہوئے مجھے ہمیشہ اس کا تجربہ ہوتا ہے.میرے ساتھ چونکہ دفتر کے علاوہ انجمن کے کلرکوں میں سے بھی ایک کلرک جانا ضروری ہوتا ہے اور میں کام کسی قدر سختی سے لیتا ہوں اس لئے ایک دو مہینہ کام کرنے کے بعد ہی ان کی طرف
486 سے انجمن میں درخواستیں جانی شروع ہو جاتی ہیں کہ ہمیں اس دفتر سے بدلا جائے.وہ سمجھتے ہیں ہمارا کام اتنا ہی ہے کہ سور ہیں اور مہینہ کے بعد تنخواہ لے لیں.میرے نزدیک اس صورت حالات کی وجہ سے ناظروں پر بھی حرف آتا ہے.اگر ناظر اپنے کارکنوں سے صحیح طور پر کام لیتے تو ان میں یہ احساس ہی کیوں پیدا ہو تاکہ ہمیں اس دفتر سے فلاں دفتر میں بدل دیا جائے.یہاں کام زیادہ ہے اور وہاں کام تھوڑا ہے.پھر تو وہ سمجھتے کہ یہ بلا ہر جگہ مسلط ہے اور ہمارے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم محنت سے کام کریں.حقیقت یہ ہے کہ کام سے بھاگنا اور گریز کرنا یہ ایک عام عادت ہمیں نوجوانوں میں نظر آتی ہے.جب تک اس عادت کو دور نہیں کیا جائے گا جب تک اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر نہیں سمجھا جائے گا جب تک اپنے مقام کے احساس کا مادہ اپنے اندر پیدا نہیں جائے گا ، تب تک ہماری جد و جہد کبھی اعلیٰ نتائج پیدا نہیں کر سکتی.لیکن جب یہ چیزیں پیدا ہو گئیں تو دینی تغیر تو پیدا ہی ہو گا، دنیوی حالتیں بھی خود بخود بدلنی شروع ہو جائیں گی.یہ امریا د رکھو کہ نکمی قوم دنیا کے پردہ پر کبھی کوئی عزت حاصل نہیں کر سکتی.وہ چیز جس کی عام طور پر لوگ خواہش رکھتے ہیں یعنی دنیوی شان و شوکت اس کا چاہنا عیب ہے.لیکن یہ امر قطعی طور پر ناممکن ہے کہ اگر اسلام کی تعلیم پر صحیح طور پر عمل کیا جائے تو وہ چیز تمہیں میسر نہ آئے.بے شک اس کا چاہنا عیب ہے مگر اس کا منالازمی ہے.آج تک کسی نبی کی قوم نے بھی یہ نہیں چاہا کہ اسے دنیوی شان و شوکت مل جائے لیکن اگر وہ قوم صحیح طور پر نبی کی قوم بن جائے تو اسے یہ چیز بھی ضرور مل جاتی ہے.بے شک ایک قوم اس وقت گنگار ہو گی جب وہ خود اپنی زبان سے دنیا کی بادشاہت طلب کرے لیکن جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتی اور اپنے نفوس کو اس کی راہ میں قربان کر دیتی ہے تو خدا تعالی یہ دکھانے کے لئے کہ میں قادر خدا ہوں ، دنیا کی بادشاہتیں بھی ان کے سپرد کر دیتا ہے.سید ر القادر صاحب جیلانی کے متعلق لکھا ہے کہ لوگوں نے ان پر اعتراض کیا کہ آپ اچھے کھانے کھاتے اور اچھے کپڑے پہنتے ہیں.آپ نے فرمایا میں کبھی کھانا نہیں کھاتا جب تک مجھے خدا نہیں کہتا کہ اے عبد القادر تجھے میری ذات ہی کی قسم ہے تو یہ کھانا کھا اور میں اچھے کپڑے نہیں پہنتا جب تک مجھے خدا نہیں کہتا کہ اے عبد القادر تجھے میری ذات ہی کی قسم ہے تو یہ کپڑا پہن.حقیقت یہ ہے کہ جب ایک انسان خدا کا ہو جاتا ہے تو وہ چیز جو اس نے خدا کے لئے چھوڑی ہوتی ہے اسے خدا کی طرف سے عطا کی جاتی ہے اور اس وقت اس کا چھو ڑنا گناہ ہو تا ہے جیسے پہلے اس کا مانگنا گناہ ہو تا ہے.اگر تم اس چیز کو چرانا چاہتے ہو تو یہ ایک نقص ہوگا کیونکہ خدا یہ چاہتا ہے کہ وہ تمہیں یہ چیز خلعت کے طور پر عطا کرے اور یقیناوہ دن آئے گا اور ضرور آئے گا جب یہ چیز تمہارے ہاتھ میں ہو گی.خواہ یہ دن تمہارے لئے آئے یا تمہاری نسلوں کے لئے مگر تم تو درخت ہونے میں آتے ہی نہیں کہ تم اس کا پھل کھا سکو.کہتے ہیں ایک بادشاہ کسی بڑھے کے پاس سے گزرا اور اس نے دیکھا کہ وہ ایک ایسا درخت لگا رہا ہے جو بہت دیر سے پھل لاتا ہے.بادشاہ حیران ہوا اور اس نے بڑھے سے مخاطب ہو کر کہا میاں بڑھے ! تم کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہو.تمہاری ستر اسی سال عمر ہے.تم آج نہ مرے کل مرے.زیادہ سے زیادہ جئے بھی تو پانچ سال زندہ رہو گے عبدا
487 مگر یہ درخت تو بہت دیر کے بعد پھل لائے گا اور تم اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکو گے.پھر ایسا درخت تم کیوں بو رہے ہو.بڑھے نے کہا بادشاہ سلامت! آپ نے یہ کیا کہہ دیا.آپ تو بڑے عقلمند اور دوراندیش انسان ہیں.اگر پہلے لوگ بھی اسی خیال میں مبتلا رہتے کہ جب ہم نے پھل نہیں کھانا تو ہم درخت کیوں لگائیں اور وہ اس خیال کے ماتحت درخت نہ لگاتے تو آج ہم کہاں سے پھل کھاتے.انہوں نے درخت لگائے تو ہم نے پھل کھائے.اب ہم درخت لگائیں گے اور ہماری آئندہ نسلیں اس کا پھل کھا ئیں گی.بادشاہ کو اس کی یہ بات بہت پسند آئی اور اس نے کہا زہ.یعنی کیا ہی خوب بات کی ہے.بادشاہ نے یہ حکم دیا ہوا تھا کہ جب میں کسی کی بات پر خوش ہو کر زہ کہوں تو اسے فورا تین ہزار کی تحصیلی انعام کے طور پر دے دی جایا کرے.جب بادشاہ نے کہا زہ تو خزانچی نے فوراً تین ہزار کی ایک تھیلی بڑھے کے سامنے رکھ دی.بڑھے نے تھیلی اٹھائی اور کہا بادشاہ سلامت آپ تو کہتے تھے کہ تو اس درخت کا پھل نہیں کھائے گا.دیکھئے لوگ درخت لگاتے ہیں تو کہیں دیر کے بعد اس کا پھل کھانا انہیں نصیب ہوتا ہے لیکن میں تو ابھی درخت لگا ہی رہا ہوں کہ میں نے اس کا پھل کھالیا.بادشاہ نے یہ سن کر پھر کہا زہ اور خزانچی نے تین ہزار کی ایک اور تھیلی اس کے سامنے رکھ دی.اس پر وہ بڑھا پھر بولا اور اس نے کہا بادشاہ سلامت! لوگ تو سال میں صرف ایک دفعہ پھل کھاتے ہیں لیکن میں نے تو ابھی لگاتے لگاتے اس کا دو دفعہ پھل کھالیا ہے.اس پر بادشاہ کے منہ سے پھر نکلا زہ اور خزانچی نے فورا تین ہزار کی ایک تیسری تھیلی اس کے سامنے رکھ دی.یہ دیکھ کر بادشاہ ہنس پڑا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا چلو یہاں سے ورنہ یہ بڑھا ہمارا سارا خزانہ لوٹ لے گا.تو یہ بات ہے کہ تم تو بیج لگاؤ گے تو پھل کھاؤ گے مگر تم بیج لگانے میں آتے ہی نہیں.تم میں سے بعض کی ذہنیتیں وہی ہیں جو لیبر یا لبرل پارٹیوں کی ہیں یعنی یہ کہ پہلے خدا ہمیں دے پھر ہم سے کام لے حالا نکہ خدا اس قوم کو اپنے انعامات دیا کرتا ہے جو اپنے نفوس کو اس کی راہ میں قربان کر دیا کرتی ہے اور اس بات کی پرواہ نہیں کیا کرتی کہ اسے کیا ملا؟ مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ کشمیر گیا.کشمیری ایک خاص فن میں مشہور ہیں جس کی میں اس وقت مذمت کر رہا ہوں یعنی یہ بات ان کی عادت میں داخل ہے کہ ان کا دست سوال ہمیشہ دراز رہتا ہے.ان دنوں موٹریں نہیں ہوتی تھیں.کشمیر تک یکوں میں سفر کیا جاتا تھا.ایک منزل پر ہم ٹھہرے تو بارش آگئی اور ہمیں اسباب کو اندر رکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی.مولوی سید سرور شاہ صاحب بطو را تالیق ہمارے ساتھ تھے اور میر محمد اسحاق صاحب ، میاں بشیر احمد صاحب اور میں تینوں ان کی اتالیقی میں کشمیر کی سیر کے لئے گئے تھے.یہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے دوسرے سال کا واقعہ ہے.جب بارش آئی تو ہم نے ایک کشمیری مزدور کو بلایا اور اسے کہا سامان یہاں سے اٹھا کر بر آمدہ میں رکھ دو.وہ کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ ایک ایک چیز کا ایک ایک پیسہ لوں گا.لیکن پہلے پیسہ لوں گا اور پھر کوئی چیز اٹھاؤں گا.بچپن کی عمر کے لحاظ سے اس وقت ہمیں مذاق سو جھا.ہم ایک پیسہ اس کے ہاتھ پر رکھ دیتے اور وہ ایک چیز اٹھا کر برآمدہ میں رکھ دیتا.پھر واپس آتا اور ایک پیسہ لے کر دوسری چیز اٹھاتا اور اسے برآمدہ میں رکھ آتا.اسی طرح ہر دفعہ ایک پیسہ لیتا جاتا اور چیزیں اٹھا اٹھا کر اندر
488 رکھتا جاتا.آخر جب تمام چیزیں رکھ چکا تو مجھے ایک اور مذاق سو جھا.ہم سے گز بھر ایک کو نہ میں چھتری پڑی تھی.میں نے بچپن کی شرارت میں جان بوجھ کر اسے کہا کہ چھتری تو پکڑا دو.اس پر اس نے فور آہاتھ آگے کر دیا اور کہا لاؤ پونسہ.ہم نے پیسہ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا اور وہ چھتری اٹھا کر بر آمدہ میں لے گیا.یوں تو ہم خود بھی چھتری اٹھا سکتے تھے مگر اس وقت ہم نے بذاقاً اسے چھتری اٹھانے کو بھی کہہ دیا جس پر اس نے نہایت بے تکلفی سے کہالاؤ پونسہ اور جب ہم نے پیسہ دیا تب اس نے چھتری کو ہاتھ لگایا.تمہارا معاملہ بھی خدا تعالیٰ سے اسی قسم کا ہے.اگر تم بھی ہر بات پر یہی کہتے رہو کہ لاؤ پونسہ اور تم ایک کشمیری مزدور کی طرح لاپونسہ کہنے کے عادی بن جاؤ تو وہ بھی تمہیں مزدور ہی رکھے گا.کیونکہ تم بات کشمیری مزدور والی کرتے ہو اور امید یہ رکھتے ہو کہ تم سے خدا تعالیٰ وہ سلوک کرے جو اس نے محمد رسول اللہ صلی یم اور آپ کے صحابہ کے ساتھ کیا حالانکہ لا پونسہ کہنے والے سے تو مزدور کا ہی سلوک کیا جائے گا.بادشاہ کا سلوک ای سے کیا جاتا ہے جو اپنی ہر چیز قربان کر دیتا ہے.جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں کلی طور پر فنا کر دیتا ہے اور اس سے کسی قسم کا مطالبہ نہیں کرتا تب اس کا آقا کہتا ہے اس نے اپنے آپ کو میرے لئے فنا کر دیا.اب یہ مجھ سے جدا نہیں رہا تب جیسے بیٹا اپنے باپ کا وارث ہو تا ہے ، اللہ تعالیٰ بھی دنیا اس کے سپرد کر دیتا ہے.یہ کام ہے جو تم نے کرنا ہے.جب تک تم یہ کام نہیں کرتے.جب تک تمہارے اندر ایسی خلش پیدا نہیں ہوتی جو رات اور دن تمہیں بے تاب رکھے اور تمہیں کسی پہلو پر بھی قرار نہ آنے دے اس وقت تک تم اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتے جو صحابہ نے حاصل کیا.ابھی ہماری ترقی ہے ہی کیا چیز ؟ چار ہزار آدمیوں کا سال بھر میں ہم میں شامل ہو جانا اور ہر سال دس ہیں لاکھ روپے کا آجانا.سر دست ہماری ترقی صرف اسی حد تک ہے.مگر کیا اتنے سے کام سے دنیا میں وہ روحانی تغیر پیدا کیا جاسکتا ہے جس تغیر کو پیدا کرنا اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے.یہ تغیر اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک لاکھوں لاکھ آدمی ہماری جماعت میں شامل نہیں ہو تا.مگر سوال یہ ہے کہ آخر لاکھوں لاکھ آدمی کیوں ہماری جماعت میں شامل نہیں ہو تا.اسی لئے کہ دنیا تمہاری طرف دیکھ کر کہتی ہے کہ ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں اور چونکہ دشمن اپنے مخالف کو ہر بات میں نیچا بتانے کا عادی ہو تا ہے.جب اسے تم میں اور ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تو کچھ شریف الطبع لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں اور کچھ لوگ جو غیر شریفانہ رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ لوگ ہم سے بھی زیادہ گندے ہیں اور اس طرح دشمن برابری کو بھی نچلا درجہ دے دیتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ جو چیزیں تمہیں ملی ہیں وہ ان کو نہیں ملیں.اگر ان کے ہوتے ہوئے تم ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو یقینا تم ان سے نچلے درجہ پر ہو.ایک شخص جس کے پاس ہزار روپیہ ہے ، وہ اگر خست سے روٹی کھاتا ہے اور ایک دوسرا شخص جسے صرف ایک وقت کی روٹی ملتی ہے وہ بغیر نخست کے اسے استعمال کرتا ہے تو وہ اگر یہ کہے کہ ہزار روپیہ رکھنے والا مجھ سے زیادہ ذلیل ہے تو وہ ایسا کہنے میں حق بجانب ہو گا کیونکہ اس کا فاقہ مجبوری کی وجہ سے ہو گا اور اس کا فاقہ خساست اور دنائت کی وجہ سے ہو گا.پس جب تک تم
489 اپنے اندر تبدیلی پیدا کر کے وہ نئی زندگی حاصل نہیں کرتے جو صحابہ نے حاصل کی اس وقت تک نہ ہم ترقی کر سکتے ہیں اور نہ ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہم خدا کے خاص منعم علیہ گروہ میں شامل ہو جائیں گے.خدا اس وقت دنیا میں ایک عظیم الشان روحانی انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے اور ایک بہت بڑا تغیر اس کے حضور مقدر ہے مگر وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے اور افسوس ہے کہ ہماری جماعت نے اس کا ایک حصہ سونے میں گزار دیا ہے.ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے چھپن سال گزر چکے ہیں.چھپن سال میں انسان بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتا ہے.بے شک بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ستر پچھتر سال کی عمر میں بھی مضبوط قوی ہوتے ہیں لیکن گورنمنٹ پچپن سال کی عمر پر اپنے ملازموں کو پنشن دے دیا کرتی ہے.پس تم پر اب اتنی عمر گزرچکی ہے کہ جس عمر پر بر گور نمنٹ لوگوں کو پنشن دے دیا کرتی ہے مگر باوجود اس کے کہ تم پنشن کی عمر کو پہنچ چکے ہو ، تم نے ابھی پہلا گریڈ بھی حاصل نہیں کیا.یہ کتنے افسوس کی بات ہے.یہ کتنے رنج کی بات ہے.یہ کتنے غم اور فکر کی بات ہے.پس اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور اپنے دماغوں میں ایک نیک تبدیلی رونما کرو.جس طرح سان پر چاقو چڑھایا جاتا ہے اسی طرح جب تک خدا تعالیٰ کی خشیت کی سان پر تم اپنے دماغوں کو نہ چڑھاؤ گے ، جب تک تم اپنی زندگی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بسر نہیں کرو گے اور جب تک تم مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ کا کامل نمونہ نہیں بنو گے اس وقت تک تم سے کسی کام کی امید رکھنا یا خیال کر لینا اسلام یورپین اقوام کے مقابلہ میں جیت جائے گا ایک حماقت اور جنون کی بات ہو گی.یورپین اقوام کے مقابلہ میں تم کس طرح جیت سکتے ہو جب کہ یورپین اقوام تم سے دس گنے زیادہ کام کرتی ہیں اور جرمن تم سے ہیں گنے زیادہ کام کرتے ہیں.یہی حال دوسری اقوام کا ہے کہ وہ بہت زیادہ محنت اور بہت زیادہ جفا کشی سے کام لینے کے عادی ہیں اور جرمنوں اور امریکنوں اور انگریزوں کے مقابلہ میں تمہارے کاموں اور قربانیوں کی کوئی نسبت ہی نہیں ، بلکہ عیسائی آج دنیوی اغراض کے لئے جو قربانیاں کر رہے ہیں وہ تم خدا کے لئے نہیں کر رہے.پس تمہارا اور ان کا مقابلہ ہی کیا.بسا اوقات لوگ سوال کیا کرتے ہیں کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کے نیک نتائج کیوں پیدا نہیں ہوتے اور کیوں اسلام کی فتح کا دن قریب سے قریب تر نہیں آجاتا.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم جو کچھ پیش کرتے ہیں وہ محض ذہنی باتیں ہوتی ہیں اور لوگوں کے دل صرف ذہنی باتوں سے تسلی نہیں پاسکتے.یورپ میں جو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں وہ صرف اس تعلیم کی وجہ سے قبول کرتے ہیں جو قرآن کریم اور احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں درج ہے اور جس کے محاسن کو پیش کر کے ہم لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے کی کوشش کرتے ہیں.مگر وہ ہزاروں ہزار آدمی جو اسلام کے محاسن کو دیکھ کر فریفتہ ہو جاتے ہیں ، جب ہماری جماعت کے اعمال پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ان کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے.ان کی خوشی سرد ہو جاتی ہے اور وہ وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں.پہلے تو وہ خیال کرتے ہیں کہ شاید آسمان سے ہمارے لئے ایک ایسا علاج نازل ہوا ہے جس سے ہمارے مزمن امراض دور ہو جائیں گے اور ہم بھی خوشی اور مسرت کی زندگی بسر کر سکیں گے مگر جب وہ ہماری طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو انکے تمام ولولے دب
490 جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں افسوس ابھی ہماری بیماری کے جانے کا وقت نہیں آیا.وہ پھر کفرستان میں چلے جاتے ہیں.پھر خدا کا خانہ خالی رہ جاتا ہے.پھر شیطان کی حکومت دلوں پر قائم ہو جاتی ہے اور پھر رحمانی فوجوں کو شیطان سے بر سر پیکار ہونا پڑتا ہے.پس جب تک تم اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کرتے.جب تک تم اپنے اعمال تم آسمان کی مخلوق ہو سے یہ بتا نہیں دیتے کہ اب تم وہ نہیں رہے جو پہلے ہوا کرتے تھے بلکہ تم تمام محنت کرنے والوں سے زیادہ محنت کرنے والے اور تمام قربانی کرنے والوں سے بڑھ کر قربانی کرنے والے ہو.تم زمین کے نہیں بلکہ آسمان کی مخلوق ہو.اس وقت تک تم دنیا میں کوئی تغیر پیدا نہیں کر سکتے.لیکن اگر تم میں یہ اوصاف پیدا ہو جائیں تب اور صرف تب دنیا کے لوگ تمہاری طرف متوجہ ہوں گے.وہ تمہاری طرف پیاسوں کی طرح دوڑتے چلے آئیں گے.وہ تم سے علاج اور مداری کے طلبگار ہوں گے کیونکہ وہ تمہارے چہروں پر وہ چیز دیکھیں گے جس کے دیکھنے کے وہ دیر سے متمنی اور خواہشمند ہیں اور تمہارے ذریعہ انہیں وہ چیز ملے گی جو دنیا میں اور کہیں نہیں مل سکتی.تمہارے ذریعہ سے وہ گرم گرم ہوائیں چلیں گی جو کفر کی سردیوں کو بالکل دور کر دیں گی اور تمہارے قلب میں سے تسکین کی وہ شعائیں نکلیں گی جو گناہوں کی آگ کو بالکل سرد کر دیں گی.یہ لازمی بات ہے کہ جس کی ضرورت جس دوکان سے پوری ہو جائے وہ اسی دوکان پر جاتا ہے.جب تک دنیا کے لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی ضرورتیں تمہارے ذریعہ سے پوری نہیں ہو رہیں اس وقت تک انہیں تمہاری طرف توجہ پیدا نہیں ہو سکتی.وہ کہتے ہیں اگر ہم عیسائی ہیں تو عیسائی ہی مریں گے.ہندو ہیں تو ہندو ہی مریں گے.سکھ ہیں تو سکھ ہی مریں گے.ان کے دلوں میں یہ تڑپ پیدا نہیں ہوتی کہ تمہارے پاس آئیں اور اپنی ضرورت کی چیز تم سے حاصل کریں کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ تمہاری دوکان بھی دوسری دوکانوں کی طرح خالی پڑی ہے اور تمہاری دوکان ان کی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہے لیکن جس دن ان کے کانشس تلی پا جائیں گے اور وہ کامل یقین کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ جس چیز کی انہیں تلاش ہے وہ صرف اور صرف تمہارے پاس ہے اور وہ تمہارے چہروں سے اس نور کا مشاہدہ کریں گے جس نور کی تلاش میں وہ سرگرداں پھر رہے ہیں تو تم دیکھو گے کہ دنیا کی کوئی بندش ان کو روک نہیں سکتی.کوئی قید ان کو ڈرا نہیں سکتی.کوئی طاقت ان کو متزلزل نہیں کر سکتی.نہ ان پر اپنے بھائیوں کا اثر ہو گا نہ بہنوں کا نہ ماں باپ کا اثر ہو گا نہ دوسرے عزیز و اقارب کا.خاوند اپنی بیویوں کو چھوڑ کر بیویاں اپنے خاوندوں کو چھوڑ کر بیٹے اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر ماں باپ اپنے بیٹوں کو چھوڑ کر دوست اپنے دوست کو چھوڑ کر اور رشتہ دار اپنے رشتہ دار کو چھوڑ کر دیوانہ وار تمہاری طرف دوڑتے چلے آئیں گے اور کہیں گے ہم تو اس دن کو ترس گئے.مدتوں کی تلاش اور جستجو کے بعد ہمیں آج پتہ لگا کہ وہ قیمتی متاع جس کی ہمیں تلاش تھی وہ تمہارے پاس ہے.ہم اس کے حصول کے لئے اپنی ہر چیز قربان کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ ہمارے دلوں کی آگ سرد ہو جائے.ہمارے قلوب کی خلش دور ہو جائے اور ہماری بے تابی راحت اور
491 سکون میں تبدیل ہو جائے.یہی اور یہی ذریعہ ہے اسلام کے دنیا پر غالب آنے کا.جب تک یہ نہ ہو اس وقت تک ساری امیدیں مجنونانہ اور سارے خیالات پاگل نہ ہیں.پس میں تمہیں صرف اسی بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں.نوٹ تو میں نے اور باتیں بھی کی ہوئی تھیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ تمہارے لئے یہی ایک بات کافی ہے.جب تک تم پابندیوں اور مجبوریوں کی جکڑ بندیوں سے نہیں نکلو گے.جب تک تم یہ طوق اپنی گردن سے دور نہیں کرو گے.جب تک تم یہ زنجیریں اپنے پاؤں سے نہیں نکالو گے.اس وقت تک تمہاری ساری کوششیں عبث اور رائیگاں ہیں.ایک اور صرف ایک ہی چیز ہے جو تمہیں کامیاب کر سکتی ہے کہ یہ لعنت کا طوق ، یہ مجبوری کا طوق ، یہ معذوری کا طوق اپنی گردنوں سے دور کرو اور وہ زنجیریں جو ہمیشہ ہندوستانیوں کے ہاتھوں میں پڑی رہتی ہیں اور وہ بیڑیاں جو ان کے پاؤں کو چلنے نہیں دیتیں ان سب کو تو ڑ دو اور ان بندھنوں اور قیود سے آزاد ہو جاؤ.تب مشکل سے مشکل کام بھی تمہارے لئے آسان ہو جائے گا اور تم فخر سے اپنی گردن اونچی کر کے دنیا کی اقوام کے مقابلہ میں کھڑے ہو سکو گے.اب میں دعا کر دیتا ہوں.چونکہ دلوں کا بدلنا خدا کے اختیار میں ہے میرے اختیار میں نہیں اس لئے میں خدا تعالٰی سے ہی دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہارے اندر حقیقی عزم اور پختہ ارادہ پیدا کرے.جس سے تم سچے مسلمان بن کر ایسے کام کرو جو دنیا کو بدل ڈالنے والے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو دنیا میں دوبارہ قائم کرنے والے ہوں".تقریر سالانہ اجتماع - فرموده ۲۰ اکتوبر ۱۹۴۶ء.مطبوعہ الفضل ۲ نومبر ۱۹۶۰ء)
493 ترقی کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اپنے اندر محبت اور قربانی کی عادت پیدا کی جائے کیا تمہارا عمل، تمہارے دعوؤں کے مطابق ہے تمہارے ذمہ کتنا بڑا کام لگایا ہے مگر تمہیں اس کا احساس نہیں ہر قسم کے دنیوی علوم میں امتیازی مقام حاصل کرو دنیا میں ہر فن کے مقابلہ کی مہارت ہونی چاہئے اگر ایک منٹ بھی تمہار ا ضائع ہو جائے تو سمجھو کہ موت آگئی روزانہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرو (فرموده ۷ ادسمبر ۱۹۴۶ء)
494 " قریباً ڈیڑھ مہینہ ہوا میں نے کہا تھا کہ خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ جتنی جگہ قادیان میں خالی پڑی ہے ان ساری زمینوں میں گندم بوئین مگر میں سمجھتا ہوں انہوں نے میری یہ بات اس کان سے سنی اور اس کان سے نکال دی.اگر خدام الاحمدیہ کے کوئی عہدیدار یہاں موجود ہوں تو بتائیں کہ کیا انہوں نے فصل ہوئی ہے.اس پر مہتمم صاحب عمومی خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے عرض کیا کہ ہم نے بعض زمینوں کی پیمائش کی تھی مگر وہاں پانی نہیں چڑھتا.حضور نے فرمایا :.کیا اس کے متعلق آپ لوگوں نے مجھے اطلاع دی تھی".اس پر وہ خاموش ہو گئے.حضور نے فرمایا :.." تم لوگ میرے پاس رپورٹ بھیجے کہ ان زمینوں میں پانی نہیں چڑھتا تو میں اس کے متعلق انتظام کرتا.مگر اس کے متعلق تو مجھے کوئی اطلاع نہیں دی گئی اور اب جب کہ گندم بونے کا وقت گزر چکا ہے کہہ دیا گیا ہے کہ پانی نہیں چڑھ سکتا حالا نکہ پانی سب جگہ چڑھایا جا سکتا ہے بلکہ اونچے ٹیلوں پر بھی چڑھایا جا سکتا ہے.یوپی میں جا کر دیکھو سب لوگ چھٹا دیتے ہیں یعنی ٹین میں پانی بھر کر چھٹا دیتے چلے جاتے ہیں.اسی طرح پنجاب کے کئی علاقوں میں ہوتا ہے بلکہ یہاں قادیان میں بھی پہلے اسی طرح پانی دیتے تھے.ان علاقوں میں پیلے یا ٹین میں پانی بھر کر چھٹا دیتے ہیں.یہ کام تو عورتیں بھی کر سکتی ہیں.سارا یو پی چھٹے سے پانی دیتا ہے.کیا ہم ان لوگوں سے کمزور ہیں ؟ تم جتنا پانی کہتے ہم اس سے لگنا پانی چڑھا کر دکھا دیں گے.جب ساری دنیا ایسا کرتی ہے تو یہاں کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہ تو صرف ایک بہانہ ہے کہ پانی نہیں چڑھ سکتا.تم جو سب سے اونچی زمین ہے وہ مجھے دکھاؤ.میں ہفتہ کے دن خود تم کو پانی چڑھا کر دکھا دوں گا.جو کام میں بتا تا ہوں وہ کرتے نہیں.پھر جب غلے کی کمی ہوگی تو رقعے آنے شروع ہو جائیں گے کہ کوئی انتظام فرما ئیں.ہم اس وقت کہاں سے انتظام کریں گے.کیا ہم فرشتوں سے کہیں گے کہ ہمیں غلہ لا کر دو.ابھی تو اتنی تنگی کے دن بھی نہیں آئے مگر ابھی سے لوگوں نے لکھنا شروع کر دیا ہے کہ ہمیں غریبوں کے غلہ سے ہی کچھ دے دیں کیونکہ ہم اس وقت لے نہیں سکے تھے حالانکہ اس وقت بھی میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ سال بھر کے لئے غلہ اپنے گھروں میں ڈال لیا جائے.ادھر یہ حالت ہے کہ باوجو د توجہ دلانے کے خدام الاحمدیہ نے اس پر ذرا بھی عمل نہیں کیا حالانکہ یہاں کی جتنی خالی زمینیں ہیں بوئی جاسکتی تھیں.قادیان میں پندرہ سو ایکڑ کے قریب زمین ہے.فرض کرو اس میں سے ۳۰۰ ایکڑ کے قریب نکل چکی ہو تو ہزار بارہ سو ایکڑ بچتی ہے.اگر اس ساری زمین میں کاشت کرلی جائے تو کیا حرج ہے اور اگر زیادہ محنت کی جائے اور کھاد زیادہ مقدار میں ڈال دی جائے تو یہی زمین دو فصلی ہو سکتی ہے.اگر خدام الاحمدیہ یہ کام کر لیتے تو غرباء کے لئے کافی غلہ مل جاتا.) فرموده ۱۹ نومبر ۱۹۴۶ء.مطبوعہ الفضل ، مئی ۱۹۶۱ء )
اپنے اندر محنت اور قربانی کی عادت پیدا کرنی چاہیے حمایک پادری کے ساتھ حضور کی گفتگو ☆ ☆ ☆ ☆ ☆ اپنی عملی زندگیوں کو اپنے وعدہ کے مطابق ڈھالوں ہر قسم کے دنیوی علوم سیکھو اگر ایک منٹ بھی تمھارا ضائع ہو جائے تو سمجھو کہ موت آگئی
496 فرمایا :." آج میں جماعت کے نوجوانوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ان کو اپنے اندر محنت اور قربانی کی عادت پیدا کرنی چاہئے اور اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ کسی قوم کی حالت ترقی پذیر نہیں ہو سکتی جب تک اس قوم کے خواص و عوام میں محنت اور قربانی کی عادت نہ ہو.دنیا میں قوموں پر کئی شکلوں میں مشکلات اور کئی صورتوں میں ابتلاء آتے رہتے ہیں مگر ان سب کا جواب صرف ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ استقلال اور بہادری سے ایسی مشکلات کا مقابلہ کیا جائے.مگر یہ روح تبھی پیدا ہو سکتی ہے جب نوجوان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ان کے مطابق کام بھی کریں یعنی جتنی زیادہ ذمہ واریاں ہوں اتنا ہی زیادہ کام بھی کیا جائے.کیونکہ جب تک اندازے کے مطابق کام نہ کیا جائے وہ کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوا کرتا.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کئی دفعہ ایک مثال بیان فرمایا کرتے تھے کہ کسی بھوکے کے منہ میں میں صرف ایک لقمہ روٹی کا دے دینے سے اس کی بھوک دور نہیں ہو سکتی اور کسی پیاسے کے منہ میں ایک قطرہ پانی ڈال دینے سے اس کی پیاس نہیں رک سکتی یعنی جب تک بھو کے کو اتنی غذا نہ مہیا کی جائے جس سے اس کا پیٹ بھر سکے یا جب تک ایک پیاسے کو اتنا پانی نہ دیا جائے جس کو وہ سیر ہو کر پی سکے ، اس وقت تک نہ وہ بھوکا اور نہ ہی وہ پیا سا بھوک اور پیاس کی تڑپ کو دور کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی صحت قائم یا بحال ہو سکتی ہے.یہی حال کاموں کا بھی ہوتا ہے.جتنا بڑا کام ہو اتنی ہی اس کے لئے محنت صرف کی جائے تو وہ ختم کیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں.اگر کام تو بڑا ہو اور انسان زور تھوڑا لگائے یا محنت کم کرے تو وہ اس کو کبھی سرانجام نہ دے سکے گا.مثلاً اگر کسی دریا کا کنارہ ٹوٹ جائے تو اگر کوئی شخص وہاں مٹھی سے مٹی ڈالنا شروع کر دے تو خواہ وہ کتنی بھی مٹھیاں ڈالے ، مٹی ضائع ہو جائے گی اور دریا کا پانی بھی نہ رک سکے گا.اسی طرح اگر کوئی شخص اس کنارے پر ایک ایک پتھر پھینکنا شروع کر دے تو وہ پھر پانی کے تیز بہاؤ کے ساتھ ہی بہتے چلے جائیں گے اور سوائے اس کے کہ اس شخص کا وقت ضائع ہو اور کوئی نتیجہ نہ نکل سکے گا.البتہ اس کام کے لئے اگر یہ انتظام کر دیا جائے کہ اتنے پتھر اور اتنی مٹی وہاں پھینکی جائے جو پانی کو روک سکیں تو پہلے پانی کا زور ٹوٹنا شروع ہو جائے گا اور پھر آہستہ آہستہ پانی بالکل رک جائے گا.مثلاً پہلے پانی کے بہاؤ کی طاقت سو تھی اور جب اس طاقت کے مقابلہ میں اتنی مٹی اور پتھر ڈال دیئے گئے جن کی طاقت دس تھی تو پانی کی طاقت نوے رہ جائے گی.پھر اگر اتنے ہی پتھر مٹی اور ڈال دیئے جائیں تو پانی کی طاقت اسی ہو جائے گی اور مٹی اور پتھروں کی طاقت میں ہو جائے گی.اسی طرح جتنی جتنی مقدار میں پتھر اور مٹی ڈالی جائے گی اتنی اتنی مقدار میں پانی کی طاقت کم ہوتی جائے گی.آخر ہوتے ہوتے مٹی اور پتھروں کی طاقت پانی کے مقابلہ میں زیادہ ہو جائے گی اور پانی رک جائے گا.پس کام کے مطابق طاقت کو خرچ کیا جائے تو کام ہو سکتا ہے ورنہ دریا کے شکستہ کنارے پر مٹھی سے مٹی پھینکنے والا شخص یقینا پاگل کہلائے گا کیونکہ جب تک کام کے اندازے کے مطابق زور نہ خرچ کیا جائے اس وقت تک صحیح نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا بلکہ اندازہ سے کم یا زیادہ
497 طاقت خرچ کرنا پاگل پن کی بات ہو گی.ایک دفعہ ہم ڈلہوزی گئے.اس وقت میری عمر کوئی میں بائیس سال کی ہو گی.ان دنوں ایک پادری فرگوسن جو اپنے آپ کو عیسائیت کا بہت بڑا عالم سمجھتا تھا اور سیالکوٹ میں عیسائیت اس کے ذریعہ پھیلی تھی ، وہ بھی ڈلہوزی میں تھا.اس کی عمر اس وقت ستر اسی سال کے درمیان تھی.وہ شام کو بازار میں اشتہار تقسیم کیا کرتا تھا کہ کوئی شخص تثلیث اور کفارہ کے مسائل پر مجھ سے بحث کرلے.اس زمانہ میں ڈلہوزی کی آبادی بہت کم تھی.صرف چند کو ٹھیاں تھیں ( یہ ۱۹۱۱ ء کی بات ہے ) وہاں اس بات کا چرچا شروع ہوا کہ یہ عیسائی زیادہ تر اسلام پر حملے کرتا ہے مگر یہاں کے مولوی کہتے ہیں کہ ہمیں اس کے اعتراضات کا جواب نہیں آتا.ہم وہاں ایک ایسے مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے جو تھا تو بالا خانہ مگر اس کی چھت میں پیر دھنس جاتے تھے اور اس کی چھت سے پانی بھی ٹپکتا تھا.ہم نے وہاں لمبے لمبے پچھٹے پچھوا لئے ہوئے تھے تاکہ پیر نہ رھنے.ایک داروغہ عبد الغفور صاحب جو فیروزپور کے رہنے والے تھے وہاں ان کے اپنے مکانات تھے.وہ گو احمد کی تو نہ تھے مگر انہیں احمدیت سے بغض بھی نہ تھا.انہوں نے اصرار کیا کہ آپ ہمارے گھر چلے آئیں مگر میں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم اس شرط پر جاتے ہیں کہ ہمارا کھانے کا انتظام اور باورچی وغیرہ اپنا ہو گا اور ہم آپ کو اور کوئی تکلیف نہیں ہونے دیں گے.انہوں نے مان لیا اور ہم ان کے ہاں چلے گئے.کھانے کا انتظام ہم نے اپنا کر لیا تھا مگر وہ داروغہ صاحب صبح شام کچھ نہ کچھ اپنے گھر سے پکوا کر ضرور لے آیا کرتے تھے.کچھ مسلمان جو پادری کے اعتراضات سے تنگ آچکے تھے میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ اس پادری سے بات چیت کریں.مجھے اس وقت کچھ زیادہ واقفیت تو نہ تھی مگر تو کلا علی اللہ میں نے ان کی بات مان لی اور پادری صاحب کے گھر چلے گئے.بحث شروع ہوئی.میں نے کہا پہلے تثلیث پر بحث ہو گی اور پھر کفارہ پر.مگر پادری زیادہ تر کفارہ پر بحث کرنے پر زور دیتا تھا.آخر وہ میرے اصرار پر مان گیا کہ تثلیث پر بحث ہو.میں نے پادری سے سوال کیا کہ یہ سامنے میز پر جو پنسل پڑی ہے اگر آپ اس کو اٹھانا چاہیں اور اپنے بہرہ اور خانساماں کو آواز میں دیں کہ او بہرہ اور خانساماں ادھر آئیو اور جب وہ آجائیں اور ادھر آپ ہم کو بھی بلالیں اور جب ہم سب جمع ہو جائیں اور پوچھیں کہ کیا کام ہے تو آپ کہیں کہ یہ پنسل اٹھا دو تو ہم سب آپ کے متعلق کیا خیال کریں گے.پادری صاحب کہنے لگے اگر میں ایسا کہوں تو یقینا پاگل سمجھا جاؤں گا.میں نے کہا اب آپ مجھے بتائیے کہ کیا دنیا کو خدا باپ نے پیدا کیا ہے یا خدا بیٹے نے پیدا کیا ہے یا خدا روح القدس نے پیدا کیا ہے.انہوں نے کہا سب نے مل کر پیدا کیا ہے.میں نے کہا کیا اس کے پیدا کرنے کی خدا روح القدس میں طاقت تھی یا نہیں ؟ یا خدا باپ میں یہ طاقت تھی یا نہیں؟ پادری صاحب نے کہا ان دونوں میں بھی تھی کہ وہ اکیلے پیدا کر سکتے.میں نے کہا پھر کیا وجہ ہے کہ وہی کام جس کو خدا باپ آسانی سے کر سکتا ہے.خدا روح القدس آسانی سے کر سکتا ہے.خدا بیٹا آسانی سے کر سکتا ہے ، اسے تینوں نے مل کر کیا.یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے فنسل اٹھانے کے لئے کئی آدمی جمع ہو جائیں.اس پر وہ پادری شرمندہ سا ہو گیا اور کہنے لگا یہ تثلیث کا مسئلہ کچھ.
498 اس قسم کا ہے کہ اس کی سمجھ آنی مشکل ہے.ہماری اصل بنیاد تو کفارہ پر ہے.جب کفارہ پر بات چیت ہوئی تو اس میں بھی خدا کے فضل سے ہمیں کامیابی ہوئی.غرض کسی کام کو کرتے وقت اس پر اس کے اندازہ سے زیادہ زور لگایا جائے تو بھی اور کم زور لگایا جائے تو بھی درست نہیں ہو تا.اگر کوئی شخص قطب مینار کو اپنے کندھے کے زور سے ہلانا چاہے تو وہ پاگل گردانا جائے گا یا اگر کوئی شخص ہمالیہ پہاڑ کو اپنے بوٹ سے ٹھڈے مار رہا ہوں اور اس سے کوئی پوچھے کہ کیا کر رہے ہو تو وہ کہہ دے ہمالیہ کو گرا رہا ہوں تو وہ پاگل ہو گا اور کوئی اس کو عقل مند نہیں کہہ سکے گا.اللہ تعالی نے انسان کے اندرجتنے جو اس رکھے ہیں ان میں ایک حس موازنہ کی بھی ہے اور اس جس کے ذریعہ ہم کام کے مطابق طاقت کا اندازہ لگاتے ہیں.حواس خمسہ تو پرانے زمانہ کی اصطلاح ہے جو ابھی تک چلی آ رہی ہے حالانکہ ایک شخص جس کی آنکھیں ناک کان ہاتھ اور زبان بالکل ٹھیک ہوں وہ پاگل بھی ہو جاتا ہے اور لوگ کہتے ہیں اس کے حواس بجا نہیں حالانکہ اس کی آنکھیں سلامت ہوتی ہیں.کان ٹھیک ہوتے ہیں.ہاتھ کام کرتے ہیں.زبان چلتی ہے اور ناک درست ہوتی ہے.اس وقت اس کو جو پاگل کہا جاتا ہے تو اس کی صرف یہ وجہ ہوتی ہے کہ اس کے موازنہ کی حس ماری گئی ہے اور وہ اپنے حواس خمسہ کے سلامت ہونے پر بھی پاگل کہلاتا ہے.اب جب کہ علم النفس کے ماہرین نے ترقی کی تو انہوں نے بتایا کہ جو اس پانچ نہیں بلکہ زیادہ ہیں.ایک حس یہ بھی ہے کہ گرم پانی میں ہاتھ ڈالو تو گرم معلوم ہو اور سرد میں ڈالو تو سرد معلوم ہو.یہ گرمی اور سردی کی حس ہے.اس کے علاوہ ایک حس موازنے کی ہوتی ہے یعنی بعض دفعہ کوئی چیز اندھیرے میں پڑی ہوتی ہے تو ممکن ہے انسان اس کو پنسیری سمجھ لے مگر وہ دراصل گوبر ہو.یہ غلطی کیوں ہوئی.اندھیرے کی وجہ سے آنکھوں نے نہیں بتایا کہ یہ چیز کتنی وزن دار ہے.پس حس موازنہ سے انسان کام کے مطابق طاقت کا اندازہ کر سکتا ہے.مثلا ایک کیلا زمین میں گڑا ہو تو وہ پہلی دفعہ زور لگانے سے نہیں نکل سکتا.اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کے زمین میں گڑے ہونے سے اس کا موازنہ نہیں ہو سکتا.اس لئے وہ پہلی دفعہ طاقت لگانے سے نہیں نکلے گا.دوسری یا تیسری دفعہ نکل آئے گا کیونکہ موازنہ کر چکنے کے بعد تمہارے دماغ نے حکم دیا ہو گا کہ اگر اتنی طاقت لگاؤ گے تو نکال سکو گے.پس چیزوں کے موازنہ کی حس میں خرابی ہو جانے سے انسان پاگل ہو جاتا ہے یعنی جب وہ وقت کا اندازہ نہ کر سکے یا چیزوں کے وزن کا اندازہ نہ کر سکے یا انسان کی حقیقت کا اندازہ نہ کر سکے یا کڑوی میٹھی چیز میں امتیاز نہ کر سکے.باقی حواس خمسہ جو عوام میں مشہور ہیں ان میں کوئی خرابی واقع ہونے سے پاگل نہیں ہو سکتا.مثلا کسی شخص کا ہاتھ کٹ جائے تو وہ پاگل نہیں ہو گا.کسی کی آنکھ جاتی رہے تو اسے کوئی پاگل نہ کہے گا یا اس کی ناک یا زبان کٹ جائے تو کوئی پاگل نہ کہے گا.پاگل ایسے شخص کو کہا جائے گا جو فرض کرو ایک بڑے بلند مینار کو انگلی لگا رہا ہوں اور کسی کے سوال کرنے پر وہ کے کہ میں اس مینار کو گرانا چاہتا ہوں یا ایک بڑے تناور درخت کو انگوٹھے سے دبا رہا ہو اور کے کہ میں اس کو گرانا چاہتا ہوں.پس جس شخص کی موازنہ کی جس میں خرابی ہوا سے ہی لوگ حواس باختہ کہا کرتے ہیں.مجھے ایک دفعہ ایک ڈاکٹر صاحب ریل کے سفر میں مل گئے.انہوں نے ذکر کیا کہ میں بارہ سال سے پاگل خانے
499 رہتا ہوں.مجھے ڈر آتا ہے کہ میں بھی کہیں پاگل نہ ہو جاؤں.آپ میرے لئے دعا کریں.پھر وہ کہنے لگے آپ کبھی لاہور آئیں تو آپ کو پاگل خانہ کی سیر کراؤں گا مگر ان کی باتوں سے مجھے تعجب ہوا کہ انہیں کیوں اس قسم کا وہم ہو رہا ہے کہ پاگل خانے کا اثر ان پر نہ ہو جائے.ہم ان ڈاکٹر صاحب کے ساتھ پاگل خانہ دیکھنے گئے.انہوں نے مختلف پاگل ہمیں دکھائے.ایک پاگل ان میں میر محمد اسمعیل صاحب کے ہم جماعت تھے.ہمارے ساتھ اس وقت چراغ چپڑاسی تھا جسے وہ جانتا تھا.اس نے چراغ کو پہچان لیا اور کہا سناؤ چراغ کیا حال ہے.ہمارے لئے کیا لائے.اسمعیل (ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب) کہاں ہیں.چراغ تو اس کی باتیں سن کر گھبرا گیا مگر ڈاکٹر صاحب نے اس پاگل سے کہا میر صاحب ابھی آتے ہیں.تمہارے لئے تحفے لائیں گے.ایک اور پاگل انہوں نے دکھایا جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا اور ڈبل ایم.اے تھا.ڈاکٹر صاحب نے اس کے متعلق بتایا کہ یہ بالکل خاموش بیٹھا رہتا ہے اور کھاتا پیتا کچھ نہیں.اس کی ناک میں نلکی لگا کر ہم اس کو دودھ پلاتے ہیں.پھر ہم آگے گئے.باورچی خانہ دیکھا.وہاں بھی پاگل ہی کام کر رہے تھے.ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ باورچی خانے میں یہ لوگ خود ہی کام کرتے ہیں.جن کی حالت ذرا اچھی ہوتی ہے ان کو یہاں لگا دیا جاتا ہے.ہم نے دیکھا کہ دو پا گل بینگن چیر رہے تھے.وہ بینگن پر کھرپ مار کر آدھا ادھر پھینک دیتے تھے اور آدھا رکھ لیتے تھے.ایک نمک پیس رہا تھا.وہ پیتا جاتا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد مٹھی میں نمک بھر کر پچھکے مارتا جاتا تھا اور کہتا تھا خدا جانے پسا ہے یا نہیں.اسی طرح ایک مرچیں کوٹنے والے کو دیکھا کہ وہ کونتا جائے اور ساتھ ہی منہ میں ڈال کر کے خدا جانے باریک بھی ہوئی ہے یا نہیں.اس کے بعد کچھ خطرناک پاگل قیدی دیکھے جو عجیب عجیب قسموں کے تھے.ایک نیلی سی دھوتی باندھے آیا اور کہنے لگا میں مہدی ہوں.ایک اور شخص کہتا تھا میں ایڈورڈ ہوں.ان لوگوں کے اندر صرف موازنہ کی غلطی تھی.اپنے آپ کو ایڈورڈ کہنے والا یہ اندازہ نہ لگا سکتا تھا کہ ایڈورڈ کتنا بڑا ہوتا ہے.اگر وہ اندازہ لگا سکتا تو وہ اپنے آپ کو ایڈورڈ نہ کہتا.اسی طرح مہدی کہنے والا بھی اندازہ نہ کر سکتا تھا.ہم آگے گئے تو وہاں ایک امیر پاگل کو دیکھا.وہ سارا دن شطرنج کھیلتا رہتا تھا.اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ایک شخص دکھایا اور کہا یہ پٹیالہ کے علاقہ کے بڑے بزرگ آدمی ہیں اور ان سے کہا کہ یہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی (علیہ الصلوۃ والسلام) کے بیٹے ہیں.اس پاگل نے جو اس وقت پاگل معلوم نہ ہو تا تھا میرے ساتھ بات شروع کر دی اور کہا میں نے براہین احمدیہ پڑھی ہے.میں نے سرمہ چشم آریہ اور دوسری بہت سی کتابیں مرزا صاحب (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پڑھی ہیں.انہوں نے خوب آریوں کا مقابلہ کیا.اسی طرح وہ بڑی مدلل باتیں کرتا جائے.میں نے اس سے کہا آپ یہاں کیسے آگئے.اس نے کہا بات تو دراصل یہ ہے کہ مجھے شرارت سے یہاں بھیج دیا گیا ہے.میری بہت سی جائیداد تھی جس پر میرا بھائی قبضہ کرنا چاہتا تھا.اسی کی یہ سب شرارت ہے ورنہ (ڈاکٹر صاحب کی طرف اشارہ کر کے) ان سے پوچھو میں ہر گز پاگل نہیں ہوں.مجھے خود اس کی باتیں سن کر تعجب ہوا کہ اسے کیوں پاگل خانے میں رکھا گیا ہے.ہم آگے چلے تو وہ بھی ہمارے ساتھ چل پڑا اور تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا باقی سب باتیں تو ٹھیک ہیں مگر مرزا صاحب سے ایک غلطی
500 ہو گئی.میں نے پوچھا کیا غلطی؟ وہ کہنے لگے دیکھو یا عیسی انی متوفیک....الخ کے مرزا صاحب ہمیشہ یہی معنے کرتے رہے کہ اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا حالانکہ اس کا مطلب صاف ہے کہ اے عیسیٰ میں تیرے چہلم کی روٹی پکاؤں گا.اب میں نے سمجھا کہ اس کی حالت دگرگوں ہو رہی ہے.اتنے میں ایک اور پاگل دوڑتا ہوا آیا اور پٹیالہ والے سے مخاطب ہو کر بڑے جوش کے ساتھ کہنے لگا الاؤ میرے چھ پیسے نکالو میرے چھ پیسے.اس نے کہا میرے پاس نہیں ہیں.مگر وہ مانگنے والا اسی جوش میں چھ پیسوں کا مطالبہ کرتا جائے.میں نے اپنی جیب سے ایک دونی نکال کر اس کو دی.اس کے بعد پٹیالہ والے مولوی صاحب کا رنگ متغیر ہونا شروع ہوا اور وہ جوش میں آکر کہنے لگے یہی محمود غزنوی ہیں جنہوں نے بٹھنڈ ا فتح کیا تھا.اب مجھ پر عقدہ کھلا کہ ڈاکٹر صاحب کا وہم واقعی کسی حد تک درست ہے اور ایسے لوگوں میں اتنا عرصہ رہنے سے اگر خود بھی پاگل ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے تو کوئی عجیب بات نہیں.حقیقت یہ ہے کہ اندازے کی غلطیوں کا نام ہی جنون ہے.پس میں نوجوانوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا تمہاری زندگیاں ٹھیک اسی تمہارے ذمہ کتنا بڑا کام ہے طرح کاموں میں لگی ہوئی ہیں جیسا کہ تمہارا ادعا ہے.تم کہتے ہو ہم ساری دنیا میں اسلام کا پرچم لہرائیں گے مگر تمہارا عملی پہلو اس کے مطابق نظر نہیں آتا.تم میں سے بعض ذکر الہی میں کمزور ہیں.بعض نمازوں میں سستی کرتے ہیں.دینی مطالعہ کی پرواہ نہیں کرتے.لغو باتیں کرتے رہتے ہیں.تمہارے ذے کتنا بڑا کام لگایا گیا ہے مگر تمہیں اس کا احساس تک بھی نہیں ہے اور تمہیں اپنے کام کی طرف پوری توجہ نہیں ہے.لوگوں نے آہستہ آہستہ ہر قسم کے دنیوی علوم پر قبضہ کر لیا ہے مگر تمہاری آنکھ ہی نہیں کھلتی.آج میں تمہیں واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ خالص مذہب دنیا میں کبھی ہر قسم کے لوگوں میں تغیر پیدا نہیں کر سکا یعنی یہ کبھی نہیں ہوا کہ سب لوگ تبلیغ سے ہی مان گئے ہوں.آخر ایک وقت ضرور ایسا آتا ہے جب کہ دوسرے امور میں بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے.پس جب تک تم مخالف کے مقابلہ میں ہر قسم کے دنیوی علوم نہیں سیکھو گے اور ان علوم میں امتیازی مقام حاصل نہیں کرو گے اس وقت تک وہ تمہاری فوقیت کا اقرار نہیں کرے گا.تمہیں چاہئے کہ تم دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم کے بھی ماہر ہو اور ہر فن میں دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو.ایک دفعہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کسی مباحثہ میں گئے.وہاں لوگوں نے تمسخر اور استہزاء شروع کر دیا.آخر مولوی صاحب کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا ہنسی اور ٹھٹھے کی کیا ضرورت ہے.تمہارا مولوی اگر قرآن کے علم میں مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو کر لے.حدیث میں مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو کر لے.فقہ میں مقابلہ کرنا چاہے تو کر لے.عربی فارسی اور اردو کی تقریر میں مقابلہ کرنا چاہے تو کر لے اور اگر شعر اور ڈھولے بولنا چاہے تو بولے اور اگر اسے اپنی طاقت پر ناز ہے تو میرے ساتھ بینی پکڑلے.اس پر وہ سب خاموش ہو گئے.پس دنیا میں ہر فن کے مقابلہ کی مہارت ہونی چاہئے.جب تک تم میں ہر قسم کے فنون کے ماہر نہ ہوں تم دوسروں کا کس طرح مقابلہ کر سکو گے.پس اپنی ہمتوں کو بلند کرو اور اگر ایک منٹ بھی
501 تمہار ا ضائع ہو جائے تو سمجھو کہ موت آگئی.ہر روز رات کو سونے سے پیشتر سوچو کہ دن میں تم نے کتنا کام کیا.اگر تم روزانہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرو گے تو تمہارے اندر احساس پیدا ہو گا اور اس وقت تمہارا وجود سلسلہ کے لئے مفید ہو گا ورنہ جیسے ہمالیہ پہاڑ کو بوٹ سے ٹھنڈے لگانے والا پاگل ہے ، تم بھی پاگل سمجھے جاؤ گے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ تمہارا کام ہمالیہ پہاڑ سے بھی بڑا ہے.اگر تم پاگل نہیں کہلوانا چاہتے تو محنت اور قربانی کی عادت والو".( فرمودہ ۷ اد سمبر ۱۹۴۶ء.مطبوعہ الفضل ۶ امئی ۱۹۶۱ء)
503 تبلیغ اسلام کیلئے اپنی زندگیاں وقف کرو نوجوانوں کو وقف زندگی کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت اسلام کی ضرورت کو پورا کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں ہم نے ایسی عمارت بنانی ہے جو دنیا کے ذہنوں اور خیالات کو بدل ڈالے کیا ایسی عمارت بغیر عظیم الشان قربانیوں کے تیار ہو سکتی ہے ہ کوئی قربانی بھی بے کار نہیں ہوتی اصل قربانی وہی ہوتی ہے جو ابتدائی ایام میں کی جائے فرموده ۱۳ فروری ۱۹۴۷ء) |
504 غیر ممالک میں تبلیغ اسلام : فرمایا : - "جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے اب کثرت سے ہمارے نوجوان غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے جارہے ہیں.جب میں نے شروع میں وقف زندگی کی تحریک کی تھی تو اس وقت چار پانچ سو آدمیوں نے اپنے نام پیش کئے تھے لیکن سب کے سب ایسے نہیں ہوتے کہ ان سے بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا کام لیا جا سکے.بعض ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے تقویٰ اور اخلاص کی وجہ سے نام تو پیش کر دیتے ہیں لیکن ان کی عمر اتنی ہو چکی ہوتی ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے وہ کوئی محنت کا کام نہیں کر سکتے اور ایسی کمزوری کی حالت میں ان کو باہر کام کے لئے نہیں بھجوایا جا سکتا.بعض ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ایسے کاموں پر لگے ہوئے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی جگہ پر دینی ضرورتوں کو پورا کر رہے ہوتے ہیں کہ اگر ان کو دوسری جگہ کام پر لگایا جائے تو سلسلہ کے کاموں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تا ہے اور جو کام ہم ان سے لینا چاہتے ہیں وہ ان سے کم علم اور کم تجربہ والا بھی کر سکتا ہے اس لئے ان کو ان کی جگہ سے ہلانا عقل کے خلاف ہوتا ہے.وہ اپنی حیثیت اور تجربہ کے لحاظ سے اس جگہ رہتے ہوئے زیادہ قربانی کر رہے ہوتے ہیں اور جو کام ہم ان سے لینا چاہتے ہیں وہ ایک عام آدمی اسی یا نوے روپے لے کر کر سکتا ہے اور ایسا شخص جو دواڑھائی ہزار روپیہ ماہوار لیتا ہے وہ اتنا چندہ بھی دے دیتا ہے کہ اس سے ایک اور آدمی رکھا جا سکتا ہے اور پھر وہ اپنی جگہ سلسلہ کی ضرورتوں کے مطابق اہم کام کر رہا ہوتا ہے.پھر بعض واقف زندگی ایسے ہیں کہ ان میں وقف کی اہلیت ہی نہیں.ہو سکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسے نہ ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داری ہم پر ڈالی ہے کہ ہم عقل سے کام لیں، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں وقف کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی قابلیت نہیں اور بعض ایسے ہیں کہ جنہوں نے جوش میں آکر اپنے آپ کو وقف کر دیا لیکن در حقیقت ان میں قربانی کا مادہ نہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ان پر کوئی مصیبت آئے گی تو ان کا قدم پھسل جائیگا اور وہ خدا تعالیٰ کے حضور گنہگار بنیں گے.پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی تعلیمی حالت اچھی نہیں اور ہمیں عموماً تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت پیش آتی ہے.گو کبھی کبھار ان پڑھ لوگوں کے لئے بھی موقعہ نکل آتا ہے لیکن فی الحال تحریک جدید کے کام ایسے ہیں جن میں اکثر پڑھے لکھے آدمیوں کی ضرورت ہے اور کچھ ایسے ہیں جن کی عمر ابھی چھوٹی ہے اور وہ پرائمری یا مڈل میں پڑھ رہے ہیں اور ہمیں ضرورت ہے مولوی فاضل یا گر یجوائیوں کی اس لحاظ سے فی الحال ہمارے کام نہیں آسکتے.ان سب قسموں کے آدمیوں کو نکال کر ہمارے پاس کل سو ڈیڑھ سو آدمی ایسے ہیں جو ہمارے کام آسکتے ہیں.ان میں سے سو کے قریب تو کام پر لگ چکے ہیں اور کچھ باقی ہیں وہ بھی عنقریب کام پر لگ جائیں گے.چونکہ پہلے ہمارے پاس کافی لوگوں کے نام جمع ہو گئے تھے اس لئے میں نے وقف کرنے کی تحریک چھوڑ دی تھی.میں سمجھتا تھا کہ ان کے کام پر لگنے تک ہمارے اور طالب علم ان کی جگہ آجائیں گے لیکن پچھلے سال جتنے آدمی ہمارے
505 باہر گئے ہیں اور دوسرے کاموں پر لگے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ جو آدمی ہمارے پاس ہیں وہ بھی بہت جلد ختم ہو جائیں گے.اس لئے مجھے یہ ضرورت محسوس ہوئی ہے کہ میں پھر وقف زندگی کی تحریک جماعت کے سامنے پیش کروں.وقف زندگی کی تحریک : میں نے جنگ سے واپس آنے والے نوجوانوں کو یہ تحریک کی تھی کہ وہ اپنی زندگیاں وقف کریں اور کوئی وقف نمبر ایک میں آجائے اور کوئی وقف نمبر ۲ میں آجائے.پہلے انہوں نے انگریزوں کے مفاد کے لئے یا اپنی قوم اور ملک کے مفاد کے لئے اپنی جان پیش کی تھی.اب کیا وجہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اور اسلام کی خاطر اپنی جانیں پیش نہیں کر سکتے.یہ قربانی تو اس قربانی سے زیادہ شاندار ہے.اس طرح ان کا دین بھی اچھا ہو جائے گا اور دنیا بھی اچھی ہو جائے گی.جب وہ دین کی خدمت کریں گے تو خود بخود ان کی دینی حالت اچھی ہو جائے گی اور دنیا اس طرح اچھی ہو جائے گی کہ انہیں جماعت کی طرف سے بھی گذارہ ملتار ہے گا اور وہ قسم قسم کے تفکرات سے نجات حاصل کر کے یک سوئی کے ساتھ خدمت کرتے رہیں گے.میری اس تحریک پر ایک کافی تعداد ایسے لوگوں کی نکلی ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کر دی ہیں اور ہمیں یہ تجربہ ہوا ہے کہ فوجی لوگ عام لوگوں کی نسبت زیادہ بہتر ہوتے ہیں.ان کو مختلف علاقوں میں جانے کا موقعہ ملتا ہے اور اس لحاظ سے ان کا علم بھی دوسرے لوگوں سے زیادہ وسیع ہوتا ہے اور وہ طاقت اور ہمت کے کام سے گھبراتے نہیں کیونکہ جو شخص سپاہی بھرتی ہوتا ہے اس کو یہ علم ہوتا ہے کہ میں نے جان دینی ہے اور یہ بات ہر وقت اس کے مد نظر رہتی ہے کہ آج نہیں تو کل اس کی باری آجائے گی.یہ خیال ان کے ہمت اور حوصلہ کو بڑھادیتا ہے اور ان کو نڈر اور دلیر بنا دیتا ہے.پھر غیر ممالک کے طرز تمدن سے وہ واقف ہو جاتے ہیں.کسی نے بر ماد یکھا ہوتا ہے.کسی نے ملایا دیکھا ہوتا ہے.کسی نے جاپان دیکھا ہوتا ہے.کسی نے چین دیکھا ہوتا ہے.کسی نے انڈو نیشیا دیکھا ہوتا ہے.کسی نے آسٹر یلیاد یکھا ہوتا ہے.کسی نے یورپ کے بعض حصے دیکھے ہوتے ہیں.کسی نے اٹلی اور یونان دیکھا ہو تا ہے.کسی نے شمالی افریقہ کے بعض حصے دیکھے ہوتے ہیں.کسی نے شام مصر اور فلسطین دیکھا ہوتا ہے.ان کے دیکھنے سے ان کی روح میں تازگی اور بالیدگی پیدا ہوتی ہے اور وہ زیادہ سمجھنے اور سوچنے کے قابل ہو جاتے ہیں.اس لئے یہ لوگ ہمارے تجربے کے مطابق زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں.ابھی ہزاروں ہزار نوجوان باقی ہیں جنہوں نے اس طرف توجہ نہیں کی.ان کو بھی توجہ کرنی چاہئے اور دوسرے دوستوں کو بھی توجہ دلانی چاہئے.گو فوج میں اکثر حصہ ان پڑھوں کا ہو تا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے اکثر نوجوان پڑھے لکھے ہیں.ایسے لوگ اگر فارغ ہونے کے بعد اپنی زندگی دین کے لئے وقف کر دیں تو بہت مفید وجود ثابت ہو سکتے ہیں.بالخصوص
506 تجارت میں یہ لوگ بہت زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں کیونکہ وہ مختلف علاقوں میں رہتے ہیں.مختلف لوگوں سے ان کو واسطہ پڑتا ہے.مختلف قسم کی زبانیں سیکھ جاتے ہیں.مختلف قسم کے لباس پہننے اور دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے.مختلف قسم کے لوگوں سے سودا خریدنے کا موقعہ ملتا ہے.مختلف شکلوں سے آشنائی ہوتی ہے اور انہیں اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس قسم کی شکل کا آدمی خوش اخلاق ہوتا ہے اور اس قسم کی شکل کا آدمی بد اخلاق ہو تا ہے لیکن ایک گاؤں میں رہنے والا آدمی ایک ہی تہذیب کے لوگوں سے ملتا جلتا ہے.ایک جیسے دکانداروں سے سودا خریدتا ہے اور ایک قسم کا لباس دیکھتا ہے اور ایک قسم کی زبان روزانہ سنتا اور بولتا ہے اس لئے اس کا تجربہ زیادہ وسیع نہیں ہو تا لیکن ایک تاجر کو مختلف قسم کی زبانیں بولنی پڑتی ہیں اور چھاؤنیوں میں تو خصو صاد کانداروں کی زبان عجیب قسم کی ہو جاتی ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی گورا نیا نیا ہندوستان آیا.اُس کو کسی نے بتادیا کہ ہندوستانی دکاندار جھوٹے ہوتے ہیں اور وہ جو قیمت بتاتے ہیں اس سے کچھ کم کر کے بھی لے لیتے ہیں اس لئے دکاندار کو قیمت کم کرنے کے لئے ضرور کہنا چاہئے.چنانچہ وہ گورا کوئی چیز خریدنے کے لئے دوکان پر گیا اور دکاندار سے وہ چیز لے کر اس سے قیمت پوچھی.دکاندار نے اس کی قیمت ایک روپیہ بتائی.اس نے کہنا شروع کیا.اچھا دو آنے لے لو.اس طرح آہستہ آہستہ دود و آنے بڑھانے شروع کئے.دوکاندار کو غصہ آیا.وہ اس گورے کو کہنے لگا.صاحب ! نیکنی ہے تو ٹیک.نہیں تو اپنا رستہ ٹیک.یعنی صاحب اگر آپ نے لینی ہے تو لے لیں، نہیں تو اپناراستہ پکڑیں.گویا اس نے (Take) ٹیک انگریزی اور باقی پنجابی ملا کر اپنا مفہوم ادا کر لیا.تو فوجیوں کو یہ عادت ہو جاتی ہے کہ زبان آتی ہو یا نہ آتی ہو وہ مختلف زبانیں ملا کر بھی اپنا مقصد پورا کر لیتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ ہم صحیح زبان بول رہے ہیں یا غلط بول رہے ہیں.پس ایسے لوگ اگر سلسلہ کی خدمت کے لئے آگے آجائیں تو مفید کام کر سکتے ہیں.جو لوگ اس وقت تک ہم نے کام پر لگائے ہیں وہ کامیاب ثابت ہوئے ہیں.گوا بھی ان کی کامیابی ایسی نہیں کہ جماعت کو نظر آسکے لیکن کہتے ہیں ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات.امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کچھ دیر کے بعد ان کی کامیابی جماعت کے سامنے آجائے گی.اسی طرح ہمیں مولوی فاضلوں کی بھی ضرورت ہے اور گوان کا کثیر حصہ ہمارے پاس آچکا ہے لیکن ہر بار جب تحریک کی جاتی ہے تو کچھ نہ کچھ لوگ نکل ہی آتے ہیں.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پہلی دفعہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تحریک ہمارے لئے نہیں دوسروں کے لئے ہے.پھر جب دوسری تیسری دفعہ تحریک ان کے سامنے پیش کی جاتی ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور ہم پر بھی یہ فرض ہے کہ ہم اس میں حصہ لیں.اس طرح امید ہے کہ کچھ اور آدمی بھی ہمیں مل جائیں گے.لیکن ہماری ضرورت ان سے پوری نہیں ہو سکتی.ہمیں تو ضرورت ہے کہ ساٹھ ستر یا سو آدمی ہر وقت ہمارے پاس تیار رہے.تاکہ ہم فوری ضرورتیں اس سے پوری کرتے چلے جائیں.ان حالات کو دیکھتے ہوئے آج پھر میں وقف زندگی کی عام تحریک کرتا ہوں.باہر سے کچھ دوست مہمان آئے ہوئے
507 ہیں.وہ بھی میری اس تحریک کو اپنے ہاں جا کر بیان کریں اور الفضل میں بھی یہ تقریر چھپ جائے گی.جو لوگ پہلے اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکے وہ اب آگے آئیں اور اسلام کی ضرورت کو پورا کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے بچی کچھی چیز سے ہماری ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتیں.جو کام ہم نے کرنا ہے اس کے لئے سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمی بھی تھوڑے ہیں اور ہمیں اسلام کی اشاعت کے لئے انہیں اسی طرح قربان کرنا پڑے گا جس طرح دانے بھوننے والا بھڑ، بھو نجا اپنی بھٹی میں پتے ڈالتا ہے.جہاں آجکل محاسب کا دفتر ہے یہاں پہلے ایک بھڑ بھونجے کی بھٹی ہوتی تھی.کبھی وہ خود دانے بھونتا تھا اور کبھی اس کی عورت دانے بھونتی تھی.میں نے دیکھا ہے کہ وہ بھڑ، بھو نجایا بھڑ بھو نجن دن بھر پتے جمع کرتے رہتے تھے اور پتوں کا ایک بہت بڑاڈھیر تیار کر لیتے تھے اور پھر نہایت بے تکلفی سے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد بھٹی میں پتے ڈالتے جاتے تھے.میں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو میں نے سمجھا کہ اس مثال سے کہ جس طرح تنور میں ایندھن ڈالا جاتا ہے یہ مثال زیادہ اچھی ہے کہ جس طرح بھڑ، بھونجا اپنی بھٹی میں پتے ڈالتا ہے.چونکہ پتوں کی گرمی کم ہوتی ہے اور جلدی جل جاتے ہیں اس لئے بار باران کے ڈالنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے.پس جس طرح بھڑ بھو نجا اپنی بھٹی میں پتے ڈالتا ہے اسی طرح ہمیں بھی اپنے آدمی دین کی بھٹی میں ڈالنے ہو نگے تب کہیں اسلام کامیاب ہو گا.شاہجہان کی بیوی نے مرنے سے پہلے ایک خواب دیکھا تھا جو اس نے شاہجہان کو سنادیا اور اس سے وعدہ لیا کہ مجھے ایسی جگہ دفن کرنا جو اس خواب کے مطابق ہو چنانچہ اس کی وفات پر بادشاہ نے انجینئروں کو بلایا اور سارا نقشہ ان کے سامنے بیان کیا.انجینئروں نے کہا کہ ہم ایسی عمارت نہیں بنا سکتے اور نہ ہی ایسی عمارت دنیا میں بن سکتی ہے.بادشاہ کو بہت صدمہ ہوا.آخر ایران سے ایک نیا انجنیئر آیا.بادشاہ نے اس سے ذکر کیا کہ میں اس قسم کی عمارت بنوانا چاہتا ہوں.بن سکتی ہے یا نہیں ؟.اس نے کہا ہاں بن سکتی ہے.بادشاہ نے کہا کہ تمام انجیئر وں نے جواب دے دیا ہے.وہ کہتے ہیں ایسی عمارت نہیں بن سکتی.اس نے کہا وہ بھی درست کہتے ہیں اور میں بھی درست کہتا ہوں.آپ مجھے کچھ دیر سوچنے کا موقعہ دیں اور مجھے اس جگہ لے چلیں جہاں آپ یہ عمارت بنوانا چاہتے ہیں.میں وہ جگہ دیکھ کر فیصلہ کر سکوں گا کہ عمارت بن سکے گی یا نہیں.بادشاہ نے اسے بتایا کہ میں دریا کے دوسرے کنارے فلاں جگہ عمارت بنوانا چاہتا ہوں.اس نے بادشاہ کو کہا کہ میں آپ کے ساتھ اس جگہ چلوں گا.آپ کشتی میں دولاکھ روپے کی ہزار ہزار کی تھیلیاں بھی رکھ لیں چنانچہ بادشاہ نے کشتی میں روپے رکھنے کا حکم دے دیا اور بادشاہ اور وہ انجنیئر اور خدام وغیرہ اس کشتی میں بیٹھ کر دوسرے کنارے کی طرف چل پڑے.ابھی کشتی تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ انجیر نے ہزار روپے کی ایک تھیلی اٹھائی اور دریا میں پھینک دی
508 اور کہا باد شاہ سلامت اس طرح روپیہ خرچ ہو گا.بادشاہ نے کہا کچھ پرواہ نہیں پھر چند گز اور کشتی آگے چلی تو اس نے ایک اور تحصیلی اٹھائی اور دریا میں پھینک دی اور کہا بادشاہ سلامت اس طرح روپیہ خرچ ہو گا.بادشاہ نے کہا کچھ پرواہ نہیں.چند قدم اور کشتی آگے گئی تو اس نے تیسری تھیلی اٹھائی اور دریا میں پھینک دی اور کہا.بادشاہ سلامت عمارت بن تو جائے گی لیکن شائد آپ میری بات کو نہیں سمجھے.اس طرح روپیہ خرچ ہو گا.بادشاہ نے کہا کوئی بات نہیں.پھر چند قدم اور کشتی آگے چلی تو اس نے چوتھی تھیلی اٹھائی اور دریا میں پھینک دی اور کہا بادشاہ سلامت شاید میں اپنی بات کو پوری طرح واضح نہیں کر سکا.عمارت تو بن جائے گی لیکن اس طرح روپیہ خرچ ہو گا.بادشاہ نے کہا کوئی بات نہیں.اس طرح ہر دفعہ چند قدم کے بعد وہ انجینیئر ایک تحصیلی دریا میں پھینک دیتا اور کہتا کہ بادشاہ سلامت ! اس طرح روپیہ خرچ ہو گا.یہانتک کہ اس نے دو لاکھ روپیہ دریا میں پھینک دیا.لیکن بادشاہ کے چہرے پر ذرا بھی ملال، کے آثار ظاہر نہ ہوئے.دوسرے کنارے پر پہنچ کر اس نے کہا.بادشاہ سلامت ! اب عمارت ضرور بن جائیگی.بادشاہ نے کہا کہ تم تو سمجھ گئے ہو لیکن دوسرے کیوں نہیں سمجھے.اس نے کہا.بادشاہ سلامت !بات دراصل یہ ہے کہ جس قسم کا آپ نقشہ بتاتے ہیں اس کے لئے کروڑوں روپے کی ضرورت ہے اور انجیر وں نے ایک حد تک اندازہ لگایا کہ بادشاہ استنار و پیہ دے سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں اور اگر اس میں وہ عمارت تیار نہ ہو سکی تو ہمیں بجائے عزت کے ذلت نصیب ہوگی لیکن میں نے آپ کا حوصلہ آزما لیا ہے اور میں سمجھ گیا ہوں کہ مجھے جس قدر روپے کی ضرورت ہو گی، آپ بلا دریغ خرچ کرتے چلے جائیں گے اس لئے مجھے اس عمارت کے بنانے کا حوصلہ ہو گیا ہے چنانچہ اس انجینئیر نے بادشاہ کے منشاء کے مطابق عمارت بنا کر دکھا دی.در حقیقت تاج محل بنانے میں بادشاہ کو جتنی قربانی کرنی پڑی تھی وہ ہماری قربانی کا کروزواں حصہ بھی نہیں.کجا ایک طرف تاج محل کا بنانا اور گجار وحانی لحاظ سے ایک نئی دنیا اور نیا آسمان بنانا.نئی دنیا اور نئے آسمان کے بنانے کے لئے تو ہمیں کروڑوں گئے زیادہ قربانی کی ضرورت ہے.ہم نے ایسی عمارت بنانی ہے جو دنیا کے ذہنوں اور دنیا کے خیالات کو بدل ڈالے.ہم نے ایسی عمارت تیار کرنی ہے جو دنیا کی تہذیب اور دنیا کے تمدن کو بدل ڈالے.ہم نے ایسی عمارت بنانی ہے جو دنیا کے خیالات اور جذبات کو بدل ڈالے.کیا ایسی عمارت بغیر عظیم الشان قربانیوں کے تیار ہو سکتی ہے.ابتداء میں ایک لمبے عرصہ تک قربانیوں کا بظاہر کوئی نتیجہ نظر نہیں آتا اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ میری قربانیاں رائیگاں گئیں.لیکن در حقیقت وہ بے کار نہیں ہوتیں بلکہ با کار ہوتی ہیں اور کچھ عرصے کے بعد وہی قربانیاں بار آور ہو جاتی ہیں.رسول کریم ﷺ نے
509 مکہ میں برابر تیرہ سال تک تبلیغ کی لیکن بہت تھوڑے لوگ آپ پر ایمان لائے.گویا ایک لمبے عرصہ تک آپ کی قربانیاں بے کار نظر آتی رہیں کیونکہ تیرہ سال کے عرصہ میں کل اسی آدمی مسلمان ہوئے.گویا چھ سات آدمی فی سال.بعض روایات میں دو تین سو کے درمیان بھی ان کی تعداد بیان کی گئی ہے.بہر حال تیرہ سال میں دو تین سو آدمی مسلمان ہونا بھی کوئی زیادہ امید افزا چیز نظر نہیں آتی.اگر بارہ سال میں تین سو آدمی سمجھے جائیں تو اس لحاظ سے مزید بارہ سالوں میں تین سو آدمی اور مسلمان ہو سکتے تھے لیکن ہجرت کے بعد جس طرح اسلام نے ترقی کی وہ امید سے لاکھوں گنا بڑھ کر ہے.جو نہی مدینہ والوں نے ہجرت کی دعوت دی لوگوں نے بے تحاشا اسلام قبول کرنا شروع کر دیا اور وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینہ چلے گئے.تاریخوں سے پتہ لگتا ہے کہ صبح کے وقت محلوں کے محلے خالی نظر آتے تھے.لوگ راتوں رات کوچ کر کے نکل جاتے تھے.غرض بظاہر پہلے بارہ سال بے کار نظر آتے تھے لیکن وہ بے کار نہیں تھے بلکہ انہی سالوں کے نتیجہ میں مکہ کے لوگوں کے دلوں میں اسلام نے گھر کیا اور ہجرت کا راستہ کھلنے پر وہ یکدم مسلمان ہو نا شروع ہو گئے.یوں تو اسلام کی سچائی ان پر پہلے ہی ظاہر ہو چکی تھی لیکن وہ ڈر کے مارے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتے تھے.جب ہجرت کا رستہ کھل گیا تو وہ نڈر ہو گئے اور انہوں نے سرعت کے ساتھ اسلام قبول کرنا شروع کر دیا.اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ ابتدائی حالت میں بعض چیزوں کی قربانی بے کار نظر آتی ہے لیکن بعد میں اس کے نتائج ظاہر ہونے پر انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ قربانی بے کار نہیں گئی.دنیا میں اس وقت بعض جزائر ہیں جو کہ مونگے کے جزائر کہلاتے ہیں.مونگا سمندروں میں ایک کیڑا ہوتا ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو سبق دینے کے لئے یہ مادہ پیدا کیا ہے کہ مونگوں کے جھول کے جھول آتے ہیں اور وہ پانی کی تہہ میں گر کر جان دے دیتے ہیں.پھر کچھ اور جھول آتے ہیں اور وہ بھی اسی جگہ جہاں پہلے مونگوں نے جان دی تھی گر کر جان دے دیتے ہیں.ساتھ ! ستر یا سو سال تک وہ اسی طرح مرتے چلے جاتے ہیں اور ان پر مٹی کی تہیں چڑھتی چلی جاتی ہیں.آخر امتداد زمانہ کی وجہ سے وہ مونگے پتھروں وغیرہ کی شکل میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور وہاں ایک جزیرہ بن جاتا ہے.اگر مونگے بھی دماغ رکھتے.اگر مونگوں میں بھی عقل ہوتی.اگر مونگے بھی سوچ سکتے.اگر مونگے بھی قلم سے لکھ سکتے تو ممکن ہے بعض مونگے اپنی قوم کے افراد کو سخت بے وقوف اور احمق گردانتے کہ بغیر فائدہ کے وہ جانیں دیتے چلے جاتے ہیں.لیکن بعد میں جو ان کے پوتے پڑ پوتے یا ان کے پڑپوتوں کے پڑپوتے آتے تو وہ کہتے کہ ہمارے آباؤ اجداد کتنے بے وقوف تھے کہ وہ اپنی قوم کی قربانیوں کو بے کار سمجھتے تھے.ہماری قوم کی قربانیاں بے کار نہیں تھیں بلکہ ان سے نئے نئے ملک آباد ہو رہے تھے اور ہمیں ایک مستقل پوزیشن حاصل ہو رہی تھی.پس کوئی قربانی بھی بے کار نہیں ہوتی.گو ابتداء میں بے کار ہی نظر آئے لیکن بعد میں اس کے عظیم الشان نتائج ضرور ظاہر ہوتے ہیں بلکہ در حقیقت قربانی کے
510 بغیر کوئی تغیر پیدا ہی نہیں ہو سکتا.ہماری جماعت میں سے ہی جب بعض نوجوان اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں تو ان کے والدین اور بعض کی بیویاں کہتی ہیں کہ کیا اچھا ہو تا کہ اگر زندگی وقف کرنے کی بجائے یہ لوگ کوئی اور کام کرتے اور روپیہ سے جماعت کی مدد کرتے رہتے.گویا ان کے نزدیک قربانی صرف چند پیسے دے دینے کا نام ہے حالانکہ پیسہ تو باقی سامانوں اور سفر کے اخراجات وغیرہ کے لئے اور لٹریچر کی اشاعت کے لئے ہو تا ہے.جہاں تک کام کے ذرائع کا سوال ہے انسان بغیر پیسے کے بھی کام چلا لیتا ہے اور پیدل چل کر بھی دنیا کا سفر کر سکتا ہے.اگر کسی نے انگلستان جانا ہو تو وہ خشکی کے رسے فرانس تک پہنچ سکتا ہے اور فرانس سے انگلستان جانے کے لئے درمیان میں ہیں میل کی کھاڑی ہے وہ کسی نہ کسی طرح عبور کی جاسکتی ہے.اگر جہاز پر بھی سفر کیا جائے تو کل دو تین روپے لگیں گے جو ایک دن کی محنت مزدوری سے انسان کما لیتا ہے.اگر کوئی شخص ہندوستان سے پیدل فرانس پہنچنا چاہے تو اس کے لئے خشکی کا رستہ موجود ہے.یہاں سے بلو چستان بلوچستان سے ایران - ایران سے عراق - عراق سے ٹرکی.ٹرکی سے یونان - یونان سے یوگو سلاویہ - یوگو سلاویہ سے آسٹریا آسٹریا سے سوئٹزر لینڈ اور سوئٹزر لینڈ سے فرانس یہ تمام رستہ خشکی کا ہے.ہم تو جلدی پہنچنے اور جلدی پہنچ کر کام شروع کرنے کے لئے مبلغین کو جہازوں پر بھیجتے ہیں ورنہ اگر کسی وقت خدانخواستہ ہمارے پاس روپیہ نہ رہے تو ہم اپنے مبلغین سے کہہ دیں گے کہ وہ پیدل سفر کریں اور اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے چلے جائیں.غرض مقدم انسان ہے، روپیہ مقدم نہیں.روپیہ نہ ہو لیکن آدمی ہوں تو کام چل سکتا ہے لیکن آدمی نہ ہوں اور روپیہ ہو تو کام نہیں چل سکتا کیونکہ آدمی روپے کے قائم مقام ہو سکتے ہیں، روپیہ آدمیوں کے قائمقام نہیں ہو سکتا اور پھر قربانیوں میں سے اصل قربانی وہ ہوتی ہے جو ابتدائی ایام میں کی جاتی ہے.جب دین کو شوکت حاصل ہو جاتی ہے اس وقت کی قربانی انسان کو کوئی خاص مقام نہیں دیتی.قربانی وہی ہوتی ہے جب ناامیدی کے بادل سر پر منڈلا رہے ہوتے ہیں.جب تمام دنیا یہ کہتی ہے کہ یہ کام نہیں ہو سکتا لیکن انسان صرف خدا تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے قربانی کرتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میر اخدا کہتا ہے کہ یہ کام ہو کر رہے گا.دنیا بے شک اس بات کو نہ مانے مگر مجھے یقین ہے کہ یہ کام ہو کر رہے گا.لیکن جب حالات سازگار ہو جائیں اور دنیا بھی یہ کہنا شروع کر دے کہ اب تو واقعہ میں یہ لوگ کامیاب ہو گئے ہیں، اس وقت جو شخص قربانی کرتا ہے وہ بندوں کی زبان پر یقین
511 کرتے ہوئے کرتا ہے.اگر اسے اللہ تعالیٰ کی باتوں پر یقین ہو تا تو وہ پہلے کیوں قربانی نہ کرتا.پس اصل قربانی وہی ہوتی ہے جو ابتدائی ایام میں کی جائے جبکہ حالات مخالف ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو سچا سمجھتے ہوئے انسان اپنا قدم آگے بڑھاتا چلا جائے اور یہ مقام ابتدائی لوگوں کو ہی حاصل ہوتا ہے“.فرموده ۱۳ فروری ۱۹۴۷ء مطبوعه الفضل ۳۰ جون ۱۹۶۱ء)
512 حضرت مصلح موعود کا دردانگیز پیغام پاکستانی احمدیوں کے نام ۲۲ اگست ۱۹۴۷ء کو جبکہ ہندو پاکستان میں فتنہ و فساد کے شعلے بلند ہو رہے تھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے احمدیت کے بنیادی مرکز قادیان سے پاکستانی احمدیوں کے نام ایک درد انگیز پیغام تحریر فرمایا تھا جس کا آخری حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.(مرتب) میں جماعت کو محبت بھر اپیغام بھجواتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.اگر ابھی میرے ساتھ مل کر کام کرنے کا وقت ہو تو آپ کو وفاداری اور دیانتداری سے کام کرنے کی توفیق ملے اور اگر ہمارے تعاون کا وقت ختم ہو چکا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کے قدموں کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھے.سلسلہ کا جھنڈ انچانہ ہو.اسلام کی آواز پست نہ ہو.خدا تعالیٰ کا نام ماند نہ پڑے.قرآن سیکھو اور حدیث سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ اور خود عمل کرو اور دوسروں سے عمل کراؤ.زندگیاں وقف کرنے والے ہمیشہ تم میں سے ہوتے رہیں اور ہر ایک اپنی جائیداد کے وقف کا عہد کرنے والا ہو.خلافت زندہ رہے اور اس کے گرد جان دینے کے لئے مومن آمادہ کھڑا ہو.صداقت تمہار از یور امانت تمہارا احسن تقویٰ تمہار الباس ہو.خدا تعالیٰ تمہارا ہو اور تم اس کے ہو.آمین! میرا یہ پیغام باہر کی جماعتوں کو بھی پہنچا دو اور انہیں اطلاع دو کہ تمہاری محبت میرے دل میں ہندوستان کے احمدیوں سے کم نہیں.تم میری آنکھ کا تارا ہو.میں یقین رکھتا ہوں کہ جلد سے جلد اپنے ملکوں میں احمدیت کا جھنڈا گاڑ کر آپ لوگ دوسرے ملکوں کی طرف توجہ دیں گے اور ہمیشہ خلیفہ وقت کے جو ایک وقت میں ایک ہی ہو سکتا ہے ، فرمانبردار ر ہیں گے اور اس کے حکموں کے مطابق اسلام کی خدمت کریں گے.“ والسلام - خاکسار مرزا محموداحمد (خلیفة المسیح) فرموده ۱۲۲ اگست ۱۹۴۷ء مطبوعہ خالد ستمبر ۱۹۵۷ء)
513 وو بچپن کا تربیتی زاویہ نظر سے اہم پہلو! طفولیت کا زمانہ بہت سے امور میں معافی چاہتا ہے.گو وہ تربیت کا زمانہ १९ ضرور ہوتا ہے.ہم اس زمانہ میں بچے کو تربیت سے آزاد نہیں کر سکتے.وہ لوگ جو بچوں کی غلطی پر یہ کہا کرتے ہیں کہ بچہ ہے جانے دو وہ اول درجہ کے احمق ہوتے ہیں.وہ جانتے ہی نہیں کہ بچپن کا زمانہ ہی سیکھنے کا زمانہ ہوتا ہے.اگر اس عمر میں وہ نہیں سیکھے گا تو بڑی عمر میں اس کے لئے سیکھنا بڑا مشکل ہو جائے گا.در حقیقت اگر ہم غور کریں تو بچپن کا زمانہ سب سے زیادہ سیکھنے کے لئے موزوں ہوتا ہے اور اسی عمر میں اس کی تربیت اسلامی اصول پر کرنی چاہئے.پس گو بچہ بعض اعمال کے لحاظ سے معذور سمجھا جاتا ہے ، سیکھنے کا عمدہ زمانہ اس کی وہی عمر ہے ".( فرموده ۱۹ مارچ ۱۹۴۸ء.مطبوعہ الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۴۸ء)
514 ہماری آئندہ ترقیوں اور کامیابیوں کا تعلق نوجوانوں کے ایثار سے ہے ہماری آخری جنگ کے دن قریب ہیں اور اس میں ہم اس وقت تک فتح کی امید نہیں کرسکتے جب تک ہمارے نوجوان ہم سے زیادہ ایثار کا نمونہ نہ دکھائیں بلکہ ہم تب بھی فتح کی امید نہیں کر سکتے جب تک ان سے اگلی نسل بھی زیادہ ایثار کا نمونہ نہ دکھائے.اگر کسی قوم کی کم از کم بارہ نسلیں حقیقی ایثار کا نمونہ نہیں دکھاتیں تو اس قوم کو حقیقی فتح حاصل نہیں ہو سکتی.ہماری جماعت کے تو ابھی بچپن کے دن ہیں.بڑھاپے کے دن تو ابھی دور ہیں.ہمارے نوجوانوں نے ہی اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے.انہیں چاہئے کہ وہ اخلاص اور ایثار میں ہم سے زیادہ ہوں.علم دین میں ہم سے زیادہ ہوں.عبادت کی رغبت میں ہم سے زیادہ ہوں.جماعت کی آئندہ ترقی کی ذمہ داری ہم پر نہیں، آپ نوجوانوں پر ہے.اس جنگ میں فتح حاصل کرنا آپ کے ذمہ ہے.جب تک آپ ہم سے زیادہ قربانی اور ایثار کا نمونہ نہیں دکھاتے احمدیت کو فتح حاصل نہیں ہو سکتی یا یوں کہو کہ احمدیت کو تو فتح حاصل ہو گی مگر آپ اس سے محروم رہ جائیں گے..پس اپنے اندر تبدیلی پیدا نوجوان قربانی کا وہ معیار پیش کریں جسے دیکھ کر لوگ شرمندہ ہوں کریں.اپنے حوصلوں کو بلند رکھیں اور قربانی اور ایثار کا وہ معیار پیش کریں کہ جسے دیکھ کر پہلے لوگ شرمندہ ہوں.بجائے اس کے کہ وہ کہیں کہ افسوس تم ہماری اچھی نسل نہیں ہو ، وہ یہ کہیں کہ کاش ہم کو بھی ایسی قربانی کی توفیق ملتی.یہ وہ معیار ہے جس کو پورا کرنے سے احمدیت غالب آ سکتی ہے".(خطبه جمعه فرموده ۲۴ ستمبر ۱۹۴۸ء.مطبوعہ الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۴۸ء)
515 اشاء عت اسلام کیلئے کوششوں کی بار آوری کیلئے ہمیں خود اسلامی احکام پر عمل کرنا ہوگا تنقید کی وجوہات اور اس کے فوائد صحیح تلاوت کرنے کی طرف توجہ کی ضرورت ہمارا مقصد رسول کریم ﷺ کی حکومت کا قیام ہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے اسلامی احکام کی فضیلت کا غیر قوموں کو بھی اعتراف ہے قومیں مصیبتوں اور ابتلاؤں کی تلواروں کے سایہ تلے بڑھتی اور ترقی کرتی ہیں اپنے اندر جوش اور سنجیدگی پیدا کریں فرموده ۷ اگست ۱۹۴۸ء )
516 سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ۱۹۴۸ء میں کو ئٹہ تشریف لے گئے توے اگست ۱۹۴۸ء کو مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ نے حضور کے اعزاز میں ایک پارٹی دی جس میں تلاوت و نظم کے بعد حضور کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا گیا اور درخواست کی گئی کہ حضور از راہ کرم خدام الاحمدیہ کو اپنی قیمتی ہدایات سے مستفیض فرمائیں چنانچہ حضور نے اس موقعہ پر ایک نہایت ایمان افروز تقریر فرمائی جو ذیل میں درج کی جاتی ہے.(مرتب) "اچھا کام تعریف کے قابل ہوتا ہے اور برا کام مذمت کے قابل ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی استاد اپنے شاگردوں کا دل بڑھانے کے لئے ان کے تھوڑے اور نامکمل کام کو بھی قابل تعریف ظاہر کرتا ہے اور کبھی وہ ان کے اندر نیا عزم پیدا کرنے کے لئے ان کے اچھے کاموں کو بھی قابل اعتراض اور قابل تنقید قرار دے دیتا ہے جس کی وجہ سے شاگر د اپنے کاموں کی طرف زیادہ توجہ کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.عرفی یا انوری ان دونوں میں سے کسی ایک کے متعلق مجھے ایک واقعہ یاد ہے.وہ ذکر کرتا ہے کہ میں شعر کہا کرتا تھا اور اصلاح کے لئے استاد کے پاس لے جایا کرتا تھا مگر وہ بڑی سختی کے ساتھ ان پر تنقید کیا کرتا تھا اتنی سخت تنقید کہ وہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی.وہ کہتا ہے کہ مجھے اپنے متعلق احساس پیدا ہو گیا تھا کہ میں بڑا اچھا ادیب بن گیا ہوں لیکن میں نے متواتر دیکھا کہ میرا استاد برا بر جرح کرتا چلا جاتا تھا.میں نے یہ خیال کر کے کہ یہ جرح نامناسب ہے اور تعصب پر مبنی ہے ایک دفعہ شرارت کر کے پرانی کاپیوں سے کچھ کاغذ اکھیڑے اور ان کی جلد بنالی اور خط بدل کر کسی سے چند نظمیں ان پر نقل کرالیں اور اپنے استاد کے پاس لے گیا.میں نے کہا مجھے اپنے والد صاحب کی لائبریری میں سے پرانے شاعروں کے کلام کے یہ اجزاء ملے ہیں.انہوں نے وہ نظمیں پڑھنی شروع ہی کی تھیں کہ بے تحاشا تعریف کرنی شروع کردی کہ یہ بڑا اعلیٰ درجہ کا کلام ہے.اس نے بہت ہی عمدہ کہا ہے.وہ کہتا ہے کہ جب میں نے یہ تعریفیں سنیں تو کہا استاد جی بس رہنے دیجئے.میں نے دیکھ لیا ہے کہ آپ بلا وجہ مجھ پر تنقید کرتے رہے ہیں.یہ میرے ہی شعر تھے جو میں پرانے کاغذوں پر لکھ کر لے آیا ہوں اور میں نے یونہی آزمانے کے لئے یہ کہہ دیا تھا کہ یہ پرانی نظمیں ہیں.وہ لکھتا ہے کہ جب میں نے یہ بات کی تو میرے استاد کا چہرہ افسردہ ہو گیا اور اس نے کہا میں تو سمجھتا تھا کہ میں اپنے پیچھے ایک ایسا شاگرد چھوڑ جاؤں گا جس کا فارسی زبان میں کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا مگر آج جو تم نے یہ جرات کی ہے تو اس کی وجہ سے اب تمہاری ترقی ختم ہو گئی ہے.میں : شمنی کی وجہ سے تم پر تنقید نہیں کیا کرتا تھا بلکہ اس لئے تنقید کرتا تھا کہ تائم زیادہ سے زیادہ کوشش کرو اور تمہارے مختفی جو ہر زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوں.اگر میں کہہ دیتا تم اچھے شاعر بن گئے ہو تو تم مزید محنت نہ کرتے.یہ جرح ہی کا نتیجہ ہے کہ تم نے خوب زور لگایا اور محنت سے کام لیا اور اب صاحب کمال بن گئے ہو لیکن اب تمہاری ترقی ختم ہو گئی ہے.وہ لکھتا ہے کہ واقعہ یہی ہے کہ میں نے پھر اس سے زیادہ ترقی نہیں کی.
517 پس تنقید کئی وجوہ سے ہوتی ہے.کبھی کام کرنے والے کی تعریف کی جاتی ہے کہ کم حوصلہ تنقید کی وجوہات انسان ست نہ ہو جائے اور ہمت نہ ہار بیٹھے اور کبھی سخت تنقید کی جاتی ہے تابا حوصلہ آدمی زیادہ سے زیادہ اپنے دماغ پر زور ڈال کر اپنے مخفی جو ہر کو باہر نکالنے کی کوشش کرے.یہ کام بہت ہی مشکل ہے.فطرت کا سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے.جیسے اس استاد نے غلطی کی اور اتنی سخت تنقید کی کہ جس سے شاگر دمایوس ہو گیا اور آخر اس نے دھو کہ دیا جس کی وجہ سے وہ آئندہ ترقی حاصل نہ کر سکا.پس کبھی ایسا ہو تا ہے کہ انسان غلط اندازہ لگاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ فلاں آدمی بہت بلند حوصلہ ہے.اس پر جتنی بھی تنقید کی جائے گی اتنی ہی وہ محنت کرے گا اور اس کے مخفی جو ہر ظاہر ہوں گے لیکن اس کا نتیجہ الٹ نکلتا ہے.وہ کم حو صلہ اور کم ہمت ہو تا ہے اور اس تنقید کی وجہ سے وہ مایوس ہو جاتا ہے اور آئندہ ترقیوں سے محروم ہو جاتا ہے.پھر بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ یہ کم حوصلہ اور کم ہمت ہے.اس کی ہمت و حوصلہ بڑھانے کے لئے وہ اس کی تعریف کر دیتا ہے لیکن وہ کم حوصلہ نہیں ہو تا.اگر وہ اس پر تنقید کر تا تو اس کے مخفی جو ہر ظاہر ہوتے لیکن استاد نے اس کا اندازہ غلط لگایا اور کم حوصلہ سمجھ کر تعریف کردی.اس تعریف کی وجہ سے وہ محنت اور مزید جد وجہد نہیں کرتا اس لئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا اور ان اعلیٰ ترقیات سے محروم ہو جاتا ہے جس کا حصول اس کے لئے ممکن تھا مگر ان خطرات کے درمیان بہر حال ایک تیرا رستہ بھی ہے اور وہ یہ کہ انسان اچھے کام کی تعریف کرے اور برے کام کی مذمت کرے.بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ تھوڑی سی کوشش سے درست ہوتی ہیں اور اگر انہیں نظر انداز کیا جائے تو قومی ترقی رک جاتی ہے.کوئٹہ میں میں پہلی دفعہ آیا ہوں.اگر چہ یہاں کے خدام میں سے بعض نے قادیان میں تعلیم پائی ہے اور بعض کے ماں باپ بھی وہاں رہتے تھے مگر پھر بھی ان کے کاموں پر مجھے تنقید کرنے کا اس طرح موقعہ نہیں ملا جیسے آج ملاتے.میں جب سے یہاں آیا ہوں میں محسوس کرتا ہوں کہ صحیح تلاوت کرنے کی طرف توجہ کی ضرورت یہاں کے خدام علمی حصے کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں.مثلا جس خادم نے تلاوت کی ہے اس نے اس امر کو ملحوظ نہیں رکھا کہ قرآن مجید صحیح طور پر پڑھا جائے.اگر وہ تھوڑی سی اس امر کی کوشش کرتے تو بڑی آسانی کے ساتھ صحیح طور پر تلاوت کر سکتے تھے.میں نے دیکھا کہ انہوں نے بالعموم الف کو فتح کے ساتھ ادا کیا ہے.ان کی تلاوت میں ۵۰ یا ۶۰ فیصد کی الف تھے جو انہوں نے فتح کے ساتھ ادا کئے ہیں حالانکہ الف اور فتح الگ الگ چیزیں ہیں اور ان دونوں میں بہت فرق ہے.اسی طرح انہوں نے مدات کو بالعموم گرا دیا ہے یعنی جہاں دو الف تھے وہاں انہوں نے ایک ہی الف پڑھا ہے.اسی طرح اور باتیں بھی تھیں جن کی وجہ سے تلاوت ناقص ہو گئی.
518 میں اس بات کا قائل نہیں کہ کوئی شخص اس بات میں لگا ر ہے کہ قاری کی طرح وہ قرات کر سکے لیکن جو کام آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اسے کیوں چھوڑا جائے.یہ کوشش کرنا کہ ہم اسے قاری کی طرح ہی ادا کریں درست نہیں کیونکہ اس کی طاقت ہمیں خدا نے نہیں بخشی.میری مرحومہ بیوی ام طاہر بیان کیا کرتی تھیں کہ ان کے والد صاحب کو قرآن مجید پڑھنے پڑھانے کا بڑا شوق تھا.انہوں نے اپنے لڑکوں کو قرآن پڑھانے کے لئے استاد رکھے ہوئے تھے اور لڑکی کو بھی قرآن پڑھنے کے لئے اس کے سپرد کیا ہوا تھا.ام طاہر بتایا کرتی تھیں کہ وہ استاد بہت مارا کرتے تھے اور ہماری انگلیوں میں شاخیں ڈال ڈال کر ان کو دباتے تھے.مارتے تھے.پیٹتے تھے اس لئے کہ ہم ٹھیک طور پر تلفظ کیوں ادا نہیں کرتے.ہم پنجابی لوگوں کا لجہ ہی ایسا ہے کہ ہم عربوں کی طرح عربی الفاظ ادا نہیں کر سکتے.لاہور میں ایک میاں چٹو رہا کرتے تھے.وہ بعد میں چکڑالوی ہو گئے.ان کے پاس ایک عرب آیا اور وہ اس کو لے کر قادیان پہنچے.ان دنوں صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید جو علاقہ خوست کے ایک بہت بڑے بزرگ تھے ، یہاں تک کہ امیر امان اللہ خان کے دادا حبیب اللہ خان کی رسم تاجپوشی بھی انہی سے ادا کروائی گئی تھی، وہ بھی قادیان آئے ہوئے تھے.وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دو تین دفعہ "ض " کا استعمال کیا.آپ کا لجہ اگر چہ درست تھا لیکن لکھنو کے آدمی جیسے اسے ادا کرتے ہیں آپ ویسے ادا نہیں کر سکتے تھے.دو چار دفعہ آپ نے یہ لفظ استعمال کیا تو وہ عرب جو کئی سال سے لکھنو میں رہتا تھا اور اردو بولتا تھا، اس نے کہا آپ کو کس نے مسیح موعود بنایا ہے.آپ کو تو ”ض " بھی صحیح طور پر ادا کرنا نہیں آتا.صاحبزادہ صاحب بڑے عالم تھے اور آپ کو معلوم تھا کہ اس کی کیا حقیقت ہے.وہ غصہ میں آگئے اور اسے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اٹھایا.مولوی عبد الکریم صاحب نے دیکھ لیا.آپ نے اسے چھڑانے کی کوشش کی.آپ چونکہ پٹھان تھے اور طاقتور تھے اور مولوی عبد الکریم صاحب اکیلے اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا دوسرا ہاتھ پکڑ لیا کیونکہ آپ کا خیال تھا کہ آپ اسے مار بیٹھیں گے.اب دیکھو اس عرب نے یہ کیسی لغو حرکت کی.ہر ملک کا الگ الگ لہجہ ہوتا ہے.عرب خود کہتے ہیں کہ ہم ناطِقِینَ بِالصّادِ ہیں ، ہندوستانی اسے ادا نہیں کر سکتے.ہندوستان میں ضاد کو قریب ترین ادا کرنے والوں میں سے ایک میں ہوں لیکن میں بھی یہ نہیں کہتا کہ میں اسے بالکل صحیح ادا کر تا ہوں، قریب ترین ہی ادا کرتا ہوں.ہندوستانی لوگ اسے دوا د یا ضاد پڑھتے ہیں لیکن اس کے مخارج اور ہیں.پس جب خود عرب کہتا ہے کہ ہم ناطقین بالضاد ہیں اور کوئی اسے صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتا تو پھر اعتراض کی بات ہی کیا ہوئی.جر من لوگوں کو لے لو وہ گڑ اور گاڈ کے لفظوں کو ادا نہیں کر سکتے.وہ یا گر کہیں گے یا گوٹھ کہیں گے.پس میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہم ان الفاظ کو ادا کرنے کا اہتمام کریں جن کے ادا کرنے کے ہم قابل نہیں.یہ تو محض وقت کا ضیاع ہے لیکن الف ادا کرنا ہماری طاقت سے باہر نہیں.مد کو ادا کر نا ہماری طاقت سے باہر نہیں.اگر صحیح طور پر کوشش کی جائے تو قرآن کو ہم اپنے لہجہ کے لحاظ سے اچھی طرح ادا کر سکتے ہیں.خصوصاً جب کہ گلا اچھا ہو.پھر تلاوت
519 کے بعد جو نظم پڑھی گئی ہے وہ بھی اس دستور کے مطابق کہ عموماً پہلے چند اشعار ٹھیک پڑھے جاتے ہیں اور پھر غلطیاں شروع ہو جاتی ہیں.اسی طرح انہوں نے بھی ساتھ آٹھ اشعار تو ٹھیک پڑھے اور اس کے بعد غلطیاں شروع کر دیں.جب جلسہ میں کوئی شخص تلاوت کرتا ہے یا نظم کے لئے کھڑا ہو تا ہے تو اس چھوٹی سی عبارت کا مجلس میں پڑھ لینا کوئی مشکل امر نہیں ہوتا اور اگر وہ خود اسے صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتا تو کسی واقف زبان سے اسے درست کروالینا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوتا.یہ قدرتی بات ہے کہ ایسی صورت میں سننے والے بجائے فائدہ اٹھانے کے لفظی غلطیوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور اس طرح فائدہ سے محروم ہو جاتے ہیں اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ خدام صحیح طور پر قرآن کریم کو پڑھنا سیکھیں اور اردو کی عبارتوں کو بھی صحیح ادا کرنے کی کوشش کیا کریں.ایڈریس میں جن کاموں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے میں ان سے خوش ہوں کہ انہوں نے ان کاموں کے کرنے کی کوشش کی ہے لیکن میں ان کی توجہ اس طرف پھرانا چاہتا ہوں کہ جس کام کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ اتنا عظیم الشان ہے کہ اس کے لئے یہ کو ششیں کافی نہیں ہو سکتیں.مخالف ہمارے مقصد کو نہیں سمجھتا تو وہ معذور ہے.اگر وہ ہمیں اپنے مقصد کو پیش نظر رکھنا چاہئے صدر یا ناواقفیت کی وجہ سے ہماری مخالفت کرتا ہے تو کوئی اعتراض کی بات نہیں.وہ تو اس پر غور کرنا ہی نہیں چاہتا یا اگر غور کرتا ہے تو تعصب کی وجہ سے وہ صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا لیکن اگر ہم بھی اپنے مقصد کو نہ سمجھیں اور ہمارا بھی رویہ ایسا ہی ہو کہ ہم اپنے مقصد کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں تو ہم پر یقینا افسوس ہو گا.ہما را دعوئی ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا ہمارا مقصد رسول کریم ملی ایم کی حکومت کا قیام دعوئی سچا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نازک حالت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی جماعت کے ذریعہ وہ رسول کریم میل کی حکومت کو پھر سے دنیا میں قائم کر دے.یہ مقصد ہے جس کے لئے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے اور جس کی خدا تعالیٰ ہم سے امید کرتا ہے اور یہ معمولی چیز نہیں.ایک انسان کے لئے ایک انسان کی اصلاح بھی ناممکن ہے مگر ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے.اسلام کے ماننے والوں میں سے کتنے ہیں جو خوشی سے ان احکام کو مانتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں.پھر جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے احکام پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو واقعہ میں عمل کرنے کے لئے تیار ہیں اور پھر جو عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو ان پر عمل کر کے صحیح طور پر کامیاب ہوئے ہیں.پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ اسلام کے معنے ہی نہیں سمجھتے.ہر آدمی ایسی چیزوں اور عقائد کو جو رسم و رواج میں داخل ہیں، الگ کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کو
520 الگ کر لو اور باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے.کچھ عورتیں پردہ کی قائل نہیں ہیں.وہ اس کو الگ کر لیتی ہیں اور کہتی ہیں بھلا اللہ تعالی کو چھوٹے چھوٹے امور میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے پر دہ کو الگ کر دو.باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے.ہمارے نوجوان جن کے لئے داڑھی رکھنا مشکل ہے وہ کہہ دیتے ہیں یہ تو کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی.باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے.سود لینے والا کہہ دیتا ہے کہ بنکنگ تو نہایت ضروری چیز ہے اس لئے سود کو چھوڑوں.باقی جو کچھ ہے اسلام ہے.غرض جس حکم کو وہ نہیں مانتا اس کے نزدیک وہ اسلام نہیں.باقی امور اسلام میں داخل ہیں.تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے.سود بھی اسلام میں داخل نہیں.نمازیں بھی اسلام میں داخل نہیں.داڑھیاں رکھنا بھی اسلام میں داخل نہیں تو پھر کچھ بھی اسلام میں داخل نہیں.مثل مشہور ہے کہ کوئی بزدل آدمی تھا.اسے وہم ہو گیا تھا کہ وہ بہت بہادر ہے.وہ گودنے والے کے پاس پرانے زمانہ میں یہ رواج تھا کہ پہلوان اور بہادر اپنے بازو پر اپنے کیریکٹر اور اخلاق کے مطابق نشان کھدوا لیتے تھے.یہ بھی گودنے والے کے پاس گیا.گودنے والے نے پوچھا تم کیا گدوانا چاہتے ہو.اس نے کہا میں شیر گدوانا چاہتا ہوں.جب وہ شیر گودنے لگا تو اس نے سوئی چبھوئی.سوئی چھونے سے درد تو ہو نا ہی تھا.وہ دلیر تو تھا نہیں.اس نے کہا یہ کیا کرنے لگے ہو ؟ گودنے والے نے کہا شیر گودنے لگا ہوں.اس نے پوچھا شیر کا کون ساحصہ گودنے لگے ہو.اس نے کہا دم گود نے لگا ہوں.اس آدمی نے کہا شیر کی دم اگر کٹ جائے تو کیا وہ شیر نہیں رہتا.گودنے والے نے کہا شیر تو رہتا ہے.کہنے لگا اچھا دم چھوڑ دو اور دوسرا کام کرو.اس نے پھر سوئی ماری تو وہ ہوں اٹھا اب کیا کرنے لگے ہو ؟ اس نے کہا اب دایاں بازو گودنے لگا ہوں.اس آدمی نے کہا اگر شیر کا لڑائی یا مقابلہ کرتے ہوئے دایاں ہاتھ کٹ جائے تو کیا وہ شیر نہیں رہتا.اس نے کہا شیر تو رہتا ہے.کہنے لگا پھر اس کو چھوڑ دو اور آگے چلو.اسی طرح وہ بایاں بازو گور نے لگا تو کہا اسے بھی رہنے دو.کیا اس کے بغیر شیر نہیں رہتا.پھر ٹانگ گودنی چاہی تب بھی اس نے یہی کہا.آخر وہ بیٹھ گیا.اس آدمی نے پوچھا کام کیوں نہیں کرتے.گودنے والے نے کہا اب کچھ نہیں رہ گیا.یہی آج کل اسلام کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے.لوگ اپنی مطلب کی چیزیں الگ کر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے.ہمارے نانا جان فرمایا کرتے تھے کہ چھوٹی عمر میں میری طبیعت بہت چلبلی تھی.آپ میردرد کے نواسے تھے اور دہلی کے رہنے والے تھے.وہاں آم بھی ہوتے ہیں.آپ فرمایا کرتے تھے جب والدہ والد صاحب اور بہن بھائی صبح کے وقت آم چوسنے لگتے تو میں جو آم میٹھا ہو تا اس کو کھٹا کھٹا کہہ کر الگ رکھ لیتا اور باقی آم ان کے ساتھ مل کر کھا لیتا.جب آم ختم ہو جاتے تو میں کہتا میرا تو پیٹ نہیں بھرا.اچھا میں یہ کھٹے آم ہی کھالیتا ہوں اور سارے آم کھا جاتا.ایک دن میرے بڑے بھائی جو بعد میں میردرد کے گدی نشین ہوئے انہوں نے کہا میرا بھی پیٹ نہیں بھرا.میں بھی آج کھٹے آم چوس لیتا ہوں.فرماتے تھے میں نے بہتیرا زور لگایا مگروہ باز نہ آئے.آخر انہوں نے آم چو سے اور کہا یہ تو بڑے میٹھے ہیں.تم یونسی کہتے تھے کہ کھٹے ہیں.جس طرح وہ آم چوستے وقت میٹھے آم الگ
521 کر لیتے تھے اور باقی دوسروں کے ساتھ مل کر چوستے لیتے تھے اور بعد میں کھٹے کہہ کر وہ بھی چوس لیتے تھے یہی حال آج کل کے مسلمانوں کا ہے.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ کو نافذ کیا جائے ان کا اگر یہ حال ہو تو ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو اسلام کو جانتے ہی نہیں.وہ تو پھر ہڈیاں اور بوٹی کچھ بھی نہیں چھوڑیں گے.یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں نے یہ لکھ لکھ کر کتابیں سیاہ کر ڈالی ہیں کہ اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کیا جاسکتا.وہ کہتے ہیں کہ یہ کیا مصیبت ہے کہ انسان پورا ایک مہینہ روزے رکھتا جائے.اگر معدہ خراب ہو جائے تب تو ہوا کہ ایک آدھ دن کا روزہ رکھ لیا.مگر متواتر ایک مہینہ روزہ رکھتے جانا کونسی عقل کی بات ہے.پھر یہ کام کا زمانہ ہے.رات اور دن کام کرنا ہو تا ہے اور دن میں کئی شفٹیں ہوتی ہیں اور روزانہ پانچ پانچ نمازوں کا پڑھنا اور پھر امام کے انتظار میں بیٹھے رہنا کونسی عقل کی بات ہے.بھلا اس طرح انڈسٹری کیسے چل سکتی ہے.یہ زمانہ تجارت کا ہے.بنکنگ کے علاوہ دوسرے ملکوں سے ہم ضروری اشیاء کیسے حاصل کر سکتے ہیں.تم کہتے ہو بنکنگ اڑا دو.اس طرح تو ملک تباہ ہو جائے گا.پھر تجارت کیسے کی جائے گی.اس طرح تم کہتے ہو انشورنس کو اڑا دو.انسان جتنا کماتا ہے کھا جاتا ہے.اگر اس کو اڑا دیا جائے تو مرنے والا تو مر گیا.یتیم بچوں کے لئے کچھ نہیں رہے گا اور اس طرح قوم پر ایک غیر معمولی بار پڑ جائے گا.پھر عورتوں کی مدد کے بغیر مرد کام نہیں کر سکتا.عورتیں مردوں کے دوش بدوش چلتی ہیں اور وہ ان کی عزت کا خیال کر کے ان کے اکرام کے طور پر بڑی سے بڑی قربانی کر لیتا ہے.اگر عورتوں کو پر وہ میں بٹھا دیا جائے تو پھر دنیا کا کام کیسے چلے گا؟ یہ صفائی کا زمانہ ہے.صحت ٹھیک ہونی چاہئے.تم کہتے ہو داڑھیاں رکھو.اس سے تو جو میں پڑ جائیں گی اور میل بڑھ جائے گی.یہ بھی کوئی انسانیت ہے.جرمن والے تو ٹنڈ ہی کروالیتے ہیں.خوش قسمتی سے ہم پر انگریز حاکم تھے جس کے نتیجہ میں سروں کے بال محفوظ رہ گئے بلکہ بودے نکل آئے.اگر جرمن حاکم ہوتے وہ سر کے بال بھی اڑا دیتے.غرض تمام اسلامی احکام جو اسلام پیش کرتا ہے ان پر وہ اعتراض کرتے ہیں.مثلاً ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ہے.وہ کہتے ہیں یہ بھی کوئی انصاف کی بات ہے کہ مرد کو اگر زیادہ شادیاں کرنے کا حق ہے تو عورت کو کیوں نہیں ؟ اسی طرح پہلے تو طلاق بھی بری سمجھی جاتی تھی لیکن آج کل اسے برا نہیں سمجھا جا تا بلکہ ٹائمز آف لندن میں ایک دفعہ میں نے ایک واقعہ پڑھا کہ امریکہ میں ایک عورت تھی.جب وہ فوت ہوئی تو وہ سترہ خاوند کر چکی تھی جن میں سے بارہ خاوند اس کے جنازے پر موجود تھے.پھر طلاق کی و جوہات بھی وہاں بہت معمولی ہوتی ہیں.ایک عورت نے لکھا کہ میں نے اپنے خاوند سے اس لئے طلاق لی کہ میں نے ایک ناول لکھا اور خاوند سے کہا اس کو شائع کرنے کی اجازت دو.اس نے کہا میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا.میں نے حج سے کہا میں ادبی عورت ہوں اور میرے کام میں میرا خاوند روک بنتا ہے اس لئے میں طلاق لینا چاہتی ہوں.حج نے کہا ٹھیک ہے اس طرح تو ملک کا ادب خراب ہو جائے گا.غرض ساری باتیں ایسی ہی مضحکہ خیز نہیں بلکہ ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ طلاق پر بڑا اعتراض کیا جاتا تھا اور طلاق کے بعد شادی کو فحش خیال کیا جا تا تھا.مگر اب وہی مسئلہ ہے جس پر دوسری قو میں بھی عمل کر رہی ہیں بلکہ اس میں حد سے گزرگئی ہیں.پھر قریب کی
522 شادیاں ہیں.عیسائی اور ہندو بھی اس پر اعتراض کرتے تھے مگر اب مسودے تیار ہو رہے ہیں کہ اس کی اجازت ہونی چاہئے.غرض اب غیر قو میں بھی اسلامی احکام کی فضیلت کو تسلیم کر رہی ہیں لیکن اسلام میں کوئی ایک حکم نہیں بلکہ ہزاروں احکام ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے.بھلا وہ لوگ جو ہر وقت سوٹ پہننے کے دلدادہ ہیں آج کل حج کیسے کر سکتے ہیں.وہاں تو ان سلے کپڑے پہنے پڑتے ہیں.ان کو یہ لوگ کیسے برداشت کر سکتے ہیں.یہ تو کہیں گے کہ نعوذ باللہ یہ کیا بد تمیزی کی بات ہے.غرض یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ ان کو مسلمانوں میں بھی رائج کرنا مشکل ہے کجا یہ کہ ان کو یورپین ممالک میں رائج کیا جائے.وہ تو چھوٹی سے چھوٹی باتوں پر بھی اعتراض کر دیتے ہیں.ہمارے مبلغ جب امریکہ میں گئے تو وہاں دیسی لباس پہنا کرتے تھے.ایک دن دو عورتیں آئیں اور انہوں نے کہا ہم اسلام کے متعلق باتیں سننے آئی ہیں.ہمارے مبلغ سلوار پہنے باہر آگئے.وہ کمرے میں داخل ہی ہوئے تھے کہ وہ عورتیں شور مچا کر بھاگیں کہ ہمارے سامنے یہ شخص ننگا آگیا ہے.ہماری ہتک ہے.مبلغ نے کہا میں کیسے نگا ہوں.میں نے تو سلوار پہنی ہوئی ہے لیکن ان کے نزدیک یہ نائٹ ڈریس تھا اور رات کو ہی پہنا جاتا تھا اور ان کے نزدیک نائٹ ڈریس میں آدمی ننگا ہوتا ہے.غرض بہت شور ہوا.محلہ والے انہیں مارنے کو دوڑے.اتنے میں کوئی پادری آگئے اور انہوں نے کہا یہ تو ان کے ملک کا لباس ہے.ان کے نزدیک ایسے شخص کو ننگا نہیں کہتے.میں جب انگلینڈ گیا تو میں نے چند گرم پاجامے سلوائے تھے مگر وہاں جاکر میں نے فیصلہ کیا کہ میں سلوا ر ہی پہنوں گا.میں ان کالباس کیوں پہنوں.ہمارے جو مبلغ وہاں تھے وہ بار بار کہتے تھے کہ لوگ ہمارے متعلق کیا کہتے ہوں گے مگر میں نے کہا جب ہمارے ملک میں انگریز جاتا ہے تو کیا وہ سلوار پہنتا ہے.اگر وہ سلوار نہیں پہنتا تو میں پتلون کیوں پہنوں.وہ کہتے تھے عورتیں آتی ہیں تو وہ برا مناتی ہیں کیونکہ اس لباس میں وہ آدمی کو ننگا سمجھتی ہیں.میں نے کہا میں تو کپڑے پہنے ہوئے ہوں اور مجھے کپڑے نظر آرہے ہیں.ایک دن سرڈینی سن راس آئے جو لنڈن میں ایک کالج کے پرنسپل تھے.ان کے ساتھ دو اور بھی پروفیسر تھے.میں نے کہا سرڈینی سن راس ! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں اگر آپ بے تکلفی سے بتائیں.انہوں نے کہا پوچھ لیجئے.میں نے کہا جو لباس میں پہنے ہوئے ہوں کیا آپ اور آپ کے دوست اسے برا تو نہیں مناتے.انہوں نے کہا سچ پوچھیں تو ہم برا مناتے ہیں.میں نے کہا جب آپ ہندوستان گئے تھے تو کیا آپ نے سلوار پہنی تھی اور اگر نہیں پہنی تھی تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ انگریز خود تو دوسروں کا لباس نہیں پہنتے مگر یہ حق رکھتے ہیں کہ دوسروں کو اپنا لباس پہننے پر مجبور کریں.کہنے لگے یہ بات ان لاجیکل تو ہے لیکن ہم برا ضرور مناتے ہیں.پھر میں نے کہا میں ایک اور سوال پوچھتا ہوں کہ آپ برا تو مناتے ہیں مگر آپ کس کے کیریکٹر کو مضبوط سمجھتے ہیں.آیا اس کے کیریکٹر کو جو آپ کی رو میں بہہ جائے یا جو اپنے طریق پر قائم رہے کیونکہ جو اپنے طریق پر قائم رہے وہی بہادر ہے.کہنے لگے جو اپنے طریق پر قائم رہے وہی بہادر ہے.میں نے کہا بس مجھے اس تعریف کی ضرورت ہے دوسری کسی بات کی میں پرواہ نہیں کرتا.ر
523 غرض ہم اسلام کی باتوں کو دوسروں سے نہیں منوا سکتے جب تک ہم ان پر عمل کرنے میں رات دن ایک نہ کر دیں اور دعائیں کر کے ہمارے ناک نہ رگڑے جائیں اور اپنی کوششوں کو بڑھا نہ دیں.جب تک ہم دوسروں کی باتوں کو برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے اندر ایک قسم کی دیوانگی پیدا نہیں کر لیتے اس وقت تک ہم کوئی عظیم الشان تغیر پیدا نہیں کر سکتے.آج تک کوئی بڑا کام نہیں ہوا جس کے کرنے والے کو لوگوں نے پاگل نہ کہا ہو.جب محمد رسول اللہ صلی ال یا ہم نے دعوی کیا اور ایک بڑے مقصد کو لے کر دنیا کے سامنے کھڑے ہو گئے تو کیا کوئی یہ خیال بھی کر سکتا تھا کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے.دنیا کے سب لوگ کہتے تھے کہ یہ کام نہیں ہو سکتا.یہ تو عقل کے خلاف ہے.بھلا اتنا بڑا تغیر دنیا میں کیسے پیدا ہو سکتا ہے.ان کے نزدیک آپ نے قوم کی ساری رسوم کو چھوڑ کر ایک نیا طریق اختیار کر لیا تھا.ان کے اندر یہ احساس تھا کہ یہ کام نہیں ہو سکتا اس لئے وہ آپ کو پاگل کہتے تھے لیکن آپ صرف منہ سے ہی نہیں کہتے تھے بلکہ جو کہتے تھے اس کے لئے پوری جدوجہد بھی کرتے تھے.جب ان کے کہنے کے بعد بھی آپ رات اور دن جد وجہد میں لگے رہے تو وہ کہتے یہ شخص پکا پاگل ہے مگر آپ برابر اس کے لئے اپنی زندگی کو لگاتے چلے گئے کیونکہ آپ کو یہ یقین تھا کہ یہ کام آپ کر کے چھوڑیں گے اور اس میں ضرور کامیاب ہوں گے.توحید کے مسئلہ کو لے لو جس کو آج کل تم بڑے فخر کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہو اور تمہاری گردنیں ان کے سامنے بلند رہتی ہیں.تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ فطرتی مسئلہ ہے حالانکہ اس مسئلہ کو بھی وہ مجنونانہ خیال سمجھتے تھے.قرآن میں آتا ہے اجعل الله إلها واحدا (ص:۶) وہ لوگ یہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ایک خدا ہو سکتا ہے.انکے نزدیک تو کئی خدا تھے.ان کا یہ خیال تھا کہ آپ نے سارے خداؤں کو کوٹ کر ایک خدا بنالیا ہے.ان کے ذہنوں میں ایک خدا کا مسئلہ آتا ہی نہیں تھا.بھیرہ کے ایک طبیب تھے جن کا نام الہ دین تھا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلی کتب کو پڑھا ہوا تھا.وہ آپ کے بہت معتقد تھے لیکن احمدی نہیں ہوئے تھے.ان کے پاس ان کا ایک مریض احمدی چلا گیا اور اس نے تبلیغ شروع کر دی.آپ کے دعوئی کا انہیں علم تھا.وہ اپنے آپ کو بہت بڑا عالم سمجھتے تھے اور حضرت خلیفہ اول جن کے علم و فضل کا ہر ایک اقرار کرتا ہے وہ ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ نورالدین کیا جانتا ہے.وہ تو صرف ابتدائی باتیں جانتا ہے.جب اس دوست نے انہیں تبلیغ کی تو کہنے لگے میاں جانے بھی دو کیا مرزا صاحب کی کتابوں کو تم مجھ سے زیادہ سمجھتے ہو.میں آپ کی کتابوں کو جتنا سمجھتا ہوں تم نہیں سمجھتے.میں نے آپ کی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا ہوا ہے.آپ بڑے عالم ہیں.کیا وہ اتنی بڑی بے وقوفی کی بات کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.قرآن میں صاف لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں.بھلا آپ جیسا عالم یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ زندہ ہیں.اصل میں تم نے کتابوں کو غور سے پڑھا نہیں.مجھے اصل بات کا پتہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ جب آپ نے براہین احمدیہ لکھی تو اس میں اسلام کی صداقت کو اتنے زبر دست دلائل سے ثابت کیا کہ آپ سے قبل تیرہ سو سال تک کسی عالم سے ایسا نہیں ہو سکا تھا اور وہ ایسے دلائل تھے کہ انکے سامنے عیسائی اور ہندو ٹھر نہیں سکتے تھے مگر
524 مولویوں کی عقل ماری گئی اور بجائے خوش ہونے کے انہوں نے آپ پر کفر کے فتوے لگانے شروع کر دیئے.مرزا صاحب نے کہا اچھا اب میں تم سے اس کا بدلہ لیتا ہوں.حضرت عیسی علیہ السلام کا آسمان پر جانا سیدھی سادھی بات ہے لیکن اب میں اس کا انکار کرتا ہوں.اگر تم میں ہمت ہے تو تم اس سیدھی سادھی بات کو ثابت کر کے دکھا دو.پس یہ تو محض ان کی عقل کا امتحان لینے کیلئے مرزا صاحب نے کیا تھا.اگر یہ سب مولوی آپ سے جاکر معافی مانگ لیں تو آپ اس قرآن سے حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ ثابت کر دیں.غرض جس طرح ان کے خیال میں حیات مسیح کا مسئلہ ایک ثابت شدہ مسئلہ تھا اسی طرح مکہ والوں کے نزدیک کئی خداؤں کا ہونا ایک ثابت شدہ مسئلہ تھا.وہ سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ نے سب خداؤں کا قیمہ کر کے ایک بنالیا ہے.مگر پھر دیکھو آپ نے ان سے یہ مسئلہ منوایا یا نہیں ؟ وہ جو سمجھتے تھے کہ کئی خدا ہیں ان کا یہ حال ہوا کہ جب مکہ فتح ہوا تو چند ایسے آدمی تھے جن کو معاف کرنا رسول کریم مل لیلی نے مناسب نہ سمجھا اور ان کے قتل کا حکم صادر کر دیا.ان میں سے ایک ہندہ ابو سفیان کی بیوی بھی تھی.یہ وہی عورت ہے جس نے حضرت حمزہ کا مثلہ کروایا تھا.آپ نے مناسب سمجھا کہ اسے اس ظالمانہ فعل اور خلاف انسانیت حرکت کی سزا دی جائے.اس وقت پردہ کا حکم نازل ہو چکا تھا.جب عورتیں بیعت کے لئے آئیں تو ہندہ بھی چادر اوڑھ کر ساتھ آگئی اور اس نے بیعت کرلی.جب وہ اس فقرہ پر پہنچی کہ ہم شرک نہیں کریں گی تو چونکہ وہ بڑی تیز طبیعت تھی اس نے کہا یا رسول اللہ ہم اب بھی شرک کریں گی.پ اکیلے تھے اور ہم نے پوری طاقت اور قوت کے ساتھ آپ کا مقابلہ کیا.اگر ہمارے خدا کچے ہوتے تو آپ کیوں کامیاب ہوتے.وہ بالکل بے کار ثابت ہوئے اور ہم ہار گئے.رسول کریم ملالی نے فرمایا ہندہ ہے ؟ آپ اس کی آواز کو پہچانتے تھے.آخر رشتہ دار ہی تھی.ہندہ نے کہا یا رسول اللہ اب میں مسلمان ہو چکی ہوں.اب آپ کو مجھے قتل کرنے کا اختیار نہیں.رسول اللہ مال لال ہی نہیں پڑے اور فرمایا ہاں اب تم پر کوئی گرفت نہیں ہو سکتی.غرض وہ قوم جو سمجھتی تھی کہ آپ نے سب خداؤں کو کوٹ کر ایک خدا بنالیا ہے، ان میں اتنا تغیر پیدا ہو گیا کہ ہندہ جیسی عورت نے کہا کہ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ خدا ایک نہیں.اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب تمام دنیا صداقت اسلام کی قائل ہو جائے گی.اب تو یہ حالت ہے کہ ایک مسلمان اپنی عملی کمزوریوں کی وجہ سے دوسروں کے سامنے شرمندہ ہو جاتا ہے لیکن ایک دن آئے گا جب کہ یور بین اقوام بھی ان احکام کو تسلیم کریں گی.الناس علی دین ملو کھم لوگ بادشاہوں کے مذہب کے تابع ہوتے ہیں.بے شک کچھ لوگ وہ بھی ہوتے ہیں جو نقال ہوا کرتے ہیں.جیسے شروع شروع میں مسلمان آئے تو ہندو بھی فارسی بولنے میں فخر محسوس کرتے تھے.اسی طرح جیسا کوئی فیشن ہو جائے لوگ بھی وہی اختیار کر لیتے ہیں.اس وقت ہندوؤں نے بھی داڑھیاں رکھ لی تھیں مگر جب انگریزوں کا زمانہ آیا تو داڑھی منڈوانا شروع کر دی.چھوٹے کوٹ پہنے شروع کر دیے.
525 جب اسلام غالب آئے گا تو ہر قومیں ابتلاؤں اور مصائب کی تلواروں کے سایہ میں بڑھتی ہیں انسان اس بات میں فخر محسوس کرے گا کہ وہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرے.لیکن جب تک اسلام غالب نہیں آتا ہمیں بڑی بڑی قربانیاں کرنی پڑیں گی اور اپنے نفسوں کو مارنا ہو گا.جب تک ہم اپنے نفسوں کو مار کر موجودہ رسم و رواج کے خلاف اپنے آپ کو نہیں ابھار میں گئے دریا کی دھار کے خلاف تیرنے کی کوشش نہیں کریں گے ، ملامت کی تلوار کے نیچے ہنسی اور مذاق کی تلوار کے نیچے سیاسی لوگوں کے سیاسی اعتراضات کی تلوار کے نیچے ، مذہبی اور فلسفی لوگوں کے اعتراضات کی تلوار کے نیچے سر رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ، اس وقت تک اس عظیم الشان مقصد کے پورا کرنے کی ہمیں امید نہیں رکھنی چاہئے.دنیا میں آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس نے میٹھی میٹھی باتوں سے دنیا کو فتح کر لیا ہو.قومیں ہمیشہ مصیبتوں اور ابتلاؤں کی تلواروں کے سایہ تلے بڑھتی اور ترقی کرتی ہیں اور انہیں لوگوں کے اعتراضات برداشت کرنے پڑتے ہیں.پس اپنے آپ کو اس فتح کا اہل بناؤ.جب تک آپ لوگ خدا اور اس کے رسول کے دیوانے نہیں بن جاتے.جب تک موجودہ فیشن اور رسم و رواج کو کچلنے کے لئے تیار نہیں ہو جاتے ، اس وقت تک اسلامی احکام کو ایک غیر مسلم کبھی بھی قبول کرنے کے لئے تیار میں ہو گا.انگلینڈ سے مجھے ایک غیر مسلمہ کا خط آیا.وہ احمدی تو ہو چکی ہے مگر تعلیم ابھی کم ہے.وہ ہمارے مبلغ کے متعلق لکھتی ہے کہ جب میں ان کے لیکچر میں جاتی ہوں تو جو کچھ وہ کہتے ہیں میں سمجھتی ہوں کہ ناممکن ہے اسے کیسے قبول کیا جا سکتا ہے.مگر جب میں ان کے جوش اور ان کے چہرہ کی حالت دیکھتی ہوں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے اور میرا دل تسلی پا جاتا ہے کہ آخر یہ ہو کر رہے گا.غرض جب لوگ ہمارے عزم کو دیکھ کر اپنے اندر جوش اور سنجیدگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ہمارے اندر تمجید گی اور جوش دیکھیں گے تو انہیں خود بخود مانے پر مجبور ہو جائیں گے.پس پہلے اپنے اندر جوش اور سنجیدگی پیدا کرنی چاہئے.پھر ہم دوسروں کی توجہ کو بھی پھیر سکیں گے اور وہ سمجھ لیں گے کہ اسلام کی باتیں کچی ہیں اور وہ ان پر کچے دل سے غور کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے اور پھر اسلام اس مقام پر پہنچ جائے گا جس پر آج سے تیرہ سو سال پہلے محمد رسول اللہ علیم نے اسے پہنچایا تھا".فرموده ۷ اگست ۱۹۴۸ء.مطبوعہ الفضل || اکتوبر۱۹۶۱ء)
526 جب تک ہم دعا کی اہمیت کو نہ سمجھیں گے ہم کامیاب نہ ہو سکیں گے! جماعت کے دوستوں کو خصوصانو جوانوں کو نمازیں پڑھنے اور دعائیں کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے ".غرض اپنے کاموں کے علاوہ ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اے خدا! جس حد تک ہماری دعا کی اہمیت طاقت تھی ہم نے کوشش کی اب تو ہی اس کام کو پورا کر دے کیونکہ یہ کام اب ہماری طاقت ، سے باہر ہے.تم پہلے فرائض کو ادا کرنے کی طرف توجہ کرو.اگر تم دعا کرتے رہو تو مجھے کسی خطبہ کی ضرورت کی نہیں.اگر تمہارے اندر کمزوریاں اور خامیاں ہیں اور تم دعا کرتے ہو کہ خدایا ! تو ان کمزوریوں اور خامیوں کو دور کر دے تو تمہاری دعا ہی ان کو دور کر دے گی.اگر تم نمازوں میں کمزور ہو اور تم دعا کرتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہاری اس کمزوری کو دور کرے اور تمہارے اندر اس کمزوری کا احساس پایا جاتا ہے تو خد اتعالیٰ تمہاری کمزوری کو دور کر دے گا اور تم خود بھی نمازوں میں پابندی اختیار کرو گے.بہر حال اللہ تعالیٰ کی مدد اس وقت ہی آئے گی جب تم خود بھی اپنے اندر تغیر پیدا کر و.اگر تمہارے اندر جوش اور اخلاص ہے اور پھر تم دعا کرتے ہو تو جوش اخلاص اور دعا پر یقین پیدا کرو تم کامیاب ہو جاؤ گے ورنہ کامیابی تمہیں حاصل نہیں ہو سکتی.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنے اندر جوش اخلاص اور دعا پر یقین پیدا کر و.میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں خصوصاً نو جوانوں کو کہ وہ اپنے اندر دعا کرنے کی عادت پیدا کریں.پرانے لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ دیکھا ہے اور ان کے اندر دعا کرنے کی عادت پائی جاتی ہے.اب نوجوانوں کو بھی اپنے اندر یہ عادت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ کے سامنے رونے گریہ وزاری کرنے اور فریاد کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے.اگر وہ پورے اخلاص ، یقین اور جوش کے ساتھ ایسا کریں گے تو خداتعالی کی مدد آئے گی جو ان کی حالت کو بھی درست کر دے گی اور کامیابی کے رستے بھی ان کے لئے کھول دے گی".فرموده ۷ ادسمبر ۱۹۴۸ء مطبوعه الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۶۴ء)
527 کوشش کرو که دینی لحاظ سے تمہاری نسل پچھلی نسل سے زیادہ بہتر ه ترقی کیلئے ضروری ہے کہ انسان کا اگلا قدم اس کے پچھلے قدم سے آگے پڑے نوجوانوں میں ہمیشہ یہ روح پیدا کرنی چاہئے کہ وہ پہلوں سے روحانیت میں بڑھنے کی کوشش کریں اپنے کاموں میں اولوالعزمی پیدا کر میں ه شائقین کے نظام کی اہمیت ہمارا ظاہری رسوم سے کوئی تعلق نہیں ہر مجلس میں سیکرٹری تعلیم اور اس کی ذمہ داری خدام الاحمدیہ کو چاہنے کہ وہ خدا کے لئے اپنی جان پیش کرنے کیلئے ہر دم تیار ہے (فرموده ۱۸ جولائی ۱۹۵۰ء)
528 (۱۸ جولائی ۱۹۵۰ء کو کوئٹہ میں مقامی مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے اعزاز میں ایک دعوت فواکہہ دی گئی.جس میں مقامی جماعت کے علاوہ کئی غیر احمدی معززین بھی شریک ہوئے.اس موقعہ پر قائد مقامی نے حضور کی خدمت اقدس میں اپنے کام کی سالانہ رپورٹ بھی پیش کی.جس کے بعد حضور نے خدام سے ایک پر اثر خطاب فرمایا.حضور کا یہ خطاب ذیل میں درج کیا جا رہا ہے.(مرتب) " دنیا میں اچھا کام کرنا اور اچھے سے اچھا کام کرنا یہ بہت فرق رکھنے والی چیزیں ہیں.قو میں اپنی ترقی کے وقت بھی اچھا کام کرتی ہیں اور قو میں اپنے تنزل کے وقت بھی اچھا کام کرتی ہیں.مگر قو میں اپنے تنزل کے وقت اچھا کام کرتی ہیں اور ترقی کے وقت اچھے سے اچھا کام کرتی ہیں.ترقی کے لئے ضروری ہے کہ انسان کا اگلا قدم اس کے پچھلے قدم سے آگے پڑے اور جب کسی قوم کی ترقی کسی ایک نسل کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتی بلکہ اس کی ترقی اس کی کئی نسلوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے تو اس کے ہر فرد کو یہ مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اگلی نسل پچھلی نسل سے زیادہ اچھی ہو.اگر اگلی نسل پچھلی نسل سے اچھی نہ ہو تو اس کا قدم آگے کی طرف نہیں اٹھ سکتا.در حقیقت مسلمانوں کی تباہی کا بڑا موجب یہی ہوا کہ ماضی کو حال سے کاٹ دیا گیا اور مستبقل کے متعلق انہیں ناامید کر دیا گیا.انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ماضی اپنی بنیادوں پر قائم ہے.آئندہ آنے والا کوئی شخص اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا.بہر حال ہمیں اپنے اعمال سے اور اپنے طریق سے ایسے کاموں سے احتراز کرنا چاہئے اور نوجوانوں میں ہمیشہ یہ روح پیدا کرنی چاہئے کہ وہ پہلوں سے روحانیت میں بڑھنے کی کوشش کریں.بنتا نہ بننا الگ بات ہے لیکن کم از کم اس طرح دماغ تو اونچا رہتا ہے.یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص اتنی ترقی نہ کر سکے کہ وہ پہلوں سے بڑھ جائے مگر اسے نیچا کرنے میں اس کی مدد ہم کیوں کریں.ہم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو درجہ حاصل ہے وہ ہر شخص سمجھتا ہے.لیکن آپ کے درجہ کے متعلق سب سے پہلا مضمون جو میں نے لکھا اور وہ تشحیذ الاذہان میں شائع ہوا.اسے پڑھنے کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الاول.نے مجھے فرمایا میاں تمہارا مضمون تو اچھا ہے مگر اسے پڑھ کر ہمارا دل خوش نہیں ہوا.پھر آپ نے فرمایا ہمارے بھیرہ کی ایک مثال ہے کہ اونٹ چالی تے ٹو ڈا تالی.یعنی اونٹ کی تو چالیس روپے قیمت ہے اور اس کے بچہ کی بیالیس روپے.کسی نے پوچھا یہ کیا بات ہے اونٹ کی قیمت تو بہر حال ایک بچے سے زیادہ ہونی چاہئے.بیچنے والے نے کہا اونٹ کے بچہ کی قیمت اس لئے زیادہ ہے کہ یہ اونٹ بھی ہے اور اونٹ کا بچہ بھی.یہ مثال دے کر آپ فرمانے لگے میاں ہم تو امید رکھتے تھے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی بڑھ کر مضمون لکھو گے لیکن ہماری یہ امید پوری نہیں ہوئی.ہمارے ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی پوزیشن ایک بڑی پوزیشن تسلیم کی جاتی ہے لیکن میرے اندر ہمت پیدا کرنے کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الاول مجھے یہ بات کہنے سے بھی نہ رکے کہ تمہیں مرزا صاحب سے بھی
529 بڑھ کر مضمون لکھنا چاہئے تھا.پس میرے نزدیک کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ ہم اپنے کاموں میں اولوالعزمی قائم نہ رکھیں.اسلام میں کوئی پریسٹ ہڈیا مولویت نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے ہر ایک کے لئے رستہ کھلا ہے.پس ہمیں نوجوانوں میں یہ احساس پیدا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ کبھی بھی یہ نہ سمجھیں کہ وہ پہلوں سے بڑھ نہیں سکتے.پس اپنے اندر حقیقی روحانیت اور خدا تعالیٰ کا سچا عشق پیدا کرو اور اس بارہ میں کسی بڑی سے بڑی مشکل اور مصیبت کی بھی پرواہ نہ کرو.جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ محمد رسول اللہ علی یا ہم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اے رسول ! تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ اگر خدا تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہو تا تو تم پیچھے رہ جاتے اور میں اس پر ایمان لے آتا مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا نہیں.تم نے صرف ایک جھوٹا بیٹا بنالیا ہے.اگر مسیح فی الواقعہ خدا تعالٰی کے بیٹے ہوتے تو سب سے پہلے میں ان پر ایمان لاتا.حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ کہیں جارہے تھے.آپ کے ساتھ آپ کے ایک بڑے مخلص مرید بھی تھے جن کو آپ کا اپنے بعد خلیفہ بنانے کا ارادہ تھا اور ان کے علاوہ آپ کے ایک اور بھی مرید تھے.رستہ میں آپ کو ایک خوبصورت بچہ نظر آیا.آپ کھڑے ہو گئے اور بچہ کو بوسہ دیا.آپ کو بوسہ دیتے دیکھ کر آپ کی نقل میں آپ کے مریدوں نے بھی اس بچہ کو بوسہ دینا شروع کر دیا.مگر وہ بڑے مرید جن کو آپ کا اپنے بعد خلیفہ بنانے کا ارادہ تھا وہ ایک طرف کھڑے رہے اور انہوں نے بوسہ دینے میں آپ کی اتباع نہ کی.جب آگے چلے تو دوسرے مریدوں نے آپس میں چہ مگوئیاں شروع کر دیں کہ یہ بڑا مخلص بنا پھرتا ہے.حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے اس بچہ کو بوسہ دیا مگر اس نے آپ کی اتباع نہیں کی.وہ چپ رہے اور کوئی جواب نہ دیا.کچھ دور آگے گئے تو ایک بھڑ بھو نجادا نے بھون رہا تھا.اس نے آگ میں پتے ڈالے تو ایک شعلہ اونچا ہو ا.حضرت نظام الدین صاحب اولیاء آگے بڑھے اور آگ میں منہ ڈال کر اسے چوم لیا.اس پر وہ مرید بھی آگے بڑھا اور اس نے بھی آگ کو چوم لیا اور باقی مریدوں کو اشارہ کیا کہ وہ بھی آگ کو چومیں.مگر وہ سب پیچھے ہٹ گئے اور ان میں سے کوئی بھی آگے نہ بڑھا.پہلے تو ایک بچہ ملا اور وہ خوبصورت لگا.جب حضرت نظام الدین نے اسے بوسہ دیا تو آپ کی اتباع میں انہوں نے بھی اسے چوم لیا مگر یہاں تو داڑھی اور بالوں کے جل جانے کا خطرہ تھا.اس لئے وہ یہاں آپ کی نقل کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے.حالانکہ اگر سچا عشق ہو تو انسان ہر قسم کے خطرات میں اپنے آپ کو جھونک دیتا ہے.جیسے اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ا ا ا ا ا ا ا ا م سے فرمایا کہ تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ اگر خدا تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہو تو مجھے کیا انکار ہو سکتا ہے ، میں اس پر ایمان لے آتا.میں تو خدا تعالیٰ کا بیٹا ہونے کا اس لئے انکار کرتا ہوں کہ اس کا کوئی بیٹا ہو ہی نہیں سکتا.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر بات کی کوئی نہ کوئی غرض ہوتی ہے اور اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ہمیں پوری کوشش کرنی چاہئے.یہاں ہر دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جلسوں کا پروگرام اس طرح بنایا جاتا ہے کہ اصل
530 دره غرض کو پورا کرنے کے لئے وقت نہیں بچتا.حالانکہ مجلس خدام الاحمدیہ کی تنظیم اس لئے قائم کی گئی ہے کہ ہر چیز حساب کی طرح ہر ممبر کو یاد ہو.وہ جب بھی کوئی پروگرام بنا ئیں انہیں علم ہونا چاہئے کہ فلاں کام پر کتنا وقت لگے گا فلاں کام پر کتنا وقت لگے گا.ہم نے فلاں سے کتنی دیر تقریر کرانی ہے اور ہمارے پروگرام کے مطابق اس کے لئے کتنا وقت بچتا ہے.میں سمجھتا ہوں جب یہ جلسہ ہوا تو ایک خادم کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں کہ وقت کی تقسیم کیسے ہوگی.پروگرام کا ہمیشہ ناقص ہونا انتظام کی کمی پر دلالت کرتا ہے.عید کے روز بھی جب مصافحہ کے وقت انتظام کے لئے میں نے قائد مجلس خدام الاحمدیہ کو بلایا تو انہوں نے جو طریق اختیار کیا وہ ماہر فن کا طریق نہیں تھا.اس میں شبہ نہیں کہ کام تو ہو گیا مگر ایسا نہیں جس کی ان سے امید کی جاسکتی تھی.اگر ایسا انتظام وہ قادیان میں کرتے تو یقینا ناکام رہتے.میرے نزدیک جب خدام میں یہ نظام پایا جاتا ہے کہ ہر نو خدام کا ایک گرو لیڈر ہے تو قائد کو جو کام کرنا چاہئے تھا وہ یہ تھا کہ وہ اپنے دو سائفین کو بلاتے اور انہیں دیتے کہ تم میں سے ایک اس طرف کا انتظام کرے اور دوسرا دوسری طرف کا.بہر حال ہر چیز نظام کے نیچے آنی چاہئے ورنہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم قائم کرنے کی غرض و غایت پوری نہیں ہو سکتی.پھر میرے نزدیک دعوتوں میں جس طرح پھل رکھا جاتا ہے اس سے نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ چیز کا بھی ضیاع ہوتا ہے.رسول کریم مال اللہ فرماتے ہیں كَلِمة الحكمة صالة المُؤمِن أَخَذَهَا حَينَ وَجَدَهَا يعنى کلمہ حکمت مومن کی ملکیت ہے.وہ جہاں اسے دیکھے لے لے.ہمارے ہاں تو رواج نہیں مگر یورپین ممالک میں Buff System (بنے سٹم) ہوتا ہے.وہ اس جیسے مواقع پر بہت مفید ثابت ہوتا ہے.صرف دو میزیں رکھ کر ان پر پھل لگا دیا جاتا اور پھر مد عو دین سے کہہ دیا جاتا کہ آئیے جو پسند ہو کھا لیجئے.اس طرح بڑی آسانی سے یہ کام دس منٹ میں ختم ہو جاتا اور جلسہ کی اصل غرض کے لئے زیادہ وقت بچ جاتا ہے.serve (سرد) کرنے اور پھل اٹھا کر لانے کا وقت بھی ضائع نہ ہو تا.میرے نزدیک آئندہ اس قسم کی تقریبات کا انتظام بفے سسٹم کی طرز پر ہو نا چاہئے تاکہ اخراجات بھی کم ہوں اور وقت بھی کم صرف ہو.نظم کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اور لوگ تو محض رسم کے طور پر ان موقعوں پر نظم پڑھ دیتے ہیں مگر ہمارا ظاہری رسوم سے کوئی تعلق نہیں.ہماری ان موقعوں پر نظمیں پڑھنے سے کوئی نہ غرض ہوتی ہے اور وہ مختلف مواقع کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے.مثلاً جلسہ سالانہ کے موقعہ پر بعض دفعہ میں بھی نظم کہہ دیتا ہوں اور دوسرے لوگ بھی مختلف نظمیں پڑھ دیتے ہیں.کیونکہ اس موقعہ پر مختلف خیالات کے لوگ جمع ہوتے ہیں اور ہر مضمون کی نظم وہاں بج جاتی ہے.مگر جب طلبہ اور خدام میں نظم پڑھی جانی ہو تو نظم ان کے مناسب حال پڑھی جانی ضروری ہوتی ہے.خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ ہر مجلس میں تعلیم کا ایک سیکرٹری مقرر کریں.جس کا ایک کام یہ بھی ہو کہ وہ جلسوں کے لئے نظموں اور مضامین کا انتخاب کیا کرے اور یہ مد نظر رکھے کہ نظمیں دعائیہ اور جوش پیدا کرنے والی ہوں.مثلاً پروگرام شروع ہونے سے پہلے کوئی خادم میری ایک نظم پڑھ رہا تھا.جس میں نماز جیسے دعائیہ فقرات تھے.اس قسم کی نظم طلبہ اور خدام
531 کے لئے مفید ہو سکتی ہے لیکن ایک عام تصوف کی نظم ان کے لئے زیادہ کار آمد نہیں ہو سکتی اور اس سے جوش دلانے کی غرض بھی حاصل نہیں ہوتی.اس لئے آئندہ یہ خیال رکھا جائے کہ ایسے مواقع پر ایسی نظمیں رکھی جائیں جو دعائیہ اور جوش دلانے والی ہوں اور پھر سارے خدام پڑھنے والے کے ساتھ ساتھ انہیں دہراتے چلے جائیں.اس سے طبائع میں جوش پیدا ہوتا ہے اور سننے والے مضمون کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اب تو سننے والے کی صرف اس طرف توجہ ہوتی ہے کہ پڑھنے والے کی تال اور سر کیا ہے اور اس کی آواز کیسی ہے.آواز اچھی ہوگی تو وہ تعریف کر دیں گے لیکن اگر سننے والا سمجھتا ہو کہ یہ دعا ہے تو وہ اس کے مفہوم کو جذب کرنے کی کو شش کرے گا.پس آئندہ یہ ہونا چاہئے کہ جب نظم پڑھنے والا نظم پڑھے تو دوسرے بھی اس کے ساتھ شریک ہوں اور ساتھ ساتھ دعائیہ الفاظ کو دہرائیں.اس طرح دعا کی عادت بھی پڑے گی اور ذمہ داری اٹھانے کا احساس بھی پیدا ہو گا.اس کے بعد میں خدام الاحمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہر چیز کے لئے ایک خاص زمانہ اور ایک خاص وقت ہو تا ہے.کوئی وقت جہاد کا ہوتا ہے.کوئی وقت روزہ کا ہوتا ہے اور کوئی وقت نماز کا ہو تا ہے اور عقل مند وہی ہو تا ہے جو جہاد کے وقت جہاد کرے ، نماز کے وقت نماز پڑھے اور روزہ کے وقت روزہ رکھے.یہ نہیں کہ وہ باقی چیزوں کو چھوڑ دے لیکن اس وقت میں اسی چیز پر زور دے جس کے لئے وہ وقت مخصوص ہے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ بعض گناہوں کو کبیرہ قرار دیتا ہے اور بعض کو صغیرہ.صوفیاء کرام نے لکھا ہے کہ اس کامطلب یہ ہے کہ جس گناہ میں کوئی انسان مبتلا ہو وہی اس کے لئے کبیرہ گناہ ہے.صرف یہ کہہ دینا کہ فلاں گناہ کبیرہ ہے اور فلاں صغیرہ یہ خلاف عقل بات ہے.ایک نامرد کے لئے بد نظری کبیرہ گناہ نہیں ہو گا.اگر وہ کہتا ہے کہ میں بد نظری نہیں کرتا اس لئے کبیرہ گناہ کا مرتکب نہیں ہوں تو ہم اسے کہیں گے کہ تجھ میں اس کی طاقت ہی نہیں پائی جاتی اس لئے یہ گناہ تمہارے نقطہ نگاہ سے کبیرہ گناہ نہیں.تمہارے لئے کبیرہ گناہ وہ ہو گا جس کی حرص اور لالچ تمہارے اندر پائی جائے.غرض جتنا جتنا خطرہ کسی گناہ کا کسی شخص کے لئے ہو گا اتنا اتنا ہی وہ اس کے لئے کبیرہ ہو تا جائے گا اور جتنا جتنا خطرہ کم ہو گا اتنا ہی وہ اس کے لئے صغیرہ ہوتا جائے گا.گویا ایک شخص کے لئے ایک گناہ کبیرہ ہو گا اور دوسرے شخص کے لئے وہی گناہ صغیرہ ہو گا.مثلاً ایک ایسا شخص جو غریب ہے ، اس کے بچوں کو کھانے کو کچھ نہیں ملتا.ان میں قناعت نہیں پائی جاتی اس کے لئے چوری کا زیادہ امکان ہے لیکن اگر وہ چوری نہیں کر تا تو ایک کبیرہ گناہ سے گریز کرتا ہے اور اگر اس کے لئے جھوٹ کا موقع نہیں لیکن وہ اس سے بچتا ہے تو وہ ایک صغیرہ گناہ سے بچتا ہے کیونکہ اس کے لئے چوری کے موجبات زیادہ تھے اور جھوٹ کے موجبات کم تھے.لیکن ایک اور شخص ہوتا ہے جس کے سامنے جھوٹی شہادت کا سوال ہوتا ہے.مثلا کوئی پٹواری ہوتا ہے یا کوئی عرضی نویس ہوتا ہے.اس کے لئے جھوٹ بولنے کے بہت مواقع ہوتے ہیں.سینکڑوں آدمیوں سے اس کا کام ہو تا ہے.مختلف مقامات میں اسے بلایا جاتا ہے اور اس کے لئے ہزاروں ایسے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں جہاں اس
532 کے لئے جھوٹ بولنے کا احتمال ہوتا ہے.اگر ایسی نوکری والا جھوٹ سے بچتا ہے تو کبیرہ گناہ سے بچتا ہے لیکن اگر وہ کہے کہ میں نے چوری نہیں کی تو ہم کہیں گے کہ تمہارے لئے چوری کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں تھا.چالیس بیالیس روپے تمہیں گورنمنٹ دے دیتی ہے.چارہ ترکاریاں وغیرہ لوگ دے دیتے ہیں.تمہاری عقل ماری گئی تھی کہ تم چوری کرتے پھرو.تمہارے لئے چوری گناہ صغیرہ ہے اور جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے.پس اگر تم جھوٹ بوں دیتے ہو تو خواہ تم ڈاکہ زنی نہیں کرتے.چوری نہیں کرتے تو پھر بھی تم گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہو.اسی طرح اس زمانہ میں جب کہ تم ایک مامور من اللہ کی جماعت میں شامل ہو گئے ہو تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ مامورین کا جماعتوں پر ابتلاء بھی آتے ہیں اس لئے انہیں ان ابتلاؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے.جیسے افغانستان میں ہمارے پانچ آدمیوں پر ابتلاء آیا اور انہوں نے اپنی جانیں پیش کر دیں.امیر عبد الرحمن کے زمانہ میں عبد الرحمن خان صاحب پر ابتلاء آیا اور وہ ) اور وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے.امیر حبیب اللہ خان کے زمانہ میں صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب پر ابتلاء آیا اور وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے.امیر امان اللہ خان کے زمانہ میں نعمت اللہ خان صاحب اور ان کے دو ساتھیوں پر ابتلاء آیا اور وہ تینوں اپنی بات پر ڈٹے رہے.مگر یہاں پانچ کا سوال نہیں بلکہ اصل دیکھنے والی بات یہ ہے کہ پانچ آدمیوں پر ابتلاء آیا اور پانچ میں سے پانچ ہی اس کے مقابلہ میں ڈٹے رہے اور اگر پانچ کے پانچ ڈٹے رہے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہاں سو آدمی بھی ہو تا تو وہ سو کا سوڈ ٹار ہتا.اگر ہزار آدمی ہو تا تو ہزار بھی ڈٹا رہتا کیونکہ جتنی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ان میں ایک بھی ایسی مثال نہیں کہ کسی کو ایسا ابتلاء پیش آیا ہو جس میں اس کی جان کا خطرہ ہو اور وہ اپنی بات پر ڈٹا نہ رہا ہو.تمہیں بھی یہ چیز اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے.جب بھی کوئی سچائی دنیا میں آتی ہے اس کے مانے والوں کو قربانی کی ضرورت ہوتی ہے.امیر خسرو کا ایک شعر ہے:.کشته گان خنجر تسلیم را هر زمان از غیب جانے دیگر است یعنی لوگ تو ایک دفعہ مرتے ہیں مگر جو اپنی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی پر چھوڑ دیتے ہیں ان پر ہر روزنی موت آیا کرتی ہے کیونکہ ہر موقع پر انہیں خدا تعالی کی آواز آتی رہے گی اور وہ اس پر لبیک کہتے رہیں گے.پس اگر تم بھی خدا تعالیٰ کا سچا بندہ بننا چاہتے ہو تو تم اس بات کے لئے اپنے آپ کو تیار کرو بلکہ ایسے موقع پر خوشی کی ایک ہر تمہارے چہروں پر دوڑ جائے اور تم ہر مصیبت کو انعام سمجھ کر قبول کرو.تم تو ایک سچائی کے ماننے والے ہو لیکن بعض دفعہ لوگ اپنے جھوٹے عشق کے لئے بھی نمونہ پیش کر دیتے ہیں.صلاح الدین ایوبی کے زمانہ میں قرامطہ فرقہ نے بہت طاقت حاصل کرلی تھی.اس وقت فرانس کا ایک بادشاہ فلپ نامی تھا اور انگلینڈ کا رچرڈ.رچرڈ نے صلاح الدین ایوبی سے سمجھوتہ کرنا چاہا.اس پر فلپ نے خیال کیا کہ اگر رچرڈ نے صلاح الدین ایوبی سے صلح کرلی اور کوئی سمجھوتہ طے پا گیا تو میں چھوٹا ہو جاؤں گا.اس لئے
533 اس نے جھٹ قرامطہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا اور یہ تجویز ہوئی کہ وہ دونوں مل کر مقابلہ کریں گے.قرامطہ کے امام اور فلپ کے درمیان ملاقات کا وقت مقرر ہوا اور یہ ملاقات پہاڑی پر ایک قلعہ میں طے پائی.قرامطیوں کا امام وہاں آیا اور فلپ بھی چوری چھپے وہاں گیا.فلپ نے قرامطہ کے امام سے کہا کہ ہر بادشاہ جب دوسرے کے پاس کوئی معاہدہ طے کرنے جاتا ہے تو وہ دوسرے سے کہتا ہے کہ آیا اس کے پاس کوئی ایسی چیز بھی موجود ہے جسے وہ پیش کر سکتا ہے.تم جانتے ہو میں تو ایک ملک کا بادشاہ ہوں.اب تم بتاؤ کہ تمہارے پاس مجھے دینے کے لئے کیا کچھ ہے.جس مکان میں ملاقات ہو رہی تھی وہ ایک چھ منزلہ مکان تھا.جس کی ہر منزل کے سامنے چھیے تھے اور ہر چھجے کے کناروں پر کھڑکیاں تھیں.ہر کھڑکی کے سامنے ایک ایک سپاہی کھڑا تھا.قرامطہ کے امام نے کہا اچھا میں بتاؤں کہ میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کیا کچھ ہے.اس نے سر ہلایا.اس کے سرہلانے کی دیر تھی کہ نچلی منزل کے تین آدمیوں نے یکدم نیچے چھلانگ لگادی اور وہ چور چور ہو گئے.پھر قرامطہ کے امام نے کہا فلپ ! شاید تم یہ خیال کرو کہ انہیں اپنے انجام کا پتہ نہیں تھا یا انہیں خیال ہو کہ وہ مریں گے نہیں.اس لئے اب میں تمہیں پھر وہی نظارہ دکھاتا ہوں.اس نے پھر اپنا سر ہلایا اور اس کے سر بلانے پر دوسری منزل کے تین آدمیوں نے بھی یکدم چھلانگیں لگا دیں اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے.فلپ پر لرزہ طاری ہو گیا اور وہ اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اپنی بات کسی اور وقت پر ملتوی کر دی اور وہاں سے چلا گیا.اب دیکھو ان کے اندر نور نہیں تھا.ایک جھوٹا عشق تھا مگر پھر بھی انہوں نے موت کی پرواہ نہ کی.ولیم میور لکھتا ہے کہ جنگ احزاب کے موقعہ پر کفار سات آٹھ ہزار کی تعداد میں تھے اور مسلمان صرف پندرہ سو تھے.میرے نزدیک دشمن کی تعداد پندرہ ہزار تھی اور مسلمان سات سو تھے اور تاریخ بھی اس کی تصدیق کرتی ہے.گویا دشمن میں گنے سے بھی زیادہ تھا لیکن اگر میور کی تعداد کو بھی مد نظر رکھ لیا جائے تب بھی کفار مسلمانوں سے چار پانچ گنا زیادہ تھے.میور لکھتا ہے کہ کفار مسلمانوں پر دن رات حملے کرتے تھے اور حملے باری بدل بدل کر کرتے تھے تاکہ مسلمان تھک جائیں.ان کا ایک گروہ تھک جاتا تھا تو دوسرا آجا تا تھا لیکن مسلمانوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ وہ انہیں مختلف حصوں میں تقسیم نہیں کر سکتے تھے.اس لئے ان کے لئے آرام کرنا مشکل تھا لیکن پندرہ دن کی متواتر جنگ میں میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ کس طرح بچ گئے.پھر وہ خود ہی جواب دیتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر محمد رسول اللہ میں ایم کی اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے مقابلہ میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے تھے.وہ لکھتا ہے کہ جب میں تاریخ پڑھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ پندرہ سو آدمیوں نے سات آٹھ ہزار کے لشکر جرار کا کس طرح مقابلہ کیا.جب مسلمان تھک جاتے تھے تو کفار خندق کو دکر اندر آجاتے تھے اور جب دشمن پھاند کر اندر آجا تا تھا تو مسلمان رہتے چلے جاتے تھے اور دشمن زور پکڑتا جا تا تھا لیکن جونہی وہ محمد رسول الله می ترمیم کے خیمہ کے پاس جاتے (یہ خیمہ مدینہ کے درمیان تھا تو وہ بے تاب ہو جاتے اور انسانوں کی شکلوں میں دیو معلوم ہوتے تھے اور دشمن کو دھکیلتے ہوئے پیچھے لے جاتے تھے.یہ جوش صرف اس عشق کا نتیجہ تھا جو
534 صحابہ کے دلوں میں پایا جاتا تھا.پس مومن کو چاہئے کہ وہ ہر قربانی پیش کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہے.خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ یہ روح اپنے اندر پیدا کریں.وہ اپنے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ ضرورت پڑنے پر وہ خدا کے لئے اپنی جان پیش کرنے کے لئے تیار رہیں گے تو یقینا تمہارے اندر وہ بشاشت ایمانی پیدا ہو جائے گی جس کے بغیر کوئی شخص نجات حاصل نہیں کر سکتا".فرموده ۱۸ جولائی ۱۹۵۰ء مطبوعہ الفضل ۱۷٬۱۵ اکتوبر ۱۹۶۱ء)
535 احمدی نوجوانوں کو زریں ہدایات اردو زبان کو انار انج کرو کہ آہستہ آہستہ یہ ہماری مادری زبان بن جائے اردو زبان کو نئی زندگی دو اور ایک نیا لباس پہنادو کوئی نوجوان ایسانہ رہے جو قرآن کریم کا ترجمہ نہ جانتا ہو ه بچوں اور عورتوں کو بھی ترجمہ قرآن کریم سکھانے کی طرف توجہ کرنی چاہئے (فرمود ه ۲۹ جولائی ۱۹۴۹ء )
536 ۲۹ جولائی ۱۹۴۹ء ساڑھے چھ بجے شام مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کرنے کے لئے پارک ہاؤس میں ایک دعوت عصرانہ کا اہتمام کیا جس میں جماعت کے دوستوں کے علاوہ کئی غیر احمدی معززین نے بھی شرکت کی.اکل و شرب کے بعد اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی.تلاوت و نظم کے بعد قائد مجلس نے ایڈریس پیش کرتے ہوئے مجلس کی کارگزاری کی مختصر رپورٹ بھی پیش کی اور حضور سے درخواست کی کہ حضور ممبران مجلس کو اپنی زریں نصائح سے مستفیض فرمائیں.اس کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی.(مرتب) حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایڈریس کے جواب میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا:." قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ نے اپنی کارگزاری کی جو رپورٹ پڑھ کر سنائی ہے اس پر مجھے اس لحاظ سے خوشی حاصل ہوئی کہ یہاں کے خدام میں ایک حد تک بیداری پائی جاتی ہے اور وہ اپنے اس نام کی قدر کرتے اور اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے لئے اختیار کیا ہے.سب سے پہلی بات جو ایڈریس کے ساتھ تو تعلق نہیں رکھتی لیکن نہایت اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مختلف قوموں اور زبانوں کے اختلاط سے ایک زبان پیدا ہوئی جس کو اردو کہتے ہیں.اس زبان کی طرف ہندوستان میں بہت کم توجہ رہ گئی ہے بلکہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اسے بالکل مٹادیا جائے.پنجاب کا شہری طبقہ اس کا بہت شائق چلا آتا ہے اور اس میں علامہ اقبال اور حفیظ جالندھری جیسے بڑے بڑے شاعر پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اردو زبان کی بہت خدمت کی ہے اور ان کی وجہ سے ہندوستان اور اس کے باہر اردو زبان بہت مقبول ہو گئی ہے.مگر پنجاب کے عوام اور غیر تعلیم یافتہ اشخاص ابھی اس سے بہت دور ہیں اور انہیں اس میں کلام کرنا دو بھر معلوم ہو تا ہے.اگر وہ اس میں بات کریں تو طریق گفتگو غیر زبان دانوں کا سا معلوم ہوتا ہے.یوں تو غیر مادری زبان میں گفتگو کرتے وقت ہمیشہ ہی مشکلات پیش آتی ہیں اور لازمی طور پر لہجہ میں فرق معلوم ہوتا ہے.تاہم اگر آپس میں اردو زبان میں ہی گفتگو کی جائے تو اس میں مہارت حاصل کرلینا کوئی مشکل امر نہیں.مثلاً میری مادری زبان اگر چہ اردو ہے مگر میں نے پنجاب میں پرورش پائی ہے.اس لئے میں یہ نہیں کہہ سکتا بلکہ یہ کہنالغو ہو گا کہ میرالجہ دہلی والوں کا ساہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ بچپن میں میں اپنی ایک نانی کو ملنے کے لئے گیا.مشہور مترجم قرآن مرزا حیرت صاحب ان کے بیٹے اور میرے ماموں تھے.انہیں احمدیت سے حد درجہ کا تعصب تھا مگر بہر حال چونکہ وہ میرے ماموں تھے اس لئے دوسرے رشتہ داروں نے مجھ سے کہا کہ اپنے ماموں مرزا حیرت صاحب کو بھی سلام کر آؤ.میری عمر اس وقت تیرہ چودہ سال کی تھی.دہلی والوں کی عادت جیسے پان کی گلوری کپیش کرنے کی ہے اسی کے مطابق میری نانی نے مجھے بھی پان کی گلوری دی.دہلی میں یہ رواج ہے کہ پان میں چھالیہ زیادہ ڈالتے ہیں.میں بھی اپنی والدہ صاحبہ
537 کی وجہ سے پان کھایا کرتا ہوں لیکن چھالیہ زیادہ پڑا ہو تو اس کی میں برداشت نہیں کر سکتا.میں جتنا چھالیہ کھایا کرتا ہوں اس سے کلہ بھرتا نہیں.لیکن دہلی والے پان میں اتنا زیادہ چھالیہ ڈالتے ہیں کہ اسے کھاتے وقت کلہ بھر جاتا ہے.لیکن چونکہ وہ پان مجھے میری نانی نے دیا تھا اس لئے میں لینے سے انکار بھی نہیں کر سکتا تھا.اس گلوری سے میرا کلہ بھر گیا اور اسی طرح میں اپنے ماموں مرزا حیرت صاحب کو ملنے کے لئے چلا گیا.ان کا دفتر با ہر ایک چوبارہ پر واقع تھا.انہوں نے بھی مجھے پان کی ایک گلوری دے دی جس سے میرا دو سرا کلہ بھی بھر گیا اور پھر جیسے بچوں سے باتیں کی جاتی ہیں انہوں نے مجھ سے دریافت کیا اچھا میاں یہ تو بتاؤ تم کون سی زبان میں باتیں کرتے ہو.اردو میں یا پنجابی میں.اس وقت تک میں پنجابی نہیں جانتا تھا.اب تو تقریر بھی کر لیتا ہوں.پھر میرے دونوں کلے بھرے ہوئے تھے اور اگالدان پاس تھا نہیں.اس لئے میرے لئے بولنا مشکل ہو گیا اور انہوں نے جب پوچھا میاں تم اردو میں باتیں کرتے ہو یا پنجابی میں تو میں نے بڑی مشکل سے جواب دیا کہ میں دونوں میں بات کر لیتا ہوں.کلے چونکہ بھرے ہوئے تھے اس لئے اپنے مفہوم کو صاف طور پر ادا نہ کر سکا.مرزا حیرت صاحب احمدیت کے شدید مخالف تھے.وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑے اور کہنے لگے بس بس مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ تم کس زبان میں بات کرتے ہو.یہ ہے تو ایک لطیفہ مگر یہ بات ظاہر ہے کہ ہم میں سے کسی کا یہ کہنا کہ اس کا لہجہ دہلی والوں کا سا ہے درست نہیں.ہماری مادری زبان اردو ہے اور ہمارا خون دہلی والوں کا ہے.بلکہ ان کا خون ہے جن کے خون سے اردو بنا ہے.جیسے میر درد اور مرزا غالب.لیکن بوجہ پنجاب میں پرورش پانے کے ہم میں ایسے آثار اور علامات پائی جائیں گی جن سے صاف معلوم ہو گا کہ ہم پورے ہندوستانی نہیں.بعض وقت محاوروں کا بھی اثر پڑ جاتا ہے.بوجہ پنجابی ماحول ہونے کے بغیر خیال کئے کوئی نہ کوئی پنجابی محاورہ منہ سے نکل جاتا ہے.ہم گھر میں عموماً بچوں سے مذاق کرتے ہیں.وہ بات کرتے ہوئے بعض دفعہ پنجابی کے الفاظ بول جاتے ہیں.وہ بھی جانتے ہیں کہ وہ الفاظ اردو زبان کے نہیں لیکن غیر ارادی طور پر ان کے منہ سے نکل جاتے ہیں.میں ایک دفعہ دہلی گیا.خواجہ حسن نظامی صاحب نے میری دعوت کی.مولوی نذیر احمد صاحب کے پوتے جو ساقی رسالہ نکالتے ہیں ، ان کے ماموں میرے ساتھ تھے.انہوں نے میری کوئی تقریر سنی ہوئی تھی.انہوں نے میرے لحاظ یا تکلف کی وجہ سے کہا کہ خواجہ صاحب میں نے ان کی تقریر سنی ہے.ان کا لہجہ بالکل دہلی والوں کا سا ہے اور یہ بالکل پنجابی معلوم نہیں ہوتے.مگر خواجہ صاحب اپنے رنگ کے آدمی ہیں.انہیں یہ بات بری لگی.انہوں نے کہا میں تو یہ بات نہیں مان سکتا.میں نے ان کی کتابیں پڑھی ہوئی ہیں.ان میں بعض مقامات پر پنجابی محاورات استعمال ہوتے ہیں.لیکن آخر وہ بھی دہلوی تھے.انہوں نے فورا کہا خواجہ صاحب میں نے تقریر کا ذکر کیا تھا کتاب کا نہیں.لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم تقریر میں بھی بعض پنجابی محاورات غیرارادی طور پر استعمال کر جاتے ہیں.تاہم متواتر بولنے اور ہمیشہ اردو میں ہی گفتگو کرنے کی وجہ سے عادت ہو جاتی ہے.پس میں آپ کو ایک نصیحت تو یہ کروں گا کہ اردو زبان کو نئی زندگی دو اور ایک نیا لباس پہنا دو.آپ لوگوں کو چاہئے کہ ہمیشہ اسی زبان
538 میں ہی گفتگو کیا کریں.جب ہم اردو میں ہی گفتگو کریں گے تو لازمی بات ہے کہ بعض الفاظ کے متعلق ہمیں یہ پتہ نہیں لگے گا کہ ان کو اردو زبان میں کس طرح ادا کرتے ہیں.اس پر ہم دوسروں سے پوچھیں گے اور اس طرح ہمارے علم میں ترقی ہو گی.بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن انسان کو بڑی عمر میں بھی ان کی سمجھ نہیں آتی لیکن جب وہ ایک زبان میں گفتگو کرنا شروع کر دے تو ان پر عبور حاصل کر لیتا ہے.پس ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ پنجابی زبان چھوڑ دیں اور اردو کو جو اب بے وطن ہو گئی ہے اپنا ئیں.یہ بھی ایک بڑا مہاجر ہے.جس طرح مہاجروں کو زمینیں مل رہی ہیں ، چاہئے کہ اسے بھی اپنے ملک میں جگہ دی جائے اور اسے اتار انج کر دیا جائے کہ آہستہ آہستہ یہ ہماری مادری زبان بن جائے.میں ان لوگوں میں سے نہیں جن کے خیال میں پنجابی زبان کو زندہ رکھنا ضروری ہے.میرے نزدیک اردو زبان کو ہی ہمیں اپنی زبان بنالینا چاہئے اور اسے رواج دینا چاہئے.ملک کے کناروں پر اور پہاڑوں پر کہیں کہیں پنجابی زبان باقی رہ جائے تو حرج نہیں.اگر کسی کو پنجابی زبان سننے اور بولنے کا شوق ہو گا تو وہ وہاں جا کر سن لے گا یا بول لے گا.پس میری پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ تم اردو زبان کو اپناؤ اور اس کو اتنا رائج کرو کہ یہ تمہاری مادری زبان بن جائے اور تمہار الہجہ اردو دانوں کا سا ہو جائے.دوسری چیز جس کے متعلق میں آپ لوگوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں وہ یہ قرآن سیکھیں اور عمل کریں ہے کہ علم کے بغیر کبھی سی عمل پیدا نہیں ہو سکتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمل کے بغیر بھی انسان حقیقی زندگی حاصل نہیں کر سکتا.عالم بے عمل کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس کی پیٹھ پر کتابیں لدی ہوئی ہوں لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اگر علم نہ ہو اور پھر انسان کوئی عمل کرے تو وہ غلط قسم کا ہو گا اور اس کی مثال اس ریچھ کی سی ہو گی جس سے کسی آدمی کی دوستی ہو گئی اور وہ اسے مکھیاں اڑانے کے لئے اپنی ماں کے پاس بٹھا گیا.وہ مکھیوں کو اس کی ماں کے منہ سے اڑا تا لیکن وہ پھر آ بیٹھتیں.اس نے خیال کیا کہ جو مکھی اڑتی نہیں اسے مار ڈالنا چاہئے.چنانچہ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور مکھی پر دے مارا.وہ مکھی تو شاید مری یا نہ مری لیکن ماں مرگئی.اسی طرح بے علم آدمی ایسی غلطیاں کر جاتا ہے کہ ان کی اصلاح اور ازالہ مشکل ہوتا ہے.میں نوجوانوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں خصوصیت کے ساتھ کوئی ایسا آدمی نہیں ہونا چاہئے جو قرآن کریم کا ترجمہ نہ جانتا ہو.جس طرح ہر شخص وکیل تو نہیں بن سکتا لیکن ملک میں صحیح طور پر امن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک ہر شخص رائج الوقت قانون سے ایک حد تک واقف نہ ہو.ہر شخص چوہدری نذیر احمد یا سلیم نہیں بن جا تا مگر کچھ نہ کچھ قانون کا علم اسے ہوتا ہے.مثلا وہ جانتا ہے کہ اگر وہ چوری کرے گا تو اسے سزا ملے گی.قانونی باریکیاں وہ نہیں جانتا.ان کے لئے اسے وکیلوں کے پاس جانا پڑتا ہے.اسی طرح قرآن کریم کی باریکیوں کو تم بے شک علماء پر چھوڑ دو لیکن معمولی احکام تو ہر شخص کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ان کا جاننا اس کا فرض ہے.میرے نزدیک جو شخص قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتا دہ حقیقی مسلمان نہیں.جب اسے پتہ ہی نہیں کہ
539 خدا تعالیٰ نے کیا کہا ہے تو وہ اس پر عمل کیسے کرے گا.یہ غلط ہے کہ صرف نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج ہی قرآنی احکام ہیں.ان کے علاوہ اور ہزاروں احکام سے قرآن کریم بھرا پڑا ہے.ان کے علاوہ کچھ فکری اور قلبی اعمال ہوتے ہیں.پھر ان کا تعمد اور نگرانی کرنے والے اخلاق ہیں.جب تک ان کا علم نہ ہو اور ان کے مطابق انسان کا عمل نہ ہو اس وقت تک نہ نماز نماز رہتی ہے اور نہ زکوۃ زکوۃ رہتی ہے.بھیرہ کے مشہور تاجر تجارت کے لئے بخارا کی طرف جایا کرتے تھے اور بہت نفع حاصل کرتے تھے.جب ان کے پاس دولت زیادہ ہو گئی تو لالچ بھی بڑھ گیا اور زکوۃ دینے میں کو تا ہی شروع کر دی.وہ بڑے بڑے تاجر تھے اور ہر ایک کی دس دس پندرہ پندرہ ہزار زکوۃ نکلتی تھی.ان دنوں زکوۃ اس طرح ادا کی جاتی تھی کہ وہ سکوں یا سونے چاندی سے گھڑے بھر لیتے اور ان کے اوپر دو تین سیر گندم ڈال دیتے.پھر کسی طالب علم یا مسجد کے ملاں کو گھر بلاتے.کھلاتے پلاتے اور فراغت کے بعد گھڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے میاں یہ سب کچھ تمہاری ملکیت ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے تم اسے اٹھا کر کہاں لے جاؤ گے.میرے پاس ہی فروخت کر دو.طالب علم اور ملاں یہ جانتے تھے کہ انہوں نے دینا تو کچھ بھی نہیں صرف ایک بہانہ ہے.جو کچھ ملے لے لو.وہ کہتے اچھا پانچ سات روپے میں یہ گھڑا میں آپ کے پاس فروخت کرتا ہوں.اس طرح وہ زکوۃ بھی دے دیتے اور واپس بھی لے لیتے اور سمجھ لیتے ہم نے زکوۃ کے حکم پر عمل کر لیا ہے.اگر وہ لوگ سارا قرآن کریم پڑھتے تو انہیں اور احکام بھی معلوم ہو جاتے اور سمجھ لیتے کہ ہمارا یہ زکوۃ دینا محض دکھاوا اور خدا تعالیٰ سے دھو کہ ہے اور ہم دو ہرے عذاب کے مستحق ہیں.نماز کے متعلق بھی یہی بات ہے.بعض نمازیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے وكيل المصلين فرمایا ہے یعنی ان کے لئے ہلاکت اور عذاب ہے.اگر ہر نماز نماز ہوتی تو خدا تعالیٰ یہ کیوں کہتا ؟.دراصل وہ لوگ ظاہری طور پر نماز تو ادا کرتے ہیں لیکن اسے شکل ایسی دے دیتے ہیں کہ وہ ان کے لئے بجائے موجب رحمت بننے کے موجب عذاب بن جاتی ہے.پس قرآن کریم کا ترجمہ جاننا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اور اگر تھوڑا سا بھی تعمد کیا جائے تو یہ کوئی مشکل امر نہیں.قرآن کریم کی باریکیاں سمجھنے کی توفیق ہر ایک کو نہیں ملتی.جس پر خدا تعالیٰ کا فضل ہو جائے وہی باریکیوں کو جان سکتا ہے.میری صحت بچپن سے ہی خراب ہے اور میرے متعلق بچپن سے ہی ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اگر یہ تھیں سال کی عمر تک پہنچ گیا تو سمجھ لینا کہ بچ جائے گا.یہی وجہ تھی کہ بچپن میں مجھ پر پڑھائی کے لئے کوئی دباؤ نہیں ڈالتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ مجھے فرمایا کہ اگر تم تین کام کر لو تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں.ایک تو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ لو.دوسرے بخاری پڑھ لو اور تیسرے کچھ طب پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی شغف ہے.میں آپ سے ایک رقعہ لکھوا کر حضرت خلیفہ المسیح الاول کے پاس چلا گیا اور انہیں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے تم یہ تین چیزیں پڑھ لو.باقی تمہاری صحت اجازت دے تو کچھ پڑھ لینا ورنہ ضرورت نہیں.آپ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا میری تو دیر سے خواہش تھی اور یہ تینوں چیزیں
540 ایسی ہیں جو میں جانتا ہوں.چنانچہ قرآن کریم کا ترجمہ میں نے آپ سے چھ ماہ میں پڑھا.میرا گلا چونکہ خراب رہتا تھا اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الاول مجھے پڑھنے نہیں دیتے تھے.آپ خود ہی پڑھتے جاتے تھے اور میں سنتا جا تا تھا اور چھ مہینے یا اس سے بھی کم عرصہ میں سارے قرآن کریم کا ترجمہ آپ نے پڑھا دیا.پھر تفسیر کی باری آئی تو سارے قرآن کریم کا آپ نے ایک مہینہ میں دور ختم کر دیا.اس کے بعد میں آپ کے درسوں میں شامل ہو تا رہا ہوں.لیکن پڑھائی کے طور پر صرف ایک مہینہ ہی پڑھا ہوں.پھر آپ نے مجھے بخاری پڑھائی اور تین مہینہ میں ساری بخاری ختم کرا دی.حافظ روشن علی صاحب بھی میرے ساتھ درس میں شامل ہو گئے تھے.وہ بعض دفعہ سوالات بھی کرتے تھے اور حضرت خلیفہ المسیح الاول ان کے جوابات دیتے تھے.حافظ صاحب ذہین تھے اور بات کو پھیلا پھیلا کر لمبا کر دیتے تھے.انہیں دیکھ کر مجھے بھی شوق آتا کہ میں بھی اعتراض کروں.چنانچہ ایک دو دن میں نے بھی بعض اعتراضات کئے اور حضرت خلیفہ المسیح الاول نے ان کے جوابات دیئے لیکن تیسرے دن جب میں نے کوئی اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا میاں حافظ صاحب تو مولوی آدمی ہیں.وہ سوال کرتے ہیں تو میں جواب دے دیتا ہوں لیکن تمہارے سوالات کا میں جواب نہیں دوں گا.مجھے جو کچھ آتا ہے تمہیں بتا دیتا ہوں اور جو نہیں آتا وہ بتا نہیں سکتا.تم بھی خدا کے بندے ہو اور میں بھی خدا کا بندہ ہوں.تم بھی محمد رسول اللہ مسلم کی امت میں شامل ہو اور میں بھی محمد رسول اللہ ملی لی لی اور ملک کی امامت میں شامل ہوں.اسلام پر اعتراضات کا جواب دینا صرف میرا ہی کام نہیں تمہارا بھی فرض ہے کہ تم سوچو اور اعتراضات کے جوابات دو.مجھ سے مت پوچھا کرو.چنانچہ اس کے بعد میں نے آپ سے کوئی سوال نہیں کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ قیمتی سبق یہی تھا جو آپ نے مجھے دیا.میں نے اعتراضات کرنے چھوڑ دیئے اور ان کے جوابات خود سوچنے شروع کئے.جس سے مجھے بہت بڑا فائدہ ہوا.بعد میں میں نے کچھ کتابیں صرف و نحو کی بھی پڑھیں لیکن بطور درس کے نہیں شغل کے طور پر پڑھیں.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہی ارشاد تھا کہ تم ترجمہ قرآن کریم بخاری اور کچھ طب پڑھ لو لیکن میں تمہارے لئے اس کا بھی خلاصہ بیان کر دیتا ہوں.تم قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ لو، بخاری اور دوسری کتابیں تمہیں خود بخود آجائیں گی.اگر کوئی شخص قرآن کریم کا ترجمہ نہیں پڑھتا تو میں تو یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کیسے قرار دیتا ہے.قرآن کریم ایک خط ہے جو خدا تعالٰی نے اپنے بندوں کو لکھا ہے.لیکن ود کیسا مسلمان ہے جو اسے پڑھتا نہیں بلکہ جیب میں ڈالے پھرتا ہے.کیا تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے کہ اسے ماں باپ، بہن بھائی ، بیوی بچوں یا دوسرے عزیزوں کا خط آئے اور وہ اسے جیب میں ڈال دے ، پڑھے نہیں.اگر تمہیں کسی عزیز کا خط ملتے ہی یہ شوق پیدا ہو جاتا ہے کہ میں اسے پڑھوں تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ خدا تعالی سے ہمیں محبت بھی ہو اور پھر وہ خط لکھے اور ہم پڑھیں نہیں.اگر واقعہ میں قرآن کریم خدا تعالیٰ کا خط ہے جو اس نے اپنے بندوں کو لکھا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خط اس کے پاس ہوا اور پھر وہ چپ کر کے بیٹھا ر ہے اس کا ترجمہ نہ
541 سیکھے.میں نے حضرت خلیفہ المسیح الاول سے یہ مثال سنی ہے کہ جتنا کوئی ان پڑھ ہوتا ہے وہ خط پڑھوانے کی زیادہ کوشش کرتا ہے.کسی بڑھیا کے پاس اس کے بیٹے کا خط آتا ہے تو وہ ملاں کے پاس جاتی ہے اور اسے کہتی ہے میاں ! میرے بیٹے کا خط پڑھ دو.وہ خط پڑھ دیتا ہے تو اسے تسلی نہیں ہوتی.پھر وہ کسی اور کو دیکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ وہ پڑھا ہوا ہے تو وہ اس کے پاس جاتی ہے اور کہتی ہے مجھے میرے بیٹے کا خط سنادو.اسی طرح جب تک وہ سات آٹھ آدمیوں سے اپنے بیٹے کا خط نہیں سن لیتی اسے تسلی نہیں ہوتی.پس تم میں سے جتنے بھی ان پڑھ ہیں انہیں دوسروں سے زیادہ ترجمہ سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر کسی چیز کو سیکھنے کی کوشش کی جائے تو وہ ضرور آجاتی ہے.ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ ایک بادشاہ کے وزیر تھے.انہیں علم سیکھنے اور سکھانے کا بہت شوق تھا.انہوں نے شہر کے لوگوں سے کہا مجھے چالیس لڑکے دے دو اور انہیں بارہ سال تک میرے پاس رہنے دو.اس کے بعد جو چاہیں کریں.لوگوں کو ان پر اعتبار تھا.انہوں نے اپنے لڑکے دے دیئے.اس بزرگ نے ایک مکان لے لیا اور خود بھی اس میں آگئے اور کچھ استاد رکھ لئے.ان کا طریق یہ تھا کہ صبح کے وقت اٹھتے اور قرآن کریم بچوں کے سامنے رکھ دیتے اور کہتے تلاوت کرو.اس کے بعد تہجد پڑھواتے.پھر صبح کی نماز کا وقت ہو جاتا.ان سے اذان دلواتے.اذان اور نماز کے درمیان انہیں قرآن کریم کی ایک آیت بتا دیتے اور کہتے اسے یاد کرلو.پھر صبح کی نماز پڑھواتے اور نماز کے بعد ایک حدیث یاد کراتے.اس کے بعد انہیں باہر لے جاتے اور ورزش کرواتے.جب دھوپ سر پر آجاتی تو انہیں دریا کے کنارے لے جاتے اور انہیں تیراندازی سکھاتے.جب ورزش اور تیراندازی کر کے واپس آجاتے تو انہیں دو تین چھوٹے چھوٹے اسباق اس رنگ میں دیتے کہ ایک چھوٹا سا مسئلہ نحو کا بتادیا.ایک چھوٹا سا مسئلہ صرف کا بتا دیا اور کسی بڑے شاعر کا ایک شعر بتا دیا اور اس کی لغت یاد کرادی.پھر ظہر کا وقت آجاتا.نماز پڑھواتے اور نماز کے بعد لڑکوں کو کوئی عربی کی ایک ضرب المثل یاد کرا دیتے.کوئی ایک فقہ کا مسئلہ بتا دیتے یا منطق کا کوئی مسئلہ بتا دیتے.پھر عصر کی نماز کا وقت آجاتا.عصر کی نماز پڑھواتے اور اس کے بعد انہیں باہر لے جاتے اور وہاں فنون جنگ کی مہارت کرواتے.اسی طرح وہ سارا دن انہیں مختلف کام سکھانے میں لگے رہتے.بارہ سال کے اندر اندر انہوں نے ان لڑکوں کو قرآن و حدیث کا پورا ماہر بنا دیا.قرآن کریم کا حافظ بنا دیا.پورا منطقی اور پورا فقیہ بنا دیا اور اس کے ساتھ انہیں پورا سپاہی بھی بنا دیا.غرض ایک ایک چیز کا روزانہ یاد کر لینا کوئی مشکل بات نہیں.تو روزانہ چند آیات یاد کر لو تو بڑی آسانی کے ساتھ تھوڑے ہی عرصہ میں سارے قرآن کا ترجمہ پڑھ سکتے ہو.بعض آیات تو بہت چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں.اگر انہیں دوسری چھوٹی آیات کے ساتھ ملا کر بڑی آیات کے برابر سمجھ لیا جائے اور اڑھائی تین سطروں کا بھی روزانہ اندازہ رکھا جائے تو بڑی آسانی کے ساتھ تم تین سال کے اندر اندر پورے قرآن کریم کا ترجمہ سیکھ سکتے ہو.یہ سکیم بچوں میں بھی شروع کرنی چاہئے اور اگر لجنہ اماء اللہ بھی اس سکیم کو اپنالے تو پھر مائیں اپنے بچوں کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا سکتی ہیں.تم بے شک خادم ہو لیکن اگر تمہیں خدمت کے طریق کا ہی پتہ نہ لگے تو تم کرو گے
542 کیا.بے شک پانی پلا دینا اور مسجد کی صفائی کر دینا بھی اچھے کام ہیں مگر قرآن کریم میں اور بھی ہزاروں احکام ہیں اور جب تم انہیں جانتے ہی نہیں تو تم ان پر عمل کیسے کر سکتے ہو.خادم کے لئے ضروری ہے کہ اسے آقا کی مرضی معلوم ہو.پس ایک نصیحت تو میں یہ کروں گا کہ تم اردو میں گفتگو کرنے کی عادت ڈالو او ر ا تنی عادت ڈالو کہ تمہارا لہجہ اردو دانوں کا سا ہو جائے.الفاظ اور محاورات کی اصلاح بعد میں ہو جائے گی.دوسری نصیحت میری یہ ہے کہ بے شک مخلوق کی خدمت کرو لیکن اگر تمہیں قرآن کریم کا ترجمہ نہیں آتا تو تم یہ کام پوری طرح نہیں کر سکتے.اگر تمہیں قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے تو باقی سب چیزیں تمہارے لئے آسان ہو جائیں گی.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جب شام میں گئے تو وہاں کے ایک وزیر نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کسی دینی مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کی ہے.انہوں نے جواب دیا میں نے تو صرف قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا ہے.جب قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہو تو باقی سب مضامین آسان ہو جاتے ہیں.اس کے مضامین کو سمجھنے کے لئے دوسری کتابوں کے حوالوں کی ضرورت پڑتی ہے اور اس طرح ساری چیزیں آجاتی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کے بعد دوسرے علوم کا شوق خود بخواد پیدا ہو جاتا ہے.ہمارا سارا علم تو ہے ہی قرآن.رسول کریم ملی الهلال لو او صرف قرآن کریم ہی پڑھے ہوئے تھے.لاہور میں میرے پاس ایک دفعہ دو دیو بندی مولوی آئے.ان میں سے ایک نے غصہ والی شکل بنا کر مجھ سے پوچھا آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں.میں نے کہا میں تو کچھ بھی پڑھا ہوا نہیں.صرف قرآن کریم جانتا ہوں.اس نے دوبارہ پوچھا.آپ بتا ئیں تو سہی آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں.میں نے کہا آپ کے نزدیک جو پڑھائی ہے وہ میں نے نہیں کی.میں صرف قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہوں.اس نے کہا بس آپ صرف قرآن کریم کا ترجمہ ہی جانتے ہیں.میں نے کہاہاں ترجمہ سے باہر کوئی چیز رہ جاتی ہو تو وہ میں نہیں جانتا.وہ غصہ میں تھا اور اس نے میرا جواب نہ سمجھا.دوسرے مولوی نے اسے چٹکی بھرتے ہوئے کہا وہ کہہ تو رہے ہیں میں قرآن پڑھا ہوا ہوں اور تم یہ ثابت کر کے کہ قرآن کریم سے با ہر کوئی چیز ہے اپنی کم علمی اور بیوقوفی کا ثبوت دے رہے ہو.بہر حال یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم کے اندر سارے علوم آجاتے ہیں.میں پرائمری فیل ہوں لیکن میں تمام مذاہب کو چیلنج کر کے کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا اعتراض ہو جس کا قرآن کریم کے ساتھ ٹکراؤ ہو تا ہو تو میں اس کا جواب دوں گا اور خالی جواب ہی نہیں دوں گا بلکہ اعتراض کرنے والے کو چپ کرا کے چھوڑوں گا.قرآن کریم کے اندر سارے گر موجود ہیں اور اصل عقل گروں سے ہی آتی ہے.اگر تم قرآن کریم پڑھ لو تو تمہارے اند ر وہ مادہ پیدا ہو جائے گا جس سے تم ہر قسم کے دشمن کا مقابلہ کر سکو گے اور تمہاری عقل اتنی تیز ہو جائے گی کہ دنیا کا کوئی علم ایسا نہیں ہو گا جس سے تم مرعوب ہو.پس قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے جس کی میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں.اس کے بعد میں آپ لوگوں کی خواہش کے مطابق دعا کروں گا.باقی خدام کو بھی اپنی دعاؤں میں شامل
543 کرلیں بلکہ ساری دنیا کے لوگوں کو اپنی دعاؤں میں شامل کرلیں تاکہ وہ قرآن کریم سیکھیں اور اس پر عمل کریں.خواہ کوئی ہندو ہے یا کوئی عیسائی یا کسی اور مذہب کا پیرو سب کو اسلام میں لانا ہمارا فرض ہے.اگر وہ قرآن کریم کو ماننے لگ جائیں ، مخلوق کی خدمت میں لگ جائیں تو یہی دنیا جو جنم نظر آتی ہے اور لڑائیوں کی جگہ بنی ہوئی ہے امن کا گہوارہ بن جائے".فرموده ۲۹ جولائی ۱۹۴۹ء مطبوعہ الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۰ء)
545 نوجوانوں سے ایک اہم خطاب " آج کل اسلامی شعار اختیار کرنے کے انگریزیت کا مقابلہ کرو.شعائر اسلامی کو ترجیح دو لئے ہمت سے کام لینا پڑتا ہے.یہ زمانہ ایسا ہے جس میں اسلام کی کوئی چیز بھی باقی نہیں رہی.لم يبق مِنَ الإِسلام الا اسمة - اسلام صرف نام کا رہ گیا ہے.تم اگر کسی کو ہیٹ پہنے دیکھو گے تو کہو گے دیکھو وہ انگریز بنا پھرتا ہے.لیکن اپنے منہ پر دیکھو تو وہاں انگریزیت پائی جاتی ہو گی.داڑھی منڈوائی ہوئی ہو گی.تم سرسے انگریز نہیں ہو گے تو منہ سے انگریز بنے ہوئے ہو گے.کسی کے سر پر پگڑی نہیں ہو گی تو نیچے سوٹ پہنا ہو گا.غرض کسی نہ کسی رنگ میں انگریزیت غالب ہو گی اور اس کا مقابلہ کرنا تمہیں مشکل معلوم ہو تا ہے"." نوجوانوں میں ہمت ہوتی ہے.نوجوان نادہند والدین کو ایثار اور قربانی کی طرف مائل کریں اس لئے ان کا زیادہ فرض ہے کہ وہ خود بھی چندہ دیں اور دوسروں کو بھی چندہ دینے پر مجبور کریں.اگر تمہارا باپ نادہندہ ہے تو کم از کم تم یہ تو کہہ سکتے ہو کہ آپ میرے باپ ہیں اور میں آپ کی عزت کرتا ہوں لیکن یہ کتنا ذلیل کام ہے جو آپ کرتے ہیں.میں صرف خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آپ کی عزت کرتا ہوں ورنہ جو کام آپ کرتے ہیں وہ ایسا نہیں ہے کہ آپ کی عزت کی جائے.تمہارے اندر اگر جرات ہو اور تم عقل سے کام لو تو تم یہ کام کرسکتے ہو.صرف جنون کی ضرورت ہے اور جنون ہی تمہیں کامیاب کرے گا.جن لوگوں میں جنون ہو گا وہ دوسروں کو مجبور کر دیں گے کہ ان کی بات مانیں اور اس پر غور کریں".( فرموده ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۹ء مطبوعه الفضل ۲۲ اگست ۱۹۶۴ء)
547 کوئی احمدی نوجوان ایسا نہ رہے جس نے دفتر دوم میں حصہ نہ لیا ہو تحریک جدید کے دفتر اول کے سولہویں سال اور دفتر دوم کے چھٹے سال کا آغاز کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۲۵ نومبر ۱۹۴۹ء کو ایک خطبہ جمعہ میں خدام الاحمدیہ کو دفتر دوم کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ دلائی.اس خطبہ کا خدام الاحمدیہ سے متعلق حصہ ذیل میں دیا جاتا ہے." دفتر دوم کے لئے نوجوانوں کو خصوصاً خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ جہاں جہاں بھی ہوں پورے زور کے ساتھ اس میں حصہ لیں اور دوسروں کو اس میں حصہ لینے کی ترغیب دلائیں.انہیں چاہئے کہ وہ سارے شہر اور علاقہ میں پھریں.خود وعدے لکھوائیں اور جو لوگ اس میں شامل نہیں ہیں یا جو لوگ مصنوعی طور پر اس میں شامل تھے یعنی ان کے برسر روزگار ہونے کی وجہ سے ان کے والدین نے رسمی طور پر ان کی طرف سے حصہ نہ لیا ہوا تھا یا جن لوگوں نے پورے طور پر اس میں حصہ نہیں لیا تھا، ان سے وعدے لکھوائیں اور زیادہ سے زیادہ لکھوائیں اور پھر ان کی وصولی کی طرف بھی توجہ دیں.میں نے صدر مجلس خدام الاحمدیہ کا بار اسی لئے اٹھایا ہے تا جماعت کے نوجوانوں کو دین کی طرف توجہ دلاؤں.سو میں سب سے پہلے ان کے سپرد یہ کام کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے ایمان کا ثبوت دیں گے اور آگے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور کوئی نوجوان ایسا نہیں رہے گا جو دفتر دوم میں شامل نہ ہو اور کوشش کریں کہ ساری کی ساری رقم وصول ہو جائے.پہلی غلطیاں جو سر زد ہوئی ہیں ان کا بھی ازالہ کریں.اگر گذشتہ سالوں کے بقائے وصول ہو جائیں تو دوا ڈھائی لاکھ روپیہ آجاتا ہے.ابھی بہت سے کام ہیں جو ہم نے کرنے ہیں.تحریک جدید کا بہت تحریک جدید - جدید کے توجہ طلب منصوبے سا قرض باقی ہے جو ادا کرنا ہے.ابھی بعض جگہوں پر جہاں مشن قائم ہو چکے ہیں، مسجدیں تیار کرنی ہیں اور یہ کام روپیہ چاہتے ہیں...خدام الاحمدیہ کوشش کریں کہ کوئی نوجوان ایسا نہ رہے جس نے تحریک جدید دفتر دوم میں حصہ نہ لیا ہو اور پھر کوئی رقم ایسی نہ رہے جو وصول نہ ہو ".خطبه جمعه فرموده ۲۵ نومبر ۱۹۴۹ء مطبوعه الفضل ۲ دسمبر ۱۹۴۹ء)
548 خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض نوجوانوں میں حقیقی دینی روح پیدا کرنا ہے فرمایا : - احباب کو معلوم ہو گا کہ میں نے مجلس خدام الاحمدیہ کی صدارت خود سنبھال لی ہے.میں نے یہ قدم اس لئے اٹھایا ہے کہ نوجوانوں کو زیادہ تر دین کی طرف مائل کیا جائے.جہاں تک تنظیم اور حفاظت مرکز کا تعلق ہے خدام الاحمدیہ نے اچھا کام کیا ہے.لیکن اس کے قیام کی غرض یعنی نوجوانوں میں صحیح دینی روح پیدا کی جائے پوری نہیں ہوئی.حقیقت یہ ہے روحانی جماعتوں کا اوڑھنا بچھونا سب روحانی ہو تا ہے.اس میں کو تاہی ہو جائے تو اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے.اس وجہ سے صدارت میں نے خود سنبھال لی ہے تاکہ میں خود براہ راست ان کی نگرانی کر سکوں".حضور نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :." بڑی عمر والوں کو اپنے فرائض کو محسوس کرتے ہوئے خدام الاحمدیہ کے کاموں میں دلچسپی لینی چاہئے تا اس سے نیک نتائج پیدا ہوں.انہیں چاہئے کہ ان کی کھیلوں ، علمی مقابلوں اور دیگر پروگرام میں شریک ہوں.اس طرح ان کے نقائص دور ہوں گے اور اخلاق ترقی کریں گے.پھر میں نوجوانوں کو بھی کہتا ہوں کہ وہ بڑی عمر خدام الاحمدیہ ہر جماعت میں اپنی مجلس قائم کریں والوں کو اپنی مجلسوں میں کھینچ لائیں.جب وہ شامل ہوں گے تو انہیں احساس ہو گا کہ ان کے بچے خدام الاحمدیہ کے کاموں میں شریک نہ ہو کر کتنا نقصان اٹھا رہے ہیں.خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ کوئی جگہ ایسی باقی نہ رہے جہاں مجلس قائم نہ ہو.اگر کسی جماعت کے نوجوان ہو شیار نہیں تو انہیں غیرت دلانے کے لئے انصار کو کھڑا ہو جانا چاہئے اور اپنے بیٹوں اور چھوٹے بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کو ترغیب دلانی چاہئے کہ وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہوں".فرمایا : " خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ اپنا وقت زیادہ تر ایسے کاموں میں لگائیں جو باجماعت نماز کی تلقین واقعہ میں اسلام کی شان کے مطابق ہو.مثلا نمازوں کی پابندی.نماز یں گھر میں بھی پڑھو تو اذان دے کر پڑھو.اگر مرد نہ ہو تو عورتیں باجماعت نماز ادا کریں.لجنہ اماءاللہ کو چاہئے کہ وہ عورتوں کو تلقین کرے کہ مائیں اپنے بچوں کو ساتھ لے کر جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں.اگر ایسا ہو جائے تو جماعتوں میں
549 بیداری پیدا ہو جائے گی اور بیت میں نہ جانے والوں کی اصلاح بھی ہو جائے گی.نمازوں کے علاوہ چاہئے کہ احباب ذکر الہی کثرت سے کریں.بیوت میں امام کے بکثرت ذکر الہی کی عادت انتظار میں جو وقت کاٹا جائے وہ بجائے دوسری باتوں میں صرف ہونے کے ذکر الہی میں خرچ کیا جائے.اس کے بعد حضور نے اسلامی شعار کی پابندی کی تلقین کی.اس موقعہ پر امریکن نو مسلم رشید احمد صاحب واقف زندگی کو بلا کر جماعت کے داڑھی رکھنے کی تلقین افراد سے کہا کہ امریکہ میں رہ کر انہوں نے داڑھی رکھی ہے.کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ یہاں رہ کر بھی داڑھی نہیں رکھ سکتے.پھر فرمایا :.خدام الاحمدیہ کے ذمہ ایک اہم ترین کام خدمت خلق ہے.مگر افسوس کہ اس طرف پوری توجہ نہیں دی گئی.خدام الاحمدیہ اور انصار یہ مشورہ دیں کہ اپنی کون سی تراکیب ہیں جن سے جماعت کے افراد کو خدمت خلق کی عادت ڈالی جا سکتی ہے ".پھر فرمایا : " ایک اہم چیز جس کی طرف میں جماعت کے نوجوانوں کو توجہ بہادری پیدا کرنے کی تلقین دلانا چاہتا ہوں وہ بہادری ہے.مگر بہادری کے یہ معنے نہیں کہ لڑائی کی جائے بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ عادت ڈالیں کہ کس طرح انسان دوسرے کے ظلم کو برداشت کر سکتا ہے کیونکہ مظلوم بننے سے زیادہ موثر اور کوئی چیز نہیں.حقیقت یہ ہے کہ جذ بہ قربانی اور ایثار کے ساتھ ہی دلوں کی صفائی ہوتی ہے.پس بہادری کا نمونہ دکھاؤ اور ماریں کھانے اور گالیاں سن کر برداشت کرنے کی عادت ڈالو لیکن بے غیرتی مت دکھاؤ کیونکہ بہادری بے غیرتی کا نام نہیں".ملخص از تقریر بر موقعه جلسه سالانه ۲۸دسمبر ۱۹۴۹ء مطبوعہ الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۵۰ء)
550 ایثار اور وقف زندگی کی تلقین ۳۰ دسمبر ۱۹۴۹ء کو حضور نے حضرت حافظ جمال احمد صاحب مبلغ ماریشس کی وفات کی اطلاع ملنے پر ایک نہایت ہی ایمان افروز خطبہ بیان فرمایا جس میں حافظ صاحب کی خدمات جلیلہ کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں نوجوانوں کو قربانی اور وقف زندگی کی تحریک فرمائی.(مرتب) وو میں دوسرے نوجوانوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ احمدیت کی ترقی بغیر قربانی اور بغیر وقف کے نہیں ہو سکتی.انہیں بھی اس چیز کا احساس ہونا چاہئے.سینکڑوں ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے وقف کیا مگر سینکڑوں انتظار کرنے والے بھی آگے آئیں تا ان کے نام خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں لکھے جائیں".(خطبه جمعه فرموده ۳۰ دسمبر ۱۹۴۹ء مطبوعه الفضل ۱۲ فروری ۱۹۵۰ء)
551 خدام الاحمدیہ کوشش کریں کہ کوئی نوجوان تحریک جدید میں حصہ لینے سے محروم نہ رہے میں نے گذشتہ تحریک کے اعلان کے موقعہ پر خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی کہ خصوصیت کے ساتھ دفتر دوم تحریک جدید کی طرف توجہ کریں....خدام الاحمدیہ کو میں دوبارہ اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ان کا فرض ہے کہ اس سال وہ کوشش کریں کہ کوئی نوجوان ایسا نہ رہے جس نے تحریک جدید دفتر دوم میں حصہ نہ لیا ہو.ہر جگہ کے خدام الاحمدیہ ہر فرد کے پاس جائیں اور تسلی کرلیں کہ ایک نوجوان بھی ایسا نہیں رہا جس کا تحریک جدید دفتر اول میں حصہ نہیں تھا اور تحریک جدید دفتر دوم میں بھی اس نے حصہ نہیں لیا.اس طرح جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے ہر جگہ خدام الاحمدیہ قائم نہیں میں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنی جگہوں پر مجلس خدام الاحمدیہ قائم کریں اور کوئی جگہ ایسی نہ رہے جہاں جماعت احمد یہ موجود ہو اور مجلس خدام الاحمدیہ قائم نہ ہو.نوجوانوں میں کام کی جو تحریک کی جائے وہ جلد اور بسہولت ترقی کرے.یہ کام اللہ تعالی کا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کے لئے وہ خود ہی ہر قسم کے رستے کھولے گا لیکن یہ اس کی عنایت ہے کہ وہ ہمیں اس کام کا موقعہ دے رہا ہے.پس مبارک ہے وہ شخص جسے خدا تعالیٰ نے ایسے زمانہ میں پیدا کیا جس کی امید لگائے ہوئے بڑے بڑے صلحاء اور اولیاء اور بزرگ سینکڑوں سال سے انتظار کر رہے تھے اور مبارک ہے وہ شخص جس کو خدا تعالی نے اس زمانہ میں پیدا کر کے اسے حضرت مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت کی بھی توفیق بخشی جس کی انتظار سینکڑوں سال سے دنیا کر رہی تھی.اس کی اہمیت اس بات سے معلوم ہو سکتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں برف کے میدانوں میں گھٹنوں کے بل بھی چل کر جانا پڑے تو اس کے پاس پہنچو اور اسے میرا سلام بھی پہنچاؤ اور پھر مبارک ہے وہ شخص جس کو حضرت مسیح موعود مهدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت کی بھی توفیق بخشی اور ایسے کام کی توفیق بخشی کہ اسے اس غرض کو جس کے لئے وہ دنیا میں آیا تھا، پورا کرنے کے لئے معتد بہ حصہ ملا اور ایسا حصہ ملا کہ خدا تعالیٰ کے لئے دفتر میں سابقون الاولون میں لکھا گیا.حضرت مسیح موعود کے مشن کی خدمت کرنا کتنی بڑی خوش قسمتی اور سعادت ہے پس
552 نوجوانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں زریں موقعہ عطا فرمایا ہے جو صدیوں بلکہ میں کہتا ہوں کہ ہزاروں سال میں بھی میسر نہیں آتا.دنیا نے چھ ہزار سال تک انتظار کیا پھر محمد رسول اللہ مال لال پیدا ہوئے.پھر تیرہ صدیاں مسلمانوں نے بھی انتظار میں گزاریں.پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ کے نائب ، بروز اور خلیفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیدا ہوئے.اس زمانہ کو شیطان کی آخری جنگ کہا گیا ہے.گویا اس سے زیادہ نازک وقت دنیا پر کبھی نہیں آیا اور آئندہ بھی کبھی نہیں آئے گا.سو اس موقعہ پر بھی جس کو کام کرنے کی توفیق ملے وہ نہایت ہی بابرکت انسان ہے.پس اپنی اہمیت کو سمجھو وقت کی نزاکت کو محسوس کرو اور خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر کرو جو اس نے تمہارے ہاتھوں کی پہنچ میں رکھی ہے.صرف تمہیں اپنا ہاتھ لمبا کرنے کی ضرورت ہے.جس کے لئے وہ صلحاء اور بزرگ بھی ترستے رہے جن کو یاد کر کے تمہاری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور تم ان پر رشک کرتے ہو.جس طرح ان کا تقویٰ اور ان کا زہد تمہارے لئے قابل رشک بزرگان امت کے کارناموں پر رشک ہے اسی طرح تمہار ا اس زمانہ میں کام کرنا بھی ان کے لئے قابل ہے رشک ہے.حضرت شبلی ، حضرت جنید بغدادی حضرت شہاب الدین سهروردی ، خواجہ معین الدین چشتی حضرت محی الدین ابن عربی کے نام جب تم پڑھتے ہو تو تمہیں اس بات پر رشک آتا ہے کہ انہوں نے کس کس رنگ میں خدا تعالیٰ کو پانے کی کوشش کی کیا کیا رستے برکتوں کے ان کے لئے کھولے اور تم رشک کرنے میں حق بجانب ہو کیونکہ وہ اپنے زمانے میں دین کے ستون تھے.وہ اپنے زمانہ میں خدا تعالیٰ کی امت کے نشان تھے اور خدا تعالیٰ کا چہرہ دکھانے والے تھے.میں سچ کہتا ہوں وہ بھی تم پر رشک کرتے ہیں کیونکہ تمہیں خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں پیدا کیا ہے جس کے لئے ان کو بھی تڑپ تھی.پس اپنی حیثیت کو سمجھتے ہوئے اور اپنے عالی مقام کو دیکھتے ہوئے تم وہ طریق کار تلاش کرو جو بڑے درجہ کے لوگوں کو اختیار کرنا چاہئے." خطبه جمعه فرموده ۱۳ جنوری ۱۹۵۰ء مطبوعه الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۵۰ء)
553 بسسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلی علی رسوله الكريـ نوجوانان جماعت! وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر ونسلان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے؟ ر قم فرمودہ حضرت المصلح الموعود) السلام عليكم ورحمة الله وبركاته تحریک جدید کے دفتر دوم کی مضبوطی کا کام اس سال میں نے خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا ہے.بعض مجالس کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ اس بارہ میں کوشش کر رہے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ ہر جگہ کے خدام سرگرم کوشش کر کے دفتر دوم کے وعدوں کو اس سال پانچ لاکھ تک لے جائیں.اس کیلئے ۵ فروری ۱۹۵۰ء کا دن مقرر کیا جاتا ہے.اس دن ہر شہر اور گاؤں میں جلسے کئے جائیں جن میں تحریک جدید کی اہمیت واضح کی جائے.اس کے بعد خدام گھر بہ گھر پھر کر نئے سال کے وعدے لیں اور یہ تسلی کریں کہ ان کے شہر میں کوئی ایسا نو جوان باقی نہ رہے جو تحریک جدید کے دفتر اول یا دوم میں شامل نہ ہو.چندہ کی شرح میں بھی کچھ رعایت کر دیتا ہوں.آئندہ دفتر دوم کا کم از کم و عدہ ماہوار آمد کے ۲۰ فی صدی کے برابر کیا جا سکتا ہے لیکن پانچ روپے سے کم کوئی وعدہ نہ ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو اور اس میں آپ کو کامیاب کرے.والسلام.خاکسار مرزا محموداحمد خلیفہ المسیح الثانی ۱۸ جنوری ۱۹۵۰ء ( مطبوعه الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۵۰ء)
554 ۱۹۵۰ء میں حضرت مصلح موعود نے مجلس شوری کے موقعہ پر یہ فیصلہ فرمایا " میں فیصلہ کرتا ہوں کہ صدرانجمن کے قاعدہ نمبر ۸۲ الف میں فقرہ نمبر ۲۰ کی صورت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا جائے کہ :.ان امور میں جو جماعت کے مجموعی یا عمومی مفاد پر اثر انداز ہو سکتے ہوں ، مقامی امیر کو مقامی انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کو حکم دینے کا اختیار ہو گا جو تحریری ہونا چاہئے اور ان مذکورہ بالا مجالس کو حق ہو گا کہ اگر وہ حکم کو ناواجب سمجھتی ہوں تو اپنی مرکزی مجلس کی معرفت صدر انجمن احمدیہ کو توجہ ولا ئیں".رپورٹ مجلس شوری ۱۹۵۰ء صفحہ ۴۲)
555 عالی ہمت نوجوانوں کی ابتدائی منزلیں تو ہوتی ہیں لیکن آخری منزل کوئی نہیں ہوا کرتی o اپنے لئے مناسب حال کام یا علم تلاش کرنا چاہئے تعلیم کے ختم کرنے پر ایک منٹ بھی یہ خیال نہ کریں کہ آرام کا وقت آگیا.آرام کا نہیں بلکہ کام کا وقت آگیا ہے o دعائے استخارہ کی اہمیت اور برکت تم پر اپنے نفسوں، تعلیمی اداروں اور خاندان اور ملک کی ذمہ داری ہے تمہیں اپنے ملک کی عزت اور ساکھ دنیا میں قائم کرنی ہو گی اے خدائے واحد کے منتخب کردہ نو جوانو ! آگے بڑھو (فرموده ۲ اپریل ۱۹۵۰ء)
556 ذیل میں سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا وہ خطبہ صدارت درج کیا جاتا ہے جو حضور نے ۱۲اپریل ۱۹۵۰ء کو تعلیم الاسلام کالج کے جلسہ تقسیم اسناد میں ارشاد فرمایا:."انسانی زندگی میں مختلف تغیرات آتے ہی رہتے ہیں اور یہی تغیرات انسانی زندگی کی دلچسپی کا موجب ہوتے ہیں.انسان کی زندگی سے ان تغیرات کو خارج کر دو تو اس کی ساری دلچسپی ختم ہو جاتی ہے.ایک لمبے عرصہ کی ہم آہنگی بھی بعض دفعہ انسانی فطرت کا جزو بن جاتی ہے لیکن فطرت کا جزو بنے اور دلچسپی کا موجب ہونے میں بہت بڑا فرق ہے.فطرت کا جزو بننے کے صرف یہ معنے ہیں کہ اس شخص کو ہم آہنگی کوئی غیر چیز نہیں معلوم ہوتی.وہ اسے ناپسند نہیں کرتا.وہ اس کا عادی ہو گیا ہے.بعض دفعہ اس ” ہم آہنگی " کو بدلنے سے وہ صدمہ بھی محسوس کرتا ہے مگر اسی طرح جس طرح بازو کا جو ڑالگ ہو جائے تو انسان تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن جب جو ڑاپنے مقام میں صحیح طور پر جڑا ہوا ہو تا ہے تو کوئی خاص کیفیت محسوس نہیں کرتا.ایک انسان کی ساری عمر اگر اس طرح گزر جائے کہ اس کے بازو کا جو ڑ صحیح طور پر جڑا ر ہے اور کبھی اس میں کوئی تکلیف نہ ہو تو شاید ایک دفعہ بھی اسے خیال نہ گزرے گا کہ اس کے بازو کا کوئی جو ڑ بھی ہے اور وہ اپنی جگہ پر صحیح طور پر جڑا ہوا ہے اور اپنے مقررہ کام کو اچھی طرح ادا کر رہا ہے کیونکہ ہم آہنگی سکون کو پیدا کرتی ہے لیکن فکر میں ہیجان پیدا نہیں کرتی.پس زندگی در حقیقت تغیرات کا نام ہے.کوئی ترقی بغیر تغیر کے نہیں.منزل بہ منزل آگے کو بڑھنے یعنی مختلف نیک تغیرات کے سلسلہ میں سے گزرنا ہی ترقی کی تعریف ہے.خدا تعالی ازلی ابدی صداقت ہے.ذات کے لحاظ سے وہ غیر متبدل بھی کہلاتا ہے لیکن صفات کے لحاظ سے وہ بھی غیر متناہی تغیرات اور تبدیلیوں کا حامل ہے.اگر اس کی صفات کے ظہور میں تغیر اور تنوع نہ ہو تا تو وہ ایک منفی خدا ہوتا جیسا کہ ہندوؤں اور بدھوں کا تصور ہے ، وہ ایک مثبت خدا نہ ہو تا جیسا کہ قرآن کریم کا نظریہ ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَانٍ فَنَا نِ الآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِبن (الرحمن:۳۰) یعنی خدا تعالیٰ ہر زمانہ میں ایک نئی اور اہم حالت میں ہوا ہے.پس بتاؤ تو سہی کہ تم خدا تعالی کی کس نعمت کا انکار کرو گے؟ ان آیات میں نہایت وضاحت سے صفات الہیہ کے مثبت پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور انسانی ترقی کی ایک جامع مانع تعریف کر دی گئی ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کا زاد یہ انسانوں کی طرف ہر وقت تبدیل ہو تا رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ ظہور صفات سے ہم آہنگی قائم رکھنے کیلئے انسان کو زاویہ بدلنا پڑے گا.گھوڑے کو سدھانے والا ایک چکر میں کھڑا ہو جاتا ہے اور گھوڑے کی رسی پکڑ کر خود چاروں طرف گھومتا ہے.گھوڑے کو بھی اسکے سامنے گھومنا پڑتا ہے.مرکزی شے کے گھومنے کا دائرہ بہت چھوٹا بلکہ عین مرکز میں صفر کے برابر ہوتا ہے مگر پہلوؤں پر کھڑے ہوئے گھوڑے کو رسی کے برابر لمبافاصلہ طے کر کے چاروں طرف دوڑنا پڑتا ہے اور اس میں اسکے فن میں کمال پیدا کرنے کا راز مخفی ہے.خدا تعالیٰ اپنا پہلو ہر وقت بدلتا ہے.انسان کو اس کے پہلو بدلنے کے ساتھ اپنا قدم بڑھانا پڑتا ہے تاخد اتعالیٰ سے ہم آہنگی قائم رہے.یہ تغیر خدا تعالیٰ کے ساتھ انسانی تعلق میں تغیر پیدا نہ ہونے دینے کیلئے ضروری ہے اور اس تغیر سے انسان انسانیت کے
557 فن میں کمال پیدا کرتا ہے.جس طرح سدھانے والے کے گرد چکر میں دوڑ کر گھوڑا گھوڑے کی قابلیتوں میں کمال حاصل کرتا ہے اور اسی کمال کے مختلف ٹکڑے ترقی کے نام سے موسوم ہوتے ہیں.غرض آیت مذکورہ بالا میں یہ امر واضح کیا گیا ہے کہ صفات باری تعالیٰ میں ہر وقت ایک نئی تبدیلی پیدا ہوتی رہتی ہے اور اس تبدیلی کے ساتھ انسان کو بھی اپنے اند رصفات باری کے موجودہ دور کے مطابق تبدیلی کرنی پڑتی ہے اور اس سے بنی نوع انسان کا قدم ترقی کی طرف اٹھتا ہے.دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار میں بنی نوع انسان کا قدم ترقی کی ایک خاص جہت کی طرف اٹھا ہے.کسی وقت فلسفہ کا دور آیا ہے تو کسی وقت ادب کا.کسی وقت اخلاق کا دور آیا ہے تو کسی وقت فنون لطیفہ کا.کسی وقت قانون سازی کا دور آیا ہے تو کسی وقت تصور و شجاعت کا.غرض اچھے انسانی دماغوں میں ہر زمانہ میں ایک ہم آہنگی معلوم ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم بالا کی کشش ہر زمانہ کے اعلیٰ دماغوں کو اس زمانہ کے صفاتی دور کی طرف کھینچنے میں لگی رہتی ہے اور اس فن میں انسانی دماغ زیادہ ترقی کر جاتا ہے جس طرف کہ صفات باری اس وقت اشارہ کر رہی ہوتی ہے.قرآن کریم نے اسے ” ملاء اعلیٰ " کی مشاورت کا نام دیا ہے.یہ آسمانی فیصلے جس طرح روحانی امور کے متعلق ہوتے ہیں اسی طرح دنیوی علوم کے متعلق بھی ہوتے ہیں اور وہ دماغ جو اپنا زاویہ صفات باری کے موجودہ زاویہ کے عین مطابق کر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اپنے زمانے کے اور اپنے فن کے راہنما بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور تاریخ میں ایک نام پیدا کر لیتے ہیں.اسی کی طرف رسول کریم میں نے دعائے استخارہ سے اشارہ کیا ہے.انسان بے شک اپنی محنت کا پھل کھاتا ہے لیکن بے موسم محنت بھی تو رائیگاں جاتی ہے.شاید ہر غلہ سال کے ہر حصہ میں بویا جا سکتا ہے اور کچھ نہ کچھ روئیدگی بھی اس سے حاصل کی جاسکتی ہے لیکن وہ غلہ جو اپنے موسم میں بویا جاتا ہے اس کی کیفیت ہی اور ہوتی ہے.اسی طرح شاید ہر غلہ ہر ملک میں بویا جاسکتا ہے لیکن وہ غلہ جو اس ملک میں بویا جاتا ہے جس کی زمین کو اس غلہ سے مناسبت ہے اس کی کیفیت ہی اور ہوتی ہے.ہر انسان کے لئے ہر علم کا حاصل ہونا اور ہر قسم کا کام کرنا ممکن ہے لیکن ہرفن میں اس کا صاحب کمال ہونا ضروری نہیں.اس کے دماغ کی مخفی قابلیتوں کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے.وہی جانتا ہے کہ مختلف مفید علوم میں سے کون سا علم اور مختلف مفید کاموں میں سے کون سا کام اس کی طاقتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس کے زمانہ اور اس کے ملک اور اس کی قوم کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے لئے مناسب ہے.پس فرمایا کہ خواہ اچھے سے اچھا کام ہو اس کے شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالٰی سے دعا کر لیا کرو.جس کے الفاظ آپ نے یہ تجویز فرمائے ہیں:.اللهم إنّي اَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَاسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَاسْتَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ العظيم - فَإِنَّكَ تَقْدِرُ ولا اقدر و تَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنتَ عَلامُ العُيُوب - اللهم إِن كُنتَ تعلم ان هذا الأمر خير لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَة امْرَى فَا قَدِرَهُ لِى وَ يَسرُهُ لِى فِي
558 دينِي وَ مَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى فَاصْرِفُهُ عَتِي وَ اصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدِرُ لِي الْخَيرَ حَيْتُ كَان تم ارضِنِي بِه - یعنی اے میرے رب جو کام میں کرنے لگا ہوں یا جو علم میں حاصل کرنے لگاہوں یا جو ذمہ داری میں اٹھانے لگا ہوں اس کے بارہ میں تجھ سے جو میری مخفی طاقتوں سے بھی واقف ہے، اپنے زمانہ حال کے متعلق ارادوں سے بھی واقف ہے اور میری ذاتی ، قومی ، ملکی اور عالمگیری ضرورتوں اور ذمہ داریوں سے بھی واقف ہے ، سب سے بهتر فیصلہ طلب کرتا ہوں اور پھر تجھ سے یہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ اس فیصلہ کے مطابق مجھے کام کرنے کی تجھ سے توفیق اور امداد حاصل ہو اور تیسری بات تجھ سے یہ طلب کرتا ہوں کہ جو بات میرے لئے مناسب ہو اور جس کی طرف تو میری راہنمائی کرے اور جس کے حاصل کرنے کے لئے تو میری مدد کرے ، اس کام یا اس ذمہ داری کے ادا کرنے میں تیرا انتہائی فضل مجھ پر نازل ہو اور میں اس کام میں ادنیٰ مقام حاصل نہ کروں بلکہ مجھے اس میں اعلیٰ مقام حاصل ہو.میں تجھ سے یونہی اور بلاوجہ درخواست نہیں کرتا بلکہ اس وجہ سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ جن امور کے پورا کرنے کی مجھے طاقت نہیں، تجھے ہے اور جن مخفی باتوں کا مجھے علم نہیں ، تجھے ہے.پس اے خدا! اگر تیرے علم میں وہ کام جو میں کرنا چاہتا ہوں میرے لئے اچھا ہے ، میری دینی ضرورتوں کے لحاظ سے بھی اور اس لحاظ سے بھی کہ جو طاقت اور محنت میں اس کام میں خرچ کروں گا اس کا نتیجہ مجھے زیادہ سے زیادہ اچھا حاصل ہو سکے گا تو پھر تو تو اس کام کے کرنے کی مجھے توفیق عطا فرما اور اس کام کو اعلیٰ درجہ کی تکمیل تک پہنچانے کے لئے مجھے سہولت بخش اور اس کے نتائج کو میرے لئے وسیع سے وسیع تر بنا اور اگر اس کے برخلاف تیرے علم میں یہ ہو کہ یہ کام میرے لئے مناسب نہیں ، دین کے لحاظ سے یا اس لحاظ سے کہ میری محنت کے مطابق اس سے نتیجہ پیدا نہ ہو گاتو تو اس کام کے راستہ میں روکیں ڈال دے اور میرے دل میں بھی اس سے بے رغبتی پیدا کر دے اور اس کے سوا جس امر میں میرے لئے بہتری ہے ، اس کے سامان میرے لئے پیدا کر دے اور اس کی طرف میری توجہ پھیر دے اور اس کی خواہش میرے دل میں پیدا کر دے.یہ دعا کتنی کامل ہے اور اس میں کس لطیف پیرایہ میں اس امر کی طرف دلائی گئی ہے کہ ہر اچھا کام ہر زمانہ اور انسان کے لئے مفید نہیں ہو تا بلکہ اچھے سے اچھا کام بھی بعض زمانوں میں اچھا نہیں رہتا اور اچھے سے اچھا کام بھی بعض قوموں اور بعض افراد کے لئے اچھا نہیں ہو تا.پس اپنی محنت کے اعلیٰ سے اعلیٰ پھل حاصل کرنے کے لئے انسان کو وہ کام اختیار کرنا چاہئے جو اس کے لئے اور اس کی قوم کے لئے اور بنی نوع انسان کے لئے اس زمانہ میں مفید ہو اور جسے اعلیٰ طور پر بجالانے کی اس میں ذاتی قابلیت موجود ہو.اگر یہ نہ ہو تو اسے وہ کام یا علم کسی دوسرے بھائی کے لئے چھوڑ دینا چاہئے اور خود اپنے لئے اپنے مناسب حال کام یا علم تلاش کرنا چاہئے لیکن چونکہ بنی نوع انسان کی ترقی کا معاملہ انسانی جد و جہد اور اس کی دماغی قابلیتوں کے علاوہ خدا تعالیٰ کے صفات کے ظہور کے موجود الوقت مرکز کے ساتھ
559 بھی وابستہ ہے اس لئے کسی کام کو شروع کرنے یا کسی علم کی تحصیل کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے اللہ تعالی سے بھی یہ دعا کر لینی چاہئے کہ اس زمانہ کے متعلق جو اس کی تجویز اور فیصلہ ہے وہ اسے اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بخشے تاکہ اچھا پیج اچھی زمین میں مناسب موسم میں پڑے تا اعلیٰ سے اعلیٰ کھیتی پیدا ہو اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو.جیسا کہ میں شروع میں بتا چکا ہوں، انسانی زندگی کی سب دلچسپیاں ایک غیر متناہی تغیر سے وابستہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرتے ہوئے غیر متناہی تغیر کے سامان بھی اس کے ساتھ ہی پیدا کر دیئے ہیں لیکن جب تغیر صحیح اصول پر ہو تو وہ تغیر ترقی کا موجب ہوتا ہے اور جب غلط اصول پر ہو تو تنزل کا موجب ہو تا ہے لیکن سکون اپنی ذات میں ہمیشہ ہی تنزل کے سامان مخفی رکھتا ہے.جو قوم ساکن ہو جاتی ہے وہ ہمیشہ نیچے ہی گرتی چلی جاتی ہے.پس ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ یہ امر ہمیشہ اپنے مد نظر رکھیں کہ اس زمانہ میں سکون موت کا نام ہے.جو کھڑا ہو گا وہ مرجائے گایا پیچھے کی طرف دھکیلا جائے گاجو دوسرا نام موت کا ہی ہے.پس انہیں چاہئے کہ اپنی تعلیم کے ختم کرنے پر وہ ایک منٹ بھی یہ خیال نہ کریں اب شاید ان کے لئے آرام کا وقت آگیا ہے.انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ آرام کا نہیں بلکہ کام کا وقت آگیا ہے.جیسا کہ میں اوپر کہہ آیا ہوں اسلامی اصول کے لحاظ سے ہر وقت انسان کے لئے آگے قدم بڑھانا ضروری ہے اور اس کی ترقی اس بات کے ساتھ وابستہ ہے کہ وہ صرف قدم ہی آگے نہ بڑھائے بلکہ اس جہت میں بڑھائے جس جہت کی طرف خدا تعالیٰ کی صفات اشارہ کر رہی ہوں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ جو کام کریں دعا کر کے اللہ تعالٰی سے مدد مانگ کر کریں.میں خصوصاً ان طلباء کو جنہوں نے کہ یونیورسٹی کی تعلیم ختم کی ہے اور ڈگریاں حاصل کی ہیں ان کے فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.جب انہوں نے تعلیم شروع کی تھی تو انہیں یہ بات معلوم نہ تھی کہ رسول کریم ملی اهل لالی نے ہر بڑے کام کے لئے استخارہ مقرر فرمایا ہے اور شاید اپنے لئے مضامین کا انتخاب کرتے وقت انہوں نے دعاؤں میں کو تاہی کی ہو لیکن اب جب کہ ان کی پہلی منزل ختم ہو گئی ہے اور دوسری منزل شروع ہونے والی ہے جو شاید بہت سی منزلوں کا پیش خیمہ ہو گی تو انہیں چاہئے کہ وہ اسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق خدا تعالی سے دعا کر کے اپنے لئے راہ عمل تجویز کریں.شاید بعض لوگوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ یونیورسٹی کی ڈگری لینے والوں اور کالج کے طلباء کو مخاطب کرتے وقت یہ کیا راگ چھیڑ دیا گیا ہے تو میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ پاکستان کا مطالبہ ہی اس دعویٰ پر مبنی تھا کہ اسلام ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو ہم سیاسی وجوہ کی بناء پر ترک کرنے کے لئے تیار نہیں اور اسلام نام ہے خدا تعالیٰ اس کی قدرتوں اور اس کے نبیوں پر ایمان لانے کا.اگر ہم اپنے دعووں کی بنیا د اسلام پر رکھتے ہیں تو ہم کو یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی زندہ قدرتوں پر ایمان رکھتے ہیں ورنہ ہمیں نہ کسی
560 الگ حجتہ کے بنانے کی ضرورت تھی اور نہ ہی یہ مناسب تھا.دوسرے مذاہب بطور جبہ کے پہنے جاسکتے ہیں مگر اسلام نہیں.اسلام ایک زندہ مذہب ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں دخل انداز ہوتا ہے اور ہمارے ہر فعل پر حکومت کرنا چاہتا ہے.اگر ہم اسلام کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ ہماری زندگی کے ہر شعبہ پر خدا اور اس کے رسول کو تصرف حاصل ہو گا اور یہ بھی ماننا پڑے گا کہ دنیا کی ترقی اور تنزل میں اللہ تعالیٰ کے ارادہ کو بہت بڑا دخل حاصل ہے.اگر ہم ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے تو ہم در حقیقت ایک مردہ خدا کا مجسمہ پوجتے ہیں اور بت پرستوں سے زیادہ ہماری حیثیت نہیں اور ظاہر ہے کہ مردہ خدا ایک مردہ گھوڑے کے برابر بھی قیمت نہیں رکھتا کیونکہ مردہ گھوڑے کا چمڑا اور اس کی ہڈیاں تو کام آسکتی ہیں لیکن مردہ خدا کی کوئی چیز بھی کسی کام میں نہیں آسکتی.اگر ہم خدا تعالٰی پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں ایک زندہ خدا پر یقین رکھنا ہو گا اور اگر ہم ایک زندہ خدا پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ اس دنیا کے روز مرہ کاموں میں دخل رکھتا ہے اور ہماری ترقی کے ساتھ اس کی قدرتوں اور اس کے فضلوں کا بھی تعلق ہے اور ظاہر ہے کہ اگر ہم یہ یقین رکھیں گے تو پھر ہمیں اپنی کوششوں کے ساتھ اس سے استخارہ کرنے کی بھی ضرورت ہوگی اور یہی چیز ہے جس کو اسلام پیش کرتا ہے.پس میں ان نوجوانوں کو جو تعلیم سے فارغ ہو کر اپنی زندگی کے دوسرے مشاغل کی طرف مائل ہونے والے ہیں ، کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے قانون کے مطابق سکون حاصل کرنے کی باطل کوشش نہ کرو بلکہ ایک نہ ختم ہونے والی جد وجہد کے لئے تیار ہو جاؤ اور قرآنی منشاء کے مطابق اپنا قدم ہر وقت آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہو کہ وہ آپ کو صحیح کام کرنے اور صحیح وقت پر کام کرنے اور صحیح ذرائع کو استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر اس کام کے صحیح اور اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرے.یاد رکھو کہ تم پر صرف تمہارے نفسوں کی ذمہ داری نہیں، تم پر تمہارے اس ادارے کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہیں تعلیم دی ہے اور اس خاندان کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہاری تعلیم پر خرچ کیا ہے خواہ بالواسطہ خواہ بلاواسطہ اور اس ملک کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہارے لئے تعلیم کا انتظام کیا ہے اور پھر تمہارے مذہب کی بھی تم پر ایک ذمہ داری ہے.تمہارے تعلیمی ادارے کی جو تم پر ذمہ داری ہے وہ چاہتی ہے کہ تم اپنے علم کو زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھے طور پر استعمال کرو.یونیورسٹی کی تعلیم مقصود نہیں ہے.وہ مقصود کو طے کرنے کے لئے پہلا قدم ہے.یونیورسٹی تم کو جو ڈگریاں دیتی ہے وہ اپنی ذات میں کوئی قیمت نہیں رکھتیں بلکہ ان ڈگریوں کو تم اپنے آئندہ عمل سے قیمت بخشتے ہو.ڈگری صرف تعلیم کا ایک تخمینی و زن ہے اور ایک تخمینی و زن ٹھیک بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ہو سکتا ہے.محض کسی یونیورسٹی کے فرض کر لینے سے کہ تم کو علم کا ایک تخمینی و زن حاصل ہو گیا ہے، تم کو علم کا وہ فرضی درجہ نصیب نہیں ہو جا تاجس کے اظہار کی یونیورسٹی ڈگری کے ساتھ کوشش کرتی ہے.اگر ایک یونیورسٹی سے نکلنے والے طالب علم اپنی آئندہ زندگی میں یہ ثابت منزل
561 کریں کہ جو تخمینی وزن ان کی تعلیم کا یونیورسٹی نے لگایا تھا ان کے پاس اس سے بھی زیادہ وزن کا علم موجود ہے تو دنیا میں اس یونیورسٹی کی عزت اور قدر قائم ہو جائے گی لیکن اگر ڈگریاں حاصل کرنے والے طالب علم اپنی بعد کی زندگی میں یہ ثابت کر دیں کہ تعلیم کا جو تخمینی وزن ان کے دماغوں میں فرض کیا گیا تھا ان میں سے بہت کم درجہ کی تعلیم پائی جاتی ہے تو یقینا لوگ یہ نتیجہ نکالیں گے کہ یونیورسٹی نے علم کی پیمائش کرنے سے غلطی سے کام لیا ہے.پس تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یونیورسٹیاں اتنا طالب علم کو نہیں بنا تیں جتنا کہ طالب علم یونیورسٹیوں کو بناتے ہیں.یا دو سرے لفظوں میں یہ کہہ لو کہ ڈگری سے طالب علم کو عزت نہیں ہوتی بلکہ طالب علم کے ذریعہ ڈگری کی عزت ہوتی ہے.پس تمہیں اپنے پیما نہ علم کو درست رکھنے بلکہ اس کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے اور اپنے کالج کے زمانہ کی تعلیم کو اپنی عمر کا پھل نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اپنے علم کی کھیتی کا بیج تصور کرنا چاہئے اور تمام ذرائع سے کام لے کر اس پیج کو زیادہ سے زیادہ بار آور کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے تاکہ اس کوشش کے نتیجہ میں ان ڈگریوں کی عزت بڑھے جو آج تم حاصل کر رہے ہو اور اس یونیورسٹی کی عزت بڑھے جو تمہیں یہ ڈگریاں دے رہی ہے اور تمہاری قوم تم پر فخر کرنے کے قابل ہو اور تمہارا ملک تم پر اعلیٰ سے اعلیٰ امیدیں رکھنے کے قابل ہو اور ان امیدوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھے.تم ایک نئے ملک کے شہری ہو.دنیا کی بڑی مملکتوں میں سے بظاہر ایک چھوٹی سی مملکت کے شہری ہو.تمہارا ملک مالدار ملک نہیں ہے، ایک غریب ملک ہے.دیر تک ایک غیر حکومت کی حفاظت میں امن اور سکون سے رہنے کے عادی ہو چکے ہو.سو تمہیں اپنے اخلاق اور اپنے کردار بدلنے ہوں گے.تمہیں اپنے ملک کی عزت اور ساکھ دنیا میں قائم کرنی ہو گی.تمہیں اپنے وطن کو دنیا سے روشناس کرانا ہو گا.ملکوں کی عزت کو قائم رکھنا بھی ایک بڑا دشوار کام ہے لیکن ان کی عزت کو بنانا اس سے بھی زیادہ دشوار کا ہے اور یہی دشوار کام تمہارے ذمہ ڈالا گیا ہے.تم ایک نئے ملک کی نئی پود ہو.تمہاری ذمہ داریاں پرانے ملکوں کی نئی نسلوں سے بہت زیادہ ہیں.انہیں ایک بنی بنائی چیز ملتی ہے.انہیں آباؤ اجداد کی سنتیں یا روایتیں وراثت میں ملتی ہیں مگر تمہارا یہ حال نہیں ہے.تم نے ملک بھی بنانا ہے اور تم نے نئی روایتیں بھی قائم کرنی ہیں.ایسی روایتیں جن پر عزت اور کامیابی کے ساتھ آنے والی بہت سی نسلیں کام کرتی چلی جائیں اور ان روایتوں کی راہنمائی میں اپنے مستقبل کو شاندار بناتی چلی جائیں.پس دوسرے قدیمی ملکوں کے لوگ ایک اولاد ہیں مگر تم ان کے مقابلہ پر ایک باپ کی حیثیت رکھتے ہو.وہ اپنے کاموں میں اپنے باپ دادوں کو دیکھتے ہیں.تم نے اپنے کاموں میں آئندہ نسلوں کو مد نظر رکھنا ہو گا.جو بنیاد تم قائم کرو گے آئندہ آنے والی نسلیں ایک حد تک اس بنیاد پر عمارت قائم کرنے پر مجبور ہوں گی.اگر تمہاری بنیاد ٹیڑھی ہو گی تو اس پر قائم کی گئی عمارت بھی ٹیڑھی ہوگی.اسلام کا مشہور فلسفی شاعر کہتا ہے کہ :
562 خشت اول مچون نهد معمار سج تا ثریا رود دیوار سج یعنی اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھتا ہے تو اس پر کھڑی کی جانے والی عمارت اگر ثریا تک بھی جاتی ہے تو ٹیڑھی ہی جائے گی.پس بوجہ اس کے کہ تم پاکستان کی خشت اول ہو ، تمہیں اس بات کا بڑی احتیاط سے خیال رکھنا چاہئے کہ تمہارے طریق اور عمل میں کوئی کبھی نہ ہو کیونکہ اگر تمہارے طریق اور عمل میں کوئی کبھی ہو گی تو پاکستان کی عمارت ثریا تک ٹیڑھی چلتی چلی جائے گی.بے شک یہ کام مشکل ہے لیکن اتنا ہی شاندار بھی ہے.اگر تم اپنے نفسوں کو قربان کر کے پاکستان کی عمارت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دو گے تو تمہارا نام اس عزت اور اس محبت سے لیا جائے گاجس کی مثال آئندہ آنے والے لوگوں میں نہیں پائی جائے گی.پس میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی نئی منزل پر عزم استقلال اور علو حوصلہ سے قدم مارو.قدم مارتے چلے جاؤ اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے قدم بڑھاتے چلے جاؤ کہ عالی ہمت نوجوانوں کی منزل اول بھی ہوتی ہے، منزل دوم بھی ہوتی ہے ، منزل سوم بھی ہوتی ہے لیکن آخری منزل کوئی نہیں ہوا کرتی.ایک منزل کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری وہ اختیار کرتے چلے جاتے ہیں.وہ اپنے سفر کو ختم کرنا نہیں جانتے.وہ اپنے رخت سفر کو کندھے سے اتارنے میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں.ان کی منزل کا پہلا دور اسی وقت ختم ہوتا ہے جب کہ وہ کامیاب اور کامران ہو کر اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے حاضر ہوتے ہیں اور اپنی خدمت کی داد اس سے حاصل کرتے ہیں جو ایک ہی ہستی ہے جو کسی کی خدمت کی صحیح داد دے سکتی ہے.پس اے خدائے واحد کے منتخب کردہ نوجوانو! اسلام کے بہادر سپاہیو! ملک کی امیدوں کے مرکز و قوم کے سپوتو ا آگے بڑھو کہ تمہارا خدا تمہارا دین تمہارا ملک اور تمہاری قوم محبت اور امید کے مخلوط جذبات سے تمہارے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں.“ فرموده ۲ اپریل ۱۹۵۰ء مطبوعه الفضل ۲۱ اکتوبر ۱۹۶۴ء)
563 احمدی نوجوان توجہ کریں! مندرجہ بالا عنوان سے یہ نوٹ حضور کا ۲۰ اگست ۱۹۵۰ء کا تحریر فرمودہ ہے جو الفضل ۸ ستمبر ۱۹۵۰ء میں شائع ہوا.(مرتب) ” دس سال سے تحریک کی سندھ کی زمینوں پر احمدی نوجوانوں کو لگایا ہوا ہے لیکن اس دس سال کے عرصہ میں انہوں نے ایک پیسہ کی آمد نہیں دی اور تمیں لاکھ کی جائیداد پر وہ قابض ہیں.سچائی کی یہ حالت ہے کہ بجٹ بناتے وقت اگر دو لاکھ کا نفع دکھاتے ہیں تو سال کے آخر پر ستر ہزار کا گھاٹا دکھاتے ہیں.مثال کے طور پر محمد آباد اسٹیٹ کا بجٹ ۵٬۲۵٬۶۳۶ تھا.یہ وہ بجٹ تھا جو ان کا اپنا تحریر کردہ بجٹ تھا اور یہ وہ اندازے تھے جو ذلیل ترین پیداوار پر ہونے چاہئیں.اگر کوئی دیانتداری سے کام لیتے ہوئے یہ کام کرے تو اس سے زیادہ پیداوار ہونی چاہئے کم نہیں لیکن جو نتیجہ پیدا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ۷۲۲ ۱۰۰ و ۴ کی آمد پیدا کی.گویا ۱۴,۹۱۴ وا کی کم آمدن پیدا کی اس کے مقابل پر خرچ کم نہیں کیا بلکہ خرچ ۴۹۸, ۹۴ زیادہ کیا.خرچ کا بجٹ ۱۶۳ ۴٫۲۷٫ پیش کیا تھا اور عملاً ۵٫۰۵٫۲۲۰ خرچ کیا.گویا ۷۸٫۰۵۷ زائد از بجٹ خرچ کیا اور یہ ایک سال کا حال نہیں بلکہ تحریک جدید کے نوجوان متواتر ایسا کر رہے ہیں.بعض آٹھ آٹھ نو نو سال سے آئے ہوئے ہیں.انہیں اس سے زیادہ کوئی غرض نہیں کہ انہیں کھانے کو مل جائے.معلوم ہوتا ہے کہ انہیں نوکری کہیں نہیں ملی.انہوں نے بے کار رہنے سے بہتر خیال کیا کہ وقف کر دیا جائے اور انہوں نے وقف کر دیا اور یہاں آگئے.ان کے مقابلہ پر میری زمین پر ملازم کام کر رہے ہیں اور اس وقت تک ماشاء اللہ ہر سال نفع ہی دیتے ہیں.اللہ تعالٰی آئندہ بھی انہیں ایسی بے ایمانی سے بچائے.آمین.میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ اگر احمدیت کے ابتدائی دنوں میں تمہارا یہ حال ہے تو آئندہ چند سالوں کے بعد تم کتنا گند کھاؤ گے.پس اپنے لئے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ایسی گندگی اور غلاظت سے بچائے اور اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرو.زندگی بے شک اسلام کے لئے وقف کرو.اس لئے نہ کرو کہ ہم وہاں جا کر بیٹھ رہیں گے اور کوئی کام نہ کریں گے اور خرچ ملتا رہے گا." فرموده ۲۰ اگست ۱۹۵۰ء مطبوعه الفضل ۸ ستمبر ۱۹۵۰ء)
564 نوجوانوں کو دینی روح میں پہلوں سے بڑھ کر ہونا چاہئے تحریک جدید کے متعلق تمبر ۱۹۵۰ء میں حضور نے کراچی میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.”جہاں تک نئے نوجوانوں کا تعلق ہے میں دیکھتا ہوں کہ ان کی حالت بہت زیادہ افسوسناک ہے.چھٹے سال کے وعدے ایک لاکھ بیس ہزار کے تھے مگر اس میں سے صرف ۴۳ فی صدی وصولی ہوئی ہے حالانکہ نوجوانوں میں اخلاص اور قربانی کی روح پہلوں سے زیادہ ہونی چاہئے.کبھی کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کے نوجوان پہلوں سے زیادہ قربانی کرنے والے نہ ہوں." فرموده ۱۵ ستمبر ۱۹۵۰ء مطبوعه الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۵۰ء)
565 اپنے اندر سچا ایمان ، پیم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو اجتماع کے موقعہ پر بعض اصولی ہدایات خدام الاحمدیہ کے مستقل فرائض ایمان صرف کلمہ پڑھنے کا نام نہیں بلکہ یادر کھنے اور عمل کرنے کا نام ہے
566 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۲۱ اکتوبر ۱۹۵۰ء کو تین بجے بعد دو پھر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے افتتاحی خطاب فرماتے ہوئے ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی جو ذیل میں درج کی جاتی ہے.(مرتب) دنیا میں جب بھی کوئی اجتماع ہوتا ہے تو ہمیشہ اسے ایک مناسب صورت دی جاتی ہے اور اسلام نے بھی اس کو ملحوظ رکھا ہے.مثلاً ہمارا روزانہ کا اجتماع نماز ہے.نماز کو ہمارے خدا نے شروع سے ہی ایک ایسی شکل دی ہے جو سارے مسلمانوں میں یکساں نظر آتی ہے یعنی سب مسلمانوں کا ایک طرف منہ کرنا ، پھر ایک خاص وقت میں خاص قسم کی حرکات کرنا یعنی نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اوپر اٹھانا، پھر سینہ پر ہاتھ باندھنا منہ قبلہ رخ کرنا ، رکوع کرتے وقت سب کا گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک جانا سجدہ کرتے وقت دونوں ہاتھ زمین پر رکھنا سجدہ میں منہ اور ناک زمین پر لگانا اور اسی طرح کی اور مختلف حرکات کرنا اور ان سب باتوں کا ایک ہی وقت میں تمام کے تمام مسلمانوں میں جاری ہونا اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وحدت کامل وحدت صوری کے بغیر نہیں ہو سکتی.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ خدام میں وہ وحدت صوری پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی.کچھ خدام تو ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور کچھ ہاتھ لٹکائے کھڑے ہیں.کچھ خدام ایک طرف دیکھ رہے ہیں تو کچھ دوسری طرف دیکھ رہے ہیں.گویا اس تھوڑے سے وقت میں بھی خدام اس تنظیم کو جو در حقیقت اسلام نے ہی قائم کی ہے لیکن مسلمانوں نے اسے بھلا دیا ہے ، قائم نہیں رکھ سکے.دوسرے صفیں ٹیڑھی ہیں.کوئی خادم آگے کھڑا ہے تو کوئی پیچھے کھڑا ہے.بے شک خیمے لگے ہوئے ہیں اور خدام ان کے آگے کھڑے ہیں لیکن جہاں خیمے ترتیب کے ساتھ ایک لائن میں لگائے گئے ہیں وہاں چاہئے تھا کہ صفیں بھی ترتیب کے ساتھ لگائی جاتیں.پس میری پہلی ہدایت تو یہ ہے کہ آئندہ اگر خیمے لگائے جائیں تو وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک ہی لائن اور ایک ہی صف میں ہوں.دوسرے چونکہ خدام نے ایک خاص وقت میں صف میں کھڑا ہونا ہوتا ہے اس لئے خیموں کے آگے ایک لائن لگادی جائے جس پر تمام خدام ایڑیاں رکھ کر کھڑے ہوں.صف بندی ہمیشہ ایڑیوں کے ساتھ ہوتی ہے انگلیوں کے ساتھ نہیں ہوتی.اگر صف بندی انگلیوں کے لحاظ سے کی جائے گی تو کسی کا پاؤں چھوٹا ہوتا ہے اور کسی کا بڑا.اس لئے کسی کا پاؤں آگے ہو جائے گا اور کسی کا پیچھے.پس صرف ایڑھی ہی ایسی چیز ہے جس پر صف بندی کی بنیاد رکھی جاتی ہے اس لئے آئندہ کے لئے یہ بات نوٹ کرلی جائے کہ ہر خیمہ کے آگے ایک لائن کھینچ دی جایا کرے تا اس پر خدام سیدھی ایڑیاں رکھ کر کھڑے ہو جایا کریں.اس کے علاوہ صف بندی کی خاص طور پر مشق کرانی چاہئے.رسول کریم ملی یا فرماتے ہیں کہ نماز میں جس کی صف سیدھی نہیں اس کا دل ٹیڑھا ہے.ہمیں جب عید کے موقع پر یا کسی جنازہ کے لئے کھلے میدان میں صفیں بندھوانی پڑتی ہیں تو باوجود پوری کوشش کے وہ ہمیشہ خراب رہتی ہیں کیونکہ مسجدوں میں
567 دیواروں اور صفوں کی وجہ سے صفیں سیدھی باندھی جاسکتی ہیں لیکن کھلے میدانوں میں ایسا مشکل ہوتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ جوانی میں صف سیدھی رکھنے کی عادت نہیں ڈالی جاتی.پس خدام کو ہدایت دینی چاہئے کہ وہ صف بندی کی مشق کریں اور پھر اپنی اپنی جگہوں پر جا کر باقی خدام کو صف بندی کی مشق کرائیں.فوجیوں کو دیکھ لو.ان کی صفیں ہمیشہ سیدھی ہوتی ہیں.ہمارے لوگ صف سیدھی کرنے کے لئے نیچے جھک کر دیکھتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کرتے.فوجیوں میں صف سیدھی کرنے کا یہ طریق ہے کہ وہ سید ھے چھاتی نکال کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کندھے کے ساتھ کندھا ملا لیتے ہیں.پھر آنکھ کو دائیں پھیر کر دیکھتے ہیں کہ کہیں صف ٹیڑھی تو نہیں.اگر صف ٹیڑھی معلوم ہو تو فور اسیدھی کر لیتے ہیں.پس جہاں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر مختلف قسم کی مشقیں کرائی جائیں وہاں خدام کو صف بندی کی بھی عادت ڈالی جائے اور یہ کام اسی اجلاس سے شروع کر دینا چاہئے.قائد اور زعماء جو یہاں موجود ہیں انہیں صف بندی کے اصول بتائے جائیں.جب آخری دن آئے گا یعنی پر سوں صبح تو کوئی وقت نکال کر میں آپ کو اکٹھا کروں گا اور کھڑا کر کے دیکھوں گا کہ آیا آپ صحیح طور پر اپنی صفیں سیدھی کر سکتے ہیں اور آیا قائدین اور زعماء کو وہ طریق یا د ہو گیا ہے جسے ملحوظ رکھ کر خدام کو صفیں سیدھی رکھنے کی مشق کرائی جائے گی.تیسری بات میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب ایسے کام کئے جائیں تو صحیح طریق یہ ہوتا ہے کہ خدام سیدھے کھڑے ہو جا ئیں اور اپنی نظریں سامنے رکھیں اور خواہ کتنی ہی اہم بات کیوں پیدا نہ ہو وہ اپنی نظریں سامنے سے نہ ہٹا ئیں.یہ چیز بھی اسلام میں جاری کی گئی ہے.نماز میں یہ حکم ہے کہ نمازی اپنی نظر اپنی سجدہ گاہ پر رکھے.رسول کریم ملی والی فرماتے ہیں کہ نماز میں جو شخص دائیں یا بائیں دیکھتا ہے یا اس کی نظر نیچے اور اوپر پھرتی ہے قریب ہے کہ خداتعالی اس کی بینائی کو اچک لے.اب دیکھ لو یہ کتنا خطرناک وعید ہے کہ خداتعالی ایسا کرنے والے کو اندھا کر دے گا.غرض وہ سارے احکام جواب تنظیم کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اسلام میں پہلے سے موجود ہیں.ہمیں یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ صرف نماز میں ہی نہیں بلکہ تنظیم کے جو مواقع بھی پیش آئیں ان میں ہمیں انہی اصولوں پر کاربند رہنا چاہئے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تمام خدام جو کھڑے ہیں ان میں سے کچھ دائیں طرف دیکھ رہے ہیں تو کچھ بائیں.کچھ اوپر دیکھ رہے ہیں اور کچھ نیچے.حالانکہ اسلامی اصول کے مطابق چاہئے تھا کہ آپ سب سامنے دیکھتے.میرا خطیب ہونے کے لحاظ سے یہ کام ہے کہ چاروں طرف دیکھوں.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت جب میں سامنے دیکھنے کی نصیحت کر رہا ہوں اس وقت بھی خدام دا ئیں اور بائیں اور اوپر اور نیچے دیکھ رہے ہیں.انسان کو کم از کم نصیحت کے وقت تو اس پر عمل کر لینا چاہئے.بد قسمت ہے وہ شخص جو تنظیم کے وقت اپنا کام بھول جاتا ہے لیکن کم از کم وہ کمزوری جو ناقابل معافی ہے اور حیرت انگیز ہے وہ یہ ہے کہ انسان اسی وقت جب کہ نصیحت ہو رہی ہو اس کی خلاف ورزی کرے.اس کے بعد میں آپ لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں، اخبارات پڑھنے والے جانتے ہیں اور جن جماعتوں میں میں گیا ہوں ، وہ بھی جانتی ہیں کہ میں اڑھائی ماہ سے شدید کھانسی میں مبتلا ہوں اور میرا گلا بیٹھا ہوا ہے.یہاں آکر
568 کچھ آرام آگیا تھا لیکن خطبہ سے دوبارہ تکلیف شروع ہو گئی ہے.اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں گر داڑتی ہے اور گرد کھانسی کے لئے مہلک ہوتی ہے.اس لئے باوجود اس خواہش کے کہ میں اکثر وقت یہاں گزاروں میں ایسا نہیں کر سکوں گا.نائب صدر میری جگہ پر کام کریں گے سوائے ان وقتوں کے جن میں میں یہاں ٹھہرنے کا فیصلہ کروں یا میری صحت مجھے ٹھرنے کی اجازت دے.اس لئے میں خدام کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جب وہ کوئی اور کام نہ کر رہے ہیں اور وہ مجھے یہاں آتا دیکھیں تو وہ اپنی آنکھیں اسی طرح بند کر لیں کہ گویا انہوں نے مجھے دیکھا ہی نہیں.اگر وہ مجھے دیکھ کر میری طرف بھاگیں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ گر داڑے گی او.میں بیمار ہو جاؤں گا اور آئندہ اجتماع میں شریک نہ ہو سکوں گا.سوائے دو تین اشخاص کے جو میرے ساتھ آنے اور جانے کے لئے مقرر ہیں ، دوسرے خدام کو میرے ساتھ نہیں چلنا چاہئے بلکہ اگر مخصوص عملہ کے سوا کوئی اور شخص میرے ساتھ آرہا ہو تو انہیں چاہئے کہ اسے الگ کر کے سمجھا دیں کہ اس کا اس طرح میرے ساتھ جانا منع ہے اور پرائیویٹ سیکرٹری کو چاہئے کہ وہ میرے ساتھ آنے والے مخصوص عملہ پر مخصوص لیبل لگا دیں تاکہ ان کے علاوہ اگر کوئی اور شخص میرے ساتھ آ رہا ہو تو کار کن اس کو ہٹا سکیں.اس کے بعد میں خدام الاحمدیہ کو ان کے ان مستقل فرائض کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو اسلام کی ابتداء سے ان پر عائد ہوتے ہیں لیکن مختلف وقتوں میں لوگ انہیں بھول جاتے رہے ہیں اور انہیں یاد کرانے کے لئے خدا تعالیٰ کے انبیاء دنیا میں مبعوث ہوتے رہے ہیں.نمازوں کے طریق بدلتے رہے ہیں.اعمال کی تفصیلات بدلتی رہتی ہیں.روزوں کے طریق بدلتے رہے ہیں.حج کی جگہیں بھی بدلتی رہی ہیں.حج کی کیفتیں بھی بدلتی رہی ہیں.زکوۃ کے طریق بھی بدلتے رہے ہیں اور زکوۃ کے نصاب بھی بدلتے رہے ہیں لیکن بعض ایمانی اعتقادی اور عملی اصول ایسے ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک ایک ہی رہے ہیں اور قیامت تک ایک ہی رہیں گے.نہ حضرت آدم علیہ السلام نے ان کے خلاف کیا نہ حضرت نوح علیہ السلام نے ان کے سوا کوئی اور تعلیم دی ، نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے انحراف کیا نہ حضرت موسیٰ اور نہ حضرت عیسی علیهما السلام نے ان سے الگ ہو کر تعلیم دی اور نہ رسول کریم میں اللہ نے ان سے جداگانہ تعلیم دی.حضرت آدم علیہ السلام سے رسول کریم می اید و یا تک اور رسول کریم میں لایا اور سے لے کر قیامت تک وہ اصول ایک ہی ہیں اور ایک ہی رہیں گے لیکن بعض زمانے ایسے آتے ہیں جب لوگ ان اصولوں کو بھول جاتے ہیں اور بعض زمانے ایسے آتے ہیں جب مومنوں کو بڑے تعمد اور سختی کے ساتھ ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.ان اصولوں میں سے پہلی چیز ایمان ہے.ایمان کی اسلامی تشریح تو یہ ہے کہ انسان اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهدان محمدا عبده ورسوله کے فارمولا پر جس کو عربی میں کلمہ کہتے ہیں یقین اور ایمان رکھے.لیکن دیکھ لو جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایمان کیا چیز ہے یا اسلام کیا چیز ہے تو تم کلمہ شہادت پڑھتے ہو اور کہتے ہو اس پر ایمان اور یقین رکھنا.جس سے معلوم ہوا کہ ایمان اور چیز ہے اور کلمہ شہادت اور چیز
569 ہے.ایمان در حقیقت وہ قوت محرکہ ہے جو صداقتوں کو ماننے اور صداقتوں کو دنیا میں پھیلانے کے پیچھے عمل کر رہی ہوتی ہے.اشھدان لا اله الا الله و اشهد ان محمدا عبدہ ورسولہ وہ کلمہ ہے جو رسول کریم ملی علیم کے زمانہ میں اور پھر اس کے بعد کے لوگوں میں قوت محرکہ کے طور پر رہا ہے.یعنی جب رسول کریم ال اللہ اس دنیا میں موجود تھے اس وقت بھی یہ کلمہ قوت محرکہ کے طور پر تھا اور آپ کے بعد کے زمانہ میں بھی یہی کلمہ قوت محرکہ کے طور پر ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں کوئی کلمہ نہیں تھا بلکہ یہ عقیدہ رکھنا کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں تا وہ اپنی قوم کی اصلاح کریں اور ان کے اعمال درست کریں ، اسی کو قوت محرکہ قرار دیا گیا تھا.اس سے قبل حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا اور ان کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرنا قوت محرکہ قرار دیا گیا تھا.گویا اسلام سب جگہوں پر موجود تھا لیکن اس کی شکلیں بدل گئی تھیں.اسی طرح ایمان ہر جگہ تھا لیکن قوت محرکہ بدلتی رہتی تھی.ایمان صرف کلمہ کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس یقین اور اعتماد کا جو صداقت اور اصول صداقت پر ہو.جو انسانی اعمال اور زندگی کو اس کے تابع کر دے.بے شک کسی وقت اس کا جزو حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لانا تھا.کسی وقت اس کا جز و حضرت موسیٰ یہ السلام پر ایمان لانا تھا.کسی وقت اس کا جزء حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان ارانا تھا لیکن اب محمد رسول اللہ اور آپ کی لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان لانا اس کا جزو ہے.پس پہلی چیز جس سے کوئی قوم بنتی ہے ، وہ ایمان یہ تو مذ ہی چیز ہے لیکن جب ہم قوموں کی طرف جاتے ہیں تو ان کے اندر ایمان ایک الگ رنگ میں ہوتا ہے جسے نیشنل سپرٹ یا قومی روح کہا جاتا ہے.گویا قومی روح سیاسی ایمان ہے.ایک انگریز کا ایمان یہ ہے کہ حکومت کی جو شکل بنتی ہے اس کی حفاظت اور قیام کے لئے وہ ہمیشہ فعال رہے گا.ایک امریکن کا ایمان یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے ماتحت علاقوں کو جو شکل حاصل ہے، اس کی حفاظت اور ترقی کے لئے وہ ہمیشہ کوشاں رہے گا.یه سیاسی ایمان بھی اسی طرح کا ہے جس طرح کا مذہبی ایمان ہے کہ مذہب کی تمام صداقتوں پر ایمان لایا جائے اور اس کے جو اصول ہیں ان کی حفاظت اور اشاعت کے لئے اپنی ساری زندگی لگادی جائے اور جس وقت کوئی شخص یہ پختہ عہد کر لیتا ہے کہ میں ان صداقتوں اور ان اصولوں پر قائم رہوں گا اور دوسروں کو بھی ان کی طرف بلاؤں گا تو اسے ایمان کہتے ہیں.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کا دوبارہ احیاء کیا گیا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ اسلام زندہ ہی ہے لیکن موجودہ لوگوں کا یقین اور اعتماد جو بے کار ہو چکا تھا اور خدا اور اس کار سول اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے تھے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے دوبارہ زندہ کرنے کے لئے اس دنیا میں تشریف لائے.پس احمدیت میں داخل ہونے والے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جس اصول صداقت کو اسلام نے پیش کیا ہے یعنی اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و اشهدان محمدا عبده و
570 رسولہ اس کو وہ صحیح سمجھتا ہو.اس کے اندر یہ یقین پایا جاتا ہو کہ وہ عقیدہ جس پر اسے قائم کیا گیا ہے وہ لفظا لفظا اپنے تمام اجزاء سمیت اور اپنے مجموعی معانی کے مطابق بالکل صحیح اور درست ہے اور یہ ضروری چیز ہے کہ وہ اسے دل میں قائم رکھے اور اسے دنیا میں پھیلائے.یہ اس زمانہ کا اسی طرح کا ایمان ہے جس طرح یہ اس زمانہ کا ایمان تھا جس میں رسول کریم میں اور دنیا میں ظاہر ہوئے تھے.میں ہمیشہ دیکھتا ہوں کہ اکثر لوگ ایمان کے یہ معنے سمجھتے ہیں کہ وہ ان الفاظ کو دہرا دیں جو کلمہ میں پائے جاتے ہیں یعنی اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و اشهد ان محمدا عبده و رسولہ.یہ کوئی لمبا فقرہ نہیں.کوئی لمبی سورۃ اور کتاب نہیں جس کو کوئی ہندو سکھ یا عیسائی یاد نہ کر سکے بلکہ یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے جس کو ایک ہندو ایک عیسائی ایک سکھ ایک زردشت یا شنٹو ازم کا قائل بھی ایک دومنٹ کے بعد دہرا سکتا ہے.پس اگر اس میں کوئی جادو ہے اور یہی الفاظ انسان کو کچھ کا کچھ بنا دینے کے قابل ہیں تو ہزاروں ہزار منکرین اسلام جو قرآن مجید کو محض اس کی تکذیب کرنے کے لئے پڑھتے ہیں وہ بھی مسلمان ہو جاتے.لیکن حال یہ ہے کہ ہزاروں ہزار اشخاص نے ہزار ہا دفعہ اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شریک له و اشهد ان محمدا عبده و رسولہ پڑھا اور پھر بھی وہ کافر کے کا فرد ہے بلکہ وہ ان لوگوں سے زیادہ کا فر تھے جنہوں نے اسے بغیر پڑھے رد کیا کیونکہ ان لوگوں نے کلمہ کے الفاظ کو پڑھ کر اور اس کا مفہوم سمجھ کر اس کو رد کیا جب کہ دوسروں نے اسے بغیر پڑھے رد کر دیا.پس ایمان کلمہ پڑھنے کا نام نہیں بلکہ ان باتوں کو یاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے کا نام ہے جو اس میں بیان کی گئی ہیں اور اس یقین کا نام ہے جو عمل پیدا کرتا ہے اور اس قوت محرکہ کا نام ہے جو عقیدہ کو عمل کی صورت میں تبدیل کرتی چلی جاتی ہے.اس کی مثال کے طور پر میں بیلنا پیش کرتا ہوں.بیلنا اس چیز کا نام ہے جس میں گنے پہلے جاتے ہیں اور ان سے رس نکالی جاتی ہے.خالی بیلنا مفید نہیں ہو سکتا.اگر بلنے لگا دیئے جائیں اور ان کو خالی چلاتے رہیں تو ملک کو نہ رس ملے گی اور نہ شکر.بلینے سے رس اس وقت پیدا ہو گی جب اس میں گنے ڈالے جائیں گے اور پھر اس اس سے شکر بنائی جائے گی.پس کلمہ کے الفاظ پر خالی یقین کر لینے کی مثال آپ وہ بیلنا سمجھ لیں جس میں گنے نہ ڈالے جائیں اور قوت محرکہ ایسی ہی ہے جیسے بیلینے میں گنے ڈال کر اسے حرکت دی جاتی ہے.جس طرح بلینے کے اندر ایک ایسی مشین ہے جو گنے کو حرکت دیتی ہے اور اس سے رس نکلتی ہے اسی طرح عقیدہ کے اندرجب تک قوت محرکہ نہ پائی جائے اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو تا.کلمہ کے الفاظ کو خالی مانا کوئی مفید چیز نہیں.کلمہ کے الفاظ کو اس حد تک مانا چاہئے کہ وہ انسان کے اندر حرکت کر کے نئے اعمال پیدا کر دے اور اسی وقت اسے ایمان کہتے ہیں.اس سے پہلے وہ صرف عقیدہ ہے ایمان نہیں.عقید ہ کا لفظ عربی میں اس بات کو کہتے ہیں جس کو ہم مانتے ہیں اور ایمان کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب ہم اس سے فائدہ حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں.ایمان کے معنے ہیں امن دینا فائدہ اور راحت پہنچانا اور یہ ظاہر
571 ہے کہ محض عقیدہ سے دنیا میں امن قائم نہیں ہو تا.دنیا میں امن ان اعمال سے پیدا ہو تا ہے جو ہم عقیدہ کے نتیجہ میں بجالاتے ہیں.گویا ایمان عقیدہ اور قوت محرکہ کے مجموعہ کا نام ہے.جب عقیدہ اتنا پختہ ہو جاتا ہے کہ انسان اپنے اندر اس کے ذریعہ تبدیلی پیدا کرے تو اس کو مومن کہتے ہیں.جہاں تک عقیدہ کا سوال ہے دنیا میں ہزاروں ان پڑھ لوگ بھی ایسے ملیں گے جو کہیں گے کہ اللہ ایک ہے اور محمد رسول اللہ لی لی اس کے رسول ہیں.گاؤں کی ایک بڑھیا عورت سے بھی پوچھو تو وہ کہے گی یہ بات سچ ہے کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کے رسول ہیں.بعض اوقات یہ لوگ مر بھی جائیں گے مگر یہی کہیں گے کہ یہ بات سچ ہے لیکن باوجود اس کے وہ اسلام کی اشاعت کے لئے کوئی فکر اور کوئی تدبیر نہیں کر رہے ہوتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر عقیدہ تو ہو تا ہے ایمان نہیں ہو تا.وہ یہ تو مانتے ہیں کہ خدا ایک ہے اور محمد اس کے رسول ہیں لیکن یہ ماننے کا مقام اتنا ترقی نہیں کر تاکہ یہ بات ان کے فکر عقل اور جذبات کا ایک حصہ بن جائے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک سفید رنگ کا آدمی کالا کپڑا اوڑھ لے.اب وہ کالا کپڑا اوڑھ لینے سے کالا نہیں بن جاتا.ہاں وہ دور سے ایک کالی چیز نظر آتا ہے لیکن ایک کالے رنگ کا آدمی ہو تو جہاں تک جلد کا تعلق ہوتا ہے وہ اندر سے بھی کالا ہوتا ہے اور باہر سے بھی کالا ہوتا ہے یا شلا سیاہی جسم پر مل لینے کی وجہ سے کوئی شخص کالا نہیں ہو جاتا وہ تو صرف کو تنگ ہو گی.یہ عقیدہ کی مثال ہے لیکن ایمان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی چیز واقع میں سیاہ ہو.کوئی چیز واقع میں سفید ہو.کوئی چیز واقع میں سرخ ہو.کوئی چیز واقع میں زرد رنگ کی ہو.غرض احمدیت میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے جو چیز اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے وہ ایمان ہے.عقیدہ اس کا ایک حصہ ہے یعنی ایمان دو چیزوں کا نام ہے اور وہ عقیدہ اور قوت محرکہ ہیں اور عقیدہ ایک چیز کا نام ہے یعنی کسی چیز کو سچا سمجھنا.پھر ایک شخص میں کام کا جوش ہو تا ہے ، ایک میں نہیں.یعنی عقیدہ اور قوت محرکہ الگ الگ بھی پائی جاتی ہیں.ہزاروں ہزار آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جو عقیدہ رکھتے ہیں لیکن ان میں قوت محرکہ نہیں پائی جاتی.اسی طرح ہزاروں ہزار آدمی ایسے ہوتے ہیں جن میں عقیدہ نہیں پایا جاتا صرف قوت محرکہ پائی جاتی ہے.وہ کام کرتے ہیں لیکن کوئی مقصد اپنے سامنے نہیں رکھتے.گویا عقیدہ مقصد پر دلالت کرتا ہے اور ایمان مقصد اور اس کے مطابق عمل پر دلالت کرتا ہے.دنیا میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو مقصد رکھتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے اور دنیا میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو عمل کرتے ہیں لیکن کوئی مقصد نہیں رکھتے.لیکن مومن وہ ہے جو مقصد اور عمل دونوں کا مجموعہ ہوتا ہے.دوسری چیز جو احمدیت میں داخل ہو کر انسان کو اپنے اند ر پیدا کرنی چاہئے وہ عمل ہے.ایمان کے بعد عمل کا مقام آتا ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں قوت محرکہ عمل میں آجاتی ہے.مثلاً بیلنا ہے.بلینے میں اگر گناڈالا جائے جو قوت محرکہ کا قائم مقام ہے اور پھر بیلنا حرکت کرے تو اس سے رس ٹپکنے لگتی ہے.اسی طرح انسان کے اندر جب عقیدہ پیدا ہوتا ہے اور قوت محرکہ بھی پیدا ہوتی ہے تو قوت محرکہ مقصد کے ساتھ مل کر رس
572 پیدا کرتی ہے.جس طرح بیلنا ہو مگر اس میں گنا نہ ڈالا جائے تو بیلنے کو حرکت دینے سے اس نہیں ٹپکتی.اس طرح اگر صرف عقیدہ ہی عقیدہ ہو قوت محرکہ نہ ہو تو اس سے انسان کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتا.جس طرح بلینے کو جب تک حرکت نہ دی جائے اور اس میں گنا نہ ڈالا جائے انسان رس حاصل نہیں کر سکتا.رس نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ بیلنا میں گنے ڈالے اور پھر اسے حرکت دے اسی طرح جب کوئی مقصد معین ہو تا ہے اور پھر انسان کے اندر ایک جوش ہو تا ہے کہ اسے اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے کچھ کرنا چاہئے اور پھر انسان وہ کام کرنے لگ جائے تو اس کو عمل کہتے ہیں.عمل کے بغیر بھی انسان صحیح نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا.میں نے بتایا ہے کہ خالی بیلنا حرکت کر تار ہے اس میں گنا نہ ڈالا جائے تو رس حاصل نہیں ہو سکتا اسی طرح عقیدہ ہو لیکن قوت محرکہ صحیح طور پر کام نہ کرے تو ایمان بے کار ہے ، اسی طرح اگر عمل ہو ایمان نہ ہو تو وہ عمل بھی بے کار ہے.اس کا کوئی مفید نتیجہ حاصل نہیں ہو گا.یورپ والے کتنا عمل کر رہے ہیں لیکن چونکہ وہ عمل ایمان کے تابع نہیں اس لئے وہ روحانیت سے دور ہیں.در اصل عمل ایمان کا لباس ہے اور ایمان مخفی چیز ہے.جب ہم لباس کو دیکھتے ہیں تو اس سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی آدمی ہے.فرض کرو دور سے کوئی آدمی آ رہا ہے.ہم اس کے کپڑے دیکھتے ہیں تو ان کپڑوں سے سمجھ لیتے ہیں کہ وہ کوئی آدمی ہے.کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ محض کپڑے ہی ہوتے ہیں کوئی آدمی وہاں نہیں ہو تا.جیسے کوئی کپڑے دھو کر سکھانے کے لئے دیوار یا کسی درخت پر لٹکا دے.لیکن عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ جب کپڑے نظر آئیں تو اس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی آدمی ہے.اگر کوئی قمیص ہل رہی ہے اور ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے کہ دیکھو وہ کوئی آدمی آرہا ہے تو وہ اسے جھٹلائے گا نہیں.یہ نہیں کہے گا کہ تم جھوٹ کہتے ہو.دس لاکھ میں سے نو لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے حالات میں وہ آدمی ہو تا ہے خالی قمیص نہیں ہوتی لیکن کبھی کبھی خالی قمیص بھی لٹکی ہوئی ہوتی ہے اور یہ استثنائی چیز ہے.ورنہ عام حالات میں قمیص اور آدمی دونوں اکٹھے ہوں گے.اسی طرح جب عمل نہیں ہو گا ہم ایمان کو نہیں مانیں گے اور عمل ایمان کے بغیر پیدا نہیں ہو تا.عمل گواہی دیتا ہے ایمان پر اور ایمان پیدا کرتا ہے عمل کو.تیسری چیز جو احمدیت میں داخل ہونے والے کے لئے اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہے وہ راست بازی ہے.یہ خلق بھی کام کے لئے ایک اصولی خلق ہے.راستبازی اپنی ذات میں ایک طبعی چیز ہے.مثلاً کوئی شخص آپ کے سامنے بوٹ رکھے اور کہے کہ یہ کیا ہے تو آپ کہیں گے یہ بوٹ ہے اور اگر وہ شخص یہ کہے کہ تم اسے بوٹ نہ کہو تو تم کہو گے اور کیا کہوں یہ ہے ہی بوٹ.غرض راستبازی ایک طبعی چیز ہے اور انسان مجبور ہوتا ہے کہ وہ سچ کہے لیکن جب مصلحتا وہ اسے بدلنا چاہتا ہے تو وہ ایک غیر طبعی چیز بن جاتی ہے..راستبازی مذہبی چیز نہیں.راستبازی انسان کا طبعی حصہ ہے.جب تم سچ بولنے سے انکار کرتے ہو تو گویا فطرت کا انکار کرتے ہو.راست بازی کس چیز کا نام ہے.فرض کرو تمہارے سامنے پہاڑ کا ایک ٹیلہ ہے تو تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ ایک گدھا ہے.
573 تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ ریل ہے.تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ لنڈن ہے.تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ نیو یارک ہے.تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ دہلی ہے.تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ دریا ہے.تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ ایک خیمہ ہے.تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ ایک خادم ہے جو پہرہ دے رہا ہے.تم یہ سب کچھ کہہ سکتے ہو لیکن جو شخص تمہارے ساتھ سازش میں شریک نہیں ہو گا اسے جب تم کہو گے کہ یہ پہاڑی ہے تو وہ کہے گا ٹھیک ہے لیکن جب تم کہو گے یہ خیمہ ہے تو وہ کہے گا یہ جھوٹ ہے.تم پاگل ہو گئے ہو.جب تم کہو گے یہ لنڈن ہے تو وہ کہے گالا حول ولا قوۃ الا باللہ.اگر تم کہو گے کہ یہ نیو یارک ہے تو وہ کہے گا پاگل خانہ میں جا کر دماغ کا علاج کراؤ.غرض جھوٹ یا سازش میں جو شریک نہ ہو اس کے سامنے جب کسی چیز کا وہ نام لو جو اس کا اصلی نام نہیں تو تین کنڈیشنز ہوں گی.یا تو وہ کہے گا یہ تمسخر کر رہا ہے یا کہے گا کہنے والا احمق ہے یا کہے گا یہ جھوٹ ہے.ان تین حالتوں کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہو سکتی.غرض راست بازی ایک طبعی خلق ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ جب کسی کے سامنے تم ایک چیز کا ہی نام لو گے جو اس کا اصلی نام ہے تو وہ اس کی تصدیق کرے گا اور جب کوئی اور نام لو گے تو وہ تمہاری تکذیب کرے گا.تم اپنی بیوی بیٹے ماں باپ اور بھائی کے سامنے بھی کوئی اور نام لے کر انہیں یقین دلانے کی کوشش کرو گے تو وہ تمہاری تکذیب کریں گے.تم اگر اپنے بچہ کے سامنے بھی اس پہاڑی کے متعلق یہ کہو گے کہ کراچی سے ایک خادم آیا ہے اور وہ پہرہ دے رہا ہے تو وہ کسے گا باپ مذاق کر رہا ہے.تم اگر زیادہ زور دو گے تو ہو سکتا ہے وہ مان جائیں اور کہیں زیادہ نہ چڑاؤ کہیں جنون بڑھ نہ جائے.پس راست بازی با ہر سے نہیں آتی بلکہ انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے.باہر سے اسے منایا جاتا ہے.مثلاً تم اپنے کسی دوست سے مذاق کرنا چاہتے ہو.تم ایک بانس پر شلوار اور قمیص لٹکا کر کہو گے کہ یہ آدمی کھڑا ہے تو یہ بات باہر سے پیدا ہوئی ہے.تمہارا دل یہ کہہ رہا ہو گا کہ یہ ایک بانس ہے اور اس پر شلوار اور قمیص لٹکائی ہوئی ہے.راستبازی جہاں ایک فطری اور طبعی خلق ہے وہاں دین کو بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے.قطع نظر اس کے کہ راستبازی چھوڑ کر تم آدمیت کے دائرہ سے نکل جاتے ہو کیونکہ آدمی نام ہے دل کا.آدمی اس فیصلہ کا نام نہیں جو تم طبعی حالات میں کرتے ہو.آدمی نام ہے ان صحیح جذبات اور صحیح افکار کا جو انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں.آدمی نام ہے صحیح عزائم اور صحیح ارادوں کا جو انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں.جب صحیح جذبات، صحیح افکار اور صحیح عزائم اور صحیح ارادوں کے خلاف تمہاری ظاہری اغراض اور خارجی ضرورتیں تمہیں کوئی اور بات کہنے پر مجبور کرتی ہیں تو وہ غیر طبعی چیز بن جاتی ہے، راست بازی نہیں رہتی مگر جہاں آکر آدمیت کا تعلق ہوتا ہے تم اسے کچل رہے ہوتے ہو لیکن اس کے ساتھ ہی راستبازی کی مذہب کو بھی ضرورت ہوتی ہے اس لئے کہ مذہب خود ایک سچائی ہے.اس لئے کہ خدا تعالٰی کا ایک نام حق بھی ہے یعنی خدا تعالی ایک ایسی چیز ہے جو خلاف واقع نہیں بلکہ وہ اسی طرح ہے جس طرح کہا گیا ہے اور خدا تعالیٰ وہ بات کہتا ہے جو راست ہوتی ہے.خداتعالی پاڑ کو دریا نہیں کہتا اور نہ دریا کو پہاڑ کہتا ہے.وہ پہاڑ کو پہاڑ اور دریا کو دریا کہتا ہے.وہ آدمی کو جنگل نہیں کہتا اور نہ جنگل کو
574 آدمی کہتا ہے.وہ آدمی کو آدمی اور جنگل کو جنگل کہتا ہے.پھر خداتعالی کی طرف سے ہر آنے والی چیز راست اور درست ہوتی ہے اور چونکہ مذہب راست بازی ہے اس لئے جو اس پر عمل کرے گاوہ راستباز ہو گا.بازی کے معنے ہیں عمل کرنا.کھیلنا.بازی فارسی کا ایک لفظ ہے اور اس کے معنے کھیلنے کے ہوتے ہیں اور راستبازی کے معنے ہیں راستی کے ساتھ کھیلنا.سچائی پیش کرنا.سچائی کو مقصود قرار دے لینا.گویا انسان جس طرف بھی حرکت کرے اس کا مقصود راستی ہو.جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص دولت میں کھیل رہا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کے گرد دولت ہی دولت ہے.اسی طرح راست بازی کے معنے یہ ہیں کہ سچائی اس کے اردگرد جلوہ گر ہوتی ہے.چونکہ خدا تعالی کی طرف سے آنے والے دلائل ، تعلیمات اور عقائد ہمیشہ بچے ہوتے ہیں اس لئے جو شخص ان کے مطابق اپنی زندگی بنالیتا ہے وہ راستباز ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص راستباز نہ رہے تو وہ ان احکام کو جو خدا تعالی کی طرف سے آتے ہیں، اپنا نہیں سکتا.وہ انہیں اپنی زندگی کا مقصد قرار نہیں دے سکتا کیونکہ یہ امر محال ہے کہ ایک شخص خدا تعالٰی کے احکام پر عمل کرنے والا بھی ہو اور وہ جھوٹ کا عادی بھی ہو.گویا دوسرے لفظوں میں مذہب نام ہے راست بازی کا اور سچاند ہب نام ہے اس بات کا کہ وہ تمہارے سونے جاگنے ، اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے پر بلکہ تمہاری ہر حرکت پر حاوی ہو.وہ تمہاری ہر شعبہ زندگی میں راہنمائی کرتا ہوا و اگر مذہب نام ہے راست بازی کا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ مذہب پر چلنے والا شخص سچائی کو اپنے ہر شعبہ زندگی میں داخل کرتا ہے اور اگر کوئی شخص جھوٹ کا عادی ہو گا تو اس کے معنے ہوں گے کہ وہ جہاں بھی جھوٹ بولے گا مذہب کو پرے دھکیل دے گا.اگر تمہارا ایک دوست ہے اسے یہ علم نہیں کہ تم چور ہو.تمہیں یہ علم ہے کہ اگر اسے پتہ لگ گیا کہ تم چور ہو تو وہ تمہیں چھوڑ دے گا.تم اگر دونوں اکٹھے جارہے ہو اور تمہیں پتہ لگتا ہے کہ رستہ میں مال پڑا ہے اور تم اسے چرانا چاہتے ہو تو تم اس دوست کو اس کا علم نہ ہونے دو گے بلکہ کوئی بہانہ بنا کر اس سے الگ ہو جاؤ گے کیونکہ تم جانتے ہو کہ وہ دوست تمہارے رستہ میں حائل ہو گا.پس اگر مذ ہب کا نام راستی ہے اور تمہیں ذرا بھی جھوٹ بولنے کی عادت ہے تو تم جہاں بھی جھوٹ کی طرف مائل ہو گے وہاں تم مذ ہب چھوڑنے پر مجبور ہو جاؤ گے.پس جھوٹ اور مذہب دونوں الگ الگ چیزیں ہیں اور دونوں ایک وقت میں نہیں چل سکتے.چونکہ مذہب ایک سچا دوست ہے.وہ دنیا میں تمہیں پار گزار تا اور اگلے جہان میں تمہیں جنت میں لے جاتا ہے.وہ ایک ایسا دوست ہے جو تمہارے ساتھ چوری ، قریب اور لوٹ میں شریک ہونے کے لئے تیار نہیں.اس لئے یا تو تم اس کے ساتھ فریب کر رہے ہو گے اور یا تم اسے چھوڑ دو گے تا وہ تمہیں چوری اور دوسرے خلاف شریعت امور سے باز نہ رکھ سکے.پس راستبازی جہاں انسانیت کا تقاضا ہے وہاں وہ مذہب کا تقاضا بھی ہے.مذہب اور جھوٹ اس طرح جمع نہیں ہو سکتے جس طرح کفر اور مذہب دونوں جمع نہیں ہو سکتے.یہ تین باتیں ہیں جو میں نے تم سے کسی ہیں.اجتماع کے دوران میں جوں جوں موقع نکلے گامیں یہاں آؤں گا اور کچھ اور باتیں بھی کہوں گا مگر یہ خوب یاد رکھنا کہ جب تم مجھے دیکھو میرے ارد گرد جمع نہ ہونا کیونکہ اس طرح
575 مٹی اڑے گی اور میری کھانسی اور بڑھ جائے گی اور اس صورت میں میں باوجود نواہش کے اجتماع میں شریک نہ ہو سکوں گا".فرموده ۲۱ اکتوبر ۱۹۵۰ء مطبوعہ الفضل ۱۹.۲۰ اکتوبر ۱۹۶۱ء)
576 سالانہ اجتماع میں شامل ہونے والے خدام کے لئے سیدنا حضرت (...) کی طرف سے ضروری ہدایات " پہلی بات تو میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ خدام کو یہ دن کام میں گزارنے چاہئیں.ابھی جب میں گھر سے آیا ہوں تو کچھ خدام باہر کھڑے ہوئے تھے.پھر یہاں سے بھی بعض خدام اٹھ کر جاتے رہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ یہاں انہیں کام میں لگائے رکھنے کا کوئی انتظام نہیں.یہ تربیت اور نظام کے مظاہرے کے دن ہیں اس لئے اگر کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جو نظام کے خلاف ہے تو جس غرض کے لئے یہ اجتماع کیا گیا ہے ، وہ اس کی روح کو کچلنے والی ہو گی اس لئے مرکزی معتمدین اور زعماء یہ بات نوٹ کرلیں کہ آئندہ جو خدام یہاں بیٹھیں وہ خیموں کے نظام کے ماتحت بیٹھیں یعنی ہر جماعت اکٹھی بیٹھے کیونکہ یہ بات تو یہاں نہیں کہ انہوں نے متفرق جگہوں سے آنا ہے یا انہوں نے متفرق کاموں سے آنا ہے.یہاں جگہ بھی ایک ہے اور سارے دن کا پروگرام بھی مقرر ہے.پھر رہائش کی جگہ بھی ایک ہے.اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ جلسہ میں خدام الگ الگ بیٹھیں.آئندہ کے لئے یہ انتظام ہونا چاہئے کہ خدام جماعت وار بیٹھیں اور ایک خاص وقت مقرر ہونا چاہئے کہ وہ اس وقت کے اندراندر یہاں جلسہ میں بیٹھ جائیں.پھر انہیں جماعت وار بلایا جائے اور دیکھا جائے کہ آیا تمام خدام حاضر ہیں اور زعیم اعلان کرے کہ میری مجلس کے سب خدام حاضر ہیں.پھر وہ زعماء اس بات کے ذمہ دار نہیں کہ ان کی مجالس کے ارکان اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے ہیں.اگر کسی خادم کو کوئی ضرورت پیش آجائے کہ وہ جانا چاہے تو وہ اپنے زعیم سے اجازت لے کر مجلس سے اٹھے اور وہ زعیم اس بات کا ذمہ وار ہو کہ وقت پر بتائے کہ فلاں فلاں خادم میری اجازت سے باہر گئے ہیں.ایک بات میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت جو لوگ ارد گرد کھڑے ہیں، میرے خیال میں یہ اس لئے کھڑے ہیں کہ ان کے بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ نہیں.میں نے پچھلے سال کسی موقعہ پر یہ تجویز بتائی تھی کہ خدام خیموں کے سامان کی طرح کوئی نہ کوئی ایسا کپڑا بھی ساتھ لایا کریں جس کو وہ نیچے بچھا کر بیٹھ سکیں کیونکہ یہاں اتنی دریاں میسر نہیں آسکتیں جس پر سب لوگ بیٹھ سکیں اور پھر یہ انتظام ہی اس قسم کا ہے کہ نوجوانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ سختی اور ترشی کیسے برداشت ہو سکتی ہے.پس خدام اپنے ساتھ ایک زائد کپڑا لے آیا کریں جس پر وہ اس تم کے موقعوں پر بیٹھ سکیں.اس پر مہمانوں کو بھی بٹھایا جا سکتا ہے یا ایسے خدام جو اپنے ساتھ کسی وجہ سے کم کپڑے لا ئیں ، وہ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں.خدام کپڑے لے آیا کریں.اگر نیچے دریاں یا کوئی اور چیز بچھانے کا انتظام ہو گیا
577 تو وہ اس پر کپڑا بچھا کر بیٹھ جائیں گے ورنہ زمین پر کپڑا بچھا کر بیٹھ جایا کریں گے اور اس طرح آرام سے تقریر سن سکیں گے.خالی زمین پر بیٹھنا بھی کوئی نقص نہیں لیکن تنظیم کے ماتحت یہ چیز ضروری ہے.کوئی چیز میسر نہ ہو تو اور بات ہے لیکن میسر ہو سکے تو اسے مہیا کرنا ضروری ہوتا ہے.مثلا کھانا ہے کہ کھانا میسر نہ ہو تو صبر کرنا چاہئے لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ میرا چھی چیز ہے اس لئے اگر کھانا میسر بھی ہو تب بھی کھانے کو نہ دو.پس یہ ہدایت کہ جہاں کپڑا نہیں ، انسان کو زمین پر بھی بیٹھ جانا چاہیے اور چیز ہے اور کپڑا میسر ہو اور پھر ا سے نہ بچھایا جائے یہ اور چیز ہے.اگر کپڑا میسر نہ ہو تو ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی تکبر سے کہے کہ میں خالی زمین پر نہیں بیٹھوں گا.اس روح کو بھی ہمیں کچلنا چاہیے لیکن یہ روح بھی ہمیں پیدا کرنا چاہیے کہ جہاں کوئی انتظام ہو سکتا ہے ، وہاں انتظام کر لینا چاہیے اور اس کا یہی طریق ہے کہ ہر ایک خادم اپنے ساتھ ایک ایک کپڑا زائد لائے تاوہ اس قسم کے موقعوں پر کام دے "E " فرموده ۱۲۲ کتوبر ۱۹۵۰ء مطبوعہ ” خالد " نومبر ۱۹۵۲ء)
578 سالانہ اجتماع کے دوران ہر وقت کام میں مشغولیت کی مشق ایک نقص میں نے گھر سے یہاں آتے ہوئے یہ دیکھا ہے کہ بعض حصے کام کے ایسے ہوتے ہیں جن میں خدام الاحمدیہ کی نگرانی نہیں کی جاتی کہ وہ تمام کے تمام اس کام میں مشغول ہیں یا نہیں.مثلا فٹ بال کا میچ ہو رہا تھا تو ضروری نہیں سمجھا گیا کہ اس کی نگہداشت کی جائے کہ آیا سارے خدام میچ دیکھ رہے ہیں یا نہیں.کچھ خدام میچ دیکھ رہے تھے اور کچھ کھڑے تھے.اس طرح یہ غرض کہ خدام سالانہ اجتماع کے دو تین دن اس مشق میں گزاریں کہ وہ ہر وقت کام میں مشغول ہوں باطل ہو گئی کیونکہ ان دو تین دنوں میں بھی بعض حصے ایسے ہیں جن میں بعض خدام مشغول ہیں اور بعض خدام مشغول نہیں.اس لئے میں مجلس انتظامیہ مرکزیہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فو - 1 اس بارہ میں قانون بنا کر آئندہ اس کی تعمیل کرائے اور دیکھے کہ آیا وہ تمام کے تمام خدام کام میں لگے ہوئے ہیں یا نہیں.مثلاً میچ دیکھنا بھی کام ہے اور یہ ضروری امر ہے کہ جب کھیلیں ہو رہی ہوں تو باقی خدام دیکھ رہے ہوں.یہ نہ ہو کہ بعض خدام کھیلیں دیکھ رہے ہوں اور بعض ادھر ادھر پھر رہے ہوں.اگر ایک وقت میں چار پانچ کھیلیں ہو رہی ہوں تو منتظم خدام سے پوچھ لیں کہ وہ کونسی کھیل دیکھنا چاہتے ہیں اور ہر ایک کو حکم دیں کہ وہ کوئی نہ کوئی کھیل دیکھے تا آوارگی کی عادت نہ ہو.دنیا کے لوگ تو ساری عمر کام میں لگے رہتے ہیں.ہمارے نوجوانوں کو بھی اس بات کی عادت ہونی چاہیے کہ وہ دو تین دن تک کام میں مشغول رہیں.رستے میں مجھے سینکڑوں خادم ایسے ملے ہیں جو ادھر ادھر کھڑے تھے یا پھر رہے تھے.اس طرح وہ غرض پوری نہیں ہوئی جس کے لئے یہ اجتماع مقرر کیا گیا ہے".
579 اقرار کرو کہ تم ہمیشہ سچ بولو گے ۲۲ اکتوبر ۱۹۵۰ء کو سالانہ اجتماع کے موقعہ پر صبح دس بجے حضور نے خدام سے خطاب فرماتے ہوئے یہ نصائح فرمائیں.(مرتب) ” دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض دفعہ خدام سے عہد لینا پڑتا ہے لیکن ابھی تک میرے سامنے کوئی ایسا طریق نہیں لایا گیا کہ وہ عہد کیسے لیا جائے.اس کے لئے ضروری ہے کہ کوئی نہ کوئی لفظ ایسا تجویز کیا جائے کہ جب عہد لیا جائے تو خدام اسے دہرا سکیں.دنیا کے تجربہ سے معلوم ہو تا ہے کہ عہد کے الفاظ میں خاص شان ہونی چاہئے.عہد میں ہمیشہ ایسے الفاظ استعمال کیے جانے چاہئیں جن کو اونچی آواز میں بولا جا سکے.مثلا یورپ میں جب ایسا کیا جاتا ہے تو وہ اے (AYE) کہتے ہیں لیس (YES) نہیں کہتے کیونکہ لیس (YES) پورے زور سے ادا نہیں ہوتی اور اے (AYE) میں زور آجاتا ہے.ہمار نے ملک میں "ہاں" کا لفظ ہے لیکن اس لفظ کا استعمال مہذب نہیں سمجھا جاتا.مہذب لوگ اس کی جگہ "جی " کا لفظ استعمال کرنے لگ گئے ہیں لیکن "جی " اپنے اندر کوئی شان نہیں رکھتا بلکہ اس میں لجاجت والا رنگ پایا جاتا ہے.عربی میں ایک لفظ ہے جس سے "اے" نکلا ہے اور وہ لفظ "امی" ہے."ائی" کو ایسا زوردار سمجھا جاتا ہے کہ عرب کہتے ہیں "ای واللہ " ہاں خداتعالی کی قسم.عرب لوگ " نعم " بھی کہیں گے لیکن نعم کے بعد قسم کا لفظ لگانا پسند نہیں کیا جاتا.لیکن "ای" کے بعد مرج ہے کہ قسم کا لفظ لگایا جائے.جب کوئی عرب "ائی" لکھے گا تو عام حالات میں اس سے امید کی جائے گی کہ وہ اس کے بعد "و الله" کے یعنی خدا کی قسم.پس میں تجوید میخرتا ہوں کہ جب کوئی عہد لیا جائے تو خدام بلند آواز سے کہیں رائی" اور پھر عام آواز میں "وَاللهِ" کہیں.واللہ" کا لفظ اونچی آواز میں کہنے کی ضرورت نہیں.اب میں تم سے اسی سلسلہ میں ایک عہد لیتا ہوں.میں نے قاعدہ بتا دیا ہے.اس کے مطابق تم وہی الفاظ دہراتے جاؤ یعنی پہلے تم زور دار الفاظ میں ایک دفعہ "ائی کھو گے پھر ذرا کم آواز میں "واللہ" کہو گے.گویا اس کے یہ معنے ہوں گے کہ میں ایسا عہد کرتا ہوں یہ خدا کی قسم ".میں نے جیسا کہ کل بیان کیا تھا اسلام کی جان یا مذہب کی جان یا انسانیت کی جان بچ ہو تا ہے.جو شخص سچ نہیں بولتا وہ قوم کو تباہ کرنے والا ہوتا ہے.جب تک ہم سچائی کو قائم نہیں کریں گے ہم دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کی کوئی بڑی امید نہیں کر سکتے.مثلا تم اپنی زندگی وقف کرتے ہو.اب اگر تم سچ بولتے ہو تو دین کے لئے جان کی بھی ضرورت پڑی تو تم اپنی جان دے دو گے یا
580 مثلاً ہم کوئی کام تمہارے سپرد کرتے ہیں.اگر تم سچ بولتے ہو تو خواہ تمہاری جان بھی چلی جائے ، تم اس کام کو پورا کر کے چھوڑو گے لیکن اگر تم جماعت میں داخل ہوتے ہو اور تم میں بیچ بولنے کی عادت نہیں تو تم ہر کام میں کمزوری دکھاؤ گے.تم ہر کام میں غداری کرو گے اور تم جماعت کے لئے کوئی مفید وجود نہیں بن سکو گے.پس یہ پہلا کام ہے کہ جماعت میں سچ بولنے کی عادت پیدا کی جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کبھی تم سے گواہی لی جائے تو تم سچی گواہی دو.سچ بولنا ایسا اہم کام ہے کہ اس کے نتیجہ میں خواہ تمہارے بیوی بچوں کی جانیں بھی چلی جائیں.تمہارے ماں باپ اور بہن بھائی ماخوذ ہو جائیں تب بھی تم ہمیشہ سچ بولو اور ہمیشہ سچی گواہی دو.پس ایک پروگرام میں خدام کے لئے اس سال یہ تجویز کرتا ہوں کہ جب بھی تم سے کوئی گواہی لی جائے یا کوئی عہد لیا جائے تو تم اس کے لئے کوئی عذر یا بہانہ نہیں بناؤ گے.چاہے اس کے پورا کرنے میں تمہاری جان ہی کیوں نہ چلی جائے.اگر جماعت اس نکتہ مضبوطی سے قائم ہو جائے تو دوسری قوموں میں اس کی بہت بڑی عزت قائم ہو جائے گی.پس تمہیں یہ عہد کر لینا چاہئے کہ خواہ کتنی رسوائی اور ذلت تمہیں برداشت کرنی پڑے ، تم ہمیشہ سچ بولو گے مگر ایسا سچ جو شریعت کے مطابق ہو.بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر وہ بتادی جائیں تو انہیں سچ نہیں کہتے.مثلاً ایک بچہ کو کوئی چور مل جاتا ہے اور اس سے پوچھتا ہے بتاؤ زیورات والا صندوق کہاں ہے؟ اب اگر وہ اسے بتا دیتا ہے کہ زیورات والا صندوق فلاں جگہ ہے تو یہ سچ نہیں ہو گا.شریعت نے صرف مجسٹریٹ کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ہر بات پوچھ لیکن یہ سچ نہیں کہ خواہ کوئی بات بھی ہو تم ٹھیک ٹھیک بتا دو.سچ وہ ہے جس کا قرآن کریم یا قانون حکم دیتا ہے.عدالت میں اگر کوئی ایسی بات پوچھی جاتی ہے جو تم بتانا نہیں چاہتے تو تم خود دیا تمہار ا وکیل عدالت میں کہہ سکتا ہے کہ قانونا ایساسوال جائز نہیں لیکن جب حج یہ فیصلہ کر دے کہ ایسا سوال قانوناً جائز ہے تو وہاں سچ بولنا ضروری ہوتا ہے.ذاتی معاملات میں ضروری نہیں کہ تم سچ بولو.تم کہہ سکتے ہو کہ میں یہ بات بتانا نہیں چاہتا.غرض سچ کے یہ معنے نہیں کہ تم ہر بات بیان کرو.سچ بولنے کے یہ معنے ہیں کہ جہاں سچ بولنا چاہیئے وہاں سچ بولو یا جہاں قرآن کریم اور قانون تمہیں سچ بولنے پر مجبور کرتے ہیں وہاں سچ بولو.اب میں تم سب سے یہ عہد لیتا ہوں کہ خواہ کیسے بھی حالات ہوں تم سچ بولو گے.تم سب کھڑے ہو جاؤ کیونکہ بیٹھے ہوئے آواز زور سے نہیں نکلتی لیکن میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں
581 کہ اگر تم ظاہری طور پر یہ عہد کر لیتے ہو کہ تم ہمیشہ سچ بولو گے لیکن دل سے تم اس کا عہد نہیں کرتے تو تمہارا یہ پہلا جھوٹ ہو گا.کیا خدام الاحمدیہ اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ خواہ کیسے ہی خطرناک حالات ہوں یا انہیں کیسی ہی مشکلات میں سے گزرنا پڑے ، وہ قرآن کریم کی ہدایات اور اس کی شرائط کے مطابق ہمیشہ سچ بولیں گے ".سب خدام نے بیک آواز کہا إلى والله! حضور نے یہ الفاظ تین بار دہرائے.خدام نے ہر بار بیک آواز ای واللہ کہہ کر اقرار کیا.)
582 مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میں خدام کو ضروری ہدایات ۲۲ اکتوبر ۱۹۵۰ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی رات کے وقت بھی مقام اجتماع میں تشریف لائے.اس وقت خدام کے تقریری مقابلے ہو رہے تھے جن کے اختتام پر حضور نے بھی خدام سے خطاب فرماتے ہوئے انہیں بیش قیمت ہدایات سے نوازا تھا.یہ ہدایات رسالہ خالد اکتوبر ۱۹۶۲ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی تھیں.(مرتب) " ” دوسری بات میں لیکچراروں کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جلدی جلدی اور زور کے ساتھ بولا جائے تو تقریر زیادہ موثر ہوتی ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے.نہ جلدی جلدی بولنا تقریر کے اندر اثر پیدا کرتا ہے اور نہ زور سے بولنا تقریر کے اندر اثر پیدا کرتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی تقریر میں بے موقعہ زور سے بولتا ہے تو تقریر کا اثر کم ہو جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ گلے سے اوپر بول رہا ہے ، دی سے نہیں بول رہا اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ پندرہ سولہ منٹ کے بعد ہی گویائی سے محروم ہو جاتا ہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہ لیکچر لکھا جو آریوں کی مجلس میں پڑھا گیا اور جس کے نتیجہ میں چشمہ معرفت "کتاب لکھی گئی.اس وقت مولوی عبد الکریم صاحب فوت ہو چکے تھے.ان جیسی آواز والا جماعت میں اور کوئی شخص موجود نہ تھا اور یہ سوال در پیش تھا کہ یہ تقریر کون پڑھے.تجویز یہ ہوئی کہ مقابلہ کر کے دیکھا جائے کہ کون شخص زیادہ موزوں ہے کہ اسے تقریر پڑھنے کے لئے کہا جائے.مختلف لوگوں نے وہ تقریر پڑھی.بڑے بڑے لوگوں میں سے حضرت خلیفہ المسیح الاول، مرزا یعقوب بیگ صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تھے.ان کے علاوہ اور لوگ بھی تھے.میری عمر اس وقت چھوٹی تھی لیکن میں خیال کرتا تھا (شاید یہ اندازہ اب موجودہ عمر کے لحاظ سے ہو) کہ اگر میں وہ تقریر پڑھتا تو غالبا اچھی پڑھتا لیکن حضرت خلیفہ المسیح الاول کی آواز زیادہ بلند نہ تھی.اگر چہ آہستہ آہستہ زور پکڑ کر وہ موثر ہو جایا کرتی تھی لیکن وہ اس مقام پر نہیں پہنچتی تھی جہاں تقریر کرنے والا جوش کے ساتھ سامعین کو اپنے ساتھ بہالے جایا کرتا ہے.یوں تقریر کے لحاظ سے آپ کی آواز میں بڑا اثر تھا اور مضمون سامعین کے ذہن نشین ہو جاتا اور ان کے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا تھا لیکن پڑھنے میں یہ طریق کامیاب نہیں ہو تا.حضرت خلیفہ المسیح الاول نے وہ مضمون پڑھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے پڑھنے کے طریق پر مطمئن نہ ہوئے.حضرت خلیفہ المسیح الاول کے بعد مرزا یعقوب بیگ صاحب نے مضمون پڑھنا شروع کیا.ان کی آواز باریک تھی.دوسرے وہ عربی سے ناواقف تھے اور مضمون
583 میں چونکہ اکثر قرآنی آیات تھیں.نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے غلط پڑھنا شروع کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ۃ والسلام نے فرمایا یہ بھی موزوں نہیں.اس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے پڑھنا شروع کیا.انہوں نے یہ خیال کیا کہ پہلے دونوں کی آواز میں چونکہ بلندی اور گرج نہیں تھی اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا طریق بیان پسند نہیں فرمایا چنانچہ انہوں نے بڑے زور کے ساتھ گرج کی سی آواز میں پڑھنا شروع کیا مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی آواز جلد ہی بیٹھ گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تشریف رکھیں.غرض مضمون کو آہستگی سے اور ایسے رنگ میں پڑھنا چاہئے کہ سامعین پڑھنے والے کی آواز میں سموئے جائیں.جب تک سامعین پڑھنے والے کی آواز میں سموئے نہیں جاتے اور جب تک ان کا پڑھنے والے کی آواز کے ساتھ اشتراک نہیں پیدا ہو تا اس وقت تک تقریر میں زور پیدا کرنا ان کو قریب کرنے کی بجائے دور کرتا ہے.پھر تقریر کرنے والے کو اپنا مضمون اس طرح بیان کرنا چاہئے کہ اسے سارے مضمون کے سارے پہلو مد نظر ہوں.بعض دفعہ تقریر کرنے والا اپنا مضمون ایسے طور سے بیان کرتا ہے کہ وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا طریق بیان درست ہے لیکن جن شقوں کی وجہ سے وہ اسے واضح محسوس کرتا ہے وہ سامعین کو معلوم نہیں ہو تیں.اس لئے اس کی تقریر بے کار ہو جاتی ہے.مثلاً آج ہی بعض مقررین نے کہا ہے کہ یہ بات تو واضح ہے لیکن یہ فقرہ وہاں کہا جاتا ہے جہاں تقریر کرنے والا کسی منطقی نقطہ کی طرف پہلے اشارہ کر دیتا ہے.مثلاً ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر عقل اور سمجھ رکھی ہے پھر ہم کہتے ہیں یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب ایک انسان کے سامنے کوئی غیر معقول بات پیش کی جائے گی تو وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہو گا.چونکہ ہم نے ایک ایسی بات پیش کی ہے جس کو دنیا کے سب لوگ جانتے ہیں اور پھر یہ بات پیش کی کہ اگر انسان کے سامنے کوئی غیر معقول بات رکھی جائے تو وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہو تا تو یہ بات بج جائے گی لیکن اگر ہم کہیں گے کہ یہ بات واضح ہے کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ظہور ہونا چاہئے تھا تو یہ بات ہمارے لئے تو واضح ہوگی کہ دنیا کے حالات اس قسم کے ہیں کہ وہ تقاضا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور مبعوث ہو لیکن ایک مخالف تو یہ بات نہیں مانتا.پس ہر بات کہتے وقت یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ آیا سننے والا اسے سمجھ سکے گایا نہیں.اس کے بعد اس مجلس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.میرے نزدیک تقریریں کرانے کا یہ طریق جو نکالا گیا ہے ، غلط ہے.بعض تقریریں کرنے والوں نے ایسے مضامین منتخب کئے ہیں جو بہت ہی اہم ہیں لیکن وہ دو منٹ کے بعد چپ ہو گئے.دو منٹ میں مضمون کی ماہیت کو بیان کرنا بھی مشکل ہے اس لئے یہ طریق غلط ہے.پھر یہ کہنا کہ تقریر کے لئے نام لکھا دو یہ طریق بھی غلط ہے.یہ علم کے مظاہرہ کا موقعہ ہے.یہ اجلاس عام انجمنوں کا اجلاس نہیں.یہ وہ اجلاس ہے جس میں یہ مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے نوجوانوں کو اتنی مشق کرائی ہے.مثلاً جلسہ سالانہ کے موقعہ پر تقریر کے لئے بعض دفعہ بڑے بڑے عالموں کا بھی نام آجاتا ہے لیکن میں وہ نام کاٹ دیتا ہوں اور کہتا
584 ہوں کہ انہیں پہلے باہر مشق کرالو.اسی طرح خدام الاحمدیہ کا سٹیج ہے.یہاں یہ مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے اپنے خدام کو تقریر کرنے کی کتنی مشق کرائی ہے اور ان کے ذہنوں میں کتنی جلا پیدا کر دی ہے.پس ایسے موقعہ پر یہ کہنا کہ تقریروں کے لئے نام لکھوا دو لکھوار و غلط ہے.کچھ مضامین پہلے چن لینے چاہئیں اور انہیں باہر بھجوا دینا چاہئے اور بعض ایسے سرکل بنا دینے چاہئیں جن میں سے ایک ایک نمائندہ لے لیا جائے.پھر انہیں اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی میٹنگ کریں اور اس موضوع پر جس پر ان کے نمائندہ نے اجتماع کے موقعہ پر تقریر کرنی ہے خوب بحث کریں اور دلائل بیان کریں.پھر جو نمائندہ منتخب ہو وہ ان دلائل میں سے کچھ دلائل چن لے اور نوٹ لکھ لے.یہاں تقریر زبانی ہو لیکن تقریر کرنے والے کو یہ اختیار دینا چاہئے کہ وہ اس کے لئے بعض نوٹ لکھ لے.پھر ان لیکچراروں کو کم از کم ہیں منٹ ملنے چاہئیں.اس طرح دو گھنٹے میں چھ لیکچر ہو جائیں گے.جہاں تک تحریری مضامین کا سوال ہے اس بات کی ضرورت نہیں کہ یہاں یہ کہا جائے کہ دوست اس امتحان میں شامل ہونے کے لئے اپنا نام لکھوا دیں بلکہ پرچے بنا کر باہر بھیجوا دینے چاہئیں.خدام ان پر چوں کی تیاری کریں اور جب یہاں آئیں تو وہ امتحان کے لئے اپنا نام لکھوا دیں.یہاں سپروائزروں کے سامنے بیٹھ کر وہ مضامین لکھیں اور ہر سال ایسا کریں.جو گروپ قابل ہو جائیں ان کی جگہ دوسرے گروپ لے لئے جائیں.اس طرح قدم بہ قدم تمام جماعتوں کے سرکل مقرر کر کے مضامین لکھواؤ.اگر آپ لوگوں نے مضمون نویسی کی مشق کرانی ہے تو بے شک امتحان میں شامل ہونے والی کتابیں بھی ساتھ لے آئیں.انہیں یہ اختیار دیا جائے کہ وہ ضروری کتابیں دیکھ سکیں لیکن کسی سے مشورہ نہ لیں.بہر حال انہیں یہ موقعہ دینا چاہئے کہ وہ مختلف کتابوں سے استنباط کر کے مضامین لکھیں.آخر ہم مضامین لکھتے ہیں تو کیا فرشتے آکر ہمیں نوٹ لکھواتے ہیں.ہم بھی دوسری کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان سے مسائل اخذ کر کے مضامین لکھتے ہیں.ہمارا یہ مقصد نہیں ہونا چاہئے کہ ہمارے نوجوان علوم مروجہ کو استعمال کرنا زیادہ سے زیادہ جانتے ہوں.جس طرح کتابوں کا امتحان ہو تا ہے ایک امتحان اس قسم کا بھی ہو لیکن ضروری ہے کہ ایک مضمون مقرر کر دیا جائے.مثلا وفات مسیح کا مضمون ہے.ایک سال کے لئے یہ مضمون مقرر کر دیا جائے.بے شک آپ بعض سوالات بھی دے دیں.مثلا کسی نے نئے رنگ میں کوئی اعتراض کیا ہے یا کوئی پر انا اعتراض زیادہ اہم ہو گیا ہے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان سوالات کو مد نظر رکھ کر مضمون لکھا جائے.صرف شرط یہ ہوگی کہ مضمون اس جگہ لکھنا ہو گا اور سپروائزر کی نگرانی میں لکھنا ہو گا تا معلوم ہو کہ لکھنے والا وہی ہے.ہمارا اصل مقصد یہ نہیں کہ خدام کی ذہانت کا امتحان لیا جائے بلکہ ہم نے ان کے علم کا امتحان لینا ہے اور علم کتابوں کے مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے.پس آئندہ یہ طریق بند کیا جائے اور علاقے اور سرکل مقرر کر دیئے جائیں اور ان سے ایک ایک نمائندہ اس امتحان میں شمولیت کے لئے لیا جائے.انہیں مضمون پہلے بتا دیا جائے اور یہ اجازت دی جائے کہ لوکل مجلس کے تمام خدام اپنی ایک میٹنگ منعقد کریں اور اپنے نمائندہ کو دلائل لکھوائیں.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ساری کی ساری جماعت اس مضمون کی تیاری میں شامل ہوگی اور ہر خادم.
585 یہ کوشش کرے گا کہ اس کی دلیل زیادہ اعلیٰ ہو.پھر کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے.صرف دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس نے مقررہ وقت میں یہ مضمون لکھ لیا ہے.صاحب القلم اس کو کہتے ہیں جو کسی مضمون کو مقررہ وقت میں لکھ سکے اور صاحب القلم پیدا کرنا ہمارا مقصد ہے.پھر تقریری امتحان بھی اسی طرح کا ہو نا چاہئے.ایک اور چیز بھی ہے جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ یہاں ایسا کوئی انتظام نہیں کہ اگر مضمون میں کوئی غلطی ہو جائے تو اس کی اصلاح کر دی جائے.مثلاً یہی مضمون کہ پاکستان کو کس بلاک میں شامل ہونا چاہئے ، یہ مضمون طلباء کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا.اگر کوئی لیکچرار کوئی ایسی بات کہہ دے جو سلسلہ کی پالیسی کے خلاف ہو اور اس کی بعد میں تردید نہ کی جائے تو سننے والا وہی خیال ساتھ لے جائے گا اور کہے گا کہ میں خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع پر گیا تھا اور وہاں سے یہ بات سن کر آیا ہوں.پس اس موقعہ پر ایسا انتظام بھی ہونا چاہئے کہ کوئی شخص کسی قسم کا کوئی غلط خیال اپنے ساتھ لے کر نہ جائے.میں بعد میں کوئی ایسا طریق مقرر کر دوں گا جس سے غلط خیالات کی تردید ہو سکے اور خدام اپنے ساتھ غلط خیالات لے کر نہ جائیں..یہ ہدایتیں میں آئندہ اجتماع کے متعلق دیتا ہوں.تحریری اور تقریری مقابلوں کے لئے مجالس کو پہلے لکھا جائے.وہ اپنی میٹنگ بلائیں اور اپنے اپنے نمائندہ کو نوٹ لکھوائیں.نمائندہ اپنی اپنی مجلس کے ارکان سے دلائل سن کر آئے اور اگر یہ پتہ لگ جائے کہ بعض اچھے جو ان تیار ہو گئے ہیں تو انہیں سٹیج پر بولنے کے لئے زائد وقت بھی دیا جا سکتا ہے.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سوائے ایک دو نوجوانوں کے کسی نے کوئی خاص بات بیان نہیں کی اور نہ ہی کسی نے یہ خیال کیا ہے کہ جو دو منٹ وقت ملا ہے اس میں کوئی اچھی بات بیان کروں." فرموده ۲۲ اکتوبر ۱۹۵۰ء مطبوعہ ماہنامہ " خالد " اکتوبر ۱۹۶۲ء)
587 نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ پہلوں بڑھ کر قربانی کا نمونہ پیش کریں نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ کام کر ہیں اور محنت کریں حالات کا بدلنا تمہارا اپنا کام ہے ایک احمدی بھی نہ رہے جو تحریک جدید میں حصہ نہ لے رہا ہو ہر نو مبائع کو احمدیت میں داخل ہوتے ہی تحریک جدید سے واقف کریں چار باتوں کا عہد مجلس شور کی خدام الاحمدیہ سے خطاب
588 تحریک جدید کے دفتر دوم کی مضبوطی کا کام حضرت مصلح موعود نے مجلس خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا ہوا ہے.اس غرض کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ کی مجلس شوری منعقدہ سالانہ اجتماع ۱۹۵۰ء کے ایجنڈے میں ایک تجویز بھی رکھی گئی تھی.اس تجویز پر حضرت.....) نے نمائندگان شوری کو مخاطب کرتے ہوئے جو تقریر فرمائی تھی، پہلی مرتبہ رسالہ خالد نومبر ۱۹۶۵ء میں شائع ہوئی تھی.اس تقریر کا آخری حصہ نامکمل ہے.بہر حال جس قدر حصہ مل سکا اسی شکل میں اسے شائع کیا جارہا ہے.(مرتب) پانچویں مجلس شوری خدام الاحمدیہ مرکز یہ منعقده ۲۳ اکتوبر ۱۹۵۰ء مجلس خدام الاحمدیہ کے ایجنڈے میں دوسری تجویز یہ تھی کہ :." تحریک جدید دفتر دوم کی مضبوطی کا کام سید نا حضرت...) نے خدام الاحمدیہ کے سپرد فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ وعدوں کو کم از کم تین لاکھ تک پہنچایا جائے.اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک لاکھ تھیں ہزار کے وعدے ہیں اور صرف تینتالیس ہزار روپے کی نقد وصولی ہے.گزشتہ سال کے وعدوں کا بقایا جو کئی لاکھ روپے ہے اس کے علاوہ ہے.اس بارہ میں مجالس مشورہ دیں کہ حضرت اقدس کے ارشاد کی بہتر سے بہتر رنگ میں کس طرح تعمیل کی جاسکتی ہے اور وعدوں کی وصولی کے لئے کیا ذرائع اختیار کیے جائیں جس سے تمام کے تمام وعدے وصول ہو جائیں".حضرت مصلح موعود نے اس تجویز کے متعلق نمائندگان کے سامنے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:.اس سال تین لاکھ کی تحریک میں سے ایک لاکھ تیس ہزار روپیہ کے وعدے ہوئے ہیں اور صرف اڑتالیس ہزار روپے کی نقد وصولی ہوئی ہے.پچھلے سال نقد وصولی چھیالیس ہزار روپیہ تھی اور اس سال کی نقد وصولی اڑتالیس ہزار روپیہ ہے.گویا خدام الاحمدیہ کی کوشش سے جو جماعت کا تیس فی صدی میں صرف دو ہزار روپیہ کی نقد وصولی ہوئی ہے.حقیقت یہ ہے کہ ضروریات بڑھ رہی ہیں اور بیرونی ممالک میں زیادہ سے زیادہ مشن قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں احمدیت خود بخود پھیل رہی ہے.مثلاً امریکہ اور آسٹریلیا کے درمیان جزائر فجی اور ڈچ گی آنا کے علاقے ہیں.وہاں لوگ اتنی کثرت سے احمدیت کی طرف متوجہ ہیں کہ بعض اخباروں اور کتابوں سے شبہ پڑ جاتا ہے کہ وہاں احمدی زیادہ ہیں یا غیر احمدی....اس علاقہ کی اہمیت اس سے ظاہر ہے کہ اس کے ایک طرف امریکہ ہے اور ایک طرف جاپان...پس ہمارا کام وسیع سے وسیع تر ہو گیا ہے لیکن حال یہ ہے کہ اخراجات کی کمی کی وجہ سے تبلیغ پر زور نہیں دیا جاسکتا.مغربی افریقہ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہاں پنجاب کے بعد ہماری سب سے بڑی جماعت ہے جو ایک لاکھ کی تعداد میں ہے.وہاں پر پاکستانی اور مقامی بیسیوں مبلغ کام کر رہے ہیں.بیسیوں مشن اور سکول ہیں اور
589 ہیں..پچھلے سال سے کالج بھی کھول دیا گیا ہے اور آئندہ بہت بڑی ترقیات کی امید ہے.مشرقی افریقہ میں بھی احمدیت پھیل رہی ہے.انڈونیشیا میں بھی رستے کھل رہے ہیں اور مزید کھولے جاسکتے ایسے حالات میں تبلیغ کو وسیع کرنے کا تو سوال پیدا ہو سکتا ہے کم کرنے کا نہیں.پھر لٹریچر ہے.اس کے لیے چاہئے تھا کہ چندہ بڑھایا جاتا لیکن چندہ میں جماعت بجائے ترقی کے ست ہو رہی ہے.تحریک جدید دفتر اول کے سولہویں سال میں بھی سستی ہوئی ہے.اس سال صرف ایک لاکھ بتیس ہزار روپیہ کی آمد ہوئی ہے جو پچاس فی صدی سے بھی کم ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ حصہ زمینداروں کی غفلت کا بھی ہے اور ان کو سزا بھی مل گئی ہے...اس سال زمینداروں نے چندہ بہت کم دیا ہے اور عموماً یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ گندم کی قیمت گر گئی ہے حالا نکہ جن دنوں گندم کی قیمت اڑھائی روپیہ فی من تھی ان دنوں بھی زمیندار موجودہ چندہ سے زیادہ چندہ دیتے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے سیلاب کے ذریعہ اس گندم کو بھی اڑا دیا.بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ چندہ کی کمی میں کچھ حصہ زمینداروں کا بھی ہے.زمینداروں نے سمجھ لیا ہے کہ دس روپیہ فی من ہمارا حق ہے حالانکہ چھ سات روپیہ فی من بھی غنیمت ہے.گندم کی قیمت تو تین چار روپیہ کے درمیان آجائے گی.دراصل گندم کی قیمت کا زیادہ کرنا آمد بڑھانے کا ذریعہ نہیں.آمد بڑھانے کا ذریعہ پیداوار بڑھانا ہے.دنیا کے دوسرے ملکوں میں گندم کی پیداوار زیادہ ہے.روس میں کہا جاتا ہے کہ گندم کی پیداوار فی ایکر چالیس پچاس من تک پہنچ گئی ہے.لیکن ہمارے ملک میں گندم کی پیداوار کی اوسط فی ایکٹر سات من ہے.سرگودھا کے ضلع میں کچھ علاقہ میں پیداوار ہیں پچیس من فی ایکڑ ہو جاتی ہے لیکن سارے ملک میں اوسط پیداوار کا ہونا اور چیز ہے.سندھ میں ایک کھیت سے جو میرے قبضہ میں ہے بیالیس من کپاس نکلی ہے اور ساری کپاس کی اوسط چھ سات من پڑی ہے.اگر اوسط پیداوار بڑھائی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں اس وقت ایک کھیت سے چھ سات من گندم نکلتی ہے وہاں اسی کھیت سے تیس چالیس من نکلے گی اور اس طرح اگر گندم کی قیمت گر کر تین چار روپیہ فی من تک بھی پہنچ جائے تب بھی زمینداروں کی آمد موجودہ آمد سے بڑھ جائے گی.زمینداروں کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ محنت زیادہ کریں.ہمارے ملک کے زمیندار محنت بہت کم کرتے ہیں.میرا ارادہ ہے کہ زمینداروں کی بھی ہر سال ایک کانفرنس بلائی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ وہ زیادہ محنت کیسے کر سکتے ہیں.نوجوانوں کو بھی چاہئے کہ وہ کام کریں اور محنت کریں تا جہاں ان کی آمد میں اضافہ ہو وہاں چندوں میں بھی زیادتی ہو.نوجوانوں پر ذمہ داری زیادہ ہے.اگر پچھلی نسل تین لاکھ روپیہ چندہ دے سکتی تھی تو نوجوان چھ لاکھ روپیہ کیوں نہیں دے سکتے.آپ کہیں گے کہ ہماری آمدن کم ہے.میں کہوں گا تم مومن ہو پھر تمہاری آمدن کیوں کم ہے ؟ اگر تم کہو کہ ہمارے ابھی حالات نہیں بدلے تو میں کہوں گا کہ حالات کا بد لنا بھی تمہارا اپنا کام ہے.آپ حالات کو بدلیں اور اپنا معیار ایسا بنا ئیں کہ پہلوں سے بڑھ کر چندہ دیں لیکن حال یہ ہے کہ ابھی تک دفتر دوم کے وعدے ایک لاکھ تھیں
590 ہزار تک پہنچے ہیں اور اس میں انصار بھی شامل ہیں.پچھلے لوگوں نے اگر چہ اس سال خطر ناک ستی کی ہے لیکن وہ پہلے سالوں میں ہر سال سے بڑھ کر چندہ دیتے آئے ہیں اور خدا تعالیٰ چاہے گا تو اس سال کی غفلت کو دور کر کے بھی وہ جلد اپنے مقام کو حاصل کر لیں گے.بہر حال آپ کا فرض ہے کہ ان سے آگے نکل جائیں کیونکہ دوسری سیڑھی پہلی سیڑھی سے ہمیشہ اونچی ہوتی ہے.انہوں نے اگر تین لاکھ روپیہ چندہ دیا ہے تو تم چھ لاکھ روپیہ چندہ دو اور اگر انہوں نے سال میں سو فی صدی چندہ ادا کر دیا ہے تو تم اپنی ادائیگی کے معیار کو ان سے بلند کرو.میں سمجھتا ہوں کہ اگر غفلت ہوئی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمیں بہت سے مشن بند کرنے پڑیں گے اور یہ بات ہماری ذلت کا موجب ہوگی.پس میں نہیں سمجھتا کہ اس تجویز کو پیش کرنے کا کیا فائدہ ہے اور تم اس کے متعلق کیا کہو گے.آخر چندوں میں جو سستی ہے اس کی یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ تمہارے ہمسایہ میں ایک احمدی بستا ہو گا اور اس نے تحریک جدید میں حصہ نہیں لیا ہو گا لیکن تم نے اسے تحریک نہیں کی ہوگی یا ایک نواحمدی تمہارے ہمسایہ میں رہتا ہے اور وہ تحریک جدید سے ناواقف ہے.تم نے اسے واقفیت بہم پہنچا کر اسے تحریک جدید میں شامل نہیں کیا ہو گا یا تم نے اپنی شان کے مطابق وعدہ نہیں کیا ہو گا اور اگر وعدہ کیا ہو گا تو اسے سال بھر میں پورا نہیں کیا ہو گا.پس سوائے اس کے کہ تم اقرار کرو کہ ہم نے اس بارہ میں سستی سے کام لیا ہے اور تم کہو گے کیا؟ اور یہ اقرار کرنا کہ میں ہر احمدی کے پاس جاکر اس سے وعدہ لوں گا اور اگر میرے کسی دوست نے یا میں نے خود اپنی حیثیت کے مطابق وعدہ نہیں کیا تو میں خود بھی حیثیت کے مطابق وعدہ کروں گا اور اس دوست سے بھی حیثیت کے مطابق وعدہ لوں گا اور پھر اگر میں نے وعدہ کیا ہے اور وقت پر ادا نہیں کیا تو میں اسے وقت پر ادا کروں گا.یہی عہد ہے جو تم اب کر سکتے ہو.تم عہد کرو اور پھر ستی کر دیا تم اب زبانی وعدہ تو کر رہے ہو اور دل سے یہ کہہ رہے ہو کہ ہم اسے پورا نہیں کریں گے تو پھر اس عہد کا کچھ فائدہ نہیں.سو میں تم سے ان چاروں باتوں کا عہد لوں گا اور وہ عہد یہ ہے کہ آپ کے ہمسایہ میں یا آپ کے گاؤں میں یا آپ کے محلہ میں اگر کوئی ایسا احمدی ہو جو تحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہا تو آپ اسے تحریک جدید میں شامل کرنے کی کوشش کریں یہاں تک کہ ایک احمدی بھی نہ رہے جو تحریک جدید میں حصہ نہ لے رہا ہو.میں تحریک جدید کی پرانی شکل پھر قائم کر دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ کم از کم یونٹ پانچ روپیہ ہو.کوئی شخص پانچ روپیہ سے کم رقم تحریک جدید میں نہ دے.اس سے زیادہ دینے والے کو ہم مجرم نہیں گردانیں گے خواہ اس کی آمدنی کتنی ہی زیادہ ہو.اپنے اخلاص کی نسبت سے کوئی شخص زیادہ دے تو دے.پہلے شرط یہ تھی تحریک جدید میں حصہ لینے والا کم از کم پچیس فی صدی دے لیکن پرانی صورت میں سو روپیہ ماہوار آمد والا بھی اگر پانچ روپے دیتا تھا تو ہم اسے کہتے تھے اچھا تم پانچ ہی دے دو لیکن ہو تا یہ تھا کہ وہ اپنے اخلاص کی وجہ سے سو روپیہ ماہوار ہوتے ہوئے ڈیڑھ سو روپیہ دیتا تھا.پس جماعت میں اخلاص کی روح بڑھانے کے لئے میں پچیس فی صدی والی شرط واپس لیتا ہوں.پانچ روپیہ یونٹ ہو گا.اگر پہلے سال ایک ہزار روپیہ ماہوار آمد والا بھی پانچ روپیہ دینا چاہتا
591 ہے تو بے شک دے پھر اپنے اخلاص کی وجہ سے وہ جتنا بڑھانا چاہے بڑھاتا چلا جائے اور میں آپ سے یہ امید رکھتا ہوں کہ جماعت میں کوئی احمدی ایسا نہ رہے جو تحریک جدید میں حصہ نہ لے رہا ہو.آپ ہر احمدی کو تحریک کریں کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق تحریک جدید میں حصہ لے.اگر وہ پانچ روپیہ ہی لکھواتا ہے تو بے شک لکھوائے لیکن دوسرے دن اس کے پاس جائیں اور کہیں کہ آپ کی حیثیت خدا تعالٰی کے فضل سے اس سے بہت زیادہ ہے.آپ پانچ روپیہ کی بجائے اپنا وعدہ دس روپیہ کر دیں پھر اگر وہ اپنا وعدہ دس روپے کر دے تو تیسرے چوتھے ماہ پھر اس کے پاس جائیں اور کہیں آپ کی حیثیت خدا تعالی کے فضل سے اس وعدہ کی نسبت بہت زیادہ ہے.آپ اپنا وعدہ دس روپیہ سے بیس روپیہ کر دیں یہاں تک کہ وہ اپنے معیار کے مطابق آجائے.تیسرے ہر نو مبائع کو احمدیت میں داخل ہوتے ہی تحریک جدید سے واقف کریں اور اسے تحریک کریں کہ وہ اقل ترین رقم دے کر اس میں شامل ہو.چوتھے تحریک جدید کے چندے اور دوسرے چندے وقت پر وصول کریں.اگر یہ سب باتیں ہو جائیں تو دفتر بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائے گا.پہلے یہ ہو تا تھا کہ نئے شامل ہونے والے کو پچھلے سالوں کا بقایا بھی دینا پڑتا تھا.اب میں یہ کہتا ہوں کہ جس سال بھی کوئی شامل ہو وہ اسے اول شمار کرے.پھر انیس سال تک چندہ دیتا چلا جائے اسی طرح دفتر دوم قیامت تک چلا جائے گا.پس میں آپ سب کو چار باتوں کی نصیحت کرتا ہوں اور ان سب کا آپ سے عہد لیتا ہوں.آپ سب کھڑے ہو کر یہ عہد کریں.میں نے چاروں باتیں بتادی ہیں.اب میں آپ سے یہ عہد لینا چاہتا ہوں کہ ان باتوں کے مطابق آپ خود بھی کوشش کریں اور تمام خدام اور دوسرے لوگوں کو بھی تبلیغ کریں.ان سے وعدہ لیں اور پھر وعدہ کو جلدی پورا کروائیں.تفصیلات بعد میں شائع ہو جائیں گی.اب میں اختصار کے ساتھ ان چار باتوں کا آپ سے عہد لیتا ہوں.(1) کیا آپ یہ عہد کرتے ہیں کہ جو شرائط میں نے بتائی ہیں آپ ان کے مطابق کوشش کریں گے کہ ہر احمدی اس تحریک میں حصہ لے.ہر نو مبائع اس میں حصہ لے.ہر چندہ لکھوانے والا اپنی حیثیت کے مطابق حصہ لے اور پھر ہر چندہ لکھوانے والا سال بھر کے اندر اس چندہ کو ادا کر دے.سب خدام نے بیک آواز میں کہا ای والله ) (۲) کیا آپ اقرار کرتے ہیں کہ جو قواعد میں نے بتائے ہیں آپ ان کے مطابق محنت اور دیانتداری سے کوشش کریں گے.(سب خدام نے بیک آواز کہا ای والله ) (۳) کیا آپ اقرار کرتے ہیں کہ جو قواعد میں نے بیان کئے ہیں آپ ان کے مطابق محنت اور دیانتداری سے کوشش کریں گے.(سب خدام نے بیک آواز کها ای والله ) نوٹ:.اصل تقریر کا جو مسودہ ملا ہے اس میں صرف تین امور کے بارہ میں ہی حضور نے خدام سے عہد لیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ تقریر کا کچھ حصہ تلف ہو گیا ہے.مرتب)
593 خدام الاحمدیہ کو بعض اہم ہدایات انعامات کی تقسیم کے متعلق میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں.چاہئے تھا انعامات کے بارے میں ہدایات کہ نوجوانوں کی ایسے رنگ میں تربیت کی جاتی کہ انہیں معلوم ہو تاکہ اس موقعہ پر انہیں کس طرح کام کرنا چاہئے.جب کسی نوجوان کو انعام دیا جاتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دوسرے نوجوانوں کے دلوں میں بھی تحریک پیدا ہو کہ وہ بھی ویسے ہی کام کریں اور دوسروں کے دلوں میں تحریک کا ثبوت اس طرح مل سکتا ہے کہ وہ اس میں دلچسپی لیں.یوں تو انعام دینے والا دوسروں کے لئے دل میں بھی دعا کر سکتا ہے مگر میں نے جو طریق جاری کیا تھا کہ دوسرے باركَ اللهُ لكَ فِیهِ کہیں تو اس کی غرض یہ تھی کہ دوسروں کے دل میں ایسے کاموں کی رغبت پیدا ہو مگر انعامات کی تقسیم کے وقت باقی سب لوگ خاموش رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ میری یہ ہدایت انہیں فراموش ہو چکی ہے.ان کا فرض تھا کہ جب کسی کو انعام ملتاتو وہ بلند آواز سے بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيهِ کہتے.دوسری عجیب بات میں نے یہ دیکھی ہے کہ انعام لینے والوں کو بھی یہ معلوم نہیں کہ انہیں کیا کہنا چاہئے.ان میں سے بھی بعض نے باركَ الله لك فيه کہ دیا حالانکہ انعام دینے والا کہتا ہے بارك الله لك فيه.خدا تجھے برکت دے اور اس انعام کو تیرے لئے فائدہ بخش بنائے اور یہ انعام تیری آئندہ ترقیات کا پیش خیمہ ہو اور انعام لینے والا کہتا ہے جزاکم اللہ کیونکہ انعام دینے والے نے اسے انعام بھی دیا اور دعا بھی دی.پس یہ اس کے شکریہ میں دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالی تجھے اس نیکی کی جزا عطا فرمائے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے شریعت نے یہ سکھایا ہے کہ جب کوئی شخص کھانا کھائے تو فارغ ہونے پر کہے کہ الحمد للہ.اب یہ عقل کے بالکل خلاف بات ہو گی اگر کھانا کھلانے والا الحمدللہ کہے اور کھانا کھانے والا خاموش رہے.پس انعام دینے والے کے لئے مناسب فقرہ یہ ہے کہ بارک اللہ لک فیہ اور انعام لینے والے کے لئے مناسب فقرہ یہ ہے کہ جزاکم اللہ یعنی جنہوں نے انعام دیا ہے اللہ تعالٰی ان کی اس نیکی کو قبول کرے اور انہیں اس کا نیک بدلہ دے.پس آئندہ کے لئے یاد رکھو کہ جب انعام دینے والا بارک اللہ لک فیہ کے تو دوسرے بھی یہی فقرہ زور سے کہیں تا انعام لینے والے کو محسوس ہو کہ سب نے اس کے کام کو پسند کیا ہے اور وہ بھی اس کی خوشی میں شریک ہیں اور لینے والا جزاکم اللہ کہے تا اس کے دل میں شکر گزاری کا مادہ پیدا ہو.اب میں آپ لوگوں کو چند فقرات کہنے کے بعد دعا کے ساتھ رخصت کرتا ہوں.
594 سب سے پہلی بات تو میں یہ مرکز میں آکر نوجوان جو کچھ سیکھیں اسے اپنی مجالس تک پہنچا میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ پہنچائیں.لوگوں نے جو کچھ یہاں سے سیکھا ہے اسے یاد رکھیے اور دوسروں تک پہنچائیے.جو جو نمائندے یہاں آئے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ واپس جا کر اپنی اپنی مجالس کا اجلاس کریں اور ان کے سامنے وہ ساری کیفیت بیان کریں جو انہوں نے دیکھی ہے اور ان باتوں کا خلاصہ بیان کریں جو میں نے کہی ہیں اور ان فیصلوں کا ذکر کریں جو آپ لوگوں کے مشورہ کے بعد میں نے کئے ہیں اور انہیں تحریک کریں کہ وہ ان تمام باتوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں.اس طرح جو عہد میں نے کل لیا تھایا آج لیا ہے وہ عہد تمام خدام سے میٹنگ کر کے لیں اور انہیں سکھائیں کہ جب عہد لیا جائے تو "آنی" زور سے کہیں اور "والله" نسبتاً آہستہ آواز میں کہا جائے.بہر حال "ای واللہ " کہنے کی مشق اس طرح کرائیں کہ اس کی آواز سے میدان گونج اٹھے." میں نے بتایا ہے کہ ای کا لفظ خود بخود اپنی ذات میں طاقت رکھتا ہے اور مشق سے یہ طاقت دوگنی تگنی بڑھائی جاسکتی ہے...آئندہ کے لئے اس طرح مشق کرو کہ "ای" کہنے والے خواہ چند افراد ہی ہوں ان کی آواز فضا میں ایک گونج پیدا کر دے.اس کے علاوہ تین چھوٹی چھوٹی اور بھی باتیں ہیں..تھے..خدام الاحمدیہ کی تنظیم جب جاری کی گئی تھی تو میں نے تیرنے اور سواری کی مشق تیرا کی سیکھنے کی ہدایت کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی تھی.کل ہی شیخو پورہ کے دوستوں نے ایک واقعہ سنایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر خدام میری ہدایت پر عمل کرتے تو وہ حادثہ نہ ہو تا.وہ واقعہ یہ ہے کہ جب سیلاب آیا تو شیخوپورہ کا ایک احمدی لڑکا اور لڑکوں کے ساتھ مل کر سیلاب زدگان کو بچانے کے لئے گیا.پھٹوں کی کشتی پر وہ سوار تھے.راستہ میں کشتی الٹ گئی.باقی تو بچ گئے لیکن وہ چونکہ تیرنا نہیں جانتا تھا اس لئے ڈوب گیا.میں نے خدام کو توجہ دلائی کہ سب سے اہم چیز تیرنا ہے.زمین پر جو مصیبتیں آتی ہیں ان سے انسان اپنی کوشش سے بچ سکتا ہے لیکن پانی میں جو مصیبتیں آتی ہیں ان سے بغیر تیرنے کے رہائی نہیں مل سکتی.اسی لئے میں نے نوجوانوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی مگر معلوم ہوتا ہے کہ خدام نے اس فن کی طرف جو نہایت شریف فن ہے توجہ نہیں کی.یہ ظاہر ہے کہ تم تیرا کی کا فن خشکی پر نہیں سیکھ سکتے اس کے لئے بہر حال تمہیں پانی میں داخل ہونا پڑے گا.کوئی افیونی یہ سمجھ لے کہ وہ خشکی پر بھی تیر سکتا ہے تو اور بات ہے ورنہ کوئی عظمند ایسا خیال نہیں کر سکتا." تیر نا انسانی زندگی کا ایک ضروری حصہ ہے.اگر جہاز میں انسان سوار ہو اور جہاز ڈوبنے لگے تو اسے تیر نے کا فن اتنا تو آنا چاہئے کہ وہ دس منٹ یا دو چار گھنٹے پانی میں تیر سکے تاکہ اگر اس کو کوئی مدد پہنچ سکتی ہو تو اس عرصہ میں اسے پہنچ جائے.یہ تو نہ ہو کہ ادھر پانی میں گرے اور ادھر گرتے ہی ڈوب جائے......یہ دیکھنے کے لئے کہ خدام میں کتنے تیرنا جانتے ہیں میں تمام خدام سے کہتا ہوں کہ ان میں سے جو تیرنا جانتے ہیں وہ کھڑے
595 ہو جائیں.(اس پر ستر فی صد خدام کھڑے ہوئے) حضور نے فرمایا کو شش کرو کہ یہ ستر فی صد سوفی صد بن جائے.گو اس تعداد کو دیکھ کر یہ پتہ نہیں لگتا کہ یہ ستر فی صد کتنا تیرنا جانتے ہیں.ممکن ہے پانچ پانچ ہاتھ تیر کر ہی یہ سترفی صدی ختم ہو جائیں..غرض لمبے تیرنے کی بھی مشق کرنی چاہئے." ایک اور بات جس کی طرف میں نے پہلے بھی کئی دفعہ توجہ ہنر سیکھنے کی طرف متوجہ ہونے کی ہدایت دلاتی ہے مگر اب تک توجہ نہیں کی گئی یہ ہے کہ ہر خادم کو کوئی نہ کوئی ہنر آنا چاہئے.پڑھنا لکھنا غیر طبعی چیز ہے اور ہنر ایک طبعی چیز ہے جو ہر جگہ کام آسکتی ہے.مثلاً معماری ہے.لوہاری ہے.نجاری ہے یا اسی قسم کے اور پیشے ہیں.پیشہ ور ہر جگہ اپنے گزارے کی صورت پیدا کر لیتا ہے اور لوگ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.آپ کو اگر اچھی عربی آتی ہے اور آپ افغانستان چلے جائیں تو آپ کی کوئی قیمت نہیں لیکن اگر آپ لوہارا کا یا نجار کا کام جانتے ہیں یا آپ درزی ہیں یا آپ جو تا بنانا جانتے ہیں تو آپ کی بڑی قیمت ہے.اسی طرح آپ کو اچھی انگریزی آتی ہے اور آپ آزاد علاقے میں چلے جائیں تو آپ کی کوئی قیمت نہیں لیکن آپ لوہار کا کام جانتے ہیں یا اچھے بڑھتی ہیں تو وہ آپ کو سر پر اٹھا لیں گے.یہی حال جرمنی اور فرانس وغیرہ کا ہے.وہاں بھی محض علم کی کوئی قیمت نہیں لیکن اگر آپ کو کوئی پیشہ آتا ہے تو آپ کی بڑی قیمت ہے.اسی طرح آپ وحشی قبائل میں چلے جائیں تو وہاں بھی پیشے کی بڑی قدر ہوتی ہے لیکن فلسفہ کسی کام نہیں آسکتا.میں نے کہا تھا کہ ایسی جماعتیں جن کو ہر وقت خطرات درپیش ہوں ان کو اس بات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ وہ مختلف قسم کے پیشے اور ہنر سیکھیں.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خدام نے اس طرف بھی توجہ نہیں کی.سب سے زیادہ ملزم اس بارہ میں مرکزی عہدیدار ہیں.میں نے تو ایک صنعتی سکول بھی کھولا تھا اور چاہا تھا کہ جماعت کے نوجوان مختلف قسم کے پیشے اور ہنر سیکھ کر باعزت طور پر اپنی زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکیں مگر اس کی طرف بھی توجہ نہ کی گئی اور وہ مدرسہ بند کرنا پڑا.بہر حال جماعت کے نوجوانوں کو کسی نہ کسی پیشہ کے سیکھنے کی طرف ضرور توجہ کرنی چاہئے مختلف قسم کے پیشے اور ہنر جاننا غیر ملکوں میں جانے کے لئے بڑی سہولت پیدا کرنے والی چیز ہے اور ان کے ذریعہ وہاں آسانی سے روزی کمائی جا سکتی ہے.اس کے علاوہ ہماری جماعت کی ترقی میں بھی ان پیشوں کا بہت حد تک دخل ہے." ایک تو نوجوانوں کو تعلیمی ڈگریوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے منہ اور دانت صاف رکھنے کی ہدایت اور دوسرے انہیں کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنا چاہئے.تیرے میں اس امر کی طرف توجہ دلائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ عام طور پر ہماری جماعت کے دوستوں میں اور شاید باقی لوگوں میں بھی منہ کو صاف رکھنے کی عادت نہیں پائی جاتی.اس کا نتیجہ یہ ہے جب وہ بات کرتے ہیں تو ان کے منہ سے اتنی شدید بو آتی ہے کہ سردرد شروع ہو جاتا ہے حالانکہ دانتوں کی صفائی سے معدہ اچھا رہتا ہے اور معدہ کی مضبوطی
596 سے انسانی صحت اچھی رہتی ہے.پس میں خدام الاحمدیہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ مہینہ میں ایک دفعہ اس کا امتحان لیا کریں جس کا طریق یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ناک کے پاس آکر اپنا سانس چھوڑو تاکہ دوسرا بتائے کہ تمہارے تنفس سے بو آتی ہے یا نہیں.گھریلو تعلقات پر اس چیز کا بڑا اثر ہوتا ہے.قریب بدبو کاروحانی اور سماجی تعلقات پر تباہ کن اثر ترین تعلق میاں بیوی کا ہوتا ہے.ان کے آپس میں کئی دفعہ جھگڑے ہوتے رہتے ہیں اور بالکل ممکن ہے کہ وہ اپنی ذات میں یہ سمجھتے ہوں کہ ان جھگڑوں کی فلاں فلاں وجوہ ہیں لیکن در حقیقت اس کی وجہ یہ ہو کہ مرد کے لئے عورت کے منہ کی بد بو نا قابل برداشت ہو.وہ اس بات کو ظاہر نہیں کرے گا لیکن آہستہ آہستہ اس کے دل میں یہ خیالات پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے کہ اگر میں اپنی بیوی کو چھوڑ دوں اور کسی اور سے شادی کرلوں تو اچھا ہے.پس یہ ایک نہایت ہی اہم چیز ہے مگر اس کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے حالانکہ یہ زندگی کے اہم ترین امور میں سے ہے.صحت کا اس سے تعلق ہے.سوشل تعلقات پر اس کا اثر پڑتا ہے اور مذہب نے بھی اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے.چنانچہ رسول کریم میایی نے اس پر اتنا زور دیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں اگر کوئی شخص پیاز کھا کر مسجد میں آجاتا ہے یا لہسن کھا کر مسجد میں آجاتا ہے تو فرشتے اس کے پاس نہیں آتے.اب فرشتے تو ہر جگہ ہیں.پاخانہ میں انسان جاتا ہے تو اس وقت بھی فرشتے ساتھ ہوتے ہیں.لہسن کے کھیت میں بھی فرشتے ہوتے ہیں.پیاز کے کھیت میں بھی فرشتے ہوتے ہیں.پھر اس حدیث کے معنے کیا ہوئے؟ در حقیقت اس جگہ فرشتہ سے مراد آسمان کا فرشتہ نہیں.وہ تو پاخانہ میں جاتا ہے.لہسن کے کھیت میں بھی جاتا ہے.پیاز کے کھیت میں بھی جاتا ہے.اس جگہ فرشتے سے شریف الطبع اور نازک مزاج انسان مراد ہیں جن کے لئے بو نا قابل برداشت ہوتی ہے اور جو اس سے دور بھاگتے ہیں.اسی لئے رسول کریم می ان کی دیوی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مجالس میں آؤ تو عطر و غیرہ لگا کر آؤ تاکہ لوگوں کے اجتماع کی وجہ سے بو پیدا نہ الله صلی علی فرموده ۲۳ اکتوبر ۱۹۵۰ء مطبوعه الفضل یکم اگست ۱۹۶۲ء)
تربیتی کورس کے اختتام پر حضور کا خطاب تربیتی کلاسز کے نصاب کے متعلق حضور کی ہدایات بڑی بھاری چیز جو تمہاری آنکھوں کے سامنے رہنی چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم نے : احمدیت کے ذریعے سے اس عہد کو پورا کرنا ہے جو رسول کریم نے خدا تعالیٰ سے کیا عکرمہ کی زندگی میں حیرت انگیز انقلاب ہمارے ہر نو جوان کے اندر یہ آگ ہونی چاہئے کہ وہ اسلام اور احمد بیت کو قائم کر دے ہر ایک مالی قربانی اور تبلیغ کے لئے تیار ہو جاؤ
598 ” ہر نوجوان کے اندر یہ آگ ہونی چاہئے کہ وہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کو قائم کر دے" اگر یہ آگ پیدا نہ ہو تو وہ سلسلہ کے لئے مفید وجود دوا نہیں" ے نومبر ۱۹۵۰ء بعد نماز عصر چودہ روزہ تربیتی کورس کے اختتام پر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے تربیتی کورس میں شامل ہونے والے خدام کو الوداعی پارٹی دی گئی جس میں حضرت (....) خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقعہ پر مکرم مولوی محمد صدیق صاحب مولوی فاضل انچارج کیمپ نے مفصل رپورٹ پڑھ کر سنائی اور حضرت (......) خلیفہ المسیح الثانی سے درخواست کی کہ اس دفعہ جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کے متعلق حضور راہنمائی فرمائیں تا آئندہ انہیں دور کیا جا سکے.اس کے بعد حضور کے ارشاد پر مکرم مولوی صاحب نے تمام خدام کے نام جو اس کو رس میں شامل ہوئے اور ان کے حاصل کردہ نمبر پڑھ کر سنائے.کورس میں مکرم مولوی ناصرالدین صاحب مولوی فاضل (محمد آباد اسٹیٹ سندھ اول ، مولوی محمد امین صاحب مولوی فاضل ( ننکانہ صاحب) دوم اور صوفی محمد رفیق صاحب و قریشی محمد احمد صاحب (ربوہ) سوم رہے.نام سنائے جانے کے وقت حضور کے ارشاد پر ہر خادم کھڑا ہو جاتا تھا تاکہ دوسرے دوست اسے پہچان سکیں.اس موقعہ پر حضور نے جو تقریر فرمائی تھی وہ پہلی مرتبہ رسالہ خالد جنوری ۱۹۶۷ء میں شائع ہوئی تھی.(مرتب) حضور نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا :.” نام جو میں نے پڑھوائے تھے اس کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ دیکھوں تربیت کا کس حد تک اثر ہوا ہے.پچاس خدام میں سے بارہ ایسے تھے جو کھڑے ہونے سے پہلے اس کے لئے تیار نہیں تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر تربیتی کلاس کا کوئی اثر نہیں ہوا لیکن اکثریت ایسی تھی جس نے اپنا مقصد سمجھا تھا یعنی پچاس میں سے اڑ تمہیں کا کھڑا ہونا ظاہر کرتا تھا کہ وہ انتظار میں تھے کہ آواز آئے اور وہ اٹھ کھڑے ہوں لیکن بارہ ایسے تھے جو
599 مردوں کی طرح کھڑے ہوئے.ان کو دیکھ کر یہ ظاہر نہیں ہو تا تھا کہ وہ کسی تربیتی کیمپ میں رہ چکے ہیں بلکہ یوں معلوم ہو تا تھا جیسے وہ کسی مسجد کے ملاں کے شاگردوں میں سے ہیں.مولوی محمد صدیق صاحب نے اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے کہ اکثر مجالس سے نمائندگان نہیں آئے.جہاں تک انسانی نفس کا تعلق ہے نئی بات لوگ آہستہ آہستہ اختیار کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے لوگ آج کل کے لوگوں سے تقویٰ میں بہت بڑھے ہوئے تھے لیکن جب آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ ہر احمدی ہر تین ماہ کے بعد ایک پائی فی روپیہ کے حساب سے چندہ دے تو بعض دوستوں نے یہ کہا کہ اس طرح تو احمدیت میں داخل ہونے میں مشکل پیدا ہو جائے گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کئی لوگ ایسے بھی تھے جو ایک پائی فی روپیہ فی سہ ماہی سے کئی گنا زیادہ چندہ دیتے تھے مگر اس شرح کے مقرر ہو جانے سے بعض نے خیال کر لیا کہ اس طرح احمدیت قبول کرنے میں لوگ ہچکچاہٹ محسوس کریں گے لیکن اب کئی لوگ ایسے ہیں جو اپنی آمد کا تیس چالیس فی صدی چندہ دیتے ہیں حالانکہ ان میں سے بعض ایمان میں اتنے پختہ نہیں جتنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے...ایمان میں پختہ تھے لیکن اس زمانہ میں لوگ ایک پائی فی روپیہ فی سہ ماہی شرح چنده مقرر ہونے سے گھبراتے تھے.پس ابتداء میں ہمیشہ دقتیں پیش آتی ہیں لیکن جب کام چلے گا خدام میں اس کی اہمیت پیدا ہوتی چلی جائے گی.بڑی بات یہ ہے کہ کورس میں شامل ہونے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر خدام کی تنظیم کریں.میں سمجھتا ہوں کہ ابھی خدام کی دس فی صدی تنظیم ہوئی ہے.نوے فی صدی تنظیم ابھی باقی ہے.آپ کو چاہئے کہ اپنی اپنی جگہوں پر جا کر خدام کی تنظیم کریں.اسی طرح ارد گرد کے علاقہ میں پھر پھر کر مجالس میں تحریک کریں کہ اگلے سال اس کو رس میں شامل ہونے کے لئے خدام زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں.بعض جگہوں پر مشکلات بھی ہیں.مثلاً کراچی کی جماعت کے اکثر خدام ملازمت پیشہ ہیں اس لئے انہیں چھٹیاں ملنی مشکل ہوں گی لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ سال میں دو تین خدام اس کو رس میں شامل ہو جائیں اور وہاں جا کر باقی خدام کو ٹریننگ دیں کیونکہ اس انتظام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جو خدام اس تربیتی کورس میں شامل ہوں وہ واپس جا کر دو سرے خدام کو ٹریننگ دیں.یاد رکھیں کہ اس کو رس سے ہمارا یہ مقصد نہیں تھا کہ ہم تمیں چالیس خدام کو ٹرینڈ کریں یا ہمیں صرف تمیں چالیس خدام کی ضرورت ہے بلکہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ جس خادم کو اس کے لئے بلایا جائے وہ آگے دوسروں کو سکھائے اور کوشش کرے کہ آئندہ سال زیادہ خدام اس کو رس میں حصہ لیں.آپ میں سے ہر ایک خادم دو چار پانچ چھ اور خدام کو ٹریننگ دے.اسی طرح وہ خدام آگے اور خدام کو ٹریننگ دیں.اس طرح پچاس خدام کو تربیت دینے کی وجہ سے ہزاروں تک یہ تربیت پہنچ جائے گی.میں نے اساتذہ سے کہا تھا کہ اس کو رس میں موٹی موٹی باتیں سکھائی جائیں.پیچیدگیوں میں نہ پڑا جائے.
600 اس لئے بطور امتحان میں ایک دو باتیں پوچھتا ہوں.انڈر ٹریننگ (زیر تربیت) خدام سب کھڑے ہو جائیں.جو سوال میں کروں گا اس کا جواب نہیں دینا بلکہ صرف ہاتھ کھڑا کرنا ہے.جس سے معلوم ہو کہ تمہیں جواب آتا ہے اور میں جس سے چاہوں گا جو اب پوچھ لوں گا.مثلاً میں ایک فقرہ بولتا ہوں.اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ اس کی اصلاح کرلیں گے تو ہاتھ کھڑا کریں.اس میں مولوی فاضل یا مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل خدام سرے سے مخاطب نہیں.مثلاً میں یہ فقرہ بولتا ہوں إِنَّ اللهَ أَمَرَ المُؤمِنونَ أَن يصلون - بولو یہ صحیح ہے یا غلط؟" (اس پر متعد د خدام نے ہاتھ کھڑے کئے اور حضور نے ایک خادم حفیظ احمد صاحب سے دریافت فرمایا کہ اس میں کیا غلطی ہے ؟ انہوں نے دو غلطیوں کی تصحیح کی یعنی انہوں نے بتایا کہ "الله" اسم "ان" ہے.اس لئے اس پر بجائے کسرہ" کے "فتح" آئے گی.کیونکہ "ان" اپنے مابعد کو فتح دیتا ہے اور "المُؤمِنونَ" مفعول نبہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا یعنی "المُومِنینَ " پڑھا جائے گا.آخری غلطی کی وہ تصحیح نہ کر سکے.) حضرت (....) خلیفہ المسیح الثانی نے دوسرے خدام سے دریافت فرمایا کہ بتائیں کیا اور بھی غلطی ہے یا نہیں ؟ مگر کوئی خادم جواب نہ دے سکا.حضور نے فرمایا کہ اس فقرہ میں يُصَلُّونَ نہیں چاہئے بلکہ صرف يصلوا چاہئے.دوسرا سوال حضور نے یہ کیا کہ :.فاعل کے آخر میں جو حرکت آتی ہے وہ کیا ہے؟ جو خدام اس سوال کا جواب بتا سکتے ہیں وہ ہاتھ کھڑا کریں.اس پر متعدد خدام نے ہاتھ کھڑے کئے جن میں ہمارے نو مسلم بھائی رشید احمد صاحب امریکن واقف زندگی بھی شامل تھے.مکرم رشید احمد صاحب نے بھی چودہ روزہ تربیتی کورس میں با قاعدہ شمولیت کی تھی.حضور نے مکرم رشید احمد صاحب سے ہی اس سوال کا جواب پوچھا.انہوں نے بتایا کہ فاعل کے آخر میں رفع آتا ہے.اس کے بعد حضور نے فرمایا :." آپ لوگوں نے جو کچھ پڑھا ہے میں امید کرتا ہوں کہ وہ لکھا بھی ہو گا" (اس کے بعد حضور نے اساتذہ کرام سے سوال کیا کہ وہ جو کچھ پڑھایا کرتے تھے آیا وہ لکھوایا بھی کرتے تھے یا نہیں ؟ اور خدام اپنی جگہوں پر واپس جاکر ان اسباق کو یاد کرنا چاہیں تو وہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اس پر مکرم مولوی سیف الرحمن صاحب فاضل مولوی محمد احمد صاحب ثاقب، مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف مکرم مولانا جلال الدین صاحب مشمس ، مکرم مولوی خورشید احمد صاحب شاد نے عرض کیا کہ حضور سوائے ان پڑھ خدام کے کہ وہ لکھنا نہیں جانتے باقی خدام نے اسباق نوٹ کرلئے ہیں اور واپس جا کر وہ اگر یاد کرنا چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں.درم اس کے بعد حضور نے فرمایا:.رپورٹ میں ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ افسوس ہے کو رس پورا نہیں ہو سکا کیونکہ جو خدام کو رس
601 میں شامل ہوئے ان میں سے بعض کی علمی قابلیت اپنے ساتھیوں کی نسبت بہت کم تھی.میں نے شروع میں ہی ہدایت کی تھی کہ جو خدام تعلیم یافتہ نہیں ان کو الگ تو نہیں پڑھانا چاہئے لیکن اس کا یہ اثر بھی نہیں پڑنا چاہئے کہ کو رس خراب ہو جائے کیونکہ اگر یہ غلطی کی جائے تو نا فرض شناسی کی ایسی عادت پڑ جائے گی کہ اس کا روکنا مشکل ہو گا.ہر طالب علم کے اندر یہ احساس ہونا چاہئے کہ استاد اپنے فرض کو ادا کر رہا ہے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب استاد اپنے پہلے فرض یعنی کو رس کو پورا کر دے.میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ یہ غلطی سرزد نہیں ہوگی.پڑھانے کے لئے بے شک آسان الفاظ استعمال کر لو لیکن کو رس پورا کر دینا چاہئے.میں نے مولوی سیف الرحمن صاحب کو جن کے سپرد عربی کی ابتدائی تعلیم تھی ، یہ ہدایت کی تھی کہ صرف و نحو کی لمبی باتوں میں نہ پڑو.صرف ایسی موٹی موٹی باتیں بتا دو جن سے خدام کے اندر قرآن و حدیث پڑھنے کے لئے دلیری پیدا ہو جائے اور اس طرح اگر ایک گھنٹہ روزانہ بھی پڑھائی کی جاتی تو اس قدر عربی چھ سات دن میں پڑھائی جاسکتی تھی یعنی عنوان بتا دیئے جاتے تاکہ کوئی شخص عربی لفظ بول کر انہیں ڈرا نہ سکے.بہر حال آئندہ یہ احتیاط ہونی چاہئے کہ کورس پورا ہو جائے.اگر کورس پورا نہیں ہو گا تو نہ تو طالب علم اپنے مقصد کو حاصل کر سکیں گے اور نہ استادوں کے متعلق وہ اچھا امپریشن (Impression) لے کر جائیں گے.یہ تو صاف بات ہے کہ اگر ڈاکٹر اپنے شاگرد کو آدھی ڈاکٹری پڑھا دے تو وہ لوگوں کو مارنے والا بنے گا، جلانے والا نہیں بنے گا اسی طرح وہ کو رس جو مقرر کیا گیا ہے اگر پورا نہ ہو تو لازماً اس کا اچھا اثر نہیں پڑ سکتا.بڑی بھاری چیز جو تمہاری آنکھوں کے سامنے رہنی چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم نے احمدیت کے ذریعہ سے اس عہد کو پورا کرنا ہے جو رسول کریم میں تم نے خد اتعالیٰ سے کیا.ہمارا فرض تھا کہ ہم یہ عہد آپ کے ذہن نشین کرائیں اور اساتذہ کا فرض تھا کہ ہمارا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے آپ کو پڑھائیں.اگر نمائندہ خدام اس چیز کو سمجھ لیں اور انہیں اس کا یقین ہو جائے اور ساتھ ہی وہ اس کو آگے پھیلانے کی کوشش کریں تا وہ اس عہد کو تازہ کریں جو رسول کریم میل ل ل ل لو ہم نے خدا تعالیٰ کی خاطر ہم سے لیا تو ہمیں بہت جلد کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.رسول کریم ملی یا اللہ نے یہ عہد اپنی ذات کے لئے نہیں لیا تھا بلکہ آپ نے یہ عہد خدا تعالیٰ کی خاطر لیا تھا.اگر ہم اس کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس لئے تا اس عہد کو جو آج سے چودہ سو سال قبل لیا گیا تھا دوبارہ زندہ کریں.دوسروں کو یاد دلائیں اور اسے لوگوں میں قائم کرنے کی کوشش کریں.اگر یہ بات پختہ ہو جائے تو ہم اس فرض کو ادا کریں گے جو ہمارے ذمہ لگایا گیا تھا.ایک ماں جو قربانی کر سکتی ہے وہ ہر شخص جانتا ہے.آپ میں سے وہ کون سا شخص ہے جو ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوا.بے شک بعض لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنی ماں کا دودھ نہیں پیا ہو گا یا جنہوں نے ماں کی تربیت اپنی ہوش میں حاصل نہیں کی ہوگی لیکن ایسے بہت کم ہیں.نوے فی صدی لوگ ایسے نکلیں گے جنہوں نے اپنی ماں کا دودھ پیا ہو گا یا اس کی نگرانی میں دودھ پیا ہو گایا جنہوں
602 نے بچپن میں تربیت اپنی ماں کی نگرانی میں حاصل کی ہوگی.وہ جانتے ہیں کہ مائیں کتنی قربانیں کرتی ہیں.مائیں قربانی کرنے میں بعض دفعہ اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ انسان اندازہ نہیں کر سکتا.وہ بسا اوقات یہ جانتے ہوئے کہ ان کی قربانی بچہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی قربانی پیش کر دیتی ہیں.مثلا سینکڑوں، ہزاروں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ ایک عورت جو پانی سے خوف کھاتی تھی جب اس کا بچہ پانی میں گر گیا تو باوجود یہ جاننے کے کہ وہ تیر نا نہیں جانتی یا یہ جانتے ہوئے کہ وہ پانی میں کود کر بچہ کو بچا نہیں سکتی پانی میں چھلانگ لگا دیتی ہے اور وہ خیال نہیں کرتی کہ میں مرجاؤں گی یا کسی ماں کا بچہ چوری ہو گیا ہو اور وہ اتنی دیر کے بعد اسے دیکھے کہ اسے پہچاننا مشکل ہو.مثلاوہ بچہ ڈا کو اٹھا کرے گئے ہوں اور انہوں نے اس کو ڈاکہ زنی کی تربیت دی ہو.وہ چوری کے لئے باہر نکلے اور اپنی ماں کے ہاں چورنی کرنے.ماں نے پولیس کو رپورٹ کی ہو اور اس نے اسے گرفتار کر لیا ہو اور ماں کو بطور گواہ عدالت میں پیش کیا ہو.ایسے موقعہ پر ماں گواہی دے دے گی لیکن اس لئے کہ وہ جانتی نہیں کہ وہ اس کا اپنا بیٹا ہے.مجسٹریٹ کے سامنے اقرار کر لینے کے بعد کہ اس نے چوری کی ہے اور اس علم کے بعد اگر وہ انکار کر دے تو وہ سزا کی مستحق ہوگی اگر اسے یہ پتہ لگ جائے کہ چور اس کا اپنا بیٹا ہے تو وہ فورا کہہ دے گی کہ چور یہ نہیں تھا.میں نے جھوٹ بولا ہے.وہ اپنے آپ کو قید میں ڈال دے گی لیکن اس کے خلاف گواہی نہیں دے گی سوائے اس کے کہ وہ مومنہ ہو.یہی حال ان لوگوں کا ہوتا ہے جو کچے مذہب میں داخل ہوتے ہیں لیکن پھر دور جا پڑتے ہیں.ان کے دلوں میں یہ خیال اور تصور تو ہوتا ہے کہ وہ بچے مذہب میں داخل ہیں لیکن وہ صرف ناموں سے محبت کرتے ہیں، حقیقت کو پہچانے کی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتے.اگر کسی وقت انہیں معلوم ہو گا کہ وہ عملی طور پر اسی مذہب کی مخالفت کر رہے ہیں جس کی سچائی کے وہ زبان سے قائل ہیں تو وہ فورا اپنے اندر تبدیلی پیدا کرلیں گے.مثلاً آج کل مسلمان لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے تو محبت کرتے ہیں لیکن آپ کی روحانی شکل سے نفرت کرتے ہیں.لیکن اگر انہیں کسی وقت یہ پتہ لگ جائے کہ وہ شکل جس کو وہ اب تک غیر کی شکل سمجھ رہے تھے محمد رسول اللہ ملی اور کی شکل ہے تو وہ اپنے خیال کو فور ابدل دیں گے اور مخالفت ایک ساعت میں بدل جائے گی.صحابہ کو دیکھو ان میں سے بعض رسول کریم ملی والی ریلی کے شدید ترین دشمن تھے لیکن جب انہیں یہ سمجھ آگیا کہ رسول کریم میں اللہ کچے ہیں تو آنا فانا ان کی نفرت محبت میں بدل گئی.عکرمہ جو ابو جہل کا بیٹا تھا، ہمیشہ رسول کریم میں ایم کی مخالفت کرتا رہا.جب مکہ فتح ہوا تو بغض کی وجہ سے مکہ چھوڑ کر بھاگ گیا کیونکہ وہ آپ کی حکومت کے ماتحت رہنے کے لئے تیار نہیں تھا.اس کی بیوی دل سے مسلمان تھی.رسول کریم میں اللہ نے عکرمہ کے متعلق یہ احکام صادر فرمائے تھے کہ اگر وہ پکڑا جائے تو اسے سزا دی جائے.اس کی بیوی نے جب یہ احکام سنے تو وہ رسول کریم علیہ کے پان گئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ا میں دل سے مسلمان ہوں.عکرمہ کو بعض غلط فہمیاں ہیں جن کی بناء پر وہ آپ کی مخالفت کرتا رہا ہے اور اب اسی مخالفت کی وجہ سے مکہ چھوڑ کر باہر چلا گیا ہے.یا رسول اللہ وہ اسلام کی اس لئے مخالفت کر رہا ہے کہ وہ سمجھتا ہے یہ دین جھوٹا ہے.کیا یہ بہتر ہو گا کہ آپ کا ایک رشتہ دار غیروں میں دھکے کھا تا
603 پھرے یا یہ بہتر ہو گا کہ وہ آپ کے لئے قربانیاں کرے.رسول کریم ملی ویلا لیلی نے عکرمہ کو معاف کرنے کا وعدہ فرمایا.عکرمہ کی بیوی نے دوبارہ عرض کیا یا رسول اللہ " عکرمہ اسلام سے اتنا متنفر ہے کہ اگر آپ نے فرمایا کہ اسے یہاں آکر مسلمان ہونا پڑے گا تو وہ نہیں آئے گا.رسول کریم ملی میللی امام نے فرمایا ہم اسے مسلمان ہونے کے لئے نہیں کہیں گے.عکرمہ حبشہ کی طرف بھاگ رہا تھا اور قریب تھا کہ کشتی میں سوار ہو جائے کہ اس کی بیوی وہاں پہنچی.اس نے کہا میرے خاوند ! تم مکہ کے در چوال رولر Viritual Ruler کے بیٹے تھے اور اب غیروں میں دھکے کھاؤ گے.کیا یہ بہتر نہیں کہ تم غیروں میں دھکے کھانے کی بجائے اپنے ایک رشتہ دار کی اطاعت کرلو.عکرمہ ! نے جواب دیا میں اسلام کا دشمن ہوں اور ساری عمر دشمنی کرتا رہا ہوں.اب جب مسلمانوں کو فتح ہو گئی ہے وہ میرے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ہم ان کے ساتھ کیا کرتے تھے.اس کی بیوی نے کہا میں یہ بات کر آئی ہوں.رسول کریم ملی اہلیہ نے فرمایا ہے کہ اگر تم واپس چلے آؤ تو آپ معاف فرما دیں گے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ جی چاہے تو مسلمان ہو جائے ورنہ اسے مجبور نہیں کیا جائے گا.عکرمہ نے تعجب سے کہا کیا یہ بات بچی ہے.اس کی بیوی نے کہا میں نے دو بدو باتیں کی ہیں.چنانچہ وہ واپس آگیا اور کہا مجھے محمد رسول الله ملی می میریم کے پاس لے چلو.چنانچہ وہ اسے آپ کے پاس لے گئی.عکرمہ نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے.کیا یہ ٹھیک ہے ؟ آپ نے فرمایا.ہاں! اس نے ٹھیک کہا ہے.عکرمہ نے کہا میری بیوی نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ مجھے اپنے مذہب میں داخل ہونے کے لئے مجبور نہیں کریں گے.کیا یہ ٹھیک ہے ؟ آپ نے فرمایا.ہاں ! اس نے ٹھیک کہا ہے.یہ سنتے ہی عکرمہ کی آنکھیں کھل گئیں اور اس نے کہا اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمدا عبده و رسوله - رسول کریم ملی لیم کو اس سے حیرت ہوئی.عکرمہ نے کہا وہ شخص جو میرے جیسے دشمن کو معاف کرنے کے لئے تیار ہو گیا اور وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ میں اپنا مذہب تبدیل کر کے اس کے مذہب میں داخل ہو جاؤں وہ عام انسان نہیں ہو سکتا.وہ یقینا خد اکار سول ہے اس لئے میں آپ پر ایمان لاتا ہوں.رسول کریم ملی یا لیلی دیوی نے فرمایا عکرمہ میں نے تمہیں صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اگر تمہاری کوئی خواہش ہو تو بیان کرو.اگر وہ ہماری طاقت میں ہوئی تو ہم اسے پورا کریں گے لیکن وہ شخص جو دنیاوی و جاہت کے لئے اپنی ساری عمر اڑ تا رہا کہنے لگا یا رسول اللہ ! مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں.آپ دعا فرما ئیں کہ خدا تعالیٰ میرے تمام گناہ معاف کر دے.یہ کتنا بڑا تغیر ہے جو عکرمہ میں پیدا ہوا.پس مخالفت گو راستی سے دور لے جانے والی ہے لیکن یہ بعض اوقات راستی کی طرف لانے کا موجب بھی بن جاتی ہے.دنیا احمدیت کی مخالفت اس لئے نہیں کرتی کہ یہ بچی ہے بلکہ وہ اس لئے مخالفت کرتی ہے کہ وہ سمجھتی ہے یہ جھوٹ ہے.ہاں کچھ صاحب اغراض بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے احمدیت کو قبول کر لیا تو ہماری نمبر داریاں اور حکومتیں جاتی رہیں گی لیکن مخالفین کا اکثر حصہ یہ سمجھتا ہے کہ ہم خدا اور اس کے رسول کے مخالف ہیں.آپ سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کا ایمان لانا بھی آسان ہے اور ان کا قابل رحم ہو نا بھی یقینی ہے.اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ ہم خدا اور اس
604 کے رسول کے مخالف نہیں تو ان کی مخالفت عقیدت سے بدل جائے گی اور ان کی حالت قابل رحم اس لئے ہے کہ ہماری اس لئے مخالفت نہیں کرتے کہ ہم ان کے خدا اور اس کے رسول کے خادم ہیں بلکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم ان کے خدا اور رسول کی مخالفت کرتے ہیں.گویا وہ خدا اور اس کے رسول کی خاطر ہماری مخالفت کر رہے ہیں اور جو خدا اور اس کے رسول کی خاطر ہماری مخالفت کر رہا ہے وہ ایک حد تک ہمارے لئے قابل عزت بھی ہے کیونکہ اس کا جذبہ نیک ہے.پس یہاں سے فارغ ہو کر اپنے اپنے علاقہ میں جاؤ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم کرد، تبلیغ کرو اور کوشش کرو کہ مرکز کی آواز کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے.ہمارے نوجوان ابھی بہت پیچھے ہیں.ہمارے ہر نوجوان کے اندر یہ آگ ہونی چاہئے کہ وہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کو قائم کر دے.اگر یہ آگ پیدا نہ ہو تو وہ سلسلہ کے لئے کوئی مفید وجود نہیں.پس اپنے اندر ایک آگ پیدا کرو.اپنے اندر ایک سوزش اور جلن پیدا کرو.جس کے نتیجہ میں تم میں سے ہر ایک مالی قربانی اور تبلیغ کے لئے تیار ہو جائے اور تمہارے یہاں پڑھنے کا فائدہ تبھی ہو سکتا ہے جب تم باہر جاکر یہی اسباق دو سروں کو سکھاؤ.ان کو خود بھی یاد رکھو اپر عمل کرو اور دوسروں کو بھی سمجھاؤ اور ان سے عمل کروانے کی کوشش کرو اور پھر ایسے نئے آدمی پیدا کر و جو تمہارے ساتھ مل کر احمدیت کی اشاعت میں حصہ لیں.پھر کوشش کرو کہ وہ بھی ان پر عمل کریں اور نئے افراد پیدا کریں اور ان سے عمل کروائیں.وہ احمدیت میں داخل ہو کر اس کے احکام کے پابند ہوں اور اس کو آگے پھیلائیں اور سلسلہ بڑھتے بڑھتے ایک دن ساری دنیا میں پھیل جائے.یہی کام ہے جس کے لئے تم یہاں بلائے گئے ہو اور یہی وہ کام ہے جس کو تمہیں ہر وقت مد نظر رکھنا چاہئے.اگر تم نے یہ کام کیا تو تم خدا تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو جاؤ گے اور اگر نہ کیا تو اس کی ناراضگی کا موجب بنو گے کیونکہ جتنے دن تم یہاں رہے تم نے محض ایک تھئیٹر دیکھا ایک سینما دیکھا اور تم ایسی باتوں میں شامل رہے جن میں تمہاری روح شامل نہیں تھی.تم نے اپنے دن بھی ضائع کیے اور اپنے استادوں کے دن بھی ضائع کیے.تمہاری مثال اس گدھے کی سی ہوگی جس کی پیٹھ پر کتابیں لدی ان پر ہوئی ہوں.وہ خود ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا لیکن دوسرے لوگ ان سے فائدہ حاصل کرتے ہیں".اس کے بعد حضور نے تمام نمائندگان سے جنہوں نے تربیتی کورس پاس کیا تھا مندرجہ ذیل عہد لیا.حضور نے فرمایا :."کیا آپ لوگ اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ جو باتیں آپ نے یہاں سیکھی ہیں ان پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے اور اپنی اپنی جماعتوں میں ان اسباق اور تعلیموں کو پھیلانے کی کوشش کریں گے اور زیادہ سے زیادہ اخلاص خود بھی دکھائیں گے اور دوسروں میں بھی اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کریں گے " سب نمائندگان نے بیک زبان کہا "ای و الله" یہ عہد حضور نے تین دفعہ لیا اس کے بعد حضور نے لمبی دعا فرمائی اور پھر تمام خدام کو حضور نے شرف مصافحہ بخشا.( فرمودہ ۷ نومبر ۱۹۵۰ء مطبوعہ ماہنامہ خالد جنوری ۱۹۶۷ء)
605 جوانان جماعت کو اہم نصائح اس زمانہ میں سب سے بڑی ضرورت سچائی ہے دنیا میں وہی قومیں جیتا کرتی ہیں جن میں صداقت ہوتی ہے احمدیوں کے اخلاق اور سچائی کی گواہی جھوٹ بولنے والا تمہار ا دوست نہ ہو محنت کی عادت اپنے اندر پیدا کریں اگر علم آتا ہے تو اس کا استعمال کرنا بھی ضروری ہے دوسرے کے لئے اپنے حق قربان کر دیا کرو اخلاق میں اپنے مطمح نظر کواونچا کر اور کرتے چلے جاؤ O
606 یہ تقریر سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۲ فروری ۱۹۵۱ء کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے ایک غیر معمولی اجلاس میں فرمائی تھی جو پہلی مرتبہ الفضل ۷ ۱۲۹٬۲۸۴۲اپریل ۱۹۶۱ء میں طبع ہوئی تھی.(مرتب) فرمایا :.سال دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ سال ہوتا ہے جو کسی جماعت کی ابتداء یا کسی کام کے جاری ہونے کے وقت سے بارہ مہینے گزرنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ایک وہ سال ہو تا ہے جو سمسی یا قمری سالوں کے اصول پر شروع ہوتا ہے.قمری سال تو بدلتا رہتا ہے لیکن سشمسی سال ہمیشہ یکم جنوری کو شروع ہو تا ہے.آج جب مجھ سے خواہش کی گئی کہ میں خدام الاحمدیہ کو سال رواں کے متعلق بعض ہدایات دوں تو میں نے یہ بات مان تو بای لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ یہ کون سا سال رواں ہے جس کے متعلق مجھ سے بعض نصائح اور ہدایات حاصل کرنے کی خواہش کی گئی ہے.اس پر مجھے بتایا گیا کہ مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام چونکہ ۴ فروری کو ہوا تھا اس لئے اس مہینہ سے مجلس خدام الاحمدیہ کے نئے سال کی ابتدا ہوتی ہے ورنہ تنسی یا قمری اصول کے مطابق یہ کوئی نیا سال شروع نہیں ہوا.نصیحت ہمیشہ اس شخص کے لئے مفید اور کار آمد ہوتی ہے جو اسے قبول کرتا اور اس پر عمل کرتا ہے.باقی لوگوں کے لئے اس کا عدم اور وجود برا بر ہوتا ہے.چند ماہ ہوئے خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع ہوا تھا اور اس موقعہ پر میں نے جماعت کے نوجوانوں کو بہت سی مفید باتوں کی طرف توجہ دلائی تھی.چونکہ میرے پاس امتحان کا کوئی ذریعہ موجود نہیں اس لئے میں نہیں جانتا کہ میری نصائح کا کیا اثر ہوا اور عمل میں کیا تبدیلی پیدا ہوئی اور جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ پہلی نصائح کا کیا اثر ہوا اور اس کے نتیجہ میں اعمال میں کیا تبدیلی پیدا ہوئی ، اس وقت مزید نصائح کی طرف انسان کی توجہ کم ہوتی ہے اور مزید نصائح چنداں مفید بھی نہیں ہو تیں بلکہ بسا اوقات نصائح کی زیادتی قوم کی ستی اور غفلت کا موجب ہو جاتی ہے کیونکہ جو چیز بار بار سامنے آتی ہے، جہاں وہ بار بار بیداری پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے وہاں بعض دفعہ وہ اپنی کثرت کی وجہ سے غفلت کا موجب بھی ہو جاتی ہے.پس میں نہیں سمجھتا کہ نوجوانوں میں نئی نصائح کے متعلق کیا کیفیت پیدا ہوئی ہے کیونکہ میں اس حقیقت سے ناواقف ہوں کہ میری پہلی نصائح نے کیا اثر کیا تھا.بہر حال نتیجہ کا پیدا نہ ہو نا جہاں ایک صحیح رائے قائم کرنے سے انسان کو محروم کر دیتا ہے وہاں اس بات کا کافی موجب نہیں ہو تاکہ نصائح کے سلسلہ کو ترک کر دیا جائے.اس لئے میں نئے سال کے لئے جماعت کے نوجوانوں کو اختصار کے ساتھ چند امور کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں.جو نصائح کی جاسکتی ہیں وہ تو سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہوں گی اور پھر وہ مختلف حالات میں بدلتی بھی رہتی ہیں مگر اس زمانہ میں سب سے بڑی ضرورت سچائی کی ہے.انبیاء نے اس پر خاص زور دیا ہے اور انسانی اخلاق کا یہ ایک بنیادی حصہ ہے.سچائی اور راستی پر کوئی ایسا وقت نہیں آیا جب اس کی ضرورت نہ سمجھی گئی ہو
607 بلکہ کفار کے نزدیک بھی یہ چیز بڑی قیمتی سمجھی جاتی تھی اور شاید ہی کسی زمانہ میں اسے ترک کرنا جماعتی اور سیاسی طور پر تسلیم کیا گیا ہو.مگر اس زمانہ میں سیاسی اور قومی مفاد کے لئے جھوٹ کو جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا بلکہ اسے ایک نہایت ضروری چیز قرار دیا جاتا ہے اور یہ مرض اس قدر پھیل گیا ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ بڑے اطمینان کے ساتھ قسمیں کھا کھا کر جھوٹ بولتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات پر ناراض بھی ہوتے ہیں کہ ہمارے اس جھوٹ کو سچ تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا.عدالتوں میں پہلے یہ رواج تھا کہ گواہ کے ہاتھ میں قرآن کریم دے کر اس سے قسم لیتے تھے اور اس کا مطلب یہ ہو تا تھا کہ قرآن کریم میں جو وعید نازل ہوئے ہیں ، انہیں مد نظر رکھتے ہوئے میں قسم کھاتا ہوں اور اگر میری قسم جھوٹی ہو تو مذ کورہ وعید اور سزائیں مجھے ملیں لیکن ان گواہوں میں سے کئی ایسے ہوتے تھے جو قسم کھا کر بھی جھوٹ بولتے تھے.مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم جو ہمارے بڑے بھائی تھے اور ای.اے.سی تھے وہ اپنا تجربہ سنایا کرتے تھے کہ جتنا کوئی قرآن کریم ہاتھ میں لے کر جوش سے گواہی دیتا تھا، میرے تجربہ میں اتنا ہی وہ جھوٹا ہو تا تھا.وہ ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص جو میرا اچھا واقف تھا.اس کا مقدمہ میرے سامنے پیش ہوا.وہ کہنے لگا مجھے کوئی اور تاریخ دی جائے کیونکہ جو گواہ میں نے پیش کرنے تھے ، وہ فلاں فلاں وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتے.میں نے نہیں کر کہا میں تو تمہیں عقل مند اور ہوشیار آدمی خیال کرتا تھا لیکن اب میری طبیعت پر یہ اثر ہوا ہے کہ تم بیوقوف ہو.وہ کہنے لگا کیوں؟ میں نے کہا گواہوں کے لئے جگہ اور وقت کی کیا ضرورت ہے.اگر تمہاری جیب میں کچھ ہے تو رو پید ا ٹھنی دے کر بعض آدمی گواہی کے لئے لے آؤ.چنانچہ وہ باہر چلا گیا اور عملی طور پر تھوڑی دیر میں ہی کچھ گواہ لے آیا.گواہی لیتے ہوئے میں ہنستا بھی جاؤں اور مذاق بھی کرتا جاؤں.وہ لوگ قرآن کریم سر پر رکھ کر اور قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ واقعہ یوں ہوا ہے حالانکہ تھوڑی دیر ہوئی ، میں نے خود مدعی کو اس غرض کے لئے باہر بھیجا تھا کہ وہ کچھ دے دلا کر چند گواہ لے آئے.جب وہ گواہی دے چکے تو میں نے انہیں پکڑا اور کہا تم بڑے کذاب ہو.تمہیں واقعہ کا علم ہی نہیں لیکن محض چند ٹکوں کی وجہ سے تم اتنا جھوٹ بول رہے ہو کہ قرآن کریم کی بھی پرواہ نہیں کرتے.اب جس قوم کی یہ حالت ہو اس کا یہ کہنا کہ ہم کامیاب کیوں نہیں ہوتے ، بالکل غلط بات ہے.دنیا میں وہی تو میں جیتا کرتی ہیں جن میں صداقت ہوتی ہے.میں عیسائی دنیا کو دیکھتا ہوں کہ انہوں نے مشق کے ساتھ اپنے اندر سچائی کی اتنی عادت پیدا کر لی ہے کہ جہاں حکومت کی خاطر وہ ہر قسم کا جھوٹ بول لیتے ہیں وہاں جب ذاتیات کا سوال آتا ہے تو وہ جھوٹ نہیں بولتے.امریکہ کا کیریکٹر زیادہ اچھا ثابت نہیں ہوا.امریکہ کا کیریکٹر کمزور ہے کیونکہ انہوں نے جلد ترقی کی ہے اور اس لئے وہ اپنا کیریکٹر نہیں بنا سکا لیکن یورپ نے آہستہ آہستہ ترقی کی ہے اور اس نے اپنا کیریکٹر بنالیا ہے.اسی طرح کسی زمانہ میں ایک مسلمان کا کیریکٹر ایسا تھا کہ وہ جو بات کہتا تھا، ٹھیک ہوتی تھی اور جب تک ہماری جماعت بڑھی نہیں تھی اس وقت تک اس کا بھی یہی حال تھا.احمدی کوئی بات کہہ دے لوگ اسے صحیح تسلیم کر لیتے تھے اور کہتے تھے احمدی جھوٹ نہیں بولتے تھے ، جھنگ کا ہی ایک واقعہ ہے یہاں ایک دوست احمدی ہوئے جن کا نام مغلہ
608 تھا.ان کے تمام رشتہ دار ان کے سخت مخالف ہو گئے.اس علاقہ کے لوگ چوری کو ایک فن سمجھتے ہیں اور پھر اس پر فخر کرتے ہیں.چنانچہ جتنا بڑا کوئی چور ہو گا اتنا ہی وہ چوروں میں معزز ہو گا.مثلاً کہا جائے گا فلاں آدمی بڑا معزز ہے اس لئے کہ فلاں موقعہ پر اس نے اتنی بھینسیں نکال لیں یا فلاں آدمی بہت معزز ہے کہ اس نے اتنی گائیں نکال لیں اور پھر چوروں میں اس حد تک نظام قائم ہوتا ہے کہ ہر علاقہ میں جو جند ضلعوں یا چند تحصیلوں پر مشتمل ہو تا ہے علاقہ کے سب چور اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور مال مسروقہ میں سے اس کا حصہ نکالتے ہیں.مغلہ ایسے ہی بادشاہوں میں سے ایک تھے جو بعد میں احمدی ہو گئے اور چوری سے انہوں نے تو بہ کرلی.انہوں نے بتایا کہ علاقہ کے چور مال مسروقہ کا پانچواں یا دسواں یا بارہواں حصہ میرے گھر پر لاتے تھے اور وہ سنایا کرتے تھے کہ چوروں کے اندر ایسا نظام موجود ہے کہ بعض چوری کی ہوئی چیزوں کو دو دو تین تین سو میل تک پہنچا دیا جاتا ہے.ہر ایک جگہ کا اڈہ مقرر ہوتا ہے اور پہلے سے ہی یہ طے ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسروقہ چیز مشرق کے کسی علاقہ کی طرف نکالنی ہے تو اتنے میل پر فلاں آدمی کو دے آؤ اور اگر مغرب کو مال نکالنا ہے تو چھ سات میل پر ایک دو سرے آدمی کو دے آؤ.اسی طرح شمال اور جنوب میں ایک ایک آدمی مقرر ہوتا ہے.چور مخصوص حالات کے مطابق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مال فلاں طرف نکالا جائے.مثلاً اگر وہ دیکھتا ہے کہ جس کے ہاں چوری کی گئی ہے اس کی رشتہ داریاں مشرق میں ہیں تو وہ مسروقہ مال مغرب کی طرف بھیج دے گا.اسی طرح اس کی رشتہ داریاں شمال کی طرف ہیں تو وہ مال جنوب کی طرف بھیج دے گا اور اگر رشتہ داریاں جنوب کی طرف ہیں تو وہ مال شمال کی طرف بھیج دے گا.مثلاً بیکانیر گورداسپور سے کتنی دور ہے لیکن ہمارے علاقہ کا مسروقہ مال بیکانیر تک جاتا تھا.پھر چوروں میں ایک قسم کا نظام ہوتا ہے مثلاً ایک شخص اگر کوئی جانور چوری کرتا ہے تو وہ حالات کے مطابق اسے دس بارہ میل پر کسی مقررہ اڈے پر پہنچا دے گا اور اسے مثلا دسواں حصہ قیمت کامل جائے گا.پھر دو سرا آدمی اسے دوسرے اڈے تک پہنچا دے اور اسے دسواں حصہ قیمت کامل جائے گا.اس طرح وہ ایک عام اندازہ لگا کر قیمت کے حصے کرتے جائیں گے اور آخری وقت اسے بیچ کر اپنا حصہ پورا کرے گا.ایک دفعہ سکھوں نے میری گھوڑیاں چرالیس اور پولیس نے میرے خیال میں انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن چونکہ پولیس والے ایسے معاملات میں مجرموں سے کچھ لے کر کھاپی لیتے ہیں اس لئے وہ سفارش بھی لے آئے کہ انہیں معاف کر دیں اور اپنی رپورٹ واپس لے لیں.یہ لوگ گھوڑیاں واپس دے دیں گے.ان کا خیال تھا کہ اگر انہوں نے معاف کر دیا اور پولیس نے اپنی رپورٹ واپس لے لی تو بعد میں گھو ڑیاں غائب کردی جائیں گی.میں نے کہا میں ایسا نہیں کروں گا.ہمارے وہ دوست میرے پاس پہنچے اور انہوں نے کہا.میں نے سنا ہے کہ سکھوں نے آپ کی گھوڑیاں چرالی ہیں.یہ لوگ سیدھی طرح تو گھو ڑیاں واپس نہیں کریں گے.آپ اجازت دیں تو میں ان کی گھوڑیاں چوری کروا دوں.اس طرح وہ آپ کی گھو ڑیاں واپس کر دیں گے.میں نے کہا آپ نے توبہ کی ہوئی ہے.آپ اپنی توبہ پر قائم رہیں، گھوڑیوں کی خیر ہے.اتفاقاً وہی چور جنہوں نے میری
609 گھوڑیاں چرائی تھیں ، ایک اور مقدمہ میں گورداسپور عدالت میں پیش ہوئے.مسٹر ا و کلی ڈی.سی کی عدالت میں وہ چور پیش ہوئے.وہ احمدیوں کے اخلاق کے بہت مداح تھے.کسی شخص نے انہیں بتایا کہ یہ لوگ بہت سخت ہیں.انہوں نے قادیان کے مرزا صاحب کی گھوڑیاں بھی چرالی تھیں جس مقدمہ میں وہ چور عدالت میں پیش ہوا تھا اس کی سزا دو سال سے سات سال تک ہو سکتی تھی لیکن ڈی سی نے مجرم کو مخاطب کر کے کہا تمہارے جرم اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں تم کو دو سال کی سزا دیتا ہوں اور پانچ سال مرزا صاحب کی گھو زیاں چرانے کی سزا دیتا ہوں لیکن خدا تعالیٰ کی نظر میں یہ سزا ابھی کم تھی.سات سال کی قید کے بعد جب وہ چور رہا ہو کر گھر آیا تو اس کی غیر حاضری میں اس کی بیوی آوارہ ہو چکی تھی.اس نے اسے قتل کر دیا اور خود پھانسی پر چڑھ گیا.غرض جب کوئی شخص سچائی کے ساتھ کام کرتا ہے تو خدا تعالیٰ خود اس کا بدلہ لیتا ہے.مغلہ جب احمدی ہوئے تو انہوں نے قومی عادت یعنی چوری کو ترک کر دیا اور جھوٹ بولنا بھی چھوڑ دیا کیونکہ یہ ابتدائی جرم ہوتا ہے.ان کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مغلہ کا فر ہو گیا ہے لیکن بعد میں پتہ لگا کہ ان کالڑ کا کافر ہو کر سچ بولنے لگ گیا ہے اور چوری بھی اس نے چھوڑ دی ہے.چور چوریاں کرتے تھے اور پولیس اور دوسرے لوگ ان کا تعاقب کرتے تھے.عدالتوں میں بات اور ہوتی ہے اور انسان وہاں جھوٹ بول کر گزارہ کر لیتا ہے لیکن برادری یا پنچائیت میں یہ بات مشکل ہوتی ہے کہ کوئی اپنا قصور چھپالے.عدالتوں میں بتانے والے لوگ نہیں ہوتے اس لئے مجرم جو چاہے بیان دے دے لیکن برادری اور پنچائیت میں وہ اگر جھوٹ بولے گا تو فور ا بعض واقف لوگ کھڑے ہو جائیں گے جو اس کا جھوٹ ظاہر کر دیں گے.غرض جب چور چوریاں کر کے گھروں میں واپس آتے تو تعاقب کرنے والے بھی پہنچ جاتے اور کہتے تم نے ہمارا مال چرایا ہے لیکن وہ کہتے نہیں اور اکثر قرآن کریم بھی اٹھا لیتے.لوگ چونی اٹھنی پر قسمیں کھا لیتے ہیں.پھر بھینسیں یا گائے پر وہ قرآن کریم کیوں نہ اٹھاتے.تعاقب کرنے والے چوروں کی قسموں پر اعتبار نہ کرتے اور کہتے لاؤ مغلے کو.اگر وہ کہہ دے کہ تم نے مال چوری نہیں کیا تو ہم مان لیں گے.وہ وہاں پہنچتے اور مغلے سے کہتے تم گواہی دو کہ ہم نے ان کا مال نہیں چرایا.وہ کہتے میں کیسے کہوں کہ تم نے مال نہیں چرایا.کیا تم فلاں مال چرا کر نہیں لائے.ان کے بھائی کہتے کیا تم ہمارے بھائی ہو یا ان کے بھائی.وہ کہتے اس میں کوئی شک نہیں کہ تم میرے بھائی ہو لیکن کیسے ہو سکتا ہے کہ میں جھوٹی گواہی دوں.وہ انہیں مارتے پیٹتے اور سمجھتے کہ اب مار کھا کر اسے عقل آگئی ہو گی لیکن وہ دوبارہ یہی کہہ دیتے کہ تم نے چوری کی ہے.میاں مغلہ سنایا کرتے تھے کہ جب کوئی چوری کا معاملہ میرے سامنے آتا تو میں خیال کر تاکہ اگر سچ بولا تو میرے بھائی اور دوسرے رشتہ دار مجھے ماریں گے اور اگر جھوٹ بولا تو گناہ گار ہو جاؤں گا اس لئے میں کہہ دیتا، میں تو آپ کے نزدیک کا فر ہوں پھر آپ میری گواہی کیوں لیتے ہیں وہ کہتے تم کافر تو ہو لیکن بولتے سچ ہو.پھر میں
610 کہتا میرا اس معاملہ میں کیا واسطہ ہے لیکن وہ میرا پیچھا نہ چھوڑتے.میرے بھائی اور رشتہ دار مجھے چٹکیاں کانتے اور مجبور کرتے کہ میں جھوٹ بول دوں لیکن میں کہتا تم لائے تو تھے فلاں بھینس پھر میں جھوٹ کیسے بولوں.نتیجہ یہ ہو تاکہ وہ مجھے خوب مارتے.وہ دوست تنگ آکر قادیان آگئے اور ایک احمدی انجینئر خاں بہا در نعمت اللہ خاں صاحب مرحوم نے جنہوں نے ربوہ کے قریب دریائے چناب کا پل بنایا تھا، انہیں ملازم کرا دیا.غرض بعض ایسی عادات ہوتی ہیں جن کا ترک کرنا آسان نہیں ہو تا.جس طرح جھنگ کے لوگوں میں چوری کی عادت ہے ، نو جوان بعض دفعہ جھوٹ کی پرواہ نہیں کرتے.وہ سمجھتے ہیں کہ اگر جھوٹ بول لیا تو کیا ہوا حالانکہ جھوٹ فطرت کے خلاف ہے.جھوٹ اس چیز کا نام ہے کہ کان نے جو کچھ سنا ہو اس کے متعلق کہہ دیا جائے کہ میں نے نہیں سنا آنکھ نے جو کچھ دیکھا ہو اس کے متعلق کہہ دیا جائے کہ میں نے نہیں دیکھا ہاتھ نے جو چیز اٹھائی ہو لیکن انسان کہہ دے کہ میرے ہاتھ نے فلاں چیز نہیں اٹھائی.ایک شخص کے پاؤں ایک طرف چلیں لیکن وہ کہہ دے کہ میرے پاؤں اس طرف نہیں چلے.گویا انسان کسی غیر کی نہیں بلکہ اپنی تردید آپ کرتا ہے.جو چیز اس نے خود دیکھی ہے اس کے متعلق کہہ دیتا ہے کہ میں نے نہیں دیکھی.جو چیز اس نے خود سنی ہے اس کے متعلق کہہ دیتا ہے کہ میں نے نہیں سنی.جو چیز وہ خود چکھتا ہے اس کے متعلق وہ کہہ دیتا ہے کہ فلاں چیز میں نے نہیں چکھی.اس کے ہاتھوں نے ایک چیز اٹھائی ہوتی ہے لیکن وہ کہہ دیتا ہے کہ میں نے فلاں چیز نہیں اٹھائی گویا وہ اپنی تردید آپ کرتا ہے اور اس سے زیادہ فطرت کے خلاف اور کیا چیز ہو گی.شبہ ایسی چیز پر ہو سکتا ہے جس میں قیاس کا دخل ہو.حواس خمسہ کے افعال پر شبہ نہیں کیا جا سکتا اور جو اس خمسہ کے افعال کے خلاف بات کہنے کو جھوٹ کہتے ہیں.جو شخص حواس خمسہ کی تردید کرتا ہے وہ گویا اپنی زبان ہاتھ، ناک اور کان کی تردید کرتا ہے اور پھر وہ اس میں سب سے زیادہ لذت محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے خلاف گواہی دے رہا ہے.ایک انسان کے ہاتھ ایک چیز پکڑتے ہیں اور وہ کہتا میں نے فلاں چیز نہیں پکڑی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو کہتا ہے کہ تم نے فلاں چیز نہیں پکڑی.ایک چیز اس کی زبان چکھتی ہے لیکن وہ کہتا ہے میں نے فلاں چیز نہیں چکھی یا اس کے کان ایک بات سنتے ہیں اور وہ اس کا انکار کر دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کانوں سے کہتا ہے کہ تم نے فلاں بات نہیں سنی.اب یہ کتنی مضحکہ خیز اور عجیب بات ہے مگر لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے اور موقعہ آنے پر جھوٹ بول دیتے ہیں.اب اگر میں یہ کہوں کہ تم جھوٹ بولتے ہو یا نہیں تو تم یہ بات نہیں سمجھ سکو گے لیکن میں یہ سوال اور طرح سے کرتا ہوں.(اس موقع پر حضور نے خدام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خادم کھڑے ہو جائیں جو یہ سمجھتے ہوں کہ میرے سارے دوست سچ بولتے ہیں مگر اس پر کوئی نوجوان کھڑا نہ ہوا.تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا) دیکھو یہ مرض اتنا پھیل چکا ہے کہ تم میں سے ایک خادم بھی ایسا کھڑا نہیں ہوا جو کہہ سکے کہ میرے سارے دوست سچ بولتے ہیں حالانکہ اس کا علاج آسان تھا کہ جب تمہارا کوئی دوست جھوٹ بولتا تو اسے کہتے کہ آج سے میں تمہارا دوست نہیں اور آج سے میں تمہارے ساتھ کلام نہیں کروں گا.نتیجہ یہ ہو تاکہ آج تم بڑی
611 دلیری سے کھڑے ہو جاتے اور کہتے میرے سب دوست سچ بولتے ہیں کیونکہ جب تمہارے کسی دوست نے جھوٹ بولا تھا، اس وقت سے وہ تمہارا دوست نہیں رہا تھا.اگر تم ایسا کرتے تو تم خود بھی اور تمہارا وہ دوست بھی سچ بولنے لگ جاتا.اگر تمہاری دوستی کی اس کے نزدیک کوئی قیمت ہوتی تو وہ کہتا میں اس کا دوست رہنا چاہتا ہوں اس لئے میں آئندہ ہمیشہ سچ بولوں گا.اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ تم بھی سچ بولنے لگ جاتے کیونکہ جب تم اپنے دوست سے بچ بلواتے تو پھر وہ دوست بھی تمہیں مجبور کرتا کہ تم سچ بولو اور اس طرح تمہیں وہ قیمت مل جاتی جس کا ہیرے جواہرات بھی مقابلہ نہیں کر سکتے.بہر حال اگر تم نے پہلے اس طریق پر عمل نہیں کیا تو اب اس طریق پر عمل کرنا شروع کر دو.یہ کہنا فضول ہو گا کہ تم جھوٹ نہ بولو کیونکہ اگر میں ایسا کہوں تو تمہارے لئے آگے قدم اٹھانا مشکل ہو جائے گا.میں کہتا ہوں جھوٹ بولنے والا تمہارا دوست نہ ہو.اس طرح تم خود سچ بولنے لگ جاؤ گے.تم اگر ایک دوست کو یہ کہو گے کہ اگر تم نے جھوٹ بولا تو میری تمہاری دوستی ٹوٹ جائے گی تو لا ز ما تمہارا دوست بھی یہ فیصلہ کرے گا کہ اگر تم نے جھوٹ بولا تو اس کی دوستی بھی ٹوٹ جائے گی اور جب بھی تم جھوٹ بولو گے تو وہ کہے گا.میاں تم کیا کر رہے ہو.غرض سچ ایک قیمتی چیز ہے اور پھر کوئی مشکل بھی نہیں ، آسان ترین ہے.جو کام ہاتھ نے کیا ہے اس کے متعلق یہ کہہ دینا کہ ہاتھ سے یہ کام کیا ہے.اس میں بوجھ کیا ہے.آنکھ نے جو کچھ دیکھا اس کے متعلق یہ کہہ دینا کہ آنکھ نے فلاں چیز دیکھی ہے ، اس میں کونسی مشکل ہے.کانوں نے ایک بات سنی ہے.اب اس کے متعلق یہ کہہ دینا کہ کانوں نے فلاں بات سنی ہے اور اس کو دو ہرا دینا کون سی مشکل بات ہے.یہاں کوئی فقرہ نہیں بنانا ، صرف ایک بات کو دہرا دینا ہے.مثلا عربی زبان ہے.آپ لوگ اسے بڑی مشکل سے سیکھ سکتے ہیں لیکن ایک دو سال کے بچے کو بھی کہو ذهبت تو وہ اسے دہرا دے گا گویا جو فقرہ بنانا تم ساتھ ہیں.آٹھویں جماعت میں سیکھو گے ، وہ تم ایک سال کے بچہ سے بھی سن سکتے ہو.تم کہو گے ذھبت تو وہ فوراد ہرا دے گا.اسی طرح بچ نقل کرنے کو کہتے ہیں یعنی جب تم سچ بولتے ہو تو ایک بات کو دہرا دیتے ہو.ہاتھ سے ایک کام کرتے ہو تو تم کہتے ہو ہاتھ فلاں کام کرتے ہیں.آنکھیں دیکھتی ہیں تو تم کہتے ہو آنکھیں دیکھتی ہیں.کان سنتے ہیں تو تم کہتے ہو کان سنتے ہیں.زبان چکھتی ہے تو تم کہتے ہو زبان چکھتی ہے اور اسی کو سچ کہتے ہیں لیکن یاد رکھو نچ کے یہ معنے نہیں کہ آنکھ نے جو کچھ دیکھا ہے وہ تم ضرور کہہ دو.قرآن کریم بعض باتوں کے بیان کرنے سے منع کرتا ہے پس اگر کوئی شخص ان کو بیان کرتا ہے تو وہ سچ نہیں بولتا بلکہ فتنہ و فساد پھیلاتا ہے.سچ کے معنے صرف یہ ہیں کہ اگر تم کوئی بات کہو تو ضرور سچ کہو.یہ نہیں کہ تم وہ بات ضرور کہو.فرض کرو تم نے ایک لڑکے کو کسی دوسرے لڑکے کو مارتے دیکھا.اب اگر ہیڈ ماسٹر تمہیں بلا کر پوچھتا ہے کہ کیا اس لڑکے نے فلاں لڑکے کو مارا تھا تو تم کچی بات بتادو خواہ مارنے والا تمہار ا گہرا دوست ہی ہو لیکن اگر تم خود ہیڈ ماسٹر کے پاس چلے جاتے ہو اور اسے کہتے ہو کہ میں نے فلاں لڑکے کو مارتے ہوئے دیکھا ہے تو یہ سچ نہیں بلکہ فتنہ و شرارت ہے.جب ہیڈ ماسٹر خود بلا کر پوچھے اور تم کہو میں نے فلاں لڑکے کو مارتے ہوئے دیکھا
612 ہے تو یہ سچ ہو گا لیکن اگر تم خود ہیڈ ماسٹر کے پاس چلے جاتے ہو اور کہتے ہو میں نے فلاں لڑکے کو مارتے ہوئے دیکھا ہے تو یہ فتنہ ہو گا اور اسلام اس سے منع کرتا ہے.ہر نیکی کسی محل پر گناہ بن جاتی ہے اور ہریدی کسی محل پر نیکی بن جاتی ہے.عفو کرنا بھی اسلام نے جائز رکھا ہے.فرض کرو اس لڑکے نے واقعی طور پر کسی لڑکے کو مارا تھا لیکن بعد میں مار کھانے والا مارنے والے کو معاف کر دیتا ہے اور اپنے والدین یا بہن بھائیوں کو نہیں بتا تا تو یہ بہت بڑی نیکی ہے.اب اگر تم اس کے والدین کے پاس چلے جاتے ہو اور کہتے ہو فلاں لڑکے نے تمہارے لڑکے کو مارا ہے تو گو اس طرح تم ایک حقیقت بیان کرتے ہو لیکن تمہارا یہ حقیقت بیان کرنا فتنہ کا موجب بن جائے گا.وہ لڑکا مار نے والے کو معاف کر آیا تھا لیکن اس کے والدین یا استاد اگر تم ان کے پاس رپورٹ کرتے ہو تو اسے سزا دیں گے.پس سچ اس چیز کا نام نہیں کہ تم جو کچھ دیکھو وہ بیان کر دو.سچ اس چیز کا نام ہے کہ جب تم سے گواہی لی جائے تو تم وہی بیان کرو جو واقع ہوا ہے.یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حکم دیا ہے کہ گواہی صرف قاضی لے کیونکہ بعض جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں شریعت کہتی ہے کہ گواہی نہ لو.اب اگر گواہی لینے والا قاضی نہ ہو تو ہو سکتا ہے وہ کوئی ایسی بات پوچھ لے جس کے پوچھنے کی شریعت نے اجازت نہیں دی اور اس طرح فتنہ پھیل جائے.مثلا ایک شخص کسی دوسرے شخص پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے چوری کی تو اب چوری کرنا بے شک جرم ہے لیکن قاضی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اس کی بات مان لے اور فیصلہ کر دے کہ اس نے فی الواقعہ چوری کی ہے.قاضی کو فیصلہ کرنے کا اسی وقت اختیار ہے جب الزام لگانے والا الزام کو گواہیوں سے ثابت کر دے.شریعت نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور توبہ کا دروازہ اسی وقت کھلا رہ سکتا ہے جب اخفا کا دروازہ کھلا رہے.جب کسی جرم کو چھپانے کی اجازت نہیں تو پھر تو بہ کا دروازہ بھی کھلا نہیں.مثلا اگر کسی نے دوسرے شخص کا کھانا اٹھا لیا تو ہو سکتا ہے وہ ایسا کرنے میں معذور ہو اور خدا تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا ہو یا ہو سکتا ہے خداتعالی مالک کو اپنے پاس سے بدلہ دے دے یا ہو سکتا ہے کہ کھانا کھا لینے کے بعد اسے یہ خیال آئے کہ میں نے بڑی غلطی کی ہے.اگر دو وقت کا پہلے فاقہ تھا تو ایک وقت کا فاقہ اور برداشت کر لیتا.وہ خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑائے اور کسے خدایا ! میں نے غلطی کی ہے.تو مجھے معاف کر دے اور خد اتعالیٰ نے اسے معاف کر دیا ہو اور جس شخص کا کھانا اس نے کھایا ہے وہ بھی صبر کر لے لیکن اگر اسے کھانا کھاتے ہوئے کوئی دیکھ لیتا ہے اور وہ مالک کو کہہ دیتا ہے کہ فلاں نے تمہاری چوری کی ہے تو یہ سچ نہیں بلکہ فتنہ اور شرارت ہے.اس قسم کی شکایت اگر قاضی کے پاس جائے تو چونکہ وہ شریعت کا واقف ہو گا وہ کہے گا.دو گواہ لاؤ اور اگر دو گواہ مل جاتے ہیں تو پتہ لگا کہ خدا تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی نہیں کی لیکن اگر وہ بغیر گواہوں کے اس کی بات مان لیتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی پردہ پوشی کو توڑتا ہے.میں سچ کے یہ معنی نہیں کہ جو کچھ تم دیکھو اسے ضرور بیان کرو اور نہ سچ کے یہ معنی ہیں کہ تم جو کچھ دیکھو اسے ہر ایک کے سامنے بیان کرو.اگر غیر قاضی تم سے سوال کرتا ہے تو تم کہہ دو.میں نہیں بتا تا.اسی طرح اگر تم کسی شخص کو کوئی جرم کرتے دیکھتے ہو تو تمہارا اس پر پردہ ڈال دینا بچ کے خلاف نہیں.تمہارا سچ کے خلاف فعل اس وقت متصور ہو گا جب قاضی یا قائم
613 مقام قاضی سے شریعت نے اپنے دائرہ میں گواہی لینے کا حق دیا ہے ' تم سے دریافت کرے اور تم سچ نہ بولو.مثلا تم سکول کے ساتھ تعلق رکھتے ہو اور اگر کسی لڑکے نے دو سرے لڑکے کو مارا یا اس نے گالی دی یا سکول کی کوئی چیز اٹھالی تو مجسٹریٹ ہیڈ ماسٹر ہے اگر وہ تمہیں بلائے اور تم سے دریافت کرے کہ فلاں بات کیسے ہوئی تو تم ٹھیک ٹھیک واقعہ بیان کر دو لیکن اگر وہ تمہیں گواہی کے لئے نہ بلائے تو خواہ وہ بات درست ہی ہو ، اس کا چھپا نا سچ کے خلاف نہیں بلکہ اس طرح تم صلح پسند بنتے ہو اور فتنہ سے دور رہتے ہو.دوسری چیز محنت ہے.یہ خلق بھی ہمارے ملک میں کم پایا جاتا ہے اور مسلمانوں کی تباہی کا زیادہ تر موجب یہی تھا کہ ان میں محنت کی عادت جاتی رہی تھی.جتنے وقت میں ہمارے نوجوان ایک چھوٹا اور ادنی علم سیکھ سکتے ہیں وہ در حقیقت دنیا میں چوٹی پر پہنچنے کا زمانہ ہوتا ہے.ہمارے نوجوان پچیس چھبیس سال کی عمر میں کالج سے فارغ ہوتے ہیں لیکن دنیا کے دوسرے ممالک کے لوگ اس عمر میں چوٹی تک پہنچ جاتے ہیں.جس وقت ہمارے نوجوان کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں دوسرے ممالک کے لوگ اس وقت تک ملک میں کافی شہرت حاصل کر لیتے ہیں.ان کے کام کا زمانہ پندرہ سولہ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے لیکن ہمارے نوجوان بچیں پچیس سال کی عمر تک ماں باپ کی کمائی پر پلتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے اندر محنت کی عادت نہیں پائی جاتی.انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ بزرگوں کا فرض ہے کہ وہ ہمیں کھلائیں.وہ یہ نہیں سوچتے کہ ہمارا بھی کوئی فرض ہے.کہتے ہیں ایک بوڑھا شخص کوئی ایسا درخت لگا رہا تھا جو دیر سے پھل دیا کرتا ہے.ایران کا بادشاہ اس بوڑھے کے پاس سے گذرا اور اس سے دریافت کیا.بوڑھے تم ستر اسی سال کے ہو چکے ہو اور یہ درخت جب پھل دے گا اس وقت تک تم مرچکے ہو گے.تم یہ درخت کیوں لگا رہے ہو.بوڑھے نے جواب دیا.بادشاہ سلامت! آپ کیا کہہ رہے ہیں.اگر یہی خیال ہمارے بزرگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا اور وہ یہ درخت نہ لگاتے تو ہم پھل کہاں سے کھاتے.انہوں نے درخت لگائے اور ہم نے پھل کھایا.اب ہم یہ درخت لگائیں گے تو آنے والی نسل اس کا پھل کھائے گی.اس بادشاہ کی عادت تھی کہ جب اسے کوئی بات پسند آتی تو وہ کہتا " زہ" اور خزانچی کو حکم تھا کہ جب وہ کسی کام پر " زہ" کہے تو وہ تین ہزار دینار کی تحصیلی بطور انعام اسے دیدے.بادشاہ نے اس بوڑھے کے جواب پر کہا " ہ " اور خزانچی نے تین ہزار دینار کی تحصیلی فور ابوڑھے کے سامنے رکھ دی اور کہا کہ بادشاہ سلامت کو آپ کی بات بہت پسند آئی ہے اور انہوں نے آپ کو یہ رقم بطور انعام دی ہے.بوڑھے نے ہنس کر کہا.بادشاہ سلامت! آپ نے تو کہا تھا بوڑھے تم کیا کر رہے ہو.اس کا تمہیں کیا فائدہ.لوگ جلدی جلدی پھل دینے والے درختوں کا پھل بھی ایک عرصہ کے بعد کماتے ہیں لیکن میں نے تو اس درخت کا پھل اسے لگاتے ہی کھالیا.بادشاہ کو یہ بات پھر پسند آئی اور اس نے کہا " زہ" اور خزانچی نے تین ہزار دینار کی ایک اور تھیلی اس بوڑھے کے سامنے رکھ دی.بوڑھا ہنسا اور اس نے کہا.بادشاہ سلامت! اور لوگ تو جلد سے جلد پھل دینے والے درخت کا پھل
614 سال میں ایک دفعہ کھاتے ہیں اور میں نے اس درخت کا پھل چند منٹوں میں دو دفعہ کھالیا.بادشاہ نے کہا " زہ" اور خزانچی نے تین ہزار دینار کی ایک اور تھیلی اس بوڑھے کے سامنے رکھ دی.پھر بادشاہ نے خزانچی سے کہا.یہاں سے جلدی چلو ورنہ یہ بوڑھا تو ہمار ا سارا خزانہ لوٹ لے گا.دنیا میں یہی طریق ہوتا ہے کہ اگلا شخص نیچے کی طرف حرکت کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو تا.نوجوان جو نکوں کی طرح والدین سے چھٹے رہتے ہیں.انہیں یہ احساس ہی نہیں ہو تاکہ وہ خود کمائیں اپنے والدین کو کھلائیں اور اپنی اگلی نسل کا خیال رکھیں.اس کے بالمقابل یورپ کے لوگ پند رہ پند رہ سولہ سولہ سال کی عمر میں اپنی زندگیاں بدل لیتے ہیں.ایک دفعہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے مجھے سنایا کہ میں امریکہ گیا.ان دنوں صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی (مرحوم) وہاں تھے.انہوں نے ایک لڑکے کو میرے ساتھ لگا دیا کہ وہ میرے ساتھ ساتھ رہے.اس لڑکے کی عمر تیرہ چودہ سال کی تھی.ایک دن جب میں سیر کے لئے باہر گیا تو میں نے اس لڑکے سے اس کے والد کا نام پوچھا.اس نے ایک بڑے بنکر (Banker) کا نام لیا جو بہت مالدار تھا.تعلیم کے متعلق میں پہلے پوچھ چکا تھا کہ وہ مڈل یا انٹرنس جو وہاں کی ابتدائی تعلیم ہوتی ہے، پاس ہے.میں نے اس لڑکے سے کہا.تمہارا باپ بہت امیر ہے ، تم کالج میں کیوں تعلیم حاصل نہیں کرتے.جب سامان میسر ہیں تو تم نے اپنی تعلیم بیچ میں کیوں چھوڑ دی.وہ لڑکا غصہ سے کہنے لگا.میں اتنا بے غیرت نہیں کہ اپنے ماں باپ سے خرچ لے کر مزید تعلیم حاصل کروں.میرا والد مزید تعلیم کے لئے مجھے اخراجات دیتا تھا لیکن میں نے کہا میں نے پڑھنا ہو گا تو خود محنت کر کے پڑھوں گا.باپ کا احسان نہیں اٹھاؤں گا.لیکن ہمارے ملک میں لڑکے کئی سال تک فیل ہوتے چلے جاتے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہو تاکہ ہم اپنے والدین پر بوجھ بنے ہوئے ہیں.فیل ہونے پر وہ کہہ دیتے ہیں ہم نے تو بڑی محنت کی تھی اور اپنی کلاس میں ہو شیار تھے لیکن اس استاد کی جوتی کو ایک دفعہ ہم نے ٹیڑھی نظر سے دیکھ لیا تھا اس لئے استاد کی ہم سے دشمنی ہو گئی اور اس نے ہمیں فیل کر دیا.ایک دفعہ ایک احمدی دوست نے مجھے خط لکھا کہ میرا لڑ کا قادیان میں پڑھتا ہے.عربی میں وہ اچھا ہو شیار تھا لیکن استاد نے اسے فیل کر دیا ہے.اگر وہ کمزور ہو تاتو مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن وہ عربی میں اچھا ہو شیار تھا مگر استاد نے پھر بھی اسے فیل کر دیا.یہ بڑے ظلم کی بات ہے اور پھر اس قسم کی حرکتیں قادیان میں کی جاتی ہیں.آپ اس طرف توجہ کریں.میں نے لڑکے کے پرچے منگوائے تو یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ اس نے پچاس یا سو نمبروں میں سے صرف دو یا اڑھائی نمبر حاصل کئے تھے اور یہ نمبر بھی استاد کے رحم و کرم کی وجہ سے اس نے حاصل کر لیے تھے ورنہ میرے نزدیک وہ صفر کا مستحق تھا.میں نے اس دوست کو لکھا افسوس ہے کہ آپ نے اس بارہ میں تقوی سے کام نہیں لیا.آپ کہتے ہیں میرا لڑکا اچھا ہو شیار تھا.میں نے اس کے پرچے منگوائے ہیں اور خود دیکھے ہیں اس کو زیرو (0) ملنا چاہیے تھا لیکن پتہ نہیں کہ استاد کے اس کے ساتھ کیسے تعلقات تھے کہ اس نے اسے دویا اڑھائی نمبر دے دیئے.
615 غرض ہمارے ملک کے لڑکے خود محنت نہیں کرتے اور جب فیل ہو جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو کلاس میں ہو شیار تھے اور محنت بھی خوب کی لیکن استاد کو ہم سے دشمنی تھی اس لئے اس نے ہمیں فیل کر دیا.نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ ان کی زندگی کا وہ حصہ جو انہوں نے عملی رنگ میں گذار نا تھا، حصول تعلیم میں گذر جاتا ہے.ہمارے ملک میں اوسط عمر پنتیس سال ہے.یورپ میں اوسط عمر پستالیس سال ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے بڑی عمر نہیں ہو سکتی بعض ستر اسی سال کی عمر کو بھی پہنچ جاتے ہیں لیکن جب اوسط نکالی جائے تو وہ یہی پستیس سال بنتی ہے اور اگر پچیس چھبیس سال پڑھنے میں ہی لگا دیئے تو باقی کیا رہ گیا حالانکہ ہر نوجوان کے اندر یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ جلد سے جلد تیاری کو ختم کرے اور پھر اپنی قوم اور ملک کی خاطر کوئی کام کرے پس تم زیادہ سے زیادہ محنت کی عادت ڈالو.جب تک تم محنت کی عادت نہیں ڈالو گے ، اس وقت تک یہ امید کرنا کہ تم کوئی مفید کام کر سکو گے غلط ہے.کوئی مفید کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ زندگی کے عملی حصے کو کام میں لگایا جائے.طاقت کا زمانہ یہی ہو تا ہے جس کو ہمارے نوجوان حصول تعلیم میں ضائع کر دیتے ہیں.عورتوں کے متعلق مشہور ہے بیسی کھیسی یعنی عورت میں سال کی ہوئی تو بو ڑھی ہوئی.مرد کے کام کا وقت بھی ہیں سے چالیس سال تک کا ہو تا ہے اور اگر اس میں سے پچیس چھبیس سال تیاری پر لگا دیئے جائیں تو پھر آدھا کام ہو گا.حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ پڑھائی میں یا سکول میں، اتنا وقت خرچ کر دیتے ہیں ان کے ذہن کند ہو جاتے ہیں اور کسی بڑے کام کرنے کی ان میں طاقت ہی نہیں رہتی.جب کسی بڑے کام کے کرنے کا وقت آتا ہے تو ان کی طاقت کمزور ہو جاتی ہے.جن لوگوں نے کام کرنا ہو تا ہے، وہ علم سے کام لیتے ہیں اور تھوڑے سے سرمایہ سے زیادہ کام کرنا جانتے ہیں.انہیں محنت کی عادت ہوتی ہے.وہ جب کوئی بڑا کام کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو پھر وہ علم اور دولت کا خیال نہیں کرتے کہ وہ کس قدر ہیں بلکہ وہ کام پر لگ جاتے ہیں اور دنیا میں اپنا نام پیدا کر لیتے ہیں.جہاں تک مدرسہ کی تعلیم کا سوال ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ میں پرائمری کے امتحان میں بھی فیل ہوا.ندل کے امتحان میں بھی فیل ہوا پھر انٹرنس کا امتحان دیا تو اس میں بھی فیل ہوا لیکن میری عمر ابھی سترہ سال کی تھی جب میں نے تشحیذ الاذہان جاری کیا.اس وقت یہ رسالہ سہ ماہی نکلتا تھا بعد میں ماہوار کر دیا گیا یعنی ایک سال تک رسالہ سہ ماہی رہا.اگلے سال ماہوار کر دیا گیا لیکن تم میں کتنے خدام ہیں جن کو سترہ سال کی عمر میں کام کا احساس ہو چکا ہو اور انہوں نے کوئی کام شروع کر دیا ہو.اگر کوئی ایسا نوجوان ہے جس نے سترہ سال کی عمر میں کام شروع کر دیا تھا تو کم از کم اسے اتنی تسلی ضرور ہوگی کہ اگر وہ تمہیں سال کی عمر میں بھی فوت ہو جائے تو خدا تعالٰی کے سامنے وہ یہ کہہ سکے گا کہ میں نے تیرہ سال تو کام کر لیا لیکن اگر تم پڑھتے چلے جاتے ہو اور کام کرنے کا احساس تمہارے اندر پیدا نہیں ہو تا تو خدا تعالٰی کے سامنے کیا کہو گے.اگر تمہیں سال کی عمر میں تم میں سے کوئی خادم فوت ہو جائے تو وہ خدا تعالیٰ کے سامنے کیا کہے گا کہ اس کی قوم نے اس سے کیا فائدہ اٹھایا مذہب نے اس سے کیا فائدہ اٹھایا، ملک نے اس سے کیا فائدہ اٹھایا.کیا وہ خدا تعالیٰ کے سامنے یہ کہے گا کہ میں ساری عمر ڈی.او.جی ڈاگ
616 (Dog) ڈاگ معنے کتا کا سبق دہراتا رہا.خدا تعالیٰ سوال کرے گا کہ تم نے دنیا میں کیا کام کیا تو کیا تم یہ کہو گے ڈی.او.جی ڈاگ (Dog ڈاگ منے کتا.یہ کوئی زندگی ہے.تم دنیا میں پیدا ہوئے اور پھر مر گئے اور خدا تعالیٰ کے سامنے یہ کہنے لگے کہ میں ساری عمر یہی سبق دہراتا رہا.خدا تعالیٰ کہے گا کہ تم بھی کہتے ہی ہو اور کتے سے بھی بد تر.یاد رکھو جلدی جلدی پڑھنا ہتھیار کا کام دیتا ہے لیکن ہمارے ملک کے نوجوانوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کے گھر پر ڈا کو آئے اور انہوں نے گھر کی عورتوں پر ہاتھ ڈالا لیکن وہ ابھی چھری تیار کر رہا تھا.بعد میں وہ چھری تیار کر کے لے بھی آیا تو اسے کیا فائدہ ہو گا.غرض تھوڑی سے تھوڑی مدت میں علم کو ختم کرنا او.اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.ہمارا ایک انٹرنس پاس لڑ کا مولوی فاضل تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اس قابل نہیں ہو تا کہ وہ انگریزی یا عربی بول سکے حالانکہ اسے بہت سے ایسے مواقع میسر آتے ہیں جن سے اگر وہ چاہے تو فائدہ اٹھا سکتا ہے.کسی زمانے میں عربی کے بڑے بڑے عالم بھی عربی نہیں بول سکتے تھے کیونکہ انہیں عربی بولنے کے مواقع میسر نہیں آتے تھے لیکن اب تو ہمارے پانچ سات آدمی ایسے ہوں گے جو عرب ممالک سے ہو آئے ہیں اور پھر عربی بولنے والے طالب علم بھی آتے رہتے ہیں.انہیں ان سے گفتگو کرنے کا موقع مل سکتا ہے.انگریزی دانوں کو تو انگریزی بولنے کے مواقع کثرت سے ملتے ہیں لیکن عربی دانوں کو اگر عربی زبان میں کچھ بولنے کا موقعہ ملے تو ان کی حالت اس شخص کی سی ہوگی جو ایک وزنی ٹرنک سر پر اٹھائے جارہا ہو ، وہ اس وقت پسینہ پسینہ ہو رہے سرپرا ہوتے ہیں کیونکہ انہیں عربی بولنے کی عادت نہیں ہوتی.پس تمہیں علم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.مثلا عربی دانوں کو لے لو.جتنے طلباء ہمارے جامعہ المبشرین میں پڑھتے ہیں ، جہاں تک کورس کی تعلیم کا سوال ہے ان میں سے ایک بھی نہیں جس کی تعلیم مجھ سے دس گنا زیادہ نہ ہو لیکن جتنا قرآن کریم کو میں سمجھتا ہوں اور اس کے معانی اور معارف بیان کر سکتا ہوں وہ اس کا 10/ 1 فیصدی بھی بیان نہیں کر سکتے.گویا ان کی تعلیم مجھ سے دس گنا زیادہ ہے لیکن علم 1/10 سے بھی کم ہے کیونکہ وہ پڑھنے کے لئے علم سیکھتے ہیں استعمال کے لئے نہیں.کتاب کا علم علم نہیں.علم کتا میں پڑھنے کے بعد آتا ہے.ہم کتابیں پڑھتے ہیں اور بعد میں ان پر غور کرتے ہیں اور نتائج نکالتے ہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ کتاب کے باغیچہ یا وادی میں گھاس یا پھول نکلا ہے.وہ گھاس یا پھول اپنی جگہ پر قیمتی نہیں بلکہ ان کی قیمت اس وقت بڑھتی ہے جب مالی ان سے ہار تیار کرتا ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ ہم مالی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم وادی کے کنارے بیٹھے رہتے ہیں، ہم پڑھتے رہتے ہیں لیکن علم کا "انیلے سز" (Analysis) اور استعمال نہیں سمجھتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری معلومات خراب ہوتی ہیں ، ہماری دلیل ناقص ہوتی ہے.جو بات ہم دس بار بھی پڑھ چکے ہوں اسے موقعہ پر چسپاں کرنا نہیں آتا اور وقت پر پتہ نہیں لگتا کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سترہ اٹھارہ سال ہو گئے کہ ہم وفات مسیح پر زور دے رہے ہیں لیکن ابھی تک جماعت کے بعض لوگ یہ نہیں سمجھے کہ یہ کیا مسئلہ ہے.وہ وفات مسیح کی ایک
617 آیت لے لیں گے لیکن بیان کرتے وقت الٹ دلیل دے دیں گے.مثلاً آپ فرماتے ہیں کہ یعیسی انی متوفیک و رافعک الی و مطهرك من الذين كفروا وجاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا الى يوم القيامه (ال عمران رکوع ۵ آیت (۱۳) کی آیت ہے.لوگ اس بحث میں پڑے رہتے ہیں کہ توفی کے کیا معنے ہیں حالانکہ یہاں توفی کے معنوں کا سوال نہیں سوال مقام کا ہے.کوئی مقام سمجھ لو سوائے وفات کے معنوں کے اور کوئی معنے لگ نہیں سکتے اور معنے کرنے میں ہمیں آیت کے الفاظ کو آگے یچھے کرنا پڑے گا.ہمارے دعوی کی بنیاد ایک تو یہ آیت ہے اور ایک آیت سورہ مائدہ کے آخر میں آتی ہے لیکن جو لوگ علم سے فائدہ نہیں اٹھاتے وہ لفظی معنوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں.ہمارے ایک عالم تھے جو غیر احمد یوں میں بھی بڑے عالم سمجھے جاتے تھے لیکن انہیں علم کو استعمال کرنا نہیں آتا تھا.ایک جگہ وفات مسیح پر بحث ہو گئی.دوست انہیں لے گئے.دوسرے عالم نے کہا، قرآن کریم سے وفات مسیح ثابت نہیں ہوتی تو انہوں نے کہا قرآن کریم میں تمیں آیات ہیں جن سے وفات مسیح ثابت ہوتی ہے.اس نے کہا پھر ثابت کرو.انہوں نے ایک آیت پڑھی.مخالف نے اس پر اعتراض کیا.بجائے اس کے کہ وہ اس اعتراض کا جواب دیتے انہوں نے کہا.اچھا اسے چھوڑو ، دوسری آیت لو پھر دوسری آیت پڑھی.مخالف مولوی نے اس پر بھی اعتراض کیا تو انہوں کہا اچھا اسے بھی چھوڑ دو یہاں تک کہ تمھیں کی تمہیں آیات ختم ہو گئیں.حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی جو لاہور کے ایک پرانے احمدی خاندان کے فرد ہیں ، جن کے گھروں کے پاس اب ہماری جامع مسجد بنی ہوئی ہے، شروع شروع میں غیر مبائع ہو گئے.ان کے والد بہت پرانے احمدی تھے.میرے عقیقے پر بھی وہ قادیان آئے تھے گو بارش کی وجہ سے وہ قادیان پہنچ نہ سکے.گویا اس وقت سے ان کے والد کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلقات تھے.مرہم عیسی صاحب پیغامی تو ہو گئے لیکن ان کو مجھ سے ہمیشہ انس رہا.اعتراضات بھی کرتے تھے لیکن پرانی محبت کی وجہ سے انہوں نے تعلقات میں فرق نہیں آنے دیا.میں سفر پر کہیں جا تا تو عموماً یہ میرے ساتھ ساتھ رہتے تھے.ایک دفعہ فیروز پور میں میری تقریر ہوئی.مرہم عیسی صاحب بھی وہاں آپہنچے.وہ مولوی صاحب جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں وہ بھی وہیں تھے.میری طبیعت خراب تھی جو نظارہ مجھے یاد ہے وہ یہ ہے کہ میں لیٹا ہوا تھا کہ مرہم عیسی صاحب نے اعتراضات کرنے شروع کر دیئے.میں نے انہیں کہا کہ مولوی صاحب سے بات کریں.مرہم عیسی صاحب نے اعتراض کیا.مولوی صاحب نے جواب دیا.انہوں نے پھر اعتراض کیا جس کا مولوی صاحب نے کچھ جواب دیا لیکن مرہم عیسی صاحب نے پھر اعتراض کیا.اس پر جواب دینے کے بجائے وہ مولوی صاحب کہنے لگے.تو بڑا چالاک ہے ” تینوں گلاں بڑیاں آندیاں ہین " آخر اس کام کو مجھے خود سنبھالنا پڑا اور میں نے مرہم عیسی صاحب سے کہا کہ آپ ادھر آئیں اور مجھ سے بات کریں.پس اگر علم آتا ہے تو اس کا استعمال کرنا بھی ضروری ہے اور استعمال کا وقت پند رہ سولہ سال کی عمر میں شروع ہو جاتا ہے لیکن جو طریق اب جاری ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچیس تیس سال کی عمر میں
618 میدان میں کو دو گے.جنگ میں پندرہ سولہ سال کا ایک ریکروٹ لیا جاتا ہے لیکن ہمار ا نوجوان پچیس تیس سال کی عمر میں جا کر اگر سپاہی بنے گا تو اس نے لڑنا کیا ہے.تیسری چیز ایثار ہے.پہلی دو چیزیں ایسی تھیں جو زاتی خوبیاں تھیں لیکن جب قومی طور پر کام کرنا پڑتا ہے اس وقت اگر وہ ایسا نہ بنے کہ ارد گرد کے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کر سکے تو اس کے لئے دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا نا ممکن ہو جاتا ہے اور وہ قوم کے لئے مفید وجود نہیں بن سکتا.اگر گاڑی کے دو گھوڑے اکٹھا زور نہ لگا ئیں بلکہ ان میں سے ایک ایک طرف زور لگائے اور دوسرا دوسری طرف تو گاڑی چل نہیں سکتی بلکہ گازی ٹوٹ جائے گی.گاڑی کو چلانے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں جانور ایک ساتھ زور لگا ئیں اور پھر ایک ہی سمت کو چلیں.اسی طرح وہی افراد قومی حصہ بن سکتے ہیں جن کے اندر قومی کیریکٹ پایا جائے اور بہترین قومی کیریکٹر ایثار ہے.ایثار کے معنی ہیں دوسروں کو اپنے اوپر مقدم کرنا.جب کسی قوم کے افراد دو سروں کو اپنے اوپر مقدم کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قوم کے لئے مفید وجود بن جاتے ہیں اور جب کوئی فرد صرف اپنے حق کے حصول میں لگا ر ہے اور دوسرے کے لئے اپنے حق کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو تو وہ قوم کے لئے مفید وجود نہیں بن سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ایثار استعمال کر کے مسلمانوں کو ایک غیر متناہی جھگڑے سے بچالیا ہے.اگر آپ یہ فرماتے کہ تم دوسروں کا حق نہ مارو ہاں اپنے حق کو حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ کوشش کر و تو بہت سے لوگ لوٹ کھسوٹ کا نام ہی حق سمجھ لیتے اور کہتے کہ یہ ہمارا حق ہے اس لئے ہم اسے حاصل کر کے رہیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ہوشیاری سے دوسرے کا حق مار لیتے.ایک جلسہ پر میں نماز پڑھانے لگا.عموما لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ نماز میں میرے ساتھ کھڑے ہوں.سیٹھ غلام غوث صاحب مرحوم جو حید ر آباد دکن کے رہنے والے تھے ، نہایت مخلص احمدی تھے.ان کے بیٹے سیٹھ محمد اعظم صاحب بھی نہایت مخلص نوجوان ہیں اور جماعت حیدر آباد دکن کے سیکرٹری مال ہیں.سارا خاندان ہی مخلص ہے.ان کا وطن قادیان سے ہزار بارہ سو میل کے فاصلہ پر ہے.وہ جب جلسہ پر آتے تو نماز میں میرے ساتھ کھڑے ہوتے تاکہ انہیں دعائیں کرنے کا زیادہ موقعہ مل سکے.اس جلسہ کے موقعہ پر بھی وہ میرے ساتھ کھڑے تھے کہ گجرات کے ایک احمدی آگے بڑھے اور انہیں پیچھے دھکیل کر کہنے لگے ، آپ لوگوں کو تو یہ موقعہ روز ملتا ہے ، ہم لوگ دور سے آتے ہیں ، ہمیں بھی حضور کے ساتھ کھڑا ہونے کا موقعہ دیں.اب گجرات قادیان سے ستر ای میل پر واقع ہے اور حیدر آباد دکن اور قادیان کے درمیان ہزار بارہ سو میل کا فاصلہ ہے لیکن انہوں نے بغیر تحقیقات کے اسے اپنا حق سمجھ لیا.پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے کہ اپنا حق کو دوسرے کا حق نہ لو تو سارے لوگ یہی کہتے کہ یہ حق ہمارا ہے.اس لئے آپ نے فرمایا، دوسرے کے لئے اپنا حق قربان کر دیا کرو اور جب اکثر لوگ ایثار کریں گے تو وہ ظلم سے بچے رہیں گے.سو میں سے ایک آدھ آدمی ایسا ہو گا جس کو اپنا حق دوسرے کے لئے چھوڑنا پڑے.باقی سب ایسے ہی ہوں گے جن کا حق نہیں ہو گا اور وہ دوسرے کا حق غصب کرنے سے بچ جائیں گے.قوم
619 کا مفید جزو بننے کے لئے یہ روح نہایت ضروری ہے اور جو شخص قوم کا مفید وجود بننا چاہتا ہے ضروری ہے کہ وہ ایثار سے کام لے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.آخری زمانہ میں ایک عظیم الشان فتنہ برپا ہو گا جو سب لوگوں پر چھا جائے گا.اس وقت مومن وہی ہو گا جو ایثار کرے گا اور سمجھے گا کہ قوم کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ میں اپنا حق چھوڑ دوں اور خلوت اختیار کرلوں.اصل بات یہ ہے کہ جب انسانی اخلاق میں تنزل پیدا ہو جاتا ہے تو عام طور پر انسان خواہ مخواہ ہر چیز کو اپنا حق تصور کر لیتا ہے اور ایثار کا لفظ کہہ کر اسے اس قسم کی حرکات سے روکا گیا ہے.اگر کسی قوم کے افراد میں ایثار کا مادہ نہیں پایا جاتا تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی.جب حضرت معاویہ سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے اپنے بیٹے یزید کی خلافت کا اعلان کیا تو انہوں نے لوگوں کو مدینہ میں اکٹھا کیا اور یزید کے متعلق کہا کہ میں چاہتا ہوں، میرے بعد میرا بیٹا میرا جانشین ہو کیونکہ یہ ایک ایسے خاندان کا فرد ہے جو عرب میں معزز سمجھا جاتا ہے اور پھر اسے خدمت کا موقعہ ملا ہے اس لئے ان کا حق ہے کہ خلافت انہی کو ملے.تمہاری کیا رائے ہے.آپ کا یہ مطلب تھا کہ یہ لوگ میری تائید کر دیں گے ، تردید نہیں کریں گے اور میں یزید کی خلافت کا اعلان کر دوں گا.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ " جو اس وقت ایمان لائے تھے جب حضرت معاویہ کا باپ ابو سفیان کفر کی سرداری کر رہا تھا بلکہ حضرت عمر بھی ابھی ایمان نہیں لائے تھے ، آپ اس مجلس میں موجود تھے.آپ فرماتے ہیں.میں پٹکا باندھے بیٹھا تھا ، جب معاویہ نے کہا کہ ہمارے خاندان کا حق ہے کہ اسے خلافت ملے اور میرا بیٹا مستحق ہے کہ وہ میرے بعد خلیفہ ہو تو میں نے چاہا کہ پٹکا کھولوں اور کھڑا ہو کر کہوں کہ بادشاہت کا حقدار وہ ہے جو اسلام کی تائید میں اس وقت تلوار چلا رہا تھا جب تمہارا باپ کفر کی سرداری کر رہا تھا لیکن مجھے خیال آیا کہ اس طرح فتنہ کا دروازہ کھل جائے گا اس لئے میں نے دوبارہ پٹکا باندھ لیا اور خاموش رہنا ہی بہتر خیال کیا.یہ ایثار ہے جو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے یزید کے مقابلہ میں دکھایا.آپ کے مقابلہ میں یزید تو کوئی نسبت ہی نہیں رکھتا تھا.وہ تو ایک خبیث انسان تھا.آپ کے مقابلہ میں ابو سفیان اور حضرت معاویہ کی بھی کوئی حیثیت نہیں تھی.وہ ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے تھے اور اس وقت ایمان لائے تھے جب حضرت عمرہ بھی ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے.آپ جب ایمان لائے تو آپ کی عمر پندرہ سال کی تھی اور اپنے باپ سے کئی سال قبل آپ ایمان لے آئے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو اس قدر عشق تھا کہ وہ بعض اوقات حضرت عمر فرماتے تھے ، فلاں بات عبد اللہ سے پوچھ لو کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو زیادہ جانتا ہے.یعنی آپ کی فضیلت کو حضرت عمر بھی تسلیم کرتے تھے.یزید کے مقابلہ میں آپ کا حق تو مسلم تھا لیکن انہوں نے اپنا حق چھوڑ دیا اور کہا میں لوگوں کو فتنہ میں نہیں ڈالنا چاہتا.یزید خلیفہ بنتا ہے تو بننے دو.میں کیوں فتنہ کا موجب بنوں نوں لیکن میں کہتا ہوں کاش حضرت عبد اللہ بن عمر اس موقعہ پر خاموش نہ رہتے بلکہ بول پڑتے.وہ حکومت کے یقیناً حقدار تھے.اگر وہ حکومت حاصل کر لیتے تو یقیناً اسلامی حکومت میں جو فور اتنزل شروع ہو گیا تھا، وہ نہ آتا اور اسلام کی ترقی کا دور لمبا ہو جاتا.ہم حضرت معاویہ کی خلافت کے قائل نہیں.وہ ایک بادشاہ تھے اور
620 بادشاہ ہونے کے لحاظ سے ایک اچھے بادشاہ تھے.اخروی لحاظ سے وہ صحابی اور نیک آدمی تھے لیکن خلیفہ نہیں تھے.ان کے پاس خلافت آئی نہیں.خلافت دو ہی صورتوں میں ان کے پاس آسکتی تھی.یا تو خد اتعالیٰ انہیں خلیفہ مقرر کر دیتا یا مسلمان جمهورا نہیں خلیفہ منتخب کر لیتے.اگر انہیں خلیفہ سمجھا جائے تو سوال پیدا ہو گا کہ ان کے پاس خلافت کہاں سے آئی.ظاہر ہے کہ نہ تو انہیں خدا تعالیٰ نے خلیفہ مقرر کیا تھا اور نہ جمہور مسلمانوں نے انہیں خلیفتہ منتخب کیا اس لئے وہ خلیفہ نہیں کہلا سکتے.غرض حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے سوچا کہ دنیاوی بادشاہت تو ایک جسمانی چیز ہے ، روحانی چیز نہیں.خدا تعالٰی نے مجھے جو روحانی مرتبہ دیا ہے وہ چھوڑ کر میں جسمانی چیز کے پیچھے کیوں پڑوں.اگر حضرت عبد اللہ بن عمر خلافت کی بجائے اس چیز کے دیکھتے کہ مسلمانوں کی گردنیں کس ہاتھ میں جارہی ہیں تو اس بارہ میں ایثار نہ دکھاتے اور یہ امر مسلمانوں کے لئے یقینا خوش قسمتی کا موجب ہو تا.دنیا میں یزید کو سب کچھ کہا گیا ہے اور شیعوں نے تو اسے اتنی گالیاں دی ہیں کہ زمین اور آسمان ملا دیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں.سب سے بڑی گالی وہ تھی جو خود اس کے بیٹے سے اسے ملی اور وہ اس کا وہ فعل تھا جو اس نے یزید کی وفات کے بعد خلافت قبول نہ کرنے کے بارہ میں کیا.میرے نزدیک اس کا خلافت کو قبول نہ کرنا ایک بہترین گواہی تھی اس امر پر کہ معاویہ کا یہ فیصلہ غلط تھا کہ یزید باد شاہت کا مستحق ہے.میں حیران ہوں کہ مسلمانوں نے یزید کے بیٹے کی وہ قدر کیوں نہیں کی جس کا وہ حق دار تھا.وہ اسلامی شمار کو و تم رکھنے والی اہم ہستیوں میں سے ایک تھا.یزید کے بعد شاہی خاندان کے افراد نے اسے بادشاہ بنا دیا اور اعلان کر دیا کہ یزید کے بعد اس کا بیٹا خلیفہ ہو گا.یہ لوگ اگر چہ بادشاہ ہوتے تھے لیکن کہلاتے خلیفہ ہی تھے.بادشاہ بنانے کے بعد وہ اسے ایک خاص جگہ لے گئے تاوہ اپنی خلافت کا اعلان کرے اور یہ اعلان کر دیا کہ تمام رؤسا اور خاندان کے لوگ اس کی بیعت کریں.وہ اسے پبلک میں لے آئے اور اسے اعلان کرنے کے لئے کہا.اس نے منبر پر کھڑے ہو کر جو اعلان کیا وہ یہ تھا کہ اے لوگو !خد اتعالیٰ نے بادشاہت کا حق تمہیں دیا ہے اور اسلام نے بھی تمہیں اختیار دیا ہے کہ جسے چاہو بادشاہ بنالو لیکن ان لوگوں نے مجھ سے پوچھے بغیر یہ رسی میرے گلے میں ڈال دی ہے اور جن کا حق تھا انہیں پوچھا بھی نہیں.میں دیکھتا ہوں کہ اس مجلس میں وہ لوگ موجود ہیں جو اپنی ذات میں مجھ سے اچھے ہیں ، جن کے باپ میرے باپ سے اچھے ہیں اور جن کے دادے میرے دادے سے اچھے ہیں.ان کی موجودگی میں میرا بادشاہت کو قبول کرنا مشکل امر ہے اس لئے میں یہ رسی گلے سے اتار کر پھینکتا ہوں.تمہاراحق ہے جس کو چاہو بادشاہ بنالو.اس کی ماں کو جب یہ اطلاع ملی تو اس نے منہ پر تھپڑ مار کر کہا.کم بخت آج تو نے اپنے باپ دادا کی ناک کاٹ دی ہے.اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا ماں میں نے اپنے باپ دادا کی ناک کائی نہیں بلکہ کئی ہوئی ناک جو ڑ دی ہے.یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا اور ایک کمرہ میں داخل ہو گیا اور اس کا دروازہ بند کر لیا.سارا خاندان اس کا دشمن ہو گیا وہ اس کمرہ سے باہر نہ نکلا یہاں تک کہ چالیس دن کے بعد اس کمرہ میں وہ فوت ہو گیا.وہ اسلامی تاریخ کا ایک
621 شاہکار تھا.وہ اسلامی تاثیر کا ایک جو ہر تھا جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا.لوگ بادشاہت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ذلیل ہوتے ہیں لیکن اس نے بادشاہت کو چھوڑا اور ذلیل ہوا.وہ اس لئے ذلیل ہوا کہ جو مال اس کے باپ نے چرایا ہوا تھا اسے پھینکنے کے لئے اس نے لڑائی کی.غرض ایثار بہت بڑی چیز ہے اور اس کے بغیر قومیں نہیں بنتیں.جن لوگوں میں ایثار نہیں پایا جاتا اور وہ ہمیشہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ یہ میرا حق تھا.یہ میرا حق تھا.وہ اکثر جھوٹے ہوتے ہیں.ایسے لوگ قوم نہیں بناتے.قوم وہ لوگ بناتے ہیں جنہیں یقین ہو جاتا ہے کہ یہ ہمارا حق ہے لیکن پھر بھی اپنا حق دوسرے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں مگر یاد رکھو کہ عزت نفس بھی ضروری چیز ہے.دوسرے کے سامنے لجاجت کرنا اور اس کی منت خوشامد کرنا نیکی پیدا نہیں کرتا.نیکی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دشمن دیکھتا ہے کہ ہم میں غیرت موجود ہے اور غیرت کی وجہ سے ہم اس کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہیں لیکن پھر بھی ہم اپنا حق چھوڑ دیتے ہیں.اس سے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا لیکن اگر تم اصرار کرتے ہو تو وہ سمجھے گا یہ ایثار نہیں بلکہ اس میں اس کا کوئی فائدہ مخفی ہے.چوتھی چیز اخلاق میں مطمح نظر کا اونچا کرنا اور اسے اونچا کرتے چلے جانا ہے.جب کبھی انسان کسی کام کے لئے اٹھتا ہے تو اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں.یا تو وہ کامیاب ہوتا ہے یا نا کام ہوتا ہے.جب وہ ناکام ہو تا ہے تو اس کا کام باقی ہوتا ہے اور وہ اس کو پورا کرنے کے لئے دوبارہ کوشش کرتا ہے.اگر وہ پھر نا کام ہوتا ہے تو وہ سہ بارہ کوشش کرتا ہے لیکن اگر وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اپنی جگہ پر پہنچ جاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ساکن ہو جاتا ہے اور جب وہ ساکن ہو جاتا ہے تو تنزل کی طرف چلا جاتا ہے گویا جو فیل ہو جاتا ہے وہ تو کوشش کرتا ہے تادوبارہ کامیاب ہو سکے لیکن جو کامیاب ہو جاتا ہے وہ ساکن ہو جاتا ہے اس لئے کہ اس کے سامنے تنگ و دو کا میدان نہیں رہتا.اسلام اسے جائز قرار نہیں دیتا.اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے غیر متناہی ترقیات کا سلسلہ کھلا رکھا ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے غیر متناہی ترقیات کا سلسلہ کھلا رکھا ہے تو کوئی ترقی ایسی نہیں ہو سکتی جس کے آگے ترقی کرنے کا مقام نہ ہو.انسان کو ہمیشہ اپنا پر وگرام بدلتے رہنا چاہئے.جو ہڑ کے پانی کی طرح ساکن ہو جانا قوم کے لئے مفید نہیں ہو تا.کھڑا پانی سڑ جاتا ہے اور اس میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح اگر کسی قوم کے افراد ایک جگہ پر پہنچ کر ساکن ہو جاتے تو وہ قوم ترقی نہیں کر سکتی.پس مطمح نظر کا اونچا کرتے چلے جانا قومی ترقی کے لئے نہایت اہم ہے.حضرت عمر فرماتے ہیں.نیہ الـمـومـن خـيـر مـن عـمـلـه ـ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے.یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن اپنے اندر ایک بہت بڑا مد عالئے ہوئے ہے.مومن کی نیت ہمیشہ اس کے عمل سے بہتر ہو گی.اس کے دو معنے ہو سکتے ہیں.ایک یہ کہ انسان کی نیت بھی اچھی ہو اور اس کے اعمال بھی اچھے ہوں لیکن اس کا ارادہ یہ ہو کہ وہ پہلے سے بڑھ کر نیک اعمال کرے گا.دوسرے یہ کہ اس کی نیت اچھی ہو لیکن اعمال برے ہوں اور ارادہ یہ ہو کہ وہ اپنی اصلاح کرے گا اور پھر جوں جوں وہ کام کرتا جائے ، اپنی نیت کو بھی بلند کرتا جائے.جب وہ ایک روزہ رکھتا ہے تو
622 اس کے بعد دوسرا روزہ رکھتا ہے.پھر تیسرا روزہ رکھتا ہے.جب وہ ایک دن روزہ رکھتا ہے اور اس کی شام قریب آتی ہے تو وہ دوسرے روزے کی نیت کرتا ہے اور جب دوسرے روزے کی شام قریب آتی ہے تو وہ تیسرے روزے کی نیت کرتا ہے اور جب تیسرے روزے کی شام قریب آتی ہے تو وہ چوتھا روزہ رکھتا ہے یا وہ ارادہ رکھتا ہے کہ کوئی دوسری نیکی کروں.مثلا صدقہ دوں اور جب وہ صدقہ کرتا ہے تو کسی اور نیکی کی نیت کرلیتا ہے.اس طرح اس کی نیت عمل پر سبقت لے جاتی ہے.غرض انسان کا ارتقائی پروگرام ہونا چاہئے جو اونچے سے اونچا ہو تا چلا جائے.خدا تعالی کی قدرت دیکھو کہ پہلے ایک چھوٹا پہاڑ ہوتا ہے پھر اس سے بڑا پہاڑ ہوتا ہے پھر اس سے بڑا پہاڑ ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ انسان اس کی چوٹی پر چلا جاتا ہے.تم کبھی یہ نہیں دیکھو گے کہ انسان ایک ہی دفعہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جائے.یہی وہ انسان سے امید رکھتا ہے کہ جب وہ ایک نیکی کرے تو پھر اس سے بڑی نیکی کرے پھر اس سے بڑی نیکی کرے اور کامیاب وہی انسان ہوتا ہے جو ایک جگہ پر ساکن نہ ہو جائے بلکہ جب وہ ایک مقصد کو حاصل کرے تو اس سے بڑے مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرنے لگ جائے.وہ ایک چھوٹی نیکی کر کے ٹھر نہیں جاتا بلکہ وہ ہر روز ایک نیا پروگرام تیار کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ پہلے سے آگے نکل جاؤں اور جب کوئی انسان اس قسم کا پروگرام تیار کرتا ہے تو یقینا اس کا فکر ترقی کرتا ہے، اس کا عمل وسیع ہوتا ہے اور ہر کامیابی پر اس کا حوصلہ بھی وسیع ہوتا ہے.اس وقت میں ان چار نصائح پر تقریر ختم کرتا ہوں.نصائح تو اور بھی ہیں لیکن بہر حال میں نے اپنی تقریر ختم کرنی ہے.چاہئے کہ تم یہ چاروں باتیں ہمیشہ اپنے مد نظر رکھو.میں نے یہ نہیں کہا کہ تم سچ بولو بلکہ میں نے کہا ہے کہ تم ایسے دوست بناؤ جو ہمیشہ سچ بولیں.میں نے کہا ہے کہ تم محنت کی عادت ڈالو.اپنے اندر قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کرو.اپنے مصلح نظر کو اونچار کھو یہاں تک کہ مطمح نظر ہمیشہ بلند سے بلند تر ہو تا چلا جائے." فرموده ۱۲ فروری ۱۹۵۱ء مطبوعه الفضل ۲۷-۲۸.۲۹ اپریل ۱۹۶۱ء)
623 احیائے دین کے لئے تمہیں اپنے دلوں میں ایک نیا جوش اور نیا عزم پیدا کرنا چاہیے "حقیقت یہی ہے کہ آپس میں ملنے جلنے سے انسان کے اندر جوش اور عزم پیدا ہو تا ہے اور انسان اس سے فائدہ اٹھاتا ہے پس آپ اپنی جگہوں پر واپس جا کر اپنا نیک نمونہ پیش کریں.لوگوں کے سامنے نئی روح اور نئی زندگی پیش کریں اور دو چار دس آدمیوں میں وہی جوش اور وہی عزم پیدا کر دیں جو آپ نے چند دن یہاں رہ کر اپنے اندر پیدا کیا ہے پھر وہ لوگ دوسروں کے پاس جائیں اور ان کے اندر جوش اور عزم پیدا کریں.جب لوگ دیکھیں گے کہ یہ لڑکا آوارہ تھا، ربوہ میں چند دن تربیت حاصل کرنے کے بعد آیا تو اس نے آوار گی چھوڑ دی ہے.وہ دین کی خدمت کر رہا ہے اور خدمت خلق میں مشغول ہے تو پانچ سات آدمی ضرور اس کے گرد جمع ہو جائیں گے.پس اگر تم نے ان چند دنوں سے فائدہ اٹھایا اور یہ روح اپنے اندر پیدا کر لی تو اچھی بات ہے اور تم نے اپنا مقصد حاصل کر لیا لیکن اگر تم نے صرف کاپیوں میں اسباق کے نوٹ لئے ہیں تو یہ دن تم نے ضائع کئے.اس سے زیادہ باتیں قرآن کریم ، تو رات انجیل ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ، میری کتب حضرت خلیفہ اول کی کتب اور علمائے سلسلہ کی کتب میں موجود تھیں اور یہ کام تم گھر بیٹھ کر کر سکتے تھے.صرف میری کتابوں میں بھی اتنا مسالہ موجود ہے کہ اس کے سامنے ہر نوٹ تمہیں حقیر نظر آئیں گے لیکن اگر تم نے ان چند دن کی صحبت سے فائدہ اٹھالیا تو یہ چیز تمہارے کام آئے گی.خلوت میں اگر کتابیں پڑھی جائیں تو بسا اوقات مشوش دماغ علم کے ساتھ عمل کی بھی ضرورت ہے ان سے کچھ حاصل نہیں کرتا لیکن دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر جو باتیں سنی جائیں وہ مفید ہو جاتی ہیں پس آج میں صرف اتنی نصیحت کرتا ہوں کہ تم عمل کی طرف توجہ دو.باہر سے ، جو رپورٹیں آتی ہیں ان میں بتانا چاہئے کہ خدام کی کیا حالت ہے لیکن جو عہد یدار لکھتا ہے کہ کوئی شخص ہماری بات نہیں مانتا، میں اسے پاگل سمجھتا ہوں.ہر ایک شخص کے کان ہیں پھر وہ تمہاری بات کیوں نہیں سنتا.گاندھی جی کھڑے ہوئے تو لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے اور یہ محض اس لئے تھا کہ انہوں نے اپنا نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کیا.تم بھی اپنا نمونہ پیش کرو لوگ تمہاری بات ماننے لوگ جائیں."
624 عهد یداران مایوس نہ ہوں بلکہ اپنے نیک نمونہ سے دوسروں میں حرکت اور جوش پیدا کسی کی بڑائی اور زندگی کا یہی ثبوت ہوتا ہے کہ وہ باقیوں کو کمتر دکھاوے لیکن جو لوگ اپنی بڑائی کریں.چاہتے ہیں اور کام کرنا نہیں چاہتے ، وہ اپنے آپ کو اونچا کرنے کی بجائے باقیوں کو ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ برا طریق ہے اس سے بچنا چاہئے.میرا یہ مطلب نہیں کہ نوجوانوں کی سستی اور غفلت سے مرکز کو مطلع نہ کیا جائے.ایسا ضرور کریں لیکن ایسی بات لکھتے وقت یہ دیکھ لینا چاہئے کہ کہیں یہ بات اپنے آپ کو بڑھانے اور دوسروں کو ذلیل کرنے کے لئے تو نہیں.پس ماننے والے موجود ہیں ، سننے والے موجود ہیں بشر طیکہ کوئی منوانے والا اور سنانے والا ہو.ہٹلر کو دیکھ لو.وہ کس طرح اپنی قوم کو ساتھ لے کر نکلا.انسان کے اندر روح ہونی چاہئے.اسے پر امید ہونا چاہئے اور اچھا نمونہ دکھانا چاہئے لوگ خود بخود تمہاری بات مانیں گے ، سنیں گے اور اس پر عمل کریں گے.لوگ قربانی سے ڈرتے ہیں تم قربانی پیش کر کے ان کاڈرا تار دو".فرموده ۱۲۱ اپریل ۱۹۵۱ء مطبوعہ الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۶۲ء)
خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع سے حضور کا خطاب اپنے چندے کو بڑھاؤ اور ہر جگہ خدام الاحمدیہ کی مجالس قائم کرو سالانہ اجتماع کن دنوں میں ہوا کرے ہر قوم کو اجتماع کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کرنی چاہئے سالانہ اجتماع میں خدام کی حاضری کی طرف خصوصی توجہ کرنی چاہئے
626 اپنے چندہ کو منظم کرو اور ہر جگہ خدام کی مجالس قائم کرو خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ اکتوبر ۱۹۵۱ء میں ۱۳ اکتوبر رات کے سوا سات بجے سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ایک مختصری تقریر فرمائی تھی جو درج ذیل ہے.(مرتب) چونکہ اس سال گرمی زیادہ پڑی ہے اور میری طبیعت کمزوری کی وجہ سے گرمی برداشت نہیں کر سکتی اس لئے میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں گزشتہ سال جتنا حصہ نہیں لے بہ کا اس لئے میں نے چاہا کہ رات کے وقت ایک مختصری تقریر کر دوں تا آخری تقریر کو ساتھ ملا کر تین تقاریر ہو جائیں.در حقیقت یہ وقت علمی مقابلوں کا ہے اور میں نے پروگرام پر غور کر کے سمجھا کر میں اس وقت میں سے کچھ وقت تقریر کے لئے لے سکتا ہوں کیونکہ علم کے ساتھ تربیت اور ہدایات کا تعلق ہے اس لئے علمی مقابلوں کے وقت سے تقریر کے لئے کچھ وقت بچانا درست ہو سکتا ہے چنانچہ میں کہلا بھیجا ر ہیں سات بجے آؤں گا اور تقریر بھی کروں گا.میرے نزدیک کل جو شورٹی ہونے والی ہے ، اس میں اس امر پر بھی غور کر لیا جائے کہ آئندہ سالانہ اجتماع کن دنوں میں ہوا کرے.کل جب میں تقریر کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ تین چار نوجوان بے ہوش ہو گئے اور انہیں اس جگہ پہنچایا گیا جہاں طبی امداد کا انتظام ہے.اس کی وجہ یہ تھی کہ اس سال اتنی گرمی پڑ رہی ہے کہ اس میں کھڑا ہونا مشکل ہوتا ہے اور ہر نوجوان اس کی برداشت نہیں کر سکتا.حقیقت تو یہ ہے کہ جو قومیں اپنے وطن اور اس کے حالات کو یا د رکھتی ہیں وہ اپنے آپ کو اس کے مطابق بنانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن بد قسمتی سے ہم گرم ملک والے ٹھنڈے ملک والے حاکموں کے ماتحت ایک لمبا عرصہ گزار چکے ہیں اور ان کو آسائش اور آرام کے لئے جو سامان کرتے ہم نے دیکھا اور اس میں بعض فوائد ہمیں نظر آئے ، ہم نے ان کی نقل شروع کر دی.اب ہم واقعات سے اتنے مجبور ہو گئے ہیں کہ خواہ ان سے بچنے کی کتنی کوشش کریں ، ان سے بچ نہیں سکتے ورنہ عرب اور افریقہ کے لوگ جن کے ملک میں اتنی گرمی پڑتی ہے کہ ہمارے ملک کی گرمی اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں وہ دھوپ میں بہت اچھی طرح چلتے پھرتے ہیں اور گرمی کا انہیں احساس بھی نہیں ہوتا.اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کے حالات کو دیکھا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جب انہوں نے عرب اور افریقہ جیسے گرم ممالک میں بودوباش اختیار کی ہے تو انہوں نے اپنی روزی بھی وہیں سے تلاش کرنی ہے.اس لئے انہوں نے بچپن سے ہی ایسی عادات پیدا کر لی ہیں کہ وہ گرمی برداشت کر لیتے ہیں لیکن ہمارے ملک کے لوگوں نے ملکی حالات کے مطابق اپنے حالات نہیں بنائے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک پر جو لوگ حاکم تھے انہوں نے جب اپنے آرام کے لئے پنکھوں کا انتظام کیا تو یہ خیال کیا کہ اگر انہوں نے اپنے ماتحت کلرکوں کے لئے ایسا انتظام نہ کیا اور ان کے کمروں میں بجلی کے پنکھے نہ لگوائے تو کام پوری طرح نہیں ہو گا.اس لئے اگر چہ انہوں نے بجلیاں اپنے کام کے
627 لئے چلا ئیں لیکن بجلی کے پنکھے انہوں نے کلرکوں کے کمروں میں بھی لگا دیئے حالانکہ پٹھانوں مغلوں اور دوسرے راجوں مہاراجوں کے زمانہ میں یہاں بجلیاں نہیں تھیں.وہ انہی ملکوں میں رہتے تھے.یہاں گرمی پڑتی تھی اور وہ لوگ اس میں رہنے کی مشق کرتے تھے اس وجہ سے انہیں گرمی محسوس نہیں ہوتی تھی.آہستہ آہستہ جب ہم اپنے ملک کے حالات کو سدھاریں گے یا ہمار ا ملک سدھر جائے گا تو یہ دونوں باتیں ممکنات میں سے ہو جائیں گی یا تو انگریزوں کے جانے کے بعد لوگ آرام و آسائش کے خیال کو چھوڑ دیں گے اور وہ افریقہ اور عرب جیسے ٹیپیکل کنٹریز (Typical Countreis) کی طرح گرمی اپنا لیں گے اور اسے برداشت کرنے کی مشق کریں گے اور یا سائنس میں ترقی کر کے ملک کے حالات کو اپنے مطابق بنالیں گے جیسے یورپ نے ترقی کر کے کمروں کو گرم کرنے کا طریق نکال لیا ہے اور ایسی ایجادیں کرلی ہیں جن سے ان کی زندگی آرام اور آسائش والی ہو گئی ہے.اسی طرح ہمارے ملک کے لوگ ترقی کر کے ایسی ایجادیں کرلیں گے جن سے فضا ٹھنڈی ہو جائے گی اور تمام لوگ اس ملک میں اس طرح رہیں گے جس طرح وہ ایک درمیانی گرمی والے ملک میں رہتے ہیں.جس طرح لوگ پہاڑوں پر رہتے ہیں غرض جب ملک ترقی کرے گا تو ہمارے ملک کے لوگ اپنے حالات کو گرمی کے مطابق بنالیں گے یا ہمارے عالم اور سائنسدان گرمی کو ہمارے حالات کے مطابق بنا دیں گے.بہر حال کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا کیونکہ جب کوئی قوم ترقی کرتی ہے تو وہ ماحول کو اپنے مطابق بنالیا کرتی ہے لیکن جب تک یہ زمانہ نہیں آتا ہمیں یہ احتیاط کرنی چاہئے کہ ہم اپنے اجتماع کو ٹھنڈے موسم میں کریں.ہمارے ملک میں بد قسمتی سے یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ جو چیز انگریز نے پیدا کی ہے وہ تم نہ کرو اور یہ انگریزوں سے نفرت اور ان کی بد سلوکیوں کی وجہ سے ہے.انگریز اپنے ایک خاص دن کی یاد میں دسمبر کے مہینہ میں سات آٹھ دن کی چھٹیاں دیا کرتا تھا..اب ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک نے وہ چھٹیاں منسوخ کردی ہیں حالانکہ ہر قوم کو اجتماع کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کرنی چاہئے اور اس کے لئے بہترین دن سردی کے ہیں.محرم نے چکر کھانا ہے ، اس سال اکتوبر میں آیا ہے تو دوسرے سال اس کے کچھ دن ستمبر میں آجائیں گے.تیسرے سال محرم ستمبر کے درمیان آجائے گا چوتھے سال ستمبر کے شروع میں آجائے گا اور پانچویں سال اس کے کچھ دن اگست میں آجائیں گے اس طرح سولہ سترہ سال برابر بدلتا جائے گا گویا سترہ سال تک ہماری قوم کو ایسے معتد بہ دن نہیں ملیں گے جن میں لوگ اجتماع کر سکیں یا وہ مل کر باتیں کر سکیں.انگریز کے زمانہ میں ہماری ساری ضروریات دسمبر کے مہینہ میں پوری ہو جاتی تھیں خواہ نام اس کا کر سمس رکھ لیں لیکن بہر حال وہ دن ایسے تھے کہ ہمارے اجتماع آرام سے گذر جاتے تھے.اب اگر انگریز چلے گئے ہیں تو ان دنوں کا نام کرسمس نہ رکھو، نیشنل ہالیڈیز (National Holidays) رکھ لو تا قوم مو اجتماع وغیرہ کا موقعہ مل سکے.انگریزوں نے اپنے رواج کے مطابق سال میں بعض دن ایسے رکھ لئے تھے جن میں وہ اکٹھے ہوتے تھے اور باتیں کرتے تھے.ان کے جانے کے بعد اب کوئی بھی قومی تہوار کے دن نہیں جن میں اجتماع و غیرہ د سکے.یورپ میں کرسمس اور ایسٹر کے نام سے سال میں بعض چھٹیاں آجاتی ہیں.اسی طرح سال میں اور دن ہو
628 بھی مقرر ہیں جن میں قوم کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنے معاملات پر غور کرتے ہیں.ہمیں بھی ایسے دن بنانے پڑیں گے اور جب ہمیں ایسے دن بنانے پڑیں گے تو کیوں نہ ہم ابھی سے ایسے دن بنالیں.اگر محرم دس دن قبل ہوا تو یہ اجتماع نہیں ہو سکے گا.اس سال حج میں جو آج سے کچھ دن قبل ہوا تو کسی وجہ سے سات ہزار حاجی مر گیا ہے.اگر ہم ابھی سے کوئی تجویز نہیں کریں گے تو ہم قومی جانیں ضائع کرنے کا موجب ہوں گے.جب آئندہ ایسے دن نظر آرہے ہیں تو کیوں نہ ہم ابھی فیصلہ کر لیں.آخر ہم میں سے کتنے لوگ ملازم ہیں جو چھٹیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے اجتماع سے رہ جائیں گے.کراچی میں کوئی پچاس ہزار ملازم ہیں جن میں قریباً ( نقل مطابق اصل ) ملازمین احمدی ہوں گے اور ان سے میں سے اجتماع کے موقع پر ربوہ آنے والے چھ سات ہوں گے.کیا ان چھ سات افراد کو اجتماع کے لئے چھٹیاں نہیں مل سکیں گی.سال میں ہیں دن کی چھٹیوں کا گورنمنٹ نے بھی حق دیا ہوا ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے چھ سات افراد چھٹی حاصل کرنا چاہیں اور انہیں چھٹی نہ ملے.یہ ہو سکتا ہے کہ ضرورت کے وقت حکومت چھٹیاں روک لے یہ وقت اس وقت ہوگی جب لوگ کثرت سے یہاں آئیں گے جب لوگ کثرت سے یہاں آئیں گے اور جب لوگ کثرت سے آئیں گے نہیں تو حکومت کا دو چار پانچ دس افراد کو رخصت دینے میں کیا حرج ہے.پھر تمہارا ہمیں دن کی چھٹی کا حق بھی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم اجتماع کے لئے کوئی دن مقرر کرلیں اور ان دنوں میں چھٹیاں حاصل کر کے لوگ یہاں آجایا کریں.اسی طرح اور جگہوں کو دیکھ لو.پچھلے سال کوئٹہ سے کوئی بھی نہیں آیا تھا.اب پتہ لگا ہے کہ اس سال دو نمائندے کوئٹہ سے آئے ہیں.اب کیا کوئٹہ شہر سے دو آدمیوں کو رخصت نہیں مل سکتی.آخر ان کی رخصت میں حکومت کیوں روک ڈالے گی.یہی حال لاہور کا ہے.لاہور کی دس لاکھ کی آبادی ہے اور ان میں سے پچاس ہزار کے قریب ملازم ہوں گے جن میں سے بہت تھوڑی تعداد ہماری ہے.اب اگر لاہور سے آٹھ دس آدمی اجتماع پر آجا ئیں تو کیا وجہ ہے کہ ان کی رخصت کا انتظام نہ ہو.اگر یہاں آنیوالوں میں ملازمین کی کثرت ہوتی یا ہم سب ملازموں کو یہاں بلاتے تو حکومت کے لئے مشکل پیدا ہو سکتی تھی لیکن جب یہاں آنے والوں میں ملازمین کی کثرت بھی نہیں اور نہ ہم سب ملازمین کو یہاں بلاتے ہیں.صرف چند نمائندے یہاں آتے ہیں اور ان کی نسبت اتنی بھی نہیں ہوتی جتنی آٹے میں نمک کی ہوتی ہے تو اس سے کیا فرق پڑ سکتا ہے.پھر کیوں نہ خدام اس موقعہ پر چھٹیاں لے کر آئیں.یہ کیا بات ہے کہ چھٹیاں ملیں گی تو ہم آئینگے ورنہ نہیں آئیں گے.قوم کو سال میں دو تین دن کی ضرورت ہو اور وہ بھی لوگ پیش نہ کر سکیں.میرے اپنے خیال میں چونکہ دسمبر میں جلسہ سالانہ بھی ہوتا ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سالانہ اجتماع نومبر کے پہلے ہفتہ میں ہو.لاکھوں کی جماعت ہے جن میں سے اس اجتماع پر صرف پانچ سو پچپن دوست باہر سے آئے ہیں اور ان میں سے اکثر ایسے ہوں گے جو جلسہ پر بھی آجائینگے اس لئے اگر نومبر کے پہلے ہفتہ میں اجتماع رکھ لیا جائے تو اس کا جلسہ سالانہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا.خدا تعالیٰ انہیں توفیق دے گا تو وہ دوبارہ بھی آجائیں گے.جو لوگ دور سے آئے ہیں، وہ کوئی چالیس پچاس ہوں گے اور ان میں سے دس بارہ ایسے افراد
629 ہوں گے جو دوبارہ جلسہ سالانہ پر نہ آسکتے ہوں.اس لئے ساری جماعت کے فائدہ کو قربان نہیں کیا جاسکتا.کل شوری میں اس کے متعلق فیصلہ کر لیا جائے.آئندہ یہ اجتماع محرم کے دنوں میں نہیں ہو سکے گا کیونکہ محرم آئندہ اٹھارہ سال گرمی کے موسم میں آئے گا اور گرمی برداشت نہیں ہو سکے گی.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سال اجتماع میں نمائندگان کی حاضری بہت کمزور ہے.گذشتہ سالوں میں رپورٹ میں مقابلہ کیا جاتا تھا کہ پچھلے سال اتنے خدام حاضر ہوئے تھے اور اب اتنے خدام آئے ہیں لیکن اس سال یہ حوالہ نہیں دیا گیا اور جب حوالہ نہ دیا گیا تو مجھے شک پڑا.اس لئے میں نے کہا کہ پچھلے حوالے لاؤ.جب وہ حوالے لائے گئے تو معلوم ہوا کہ پچھلے سال بیرون جات سے پانچ سو نوے خدام آئے تھے اور اس سال پانچ سو پچپن خدام آئے ہیں.پچھلے سال بیرونی جماعتوں کی نمائندگی تہتر تھی لیکن اس سال صرف چون مجالس کے نمائندے آئے تھے.گویا اس سال ۱/۴ سے کچھ زیادہ کمی ہے.یہ حالت تسلی بخش نہیں.ہونا یہ چاہئے تھا کہ چند نمائندے زیادہ آتے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر واقعہ میں اپنے فرائض کو ادا کیا جاتا اور خدام اپنے وعدے پورے کرتے تو اس سال سینکڑوں نئی جگہوں میں جماعتیں قائم ہو جاتیں اور اگر ان نئی جماعتوں میں سے دس فیصدی جماعتوں کے نمائندے بھی یہاں آتے تو پچھلے سال مجالس کی نمائندگی جو تہتر تھی اب سو ہو جاتی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدام نے صحیح طور پر اپنے فرائض کو ادا نہیں کیا.ایک اور چیز جس کا رپورٹ میں ذکر نہیں کیا گیا وہ یہ ہے کہ رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس سال کتنی نئی مجالس قائم ہوئی ہیں اور ان نئی مجالس میں سے کتنی مجالس کے نمائندے یہاں آئے ہیں.پچھلے سال میں نے کہا تھا کہ ہر گاؤں اور ہر شہر میں مجالس قائم کرو اس لئے چاہئے تھا کہ مجلس عاملہ مجھے بتاتی کہ پچھلے سال کل تعداد مجالس کیا تھی اور اب کیا ہے.مجھے ابھی بتایا گیا ہے کہ اس سال انتیس نئی مجالس قائم ہوئی ہیں.اگر یہ بات درست ہے تو پچھلے سال انتیں مجالس کم تھیں لیکن تہتر مجالس کے نمائندے اجتماع پر آئے تھے.اب انتیں مجالس زیادہ بھی ہو گئی ہیں لیکن صرف چون مجالس کے نمائندے یہاں آئے ہیں.اگر ان مجالس میں سے پانچ سات مجالس بھی ایسی ہیں جو اس سال نئی قائم ہوئی ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ پرانی مجالس میں سے پستالیس یا چھیالیس مجالس کے نمائندے آئے.اس طرح حاضری میں کوئی چالیس فیصد کی کمی آگئی ہے اور یہ بات نہایت افسوسناک ہے.اس طرف توجہ کرنی چاہئے.یہ کام مجلس عاملہ کا ہے.اسے اس طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.اس سال سوائے لڑائی اور شکایتیوں کے مجلس عاملہ نے کوئی کام نہیں کیا.آپس کے جھگڑوں پر اس نے وقت ضائع کیا ہے.اصل کام کی طرف توجہ نہیں کی لیکن جہاں یہ بات افسوسناک ہے کہ مجلس عاملہ نے کوئی کام نہیں کیا وہاں مجھے یہ دیکھ کر خوشی بھی ہوئی ہے کہ ہماری تنظیم میں ترقی ہوئی ہے.ایک تو انتیس نئی مجالس قائم ہوئی ہیں.اگر چہ تعداد تسلی بخش نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ہمار اقدم پیچھے نہیں ہٹا بلکہ کچھ آگے ہی بڑھا ہے مگر یہ کہ جتنا قدم آگے بڑھنا چاہئے تھا، اتنا نہیں بڑھا.دوسری خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارا چندہ منتظم ہو رہا ہے.پچھلے سال کے چار ہزار روپیہ چندہ کے مقابلہ میں اس سال کا چندہ آٹھ ہزار
630 روپیہ سے کچھ زائد ہے اور یہ چیز بتاتی ہے کہ مجالس اپنے فرائض کو سمجھ رہی ہیں.اگر ہر جگہ مجالس قائم ہو جائیں اور چندہ منتظم ہو جائے تو چالیس پچاس ہزار روپیہ چندہ اکٹھا ہونا کوئی مشکل امر نہیں.ابھی ہم نے مرکز بنانا ہے.لجنہ اماء اللہ اپنا مرکز بنا چکی ہے.لنگر کے سامنے شمال کی طرف یہ عمارت بنی ہے ، خدام اسے دیکھ لیں.پچھلے سال کسی نے کہا تھا کہ عورتیں آخر ہم سے ہی چندہ لیتی ہیں اور میں نے کہا تھا کہ عورتیں پھر بھی تم سے زیادہ ہمت والی ہیں کہ تمہاری جیب سے لے کر چندہ دے دیتی ہیں لیکن تم خود چندہ نہیں دے سکتے.دیکھو انہوں نے کارکنات کے لئے الگ مکانات بھی بنالئے ہیں.میں جب وہاں سے گذرتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ ان مکانات میں رہنے سے انہیں زیادہ آرام مل سکتا ہے لیکن تم نے یہ کام ابھی کرنا ہے.میں نے خدام کو بارہ کنال زمین اس لئے دی ہے کہ وہ اس میں اپنا مرکزی دفتر تعمیر کریں.پس اپنے چندہ کو بڑھاؤ اور ہر جگہ خدام الاحمدیہ کی مجالس قائم کرو.اگر سب جگہ مجالس قائم ہو جائیں اور ہمارا چندہ منظم ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں یہ کام کچھ مشکل نہیں.پندرہ میں ہزار روپیہ قرض بھی لیا جا سکتا ہے جو اگلے سال آسانی سے اتر سکتا ہے." (اس کے بعد حضور نے عہد لیا اور پھر واپس تشریف لے گئے.) فرموده ۱۳ اکتوبر ۱۹۵۱ء مطبوعہ الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۶۲ء)
631 حضور نے ایک انگریز نو مسلم کو ملاقات کے وقت نصائح کرتے ہوئے فرمایا :.اس میں شک نہیں کہ بہت سے احمدی نوجوان اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر رہے ہیں.ان میں سے بعض کو یہیں کام پر لگا دیا جاتا ہے اور بعض کو تبلیغ کی غرض سے بیرونی ممالک میں بھیج دیا جاتا ہے لیکن احمدیت سے قبل زندگی وقف کرنے کا کوئی معین نظام موجود نہیں تھا.حضرت معین الدین چشتی کو ہی دیکھ لو.وہ اس حال میں ہندوستان آئے کہ ابھی کوئی اور مسلمان یہاں نہیں آیا تھا.انہوں نے ہندوستان کو اسلام کا پیغام پہنچانا شروع کیا اور بالاخر ایک مسلم جماعت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے.ظاہر ہے کہ یہ ان کا ذاتی فعل تھا جو انہوں نے باطنی عزم اور جرات کی بدولت خود ہی انجام دیا.اس سے ظاہر ہے کہ وقف محض کسی جماعت کے لئے نہیں ہو تا بلکہ اس کام کے لئے ہوتا ہے جسے خدا تعالیٰ اس زمانہ میں اپنے بندوں کے ذریعہ سرانجام دینا چاہتا ہے.پس ضروری نہیں کہ کوئی شخص جماعت کے لئے ہی اپنے آپ کو وقف کرے بلکہ وہ اس کام کی انجام دہی کے لئے بھی اپنے آپ کو وقف کر سکتا ہے." (فرموده ۱۴ جنوری ۱۹۵۲ء مطبوعه المصلح ۳ اپریل ۱۹۵۳ء)
خدام الاحمدیہ کے مرکزی دفاتر ایوان محمود کے سنگ بنیاد کے موقع حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کا خطاب ایوان محمود کو خوبصورت بنانے کے لئے ہدایات خدام وانصار کا اپنا مرکز بنانے کی ہدایت دائمی مرکز قادیان کے متعلق پیشگوئیوں کے بارے میں تصریحات کسی منٹ میں بھی اپنے کام کو پیچھے مت ڈالو مومن ہر وقت اپنے کام میں لگارہتا ہے یہاں تک کے اسے موت آجاتی ہے عملاً ہمارا مرکز وہی ہو گا جہاں ہمیں خدا تعالیٰ رکھنا چا ہے.نوجوانوں کی عمر تو کام کی عمر ہے.انہیں اپنے کاموں میں بہت چست رہنا چاہئے
634 مومن کا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جہاں بھی اور جس حالت میں بھی رکھے وہ خدمت دین کرتا چلا جائے " جس وقت یہ زمین خریدی گئی تھی اس وقت میں نے تحریک جدید اور صد را انجمن احمدیہ سے جو اس زمین کے خریدار تھے ، یہ خواہش کی تھی کہ وہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے لئے بھی ایک ایک ٹکڑا وقف کریں.چنانچہ بارہ بارہ کنال دونوں کے لئے وقف کی گئی.بارہ کنال زمین کے یہ معنے ہیں کہ ۶۵ ہزار مربع فٹ کا رقبہ ان کے پاس ہے.اگر اسے صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو یہ بہت بڑے کام آسکتا ہے.مثلاً اس کے اردگرد چار دیواری بنالی جائے تو آئندہ سالانہ اجتماع بجائے اس کے کہ کسی اور میدان میں کیا جائے بڑی عمدگی کے ساتھ اس جگہ ہو سکتا ہے.۶۵ ہزار مربع فٹ میں سے اگر عمارتوں اور سڑکوں کو نکال لیا جائے مثلاً عمارتوں اور سڑکوں کے لئے پچیس ہزار مربع فٹ زمین نکال لی جائے تو چالیس ہزار مربع فٹ زمین باقی بچتی ہے اور دس دس فٹ زمین ایک آدمی کے لئے رکھ دی جائے بلکہ پندرہ پندرہ فٹ زمین بھی ایک آدمی کے لئے رکھ دی جائے تو چالیس ہزار فٹ زمین میں اڑھائی تین ہزار آدمی سو سکتا ہے اور اتنے نمائندے ہی اجتماع میں ہوتے ہیں پھر اگر زیادہ نمائندے آجائیں تو سڑکوں وغیرہ کے لئے زمین کو محدود کیا جا سکتا ہے.پھر پاس ہی انصار اللہ کا دفتر ہو گا.اگر دونوں مجالس کے سالانہ اجتماع ایک ہی وقت میں نہ ہوں تو ۲۴ کنال زمین استعمال میں لائی جاسکتی ہے.انہیں ضرورت ہو تو تم اپنی جگہ انہیں دے دو اور تمہیں ضرورت ہو تو وہ اپنی جگہ تمہیں دے دیں.اسی طرح مقامی جگہ کی عظمت قائم ہو سکتی ہے پس میرے نزدیک آپ لوگوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ کسی نہ کسی قسم کی چار دیواری اس زمین کے اردگرد ہو جائے خواہ وہ چار دیواری لکڑیوں کی ہی کیوں نہ ہو.بارہ کنال کی چار دیواری پر اڑھائی تین ہزار روپیہ خرچ آئے گا بلکہ اس سے بھی کم اخراجات میں چار دیواری بن جائے گی." اس موقعہ پر محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے فرمایا:."پتھروں کی چار دیواری بارہ سو روپیہ میں بن جاتی ہے".اس پر حضور نے فرمایا:." میرے مکان کی چار دیواری کو لیا جائے تو بہ اندازہ بہت کم ہے.اتنی رقم میں چار دیواری نہیں بن سکتی صاجزادہ صاحب نے عرض کیا: حضور اس رقم میں صرف چار فٹ اونچی چار دیواری بنے گی.حضور نے فرمایا:.”ہاں اگر چار فٹ اونچی چار دیواری بنائی جائے تو اتنی رقم میں کام ہو سکتا ہے لیکن چار فٹ اونچی
635 چار دیواری سے پردہ نہیں ہوتا.بہر حال اگر چار دیواری بن جائے تو مرکز کا اثر بیرونی مجالس پر بڑھ جائے گا.عورتوں کے متعلق مجھے تجربہ ہے کہ جب وہ کوئی بنی ہوئی چیز دیکھتی ہیں تو پہلے سے بڑھ کر روپیہ خرچ کرتی ہیں اور نوجوانوں میں تو یہ سپرٹ زیادہ ہونی چاہئے جب سالانہ اجتماع ہو گا خدام باہر سے آئیں گے اور چار دیواری بنی ہوئی دیکھیں گے تو وہ سمجھیں گے کہ ان کا روپیہ نظر آنے والی صورت میں لگ رہا ہے اور ان کا جوش بڑھ جائے گا.دفاتر میں جو روپیہ لگتا ہے وہ انہیں نظر نہیں آتا.اگر تم کہو کہ دفتر میں کاغذ سیاہی ، قلم ، پنسل اور کارکنوں کی تنخواہوں پر روپیہ صرف ہوتا ہے تو چونکہ یہ خرچ انہیں نظر نہیں آتا وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا روپیہ صحیح طور پر خرچ نہیں کیا جاتا.تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو روپیہ تنظیم پر خرچ ہوتا ہے وہ نظروں سے پوشیدہ ہو تا ہے اس لئے قوم کی طرف سے جب بھی کوئی اعتراض ہوتا ہے تو وہ تنظیم سے متعلقہ اخراجات پر ہی ہو تا ہے اور کسی چیز پر نہیں.مثلاوہ کہیں گے تعلیم پر کس قدر روپیہ خرچ ہوا ہے ، ہسپتال پر کس قدر روپیہ خرچ ہوا ہے غریبوں کی امداد کے لئے کس قدر روپیہ خرچ ہوا ہے غرباء کے وظائف پر کس قدر روپیہ خرچ ہوا ہے اور اگر انہیں یہ بتایا جائے کہ کام کو چلانے کے لئے اتنے سیکرٹریوں کی ضرورت ہے.پھر دفتری اخراجات کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے.سفر خرچ کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے تو وہ کہیں گے ہمارا روپیہ ضائع ہو گیا.اگر چہ ایسا اعتراض کرنا حماقت ہوتا ہے کیونکہ سب سے اہم چیز مرکزیت ہوتی ہے لیکن واقعہ یہی ہے کہ ہمیشہ ان اخراجات پر اعتراض کیا جاتا ہے.تم انگلستان کی تاریخ کو لے لو.امریکہ کی تاریخ کو لے لو، فرانس کی تاریخ کو لے لو ، جرمنی کی تاریخ کو لے لو، جاپان کی تاریخ کو لے لو، روس کی تاریخ کو لے لو جب کبھی بھی میزانیہ پر اعتراض ہوا ہے تو اس کے اس حصہ پر ہوا ہے جو تنظیم کے لئے خرچ ہوا ہے کیونکہ یہ اخراجات نظر نہیں آتے پس نظر آنے والا خرچ لوگوں میں مزید چندہ دینے کی تحریک پیدا کرتا ہے.اگر تم اس جگہ کو زیادہ سے زیادہ اعلی بناتے جاؤ گے تو خدام میں چندہ کی تحریک ہوتی رہے گی.مثلاً میدان کو چھوڑ کر دیواروں کے ساتھ ساتھ پھول لگائے جائیں چونکہ اس جگہ پر تمہیں سالانہ اجتماع بھی کرنا ہو گا.اس لئے تم چمن تو بنا نہیں سکتے لیکن دیواروں کے ساتھ ساتھ پھول لگائے جاسکتے ہیں.اس طرح نظارہ اور زیادہ خوبصورت بن جائے گا.پھر بیچ میں چند فٹ کی سڑک رکھ کر اس کے اردگرد بھی پھول لگائے جاسکتے ہیں.جب خدام آئیں گے اور اس جگہ کو دیکھیں گے تو وہ کہیں گے ہمارا روپیہ صحیح طور پر استعمال ہوا ہے.اس کے بعد میں آپ لوگوں کے لئے دعا کروں گا.خدا تعالٰی خدام و انصار کو اپنا مرکز بنانے کی ہدایت نے اپنے فضل سے تمہیں جلد مرکز بنانے کی توفیق دے دی ہے مجھے افسوس ہے کہ انصار اللہ نے ابھی مرکز بنانے کی کوشش نہیں کی.دنیا میں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ بوڑھے تجربہ کار ہوتے ہیں لیکن ہماری جماعت یہ سمجھتی ہے کہ بڑھے بیکار ہوتے ہیں اور بے کار کا کوئی کام نہیں.اس لئے انصار اللہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کوئی کام نہیں کرتے تو وہ اپنے عہدے کے مطابق کام کرتے ہیں.قادیان میں
636 بھی انصار اللہ نے زیادہ کام نہیں کیا اور اب یہاں بھی انصار اللہ کام نہیں کرتے.شاید یہ چیز ہو کہ صدرانجمن احمدیہ کے بڑے بڑے افسر اس مجلس کے عہدیدار ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں صد را انجمن کے کاموں سے فرصت نہیں.بہر حال انصار اللہ کو بھی چاہئے تھا کہ وہ اپنا مرکز بناتے لیکن انہوں نے ابھی اس طرف توجہ نہیں کی.یہ غلط خیال ہے کہ چونکہ قادیان واپس ملنا ہے اس لئے ہمیں نئے مرکز کو آباد کرنا بھی ضروری ہے یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں.ایک صاحب یہاں ہیں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہیں.ان سے جب بھی کوئی بات پوچھی جائے وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اس لئے یہاں مکان بنانے کی کیا ضرورت ہے انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ قادیان کے لئے جو پیشگوئیاں ہیں وہ مکہ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان سے زیادہ نہیں لیکن کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ واپس گئے.ہم تو یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم واپس قادیان جائیں گے اور وہی ہمارا مرکز ہو گا لیکن جب رسول کرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے مدینہ چلے گئے تو مکہ میں واپس نہیں آئے حالانکہ مکہ فتح ہو گیا تھا.آپ نے مدینہ کو چھوڑا نہیں.پھر بعد میں مدینہ ہی حکومت کا مرکز بنا اور وہیں سے اسلام اردگرد پھیلنے لگا.مکہ صرف اعتکاف کی جگہ بن گئی یا جو لوگ اپنی زندگیاں وقف کر کے مکہ چلے جاتے تھے ان کی جگہ رہی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ہی رہے اور وہیں آپ فوت ہوئے.خدا تعالی کیا کرے گا آیا اس کے نزدیک ہمارا یہاں رہنا بہتر ہے یا قادیان واپس جانا بہتر ہے.ہمیں اس کا علم نہیں.پس یہ حماقت کی بات دائمی مرکز.قادیان کے متعلق پیشگوئیوں کے بارے میں تصریحات ہے کہ محض ان پیشگوئیوں کی وجہ سے جو کسی جگہ کے تقدس پر دلالت کرتی ہیں، جبکہ ان پیشگوئیوں سے زیادہ پیشگوئیاں دوسری جگہ کے متعلق موجود تھیں اور خدا تعالٰی نے انہیں کسی اور شکل میں پورا کیا تھا ہم یہ خیال کرلیں کہ ہمیں کسی اور جگہ کی ضرورت نہیں.اگر بڑی جگہ کے لئے جو پیشگوئیاں تھیں ، وہ ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہو ئیں تو چھوٹی جگہ کے لئے یہ کیوں ضروری خیال کر لیا گیا ہے کہ اس کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہری رنگ میں ہی پوری ہوں گی.قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ وہی آیات ہیں جو مکہ کے متعلق نازل ہو ئیں تھیں ، وہ آیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر دوبارہ نازل ہوئیں اور جب وہ پیشگوئیاں مکہ کے لئے بھی ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہو ئیں تو ہم کیا لگتے ہیں کہ یہ کہیں کہ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہری رنگ میں پوری ہوں گی.رسول کریم میں واپس مکہ تشریف نہیں لے گئے بلکہ مدینہ میں ہی مرکز بنا کر کام کرتے رہے.صرف آپ حج کے لئے مکہ تشریف لے جاتے تھے اور حج کرکے واپس تشریف لے آتے تھے.پھر حضرت ابو بکر واپس مکہ نہیں گئے.حضرت عمر واپس مکہ نہیں گئے.حضرت عثمان واپس مکہ نہیں گئے.حضرت علی واپس مکہ نہیں گئے.حج کے لئے مکہ جاتے تھے اور واپس آجاتے تھے.حکومت کا مرکز مدینہ ہی رہا اور یہیں سے اسلام اردگرد
637 کے علاقوں میں پھیلا.پس جب پیشگوئیوں سے کسی جگہ کی عظمت ظاہر ہوتی ہے تو یہ سمجھ لینا کہ یہ پیشگوئیاں ضرور ظاہری رنگ میں پوری ہوں گی ، حماقت ہے.چاہے بعد میں وہ پیشگوئیاں ظاہری رنگ میں ہی پوری ہو جائیں لیکن مومن کا یہ کام ہے کہ جس چیز میں خدا تعالٰی نے اسے اب رکھا ہے ، اس میں وہ راضی رہے.خداتعالی کا جو معاملہ ہمارے ساتھ ہے وہ کتنا عجیب ہے.ایک چور سیندھ لگاتا ہے اور پھر تو بہ کر لیتا ہے تو خدا تعالی اس کی تو بہ کو یل کر لیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ دوسرے دن پھر سیندھ لگائے گا.پس خداتعالی باوجود اس کے کہ وہ علم غیب رکھتا ہے ، ہمارے ساتھ رحم کا معاملہ کرتا ہے لیکن ہم لوگ باوجود علم غیب نہ ہونے کے خداتعالی کے ساتھ مستقبا ، والا معاملہ کرتے ہیں.اگر خدا تعالٰی بھی ہمارے ساتھ مستقبل والا معاملہ کرے تو چونکہ اسے علم ہے کہ مجرم دوبارہ جرم کرے گا اسے علم غیب حاصل ہے اس لئے کسی کی توبہ قبول نہ ہو.اسی طرح ہزاروں لوگ مارے جائیں گے.ہم دیکھتے ہیں کو لوگ گناہ کرتے ہیں تو پھر بعض اوقات بڑی سٹرگل (Struggle) کے بعد اس گناہ سے نجات حاصل کرتے ہیں.اگر خدا تعالی توبہ قبول کرنے سے انکار کر دے تو کوئی شخص گناہ سے نجات حاصل نہ کرے.تو به ضمیر کو روشن کرتی ہے اور انسان کو گناہ سے روکتی ہے.باوجود اس کے کہ تو به ضمیر کو روشن کرتی ہے خدا تعالی دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس شخص نے تو بہ تو ڑ دینی ہے.باوجود اس کے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ پھر فساد کرے گا لڑائی کرے گا گالیاں دے گا اور جھوٹ بولے گا وہ اس کی تو بہ کو قبول کر لیتا ہے.گویا خدا تعالی باوجود علم غیب رکھنے اور جاننے کے کہ مجرم دوبارہ جرم کرے گا وہ اس سے حاضر و الا معاملہ کرتا ہے لیکن ہم باوجو د علم غیب نہ ہونے کے خدا تعالٰی سے مستقبل والا معاملہ کرتے ہیں.اس سے زیادہ بیوقوفی اور کیا ہوگی.ہمیں قادیان کے بارے میں خدا تعالیٰ کی رضا کو ہر حال میں مقدم رکھنا ہمارا فرض ہے خدا تعالی سے حاضر و الا معاملہ کرنا چاہئے.اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم جنگلوں میں رہیں تو ہمیں جنگلوں میں رہنا چاہئے اور اپنا کام کرتے چلے جانا چاہئے.ہم چوہوں اور چیونٹیوں کو باہر پھینک دیتے ہیں تو وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتے ہیں شہد کی مکھیوں کو دیکھ لو.انسان ان کا تیار کیا ہوا شہد حاصل کر لیتا ہے اور انہیں دور پھینک دیتا ہے لیکن وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام میں کامیاب رہتی ہیں.اگر وہ اس بات کا انتظار کرتی رہیں کہ انہیں پہلی جگہ ملے تو کام کریں تو ہزاروں چھتے مر جائیں.اسی طرح اگر تمہیں اپنا گھر نہیں ملتا تو جس گھر میں تمہیں خداتعالی نے رکھا ہے تمہیں اسی میں فورا کام شروع کر دینا چاہئے.اگر خدا تعالی تمہیں واپس لے جائے تو وہاں جا کر کام شروع کرد و لیکن کسی منٹ میں بھی اپنے کام کو پیچھے نہ ڈالو.
638 مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے موت آجاتی مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے ہے.گو یا مومن کے لئے کام ختم کرنے کا وقت موت ہوتی ہے.آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے کہ اپنا مرکز تعمیر کر لیا اور خدا کرے کہ انصار اللہ کو بھی اس طرف توجہ پیدا ہو اور وہ اس حماقت کو چھوڑ دیں کہ قادیان واپس جانے کے متعلق بہت کی پیشگوئیاں ہیں اس لئے قادیان ہمیں ضرور واپس ملے گا اور چونکہ قادیان ہمیں واپس ملے گا.اس لئے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں.انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں ، وہ مکہ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ، ان سے زیادہ نہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ پیشگوئیاں ظاہری معنوں کے لحاظ سے پوری نہیں ہو ئیں.اس لئے ہمیں بھی پتہ نہیں کہ آئندہ ہمارے ساتھ کیا ہو گا.مکہ کے متعلق بھی بہت پیشگوئیاں موجود تھیں بلکہ ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے آپ کو معبوث کیا گیا تھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعد بھی مدینہ میں ہی رہے ، مکہ واپس نہیں گئے.قادیان مکہ سے بڑھ کر نہیں.جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں اگر چہ ہم بھی امید رکھتے ہیں کہ قادیان ہمیں واپس ملے گا اور ایک مومن کو یہی امید رکھنی چاہئے کہ قادیان ہمیں واپس ملے گا اور وہی ہمارا مرکز ہو گا لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ عملاً ہمارا مرکز وہی ہو گا جہاں ہمیں خدا تعالی رکھنا چاہتا ہے.پس ہمیں اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے کاموں کو وسیع کرنا چاہئے اور اس بات کو نظر انداز کر کے کہ ہم نے قادیان واپس جاتا ہے اپنا کام کرتے چلے جانا چاہئے.ہم خد اتعالیٰ کے نوکر ہیں وہ جہاں ہم سے کام لینا چاہے ہم وہیں کام کریں گے کہوں گا کہ اگر ہمیں تار بھی آجائے کہ آؤ اور قادیان میں بس جاؤ تو بھی تمہیں شام تک کام کرتے چلے جانا چاہئے تا یہ پتہ لگے کہ ہمیں کام سے غرض ہے.ہمیں قادیان سے غرض نہیں ، ہمیں ربوہ سے کوئی غرض نہیں ، اگر ہمیں خدا تعالی لے جائے تو ہم وہاں چلے جائیں گے ورنہ نہیں.ہم خدا تعالی کے نوکر ہیں کسی جگہ کے نہیں.اگر ہم کسی جگہ سے محبت کرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ خدا تعالٰی نے اسے عزت دی ہے.پس مومن کو اپنے کاموں میں ست بلکہ میں تو نہیں ہونا چاہئے.پھر نو جوانوں کی عمر تو کام کی عمر ہے ، انہیں اپنے کاموں میں بہت چست رہنا چاہئے." فرموده ۱۵ اپریل ۱۹۵۲ء مطبوعه الفضل فضل عمر نمبر مارچ ۶۲۷)
639 زندہ قوموں کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کے نوجوان اپنے بڑوں کے قائم مقام بننے کی " زندہ قوموں کی یہ علامت ہوا کرتی ہے کہ ان کے نوجواں اس کو شش کوشش میں لگے رہتے ہیں.میں لگے رہتے ہیں کہ وہ اپنے بڑوں کے قائم مقام بن جائیں.جس قوم میں یہ بات پیدا ہو جاتی ہے، وہ کبھی نہیں مرتی اور جس قوم کے اندر یہ بات پیدا نہ ہو اس کو کوئی زندہ نہیں رکھ سکتا.خواہ کتنا ہی زور لگا لو وہ قوم ضرور مرے گی لیکن جس قوم میں یہ خوبی موجود ہو کہ اس کے نوجوان ہمتوں والے ہوں ، بلند ا ر ا دوں والے ہوں ، صحیح کام کرنے والے ہوں تو وہ مرتی نہیں بلکہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور خواہ کوئی بھی اسے مٹانا چاہے ، مٹا نہیں سکتا.ایک دفعہ ایک عباسی بادشاہ نے اپنے دولڑ کے ایک بڑے امام کے پاس پڑھنے کے لئے بٹھائے.اس امام کا اتنا رعب تھا اور اس نے اپنی قابلیت کا اتنا سکہ بٹھایا ہوا تھا کہ ایک دن جب بادشاہ اس کی ملاقات کے لئے گیا اور امام اس کے استقبال کے لئے اٹھا تو دونوں شہزادے دوڑے کہ وہ اپنے امام کی جوتی اس کے آگے رکھیں.ایک کی خواہش تھی کہ میں جوتی رکھوں اور اور دوسرے کی خواہش تھی کہ میں جو تی رکھوں.بادشاہ نے جب یہ نظارہ دیکھاتو کہا کہ تیرے جیسا آدمی کبھی مر نہیں سکتا یعنی جس نے اپنی روحانی اور علمی اولاد کے دل میں اتنا جوش اخلاص پیدا کر دیا ہے اور اتنی علم کی قدر پیدا کر دی ہے اس نے کیا مرنا ہے.وہ مرے گا تو اور لوگ اس کی جگہ لے لیں گے.غرض بے ساختہ بادشاہ کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ ایسا آدمی مر نہیں سکتا.حقیقت یہ ہے کہ انسان تو مرتے چلے آئے ہیں اور مرتے چلے جائیں گے.قوموں کے لئے دیکھنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ ان کے اندر زندگی کی روح پائی جاتی ہے یا نہیں.اگر وہ کوئی مفید کام کرنا چاہتی ہیں تو ان کا فرض ہو تا ہے کہ وہ نیکیوں کا ایک تسلسل قائم کر دیں.آدم کے متعاق خدا تعالیٰ نے یہی بات قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے کہ اس نے ایک تسلسل قائم کر دیا.فرماتا ہے خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَبِيرًا وَنِسَاءَ - (النساء:۲) آدم کا کیا کمال تھا.آدم کا یہی کمال تھا کہ وہ صرف ایک مرد اور ایک عورت تھے مگر پھر بست مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَ نِساء آگے نسل در نسل پیدا ہوئی اور مرد اور عورت اتنی کثرت تے ہوئے کہ یا تو کوئی زمانہ اس دنیا پر ایسا گذرا ہے جب فلسفیوں اور سائنسدانوں کا سب سے بڑا قابل غور مسئلہ یہ ہوا کرتا تھا کہ اس دنیا کو آباد کس طرح کیا جائے اور یا اب وہی دنیا ہے اور فلسفیوں اور سائنسدانوں کے نزدیک سب سے بڑا سوال جو حل کرنے کے قابل ہے ، یہ ہے کہ اس دنیا کی آبادی کو روٹی کہاں سے کھائی جائے.آج سے دو یا چار ہزار سال پہلے کمیونزم کسی ملک میں پنپ نہیں سکتا تھا لیکن اب کہتے ہیں اس کا مال چھینو اور اس کو دو.اس کا چھینو اور اس کو دو.دس ایکٹر زمین جس کے پاس ہے اس سے لے کے دو دو ایکٹر اوروں میں تقسیم کرد، لیکن جب دنیا
640 میں کسی جگہ صرف پانچ گھر تھے اور پچاس ہزار ایکٹر زمین ان کے ارد گرد فارغ پڑی تھی ، اس وقت اگر کوئی کمیونزم کی بات کر تا تو پاگل سمجھا جاتا اور ہر شخص کہتا کہ اس کی پانچ ایکٹر زمین کیوں چھینتے ہو ، پچاس ایکٹر زمین جو فارغ پڑی ہے اس پر قبضہ کیوں نہیں کرتے.پس کمیونزم محض اس زمانہ کی پیدائش ہے ہمیشہ کے لئے قانون نہیں ہو سکتا.یہی فرق ہو تا ہے مذہب اور غیر مذ ہب میں.مذہب کے علاوہ جس قدر مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ صرف مقامی اور وقتی ہوتے ہیں لیکن مذہب ایک دائی صداقت ہوتا ہے.تم کسی زمانہ میں بھی اسلام کو لے جاؤ اس پر ہمیشہ عمل کیا جاسکتا ہے لیکن کئی دور ایسے آئینگے جن میں کمیونزم نہیں چل سکتا.کئی دور ایسے آئیں گے جن میں سوشلزم نہیں چل سکتا.کئی دور ایسے آئیں گے جن میں کیپٹل ازم نہیں چل سکتا.جب کبھی ملک کی آبادی بڑھ جائے گی اور دولت گھٹ جائے گی کیپٹل ازم کبھی قائم نہیں رہ سکتا اور جب ملک کی آبادی کم ہو جائے گی اور ذرائع دولت بڑھ جائیں گے ، اس وقت کمیونزم کبھی قائم نہیں رہ سکتا.جب ملک کی آبادی کم ہو جائے گی تو کسی سے چھینے کا کوئی سوال ہی نہیں رہتا.ہر شخص کہے گا کہ جاؤ اور زمینوں پر قبضہ کر لو اور جب ملک کی آبادی بڑھ جائے گی تو پھر کیپٹل ازم قائم نہیں رہ سکتا.یہ سارے کے سارے سوالات ملک کی آبادی کی کمی یا زیادتی سے پیدا ہوتے ہیں.تم آبادی کو کم کرد و لازما کیپٹل ازم قائم ہو جائے گا اور لوگ منتیں کریں گے کہ تم زمینوں کو سنبھالو.ہمیں تو جتنی ضرورت تھی ہم نے لے لی ہے لیکن جب آبادی بڑھ جائے گی تو وہی آدمی جس کے دادا پر دادا کہہ رہے تھے کہ زمینوں کو سنبھالو ہمیں اس کی ضرورت نہیں رہی، شور مچانے لگ جائیں گے کہ تمہارے پاس سو ایکٹر زمین ہے ، دس دس ایکٹر ہمیں دے دو.پس یہ محض حالات بدلنے کے نتائج اور مجبوریاں ہیں لیکن مذہب ایسی چیز ہے جو ہمیشہ قائم رہتی ہے اور یہ تمام چیزیں اسی نکتہ کے ساتھ وابستہ ہیں کہ انسان کی نسل آگے ترقی کرتی اور بڑھتی چلی جاتی ہے اسی طرح جو سچی قومیں ہوتی ہیں وہ بھی آدم کے مشابہ ہوتی ہیں اور ان کی کامیابی کا طریق بھی یہی ہوتا ہے کہ ان میں نئی نسلیں پیدا ہوتی ہیں.پھر اور پیدا ہوتی ہیں پھر اور پیدا ہوتی ہیں اور وہ اس معیار ایمان اور معیار تقویٰ کو قائم رکھتی ہیں جس کو قائم رکھنا خد اتعالیٰ کا منشاء ہے اور جس معیار ایمان اور معیار تقویٰ کے قیام کے لئے خدا تعالٰی کے انبیاء دنیا میں آتے ہیں.پس ہمیشہ ہی خدائی جماعتوں اور خدائی سلسلوں کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ ان کے اندر زندگی کی روح پیدا ہو.ان کے اندر ایسے نوجوان پیدا ہوں جو دین کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنے والے اور تقویٰ کے ساتھ کام کرنے والے ہوں.دھڑے بازی کی عادت ان میں نہ ہو.وہ قضاء کے مقام پر پورے اترنے والے ہوں اور دوسروں کا حق دینے کے معاملہ میں نہ دشمنی ان کے راستہ میں روک ہو.نہ دوستی ان میں جنبہ داری کا مادہ پیدا کرنے والی ہو.جب ان سے کوئی مسئلہ پوچھے تو وہ یہ نہ دیکھیں کہ ہماری دوستیاں کن لوگوں سے ہیں اور ہمارے اس جواب کا اثر ان پر کیا پڑے گا بلکہ وہ صرف یہ دیکھیں کہ خدا اور اس کے رسول نے کیا کہا ہے اور قرآن میں کیا لکھا ہے.جب ایسے آدمی کسی قوم میں پیدا ہو جائیں تو پھر وہ قوم
641 آدمیوں کی محتاج نہیں رہتی بلکہ براہ راست خدائی نصرت کے نیچے آجاتی ہے.کسی انسان کی موت سے اس کی موت وابستہ نہیں ہوتی.کسی انسان کی بیماری سے اس کی بیماری وابستہ نہیں ہوتی.کسی انسان کے فقدان سے اس کا فقدان وابستہ نہیں ہو تا.وہ ہر میدان میں اور ہر قسم کے کاموں اور مقابلوں میں قائم رہتی ہے، جیتی ہے اور بڑھتی ہے کیونکہ اس میں زندگی کا بیج ہوتا ہے اور جس میں زندگی کا بیج ہو اسے کوئی مار نہیں سکتا جس طرح خدا نے جس میں موت کا بیج پیدا کر دیا ہوا سے کوئی زندہ نہیں رکھ سکتا." (فرموده ۱۹ ستمبر ۱۹۵۲ء مطبوعه الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۵۲ء)
642 تم محمد رسول صلی الم کے اسوہ حسنہ کو ہمیشہ اپنے سامنے علیه رکھو اور اسلام کی خاطر آنے والے خطرات کیلئے تیار ہو! خضور نے خدام الاحمدیہ کی تنظیم کا مقصد یہ تھا کہ سو میں سے سو قربانی پر پورے اتریں فرمایا : " خدام الاحمدیہ کی تنظیم کی غرض یہی تھی کہ اگر کسی موقع پر قربانی کا موقع آجائے تو سو میں سے ننانوے نہیں بلکہ سو کے سو ہی اس قربانی پر پورے اتریں.یہ روح اگر تم میں پیدا ہو جائے تو پھر دنیا کی کوئی قوم تم پر ظلم نہیں کر سکتی.دنیا کی کوئی طاقت تمہاری راہ میں کھڑی نہیں ہو سکتی.یہ تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ تمہاری اکثریت ایک ایسے ملک میں ہے جہاں کی حکومت جمہوریت کے اسلامی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے حتی الامکان ظلم و ستم ہونے نہیں دیتی لیکن تم نے صرف ایک ملک تک محدود نہیں رہنا.تم نے ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے اور دنیا میں آج بھی ایسے ملک موجود ہیں جہاں پر مذہب کے نام پر ظلم ہو تا ہے.جہاں تلوار کے زور سے عقائد کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.پس تمہارا فرض ہے کہ تم ایسے ممالک کے حالات کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار رکھو تاکہ وقت آنے پر تم کمزوری نہ دکھلا سکو." پس تم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ ایسے حالات کے لئے اپنے آپ کو تیار قربانی کے لئے تیاری کرو رکھے جبکہ ایک طرف ایمان ہو اور دوسری طرف تلوار.دیسے تو اس وقت تم میں سے ہر ایک جذباتی طور پر کہہ دے گا کہ ہم جانیں دے دیں گے مگر اپنے ایمان پر قائم رہیں گے.مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز تیاری اور وقت چاہتی ہے.اس سال جو حالات پیدا ہوئے ہیں، ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری پہلی بلوغت کے ساتھ ہی تمہیں ہوشیار کر دیا ہے تاکہ تم آنے والے خطرات کے مقابلہ کے لئے تیاری کر سکو ".اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بارہ سال کی اس بلوغت تک پہنچنے کے بعد کیا تمہاری عقلیں اتنی تیز ہو گئی ہیں کہ تم ہر طرح کے خطرات کا مقابل کر سکو.یوں تو مومن خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنی حفاظت کرتا ہے لیکن اگر ایک طرف تمہاری جان ہو اور دوسری طرف ایمان تو کیا تم میں سے ہر ایک کی روح بلا تردد و بلا تامل اور فوری
643 طور پر اپنی جان کو خدا اور اپنے درمیان حائل سمجھتے ہوئے اسے قربان کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے.خدا تعالیٰ نے تمہیں ہوشیار کر دیا ہے.اب تم اپنے دلوں کو مضبوط اپنے اوقات کو صحیح طور پر گزارو کرد اور آنے والے خطرات کے لئے تیاری کرو.وہ تیاری اس طرح ہو سکتی ہے کہ تم اپنے اوقات کو صحیح رنگ میں گزارو اور زیادہ سے زیادہ تبلیغ کرو.زیادہ سے زیادہ خدمت خلق کرو.خدمت خلق کے متعلق تمہارا کام ابھی نمایاں نہیں ہے.زلزلہ اور اس طرح کی دیگر مصیبتوں کے پڑنے پر یا جلسوں اور جلوسوں کے مواقع پر تمہیں کم از کم بوائے سکاؤٹس یا ریڈ کر اس جتنا نمونہ تو دکھانا چاہئے.حالانکہ اصل میں تو ان سے سینکڑوں گنا زیادہ اعلی نمونہ دکھانا چاہئے.واضح رہے کہ خدمت خلق سے میری مراد محض احمدیوں یا مسلمانوں کی خدمت نہیں بلکہ بلا امتیاز مذہب و ملت خدا کی ساری ہی مخلوق کی خدمت مراد ہے حتی کہ اگر دشمن بھی مصیبت میں ہو تو اس کی بھی مدد کرو.یہ ہے خدمت خلق کا صحیح جذ بہ.آخر میں آپ نے فرمایا :.روح اور جسم کی مضبوطی کی طرف توجہ "اپنے آپ کو ایسے مقام پر کھڑا کرو جس کے بعد تمہیں یقین ہو جائے کہ تم ہرگز بزدلی نہیں دکھاؤ گے.اس کے لئے تیاری کرو.مگر یہ تیاری اسلامی طریق کے مطابق ہونی چاہئے.ایسی تیاری کرنے کے دنیا میں دو ہی طریق ہیں.ایک یہ کہ جسموں کو مضبوط بنایا جائے.اس کی مثال نپولین ہٹلر ، چنگیز خان اور تیمور سے مل سکتی ہے اور ایک تیاری روح کی مضبوطی اور پاکیزگی کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے.اس کی سب سے روشن املی اور ارفع مثال دنیا محمد اللہ رسول سلام کے مقدس وجو د میں دیکھ چکی ہے.پس تم ہٹلر نپولین یا چنگیز خان اور تیمور کی بجائے محمد رسول اللهلال الالم کے اسوہ کو سامنے رکھتے ہوئے تیاری کرو لیکن یہ نمونہ دنیوی مثالوں سے سینکڑوں اور ہزاروں گنا بالا ہے بلکہ اتنا بالا ہے کہ آج بھی فرشتے اس پر مرحبا کہہ رہے ہیں." ( فرموده ۳۰ اکتوبر ۱۹۵۲ء مطبوعه الفضل یکم نومبر ۱۹۵۲ء)
644 نوجوان دلوں کی اصلاح کریں.حضور نے ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۲ء کو ایک خطبہ جمعہ میں جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہماری جماعت کو اپنے اندر استقلال پیدا کرنا چاہئے.خدا تعالیٰ انہیں نے ایک عظیم الشان روحانی تغیر کاذمہ دار قرار دیا ہے اور یہ عظیم الشان تغیر دلوں کی اصلاح سے ہی ہو سکتا ہے ، بیرونی اصلاح سے نہیں.اس خطبہ کے آخری حصہ میں حضور نے احمدی نوجوانوں کو جو نصیحت فرمائی ہے وہ نیچے درج کی جارہی ہے.(مرتب) " مجھے اس خطبہ کی تحریک خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع سے ہوئی ہے.نوجوانوں کا جلسہ ہو رہا ہے اور وہاں لفٹ رائٹ.لفٹ رائٹ ہو رہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سے بھی اصلاحیں ہوتی ہیں لیکن یہ اصلاحیں زیادہ دیر تک نہیں چل سکتیں.اس کے مقابلہ میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تبدیلی پیدا کی وہ دل سے تعلق رکھتی تھی.اس کا تعلق اندرون سے تھا اس لئے آپ ایک حقیقی تبدیلی پیدا کر گئے.آج آپ کی لائی ہوئی تعلیم پر چودہ سو سال گذرنے کو ہیں لیکن اس کے نقش ابھی قائم ہیں.فلاسفروں کی کتب پڑھنے والے آج بھی ہزاروں ہوں گے.جالینوس کی کتابیں پڑھنے والے سینکڑوں ہوں گے لیکن ان پر عمل کرنے والا کوئی نہیں ملے گا لیکن محمد رسول اللہ ملی لی اہلیہ کی لائی ہو ئی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے اس گئے گزرے زمانہ میں بھی لاکھوں کی تعداد میں ہوں گے.اس کے مقابل پر آپ کے بعد جو فلسفی آئے ان کی تعلیم پر عمل کرنے والے دس افراد بھی نہیں ملتے.پس جس تغیر کے نقش مستقل ہوتے ہیں وہی تغیر بابرکت ہو تا ہے ورنہ صرف ظاہری تبدیلی اچھی نہیں.دنیا ایک روحانی تغیر چاہتی ہے اور وہ تغیر ضرور ہو کر رہے گا.اس تغیر کو کوئی نہ کوئی جماعت پیدا کرے گی کیونکہ خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ ایسا تغیر کوئی جماعت ہی پیدا کرتی ہے پس جب ایسا تغیر مقدر ہے تو ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ کوشش کریں کہ ہمیشہ ہمیش یادگار قائم کرنے والا کام ان سے ہو جائے.اگر وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں تو وہ یاد رکھیں کہ یہ تغیر دلوں سے پیدا ہو گا.ظاہر سے دل نہیں بدلتا.دل سے ظاہر بدلتا ہے.بے شک بعض دفعہ ظاہر سے بھی دل بدل جاتے ہیں لیکن نہایت آہستہ آہستہ.صحیح طریق یہی ہے کہ پہلے دلوں کی اصلاح کی جائے اور پھر ظاہر کو بدلا جائے کیونکہ روحانی تبدیلی دل سے پیدا ہوتی ہے اور پھر سے تعلق پیدا کرتی ہے." (فرموده ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۲ء مطبوعه الفضل ۲ فروری ۱۹۶۱ء)
نوجوان اپنے فرائض منصبی اور قومی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی طرف توجہ کریں مبلغین کی قابل رشک قربانیاں ہمارے نو جوانوں کو محنت کی عادت پیدا کرنی چاہئے اپنے ملک کے حالات اور ماحول پر غور کریں اور دیکھیں کہ ملک اور قوم کی ترقی کے کونسے ذرائع ہیں صنعتی آزادی کے بغیر آزادی محدود آزادی ہوتی ہے نوکریوں کی بجائے پیشے اختیار کریں تا کہ ملک کو ترقی حاصل ہو
646 قومی زندگی نو جوانوں سے وابستہ ہوتی ہے اس لئے اپنی فرائض منصبی اور قومی ذمہ داریوں کو ادا کر نیکی طرف توجہ کرنی چاہئے.میں نوجوانوں کو خطاب کر کے انہیں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض منصبی اور قومی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی طرف توجہ کریں.ان کے ماں باپ بھی میرے مخاطب ہیں.قومی زندگی نوجوانوں کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہے.میں دیکھتا ہوں کہ جس وقت احرار کا فتنہ ۳۴ء میں شروع ہوا تھا، اس وقت نہ معلوم کیا حالات تھے جن کی وجہ سے جماعت میں اتنی بیداری ہوئی کہ سینکڑوں نوجوانوں نے زندگیاں وقف کیں اور پھر ایسے حالات میں اپنی زندگیاں وقف کیں جو آجکل کے حالات سے بالکل مختلف تھے.آجکل تو واقفین کے گزارے ایک حد تک معقول ہیں لیکن اس وقت جو گزارے دیئے جاتے تھے وہ بہت قلیل تھے لیکن اس کے باوجود سینکڑوں نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کیں.اب جو جوان باہر جاتے ہیں انہیں علاوہ مکان اور دوسرے ضروری اخراجات کے گیارہ پونڈ ماہوار دیئے جاتے ہیں.اگر چہ پونڈ کے علاقوں میں گیارہ پونڈ بھی بہت کم ہیں مگر پھر بھی مبلغ کو مکان کے اخراجات پانی کے اخراجات بجلی کے اخراجات وغیرہ علاوہ مل جاتے ہیں لیکن اس وقت ہم انہیں اس سے بھی کم اخراجات دیتے تھے اور بعض اوقات تو کچھ بھی نہیں دیتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ جاؤ اور کام کرو.بعض اوقات چھ سات پاؤنڈ دے دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اس رقم سے مکان ، پانی خوراک اور بجلی وغیرہ کا انتظام کرو لیکن اس زمانہ میں جبکہ احمدیت کے خلاف پہلے سے بھی زیادہ شدید مخالفت اٹھی اور احمدیت سے محبت رکھنے والے دلوں کے دل میں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اب دین کی حالت نہایت نازک ہے تو مجھے جماعت کے نوجوانوں میں وہ بیداری نظر نہیں آئی جو پہلے ان میں پیدا ہوئی تھی.احرار کے پہلے فتنہ کے وقت تو یہ حالت تھی کہ اسے دیکھ کر سینکڑوں نوجوانوں نے زندگیاں وقف کر دیں لیکن اس شورش کے وقت میں میں دیکھتا ہوں کہ سینکڑوں نوجوانوں کا زندگیاں وقف کرنا تو ایک طرف رہا، درجنوں نوجوانوں نے بھی زندگیاں وقف نہیں کیں بلکہ ہفتہ دو ہفتہ میں ایک آدھ درخواست ایسی آجاتی ہے کہ مجھے وقف سے فارغ کر دیا جائے کیونکہ میں تکالیف کو برداشت نہیں کر سکتا.میں سمجھتا ہوں کہ ایسے حالات میں ایسے شخص کا ایمان کوئی ایمان نہیں.اس وقت اس کے
647 فلاں لئے دو ہی راستے کھلے ہیں یا تو اپنی جان کی قربانی دے کر دین کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا اور یا مرتد ہو جانا." ” میں نے بارہا نوجوانوں کو توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی تعلیم کی طرف توجہ کریں.وہ ان باتوں کو نہ دیکھیں کہ قسم کی تعلیم حاصل کرنے سے انہیں فلاں محکمے میں ملازمت مل جائے گی حقیقت تو یہ ہے کہ انہیں خیال بھی نہیں کرنا چاہئے کہ انہیں کوئی ملازمت مل جائے گی کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس ملک کا بھی تمدن اعلی ہے ، اس کے کاریگر اور دیگر پیشہ ور ملازموں کی نسبت زیادہ مرفہ الحال ہوتے تھے.آبادی کا بہت تھو ڑا حصہ ملازموں کا ہو تا ہے، زیادہ حصہ دوسرے لوگوں کا ہو تا ہے." پین ہمارے نوجوانوں کو محنت کی عادت ہمارے نوجوانوں کو محنت کی عادت پیدا کرنی چاہئے.پیدا کرنی چاہئے مثلا ز منیدار ہیں.آجکل تحط کی وجہ سے وہ کتنا شور مچارہے ہیں.مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ کوئی ایسی تدبیر کیجئے یا ہمیں کوئی تجویز بتائیے جس پر عمل کر کے ہم اس قحط کا مقابلہ کر سکیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس قحط میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے یا نہیں.کیا ہمارا زمیندار زمین میں اس طرح دانے ڈالتا ہے جس طرح دانے ڈالنے کی ضرورت ہے ؟ کیا وہ اسی طرح ملائی کرتا ہے جس طرح ملائی کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا وہ اسی طرح ہل چلاتا اور کھیت کو پانی دیتا ہے جس طرح ہل چلانے اور کھیت کو پانی دینے کی ضرورت ہے؟ کیا وہ دانے بے اصول نہیں ڈال دیتا؟ کیا جب وہ کھیتوں کو پانی دیتا ہے تو پانی ادھر ادھر نہیں نکل جاتا ؟ کیا اس کے کھیت میں اس قدر گھاس تو نہیں پیدا ہو جا تا کہ اصل فصل نظر ہی نہ آئے؟ کیا جب وہ ہل چلاتا ہے تو اس طرح نہیں ہو تا کہ وہ ہاتھ میں حقہ پکڑے ہوئے ہوتا ہے بیل ٹھو کر کھاتا ہے اور ہل زمین سے اوپر اٹھ جاتا ہے اور بیچ میں کچھ جگہ خالی چھوٹ جاتی ہے.جہاں ہل نہیں چلا ہو تا یا ناقص ہل چلتا ہے.اگر وہ یہ ساری احتیاطیں کرتا تو آج ہمارے ملک میں دو گنی پیداوار ہوتی اور اگر ہماری گندم کی پیداوار ڈبل ہوتی تو آج قحط کیوں پڑتا." " تم محنت کی عادت ڈالو.سور کی عادت مرد مومن کی نظر آنیوالے خطرات پر بھی ہوتی ہے.ہوتی ہے کہ وہ سیدھا چلتا جاتا ہے.سامنے کے خطرات کو نہیں دیکھتا.سئو ر کا شکار کرنے والے نیزہ پکڑ کر رستہ میں بیٹھ جاتے ہیں.سور سیدھا آتا ہے اور نیزہ اس پر گر جاتا ہے لیکن چیتا اور شیر اور دوسرے جنگلی جانور خطرہ دیکھ کر رستہ سے ہٹ جاتے ہیں.اسی طرح مومن بھی خطرات کا خیال رکھتا ہے اور وہ سور کی طرح سیدھا نہیں چلتا جا تا.یہ عادت گندے جانور کی ہے کہ وہ سیدھا چلا جاتا ہے پس سمجھدار نوجوان کا کام ہے کہ وہ اپنے ملک کے حالات اور ماحول پر غور کریں اور دیکھیں کہ ملک اور قوم کی ترقی کے کون سے ذرائع ہیں.ان ذرائع کو استعمال کریں تاملک ترقی کرے.ملک میں جو صنعتیں اور تجارتیں پہلے نہیں ان کی طرف توجہ دی جائے اگر نوجوان اس طرف توجہ کریں تو بے شک وہ ابتداء میں تکلیف بھی اٹھا ئیں گے لیکن آخر میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے جو ان کے خاندان اور ملک کے لئے مفید ہوں
گے.648 " پس محنت اور کوشش کے ساتھ ہی انسان محنت اور کوشش کے ساتھ انسان انسان بنتا ہے.انسان بنتا ہے.یا تو تم موجودہ حالتوں پر قائم رہ کر اپنی غلامی کے دور کو اور لمبا کرو گے اور یا غلامی کے طوق کو اتار کر سرداری کے تخت کو جیتو گے.یہ دونوں حالتیں تمہارے سامنے ہیں.یا تو تم کوشش نہیں کرو گے اور یہ خیال کرو گے کہ موجودہ حالت کو بدلنے کی ضرورت نہیں.اس حالت میں بھی روٹی مل جائیگی لیکن اس طرح تم غلامی کی حالت میں رہو گے.پاکستان کے آزاد ہو جانے سے تم آزاد نہیں ہو جاتے کیونکہ جو ملک صنعتی طور پر دست نگر ہو وہ پورا آزاد نہیں کہلا سکتا.اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لئے اپنے ملک کو آزاد بنانے کے لئے قربانی کی ضرورت ہے.اگر صنعتی اشیاء کے لئے ہم دوسرے ممالک کے محتاج رہے تو ہمیشہ یہ شکوہ رہے گا کہ فلاں ملک ہماری روئی نہیں لیتا.ہمارا زمیندار مر رہا ہے.وہ ہمیں فوجی سامان نہیں دیتا کیونکہ جس کی وجہ سے ہماری فوج غیر مسلح ہے.= صنعتی آزادی کے بغیر آزادی " محدود آزادی ہوتی ہے.آزادی محدود آزادی ہے.رو " آزادی اس چیز کا نام ہے کہ ہمارا ملک سرے ممالک کو چیلنج کر سکے کہ تم ہمارا مقاطعہ کرتے ہو تو کرو ہمیں کوئی خطرہ نہیں.تو میں یہاں بن رہی ہو ں.ہوائی جہاز یہاں بن رہے ہوں.ریلوں کے انجن یہاں بن رہے ہوں.ٹریکٹر لاریاں موٹر اور دوسری چیزیں یہاں تیار کی جارہی ہوں.یہ خیال کر لینا کہ روٹی تو ہر حالت میں ملتی ہے.زیادہ کوشش کی کیا ضرورت ہے ہماری غلامی کو لمبا کرتا ہے.لیکن اگر ہم روٹی کو لات ماریں اور تجارتوں ، ایجادوں، زراعتوں اور صنعتوں میں لگ جائیں تو شاید عرصہ تک ہمیں تکلیف بھی ہو یا ہماری نسل بھی کچھ عرصہ تک تکلیف اٹھائے لیکن ایک وقت ایسا آئے گا.جب ہم اپنے خاندان اور ملک کے لئے ایک مفید وجود بن سکیں گے اور ہماری ساری تکالیف رفع ہو جائیں گی.پس میں اپنے نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں.کچھ کہ وہ تعلیم محض اس لئے حاصل نہ کریں کہ اس کے نوکریوں کی بجائے پیشے اختیار کرنے چاہئیں نتیجہ میں انہیں نوکریاں مل جائیں گی.نوکریاں قوم کو کھلانے کا موجب نہیں ہو تیں.بلکہ نوکر ملک کی دولت کو کھاتے ہیں.اگر تم تجارتیں کرتے ہو.صنعتوں میں حصہ لیتے ہو.ایجادوں میں لگ جاتے ہو تو تم ملک کو کھلاتے ہو اور یہ صاف بات ہے کہ کھلانے والا کھانے والے سے بہترین ہو تا ہے.نوکریاں بے شک ضروری ہیں لیکن یہ نہیں کہ ہم سب نوکریوں کی طرف متوجہ ہو جائیں.ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ پیشے اختیار کریں تاکہ ملک کو ترقی حاصل ہو اور کم سے کم ملازمتیں کریں.صرف اتنی جن کی ملک کو اشد ضرورت ہو".فرموده ۲۱ نومبر ۱۹۵۲ء الفضل ۱۴دسمبر ۱۹۵۲ء )
موت سے جو خلا پیدا ہوتا ہے اسے پورا کرنا نو جوانوں کا کام ہے قوموں کی ترقی کا دارو مدار نو جوانوں پر ہوتا ہے نو جوانوں کو غور وفکر اور بلند پروازی کی عادت ڈالنی چاہئے یچی تحریکوں کی مخالفت ہوتی ہی چلی آئی ہے تم میں سے ہر شخص کمان کے قابل ہو جائے
650 ”ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں زندگی کے ساتھ ساتھ موت کا سلسلہ بھی قائم کیا ہوا ہے.لوگ پیدا ہوتے ہیں اور ایک عرصہ تک زندگی گزارنے کے بعد مر جاتے ہیں.موت سے جو ایک خلا پیدا ہوتا ہے اسے پورا کرنا نوجوانوں کا کام ہے.اگر نوجوانوں کی حالت پہلے لوگوں کی مانند ہو یا ان سے بہتر ہو تو قوم تنزل سے محفوظ رہتے ہوئے ترقی کے راستہ پر بدستور گامزن رہتی ہے لیکن اگر نو جوان ہی قومی کردار کے اعتبار سے معیار پر پورے نہ اترتے ہوں تو پھر قوم کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے.سو قوم کی آئندہ ترقی کا دار ومدار نوجوانوں پر ہو تا ہے جس فوج کا ہر سپاہی سمجھ لے کہ شاید آگے چل کر میں ہی کمانڈر انچیف بن جاؤں تو وہ یقینا اس احساس کے تحت اپنے عمل و کردار کو ایسے طریق پر ڈھالے گا جو بالآخر اسے اس عہدے کا اہل بنا دے.یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آئیگا کہ اس فوج کے تمام سپاہیوں میں کمانڈر انچیف بنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی لیکن اگر فوج کا ہر سپاہی یہ سمجھ بیٹھے کہ میں تو کمانڈر انچیف نہیں بن سکتا تو فوج گرتے گرتے اس حالت کو پہنچ جائے گی کہ اس میں ڈھونڈے بھی کوئی شخص ایسانہ ملے گا کہ جو اس عہدے کی ذمہ داری سنبھال سکے لپس جماعت کی ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ہر فرد میں یہ احساس پیدا ہو کہ بڑے سے بڑا کوئی عہدہ ایسا نہیں ہو سکتا ہے جس کی ذمہ داریوں کو میں کما حقہ ادا نہ کر سکوں.جب تک ہر فرد اس احساس کے ماتحت آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے اس وقت تک قومی اعتبار سے صلاحیت پیدا نہیں ہو سکتی جس کا پیدا ہونا تحفظ و بقا اور ترقی کے لئے ضروری ہے.پس تم میں سے ہر شخص کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وقت پڑنے پر وہ بڑے سے بڑا عہدہ سنبھالنے کا اہل ثابت ہو سکے.“ بلند پروازی سے کیا مراد ہے ؟ اور وہ کن ذرائع سے حاصل کی جاسکتی ہے.اس امر کو مزید واضح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- بلند پروازی اسی کو کہتے ہیں کہ انسان اپنی موجودہ حالت سے اوپر ایک مقصد معین کرے پھر یہ سوچے کہ یہ مقصد کن ذرائع سے حاصل ہو سکتا ہے.جب ذرائع اپنی معین صورت میں سامنے آجائیں تو پھر اس امر پر غور کرے کہ کن طریقوں سے یہ ذرائع فراہم ہو سکتے ہیں.جب کوئی شخص یہ طریقے معلوم کر کے مصروف عمل ہو جاتا ہے تو ذرائع خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں اور بالآخر وہ مقصد مل جاتا ہے جس کے لئے یہ سب کو شش ہو رہی تھی.اگر ایسا ظہور میں نہیں آتا تو وہ باید پروازی نہیں ، خام خیارا بیاوا ہمہ ہے ایسا شخص ہمیشہ خوابوں کی دنیا میں الجھتار بتا ہے.پس ہماری جماعت کے نوجوانوں کو غور و فکر اور بدید پروازی کی عادت ڈالنی چاہیئے.“ نوجوانوں کو اپنے اندر سوچ بچار کرنے کا مادہ پیدا کرنا چاہئے.چنانچہ حضور نے فرمایا :- " مثلاً آپ المصلح میں امریکہ یا ہالینڈ کے مشن کی رپورٹ پڑھتے ہیں.آپ کے لئے اتناہی کافی نہیں ہے
651 کہ آپ اسے پڑھ کر وہاں کے حالات سے باخبر ہو جائیں بلکہ رپورٹ میں نو مسلموں کی تعداد پڑھنے میں آپ کو سوچنا چاہئے کہ اس ملک میں بیعت کی رفتار کیا ہے.وہاں کب سے مشن قائم ہے اور اس عرصہ میں کتنے آدمیوں نے بیعت کی.بیعت کی رفتار نکالنے کے بعد آپ اندازہ لگائیں کہ اس حساب سے وہ ملک کتنے عرصہ میں جا کر مسلمان ہو گا ؟ اور اسی طرح ہم کتنے عرصہ میں توقع کر سکتے ہیں کہ ساری دنیا اسلام کو قبول کرے گی.اگر یہ سوچو کہ دنیا ہماری مخالفت کرتی ہے تو ساتھ ہی تمہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ دنیا مخالفت کیوں کرتی ہے.اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ بچی تحریکوں کی مخالفت ہوتی ہی چلی آئی ہے.یہ ہے صحیح لیکن ساتھ ہی تمہیں یہ سوچنا پڑے گا کہ کیا یہ مخالفتیں ہمیشہ ہمیش جاری رہتی ہیں ؟ کیا پہلوں نے ان مخالفتوں کو دبانے اور کم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں نکالا ؟ کیا آدم "نوح" "ابراہیم موسے اور عیسی نے ان مخالفتوں سے ہار مان لی تھی ؟ اگر انہوں نے بار نہیں مانی تھی تو ہم کیوں ہار مانیں ؟ اور کیوں نہ ایسار استہ نکالیں کہ جس سے یہ مخالفتیں آپ ہی ختم ہو جائیں.اگر تم سوچتے تو تمہارے سامنے خود ر استے کھل جاتے.ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی جگہ غور و فکر کی عادت ڈالے اور محض دوسروں کے غور و فکر پر تکیہ نہ کرے.کام کرنے کا جذبہ قوم کو ابھار دیتا ہے.باوقار طریق پر سوچنے اور غور کرنے کی عادت ڈالو تاکہ تم میں ایسی روح اور جذبہ پیدا ہو جائے کہ تم وقت آنے پر بڑی سے بڑی ذمہ داری اُٹھا سکو - کام کرنے کا جذبہ قوم کو ابھار دیتا ہے.پھر کسی کے مرنے یا فوت ہونے سے حوصلے پست نہیں ہوتے.رسول کریم ﷺ نے صحابہ میں غور و فکر کی عادت پیدا کر کے ان میں جذبہ ء عمل بھر دیا تھا.یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کسی کے مرنے یا فوت ہونے سے کبھی خلا پیدا نہیں ہوا.ہر موقع پر کوئی نہ کوئی لیڈر آگے آتارہا اور مسلمان اس کی قیادت میں منزل بہ منزل کامیابی و کامرانی کی طرف بڑھتے رہے.پس کام فکر اور سمجھ کے مطابق کرنے چاہئیں.اگر ایسا کرنے لگ جاؤ گے تو تم میں سے ہر شخص کمان کے قابل ہو جائے گا.یہی چیز قوم کو خطرات سے بچانے والی ہوتی ہے کہ اس کے ہر فرد کے اندر لیڈر شپ کی صلاحیت موجود ہو.جب یہ صلاحیت قوم میں عام ہو جائے تو پھر لیڈر ڈھونڈنے یا مقرر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی.ایسی حالت میں وقت پڑنے پر لیڈر شپ خود بخود اُبھر کر آگے آجاتی ہے اور قوم پر ہراساں یا پریشاں ہونے کا کبھی موقع نہیں آتا.اس میں شک نہیں قوموں پر مصائب آسکتے ہیں.انہیں قتل بھی کیا جا سکتا ہے.انہیں گھروں سے بھی نکالا جا سکتا ہے لیکن اگر سوچنے کی عادت ہو تو ان سے بچنے کی راہیں بھی نکل سکتی ہیں.“ فرموده ۲۴ اگست ۱۹۵۳ء المصلح کراچی ۵ ۱۲اگست ۱۹۵۳ء )
خدام کے اجتماع سے حضور کا خطاب دفتر کو چاہئے کے اعداد و شمار کو خاص اہمیت دے ن اجتماع کے مقصد خالی کھیل کو د نہیں بلکہ اس کی غرض نو جوانوں کے اندر وہ قربانی اور اخلاص پیدا کرنا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے فرض کو صحیح طور پر ادا کرسکیں محض شکایات کرنے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا جو لوگ کام کریں گے بہر حال وہی آگے لائے جائیں گے مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہی تھی کہ نو جوان دین میں ترقی کریں تم نمازوں اور دعاؤں میں ترقی کرو آپس میں تعاون کی روح پیدا کرو دنیا میں تمام ترقیات محنت سے ملتی ہیں.پس اپنے اندر محنت اور دیانتداری پیدا کرو مذہب ملک اور قوم کے لئے مفید وجود بنو R
654 دعائیں ، ذکر الہی ، بیچ کی عادت اور محنت وہ ذرائع ہیں جن سے تم کامیاب ہو سکتے ہو (یہ تقریر حضور نے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر فرمائی تھی) فرمایا.” جو خدام یہاں بیٹھے ہیں وہ خدام کی اس تعداد کا ایک تہائی یا ایک چوتھائی ہیں جو مجھے بتائی گئی ہے.خدام الاحمدیہ کا یہ اجتماع تربیتی اور تعلیمی ہوتا ہے.کھیلیں وغیرہ تو ایک زائد چیز ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ منتظمین نے کھیلوں کو اصل چیز سمجھ لیا ہے اور وعظ و نصیحت اور تربیت کو ایک ضمنی اور غیر ضروری چیز فرض کر لیا ہے.اس لئے انہوں نے یہ کوشش نہیں کی کہ جبکہ میں خدام الاحمدیہ کو خطاب کرنا چاہتا تھا تو وہ انہیں پورے طور پر یہاں حاضر کرتے اور انہیں میری باتیں سننے کا موقعہ دیتے.چونکہ ایسے موقعہ پر باہر سے آئے ہوئے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں اس لئے اگر انہیں نکال دیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس مجلس میں چار سو یا ساڑھے چار سو سے زیادہ خدام نہیں.پرسوں خدام الا حمدیہ کی جو تعداد مجھے بتائی گئی تھی وہ ساڑھے دس سویا گیارہ سو تھی جو آج لازمابارہ تیرہ سو ہونی چاہئے تھی.(حضور نے دفتر والوں سے دریافت فرمایا کہ اس سال کتنے خدام اجتماع میں شامل ہوئے ہیں اور پچھلے سال اجتماع میں شامل ہونے والے خدام کی تعداد کیا تھی.اس پر دفتر کی طرف سے جو اعدادو شمار پیش کئے گئے وہ یہ تھے.سال گذشته ۶ ۷ ۸- موجوده سال ۱۰۶۲)- حضور نے فرمایا.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال پونے دو سو خدام زیادہ آئے ہیں لیکن جہاں تک میرا تاثر ہے دفتر مرکز یہ اعداد و شمار کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا حالانکہ اس سے کئی نتائج نکالے جاسکتے ہیں.ہر دفعہ سوال کرنے پر ہانپتے کانپتے اور لرزتے ہوئے اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ اعداد و شمار کے کام کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی کبڈی اور فٹ بال کے میچوں کو دی جاتی ہے ورنہ تمام اعداد و شمار ہر وقت اپنے پاس رکھے جاتے اور منتظمین سوال کرنے پر دلیری سے جواب دیتے اور پھر صرف ایک سال کے ہی نہیں ، دفتر کے پاس ہر سال کا ریکارڈ ہونا چاہئے یعنی انہیں سوال کرنے پر فوری طور پر بتانا چاہئے کہ ۱۹۵۲ء میں کتنے خدام آئے.۱۹۵۱ء میں کتنے آئے.۱۹۵۰ء میں کتنے آئے - ۱۹۴۹ء میں کتنے آئے.۱۹۴۸ء میں کتنے آئے.اعداد و شمار ہی کسی قوم کا اصل ٹمپریچر ہیں.آجکل بیماریوں کی تشخیص نمبر پچر دیکھ کر کی جاتی ہے.جب ٹمپر یچر معلوم ہو جائے تو انسان کو یہ تسلی ہو جاتی ہے کہ مرض کی یہ شکل ہے.ٹمپر یچر ہی بتاتا ہے کہ مریض کو ٹائیفائڈ ہے یاملیری ہے.پھر نمپر یچر ہی بتاتا ہے کہ مرض خراب ہو رہا ہے یا مریض شفا کی طرف جارہا ہے.پھر ٹمپریچر ہی بتاتا
655 ہے کہ سوزش یا خرابی زہریلی طرف جارہی ہے یا شفا کی طرف جارہی ہے.غرض اعداد و شمار نہایت ہی اہم چیز ہیں جس کی طرف خدام الاحمدیہ نے کبھی توجہ نہیں کی اور مجھے ہر سال ہی اسے تنبیہ کرنی پڑتی ہے حالانکہ ان کے پاس ہر سال کا نہیں ایک ایک دن کا بلائحہ ہر صبح و شام کے اعداد و شمار کا ریکارڈ ہونا چاہئے کیونکہ اعداد و شمار ہی تفصیلی نمپر یچر ہیں کسی قوم یا جماعت کی صحت و تندرستی کا.اس کے بغیر کسی قوم کی مرض یا صحت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا.میں نے خدام الاحمدیہ کو پہلے بھی کئی بار اس طرف توجہ دلائی ہے اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اس اجتماع کا مقصد خالی کھیل کو د نہیں بلکہ اس کی غرض نوجوانوں کے اندروہ قربانی اور اخلاص پیدا کرنا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے فرض کو صحیح طور پر ادا کر سکیں.مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خدام الاحمدیہ نے ابھی تک اپنے فرض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض جگہوں پر نوجوانوں کی اس الگ تنظیم کی وجہ سے ان میں اعتراض کرنے کی عادت پیدا ہو گئی ہے.آج ہی ایک خادم مجھے ملنے آئے تو وہ کہنے لگے ہماری جماعت میں یہ یہ خرابی ہے - وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ایک وقت میں سلسلہ کی اعلیٰ خدمت کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ان کی روایات اعلیٰ تھیں تو انہوں نے اپنے آپ کو کیوں اس رنگ میں منظم نہ کیا کہ جماعت انہیں آگے لے آتی اور جب لوگ امیر بناتے تو انہی میں سے کسی کو بناتے.اگر جماعت کے لوگوں نے ان میں سے کسی کو امیر نہیں بنایا تو اس کے کی معنے ہیں کہ اب ان کے سلسلہ کے ساتھ پہلے کی طرح اچھے تعلقات نہیں ورنہ جماعت کے لوگوں کو ان سے کوئی دشمنی تھی کہ وہ انہیں نظر انداز کر دے.اگر مقامی جماعت نے انہیں آگے نہیں آنے دیا تو ان میں کوئی خرابی ضرور تھی.خالی شکایات کرنے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.اس کے تو یہ معنے ہیں کہ کام کرنے والوں کو بنا دیا جائے اور محموں کو آگے لایا جائے اور جماعت کو آوارہ چھوڑ دیا جائے.یہ بات قطعی طور پر غلط ہے.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے.ایک غیر ملک سے مجھے شکایت آئی کہ جماعت فلاں شخص سے کام لے رہی ہے حالانکہ وہ منافق ہے.میں نے اسے جواب میں یہی لکھا کہ آپ کے نزدیک جماعت کا کچھ حصہ تو منافق ہے اور کچھ حصہ جماعت میں شامل تو ہے لیکن کام سے غافل ہے اور جماعت کی کوئی خدمت نہیں کرنا چاہتا.آپ کے نزدیک جو لوگ غافل ہیں اور جماعت کی کوئی خدمت نہیں کرنا چاہتے وہ تو مومن ہیں اور جو خدمت کر رہے ہیں وہ منافق ہیں.اب ظاہر ہے کہ سلسلہ ان لوگوں سے کام نہیں لے سکتا جو کام نہیں کرتے.اس لئے اب سوائے اس کے اور کیا چارہ ہے کہ وہ ان لوگوں سے کام لے جو کام کرنا چاہتے ہیں.آپ لوگ تو سلسلہ سے بے غرض ہوئے.وہ آپ سے کام کیسے لے.اگر کسی نے کام کرنا ہے تو اسے انگلی بلانی پڑے گی.بغیر انگلی بلانے کے کوئی کام نہیں ہو سکتا.بہر حال ہم اس سے کام کرنے کے لئے کہیں گے جو کام کرے اللہ تعالیٰ کراچی کی جماعت کو ہر نظر بد سے بچائے.انہوں نے فسادات کے ایام میں نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا.ایسی قابلیت کا مظاہرہ کیا کہ وہ نائب مرکز بن گئے.یہی وجہ تھی کہ تیں
656 نے اعلان کیا کہ کراچی میں بھی ایک صدرانجمن احمد یہ ہو گی تا اگر جماعت کا کام کسی وقت معطل ہو جائے تو وہ کام سنبھال سکے کیونکہ مجھے امید تھی کہ جب انہوں نے بغیر ذمہ واری کے اتنا کام کیا ہے تو اگر ان پر ذمہ داری ڈال دی جائے گی تو وہ کام کو وقت پر سنبھال سکے گی.پنجاب کی جماعتوں کو میرا یہ فعل بر الگا تو انہوں نے احتجاج کیا کہ کراچی میں بھی صدر انجمن بن گئی ہے.اب تو دو عملی پیدا ہو جائیگی.میں نے انہیں یہی جواب دیا کہ یہ تو حسد ہے.جو لوگ کام کریں گے بہر حال وہی آگے لائے جائیں گے اور جو لوگ کام نہیں کریں گے وہ بہر حال گریں گے.اگر کسی خاندان نے کسی وقت کام کیا ہے تو ہمیں اس سے انکار نہیں لیکن اگر اب وہ کام نہیں کرتے تو سلسلہ انہیں کیوں آگے لائے.سلسلہ تو انہیں لوگوں کو آگے لائے گا جو ایثار اور قربانی کا اعلیٰ نمونہ دکھا ئینگے.دوسری جماعتوں اور خاندانوں کو اپناو قار رکھنا مد نظر ہے تو وہ کام کریں اور پھر کام بھی یقین اور تقویٰ سے کریں.لیکن اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ چونکہ ان کے باپ دادوں نے کام کیا تھا اس لئے انہیں عزت ملنی چاہئے تو یہ غلط ہے.ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا.جماعت نے اگر زندہ رہنا ہے تو وہ ایسے وجودوں کو الگ پھینک دے گی.یہ بے حیائی کی علامت ہے کہ جو کام نہ کرے اسے لیڈر بنالیا جائے.اگر کسی خاندان نے کسی وقت خدمت کی ہے اور اب ان کی اولاد کام کرنا نہیں چاہتی تو ان خاندانوں کو آگے آنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ ان کی اولاد اب کام کرنا نہیں چاہتی بلکہ وہ یہ چاہتی ہے کہ انہیں محض اس لئے عزت دی جائے کہ ان کے باپ دادوں نے کسی وقت کام کیا تھا.اب جو کام کریں گے بہر حال وہی آگے آئیں گے اور جو کام نہیں کریں گے وہ آگے نہیں آئیں گے.میں نے شروع میں بتا دیا تھا کہ مجلس خدام الاحمدیہ کو قائم کرنے کی غرض یہی تھی کہ نوجوان دین میں ترقی کریں اور اس قابل ہو جائیں کہ انہیں عزت دی جائے مگر گذشتہ حالات سے خدام الاحمدیہ نے کوئی زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا.تمہاری غلطیوں کی وجہ سے یا ہماری غلطیوں کی وجہ سے بعض ایسی دیوار میں قائم ہو گئی ہیں کہ اب سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی انہیں توڑ نہیں سکتا.تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ ہم تدبیر سے انہیں توڑلیں گے تو یہ غلط ہے.خدا تعالیٰ ہی انہیں توڑے تو توڑے اور اس کی یہی صورت ہے کہ تم دعائیں کرو، تہجد پڑھو اور ذکر الہی کرو.یہی ذرائع ہیں جن سے یہ دیوار میں ٹوٹ سکتی ہیں اور کامیابی ہو سکتی ہے.لیکن افسوس ہے کہ میرے پاس ایسی رپورٹیں آرہی ہیں کہ نوجوانوں میں نماز اور دعا کی اتنی عادت نہیں رہی جتنی پرانے لوگوں میں تھی اور یہ نہایت خطر ناک بات ہے.تمہارے لئے تو پرانے لوگوں سے زیادہ فتنے ہیں اس لئے پہلوں کے مقابلہ میں تمہارے سامنے زیادہ مشکلات ہیں اور ان کو دور کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا تمہارے بس اور قابو میں نہیں اس کا مقابلہ تو وہی کرے گا جو خدا تعالیٰ تک پہنچ سکے اور جب خدا تعالیٰ کسی بات میں دخل دیتا ہے تو وہ آپ ہی آپ حل ہو جاتی ہے.پس اگر تم نے موجودہ مشکلات کا مقابلہ کرنا ہے تو تمہیں اپنے اندر
657 اصلاح پیدا کرنی چاہئے.میں نے پہلے بھی جماعت کو توجہ دلائی ہے اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ تمہاری غرض نعرے اور کبڈیاں نہیں.نعرے اور کبڈیاں بالکل بے کار ہیں.یہ نعرے اور کبڈیاں تو محض ایسے ہی ہیں جیسے کوئی شخص کپڑے پہنے تو ان پر فیتے سے اپنا نام بھی لکھوالے.یہ بیکار چیزیں ہیں.تم نمازوں اور دعاؤں میں ترقی کرو اور نہ صرف خود ترقی کرو بلکہ ہر شخص اپنے ہمسایہ کو دیکھے اور اس کی نگرانی کرے تاکہ ساری جماعت اس کام میں لگ جائے.تم حسد کی عادت پیدا نہ کرو بلکہ آپس میں تعاون کی روح پیدا کرو - خدام الاحمدیہ کی تنظیم تمہاری لئے ٹرینگ کے طور پر ہے تا کہ جب تمہیں خدمت کا موقعہ ملے تو تم میں اتنی قابلیت ہو کہ تم امیر بن جاؤ یا سیکر ٹری بن جاؤ اس لئے تمہیں جماعت کے عہدہ داروں سے بجائے ٹکراؤ کے تعاون سے کام لینا چاہئے لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض جگہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم اور جماعت کی دوسری تنظیموں میں ٹکراؤ پیدا ہو گیا.پھر جو لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کا امیر اچھا نہیں خود ان کے متعلق رپورٹیں آتی رہتی ہیں کہ ان کی دینی حالت گر رہی ہے.پس تم اپنی ذکر الٹی کی عادت اور اخلاص اور نمازوں کو درست کرو.جب یہ چیزیں درست ہو جائیں گی تو خود بخود لوگ تمہیں آگے لے آئیں گے اور یہ شکوے سب ختم ہو جا ئیں گے.تم اپنے اندر نماز کی پابندی کی عادت پیدا کرو اور جھوٹ سے لکھی پر ہیز کرو.جھوٹ ایسی چیز ہے کہ اگر انسان اس کو چھوڑ دے تو اس کی دھاک بیٹھ جاتی ہے.جھوٹ کو انسان سب سے زیادہ چھپاتا ہے لیکن سب سے زیادہ وہی ظاہر ہوتا ہے.جھوٹ ایک ایسی بدی ہے کہ عام لوگ اس کو جلدی سمجھ لیتے ہیں اور اگر انہیں دوسرے کو جھوٹا کہنے کی جرات نہ ہو تو وہ کم از کم اپنے دلوں میں یہ بات ضرور لے جاتے ہیں کہ فلاں شخص جھوٹا ہے اور سچ ایک ایسی نیکی ہے کہ منہ پر کوئی شخص بچے انسان کو سچا کے نہ کہے وہ اپنے دل پر یہ اثر لے کر جاتا ہے کہ فلاں شخص سچا اور راست باز ہے - اگر خدام الاحمدیہ یہ کام کرلیں کہ ان کے اندر سچائی کا جذبہ پیدا ہو جائے تو ان کی اخلاقی برتری ثابت ہو جائے گی اور کسی شخص کو ان پر حملہ کرنے کی جرات نہیں ہوگی.ہر شخص یہی سمجھے گا کہ انہیں ذلیل کرنا بچے کو ذلیل کرنا ہے اور کوئی قوم یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ سچ کو ذلیل کیا جائے.پھر محنت کی عادت ہے.دُنیا میں تمام ترقیات محنت سے ملتی ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ احمدیوں کو رعایتاً عہدے مل جاتے ہیں.اگر تم کام میں ست ہو گئے تو سننے والوں کو اس بات کا یقین ہو جائے گا اور وہ سمجھیں گے کہ انہیں عہدے محض رعایت کی وجہ سے ملتے ہیں ورنہ ان میں کام کرنے کی قابلیت موجود نہیں لیکن اگر وہ دیکھیں کہ احمدی جان مار کر کام کرتے ہیں اور حکومت اور ملک کو اتنا فائدہ پہنچاتے ہیں جتنا فائدہ دوسرے لوگ نہیں پہنچاتے تو ہر ایک شخص کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ کہنا کہ احمدیوں کو عہدے رعا بتا دے دئیے جاتے
658 ہیں، غلط ہے.ہم اس اعتراض کا یہی جواب دیتے ہیں کہ تم وہ آدمی لاؤ جس کو بطور رعایت کوئی عہدہ ملا ہو.فرض کرو کوئی احمد کی دیانت سے کام کر رہا ہے وہ ملک اور قوم کی خیر خواہی کر رہا ہے اور اس کا طریق عمل اور اس کی مسل اور اس کے کاغذات اس بات کی شہادت پیش کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہم جلیسوں، ہم عمروں اور ہم عہدوں میں سب سے بہتر کام کرنے والا ہے اور مخالف اس کا نام لے کر کہے کہ فلاں کو عہدہ بطور رعایت ملا ہے تو اس کا ریکارڈ اس اعتراض کو دور کر دے گا لیکن اگر تمہارے کام کا ریکار ڈا چھا نہیں اور معترض تمہارا نام لے تو ہمارے لئے اس اعتراض کا جواب دینا مشکل ہو جائے گا.پس تم اپنے اندر محنت اور دیانتداری پیدا کرو تاکہ تم پر کوئی اعتراض ہی نہ کر سکے کہ تمہیں رعایتی ترقی دی گئی ہے.بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ اگر تم میں سے کسی کو یہ نظر آتا ہو کہ اسے رعایت سے ترقی دی گئی ہے تو وہ اس عہدے سے استعفی دے دے کیونکہ اس سے زیادہ شر مناک بات اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ انسان کسی اور شخص کی سفارشن سے ترقی حاصل کرے.شیخ سعدی نے کہا ہے.دعا عقوبت دوزخ برابر است رفتن بپائے مردمی ہمسایہ بہشت در خدا کی قسم ایسی جنت دوزخ کے برابر ہے جس میں انسان کسی ہمسایہ کی سفارش سے داخل ہو ا ہو.اگر کسی شخص میں اس کام کی اہلیت نہیں پائی جاتی جو اس کے سپر د کیا گیا ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس عہدہ کے لئے اس کی سفارش رعائتی طور پر کی گئی ہے اور اس کا فرض ہے کہ اگر اس کے اندر غیرت پائی جاتی ہو تو وہ استعفے دے کر الگ ہو جائے.پس تم اپنی عقل، محنت اور قربانی سے یہ بات ثابت کر دو کہ تم اپنے افسران، ہم جلیسوں اور ہم عمروں سے بہتر ہو.اگر تم اس مقام کو حاصل کر لو تو لازمی طور پر تم اس الزام سے بچ جاؤ گے کہ تمہیں کسی رعایت کی وجہ سے ترقی دی گئی ہے.میں کراچی گیا تو مجھے بتایا گیا کہ ایک احمدی کے متعلق لکھا گیا کہ اسے ملازمت سے بر طرف کر دیا جائے کیونکہ وہ ناہل ثابت ہوا ہے لیکن حکومت نے بعض انصاف کے قواعد بھی بنائے ہوئے ہیں تاکہ لوگ ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں.ان میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ جب کوئی افسر اپنے ماتحت کے متعلق اس قسم کے ریمارکس کرے تو اس کارکن کو اس محکمہ سے تبدیل کر کے کسی دوسری جگہ مقرر کیا جائے اور اگر وہاں بھی اس کا افسر اسی قسم کے ریمارکس کرے تو اسے نکال دیا جائے.چنانچہ اس احمدی کے متعلق جب افسر نے یہ سفارش کی کہ اسے نکال دیا جائے یہ نااہل ہے تو حکومت نے اسے ایک اور محکمہ میں بھیج دیا.یہ ایک مرکزی ادارہ تھا.چھ ماہ یا سال کے بعد جب یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس کے متعلق کیا کیا جائے تو اتفاقی طور پر اس کی تبدیلی کے احکام بھی جاری
659 ہو گئے.اس پر ادارے نے لکھا کہ اسکے بغیر ہمارا کام نہیں چل سکتا، اسے تبدیل نہ کیا جائے.اعلیٰ افسروں نے لکھا کہ یہ عجیب بات ہے کہ اس کا ایک افسر تو کہتا ہے کہ یہ نا اہل ہے، اسے ملازمت سے بر طرف کر دیا جائے اور دوسرا افسر کہہ رہا ہے کہ اس نے آگر ہمارا کام سنبھالا ہے.بہر حال چونکہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ شخص اہل ہے یا نا اہل اس لئے اس کی تبدیلی کے احکام رک نہیں سکتے چنانچہ اسے وہاں سے تبدیل کر دیا گیا اور کچھ عرصہ کے بعد اس تیرے افسر سے اس کے متعلق رپورٹ طلب کی گئی.اس نے لکھا کہ میں نے اپنی پاکستان کی پانچ سالہ سروس میں اس قابلیت اور ذہانت کا آدمی نہیں دیکھا.چنانچہ اعلیٰ افسروں نے پہلے افسر کے ریمارک بدلے اور کہا کہ یہ شخص ترقی دیے جانے کے قابل ہے.غرض یہ بالکل غلط ہے کہ احمدیوں کو رعایتی طور پر عہدے دئیے جاتے ہیں لیکن اگر تمہیں کسی نے اہل سمجھ کر بھرتی کر لیا ہے اور وہ بھرتی کرنے والا احمد کی ہے یا غیر احمدی اور اس پر الزام لگ رہا ہو کہ اس نے تمہاری نا جائز حمایت کی ہے تو کیا تم میں اتنی غیرت بھی نہیں کہ اس نے تم پر جو احسان کیا ہے تم اس کا بدلہ اتار واور اس کی عزت کو بچاؤ اس کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ تم ملک اور قوم کی اتنی خدمت کرو اتنی قربانی اور ابیار کرو کہ ہر ایک شخص یہی کہے کہ تم سے کوئی رعایت نہیں کی گئی بلکہ سفارش کرنے والے نے تمہاری سفارش کر کے اپنی دانائی کا ثبوت دیا ہے کیونکہ اس نے اس شخص کو چنا ہے جس کے سوا اور کوئی مستحق ہی نہیں تھا.پھر میں کہوں گا کہ اگر تم خدمت خلق کرتے ہو تو تمہیں اس کے مفید طریق اختیار کرنے چاہئیں.میں نے کراچی کی رپورٹ سنی ہے وہ نہایت معقول رپورٹ تھی.میرے نزدیک وہ رپورت تمام مجالس تک پہنچانی چاہئے تاکہ وہ اس سے سبق حاصل کریں.یہاں رپورٹوں میں عام طور پر یہ درج ہوتا ہے کہ اتنے لوگوں کو رستہ بنایا گیا حالانکہ یہ نہایت ادنی اور معمولی نیکی ہے اور ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی نے اپنی ماں کو پنکھا جھالنے پر ایک ریچھ کو مقرر کیا.اس کی ماں مار تھی.مریضہ پر ایک مکھی بیٹھ گئی.ریچھ نے ایک پتھر اٹھا کر اس مکھی پر دے مارا جس سے وہ مکھی تو شاید نہ مری لیکن اس کی ماں مرگئی.یہ کوئی خدمت نہیں جسے بڑے فخر کے ساتھ خدمت خلق کا کام قرار دیا جاتا ہے.تم وہ کام کرو جو ٹھوس اور نتیجہ خیز ہو اور اس کے لئے خدام الاحمدیہ کراچی کی رپورٹ بہترین رپورٹ ہے جو تمام مجالس میں پھیلانی چاہئے تا انہیں معلوم ہو کہ انہوں نے کس طرح خدمت خلق کا فریضہ سر انجام دیا.میں تمہیں اس کا چھوٹا سا طریق بتاتا ہوں.اگر تم میں جوش پایا جاتا ہے کہ تم ملک اور قوم کے مفید وجود بنو تو تم اس پر عمل کرو.اس وقت جو خدام حاضہ ہیں ان میں سے جو لوگ تجارت کا کام کرتے ہیں وہ کھڑے ہو جائیں ( حضور کے اس ارشاد پر چالیس خدام کھڑے ہوئے) پھر فرمایا جو خدام صنعت و حرفت کا کام کرتے ہیں.وہ کھڑے ہو جائیں ( حضور.کترے ہوئے ) اس کے بعد حضور نے فرمایا
660 وہ ذریعہ جو میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ تم ارادہ اور عزم کر لو کہ تم میں سے ہر ایک نے اس سال کسی ایک شخص کو تجارت پر لگانا ہے، چاہے وہ تمہارے رشتہ داروں میں سے ہو یا کوئی غیر ہو.اسی طرح ہر صناع یہ عہد کرے کہ اس نے اس سال کسی نہ کسی شخص کو اپنا کام سکھانا ہے- ایک سال میں وہ شخص ماہر کاریگر تو نہیں بن سکتا.اگر وہ کام میں لگ جائے گا تو اگلے سال مہارت حاصل کر لے گا.لوہار کسی ایک شخص کو لوہار کا کام سکھا دے.معمار کسی ایک شخص کو معماری کا کام سکھلا دے.ترکھان کسی ایک شخص کو تر کھانے کا کام سکھادے.وچی کسی ایک شخص کو موچی کا کام سکھا دے اسی طرح دوسرے لوگ اپنے اپنے فن ایک ایک شخص کو سکھادیں.مرکزی ادارہ کو چاہئے کہ وہ ان خدام کے نام لے.اگلے سال ان سے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے اس ہدایت پر کس حد تک عمل کیا ہے.اگر تم اس کام کو شروع کر دو تو دو چار (سال) میں تم دیکھو گے کہ اس طریق پر عمل کر کے تم مذہب ملک اور قوم کے لئے نہایت مفید ثابت ہو سکو گے.مگر یاد رکھو تم یہ سوچنے میں نہ لگ جانا کہ جس کو کام پر لگایا جائے وہ تمہارا رشتہ دار ہی ہو.چاہے وہ غیر ہی ہو تم نے بہر حال اسے کام سکھانا ہے.دوسرے یہ بھی یا رکھو کہ بعد میں کسی صلہ کی امید نہ رکھنا.احسان کرنے کے بعد اس کے صلہ کی امید رکھنا قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ تم احسان کر کے بدلہ کی امید نہ رکھو تمہارا ایسی امید کرنا تمہارے اس کام کو باطل کر دے گا.تم یہ نیت کر کے کام سکھاؤ کہ تم اس کے بدلہ کی کسی انسان سے خواہش نہیں رکھتے." فرموده ۱۲۴ اکتوبر ۱۹۵۳ء الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۶۱ء)
مسئلہ خلافت کے متعلق حضور کی انتہائی روح پرور تقریر قو میں اگر چاہیں تو ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہیں...خلافت کے قیام واستحکام کے ذریعہ ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھو خلافت راشدہ کی قلیل مدت کی وجہ اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی ایک رویاا اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کو یاد رکھو اور خلافت کے استحکام کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہو.
662 مسئلہ خلافت کے متعلق حضرت خلیفۃ اصسیح الثانی کی ایک نہایت ایمان افروز اور روح پرور تقریر افراد مر سکتے ہیں لیکن قو میں اگر چاہیں تو خلافت کے قیام واستحکام کے ذریعہ سے ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہیں سات سال سے زیادہ عرصہ گذرا کہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک رؤیاد دیکھا جس میں بتایا گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف ۳۳ سال کے بعد ہی مسلمان خلافت سے کیوں محروم ہو گئے.اس عظیم الشان انکشاف پر حضور نے مناسب سمجھا کہ نوجوانانِ جماعت احمدیہ کو توجہ دلائیں کہ انہیں ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ آئندہ وہ حالات کبھی پیدا نہ ہوں جن کی بنا پر مسلمان خلافت روحانی سے محروم ہو گئے تھے.چنانچہ ۲۵ اکتوبر ۱۹۵۳ء کو خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع پر حضور نے اس کے متعلق ایک نہایت ایمان افروز تقریر فرمائی.(مرتب) فرمایا : ” میں کل تھوڑی دیر ہی بولا تھا لیکن گھر جاتے ہی میری طبیعت خراب ہو گئی اور سارادن پینے آتے رہے.آج بھی گلے میں تکلیف ہے.کھانسی آرہی ہے بخار ہے اور جسم ٹوٹ رہا ہے جس کی وجہ سے میں شاید کل جتنا بھی نہ بول سکوں لیکن چونکہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کا یہ آخری اجلاس ہے اس لئے چند منٹ کے لئے یہاں ا گیا ہوں.چند منٹ باتیں کر کے میں چلا جاؤں گا اور اس کے بعد باقی پروگرام جاری رہیگا.انسان د نیا میں پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں کوئی انسان ایسا نہیں ہوا جو ہمیشہ زندہ درہا ہو لیکن قو میں اگر چاہیں تو وہ ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہیں کہیں امید دلانے کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ :- میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے.“ ( یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۷۱۶) اس میں حضرت مسیح علیہ السلام نے لوگوں کو اسی نکتہ کی طرف توجہ دلائی تھی کہ چونکہ ہر انسان کے لئے موت مقدر ہے اس لئے میں بھی تم سے ایک دن جدا ہو جاؤں گا لیکن اگر تم چاہو تو تم ابد تک زندہ رہ سکتے ہو.انسان اگر چاہے بھی تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا لیکن قو میں اگر چاہیں تو وہ زندہ رہ سکتی ہیں اور اگر وہ زندہ نہ رہنا چاہیں تو مر جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی فرمایا کہ :-
663 تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں اور وہ دوسری قدرت آنہیں سکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.“ الوصیة روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ نمبر 305 ) اس جگہ ہمیشہ کے یہی معنی ہیں کہ جب تک تم چاہو گے تم زندہ رہ سکو گے لیکن اگر تم سارے مل کر بھی چاہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام زندہ رہتے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتے تھے.ہاں اگر تم یہ چاہو کہ قدرت ثانیہ تم میں زندہ رہے تو وہ زندہ رہ سکتی ہے.قدرت ثانیہ کے دو مظاہر ہیں.اول تائید الہی اور دوم خلافت اگر قوم چاہے اور اپنے آپ کو مستحق بنائےتو تائید الی بھی اس کے شامل حال رہ سکتی ہے اور خلافت بھی اس میں زندہ رہ سکتی ہے.خرابیاں ہمیشہ ذہنیت کے خراب ہونے سے پیدا ہوتی ہیں.ذہنیت درست رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قوم کو چھوڑ دے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ إِنَّ الله لا يغير ما بقومٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا أَنفُسِهِم - یعنی الله تعالیٰ کبھی کسی قوم کے ساتھ اپنے سلوک میں تبدیلی نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود اپنے دلوں میں خرابی پیدا نہ کر لے.یہ چیز ایسی ہے جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس بات کو نہیں سمجھ سکتا.کوئی جاہل سے جاہل انسان بھی ایسا نہیں ہو گا جسے میں یہ بات بتاؤں اور وہ کہے کہ میں اسے نہیں سمجھ سکایا اگر ایک دفعہ سمجھانے پر نہ سمجھ سکے تو دوبارہ سمجھانے پر بھی وہ کہے کہ میں نہیں سمجھا.لیکن اتنی سادہ سی بات بھی قو میں فراموش کر دیتی ہیں.انسان کا مرنا تو ضروری ہے.اگر وہ مر جائے تو اس پر کوئی الزام نہیں آتا لیکن قوم کے لئے مرنا ضروری نہیں.قومیں اگر چاہیں تو وہ زندہ رہ سکتی ہیں لیکن وہ اپنی ہلاکت کے سامان خود پیدا کر لیتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے ذریعہ صحابہ کو ایک ایسی تعلیم دی تھی جس پر اگر ان کی آئندہ نسلیں عمل کرتیں تو ہمیشہ زندہ رہتیں لیکن قوم نے عمل چھوڑ دیا اور وہ مر گئی.دنیا یہ سوال کرتی ہے اور میرے سامنے بھی یہ سوال کئی دفعہ آیا ہے کہ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے صحابہ کو ایسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی تھی جس میں ہر قسم کی سوشل تکالیف اور مشکلات کا علاج تھا اور پھر رسول کریم ﷺ نے اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا تھا.پھر وہ تعلیم گئی کہاں اور تینتیس سال ہی میں وہ کیوں ختم ہو گئی.عیسائیوں کے پاس مسلمانوں سے کم درجہ کی خلافت تھی لیکن ان میں اب تک پوپ چلا آرہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیوں میں پوپ کے باغی بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی اکثریت ایسی ہے جو پوپ کو مانتی ہے اور انہوں نے اس نظام سے فائدے بھی اٹھائے ہیں.لیکن مسلمانوں میں تنتیس سال تک خلافت رہی اور پھر ختم ہو گئی.اسلام کا سوشل نظام تنئنتیس سال تک قائم رہا اور پھر ختم ہو گیا.نہ جمہوریت باقی رہی نہ غرباء پروری رہی نہ لوگوں کی تعلیم اور غذا اور لباس اور مکان کی ضروریات کا کوئی احساس رہا.الله
664 اب سوال پیدا ہو تا ہے کہ یہ ساری باتیں کیوں ختم ہو گئیں.اس کی یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کی ذہنیت خراب ہو گئی تھی.اگر ان کی ذہنیت درست رہتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ یہ نعمت ان کے ہاتھ سے چلی جاتی.پس تم خدا تعالی کی خوشنودی حاصل کرو اور ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھو.اگر تم ایسا کرو گے تو خلافت تم میں ہمیشہ رہے گی.خلافت تمہارے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے دی ہی اس لئے ہے تاوہ کہہ سکے کہ میں نے اسے تمہارے ہاتھ میں دیا تھا اگر تم چاہتے تو یہ چیز ہمیشہ تم میں قائم رہتی.اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اسے الہامی طور پر قائم کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے یہ کہا کہ اگر تم لوگ خلافت کو قائم رکھنا چاہو گے تو میں بھی اسے قائم رکھوں گا.گویا اس نے تمہارے منہ سے کہلوانا ہے کہ تم خلافت چاہتے ہو یا نہیں چاہتے.اگر تم اپنا منہ بند کر لو یا خلافت کے انتخاب میں اہلیت مد نظر نہ رکھو مثلا تم ایسے شخص کو خلافت کے لئے منتخب کر لو جو خلافت کے قابل نہیں.تو تم یقینا اس نعمت کو کھو بیٹھو گے.مجھے اس طرف زیادہ تحریک اس وجہ سے ہوئی کہ آج رات دو بجے کے قریب میں نے ایک رویا میں دیکھا کہ پنسل کے لکھے ہوئے کچھ نوٹ ہیں جو کسی مصنف یا مورخ کے ہیں اور انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں.پنسل بھی Copying یا Blue رنگ کی ہے.نوٹ صاف طور پر نہیں پڑھے جاتے اور جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نوٹوں میں یہ بحث کی گئی ہے کہ رسول کریم عملے کے بعد مسلمان اتنی جلدی کیوں خراب ہو گئے باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے عظیم الشان احسانات ان پر تھے.اعلیٰ تمدن اور بہترین اقتصادی تعلیم انہیں دی گئی تھی اور رسول کریم علے نے ان پر عمل کر کے بھی دکھا دیا تھا.پھر بھی وہ گر گئے اور ان کی حالت خراب ہو گئی.یہ نوٹ انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جو انگریزی لکھی ہوئی تھی وہ بائیں طرف سے دائیں طرف کو نہیں لکھی ہوئی تھی بلکہ دائیں طرف سے سے بائیں طرف کو لکھی ہوئی تھی لیکن پھر بھی میں اسے پڑھ رہا تھا.گو وہ خراب کی لکھی ہوئی تھی اور الفاظ واضح نہیں تھے بہر حال کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا تھا.اس میں سے ایک فقرہ کے الفاظ قریبا یہ تھے کہ There were two reasons for it Their temperment becoming (1) morbid and (2) Anarchicai.یہ فقرہ بتا رہا ہے کہ مسلمانوں پر کیوں تباہی آئی.اس فقرہ کے یہ معنی ہیں کہ وہ خرابی جو مسلمانوں میں پیدا ہوئی، اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی طبائع میں دو قسم کی خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں.ایک یہ کہ وہ ما ریڈ ( Morbid) ہو گئے تھے.یعنی ان نیچرل (Unnatural) اور ناخوشگوار ہو گئے تھے اور دوسرے ان کی ٹنڈ نسیز (Tendancies) انار کل (Anarchical) ہو گئی تھیں.میں نے سوچا کہ واقعہ میں یہ دونوں باتیں صحیح ہیں.
665 سلطنت مسلمانوں نے یہ تباہی خود اپنے ہاتھوں مول لی تھی.ماربڈ (Morbid) کے لحاظ سے یہ تباہی اس لئے واقع ہوئی کہ جو ترقیات انہیں ملیں وہ اسلام کی خاطر ملی تھیں، رسول کریم ﷺ کی بدولت ملی تھیں، ان کی ذاتی کمائی نہیں تھی.الله رسول کریم ہے کہ میں پیدا ہوئے اور مکہ والوں کی ایسی حالت تھی کہ لوگوں میں انہیں کوئی عزت حاصل نہیں تھی.لوگ صرف مجاور سمجھ کر ادب کیا کرتے تھے اور جب وہ غیر قوموں میں جاتے تھے تو وہ بھی ان کی مجاور یا زیادہ سے زیادہ تاجر سمجھ کر عزت کرتی تھیں.وہ انہیں کوئی حکومت قرار نہیں دیتی تھیں اور پھر ان کی حیثیت اتنی کم سمجھی جاتی تھی کہ دوسری حکومتیں ان سے جبرا ٹیکس وصول کرنا جائز سمجھتی تھیں جیسے یمن کے بادشاہ نے مکہ پر حملہ کیا جس کا قرآن کریم نے اصحاب الفیل کے نام سے ذکر کیا ہے.رسول کریم عمل پیدا ہوئے تو تیرہ سال تک آپ مکہ میں رہے.اس عرصہ میں چند سو آدمی آپ پر ایمان لائے.تیرہ سال کے بعد آپ نے ہجرت کی اور ہجرت کے آٹھویں سال سارا عرب ایک نظام کے ماتحت آگیا اور اس کے بعد اسے ایک ایسی طاقت اور قوت حاصل ہو گئی کہ اس سے بڑی بڑی حکومتیں ڈرنے لگیں.اس وقت دنیا حکومت کے لحاظ سے دو بڑے حصوں میں منقسم تھی.اوّل رومی دوم ایرانی سلطنت - رومی سلطنت کے ماتحت مشرقی یورپ ترکی اسے سینیا یونان ، مصر ، شام اور اناطولیہ تھا اور ایرانی سلطنت کے ماتحت عراق، ایران رشین ٹری ٹوری کے بہت سے علاقے افغانستان ، ہندوستان کے بعض علاقے اور چین کے بعض علاقے تھے.اس وقت کہیں دو بڑی حکومتیں تھیں.ان کے سامنے عرب کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی لیکن ہجرت کے آٹھویں سال بعد سارا عرب رسول کریم علیہ کے تابع ہو گیا.اس کے بعد جب سرحدوں پر عیسائی قبائل نے شرارت کی تو پہلے آپ خود وہاں تشریف لے گئے.اس کی وجہ سے کچھ دیر کے لئے فتنہ ٹل گیا لیکن تھوڑے عرصہ بعد قبائل نے پھر شرارت شروع کی تو آپ نے ان کی سرکوبی کے لئے لشکر بھجوایا.اس لشکر نے بہت سے قبائل کو سرزنش کی اور بہتوں کو معاہدہ سے تابع کیا.پھر آپ کی وفات کے بعد اڑھائی سال کے عرصہ میں سارا عرب اسلامی حکومت کے ماتحت آگیا بلکہ یہ حکومت عرب سے نکل کر دوسرے علاقوں میں بھی پھیلنی شروع ہوئی.فتح مکہ کے پانچ سال کے بعد ایرانی حکومت پر حملہ ہو گیا تھا اور اس کے بعض علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا گیا تھا اور چند سالوں میں رومی سلطنت اور دوسری سب حکومتیں تباہ ہو گئی تھیں.اتنی بڑی فتح اور اتنے عظیم الشان تغیر کی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ماتی.تاریخ میں صرف نپولین کی ایک مثال ملتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں کوئی ایسی طاقت نہیں تھی جو تعداد اور قوت میں اس سے زیادہ ہو.جرمنی کا ملک تھا مگر وہ اس وقت چودہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا اس طرح اس کی تمام طاقت منتشر تھی.ایک مشہور امریکن پریذیڈنٹ سے کسی نے پوچھا کہ جرمنی کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے تو اس نے کہا ایک شیر ہے دو تین لومز ہیں اور کچھ چوہے ہیں.شیر سے مراد رشیا تھا.لومز سے مراد دوسری حکومتیں اور چوہوں سے مراد جرمن تھے.گویا جر منی اس وقت ٹکڑے
666 ٹکڑے تھا.روس ایک بڑی طاقت تھی مگر وہ روس کے ساتھ ٹکر لیا اور وہاں سے ناکام واپس لوٹا.اس طرح انگلستان کو بھی فتح نہ کر سکا اور انجام اس کا یہ ہوا کہ وہ قید ہو گیا.پھر دوسرا بڑا شخص ہٹلر آیا.بلکہ دوبڑے آدمی دو ملکوں میں ہوئے.ہٹلر اور مسولینی.دونوں نے بیشک ترقیات حاصل کیں لیکن دونوں کا انجام شکست ہوا.مسلمانوں میں جس نے یکدم بڑی حکومت حاصل کی وہ تیمور تھا.اس کی بھی یہی حالت تھی.وہ بے شک دنیا کے کناروں تک گیا لیکن وہ اپنے اس مقصد کو کہ ساری دنیا کو فتح کرلے، پورا نہ کر سکا.مثلا وہ چین کو تابع کرنا چاہتا تھا لیکن تابع نہ کر سکا اور جب وہ مرنے لگا تو اس نے کہا میرے سامنے انسانوں کی ہڈیوں کے ڈھیر ہیں جو مجھے ملامت کر رہے ہیں.پس صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی آدم سے لے کر اب تک ایسے گذرے ہیں جنہوں نے فرد واحد سے ترقی کی.تھوڑے سے عرصہ میں ہی سارے عرب کو تابع فرمان کر لیا اور آپ کے وفات کے بعد آپ کے ایک خلیفہ نے ایک بہت بڑی حکومت کو توڑ دیا اور باقی علاقے آپ کے دوسرے خلیفہ نے فتح کر لئے.یہ تغیر جو واقع ہوا خدائی تھا کسی انسان کا کام نہیں تھا.رسول کریم کے فوت ہوئے تو آپ کے بعد حضرت ابو بحر خلیفہ ہوئے.رسول کریم ﷺ کی وفات کی خبر مکہ میں پہنچی تو ایک مجلس میں حضرت ابو بحر کے وائد ابو قحافہ بھی بیٹھے تھے.جب پیغامبر نے کہا کہ رسول کریم علے فوت ہو گئے ہیں تو سب لوگوں پر غم کی کیفیت طاری ہو گئی اور سب نے یہی سمجھا کہ اب ملکی حالات کے ماتحت اسلام پراگندہ ہو جائے گا چنانچہ انہوں نے کہا کہ اب کیا ہو گا.پیغامبر نے کہا آپ کی وفات کے بعد حکومت قائم ہو گئی ہے اور ایک شخص کو خلیفہ بنالیا گیا ہے.انہوں نے دریافت کیا کہ کون خلیفہ مقرر ہوا ہے.پیغامبر نے کہا.ابو بحر - ابو قحافہ نے حیران ہو کر پوچھا کون ابو بحر ؟ کیونکہ وہ اپنے خاندان کی حیثیت کو سمجھتے تھے اور اس حیثیت کے لحاظ سے وہ خیال بھی نہیں کر سکتے کہ ان کے بیٹے کو سار اعرب بادشاہ تسلیم کر لے گا.پیغا مبر نے کہا ابو بحر جو فلاں قبیلہ سے ہے.ابو قحافہ نے کہا وہ کس خاندان سے ہے.پیغا مبر نے کہا فلاں خاندان سے.اس پر ابو قحافہ نے دوبارہ دریافت کیا وہ کس کا بیٹا ہے.پیغامبر نے کہا ابو قحافہ کا بیٹا.اس پر ابو قحافہ نے دوبارہ کلمہ پڑھا اور کہا آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے.ابو قحافہ پہلے صرف نام کے طور پر مسلمان تھے لیکن اس واقعہ کے بعد انہوں نے سچے دل سے سمجھ لیا کہ رسول کریم ﷺ اپنے دعوئی میں راست باز تھے کیونکہ حضرت ابو بحر کی خاندانی حیثیت ایسی نہیں تھی کہ سارے عرب آپ کو مان لیتے.یہ الہی دین تھی مگر بعد میں مسلمانوں کی ذہنیت ایسی بگڑی کہ انہوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ فتوحات ہم نے اپنی طاقت سے حاصل کی ہیں.کسی نے کہنا شروع کیا کہ عرب کی اصل طاقت بنو امیہ ہیں اس لئے خلافت کا حق ان کا ہے.کسی نے کہا بنو ہاشم عرب کی اصل طاقت ہیں.کسی نے کہا بنو مطلب عرب کی اصل طاقت ہیں.کسی نے کہا خلافت کے زیادہ حقدار انصار ہیں جنہوں نے محمد رسول اللہ علیہ کو اپنے گھروں میں جگہ دی.گویا
667 تھوڑے ہی سالوں میں مسلمان ماربڈ (Morbid) ہو گئے اور ان کے دماغ بگڑ گئے.ان میں سے ہر قبیلہ نے یہ کوشش کی کہ وہ خلافت کو بزور حاصل کر لے.نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت ختم ہو گئی.پھر مسلمانوں کے بگڑنے کا دوسر ا سبب انار کی تھی.اسلام نے سب میں مساوات کی روح پیدا کی تھی.لیکن مسلمانوں نے یہ نہ سمجھا کہ مساوات پیدا کرنے کے معنے یہ ہیں کہ ایک آرگنائزیشن ہو.اس کے بغیر مساوات قائم نہیں ہو سکتی.اسلام آیا ہی اس لئے تھا کہ وہ ایک آرگنا ئزیشن اور ڈسپلن قائم کرے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی تھی کہ یہ ڈسپلن ظالمانہ نہ ہو اور افراد اپنے نفسوں کو دبا کر رکھیں تاکہ قوم جیتے لیکن چند ہی سال میں مسلمانوں میں یہ سوال پیدا ہو نا شروع ہو گیا کہ خزانے ہمارے ہیں اور اگر حکام نے ان کے راستہ میں کوئی روک ڈالی تو انہوں نے انہیں قتل کرنا شروع کر دیا.یہ وہ روح تھی جس نے مسلمانوں کو خراب کیا.انہیں یہ سمجھنا چاہئے تھ کہ یہ حکومت الہیہ ہے اور اسے خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے اس لئے اسے خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے.اللہ تعالیٰ سورہ نور میں فرماتا ہے کہ خلیفے ہم بنا ئینگے لیکن مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ خلیفے ہم نے بنائے ہیں.اور جب انہوں نے یہ سمجھا کہ خلیفے ہم نے بنائے ہیں تو خدا تعالیٰ نے کہا.اچھا اگر خلیفے تم نے بنائے ہیں تو اب تم ہی بناؤ.چنانچہ ایک وقت تک تو وہ پہلوں کا مارا ہوا شکار یعنی حضرت ابو بکر حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی کا مارا ہوا شکار کھاتے رہے لیکن مرا ہوا شکار ہمیشہ قائم نہیں رہتا.زندہ بحرا زندہ بحری، زندہ مرغا اور زندہ مرغیاں تو ہمیشہ ہمیں گوشت اور انڈے کھلا ئینگی لیکن ذبح کی ہوئی بحری یا مرغی زیادہ دیر تک نہیں جاسکتی، کچھ وقت کے بعد وہ خراب ہو جائے گی.حضرت ابو بکر، عمر، عثمان اور علی کے زمانہ میں مسلمان تازہ گوشت کھاتے تھے لیکن بیوقوفی سے انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ چیز ہماری ہے.اس طرح انہوں نے اپنی زندگی کی روح کو ختم کر دیا اور مرغیاں اور بحریاں مردہ ہو گئیں.آخر تم ایک ذبح کی ہوئی بحری کو کتنے دن کھالو گے.ایک بحری میں دس بارہ سیر یا پچیس تمہیں سیر گوشت ہو گا اور آخر وہ ختم ہو جائے گا.پس وہ بحریاں مردہ ہو گئیں اور مسلمانوں نے کھاپی کر انہیں ختم کر دیا.پھر وہی حال ہوا کہ ”ہتھ پرانے کھونٹڑے بستے ہوری آئے.وہ ہر جگہ ذلیل ہونے شروع ہوئے.انہیں مارمیں پڑیں اور خدا تعالٰی کا غضب ان پر نازل ہوا.عیسائیوں نے تو اپنی مردہ خلافت کو آج تک سنبھالا ہوا ہے لیکن ان بد بختوں نے زندہ خلافت کو اپنے ہاتھوں گاڑ دیا اور یہ محض عارضی خواہشات دنیوی ترقیات کی تمنا اور وقتی جو شوں کا نتیجہ تھا.خدا تعالیٰ نے جو وعدے پہلے مسلمانوں سے کئے تھے وہ وعدے اب بھی ہیں اس نے جب وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَتَهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النور آیت نمبر 56 ) فرمایا تو الذین امنوا وعملوا الصلحت فرمایا.حضرت ابو بحر سے نہیں فرمایا.حضرت عمرؓ سے -
668 نہیں فرمایا.حضرت عثمان سے نہیں فرمایا.حضرت علی سے نہیں فرمایا.پھر اس کا کہیں ذکر نہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ صرف پہلے مسلمانوں سے کیا تھا یا پہلی صدی کے مسلمانوں سے کیا تھا یا دوسری صدی کے مسلمانوں سے کیا تھا بلکہ یہ وعدہ سارے مسلمانوں سے ہے چاہے وہ آج سے پہلے ہوئے ہوں یا دو سویا چار سو سال کے بعد آئیں وہ جب بھی آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحت کے مصداق ہو جائیں گے وہ اپنی نفسانی خواہشات کو مار دیں گے.وہ اسلام کی ترقی کو اپنا اصل مقصد بنالیں گے - شخصیات‘ جماعتوں پارٹیوں، جتھوں، شہروں اور ملکوں کو بھول جائیں گے تو ان کے لئے خدا تعالٰی کا یہ وعدہ قائم رہے گا کہ ليست خَلَفَتهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم به وعده الله تعال نے تمام لوگوں سے چاہے وہ عرب کے ہوں عراق کے ہوں، شام کے ہوں‘ مصر کے ہوں، یورپ کے ہوں، ایشیاء کے ہوں امریکہ کے ہوں، جزائر کے ہوں، افریقہ کے ہوں کیا ہے کہ لَيَسْتَخْلُفْتُهُمْ فِي الْأَرْضِ - وہ انہیں اس دنیا میں اپنا نائب اور قائم مقام مقرر کرے گا.اب اس دنیا میں شام، عرب اور نائیجیریا کینیا ، ہندوستان چین اور انڈو نیشیا ہی شامل نہیں بلکہ اور ممالک بھی ہیں.پس اس سے مراد دنیا کے سب ممالک ہیں گویاوہ موعود خلافت ساری دنیا کے لئے فرماتا ہے.وہ تمہیں ساری دنیا میں خلیفہ مقرر کرے گا- كما استخلف الذين من قبلهم اسی طرح جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ مقرر کیا.اس آیت میں پہلے لوگوں کی مشابہت ارض میں نہیں بلکہ استخلاف میں ہے.گویا فرمایا ہم انہیں اسی طرح خلیفہ مقرر کریں گے جس طرح ہم نے پہلوں کو مخلیفہ مقرر کیا اور پھر اس قسم کے خلیفے مقرر کریں گے جن کا اثر تمام دنیا پر ہو گا.پس اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کو یاد رکھو اور خلافت کے استحکام اور قیام کے لئے ہمیشہ کو شش کرتے رہو.تم نوجوان ہو.تمہارے حوصلے بلند ہونے چاہئیں اور تمہاری عقلیں تیز ہونی چاہئیں تاکہ تم اس کشتی کو ڈونے اور فرق نہ ہونے دو.تم وہ چٹان نہ بنو جو دریا کے رُخ کو پھیر دیتی ہے بلکہ تمہارا یہ کام ہے کہ تم وہ چینل (Channel):ن جاؤ جو پانی کو آسانی سے گزارتی ہے.تم ایک منل (Tunnel) ہو جس کا یہ کام ہے کہ وہ فیضان الہی جو رسول کریم مے کے ذریعہ حاصل ہوا ہے تم اسے آگے چلاتے چلے جاؤ.اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے تو تم ایک ایسی قوم بن جاؤ گے جو کبھی نہیں مرے گی اور اگر تم اس فیضان اٹھی سے رستہ میں روک بن گئے آں کے رستے میں پتھر بن کر کھڑے ہو گئے اور تم نے اپنی ذاتی خواہشات کے ماتحت اسے اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور قریبیوں کے لئے مخصوص کرنا چاہا تو یاد رکھو وہ تمہاری قوم کی تباہی کا وقت ہو گا.پھر تمہاری عمر کبھی لمبی نہیں ہو گی اور تم اس طرح مر جاؤ گے جس طرح پہلی قومیں مریں لیکن قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ قوم کی ترقی کا رستہ بند نہیں.انسان
669 بے شک دنیا میں ہمیشہ زندہ نہیں رہتا لیکن قو میں زندہ رہ سکتی ہیں.پس جو آگے بڑھے گاوہ انجام لے جائے گا اور جو آگے نہیں بڑھتا وہ اپنی موت آپ مرتا ہے اور جو شخص خود کشی کرتا ہے اسے کوئی دوسر ایچا نہیں سکتا.“ (فرموده ۲۵ اکتوبر ۱۹۵۳ء ، مطبوعه الفضل خلافت نمبر مئی ۱۹۶۱ء)
Oi اپنے اندر یک جہتی پیدا کرو ان صف بندی کی اہمیت اور حقیقت قوموں کے زوال کی نفسیات صحبت صادقین کی افادیت اور اہمیت خیالات کی لہروں کا خاموش اثر خدمت خلق کے کام کی اہمیت تم زیادہ سے زیادہ خدمت خلق کرو اور ایک پروگرام کے ماتحت کرو.ایک شخص کو تمہاری خدمت محسوس ہو ہر مشکل میں ہم مسلمانوں کا ساتھ دیتے رہے ہم ملک اور قوم کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں
ہم مجھ کو دے دے دے دے ایمان مجھ کو دے دے عرفان مجھ کو دے دے قربان جاؤں تیرے قرآن مجھ کو دے دے دل پاک کردے میرا دنیا کی چاہتوں سبوحیت سے حصہ سبحان مجھ کو دل جل رہا ہے میرا فرقت سے تیری ہر دم جام وصال اپنا اے جان مجھ کو دے دے کردے جو حق و باطل میں امتیاز کامل اے میرے پیارے ایسا فرقان مجھ کو دے دے کو تیری رفاقت حاصل رہے ہمیشہ ایسا نہ ہو کہ دھوکہ شیطان مجھ کو دے دے دل مجھے عطا کر جو ہو نارِ جاناں جو ہو فدائے دلبر وہ جان مجھ کو دے دے دنیائے کفر و بدعت کو اس میں غرق کردُوں طوفانِ نوح سا اک طوفان مجھ کو دے دے پر پڑیں فرشتوں کی رشک سے نگاہیں اے میرے محسن ایسے انسان مجھ کو دے دے ڈھل جائیں دل بدی سے سینے ہوں نور سے پر امراض رُوح کا وہ درمان مجھ کو دے دے دقبال کی بڑائی کو خاک میں ملادوں قوت مجھے عطا کر سلطان مجھ کو دے دے ہو جا ئیں جس سے ڈھیلی سب فلسفہ کی پولیس وہ جن میرے حکیم ایسا بُرہان مجھ کو دے دے ***
672 اپنے اندر یک جہتی پیدا کرو اور خدمت خلق پر زیادہ سے زیادہ زور دو! غالیا پچھلے سال یا پچھلے سے پچھلے سال میں نے خدام کو یہ نصیحت کی تھی کہ یک جہتی اور یک رنگی بھی طبائع پر نیک اثر ڈالتی ہے اور اس کی اہمیت کو اسلام نے اتنا نمایاں کیا ہے کہ نماز جو ایک عبادت ہے اس میں بھی یک رنگی اور نیک جہتی کا حکم دیا ہے.سب کے سب نمازی ایک طرف منہ کر کے کھڑے ہوتے ہیں.سیدھی صفوں کا حکم ہو تا ہے اور تمام کے تمام نمازیوں کو ایک خاص شکل پر کھڑے ہونے کا ارشاد ہوتا ہے.میں نے توجہ دلائی تھی کہ خدام جو کھڑے ہوتے ہیں تو مختلف شکلوں میں کھڑے ہوتے ہیں اور میں نے کارکنوں سے کہا تھا کہ وہ اس کی اصلاح کر ہیں.اُس وقت تو تقریر کے بعد ایک دو دن تو اصلاح نظر آئی.مگر پھر وہ اصلاح نظر نہیں آئی.چنانچہ اب میں دیکھتا ہوں کہ سارے کے سارے اس رنگ میں رنگے ہوئے ہیں کہ کچھ تو تم میں سے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں کچھ تم میں سے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں.کچھ تم میں سے ہاتھ کھلے چھوڑ کر کھڑے ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ تم نے کوئی ایک طریقہ اپنے لئے پسند نہیں کیا اور تمہارے افسروں اور کارکنوں نے تمہیں یک رنگ اختیار کرنے کی ہدایت نہیں دی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ باتیں معمولی ہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان باتوں کا قلوب پر اثر پڑتا ہے مثلا صف میں کسی کا پیراگر ذرا آگے ہو جائے یا پیچھے ہو جائے تو یہ ایک معمولی بات ہے اور جہاں تک عبادت کا تعلق ہے اس سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جس قوم کی صفیں ٹیڑھی ہو گئیں اس کے دل بھی ٹیڑھے کر دیئے جاتے ہیں.تو دیکھو ایک چھوٹی سی بات کا کتنا عظیم الشان نتیجہ پیدا ہو سکتا ہے.پھر دیکھنے والوں پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے چنانچہ ہم نوجوں کو دیکھتے ہیں تو سب فوجی ایک ہی شکل میں نظر آتے ہیں.یورپ میں فوجوں کو مار چنگ کے وقت خاص طور پر ہدایت ہوتی ہے کہ سارے فوجی ایک طرح سے چلیں، پیروں کے متعلق ہدایت ہوتی ہے کہ اس طرح پیر مارنا ہے.سینہ کے متعلق ہدایت ہوتی ہے کہ اتنا سینہ تاننا ہے.گردن کے متعلق ہدایت ہوتی ہے کہ اس طرح گردن رکھتی ہے اور اس کا دیکھنے والوں پر گہرا اثر پڑتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ایک مسلمان آیا تو اس نے اپنی گردن جھکائی ہوئی تھی.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ مارا اور فرمایا کہ اسلام اپنے جوبن پر ہے پھر تو اس طرح اپنی مردہ شکل کیوں بنائے ہوئے ہے.تو حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ظاہری شکل اس کے باطن پر دلالت کرتی ہے اور اس کی باطنی حالت کا اس کے ہمسایہ پر اثر پڑتا ہے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں مَنْ قَالَ هَلَكَ الْقَوْمُ فَهُوَ اهْلَكُهُم جس شخص نے یہ کہا کہ قوم ہلاک
673 ہو گئی وہی ہے جس نے قوم کو ہلاک کیا کیونکہ اس کی بات کا ہمسایہ پر اثر پڑتا ہے.جب ایک شخص کہتا ہے کہ سارے بے ایمان ہو گئے.سارے بد دیانت ہو گئے تو بیسیوں آدمی ایسے ہوتے ہیں جو صرف اس کی بات پر اعتبار کر لیتے ہیں.حقیقت نہیں دیکھتے وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں نے کہا ہے کہ سب بے ایمان ہو گئے ہیں یا فلال نے کہا ہے کہ سب بد دیانت ہو گئے ہیں اور چونکہ فلاں نے یہ بات کہہ دی ہے اس لئے اب کے ماننے میں کیا روک ہے.ان کی مثال بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے مشہور ہے کہ ایک شخص اپنے گھر سے بہت دیر غائب رہا.اس کی بیوی بچے اسے خط لکھتے کہ آؤ ہمیں مل جاؤ مگر وہ نہ آتا.وہ سمجھتا تھا کہ اگر میں گیا تو میری تنخواہ کٹ جائیگی.وہ تھا بیوقوف.آخر جب لمبا عرصہ گذر گیا تو لوگوں نے اس کی بیوی بچوں کو سمجھایا کہ یہ طریق درست نہیں ہم اسے بلواتے ہیں چنانچہ پنجوں نے اسے خط لکھا کہ تمہاری بیوی بیوہ ہو گئی ہے اور تمہارے بچے یتیم ہو گئے ہیں اس لئے تم جلدی گھر پہنچو.وہ عدالت کا چپڑاسی تھا.خط ملتے ہی عدالت میں روتا ہوا گیا اور کہنے لگا.حضور مجھے چھٹی دیں.انہوں نے کہا کیا ہوا ؟ کہنے لگا.خط آیا ہے کہ میری بیوی بیوہ ہو گئی ہے اور بچے یتیم ہو گئے.وہ کہنے لگے.احمق تو تو زندہ موجود ہے پھر تیری بیوی کس طرح بیوہ ہو گئی اور تیرے بچے کس طرح یتیم ہو گئے.وہ خط نکال کر کہنے لگا کہ آپ کی بات تو ٹھیک ہے لیکن دیکھئے پانچ پنچوں کے اس پر دستخط ہیں.پھر یہ بات جھوٹی کس طرح ہو گئی.قوموں کے زوال کی نفسیات.تو ایسے لوگ بھی دنیا میں ہوتے ہیں اور در حقیقت یہی قوم کو تباہ کرنے کا موجب ہوتے ہیں.کہتے ہیں دس نے یہ کہا اور یہ نہیں دیکھتے کہ حقیقت کیا ہے ؟ اگر دس نے کہا کہ قوم بے ایمان ہو گئی ہے.اگر دس نے کہا کہ قوم اپنی ذہانت کھو بیٹھی ہے تو وہ اس پر فورا یقین کرلیں گے اور کہنا شروع کر دیں گے کہ واقعہ میں قوم بے ایمان ہو گئی ہے.ان کی آنکھوں کے سامنے چیز موجود ہو گی مگر وہ اسے دیکھیں گے نہیں.تو جب ایک شخص کی حالت بگڑتی ہے، اس کے ہمسایہ کی بھی بگڑ جاتی ہے.اوّل تو جس کے دل کی حالت بگڑتی ہے اس کی زبان پر کچھ نہ کچھ آجاتا ہے اور سنے والوں میں سے کمزور لوگ اس کی باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنایا ہے کہ انسان کے قلب سے ایسی شعاعیں نکلتی ہیں کہ جو ارد گرد بیٹھنے والوں پر اثر کرتی ہیں اسی لئے قرآن کریم کہتا ہے کہ کو نوامع الصادقین - تم صادق اور راستباز لوگوں کی صحبت میں رہا کرو اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے نماز با جماعت مقرر کی ہے تا دلی اثرات ایک دوسرے پر پڑیں.یوں تو نیک کے بھی اثرات ہوتے ہیں اور بد کے بھی اثرات ہوتے ہیں مگر جب قوم میں نیکی ہوتی ہے تو نیک اثرات کا غلبہ ہوتا ہے اور جب قوم میں بدی ہوتی ہے تو بد اثرات کا غلبہ ہوتا ہے.گوبدی میں چونکہ امتا جوش نہیں ہو تا جتنا نیکی میں ہو تا ہے.جو زمانہ انبیاء ومامورین میں ہوتی ہے اس لئے جتناوہ نیکی اپنے اثر کو پھیلاتی ہے بدی اپنا اثر نہیں پھیلا سکتی لیکن پھر بھی اس کا
674 اثر ضرور ہوتا ہے.خیالات کی لہروں کا خاموش اثر حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ میں ایک دفعہ جموں سے قادیان آرہا تھا کہ ایک سکھ لڑکا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بہت اخلاص اور محبت رکھتا تھا، لاہور میں مجھے ملا اور اس نے مجھے کہا آپ قادیان چلے ہیں.حضرت مرزا صاحب کو میرا یہ پیغام پہنچادیں کہ میں نے جب آپ سے ملنا شروع کیا تھا میرے اندر خدا تعالیٰ کی محبت ذکر الہی کی عادت اور دعاؤں کی طرف رغبت پیدا ہو گئی تھی مگر اب کچھ عرصہ سے آپ ہی آپ دہریت کے خیالات میرے اندر پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.میں نے بہتیر ا زور لگایا ہے کہ وہ خیالات نکلیں مگر وہ نکلتے نہیں.ان کے ازالہ کے لئے مجھے کوئی تدبیر بتائیں تاکہ میں ان خیالات کی خرابیوں سے بچ سکوں.آپ فرماتے تھے کہ میں نے قادیان پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر کیا کہ مجھے اس طرح فلاں لڑکا ملا تھا.آپ نے فرمایا ہاں وہ ہم سے تعلق رکھتا ہے.پھر آپ نے کہا اس نے مجھے کہا تھا کہ حضور کو میری طرف سے یہ پیغام پہنچا دیں کہ کچھ عرصہ سے میرے دل میں دہریت کے خیالات پیدا ہو رہے ہیں.معلوم نہیں اس کی کیا وجہ ہے آپ نے فرمایا جب اس کے اندر عقلی طور پر شبہات نہیں پیدا ہوئے تو یہ شبہات کسی اور کے اثر کا نتیجہ ہیں چنانچہ آپ نے فرمایا میری طرف سے اسے پیغام دے دیں کہ کالج میں جن لڑکوں کے در میان تمہاری سینیٹ ہے، معلوم ہوتا ہے وہ دہر یہ خیالات کے ہیں اور ان کا اثر تم پر پڑ رہا ہے اس لئے تم اپنی سیٹ بدل لو.چنانچہ آپ نے اسے یہ پیغام پہنچا دیا.کچھ عرصہ کے بعد حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل دوسری دفعہ جموں سے قادیان تشریف لا رہے تھے کہ پھر وہی لڑکا آپ کو ملا.آپ نے فرمایا.سناؤ اب کیا حال ہے.اس نے کہا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے.اب میرے خیالات درست ہیں.میں نے پیغام پہنچتے ہی سیٹ بدلوالی اور اسی دن سے میرے خیالات بھی درست ہو گئے.تو یہ ایک مجرب حقیقت ہے جس کا انکار کوئی جاہل ہی کرے تو کرے ورنہ اور کوئی نہیں کر سکتا.اس تجربہ کی صداقت میں مسمریزم کا علم جاری ہوا جس کی تائید میں ہپنا نزم نکلا.اسکے ساتھ وضو کا مسئلہ تعلق رکھتا ہے.ظاہری حرکات و سکنات کا قلوب پر اثر پڑتا ہے.غرض یہ سارے علوم اس امر کے گرد چکر لگارہے ہیں کہ انسان کے دل سے ایسی شعاعیں نکلتی ہیں جو دوسرے کے دل پر اثر انداز ہوتی ہیں.پس اگر کھڑے ہونے میں تم احتیاط نہیں کرو گے اور یک جہتی اور اتحاد سے کام نہیں لو گے تو لازماً اس کا تمہارے قلوب پر اثر پڑے گا.پس چاہنے کہ جن کو میں نے ماتحت عہدیدار مقرر کیا ہوا ہے، وہ اس طرف توجہ
675 کریں.آخر میں تو انا کام نہیں کر سکتا.میں اگر صدر بنا ہوں تو اس لئے کہ تم میں یہ جوش اور امنگ قائم رہے کہ تمہارا خلیفہ صدر ہے ورنہ کام سارا ماتحتوں نے کرنا ہے اور انہیں کو کرنا چاہئے.میں یہ نہیں کہتا کہ جو سہارے کا حق دار ہے وہ سہارا نہ لے.اگر کوئی کمزور یا بیمار ہو تو وہ لاٹھی کا سہارا لے سکتا ہے بلکہ اگر زیادہ تکلیف ہو تو وہ بیٹھ بھی سکتا ہے.جو طاقتور ہیں وہ سارے کے سارے ایک شکل میں کھڑے ہوں.اگر یہ مقرر ہو کہ ہاتھ کھول دیں تو سب ہاتھ کھول دیں اور اگر یہ مقرر ہو کہ ہاتھ باندھ لیں تو سب کا فرض ہے کہ ہاتھ باندھ لیں.اگر کوئی بیمار یا کمزور ہے تو بے شک بیٹھ جائے.اگر نماز بیٹھ کر پڑھنی جائز ہے اور اس سے صف میں کوئی خلل نہیں آسکتا تو خدام کے اجتماع میں بھی اس سے کوئی نقص واقع نہیں ہو سکتا.صرف اس بجھتی سے یہ پتہ لگ جائے گا کہ خدام میں کوئی نظام موجود ہے.اب موجودہ حالت میں کچھ پتہ نہیں لگتا.کوئی ہاتھ باندھے کھڑا ہے اور کوئی ہاتھ لٹکائے.اگر سب ایک طرح کھڑے ہوں تو خواہ بیمار اور کمزور بیٹھے ہوئے ہوں تب بھی دیکھنے والا یہ نہیں سمجھے گا کہ ان کا نظام خراب ہے بلکہ وہ ان کے بیٹھنے کو معذوری پر محمول کرے گا.میں سمجھتا ہوں اگر کوئی فیصلہ ہو جائے تو بیٹھنے والا وہی شکل اختیار کر سکتا ہے مثلاً اگر یہ فیصلہ ہو جائے کہ ہاتھ لٹکانے ہیں تو وہ بھی ہاتھ لٹکا کر بیٹھ سکتا ہے.اگر ہاتھ پیچھے کرنے کا فیصلہ ہو جائے گو یہ نا معقول بات ہے تو بیٹھنے والا بھی ایسا کر سکتا ہے.پس اپنا ایک نظام مقرر کرو اور اس جلسہ میں اس کا فیصلہ کرو اور سب کو سکھاؤ کہ جب بھی تم نے کھڑا ہونا ہو اس شکل میں کھڑے ہو اور پھر نوجوانوں کو آزادی دو اور انہیں بتا دو کہ اگر تم میں سے بعض کھڑے نہیں ہو سکتے تو وہ بیٹھ سکتے ہیں.اگر نماز میں بیٹھنے کی اجازت ہے تو خدام کا جلسہ نماز سے زیادہ اہم نہیں کہ اس میں بیٹھا نہیں جاسکتا.اگر کچھ دیر بیٹھنے کے بعد اسے آرام آجائے تو وہ دوبارہ کھڑا ہو جائے اور اگر کھڑا ہونے والا تکلیف محسوس کرے تو وہ بیٹھ جائے.اس طرح بیٹھنے والے دیکھنے والوں پر یہ اثر نہیں ڈالیں گے کہ ان کا کوئی نظام نہیں بلکہ صرف یہ اثر پیدا ہو گا کہ وہ بیمار اور کمزور ہیں.خدمت خلق کے کام کی اہمیت اس کے بعد میں خدام الاحمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ س دفعہ خدام نے طوفانوں وغیرہ کے موقعہ پر نہایت اعلیٰ درجہ کا کام کیا ہے.اب انہیں اپنے اجلاس میں اس امر پر غور کرنا چاہئے کہ اس جذبہ کو جو نہایت مبارک جذبہ ہے اور زیادہ کس طرح ابھار اجائے.کوئی ایسی خدمت جو صرف رسمی طور پر کی جائے حقیقی خدمت نہیں کہلا سکتی.مثلا بعض لوگ اپنی رپورٹوں میں لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے کسی کا بوجھ اٹھایا.اب اگر تو کسی مجلس کے تمام نوجوانوں یا بارہ پندرہ خدام سارا دن لوگوں کے بوجھ اٹھاتے پھرتے ہیں یا کسی ایک وقت مثلاً عصر کے بعد روزانہ ایسا کرتے ہوں یا گھنٹہ دو گھنٹہ ہر روز اس کام پر خرچ کرتے ہوں تب تو یہ رمت کہلا سکتی ہے لیکن اس قسم کی رپورٹوں کو میں کبھی نہیں سمجھا کہ اس مہینہ میں ہمارے نوجوانوں نے کسی کا
676 بوجھ اٹھایا.یہ وہ خدمت نہیں جس کا خدام الاحمدیہ کے نظام کے ماتحت تم سے تقاضا کیا جاتا ہے بلکہ یہ وہ خدمت ہے جس کا بجالانا ہر انسان کے لئے اس کی انسانیت کے لحاظ سے ضروری ہے.فرد کی مختلف حیثیتیں در حقیقت مختلف خدمات مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے ہوتی ہیں.مثلاً جو شخص پاکستان میں رہتا ہے اس پر کچھ فرائض پاکستانی ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں.کچھ فرائض ایک انسان ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں.اسی طرح اگر کوئی سرکاری ملازم ہے تو کچھ فرائض اس پر سرکاری ملازم ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں.اگر کوئی ڈاکٹر ہے تو کچھ فرض اس پر ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتے ہیں.اگر کوئی پولیس مین ہے تو کچھ فرض اس پر پولیس مین ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتے ہیں.ایک حیثیت کے کام کو اپنی دوسر کی حیثیت کے ثبوت میں پیش کرنا محض تمسخر ہوتا ہے.مثلاً ایک ڈاکٹر کا یہ لکھنا کہ میں نے بیس مریضوں کا علاج کیا، تمسخر ہے کیونکہ اس نے جو کام کیا ہے اپنے ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے کیا ہے، خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونے کی حیثیت سے نہیں کیا.پاپاکستان کی تائید میں اگر کوئی جلسہ ہوتا ہے یا جلوس نکلتا ہے اور تم اس میں حصہ لیتے ہو تو پھر اپنی رپورٹ میں اس کا ذکر ہو تو یہ تمسخر ہے کیونکہ یہ خدمت تم نے ایک پاکستانی ہونے کے لحاظ سے کی ہے.برکت تب شامل حال ہوتی ہے جب ساری حیثیتوں کو نمایاں کر کے کام کیا جائے.برکت تمہیں تبھی حاصل ہو گی جب تم اپنی ساری حیثیتوں کو نمایاں کر کے کام کرو گے.جب تمہیں ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کام کرنا پڑے تو تم پاکستانی حیثیت کو نمایاں کرو.جب تمہیں ایک انسان ہونے کی حیثیت سے کام کرنا پڑے تو تم اپنی انسانیت کو نمایاں کرو.مثلاً اگر کوئی چلتے ہوئے گر جاتا ہے تو یہ انسانیت کا حق ہے کہ اسے اٹھایا جائے.اس میں خدام کا کیا سوال ہے.ایک ہندوستانی پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے.ایک پنجابی پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے.ایک چینی اور جاپانی پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے.ایک سرحدی پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے پس اگر اتفاقی طور پر کوئی شخص ایسا کام کرتا ہے تو یہ خدام الاحمدیہ والی خدمت خلق نہیں کہلا سکتی بلکہ یہ وہ خدمت ہو گی جو ہر انسان پر انسان ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتی ہے.اگر وہ ان فرائض کو ادا نہیں کرتا تو وہ انسانیت سے بھی گر جاتا ہے.پس اپنے پروگراموں پر ایسے رنگ میں عمل کرو جیسے اس دفعہ لاہور کے خدام نے خصوصیت سے نہایت اعلیٰ کام کیا ہے.اسی طرح ربوہ کے خدام نے بھی اچھا کام کیا ہے.سیالکوٹ کے خدام نے بھی اچھا کام کیا ہے.ملتان کے خدام نے بھی اچھا کام کیا ہے اور کراچی کے خدام نے بھی بعض اچھے کام کئے ہیں گو وہ نمایاں نظر آنے والے نہیں.پس متواتر اپنے جلسوں اور جلوسوں میں اس امر کو لاؤ کہ تم نے زیادہ سے زیادہ خدمت خلق کرنی
677 ہے اور ایک پروگرام کے ماتحت کرنی ہے تاکہ ہر شخص کو تمہاری خدمت محسوس ہو.تم میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ دکھاوا ہے.تم میں سے کوئی کہ سکتا ہے کہ یہ نمائش ہے مگر کبھی کبھی نمائش بھی کرنی پڑتی ہے.اگر تمہارے دل کی خوبی اور نیکی کا اقرار دنیا نہیں کرتی تو تم مجبور ہو کہ تم لوگوں کو دکھا کر کام کرو.تم نے بہت نیکی کی ہے لیکن دنیا نے تمہاری نیکی کا کبھی اقرار نہیں کیا.ہر ر مشکل میں ہم مسلمانوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں.پہلے بھی لوگوں کی مصیبت کے وقت ہم کام کرتے رہے ہیں مگر مخالف یہی کہتا چلا گیا کہ احمدی احمدی کا ہی کام کرتا ہے، کسی دوسرے کا نہیں کرتا.یہ بالکل جھوٹ تھا جو مخالف بو لتا تھا.ہم خدمت خلق کا کام کرتے تھے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے خدا کے لئے کیا ہے.ہمیں اس کے اظہار کی کیا ضرورت ہے.مگر جب تمہاری اس نیکی کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا اور تم پر یہ الزام لگایا جانے لگا کہ تم اپنی قوم کی خدمت کے لئے تیار نہیں تو پھر وہی نیکی بدی بن جائے گی اگر ہم اس کو چھپائیں.پس اس نیکی کا ہم علی الاعلان اظہار کریں گے.اس لئے نہیں کہ ہم بدلہ لیں بلکہ اس لئے کہ وہ کذاب اور مفتری جو ہم پر الزام لگاتے ہیں، ان کا منہ بند ہو.پس مجرم کو مجرم ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ہم اپنے کاموں کا اظہار کرتے ورنہ پہلے بھی ہمارے آدمی ہر مصیبت میں مسلمانوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں اور ہر مشکل میں ہم نے ان کی مدد کی ہے.یہ کوئی نیا کام نہیں جو ہم نے شروع کیا ہو.جب ہم قادیان میں تھے تو اس وقت بھی ہم خدمت خلق کرتے تھے - ۱۹۱۸ء میں جب انفلوانزا پھیلا ہے تو مجھے خلیفہ ہوئے ابھی چار سال ہی ہوئے تھے اور جماعت بہت تھوڑی تھی مگر اس وقت ہم نے قادیان کے اردگرد سات سات میل کے حلقہ میں ہر گھر تک اپنے آدمی بھیجے اور دوائیاں پہنچائیں اور تمام علاقہ کے لوگوں نے تسلیم کیا کہ اس موقعہ پر نہ گورنمنٹ نے ان کی خبر لی اور نہ ان کے ہم قوموں نے ان کی خدمت کی ہے.اگر خدمت کی ہے تو صرف جماعت احمدیہ نے.میں نے اس وقت طبیبوں کو بھی بلوایا اور ڈاکٹروں کو بھی بلوایا.دنیا میں عام طور پر ڈاکٹر بلو او تو طبیب اٹھ کر چلا جاتا ہے اور اگر طبیب بلو اؤ تو ڈاکٹر اٹھ کر چلا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ بات نہیں اور پھر اخلاص کی وجہ سے ہمارا ان پر رعب بھی ہوتا ہے.غرض میں نے ڈاکٹر بھی بلوائے حکیم بھی بلوائے اور ہو میو پیتھ بھی بلوائے.اس وقت مرض نئی نئی پیدا ہوئی تھی.ڈاکٹروں نے کہا کہ ہم اس مرض کا علاج تو کریں گے مگر ابھی ہماری طب میں اس کی تشخیص نہیں ہوئی اور لٹریچر بہت ناقص ہے.اطباء کے اصول علاج چونکہ کلیات پر مبنی ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بیمی بخار ہے اور ہم اس کا علاج کریں گے.میں نے ڈاکٹروں سے کہا کہ جھوٹ بولیں یا سچ بولیں.غلط کہیں یا درست کہیں بہر حال یہ کہتے ہیں کہ ہماری طب میں اس کا علاج موجود ہے اس
678 لئے انہیں بھی علاج کا موقعہ دینا چاہئے.چنانچہ میں نے ڈاکٹروں اور حکیموں کو اردگرد کے دیہات میں بھجوادیا.ساتھ مدرسہ احمدیہ کے طالب علم کر دئیے.وہ سات سات میل تک گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں آدمیوں کی جان بچ گئی.تو ہم خدمت خلق کرتے ہیں اور ہمیشہ سے کرتے چلے آئے ہیں مگر ہم ڈھنڈورہ نہیں پیٹتے کہ ہم نے یہ کیا ہے ہم نے وہ کیا ہے.مثلاً ملکانوں کی جو ہم نے خدمت کی ہے اس کے متعلق ہم نے کچھ نہیں کہا لیکن دوسرے لوگوں نے اقرار کیا کہ ہم نے غیر معمولی کام کیا ہے مگر ہمارے ان سارے کاموں کے باوجودہ دشمن نے پھر بھی یہی کہا کہ یہ شروع سے مسلمانوں کے دشمن ہیں بلکہ بعض عدالتوں نے بھی اس کو تسلیم کر لیا اور یہ خیال نہ کیا کہ تمام مصیبتوں کے وقت ہمیشہ احمدیوں نے ہی اپنی گرد نہیں آگے کی ہیں.مائی جمیا کی خاطر غیرت اسلامی کا اظہار - جب دلی میں جایا کرتا تھا تو اکثر یوپی کا کوئی نہ کوئی رئیس مجھے ملتا تو کہتا کہ میں تو اس دن سے آپ کا مداح ہوں جس دن آپ لوگوں نے اپنے ہاتھ سے ایک مسلمان عورت کی کھیتی کاٹ کر اسلام کی لاج رکھ لی تھی اور مسلمانوں کی عظمت قائم کر دی تھی.واقعہ یہ ہے کہ الوریا بھرت پور کی ریاست میں ایک عورت تھی جس کے سارے بیٹے آریا ہو گئے مگر وہ اسلام پر قائم رہی.مائی جمیا اس کا نام تھا.خان بہادر محمد حسین صاحب سیشن جج اس علاقہ میں تبلیغ کے لئے مقرر تھے.ان کا بیٹا نہایت مخلص احمد ی ہے.وہ آجکل کچھ ابتلاؤں میں ہے اور مالی مشکلات اس پر آئی ہوئی ہیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات کو دور فرمائے.بہر حال جب فصل کٹنے کا وقت آیا تو چونکہ سب گاؤں جو بڑا بھاری تھا، آر یہ ہو چکا تھا اور اس کے اپنے بیٹے بھی اسلام چھوڑ چکے تھے اور وہ عورت اکیلی اسلام پر قائم تھی.اس لئے کوئی شخص اس کی کھیتی کاٹنے کے لئے تیار نہیں تھا.انہوں نے اسے طعنہ دیا اور کہامائی تیری کھیتی تو اب مولوی ہی کاٹیں گے.احمدیوں کو دیہات میں مولوی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ قرآن اور حدیث کی باتیں کرتے ہیں.شروع میں ملکانہ میں بھی ہمارے آدمیوں کو مولوی کہا جاتا تھا جس طرح ہمیں یہاں مرزائی کہتے ہیں اسی طرح وہاں مولوی کہا جاتا تھا.سرحد اور یوپی میں عام طور پر قادیانی کہتے ہیں.جب یہ خط مجھے ملا تو میں نے کہا کہ اب اسلام کی عزت تقاضا کرتی ہے کہ مولوی ہی اس کی کھیتی کاٹیں چنانچہ جتنے گریجویٹ اور بیر سٹر اور وکیل اور ڈاکٹر وہاں تھے، میں نے ان سے کہا کہ وہ سب کے سب جمع ہوں اور اس عورت کی کھیتی اپنے ہاتھ سے جا کر کاٹیں چنانچہ در جن یا دو درجن کے قریب آدمی جمع ہوئے جن میں وکلاء بھی تھے ڈاکٹر بھی تھے اگر بجو انیس بھی تھے علماء بھی تھے اور انہوں نے کھیتی کاٹنی شروع کر دی.لوگ ان کو دیکھنے کے لئے اکٹھے ہو گئے اور تمام علاقہ میں ایک شور مچ گیا کہ یہ ڈاکٹر صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں.یہ حج صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے
679 ہیں.یہ وکیل صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں.انہوں نے چونکہ یہ کام کبھی نہیں کیا تھا.اس لئے ان کے ہاتھوں میں خون بہنے لگا مگر وہ اس وقت تک نہیں ہے جب تک اس کی تمام کھیتی انہوں نے کاٹ نہ لی.یو پی کے اضلاع میں یہ بات خوب پھیلی اور کئی رئیس مجھے متواتر دلی میں ملے اور انہوں نے کہا کہ ہم تو اس دن سے احمدیت کی قدر کرتے ہیں جب ہم نے یہ نظارہ دیکھا تھا کہ ایک مسلمان عورت کے لئے آپ کی جماعت نے یہ غیرت دکھائی کہ جب لوگوں نے اسے کہا کہ اب مولوی ہی اگر تیری کھیتی کاٹیں گے تو آپ نے کہا کہ اب دکھاوے کا مولوی نہیں بچ چ کا مولوی جائے گا اور اس کی کھیتی کالے گا.تو ہمیشہ ہی ہم مسلمانوں کی خدمت کرتے رہے ہیں مگر ہمیشہ ہم ان خدمات کو چھپاتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ ان خدمات کے اظہار سے کیا فائدہ؟ ہم نے جو کچھ کیا ہے خدا کے لئے کیا ہے انسانوں کے لئے نہیں کیا.مگر آج کہا جارہا ہے کہ احمدی مسلمانوں کے دشمن ہیں.یہ مسلمانوں کی کبھی خدمت نہیں کرتے.غرض اتنے بڑے جھوٹ اور افتراء سے کام لیا جاتا ہے کہ ہم اس بات پر مجبور ہو گئے ہیں کہ جماعت کے دوستوں سے یہ کہیں کہ اچھا تم بھی اپنی خدمات کو ظاہر کرو چنانچہ اب جبکہ ہم نے اپنی خدمات ظاہر کرنی شروع کیں، مسلمانوں کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے اپنے بلوں میں گھس گئے اور کو ٹھیوں میں بیٹھے رہے چنانچہ بعض لوگوں نے جو اسلامی جماعت کے دفتر کے قریب ہی رہتے تھے اقرار کیا کہ اسلامی جماعت والوں نے تو ہماری خبر بھی نہیں لی اور یہ دو دو چار چار میل سے آئے اور انہوں نے ہماری مدد کی.لطیفہ یہ ہے کہ کراچی سے اطلاع ملی ہے کہ وہاں بڑے زور سے پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ لاہور میں جماعت اسلامی نے سیلاب کے دنوں میں بڑی بھاری خدمت کی ہے اور وہاں اس قدر چر چاہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ لاہور کو بچایا ہی اسلامی جماعت والوں نے ہے اور لاہور کے لوگوں کو اس کی خبر بھی نہیں.اگر وہ جھوٹا پراپیگنڈا کر سکتے ہیں تو ہم سچا پراپیگنڈا کیوں نہیں کر سکتے.اسی طرح چگال سے اطلاع آئی ہے کہ وہاں جماعت اسلامی والے گھر گھر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جماعت اسلامی نے آپ کے لئے چندہ بھجوایا ہے.وہ لنگی اور تہمد دیتے ہیں اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے چندہ دیا ہے ، آپ ووٹ جماعت اسلامی کو ہی دیں.حالا نکہ وہ یہاں کئی مہینوں سے چندہ لیتے ہیں.کہیں شیعوں سے لے کر بھجواتے ہیں مگر نام جماعت اسلامی کا مشہور کرتے ہیں.احمدی نوجوانوں کو زیادہ جوش و خروش سے ملک اور قوم کی خدمت کرنی چاہئے.فرض اس زمانہ میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو جھوٹ اور افترا سے تم کو بد نام کرنا چاہتا ہے.اب تمہارا بھی فرض ہے کہ تم اور زیادہ جوش سے ملک اور قوم کی خدمت کرو اور اس خدمت کو ظاہر بھی
680 کرو اور دنیا کو بتا دو کہ ہم ملک اور قوم کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں مگر چونکہ ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم اپنی خدمات کو ظاہر کریں اس لئے ہم ان کو ظاہر کرتے ہیں ورنہ ہمارے دل اس اظہار پر شرماتے ہیں.پس اپنے پروگراموں میں زیادہ سے زیادہ ایسے امور پر غور کرو اور ایسی تجاویز سوچو جن کے نتیجہ میں تم ملک اور قوم کی زیادہ سے زیادہ خدمت بجا لاؤ.“ فرموده ۵ نومبر ۱۹۵۴ء، مطبوعہ خالد د سمبر ۱۹۵۴ء)
مجلس خدام الاحمدیہ کے ( نائب ) صدر اور دوسرے عہد یداروں کا کن صفات سے متصف ہونا ضروری ہے ہمارے نو جوانوں کو چاہئے کہ وہ اس قسم کے مواقع پر ننگے سر کھڑے نہ ہوں ہ شخص کو انتخاب کے موقع پر ووٹ دینا ہوگا.انتخاب کے لئے کام اور قابلیت دیکھی جاتی ہے تم صحیح اسلامی روح اپنے اندر پیدا کرو میری کئی راتیں ایسی گزری ہیں کہ میں نے رات کو عشاء کے بعد کام شروع کیا اور صبح کی اذان ہوگئی تم کیوں نہیں کر سکتے اپنے کاموں میں چستی پیدا کرو تم خدمت خلق کے کام کو نمایاں کرو
682 مجلس خدام الاحمدیہ کے نائب صدر اور دوسرے عہد یداروں کن صفات سے متصف ہونا ضروری ہے اپنے بجٹ کا ایک حصہ ہمیشہ خدمت خلق کے لئے ریزرو کھو! مورخہ ۷ نومبر ۱۹۵۴ء کو قبل دو پر حضرت خلیفۃ السیح الثانی نے مجلس خدام الاحمدیہ کے چودھویں سالانہ اجتماع میں نوجوانان احمدیت کو خطاب کرتے ہوئے جو بصیرت افروز تقریر فرمائی وہ درج ذیل کی جاتی ہے.(مرتب) سب سے پہلے تو میں خدام الاحمدیہ کے عہدیداروں سے ہی پوچھتا ہوں کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے خدام کے کھڑے ہونے کی کونسی پوزیشن مقرر کی ہے کیونکہ میں نے پرسوں انہیں ہدایت کی تھی کہ یک جہتی پیدا کر نے کے لئے خدام کے کھڑا ہونے کی پوزیشن مقرر کریں اور فیصلہ کریں کہ آئندہ خدام جب بھی کسی موقعہ پر کھڑے ہوں تو ان کی پوزیشن ایک ہی ہو.نے فرمایا ) ) اس پر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے بتایا کہ شوری نے اس بارہ میں کیا تجویز کی ہے چنانچہ حضور مجھے بتایا گیا ہے کہ عہد دہراتے وقت خدام اشن شن کی پوزیشن میں کھڑے ہوں گے اور اس کے بعد ان کی پوزیشن سٹینڈ ایٹ ایز“ کی ہو گی.لیکن ہاتھ بجائے پیچھے باندھنے کے سامنے اور ناف کے نیچے اس طرح باندھے ہوئے ہونگے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر ہو اور ساتھ ہی یہ تجویز پاس کی گئی ہے کہ خدام ننگے سر نہ ہوں.ننگے سر کھڑ اہونا اسلامی طریق نہیں.یورپ میں احترام کے طور پر ٹوپی اتارنے کا رواج ہے.وہی رواج ان کی نقل میں مسلمانوں میں آگیا ہے.حالانکہ اسلام میں بجائے ٹوپی اتارنے کے ٹوپی سر پر رکھنے کا رواج ہے.اسلام نے یہ پسند کیا ہے کہ نماز وغیرہ کے مواقع پر سر پر ٹوپی یا پگڑی رکھی جائے سر نگانہ ہو.عورتوں کے متعلق علماء میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ اگر ان کے سر کے اگلے بال ننگے ہوں تو آیا ان کی نماز ہو جاتی ہے یا نہیں.اکثر کا یہی خیال ہے کہ اگر اگلے بال ننگے ہوں تو نماز نہیں ہوتی لیکن اس کے بر خلاف یورپ میں سر نگار کھنے کا رواج ہے.ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اس قسم کے مواقع پر ننگے سر کھڑے نہ ہوں.اگر ان کے پاس ٹولی.چھڑی نہ ہو تو وہ اپنے سر پر رومال یا کوئی اور کپڑارکھ لیں.پرانے فضاء کا خیال ہے کہ جنگے سر نماز نہیں ہوتی لیکن
683 ہمارے ہاں مسائل کی بنیاد چونکہ احادیث پر ہے اور احادیث میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ بعض صحابہ نے ننگے سر نماز پڑھی.اس لئے ہم اس تشدد کے قائل نہیں کہ ننگے سر نماز ہوتی ہی نہیں.ہمارے نزدیک اگر کسی کے پاس ٹوپی یا پگڑی نہ ہو اسی طرح سر ڈھانکنے کے لئے کوئی رومال وغیرہ بھی اس کے پاس نہ ہو تو ننگے سر نماز پڑھی جاسکتی ہے لیکن ہر عالم چاہے وہ کتنا بڑا ہو بعض دفعہ مسائل میں دھو کہ کھا جاتا ہے اور بعض دفعہ ایجاد بندہ کہہ کر غلو تک بھی چلا جاتا ہے -- حافظ روشن علی صاحب نے جب حدیث میں یہ پڑھا کہ بعض مواقع پر صحابہ نے ننگے سر نماز پڑھی تو انہوں نے یہ پر چار کرنا شروع کر دیا کہ ننگے سر نماز پڑھنانہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن امر ہے.میں نے ان سے اس کے متعلق کئی دفعہ بحث کی.میں نے انہیں بتایا کہ جس زمانہ میں صحابہ ننگے سر نماز پڑھتے تھے اس زمانہ میں کپڑے نہیں ملتے تھے چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک جگہ کے مسلمانوں کو امام میسر نہ آیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک لڑکے کو جو آٹھ نو سال کا تھا اور اسے بعض سورتیں یاد تھیں ان کا امام مقرر کر دیا.وہ لڑکا غریب تھا.اس کے پاس کر نہ تھا، پاجامہ نہیں تھا.کر تہ بھی کچھ اونچا تھا.اس لئے جب وہ سجدے میں جاتا تھا کر نہ اونچا ہو جاتا تھا اور وہ ننگا ہو جاتا تھا.عورتوں نے شور مچا دیا اور کہا ارے مسلمانو! تم چندہ کر کے اپنے امام کا ننگ تو ڈھانکو.اب اگر اس حدیث کو پڑھ کر کوئی شخص یہ کہنا شروع کر دے کہ امام کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ پاجامہ نہ پہنے صرف کر نہ پنے اور کر تہ بھی اتنا چھوٹا ہو کہ وہ سجدہ میں جائے تو نگا ہو جائے، یہ درست نہیں ہو گا.بہر حال یورپین اثر کے نتیجہ میں احتراما سر ننگار رکھنے کی بدعت پیدا ہوئی اور انگریزی حکومت کے دوران میں یہ مرض بڑھتی چلی گئی حالانکہ اسلامی لحاظ سے یہ غلط طریق ہے.یہ بات درست ہے کہ اسلام ایسی کوئی پابندی نہیں لگا تا جو انسانی طاقت سے بڑھ کر ہو لیکن جو بات انسانی طاقت میں ہو، اسے حقیقی عذر کے بغیر نظر انداز کرنا بھی درست نہیں ہو سکتا.اسلامی طرق کار یہ ہے کہ ادب کے طور پر انسان اپنا سر ڈھانکے.حضرت خلیفۃ المسح الاول درس و تدریس کے دوران میں بعض اوقات سر سے پگڑی اتار دیتے تھے لیکن اگر اس دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لے آتے تو آپ فورا پگڑی اٹھا کر سر پر رکھ لیتے.پس ایسے کاموں کے موقع پر اگر کسی کے پاس ٹوپی یا پگڑی نہ ہو تو وہ سر پر رومال ہی باندھ لے اور جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو اس کے لئے کوئی پابندی نہیں.اگر اس لڑکے کی طرح کسی کے پاس صرف کر یہ ہی ہو پاجامہ نہ ہو تو اسے بغیر پاجامہ کے نماز پڑھنا جائز ہے.اسی طرح اگر کسی کے پاس ٹوپی یا پگڑی یا رومال نہ ہو تو وہ ننگے سر کھڑا ہو سکتا ہے.ساتھ والے یا تو اسے معذور سمجھیں گے یا چندہ کر کے ٹوپی یا پگڑی و غیرہ خرید دیں گے جو کام انسانی طاقت سے بالا ہو اسلام اس کا حکم نہیں دیتا لیکن جس کام کی انسان میں طاقت ہو یا جس کا ازالہ آسانی سے کیا جا سکتا ہو اس کا بعض دفعہ حکم دے دیتا ہے اور بعض دفعہ کہہ دیتا ہے کہ اس پر عمل کرنا عمل نہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے.اگر تم اس کے خلاف کرو گے تو تمہارا فعل آداب کے خلاف ہو گا.باقی رہاہاتھ باندھ کر کھڑ ا ہو نا.ا
684 میرے نزدیک ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونا اس سے زیادہ آسان ہے.میں اس پر بعد میں بھی غور کروں گا.اس لئے میں ابھی اس حصہ کو لازمی قرار نہیں دیتا.گو جب تک مجوزہ طریق کو تبدیل نہ کیا جائے ، اس پر عمل کیا جائے گا.میں بعض فوجیوں سے بھی مشورہ کروں گا کہ سہولت کس صورت میں ہے.ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونے میں یا ہا تھ باندھ کر کھڑا ہونے میں.اگر ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونے میں سہولت ہوئی تو میں ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونے کا فیصلہ کر دوں گا ور نہ مجوزہ طریق کو جاری رکھنے کا فیصلہ کر دوں گا.”ائن شن“ کی پوزیشن دو تین منٹ تک تو بر قرار رکھی جاسکتی ہے.اس سے زیادہ نہیں کیونکہ اس پوزیشن میں جسم کو زیادہ سخت رکھنا پڑتا ہے.لیکن سٹینڈ ایٹ ایز“ کی پوزیشن میں یہ مد نظر رکھا جاتا ہے کہ انسان سیدھا کھڑ اہو اور اعصاب پر اس کا کوئی اثر نہ ہو.بہر حال میں اس کا فیصلہ بعد میں کرواں گا.( فوجی احباب اس بارہ میں مشورہ دیں.فوجی احباب سے مراد وہ احباب ہیں جو لڑنے والے فوجی ہیں، ڈاکٹر وغیرہ نہیں.) ایک بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نائب صدر کے انتخاب کے سلسلہ میں جو لسٹ ووٹنگ کی مجھے پہنچی ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ کل ساڑھے چار سو کے قریب ووٹ گزرے ہیں حالانکہ ۱۸۴ نمائندے یہاں موجود تھے اور ان میں سے ہر ایک کو چھ ووٹ دینے کا اختیار تھا.گویا ۱۰۴ اووٹ تھے لیکن گزرے صرف ۴۵۰ ہیں.یا یوں کہو کہ ۱۱۰۴ افراد میں سے صرف ۴۵۰ افراد نے ووٹ دیئے ہیں.دوسرے لفظوں میں اس کے یہ معنے ہیں کہ صرف چالیس فیصدی ووٹ گزرا ہے اور یہ نہایت غفلت اور سستی کی علامت ہے.صدر کا انتخاب ایسی چیز نہیں کہ یہ کہا جائے، میں نے کوئی رائے قائم نہیں کی.کسی نہ کسی رائے پر پہنچنا ضروری امر ہے.اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا.رائے نہ دینے کے یہ معنے ہیں کہ وہ شخص یا تو سوتا رہا ہے اور اس طرح اس نے اپنے فرض کو ادا نہیں کیا اور یا پھر اس نے اپنے درجہ اور رتبہ کو اتنا بلند سمجھا ہے کہ اس نے خیال کیا کہ وہ اتنے حقیر کام میں حصہ نہیں لے سکتا اور یہ دونوں باتیں افسوسناک ہیں اور خدام کی مردنی پر دلالت کرتی ہیں اس لئے آئندہ کے لئے میں یہ قانون بنا تا ہوں کہ نائب صدر کی ووٹنگ کے وقت ہر شخص کو ووٹ دینا ہو گا.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ ابھی تک اس نے کوئی رائے قائم نہیں کی.وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ جب نام پیش ہوئے تو میں اس بات کو سمجھ نہیں سکا کہ ان میں سے کون زیاد و اہل ہے لیکن اسے یہ فیصلہ ضرور کرنا پڑے گا کہ ان میں سے کون شخص اس کی سمجھ کے زیادہ قریب ہے.اس کی مثال تم یوں سمجھ لو کہ اگر کسی شخص کا کوئی رشتہ دار مر گیا ہو اور اس کے دفن کرنے کے لئے تین چار جگہیں بتائی گئی ہوں لیکن وہ ساری جگہیں اسے ناپسند ہوں تو تم ہی بتاؤ کہ کیا وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ لاش ان چاروں جگہوں میں سے کسی جگہ بھی دفن نہ کی جائے بلکہ اسے کتوں کے آگے پھینک دیا جائے یا وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ لاش کو دفن کر دو.
685 چاہے کسی جگہ کر دو.پس اگر نائب صدر کے انتخاب کے وقت کسی فرد کو کسی پر سو فیصدی تسلی نہ ہو تب بھی ات کچھ نہ کچھ فیصلہ ضرور کرنا پڑے گا.مثلا وہ کہہ سکتا ہے کہ ان امیدواروں پر مجھے سو فیصدی تسلی نہیں.ہاں فلاں شخص پر مجھے سب سے زیادہ تسلی ہے یاوہ کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے فلاں پر مجھے ساٹھ فیصدی تسلی ہے.باقی پر ساٹھ فیصدی تسلی بھی نہیں اور اگر اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آتا تو وہ کوئی اور نام پیش کر دے اور کہے مجھے اس پر تسلی ہے، چاہے اسے ایک ہی ووٹ ملے.آگے مرکزی دفتر کا یہ فرض ہے کہ وہ خدام کو یہ امر ذہن نشین کر اتار ہے کہ انہیں کسی قسم کے شخص پر تسلی ہونی چاہئے.مثلاً لوگ شادیاں کرتے ہیں تو کوئی یہ دیکھ کر شادی کرتا ہے کہ لڑکی خوش شکل ہے.کوئی کہتا ہے اس عورت کا خاندان زیادہ معزز ہے.کوئی کہتا ہے سبحان اللہ فلاں عورت بہت پڑھی ہوئی ہے.وہ پی.ایچ.ڈی ہے اور آجکل لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں عورت اپوا کی عہدیدار ہے یا لیگ میں کسی اچھے عہدہ پر ہے.کوئی کہتا ہے کہ اگر کوئی عورت لیگ میں کام کرتی ہے تو اسے ہم نے کیا کرنا ہے.اس کے پاس روپیہ پیسا تو ہے نہیں.کوئی کہتا ہے اس کے پاس روپیہ پیسہ نہیں تو کوئی حرج نہیں ہمیں تو عزت کی ضرورت ہے.کوئی کہتا ہے اس کے پاس اتنی بڑی ڈگری ہے، اس سے بہتر اور کون ہو سکتی ہے.کوئی کہتا ہے چھوڑ وان سب باتوں کو.عورت نے ہر وقت نظر کے سامنے رہنا ہوتا ہے، اگر اس کی شکل ہی پسند نہ آئی تو اسے کیا کرنا ہے.غرض مختلف وجوہ کو پیش نظر رکھ کر لوگ شادیاں کرتے ہیں.رسول کریم علے ان تمام وجوہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کوئی نسب کی وجہ سے شاہی کرتا ہے یعنی وہ سمجھتا ہے کہ اس عورت کا خاندان بہت معزز ہے اس لئے میں اس سے شادی کروں گا.کوئی مال کی وجہ سے شادی کرتا ہے اور کوئی جمال کی وجہ سے شادی کرتا ہے.پھر آپ اپنا مشورہ دیتے ہیں- عَلَيْكَ بِذَاتِ الدين تربت يداك - تیرے ہا تھوں کو مٹی لگے تو جب شادی کا فیصلہ کرے تو دیندار عورت کو تلاش کر.اگر تمہارے پیش نظر ایک سے زیادہ عور تیں ہوں اور ان میں سے ایک نیک ہو دیندار ہو اس کا ماحول ٹھیک ہو تو اسے دوسری سب عورتوں پر ترجیح دو.اسی طرح مرکز کو بھی چاہئے کہ وہ اپنا مشورہ دے دے کہ نائب صدر کے لئے کونسی صفات کا حامل ہو نا ضروری ہے کہ وہ صاحب تجربہ ہو ' صاحب الرائے ہو اور صاحب الدین ہو - صاحب الرائے کے معنے یہ ہیں کہ وہ خود یہ طاقت رکھتا ہو کہ کسی بات کا صحیح اندازہ لگا سکے.وہ کسی دوسرے کی بات سے متاثر نہ ہو یا کسی کی غلطی سے متاثر نہ ہو.وہ فیصلہ کرتے ہوئے یہ سمجھ لے کہ اس کا کسی سے بھی کوئی تعلق نہیں.مثلاً ایک شخص اُس کا بہنوئی ہے.وہ نمازی ہے.سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتا ہے اور ہر کام میں سمجھ سے کام لیتا ہے.اب اگر یہ اس کے خلاف صرف اس وجہ سے ووٹ دے کہ اپنی بیوی سے جو اس کی بہن ہے ، لڑائی ہے تو ہم کہیں گے کہ وہ صاحب الرائے نہیں.اس نے فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ذاتی تعلقات کو مد نظر رکھا ہے.یا اس کی کسی سے دوستی تھی مگر وہ دیندار نہیں تھا.سمجھدار نہیں تھا، سلسلہ کے کاموں سے اس کا
686 کوئی تعلق نہیں تھا.اب اگر یہ اسے محض دوستی کی وجہ سے ووٹ دیتا ہے تو ہم کہیں گے یہ صاحب الرائے نہیں.صاحب الرائے کے یہ معنے ہیں کہ وہ اپنے اندر قابلیت رکھتا ہو کہ غیر متعلق باتوں کو اپنے فیصلوں پر اثر انداز نہ ہونے دے.مثلاً امامت کا سوال ہو تو یہ نہ دیکھے کہ کوئی اس کا بھائی ہے باپ ہے یا کوئی اور قریبی رشتہ دار ہے بلکہ فیصلہ کرتے ہوئے وہ صرف یہ دیکھے کہ وہ نمازی ہے، دیندار ہے اسے قرآن کریم کا علم دوسروں سے زیادہ ہے.دیندار ہو نا نمازی ہونا اور قرآن کریم کا علم رکھنا یہ سب باتیں امامت سے تعلق رکھتی ہیں.عہد یداری یارشتہ داری کا امامت سے کوئی تعلق نہیں.بیرونی جماعتوں میں بھی ایسی غلطیاں ہوتی ہیں.ہمارا کام ہے کہ ہم ان کی تربیت کریں.ایک جگہ سے مجھے لکھا گیا کہ فلاں شخص ہماری جماعت میں صاحب رسوخ ہے اس کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا لیکن دقت یہ ہے کہ وہ ایک دفعہ جماعت سے خارج ہو چکا ہے اور اس کی دینی حالت بھی ٹھیک نہیں.اب کوئی بھلا مانس ان سے یہ پوچھے کہ کیا وہ روزویلٹ ٹرومین، آئزن ہاور یا چیانگ کا شیک سے بھی بڑا ہے.اگر تم ان کے بغیر گزارہ کر رہے ہو تو اس کے بغیر کیوں نہیں کر سکتے لیکن جماعتیں ہمیں چٹھیاں لکھتی رہتی ہیں اور بعض اوقات ہم بھی مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کی منظوری دے دیں.ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ اچھا تم جھک مارنا چاہتے ہو تو مارو.تم اپنے لئے موت قبول کرتے ہو، تو ہم کیا کریں.پس عہدیدار کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے اندر پابندی کرانے کا مادہ ہو.وہ ڈرپوک نہ ہو.ایک دفعہ میں راولپنڈی گیا.۳۳ ء کی بات ہے.اس سال میری بیوی سارہ بیگم فوت ہوئی تھیں.راولپنڈی میں میرے سالے ڈاکٹر تقی الدین احمد صاحب بھی تھے جو اس وقت فوج میں غائباً میجر تھے اور راجہ علی محمد صاحب بھی تھے جو اس وقت افسر مال تھے اور جماعت کا امیر ایک کلرک تھا.مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس امیر - اس امیر نے ایسا انتظام رکھا تھا کہ اگر وہ کہتا کھڑے ہو جاؤ تو یہ لوگ کھڑے ہو جاتے.اگر کہتا کہ بیٹھ جاؤ تو بیٹھ جاتے.گو اس کا انتخاب بطور امیر اتفاقاً ہو گیا تھا.وہ پہلے امیر منتخب ہو چکا تھا اور راجہ علی محمد صاحب اور ڈاکٹر تقی الدین احمد صاحب بعد میں راولپنڈی گئے.بہر حال اس نے اپنے انتخاب کی عزت کو قائم رکھا اور اپنے سے بڑے درجہ کے لوگوں کو بھی پابند نظام بنالیا.عمونا دیکھا گیا ہے کہ ہماری جماعت میں احمدیت صرف کر نیلی تک جاتی ہے.جب کوئی احمدی کر نیل ہو جاتا ہے تو اس کے خاندان کی عورتیں پردہ چھوڑ دیتی ہیں اور مردوں سے میل جول شروع کر دیتی ہیں.بعض احمد ہی کرنیل کا عہد حاصل کرنے کے بعد شراب بھی پی لیتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ کر نیلوں میں سے بہت کم تعداد ایسی ہے جن کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ احمدیت پر قائم ہے.اب اگر صرف یہ دیکھ کر کہ کوئی شخص فوج میں کر نیل ہے اسے امیر بنا دیا جائے تو درست امر نہیں.اگر ایک چپڑاسی اس سے زیادہ دیندار ہو تو جماعت کی خوبی
687 ہو گی کہ وہ کر نیل کے بجائے اس چپڑاسی کو اپنا امیر بنائے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ نظم کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہو.اگر وہ چپڑاسی ایسا ہو کہ جب کوئی کر نیل آئے تو اسے سلیوٹ کرنے لگ جائے تو پھر وہ بھی اس عہدہ کے مناسب نہیں ہوگا کیونکہ خدام کے دفتر یا جلسہ میں کرنیل کو سلام کرنے کا سر کاری حکم نہیں ہے.ہونا یہ چاہئے کہ فوج اور چھاؤنی میں وہ سپاہی یا چپڑاسی سلیوٹ کرے اور خدام کے دفتر میں کر نیل آئے تو چپڑاسی کو سلام کرے.جو دیندار چیز اسی اپنے عمدہ و کار قار قائم رکھ سکے وہ کر نیل کی نسبت امیر ملنے کا زیادہ مستحق ہے.یہ رنگ نظم کا تمہارے اندر آنا چا ہے.اپنا وٹ ضائع نہیں کرنا چاہئے اور صحیح طور پر دینا چاہئے.جو انتخاب تم نے کیا ہے وہ میری سمجھ میں نہیں آیا.اس لئے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ تم نے بغیر سوچے سمجھے اپنا دوٹ دے دیا ہے.سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ۳۱ اکتوبر کے بعد جو سال شروع ہوتا ہے اس میں مرزا ناصر احمد مجلس خدام الاحمدیہ کے نائب صدر نہیں رہیں گے کیونکہ ان کی عمر زیادہ ہو چکی ہے اور وہ مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبر نہیں رہے.میں نے انہیں دو سال کے لئے نائب صدر مقرر کیا تھا تا کہ ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جائے.باقی جو انتخاب کیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے.۱۰ ۴۹ میر داؤ د احمد صاحب چوبدی شبیر احمد صاحب قریشی عبدالرشید صاحب 1.9 ۷۰ مرزا منور احمد صاحب مرزا طاہر احمد صاحب مولوی غلام باری صاحب سیف -1 میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ دونگ عقل اور سمجھ پر کس طرح مبنی ہے.اس میں یا تو جنبہ دار کی سے کام لیا گیا ہے اور یا بھیڑ چال اختیار کی گئی ہے.ہو سکتا ہے کہ تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل ہو لیکن میرے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں.طاہر احمد شاگر د ہے اور مولوی غلام باری صاحب سیف استاد ہیں.استاد کو بہت کم ووٹ ملے ہیں اور شاگر د کو زیادہ اور یہ استاد کی کنند منیشن (Condemnation) ہے.اس کے یہ معنے ہیں.کہ استاد نالائق ہے اور شاگرداچھا ہے.ممکن ہے میرے ذہن میں بھی ان کے خلاف بعض باتیں ہوں لیکن تمہارے نقطۂ نگاہ سے یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ استاد کے مقابلہ میں شاگرد کو زیادہ ووٹ تم نے کس طرح دے دیئے.جب طاہر احمد کے مقابلہ میں اس کا استاد موجود تھا تو تم نے کم ووٹ کیوں دیئے.پھر قریشی عبدالرشید صاحب ہیں.قریشی صاحب خدام الاحمدیہ کے پرانے ورکر ہیں.ان کو بھی انتخاب میں دوسروں سے نیچے گرا دیا گیا ہے.میں گراتا تو اس کی کوئی وجہ ہوتی.جو وجوہات میرے پاس ہیں وہ تمہارے پاس نہیں.یہ لوگ میرے ساتھ کام کرتے ہیں اس لئے مجھے ان کے نقائص اور خوبیوں کا علم ہے.لیکن تمہارے گرانے کی وجہ معلوم نہیں ہوتی.اس سے بھی ظاہر ہو تا ہے
688 کہ تم نے طاہر احمد کو محض صاحبزادہ سمجھ کر ووٹ دیدیئے ہیں اور اگر ایسے اہم معاملات میں محض صاحبزادگی کی بناء پر کسی کو ترجیح دے دی جائے تو قوم تو ختم ہو گئی.انتخاب کے لئے کام اور قابلیت دیکھی جاتی ہے صاحبزادگی نہیں دیکھی جاتی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحیح طور پر وہی لوگ کام کر سکتے ہیں جو میرے قریب ہوں اور اگر تم نے یہ دیکھا ہے کہ کسی کو مجھ سے ملنے کا موقعہ زیادہ مل سکتا ہے تو یہ بات اچھی ہے.لیکن اس بات کو نظر انداز کر دیا جائے تو ہر ایک کا حق ہے کہ وہ اس عہدہ پر کام کرے.اگر ایک شخص کو مجھ سے ملاقات کا موقعہ زیادہ ملتا ہے اور دوسرا اس سے زیادہ قابل ہو تو ترجیح اس شخص کو دی جائے گی جو قابل ہو گا.پس یہ انتخاب یا تو جنبہ داری کی وجہ سے ہوا ہے اور یا اس میں بھیڑ چال سے کام لیا گیا ہے.اگر تمہیں کسی سے محبت ہے تو اس سے محبت کرنے کے اور ذرائع استعمال کرو.اسے تحفے دو.اس سے باتیں کرو.اس سے تعلقات بڑھاؤ لیکن اسلام تمہیں یہ اجازت نہیں دیتا کہ تم محض محبت اور پیار کی وجہ سے کسی کا حق دوسرے کو دے دو.جو مال سلسلہ کا ہے وہ چاہے کوئی رشتہ دار ہو یا دوست - تم محض دوستی یا رشتہ داری کی وجہ سے کسی کو نہیں دے سکتے.پچھلی دفعہ بھی تم نے ایسا ہی کیا.تم نے مرزا خلیل احمد کو منتخب کر لیا اور وہ آج تک امتحان میں فیل ہو رہا ہے.کلاس سے نہیں نکلا اور تم نے آج سے چار سال قبل اپنا صدر منتخب کر لیا تھا اور میں نے وہ انتخاب رد کر دیا تھا اس لئے کہ انتخاب میں جنبہ داری اور پارٹی بازی سے کام لیا گیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ آج سے مجلس خدام الاحمدیہ کا صدر میں خود ہوں گا تا تمہیں اس بات کی تحریک ہو کہ تم صحیح اسلامی روح اپنے اندر پیدا کرو.اگر صحیح اسلامی روح کسی کے انتخاب کے خلاف جاتی ہے تو تم اس کے خلاف جاؤ.میں مناسب نہیں سمجھتا کہ تم میں سے ہر ایک کو کھڑا کر کے دریافت کروں کہ اسے کسی اور نے کسی شخص کو ووٹ دینے کے لئے کہا تھا یا نہیں.لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اس قسم کے انتخابات عقل کے خلاف ہوتے ہیں.انتخاب کے وقت ہمیشہ قابلیت دیکھنی چاہے.میں جانتا ہوں کہ مرزا ناصر احمد میں پہلے کئی نقائص تھے جو بعد میں دور ہو گئے لیکن منور احمد میں وہ قابلیت نہیں جو ناصر احمد میں تھی لیکن بہر حال چونکہ اس کو اس کام کا ایک حد تک تجربہ ہے.اگر وہ اپنی اصلاح کر لے گا تو اس کام کو کرلے گا اس لئے میں اس کا نام نائب صدر کے لئے منظور کرتا ہوں مگر یادر ہے کہ کام کو لٹکایا نہ جائے.کام کو لٹکانا قوم کو ذلت کی طرف لے جاتا ہے - انگریزوں میں ایک اصطلاح مشہور ہے اور وہ ہے ریڈ ٹیپ ازم - جب کسی سوال کا جواب فوری طور پر نہ دینا ہو یا ایک چیز پہلے ایک شخص کے پاس جائے.پھر دوسرے کے پاس جائے پھر تیسرے کے پاس جائے اور اس طرح اس کا جواب آنے میں پانچ چھ ماہ کا عرصہ لگ جائے تو اس کا نام انہوں نے ریڈ ٹیپ ازم رکھا ہے لیکن اس لعنت سے بھی بڑی لعنت ہمارے حصہ میں آئی ہے.ہمارے مقابلہ میں انگریز کی نسبت جوں کے مقابلہ میں گاڑی کی ہے جو رفتار جوں کی گاڑی کے مقابلہ میں ہوتی
689 ہے وہی انگریز کے مقابلہ میں ہماری رفتار ہے.جس تیزی اور تندہی سے انگریز کام کرتے ہیں ہم نہیں کرتے.اگر انگریزوں کا ریڈ ٹیپ ازم ہم میں آجائے تو پتہ نہیں ہم میں کس قدر تیزی آجائے.ایک واقعہ مشہور ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں کس قدر سستی اور غفلت سے کام لیتے ہیں.راجپوتانہ کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہاں کسی گھر میں آگ لگ گئی.پانچ سات میل پر کوئی قصبہ تھا جہاں فائر بریگیڈ تھا.اس نے وہاں فون کیا کہ میرے گھر کو آگ لگ گئی ہے.فائر بریگیڈ بھیجو اؤ تا آگ بجھائی جا سکے.اسے جواب ملا کہ فائر بریگیڈ کو روانگی کا حکم مل چکا ہے اور وہ تمہارے پاس بہت جلد پہنچ جائے گا لیکن یہ جواب تب دیا گیا تھا جب اس کا مکان جل کر دوبارہ بھی تعمیر ہو چکا تھا.اُس نے اس جواب کے جواب میں لکھا کہ آپ کا شکر یہ مگر اب تو مکان دوبارہ تعمیر ہو چکا ہے.اب فائر بریگیڈ کی ضرورت نہیں.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ میں ایک دفعہ قادیان کے قریب ایک گاؤں پھیر و پیچی گیا.وہاں میں اکثر دفعہ جایا کرتا تھا.وہاں میری کچھ زمین بھی تھی.شروع میں ہم وہاں خیمے لگا کر رہتے تھے.ایک دفعہ باورچی نے مجھے اطلاع دی کہ آٹا ختم ہو گیا ہے اس لئے مزید آٹا پسوانے کا انتظام کر دیا جائے.صرف ایک وقت کا آنا باقی ہے.مہمان کثرت سے آتے جاتے ہیں اس لئے اس کا انتظام جلد کر دیا جائے.میں نے ایک دوست کو بلایا ان کا نام قدرت اللہ تھا.اور وہ میری زمینوں پر ملازم رہ چکے تھے.میں نے انہیں کہا کہ آنا ختم ہو چکا ہے.صرف ایک وقت کا آنا باقی ہے.مہمان کثرت سے آتے ہیں اس لئے دو بوریاں آٹا پسوالاؤ.وہاں قریب ہی تمہیں کے قریب پن چھیاں تھیں اس لئے آٹا پسوانے میں کوئی دقت نہیں تھی.میں نے انہیں یہ ہدایت کی کہ اس بارہ میں سستی نہ کرنا.یہ نہ ہو کہ مہمانوں کو آنا نہ ہونے کی وجہ سے کوئی تکلیف ہو.گاؤں سے اتنا آنا نہیں مل سکتا چنانچہ وہ اسی وقت چلے گئے تا آنا پسوانے کا انتظام کریں.میں نے انہیں چلتے چلتے بھی تاکید کی کہ آنا جلد پسوا کر لانا اس میں سستی نہ کرنا.دوسرے دن صبح کا وقت آیا.کھانا تیار ہو کر آگیا اور ہم نے کھالیا.شام ہوئی تو کھانا آگیا.میں نے خیال کیا کہ آنا آگیا ہو گا لیکن بعد میں باورچی نے بتایا کہ اس وقت تو ہم نے گاؤں کے دوستوں سے تھوڑا تھوڑا آٹا مانگ کر گزارہ کر لیا ہے.کل کے لئے آٹا کا انتظام کرنا مشکل ہے.آپ آٹا پسوانے کا جلد انتظام کر دیں.اتنے چھوٹے گاؤں میں اس قدر آٹے کا انتظام نہیں ہو سکتا.میں نے سمجھا چلو اس وقت آٹا نہیں آیا تو صبح آجائے گا لیکن صبح کے وقت بھی آنا نہ آیا.میں نے کہا.چلو اس وقت گاؤں سے تھوڑا تھوڑا آنا مانگ کر گزارہ کر لو.امید ہے شام تک آنا آجائے گا.ویسے تو گاؤں، میں چار پانچ سو احمدی تھے لیکن کسی ایک گھر سے اس قدر آئے کا انتظام مشکل تھا.چنکی چنکی آنا مانگنا پڑا تا تھا.اب 48 گھنٹے گذر چکے تھے لیکن میاں قدرت اللہ صاحب واپس نہ آئے پھر اگلی شام بھی آگئی لیکن میاں قدرت اللہ صاحب واپس نہ آئے چنانچہ پھر گاؤں کے احمدیوں سے آنا مانگ کر گزارہ کیا گیا.اس پر میں نے ایک آدمی کو میاں قدرت اللہ صاحب
690 کے پاس بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ وہ یہ معلوم کرے کہ آٹا پسوانے میں اتنی دیر کیوں ہو گئی ہے.وہاں یہ لطیفہ ہوا کہ اس دوست نے میاں قدرت اللہ صاحب کے دروازہ پر دستک دی لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا.آخر اس نے بلند آواز سے کہا.حضور خفا ہو رہے ہیں.آٹا نہ ہونے کی وجہ سے سخت تکلیف ہو رہی ہے.آخر تم بتاؤ تو سہی کہ آٹا پسوانے میں کیوں دیر واقع ہوئی ہے.آخر میاں قدرت اللہ صاحب باہر نکلے اور کہا اسی غور پیٹے کرنے آں کہ آتا کیڑی چکی توں پسوائیے.یعنی میں تین دن سے یہ غور کر رہا ہوں کہ آنا کسی چکی سے پسوایا جائے.گویا آٹا پسوانے کا سوال ہی نہ تھا.ابھی تو یہ غور ہو رہا تھا کہ آٹا پسوایا کہاں سے جائے.تو یہ ہمارے ملک کی ریڈ ٹیپ ازم ہے.ہم ہر معاملہ کو اتنا لٹکاتے ہیں کہ دو منٹ کا کام ہو تو اس پر مہینوں لگ جاتے ہیں.میرا ناظروں سے روزانہ یہی جھگڑا ہوتا ہے اور انہیں میاں قدرت اللہ صاحب کی ہی مثال دیتا ہوں مثلاً ناظر صاحب بیت المال نے شکایت کی کہ فلاں شخص کے ذمہ سولہ ہزار روپیہ کا نین نکلا ہے اور دو ہزار روپیہ کا غبن اور ہے.صدر انجمن احمد یہ کہتی ہے کہ جب تم پوری تحقیقات کر لو گے تو اس کے خلاف کارروائی کریں گے.میں نہیں سمجھتا کہ اس میں کونسی مصلحت ہے.اس معاملہ میں اتنی دیر ہو گئی کہ صدرانجمن احمدیہ کے لئے بعد میں مشکلات کا سامنا ہو گا.یا تو ثبوت ضائع ہو جائیں گے یا فریق ثانی کو اس بات کا شکوہ ہو گا کہ وہ کوئی فیصلہ نہیں کر رہے.معاملہ کو یونہی لٹکایا جارہا ہے - ( مشکلات کا سامنا ہو گیا.کیونکہ جس شخص نے روپیہ کی ضمانت دی تھی وہ فوت ہو گیا ہے ) اس سے پہلے بھی دو تین کیس ہو چکے ہیں اور اب ان کی طرف سے درخواست آئی ہے کہ ہمیں تنخواہیں دی جائیں.گویا ایک طرف تو جماعت کا نقصان ہوا اور دوسری طرف یہ جرمانہ ہوا کہ جرم کرنے والوں کو تنخواہیں دی جائیں.میں نے ناظر صاحب اعلیٰ کو یہی لکھا ہے کہ تم ناظر صاحب بیت المال کو یہ جواب کیوں نہیں دیتے کہ کیا آپ کو ہمارا دستور معلوم نہیں کہ ہم ہر معاملہ کو ہمیشہ لٹکایا کرتے ہیں تا ثبوت ضائع ہو جائیں اور مجرم دو سال کی تنخواہ اور لے لے.غرض ریڈ ٹیپ ازم کی اتنی مصیبت ہے کہ باوجود کوشش کے احمدیوں سے بھی نہیں جاتی.خدام میں بھی اس قسم کی غفلت اور سستی پائی جاتی ہے.میراذاتی تجربہ ہے.میں نے منور احمد کو دیکھا ہے.اسے کوئی کام بتاؤ.چاہے وہ چند منٹ کا ہو وہ اسے دو تین ماہ تک لٹکائے جاتا ہے.بہر حال چونکہ آپ لوگوں نے اس کے حق میں رائے دی ہے.اس لئے میں اسے ایک چانس اور دیتا ہوں.اسے اپنی عادت کی اصلاح کرنی چاہئے.چاہے رات کو بیٹھ کر کام کرنا پڑے کسی چیز کو زیادہ دیر تک لٹکانا نہیں چاہئے.میری کئی راتیں ایسی گزری ہیں کہ میں نے رات کو عشاء کے بعد کام شروع کیا اور صبح کی اذان ہو گئی.تم یہ کیوں نہیں کر سکتے.اب بھی میرا یہ حال ہے کہ میری اس قدر عمر ہو گئی
691 ہے.چلنے پھرنے سے میں محروم ہوں.نماز کے لئے مسجد میں بھی نہیں جاسکتا لیکن چار پائی پر لیٹ کر بھی میں گھنٹوں کام کرتا ہوں.پچھلے دنوں جب فسادات ہوئے، میں ان دنوں کمزور بھی تھا اور بیمار بھی لیکن پھر بھی رات کے دودو تین تین بجے تک روزانہ کام کرتا تھا.چھ ماہ کے قریب یہ کام رہا.جو لوگ ان دنوں کام کر رہے تھے وہ جانتے ہیں کہ کوئی رات ہی ایسی آتی تھی جب میں چند گھنٹے سوتا تھا.اکثر رات جاگتے جاگتے کٹ جاتی تھی.نوجوانوں کے اندر تو کام کرنے کی امنگ ہونی چاہئے.میاں قدرت اللہ صاحب والا غور انہیں چھوڑ دینا چاہئے.پس میں آپ سب کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے کاموں میں چستی پیدا کرو.تیسرے نمبر پر میر داؤد احمد صاحب کے ووٹ زیادہ ہیں.ان کی عمر طاہر احمد سے زیادہ ہے اور تجربہ بھی اس سے زیادہ ہے اس لئے دوسرے نمبر پر نائب صدر میں انہیں بناتا ہوں لیکن چونکہ میر داد د احمد صاحب تبلیغ کے سلسلہ میں بیرون پاکستان جارہے ہیں اس لئے ان کے چلے جانے کے بعد باقی عرصہ کے لئے مولوی غلام باری صاحب سیف نائب صدر نمبر 2 ہو نگے.میں نے بتایا ہے کہ ناصر احمد اب انصار اللہ میں چلے گئے ہیں.ان کے متعلق میں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ آئندہ انصار اللہ کے صدر ہوں گے.اگر چہ میرا یہ حکم ڈکٹیٹر شپ کی طرز کا ہے لیکن اس ڈکٹیٹر شپ“ کی وجہ سے ہی تمہارا کام اس حد تک پہنچا ہے ورنہ تمہارا حال بھی صدر انجمن احمدیہ کی طرح ہی ہو تا.ایک دفعہ ایک جماعت کی طرف سے ایک چٹھی آئی جو سیکرٹری مال کی طرف سے تھی.انہوں نے تحریر کیا کہ ہمارے بزرگ ایسے نیک اور دین کے خدمت گزار تھے کہ انہوں نے دین کی خاطر ہر ممکن قربانی کی لیکن اب ہم جو ان کی اولاد ہیں، ایسے نالائق نکلے ہیں کہ جماعت پر مالی بوجھ روز بروز زیادہ ہو رہا ہے.لیکن ہم نے اپنا چندہ اتنے سالوں سے ادا نہیں کیا.آپ مہربانی کر کے اپنا آدمی یہاں بھجوائیں.دوستوں کو ندامت محسوس ہو رہی ہے.چنانچہ یہاں سے نما ئندہ بھیجا گیا اور چند دن کے بعد اس کی طرف سے ایک چٹھی آئی کہ ساری جماعت یہاں جمع ہوئی اور سب افراد اپنی سستی اور غفلت پر روئے اور انہوں نے درخواست کی ہے کہ پچھلا چندہ ہمیں معاف کر دیا جائے.آئندہ ہم با تقاعدہ چندہ ادا کریں گے اور اس کام میں غفلت نہیں کریں گے.کچھ عرصہ کے بعد پھر بقایا ہو گیا تو ایک اور چٹھی آگئی کہ مرکز کی طرف سے کوئی آدمی بھیجا جائے.احباب میں ندامت پیدا ہوئی ہے.چنانچہ ایک آدمی گیا.تمام لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے گریہ وزاری کی اور یہ درخواست کی کہ پہلا چندہ معاف کیا جائے.آئندہ ہم با قاعدہ چندہ ادا کریں گے.غرض ہر تیسرے سال یہ چکر چلتا.دو تین آدمی ایسے تھے جو باقاعدہ طور پر چندہ ادا کرتے تھے.باقی کا یہی حال تھا.اگر میں مجلس خدام الاحمدیہ کے بارہ میں ڈکٹیٹر شپ استعمال نہ کرتا تو تمہارا بھی میں حال ہو تا.نوجوانوں کو میں نے پکڑ لیا اور انصار اللہ کو یہ سمجھ کر کہ وہ بزرگ ہیں ان میں سے بعض میرے اساتذہ بھی ہیں' چھوڑ دیا لیکن اب
692 تم دیکھتے ہو کہ خوردبین سے بھی کوئی انصار اللہ کا ممبر نظر نہیں آتا.پس ناصر احمد کو میں انصار اللہ کا صدر مقرر کرتا ہوں.وہ فوراً انصار اللہ کا اجلاس طلب کریں اور عہدیداروں کا انتخاب کر کے میرے سامنے پیش کریں.( تین ماہ کے عرصہ میں خدام سے انصار اللہ میں جا کر ناصر احمد نے بھی کوئی کام نہیں کیا.معلوم ہوتا ہے وہاں کی ہوا لگ گئی ہے ) اور پھر میرا مشورہ لے کر انہیں از سر نو منظم کریں.پھر خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کی طرح انصار اللہ کا بھی سالانہ اجتماع کیا کریں لیکن ان کا انتظام اور قسم کا ہو گا.اس جتماع میں کھیلوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے.کبڈی اور دوسری کھیلیں ہوتی ہیں.انصار اللہ کے اجتماع میں درس القرآن کی طرف زیادہ توجہ دی جائے اور زیادہ وقت تعلیم و تدریس پر صرف کیا جائے.خدام الاحمدیہ کی تنظیم اب روز بروز بڑھ رہی ہے اس لئے ان کے کاموں میں پہلے سے زیادہ چستی پیدا ہونی چاہئے.پچھلے دنوں لاہور والوں نے جو کام کیا ہے، وہ نہایت قیمتی تھا لیکن اگر لاہور کی مجلس زیادہ منظم ہوتی تو یقینا ان کا کام زیادہ مفید ہو سکتا تھا اور اگر لاہور والوں کو منتظم ہونے کا احساس ہو تا تو اسکا قاعدہ یہ تھا کہ لاہور والے مرکز کو لکھتے کہ وہ اپنا ایک نمائندہ یہاں بھیج دیں.پھر وہ نمائندہ دوسری مجالس کو تارمیں دیتا کہ تم لوگ یہاں آکر کام کرو.اس طرح لاہور میں خدمت خلق کا کام وسیع ہو سکتا تھا.جب میں نے ربوہ سے معمار بھجوائے تو لاہور میں اتنا کام نہیں ہو سکا جس کی ہمیں امید تھی اور اس کی زیادہ وجہ یہی تھی کہ سامان بہت کم تھا.معماروں کو وقت پر سامان میسر نہیں آیا.اگر لاہو روالے اس کے متعلق پہلے غور کر لیتے اور ہمیں سامان کا اندازہ لگا کر بھیج دیتے تو یہاں سے معمار کام کا اندازہ کر کے بھیجے جاتے.اب انہوں نے خدمت بھی کی لیکن کام زیادہ نہیں ہوا.اگر سامان کم تھا تو ہم کچھ معمار اس وقت بھیج دیتے اور باقی معماروں سے کسی اور موقعہ پر کام لے لیتے.انسان آنریری خدمت ہر وقت نہیں کر سکتا.آخر اس نے اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہوتا ہے.بہر حال اس قسم کے تمام کام اسی وقت عمدگی سے سر انجام دیئے جا سکتے ہیں جب مجالس ایک دوسرے سے تعاون کریں.سیلاب کے دنوں میں باقی مجالس نے بھی کام کیا ہے لیکن لاہور کی جماعت نے جس قسم کا کام کیا ہے اس سے انہیں ایک خاص معیار حاصل ہو گیا ہے.موجودہ قائد خدام الاحمدیہ کے اندر وقت کا احساس ہے.میں جب لاہور گیا اور میں نے ربوہ کے معماروں کے بنائے ہوئے مکانوں کو خود دیکھا تو ایک جگہ پر ایک کمرہ تعمیر کرنے کے لئے میں نے انہیں اندازہ بھیجوانے کی ہدایت کی.غور کرنے والے تو شاید اس پر کئی دن لگا دیتے لیکن انہوں نے اندازہ گھنٹوں میں پہنچا دیا اور پھر اس کی تفصیل بھی ساتھ آئی.پس تم خدمت خلق کے کام کو نمایاں کرو اور اپنے بجٹ کو ایسے طور پر بناؤ کہ وقت آنے پر کچھ حصہ اس کا خدمت خلق کے کاموں میں صرف کیا جا سکے.قادیان میں یہ ہوتا تھا کہ زیادہ زور عمارتوں پر رہتا تھا
693 حالانکہ اگر کوئی عمارت بنانی ہی ہے تو پہلے اس کا ایک حصہ بنالیا جائے.کچھ کچے کمرے بنائے جائیں.جماعت بڑھتی جائے گی تو چندہ بھی زیادہ آئے گا اور اس سے عمارت آہستہ آہستہ مکمل کی جاسکے گی.پس اپنے بحث کا ایک حصہ خدمت خلق کے لئے وقف رکھو.جیسے ہلال احمر اور ریڈ کر اس کی سوسائٹیاں کام کر رہی ہیں.اگر تم آہستہ آہستہ ایسے فنڈز جمع کرتے رہو تو ہنگامی طور پر یہ رقوم کام آجائیں گی.مثلا چگال میں سیلاب آیا تو جماعت کی طرف سے نہایت اچھا کام کیا گیا لیکن چونکہ چندہ دیر سے جمع ہوا.اس لئے کام ابھی تک جاری ہے.چندہ جب مانگا گیا تھا تو صرف مشرقی پاکستان کا نام لیا گیا تھا' پنجاب کا نام نہیں لیا گیا تا کہ مزید چندہ مانگنے پر جماعت پر مالی بوجھ نہ پڑے.اگر اس قسم کی رقوم پہلے سے جمع ہو تیں تو جمع شدہ چندہ ہم مشرقی پاکستان پر خرچ کر دیتے اور ان رقوم میں سے ایک حصہ پنجاب میں خرچ کر دیا جاتا.پس ہر سال بحث میں اس کے لئے بھی کچھ مار جن رکھ لیا جائے اور تھوڑی بہت رقم ضرور الگ رکھی جائے.وہ رقم ریزور ہو گی جو قحط اور سیلاب وغیرہ مواقع پر صرف کی جائے گی.تم اس کا کوئی نام رکھ لو.ہماری غرض صرف یہ ہے کہ اس طرح ہر سال کچھ رقم جمع ہوتی رہے گی جو کسی حادثہ کے پیش آنے یا کسی بڑی آفت کے وقت خدمتِ خلق کے کاموں پر خرچ کی جا سکے.جاپان میں زلزلے کثرت سے آتے ہیں.فرض کر دوہاں کوئی ایسا زلزلہ آجائے.جس قسم کا زلزلہ پچھلے دنوں آیا تھا اور اس کے نتیجہ میں دو تین ہزار آدمی مر گئے تھے تو ایسے مواقع پر اگر خدام الاحمدیہ کی طرف سے گورنمنٹ کے واسطہ سے کچھ رقم وہاں بھیج دی جائے تو خود بخود خدام الاحمدیہ کا نام لوگوں کے سامنے آجائے گا.اس قسم کی مدد سے بین الا قوامی شہرت حاصل ہو جاتی ہے اور طبائع کے اندر شکریہ کا جذبہ پیدا کر دیتی ہیں.اگر اس قسم کے مصائب کے وقت کچھ رقم تار کے ذریعہ بطور مدد بھیج دی جائے تو دوسرے دن ملک کے سب اخبارات میں مجلس کا نام چھپ جائے گا.پچھلے طوفان میں ہی اگر خدام کے مختلف وفود بنائے جاتے اور تنظیم کے ذریعہ سے باہر کی مجالس سے آدمی منگوا لئے جاتے تو زیادہ سے زیادہ آدمی سیلاب زدہ لوگوں کی امداد کے لئے بھیجے جاسکتے تھے.مثلا سیلاب کا زیادہ زور ملتان، سیالکوٹ اور لاہور کے اضلاع میں تھا.اگر ان ضلعوں کی مجالس کو منظم کیا جاتا اور باقی مجالس سے مدد کے لئے مزید آدمی آجاتے اور انہیں بھی امدادی کاموں کے لئے مختلف جگہوں پر بھیجا جاتا تو پھر ان کا کام زیادہ نمایاں ہو جاتا.پھر یہ بھی چاہئے کہ حالات کو دیکھ کر غور کیا جائے کہ کس رنگ میں کام کرنے کی ضرورت ہے.لاہور میں میں نے دیکھا ہے کہ بعض جگہ چھپر ڈال کر لوگوں کو پناہ دی جاسکتی تھی.اگر شہر کے ارد گرد تالابوں سے تنکے اور گھاس کاٹ کر لایا جاتا تو اس سے بڑی آسانی سے چھپر بنا کر چھت کا کام لیا جاسکتا تھا.اس طرح لکڑی کے مہیا کرنے کی ضرورت نہیں تھی.اسی طرح اس قسم کے مواقع پر پکے مکانات کی ضرورت نہیں ہوتی.پھسکے کی عمارت کی ضرورت ہوتی ہے اور لکڑی کی بجائے بانس اور تنکوں کا چھت بنا دیا جاتا
694 ہے.لاہور میں کئی ایسی جگہیں تھیں جہاں سردی سے بچاؤ کے لئے چھت کی ضرورت تھی.یہ سب کام آرگنائزیشن سے ہو سکتے تھے.ہمارے محکمہ خدمت خلق کا یہ کام ہے کہ نہ صرف وہ مجالس کو آرگنا ئز (organize) کرے بلکہ اس قسم کا انتظام کرے کہ اگر کسی جگہ کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو کس طرح ساری جماعت کا زور اس طرف ڈالا جا سکے.آئندہ میرے پاس رپورٹیں آتی رہنی چاہئیں کہ کس طرح خدمت خلق کے کام کو آر گنائز کیا گیا ہے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض حلقے بنادئیے جائیں اور ان کی آپس میں آرگنائزیشن کر دی جائے جیسے زونل سسٹم ہو تا ہے.اس طرح صوبہ کے مختلف زون مقرر کر دیئے جائیں.مثلاً یہ کیا جا سکتا ہے کہ ملتان کے اردگرد سوسو میل کا ایک زون بنا دیا جائے.اس علاقہ میں آبادی کم ہے اس لئے اس سے بڑا زون بھی بنایا جاسکتا ہے.پھر ہر زون میں خدمت خلق کا ایک افسر مقرر کیا جائے جو مصیبت آنے پر دوسری مجالس کو تار دیدے کہ فلاں جگہ پر مصیبت آئی ہے امدادی کاموں کے لئے خدام بھیج دیے جائیں.اسی طرح یا درکھو کہ ہمارا ملک ایسے حالات سے گذر رہا ہے کہ اس میں نہ صرف بڑے بڑے طوفان آسکتے ہیں بلکہ طوفان لائے بھی جا سکتے ہیں.ہم نچلے علاقہ میں ہیں اور ہندوستان کی حکومت اوپر کے علاقوں پر قابض ہے اور وہ پانی چھوڑ کر طوفان لا سکتی ہے.پھر لاہور میں امدادی کاموں کے سلسلہ میں جو دقت پیش آئی تھی اس کے متعلق دریافت کرنے پر مجھے بتایا گیا کہ اس موقعہ پر بھٹہ والوں نے بد دیانتی کی.ان لوگوں نے اس موقع پر اینٹ کو مہنگا کر دیا.اگر اس قسم کی تحریک کی جاتی کہ جماعتیں مل کر ان کو توجہ دلائیں کہ ایسے مواقع پر آپ لوگوں کا بھی فرض ہے کہ مصیبت زدگان کی امداد کریں تو یقیناوہ کم قیمت پر اینٹ سپلائی کرتے.میرے نزدیک آئندہ کے لئے ابھی سے لاہور کے بھٹہ والوں سے مل کر انہیں اس بات پر تیار کیا جائے کہ اگر ملک کو آئندہ ایسا حادثہ پیش آیا تو وہ اینٹ کم قیمت پر دیں گے اور دوسرے گاہکوں پر امدادی کاموں پر ترجیح دیں گے.بے شک اس میں دقت پیش آئے گی اور پہلے ایک آدمی بھی مشکل سے مانے گا لیکن آہستہ آہستہ کئی لوگ مان لیں گے اور پھر جو لوگ آپ کی بات مان لیں.ان کے نام محفوظ رکھ لئے جائیں.اس طرح اس کام کو منظم کیا جائے.میں نے اس دفعہ ایک شعبہ کو منسوخ کر دیا ہے اور وہ ایثار و استقلال کا شعبہ ہے کیونکہ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تربیت و اصلاح کے علاوہ ایثار و استقلال کا الگ شعبہ کس غرض کے لئے ہے.جب تک اسکے متعلق کوئی نئی سکیم پیش نہ کی جائے میں اسے بحال نہیں کر سکتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس عہدہ کو میں نے ہی قائم کیا تھا لیکن اب مجھے یاد نہیں رہا کہ اسے کس غرض سے قائم کیا گیا تھا.پس جب تک مجھے یہ نہ بتایا جائے کہ تربیت واصلاح کے علاوہ ایثار و استقلال نے کیا کام کرنا ہے، یہ شعبہ تربیت واصلاح میں مدغم رہے گا.ہاں اگر
695 مجھے بتا دیا جائے کہ اس عہدہ نے پہلے کیا کام کیا ہے اور اب اسے کس طرح زندہ رکھا جاسکتا ہے تو میں اس کی دوبارہ منظوری دے دوں گا.(فرموده ۷ نومبر ۱۹۵۴ء مطبوعه الفضل ۹ فروری ۱۹۵۵ء)
اپنے پیاروں کی نسبت ہرگز نہ کروں گا پسند چھوٹے درجہ راضی ہوں اور اُن کی نگاه رہے وه چھوٹی چھوٹی باتوں پر شیروں کی کی طرح غراتے ہوں یا قصور اگر دیکھیں تو منہ میں گف بھر لاتے ہوں چھوٹی اونی اونی چھوٹی چیزوں خواہش لگائے بیٹھے پر ہوں مقصود بنائے بیٹھے ہوں زباں سے بیٹھے دشمن کو مارے جاتے ہوں یدانِ عمل کا نام بھی لو تو جھینپتے ہوں گھبراتے ہوں گیدڑ کی طرح وہ تاک میں ہوں شیروں کے کے شکار جانے بیٹھے خوابیں دیکھتے ہوں ان وہ کا جوٹھا کھانے میری ألفت کے طالب میرے دل کا اپنے نفس کو دیکھ لے تو وہ ان باتوں میں کیسا تیری ہمت چھوٹی گر ہے تیرے ارادے مرده تیری اُمنگیں کو تہ ہیں گر کیا تیرے ساتھ لگا کر دل تیرے خیال افسرده میں خود بھی کمینہ بن جاؤں ہوں جنت کا مینار مگر دوزخ کا زینه بن جاؤں خواہش میری الفت کی تو اپنی کے جالوں میں مت پھنس کر قبضہ جا نگاہیں کے اُونچی مقدر واحد کا ہوں دل تو بھی واحد بن ذذ داده اور واحد میرا پیارا جائے 3 میری آنکھ کا ہو ساری دنیا میں ཚྭ ག دنیا کو دے لیکن کوئی ساجھی اور شریک نہ خود تیرے ہاتھ میں بھیک نہ >>>>>
رسائل اور کتب کے مطالعہ کی اہمیت رسالہ خالد کوشاندار علمی پر چہ بناؤ اس رسالے کو عالمگیر حیثیت دو خدام کا یہ فرض قرار دیا جائے کہ وہ اس رسالہ میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھیں تم نے اگر خالد جاری کیا ہے تو تم اس کی خریداری بڑھاؤ جماعت احمدیہ کا غیر معمولی استقلال خدام الاحمدیہ کا قیام بھی اس مقصد کے ماتحت کیا گیا ہے کہ نو جوانوں میں اسلام کی روح کو زندہ رکھا جائے نوجوان یورپ کی چمک سے مرعوب نہ ہوں خدام الاحمدیہ کو اپنی ترقی کا ریکارڈ رکھنا چاہئے
698 ہر خادم اپنے رسالہ کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور لکھے گذشتہ سال بیرونی خدام کی تعداد ۴۶۰ تھی.اس سال ۳۵۱ خدام باہر سے آئے ہیں.گویا بیرونی خدام کی تعداد میں تمیں فیصد کا فرق پیدا ہو گیا ہے.کہا جاتا ہے کہ پچاس کے قریب کالج کے سٹوڈنٹ ہیں جو پہلے بیرونی خدام میں شمار ہوتے تھے مگر اب مقامی خدام میں ان کا شمار کیا گیا ہے.اگر اس تعداد کو مد نظر رکھا جائے تو پھر بھی باہر سے آنے والے خدام میں انسٹھ کی کمی رہ جاتی ہے لیکن اس دفعہ اطفال باہر سے چھیاسٹھ آئے ہیں.اگر ان کو بھی ملا لیا جائے تو یہ تعداد پوری ہو جاتی ہے.لیکن اطفال پچھلے سال بھی الگ شمار ہوئے تھے اور اس سال بھی الگ شمار کئے گئے ہیں اس لیے وہ بیرونی خدام کی تعداد میں شامل نہیں کئے جاسکتے.بہر حال اس سال بیرونی جماعتوں سے گذشتہ سال کی نسبت کم خدام آئے ہیں.لیکن مقامی خدام کو ملا کر پچھلے سال کی تعداد ۱۰۶۴ تھی اور اس سال ۱۲۲۴ ہے.اسی طرح اطفال کی حاضری پچھلے سال ۴۱۰ تھی اور اس سال ۴۳۰ ہے.یعنی پچھلے سال اطفال اور خدام ملا کر ۱۴۷۳ تعداد تھی اور اس سال ۱۶۵۴ آئے ہیں.گویا ۱۸۰ کی زیادتی ہوتی ہے.اگر گذشتہ سال کی طرح جماعتیں حصہ لیتیں تو دو اڑھائی سو کی زیادتی ہو جاتی.چونکہ بحث وقت پر پاس نہیں ہو سکا تھا اس لئے کچھ وقت اس کے لئے بھی نکالنا پڑا جس کی وجہ سے دیر ہو گئی.دوسرے میری طبیعت بھی خراب ہے اس لئے لازما مجھے بولنے میں کمی کرنی پڑے گی بہر حال اس وقت بحث پر بحث کرتے ہوئے جو سوالات پیش ہوئے ان میں سے ایک اہم سوال ”خالد “ کی اشاعت کا تھا.ابھی ہماری جماعت کی جس قسم کی حالت ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے میں زیادہ رسالوں کی اشاعت پسند نہیں کرتا.کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر رسالے نکلیں اور جماعت کو ان کی اشاعت کی طرف توجہ نہ ہو تو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا لیکن اگر ان رسالوں سے جماعت کے اندر لکھنے کا شوق پیدا ہو جائے اور کوئی کسی رنگ میں لکھے اور کوئی کسی رنگ میں تو یہ بے شک ایک مفید کام ہو سکتا ہے.جب ” خالد “ کی اشاعت کی تجویز ہوئی تھی تو اس وقت میں نے کہا تھا کہ اگر خدام اس کو چلا سکیں تو بے شک چلالیں لیکن مجھے انشراح نہیں اور آج جو اس کی خریداری کی رپورٹ پیش کی گئی ہے اس سے میرے اس شبہ کی تصدیق ہوتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں چالیس سال تک کی عمر والے افراد کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہو گی.ان میں سے اگر عورتوں کو الگ کر دیا جائے تو پچاس ہزار مردرہ جاتے ہیں اور پھر اگر چھوٹی عمر کے لڑکوں کو نکال دو تو پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر والے نوجوان ہماری جماعت میں چھپیں ہزار کے قریب ہوں گے.اب اگر دو فی صدی "خالد" کے خریدار ہوں تو اس رسالہ کی خریداری پانچ سو ہونی
699 چاہئے.اگر پانچ فیصدی خریدار ہوں تو ساڑھے بارہ سو خریداری ہونی چاہئے.اگر دس فیصدی خریدار ہوتے تو اس کی اشاعت اڑھائی ہزار تک ہوتی.مگر ایسا نہیں ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ علمی ذوق ابھی ہماری جماعت میں پیدا نہیں ہوا جو ہو نا چاہئے.مجھے ذاتی طور پر ایسی کتابوں اور رسالوں کے مطالعہ کا شوق ہے جن میں مختلف امور کے متعلق ملکوں اور قوموں کا باہم مقابلہ کیا جاتا ہے اور پھر بتایا جاتا ہے کہ مختلف ممالک یا قو میں بڑے بڑے شہر اور قصبات کس رنگ میں ترقی کر رہے ہیں.میں نے دیکھا ہے.یورپ اور امریکہ میں یہ رواج ہے کہ وہ اخباروں اور رسالوں کی فہرست دیں گے تو ساتھ ہی جس شہر یا قصبہ سے وہ اخبار یار سالہ نکلتا ہے، اس کی آبادی بھی بتائیں گے اور یہ بھی ذکر کریں گے کہ اس اختبار یار سالہ کی اشاعت کتنی ہے.میں نے دیکھا ہے وہاں ایسے قصبے جن کی تین تین چار چار ہزار کی آبادی ہے ان میں ہزار بارہ سو چھپنے والا اخبار پایا جاتا ہے.یوں بڑے بڑے اخباروں کے دیکھا جائے تو بعض اخبار ایسے ہیں جو بیس بیس لاکھ کی تعداد میں چھپتے ہیں.سارے انگلستان کی آبادی چار کروڑ ستر لاکھ ہے.اس میں بیس لاکھ کی اشاعت کے یہ معنے ہیں کہ قریبا پانچ یا پونے پانچ فیصدی تک ایک اخبار کی بحری ہے حالانکہ وہاں اور بھی بہت سے اخبار ہیں اور ان میں سے کسی کی اٹھارہ لاکھ اشاعت ہوتی ہے، کسی کی ہیں لاکھ اور کسی کی پچیس لاکھ اگر ان سارے اخباروں کو جمع کیا جائے تو کسی صورت میں ان کی بحری ڈیڑھ کروڑ سے کم نہیں ہو گی.گویا ہر چار آدمی کے پیچھے ایک اخبار بتا ہے.ان میں ہفتہ وار اخبار بھی ہیں جن میں سے بعض کی اسی اسی نوے لاکھ تک اشاعت ہے.امریکہ سے ایک رسالہ آتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ کم سے کم ایک کروڑ چھپتا ہے.چار کروڑ ستر لاکھ کی آبادی میں جس قدر روزانہ اخبار ہفتہ وار اور پھر ماہ وار رسالے نکلتے ہیں ان کی مجموعی تعداد چھ سات کروڑ سے کسی طرح کم نہیں.گویانی آدمی ڈیڑھ اخبار کی خریداری بنتی ہے.وہاں یہ طریق ہے کہ ہر آدمی دو اخبار ضرور خریدیگا.ایک صبح کا اخبار اور ایک شام کا اخبار - حالانکہ شام کے اخبار میں کوئی خاص دلچسپی کا سامان نہیں ہوتا.بس اکا دُکا خبر میں دیکھتے ہیں اور اخبار پھینک کر چلے جاتے ہیں.مثلاً اخبار اٹھایا اور یہ دیکھ لیا کہ گھوڑ دوڑ میں فلاں آگے رہا یا کتوں کی دوڑ ہوئی تو اس کا کیا نتیجہ نکلا یا فلاں جگہ کرکٹ کا میچ ہوا اور اس کا یہ نتیجہ ہوا.ایک منٹ میں وہ سرسری طور پر اخبار دیکھتے ہیں اور اپنے مذاق کی خبر اس میں تلاش کر لیتے ہیں.پھر وہ اخبار اسی جگہ رکھ دیں گے اور آگے چلے جائیں گے.لیکن محض اس لئے کہ انہیں دوسروں کے منہ سے خبر نہ سننی پڑے وہ با قاعدہ اخبار خریدیں گے اور کھڑے کھڑے یہ دیکھیں گے کہ گھوڑ دوڑ میں کون اول رہا یا کتوں کی دوڑ ہوئی تو اس کا کیا نتیجہ نکلا یا کھیل ہوئی تو اس کا نتیجہ کیا ہوا.بس ایک یا دو منٹ وہ اخبار کو دیکھتے ہیں اسکے بعد وہ اس اخبار کو وہیں پھینک دیں گے اور آپ آگے چل پڑیں گے.آپ لوگ ان کو دیکھ کر حیران ہونگے کہ انہوں نے پڑھا کیا ہے.ان کا پڑھنا بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ اخبار اٹھا کر پھینک دیا یا و ہیں زمین پر رکھ دیا اور خود
700 چلے گئے.اگر اتفاقاً کوئی ہندوستانی ان کا اخبار اٹھا کر پڑھنے لگ جائے تو سب لوگ غضب ناک آنکھوں سے اسے دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ اتنا کمینہ اور ذلیل ہے کہ دوسرے کا اخبار پڑھتا ہے لیکن ہمارے ہاں تو وہ اخبار بعض دفعہ سات سات پشت تک چلتا ہے.کسی ان پڑھ شخص کو اگر بس یا گاڑی میں سے کوئی اخبار مل جائے تو وہ بڑی احتیاط سے اسے اپنے گھر لے آئے گا اور بچے سے کسے گا کہ یہ اخبار پڑھ کر سناؤ.وہ پندرہ دن میں اس اخبار کو ختم کرتا ہے پھر اس کے بعد وہ سنبھال کر اس اخبار کو پڑ چھتی“ پر رکھ دیتے ہیں اور بچے سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے باپ کی لائبریری ہے.میں ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں باہر شکار کے لئے گیا.جس گاؤں میں ہم گئے وہاں کا نمبر دار ہم سے ملنے کے لئے آیا اور اس نے ہمیں چائے بھی پلائی.اس کے پاس سو ایکٹر زمین تھی اور زمین بھی بڑی اچھی تھی لیکن آدمی جاہل تھا.ایک دن وہ کہنے لگا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ سر کا ڈ لائل پور اور سرگودھا میں لوگوں کو مربعے دے رہی ہے لیکن مجھے نہیں دیتی حالانکہ میں نے بڑی بڑی خدمات کی ہوئی ہیں اور میرے پاس سار ٹیفکیٹ بھی موجود ہیں.میں نے درخواستیں بھی دیں مگر مجھے کوئی جواب نہیں ملا.میں حیران ہوں کہ جب سر کار دوسروں کو مربع دے رہی ہے تو مجھے کیوں نہیں دیتی جب کہ میرے پاس سار ٹیفکیٹ بھی موجود ہیں.میں نے کہا چوہدری صاحب گورنمنٹ کی پالیسی یہ ہے کہ جن کے پاس زمینیں ہیں ان کو وہ مربعے نہیں دیتی.آپ کے پاس چونکہ یہاں چار مربع زمین ہے اس لئے اس نے آپ کو وہاں زمین نہیں دی.کہنے لگا فلاں زمیندار کی بھی زمین تھی مگر اسے تو مر بعے مل گئے ہیں.میں نے کہا آپ کے پاس کیا سار ٹیفکیٹ ہیں.میں نے کہا آپ ان میں سے کوئی اچھا سا سار ٹیفکیٹ نکال کر لے آئیں تاکہ میں بھی دیکھوں کہ ان میں کیا لکھا ہے.وہ گیا اور پڑ چھتی پر سے ٹین کا بنا ہوا ایک لمبا سا بھر کا نکال لایا.اس بھیجے کے اندر ایک سارٹیفکیٹ رکھا ہوا تھا.میں نے دیکھا تو وہ سول سر جن کا سار ٹیفکیٹ تھا اور اس پر لکھا تھا کہ اس شخص نے طاعون کا ٹیکا لگوایا ہوا ہے.مگر وہ اسے سنبھالے پھرتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ نہ معلوم اس سے کتنی بڑی دولت مل سکتی ہے.میں نے اسے کہا کہ اس سے زمین کا مربع تو الگ رہا خالی آملہ کا مربہ بھی نہیں مل سکتا.کہنے لگا مجھے تو لوگوں نے بتایا تھا کہ یہ بڑا سار ٹیفکیٹ ہے.میں نے کہا یہ ہے تو بڑا مگر اس کے اندر یہ مضمون ہے.بھلا سر کار کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اس کے بدلہ میں آپ کو مربعے دے.تو ہمارے ملک میں علم کی زیادتی کی کوشش نہیں کی جاتی.محض بے کار چیزوں کو سنبھال کر رکھ لینگے اور خیال کریں گے کہ یہ بڑی جائیداد ہے.اسی طرح ایک دفعہ ایک شخص مجھے ملا جو اپنے گاؤں میں اچھار کیں اور متمول شخص تھا.کہنے لگا کہ میں پہلے احمدیوں کا بڑا مخالف تھا مگر اب میں ان کی بڑی مدد کرتا ہوں.آپ کے پاس میں اس لئے آیا ہوں کہ میں دیر سے خطاب حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر ڈپٹی کمشنر مانتا نہیں حالانکہ میں سرکار کی بڑی خدمت کر تا رہا ہوں اور دور جڑر افسروں کے سار ٹیفکیٹس سے بھرے ہوئے میرے پاس موجود ہیں.آپ اگر میری سفارش
701 کریں تو شاید میرا کام بن جائے.میں نے کہا مجھے اتنی فرصت تو نہیں کہ میں آپ کے سارے سر ٹیفکیٹ دیکھ سکوں.البتہ آپ مجھے اپنا کوئی تازہ سر ٹیفکیٹ دکھا دیں تاکہ میں بھی آپ کی خدمت کا کچھ اندازہ لگا سکوں.اس پر وہ ایک رجسٹر اٹھالایا.میں نے اسے کھولا تو پہلے صفحہ پر ہی ایک پہلے ڈپٹی کمشنر نے لکھا ہوا تھا کہ یہ بہت بُرا آدمی ہے.ہر وقت میرے پیچھے پڑا رہتا ہے اور میں جہاں پہنچوں یہ وہیں آجاتا ہے اور اس نے میر اناطقہ بند کر رکھا ہے.میں نے ہنس کر کہا کہ آپ کو پتہ بھی ہے کہ اس میں کیا لکھا ہوا ہے.اس میں تو یہ لکھا ہے کہ یہ بڑا بیہودہ آدمی ہے.میں جہاں جاتا ہوں وہاں آجاتا ہے اور مجھے ہر وقت تنگ کرتا رہتا ہے.وہ یہ سن کر کہنے لگا.بڑا بے ایمان ہے.میں نے تو اس کے ساتھ ایسے ایسے نیک سلوک کئے اور اس نے میرے متعلق رجسٹر میں یہ الفاظ لکھ دیئے.تو ہمارے اندر علمی ترقی کا شوق نہیں لیکن یورپین لوگوں کو علم بڑھانے کا بے حد احساس پایا جاتا ہے اور وہ اس کے لئے با قاعدہ اخبارات اور رسالوں کا مطالعہ رکھتے ہیں.ایسی صورت میں ہمارے ملک کے لوگوں کا ان سے مقابلہ ہی کیا ہے.کجا ایسا شخص جو دو تین آنے کا اخبار روزانہ خریدتا ہے اور اسے ایک دو منٹ کے اندر دیکھ کر پھینک دیتا ہے اور کجا ہمارا آدمی جو ریل یابس میں سے کسی کا گرا پڑا اخبار اٹھا کر لے آتا ہے اور پھر اپنی نسلوں کے لئے اسے سنبھال کر رکھ دیتا ہے.لازما وہ شخص جو روزانہ صبح اور شام اخبار خریدتا ہے اور تازہ خبریں معلوم کرتا رہتا ہے وہ اپنے علم میں دوسروں سے بہت آگے ہو گا.اگر ایک اخبار کی قیمت ایک آنہ بھی سمجھی جائے، گو آج کل دو دو چار چار آنے پر بھی پر چہ ملتا ہے تو دو اخباروں پر دو آنے خرچ ہوں گے جس کے معنے یہ ہیں کہ کم از کم چار روپے ماہوار ایک شخص کو خرچ کرنے پڑتے ہیں اور اگر تین تین آنے قیمت ہو تو بارہ روپے ماہوار کا خرچ ہو گا جو وہاں ہر شخص بر داشت کرتا ہے لیکن ہمارے ملک میں اخبارات اور رسائل پڑھنے کا شوق بہت کم ہے.”الفضل“ ہمار ا مر کزی اخبار ہے لیکن اس کی اشاعت بھی ابھی دو ہزار ہے حالانکہ ہماری جماعت بہت بڑھ چکی ہے.اگر جماعت کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے پانچ فیصدی بھی اخبار کی اشاعت ہوتی تو دس ہزار اخبار چھپنا چاہئے تھا اور صرف مردوں میں اس کی خریداری ہوتی تب بھی پانچ ہزار خریدار ہونے چاہئے تھے.مگر الفضل کا خطبہ نمبر ۲۴۰۰ چھپتا ہے اور یہ تعداد بھی بڑ ازور مارنے کے بعد ہوئی ہے ورنہ پہلے تو بہت ہی بد تر حالت تھی.صرف گیارہ بارہ سواخبار چھپتا تھا.میں نے زور دیا تو چھپیں سو تک اس کی خریداری پہنچ گئی لیکن پارٹیشن کے بعد چونکہ میں نے ذاتی طور پر اس کی اشاعت میں.دلچسپی نہیں لی اس لئے پھر اس کی خریداری ہیں سو تک آگئی ہے.لیکن میں سمجھتا ہوں اگر جماعت توجہ کرے تو چار پانچ ہزار تک اس کی بحری ہو سکتی ہے اور پھر ایسی صورت میں الفضل کا حجم بھی بڑھایا جا سکتا ہے اور اس کے مضمون میں بھی تنوع پیدا کیا جا سکتا ہے.پس ”خالد کی یا تو خدام کو ضرورت نہیں اور اگر ضرورت ہے تو اس کی
702 خریداری بڑھاؤ اور کم سے کم اپنے اندر یہ بیداری پیدا کرو کہ اس میں مضمون لکھا کرو.میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں پندرہ ہیں ہزار نوجوان ایسا ہو گا جس کی مڈل سے اوپر تعلیم ہوگی اور اس قدر تعلیم رکھنے والے بھی اگر لکھنے کی مشق کریں تو بڑا اچھا لکھ سکتے ہیں بلکہ بعض مڈل پاس تو میٹرک پاس نوجوانوں سے بھی زیادہ کام کرنے والے ہوتے ہیں.میں جب اسکول میں پڑھتا تھا تو مرزا برکت علی صاحب جو بھائی عبدالرحیم صاحب کے بڑے لڑکے ہیں وہ میٹرک والوں کو پڑھایا کرتے تھے حالانکہ وہ خود مڈل پاس تھے اور افسروں کو تسلی تھی کہ وہ اچھا پڑھاتے ہیں.پھر اپنی زبان میں تو ہر انسان اپنے مافی الضمیر کا اظہار کر سکتا ہے خواہ اس کی تعلیم ہو یا نہ ہو.اگر پہلے شاعروں اور مضمون نویسوں کو دیکھا جائے تو ان میں اتنی بھی لیاقت نہیں تھی جتنی ہمارے عام لکھے پڑھے نو جوانوں میں پائی جاتی ہے لیکن شوق اور مشق کی وجہ سے وہ آگے نکل گئے.اگر ہماری جماعت کے نوجوان بھی مضمون نویسی کی مشق کریں تو آہستہ آہستہ وہ بڑے اچھے مضمون نگار بن سکتے ہیں.اس کے لئے شروع میں وہ اتنا ہی کریں کہ کوئی چٹکلہ ذہن میں آجائے تو وہی لکھ کر ”خالد “ میں بھیجواد میں اس طرح اور بھی کئی اس بحث سے لطف اندوز ہوں گے.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو ایک جگہ بحث کے لئے بلوایا گیا.وہاں ایک سید خاندان کا فرد احمد کی ہو گیا تھا.سارا خاندان اس کے پیچھے پڑ گیا کہ اس نے سید ہو کر مرزا کی بیعت کر لی ہے اور انہوں نے کوشش شروع کی کہ وہ کسی طرح مرتد ہو جائے.آخر بحث کے لئے انہوں نے مولوی بلوایا.مولوی غلام رسول صاحب را جیکی وہاں گئے تو مولوی نے کہا کہ میں ان سے بحث نہیں کرونگا.جو شخص مرتد ہو گیا ہے تم اسے میرے سامنے لاؤ.وہ مجھ سے بات کرے.اس کے گھر والے ڈرتے تھے کہ لوگ اسے مارے پیٹیں نہ مگر جب اس مولوی نے اصرار کیا تو اس نے گھر والوں سے کہا مجھے جانے دو میں جا کر نپٹ لیتا ہوں.چنانچہ وہ آیا اور وفات مسیح پر حط شروع ہوئی.مولوی نے یہ آیت پیش کی کہ با عیسی اني متوفيك ورافعك التى اور پو چھا کہ رفع کے کیا معنے ہوتے ہیں ؟ اس نے کہا.تے “ کہنے لگا بس فیصلہ ہو گیا اللہ تعالیٰ صاف فرما رہے ہیں کہ مسیح آتے گیا ہے “.اب وہ نیچے کس طرح ہو سکتا ہے.لوگوں نے بھی شور مچادیا کہ فیصلہ ہو گیا.فیصلہ ہو گیا.یہ آدمی تھا ہو شیار کہنے لگا مولوی صاحب ! یہ بتائیں کہ رافعک کیف کے نیچے کیا ہے ؟ اس نے کہا زیر.کہنے لگا زیر کے کیا معنے ہوتے ہیں.مولوی نے کہا زیر کے معنی ”ہیٹھاں“ کے ہوتے ہیں.کہنے لگا بس یہ زیرا سے اوپر نہیں جانے دیتی.زیر صاف بتارہی ہے کہ مسیح ہیٹھاں ہی ہے اتے نہیں گیا.اس پر زمیندار حیران ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ تو علم کی باتیں ہیں جو عالم ہی سمجھ سکتے ہیں.ہم ان جھگڑوں کا کچھ فیصلہ نہیں کر سکتے.
703 تو بعض باتیں خواہ لطیفہ کے طور پر ہوں، وہی لکھ دی جائیں.اگر ہر نوجوان یہ سمجھ لے کہ میں نے کچھ نہ کچھ ضرور لکھنا ہے تو اس سے ایک تو اسے لکھنے کی مشق ہو گی.دوسرے اس کے نتیجہ میں رسالہ بھی دلچسپ ہو جائے گا.مثلا وہ یہی لکھ دے کہ فلاں مولوی نے مجھ سے یہ بات پوچھی تھی مگر مجھے اس کا جواب نہیں آیا.اس کے لئے رسالہ والے ایک سوال و جواب “ کا عنوان قائم کر دیں جس کے نیچے اس قسم کے سوالات درج ہو جایا کریں اور پھر دو دو تین تین سطروں میں ہر سوال کا جواب دیا جائے.پس اگر اور کچھ نہ لکھ سکو تو اتنا ارادہ ہی کر لو کہ ہم نے رسالہ میں کوئی نہ کوئی سوال ضرور بھجواتا ہے.اس کے بعد جب رسالہ میں تمہارے سوال کا جواب آجائے گا تو لاز ماتمیں اپنے رسالہ سے دلچسپی پیدا ہو جائے گی.پس ” خالد “ سے تم کم سے کم اتنا فائدہ تو اٹھاؤ کہ سوالات لکھ کر بھجواو یاد لچسپ واقعات ہوں تو وہی بھجوا دئیے.مثلاً پیچھے فسادات کے دنوں میں لوگ احمدیوں کو کافر کافر کہتے پھرتے تھے لیکن بعض جگہ ایسا ہوا کہ ہمارے بعض بچوں نے ان سے کہا کہ ہم کلمہ پڑھتے ہیں.تم سنو اور بتاؤ کہ کیا یہ اسلامی کلمہ ہے یا نہیں اور جب انہوں نے کلمہ پڑھا اور پوچھا کہ بتاؤ ہم کا فر ہو گئے تو لوگ شر مندہ ہو گئے.اس طرح کسی نے کا فر کہا تو ہمارے کسی بچے نے کہہ دیا کہ میں نماز پڑھ کر سناتا ہوں، تم بھی سناؤ.اس وقت پتہ لگتا ہے کہ بعض دفعہ کا فر کہنے والے کو نماز بھی نہیں آتی.اب یہ ہیں تو بچپن کے لطائف مگر ان سے علم میں ترقی ہوتی ہے.پس اگر اپنے رسالہ کو ترقی دینا چاہتے ہو تو اس کی کوئی نہ کوئی حیثیت بناؤ یا تو اسے ایسا شاندار علمی پر چہ بناؤ کہ ہر خادم یہ سمجھے کہ اگر میں نے ایسا قیمتی رسالہ نہ خریدا تو علم سے محروم ہو جاؤں گا اور یا پھر اس رسالہ کو عالمگیر حیثیت دو اور ہر شخص سے کہو کہ وہ اس رسالہ میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھے چاہے کوئی سوال ہی ہو.اگر تم اس رسالہ کو ایسی شکل دے دو کہ ہر نوجوان اس کو اپنا رسالہ سمجھے.کوئی سوال بھیج رہا ہو کوئی سوال کا جواب بھیج رہا ہو ، کوئی اپنی مشکلات کا ذکر کر رہا ہو تو انہیں یہ رسالہ اس طرح معلوم ہو گا جس طرح گھر کے سب افراد مل کر بیٹھے ہوئے ہوں تو خاوند اپنی مشکلات کا ذکر کرتا ہے کہ آج دفتر میں مجھے یہ یہ مشکل پیش آئی تھی.بیوی اپنے واقعات کا ذکر کرتی ہے.لڑکیاں اپنے اپنے حالات بیان کرتی ہیں.غرض سب اپنی باتیں کرتے ہیں اور دلچسپی سے ایک دوسرے کی گفتگو سنتے ہیں.اسی طرح جب تم رسالہ کھولو تو تمہیں یوں معلوم ہو کہ ہمارا ایک خاندان ہے جس کے افراد بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے ہوں.نتیجہ یہ ہو گا کہ پچھپیں تھیں سال کی عمر میں تم " الفضل میں مضامین لکھنے کے قابل ہو جاؤ گے مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ نوجوانوں میں علمی شغف کم ہو گیا ہے.اس نقص کا ازالہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ خدام کا یہ فرض قرار دیا جائے کہ وہ اس رسالہ میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھیں.جس طرح خدام سے خدمت خلق کا کام لیا جاتا ہے اور یہ خدمت خلق کا کام ان کے
704 فرائض میں شامل ہے اسی طرح یہ بھی ان کے فرائض میں شامل ہو کہ انہوں نے اپنے رسالہ کے لئے یا الفضل اور فرقان کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور لکھنا ہے.اگلے سال جب تمہار اسالانہ اجتماع ہو گا تو تم سے دریافت کیا جائے گا کہ بولو اس سال تم نے کس کس اخبار میں مضمون لکھا ہے اور تمہارا فرض ہو گا کہ تم وہ رسالے اور اخبارات اپنے ساتھ لاؤ جن میں تم نے اپنے مضامین شائع کروائے ہوں.ضروری نہیں کہ کوئی علمی مضمون ہی ہو بلکہ خواہ اتنی ہی بات ہو کہ مجھے کھانسی ہے اگر کسی دوست کو کوئی نسخہ معلوم ہو تو مجھے بتایا جائے.یہ اعلان جس پر چہ میں شائع ہو وہ پرچہ اپنے ساتھ لے آئے اور کہے کہ میں نے فلاں پرچہ میں یہ اعلان شائع کروایا تھا.غرض ہر نوجوان نے کوئی نہ کوئی اخبار پکڑا ہوا ہو تا کہ وہ بتا سکے کہ اس نے دوران سال میں اپنے اس فرض کو ادا کیا ہے.چاہے صرف اتنی ہی خبر ہو کہ میں مہاجر ہوں میرا فلاں بھائی نہیں ملتا.اگر اس دوست کو اس کا علم ہو تو مجھے اطلاع دیں.جب وہ ابتدا کر دیگا تو آہستہ آہستہ مضامین لکھنے کے متعلق اس کے اندر دلیری پیدا ہو جائے گی.یہ طریق جو میں نے تمہیں بتایا ہے یہ اتنا آسان ہے کہ خواہ کوئی کتنا ہی معمولی تعلیم یافتہ ہو بلکہ خواہ کوئی ان پڑھ ہو تو وہ بھی کچھ نہ کچھ لکھوا کر شائع کر اسکتا ہے.مثلاً یہی لکھوادے کہ میں فلاں دن مسجد میں نماز پڑھنے گیا تھا کہ میری جوتی کسی نے اٹھالی.دوستوں کو اپنے جوتوں کی حفاظت کرنی چاہئے اور انہیں کسی محفوظ جگہ پر رکھ کر نماز پڑھنی چاہئے.اس قسم کی معمولی باتوں کے لئے کسی بڑے علم یا تجربہ یا مشق کی ضرورت نہیں ہوتی.پڑھے لکھے تو الگ رہے ان پڑھ بھی بڑے شوق سے اس میں حصہ لینا شروع کر دیں گے بلکہ ہم نے تو دیکھا ہے ان پڑھ جتنی احتیاط کے ساتھ اپنا خط پڑھوا کر سنتا ہے، پڑھا لکھا اتنی احتیاط اور توجہ سے نہیں پڑھتا.حضرت خلیفہ اول ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ مسلمانوں میں قرآن کے ساتھ اتنی محبت بھی ہیں رہی جتنی ایک ان پڑھ کے دل میں اپنے خط کی قدر ہوتی ہے.آپ فرماتے تھے کہ میری سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ مسلمان کہتے ہیں ہم ان پڑھ ہیں اس لئے قرآن کو سمجھ نہیں سکتے.ہم تو دیکھتے ہیں کہ پڑھے لکھے آدمی کو جب کوئی خط آتا ہے تو وہ سرسری طور پر اسے پڑھ کر جیب میں ڈال لیتا ہے لیکن ان پڑھ جب تک میں آدمیوں سے وہ خط پڑھوا کر نہ سن لے اسے اطمینان ہی نہیں آتا.پس اگر یہ پڑھے ہوئے نہیں تھے تو ان کو تو چاہئے تھا کہ میں دفعہ قرآن پڑھوا کر سنتے اور ہر ایک سے کہتے پھرتے کہ یہ اللہ میاں کا خط جو ہمارے نام ہے ذرا ہمیں بھی سنا دو کہ اس میں کیا لکھا ہے اور اگر وہ اپنی عادت کے مطابق اسے ہیں دفعہ دوسروں سے نہیں سنتے تو صاف معلوم ہوا کہ وہ اسے خدا تعالیٰ کا خط ہی نہیں سمجھتے.تو پڑھے لکھے اور ان پڑھ سب اس میں حصہ لے سکتے ہیں.اگر تم پہلی دفعہ اس قسم کا مضمون لکھو گے
705 اور وہ رسالہ یا اخبار میں چھپ جائے گا تو تمہیں خوشی ہو گی جیسے تمہیں بادشاہت مل گئی ہے.پھر تم اور لکھو گے پھر اور لکھو گے یہاں تک کہ رفتہ رفتہ تم خوب لکھنے لگ جاؤ گے.پس تم نے اگر ”خالد “ جاری کیا ہے تو تم اس کی خریداری بڑھاؤ.دوسرے ہر نوجوان کا یہ فرض قرار دو کہ وہ اس میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھے اور اگر کوئی خادم سال بھر میں بھی کچھ نہ لکھے تو اس کے متعلق یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنے فرض کو ادا نہیں کیا“.فرموده ۷ نومبر ۱۹۵۴ء از رساله خالد نومبر ۱۹۵۵ء)
706 سینما بینی اور سگریٹ نوشی کی عادت بعض نوجوانوں کو مالی تحریکوں میں خاطر خواہ حصہ لینے سے محروم کر دیتی ہے! ئیں خدام کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ نئی پارٹی جو آئی ہے وہ ست ہے.اول تو نوجوان وعدے کم کرتے ہیں اور پھر وصولی کی طرف توجہ نہیں کرتے حالانکہ نوجوانوں کو زیادہ چست ہونا چاہئے تھا.نوجوانوں پر پڑ مروٹی نہیں ہوتی اور نہ ان پر خاندان کا بوجھ ہوتا ہے.انہیں دلیری سے وعدے کرنے چاہئیں اور انہیں پورا بھی دلیری سے کرنا چاہئے.میں سمجھتا ہوں کہ جو ستی واقع ہو رہی ہو وہ اس وجہ سے ہے کہ نوجوانوں میں بعض نقائص پائے جاتے ہیں مثلا سینمادیکھنا ہے، سگریٹ نوشی ہے اور چونکہ ان عادتوں پر خرچ زیادہ ہو تا ہے اس لئے وہ ان تحریکوں میں بہت کم حصہ لیتے ہیں.اس لئے خدام کو اس طرف خاص توجہ کرنی چاہئے اور انہیں چاہئے کہ وہ اب کے بوجھ کو اٹھانے کی پوری کوشش کریں.اوّل تو وہ چندہ ایک لاکھ بانوے ہزار کے بجائے اڑھائی لاکھ تک پہنچائیں اور پھر وصولی سو فیصد ی نہیں بلکہ اس سے زیادہ کریں.پہلے دور میں اس قسم کی مثالیں موجود ہیں مثلا وعدہ دولاکھ کا تھا تو وصولی سواد و لاکھ ہوئی.جب تک وہ اس روح کو پیدا نہیں کرتے اور جب تک اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے خالی نام کا کچھ فائدہ نہیں.دنیا میں وہ پہلے ہی بد نام ہیں.انہیں تسبیح و تحمید کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے لیکن مخالفین کہتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی جماعت ہے.گویا ایک طرف ان کے متعلق یہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور دوسری طرف انہیں خدا تعالیٰ بھی نہ ملے تو اس سے زیادہ بدبختی اور کیا ہو گی.پس میں خدام کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ نیادور خدام کا ہے.اس میں زیادہ تر حصہ لینے والے انہیں میں سے ہیں اس لئے ان پر فرض ہے کہ وہ اپنا چندہ بڑھائیں اور کوئی احمدی ایسا نہ رہے جو تحریک جدید میں شامل نہ ہو.دوسری طرف یہ کوشش کریں کہ وصولی سو فیصدی سے زیادہ ہو تا قرضے اتر کر ریز رو فنڈ قائم کیا جا سکے.“ فرموده ۲۶ نومبر ۱۹۵۴ء مطبوعه الفضل یکم دسمبر ۱۹۵۴ء)
جماعت کا 1953 ء میں غیر معمولی استقلال کا مظاہرہ خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض و غائت o زوال امت کا ایک اہم سبب نوجوان یورپ کی چمک سے مرعوب نہ ہوں حقیقی عزت اس کام میں ہے.جو خدا نے ان کے سپر د کیا ہے خدام الاحمدیہ کو اپنی ترقی کا ریکارڈ رکھنا چاہئے
708 انگریزی کی ایک مثل ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ قافلہ چلتا جاتا ہے اور کتے بھونکتے جاتے ہیں.الفاظ اس مثال کے سخت ہیں لیکن مطلب صرف یہ ہے اور اسی مطلب کی طرف میرا اشارہ ہے کہ جب کسی خاص مقصد کو لے کر انسان کھڑ ا ہوتا ہے تو ہمیشہ ہی اچھے مقصد کی مخالفت کی جاتی ہے لیکن جن لوگوں نے اپنا کوئی مقصد قرار دیا ہو تا ہے وہ اس مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے اور اپنے کام میں لگے رہتے ہیں اور جب تک وہ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں دنیا اپنے منہ سے اقرار کرے یا نہ کرے دل میں ضرور یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوتی ہے کہ ان لوگوں کے سامنے کوئی مقصد ہے کیونکہ بغیر مقصد کے کوئی شخص مخالفتوں کا مقابلہ نہیں کیا کر تا.جب بے مقصد لوگوں کی مخالفت ہو تو وہ فورا کام چھوڑ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں نقصان اٹھانے کی کیا ضرورت ہے.مثلا ایک شخص کسی گلی میں سے گذر رہا ہو اور سوائے گذر جانے کے اس کی کوئی اور غرض نہ ہو اور راستہ میں اسے ڈاکو مل جاتے ہیں یا وہ دیکھتا ہے کہ لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں تو بے مقصد انسان فورا اس گلی سے لوٹ کر دوسری گلی میں نکل جائیگا لیکن اگر کوئی کمزور عورت اس گلی میں سے دوائی لے کر گذرتی ہے اور فرض کرو اس کا بچہ بستر مرگ پر پڑا ہوا ہے تو خواہ اس راستہ میں ڈاکو ملیں، فسادی نظر آئیں، وہ نظر بچاتی اور دیواروں کے ساتھ چھپٹتی ہوئی وہاں سے گذر جائے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ میرا یہاں سے گذرنا ضروری ہے اور دوسرا سمجھتا ہے کہ میرا یہاں سے گذر ناضروری نہیں.۱۹۵۳ء کے فسادات میں غیر معمولی جماعتی استقلال گذشتہ ایام میں جو فسادات ہوئے ان کے متعلق جہاں تک گورنمنٹ کا نقطہ نگاہ ہے وہ محسوس کرتے تھے کہ انتہا درجہ کے فسادات جو کسی ملک میں رونما ہو سکتے ہیں، وہ یہاں پیدا ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود لاکھوں کی جماعت میں سے صرف پندرہ سولہ آدمی تھے جنہوں نے کمزوری دکھائی اور جب انکوائری کمیٹی بیٹھی تو آئی.جی یا چیف سیکر ٹری کا بیان تھا کہ ہمارے علم میں صرف ایک شخص ایسا ہے جو ابھی تک واپس نہیں ہوا.باقی سب جماعت احمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں اور اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اب سارے ہی واپس آچکے ہیں سوائے ایک دو کے جو پہلے ہی احمدیت سے منحرف تھے اور خواہ مخواہ ان کو اس لسٹ میں شامل کر لیا گیا تھا.اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ جانتے تھے کہ ہم صحیح مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں.صرف ان کے دل کی کمزوری یا بز دلی تھی جس کی وجہ سے عارضی طور پر ان کا قدم لڑکھڑا گیا بلکہ گوجر انوالہ میں تو ایک لطیفہ ہو گیا.ایک احمدی جو کمزور دل تھا اس پر مخالفین نے دباؤ ڈالا تو اس نے کہہ دیا کہ میں مرزائیت سے توبہ کرتا ہوں.وہ بڈھا آدمی تھا اس نے سمجھا کہ دل میں تو میں مانتا ہوں اگر منہ سے میں نے کچھ کہہ دیا تو کیا ہوا.بہر حال لوگ اس خوشی میں لوٹ گئے اور انہوں نے نعرے مارنا شروع کر دیئے کہ ہم نے فلاں مرزائی سے توبہ کر والی ہے.مسجد کے امام کو بھی اس کی خبر ہوئی.وہ ہوشیار آدمی تھا.اس نے پوچھا تمہیں کس طرح پتہ لگا ہے کہ اس نے مرزائیت
709 سے توبہ کرلی ہے.انہوں نے کہا ہمارے سامنے اس نے کہا ہے کہ میں مرزائیت سے توبہ کرتا ہوں.وہ کہنے لگا اس نے تمہیں دھوکا دیا ہے.اب وہ گھر میں بیٹھا استغفار کر رہا ہو گا.تم پھر اس کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ ہم تمہاری تو بہ ماننے کے لئے تیار نہیں جب تک تم یہاں اگر ہمارے پیچھے نماز نہ پڑھو.چنانچہ پھر ہجوم اس کے گھر پہنچا اور کہا کہ ہم اس طرح تمہاری توبہ نہیں مانتے.تم چلو اور مسجد میں ہمارے ساتھ نماز پڑھو -وہ چونکہ دل میں ایمان رکھتا تھا اور صرف کمزوری کی وجہ سے اس نے منہ سے توبہ کی تھی.اس لئے جب دوبارہ ہجوم اس کے پاس پہنچا تو خدا نے اسے عقل دے دی اور کہنے لگا کہ دیکھو بھئی جب میں مرزائی تھا تو نماز میں پڑھا کر تا تھا.شراب سے بچتا تھا.کنچنیوں کے ناچ گانے میں نہیں جایا کرتا تھا.جب تم آئے اور تم نے کہا تو بہ کرو تو میں بڑا خوش ہوا کہ مجھے ان مصیبتوں سے نجات ملی.پس میں نے تو اس خیال سے توبہ کی تھی کہ مجھے اب نماز میں نہیں پڑھنی پڑیں گی ، شراب پیئوں گا اور کنچنیوں کے ناچ گانے میں شامل ہوا کروں گا.کیونکہ یہ پابندیاں مجھ پر مرزائی ہونے کی حالت میں تھیں، مرزائیت سے توبہ کر کے یہ سب مصیبتیں جاتی رہیں مگر تم ادھر مجھ سے تو بہ کرواتے ہو اور اُدھر وہی کام کرواتے ہو جو مرزائی کیا کرتے ہیں.پھر یہ تو بہ کیسی ہوئی.اس پر وہ شرمندہ ہو کر چلے گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ مولوی کی بات ٹھیک ہے اس نے دل سے توبہ نہیں کی.اس استقلال کی وجہ ؟ آخر یہ کیا چیز تھی جس نے اتنے فتنہ کے زمانہ میں اکا دُکا احمد نی کو بھی اپنی جگہ قائم رکھا اور جان مال اور عزت کے خطرہ کے باوجود ان کا قدم نہیں ڈگمگایا.اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ سمجھتے تھے ہم ایک مقصد کے پیچھے چل رہے ہیں اور یہ بے مقصد لوگ ہیں.ہم ان کی خاطر اپنے مقصد کو کس طرح چھوڑ دیں اور اگر ہم چھوڑتے ہیں تو خائب و خاسر ہو جاتے ہیں.خدام الاحمدیہ کا قیام بھی اسی مقصد کے ماتحت کیا گیا ہے کہ نوجوانوں میں اسلام کی روح کو زندہ رکھا جائے اور انہیں گرنے سے پہچایا جائے.باغوں میں پھل لگتے ہیں تو اس میں انسانوں کا اختیار نہیں ہوتا.پھل لگتے ہیں اور بے تحاشا لگتے ہیں مگر خدا لگاتا ہے.انسانوں کا اختیار اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ ان کے پھلوں کو گرنے سے بچاتا ہے یا اس امر کی نگہداشت کرتا ہے کہ اسے جانور نہ کھا جائیں یا بچے نہ توڑلیں یا کیڑے اس باغ کو خراب نہ کر دیں اور یہ حفاظت اور نگہداشت اس کی خوبی ہوتی ہے.جہاں تک پھلوں کا سوال ہے اس کا لگا نا خدا کے اختیار میں ہے لیکن جہاں تک ان پھلوں کی حفاظت کا سوال ہے وہ انسان کے اختیار میں ہے.لیکن بیوقوف اور نادان باغبان پھلوں کی حفاظت نہیں کرتا اور وہ ضائع ہو جاتے ہیں.یہاں پاکستان میں ہمیں بھی لائلپور میں ایک باغ
710 الاٹ ہوا ہے.لاہور کے ایک تاجر نے اس کا ٹھیکہ لیا تھا.وہ مجھے ملے تو کہنے لگے کہ بے شک ہم نے بھی نفع اٹھایا ہے لیکن آپ دیکھیں کہ کیا اس باغ میں اب کہیں بھی کوئی طوطا نظر آتا ہے.پہلے اس باغ میں ہزار ہا طوطے ہوا کرتے تھے.مگر اب ایک طوطا بھی نظر نہیں آتا اور اگر کوئی غلطی سے ادھر کا رخ کرے تو چکر کاٹ کر بھاگ جاتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پہلے سے کئی گنا زیادہ پھل پیدا ہوا اور ہم نے بھی فائدہ اٹھایا اور آپ کو بھی زیادہ پیسے دیئے.تو پھل تو سب باغوں میں آتے ہیں.باغبان کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کی حفاظت کرے.خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض و غایت نوجوان اسلام کے مقصد کو اپنے سامنے رکھیں.خدام الاحمدیہ کا قیام بھی اسی لئے کیا گیا ہے کہ بچپن اور نوجوانی میں بعض لوگ بیر ونی اثرات کے ماتحت کمزور ہو جاتے ہیں اور ان میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.بعض لوگ دوسری سوسائٹیوں سے بُرا اثر قبول کر لیتے ہیں اور بعض تربیت کے نقائص کی وجہ سے آوارگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ اس بیر ونی تغیر کو جماعت احمدیہ میں داخل نہ ہونے دیں اور اس مقصد کو ہمیشہ نوجوانوں کے سامنے رکھیں جس کو پورا کرنے کے لئے جماعت احمد یہ قائم کی گئی ہے.اگر نوجوانوں میں یہ روح پیدا کر دی جائے تو پھر بے شک شرارت کرنے والے شرارت کرتے رہیں.خواہ اپنے ہوں یا غیر سب کے سب ناکام رہیں گے.دنیا میں بسا اوقات اپنے دوست اور عزیز بھی مختلف غلط فہمیوں کی بناء پر مخالفت پر اتر آتے ہیں.جیسے آج کل مسلمانوں کی حالت ہے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو مانتے ہیں، قرآن کو مانتے ہیں لیکن وہ اپنی نادانی سے سمجھتے ہیں کہ ہم اس راستہ سے ہٹ گئے ہیں حالانکہ وہ خود اس راستہ سے ہٹ چکے ہیں.اسی طرح ہندو اور عیسائی وغیرہ بھی مخالفت کرتے ہیں پس خواہ اپنے لوگ مخالفت کریں یا غیر کریں، وہ اپنا کام کئے چلا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میرے کام اعلیٰ ہیں.اگر میں اس راستہ سے ہٹ جاؤں گا تو ذلیل ہو جاؤں گا.زوال امت کا ایک اہم سبب - گذشتہ زمانہ میں مسلمان کمزور ہوئے تو اسی وجہ سے کہ اسلام کے باغ میں جو ثمرات اور پھل لگے ان پھلوں کی انہوں نے حفاظت نہ کی اور وہ گرنے شروع ہو گئے.انہوں نے اسلام میں حاصل ہونے والی عزت پر دنیوی عزتوں کو ترجیح دینی شروع کر دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کی شوکت آہستہ آہستہ مٹ گئی.اگر وہ سمجھتے کہ یورپین سوسائٹی میں شامل ہو نا یا ان سوسائٹیوں میں کسی عزت کے مقام کا مل جانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غلامی کے مقابلہ میں بالکل حقیر اور ذلیل چیز ہے تو وہ ادھر کبھی نہ جاتے.
711 خدام الاحمدیہ کا مقصد یہ ہے کہ نوجوان یورپ کی چمک سے مرعوب نہ ہوں.پس خدام الاحمدیہ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ وہ اسلام کے مقصد کو اپنے سامنے رکھیں تا یورپ کے اثرات اور روس کے اثرات اور دوسرے ہزاروں اثرات ان کی نگاہ میں حقیر نظر آنے لگیں اور وہ سمجھیں کہ حقیقی عزت اُس کام میں ہے جو خدا نے ان کے سپر د کیا ہے.اس کے بعد انصار اللہ مقرر ہیں تا کہ جو خدام میں سے نکل کر ان میں شامل ہو وہ اس کی حفاظت کریں.تمہاری مثال ایسی ہے جو بور کی حفاظت کرتا ہے اور انصار اللہ کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بڑے پھل کی نگہداشت کرتا ہے.جہاں تک خدام الاحمدیہ کا سوال ہے وہ بہت چھوٹی بنیاد سے اٹھے اور بڑھ گئے مگر مجھے افسوس ہے کہ انصار اللہ نے اپنی تنظیم نہیں کی حالانکہ ان کی ترقی کے امکانات زیادہ اور ان کے خطرات کم تھے.لالچیں اور حرمیں زیادہ تر نوجوانی میں پیدا ہوتی ہیں.بڑھاپے میں انسانی کیریکٹر راسخ ہو جاتا ہے اور اس کا قدم آسانی سے ڈگمگا نہیں سکتا.بہر حال خدام نے خوش کن ترقی کی ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ خدام الاحمدیہ کا دفتر اپنے پاس ایک چارٹ رکھے جس میں یہ دکھایا جائے کہ مجلس کی اس وقت تک کتنی انجمنیں ہیں.کس کس جگہ اس کی شاخیں قائم ہیں اور دوران سال ان انجمنوں نے کتنی ترقی کی ہے.اگر اس قسم کا ایک چارٹ موجود ہو تو اس کے دیکھتے ہی فورا پتہ لگ سکتا ہے کہ خدام الاحمدیہ ترقی کر رہے ہیں یا گر رہے ہیں.میں نے دیکھا ہے صدرا نجمن احمدیہ کی شاخیں ہمیشہ چھ اور سات سو کے در میان چکر کھاتی رہتی ہیں اور اس تعداد میں کبھی اضافہ نہیں ہوا.اس کی وجہ در حقیقت یہی تھی کہ کوئی ایسا محکمہ نہیں تھا جو اس امر کی نگرانی کرتا اور دیکھتا کہ انجمنیں کیوں ترقی نہیں کر رہیں.خدام الاحمدیہ کو اپنی ترقی کاریکارڈ رکھنا چاہئے.پس ہر سال ایک چارٹ تیار کیا جایا کرے اور پھر اس چارٹ پر شورٹی میں بحث ہو کہ فلاں جگہ کیوں کمی آگئی ہے یا فلاں جگہ جو زیادتی ہوئی ہے وہ کافی نہیں اس سے زیادہ تعداد ہونی چاہئے تھی یا اگر پچھلے سال خدام الاحمدیہ کے ایک ہزار ممبر تھے تو اس سال بارہ سو کیوں نہیں ہوئے.اس وقت دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اور احمدی بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہے ہیں ، باہر سے آنیوالوں کے ذریعہ سے بھی اور نسل کی ترقی کے ذریعہ سے بھی.پس خدام الاحمدیہ کی تعداد ہر سال پچھلے سال سے زیادہ ہونی چاہئے.اگر یہ چارٹ سالانہ اجتماع پر لگا ہوا ہو تو باہر سے آنے والے خدام کو بھی اس طرف توجہ ہو سکتی ہے.اس کے بعد جب بیرونی مجالس میں توجہ پیدا ہو تو اس قسم کا چارٹ چھپوا دیا جائے.اس چارٹ میں مختلف خانے بنے ہوئے ہوں جن میں مجالس کی ابتداء سے لے کر موجودہ وقت تک کے تمام سالوں کی درجہ بدرجہ ترقی یا تنزل کا ذکر ہو.اگر تم اس طرح کرو تو یقینا تم کسی جگہ ٹھہرو گے نہیں.
712 جلسہ سالانہ کے بارے میں ضروری ہدایات.لیکن اس خانہ پری میں تمہاری وہ کیفیت نہیں ہونی چاہئے جو جلسہ سالانہ کے منتظمین کی ہوتی ہے کہ پہلے ان کی پرچی خوراک سے ظاہر ہوتا ہے کہ سولہ سترہ ہزار افراد آئے ہیں اور پھر جب لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوتی ہیں کہ لوگ کم کیوں آئے ہیں تو یکدم ان کی تعداد پینتیس ہزار تک پہنچ جاتی ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح نگرانی نہیں ہو سکتی اور خرچ بیکار ہو جاتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جلسہ سالانہ پر خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی لوگ آتے ہیں مگر جب بھی چہ میگوئیاں شروع ہوں کہ زیادہ لوگ نہیں آئے تو یکدم تعداد میں تغیر آجاتا ہے.اسی طرح باہر سے ایک دوست کی چٹھی آئی کہ ہم جلسہ کے دنوں میں فلاں جگہ ٹھہرا کرتے ہیں.ہم نے دیکھا ہے کہ دس دس بارہ بارہ آدمیوں کے لئے چاول اور پر ہیزی کھانا با قاعدہ آیا کرتا تھا.ہمارے ساتھ کچھ غیر احمدی دوست بھی تھے.انہوں نے پوچھا یہ چاول ہمیں کیوں نہیں ملتے.اس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ بیماروں کے لئے آتے ہیں.وہ کہنے لگے کیا اس گھر کے رہنے والے سب کے سب بیمار ہیں ؟ یہ بھی ایک نقص ہے جس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اعداد و شمار کے بارے میں احتیاط کی ضرورت.یورپ اور امریکہ کے لوگ ان باتوں میں بڑے محتاط ہوتے ہیں اور بڑی صحت کے ساتھ اعداد و شمار بیان کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں گڑ بڑ کر دیتے ہیں اور بعض لوگ تو شاید گڑ بڑ کرنا ثواب کا موجب سمجھتے ہیں حالانکہ ان چیزوں کا نتیجہ الٹ ہو تا ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں جھوٹ کی بھی عادت پیدا ہو جاتی ہے.اگر تم چارٹ بنا دو گے تو وہ تمہاری ترقی کے لئے بڑا محرک ہو گا اور پھر دوسرے لوگوں کو بھی تمہارے کاموں کے ساتھ دلچسپی پیدا ہو جائے گی اور انہیں بھی احساس ہو گا کہ تم ایک کام کرنے والی جماعت ہو.“ (فرموده ۲ دسمبر ۱۹۵۴ء مطبوعہ خالد جنوری ۱۹۵۵ء)
713 خدام الاحمدیہ کو نو جوانوں میں جوش اور اخلاص پیدا کرنا چاہئے.دفتر دوم کے وعدوں کی وصولی کی رفتار بہت کم ہے.میں نے آج اندازہ لگایا ہے کہ سال ختم ہو چکا ہے لیکن ابھی تک پچاس فیصد وعدے وصول نہیں ہوئے حالانکہ اس سے پہلے دور اوّل میں یہ ہو تا تھا کہ اگر وعدے ایک لاکھ کے ہوئے ہیں تو سال کے اختتام سے پہلے ایک لاکھ سے زائد رقم وصول ہو جاتی تھی پس نوجوانوں میں ہمت اور اخلاص پیدا کرنے کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے اس طرف مجلس خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی.اس کا قیام اس بات کا موجب ہونا چاہئے کہ نوجوانوں میں اخلاص اور جوش زیادہ ہو.تو میں اگر ترقی کرتی ہیں تو انہیں آئندہ نسلوں کے ذریعہ کرتی ہیں.اگر ایک نسل اپنا بوجھ اٹھا لیتی ہے تو وہ کام ایک حد تک ہو جاتا ہے.اگر وہ کام وقتی ہوتا ہے تو کوئی تشویش کی بات نہیں ہوتی کیونکہ انسوں نے اپنا بوجھ اٹھالیا ہوتا ہے.لیکن اگر وہ کام وقتی نہیں ہوتا بلکہ اس نے قیامت تک جانا ہوتا ہے تو بہر حال وہ کام اگلی نسلوں کے ذریعہ پورا ہو گا.پس جماعت کے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنے باپ دادوں سے زیادہ قربانی کریں.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ان کے وعدے اپنے باپ دادوں سے کم ہوں اور وصولی ان سے بھی کم ہو.میں نے اپنے ایک خطبہ میں یہ تحریک کی تھی کہ کوشش کی جائے کہ ہمارے وعدے دو لاکھ سے چار لاکھ ہو جائیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ دوست وصولی کا بھی خیال رکھیں.ابھی تک نئے دور کے وعدے بہت کم ہیں حالانکہ نوجوانوں کی تعداد پہلے لوگوں سے بہت زیادہ ہو چکی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک جدید کو عام نہیں کیا گیا.“ فرموده ۷ او سمبر ۱۹۵۴ء مطبوعه الفضل ۲۲ دسمبر (۱۹۵۴ء)
714 تبلیغی جہاد کے لئے مالی قربانی کی اہمیت نوجوانوں کو میں خصوصاً توجہ دلاتا ہوں کہ خدام کے ذریعہ سے تم نے بڑے بڑے اچھے کام کرنے شروع کئے ہیں.خدمت خلق کا تم نے ایسا عمدہ لاہور میں مظاہرہ کیا ہے کہ اس کے او پر غیر بھی عش عش کرتا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ تم روزانہ اس طرح اپنی زندگیوں کو سنوارتے چلے جاؤ گے کہ تمہارا خدمت خلق کا کام بڑھتا چلا جائے.لیکن یہ کام سب سے مقدم ہے کیونکہ اسلام کی خدمت کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو اور اسلام کی تبلیغ کا دنیا میں پھیلانا یہ ناممکن کام اگر تم کر دو گے تو دیکھو آئندہ آنے والی نسلیں تمہاری اس خدمت کو دیکھ کر کس طرح تم پر اپنی جانیں نچھاور کریں گی.“ ” پس نوجوانوں کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ ان کے آباء نے قربانیاں کیں اور خدا کے فضل سے وہ اس مقام پر پہنچے.کچھ ان میں سے فوت ہو گئے اور کچھ اپنا بوجھ اٹھائے چلے جارہے ہیں.میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ اب وہ آگے بڑھیں اور اپنی قربانیوں سے یہ ثابت کر دیں کہ آج کی نسل پہلی نسل سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہے.جس قوم کا قدم آگے کی طرف بڑھتا ہے وہ قوم ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتی ہے اور جس قوم کی اگلی نسل پیچھے مفتی ہے وہ قوم بھی پیچھے ہٹنی شروع ہو جاتی ہے.کچھ عرصہ تک تمہارے بوجھ بڑھتے چلے جائیں گے ، کچھ عرصہ تک تمہاری مصیبتیں بھیانک ہوتی چلی جائیں گی کچھ عرصہ تک تمہارے لئے ناکامیاں ہر قسم کی شکلیں بنا بنا کر تمہارے سامنے آئیگی لیکن پھر وہ وقت آئے گا جب آسمان کے فرشتے اتریں گے اور وہ کہیں گے بس ہم نے ان کا دل جتنا دیکھنا تھا دیکھ لیا.جتنا امتحان لینا تھا لے لیا.خدائی مرضی تو پہلے سے ہی تھی کہ ان کو فتح دے دی جائے اور تم فاتحانہ طور پر اسلام کی خدمت کرنے والے اور اس کے نشان کو پھر دنیا میں قائم کرنے والے قرار پاؤ گے.“ فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۵۴ء مطبوعه الفضل ۲۸اکتوبر ۱۹۵۵ء)
715 نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنا مومن کی نشانی ہے مجالس خدام الاحمدیہ میں بہترین کام کرنے اور علم حاصل کر نے کا جو سالانہ مقابلہ ہوا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے بتایا.مجلس لاہور کو خدمت خلق میں نمایاں کام کرنے کی وجہ سے تحسین.اس مقابلہ کا فیصلہ خدام الاحمدیہ مرکز یہ علاوہ مجالس کی رپورٹوں کے اپنے انسپکٹروں کو بھجواکر کام کا جائزہ لینے کے بعد کیا کرتی ہے.اس سال اس نے جو فیصلہ کیا ہے اس کی رو سے کراچی کی مجلس اول آئی ہے دوسرے نمبر پر لاہور تیسرے پر راولپنڈی چوتھے نمبر پر گو کھو دال اور پانچویں نمبر پر خانیوال کی مجلس ہے لیکن یہ سفارش کی گئی ہے کہ چونکہ سیلاب کے ایام میں لاہور کی مجلس نے غیر معمولی کام کیا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ مجموعی کار گزاری کے لحاظ سے اس کا نمبر کراچی کے بعد آتا ہے.پھر بھی اس سال علم انعامی لاہور کی مجلس کو دیا جائے“.فرمایا.اس میں شک نہیں کہ لاہور کی نیم مردہ جماعت میں اس سال وہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ نے زندگی کی رُوح پھونک دی ہے اور اس کا سہر ازیادہ تر وہاں کے قائد محمد سعید احمد صاحب اور ان کے چار پانچ رفقاء کے سر ہے جنہوں نے بڑی محنت سے کام کیا.گذشتہ سیلاب کے ایام میں نہ صرف یہ کہ غیر معمولی طور پر لاہور کی مجلس نے خدمت خلق کا کام کیا بلکہ اسے غیر معمولی طور پر پبلک میں روشناس بھی کرادیا اور اس لحاظ سے اس کا کام واقعی خاص طور پر تعریف کے قابل ہے لیکن میں یہ رسم نہیں ڈالنا چاہتا کہ علم انعامی اول آنیوالی مجلس کو نہ دیا جائے.یہ رسم حو صلے کو بڑھانے کی بجائے اسے پست کرنے کا موجب ہو گی.ہمارے کارکنوں کو یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ جو مجلس اول نمبر ہو.اسے اوّل نمبر کا ہی انعام دیا جائے.پس میں باوجود اس کے کہ مرکزی مجلس نے لاہور کو علم انعامی دینے کی سفارش کی ہے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ علم انعامی حسب قاعدہ کراچی کی مجلس خدام الاحمدیہ کو دیا جائے مگر ساتھ ہی سیلاب کے ایام میں لاہور کی مجلس نے جو کام کیا اس کی تعریف بھی کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ہر مجلس کام میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی رہے گی.“ نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنا مو من قوم کی نشانی ہے." قرآن مجید نے مومنوں کی شناخت ہی یہ بتائی ہے کہ وہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ صفت جس قوم میں بھی پیدا ہو جائے اسے اتنابلدیہ کر دیتی ہے کہ اس کا قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا.در حقیقت یہی روح ہے جو زندگی کی علامت ہوتی ہے.جب کسی قوم میں مسابقت کی روح نہ رہے تو خواہ وہ کتنی ہی ترقی یافتہ ہو گر ناشروع کر دیتی ہے اور اگر کسی
716 ذلیل سے ذلیل قوم میں بھی یہ روح پیدا ہو جائے تو اس کے لئے آگے بڑھنے کے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں.مسابقت کی رُوح- مسابقت کی رُوح سے دلوں میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے.پس ایک دوسرے سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو مگر ساتھ ہی اس امر کو بھی ہمیشہ مد نظر رکھو کہ جو قانون تم نے اپنے لئے بنایا ہے اسے چھوٹی چھوٹی وجوہ کی بناء پر نہ توڑا جائے.پس میں نے لاہور کی مجلس کی تعریف پہلے بھی کی تھی اور اب بھی کر دی ہے.اس تعریف کے بعد اس کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ کراچی سے علم انعامی لے لے.در حقیقت اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو جو قربانی کراچی کی مجلس کرتی آرہی ہے ابھی تک لاہور کی مجلس اس حد تک نہیں پہنچی.“ ( فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۵۴ء مطبوعه الفضل ۶ جنوری ۱۹۵۵ء)
ساری جماعت کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ وہ محنت سے کام کرے گی ہر خوبی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرو اور ہر عیب کا اپنے آپ کو ذمہ دار قر اردو اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ قوم کے بچوں میں محنت کی عادت پیدا کریں جس شخص کو صحیح تو کل نصیب ہو جاتا ہے اس کی کامیابی میں کوئی شبہ نہیں رہتا
718 حضور نے اس خطبہ کے بارہ میں یہ ہدایت فرمائی تھی کہ یہ خطبہ ایک دفعہ ہر (بیت الذکر) میں سنایا جائے اسی طرح ایک ایک مرتبہ ہر جگہ کی خدام الاحمدیہ کی مجلس میں بھی سنایا جائے اس لئے اسے خدام الاحمدیہ کی راہنمائی کے لئے مشعل راہ میں شائع کیا جا رہا ہے.(مرتب) میں نے اس سے پہلے خطبہ میں یہ بتایا تھا کہ ہماری ساری جماعت کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ وہ محنت سے کام کرے گی اور عقل سے محنت کرے گی اور پھر اپنے آپ کو ہر کام کے نتیجہ کی ذمہ دار قرار دے گی.یہ ہیں تو ایک ہی چیز کے تین حصے لیکن یہ تین درجے ہیں.اول یہ کہ محنت سے کام کیا جائے ، لیکن صرف محنت کے ساتھ کوئی کام مکمل نہیں ہو سکتا.جب تک محنت عقل سے نہ کی جائے اور عقل سے محنت کبھی نہیں کی جاسکتی.جب تک کہ انسان اپنے آپ کو نتائج کا ذمہ دار قرار نہ دے.اگر کسی کا دل یہ محسوس کرتا ہے کہ ناکامی کی صورت میں وہ قوم کے سامنے ہزار بہانے بنا سکتا ہے اگر کسی شخص کو یہ یقین ہے کہ ناکامی کی صورت میں وہ اپنی عزت بچا سکتا ہے اور اپنی شہرت اور مقام کو محفوظ رکھ سکتا ہے تو وہ یقینا پوری محنت نہیں کرے گا.کیونکہ کسی کام کو محنت سے کرنے کے بڑے بڑے (Incetive) یعنی محرک اور سبب دنیا میں یہی ہوتے ہیں کہ انسان چاہتا ہے کہ اس کام کے نتیجہ میں وہ سرخروئی حاصل کرے.وہ اپنی قوم اور اپنے مالک کے سامنے سرخروئی حاصل کرے اور اردگرد کے لوگوں میں عزت حاصل کرے.اگر یہ محرک نکال دو.یا باوجود ناکامی کے اس چیز کا کوئی اور سبب قرار دو تو انسان محنت نہیں کرے گا وہ لوگ جنہیں خدا تعالی کی طرف سے ایک آگ دی گئی ہے وہ اس سے مستثنی ہیں.انبیاء اور مصلح اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدائشی طور پر ایک آگ لے کر آتے ہیں.انہیں کسی کے سکھانے اور تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی.ان کے اندر ایک آگ ہوتی ہے جس کے ذریعہ وہ دنیا کے اندر ایک تغیر پیدا کر دیتے ہیں.وہ انقلابی وجود بنا دیا.یا جنہیں خدا تعالیٰ نے آگ دے دی سودے دی لیکن اگر کسی کو دنیا میں تربیت سے انقلابی وجو د بنانا ہو تو وہ بغیر کسی ذریعہ کے نہیں بنے گا اور وہ ذریعہ انسانی کاموں میں یہ ہے کہ انسان کے اندر یہ احساس ہو کہ اگر اس کی محنت بار آور ہو تو وہ عزت پا جائے گا.وہ سرخروئی حاصل کرلے گا اور اگر ناکام رہا تو قوم اس کی زبان کے سارے بہانے رد کر دے گی اور کہے گی یہ شخص کذاب ہے.اس نے ہماری قوم کا بیڑا غرق کیا ہے.جس شخص کے اندر یہ احساس موجود ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے گا اور جس شخص کے اندر یہ احساس نہیں وہ
719 جانتا ہے کہ اس کی قوم بیوقوف ہے اور اپنی ناکامی کی صورت میں وہ اسے دھوکا دے سکتا یا اس کی قوم میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو سستی تعریف حاصل کرنے کے عادی ہیں.اگر ناکامی کی صورت میں قوم نے اسے سزادی تو اس قسم کے لوگ ان کی سفارش لے کر افسران بالا کے پاس چلے جائیں گے.اب اگر وہ لوگ دیانتدار ہیں اور سفارش کرنے والے بھی سمجھتے ہیں کہ وہ اس قسم کی سفارشات کو رد کر دیں گے اور قومی مفاد کو انفرادی مفاد پر ترجیح دیں گے تو پھر بھی سفارش کرنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ بات افسر نے تو مانی ہی نہیں.ہاں اگر ہم سفارش لے کر اس کے پاس چلے جائیں گے تو ہم لوگوں میں مقبول ہو جائیں گے لیکن اگر وہ بد دیانت ہیں تو یقینا اس قسم کے طرز عمل سے قوم کا بیڑا غرق ہو گا کیونکہ جب بھی کسی قوم کے افراد کے اندر یہ احساس پیدا ہو جائے کہ کام کا نتیجہ ان کی طرف منسوب نہیں ہو گا بلکہ وہ ناکامی کی صورت میں نتیجہ کو خداتعالی یا پھر قسمت کی طرف منسوب کریں گے یا کسی نامعلوم عصر کی طرف منسوب کر دیں گے اور اس طرح ان کی پردہ پوشی ہو جائے گی تو پوری جدوجہد کا احساس کبھی بھی ان میں پیدا نہیں ہو گا.پس جماعت یہ فیصلہ کرے کہ اس نے محنت کرنی ہے اور پھر محنت صحیح کرنی ہے اور پھر وہ یہ فیصلہ بھی کرلے کہ اگر اس کے کسی کام کا نتیجہ خراب نکلا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جد و جہد صحیح طور پر نہیں ہوئی.یہ کہنہ دینا کہ ایسا خد اتعالیٰ نے کیا ہے اول درجہ کا جھوٹ ہے.خدا تعالیٰ کسی کام کا خراب نہیں نکالتا.اگر اس کے کام کا خراب نتیجہ نکلا ہے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے.اگر تم ایسا کر لو تو تمہارے اندر ایک امنگ اور ولولہ پیدا ہو جائے گا.تمہاری جد و جہد بہت زیادہ تیز ہو جائے گی.یورپ اور امریکہ کیوں ترقی کر رہے ہیں حالا نکہ وہ خدا تعالیٰ کے عملاً یا کچھ قولاً بھی منکر ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اول تو محنت سے کام کرتے ہیں اور پھر ناکامی کی صورت میں نتیجہ کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں ڈالتے.اگر خدا تعالیٰ انسان کے دخل کے بغیر کام کر دیا کرتا تو امریکہ اور یورپ والے کیوں کامیاب ہوتے.خدا تعالیٰ تمہاری مدد کر تا ان کی مدد نہ کرتا.حال ہی میں انگلستان کے ریڈیو پر ایک عورت نے لیکچر دیا ہے اور وہ اخبارات میں چھپا ہے کہ اگر تم نے ترقی کرنی ہے تو خدا کو بالکل بھول جاؤ اور اگر خدا بنانا ضروری ہے تو اپنے اچھے کاموں کو خدا اور برے کاموں کو شیطان سمجھ لو لیکن خدا تعالیٰ کے وجود سے انکار کے باوجود وہ برابر ترقی کر رہے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے مرد اور عورت دیوؤں کی طرح کام کر رہے ہیں.اگر خدا تعالیٰ ہی سب کام کر رہا ہو تا تو وہ روس امریکہ اور یورپ والوں کوست بنا دیتا اور تمہیں چست بنا دیتا لیکن حالت یہ ہے کہ تمہارے حالات خراب ہیں اور انہوں نے خوب ترقی کرلی ہے.اب یا تو یہ کہو کہ خداتعالی ماہر نہیں اور شیطان ماہر ہے چونکہ ان کے ساتھ شیطان ہے اس لئے وہ جیت جاتے ہیں اور تمہارے ساتھ چونکہ غریب خدا ہے ، اسے کچھ آتا نہیں اس لئے تم ہر میدان میں ہار جاتے ہو او ر یا یہ کہو کہ خدا تعالیٰ تم سے بھی کچھ کام کروانا چاہتا ہے.اگر تم محنت کرتے ہو تو وہ تمہاری مدد کرتا ہے اور اگر تم محنت نہیں کرتے تو وہ تمہاری مدد نہیں کرتا اور تم ناکام رہتے ہو اور یہی حقیقت ہے جب تک تمہارے اند را براہیم علیہ السلام والا ایمان پیدا نہیں ہوتا اور جب تک تمہارے اندر و إذا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِي والا احساس پیدا
720 نہیں ہو تا.جب تک تم یہ نہیں سمجھتے کہ بیمار ہم ہوں گے ، شفاخد اتعالیٰ دے گا.جب تک تم یہ نہیں سمجھتے کہ جب بھی کوئی کمزوری آئے گی تو ہماری طرف سے ہوگی اور جب ہم میں قوت اور طاقت پیدا ہوگی تو وہ خدا تعالی کی طرف سے ہو گی ، اس وقت تک تم کامیاب نہیں ہو سکتے لیکن جب تم یہ احساس پیدا کر لو گے تو تمہارے اندر ایک زبر دست محرک پیدا ہو جائے گا وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِینِی میں ایک نکتہ بیان ہوا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس میں دو باتیں مد نظر ر کھی ہیں.اگر آپ صرف اذا مرضت کہہ دیتے تو پھر مایوسی ہی مایوسی ہوتی اور اگر هُوَ يُسفینی کے دیتے تو امید ہی امید ہوتی اور یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں.جب تک کسی کا ایمان خوف اور رجا کے درمیان نہ ہو ، اس کے کسی کام کا صحیح نتیجہ نہیں نکلتا.اس لئے آپ نے فرمایا خدا تعالٰی نے مجھے اٹھنے کا موقع بھی دیا ہے اور گرنے کا موقعہ بھی دیا ہے.اگر میں پوری محنت نہیں کروں گا تو میں گروں گا اور اگر میں پوری محنت کروں گا اور اس کے بعد خدا تعالیٰ پر توکل رکھوں گا تو میں جیتوں گا.آپ نے یہ دونوں باتیں بیان کرکے واضح کر دیا ہے کہ انسان کے لئے محنت اور توکل کرنا ضروری ہے.اگر ہم محنت نہیں کریں گے تو ہمارے کام خراب ہوں گے اور اگر ہم تو کل نہیں کریں گے تو کامیاب نہیں ہوں گے.گویا خدا تعالٰی انسان کی محنت کی تکمیل کرتا ہے ، اس کا قائمقام نہیں ہوتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ بات اذا مرضت فَهُوَ يَشفِینی جھوٹی ہوتی.آپ نے اذا مرضت کہہ کر تایا ہے کہ اگر میں بیمار ہونا چاہوں تو خدا تعالٰی مجھے بیمار ہونے سے نہیں روکتا اور فھو یشفینی کہہ کے بتایا کہ میں کامل شفا حاصل نہیں کر سکتا.کامل شفا دینے والی خداتعالی ہی کی ذات ہے اور یہی ترقی اور کامیابی کی کلید ہے.جب تک کوئی قوم اس گر کو نہیں سمجھتی وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتی.یورپ اور امریکہ کیوں ترقی کر رہے ہیں.وہ اس لئے ترقی کر رہے ہیں کہ انہوں نے اس اصول کا ایک حصہ پورا کر دیا ہے اور ہم ناکام اس لئے ہو رہے ہیں کہ ہم نے اس کے دونوں حصوں کو گرا دیا ہے.اگر کسی زمیندار کے پاس ایک بیل ہو تو وہ ہل چلا لیتا ہے لیکن دونوں بیل ہی نہ ہوں تو پھر ہل نہیں چلا سکتا.دنیا میں سینکڑوں ہزاروں زمیندار پائے جاتے ہیں جو ایک بیل سے ہل چلا لیتے ہیں.اگر کسی کے پاس ایک گھوڑا ہو تو فٹن نہ سہی وہ ایکہ چلا سکتا ہے.اسی طرح یورپ نے تو کل کرنا چھوڑ دیا ہے لیکن چونکہ اس نے محنت والا حصہ پورا کر دیا ہے اس لئے وہ ترقی کر رہا ہے.ہم نے دونوں حصوں کو ترک کر دیا ہے اس لئے ہم ناکام رہتے ہیں.پھر جب ہم کوئی کام کرتے ہیں اور اس میں ناکام ہوتے ہیں تو اس ناکامی کو ہم اپنی طرف منسوب نہیں کرتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ محنت تو کی تھی خدا تعالٰی نے کامیاب نہیں کیا تو ہم کیا کر سکتے ہیں اور اگر کچھ مل جاتا ہے تو ہم یہ تمام باتیں بھول جاتے ہیں اور اپنی کامیابی کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض بیوقوف انسان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب انہیں کوئی ترقی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں یہ ہمارے علم اور طاقت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے مگر ہم علم اور سمجھ والے نہ ہوتے تو یہ ترقی کس طرح حاصل ہوتی اور جب کوئی ناکامی ہوتی ہے تو اسے خدا تعالی کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.گویا وہ ہر عیب خدا تعالی کی طرف منسوب کرتے ہیں اور
721 ہر خوبی اپنی طرف منسوب کرتے ہیں.اگر تم اپنا رویہ بدل لو تو دیکھو گے کہ تم میں چستی پیدا ہو جائے گی.ہمارا ایک طالب علم فیل ہو جاتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے.وہ جانتا ہے کہ اگر میں نے اپنی ناکامی کو اپنی ستی کی طرف منسوب کیا تو ماں باپ ناراض ہو جائیں گے اس لئے وہ کہتا ہے استاد کو مجھ سے ضد تھی.میں چونکہ گھر سے اس کے لئے شکر اور گڑ نہیں لایا تھا اس لئے اس نے مجھے فیل کر دیا اور ماں باپ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ یہ کہہ رہا ہے ٹھیک ہے.یونیورسٹی کا امتحان ہو تو ہمارے ہاں عام محاورہ ہے کہ یہاں سارے کام سفارش سے چلتے ہیں.امتحانوں میں کامیابی یا ناکامی بھی یا عدم سفارش کی وجہ سے ہوتی ہے حالانکہ اس میں نوے فی صد جھوٹ ہو تا ہے.اگر کوئی لڑکا فیل ہو جاتا ہے تو وہ کہتا ہے ابا تم کسی کے پاس سفارش لے کر نہیں گئے تھے اس لئے میں فیل ہو گیا ہوں.اگر تم کسی کے پاس سفارش لے کر چلے جاتے تو میں ضرور کامیاب ہو جاتا.اس پر باپ سمجھ لیتا ہے کہ جو کچھ یہ کہہ رہا ہے درست ہے.ایک دفعہ ایک احمدی دوست کی طرف سے یہ شکایت آئی کہ میرا لڑکا بڑا لا ئق اور محنتی ہے.اسلام کے احکام کا پابند ہے لیکن استاد نے ضد کی وجہ سے اسے عربی کے پرچہ میں فیل کر دیا ہے.وہ کسی اور مضمون میں فیل ہو جاتا تو میں سمجھ لیتا کہ اس کا قصور ہے لیکن فیل بھی وہ عربی کے پرچہ میں کیا گیا ہے جس میں وہ خوب ہو شیار تھا.میں سکول کے عام معاملات میں تو دخل نہیں دیتا لیکن یہ معاملہ چونکہ کافی دلچسپ تھا اس لئے میں نے ہیڈ ماسٹر صاحب کو لکھا کہ فلاں لڑکے کے پرچے میرے پاس بھیج دو.انہوں نے پرچے بھجوا دیئے.میں نے دیکھا کہ استاد نے عربی کے پرچے میں اسے ۱۰۰ / ۵ نمبر دیے ہیں لیکن وہ اتنے نمبروں کا بھی حق نہیں رکھتا تھا.میں نے اس کے باپ کو لکھا کہ ہیڈ ماسٹر پر آپ بھی خفا ہیں اور میں بھی خفا ہوں.آپ تو اس لئے خفا ہیں کہ انہوں نے آپ کے بیٹے کو فیل کر دیا اور میں اس لئے خفا ہوں کہ انہوں نے ۵/۱۰۰ نمبر بھی کیوں دیئے.شاید استاد نے لڑکے سے رشوت لے لی تھی کہ اسے پانچ نمبر دے دیئے حالانکہ وہ جاہل مطلق ہے.وہ اتنے نمبروں کا بھی حق نہیں رکھتا تھا کجا یہ کہ وہ امتحان میں پاس کیا جاتا.استاد نے اس سے رعایت کی تھی مثلاً اگر اس نے ضرب کی گردان پوچھی تھی تو اس نے ضرب ضرب ضربا لکھ دیا تو استاد نے یہ دیکھ کر کہ اس نے ضرب تو صحیح لکھ دیا ہے اسے نمبر دے دیئے.اب دیکھ لو اس کی وجہ یہی تھی کہ بیٹے نے اسے لکھ دیا تھا کہ استاد نے ضد کی وجہ سے مجھے فیل کر دیا ہے.یہ چیز قوم کی بربادی کی علامت ہوتی ہے.ایک دفعہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے پاس بیٹھا ہوا تھا.آپ ایک خط پڑھ رہے تھے.آپ خط پڑھتے پڑھتے ہنس پڑے اور فرمایا میاں ذرا یہ خط پڑھو اور خط میرے ہاتھ میں دے دیا.میں نے خط پڑھا تو دیکھا کہ وہ واقعہ میں ایک لطیفہ تھا.وہ خط ایک طالب علم کی نانی کی طرف سے لکھا ہوا تھا.لڑکا بورڈنگ میں رہتا تھا.اس نے خیال کیا کہ میرے والد قادیان سے محبت رکھتے ہیں اس لئے انہوں نے مجھے یہاں داخل کیا ہے.اگر میں نے اپنے باپ کو قادیان کے ماحول کے خلاف کوئی بات لکھی تو وہ یقین نہیں کریں گے.نانی کو مجھ سے زیادہ محبت ہے
722 اسے میں لکھوں تو وہ میری بات مان لیں گی چنانچہ اس نے اپنی نانی کو لکھا کہ مجھے یہاں ایک پنجرے میں بند کر دیا گیا ہے اور جس طرح پنجرے میں بند کئے ہوئے جانور کو وہیں کھانا اور پانی مہیا کر دیا جاتا ہے اور اسے پیشاب اور پاخانہ بھی پنجرے میں ہی کرنا پڑتا ہے اس طرح مجھے بھی پیشاب اور پاخانہ پنجرہ میں ہی کرنا پڑتا ہے اور اسی میں مجھے کچھ کھانے پینے کو دے دیا جاتا ہے.اگر کچھ عرصہ تک میری یہی حالت رہی تو میں مرجاؤں گا.خدا کے لئے مجھے یہاں سے جلدی لے جاؤ.نانی کو چونکہ نواسے سے محبت تھی اس لئے اس نے حضرت خلیفتہ المسیح الاول کو لکھا کہ میرے نواسے کا خیال رکھا جائے اور اسے قید سے جلد رہا کیا جائے.اتفاقاً وہ لڑکا بھی اس وقت پاس ہی بیٹھا تھا.حضرت خلیفتہ المسیح الاول فرمانے لگے میاں یہ خط پڑھ لو اور اس لڑکے سے پوچھو کہ وہ پنجرا کہاں ہے جس میں تم بند رہتے ہو.اس لڑکے نے کہا میں چونکہ اداس ہو گیا تھا اور یہاں سے واپس جانا چاہتا تھا.مجھے علم تھا کہ باپ میری بات نہیں مانے گا اس لئے میں نے چاہا کہ نانی کو ڈراؤں شاید کام بن جائے.پس تم اپنی اصلاح کرو اور اپنا رویہ تبدیل کرو.خصوصاً خدام الاحمدیہ سے میں کہتا ہوں کہ وہ خود بھی محنت کی عادت ڈالیں اور دوسروں کو بھی محنت کی عادت ڈلوائیں.پھر اساتذہ کا بھی فرض ہے کہ وہ قوم کے بچوں میں محنت کی عادت پیدا کریں.یہاں یہ رسم ہے کہ ہر کار کن یہ سمجھتا ہے کہ فلاں کام فلاں کر دے گا اور کوئی شخص کسی کام کی ذمہ داری اپنے اوپر نہیں لیتا اور جب پکڑا جاتا ہے تو ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ یہ میرا قصور ہے.میرا اپنا ایک عزیز ہے جو میرے کاموں پر مقرر ہے.اس سے جب بھی دریافت کرو وہ یہی کہتا ہے کہ میں نے تو یہ کام کیا تھا لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا ہو گیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے.گویا خدا تعالیٰ سب اچھے کام بھول گیا ہے.اب اس کا صرف اتنا ہی کام رہ گیا ہے کہ وہ تمہارے کاموں کو خراب کرتا رہے.تم یہ گندگی اپنے ذہن سے نکالو.جب تم یہ گندگی اپنے ذہن سے نکال دو گے تو تمہارے اندر نئی زندگی نئی روح اور بیداری پیدا ہو جائے گی.یورپ والوں کو دیکھ لو ان میں سے جب بھی کوئی پکڑا جاتا ہے تو وہ فورا اپنے قصور کا اقرار کر لیتا ہے اور کہتا ہے ، میں سزا کا مستحق ہوں، مجھے بے شک سزادی جائے لیکن ہمارے ہاں اگر کوئی پکڑا جاتا ہے تو کہتا ہے میرا اس میں کوئی قصور نہیں.میں نے پوری محنت کی تھی.نتیجہ خدا کے اختیار میں تھا اور جب اسے کوئی سزا دو گے تو فور دس آدمی آجائیں گے اور کہیں گے اس پر رحم کریں.خدا تعالیٰ نے عفو اور رحم کی تعلیم دی ہے.بیوی کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ ہدایت دی ہے کہ اسے طلاق دو تو احسان سے کام لو.آپ بھی احسان سے کام لیں.اس قسم کی باتیں کرنے والے سے رحم کرنا عقل کی بات نہیں.رحم اور احسان کا سوال انفرادی معاملات میں ہو تا ہے، قومی تنظیم میں نہیں ہو تا.اگر قومی تنظیم میں بھی رحم اور احسان کیا جائے تو قوم کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے.یورپ میں تم اس قسم کا کوئی واقعہ نہیں دیکھو گے کہ کوئی شخص قومی جرم کرے اور پھر اس پر رحم کیا گیا ہو.ایک نہیں میں نے بیسیوں تاریخی اور ایڈ منسٹر کتابیں پڑھی ہیں.ان میں بیسیوں ایسی مثالیں پڑھی ہیں کہ ایک شخص جو اس حیثیت کا ہے کہ تم اس کا کپڑا چرا نے سے بھی ڈر گئے جب اسے کسی قصور میں پکڑا گیا شخص
723 تو اس نے کہا میں قصور وار ہوں ، میں سزا لوں گا.اس روح کے پیدا ہو جانے کے نتیجہ میں قوم ترقی کرتی ہے کیونکہ ہر ایک شخص یہ خیال کرے گا کہ اگر اس نے کوئی غلطی کی تو ساری قوم کے گی تم مجرم ہو ، تم قصور وار ہو.اس کا باپ اس کا بیٹا اس کا بھائی غرض اس کے سب رشتہ دار بھی اسے قصور وار سمجھیں گے.ایک ناول نویس نے فرانس کا ایک قصہ بیان کیا ہے.اس کے متعلق عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تاریخی واقعات کو اپناتا ہے.فرانس کے بور بن خاندان کو جب ملک سے نکالا گیا تو وہ انگلستان چلا گیا اور لنڈن جاکر بادشاہ نے کوشش کی کہ کسی طرح ملک میں بغاوت پھیلائی جائے.اس وقت فرانس میں جمہوریت نہیں تھی، طوائف الملو کی پائی جاتی تھی.غالبا اس وقت تک نپولین بر سر اقتدار نہیں آیا تھا یا اس کے قریب زمانہ کا یہ واقعہ ہے.بادشاہ نے لنڈن سے ایک جہاز میں بعض آدمی فرانس بھیجے کہ وہ فرانس میں جا کر بغاوت پھیلائیں.جہاز کے نچلے حصے میں ہتھیار بھی رکھے ہوئے ہوتے تھے.تو ہیں زنجیر کے ساتھ بندھی ہوئی تھیں.ایک شخص صفائی کے لئے وہاں گیا تو اس سے ایک زنجیر کھل گئی اور توپ جہاز کے اندر لڑھکنے لگی اور خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں جہاز ٹوٹ نہ جائے.بادشاہ کا نمائندہ بھی وہاں تھا.یہ حالت دیکھ کر اس شخص نے جس سے کنڈا کھلا تھا چھلانگ لگادی اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر کنڈا لگانے میں کامیاب ہو گیا.اس پر بادشاہ کے نمائندہ نے سب لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہا اس شخص نے بہت بڑی بہادری کا کام کیا ہے اور ایک تمغہ جو فرانس میں سب سے زیادہ عزت والا سمجھا جاتا ہے“ دے کر کہا میں بادشاہ کی طرف سے یہ تمغہ بہادری کے صلہ میں اس کے سینہ پر لگاتا ہوں.اس کے بعد اس نے کمانڈر کو حکم دیا کہ اسے لے جاؤ اور گولی مار دو.اتفاقاً جہاں اترنا تھا وہاں سمندر میں سخت طوفان آیا ہوا تھا اور خطرہ تھا کہ کہیں جہاز غرق نہ ہو جائے.اس وقت جہاز کے کمانڈر نے کہا کہ اس وقت مجھے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو یقینی موت کو قبول کرلے چنانچہ ایک ملاح آگے آیا.اس نے اسے حکم دیا کہ اس شخص کو کشتی میں بٹھا کر ساحل فرانس تک پہنچادو.طوفان زوروں پر تھا لیکن وہ ملاح کامیابی کے ساتھ ساحل فرانس پہنچ گئے اور وہاں پہنچ کر ملاح نے پستول نکال لیا اور کہا میں نے اپنی جان کو صرف اس لئے خطرہ میں ڈالا تھا کہ تم سے اپنے بھائی کا بدلہ لوں.مسافر نے کہا تم نے حقیقت پر غور نہیں کیا.تمہارے بھائی نے ایک نیک کام کیا تھا اور ایک برا کام کیا تھا.میں نے اس کے اچھے کام کا اچھا بدلہ دیا اور فرانس کا سب سے بڑا تمغہ اسے لگایا اور اس کے برے کام کے بدلہ میں اسے گولی سے مار دینے کا حکم دیا.تم جانتے ہو کہ میں بادشاہ کے مفاد کی خاطر یہاں آیا ہوں اور اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ میں ہر طرح کی احتیاط سے کام لوں اور اس کے رستہ میں حائل ہونے والی کسی روک کی پرواہ نہ کروں.اس نے ایک برا کام کیا تھا اور میری بادشاہ سے وفاداری کا تقاضا یہی تھا کہ میں اسے ہلاک کردوں.اس پر اس ملاح نے ہتھیار پھینک دیا اور کہا میں سمجھ گیا ہوں.میرا بھائی قصور وار تھا اور اپنے اس جرم کے بدلہ میں موت کی سزا کا مستحق تھا.تم ان لوگوں کی تاریخ میں ادب میں ناولوں میں کہانیوں میں ، قصوں میں اور علم و اخلاق کی کتابوں میں دیکھ لو یہی مضمون ملے گا کہ جب بھی کوئی شخص غلطی کرتا ہے وہ اپنی غلطی کی سزا لیتا
724 ہے، چاہے اس سے پہلے اس نے کتنی ہی قربانیاں کی ہوں، وہ ختم ہو جاتی ہیں اور سزا میں ان کا خیال نہیں رکھا جاتا.جب تک تم اس طریق پر عمل نہیں کرو گے تم ترقی نہیں کر سکتے.اگر کوئی شخص جنگ میں پیٹھ دکھاتا ہے اور لڑائی سے بھاگ جاتا ہے تو چاہے اس نے ہمیں سال تک قربانی کی ہو کوئی احمق ہی ہو گا جو اس کے اس جرم کے بعد ان قربانیوں کا خیال رکھے.وہ شخص بہر حال مجرم ہے.اس کی پچھلی سروس کے بدلہ میں اس کے پچھلے انعام ہیں اور موجودہ غلطی پر موجودہ سزا ہے.تم یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح داخل کر لو ورنہ تمہاری ساری قربانیاں بیچ ہوں گی اور تم تمام لوگوں کے غلام ہو جاؤ گے لیکن اگر تم اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لو گے تو تمہیں صحیح تو کل نصیب ہو گا اور جس شخص کو صحیح تو کل نصیب ہو جاتا ہے اس کی کامیابی میں کوئی شبہ نہیں ہوتا".خطبه جمعه فرموده ۲۱ جنوری ۱۹۵۵ء مطبوعه الفضل ۹ فروری ۱۹۵۵ء)
725 جماعت کے کمزور حصے کو مضبوط بنانے اور اس کی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرو " نوجوانوں کو چاہئے کہ جہاں وہ جسمانی موت سے اتنا گھبراتے اور پریشان ہوتے ہیں وہاں وہ روحانی موت سے بھی اتنا ہی گھبرا ئیں اور اس سے بچنے کی کوشش کریں.ابھی پرسوں کی بات ہے کہ ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ یہاں جو احمدی فوجی افسر یا نیوی کے افسر ہیں ، وہ چندہ نہیں دیتے.مجھے یہ سن کر بڑا تعجب آیا کہ جب میں یہاں آتا ہوں تو وہ شوق سے میرے آگے آجاتے ہیں اور میرے ساتھ ساتھ پھرتے ہیں لیکن ان کی عملی حالت یہ ہے کہ وہ چندہ ہی نہیں دیتے.گویا ان کا ساتھ ساتھ پھرنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی مردہ لاش کو کل لگا کر تھوڑی دیر کے لئے چلا کر دکھا دیا جائے.ہم انہیں چلتے پھرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں حالانکہ وہ مردہ لاشیں ہیں.میں سمجھتا ہوں اس کی ذمہ داری ایک حد تک باقی جماعت پر بھی ہے.ہر شخص جو خراب ہو تا ہے وہ دفعتا نہیں ہوتا بلکہ آہستہ آہستہ ہوتا ہے اور جب کوئی خرابی کی طرف اپنا قدم بڑھانے لگتا ہے تو کیوں جماعت کے لوگ اسے نہیں سمجھاتے.کیوں اس کی منت و سماجت نہیں کرتے.کیوں اس کی اصلاح کی کوشش نہیں کرتے.ان کا فرض ہے کہ وہ اسے سمجھا ئیں.اسے نصیحت کریں.اسے تحریص و ترغیب دلائیں.اس کے دینی احساسات کو بیدار کرنے کی کوشش کریں.ہاں کچھ عرصہ کے بعد جب دیکھیں کہ وہ اپنے اندر کوئی تغیر پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوا تو اسے چھوڑ دیں اور سمجھ لیں کہ اب روحانی لحاظ سے مر چکا ہے.جیسے پانی میں ڈوبنے والا جب ڈوب جاتا ہے تو پانی سے اگر ڈیڑھ دو گھنٹے کے اندر اندر اسے نکال لیا جائے اور اسے مصنوعی تنفس دلایا جائے تو طب کہتی ہے کہ کئی لوگ بچ جاتے ہیں اور ڈوبنے کے دس پندرہ منٹ کے اندراندرا سے نکال لیا جائے تو اکثر لوگ بچ جاتے ہیں لیکن اگر چوبیس گھنٹے گزر جائیں یا دو تین دن گزر جائیں تو پھر سے زندہ کرنے کی ہر کوشش بے کار ہوتی ہے.اسی طرح اگر تمہارا کوئی بھائی کمزور ہے تو اسے تم سمجھانے کی کوشش کرو.اس کے لئے دعائیں کرو.اسے وعظ و نصیحت کرو لیکن جس طرح وہ شخص احمق سمجھا جائے گا جس کے بھائی کو ڈوبے ہوئے دو تین دن گزر چکے ہیں وہ اس کے ہاتھ ہلا رہا ہے اور اسے مصنوعی تنفس دلا رہا ہے اسی طرح وہ شخص بھی احمق سمجھا جائے گا جو سال ہا سال تک سمجھاتا چلا جاتا ہے اور پھر یقین رکھتا ہے کہ ابھی وہ زندہ ہے ".فرموده ۱۸ جون ۱۹۵۵ء مطبوعه ۲دسمبر ۱۹۶۴ء)
ON سب سے اعلیٰ مقام تو کل کا مقام ہے تم خدا اور اس کے رسول کی خاطر مسکراؤ اور مسکراتے چلے جاؤ زیادہ سے زیادہ محنت کرو اپنے اعلیٰ نمونے پیش کرو جب خدمت خلق کا وقت آئے تو سب سے بڑھ کر خدمت خلق کرو خدام الاحمدیہ سے مراد ہے احمدیوں میں خدمت کرنے والا گروہ احمدیوں کے بوڑھے اقطاب ہونے چاہئیں اور احمدیوں کے جوان ابدال ہونے چاہئیں خدام الاحمدیہ کے یہ معنی نہیں کہ تم احمدیت کے خادم ہو.بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ تم احمدی خادم ہو
728 حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے پندرہویں سالانہ اجتماع میں ۲۰ نومبر ۱۹۵۵.کو نوجوانان جماعت سے خطاب کرتے ہوئے انہیں خدمت خلق اللہ تعالیٰ پر توکل اور دعاؤں سے کام لینے کی خاص طور پر نصیحت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ آئندہ تمہارا ایک نعرہ انسانیت زندہ باد ہونا چاہئے.حضور کی یہ مفصل تقریر ذیل میں درج کی جارہی ہے.(مرتب) کل چونکہ پہلی دفعہ انصار اور خدام کا اکٹھا جلسہ سالانہ تھا اس لئے ملاقات کے وقت میں کچھ گڑ بڑ ہو گئی تھی.صحیح طور پر نہ انصار میں انتظام ہو سکا اور نہ خدام میں ہوا.اس لئے میں نے چاہا کہ آج میں پھر خدام میں آؤں اور یہ بھی مناسب سمجھا کہ کچھ الفاظ بھی کہہ دوں.احباب کو علم ہے کہ اس سال کے شروع میں مجھ پر ایک نہایت ہی خطرناک بیماری کا حملہ ہوا تھا اور اب تک اس بیماری کے آثار چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے دماغ کو اتنا صدمہ پہنچا ہوا ہے کہ میں بڑی جلدی تھک جاتا ہوں.دو منٹ بھی بات کروں تو دماغ میں کوفت محسوس ہوتی ہے.یوں تو عقید تا دعا پر ہمارا ایمان ہے ہی مگر واقعاتی طور پر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی جماعت کے بعض دوستوں نے خاص طور پر دعائیں کی ہیں اس دن سے میری طبیعت اچھی ہو گئی ہے.اس جلسہ کے ایام میں انصار خصوصیت کے ساتھ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کرتے رہے جس کے نتیجہ میں کل کی کوفت کے باوجود آج صبح میں نے اپنی طبیعت بہت ہی خوش محسوس کی اور میری آواز بھی اونچی نکلتی رہی.ملاقاتیں بھی میں نے کیس اور کام کی ایسی طاقت مجھے اپنے اندر معلوم ہوتی تھی کہ میں عام دستور سے زیادہ کام کرنے کی توفیق پاتا تھا.اصل بات یہ ہے کہ جب بھی بیماری کے صدمہ کا اثر دماغ سے زائل ہوتا ہے ، طبیعت میں سکون پیدا ہو جاتا ہے اور یہی ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ آپ کے دماغ سے اس اثر کا زائل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہو تا.تو گو ایسی تندرستی تو نہیں ہوتی جیسے بیماری کے حملہ سے پہلے تھی مگر اس وقت یہ ضرور محسوس ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیماری کا ایسا تصرف جسم پر نہیں ہے جیسا کہ وہ بعض وقت محسوس ہوتا ہے.آج جو انصار اللہ کی رپورٹ میرے پاس آئی اس میں لکھا تھا کہ کسی دوست نے ایک سوال کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ سب سے اعلیٰ مقام تو کل کا مقام ہے.وہاں
729 جواب تو دیئے گئے مگر میں سمجھتا ہوں کہ کچھ میں بھی اس بارہ میں کہوں.تو کل کے معنے ہوتے ہیں ، انسان اپنی بات خدا کے سپرد کر دے مگر مسلمانوں میں اس لفظ کا بڑا غلط استعمال ہوا ہے.خدا تعالیٰ کے سپرد کر دینے کے تو یہ معنے تھے کہ انسان خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قاعدہ کے مطابق چلے.اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہاتھ پیر بھی دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں دماغ بھی دیا ہے.دنیوی سامان بھی دیئے ہیں.ایسی صورت میں خدا کے سپرد کرنے کے یہی معنے ہیں کہ جو کچھ خدا نے جس کام کے لئے دیا ہے اس کو ہم استعمال کریں.پس تو کل کا پہلا مقام یہ ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے ہم کو دیا ہے، جسمانی ہو یا مالی ہو یا اخلاقی ہو اس کو ہم زیادہ سے زیادہ استعمال کریں.اس کے بعد جو کمی رہ جائے وہ خدا کے سپرد کر دیں اور یقین رکھیں کہ خدا تعالیٰ اس کمی کو ضرور پورا کر دے گا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا دستور تھا.آپ نے بدر کے موقعہ پر صحابہ کی ایک ترتیب قائم کی.ان کو اپنی اپنی جگہوں پر کھڑا کیا.انہیں نصیحتیں کیں کہ یوں لڑنا ہے اور اس کے بعد ایک عرشہ پر بیٹھ کر دعا ئیں کرنے لگ گئے.یہ نہیں کیا کہ صحابہ کو مدینہ چھوڑ جاتے اور بیٹھ کر دعا ئیں کرنے لگ جاتے بلکہ پہلے صحابہ کو لے کر مقام جنگ پر پہنچے پھر ان کو ترتیب دی اور ان کو نصیحتیں کیں کہ یوں لڑنا ہے.اسکے بعد عرشہ پر بیٹھ گئے اور دعائیں کرنی شروع کر دیں.یہ تو کل ہے.ہر وہ شخص جو ان سامانوں سے کام نہیں لیتا جو خدا تعالیٰ نے اس کو بخشے ہیں اور کہتا ہے میں خدا پر چھوڑتا ہوں وہ جھوٹا ہے.وہ خدا سے تمسخر کرتا ہے اور ہر وہ شخص جو سامانوں سے کام لیتا ہے اور کہتا ہے اب یہ کام میں کروں گا وہ بھی جھوٹا ہے.وہ خدا پر اعتبار نہیں کرتا.کام آسان ہوں یا مشکل آخر ان کی کنجی خدا کے اختیار میں ہے.میں سارے یورپ میں پھرا.ہر جگہ میں ڈاکٹروں سے یہی پوچھتا تھا کہ بتاؤ مجھے یہ دورہ کیوں ہوا مگر کوئی جواب نہیں دے سکا.ڈاکٹر یہی کہتے تھے کہ آخر کچھ قدرت کے بھی تو سامان ہوتے ہیں.ہم ڈاکٹری طور پر آپ کو نہیں بتا سکتے کہ یہ بیماری آپ کو کیوں ہوئی.ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قدرت نے بھی کچھ باتیں اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہیں.کوئی چیز ایسی آگئی کہ اس کی وجہ سے آپ کو یہ دورہ ہو گیا.تو تو کل کا مفہوم یہ ہے کہ جہاں تک خدا نے تم کو طاقتیں دی ہیں ان کو پورا استعمال کرو بلکہ ایک دنیا دار سے بھی زیادہ استعمال کرو اور اس کے بعد صوفی سے زیادہ خدا پر اعتبار کرو اور یہ کہو کہ جو کمی رہ گئی وہ خداپوری کرے گا اور چاہے انتہائی مایوسی کا عالم ہو پھر بھی ڈٹ کے بیٹھ جاؤ کہ نہیں ، میرا خدا مجھے نہیں چھوڑے گا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غار ثور میں حضرت ابو بکڑ سے فرمایا کہ لا تحزن إن الله مَعْنَا ہمارا کام یہ تھا کہ دشمن کو دھوکا دے کر وہاں سے نکل آتے ہو نکل آتے.اب دشمن ہمارے سر پر آپہنچا ہے.اب یہ خدا کا کام ہے کہ وہ ہمیں بچائے سو لا تحزن ان الله معنا ڈرنے کی کوئی بات نہیں.خدا ہمارے ساتھ ہے.یہ ہے تو کل.پورے سامان استعمال کرو اور اس کے بعد خدا پر پورا یقین رکھو اور چاہے کچھ بھی ہو جائے یہ سمجھ لو کہ خدا ہمیں نہیں چھوڑے گا جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم احتیاطیں کرتے تھے.صحابہ بھی آپ کے پہرے دیتے تھے.ایک دن ایک دشمن چھپ کر آپ کے سر پر آکھڑا ہوا.آپ کی ہی تلوار کہیں لٹکی ہوئی تھی.اس نے
730 وہ اٹھالی اور اٹھا کر کہنے لگا اب بتاؤ کون آپ کو مجھ سے بچا سکتا ہے.آپ نے فرمایا اللہ.ایسے تو کل کے ساتھ آپ نے یہ بات کہی کہ اس کے ہاتھ کانپ گئے اور تلوار گر گئی.سو یہ ہے تو کل.اگر تم اس تو کل پر قائم رہو اور ہمیشہ اپنے دوستوں کو اور اپنی نسلوں کو اس پر قائم رکھتے جاؤ تو قیامت تک کوئی شخص تم پر انشاء اللہ تعالیٰ غالب نہیں آئے گا بلکہ ہمیشہ تم ہی دشمن پر غالب آؤ گے کیونکہ خدا تمہارے ساتھ ہو گا.پھر میں ایک اور بات کہنی چاہتا ہوں.کل میں نے تم کو بھی دیکھا اور انصار کو بھی دیکھا.شاید کچھ اس بات کا بھی اثر ہو گا کہ فالج کی وجہ سے میری نظر کمزور ہو گئی ہے اور میں پوری طرح نہیں دیکھ سکا ہوں گا لیکن بہر حال مجھے نظریہ آیا کہ جیسے چہرے افسردہ ہیں اور جھلے جھلسے سے ہیں.میں نے سمجھا شاید میری بیماری کے خیال سے ایسا ہے چنانچہ میں نے بعض دوستوں سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا طوفان کی وجہ سے لوگوں کی مالی حالت خراب ہو گئی ہے.اس وجہ سے ان کے چہرے افسردہ ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں.اگر میری بیماری اس کی وجہ ہو تو میں تو ایک انسان ہوں.آخر انسان کب تک تمہارے اندر رہے گا.اس کے بعد آخر خدا ہی سے واسطہ پڑنا ہے.....کیوں نہ خدا ہی سے شروع سے واسطہ رکھو.حضرت ابو بکر نے کیا سچائی بیان کی تھی کہ من كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِن مُحَمَّدًا قَدَمَاتَ وَمَن كَان يَعْبُدُ اللهَ فَإِن اللهَ حَتَّى لَا يَمُوتُ - ال خدا پر توکل کرو گے تو معلوم نہیں تمہارا اس دنیا کے ساتھ ہزار سال واسطہ پڑنا ہے یا دو دو ہزار سال پڑنا ہے بہر حال ہزار دو ہزار کا عرصہ خدا کے لئے تو کچھ بھی نہیں مگر اس تو کل کے نتیجہ میں وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا.اس بیماری میں مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ کچھ خیر خواہ دوستوں کی بیوقوفیوں کی بھی سزا مجھے ملی ہے.وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ”خدا آپ کو عمر نوح دے".عمر نوح تو ہزار سال کہتے ہیں میں تو ستاسٹھ سال میں اپنے جسم کو ایسا کمزور محسوس کر رہا ہوں کہ مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے میری روح گویا قید کی ہوئی ہے.اگر بجائے عمر نوح کی دعا کرنے کے ، وہ یہ دعا کرتے کہ اللہ تو ہمارے خلیفہ کو اتنی عمر دے جس میں وہ بشاشت کے ساتھ کام کر سکے اور تیری مدد اس کے ساتھ ہو تو مجھے کتنا فائدہ ہو تا.اگر وہ مجھے عمر نوح ہی دے تو ہزار سال کی تو قوم نہیں ہوا کرتی.قو میں تو دو ہزار سال چلتی ہیں.پھر بھی تو ہزار سال کے بعد میں تم سے جدا ہو جاتا.تو ایسی غلط دعا مانگنے سے کیا فائدہ تھا.دعا یہ مانگنی تھی کہ یا اللہ تو ان کو ایسی عمر دے جس میں ان کا جسم اس کام کا بوجھ اٹھا سکے اور بشاشت سے تیرے دین کی خدمت کر سکیں اور ہمارے اندر وہ طاقت پیدا کر کہ جو کام تو ان سے لے رہا ہے وہ ہم سے بھی لیتا چا؟ جا.یہ دعا میرے لئے بھی ہوتی اور تمہارے لئے بھی ہوتی اور اسلام کے لئے بھی ہوتی.سو میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خوش رہو.آج ہی جب میں نے یہ واقعہ اپنے گھر میں سنایا تو انہوں نے بتایا کہ ریڈرز ڈائجسٹ میں ایک امریکن کا مضمون شائع ہوا.ریڈرز ڈائجسٹ امریکہ کا ایک بڑا مشہور رسالہ ہے جو دو کروڑ کے قریب شائع ہو تا ہے جس میں اس نے لکھا کہ میں نیوزی لینڈ گیا.وہاں میں افسردہ رہنے لگ گیا.ایک دن میں بیٹھا تھا کہ ایک نیا
731 شادی شدہ جوڑا جو ہنستا ہوا آ رہا تھا، وہ میرے آگے کھڑا ہو کر کہنے لگا.ہماری خاطر ایک دفعہ مسکرا دو.کہنے لگا کہ میں جو مسکرایا تو پھر مسکرانے لگا.مجھے اپنا وطن بھول ہی گیا اور میں مسکرا تا ہی رہا.تم بھی خدا اور اس کے رسول کی خاطر مسکراؤ.اپنے چہرے پر رونے کو کبھی نہ آنے دو اور مسکراتے چلے جاؤ تاکہ ساری دنیا تمہاری وجہ سے مسکراتی چلی جائے مگر ایسا مسکراؤ کہ اس کے ساتھ شیطان نہ مسکرائے خدا مسکرائے.ایک مسکراہٹ ایسی ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ سے غافل کر دیتی ہے.اس کے ساتھ شیطان مسکراتا ہے اور ایک مسکراہٹ وہ ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ خدا بھی مسکراتا ہے.پھر جس شخص نے یہ کہا کہ غربت آگئی ہے، طوفان آئے ہیں ، اس نے بھی غلطی کی.صحابہ میں دیکھو ایک صحابی عمرہ کے موقعہ پر اکڑ اکڑ کر طواف کر رہا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو اس کو بلایا اور فرمایا اکثر نا خدا کو بڑا نا پسند ہے لیکن تمہارے اکڑنے پر خدا بڑا خوش ہوا ہے.تم کیوں اکڑتے تھے.کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں اس لئے اکڑا تھا کہ ملیریا کی وجہ سے سب کی کمریں ٹیڑھی ہو گئی تھیں.میں نے کہا کا فر ہمارا طواف دیکھ رہے ہیں کہیں وہ ہماری ٹیڑھی کمریں دیکھ کر خوش نہ ہو جائیں کہ مسلمانوں کی کمریں ٹوٹ گئی ہیں اس لئے میں اکڑ اکڑ کر چلتا تھا کہ ان کو بتاؤں کہ ہم خدا کے فضل سے بیماریوں سے ڈرنے والے نہیں.ہم اکٹر کر چلیں گے.آپ نے فرمایا خدا کو تمہاری یہ ادا بڑی پسند آئی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک پر آفت آئے تو مومن سے زیادہ اور کون غمگین ہو گا مگر اپنے غم کا تحفہ رات کے وقت خدا کے آگے نذر کے طور پر پیش کرو اور اپنی مسکراہٹیں دن کے وقت خدا اور اس کے رسول کے آگے پیش کرو تاکہ دشمن یہ نہ سمجھے کہ ان طوفانوں نے تمہاری کمریں تو ڑ ڈالی ہیں.یاد رکھو خدا نے اس زمین میں کمائی کی بڑی قابلیتیں رکھی ہیں.میں نے بار ہا زمینداروں کو کہا ہے کہ ہمارا ایک وفد جاپان گیا تھا.انہوں نے بتایا کہ چھ ہزار روپیہ فی ایکڑ جاپانی کما رہے ہیں.میں نے اٹلی سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ چودہ سو روپیہ فی ایکڑ اٹلی والے کما رہے ہیں.میں نے ہالینڈ میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ تین ہزار روپیہ فی ایکٹر ہالینڈ والے کما رہے ہیں.ہمارے ملک کی اوسط زمین دو تین ایکڑ فی شخص بنتی ہے.تین ہزار فی ایکٹر کے لحاظ سے چھ ہزار کی آمدن یعنی پانچ سو روپیہ ایک مہینہ کی آمد بنتی ہے.گویا ای.اے.سی کے برابر تنخواہ ہو جاتی ہے.ضرورت یہ ہے کہ ہمارے آدمی محنت کریں تاکہ اللہ تعالی ان کی زمین میں سے سونا اگلوائے.تاجر دیانت سے کام کریں کہ دنیا میں ہیں میل سے ان سے سودا لینے آئے.نوکر ایسی دیانت سے کام کریں کہ افسر کے میں نے رکھنا ہے تو احمدی رکھنا ہے.یہ بڑے دیانت دار ہوتے ہیں.غرض اچھے سے اچھے کام کرو.زیادہ سے زیادہ محنت کرو اور خواہ وہ زمیندارہ ہو ، تجارت ہو ، ملازمت ہو اپنے اعلیٰ نمونے پیش کرو اور جب خدمت خلق کا وقت آئے تو سب سے بڑھ کر خدمت خلق کرو.دیکھو عذاب تو عذاب ہی ہوتے ہیں.اللہ تعالٰی سے دعائیں کرو کہ خدا تعالٰی ہمارے ملک کو عذابوں سے
732 بچائے لیکن اس عذاب کے وقت میں تم کو جو خدمت کی توفیق ملی ہے تو یہ تو مسکرانے والی بات ہے.بہر حال خدمت کی توفیق ملنے کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہو اور جب کسی شکل میں بھی ملک پر کوئی مصیبت آئے سب سے آگے اپنی جان کو خطرہ میں پیش کرو تاکہ دنیا محسوس کرے کہ تم دنیا کے لئے ایک ستون ہو اور تمہارے ذریعہ سے ملک کی چھت قائم ہے.اگر تم اپنے اندر تغیر پیدا کر لو گے تو اللہ تعالٰی بھی خوش ہو گا ، تمہارے اہل ملک بھی خوش ہوں گے اور ملک بھی ترقی کرے گا اور لوگوں کے دلوں سے تمہاری دشمنیاں نکل جائیں گی اور تمہاری محبتیں لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائیں گی.پس خدمت کرو اور کرتے چلے جاؤ.تمہار ا نام خدام الاحمدیہ ہے.خدام احمدیہ کے یہ معنی نہیں کہ تم احمدیت کے خادم ہو.خدام احمدیہ کے معنے ہیں تم احمدی خادم ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سَيْدُ القَوْمِ خَادِمُهُم قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے.اگر تم واقع میں بچے احمدی بنو گے اور بچے خادم بھی بنو گے تو تھوڑے دنوں میں ہی خدام کو سید بنادے گا.ہر شخص تمہارا ادب اور احترام کرے گا اور لوگ سمجھیں گے کہ ملک کی نجات ان کے ساتھ وابستہ ہے.دیکھو یہ کس طرح اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر ملک کی خدمت کرتے رہتے ہیں.سو اپنے اس مقام کو ہمیشہ یاد رکھو اور ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہو کہ تمہارے ذریعہ سے دنیا کا ہر غریب اور امیر فائدہ اٹھائے.نہ امیر سمجھے تم اس کے دشمن ہو نہ غریب سمجھے کہ تم اس کے دشمن ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے غریب بھی بندے ہیں اور امیر بھی بندے ہیں.ہزاروں باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں امیر بھی خدمت کے محتاج ہوتے ہیں اور ہزاروں مواقع ایسے آتے ہیں کہ غریب بھی خدمت کے محتاج ہوتے ہیں.تم دونوں کی خدمت کرو کیونکہ احمدیت غریب اور امیر میں کوئی فرق نہیں کرتی.بالشویک غریبوں کی خدمت کرتے ہیں اور کیپٹلسٹ امیروں کی خدمت کرتے ہیں.تم خدام الاحمدیہ ہو.تمہارا کام یہ ہے کہ امیر مصیبت میں ہو تو اس کی خدمت کرو یہاں تک کہ ہر فرد بشریہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اس کی نجات کا ذریعہ بنا دیا ہے پھر اللہ تعالٰی کے فضل سے ہر قسم کی قومی ترقیات تم حاصل کرو گے اور اللہ تعالی کی برکتیں تم پر نازلی ہوں گی اور یاد رکھو کہ جہاں جہاں جاؤ خدام کی تعداد بڑھانے کی کوشش کرو.میرا اندازہ یہ ہے کہ تمام احمدیوں کا چالیس فی صدی خدام ہونے چاہئیں.سو اپنی جماعت کو جمعہ کے دن اور عید کے دن دیکھو کہ کتنی تھی اور پھر دیکھو کہ کیا اس کا چالیس فی صدی خدام ہیں.اگر نہیں ہیں تو ہر ایک کے پاس جاؤ اور اس کو تحریک کرو کہ وہ بھی آئے اور خدام میں شامل ہو.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تم کو بچے طور پر خدام الاحمدیہ بننے کی توفیق دے کیونکہ ملک کو خدام الاحمدیہ کی ضرورت ہے.جیسے میں نے بتایا ہے خدام الاحمدیہ جب ہم نے نام رکھا تھا تو اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ تم احمدیوں کے خادم ہو.اگر تم یہ معنی کرو گے تو بڑی غلطی کرو گے اور ہم پر ظلم کرو گے.خدام الاحمدیہ سے مراد تھا، احمدیوں میں خدمت کرنے والا گروہ.تم خادم تو دنیا کے ہر انسان کے ہو لیکن ہو احمدیوں میں سے خادم اس لئے اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ تم احمدیوں کی خدمت کرو بلکہ مطلب یہ تھا کہ احمدی سٹینڈرڈ کے مطابق خدمت کرو چنانچہ دیکھ لو لاہور میں طوفان آیا ، مکان گرے تو اس
733 موقع پر جو احمدی معمار ہم نے بھیجے ان کے متعلق پولیس نے اور محلے والوں نے اقرار کیا کہ یہ آدمی نہیں یہ تو جن ہیں.یہ تو منٹوں میں مکان تعمیر کر دیتے ہیں تو یہ احمدی سٹینڈرڈ تھا.سو اپنا احمد کی سٹینڈرڈ قائم کرو اور اسے بڑھاتے جاؤ.دیکھو آج تو تم خدمت کرتے ہو.کل دوسروں کو بھی تحریک ہو گی لیکن اگر احمدی سٹینڈرڈ کے مطابق تم خدمت کرنے والے ہو گے تو دوسرے تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتے.وہ ہزار ہوں گے اور تم پچاس ہو گے لیکن تم پچاس ان ہزار سے زیادہ کام کر جاؤ گے کیونکہ تمہارا سٹینڈرڈ احمدی سٹینڈرڈ ہو گا اور ان کا سٹینڈرڈاول تو احمدی سٹینڈرڈ نہیں ہو گا.دوسرے وہ فرق کریں گے کہ یہ ہمارا دشمن ہے اور یہ ہمارا دوست ہے.تم نے کہنا ہے کہ ہم نے تو خدمت کرنی ہے.چاہے مخالف ہو یا دوست.اسی طرح آپ ہی آپ تمہارا کام دوسروں سے بلند ہو تا چلا جائے گا اور تم ملک کے لئے ایک ضروری وجود بن جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کے تم پر فضل نازل ہوں گے.جیسا کہ شروع میں میں نے کہا ہے اللہ تعالیٰ پر توکل کر و دعاؤں پر خاص زور دو اور اپنی اصلاح کی فکر کرو.جوانی میں تہجد پڑھنے والے اور جوانی میں دعائیں کرنے والے اور جوانی میں خوا میں دیکھنے والے بڑے ناد روجود ہوتے ہیں.تم نے ابدال کا ذکر سنا ہو گا.ابدال در حقیقت وہی ہوتے ہیں جو جوانی میں اپنے اندر تغیر پیدا کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق پیدا کر لیتے ہیں کہ بڑھے بڑھے بھی آکر کہتے کہ حضور ہمارے لئے دعا کیجئے.تمہارے احمدیوں کے بڑھے تو اقطاب ہونے چاہئیں اور احمدیوں کے جوان ابدال ہونے چاہئیں.وہ خوب دعائیں مانگیں اور اللہ تعالیٰ سے ایسی محبت کریں کہ وہ اپنے فضل سے ان سے بولنے لگ جائے اور وہ جوانی میں ہی صاحب کشف و کرامات ہو جائیں اور محلہ کے لوگوں کو جب مصیبت پیش آئے وہ دوڑے دوڑے ایک خادم احمدیت کے پاس آئیں اور آکر کہیں دعا کرو ہماری یہ مصیبت ٹل جائے.جب تم جذبہ و اخلاص سے ان کے لئے دعا کرو گے تو پھر خدا تمہاری دعائیں بھی زیادہ قبول کرنے لگ جائے گا اور لوگوں کو ماننا پڑے گا کہ تمہاری دعا ایک بڑی قیمتی چیز ہے.بہرحال ان نصیحتوں کے بعد میں اپنی تقریر ختم کر تا ہوں.مصافحہ تو میں کر چکا ہوں اب آپ کو رخصت کرتا ہوں.باقی کام منتظمین سرانجام دیں گے.میں آپ کو السلام علیکم کہہ کر آپ سے رخصت ہو تا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور قیامت تک آپ لوگ اور آپ کی نسلیں دین کی خادم رہیں.خدا کی محب رہیں.خدا سے تم محبت کرنے والے ہو اور خدا تم سے محبت کرنے والا ہو.کبھی تمہارا دشمن تم پر غالب نہ آئے بلکہ تم خدا کی مدد اور اس کی نصرت سے نیکی اور تقویٰ کے ساتھ لوگوں پر غالب آؤ شرارت اور فساد کے ساتھ نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کے ساتھ تاکہ اسلام تمہاری ترقی سے فائدہ اٹھائے اور کسی کو تمهاری ترقی سے نقصان نہ پہنچے.اللھم آمین.دیکھو میں نے کہا تھا کہ تو کل کرو.سو تو کل کے معنے ہیں احمدیت کا صحیح مقام.اس کے لحاظ سے میں کہتا ہوں کہ کہو احمدیت زنده باد (احمدیت زندہ باد کے نعرے) اور میں نے کہا تھا کہ خدمت احمدیت کے سٹینڈرڈ پر کرو جس کے معنے یہ ہیں کہ انسانیت کو زندہ رکھنے کی کوشش کرو.سو اس کے مطابق میں کہتا ہوں کہ تمہارا نعرہ یہ ہونا
734 چاہئے.انسانیت زندہ باد.(انسانیت زندہ باد کے نعرے) اللہ تعالیٰ تم کو وہ سٹینڈرڈ قائم رکھنے کی توفیق دے جس سے وہ اعلیٰ جذبات جو انسان کے اندر خدا تعالیٰ نے فطَرَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا کے مطابق پیدا کئے ہیں ، وہ قائم رہیں اور انسان کی وہ شکل دنیا کو نظر آئے جس کے متعلق قرآن میں خدا کہتا ہے کہ میں نے بنائی ہے.وہ شکل نظر نہ آئے جو شیطان نے بنائی ہے بلکہ تمہارے ذریعہ ہے وہ شکل انسانیت کی دنیا کو نظر آئے جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور جس کے متعلق وہ فرماتا ہے کہ فطرة اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا.اس کے بعد حضور نے السلام علیکم کہا اور واپس تشریف لے گئے.(فرموده ۲ نومبر ۶۱۹۵۵ )
انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کا جماعت میں کردار یا درکھو کے اشاعت دین کوئی معمولی چیز نہیں تم ایک عظیم الشان کام کے لئے کھڑے ہو گئے ہو پس دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے کام کو تا قیامت زندہ رکھو تم محمدی نور کو پھیلاتے چلے جاؤ.یہاں تک کہ ساری دنیا محمد رسول صا اللہ اللہ کا کلمہ پڑھنے لگ جائے
736 مندرجہ ذیل تقریر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مجلس انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالان: اجتماع ۱۹۵۵ء کے موقع پر فرمائی تھی.(مرتب) " آج انصار اللہ کی پہلی میٹنگ ہے.انصار کس جذبہ اور قربانی سے کام کرتے ہیں، یہ تو آئندہ سال ہی بتائیں گے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کی دماغی نمائندگی انصار اللہ کرتے ہیں اور اس کے دل اور ہاتھوں کی نمائندگی خدام الاحمدیہ کرتے ہیں.جب کسی قوم کے دماغ ، دل اور ہاتھ مضبوط ہوں تو وہ قوم بھی ٹھیک ہو جاتی ہے.پس میں پہلے تو انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو یا ( رفیق) ہیں یا کسی (رفیق) کے بیٹے ہیں یا کسی (رفیق) کے شاگرد ہیں اس لئے جماعت میں نمازوں دعاؤں اور تعلق باللہ کو قائم رکھنا ان کا کام ہے.ان کو تہجد ذکر الہی اور مساجد کی آبادی میں اتنا حصہ لینا چاہئے کہ نوجوان ان کو دیکھ کر خود ہی ان باتوں کی طرف مائل ہو جائیں.اصل میں تو جوانی کی عمر ہی وہ زمانہ ہے جس میں تہجد دعا اور ذکر الہی کی طاقت بھی ہوتی ہے اور مزہ بھی ہوتا ہے لیکن عام طور پر جوانی کے زمانہ میں موت اور عاقبت کا خیال کم ہوتا ہے.اس وجہ سے نوجوان غافل ہو جاتے ہیں لیکن اگر نوجوانی میں کسی کو یہ توفیق مل جائے تو وہ بہت ہی مبارک وجود ہو تا ہے.پس ایک طرف تو میں انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نمونہ سے اپنے بچوں ، اپنے ہمسایہ کے بچوں اور اپنے دوستوں کے بچوں کو زندہ کریں اور دوسری طرف خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اتنا اعلیٰ درجہ کا نمونہ قائم کریں کہ نسلا بعد نسل اسلام کی روح زندہ رہے.اسلام اپنی ذات میں تو کامل مذہب ہے لیکن اعلیٰ سے اعلیٰ شربت کے لئے بھی کسی گلاس کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح اسلام کی روح کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے کسی گلاس کی ضرورت ہے اور ہمارے خدام الاحمدیہ وہ گلاس ہیں جن میں اسلام کی روح کو قائم رکھا جائے گا اور ان کے ذریعہ اسے دوسروں تک پہنچایا جائے گا.دیکھو آخر ہم بھی انسان ہیں اور یہودی بھی انسان ہیں.ہمارا دین ان کے دین سے بہتر ہے اور ہمارا رسوں ان کے رسول سے افضل ہے مگر یہودیوں کو فلسطین سے نکال دیا گیا تو وہ اسے دو ہزار سال تک نہیں بھولے بلکہ اتنے لمبے عرصہ تک انہیں یہ یاد رہا کہ انہوں نے فلسطین میں دوبارہ یہودی اثر کو قائم کرنا ہے اور آخر وہ دن
737 آگیا.اب وہ فلسطین پر قابض ہیں.ہمیں اس بات پر غصہ تو آتا ہے اور ہم حکومتوں کو اس طرف توجہ بھی دلاتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو انہیں توجہ دلاتے رہیں گے کہ اب یہ اسلامی علاقہ ہے یہودیوں کا نہیں اس لئے یہ مسلمانوں کو ملنا چاہئے مگر ہم اس بات کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہودیوں نے دو ہزار سال تک اس بات کو یا د رکھا جو دو سری قومیں بعض دفعہ میں سال یا سو سال تک بھی یاد نہیں رکھ سکتیں.پس یاد رکھو کہ اشاعت دین کوئی معمولی چیز نہیں.یہ بعض دفعہ جلدی بھی ہو جاتی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تئیس سال میں ہو گئی اور پھر مزید اشاعت کوئی پچاس سال میں ہو گئی مگر کبھی کبھی یہ سینکڑوں سال بھی لے لیتی ہے جیسے حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں اس نے ایک سو سال کا عرصہ لیا اور کبھی یہ ہزاروں سال کا عرصہ بھی لے لیتی ہے چنانچہ دیکھ لو یہودیوں کا دنیوی نفوذ تو بہت کم عرصہ میں ہو گیا تھا لیکن دوسری قوموں کی ہمدردی انہیں دو ہزار بعد جاکر حاصل ہوئی.جب لوگوں کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ کوئی قوم اپنے آثار اور اپنی تعلیمات کو قائم رکھنے کے لئے ہر وقت تیار ہے اور آئندہ بھی تیار رہے گی تو اس قوم کے دشمن بھی اس کے ہمدرد ہو جاتے ہیں.کیا یہ لطیفہ نہیں کہ عیسائیوں نے ہی یہودیوں کو فلسطین سے باہر نکالا تھا اور اب عیسائی ہی انہیں فلسطین میں واپس لائے ہیں.دیکھو یہ کیسی عجیب بات ہے.آج سب سے زیادہ یہودیوں کے خیر خواہ امریکہ اور انگلینڈ ہیں اور یہ دونوں ملک عیسائیوں کے گڑھ ہیں.فلسطین سے یہودیوں کو نکالا بھی عیسائیوں نے ہی تھا مگروہی آج ان کے زیادہ ہمدرد ہیں گویا ایک لمبی قربانی کے بعد ان کے دل بھی پسیج گئے.پس ہمیشہ ہی اسلام کی روح کو قائم رکھو.اس کی تعلیم کو قائم رکھو اور یاد رکھو کہ قومیں نوجوانوں کے کی دینی زندگی کے ساتھ ہی قائم رہتی ہیں.اگر آنے والے کمزور ہو جائیں تو وہ قوم گر جاتی ہے مگر کوئی انسان یہ کام نہیں کر سکتا صرف اللہ ہی یہ کام کر سکتا ہے.انسان کی عمر تو زیادہ سے زیادہ ساٹھ ستر اسی سال تک چلی جائے گی مگر قوموں کی زندگی کا عرصہ تو سینکڑوں ہزاروں سال تک جاتا ہے.دیکھو مسیح علیہ السلام کی قوم بھی دو ہزار سال سے زندہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم تیرہ سو سال سے زندہ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جب تک دنیا قائم رہے گی یہ بڑھتی چلی جائے گی.تم بھی ایک عظیم الشان کام کے لئے کھڑے ہوئے ہو پس اس روح کو قائم رکھنا اسے زندہ رکھنا اور ایسے نوجوان جو پہلوں سے زیادہ جوشیلے ہوں پیدا کرنا تمہارا کام ہے.ایک بہت بڑا کام تمہارے سپرد ہے.عیسائی دنیا کو مسلمان بنانا اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے جتنا عیسائی دنیا کو یہودیوں کا ہمد رد بنانا کیونکہ عیسائی دنیا کو ہمد رد بنانے میں تو صرف دماغ کو فتح کیا جاتا ہے لیکن عیسائیوں کو مسلمان بنانے میں دل اور دماغ دونوں کو فتح کرنا پڑے گا اور یہ کام بہت زیادہ مشکل ہے.پس دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے کام کو تا قیامت زندہ رکھو.محاورہ کے مطابق میرے منہ سے " تا قیامت" کے الفاظ نکلتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں " تا قیامت " بھی درست نہیں.قیامتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں.پس میں تو کہوں گا کہ تم اسے ابدی زمانہ تک قائم رکھو کیونکہ تم ازلی او ر ابدی خدا کے بندے ہو اس لئے ابد
738 تک اس نور کو جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے ، قائم رکھو اور محمدی نور کو دنیا میں پھیلاتے جاؤ یہاں تک کہ ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے لگ جائے اور یہ دنیا بدل جائے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت جو آسمان پر ہے زمین پر بھی آجائے.میں بیمار ہوں زیادہ لمبی تقریر نہیں کر سکتا اس لئے میں مختصری دعا کر کے رخصت ہو جاؤں گا.میں نے اپنی مختصر تقریر میں خدام کو بھی نصیحت بیان کر دی ہے اور انصار اللہ کو بھی.مجھے امید ہے کہ دونوں میری ان مختصر باتوں کو یاد رکھیں گے.اپنے اپنے علاقوں میں ایسے اعلیٰ نمونے پیش کریں گے کہ لوگ ان کے نمونے دیکھ کرہی احمدیت میں داخل ہونے لگ جائیں.مجھے تو یہ دیکھ کر گھبراہٹ ہوتی ہے کہ تحریک جدید کا چندہ دو تین لاکھ روپے ، سالانہ ہوتا ہے اور وہ بھی بڑا زور لگا لگا کر حالا نکہ کام کے لحاظ سے دو تین کروڑ بھی تھوڑا ہے.صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ چندہ دس گیارہ لاکھ روپیہ ہوتا ہے حالانکہ کام کے پھیلاؤ کو تو جانے دو جو صدر انجمن احمدیہ کے ادارے ہیں ان کو بھی صحیح طور پر چلانے کے لئے تھیں، چالیس لاکھ روپیہ چندہ ہونا چاہئے مگر تیں ' چالیس لاکھ چندہ تو تبھی ہو گا جب جماعت چار پانچ گنے زیادہ بڑھ جائے مگر اب تو ہمارے مبلغ ایسے پست ہمت ہیں کہ جب کسی مبلغ سے پوچھا جائے کہ تبلیغ کا کیا حال ہے تو وہ کہتا ہے جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے.اس سال جماعت میں دو آدمی اور شامل ہو گئے ہیں.اگر تبلیغ کی یہی حالت رہی تو کسی ایک ملک میں دو لاکھ احمد کی بنانے کے لئے ایک لاکھ سال چاہئیں.پس دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ کے حضور اتنا گڑ گڑاؤ اور اتنی کوششیں کرو کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے تمہاری مدد کے لئے اتر آئیں.انسانی زندگیاں محدود ہیں مگر ہمارا خدا ازلی ابدی خدا ہے اس لئے اگر وہ یہ بوجھ جو ہم نہیں اٹھا سکتے آپ اٹھالے تو فکر کی کوئی بات نہیں.جب تک ہم یہ کام انسان کے ذمہ سمجھتے ہیں تب تک فکر رہے گا کیونکہ انسان تو کچھ مدت تک زندہ رہے گا پھر فوت ہو جائے گا مگر خد اتعالیٰ خود اس بوجھ کو اٹھالے تو فکر کی کوئی بات نہیں.یہ اسی کا کام ہے اور اسی کو تجتا ہے اور جب خدا تعالیٰ خود اس بوجھ کو اٹھا لے گا تو پھر اس کے لئے زمانہ کا کوئی سوال نہیں رہے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ صدیاں تعلق نہیں رکھتیں.ان کا تعلق تو ہمارے ساتھ ہے ورنہ خدا تعالیٰ تو ازلی ابدی خدا ہے.پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی اور مجھے بھی توفیق دے کہ ہم ثواب حاصل کریں لیکن جو اصل چیز ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ یہ بوجھ خود اٹھا لے تاکہ آئندہ ہمارے لئے کوئی فکر کی بات نہ رہے".فرموده ۱۸ نومبر ۱۹۵۵ء مطبوعه الفضل ۱۵ دسمبر ۱۹۵۵ء)
739 خدمت دین کے لئے آگے آنے کی تلقین حضرت مولانا عبد الرحیم درد صاحب کی وفات کے موقعہ پر حضور نے ایک خطبہ جمعہ میں نوجوانوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ آگے آئیں اور ان کی جگہ لینے اور خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.پس میں نوجوانوں کو کہتا ہوں کہ وہ دین کی خدمت کے لئے آگے آئیں اور صرف آگے ہی نہ آئیں بلکہ اس ارادہ سے آگے آئیں کہ انہوں نے کام کرنا ہے.گو حضرت خالد بن ولید نو جوان آدمی تھے ، حضرت عمرؓ نے آپ کی جگہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو کمانڈر انچیف مقرر کر دیا.اس وقت حضرت خالد بن ولید کی پوزیشن ایسی تھی کہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے خیال کیا کہ اس وقت ان سے کمانڈ لینا مناسب نہیں.حضرت خالد بن ولید کو اپنی برطرفی کا کسی طرح علم ہو گیا.وہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح" کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کے پاس میری بر طرفی کا حکم آیا ہے لیکن آپ نے ابھی تک اس حکم کو نافذ نہیں کیا.حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے کہا.خالد تم نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی ہے.اب بھی تم خدمت کرتے چلے جاؤ.خالد نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن خلیفہ وقت کا حکم ماننا بھی ضروری ہے.آپ مجھے بر طرف کر دیں اور کمانڈر انچیف کا عمدہ خود سنبھال لیں.میرے سپرد آپ چپڑاسی کا کام بھی کر دیں گے تو میں اسے خوشی سے کروں گا لیکن خلیفہ وقت کا حکم بهر حال جاری ہونا چاہئے.حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے کہا کمان تو مجھے لینی ہی پڑے گی کیونکہ خلیفہ وقت کی طرف سے یہ حکم آچکا ہے لیکن تم کام کرتے جاؤ.خالہ نے کہا آپ حکم دیتے جائیں ، میں کام کرتا جاؤں گا چنانچہ بعد میں ایسے مواقع بھی آئے کہ جب ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں سوسو عیسائی تھا لیکن خالد نے ہمیشہ یہی مشورہ دیا کہ آپ ان کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہیں.خدا تعالیٰ کے اس وعدہ پر یقین رکھو کہ اسلام اور احمدیت نے دنیا پر غالب آنا ہے.اگر یہ فتح تمہارے ہاتھوں سے آئے تو رسول کریم کی شفاعت تمہارے لئے وقف ہو گی کیونکہ تم اسلام کی کمزوری کو قوت سے اور اس شکست کو فتح سے بدل دو گے.خدا تعالیٰ کے گاگو قرآن کریم میں نے نازل کیا ہے لیکن اس کو دنیا میں قائم ان لوگوں نے کیا ہے.پس اس کی برکات تم پر ایسے رنگ میں نازل ہوں گی کہ تم اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرو گے اور وہ تمہاری اولاد کو بھی ترقیات بخشے گا".ا فرم۱۹۰۰۰ سمبر ۱۹۵۵، مطبوع الفضل ۱۸، سمبر ۱۹۵۵ء)
740 ہماری آئندہ نسلوں کو یہ عزم کر لینا چاہئے کہ وہ یکے بعد دیگرے اسلام کی خدمت کرتے چلے جائیں سلسلہ کا لٹریچر پڑھو.عام طور پر سلسلہ کالٹریچر چھاپنے والوں کو یہ شکایتیں ہیں کہ لوگ ہم سے کتابیں نہیں لیتے حالانکہ یاد رکھو روٹی نہ لو تو کوئی حرج نہیں لیکن سلسلہ کی کتابیں لینا اور ان کو پڑھنا بڑی اہم چیز ہے.پس ان کتابوں کو پڑھو تاکہ اپنی زندگی میں خود بھی فائدہ اٹھاؤ اور اپنی بعد میں آنے والی نسلوں کو بھی فائدہ پہنچاؤ.” ہمارے نوجوان خصوصا جو بچے وغیرہ آئے ہیں ان کو خدا تعالی ایسی توفیق دے کہ وہ جب جلسہ سے اٹھیں تو وہ عمر میں تو بچے ہوں لیکن عقل اور ایمان میں بڑھے ہو چکے ہوں تاکہ ان کے ذریعہ ایک نئی ابراہیمی نسل چیے.تم میں سے ہر بچہ اگر اپنے دل میں یہ عہد کرلے کہ میں نے ابراہیم بنتا ہے، میں نے علی بننا ہے، میں نے بھی بنتا ہے تو پھر وہی کچھ وہ بن جائے گا"." تو تم میں سے ہر بچہ ابراہیمی نمونہ کی نقل کر سکتا ہے.آخر وہ اس وقت تو دس سال کے قریب ہی کے بچے ہوں گے.گویا ابراہیم علیہ السلام کے دین کی بنیاد اور ابراہیمی برکتوں کی بنیاد تو دس سال کی عمر میں ہی پڑی پس خدا تمہیں بھی ان باتوں کے سننے کے بعد ابراہیمی ایمان بخشے".ابراہیم کی نسل میں بھی ان کے ایک بیٹے سے بارہ امام بنے تھے اسی طرح حضرت علی سے بھی بارہ امام پیدا ہوئے مگر کتنا افسوس ہے کہ بعض مخلصین لوگ فوت ہوتے ہیں تو ان کے بیٹے ہی خراب ہو جاتے ہیں اور بعض کا پوتا خراب ہو جاتا ہے مگر علی کے اندر کیسا ابراہیمی ایمان تھا اور ابراہیم کے اندر کیسا ایمان تھا کہ بارہ نسلوں تک برابر ان میں یہ ذمہ داری کا احساس چلتا چلا گیا کہ ہم نے دین کی خدمت کرنی ہے.اگر تمہارے بچے بھی یہ ارادہ کر لیں تو پھر کوئی فکر نہیں.بڑھوں نے تو آخر مرنا ہے.خدا تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر آج تک ہر ایک کے لئے موت مقرر کی ہوئی ہے مگر جب یہی بچے بڑھے بن جائیں گے تو پھر کوئی فکر نہیں ہوگی کہ دین کا کیا بنے گا.یہی تو دس سال کے بچے ایسے طاقتور پہاڑ بنیں گے کہ اگر دنیا ان سے ٹکرائے گی تو دنیا کا سر پاش پاش ہو جائے گا مگر یہ اپنے مقام سے نہیں ہٹیں گے اور احمدیت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا کے رہیں گے لیکن یہ سارے کام دعاؤں سے ہو سکتے ہیں.ہمارے اختیار میں تو خود اپنا دل بھی نہیں ہو تا لیکن خدا کے اختیار میں ہمارا بھی دل ہے ہماری اولادوں کا بھی دل ہے اور اولادوں کی اولادوں کا بھی دل ہے.ہمیں تو دس بارہ نسلیں کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کیونکہ نظر تو یہ آتا ہے کہ بارہ تک پہنچنا بھی ہمارے اختیار میں نہیں.اگر یہ دریا کی لہر ہمارے دہانے
741 میں سے گذرے تو خبر نہیں ، بارہ نسلوں تک پہنچے گی بھی یا نہیں مگر خدا کی یہ طاقت ہے کہ وہ بارہ ہزار نسلوں تک پہنچا دے.اس لئے آؤ ہم خدا سے دعا کریں کہ وہ اس جلسہ کو بابرکت کرے اور اللہ تعالیٰ ہماری اولادوں کو ہزاروں پشتوں تک دین کا بوجھ اٹھانے کی توفیق دے اور ہمیشہ ان میں سے ایسے کامل انسان پیدا ہوں جو اللہ تعالٰی سے براہ راست تعلق رکھنے والے ہوں اور اس کے دین کی اشاعت کرنے والے ہوں تاکہ احمدیت اور اسلام کا پیغام دنیا میں پھیل جائے اور ہم خدا تعالیٰ کے سامنے سر خرو ہو جائیں.اپنی طاقت سے نہیں ، اپنی قوت سے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے کیونکہ یہ طاقت خدا ہی میں ہے ہم میں نہیں.ہمارا دعویٰ کرنا باطل ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ہماری اولاد میں سے کسی کو خدمت دین کی توفیق ملتی ہے تو ہماری وجہ سے نہیں ملتی ، خدا کی وجہ سے ملتی ہے.ہم میں اس کی توفیق نہیں ہے.اگر ہم میں توفیق ہوتی تو ہم اپنی ساری اولادوں کو ٹھیک کیوں نہ کرلیتے".فرموده ۲۶ دسمبر ۱۹۵۵ء مطبوعه الفضل ۱۰ فروری ۱۹۵۶ء)
742 اللہ تعالیٰ کی محبت اور خدمت خلق کو اپنی زندگیوں کا مقصد بناؤ "گذشتہ سیلاب کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کے خدام نے اچھا نمونہ دکھایا ہے اسی طرح قادیان کے خدام نے بھی خدمت خلق کا اچھا مظاہرہ اس موقع پر کیا ہے جو خوشکن امر ہے.اس وقت تک یورپ مسلمانوں کو ہی طعنہ دیا کرتا تھا کہ گو مسلمان اسلام کی برتری اور فضیلت پر بہت زور دیتے ہیں لیکن ان کا عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی فہرست کے لئے قربانی نہیں کرتے.اس اعتراض کا بہترین رد یہی ہو سکتا ہے کہ جب بھی موقع ملے ، ہم اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق خدمت کریں.امریکہ اور یورپ کے عیسائی خدمت خلق سے جو کام کرتے ہیں وہ ہمیشہ انہیں اپنی عظمت اور سچائی کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں.اگر جماعت کے خدام اور انصار ہر جگہ اور ہر موقعہ پر خدمت خلق کا اعلیٰ نمونہ دکھائیں تو یقینا اس سے ان لوگوں کے منہ بند ہو سکتے ہیں جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں".حضور نے فرمایا :."کبھی بھی یہ مت خیال کرو کہ لوگ تمہارے کام کی قدر نہیں کرتے.تم لوگوں کی خاطر نہیں بلکہ خدا تعالٰی کی خاطر خد مت کرو اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور خدمت خلق کو اپنی زندگیوں کا مقصد بناؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو پھر تمہاری کامیابی میں کوئی شبہ نہیں رہے گا.یہ ضروری نہیں کہ طوفان اور سیلاب ہی آئیں تو پھر تم خدمت کرو.مومن کو تو ہمیشہ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان مصائب سے دنیا کو بچائے رکھے لیکن خدمت خلق کے مواقع ہر وقت میسر آسکتے ہیں مثلا بیماروں کو دوائی لا کر دینا.غریبوں ، محتاجوں ، بیواؤں کی مدد کرنا.یہ سب کام ایسے ہیں جو تم ہر وقت کر سکتے ہو اور یہ کام تمہارے پروگرام کا مستقل حصہ ہونے چاہئیں".( فرموده ۲۷دسمبر ۱۹۵۵ء مطبوعه الفضل یکم جنوری ۶۱۴۵۶)
743 ○ | " پس خدام الاحمدیہ کو طوفانوں کا انتظار نہیں کرنا چاہئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی کام نکالنے چاہئیں.جتنی خدمت خلق ہو سکے اور لوگوں کی تکلیفوں کو وہ دور کر سکیں.پس اس کو ہمیشہ یاد رکھو جیسا کہ میں نے بتایا ہے آج تک یورپ اور امریکہ اس خدمت خلق کی روح کو اسلام کے خلاف اپنی عظمت میں پیش کرتے ہیں.کہتے ہیں عیسائی بڑی خدمت کرتے ہیں ، مسلمان نہیں کرتے اور شرم کی بات ہے کہ ہم ان کی بات کا جواب نہیں دے سکتے.اگر ہماری جماعت کے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ خدمت خلق کا اعلیٰ درجہ کا نمونہ پیش کریں تو ہم یورپ اور امریکہ کا منہ بند کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ جو تم خدمت کرتے ہو اس سے بڑھ کر خدمت کرنے والے ہم ہیں.یہ مت خیال کرو کہ لوگ قدر نہیں کرتے ، قدر کرنے والے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں".( فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۵۵ء مطبوعه الفضل ۱۴ فروری ۱۶۱۹۵۶
744 خدمت اسلام کے لئے آگے آؤ تا ہمیں بھی اسلام کی ترقی کا وہ دن دیکھنا نصیب ہو جب ملکوں کے ملک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہونے لگیں میں تو سمجھتا ہوں کہ نوجوانوں کو کھیلوں میں حصہ لینا چاہئے تا ان کی صحت اچھی رہے لیکن محض کھیلوں میں ساری زندگی گزار دینا درست نہیں "پس میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ یہ دن تمہارے کام کے دن ہیں.یورپ اور امریکہ اسلام کی اشاعت کے لئے مبلغ مانگ رہے ہیں.اگر شاہدوں پر انحصار کیا جائے تو وہ شاید میں بچیں ہوں گے حالانکہ صرف امریکہ اس وقت دو سو مبلغ مانگ رہا ہے مگر کل وہ دو سو مبلغ نہیں مانگے گا بلکہ دو ہزار مبلغ مانگے گا.پرسوں وہ دو ہزار مبلغ نہیں مانگے گا بلکہ دولاکھ مبلغ مانگے گا.ترسوں وہ دولاکھ مبلغ نہیں مانگے گا بلکہ دو کروڑ مبلغ مانگے گا اور دو کروڑ شاہد تیار کرنے کے لئے دو سو سال چاہئیں.آخر تمہیں پرانے صحابہ والا طریق ہی اختیار کرنا پڑے گا کہ ادھر کسی نے کلمہ پڑھا اور احمدی ہوا اور ادھر وہ مبلغ بن گیا.حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو دیکھ لو.وہ شاہد نہیں تھے انہوں نے کلمہ ہی پڑھا تھا کہ اسلام کے مبلغ ہو گئے.تم بھی وہ طریق اختیار کرو.احمدیت سمجھ کر کے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب جو اردو میں ہیں ، پڑھنی شروع کردو.اگر تم انہیں غور سے پڑھو تو تھوڑے دنوں میں ہی تم ایسے مبلغ بن جاؤ گے کہ بڑے بڑے عالم بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکیں گے".تم بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کو غور سے پڑھو اور پھر اپنی انگریزی کو ٹھیک کرو.غیر ممالک میں انگریزی بڑا کام دیتی ہے.پس تم اپنی انگریزی کو ٹھیک کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتب کو غور سے پڑھو اور جو بات تمہیں متضاد نظر آئے یا مشکل معلوم ہو وہ علماء سے پوچھ لو.بس اتنی بات ہے.اس سے تھوڑے ہی دنوں میں تم اتنے زبر دست مبلغ بن جاؤ گے کہ دنیا کے بڑے بڑے عالم تمہارا مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور اس وقت تم اس قابل ہو جاؤ گے کہ تمہیں امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں بطور مبلغ بھیج دیا جائے"." جب تم آپ کی کتابوں سے برکت ڈھونڈنے لگ جاؤ.جب تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام "
745 کی کتب سے برکت ڈھونڈنے لگ جاؤ گے تو خدا تعالیٰ ایسے بادشاہ پیدا کر دے گا جو آپ کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے لیکن ابھی تک تو صد را انجمن احمدیہ نے یہ بھی انتظام نہیں کیا کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں کو محفوظ رکھا جائے.آخر بادشاہ برکت ڈھونڈیں گے تو کہاں سے ڈھونڈیں گے.صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے تھا کہ وہ بعض ماہر ڈاکٹر بلاتی جو اس بات پر غور کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑے کس طرح محفوظ رکھے جاسکتے ہیں اور ان کپڑوں کو شیشوں میں بند کر کے اس طرح رکھا جاتا کہ وہ کئی سو سال تک محفوظ رہتے یا انہیں ایسے ممالک میں بھیجوایا جاتا جہاں کپڑوں کو کیڑا نہیں لگتا مثلا امریکہ ہے وہاں یہ کپڑے بھیج دیئے جاتے تا انہیں محفوظ رکھا جا سکتا اور آئندہ آنے والی نسلیں ان سے برکت حاصل کرتیں.بہر حال نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ آگے آئیں.اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اسلام کی " " خدمت کریں تاکہ ان کو بھی یہ دن دیکھنا نصیب ہو کہ ان کے ذریعہ سے ملکوں کے ملک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں اور اسلام کا جھنڈا وہاں گاڑ دیا جائے اور یہ معمولی بات نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی اور بڑی خوشی کی بات ہے".فرموده ۲۰ جنوری ۱۹۵۶ء مطبوعه الفضل ۸ فروری ۱۹۵۶ء)
طلباء اور مبلغین کے لئے خصوصی نصائح علماء کو کتابیں تصنیف کرنے کی طرف توجہ امراء کو وقف کی طرف توجہ کرنی چاہئے جماعت میں قومی خدمت کا جذ بہ قیامت تک قائم رہے جامعہ کے طلباء کو اپنے خیالات میں تنوع اختیار کرنا چاہئے جماعت میں اشاعت علوم کی روایت کو قائم رکھیں
748 وہ کون سے ذرائع ہیں جن سے خدمت دین اور علمی ترقی کا جذبہ دائمی طور پر جماعت میں قائم رہے میں آج جماعت کے نوجوانوں سے بالعموم اور مبلغین کلاس کے طلباء سے بالخصوص یہ کہنا چاہتا ہوں ک.کچھ باتیں ایسی ہیں جو انہیں ہمیشہ سوچنی چاہئیں.آخر دنیا میں دو ہی قسم کے نظام نظر آتے ہیں.ایک تو خدائی نظام ہے اور دوسرا دنیوی نظام ہے.دین.ماہرین کہتے ہیں کہ یہ دنیا سات ہزار سال سے چل رہی ہے اور سائنس کے ماہرین کے نزدیک سات ہزار سال تو الگ رہا سات ارب کا اندازہ بھی کم ہے بلکہ ان کے نزدیک یہ دنیا سات کھرب سال سے چلتی آرہی ہے.بہر حال اس دنیا میں جو سات ہزار یا سات کھرب سال سے چلی آرہی ہے ، ہم دیکھتے ہیں کہ خدائی قانون کے ماتحت ایک بیل مرتا ہے تو کچھ اور بیل پیدا ہو جاتے ہیں.ایک بھینسا مرتا ہے تو کچھ اور بھینسے پیدا ہو جاتے ہیں.فاختائیں مرتی ہیں تو کچھ اور فاختائیں پیدا ہو جاتی ہیں.کبوتر مرتے ہیں تو کچھ اور ا کبوتر پیدا ہو جاتے ہیں.مرغیاں مرتی ہیں تو کچھ اور مرغیاں پیدا ہو جاتی ہیں اسی طرح انسان مرتے ہیں تو ان کی جگہ کچھ اور انسان پیدا ہو جاتے ہیں.ابتدائے آفرینش سے تو تاریخ محفوظ نہیں لیکن سینکڑوں سال تک تاریخ محفوظ ہے اور ان سینکڑوں سال کی تاریخ پر جب ہم نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں یہی نظارہ نظر آتا ہے کہ ہر زمانہ میں انسان ایک دوسرے کی جگہ لینے کے لئے آتے رہتے ہیں.کسی وقت اگر رومی بادشاہ نظر آتے ہیں تو ان کے بعد ایرانی بادشاہ آجاتے ہیں.جب ایرانی بادشاہ مٹ جاتے ہیں تو یونانی بادشاہ نظر آنے لگ جاتے ہیں.جب یونانی بادشاہ مٹ جاتے ہیں تو مغل بادشاہ نظر آنے لگ جاتے ہیں.جب مغل بادشاہ مٹ جاتے ہیں تو پٹھان بادشاہ نظر آنے لگ جاتے ہیں.پھر یو رپ کو دیکھ لو وہاں بعض جگہ ہزاروں سال سے بادشاہت کا ایک تسلسل نظر آتا ہے.اسی طرح روس کو لوگ ظالم کہتے ہیں اور اس نے فی الواقعہ بڑے ظلم کئے ہیں لیکن اس میں بھی حکومت کا ایک تسلسل قائم تھا اور آج تک قائم چلا آتا ہے مثلا دیکھو زار مٹ گیا تو اس کی جگہ لیفن آگیا.لینن مر گیا تو اس کی جگہ سٹالن نے لے لی.جب سٹالن مر گیا تو حکومت کی باگ دوڑ مالنکوف نے سنبھال لی اور مالنکوف کے بعد بلگان آگے آگیا بہر حال ہمیں روس میں بھی یہ نظر آتا ہے کہ جب ایک لیڈر مرتا یا استعفیٰ دیتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لینے کے لئے آجاتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں میں حکومت کا یہ تسلسل نظر نہیں آتا." روس اور چین میں بھی اس قسم کا تسلسل نظر آتا ہے لیکن مسلمانوں میں یہ تسلسل نظر نہیں آتا مثلا دیکھو عربوں کے بعد ایرانی غالب آئے اور ایرانیوں کے انحطاط کے بعد مغل آگئے.جب مغل مٹ گئے تو پٹھانوں نے
749 " زمام حکومت سنبھالی اور پٹھانوں کے بعد دوسری قومیں آئیں لیکن ایک ہی قوم یا ایک ہی خاندان میں مسلسل حکومت نہیں چلی.میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یورپین لوگوں کو اپنے نفسوں پر قابو ہے لیکن ہمیں وہ قابو حاصل نہیں.ان میں سے جو لوگ قابل ہوتے ہیں وہ ان کی جگہ خود سنبھال لیں لیکن مسلمانوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی.وہ قابل لوگوں کی قدر نہیں کرتے اور نہ ان کے پیچھے چلتے ہیں بلکہ انہیں گرا کر خود ان کی جگہ سنبھال لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم قابلیت اور نا قابلیت کو نہیں جانتے.ہمیں صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ کس طرح یہ جگہ خود سنبھال لیں اور اس مقصد کی خاطر اگر دوسرا شخص قابل بھی ہو تب بھی اسے گھسیٹنا چاہئے اور اس کی جگہ خود لینی چاہئے "....تم دیکھو ابن رشد سپین میں پیدا ہوا تھا.سپین میں اس کی کتابیں صرف ہیں پچیس سال تک پڑھائی گئیں لیکن فرانس میں اس کی کتابیں چار سو سال تک پڑھائی گئیں گویا اس کی اپنی قوم اور اپنے ہم مذہب لوگوں نے تو اس کی کتابوں کو میں پچیس سال کے بعد چھوڑ دیا لیکن یورپین اقوام اب بھی اس کا نام بڑے ادب اور احترام سے لیتی ہیں اور تسلیم کرتی ہیں کہ ہمارے کالجوں میں ابن رشد کی کتابیں چار سو سال تک پڑھائی جاتی رہیں.ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا نقص ہے جس کی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ قابل لوگوں کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں میں قابل لوگوں کا سلسلہ بہت کم ہے حالانکہ اس سلسلہ کو بہت وسیع ہونا چاہئے تھا.ایک مسلمان ایک دن میں کئی بار دعا کرتا ہے کہ اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مجید اور حضرت ابراہیم پر چار ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے یعنی حضرت مسیح علیہ السلام سے اس زمانہ تک انیس سو سال اور حضرت مسیح علیہ السلام سے حضرت موسیٰ علیہ السلام تک چودہ سو سال اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام تک دو سو سال کل پینتیس سو سال ہو گئے اور یہ کم از کم اندازہ ہے.عیسائیوں کے اندازے تو اس سے زیادہ ہیں.ان کے اندازے کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام پر چار ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے بہر حال ہم دعا تو یہ کرتے ہیں کہ اے اللہ ! تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی آل پر وہی برکات نازل فرما جو تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی آل پر نازل کی تھیں اور عملا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چند سال بعد ہی آپس میں لڑنے لگ جاتے ہیں.حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا عرصہ بارہ سال ہے لیکن ان کی خلافت کے ابتدائی چھ سال گزر جانے کے بعد ہی مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہو گئے.حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ میرا اور تو کوئی قصور نہیں صرف اتنی بات ہے کہ میری عمر زیادہ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے خلافت کا عرصہ زیادہ لمبا ہو گیا ہے اور لوگوں پر گراں گزرتا ہے حالانکہ آپ کی ساری خلافت صرف بارہ سال کی تھی.غرض ہمیں سوچنا چاہئے کہ جو بات دنیا کی دوسری اقوام میں پائی جاتی ہے وہ مسلمانوں میں کیوں نہیں پائی جاتی.پھر یہ بات آدمیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ
750 علوم کے بارہ میں بھی ہم میں یہی نقص پایا جاتا ہے.ابن سینا اور ابن رشد نے جس حد تک ترقی کی تھی ہم نے اس پر دھرنا مار لیا ہے مگر یورپ نے انہی علوم کو ترقی دے کر دنیا میں علمی طور پر بلند مقام پیدا کر لیا ہے.یورپ کے مصنفین مسلمانوں کے علوم کی ہی نقل کرتے ہیں اور خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کے علوم کو ترقی دے کر اس مقام کو حاصل کیا ہے لیکن ہم نے بجائے ترقی کرنے کے یہ فیصلہ کرلیا کہ جو شخص ارسطو اور سقراط کے خلاف کوئی بات کہتا ہے وہ کافر ہے گویا ایک طرف تو ہم اپنے پرانے بزرگوں کے اس قدر قائل ہیں کہ ان کے خلاف رائے دینے والے کو گردن زدنی قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اپنے موجودہ بزرگوں کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں پس تم اس کے متعلق غور کرو اور مجھ سے بھی مشورہ کرو.طلباء کو مجھ سے ملاقات کرنے کا اسی طرح حق ہے جس طرح بڑوں کو ہے...میں بھی طلباء سے یہی کہتا ہوں کہ وہ خود غور کرنے کی عادت ڈالیں اور جو باتیں میں نے بیان کی ہیں ان کے متعلق سوچیں پھر دوسرے لوگوں میں بھی انہیں پھیلانے کی کوشش کریں.یاد رکھو صرف کتابیں پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ ان میں جو کمی تمہیں نظر آتی ہے اسے دور کرنا بھی تمہارا فرض ہے مثلاً تفسیر کبیر کو ہی لے لو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن کریم کا بہت کچھ علم دیا ہے لیکن کئی باتیں ایسی بھی ہوں گی جن کا ذکر میری تفسیر میں نہیں آیا.اس لئے اگر تمہیں کوئی بات تفسیر میں نظر نہ آئے تو تم خود اس بارہ میں غور کرو اور سمجھ لو کہ شاید اس کا ذکر کرنا مجھے یاد نہ رہا ہو اور اس وجہ سے میں نے نہ لکھی ہو یا ممکن ہے ، وہ میرے ذہن میں ہی نہ آئی ہو اور اس وجہ سے وہ رہ گئی ہو بہر حال اگر تمہیں اس میں کوئی کمی دکھائی دے تو تمہارا فرض ہے کہ تم خود قرآن کریم کی آیات پر غور کرو اور ان اعتراضات کو دور کرو جو ان پر وارد ہونے والے ہیں.پھر تم اس بات کے متعلق بھی غور کرو کہ انگلینڈ اور امریکہ کو کیوں لائق آدمی مل جاتے ہیں ، ہمیں کیوں نہیں ملتے.تم میں سے بعض سمجھتے ہوں گے کہ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انہیں تنخواہیں زیادہ ملتی ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں گورنمنٹ کی تنخواہوں اور فرموں کی تنخواہوں میں بہت زیادہ فرق ہے لیکن پھر بھی گورنمنٹ کو اچھے کارکن مل جاتے ہیں"." پھر ہم پر یہ کیا آفت ہے کہ ہمیں کسی کارکن کا قائمقام ملنا مشکل ہو جاتا ہے حالانکہ تمہاری تنخواہوں اور گورنمنٹ کی تنخواہوں میں اتنا فرق نہیں جتنا انگلینڈ اور امریکہ میں گورنمنٹ اور پرائیویٹ فرموں کی تنخواہ میں فرق ہے.اسی طرح تمہارے علماء کو کتابیں تصنیف کرنے کا شوق نہیں لیکن انگلینڈ اور امریکہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جنہوں نے پچاس پچاس سال تک فاقہ میں رہ کر زندگی بسر کی لیکن اس کے باوجود انہوں نے کنی کتابیں لکھی ہیں.انگلستان کا ایک مشہور مصنف ہے جس نے انگریزی زبان کی ڈکشنری لکھی ہے.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ اسے مالک مکان نے مکان سے نکال دیا اس لئے کہ اس نے کرایہ نہیں دیا تھا لیکن وہاں کے بڑے بڑے لوگ بھی جب اس کا نام لیتے ہیں تو بڑی عزت سے لیتے ہیں.شیکسپیئر ہی کو لے لو جس کے ڈرامے تمام دنیا میں مشہور ہیں کہ بعض اوقات اس پر قرضہ ہو جاتا یا اسے فاقہ میں رہنا پڑتا تو وہ کسی امیر کے ہاں چلا جاتا اور اس سے
751 کہتا کہ وہ اسے کچھ دے تاوہ اپنا قرضہ اتار سکے یا فاقہ سے نجات حاصل کر سکے.غرض وہ لوگ فاقوں کی پرواہ نہیں کرتے اور علم کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ یہاں علم کو بڑھانے کی طرف کوئی رغبت نہیں.یہاں جو بھی عالم ہوتا ہے اس کی قلم کو زنگ لگ جاتا ہے اور پھر اگر کوئی کتاب لکھتا ہے تو ساتھ ہی مجھے درخواست پہنچ جاتی ہے کہ حضور جماعت کے پاس میری سفارش کریں کہ وہ میری یہ کتاب خریدے لیکن انگلستان اور امریکہ میں یہ رواج نہیں وہاں لوگ کتابیں لکھتے ہیں اور کسی مطبع یا فرم کو دے دیتے ہیں کہ تم اسے شائع کر دو ، نفع اور نقصان تمہارا تم اسے بیچو.مجھے یہی فائدہ کافی ہے کہ دنیا تک میرا علم پہنچ جائے گا.اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو تم ایسا کیوں نہیں کرتے.تمہیں بھی چاہئے تھا کہ کتابیں تصنیف کرتے اور کسی ادارہ کو دے دیتے کہ وہ انہیں شائع کر دے اور سمجھتے کہ میرے لئے یہی معاوضہ کافی ہے کہ میں اپنے ملک اور قوم میں علم کی اشاعت کا موجب بنا ہوں.پس تم ان امور پر غور کرو اور جس نتیجہ پر تم پہنچو اس سے مجھے بھی اطلاع دو.آخر اس جماعت نے قیامت تک چلنا ہے اور اگر اسے کام کرنے والے نہ ملے تو یہ قیامت تک چلے گی کیسے ؟ ہمارے ہاں تو چاہئے تھا کہ اگر ایک کار کن ریٹائر ہو تا یا فوت ہو تا تو اس کی جگہ ہیں میں کام کرنے والے مل جاتے اور اس طرح کام جاری رہتا لیکن اب یہ حالت ہے کہ ایک ناظر مرتا ہے تو دو دو نسل تک اس کا قائمقام نظر نہیں آتا.آخر تم سوچو کہ اس کی کیا وجہ ہے.وہ کون سا گناہ ہے جو ہم نے کیا ہے اور عیسائیوں نے نہیں کیا.وہ کون سی کو تاہی ہے جو ہم سے سرزد ہوئی ہے لیکن عیسائیوں سے وہ سرزد نہیں ہوئی.ان کے ہاں جب کوئی کارکن ریٹائرڈ ہوتا ہے یا مرتا ہے تو قوم کے بیسیوں نوجوان اس کی جگہ لینے کے لئے آجاتے ہیں مگر ہماری جماعت میں ایسا نہیں یہاں بیسیوں سال تک قائمقام نہیں _" "....ہمارے ہاں بھی ایسے امیر لوگ ہیں جو اپنی اولاد کو قومی خدمت میں لگا سکتے ہیں اور پھر ان کے اخراجات بھی مہیا کر سکتے ہیں لیکن یہاں امراء کو وقف کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی اور اگر کوئی غریب خاندان میں سے زندگی وقف کر کے آجاتا ہے تو امراء اس کی عزت نہیں کرتے.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ تو قابل فخر بات تھی کہ جب کوئی کام کرنے والا موجود نہ تھا تو یہ لوگ آگے آگئے اور انہوں نے دین کا کام سنبھال لیا.پس میں نوجوانوں کو کہتا ہوں کہ وہ ان باتوں پر غور کریں اور نہ صرف اپنی اصلاح کریں بلکہ اپنے دوستوں کی بھی اصلاح کریں.یورپ میں یہ قاعدہ ہے کہ نوجوان کسی ایک خیال کو لے لیتے ہیں اور پھر اس کی تحریک دو سرے نوجوانوں میں کر کے ایک سوسائٹی بنالیتے ہیں.اسی طرح یہاں بھی ہونا چاہئے.انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے سپرد تو اور بھی کئی اہم کام ہیں.یہ تمہارا فرض ہے کہ تم غور کرو اور سوچو اور اس کے بعد کسی ایک خیال کو لے کر اپنی سوسائٹی بنالو اور اس خیال کو دوسرے نوجوانوں میں رائج کرنے کی کوشش کرو اور انہیں بتاؤ کہ تمہارا فرض ہے کہ تم جماعت کے کاموں کو رکنے نہ دو بلکہ انہیں پوری طرح جاری رکھنے کی کوشش کرو......پس تم ان باتوں پر غور کرو اور مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے غور کرنے کے بعد کون سی صورت نکالی ہے کہ
752 جس کے ذریعے جماعت میں قومی خدمت کا جذبہ قیامت تک قائم رہے.اسی طرح جامعتہ المبشرین کے وہ طلباء جو آئندہ شاہد بننے والے ہیں ، انہیں چاہئے کہ دوسرے کالجوں کے طلباء سے بھی دوستی پیدا کریں تاکہ ان کے خیالات میں تنوع پیدا ہو.کیمبرج ، آکسفورڈ اور قرطبہ کے کالجوں کو پادریوں اور مولویوں نے ہی شروع کیا تھا اور وہی ابتداء میں پڑھایا کرتے تھے لیکن اب ہمارے علماء یونیورسٹیاں اور کالج بنانے کی طرف توجہ نہیں کرتے.اب وہ لوگ کالج بنا رہے ہیں جن کا صرف تنظیم سے تعلق ہے علم سے تعلق نہیں.اگر علماء اپنے فرائض کی طرف توجہ کرتے تو یہ ان کا کام تھا کہ کالج بناتے اور لوگوں میں تحریک کر کے ان میں جوش پیدا کرتے.یہ کوئی بات نہیں جو میں اس وقت کہہ رہا ہوں ،مسلمانوں میں ایسے علماء گزرے ہیں جنہوں نے با قاعدہ کالج چلائے اور قوم میں ایسے نوجوان تیار کئے جنہوں نے بعد میں اسلام کی بڑی خدمت کی.ایران کے ایک عالم نے اپنے شاگردوں میں سے چھ سو مبلغ ہندوستان میں تبلیغ کے لئے بھجوائے تھے پھر خواجہ معین الدین چشتی (علیہ الرحمتہ) نے سینکڑوں آدمی تبلیغ اسلام کے لئے تیار کئے جنہوں نے ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کی.آخر کیا وجہ ہے کہ تم میں یہ روح نہیں پائی جاتی اور کیا وجہ ہے کہ تم اس روح کو دائمی طور پر قائم رکھنے کے لئے ایسے شاگر د پیدا نہیں کرتے جو دین کی خدمت کے لئے آگے آئیں حالانکہ تمہارا بھی فرض تھا کہ تم ایسے بزرگوں کے نقش قدم پر چل کر ایسے شاگر دنیار کرتے جو اسلام کا جھنڈا اکناف عالم میں بلند کرتے اور اشاعت علوم کا فریضہ بجالاتے.یاد رکھو جماعت میں علوم کو جاری رکھنا اور علمی کتب کی تصنیف کا سلسلہ جاری رکھنا تمہارا فرض ہے.دو...پس میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ جماعت میں اشاعت علوم کی روایت کو قائم رکھیں اور سوچیں کہ ہماری کمزوری دور کرنے کے کیا ذرائع ہیں اور ایسی سکیمیں تیار کریں جن پر عمل پیرا ہو کر جماعت کے کاموں کو ترقی دی جاسکتی ہو.کل کو وہ بھی بڑے بننے والے ہیں.اگر آج ان کا استاد پچاس سال کا ہے اور وہ تمیں سال کے نوجوان ہیں تو میں سال گزرنے کے بعد وہ بھی پچاس سال کے ہو جائیں گے اور ان کے کندھوں پر بھی جماعت کا بوجھ آپڑے گا.اگر آج سے انہوں نے اس کام کے لئے تیاری شروع نہ کی تو پچاس سال کی عمر میں ان کے دل بھی ویسے ہی کڑھیں گے جیسے اب میرا دل کڑھ رہا ہے.پھر اس کام کے لئے دنیوی تدابیر اور دعاؤں کی بھی ضرورت ہے اس کی طرف بھی تمہیں توجہ کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ الہاما فرمایا کہ "اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں تو میں زمین کے نیچے سے یا آسمان کے اوپر سے مدد کر سکتا ہوں" ( تذکرہ صفحہ ۱۱۵) مگر یہ مدددعا کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.اگر تم بھی دعائیں کرو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خواب یا الہام کے ذریعہ تمہیں اطمینان دلایا جائے تو تم کامیاب ہو گئے تو تمہارے دل کتنے خوش ہوں گے....."." تم بھی دعائیں کرو اور اپنے طور پر کوششیں جاری رکھو اور مجھ سے بھی اپنی کوششوں کا ذکر کرتے رہو اور مجھے بتاتے رہو کہ تم نے میری اس نصیحت سے کیا فائدہ اٹھایا ہے".
753 اگر جماعت نے قیامت تک چلنا ہے تو ہمیں بہر حال اپنے آپ کو ان ذمہ داریوں کے اٹھانے کے لئے تیار کرنا ہو گا جو ہم پر عائد ہوتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالٰی کا کام پورا ہو کر رہے گا.اگر تم اس کام کو سرانجام نہ دو گے تو اللہ تعالیٰ کسی اور ملک کے افراد کو اس کام کے لئے کھڑا کر دے گا لیکن اگر بیرونی ممالک کے افراد نے یہ کام سرانجام دیا تو اس سے مجھے اتنی خوشی نہیں ہو سکتی جتنی تمہاری وجہ سے خوشی ہو سکتی ہے.تم میرے حقیقی بیٹے تو نہیں ہو لیکن اس قرب کی وجہ سے جو مجھے تم سے ہے ، تم مجھے دوسروں سے زیادہ عزیز ہو.اگر بیرونی ممالک کے نوجوان آگے آگئے تو بے شک یہ ان کے لئے اور ان کے والدین کے لئے بڑی خوشی اور برکت کا موجب ہو گا لیکن تم اس سے محروم رہ جاؤ گے.پس تم ان امور پر غور کرو اور مجھے بتاؤ کہ تم نے اس بارہ میں غور کر کے کیا حل تلاش کیا ہے.کیا تم نے اپنی اصلاح کرلی ہے.کیا تم نے اپنے اندر دعاؤں کی عادت پیدا کرلی ہے.کیا تم اور دوسرے نوجوانوں میں نماز کی پابندی اور دین کی خدمت کی رغبت پیدا ہو گئی ہے.کیا تمہیں اس بات کی تحریک ہو گئی ہے کہ تم مختلف مسائل کے متعلق علمی کتابیں تصنیف کرو.ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ضروری باتیں مسلمانوں کی تصنیف کردہ کتب میں نہیں ملتیں لیکن عیسائی مصنفین کی کتب میں ان کا ذکر مل جاتا ہے.تفسیر لکھتے ہوئے میں نے بعض باتوں کی تحقیق کی تو مجھے معلوم ہوا کہ ان کا ذکر ہماری تفسیروں میں نہیں لیکن عیسائیوں نے ان کا ذکر کیا ہوا ہے.گویا اسلام کے تباہ کرنے والے لوگوں نے تو ہماری کتابیں پڑھیں لیکن خود مسلمانوں نے ان کا مطالعہ نہیں کیا.پس تم علوم کی طرف توجہ کرو اور دنیا کے سامنے نئی چیزیں پیش کرو اور یاد رکھو کہ زمانہ کی نئی رو اور نئی ضرورتوں کے ساتھ تعلق رکھنا نہایت ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ لو ، آپ نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن آپ کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ آپ نے جس قدر انکشافات فرماتے ہیں ، وہ دنیا کی نئی رو اور ضرورت کے مطابق ہیں.پس تم بھی زمانہ کی رو اور ضرورت کو ملحوظ رکھو اور یورپین مصنفین کی کتب کا مطالعہ کرو اور دیکھ لو کہ ان کے دماغ کس طرف جار ہے ہیں.اگر تم نے اس طرح کام کرنا شروع کر دیا تو تم دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ تمہارے کاموں میں کس طرح برکت ڈالتا ہے اور سلسلہ کا کام کس طرح چلتا ہے لیکن یاد رکھو تمہاری کتابیں حقیقی طور اس وقت مفید کہلائیں گی جب خود عیسائی مصنفین یہ لکھیں کہ ہمیں اس وقت جو مشکلات پیش آرہی ہیں ، ان کا حل ہمیں انہی کتابوں میں ملا ہے".فرموده ۲۷ جنور کی ۱۹۵۶ء مطبوعه الفضل فروری ۱۹۵۶ء)
754 ہماری جماعت کے نوجوان دعاؤں ، ذکر الہی اور درود کی برکت سے رویا اور کشوف کی عظیم الشان نعمت حاصل کرسکتے ہیں " میں نے دیکھا ہے کہ میری بیماری سے پہلے جماعت کے نوجوان وہی تھے جو اب ہیں اور ان کے تعلقات بھی ویسے ہی تھے جیسے اب ہیں لیکن دعاؤں اور درود کی طرف ان کی زیادہ توجہ نہیں تھی لیکن جب میری بیماری کی خبریں شائع ہوئی اور انہوں نے اپنے بزرگوں کو دیکھا کہ وہ دعائیں کر رہے ہیں تو انہوں نے بھی دعائیں کرنی شروع کر دیں.پھر انہوں نے سنا کہ درود سے دعا ئیں زیادہ سنی جاتی ہیں اس پر انہوں نے بھی درود پڑھنا شروع کردیا کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تھے تو پچیس پچیں چھپیں چھبیس سال کے لیکن پہلے انہیں کبھی رویا و کشوف نہیں ہوتے تھے لیکن ان دعاؤں اور درود کی کثرت کی وجہ سے میں دیکھتا ہوں کہ درجنوں احمدیوں کو بڑی اعلیٰ درجہ کی خوا ہیں آنی شروع ہو گئی ہیں اور ہر ڈاک میں ایسے کئی خطوط نکل آتے ہیں جن میں خواہیں درج ہوتی ہیں.بعض دفعہ روزانہ پانچ پانچ چھ چھ خط اکٹھے آ جاتے ہیں اور بعض دفعہ ایک دو خط آجاتے ہیں جن میں خواہیں درج ہوتی ہیں اور ان میں سے بعض اتنی شاندار ہوتی ہیں کہ ان کے پڑھنے سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ خدائی رویاء ہیں.یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ چاہے میری بیماری کی وجہ سے وہ خدا تعالی کی طرف متوجہ ہوئے لیکن بہر حال ان کو خد اتعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور چاہے انہوں نے دعا کی قبولیت کے لئے ہی درود پڑھا مگر درود کی برکات سے انہیں حصہ مل گیا چنانچہ ان دعاؤں اور درود اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کے نتیجہ میں ایسی ایسی خواہیں دوستوں کو آرہی ہیں کہ انہیں پڑھ کر حیرت آتی ہے اور ان کا لفظ لفظ بتا رہا ہوتا ہے کہ ہم بچی ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.اگر یہ تحفہ جو ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے ، اس سے ان کے اندر یہ حقیقی لذت ایمان پیدا ہو گئی اور انہوں نے دعاؤں اور درود اور ذکر الہی کی عادت کو ترک نہ کیا تو یہ رویا و کشون کا سلسلہ ان کے لئے مستقل طور پر جاری ہو جائے گا اور اللہ تعالٰی کے فضل ان پر متواتر نازل ہونے شروع ہو جائیں گے.ایک دفعہ ایک دوست جو ہماری جماعت کے ذریعہ ہندوؤں سے مسلمان ہوئے تھے ، مجھے ملنے کے لئے آئے اور انہوں نے کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں.میں نے کہا پو چھیں.کہنے لگے جب میں پہلے
755 پہل احمدیت کی طرف مائل ہوا تھا تو مجھ پر بڑے بڑے روحانی انکشافات ہو ا کرتے تھے مگر اب وہ بات نہیں رہی.میں نے کہا کبھی آپ بازار گئے ہیں ، آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب کوئی مٹھائی والے کی دکان پر جا کر کھڑا ہو تا ہے تو دکاندار سے کہتا ہے کہ خان صاحب یا شاہ صاحب آپ تھوڑی سی و ندگی لے لیں چنانچہ وہ تھوڑی سی مٹھائی اسے چکھنے کے لئے دے دیتا ہے اور اس کی غرض یہ ہوتی ہے یہ مٹھائی چکھے تو خرید لے اسی طرح اللہ تعالٰی بھی حلوائی کی طرح شروع شروع میں وندگی دیا کرتا ہے جیسے دکاندار کہتا ہے کہ ذرا جلیبیاں چکھ لیں یا لڈو چکھیں اور اگر کوئی ناواقف ہاتھ کھینچے تو وہ کہتا ہے نہیں نہیں یہ میری طرف سے تحفہ ہے.یہی کیفیت روحانیات میں بھی ہوتی ہے لیکن اگر کوئی شخص روزانہ دکان پر جا کر کھڑا ہو جائے اور یہ امید رکھے کہ اسے رو زو ندگی ملتی چلی جائے تو دکاندار سمجھے گا کہ یہ بڑا بے حیاء ہے اور وہ اسے چکھنے کے لئے بھی مٹھائی نہیں دے گا اسی طرح جب کوئی شخص اللہ تعالٰی کی طرف اپنا قدم بڑھاتا ہے تو اللہ تعالٰی بھی اپنے بندے کو دوندگی دیتا ہے اور اس کی زندگی یہی ہوتی ہے کہ کبھی الهام نازل کر دیا یا کشف دکھا دیا یا کچی خواب دکھادی مگر اس کے بعد انسان کو خود کوشش اور جد وجہد کرنی پڑتی ہے.اگر وہ درود پڑھے ، تسبیح و تحمید کرے ، قرآن کریم کی تلاوت کرے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا رہے کہ الٹی میرے دل کو صاف کر دے تاکہ میں تیری آواز کو سن سکوں تو پھر بعد میں بھی مستقل طور پر یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے خوش ہوتا ہے جیسے مٹھائی فروش جو پہلے دن وندگی دیتا ہے اگر اس سے دوسرے دن کئی سو روپیہ کی مٹھائی لے لے تو وہ بہت خوش ہوتا ہے مگر جسے مٹھائی کی عمدگی کا کچھ پتہ ہی نہیں ہو تا دوکاندار سے ابتداء میں تھوڑی سی چکھاتا ہے اور اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کا خریدار بن جائے اسی طرح خدا تعالیٰ بھی کبھی وحی و الهام مفت دے دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے مزے کو چکھ کر بندہ اس کو خریدنے کی کوشش کرے.اگر وہ نہیں خرید تا تو خدا تعالی کہتا ہے، یہ مفت خور ہے.اگر اسے اس چیز کی اہمیت کا احساس ہو تا تو یہ اس کی قیمت بھی ادا کر تا.اگر یہ قیمت ادا کرنے کے لئے تیار نہیں تو میں اسے یہ نعمت مستقل طور پر کیوں دوں؟ خدا تعالیٰ کے الہام کی قیمت پیسے نہیں ہوتے بلکہ اس کی قیمت نفس کی قربانی ہوتی ہے.اسی طرح دعائیں اور درود اس کی قیمت سمجھے جاتے ہیں.غرض میں نے دیکھا ہے کہ یہ شر ہماری جماعت میں سے بعض کے لئے بڑی خیر اور برکت کا موجب ہوا ہے.اگر انہوں نے مستقل طور پر اللہ تعالٰی کے ساتھ اپنے تعلق کو قائم رکھا تو جیسے ہمارے سلسلہ میں بیسیوں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کو بچی خوا میں آتی اور الہامات ہوتے ہیں اسی طرح ان سے بھی فیض اور برکت کا سلسلہ جاری ہو جائے گا اور وہ جماعت کی روحانی زندگی کا موجب بنیں گے.حقیقت یہی ہے کہ جب تک ایسے گ قائم رہتے ہیں ، جماعتیں زندہ رہتی ہیں اور خدا تعالیٰ سے ملنے اور اس سے تعلق پیدا کرنے کی تڑپ دلوں میں تازہ رہتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھ لو.آپ اس امر پر کتنا زور دیا کرتے تھے کہ پرانے نبیوں کی باتیں اب قصوں سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں.اگر تم تازہ نشانات دیکھنا چاہتے ہو تو میرے پاس آؤ اور
756 میرے نشانات کو دیکھو.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لوگ نئے نشانات کے محتاج تھے تو اب بھی محتاج ہیں اور اگر ایسے نوجوان ہماری جماعت میں ترقی کرتے چلے جائیں اور وہ بیسیوں سے سینکڑوں اور سینکڑوں سے ہزاروں ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری کی یہ عادت ہوا کرتی تھی کہ ذرا کسی آریہ اور کسی مخالف سے بات ہوئی تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نقل میں بڑی دلیری سے کہہ دیتے کہ اگر تمہیں اسلام کی صداقت میں شبہ ہے تو آؤ اور مجھ سے شرط کر لو.اگر پندرہ دن کے اندر اندر مجھے کوئی الہام ہوا اور وہ پورا ہو گیا تو تمہیں مسلمان ہونا پڑے گا اور پھر اشتہار لکھ کر اس کی دکان پر لگا دیتے چنانچہ کئی دفعہ ان کا الہام پورا ہو جاتا اور پھر وہ آریہ ان سے چھپتا پھر ناکہ اب یہ میرے پیچھے پڑ جائیں گے اور کہیں گے کہ مسلمان ہو جاؤ.تو اگر یہ نمونے قائم رہیں تو غیر مذاہب پر ہمیشہ کے لئے اسلام اور احمدیت کی فوقیت ثابت ہو سکتی ہے اور اگر یہ نمونے نہ رہیں یا ہماری جماعت کے دوست اس عارضی دھکہ کو جو میری بیماری کی وجہ سے انہیں پہنچا ہے ، اپنی مستقل نیکی اور توجہ الی اللہ کا ذریعہ نہ بنائیں تو ہو سکتا ہے کہ اس میں وقفہ پڑ جائے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد وقفہ پڑا اور اسلام لوگوں کو صرف ایک قصہ نظر آنے لگا لیکن اگر انہوں نے اس انعام کو مستقل بنالیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلہ برکات جاری رہے گا اور ایک سے دوسرے اور دو سرے سے تیسرے تک یہ سلسلہ اسی طرح پہنچے گا جیسے بچپن میں ہم کھیلا کرتے تھے تو امینوں کی ایک لمبی قطار کھڑی کر دیتے تھے.پھر ایک اینٹ کو دھکا دیتے تو وہ دوسری پر گرتی ، وہ تیسری پر گرتی اور اس طرح سودو سو انیٹیں جو ایک قطار میں کھڑی ہوتی تھیں ، گرتی چلی جاتی تھیں.اگر ہمارے نوجوانوں میں بھی یہ روح قائم رہے اور پھر ان سے اگلے نوجوانوں میں بھی یہی روح پیدا ہو جائے اور پھر ان سے اگلوں میں یہ روح منتقل ہو جائے تو قیامت تک ہماری جماعت میں رویاء و کشوف اور الہامات کا سلسلہ جاری رہے گا اور سارا ثواب ان نوجوانوں کو ملے گا جو اس سلسلہ کو شروع کرنے والے ہوں گے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے اسلام دنیا میں سربلند ہو تا چلا جائے گا.دیکھو عیسائیت کتنا ناقص مذہب ہے مگر پچھلے دنوں عیسائیوں کا ایک وفد امریکہ سے آیا جو لوگوں سے کہتا پھر تا تھا کہ آؤ اور ہم سے دعائیں کراؤ.ہماری دعاؤں سے مریض اچھے ہو جاتے ہیں چونکہ کئی وہمی ایسے ہوتے ہیں جنہیں اگر کہہ دیا جائے کہ تم اچھے ہو جاؤ گے تو وہ بھی کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہمیں بڑا فائدہ ہوا اس لئے انہوں نے اس سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا حالانکہ قبولیت دعا کا اصل معیار وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیش فرمایا کرتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ سو دو سو ایسے مریض لے لئے جائیں جو شدید امراض میں مبتلا ہوں یا جنہیں ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا ہو اور پھر قرعہ کے ذریعہ ان کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے اور ان کی شفا کے لئے دعا کی جائے.پھر جس کی دعا سے زیادہ مریض اچھے ہو جائیں وہ سچا سمجھا جائے لیکن یہ کوئی طریق نہیں کہ ایک
757 شخص کو بلایا اور اسے کہہ دیا کہ تم اچھے ہو گئے ہو کیونکہ کئی وہمی طبائع ہوتی ہیں وہ صرف اتنی بات سے ہی کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہمیں بڑا فائدہ ہوا پس کسی مذہب کی صداقت اور راستبازی معلوم کرنے کا صحیح طریق یہی ہے کہ ڈاکٹروں کے لاعلاج قرار دیئے ہوئے مریضوں کو قرعہ اندازی کے ذریعہ آپس میں تقسیم کیا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کس کی دعا سے زیادہ مریض شفایاب ہوتے ہیں.بہر حال اس طریق کو جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہمیشہ اسلام کی زندگی کا ثبوت مہیا ہو تا رہے اور ہمارے نوجوان اس بات پر فخر کر سکیں کہ ہمارے ذریعہ سے پہلے انبیاء کی روحانیت دنیا میں زندہ ہو رہی ہے اور ہم وہ بلب ہیں جن سے بجلی روشن ہوتی ہے".( فرموده یکم جون ۱۹۵۶ء بمقام مری مطبوعه الفضل ۲۲ جون ۱۹۵۶ء)
احباب جماعت کا عہد وفاداری وفا کے تقاضے اور حضور کی نصائح فتنہ پرداز اور منافق سے تعلق رکھنا خدا تعالیٰ نے منع قرار دیا ہے تم میرے بہادر سپاہی کی طرح بنو.ایسا سپاہی جو اپنی جان اپنا مال اپنی عزت اور اپنے خون کا ہر قطرہ احمدیت اور خلافت کے لئے قربان کر دے خلافت کی برکات خدمت خلق کو جاری رکھو اور اپنی نیک شہرت کو مدہم نہ ہونے دو جب بھی ملک اور قوم پر کوئی مصیبت آئے سب سے آگے خدمت کرنے والے خدام الاحمدیہ کو ہونا چاہئے
759 ایمان شیشہ سے بھی زیادہ نازک چیز ہے تمہیں اس کی حفاظت کے لئے اپنے اند ر ایمانی غیرت پیدا کرنی چاہئے حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ ۱۹ تا ۲۱ اکتوبر ۱۹۵۶ء میں جو تقاریر فرمائی تھیں ذیل میں دی جارہی ہیں.(مرتب) سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی بايُّهَا الَّذِينَ امنوا لا تتخذ و ايطانَةً مِن دُونِكُمْ لا يَأْلُونَكُمُ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُم قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمُ اكبر قَدْ بَنَا لَكُمُ الْايَتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ - ( آل عمران: آیت ۱۱۹) اس کے بعد فرمایا:." قرآن کریم کی یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اس دور کے متعلق جو آج کل ہم پر گزر رہا ہے اللہ تعالی نے ایک ہی تعلیم دی ہے جو ہماری جماعت کو ہر وقت مد نظر رکھنی چاہئے.بے شک ہماری جماعت کے دوستوں نے موجودہ فتنہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے عہد وفاداری کو تازہ کیا ہے اور ہر جگہ کی جماعت نے وفاداری کا عہد مجھے بھجوایا ہے مگر قرآن کریم میں اس آیت میں وفاداری کے عہد کے علاوہ کچھ اور باتیں بھی بیان کی گئی ہیں یایوں کہو کہ وفاداری کی صحیح تعریف بیان کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خالی منہ سے کہہ دینا کہ میں وفادار ہوں کافی نہیں بلکہ اس مثبت کے مقابلہ میں ایک منفی کی بھی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ ایها الذین امنوا لا تَتَّخِذُو ايطَانَهُ مِنْ دُونِكُمُ اے مومنو! اگر تمہاری وفاداری کا عہد سچا ہے تو تمہیں جس طرح وفاداری کرنی ہو گی اسی طرح ایک بات نہیں بھی کرنی ہو گی.جب تک یہ کرنا اور نہ کرنا دونوں جمع نہ ہو جائیں، تم مومن نہیں ہو سکتے.کرنا تو یہ ہے کہ تم نے وفادار رہنا ہے لیکن اس کی علامت ایک نہ کرنے والا کام ہے.خالی منہ سے کہہ دینا کہ میں وفادار ہوں کوئی چیز نہیں.اگر تم واقعہ میں وفادار ہو تو تمہیں ایک اور کام بھی کرنا ہوگا.یا یوں کہو کہ تمہیں ایک کام سے بچنا پڑے گا اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ تمہارے ہم خیال نہیں ، وہ تم سے الگ ہیں، ان سے مخفی تعلق اور دوستی ترک کرنی پڑے گی.لاپالونکم خبالا اگر تم ہماری یہ بات نہیں مانو گے تو وہ تمہارے اند رفتنہ اور فساد پیدا کرنے میں کوئی کو تاہی نہیں کریں گے اور تمہارے وفاداری کے عہد خاک میں مل جائیں گے.تمہار ا عزم اور تمہارا دعویٰ
760 مٹی میں مل جائے گا اور وہ کچھ بھی نہیں رہے گا جب تک کہ تم ہماری اس ہدایت کو نہیں مانو گے یعنی وہ لوگ جو تم سے الگ ہیں اور تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرتے ہیں ، تم ان سے قطعی طور پر کسی قسم کی دوستی اور تعلق نہ رکھو.شخص ایک شخص جو میرا نام نهاد رشتہ دار کہلاتا ہے وہ یہاں آیا اور ایک منافق کو ملنے گیا.جب اس کو ایک افسر سلسلہ نے توجہ دلائی کہ وہ ایک منافق سے ملنے گیا تھا تو اس نے کہا کہ صدر انجمن احمدیہ نے کب حکم دیا تھا کہ اس شخص سے نہ ملا جائے.اس افسر نے کہا کہ تم یہ بتاؤ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کس نے حکم دیا تھا کہ پنڈت ت لیکھرام کے سلام کا جواب نہ دیا جائے.اگر تمہارے لئے کسی حکم کی ضرورت تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب نہ دینے اور اپنا منہ پرے کر لینے کا کس نے حکم دیا تھا.جو محرک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دماغ میں پیدا ہوا تھاوہ تمہارے اندر کیوں نہ پیدا ہوا چنا نچہ اس کے اندر منافقت گھسی ہوئی تھی اس لئے اس نے جواب میں کہا کہ یہ کس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شخص لیکھرام کے مقام تک پہنچ گیا ہے حالا نکہ قرآن کریم نے صرف اتنا کہا ہے کہ لا تَتَّخِذُوا بِطَانَهُ مِنْ دُوبِكُم یہ نہیں کہا کہ لا تَتَّخِدُ و ابطانة من ليکهرام و مثله که تم لیکھر ام اور اس جیسے لوگوں سے نہ ملو بلکہ فرمایا ہے کہ جو لوگ اپنے عمل سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ تمہارے ساتھ نہیں ، چاہے وہ لیکھرام کے مقام تک پہنچے ہوں یا نہ پہنچے ہوں تم ان سے بطانه یعنی دوستی اور مخفی تعلق نہ رکھو.وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ میں نے تو اس شخص کے ساتھ دوستی نہیں کی مگر بطانة کے معنے صرف دوستی کے نہیں بلکہ مخفی تعلق کے بھی ہیں اور وہ شخص اس منافق سے چوری چھپے ملا تھا.اب اس کے قول کے مطابق اس کی اس منافق سے دوستی ہو یا نہ ہو یہ بات تو ظاہر ہو گئی کہ اس نے اس سے مخفی تعلق رکھا.پھر جب اسے سمجھایا گیا تو اس نے بہانہ بنایا اور کہا کہ اس منافق کو لیکھرام کا درجہ کس نے دیا ہے.اسے یہ خیال نہ آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پنڈت لیکھرام کو سلام کا جواب نہ دیتے وقت جس آیت پر عمل کیا تھا وہ یہی آیت تھی جو میں نے تلاوت کی ہے.اس میں لیکھرام یا اس جیسے لوگوں کا ذکر نہیں بلکہ صرف یہ ذکر ہے کہ ایسے لوگ جو تمہارے اندر اختلافات پیدا کرنا چاہتے ہیں ، تم ان سے کوئی تعلق نہ رکھو.پس یا تو اسے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ جس شخص سے وہ ملا تھا وہ جماعت کے اندر اختلاف اور فساد پیدا کرنے والا نہیں اور اگر اس شخص نے واقعہ میں جماعت کے اندر اختلاف اور فساد پیدا کیا ہے تو اس کا یہ کہنا کہ اسے لیکھراہ رام کا درجہ کس نے دیا ہے، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود احمدیت پر ایسا ایمان نہیں رکھتا.بہر حال قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے وفاداری کے عہد کی ایک علامت بتائی اور اس علامت کو پورا کئے بغیر وفاداری کے عہد کی کوئی قیمت نہیں.تم ان جماعتوں سے آئے ہو جنہوں نے وفاداری کے عہد بھجوائے ہیں لیکن اگر تم اس عہد کے باوجود کسی منافق سے تعلق رکھتے ہو اور اس سے علیحدگی میں ملتے ہو تو وہ "بطانة" کے پنجے میں آجاتا ہے
70 - کیونکہ وہ منافق اور اس کی پارٹی کے لوگ جماعت میں فتنہ اور فساد پیدا کرتے ہیں.اگر تم سے ان سے مخفی طور پر تعلق رکھتے ہو تو تمہارا عہد وفاداری اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتا جتنی حیثیت گدھے کاپاخانہ رکھتا ہے.گدھے کے پاخانہ کی تو کوئی قیمت ہو سکتی ہے کیو نکہ وہ روڑی کے طور پر کام آسکتا ہے لیکن تمہار ا عہد وفاداری خدا تعالی کے نزد یک روڑی کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتا اور وہ اسے قبول نہیں کرے گا.پس یاد رکھو کہ ایمان شیشہ سے بھی زیادہ نازک چیز ہے اور اس کی حفاظت کے لئے غیرت کی ضرورت ہے.جس شخص کے اندر ایمانی غیرت نہیں وہ منہ سے بے شک کہتا ر ہے کہ میں وفادار ہوں لیکن اس کے اس عہد وفاداری کی کوئی قیمت نہیں.مثلاً اس وقت تمہارے اندر ایک شخص بیٹھا ہوا ہے وہ سمجھتا ہے کہ ہمیں اس کی منافقت کا پتہ نہیں.وہ ہمیشہ مجھے لکھا کرتا ہے کہ آپ مجھ سے کیوں خفا ہیں.میں نے تو کوئی قابل اعتراض فعل نہیں کیا حالانکہ ہم نے اس کا ایک خط پکڑا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ خلیفہ جماعت کا لاکھوں روپیہ کھا گیا ہے اور لاکھوں روپیہ اس نے اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کو کھلایا ہے.اس نے سمجھا کہ میرے خط کو کون پہچانے گا.اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ آج کل ایسی ایجادیں نکل آئی ہیں کہ بغیر نام کے خطوط بھی پہچانے جاسکتے ہیں چنانچہ ایک ماہر جو یورپ سے تحریر پہنچانے کی بڑی اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کر کے آیا ہے ہم نے وہ خط اسے بھیج دیا اور چونکہ ہمیں شبہ تھا کہ اس تحریر کا لکھنے والا وہی شخص ہے اس لئے ایک تحریر اسے بغیر بتائے اس سے لکھوالی اور وہ بھی اس خط کے ساتھ بھیج دی.اس نے علوم جدیدہ کے مطابق خط پہچاننے کی پینتیس جگہ بتائی ہیں جو ماہرین نے بڑا غور کرنے کے بعد نکالی ہیں اور انہوں نے بتایا ہے کہ لکھنے والا خواہ وہ کتنی کوشش کرے کہ اس کا خط بدل جائے ، یہ پینتیں جگہیں نہیں بدلتیں چنانچہ اس نے دونوں تحریروں کو ملا کر دیکھا اور کہا کہ لکھنے والے کی تحریر میں پینتیس کی پینتیس دلیلیں موجود ہیں اس لئے یہ دونوں تحریریں سو فی صدی ایک ہی شخص کی لکھی ہوئی ہیں اور وہ شخص بار بار مجھے لکھتا ہے کہ آپ خواہ مخواہ مجھ سے ناراض ہیں.میں نے کیا قصور کیا ہے.میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا.اس بیوقوف کو کیا پتہ ہے کہ اس کی دونوں تحریریں ہم نے ایک ماہر فن کو دکھائی ہیں اور ماہر فن نے بڑے غور کے بعد جن پینتیس جگہوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ کبھی نہیں بدلتیں ، وہ اس کی تحریر میں نہیں بدلیں.وہ شخص غالبا اب بھی یہاں بیٹھا ہو گا اور غالبا کل یا پرسوں مجھے پھر لکھے گا کہ میں تو بڑا وفادار ہوں.آپ خواہ مخواہ مجھ پر بد ظنی کر رہے ہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا حالا نکہ اس نے ایک بے نام خط لکھا اور وہ خط جب ماہر فن کو دکھایا گیا اور اس کی ایک اور تحریر اسے ساتھ بھیجی گئی جو اس سے لکھوائی گئی تھی تو اس ماہر فن نے کہا کہ یہ دونوں تحریریں اسی شخص کی ہیں.پس خالی عہد کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک کہ اس کے ساتھ انسان ان باتوں کو بھی مدنظر نہ رکھے جن کے متعلق خدا تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ وہ نہ کی جائیں.عبد المنان کو ہی دیکھ لو.جب وہ امریکہ سے واپس آیا تو میں نے مری میں خطبہ پڑھا اور اس میں میں نے وضاحت کر دی کہ اتنے امور ہیں، وہ ان کی صفائی کر دے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا.وہ یہاں تین ہفتے بیٹھا رہا لیکن اس کو اپنی صفائی پیش کرنے کی توفیق نہ ملی صرف اتنا لکھ دیا کہ میں تو آپ کا وفادار
762 ہوں.ہم نے کہا ہم نے تجھ سے وفاداری کا عہد کرنے کا مطالبہ نہیں کیا.ہمیں معلوم ہے کہ پیغامی تمہارے باپ کو غاصب کا خطاب دیتے تھے.وہ انہیں جماعت کا مال کھانے والا اور حرام خور قرار دیتے تھے.تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ میں ان پیغامیوں کو جانتا ہوں، یہ میرے باپ کو گالیاں دیتے تھے.یہ آپ کو غاصب اور منافق کہتے تھے.میں ان کو قطعی اور یقینی طور پر باطل پر سمجھتا ہوں مگر اس بات کا اعلان کرنے کی اسے توفیق نہ ملی.پھر اس نے لکھا کہ میں تو خلافت حقہ کا قائل ہوں.اسے یہ جواب دیا گیا کہ اس کے تو پیغامی بھی قائل ہیں.وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم خلافت حقہ کے قائل ہیں لیکن ان کے نزدیک خلافت حقہ اس نبی کے بعد ہوتی ہے جو بادشاہ بھی ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بادشاہ بھی تھے اس لئے ان کے نزدیک آپ کے بعد خلافت حقہ جاری ہوئی اور حضرت ابو بکر حضرت عمر، حضرت عثمان حضرت علی خلیفہ ہوئے لیکن مرزا صاحب چونکہ بادشاہ نہیں تھے اس لئے آپ کے بعد وہ خلافت تسلیم نہیں کرتے.پس یہ بات تو پیغامی بھی کہتے ہیں کہ وہ خلافت حقہ کے قائل ہیں.تم اگر واقعی جماعت احمدیہ میں خلافت حقہ کے قائل ہو تو پھر یہ کیوں نہیں لکھتے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد خلافت کو تسلیم کرتا ہوں اور جو آپ کے بعد خلافت کے قائل نہیں ، انہیں لعنتی سمجھتا ہوں.پھر تم یہ کیوں نہیں لکھتے کہ خلافت حقہ صرف اسی نبی کے بعد نہیں ہے نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی مل جائے بلکہ اگر کوئی نبی غیر بادشاہ ہو تب بھی اس کے بعد خلافت حقہ قائم ہوتی ہے.تمہارا صرف یہ لکھنا کہ میں خلافت حقہ کا قائل ہوں، ہمارے مطالبہ کو پورا نہیں کرتا.ممکن ہے تمہاری مراد خلافت حقہ سے یہ ہو کہ جب میں خلیفہ بنوں گا تو میری خلافت خلافت حقہ ہو گی یا خلافت حقہ سے تمہاری یہ مراد ہو کہ میں تو اپنے باپ حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی خلافت کا قائل ہوں یا تمہاری یہ مراد ہو کہ میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی خلافت کا قائل ہوں.بہر حال عبد المنان کو امریکہ سے واپس آنے کے بعد تین ہفتہ تک ان امور کی صفائی پیش کرنے کی توفیق نہ ملی.اس کی وجہ یہی تھی کہ اگر وہ لکھ دیتا کہ پیغامی لوگ میرے باپ کو غاصب، منافق اور جماعت کا مال کھانے والے کہتے رہے ہیں، میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں تو پیغامی اس سے ناراض ہو جاتے اور اس نے یہ امیدیں لگائی ہوئی تھیں کہ وہ ان کی مدد سے خلیفہ بن جائے گا اور اگر وہ لکھ دیتا کہ جن لوگوں نے خلافت ثانیہ کا انکار کیا ہے، میں انہیں لعنتی سمجھتا ہوں تو اس کے وہ دوست جو اس کی خلافت کا پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں اس سے قطع تعلق کر جاتے اور وہ ان سے قطع تعلقی پسند نہیں کرتا تھا اس لئے اس نے ایسا جواب دیا ہے جسے پیغام صلح نے بڑے شوق سے شائع کر دیا.اگر وہ بیان خلافت ثانیہ کی تائید میں ہو تا تو پیغام صلح اسے کیوں شائع کرتا.اس نے بھلا گزشتہ بیالیس سال میں کبھی میری تائید کی ہے.انہوں نے سمجھا کہ اس نے جو مضمون لکھا ہے وہ ہمارے ہی خیالات کا آئینہ دار ہے اس لئے اسے شائع کرنے میں کیا حرج ہے چنانچہ جماعت کے بڑے لوگ جو سمجھدار ہیں وہ تو الگ رہے، مجھے کالج کے ایک سٹوڈنٹ نے لکھا کہ پہلے تو ہم سمجھتے تھے کہ شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے لیکن ایک دن میں بیت الذکر میں بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے پتہ لگا کہ پیغام صلح میں میاں عبد المنان کا کوئی پیغام چھپا ہے تو میں نے ایک دوست سے کہا میاں ذرا ایک
763 پر چہ لانا چنانچہ وہ ایک پرچہ لے آیا.میں نے وہ بیان پڑھا اور اسے پڑھتے ہی کہا کہ کوئی پیغامی ایسا نہیں جو یہ بات نہ کہہ دے.یہ تردید تو نہیں اور نہ ہی میاں عبد المنان نے یہ بیان شائع کر کے اپنی بریت کی ہے.اس پر ہر ایک پیغامی دستخط کر سکتا ہے کیونکہ اس کا ہر فقرہ پیچ دار طور پر لکھا ہوا ہے اور اسے پڑھ کر ہر پیغامی اور خلافت کا مخالف یہ کہے گا کہ میرا بھی یہی خیال ہے.غرض قرآن کریم نے واضح کر دیا ہے کہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُو ايطَانَة مِنْ دُونِكُمْ لَا يَالُونَكُمْ خَبَالاً اے مومنو جو لوگ تمہارے اندر اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں ، تم ان سے خفیہ میل جول نہ رکھو.اب دیکھو یہاں دوستی کا ذکر نہیں بلکہ خداتعالی فرماتا ہے ، تم ان سے بطانه نہ رکھو اور بطانہ کے معنے محض تعلق ہوتے ہیں.اب اگر کوئی ان لوگوں کو گھر میں چھپ کر مل لے اور بعد میں کہہ دے کہ آپ نے یا صد رانجمن احمدیہ نے کب کہا تھا کہ انہیں نہیں ملنا تو یہ درست نہیں ہو گا.ہم کہیں گے کہ خدا تعالٰی نے تمہارے اندر بھی تو غیرت رکھی ہے.پھر ہمارے منع کرنے کی کیا ضرورت ہے.تمہیں خود اپنی غیرت کا اظہار کرنا چاہئے.اگر تم ہمارے منع کرنے کا انتظار کرتے ہو تو اس کے یہ معنے ہیں کہ تمہیں خود قرآن کریم پر عمل کرنے کا احساس نہیں.دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب لیکھرام نے سلام کیا تو آپ نے یہ نہیں کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے سلام کا جواب دینے سے کب منع فرمایا ہے بلکہ آپ نے سمجھا کہ بے شک اس آیت میں لیکھر ام کا ذکر نہیں لیکن خدا تعالیٰ نے لا یا لونكم خبالا تو فرما دیا ہے کہ تم ایسے لوگوں سے تعلق نہ رکھو جو تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں پس گو اس آیت میں لیکھرام کا ذکر نہیں لیکن اس کی صفات تو بیان کر دی گئی ہیں.انہی صفات سے میں نے اسے پہچان لیا ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے:.بر رنگے کہ خواهی جامه من انداز قدت را پوش شناسم کہ اے شخص تو چاہے کس رنگ کا کپڑا پہن کر آجائے میں کسی دھو کہ میں نہیں آؤں گا کیونکہ میں تیرا قد پہچانتا ہوں.حضرت مرزا صاحب نے بھی یہی فرمایا کہ اے لیکھرام تو چاہے کوئی شکل بنا کر آجائے قرآن کریم نے تیری صفت بیان کر دی ہے اس لئے میں تجھے تیری صفت سے پہچانتا ہوں.اللہ تعالٰی نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ لا یالونکم خیالا کہ تمہارے دشمن وہ ہیں جو قوم میں فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اس لئے قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق میں نے تم سے کوئی تعلق نہیں رکھا.میں بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نوجوان ہو اور آئندہ سلسلہ کا بوجھ تم پر پڑنے والا ہے.تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہر چیز کی بعض علامتیں ہوتی ہیں اس لئے خالی منہ سے ایک لفظ دہرا دینا کافی نہیں بلکہ ان علامات کو دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہی عجیب نکتہ بیان فرما دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک شخص ساری رات اپنی بیوی سے
764 محبت کا اظہار کرتا ہے مگر دن چڑھے تو اس سے لڑنے لگ جاتا ہے.اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بیان فرمایا ہے کہ اگر میاں کو اپنی بیوی سے واقعی محبت ہے تو وہ دن کے وقت اس سے کیوں محبت نہیں کرتا اسی طرح جو شخص کسی جلسہ میں وفاداری کا اعلان کر دیتا ہے اور مخفی طور پر ان لوگوں سے ملتا ہے جو جماعت میں تفرقہ اور فساد پیدا کرنے چاہتے ہیں تو یہ کوئی وفاداری نہیں کیونکہ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ جو لوگ تمہارے ہم مذہب نہیں، ان سے کوئی تعلق نہ رکھو.غیر مذ ہب والوں سے تعلق رکھنا منع نہیں.حضرت ابن عباس کے متعلق آتا ہے کہ آپ جب بازار سے گزرتے تو یہودیوں کو بھی سلام کرتے اس لئے یہاں من دونکم کی تشریح کی گئی ہے کہ تم ان لوگوں سے الگ رہو جو لا یا لونكم بالا کے مصداق ہیں یعنی وہ تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں.اگر کوئی غیر مذاہب والا تمہارے اندر فتنہ اور فساد پیدا نہیں کرنا چاہتا تو وہ شخص من دونکم میں شامل نہیں.اگر تم اس سے مل لیتے ہو یا دوستانہ تعلق رکھتے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسا شخص جو تمہاری جماعت میں فتنہ اور فساد پیدا کرنا چاہتا ہے، اس سے تعلق رکھنا خد اتعالیٰ نے ممنوع قرار دے دیا ہے.پھر آگے فرماتا ہے تم کہہ سکتے ہو کہ اس کی کیا دلیل ہے.اس کی دلیل یہ ہے کہ قَد بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنَ افَوَاهِهِم کچھ باتیں ان کے منہ سے نکل چکی ہیں وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمُ اكْبَرُ ان قیاس کر کے دیکھ لو کہ جو کچھ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ کیا ہے.کہتے ہیں ایک چاول دیکھ کر ساری دیگ پہچانی جا سکتی ہے اسی طرح یہاں بھی دیکھا جا سکتا ہے مثلاً ایک منافق نے بقول اپنے بھائی کے کہا کہ خلیفہ اب بڑھا اور پاگل ہو گیا ہے اب انہیں دو تین معاون دے دینے چاہئیں اور ہمیں جو شہادت ملی ہے اس کے مطابق اس نے کہا کہ اب خلیفہ کو معزول کر دینا چاہئے.اس فقرہ سے ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ اس کے پیچھے بغض کا ایک سمندر موجزن تھا.جس شخص کا اپنا باپ جب اس نے بیعت لی تھی اس عمر سے زیادہ تھا جس عمر کو میں بیالیس سال کی خدمت کے بعد پہنچا ہوں.وہ اگر کہتا ہے کہ خلیفہ بڑھا ہو گیا ہے اسے اب معزول کر دینا چاہئے ، تو یہ شدید بغض کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے ورنہ اس کے منہ سے یہ فقرہ نہ نکلتا.شدید بغض انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے.اگر اس میں ذرا بھی عقل ہوتی تو وہ سمجھ سکتا تھا کہ میں یہ فقرہ منہ سے نکال کر اپنے باپ کو گالی دے رہا ہوں.جیسے انسان بعض اوقات غصہ میں آکر یا پاگل پن کی وجہ سے اپنے بیٹے کو حرامزادہ کہہ دیتا ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ وہ یہ لفظ کہہ کر اپنی بیوی کو اور اپنے آپ کو گالی دے رہا ہے اسی طرح اس نوجوان کی عقل ماری گئی اور اس نے وہ بات کہی جس کی وجہ سے اس کے باپ پر حملہ ہو تا تھا.دنیا میں کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کو گالی نہیں دیتا.ہاں بغض اور غصہ کی وجہ سے ایسا کرلیتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ وہ اپنے باپ کو گالی دے رہا ہے.اس نوجوان کی مجھ سے کوئی لڑائی نہیں تھی اور نہ ہی میں اس کے سامنے موجود تھا کہ وہ غصہ میں آکر یہ بات کہہ دیتا.ہاں اس کے دل میں بغض اتنا بڑھ گیا تھا کہ اس کی وجہ سے اس نے وہ بات کہی جس کی وجہ سے اس کے باپ پر بھی حملہ ہو تا تھا.قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ قَديدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِم کہ ان کے منہ سے بغض کی
765 بعض باتیں نکلی ہیں ان سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ ما تخفی صدورھم اکبر جو کچھ ان کے سینوں میں ہے ، وہ اس سے بہت بڑا ہے کیونکہ ہر انسان کوشش کرتا ہے کہ اس کے دل کے بغض کا علم کسی اور کو نہ ہو اس لئے جو کچھ اس کے دل میں ہے وہ اس سے بہت بڑا ہے جو ظاہر ہو چکا ہے.غرض خداتعالی نے اس آیت میں جماعتی نظام کی مضبوطی کے لئے ایک اہم نصیحت بیان فرمائی ہے.تمہیں یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے اور اس کے مطابق اپنے طریق کو بدلنا چاہئے ورنہ احمدیت آئندہ تمہارے ہاتھوں میں محفوظ نہیں ہو سکتی.تم ایک بہادر سپاہی کی طرح بنو.ایسا سپاہی جو اپنی جان اپنا مال اپنی عزت اور اپنے خون کا ہر قطرہ احمدیت اور خلافت کی خاطر قربان کر دے اور کبھی بھی خلافت احمدیہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے دے جو پیغامیوں یا احراریوں وغیرہ کے زیر اثر ہوں.جس طرح خدا تعالٰی نے بائیبل میں کہا تھا کہ سانپ کا سر ہمیشہ کچلا جائے گا اس طرح تمہیں بھی اپنی ساری عمر فتنہ و فساد کے سانپ کے سر پر ایڑی رکھنی ہوگی اور دنیا کے کسی گوشہ میں بھی اسے پنپنے کی اجازت نہیں دینی ہو گی.اگر تم ایسا کرو گے تو قرآن کریم کہتا ہے کہ خداتعالی تمہاری مدد کرے گا اور خدا تعالیٰ سے زیادہ سچا اور کوئی نہیں.دیکھو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد جماعت کو کس قدر مدد دی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ سالانہ ہوا اس میں چھ سات سو آدمی آئے تھے اور حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے عہد خلافت کے آخری جلسہ سالانہ پر گیارہ بارہ سو احمدی آئے تھے لیکن اب ہمارے معمولی جلسوں پر بھی دو اڑھائی ہزار احمدی آجاتے ہیں اور جلسہ سالانہ پر تو ساٹھ ستر ہزار لوگ آتے ہیں.اس سے تم اندازہ کرلو کہ اللہ تعالی نے ہمیں کتنی طاقت دی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں لنگر خانہ پر پندرہ سو روپیہ ماہوار خرچ آجاتا تو آپ کو فکر پڑ جاتی اور فرماتے لنگر خانہ کا خرچ اس قدر بڑھ گیا ہے اب اتنا روپیہ کہاں سے آئے گا.گویا جس شخص نے جماعت کی بنیاد رکھی تھی وہ کسی زمانہ میں پندرہ سو ماہوار کے اخراجات پر گھبرا تا تھا لیکن اب تمہارا صد را انجمن احمدیہ کا بجٹ بارہ تیرہ لاکھ کا ہوتا ہے اور صرف ضیافت پر پینتیس ، چھتیں ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہو جاتا ہے.پندرہ سو روپیہ ماہوار خرچ کے معنے یہ ہیں کہ سال میں صرف اٹھارہ ہزار روپیہ خرچ ہو تا تھا لیکن اب صرف جامعتہ المبشرین اور طلباء کے وظائف وغیرہ کے سالانہ اخراجات چھیاسٹھ ہزار روپے ہوتے ہیں گویا ساڑھے پانچ ہزار روپیہ ماہوار.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا رکھتے ہیں.وہ مامور من اللہ تھے اور اس لئے آئے تھے کہ دنیا کو ہدایت کی طرف لائیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا کے کونہ کونہ میں قائم کریں اور مسلمانوں کی غفلتوں اور ستیوں کو دور کر کے انہیں اسلامی رنگ میں رنگین کریں لیکن ان کی زندگی میں جماعتی اخراجات پندرہ سو روپیہ پر پہنچتے ہیں تو گھبرا جاتے ہیں اور خیال فرماتے ہیں کہ یہ اخراجات کہاں سے مہیا ہوں گے لیکن اس وقت ہم جو آپ کی جوتیاں جھاڑنے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں ، صرف ایک درس گاہ یعنی جامعتہ المبشرین پر ساڑھے پانچ ہزار روپے ماہوار
766 خرچ کر رہے ہیں اسی طرح مرکزی دفاتر اور بیرونی مشنوں کو ملا لیا جائے تو ماہوار خرچ ستر اسی ہزار روپیہ بن جاتا ہے گویا آپ کے زمانہ میں جو خرچ پانچ سات سال میں ہو تا تھا، وہ ہم ایک سال میں کرتے ہیں اور پھر بڑی آسانی سے کرتے ہیں.اس طرح یہ خلافت کی ہی برکت ہے کہ تبلیغ اسلام کا وہ کام جو اس وقت دنیا میں اور کوئی جماعت نہیں کر رہی صرف جماعت احمدیہ کر رہی ہے.مصر کا ایک اخبار الفتح ہے، وہ ہماری جماعت کا سخت مخالف ہے مگر اس نے ایک دفعہ لکھا کہ جماعت احمدیہ کو بے شک ہم اسلام کا دشمن خیال کرتے ہیں لیکن اس وقت وہ تبلیغ اسلام کا جو کام کر رہی ہے گزشتہ تیرہ سو سال میں وہ کام بڑے بڑے اسلامی بادشاہوں کو بھی کرنے کی توفیق نہیں ملی.جماعت کا یہ کارنامہ محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اور تمہارے ایمانوں کی وجہ سے ہے.آپ کی پیشگوئیاں تھیں اور تمہارا ایمان تھا.جب یہ دونوں مل گئے تو خداتعالی کی برکتیں نازل ہونی شروع ہو ئیں اور جماعت نے وہ کام کیا جس کی توفیق مخالف ترین اخبار الفتح کے قول کے مطابق کسی بڑے سے بڑے اسلامی بادشاہ کو بھی آج تک نہیں مل سکی.اب تم روزانہ پڑھتے ہو کہ جماعت خداتعالی کے فضل سے روز بروز بڑھ رہی ہے اگر اللہ تعالی چاہے تو تم اور بھی ترقی کرو گے اور اس وقت تمہار ا چندہ ہیں، پچیس لاکھ سالانہ نہیں ہو گا بلکہ کروڑ دو کروڑ پانچ کروڑ دس کروڑ میں کروڑ پچاس کروڑ ارب کھرب پدم بلکہ اس سے بھی بڑھ جائے گا اور پھر تم دنیا کے چپہ چپہ میں اپنے مبلغ رکھ سکو گے.انفرادی لحاظ سے تم اس وقت بھی غریب ہو گے لیکن اپنے فرض کے ادا کرنے کی وجہ سے ایک قوم ہونے کے لحاظ سے تم امریکہ سے بھی زیادہ مالدار ہو گے.دنیا میں ہر جگہ تمہارے مبلغ ہوں گے اور جتنے تمہارے مبلغ ہوں گے اتنے افسر دنیا کی کسی بڑی سے بڑی قوم کے بھی نہیں ہوں گے.امریکہ کی فوج کے بھی اتنے افسر نہیں ہوں گے جتنے تمہارے مبلغ ہوں گے اور یہ محض تمہارے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ہو گا.اگر تم اپنے ایمان کو قائم رکھو گے تو تم اس دن کو دیکھ لو گے.تمہارے باپ دادوں نے وہ دن دیکھا جب ۱۹۱۴ء میں پیغامیوں نے ہماری مخالفت کی.جب میں خلیفہ ہوا تو خزانہ میں صرف سترہ روپے تھے.انہوں نے خیال کیا کہ اب قادیان تباہ ہو جائے گا لیکن اس کے بعد اللہ تعالٰی نے ایسی برکت دی کہ اب تم اپنے کسی طالب علم کو سترہ روپے ماہوار وظیفہ بھی دیتے ہیں تو یہ وظیفہ کم ہونے کی شکایت کرتا ہے.پیغامیوں کے خلاف پہلا اشتہار شائع کرنے کے لئے میرے پاس روپیہ نہیں تھا.میر ناصر نواب صاحب !و ہمارے نانا تھے ، انہیں پتہ لگا.وہ دار الضعفاء کے لئے چندہ جمع کیا کرتے تھے.ان کے پاس اس چندہ کا کچھ روپیہ تھا.وہ دو اڑھائی سو روپیہ میرے پاس لے آئے اور کہنے لگے اس سے اشتہار چھاپ لیں پھر خدا دے گا تو یہ رقم واپس کر دیں.پھر خدا تعالٰی نے فضل کیا اور آمد آنی شروع ہوئی اور اب یہ حالت ہے کہ پچھلے ہیں سال کی تحریک جدید میں تین لاکھ ستر ہزار روپیہ چندہ میں نے دیا ہے.کجا یہ کہ ایک اشتہار شائع کرنے کے لئے میرے پاس دو اڑھائی سو روپیہ بھی نہیں تھا اور کجا یہ کہ خدا تعالٰی نے میری اس قسم کی امداد کی اور زمیندارہ میں اس قدر برکت دی کہ میں نے لاکھوں روپیہ بطور چندہ جماعت کو دیا.پھر مجھے یاد ہے کہ جب ہم نے پہلا پارہ شائع کرنا چاہا تو میرے
767 دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہمارے خاندان کے افراد اپنے روپیہ سے اسے شائع کردیں لیکن روپیہ پاس نہیں تھا.اس وقت تک ہماری زمینداری کا کوئی انتظام نہیں تھا.میں نے اپنے مختار کو بلایا اور کہا ہم قرآن کریم چھپوانا چاہتے ہیں لیکن روپیہ پاس نہیں.وہ کہنے لگا آپ کو کس قدر روپے کی ضرورت ہے.میں نے کہا کہتے ہیں کہ پہلی جلد تین ہزار روپے میں چھپے گی.اس نے کہا میں روپیہ لا دیتا ہوں.آپ صرف اس قد ر ا جازت دے دیں کہ میں کچھ زمین مکانوں کے لئے فروخت کر دوں.میں نے کہا اجازت ہے.ظہر کی نماز کے بعد میں نے اس سے بات کی اور عصر کی اذان ہوئی تو اس نے ایک پوٹلی میرے سامنے لاکر رکھ دی اور کہا یہ لیں روپیہ.میں نے کہا ہیں قادیان والوں کے ہاں اتنا روپیہ ہے.وہ کہنے لگا اگر آپ میں ہزار روپیہ بھی چاہیں تو میں آپ کو لا دیتا ہوں.لوگ مکانات بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس زمین نہیں.اگر انہیں زمین دے دی جائے تو روپیہ حاصل کرنا مشکل نہیں.میں نے کہا خیر اس وقت ہمیں اسی قدر روپیہ کی ضرورت ہے چنانچہ اس وقت ہم نے قرآن کریم کا پہلا پارہ شائع کر دیا.پھر میں نے الفضل جاری کیا تو اس وقت بھی میرے پاس روپیہ نہیں تھا.حکیم محمد عمر صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں آپ کو کچھ خریدار بنا کر لا دیتا ہوں اور تھوڑی دیر میں وہ ایک پوٹلی روپوں کی میرے پاس لے آئے غرض ہم نے پیسوں سے کام شروع کیا اور آج ہمار الا کھوں کا بجٹ ہے اور ہماری انجمن کی جائیداد کروڑوں کی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ میں خود گزشتہ میں سال کی تحریک جدید میں تین لاکھ ستر ہزار روپیہ چندہ دے چکا ہوں اسی طرح ایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ میں نے صدر انجمن احمدیہ کو دیا ہے اور اتنی ہی جائیداد اسے دی ہے گویا تین لاکھ صدرانجمن احمدیہ کو دیا ہے اور تین لاکھ ستر ہزار روپیہ تحریک جدید کو دیا ہے اس لئے جب کوئی شخص اعتراض کرتا ہے کہ میں نے جماعت کا روپیہ کھا لیا ہے تو مجھے غصہ نہیں آتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حسابی بات ہے.جب انجمن کے رجسٹر سامنے آجائیں گے تو یہ شخص آپ ہی ذلیل ہو جائے گا.بہر حال اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں آپ سب کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ان کو یاد رکھو اور اپنی جگہوں پر واپس جا کر اپنے بھائیوں اور دوستوں کو بھی سمجھاؤ کہ زبانی طور پر وفاداری کا عہد کرنے کے کوئی معنی نہیں.اگر تم واقعی وفادار ہو تو تمہیں منافقوں کا مقابلہ کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ انہوں نے لایالونکم خبالا والی بات پوری کر دی ہے اور وہ جماعت میں فتنہ اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں.قرآن کریم کی ہدایت یہی ہے کہ ان سے مخفی طور پر اور الگ ہو کر بات نہ کی جائے اور اس پر تمہیں عمل کرنا چاہئے تاکہ تم شیطانی حملوں سے محفوظ ہو جاؤ ورنہ تم جانتے ہو کہ شیطان حضرت حوا کی معرفت جنت میں گھس گیا تھا اور جو شیطان حضرت حوا کی معرفت جنت میں گھس گیا تھا وہ جماعت احمدیہ میں کیوں نہیں گھس سکتا.ہاں اگر تم کو حضرت آدم والا قصہ یا د رہے تو تم اس سے بچ سکتے ہو.بائیبل کھول کر پڑھو ، تمہیں معلوم ہو گا کہ شیطان نے دوست اور خیر خواہ بن کر ہی حضرت آدم اور حوا کو ورغلایا تھا اسی طرح یہ لوگ بھی دوست اور ظاہر میں خیر خواہ بن کر تمہیں خراب کر سکتے ہیں لیکن اگر تم قرآنی ہدایت پر عمل
768 کرو تو محفوظ ہو جاؤ گے اور شیطان خواہ کسی بھیس میں بھی آئے ، تم اس کے قبضہ میں نہیں آؤ گے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو ہمیشہ خلافت کا خدمت گزار رکھے اور تمہارے ذریعہ احمدیہ خلافت قیامت تک محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت ہوتی رہے اور تم اور تمہاری نسلیں قیامت تک اس کا جھنڈا اونچار کھیں اور کبھی بھی وہ وقت نہ آئے کہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں تمہارا یا تمہاری نسلوں کا حصہ نہ ہو بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تمہارا اور تمہاری نسلوں کا اس میں حصہ ہو اور جس طرح پہلے زمانہ میں خلافت کے دشمن نا کام ہوتے چلے آئے ہیں، تم بھی جلد ہی سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں ان کو نا کام ہو تادیکھ لو".اس کے بعد حضور نے عہد دہرایا اور دعا کروائی.دعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے ارشاد فرمایا کہ:.” واپس جانے سے پہلے میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت موجودہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے میں نے جماعت کے فتنہ پردازوں کا ذکر کیا ہے لیکن اس موقعہ کے زیادہ مناسب حال آج کا خطبہ جمعہ تھا جس میں میں نے خدمت خلق پر زور دیا ہے.خدام الاحمدیہ نے پچھلے دنوں ایسا شاندار کام کیا تھا کہ بڑے بڑے مخالفوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کی یہ خدمت بے نظیر ہے.تم اس خدمت کو جاری رکھو اور اپنی نیک شہرت کو مد ہم نہ ہونے دو.جب بھی ملک اور قوم پر کوئی مصیبت آئے سب سے آگے خدمت کرنے والے خدام الاحمدیہ کو ہونا چاہئے یہاں تک کہ سلسلہ کے شدید سے شدید دشمن بھی یہ مان لیں کہ در حقیقت یہی لوگ ملک کے بچے خادم ہیں.یہی لوگ غریبوں کے ہمدرد ہیں.یہی لوگ مسکینوں اور بیواؤں کے کام آنے والے ہیں.یہی لوگ مصیبت زدوں کی مصیبت کو دور کرنے والے ہیں.تم اتنی خدمت کرو کہ شدید سے شدید دشمن بھی تمہار ا گہرا دوست بن جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایسا سلوک کرو کہ تمہارا دشمن بھی دوست بن جائے.یہی خدام الاحمدیہ کو کرنا چاہئے.اگر تمہارے کاموں کی وجہ سے تمہارے علاقہ کے لوگ تمہارے بھی اور تمہارے احمدی بھائیوں کے بھی دوست بن گئے ہیں، تمہارے کاموں کی قدر کرنے لگ گئے ہیں اور تم کو بھی اپنا سچا خادم سمجھتے ہیں اور اپنا مددگار سمجھتے ہیں تو تم کچے خادم ہو اور اگر تم یہ روح پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو تمہیں ہمیشہ استغفار کرنا چاہئے کہ تمہارے کاموں میں کوئی کمی رہ گئی ہے جس کی وجہ سے تم لوگوں کے دلوں میں اثر پیدا نہیں کر سکے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کی مدد کرے".فرموده ۱۹ اکتوبر ۱۹۵۶ء مطبوعہ الفضل ۲۴ اپریل ۱۹۵۷ء)
خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں جماعت احمدیہ کو خلافت کی برکات سے نوازا ہے خلافت کی برکات کو یا درکھیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں درود کثرت سے پڑھا کرو تا خدا تمہیں رویا اور کشوف دکھائے خدا تعالیٰ ہر فتنہ اور مصیبت کے وقت جماعت کی خود حفاظت فرماتا ہے خلافت کے خلاف جماعت میں فتنہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور کو بذریعہ رویا اطلاع دیا جانا
770 خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں جماعت کو خلافت کی برکات سے نوازا ہے جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ ان برکات کو یادرکھیں اور خلافت احمدیہ کا جھنڈا قیامت تک قائم رکھتے چلے جائیں ذیل میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی وہ تقریر شائع کی جارہی ہے جو حضور نے ۲۱ اکتو بر ۱۹۵۶ء کو خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع میں فرمائی تھی.(مرتب) اس دفعہ مختلف وجوہات کی بناء پر جماعت احمدیہ کی مختلف مرکزی انجمنوں نے قریب قریب عرصہ میں اپنے سالانہ اجتماع منعقد کئے جس کی وجہ سے مجھ پر زیادہ بوجھ پڑ گیا ہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات سے تین چار سال پہلے جلسہ سالانہ پر میں آپ کی تقاریر سنتا رہا ہوں.آپ کی وفات کے وقت میری عمر انیس سال کی تھی اور اس سے چار پانچ سال قبل میری عمر قریباً چودہ سال کی تھی اس لئے میں آپ کی مجالس میں جاتا اور تقاریر سنتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تقریر عام طور پر پچاس منٹ یا ایک گھنٹہ کی ہوتی تھی اور وفات سے پانچ سال پہلے آپ کی عمر قریباً اتنی ہی تھی جتنی اس وقت میری ہے لیکن اللہ تعالی کی کسی مشیت کے ماتحت مجھ پر ایک خطرناک بیماری کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے میں اب لمبی تقاریر نہیں کر سکتا.پہلے میں جلسہ سالانہ کے موقع پر پانچ پانچ چھ چھ گھنٹہ کی تقاریر کر لیتا تھا مگر اس بیماری کے اثر کی وجہ سے مجھے جلدی ضعف محسوس ہونے لگتا ہے.آج بلجنہ اماءاللہ کا اجتماع بھی تھا.وہاں بھی میں نے تقریر کی.انہوں نے مجھ سے کہا کہ کئی سال سے آپ کی عورتوں میں کوئی تقریر نہیں ہوئی اس لئے آپ اس موقعہ پر عورتوں میں بھی تقریر کریں چنانچہ میں نے تقریر کرنی منظور کرلی اور صبح وہاں میری تقریر تھی.اس وقت تمہاری باری آگئی ہے.چار پانچ دن کے بعد انصار اللہ کی باری آجائے گی پھر جلسہ سالانہ آجائے گا.اس موقع پر پھر مجھے نقار یہ کرنی ہوں گی.پھر ان کاموں کے علاوہ تفسیر کا اہم کام بھی ہے جو میں کر رہا ہوں.اس کی وجہ سے نہ صرف مجھے کوفت محسوس ہو رہی ہے بلکہ طبیعت پر بڑا بوجھ محسوس ہو رہا ہے.اس سے اگر چہ میری خواہش تھی کہ اس موقع پر میں لمبی تقریر کروں مگر میں زیادہ لمبی تقریر نہیں کر سکتا.اب پیشتر اس کے کہ میں اپنی تقریر شروع کروں، آپ سب
771 کھڑے ہو جائیں تاکہ عہد دہرایا جائے".حضور کے اس ارشاد پر تمام خدام کھڑے ہو گئے اور حضور نے عہد دہرایا.عہد دہرانے کے بعد حضور نے فرمایا:." آج میں قرآن کریم کی ایک آیت کے متعلق کچھ زیادہ تفصیل سے بیان کرنا چاہتا تھا مگر اس وقت میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اس تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کر سکتا کیونکہ کل میں نے خطبہ جمعہ بھی پڑھا اور پھر آپ کے اجتماع میں بھی تقریر کی.اس طرح آج صبح لجنہ اماء اللہ کے اجتماع میں مجھے تقریر کرنی پڑی جس کی وجہ سے مجھے اس وقت کوفت محسوس ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ امْتَوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيْسَخْلَفَتهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَن لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِ لَتَهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوفِهِمْ أَمَنَّا يَعْبُدُونَنِي يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَ مَن كَفَرَ بَعد ذ ا لفا ولئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (النور: ۵۶) یعنی ہم تم میں سے مومن اور ایمان بالخلافت رکھنے والوں اور اس کے مطابق عمل کرنے والوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ ان کو ہم ضرور اس طرح خلیفہ بنا ئیں گے جس طرح کہ پہلی قوموں یعنی یہود اور نصاری میں سے بنائے ہیں.اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ خلافت ایک عہد ہے، پیشگوئی نہیں اور عہد مشروط ہو تا ہے لیکن پیشگوئی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ مشروط ہو.پیشگوئی مشروط ہو تو وہ مشروط رہتی ہے اور اگر مشروط نہ ہو لیکن اس میں کسی انعام کا وعدہ ہو تو وہ ضرور پوری ہو جاتی ہے.یہاں وعدہ کا لفظ بھی موجود ہے اور اس کے ساتھ شرط بھی مذکو رہے جس کے معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم نے خود اس وعدہ کی تشریح کر دی ہے کہ ہمارا یہ وعدہ کہ ہم تم میں سے مومنوں اور اعمال صالحہ بجالانے والوں کو اس طرح خلیفہ بنائیں گے جیسے ہم نے ان سے پہلے یہود و نصاریٰ میں خلیفہ بنائے ضروری نہیں کہ پورا ہو.ہاں اگر تم بعض باتوں پر عمل کرو گے تو ہمارا یہ وعدہ ضرور پورا ہو گا.پہلی شرط اس کی یہ بیان فرماتا ہے کہ وعد الله الذين امنوا منكم تمہیں خلافت پر ایمان رکھنا ہوگا چونکہ آگے خلافت کا ذکر آتا ہے اس لئے یہاں ایمان کا تعلق اس سے سمجھا جائے گا.وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ پھر تمہیں نیک اعمال بجالانے ہوں گے.اب کسی چیز پر ایمان لانے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اسے پورا کرنے کی کوشش کی جائے مثلا کسی شخص کو اس بات پر ایمان ہو کہ میں بادشاہ بننے والا ہوں یا اسے ایمان ہو کہ میں کسی بڑے عہدہ پر پہنچنے والا ہوں تو وہ اس کے لئے مناسب کوشش بھی کرتا ہے.اگر ایک طالب علم یہ سمجھے کہ وہ ایم.اے کا امتحان پاس کرے تو اس کے لئے موقعہ ہے کہ وہ پی.سی.ایس پاس کرے یا پروفیشنل سروس میں ای.اے.سی بن جائے یا اسٹنٹ کمشنر بن جائے تو پھر وہ اس کے مطابق محنت بھی کرتا ہے لیکن اگر اسے یہ یقین ہو تا ہے کہ وہ ان عہدوں کے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا تو وہ ان کے لئے کوشش
772 اور محنت بھی نہیں کرتا.اس طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو اس بات پر یقین ہو کہ وہ خلافت کے ذریعہ ہی ترقی کر سکتے ہیں اور پھر اس کی شان کے مطابق کام بھی کریں تو ہمارا وعدہ ہے کہ ہم انہیں خلیفہ بنائیں گے لیکن اگر انہیں یقین نہ ہو کہ ان کی ترقی خلافت کے ساتھ وابستہ ہے اور وہ اس کے مطابق عمل بھی نہ کرتے ہوں تو ہمارا ان سے کوئی وعدہ نہیں چنانچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت ہوئی اور پھر کیسی شاندار ہوئی.آپ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے.اس وقت انصار نے چاہا کہ ایک خلیفہ ہم میں سے ہو اور ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہو.یہ سنتے ہی حضرت ابو بکر حضرت عمر اور بعض صحابہ فورا اس جگہ تشریف لے گئے جہاں انصار جمع تھے اور آپ نے انہیں بتایا کہ دیکھو دو خلیفوں والی بات غلط ہے.تفرقہ سے اسلام ترقی نہیں کرے گا.خلیفہ بہرحال ایک ہی ہو گا.اگر تم تفرقہ کرو گے تو تمہارا شیرازہ بکھر جائے گا.تمہاری عزتیں ختم ہو جائیں گی اور عرب تمہیں تکا بوٹی کر ڈالیں گے.تم یہ بات نہ کرو.بعض انصار نے آپ کے مقابل پر دلائل پیش کرنے شروع کئے.حضرت عمر فرماتے ہیں میں نے خیال کیا کہ حضرت ابو بکر کو تو بولنا نہیں آتا.میں انصار کے سامنے تقریر کروں گا لیکن جب حضرت ابو بکر نے تقریر کی تو آپ نے وہ سارے دلائل بیان کر دیئے جو میرے ذہن میں تھے اور پھر اس سے بھی زیادہ دلائل بیان کئے.میں نے یہ دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ آج یہ بڑھا مجھ سے : گیا ہے.آخر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ خود انصار میں سے بعض لوگ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا حضرت ابو بکر جو کچھ فرما رہے ہیں وہ ٹھیک ہے.مکہ والوں کے سوا عرب کسی اور کی اطاعت نہیں کریں گے.پھر ایک انصاری نے جذباتی طور پر کہا اے میری قوم! اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں اپنا ایک رسول مبعوث فرمایا.اس کے اپنے رشتہ داروں نے اسے شہر سے نکال دیا تو ہم نے اسے اپنے گھروں میں جگہ دی اور خدا تعالیٰ نے اس کے طفیل ہمیں عزت دی.ہم مدینہ والے گمنام تھے ، ذلیل تھے مگر اس رسول کی وجہ سے ہم معزز اور مشہور ہو گئے.اب ہم اس چیز کو جس نے ہمیں معزز بنائی کافی سمجھو اور زیادہ لالچ نہ کرو.ایسا نہ ہو کہ ہمیں اس کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچے.اس وقت حضرت ابوبکر" نے فرمایا کہ دیکھو خلافت کو قائم کرنا ضروری ہے باقی تم جس کو چاہو خلیفہ بنالو.مجھے خلیفہ بننے کی کوئی خواہش نہیں.آپ نے فرمایا یہ ابو عبیدہ ہیں.ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امین الامت کا خطاب عطا فرمایا ہے ، تم ان کی بیعت کر لو.پھر عمر ہیں.یہ اسلام کے لئے ایک ننگی تلوار ہیں ، تم ان کی بیعت کر لو.حضرت عمرؓ نے فرمایا ابو بکر اب باتیں ختم کیجئے ہاتھ بڑھائیے اور ہماری بیعت لیجئے.حضرت ابو بکر کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ نے جرات پیدا کر دی اور آپ نے بیعت لے لی.بعینہ یہی واقعہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی وفات کے بعد میرے ساتھ پیش آیا جب میں نے کہا میں اس قابل نہیں کہ خلیفہ بنوں.نہ میری تعلیم ایسی ہے اور نہ تجربہ تو اس وقت بارہ چودہ سو احمد کی جو جمع تھے ، انہوں نے شور مچادیا کہ ہم آپ کے سوا اور کسی کی بیعت کرنا نہیں چاہتے.مجھے اس وقت بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں تھے.میں نے کہا مجھے تو بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں.میں بیعت کیسے لوں.اس پر ایک دوست کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ مجھے بیعت کے الفاظ یاد
ہیں.میں بیعت کے الفاظ بولتا جاتا ہوں اور آپ دہراتے جائیں چنانچہ وہ دوست بیعت نے الفاظ بولتے گئے اور میں انہیں دہرا تا گیا اور اس طرح میں نے بیعت لی.گویا پہلے دن کی بیعت دراصل کسی اور کی تھی.میں تو صرف بیعت کے الفاظ دہراتا جاتا تھا.بعد میں میں نے بیعت کے الفاظ یاد کئے.غرض اس وقت وہی حال ہو ا جو اس ہوا تھا جب حضرت ابو بکر خلیفہ منتخب ہوئے تھے.میں نے دیکھا کہ لوگ بیعت کرنے کے لئے ایک دو سرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے.مولوی محمد علی صاحب ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے کہا دوستو غور کرلو اور میری ایک بات سن لو.مجھے معلوم نہ ہوا کہ لوگوں نے انہیں کیا جواب دیا ہے کیونکہ اس وقت بہت شور تھا.بعد میں پتہ لگا کہ لوگوں نے انہیں کہا ہم آپ کی بات نہیں سنتے چنانچہ وہ مجلس سے اٹھ کر باہر چلے گئے.اس کے بعد لوگ ہجوم کر کے بیعت کے لئے بڑھے اور ایک گھنٹہ کے اندر اندر جماعت کا شیرازہ قائم ہو گیا.اس وقت جس طرح میرے ذہن میں خلافت کا کوئی خیال نہیں تھا اسی طرح یہ بھی خیال نہیں تھا کہ خلافت کے ساتھ ساتھ کون سی مشکلات مجھ پر ٹوٹ پڑیں گی.بعد میں پتہ لگا کہ پانچ چھ سو روپے ماہوار تو اسکول کے اساتذہ کی تنخواہ ہے اور پھر کئی سو کا قرضہ ہے لیکن خزانہ میں صرف سترہ روپے ہیں گویا اس مجلس سے نکلنے کے بعد محسوس ہوا کہ ایک بڑی مشکل ہمارے سامنے ہے.جماعت کے سارے مالدار تو دوسری پارٹی کے ساتھ چلے گئے ہیں اور جماعت کی کوئی آمدنی نہیں.پھر یہ کام کیسے چلیں گے لیکن بعد میں خدا تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش ہوئی تو بگڑی سنور گئی.۱۹۱۴ء میں تو میرا یہ خیال تھا کہ خزانہ میں صرف سترہ روپے ہیں اور اساتذہ کی تنخواہوں کے علاوہ کئی سو روپیہ کا قرضہ جو دینا ہے لیکن ۱۹۲۰ء میں جماعت کی یہ حالت تھی کہ جب میں نے اعلان کیا کہ ہم برلن میں مسجد بنائیں گے اس کے لئے ایک لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے تو جماعتوں کی عورتوں نے ایک ماہ کے اندر اندر یہ رو پید اکٹھا کر دیا.انہوں نے اپنے اپنے زیور اتارا تار کر دے دیئے کہ انہیں بیچ کر رو پید اکٹھا کر لیا جائے.آج میں نے عورتوں کے اجتماع میں اس واقعہ کا ذکر کیا تو میری ایک بیوی نے بتایا کہ مجھے تو اس وقت پورا ہوش نہیں تھا.میں ابھی بچی تھی اور مجھے سلسلہ کی ضرورتوں کا احساس نہیں تھا لیکن میری اماں کہا کرتی ہیں کہ جب حضور نے چندہ کی تحریک کی تو میری ساس نے (جو سید ولی اللہ شاہ صاحب کی والدہ تھیں اور میری بھی ساس تھیں) اپنی تمام بیٹیوں اور بہوؤں کو اکٹھا کیا اور کہا تم سب اپنے زیور اس جگہ رکھ دو.پھر انہوں نے ان زیورات کو بیچ کر مسجد برلن کے لئے چندہ دے دیا.اس قسم کا جماعت میں ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ سینکڑوں گھروں میں ایسا ہوا کہ عورتوں نے اپنی بیٹیوں اور بہوؤں کے زیورات اتروالئے اور انہیں فروخت کر کے مسجد برلن کے لئے دے دیا.غرض ایک ماہ کے اندراندر ایک لاکھ روپیہ جمع ہو گیا.اب دو سال ہوئے میں نے ہالینڈ میں مسجد بنانے کی تحریک کی لیکن اب تک اس فنڈ میں صرف اسی ہزار روپے جمع ہوئے ہیں حالانکہ اس وقت جماعت کی عورتوں کی تعداد اس وقت کی عورتوں سے بیسیوں گنا زیادہ ہے.اس وقت عورتوں میں اتنا جوش تھا کہ انہوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ تمع ردیا اور در حقیقت یہ جماعت کا ایمان ہی تھا جس کا اللہ تعالیٰ نے نمونہ دکھایا اور اس نے بتایا کہ میں سلسلہ کو مدد
774 دینے والا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ الهاماً فرمایا تھا کہ اگر ساری دنیا بھی تجھ سے منہ موڑلے تو میں آسمان سے اتار سکتا ہوں اور زمین سے نکال سکتا ہوں.تو حقیقت یہ ہے کہ ہم نے خلافت حقہ کی برکات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کی ہیں.ہم ایک پیسہ کے بھی مالک نہیں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے جماعت دی جس نے چندے دیئے اور سلسلہ کے کام اب تک چلتے گئے اور چل رہے ہیں اور اب تک تو جماعت خداتعالی کے فضل سے پہلے سے کئی گنا زیادہ ہے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے دینی ضرورتوں کے لئے خدا تعالٰی سے کہا کہ اے اللہ تو مجھے ایک لاکھ روپیہ دے دے تو سلسلے کے کاموں کو چلاؤں لیکن اب کل ہی میں حساب کر رہا تھا کہ میں نے خود چھ لاکھ ستر ہزار روپیہ سلسلہ کو بطور چندہ دیا ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ میں کتنا بیوقوف تھا کہ خدا تعالیٰ سے سلسلہ کی ضرورتوں کے لئے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا.مجھے تو اس سے ایک ارب روپیہ مانگنا چاہئے تھا.مانگنے والا خدا تعالی کا خلیفہ ہو اور جس سے مانگا جائے وہ خود خدا کی ذات ہو تو پھر ایک لاکھ روپیہ مانگنے کے کیا معنے ہیں.مجھے تو یہ دعا کرنی چاہئے تھی کہ اے خدا تو مجھے ایک ارب روپیہ دے ایک کھرب روپیہ دے یا ایک پدم روپیہ دے.میں نے بتایا ہے کہ اگر چہ میں نے خدا تعالیٰ سے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اتنا فضل کیا کہ صرف میں نے پیچھے سالوں میں چھ لاکھ ستر ہزار روپیہ سلسلہ کو چندہ کے طور پر دیا ہے.بے شک وہ روپیہ سالانہ نقدی کی صورت میں نہ تھا.کچھ زمین تھی جو میں نے سلسلہ کو دی مگر وہ زمین بھی خدا تعالیٰ نے ہی دی تھی.میرے پاس تو زمین ہی نہیں تھی.ہم تو اپنی ساری زمین قادیان چھوڑ آئے تھے.اپنے باغات اور مکانات بھی قادیان چھوڑ آئے تھے.قادیان میں میری جائیداد کافی تھی مگر اس کے باوجو د سلسلہ کو میں نے اتار و پیہ نہیں دیا تھا جتنا قادیان سے نکلنے کے بعد دیا تھا.۴۷ء میں ہم قادیان سے آئے ہیں اور تحریک جدید ۳۴ء میں شروع ہوئی تھی گویا اس وقت تحریک جدید کو جاری ہوئے بارہ سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اس بارہ سال کے عرصہ میں میرا تحریک جدید کا چندہ قریباً چھ ہزار روپیہ تھا لیکن بعد کے دس سال ملا کر میرا چندہ تحریک جدید دو لاکھ میں ہزار روپیہ بن جاتا ہے.اس کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی زمین میں نے تحریک جدید کو دی ہے.یہ زمین مجھے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بطور نذرانہ دی تھی.میں نے خیال کیا کہ اتنا بڑا نذرانہ اپنے پاس رکھنا درست نہیں چنانچہ میں نے وہ ساری زمین سلسلہ کو دے دی.اس طرح تین لاکھ ستر ہزار روپیہ میں نے صرف تحریک جدید کو ادا کیا.اسی طرح خلافت جو بلی کے موقعہ پر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تحریک پر جب جماعت نے مجھے روپیہ پیش کیا تو میر محمد اسحاق صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کے متعلق جو دعائیں کی ہیں، ان میں یہ دعا بھی ہے کہ ”دے اس کو عمر و دولت کر دور ہر اندھیرا " پس اس کے ذریعہ آپ کی یہ دعا پوری ہوگی.اس طرح یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگی کہ " وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا.اس پر میں نے کہا
775 کہ میں یہ روپیہ تو لے لیتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں یہ روپیہ سلسلہ کے کاموں پر ہی صرف کروں گا چنانچہ میں نے وہ روپیہ تو لے لیا لیکن میں نے اسے اپنی ذات پر نہیں بلکہ سلسلہ کے کاموں پر خرچ کیا اور صد رانجمن احمد یہ کو دے دیا.اب میں نے ہیمبرگ کی مسجد کے لئے تحریک کی ہے کہ جماعت کے دوست اس کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپیہ دیں لیکن اگر اللہ تعالی ہمیں مال دے تو ہمارے سلسلہ میں تو یہ ہونا چاہئے کہ ہمارا ایک ایک آدمی ایک ایک مسجد بنادے.خود مجھے خیال آتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے کشائش عطا فرمائے تو میں بھی اپنی طرف سے ایک مسجد بنادوں اور کوئی تعجب نہیں کہ خدا تعالیٰ مجھے اپنی زندگی میں ہی اس بات کی توفیق دے دے اور میں کسی نہ کسی یورپین ملک میں اپنی طرف سے ایک مسجد بنادوں.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دینے پر منحصر ہے.انسان کی اپنی کوشش سے کچھ نہیں ہو سکتا.ہم لوگ زمیندار ہیں اور ہمارے ملک میں زمیندارہ کی بہت ناقدری ہے یعنی یہاں لائلپور اور سرگودھا کے اضلاع کی زمینوں میں بڑی سے بڑی آمدن ایک سو روپیہ فی ایکڑ ہے حالانکہ یورپین ممالک میں فی ایکٹر آمد اس سے کئی گنا زیادہ ہے.میں جب یورپ گیا تو میں نے وہاں زمینوں کی آمد تیں پوچھنی شروع کیں تو مجھے معلوم ہوا کہ اٹلی میں فی ایکٹر چار سو روپیہ ہے اور ہالینڈ میں فی ایکٹر آمد تین ہزار روپیہ ہے.پھر میں نے میاں محمد ممتاز صاحب دولتانہ کا بیان پڑھا.وہ جاپان گئے تھے اور وہاں انہوں نے زمین کی آمدنوں کا جائزہ لیا تھا.انہوں نے بیان کیا تھا کہ جاپان میں فی ایکڑ آمد چھ ہزار روپے ہے.اس کے یہ معنے ہوئے کہ اگر میری ایک سو ایکٹر زمین بھی ہو حالانکہ وہ اس سے بہت زیادہ ہے اور اس سے ہالینڈ والی آمد ہو تو تین لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہو جاتی ہے اور اگر جاپان والی آمد ہو تو بڑی آسانی کے ساتھ ایک نہیں کئی مساجد میں اکیلا تعمیر کر سکتا ہوں.میرا یہ طریق ہے کہ میں اپنی ذات پر زیادہ روپیہ خرچ نہیں کرتا اور نہ اپنے خاندان پر خرچ کرتا ہوں بلکہ جو کچھ میرے پاس آتا ہے اس میں سے کچھ رقم اپنے معمولی اخراجات کے لئے رکھنے کے بعد سلسلہ کے لئے دے دیتا ہوں.خرچ کرنے کو تو لوگ دس دس کروڑ روپیہ بھی کر لیتے ہیں لیکن مجھے جب بھی خدا تعالیٰ نے دیا ہے ، میں نے وہ خدا تعالی کے رستے میں ہی دے دیا ہے.بے شک میرے بیوی بچے مانگتے رہیں، میں انہیں نہیں دیتا.میں انہیں کہتا ہوں کہ تمہیں وہی گزارے دوں گا جن سے تمہارے معمولی اخراجات چل سکیں.زمانہ کے حالات کے مطابق میں بعض اوقات انہیں زیادہ بھی دے دیتا ہوں مثلاً اگر وہ ثابت کر دیں کہ اس وقت گھی مہنگا ہو گیا ہے ایندھن کی قیمت چڑھ گئی ہے یا دھوبی وغیرہ کا خرچ بڑھ گیا ہے تو میں اس کے لحاظ سے زیادہ بھی دے دیتا ہوں لیکن اس طرح نہیں کہ ساری کی ساری آمدن ان کے حوالہ کردوں کہ جہاں جی چاہیں خرچ کرلیں.غرض میں گھر کے معمولی گزارہ کے لئے اخراجات رکھنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے وہ سلسلہ کو دے دیتا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ فضل کرے اور کسی وقت وہ ہمارے ملک والوں کو عقل اور سمجھ دے دے اور ہماری آمد میں بڑھ جائیں تو سال میں ایک مسجد چھوڑ دو دو مسجدیں بھی ہم بنوا سکتے ہیں اور یہ سب خلافت ہی کی برکت ہے.میں جب نیا نیا خلیفہ ہوا تو مجھے الہام ہوا کہ ”مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت.تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل
776 ہوتی ہیں " منصب خلافت صفحہ ۳۴).اس دفعہ میں نے یہ الہام لکھ کر قادیان والوں کو بھجوایا اور ان کو توجہ دلائی کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرو اور دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ وہ برکتیں تم پر ہمیشہ نازل کرتا رہے.اب خلافت کی برکات سے اس علاقہ والوں کو بھی حصہ ملنا شروع ہو گیا ہے چنانچہ اس علاقہ میں کسی زمانہ میں صرف چند احمدی تھے مگر اب ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے اور ہمیں امید ہے کہ اگر خد اتعالیٰ چاہے تو وہ ایک دو سال میں پندرہ بیس ہزار ہو جائیں گے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ' ایک دفعہ میں نے خدا تعالیٰ سے ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا لیکن اب خدا تعالٰی سے اربوں مانگا کرتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس وقت ایک لاکھ روپیہ مانگ کر غلطی کی.اس وقت یورپین اور دوسرے اہم ممالک کا شمار کیا جائے اور ان مقامات کا جائزہ لیا جائے جہاں مسجدوں کی ضرورت ہے تو ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب بن جاتی ہے اور اگر ان ڈیڑھ سو مقامات پر ایک ایک مسجد بھی بنائی جائے اور ہر ایک مسجد پر ایک ایک لاکھ روپیہ خرچ کیا جائے تو ان پر ڈیڑھ کروڑ روپیہ خرچ ہو جائے گا.....اور پھر بھی صرف مشہور ممالک میں ایک ایک مسجد بنے گی.پھر ایک ایک لاکھ روپیہ سے ہمارا کیا بنتا ہے.ہمارا صرف مبلغوں کا سالانہ خرچ سوالاکھ روپیہ کے قریب بنتا ہے اور اگر اس خرچ کو بھی شامل کیا جائے جو بیرونی جماعتیں کرتی ہیں تو یہ خرچ ڈیڑھ دولاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے.غرض میں نے اس سے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا مگر اس نے مجھے اس سے بہت زیادہ دیا.اب ہماری صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ تیرہ لاکھ روپیہ کا ہے اور اگر تحریک جدید کے سالانہ بجٹ کو بھی ملا لیا جائے تو ہمار ا سالانہ بجٹ بائیں ، تئیس لاکھ روپے سالانہ بن جاتا ہے.پس اگر خداتعالی میری اس بیوقوفی کی دعا کو قبول کر لیتا تو ہمارا سارا کام ختم ہو جا تا مگر اللہ تعالیٰ نے کہا ہم تیری اس دعا کو قبول نہیں کرتے جس میں تو نے ایک لاکھ مانگا ہے.ہم تجھے اس سے بہت زیادہ دیں گے تاکہ سلسلہ کے کام چل سکیں.اب اللہ تعالی کے اس انعام کو دیکھ کر میں نے ایک لاکھ مانگا تھا مگر اس نے بائیس لاکھ سالانہ دیا میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں ایک کروڑ مانگتا تو بائیس کروڑ سالانہ ملتا.ایک ارب مانگتا تو بائیس ارب سالانہ ملتا.ایک کھرب مانگتا تو با ئیس کھرب سالانہ ملتا اور اگر ایک پرم مانگتا تو بائیں پدم سالانہ ملتا اور اس طرح ہماری جماعت کی آمد امریکہ اور انگلینڈ دونوں کی مجموعی آمد سے بھی بڑھ جاتی.پس خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت سی برکات وابستہ کی ہوئی ہیں.تم ابھی بچے ہو.تم اپنے باپ دادوں سے پوچھو کہ قادیان کی حیثیت جو شروع زمانہ خلافت میں تھی ، وہ کیا تھی اور پھر قادیان کو اللہ تعالٰی نے کس قدر ترقی بخشی تھی.جب میں خلیفہ ہوا تو پیغامیوں نے اس خیال سے کہ جماعت کے لوگ خلافت کو کسی طرح نہیں چھوڑ سکتے یہ تجویز کی کوئی اور خلیفہ بنالیا جائے.ان دنوں ضلع سیالکوٹ کے ایک دوست میر عابد علی عابد صاحب تھے.وہ صوفی منش آدمی تھے لیکن بعد میں پاگل ہو گئے تھے.ایک دفعہ انہیں خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو خدا تعالیٰ نے وعدے کئے تھے ' : میرے ساتھ بھی ہیں اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا تھا کہ قادیان میں طاعون نہیں آئے گی اس لئے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے برابر ہوں تو خدا تعالیٰ کا یہی وعدہ میرے ساتھ بھی
777 ہے ، میرے گاؤں میں بھی طاعون نہیں آئے گی چنانچہ جب طاعون کی وبا پھوٹی تو انہوں نے اپنے اس خیال کے مطابق اپنے مریدوں سے جو تعداد میں پانچ سات سے زیادہ نہیں تھے ، کہا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ کر ان کے پاس آجا ئیں چنانچہ وہ ان کے پاس آگئے لیکن بعد میں انہیں خود طاعون ہو گئی.ان کے مریدوں نے کہا کہ چلو اب جنگل میں چلیں لیکن انہوں نے کہا جنگل میں جانے کی ضرورت نہیں.طاعون مجھ پر اثر نہیں کرے گی.آخر جب مریدوں نے دیکھا کہ وہ پاگل ہو گئے ہیں تو وہ انہیں ہسپتال میں لے گئے اور وہ اسی جگہ طاعون سے فوت ہو گئے.بهر حال جب بیعت خلافت ہوئی تو پیغامیوں نے سمجھا، میر عابد علی عابد صاحب چونکہ صوفی منش آدمی ہیں اور عبادت گزار ہیں اس لئے الوصیت کے مطابق چالیس آدمیوں کا ان کی بیعت میں آجانا کوئی مشکل امر نہیں چنانچہ مولوی صدر الدین صاحب اور بعض دوسرے لوگ رات کو ان کے پاس گئے اور کہا آپ اس بات کے لئے تیار ہو جائیں چنانچہ وہ اس بات پر آمادہ ہو گئے.اس وقت مولوی محمد علی صاحب نے دیانتداری سے کام لیا.وہ جب اس مجلس سے واپس آگئے جس میں جماعت نے مجھے خلیفہ منتخب کیا تھا تو ان لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ نے بڑی بیوقوفی کی.آپ اگر مجلس میں اعلان کر دیتے کہ میری بیعت کر لو تو چونکہ مرزا محمود احمد صاحب یہ کہہ چکے تھے کہ میں خلیفہ بننا نہیں چاہتا، لوگوں نے آپ کی بیعت کر لینی تھی اور ان کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی آپ کی بیعت کر لیتے.انہوں نے کہا میں یہ کام کیسے کر سکتا تھا.میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ خلافت کی کوئی ضرورت نہیں.بهر حال جب ان لوگوں نے دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب خلیفہ بننے کے لئے تیار نہیں تو انہوں نے جیسا کہ میں نے بتایا ہے ، میر عابد علی صاحب کو بیعت لینے کے لئے آمادہ کیا اور اس کے بعد وہ ہری کین لے کر ساری رات قادیان میں دو ہزار احمدیوں کے ڈیروں پر پھرتے رہے لیکن انہیں چالیس آدمی بھی سید عابد علی عابد شاہ صاحب کی بیعت کرنے والے نہ ملے.اس وقت کے احمدیوں کا ایمان اس قدر پختہ تھا کہ غریب سے غریب احمدی بھی کروڑوں تھوکنے کے لئے تیار نہیں تھا.وہ نہیں چاہتا تھا کہ جماعت میں فتنہ اور تفرقہ پھیلے.جب انہیں میر عابد علی صاحب کی بیعت کے لئے چالیس آدمی بھی نہ ملے تو وہ مایوس ہو کر واپس چلے گئے.غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافت حقہ کی وجہ سے کئی معجزات دکھائے ہیں.تم دیکھ لو ۳۴ء میں مجلس احرار نے جماعت پر کس طرح حملہ کیا تھا لیکن وہ اس حملہ میں کس طرح ناکام ہوئے.انہوں نے منہ کی کھائی.پھرے ۴ء میں قادیان میں کیا خطر ناک وقت آیا لیکن ہم نہ صرف احمدیوں کو بحفاظت نکال لائے بلکہ انہیں لاریوں میں سوار کر کے پاکستان لے آئے.دوسرے لوگ جو پیدں آئے تھے ، ان میں سے اکثر مارے گئے لیکن قادیان کے رہنے والوں کا بال تک بیکا نہیں ہوا.اب بھی کچھ دن ہوئے مجھے ایک آدمی ملا.اس نے مجھے بتایا کہ آپ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ میری اجازت کے بغیر کوئی شخص قادیان سے نہ نکلے چنانچہ ہم نے تو آپ کے حکم کی تعمیل کی اور وہاں عمر ے رہے لیکن میرے ایک رشتہ ، ار گھبرا کر ایک قافلہ کے ساتھ پیدن آگئے اور راستہ میں ہی مارے گئے.ہم جو وہاں بیٹھے رہے الماریوں میں سوار ہو کر حفاظت سے پاکستان آگئے.اس وقت اکثر ایسا ہوا کہ پیدن قافلے پاکستان کی طرف آئے اور جب وہ روپیه پر
778 بارڈر کراس کرنے لگے تو سکھوں نے انہیں آلیا اور وہ مارے گئے.بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ پیدل قافلہ قادیان سے نکلتے ہی سکھوں کے ہاتھوں مارا گیا اور اگر وہاں سے محفوظ نکل آیا تو بٹالہ آکر یا فتح گڑھ چوڑیاں کے پاس مارا گیا لیکن وہ میری ہدایت کے مطابق قادیان میں بیٹھے رہے اور میری اجازت کا انتظار کرتے رہے.وہ سلامتی کے ساتھ لاریوں میں سوار ہو کر لاہور آئے.غرض ہر میدان میں خدا تعالیٰ نے جماعت کو خلافت کی برکات سے نوازا ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت انہیں یاد رکھے مگر بڑی مصیبت یہ ہے کہ لوگ انہیں یاد نہیں رکھتے.پچھلے مہینے میں ہی میں نے ایک رویا دیکھا تھا کہ کوئی غیر مرئی وجود مجھے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو وقفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کس طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے یا جب آپ کسی خاص طرف مڑیں تو کسی سرعت کے ساتھ آپ کے ساتھ مڑتی ہے یا جب آپ اپنی منزل مقصود کی طرف جائیں تو وہ کس طرح اسی منزل مقصود کو اختیار کر لیتی ہے.(الفضل ۵ ستمبر ۱۹۵۷ء) اب دیکھو یہ فتنہ بھی جماعت کے لئے ایک آزمائش تھی لیکن بعض لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے کہ اس میں حصہ لینے والے حضرت خلیفہ اول کے لڑکے ہیں.انہوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بھی آپ کا انکار کیا تھا اور اس انکار کی وجہ سے وہ عذاب الہی سے بچ نہ سکا.پھر حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی اولاد کے اس فتنہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے ہمیں کس بات کا خوف ہے.اگر وہ فتنہ میں ملوث ہیں تو خدا تعالیٰ ان کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا.شروع شروع میں جب فتنہ اٹھا تو چند دنوں تک بعض دوستوں کے گھبراہٹ کے خطوط آئے اور انہوں نے لکھا کہ ایک چھوٹی سی بات کو بڑا بنا دیا گیا ہے.اللہ رکھا کی بھلا حیثیت ہی کیا ہے لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد ساری جماعت اپنے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ان لوگوں سے نفرت کرنے لگ گئی اور مجھے خطوط آنے شروع ہوئے کہ آپ کے اور بھی بہت سے کارنامے ہیں مگر اس بڑھاپے کی عمر میں اور ضعف کی حالت میں جو یہ کارنامہ آپ نے سرانجام دیا ہے، یہ اپنی شان میں دو سرے کارناموں سے بڑھ گیا ہے.آپ نے بڑی جرات اور ہمت کے ساتھ ان لوگوں کو نگا کر دیا ہے جو بڑے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور سلسلہ کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے.اس طرح آپ نے جماعت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچالیا ہے.مری میں مجھے ایک غیر احمدی کرنیل ملے.انہوں نے کہا کہ جو واقعات ۵۳ء میں احمدیوں پر گزرے تھے وہ اب پھر ان پر گزرنے والے ہیں اس لئے آپ ابھی سے تیاری کرلیں اور میں آپ کو یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ ۵۳ء میں تو پولیس اور ملٹری نے آپ کی حفاظت کی تھی لیکن اب وہ آپ کی حفاظت نہیں کرے گی کیونکہ اس وقت جو واقعات پیش آئے تھے ان کی وجہ سے وہ ڈر گئی ہے.جب وہ خاموش ہوئے تو میں نے کہا کرنل صاحب پچھلی دفعہ میں نے کون سا تیر مارا تھا جو اب ماروں گا.پچھلی دفعہ بھی خدا تعالٰی نے ہی جماعت کی حفاظت کے سامان کئے تھے اور اب بھی وہی اس کی حفاظت کرلے گا.جب میرا خدا زندہ ہے تو مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے.میری اس بات کا کرنل صاحب پر گہرا اثر ہوا چنانچہ جب میں ان کے پاس سے اٹھا اور دہلیز سے باہر نکلنے لگا تو وہ کہنے
779 لگے فیتھ از بلائنڈ (faith is blind یعنی یقین اور ایمان اندھا ہوتا ہے ، وہ خطرات کی پرواہ نہیں کرتا.جب کسی شخص میں ایمان پایا جاتا ہو تو اسے آنے والے مصائب کا کوئی فکر نہیں ہو تا.جب منافقین کا فتنہ اٹھا تو انہی کرنل صاحب نے ایک احمدی افسر کو جو ان کے قریب ہی رہتے تھے ، بلایا اور کہا کہ میری طرف سے مرزا صاحب کو کہہ دینا کہ آپ نے یہ کیا کیا ہے.اللہ رکھا کی بھلا حیثیت ہی کیا تھی ، اس مضمون سے اسے بلا ضرورت شہرت مل جائے گی.میں نے اس احمدی دوست کو خط لکھا کہ میری طرف سے کرنل صاحب کو کہہ دینا کہ آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ جماعت پر ۵۳ ء والے واقعات دوبارہ آنے والے ہیں.آپ ابھی سے تیاری کر لیں.اب جب کہ میں نے اس بارہ میں کارروائی کی ہے تو آپ نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ آپ خواہ مخواہ فتنہ کو ہوا دے رہے ہیں.جب میں دوبارہ مری گیا تو میں نے اس احمدی دوست سے پوچھا کہ کیا میرا خط آپ کو مل گیا تھا اور آپ نے کرنل صاحب کو میرا پیغام پہنچا دیا تھا.انہوں نے کہا ہاں میں نے پیغام دے دیا تھا اور انہوں نے بتایا تھا کہ اب میری تسلی ہو گئی ہے.شروع میں میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ معمولی بات ہے لیکن اب جب کہ پیغامی اور غیر احمدی دونوں فتنہ پردازوں کے ساتھ مل گئے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ عقلمندی اور کوئی نہیں تھی کہ آپ نے وقت پر اس فتنہ کو بھانپ لیا اور شرارت کو بے نقاب کر دیا.غرض خدا تعالی ہر فتنہ اور مصیبت کے وقت جماعت کی خود حفاظت فرماتا ہے چنانچہ فتنہ تو اب کھڑا کیا گیا ہے لیکن خدا تعالٰی نے ۱۹۵۰ء میں ہی کو ئٹہ کے مقام پر مجھے بتا دیا تھا کہ بعض ایسے لوگوں کی طرف میفتنہ اٹھایا جانے والا ہے جن کی رشتہ داری میری بیویوں کی طرف سے ہے چنانچہ دیکھ لو عبد الوہاب میری ایک بیوی کی طرف سے رشتہ دار ہے.میری اس سے جدی رشتہ داری نہیں.پھر میری ایک خواب جنوری ۳۵ء میں الفضل میں شائع ہو چکی ہے.اس میں بتایا گیا تھا کہ میں کسی پہاڑ پر ہوں کہ خلافت کے خلاف جماعت میں ایک فتنہ پیدا ہوا ہے چنانچہ جب موجودہ فتنہ ظاہر ہوا اس وقت میں مری میں ہی تھا.پھر اس خواب میں میں نے سیالکوٹ کے لوگوں کو دیکھا جو موقع کی نزاکت کو سمجھ کر جمع ہو گئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ ان لوگوں کو بھی دیکھا جو باغی تھے.یہ خواب بھی بڑے شاندار طور پر پوری ہوئی چنانچہ اللہ رکھا سیالکوٹ کا ہی رہنے والا ہے.جب میں نے اس کے متعلق الفضل میں مضمون لکھا کہ تو خود اس کے حقیقی بھائیوں نے مجھے لکھا کہ پہلے تو ہمارا یہ خیال تھا کہ شاید اس پر ظلم ہو رہا ہے لیکن اب ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ وہ پیغامی ہے اور اس نے ہمیں جو خطوط لکھے ہیں ، وہ پیغامیوں کے پتہ سے لکھے ہیں پس ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں.ہم خلافت سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں.اب دیکھ لو ۳۴ء میں مجھے اس فتنہ کا خیال کیسے آسکتا تھا.پھر ۵۰ ء والی خواب بھی مجھے یاد نہیں تھی.۵۰ء میں میں جب سندھ سے کوئٹہ گیا تو اپنی ایک لڑکی کو جو بیمار تھی ساتھ لے گیا.اس نے اب مجھے یاد کرایا کہ ۵۰ء میں آپ نے ایک خواب دیکھی تھی جس میں یہ ذکر تھا کہ آپ کے رشتہ داروں میں سے کسی
780 نے خلافت کے خلاف فتنہ اٹھایا ہے.میں نے مولوی محمد یعقوب صاحب کو وہ خواب تلاش کرنے پر مقرر کیا چنانچہ وہ الفضل سے خواب تلاش کر کے لے آئے.اب دیکھو خدا تعالیٰ نے کتنی دیر پہلے مجھے اس فتنہ سے آگاہ کر دیا تھا اور پھر کس طرح یہ خواب حیرت انگیز رنگ میں پورا ہوا.ہماری جماعت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ منافقت کی جڑ کو کاٹنا نہایت ضروری ہوتا ہے.اگر اس کی جز کو نہ کاٹا جائے تو وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا منكم وعملوا الصلحت ليستخلفتهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جماعت سے جو وعدہ فرمایا ہے ، اس کے پورا ہونے میں شیطان کئی قسم کی رکاوٹیں حائل کر سکتا ہے.دیکھو خد اتعالیٰ کا یہ کتنا شاندار وعدہ تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پورا ہوا.حضرت ابو بکر کی خلافت صرف اڑھائی سال کی تھی لیکن اس عرصہ میں خدا تعالیٰ نے جو تائید و نصرت کے نظارے دکھائے وہ کتنے ایمان افزا تھے.حضرت ابو بکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ادنی غلام تھے لیکن انہوں نے اپنے زمانہ خلافت میں رومی فوجوں کو گاجر مولی کو طرح کاٹ کر رکھ دیا.آخر اڑھائی سال کے عرصہ میں لاکھوں مسلمان تو نہیں ہو گئے تھے.اس وقت قریب قریباً وہی مسلمان تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے لیکن خلافت کی برکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں میں وہ شان اور امنگ اور جرات پیدا کی کہ انہوں نے اپنے مقابل پر بعض اوقات دو دو ہزار گنا زیادہ تعداد کے لشکر کو بری طرح شکست کھانے پر مجبور کر دیا.اس کے بعد حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا تو آپ نے ایک طرف رومی سلطنت کو شکست دی تو دوسری طرف ایران کی طاقت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر کے رکھ دیا.پھر حضرت عثمان کی خلافت کا دور آیا.اس دور میں اسلامی فوج نے آذربائیجان تک کا علاقہ فتح کر دیا اور پھر بعض مسلمان افغانستان اور ہندوستان آئے اور بعض افریقہ چلے گئے اور ان ممالک میں انہوں نے اسلام کی اشاعت کی.یہ سب خلافت کی ہی برکات تھیں.یہ برکات کیسے ختم ہو ئیں؟ یہ اسی لئے ختم ہو ئیں کہ حضرت عثمان کے آخری زمانہ خلافت میں مسلمانوں کا ایمان بالخلافت کمزور ہو گیا اور انہوں نے خلافت کو قائم رکھنے کے لئے صحیح کو شش اور جدوجہد کو ترک کر دیا.اس پر اللہ تعالی نے بھی وعد الله الذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيُستخلَفَتْهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلف الذين من قبلهم كا وعدہ واپس لے لیا لیکن عیسائیوں میں دیکھ لو انہیں سو سال سے برابر خلافت چلی آرہی ہے اور آئندہ بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے.آخر یہ تفاوت کیوں ہے اور کیوں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت تمہیں سال کے عرصہ میں ختم ہو گئی.اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں نے خلافت کی قدر نہ کی اور اس کی خاطر قربانی کرنے سے انہوں نے دریغ کیا.جب باغیوں نے حضرت عثمان پر حملہ کیا تو آپ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ اے لوگو میں وہی کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے حضرت ابو بکر اور عمر کیا کرتے تھے.میں نے کوئی نئی بات نہیں کی لیکن تم فتنہ پرداز لوگوں کو اپنے گھروں میں آنے دیتے ہو اور ان سے باتیں کرتے ہو.اس سے یہ لوگ دلیر ہو گئے ہیں لیکن تمہاری اس غفلت کا
781 نتیجہ یہ ہو گا کہ خلافت کی برکات ختم ہو جائیں گی اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا.اب دیکھ لو وہی ہوا جو حضرت عثمان نے فرمایا تھا.حضرت عثمان کا شہید ہو نا تھا کہ مسلمان بکھر گئے اور آج تک وہ جمع نہیں ہوئے.ایک زمانہ وہ تھا کہ جب روم کے بادشاہ نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ میں اختلاف دیکھا تو اس نے چاہا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے ایک لشکر بھیجے.اس وقت رومی سلطنت کی ایسی ہی طاقت تھی جیسی اس وقت امریکہ کی ہے.اس کی لشکر کشی کا ارادہ دیکھ کر ایک پادری نے جو بڑا ہو شیار تھا کہا بادشاہ سلامت آپ میری بات سن لیں اور لشکر کشی کرنے سے اجتناب کریں.یہ لوگ اگر چہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن آپ کے مقابلہ میں متحد ہو جائیں گے اور باہمی اختلاف کو بھول جائیں گے.پھر اس نے کہا آپ دو کتے منگوا ئیں اور انہیں ایک عرصہ تک بھو کا ر کھیں پھر ان کے آگے گوشت ڈال دیں.وہ آپس میں لڑنے لگ جائیں گے.اگر آپ انہی کتوں پر شیر چھوڑ دیں تو وہ دونوں اپنے اختلاف کو بھول کر شیر پر جھپٹ پڑیں گے.اس مثال سے اس نے یہ بتایا کہ تو چاہتا ہے کہ اس وقت حضرت علی اور معاویہ کے اختلاف سے فائدہ اٹھالے لیکن میں یہ بتا دیتا ہوں کہ جب بھی کسی بیرونی دشمن سے لڑنے کا سوال پیدا ہو گا، یہ دونوں اپنے باہمی اختلافات کو بھول جائیں گے اور دشمن کے مقابلہ میں متحد ہو جائیں گے اور ہوا بھی یہی.جب حضرت معاویہ کو روم کے بادشاہ کے ارادہ کا علم ہوا تو آپ نے اسے پیغام بھیجا کہ تو چاہتا ہے کہ ہمارے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں پر حملہ کرے لیکن میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میری حضرت علی کے ساتھ بے شک لڑائی ہے لیکن اگر تمہار الشکر حملہ آور ہوا تو حضرت علی کی طرف سے اس لشکر کا مقابلہ کرنے کے لئے جو سب سے پہلا جرنیل نکلے گا وہ میں ہوں گا.اب دیکھ لو حضرت معاویہ حضرت علی سے اختلافات رکھتے تھے لیکن اس اختلاف کے باوجود انہوں نے رومی بادشاہ کو ایسا جواب دیا جو اس کی امیدوں پر پانی پھیر نے والا تھا لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی اولاد کا یہ حال ہے کہ انہیں اتنی بھی توفیق نہ ملی کہ پیغامیوں سے کہتے کہ تم تو ساری عمر ہمارے باپ کو گالیاں دیتے رہے ہو پھر ہمارا تم سے کیا تعلق ہے.انہیں وہ گالیاں بھول گئیں جو ان کے باپ کو دی گئی تھیں اور چپ کر کے بیٹھے رہے.انہوں نے ان کی تردید نہ کی اور تردید بھی انہوں نے اس لئے نہ کی کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو شاید پیغامی ہماری تائید نہ کریں حالانکہ اگر ان کے اندر ایمان تھا تو یہ لوگ کہتے ، ہمارا ان لوگوں سے کیا تعلق ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی دو نقار پر موجود ہیں جن میں آپ نے بیان فرمایا ہے کہ یہ لوگ مجھے خلافت سے دستبردار کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ کون ہیں مجھے دستبردار کرنے والے.مجھے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اس لئے وہی خلافت کی حفاظت کرے گا.اگر یہ لوگ میری بات نہیں سنتے تو اپنے باپ کی بات تو سن لیتے.وہ کہتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے.اب کسی شخص یا جماعت کی طاقت نہیں کہ وہ مجھے معزول کر سکے اسی طرح میں بھی کہتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے پھر یہ لوگ مجھے معزول کیسے کر سکتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک جماعت کو پکڑ کر میرے ہاتھ پر جمع کر دیا تھا اور اس وقت جمع کر دیا تھا جب تمام بڑے بڑے احمدی میرے مخالف ہو گئے تھے اور کہتے تھے کہ اب خلافت ایک بچے کے
782 ہاتھ میں آگئی ہے اس لئے جماعت آج نہیں تو کل تباہ ہو جائے گی لیکن اس بچہ نے بیالیس سال تک پیغامیوں کا مقابلہ کر کے جماعت کو جس مقام تک پہنچایا وہ تمہارے سامنے ہے.شروع میں ان لوگوں نے کہا تھا کہ اٹھانوے فی صدی احمدی ہمارے ساتھ ہیں لیکن اب وہ دکھائیں کہ جماعت کا اٹھانوے فی صدی جو ان کے ساتھ تھا کہاں ہے ؟ کیا وہ اٹھانوے فی صدی احمدی ملتان میں ہیں ، لاہور میں ہیں ، آخر وہ کہاں ہیں.کہیں بھی دیکھ لیا جائے ان کے ساتھ جماعت کے دوفی صدی بھی نہیں نکلیں گے.مولوی نور الحق صاحب انور مبلغ امریکہ کی الفضل میں چٹھی چھپی ہے کہ عبد المنان نے ان سے ذکر کیا کہ پشاور سے بہت سے پیغامی انہیں لینے کے لئے آئے.امیر جماعت احمد یہ پشاور یہاں آئے.میں نے انہیں کہا کہ میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کا جواب چھپا ہے آپ وہ کیوں نہیں خریدتے تو انہوں نے کہا پشاور میں دو سے زیادہ پیغامی نہیں ہیں لیکن ان کے مقابل پر وہاں ہماری دو مساجد بن چکی ہیں اور خدا تعالٰی کے فضل سے جماعت وہاں کثرت سے پھیل رہی ہے.پیغامیوں کا وہاں یہ حال ہے کہ شروع شروع میں وہاں احمدیت کے لیڈر پیغامی ہی تھے لیکن اب بقول امیر صاحب جماعت احمد یہ پشاو روہاں دو پیغامی ہیں.پس میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی اولاد کسی لالچ میں آگئی ہے.کیا صرف ایک مضمون کا پیغام صلح میں چھپ جانا ان کے لئے لالچ کا موجب ہو گیا.اگر یہی ہوا تو یہ کتنی ذلیل بات ہے.اگر پاکستان کی حکومت یہ کہہ دیتی کہ ہم حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی اولاد کو مشرقی پاکستان کا صوبہ دے دیتے ہیں یا وہ کہتے کہ انہیں مغربی پاکستان دے دیتے ہیں ، تب تو ہم سمجھ لیتے کہ انہوں نے اس لالچ کی وجہ سے جماعت میں تفرقہ اور فساد پیدا کرنا منظور کر لیا ہے لیکن یہاں تو یہ لالچ بھی نہیں.حضرت خلیفہ اول ایک مولوی کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ اس نے ایک شادی شدہ لڑکی کا نکاح کسی دوسرے مرد سے پڑھ دیا.لوگ حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے پاس آئے اور کہنے لگے فلاں مولوی جو آپ سے ملنے آیا کرتا ہے اس نے فلاں شادی شدہ لڑکی کا نکاح فلاں مرد سے پڑھ دیا ہے.مجھے اس سے بڑی حیرت ہوئی اور میں نے کہا کہ اگر وہ مولوی صاحب مجھے ملنے آئے تو میں ان سے ضرور دریافت کروں گا کہ کیا بات ہے چنانچہ جب وہ مولوی صاحب مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں نے ان سے ذکر کیا کہ آپ کے متعلق میں نے فلاں بات سنی ہے.میرا دل تو نہیں مانتا لیکن چونکہ یہ بات ایک معتبر شخص نے بیان کی ہے اس لئے میں اس کا ذکر آپ سے کر رہا ہوں.کیا یہ بات درست ہے کہ آپ نے ایک شادی شدہ عورت کا ایک اور مرد سے نکاح کر دیا ہے.وہ کہنے لگا مولوی صاحب تحقیقات سے پہلے بات کرنی درست نہیں ہوتی.آپ پہلے مجھ سے پوچھ تو لیں کہ کیا بات ہوئی ہے.میں نے کہا اسی لئے تو میں نے اس بات کا آپ سے ذکر کیا ہے.اس پر وہ کہنے لگا بے شک یہ درست ہے کہ میں نے ایک شادی شدہ عورت کا دوسری جگہ نکاح پڑھ دیا ہے لیکن مولوی صاحب ! جب انہوں نے میرے ہاتھ پر چڑیا جتنا روپیہ رکھ دیا تو پھر میں کیا کرتا.پس اگر حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی اولاد کو حکومت پاکستان یہ لالچ دے دیتی کہ مشرقی پاکستان یا مغربی پاکستان تمہیں دے دیا جائے گا تو ہم سمجھ لیتے
783 کہ یہ مثال ان پر صادق آجاتی ہے جس طرح اس مولوی نے روپیہ دیکھ کر خلاف شریعت نکاح پر نکاح پڑھ دیا تھا انہوں نے بھی لالچ کی وجہ سے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے مگر یہاں تو چڑیا چھوڑا نہیں کسی نے مردہ مچھر بھی نہیں دیا حالانکہ یہ اولاد اس عظیم الشان باپ کی ہے جو اس قدر حوصلہ کا مالک تھا کہ ایک دفعہ جب آپ قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ مجھے آپ کے متعلق الہام ہوا ہے کہ اگر آپ اپنے وطن گئے تو اپنی عزت کھو بیٹھیں گے.اس پر آپ نے وطن واپس جانے کا نام تک نہ لیا.اس وقت تک آپ اپنے وطن بھیرہ میں ایک شاندار مکان بنا رہے تھے.جب میں بھیرہ گیا تو میں نے بھی یہ مکان دیکھا تھا.اس میں آپ ایک شاندار ہال بنوا ر ہے تھے تاکہ اس میں بیٹھ کر درس دیں اور مطلب بھی کیا کریں.موجودہ زمانہ کے لحاظ سے تو وہ مکان زیادہ حیثیت کا نہ تھا لیکن جس زمانہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے یہ قربانی کی تھی ،اس وقت جماعت کے پاس زیادہ مال نہیں تھا.اس وقت اس جیسا مکان بنانا بھی ہر شخص کا کام نہیں تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے بعد آپ نے واپس جا کر اس مکان کو دیکھا تک نہیں.بعض دوستوں نے کہا بھی کہ آپ ایک دفعہ جاکر مکان تو دیکھ آئیں لیکن آپ نے فرمایا کہ میں نے اسے خدا تعالی کے لئے چھوڑ دیا ہے.اب اسے دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں.ایسے عظیم الشان باپ کی اولاد ایک مردہ مچھر سے بھی حقیر چیز پر اگری.پھر دیکھو حضرت خلیفتہ المسیح الاول تو اس شان کے انسان تھے کہ وہ اپنا عظیم الشان مکان چھو ڑ کر قادیان آگئے لیکن آپ کے پوتے کہتے ہیں کہ قادیان میں ہمارے دادا کی بڑی جائیداد تھی جو ساری کی ساری مرزا صاحب کی اولاد نے سنبھال لی ہے حالانکہ جماعت کے لاکھوں آدمی قادیان میں جاتے رہے ہیں اور ہزاروں وہاں رہے ہیں.اب بھی کئی لوگ قادیان گئے ہیں ، انہیں پتہ ہے کہ وہاں حضرت خلیفتہ المسیح الاول کا صرف ایک کچا مکان تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی بڑی جائیداد تھی مگر وہ جائیداد مادی نہیں بلکہ روحانی تھی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور ہر احمدی کے دل میں آپ کا ادب واحترام پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجو داگر آپ کی اولاد خلافت کے مقابلہ میں کھڑی ہو گی تو ہر مخلص احمدی انہیں نفرت سے پرے پھینک دے گا اور ان کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کرے گا.آخر میں خدام کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خلافت کی برکات کو یاد رکھیں اور کسی چیز کو یاد رکھنے کے لئے پرانی قوموں کا یہ دستور ہے کہ وہ سال میں اس کے لئے خاص طور پر ایک دن مناتی ہیں مثلا شیعوں کو دیکھ لو وہ سال میں ایک دفعہ تعزیہ نکال لیتے ہیں تا قوم کو شہادت حسین " کا واقعہ یاد رہے اسی طرح میں بھی خدام کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سال میں ایک دن خلافت ڈے کے طور پر منایا کریں.اس میں وہ خلافت کے قیام پر خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کریں اور اپنی پرانی تاریخ کو دہرایا کریں.پرانے اخبارات کا ملنا تو مشکل ہے لیکن الفضل نے پچھلے دنوں ساری تاریخ کو از سر نو بیان کر دیا ہے.اس میں وہ گالیاں بھی آگئی ہیں جو پیغامی
784 لوگ حضرت خلیفتہ المسیح الاول کو دیا کرتے تھے اور خلافت کی تائید میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے جو دعوے کئے ہیں وہ بھی نقل کر دیئے گئے ہیں.تم اس موقعہ پر اخبارات سے یہ حوالے پڑھ کر سناؤ.اگر سال میں ایک دفعہ خلافت ڈے منالیا جایا کرے تو ہر سال چھوٹی عمر کے بچوں کو پرانے واقعات یاد ہو جایا کریں گے.پھر تم یہ جسے قیامت تک کرتے چلے جاؤ تا جماعت میں خلافت کا ادب اور اس کی اہمیت قائم رہے.حضرت مسیح علیہ السلام کی خلافت انیس سو سال سے برابر قائم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو درجہ میں ان سے بڑے ہیں خدا کرے کہ ان کی خلافت دس ہزار سال تک قائم رہے مگر یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ تم سال میں ایک دن اس غرض کے لئے خاص طور پر منانے کی کوشش کرو.میں مرکز کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ وہ بھی ہر سال سیرت النبی کے جلسوں کی طرح خلافت ڈے منایا کرے اور ہر سال یہ بتایا کرے کہ جلسہ میں ان مضامین پر تقاریر کی جائیں.الفضل سے مضامین پڑھ کر نوجوانوں کو بتایا جائے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے خلافت احمدیہ کی تائید میں کیا کچھ فرمایا ہے اور پیغامیوں نے اس کے رد میں کیا کچھ لکھا ہے اسی طرح وہ رویا و کشوف بیان کئے جایا کریں جو وقت سے پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے دکھائے اور جن کو پورا کر کے خدا تعالیٰ نے ثابت کر دیا کہ اس کی برکات اب بھی خلافت سے وابستہ ہیں.پھر جیسا کہ میں نے مری میں ایک خطبہ جمعہ میں بیان کیا تھا کہ تم درود کثرت سے پڑھا کرو.نبی کثرت سے کیا کرو.دعائیں کثرت سے کیا کرو تا خدا تمہیں رویا اور کشوف دکھائے.پرانے احمدی جنہیں رویا اور کشوف ہوتے تھے ، اب کم ہو رہے ہیں.میں نے دیکھا تھا کہ خطبہ کے تھوڑے ہی دن بعد مجھے خطوط آنے شروع ہوئے کہ آپ کی ہدایات کے مطابق ہم نے درود پڑھنا شروع کیا، تسبیح پڑھنا شروع کی اور دعاؤں پر زور دیا تو ہمیں خدا تعالیٰ نے رویا اور کشوف سے نوازا.ان دنوں ڈاک میں اکثر چٹھیاں اس مضمون کی آیا کرتی تھیں اور انہیں پڑھ کر لطف آیا کرتا تھا.اب ان چٹھیوں کا سلسلہ کم ہو گیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ درود پڑھنے ، تسبیح کرنے اور دعائیں کرنے کی عادت پھر کم ہو گئی ہے.یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ سے بات کرنا معمولی امر نہیں.خدا تعالیٰ سے بات کرنا بڑے ایمان کی بات ہے.اگر کہیں صدر پاکستان سکندر مرزا آجائیں اور تمہیں پتہ لگ جائے کہ تم میں سے ہر ایک کو ان سے ملاقات کا موقع مل جائے گا تو تمہیں کتنی خوشی ہو اور تم کتنے شوق سے ان کی ملاقات کے لئے جاؤ پھر اللہ تعالیٰ جو کائنات عالم کا مالک ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجنے والا ہے، اس کے متعلق اگر تمہیں معلوم ہو کہ وہ ہر ایک سے مل سکتا ہے تو کتنی بد قسمتی ہو گی کہ اس سے ملنے کی کو شش نہ کی جائے.پس تم خد ابعالی سے عاجزانہ دعائیں کرو اور کہو اے خدا ہم تیرے کمزور بندے ہیں تو ہمیں طاقت دے تو ہمیں بیچ دکھا اور تم ہم سے کلام کر تاکہ ہمارے دلوں کو اطمینان میسر ہوں پھر جب کہ میں نے بار ہا بتایا ہے میری بیماری دعاؤں ے تعلق رکھتی ہے اس لئے تم یہ بھی دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے کام والی زندگی عطا فرمائے اور مجھے دنیا میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کرنے کی توفیق دے.دیکھو میرا ہر کام تمہاری طرف ہی منسوب ہو تا ہے.آگر
785 دنیا میں اسلام کی اشاعت ہو تو تم ہی فخر کرو گے کہ ہم امریکہ میں اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں.سوئٹر رلینڈ میں اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں.جرمنی میں اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں.انگلستان میں اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں.ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں گویا جو میرا کام ہو گا وہ تمہارا کام ہو گا اور تم ہر مجلس میں یہ کہہ سکو گے کہ ہم نے فلاں کام کیا ہے.پس تم دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق :ے کہ میں کام کو اچھی طرح نبھا سکوں اور پھر وہ اس میں برکت دے اور اسلام کے دشمنوں کے دنوں کو کھولے.رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم در حقیقت اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم انسان ہیں.پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالٰی آپ کی شان کو بلند کرے اور اندھوں کی آنکھیں کھولے تاکہ وہ آپ کی شان اور عظمت کو پہچانیں اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے، دنیا میں ایک ہی خدا اور ایک ہی رسول رہ جائے اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں"..( فرموده ۲۱ اکتوبر ۱۹۵۶ء مطبوعه الفضل ۱۲۸ اپریل ۱۹۵۷ء د یکم مئی ۱۹۵۷ء)
کمزور خدام کی اصلاح کے لئے ایک طریق عمل صالح کی برکات کمزوروں کو اپنی اجتماعی دعاؤں میں شریک کرو اپنے اندر دین کی خدمت کا ایسا جذبہ پیدا کرو کہ تم میں کوئی شخص بھی تحریک جدید میں حصہ لینے سے محروم نہ رہے
788 اپنے اندر دین کی خدمت کا ایسا جذبہ پیدا کرو کہ تم میں سے کوئی شخص بھی تحریک جدید میں حصہ لینے سے محروم نہ رہے.کمزور نوجوانوں کی اصلاح کے لئے اجتماعی دعاؤں سے کام لو مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کا ایک اہم اجتماع ۲۴ فروری ۱۹۵۷ء کو "دار الصدر" واقع ہاؤسنگ سوسائٹی میں منعقد ہوا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بھی از راہ کرم و ذرہ نوازی اس اجلاس میں شرکت فرمائی.تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد محترم قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے مجلس کی کارگزاری کے متعلق رپورٹ پڑھ کر سنائی.اس کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے خدام الاحمدیہ سے جو خطاب فرمایا ء وہ ذیل میں درج کیا جا رہا ہے.مرتب) حضور نے فرمایا :." جو رپورٹ اس وقت قائد صاحب نے پڑھی ہے ، اس میں انہوں نے نوجوانوں کی اصلاح کے جو ذرائع اور طریق بیان کئے ہیں، میرے نزدیک مرکز کو چاہئے کہ وہ ان سے دوسری مجالس کو بھی آگاہ کرے.بہت سی مجالس ایسی ہوتی ہیں جو حیران ہوتی ہیں کہ ہم اصلاح کے کیا طریق ختیار کریں.ان کو یہ بتانا کہ ہم نوجوانوں کی اصلاح کے لئے کیا کیا ذرائع اختیار کر سکتے ہیں، ایک مفید بات ہے.انہوں نے جو طریق اس وقت بیان کئے ہیں وہ سب کے سب مفید ہیں لیکن اس کے علاوہ انہیں ایک اور طریق بھی اختیار کرنا چاہئے.انہوں نے کہا ہے کہ ہم کمزور خدام کو دعاؤں کی تحریک کرتے رہتے ہیں.یہ بھی اچھا ہے مگر میرے نزدیک انہیں کمزور خدام کی اصلاح کے لئے ایک یہ طریق بھی اختیار کرنا چاہئے کہ چند جو شیلے خدام مل کر ان کے گھروں پر جائیں اور انہیں کہیں کہ آؤ
789 مل کر دعا کریں کہ ہم میں جو کمزور ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جو کمزور اس دعا میں ان کے ساتھ شامل ہو جائے گا وہ اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرے گا.پس ہمیشہ کمزوروں کے گھروں پر جاؤ اور ان کو کہو کہ آؤ ہمارے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرو.اس طرح آہستہ آہستہ خود ان کو اپنا نفس نصیحت کرنا شروع کر دے گا.پھر جب آپ لوگ انہی کمزور خدام سے کہیں گے کہ آؤ اب ہمارے ساتھ مل کر دوسرے خدام کے گھروں پر چلو تاکہ ہم ان کے لئے بھی دعا کریں تو سب سے پہلے ان کو بھی اپنی اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور اس طرح کام پہلے سے بہتر ہو جائے گا.رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کراچی کے پانچ سواسی میں سے صرف چھیالیس خدام ایسے ہیں جنہوں نے تحریک جدید میں حصہ نہیں لیا ، باقی سب اس میں حصہ لے رہے ہیں.یہ بے شک ایک خوشی کی بات ہے لیکن خدمت سلسلہ کا کام ایسا ہے کہ چھیالیس کی نفی بھی بہت بڑی لگتی ہے.انہیں چاہئے تھا کہ ان کے اندر خدمت دین کا ایسا احساس ہو تاکہ ایک بھی نفی نہ ہوتی.چھیالیس کی نفی بتاتی ہے کہ ابھی ہم نے جماعت کے بہت سے افراد کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلانی ہے.اس وقت ہماری جماعت دس لاکھ تک پہنچ چکی ہے.پانچ سو اسی خدام میں سے چھیالیس کا کمزور ہو نا بتاتا ہے کہ قریباً دو سو میں سے ایک فرد ایسا ہے جو تحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہا.اب اگر دو سو چھیالیس سے ضرب دی جائے تو بانوے سو بنتا ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری جماعت میں نو ہزار دو سو آدمی ایسا ہے جو چندہ نہیں دے رہا اور اگر وہ واقعہ میں اس طرف توجہ نہیں کر رہا تو یہ کتنی خطرناک بات ہے.اگر یہ نو ہزار دو سو آدمی بھی حصہ لینے لگے تو یورپ میں کئی بیوت تعمیر ہو جائیں اور کئی نئے مشن کھل جائیں مگر اس کا علاج بھی دعا ہی ہے.یہ میں مان نہیں سکتا کہ جماعت میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جو تبلیغ کی ضرورت نہیں سمجھتا اور اگر وہ ضرورت کو سمجھتے ہوئے بھی چندہ میں حصہ نہیں لیتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے دل پر زنگ لگ گیا ہے اور دل کا زنگ دور کرنے کے لئے بھی دعا کی ہی ضرورت ہے.پس دعاؤں میں شامل کر کے کمزور خدام کی غیرت کو بھڑ کا یا جائے.ہم نے دیکھا ہے“ بعض ایسے آدمی جو چندے دینے میں بڑے ست تھے ، جب انہیں سمجھایا گیا تو وہ بڑی بڑی قربانی کرنے والے بن گئے.ایک دوست جو اب بہت مخلص ہیں اور جنہیں اپنی پرانی بات کا ذکر بہت برا لگتا ہے اور کہتے ہیں کہ کس نے آپ کے پاس غلط رپورٹ کر دی تھی.ان کے متعلق شروع میں مجھے پتہ لگا کہ وہ سلسلہ کی طرف توجہ رکھتے ہیں.اس پر میں نے مولوی شیر علی صاحب اور حافظ روشن علی صاحب کو ان کے پاس بھیجا.انہوں نے سنایا کہ ہم نے ان کو کہا کہ بیعت کر لیجئے.وہ کہنے لگے بیعت تو میں کرلوں گا مگر با قاعدہ چندہ نہیں دوں گا.میں نے کہا تھوڑا تھوڑا چندہ ہی دینا شروع کر دیں.پھر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو آپ خود ہی بڑھا دیں گے چنانچہ انہوں نے تھوڑا تھوڑا چندہ دینا شروع کر دیا مگر پھر اخلاص میں اتنے بڑھ گئے کہ انہوں نے بہت زیادہ قربانی شروع کر دی.اب تو وہ پشنر ہیں اور ان کا چندہ تھوڑا ہو گیا ہو گا مگر جب وہ ملازم تھے تو دو ہزار روپیہ با قاعدہ تحریک بدید کا چندہ دیتے تھے.میں نے ایک دفعہ حساب لگایا تو مجھے معلوم ہوا کہ چندہ دینے میں وہ میرے بعد دوسرے نمبر پر تھے حالانکہ چوہدری ظفر اللہ خان
790.صاحب بھی بڑی قربانی کرنے والے ہیں.تو شروع میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تھوڑے سے چندہ پر کفائت کرتے ہیں لیکن چونکہ ان کے دل میں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے اسلام کی خدمت کرنی ہے اس لئے وہ اپنی قربانیوں میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع میں صرف اتنا کہا تھا کہ سال میں ایک پیسہ دیا کرو مگر اب دیکھ لو سال میں ایک پیسہ دینے والے اپنی ماہوار آمدنی پر فی رو پید ایک آنہ سے ڈیڑھ آنہ تک چندہ دیتے ہیں.ایک پیسہ کے حساب سے ہمار ا چندہ سولہ ہزار بنتا ہے لیکن چندہ چودہ پندرہ لاکھ روپیہ آتا ہے تو قربانی کی جو نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ابتدا میں تجویز فرمائی تھی، اس میں اب کئی گناہ ترقی ہو گئی ہے.یہ تمام برکت عمل کی ہے.جب انسان عمل صالح کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے نیکیوں میں اور زیادہ قدم بڑھانے کی توفیق دیتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے.والعمل الصالح يرفعه که عمل صالح انسان کو اونچا کر تا چلا جاتا ہے.جب انسان خدا تعالی کی راہ میں ایک قدم چلتا ہے تو دوسرا قدم اٹھانے کے لئے فرشتے اسے آپ دھکا دے دیتے ہیں.حضرت معاویہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ صبح کی نماز کے لئے نہ اٹھ سکے اور ان کی نماز با جماعت رہ گئی.اس کا انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ وہ سارا دن روتے رہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے کہا کہ میرے اس بندے کو نماز رہ جانے کا بڑا افسوس ہوا ہے اسے سو نماز با جماعت کا ثواب دے دو.دوسرے دن صبح کے وقت انہوں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص انہیں جگا رہا ہے.وہ اسے دیکھ کر ڈر گئے کیونکہ وہ بادشاہ تھے اور باہر پہرہ لگا ہوا تھا.وہ حیران ہوئے کہ یہ شخص اندر کس طرح آگیا ہے.اس نے ان کی حیرت کو دیکھ کر کہا کہ میں شیطان ہوں اور تمہیں نماز کے لئے جگانے آیا ہوں.وہ کہنے لگے کہ شیطان تو نماز سے روکا کرتا ہے تو مجھے نماز کے لئے کیوں جگا رہا ہے.اس نے کہا بات اصل میں یہ ہے کہ میرے روکنے کی اصل غرض تجھے نیکی اور ثواب سے محروم رکھنا تھی، مگر تم اتنا روئے کہ خدا نے کہا کہ سو نماز با جماعت کا ثواب دے دیا جائے.پس میں نے سمجھا کہ اب اسے ثواب سے روکنے کا یہی طریق ہے کہ اسے نماز کے لئے جگا دیا جائے.اس طرح کم از کم اسے ایک نماز کا ہی ثواب ملے گا زیادہ ثواب نہ لے سکے گا.تو جب کوئی شخص نیک کام کرتا ہے تو اس کا قدم آگے بڑھتا ہے.اب خواہ معاویہ کے پاس جبریل آتا اور کہتا کہ معاویہ اٹھو اور نماز پڑھو اور خواہ شیطان نے کہا بات ایک ہی ہو گئی مگر شیطان کے کہنے سے رسول کریم میم کی وہ حدیث حل ہو گئی کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے اور وہ جو بات بھی میرے دل میں ڈالتا ہے نیک ہوتی ہے.حضرت معاویہ کو بھی رسول کریم ملی یا وکیل کی نیابت میں یہ بات حاصل ہو گئی اور شیطان نے انہیں نماز کے لئے جگا دیا.اگر تم دعائیں کروگے اور دوسروں کو نیک تحریکیں کرو گے تو آہستہ آہستہ تمہارے کمزور خدام میں بھی تغیر پیدا ہونا شروع ہو جائے گا.پس کمزوروں کو اپنی اجتماعی دعاؤں میں شریک کرو اور ان سے کہو کہ اب تحریک جدید کا نیا دور شروع ہے جس میں ماہوار آمد کا بیس فی صدی چندہ دینا ضروری ہو تا ہے.تم اگر میں فی صدی نہیں دے سکتے تو نصف فی صدی ہی دے دو.فی رو پید ایک پیسہ ہی دے دو.ہم تم سے
791 اسی قدر چندہ لے لینا غنیمت سمجھتے ہیں.مگر ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ جس طرح پہلے لوگوں نے ایک آنہ سے مدد شروع کی تھی اور پھر سینکڑوں روپیہ دینے لگ گئے.اسی طرح تم بھی اپنی قربانیوں میں ترقی کرتے چلے جاؤ گے.چنانچہ جب تحریک جدید کا آغاز ہوا تو پہلے سال میں نے نو سو تھیں روپیہ دیا.اس کے بعد بڑھاتے بڑھاتے دسویں سال میں نے دس ہزار روپیہ دیا جو اب تک برابر ہر سال دیتا آرہا ہوں مگر اب میں محسوس کرتا ہوں کہ دس ہزار روپیہ بھی کم ہے.شروع میں زمینوں کی جتنی آمد ہوتی تھی، وہ ساری خرچ ہو جاتی تھی مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ کام منظم ہو جانے کی وجہ سے آمد بڑھ گئی ہے اور مجھے احساس ہوتا ہے کہ اپنا چندہ بڑھانا چاہئے غرض جب بھی کوئی انسان نیکی کی طرف اپنا قدم بڑھاتا ہے.اللہ تعالیٰ اسے مزید قدم اٹھانے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے.یہ تحریک بائیں سال سے جاری ہے اور اب تک دو لاکھ ستر ہزار روپیہ میں تحریک جدید میں دے چکا ہوں اسی طرح ایک مخلص دوست نے ایک دفعہ مجھے بہت بڑا نذرانہ دے دیا.میں نے سمجھا کہ اتنا بڑا نذرانہ مجھے اپنی ذات پر استعمال کرنے کی بجائے سلسلہ کے لئے استعمال کرنا چاہئے.چنانچہ میں نے وہ سارے کا سارا نذرانہ اسلام کی اشاعت کے لئے دے دیا مگر اس کے باوجود میری نیت یہی ہے کہ میں اپنے چندے کو بڑھا دوں.میں اب تک صرف اس لئے رکا رہا کہ ولایت جانے کی وجہ سے مجھ پر قرض زیادہ ہو گیا تھا جس کا اتارنا ضروری تھا بلکہ اب جبکہ جماعت نے ہیمبرگ کی بیت کے لئے چندہ جمع کرنے میں بستی دکھائی ہے، میں سوچ رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے تو میں اکیلا ہی اپنے خرچ پر مغربی ممالک میں ایک بیت بنوادوں تاکہ اسلام کا جھنڈا ہمیشہ بلند ہو تا رہے.اب آخر میں میں دعا کر کے آپ لوگوں کو رخصت کرتا ہوں کیونکہ بیماری کی وجہ سے میں زیادہ نہیں بول سکتا.فرموده ۲۴ فروری ۱۹۵۷ء بمقام کراچی مطبوعہ اخبار الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۵۷ء)
یا رب ترے دیوانے تعریف کے قابل ہیں یا رب تیرے دیوانے آباد ہوئے جن سے دُنیا کے ہیں ویرانے کب پیٹ کے دھندوں سے مسلم کو بھلا فرصت ہے دین کی کیا حالت یہ اس کی بلا جانے جو جاننے کی باتیں تھیں اُن کو بھلایا ہے جب پوچھیں سبب کیا ہے کہتے ہیں خدا جانے سرمستی سے خالی ہے دل عشق سے عاری ہے بیکار گئے اُن کے سب ساغر و پیمانے خاموشی سی طاری ہے مجلس کی فضاؤں پر فانوس ہی اندھا ہے یا اندھے ہیں پروانے فرزانوں نے دنیا کے شہروں کو اُجاڑا ہے آباد کریں گے اب دیوانے ہوتی نہ اگر روشن وہ شمع رخ انور کیوں جمع یہاں ہوتے سب دُنیا کے پروانے ہے سماعت سعد آئی اسلام کی جنگوں کی آغاز تو میں کردوں انجام خدا جانے یہ ویرانے ***
مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے آخری روز حضور کا روح پرور خطاب مومنوں کے فرائض اور جماعت کی ذمہ داریاں آپ کسی وقت بھی ہمت نہ ہاریں یوں سمجھیں کہ خدمت اسلام کے لئے تکلیفیں اٹھانا اور مصیبتیں جھیلنا آ کے لئے فخر کا موجب ہے جو ذمہ داری تم پر ڈالی گئے ہے اس کو ادا کرنے میں اپنا تن من دھن.ں اپناتن کچھ لگا دو مساجد کی تعمیر اور اہمیت دیوانہ وار اپنے فرائض ادا کرو بجز اپنے کام کے تمہیں اور کسی بات سے سروکار نہ ہو
794 ۱۳ اکتوبر ۱۹۵۷ء کو سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ کے آخری روز حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خدام سے روح پرور خطاب فرمایا حضور کی یہ تقریر ابھی تک شائع نہیں ہو سکی.اس تقریر کا جو خلاصه روزنامه افضل مورخه ۱۵ اکتوبر۱۹۵۷ء اور ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۷ء کی اشاعتوں میں شائع ہوا ہے، وہ ذیل میں دیا جا رہا ہے.تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورہ النزعات کی ابتدائی آیات تلاوت فرما ئیں اور پھر فرمایا میں نے النزعات کی جو آیات ابھی پڑھی ہیں، ان میں مومنوں کے فرائض بیان کئے گئے ہیں یوں تو منہ سے ہر کوئی اپنے آپ کو مومن کہتا ہے لیکن محض منہ سے اپنے آپ کو مومن کہنا کوئی مشکل نہیں.کہنے کو تو مسیلمہ کذاب نے بھی اپنے آپ کو نبی کہا تھا اسی طرح اسود عنسی نے بھی اپنے آپ کو نبی کہا تھا لیکن کجا ان لوگوں کا اپنے آپ کو نبی کہنا اور کجا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ میں نبی ہوں، دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.جب ان لوگوں نے اپنے آپ کو نبی کہا تو اتنی حرکت بھی پیدا نہیں ہوئی جتنی پانی میں کنکری ڈالنے سے ہوتی ہے لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا اور نازعات والی قو میں آپ کے ساتھ شامل ہو گئیں تو یہ زمین ہل کر رہ گئی.پہلے بدر کی جنگ ہوئی پھر احد کی جنگ ہوئی پھر صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا بال آخر مکہ فتح ہوا اور درمیان میں کئی اور جنگیں ہوئیں الغرض ایک تہلکہ سانچ گیا.اس وقت یہ زمین ہلی ہی نہیں بلکہ ہلتی چلی گئی اور ایک طرح سے کانپ اٹھی.خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا.یہ زمانہ بھی ایسا ہی زمانہ ہے خدا جماعت احمدیہ کی ذمہ داری تعالٰی پھر اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کے سامان کر رہا ہے اور اس نے اسلام کی خدمت احمدیوں کے سپرد کیا ہے.یہ جو قرآن میں آتا ہے کہ جب بار امانت زمین و آسمان کے سپرد کی اگیا تو انہوں نے بڑی گھبراہٹ کا اظہار کیا.وہی امانت اس وقت آپ لوگوں کے سپرد کی گئی ہے.جس طرح اس زمانے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والا شخص بروز محمد کہلایا ہے اسی طرح صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے یعنی آپ لوگ صحابہ کے بروز کہلائے ہیں.آپ لوگوں پر جو بوجھ ڈالا گیا ہے بظا ہر حالات اس کو اٹھانا آپ کی طاقت سے بالا ہے البتہ خدا کی مدد اور اس کی نصرت شامل حال ہو تو پھر اس بوجھ کو اٹھانا مشکل نہیں ہے تاہم پھر اس بوجھ کے مقابلے میں آپ لوگوں کی ظاہری بساط کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ خطرہ آپ لوگوں کے ساتھ بھی ہے کہ کہیں آپ لوگ تبلیغ اسلام کا بوجھ کچھ عرصہ اٹھانے کے بعد ہمت نہ ہار دیں اور اس کام کو چھوڑ بیٹھیں.آج تو آپ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے کہتے ہیں کہ آج دنیا کے مختلف ممالک میں ہم تبلیغ کر رہے ہیں اور مساجد تعمیر کرنے کی ہمیں توفیق مل رہی ہے لیکن اگر خدانخواستہ آپ ست ہو گئے اور آپ نے کہنا شروع
795 کر دیا کہ کیا ہم ہی یہ کام کرنے کے لئے رہ گئے ہیں تو یہ نہایت خطرناک بات ہوگی.مساجد نہ بنانا اور گرجوں کو بڑھنے دینا ایسی بڑی آفت ہے کہ جسے آپ لوگ برداشت نہیں کر سکتے.ساری دنیا کے لوگ آپ پر ملامت کریں گے.مشرق و مغرب کے وہ لوگ جو آج یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی احمدیوں پر اپنی رحمت نازل کرے کہ انہوں نے ہمیں مساجد بنا کر دیں اور ہمیں اسلام کے نور سے منور کیا، پھر وہ کہیں گے خدا احمدیوں کو غارت کرے کہ انہوں نے ہمیں روشنی تو دکھائی لیکن ایک دفعہ روشنی دکھانے کے بعد پھر اندھیرا کر دیا.روشنی کے بعد اندھیرا اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے.وہ کہیں گے احمدیوں نے ہمیں اور زیادہ مصیبت میں ڈال دیا ہے پس آپ لوگوں کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ آپ کسی وقت بھی ہمت نہ ہاریں بلکہ اپنے منصب کو سمجھیں کہ خدا تعالٰی نے اس زمانے میں آپ لوگوں کو اس کام کے لئے چنا ہے اور آپ کو ہی یہ کام سرانجام دینا ہے.آپ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں.دعاؤں میں لگے رہیں اور خواہ آپ کو کتنی بھی محنت کرنی پڑے اور کتنی بھی تکلیف اٹھانی پڑے آپ اس سے جی نہ چرائیں بلکہ اس میں راحت محسوس کریں اور یوں سمجھیں کہ خدمت اسلام کے لئے تکلیفیں اٹھانا اور مصیبتیں جھیلنا آپ کے لئے فخر کا موجب ہے.اگر یہ بات آپ لوگوں نے اپنے اندر پیدا کر لی تو آپ کو قیامت تک خدمت اسلام کی توفیق ملتی چلی جائے گی....اس ضمن میں رسول کریم ملی وی کے صحابہ کرام کی مثال دیتے ہوئے حضور نے ان کی بے مثال قربانیوں اور جاں نثاری و فداکاری کے نہایت ایمان افروز واقعات بیان فرمائے ہیں اور بتایا کہ صحابہ کرام نے صہیب سے صہیب خطرہ کا دلیری سے مقابلہ کیا اور اس راہ میں انہیں جو دکھ بھی پہنچا اور جو مصیبت بھی جھیلنی پڑی اسے انہوں نے ایک انعام سمجھا اور اس پر ہمیشہ فخر کیا.کوئی دکھ ایسا نہ تھا جسے انہوں نے دکھ سمجھا ہو کوئی مصیبت ایسی نہ تھی جسے انہوں نے مصیبت سمجھا ہو.جتنی زیادہ مصیبتیں اور تکلیفیں انہیں جھیلنی پڑتی تھیں، وہ اتنا ہی زیادہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کا اعزاز بڑھ رہا ہے.وہ ان مصائب میں بھی خوشی سے بھولے نہیں سماتے تھے.جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی خطرہ پیش آیا ، انہوں نے ہنسی خوشی اپنی جانیں تک نچھاور کر دیں.حضور نے خطاب جاری رکھتے ہوئے فرمایا.پس آپ لوگوں کو بھی جب دین کی راہ میں مشکلات پیش آئیں اور مصیبتیں جھیلنی پڑیں تو اس کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ آپ لوگ ہمت ہار کر بیٹھ جائیں بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ آپ لوگ ان مشکلات اور مصائب کو خدا تعالٰی کا انعام سمجھتے ہوئے اور بھی زیادہ جوش اور اور بھی زیادہ اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی میں لگ جائیں.والنزعات غرقا میں یہی بتایا گیا ہے کہ جب مشکلات آتی ہیں تو مومن اپنے کام میں اور بھی زیادہ محو ہو جاتا ہے اور اس کے استغراق کا یہ عالم ہو تا ہے کہ اسے دنیا و مافیہا کی کچھ خبر نہیں رہتی.پس اپنے اندر اخلاص پیدا کرو.سچائی کے جوش کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور جو ذمہ داری تم پر ڈالی گئی ہے ، اس کو ادا کرنے میں اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دو.اگر تمہاری ان کوششوں اور اخلاص کے نتیجہ میں کم سے کم ہم میں سے ہر ایک کو اسلام کا قریب آنے والا غلبہ دکھائی دینے لگ جائے تو پھر ہم
796 کس قدر اطمینان کا سانس لے سکتے ہیں کہ جو ذمہ داری ہم پر ڈالی گئی ہے ، اسے ہم نبھانے کے قابل ہو گئے ہیں اور ہم اس وقت تک اسے نبھائے جائیں گے جب تک کہ یہ ذمہ داری با حسن وجوہ پوری نہ ہو جائے.حضور نے خطاب کے آخر میں یورپ اور امریکہ اور دنیا کے دوسرے بیوت کی تعمیر اور ان کی اہمیت علاقوں میں بیوت کی تعمیر اور اس کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.ابھی تو ہم نے یورپ میں صرف تین بیوت ہی بنائی ہیں لیکن یورپ میں اسلام کو غالب کر دکھانے کے لئے یہ تین بیوت کافی نہیں ہو سکتیں کہ ہم ان کی تعمیر کے بعد مطمین ہو کر بیٹھ جائیں.میں یہ چاہتا ہوں کہ جلد سے جد یورپ کے بعض بڑے بڑے شہروں میں کچھ نہیں ، دس بیوت تو اور بن جائیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ دس بیوت اور تعمیر کرنے کے بعد ہمارا کام پورا ہو جائیگا.دس کے بعد ہمیں انہیں پچاس کرنا ہو گا اور پچاس کے بعد پانچ ہزار اور اس طرح ان کی تعداد بڑھتی ہی جائے گی.حضور نے پر جوش لہجے میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :.تم ایسے آدمی کے ساتھ چل رہے ہو جسے خدا نے ساری دنیا میں بیوت بنانے کے لئے مقرر کیا ہے.حضور نے فرمایا.اگر ہم سر دست پچاس بیوت بھی بنا ئیں تو اس کے لئے ہمیں ایک کروڑ روپے کی ضرورت ہو گی.یہ بہت بڑی رقم ہے اور بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ رقم فراہم نہیں کر سکتے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اگر کسی تکلیف کو بھی تکلیف نہ سمجھیں اور و النزعات غرقا کے تحت پورے جوش اور اخلاص کے ساتھ کام کریں اور دن رات اسی میں، محور ہیں تو پھر اتنی رقم کا فراہم ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے.اس طرح پانچ سال میں اڑھائی ہزار بیوت بن سکتی ہیں.اگر یورپ میں اڑھائی ہزار بیوت بن جائیں تو یورپ کے آخری کناروں تک نعرہ ہائے تکبیر کی صدائیں بلند ہو سکتی ہیں اس طرح ایک بیت کی اذان دوسری بیت تک پہنچ جائے گی اور بیک وقت سارا یورپ اللہ اکبر کی آوازوں سے گونج اٹھے گا.جس دن ایسا ہو گیا، اس روز عیسائیت جان لے گی کہ اسلام غالب آگیا.تثلیث کا عقیدہ رکھنے والوں کا زور ٹوٹ جائے گا اور وہ اسلام کی بڑھتی ہوئی یلغار کے آگے ہتھیار ڈال دیں گے.یورپ کی طرح امریکہ میں بھی بیوت تعمیر ہوں گی اور وہاں کا گوشہ گوشہ بھی اللہ اکبر کی آوازوں سے گونج اٹھے گا.اس وقت عیسائیت کے دل کانپ جائیں گے اور وہ لوگ سمجھ لیں گے کہ اسلام کا نور اب ساری دنیا میں پھیلے بغیر نہ رہے گا.حضور نے فرمایا:.پہلے سلطنت برطانیہ کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اس پر سورج غروب نہیں ہو تا.اب جماعت احمد یہ بھی خدا کے فضل سے مشرق و مغرب کے دور دراز علاقوں میں پھیل رہی ہے اور اب اس کے متعلق بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ پر سورج غروب نہیں ہو تا لیکن ہم یہی نہیں چاہتے کہ جماعت احمدیہ پر سورج غروب نہ ہو بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری اذان پر بھی سورج غروب نہ ہو.دنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک بیوت قائم ہوتی چلی جائیں اور ان سے اذان کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور دنیا کے جس
797 حصہ پر بھی سورج طلوع ہو وہ یہی دیکھے کہ خدائے واحد کا نام بلند ہو رہا ہے.حضور نے فرمایا ، میں چاہتا ہوں کہ دنیا کے چپہ چپہ پر بیت بن جائے اور دنیا جس میں عرصہ دراز سے تثلیث کی پکار بلند ہو رہی ہے خدائے واحد کے نام سے گونجنے لگے.یہ جبھی ہو سکتا ہے کہ تم دعاؤں میں لگے رہو اور بچے جوش اور بچے اخلاص کے ساتھ دیوانہ وار اپنے فرائض ادا کرو اور اس کام میں اتنے محو ہو جاؤ اور اس میں ایسا شغف پیدا کرو کہ بجز اپنے مفوضہ کام کے تمہیں اور کسی بات سے سروکار نہ ہو.تمہارے سامنے ایک ہی مقصد ہو اور اس کے حصول کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دو.اگر تم ایسا کر دکھاؤ تو پھر وہ دن دور نہیں ہے کہ جب عیسائیت اپنی صف پیٹنے پر مجبور ہو جائے گی اور اس کے لئے اس کے سوا چارہ نہ رہے گا اور وہ دنیا میں اسلام کے غلبہ اور اس کی حکومت کو تسلیم کرلے.(فرموده ۳ اکتوبر۱۹۵۷ء ، مطبوعہ الفضل ۱۵-۱۶ اکتوبر۱۹۵۷ء)
حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد اسلام کی تبلیغ میں احمدی مبلغین کا کردار افریقہ میں احمدی مبلغین کی کوششوں سے حیرت انگریز انقلاب اور لارڈ ہنٹر کا اقرار عیسائیت آخر شکست کھائے گی اور وہ دنیا سے مٹادی جائے گی اپنی کوشش جد و جہد اور نیک نمونہ کے ذریعہ سے عیسائیت کو شکست د.کی کوشش کریں
800 جماعت کے نوجوانوں کو یا درکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد عیسائیت کا استیصال ہے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عیسائیت کے فتنہ کے استیصال کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے مبعوث فرمایا گیا ہے اور ہماری جماعت کا بھی فرض ہے کہ وہ عیسائیت کو مٹانے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتی رہے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو قیامت تک نہیں رہنا تھا لیکن عیسائیوں کا فتنہ ایک لمبے عرصہ تک رہنا تھا.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے سپرد یہ کام کیا گیا تو در حقیقت یہ کام آپ کی جماعت کے سپرد کیا گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام تو جب تک زندہ رہے عیسائیت کی تردید فرماتے رہے لیکن اب یہ ہماری جماعت کا کام ہے کہ وہ عیسائیوں کے فتنہ کو دور کرے اور اس کام کو تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرے.میں دیکھتا ہوں کہ بعض نوجوان عیسائیوں سے ڈر کر ان کا تمدن اختیار کر لیتے ہیں اور پھر اس پر بڑا فخر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بڑا اچھا کام کیا ہے حالا نکہ جب وہ عیسائیت کی نقل کرتے ہیں تو اپنے آپ پر لعنت کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے منہ سے اپنے دین کو جھوٹا قرار دے رہے ہوتے ہیں.ہماری جماعت کے نوجوانوں کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں بارہا تحریر فرمایا ہے کہ مجھے خدا نے عیسائیت کے استیصال کے لئے معبوث فرمایا ہے اور یہ کام صرف آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص نہیں تھا بلکہ آپ کے سپرد اس عظیم الشان کام کے کرنے کے یہ معنے تھے کہ آپ کے بعد آپ کی جماعت کا یہ فرض ہو گا کہ وہ اس کام کو سنبھالے اور عیسائیت کو مٹانے کی کوشش کرے.چنانچہ آپ لوگوں میں سے ہی کچھ نوجوان افریقہ گئے اور وہاں انہوں نے عیسائیت کے خلاف ایسی جد وجہد کی کہ یا تو ایک زمانہ ایسا تھا جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ سارا افریقہ عیسائی ہو جائے گا اور یا آج ہی ایک اخبار میں ایک انگریز خاتون کا مضمون پڑھا جس میں اس نے لکھا ہے جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام افریقہ میں بڑی سرعت سے پھیل رہا ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعت جو پہلے پہل ٹانگانیکا میں پھیلنی شروع ہوئی تھی، اب مشرقی افریقہ کے اکثر علاقوں میں پھیلتی ہوئی نظر آرہی ہے.(سنڈے ٹائمز لنڈن ۲۵ مئی ۱۹۵۸ء اسلام کی یہ تبلیغ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مبلغوں کی وجہ سے ہی ہو رہی ہے.۲۷ء میں ہم نے وہاں مشن قائم کئے تھے جن پر اب اکتیس سال کا عرصہ گذر رہا ہے.اس عرصہ میں خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کی
801 کوششوں میں ایسی برکت ڈالی کہ اب خود انگریز نے تسلیم کیا ہے کہ چار سال کے عرصہ میں پہلے سے دس گنالوگ مسلمان ہو چکے ہیں.اگر ہمارے نوجوان یورپ اور افریقہ کے عیسائیوں میں تہلکہ مچاسکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر یہاں کوشش کی جائے تو اس جگہ کے عیسائی بھی اسلام کے مقابلہ سے مایوس نہ ہو جائیں.لارڈ ہیڈلے جو کسی زمانہ میں پنجاب کے گورنر بھی رہ چکے ہیں ، جب وہ واپس گئے تو افریقہ میں سے ہوتے ہوئے لندن گئے.وہاں پہنچ کر انہوں نے ایک تقریر کی جس میں کہا کہ میں افریقہ میں اتنا بڑا تغیر دیکھ کر آیا ہوں کہ اب میں نہیں کہہ سکتا کہ مسلمان عیسائیت کا شکار ہیں یا عیسائی اسلام کا شکار ہیں.ہمارے وہ مبلغ جنہوں نے ان علاقوں میں کام کیا، کوئی بڑے تعلیم یافتہ نہیں تھے مگر جب وہ خدا تعالیٰ کا نام پھیلانے کے لئے نکل گئے تو خدا نے ان کے کام میں برکت ڈالی اور اکیلے اکیلے آدمی نے بڑے بڑے علاقوں پر اثر پیدا کر لیا اور انہیں اسلام کی خوبیوں کا قائل کر لیا مگر اب وہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ اور آدمی بھی آئیں جو ان علاقوں میں تبلیغ اسلام کا کام سنبھالیں تاکہ اسلام سارے افریقہ میں پھیل جائے اور یہ کام ان نوجوانوں کا ہے جو ابھی وہاں نہیں گئے.شروع شروع میں تو ایسے نوجوان بھجوائے گئے تھے جنہیں عربی بھی اچھی طرح نہیں آتی تھی مگر رفتہ رفتہ انہوں نے اچھی خاصی عربی سیکھ لی.مولوی نذیر احمد صاحب جنہوں نے وہیں وفات پائی ہے ، نیر صاحب کے بعد بھجوائے گئے تھے اور بی ایس سی فیل تھے اور عربی بہت کم جانتے تھے مگر پھر انہیں ایسی مشق ہو گئی کہ وہ عربی زبان میں گفتگو بھی کر لیتے تھے اور بڑی بڑی کتابوں کا بھی مطالعہ کر لیتے تھے بلکہ آخر میں تو انہوں نے عربی کی اتنی کتابیں جمع کرلی تھیں کہ جو اعتراض ہو تا اس کا جواب وہ فورا ان کتابوں سے نکال کر پیش کر دیتے.وہاں مالکیوں کا زور ہے اور وہ لوگ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں.انہوں نے کتابوں میں سے نکال کر دکھا دیا کہ امام مالک بھی یہی کہتے ہیں کہ نماز میں ہاتھ باندھنے چاہئیں جس پر وہ لوگ بڑے حیران ہوئے اور انہیں یہ بات تسلیم کرنی پڑی کہ آپ کی بات درست ہے.اب بھی وہاں سے خط آیا ہے کہ ہمارا ایک مبلغ جو مولوی فاضل ہے اس سے وہاں کے مولویوں نے بحث کی.وہاں کے علماء عربی خوب جانتے ہیں اور ہمارا یہ مبلغ زیادہ عربی نہیں جانتا تھا مگر چونکہ دل میں ایمان تھا اس لئے مقابلہ کے لئے تیار ہو گیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ عربی میں مباحثہ ہو چنانچہ عربی زبان میں مباحثہ ہوا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مخالف مولوی سب بھاگ گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم احمدیوں سے بحث نہیں کر سکتے.یہ لوگ تو پاگل ہیں جنہیں ہر وقت مذہبی باتیں کرنے کا ہی جنون رہتا ہے.تو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہمیں کچھ آتا نہیں.جب انسان خدا تعالیٰ کے دین کی تائید کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا تا اللہ تعالی خود اس کی مدد فرماتا ہے اور اس کی مشکلات کو دور فرما دیتا ہے.خواجہ کمال الدین صاحب کو ہی دیکھ لو.انہیں نماز پڑھانی نہیں آتی تھی مگر رفتہ رفتہ انہوں نے ایسی قابلیت پیدا کر لی کہ مشہور لیکچرار بن گئے.مولوی محمد علی صاحب بھی گو ایم اے ایل ایل بی تھے اور کالج کے پروفیسر تھے مگر عربی سے انہیں زیادہ مس نہ تھا لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے ایسی ترقی کی کہ قرآن کی تفسیر لکھ ڈالی.تو جب
802 انسان کو کسی کام کی دھت لگ جائے تو وہ اس میں ترقی حاصل کر لیتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے بعض مولوی بھی اپنی مدد کے لئے رکھے ہوئے تھے مگر ان کی باتوں کو استعمال کرنے کے لئے بھی تو لیاقت کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ ہمارے ملک میں سینکڑوں مولوی پھرتے ہیں وہ کیوں کوئی تفسیر نہیں لکھ سکتے.ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی نے بھی اسی شوق کی وجہ سے ترقی کی اور اس نے قرآن کی تفسیر لکھ دی.اس نے حضرت خلیفہ اول سے قرآن سیکھا اور آپ کے درسوں میں شامل ہو تا رہا.پھر خود بھی کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا اور آخر اتنی ترقی کرلی کہ مفسر بن گیا.پس جماعت کے سب دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنی کوشش اور جدوجہد اور نیک نمونہ کے ذریعہ سے عیسائیت کو شکست دینے کی کوشش کریں.یہ مت سمجھو کہ عیسائیت تو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے ہم اس کو شکست دینے میں کسی طرح کامیاب ہو سکتے ہیں.آج ہی میں قرآن پڑھ رہا تھا کہ مجھے اس میں پیشگوئی نظر آئی کہ عیسائیت آخر شکست کھائے گی اور وہ دنیا سے مٹادی جائے گی.پس عیسائیت کی ظاہری ترقی کو دیکھ کر مت گھبراؤ اللہ تعالی اسلام کی ترقی کے سامان پیدا فرمائے گا اور کفر کو شکست دے گا.ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے اندر ایمان پیدا کرو اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ جس کے لئے خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے".(فرمودہ 1 جولائی ۱۹۵۸ مطبوعہ اخبار الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۵۸ء) " سینما بینی سے بچنے کی تلقین چند دن ہوئے مجھے ملتان سے ایک دوست کا خط آیا کہ احمدی نوجوانوں میں سینمادیکھنے کا رواج پھر بڑھتا چلا جاتا ہے.اس لئے ضرورت ہے کہ اس کی روک تھام کی جائے.مجھے اس پر تعجب آتا ہے کہ یہ نوجوان اتنے جاہل کیوں ہو گئے کہ انہیں اپنی تاریخ کا بھی پتہ نہیں.اگر وہ پڑھے لکھے ہوتے اور انہیں اپنی تاریخ سے ذرا بھی واقفیت ہوتی تو انہیں معلوم ہو تاکہ بغداد بھی کانے بجانے سے تباہ ہوا ہے." فرموده ۲۸ اگست ۱۹۵۸ء مطبوعہ اخبار الفضل ۱۴ستمبر ۱۶۱۹۵۸
خدام الاحمدیہ کے نام حضور انور کا روح پرور پیغام تبلیغ کیلئے دعائیں کروتا اللہ تعالیٰ احمدیت کو غیر معمولی ترقی عطا کرے نظام خلافت سے اپنے آپ کو پورے اخلاص کے ساتھ وابستہ رکھو تبلیغ اسلام کے متعلق حضور کا ایک تاریخی عبد یہ عہد چار ہزار سال تک نو جوانوں سے لیتے چلے جائیں
804 مدام الاحمدیہ کے نام سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی روح پرور پیغام سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مجلس خدام الاحمدیہ کے اٹھارویں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر جو نہایت ایمان افروز اور روح پرور پیغام دیا ، وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.اس خصوصی پیغام میں وہ عہد بھی شامل ہے جو حضور نے اس موقعہ پر خدام سے لیا اور جس میں حضور نے نسلا بعد نسل اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے اور نظام خلافت کے استحکام کے لئے جد وجہد جاری رکھنے کی تلقین فرمائی ہے.یہ تاریخی پیغام ۲۳ اکتوبر ۱۹۵۹ء کو خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے افتتاحی اجلاس میں محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے پڑھ کر سنایا اور دوسرے روز حضور نے خود تشریف لا کر یہ پیغام پڑھا اور اس میں در ر اس میں درج شدہ تاریخی عهد دوباره خدام سے دو ہروایا.(مرتب) اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر خدام الاحمدیہ کے نوجوانوں کو میں اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انسان دنیا میں پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں لیکن تو میں اگر چاہیں تو وہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہ سکتی ہیں پس تمہیں اپنی قومی حیات کے استحکام کے لئے ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے اور نسلا بعد نسل اسلام اور احمدیت کو پھیلانے کی جدوجہد کرتے چلے جانا چاہئے.اگر مسیح موسوی کے پیرو آج ساری دنیا میں پھیل گئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسیح محمدی جو اپنی تمام شان میں مسیح موسوی سے افضل ہے ، اس کی جماعت ساری دنیا میں نہ پھیل جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اس مقصد کے لئے دعا بھی کی ہے اور فرمایا ہے.پھیر دے میری طرف اے ساریاں جگ کی مہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعا اور خواہش کو پورا کرنے کے لئے جد و جہد کرنا آپ لوگوں میں تے ہر ایک پر فرض ہے اور آپ لوگوں کو یہ جدو جہد ہمیشہ جاری رکھنی چاہئے یہاں تک کہ قیامت آجائے.یہ نہیں
805 سمجھنا چاہئے کہ قیامت تک جد وجہد کرنا صرف ایک خیالی بات ہے بلکہ حقیقتاً یہ آپ لوگوں کا فرض ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر عائد کیا گیا ہے کہ قیامت تک آپ لوگ اسلام اور احمدیت کا جھنڈا بلند رکھیں یہاں تک کہ دنیا میں اسلام اور احمدیت عیسائیت سے بہت زیادہ پھیل جائے اور تمام دنیا کی بادشاہتیں اسلام اور احمدیت کی تابع ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ مجھے ایک دفعہ عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور جن میں سے بعض ہندوستان کے تھے ، بعض عرب کے بعض فارس کے بعض شام کے “ بعض روم کے اور بعض دوسرے ممالک کے اور مجھے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے.اگر اللہ تعالی چاہے اور ان پیشگوئیوں کے مطابق روس ، جرمنی امریکہ اور انگلستان کے بادشاہ یا پریذیڈنٹ احمدی ہو جائیں تو خدا کے فضل سے ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے گی اور اسلام کے مقابلہ میں باقی سارے مذاہب بے حقیقت ہو کر رہ جائیں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج کل دنیا کے اکثر ممالک میں بادشاہتیں ختم ہو چکی ہیں مگر پریذیڈنٹ بھی بادشاہوں کے ہی قائم مقام ہیں پس اگر مختلف ملکوں کے پریذیڈنٹ ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں تو یہ پیشگوئی پوری ہو جاتی ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ متواتر اور مسلسل جد وجہد کی جائے اور تبلیغ اسلام کے کام کو جاری رکھا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالی کی طرف سے نوح بھی قرار دیا گیا ہے اور حضرت نوح کی عمر جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے ، ساڑھے نو سو سال تھی جو در حقیقت ان کے سلسلہ کی عمر تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز تھے جو تمام نبیوں سے افضل تھے اور حضرت نوح سبھی ان میں شامل تھے پس اگر نوح کو ساڑھے نو سو سال عمر ملی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروزاور آپ کے غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو ساڑھے نو ہزار سال عمر ملنی چاہئے اور اس عرصہ تک ہماری جماعت کو اپنی تبلیغی کوششیں وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جانا چاہئے.میں اس موقعہ پر وکالت تبشیر کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بیرونی مشنوں کی رپورٹیں باقاعدگی کے ساتھ شائع کیا کرے تاکہ جماعت کو یہ پتہ لگتا رہے کہ یورپ اور امریکہ میں اسلام کے لئے کیا کیا کوششیں ہو رہی ہیں اور نوجوانوں کے دلوں میں اسلام کے لئے زندگیاں وقف کرنے کا شوق پیدا ہو.مگر جہاں یورپ اور امریکہ میں تبلیغ اسلام ضروری ہے وہاں پاکستان اور ہندوستان میں اصلاح وارشاد کے کام کو وسیع کرنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے جس سے ہمیں کبھی غفلت اختیار نہیں کرنی چاہئے.دنیا میں کوئی درخت سرسبز نہیں ہو سکتا جس کی جڑیں مضبوط نہ ہوں پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم پاکستان اور ہندوستان میں بھی جماعت کو مضبوط کرنے کی کوششیں کریں.قرآن کریم میں اللہ تعالی نے کلمہ طیبہ کی مثال ایک ایسے درخت سے دی ہے جس کا نتنا مضبوط ہو اور اس کے نتیجہ میں اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی
806 ہوئی ہوں.یعنی ایک طرف تو کچے مذہب کے پیرو اپنی کثرت تعداد کے لحاظ سے ساری دنیا میں پھیل جائیں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ اس کے ماننے والوں کو اتنی برکت دے کہ آسمان تک اس کی شاخیں پہنچ جائیں یعنی ان کی دعائیں کثرت کے ساتھ قبول ہونے لگیں اور ان پر آسمانی انوار اور برکات کا نزول ہو.یہی فرعـهـا فـی السماء کے معنے ہیں کہ جو شخص آسمان پر جائے گا وہ خدا تعالیٰ کے قریب ہو جائے گا اور چونکہ اللہ تعالی کا کوئی جسمانی وجود نہیں اس لئے اس کے قریب ہونے کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس کی دعائیں سنے گا.حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ مومن جب رات کو تہجد کے وقت دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کی قبولیت کے لئے آسمان سے اتر آتا ہے.پس ضروری ہے کہ تمام جماعت کے اندر ایسا اخلاص پیدا ہو کہ اس کی دعائیں خدا تعالی سننے لگ جائے.احمدی جماعت کا کوئی حصہ ایسا نہ ہو جس کی دعائیں خدا تعالیٰ کثرت کے ساتھ قبول نہ کرے.پس تبلیغ بھی کرو اور دعائیں بھی کرو تا اللہ تعالٰی احمدیت کو غیر معمولی ترقی عطا کرے.سکھوں کو دیکھو.ان کا بانی نبی نہیں تھا مگر پھر بھی وہ بڑے پھیل گئے اور اب بھی ان میں اتنا جوش ہے کہ ذرا ذراسی بات پر لڑنے مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.تمہارا بانی تو نبی تھا اور اپنی تمام شان میں مسیح موسوی سے بڑھ کر تھا.پھر اگر مسیح موسوی کی امت تمام دنیا میں پھیل گئی ہے تو مسیح محمد ی جو ان سے بڑے تھے ان کی جماعت کیوں ساری دنیا میں نہیں پھیل سکتی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے متعلق یہ بھی فرمایا کہ اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے میں ہوا راور اور جالوت ہے میرا شکار اور جالوت اس شخص کو کہتے ہیں جو فسادی ہو اور امن عامہ کو برباد کرنے والا ہو.پس اس کے یہ معنے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دنیا میں امن قائم فرمائے گا اور ہر قسم کے فتنہ و فساد اور شرارت کا سد باب کر دے گا.پس تبلیغ اسلام کو ہمیشہ جاری رکھو اور نظام خلافت سے اپنے آپ کو پورے اخلاص کے ساتھ وابستہ رکھو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ " میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجو د ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے." اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی لکھا ہے کہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا." سو تم قیامت تک خلافت کے ساتھ وابستہ رہو تاکہ قیامت تک خدا تعالیٰ کے تم پر بڑے بڑے فضل نازل ہوں.
237 حضرت مسیح ناصری سے آپ کا مسیح بہت بڑا تھا مگر عیسائیوں میں اب تک پوپ جو پطرس کا خلیفہ کہلاتا ہے چلا آرہا ہے اور یورپ کی حکومتیں بھی اس سے ڈرتی ہیں.نپولین جیسا بادشاہ ایک دفعہ پوپ کے سامنے گیا اور وہ گاڑی میں بیٹھنے لگا تو اس وقت قاعدہ کے مطابق پوپ کو مقدم رکھنا ضروری تھا مگر نپولین نے یہ ہو شیاری کی کہ وہ دو سری طرف سے اسی وقت اندر جا کر بیٹھ گیا جس وقت پوپ بیٹھا تھا اور اس طرح اس نے چاہا کہ وہ پوپ کے برابر ہو جائے.اگر عیسائیوں نے اپنی مردہ خلافت کو اب تک جاری رکھا ہوا ہے تو آپ لوگ اپنی زندہ خلافت کو کیوں اب تک جاری نہیں رکھ سکتے.بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لا تقوم الساعه الاعلى الاشرار الناس یعنی قیامت ایسے لوگوں پر ہی آئے گی جو اشرار ہوں گے مگر آپ لوگوں کی ترقی چونکہ خدائی پیش گوئیوں کے ماتحت ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو خدا تعالیٰ نے خیر الامم قرار دیا ہے اس لئے اگر آپ قیامت تک بھی چلے جائیں گے تو خد اتعالیٰ آپ کو نیک ہی رکھے گا اور خیار میں ہی شامل فرمائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرماتے ہیں کہ ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے ے قدم آگے بڑھایا ہم نے مگر ضروری ہے کہ اس کے لئے دعائیں کی جائیں کہ خدا تعالٰی ہماری جماعت میں ہمیشہ صالح لوگ پیدا کرتا رہے اور کبھی وہ زمانہ نہ آئے کہ ہماری جماعت صالحین سے خالی ہو یا صالحین کی ہماری جماعت میں قلت ہو بلکہ ہمیشہ ہماری جماعت میں صالحین کی اکثریت ہو جن کی دعائیں کثرت سے قبول ہوتی ہیں اور جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا وجود اس دنیا میں بھی ظاہر ہو.میں اس وقت تمام خدام سے تبلیغ اسلام کے متعلق ایک عہد لینا چاہتا ہوں.تمام خدام کھڑے ہو جائیں اور اس عہد کو دو ہرا ئیں.اشهد ان لا اله إلا الله وحده لا شريكَ لَهُ وَاشْهَدَانَ مُحَمَّدًا عَبْدَهُ وَرَسُولَهُ ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فریضہ کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول لا کے لئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچار کھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام
808 کے لئے آخری دم تک جدوجہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.اللهم امین اللهم امين - اللهم امین یہ عہد جو آپ لوگوں نے اس وقت کیا ہے متواتر چار صدیوں بلکہ چار ہزار سال تک جماعت کے نوجوانوں سے لیتے چلے جائیں اور جب تمہاری نئی نسل تیار ہو جائے تو پھر اسے کہیں کہ وہ اس عہد کو اپنے سامنے رکھے اور ہمیشہ اسے دہراتی چلی جائے اور وہ نسل یہ عہد اپنی تیسری نسل کے سپرد کر دے اور اس طرح ہر نسل اپنی اگلی نسل کو تاکید کرتی چلی جائے.اسی طرح بیرونی جماعتوں میں جو جلسے ہو اکریں ان میں بھی مقامی جماعتیں خواہ خدام کی ہوں یا انصار کی یہی عہد دوہرایا کریں یہاں تک کہ دنیا میں احمدیت کا غلبہ ہو جائے اور اسلام اتنا ترقی کرے کہ دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل جائے.مجھے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے رویا میں دکھایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا نور ایک سفید پانی کی شکل میں دنیا میں پھیلنا شروع ہوا ہے یہاں تک کہ پھیلتے پھیلتے وہ دنیا کے گوشے گوشے اور اس کے کونے کونے تک پہنچ گیا.اس وقت میں نے بڑے زور سے کہا کہ."احمدیوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتے ہوئے ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان یہ نہیں کہے گا کہ اے میرے رب! اے میرے رب ! تو نے مجھے کیوں پیا سا چھوڑ دیا بلکہ وہ یہ کہے گا کہ اے میرے رب! اے میرے رب! تو نے مجھے سیراب کر دیا یہاں تک کہ تیرے فیضان کا پانی میرے دل کے کناروں سے اچھل کر بنے لگا.پس اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو اور ہمیشہ دین کے پھیلانے کے لئے قربانیاں کرتے چلے جاؤ مگر یا د رکھو کہ قومی ترقی میں سب سے بڑی روک یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ افراد کے دلوں میں روپیہ کا لالچ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ طوعی قربانیوں سے محروم ہو جاتے ہیں.تمہارا فرض ہے ہے کہ تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر تو کل رکھو.وہ تمہاری غیب سے مدد کرے گا اور تمہاری مشکلات کو دور کر دے گا بلکہ تمہارے لئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ سامان بھی کیا ہوا ہے کہ اس نے ایک انجمن بنادی ہے جو تمام مبلغین کو با قاعدہ خرچ دیتی ہے مگر گذشتہ زمانوں میں جو مبلغین ہوا کرتے تھے ان کو کوئی تنخواہیں نہیں دیتا تھا.بعض دفعہ ہندوستان میں ایران سے دو دو سو مبلغ “ یا ہے مگر وہ سارے کے سارے اپنے اخراجات خود برداشت کرتے تھے اور کسی دوسرے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتے تھے.
809 پس اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت بجالاؤ اور لالچ اور حرص کے جذبات سے بالا تر رہتے ہوئے ساری دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند کرنے کی کوشش کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے "الوصیت " میں تحریر فرمایا ہے کہ " مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال کیوں کر جمع ہوں گے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہو گی جو ایمانداری اور جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے بلکہ مجھے فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپرد ایسے مال کئے جائیں وہ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھو کر نہ کھائیں اور دنیا سے پیار نہ کریں.سو میں دعا کر تا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں." پس لالچ اور حرص کو کبھی اپنے قریب بھی مت آنے دو اور ہمیشہ احمدیت کو پھیلانے کی جد وجہد کرتے رہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے " مصلح موعود" کے متعلق الہی بشارات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ بشارت دی که اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا دن محبوب میرا کروں گا دور اس اندھیرا دکھاؤں گا که اک کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذا غذا دی فَسُبحان الَّذِي أخرى الأَعادِي اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں غیر معمولی تغیرات پیدا فرمائے گا جن کے نتیجہ میں ہماری جماعہ اتنی ترقی کرے گی کہ ساری دنیا کے لوگ اس میں داخل ہونے شروع ہو جائیں گے.اسی طرح اس شہادت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دشمنوں کو رسوا اور نا کام کرے گا اور ہمیں کامیابی اور غلبہ عطا فرمائے گا.اللہ تعالٰی آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور وہ اسلام کے غلبہ اور احمدیت کی ترقی کے لئے آپ کو رات دن کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے یہاں تک کہ ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے اور کیا عیسائی اور کیا یہودی اور کیا دوسرے مذاہب کے پیرو سب کے سب احمدی ہو جائیں لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا، تمہیں کم از کم پاکستان اور ہندوستان میں تو اپنے آپ کو پھیلانے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کرشن او تار بھی قرار دیا گیا ہے.آپ کا الہام ہے کہ " ” ہے کرشن رو در گوپال تیری مہا گیتا میں لکھی گئی ہے." پس اگر دنیا نہیں تو کم از کم ہندوستان کے ہندؤوں کو تو اسلام اور احمدیت میں داخل کرلو تا کہ اصلها ثابت کی مثال تم پر صادق آجائے اور فَرْعُهَا فِي السَّمَاء بھی اس کے نتیجہ میں پیدا ہو جائے.آج کل ہندوستان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے لوگوں کو احمدیت کی طرف بڑی رغبت پیدا ہو رہی ہے اور بڑے بڑے
810 مخالف بھی احمدیت کے لٹریچر سے متاثر ہو رہے ہیں اور زیادہ اثر ان پر ہماری تفسیر کی وجہ سے ہوا ہے.اگر اللہ تعالٰی اس کو بڑھا دے تو لاکھوں لوگ ہماری جماعت میں داخل ہو سکتے ہیں.بے شک ہم میں کوئی طاقت نہیں لیکن ہمارے خدا میں بہت بڑی طاقت ہے پس اس سے دعائیں کرو اور ہمیشہ اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے تمام مذاہب کے جھنڈوں سے بلند رکھنے کی کوشش کرو." (الفضل ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۹ء)
---- خدائی وعدوں پر یقین رکھو اور اس دن کو دور نہ سمجھو جب کہ ساری دنیا محمد رسول اللہ کے جھنڈے تلے جمع ہوگی سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ سے حضور کا خطاب خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ تمہیں بڑھائے گا اور ترقی دے گا یا درکھو کہ خدا کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے
812 خدائی وعدوں پر یقین رکھو اور اس دن کو دور نہ سمجھو جب کہ ساری دنیا محمد رسول اللہ علیم ململ کے جھنڈے تلے جمع ہوگی سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی خدام الاحمدیہ کے اٹھارویں سالانہ اجتماع کے موقع پر مورخہ ۲۳ اکتو بر کو بعد نماز عصر اجتماع میں تشریف لائے تھے اور حضور نے کار میں بیٹھ کر مقام اجتماع کا چکر لگایا تھا.مورخہ ۲۴ اکتوبر کو جو نہی خدام کو علم ہوا کہ حضور آج بھی تشریف لا رہے ہیں تو وہ حضور کے دیدار سے مشرف ہونے کے لئے سراپا انتظار بن گئے اور بے تابی کے ساتھ ان راستوں کی طرف دوڑنے لگے جہاں سے حضور کی کارنے گزرنا تھا لیکن ان کی خوشی اور شادمانی کی انتہاء نہ رہی جب کہ حضور کی کار سٹیج کے قریب آکر رک گئی اور بالکل غیر متوقع طور پر حضور اپنے خدام سے خطاب فرمانے کے لئے سٹیج پر رونق افروز ہوئے.قریبا آٹھ ماہ کے طویل اور صبر آزما عرصہ کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ حضور تقریر فرمانے کے لئے تشریف لائے.حضور کی یہ تقریر جس میں حضور نے دوبارہ خدام سے سے ان کا نیا عہد بھی دو ہروایا ایک گھنٹہ دس منٹ تک جاری رہی.تقریر کے دوران حاضرین مجلس پر رقت اور سوزو گداز کی ایک خاص کیفیت طاری رہی جس نے اختتامی دعا کے موقعہ پر بے اختیار آہ و بکا اور شیخ و پکار کی صورت اختیار کرلی.کوئی آنکھ نہ تھی جو آنسو نہ بہا رہی ہو اور کوئی دل نہ تھا جو در دوالحاح کے ساتھ اسلام کی سربلندی کے لئے دعاؤں میں مصروف نہ ہو.حضور نے اپنی تقریر میں اپناوہ پیغام بھی پڑھا جو ۲۳ اکتوبر کو محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے پڑھ کر سنایا تھا اور اس کی مزید تشریح کے طور پر چند دیگر زریں اور قیمتی نصائح بھی ارشاد فرمائیں.حضور کی ان نصائح کا ملخص جو الفضل میں شائع ہوا تھا، درج ذیل کیا جاتا ہے.(مرتب) حضور نے فرمایا.خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ تمہیں بڑھائے گا ترقی دے گا اور تمہارے ذریعہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرے گا.یاد رکھو کہ خدا کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہو تا.خواہ ساری دنیا اکٹھی ہو کر زور لگائے پھر بھی خدا کی بات پوری ہوگی اور ضرور ہو گی.پس خدائی وعدہ پر یقین رکھو اور اس دن کو دور نہ سمجھو جب کہ ساری دنیا اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی لیکن اس کے لئے ضرورت
813 ہے اخلاص کی ضرورت ہے تقوی کی.ایسا اخلاص اور ایسا تقوی جس کے بعد تمہاری ہر حرکت و سکون خدا کے لئے ہو جائے.اگر تم ایسا اخلاص اور ایسا تقوی پیدا کر لو گے تو تمہاری زبان تمہاری زبان نہیں بلکہ خدا کی زبان بن جائے گی.تمہارے ہاتھ تمہارے نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ ہو جائیں گے.اگر تم پر کوئی حملہ کرے گا تو تمہاری بجائے خدا اس حملہ کا جواب دے گا اور جس کی طرف تم آنکھ اٹھاؤ گے خدا تم سے بھی پہلے اپنی آنکھ ادھر اٹھائے گا.پس اصل ضرورت یہ ہے کہ تم اپنے اندر اتنی تبدیلی پیدا کرو کہ تمہارا ہر قدم خدا تعالی کی منشاء کے ماتحت اور اس کی متابعت میں اٹھے تب تمہارا ہر فعل خدا کا فعل بن جائے گا اور تم یہ محسوس کرو گے کہ اب تم خدا کی گود میں ہو اور وہی ہر وقت تمہاری حفاظت کر رہا ہے.حضور نے فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا فرمائی ہے کہ پھیر دے میری طرف اے ساریاں جگ کی مہار جماعت کو بھی چاہئے کہ وہ یہ دعا کرتی رہے اور ساتھ ہی اس کے لئے کوشش اور جد وجہد کو بھی نسلا بعد نسل تجاری رکھے.دراصل قلوب میں تبدیلی پیدا کرنا اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.اس لئے ہمیں اس سے یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ الہی ! دنیا کے دل اسلام اور احمدیت کی طرف پھیر دے.جس طرح مسیح محمدی اپنی تمام شان میں مسیح ناصری سے بڑھ کر تھے اسی طرح مسیح محمدی کی جماعت بھی ہر لحاظ سے مسیح ناصری کی جماعت سے بہت زیادہ ترقی کرے.حضور نے فرمایا :.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے کہ :.”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے." تعبیر کی رو سے کپڑوں سے مراد جماعت بھی ہوتی ہے.اس لئے الہام کا یہ بھی مطلب ہے کہ ایک وقت آنے والا ہے جب کہ دنیا کے بادشاہ اور حکمران مسیح موعود کی جماعت سے بھی برکت حاصل کرنا اپنے آپ کے لئے فخر کا موجب سمجھیں گے.بے شک آج تمہاری کوئی اہمیت اور قدر نہیں لیکن اگر تم اپنے اخلاص کے مقام کو قائم رکھو گے تو یہ الہام تمہارے ذریعہ سے ضرور پورا ہو تا رہے گا.(انشاء اللہ ) اگر محمود غزنوی کو جو محض ایک دنیوی بادشاہ تھا اللہ تعالیٰ کامیابی اور برکت دے سکتا ہے تو یقیناً محمود قادیانی جو تمہیں روحانی بادشاہت کی طرف بلا تا ہے ، اس سے بہت زیادہ برکت والا ہے.اس کے ذریعہ خدا تمہیں بھی بہت برکت دے گا اور پھر تمہارے ذریعہ دوسروں کو بھی برکت دے گا اور تمہارے ذریعہ اللہ تعالی اسلام کا جھنڈا دنیا میں بلند رکھے گا.دراصل ساری برکت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ہے.اس سے مسیح موعود نے برکت لی اور پھر مسیح موعود کے ریعہ ان کے متبعین نے بھی برکت پائی.حضور نے فرمایا:.
814 اس وقت دنیا میں عیسائیوں کے لاکھوں مبلغ کام کر رہے ہیں.اس کے مقابلہ میں ہمارے مبلغوں کی تعداد اتنی حقیر ہے کہ اسے ان کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں.ان حالات میں اگر ہمیں کامیابی ہو سکتی ہے تو محض اللہ تعالٰی کے فضل سے اور دعاؤں کی برکت سے ہی ہو سکتی ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ علاوہ کو شش اور توکل الی اللہ کے دن رات دعاؤں میں لگے رہیں کہ الہی ہم تیرے کمزور اور حقیر بندے ہیں.تو ہی ہماری کوشش میں برکت دے تاکہ قیامت کے دن جب ہم اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں تو ہمیں شرمندگی اور خفت نہ اٹھانی پڑے بلکہ ہمارا سر فخر کے ساتھ اونچا ہو." (الفضل یکم نومبر ۱۹۵۹ء)
اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ او زیادہ سے زیادہ نو جوانوں کو خدمت دین کے لئے وقف کر دو ہمیں اس وقت ہر قسم کے واقفین کی ضروت ہے تمہارے بعد بڑے بڑے فلاسفر پیدا ہوں گے علماء پیدا ہوں گے صوفیاء پیدا ہوں گے بڑے بڑے بادشاہ آئیں گے مگر یا درکھو خدا تعالیٰ نے جو شرف ہمیں عطا فرمایا ہے بعد میں آنے والوں کو وہ میسر نہیں آسکتا.پس خدمت دین کے اس اہم موقعہ کو جو تمہیں صدیوں کے بعد حاصل ہوا ہے ضائع مت کرو اور اپنے گھروں کو خدا تعالیٰ کی برکتوں سے بھر لو
816 اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو ” ہماری جماعت کے ہر بچے ہر نوجوان ہر عورت اور ہر مرد کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارے سپرد اللہ تعالیٰ نے اپنی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے کا جو اہم کام کیا ہے اس سے بڑھ کر دنیا کی اور کوئی امانت نہیں ہو سکتی.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے گھروں کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں.بعض لوگ بھیڑوں بکریوں کے گلے کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں.بعض لوگ گورنمنٹ کے خزانہ کے پہرہ دیتے ہوئے مارے جاتے ہیں اور بعض لوگ فوجوں میں بھرتی ہو کر اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں لیکن جو چیز اللہ تعالٰی نے ہمارے سپرد کی ہے اس کے مقابلہ میں دنیا کی بادشاہتیں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتیں بلکہ ان کو اس سے اتنی بھی نسبت نہیں جتنی ایک معمولی کنکر کو ہیرے سے ہو سکتی ہے.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں سرگرمی سے حصہ لو اس غرض کے لئے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو خدمت دین کے لئے وقف کردو تاکہ ایک کے بعد دوسری نسل اور دوسری کے بعد تیسری نسل اس بوجھ کو اٹھاتی چلی جائے اور قیامت تک اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچال را تار ہے.اس عظیم الشان مقصد کی سرانجام دہی کے لئے میں نے بیرونی ممالک کے لئے تحریک جدید اور اندرون ملک کے لئے صدرانجمن احمدیہ اور وقف جدید کے ادارے قائم کئے ہوئے ہیں.دوستوں کو ان اداروں کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنا چاہئے اور نوجوانوں کو سلسلہ کی خدمت کے لئے آگے آنے کی تحریک کرنی چاہئے.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں سادھو اور بھکاری تک بھی اپنے ساتھی تلاش کر لیتے ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر تم اس عظیم الشان کام کے لئے دو سروں کو تحریک کرو تو تمہارا کوئی اثر نہ ہو.اس وقت اسلام کی کشتی بھنور میں ہے اور اس کو سلامتی کے ساتھ کنارے تک پہنچانا ہمارا کام ہے اگر ہم اس کی اہمیت کو سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں تو ہزاروں نوجوان کے لئے آگے آسکتے ہیں.ہمیں اس وقت ہر قسم کے واقفین کی ضرورت ہے.ہمیں گر یجو یوں کی بھی ضرورت ہے اور کم تعلیم والوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہم ہر طبقہ تک اسلام کی آواز پہنچا سکیں.اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھ لو گے تو یقیناً اس کشتی کو سلامتی کے ساتھ نکال کر لے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں ابدی حیات عطا فرمائے گا.تمہارے بعد بڑے بڑے فلاسفر پیدا ہوں گے.بڑے بڑے علماء پیدا ہوں گے.بڑے بڑے صوفیا پیدا ہونگے.بڑے بڑے بادشاہ آئیں گے مگر یاد رکھو خدا تعالیٰ نے جو شرف ہمیں عطا فرمایا ہے ، بعد میں آنے والوں کو وہ میسر نہیں سکتا جیسے عالم اسلام میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں مگر ہو مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک چھوٹے سے چھوٹے صحابی کو بھی ملا اود ان بادشاہوں کو نصیب نہیں ہوا.ان بادشاہوں اور نوجوانوں کو بے تک، نیوی دوست ملی مگر اصل چیز تو صحابہ ہی کے حصے میں آئی.باقی لوگوں خدمت دین
817 کو تو صرف چھلکا ہی ملا.یہ تقسیم بالکل ویسی ہی تھی جیسے غزوہ حنین کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں میں اموال غنیمت تقسیم کئے تو ایک انصاری نوجوان نے بیوقوفی سے یہ فقرہ کہہ دیا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال مکہ والوں کو دے دیا گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع پہنچی تو آپ نے تمام انصار کو جمع کیا اور فرمایا.اے انصار مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے ایک نوجوان نے یہ کہا ہے کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال غنیمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو دے دیا ہے انصار نہایت مخلص اور فدائی انسان تھے.رسول کریم مالا مال لیلیوم کی یہ بات سن کر ان کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہم ایسا نہیں کہتے.ہم میں سے ایک بیوقوف نوجوان نے غلطی سے یہ بات کہہ دی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انصار اگر تم چاہتے تو تم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے فتح و کامرانی بخشی اور اسے عزت کے ساتھ اپنے وطن میں واپس لایا مگر جب جنگ ختم ہو گئی اور مکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں آگیا تو مکہ والے تو بکریوں اور بھیڑوں کے گلے ہانک کر اپنے گھروں میں لے گئے اور انصار خدا کے رسول کو اپنے گھر میں لے آئے.اسی طرح بے شک صحابہ کے بعد آنے والوں کو بڑی بڑی دولتیں ملیں.حکومتوں پر انہیں قبضہ ملا مگر جو روحانی دولت صحابہ کے حصہ میں آئی وہ بعد میں آنے والوں کو نہیں ملی.پس خدمت دین کے اس اہم موقعہ کو جو تمہیں صدیوں کے بعد نصیب ہوا ہے ، ضائع مت کرو اور اپنے گھروں کو خد اتعالیٰ کی برکتوں سے بھر لو.میں نے اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں جب کام شروع کیا تھا تو میرے ساتھ صرف چند ہی نوجوان رہ گئے تھے اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو قابل اور ہو شیار سمجھتے تھے ، سب لاہور چلے گئے تھے اور ہمارے متعلق خیال کرتے تھے کہ یہ کم علم اور نا تجربہ کار لوگ ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ وہی لوگ جن کو وہ نا تجربہ کار سمجھتے تھے اللہ تعالٰی نے انہی سے ایسا کام لیا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے.اس وقت میری عمر چھبیس سال تھی.میاں بشیر احمد صاحب کی عمر اکیس ساڑھے اکیس سال کی تھی.اسی طرح ہمارے سارے آدمی ہیں اور تمہیں سال کے درمیان تھے مگر ہم سب نے کوشش کی اور محنت سے کام کیا تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے جماعت کے کام کو سنبھال لیا.اسی طرح اب بھی نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ سلسلہ کی خدمت کا تہیہ کرلیں اور دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کریں.اگر کسی نے صرف بی.اے یا ایم.اے کر لیا اور دینی تعلیم سے کو را رہا تو ہمیں اس کی دنیوی تعلیم کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے.غیر مبائعین کے الگ ہونے کے بعد میرے ساتھ جتنے نو جوان رہ گئے تھے.وہ کالجوں میں بھی پڑھتے تھے مگر وقت نکال کر دینی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے چنانچہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور صوفی غلام محمد صاحب اپنے پر ائیو یٹ اوقات میں دینی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے ایم.اے اور بی.اے بھی کرلیا اور دینی تعلیم بھی مکمل کرلی.میں سمجھتا ہوں اگر اب بھی ہم پوری طرح اس طرف توجہ دیں تو چند سال کے بعد ہی ہمیں ایسے مخلص نوجوان ملنے شروع ہو جائیں گے جو انجمن اور تحریک کے
818 کاموں کو سنبھال سکیں گے.پس سلسلہ کی ضروریات اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اپنے حوصلوں کو بلند کرو.اگر انسان کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے ہی اپنے حوصلہ کو گرادے اور سمجھے کہ میں کچھ نہیں کر سکتا تو یہ اس کی غلطی ہوتی ہے.بے شک ایک انسان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ دنیا کو ہلا سکے لیکن وہ ہلانے کا ارادہ تو کر سکتا ہے اگر تم اپنے حوصلوں کو بلند کرو گے اور سستی اور غفلت کو چھوڑ کر اپنے اندر چستی پیدا کرو گے تو تھوڑے عرصہ میں ہی تم میں سے کئی نوجوان ایسے نکلیں گے جو پہلوں کی جگہ لے سکیں گے.میں نے تحریک جدید میں نوجوانوں کو لگا کر دیکھا ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہے ہیں بلکہ شروع میں جن کے متعلق سمجھا تھا کہ ممکن ہے وہ اس کام کے اہل ثابت نہ ہو سکیں انہوں نے بھی جب محنت کی تو اپنے کام کو سنبھال لیا اور اب وہ خوب کام کرتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے اندر عزم تھا اور انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ ہر ممکن کوشش کے ساتھ دین کی خدمت کریں گے.آئندہ بھی ہماری جماعت کے نوجوانوں کو اپنی زندگیاں وقف کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے کیونکہ ہمیں اب سلسلہ کی ضروریات کے لئے بہت سے نئے آدمیوں کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے.اس وقت ہمیں ایسے نوجوان درکار ہیں جن کو ہم انگلستان امریکہ اور دوسرے یورپین ممالک میں بھیج سکیں.اس طرح افریقہ وغیرہ کے لئے ہمیں سینکڑوں آدمیوں کی ضرورت ہے.اس کے بعد ان کی جگہ نئے آدمی بھیجنے اور انہیں واپس بلانے کے لئے نہیں اور آدمیون کی ضرورت ہوگی اور یہ سلسلہ اسی طرح ترقی کرتا چلا جائے گا.پس نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ خدمت دین کے لئے آگے آئیں اور اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں بھی وقف کی تحریک کو مضبوط کریں.ہمارے کاموں نے بہر حال بڑھنا ہے لیکن انہیں تکمیل تک اسی صورت میں پہنچایا جاسکتا ہے جب زیادہ سے زیادہ نوجوان خدمت دین کے لئے آگے آئیں.ان نصائح کے ساتھ میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے ہمارے کاموں میں برکت ڈالے اور وہ بوجھ جسے ہمارے کمزور اور ناتواں کندھے نہیں اٹھا سکتے ، اسے خود اٹھالے اور ہمیں اپنی موت تک اسلام اور احمدیت کی خدمت کی توفیق عطا کرتا چلا جائے.ہم کمزور اور بے بس ہیں لیکن ہمارا خدا بڑا طاقتور ہے.اس کے صرف کن کہنے کی دیر ہوتی ہے کہ زمین و آسمان میں تغیرات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.اس لئے آؤ ہم اللہ تعالیٰ سے ہی دعا کریں کہ وہ ہم پر اپنا فضل نازل فرمائے.ہمیں اپنی رضا اور محبت کی راہوں پر چلائے اور ہمارے مردوں اور عورتوں اور بچوں کو اس امر کی توفیق بخشے کہ وہ دین کی خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانیوں سے کام لیں اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ر ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں منافقت سے بچائے.ان کے ایمانوں کو مضبوط کرے.ان کے دلوں میں اپنا سچا عشق پیدا کرے اور انہیں دین کی بے لوث خدمت کی اس رنگ میں توفیق بخشے جس رنگ میں صحابہ کرام کو ملی اور اللہ تعالی ان کی آئندہ نسلوں کو بھی دین کا سچا خادم اور اسلام کا بہادر سپاہی بنائے اور انہیں ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین" ( تقریر سالانہ جلسه فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۶۰ء مطبوعہ اخبار الفضل ۶ جنوری ۱۹۶۱ء)
2 3...5....21.....23......65......73 اشاریه مرتبہ :.سید مبشر احمد ایاز *** آیات قرآنیہ احادیث نبویہ اطفال الاحمدیہ انصار الله خدام الاحمدیہ لجنہ اماءاللہ متفرق مضامین.اسماء مقامات کتابیات
98 719 22 15 آیات قرآنی جو اس جلد میں مذکور ہیں 790 523 556 794 60 20 20 ان قومی اتخذوا هذا القرآن الفرقان ، ٣١ و اذا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِين الشعراء.٨١ يبنى انها ان تك مثقال حبة....لقمان ، ا ا.واغضض من صوتك.....لقمان والعمل الصالح يرفعه.68 275 99 464 اهدنا الصراط المستقيم الفاتحه ذالک الكتاب لاريب فيا......البقرة.٣ يا ادم اسكن أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنة.....البقرة.٣٦ كم من فئة قليلة.البقرة.۲۵۰ يعيسى إني متوفيك ال عمران ۵۶ 500,617,702 ۲۰، 759 فاطر.۱۱ اجعل الالهة الها واحدا.ص ، ٦ كل يوم هو في الشان......الرحمن ، ٣٠.النازعات کی آیات کی تفسیر ، اما بنعمة ربك فحدث الضحي، ۱۲ فويل للمصلين.......الماعون ۵ تا ۷ 639 28 197 663 729 673 806 82 771,667 يايها الذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطَانَة.......ال عمران.۱۹ | خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا.....النساء.٢ لا تشلُوا عَنْ أَشْيَاءَ.المائده ۱۰۲ وَكُنْتُ عَ......المائده.١٨ ! ان الله لا يُغَيرُ ما بِقَوْم الانفال ۵۴ لا تحزن ان الله مَعَنا التوبة.٤٠ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِين.التوبة.١١٩ فَرْعُها في السماء.....ابراهيم.۲۵ انا نحن نزلنا الذكر وانا له لحفظون الحجر.١٠ وعدالله الذين امنوا....النور، ۵۶
93 53 88 80 00 84 476 363 341 2 احادیث قیامت کے دن ہر نبی اپنا اپنا جھنڈا اٹھائے ہوگا جب کسی دوسری جگہ جاؤ تو وہاں کے امام کے.تابع ہوکر رہو.جس گھر میں لڑکیاں ہوں اور ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی جائے تو وہ جنت میں جائے گا مانگ کر کھانا ایک لعنت ہے قرآن کریم کے سات بطن ہیں ہر نماز کے بعد تسبیح و تحمید اور تکبیر دوڑ کر نماز میں شامل ہونے سے منع فرمایا جو شخص صدقہ کا ارادہ کرے اس کے لئے صدقہ کرنا ضروری ہے 354 رسول اکریم اللہ کا فرمانا کہ ایک شخص رات کو بیوی سے محبت کرتا ہے اور دن کو اُس سے لڑائی کرتا ہے 763 ایک نو عمر لڑکے کو امام بنانا اور اس کے لئے کپٹروں کا انتظام کرنا 683 کسی عورت سے شادی کرتے وقت کن چیزوں کو مدنظر رکھنا چاہئے 685 رسول اکرم ﷺ کا فرمانا کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے 790 مؤمن رات کو تہجد میں دعا کرتا ہے تو خدا اس کو قبول کرنے کے لئے آسمان سے نیچے اترتا ہے 806 پیاز یا لہسن کھا کر مسجد میں آنے کی ممانعت 596 28 168 524 27 469 530 807 545 672 236 294 187 17 35 61 22 الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِن وَرَآئِهِ الصَّبِيُّ صَبِيٌّ وَلَوْ كَانَ نَبِيًّا النَّاسُ عَلَىٰ دِينِ سُلُوكِيمْ فَيُيُوضع له القبول : كُتُكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُم مَسَوْلٌ كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ المُؤْمِن لا تقومُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى أَشْرَارِ النَّاسِ لَمْ يَبْقَ مَنِ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمه من قال هَلَكَ الْقَوْمُ فَهُوَا هُلَكهم (احادیث بالمعنی ) عبادت کیا ہے فرمایا کہ ایسا سمجھو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے“ قیامت کے دن خدا بندوں کے سامنے آئے گا کہ میں تمہارا خدا ہوں مجھے سجدہ کرو اللہ تعالٰی طاق چیزوں کو پسند کرتا ہے دنیا میں تین قسم کے انسان ہوتے ہیں جو شخص بغیر شادی کے فوت ہوتا ہے وہ بطال" ہے جب جمعہ کے لئے آؤ تو اپنے کپڑوں کو خوشبو لگا کر آؤ حضرت عائشہ کا فرمانا کہ رسول اکرم والے تیز تیز با تمیں نہیں کیا کرتے تھے
229,233,455 283,728,370 357,692,274 277,218 208 208,214 711 634 635 36 456 456 736 736 417 417 3 ( اطفال الاحمدیہ ) ذیلی تنظیمیں (انصار اللہ مجلس) مجلس انصار الله انصار اللہ کا قیام انصار اللہ کے عارضی صدر.حضرت مولوی شیر علی صاحب انصار اللہ ک تنظیم کی طرف توجہ کرنے کی تلقین انصار اللہ کے دفتر کے لئے زمین مختص کرنا انصار اللہ کی مرکزی دفتر کی تعمیر میں سستی او حضور کی نصیحت اصل چیز عمر نہیں امنگ یا حوصلہ ہے انصار کو خدام سے تعاون کرنا چاہئے میں انصار کو نصیحت کرتا ہوں کہ بچوں کی تربیت نہایت ضروری ہے انصار اللہ و حضور کی نصائح انصار اللہ اپنے نمونہ سے بچوں کو زندہ کریں انصار اللہ کے قیام کی غرض جماعتی استحکام ہے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے درمیان باہمی تعلق 218 417,370,71 457 84 اطفال الاحمدیہ کا قیام اطفال الاحمدیہ لوگ اپنی اولادوں کی تربیت کی فکر نہیں کرتے.تربیت ابتداء سے ہی کریں تربیت اولا د ایک اہم فرض ہے بچہ کی تربیت چھوٹی عمر سے شروع ہونی چاہئے 104 قومی نیکیوں کے تسلسل کے قیام کے لئے بچوں کی تربیت بہت ضروری ہے بچپن کا زمانہ تربیتی اعتبار سے بہت اہم ہے ذهن دراصل بچپن میں ہی تیز ہو.ہو سکتے ہیں اس کے لئے پروگرام بنانا خیال رکھیں بچے پڑھیں یا کھیلیں یا کھا ئیں یا سوئیں 48 513 153 107 107 105 104 56 418 71,740 بچہ کو ہر وقت کام میں مصروف رکھنا بھی آوارگی سے بچاتا ہے بچوں سے صحیح طور پر کام لیا جائے تو وہ آوارہ ہو ہی نہیں سکتے آوارگی بچپن میں پیدا ہوتی ہے بچوں سے گالی کی عادت دور کرو خدام الاحمدیہ کے سپرد یہ کام ہے کہ وہ بچوں کو محنت کی عادت ڈالیں حضور کی نصائح
انصار اللہ کا ہر مہر مقامی انجمن کا بھی ممبر ہوتا ہے خدام الاحمد یہ انصار اللہ کے بیٹوں کا نام ہے خدام الاحمدیہ نمائندے ہیں جوش اور امنگ کے.انصار اللہ نمائندہ ہیں تجربہ اور حکمت کے انصار اللہ کے زعماء وغیرہ امیر یا پریذیڈنٹ سے تعاون کریں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ جماعت کے اتحاد کو مستحکم بنانے کے لئے ہیں 418 419 419 420 421
5 خدام الاحمدیہ - اغراض و مقاصد اور فرائض یا د رکھو کہ تو میں نو جوانوں کی دینی زندگی کے 737 21 736 19 ساتھ ہی قائم رہتی ہیں خدام الاحمدیہ سے مراد احمد بیت کے خادم.یہ نام ہمیں یاد دلا تار ہے گا کہ وہ خادم ہیں مخدوم نہیں جماعت کی دماغی نمائندگی انصار اللہ اور اس کے دل اور ہاتھوں کی نمائندگی خدام الاحمدیہ کرتے ہیں خدام الاحمدیہ اور اس جیسی انجمنوں کے قیام کے جماعت کو فوائد خدام الاحمدیہ کا کام کوئی معمولی کام نہیں خدام الاحمدیہ ایک فوج ہے اور بندوقیں اور تلوار میں ہمارے دلائل اور اخلاق فاضلہ ہیں 183 خدام الاحمدیہ ایک مذہبی انجمن ہے سیاسی نہیں خدام الاحمد یہ دوسری انجمنوں کی طرح ایک 103 181 180 191 0 206 214 انجمن نہیں خدام الاحمدیہ کو اپنے کام کی عظمت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے خدام اور حمدیہ روحانی ٹرینینگ اور روحانی تعلیم و تربیت ہے خدام الاحمدیہ سے استعفیٰ دینے کے لئے احمدیت سے استعفیٰ دینا پڑے گا ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنی عمر کے مطابق کسی نہ کسی مجلس کا ممبر بنے 371 346 368 218 275 372 207 18 29 181 181 605 736 706 تنظیم کی اہمیت اور افادیت ذیلی تنظیموں کے قیام کی غرض وغایت ذیلی تنظیموں کی نفسیاتی اہمیت جماعت کی تین ذیلی تنظیمیں.اطفال خدام انصار ان تنظیموں کی دراصل تربیتی ذمہ داری ہے جماعتی تنظیم اور اصلاح کے بغیر ہم ساری دنیا کی طرف توجہ نہیں کر سکتے قادیان میں خدام الاحمدیہ کا کا م طوعی نہیں بلکہ جبری ہو.اور خدام الاحمدیہ میں شمولیت لازمی قادیان میں خدام الاحمدیہ کا اولین قیام ابتداء میں لجنہ اماءاللہ کی طرز پر قادیان کی بعد خدام الاحمدیہ کو برتری کہ اس کی بیرون ملک شاخیں کسی جماعت یا سلسلہ میں نوجوانوں کی اہمیت حضرت رسول کریم پر نو جوانوں کی جماعت ہی ابتداء میں ایمان لائی قوموں کی ترقی کا دارو مدار نو جوانوں پر ہوتا ہے خدام الاحمدیہ وہ گلاس ہیں جن میں اسلام کی روح کو قائم رکھا جاتا ہے یہ نیا دور خدام کا ہے
146.نوجوانوں کے ذہنوں کو تیز کریں ے اپنے اندر استقلال پیدا کرنے کی کوشش کریں 163 ۸.ورزش جسمانی کی طرف خاص توجہ و علم کا عام کرنا 168 175 خدام الاحمدیہ کے کام کے اثرات صرف موجودہ زمانے کے لوگوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے.آئندہ نسلوں تک ان کے نیک اثرات جائیں گے 76 297 297 50 50 163 162 157 خدام الاحمدیہ کے قوانین قشر ہیں خدام کو ان کی روح مد نظر رکھنی چاہئے بنی نوع انسان کی ہمدردی کا سچا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا خدام الاحمدیہ کا مقصد ان غلطیوں کو دور کرنے کے لئے جو مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں.اور قوم کے اندر بیداری اور ہوشیاری پیدا کرنا زمانہ کی مخفی رویا یا ورثہ کے اثرات سے محفوظ رکھیں___ خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقاصد خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ اپنے اندر استقلال پیدا کرنے کی کوشش کرے کہ کسی کام کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے انسان برابر اپنے کام میں لگا رہے خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے ممبر سے اقرار لیں کہ اگر اس نے مفوضہ فرائض کی ادائیگی میں غفلت یا کوتاہی سے کام لیا تو وہ ہر 6 جو کسی بھی مجلس کا ممبر نہیں بنا اس نے ایک قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے کوئی جگہ ایسی نہ رہے جہاں مجلس قائم نہ ہو ہر جماعت میں مجلس خدام الاحمدیہ قائم ہو خدام الاحمدیہ میں شمولیت لازمی خدام الاحمدیہ کے ممبر کی عمر 40 سال کوئی نوجوان مجلس سے باہر نہ رہ جائے یہ ہم پر ذمہ داری ہے خدام الاحمدیہ میں تعلیم و اخلاق کی نگرانی کے لئے ایک سیکرٹری کا تقرر خدام الاحمدیہ جیسی جماعت کا وجود ایک نہایت ضروری اور اہم کام ہے 218 248 551 362,218 455 68 436 98 لجنہ.خدام الاحمدیہ.قومی تحریک کے دو بازو.اپنے اپنے ہاں نوجوانوں کو منظم کریں اور انکی ایک مجلس بنا کر خدام الاحمدیہ نام لکھیں 53 606 54 21 54.98 103 خدام الاحمدیہ کا قیام 4 فروری کو ہوا مجلس خدام الاحمدیہ کے قواعد کی تجویز باہر کی جماعتوں کو مجالس خدام الاحمدیہ کے قیام کی نصیحت خدام الاحمدیہ کے قیام کے موقعہ پر بعض بنیادی نصائح خدام الاحمدیہ کے پروگرام میں یہ باتیں شامل ہوں ا.اپنے نمبروں میں قومی روح پیدا کریں ۲.اسلامی تعلیم سے واقفیت پیدا کریں.۳.آوارگی اور بے کاری کا ازالہ ۴.اچھے اخلاق پیدا کریں.دیانت داری 113 اور سچائی ۵.ہاتھ سے کام کرنے کی عادت 130 سزا برداشت کرنے کے لئے تیار رہے گا خدام الاحمدیہ کا قیام اس طرز پر ہونا چاہئے کہ نوجوانوں میں ذہانت پیدا ہو
98 373 98 102 362 568 549 346 146 519 455 442 قومی اور ملی روح پیدا کرنا.خدام الاحمدیہ کے ابتدائی اصولوں میں سے ہے اندرونی اصلاح اور تنظیم کو مکمل کرنے کے لئے خدام انصار اور اطفال کا قیام خدام الاحمد یہ نوجوانوں میں قومی روح پیدا کرے خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ ان کو چھوٹے چھوٹے فقرات میں لائے اور ہر میٹنگ کے موقعہ پر بار بار ان کو دہرایا جائے.مثلاً یہ فقره میں اپنی جان کی اسلامی اور ملی فوائد کے مقابلہ میں کوئی پر دانہیں کروں گا“.خدام الاحمدیہ کی غرض اصلاح خدام الاحمدیہ کے مستقل فرائض، ایمان، عمل راستبازی خدام الاحمدیہ کے ذمہ اہم ترین کام خدمت خلق ؟ سب سے اہم فرض یہ ہے کہ اس پیغام کو جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ نازل ہوا دنیا کے کناروں تک پہنچائیں خدام الاحمدیہ کے فرائض ہمارا مقصد رسول اللہ کی حکومت کا قیام خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض نوجوانوں کی تربیت اور ان کو کام کرنے کی عادت ڈالنا ہے خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کی ذمہ داریاں 7 429 424 591 530 443 130 373 53 98 52 60 656 113 101 خدام کو ہدایت کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں خدام الاحمدیہ کو دیکھنا چاہئے کہ اپنے دل میں کیا فرق اور امتیاز پیدا کیا حضور کا خدام سے بعض امور کے متعلق عہد :.ا.ہر احمدی نو مبائع تحریک جدید میں شامل ہو ۲.محنت اور دیانتداری سے قواعد کے مطابق کام ہر چیز حساب کی طرح ہر ممبر کو یاد ہو مجھے کام سے غرض ہے نمازوں اور تعلیم میں کتنی ترقی ہوئی..خدام الاحمدیہ کا ایک مقصد ہاتھ سے کام کرنے کی عادت فرائض منصبی کو دیوانہ وار سرانجام دینے کی ضرورت خدام الاحمدیہ کی غرض.سلسلہ کے وقار اور اسلام واحمدیت کی ترقی کے ضامن مردوں کی اصلاح کے لیے خدام الاحمدیہ کا قیام خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد جماعت میں ارتقائی روح پیدا کرنا خدام الاحمدیہ کا مقصد ایسی روح پیدا ہو جو اپنے فوائد کو بالکل بھلا کر دوسروں کو نفع پہنچانا اپنا منتمی قرار دے.نوجوان دین میں ترقی کریں اچھے اخلاق کا پیدا کرنا خدام الاحمدیہ کے مقاصد خدام الاحمدیہ قومی اور ملی روح پیدا کرے اور اقرار لے اور بار بارا سے دہرایا جائے
466 398 384 395 80 294 205 204 588.710 642 اگر امام کا بتایا ہوا کام نہیں کیا جاتا تو جو کچھ کہا جاتا ہے وہ صفر ہے..اخلاق کی نگہداشت خدام الاحمدیہ کا ایک اہم فرض ہے.بہت ضروری ہے کہ ہمیں علم ہو کہ ہم نے کیا کہنا ہے، ہم نے کیا کرنا ہے؟ نوجوانوں کی اصلاح کھیل کود، پڑھائی کی نگرانی ، خدام الاحمدیہ کی ڈیوٹی مجلس خدام الاحمدیہ کی غرض کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ نسلاً بعد نسل دلوں میں دفن ہوتی چلی جائے.خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد ، نوجوانوں میں دینی روح کا قیام ، نبی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ ہماری پانچ ذمہ داریاں ۱ تبلیغ ۲.قرآن پڑھنا ۳.شرائع کی حکمتیں بتانا۴.اچھی تربیت کرنا ۵.قوم کو ترقی کے میدان میں بڑھانا.نوجوانوں کی اصلاح اور مفید دینی کاموں کے لئے خدام الاحمدیہ کا قیام مجلس شورای خدام الاحمدیہ شہ سے حضور کا خطاب مقصد.یورپ کی چمک سے مرعوب نہ ہوں خدام الاحمدیہ کا مقصد کہ قربانی کے موقع پر سو میں سے سوقربانی پر پورا اتر ہیں.8 439 439 333 417 418 418 418 419 419 419 421 420 406 472 نماز باجماعت کی سختی سے نگرانی کی جائے.خدام الاحمدیہ کے پروگرام کا ضروری حصہ تربیت و اصلاح کے کاموں کی طرف خدام الاحمد یہ خاص طور پر توجہ کرے حقیقی کام اخلاقی اور علمی رنگ میں ترقی خدام الاحمدیہ کو اسی لیے منظم کیا.خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے مابین باہمی تعلق خدام الاحمدیہ نام ہے ہمارے اپنے بچوں کا خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کا ہر ممبر مقامی انجمن کا بھی ممبر ہوتا ہے خدام الاحمدیہ میں صحیح طور پر شامل ہونے والوں میں کام کی عادت پیدا ہو جاتی ہے اور ذہین اور تجربہ کار ہو جاتے ہیں خدام الاحمدیہ انصار اللہ کے بیٹوں کا نام ہے خدام الاحمدیہ نو جوانوں کی اصلاح کے لئے قائم کی گئی ہے خدام الاحمدیہ نمائندے ہیں جوش اور امنگ کے...خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ جماعت کے اتحاد کو مستحکم بنانے کے لئے ہیں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے زعماء امیریا پریذیڈنٹ سے تعاون کریں خدام الاحمد سیہ کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اخلاق کی درستی کی طرف توجہ کرے باتوں کا وقت گزر گیا اب عمل کا وقت ہے
192 174 175 175 339 534 372 440 20 446 20 220 86 92 98 104 خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ مؤذنوں کو درست اذانیں سکھائیں خدام الاحمدیہ کے سپرد کہ ورزش جسمانی کی طرف خاص زور دے خدام الاحمدیہ علم کو عام کرے خدام الاحمدیہ ہر احمدی کولکھنا پڑھنا سکھائے خدام الاحمدیہ کی ظاہری شکل اسلامی شعار کے مطابق ہو خدام الاحمدیہ.قربانی کی روح اپنے اندر پیدا کرے تمام دنیا کی اصلاح ہمارا مقصد ہے لیکن اس کے لئے ہمیں اپنے آپ کو منظم کرنا ہو گا خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ طلبہ میں تعلیم کا شوق پیدا کرنے کے ذرائع سوچیں خدام الاحمدیہ کو کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد سائنس کے ابتدائی اصولوں سے واقف ہو جائے نوجوانوں کے اخلاق کی درستی کریں ( نو جوانوں کو ) اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی ترغیب دیں سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کریں خدام الاحمدیہ بعض اوقات اپنے کاموں کے لئے جماعت کے باقی دوستوں کو بھی شامل کرے بلکہ مجھے بھی بلا لیا کریں نو جوانوں کی درستی اور اصلاح ___ کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا خدام الاحمدیہ آوارگیوں کے انسداد کے لئے کوشاں رہے 709 710 548 274 283 281 277 629 472 221 250 233,229 نو جوانوں میں اسلام کی روح کو زندہ رکھا جائے بیرونی تغیر کو جماعت کے اندر داخل نہ ہونے دیں.بڑی عمر والے خدام الاحمدیہ کے کاموں میں دلچسپی لیں اور ان کے پروگراموں میں شریک ہوں انصار الله خدام الاحمدیہ ااور لجنہ اماء اللہ کو نصائح خدام و دنصار کا فرض ہے کہ نگرانی کریں کہ کوئی دوکان نماز کے وقت کھلی نہ ہو انصار اللہ ، خدام، لجنہ کے چھے کام.(1) ایمان بالغيب (۲) اقامت صلوة (۳) خدمت خلق (۴) ایمان بالقران (۵) بزرگان دین کا احترام (1) یقین بالآخرة انصار اللہ، لجنہ ، خدام کا کام ہے کہ جماعہ.میں تقوی پیدا کرنے کی کوشش کریں.مجلس عاملہ کو حضور کی نصائح خدام الاحمد یہ دہلی کے عہد یداروں کو نصیحتیں خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال سے خدمت احمدیت کو ثابت کر دیں.مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام کچی بہادری اور سچائی کے لیے.خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ سال میں ایک ہفتہ منائیں، جس میں جماعت کے عقائد اور مخالف کے اعتراض بتائیں
86 283 736 732 732 728 687 682 650 650 788 356 103 68 10 خدام الاحمدیہ کا فرض ہے اس قسم کی آوارگی کو خواہ دماغی ہوں یا جسمانی دور کریں خدام الاحمدیہ نو جوانوں میں قومی تجارتی اور اخلاقی دیانت پیدا کرے خدام الاحمدیہ نو جوانوں میں سچ بولنے کی 109 120 عادت ڈالے اور ہر خادم سے اسکا عہد لے - 127 لڑکوں کی تربیت کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام نماز باجماعت پڑھنے کی سخت تاکید اور خدام وانصار کی ذمہ داری خدام الاحمدیہ اعلیٰ درجہ کا نمونہ قائم کرے خدام الاحمدیہ کے یہ معنی ہیں کہ تم احمدیت کے خادم ہو.خدمت کرو اور کرتے چلے جاؤ.تمہارا نام خدام الاحمدیہ ہے انصار اور خدام کا اکٹھا جلسہ اور اس میں نقائص نظم و ضبط کس طرح کا ہو ہمارے نو جوانوں کی چاہئے کہ اس قسم کے مواقع (جماعتی تقریبات) میں بنگے سر کھڑے نہ ہو ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وقت پڑنے پر وہ بڑے سے بڑا عہدہ سنبھالنے کا اہل ثابت ہو موت سے جو خلا پیدا ہوتا ہے اسے پورا کرنا نو جوانوں کا کام ہے نوجوانوں کی اصلاح کے طریق جو شخص طاقت اور اہلیت رکھنے کے باوجود آگے نہیں آتا وہ گنہگار ہے.یہ نادر موقع ہے جو شاید آئندہ نیل سکے ہمارا جماعتی پروگرام قرآن کریم ہے نسلوں کو درست رکھنا اعلیٰ مقاصد کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے 752 112 718 283 398 396,398 394 88 88 90 جماعت میں علوم کو جاری رکھنا اور علمی کتب کی تصنیف کا سلسلہ جاری رکھنا تمہارا فرض ہے خدام الاحمدیہ مؤذنوں کی اذانوں کے تلفظ کی درستی کرائے حضور کا ایک اہم خطبہ جس کے بارہ میں ہدایت تھی کہ ہر بیت الذکر اور خدام الاحمدیہ کی ہر مجلس میں اسے سنایا جائے نمازوں کے وقت دکانیں بند ہونی چاہیں.خدام انصار نگرانی کریں ہر مجلس اصلاح اخلاق کے سلسلہ میں ریکارڈ.اپنے پاس رکھے قومی جرائم چھپانا گناہ.اس کا سد باب اور خدام الاحمدیہ کی ذمہ داری خدام الاحمدیہ کے عہدہ دار نوجوانوں کے اخلاق کی نگرانی رکھیں بے کاری اور نکما پن دور کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور لیکچر کی تجویز ایسے لیکچر دلاتے رہا کریں کہ نکما بیٹھ کر کھانا غلط طریق ہے روزگار مہیا کرنا.خدام الاحمد یہ بھی اپنے ائحہ عمل میں شامل کرے
657 657 457 439 650 370 425,427 634 80 654 655 711 711 103 امیر جماعت اور دوسرے عہد یداروں سے تعاون کرد تمہاری غرض نعرے اور کبڈیاں نہیں تم نمازوں اور دعاؤں میں ترقی کرو یہ خدام الاحمدیہ اس طرح کرتے ہیں“ یہ کہنا درست نہیں خدام الاحمدیہ کوخلیفہ مسیح کی طرف سے ملنے والا آئندہ سات سالہ پروگرام بلند پروازی سے کیا مراد ہے اور وہ کن ذرائع سے حاصل کی جاسکتی ہے انصار الله خدام اطفال کے قیام میں ایک حکمت تا که نیک کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کا مادہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ پیدا ہو خدام الاحمدیہ میں انسپکٹروں کا تقرر اور اس کی اہمیت وضرورت خدام الاحمدیہ کے لئے زمین مختص کرنا مجلس خدام الاحمدیہ کی مالی امداد کرنا بھی ثواب کا کام ہے دفتر مرکزیہ کو اعداد و شمار کی طرف خاص توجہ دینے کی نصیحت ریکارڈ رکھنے کی خصوصی تلقین خدام الاحمدیہ کا دفتر ایک چارٹ رکھے جس میں مجالس کا نقشہ ہو خدام الاحمدیہ کو اپنی ترقی کا ریکارڈ رکھنا چاہئیے کاموں کی رپورٹ لینے کے فوائد اور اہمیت خواہ مخواہ مرکز میں رپورٹ کرنے کے نقائص 624 11 456 691 548 675 18 20 86 خدام الاحمدیہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں صرف کام کو ہی نہیں دیکھا جاتا بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کام کس طرح سے سرانجام دیا گیا ہے حضور نے خدام الاحمدیہ کی صدارت خود سنبھال کر ایک بہت بڑا احسان کیا اور ہمیں حکمت میں نے مجلس خدام الاحمدیہ کی صدارت اس لئے سنبھال ہے کہ نو جوانوں کو زیادہ تر دین کی طرف مائل کیا جائے حضور کے صدر بننے کی ایک حکمت کہ جوش اور امنگ پیدا ہو کہ تمہارا خلیفہ صدر ہے خدام الاحمدیہ.تحریک جدید کی کامیابی میں اس کا کردار نو جوانوں / خدام الاحمدیہ کو نصیحت کہ تحریک جدید کے اصول پر کام کرنے کی عادت ڈالیں خدام الاحمدیہ کی مضبوطی کے لئے عہدیداران کے تعاون کی اہمیت ہر خادم انفرادی لحاظ سے انجمن کے تابع ہے 455 مجلس خدام الاحمدیہ اور لوکل انجمن کے 455 اختیارات کا دائرہ مقامی امیر کو ذیلی تنظیموں کو حکم دینے کا اختیار دیتے ہوئے صدر انجمن احمدیہ کے قواعد 554 91 میں تبدیلی کا اعلان خدام الاحمدیہ سے دوسری تنظیموں / شعبوں کو تعاون کی نصیحت
442 519 مجالس کے مابین مختلف قسم کے کاموں پر مقابلے رکھے جائیں اجلاس سے قبل تلاوت اور نظم کی غلطیوں کے لئے اچھی طرح دیکھ لینا چاہئے خدام کو اجتماع کے موقعہ پر نصیحت کہ کھڑے ہونے میں بھی احتیاط اور یک جہتی سے کام خدام الاحمدیہ کو حضور کی نصائح 674 × > 14 15 15 16 خلیفہ وقت کی اطاعت کا عہد خلافت احمدیہ کے قیام کا عہد مال کی قربانی کا عہد عزت کی قربانی کا عہد وقت کی قربانی کا عہد نو جوان.ہر قوم کی زندگی اس کے نو جوانوں سے وابستہ ہے نو جوان احمدیت.کے نام خلیفہ المسیح الثانی کا لوح الہدی کے نام سے پیغام نوجوانوں کے فرائض قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی نوجوانوں کو تلقین کی جائے کہ وہ اپنے اندر ایسی روح پیدا کریں کہ اسلام اور احمدیت کا حقیقی مغز انہیں میسر آ جائے جب بھی تم حکم دو تو محبت پیار اور سمجھا کر دو ایسے ذرائع اختیار کرنے چاہیں جن سے نوجوانوں کے دماغ کی تربیت ہو 12 357 76 19 86 76 788 682 682 682 692 466 576 326 326 327 خدام الاحمدیہ انصار اللہ تحریک جدید میں لوگوں کو حصہ لینے کی تلقین کرے مجلس خدام الاحمدیہ تحر یک جدید کی فوج ہے خدام الاحمدیہ کے ابتدائی کاموں کا ذکر اور ان پر حضور کی خوشنودی خدام الاحمدیہ.مجھے خوشی ہے کہ خدا کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہی ہے مجلس خدام الاحمدیہ نے نہایت شاندار کام کیا ہے مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے اجتماع سے حضور کا خطاب سالانہ اجتماع سے حضور کا خطاب اور ہدایات خدام کے کھڑے ہونے ے بارے میں ہدایات اور جائزہ عہد دہراتے وقت خدام کس طرح کھڑے ہوں گے انصار اللہ کے اجتماع کی ہدایات خدام کے اجتماع کی طرح اور...خدام الاحمدیہ ایسی کھیلیں رائج کرے جو آئندہ زندگی میں بھی کام آئیں سالانہ اجتماع خدام میں شامل ہونے والے خدام کے لئے سیدنا حضرت مصلح موعود کی طرف سے ضروری ہدایات ریلی کے لئے حضور کی ہدایات مشاہدہ معائنہ مجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے موقعہ پر حضور کی راہنمائی علمی مقابلوں میں مجالس کی نمائندگی ضروری ہو
30 ته چه 31 31 31 34 34 36 39.43 43 43 نه شله 43 45 48 57 د نیا کو معلوم ہو کہ احمدی اخلاق کتنے بلند ہیں سچائی کو اپنا معیاری اردو خادمات ایک عہد / اقرار ___ " تم بر نمبر سے یہ اقرار لو کہ امرہ و جھوٹ بولے گا اور اس کا جھوٹ ثابت ہو جائے گا تو وہ خوشی سے ہر مز ا برداشت کرنے کے لئے تیار رہے گا اگر تم یہ کام کرو تو گو دنیا میں تمہارا نام کوئی جانے یا نہ جانے مگر خدا تمہارا نام جانے گا نو جوانوں کو نصیحت کرنے سے مراد صرف چالیس سال کے افراد ہی نہیں بلکہ بڑھاپے کا تعلق عمر سے نہیں دل کے ساتھ اپنی حالت کو مد مارنے اور دین کی خدمت کے لئے تقوی اور سعی سے کام لینے کی طرف توجہ کریں اگر ہمارے نوجوان اصلاح کرلیں.اسلام اور اللہ تعالٰی کی محبت، نیکی، سچائی ہمت 13 اپنے دلوں میں پیدا کرو بنی نوع کی خدمت کا شوق اپنے اند.پیدا کرو تم جو آج اسقدر کمزور سمجھے جاتے ہو تم ہی دنیا کے روحانی بادشاہ ہو گے دنیا کی بہتری کی کوشش میں لگ جاؤ اپنے دلوں میں ایک عزم لے کر کھڑے ہوں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کو حاصل کرنا ہے نومہ کا مدعا اور متقصد نوجوانوں کے دماغوں میں رائج ہونا چاہتے جسم مرسکتا ہے لیکن اعلیٰ مقصد کو لے کر اٹھنے والی روح نہیں مرسکتی 16 16 20 22 24 25 30 27 28 28 29 30 33 30 30 نوجوانوں میں اگر نکما پن یاستی یا جھوٹ کی عادت پیدا ہو جائے تو ہ و قوم تباہ ہو جاتی ہے نو جوانوں کے اخلاق کو تسبیح رنگ میں ذممالنا قوم کی ترقی کے لئے ممد ہے دینی علوم کے پڑھنے اور پڑھانے کی طرف توجہ کریں خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ تعداد پر بھروسہ نہ ہو بلکہ کام کرنا انکا مقصود ہو خدام الاحمدیہ کے نو جوانوں کو نمونہ بننا چاہئے دوسروں کے لئے قادیان کے نوجوانوں کو نیک نمونہ دکھانے کی تانتین حضرت طلحہ کا نمونہ اختیار کرنے کی تلقین یہ ممکن نہیں کہ تم نیک کام کرو اور خدا تمہیں قبولیت نہ دے اپنی عقلوں اور ذہنوں کو استعمال کرو ہر کام کے لئے خلیفتہ امسیح یا کسی ناظر یا کسی عہدیدار کے حکم کا انتظار یا امید نہیں کرنی چاہئے سلسلہ کے درد کو اپنا درد سمجھیں ہر خادم یہ اقرار کرے کہ احمدیت کا سننون میں ہوں اور اگر میں ذرا بھی ہلا اور میرے قدم ڈگمگائے تو میں سمجھوں گا کہ احمد بیت پر زد آگئی اپنے عمل سے اپنے آپ کو مفید وجود بناؤ به ده تیر جو اسلام کی طرف پھینکا جاتا ہے اپنے ہاتھوں اور سینوں میں لینے کے لئے تیار ہو جاؤ
95 106 105 126 147 148 180 190 190 سلسلہ کے ہر محکمہ کو کام ایک پروگرام کے ماتحت کرنا چاہئے بڑوں کا فرض ہے کہ چھوٹوں کو آداب سکھائیں ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں ڈالنا اور گلیوں میں پھر نا وقار کے خلاف ہے تمہارا ایک کام یہ ہے کہ تم نو جوانوں میں قومی دیانت پیدا کرو خواہ مخواہ مشورے دینا اور بحثوں میں اُلجھ کر وقت کو ضائع کرنے کی عادت بے توجہی اور ذہانت کا فقدان اور ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دینے کا مرض نوجوانوں کے اخلاق سدھارنے سے جماعت کو عظیم الشان فائدہ پہنچ سکتا ہے ہمیشہ اپنے آپ کو قومی اور ملکی خدمات کے لئے تیار رکھیں ہماری جماعت کے نوجوان دلائل سے کام لینے والے اخلاق فاضلہ کے مالک اور دعاؤں سے کام لینے کی عادی ہوں آپ لوگ اپنے اوقات کی قربانی دیں مال کی جان کی...صرف مجالس میں شامل ہونا کافی نہیں 221 ہماری جماعت کا ہر فرد ایمانی لحاظ سے مضبوط ہو 231 ہماری جماعت کے افراد کو شکاری پرندے بننا چاہئے 233 ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام 233 افراد کو دوسروں کے دلائل سے آگاہ رکھیں 14 57 65 65 69 71 71 71 71 72 72 72 72 89 90 ہمارے نوجوان یہ روح اپنے اندر پیدا کریں قوم کی خاطر قربانی کرنے کی روح اور ولولہ ہر احمدی نوجوان کے دل میں ہونا چاہئے ہر احمدی نوجوان کو اپنے اندر یہ ولولہ اور روح پیدا کرنی چاہئے کہ وہ قصر احمدیت کی اینٹ ہے.اور قربانی کی روح اس کے اندر ہو بلند عزم و ہمت والے نو جوانوں کی ضرورت ملک اور قوم کے قانونی وجود کو سمجھیں حضور کی اپنے بچوں کو نصائح مبلغین کی قربانیوں کی قدر کریں آرام سے بیٹھے رہنے اور اعتراض کرنے سے قو میں ترقی نہیں کرتیں ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو دنیوی طور پر بھی سلسلہ کے اصولوں کی خوبیوں کو ثابت کریں > تم جب ایک احمدی سے ملو تو تمہیں ایسی خوشی حاصل ہو جیسے اپنے بھائی سے ملتے وقت ہوتی ہے ہر احمدی سے محبت اور خوشی خلقی سے پیش آنا چاہئے جب کسی کو اعلیٰ ملازمت ملتی ہے تو اس میں ایک قسم کا کبر پیدا ہو جاتا ہے مگر ایک احمدی کو ایسا نہیں ہونا چاہئے جماعت میں عزت نفس کا مادہ پیدا کرنا چاہئے افراد جماعت کو روز گار مہیا کرنے میں مدد دینی چاہئے
291 291 291 301 301 302 336 338 347 349 352 361 362 362 36 364 364 اپنی جوانی کو اسلام کے رنگ میں رنگین کر نے کی کوشش کریں بڑھا پا خوبصورت کرنا ہے تو اپنی طاقتوں سے صحیح طور پر فائدہ اُٹھاؤ نماز کا مقصد.اللہ کی محبت کا دل میں قیام اور ذکر الہی سے انس نو جوانوں کو ذکر الہی کی رغبت دلائی جائے نو جوانوں میں یہ باتیں پیدا کریں کہ اصل چیز ذکر الہی خدا کی محبت اور مساجد سے تعلق حفظ قرآن حفظ حدیث کے مقابلے خدام کی عمر ہی ایسی ہے جس میں مومن دل اور مومن شکل کا سوال پیدا ہوتا ہے جماعت کے ہر فرد کے اندر یہ آگ ہو کہ ہر ایک کو احمدیت میں داخل کرنا ہے نوجوانوں کو وقف زندگی کی تحریک نوجوانان جماعت سے زندگی وقف کرنے کا مطالبہ آئندہ نسل کو پہلے سے بہتر بنانے کی کوشش کرنا بہت ضروری ہے بڑوں کا فرض ہے کہ نوجوانوں کی اصلاح کریں قومی زندگی میں نوجوانوں کا کردار نوجوانوں میں ذکر الہی نمازوں کی پابندی اور تہجد کی عادت ڈالیں نوجوانوں کو دیانت محنت اور برداشت کرنے کی عادت ہونی چاہئے خدام کا فرض ہے کہ کوشش کریں سو فیصد نوجوان نماز تہجد کے عادی ہوں 15 234 238 238 239 240 242 242 242 265 265 267 270 291 جماعت میں بیداری پیدا کرو اور انہیں دینی مسائل سکھاؤ نوجوان اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کریں آج جو نو جوان سلسلہ کے لئے زندگی وقف کرتا ہے ایسے واقفین کی ضرورت ہے....کہ ان میں سے قاضی تیار ہوں، مفتی مدرس عربی....جومر بی تیار ہوں وہ بھی تقویٰ کے ماتحت کام کریں.سنجیدگی کا دامن کبھی نہ چھوڑیں اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو ہمیشہ مد نظر رکھیں.ان کا مقصد کبھی بحث نہ ہو قومی فرائض سے ایک اہم ترین فرض بچوں کی صحیح طریق پر پرورش کرنا بھی ہے بچوں کو نماز اور ورزش کی عادت ابھی سے ڈالیں بچوں کو محنت ومشقت کا عادی بنایا جائے افراد کا محنت نہ کرنا ایک قومی جرم ہے بعض افراد کی غلطیوں سے قومیں بدنام ہو جاتی ہیں طالبعلموں کے سامنے متواتر لیکچر دلوائے جائیں کہ سچ بولنے کے کیا فوائد ہیں اور جھوٹ بولنے کے کیا نقصانات ہیں اساتذہ بچوں کے دلوں میں تلاش اور جستجو کا مادہ اُبھاریں میں نو جوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاق میں تغیر پیدا کریں
467 472 473 473 473 474 476 480 485 486 486 496 500 501 514 جماعت کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی کوشش کی جائے مصائب اور دکھوں کے زمانہ میں سوناموت سے کسی طرح کم نہیں اپنے اس عہد کو ہمیشہ مد نظر رکھو ایک دوسرے سے بڑھ کر قربانیاں کرنے کے لئے تم احمدیت میں شامل ہو قومی عزت قربانیوں کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی ہمارے خدا کے دربار میں بیروں اور موتیوں کی بجائے خونِ دل کے قطرے قبول کئے جاتے ہیں ہمارے نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے کاموں میں ہر وقت مجبوری اور عذر و پابندی کی لعنت کو ختم کرنا چاہئے اپنے مقام کو سمجھو اور اپنے فرائض کا صحیح احساس پیدا کرو کام سے بھاگنے اور گریز کی بُری عادت ( کارکنان سلسلہ کے لئے نصیحت ) دفتروں کے کارکنان اور ان کے کام کرنے کی رفتار اپنے اندر محنت اور قربانی کی عادت ڈالیں ہرفن کے مقابلہ کی مہارت ہونی چاہئے ایک منٹ بھی تمہارا ضائع ہو جائے تو سمجھو کہ موت آگئی جماعت کی آئندہ ترقی کی ذمہ داری ہم پر نہیں نو جوانوں پر ہے 16 380 387 388 393 395 442 445 452 464 460 460 460 464 464 ایک آگ ہو جو ہمارے سینہ میں ہر وقت مناق رہی ہو کامیابی کے نے کی نصب العین کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے اسلام کی واقفیت نوجوانوں کے لئے اشد منہ روری ہے عملی نمونے کی اہمیت خدام میں محنت کی عادت پیدا کرنا بہت ضروری ہے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور اپنے کام کو زیادہ عمدگی کے ساتھ چلانے کی کوشش کرو نوجوانوں کو مشینری کے کاموں، گھڑ سواری سائیکل مرمت اور سواری و غیر د کے کاموں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے ہر مرد اور عورت میں فدائیت اور جانثاری کا جذ بہ ہو نو جوانوں کو ___ اپنی نگاہیں اونچی کرنی چاہیں نو جوانوں کو جلدی جلدی کام کی عادت ڈالنی چاہئے اور سستی اور غفلت کو ترک کرنا چاہئے ہمارے نوجوانوں میں دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ مستعدی کے ساتھ کام کرنے کی عادت ہونی چاہئے ہمارے نوجوان ہرفن میں کمال پیدا کرلیں زیادہ سے زیادہ نوجوان خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں ہماری کامیابی ہمارے طالب علموں کے ہاتھ میں ہے
589 594 نو جوانوں کو کام کرنے اور محنت کی طرف توجہ دینی چاہئے تا کہ آمد اور چندوں میں اضافہ ہو مرکز میں آکر جو کچھ سیکھیں اسے اپنے مجالس تک پہنچا نہیں چودہویں تربیتی کورس کے اختتام پر حضور کی بدايات 598 جو خادم مرکز میں آ کر سیکھے وہ وائیں جا کر سیکھائے 599 احمدیت کے ذریعہ اس عہد کو پورا کرنا جو 601 604 606 604 608 621 623 631 638 638 639 رسول کریم نے خدا تعالیٰ سے کیا اپنے اندر ایک آگ پیدا کرد.سال رواں کے موقعہ پر حضور کی خدام الاحمدیہ کو نصائح حضور کا تربیتی کورس میں شامل ہونے والوں سے عہد جو تین مرتبہ لیا دنیا میں وہی قو میں جیتا کرتی ہیں جن میں صداقت ہوتی ہے مطمح نظر کا اونچا کرنا احیائے دین کے لئے نیا جوش اور عزم پیدا کرو ایک انگریز نو مسلم کوحضور کی نصائح کسی منٹ میں بھی اپنے کام کو پیچھے مت ڈالو.مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے موت آ جاتی ہے مومن کو اپنے کام میں ست نہیں ہونا چاہئے زندہ قوموں کی علامت کہ نوجوان اپنے بڑوں کے قائمقام بننے کی کوشش کرتے ہیں 17 526 529 536 538 545 545 556 559 559 561 562 564 579 نو جوانوں کو خدا تعالیٰ کے سامنے رونے اور فریاد کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے ہمیں اپنے کاموں میں اولوالعزمی قائم رکھنی ہوگی مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ کا حضور کی خدمت میں عصرانہ اور حضور کی نصائح ہمارے نو جوانوں کو چاہئے کہ وہ پنجابی زبان چھوڑ دیں جنون کی ضرورت ہے اور جنون ہی تمہیں کامیاب کرے گا انگریزیت کا مقابلہ کرو.شعائر اسلامی کو ترجیح دو.تعلیم الاسلام کالج کے جلسہ تقسیم اسناد سے حضور کا خطبہ صدارت اور نو جوانوں خصوصاً طلبہ کو راہنما نصائح ہمارے نو جوانوں کو چاہئے کہ وہ یہ امر ہمیشہ مد نظر رکھیں کہ اس زمانہ میں سکوت موت کا نام ہے تعلیم ختم ہونے کے بعد آرام کا نہیں کام کا وقت آ گیا پاکستان.اپنے ملک کی عزت اور ساکھ دنیا میں قائم کرو اے خدائے واحد کے منتخب کردہ نوجوانو ! ملک کی امیدوں کے مرکز و..نوجوانوں میں اخلاص اور قربانی کی روح پہلوں سے زیادہ ہونی چاہئے اقرار کرو کہ تم ہمیشہ سچ بولو گے حضور کا خدام سے عہد
662 677 679 انسان تو ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا لیکن تو میں اگر چاہیں تو زندہ رہ سکتی ہیں ہرمشکل میں ہم مسلمانوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں احمدی نوجوانوں کو زیادہ جوش و خروش سے ملک اور قوم کی خدمت کرنی چاہئے کام کولٹ کا نا قوم کو ذلت کی طرف لے جاتا ہے 688 688 690 691 691 718 722 725 730 731 731 732 ریڈ ٹیپ ازم کی اصطلاح اور اس کے نقائص میری کئی راتیں ایسی گذری ہیں کہ میں رات کو عشاء کے بعد کام شروع کیا اور صبح کی اذان ہوگئی.تم یہ کیوں نہیں کر سکتے حضور کا سخت بیماری میں بھی کام کرنا جو نوجوانوں کے لئے مثال اور نمونہ ہے اپنے کاموں میں چستی پیدا کرو جماعت کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ وہ محنت سے کام کریگی خود بھی محنت کی عادت ڈالیں اور دوسروں کو بھی محنت کی عادت ڈالیں اگر تمہارا کوئی بھائی کمزور ہے تو اسے سمجھانے کی کوشش کرو خدام وانصار کے افسردہ چہر دے دیکھ کر حضور کی نصیحت نوکر متاجر افسر سب محنت، دیانت اور خدمت خلق کے جذ بہ سے کام لیں دعائیں کرہ و خدا تعالیٰ ہمارے ملک کو عذابوں سے بچائے تم دنیا کے لئے ایک ستون ہو اور تمہارے ذریعہ سے ملک کی چھت قائم ہے 18 640 642 643 644 644 646 646 647 647 647 647 648 650 657 658 659 خدائی جماعتوں اور فدائی سلسلہ کے نو جوانوں کو کیسا ہونا چاہئے تم نے ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے اپنے اوقات کو صحیح رنگ میں گذارد تو جوان دلوں کی اصلاح کریں نو جوانوں کو چاہئے کہ وہ کوشش کریں کہ ہمیشہ یاد گار قائم کرنے والا کام ان سے ہو جائے اپنے فرائض منصبی اور قومی ذمہ داریوں کی طرف توجہ کریں قومی زندگی نوجوانوں کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہے ہمارے نوجوانوں کو محنت کی عادت پیدا کرنی چاہیے مومن خطرات کا خیال رکھتا ہے سمجھدار نو جوان کا کام ہے کہ وہ اپنے ملک کے حالات اور ماحول پر غور کرے ملک اور قوم کی ترقی کے ذرائع پر غور کرنا سمجھدار نو جوان کا کام ہے ملک (پاکستان) کی ترقی کے لئے نوجوانوں کو نصائح ہماری جماعت کے نوجوانوں کو غور وفکر اور بلند پروازی کی عادت ڈالنی چاہئے ذکر الہی کی عادت اور اخلاص اور نمازوں کو درست کرنا تم اپنے اندر محنت اور دیانتداری پیدا کرد قوم اور ملک کے لئے مفید وجود بننے کے لئے نصائح اور ہدایات
765 795 804 808 809 812 816 817 818 خلافت کے بارہ میں نصیحت اپنے اندرا اخلاص پیدا کرو اور ہمت نہ بارو حضرت مسیح موعود کی دعا اور خواہش کو پورا کرنا ہر ایک کا فرض ہے اللہ پر توکل رکھو اور ہمیشہ دین کے پھیلانے کے لئے قربانیاں کرتے چلے جاؤ اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت بجالاؤ لالچ اور حرص کے جذبات سے بالا تر رہتے ہوئے خدا تعالیٰ کا جماعت سے غیر معمولی ترقیات کا وعدہ ___ اور نصائح اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو نو جوانوں کو چاہئے کہ سلسلہ کی خدمت کا تہیہ کرلیں سلسلہ کی ضروریات اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کرو 19 733 733 733 734 736 737 737 737 739 740 742 748 752 753 756 761 763 جوانی میں تہجد پڑھنے والے دعائیں کرنے والے بڑے نادر وجود ہوتے ہیں ابدال در حقیقت وہی ہوتے ہیں جو جوانی میں اپنے اندر تغیر پیدا کر لیتے ہیں حضور کی خدام کو دعا ئیں اور توقعات تمہارا نعرہ یہ ہونا چاہئے انسانیت زندہ باد جوانی کی عمر ہی وہ زمانہ ہے جس میں ذکر الہی تہجد اور دعا کی طاقت ہوتی ہے دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے کام کو تا قیامت زندہ رکھو تم ایک عظیم الشان کام کے لئے کھڑے ہو.ہمیشہ ہی اسلام کی روح کو قائم رکھو میں نو جوانوں کو کہتا ہوں کہ وہ دین کی خدمت کے لئے آگے آئیں بچوں کو حضور کی نصائح اور اعلیٰ تو قعات کبھی بھی یہ مت خیال کرو کہ لوگ تمہارے کام کی قدر نہیں کرتے...مبلغین، کلاس کے طلبہ اور جوانوں کو نصائح قومی خدمت کا جذ بہ قیامت تک قائم رکھنے کے بارہ میں غور و خوض کی دعوت نوجوانوں سے توقعات نو جوانوں کو دعاؤں اور رویا و کشوف کی نعمت حاصل کرنے کی طرف توجہ یا درکھو کہ ایمان شیشہ سے بھی زیادہ نازک چیز ہے اور اس کی حفاظت کے لئے غیرت کی ضرورت نوجوانوں کو نصیحت
21 الجنہ اماء الله ) عورتوں کی اصلان نے نئے بجنہ اماء اللہ کا 87,98,274 قیام لجنة الماء اللہ عورتوں ، روزگار مہیا کرنے میں 277,452 90 541 87 18 31 87 630 84 69 مفید کام کر رہی ہے ترجمه قرآن کریم کی ایم بچوں اور لجنہ اماءاللہ میں جاری کریں لجنہ کے لئے پتکیم کہ کوئی بیوہ اور یتیم ایسی نہ رہے جو خود کام کرتی اور اپنی روز کی نہ کماتی ہو تحریک جدید کی کامیابی کے لئے اس تنظیم کی اہمیت لجنہ کونصیحت کہ وہ اس رنگ میں کام کریں قادیان اور سیالکوٹ کی لجنہ کی تعریف لجنہ کا مرکزی دفتہ کی تعمیر اور حضور کا اظہار خوشنودی لڑکوں اور اثر کیوں کی اصلاح میں سے متقدم لڑکیوں کی اصلاح ہے لڑکیوں کی تربیت.
578 223 متفرق مضامین سالانہ اجتماع کے دوران ہر وقت کام میں مشغولیت کی مشق اجتماع میں تعلیمی اخلاقی اور مذہبی رنگ کے مقابلے ضروری ہیں 333 (LT).آخرت پر یقین آزادی ہر شخص آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کو پھیلانے کا حق رکھتا ہے آوارگی بچپن میں پیدا ہوتی ہے اور سب بیماریوں کی...Z علم آوارگی کو دور کرنے سے بڑھتا ہے آیات قرآنی کے لئے دیکھیں صفحہ ابتلا 281 224 104 105 1 کچی قربانی کا مفہوم اور ابتلاؤں کی فلاسفی 298 سیلابوں اور ابتلاؤں کی فلاسفی اثر 300 ظاہری حرکات وسکنات کا قلوب پر اثر پڑتا ہے 674 اجتماع سالانہ اجتماع کے بارے میں غور کرنے کی طرف تجویز کہ کن دنوں میں ہوا کرے اور یہ کہ اجتماع نومبر میں ہو اجتماع پر نہ آنے والے خدام پر حضور کا اظہار افسوس 626 628 246 اجتماع کے مواقع پر بنیادی مسائل پر لیکچر اور جنرل نالج کا پر چد رکھنے کی ہدایت اجتماع کے موقعہ پر تقاریر کے لئے ہدایات اجتماع کی حاضری پر حضور کا تبصرہ اجتماع کے موقعہ پر حلقوں میں ایک ڈسپلن کے ساتھ خدام ہوں اور ایک حدیث نبوی سے استنباط احمدیت.نیز دیکھیں ”سلسلہ احمدیہ احمدیت الگ مذہب نہیں احمد بیت صحابہ کے نقش قدم پر یہ خدا کا سلسلہ ہے احمدیت میں داخل ہو کر ایمان اور عمل کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے احمدیت کے بارے میں یورپ اور امریکہ میں بارہ ایسی کتب جس میں جماعت کو فعال قرار دیا گیا 334 584 424 93 288 209 24 571 سلسلہ کی تاثیرات لمبے عرصے کے بعد ظاہر ہوں گی جماعت کی الہی تائید اور تدریجی ترقی 378 80 765 جماعت کا تقویٰ پر قائم ہونا بے حد ضرور دی ہے 276 آج کوئی ایسا انسان نہیں جو قر آنی اور احمدی تعلیم کے مقابلہ میں معقول بات پیش کرتا ہو جماعت احمدیہ کی ترقی 184 766
ظاہر کی بناؤ سنگھار کی بجائے اچھے اخلاق دلوں پر اثر کرتے ہیں اخلاقی برتری کی اہمیت 343 51 ادب.(آداب) نوجوانوں کو اسلامی آداب سکھانے کیطرف توجہ نہیں کی جاتی 106 اذان اذانوں کی اصلاح کی طرف توجہ اور اسکی 112 اہمیت 24 24 اذان کی خوبصورت آواز سن کر ایک سکھ کی بیٹی کا اسلام قبول کرنے کا ارادہ لیکن..اردو اردو زبان کی بے بسی اور بے کسی 192 536 اردو زبان کو نئی زندگی دو اور ایک نیا لباس پہنادر 537 ہمیشہ اردو میں ہی گفتگو کریں اردو زبان کو اپنا ؤ اور اتنا رائج کرو کہ یہ تمہاری 537 538 536 559 557 373 78 588 800 353 550 7.96 76 72 76 340 بعض ممالک میں احمدیوں کی غیر معمولی کثرت ایک انگریز خاتون کا بیان کہ اسلام احمدیت کے ذریعہ افریقہ میں تیزی سے پھیل رہا ہے جماعت کی مالی قربانی اور اخلاص کا تذکرہ احمدیت کی ترقی بغیر قربانی اور وقف کے نہیں ہو سکتی جماعت احمد یہ پر سورج غورب نہیں ہوتا احمدیت کی ترقی کے ساتھ اسلام کی ترقی اور اس کی ترقی کے ساتھ دنیا کی ترقی وابستہ ہے ایک احمدی دوسرے احمدی کا روحانی رشتہ دار احمدیت کی ترقی کے لئے دو کام بہت ضروری ہیں (i) تعلیم و تربیت (i) تبلیغ واشاعت احمد یہ.ہوٹل احرار.جماعت کو مٹانے کے بلند بانگ دعاوی اور اللہ تعالیٰ کی جماعت کے حق میں تائید و نصرت اخلاق 477 جماعت کے اخلاق کی درستی کا کام ہمیشہ 408 جاری رہنا چاہئے اخلاق روحانیت کا جسم ہیں جماعت کے لئے اخلاق کی اہمیت 262 266 جماعت کے اخلاق کی درستی کا کام ہمیشہ 408 جاری رہنا چاہئے نظر کی تیزی اخلاق فاضلہ سے حاصل ہوتی مادری زبان بن جائے اردو زبان کی خدمت کرنے والے حفیظ جالندھری اور علامہ اقبال استخاره بڑے کام کے لئے استخارہ کی سنت دعائے استخارہ میں ایک اہم نکتہ استعمار.مغربی استعمار کے ظالمانہ ارادے استقلال استقلال کی اہمیت و ضرورت 53ء کے فسادات میں احمدیوں کا غیر معمولی 708,709 استقلال 267
752 14 407 84 جماعت میں اشاعت علوم کی روایت قائم رکھیں اصلاح قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی قوم کی اصلاح افراد کے ہاتھ میں ہے لڑکوں اور لڑکیوں کی اصلاح میں سے مقدم لڑکیوں کی اصلاح ہوتی ہے اصلاح کا ایک اور ذریعہ علمی اور دینی گفتگو کی مجالس کا انعقاد ہے 107 اصلاح وارشاد.نیز دیکھیں زیر لفظ تبلیغ “ اصلاح وارشاد کے کام کی اہمیت 279 اصلاح وارشاد کے کام وسیع کرنے کی ضرورت 805 اصلاح وارشاد کا کام.274 اطاعت 739 518 712 556 473 322 385 خلیفہ وقت کے حکم کی اطاعت اور خالد بن ولید کا جذ به اطاعت اعتراض حضرت مسیح موعود پر کسی کا اعتراض کرنا کہ آپ 25 25 کو تو ض“ بھی صحیح طور پر ادا کرنانہیں آتا اعداد و شمار اعداد و شمار کی اہمیت اور احتیاط کی ضرورت الله صنات کے لحاظات غیر متناہی تغیرات کا حامل ہے اللہ تعالی سب سے زیاد وہ نما دارت کسی چیز کو خدا کے مقابلہ میں مت کھڑ ا کرو چیز کوخدا " خدا محبت سے مسیقی نظریہ اور اس پر تجہ : 472 385 82 36,37 275 36 739 521 801 377 38 507 794 737 اسلام کا شاندار ماضی اسلام کا پیغام اسلام اسلام میں جب کوئی خرابی ہوگی تو اس کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے کوئی کھڑا ہوگا اسلام کی زبوں حالی اور حضرت مسیح موعود کی بعثت اسلام کی بنیاد تقومی پر ہے اسلام پر بیرونی حملے اور اپنوں کی طرف سے اصلاحات“ کے نام سے اس کو مٹانے کی کوششیں خدا تعالیٰ کے اس وعدے پر یقین رکھو کہ اسلام اور احمدیت نے دنیا پر غالب آتا ہے اسلام کی تعلیمات پر جاہلانہ حملے اور اعتراض پنجاب کے گورنر لارڈ ھیڈ لے کا کہنا کہ افریقہ میں اتنا بڑا تغیر سے کہ نہیں کہہ سکتا کہ مسلمان عیسائیت کا شکار ہیں یا عیسائی اسلام کا شکار اہل یورپ اسلام کا غور کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اسلام کو فتح ہو کر رہے گی اور حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ہوگی اپنے آدمی دین کی بھٹی میں ڈالنے ہوں گے تب اسلام کامیاب ہوگا یہ زمانہ اسلام کے غلبہ کا ہے اور اسلام کی خدمت خدا نے احمدیوں کے سپرد کی ہے اشاعت یاد رکھو کہ اشاعت دین کوئی معمولی چیز نہیں
153 158 418,455 156 156 712 593 53 627 744 410 26 26 الہام حضرت مسیح موعود کے الہامات قرآن کریم کی تفسیر ہیں حضرت مسیح موعود کے الہامات كل بَرَكَةٍ مِنْ مُحمدٍ جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو.خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا...99 275 40 بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے 813 حضرت مصلح موعود کا خلافت کے آغاز میں ایک الہام امام بار بار امام کے آنے کی ضرورت دنیا اماموں کی ہمیشہ محتاج رہے گی 775 196 196 15 انجمن تشحیذ الا ذہان اور ذہانت انجمن تشحیذ الا ذبان کے ابتدائی حالات انجمن لوکل انجمن انڈیکس کتابوں کے انڈیکس کی اہمیت ریکارڈ اور انڈیکس کی اہمیت اعداد و شمار کی اہمیت اور احتیاط کی ضرورت انعامات کی تقسیم کے متعلق حضور کی خدام کو ہدایات انگریز اسلام کے غلام ہو کر رہیں گے انگریزوں سے خواہ مخواہ نفرت کرنے کی وباء اور نقص انگریزی.حضور کی کتب کا مطالعہ اور انگریزی 570 568 276,277 کو ٹھیک کرو.....ز بر دست مبلغ بن جاؤ گے اولاد.دوام بخشنے والی چیز اولا دہی ہے ایمان ایمان اور عقیدہ میں فرق ایمان.ایک بنیادی اصل اور اس کی تشریح ایمان بالغیب کے فوائد ایمار ایثار اور اس کی اہمیت وافادیت ایثار کی خُو انسان کو خدا کا مظہر بنادیتی ہے آنحضرت کا لفظ ایثار استعمال کرنے میں حکمت اور اس کے فوائد آنحضرت کا فرمانا کہ آخری زمانے کے فتنہ سے بچنے کا ذریعہ یہ ہوگا کہ ایثار سے کام لیا جائے 618,619 60 618 619 454 36 91 15 324,325 688 324 امیر یا امام کے اپنے مامور کے ساتھ تعلق امن دنیا کا امن قرآن کو رہبر ماننے میں ہے اهنگ اصل چیز عمر نہیں امنگ یا حوصلہ ہے امور عامه (نظارت) امیر امیر کے اپنے مامور کے ساتھ تعلق انتخاب عہد یداران اصدر کے انتخاب کے لئے بعض اصولی امور کی راہنمائی انتخاب کے لئے کام اور قابلیت دیکھی جاتی ہے اانتخاب کے موقعہ پر کسی قسم کا پراپیگنڈہ نہ ہو
459 289 250 255 549 416 433 443 37 622 626 729 بورڈ مختلف قسم کے بورڈ لگانا بھی تحریک کا باعث بنتے ہیں بوہرہ فرقہ کا آپس میں تعاون 476 بہادر سچا بہادر وہ ہے جو جھوٹ سے کام نہیں لیتا پس بہادر بنو اور کچے بہادر بنو بہادری کا نمونہ دکھاؤ بہانوں کی عادت نہایت خطرناک ہے 27 27 169 813 238 الف لیلہ بادشاہ حضور کا الہام کہ بادشاہ تیرے کمپٹڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اس کی تشریح مسلمانوں میں ایسے بادشاہ بھی گزرے ہیں جنہوں نے بادشاہتیں ترک کردیں اور فقیر ہو گئے بچے بچوں کی تربیت وغیرہ کے لئے دیکھیں زیر لفظ اطفال بچے کے کان میں اذان اور تکبیر کہنے کی حکمت اور اہمیت بحث مباحثہ بحث مباحثہ آوارگی میں شامل ہے جن امور میں خدا تعالیٰ یا اس کا رسول یا خلفاء اظہار رائے کر چکے ہوں ان کے متعلق بحث کرنا گستاخی اور بے ادبی ہے علم النفس کی رُو سے Debates کرنا سخت مضر ہے 104 108 108 108 بد بو کا روحانی اور سماجی تعلقات پر تباہ کن اثر 596 بناؤ سنگھار اور حقیقی صفائی میں فرق بے کاری کے مضرات بے کاری قابل مذمت ہے اور اس کا انسداد رده پردے کے بارے لوگوں کا یہ خیال کہ شاید اب اسلامی پردہ دوبارہ قائم نہیں ہو سکے گا پروگرام پروگرام ارتقائی ہونا چاہئے جو اونچے سے اونچا ہوتا چلا جائے پروگرام بناتے وقت اپنے ملک کے حالات کو مد نظر رکھنے کی اہمیت پره رسول کریم کا صحابہ پہرہ دیا کرتے تھے پیشگوئی رسول کریم کی پیشگوئی.مغرب سے طلوع 142 41,666 66 بنوامیہ کی حکومت بنو مطلب
76 738 806 807 806 488 352 347 801 497 450 60 761 634.816 190 احمدیت کی ترقی کے لئے دو کام بہت ضروری ہیں (۱) تعلیم و تربیت (۲) تبلیغ و اشاعت تبلیغ کی طرف توجبه ی نه ورت تبلیغ بھی کرو اور دعائیں بھی کرو تمام خدام سے تبلیغ اسلام کا عہد چار بزار سال تک کے لیے تبلیغ اسلام ہمیشہ جاری رکھو اور انظام خلافت سے اپنے آپ کو پورے اخلاص سے وابستہ لاکھوں لاکھ آدمی جماعت میں داخل کرنے کی ضرورت ہے تبلیغ اور روحانیت سے موجودہ طاقتوں کو مٹایا جاسکتاب تبلیغ کے لئے جلسوں کا انعقاد مبلغین احمدیت کی کوششیں تثلیث کے مسئلے پر حضور کی پادری فرگوسن تجارت ہماری جماعت کو اب تجارت کی طرف توجہ کرنی چاہئے تحدیث بالنعمت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو عملی رنگ میں فائدہ پہنچایا جائے تحریر پہچاننے کا علم.تحریک جدید تحریک جدید روح القدس کے ذریعہ دنیا میں تغیر پیدا کرنے والی سکیم 28 636 26 512 3 804 762 782 762 508 713 393 51 57 437 346 206 643 پیشگوئیوں کے متعلق اصولی امور اور قادیان کے بارے میں پیشگوئیوں کی تصریحات محمدی بیگم کی پیشگوئی پیغام حضرت مصلح موعود کا پاکستانی احمدیوں کے نام اگست 47ء میں ایک درد انگیز پیغام حضور کا پیغام لوح الہدنی“ کے نام سے خدام الاحمدیہ کے نام حضور کا ایک پیغام ر پیغامی حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے بارے پیغامیوں کے الزامات پیغامی اور خلیفتہ امسیح الا قول کی اولاد پیغامی اور خلافت کا تصور (ت) تاج محل.شاہ جہاں کا تاج محل ایک ایرانی سے بنوانا..تبلیغ.نیز دیکھیں’ اصلاح وارشاد" تبلیغ کا کام سب سے اہم ہے تبلیغ ہمارا سب سے اہم فرض ہے تبلیغ کی اہمیت تبلیغ کرنے والی جماعتوں کے لئے ایک ضروری امر تبلیغ کے سیکرٹری کے فرائض اور طریق کار میں تفصیلی راہنمائی تبلیغ بہت ضروری ہے تبلیغ سے گریز احمدیت سے گریز زیادہ سے زیادہ پتبلیغ کرو
713 706 790 791 66,266 678 78 599 206 16 تحریک جدید کے زیادہ سے زیادہ وعدے کریں تحریک جدید اور مالی خدمات کے لئے دلیری سے وعدے کریں تحریک جدید اور دوسرے چندوں میں خدام کو شامل کریں حضور کا تحریک جدید میں مالی قربانی کرنا تحریک جدید بورڈنگ تحریک لھندھی میں جماعت کی خدمات اور ایک عورت مائی جمیا کی خاطر غیرت اسلامی کا اظہار تدریج اللہ تعالیٰ جب ایک سیکنڈ میں کام کر سکتا ہے تو کیوں ایسا نہیں کرتا اس سوال کا 69 539,540 51 29 29 جواب تربیت تربیتی کورسز میں بنیادی باتیں سکھانے کی عمومی ہدایات تربیت سے گریز احمدیت سے گریز نوجوانوں اور قوم کے دماغوں کی تربیت صحابہ کرام کی مانند ہو لڑکوں اور لڑکیوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ترجمۃ القرآن کی اہمیت ترقی ترقی کا جب ایک راستہ مسدود ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے دوسرے راستے کھول دیتا ہے 190 76 706 271 590 590 547,551 357 553 564 588 28 20 18 16 میری تحریک جدید کے اعلان سے پہلے کی زندگی اور بعد کی زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے تحریک جدید کی فوج خدام الاحمدیہ ہے تحریک جدید میں شمولیت لازمی ہے تحریک جدید کے کارکنوں کو نصائح ایک احمدی بھی نہ رہے جو تحر یک جدید میں نہ حصہ لے تحریک جدید میں دعدہ کنندگان کو شامل کرنا بہت ضروری ہے کوئی نوجوان نہ رہے جس نے تحریک جدید میں حصہ نہ لیا ہو اس تحریک جدید میں جو جذبہ محبت سے حصہ لیتا ہے وہ خود بھی بابرکت ہے اور اس کے روپیہ میں بھی برکت ہے تحریک جدید دفتر دوم کی مساعی کے لئے حضور کا نوجوانوں کے نام پیغام تحریک جدید کے چندہ میں وصولی کی کمی پر حضور کی نصیحت تحریک جدید دفتر دوم کے بارے میں شوریٰ خدام الاحمدیہ میں تجویز اور حضور کا خطاب تم تحریک جدید کے والٹیر ز ہو تحریک جدید کے اصول پر کام کرنے کی خدام الاحمدیہ کو نصیحت تحریک جدید کی کامیابی کے لئے لجنہ اماءاللہ اور خدام الاحمدیہ کا قیام تحریک جدید میں عورتوں اور بچوں کا کردار اُس کو کامیاب بنا سکتا ہے
ترقی کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کا گر تعاون باہمی تعاون تعبیر علم تعبیر کی رو سے کپڑوں سے مراد جماعت بھی ہوتی ہے خواب میں بکرا ذبح ہوتے دیکھنا بیٹے کی وفات کچا گوشت، بینگن یا گنادیکھنے سے مراد غم ہوتا دودھ سے مراد علم تعلیم.سیکرٹری تعلیم کا ایک کام شعبہ تعلیم سے متعلق حضور کی راہنمائی احمدیت کی ترقی کے لئے دو کام بہت ضروری ہیں تعلیم و تربیت اور اشاعت اور اجتماع میں تعلیمی اخلاقی اور مذہبی رنگ کے مقابلے ضروری ہیں تعلیم کی طرف توجہ کریں اور اس کا مقصد ملازمت کا حصول نہ ہو تعلیم الاسلام کالج تعلیم القرآن کے کام کی اہمیت تعلیم القرآن کلاس کی اہمیت اور ہدایات تعلیم وتربیت احمدیت کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے زندگی تغیرات کا نام ہے دنیا میں قریب ترین عرصہ میں عظیم الشان تغییرات رونما ہونے والے ہیں 720 99 813 308 308 308 436,530 439 73 333 647 467 206 391 73 556 190 30 50 تفسیر ایک ایک آیات کے سینکڑوں ہزاروں معنی تفسیر کا اثر ہندوستان کے لوگوں پر نیز دیکھیں " آیات قرآنیہ تقریری مقابلوں اور مضمون نویسی کے 476 810 بارے میں خدام کو ہدایات تقریر کرنے کا انداز 582 582 حضرت مسیح موعود کی تقریر عام طور پر پچاس منٹ یا ایک گھنٹہ کی ہوتی تھی 770 جماعت کا تقویٰ پر قائم ہونا بہت ضروری ہے 276 تقویٰ کے لئے ضروری چیز ایمان کی درستی 276 تلاوت صحیح تلاوت کی طرف توجہ کی ضرورت 517 تمثیلی زبان کی اہمیت اور مقام تناسل کے سلسلہ کی اہمیت اور فلاسفی 306 360 تنزل مسلمانوں کے تنزل کی وجہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر راضی ہو کر بیٹھ جانا ذیلی تنظیموں کی اہمیت 68 422 ذیلی تنظیموں کے لئے مزید دیکھیں صفحہ 3 تا صفحه 20 تنقید اور جرح کی افادیت 516 تو به ضمیر کو روشن کرتی ہے اور گناہ سے روکتی ہے 637 729 توکل کے موضوع پر پر معارف خطاب جس شخص کو صحیح تو کل نصیب ہو جاتا ہے اُس کی کامیابی میں کوئی شبہ نہیں ہوتا سب سے اعلیٰ مقام تو کل ہے 724 728
377 817 378 472 204 205 400 جنگ عظیم کے بعد فاتح ملکوں کے منصوبے جنگ حنین اور اموال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض جنون کی کیفیت کی ضرورت جو گو مائیں ڈرایا کرتی تھیں کہ چپ کر جو گو (مسلمان) آ گیا ہے جہاد ہر زمانہ کا جہاد الگ ہوتا ہے قلم کا جہاد تبلیغ و تربیت کا جہاد جھگڑا آپس میں لڑائی جھگڑے کی عادت ایک خطر ناک نفس احمدیت کی محبت اخلاص اور تربیت 31 778 340 396 459 752 ایک کرنل کا حضور کو کہنا کہ اب فوج آپ کی حفاظت نہیں کرے گی، اور اس پر حضور کا تو کل پر مبنی جواب ٹوپی پہننا اسلامی شعار جاسوسی کا اسلامی تصور (ج) جامعہ احمدیہ کی غرض جامعتہ المبشرین کے طلباء کو خیالات میں تنوع پیدا کرنے کی تلقین جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء کی بہت بڑی ذمہ داری 478 جامعہ احمدیہ کے طلبا سے حضور کا خطاب 476 جرم قوی جرم اور فردی جرم میں فرق ناراضگی اور غصہ کی وجہ سے آپس میں گفتگو نہ کرنا قومی جرم جلسہ سالانہ کے بارے میں ہدایات جلسہ سالانہ پر حاضری جماعت کی تدریجی ترقی وہ میری جماعت میں سے نہیں“ کا مفہوم جماعت اسلامی کا جھوٹا پراپیگنڈہ 398 400 711 765 222 678 جنگ ہماری آخری جنگ کے دن قریب ہیں 514 جنگ احزاب کے حالات پر ولیم میور کا تبصرہ 533 749 جھگڑوں سے روکتی ہے 415 جھنڈا جھنڈا اور اس کا ادب اور احترام اسلام میں جھنڈے کی خاطر قربانیاں 309 312 رسول کریم ﷺ کا جھنڈے کی عظمت قائم کرنے کے لئے فرمانا کہ یہ جھنڈا کون لے گا 312 جھنڈے کی خاطر قوموں اور ملکوں کا جنگ کرنا رسول اکرم ﷺ کی سنت کی پیروی میں جماعت کا جھنڈا ایک احمدی خادم کا جھنڈے کی خاطر جان خطرہ میں ڈالنا اور حضور کا اظہار خوشنودی 311 313 313 جھنڈے کے آگے جھکنا ایک غیر اسلامی فعل 310 609 16 جھوٹ جھوٹ ابتدائی جرم جھوٹ کی لعنت 794 124 219 جنگ احد جنگ بدر جنگ بدر کے موقعہ پر کہا جانے والا تاریخی فقرہ کہ موتیں ہیں جو اونٹوں پر سوار ہیں“ جنگ تبوک
احادیث کے لئے دیکھیں صفحہ نمبر 2 حق چھوڑ نا اصل چیز ہے حقوق کے معاملہ میں زیادتی اور ایثار 621 618 مفتوح قوم کے حقوق کے بارے میں قرآنی 375 حکم ' جب بھی تم حکم دو تو محبت اور پیار اور سمجھا کر دو 15 اللہ تعالیٰ کی بعض باتوں کی حکمت انسانی سمجھ سے باہر 185 حماقت ، ہمارے ملکوں میں حماقت اور ے وقوفی کا عنصر حواس خمسہ اور ان کی اہمیت حیات بعد الموت حیات مسیح اور بھیرہ کے ایک طبیب 146 498 259 523 (خ) خاکسار تحریک کے ممبران خدمت خلق 425 خدمت خلق کے کام اور ان کی اہمیت خدمت خلق کے لئے اصولی ہدایات 742 692,694 خدمت خلق کے کام کو نمایاں کرو اور بجٹ کا ایک حصہ مخصوص کر و 692 29 643 433 279 300 خدمت خلق کے کاموں کی تلقین اور اس میں معت زیادہ سے زیادہ خدمت خلق کرد خدمت خلق کے کام اور دائرہ کار خدمت خلق کی اہمیت خدمت خلق اور خدام 32 32 404 250 256 630 630 725 36 599 545 790 627 756 542 261 308 389 392 جھوٹ نیکی میں بھی شکست دلاتا ہے سچا بہا دروہ ہے جو جھوٹ سے کام نہیں لیتا جھوٹ بول کر اپنے فعل پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہ کرو چنده چند ے کو منظم کرنا بہت ضروری ہے اپنے چندے کو بڑھاؤ چندہ نہ دینے والے مردہ لاش کی طرح ہیں آنحضرت ﷺ کا چندہ کی تحریک کرنا اور صحابہ کی قربانیاں حضرت مسیح موعود کی چندہ کی تحریک نو جوانوں کا فرض ہے کہ وہ خود بھی چندہ دیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دلائیں تحریک جدید اور دوسری چندوں میں خدام کو شامل کریں دسمبر کی چھٹیوں کی اہمیت چیلنج حضرت مسیح موعود کا دعا کے ذریعہ مریضوں کو صحت یاب کرنے کا چیلنج حضور کا ایک چیلنج حج حج کی فضیلت اور غرض حج تصویری اور تمثیلی زبان حدیث قرآن وحدیث سے روگردانی کفر ہے حدیث کی ایک کتاب جو حضور مرتب فرما رہے تھے مدرسہ احمدیہ کے نصاب کے لئے
677 551 64 464 766,776 768 512 664 662 668 806 772 772 776 خدمت خلق کے کاموں میں کبھی کبھی نمائش بھی کرنی پڑتی ہے حضرت مسیح موعود کے مشن کی خدمت کرنا سعادت سے مرنے والے کو اس کے خدمت کرنے والے ساتھیوں کے ساتھ ثواب ملتا رہتا ہے خطاب' انگریزی حکومت کے خطابوں کا نقصان خلافت خلافت کی برکات خلافت کے متعلق حضور کی نصیحت خلافت کی حفاظت تم خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرو اور ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ کرو اگر تم ایسا کرو گے تو خلافت تم میں ہمیشہ رہے گی مسلۂ خلافت کے بارے میں حضور کی ایمان افروز تقریر خلافت کے استحکام اور قیام کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہو نظام خلافت سے اپنے آپ کو پورے اخلاص کے ساتھ وابستہ رکھو آنحضرت کی وفات پر صحابہ کا خلافت کے لئے مشورہ خلافت کے انتخاب کیفیت حضور کی خلافت کی برکت سے قادیان کی ترقی 33 33 643 299 300 22 56 57 128 406 659 675 676,677 742 768 676,713 659 743 خدمت خلق سے مراد محض احمدیوں اور مسلمانوں کی خدمت نہیں وقار عمل اور خدمت خلق کی حقیقی روح خدمت خلق کے ذریعہ اللہ کا قرب جو لوگ خدمت خلق کو مقصود بناتے ہیں وہی عزت کے مستحق ہیں خدمت خلق کے کام کو عار نہ سمجھو خدمت خلق رنگ ونسل، خون اور مذہب کی تمیز سے بالا ہوکر کرو خدمت خلق خدام الاحمدیہ کے اساسی اصولوں میں سے ہے خدمت خلق کا ایک پہلو خدمت خلق کے مفید طریق اختیار کریں خدمت خلق کے کام کی رپورٹ پر حضور کا تبصرہ انفلوئنزا کی وبا میں جماعت کی خدمات سیلاب کے موقع پر خدام الاحمدیہ کی خدمات اور حضور کا اظہار خوشنودی سیلاب کے موقعہ پر خدام الاحمدیہ کی خدمات اور غیروں کا خراج تحسین خدمت خلق کے حوالے سے لاہور کے خدام کا عمدہ کام اور حضور کا اظہار خوشنودی خدمت خلق کے حوالے سے کراچی کے خدام کا عمدہ کام اور حضور کا اظہار خوشنودی خدمت خلق کے اعلیٰ نمونہ سے یورپ اور امریکہ کا منہ بند کریں جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں
خواب حضرت عمر کا خواب میں آنحضرت ﷺ سے دودھ پینا خلافت کے بارے میں حضور کا ایک رؤیا 308 664,779 حضور کا ایک رؤیا کہ کھیل وقت کا ضیاع نہیں 109 حضور کا ایک رویا 808,778 نیز دیکھیں تعبیر“ 34 === داڑھی رکھنے کی تلقین داڑھی رکھنا اسلامی شعار ہے داڑھی رکھنے کا دور رس اثر (j_) 38,520,549 401 402 داڑھی کے متعلق خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے فرائض 402 داڑھی رکھنے کی حکمتیں 403 درود شریف کی برکات درود شریف کی دعا درود شریف کثرت سے پڑھا کرو 754,784 749 784 دعا دعا کا فلسفہ قبولیت دعا کا اصل معیار 60 756 جب تک ہم دعا کیا ہمیت کو نہ سمجھیں ہم کامیاب نہیں ہو سکیں گے دعائے استخارہ اور اس کی اہمیت و حکمت 526 557 530 630 دعوتوں کے لئے کونسا سسٹم بہتر ہوگا دفتر خدام کو مرکزی دفتر بنانے کی طرف توجہ دلانا 773 817 780 739 667 784 663 784 762 خلافت کے بعد حضور کی مشکلات اور خدا کے فضلوں کی بارش حضور کی خلافت کے ابتدائی ایام اور خدا کی تائید نصرت 783 764 664 779 مسلمانوں کا خلافت کی ناقدری کرنا خلیفہ وقت کی اطاعت اور خالد بن ولید کا 148 730 جذ به اطاعت عیسائیت نے اپنی مردہ خلافت اب تک سنبھالی ہوئی ہے مسیح کی خلافت انیس سو سال سے قائم ہے خلافت راشدہ 33 سال تک کیوں رہی خدا کرے کہ مسیح موعود کی خلافت دس ہزار سال تک رہے خلافت حقہ.بعض منافقین کا کہنا کہ ہم خلافت حقہ کے قائل ہیں خلافت کی برکات کو خدام یاد رکھیں اور سال میں ایک دن خلافت ڈے کے طور پر منایا کریں خلیفہ کو معزول کرنے کا سوال خلافت کے بارہ میں حضور کا ایک رویا خلافت کے بارہ میں ایک فتنہ اور حضور کا رویا خلیفہ وقت کی ناراضگی کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے خلیفہ وقت کے لئے احباب جماعت کو کیا دعا کرنی چاہئے
725 469 148 25 816 462 جماعت سے دور ہٹنے والے افراد کے لئے دوسرے احباب کی ذمہ داری اساتذہ اور طلباء کی ذمہ داری جب ذمہ داری کا لو تو پوری تندہی اور خوش اسلوبی کے سات سرانجام دو 35 454 131 دنیا دنیا میں امن قرآن کو راہبر ماننے میں ہے دولت اسلام میں دولت کمانا منع نہیں اس دولت کے فائدہ سے لوگوں کو محروم کرنا منع ہے دُہرانے بار باردہرائی کی اہمیت اور فوائد 102,101 مومن وہ نہیں جو کہتا ہے کہ میری یہ ذمہ داری ہے اور فلاں کی وہ ذمہ داری ہے.....جماعت کے ذمہ خدا کی بادشاہت کا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ذہانت ذہانت کے فوائد اور اہمیت ہمارے نوجوانوں کو ذہین بننا چاہئے اور ان کی نظر وسیع ہونی چاہئے ذہانت کامل توجہ کا نتیجہ ہے 154 157 ذہانت کی بدولت دعا ئیں زیادہ مقبول ہونے میں مددملتی ہے 163 دنیا میں ہمیشہ ذہین اور ہوشیار ہی اعلیٰ کارنامے سرانجام دیا کرتے ہیں 462 سچا ایمان اور سچا اخلاص ذہانت پیدا کرتا ہے 146 سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کو طلبہ میں ذہانت پیدا کرنے کی طرف توجہ کرنا چاہئے 149 ذہانت بالکل اور چیز ہے اور علم اور چیز ہے.ذہانت کے بغیر علم کسی کام کا نہیں 150,149 (,) 494 434 14 رپورٹ بھیجنا ضروری ہے رجم رخنہ بُری چیز ہے 123 115 406 120 120 122 119 394 120 113 287 549 794 دیانت قومی دیانت کا مفہوم جماعت احمدیہ کے لئے قومی دیانت کی اہمیت قومی ترقیات دیانت اور سچائی کے ساتھ وابستہ ہیں ہر ملازم کا فرض ہے کہ وہ دیانتداری سے کام کرے تجارتی دیانت کا مفہوم تجارتی دیانت کی صحابہ کے اسوہ سے مثال اخلاقی دیانت اور تجارتی دیانت رکھنے والی قوم دنیا کے لئے ایک تعویذ ہوتی ہے دیانت کے بلند معیار تک پہنچنے کی ضرورت اخلاقی دیانت کا مفہوم اور یوسف ہسپانوی کا قصہ ہندوستان کو انگریزوں کا غلام قومی دیانت کے فقدان نے بنایا ذکر الہی کی اہمیت ذکر الہی کی عادت ڈالیں جماعت احمدیہ کی ذمہ داری
616 673 710 99 187 241 484 530 446 444 232 403 زندگی اپنی زندگیوں کی اہمیت کو سمجھیں زوال قوموں کے زوال کی نفسیات امت کے زوال کا ایک اہم سبب زوج_ بیوی اور ساتھی کے معنی میں آتا ہے (س) سات کا عدد تکمیل پر دلالت کرتا ہے سادہ زندگی کی تلقین فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت کا سادہ کھانا سائقین کے نظام کی اہمیت سائنس یہ سائنس کی ترقی کا زمانہ ہے اور خدام الاحمدیہ کا فرض سائنس اور مشینری کا کام سیکھو سٹھنیاں ایک رسم سچ بولنے کی اہمیت سچائی اس زمانہ میں سب سے بڑی ضرورت 607 سچ بولنے کی اہمیت جو شخص سچ نہیں بولتا وہ قوم کو تباہ کرنے والا 267 579 405 611 610 113 225 ہوتا ہے سچائی کو اپنا شیوہ بناؤ یچ ایک قیمتی چیز ہے_ دوست اُسے بناؤجو ہمیشہ سچ بولے سچائی کے متعلق احمد یوں کا مضبوط کریکٹر سچ اور دیانت جیسے بنیادی اخلاق کی طرف توجہ ضروری ہے سچائی کو ایک لمحہ کے لئے بھی ترک نہ کرو 36 701 23 258 364 755 474 644 261 35 706 156 441 468 539 794 794 775 731 رسائل اور اخبارات کے مطالعہ کی ہمارے ملک میں کمی ہے روٹری کلب کی تاریخ اور ترقی روح کو مرنے کے بعد ایک اور جسم ملے گا روحانیت کو مارنے والی باتیں نماز جلدی جلدی پڑھنا...روحانی انکشافات کے لئے کیا کرنا چاہئے روحانی گند _ _ ظاہری گند سے زیادہ خطر ناک ہے دنیا ایک روحانی تغیر چاہتی ہے اور وہ تغیر ہوکر رہے گا روزہ کی حکمت رہبانیت_اسلام نے اس کو جائز نہیں رکھا ریز روفنڈ کا قیام اور چندوں کی سو فیصد وصولی کی طرف توجہ ریکارڈ اور انڈیکس کی اہمیت ہر کام کا ریکارڈ محفوظ کرنا بہت ضروی ہے (j) مختلف زبانوں کے سیکھنے کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت زکوۃ اور بھیرہ کے تاجروں کے بہانے زمانہ یہ زمانہ اسلام کے غلبہ کا ہے اور اسلام کی خدمت خدا نے احمدیوں کے سپرد کی ہے صحابہ کا سازمانه زمیندارہ کی ناقدری زمینداروں کے لئے نصیحت
سکھ.ایک سکھ لڑکے کا حضرت مسیح موعود سے درخواست کرنا کہ میرے خیالات کے اندر تبدیلی ہو رہی ہے آپ کا فرمانا کہ جگہ بدل لو 674 سکھوں کی مشینری میں مہارت اور کنٹرول سینما اور سگریٹ نوشی جیسی بری عادات جو 444 706 24 80 342 142 340 131 300 692 802 706 314,315 251 مالی تحریکات سے بھی محرومی کا باعث بنتی ہیں سلسلہ احمد یہ نیز دیکھیں’ احمدیت“ یہ سلسلہ خدا کا ہے سلسلہ احمدیت کی تاثیرات لمبے عرصہ کے بعد ظاہر ہوں گی سنگھار.مرد کا حسن اس کے بناؤ سنگھار میں نہیں بلکہ اس کی طاقت اور کام میں ہے بناؤ سنگھار اور حقیقی صفائی میں فرق اسلام جسمانی حسن کی زیادہ نمائش پسند نہیں کرتا سود رد کی مذمت اور اس کے نقصان سیلابوں اور ابتلاؤں کی فلاسفی سیلاب کے موقعہ پر لاہور کے خدام کا قابل تحسین کام سینما بینی سے بچنے کی تلقین سینما اور سگریٹ نوشی جیسی بری عادات مالی تحریکات سے محرومی کا باعث بنتی ہیں (ش) شاہی خاندان کے افراد جو دہلی میں پانی پلانے کا کام کرتے رہے شجات_حقیقی شجاعت 37 126 160 160 160 157 161 722 158 158,160 16,353 آنحضرت ہمیشہ سچ بولتے تھے ایک شخص کا آکر حضور سے پوچھنا کہ آپ رسول ہیں؟ آپ کے جواب پر اس کا اسلام قبول کر لینا ( کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ) سزا سز ا عذاب نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے لئے رحمت کا خزانہ ہے یہ تصور غلط ہے کہ سزا دینا ظلم ہے صرف اظہار ندامت کافی نہیں موقع کے مناسب حال سزا ذہانت کو تیز کرتی ہے سزا کی اہمیت اور یورپ میں ذہانت کے معیار کی ترقی کا راز ذہانت پیدا کرنے کے دو اہم ذریعے (۱) محبت (۲) سزا اگر قصور ہے تو اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کرو.رحم اور احسان انفرادی معاملات میں ہوتا ہے تو می تنظیم میں نہیں ہندوستان میں سزا پر سفارش کی احمقانہ عادت ہمارے ہاں سزا پر سفارش اور چٹھیاں شروع ہو جاتی ہیں.اس قسم کا تمسخر کسی زندہ قوم میں نہیں دیکھ سکتے ستی کی بری عادت قوم کو تباہ کر دیتی ہے
45 533 794 16 168 324 684 688 684 685 691 159,369,634 ,690,691, 760,763,765, 711,738,767, 775,816 262 566 566,672 صحابہ رسول کا طریق تھا کہ وہ پرانی باتوں کو کبھی کبھی عملی رنگ میں قائم کر کے بھی دیکھا کرتے تھے صحابہ کی محبت رسول کا تذکرہ ولیم میور کی زبان سے صحابہ کا سازمانه صحابہ کرام کی مانند نو جوانوں کی تربیت ہو جسمانی صحت کی اہمیت صدر کے انتخاب میں ووٹ کا طریق صدر کے انتخاب کی اہمیت اور ہر ایک کے لئے رائے کا استعمال ضروی ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا خود صدر مجلس کا عہدہ سنبھالنے میں حکمت نائب صدر کے انتخاب پر حضور کی ہدایات اور راہنمائی نائب صدر اور عہدیداران کو کونسی صفات کا حامل ہونا چاہئے حضور کا سید میر داؤد احمد صاحب کو نائب صدر مقرر فرمانا صدر انجمن صدقہ وخیرات کے حکم میں حکمت صف.صف بندی کی اہمیت صف سیدھی کرنا اور اس میں حکمت 38 141 385 401 309 65 64 65 65 459 686 254 شجر کاری کے فوائد اور اہمیت شریعت مسیحیت کو غلطی لگی کہ شریعت لعنت ہے شعار اسلامی کی اہمیت شعائر اللہ سے مراد ان کے ادب و احترام کا شہادت ایسا درجہ ہے کہ بڑے بڑے صحابہ اس کی تمنا کیا کرتے تھے شہید بہت جلد اعلیٰ مدارج حاصل کر لیتا ہے شہید کے نیک اعمال جاری رہنے یا اس کو زندہ کہنے میں حکمت حضرت عمر کی دعا کہ انہیں شہادت نصیب ہو اور مدینہ میں ہو احد کے شہداء کو کپڑوں کی کمی کے باعث گھاس ڈال کر دفن کرنا (ص) صاحب الرائے سے مُراد کیا ہے صحابہ کی شجاعت صحابہ کرام کی قوت عملیہ تقوی اور اخلاص 414 سے پتہ لگتا ہے کہ ان کا سکھانے والا کتنا بڑا انسان تھا جنگ بدر کے صحابہ کے بارے میں ایک شخص کا یہ تبصرہ کرنا کہ یہ موتیں ہیں جو اونٹوں پر 277 سوار ہیں
560 731 199 128 43 17 260 261 480 260 193 192 193 389 518 تعلیم حاصل کرنے والوں پر اس کے تعلیمی ادارے اور خاندان اور ملک کی ذمہ داری طواف کے وقت ایک صحابی کا اکڑ کر چلنا اور حضور کا اس حرکت کو پسند فرمانا (ظ) مشابہت کے معنوں میں ظلم اعلیٰ اخلاق میں سے ایک ظلم نہ کرنا بھی ہے ظلم کبھی کسی کو عزت نہیں دے سکتا (ع) عادت کا فائدہ اور نقصان عبادت کا ظاہر اور باطن اسلامی عبادت کی فضیلت اور برتری مذہبی عبادات اور احکام میں لچک اور نرمی نماز اور گر جا کی عبادت میں فرق خدا تعالیٰ کے کلام کو بیان کرنے کی بہترین استعداد عربی میں ہے عربی زبان کی خوبی ہے کہ اس میں ایک موسیقی پائی جاتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی ایک پادری سے عربی زبان کی خوبی پر مکالمہ عربی زبان اتنی ضرور آنی چاہئے کہ قرآن کریم کے ترجمہ کو سمجھ سکے بعض عربی الفاظ خصوصاً ”ض“ کا تلفظ عربوں کے سوائے کوئی اور ان کی طرح ادا نہیں کر سکتا 39 729 139 142 139 402 429 139,431 595 794 648 648 87 777 750 467 آنحضور کا صفوں کو ترتیب دینا صفائی اور نظافت ایمان کا حصہ ہے.تصوف کا غلط مفہوم بناؤ سنگھار اور حقیقی صفائی میں فرق صفائی کے اہتمام کے لئے خدام الاحمدیہ عملاً کام کرے اگر تم ظاہر کو درست نہیں کرتے تو لوگ تمہارے دلوں کی صفائی کے بھی قائل نہیں ہو سکتے صفائی میں بھی ہمیں اسلامی نمونہ دکھانا چاہئے محلوں اور گلیوں کی صفائی کی طرف توجہ اور ضرورت منہ اور دانت صاف رکھنے کی ہدایت صلح حدیبیه صنعت و تجارت نیز دیکھیں تجارت“ صنعتی آزادی کے بغیر آزادی محدود آزادی ہوتی ہے نوکریوں کی بجائے پیشے اختیار کریں مانگ کر کھانے کی بجائے کما کر کھانا چاہئے (b) طاعون_ایک شخص کا دعوئی کہ اس کے گاؤں میں طاعون نہیں آئے گی اور وہ خود طاعون سے مرا طلباء غور و خوض کی عادت ڈالیں طالب علم کی پڑھائی کا بوجھل کر اُٹھا ئیں
84 85 280 773 579 630,771,768 812 807 26 87 22 22 220 20 686 655 719,722 جو قوم عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتی اس قوم کے مردوں کی بھی اصلاح نہیں ہو سکتی لڑکیوں کی تربیت زیادہ اہم ہے ہندوستان میں عورتوں کی کمتر حیثیت عورتوں کی مسجد کی تعمیر کے لئے قربانی خادم کا عہد عہد کس طرح لیا جائے حضور کا عہد دہرانا حضور کا خدام سے عہد تمام خدام سے تبلیغ اسلام کا عہد جو چار ہزار تک لیتے چلے جانے کی نصیحت کے ساتھ لیا حضرت مسیح موعود کی وفات پر حضور کا تاریخی عہد ہر شخص یہ عہد کرے کہ وہ مانگ کر نہیں کھائے گا کما کر کھائے گا عہدہ_ تمہیں خود کسی عبدہ کی خواہش نہیں کرنی چاہئے صرف عہدے لینے والے قوم اور نفس کے لئے لعنت ہوتے ہیں 40 570 538 227 623 618 105 683 538 465 102 715 36 730 572 ایمان اور عقیدہ میں فرق علم کے بغیر کبھی صحیح عمل پیدا نہیں ہوسکتا اعتقادات کی بنیاد دلائل اور شواہد پر ہونی چاہئے علم کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے علم کا استعمال آنا بھی بہت ضروری ہے علمی مجالس میں بیٹھنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے بڑے سے بڑا عالم بعض اوقات مسائل میں دھو کہ کھا جاتا ہے عالم بے عمل کی مثال اور بغیر علم کے عمل کی مثال........سلسلہ کو دونوں قسم کے علماء کی ضرورت ہے علم دین اور.....و نیاوی علوم علم النفس علم انعامی حاصل کرنے کے مقابلہ پر حضور کی بنیادی ہدایات اصل چیز عمر نہیں امنگ یا حوصلہ ہے عمر نوح کی دعا در اصل عمل ایمان کا لباس ہے عملی رنگ میں کام کرو اور دنیا کے سامنے 483 عہدے یا لیڈری کی خواہش فضول ہے اپنے کام کا نمونہ پیش کرو عورت کے کام کی تعیین پر بحث عورتوں کو حصہ دینے کے قرآنی حکم پر عمل کریں عورتوں کے حقوق غصب کرنے پر مسلمانوں کو سزا...پس عورتوں کے حق ادا کرو 101 280 280 عہدے دار میں کیا صفات ہوں عہدے داروں کے بارے میں بعض لوگوں کی شکایت کا حل عیب خدا کی طرف عیب منسوب مت کرو
40 404 663 298 65 249 316,317 510 238 68 514 550 353 484 532 426 98 408 فتنے.اور شرارتیں مٹانے کے لئے نہیں بلکہ اس کی عزت اور عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے اٹھتے ہیں قاضی کے اختیارات کی تعیین قدرت ثانیہ کے دو مظہر ۱- تائید الہی ۲.خلافت کچی قربانی کا مفہوم اور ابتلاؤں کی فلاسفی دین کی راہ میں قربانی کی اہمیت قربانیوں کی ضرورت اور ان کے ثمرات خدا کی راہ میں قربانیوں کا درجہ اصل قربانی وہ ہے جو ابتدائی ایام میں کی جاتی ہے انبیاء کے زمانہ میں قربانیاں بہت قیمت رکھتی ہیں بڑے کام بغیر بڑی قربانیوں کے نہیں ہوا کرتے نوجوان قربانی کا وہ معیار پیش کریں جسے دیکھ کر لوگ شرمندہ ہوں احمدیت کی ترقی بغیر قربانی اور بغیر وقف کے نہیں ہو سکتی جماعت کی مالی قربانی اور اخلاص کا تذکرہ صحابہ کی فاقہ کشی اور غربت کے باوجود قربانیوں کے کارنامے قرامطه فرقه قواعد بنانا کافی نہیں اُن کے نتائج کی طرف خیال رکھنا ضروری ہے قوم کا لفظ اس کی وسعت اور مفہوم قومی عزت کو ہمیشہ مد نظر رکھو 41 802 379 232 83 663 756 126 116 51 51 172 270 170 عیسائیت عیسائیت آخر شکست کھائے گی اور دین سے مٹا دی جائے گی عیسائیت کو خطرہ ہے تو احمد یہ جماعت ہے.خود عیسائیوں کا اقرار احمدیت نے عیسائیت کو بڑھنے سے روک دیا ہے...عیسائیت کی تبلیغی کاروائیوں پر ہٹلر کی تنقید اور اسلام اور احمدیت کی بالواسطہ تعریف عیسائیت میں پوپ کا مقام اور تو اتر عیسائیوں کے ایک وفد کا دعویٰ کہ آؤ اور ہم سے دعائیں کروا....(غ) غداری قومی غداری ایک خطرناک جرم قوم ایک ایسی روح پیدا ہو جائے کہ ہم مر جائیں مگر غداری نہیں کریں گے غلام قوم اور آزاد قوم میں فرق غلامی کی ذہنیت جن لوگوں کے اندر پیدا ہو جائے وہ کبھی بڑا کام نہیں کر سکتے غلیل رکھنے کی افادیت غیبت کی ممانعت غیبت کیا ہے (فق)
410 365 489 141 500 651 22 20 656 23 528 17 25 523 92 135 133 137 آئندہ نسلوں میں قربانی محنت اور کام بروقت کرنے کی روح کس طرح پیدا کی جائے چار ہزار گنا کام کرنے کی ضرورت ہے یورپین قوم کے افراد ہم سے کئی گنا کام کرتے ہیں.ہمارا ان سے مقابلہ ہے ہمارے کام اس رنگ پر ہوں کہ ان کا اثر ظاہر ہو جائے کیا دعویٰ کے مطابق کام بھی ہیں کام کرنے کا جذ بہ قوم کو اُبھار دیتا ہے اصل چیز باتیں کرنا نہیں بلکہ کام کرنا ہے ان لوگوں کا ذکر جنہیں کام سے کوئی غرض نہیں صرف چوہدری بننے یا عہدہ لینے کا شوق لوگ کام کریں گے وہی آگے لائے جائیں گے نیک کام اثر کئے بغیر نہیں رہتا دنیا میں اچھا کام کرنا اور اچھے سے اچھا کام کرنا اور اس میں فرق جو شخص کام کرتا ہے وہ عزت کا مستحق ہے جب کوئی نیک کام کرنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کر دیتا ہے بڑا کام کرنے والوں کولوگ پاگل کہا ہی کرتے ہیں.ہاتھ سے کام کرنے کا ثواب کام نہ کرنے کی عادت انسان کو بہت خراب کرتی ہے 42 قومی جرائم میں کسی کی رعائت کرنا خطرناک ہے تو میں انگلی نسل سے بنا کرتی ہیں قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی قومی مفادکو ذاتی مفاد پر مقدم کرو قوموں کی کامیابی کے لئے ایک نسل کی درستی کافی نہیں ہوتی 407 410 14 100 78 قوم کے لئے قربانی بھی عزت کا موجب ہے 238 جو لوگ قومی اور ملی مفاد کے لئے کام کرتے ہیں خدا ان کو کبھی ذلیل نہیں کرتا تو میں ہمیشہ مصیبتوں اور ابتلاؤں کی تلواروں سایہ تلے بڑھتے ہیں قومی نیکیوں کے تسلسل کو قائم رکھنا جنت کا مستحق بنا دیتا ہے 321 525 85 315 15 721 737 744 459 جوتو" وت کو معمولی بات سمجھتی ہے اُس قوم کو ابدی حیات حاصل ہو جاتی ہے قوم کی ترقی میں میانہ روی اور پر حکمت کلام کی اہمیت قوم کی بربادی کی علامت قیامتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں کام (ک) یہ دن تمہارے کام کے دن ہیں کام کا وقت یہی ہے ان میں کسی کے سپر دکوئی کام ہو تو وہ کہے میں کسی کام کو اپنے لئے عار نہ سمجھا جائے مرجاؤں گا مگر اپنا کام پورا کر کے چھوڑوں گا 414,415 کوئی جائز کام اور پیشہ ذلیل نہیں
43 کتب حضرت مسیح موعود کی کتب کو بار بار پڑھا جائے حضور کی کتب کا مطالعہ کرو.تھوڑے دنوں میں مبلغ بن جاؤ گے حضرت مسیح موعود کی کتب کے پڑھانے اور ان کا امتحان لینے کی ہدایت قرآن.حدیث اور حضرت مسیح موعود کی کتب کا درس___ حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اسیچ الثانی کی کتب کے مطالعہ اور امتحان لینے کا طریق یادرکھیں روٹی نہ لو تو کوئی حرج نہیں لیکن سلسلہ کی کتابیں لینا اور ان کو پڑھنا بڑی اہم چیز ہے.مسلمانوں کے تنزل کا سبب غیر مذاہب کی کتب کے مطالعہ سے غفلت جماعت کے علماء میں کتب تصنیف نہ کرنے کا رجمان اور جو تصنیف کر لیں ان کا اشاعت کا غلط طریق اختیار کرنا عموی اخلاق پر مشتمل چھوٹی چھوٹی کتب اور رسائل بچوں کے لئے لکھے جائیں خدام و اطفال کے لئے اصولی اخلاق پر مشتمل ایک کتب کی تجویز كشف حضرت مسیح موعود کا کشف جسمیں آپ کو وہ 278 744 29 228 392 740 226 751 433 435 بادشاہ دکھائے گئے جو آپ پر ایمان لائیں گے 805 کلمه الہ الاللہ محمدرسول اللہ اسلامی تعلیم کا خلاصہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی تشریح کلام اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے کلام کے کئی بطن ہوتے ہیں میانہ روی اور پر حکمت کلام قوم کی ترقی کے لئے اہم ہیں کمیونزم_نقائص کہانی بچوں کو کہانی سنانے کی ضرورت اور افادیت بچپن میں تعلیم کا ایک بہترین ذریعہ سبق آموز کہانیاں بھی ہیں حضرت مسیح موعود کا کہانی سنانا کھیل اصحت جسمانی نیز دیکھیں ورزش روح اور جسم کی مضبوطی کی طرف توجہ نو جوانوں کو کھیلوں میں حصہ لینا چاہئے لیکن مختلف کھیلوں میں ساری زندگی گزار دینا درست نہیں ورزش اور کھیل کا مقصد بہادری اور اصلاح و ہدایت کا نمونہ بنانا مختلف قسم کی کھیلوں کی طرف راہنمائی اور ہدایات فٹ بال ہاکی کرکٹ، غلیل وغیرہ تیرا کی کی افادیت 102 385 476 15 639 171 169 169 169.744 254,255 466 172 تیرا کی اور سواری کی طرف خاص توجہ دیں 594 لاٹھی چلانے کا فن_ اعلیٰ درجہ کی چیز ہے 331 -
حواس خمسہ کو ترقی دینے کی کوشش بہت ضروری ہے حواس خمسہ کی غیر معمولی اہمیت دوڑنا بھی ایک مفید ورزش ہے بچوں میں کن کھیلوں کا رواج ڈالنا زیادہ مفید ہو سکتا ہے اور بچپن کے بعض مفید کھیل کیپٹل ازم (گ) 173,327 328 173 445 173 640 گراموفون حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی آواز کی گراموفون میں ریکارڈنگ گفتگو اچھے انداز میں گفتگو کرنا بھی ایک خاص فن ہے گناه گناہ صغیرہ اور کبیرہ کی تشریح 244 107 531 گواہی (شہادت ) طلب کرنے کے بارے 404 میں اصولی ہدایت گوشواره اجتماعات وغیرہ کے موقعہ پر حاضری کا گوشوارہ پیش کرنا اور اس کی اہمیت حضور کی گھوڑیاں چوری ہونا اور.....(ل) لباس میں ضرورت سے زیادہ تکلف لغو بات 629 609 339 44 لباس اور وضع قطع میں مغرب کی نقل کا نقصان شلوار قمیض کالباس اور امریکہ ولندن لٹریچر مخالفین کے لٹریچر کو ضرور پڑھیں اور اپنے لٹریچر کو بھی.لنگر خانه ہر خیالات کی لہروں کا خاموش اثر لیڈر لیڈر بننے کی خواہش ایک بے ہودہ خیال ہے لیڈر بنا نا خدا کا کام ہے لیگ آف نیشنز کی ناکامی کے بنیادی سبب قرآن کے بیان کردہ لیگ آف نیشنز کے اصول (م) ”مباحثہ“ نیز دیکھیں ”بحث“ حضرت مسیح موعود کا محمد حسین بٹالوی سے مباحثہ مباحثہ کے منفی پہلو مولویوں کے مباحثات سے نفرت مبغلین سلسلہ کے متعلق جماعت کے فرائض مثل ایک بوڑھے کا پھلدار درخت لگانا محاسب محنت کی اہمیت اور افادیت محنت کی عادت 339 522 228 765 674 21 374 376 240 108 184 71 486 507 613 416
636 636 638 716 229 302 796 773 731 286 664 667 473 749 750 674 دائی مرکز قادیان اور اس کے بارے میں پیشگوئیوں پر حضور کی تصریحات قادیان ہی ہمار ا مر کز ہوگا.عملاً ہمارا مرکز وہی ہوگا جہاں ہمیں خدا رکھنا چاہتا ہے مسابقت کی روح مسجد سب سے مقدس مقام ہوتا ہے مساجد سے تعلق اور ذکر الہی مساجد کی تعمیر اور اہمیت برلن میں عورتوں کے چندہ سے مسجد کی تعمیر مسکراتا تم خدا اور اس کے رسول کی خاطر مسکراؤ اور مسکراتے چلے جاؤ مسلمان الفظ مسلم یا مسلمان کی تعریف مسلمانوں پر تباہی کے اسباب مسلمانوں کے بگڑنے کا ایک سبب انار کی تھا مسلمانوں کی کمزور حالت ہمیں دعوت عمل دے رہی ہے مسلمانوں میں لائق اور قابل لوگوں کے انحطاط کی وجہ کیا ہے علوم کے بارے میں مسلمانوں کی ترقی کے رکنے کے اسباب مسمریزم اور جینا نزم 45 722 602 105 71 85 640 386 224 274 635 405 244 اساتذہ کا فرض ہے کہ قوم کے بچوں میں محنت کی عادت ڈالیں مخالفت بعض مخالفین کی مخالفت کا اصل سبب ان کی سادگی مدرسہ احمدیہ کے طلباء مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کی طرف سے ایک دعوت اور حضور کا خطاب مدرسہ بنات کے لئے نصاب کی راہنمائی مذہب مذہب ایک دائمی صداقت ہے مذہب کا خلاصہ حضرت مسیح موعود نے بیان فرمایا.(i) خدا سے تعلق.(ii) بنی نوع ے شفقت مذاہب دنیا میں امن پیدا کرنے کے لئے آتے ہیں مردم شماری آنحضرت نے ایک مرتبہ مسلمانوں کی مردم شماری کرائی مرکز مرکزیت سب سے اہم ہے اور اس پر ہونے والے اعتراضات_ مرکز کے نوجوانوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے (مرکز) قادیان میں آنے کی اہمیت اور حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں نو جوانوں کا ذوق و شوق
760 761 220 596 509 494 15 635 201 606 440 91 46 مشینری اللہ تعالیٰ نے آجکل مشینوں میں برکت دی ہے پس ہمارے خدام کو مشینری کی طرف توجہ کرنی چاہئے آج کل تمام قسم کے فوائد شینوں سے وابستہ مصافحه مصافحہ کے نتیجہ میں پیار وار محبت پیدا ہوتا ہے مصلح بہترین مصلح وہ ہے جو اپنے ماننے والوں میں ایسی روح پیدا کر دے کہ اس کا حکم مانا لوگوں کے لئے آسان ہو جائے مصلح انبیاء ہمیشہ فاصلہ فاصلہ پر آیا کرتے ہیں.مضمون نویسی 445 445 142 15 83 منافقین سلسلہ کے منافقین سے تعلق غیرت کی رُوح کے منافی ہے بعض منافقین کے اعتراضات چند منافقوں کے پائے جانے کی وجہ سے ہماری جماعت بدنام نہیں ہوسکتی منہ کی بد بو مونگا مہتم عمومی لئے اہم ہیں میانہ روی اور پر حکمت کلام قوم کی ترقی کے میزانیہ تنظیم پر ہونے والے خرچ پر اعتراض اور اس کی وجہ (ن) نبی حضرت مسیح موعود کا امتی ہونا اور نبی ہونا نصیحت نصیحت.ہمیشہ اس کے لئے مفید ہوتی ہے جو اُ سے قبول کرتا ہے نو جوانوں کو حضور کی نصائح کے لئے دیکھیں خدام الاحمدية نگرانی استاتذہ کے فرائض کہ طلباء کی نگرانی کریں اور اس ضمن میں نظارت تعلیم کو حضور کی ہدایت نظارت نظارت امور عامه 582 582,583 584 73 339 443,444,445 مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارے میں خدام کو ضروری ہدایات مضمون پڑھنے کے لئے ہدایات تحریری مضامین کے لئے حضور کی ہدایات مغرب مغربی تمدن سے ہمیں متاثر نہیں ہونا چاہئے لباس اور وضع قطع میں مغرب کی نقل کا نقصان ملازمت ملازمت کی بجائے کوئی فن سیکھ کر یا محنت کا کام کرنے میں فوائد زیادہ ہیں.
272 282 304 366 670 696 792 74 68 16 17 132 209 401 403 403 220 548 548 363 زندہ ہیں یہی افسانے دو وہ دل کو جوڑتا ہے بتاؤں تمہیں کیا کہ کیا چاہتا ہوں نمازی بخش ایمان مجھ کو دے دے میں اپنے پیاروں کی نسبت تعریف کے قابل ہیں پر ولولہ دل کی تلاش نعمت __ کو معین کر کے مانگنے میں نقصانات نکما پن__ قوموں کی تباہی کا باعث نکما آدمی اپنی قوم اور خاندان کے لئے عار کا موجب ہے نکھے بیٹھے رہنے والے دنیا میں غلامی کے 47 440 81 81 81 99 68 374 127 530 1 جراثیم پھیلاتے ہیں نماز نماز با جماعت کی پابندی کا اہتمام ز نماز با جماعت کی نگرانی کی جائے نماز روحانیت کا سر چشمہ ہے 32 96 144 166 178 194 216 نماز نہ پڑھنا بھی سینکھیا کھانے سے کم نہیں تمام افراد کونماز کا پابند بنائیں مائیں اپنے بچوں کو ساتھ لیکر نماز باجماعت کی ادائیگی کا التزام کریں مرد نہ ہوں تو گھر وں میں عورتیں باجماعت ادا کریں.نماز کو وقاراور عمدگی کے ساتھ ادا کرنا چاہئے نظارت تعلیم نظام کی اہمیت جب تک نظام کی پابندی نہ ہو اس وقت تک کامیابی نہیں ہوتی نظام سلسلہ کے اوپر اعتراض کرنا اور دوسرے نظاموں سے موازنہ کرنے کی غلطی جماعتی نظام کونمایاں کرو نظام یا نئی تحریکات کی اہمیت اور اس پر اعتراض کرنے والوں کی نادانی ایک نئے نظام کی ضرورت جس کی بنیاد رحم اور عدل پر ہو نظام جماعت ایک طوعی نظام ہے اور اس کو سزادینے کا بھی اختیار ہے نعم نظم وغیرہ جلسہ پر پڑھنے سے پہلے اس کا انتخاب کیسا ہو....نظم نونهالان جماعت اس نظم میں وہ نصیحتیں ہیں جن پر عمل کرنا سلسلہ کی ترقی کے لئے ضروری ہے نظمیں جو اس کتاب میں شامل کی گئیں عبد شکنی نہ کرو ذکر خدا پر زور دے آ ؤ محمود ذرا حال پریشاں کر دیں راضی میں ہم اسی میں بڑھتی رہے خدا کی محبت ہو چکاختم چکر اب تیری تقدیر کا کرو جان قربان راہ خدا میں
483 168 110 110 444 169 767 428 94 134 91 137 433 94 ورزش نیز دیکھیں کھیل زیر لفظ " ورزش کی ضرورت اور افادیت ورزش کے فوائد ورزش بھی کام ہے اور حضرت مسیح موعود کا ورزش کرنا جب کوئی اپنے قومی کا خیال نہیں رکھتا تو دینی خدمات میں پوری طرح حصہ نہیں لے سکتا نوجوانوں کے لئے محنت کشی کے کام تجویز کریں جن سے ورزش بھی ہو ورزش کے ذریعہ بچہ کی تربیت اشد ضروری ہے وفاداری اور قرآن تعلیم کے وفا کے بارے میں حضور کی نوجوانوں کو نصیحت وقار عمل_اہمیت اور طریق کار تفصیل سے راہنمائی وقار عمل.خدا بھی راضی اور فائدہ ہی فائدہ و قارئعمل کی تحریک کے دو فوائد ا نکما پن دور ہونا ۲.غلامی کو قائم رکھنے والی روح ختم ہوگی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا وقار عمل میں شامل ہونا اور اس ضمن میں بعض نقائص کی طرف توجہ دلانا وقار عمل کی تحریک کا قومی اقتصادیات پر خوشگوار اثر وقار عمل کے مقاصد صفائی حفظانِ صحت کے لحاظ سے وقار عمل کے دور رس اثرات 48 278 نماز کا قیام اور اس کی اہمیت اسلام میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ قائم کرنے کا حکم ہے نماز میں تصویری زبان اور اس کی حکمت نمازوں کی رکعات کی تعداد میں حکمت نماز مغرب کی تین رکعات اور حکمت نماز میں ادھر اُدھر دیکھنے کی ممانعت نماز میں ہاتھ باندھنے کا مسئلہ ننگے سر نماز پر بنے کا مسئلہ حضرت معاویہ کا نماز رہ جانے پر افسوس اور اس کی وجہ.نمود نمائش تمہیں اپنے دلوں میں سے ہر قسم کا نمود کا خیال منا کر کام کرنا چاہئے ننگے سر پھر نا خلاف تہذیب اسلام ہے نگے.کھڑے ہونا اسلامی طریق نہیں سر نگار کھنے کی بدعت_ 278 307 184 187 567 801 683 790 22 340 683 682 حضرت عمر کا فرمانا کہ نبتة المؤمن خیر من عمله 622 639 41 81,29 452 نیکیوں کا تسلسل بہت ضروری ہے اور یہی زندہ قوموں کی زندگی کی علامت ہے خدا تعالیٰ نیک بندوں کو عظمت دیتا ہے احمد نمیشنا لنگ کو (و) والدین اپنی اولاد کو قربان کرنے کا عہد کرتے ہوئے وقف کے لئے پیش کر یں
52 414,415 452 452 646 460 451 450 355 354 354,355 816 505 443,452 816 واقفین زندگی واقف زندگی سے حضور کی توقعات واقف زندگی ہمیں واقف چاہنے مگر بزدل نہیں واقفین زندگی جو سلسلہ کی خدمت میں مصروف ہیں.واقفین زندگی اور ان کا قلیل گزارے کے با وجود زندگیاں وقف کرنا اور قربانیاں خدمت دین کے لئے زندگی وقف کرنے والے اپنے عہد سے بھاگنے والے واقفین سے کیا رویہ ہونا چاہئے ایسے واقفین زندگی جو اپنے عہد پر قائم نہیں رہتے وقف ایک عہد ہے خدا اور اس کے بندے کے درمیان جو ہر گز نہیں ٹوٹ سکتا اگر کسی کا وقف قبول نہ بھی ہو تو خدا کے ہاں وہ وقف ہی ہے.اسے چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ وقت دین کی خدمت میں گزارے جو شخص ایک مرتبہ وقف کرتا ہے اس کا وقف ہمیشہ قائم رہتا ہے ہمیں اس وقت ہر قسم کے واقفین کی ضرورت ہے ریٹائرڈ فوجی واقفین کی ضرورت وقف تجارت کی تحریک وقف جدید کا ادارہ 49 92 93 138 432 439 133 431 110 356 510 504 816 550 354,355 751 631 و قاری عمل کے لئے ہدایات کہ سہولت کے لئے وقت کا تعین کرلیں خدام الاحمدیہ سال میں چھ دن ( اجتماعی وقار عمل ) کرے دیہاتی علاقوں میں وقار عمل کے مواقع اور تفصیل برسات میں وقار عمل اور اس کے فوائد وقار عمل.ہاتھ سے کام کرنے کی روح کو زندہ کیا جائے ہاتھ سے کام کرنے کا مطلب ومفہوم کہ جن کو عام طور پر دنیا میں بُرا سمجھا جاتا ہے وہ کام کرنا جیسے مٹی ڈھونا ٹوکری اٹھانا وقار عمل پر نہ آنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ وقت وقت کے ضیاع کو روکنا خدام الاحمدیہ کا فرض وقف وقف کی اہمیت وقف کی اپنی اہمیت ہے وقف زندگی کی تحریک زیادہ سے زیادہ نو جوانوں کو خدمت دین کے لئے وقف کرو وقف کے لئے آگے آئیں تا خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں نام لکھے جائیں واقفین زندگی کی ضرورت امراء کیوں وقف کی طرف توجہ نہیں کرتے وقف زندگی کا نظام احمدیت سے قبل معین صورت میں نہیں تھا
50 50 684 777 287 595 دوشنگ دوننگ کے وقت ہر شخص کو ووٹ دینا ہو گا (o) ہجرت پاکستان بنتے وقت.احمدیوں کی اللہ تعالی کے فضل سے نسبتا محفوظ ہجرت ہمسائے 737 ہمسایہ کا خیال رکھنا ہتر ہنر سیکھنے کی طرف توجہ ہر خادم کو کوئی نہ کوئی ہنر آنا چاہئے (5) یہود یہودیوں کا فلسطین آباد کرنا اور ان کی ایک قابل تعریف بات 0
88,123,181,182,250, 238,463,636,744,667, 729,762,772,773 780 666 730 160,254,277 121 121 619 53,739,772 463 73 149 108,369 598 51 اسماء حضرت ابو بکر حضرت ابو بکر کی خلافت اور اس وقت کی ابتدائی حالت آنحضرت کی وفات پر آپ كا فرمانا من كان يعبد محمداً......ابو جہل ابو جہل جنگ بدر میں اس کا مارا جانا ابو داؤد ابوزر ابوسفیان حضرت ابو عبیدہ حضرت ابو ہریر اتاترک.کمال مسلمانوں کا ایک بڑا آدمی لیکن اس کی خطرناک غلطی ا تا ترک - کم تعلیم یافتہ لیکن احسن امروہی.مولوی محمد احمد قریشی محمد احمد (1) 269,474,568,639,640, 651,740,767,4 98 434 686 40,109,568,651,720, 740,749 196 749,750 750 764 19 حضرت آدم حضرت آدم کی نبوت کا مرکزی نقطه ملی روح پیدا کرنا ہی تھا آدم کے دو بیٹوں کی قربانی تمثیل اور اس کی حقیقت آئزن ہاور حضرت ابراہیم حضرت ابراہیم کی اپنی اولاد کے لئے دُعا کہ رہنا والبعث مصیم رسولا.رسول این رشد ابن سینا حضرت ابن عباس کے متعلق کہ وہ بازار سے گزرتے تو یہودیوں کو بھی سلام کرتے ابو العطاء اللہ دتہ صاحب
466,487,817 108 809 26 539 158 775 528 حضرت میاں بشیر احمد صاحب بشیر احمد مولوی.حضرت مسیح موعود کو مجدد کہا کرتے تھے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب مصلح موعود کی بشارت حضرت مسیح موعود کی وفات پر آپ کے سرہانے حضور کا تاریخی عہد آپ کی خرابی صحت کی بناء پر حضرت مسیح موعود کا فرما نا کہ تین چیزیں صرف پڑھ لیں قرآن، بخاری اور طب آپ کا انجمن تفخیذ الا ذہان قائم کرنا اس کے ابتدائی واقعات اور اپنے وظیفہ میں سے رقم اس پر خرچ کرنا حضور کی یورپی ملک میں اپنی طرف سے مسجد بنانے کی خواہش آپ کا پہلا مضمون اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا اس پر تبصرہ 52 446 750 487,774 499 794 618 69 536 778,779 523 199 451 518,532 598 35 182 516 106 702 404 احمد.میاں محمد احمد خان ارسطو اسحاق.حضرت میر محمد اسماعیل.حضرت میر محمد اسود عنسی اعظم.نیٹی محمد افلاطون اقبال - علامہ محمد اردو زبان کی خدمت کرنے والے اللہ رکھا.ایک فتنہ پرداز منافق اله دین حضرت الیاس حضرت امال جان (سیده نصرت جہاں بیگم صاحبہ) آپ کی سنائی جانے والی ایک.کہانی امان اللہ خان.امیر امین محمد امین حضرت انس حضرت انس بن مالک انوری ایوب.صوبیدار محمد (ب) برکت علی.مرزا برکت علی.خان صاحب
244 71 گراموفون میں آپ کی آواز میں تلاوت کی ریکارڈنگ بچوں کو آپ کی نصائح دیگر نصائح کے لئے دیکھیں زیر لفظ ” نصائح خلافت کے آغاز میں آپ کو ہونے والا الہام 775 آپ کے سفر انگلستان کا ایک واقعہ آپ کا ایک رؤیا بلگان حضرت بلال 135 664,109 748 321 خدا عرش پر بلال کی آواز سن کر خوش ہوتا ہے 321 پ ت ٹ ث ) پوپ.پطرس کا خلیفہ عیسائیوں میں پوپ پیر.(پطرس حواری) 807 663 42 پیرا.حضرت مسیح موعود کا ذکر تائی صاحبہ تقی الدین.ڈاکٹر تیمور ٹرومین ثاقب صاحب ثاقب.مولوی محمد احمد 462 45 686 643,666 686 492 600 53 3 512 766,775 791 729 766 235 768 21 244 آپ کا پیغام نو جوانوں کے نام ”لوح الہدی“ کے نام سے پاکستانی احمدیوں کے نام حضور کا اگست 47ء میں ایک دردانگیز پیغام آپ کا دستور کہ اکثر اپنی رقم سلسلہ کے کاموں پر خرچ فرما دیتے تحریک جدید میں حضور کی مالی قربانی آپ کی بیماری کے متعلق ڈاکٹروں کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکتا آپ کی خلافت کے آغاز میں سلسلہ کی کمزور حالت اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت لاہور میں آپ کی ایک تقریر "مذہب کی ضرورت“ کے عنوان سے آپ کا عہد خدام سے آپ کی عاجزی اور انکسار اور لیڈر بننے کے خیال سے بھی نفرت آپ کی آواز بہت بلند ہوا کرتی تھی
ثناء اللہ.مولوی (ج' چ) جالوت جالنیوس حضرت جعفر جلال الدین شمس آپ کے نام میں شمس کی حکمت جمال احمد حافظ مبلغ ماریشس کی وفات پر حضور کا خطبہ جمیا.مائی جمیا کی خاطر غیرتِ اسلامی کا احمدیوں کی طرف سے قابلِ ذکر اظہار جنید بغدادی دین کا ستون اور خدا کا چہرہ دکھانے والے چٹو.میاں چنگیز خان چیانگ کاشیک حبیب اللہ خان.امیر حسن.خواجہ.نظامی 109 806 644 312 19,600,476 477 550 678 552 518 643 686 518,532 537 54 حضور کی کتب کے بارے میں کہنا کہ پنجابی محاورات کا استعمال ہے حضرت حسین ایک برگزیدہ انسان جو حق کی خاطر کھڑے ہوئے حسین محمد - مولوی حشمت اللہ.ڈاکٹر حفیظ احمد جالندھری.اردو زبان کی خدمت کرنے 537 783 41 617 184,241 والے حضرت حمزه آپ کا قبول اسلام حضرت حوا 536 123,254,524 254 767 (خ) حیرت.مرزا 536,537 حضرت خالد بن ولید خسرو.امیر خلیل احمد.امیر خورشید احمد شاد 277,312,739 532 688 600 (}') حضرت داؤد داؤ واحمد.سید میر درد.میر دیانند.(پنڈت) ڈینی راس.سر 199 687,691 52,537 261 522
487 314 715 750 45,607 538 600 600,691,687 691 سیعد احمد - مرزا لا ہور کا ایک خادم جس نے 5555 جھنڈے کی خاطر اپنی جان کو خطرے میں ڈالا سعید احمد محمد.قائد صاحب لاہور مقراط سلطان احمد.حضرت مرزا سلیم.چوہدری سیف الرحمان.فاضل سیف.مولوی غلام باری حضور کا آپ کو نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نامزد فرمانا (ش) شافعی.حضرت امام آپکی غیر معمولی ذہانت اور حافظہ شاہ جہان.کا اپنی بیوی کی خواب کے مطابق تاج محل کی تعمیر کروانا شبلی.حضرت دین کا ستون اور خدام کا چہرہ دکھانے والے شبیر احمد.چوہدری شریف محمد شریف احمد - مرزا 176,104 507 552 687 232 314 295,413 (;;) 532 532 24 369 600,549 428,429 598 686 229,540,683,789 136 748 123,181,182,250 428 114 114 748 748 114 رام چندر رچرڈ.انگلینڈ کا بادشاہ رحمت اللہ.مولوی حضرت خلیفہ مسیح الاول کے استاد رحمت اللہ.شیخ رشید احمد - امریکن نومسلم رشیدالدین.ڈاکٹر خلیفہ رفیق.صوفی محمد روز ویلٹ روشن علی.حضرت حافظ انگریزوں کو کام میں مگن دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آگ لگی ہوئی ہے...زار حضرت زبیر زویمر.ڈاکٹر کی قادیان میں آمد زینت محل بہادر شاہ ظفر کی چہیتی بیگم (س) ساره بیگم.حضرت سالن سراج الدولہ سرور شاہ.حضرت سید
774 776 234 22 222 104 26,802 277 33 532 532 756 702 342 172 حضور کی خدمت میں آپ کا نذرانہ عابد علی عابد.میر حضرت عائشہ کا قول " كان خلقه القرآن آپ کا پر حکمت انداز میں (ع) 71,208,214 739 56 تیز کلامی سے منع فرمانا حضرت عباس.تیرہ برس کی عمر میں آپ کا احادیث بیان کرنا عبدالحکیم.ڈاکٹر پٹیالوی حضرت عبدالرحمان بن عوف عبدالرحمن قادیانی.حضرت بھائی عبدالرحمن خان عبدالرحمن.امیر عبدالرحمن جالندھری.ماسٹر عبدالرحیم.بھائی عبدالرحیم.خان خاناں عبدالرحیم.شیخ 552 71,789 - 750 - شہاب الدین سہروردی.حضرت.دین کا ستون اور خدا کا چہرہ دکھانے والے بر علی.حضرت مولوی فیکسپیر (ص) 777 598,599 138,532 (bb) 687,688,691 518 123,181,182,250 30 314 صدر الدین.مولوی صدیق.مولوی مجمد فاضل صلاح الدین ایوبی سلطان طاہر احمد.مرزا.حضرت صاحبزاده ام طاہر.قرآن مجید پڑھانے کے لئے آپ کے والد صاحب نے استاد مقرر کیا ہوا تھا حضرت طلحہ آپ کا نمونہ اختیار کرنے کی تلقین ظفر.بہادر شاہ ظفر اللہ خان.چوہدری محمد 135,374,614,789,542 آپ کا ابتدائی وقار عمل میں شامل ہونا اور تجاویز 91 عبدالرحیم درد.حضرت مولوی آپ کی وفات پر حضور کا خطبہ اور نو جوانوں کو نصیحت
740 686 22,210,369,773,777,801 88,53,123,181,182,238, 250,320,463,619,620, 636,667,739,744,762,780 121 65 622 672 308 41,42,49,81,196,199, 228,269,523,568,651, 737,749 299 43 537 آپ کے بارہ امام علی محمد.راجہ علی.مولوی محمد حضرت عمر آپ کے زمانہ میں حضرت ابوذر یا ابوالدرداء کی ایک شخص کی ضمانت آپ کی دعا کہ شہادت نصیب ہو اور مدینہ میں ہو آپ کا فرمانا نیۃ المؤمن خیر من عمله ایک گردن جھکائے ہوئے مسلمان کو فرمانا کہ ایسے نہیں چلو آنحضرت کا خواب میں آپ کو دودھ پیش کرنا حضرت عیسی انجیل میں آپ کی ایک تمثیل آپ کی عزت دتکریم جو حاصل ہوئی (غ) غالب - ( مرزا) 57 687 497 486 333 463,518,582 518,532 34 396 619,620 620 620 762,763,782,761 779 181,182,250,636,667, 668,749,762,780,781 317 516 318 277 41,123,181,182,183, 295,250,251,636,667, 668,781,762 480 313 عبدالرشید.قریشی عبد الغفور عبد القادر جیلائی.سید عبد القادر عبدالکریم.حضرت مولوی عبد الطیف.حضرت سید عبداللہ غزنوی عبد اللہ بن ابی سلول حضرت عبد اللہ بن عمر آپ کا عشق رسول آپ یزید کے مقابلہ میں خلافت کے زیادہ حق دار عبد المنان عبدالوہاب حضرت عثمان حضرت عثمان بن مظعوان عرفی عزمی.بہت عکرمہ.حضرت حضرت علی آپ کا فرمانا عرفت ربی بضع العزائم" آنحضرت کا آپ کو تلوار مولی فرماتا
193 278 29,392 784 55 435 26 770 240 69 756 58 حضرت مرزا غلام احمد 22,41,185,222,240,662 عربی زبان کی خوبی کے قادیانی مسیح موعود علیه 755,776,785,599,617 بارے ایک پادری سے السلام آپ کی گفتگو آپ کی کتب کو بار بار پڑھایا جائے آپ کی کتب پڑھانے اور امتحان لینے کی ہدایت خدا کرے کہ مسیح موعود کی خلافت دس ہزار سال تک قائم رہے آپ کے مشن کی خدمت کرنا بہت بڑی خوش قسمتی اور سعادت ہے آپ کے پاس باورچی کی شکایت اور حضور کار دکمل آپ کی وفات پر حضور کا تاریخی عهد آپ کی تقریر عام طور پر پچاس منٹ یا ایک گھنٹہ کی ہوتی محمد حسین بٹالوی صاحب سے آپ کا مباحثہ دہلی میں بزرگوں کے مزار پر آپ کے جانے میں حکمت بذریعہ دعا مریضوں کو شفایاب کرنے کا چیلنج 790,760,763,765,770, 774,813,231,244,269, 274,295,332,334,339, 346,347,369,442,462, 472,477,482,496,499, 518,523,528,551,552,569 407,408,411,413,414 765,246,800 569 233 201 389 295 805 آپ کا مقام اور بعثت کی غرض آپ کے ذریعہ اسلام کا احیاء ہوا قرآن سے آپ کی صداقت آپ کا امتی ہونا اور نبی ہونا آپ نے جو کچھ فرمایا وہ سب کا سب خدا کے کلام سے ماخوذ ہے آنے والے مسیح موعود کو محمد کے مشابہ قراردینے کا مفہوم حضرت نوح کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی تو حضرت محمدؐ کے بروز مسیح موعود کی ساڑھے نو ہزار سال ہونی چاہئے
(ف) 208,214,817 244 208,214 42,160 497 532 (ق) | فتح محمد سیال.چوہدری آپ کا ہرا تو ار حضرت مسیح موعود کی زیارت کے لئے قادیان آنا.....فرزند علی خان صاحب مولوی فرعون فرگوسن.پادری سے آپ کی تثلیث کے مسئلہ پر گفتگو فلپ.فرانس کا بادشاہ قادر بخش.ماسٹر قحافہ حضرت 106 666 قدرت اللہ.حضور کے ایک ملازم قیصر روم 689,690 43,321 (گنگ) کرشن کمال الدین.خواجہ کھڑک سنگھ.سردار گارڈن.پادری 295,413 274,369,801 211 428 گاندھی 115,425,623 (ل) لات.نت 318,321 59 99 240 40 275 805 274 169 153 69 599 21 500,702 22,94 618 817 آپ کے الہامات قرآن کریم کی تفسیر میں الہام خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا آپ کا پنجابی الہام الہامی مصرع "اگر یہ جڑ رہی..آپ کا ایک کشف جس میں وہ بادشاہ دکھائے گے جو آپ پر ایمان لائیں گے آپ کا فرمانا کہ کیا کوئی خدا کے شیر پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے آپ کا کہانیاں سنانا انجمن کا نام تشریف الا ذبان اور اس میں حکمت آپ کی ایک خواہش کہ دہلی احمدیت کو قبول کرنے سے محروم نہ رہے چندہ دینے کی تحریک کرنا آپ کا تنہائی کو پسند فرمانا غلام رسول را جیکی - حضرت غلام رسول وزیر آبادی.حافظ غلام غوث حیدر آبا دسیٹھ نمایام محمد صوفی
729 729,730 254 729,730 601 729 342 274 126 141 36 174 643 غار ثور میں آپ کا حضرت ابو بکر سے فرمانا کہ لا تخزن......آپ کا تو کل آپ کی شجاعت آپ نے سات سال بعد 60 60 سارے عرب پر غلبہ حاصل کر لیا عہد جو آپ نے خدا سے صحابہ آنحضرت کا پہرہ دیا کرتے تھے آپ کی خدمت میں عورتوں کا اپنا پیش کرنا آپ کا مردم شماری کروانا آپ کی سچائی کا خلق آپ کا حضرت ابو ہریرہ کو دودھ پلانا اور فرمانا کہ اور پیو.اس میں حکمت آپ کا چندہ کی تحریک کرنا اور ایک صحابی کا جو لا کر پیش کرنا ایک بدصورت صحابی کی آنکھوں پر ہاتھ رکھنا آپ کا اسوہ اور نمونہ ہٹلر نپولین سے ہزار گنا بالا ہے 318 22 15 760,763 748 104 لقمان.حضرت آپکی اپنے.لیفن مالک.امام نماز میں ہاتھ باندھنے کے متعلق آپ کا مسلک مالنكوف (م) 801 748 71 41,198,234,246,250,227, 219,253,262,269,270, 271,274,287,295,301, 320,334,396,463,474, 488,505,509,542,540, 533,529,525,529,523, 552,559,571,710,763, 772,780,785,813,414, 408,413, 199 665 666 مبارک احمد.صاحبزادہ حضرت محمدم اما الان آپ کی شان نبوت آپ کی وجہ سے مسلمانوں کو ملنے والی ترقیات آپ واحد ایسے ہیں جنہوں نے فرد واحد سے ترقی کی اور سارے عرب کو تابع فرمان کرلیا...
620 620 790 631,752 552 608 775 321 634,682,687,688,690,804 476 41,42,160,199,269,568,651 413 71,687,638 آپ کا رومی سلطنت کو یہ کہنا کہ اگر حضرت علی کے خلاف لشکر کشی ہوئی تو حضرت علی کی طرف سے پہلا جرنیل جو مقابلے کے لئے نکلے گا وہ میں ہوں گا ہم حضرت معاویہؓ کی خلافت کے قائل نہیں وہ ایک بادشاہ تھے اور ایک اچھے بادشاہ تھے نماز رہ جانے پر افسوس اور اس کا اجر معین الدین چشتی.خواجہ دین کے ستون اور خدام کا چہرہ دکھانے والے مغلہ.جھنگ کے ایک نو احمدی جو پہلے چوروں کے سرغنہ اور پھر نیک تبدیلی ممتاز دولتانہ.میاں محمد منات.بُت منور احمد.مرزا منیر آفندی الحسنی حضرت موسیٰ (ن) ناصر احمد.حضرت مرزا 61 618 772 476 782 678 425 813 552 666 149 794 321 614 71 781 آپ کا ایثار کا لفظ استعمال فرمانا اور اس میں حکمت آپ کی وفات کے بعد صحابہ میں خلافت کا مشورہ آپ کی پیشگوئی کہ مغرب سے طلوع شمس میاں محمد محمد حسین.خان بہادر محمد علی جناح محمود غزنوی محی الدین ابن عربی.حضرت دین کے ستون اور امت کے نشان اور خدا کا چہرہ دکھانے والے مسولینی کم تعلیم یافتہ لیکن ذہین مسیح.دیکھیں زیر لفظ مسیلمہ کذاب حضرت مصعب مطیع الرحمن بنگالی.صوفی مظفر احمد.صاحبزادہ مرزا حضرت معاویہ
کو حضور کا صدر انصار اللہ نا مزد فرمانا ناصر الدین.مولوی ناصر نواب.حضرت مرزا تانک - حضرت بابا نپولین نذیر احمد.چوہدری 691 598 766 211 288,289,643,665,723,807 538 801 نذیر احمد.مولوی نذیر احمد.مولوی ایڈیٹر رسالہ ساقی نظام الدین اولیاء.حضرت آپ کا ایک بچے اور آگ کو چومنا نعمت اللہ خان نعمت اللہ خان خان بہادر دریائے چناب پر پل بنانے والے انجینئر حضرت نوح آپ کی عمر ساڑھے نوسو سال تھی تو حضرت محمد کے بروز مسیح موعود کی ساڑھے نو ہزار سال ہونی چاہئے نورالحق انور.مولوی 537 529 532 62 610 41,474,568,651,778 805 782 آپ کی انکساری آپ کی حضرت مصلح موعود سے ابتداء سے ہی اعلیٰ توقعات آپ کے بیٹے جو خلافت کے خلافت فتنہ کا باعث آپ کی خلافت کی مشابہت آپ کا عظیم الشان کام پیغامیوں کے آپکے بارہ میں الزامات نیر صاحب ولی اللہ شاہ.سید 21 528 778 772 783 762 801 (9) 773 ولیم میور.کا جنگ احزاب کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے آنحضرت کے صحابہ کی آپ سے محبت کا ذکر باشم ہٹلر نورالدین.حضرت حکیم، 56,69,101,106,192,136 کم تعلیم یافتہ لیکن ذہین مولا نا خلیفة أمسیح الاول 150,98,20,24,244,269 ترقی کے ذرائع کا 462,463,540,539,437, بیان...487,523,582,674,623, 722,721,700,702,765,781, 802 کی ایک کتاب ” میری جد و جہد 533 666 101,624,643,666 149 102 82 86
63 63 524 801 321 619,620 619 41 ہندہ.ابوسفیان کی بیوی ھیڈ لے.لارڈ کا اسلام کی افریقہ میں اشاعت کا بیان (5) ا 620 42 582,583 582 780 120 حضرت یاسر یزید ایک خبیث انسان بادشاہ لیکن انجام کار ذلت یزید کا بیٹا.اسلامی تاریخ کا ایک شاہکار...یعقوب.حواری یعقوب علی عرفانی - حضرت شیخ یعقوب بیگ.مرزا یعقوب.مولوی محمد یوسف ہسپانوی کا قصہ اخلاقی دیانت کی مثال
117,158,174,376,377, 378,,374,428,472,521, 522,588,514,635,650, 668,699,712,730,737, 742,761,782,785,796, 805,818,743,744,750, 751,766,776 608 719 665 505,589,668 65 59 مقامات امریکہ امریکہ کا کمزور کریکٹر امریکہ کی ترقی کی وجہ اناطولیہ انڈونیشیا انگلستان نیز دیکھیں لندن 337,135,158,101,373 374,377,404,476,666,737 ,785,808,818,776,750, 719,723,635,525,510 525 750 برطانیہ انگلینڈ کی ایک نومسلم خاتون کا خط انگلستان کا مشہور مصنف جس نے ڈکشنری مرتب کی اور اسی طرح شیکسپئیر کی غربت کی زندگی لیکن ان لوگوں کا علم میں ترقی کرتے چلے جانا 780 43,510 505,588 752 731,755,158,43,37 332 440 41 678 83,232,379,626 627,668,800,801,818 588 588 آذربائیجان آسٹریا آسٹریلیا آکسفورڈ اجمیر اقصی مسجد الجزائر الوريا ( بھرت پور ) افریقہ افریقہ.مشرقی مغربی افریقہ میں ایک.لاکھ احمدی...افریقہ میں دو احمدی نوجوانوں کا محنت مزدوری کا عزم لیکر خود تبلیغ کے لئے نکل 450 34,41,118,226,595,665 532 231,323,482,418 کھڑے ہونا افغانستان افغانستان میں احمدیوں کی قربانی امرتر
802 43 510 122,152,289 114,693,678 678 523,528,783 539 608 بغداد گانے بجانے سے تباہ ہوا بلغارية بلوچستان.ممبئی بنگال بھرت پور بھیرہ بھیرہ کے تاجروں کی زکوۃ کے سلسلہ میں ایک چالا کی (پ) 512,559,562,627,805, 809 561 561 648 777 بیکانیر پاکستان اپنے ملک کی عزت اور ساکھ دنیا میں قائم کرو تم ایک نئے ملک کی پو د ہو تمہاری ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں پاکستان کی ترقی کے لئے نوجوانوں کی راہنمائی اور نصائح پاکستان کی طرف ہجرت کے موقعہ پر احمدیوں کی اللہ کے فضل سے محفوظ ہجرت 66 115 665 507,510,668,665,780, 38,41,176,808 752 83,23,139 634 635 240,245,482,778 248,376,796 773 505 211 151 اور ھ کی حکومت کی تباہی کا ایسے سینا ایران ایران کے ایک عالم کا چھ سو عالم تبلیغ کے لئے ہندوستان بھیجنا ایشیا ایوان محمود.خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے دفاتر کا افتتاح اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی نصائح و ہدایات.اس احاطہ کو خوبصورت بنانے کی نصیحت اور اس کی بٹالہ برطانیہ.نیز دیکھیں انگلینڈ لنڈن برلن......میں بیت الذکر کی تعمیر اور عورتوں کا ایک ماہ میں چندہ اکٹھا کر لینا.برما براواں بغداد
668 101,674 252 608,610 جزائر جموں جھنگ چ چرچ آف انگلینڈ چیکوسلواکیہ چین 232 43 41,267,376,472,505, 668,748 316,317,603 114,618 جشہ حیدر آباد دکن (ح) (خ) 715 (,) 93,326 93 326 476 69,101,106,114,314, 455,536,537,573,520 678,418 229 (}) خانیوال دار الرحمت.قادیان دار الفضل - قادیان دار الانوار قادیان مشق دہلی دیا نند کالج 67 742 782 693,782 462 499 782,482,418 494,536,588,565,693 419 43 689 سیلاب کے موقعہ پر خدام کی خدمات اور حضور کا اظہار خوشنودی مغربی پاکستان مشرقی پاکستان پالم پور پٹیالہ پشاور پنجاب (ت) تاج محل کی تعمیر 508 ترکی 38,378,510,565 تانگانیکا 800 (ج) جاپان 116,373,376,377,379, 505,588,635,731,775 765 37,43,101,117,158,311 373,376,377,518,595, 635,665,785,805 377 جامعة المبشرين جرمنی ہماری باتیں سننے کے لئے تیار ملک.جرمنی خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے
394 510,785 497,693,776,779,418 347 676 232 266 سندھ کی زمینوں کا کام مصلحت الہی کے تحت حضور کا اپنے ہاتھ لینا سوئٹزر لینڈ سیالکوٹ سیالکوٹ حضرت مسیح موعود کا دوسر اوطن سیالکوٹ کے خدام کے کام پر حضور کا اظہار خوشنودی سیرالیون سیلون (ش) 378,505,542,668,665, 805, 299 132 404 297,594 (b) 41 510,665,668 شام شاہدرہ شکر گڑھ شملہ شیخو پوره طرابلس (ع) عراق عرب 41,48,254,267,317,318, 619,627,626,665,668, 772,805, 68 80 497,485 588 689 686,715 598,692,623 676 610 (ر) 41,376,379,377,666, 635,665,710,719,805, 748 43,805 665 43 ڈلہوزی ڈچ گی آنا راجپوتانه راولپنڈی ربوه ربوہ اور بعض دوسری مجالس.کے کام پر حضور انور کا اظہارِ خوشنودی ربوہ کے قریب دریائے چناب پر پل بنانے والے احمدی انجنیئر روس.روم رومی سلطنت کی وسعت رومانیه سبین (س) 37,41,43,749 678 347,700,775 450,779,415 563 سرحد سرگودها سندھ سندھ کی زمینوں پر متعین نوجوانوں کی ناقص کار کردگی
18 25 87 244 207 205 636 777 752 قادیان میں مجلس خدام الاحمدیہ کا اولین قیام 69 قادیان کے نوجوانوں کو نیک نمونہ دکھانے کی تلقین قادیان اور سیالکوٹ کی لجنہ کے کام کی تعریف قادیان (مرکز ) میں آنے کی اہمیت اور حضرت مسیح موعوز کے زمانے میں نوجوانوں کا قادیان آنے کا ذوق و شوق قادیان میں خدام الاحمدیہ میں شمولیت کا لازمی قرار دیا جانا قادیان کے ایک محلہ کے متعلق عدم تعاون کی رپورٹ قادیان واپس جانے کے بارے میں خیالات اور حضور کی تصریحات پیغامیوں کا قادیان کی جگہوں میں سار کی رات پھر نا لیکن چالیس افراد کا بھی نہ ملنا کہ انہیں اکٹھا کر کے کسی کو خلیفہ بنالیں قرطبه 805 778 588 3 | 41,43,158,311,510,595, 635,749 فارس فتح گڑھ چوڑیاں فرانس فرانس کا بادشاہ.فلپ فرنس کے ایک ناول نویس کا قصہ فلپائن فلسطین فیروز پور فیصل آباد ( لائلپور ) 532 723 472 505,736,737 297,497,617 347,700,709,775 (ق) قادیان 21,81,95,112,133,152,175, ,192,205,207,208,209,210,, 211,214,229,244,245,, 246,248,252,263,264,, 269,280,301,336,332,, 326,324,319,347,389,, 390,395,396,399,477, ,494,512,517,518,530,, 425,427,428,429,432,.443,446,455,610,614,, 615,617,618,619,635, 636,637,638,674,677,689,, 692,721,766,767,774,777, 778,787,401,417,421,406 405,406,419,421
676,715 69,107,518 521,522,573,723 550 44 598,563 114 678 (م) لاہور کے خدام کے خدمت خلق کے غیر معمولی کاموں پر حضور کا اظہار خوشنودی لائلپور.دیکھیں فیصل آباد 70 10 لکھنو لندن.نیز دیکھیں انگلستان برطانیہ 24,35,65,137,181,182, 317,509,636 ماریشس مبارک.مسجد محمد آباد اسٹیٹ مدراس مدرسہ احمدیہ کے طلباء کی خدمات 636 106 41 778,779 41,118,267,378,505, مکہ سے ہجرت کے بعد مدینہ ہی مرکز اسلام رہا مراد آباد مرا کو فری مصر 665,668 112,117,277,253,317,320 523,636,638,665,198,199 182,196,123,137,509,794, 792,817 (ک) 151,679,716 715 کراچی کی مجلس کا علم انعامی حاصل کرنا کراچی میں صدر انجمن احمدیہ کے قیام کی تجویز کعبہ.خانہ کعبہ 656 123,248,487 317,318 115,117 516,628,779,536,528,516 752, 668 کلکتہ آرم کیمبرج کینیا (گ) گجرات گوجرانوالہ گورداسپور کو کھووال 347,482,619,418 708 106,244,274,428,482 715 (ل) 210,244,245,263,274,83, 101,137,297,299,482,499, 518,692,674,678,628,693, 617,542,716,709,817,405 418 لاہور
113 518 43 775,791 ہندوستان کو انگریزوں کا غلام قومی دیانت کے فقدان نے بنایا ہندوستان میں عربی مخرج کو قریب تر ادا کرنے والوں میں سے ایک حضور کی خود اپنی ذات هنگری ہمبرگ.بیت الذکر کے لئے تحریک (ی) یمن یوپی یورپ 665 678 139,140,37,41,23,174,116, 241,378,668,627,505,712 374,699,742,775,729,761, 744,748,750,751,743,796, 801,805,807 742 796 377 یورپ کا مسلمانوں کو یہ طعنہ کہ وہ بنی نوع انسان کی خدمت نہیں کرتے یورپ میں مساجد کی تعمیر کا پروگرام اہل یورپ اسلام پر غور کرنے پر مجبور ہو جائیں گے 71 125 505 347,693,676,802 347 668 598 207 730 573 650,731,775 مکہ والوں کا مقتولین بدر پر ماتم ملایا ملتان منگری (ساہیوال) (ن) نائجیر یا ننکانہ نواں پنڈ ( قادیان) نیوزی لینڈ نیویارک (ه) ھالینڈ ھالینڈ کی بیت الذکر کی تعمیر ہندوستان 773 83,101,108,118,41,174 310,332,361,266,274, 428,506,510,522,631, 627,668,785,694,805, 808,809,536,402,406 280 158 ہندوستان میں عورتوں کی کمتر حالت ہندوستان میں سزا پر سفارش کی احمقانہ عادت
12 72 719 یورپ اور امریکہ کی ترقی کے اسباب یورپ کا کیریکٹر امریکہ کی نسبت یوگوسلاویہ 608 510 510,665 ***** یونان
616 750 623 234 521 582 21 582 73 کتابیات رسالہ جاری کرنا حضور کا بہت بڑا کارنامہ تفسیر کبیر تورات تو رات کا سچا حصہ رسول کریم کی صداقت کا ثبوت ہے ٹائمز آف لندن (چ، ح، خ ) چشمه معرفت 698,703 705 702 703 730 حقیقۃ الوحی خالد - رسالہ 374 (1) 766 232,278,346,425,466, 507,778,779,783 767, احمدیت یعنی حقیقی اسلام الفتح خبر کا تبصرہ کہ جماعت کو جو کام کی توفیق مل رہی ہے وہ بڑے بڑے بادشاہ کو بھی نہیں مل سکی الفضل الفضل کے آغاز کے لئے سرمایہ کی فراہمی الفضل کی اشاعت اور اس کا حجم اور اس کے مضامین میں تنوع کی ضرورت المصلح الوصية انجیل 701 $650 806,809,407 623 حضور کی رسالہ کے بارے میں ہدایات اور راہنمائی تم نے اگر خالد جاری کیا ہے تو تم اس کی خریداری ب پ ت ٹ ) بڑھاؤ خالد کی خریداری بڑھاؤ اور مضمون لکھا کرد اسے شاندار علمی پر چہ بناؤ اور عالمگیر حیثیت د...(رس) ریڈرز ڈائجسٹ 25 540 108,499,523 762,782 240 153 بائل بخاری براہین احمدیہ پیغام صلح - اخبار تذکره تشیدا اذہان اور انجمن وجه تسمیه
390 389 538 538 454 454 454 542 جماعت کے ایک ایک فرد کو قرآن کریم کا توجمہ آنا چاہئیے ہر احمدی نوجوان کا فرض ہے کہ وہ قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہو میرے نزدیک جو شخص قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتاد حقیقی مسلمان نہیں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی طرف توجہ کریں ہمارا کوئی ایسا آدمی نہیں رہنا چاہئے جو قرآن کریم نہ پڑھ سکتا ہو دنیا کا امن قرآن کو رہبر ماننے میں ہے تعلیم یافتہ لوگ ڈاکٹر وکیل جو قرآن کو نہیں پڑھتے وہ زیادہ گنہگار ہیں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا شام کے وزیر کو ایک سوال کے جواب میں کہنا کہ میں نے قرآن کا ترجمہ پڑھا ہے 74 537 227,623 49 15 189 454 542 275 49 234 767 104 ساقی رساله قرآن کریم.نیز دیکھیں زیر لفظ "تعلیم (ق) قرآن بالکل محفوظ ہے باقی الہامی کتب پر فضیلت قرآنی علوم کا مقابلہ کوئی دشمن نہیں کر سکتا قرآن ایک عظیم الشان نعمت جس سے مسلمانوں نے توجہ ہٹالی قرآن کریم کے اندر سارے علوم آ جاتے ہیں قرآن کریم کی خوبی قرآن میں نسخ کا عقیدہ قرآن سارے کا سارا حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ثبوت ہے اشاعت قرآن کے لئے حضور کا سرمایہ اپنی جیب سے لگانا قرآن کریم کا ترجمہ پڑہنے پڑھانے کا انتظام خدام الاحمدیہ کا اہم پروگرام ہونا چاہئے.
75 192 184 469 39 222 ت کوئی اور ایسی کتاب نہیں جس کی نشر ترتیل کے ساتھ پڑھی جاسکے جس طرح قرآن کریم پڑھا جاسکتا ہے دنیا کا کوئی اعتراض ایسا نہیں جو قرآن مجید پر پڑتا ہو اور اس کا جواب ہمارے پاس موجود نہ ہو قرآن مجید کو حفظ کرنے کی طرف توجہ کرامات الصادقين کشتی نوح لوح الهدی ( كلام) مظاہرالحق (اظہار الحق) مولوی رحمت اللہ صاحب کیرانوی کی تصنیف اور اس کا ایمان افروز پس منظر منصب خلافت "میری جدو جہد.ہٹلر کی 25 205,776 83,82 کتاب جس میں احمدیت کا بالواسطہ ذکر ہے
درخواست دعا اس جلد کی اشاعت کے لئے درج ذیل احباب نے اپنے مرحوم عزیزوں کی طرف سے تعاون کیا.ان سب کے لئے دعا کی درخواست ہے مکرم سید اظہر احمد شاہ صاحب منجانب حضرت سید قاضی حبیب اللہ شاہ صاحب آف شاہدرہ لا ہور رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ومحترمہ نور بیگم صاحبہ المیہ حضرت سید قاضی حبیب اللہ شاہ صاحب * یم مظفر احمد ثاقب صاحب منجانب والد محترم چوہدری منظور احمد صاحب مرحوم مکرم نصیر احمد با بر صاحب مکرم منصور احمد خان صاحب و مکرم دا و داحمد صاحب منجانب والد محترم حبیب احمد خان صاحب مرحوم سنت نگر لاہور فجزاهم الله احسن الجزاء