Maseeh Kashmir Me

Maseeh Kashmir Me

مسیح کشمیر میں

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے وفات مسیح کے اعلان کے بعد جب  یہ انکشاف فرمایا کہ  مسیح کی قبر کشمیر میں ہے تو دنیا میں ایک ہیجان پیدا ہوگیا۔ آپ علیہ السلام کے بعد آپ کی جماعت بھی اس عظیم الشان تحقیق کی تائید میں نئے سامنے آنے والے حوالہ جات پیش کرتی رہی۔ اسی نہج پر مصنف نے اپنی زیر نظر کتاب میں وفات مسیح اور انکی کشمیر میں قبر کے نظریہ کے حق میں دلائل، تحقیقات، حوالہ جات، انکشافات اور ثبوت یکجا کرکے پیش کئے ہیں پس جوسفر مصنف موصوف کے 1960ء میں مختصر مضمون کی اشاعت سے شروع کیا تھا، وہ 1978ء میں کتابی شکل اور پھر سال 2014ء میں طبع دوم کی صورت میں قارئین کے سامنے ہے۔ یکصد سے زائد صفحات کی اس کتاب کو کمپیوٹر کمپوزنگ میں دیدہ زیب طباعت میں پیش کیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

مسيح کشمیر يرمين

Page 2

نام کتاب مسیح کشمیر میں

Page 3

= بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلّى على رسوله الكريم عرض حال آج سے پون صدی قبل جب بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے وفات مسیح کا اعلان کیا تھا اور انکشاف فرمایا تھا کہ مسیح کی قبر کشمیر میں ہے تو دنیا میں ایک بہیجان برپا ہوا تھا مگر رفتہ رفتہ اس انکشاف کی صداقت پر عیسائیت ، ہندومت، بدھ مت اور مشرق و مغرب کے قدیم لٹریچر سے ایسے نا قابل تردید دلائل و شواہد مہیا ہوتے گئے کہ اب مشرق و مغرب کے کئی اہلِ علم اس واقعہ کو تاریخی واقعہ تسلیم کر چکے ہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام فرما چکے تھے کہ اس نظریہ کی تائید پر آئندہ بھی مزید انکشافات ہوں گے.بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی زندگی میں حضرت عیسی کے سفر مشرق اور قیام کشمیر کے متعلق جس قدر تاریخی شواہد میسر آسکتے تھے آپ نے انہیں اپنی مختلف کتابوں خصوصاً مسیح ہندوستان میں کے اندر درج کر دیا.آپ کی وفات کے بعد جو مزید انکشافات ہوئے ان پر سلسلہ احمدیہ کے علماء مفتی محمد صادق، قاضی محمد یوسف مردان ، خواجہ نذیر احمد مصنف ”جیز زبان ہیون آن ارتھ اور مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم نے کتابیں لکھیں.مکرم شیخ عبدالقادر صاحب ریسرچ سکالر لاہور نے بھی اپنے محققانہ مضامین اخبارات و رسائل میں شائع کرائے جو کتابی صورت میں تا حال شائع نہیں ہوئے.اس دوران فلسطین کے مشرق میں وادی قمران کے غاروں سے 1947 ء سے آج تک ابتدائی عیسائیوں کے مدفون و محفوظ نہایت قیمتی صحائف برآمد ہو چکے ہیں جن پر بین الاقوامی ماہرین آثار قدیمہ کی جماعتیں کام کر رہی ہیں.یہ صحائف ” ڈیڈسی سکرولز“ کے نام سے خود عیسائی محققین منظر عام پر لارہے ہیں.اس تمام مواد کو پیش نظر رکھ کر 1960ء میں خاکسار نے مسیح کشمیر میں“ کے نام سے ایک مختصر مضمون لکھا تھا جسے حکیم عبداللطیف شاہد مرحوم نے کتاب کی صورت میں شائع کیا تھا.اس کتاب پر مشہور اہلِ قلم علامہ نیاز فتحپوری ایڈیٹر ماہنامہ نگار لکھنو اور بعض بھارتی ، پاکستانی اخبارات نے تبصرے کئے اور اس کے اقتباسات شائع کر کے قارئین کو دعوت غور وفکر دی.1972ء میں کشمیر کے مسلمانوں کے علمی حلقوں میں بھی دلچسپی پیدا ہوئی اور کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر حسنین اور ان کی نگرانی میں محمد یاسین صاحب

Page 4

iv (سرینگر ) نے غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے مضامین شائع کئے جو بیرون ممالک کے انگریزی اخبارات میں بھی شائع ہوئے.انہوں نے ان مضامین میں جماعت احمدیہ کی تحقیقات دربارہ قبر سیح کی توثیق کی ہے.محمد یاسین نے ”مسٹریز آف کشمیر (Mysteries of Kashmir) کے نام سے انگریزی میں ایک کتابچہ بھی باتصویر شائع کیا ہے.یورپ کے محققین بھی برابر کتا بیں لکھ رہے ہیں.ردائے مسیح یا مقدس کفن مسح پر بھی جرمن محققین تحقیقات کر رہے ہیں اور عیسائی دنیا میں خاص طور پر دلچسپی بڑھ رہی ہے.ان حالات پر ضرورت تھی کہ ان ساری تحقیقاتوں اور انکشافات کو پیش نظر رکھ کر ضروری مواد کو یکجا کر کے عام استفادہ کیلئے کتابی صورت میں شائع کیا جائے.چنانچہ جلسہ سالانہ 1977 ء پر استاذی المکرم قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اشاعت لٹریچر ربوہ کے ارشاد پر خاکسار نے اپنے کتابچہ مسیح کشمیر میں پر نظر ثانی کی اور ضرورت کے مطابق جگہ جگہ مضمون میں توسیع کی گئی اور بعض غیر ضروری حصے حذف کر دیئے گئے.ترتیب و شوید کے بعد محترم قاضی صاحب موصوف نے مضمون کو بالاستیعاب سنا اور اپنا خاصا وقت دے کر خاص خاص مقامات پر رہنمائی فرمائی اور قیمتی مشوروں سے نوازا اور انہی کی کوششوں سے اب یہ کتاب شائع ہورہی ہے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء ا کتاب کو ہر لحاظ سے مفید اور جامع بنانے کی کوشش کی گئی ہے.ضروری دستاویزات کے فوٹو بھی شامل کئے گئے ہیں.امید ہے قارئین پہلے سے اس کتاب کو کئی درجہ بہتر پائیں گے اور خاکسار کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں گے اور ان کو بھی جنہوں نے اس کتاب کے قلمی نسخے میں امداد کی ہے.آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس کوشش کو قبول فرمائے اور حق و صداقت کی پیاسی روحوں کیلئے اسے مشعل راہ اور موجب ہدایت بناۓ.آمین یا رب العالمین

Page 5

V پيش لفظ طبع دوم ہمارے نبی حضرت محمد علی یا اللہ نے امت میں آنے والے مسیح کا ایک اہم کام کسر صلیب بیان فرمایا تھا یعنی انہوں نے عیسائیت کے غلط عقائد کا بطلان کرنا تھا جیسا کہ شارح بخاری علامہ بدرالدین عینی نے اپنی کتاب عمدۃ القاری میں قطعی الہامی علم کی بناء پر اس پیشگوئی کے یہی معنی بیان فرمائے ہیں.انیسویں صدی کے آخر میں جب ہندوستان کے علاقہ پنجاب میں عیسائی مشن کی بنیاد رکھی جا رہی تھی عین اس وقت خدا تعالیٰ کی تقدیر نے قادیان کی بستی سے حضرت مرزا غلام احمد کو مجد د وقت اور کاسر صلیب کے طور پر کھڑا کیا.انہوں نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر اعلان کیا کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اسکے رنگ میں ہو کر وعدہ کے مطابق تو آیا ہے.آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور عیسائیت کا بطلان ثابت کر دکھایا.مسیح کی صلیبی موت سے نجات اور طبعی وفات کا ثبوت آپ کا ایسا کارنامہ تھا جس سے عیسائیت کی عمارت دھڑام سے زمین پر آ رہی.مسیح کی صلیبی موت سے نجات کے اس مضمون کو حضرت بانی جماعت احمدیہ نے متعدد کتب و تحریرات میں بیان فرمایا ہے.1899ء میں آپ نے ایک عظیم الشان کتاب تالیف فرمائی جس کا نام مسیح ہندوستان میں ہے.اس کتاب کا اصل مدعا مسلمانوں اور عیسائیوں کے بعض غلط عقائد کی اصلاح تھا.چنانچہ حضور علیہ السلام بیان فرماتے ہیں.اس کتاب کو میں اس مراد سے لکھتا ہوں کہ تا واقعات صحیحہ اور نہایت کامل اور ثابت شدہ تاریخی شہادتوں اور غیر قوموں کی قدیم تحریروں سے ان غلط اور خطرناک خیالات کو دور کروں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے اکثر فرقوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی پہلی اور آخری زندگی کی نسبت پھیلے ہوئے ہیں“ (مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 3) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن وحدیث اور کتب سابقہ، تاریخ وطب کی رو سے ثابت فرمایا کہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے بلکہ 120 سال کی عمر میں وفات پا کر سرینگر کے محلہ خانیار میں مدفون ہیں.حضور علیہ السلام نے اپنی اس تحقیق کو دس ابواب پر منقسم کیا لیکن بعد میں چار

Page 6

ابواب پر ہی اکتفا فرمایا.ان ابواب میں آپ نے انجیل، قرآن وحدیث، کتب طب اور تاریخی کتب کی شہادتوں سے مسیح کی صلیبی موت سے نجات اور انکی ہجرت کشمیر اور طبعی وفات کو ثابت فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف تالیف مسیح ہندوستان میں سے راہنمائی لیتے ہوئے اس اہم تحقیقی کام پر اپنوں اور غیروں نے خامہ فرسائی کی اور اب بھی یہ تحقیقی سلسلہ جاری ہے اور نئے سے نئے شواہد مسیح کی صلیبی موت کے عقیدہ اور انکے آسمان پر چلے جانے کے عقیدہ کا بطلان کر رہے ہیں.سلسلہ احمدیہ کے جن نامور علماء کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے قلم اٹھانے کی توفیق عطا فرمائی ان میں بطور خاص حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب، خواجہ نذیر احمد صاحب آف لاہور، شیخ عبدالقادر صاحب محقق اور مولانا اسداللہ قریشی کا شمیری صاحب قابل ذکر ہیں.انکے علاوہ بھی علماء سلسلہ کے مضامین جماعتی اخبارات و رسائل کی زینت بنتے رہے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے.زیر نظر کتاب «مسیح کشمیر میں محترم مولانا محمداسد اللہ قریشی کا شمیری مربی سلسلہ کی تالیف ہے جو پہلے ایک مضمون کی صورت میں تھی نظر ثانی کے بعد نظارت اشاعت ربوہ نے 1978 ء میں اسے کتابی صورت میں شائع کیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحقیق کی تائید میں ان شواہد کو بھی شامل کر لیا گیا جو حضرت مسیح علیہ السلام کے عہد کے بعد سے تا تصنیف کتاب ہذا منظر عام پر آئے.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجلس انصار اللہ پاکستان کی قیادت اشاعت ایک عرصہ سے نادر ونایاب اور مفید کتب سلسلہ کی اشاعت نو کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے تا ان کے مطالعہ سے احباب جماعت کی علمی ترقی ہو اور وہ تحقیق و تصنیف کے کام میں آگے آکر سلطان القلم کے معین و مددگار بن سکیں.اسی مقصد کیلئے اس کتاب کی طبع دوم نظارت اشاعت ربوہ کی اجازت سے پیش خدمت ہے.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور اس نیک کاوش کے مفید نتائج پیدا فرمائے.آمین

Page 7

vii عرض نان

Page 8

viii ارشاد حضرت مسیح موعود عليه السلام فرماتے ہیں: حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے اور نہ کبھی امید رکھنی چاہئے کہ وہ پھر زمین پر آسمان سے نازل ہوں گے بلکہ وہ ایک سو بیس برس کی عمر یا کر سری نگر کشمیر میں فوت ہو گئے اور سری نگر محلہ خان یار میں ان کی قبر ہے.مسیح ہندوستان میں ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 14 )

Page 9

باب اول ix فہرست مضـ عنوانات صفح 1 1 2 4 5 LO 5 قرآن واحادیث میں حضرت عیسی و مریم کے جنت نظیر پہاڑی علاقہ میں پناہ لینے کا ذکر وو ربوہ“ سے مراد کشمیر جنت نظیر ہے یچ کا واقعہ ہجرت کشمیر اور شام کی مشابہت اہل کشمیر بنی اسرائیل ہیں اور مسیح ان کے رسول تھے ایک شبہ کا ازالہ مشرقی ملکوں میں تبلیغ اور آپ کی قبولیت حدیثوں میں مسیح کی سیاحت اور ایک برفانی وادی میں پہنچ کر وفات پانے کا ذکر باب دوم مشرقی لٹریچر میں حضرت مسیح و مریم کے کشمیر جانے کا ذکر یوز آسف کے نام سے مسیح کا سفر کشمیر سفر کشمیر اور وفات نصیبین میں حضرت مسیح و مریم کی آمد ارض عرب میں آمد اور حج بیت اللہ احمد نبی کی بشارت عراق میں مسیح مریم کی آمد فارس میں مسیح کی آمد اور اعلان نبوت افغانستان میں مسیح کی آمد مسیح و تھوما کی ٹیکسلا میں موجودگی 11 12 13 16 16 16 18 19 20 21 22 23 25 26 ي ته له له ده و له ق له به چه الله له له

Page 10

عنوانات X باب سوم بائیل میں مسیح کے کشمیر جیسے جنت نظیر علاقہ میں پناہ لینے کا ذکر صیح ایک دور دراز علاقہ میں جا کر صاحب اولاد ہوگا زبوروں کی پیشگوئیوں ( متعلق بالمسیح ) سے مزید تائید جنت نظیر وادی میں پناہ لے گا اونچی جگہ چڑھنے رفع کا مفہوم کو شروت“ کی سرزمین میں جائے گا زبوروں میں مسیح کی پناہ گاہ کی تعریف باب چہارم انجیلوں میں حضرت مسیح کے دور دراز اور محفوظ علاقہ میں جانے کا ذکر صلیبی موت سے نجات ، حواریوں سے ملاقات اور مشرق سے مسیح کا ظہور انا جیل میں مسیح کے آسمان پر جانیوالی آیات الحاقی ہیں علماء مغرب کے لٹریچر میں حضرت مسیح کے کشمیر میں پناہ لینے کا اعتراف یسوع کی نامعلوم زندگی کے حالات حضرت مسیح کی مخفی زندگی کہاں گزری؟ قبرمریم باب پنجم مسیح کے بڑھاپے کی قدیم تصاویر شام و ہند کے مابین قدیم رسل و رسائل و تجارت ردائے مسیح “ یا ”مقدس کفن صفحہ 28 28 28 32 36 39 40 40 42 42 42 44 46 47 48 50 52 52 53 53

Page 11

xi عنوانات تاریخی پس منظر مکتوب یروشلم بحیرہ مردار میں قبر مسیح کی حقیقت بحیرہ مردار کے غاروں کے صحیفے باب ششـ قدیم ہندو لٹر پچر میں مسیح کے کشمیر آنے کا ذکر بھوش پر ان میں مسیح کی کشمیر میں راجہ سے ملاقات کا ذکر اھا ماسی دیوی سے کیا مراد ہے " نے گما“ سے کیا مراد ہے یہودیوں کا ہندوستان میں پھیلاؤ ہمالیہ کے دامن میں کلیسیا کا قیام وسط ایشیا میں مسیح کی سیاحت کی اب تک شہرت بھارتی اخبارات میں مسیح کے سفر کشمیر کا ذکر باب ہفتم بدھ مذہب کے لٹریچر میں کشمیر میں مسیح کی آمد کا ذکر ہندوستان میں عیسی“ کی تعلیم باب ہشتم قدیم کشمیر کے لٹریچر میں مسیح کی آمد ، دعوی نبوت اور وفات پانے کا ذکر حضرت مسیح کا رفع الی اللہ اور کشمیر تخت سلیمان کے کتبوں میں مسیح کے دعوی نبوت کا ذکر راجہ گو یادت اور یوز آسف کا زمانہ یوز آسف کے صلیبی زخم کشمیر میں مندمل ہوئے صفحہ 69 69 77 77 78 78 79 8 8 8 8 8 8 8 له لا لا له له لا 56 59 63 65 69 76 80 80 81 84 84 86 86 87 88

Page 12

صفحہ نمبر 89 91 92 93 95 101 102 104 104 106 107 108 110 111 112 113 113 114 116 xii عنوانات کشمیر کی قدیم تاریخ راج ترنگنی میں ایشاں دیو کے نام سے عیسی مسیح کا ذکر یوز آسف یا مسیح شہزادہ نبی مقبرہ یوز آسف کا زیارت گاہ عوام وخواص میں ہونا مقبره یوز آسف کے مجاوروں کا تولیت نامہ یوز آسف کی تعلیم پروفیسر کشمیر یو نیورسٹی کی طرف سے قبر مسیح کی تائید حضرت عیسی نے کشمیر میں شادی کی اور صاحب اولاد ہوئے باب نہم ن قدیم کشمیر میں عیسائی مذہب عیسائی محققین کی شہادت عیسی کے نام کا معبد اور عیسی بار نامی قدیم شہر افغانستان میں عیسائی آثار ہرات میں عیسی ابن مریمہ کشمیری کی انجیلیں قدیم ہندوستان میں عیسائی آثار کاشغر اور بلخ میں عیسائی آثار باب دہم حضرت مریم صدیقہ کا سفر کشمیر عیسائی روایات کاشغر میں مزار مریم

Page 13

1 باب اوّل بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم قرآن واحادیث میں حضرت عیسی" و مریم کے جنت نظیر پہاڑی علاقہ میں پناہ لینے کا ذکر قرآن و احادیث اور تفاسیر و تواریخ میں حضرت عیسی و مریم کے جو حالات ملتے ہیں ان میں بیان ہوا ہے کہ حضرت عیسی کے دعویٰ نبوت کے بعد فلسطین میں یہودیوں نے رومی حکومت سے ساز باز کر کے آپ پر بغاوت کا مقدمہ چلایا جس میں آپ کو باغی قرار دیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ آپ کو صلیب دے دیا جائے.آپ نے رورو کر خدا سے دعائیں کیں کہ مجھے اس مصیبت اور صلیب کی لعنتی موت سے بچالے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو سنا اور آپ کو بذریعہ الہام وعدہ دیا: يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَبْرُكَ ( آل عمران : 55-56) یعنی ” اے عیسی میں تجھے طبعی وفات دوں گا ( یہود تجھے قتل نہیں کرسکیں گے ) اور اپنی طرف تیرا رفع کروں گا اور تجھے ان کے الزامات سے پاک کروں گا اور تجھے اور تیرے ماننے والوں کو منکروں پر غلبہ بخشوں گا“ سورہ نساء میں فرمایا کہ یہود حضرت مسیح کو قتل کرنے اور صلیبی موت مارنے میں کامیاب نہیں ہو سکے وہ شبہ میں ڈالے گئے ( یعنی مسیح کو بوجہ غشی کے مردہ کے مشابہ سمجھ لیا ) ہم نے اسے اپنے حضور رفعت بخشی.(النساء:158-160) قرآن کے یہ بیانات انا جیل کے بیانات سے بالکل صاف ہیں جن سے واضح ہے کہ حضرت مسیح کو خدا نے اپنے وعدہ کے مطابق صلیب کی موت سے بچا لیا اور اسے رفعت بخشی.سورہ مومنون میں مزید وضاحت سے فرمایا کہ ہم نے مسیح ابن مریم اور اس کی والدہ مریم کو ایسے اونچے پہاڑی علاقہ میں پناہ دے دی جو جنت نظیر ، آرام و امن والا ، چشموں والا سر سبز و شاداب اور بہترین تھا.جیسا کہ فرمایا: وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةٌ وَاوَيُنَاه

Page 14

2 مَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِينٍ (مومنون:51) یعنی ہم نے ابن مریم اور اسکی ماں کو نشان بنایا اور ہم نے ان دونوں کو ایک ایسے اونچے علاقہ کی طرف پناہ دے دی جو امن و آرام والا اور راحت کے چشموں والا تھا.اس جگہ عیسی و مریم کیلئے اوای کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اوی کا لفظ قرآن مجید میں بڑی مصیبت کے بعد کے معنی میں آتا ہے.جیسا صلى الله رسول اللہ ﷺ اور مومنین کے مدینہ میں پناہ لینے کے موقعہ فاوا گم (انفال: 27) کی آیت میں اوی کا لفظ استعمال ہوا ہے کیونکہ مسیح کی طرح آپ کے خلاف بھی مکہ میں قتل کی سازش ہوئی تھی اور یہ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح پر واقعہ صلیب سے بڑھ کر کوئی مصیبت نہیں آئی تھی.ربوہ کے معنی کی وضاحت سورۂ بقرہ کی آیت 266 سے بھی ہوتی ہے جس میں صدقات بڑھنے کی مثال میں فرمایا كَمَثَل جَنَّةٍ بِرَبُوَة یعنی صدقات کی مثال اس باغ کی سی ہے جو اونچے ٹیلے پر ہو اگر بارش ہو تو دو چند پھل دیدے اور اگر بارش نہ ہوتو شبنم ہی کافی ہو.امام راغب اصفہانی کی مفردات القرآن میں ہے ربوہ بلند ترین کو کہتے ہیں.جب ریا الرجل کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ وہ بلندی کی طرف چڑھا.المنجد میں ہے مَا ارْتَفَعَ من الأرض جو سطح زمین سے بلند ہو.ذات قرار مفردات میں سے ہے.قرار کی اصل قر (سردی) جو سکون کو چاہتی ہے اور حُر ( گرمی ) حرکت کو چاہتی ہے.قرآن مجید میں جنت کو خَيْرٌ مُسْتَقَرّاً کہا گیا ہے یعنی بہشت ٹھہرنے کیلئے بہترین جگہ ہے قُرَّة عَيْن اولاد کو بھی کہتے ہیں.بوجہ ا سکے کہ اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک اور سرور کا موجب ہوتی ہے.معین جاری رہنے والا اور بہنے والا پانی.چشمہ کا پانی.المنجد میں ہے، ہر وہ پانی جو مفید ہو.وادی میں بہنے والا پانی (از لفظ معن ) حضرت عباس نے بھی " ربوہ " کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ ایسی اعلی جگہ جو سطح زمین سے بلند ہو اور جولغوی معنی اوپر بیان کئے گئے ہیں ان پر دیگر مفسرین نے بھی اتفاق کیا ہے.پس آیت مذکورہ سورۂ مومنون کے معنی یہ ہونگے.”ہم نے مسیح اور مریم دونوں کو عمدہ سرسبز اور سطح زمین سے بلند جگہ پر پناہ دی جو سرد پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے امن وقرار والا اور بہتے چشموں والا ہے.“ ربوہ سے مراد کشمیر جنت نظیر ہمارے نزدیک مذکورہ قرآنی آیت میں مبینہ تمام صفات پوری طرح کشمیر جنت نظیر پر منطبق ہوتی ہیں اس لئے ”ربوہ کشمیر جنت نظیر ہے اور مسیح کا صلیبی موت سے بچ کر اپنی والدہ حضرت مریم صدیقہ کے ساتھ پناہ لینا بھی اسی سرزمین میں تاریخی طور پر ثابت ہے.جہاں انہیں امن وقرار حاصل ہوا

Page 15

3 اور وہ مستقل طور پر یہیں بس گئے.یہ علاقہ چاروں طرف سے بلند و بالا پہاڑوں سے محفوظ ومامون پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے جہاں انکے دشمن نہیں پہنچ سکے.اور انکے گمشدہ اسرائیلی قبائل بھی یہاں بس رہے تھے جن کی طرف وہ مبعوث ہوئے تھے اور یہاں ہی انہوں نے اپنا مشن امن و آزادی سے جاری رکھا اور اسکی تکمیل کر کے کامیاب ہوکر یہاں ہی طبعی وفات پائی.بلندی کے لحاظ سے بھی سطح زمین سے کشمیر کا مرتفع ہونا قدیم وجدید ہئیت دانوں اور جغرافیہ دانوں کے ہاں مسلم ہے.اسکی بلندی سطح سمندر سے 18- 19 ہزار فٹ ہے اور اسکی بعض چوٹیاں 29 بہت بلند و بالا ہیں اور جغرافیہ دان اور دنیا بھر کے سیاح علاقہ کوہ ہمالیہ اور کشمیر کو Roof of the World زمین کی چھت، دنیا کی چھت کہتے ہیں.اور یہ ظاہر ہے کہ جو علاقہ زمین یا دنیا کی چھت کہلا تا ہو وہ زمین میں کمال بلندی پر ہو گا.کشمیر ذات قرار کے لحاظ سے معتدل ، ٹھنڈا اور صحت بخش علاقہ بھی مسلّم ہے اور چشمے بھی یہاں سال بھر جاری رہتے ہیں اور خشک نہیں ہوتے اور سرسبزی اور شادابی میں بھی بے نظیر ہے.یہاں چرا گاہوں ، مال مویشی ، گھی ، دودھ کی کثرت ، آبشاروں ، سایہ دار درختوں ، جھیلوں ، تالابوں ، باغوں ، جنگلوں، کھیتوں اور نباتات کے دلکش قدرتی مناظر ہیں.میسیج کی صحت کی بحالی کیلئے بھی جو صلیبی زخموں اور جسمانی اذیتوں کی وجہ سے کمزور ہو گئے تھے کشمیر جنت نظیر بہت موزوں و مناسب صحت افزاء علاقہ تھا.الغرض اللہ تعالیٰ نے سورہ مومنون میں مسیح کے دارالہجرت اور پناہ کی جو تعریف کی ہے وہ شام ، فلسطین ، رملہ ،مصر یا دمشق کے علاقوں پر پورے طور پر صادق نہیں آتی.واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح ان علاقوں میں پناہ نہیں لے سکتے تھے کیونکہ ان علاقوں میں ان کے دوبارہ گرفتار ہو کر قتل کئے جانے کا خطرہ تھا اس لئے کہ یہ علاقے رومی حکومت کے اثر میں تھے جس نے حضرت مسیح کو باغی قرار دے کرموت کا فتویٰ دیا تھا.نیز انہوں نے جس مشن کی طرف فلسطین میں وعظ کے دوران اشارہ کیا تھا کہ میرے لئے اپنی گمشدہ بھیڑوں کی طرف جانا بھی ضروری ہے جو فلسطین سے باہر مختلف مشرقی ملکوں میں پھیلی ہوئی تھیں.وہ بھی اس صورت میں پورا ہو سکتا تھا کہ آپ ان علاقوں سے مشرقی ملکوں کی طرف ہجرت کرتے اور گمشدہ اسرائیلی قبیلوں تک خدا کا پیغام پہنچاتے.سو انہوں نے وحی الہی کے ماتحت ایسا ہی کیا اور ایران و افغانستان ، ہندوستان ، تبت اور کشمیر کی طرف آئے جہاں بنی اسرائیل منتشر ہو کر مسیح سے قبل آباد چلے آرہے تھے.فلسطین میں بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے صرف دو ہی قبیلے آباد تھے.دس گمشدہ قبائل افغانستان اور کشمیر وغیرہ میں ہی آباد تھے.

Page 16

4 الغرض فلسطین اور اسکے آس پاس کے علاقوں میں واقعہ صلیب سے بچ جانے کے بعد حضرت مسیح کا قیام کرنا اور امن و آزادی سے کام جاری رکھنا مشکل تھا اور کشمیر جیسے محفوظ ملک کی طرف ہجرت کرنا مذکورہ وجوہ کی بناء پر ان کیلئے ضروری ہوگیا تھا.مسیح کا واقعہ ہجرت آپ کا واقعہ ہجرت یوں ہے کہ جب یہ افواہ رومی حکومت تک پہنچی تھی کہ مسیح ابھی زندہ ہے تو یہودی علماء نے جو مسیح کے سخت دشمن تھے.آپ کی تلاش کیلئے آپ کے پیچھے جاسوس دوڑائے اور آپ کے ایک پُر جوش مخالف پولوس کو بھی انعام کا لالچ دے کر آپ کے تعاقب میں دمشق تک بھیجا کیونکہ حضرت مسیح فلسطین سے دمشق (شام) چلے گئے تھے.وہاں ایسے حالات ہوئے کہ پوٹوس مسیح پر ایمان لایا.اسکے بعد مسیح دمشق سے خفیہ طور پر نکل گئے.حدیث میں ہے.أوحى الله إلى عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ أَنْ يُعِيسَى انْتَقِلُ مِنْ مَكَانِ إِلَى مَكَانِ لِئَلَّا تُعْرَفَ فَتُوذَى ( کنز العمال جلد 2 صفحہ 34) یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی پر وحی بھیجی کہ اے عیسی ! ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جا تا کہ تو پہچانا نہ جائے اور تجھے تکلیف نہ دی جائے.اس جگہ کو قرآن میں ”ربوہ“ کہہ کر مسیح و مریم کی پناہ گاہ قرار دیا گیا ہے.ہجرت کا حکم پا کر حضرت مسیح خفیہ طور پر شام اور شام سے نصیبین ، مکہ، عراق اور پھر ایران آئے اور ان ملکوں میں اپنا پیغام پہنچاتے رہے.ایران کے قدیم لٹریچر میں آپ کا ذکر یوز آسف کے نام سے ملتا ہے.پھر افغانستان اور ہندوستان سے ہوتے ہوئے بالآ خر کشمیر پہنچے اور کشمیر جنت نظیر کو شام کی مانند ٹھنڈا پا کر یہیں تبلیغ دین میں زندگی بسر کی اور یہیں فوت ہو کر سرینگر کے محلہ خانیار میں دفن ہوئے.جہاں آج تک آپ کی قبر زیارت گاہ ہے.بعض لوگ میسیج کی اس خفیہ ہجرت پر تعجب کرتے ہیں.حالانکہ جس طرح آنحضرت ﷺ نے مکہ سے مدینہ کی طرف خفیہ ہجرت کی تھی اسی طرح حضرت مسیح نے فلسطین سے کشمیر کی طرف ہجرت کی.جہاں سابق وقتوں میں بنی اسرائیل آکر آباد ہوئے تھے جن تک پیغام الہی پہنچانا آپ کیلئے ضروری تھا.جب رسول اللہ ﷺ کی خفیہ ہجرت قابل تعجب نہیں تو یہ ہجرت کیوں قابل تعجب سمجھی جاتی ہے.جس طرح حضرت نوح کو طوفان سے ، حضرت ابراہیم کو آگ سے ، حضرت موسی کو دریا سے، حضرت یوسف کو کنویں

Page 17

5 رت و صلوة الله علیهم اجمعین کو کفار کی سازش سے اللہ تعالیٰ نے بچایا اسی طرح حضرت یسی علیہ السلام کو صلیبی موت سے بچایا.کشمیر اور شام کی مشابہت کشمیر کا دوسرا نام کشیر بھی آپ کے سفر کشمیر کی طرف صریح اشارہ کر رہا ہے کیونکہ کشمیری زبان میں کشمیر کو کشیر کہتے ہیں جو دراصل عبرانی لفظ ہے اور ک اور اشیر سے مرکب ہے.ک کے معنی ہیں مانند اور اشیر عبرانی زبان میں شام کو کہتے ہیں.انگریزی میں (Assyria) اسیر یا اسی کو کہتے ہیں.پس کاشیر کے معنی تھے ملک شام کی مانند مگر کثرت استعمال سے ک اشیر کا درمیانی الف گر گیا، کشیر رہ گیا.غیر قوموں میں کشیر کی جگہ کشمیر مشہور ہے مگر کشمیری زبان میں مقامی لوگ کشمیر کو اب تک کشیر ہی کہتے ہیں بلکہ خود سرینگر جو کمر کا دارالخلافہ ہے بھی پہلے اشیری نگر کہلاتا تھا جوسور یہ یا سیر یا سے ہی ماخوذ ہے جو شام کا قدیم نام تھا.بائیل میں ایک قبیلے کا نام اشیر آیا ہے.( یشوع باب 19 آیت 24) ان کی اولاد کو بنی اشیر کہا جاتا ہے.اشیر حضرت یعقوب کے بیٹوں میں سے بھی ایک کا نام تھا یہ لوگ آٹھویں صدی قبل مسیح کے زمانہ میں حملہ بخت نصر کے بعد شام سے بابل لائے گئے.یہاں بھی انہوں نے سور یا نام شہر بسایا.بعد کے زمانوں میں جب یہ لوگ تلاش معاش میں بابل سے کشمیر پہنچے تو کشمیر کو شام کی مانند ٹھنڈا ملک پاکر اس کا نام ” کا شیر رکھا.یعنی ” ملک شام کی مانند اور ایک شہر اپنے قدیم وطن سوریہ کی یاد میں شیری یا سوریہ نام بسایا.جسے ہندو مورخین شری نگر لکھتے رہے.یہی اب سری نگر کے نام سے مشہور ہے.( نگارستان کشمیر صفحہ 34) اہل کشمیر بنی اسرائیل ہیں اور مسیح ان کے رسول تھے آیت قرآنیہ وَرَسُولاً إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ کے مطابق حضرت مسیح کا پیغام حق پہنچانے کیلئے ان بنی اسرائیل کی طرف آنا بھی ضروری تھا جو کشمیر ، افغانستان ہندوستان اور تبت کے پہاڑی علاقوں میں سابق وقتوں کے انقلابات میں منتشر ہو کر پناہ گزین ہو چکے تھے.مؤرخین لکھتے ہیں کہ آج سے قریباً تین ہزار سال قبل کا واقعہ ہے کہ شاہ بابل بخت نصر نے شام پر حملہ کیا اور فلسطین کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور بارہ اسرائیلی قبائل کو اسیر کر کے بابل لایا اور انہیں بحیرہ کیسپین کے کنارے کیمپوں میں رکھا وہاں انہوں نے آس پاس واردا تین شروع کیں.اس پر بادشاہ نے انہیں کیمپوں سے نکال کر فارس، مید یا وغیرہ کی نو آبادیات اور دور دراز جنگلوں میں بکھیر کر آباد کیا.

Page 18

6 536 قبل مسیح خورس ( ذوالقرنین شاہ ایران ) نے ان اسیروں کو واپس وطن جانے کی اجازت دے دی.اس پر ان میں سے دو قبائل وا پس فلسطین چلے گئے اور باقی دس قبائل افغانستان، ہندوستان اور کشمیر میں آکر آباد ہو گئے.عرصہ دراز تک ان اسرائیلی قبائل کے حالات مخفی رہے.یہی دس (10) گمشدہ اسرائیلی قبائل تھے جن سے مؤرخین آگاہ نہیں تھے کہ یہی گمشدہ اسرائیلی قبائل ہیں.عرصہ دراز کے بعد یورپین اقوام کے خروج کے بعد مؤرخین کو ان گمشدہ قبائل کا پتہ چل گیا اور انہوں نے انہیں افغانستان اور کشمیر میں پایا.تب دنیا کو یہ معلوم ہوا کہ افغانستان سے کشمیر تک کے لوگ دس گمشدہ اسرائیلی قبائل کی اولاد ہیں اور انکی گمشدگی کا معمہ حل ہو گیا.افغانوں اور کشمیریوں کا خود بھی دعوی ہے کہ وہ بنی اسرائیل یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں.ان کے شجرے بھی یہی گواہی دیتے ہیں اور کشمیر و افغانستان کی تاریخیں بھی یہی ثابت کرتی ہیں.مشرق و مغرب کے اہلِ علم کے نزدیک اب یہ امر مسلم ہے.کشمیر میں تخت سلیمان، قبر موسیٰ وغیرہ قدیم آثار، افغانستان میں موسیٰ خیل، عیسی خیل، داؤد خیل وغیرہ قبائل کے اسرائیلی نام اور دونوں ملکوں کا لباس، تمدن زندہ گواہ ہیں کہ وہ بنی اسرائیل ہیں.ابوریحان البیرونی نے کتاب الہند میں، ڈاکٹر بر نیئر مغربی سیاح نے اپنے سیاحت نامہ میں اور ڈاکٹر ☆ اقبال وغیرہ محققین نے بھی ایسا ہی لکھا ہے.تورات میں پہلے سے پیشگوئیاں تھیں کہ جب بنی اسرائیل توحید سے ہٹ کر شرک و بت پرستی اور خدا کی نافرمانی کرنے لگیں گے تو ان پر ظالم بادشاہ بھیجے جائیں گے جو انہیں ان ملکوں سے جو خدا نے ان کے باپ دادا کو بطور انعام دیئے تھے، منتشر کر کے دور دراز ملکوں میں بکھیر دیا جائے گا.( دیکھو استثناء باب 32 آیت 26 ، یسعیاہ باب 41 و باب 6 آیت 21، استر باب 1 آیت 1 و باب 3 آیت 8) قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل آیت 5 تا 9 میں بھی بنی اسرائیل کے دوبار فساد کرنے اور دو بار عذاب میں مبتلا ہونے کا ذکر آچکا ہے اور تاریخ کی گواہی بھی یہی ہے کہ بنی اسرائیل پر دوبار ز بر دست تباہی آئی.ایک بخت نصر (شاہ بابل) کے وقت جس نے ان پر حملہ کر کے شکست دی دوسری طیطس رومی کے حملہ کے وقت جبکہ انہیں اپنے وطن چھوڑ کر مشرقی ملکوں میں پناہ گزین ہونا پڑا.افغانوں کے اسرائیلی الاصل ہونے پر بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتاب «مسیح ہندوستان میں میں مفصل بحث کی ہے تفصیلات وہاں سے ملاحظہ کی جاسکتی ہیں.ہم نے اسی لئے یہاں اختصار کی رعایت پیش نظر رکھی ہے.

Page 19

7 بھارت میں اس موضوع پر کئی کتابیں شائع کی گئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں بنی اسرائیل کہاں کہاں آباد ہوئے تھے.تفاسیر اسلامی میں بھی چین کے پاس اسرائیلی آباد کاروں کا ذکر آیا ہے چنانچہ علامہ عمادالدین ابن کثیر کی مشہور تفسیر میں ابن عباس سے آیت وَمِنْ قَوْمِ مُوسَى أُمَّةٌ يَهْدُوْنَ بِالْحَقِّ (اعراف: 60) کی تفسیر میں مروی ہے کہ ابن عباس نے فرمایا کہ قوم موسیٰ کی اس جماعت“ سے وہ بقایا بنی اسرائیل کی جماعت مراد ہے جنہوں نے کفرو شرک اور خدا کی نافرمانی سے بیزار ہوکر خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور وہ چین کے پاس علاقوں میں بس گئی.وہ ڈیڑھ سال تک سفر کرتے رہے وہ اب تک چین اور آس پاس کے ملکوں میں موجود ہیں.یہاں تک کہ آخر زمانہ میں مسیح موعود کے ذریعہ مسلمان ہونگے اور اسی کی طرف آیت فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِثْنَابِكُمْ لَفِيفاً (بنی اسرائیل: 105) میں اشارہ ہے.یعنی جب آخری زمانہ میں دوسرا وعدہ پورا کرنے کا وقت آئیگا تو ہم بنی اسرائیل کو جمع کریں گے.( تفسیر ابن کثیر 2 مطبوعہ مصر صفحه 256) چین کے پاس ملکوں میں آباد اسرائیلیوں سے افغانستان شمال مغربی پاک و ہند ، در دستان اور کشمیر کے اسرائیلی آباد کار مراد ہیں جس سے ظاہر ہے کہ نہ صرف تاریخ بلکہ مشہور اسلامی تفاسیر بھی مبینہ نظریہ کی تصدیق کرتی ہیں.بائیبل کے صحیفہ یسعیاہ باب 49 آیت 9 تا 12 میں بھی بنی اسرائیل کے ارض سینیم ( چین ) جانے کی پیشگوئی تھی.بائیبل کے مطابق عاموس نبی نے پیش گوئی کی تھی کہ دس فرقے اسیر ہوکر غیر ملکوں میں جائیں گے مگر خداوند اسرائیل کے گھرانے کو سراسر تباہ نہیں کرے گا بلکہ اسے غیر قوموں کے درمیان پاک وصاف کر کے پہلے عروج کی نسبت زیادہ عروج عطا کرے گا جبکہ داؤد کا گرا ہوا خیمہ از سرنو کھڑا کیا جائیگا.اس پیشگوئی میں داؤد کے گرے ہوئے خیمے کو از سر نو کھڑے کرنے پر اسرائیلی قبائل کے عروج کی خبر دی گئی ہے وہ ان قوموں کے اسلام قبول کرنے پر پوری ہوگئی.اسلام قبول کرنے پر داؤد کا خیمہ دوبارہ قائم ہو گیا اور افغانوں اور کشمیریوں میں اس کے بعد بڑے بڑے بادشاہ اور حکمران ہوئے.مسیح آخرالزمان کے وقت دوبارہ داؤد کا خیمہ کھڑا کیا جائے گا اور جب افغان و کشمیر کے اسرائیلی قبائل مسیح آخر الزمان کو قبول کرینگے تو دوبارہ انہیں عروج ملے گا.تاریخ بائیل صفحه 322

Page 20

8 یسعیاہ باب 49 آیت 9 تا 12 میں بھی بنی اسرائیل کے اپنے باپ دادا کی زمین سے جو خدا نے انکو دی تھی منتشر ہو کر چشموں والے پہاڑی علاقہ میں قیام کی پیشگوئی آئی تھی کہ خدا پانی کے چشموں کی طرف انکی راہبری کریگا اور یہ کہ وہ اپنے سارے کو ہستان کو ایک راہ گزر بنائے گا اور اسکی شاہراہیں اونچی کی جائیں گی وہ دور دور سے آئیں گے، شمال سے مغرب سے اور سینیم کے ملک سے.“ بائیبل کے مفسرین نے سینیم کے ملک پر بخشیں کی ہیں کہ پیشگوئی مذکورہ میں سینیم سے مراد کونسا 66 ملک ہے.جان ڈی ڈیوس کی بائیل کی ڈکشنری میں لکھا ہے کہ سینیم وہ علاقہ ہے جہاں ”SHINS “ شین نامی قبائل ) رہتے ہیں یعنی کوہ ہندوکش کے دامن کا علاقہ....زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ سینیم سے سرزمین چین مراد ہے جہاں مسیح سے قبل بنی اسرائیل آباد ہوئے.(صفحہ 692) کوہ ہندوکش کے دامن میں گلگت، ہنزہ ونگر جسے مؤرخین نے در دستان بھی لکھا ہے شین قبائل رہتے ہیں اور شین جی کی نسبت سے اپنی زبان کو شینا زبان“ کہتے ہیں.آج کل ریڈیو پاکستان سے شینا زبان میں پروگرام بھی نشر ہوتے ہیں.در دستان کے نام سے بعض مغربی سیاحوں نے کتا بیں بھی لکھی ہیں.یہ اس علاقہ کا قدیم نام ہے، یہ نام در دع قبائل کی نسبت سے رکھا گیا ہے.درد یا دردع بائیبل کے مطابق حضرت سلیمان کے زمانہ میں ایک دانا آدمی تھا وہ ان مہاجر قبائل کا مورث اعلیٰ تھا.مسیح سے قبل سارگن نامی ( شاہ بابل) نے ان قبائل پر جب حملہ کیا تو فلسطین سے انہیں گرفتار کر کے بابل لایا.جہاں انہیں بحیرہ کیسپین کے کنارے کیمپوں میں رکھا.جہاں سے وہ بھاگ بھاگ کر بھی ادھر اُدھر منتشر ہوئے اور انکے ذریعہ آس پاس کے علاقوں میں بھی وارداتیں ہونے لگیں.تب سارگن نے ان قبائل کو جن کی تعداد میں لاکھ بتلائی جاتی ہے شمال مغربی ہندوستان کے پہاڑی علاقوں میں دور دور تک جنگلوں اور بیابانوں میں بکھیر دیا اور وہاں انکی نو آبادیاں قائم کیں.چنانچه حشمت اللہ خان لکھنوی نے اپنی کتاب ” تاریخ جموں و گلگت بلتستان مع الحاقات میں لکھا ہے کہ گلگت کا قدیم نام سارگن تھا.اس نے اسکی وجہ تسمیہ جتلانے سے لاعلمی ظاہر کی ہے تو اس کی وجہ تسمیہ یہی ہے کہ قدیم زمانہ (722 ق م) میں جب سارگن نے یہاں ان مہاجر قبائل پر مشتمل یہ بستی قائم کی ارض بائیل میں شین ایک علاقہ کا نام تھا ( اسموئیل باب 7 آیت 13 ) اس علاقہ کے پناہ گزین جب یہاں آئے تو اسی سے دشین، مشہور ہوئے.از سلاطین باب 4 آیت 31

Page 21

9 تو اس کے نام پر اس کا نام سارگن رکھا گیا.بعد میں اس کا نام گلگت رکھا گیا.گلگتا اس پہاڑی کا نام بھی ہے جہاں حضرت مسیح کو صلیب دینے کیلئے لے جایا گیا.گلگت کے معنی آج بھی اہالیانِ گلگت میں قبرستان کے مشہور ہیں کیونکہ گلگت کے پاس قبرستان تھا جہاں فلسطین میں مصلوب مجرموں کو دفن کیا جاتا تھا.گلگت کے معنی ہیں کھوپڑی کی جگہ.یہ نام اناجیل اربعہ کے آخری ابواب میں وہاں پر آیا ہے جہاں حضرت مسیح کو گلگو تھا، گلگوت کے مقام پر صلیب دئیے جانے کا ذکر کیا گیا ہے.بہت ممکن ہے کہ مسیح کے ماننے والوں نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس نو آبادی کا پرانا نام جو ان کے اسیر ہونے کا نشان تھا بدل کر گلگت رکھا اور البیرونی نے بھی اپنی کتاب الہند میں اس جگہ کا نام گلگت بتلایا ہے جو چوتھی صدی ہجری میں محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان آئے تھے.پس یہ کہنا کہ گلگت کا نام سکھوں کے زمانہ میں رکھا گیا ہے صحیح نہیں ہے.اس علاقہ میں وہ کوہ مصفار بھی ہے ( جسے اب مصغر کہتے ہیں) جس میں حضرت مسیح کے پہنچنے کا اشارہ زبور باب 42 آیت 6-7 میں ملتا ہے.اس زبور میں جسے متعلق با مسیح کہا گیا ہے بطور پیشگوئی بیان کیا گیا ہے کہ ” میں تجھے (اے خدا) کو ہ مصغار سے یاد کروں گا.تیرے آبشاروں کی آواز سے گھراؤ گھراؤ.پکارتا ہے.“ اور عجیب مماثلت ہے کہ علاقہ گلگت کو آبشاروں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے.ریفرنس بائیبل میں سینیم میں سرزمین ”ار زار تھے“ کو بھی شامل کیا گیا ہے.یہ اس جگہ کا نام معلوم ہوتا ہے جسے آج کل ” ہزارہ کہتے ہیں کیونکہ راج ترنگنی (قدیم تاریخ کشمیر ) میں اس کا نام ارا سا، اراشا ، اور اُرشا بھی آیا ہے اور آج کل اس میدان کو جو ایبٹ آباد مانسہرہ کے درمیان ہے رش کا میدان کہتے ہیں.یہ بھی کہا گیا ہے کہ ارض سینیم“ سے ارض سین یعنی دریائے سندھ کا علاقہ مراد ہے.سینیم عبرانی میں سین اور یم سے مرکب ہے.جیسے بعل سے تعلیم یہ یم کا لفظ تعظیماً واحتراما شامل کیا گیا ہے.جب جگہ کے ساتھ استعمال ہو تو اس کا احترام مقصود ہوگا اور جب نام کے ساتھ استعمال ہو تو مسمی کا احترام مقصود ہو گا.جیسے بائیل کی پیشگوئی میں رسول اللہ کا نام محمد یم آیا ہے.یعنی مقدس محمد یا حضرت محمد (ع).حضرت مسیح الہامی نوشتوں کی رو سے صرف بنی اسرائیل کے لئے پیغمبر مبعوث کئے گئے تھے.جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے وَرَسُولاً إِلى بَنِي إِسْرَا نَيْل ( آل عمران: 50 ) کہ حضرت مسیح بنی اسرائیل کیلئے رسول تھے.سورہ صف ع 1 میں خود مسیح کا اعلان مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا.بینی اِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ یعنی اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.

Page 22

10 انجیلیں بھی اسکی تائید کرتی ہیں.چنانچہ متی کی انجیل باب 15 آیت 24 میں ہے کہ حضرت مسیح نے فرمایا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.“ اپنے شاگردوں کو بھی ہدایت کی غیر قوموں کی طرف نہجانا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا.(متی باب 10 آیت 5-6) اور یوحنا کی انجیل کی یہ آیت تو مشہور ہے ”میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں مجھے ان کو بھی لانا ضرور ہے وہ میری آواز کو سنیں گی پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا.“ ( یوحنا باب 10 آیت 16) اس آیت میں استعارہ اور بھیڑوں“ سے مراد وہ بنی اسرائیل ہیں جو فلسطین سے باہر غیر قوموں میں منتشر تھے یعنی افغانستان ، ہندوستان ، تبت اور کشمیر میں آباد تھے.لہذا مسیح کیلئے جیسے شام کے بنی اسرائیل کو پیغام الہی پہنچانا ضروری تھا.اسی طرح آپ کے لئے افغانستان سے لے کر کشمیر تک کے بنی اسرائیل کو بھی پیغام الہی پہنچانا ضروری تھا تا کہ ایک ہی گلہ بن جائیں اور ایک ہی چرواہے کے ماتحت ہوں اور اگر آپ کشمیر اور افغانستان وغیرہ ملکوں کے بنی اسرائیل کو پیغام الہی پہنچانے سے قبل ہی آسمان پر جا بیٹھتے تو آپ کا فرض منصبی نا تمام رہتا.مگر ایسا نہیں ہوا کیونکہ خدا کے پیغمبر اپنا فرض منصبی پورا کر کے وفات پاتے ہیں اس سے قبل نہیں.مسیح کو اپنا فرض منصبی یہ سمجھا یا گیا تھا کہ دوسری گمشدہ بھیڑوں کے پاس ان کا خود جانا ضروری ہے اور حز قیل نبی نے وضاحت سے پیشگوئی کی تھی کہ کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تلاش کرنے کیلئے خدا ایک خاص رسول انکے پیچھے بھیجے گا جو خود انہیں جگہ جگہ سے تلاش کرے گا اور بنفس نفیس خدا کا پیغام پہنچائے گا.جیسا فرمایا ”خداوند خدا فرما تا ہے دیکھ! میں خودا اپنی بھیڑوں کی تلاش کروں گا اور ان کو ڈھونڈ نکالوں گا جس طرح چرواہا اپنے گلہ کی تلاش کرتا ہے جبکہ وہ اپنی بھیڑوں کے درمیان ہو جو پراگندہ ہوگئی ہیں.اسی طرح میں اپنی بھیڑوں کو ڈھونڈوں گا اور ان کو ہر جگہ سے جہاں وہ ابر اور تاریکی کے دن نثر بتر ہوگئی ہیں چھڑا لاؤں گا.“ (دیکھو حز قیل باب 34 آیت 11 تا12) اسی پیشگوئی کی بنا پر حضرت مسیح نے اپنا ایک نام یسوع آسف“ بھی رکھ لیا تھا جو یوز آسف بن گیا.آسف کے معنی عبرانی میں ہیں قوم کو تلاش کرنے والا.چنانچہ حضرت مسیح اپنا فرض منصبی ادا کرنے کیلئے خود فلسطین سے ہجرت کر کے افغانستان و کشمیر میں پہنچے تا کہ خدا کا پیغام خود آپ کے ذریعہ سے ان تک پہنچ جائے اور وہ خدا کے سامنے اپنا فرض منصبی پورا کر کے رفعت و سرخروئی حاصل کر سکیں.اگر آپ ہجرت کر کے اپنا فرض منصبی ادا نہ کرتے اور خدا انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیتا تو حضرت مسیح

Page 23

11 اسے انتہائی سے انتہائی مصائب سے بھی بدتر جانتے اور واقعی آپ پر یہ ظلم عظیم ہوتا کہ میں اپنا فرض منصبی ادا کرنے سے محروم کر دیا گیا ہوں اور میرا تنزل کیا گیا ہے.سوخدا تعالیٰ آپ پر ایسا ظلم نہیں کر سکتا تھا کہ خود ہی انہیں اپنا فرض منصبی ادا کرنے سے محروم کر دیتا بلکہ اس کی رحمت اور فضل اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ حضرت مسیح کی رہنمائی فرماتا اور انکے لئے بذریعہ ہجرت اپنی نصرت سے نواز کر فرض منصبی کو زمین کے کسی حصے میں ادا کرنے کا موقع فراہم کرتا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور اس طرح انکی رفعت کا موقع فراہم کیا نہ تنزل کا.ایک شبہ کا ازالہ شاید کسی کے دل میں کھٹکے کہ قرآن مجید کی سورہ مومنون کی آیت مذکورہ میں صاف کشمیر کا نام کیوں نہ لیا گیا اور صرف حضرت مسیح کی پناہ گاہ کہنے پر اکتفا کیا گیا.الجواب : نام نہ بتلانے میں ضرور اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہے.اس نے اپنی کسی خاص مصلحت کی بناء پر مسیح کی پناہ گاہ کا نام مخفی رکھا لیکن یہ بات اس نے اس سے واضح فرما دی ہے کہ مسیح کی جائے ہجرت اور پناہ گاہ آسمان نہیں تھا اور ایسا تصور کہ میچ کو زندہ آسمان پر اٹھالیا گیا قرآن کی اس آیت کے مخالف ہونے کی وجہ سے غلط ہے.پس نام کے چھپانے میں اللہ تعالیٰ کے مدنظر بعض مصلحتیں تھیں جن میں سے ایک مصلحت تاریخی لحاظ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ پرانے زمانے میں کشمیر کا نام کچھ اور تھا.مثلاً کا سامرا ستی سر، کسپریا وغیرہ اور کشمیر بھی اصل نام نہیں.کیونکہ اصل نام جو مسیح کے یہاں آنے کے وقت معروف تھاوہ کشیر تھا نہ کشمیر.دنیا میں اب معروف نام کشمیر ہے گواہل کشمیر اب تک کشیر ہی کہتے ہیں.چونکہ نام سے ابہام واقع ہو سکتا تھا اسلئے مصلحت الہی نے نام ترک کر دیا اور صفات ایسی بتلائیں جو مسیح کی ہجرت کیلئے صرف اسی علاقہ پر منطبق ہوتی ہیں.کیونکہ مسیح کی قوم بنی اسرائیل اسی علاقہ میں آباد چلی آرہی تھی اور یہ لوگ گمشدہ اسرائیلی قبائل میں سے تھے جن کے متعلق مسیح کا یہ فرض منصبی مقرر تھا کہ وہ ان تک بنفس نفیس پیغام خداوندی پہنچا ئیں.پس خدا تعالیٰ نے یہ بات محققین پر چھوڑ دی کہ وہ اس جگہ کی دریافت کریں جو مسیح علیہ السلام کی پناہ گاہ بنائی گئی ، ماسوا اسکے مسیح کی آمد ثانی پیشگوئیوں کے لحاظ سے مقدر تھی اور اسکا کام احادیث نبویہ میں کسر صلیب بیان کیا گیا تھا جس کا ماحصل یہ ہے کہ مسیح صلیبی موت سے بچ گیا وہ زندہ آسمان پر نہیں گیا.صلیبی موت سے بچ کر اس نے زمین پر ہجرت فرمائی.ان سب باتوں کا پورا انکشاف خدا تعالیٰ نے مسیح

Page 24

12 موعوڈ سے وابستہ کر رکھا تھا.چنانچہ اس زمانہ میں جس شخص نے مسیح موعود کا دعویٰ کیا ہے اس کے ذریعہ یہ کام انجام پا چکا ہے اور مزید نئے سے نئے شواہد بھی انکی تائید میں منکشف ہوتے جارہے ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے.تا آنکہ عیسائی دنیا اس بات کو قبول کرلے کہ مسیح نے کشمیر کی طرف ہجرت کر کے وہیں طبعی وفات پائی تھی اور وہ صلیب پر ہرگز مرا نہیں تھا.چنانچہ اب بڑے زور وشور کے ساتھ اس بارہ میں ریسرچ ہورہی ہے کہ مسیح صلیبی موت مرایا نہیں ؟ اور ایک گروہ اس بات کی تائید کر رہا ہے کہ مسیح صلیبی موت سے بچ گیا تھا.مشرقی ملکوں میں تبلیغ اور آپ کی قبولیت قرآن مجید نے یہ خبر دی ہے کہ ہم نے مسیح کی والدہ مریم کو پہلے ہی بشارت دی تھی کہ مسیح دنیا و آخرت میں وجاہت حاصل کرے گا.وہ (مسیح) سیاحت کرنے والا ہوگا اور چھوٹی عمر میں ہی دین و حکمت کی باتیں کریگا اور ادھیڑ عمر میں بھی تبلیغ کریگا اور لوگوں کو کلام الہی سنائے گا.جیسا فرمایا: إذْ قَالَتِ الْمَلائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهاً فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ.وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَمْلاً وَمِنَ الصَّالِحِين ) (آل عمران : 46-47) یعنی خدا کے فرشتوں نے مریم کو بشارت دی کہ اے مریم! اللہ تعالیٰ تجھے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام سیاحت کرنے والا عیسی بن مریم ہوگا.وہ دنیا اور آخرت میں وجاہت حاصل کر یگا اور میرے مقرب بندوں میں سے ہوگا اور وہ لوگوں کو اوائل عمر میں بھی کلام سنائے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی اور نیکو کاروں سے ہوگا.اس آیت سے مسیح کی زندگی کے دو (2) دور بیان کئے گئے ہیں ایک مھد یعنی اوائل عمر کا ور دوسرا کھل یعنی ادھیڑ عمر کا اور زندگی کے ان دونوں حصوں میں کلام سنانے سے مراد کلام الہی سنانا ہے نہ عام کلام جیسا بعض لوگ سمجھتے ہیں کیونکہ عام کلام تو سب لوگ ہی سنا سکتے ہیں پھر اس مسیح کی کیا خصوصیت تھی جسے خاص طور پر بیان کیا گیا ہے.نیز واضح رہے کہ الہامی نوشتوں میں کلام سے مراد ” کلام الہی ہوتا ہے.سو مهد یعنی تیاری کے زمانہ میں حضرت مسیح نے فلسطین میں کلام الہی یعنی تو رات سنائی اور رسالت ملنے پر فلسطین کے بنی اسرائیل کو بھی اپنا پیغام پہنچایا اور پھر ہجرت کرنے کے بعد مشرق میں گمشدہ آباداسرائیلیوں

Page 25

13 کو بھی بنفس نفیس اپنے پیغام اور کلام الہی سے آگاہ کیا، جہاں آپ کو خوش آمدید کہا گیا اور آپ کو عزت اور وجاہت حاصل ہوگئی اور اپنے مشن میں کامیابی بھی حاصل کی.جیسا آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ (یونس: 91) میں بھی خبر دی گئی ہے.سو دراصل اس آیت وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا میں آپ کی رسالت کی زندگی کا ذکر ہے جس کے مخاطب سب بنی اسرائیل تھے اور آپ کا صاحب وجاہت ہونا بیان کیا گیا اور صلیبی موت از روئے بائیل خلاف وجاہت ہے.چنانچہ بائیل میں یسعیاہ باب 93 میں بھی مسیح کی بابت درازی عمر کی پیشگوئی کی تھی جس کا ذکر آگے آئے گا.قرآن میں آپ کا مسیح نام رکھنے میں بھی پیشگوئی تھی کہ وہ دنیا میں سیاحت کرے گا کیونکہ مسیح کے معنی ہیں سیاحت کر نیوالا.حضرت جابر کی حدیث کنز العمال میں ہے كَانَ يَسِيحَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ یعنی عیسی ابن مریم سیاحت کیا کرتے تھے.اس لئے اسلامی لٹریچر میں آپ کو امام السائحسین یعنی سیاحت کرنے والوں کا امام لقب دیا گیا ہے.اگر 33 سال کی عمر میں آپ آسمان پر اٹھالئے گئے تھے جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ سیاحت کسی زمانہ میں کی تھی اور ادھیڑ عمر میں کب لوگوں کو کلام الہی سنایا اور وجاہت کب حاصل کی؟ کیونکہ فلسطینی زندگی میں یہ تینوں باتیں آپ کو حاصل نہیں ہوئیں.حدیثوں میں مسیح کی سیاحت اور برفانی وادی میں پہنچ کر وفات پانے کا ذکر : حدیثوں میں بھی مسیح کی خفیہ ہجرت ، سیاحت اور ایک برفانی وادی میں پہنچنے کا ذکر موجود ہے.حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے.اَوْحَى الله إلى عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ أَنْ يُعِيسَى انْتَقَلَ مِنْ مَكَان إِلى مَكَان لاَنْ لَّا تُعْرَفَ فَتُؤذى ( كنز العمال ج 2 صفحہ 34) یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی کی طرف وحی بھیجی کہ اے عیسی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتا کہ تجھے کوئی پہچان نہ لے اور تکلیف نہ دے.ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں کہ اس جگہ کو قرآن میں ”ربوہ بیان کر کے مسیح کی پناہ گاہ قرار دیا گیا جو وادی کشمیر ہے ایک اور مقام پر کنز العمال میں دیلمی اور ابن نجار نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے حضرت مسیح کے سفر اور ایک برفانی وادی میں پہنچنے کی روایت کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے.حضرت عیسی علیہ السلام سفر کیا کرتے تھے.جب شام پڑ جاتی تو جنگل کا ساگ پات کھا لیتے اور چشموں کا پانی پی لیتے اور مٹی کا تکیہ بنا لیتے.پھر فرماتے تھے کہ نہ میرا گھر ہے جس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہو اور نہ کوئی اولاد جن کے مرنے کا غم ہو.کھانے کیلئے جنگل کا ساگ پات ، پینے کیلئے چشموں کا

Page 26

14 صاف پانی اور سونے کیلئے زمین کا بستر ہے اور انکے گم ہو جانے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے.جب صبح ہوتی تو چل کھڑے ہوتے یہاں تک کہ سفر کرتے کرتے ایک وادی میں پہنچے جہاں ایک اندھا آدمی دیکھا جو ہل جل نہیں سکتا تھا.جذام نے اس کے بدن کو پھاڑ دیا ہوا تھا.اس کے اوپر آسمان تھا اور اسکے نیچے وادی اور اسکے دائیں بائیں برف اور سردی تھی.مگر ان تکالیف میں بھی وہ اللہ کا شکر کیا کرتا تھا.عیسی ابن مریم نے اس سے پوچھا کہ ان حالات میں بھی تو خدا کا شکر ادا کرتا ہے تو کس بات پر ؟ اس نے جواب دیا اے عیسی ! میں اس لئے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں اس زمانہ میں نہیں ہوا جب لوگ تجھے خدا کا بیٹا یا تین میں سے تیسرا بنا ئیں گے.“ ( کنز العمال ج 2 صفحہ 71) اس حدیث میں جس برفانی وادی میں مسیح کے پہنچنے کا ذکر ہے وہ وادی کشمیر ہے اور وہاں برف بھی پڑتی ہے اور سردی بھی ہوتی ہے.دنیا بھر میں سب سے بلند برفانی چوٹی کوہ ہمالیہ کی مسلّم ہے.بعض علماء نے لکھا ہے کہ ہمالیہ دراصل حَمَّالِ یخ تھا.یعنی ” برف سے لدھا ہوا پہاڑ جو کثرت استعمال سے حملا یا اور ہمالیہ کہلاتا ہے اور ذات قرار کے لغوی معنوں کے سلسلے میں گزر گیا ہے کہ وہ مقام ہے جہاں مسیح کو پناہ دی گئی.معلوم ہوتا ہے کہ اندھا اور جذامی آدمی آپ نے کشف اس وادی میں پہنچ کر دیکھا تا کہ آپ پر اس قوم کی حالت پہلے سے واضح کر دی جائے جس کی اصلاح کیلئے آپ وہاں تشریف لا رہے تھے.اس واقعہ کے کشفی ہونے کا یہ قومی قرینہ ہے کہ اس جذامی نے آپ کو امرغیب کی خبر دی.سو یہ ایک تمثیلی نظارہ تھا جس میں اس وادی میں رہنے والوں کی خراب حالت جذامی کی صورت میں آپ کو دکھائی گئی اور اس تمثیل کے ذریعہ آپ کو علم بھی دیا گیا کہ یہ قوم آپ پر ایمان لائے گی اور آپکو خدا کا شریک نہیں بنائے گی بلکہ آپکو خدا کا شریک بنانے والے کوئی اور لوگ ہونگے.جیسا اب ظاہر ہو گیا کہ وہ یورپین عیسائی اقوام ہیں جو آپ کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں.ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے اپنی بیماری میں جس میں آپ وفات پاگئے فرمایا.جبریل نے مجھے خبر دی ہے اِنَّ عِیسی ابنَ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِينَ وَ مِأَةَ سَنَةٍ (كنز العمال و طبرانی بروایت فاطمتہ الزھرا جلد 6 صفحہ 60 ) کہ عیسی ابن مریم ایک سو بیس برس زندہ رہے.“

Page 27

15 اسی طرح یہی روایت ابن عمر سے بھی مروی ہے.(دیکھو کنز العمال ج 6 صفحہ 160 ) اس حدیث کے مطابق حضرت عیسی کی کل عمر 120 برس تھی جب وہ فوت ہو گئے.بعض روایات میں ایک سو چھپیس (125) برس کی عمر میں وفات کا ذکر بھی آیا ہے.ان تصریحات سے آپ کا کشمیر جانا اور وہاں ایک سو بیس یا چھپیں سال کی عمر میں وفات پانا ثابت ہے.چنانچہ آج تک سرینگر کشمیر کے محلہ انز مرہ میں آپ کی قبر موجود ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت علیہ کو مسیح کے کشمیر جانے اور وہاں وفات پانے کا علم بذریعہ وحی دید یا تھا.جیسا کہ مسیح سے ہزار سال قبل حضرت داؤد علیہ السلام کو کشفی رنگ میں مسیح کی صلیب کا دردناک واقعہ، پھر اس سے بچ کر کشمیر کی طرف ہجرت کرنا اور وہاں پناہ لینا دکھلا یا دیا گیا تھا.جیسا زبور داوڑ میں مذکور ہے جسے ہم بائیل والے علیحدہ باب میں بیان کریں گے.

Page 28

باب دوم 16 مشرقی لٹریچر میں حضرت مسیح کے کشمیر جانے کا ذکر حضرت عیسی فلسطین سے نصیبین نصیبین سے بغرض حج مکہ اور پھر عراق ، عراق سے ایران اور گلگت ، : لداخ، نیپال، تبت سے ہو کر کشمیر پہنچے اور ان ملکوں میں جہاں جہاں بنی اسرائیل آباد تھے ان تک خدا کا پیغام پہنچایا اور ان ملکوں کی قدیم تاریخوں اور آثار سے سفر مسیح کی تصدیق اور قرآنی تصریحات کی تائید ہوتی ہے کہ مسیح و مریم کو ایک جنت نظیر وادی میں پناہ دی گئی تھی.یوز آسف کے نام سے مسیح کا سفر ایران کی قدیم مذہبی تاریخی کتب میں یوز آسف کے نام سے مسیح کے سفر، دعوی نبوت اور کشمیر میں وفات کا ذکر ملتا ہے اور وادی قمران سے برآمد شدہ آثار اور کشمیر کی تاریخوں سے اب ثابت ہو چکا ہے کہ 66 یوز آسف مسیح کا ہی ایک نام تھا.شیعہ فرقہ کی ایک کتاب ” اکمال الدین و تمام النعمت في اثبات الغيبية وكشف الحيرت “ جو شیخ سعید الصادق ابی جعفر محمد بن علی ابن حسین ابن موسی ابن بابویہ اتمی کی تصنیف ہے.مصنف تیسری اور چوتھی صدی میں گزرے ہیں.آپ کی وفات 381 ھ مطابق 961ء خراسان میں ہوئی.یہ کتاب مغربی مستشرقین کے نزدیک بھی ایک قیمتی کتاب ہے.یہ کتاب سب سے پہلے سید السند پریس ایران میں آغا میر باقر علی نے چھپوائی.پروفیسر مولر آف ہائیڈل برگ یونیورسٹی نے اس کا ترجمہ جرمن زبان میں کیا.شیخ سعید الصادق نے اس کتاب میں یوز آسف کے متعلق بہت لمبی روایت درج کی جو کتاب کے صفحہ 317 سے 359 تک پھیلی ہوئی ہے.اس روایت میں بیج بونے والی کی وہ مشہور تمثیل بھی درج ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام سے انجیلوں میں منسوب ہے.نیز جیسا کہ انجیل میں ایمانداروں کیلئے آسمانی بادشاہت کا ذکر ہے اس روایت میں بھی اسی طرح مذکور ہے.مصنف یوز آسف کے علاقہ سولابطہ میں جانے کا ذکر بھی کرتا ہے.پھر یہ بھی ذکر کرتا ہے کہ یوز آسف البشریٰ نامی کتاب کی طرف لوگوں کو دعوت دیا کرتے تھے.سولا بط کا محل وقوع تحقیق طلب ہے.

Page 29

17 چنانچہ لکھا ہے: وَتَقَدَّمَ يُورَأَسف أَمَامَهُ حَتَّى بَلَغَ فَضَاء وَاسَعِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَرَء ىٰ شَجَرَةٌ عَظِيمَةٌ عَلَى عَيْنِ مَا أَحْسَنَ مَا يَكُونُ مِنَ الشَّجَرِ وَ أَكْثَرَهَا غُصْاً وَأَحْلَاهَا ثَمَراً وَقَدْ اجْتَمَعَ إِلَيْهِ الطَّير مَالًا يُعد كَثَرَةٌ فَسَرَّ بذالِكَ المَنظِرِ وَ فَرِحَ بِهِ وَ تَقَدَّمَ إِلَيْهِ حَتَّى دَنَى مِنْهُ وَجَعَلَ يُعَبِّرُهُ فِي نَفْسِهِ ويُفَسِّرَ الشَّجَرَةَ بِالْبُشْرَى الَّتِي دَعَا إِلَيْهَا وَ عَيْنَ الْمَاءِ بِالْحِكْمَةِ وَالْعِلْمِ وَالطَّيْرَ بِالنَّاسِ الَّذِينَ يَجْتَمِعُونَ إِلَيْهِ وَيَقْبَلُونَ مِنْهُ الدِّينَ “ 66 (اکمال الدین صفحہ 358) یوز آسف نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ ایک وسیع فضا میں پہنچے.اس نے اپنا چہرہ اٹھایا تو ایک بڑے درخت کو دیکھا جو پانی کے چشمہ پر تھا.وہ درختوں میں سے کیا ہی خوبصورت درخت تھا اور اس کی شاخیں کثرت سے پھیلی ہوئی تھیں.اس کے میوے سب سے زیادہ میٹھے تھے.اس درخت پر بے شمار پرندے کثرت سے جمع ہو گئے تھے.پس وہ یہ نظارہ دیکھ کر بڑا خوش ہوا اور اسے فرحت حاصل ہوئی.وہ اسکی طرف آیا یہاں تک کہ اس کے نزدیک آ گیا.اور وہ اسکی تعبیر کرنے لگا اور اس نے درخت کو اس بشری“ سے تعبیر کیا جس کی طرف وہ لوگوں کو بلاتا تھا اور پانی کے چشمہ کی تعبیر اس نے علم و حکمت سے کی اور پرندوں کی تعبیر ان لوگوں سے کی جو اس کے پاس جمع ہو جاتے اور اس کا دین قبول کرتے تھے.“ اس روایت سے ظاہر ہے کہ یوز آسف کا پانی کے چشمہ پر ایک خوش منظر درخت دیکھنا اور اس پر کثرت سے بے شمار پرندوں کو دیکھنا کوئی ظاہری نظارہ نہ تھا بلکہ دراصل ایک کشفی نظارہ تھا کیونکہ اگر یہ کوئی ظاہری نظارہ ہوتا تو وہ درخت کی تعبیر ”البشری اور چشمہ کی تعبیر علم و حکمت سے اور پرندوں کی تعبیر اپنے مریدوں سے نہ کرتے جو بذریعہ ایمان روحانی پرواز کے قابل بنے والے تھے.قرآن مجید میں آیت كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ میں مسیح کی بابت جو ذ کر آتا ہے کہ مسیح نے کہا تھا کہ میں مردے زندہ کروں گا اور مٹی سے پرندوں کی مانند بناؤں گا جن میں پھوکوں گا تو وہ پرندوں کی مانند قابل پرواز بن جائیں گے.اس کے معنی یہی تھے کہ مسیج بذریعہ ایمان لوگوں کو جو بوجہ کفر و جہالت کے مردہ ہو چکے ہونگے ، زندہ کر دیگا.یعنی انہیں روحانی زندگی دے گا اور وہ اس کے انفاخ قدسیہ کے ذریعہ پرندوں کی مانند روحانی پرواز کے قابل ہو جائیں گے.سوقرآن کی یہ پیشگوئی مسیح کے مشرقی سفر کے دوران پوری ہوگئی ور نہ مسیح کو خالق طیور سمجھنا بالبداہت باطل ہے اور کوئی موحد مسلمان ایسا مشرکانہ عقیدہ نہیں رکھ

Page 30

18 سکتا کہ مسیح پرندے پیدا کرتے تھے.العیاذ بالله ! نیز اس روایت سے ظاہر ہے کہ یوز آسف البشری نامی کتاب کی طرف دعوت دیتے تھے.اس عربی لفظ کا ترجمہ وہی ہے جو یونانی زبان میں ” انجیل کا ہے.یعنی ”خوشخبری“ اس کے یہ معنی ہیں کہ البشری نامی کتاب یوز آسف کے ان الہامات کا مجموعہ تھی جو یوز آسف پر خدا کی طرف سے نازل ہوتے تھے اور البشری اور انجیل ایک ہی کتاب ہے.سفر کشمیر اور وفات: اس کے بعد مصنف نے ارض سولابط میں جانے کے بعد یوز آسف کے سفر کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: تم انتَقَلَ مِن أَرضِ سَولَابِطَ وَ سَارَ فِي بَلَادٍ مَدَائِنٍ كَثِيرَةٍ حَتَّى أَتَى أَرضاً لَتُسَمَّى قَسْمِيرَ فَسَارَ فِيهَا وَ أَحْيَافِيهَا وَمَكَتَ حَتَّى أَتَاهُ الْأَجَلُ إِلَى خُلع الجَسَدِ وَارتَفَعَ إِلَى النُّورَ وَ قَبْلَ مَوتِهِ دَعَا تِلميذاً لَهُ اِسمُهُ يَا بَدُ الَّذِي كَانَ يَخْدُمُهُ وَيَقُومُ عَلَيْهِ وَ كَانَ رَجُلاً كَامِلاً فِي الأُمُورِ كُلِّهَا فَاَوصَى إِلَيْهِ فَقَالَ لَهُ قَدْ دَنَا ارْتَفَاعِي عَنِ الدُّنْيَا فَاحْفَظُوا بفَرَائِضِكُم وَلَا تَزِيغُوا عَن الحَقِّ وَخُذُو ابا لنُّسُكِ ثُمَّ أَمَرَ يَا بَدان يَبْنِي لَهُ مَكَاناً وَ بَسَطَ هُوَ رِجلَيْهِ وَ هَيَّاء رأسَهُ إِلَى الْغَرْبِ وَوَجْهَهُ إِلَى الشَّرْقِ ثُمَّ قضى نحبه.“ (اکمال الدین صفحه 359 ) پھر وہ ( یوز آسف ) ارض سولاربط سے منتقل ہوئے اور بہت سے ملکوں اور شہروں کی سیر کرتے ہوئے اور اس سرزمین میں پہنچے جس کا نام قشمیر (کشمیر) ہے.اس نے کشمیر میں سیر کی اور وہیں زندگی بسر کی.یہاں تک کہ آپ پر اپنے جسم سے روح کے علیحدہ ہونے کا وقت آ گیا اور آپ نور کی طرف اٹھائے گئے اور اپنے مرنے سے پہلے آپ نے اپنے ایک شاگرد کو بلایا جس کا نام یا بد تھا جو آپ کی خدمت اور حفاظت کرتا تھا اور وہ تمام امور میں کامل تھا.اسے آپ نے وصیت کی اور کہا کہ میرا دنیا سے اٹھایا جانا قریب ہے.پس تم اپنے فرائض کی حفاظت کرتے رہو اور حق سے ادھر ادھر نہ ہونا اور عبادات بجالاتے رہنا.پھر اس نے یا بد کو حکم دیا کہ وہ اس کا مقبرہ بنائے اور اس نے اپنے دونوں پیر پھیلا دیے اور اپنے سر کو مغرب کی طرف کیا اور اپنے منہ کو مشرق کی طرف اور وفات پائی.اس پر اللہ کی رحمت ہو.اس روایت سے ظاہر ہے کہ حضرت یوز آسف سیر کرتے ہوئے کشمیر کی سرزمین میں پہنچے اور وہیں اردور یفرنس بائیل کے فٹ نوٹوں میں انجیل کا دوسرا نام ”خوشخبری“ ہی لکھا گیا ہے جس کا عربی ترجمہ "البشر کی ہی ہے.(ملاحظہ ہو رومیوں کا فٹ نوٹ باب 1 آیت 16) پس البشری انجیل کا ہی دوسرا نام ہے جو عیسائیوں کو بھی مسلم ہے.

Page 31

19 بقیہ زندگی گزار کر وفات پائی اور آپ کا مقبرہ بنایا گیا یہی بیان ایک اور اہم کتاب ”عین الحیات“ نامی میں بھی درج ہے.اس کتاب میں ” یوز آسف کے واقعات کی تفصیل“ کے عنوان کے تحت یوز آسف کے سفر کشمیر اور وہاں وفات پانے کا ذکر کیا گیا ہے.(دیکھو عین الحیات جلد 2 باب 2 صفحہ 177-178) نصیبین میں حضرت مسیح و مریم کی آمد محمد خاوند شاہ نے روضۃ الصفاء“ کے نام سے ایک ضخیم تاریخ فارسی زبان میں لکھی ہے اور یہ کتاب 1271 ہجری میں بمبئی میں طبع ہوئی ہے.اس میں مصنف نے حضرت عیسی کے حالات میں آپ کے دور دراز سفر کرتے رہنے کا ذکر کیا ہے.”حضرت عیسی کی مہاجرت“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ جب یہود نے آپ کی نبوت کی تکذیب کی اور آپ کو وطن سے نکال دیا تو آپ سفر پر نکل پڑے.آپکی والدہ مریم آپ کے ہمراہ تھیں.آپ نصیبین پہنچے.مریم کے علاوہ یعقوب، شمعون اور تھو ما حواری اور بعض روایات کے مطابق حضرت مریم کے چا کے بیٹے یوسف بن مانان بھی آپ کے ساتھ تھے نصیبین میں آپ نے سام بن نوح کی قبر کی زیارت کی.یہاں کے کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے.بعض روایات میں ہے کہ نصیبین سے آپ نے بعض حواریوں کو روم، بعض کو انطاکیہ اور تھوما کو ہندوستان میں تبلیغ حق کیلئے بھیج دیا تھا.جسے عیسائی ” تو ما رسول ہنڈ“ لکھتے ہیں.روضتہ الصفاء میں ایسے قصوں کو جو خلاف عقل و نقل ہیں چھوڑتے ہوئے ہم صرف تاریخی امور کو بیان کرتے ہیں.مصنف لکھتا ہے آپ ہاتھ میں عصا لیے سفر کرتے رہتے تھے.جہاں رات آئی وہاں رات گزارتے ، زمین پر سو جاتے ، پتھر کو سرہانہ بناتے ، ساگ پات کھا گزارہ کرتے ، پیدل چلتے اور دنیا اور عورتوں کی طرف مائل نہ ہوتے اور قناعت کی زندگی بسر کرتے تھے.“ (دیکھئے روضۃ الصفاء (فارسی) صفحہ 132 تا 134 ملخصاً مطبوعہ بمبئی 1271ھ) عیسائی لٹریچر میں لکھا ہے کہ سریانی کلیساؤں میں مشہور تھا کہ الڑھا (نصیبین ) کے بادشاہ اباجر معروف بہ او خاما نے مسیح کو واقعہ صلیب کے بعد خط لکھا تھا کہ یہودی آپ کو تکلیف دے رہے ہیں.آپ میرے پاس آجائیں.اباجر کو بہ گر، ایگر اور ایگر س بھی لکھتے ہیں اور تاریخیں بتلا رہی ہیں کہ آپ نصیبین اسرائیلیوں کی قبریں مشرق سے مغرب کی طرف ہوتی تھیں نہ کہ شمالاً جنو با.پس یوز آسف کا اسرائیلی ہونا اس سے بھی ثابت ہے کہ اس کا مقبرہ شرقاً غرب بنا.عربستان میں مسیحیت از پادری سلطان محمد پال.صفحہ 110 مطبوعہ ریلیجس بک سوسائٹی لاہور 1945 ء.

Page 32

20 میں پہنچے اور جب تک حالات سازگار رہے، یہاں قیام کیا.یہ بھی لکھا ہے کہ 50 ء میں حضرت مسیح کے حکم سے حواریوں کو اطراف عالم میں تبلیغ کیلئے بھیجا گیا جس سے ظاہر ہے 50 ء میں حضرت مسیح زمین پر موجود تھے اور بنفس نفیس سلسلہ تبلیغ چلا رہے تھے.ارض عرب میں آمد اور حج بیت اللہ نصیبین کے بعد حضرت مسیح کا حواریوں اور مریم سمیت ارض عرب میں آمد ، حج کعبہ کرنے اور چشمہ زمزم کے پاس مریم کی موجودگی کا ذکر آتا ہے.چنانچہ متیب اب 4 آیت 24-25، مرقسب اب 3 آیت 7 ، لوقا باب 6 آیت 17 میں ان عرب لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کو مسیح نے اپنا کلام سنایا.لوگوں کی ایک بھیڑ ان کے پیچھے چلتی تھی.ان میں اہلِ ادوم اور اردن سے پار کے علاقہ کا ذکر آیا ہے جہاں کثرت سے عرب لوگ آباد تھے.پولس رسول اپنے خط گلیوں باب 1 آیت 12 تا 17 میں لکھتا ہے کہ میں مسیح کی صداقت پر مشتمل مکاشفہ کے بعد یوروشلم نہیں گیا بلکہ سیدھے عرب چلا گیا.اس جگہ ہر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ وہ فور سید ھے عرب کیوں چلا گیا؟ صاف ظاہر ہے کہ ان ایام میں حضرت مسیح خفیہ سفر کر کے عرب پہنچ چکے تھے اسلئے وہاں جا کر آپ سے ملاقات کی اور پھر واپس دمشق آیا.عربستان میں مسیحیت نامی کتاب میں مذکور ہے کہ مکہ کے قریب مسجد مریم نامی ایک جگہ کا نام تھا.(صفحہ 130 ) زمانہ نبوی میں کعبہ میں مسیح کی تصویر کا آویزاں ہونا مشہور ہے اور امیـــه بــن ابـی الصلت ایک قصیدہ درج کیا گیا ہے جس میں مریم کے متعلق ایک یہ شعر بھی ہے.وَلَطَّتُ حِجَابَ الْبَيْتِ مِنْ دُونِ أَهْلِهَا تَغَيَّبُ عَنْهُمْ فِي صَحَارِيٌّ رِمُرِمِ (صفحہ 364) یعنی حضرت مریم نے گھر کے پردے اسکے لوگوں سے لپیٹ دیے اور ان سے صحرائے رمرم میں غائب ہو گئیں.( رمرم بجائے زمزم سہوا کتابت لکھا گیا معلوم ہوتا ہے) عیسائی مصنف نے اسلام سے قبل کے عرب مسیحیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسیحی شعراء میں کعبہ کی بڑی عزت تھی اور وہ صلیب کے ساتھ کعبہ کی بھی قسم کھاتے تھے اور کہتے تھے وَرَبِّ لی عربستان میں مسیحیت از پادری سلطان محمد پال - صفحہ 110 مطبوعہ ریلیجس بک سوسائٹی لاہور 1945ء

Page 33

21 مكة والصلیب یعنی رپ مکہ اور صلیب کی قسم (صفحہ 130 ) ان مسیحی روایات سے بھی عرب اور مکہ میں مسیح و مریم کی آمد اور حج کرنے کی تائید ہوتی ہے.مسیحی روایات کی مزید تائید مسلم لٹریچر سے ہو جاتی ہے.اصول کافی میں امام ابوعبداللہ سے مروی ہے کہ حضرت موسیٰ حضرت ادریس اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سب نے کعبہ کا حج کیا اور یہاں حاضری دے کر لبیک (یعنی اے خدا میں حاضر ہوں ) کہا.(کتاب الحج باب حج الانبیاء صفحہ 427 مطبوعہ نول کشور لکھنو ) اسلامی تاریخ کی کتاب ”اخبار مکہ میں ہے کہ حضرت مسیح نے کعبہ کا حج کیا اور حواریوں نے بھی حج کیا.حواری پا بر ہنہ ارض حرم میں داخل ہوئے.(اخبار مکہ صفحہ 35) ملا باقر مجلسی نے بحارالانوار میں امام ابی عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام روحا کے میدان سے گزرے اور انہوں نے یہاں لَبَّيْكَ عَبْدَكَ وَابْنَ أُمَتِكَ لَبَّيْكَ هي ( جلد 5 صفحہ 328) یعنی اے اللہ ! میں تیرے دربار میں حاضر ہوں.تورات میں حضرت موسیٰ کے حج کرنے کی طرف بھی اشارہ آیا ہے.(دیکھو خروج باب 10 آیت 9) اور اسلامی روایات میں بھی انبیاء کے حج کا ذکر آیا ہے تو ضروری تھا کہ حضرت مسیح بھی کعبہ کا حج کرتے کیونکہ کعبہ کی زیارت اور اس کی تقدیس کرنا نہ صرف عہد اسلام سے رائج ہوا بلکہ حضرت ابراہیم واسماعیل کےعہد سے ذریت ابراہیم میں رائج چلا آرہا تھا.احمد نبی کی بشارت اسلامی لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح نے اسی سفر کے دوران اپنے بعد ایک عظیم الشان نبی کی بعثت کی بھی بشارت دی تھی اور بتلایا تھا کہ اس کا نام احمد ہوگا اور دوسرا نام محمد بھی ہو گا اور وحی الہی میں جو آپ پر نازل ہوئی آپ کو حکم ملا کہ ” تو لوگوں کو خبر دے دے کہ جب وہ نبی آجائے تو اس پر ایمان لائیں.جواس کی اطاعت کریگا وہ میری اطاعت کریگا اور جو اسکی نافرمانی کریگا وہ میری نافرمانی کریگا.جو انا جیل میں ہے کہ حضرت مسیح نے متعدد بار اپنے بعد دوسرا مددگار روح القدس ثانی یا تسلی دہندہ (یونانی میں فارقلیط) کے آنے کی بشارت دی (دیکھو یوحنا باب 14 آیت 26 باب 16 آیت 7-8 ) ان الفاظ سے آپ نے دراصل اپنے بعد اسی احمد نبی کے آنے کی طرف اشارہ کیا ہے.انجیل برنباس میں جسے عیسائی معتبر نہیں جانتے ، احمد کے نام سے بھی حضرت مسیح کی اس بشارت کا ذکر پایا جاتا ہے.(دیکھو انجیل برنباس باب 63 آیت 180) حیات القلوب جلد از ملا باقر مجلسی در بیان احوال عیسی مطبوعه ایران و بحارالانوار جلد 5 صفحه 340

Page 34

22 عراق میں مسیح و مریم کی آمد عراق وایران کی کتب اور تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مسیح عراق میں پہنچے اور وہاں سے آگے گزرے.چنانچہ تفسیر قمی، تفسیر عمدۃ البیان ، اکمال الدین اور دیگر تفاسیر میں آیت وَاوَيُنَاهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَار وَسَعِين (مومنون: 51) کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مسیح ومریم کو کر بلا کی سرزمین عراق میں پناہ دی گئی.اس تفسیر سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح و مریم کچھ عرصہ ضرور یہاں ٹھہرے.بعض روایات میں ہے کہ مَرَّ بِأَرْضِ كَرْ بَلامَعَ الحَوَارِيُّونَ یعنی مسیح ارض کربلا سے حواریوں سمیت گزرے.مڑ کا لفظ دال ہے کہ یہاں مستقل قیام نہیں کیا تھا بلکہ یہاں سے گزر کر ا گلے سفر پر روانہ ہوئے تھے.بحارالانوار میں ملا باقر مجلسی نے روایت لکھی ہے کہ عراق میں اس جگہ جہاں بعد میں مسجد برا ثا بن گئی ایک عیسائی معبد تھا.اس میں جو عیسائی راہب رہتا تھا اس نے جب برضا و رغبت اسلام قبول کر لیا تو حضرت علیؓ نے اس سے پوچھا کہ اس معبد میں کس نے نماز پڑھی تھی تو اس نے کہا کہ حضرت عیسی اور اسکی ماں نے نماز پڑھی تھی.حضرت علیؓ نے فرمایا کہ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی نماز پڑھی تھی.( بحارالانوار جلد 5 صفحہ 330-331 مطبوعه طهران) بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ ارض عراق میں حضرت مسیح و مریم اور آپ کے حواریوں نے بارہ سال گزارے.حضرت مریم کے چا کا بیٹا یوسف بن ماثان بھی ہمراہ تھا.حضرت مریم نے سوت کات کر مع عیسی گزارہ کیا.جیسا حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی معاش اپنی ماں کی کتائی پر تھی.پطرس کا پہلا خط جو انجیل میں شامل ہے، بتلاتا ہے کہ پطرس اور مرقس دونوں حضرت مسیح کے ساتھ بابل (عراق) میں موجود تھے اور اس خط میں لکھا ہے کہ ایک معزز خاتون اپنی دعائیں اور برکات مغرب کی طرف رہنے والے عیسائیوں کو بھیجتی ہیں.(1.پطرس باب 5 آیت 13-14) عیسائیوں سے عام طور پر مسلم ہے کہ " عورت " سے علامتی طور پر مریم مراد ہوتی ہے.(دیکھودی بک آف میری صفحه 133) پس پطرس کے خط میں جس معزز خاتون کا ذکر ہے وہ حضرت مریم والدہ مسیح تھیں جو کہ بابل (عراق) میں مسیح کے ساتھ موجود تھیں.عیسائی مؤرخین لکھتے ہیں کہ کلدانی یعنی عراقی مؤرخین نے بالا تفاق لکھا ہے کہ عراق ، رشور اور بابل میں تھو ما اور بر تلما ئی حواریوں نے تبلیغ کی.بحارالانوار جلد 13 صفحہ 155 تفسیر منہج الصادقین.کاشانی زیر آیت ”ربوہ“ مومنون عربستان میں مسیحیت صفحہ 93-94

Page 35

23 اس سے صحیح طور پر یوں سمجھ لینا چاہئے کہ ھو ما اور برتالمائی حواری دونوں حضرت مسیح کے ہمراہ تھے کیونکہ حز قیل باب 34 جس کا حوالہ پیچھے گزر گیا، کے علاوہ اعمال باب 26 آیت 23 کے مطابق بھی غیر قوموں یا منتشر بنی اسرائیل تک پیغام پہنچانا خود مسیح کیلئے بھی ضروری تھا کہ وہ زندہ ہو کر اس امت کو اور غیر قوموں کو بھی ( غیر قوموں میں منتشر بنی اسرائیل کو بھی ) نُور کا اشتہار دیگا.(اعمال باب 26 آیت 23 ) اور جدید عیسائی محققین اور بائیل کے بعض مفسرین کے مطابق خود حضرت مسیح بنفس نفیس واقعہ صلیب کے بعد مشرق سے ظاہر ہوئے تھے.تفصیل آگے آتی ہے.فارس میں مسیح کی آمد اور اعلانِ نبوت عراق کے بعد فارس میں حضرت مسیح کی تشریف آوری اور اعلان نبوت کرنے کا ذکر ملتا ہے.نکولس نوٹو وچ ( روسی سیاح) نے مسیح کے فاس ( ایران ) میں وعظ و تبلیغ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فارس میں وعظ اور اعلان نبوت کے بعد مسیح گرفتار کر کے زرتشتی مذہب کے بڑے پیشوا کے پاس لائے گئے تو انہوں نے آپ سے کہا کہ اے بد قسمت آدمی! کیا تجھے معلوم نہیں کہ ایک زردشت ہی کو پاک الہام کا فخر حاصل ہوا اسکے بعد کسی اور کو یہ فخر نہیں مل سکتا.پس تم کون ہو کہ خدا کے الہام کی توہین کرتے ہو اور مومنین کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہو؟ مسیح نے انکو جواب دیا.میں کسی نئے خدا کی طرف دعوت نہیں دیتا.میں اسی آسمانی باپ کا اپدیش کرتا ہوں جس نے زردشت پر الہام کیا تھا اور وہ ازلی ابدی ہے.پہلے بھی کلام کرتا تھا اب بھی اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے.لوگ معصوم بچوں کی مثال ہیں جو اپنی عقل کے زور سے خدا کو جان نہیں سکتے اور نہ اسکی خدائی اور اسکی عظمت کو جان سکتے ہیں.جیسے نوزائیدہ بچہ اندھیرے میں اپنی ماں کے پستانوں کو ڈھونڈ لیتا ہے ویسے ہیں تمہارے ملک کے لوگوں نے غلط مذہبی روایات و بدعات کی تاریکی میں اپنے شعور سے اس خدا کو پہچان لیا ہے جس کا میں پیغمبر ہوں اور اسے اپنا باپ مان لیا ہے.از لی خدا نے میری معرفت تمہارے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ ” تم سورج کی پرستش مت کرو کیونکہ وہ اس دنیا کا صرف ایک حصہ ہے جسے میں نے انسان کیلئے پیدا کیا ہے.سورج تم کو کام کرنے کے وقت طاقت دینے کیلئے طلوع ہوتا ہے اور آرام دینے کیلئے غروب ہوتا ہے اور یہ کارروائی میرے حکم سے ( خدا کے حکم سے ) ہوتی ہے.جو کچھ تمہارے پاس ہے اور تمہارے چاروں طرف یا تمہارے اوپر یا نیچے موجود ہے یہ سب کچھ میرے ہی طفیل ہے.“ زرتشتی پجاریوں نے اس پر اعتراض کیا کہ اگر بچے ہادی نہ ہوں تو لوگ کیسے انصاف کے اصولوں پر چل سکتے ہیں.عیسی نے جواب دیا جب بچے ہادی نہیں ہوتے تو قدرتی قوانین لوگوں کی رہنمائی کرتے

Page 36

24 ہیں اور اس سے لوگوں کی روح مطمئن رہتی ہے.ان کا آتما پر میشور جیو کے ساتھ رہتا ہے اور جب کبھی وہ پر میشور سے دعا مانگنا چاہتے ہیں تو وہ بت یا حیوان یا آگ کے واسطہ کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ براہ راست خداان کی دعائیں سن لیتا ہے.تم انسان کیلئے سورج کی پرستش لازمی بتلاتے ہو اور اسے نیکی اور بدی کی روح مانتے ہومگر یہ مسئلہ تمہارا جھوٹا ہے کیونکہ سورج اپنے آپ کچھ نہیں کرتا.وہ صرف اس بے شکل خدا کی مرضی کے مطابق چلتا ہے جس نے اسے پیدا کیا.جس کی مرضی یہ ہے کہ سورج دن میں روشنی دے دے اور انسان کو محنت کے قابل بنا دے اور انکی فصلوں اور پیداوار کو پکائے.تمام جانداروں کی روح ، روح ابدی ہے.تم بڑا گناہ کرتے ہو کہ اسکو نیکی و بدی کی روح بتلاتے ہو حالانکہ خدا محض نیکی ہے جو مثل باپ کے اپنے بچوں کی محض نیکی چاہتا ہے اور کرتا ہے اور انکی خطاؤں کو معاف کرتا ہے.بدی کی روح زمین پر ان لوگوں کے دلوں میں رہتی جو خدا کے بچوں کو راہ راست سے ہٹاتے ہیں اسلئے میں صاف کہتا ہوں کہ خدا سے ڈرو.قیامت کے جواب سے ڈرو کیونکہ خدا ان لوگوں کو سخت سزا دے گا جنہوں نے اس کے بچوں کو راہ راست سے ہٹایا اور ان کے دلوں میں تو ہمات اور تعصب سے بھر دیا نیز ان لوگوں کو سزا دے گا جنہوں نے آنکھوں والوں کو اندھا کیا، بھلے چنگوں کو بگاڑا اور انکی پرستش سکھلا دی جن کو خدا نے انسانوں کی بھلائی اور انکے کارآمد ہونے کیلئے انکے تابع کر دیا تھا.پس تمہارا مسئلہ تمہاری غلطیوں کا نتیجہ ہے کیونکہ بچے خدا کو ملنے کی خواہش سے تم نے اپنے لئے جھوٹے دیوتا گھڑ لیے ہیں.مسیح کی تقریرین کر پجاریوں نے فیصلہ کیا کہ اسے کوئی تکلیف نہ دی جائے مگر رات کے وقت جب کہ تمام شہر سویا ہوا تھا اسے شہر کی چاردیواری سے پکڑ کر باہر ویرانہ میں چھوڑ آئے.اس خیال سے کہ اسے جلدی جنگلی درندے کھا جائیں گے لیکن خدا کے فضل سے عیسٹی نے بلاکسی ہرج مرج کے اپنا راستہ پکڑا اور کسی اگلے ملک کی طرف روانہ ہوئے.قدیم یونانی تاریخیں بتلاتی ہیں کہ یوز آسف درویشوں کی ایک جماعت کے پیشوا مانے جاتے تھے.چنا چه حد اللہ متوفی ( المتوفی 730ھ) نے ” تاریخ گزیدہ نامی (فارسی ) میں طهمورث بن ہوشنگ کا ذکر کرتے ہوئے ملک فارس میں دس سالہ قحط شدید کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس بادشاہ نے روزہ رکھنے کی وہ رسم جاری کی جو بوذ آسف (یوز آسف) نے جاری کی تھی.کتاب کا ترجمہ ایک ہندو نے کیا ہے اسلئے خدا کا نام وہ پر میشور لکھتا ہے کیونکہ ہندوؤں میں خدا کا اکثر یہی نام رائج ہے.یسوع کی نا معلوم زندگی کے حالات‘از صفحہ 46 تا صفحہ 81

Page 37

25 بوذ آسف (یوز آسف) درویشوں کی ایک جماعت کے پیشوا تھے.یہ جماعت دن کو کماتی اور روزہ رکھتی تھی اور رات کو سد رمق کے طور پر کچھ نہ کچھ کھا لیتی تھی.ان کا نام تورات میں لکھا ہوا ہے.انہیں کلدانیاں کہتے ہیں.(غالباً اسلئے کہ آپ کا لدیا ( عراق ) کے علاقہ سے ادھر آئے تھے ) طهمورث بن ہوشنگ نے قحط کے دوران قحط کی شدت کم کرنے کیلئے اسی سنت کو جاری کرنے اور اس جماعت کی متابعت کرنے کا حکم دیا اس وقت سے روزہ رکھنے کی سنت چل پڑی ہے.یعنی جب قحط پڑتا ہے تو ایک وقت کھا کر دوسرے وقت کا کھانا سد رمق کے قدر کھا کرغرباء کو دے دیا جاتا ہے اور شیخ سعدی نے بھی اسکی تائید کی ہے.اس حوالہ سے معلوم ہوا کہ یوز آسف اور اسکی جماعت کا تعلق تو رات موسوی سے تھا جس سے مبرین ہو گیا کہ یوز آسف حضرت مسیح ہی کا دوسرا نام تھا کیونکہ انہی کا نام ” آسف بطور پیشگوئی تو رات میں اور مسیح نام تورات و انا جیل دونوں میں بصراحت مذکور ہے اور یوز آسف دراصل یسوع آسف“ کا نف ہے.چونکہ یوز آسف یا مسیح عراق سے ادھر آئے تھے جہاں صائبین کثرت سے رہتے تھے.اسلئے ایران میں آپ کے مخالفین نے آپکو اور آپ کی جماعت کو صائین“ کہنا بھی شروع کر دیا تھا.یہی وجہ ہے کہ بعض مسلم مؤرخین نے ایران میں یوز آسف کی آمد کے ساتھ ان سے صائبین سے مشابہ عقائد منسوب کر دیئے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی لکھتے ہیں کہ ہم دوسروں سے یہ نقل کر رہے ہیں اس کے صحیح ہونے کے ہم ذمہ دار نہیں.افغانستان میں مسیح کی آمد ( دیکھو کامل ابن اثیر جلد 2) پھر ہمیں افغانستان میں حضرت عیسی کی تشریف آوری کا پتا چلتا ہے.اس ملک کے غزنی اور جلال آباد میں اب بھی ایسے چبوترے پائے جاتے ہیں جو یوز آسف کے چبوترے“ کہلاتے ہیں.اور لوگ انہیں ” شہزادہ نبی کے چبوترے بھی کہتے ہیں.شہزادہ نبی بائیبل کی رو سے حضرت مسیح اسرائیلی تھے جو بوجہ داؤد بادشاہ کے خاندان سے ہونے کے شہزادہ نبی کہلاتے تھے اور کتاب ”یوز آسف“ اور تاریخ کشمیر میں بھی تاریخ گزیده صفحه 85 (فارسی) مطبوعہ 1328ھ / 1910 ء لندن.بعض فارسی مؤرخین کے مطابق روایت ہے کہ یوز آسف مغرب کی طرف سے اس (ایران) میں آئے جو تبلیغ کرتے تھے اور کئی لوگ انکو مانتے تھے بلکہ یوز آسف کی باتیں ایرانی ادبیات میں شامل کی گئی ہیں.آپ تمثیلوں میں خدا کا کلام کرتے تھے جو عیسی کے تمثیلی کلام سے مشابہ تھیں.( احوال اہالیان فارس صفحہ 219 از آغا مصطفیٰ)

Page 38

26 آپ کو شہزادہ نبی کہا گیا ہے." چبوتروں " کا یوز آسف کے نام سے مشہور ہونے سے پتا چلتا ہے کہ آپ نے ان مقامات پر وعظ کیا یا کچھ کچھ عرصہ قیام کر کے اہل افغان تک خدا کا پیغام پہنچایا ہوگا کیونکہ مؤرخین بالاتفاق انہیں بنی اسرائیل لکھتے ہیں اور خود افغانوں کا دعوی بھی یہی ہے بلکہ برطانوی عہد میں جب ہندوؤں اور انگریزوں نے پٹھانوں کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے آریہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی تو افغانی اور پٹھان مؤرخین نے کھل کر اسکی تردید کر دی اور واضح کیا کہ وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے یعنی بنی اسرائیل سے ہیں.عیسائی لٹریچر سے پتہ چلتا ہے کہ تو ما حواری ارض قندھار و کابل میں بھی گئے اور پھر ٹیکسلا میں آکر جنوبی ہند (مدراس) میں چلے گئے جہاں وہ تبلیغ کرتے ہوئے کافروں کے ہاتھ سے شہید ہو گئے.( دیکھو کلیسائے ہند کی تاریخیں جو عیسائیوں نے شائع کرائی ہیں) مسیح و تھو ما حواری کی ٹیکسلا میں آمد پادری برکت اللہ ایم.اے نے تاریخ کلیسائے ہند اور دیگر عیسائی مؤرخین نے تھو ما حواری کے ٹیکسلا میں آمد اور وہاں مسیح کی ان سے ملاقات کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ٹیکسلا کے حکمران گونڈ وفرس ( عہد حکومت 19 تا 50ء) نے حبان نامی ایک شخص کو نصیبین کے بادشاہ کے پاس اس غرض سے بھیجا کہ وہ کسی ایسے معمار کو بھیج دے جو ٹیکسلا میں روم کے محلات کی طرز پر ایک محل تیار کر دے جب وہ وہ نصیبین کے بادشاہ کے پاس یہ عرضداشت لے کر پہنچا اس وقت مسیح نے تو ما کو جان کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ ٹیکسلا میں بادشاہ کا محل تیار کرے.( مگر اس جگہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب مسیح اس وقت بادشاہ کے کسی عارضہ کا علاج کر رہے تھے اور بعض روایات کے مطابق تبلیغ کر رہے تھے تو مسیح نے تھوما کو حبان کے ساتھ بھیجنے کی سفارش کی ہوگی اور بادشاہ نے اسے منظور کیا ہوگا.جس پر جبان تھوما کو اپنے ساتھ ٹیکسلا میں لایا اور اس نے چھ ماہ میں محل بنایا ) پھر عیسائی مؤرخین لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ تھو ما حواری گنڈ وفارس کی مملکت میں قیام رکھتے تھے تو حضرت مسیح انکے پاس آئے اور انہیں مشرقی جانب تبلیغ کی غرض سے روانہ کیا اور انہیں برکت کی دعا بھی دی اس جگہ عیسائی مؤرخین یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسیح کی یہ ملاقات تھو ما حواری سے کشفی تھی.بوجہ اسکے کہ عیسی کو غلطی سے آسمان پر سمجھتے ہیں.مگر اب جبکہ مسیح کے آسمان پر جانے کی انجیلی آیات خود عیسائی محققین کی تحقیق کے مطابق بعد کی ملاوٹ ثابت ہو چکے ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح خود مشرق سے ظاہر ہوئے تھے.جیسا تفصیل سے اگلے باب میں آتا ہے تو پھر اس ملاقات کو کشفی ماننے کی ضرورت ہی

Page 39

27 نہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ خود مسیح بنفس نفیس مشرق کے گمشدہ اسرائیلی قبائل میں تبلیغی مشن کو پورا کر رہے تھے اور تھوما سے انکی ملاقات بیداری میں ظاہری ملاقات تھی اسلئے آپ کے حکم کے مطابق تھو ما جنوبی ہند مدراس کی طرف چلے گئے تھے.عیسائی تاریخوں اور روایات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ٹیکسلا میں مسیح و تصو ما حواری نے جہان کے بھائی جاد کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں بھی شرکت کی تھی.حبان کی بابت بتایا جاتا ہے کہ گونڈ وفرس ( راجہ ٹیکسلا ) کا بھتیجا تھا.پروفیسر ای.جے رپسن (E.J.RAPSON) نے اپنی کتاب ”انیشنٹ انڈیا کے صفحہ 174 پر لکھا ہے کہ گونڈ وفرس شمال مغربی ہندوستان پر 21ء سے 50 ء تک حکمران تھا جس میں پار تھین اور سا کا کی پرانی حکومتیں شامل تھیں.تاریخوں سے پتا چلتا ہے کہ 60ء میں ہندوکش کی پہاڑیوں سے کشن (KUSHAN - گشان) نامی قبیلہ نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا تو ہوسکتا ہے کہ اس حملہ کے وقت تھو ما ومسیح نے ہندوستان میں پناہ لی ہو یا حضرت مسیح کشمیر چلے گئے ہوں.مسیح کی ہدایت پر تھو ما حواری کے ٹیکسلا میں آمد کا ذکر سر جان مارشل نے اپنی کتاب ”ٹیکسلا میں بھی کیا ہے جو ہندوستان میں آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل بھی تھے.انہی کی نگرانی میں ٹیکسلا کے آثار قدیمہ کی کھدائی ہوئی تھی.انکی کتاب مذکور آکسفورڈ یو نیورسٹی لندن کی طرف سے 1951ء میں شائع ہوئی تھی.سر جان مارشل نے آرامی زبان کے کتبے بھی ٹیکسلا سے برآمد کئے تھے جو سابق جلا وطن یہودیوں اور خود مسیح و تھوما کی بھی اصل زبان تھی اور ایسے کتبے افغانستان، ہزارہ وغیرہ کے قدیم آثار سے بھی ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ مسیح سے قبل جلا وطن یہودیوں کی آرامی زبان یہاں بولی اور لکھی جاتی تھی مؤرخین نے لکھا ہے کہ قریباً آٹھ نو سو سال آرامی زبان شمال مغربی ہند کے علاقوں میں لکھی اور بولی جاتی رہی ہے.شام اور ہندوستان کی تجارت کا سلسلہ بھی جاری تھا.دوسری صدی مسیحی میں سکندریہ کا مشہور عیسائی فلاسفر اور فاضل ” پن ٹینس“ جب ہندوستان آیا تو اسکی حیرت کی کوئی انتہانہ رہی جب اس نے یہ دیکھا کہ یہاں یہودی النسل مسیحیوں کے پاس متی حواری کی انجیل موجود ہے.حضرت مسیح کی ہندوستان میں آمد اور انکے حالات کا ذکر ہم اپنے موقعہ پر علیحدہ باب میں کریں گے.اس جگہ پہلے مناسب ہوگا کہ ہم بائیل کی رو سے حضرت مسیح کے مشرق اور کشمیر میں پناہ لینے کے ذکر پر روشنی ڈالیں.تاریخ کلیسیائے ہند از پادری برکت اللہ The Apostle Thomas India.p 46.

Page 40

باب سوئم 28 بائیل میں مسیح کے کشمیر جیسے جنت نظیر علاقہ میں پناہ لینے کا ذکر عیسائی اور یہودیوں کی کتاب مقدس بائیبل سے بھی جس میں تورات و انا جیل شامل ہیں قرآنی بیانات کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت مسیح نے ایک دور دراز جنت نظیر پہاڑی علاقہ میں پناہ لی تھی.کتاب مقدس میں حضرت مسیح سے قبل قدیم نوشتوں کا جو حصہ ہے اس میں صراحتہ وکنایہ یسعیا ، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان و حضرت حزقیل وغیرہ نبیوں کی پیشگویاں موجود ہیں جنہیں عیسائی متعلق باسیح قرار دیتے ہیں اور ریفرنس بائیبل میں فٹ نوٹ دیے گئے ہیں کہ یہ پیشگوئیاں کنا بیتہ متعلق با مسیح ہیں.حز قیل باب 37 آیت 1 تا 15 میں حزقیل نبی کی ایک مفصل رویاء کا ذکر ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں ایک وادی میں اتارا گیا جو ہڈیوں سے پر تھی.ان میں مردے اور مقتول بھی تھے ، مجھے خدا نے کہا کہ ان پر نبوت کر.میں نے ان پر نبوت کی تو وہ ہڈیاں اور مردے زندہ ہو گئے.تب خدا نے مجھے کہا کہ یہ ہڈیاں اور مردے تمام بنی اسرائیل ہیں.( جو غیر قوموں میں ہیں ) اس رویاء کو عیسائیوں نے متعلق با مسیح قرار دیا ہے.اگر یہ درست ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت مسیح کے بارے میں حز قیل نبی نے پیشگوئی کی تھی کہ اس کے ذریعہ وہ بنی اسرائیل جو روحانی لحاظ سے مردہ ہو چکے ہونگے دوبارہ ایمان کے ذریعہ زندگی حاصل کریں گے.اس پیشگوئی میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ منتشر بنی اسرائیل تھے جو حز قیل نبی کو رویاء میں دکھائے گئے تھے.سو یہ پیشگوئی حضرت مسیح نے بنفسِ نفیس * پوری کی جب وہ مشرق میں ہجرت کر کے بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں میں جو ایمان کے لحاظ سے مردہ ہو چکے تھے آئے اور انہیں نبوت کا پیغام دیا اور انہیں اپنے انفاخ قدسیہ سے روحانی زندگی بخشی.اگر ایسا نہ ہو تو یہ پیشگوئی جھوٹی قرار پاتی ہے.مسیح ایک دور دراز علاقہ میں صاحب اولاد ہوگا: ایک اور اہم پیشگوئی یسعیاہ نبی کی ہے اسے بھی عیسائی حضرت مسیح سے متعلق قرار دیتے ہیں.اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ مسیح اپنی جان کی سخت مصیبت دیکھے گا مگر وہ مرے گا نہیں بلکہ ذلت کی موت سے بیچ کر مسیح کا کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف بنفس نفیس آنا از روئے پیشگوئی ضروری تھا.( حز قیل باب 34 آیت 11)

Page 41

29 ایک دور دراز علاقہ میں چلا جائیگا.جہاں وہ صاحب اولاد ہوگا، وہ اپنی نسل دیکھے گا ، اس کی عمر لمبی ہوگی اگر چہ شریروں میں اسکی قبر بنائی جائیگی مگر وہ اس قبر سے اٹھ کر ایسے ملک میں چلا جائیگا جہاں نیک لوگوں میں اسکی قبر ہوگی.ہم اس پیشگوئی کے ان الفاظ کا ترجمہ یہاں نقل کرتے ہیں جو انگریزی بائیل 1611ء میں دئے گئے ہیں.اس بائیبل کے باب 53 میں یسعیاہ نبی پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 5.یقیناً اس نے ہمارے غم اٹھائے اور ہمارے غموں کو دور کیا لیکن ہم نے اسے خدا کا بیٹا ہوا، گوٹا ہوا اور ستایا ہوا سمجھا.لیکن وہ ہماری زیادتیوں کی وجہ سے زخمی کیا گیا.وہ ہماری بد کرداری کے نتیجہ میں گھائل ( زخمی ) کیا گیا.ہمارے امن کی سزا اسے ملی اور اسکو کوڑے لگنے سے ہمارے زخم بھر گئے ،6.ہم سب بھیڑوں کی طرح راستہ بھٹک گئے تھے اور ہم میں سے ہر ایک نے اپنی راہ لے لی تھی اور خدا نے ہم سب کی بدکرداری ( کا اثر ) اس پر ڈال دیا تھا ، 7.وہ ستایا گیا اور دکھ دیا گیا، لیکن اس نے اپنا منہ نہ کھولا، وہ ایک برہ کی طرح ذبح کیلئے لیجایا گیا اور ایک بھیڑ کی طرح اون کاٹنے والوں کے سامنے بے زبان رہا اور اس نے اپنا منہ نہ کھولا ، 8.وہ قید سے نکالا گیا اور سزا کے فتویٰ سے بھی.کون اسکی نسل بتائے گا کیونکہ وہ زندوں کی زمین ( آباد علاقہ ) سے کاٹ دیا گیا، اسلئے کہ وہ میرے بندوں کی حکم عدولی کی وجہ سے مضروب ہوا، 9.اس نے اپنی قبر شریروں کے درمیان بنائی اور موت کے وقت امیروں کے ساتھ (بنائی) کیونکہ اس نے کوئی سرکشی نہیں کی تھی اور نہ اسکے منہ میں کوئی فریب تھا.10.تاہم خدا کی مشیت ہوئی کہ اسے زخمی کرے، اس نے اسے غمگین کیا.جب تم اسکی جان کو گناہ کی قربانی جانو گے وہ اپنی نسل دیکھے گا.اسکی عمر دراز ہوگی اور خدا کی مرضی اسکے ہاتھ سے کامیاب ہوگی ،۱۱.وہ اپنی جان کے مصائب دیکھے گا اور تسلی پائے گا اور اپنے عرفان سے نیک بندوں میں سے بہتوں کو راستباز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ انکے تجاوز کو برداشت کرے گا ، اسلئے بزرگوں کے ساتھ اسے ضرور حصہ دوں گا اور طاقتوروں کے ساتھ وہ اپنی غنیمت بانٹ لے گا کیونکہ اس نے اپنی جان موت تک انڈیل دی اور اس کا شمار 66 حکم عدولی کرنے والوں میں ہوا.اس نے بہتوں کے گناہ برداشت کیے اور خطا کاروں کی سفارش کی.“ (یسعیاہ باب 53 از آیت 4 تا 12 اردو تر جمہ انگریزی بائیبل 1611ء) 1611ء کی بائیبل کا جو اقتباس ترجمہ کے ساتھ اوپر ہم نے درج کیا ہے اسے برٹش اینڈ فارن بائیل سوسائٹی لنڈن سے شائع کیا گیا تھا.یہ ترجمہ بڑی احتیاط اور محبت سے بادشاہ کے حکم سے کیا گیا.اس

Page 42

30 سے بعد کے جو ترجمے اردو زبان میں ملتے ہیں وہ اس ترجمہ سے کافی مختلف ہیں.ان ترجموں کو اپنے عقائد کے مطابق رومن کیتھولک اور پروٹسٹوں نے ڈھالنے کی کوشش کی ہے.ہم اس انگریزی ترجمہ میں یہ پاتے ہیں کہ مسیح ضرور زخمی ہوا، ستایا اور دکھ دیا گیا، مارا اور پیٹا گیا.زخمی ہونے کے علاوہ نمگین ہوالیکن وہ قید سے بھی نکال لیا گیا اور موت کے فتویٰ سے بھی بچالیا گیا البتہ اس نے اپنی جان کو خاموشی سے دشمنوں کے حوالے کر دیا اور موت تک پہنچ کر بچ گیا.پھر اس نے ہجرت کی اور اسکے ہاں اولا د ہوئی لیکن فلسطین والے اسکی اولاد کو نہیں جانتے تھے اس نے اپنی جان کے مصائب دیکھے لیکن وہ مطمئن رہا.اس نے لوگوں کا ظلم اور گناہ برداشت کیا اور چپ رہا.اسکی قبر شریروں کے درمیان بنائی گئی.یہ وہ کمرہ نما قبر ہے جس میں واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح کو یہودیوں کے قبرستان میں غشی کی حالت پر رکھا گیا اور پھر وہ ہوش میں آنے کے بعد وہاں سے نکل گئے.دوسری قبر وہ ہے جو طبعی موت کے وقت نیک لوگوں میں بنائی گئی.یہ قبر کشمیر میں جو شہر سرینگر کے محلہ خانیار میں یوز آسف کے مقبرہ کے نام سے آج تک موجود ہے.جہاں نیک لوگ اور اولیاء اللہ مدفون ہیں.اس میں آپ طبعی وفات پانے کے بعد دفن ہوئے.یہ قبر مشرق سے مغرب کی طرف ہے جیسا یہودیوں کا دستور ہے نہ مسلمانوں کے طریق کے مطابق شمالاً جنوباً.آیت 9 میں جو شریروں اور امیروں کا ذکر ہے اس جگہ امیر سے مراد شریر کے مقابلہ میں اخلاق و روحانیت کے لحاظ سے امیر مراد ہیں ورنہ دنیا وی دولت تو شریروں کے پاس بھی بہت ہوتی ہے.جہاں مسیح کی قبر ہے اس جگہ بعض سادات اور اولیاء اللہ کی بھی قبریں ہیں.آیت 8 کا یہ فقرہ کہ وہ قید سے نکالا گیا اور سزا کے فتوے سے بھی ، کون اسکی نسل بتائے گا کیونکہ وہ زندوں کے یا قبائل کے علاقہ سے بوجہ ہجرت الگ کیا گیا تھا.مسیح کے قید سے نکلنے اور موت کے فتویٰ سے بچ جانے اور اپنے قبائل کی سرزمین سے علیحدہ ہو جانے اور نئی نسل کا بانی ہونے کا ذکر ہے جس کا تعلق ہجرت سے ہی ہوسکتا ہے کیونکہ باقی زندگی حضرت مسیح نے فلسطین میں نہیں گزاری کہ وہاں انکی نسل پیدا ہوتی.آٹھویں آیت میں ہے کہ وہ میرے بندوں کی حکم عدولی کی وجہ سے مضروب ہوا، کیتھولک بائیبل میں STRICKEN کا ترجمہ اردو میں مضروب کی بجائے مقتول کر دیا گیا ہے.پروٹسٹنٹ بائیل میں اس کا ترجمہ ” مار پڑی کیا گیا ہے اور یہ ترجمہ درست ہے.آیت نمبر 7 میں صاف لکھا گیا ہے کہ وہ زخمی کیا گیا اور لوگوں (یہودیوں) کی بد عملی سے گھائل کیا گیا نہ کر قتل.پس اس پیشگوئی کے مطابق اسی زمین پر رہ کر مسیح کا درازی عمر پانا اور اپنی نسل دیکھنا اور خدا کی مرضی کا اس کے ہاتھ سے کامیاب ہونا اس بات پر

Page 43

31 کھلی دلالت کر رہا ہے کہ اس نے فلسطین سے ہجرت کر کے کامیابی حاصل کی نہ یہ کہ وہ بحالت نا کا می زندہ آسمان پر اٹھالیا گیا.ہجرت گاہ ( کشمیر ) میں اس نے اپنے علم و عرفان سے نیک بندوں میں سے بہتوں کو راستباز ٹھہرایا اور خدا کے نبیوں کے ساتھ اسے حصہ ملا اور طاقتور ظالموں سے اس نے نیکوں کو اپنے دامن سے وابستہ کر کے بطور غنیمت حصہ پایا کیونکہ یہ مرید مقابلہ کے بعد پیدا ہوئے اسلئے انہیں مال غنیمت قرار دیا گیا جو ظالموں سے لی گئی.جو خطا کار لوگ اسے خدا کا نافرمان جانتے تھے اور ان پر سختی کرتے تھے ، لیکن انہوں نے انکے ظلم و جفا کو برداشت کیا اور ایماندار خطا کاروں کیلئے شفیع بنے.اگر چہ ان آیات میں صاف طور پر مسیح کے صرف مارنے اور پیٹے جانے اور زخمی ہونے کا ذکر ہے نیز غمگین ہونے کا، نہ کہ مقتول ہونے کا یا مر کر زندہ ہونے کا ، تاہم انکے بعض فرقوں کے مسیحی لوگ یہی تاویل کرتے ہیں کہ مسیح مقتول ہو گیا تھا اور پھر زندہ ہوا.لیکن ان کا یہ استدلال ان صاف عبارتوں کے مقابل میں جن میں مسیح کے صرف زخمی ہونے اور غمگین ہونے کا ذکر ہے درست قرار نہیں پاسکتا.بلکہ ان عبارتوں سے مرادصرف یہی لی جا سکتی ہے کہ مسیح نے اپنی طرف سے جان کی قربانی پیش کر دی تھی اور اسکی حالت مردہ کے مشابہ ہو گئی تھی لیکن وہ مر نہیں تھا بلکہ انتہائی غشی کی حالت میں تھا اور اس وجہ سے مردہ سمجھ لیا گیا.بہر حال عیسائی ان آیات سے یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ وہ زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا کیونکہ ان آیات سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ اسکی عمر لمبی کی گئی اور اسی زمین پر اس نے اپنی نسل کو دیکھا نیک لوگوں میں لمبی عمر پا کرفت ہوا اور دفن ہوا.اب عیسائیوں کیلئے ان آیات کی روشنی میں مسیح کی صرف ہجرت گاہ کی تلاش ضروری رہ جاتی ہے جہاں اس نے باقی عمر بسر کی اور اپنی نسل کو دیکھا.اسکی تائید میں انا جیل سے بعض اور عبارتیں بھی ملتی ہیں.مثلا مسیح نے خود فرمایا ” میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں (یعنی فلسطین میں آباد نہیں) مجھے انکو بھی لانا ضرور ہے.پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی گلہ بان ہوگا.( یوحنا باب 10 آیت 16 ) پھر یہ بھی فرمایا ” میں جاتا ہوں تم مجھے ڈھونڈو گے...جہاں میں جاتا ہوں تم نہیں آسکتے.‘اور حز قیل باب 34 مسیح چوپان کے تحت لکھا ہے کہ ”میں آپ ہی اپنی بھیڑوں کی تلاش کروں گا اور انکی خبر لوں گا جس طرح چرواہا اپنی بھیڑوں کی خبر پالیتا ہے." ( آیت (11) ظاہر ہے کہ مسیح خود بہ نفس نفیس اپنی بھیڑوں کی تلاش میں آئے جہاں انہوں نے لبی عمر پائی اور اپنی نسل دیکھی اور وفات پائی اگر چہ عیسائیوں پر مسیح کی ہجرت گاہ

Page 44

32 کی تلاش واجب تھی لیکن اس کی تلاش کا شرف اللہ تعالیٰ نے اس شخص کیلئے ودیعت رکھا تھا جو مسیح کی روح اور قوت میں اسکی آمد ثانی قرار پا کر اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قادیان کی گمنام بستی سے کھڑا کیا گیا.اس نے قرآن شریف کی آیت وَ اوَينَا هُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارِ وَ مَعِین سے الہامی اشاره پا کر تلاش شروع کی تو انہیں ایسے تاریخی شواہد مہیا ہو گئے جن سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیبی موت سے بیچ کر کشمیر کی طرف ہجرت کی اور وہاں اپنی باقی عمر بسر کی اور اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تلاش کر کے ان تک پیغام حق پہنچایا اور اپنی ڈیوٹی پورے اخلاص اور محنت سے بجا لا کر وفات پائی اور سرینگر کے محلہ خانیار میں دفن ہوئے اور انکی قبر آج تک دو ہزار سال سے زیارت گاہ چلی آ رہی ہے.زبوروں سے مزید تائید: ان تصریحات اور پیشگوئیوں کی مزید تائید حضرت داؤد علیہ السلام کے زبوروں سے بھی ہوتی ہے.زبور داؤد میں اکثر و بیشتر زبوروں کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ حضرت داؤڈ اپنے ایک ایسے مصیبت زدہ روحانی فرزند کو جو ان کی نسل سے ہونے والا ہے اسکی مصیبتوں سے بچانے کیلئے پر سوز اور پُر در دعائیں کر رہے ہیں.جسے وہ بعض زبوروں میں مسیح (دیکھو زبور 2 آیت 2) بعض میں ابن آدم (دیکھو زبور 8+15+40) بعض میں بادشاہ ( دیکھوز بور 2 +18+20+21+45+61+72+89+110+132) بعض میں مضروب و مصلوب ( دیکھو زبور 22 +69+ 109 + 35+41+55 وغیرہ) اور بعض میں انتہائی غمگین ، دکھ اٹھانے والا اور لونڈی کا بیٹا ( زبور 116 آیت 16 ) بیان کر کے خدا سے پُر جوش و پر سوز التجائیں کر رہے ہیں کہ اے میرے خدا اسے بچالے، دشمن اسکے جان کے درپے ہیں اور اسکی مدد فرما.عیسائی مفسرین بائیل اور مترجمین ان زبوروں کو کنایہ متعلق با سیح لکھتے ہیں اور ریفرنس بائیلوں میں ان کے حواشی میں لکھتے ہیں.کہ یہ زبور کنایہ متعلق با سیخ ہیں اور بعض زبور وں کو ( جیسے زبور باب 22) کو اعلی طور پر متعلق با مسیح لکھتے ہیں اگر عیسائیوں کی یہ تشریح درست ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا ہی ہے جیسا وہ لکھتے ہیں تو پھر تسلیم کرنا ہو گا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو آنے والے مسیح کی جسمانی اذیتیں اور اسکی گرفتاری، اس پر صلیب کی موت کا فتوی لگنا اور صلیب پر چڑھنا اور صلیب پر اسکے ہاتھوں کا چھیدا جانا اور اسکے کپڑوں کا بانٹا جانا اور وہ سب واقعات جو مسیح کو یہود اور رومی حکومت کی طرف سے پیش آئے خدا تعالیٰ نے کشوف و

Page 45

33 رویاء میں دکھلا دیا تھا.پھر آپ کو ان دعاؤں کی قبولیت کے سلسلے میں مسیح کا دشمنوں اور صلیب کی موت سے بچایا جانا اور ایک دور و دراز جنت نظیر پہاڑی علاقہ میں پناہ لینے کا نظارہ بھی دکھلا دیا گیا تھا جس پر انہوں نے خوشی اور مسرت پر مشتمل گیت اور حمدیہ زبور پڑھے اور خدا کی تحمید اور تمجید اور تسبیح بیان کی اور دوسروں کو بھی اسکی ہدایت کی کہ بربط اور ستیار کے گاؤ، جوان، بوڑھے، مرد اور عورتیں اور بچے سب خدا کی حمد و تمجید کریں کیونکہ اس نے میرے آنے والے دکھی فرزند کوموت سے بچالیا ہے.مثلا ز بور 22 آیت 22 تا29 جسے عیسائی اعلیٰ طور پر متعلق با مسیح لکھتے ہیں.حضرت داؤد اللہ تعالیٰ سے وہی دعا مانگتے ہیں جو مسیح نے صد ہا سال بعد صلیب پر چڑھائے جانے کے وقت مانگی جو ان الفاظ میں ہے.”اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ؟ مجھ سے دور نہ رہ ! (زبور باب 22 آیت 1) بدکاروں کے گروہ مجھے گھیرے ہوئے ہیں.وہ میرے ہاتھ اور پاؤں چھید تے ہیں میں اپنی سب ہڈیاں گن سکتا ہوں.وہ مجھے تا کتے اور گھورتے ہیں.وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میری پوشاک پر قرعہ ڈالتے ہیں.لیکن تو اے خدا وند ! دور نہ رہ.اے میرے چارہ ساز ! میری مدد کیلئے جلدی کر.“ (زبور باب 22 آیت 16 تا 19) اس زبو کو عیسائی بائیلوں میں علی طور پر معلق بامسیح قرار دیا گیا ہے.یہ عجیب مماثلت ہے کہ خود حضرت مسیح نے صلیب پر غشی طاری ہونے سے پہلے یہی دعا پڑھی تھی اور انکے یہ الفاظ آج تک انا جیل میں مسیح سے منسوب ہیں.ایلی ! ایلی لِمَا سَبَقَتَانِی (دیکھو انجیل کے آخری ابواب متی باب 27 آیت 46 ومرقس باب 15 آیت 34) 66 د یعنی اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا...اس دعا میں ہاتھوں میں کیل ٹھونکنے، بذریعہ قرعہ اندازی کپڑے بانٹنے کا جو ذکر ہے انجیل یوحنا باب 19 آیت 24 میں ہوا ہے کہ یہ واقعات حضرت مسیح کو صلیب پر پیش آئے.جب رومی سپاہیوں نے صلیب پر لٹکاتے وقت مسیح کے بدن سے اس کے کپڑے پھاڑ کر نکال لیے اور اس کے چٹے کو چار حصوں میں بانٹ لیا لیکن قبا بوجہ بافتہ ہونے کے پھٹ نہ سکی اسلئے اسے قرعہ اندازی سے آپس میں بانٹ لیا.تفسیر زبور میں پادری بے علی بخش نے لکھا ہے کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح کے وجود میں پوری

Page 46

34 34 ہوگئی.(ص103 ) زبور باب 69 آیت 1-2 میں فرمایا: ”اے خدا! تو مجھے کو بچالے کیونکہ پانی میری جان تک آپہنچا ہے.میں گہری دلدل میں دھنسا جاتا ہوں جہاں کھڑا نہیں رہا جا تا.میں گہرے پانی میں آپڑا ہوں جہاں سیلاب میرے سر پر سے گزرتے ہیں.“ آیت 4 میں ہے ”وہ مجھ سے بے سبب عداوت رکھنے والے میرے سر کے بالوں سے بھی زیادہ ہیں ، میری ہلاکت کے 66 خواہاں اور ناحق زبردست ہیں.“ آیت 21 میں ہے.انہوں نے مجھے کھانے کو اندرائن ( پت ) بھی دیا اور میری پیاس بجھانے کو انہوں نے مجھے سرکہ پلایا.“ آیت 20 میں ہے ملامت نے میرا دل توڑ دیا میں بہت اداس ہوں اور میں اسی انتظار میں رہا کہ کوئی ترس کھائے پر کوئی نہ تھا اورسلی دینے والوں کا منتظر رہا پر کوئی نما“ اس زبور کو بھی عیسائیوں نے متعلق با مسیح لکھا ہے کیونکہ جب مسیح صلیب پر لٹکائے گئے اور انکی زبان اور ان کا منہ خشک ہو گیا تو انہوں نے پانی کی خواہش کی مگر سپاہیوں نے پانی نہیں دیا.صرف ایک سپاہی نے سرکہ میں بھگوئی ہوئی چھڑی آپ کے منہ اور ہونٹوں کے ساتھ لگائی.اس طرح ” پت“ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ کڑوی قسم کی خوراک تھی.گویا خود مسیح نے آکر اس پیشگوئی کو پورا کیا.زبور 113 میں ہے کہ انہوں نے مجھے شہد کی مکھیوں کی طرح گھیر لیا.(آیت 12) زبور 119 میں ہے کہ انہوں نے مجھ سے ٹھٹھے کیے پر میں نے تیری شریعت اور تیرے احکام سے کنارہ نہیں کیا.“ ( آیت 51) زبور باب 119 آیت 116 میں ہے.تو اپنے کلام کے مطابق مجھے سنبھال ! تا کہ میں نہ مروں بلکہ زندہ رہوں اور مجھے اپنے اعتماد سے شرمندگی نہ اٹھانے دے!“ زبور 116 آیت 16-17 میں فرمایا ' آہ! اے خداوند میں تیرا بندہ ہوں ، میں تیرا بندہ تیری لونڈی کا بیٹا ہوں.تو نے میرے بندھن کھولے ہیں.میں تیرے حضور شکر گزاری کی قربانی چڑھاؤں گا اور خداوند سے دعا کروں گا.“ زبور 42 کو خود مسیح نے استعمال کیا اور صلیب سے قبل ایک ہفتہ تک وہ اور اسکے حواری اس زبور کو پڑھتے اور گاتے رہے، جو یہ ہے." جیسے ہرنی پانی کے نالوں کو ترستی ہے ویسے ہی اے خدا ! میری روح تیرے لیے ترستی ہے.میری

Page 47

35 روح خدا کی ، زندہ خدا کی پیاسی ہے.میں کب جا کر خدا کے حضور ( یعنی موعود ہیکل میں ) حاضر ہوں گا.میرے آنسو رات دن میری خوراک ہیں جس حال میں وہ مجھ سے برابر کہتے ہیں تیرا خدا کہاں ہے؟ ( آیت 1 تا 4)اے میرے خدا! میری جان میرے اندر گری جاتی ہے.( آیت 6) میں خدا سے جو میری چٹان ہے کہوں گا تو مجھے کیوں بھول گیا، میں دشمن کے ظلم کے سبب سے کیوں ماتم کرتا پھرتا ہوں؟ میرے مخالفوں کی ملامت گویا میری ہڈیوں میں تلوار ہے کیونکہ وہ مجھ سے برابر کہتے ہیں کہ تیرا خدا کہاں ہے "؟ (آیت 9-10) زبور 41 میں بھی زبورنولیس کے دکھوں نظلم اور یہودیوں کے طعن و تشنیع کا بیان ہے اور اسے بھی تفسیر زبور میں متعلق با مسیح کہا گیا ہے اور اس میں گناہ کا بھی اقرار کیا گیا ہے اور کہا ہے ”اے خداوند مجھ پر رحم کر، میری جان کو شفا دیدے کیونکہ میں تیرا گنہگار ہوں.“ ( آیت 5) زبور 109 میں جو تفسیر زبور کے مطابق با مسیح ہے اور جس میں دکھوں اور مصیبت زدہ مظلوم شخص کی مظلومیت کا بیان ہے دشمنوں پر لعنت ڈالی ہے اور زمین سے دشمنوں کا ذکر مٹا دیے جانے وغیرہ کی پیشگوئیاں بیان ہیں اور اپنی بیکسی، بیچارگی محتاجی، مجروحیت اور کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ ”اے مالک خداوند ! اپنے نام کی خاطر مجھ پر احسان کر.مجھے دشمنوں سے چھڑا ، میں ٹڈی کی طرح اُڑا دیا گیا.فاقہ کرتے کرتے میرے گھنٹے کمزور ہو گئے اور چکنائی کی کمی سے میرا جسم سوکھ گیا.میں انکی ملامت کا 66 نشانہ بن گیا ہوں.جب وہ مجھے دیکھتے ہیں تو سر ہلاتے ہیں.اے خداوند میرے خدا! میری مد دکر...زبور 35 میں یہودیوں کی بدتمیزیوں ،ٹھٹھوں، جھوٹی گواہیوں اور قسم قسم کی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتلایا، وہ ملک کے امن پسند لوگوں کے خلاف مکر کے منصوبے باندھتے ہیں اور منہ پھاڑ کر کہا، ہاہاہا! ہم نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا ہے.اے خداوند! تو نے یہ خود دیکھ لیا ہے.خاموش نہ رہ! میرے انصاف کیلئے جاگ !‘ اس زبور کو بھی متعلق با مسیح کہا گیا ہے.تغییر زبور میں پادری بے علی بخش صاحب نے ان زبوروں کے علاوہ زبور نمبر 69، زبور نمبر 109، زبور 35، زبور 55 کو بھی متعلق با مسیح لکھا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ ان میں دکھ اٹھانے والے مسیح کا ذکر ہے اسی طرح زبور 8 زبور 15 وزبور 40 وز بور 16 میں ابن آدم کے نام سے ایسے مصیبت زدہ اور مظلوم اور غمگین و اداس شخص کا ذکر ہے جس کے واقعات و مصائب مسیح کے مصائب و واقعات سے شدید مشابہت رکھتے ہیں اور انا جیل میں مسیح نے اپنا نام ابن آدم بھی بتایا ہے.( یوحنا باب 12 آیت 34)

Page 48

36 حضرت داؤد علیہ السلام نے جب دعاؤں میں انتہائی عجز وزاری اور نالہ وفریاد کی تو خدا تعالیٰ نے کشف میں انہیں اس مظلوم شخص کا جس کے بچانے کیلئے وہ دعائیں کر رہے تھے موت سے بیچ کر دور دراز سفر کرنے اور جنت نظیر ملک میں پہنچنے کا نظارہ بھی دکھلا دیا جو سرسبز وشاداب تھا.جس پر وہ بہت خوش ہوتے ہیں اور خدا کی حمد وستائش کے گیت گاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگو! خوشی کے گیت گا ؤ بربط اور ستیار پر گیت گاؤ، مرد، عورتیں ، جوان، بوڑھے سب خدا کی حمد و تمجید کرو جس نے مصیبت زدہ کو دشمنوں سے چھڑالیا.موت سے بچالیا اور فتح مند کیا اور زمین پر ایسے صحت افزا اور جنت نظیر ملک میں اسے پناہ دیدی جہاں دشمن نہیں پہنچ سکتے.وہ مبارک ہوگا اور اسے عمر درازی کی برکت حاصل ہوگی.پس دس تار کے بربط کے ساتھ خدا کی ستائش کرو.بلند آواز سے اچھی طرح بجاؤ اور خدا کا نیا گیت گا ؤ کیونکہ خدا کا کلام راست ہے.اس نے حکم دیا اور واقع ہو گیا.(دیکھوز بور 33 آیت 1 تا 9) جنت نظیر وادی میں چنانچہ زبور 30 میں حضرت داؤد علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اے خداوند ! میں تیری تمجید ( بزرگی کا اظہار ) کروں گا ، تو نے مجھے سرفراز کیا ہے اور میرے دشمنوں کو مجھ پر خوش نہیں ہونے دیا.( آیت 1 ) اے خداوند تو میری جان پاتال ( قبر ) سے نکال لایا ہے.تو نے مجھے صحت یاب کیا.( آیت 3 ) تو نے مجھے زندہ رکھا ہے کہ قبر میں نہ جاؤں.( آیت 4) اے خداوند ! تو نے مہربانی سے میرے مضبوط پہاڑ کو خوب قائم رکھا ہے.( آیت 7 ) خداوند کی ستائش کرو! اےاس کے مقدسو! اس کے قدس کو یاد کر کے شکر گزاری کرو.(آیت 4) تو نے میرے ماتم کو ناچ سے بدل دیا.تو نے میرا ٹاٹ اتار ڈالا اور مجھے خوشی سے کمر بستہ کیا تا کہ میری روح تیری مدح سرائی کرے.اے خداوند ! میں ہمیشہ تیرا شکر گزار رہوں گا.( آیت 12) زبور میں ہے ، میں تیرے پروں کے سایہ میں پناہ لوں گا (آیت 4 ) زبور 63 میں ہے ، اے خدا مجھے خشک زمین سے اس زمین میں لے چل جس میں پانی کثرت سے ہے اور وہ سر سبز ہے.میں اس کا بہت مشتاق ہوں ( آیت ( 1 ) زبور 27 آیت 13 میں ہے، اگر مجھے یقین نہ ہوتا کہ میں زندوں کی زمین میں خدا کا احسان دیکھوں گا تو میں جنبش کھا تایا میں بے حواس ہو جاتا.تفسیر زبور میں لکھا ہے زندوں کی زمین میں نہ مردوں کی زمین (صفحہ 123 ) یعنی زمین پر زندہ لوگوں کو پیغام حق پہنچاؤں گا.اس سے مسیح کے آسمان پر جانے کی نفی ہو جاتی ہے.زبور 69 آیت 29 میں دعا کی ہے کہ اے خدا ! تیری مخلصی مجھے بلند اور بلند جگہ میں پہنچا

Page 49

37 دے تغیر زبور میں پادری بے علی بخش نے اس جگہ لکھا ہے کہ خدا کی مخاصی اسے بلند قلعہ میں پہنچا دیتی ہے.(صفحہ 295 آیت 29) اور زبور 41 جسے عیسائیوں نے متعلق با مسیح لکھا ہے ، ایک پناہ گزیں شخص کی ہری چراگاہوں اور چشموں والی زمین میں پناہ لینے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ، اس کے سفر کو خدا نے مبارک کیا اور اسے ہری ہری چراگاہوں اور چشموں اور اناج سے ڈھکی ہوئی وادی میں بٹھلایا.خدا وندا سے محفوظ اور جیتا ر کھے گا اور وہ زمین پر مبارک ہوگا.خداوند اسے بیماری کے بستر پر سنبھالا دے گا.تو اس کی بیماری میں اسکے پورے بستر کو ٹھیک کرتا ہے (یا کرے گا ) (زبور 41) زبور کے ان الفاظ پر غور کریں تو ایک ایک لفظ قرآن کی آیت وَا وَيْنَا هُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِین کی تفسیر وتائید کر رہا ہے اور بیماری کے بستر پر سنبھالا دینے کا کیا مطلب ؟ اور کلام مقدس، مطبوعہ سینٹ پال روما 1958ء میں فرمودہ 117 (118) کو متعلق با مسیح لکھا گیا ہے.جس کی آیت 17 میں ہے.”میں مروں گا نہیں بلکہ جیتا رہوں گا اور خداوند کے کام بیان کروں گا.18.خداوند نے مجھے سخت تنبیہ کی ہے، لیکن موت کے حوالے نہیں کیا.“ اور مندرجہ بالا مزمور ( زبور )41 میں جو یہ الفاظ ہیں کہ وہ زمین پر مبارک ہوگا.اس کے صریح معنی یہ ہیں کہ وہ آسمان پر نہیں جائیگا بلکہ زمین پر بابرکت ہوگا.یعنی وہ ملک بہ ملک سیاحت کریگا اور اس میں اتنی برکت دی جائیگی کہ اسرائیلی قبائل اسکے کلام سے برکت حاصل کریں گے.جیسا اس سفر مشرق سے ظاہر ہو گیا اور اس زمانہ میں جبکہ نصرانیت کا ساری زمین پر غلبہ ہو گیا خدا نے مسیح آخر الزماں کے ذریعہ اسکی تعلیم اور گمشدہ زندگی کو دوبارہ زندہ کیا اور اسکی عزت و مقبولیت میں دائمی برکت حاصل ہوئی.یہ وہ مضمون ہے جسے قرآن نے بہت بلغ الفاظ میں وَجيْهَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ میں حضرت مریم کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ دنیا و آخرت میں عزت و وجاہت حاصل کرے گا.زبور 121 آیت 1-2 میں ہے کہ میں اپنی آنکھیں پہاڑوں کی طرف اٹھاتا ہوں جہاں سے میری مدد آئیگی اور میری مدد خداوند سے ہے.زبور 16 آیت 6 میں ہے ، جریب میرے لیے دل پسند جگہوں میں پڑی.تفسیر زبور میں ہے ، یعنی مجھے ناپ کر مقدس زمین میں سب سے عمدہ و چیدہ حصہ دیا گیا.( تفسیر ز بورصفحه 75) زبور 23 میں بھی جے متعلق المسیح کہا گیا ہے راحت کے چشموں والی سرزمین کی طرف پناہ دینے پر شکر گزاری کرتے ہوئے فرمایا.

Page 50

38 خداوند میرا چوپان ہے مجھے کمی نہ ہوگی وہ مجھے ہری ہری چراگاہوں میں بٹھلاتا ہے وہ مجھے راحت کے چشموں کے پاس لے جاتا ہے وہ میری جان کو بحال کرتا ہے وہ مجھے اپنے نام کی خاطر صداقت کی راہوں پر لے چلتا ہے.بلکہ خواہ موت کے سایہ کی وادی میں سے میرا گزرہو میں کسی بلا سے نہیں ڈروں گا کیونکہ تو میرے ساتھ ہے (1 تا 4 ) میں بہت دنوں تک خداوند کے گھر ( مقدس ہجرت گاہ ) میں سکونت کروں گا ( آیت 6 )‘“ زبور 119 آیت 17 تا 19 میں ہے ”میں زمین پر مسافر ہوں.اس آیت سے بھی اشارہ ہے کہ مسیح زمین پر سفر کریگا نہ آسمان کی طرف.زبور باب 4 آیت 8 اور باب 116 میں ہے.”میں سلامتی سے لیٹ جاؤں گا اور سور ہوں گا.“ ( یعنی مروں گا نہیں ) زبور 127.2 میں ہے، خداوند کی ستائش کرو.خداوند یروشلم کی تعمیر کرتا ہے وہ بچھڑے ہوئے اسرائیلیوں کو جمع کرتا ہے.کتاب یوز آسف میں بھی یوز آسف کی آخری وصیت (جو وفات کے وقت کی ) یہی بات بیان ہوتی ہے کہ میں منتشر مومنوں کو جمع کرنے کیلئے آیا تھا.سو میں نے یہ مقصد پورا کیا اور میں نے یہاں (کشمیر میں ) مقدس یور و ظلم تعمیر کیا.( تفصیل اپنے مقام پر آئیگی ) زبور 24 آیت 3 و 4 میں ہے.66 ” خداوند کے پہاڑ پر کون چڑھ سکتا ہے اور اسکے مقدس مکان پر کون کھڑا رہ سکتا ہے.وہی ہے جس کے ہاتھ صاف ہیں اور دل پاک ہے.زبور باب 27 آیت 5-6 میں ہے کہ وہ مجھے چٹان پر چڑھائے گا.سواب میں سارے دشمنوں میں جو میرے آس پاس ہیں سر بلند کیا جاؤں گا.“ زبور باب 20 آیت 6-7 میں فرمایا ” میں جانتا ہوں کہ خداوند اپنے مسیح کو چھڑانے والا ہے اور وہ اپنے داہنے ہاتھ کے نجات دینے والے زور سے اپنے مقدس آسمان سے اسکی دعا سنے گا.وہ تو جھکے اور گرے پڑے، پر ہم اٹھے اور سیدھے ہو گئے ہیں.(آیت 8) مصیبت کے دن خداوند تیری سنے ، یعقوب کے خدا کا نام تجھے بلندی پر قائم کرئے (آیت 9) چٹان پر چڑھانا، سر بلند کرنا ، دشمنوں کا نا کام ہو کر گر جانا اور مسیح کا قبر سے اٹھنا اور مسیح کا بلندی پر قائم ہونا ا وَينَا هُما إلى ربوة اور مرفوع الى الله ہونے کی الہامی تفسیر اور تائید ہے.مسیح ناصری کا قبر سے اٹھنا.بلند ٹیلوں کی سرزمین کی طرف مرفوع ہونا اور آپ کی روح کا طبعی وفات پا کر خدا کی طرف اٹھایا جاتا سب رفع الی اللہ کے مفہوم میں شامل ہے.

Page 51

39 اونچی جگہ چڑھنے کا مفہوم زبور باب 68 آیت 18 کا ترجمہ عیسائیوں نے یہ کیا ہے کہ ” تو اونچے پر چڑھا اور اس سے مراد لیتے ہیں کہ وہ صلیب پر چڑھا اور بعض کہتے ہیں کہ آسمان پر چڑھا.لاطینی بائیل میں اس کا ترجمہ کیا گیا ہے(HIGH MOUNT اونچائیلہ اور یہ ہو بہو قرآن کے لفظ ربوہ کا ترجمہ ہے جس کی طرف مسیح کے پناہ لینے کا ذکر پہلے باب میں گزر چکا.اس سے یہ امر بالکل صاف ہو جاتا ہے کہ اس جگہ آرامی لفظ کا ترجمہ اونچے پر چڑھا“ کیا گیا ہے.اس سے بلند و بالا پہاری علاقہ کی طرف جانے کا اشارہ تھا.اسکی تائید اوپر کی تصریحات سے بھی ہوتی ہے اور مزید حوالوں سے بھی.چنانچہ زبور باب 91 آیت 14 میں یہ فرمایا کہ ” خدا کا نام تجھے بلندی پر قائم کرے.“ تفسیر زبور میں پادری بجے علی بخش نے اسکی تفسیر میں لکھا ہے کہ وہ تجھے سلامتی سے بلند جگہ پر پہنچا دے.“ اس وجہ سے پروفیسر چارلس کٹلر لوڑی نے جو سامی زبانوں کے ماہر ہیں جنہوں نے اناجیل اربعہ کا ترجمہ آرامی زبان کو مد نظر رکھ کر کیا ہے، مرقس اور لوقا کی اناجیل سے مسیح کے آسمان پر جانے کی آیات حذف کر دی ہیں کیونکہ وہ الحاقی ثابت ہو چکی ہیں.انہوں نے لکھا ہے کہ یعنی متن آرامی زبان کے مفہوم کو ادا کرنے سے قاصر رہا ہے جس میں مسیح اور اس کے حواری کلام کرتے تھے.مثلاً انجیل یوحنا میں جہاں لکھا ہے کہ ضرور ہے کہ ابن آدم اٹھایا جائے ( یوحنا باب 12 آیت 34) وہاں آرامی زبان کے اصل الفاظ کا مفہوم یہ تھا کہ مسیح کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہاں سے چلا جائے.چنانچہ انہوں نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ ابن آدم (مسیح) ضرور ( فلسطین سے ) جانے والا ہے.یونانی زبان کا جو لفظ اوپر سے اٹھائے جانے کے معنی دیتا ہے، بسا اوقات اسکے معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے بھی ہوتے ہیں اور سیاق وسباق سے دیکھا جائے تو اٹھائے جانے“ کے الفاظ میں سے کسی اور علاقہ کی طرف خدا کی خاص حفاظت میں جانے کا اشارہ تھا.یہودی مخاطبین بھی یہی معنی سمجھے چنانچہ انہوں نے سوال کیا کہ ہم نے تو شریعت کی یہ بات سنی ہے کہ مسیح ہمیشہ تک یہاں رہے گا پھر تو کیوں کر کہتا ہے کہ ضرور ہے کہ ابن آدم اٹھایا جائے ، یہ ابن انسان کون ہے ؟ یسوع نے ان کو جواب دیا ” اور تھوڑی دیر تک نور تمہارے درمیان ہے جب تک نور تمہارے درمیان ہے چلے چلو.‘ ( یوحناباب 12 آیت 34-35) ایک اور جگہ یوحنا کی انجیل میں ہے کہ یہودیوں نے کہا تھا کہ اس کا اشارہ کس طرف جانے کو ہے.کیا یہ فورگاه سپل از چارلس کٹلر لوڑی صفحه 214

Page 52

40 ان لوگوں کے پاس جائے گا جو یونانیوں میں جابجا رہتے ہیں اور ان کو تعلیم دے گا.یہ کیا بات ہے جو اس نے کہا کہ تم مجھے ڈھونڈو گے پر نہ پاؤ گے.“ (یوحنا باب 7 آیت 35-36) اس سوال و جواب سے صاف پتا چلتا ہے کہ مسیح نے آرامی زبان میں جو لفظ استعمال کیا تھا اسکے معنی زمین کے بلند علاقہ کی طرف خدا کی پناہ میں جانے کے تھے نہ آسمان پر جانے کے.کو شروت“ کی سرزمین میں جائے گا زبور باب 68 آیت 6 میں ہے کہ خدا تنہا کو خاندان بخشتا ہے وہ قیدیوں کو آزاد کر کے اقبال مند کرتا ہے لیکن سرکش خشک زمین میں رہتے ہیں.آیت 18 میں ہے تو نے عالم بالا کوصعود فر مایا تو قیدیوں کو ساتھ لے گیا.تجھے لوگوں سے بلکہ سرکشوں سے بھی ہدیے ملے تا کہ خدا وندخدا انکے ساتھ رہے.اس زبور میں قیدیوں کو آزاد کر کے اقبال مند کرنے کا ترجمہ جن عبرانی الفاظ میں کیا گیا ہے وہ اصل میں یہ ہیں.اسیریم بکوشروت“ یعنی وہ (مسیح) اپنے اسیروں کو آزاد کر کے ” کو شروت‘ میں لے جائیگا اور لاطینی بائیبل میں کو شروت“ کا ترجمہ کیا گیا ہے LAND OF PLENTY یعنی نعمتوں کی سرزمین جہاں سے ہر شے فراوانی سے دستیاب ہو.اس ترجمہ کی صحت کی تائید خشک زمین والے بالمقابل الفاظ سے بھی ہوتی ہے.خشک زمین کے مقابلہ میں ” کو شروت" کے لفظ کے معنی ہونگے سرسبز و شاداب زمین، نعمتوں اور فراوانی کی زمین.جس سے آیت وَ أَوَيْنَا هُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِین کے معنوں کی تائید ہوتی ہے.زبوروں میں مسیح کی پناہ گاہ کی تعریف جب ہم زبوروں میں ان مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں مسیح کو پناہ دینے کا صراحتہ کنا بیت‎ یا اشارۃ ذکر ملتا ہے تو درج زیل الفاظ میں اسکی طرف اشارات ملتے ہیں.مقدس مقام (زبور باب 24 آیت (3) مقدس پہاڑ ( زبور باب 3 آیت 4) راحت کے چشموں کی جگہ ( ذات معین ) ( زبور باب 23 آیت 2) راحت و آرام کی جگہ (ذات قرار ) ( زبور باب 23 آیت 2 باب 95 آیت (11 ) زندگی کی زمین و مقدس مکان ( باب 65 آیت 8) خداوند کا پہاڑ ، خداوند کی ہیکل، محکم قلعہ (زبور باب 61 آیت 5) خدا کی چٹان (زبور باب 61 آیت 5) عمر درازی کی برکت کی

Page 53

41 جگہ (زبور باب 21 آیت (4) برف اور اولوں کی زمین (زبور باب 147 آیت 16 تا18 ) محفوظ اور ہموار جگہ جہاں حملہ کا ڈر نہیں.خدا کے سایہ کی زمین (زبور باب 61 آیت 1 تا 5) نجات کا قلعه ( زبور باب 28 آیت 8) مضبوط پہاڑ ( زبور باب 30 آیت 7 ) پناہ گاہ (زبور باب 31 آیت 2) محکم شہر جہاں دشمن نہیں پہنچ سکتا (باب 31 آیت 21) چھپنے کی جگہ (باب 31 آیت 20 ) فراوانی یا سیراب کی جگہ (زبور باب 16 آیت 12 ) عبرانی زبان کے لفظ کے معنی ہیں جہاں ہر شے کثرت سے ہو اور کسی چیز کی قلت نہ ہو ( تفسیر زبور صفحہ 271) اونچی جگہ ( زبور باب 18 آیت 33) مال مویشیوں کی زمین ، اچھی پیداوار والی زمین (زبور 41) کشادہ زمین جہاں مسیح آزادی سے چل پھر سکے گا چرا گا ہوں اور جھنڈ کے جھنڈ جنگلوں کی زمین (زبور باب 65 آیت 6 تا 13 ) آبشاروں کی زمین (زبور باب 2 آیت 6-7-8 دل پسند زمین، خدا کی چنیدہ زمین (زبور باب 16 آیت 6 امن و امان کی زمین (زبور باب 12 ) ایسے پہاڑ جہاں سے مسیح کو مدد ملے گی.موعود زمین با امن و محفوظ زندگی ( تفسیر زبور صفحه 76) عیسائی چونکہ واقعہ صلیب کے بعد غلطی سے مسیح کو آسمان پر چڑھائے اور اب تک زندہ خیال کرتے ہیں اسلئے وہ ان مقامات کی صحیح تغیر نہیں سمجھتے.بائیبل کی صحیح تفسیر قرآن مجید اور اسکی آیات کی نئی الہامی تفسیر کی روشنی میں سمجھ آسکتی ہے جو اس زمانہ میں خدا کے مسیح آخر الزمان نے دنیا کے سامنے پیش کی ہے اور دنیا بھر کی کتابوں، شواہد اور آثار سے جس کی تائید و تصدیق ہو رہی ہے.

Page 54

باب چهارم 42 انجیلوں میں حضرت مسیح کے دور دراز اور محفوظ علاقہ میں جانے کا ذکر یہ تو ہزار سال پہلے کی پیشگوئیاں ہیں جو داؤد و سلیمان علیہم السلام کی تھیں اور ایک پیشگوئی اب سے سینکڑوں سال پہلے یسعیاہ نبی نے کی تھی اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح نے کس طرح ان پیشگوئیوں کی تکمیل کی اور کس طرح ان کا ایک ایک لفظ حضرت مسیح کے وجود میں پورا ہوا.جس سے معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح کو خدا نے بذریعہ وحی والہام خبر دی تھی کہ وہ صلیب کی غیر طبعی اور لعنتی موت سے بچالئے جائیں گے اور آسمان پر نہیں بلکہ ایک دور دراز اور محفوظ اور جنت نظیر چشموں والے علاقہ میں پناہ دیئے جائیں گے.جہاں انکے دشمن نہیں پہنچ سکتے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جس علاقہ میں میں جاؤں گا وہاں کے لوگ مجھے قبول کرینگے اور ایمان کے ذریعہ دوبارہ زندہ ہونگے اور مغرب و مشرق کے دیندار لوگ ایک ہی جماعت کے لوگ کہلائیں گے.یعنی دینی اتحاد کے لحاظ سے ایک ہی گلہ کہلائیں گے.چنانچہ یوحنا کی انجیل باب 8 آیت 21 میں ہے کہ حضرت مسیح نے فلسطین میں ایک وعظ کے دوران فرمایا.میں جاتا ہوں تم مجھے ڈھونڈو گے اور اپنے گناہ میں مرو گے.جہاں میں جاتا ہوں تم نہیں آ سکتے.“ اسی طرح باب 10 آیت 16 میں فرمایا ”میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں مجھے انکو بھی لانا ضرور ہے وہ میری آواز کوسنیں گی پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی گلہ بان ہوگا.“ صلیبی موت سے نجات، حواریوں سے ملاقات اور مشرق کی طرف ظہور انا جیل میں حضرت عیسی کے صلیبی موت سے بچنے کی صراحت موجود ہے.چنانچہ عبرانیوں باب 5 آیت 7 تا 9 میں ہے.اس نے (صحیح نے) اپنے جسم کے دنوں میں بہت رو رو اور آنسو بہا بہا کر اس سے جواسے موت سے بچاسکتا تھا دعا ئیں اور منتیں کیں اور خدا ترسی کے سبب سے اسکی سنی گئی.اگر چہ وہ بیٹیا تھا پر ان دکھوں سے جو اس نے اٹھائے فرمانبرداری سیکھی اور کامل ہو کر اپنے سب فرمانبرداروں کیلئے ابدی نجات کا باعث ہوا.“ عبرانیوں کی یہ آیات صاف بتلا رہی ہیں کہ حضرت مسیح نے روروکر اور آنسو بہا بہا کر خدا سے جو اسے صلیب کی لعنتی موت سے بچا سکتا تھا دعائیں کیں اور اسکی منتیں کیں کہ یہودی میری جان لینے میں کامیاب

Page 55

43 نہ ہوں اور میں بچایا جاؤں.چونکہ وہ خدا ترس اور نیک تھا اس لئے خدا نے اسکی دعا سن لی اور صلیب کی موت سے بچالیا.البتہ اس حادثہ کے وقت انہوں نے دکھ اٹھایا اور اس ابتلا سے سبق حاصل کیا اور اس کے نتیجہ میں کامل ہوا اور لوگوں کی نجات کا باعث انکی فرمانبرداری کی وجہ سے بنا، نہ صلیبی موت کی وجہ سے جیسا عیسائیوں کا خیال ہے.انا جیل کی رو سے حضرت یسوع مسیح صرف تین گھنٹے صلیب پر رہے.(لوقا باب 23 آیات 44 تا 46) اتنی تھوڑی دیر میں حضرت مسیح مر نہیں سکتے تھے.پھر آپ کو ششی کی حالت میں صلیب سے اتار کر آپ کے ہمدردوں نے ایک ہوا دار کمرہ نما قبر میں رکھا جو چٹان میں کھدی ہوئی تھی.(لوقا ایضاً ) تین دن کے بعد صبح نڑ کے وہ قبر سے اٹھ کر چلے گئے اور ایسینی برادری کے ہمدردانہیں یہاں سے کسی محفوظ مقام پر لے گئے.پھر جب ہفتہ کے دن کچھ عورتیں مسیح کی قبر پر آئیں تو اس پتھر کو جو قبر کے دہانہ پر رکھا گیا تھا اپنی جگہ سے لڑھکا ہوا پایا اور اندر دیکھا تو یسوع مسیح کی لاش موجود نہ تھی.(لوقا ایضاً) مسیح اٹھ کر یہاں سے چلے گئے تھے.پھر اسی دن میروشلم سے سات میل کے فاصلہ پر دو آدمی یسوع کے بارے میں راستہ میں بات چیت کرتے جا رہے تھے تو ایسا ہوا کہ یسوع آپ نزدیک آکر ان کے ساتھ ہولیا اور ان سے سب ماجرا پوچھا.مگر وہ آدمی یسوع کو پہچان نہ سکے.یہاں تک کہ وہ اس گاؤں میں شام کو پہنچے جہاں جانا چاہتے تھے جب روٹی کھا بیٹھے تو انہوں نے مسیح کو پہچان لیا اور انکی آنکھیں کھل گئیں مگر مسیح جلد ہی یہاں سے غائب ہو گئے.(لوقا باب 24) اس بات کا مزید ثبوت کہ حضرت مسیح نے صلیبی موت سے نجات پائی اور محض روح یا کسی دوسرے بدن کیساتھ جس کے ساتھ وہ مصلوب ہوئے ، حواریوں کو دکھائی دئے.ان کے ساتھ کھانا کھایا اور پانی پیا اور انہیں اپنے صلیبی زخم دکھلا دکھلا کر یقین دلایا کہ بے یقین مت ہو، شک مت کرو، میں وہی یسوع ہوں ، دیکھو روح نہیں ہوں کیونکہ روح کی ہڈی اور گوشت نہیں ہوتے.انا جیل میں یہ بیانات موجود ہیں.چنانچہ یوحنا کی انجیل میں ہے.دوسرے شاگردوں نے اس سے ( تو ما سے ) کہا کہ ہم نے خداوند کو دیکھا ہے مگر اس نے ان سے کہا جب تک میں اسکے ہاتھوں میں مینوں کے چھید نہ دیکھ لوں اور میخوں کی جگہ اپنی انگلی نہ ڈال لوں اور اپنے ہاتھ کو اس کی پسلی میں نہ ڈال لوں ہرگز یقین نہ کروں گا.آٹھ روز کے بعد اسکے شاگرد پھر اندر تھے اور تو ما انکے ساتھ تھا گو دروازے بند تھے تو بھی یسوع آیا اور بیچ میں کھڑا ہو کر بولا.تمہیں سلامتی حاصل ہو.ایضاً سے مراد وہ حوالہ ہے جو اوپر گزر چکا ہے.

Page 56

44 پھر اس نے تو ما سے کہا کہ اپنی انگلی پاس لا کر یہاں داخل کر اور میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ پاس لا کر اسے میری پسلی میں ڈال اور بے یقین نہ ہو بلکہ یقین رکھ.“ ( یوحنا باب 20 آیت 26 تا 28 نیز لوقا باب 24 آیت 40.39 ) رسولوں کے اعمال میں حضرت مسیح کی نئی زندگی پانے کے بعد حواریوں کے ساتھ کھانے پینے اور منادی کا حکم دینے کی بابت لکھا ہے.اس کو خدا نے تیسرے دن زندہ کیا اور حواریوں کے ساتھ کھانے پینے اور منادی کا حکم دینے کی بابت لکھا ہے.اس کو خدا نے تیسرے دن زندہ کیا اور ظاہر بھی کر دیا نہ کہ ساری امت پر بلکہ ان گواہوں پر جو آگے سے خدا کے چنے ہوئے تھے.یعنی ہم پر جنہوں نے اس کے مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد ا سکے ساتھ کھایا پیا اور اس نے حکم دیا کہ امت میں منادی کرو اور گواہی دو کہ یہ وہی ہے جو خدا کی طرف سے زندوں اور مردوں کا انصاف کرنے والا مقرر ہوا ہے.(اعمال باب 10 آیت 42.41) کرنتھیوں میں سینکڑوں میوں کو دکھائی دینے کا ذکر موجود ہے.لکھا ہے وہ ( صحیح ) تیسرے دن نوشتوں کے موافق جی اٹھا اور کیفا کو اور اسکے بعد ان بارہ (12 ) کو دکھائی دیا.اس کے بعد پانچ سو سے زیادہ بھائیوں کو ایک ساتھ دکھائی دیا.اکثر ان میں سے اب تک زندہ ہیں اور بعض سوگئے ہیں.پھر یعقوب کو دکھائی دیا ، پھر سب رسولوں کو اور سب سے پیچھے مجھے دکھائی دیا جو گویا ادھورے دنوں کا پیدا ہوا ہوا ہوں.“ (1 کرنتھیوں باب 15 آیات 5 تا 8 ) پطرس میں مذکور ہے کہ مسیح نے واقعہ صلیب کے بعد قیدی روحوں (اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیٹروں) میں وعظ کیا ہے.وہ جسم میں تو مارا گیا لیکن روح میں زندہ کیا گیا جس میں اس نے ان روحوں کے پاس جا کر وعظ کیا جو قید تھیں اور جو اگلے زمانے میں ضدی تھیں.“ (1 پطرس باب 3 آیت 19-20) ان آیات وشواہد سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح نے واقعہ صلیب سے نجات پائی اور پھر اسیر اسرائیلیوں کو پیغام پہنچانے کیلئے مشرق میں گئے نہ آسمان پر.انا جیل میں مسیح کی آسمان پر جانے والی آیات الحاقی ہیں انجیل مرقس اور لوقا کے آخری ابواب میں مسیح کے آسمان پر جانے پر مشتمل آیات کو خود عیسائی متقین نے اب الحاقی ثابت کر دیا ہے.بیسویں صدی کے عیسائی علماء نے بائیبل کو حرف عناصر سے پاک کرنے کیلئے تحقیقات کی.قدیم نسخوں کی دریافت اور گہرے مطالعہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ انا جیل مرقس ولوقا میں مسیح علیہ السلام کا آسمان پر جانے کا واقعہ الحاقی ہے.1611ء کے Authorised Edition

Page 57

45 ( مصدقہ ایڈیشن ) میں یہ سب بیانات شامل ہیں اور 1881 ء کے Revised Version میں ان آیات کے حاشیہ پر یہ نوٹ دیا گیا ہے کہ بعض بہترین اور مستند نسخوں میں مسیح کے آسمان پر جانیوالے بیانات نہیں ملتے.اور 1946 ء کے ''Revised Standard Version ( نئے معیاری ترجمہ) میں یہ سب آیات متن سے خارج کر کے حاشیہ پر درج کر دی گئی ہیں اور ساتھ ہی یہ نوٹ دیا گیا ہے کہ کچھ نسخوں میں یہ آیات شامل ہیں اور ایک مختلف عبارت بھی انجیل کے اردو ترجمہ میں بھی اب یہ نوٹ دیا گیا ہے کہ بعض قدیم نسخوں میں مرقس کی انجیل کی آخری بارہ آیات شامل نہیں بلکہ ان کی بجائے ایک اور عبارت درج ہے جس میں مسیح کے آسمان پر جانے کا کوئی ذکر نہیں بلکہ مشرق سے شاگردوں کی معرفت مغرب میں دین کی منادی کرنے کا ذکر ہے.چنانچہ جان ولیم برگن ایک عیسائی محقق لکھتے ہیں: From the earliest period it had been customary to write "TEYOS" (The end) after the 8th Verse of the last chapter.6 ترجمہ: عیسائیت کی پہلی صدیوں میں انجیل مرقس کے آخری باب کی آٹھویں آیت کے بعد یونانی لفظ "TEYOS" ختم شدہ لکھنے کا رواج تھا.اس سے ظاہر ہے کہ آٹھویں سے بعد کی آیات 9 تا 20 جن میں مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ہے بعد کی ملاوٹ ہیں.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انجیل مرقس کی یہ آیات کس نے بڑھائی ہیں ؟ مشہور سکالری.آرگریگوی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں.یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ آیات 9 تا 20 کہاں سے آگئیں.چند سال پہلے اس سوال کا جواب کوئی شخص نہیں دے سکتا تھا لیکن اب ہمارے پاس اس کا جواب موجود ہے.فریڈرک کارنوالس کان بیر کو ایک قدیم آرمینی نسخہ ملا ہے جس میں مرقس کی آیات کو پریسپیٹر ارسٹن کی طرف منسوب کیا گیا ہے.اب شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ ان آیات کا مصنف مرقس نہیں بلکہ یہی شخص ہے.“ دوسری طرف مشہور بائیل سکالرسی.آر گریگوری کو انجیل کا جو نسخہ کوہ ایتھاس سے ملا ہے اس میں مرقس کے آخر میں لکھا ہے: "And All the things announced to the those about Peter The revision revised by T.W Borgon B.D Dean of chichester P.S.L

Page 58

46 briefly, they spread about and after that Jesus himself appeared from East and up to West he sent out by them the sacred and incorrupted preaching of the Eternal Salvation.Ameen.پطرس کے متعلق یسوع کی تمام فرمودہ باتیں مختصر طور پر پطرس کے ساتھیوں کو پہنچادی گئیں.وہ دنیا میں پھیل گئے ، اس کے بعد یسوع خود بھی مشرق سے ظاہر ہوا اور اس نے ان لوگوں کے ذریعہ مغرب تک مقدس، بے عیب اور دائمی نجات کے پیغام کو پہنچایا.آمین عیسائیوں کی ان تحقیقات سے ظاہر ہے کہ وہ سرزمین فلسطین سے مشرق میں تھی جہاں میں چلا گیا اور یہ مسیح بات قرآن مجید کے مذکورہ بیانات کی مؤید ہے کہ مسیح نے ہجرت کے ذریعہ پناہ حاصل کی نہ آسمان پر جا کر.علماء مغرب کے لٹریچر میں حضرت مسیح کے کشمیر میں پناہ لینے کا اعتراف جب قدیم عیسائیوں نے مسیح کی زبان سے سنا کہ وہ کہتا ہے کہ ”میں جاتا ہوں تم مجھے ڈھونڈو گے پر نہ پاؤ گے.تو انہوں نے چہ میگوئیاں شروع کیں کہ کیا مسیح گمشدہ قبائل کی طرف جائے گا ؟ چنانچہ خود آپ کے زمانہ قیام کشمیر میں ہی شام کے علاقہ میں یہ خبر پھیلی ہوئی تھی کہ مسیح ناصری کسی دور دراز جگہ میں زندہ ہیں اور عنقریب وہ دوبارہ ظاہر ہونگے.مگر آپ کے حواری راز داری سے کام لیتے رہے.مبادا آپ کے دشمن یہودیوں کو مسیح کی خبر ہو جائے.حضرت مسیح گہری دھند اور کہر کے درمیان فلسطین سے مشرق کی ایک قریبی پہاڑی سے خفیہ طور پر ہجرت کر کے نکل آئے تھے.اس لئے شہر میں یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ مسیح پہاڑ سے اوپر بدلی میں غائب ہو گئے.بعض انجیلیں واقعہ صلیب کے عرصہ دراز لکھی گئیں جن کے لکھنے والے انجیل نویس اصل حالات سے واقف نہ تھے.انہوں نے بدلی میں غائب ہو جانے سے مراد مسیح کا آسمان پر اٹھایا جانا لیکر اس کا ذکر کر دیا.یہاں تک کہ انگلی نسلوں نے اسی کو عقیدہ بنالیا.جب عیسائی بعد کی صدیوں میں مسلمان ہونے لگے تو انکی وجہ سے عیسی کے آسمان پر جانے کا عقیدہ مسلمانوں میں بھی پھیل گیا.شام میں جب یہ بات چل نکلی تھی کہ مسیح ابھی زندہ ہے.اس وقت کے عیسائیوں کے تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر سٹیفن گراہم اپنی کتاب "روسین پلگر امز ٹو یوروشلم کے صفحہ 111 پر لکھتے ہیں: غالبا مسیح کی موت کے بعد کئی سال تک ان کے درمیان یہ عجیب خبر پھیلی رہی کہ وہ زمین پر کسی دور دراز جگہ میں زندہ ہیں اور عنقریب دوبارہ ظاہر ہوں گے.“ ☆ Cannon and the text of the New Testament by Gregory page 511 دیکھوزادالمعادلا بن قیم مراد صلیبی موت ہے کیونکہ عیسائی صلیبی موت اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے قائل ہیں.

Page 59

47 گویا ابتدائی عیسائی بھی مسیح کے آسمان پر جانے کے قائل نہ تھے بلکہ کسی جگہ زمین پر انکی ہجرت کے ہی قائل تھے.مسٹر بروس انیسویں صدی کے اواخر میں عیسائی مذہب کے بہت بڑے مصنف گزرے ہیں وہ لکھتے ہیں.مسیح فی الواقعہ مرے نہیں تھے ، عارضی بیہوشی کے بعد وہ پھر ہوش میں آگئے تھے اور 66 کئی مرتبہ اپنے شاگردوں کو زندہ نظر آئے پھر وہ اتنا عرصہ زندہ رہے کہ پولوس کو بھی انکی زیارت نصیب ہوئی اور بالآخر انہوں نے کسی نا معلوم مقام پر وفات پائی.“ (اپالوگویٹر مطبوعہ 1892ء) مغربی محققین میں سے جو مذہبی تعصب نہیں رکھتے انہوں نے کھلے لفظوں میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح کا کشمیر میں آنا ایک تاریخی واقعہ ہے.حج ڈاکٹر ایم.اے ایک مسیحی مصنف لکھتے ہیں: یہ ہو سکتا ہے کہ بنی اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل کو تبلیغ کر کے مسیح سرینگر (کشمیر) کے دور دراز علاقہ میں فوت ہو گیا ہو اور وہ اس قبر میں دفن ہے جو اس کے نام سے مشہور ہے.اگر مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوا“ کپتان سی ایم انرک لکھتے ہیں : (صفحہ 71 بحوالہ وئیر ڈوجیز ز ڈائی) ” مجھے اپنے قیام کشمیر کے دوران میں وہاں کی قبروں کے متعلق چند عجیب باتیں معلوم ہوئیں ان میں سے ایک قبر کو مسیح ناصری کی قبر کہتے ہیں.“ یسوع کی نا معلوم زندگی کے حالات ( خدا کی سلطنت صفحہ 97 مطبوعہ 1915ء) 1878ء 1887ء میں ایک روسی سیاح مسٹر نکولس نوٹو وچ نے کشمیر اور تبت کا سفر کیا تھا.اس نے بدھوں کے قدیم مقدس مقام واقعہ لیہ (الداخ) سے یسوع مسیح کے حالات کو " Unknown Life of Jesus “ کے نام سے شائع کیا.اس کتاب کا اردو ترجمہ 1899ء میں لالہ جے چند سابق آریہ منتری پر تی ندی سبھا ( پنجاب ) نے مطبع ست دھرم پر چارک جالندھر (بھارت) سے شائع کیا.تکولس موصوف نے اس کتاب میں عیسائی دنیا میں اغلبا پہلی دفعہ یسوع مسیح کی نامعلوم زندگی کے حالات“ کو شائع کیا.جس پر متعصب عیسائی حلقوں میں نکولس کے سفر کے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں

Page 60

48 اور شکوک بھی ظاہر کئے جانے لگے.مگر بعد میں دیگر عیسائی سیاحوں اور محققین نے نکولس کے سفر لداخ اور یسوع مسیح کے حالات پر مشتمل لداخ کی خانقاہ ہمس میں قدیم مسودات اور گونا گوں بے ربط قلمی نسخوں کی موجودگی کی تصدیق کیا وران سیاحوں کے ذریعے اس سلسلہ پر مزید حالات شائع ہوتے رہے.اس کتاب میں انہوں نے اپنے سفر کی مشکلات اور بدھ لا ماؤں (علماء ) سے رسائی حاصل کر کے اپنی کامیابی کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح کچھ تھے دے کر انہوں نے بزرگ لاما سے یہ حالات دریافت کئے اور انکی اشاعت کے سلسلے میں رومن چرچ کے پادری کی طرف سے کیا کیا رکا وٹیں پیش آتی رہیں کیونکہ اسی کتاب کی اشاعت سے مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کے عیسائی عقیدہ کو نقصان پہنچتا تھا بلکہ انہیں کچھ روپیہ کی بھی پیشکش کی گئی کہ وہ روپیہ لے لیں اور اس کتاب کی اشاعت کا خیال ترک کر دیں.پھر انہوں نے لکھا ہے کہ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود کس طرح انہوں نے یہ حالات شائع کر دیے.پہلے فرانسیسی میں پھر انگریزی میں.نکولس نے اس کتاب میں حضرت مسیح کے اس سفر کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے تیرہ چودہ سال کی عمر میں کیا اور ہندوستان میں 13، 14 سال سے 29 سال تک پھرتے رہے مگر اس کے ساتھ ہی نکولس نے مسیح کی ان تعلیمات کا ذکر کیا ہے جو خدا کے ایک مدعی نبوت ہونے کی حیثیت سے انہوں نے ہندوستان و فارس و تنبت وغیرہ میں پیش کیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ سفر واقعہ صلیب کے بعد کا ہی سفر تھا جبکہ آپ منصب نبوت پر فائز ہو چکے تھے اور چرچ کے دباؤ کے ماتحت گومصنف نے مسیح کا یہ سفر بچپن کا قرار دیدیا ہے لیکن اس نے ایسا اشارہ بھی دیدیا ہے کہ اس سفر کو آپ کی نبوت کے بعد کا سفر سمجھا ہے.عیسائیوں کو مسلم ہے کہ یسوع نے تمہیں سال کی عمر میں تعلیم دینی شروع کی ، اس سے قبل نہیں.اور 33 سال کی عمر میں انہیں واقعہ صلیب پیش آیا تھا.پس عقل یہی فیصلہ کرتی ہے کہ یسوع مسیح کا یہ مشرقی سفر واقعہ صلیب کے بعد کا ہے.مشرقی لٹریچر سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جیسا باب دوئم میں گزرا.یسوع مسیح کی مخفی زندگی کہاں گزری: رہا یہ سوال کہ حضرت مسیح کی 12 سے تمیں سال تک کی مخفی زندگی کہاں گزری ؟ سو اس پر انجیل اربعہ کوئی روشنی نہیں ڈالتیں.انجیل مسیح کو اچانک تمیں سال کی عمر میں بہ حیثیت معلم واستاد سامنے لاتی ہیں.البته کر و سیفیکیشن ہائی این اے وٹنس ( مکتوب یوروشلم ) اس مخفی زندگی پر روشنی ڈالتا ہے.جو یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایسینی برادری کے ممبر تھے اور یہی برادری انکی نگران تھی اور حضرت مسیح حضرت

Page 61

49 یوحنا ( یحیی علیہ السلام) کے ماں کی طرف سے خالہ زاد بھائی تھے اور انہیں اپنا بزرگ بھی جانتے تھے اور انکے ساتھ رہتے تھے.چنانچہ یوحنا ہی نے آپ کو دریائے پرون کے کنارے پانی سے بپتسمہ دیا.اس بپتسمہ کے بعد ہی آپ پر روح القدس نازل ہوا جس نے آپ کو خدا کی طرف سے پیارا ہونے کی بشارت دی تھی.انا جیل فریسی یہودیوں کا تو ذکر کرتی ہیں لیکن تعجب ہے کہ ایسینی برادری کے ذکر سے وہ بالکل خاموش ہیں.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسینیوں کی بہت بڑی برادری تھی اور بحیرہ مردار پر انکی بستیاں تھیں اور انکے افراد تمام ملک میں مختلف اطراف میں پھیلے ہوئے تھے.یوسف ارمنیا اور حکیم نقاد یمس بھی دراصل اسی برادری کے ممبر تھے اور یسوع کی مخفی زندگی سے واقف تھے کہ یہ زندگی انہوں نے ایسینیوں میں گزاری.چونکہ یسوع مسیح اس برادری سے اپنے تعلق کو مخفی رکھنا چاہتے تھے شاید اسی لئے انہوں نے اپنی مخفی زندگی پر روشنی نہیں ڈالی.یہ بھی ممکن ہے انہوں نے روشنی ڈالی ہو مگر انجیل نویسوں نے کسی خاص مصلحت کے تحت آپ کی 18 سالہ مخفی زندگی کا ذکر نہیں کیا.حال ہی میں محمد یسین صاحب آف سرینگر (کشمیر) نے انگریزی زبان میں ”مسٹریز آف کشمیر کے نام سے ایک کتابچہ لکھا ہے جو نکولس نوٹو وچ کے اس بیان کے مؤید نظر آتے ہیں کہ مسیح کی مخفی زندگی واقعہ صلیب سے قبل ہندوستان ، لداخ اور تبت کے بدھوں میں گزری.انہوں نے یہ تحقیق نہیں کی کہ نوٹو وچ نے کن مجبوریوں کے تحت واقعہ صلیب سے بعد کی زندگی کو اس واقعہ سے قبل کی زندگی قرار دے دیا ہے.اگر وہ کر وسیفیکیشن بائی این اے وٹنس ( مکتوب یوروشلم) کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے تو انہیں مسح کی مخفی زندگی کے بارہ میں نوٹو وچ کے بیان سے ضرور اختلاف ہوتا.ین صاحب کا خیال یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام مری کے راستہ سے کشمیر چلے گئے تھے کیونکہ وہ انکی والدہ کی دوران سفر مری میں جو راولپنڈی کے قریب ہے ، وفات پانے کا ذکر کرتے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ وہ مسیح کو مری کے راستے کشمیر پہنچاتے ہیں لیکن ان کا یہ بیان واقعاتی نہیں ہے اور بعض تاریخی واقعات سے غیر مطابق ہے.جن کا بیان گزر چکا ہے.تاریخ سے ثابت ہے کہ مسیح علیہ السلام ٹیکسلا سے بنارس چلے گئے اور وہاں بت پرستی کے خلاف انہوں نے لیکچر دئے.جس پر بنارس کے ہندو ان کے دشمن ہو گئے اور انکے خلاف قتل کی سازش کی جب مسیح کو انکے اس ارادہ کا کسی طرح ( کسی شخص کے ذریعہ یا بذریعہ الہام الہی ) پتہ چل گیا تو وہ بنارس سے نیپال

Page 62

50 50 کی طرف چلے گئے اور وہاں سے تبت پہنچ کر کشمیر میں داخل ہوئے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے بھی اپنی کتاب راز حقیقت کے صفحہ 9 پر یہی تحقیق درج فرمائی ہے اور لکھا ہے: تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے واقعہ صلیب سے نجات پا کر ضرور ہندوستان کا سفر کیا اور نیپال سے ہوتے ہوئے آخر تبت تک پہنچے اور پھر کشمیر میں ایک مدت تک ٹھہرے اور وہ بنی اسرائیل جو کشمیر میں بابل کے تفرقہ کے وقت میں سکونت پذیر ہوئے تھے انکو ہدایت کی اور آخر ایک سو بیس برس کی عمر میں سرینگر میں انتقال فرمایا اور محلہ خانیار میں مدفون ہوئے.“ قمر مریم وو راز حقیقت ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 161) مسٹر یاسین صاحب نے اپنی کتاب ”مسٹریز آف کشمیر کے آخر میں ”ٹومب آف مری“ کے عنوان کے تحت قرآنی آیت وَ اوَيْنَا هُمَا إِلَى رَبوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَسَعِین کا ترجمہ دے کر حضرت مریم کے حضرت مسیح کے ساتھ ہجرت کرنے کا ذکر کیا ہے مگر اس جگہ یہ لکھا ہے کہ مریم راستہ میں فوت ہو گئیں اور وہ پنڈی پوائنٹ مری میں مدفون ہیں.بے شک حضرت مفتی محمد صادق نے بھی مری پر جو جگہ پنڈی پوائنٹ پر مریم کی ڈھیری“ کے نام سے موسوم ہے اسے حضرت مریم کی قبر لکھ دیا تھا مگر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں مریم ٹھہری تھیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ مریم مگر لینی مسیح کی تلاش میں یہاں ٹھہری ہوں یا وفات پاگئی ہوں کیونکہ امریکی سیاح مسٹرر ورک کی تحقیقات سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ حضرت مسیح کی والدہ حضرت مریم کا مزار کاشغر میں موجود ہے اور لوگوں کیلئے بڑی زیارت گاہ ہے جس کا ذکر تفصیل سے آگے آئے گا اور یہ بھی واقعہ ہے کہ قدیم زمانہ میں کاشغر کشمیر کا حصہ تھا اور راجہ کشمیر کے ماتحت تھا.پس وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت مریم کی وفات مسیح کے ساتھ کسی سفر کے دوران میں جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام کا شغر کے بنی اسرائیل کو تبلیغ کیلئے گئے ہوئے تھے واقع ہوگئی اور وہ کا شغر میں مدفون ہوئیں.مری میں انکی وفات آیت وَا وَيْنَا هُمَا إِلَى رَبوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِین کے خلاف معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس آیت کی رو سے مریم کا کشمیر پہنچنا، وہاں نشان بنا اور دونوں کا ایک جگہ مستقل رہائش اختیار کرنا از بس ضروری تھا.نکولس نوٹو وچ موصوف کا ایک روز نامچہ جرمنی کے ڈاکٹر مارکس اور لداخ کے موریوین سن میں ملا ہے.اس ڈاکٹر نے لداخ میں چار ماہ تک نکولس کی بیماری کا علاج کیا تھا.ان روز نامچوں میں جرمن ڈاکٹروں کے جرمن زبان

Page 63

51 میں نکولس کے بارے میں بعض صفحات ملے ہیں جن میں لکھا گیا ہے کہ مسیح واقعہ صلیب کے وقت مرے نہیں تھے بلکہ ہند و نیپال ، تبت اور کشمیر میں تشریف لائے تھے.اس سے ظاہر ہے کہ نکولس کو مسیح کے مشرق میں بعد واقعہ صلیب کی آمد کی روایت معلوم ہوئی تھی اور اس نے اپنے بعض دوستوں سے بھی اس روایت کا ذکر کیا تھا، لیکن جو کتاب اس نے شائع کی اغلبا عیسائی چرچ اور عوام کی ناراضگی کے اندیشہ سے اس نے اس روایت کا ذکر نہیں کیا.فصل پنجم میں نکولس نے لکھا ہے کہ عیسی مسیح سندھ میں آپریش کر کے پنجاب اور راجپوتانہ سے گزرے جین مت والوں نے ان سے انکے پاس قیام کی خواہش کی لیکن وہ ان گمراہ پجاریوں کے پاس نہ رہے اور جگن ناتھ ( اڑیسہ ) گئے.جہاں کرشن جی کے پھول (یعنی جلی ہوئی ہڈیاں ) دفن تھے اور وہاں بھاری کتب خانہ بھی تھا.پھر وہ راج گڑھ، بنارس اور دیگر متبرک مقامات تک چھ برس تک پھرتے رہے.چونکہ وہ براہمن اور شودروں میں بحیثیت انسان، مساوات، توحید اور ایک ہی خالق کے سامنے عبادت اور قربانی پیش کرنے پر زور دیتے تھے جس پر برہمن ان کے خلاف ہو گئے اور انہوں نے انکے خلاف قتل کی سازش کی.آپ کو مخفی طور پر اسکی اطلاع مل گئی تو آپ شمال مغربی پہاڑی علاقوں نیپال، تبت اور لداخ کی طرف چلے گئے اور وہاں کچھ عرصہ اپنا کام جاری رکھا.یہاں تک کہ آپ کشمیر چلے گئے.

Page 64

52 باب پنجم بڑھاپے کی قدیم تصاویر: آثار قدیمہ کی شہادتیں بڑھاپے سے بھی قرآنی بیانات کی تائید ہوتی ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت مسیح نے صلیب پر جان نہیں دی تھی بلکہ خدا نے اپنے وعدہ کے مطابق انہیں اس سے بچا کر ایک جنت نظیر پہاڑی علاقہ میں پناہ دی تھی.جہاں انہوں نے لمبی عمر پا کر اپنے آسمانی مشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وفات پائی تھی.حال ہی میں آثار قدیمہ کی بہت سی ایسی شہادتیں برآمد ہوئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح نے واقعہ صلیب کے بعد زمین پر ہی لمبی عمر پا کر وفات پائی تھی.ان میں سے ایک شہادت مسیح کے بڑی عمر کی ایک قدیم تصویر کا برآمد ہونا ہے اور عجب تریہ کہ خود مسیحی قوم نے یہ تصویر برآمد کی ہے اور 1947ء میں سب سے پہلے انسائیکلو پیڈیا برٹیز کا“ میں ”جیز زکرائسٹ کے لفظ کے تحت شائع کی ہے.یہ تصویر مقدس امانت کی حیثیت سے عیسائی دنیا کے پاس نسلاً بعد نسل اٹھارہ سو سال سے محفوظ چلی آرہی ہے جو روم میں سب سے بڑے گر جا میں مقدس تبرکات کے خزانہ میں موجود ہے.اس تصویر کے نیچے انسائیکلو پیڈیا میں مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا گیا ہے.یہ تصویر روم کے مقدس پطرس کے گرجا میں قدیم یادگاروں میں رکھی ہوئی ہے جو کہ ایک کپڑے پر بنائی گئی ہے.تصویر کی تاریخ یقینی طور پر دوسری صدی عیسوی تک پیچھے جاتی ہے.“ (انسائیکلو پیڈیاز مرلفظ جیز زکرائسٹ ) عیسائی دنیا کا عقیدہ ہے کہ مسیح کی عمر 33 برس کی تھی جبکہ واقعہ صلیب کے بعد وہ آسمان پر اٹھالئے گئے تھے.سواگر یہ صیح ہے تو پھر یہ تصویر جو سو سال سے بھی زائد عمر کی نظر آتی ہے، کہاں سے آئی ؟ اس قدیم تصویر سے ظاہر ہے کہ پہلی اور دوسری صدی کے قدیم عیسائی اس بات کے قائل تھے کہ مسیح نے زمین پر لبی عمر گزاری ہے اور واقعہ صلیب کے بعد مسیح آسمانی جنت میں نہیں زمین کی جنت کشمیر میں فوت ہو چکے ہیں اور یہ تصویر بطور یادگار چھوڑ گئے ہیں.

Page 65

53 شام و ہند کے مابین قدیم رسل و رسائل یہاں یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ اگر مسیح نے لمبی عمر پا کر کشمیر میں وفات پائی تو یہ تصویر کشمیر سے روم کے گر جا میں کیسے پہنچ گئی ؟ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ شام و روم اور قدیم ہندوستان کے درمیان ابتدائی عیسوی صدیوں میں بڑی و بحری راستوں سے سلسلہ رسل و رسائل جاری تھا اور تجارتی قافلوں کی آمد ورفت کے علاوہ خود مسیح کے حواریوں کی آمد ورفت بھی جاری تھی.چنانچہ پادری برکت اللہ ایم.اے لکھتے ہیں: تھوما حواری نے 25 سال ہندوستان میں گزارے اور مدراس میں شہید ہو کر دفن ہوئے.چنانچہ شام کے مسیحی دوسری صدی عیسوی میں ہندوستان آئے اور تھوما کی قبر کھود کر انکی ہڈیاں سمیٹ کر شام کے ملک میں لے گئے اور اُڈیسہ کے مقام پر دفن کر دیں اور خطوط بھی ہند سے شام بھیجے جایا کرتے تھے.“ (دیکھو تاریخ کلیسیائے ہند صفحہ 115) پس یہ ظاہر ہے کہ اگر تھو ما رسولِ ہند کی ہڈیاں ہندوستان سے شام پہنچائی جاسکتی ہیں تو مسیح کی تصاویر کشمیر سے روم وشام میں کیوں پہنچائی نہیں جاسکتی تھیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مصور مسیح کی ملاقات و زیارت کیلئے انکی بڑی عمر میں انکے پاس پہنچا اور یادگار کے طور پر انکی تصویر بنا کر ہمراہ لے گیا.ردائے مسیح یا ”مقدس کفن زمانہ حال کے آثار قدیمہ کے انکشافات میں سے حضرت مسیح کی وہ دو ہزار سالہ چادر بھی ہے جو بطور کفن یہودیوں پر نہ ظاہر کرنے کیلئے کہ اسے کفن کیسا تھ قبر میں رکھا جارہا ہے، مسیح کے جسم پر پیٹی گئی تھی.جبکہ انہیں بیہوشی کی حالت میں صلیب پر سے اتار کر پاس ہی ایک کمرہ نما قبر میں رکھا گیا تھا.یہ چادر جسے اہل مغرب ” مقدس کفن بھی کہتے ہیں، دو ہزار سال سے عیسائیوں کے پاس محفوظ چلی آرہی تھی اور گزشتہ چار سو سال سے اٹلی کے شہر ٹورین (TURIN) کے شاہی گرجا میں حضرت مسیح کی متبرک یادگار کے طور پر اب بھی موجود ہے.ہر 33 سال بعد اسکی نمائش بھی کی جاتی رہی ہے.اس پر حضرت مسیح کی شبیہ کے علاوہ خون کے مختلف شکلوں والے دھبوں کے نشانات بھی دیکھے گئے.جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مسیح کو جب صلیب سے اتار کر اس میں لپیٹا گیا تھا تو ان کے زخموں سے خون جاری تھا جو انکے زندہ اتارے جانے کا یقینی ثبوت ہے کیونکہ مردہ کے زخموں سے دل کی حرکت بند ہونے کی وجہ سے خون جاری نہیں ہوسکتا کیونکہ جریان خون کا تعلق دل کی حرکت سے ہوتا ہے.

Page 66

54 اس کفن کے متعلق عجیب واقعہ یہ ہے کہ 1898ء میں اٹلی کے ایک وکیل پیا (PIA) نے ردائے مسیح کی تصویر لی.جب اس نے تصویر کو DEVELOP کرنے کے بعد اس کے عکس کو سورج کی روشنی میں دیکھا تو اسکی حیرانی کی کوئی حد نہ رہی کیونکہ حضرت مسیح کی یہ تصویر مثبت تھی اور کفن والی تصویر منفی تھی.33 سال بعد 1931ء میں جب کفن کی دوبارہ نمائش ہوئی تو ایک اطالوی فوٹوگرافرمسٹرانری نے چرچ کے خاص انتظام کے ماتحت دوسری بار اس چادر کا فوٹو لیا اور پہلے سے زیادہ بہتر آلات اور تیز برقی شعاعیں استعمال کیں تو اس سے اور بھی عمدہ نتائج نکے کیونکہ یہ تصویر پہلے سے زیادہ صاف اور واضح تھی.جب اس پر جرمن سائنسدانوں نے تحقیق کی تو اس واضح حقیقت کا انکشاف ہوا کہ کفن پر جس کی تصویر بنی ہے وہ مردہ نہ تھا، گو جسم کی تصویر کیمرے سے مثبت آئی لیکن خون کے دھبے منفی تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خون جسم سے بہہ رہا تھا.تحقیق سے معلوم ہوا کہ چادر کومر میں ڈبویا گیا تھا اسلئے جب وہ مسیح کے جسم پر لپیٹی گئی تو مسیح کے جسم سے جو پسینہ نکلا اس سے چادر نمدار ہوکر پلیٹ بن گئی اور اس پر مسیح کے جسم کے نقوش ثبت ہو گئے جو منفی تھے.اس زمانہ میں چونکہ یہ مقدس کفن کیمرے کی ایجاد سے پہلے کا تھا اور اس پہلے نیگیٹو (NEGATIVE) تصویر کوکوئی نہیں جانتا تھا.اسلئے یہ قطعی ثبوت ہے کہ یہ تصویر طبعی اور قدرتی ہے.مصور کے کسی انسانی ہاتھ نے نہیں بنائی.جرمن محققین نے تجویز کی کہ پوپ آف روم کو جو عیسائیوں کے سب سے بڑے اور فعال فرقہ رومن کیتھولک کے روحانی پیشوا ہونے کے علاوہ چادر کے تین محافظین میں سے ایک ہیں ، ایک چٹھی لکھی جائے اور ان سے درخواست کی جائے کہ وہ کپڑے کا کچھ حصہ مختلف قسم کے فنی اور ایٹمی تجربہ کیلئے دینے کی اجازت مرحمت فرما دیں.چنانچہ یہ چٹھی جرمن کنونشن برائے پارچہ مسیح کے جنرل سیکرٹری مسٹر کرٹ برنا (KURT BERNA) کی طرف سے 26 فروری 1959ء کو پاپائے روم کے نام لکھی گئی جس میں چادر کی مذہبی اور سائنسی قدر و قیمت اور اس پر موجود تصاویر اور خون کے دھبوں کے نقوش پر ہونے والی تحقیق کی نزاکت اور اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ: 1.ضروری ہے کہ چادر پر موجود خون کے دھبوں کا جدیدترین کیمیائی عمل کے ذریعہ تجزیہ کیا جائے.2.چادر کے کپڑے کو ایکسرے تحت الاحمر اور بالائی بنفشی شعاعوں کے ذریعہ دیکھ کر اس کے اجزائے ترکیبی کا جائزہ لیا جائے.3.نیز ایٹمی گھڑی کی مدد سے چادر کی عمر کا صحیح اندازہ لگایا جائے.انہیں اس مقدس چادر کی صرف

Page 67

55 دو سینٹی میٹر چوڑی پٹی کی ضرورت ہوگی اور یہ پٹی ایسے طور پر اتاری جاسکتی ہے کہ چادر یا دیگر اہم نقوش پر کوئی اثر نہ پڑے گا.چونکہ تقدس مآب پوپ کے سوا اور کوئی اسکی اجازت نہیں دے سکتا اسلئے وہ درخواست کرتے ہیں کہ مقدس چادر کا یہ معمولی سائکڑا دیے جانے کا حکم صادر فرمایا جائے.جاسکتا.اس چٹھی کا جواب چار ماہ بعد یہ دیا گیا کہ افسوس ! آپ کی استدعا کوکسی صورت میں بھی قبول نہیں کیا اس منفی جواب پر جرمن کنونشن تو خاموش ہو گیا مگر چرچ کو یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ اگر جرمن محققین کی یہ تحقیق درست ہے تو ہمارا مسیح کے صلیبی موت کا عقیدہ غلط ثابت ہو جائیگا جس پر کفارہ کے عقیدہ کی بنیاد ہے اس لئے مخفی طور پر انہوں نے خود اسکی تحقیق شروع کر دی اور دس ( 10 ) ماہرین کی خدمات حاصل کر کے انتہائی راز داری کے ساتھ رات کے اندھیرے میں جا کر اس کام کو انجام دینے لگے.ان حالات میں جرمن کنونشن جو عالمی فاؤنڈیشن برائے پارچہ مسیح کے نام سے اب سوئٹزر لینڈ میں قائم ہو چکی تھی کو خفی ذرائع سے پتہ چلا کہ وہ مقفل صندوق جس میں چادر رکھی جاتی ہے کھولا گیا ہے اور اس کام کو صیغہ راز میں رکھا جا رہا ہے.اس سے یہ بھی خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ قیمتی چادر ضائع نہ کر دی جائے چنانچہ اس کنونشن نے ایک کتا بچہ شائع کر دیا.جس میں چادر پر جرمن تحقیق کے نتائج کا مختصر اذ کر کیا گیا تھا نیز چادر کے ضائع ہونے کے خدشہ کا بھی اظہار کیا گیا.کتاب شائع ہونے پر ویٹیکن ( پاپائے روم کا دارالسلطنت ) کی طرف سے اس خدشہ کی تردید کی گئی کہ اس کتابچہ میں کوئی صداقت نہیں ہے نہ چادر کے موضوع پر ویٹیکن الجھنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے.یہ تردید بھی عالمی پریس نے شائع کر دی.بعد میں فاؤنڈیشن نے ایک احتجاجی مراسلہ ویٹیکن بھجوا دیا جس پر پوپ کو تسلیم کرنا پڑا کہ صندوق کھولا گیا ہے اور چادر پر مخفی تحقیق کی گئی ہے.اس احتجاجی مراسلہ کو بھی عالمی پریس نے شائع کر دیا.اس کے بعد بھی روم کے پوپ پرشبہ کا ازالہ تو نہیں ہوا جس پر پوپ کو 5 جنوری 1970 ء کو اپنی صفائی میں لکھنا پڑا کہ چادر یسوع مسیح کا مقدس ترین تبرک ہے اور رہے گا اسے ضائع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.نیز اعتراف کیا کہ حفاظتی صندوق کو کھول کر کفن کی تصاویر لی گئی ہیں.ایک اطلاع کے مطابق روم کے پوپ نے جرمن کنونشن کو ردائے مسیح کا ایک ٹکڑافنی ، کیمیاوی اور ایٹمی تجربات کیلئے دے دیا.جس ڈاکٹر نے ردائے مسیح کے اس ٹکڑے پر تحقیقات کی ہیں اس کا کہنا ہے کہ: اس کی تحقیقات اس قدر سنسنی خیز ہیں کہ ان کا نکشاف کئے جانے پر دنیا میں

Page 68

56 56 66 قیامت خیز تہلکہ مچ جائے گا.“ ابھی تک یہ نتائج صیغہ راز میں ہیں اور ممکن ہے کہ انگلستان میں کفن مسیح پر ہونے والی کانفرنس کے دوران اس کا انکشاف ہو.تاریخی پس منظر اس کفن کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟ اس سلسلہ میں یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ کوئی جعلی چادر نہیں ہے بلکہ اس کا ذکرمتی ، مرقس، لوقا اور یوحنا کی چاروں انا جیل میں پایا جاتا ہے اور اسکا دو ہزار سال سے عیسائی تبرکات میں مختلف تاریخی انقلابات کے باوجود محفوظ چلے آنا اور ہر 33 سال کے بعد عیسائی دنیا میں اسکی زیارت کیلئے خاص دن منانا اور اسکی تقدیس کرنا اسکی اصلیت اور اسکے متبرک ہونے پر روشن گواہ ہیں.یوحنا کی انجیل میں جہاں مسیح کی لاش کو صلیب سے اتارے جانے اور یوسف ارمنیا کا اس لاش کو پیلاطوس سے اجازت لیکر کتانی کپڑے میں کفنانے اور مسیح کے اٹھ کر چلے جانے کے بعد قبر میں خالی کپڑا پڑے رہنے کا ذکر کیا گیا ہے، یوں لکھا ہے: ان باتوں کے بعد ارمیا کے رہنے والے یوسف نے جو یسوع کا شاگر د تھا لیکن یہودیوں کے ڈر سے خفیہ طور پر پیلاطس سے اجازت چاہی کہ یسوع کی لاش لے جائے ، پیلاطس نے اجازت دے دی، پس وہ آکر اس کی لاش کو لے گیا اور نکادیمس ( حکیم ) بھی آیا جو پہلے یسوع کے پاس رات کو گیا تھا اور پچاس سیر کے قریب مُر اور عود ملا ہوا لایا.پس انہوں نے یسوع کی لاش لے کر اسے کتانی و کپڑے میں خوشبو دار چیزوں کے ساتھ کفنایا جس طرح کہ یہودیوں میں دفن کرنے کا دستور ہے.اور جس جگہ وہ مصلوب ہوا وہاں ایک باغ تھا جس میں ایک نئی قبر تھی جس میں کبھی کوئی نہ رکھا گیا تھا.پس انہوں نے یہودیوں کی تیاری کے دن کے باعث یسوع کو وہیں رکھ دیا.کیونکہ یہ قبر نزدیک تھی.“ ( یوحنا باب 19 آیات 38 تا 41) پھر مکتوب سکندریہ میں واقعہ صلیب کے سات سال بعد یسوع کے ایک خاص معتقد نے جو ایسینی فرقہ سے تعلق رکھتا تھا مصر کے احباب جماعت کو واقعہ صلیب کی چشم دید شہادت کے طور پر لکھا.اس کفن کا ی کتابی چادر مرقس اور لوقا کی انا جیل میں مول لے کر کفنانے کا ذکر ہے.(مرقس باب 15 آیت 45 و لوقا باب 23 آیت 52 کیتھولک بائیبل اور انگلش مترجم 1611ء)

Page 69

57 ذکر ان الفاظ میں پایا جاتا ہے.پھر ان پارچات پر ادویہ اور مرہم لگا کر انکو یسوع کے بدن کے گرد لپیٹ دیا اور لوگوں میں یہ ظاہر کیا کہ مصالحہ اس لئے لگایا گیا ہے کہ اس کا جسم عید کے بعد تک مرجھانے اور ضائع ہونے سے بچار ہے پھر عید کے بعد اسکی لاش کو مصالحہ لگایا جائے گا.یہی چادر جو کستانی کپڑے کی تھی ” مقدس کفن کے نام سے عیسائیوں کے تبرکات میں دو ہزار سال سے آج تک محفوظ چلی آرہی ہے.حضرت مسیح جب عارضی بیہوشی کے بعد ہوش میں آکر اس قبر سے ایسینی فرقہ کے احباب کے ذریعہ پاس کی کسی محفوظ مخفی جگہ پر اٹھا کر لیجائے گئے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس چادر کو بھی محفوظ کیا گیا.یہ کتانی چادر جو چودہ فٹ لمبی ہے دو ہزار سال سے زیر بحث چلی آرہی ہے.ٹاسی فورس کیکسٹیس نے عیسائی مذہب اور گر جا کی تاریخ “ نامی کتاب میں لکھا ہے کہ ملکہ پیچیر یا ( PULCHERIA) نے 436ء میں قسطنطنیہ میں ایک عبادت خانہ جس کا نام سینٹ میری آف پیچیر مینا تھا بنوایا تھا اور اس میں مسیح کے کفن کو ( جو انہی دنوں دوبارہ دریافت ہوا تھا) بحفاظت رکھوایا.یہ کفن 1204 ء تک وہیں تھا.عیسائیوں کی تاریخوں اور کلیسیا سے متعلق کتب سے پتہ چلتا ہے ہر جمعہ اسکی زیارت کروائی جاتی تھی.ایک فرانسیسی بشپ آرکلپس سے یہ بیان منسوب ہے کہ وہ 640ء میں یروشلم کی زیارت کو گیا، وہاں اسے مقدس کفن دیکھنے کا موقع ملا.اس سے پتہ چلتا ہے ساتویں صدی مسیحی میں یہ کپڑا یروشلم میں موجود تھا بعد میں قسطنطنیہ لایا گیا.جب صلیبی جنگجو چوتھی صلیبی جنگ میں فتح مند ہو کر قسطنطنیہ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک راہب خانہ سینٹ میری آف پیچیر نس میں حضرت مسیح کا کفن رکھا ہوا تھا.رابرٹ ڈوکلیری جس نے چوتھی صلیبی جنگ کے حالات لکھے ہیں، لکھتا ہے کہ اس کپڑے پر ہمارے آقا مسیح کی شبیہ مبارک کے نقش نظر آتے تھے.جب شہر پر دشمن کا قبضہ ہو گیا تو افراتفری پھیلنے کی وجہ سے کچھ علم نہ ہو سکا کہ مقدس کفن کہاں گیا.پھر آرچ بشپ بیسا نکاں کے پاس یہ کفن پانس ڈولا راشے کے ذریعہ پہنچا.اسے سینٹ ای.این کے گر جا میں رکھا گیا جہاں یہ کفن 1349 ء تک احترام کے ساتھ رکھا رہا.1349ء میں یہ گر جا آگ لگنے سے تباہ ہو گیا.اس موقع پر یہ کفن چوری کر لیا گیا اور آٹھ سال بعد 1357ء میں پھر ظا ہر ہوا اور فلپ ششم واقعہ صلیب کی چشم دید شہادت صفحہ 26

Page 70

58 58 نے اسے کونٹ جیو فری ڈو چارنی کے قبضہ میں دیدیا.چارنی نے اسے لاٹرے“ کی مذہبی درسگاہ میں احتیاط سے رکھوایا.یہاں سے یہ کفن ڈیوک آف سیوائے کی بیوی کو اس خاندان کے آخری فرد کی وساطت سے جو ایک عورت تھی 1452ء میں بطور تحفہ دیا گیا.ڈیوک آف سیوائے نے چیمبری ( حکیم ) میں ایک گر جا بنوا کر اس کفن کو وہاں رکھا.1532ء میں اس گر جا کو بھی آگ لگ گئی اور چاندی کا وہ صندوق جس میں یہ مقدس کفن محفوظ رکھا گیا تھا آگ سے پگھل گیا اور پکھلی ہوئی چاندی اس تہہ شدہ کفن کے کناروں پر گری جس سے کفن کے تہہ شدہ کو نے جل گئے.کفن کے جلے ہوئے کپڑے کو کلیسیا کی بعض ننوں ( وقف عورتوں ) نے مرمت کر کے درست کیا.بالآخر یہ کفن شہر ٹیورن (TURIN) میں 1578ء میں لایا گیا.جہاں اسے شاہی گرجا میں جو خاص طور پر اس کیلئے بنوایا گیا تھا، احتیاط سے رکھا گیا.اس کی عام زیارت نہیں کرائی جاتی تھی اور خاندان سیوائے ( جو کسی وقت اٹلی میں حکمران تھا) کی اجازت کے بغیر کسی کو دکھایا نہیں جاتا تھا.1898ء میں یہ کفن پہلی بار عام لوگوں کو دکھانے کیلئے نکالا گیا اور اس وقت اسکی تصاویر لی گئیں.اس کے بعد 1931ء میں دوبارہ نمائش ہوئی جیسا اوپر گزرا.سائنٹفک محققین کے مطابق جب مسیح کو اس کفن میں لپیٹا گیا تھا تو ساتھ ہی مُر اور ایلوس کا پوڈر بھی چھڑ کا گیا.اس سے کاربونیٹ آف ایمونیم پیدا ہوا.جسم کی گرمی اور رطوبت انجرات کی وجہ سے وہی کیفیت پیدا ہوگئی جس سے تصویر بن سکتی ہے اس طرح کپڑے پر مسیح کے سرتا پا کا نیگیٹیو منعکس ہو گیا.اس منفی نقش کو ترقی یافتہ فوٹو گرافی کی مدد سے جب اجاگر کیا گیا تو حیران کن باتیں ظاہر ہوئیں جو آج تک مخفی تھیں اور حوادث صلیب کی اتنی مکمل تصویر بن گئی کہ اس مقدس چادر کو قدیم چارا نجیلوں کے بعد پانچویں انجیل کا نام دیا گیا.چادر کے نقوش ثابت کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح بظاہر مردہ نظر آرہے تھے مگر ان کا دل حرکت کر رہا تھا اور بدن میں خون بھی پمپ کر رہا تھا.پس یہ امر حضرت مسیح کے صلیب سے زندہ اترنے کی ایسی یقینی دلیل ہے جس کے متعلق عیسائیوں کا یہ خیال کوئی وقعت نہیں رکھتا کہ مسیح نے صلیب پر جان دی اور اس سے قرآن پاک کی صداقت اور مسیح محمدی کے تازہ انکشاف کی تصدیق پر ایک زبردست شہادت مل رہی ہے.جرمن سائنسدانوں کی ایک پارٹی نے آٹھ سال تک مسیح کے اس مقدس کفن پر تحقیقات کر کے 1957ء میں دنیا کو اپنی تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کیا جس کی پوری تفصیل کرٹ برنا ( KURT BERNA ) کی تصنیف ”داس لینن سے ملتی ہے.اس کتاب پر سکنڈے نیویا کے اخبار نے تبصرہ کرتے

Page 71

ہوئے لکھا: 59 59 اٹلی شہر ٹیورن (TURIN) میں مسیح علیہ السلام کا وہ کفن موجود ہے جس میں مسیح علیہ السلام کو صلیب سے اتارنے کے بعد لپیٹا گیا تھا.صلیب سے اتارنے کے بعد جسم پر خون کے مختلف دھبے اور جسم پر لگائی جانے والی مرہموں اور دینیات کے نشانات موجودہ زمانہ کی ترقی یافتہ فوٹو گرافی کی روشنی میں واضح طور پر ثابت کر رہے ہیں کہ مسیح کو جب صلیب سے اُتارا گیا تو آپ اس وقت زندہ تھے.سائنسدانوں نے اپنی تحقیق سے پوپ کو مطلع کر دیا ہے مگر پوپ اب تک خاموش ہے کیونکہ اس تحقیق کے نتیجہ میں کیتھولک چرچ کی مذہبی تاریخ کا وہ اہم راز منکشف ہو کر رہ گیا ہے جس پر انکے بنیادی عقائد کی اساس تھی.تصویر کشی کے فن کی مدد سے سائنسدانوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس واقعہ کو لوگ دو ہزار سال سے ایک معجزہ خیال کرتے تھے ( مسیح کا دوبارہ جی اٹھنا) وہ بالکل طبعی واقعہ تھا.اس حقیقت سے عیسائی دنیا کو انکار نہیں کہ یہ کپڑا واقعی مسیح کا کفن ہے.پوپ PUIS-IX نے اس کپڑے سے حاصل شدہ تصویر کو دیکھ کر کہا کہ یہ کسی انسانی ہاتھ کی بنائی ہوئی نہیں.انا جیل کا بیان ہے کہ مسیح نے صلیب پر جان دیدی مگر سائنسدان مصر ہیں کہ انکے دل نے عمل کرنا بند نہیں کیا تھا.کپڑے کا خون جذب کرنا بتا تا ہے کہ مسیح صلیب سے اتارے جانے کے وقت زندہ تھے.“ مندرجہ بالا تبصرہ سکنڈے نیویا کے اخبار Stock Holm Tidiningen Chirist Ideriumed نے اپنی 12 اپریل 1957ء کی اشاعت میں کیا ہے.نیویارک (امریکہ ) سے حال ہی میں اس سلسلہ میں ایک اور کتاب The Holy Shroud مقدس کفن شائع ہوئی ہے اس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ کفن پر آنیوالی منفی تصویر کا تصور تو کیمرہ کی ایجاد کے بعد پیدا ہوا ہے اور کفن کی چادر کیمرہ کی ایجاد سے پہلے ہی موجود تھی.الغرض پچھلے چند سالوں میں بہت سے مستشرقین اور تاریخ دانوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی صلیبی موت سے نجات ، واقعہ صلیب کے بعد مشرق کی طرف انکا سفر اور کشمیر میں عیسائی آثار کی موجودگی پر برابر کتا بیں لکھی ہیں اور لکھی جارہی ہیں.کفن میسج پر تحقیق کیلئے لنڈن میں عیسائیوں کی ایک بین الاقوامی کانفرنس ہو چکی ہے اور آئندہ بھی ہونے والی ہیں.مکتوب یروشلم آثار قدیمہ کی اور زبردست شہادت جس سے ہمارے پیش نظر دعوے کی تائید ہوتی ہے مکتوب یروشلم

Page 72

60 ہے جو 1873ء میں مصر میں شہر اسکندریہ کے آثار قدیمہ کے ایک قدیم یونانی راہب خانے سے واقعہ صلیب کے تھوڑا ہی عرصہ بعد کا لکھا ہوا ملا ہے.یہ خط ایسینی فرقہ کے ایک راہب نے اپنی جماعت کے 66 ایک رکن کو یروشلم سے اسکندریہ بھیجا تھا تا کہ واقعہ صلیب مسیح کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ ہو.یہ مکتوب 1907ء میں امریکن بک کمپنی شکا گونے Crucifixion by An Eye Witness یعنی واقعہ صلیب کی چشم دید شہادت“ کے نام سے شائع کیا ، اصل مکتوب لاطینی زبان میں ایک ایسے کمائے ہوئے چمڑے پر لکھا گیا تھا جو اس غرض سے قدیم زمانہ میں استعمال ہوتا تھا.انگریزی مترجم نے مقدمہ میں اس مکتوب کے بارے میں عیسائی دنیا کے اضطراب کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح اس مکتوب کے ضائع کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں.مترجم نے لکھا ہے کہ امریکہ میں سب سے پہلے 1873ء میں ایک جرمن نے اس مکتوب کا انگریزی ترجمہ شائع کیا.جو نبی یہ کتاب پریس سے پبلشر کے پاس پہنچی ایک منظم سازش کے ماتحت سب نسخے واپس لے کر ضائع کر دئے گئے.یہاں تک کہ پریس سے اس کی پلیٹیں حاصل کی گئیں اور انکو ضائع کر دیا گیا لیکن خوش قسمتی سے ایک امریکی سٹیٹ میں ایک شائع شدہ کاپی کسی شخص کے پاس محفوظ رہ گئی جو اتفا قا35 سال بعد 1907ء کے موسم گرما میں اسکی بیٹی کی نظر سے گزری.اس عورت کو علم تھا کہ مجھے ( مترجم کو ) فری میسنز کی ایسی کتابوں سے دلچسپی ہے.چنانچہ اس نے کمال نوازش سے یہ کاپی مجھے بھیج دی.مترجم لکھتا ہے کہ مجھے خیال تھا کہ اسکی سرکاری کا پیاں ضرور محفوظ ہونگی مگر کانگریشنل لائبریری میں چھان بین پر معلوم ہوا کہ وہاں سے بھی یہ کاپیاں غائب کی گئیں تھیں.اصل لاطینی مکتوب کا نسخہ جرمنی کی ایک سوسائٹی کے پاس محفوظ ہے.1907 ء کے مذکورہ امریکی ایڈیشن کا عکسی نسخہ 1977ء میں محترم سید عبدالحئی صاحب نے لاہور سے شائع کر دیا ہے.1913ء میں اسکا اردو ترجمہ پہلے میاں معراج دین صاحب مرحوم نے شائع کیا اور بعد میں اسے دوبارہ حکیم عبداللطیف مرحوم ربوہ نے بھی شائع کیا.اس طرح ان بزرگوں کی کوششوں سے یہ مکتوب مشرقی دنیا میں بھی متعارف ہے.اس خط میں جو انگریزی ترجمہ کے دو سو صفحات ( درسی کتب کے سائز) پر مشتمل ہے.وضاحت سے حضرت مسیح کے صلیب سے بیہوشی کی حالت میں زندہ اتارے جانے اور آپ کے زخموں کا ایسینی طبیب نقد میموس کے مخفی علاج کرنے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں اور یہ کہ صحت یاب ہونے پر وہ کس طرح خفیہ طور

Page 73

61 پر یوروشلم سے ہجرت کر گئے.اس خط میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح نے فرمایا: میں یہ نہیں بتا سکتا کہ اب کہاں جاؤں گا کیونکہ میں اس امر کو مخفی رکھنا چاہتا ہوں اور میں سفر بھی تنہا کروں گا‘ اس مکتوب میں حضرت مسیح کے آسمان پر نہ جانے بلکہ دھند اور گہر میں جو پھیلی ہوئی تھی اُٹھ کر اپنے مخفی سفر پر روانہ ہونے کے بارے میں لکھا ہے."As the disciples knelt-down their faces bent towards the ground.Jesus rose and hastily went away through the gathering mist...But in the city there arose a rumer that Jesus was taken up in a cloud and had gone to Heaven.This was invented by the people who had not been present when Jesus departed." ترجمہ : ” جب حواریوں نے (عبادت میں ) گھٹنے ٹیکے تو ان کے چہرے زمین کی طرف جھکے ہوئے تھے یسوع اٹھا اور جلدی سے پھیلی ہوئی گہر میں چلا گیا...لیکن شہر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ یسوع بادل میں سے ہو کر آسمان پر چلا گیا.یہ خبر ان لوگوں نے ایجاد کی تھی جو مسیح کے رخصت ہونے کے وقت موجود نہ تھے.“ اس مکتوب کی تفصیلات اگر چہ دلچسپ ہیں مگر قلت گنجائش کی وجہ سے ہم وہ بیان نہیں کر سکتے.خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام یوسف ارتیا اور حکیم نقاد یمس اور فرقہ ایسینی یا اسیری کے احباب کی مخفی کوششوں اور مخلصانہ جد و جہد کے نتیجہ میں صلیبی موت سے بچالئے گئے اور کچھ عرصہ ایسینیوں کے پاس چھپ کر بحیرہ مردار میں رہے.اس میں خدا کی مخفی تقدیر بھی کام کر رہی تھی کیونکہ خدا نے مسیح سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں صلیبی موت سے بچالے گا.پیلاطوس رومی حاکم جس سے یہودیوں نے مسیح کی موت کی سزا کے فتویٰ پر تصدیق کرائی تھی، بھی آپ سے در پردہ ہمدردی رکھتا تھا.جب مسیح ناصری صلیب پر میخوں اور رسیوں سے جکڑے گئے تو ان پر غشی طاری ہوگئی لیکن صلیب سے اتارے جانے پر بھی آپ زندہ تھے.جب آپ کے ساتھ دو اور مصلوب چوروں کی ہڈیاں توڑی گئیں اور سپاہی آپ کے پاس بھی ہڈیاں توڑنے آئے تو ہیڈ سپاہی نے جو مسیح کو نیک آدمی سمجھتا تھا کہا کہ اسکی ہڈیاں نہ توڑو یہ مر چکا ہے.جب ایک سپاہی نے آپ کی پسلی پر بھالا چھویا کہ آیا زندہ ہے یا مر گیا، تو پہلی سے خون اور پانی بہہ نکلا.اگر چہ یہ علامت تو آپ کی زندگی کی تھی مگر جب آپ کے جسم سے کوئی حرکت نہ ہوئی تو سپاہی نے بھی یقین کر لیا کہ یسوع مر

Page 74

62 چکا ہے.اس اثناء میں حکیم نقاد یمس اور یوسف ارتیا پیلاطوس سے اجازت لے کر آگئے کہ لاش انکے سپرد کر دی جائے.چنانچہ انہوں نے لاش کو صلیب سے احتیاط سے اتار کر ایک کشادہ کمرہ نما غار میں رکھ دیا جس کا پہلے سے انتظام کیا گیا تھا.حکیم نقادیمس نے جو ماہر طبیب تھا، مسیح کے زخموں کے علاج کیلئے بہترین ادویات استعمال کیں اور ایک زود اثر اور حد درجہ مفید مرہم آپ کے زخموں کیلئے تیار کی.اس کے علاوہ ایک قدرتی علاج یہ میسر آ گیا کہ شدید زلزلہ سے بعض پہاڑیاں پھٹ گئیں اور انکے پھٹنے سے تیز بُو پیدا ہوئی جو حکیم مذکور کے نظریہ کے مطابق آپ کے سانس کے اجراء کیلئے اکسیر کا حکم رکھتی تھی.جب یہ بُو پیدا ہوئی تو حکیم نقاد یمس خوش ہوا کہ یہ بو بہت مفید ہے.یوسف ارتیا کے تو اسوقت بھی آنسو بہہ رہے تھے جس وقت حکیم نقاد یمس مسیح کے کانوں میں پھونک پھونک کر مسیح کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا.یوسف کہتا تھا کہ یسوع کے بچنے کی کوئی امید نہیں.حکیم نقاد یمس اسے بار بار تسلی دیتا تھا کہ یسوع کا دل حرکت کر رہا ہے اور بچنے کی امید رکھ! تیسرے دن صبح کو مسیح نے آنکھ کھولی اور وہ ہوش میں آگئے.جو نبی انکی آنکھ کھل گئی یوسف ارمتیا نے انکو گلے سے لگالیا.اسکی اور حکیم نقاد یمس کی خوشیوں کی کوئی انتہا نہیں رہی.ہوش میں آنے پر مسیح نے کہا کہ میں کہاں آ گیا ہوں.اس پر حکیم موصوف نے انہیں بتلایا کہ وہ کہاں ہیں اور کس طرح یہاں پہنچے ہیں.اس کے بعد آپ کو یہاں سے پاس کے اور مخفی مکان پر لے جایا گیا جو ایسینی فرقہ کے کسی ممبر کا مکان تھا وہاں آپ کا علاج جاری رہا یہاں تک کہ آپ چند دنوں میں چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے.آپ چھپ چھپ کر خفیہ راستوں سے حواریوں کو ملتے رہے.بعض دفعہ یہودیوں نے آپکو پہچان بھی لیا ، لیکن فرقہ ایسینی (اسیری) احباب کی کڑی نگرانی اور امداد کی وجہ سے انکی نظروں سے اوجھل ہو جاتے رہے.سردار کا ہن قیافہ جس نے آپکو صلیبی موت کی سزادی تھی کو بھی علم ہو گیا کہ یوسف ارتیا اور حکیم نقادیمس اور پیلاطوس ( گورنر یہودیہ ) نے سازش کر کے مسیح کو بچالیا.یہود کے دباؤ کے باعث یوسف ارتیا کو قید کر لیا گیا.(بعد میں پیلاطوس کے اثر کے ماتحت اسکو چھوڑ دیا گیا ) ملک میں مسیح کے خلاف بہت شورش تھی اسلئے ایسینی فرقہ کے احباب نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ یہاں سے کسی اور جگہ تشریف لے جائیں ورنہ فساد کا بہت اندیشہ ہے.آپ سفر کیلئے تیار ہو گئے.آپ نے فرمایا مجھے خدا نے اپنا ہاتھ بڑھا کر دشمنوں کے پنجے سے بچالیا.اس میں بھید یہ ہے کہ مجھے کسی خاص اور اہم مشن کیلئے خدا نے زندگی دی ہے آرام و استراحت کیلئے نہیں.چنانچہ آپ نے سفر کی تیاری کی اور پھیلی ہوئی گہر اور دھند کے درمیان مخفی طور

Page 75

63 پر حواریوں کے درمیان سے غائب ہو گئے.حضرت مسیح سفر کرتے ہوئے بحیرہ مردار کے پاس پہنچ گئے تو لکھا ہے کہ کچھ عرصہ بعد وہاں آپ کی وفات ہوگئی اور وہیں دفن کر دیئے گئے.بحیرہ مردار میں قبر مسیح کی حقیقت یہ اس مکتوب کا خلاصہ ہے مگر آخری جملے پڑھ کر قارئین حیران ہونگے کہ مسیح کو جس خاص مقصد کیلئے زندگی دی گئی تھی اسے پورا کئے بغیر وہ کس طرح مر گیا؟ کیا آپ کا سفر بحیرہ مردار پر ہی ختم ہونے والا تھا ؟ اس بارے میں گزارش ہے کہ یہ آخری حصہ جس میں مسیح کی وفات اور بحیرہ مردار پر دفن ہونے کا ذکر کیا گیا ہے یہ محض یہودیوں کے تعاقب سے انہیں بچانے کیلئے نقاد یمس اور یوسف کی ایک تدبیر معلوم ہوتی ہے.تا کہ یہود مسیح کی قبر دیکھ کر انکی موت کا یقین کرلیں اور انکا تعاقب نہ کریں کیونکہ یہودیوں نے انکو دوبارہ گرفتار کر نے کیلئے جاسوس چھوڑے ہوئے تھے.ایسینی فرقہ کے جن مخلص احباب نے شروع سے آپ کو بچانے کی مخفی تدبیریں کی تھیں.انہوں نے پھر اسکے سر کو خفی رکھنے کی یہ تد بیر بھی کی تھی تا یہودیوں پر یہ ظاہر ہو کہ وہ وفات پاگئے اور بحیرہ مردار میں دفن کر دیے گئے.اس مخفی تدبیر کے متعلق مکتوب یروشلم میں ہی ثبوت موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ مسیح کی تدفین میں صرف دو آدمی یوسف ارمنیا اور نقاد یمس ہی شامل ہوتے ہیں اور ایسینی فرقہ کے بزرگوں کو بھی یہ پتہ نہیں لگتا کہ مسیح وفات پا گیا ہے تا کہ وہ اسکی تدفین میں شامل ہوں بلکہ جب ایسینی احباب ایک ضیافت میں شریک تھے اس وقت یوسف ارتیا اور نقاد یمس وہاں گئے اور ایسینیوں کے سردار کو اسکی موت کے راز سے آگاہ کر دیا.اس طرح کہ بیان کے الفاظ ذوالوجوہ رکھے جو درحقیقت (CODE WORDS)’ کوڈ ورڈز“ تھے اور ایسینیوں کا سرداران الفاظ کے مفہوم کو پہلے سے جانتا تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ خود اسی سردار نے مسیح کو مخفی ہجرت کرانے کا کام ان دو آدمیوں کے سپرد کر دیا تھا تا کہ عام طور پر انکی ہجرت کا علم نہ ہو سکے.انکے الفاظ یہ تھے کہ ابدی روح نرمی سے جسم سے نکل گئی اور جس طرح اسکی زندگی پر سکون تھی اسکی موت بھی پُرسکون ہوئی.“ اس جگہ ابدی روح سے مسیح کی روح بلا جسم نہیں بلکہ خود مجسم مسیح مراد ہے اور احتراما انہیں ابدی روح قرار دیا گیا ہے.ان کوڈ ورڈز سے مراد انکی یہ تھی کہ مسیح ہماری روح تھا اور ہم اسکے مقابلہ میں جسم کی مانند تھے اور وہ روح بذریعہ ہجرت ہم سے جدا ہو گئی.ہجرت کے لفظ کی بجائے انہوں نے موت کا لفظ استعمال کیا کیونکہ ہمیشہ کیلئے مسیح کی جدائی ان لوگوں کیلئے موت کے مترادف تھی.

Page 76

64 مکتوب یروشلم میں اس سے پہلے تین پیرا گراف موجود ہیں.1 - انکی روح شاگردوں سے ملنا چاہتی تھی اور وہ خواہشمند تھے کہ کسی بات میں غفلت نہ ہو.انکا بے چین دل تنہائی کی زندگی میں کوئی اطمینان نہیں پاتا اور وہ پریشانی انکی طاقت کو کمزور کر رہی تھی.2 لیکن یوسف ارمنیا اور نقادیمس اسکے ساتھ آخری وقت تک تھے جبکہ چھٹا پورا چاند موجود تھا.اس وقت وہ ہماری برادری کے پاس آئے جبکہ ہم محبت کی ضیافت میں حصہ لینے کیلئے تیاری کر رہے تھے اور ایسینی برادری کے سب کے بزرگ کو راز بتلایا.3- ان کے دل سخت غمگین تھے کیونکہ منتخب ہستی باپ کی آسمانی رہائش گاہ پر چلی گئی.آخری پیراگراف سے مراد یہ ہے کہ مسیح نے اس مقام پر ہجرت فرمائی جسے خدا تعالیٰ نے اپنی وحی کے ذریعہ انکی رہائش گاہ تجویز کیا تھا اور وہ کشمیر ہی ہے.جیسا کہ قرآن کے بیان اور تاریخی واقعات سے ظاہر ہے.اس سے مراد وہ جنت نہیں جو مرنے کے بعد ملتی ہے بلکہ اس سے مراد کشمیر جنت نظیر ہے جو سیح کی ہجرت گاہ بنی اور خدا تعالیٰ نے وہاں انکی زبر دست تائید فرمائی.قرآن وحدیث میں بچے مہاجر کی ہجرت کو اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت بیان کیا گیا ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں اِنّى مُهَاجِرٌ إِلى رَبِّی کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کر رہا ہوں.پس وہ ہجرت جود ینی مقاصد کیلئے ہوتی ہے وہ ہجرت اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے.اسی مفہوم کے مطابق خط پر مسیح کی ہجرت کو خدا کی طرف ہجرت قرار دیا گیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ بائیبل میں بھی ایسا محاورہ موجود ہے جس میں زمین پر ہجرت کو خدا کی طرف ہجرت قرار دیا جاتا ہے.چنانچہ زبوروں میں مسیح کے متعلق ہجرت کی پیشگوئی ہے.اسے استعارہ خدا کی طرف جانا ہی قرار دیا گیا ہے.زبور 61 میں ہے میں تیرے پروں کے سایہ میں پناہ لوں گا.( آیت 4) یعنی مسیح خدا کے پروں کے سایہ میں پناہ لے گا.پس یوسف اور نقاد یمس کا مسیح کی ہجرت کے وقت غمگین ہوانا از بس ضروری تھا کیونکہ انکا محبوب ان سے جدا ہورہا تھا.اس جدائی کی یادگار میں نقادیمس نے بطور علامت کے اس کی قبر بحیرہ مردار کے قریب بنادی جو تصویری زبان میں ہجرت مسیح کی یاد گار تھا.جس سے یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ یہود اسکی تلاش میں جب یہاں تک پہنچیں گے تو جان لیں گے کہ وہ وفات پاچکا ہے.ایسینی برادری کو ان دو آدمیوں نے تدفین میں اسلئے شامل نہیں کیا کہ اصل راز کھل نہ جائے.جو یہ تھا کہ قبر میں یسوع کو دفن نہیں کیا گیا اور قبر مصنوعی تھی.جن کو بتلایا گیا انکو بھی ہدایت تھی کہ وہ راز کا افشاء نہ کریں.اصل حقیقت یہی ہے کہ انکا پیارا

Page 77

65 یسوع مسیح ہمیشہ کیلئے ہجرت کے ذریعہ ان سے جدا ہو گیا.جسے انہوں نے اپنے لئے مسیح کی موت سے تعبیر کیا.اگر یہ موت حقیقی ہوتی تو یسعیاہ باب 53 اور حز قیل باب 34 و 37 کی پیشگوئیاں مسیح پر ہرگز چسپاں نہیں ہوسکتیں اور وہ جھوٹی ٹھہرتی ہیں کیونکہ اس صورت میں مسیح کو کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس خود جانے اور اپنی نسل دیکھنے کا موقع نہیں ملتا.حالانکہ مسیح کا خود گمشدہ بھیڑوں کو تلاش کر کے انہیں پیغام حق پہنچانا اور شادی کرنا اور اس سے نسل پیدا ہونا اور اس نسل کو اس کا دیکھنا ان پیشگوئیوں کی رُو سے ضروری تھا.پیشگوئیاں برحق ہیں اور مسیح کی موت کے متعلق اوپر کا بیان محض ایک استعارہ اور تمثیل ہے نہ کہ اصل حقیقت.اسکی وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ خط لکھنے والے کا یہ خیال تھا کہ اس خط کا علم اگر کسی یہودی کو ہو بھی جائے تب بھی اسکو مسیح کی ہجرت کا پتہ نہ لگے.تا کہ انکی تلاش میں یہ خط مددگار نہ ہو سکے.بحیرہ مردار کے غاروں کے صحیفے آثار قدیمہ کی ان تازہ شہادتوں میں سے جن سے مسیح سے متعلق قرآنی بیانات کی تائید ہوتی ہے، بحیرہ مردار کے غاروں سے برآمد شد وہ صحیفے بھی ہیں جو 1947 ء سے آج تک برآمد ہوئے ہیں.واقعہ یہ ہے کہ 1947ء میں ایک بدو بحیرہ مردار کے مغربی ساحل پر وادی قمران کی چٹانوں میں اپنی بکری کی تلاش میں پھر رہا تھا.اس اثناء میں اسکی نظر ایک تنگ غار پر پڑی اس نے اپنے اطمینان کیلئے ایک پتھر اندر پھینکا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ کسی برتن سے ٹکرایا ہے.دوسرے دن وہ اپنے ایک اور ساتھی کی مدد سے اس غار میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ قطاروں میں بڑے بڑے مرتبان پڑے ہیں.اس نے انہیں کھولا تو ان میں دو ہزار سال کے پرانے صحیفے تھے.جب ان صحیفوں کی شہرت ہوئی تو یہ جلد ہی دنیا کے قابل ترین محققین کے سامنے آئے.جنہوں نے نہایت عرق ریزی، جانفشانی اور حد درجہ احتیاط کے ساتھ ان سالم و بوسیدہ اوراق کو صاف کر کے مطالعہ کے قابل بنایا اور ان پر تحقیقات کیں اور اپنی تحقیقات کے نتائج اور ان صحائف کو پڑھوا کر انکا ترجمہ شائع کر دیا اور بین الاقوامی ماہرین آثار قدیمہ کے محققین ابھی تک تحقیقات کر رہے ہیں.ان قدیم صحائف کے مضامین پر مشتمل تفصیلات ” ڈیڈسی سکرولز“ کے نام سے شائع کی گئی ہیں.ماہرین آثار قدیمہ کی رائے ہے کہ ان صحائف کو مرتب کرنے والے پہلی عیسوی کے وہ عیسائی ہیں جو یہودیوں کی ایذاء رسانیوں سے ایک حد تک محفوظ رہنے کیلئے وادی قمران کے ان غاروں میں آکر پناہ گزین ہو گئے اور انہوں نے اپنے بال بچوں سمیت یہیں رہائش اختیار کر لی تھی.جہاں وہ اپنی

Page 78

66 روحانی تربیت ، خدمت خلق اور مقدس نوشتوں کو ضبط تحریر میں لا کر محفوظ کرنے کا کام کرتے رہے.جواس جماعت میں شامل ہوتا تھا اسے یہ عہد کرنا پڑتا تھا کہ میں ہمیشہ پوری دیانتداری اور احتیاط سے صحائف اور نوشتوں کو مخفی ومحفوظ رکھوں گا.68ء میں جب رومیوں نے یروشلم کے گردو نواح کو فتح کر کے وہاں قتل و غارت گری شروع کر دی تو ساتھ ہی عیسائیوں کے مذہبی لٹریچر کو ضائع کرنا شروع کر دیا.ان حالات میں عیسائیوں کیلئے اپنے مراکز سے ہجرت کرنا نا گزیر ہو گیا.انہوں نے حفاظتی اقدامات کے تحت اس موقع پر اپنی عظیم الشان لائبریری کو جو صحف مقدس پر مشتمل تھی قریبی غاروں میں منتقل کر دیا اور غاروں کا منہ بند کر دیا.ان صحائف سے حضرت عیسی علیہ السلام کی نا معلوم زندگی کے حالات اور واقعہ صلیب سے بچنے کے بعدان زبوروں اور دعاؤں کا علم ہو جاتا ہے جو انہوں نے خدا سے مانگیں.ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا ایک راستباز نبی یہودیوں کی طرف مبعوث ہوا.یروشلم کے علماء ، یہود اور انکے سردار کا ہن نے اسکی ہر ممکن مخالفت کی اور اس مقدس اور پُر امن زندگی بسر کرنے والے انسان کو گرفتار کر کے بہت سی اذیتیں دی گئیں.اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اسے حکومت کا باغی قرار دے کر صلیب پر لعنتی موت مارنے کا فیصلہ سنادیا گیا اور اسے صلیب پر چڑھا کر لعنتی موت مارنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس صادق انسان اور بچے نبی کوموت کے منہ سے بچا کر دشمنوں کو خائب و خاسر کر دیا ور ا سے ایک بلند و بالا حفاظتی دیواروں کے ملک میں پناہ دی گئی.اس میں جو حد یہ گیت ہیں ان میں بیان کیا گیا ہے کہ خدا نے دشمن کے ہاتھوں اور موت کے پنجوں سے اسے نجات دیدی.خدا نے اسکی دعاؤں کو سنا اور لعنتی موت سے بچالیا اور اب وہ دنیا کے وسیع میدانوں کا سفر کر کے اسرائیلی گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیٹروں میں خدا کا نام بلند کرے گا اور انہیں پیغام حق پہنچائے گا.کیمبرج ڈاکٹر جے ایل ٹیشنر (Dr.J.L.TEICHNER) لکھتے ہیں: بحیرہ مردار کے صحائف میں صادق استاد اور اسکی غریب جماعت کا ذکر ہے اور تعلیمات کو بگاڑنے والے ایک مبلغ کا بھی.یہ غریب جماعت ایونی عیسائی ہیں جو یہودیوں میں سے مسیح پر ایمان لائے تھے اور انہوں نے یہودی شریعت پر برابر عمل جاری رکھا اور مقدس استاد یسوع ناصری ہیں.66 ذیل میں ہم اس مقدس استاد کے زبوروں سے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں تا کہ قارئین خود اندازہ کر سکیں کہ یہ صادق استاد سوائے یسوع مسیح کے اور کوئی نہیں ہوسکتا، زبور چہارم میں فرماتے ہیں: * - The Dead Sea Community by KURT SEHBEIT.p.35 -The scrolls from the Dead Sea by Edmond wilson.p 97.

Page 79

67 ” اے خداوند ! تو مبارک ہے جس نے اپنے دل میں عرفان کا چشمہ کھولا.اگر تیری رضا ہو تو تو اپنی باندی کے بنے ہوئے جلد کا رفع کرے گا تا کہ وہ تیرے منتخب انسانوں میں شامل ہو اور تیرے حضور ہمیشہ ہمیشہ کھڑا رہے.“ زبور 12 میں فرماتے ہیں.66 میں موت کے دروازے تک پہنچ گیا ہوں لیکن بلند و بالا حفاظتی دیوار کے اندر 66 مجھے محفوظ کر دیا جائیگا.اے میرے خدا! تیری صداقت مجھے بچالے گی.“ بلند و بالا حفاظتی دیوار میں محفوظ کرنے سے مراد مسیح کو کشمیر جنت نظیر میں پناہ دینا تھا.جیسا لفظ ربوة ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِین کا بھی مفہوم ہے.ان قدیم صحیفوں سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ مسیح کا ایک نام فلسطین میں یوز آسف بھی تھا، زبور 8 میں فرماتے ہیں: میں عزم لے کر اٹھوں گا اور جب مجھے اذیت کا سامنا ہوگا تو میری روح تو انا ہوگی کیونکہ میں نے تیری کریمی اور تیری رحمت کے چشموں کو سہارا بنایا ہے.“ زبور چہارم میں فرمایا : ”اے میرے خداوند! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تیری نگاہیں میری روح پر مرکوز ہیں.تو نے مجھے انکے غضب سے بچایا جو تیری جھوٹی حمد کرتے ہیں.تو نے غریب کی جان بچائی جس کا خون وہ اس غرور کی تشہیر کیلئے بہانا چاہتے تھے کہ وہ تیرے عبادت گزار ہیں انہوں نے شر پسندوں کے کہنے پر مجھے لعنت و ملامت کیلئے چنا لیکن اے میرے خدا!! تو زور آور کے ہاتھ سے بچانے کیلئے غریب اور بے آسرا کی مددکو آ پہنچا.تو نے مجھے ہمت عطا کی کہ میں انکی شیطانی تدابیر اور رومنوں کے پاس مخبری کے خوف سے تیری عبادت کے ترک کرنے کے گناہ سے بچا رہا.(زبور 4) زبور 3 میں فرمایا: ” میرا قدم سچائی پر پوری طرح گامزن رہے گا اور میں یہود کے حلقوں میں ( یعنی جو خداوند کی باندی حضرت مریم والدہ مسیح ہیں.لوقا کی انجیل میں حضرت مریم نے خود فرمایا ” میں خداوند کی باندی ہوں، اس نے اپنی باندی کی عاجزی پر نظر کی ، اب سے ہر زمانہ کے لوگ مجھے مبارک کہیں گے.“ (لوقا باب 1 آیت 46 تا 48)

Page 80

68 یہود غیر قوموں میں جا بجا پھیلے ہوئے ہیں ) تیرے نام کی ثناء کروں گا.اپنے وطن سے بے وطن کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: پس مجھے میرے وطن سے نکال دیا گیا ہے جیسے پرندے کو گھونسلے سے ، میرے عزیز واقارب مجھے چھوڑ گئے.وہ مجھے ایک ٹوٹا ہوا برتن سمجھتے ہیں، لیکن اے خدا! تو شیطان کے تمام حربوں کو ناکام بنادے گا.“ (زبور 3) (زبور 8 - الف) غیر ملکوں میں مسیح کی قبولیت اور نصرت الہی کا بھی ان زیوروں میں ذکر ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ جب مسیح اجنبی ممالک میں تھے تو وہاں انہوں نے اپنی دعاؤں میں اپنی قبولیت کا جو ذکر کیا ہے وہ زبور بھی بحیرہ مردار میں پہنچا کر محفوظ کئے گئے.چنانچہ زبور 1 میں فرمایا : ” خداوند ! میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تو نے ایک غیر اور اجنبی ملک کے سفر میں بھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا....تو بے بسی میں میرا آسرا ہوگا.تو مجھے ایک اجنبی سرزمین میں لے آیا ہے.اے میرے خداوند! تو مجھے بنی آدم سے مخفی رکھے گا.“ (زبور 1) ان زبوروں میں زبور پڑھنے والے نے اپنے آپ کو باندی کا بیٹا کہا ہے اور یہ انکی مخبری یہودیوں نے رومی حکومت کے پاس کی اور انکی جان لینے کی کوشش کی اور بعد میں وہ غیر ملکوں میں منتشر یہودیوں میں تبلیغ کیلئے وطن سے ہجرت کر گئے اور وہاں انہیں قبولیت حاصل ہوئی اور بلند و بالا حفاظتی دیوار کے ملک میں وہ بس گئے.پس وہ حضرت عیسی کے سوا اور کون ہو سکتے ہیں.جمع بحیرہ مردار کے صحائف اور زبوروں کے تفصیل مطالعہ کیلئے دیکھئے اصحاب کہف کے صحیفے اور صحائف قمران“ از شیخ عبدالقادر صاحب لاہور.

Page 81

باب ششم 69 قدیم ہند ولٹر پچر میں مسیح کے کشمیر میں آنے کا ذکر قرآن ، بائیل اور قدیم آثار مذکورہ دلائل و شواہد کی تائید قدیم ہند ولٹریچر سے بھی واضح طور پر ہوتی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم (علیہ السلام ) ہمالہ دیش کشمیر میں موجود تھے جبکہ سا کا دیش کے ایک راجہ نے ان سے ملاقات کی تھی اور انہیں انکے ساتھیوں سمیت اس ملک میں بسا دیا تھا.یہ بیان ہندوؤں کیا ایک مقدس کتاب ”بھوش مہا پر ان میں مذکور ہے جو ان کے اٹھارہ ( 18 ) مقدس پرانوں میں سے ایک ہے.تاریخی رویات کے مطابق یہ پر ان 115ء میں مرتب کیا گیا اور 1910ء میں مہاراجہ پرتاب سنگھ (راجہ کشمیر ) کے حکم سے سنسکرت میں بمبئی سے شائع کرایا گیا تھا.اس میں لکھا ہے کہ شک دلیش (سا کا دیش) کے ایک راجہ نے کوہ ہمالیہ کے دامن کشمیر میں عیسی مسیح سے ملاقات کی اور انکے مذہب کے بارے میں معلومات کیں اور راجہ نے انہیں اس ملک میں بسا دیا.بھوش پر ان میں مسیح کی کشمیر میں راجہ سے ملاقات کا ذکر متعلقہ سنسکرت عبارت کا ترجمہ اردو اور انگریزی میں کئی سنسکرت دانِ علماء نے کیا ہے.اصل عبارت کا عکس کتاب ہذا میں شامل ہے.اس عکسی عبارت کا ترجمہ یہاں پنڈت کلہشمن آریہ اپدیشک کی کتاب بھوشیہ پر ان کی الوچنا سے نقل کرتے ہیں.پھر بعض اور ترجمے بھی نقل کرتے ہوئے ضروری وضاحتیں بھی کریں گے.پنڈت کلہشمن کا ترجمہ تنقیدی ہے نہ لفظی اور وہ یہ ہے: ایک بار شک دلیش کا راجہ (شالبا ہن ) ہمالہ کی چوٹی پر گیا تو اس طاقتور راجہ نے ”ہون دیش کے بیچ میں پہاڑ پر بیٹھے ہوئے ایک گورے رنگ والے سفید کپڑے پہنے ہوئے پاک انسان کو دیکھا، راجہ نے اس سے پوچھا آپ کون ہیں ؟ وہ خوش ہوکر بولا ، میں کماری کے گر بھ (حمل) سے پیدا ہوا ، خدا کا بیٹا ہوں، میں ملیچھ دھرم (غیر ملکی دھرم ) کا اپدیشک (واعظ ) ہوں اور سیتہ برت کا دھارن کرنے والا ہوں.یہ سن کر راجہ نے کہا آپ کون سے دھرم کو مانتے ہیں؟ وہ بولا مہاراج! ملیچھ دیش میں سیتہ کے ناش ہونے ( صداقت معدوم ہونے ) اور مریا دا کے ٹوٹ جانے

Page 82

70 سے (حدود قائم نہ رہنے سے ) میں مسیح کے روپ میں پر گھٹ (ظاہر ) ہوا ہوں.ملیچھوں کے بیچ میں ایشاسی بھینگر پر گھٹ ہوئی.میں اسکو ملیچھوں سے پراپت کر کے مسیح بھاؤ کو پراپت ہو گیا.میں نے میچھوں میں جو دھرم ستھا پن کیا ہے، راجن سے آپ سیئے.دیہہ میں رہنے والے نیک و بد و چار روپی مل ( ناپاکی ) سے یکت ( ملوث ) من کو نرمل (صاف) کر کے ادبک نرمل ویدک جپ ( پاک و یدک ورد ) کو گرہن (اختیار) کر کے اسکا جپ کرے اور انسان نیائے اور سیتہ بانی کو من سے ایکا گر کر کے دھیان سے منڈل میں دیا پک الیش (خدا) کی پوجا کرے.پر بھوسا کھشات اُچل ( قیوم) ہے اور سوریہ ( سورج ) ہمیشہ چلائمان ہے.پر بھو چلائمان تنوؤں (ذروں ) کا چاروں طرف آکرشن کرنے والا ہے.ہے راجن ! اس کرم سے مسیحاناش کو پراپت ہوگئی فیتہ شدہ تھا کلیان کاری الیش ( خدا ) کی مورتی ہر دے (دل) میں پراپت 66 ہونے کا کارن میرا عیسی مسیح یہ نام مشہور ہے.پنڈت لکشمن نے عیسی مسیح کا بیان کے عنوان کے تحت یہ ترجمہ کر کے لکھا ہے کہ اس لیکھ میں بائیبل میں بیان شدہ مریم کے پتر عیسی کا ذکر ہے اور عیسی کے دھرم (مذہب ) کو نیائے تنقاسیہ کے یکت اور ویدک سدھ کیا گیا ہے.اس نوٹ سے ظاہر ہے کہ یہ ترجمہ تنقیدی ہے نہ کہ اصل الفاظ کا لفظی ترجمہ، اس ترجمہ کے پیش کرنے والے نے اسے ویدک دھرم کے مطابق بنانے کی کوشش کی ہے.الوچنا کی اس عبارت میں ہندی الفاظ کی بھر مار ہے.اس کا اردو دانوں کیلئے سمجھنا مشکل ہے.اس اقتباس کا ترجمہ نذیر احمد صاحب نے اپنی کتاب جیز زان ہیون آن ارتھ کے صفحہ 369 پر انگریزی زبان میں درج کیا ہے.اس انگریزی ترجمہ کا اردو ترجمہ یہ ہے: سا کا آریہ دیش (انڈیا) کی طرف آئے دریائے سندھ کو عبور کرنے کے بعد کچھ ان میں سے ہمالہ کے دوسری راہوں سے آئے اور علاقہ میں لوٹ شروع کی.کچھ عرصہ کے بعد ان میں سے بعض نے یہ کام پرتی سرگ پرب کھنڈ 3.ادھیائے 2.شوک 21 تا 31.بھوشیہ پر ان کی الو چناصفحہ 9 تا 11 مطبوعہ ہندوستان پر نٹنگ ورکس دہلی.

Page 83

71 چھوڑ دیا اور لوٹ کے مال کیساتھ واپس ہو گئے.اس سے کچھ عرصہ بعد راجہ شالوا ہن تخت پر قابض ہو گیا.اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں سا کاؤں، چینیوں ، تاتاریوں ، والھکوں (بخارا کے رہنے والوں ) کا مرویوں ( پارتھیوں ) اور خراسانیوں کو شکست دی اور انہیں سزادی پھر اس نے ملیچھوں اور آریوں کو الگ الگ ملکوں میں آباد کر دیا.ملیچھوں کو دریائے سندھ سے پار اور آریوں کو دریا کے اس جانب رکھا گیا.ایک دن راجہ ہمالہ کے ایک ملک میں گیا وہاں پر سا کا قوم کے راجہ کو دین مقام پر دیکھا.یہ شخص سفید رنگ اور سفید لباس پہنے ہوئے تھا.راجہ نے (اسے) پوچھا کہ وہ کون ہیں؟ اس کا جواب یہ تھا کہ وہ یوسا شافت (یوز آسف) ہے اور ایک عورت کے ہاں پیدا ہوا ہے.(شالواہن کے حیران ہونے پر ) اس نے کہا وہ سچ کہتا ہے اور وہ مذہب کو پاکیزہ بنانا چاہتا ہے.راجہ نے پوچھا اس کا مذہب کیا ہے؟ اس نے جواب دیا ، اے راجہ ! جب ملیچھ دیش میں سچائی غائب ہوگئی اور ( بد عملی کی ) کوئی حد نہ رہی تو میں وہاں ظاہر ہوا اور میرے کام سے مجرموں اور شریروں نے تکلیف اٹھائی اور میں نے بھی انکے ہاتھوں سے تکلیف اٹھائی.راجہ نے اس سے پوچھا اس کا مذہب کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ محبت ،سچائی ، دل کی پاکیزگی ہے اور اس وجہ سے میں مسیح کہلا تا ہوں.راجہ آداب بجالانے کے بعد واپس چلا گیا.“ بھوشیہ مہا پر ان کی آلوچنا میں نقاد مترجم نے مسیح کے کنواری عورت سے پیدا ہونے کا ذکر کیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ نذیر احمد نے کنواری کا لفظ اپنے عقیدہ کے خلاف پا کر تر جمہ سے حذف کر دیا.کیونکہ وہ لاہوریوں کے احمدی فریق سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے یہ عقیدہ اختیار کر رکھا ہے کہ مسیح کنواری کے پیٹ سے بن باپ پیدا نہیں ہوا تھا.خواجہ نذیر احمد صاحب کے ترجمہ کا اسکے بعد کا حصہ خود اس لفظ کے کاٹا جانے پر روشن دلیل ہے.کیونکہ آگے لکھا ہے اس پر راجہ حیران ہوا اور مسیح نے اسے جواب دیا کہ وہ سچ کہتا ہے.اگر کنواری عورت سے پیدا ہونے کا ذکر نہ ہوتا ، عام عورت سے پیدا ہونے کے ذکر کی نہ ضرورت تھی اور اس صورت میں اس کے بلا ضرورت ذکر کرنے پر راجہ حیران نہیں ہو سکتا تھا.پس ” بھوشیہ مہا پران“ میں کنواری عورت سے مسیح کے پیدا ہونے کا ذکر ضرور موجود ہے ورنہ الوچنا میں پنڈت لکشمن کماری ( کنواری ) عورت کے الفاظ تر جمہ میں نہ لکھتے.یورپ کے دو ممتاز علماء رابرٹ گریوز اور یشوعا پوڈرو کو خواجہ نذیر احمد صاحب مرحوم کی مذکور کتاب سے پستہ لگا کہ بھوش مہا پر ان میں ہمالہ دیش کی چوٹیوں پر ایک راجہ کی حضرت مسیح سے ملاقات کا ذکر ہے.انہوں نے اصل حوالہ کی تحقیق کیلئے ہندوستان کے ایک سنسکرت دان عالم کو لکھا جو اس وقت ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف

Page 84

72 فنڈا مینٹل ریسرچ بمبئی سے متعلق تھے.اسکا نام پروفیسر ڈی.ڈی کو سامی ہے.کوساممی کے ترجمہ میں بھی کنواری سے پیدا ہونے کا ذکر موجود ہے.پس الوچنا والے ترجمہ اور ڈی.ڈی کو سامی والے ترجمہ ہر دو سے مسیح کے کنواری سے پیدا ہونے کا ذکر موجود ہے.یہ واضح رہے کہ بھوشیہ پر ان کے دوستن ہیں جن میں مسیح سے راجہ کی ملاقات کے بارہ میں مندرجہ واقعات میں بہت کچھ اختلاف بھی ہے.تا ہم دونوں متن اس بات پر متفق ہیں کہ مسیح کنواری کے بطن سے پیدا ہوا تھا.پس خواجہ نذیر احمد کی تحریف افسوسناک ہے، خدانہیں معاف کرے.ذیل میں ہم پروفیسر ڈی.ڈی کو سامی کا ترجمہ بھی رابرٹ گریوز اور یشوعا پوڈرو کی کتاب ”جیز زان روم (Jesus in Rome) کے صفحہ 77,76 سے نقل کرتے ہیں: "Once, the chief of the Sakas (Salivahana himself, their conqueror?) went to height of the Himalayas.There, in the land of the Huns(i.e.the Kushans) he,....powerful king, saw an auspicious man, fair in colour and clad in white garments.Who are you ? he asked The other replied: Know me to be the son of God, born from a virgin's womb, preacher of the religion of the infidels (Meleccha), steadfast in following the path'.On hearing this, the King asked: What are your religious principles? The other replied: Great King, when Truth had come to an end all morals had been lost among the infidels, I, the MASIHA arose.The goddes of the wages (DASYU) namely IHAMASE (the goddes Masi) manifested herself in terrifying guise; and I, having reched her in the infidel fashion, attained the status of MASIHA.O King, listen to that religion

Page 85

73 " (of hers) which I imposed upon the infidels; Having cleansed the kind and purfied the impure body, and had recourse...the prayer of the NAIGAMA (Holy Book), man must worship the pure Eternal by justice, truth, unity of mind and meditation, man must worship Isa (God) in the sun's Heaven (SURYAMANDALA, which could also mean "the sun's disk".) That Lord, himself as immovable (from his course) as the Sun, always at last...the essence of all erring creatures.With this (message) O King, Masiha Ihamasi? "I " vanished; and the blissful image of Isa, the bliss-giving, being ever in my heart, my name has been established as Isa Masiha" Having heard these words, the King removed that infidel preist and established him in the pitiless land of the Infidels.The nucleus of the story is the legend that the " infidel Preist " called himself Isa Masih clearly ' Jesu the Messiah' on which an attempt at a Sanscrit etymology has been embroidered but the Goddess Masi is a fiction, unknown elsewhere.The Lord NAIGAMA can not be taken as referring to Hindu Scriptures and perhaps...the Bible'.King Salivahana is traditionally credited with having inaugurated the present Hindu era, which begins in A.D.78, but here he is said to have defeated the Romans and the Chinese successes which might be claimed for a Kushan...but not for any King of India proper.

Page 86

74 If St.Thomas, whose tomb is shown at Mylapore (Madras), also in Malabar...(perhaps ) in Ceylon, made peregrinations to these regions, his Teacher may...have travelled to ; but to accept A.D.78 as Salivahana's date would make...over eighty years old at the supposed meeting.JESUS IN ROME By Robert Graves and Joshua Podro Published by Cassele & Company Ltd.London Chapter The Tomb of Jesus.Page 76,77,78 and 79.اس کا اردو تر جمہ یوں ہے : ایک دفعہ سا کا قوم کا سردار ( خود شالواہن جو انکا فاتح تھا ) ہمالیہ کی ایک چوٹی پر گیا.وہاں بہن (یعنی کشان ) کی سرزمین میں اس طاقتور بادشاہ نے ایک بابرکت آدمی کو جو سفید رنگ کا سفید لباس پہنے تھا دیکھا، اس نے پوچھا! تم کون ہو؟ دوسرے نے جواب دیا ، مجھے خدا کا بیٹا جان لو، میں کنواری کے حمل سے پیدا ہوا ہوں، میں ملیچھوں کے مذہب کا واعظ ہوں اور صداقت کی پیروی میں مضبوط ہوں.یہ سننے پر بادشاہ نے پوچھا آپ کے مذہب کے اصول کیا ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا، شاہ معظم! ملیچھوں میں سچائی کا خاتمہ ہو گیا اور اخلاق ضائع ہو گئے.میں جو سیح ہوں مبعوث ہوا.غیر مہذبوں کی دیوی ( درسیو ) جس کا نام اھا اسی ہے نے اپنے آپ کو خوفناک بھیس میں ظاہر کیا اور میں نے اس کے ملیچھوں کے طریق پر پہنچ کر اس سے مسیح کا مقام حاصل کیا.اے بادشاہ! آپ اس مذہب کو سنیں جو میں نے ملیچھوں میں نافذ کیا.اپنی انسانیت کو صاف اور جسم کو پاک کرنے کے بعد اور ” نے گما“ کو عبادت میں استعمال کرتے ہوئے انسان کو ابدی مقدس ہستی کی عبادت کرنی چاہئے.انصاف سچائی ، دلجمعی اور پوری توجہ کے ساتھ انسان کو اس (خدا) کی عبادت کرنی چاہئے جو سورج کے آسمان میں ( سور یہ منڈالا جو کہ سورج کی

Page 87

75 ٹکیہ ہے ) ہے.خدا خود اپنے طریق کو نہیں چھوڑ تا جس طرح سورج ہمیشہ آخر کا رسب خطا کار مخلوق کی روح کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے.اس پیغام کے ساتھ اے بادشاہ (ایھا ماسی؟) غائب ہو گئی اور ایشا (خدا) کی با برکت تصویر جو برکت دینے والی تھی چونکہ ہمیشہ میرے دل میں تھی ، میرا نام عیسی مسیح قرار دیا گیا.یہ الفاظ سننے کے بعد بادشاہ نے ملیچھوں کے سردار کو وہاں سے روانہ کر دیا اور ان کو ملیچھوں کی بے رحم زمین میں بسا دیا.کتاب میں لکھا ہے کہ بھوشیہ مہا پر ان کے دو علیحدہ علیحدہ متن ہیں جن میں باہم بہت اختلاف ہے.دونوں ہی بمبئی میں 1910ء میں طبع ہوئیں.ہم یہ اطلاع پر وفیسر ڈی.ڈی کو ساممی کی طرف سے دے رہے ہیں جو سنسکرت کا مشہور عالم ہے.خواجہ نذیر احمد کا اقتباس اس اقتباس سے پہلے دیا گیا ہے اسے خواجہ صاحب نے ستا کا مہا پران بتایا ہے.جو 1910ء میں راجہ پرتاب سنگھ (مہاراجہ کشمیر ) کے حکم سے شائع ہوا.اس مہا پر ان کے اقتباس میں راجہ شالوا ہن کا سا کا راجہ سے ملنے کا ذکر ہے جس نے شالوا ہن کو یہ بتایا کہ میں یو سا شافت اور عیسی مسیح ہوں ، اس بارہ میں پروفیسر کو سامی کی رائے ”جیز زبان روم میں صفحہ 7 پر یہ درج کی گئی ہے کہ طاقتور بادشاہ جس کا اس اقتباس میں ذکر ہے.کشان کا بادشاہ تھا اور اس اقتباس میں شالبا ہن کا نام غلطی سے لکھا گیا ہے کیونکہ اس نے بھی سا کا قوم کو شکست دی تھی.شاید اصل ریکارد میں کشان کے بادشاہ کنشک کی طرف اشارہ ہے جو کہ شالبا ہن کا ہمعصر تھا.کنشک کی تاجپوشی کی تاریخ ڈاکٹر جان فلیٹ نے جو انسائیکلو پیڈیا برطانیہ انڈین انسکریشن کے مصنف ہیں 58 ق م میں لکھا ہے.بہر حال کنشک پشاور پر حکومت رکھتا تھا اور اسکے متعلق یہ معلوم ہے کہ اس نے کشمیر کو فتح کیا تھا اور جب وہ دین مقام کشمیر پر تھا تو ممکن ہے اس نے غلطی سے مبارک شخصیت (جس سے اس نے ملاقات کی ) کوسا کا قوم کا راجہ سمجھ لیا ہو.ہندوستان کی وقائع نگاری اب تک بھی پراگندگی کی حالت میں ہے اور بعض تاریخ دان خیال کرتے ہیں کہ شالواہن کے عہد کا افتتاح در حقیقت کنشک کے ذریعہ ہوا تھا.ہماری رائے یہ ہے کہ تاریخ کشمیر سے جو ملا نادری کی خیال کی جاتی ہے اس کے اقتباس سے جس کا فوٹو پرنٹ بھی اس کتاب میں شامل ہے.یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کا راجہ جس کے زمانہ میں یوز آسف سرینگر میں رہتا تھا اور جو یسوع مسیح خیال کیا جاتا تھا، گو پانند ( گو پادت) تھا جو اپنے باپ راجہ اکھ کے معزول ہونے کے بعد حکمران بنا تھا.کو ساممی کی اس رائے کے پیش نظر کہ شالواہن کی ملاقات مسیح سے نہیں ہوئی تھی بلکہ کنشک کی

Page 88

76 ملاقات کا امکان ہے.ہم اپنے اس خیال کو ترجیح دیتے ہیں کہ بہت ممکن ہے کہ مسیح سے ملاقات راجہ گو پانند کی دین مقام پر ہوئی ہو جو سرینگر سے دس میل کے فاصلہ پر گندھک کے چشموں والا مقام ہے.جسے مہا پر ان کے پروفیسر کو ساممی کی پیش کردہ اقتباس میں اس راجہ کے متعلق ہے کہ اس نے اس بابرکت آدمی کو بے رحموں کی سرزمین میں بسا دیا تھا.مہا پر ان لکھنے والا متعصب ہند و تعصب کی وجہ سے کنشک کی اس بدھ حکومت کی سرزمین کو ” بے رحموں کی سرزمین قرار دیتا ہے کیونکہ وہ ان لوگوں کو غاصب جانتا ہے.اس بات کا بھی امکان ہے کہ مسیح کی ملاقات کو ساممی کی رائے کے مطابق کنشک سے ہوئی ہواور کنشک نے اپنے ماتحت راجہ گو پانند کے علاقہ میں سرینگر کے مقام پر بھجوا دیا ہواور وہیں بسا دیا ہو.اگر یہ تاریخی حقیقت درست سمجھی جائے جس کے درست ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تو ہمارے نزدیک دین مقام پر یوز آسف یا عیسی مسیح سے گو پانند کی ملاقات ترجیح رکھتا.ہے.اھا ماسی دیوی سے کیا مراد ہے اس اقتباس کے اس حصے پر جس میں اھا ماسی کے خوفناک روپ میں ظاہر ہونے کا ذکر ہے.جیز زان روم“ کے مصنفین نے بطور تشریح لکھا ہے کہ اس اقتباس کی کہانی ایک افسانوی رنگ رکھتی ہے.ملیچھوں کے واعظ مسیح سے صاف طور پر یسوع مسیح مراد ہے جسے سنسکرت علم الانساب کے مطابق ڈھالنے کا اردہ کیا گیا ہے.اس میں دیوی ماسی کا ذکر محض ایک اختراع ہے جس کا کسی اور جگہ کہیں ذکر نہیں ہے یہ رائے ان مصنفین کی درست ہے لیکن ہم اس پر اتنا اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ اس بناوٹ اور اختراع میں سناتن دھرمی ہندوؤں کے مذہبی تصورات کا اثر پایا جاتا ہے.مسیح نے یہ کہا ہوگا جیسا انجیل میں بھی مذکور ہے کہ خدا کی طرف سے مبعوث ہونے پر اس پر روح القدس" نازل ہوا جسے عیسائی تو خدا کی ایک تیسری اقنوم اور مسلمان خدا کی طرف سے وحی لانے والا فرشتہ جانتے ہیں.اس سے ملتا جلتا تصور سناتنی ہندوؤں میں دیوی دیوتاؤں کا ہے جنہیں وہ خدائی کا موں میں متصرف جانتے ہیں لیکن اذن الہی سے نہ کہ ذاتی طور پر اس کہانی میں مہا پر ان کے لکھنے والے نے روح القدس کا نام اس کے نزول کی حقیقت کو نہ جانے کی وجہ سے مسیح بنانے والی دیوی رکھ دیا ہے.میسج پر روح القدس کا نزول انجیل کی رو سے کبوتر کے مثالی وجود میں ہوا تھا پر ان کی کہانیوں میں اس نزول کو خوفناک روپ میں قرار دیا گیا ہے اسلئے اس بات کا امکان ہے کہ یہ بیان اس حد تک سچا ہو کہ جب مسیح پر کبوتر کی مثال میں روح القدس کا نزول ہوا تو وہ بہت بڑے مجسم کبوتر کا

Page 89

77 مثالی وجود تھا جو بڑا ہونے کی وجہ سے کبوتر کا خوفناک روپ دکھائی دیتا تھا.” نے گیا“ سے کیا مراد ہے اس اقتباس میں دعاؤں میں جو " نے گما کا ذکر آیا ہے ”جیز زان روم“ کے مصنفین کے نزدیک اس سے مراد ہندوؤں کی مذہبی کتا بیں نہیں.ممکن ہے اس سے بائیل مراد ہو.ہم اس نوٹ پر مستزاد کرتے ہیں کہ ” نے گا“ سے مراد زبور کا نغمہ (گیت) ہے.مسیح نے آرامی یا عبرانی لفظ نغمہ ہی استعمال کیا ہوگا جسے ہندوؤں نے سنسکرت لہجہ میں نے گما لکھ دیا ہے.کیونکہ اکثر ہند و نین کو گاف کی آواز میں ادا کرتے ہیں.اور زکوج کی آواز میں اور واؤ کو ب کی آواز میں.اس کہانی میں جو یہ لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ خود غیر متحرک ہے اور سورج کی طرح ہمیشہ غلطی کرنے والی مخلوق کی روح کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے.اس میں بھی ہندوانہ مذہبی تصور کا اثر ہے کیونکہ ہند وسورج کو اندر دیوتا جانتے ہیں.مسیح نے خدا کے تصرف کے بطور تمثیل سورج کی طرح قرار دیا ہوگا کہ جیسے سورج ظلمت اور تاریکی کو دور کرتا ہے اور دنیا کو ٹھوکریں کھانے سے بچاتا ہے.اسی طرح خدا بھی مخلوق کو اپنی روحانی روشنی سے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے.ماسی دیوی ( روح القدس ) کے غائب ہونے کے بعد جو یہ ذکر ہے کہ بابرکت ایسا کی تصویر جو برکت دینے والی ہے چونکہ ہمیشہ میرے دل میں تھی میرا نام عیسی مسیح رکھا گیا.اس میں ایسا کی تصویر سے مراد خدا کی تصویر ہے جسے ہندوانہ میتھالوجی ( علم الاصنام ) کے مطابق ایسا دیوتا سمجھ لیا گیا ہے.جیز زان روم میں اقتباس دیتے ہوئے ایسا‘ کے آگے بریکٹ میں GOD لکھا گیا ہے.ہم کہہ نہیں سکتے کہ یہ بریکٹ مصنف "جیز زان روم کا ہے یا پروفیسر کو سامی کا.بہر حال کسی کا ہو ، یہی بات عیسائی مذہب کی رو سے درست قرار دی جاسکتی ہے.بہت ممکن ہے کہ اس جگہ سہو کتابت بھی واقع ہوئی ہو اور الیش کو عیسی سمجھ لیا گیا ہو.جس کے معنی ایشوریا خدا کے ہیں.یہودیوں کا پھیلاؤ بھوش پر ان کے مطابق بنی اسرائیل ہندوستان کے کثیر حصوں میں پھیلے ہوئے تھے.چنانچہ بھوش پیران میں لکھا ہے کہ: سرسوتی ندی کے پوتر برہم ورت کے ماسواسارا جگت ملیچھ چار یہ حضرت موسیٰ کے پیروؤں سے بھرا پڑا ہے.“ پرتی سرگ پرب کھنڈا.ادھیائے 5 شلوک 30)

Page 90

78 پنجاب و تلج و جمنا کے درمیان علاقہ کو ہندو برہماورت کہتے تھے.اس کے علاوہ شمال مغرب کے سارے علاقوں میں چونکہ بنی اسرائیل پھیلے ہوئے تھے اور افغانستان ، ایران، عراق، کشمیر سب جگہ جابجا منتشر تھے اسلئے کہا گیا کہ سارا جگت یعنی ساری دنیا پیروان موسیٰ سے بھری پڑی ہے.بھوشیہ پر ان کے ایک نسخہ میں تو رات کی کتاب پیدائش کے اس حصہ کا خلاصہ درج ہے جس میں آدم سے لے کر حضرت ابراہیم تک کے حالات کا بیان ہے.حمید ہمالیہ کے دامن میں کلیسیا کا قیام بندھیا چل میں ناتھ جوگی‘ ایک ہندو فرقہ ہے اسکے پاس ایک کتاب’ ناتھ مامو بلی نام سے ہے اس میں لکھا ہے : عیسی ناتھ کو اپنے ہم وطنوں نے ہاتھوں میں کیل لگا کر سُولی پر چڑھایا اور مردہ سمجھ کر قبر میں رکھ دیا مگر عیسی ناتھ نے قبر سے نکل کر آریہ دیس میں فرار اختیار کیا اور کوہ ہمالیہ کے دامن (کشمیر) میں ایک خانقاہ قائم کی اور خانیار سرینگر میں انکی سمادھی ( مزار ) ہے.“ وسط ایشیا میں مسیح کی سیاحت کی شہرت (ماہنامہ بکتر اپوہ 1936 ء بزبان بنگلہ ) پنڈت جواہر لال نہرو سابق وزیر اعظم ہندوستان جو تاریخ ہند پر سند کا درجہ رکھتے ہیں اپنی مشہور کتاب "Glimpses of World History ( تاریخ عالم کی جھلکیاں ) نامی میں مسیح کی وسط ایشیا، تبت، کشمیر اور حدود چین تک کے شمالی علاقوں میں سیاحت کرنے اور لوگوں میں اس کا یقین ہونے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : "All over central Asia, in Kashmir, Laddakh and Tibet and even farthest north there is still a strong belief that Jesus or Isa travelled about there." تمام وسطی ایشیاء کشمیر ، لداخ اور تبت اور اسی طرح اس سے اگلے شمالی علاقہ میں اب بھی یہ مضبوط یقین پایا جاتا ہے کہ یسوع یا عیسی نے ان علاقوں میں سفر اختیار کیا.تفصیلات الفرقان فروری 1973ء میں شائع شدہ ہیں.کتاب مذکور جواہر لال نہر و سابق وزیر اعظم بھارت صفحہ 86

Page 91

79 بھارتی اخبارات میں مسیح کے سفر کشمیر کا ذکر بھارت کے بڑے بڑے اخبارات میں بھی مسیح کے سفر کشمیر پر باتصویر مضامین چھپتے رہے ہیں.1972ء میں جے.این سادھونامی ایک محقق نے بھارت کے مشہور انگریزی میگزین السٹریٹد ویکلی انڈیا (بمبئی) میں اپنا سفرنامہ کشمیر شائع کرایا تھا.اس میں مسیح کے سفر کشمیر پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور لکھا ہے کہ مسیح نے فلسطین سے نصیبین اور نصیبین سے فارس کا سفر کیا.فارس سے وہ افغانستان آئے اور وہاں سے پنجاب میں داخل ہوئے.پنجاب سے گلگت گئے ، وہاں سے پھر پنجاب آئے اور بنارس میں وعظ کرتے رہے.یہاں سے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے پھر گلگت چلے گئے اور وہاں کچھ وقت گزار کر لداخ ، تبت اور نیپال گئے اور یہاں سے کشمیر میں چلے گئے اور وہاں عرصہ رہ کر محلہ خانیار ( سرینگر ) میں وفات پائی.مضمون نگار نے لکھا ہے کہ آپ اپنے شاگردوں اور پیروؤں کے ہمراہ سرینگر تشریف لائے اور عس بر (یا عش بر) کے مقام پر جو مشہور شالیمار باغ کے قریب واقع ہے ، آپ نے قیام کیا.راج ترنگنی ( کشمیر کی قدیم تاریخ) کی رُو سے اس مقام کا یہ نام بھی اس کے بعد رکھا گیا جب ( حضرت ) عیسی وہاں ایک چشمہ کے قریب ٹھہرے.یہ چشمہ اب بھی موجود ہے اور مقامی آبادی کے ایک حصہ کے نزدیک متبرک خیال کیا جاتا ہے.(حضرت) عیسی واقعہ صلیب کے بعد بیچ کر ہندوستان میں آئے اور سرینگر کی قبر پر ایک لوح پر عبرانی زبان میں کچھ کندہ ہے لیکن گھس جانے کی وجہ سے بہت مدھم ہو گیا ہے اور اس کا پڑھا جانا مشکل ہے.ہند و محقق نے بعض مغربی سیاحوں کے حوالہ جات بھی مسیح کے صلیب سے بیچ کر کشمیر میں وفات پانے کے بارے میں نقل کئے ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ یہ عجیب حسن اتفاق ہے اور کیا یہ حسن اتفاق ہے؟ کہ کشمیر میں ایک قومی روایت یہود کے ساتھ تعلق کے بارے میں پائی جاتی ہے.اس سرزمین میں بہت سالوں تک یہ افواہ پھیلی رہی کہ حقیقت میں حضرت مسیح کی وفات سولی پر واقع نہیں ہوئی تھی بلکہ آپکو اس پر سے اتارلیا گیا تھا اور گمشدہ اسرائیلی قبائل کی تلاش میں آپ وہاں سے غائب ہو گئے تھے.آپ کشمیر، لداخ اور تبت خورد گئے اور وہاں وفات پا کر سرینگر میں مدفون ہوئے.ہمیں حمد اخبار مذکور 2 اپریل 1972 ء (ملخصاً)

Page 92

80 60 باب ہشتم بدھ مذہب کے لٹریچر میں کشمیر میں مسیح کی آمد کا ذکر واضح ہو کہ عیسائی لٹریچر میں مسیح کی زندگی کے صرف چند سالوں کے حالات ملتے ہیں.واقعہ صلیب کے بعد کی زندگی کے حالات عیسائی لٹریچر میں کہیں نہیں ملتے.جب سے مسیح کی مشرقی زندگی کا انکشاف ہوا ہے تب سے انکی نا معلوم زندگی کے حالات منظر عام پر آنے لگے ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ بدھ مذہب کے قدیم لٹریچر میں بھی نہ صرف حضرت مسیح کے کشمیر آنے کا ذکر ملتا ہے بلکہ انکی زندگی کے بارے بہت سے حالات کا پتہ چلتا ہے جو مسیح کو مشرق میں پیش آئے.حال ہی میں تبت سے ایسی الجیلیں برآمد ہوئی ہیں جن میں مسیح کی نامعلوم زندگی کے حالات ملتے ہیں.یہ انجیلیں بدھ مت کے قدیم لٹریچر میں شامل ہیں.انہی ایام میں حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کے سامنے مسیحیت کا دعویٰ پیش کیا.ایک روسی سیاح نکولس نوٹو وچ نے 1890ء کے قریب بدھوں کے مٹھ واقعہ لیہ ( دارالخلافہ لداخ ) سے یسوع مسیح کی نا معلوم زندگی کے حالات دریافت کر کے فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں شائع کر دیئے اس کتاب میں یہ روسی سیاح لکھتا ہے : ہمس کی خانقاہ کے لاما (مذہبی پیشوا ) نے حیات مسیح پر مشتمل وہ نسخے مجھے پڑھ کر سنائے جو کہ تبتی زبان کے گونا گوں نسخوں سے ترتیب دئے گئے تھے.یہ نسخے لاسہ لائبریری کے دستاویزات سے ترجمہ کئے گئے تھے.یہ دستاویزات ہندوستان، نیپال اور مگدا سے مسیح سے دو سو سال بعد لاسہ لائبریری میں لائی گئیں مسیح کے متعلق جو معلومات بہم پہنچائی گئیں انکو عجیب و غریب طور پر بغیر رابط و تعلق اس زمانہ کے دوسرے واقعات کے ساتھ خلط ملط کر دیا گیا تھا.“ (یسوع مسیح کی نامعلوم زندگی کے حالات صفحہ 51) نکولس نوٹو وچ نے حضرت مسیح کے صلیبی واقعہ کے ذکر کے علاوہ مسیح کی ان تعلیمات کا بھی ذکر کیا ہے جو اس نے ایران میں زرتشت مت اور ہندوستان میں بدھ مت اور ہندومت کے بدعات و نا مشروعات کے بالمقابل پیش کیں.بدھ لٹریچر سے پایا جاتا ہے کہ ہندوستان میں بدھ مت کے اس وقت کے پیروؤں نے میسیج کو بدھ کا مثیل ( اوتار ) قرار دیا اور مسیح کو گوتم بدھ کی اس پیشگوئی کا مصداق قرار دیا جو انہوں نے مسیح

Page 93

81 سے قریب ساڑھے پانچ سو برس پہلے کی تھی کہ " میرے بعد متیا آئے گا جو میرا چھٹامرید ہوگا.متیا پالی زبان میں عبرانی زبان کے مشیحا کا تلفظ ہے.بدھ نے اس کا ایک نام بگو متیا بھی بتایا تھا.بگوا کے معنی سفید رنگ کے ہیں اس سے اشارہ تھا کہ وہ کسی باہر کے ملک سے یہاں آئے گا کیونکہ سفید رنگ ہندوستانیوں کا نہیں ہوتا.بلکہ ان کا رنگ سیاہ یا سیاہی مائل ہوتا ہے.دیکھو بدھ مت کی کتاب لگاوتی سننا ) ( بحوالہ مسیح ہندوستان میں ) حضرت مسیح بدھ کے بعد چونکہ چھٹی صدی میں ہندوستان آئے تھے اسلئے بدھ نے کہا تھا کہ وہ میرا چھٹا مرید ہوگا.اس لئے کہ اس وقت بدھ مت میں کافی خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں جن کی اصلاح مسیح نے کی تھی اور یہاں آکر دعویٰ نبوت بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ مجھے خدا نے یہاں اصلاح و تبلیغ کیلئے بھیجا ہے.چنانچہ بدھ مت کے تقویٰ شعار لوگ مسیح کو بدھ کی پیشگوئی کا مصداق قرار دیکر اس پر ایمان لائے تھے اور پھر دوسو سال بعد اپنی کتابوں میں بدھ کی سوانح کے ساتھ مسیح ناصری کی سوانح بھی درج کر دی جو نسلاً بعد نسل بدھ مذہب کے لاماؤں کے پاس اب تک موجود ہیں بلکہ ساتویں صدی عیسوی کی وہ کتابیں بھی دستیاب ہو گئی ہیں جن میں مسیحا کومی شی ہو ( مسیح) کے تلفظ سے ادا کیا ہے.جیسا سرمونیر ولیم نے بدھ ازم نامی کتاب میں لکھا ہے.روسی سیاح نکولس نوٹو وچ کی کتاب کی اشاعت سے جب مسیحی دنیا میں شور اٹھا اور بعض متعصب عیسائی مسیح کی نا معلوم زندگی کے حالات کو جعلی قرار دینے لگے تو کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں مصنف نے مسیحی دنیا کو چیلنج کیا کہ ایک وفد کشمیر بھیجا جائے جو ان واقعات کی تحقیقات کرے جو میں نے پیش کئے ہیں.اس چیلنج کو سوائے ایک مسیحی خاتون لیڈی میٹرک کے اور کسی نے منظور نہ کیا.وہ دارالخلافہ لداخ لیہ پہنچ کر ان واقعات کی تحقیقات کرتی رہی اور بعد میں اس نے اپنی تحقیقات کے نتائج کو شائع کیا.یہ فاضل خاتون لگھتی ہیں.لیہ شہر میں ہمیں مسیح کی کہانی ملتی ہے جو یہاں عیسی کے نام سے مشہور تھا.اس علاقہ میں مسیح کو خوش آمدید کہی گئی اور یہاں اس نے لوگوں کو تعلیم دی.(ان دی ورلڈ اٹیک صفحہ 215) ہندوستان میں عیسیٰ کی تعلیم نکولس نوٹو وچ کی کتاب یسوع کی نامعلوم زندگی کے حالات میں مذکور ہے کہ ہندوستان میں عیسی نے تعلیم دی کہ :

Page 94

82 1.شودا اور ولیش جن کو ہندو ذلیل سمجھتے ہیں، بحیثیت انسان کے برابری کا حق رکھتے ہیں.-2- کسی کو کسی انسان کی حق تلفی کا اختیار حاصل نہیں ہے کیونکہ پر میشر سب مخلوق کا باپ ہے اور باپ کو سب بچے یکساں پیارے ہوتے ہیں.-3 وید و پران الہامی نہیں ہیں اور پہلے سے انسان کی راہنمائی کیلئے ایک قانون موجود ہے.4- خدا کا خوف کرو اور اسی کے آگے سر جھکاؤ اور اسی کے آگے بھینٹ ( قربانی ) دھرو.5- تری مورتی وشنو شیو اور دیگر دیوتا خدا کے شریک نہیں تھے.حاکم ابدی اور روح ابدی ایک ہی اکھنڈ آتما ہے اور وہی سرشٹی کا کرتا ، بالک اور بیل داتا ہے.6- اس نے پیدائش کی ہے.وہی ہمیشہ سے ہے وہی ہمیشہ رہے گا اور آسمان وزمین میں اس کا کوئی ہمسر نہیں.7- خدا نے کسی ذی روح کو اپنی طاقت میں شریک نہیں کیا، چہ جائیکہ کسی غیر ذی روح کو شریک کرتا کیونکہ وہی قادر مطلق ہے.8.اس نے سب پانی سے خشک حصہ کو علیحدہ کیا اور انسان کو پیدا کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی اور تمام کائنات کو اس کے تابع کیا.وہ ہمیشہ اسی حالت پر رہتا ہے اور ہر چیز کی ہستی کیلئے وقت معین کر رکھا ہے.9- انسان بھول گیا ہے اسلئے خدا کا غضب جلد نازل ہوگا.اس نے پر میشور کے مندروں کو نا پاک چیزوں سے بھر رکھا ہے اور وہ ان اشیاء کی پوجا کرتا ہے جن کو خدا نے اس کے تابع کیا ہے.وہ پتھر اور دھاتوں کی مورتیوں کیلئے انسان کی قربانی کرتا ہے جس میں خدا کی عظیم روح پھونکی گئی ہے.نیز وہ شبانہ روز محنت کرنے والوں کو بیش قیمت نعمتوں کے خوان پر بیٹھنے والے سست الوجود کی مہربانی حاصل کرنے کیلئے حقیر جانتا ہے، جو اپنے بھائیوں کو اعلیٰ خوشیوں سے محروم رکھتے ہیں وہ خودان سے محروم رہیں گے.براہمن اور کھشتر می شودر بنیں گے اور شودروں کے ساتھ پر ماتما ہمیشہ رہے گا.

Page 95

83 83 قیامت کے دن شودروں کو جہالت کی وجہ سے بہت کچھ معاف کر دیگا اور ان کو عذاب دیگا جو مزدوری سے خدائی اختیارات کے آپ مختار بن بیٹھے ہیں.ولیش اور شودروں نے آپ سے سوال کیا کہ وہ کس طرح دعا کریں؟ تو آپ نے فرمایا مورتیوں کی پوجامت کرو کہ وہ سن نہیں سکتیں.ویدوں کومت سنو کیونکہ ان میں سچائی کا خون کیا گیا ہے.اپنے آپ کو سب سے بڑا مت سمجھو اور اپنے ہمسایوں کو ذلیل مت کرو.غریبوں کی مدد کرو، کمزوروں کو پناہ دید و کسی کا نقصان نہ کرو اور دوسروں کی چیز کی طمع مت کرو.پر ماتما ( خدا ) کو چمڑے کی ان آنکھوں سے نہیں دل کی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کریں اور دل کو پاک کریں.پاک دل ہی خدا کی رحمت کے حصول کے لائق ہے.ابدی مسرت نہ صرف اپنے آپ کو بنانے سے حاصل ہوگی بلکہ اوروں کو راہ راست دکھانے سے بھی.مسیح کی یہ تعلیم اسلام کے مطابق ہے اور عقائد کے بارے میں عیسائیوں کے موجودہ نظریات کے خلاف ہے لیکن انجیل کی تعلیم سے ملتی جلتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ عملی تعلیم دینے والا انجیل ہی کا واعظ ہے نہ کوئی دوسرا.یسوع مسیح کی نامعلوم زندگی کے حالات فصل پنجم از نکولس نوٹو وج مترجم اردو 1899 ء مطبع جالندھر.

Page 96

84 باب هشتم قدیم کشمیر کے لٹریچر میں مسیح کی آمد، دعوی نبوت اور وفات کا ذکر مذکورہ قرآنی بیانات کی تائید قدیم کشمیر کی تاریخوں اور مذہبی کتب سے بھی ہوتی ہے جن میں واضح طور پر لکھا ہے کہ حضرت مسیح پیغمبر بنی اسرائیل جن کا ایک نام یوز آسف بھی تھا، فلسطین سے کشمیر کی طرف مرفوع ہوئے.انہوں نے دعویٰ نبوت کیا اور اپنے آپ کو اہل کشمیر کیلئے پیغمبر قرار دیا کہ وہ انکے لئے خدا کے حکم سے پیغمبر مبعوث کئے گئے ہیں.انہوں نے بقیہ عمر یہیں بسر کی اور بالآخر فوت ہو کر محلہ انز مرہ (سرینگر متصل خانیار ) دفن ہوئے اور انکے مقبرہ سے انوار نبوت جلوہ گر ہیں.چنانچہ ایک قدیم فارسی تاریخ ( قلمی ) جو آج سے پانچ سوسال قبل بدشاہ والی کشمیر کے عہد میں ایک مسلمان محقق نے قلمبند کی، اس کا قلمی نسخہ غلام محی الدین صاحب وانچو ( سرینگر ) کے پاس اس وقت موجود تھا.جبکہ 1947 ء سے قبل خواجہ نذیر احمد مصنف ”جیز زان ہیون آن ارتھ نے اسے دیکھا تھا اور اسکی زیر نظر عبارت کا عکس لیا تھا.اسکے شروع کے اور اق شکستہ ہونے کی وجہ سے مصنف کا پتہ نہیں چل سکا، مگر مؤرخین کا اندازہ ہے کہ یہ ملا نادری کی تصنیف ہے جس کی تاریخ کشمیر میں بڑی اہمیت ہے.مگر عرصہ دراز سے یہ گم چلی آرہی تھی.مصنف اس تاریخ میں راجہ گو پادت کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں.راجـه گوپانند پسرش بعد از عزل اوبر حکومت رسید و در عهد حکومت اور بتخانه هائے بسیار(تعمیر شدند)بالائے کوہ سلیمان گنبد شکسته بوده برائے تعمیرش یکی از وزرائے خود نامی سلیمان که از پارس آمده بود تعیین نمود.هندوؤاں اعتراض کردند که او غیر دین ملیچه است.دریں وقت حضرت یوز آسف از بیت المقدس بجانب وادئ اقدس مرفوع شده دعوائے پیغمبر کرد.شب و روز عبادت باری تعالیٰ کرد در تقوی پارسائی بدرجه اعلی رسیده خود را بسالت اهل کشمیر مبعوث گماریـه و مـدعـوت خلائق اشتغال نمود زیر اکه کشمیر مردمان خطه عقیدت مند آنحضرت بودند.راجه گوپانند اعتراض هندوؤاں پیش او کرد.بحکم آنحضرت

Page 97

85 سلیمان که هندوان نامش سندیمان دادند تکمیل گنبد مذکور کرد (سال پنجاه و چهار و نیز بر نردبان نوشت که دریں وقت یوز آسف دعوی پیغمبری می کند و بر دیگر سنگ نردبان هم نوشت که ایستان یسوع پیغمبر بنی اسرائیل است و در کتاب هندوان دیده ام که آنحضرت بعینه حضرت عیسیٰ روح الله على نبينا و عليه الصلواة و السلام بود نام یوز آسف هم گرفت و العلم عندالله عمر خود درین بسر برد بعد رحلت بمحله انز مره آسود نیز می گویند که بروضه آنحضرت انوار نبوت جلوه گرمی باشند.و راجه گوپادت شصت سال و دو ماه حکومت نموده در گزشت.» ترجمہ: "راجہ اکھ کے معزول ہونے کے بعد اسکا بیٹا راجہ گو پانند ( گو پادت) حکمران ہوا.اس کے عہد حکومت میں بہت سے مندر تعمیر ہوئے.کوہ سلیمان کی چوٹی پر ایک شکستہ گنبد تھا.راجہ نے اسکی تعمیر کے لئے اپنے وزیروں میں سے ایک شخص سلیمان نامی کو جو فارس سے آیا تھا، مقرر کیا.ہندوؤں نے اعتراض کیا کہ یہ ملیچھ ہے ہمارے مذہب کا آدمی نہیں.اس وقت حضرت یوز آسف بیت المقدس سے وادی اقدس ( کشمیر ) کی جانب مرفوع ہوئے اور آپ نے پیغمبری کا دعویٰ کیا.شب و روز عبادت الہی میں مشغول تھے اور تقویٰ اور پارسائی کے اعلیٰ درجہ کو پہنچ کر خود کو اہل کشمیر کی رسالت کیلئے مبعوث قرار دیا اور دعوت خلائق میں مشغول تھے.چونکہ خطہ کشمیر کے اکثر لوگ آنحضرت (یوز آسف) کے عقیدت مند تھے راجہ گو پادت نے ہندوؤں کا اعتراض انکے سامنے پیش کیا اور آنحضرت کے حکم سے سلیمان نے جسے ہندوؤں نے سند یمان کا نام دیا، گنبد مذکور کی تکمیل کی ( 54 ء ) اس نے گنبد کی سیڑھی پر لکھا کہ اس وقت یوز آسف نے دعویٰ پیغمبری کیا ہے اور دوسری سیڑھی پر لکھا کہ آپ بنی اسرائیل کے پیغمبر یسوع ہیں.(مصنف کہتا ہے ) کہ میں نے ہندوؤں کی کتاب میں دیکھا ہے کہ آنحضرت (یوز آسف) بعینہ حضرت عیسی روح اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام تھے اور آپ نے یوز آسف کا نام بھی اختیار کیا ہوا تھا.والعلم عنداللہ.آپ نے اپنی عمر اسی جگہ بسر کی اور وفات کے بعد محلہ انز مرہ (سرینگر ) میں دفن ہوئے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرت کے روضہ سے انوار نبوت جلوہ گر ہوتے ہیں.راجہ گو پادت نے ساٹھ سال دوماہ حکومت کرنے کے بعد انتقال کیا.“ ( تاریخ کشمیر ( فارسی قلمی ) صفحه 69) قوسین میں دیے گئے الفاظ کرم خوردہ تھے جو بڑی مشکل سے پڑھے گئے.تاریخ کشمیر قلمی صفحہ 169 جس کا عکس اگلے صفحے پر شائع کیا جارہا ہے.

Page 98

98 86 حضرت مسیح کا رفع الی اللہ اور کشمیر مصنف تاریخ مذکور نے جو یہ الفاظ لکھے ہیں کہ یوز آسف بیت المقدس سے وادی اقدس (کشمیر) کی طرف مرفوع ہوئے اس سے ظاہر ہے کہ مصنف موصوف کے نزدیک قرآن شریف کی آیت بَلْ رَفَعَهُ الله إِلَيْهِ ( النساء آیت 159) کے یہ معنی تھے کہ حضرت مسیح کشمیر کی مقدس وادی کی طرف مرفوع ہوئے یعنی اس بلند سر زمین کی طرف ہجرت فرمائی نہ کہ آسمان کی طرف.اس سے پتہ چلتا ہے کہ سلطان زمین العابدین بدشاہ کے عہد میں مصنف موصوف کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت عیسی آسمان کی طرف نہیں بلکہ کشمیر کی طرف مرفوع ہوئے تھے کیونکہ یوز آسف اور یسوع پیغمبر بنی اسرائیل کو ایک ہی شخصیت قرار دے رہے ہیں اور آیت و أوَيْنَا هُمَا إِلى رَبُوَة سے بھی اسکی تائید ہوتی ہے کہ حضرت مسیح رفع الی اللہ کے ایک معنی کشمیر جنت نظیر کے محفوظ اور بلند و بالا علاقہ میں آپ کو عزت دیے جانا تھے.اس تاریخ کے حوالہ کے مطابق راجہ گو پادت نے ہندوؤں کے جھگڑے کا معاملہ تصفیہ کیلئے حضرت عیسی کے پیش کیا اور جو فیصلہ کیا اسے کشمیر کی ہندو رعایا نے قبول کر لیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ راجہ گو یادت ( راجہ کشمیر ) بھی حضرت عیسی کا عقیدت مند تھا اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کشمیر میں حضرت عیسی کے پیروؤں کی کثرت ہوگی.اگر ایسا نہ ہوتا تو بادشاہ ہندور عایا کا جھگڑا فیصلہ کیلئے حضرت عیسی کے پیش نہ کرتا.تخت سلیمان کے کتبوں میں مسیح کے دعویٰ نبوت کا ذکر تخت سلیمان جس کا ذکر اوپر کے اقتباس میں ہوا ہے کشمیر کا قدیم معبد ہے جو ہندوؤں کے قبضے میں تھا اس کے دو مقابلے کی دیواروں کے اندر سیڑھیاں بنائی گئی ہیں.ان دو دیواروں اور معبد کے دوستونوں پر فارسی زبان کے خط ثلث میں چار کتبے لکھے ہوئے ہیں.دو کتبے تو صاف پڑھے جاتے ہیں لیکن دیواروں کے دو کتبے سکھوں کے عہد میں جب 1819ء میں انکا قبضہ کشمیر پر ہوا تھا، مٹادیے گئے.مٹے ہوئے نقوش اب بھی نظر آتے ہیں مگر پڑھے نہیں جاتے.مثلاً نادری کی مذکورہ تاریخ کشمیر کے علاوہ جن تاریخوں اور آثار قدیمہ پر مشتمل کتابوں میں ان کتبوں کا ذکر آتا ہے ان میں سے ایک خواجہ حسن ملک (چیوڈارہ) کی تاریخ کشمیر ہے انہوں نے یہ تاریخ جہانگیر بادشاہ ہند کے عہد میں لکھی تھی.وہ ان چاروں کتبوں کی موجودگی کا ذکر کرتے ہیں لیکن انکا متن درج نہیں کرتے.(دیکھو صفحہ 11-12) 2.دوسری مفتی غلام نبی خانیاری کی کتاب و جیز التاریخ ہے جو 1857ء میں لکھی گئی اس میں

Page 99

86 87 چار کتبوں کا ذکر موجود ہے.تیسرے کتبے کے الفاظ وہ یوں درج کرتے ہیں : دریں وقت یوز آصف دعوی پیغمبری میکند سال پنجاه و چهار جب یہ تاریخیں لکھی گئیں اس وقت یوز آسف کے ذکر والے کتبے مٹے نہ تھے بلکہ صاف پڑھے جاتے تھے.3- تیسری کتاب میجر ایچ.ایچ.کول کی ہے.وہ اپنی کتاب ”ایلسٹریشن آف انیشنٹ بلڈنگ ان کشمیر میں پہلے دو کتبوں کا فوٹو شامل کرتے ہیں مگر اس وقت سکھوں نے چونکہ دوسرے کتبے مٹا دیے تھے اسلئے ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ مٹے ہوئے نقوش ہیں جو دونوں دیواروں کے اطراف پر فارسی زبان میں لکھے ہوئے موجود ہیں.(صفحہ 5) -4 چوتھی کتاب پنڈت رام چند کاک کی ہے.وہ انمیشنٹ مینومنٹس آف کشمیر میں دوکتبوں کی عبارت نقل کر کے باقی دو کتبوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ دو کتبے پچھلی دوصدیوں میں مٹا دیے گئے.عبارت کا نقش ابھی تک موجود ہے جو فارسی رسم الخط میں ہے.(صفحہ 74) پیرزادہ غلام حسن نے سیڑھیوں کے دونوں پہلوؤں کی دیوار پر جن دو عبارتوں کا ذکر کیا ہے ان کا ترجمہ یہ ہے.(1) اس وقت یوز آسف نے اپنی نبوت کا اعلان کیا.(2) وہ یسوع پیغمبر بنی اسرائیل ہے.پھر لکھا ہے جب سکھوں نے کشمیر فتح کیا تو یہ عبارتیں مٹادی گئیں ، یہ اب بھی نظر آتی ہیں مگر صاف طور پر پڑھی نہیں جاتیں.( تاریخ کشمیر پیرزادہ غلام حسن باب 25 ریسرچ لائبریری سرینگر ) راجہ گو یادت اور یوز آسف کا زمانہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ یوز آسف راجہ گو پادت کے زمانہ میں کشمیر میں آئے تھے ، راجہ گو پادت کے زمانہ میں کافی اختلاف ہے.اس کا عہد چار سو سال قبل مسیح سے لے کر ایک سوسال قبل مسیح تک بیان کیا جا تا ہے.انگریزی کتاب ”جیز زان ہیون آن ارتھ میں اس راجہ کے عہد حکومت کی تعیین کے متعلق ایک باب قائم کیا گیا ہے اور اس میں تمام مروجہ سنوں پر پر مفصل بحث کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ اس راجہ کا عہد متعین کرنے میں غلطی واقع ہوئی ہے.دراصل اس راجہ کا عہد حکومت 49ء سے 109 ء تک ہے اور تخت سلیمان کے کتبوں میں جو سال پنجاہ و چہار (54ء) لکھا گیا ہے وہ دراصل 3154 لوکی کا کے مطابق ہے جو راجہ گو پادت کے زمانہ میں رائج تھا اور پنڈت کلہن نے بھی راج ترنگنی میں لوگک سنہ ہی استعمال کیا ہے

Page 100

88 اور آج کے زمانوں کی طرح قدیم زمانہ میں بھی سنہ لکھتے وقت صدیاں حذف کی جاتی تھیں.مثلاً جب 3154ء ہوتا تھا تو اختصاراً صرف 54 لکھا جاتا تھا جیسا آج کل بھی رواج ہے کہ مثلاً آج عیسوی 1960ء ہے تو اسے بطور اختصار 60ء لکھا جاتا ہے اور صدیاں حذف کی جاتی ہیں اور 3154 لولک 78 عیسوی کے مطابق ہوتا ہے.خواجہ موصوف کی بحث سے قطع نظر مؤرخین کشمیر پہلی صدی عیسوی میں بھی ایک راجہ گو پادت کا ذکر کرتے ہیں جو گو پارت اول کی نسل سے تھا.جس کے متعلق لکھا ہے کہ یہ راجہ قندہار کے پاس کشمیر سے جا کر پناہ گزین ہوا تھا.گو پادت ایک خطاب ہے جو کئی راجاؤں نے اختیار کیا.(دیکھو مکمل تاریخ کشمیر از محمد دین فوق حالات گوپادت) کشمیر کی قدیم تاریخ راج ترنگنی میں ابتدائی راجاؤں کے حالات بلا تعیین زمانہ لکھ دیے گئے ہیں اور قدیم ہندو تاریخوں کا یہی حال رہا ہے.بالکل ممکن ہے کہ حضرت مسیح گو پادت دوئم کے زمانہ میں کشمیر آئے ہوں اور مسلسل تاریخ نہ ہونے کی وجہ سے اسے گو پادت اول کی طرف منسوب کر دیا گیا ہو.اس کا موید قرینہ یہ ہے کہ گو پادت دوئم کے عہد میں ہمیں تاریخ میں سند یمان کا ذکر ملتا ہے اور سند یمان کے گرو ایشاں دیو کا بیان بھی تاریخ کشمیر میں ملتا ہے.اس لحاظ سے سنین کا اختلاف ختم ہو جاتا ہے.پہلی صدی عیسوی میں سند یمان ، دیو اور گو پادت متنوں کا ذکر اس ایمان کو تقویت دیتا ہے کہ یہ واقعات گو پارت دوم سے تعلق رکھتے ہیں نہ اول سے.یوز آسف کے صلیبی زخم کشمیر میں مندمل ہوئے کشمیر میں ایک اور قلمی تاریخ عربی زبان میں ہے.ہماری جماعت کے ایک معزز فردسید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جب 1932ء میں کشمیر میں گئے تھے تو انہوں نے اس قلمی تاریخ کو وہاں دیکھا تھا.اس میں یوز آسف کے متعلق جس صفحہ میں ذکر کیا گیا ہے شاہ صاحب نے اس کا فوٹو لے لیا تھا جو قادیان میں محفوظ ہے.اس عربی قلمی تاریخ میں لکھا ہے: یوز آسف بڑا بزرگ انسان تھا جو باہر سے کشمیر میں آیا اور اہل کشمیر کو وعظ ونصیحت کرتا ، اسکی نصیحت سے لوگوں نے نیکی اختیار کر لی.وہ بیماروں کو اپنی دعا سے صحت دیتا تھا.شروع شروع میں وہ غمگین رہتا تھا لیکن قریباً 65 سال اس ملک میں رہنے اور بہت اہل کشمیر کی اصلاح کے بعد اس کے ہموم نفس دور ہو گئے.جب وہ کشمیر آیا تو ایشاں دیو عیسی دیو ہی کی بگڑی ہوئی صورت نظر آتی ہے.دیو سنسکرت میں دیوتا اور دیوتا پیغمبر کے ہم معنی ہے.پس عیسی دیو کے معنی ہوئے عیسی پیغمبر.انگریز متر جموں نے عیسانا دیو لکھا ہے یہ بھی عیسی ہی کا بگڑا ہوا تلفظ ہے.

Page 101

89 اس کے ہاتھ اور پاؤں متورم رہتے تھے مگر بعد میں اچھے ہو گئے.اسکے دس حواری بھی تھے جن کو اس نے بپتسمہ دیا.“ راج ترنگنی میں " ایشاں دیو" کے نام سے عیسی کا ذکر (قلمی تاریخ کشمیر عربی) اسلامی عہد کی تاریخوں کے علاوہ اسلام سے قبل ہند و عہد کی تاریخوں میں بھی ایشاں دیو کے نام سے حضرت عیسی کی کشمیر میں موجودگی اور پیشگوئی کرنے کا ذکر آیا ہے.ان میں سے ایک مشہور اور قدیم تاریخ راج ترنگنی بھی ہے جو ایک ہندو برہمن پنڈت کلہن نے بارہویں صدی عیسوی یعنی آج سے آٹھ سو سال قبل لکھی تھی.یہ تاریخ ہندوستان کی قدیم تاریخ کا بھی ماخذ ہے اس میں پنڈت کلہن نے پہلی صدی عیسوی میں سلیمان اور اس کے گر و عیسی دیو کا دلچسپ واقعہ ذکر کیا ہے.ہند و مؤرخین سلیمان کو سند مستی ، سندھی متی، سمدھی متی ، سندھیمت کے مختلف ناموں سے موسوم کرتے ہیں اور عیسی کا نام عیسا نادیو، ایشان دیو سند یمان کا گرو وغیرہ لکھتے ہیں.بھوشیا پر ان میں عیسی مسیح بھی لکھا ہے.مسلمان مؤرخین سند یمان کا نام سلیمان اور حضرت مسیح کا نام یوز آسف عیسی روح الله، پیغمبر بنی اسرائیل وغیرہ لکھتے ہیں.تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ سب ہندو مسلم مؤرخین عیسی دیوا اور سند یمان کے اصل واقعہ سے متفق ہیں.صرف زبان کے لہجے اور مذہبی تصورات کی وجہ سے اختلاف نظر آتا ہے.راج ترنگنی میں عیسی کا ذکر ایشان دیو کے نام سے کیا گیا ہے اور سند یمان کا سندھی مستی کے نام سے.یہ دلچسپ واقعہ ملخصاً درج ذیل ہے.سندھی متی اس راجہ (جے اندر) کا ایک وزیر تھا.شریر آدمیوں نے اس معتبر مشیر کے برخلاف راجہ کے کان بھرنے شروع کئے اور اسے سندھی متی سے بالکل متنفر کر دیا.اس نے غصہ میں آکر اسے دربار سے نکال دیا اور اسکی جائیداد ضبط کر لی.انہی دنوں میں یہ افواہ تمام شہر میں پھیل گئی کہ سندھی متی کشمیر کا راجہ بنے گا.راجہ کو یقین دلایا گیا کہ معزول وزیر نے ہی یہ افواہ اڑائی ہے.راجہ نے اس خیال سے کہ اگر یہ خیال درست نکلا تو اس کا کیا نتیجہ ہو گا ؟ سندھی متی کو ہتھکڑی لگا کر جیل خانہ میں ڈال دیا.جہاں وہ دس سال تک راجہ کے مرتے دم تک قید رہا.راجہ لا ولد تھا اس نے خیال کیا کہ میرے بعد سندھی متی ضرور تخت کا مالک بنے گا.چنانچہ اس نے سندھی متی کو قتل کرنے کا حکم دے دیا.جلا دوں نے اسے رات کے وقت سولی پر چڑھا دیا.جب راجہ نے سنا تو اس نے بھی مطمئن ہو کر جان دیدی.ادھر سندھی متی کے صلیب دیے جانے کی خبر اسکے گرو ایشاں دیو کوملی تو اس نفس کش سادھو کا دل بے قابو ہو گیا.شمشان بھومی میں جا کر جب گرو

Page 102

90 نے اسے اس حالت میں دیکھا تو اس کا دل بھر آیا.اس نے اسکی پیشانی پر مفصلہ ذیل شلوک لکھا دیکھا.اسکی زندگی افلاس میں گزرے گی.دس برس قید میں رہے گا.سولی پر جان دیگا اور اسکے بعد تخت کا مالک بنے گا.آدھی رات کے وقت ایشان دیو نے جو اپنے خیالات کی الجھن میں پڑا ہوا جاگ رہا تھا ریکا یک آسمانی عنبر کی خوشبو محسوس کی اور ایک قسم کا بھیانک شور جو گھنٹوں اور نقاروں کی آوازوں سے پیدا ہوتا تھا اسکے کانوں میں پہنچا.اسکے بعد جو گنیوں کا ایک مجمع جن کے گرد روشنی کا ہالہ بنا ہوا تھا اسکی نظر پڑا.جس نے سندھی متی کے پنجر کو اپنے حلقے میں کر لیا.کیا دیکھتا ہے کہ مجمع اسکے اعضاء کو جوڑ رہا ہے.اب سندھی متی ایک ایسے شخص کی طرح اٹھ بیٹھا جیسے کوئی خواب سے بیدار ہوتا ہے.اسکے بعد یہ آواز آئی.اے ایشان! خائف مت ہو، یہ شخص جسے ہم نے آسمانی جسم سے مرتب کیا ، زمین پر سندھی متی کے نام اور اپنے شریفانہ چال چلن کی وجہ سے ” آریہ سماج کے لقب سے مشہور ہوگا.ایشان دیو نے اسے گلے لگالیا.کشمیر کے لوگوں نے بھی اسکے دوبارہ زندہ ہونے پر بڑی خوشی منائی اور متفق ہو کر لا ولد جے اندر کی جگہ اسے تخت پر بٹھایا.وہ فقیرانہ زندگی چھوڑ کر بادشاہ نہ بننا چاہتا تھا مگر اہل ملک کے اصرار اور اپنے گرو ایشان دیو کے فرمان کے مطابق اس نے تخت پر بیٹھنا منظور کر لیا.اس نے عدل وانصاف سے حکومت کی.اس نے ایک معبد اپنے گرو ایشان دیو کے نام پر بنوا کر اس کا نام ایشی شور ( عیسیٰ ایشور.ناقل ) قرار دیا.عبادت میں بسر کرتے ہوئے اس نے 47 سال حکومت کی اور آخر سلطنت چھوڑ کر کسی غار میں عبادت کیلئے چلا گیا.“ راج ترنگی مترجم اردواز ٹھا کر اچھر چند شاہپور یہ ملخصا از صفحه 177 تا صفحہ 194 مطبوعہ 1912ء) پنڈت کلہن نے اس بیان میں دراصل حضرت عیسی علیہ السلام کے کشف کا ذکر کیا ہے جس میں وحی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سمجھایا کہ سندیمان سولی کی موت سے بچ جائیگا اور تخت نشین ہوگا ، چنانچہ ایسا ہی ہوا.اس کشف کے یہ معنی نہیں تھے کہ سندیمان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوا.اسکی تعبیر یہ تھی کہ گو اس کو مردہ کے حکم میں کر دیا گیا ہے تاہم خدائی تائید سے وہ نئی زندگی پائے گا.یہاں تاریخ کچھ الجھی ہوئی معلوم ہوتی ہے کیونکہ ہندوؤں کی تاریخ محفوظ نہیں تھی.ملا قادری کی تاریخ میں سلیمان کو راجہ گو پادت کا وزیر قرار دیا گیا ہے اور اسی زمانہ میں وہ موجود تھا.لیکن پنڈت کلہن کے مطابق اسے قتل کرنے کا حکم راجہ جے اندر دیتا ہے.جس کے کان سند یمان کے خلاف بھرے گئے اور ان دونوں راجاؤں کے درمیان ساڑھے تین سوسال کا فرق پڑتا ہے.اس صورت میں قرین قیاس ہے کہ جے اندر راجہ گو پادت کا لقب ہو کیونکہ عام تاریخوں میں سند یمان

Page 103

91 یا سلیمان کو راجہ گو پادت کا وزیر بیان کیا گیا ہے اور اگر خواجہ نذیر احد کی تحقیق کے مطابق جو او پر گزرگئی ان را جاؤں کے زمانہ کی تعیین میں غلطی واقع ہوگئی ہے تو یہ الجھن دور ہو جاتی ہے.یہ جولکھا گیا ہے کہ سندیمان صلیب پر مر گیا تھا اور مر کر زندہ ہو گیا تھا یہ خلاف واقعہ ہے بلکہ واقعہ یہ کہ وہ مرے ہی نہ تھے.انکا مرنا صرف مشہور کر دیا گیا.عیسی دیو کی دعاؤں اور اسکے ہمدردوں کی کوششوں کے ذریعے خدا نے اسے بچالیا.چنانچہ نشی محمد الدین فوق لکھتے ہیں: یہ حکم ( سند یمان کو صلیب دینے کا حکم ) معمولی نہ تھا.لوگوں کو وزیر سے جو بالکل بے گناہ تھا خود بخود ہمدردی ہو گئی بلکہ یہ حکم سن کر پھانسی دینے والے جلا د بھی کانپ اٹھے.انہوں نے جھوٹ موٹ یہ خبر مشہور کر دی کہ وزیر کو سولی پر چڑھا دیا گیا ہے.راجہ نے اس خبر کو خوشی سے سنا مگر چونکہ وقت آ پہنچا تھا، دوسرے ہی دن اولاد کی حسرت لئے چل بسا.سندھی متی مرا نہیں تھا بلکہ زندہ رہا اور تخت کشمیر کا مالک بنا.“ (حکایات کشمیر صفحہ 21) یوز آسف یا مسیح شہزادہ نبی ایک اور تاریخ کشمیر ( فارسی ) میں بھی یوز آسف کے باہر سے کشمیر میں آنے ،اہل کشمیر کیلئے اسلام سے قبل پیغمبر ہونے اور کشمیر میں وفات کا ذکر آیا ہے.اس کا نام ” تاریخ واقعات کشمیر ہے اور اسے خواجہ محمد ع دیدہ مری نے 1148ھ میں لکھا ہے.انکی نسبت سے اسے تاریخ اعظمی کہتے ہیں.اس میں اولیاء کشمیر کے حالات فارسی میں لکھے گئے ہیں.اس میں الگ الگ جگہ پر مقبرہ موسیٰ علیہ السلام اور مقبرہ یوز آسف دونوں کا ذکر ہے.اس کتاب میں جو مطبع محمد لاہور میں 1303ھ میں شائع ہوئی سید نصیر الدین خانیاری ( مقبرہ خانیار ) کا ذکر ہے.یوز آسف کے مقبرہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے.در جوار ایشان سنگ قبری واقع شده در عوام مشهور است که آنجا پیغمبر آسوده است که در زمان سابقه کشمیر مبعوث شد که بعد قضیه دور و دراز حکایتی مے نویشد که یکی از سلاطین زاده که براه زهد و تقوی آمده ریاضت و عبادت بسیار کرد برسالت مردم کشمیر مبعوث شده در کشمیر آمده بد عوت خلائق اشتغال نمود بعد رحلت در محله انز مره آسود و در آن کتاب نام آن پیغمبر را یوز آسف نوشت انزی مره و خانیار متصل واقعست اکثر اصحاب کمال خصوصاً مرشد راقم

Page 104

92 در خدمت ملاعنایت الله شال میفرمودند که از این مکان وقت زیارت فیوض و برکات نبوت ظاهر میشود اس (نصیر الدین خانیاری ) کی ہمسائیگی میں ایک قبر کا پتھر واقع ہے جس کے بارے میں عوام میں مشہور ہے کہ وہاں ایک پیغمبر مدفون ہیں جو پہلے زمانہ میں کشمیر میں مبعوث ہوا تھا.یہ مقام’ مقام پیغمبر“ مشہور ہے.تاریخ کی ایک کتاب میں دیکھا گیا ہے جس میں دور دراز کی باتوں کے بعد حکایت لکھی ہے کہ کوئی شہزادہ تھا جس نے زہد و تقویٰ اور ریاضت و عبادت کا طریق اختیار کیا اور وہ اہل کشمیر کیلئے پیغمبر مبعوث ہوا.وہ کشمیر میں آیا اور مخلوق خدا کو دعوت الی الحق کے کام میں مشغول ہوا.جب انہوں نے وفات پائی تو محلہ انز مرہ میں دفن ہوئے اس کتاب میں اس پیغمبر کا نام یوز آسف لکھا تھا.آئنز مرہ محلہ خانیار ( سرینگر) کے متصل ہے.اکثر اصحاب کمال بالخصوص میرے مرشد ملا عنایت اللہ کی خدمت میں بیان کرتے تھے کہ اس قبر کی زیارت کے وقت نبوت کے فیوض و برکات ظاہر ہوتے ہیں.“ اس اقتباس سے خواجہ محمد اعظم دیدہ مری نے جس تاریخ کا حوالہ دیا ہے کہ اس میں یوز آسف کے حالات لکھے ہوئے تھے اگر چہ اسکا نام انہوں نے نہیں لکھا مگر اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر میں ایسی تاریخیں ضرور موجود تھیں جن میں یوز آسف نبی کے حالات لکھے ہوئے تھے.مصنف موصوف نے اسے شہزادہ نبی تورات و انا جیل میں حضرت عیسی علیہ السلام کیلئے منقول ہے جو حضرت داؤڈ وسلیمان بادشاہوں کے خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے شہزادہ نبی کہلاتے تھے.(دیکھوز بور باب 2 آیت 6 باب 45 آیت 1 تا 7.یسعیاہ باب 32 آیت 1 - یرمیاہ باب 23 آیت 5 - حز قیل باب 37 آیت 24 _متی باب 21 آیت (5) اس بات کیلئے یوز آسف اور مسیح ایک ہی شخصیت کے دونام تھے مزید قرینہ یہ ہے کہ مصنف مذکور لکھتا ہے کہ وہ باہر سے کشمیر میں آئے کیونکہ وہ کشمیریوں کیلئے پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث ہو چکے تھے اور ملا قادری کی تاریخ کشمیر کی عبارت جس کا عکس اس کتاب میں شامل ہے ، بتصریح بتلاتی ہے کہ وہ بیت المقدس سے کشمیر کی وادی اقدس میں ہجرت کر کے آئے تھے اور وہ بنی اسرائیل کے پیغمبر حضرت عیسی علیہ السلام ہی تھے، جیسا پہلے بیان ہو چکا ہے.مقبره یوز آسف کا زیارت گاہ عوام و خواص ہونا مقبره یوز آسف پر زائرین کی آگاہی کیلئے سرینگر میں آج کل جو کتبہ لگایا گیا ہے اس پر خواجہ محمد اعظم تاریخ واقعات کشمیر (فارسی) صفحه 82

Page 105

93 موصوف کی منقولہ بالا عبارت درج کی گئی ہے اور اسکا عنوان ہے روضہ حضرت یوز آسف خانیار قبر کے سر ہانے قدیم زبان میں جو کتبہ لگا ہوا تھا اب وہ غائب ہے.اسکی جگہ مذکورہ کتبہ لگا دیا گیا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ مقبرہ یوز آسف قدیم سے زیارت گاہ خواص و عوام چلا آ رہا ہے.مقبره یوز آسف کے مجاوروں کا تولیت نامہ مقبرہ یوز آسف کے مرجع و زیارت گاہ خواص و عوام ہونے کا ذکر ایک اور دستاویز میں بھی ملتا ہے یہ دستاویز مزار یوز آسف کے مجاور مستمی سیف الدین کے پاس قدیم خاندانی دستاویز کی حیثیت سے موجود چلی آرہی ہے جو 11 جمادی الثانی 1194ھ رحمان خان ولد امیر یار ( مجاور ) کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے متعدد بزرگوں کے دستخطوں اور مواہیر کے ساتھ خادم شرع محمدی مفتی ملا فاضل نے تحریر کر کے دیدی تھی.اس وقت مسلمانوں کا دور حکومت تھا.اس تولیت نامہ کی عبارت درج ذیل ہے.در ایس دلا در محکمه علمیه دارالعدالت قضا یا حاضر آمده مسمی رحمان خان ولد امیر یار که در حال همین مسنه که بزیارت شریف یوز آسف پیغامبر مقدیکه مشتمل بر صرف امراء وزراء و سلاطین و رؤساو عوام و خواص براه نذر و نیاز بر شدان را کلیته ولی حقدار است دیگران را از مداخلت امتناع بود بعد اخذ شهادت همچنین ثابت شد که در عهد حکومت راجه گوپانند که بانی عمارت کوه سلیمان و بر خانها بسیار است شخصی مرتاض یوز آصف نام بادشاه زاده هندوستان که تارک دنیا شده متورع و مفرداست روزوشب از ریاضت و عبادت خدا وند تعالیٰ نمے آسود اکثر در خلوت می گزارند تا آنکه بعد فرد شدن آب طوفان نوح کشمیر آباد شده بود و مردمان همگی بت پرستی استغال و رزیدند.یوز آصف پیغامبر برسالت مردمان کشمیر مبعوث شده براه توحید میخواند تاسال رجلش در رسیده و ممات یافت که در این زبان باسم روضه بل مشهور است بسال 871 سید نصیر الدین از اولاد امام موسی علی رضا است بجواد یوز آصف تدفین گزید چونکه زیارت گاه مرجع خواص وعوام است و رحمان خان مذکور نسلاً بعد نسل خادم زیارت گاه است همیں قدر که عالی ورسافل نذرو نیاز میرسد وراحقدار است و دیگران را استحقاقے ورثے اس جگہ عرض حال کرڈ“ کے الفاظ لگتے ہیں جو شاید کاتب کی غلطی کی وجہ سے رہ گئے ہیں.

Page 106

94 24 نیست لهذه وثيقه هذا سند باید (المرقوم 11 جمادى الثاني (1194ه) اس دستاویز کے نیچے جن بزرگوں کے دستخط یا مواہیر ہیں انکے نام یہ ہیں.(1) بابا محمد اعظم (2) عبدالشکور (3) محمد اکبر (4) محمد اعظم خادم درگاه (5) حافظ احسن اللہ (6) رضا اکبر (7) قائم شاہ (8) خضر محمد (9) مہری عطاء.ترجمہ: محکمہ عالیہ دار العدالت قضایا میں حاضر ہو کر مسمی رحمان خاں ولد امیر یار نے بیان کیا ہے کہ اس سال یوز آصف کی قبر کی زیارت پر امراء ووزراء وسلاطین ورؤسا اور عوام وخواص کی طرف سے نذرونیاز کے طور پر جو پہنچ رہا ہے اس کا کلیتہ حقدار ولی ہوں ، دوسروں کیلئے اس میں مداخلت ممنوع رہی ہے.شہادت لینے کے بعد اس طرح ثابت ہوا ہے کہ راجہ گو پانند کے عہد حکومت میں جو کوہ سلیمان کی عمارت اور بہت سے بت خانوں کا بانی ہے ایک ریاضت کر نیوالا یوز آصف نام ہندوستان کا شہزادہ دنیا ترک کرنے میں پر ہیز گار ویگانہ ہے.دن رات ریاضت و عبادت باری تعالیٰ میں مشغول تھے.اکثر وقت خلوت میں گزارتے تھے ، حضرت نوح کے طوفان کے فرو ہونے کے بعد کشمیر میں آباد ہو گیا تھا اور سب لوگ بت پرستی میں مشغول تھے.یوز آصف پیغمبر کشمیری لوگوں کی رسالت پر مبعوث ہوئے.تو حید کی راہ کی طرف دعوت دیتے تھے یہاں تک کہ اسکی موت کا سال آیا اس زمانہ میں (ان کا مدفن ) روضہ بل کے نام سے مشہور.در ہے.871ھ کے سال سید نصیر الدین موسیٰ علی رضا کی اولاد سے یوز آصف کے قریب میں دفن ہوا.چونکہ زیارت گاہ عوام وخواص کا مرجع ہے اور رحمان خاں مذکور قدیم زمانہ سے نسلاً بعد نسل زیارت گاہ کا خادم ہے.جس قدر سب بڑوں اور چھوٹوں کی نذرونیاز پہنچتی ہے وہ اسکا حقدار ہے.دوسروں کو ورثہ کا استحقاق نہیں ہے.لہذہ یہ وثیقہ سندر ہے.( مرقوم 11 جمادی الثانی 1194ھ ) او پر فارسی عبارت جو ہم نے نقل کی ہے وہ قبل مسیح نامی کتاب سے لی گئی ہے جو مفتی محمد صادق صاحب مرحوم نے لکھی ہے.عبارت کے نقل کرنے پر کاتب نے بہت سی غلطیاں کی ہیں.بعض الفاظ کی ہم نے اصلاح کر دی ہے اور بعض کو اصل حال پر چھوڑ دیا ہے اور شروع کی عبارت کا جو رحمان کے بیان پر مشتمل ہے مفہوم دے دیا ہے.

Page 107

95 یوز آسف کی تعلیم 1.اس دستاویز سے ظاہر ہے کہ حضرت یوز آسف اہل کشمیر کو جبکہ وہ بت پرستی اور شرک و بدعات میں مبتلا ہو چکے تھے تو حید الہی کی طرف دعوت دیتے رہے کہ صرف ایک خدا کی بندگی کریں اور کسی کو اسکا شریک نہ ٹھہرائیں، یہی تعلیم انا جیل میں مسیح کی بیان ہوئی ہے چنانچہ یوحنا کی انجیل میں ہے کہ یسوع مسیح نے فرمایا.ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھے خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں، جو کام تو نے مجھے کرنے کو دیا تھا اسکو تمام کر کے میں نے زمین پر تیرا جلال ظاہر کیا.(انجیل یوحنا باب 17 آیت 4-5) 2.ہندوؤں کے بھوش پر ان کے مطابق جس کا ذکر گزر گیا، سا کا راجہ کے پوچھنے پر حضرت مسیح نے اپنی تعلیم کے بارے میں فرمایا، اے بادشاہ! اس مذہب کو سنیں جو میں نے لوگوں میں نافذ کیا.انسان کو اپنی انسانیت کو صاف اور جسم کو پاک کر کے یکسو ہوکر خدا سے دعا کرنی چاہئے اور اس ابدی اور مقدس ہستی کی عبادت کرنی چاہئے اور انصاف، سچائی ، دلجمعی اور پوری یکسوئی کے ساتھ اسکی طرف متوجہ ہونا چاہئے جو سورج کے آسمان میں ہے.خدا خود اپنے طریق کو نہیں چھوڑ تا جس طرح سورج ہمیشہ آخر کار سب خطا کار مخلوق کی روح کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے.اے بادشاہ ، یہ وہ پیغام ہے جو روح القدس نے ظاہر ہوکر خدا کی طرف سے مجھے دیا.میں محبت ، سچائی اور دل کی پاکیزگی قائم کرنے کیلئے آیا ہوں.اس وجہ سے میں عیسی مسیح کہلاتا ہوں.اسلام سے قبل یوز آسف بلو ہر“ نامی ایک کتاب جو یوز آسف کے حالات اور تعلیمات پر مشتمل گویا انکی انجیل ہے، کشمیر کے قدیم مسیحیوں اور بدھوں کے پاس سنسکرت زبان میں تھی.دوسری صدی ہجری میں اس کتاب کا ترجمہ بعہد ابو جعفر منصور عباسی عربی زبان میں ابن المقفع نے کیا.یہ ترجمہ اتنا مقبول ہوا کہ مشرق میں اس کا ترجمہ فارسی ، حبشی ، جارجین ، ارمنی اور عبرانی زبانوں میں ہو گیا.مغرب کی عیسائی دنیا میں اسکی شہرت مشرق سے بھی زیادہ پھیلی.عیسائی واعظوں نے اس کتاب میں یوز آسف پیغمبر کی نصائح اور تمثیلوں کے ذریعہ اپنے مواعظ کو موثر بنانا شروع کیا اور ناروے کے ایک عیسائی بادشاہ نے 1214ء میں اسکا ترجمہ آئس لینڈ کی زبان میں بھی خود کیا اور شائع کیا اور ابھی تک اس کتاب کی دلچسپی اور تراجم میں کمی نہیں ہوئی ہے.عہد عباسیہ کا سنسکرت سے عربی میں ترجمہ شدہ نسخہ کا اردو تر جمہ 1899ء میں سید عبدالغنی عظیم آبادی نے کیا جو حیدر آباد دکن سے شائع ہوا.1947ء میں روسی زبان میں اسکا تر جمہ ڈاکٹر روزن نامی نے کیا جو

Page 108

96 ماسکو سے شائع ہوا.اردو ترجمہ کے دیباچہ نگار نے لکھا ہے کہ یوز آسف کی وفات تقریبادوسو سال بعد کتاب ”یوز آسف بلوہر کو مرتب کیا گیا ہے.بدھوں نے اس میں اپنا رنگ بھرا ہے، عیسائیوں نے یوز گیا.آسف کو مسیحی اولیاء میں شامل کر کے اپنا رنگ بھرا ہے اور مسلمان یوز آسف کو اپنا بزرگ سمجھتے ہیں اور اسلام سے قبل اہل کشمیر کا پیغمبر مانتے ہیں.الغرض خُذْ مَا صَفَا ودَعُ مَا كَدَرُ کے مطابق زوائد اور ملاوٹوں کو چھوڑ کر اس میں یوز آسف کے جو مواعظ تمثیلیں اور حکایات و حالات درج ہیں جوار دو ترجمہ میں تین سو صفحات تک پھیلے ہوئے ہیں ، خاص خاص مقامات کا منتخب حصہ یہ ہے کہ: 3- یوز آسف نے عالم رویاء میں بہشت کی سیر کی.جسکے بعد دنیا کا عیش و آرام اسکی نظر میں بیچ ہو گیا اور اس نے فرشتہ کی بشارت پا کر دنیا سے کنارہ کشی کر کے جنگل کی راہ لی ، جہاں اس نے خواب میں ایک شفاف چشمہ کے کنارے سرسبز و شاداب اور پھلا پھولا درخت دیکھا جس کے میوے لذیذ اور شاخوں پر بیشمار پرندے بیٹھے ہوئے تھے وہ اس درخت کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اسکی تعبیر کرنے لگا کہ درخت دراصل ایمان اور وہ بشارتیں (انجیل ) ہیں جن کی طرف میں لوگوں کو دعوت دیا کرتا ہوں اور پانی کے چشمہ سے علم و حکمت کی طرف اشارہ ہے اور پرندوں کی تعبیر وہ کثیر التعداد لوگ ہیں جو میرے ذریعہ ہدایت پائیں گے.اس کے بعد اسے چار فرشتے نظر آئے جنہوں نے یکے بعد دیگرے اسے تعلیم دی.ایک بار فرشتے اسے عالم بالا میں لے گئے اور وہاں اس پر عالم ارواح ، عالم اجسام اور عالم آخرت کا راز پوری طرح کھولا گیا اور ان چاروں فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہمیشہ اسکے ساتھ رہا.-4 وہ راجہ جنیسر کی رعایا کو ملک شولا بت میں راہ راست پر لایا اور اسکے بہت سے یارو مددگار پیدا ہو گئے.وہ دوسرے بہت سے شہروں میں پھرا اور آخرکار کشمیر پہنچ کر لوگوں کو ہدایت کی اور اپنے مریدا با بیل کو اپنا قائم مقام کر کے وفات پائی.وفات کے وقت انہوں نے وصیت کی.5.میں نے لوگوں کو تعلیم دی ، خدا سے ڈرایا، بیعت کی نگہداشت کی اور اگلے لوگوں کے چراغ کو روشن کیا اور ایمان والوں کی جماعت کو جو منتشر تھی مجتمع کیا اور اسی غرض کیلئے میں بھیجا گیا تھا.اب دنیا سے عالم بالا کی طرف میرے اٹھائے جانے کا وقت آپہنچا ہے.تم سب کو لازم ہے کہ اپنے فرائض کی نگہداشت کرو اور جس حق کو میں نے قائم کیا ہے اسے ہاتھ سے نہ جانے دو اور میرے بعد میرے شاگرد ابا بیل کو اپنا سر دار سمجھو.اسکے بعد اس نے ابابیل سے کہا میرے لئے تھوڑی سی جگہ صاف کرو، جس پر وہ پاؤں پھیلا کر لیٹ گیا اور سرکو حربی ( غربی؟) کی طرف اور منہ کو مشرق کی طرف کر کے اس جہان سے گزر گیا.کتاب یوز آصف و بلو ہر مذکور ( ملخصاً) اکمال الدین صفحه 359 مطبوعہ طہران

Page 109

97 66 ترجمہ اس جگہ سید عبدالغنی نے بیعت کی نگہداشت کی ، جن عربی الفاظ کا ترجمہ کیا ہے وہ اَحْسَن البيعة یعنی غلطی سے اس نے بیعۃ کو بیعت “ پڑھا ہے.ڈاکٹر روزن (روسی) نے اسکا تر جمہ کیا ہے جس میں مقدس یادگار (SHRINOE ) کو منکشف کیا ہے.دراصل یہ لفظ وہی ہے جو قرآن مجید کے سورہ حج آیت 41 میں نصاری کے معاہد کیلئے آیا ہے.صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِديس اسکے معنی ہونگے کہ میں نے مقدس معبد ( کلیسیا ) قائم کیا ہے، اسی بیعتہ کی جمع قرآن میں بیج استعمال ہوا ہے اور یہودیوں ونصاریٰ کے معبد کیلئے استعمال ہوتا ہے.(ملاحظہ ہوالمنجد عربی لغت ) 6 - اکمال الدین کے مصنف شیخ سعید الصادق ابی جعفر محمد بن بابویہ تمی (المتوفى 381ھ مطابق 961ء) نے جن کا ذکر گزر گیا یوز آسف کی آخری وصیت ان الفاظ میں نقل کی ہے.آپ نے ( یوز آسف نے ) مرنے سے پہلے اپنے شاگرد یا بد کو بلایا جو آپ کی خدمت اور حفاظت کرتا تھا اور وہ تمام امور میں کامل تھا.اسے آپ نے وصیت کی اور کہا کہ میرا دنیا سے اٹھایا جانا قریب ہے.پس تم اپنے فراض کی حفاظت کرتے رہو اور حق سے ادھر ادھر نہ ہونا اور عبادت بجالاتے رہنا.پھر اس نے یابد کوحکم دیا کہ وہ اسکا مقبرہ بنائے تب اس نے اپنے دونوں پیر پھیلا دیے اور اپنے سر کو مغرب کی طرف کیا اور اپنے منہ کو مشرق کی طرف اور وفات پائی.7- کتاب یوز آسف کے مطابق آپ کے بعض اور منتخب مواعظ یہ ہیں، فرمایا: دنیا کی مثال مست ہاتھی کی ہے اور اہل دنیا کی مثال اس شخص کی جو مست ہاتھی کے خوف سے کنویں میں جا گرتا ہے.“ 8- کسان کے بیج بونے والی مشہور تمثیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: کسان بونے کیلئے اچھے اچھے بیج نکالتا ہے اور جب ایک مٹھی بھر کر پھینکتا ہے تو کچھ دانے راستہ کے کنارے پر گرتے ہیں اور تھوڑی دیر میں چڑیاں چگ جاتی ہیں اور کچھ پتھروں پر گرتے ہیں اور اگر کسی پر ذرا سی مٹی جمی ہوتی ہے تو پھوٹتے ہیں اور سبزہ لہلہاتا ہے مگر جب پتھر پر انکی جڑ پہنچتی ہے تو جل کر سوکھ جاتے ہیں اور کچھ دانے کانٹوں سے بھری ہوئی زمین پر جا پڑتے ہیں اور جب وہ اگتے ہیں اور بالیں نکلتی ہیں اور پھلنے پھولنے کا زمانہ قریب آتا ہے تو کانٹوں میں لپٹ کر ضائع و بیکا ر ہو جاتے ہیں اور جو دانے ایسی زمین پر گرتے ہیں جو تھوڑی ہے مگر صاف ہے تو وہ خوب پھلتے پھولتے ہیں.“ کسان مثل ناصح کے ہے اور دانوں کی مثال نصیحتوں کی ہے.لیکن وہ دانے جو راستہ کے کنارے انجیل میں بھی نبی اپنا مقصد بعثت یہی بتلاتا ہے کہ میرا کام منتشر بھیٹروں کو جمع کرنا ہے.(دیکھو یوحنا باب 10 آیت 16)

Page 110

98 گرے اور چڑیاں چگ گئیں وہ ان نصیحتوں کی مانند ہیں جو کان تک پہنچیں اور دل پر مؤثر نہ ہوئیں اور جو دانے پتھر پر گرے اور کچھ جھے اور پھر اسکی تختی نے انہیں جلا دیاوہ مثل ان نصیحتوں کے ہیں کہ کوئی شخص سنے اور دل لگا کر سنے اور سمجھے لیکن انکو اپنے ذہن میں محفوظ نہ رکھے اور جو دانے اُگے اور کانٹوں نے انہیں بریکار کر دیا ، انکی مثال ان نصیحتوں کی ہے کہ سننے والا سنے اور سمجھے اور گرہ میں باند ھے مگر جب عمل کرنے کا موقع آئے تو خواہش ہائے نفسانی قدم آگے نہ بڑھنے دیں اور انکے ہونے نہ ہونے کو برابر کر دیں اور وہ دانے جو پچھلے اور پھولے وہ ایسی نصیحتیں ہیں جنہیں کان سنیں اور عقل سمجھے اور حافظہ محفوظ رکھے اور عزم و ہمت انہیں عمل میں لائے اور یہ بات تب ممکن ہے جب بری خصلتوں اور خواہشوں کی جڑ دل سے اکھاڑ ڈالی ہو اور نفس کو برائیوں سے پاک وصاف کر دیا ہو.ی تمثیل بالکل اسی تفصیل کے ساتھ انجیل متی باب 13 آیات 3, 19, 24, 31, 37 اور انجیل مرقس باب 11 آیت 26 میں آج تک موجود ہے.9.سب سے بڑھ کر عادل وہ ہے جو لوگوں کے ساتھ اکثر اپنے نفس کو ملزم قرار دے اور سب سے بڑھ کر ظالم وہ ہے جو اپنے ظلم کو عدل سمجھے اور سب سے بڑھ کر منظمند وہ ہے جو اپنا سامان آخرت درست کرے اور سب سے بڑھ کر نا دان وہ ہے جو محض دنیا میں ہی مصروف ہو جائے اور سب سے بڑھ کر خوش نصیب وہ ہے جس کے اعمال کا انجام بخیر ہو اور سب سے بڑھ کر بد نصیب وہ کہ اس کے اعمال خدا کی ناراضگی پر منتج ہوں.10- اگر کوئی اچھی بات بُرے لوگوں میں بھی ہوا سے برا نہ سمجھو اور اگر کوئی بری بات اچھے لوگوں میں ہو تو اسے اچھا نہ سمجھو.11.ہندوستان کے ایک بادشاہ جینسیر نے یوز آسف سے کہا تھا کہ ایک انسان دوسرے انسان کے گناہوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے.اس پر یوز آسف نے کہا کہ اے بادشاہ! کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور گناہوں کی سزا سے نہیں بچا سکتا آپ نے مثال دے کر سمجھایا کہ اے بادشاہ! میرے ہاتھوں میں یہ زخم ہیں ( صلیبی زخم تھے ) اور مجھے ان سے درد اور تکلیف ہے.آپ میرے دکھ اور در دکو دور کرسکیں گے یا اسے بٹا سکیں گے.بادشاہ نے کہا ایسا کس طرح ہوسکتا ہے.یوز آسف نے کہا جب آپ بادشاہ ہوتے ہوئے میری تکلیف کو نہ دور کر سکتے ہیں نہ اسے بٹا سکتے ہیں تو اگر میں آخرت میں دوزخ کی آگ میں پڑوں تو آپ مجھے اس سے کیسے بچالیں گے ، جب کہ آپ وہاں بے بس ہونگے.تورات میں

Page 111

99 بھی یہی تعلیم ہے.حز قیل میں ہے جو جان گناہ کرتی ہے وہی مریگی.(باب 18،5) 12- جو ظاہر کو آراستہ کرتا ہے اور اپنے باطن کو برائیوں ، کبر وغرور، حسد، جھوٹ ، کینہ، عداوت اور جہالت سے پاک نہیں کرتا اسکی مثال ایسے صندوق کی ہے جو باہر سے مرصع وملمع ہے مگر اس کے اندر مردار، بد بو، خون اور گندگی ہے.جو شخص باطن کو علم و حکمت اور نیک اخلاق سے آراستہ کرتا ہے اسکی مثال ایسے صندوق کی ہے جو باہر سے آراستہ نہیں ہے مگر ا سکے اندر موتی لعل، جواہر ہونے ، چاندی اور یاقوت ہیں.13 - جس طرح بیج بونے سے پہلے کانٹوں سے صاف اور ہموار کرنا پڑتا ہے اسی طرح ایمان سے پہلے نفس کو خواہشات دنیاوی سے پاک کرنا چاہئے.14- ایک اور تمثیل میں بتلا یا فائدہ کی باتیں چھوڑ کر بے سود باتوں پر نہیں پھنسنا چاہئے.15.دنیا دار لوگوں کی مثال جو مومنوں کو ستاتے ہیں، کتوں کی مثال ہے جو مختلف رنگ کے ہوتے ہیں مگر مردار کھانے کیلئے جمع ہو جاتے ہیں اور آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں.16- انسان کو قناعت سے کھانا پینا اور زندگی بسر کرنا چاہئے اور لالچی آدمی کی مثال ایک لا لچی بادشاہ کی ہے جولڑ جھگڑ کر دوسروں کے ملک و اموال پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور اپنے ملک پر قانع نہیں رہتا.17.میں جس راہ کی طرف بلاتا ہوں وہ ایسا نہیں جسے اپنی عقل سے میں نے معلوم کر لیا ہو بلکہ یہ وہ راہ ہے جو خدا نے مجھے دکھائی ہے اور اس میں میری عقل کا دخل نہیں ہے.18.جو لوگ اپنی عقل سے یا رسوم و رواج کے تابع ہو کر نئی باتیں نکالتے ہیں انہوں نے دنیا میں تفرقہ پیدا کیا ہے.اگر سب لوگ اس راہ پر رہتے جو خدا نے پیغمبروں کے ذریعہ سے بتلایا تھا تو تفرقہ نہ پڑتا.پیغمبر کے بعد ہر زمانہ میں مومنین میں ایسے لوگ شامل ہوئے جو اس کے لائق نہ تھے وہ بدعتیں ایجاد کرتے رہے جو اصل دین کے موافق نہ تھیں.اسلئے سچائی گم ہوگئی اور لوگوں میں انتشار اور پراگندگی ہے.19.انبیاء کی آمد کسی زمانہ میں ہوتی ہے اور کسی میں نہیں ہوتی.اسکی مثال خزاں و بہار کے موسم کی ہے جو ایک دوسرے کے بعد اپنے وقت پر آتے ہیں.20.انبیاء کے ماننے والوں کی تعریف کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ وحی، حکمت ، پیغمبر ،شریعت ، فرشتوں ، آخرت ، جنت و دوزخ سب پر ایمان رکھنا ضروری ہے.21.جس طرح اندھے آفتاب کی روشنی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اس طرح دنیا دار لوگ خدا کے پیغمبر اور اسکی تعلیم سے فائدہ نہیں اٹھاتے.مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے.(انجیل متی باب 5 آیت 8) آسمانی بادشاہت کا ذکرانا جیل میں ہے.

Page 112

100 22- آسمان کی دائی بادشاہت میں داخل ہونا چاہئے جسے کبھی زوال نہیں اسکے مقابلہ میں دنیوی بادشاہت ہمیشہ زوال پذیر ہے.یہ بھی فرماتے تھے کہ : 23.میں ہمیشہ سیاحت کرتا ہوں، میرا نہ مکان ہے ، نہ سواری ، نہ سونا چاندی، نہ صبح وشام کا کھانا نہ زائد کپڑا اور کسی شہر میں چند دنوں سے زیادہ نہیں ٹھہرتا.24.جو بات ہاتھ سے چلی جائے اس پر افسوس نہ کر ، جو بات ہو نہیں سکتی اسے سچ نہ جان، جو چیز مل نہیں سکتی اس کی جستجو نہ کر.25.دین کا خلاصہ دو چیزوں پر ہے (1) خدا کی معرفت (2) خدا کی خوشنودی کا حصول.26- خدا کو ایک مانو تو خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے نیز اسے مہربان، رحمت والا ،انصاف والا اور ہر چیز پر قادر سمجھو، وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں.27.خدا کی خوشنودی کے حصول کا طریق یہ ہے کہ انسان دوسروں سے وہی برتاؤ کرے جو اپنے ساتھ کرنا پسند کرتا ہے اور ان سے ایسے سلوک سے باز رہے جس سے وہ چاہتا ہے کہ دوسرے ایسا سلوک کرنے سے باز رہیں، کیونکہ اس میں انصاف ہے اور انصاف سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے.جو باتیں نبیوں اور رسولوں نے بتلائی ہیں انسان ان پر عمل کرے اور جن سے منع کیا ہے ان سے باز رہے.28.سوائے نیک اعمال کے دنیا کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی.سب چیزیں انسان سے چھن جاتی ہیں.29- تقدیر وتدبیر بمنزلہ روح و جسد کے ہیں روح بغیر جسد کے کچھ کام نہیں آسکتی اور جسد بغیر روح کے کچھ کام نہیں آسکتا.دونوں کے جمع ہو جانے سے بڑے بڑے کام ہو جاتے ہیں.یہی حال تدبیر و تقدیر کا ہے.30.کوئی شخص آسمانی بادشاہت کو نہیں پاسکتا ہے نہ اس میں قدم رکھ سکتا ہے جب تک علم و ایمان اور اعمال خیر کی تکمیل نہ کرے اسلئے محنت کر کے نیک اعمال کرو تا کہ تمہیں ابدی راحت اور ابدی حیات مل سکے اور یہ بھی ضروری ہے کہ ایمان میں کوئی دنیوی طمع اور خواہش حائل نہ ہو.جس نے دنیا کا فریب کھایا وہ ذلیل و خوار ہوا.ہر وقت موت کو یا درکھو، یہی تعلیم ہے جسے اگلے انبیاء لائے اور اس زمانہ کے لوگوں کیلئے خدا نے مجھے یہ تعلیم دے کر معمور فرمایا تا کہ لوگ نجات حاصل کریں، یعنی برے اعمال سے بچیں انجیل متی میں آسمانی بادشاہت کا ذکر باب 5 آیت 3/10, 41,7/21-25/34 ،لو قاباب 13 آیت 37 و باب 20 آیت 35 - ایمان کی حفاظت کرو جیسے میں نے کی (2 تیمتھیس باب 4 آیت 7 )

Page 113

101 اور نیک اعمال میں زندگی بسر کریں.سرفرانس بینگ ہسبنڈ جو کہ حکومت برطانیہ کے نمائندہ ریذیڈنٹ کی حیثیت سے کئی سال کشمیر میں مقیم رہے اور انہوں نے کشمیر کے نام سے انگریزی میں ایک عمدہ کتاب بھی لکھی ہے وہ اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں: قریباً انیس سو (1900) برس گزرے کہ کشمیر میں ایک مقدس ہستی رہتی تھی جس کا نام یوز آسف تھا جس کے وعظ عموماً تمثیلوں میں ہوا کرتے تھے.ان میں سے اکثر تماثیل وہی تھیں جو حضرت مسیح ناصری اپنے وعظ میں بیان کرتے تھے مثلاً ایک بیج بونے والے کی تمثیل“.انکی قبر سرینگر میں ہے.(کشمیر (انگریزی) صفحہ 111) پروفیسر کشمیر یونیورسٹی کی طرف سے قبر مسیح کی تائید کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے صدر پروفیسر حسنین نے حال ہی میں اپنے مضامین ورسائل مطبوعہ میں بھی قبر مسیح سرینگر کے بارے میں سالہا سال کی اپنی تحقیقات شائع کرائی ہیں ، انہوں نے بھی اس امر کی تصدیق کی کہ تاریخی لحاظ سے یہ بات بالکل درست ہے کہ حضرت مسیح بیت المقدس سے کشمیر آئے اور یہاں وفات پا کر سرینگر کے محلہ خانیار میں دفن ہوئے.پروفیسر موصوف نے جنہیں امریکہ اور جاپان سے بھی اعزازی ڈگریاں ملی ہیں، مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ہند اس قبر کو کھولنے کی اجازت دیدے تا کہ لوگوں کو یقین ہو جائے کہ اس میں یسوع مسیح کا جسم دفن ہے.اس پر بہت ہنگامہ ہوا اور سخت احتجاج ہوالیکن پروفیسر موصوف اس یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے انہوں نے ایک ترکی مصنف کے حوالہ سے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح صلیب کے واقعہ کے بعد سب سے پہلے ترکی میں آئے جہاں انہوں نے اپنے مشہور شاگرد تھا مس سے ملاقات کی تھی جس کا انتقال مدراس (ہند) میں ہوا تھا.پروفیسر موصوف نے لکھا ہے کہ آپ ایک چھڑی لے کر کشمیر میں داخل ہوئے اور اپنے پیروؤں کو بھیڑوں سے موسوم کرتے تھے اور آپ کی بہت عظمت کی جاتی تھی.بسارن میں لوگ ایک قسم کا لوشن بیچتے ہیں جسے JESUS CREAM کا نام دیا گیا ہے.کہا جاتا ہے کہ یہ وہی تیل ہے جس سے حضرت عیسی زخمیوں کا علاج کرتے تھے.عیش مقام کے قریب ایک خانقاہ میں ایک عصا موجود ہے.اس خانقاہ کے راہبوں کا عقیدہ ہے کہ یہ حضرت عیسی کا عصا ہے.حضرت مسیح نے فارس و ہند میں جو تعلیمات پیش کیں وہ اس سے قبل گزرچکی ہیں.

Page 114

102 حضرت عیسی نے شادی کی اور صاحب اولاد ہو گئے پروفیسر حسنین موصوف کی تحقیق کے مطابق حضرت عیسی نے کشمیر میں آکر شادی کی تھی جو جوس آساف (یوز آسف) کے نام سے بھی مشہور تھا.ایک ہوٹل کے مالک شاعر بشارت اسلم کا کہنا ہے کہ وہ اس پیغمبر کی ذریت میں سے ہیں.انکے خاندان کے پاس چمڑے پر لکھی ہوئی ایک دستاویز موجود ہے جو انہیں کشمیر کے قاضی نے 1762ء میں دی تھی.اس میں یہ عبارت درج ہے کہ مصدقہ ثبوت کی روشنی میں یہاں جوس آساف (یوز آسف) کشمیر کے پیغمبر مدفون ہیں جو عوام میں تبلیغ دین کیلئے آئے تھے.پروفیسر موصوف لکھتے ہیں کہ عیسائی مغربی مفکرین اگر غور سے کشمیر کی تاریخوں پر نظر ڈالنے کی زحمت گوارا کرلیں تو ان باتوں کی صداقت معلوم کرلیں گے.ہی پروفیسر حسنین موصوف کا یہ مضمون 1973ء میں جرمنی کے انگریزی اخبار ” ایسٹرن میں شائع ہوا اور اس کا اقتباس روز نامہ مساوات کراچی (پاکستان) نے بھی شائع کیا.پروفیسر موصوف کی نگرانی میں محمد یبین ایم.ایل.ایل.بی ، پی.ایچ.ڈی سرینگر نے ایک کتا بچہ بھی انگریزی میں بنام "RAUZA BAL AND OTHER MYSTRIES OF KASHMIR " 1972ء میں شائع کیا ہے.اس کتا بچہ میں متعدد دستاویزات کے فوٹو کے علاوہ لداخ کے شہر لیہ میں دو جرمن مشنری ڈاکٹروں مارکس اور فرنیک کی ڈائریوں کے دو اوراق کے فوٹو بھی شامل ہیں جن سے نکولس نوٹو وچ روسی سیاح کے بدھ دستاویزات دیکھنے کی تصدیق ہوتی ہے.جسے بدھ لاماؤں سے مسیح کی نا معلوم زندگی کے حالات معلوم کر کے اواخر انیسویں صدی میں صلیب کے بعد لداخ کا بھی سفر کیا تھا.یہ ڈائریاں رورین مشن ہاؤس میں محفوظ ہیں.پچھلے چند سالوں میں جن محققین نے حضرت عیسی کی زندگی ، صلیبی موت سے نجات ، مشرقی ملکوں کے سفر اور کشمیر میں عیسائی آثار کی موجودگی پر کتابیں لکھی ہیں ان میں ایک جرمن محقق ریندڈیز فیبر قیصر بھی ہیں جنہوں نے JESUS DIED IN KASHMIR مسیح نے کشمیر میں وفات پائی“ کے نام سے کتاب لکھی ہے.وہ خودسرینگر گئے اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے کتاب لکھی اور 1972ء میں شائع کی.بھارت کے مشہور انگریزی روزنامہ ”ٹائمز آف انڈیا نے بھی 6 نومبر 1977 ء کی اشاعت میں روز نامہ مساوات کراچی 5 نومبر 1973ء (ملخصاً)

Page 115

103 اس کتاب پر تبصرہ شائع کیا ہے اور لکھا ہے کہ جرمن فاضل کی یہ کتاب عالمانہ سعی ایک دلچسپ اور نرالا نقطہ نظر پیش کرتی ہے جو عیسائی دنیا کو خود بخود اپنی طرف مبذول کرالے گی.کیونکہ یہ حیات مسیح کے پُر اسرار پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے.فیر قیصر جرمن فاضل کی اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ صلیب کے زخم مندمل ہونے کے بعد حضرت مسیح نے اپنی والدہ حضرت مریم اور اپنے حواری تھوما کی معیت میں مشرق کا سفر اختیار کیا اور بالآخر کشمیر میں مقیم ہو گئے جہاں انہوں نے قدرتی بواعث سے وفات پائی اور سرینگر میں روضہ بل کے زمین دوز حجرے میں مدفون ہوئے.جب مسیح نے کشمیر میں اقامت اختیار کر لی تو یہاں ہی انکی آئندہ نسل چلی.66 ٹائمز آف انڈیا میں ” آئندہ انکی نسل چلی کے بعد بریکٹ میں لکھا ہے.سرینگر کے ایک باشندہ مسمی صاحبزادہ بشارت سلیم خود کو ( حضرت ) عیسی کی اولاد کہتے ہیں اور انکے پاس آج بھی جو شجرہ موجود ہے اس کا سلسلہ نسب حضرت عیسی سے جاملتا ہے.فیر قیصر ( جرمن فاضل موصوف) لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح کو اپنے مشن کے حصہ اول میں حق و راستی اور مذہب عیسائیت کا پیغام اہل اسرائیل کو پہنچانا تھا، لیکن مشن کے ثانوی حصے میں انہیں اسرائیل کے گمشدہ قبیلوں کو تلاش کرنا اور ان میں خدا کے کلمات کو پھیلانا تھا.حضرت مسیح نے اپنی کشمیر کی زندگی میں بعینہ یہی کوشش اور جدوجہد کی کیونکہ دراصل کشمیر اور افغانستان کے لوگوں کی اصل اسرائیلی ہے.جرمن فاضل موصوف لکھتے ہیں کہ وہ کشمیر میں یوش مرگ میں ایک ایسے طبقہ سے بھی ملے جو خود کو اولا د اسرائیل کہتے ہیں اور مزار مسیح سے عقیدت رکھتے ہیں اور یہ لوگ سرینگر کے شمال میں واقع موسٹی کے مزار پر بھی نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں.جس کے متعلق انکا خیال ہے کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جسد خاکی کا امین ہے.جرمن فاضل نے لکھا ہے کہ یوز آسف اور مسیح ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں اور اس بارہ میں کشمیر کی تاریخوں کے حوالے پیش کرتے ہیں.آخر کتاب میں اپیل کرتے ہیں کہ اس بارہ میں یقینی نتائج حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ متعلقہ قبر کوکھول لیا جائے اور ان پر سائنسی تحقیق کی جائے.اس کیلئے علماء بائیبل کی ایک عالمی کانفرنس بلائی جائے جس میں قدیم زبانوں کے ماہرین ، علوم اسلامیہ کے ماہرین اور تاریخ قدیم کے علماء شامل ہوں.اس طرح ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جائے گا اور یقینی انکشاف کی صورت پیدا ہوگی.ٹائمز آف انڈیا 6 نومبر 1977ء JESUS DIED IN KASHMIR p.165-166

Page 116

104 باب نهم قدیم کشمیر میں عیسائی مذہب کتاب کی مندرجات کو پڑھ کر شاید یہ سوال ہو کہ جب حضرت مسیح فلسطین سے ہجرت کر کے کشمیر آگئے تھے اور ایک عرصہ تک یہاں رہے تو ان علاقوں میں عیسائی مذہب کیوں موجود نہیں ہے جبکہ مغرب میں عیسائی بکثرت موجود ہیں جہاں حضرت مسیح گئے بھی نہیں.اس سوال کے دو حصے ہیں.پہلا حصہ یہ کہ کشمیر میں عیسائی کیوں بکثرت موجود نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ کشمیر کے مسیحی حضرت عیسی کے اصل مذہب پر قائم تھے اور رسول کریم علیہ سے متعلق پیشگوئی کو خوب جانتے تھے اسلئے جب محمد حمد ﷺ کا ظہور ہوا اور انہیں آپ کے ظہور کی خبر پہنچی تو ان لوگوں نے بعد از تحقیقات اسلام قبول کر لیا اور وہ مسلمانوں میں جذب ہو گئے.اس امر کو ثابت کیا جا چکا ہے کہ کشمیر میں یوز آسف پیغمبر کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی.جب اسلام کا ظہور ہوا تو اہل کشمیر کے مسیحی علماء رسول اللہ علیہ کے متعلق تورات وانا جیل کی پیشگوئیوں کا ذکر چل پڑا.اس پر ان میں اس نبی کی تلاش کا جذبہ پیدا ہوا تو انہوں نے اپنے ایک عالم سمی غانم ہندی کو اس نبی کی تلاش کرنے کیلئے بھیجا.غانم بلخ میں پہنچا اور رسول اللہ ﷺ کے متعلق پیشگوئی کا ذکر کیا تو اسے معلوم ہوا کہ یہاں کے لوگ اس رسول کو پہچان چکے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور انکا نام محمد ( ع ) ہے.تب اس نے بھی اسلام قبول کر لیا اور اسلامی احکام و فرائض معلوم کر کے اہل کشمیر کو بتایا کہ محمد رسول اللہ کو میں نے سچا نبی پایا ہے.اس پر سب اہل کشمیر نے جو مسیح علیہ السلام کے پیرو تھے اسلام قبول کر لیا.چنانچہ اس بارہ میں تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ شیعہ فرقہ کے مسلمانوں کی معتبر کتاب حدیث اصول کافی میں صلى اللهم روایت ہے: عن محمد بن العامري عن أبي سعيد غانم الهندى قال كنت مدينة الهند المعروفه بقشمير الداخلته و اصحاب لى يقعدون على كراسى عن يمين الملك اربعون رجُلاً كلهم يقرء الكتب الاربعة التوراة والانجيل والزبور و صحف ابراهيم نقضى بين الناس و نفتيهم فى حلالهم وحرامهم يفزع الناس

Page 117

105 الينا الملك فمن دونه فتجادينا عن رسول الله صلى الله عليه و اله فقلنا هذا النبي المذكور في الكتب قد خفى علينا امره و يجب علينا الفحص عنه و طلب اثره و اتفق راينا و توافقنا على ان اخرج فارقادلهم فخرجت و معی مال جلیل فسرت اننا عشر شهراً حتى قربت من كابل فعرض لى قوم من التركِ فقطعوا على واخذوا مالی و جرحت جراحات شديدة و وقعت الى مدينه کابل فانفذنی مَلِكُها لما وقف على خبرى الى مدينة بلخ و عليها اذذالك داؤد بن العباس بن ابي الاسود فـبـلـغـتـه خبـری و اني خرجت مرقاداً من الهند وتعلمت الفارسية و ناظرت الفقهاء مجلسه وجمع على الفقهاء فناظروني فاعلمتهم أني خرجت من بلدى اطلب هذا النبي الذي وجه الله في الكتب فقال لى من هو و ماسمه فقلت محمد فقال هو نبينا الذي تطلب فسألتهم عن شرائعه فاعلمونی (صافی شرح اصول الکافی کتاب الحجة جزء 3 جلد 3 صفحہ 304 باب مولد صاحب الزمان ) " ترجمہ: ”محمد بن عامری نے ابی سعید خانم ہندی سے روایت کی ہے (اکمال الدین صفحہ 252 میں ہے کہ ایک جماعت نے غانم ہندی سے روایت کی ہے ) کہ اس نے کہا کہ میں ہندوستان کے مشہور شہر اندرون کشمیر میں تھا اور میرے ساتھ اور بھی ساتھی تھے جو بادشاہ کے دائیں طرف کرسیوں پر بیٹھا کرتے تھے اور انکی تعداد چالیس تھی.یہ سب کے سب چار کتا میں تورات، انجیل ، زبور اور صحف ابراہیم پڑھا کرتے تھے.ہم لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کیا کرتے اور ان کے حلال اور ان کے احرام میں انھیں فتوی دیا کرتے تھے.بادشاہ اور لوگ سب ہماری طرف رجوع کرتے تھے.پس ایک دن رسول اللہ علیہ کا ذکر چل پڑا تو ہم نے کہا کہ اس نبی کا ذکر کتابوں میں موجود ہے اور اسکی حقیقت اب تک ہم پر مخفی رہی.اسلئے ہم پر واجب ہے کہ ہم اسکی تلاش کریں اور اسکا نشان ڈھونڈیں.پس ہماری رائے متفق ہو گئی اور ہم نے اس بات پر موافقت کی کہ میں اس کام کیلئے نکلوں اور تلاش کروں.چنانچہ میں نکل پڑا اور میرے ساتھ کافی مال تھا، میں بارہ ماہ چلتا رہا یہاں تک کہ کابل پہنچا تو بعض ترکوں نے مجھ پر ڈاکہ ڈالا اور میرا مال مجھ سے چھین لیا.مجھے سخت چوٹیں آئیں ، تب میں شہر کابل میں در آیا.کابل کے بادشاہ نے میرا حال سن کر مجھے شہر بلخ کی طرف بھیجا جہاں داؤد بن العباس بن ابی الاسود امیر تھا.میں نے اسے اطلاع بھجوائی کہ میں ہندوستان سے نبی کی تلاش میں نکلا ہوں اور میں نے فارسی زبان سیکھ لی ہے اور فقہاء سے مناظرے کئے

Page 118

106 ہیں اور اصحاب کلام سے کلام کیا ہے پس داؤد بن عباس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور فقہاء کو جمع کیا.انہوں نے مجھ سے مناظرہ کیا.پس میں نے انہیں بتایا کہ میں اپنے شہر سے اس نبی کی تلاش میں نکلا ہوں جس کا ذکر ہماری کتابوں میں موجود ہے.اس نے مجھ سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ اس کا کیا نام ہے؟ میں نے جواب دیا محمد ہے تو اس نے کہا وہ تو ہمارا نبی ہے جسے تو ڈھونڈتا ہے.پس میں نے ان سے اس نبی کی شریعت کے احکام دریافت کئے جو انہوں نے مجھے بتائے.“ محمد بن شاذلی کی روایت ہے کہ غانم ہندی نے دین اسلام کی سچائی انجیل سے معلوم کی تھی اور (اکمال الدین صفحه 242) 66 ہدایت پائی تھی.“ صافی شرح اصول کافی میں اس جملہ کی شرح میں کہ ہم ان کے حلال و حرام میں انہیں فتویٰ دیتے تھے لکھا ہے کہ انہیں ان کے مسائل حلال و حرام میں شریعت عیسی پرفتوی دیا کرتے تھے.“ صافی شرح اصول الکافی کتاب الحجۃ.ایضاً ) ان حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام سے قبل اہل کشمیر عیسی علیہ السلام کے مذہب پر تھے اور تورات وانا جیل اور صحیفے پڑھتے تھے اور ان پر کار بند تھے مگر بعد میں وہ مسلمان ہوگئے کیونکہ انکی انجیل میں محمد نامی پیغمبر آنے کی پیشگوئی موجود تھی جس کے وہ منتظر تھے.جب وہ پیغمبر سرزمین عرب سے مبعوث ہوا تو بعد از تحقیقات وہ اس پر ایمان لا کر مسلمان ہو گئے.اس حوالہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اسلام سے قبل کشمیری مسیحیوں کی جماعتی تنظیم موجود تھی کیونکہ حوالہ کے مطابق ان کا ایک بادشاہ امیر بھی ہوتا تھا.عیسائی محققین کی شہادت عیسائی محققین نے بھی لکھا ہے کہ قدیم کشمیر میں میسی بکثرت آباد تھے اور جابجا کلیسا ئیں قائم تھیں.چنانچہ ایک مشہور عیسائی محقق پادری برکت اللہ ایم.اے لکھتے ہیں: حال ہی میں شمالی ہندوستان سے بھی اس قسم کی صلیبیں ملی ہیں.یہ صلیبیں کشمیر کی قدیم قبروں پہاڑیوں کی وادیوں سے دستیاب ہوئی ہیں.انکی بناوٹ، ان کے نقش و نگار اور الواح کی عبارات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صلیبیں نسطوری ہیں اور قبریں نسطوری عیسائیوں کی ہیں.یہ امور ثابت کرتے ہیں کہ قدیم صدیوں میں کشمیر میں بھی عیسائی کلیسا ئیں جابجا قائم تھیں اور وہاں نسطوری مسیحی بکثرت آباد تھے.“ ( تاریخ کلیسائے ہند صفحہ 157)

Page 119

107 اس حوالہ میں کشمیر کے جن قدیم نسطوری عیسائیوں کا ذکر ہے وہ موجودہ عیسائیوں کے عقائد سے مختلف عقائد رکھتے تھے.وہ نہ تثلیث کے قائل تھے نہ کفارہ کے نہ الوہیت عیسی کے قائل تھے.وہ حضرت عیسی کی اصل تعلیمات توحید، نماز اور روزہ پر کار بند تھے.یہی وجہ ہے کہ روم کے پوپ نے انہیں اپنے فرقہ سے الگ کر کے بدعتی قرار دیا تھا اور انھوں نے بھی پاپائے روم سے بوجہ تو حید پر قائم نہ ہونے کے قطع تعلق کر لیا تھا اور مشرقی ملکوں میں پھیل گئے تھے.جہاں کہیں ایسے عیسائی پائے جاتے ہیں موجودہ عیسائی انہیں نسطوری عیسائی قرار دیتے ہیں.چنانچہ اے.جے ڈوبائے اپنی کتاب ”ہندوستان کو بچے دلی عیسائی بنانا غیر ممکن ہے نامی میں ہندوستان کے قدیم عیسائیوں کی بابت لکھتے ہیں: نسطوری فرقے کے عیسائیوں کی کتاب دعا سریانی زبان میں اب تک ہندوستان میں موجود ہے“ کتاب مذکور صفحہ 22 مطبوعہ لندن 1823ء) اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کی ابتداء تک عیسائیوں کی کتاب دعا یونانی زبان میں نہیں بلکہ سریانی زبان میں ہندوستان کے ان نسطوری عیسائیوں کے پاس موجود تھی، بلکہ ایک اور اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مذہبی امور کیلئے سریانی زبان ہی کی اصطلاحیں رائج تھیں.چناچہ ”سفر نامہ ہند مصنفہ بار تھولومیو میں لکھا ہے کہ: ”ہندوستان میں تھو ما حواری کے عیسائی اب تک سریانی زبان میں اپنی مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں.خدا کو الوہا کہتے ہیں ، ہولی گھوسٹ کو روحا، صلیب کو شلیو اور نذر کو قربانا.“ کتاب مذکور 194-195 ء مطبوعہ لندن 1800ء بحوالہ قبر سیح صفحہ 131) عیسی کے نام کا معبد اور عیسی بار نامی قدیم شہر راجہ ترنگی میں لکھا ہے دوسرا مندر اس نے (سندیمان نے ) اپنے گر وایشان دیو کے نام پر بنوا کر اس کا نام ”ایشی شور“ رکھا.“ (کتاب مذکور صفحه 187) راج ترنگنی کے انگریزی مترجم مسٹرسٹین نے ایشی شور نامی معبد کے متعلق لکھا ہے کہ اس جگہ کا قدیم 66 نام عیسی بار، عیسا بار، عیسو بار بھی آیا ہے.“ اسی نام پر موجودہ عشہ بڑ گاؤں آباد ہے.پنڈت اچھر چند شاہپور یہ نے راج ترنگنی کے اردو ترجمہ

Page 120

108 میں لکھا ہے: ایشی شور کے متعلق خیال ہے کہ یہ موضع و تیر تھے الیش بڑ“ کے محل وقوع پر قائم تھا جوڈل کے شمال مشرقی کنارے پر نشاط باغ سے نصف میل شمال کی جانب واقع ہے.”ایش برڑ“ کا قدیم نام ” الیش بردر کا مخفف معلوم ہوتا ہے.اس لفظ کی آخری صورت ایشی شور سے بالکل مشابہ ہے.’الیش بر“ میں باتری لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں.( راج ترنگنی صفحه 186) تاریخ اقوام کشمیر کے مطابق ایشری کے نام سے ایک قبیلہ بھی کشمیر میں موجود ہے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ قدیم عیسائیوں سے ہی مسلمان ہوا ہے.راج ترنگنی کے ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایشی شور کے اردگرد عیسی کے نام پر قدیم زمانہ میں ایک مقدس معبد موجود تھا جو خود مسیح کے ذریعہ قائم ہوا تھا.راج ترنگنی میں یہ بھی لکھا ہے کہ قدیم زمانہ میں دور دراز ملکوں سے لوگ یہاں آخری لمحات گزار نے آیا کرتے تھے اور یہاں مرنے کو جنت میں داخلہ کا ذریعہ سمجھتے تھے.(دیکھو راج ترنگنی صفحہ 421) اس سے ظاہر ہے کہ اس معبد کا مسیح کے ماننے والوں میں ایسا احترام تھا کہ دور دراز سے یہاں لوگ زیارت کیلئے آیا کرتے تھے اور یہاں وفات پانے کو جنت میں جانے کے مترادف سمجھتے تھے.ایسے معبد کی موجودگی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ کشمیر میں بھی عیسائی بکثرت موجود تھے.اگر مسیح کے پیر وموجود نہ ہوں تو ایسا معبد قائم نہیں ہو سکتا جس کی یہ شان ہو، جو بیان کی گئی ہے.قدیم افغانستان میں عیسائی آثار افغانستان میں بھی بنی اسرائیل آباد ہیں.افغانستان میں اسلام سے قبل عیسائیوں کی موجودگی کے بارے میں علامہ جمال الدین افغانی جو عالم اسلام کے مشہور راہنماؤں میں سے تھے اپنی ” تاریخ افغانستان میں افغانیوں کے اسرائیلی الاصل ہونے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.اسلام سے قبل افغانستان میں نصرانی مذہب کے لوگ موجود تھے بعد میں مسلمان ہو گئے.ان میں نصرانی مذہب کے آثار پائے جاتے ہیں اور روٹی پر صلیب کا نشان بناتے ہیں.( تاریخ افغانستان صفحه 24)

Page 121

109 اس طرح ایک اور افغانی مؤرخ اللہ بخش یوسفی مصنف ” تاریخ یوسف زی افغان سابق سیکرٹری آل انڈیا خلافت کمیٹی تاریخ مذکور میں افغانوں اور پٹھانوں کو بنی اسرائیل ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اسلام سے قبل افغان حضرت موسیٰ کی تو رات پڑھتے تھے اور بنی اسرائیل افغانی صلیب کا نشان بناتے تھے.“ ( تاریخ مذکور صفحہ 879,880 مطبوعہ 1960ء) شیر محمد خان اپنی تاریخ خورشید جہاں (فارسی مطبوعہ 1311ھ 1894ء) میں پٹھانوں کو عبرانی الاصل اور پشتو زبان کے عبرانی الماخذ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.” پشتو زبان عبرانی لغات کے انقلاب سے تیار ہوتی ہے.“ (صفحہ 53) اس طرح افغانستان کے آثار قدیمہ جن میں غزنی ، ہرات اور جلال آباد کے چبوترے یوز آسف اور مسیح کے نام پر اب تک موجود ہیں ، ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام سے قبل ان علاقوں میں یوز آسف کے ماننے والے موجود تھے اور علامہ ابن ندیم نے بھی ” فہرست میں ماوراء النہر کے لوگوں کو اسلام سے قبل یوز آسف کے پیر ولکھا ہے اور یہ کہ وہ سب سے زیادہ بھی ہوتے تھے اور فرقہ ثمینہ کے کے لوگ کہلاتے تھے.6600 (184/187) علاقہ باجوڑ میں غازی بابا کا مزار اسلام سے قبل کا ہے اور سید عبدالجبار شاہ صاحب افغان قبائل کی تاریخ میں اسے کسی عیسائی بزرگ کا مزار قرار دیتے ہیں.ایک اور مزار ریاست چترال کے شہر دروش کے ایک قریبی گاؤں ” کیسو میں ہے.یہ قبر 7 فٹ لمبی اور 4 فٹ چوڑی ہے.لوگ اس کے متعلق عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ کسی عیسائی بزرگ کی ہے جو عیسائیت کی تبلیغ کرتا ہوا کافر باشندوں کے ہاتھوں مارا گیا.کیسو کرائیسٹ یعنی مسیح کی طرف اشارہ کر رہا ہے.کرائیسٹ کو فارسی میں ”کرستو“ لکھتے ہیں.دریائے چترال کے مغربی کنارے ایک وادی یا نالہ ” تراژ گڑھ کے نام سے موسوم ہے ” ژاژ یسوع کا چترالی تلفظ ہے اس کے معنی ہیں یسوع کی رہائش گاہ.اس مزار پر اب بھی بیمار لوگ روٹیاں لے جا کر بانٹتے ہیں اور بانٹنے تک کسی سے راستہ میں بات نہیں کرتے.یہ رسم حضرت مریم کے روزوں سے مشابہ ہے.یہ جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے.بیان شہزادہ حسام الملک سابق گورنر در ولیش ( چترال (1956-7-25 الفرقان دسمبر 1957ء "

Page 122

110 ہرات میں عیسی ابن مریم کشمیری کی انجیلیں جن مغربی سیاحوں نے افغانستان کی سیاحت کر کے اسلام سے قبل عیسائیت کی موجودگی کا پتہ لگایا ہے ان میں زمانہ حال کے ایک مغربی سیاح میکائیل بروک (Michael Burke) بھی ہے.جس نے حجاز وشام، ایران ، ترکی، پاکستان کافرستان اور افغانستان کی سیاحت کے بعد ایک کتاب بنام Among the Derveshes (درویشوں کے درمیان میں ) شائع کرائی جسے اوکتو گن پریس لمیٹڈ لنڈن نے 1973 میں شائع کیا.اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ افغانستان میں ہرات کے قرب و جوار میں عیسی ابن مریم کے پیروؤں کے نام سے ایک قدیم عیسائی فرقہ آباد ہے جو با ہم عام طور پر مسلمان کہلاتے ہیں.انکا دعوی ہے کہ حضرت عیسہلی صلیبی موت سے بچائے گئے ، اپنے دوستوں کی مدد سے ایک مدت تک مخفی رہے ، پھر انہیں کنعان ( فلسطین) سے ہجرت کر کے ہندوستان (پاک و ہند ) میں آنے میں مدد دی گئی.وہ کشمیر میں بس گئے.یوز آسف حضرت میخ ہی کا نام ہے.انا جیل میں حضرت مسیح کی صرف ادھوری زندگی کے حالات ہیں.اس فرقہ کے پاس حیات مسیح کے مکمل حالات محفوظ ہیں.حضرت عیسی مسیح کا نام ” عیسی ابن مریم ناصری کشمیری“ ہے.اس فرقہ کی مقدس کتاب ”حیات مسیح “ ہے جس میں آپ کی زندگی کے اصل حالات ہیں.انکے پاس ایک اور کتاب احادیث اسیح بھی ہے.انا جیل میں مکمل صداقت نہیں ہے صرف اس کا ایک حصہ ہے.اسکی ترتیب دینے والے کماحقہ مسیح کی اصل تعلیمات سے آگاہ نہیں تھے.سیاح موصوف لکھتا ہے کہ مجھے یہ معلومات اس فرقہ کے سردار ابا سکی کی زبانی معلوم ہوئے جو اپنے آپ کو مسیح کے زمانہ سے ساٹھویں پشت میں فرقہ کا امیر قرار دیتا ہے اور یکے بعد دیگرے ساٹھ پشتوں کے راہنماؤں کا تذکرہ زبانی کر سکتا ہے.یہاں تک کہ یہ سلسلہ ناصرہ کے عیسی ابن مریم کشمیری تک جاملتا ہے.سیاح موصوف نے اپنی اس کتاب میں لکھا ہے کہ میں نے ابا سکی سے متعدد بار گفتگو کی ہے.اگر چہ اس بات کو درست ماننے کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی عیسائیت کا بہت قلیل حصہ قابل تسلیم رہ جاتا ہے.ابا کی موجودہ عیسائی فرقوں کو ملحدین کا نام دیتے ہیں اور انسے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتے.انہوں نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ یہ لوگ (موجودہ عیسائی ) کہانی کا محض ایک حصہ پڑھتے اور دہراتے ہیں.انہوں نے پیغام کا سراسر غلط مفہوم لیا ہے.ہمیں ہمارے آقا نے خود سچ سچ بتایا ہے.جس دستاویز کو آپ بائیل کہتے ہیں اس میں کچھ کچھ واقعات درست ہیں لیکن اس کا بڑا حصہ من گھڑت ، خیالی اور خاص مقاصد

Page 123

111 کی بناء پر شامل کیا گیا ہے.حضرت عیسی تمیں سال تک ہمارے درمیان رہے.سیاح موصوف لکھتے ہیں کہ ابا یحیی نے مجھے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن آئے گا جب دنیا پر یسوع کے بارے میں سچائی منکشف ہوگی.جی قدیم ہندوستان میں عیسائی آثار پادری برکت اللہ ایم.اے اپنی تاریخ کلیسائے ہند میں جو کئی حصوں میں لکھی ہے قدیم ہندوستان میں عیسائیت اور عیسائی کلیسیاؤں اور آثار پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں.ہند کے طول وعرض میں قدیم صدیوں کے دوران میں ہندو دھرم اور بدھ مت وغیرہ کے دوش بدوش مسیحیت بھی موجود تھی اور مختلف مقامات میں اکثر اوقات ٹمٹماتے چراغ کی طرح روشن تھی.( تاریخ مذکور حصہ دوئم صفحہ 12) ایک اور مقام پر اسکندریہ (علاقہ شام ) اور مغربی ہندوستان کے یہودی النسل مسیحیوں کے مابین رابطہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اسکندریہ کے مقدس پن ٹینس (190ء) جو بڑا عالم و فاضل عبرانی الاصل عیسائی تھا کو مرکزی کلیسیا کی طرف سے ہندوستان بھیجا گیا.اسے ہندوستان میں آرامی زبان کی انجیل کا وہ اصل نسخہ مل گیا جو فلسطین سے گم ہو چکا تھا.اس نسخہ کو دیکھ کر پن ٹی نس خوشی سے اچھل پڑا اور اس نے مغربی ہندوستان کے مسیحیوں سے عاریتاً یہ نسخہ مانگا، انہوں نے یہ نسخہ دے دیا اور جب وہ واپس اسکندریہ گیا تو اس نسخہ کو ہمراہ لے گیا.“ (صفحہ 19 و صفحہ 28 ملخصا) عیسائی مؤرخین اس پر بحث کرتے ہیں کہ مقدس پن ٹینس ہندوستان کے کس حصہ میں گیا تھا.پادری برکت اللہ اس خیال کو معقول قرار دیتے ہیں کہ پن ٹینس شمال مغربی ہندوستان کے حصہ میں گیا تھا جہاں یہودی نسل کے مسیحی رہتے تھے.(صفحہ 23 ) اور یہ بھی لکھا ہے کہ بہر تالمائی جو مسیح کے بارہ رسولوں میں سے تھا ہندوستان میں آیا تھا اور تھو ما حواری مدراس (جنوبی ہند ) چلا گیا تھا.جہاں تبلیغ کرتے کرتے کا فر باشندوں کے ہاتھوں وہ ایک پہاڑی پر شہید کر دیا گیا."Michael Burke " Among the Derveshes (شائع شدہ الفضل 29 جون 1977ء)

Page 124

112 کاشغر و بلخ میں عیسائی آثار ☆ تو ما حواری کے متعلق ایک قدیم روایت ہے کہ وہ شمال مغربی ہندوستان سے چین میں چلے گئے تھے.سمرقند، کاشغر اور بلخ میں قرون اولیٰ میں عیسائیت شائع تھی.حمد سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ مغربی ممالک میں عیسائی بکثرت کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ کہ قسطنطین (بادشاہ) کے عیسائی ہو جانے کے بعد مسیحیت کو شاہی تائید حاصل ہوگئی گو اس زمانہ میں مسیح کی تعلیم بگڑ چکی تھی تاہم اسکی اشاعت کیلئے حکومت کی سرپرستی اور مبلغین کی فدا کاری سے بت پرستی کے مقابلہ میں مغربی ممالک میں عیسائیت کو فروغ حاصل ہو گیا.اسلام کے ظہور کے بعد چونکہ عیسائیوں نے اسلام سے ٹکر لی مگر جنگی حالت میں تعصب کی وجہ سے وہ اسلام کی طرف مائل نہ ہو سکے.کیونکہ عیسائی پادریوں نے اسلام کے خلاف بہت غلط پروپیگنڈا کیا تھا اور اسلام کو ایک بھیانک صورت کا مذہب ظاہر کر کے لوگوں کو اسکی قبولیت سے روکا جاتا تھا.لیکن اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور ان ممالک میں بھی ایسے نیک فطرت علماء پیدا ہورہے ہیں جو اسلامی توحید کی طرف مائل ہیں اور مسیح موعود کے ظہور پر مبلغین اسلام بھی تیار ہو کر ا کناف عالم میں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں جس کا خاطر خواہ اثر ظاہر ہو رہا ہے.برنارڈ شا جو یورپ کے بہت بڑے ادیب اور سکالر تھے کی پیشگوئی کے مطابق یورپ جلد اسلام قبول کرلے گا.( انشاء اللہ تعالی ) مسیح موعود کی برکت سے وہ دن قریب آرہے ہیں جب کہ مغربی ممالک میں بھی اسلام غالب آجائے گا.وما ذالک علی الله بعزيز.China and Cross by Columbacurry Elias p.3,10,11

Page 125

113 باب دہم حضرت مریم صدیقہ کا سفر ہم آیت سوره مومنون وَ أَوَيْنَا هُمَا إِلَى رَبُوَة (الآية ) کے تحت شروع کے ابواب میں واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسی و مریم دونوں ماں بیٹوں کے اکٹھے ہجرت کرنے کا ذکر کر آئے ہیں.آیت مذکور کی رُو سے حضرت عیسی و مریم دونوں کیلئے ربوہ یعنی کشمیر میں پہنچ کر نشان بننا اور یہاں امن و آزادی سے مستقل رہائش اختیار کرنا ضروری ٹھہرتا ہے جیسا ہم پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں.مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے لٹریچر سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت مسیح و مریم نے واقعہ صلیب کے بعد جبکہ یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت کی تکذیب کی اور آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوئے اور آپ کو قتل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا.الہی تدبیر کے مطابق جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، حضرت عیسی صلیبی موت سے بچ گئے تھے.آپ نے فلسطین سے مخفی ہجرت کی.اس سفر میں آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو راہ میں مل گئیں کیونکہ ان کا بھی واقعہ صلیب کے بعد فلسطین میں رہنا ایک دشوار امر تھا.مسیح کے شاگر د یوحنا نے جس کے سپر د واقعہ صلیب کے وقت آپ نے اپنی والدہ کو کیا تھا آپ تک پہنچا دیا.مسیح و مریم کے اکٹھے ہجرت اور زمین میں سیاحت کا ذکر بعض اسلامی تفاسیر میں ملتا ہے جیسا محمد بن حسین مسعود فراء بغوی (المتوفی 516ھ) نے اپنی مشہور تفسیر معالم التنزيل “ میں زیر آیت فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ ( آل عمران ) لکھا ہے فَلَمَّا بَعَثَهُ اللَّهُ تَعَالَى بَنِي إِسْرَائِيلَ وَأَمَرَهُ بِا لدعوةِ نَفَتهُ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَ أَخْرَجُوهُ فَخَرَجَ هُوَ وَأُمُّهُ يَسِيُحَانِ فِي الْأَرْضِ - (تفسیر معالم التنزیل صفحه 160) یعنی جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی کو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیا اور انکو دعوت دین کیلئے مامور کیا، تو بنی اسرائیل نے آپ کو وطن سے نکال دیا ( نکلنے پر مجبور کر دیا ) اس پر حضرت مسیح اور آپ کی والدہ دونوں نکل گئے اور دونوں ملک سے باہر زمین میں سیاحت کرتے رہے.اسی طرح ” تفسیر غرائب القرآن “ میں علامہ نظام الدین حسن نیشا پوری نے بھی لکھا ہے کہ حضرت عیسی کی مثال وہی تھی جو رسول اللہ ﷺ کی اپنی قوم میں ہجرت کے وقت تھی ، آپ کمزور تھے،

Page 126

114 چنانچہ جب یہودیوں نے مسیح کی نافرمانی اور سرکشی اختیار کی تو آپ اور آپکی والدہ دونوں زمین پر سیاحت کیلئے نکل پڑے.( تفسیر مذکور بر حاشیہ ابن جریر طبری صفحه 197 جلد 3 مطبوعہ مصر) دونوں مفسرین نے یسیحان فی الارض یعنی زمین میں سفر کے عام الفاظ استعمال کئے ہیں.کسی خاص مقام سے سیاحت کو خاص نہیں کیا لفظ ” ارض کی عمومیت ظاہر کر رہی ہے کہ جہاں جہاں مسیح زمین میں گئے ، حضرت مریم آپکی والدہ آپکے ہمراہ تھیں.نیز یہ کہ دونوں کے فلسطین سے نکل جانے کے بعد دونوں کی ہجرت فلسطین سے کسی دوسری پناہ گاہ کیلئے زمیں پر ہی ہوئی ، آسمان کی طرف نہیں جیسا کہ قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت سورہ مومنون سے ظاہر ہے.مکاشفہ یوحنا باب 12 کے مطابق عورت (جس سے کیتھولک انجیل میں مریم مراد ہے) بیابان کو بھاگ گئی اور قرآن شریف کی سورہ مومنون کی آیت میں مسیح و مریم کی پناہ گاہ کیلئے ربوہ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور وہ کشمیر ہے جس کی تفصیل پہلے باب میں گزر چکی ہے.عیسائی روایات جب حضرت مسیح صلیب پر تھے تو انجیل یوحنا کے مطابق حضرت مسیح نے اپنی محبوب والدہ کو یوحنا کی کفالت میں دیدیا.(یوحنا باب 19 آیت 26/27) واقعہ صلیب کے بعد ڈیڑھ ماہ تک حضرت مریم حواریوں کے ساتھ مل کر عبادت میں حصہ لیتی رہیں.(اعمال باب 1 آیت 4) امریکن انسائیکلو پیڈیا میں زیر لفظ MARY‘ میں لکھا ہے کہ اسکے بعد ہمارے پاس کوئی یقینی ذریعہ نہیں کہ حضرت مریم کہاں گئیں اور نہ ہمیں علم ہے کہ کب اور کس جگہ وفات پائی.حضرت مسیح کے بعد قرون اولیٰ میں حضرت مریم کے بارہ میں عیسائیوں میں مختلف خیالات پائے جاتے تھے.بعض کہتے تھے کہ یوحنا حواری جب ایشیا میں گئے تو حضرت مریم بھی ہمراہ تھیں.اس روایت کی رو سے مشہور ہوا کہ حضرت مریم نے افسنس ( ایشیائے کو چک ) میں وفات پائی.مکاشفات یوحنا عارف باب 12 میں ابلیس کے حملہ سے ایک عورت کے بیچ نکلنے اور بیابان میں ہجرت کر جانے کا ذکر کیا گیا ہے.قرون اولیٰ کے عیسائی سمجھتے تھے کہ یہ کشف مریم کی ذات پر منطبق ہوتا ہے.آثار قدیمہ سے جو انا جیل حال ہی میں نکلی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ حضرت مسیح کے ساتھ تین مریم

Page 127

115 نامی عورتیں شریک سفر تھیں.ایک آپ کی والدہ حضرت مریم صدیقہ دوسری مریم مگد لینی، تیسری مریم مسیح کی بہن.چنانچہ 1945ء میں بالائی مصر کے ایک قبرستان سے جو آثار برآمد ہوئے ان میں باطنی فرقہ کے وہ صحائف بھی تھے جن میں فلپ کی انجیل بھی شامل تھی.اس انجیل میں لکھا ہے."There were three who walked with the Lord, Mary his mother and his sister and Magdalene whom the called his consort.For Mary was his sister and his mother and his consort." (P.37) یعنی تین خواتین یسوع کے ساتھ ہمہ وقت شریک سفر تھیں، مریم اسکی ماں ، مریم اسکی بہن اور مریم مگر لینی ، مؤخر الذکر خاتون کو لوگ یسوع کی رفیقہ حیات بھی کہتے ہیں.باطنی فرقہ کی یونانی کتاب ” پس ٹس صوفیہ میں لکھا ہے کہ جی اٹھنے کے بعد یعنی نئی زندگی پانے کے بعد بارہ سال یسوع مسیح نے حواریوں کے ساتھ بسر کیے.اس دوران مریم والدہ یسوع اور مریم مگدینی کی موجودگی کا ذکر بھی اس صحیفہ میں ملتا ہے.انجیل میں پطرس کا خط شامل ہے جو انہوں بابل سے لکھا.اس میں پطرس ، مرقس اور انکے بعض شاگردوں کے علاوہ ایک معزز خاتون کی موجودگی کا بھی ذکر ہے جو کہ مغرب کے عیسائیوں کو سلام بھیجتی ہیں.ملا باقر مجلسی نے اپنی کتاب بحارالانوار میں لکھا ہے کہ مریم اور مسیح ارض کربلا (بابل) سے حواریوں کے ساتھ گزرے.( جلد 13 صفحہ 155) چوتھی صدی میں ایک عیسائی ولی اللہ مقدس اپی فینس لکھتے ہیں : کتاب مقدس میں نہ مریم کی وفات کا ذکر ہے نہ عدم وفات کا.مریم کی تدفین کا ذکر بھی ہم نہیں پاتے.یہ امر بھی کسی جگہ مذکور نہیں کہ جب یوحنا نے ایشیاء کی طرف کوچ کیا تو مریم انکے ہمراہ تھیں.مکاشفات یوحنا عارف میں لکھا ہے کہ اثر دھا اس خاتون کی طرف لپکا جس نے ایک نرینہ بچے کو دنیا میں جنم دیا تھا.اس حملہ کے وقت اس خاتون کو شاہین کے پیر عطا ہوئے تا کہ وہ بیابان میں بھاگ جائے اور اثر دھا اسے اپنی گرفت میں نہ لے سکے.ممکن ہے یہ سب کچھ مریم کی ذات پایہ تکمیل کو پہنچا ہو.تا ہم میں حتمی اور قانونی طور پر اسکی تصدیق نہیں کرتا.میں اس امر کا بھی اعلان نہیں کرونگا کہ مریم زندہ جاوید ہے اور نہ ہی کیتھولک انجیل کے حاشیہ میں ہے کہ عورت سے اس مکاشفہ میں مراد مریم ہے جو یسوع کو جتنی تھی.بائیل کی اصطلاح میں مریم اثر دھا سے مراد شیطان سیرت لوگ ہیں جو مریم کو ہلاک کرنا چاہتے تھے.اور عقاب کے دو پر دیے جانے سے حفاظت کے ذرائع بہم پہنچانا مراد ہے.

Page 128

116 میں اس کی وفات کا فیصلہ کروں گا.میرے خیالات میری ذات تک محدودر ہیں گے ، میں ان کا افشا نہیں کروں گا.“ اس روایت سے ظاہر ہے کہ اہل کلیسیا بعض مصلحتوں کی بناء پر صحیح روایت بتلانے سے گریز کرتے ہیں مگر اسکے مضمرات سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ مریم کے بیابان میں ہجرت والی روایت کے قائل ہیں ، جہاں خدا کی طرف سے اس کیلئے ایک جگہ تیار کی گئی تھی.کاشغر میں مزار مریم ایک امریکی سیاح مسٹر رورک نے "Heart of Asia" نام سے 1929ء میں ایک کتاب لکھی ہے جو وسط ایشیا کے حالات پر مشتمل ہے.یہ کتاب نیو امرا لائبریری (امریکہ ) کی طرف سے رورک میوزیم پریس نیو یارک سے شائع ہوتی ہے وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں : "About six miles from Kashgar is the MIRIAM MAZAR, They so called Tomb of the Holy Virgin, mother of Christ." (P.69) ترجمہ: کاشغر سے تقریباً چھ میل کے فاصلہ پر " مریم مزار کے نام سے ایک مقبرہ موجود ہے یہ مقدس کنواری مسیح کی ماں کا مقبرہ کہلاتا ہے.بائیبل میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل ارض صین یعنی چین میں آباد ہیں.(یسعیاہ باب 49 آیت 12 ) سو بہت ممکن ہے کہ حضرت مسیح مع والدہ کا شغر کے علاقہ میں تبلیغ کی غرض سے آئے ہوں اور حضرت مریم نے دوران سفر وفات پائی اور کاشغر کے قریب دفن ہوئیں.تاریخ کے مطابق قدیم زمانہ میں کاشغر کشمیر میں شامل تھا اور وہاں بنی اسرائیل آباد تھے جن کی تبلیغ کیلئے حضرت مسیح بچ گئے ہوں گے.والاخر وهو انا ليا الحمد لله رب العالمين

Page 128