Language: UR
عربوں میں تبلیغِ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ اور آپؑ کے کے خلفائے کرام کی بشارت، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ
عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام کی بشارات، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ جلد دوم (1955ء سے 2011 تک) مؤلفه محمد طاهر تریم مربی سلسله عربک ڈیسک یو.کے.
جلدوون MaṢāliḥul-'Arab - Vol: 2 (Urdu) Compiled by: Muhammad Tahir Nadeem Islam International Publications Limited First Published in UK in 2012 by: Islam International Publications Limited Islamabad Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ United Kingdom Printed in UK at: ISBN: 978-1-84880-113-4
พ
مصالح العرب“ کے بارہ میں حضرت امام بمام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مکتوب گرامی واجْعَل فِي مِن الدُنكَ سُلْطَانًا أَصِيرًا انا فتحنا لك فتحا مين امام جماعت احمدیہ لندن 5-1-12 ام الهان الف تَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمَ وَعَلَى عَبْدِهِ المسيح الموعود ندا کے فضل اور رحم کے ساتھ پیارے مکرم محمد طاہر ندیم صاحب هو الناصر السلام عليكم ورحمتہ اللہ و برکاته آپ نے اطلاع دی ہے کہ آپ جماعت احمدیہ کی عرب ممالک میں تاریخ و واقعات جو آپ کے تحریر کردہ ہیں اور الفضل میں شائع ہورہے ہیں، کو کتابی شکل میں شائع کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کتاب کو پڑھنے والوں کے لئے معلوماتی اور از دیا دایمان کا باعث بنائے.آمین میں تو پورا ہفتہ لفضل انٹرنیشنل کا خاص طور پر آپ کے مضمون کی وجہ سے انتظار کرتا ہوں.خلافت ثانیہ کے دور کے تاریخی اور ایمان افروز واقعات اور حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کے پیغامات اور ابتدائی مبلغین جن کے ذریعہ بعض عرب ممالک میں احمدیت کا پیغام پہنچا اور سعید روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی ، یہ سب تو ایمان افروز اور دل کو جلا بخشنے والے ہیں ہی لیکن اس دور میں جس طرح عرب ممالک میں احمدیت کا نفوذ ہو رہا ہے اور جس ایمانی حرارت کا نٹے شامل ہونے والے مظاہرہ کر رہے ہیں، کن کن مشکلات سے گزر رہے ہیں وہ بھی پڑھنے والے پرانے احمدیوں کو اپنے جائزے لینے پر مجبور کرتا ہے اور نئے آنے والوں کو حوصلہ اور جرات دیتا ہے.اللہ تعالی آپ کو اس کام کی بے انتہا جزاء دے کہ اپنے تمام علمی کام کے ساتھ اس ایمان افروز تاریخ کو بھی محفوظ ر کر رہے ہیں اور پھر ان واقعات کے بیان کے دوران کسی علمی یا عقیدے کے مسئلہ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی روشنی میں آپ کا بیان علمی تغییری اور عقیدے کے مسائل بھی حل کر دیتا ہے اور اسی طرح غیروں کی بد عقیدگی اور بدعات کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے اور یوں ایک احمدی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کا مزید اور اک ہو جاتا ہے بلکہ ہر سعید فطرت کو ہوتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ آپ کو اس کام کی بہترین جزاء دے اور پڑھنے والے اس سے فائدہ اٹھا سکیں.آمین نقل دفتر PS لندن والسلام خاکسار ریاسر خليفة المسيح الخامس
مصالح العرب.....جلد دوم عرض حال بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ عرض حال سن 2008ء جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.یہ وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جاری ہونے والی خلافت علی منہاج نبوت کے قیام پر سو سال پورے ہوئے.یہ سال عربوں کے لحاظ سے بھی اہم تھا کیونکہ اس وقت تک عربوں کے لئے علیحدہ ویب سائٹ اور علیحدہ ٹی وی چینل ایم ٹی اے 3 العربیہ کا اجراء عمل میں آچکا تھا اور عربوں میں تبلیغ کے لئے چند خاص پروگرامز شروع ہو چکے تھے جن میں ہر دلعزیز پروگرام الحوار المباشر سر فہرست ہے.یوں کہنا چاہئے کہ بلاد عربیہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ کو پہنچانے کے لئے آسمان سے دروازے کھول دیئے.اس تاریخی حوالے سے جماعت خدا تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کے شکرانے کے طور پر مختلف پروگرام بنار ہی تھی.اس موقعہ پر جماعت کے دیگر رسائل واخبارات کی طرح الفضل انٹرنیشنل کا بھی ایک خاص نمبر شائع کیا گیا جس کے لئے مکرم نصیر احمد قمر صاحب مدیر الفضل انٹرنیشنل نے خاکسار کو عربوں میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی کاوشوں کے بارہ میں ایک مضمون لکھنے کا ارشاد فرمایا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے اس بارہ میں مواد اکٹھا کرنا شروع کیا تو وہ ایک مضمون سے بہت زیادہ تھا ، لہذا اسے قسط وار چھاپنے کا
مصالح العرب.....جلد دوم عرض حال فیصلہ کیا گیا اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور اسکی خاص مدد سے جہاں مواد میسر آتا گیا وہاں گاہے گا ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعا، شفقت اور راہنمائی خاص برکتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی.اور ایک قسط سے شروع ہونے والا یہ مضمون محض خدا کے خاص فضل اور حضور انور کی نظر شفقت کی برکت سے آج تک جاری ہے.اس سارے مواد کو بنیادی طو پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، حصہ تاریخ اور حصہ سیرت.حصہ تاریخ کی دو جلدیں ہیں جن میں سے یہ دوسری جلد قارئین کرام کی خدمت میں اس دعا کے ساتھ پیش ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اور اس خاکسار کو بھی اپنی جناب میں قبول فرماتے ہوئے اپنی مغفرت اور رحمت کی رداء میں چھپالے، آمین.مواد کی فراہمی اور اسے کتابی شکل میں تیار کرنے میں بہت سے بزرگان اور احباب نے مدد وراہنمائی فرمائی ہے، دعا کی غرض سے ذیل میں ان کے اسماء گرامی درج کئے جاتے ہیں : استاذی المکرم میر محمود احمد ناصر صاحب سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ، سید عبد الحی شاه صاحب مرحوم ناظر اشاعت ربوه ، مکرم نصیر احمد قمر صاحب مدیر الفضل انٹرنیشنل ، مکرم منیر الدین شمس صاحب، مکرم عبد المومن طاہر صاحب ، مکرم مبشر احمد ایاز صاحب، مکرم اسفند یار منیب صاحب، مکرم نوید احمد سعید صاحب، مکرم محمود احمد منیر صاحب، مکرم میرانجم پرویز صاحب ، مکرم شیخ مسعود احمد صاحب، مکرم طارق خلیل صاحب، مکرم طارق حیات صاحب اور انکی اہلیہ عائشہ طارق صاحبه، مکرم تنویر احمد صاحب ، مکرم محمد داؤد ظفر صاحب اور مکرم ڈاکٹر نعیم الجابی صاحب اسی طرح خاکسارا اپنی اہلیہ مکرمہ شازیہ نورین صاحبہ کا بھی اس فہرست میں بطور خاص ذکر کرنا چاہتا ہے جنہوں نے اس کام کی انجام دہی میں خاکسار کا بھر پورساتھ دیا.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا أَحْسَنَ الْجَزَاءِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ خاکسار محمد طاہر ندیم مربی سلسلہ عربک ڈیسک اسلام آباد ٹلفورڈ 30 جولائی 2012ء
10 10 10 13 13 14 14 15 15 1 1 2 4 4 7 7 7 8 9 =: مصالح العرب.....جلد دوم فہرست مضامین حضرت خلیفة المسیح الثانی کا دوسرا یورپ کراچی سے دمشق کے لئے روانگی دمشق میں ورود اور ہفت روزہ قیام جماعت احمد یہ بیروت پر شفقت حضور کے ایک مکتوب میں الحصنی خاندان کے اخلاص کی تعریف ایک نکاح کا اعلان یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے بدرالدین الحصنی کی سعادت خطبہ جمعہ اور دمشق میں آخری مجلس 1924 ء اور 1955ء کے دمشق کا موازنہ جماعت احمدیہ دمشق کے لئے حضرت مصلح موعودؓ کی دعا دمشق سے بیروت جماعت احمد یہ لبنان کا اخلاص مبلغین بلاد عربیه مکرم مولا نا محمد دین صاحب مکرم مولا نا جلال الدین صاحب قمر مکرم فضل الہی بشیر صاحب مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب
55 15 15 16 16 16 16 17 17 17 17 19 20 21 23 24 24 25 26 26 27 28 30 31 33 مصالح العرب.....جلد دوم مکرم مولا نا محمد منور صاحب مکرم مولا نا غلام باری سیف صاحب مکرم ملک مبارک احمد صاحب مکرم قریشی نورالحق صاحب تنویر مکرم شریف احمد امینی صاحب مکرم را نا تصور احمد خان صاحب مکرم محمد حمید کوثر صاحب مکرم عطاء اللہ کلیم صاحب مکرم مولا نا محمد عمر صاحب مکرم باسط رسول ڈار صاحب iv منکرین خلافت کا فتنہ اور عرب ممالک کی جماعتوں کا اخلاص ممبران جماعت احمدیہ مصر کا اخلاص نامہ جماعت احمد یہ شام کا اخلاص نامہ جماعت احمد یہ عدن کا اخلاص نامہ مصر پر حملہ اور جماعت احمدیہ کی طرف سے اظہار ہمدردی و یکجہتی احمدیہ انٹر نیشنل پریس ایسوسی ایشن کی قرار داد مذمت جماعت احمدیہ کی طرف سے اظہار ہمدردی کا تار جمال عبدالناصر کا جوابی تار تعلیم الاسلام کالج یونین کی طرف سے مصر پر حملہ کی مذمت جماعت احمد یہ انڈونیشا کا پیغام ہمدردی حضرت ولی اللہ شاہ صاحب کا ایک اور خط جمال عبدالناصر کا جواب جماعت احمدیہ کا اسلامی تعلیمات کا آئینہ دار نمونہ حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری کی وفات
48 49 61 69 ی لی لی لی لی تا چه حه ج ه ه چی د د ه ه ه ه ه ه ه ه لا لا 35 37 37 37 39 40 42 44 46 54 54 56 58 59 60 63 64 67 70 70 مصالح العرب.....جلد دوم شیخ عبد القادر المغربی کی وفات عرب لیڈرز سے ملاقاتیں اور مراسلہ احمد یہ وفد کی الجزائری لیڈروں سے ملاقات صدر شام ، شکری القوتلی کو تحفه قرآن V متحدہ عرب جمہوریہ کے صدر کا مکتوب سید منیر الھنی کے نام سعودی شہزادہ فہد الفیصل مسجد مبارک ہیگ میں جناب جمال عبدالناصر صدر جمہوریہ متحدہ عرب کو پیغام حق شاہ حسین آف اردن کا جماعت احمدیہ نائیجیریا کی طرف سے شاندار استقبال جمعیتہ الاتحاد بین المذاہب کے جنرل سیکرٹری کی لائبیریا مشن میں آمد بعض عرب ممالک کے سیاسی حالات کا دینی جماعتوں پر اثر جمال عبدالناصر کے نام ایک اہم مکتوب مجلۃ الازہر میں جماعت احمد یہ غانا کی تعلیمی خدمات کا تذکرہ مصر کے صحافی السید محمود عودہ اور ڈاکٹر فوزی خلیل ربوہ میں حضرت مصلح موعود کی ابدال شام سے توقعات و دعا ئیں لبنان میں افراد جماعت احمدیہ کو قید و بند کی صعوبات کا سامنا نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار بعض سرکردہ شخصیات پر اتمام حجت امید افزا حالات لبنان میں پاکستان کے احمدی سفیر بلاد عر بیہ میں انتشار جماعت کی راہ میں رکاوٹیں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کے مبارک عہد میں عربوں میں تبلیغی مساعی تمنا بر آئی حضرت خلیفہ مسیح الثالث کی دعائے مستجاب جماعت جسم ہے اور خلیفہ روح
71 71 74 75 75 76 79 80 83 83 85 88 89 90 91 94 96 98 100 102 104 114 114 114 مصالح العرب.....جلد دوم vi سعودی عرب میں جماعت کی مسجد کے افتتاح کی خبریں خداوند سے احمدیوں کے مقابلہ کی اجازت نہیں ملتی سفیر جمہوریہ متحدہ عربیہ کی الوداعی دعوت سپین مشن کے تحت عرب حکمرانوں کو تبلیغ احمدیت مزرعہ کامیابی کے لئے کھاد کیسے کیسے ہیں شمر اس آگ نے پیدا کئے قادیان میں حج کرنے کے بہتان کا پس منظر اسرائیلی فوج میں احمدیوں کی تعداد ! ایک اور جھوٹ کا پس منظر !! ایم ٹی اے اور جدید ایجادات سے استفادہ کی تیاری قلمی دوستی کی تحریک ریڈیوٹیشن کے قیام کی خواہش نَحْنُ مُسْلِمُون مسئلہ شرق اوسط اور عالمی جنگ کے امکانات قرآن کریم کی لغوی بلاغت کا اعجاز خلافت رابعہ کے عہد مبارک میں عربوں میں تبلیغ احمدیت بعض عرب ممالک کے مستقبل کے بارہ میں رویا حضور کا جماعت کے نام پہلا تحریری پیغام تیل کی دولت والے اسلام کے بارہ میں تحذیر عالمی طاقتوں کو عربوں کے بارہ میں انتباہ جماعت احمد یہ مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے سینہ سپر حُبُّ الْعَرَبِ مِنَ الْإِيْمَانِ عربوں کے لئے دعائیں، تبلیغی مساعی و رہنمائی عربوں کے لئے در د دل سے دعائیں کریں یورپ میں بسنے والے عربوں میں تبلیغ اور ابتدائی ثمرات
115 116 119 120 121 122 122 123 123 124 124 125 126 127 127 128 129 129 131 132 132 132 133 133 vii مصالح العرب.....جلد دوم عرب ممالک کی بڑی شخصیات سے خط و کتابت کی کوشش سعودی عرب کلمہ مٹانے کی سازش کا حصہ نہیں ہو سکتا عرب علماء سے استفتاء الشيخ عبد الله الشيخليی خطیب جامع الامام الاعظم بغداد کا فتویٰ تبصره اُردن کے شریعت کالج کے پرنسپل کی رائے تبصره عرب ممالک میں واقفین زندگی مربیان کی روانگی محترم ملک سیف الرحمن صاحب کا تاریخی کام مکرم عبد المومن طاہر صاحب کی مصر روانگی حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی نصیحت اور اس کے ثمرات بعض مصری عادات سے گھبراہٹ انسٹیٹیوٹ میں داخلہ اور ویزہ میں توسیع بعض احمد یوں کا ذکر خیر مکرم کاظم صاحب مکرم محمد گردی صاحب مکرم متحی ناصف صاحب مکرم محمد بسیونی صاحب عربی لہجہ اپنانے کی ہدایت ایک مخلصانہ نصیحت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی نصیحت محترم علمی الشافعی صاحب کا انکسار بڑے دل والا انسان علمی صاحب کا دینی تربیت کا انوکھا انداز
134 134 135 136 136 137 137 138 139 139 140 141 141 143 145 145 146 149 150 151 151 152 152 153 مصالح العرب......جلد دوم حلمی صاحب کے بعض نکات معرفت تم مجھے عربی سکھاتے ہو!! دو ممتاز تر جمان النقوی کے حقیقی محرر فرض شناس مبلغ جماعتی اموال کی قدر و قیمت کا احساس viii قدیم عرب احمدیوں کی اولادوں کے ضائع ہونے کا سبب وقتل مرتد کی سزا کی حقیقت کا عربی ترجمہ اور علمی صاحب کیا تم ہمارا دین تبدیل کرنے آئے ہو؟ !! شُفْتَ الْعِلْمَ؟ ! از ہری عالم کی معذرت اور ٹیکسی ڈرائیور کا اصرار مصر کی دینی اور اخلاقی حالت کے بارہ میں میرا تاثر ایک سعید روح قصہ ایک خواب کا کتاب و قتل مرتد کی سزا کی حقیقت کے عربی ترجمہ کی اشاعت عالمگیر غلبہ اسلام کی مہم میں عالم عرب کی اہمیت مغرب سے طلوع شمس تفسیر کبیر کے ترجمہ کی ابتداء عربی میں براہ راست ترجمہ کی ابتداء عربی ترجمہ کی ڈبنگ کی ابتدا خطبہ جمعہ کا لائیو عربی ترجمہ مکرم منیر احمد جاوید صاحب کی مصر روانگی قیام مصر کی بعض یا دیں حسنی مبارک کو انگریزی ترجمہ القرآن پیش کرنا
153 154 155 156 156 157 158 159 159 161 163 163 164 166 166 167 169 169 170 171 172 172 173 174 ix مصالح العرب.....جلد دوم فری میسنز مہدی سوڈانی کے بارہ میں معلومات لندن میں خدمت 1985ء کا تاریخی جلسہ سالانہ برطانیہ ہجرت نے راستے کھول دیئے تاریخی جلسہ سالانہ کا کچھ احوال حضور انور کی نصائح ایک حسین اتفاق ایک زبر دست پیشگوئی ایک عجیب توارد مربیان کرام کی عرب ممالک میں روانگی شام روانگی اور ہدایات ویزہ میں توسیع نہ ہوسکی اسوہ حسنہ عربی زبان میں خطبہ بعض یادیں ایک عرب کا جماعت سے ارتداد لندن آمد کا پس منظر پہلا دھوکہ اور فراغت کا حکم جماعت احمد یہ شام کی شکایت جماعت احمدیہ فلسطین کی شکایت جماعت احمدیہ مصر کا احتجاج مالی اور انتظامی بے قاعدگیاں اور تنبیہات مجلہ ”التقوی کی ادارت سے فراغت
174 174 175 176 182 184 184 185 187 191 191 191 194 195 200 204 205 206 209 210 211 216 221 228 مصالح العرب.....جلد دوم X ان کے سپرد آخری کام پر بھی عرب احمدیوں کا احتجاج اظہار بغض اور کمیشن کی کارروائی جو کچرا جماعت باہر پھینکتی ہے اسے یہ سینے سے لگا لیتے ہیں قبول اسلام کی دعوت ! ”ہمارے لئے تمہارا ارتداد بھی خوشی کا باعث ہے“ يحبّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ کا وعدہ اور حکمت خدائے ذوالقوۃ المتین کی سزا کا ایک طریق اسرائیلی فوج میں احمدیوں کی تعداد! نزول عیسی کے بارہ میں اعتقاد وفات مسیح ناصری علیہ السلام...بعض عرب علماء کا اعتراف موجودہ عیسائیت کی عمارت یسوع کی صلیبی موت کے عقیدہ پر کھڑی ہے عقیدہ حیات مسیح کے نقصانات بجز موت مسیح صلیبی عقیدہ پر موت نہیں آسکتی شیخ محمد عبدہ کا موقف شیخ محمد رشید رضا کا بیان شیخ احمد مصطفیٰ المراغی کی رائے ڈاکٹر محمدمحمود الحجازی کی تفسیر شیخ محمد الطاهر بن عاشور کا واضح موقف ڈاکٹر احمد شلمی کی تحقیق صلیب پر مارنے کی سازش سے نجات کے بعد عیسی علیہ السلام کہاں گئے؟ عیسی علیہ السلام کا صلیب سے نجات کے بعد کیا انجام ہوا؟ ان دلائل پر تبصرہ اور ان کا رڈ حیات و وفات مسیح کے موضوع پر سیمینار حضرت عیسی علیہ السلام کا روحانی رفع ہوانہ کہ جسمانی
234 235 236 237 237 238 238 239 240 242 242 243 243 244 245 247 249 249 251 252 253 254 256 258 xi مصالح العرب.....جلد دوم محمد الغزالی کی رائے شیخ صلاح ابو اسماعیل کی دلیل خلاصه تحقیق خدائی تعلیم اور وضعی عقائد کا فرق حیات مسیح کے قائلین کی پہلی غلطی دوسری غلطی تیسری غلطی چوتھی غلطی حگم عزل کا فیصلہ مجله "القوى" اجراء اور پہلا ایڈیٹوریل بورڈ مدیران مجله ، ادارتی اور ایڈیٹوریل بورڈ میں توسیع مقبولیت ونفوذ اہل صحافت کے تبصرے اہل دانش کے تبصرے درسگاہوں کے نصاب میں لائبریریوں وغیرہ کی طرف سے مطالبے مضبوط ہتھیار 832 بیعتیں پیار بھرے شکوے اللَّهُ أَكْبَر خَرِبَتْ خَيْبَر دعوت مقابلہ دینے والے بزرگ کی بیعت حضور انور کا پر معارف جواب اک نشاں کافی ہے
259 xii 261 261 262 263 265 265 266 266 267 267 268 269 271 271 272 272 273 274 274 275 275 276 276 مصالح العرب.....جلد دوم بہت بڑے عالم اور شاعر کا قبول احمدیت مفتی اعظم کی حضور انور سے ملاقات مجلہ التقوی“ انٹرنیٹ پر مجلہ التقوی کا خلافت جوبلی نمبر تازہ واقعات بلاد عر بیہ میں مزید مبلغین کی روانگی جامعہ احمدیہ میں داخلہ اور عربی زبان سے شغف جامعہ کا مقالہ بیرون ممالک میں خدمت کی توفیق اور عربوں سے رابطہ عربی زبان میں تخصص عربی زبان کی تعلیم کے لئے شام روانگی انسٹیٹیوٹ میں داخلہ اور حضور کا پر حکمت ارشاد فیصلہ آپ خود کریں، خدا کی بات ماننی ہے یا علماء کی! سیر یا میں قیام کے دوران بعض علمی کام سیریا سے واپسی چار مزید مربیان کی شام روانگی جماعتی حالات ایک خوشگوار تبدیلی ایک یادگار رات ہمارا پڑھائی کا طریق عصر حاضر کے عرب اور عربی زبان افسوس کہ ایسی کوئی جگہ نہیں ! جگ ہنسائی کا معیار منفرد جمهوری روایات
277 278 279 280 280 281 281 282 282 284 285 286 288 288 289 290 292 292 293 294 296 297 298 299 مصالح العرب.....جلد دوم سیرین کلچرل سنٹر میں ایک کلاس ٹیچر کا تبصرہ " کاش آپ لوگ احمدی نہ ہوتے !!! القاء مع العرب حضرت مرزا طاہر احمد الخلیفۃ الرابع عربوں کا حافظہ وفات مسیح علیہ السلام بعض مخلصین کا ذکر خیر مکرم سامی قزق صاحب مکرم محمد الشوا صاحب مكرم محمد اكرم الشواء مکرم نذیر المراد نی صاحب قافلے لے چلا ہوں یادوں کے عربی زبان کی تعلیم کے بعد خلیج کا بحران ایک فرض کی ادائیگی یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا کل رونما ہونے والی باتیں تنازعات کے حل کے بارہ میں اسلامی تعلیم یر غمالیوں کے بارہ میں عراق کی راہنمائی xiii یا جوج ماجوج اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تجویز کردہ علاج پیشگوئی اور انذار خدا کی راہ کے مزدور میری روح کی آنکھ دیکھ رہی ہے
مصالح العرب......جلد دوم اسلام کا نظام عدل رائج کریں عالم اسلام کے لئے مزید مشورے عرب اقوام کے لئے چند قیمتی مشورے اپنی نیتوں کوشولو اس دردناک واقعہ سے سبق پرسوز دعاؤں کی تحریکات کے بعض نمونے دنیا کو بتادیں کہ خدا آپ کا ہے روح کا آستانہ الوہیت پر پگھلنا شرط ہے ہماری دعائیں ضرور قبول ہونگی ایم ٹی اے پر لقاء مع العرب“ کا پروگرام آدھا عربی آدھا انگریزی نام 300 xiv عربوں کو قبولیت احمدیت سے عظمت رفتہ واپس ہو جائے گی عربوں کے رد عمل کا ذکر ایک مصری غیر احمدی کی لقاء مع العرب میں شرکت انگریز کا ایجنٹ ہونے کا الزام !! ایجنٹ کون؟ مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ جماعت میں شامل ہو جاؤ امام مہدی علیہ السلام عربوں سے کیوں نہیں آئے؟ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں اہل بوسنیا کے لئے عرب امداد کے اصل محرک فَبَايِعُوْهُ مبلغ سلسلہ برائے کیا بیر تبلیغی و تربیتی مہمات کا آغاز ذیلی تنظیموں کو فعال بنانے کا کام 301 301 304 305 306 306 307 308 309 309 312 313 316 317 318 320 320 323 324 325 327 327 327
328 328 329 330 332 332 333 334 334 335 335 336 337 338 339 339 339 340 340 341 342 342 343 344 مصالح العرب.....جلد دوم عربی میں چھری کسی کیلنڈر کی اشاعت XV کیلنڈر کے بارہ میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا مکتوب گرامی اخبارات میں مخالفت، اس کا رڈ اور جماعت کی تبلیغ خدام الاحمدیہ کے اجتماعات جماعت احمدیہ کہا بیر کی طرف سے مستحق فلسطینیوں کی مالی امداد جماعت احمدیہ کہا بیر کی طرف سے غیر احمدی مسلمانوں کی امداد کبابیر میں صد سالہ جوبلی تقریبات کا انعقاد 1989ء.1889ء مسجد احمد یہ کبابیر کی تعمیر نو مسجد احمد یہ کہا بیر اور وقار عمل مسجد کے منارے مستقل نمائش کا قیام صد سالہ جشن تشکر کی تقریبات وفود کی شکل میں جلسہ سالانہ برطانیہ میں شرکت کا آغاز د روز میں تبلیغ کا اسلوب شفقت اور عنایت طریق تبلیغ کہا بیر میں مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ دیکھنے کی ابتداء کباب بیر میں ایم ٹی اے کے اسٹوڈیو کا قیام بوسنین مسلمانوں کی کہا بیر میں آمد اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی میں شرکت کہا بیر میں پہلے جلسہ سالانہ کا انعقاد بمقام خلیل مسلمانوں کا بہیمانہ قتل اور جماعت کا مذمتی بیان ” اسلامی اصول کی فلاسفی کی تصنیف پر سو سال پورے ہونے پر تقریب طباعت کتب و منشورات
مصالح العرب.....جلد دوم xvi اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل پر ایک منصفانہ تبصرہ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مبارک عہد میں عربوں میں تبلیغ تقدیر الہی اور میعاد مقرر دور خلافت خامسہ سے تعلق رکھنے والی بعض عرب احمدیوں کی رؤیا الداعی مسرور اور مبارک ہو بہو وہی سفید پوشاک اور چشم پرنور لِقَاء مَعَ الْعَرَب میں نسل احمد کا فیض مسجد بیت الفتوح اور حاسد ملاں ایک ٹیم بنانے کا ارشاد سعودی حکومت اور یہودی سازش یاسر عرفات کی وفات پر تعزیت پہلی عربی ویب سائٹ کا قیام عربی ویب سائیٹ پر موجود مواد وڈیوز آڈیوز تعارفی مواد مجلہ التقویٰ اور متفرق سوالات کے جوابات مبارکبادیں اور علمی مقابلے خارجی روابط بعض تبصرے 345 347 349 352 352 352 353 354 354 354 356 357 359 362 363 364 364 365 365 365 365 366 366 366
367 xvii 367 368 368 369 369 369 371 373 375 378 379 380 382 383 384 384 385 386 386 387 390 390 391 مصالح العرب......جلد دوم ویب سائٹ بہت پسند آئی ساری کتابیں ڈاؤن لوڈ کر لی ہیں ویب سائٹ کا اثر ویب سائٹ دیکھنے پر خدا کا شکر ربانی علوم کا سمندر مطالعہ اور بیعت بیعت کے بغیر چارہ نہ رہا الا زہر کے لئے وثیقہ کی تیاری فائیو والیم کمنٹری کا عربی ترجمہ صلیبی فتنه پادری کے مصادر ومراجع مسلمانوں کا رد عمل مشائخ از ہر کے موقف کی ایک مثال امید کی کرن اطاعت خلافت کی برکات ایم ٹی اے کہا بیر کے پروگرام أَجْوِبَة عَنِ الْإِيْمَانِ اور اس کا اثر تقلیدی طریق کے نظم ہمارا طریق کا سر صلیب کے علم کلام کی خصوصیت جدید علم کلام پر ایک نوٹ کسر صلیب کے لئے بے نظیر معرفت أخْوِبَة عَنِ الْإِيْمَان..کتابی صورت میں کتاب کا مقدمہ
392 xviii 393 395 396 397 397 399 400 400 401 403 404 404 405 406 407 407 409 409 410 410 413 413 414 مصالح العرب......جلد دوم الا زہر کا پادری کو آفیشل جواب ڈاکٹریٹ کی ڈگری الْحِوَارُ الْمُباشر ایم ٹی اے پر لائیو (Live) عربی پروگرامز کی ابتداء پروگرام کا نام الْحِوَارُ الْمُبَاشَر “ پروگرام کا موجودہ فارمیٹ الْحِوَارُ المباشر میں رد عیسائیت ابتدائی پروگراموں کی کچھ جھلکیاں تہجد کی دعائیں قبول ہو گئیں کسی علمی رڈ کی ضرورت نہیں.( الا زہر ) مسموم خیالات سے رہائی ابتدائی پروگرامز پر حقیقت پسندانہ تبصرہ پروگرام میں شامل ہونے والی شخصیات پروگرام کی مقبولیت سادہ لوح عیسائیوں کے حیلے پادریوں کی شرکت پادری عبد ا مسیح بسیط کے اعترافات پادری ڈاکٹر پیٹر مدروس پادریوں کی آراء مصر کے مسلمان منصفین کی آراء عمومی پسندیدگی پر مبنی تبصرے سر فخر سے بلند کر دیا بچے فخر سے پھر مسکرانے لگے ہیں آپ نے وہ کام کر دکھایا جوکوئی نہ کر سکا
Xix 415 415 416 417 417 418 418 420 420 420 421 421 422 422 423 423 424 424 425 427 428 430 431 432 مصالح العرب.....جلد دوم نا قابل بیان تسکین مسلمانوں کے لئے آسمانی مدد تمام امور درست کر دیئے آپ ہی حقیقی مسلمان ہیں سیف کا کام قلم سے دیگر عرب ممالک کے منصفین کے تبصرے عمومی تبصرے امید بر آئی احمدیت اسلام کی طرف واپس لے آئی یہی جماعت حق پر ہے سر فخر سے بلند کر دیا گم گشتہ متاع مل گئی سچائی کی دلیل بیش قیمت خزانه آپ نے حملہ روک دیا موجب از دیا دایمان اسلام کا مستقبل مناسب پروگرام اور مناسب لوگ پروگرام کا لائیوتر جمہ حضور انور ایدہ اللہ کی الحوار المباشر میں تشریف آوری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا عربوں سے خطاب عمومی با برکت تاخیر مجلس صحابہ کا احساس بعض احمدیوں کے جذبات
433 434 436 436 438 440 442 442 444 445 446 448 452 452 452 453 453 454 454 454 455 455 456 457 مصالح العرب.....جلد دوم XX ایم ٹی اے کے ذریعہ مسیح موعود کا آسمان سے نزول ہمیں انتظار رہے گا ایم ٹی اے 3 العربية وَاللَّهُ مُتِمُّ نُوْرِہ کا جلوہ ایک دم میں چمک کر ہر طرف پھیل جانے والی بجلی ایم ٹی اے 3 العربیہ کا باقاعدہ اجراء خصوصی تقریب مکرم شریف عودہ صاحب کی تقریر چیئر مین ایم ٹی اے کا اظہار تشکر مصطفی ثابت صاحب کی تقریر دلاویز Presentation خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جذبات ، تبصرے، آراء چینل توجہ کا مرکز بن گیا مذہبی دنیا کے سرجن فطرت یہ پیغام قبول کرتی ہے تسکین قلب میسر آ گئی منفرد انداز پسند آیا ہے گم گشتہ متاع مل گئی آپ کے عقائد قرآن وسنت کے مطابق ہیں ہمارے گھر میں صرف یہی چینل چلتا ہے فتح مبین چینل دل میں گھر کر گیا ایم ٹی اے 3 العربیہ کی مخالفت
xxi 457 457 459 460 461 462 463 464 464 465 465 465 466 467 468 469 470 471 472 475 477 480 481 482 مصالح العرب.....جلد دوم ابتدائی مراحل کی کہانی مخالفت کا آغاز مخالفت نے کھاد کا کام کیا حقیقی صدمه مسلمانوں کی طرف سے مقدمہ عیسائیوں کی طرف سے مقدمہ قبطی عیسائیوں کے خوف کا حقیقی سبب نجیب کا جواب فتح عظیم یہ پروگرام جاری رہنے چاہئیں یہ حملہ تنگ نظری کا عکاس ہے ہم آپ کے ساتھ ہیں نشریات کی بندش اور دوبارہ ابتداء تم بھی مشغول ، ہم بھی ہیں مشغول مخالف احمدیت مولویوں کی روش..جھوٹ کا پلندہ تحفہ گولڑویہ یلاش پر اعتراض کا جواب پہلے حصہ کا جواب دوسرے حصہ کا جواب فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبَّهُمْ کا نشان ایم ٹی اے العربیہ کی بندش کے بعد نشریات کا آغاز عیسائی چینل کے جماعت کے بارہ میں پروگرام متضاد باتیں تبصره
482 xxii 483 484 484 485 485 487 491 492 493 497 501 503 503 504 505 505 506 507 510 512 512 513 513 مصالح العرب.....جلد دوم اعترافات تبصره سہو ا یا عمدا جماعت کو غیر مسلم کہنے کا اصل محرک تبصره عرب احمدیوں کی پروگرام میں شرکت پیلاطوس کی بیوی کا خواب " مریم نے صلیب تو ڑ دی ہے اسلامی اصول کی فلاسفی ایک مُنْهَم مِنَ اللہ کی نظر سے قرآن پر عیسائی حملہ کا جواب انہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی دل کا پہلا وا خلافت کی تمنا خلافت کی اہمیت اور افادیت کا اعتراف قیام خلافت کی امیدیں نبوت کے بغیر خلافت علی منہاج نبوت !! خود خلیفہ بنانے کے نظریہ کے منطقی نتائج ان کی سوچ کا سقم تاریخ سے سبق سیکھیں خطبات جمعہ کا عربی ترجمہ جماعت احمد یہ کہا بیر کا جلسہ سالانہ جماعت کیا بیر کا عمومی ذکر خلافت جو بلی پر مسرورسنٹر کی تعمیر کا منہ ترقی کا راز
513 515 516 517 518 519 520 523 524 524 524 526 527 529 531 532 533 534 534 535 536 537 538 539 مصالح العرب.....جلد دوم اہل جلسہ اور تمام عربوں کو نصائح اہل کیا بیر کو خصوصی خطاب نحن انصار اللہ کا نعرہ بلند کریں عربوں کو خصوصی طور پر خطاب Xxiii لبیک لبیک کی صدائیں اور محسن انصار اللہ کا نعرہ بیلجیئم کی ایک عرب ممبر پارلیمنٹ کے تاثرات جلسہ کے بارہ میں بعض نواحمدی عربوں کے تاثرات مصر کے اسیران راہ مولی گرفتاریوں کی تفصیل گرفتاری کی کاروائی تفتیش یا تعذيب دو ظالمانہ قوانین در داغم فراق کے یہ سخت مرحلے خلیفہ وقت کی شفقت اور ذکر خیر حاکم و محکوم کی مخلصانہ راہنمائی ”انقلابی تحریکات کا نقطہء آغاز دستور عمل اور گلدستہ ، نصیحت عالم اسلام کے لئے پر درد دعاؤں کی تحریک عملی مدد کی خواہش عملی مدد کی ایک کوشش کرنے کی ہدایت خرابی کی نشاندہی اس خرابی کا منطقی رد عمل حقیقی تقویٰ کے فقدان کے نتائج حقیقی تقویٰ کی راہیں تلاش کریں
540 XXIV 542 542 544 544 546 547 548 549 550 550 مصالح العرب.....جلد دوم نظام خلافت ہی حل ہے دنیا کے امن کی ضمانت عرب ممالک کے احمدیوں کے لئے خصوصی پیغام احمدی کی ذمہ داری حکمران کی غلط پالیسیوں پر کہاں تک صبر کیا جائے؟ کھلا کھلا کفر دیکھنے کی حالت میں تعلیم نا پسندیدہ کام کو ہاتھ سے تبدیل کرنے کا درست فہم حکومت وقت کی اطاعت کے بارہ میں انبیاء کا نمونہ أولو الأمر منكم سے مراد ہماری تعلیم نصیحت کا نچوڑ اور ہدایات کا خلاصہ XXXXXXXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.جلد دوم 1 حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا دوسرا سفر یورپ مؤرخہ 10 / مارچ 1954 ء کو حضرت مصلح موعود پر قاتلانہ حملہ ہوا تو علاج کی غرض.آپ نے یورپ جانے کا ارادہ فرمایا.اس سفر کے دوران حضور نے دمشق (شام) اور بیرور (لبنان) میں بھی قیام فرمایا لہذا اس سفر کے عربوں سے متعلقہ بعض تاریخی واقعات یہاں نقل کئے جاتے ہیں.کراچی سے دمشق کے لئے روانگی 29 اور 30 را پریل 1955ء کی درمیانی شب کو سید نا حضرت مصلح موعود خلیفه امسح الثانی سفر یورپ کے ارادہ سے KLM کے طیارہ کے ذریعہ کراچی سے دمشق کے لئے روانہ ہوئے.حضور کے ساتھ سیدہ ام متین صاحبہ.سیدہ مہر آپا صاحبہ، صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب.صاحبزادی امتہ الجمیل صاحبہ اور صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ کے علاوہ عزت مآب چودھری سرمحمد ظفر اللہ خانصاحب بھی تھے.ڈرگ روڈ کے ہوائی اڈہ سے پونے دو بجے شب حضور کا طیارہ دمشق کے لئے روانہ ہوا..حضور کی تشریف آوری سے قبل مولانا عبدالمالک خان صاحب مبلغ سلسلہ نے حسب ذیل دُعائیں لاؤڈ سپیکر پر پڑھیں اور احباب کو ان کے دہرانے کی تلقین کی.یہ دعائیں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح الموعودؓ نے اس موقعہ کے لئے خود انہیں لکھوائی تھیں.(1) - اللَّهُمَّ أَخْرِجْهِم مُخْرَجَ صِدْقٍ وَأَدْخِلْهُم مُّدْخَلَ صِدْقٍ - وَاجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ لَّدُنْكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا -
مصالح العرب.....جلد دوم (2) - رَبِّ كُلُّ شَيْ ءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْهُمْ وَانْصُرْ وَارْحَمْهُمْ ( 3 ) - يَا حَفِيْظُ يَا عَزِيْزُ يَا رَفِيق (4) - فِي حِفَاظَة الله وَرَحْمَتِهِ (5) - ارْجِعُوْ سَالِمِيْنَ غَانِمِيْنَ تَحْتَ رَحْمَةِ اللَّهِ - هُمْ اسی طرح سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ مشہور نظم بھی خوش الحانی سے پڑھی گئی جس میں حضور نے سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اور دیگر اولاد کے لئے دعا فرمائی ہے.سوا نو بجے تھے کہ سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی خدام میں تشریف لائے اور کرسی پر بیٹھ کر مجمع سمیت لمبی اور پُر سوز دُعا کی.دعا کا یہ نظارہ حد درجہ ایمان افروز اور رقت انگیز تھا اور اس کی کیفیت کا اندازہ کچھ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر شریک ہونے کی سعادت عطا فرمائی تھی.اس موقعہ پر مقامی جماعت اور صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے دو بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے.روزنامه " الفضل ربوہ 19 مئی 1955 ، صفحہ 5) دمشق میں ورود اور ہفت روزہ قیام حضرت خلیفہ مسیح الثانی مصلح موعود بروز ہفتہ بتاریخ 30 را پریل تقریباً سات بجے بذریعہ ڈچ ہوائی جہاز دمشق کے ہوائی اڈہ پر وارد ہوئے.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ پرائیویٹ سیکرٹری 28 راپریل سے یہاں موجود تھے.احباب جماعت حضور کی آمد کے بے تابی سے منتظر تھے.کئی ایک کو اس بارہ میں رویا میں بھی بشارات مل چکی تھیں.کل جمعہ میں خاصا اجتماع تھا.ہمارے محترم دوست استاذ السید منیر اکھنی صاحب نے استقبال کے بارہ میں احباب کو ہدایات دیں.احباب جماعت عموماً انتہا درجہ کے مصروف اور اکثر ذمہ داری کے مناصب پر مقرر ہیں.لیکن کچھ تو صبح ہی زاویتہ الحصنی میں (جہاں جماعت کا مرکز ہے ) پہنچ گئے اور پھر ا کٹھے الحاج سید بدرالدین الھنی صاحب کے مکان پر پہنچے جہاں دوسرے دوست پہلے ہی پہنچ چکے تھے.کاروں کا انتظام کیا گیا اور سات بجے سے قبل ہوائی اڈہ پر جا پہنچے.سید منیر اٹھنی صاحب، چوہدری له 2
3 مصالح العرب.....جلد دوم مشتاق احمد صاحب باجوہ اور ایک اور دوست جنہیں طیارہ کی سیڑھی کے دروازے پر جانے کی کی اجازت تھی آگے بڑھے.حضور تشریف لائے اور شرف مصافحہ بخشا.پھر حضور اپنے احباب کے اجتماع میں سہارا لئے ہوئے پولیس کے دفتر میں جہاں پاسپورٹ وغیرہ چیک کئے جاتے ہیں تشریف فرما ہو گئے اور استاذ منیر اکھنی پاس ہی کھڑے ہو کر باری باری احباب کا تعارف کرواتے گئے.حضرت ام امتہ المتین صاحبہ ، حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ، صاحبزادی امتہ الجمیل اور صاحبزادی امتہ المتین کے استقبال کے لئے الحاج بدر الدین احصنی کے خاندان کی مستورات تشریف لائی ہوئی تھیں.انہوں نے انہیں خوش آمدید کہا اور اپنے قابل احترام مہمانوں کو لے کر بلاتا خیر گھر کو روانہ ہو گئیں.تھوڑی دیر کے بعد جب پاسپورٹ چیک ہو گئے تو حضور بھی اپنے خدام کے ہمراہ الحاج بدالدین صاحب کے مکان کو روانہ ہو گئے اور چند میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اپنے میزبان کے مکان پر پہنچ گئے.حضور کا قیام بالا خانہ پر ہوا جو نہایت صاف ستھرا آرام دہ تھا اور اپنے آقا کے قدموں تلے آنکھیں بچھانے والے حصنی خاندان کو میزبانی کا شرف حاصل ہوا.الحاج بدر الدین صاحب کا ریشمی کپڑے کا کارخانہ ہے.آپ ہمارے دمشق کے مبلغ انچارج السید منیر احصنی کے چھوٹے بھائی ہیں.حضور تھوڑی دیر ڈرائینگ روم میں بیٹھے اور پھر اندر آرام فرمانے کے لئے تشریف لے گئے.حضور قریباً سات روز تک دمشق میں رونق افروز رہے.دورانِ قیام کے بعض کو ائف بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا.30 اپریل 1955ء:.حضور نماز ظہر کے لئے تشریف لائے اور سفر کی تکان کے باوجود دمشق کے مخلص احمدیوں کے طبعی اشتیاق کے پیش نظر مجلس میں تقریباً دو گھنٹے تشریف فرما ر ہے اور مختلف امور پر اظہار خیال فرماتے رہے.یکم مئی 1955:.دو پہر کو کھانے سے قبل دمشق سے تین چار میل کے فاصلہ پر ایک باغ المنشية مع اہل بیت تشریف لے گئے.صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب.چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب.سید منیر احصنی صاحب اور چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کو بھی شرف معیت حاصل ہوا.اس باغ میں بہنے والی نہر کے کنارے کے ساتھ نشست گاہیں بنی ہوئی تھیں.حضور کچھ وقت وہاں تشریف فرما ر ہے اور پھر واپس تشریف لائے.ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں اور اس کے بعد مخلصین کو مصافحہ کا موقعہ عطا فرمایا.تقریباً ساڑھے پانچ
مصالح العرب.....جلد دوم 4 بجے ڈاکٹر یوسف الموصلی صاحب معائنہ کے لئے تشریف لائے انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ حضور کو مکمل آرام کی ضرورت ہے اور یہی اصل علاج ہے.جماعت احمد یہ بیروت پر شفقت شیخ نور احمد صاحب منیر جو ان دنوں بیروت (لبنان) میں مبلغ احمدیت کے فرائض انجام دے رہے تھے ایک روز قبل شرف ملاقات حاصل کر چکے تھے اس روز بھی لبنان کی جماعت کے ایک اور دوست کے ساتھ آئے تا حضور کی خدمت میں اصرار کے ساتھ یہ درخواست کریں کہ حضور بیروت میں بھی تشریف لاویں اور جماعت کو زیارت کا موقع دیں.حضور نے از راہ شفقت بیروت میں قیام منظور فرمالیا.6 مئی 1955ء: اس روز حضور نے ظہر و عصر کی نماز کے بعد بعض شامی اور فلسطینی احباب سے مسئلہ فلسطین کے بارہ میں عربی میں گفتگو فرمائی.نیز مشرق وسطی میں سلسلہ کی ترقی کے بارہ میں بعض سکیموں پر غور کیا اور اصحاب الرائے احباب سے مشورہ فرمایا.دمشق میں اپنے قیام کے دوران حضور یہاں پر تبلیغ کو وسیع کرنے اور ایک اسکول قائم کرنے کے منصوبے پر غور فرماتے رہے.ایک روز حضرت مصلح موعود دمشق سے پانچ میل کے فاصلے پر ایک مقام دمر تشریف لے گئے.وہاں نہر کے کنارے ایک کیفے میں تشریف فرما رہے.6 رمئی کو حضور کے اعزاز میں دمشق کے احمدی احباب کی طرف سے جماعت کے مرکز زاویۃ الحصنی میں دعوت تھی.لیکن اس روز بعض احباب کو ایسی خوا ہیں آئیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ حضور کو خطرہ در پیش ہے لیکن انجام بخیر ہے.ظاہری تدبیر کے طور پر یہ قدم اُٹھایا گیا کہ حضور زاویہ احصنی نہ تشریف لائیں بلکہ احباب کھانے کے بعد حضور کی خدمت میں حاضر ہو جائیں.حضور کے ایک مکتوب میں اچھی خاندان کے اخلاص کی تعریف 3 مئی 1955ء کو حضور نے امیر مقامی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے نام ایک مکتوب تحریر فرمایا جس میں سفر دمشق اور آئندہ پروگرام پر روشنی ڈالنے کے علاوہ السید منیر
مصالح العرب.....جلد دوم اکھنی اور ان کے مخلص خاندان کی عقیدت و محبت کا نہایت پیارا نقشہ کھینچا گیا تھا.مذکورہ مکتوب کے الفاظ یہ تھے.مشق 55-5-3 عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ 5 آج دمشق آئے تیسرا دن ہے ہوائی جہاز میں تو اس حادثہ کے سوا کہ اس کے کمبل گلو بند کی طرح چھوٹے عرض کے تھے اور کسی طرح بدن کو نہیں ڈھانک سکتے تھے خیریت رہی.سردی کے مارے ساری رات جاگا اور پھر وہم ہونے لگا کہ شاید مجھے دوبارہ حملہ ہوا ہے.چودھری ظفر اللہ صاحب ساری رات مجھے کمبلوں سے ڈھانکتے رہے مگر یہ ان کے بس کی بات نہ تھی.آخر جب میں بہت نڈھال ہو گیا تو میں نے چودھری صاحب کی طرف دیکھا جو ساتھ کی کرسی پر تھے تو ان کا چہرہ مجھے بہت نڈھال نظر آیا اور مجھے یہ وہم ہو گیا کہ چوہدری صاحب بھی بیمار ہو گئے ہیں.آخر میں نے منور احمد سے کہہ کر نیند کی دوائی منگوائی.چودھری صاحب نے قہوہ منگوا کر دیا وہ کی گرم گرم پیا.ایک ایسپرین کی پڑیا کھائی تو پھر جا کر نیند آئی اور ایسی گہری نیند آئی کہ جب چودھری صاحب صبح کی نماز پڑھ چکے تو میں جا گا.چودھری صاحب نے عذر کیا کہ آپ کی بیماری اور بے چینی کی وجہ سے میں نے آپ کو نماز کیلئے نہیں جگایا.بہر حال قضائے حاجت کے بعد کرسی پر نماز ادا کی اور پھر ناشتہ کیا.اتنے میں روشنی ہو چکی تھی.دُور دُور سے عرب اور شام کی زمینیں نظر آ رہی تھیں.بہر حال بقیہ سفر نہایت عمدگی سے کٹا اور ہم سات بجے دمشق پہنچ گئے ایروڈ روم پر دمشق کی جماعت کے احباب تشریف لائے ہوئے تھے جو سب بہت اخلاص سے ملے برادرم منیر اکھنی بھی جماعت کے ساتھ تشریف لائے ہوئے تھے.امیر وڈ روم کے ہال میں جا کر بیٹھ گئے جہاں پاکستان کے منسٹر بھی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ملنے کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے.مستورات کے لئے برادرم سید بدرالدین احصنی جو منیر الحصنی کے چھوٹے بھائی ہیں ، کی مستورات تشریف لائی ہوئی تھیں.وہ مستورات کو گھر لے گئیں پیچھے پیچھے ہم بھی پہنچ گئے.محبت اور اخلاص کی وجہ سے بدر الدین احصنی نے سارا گھر ہمارے لئے خالی کر دیا ہے اس وقت ہم اس میں ہیں.جس محبت سے یہ سارا خاندان ہماری خدمت کر رہا ہے اس کی مثال پاکستان میں مشکل سے ملتی ہے.برادرم سید بدرالدین حصنی شام کے بہت بڑے تاجر
6 مصالح العرب.....جلد دوم ہیں لیکن خدمت میں اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ اپنے اخلاص کی وجہ سے وہ خادم زیادہ نظر آتے ہیں رئیس کم نظر آتے ہیں.یہاں چونکہ سردی بہت ہے اور یورپ کی طرح Heating System نہیں ہے.مجھے سردی کی وجہ سے زیادہ تکلیف ہو گئی ہے.یہاں کے قابل ڈاکٹر کو بلایا گیا جس کے معائنہ کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ وہ واقعی قابل ہے.فرانس کا پڑھا ہوا ہے بعض امور جو تجربہ سے بیماری کو بڑھانے والے ہوتے ہیں اس نے ان کو بہت جلدی اخذ کر لیا.منور احمد نے بتایا کہ جب ڈاکٹر کو فیس دینے لگے تو سید منیر احصنی صاحب نے بڑے زور سے روکا یہ ہمارا خاندان کا ڈاکٹر ہے ہم اس کو سالانہ فیس ادا کرتے ہیں اس کو فیس نہ دیں.اس سے معلوم ہوا کہ یہاں بھی بڑے خاندان یورپ کی طرح ڈاکٹروں کو ماہانہ یا سالانہ فیس ادا کرتے ہیں اور ہر دفعہ آنے پر الگ فیس نہیں دی جاتی.اب یہ پروگرام ہے کہ انشاء اللہ سات تاریخ کو ہم بیروت جائیں گے اور آٹھ کو اٹلی روانہ ہوں گے.چودھری صاحب انشاء اللہ ساتھ ہی ہوں گے ان کی ہمراہی بہت تسلی اور آسائش کا موجب رہی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.دلوں میں ایسی محبت کا پیدا کرنا محض اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے.انسان کی طاقت نہیں اس لئے ہم اللہ تعالیٰ کے ہی شاکر ہیں کہ اس نے ہمارے لئے وہ کچھ پیدا کر دیا جو دوسرے انسانوں کو باوجود ہم سے ہزاروں گنا طاقت رکھنے کے حامل نہیں.ایک دن یہاں بھی شدید دورہ ہوا تھا مگر خدا کے فضل سے کم ہو گیا اب معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ملک میں پہنچ کر جہاں Heating System ہوتا.بیماری کے ایک حصہ کو کافی فائدہ ہوگا.جو حملہ یہاں آ کر ہوا وہ زیادہ تر دماغی تھا.یعنی جسم پر حملہ ہونے کی بجائے دماغ پر لگتا تھا بڑی سخت گھبراہٹ تھی.اس وقت یہ دل چاہتا تھا کہ اڑ کر اپنے وطن چلا جاؤں مگر مجبوری اور معذوری تھی.ادھر علاج کا مقام بھی بہت قریب آ گیا تھا اس لئے عقل کہتی تھی اب سفر کی غرض کو پورا کرو شاید اللہ تعالیٰ کی صحت ہی عطا فرمادے اور جسم آئندہ کام کے قابل ہو جائے.انشاء اللہ ہم اب آٹھ یا نو تاریخ کو تار یا خط کے ذریعہ سوئٹزر لینڈ سے اپنے حالات لکھیں گے.احباب دعاؤں میں مشغول رہیں کیونکہ علاج کا مرحلہ تو اب قریب آ رہا ہے.اس سے پہلے تو سفر ہی سفر تھا.سب احباب جماعت احمدیہ اور عزیزوں اور رشتہ داروں کو السلام علیکم.مرزا محمود احمد ہے روزنامه «الفضل ربوہ 10 مئی 1955 ء صفحہ 1-2)
مصالح العرب.جلد دوم ایک نکاح کا اعلان اس روز حضور نے نماز ظہر سے قبل سیدہ نجمیه ( بنت الحسن الجابی مرحوم ) کا نکاح سید سعید القبانی کے ساتھ ایک ہزار لیرہ سوری مہر معجل اور پانچ صد لیرہ سوری مہر مؤجل پر پڑھا اور اس کے بابرکت ہونے کی دعا فرمائی.یہ پہلا نکاح تھا جو حضور نے ایک شامی احمدی کا ایک شامی خاتون کے ساتھ پڑھایا.یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے نماز ظہر کے بعد حضور مجلس عرفان میں رونق افروز رہے اور شامی احباب سے بلا تکلف عربی زبان میں گفتگو فرماتے رہے.ایک دوست نے عرض کیا کہ حضور ہمارا جی چاہتا تھا کہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوں اور حضور کی زیارت کریں لیکن اس کی ہمت نہ تھی ہمارا اللہ خود حضور کو ہمارے پاس لے آیا.یہ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی بات تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا اور پھر ایک حکایت سنائی کہ ایک شہر میں اللہ کا ایک معذور بندہ رہتا تھا اس سے دور ایک ولی اللہ تھا اس معذور اور بزرگ کے دل کی خواہش تھی کہ کس طرح اس ولی اللہ سے ملاقات ہو لیکن وہ جانہ سکتا تھا.اور ولی اللہ کو بلانے کی جرات نہ تھی.آخر ایک دن وہ ولی خود اس کے پاس آگئے وہ بڑا حیران ہوا.پوچھا آپ کیسے آئے؟ کہا سلطان کی طرف سے مجھے حاضری کا حکم پہنچا تھا اس لئے آیا ہوں.اس بزرگ نے عرض کیا نہیں خدا تعالیٰ مجھے معذور کی زیارت کے لئے آپ کو لایا ہے.چنانچہ تھوڑی دیر بعد ایک پیغامبر آیا اس نے بتایا کہ وہ فلاں صاحب کے لئے یہ شاہی حکم لے کر جارہا ہے کہ ان کو نہیں بلایا گیا بلکہ غلطی سے حکم ان کے پاس پہنچ گیا تھا.لہذاوہ تکلیف نہ کریں.اس بزرگ نے جواب دیا تم فکر نہ کرو وہ یہاں ہی ہیں.اور یہ اطلاع ان کو پہنچ گئی.پس حضور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ خود اپنے بندوں کی خواہش کے پورا کرنے کا سامان پیدا کر دیتا ہے.بدرالدین احصنی کی سعادت حضور مختلف احباب سے حالات دریافت فرماتے رہے.اس دوران میں عطروں کا ذکر آیا 7
8 مصالح العرب.....جلد دوم الف لیلہ میں دمشق کے عطروں کا بڑا ذ کر آتا ہے.احباب نے عرض کیا کہ یہاں تو فرانسیسی عطری زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں لیکن بعض عطر مثلا گلاب اور چنبیلی خاصے اچھے ہیں.بعض لوگوں کے اخلاص کا بھی عجیب رنگ ہوتا ہے.الحاج سید بدرالدین الھنی نے کسی کو مختلف قسم کے عطر لانے کی ہدایت کر دی اور چند منٹ بعد مختلف عطر وہ حضور کی خدمت میں پیش کر رہے تھے.حضور نے مختلف عطروں کو سونگھتے ہی بتا دیا کہ یہ سب کیمیکل ایسنس کے ہیں.رات کے کھانا کی سید منیر انھی کے مرحوم بھائی سید عبدالرؤوف ابھنی کے ہاں دعوت تھی.السيد عبدالرؤف الحصنی کے بڑے بیٹے سیدنا در انتھنی اپنے خاندان کے لئے اخلاص کا ایک عمدہ نمونہ تھے.حضور کی طبیعت شگفتہ تھی اور اس شگفتگی سے ساری مجلس باغ و بہار بنی رہی.لطائف کا سلسلہ چلتا رہا.کھانا تناول فرمانے کے بعد حضور نے دعا فرمائی.پھر سید نا در الھنی کے چھوٹے بھائی السید نورالدین الحصنی صاحب نے سورہ واضحی کی نہایت خوش الحانی سے تلاوت کی.4 مئی 1955ء کو حضور نماز ظہر و عصر کے بعد مجلس میں تشریف فرما ر ہے اور بہائیوں کے متعلق السید رشدی السبطی سے حالات دریافت کئے.دعوت عشائیہ السید منیر مالکی کے ہاں تھی جس میں حضور نے شرکت فرمائی.کئی ایک شامی احباب بھی مدعو تھے.خطبہ جمعہ اور دمشق میں آخری مجلس (روز نامه الفضل ، ربوہ 15 مئی 1955 ، صفحہ 3) 6 مئی 1955ء کو جمعہ کا دن تھا.حضور چونکہ ہفتہ کے روز بیروت روانہ ہو رہے تھے اس لئے صبح سے ہی کثرت سے احباب حضور کی فرودگاہ پر تشریف لانے لگے.جماعت نے اس تاریخی موقعہ کی یادگار ظاہر طور پر محفوظ کرنے کے لئے فوٹو گرافر کا انتظام کیا جس نے مختلف فوٹو لینے شروع کئے اس اثناء میں نماز جمعہ کا وقت ہو گیا.الحاج بدرالدین صاحب کو یہ بھی سعادت حاصل ہوئی کہ حضرت مصلح موعود ان کے مکان میں ہی جمعہ پڑھا ئیں.حضور نے فصیح و بلیغ عربی زبان میں ایک مختصر جمعہ پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آج سے تقریباً نصف صدی قبل جب کہ آپ میں سے اکثر ا بھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے حضرت مسیح موعود کو الہام فرمایا: يَدْعُونَ لَكَ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللهِ مِنَ الْعَرَبِ“ (مکتوبات احمدیه جلد اول صفحه 86)
مصالح العرب.....جلد دوم اور آج آپ کے وجود سے یہ الہام پورا ہو گیا ہے.نماز جمعہ کے بعد حضور کچھ وقت مجلس میں رونق افروز رہے.سید محمد ذکی صاحب نے تلاوت قرآن کریم کی.السید محمد الربانی نے حضرت مسیح موعود کا عربی قصیدہ پڑھا اور پھر السید ابراہیم الجبان نے حضرت مصلح موعودؓ کی شان مبارک میں ایک شاندار قصیدہ پڑھا جو ان کی قلبی واردات کا آئینہ دار اور اخلاص کا مرقع تھا.اس یاد گار تقریب کے کئی فوٹو لئے گئے اور دعا پر یہ تقریب ختم ہوئی.1924 ء اور 1955ء کے دمشق کا موازنہ حضرت مصلح موعود 1924ء میں بھی نزیل دمشق ہوئے تھے مگر اکتیس سال قبل کے دمشق اور موجودہ دمشق میں ایک بھاری فرق تھا.1924ء میں یہاں کوئی دمشقی احمدی نہ تھا اور حالات اس درجہ مخالف تھے کہ دمشقی عالم الشیخ عبد القادر المغربی نے حضور سے کہا آپ یہ امید نہ رکھیں کہ ان علاقوں میں کوئی شخص آپ کے خیالات سے متاثر ہوگا کیونکہ ہم لوگ عرب نسل کے ہیں اور عربی ہماری مادری زبان ہے اور کوئی ہندی خواہ وہ کیسا ہی عالم ہو ہم سے زیادہ قرآن و حدیث کے معنی سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا.اولو العزم فضل عمر اس چیلنج پر خاموش نہ رہ سکے اور فرمایا ”اب ہندوستان واپس جانے پر میرا پہلا کام یہ ہوگا کہ آپ کے ملک میں مبلغ روانہ کروں.اور دیکھوں خدائی جھنڈے کے علمبرداروں کے سامنے آپ کا کیا دم خم ہے.تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ 413-414) اللہ اللہ کس تو کل علی اللہ اور کس عزم کا اظہار تھا جس نے خدا کے فضلوں کو ایسی تیزی سے جذب کیا کہ اب جو اکتیس سال کے بعد وہی اولوالعزم اور متوکل اور مسیح محمدی کا لخت جگر اور پسر موعود دمشق میں وارد ہوا تو مخلصین احمدیت کی ایک بیمثال جماعت قائم ہو چکی تھی.اور حضور کے عاشق خدام اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اس کے ہاتھ کو بوسہ دینے کے لئے اور اس کے روح پرور کلمات سننے کے لئے اور اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے اور اس سے تعارف کا فخر حاصل کرنے اور اس کی دعاؤں کے حصول کیلئے تڑپتے تھے.اور خدا کے اس موعود خلیفہ کے در کی پاسبانی کے لئے فخر وعزت محسوس کر رہے تھے.(الفضل 15 مئی 1955 صفحہ 3) 6
مصالح العرب.....جلد دوم جماعت احمد یہ دمشق کے لئے حضرت مصلح موعودؓ کی دعا 10 10 مشق سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 7 مئی کو بیروت کے لئے روانہ ہوئے.روانگی سے قبل حضور نے جماعت احمد یہ شام کی وزیٹرز بک میں اپنے دست مبارک سے مندرجہ ذیل کلمات تحریر فرمائے : يَرْحَمُكُمُ اللهُ وَيُبَارِكُ فِيكُمْ وَفِي كُلِّ أَعْمَالِكُمْ وَأَشْغَالِكُمْ “ ترجمہ: اللہ تعالیٰ آپ پر رحمت فرمائے ، اور آپ میں اور آپ کے تمام اعمال واشغال میں برکت رکھ دے.دمشق سے بیروت سیدنا محمود المصلح الموعود ایک ہفتہ دمشق میں قیام فرمانے اور اس کی فضاؤں کو اپنے انوار و برکات سے معطر کرنے کے بعد 7 رمئی کو سو اسات بجے صبح دمشق سے بیروت کے لئے روانہ ہو گئے.حضور کے ساتھ دمشق کی جماعت کے مخلصین کی ایک تعداد سید منیر الحصنی صاحب کی قیادت میں بیروت آئی ان مخلصین کے اسماء حسب ذیل ہیں:.محمد الشواء پلیڈر.سعید القبانی.علاؤ الدین نو یلاتی.زکریا الشواء، سلیم حسن الجابی ، نادر اکھنی ، ابراہیم الجبان، محمد ذکی.حضور شتورۃ سے بعلبک دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے وہاں پر ان آثار قدیمہ کو پوری دلچسپی سے دیکھا کچھ دیر پہلے قرآن کریم اور قصیدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنا، شتورۃ میں کھانا کھایا.جماعت احمد یہ لبنان کا اخلاص لبنان کی مخلص جماعت کے نمائندگان کا ایک وفد حضور کے استقبال کے لئے دمشق بیروت کی سڑک پر عالیہ صحت افزا پہاڑی مقام سے آگے تقریباً بارہ میل کے فاصلہ پر گیا ہوا تھا.اس میں مکرم شیخ نور احمد صاحب منیر مبشر اسلامی.محمد توفیق الصفدی صاحب.مرزا جمال احمد
مصالح العرب......جلد دوم 11 صاحب.ابوالولید شہاب الدین اور چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ شامل تھے.حضور کا قافلہ تقریباً ڈیڑھ بجے عالیہ پہنچا.ان کے ہمراہ بیروت میں مکرم محمد در جنانی صاحب کے مکان پر پہنچے جہاں حضور کے ٹھہرانے کا انتظام کیا گیا تھا.حضور کی پیشوائی اور ملاقات کے لئے لبنان کے احمدی دوست طرابلس اور بر جا سے معہ بچوں کے آئے ہوئے تھے جو نہی حضور کی کار دروازہ پر پہنچی دوستوں نے کہنا شروع کر دیا جاء مولانا الخلیفہ اور دوستوں نے حضور کو اھلا و سھلا ومرحبا کہا.حضور کی آمد ان ممالک میں غیر متوقع تھی اس لئے دوستوں کو حضور کی ملاقات سے انتہائی خوشی تھی اور سب دوست حضور کی صحت عاجلہ اور عمر طویل کے لئے دعا گو تھے.ڈاکٹری ہدایت کے پیش نظر حضور نے آتے ہی آرام فرمایا اور سو گئے.چائے نوشی کے بعد حضور ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھانے کے لئے تشریف لائے دوستوں نے حضور کی اقتدا میں نماز پڑھی.نماز کے بعد حضور نے بعض مقامی امور کے متعلق استفسار فرمایا اور شیخ نور احمد صاحب منیر نے لبنان کے جملہ احباب کا تعارف حضور سے کرایا.تمام دوستوں نے حضور سے مصافحہ کیا.سیکرٹری محمد توفیق الصفدی صاحب نے ایک مختصر ایڈریس حضور کی خدمت مبارک میں پیش کیا جس میں حضور کی آمد پر جماعت نے اپنے آقا کو مرحبا کہا تھا.اور اپنے جذبات عقیدت کا اظہار کیا اور حضور کی کامل شفاء کے لئے دعا کی.السید محمد توفیق الصفدی کے بعد السید نجم الدین نے بھی ایک قصیدہ پیش کیا.ازاں بعد حضرت مصلح موعودؓ نے الشیخ عبد الرحمن البرجاوی کی درخواست پر جماعت احمدیہ برجا کی مرکزی عمارت کے لئے بنیادی پتھر پر ہاتھ اٹھا کر دعا کی.برجا کے علاوہ طرابلس الشام سے بھی محمود ابراہیم صاحب اپنے بچوں کے ہمراہ آئے ہوئے تھے.حضور ان کے حالات دریافت فرماتے رہے.یہ مختصر مجلس برخاست ہوئی تو دوستوں نے دوبارہ مصافحہ کیا اور پھر حضور ساحلِ سمندر کی طرف تشریف لے گئے اور نئے بیروت کے بعض حصوں کو دیکھا.اس وقت چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اور مکرم توفیق محمد الصفدی صاحب کو حضور کی کار میں بیٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی.حضور لبنان میں سلسلہ کی ترقی کے لئے بعض امور پر تبصرہ فرماتے رہے.مغرب کی اذان ہو چکی تھی حضور سیر سے واپس تشریف لائے.
00000 12 مصالح العرب.....جلد دوم نماز مغرب و عشاء پڑھا ئیں اور بعض نئے دوستوں کو شرف ملاقات بخشا.ایک زیر تبلیغ عیسائی دوست کمیل شاہوب نے بھی حضور سے مصافحہ کیا.مصافحہ کے بعد اس شخص نے ایک دوست سے کہا واللهِ لَقَدْ انْشَرَحَ قَلْبِي مِنْ زِيَارَةِ هَذَا الشَّخص.بخدا اس شخص کی ملاقات سے میرے دل میں انشراح پیدا ہوا ہے.یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مکرم محمد توفیق الصفدی اور مکرم محمد در جنانی تمام رات حضور کی قیامگاہ کے باہر پہرہ دیتے رہے.مورخہ 8 مئی 1955ء کو حضور بیروت سے زیورچ کے لئے روانہ ہو گئے.آپ کو شام ولبنان کے احمدیوں نے الوداع کیا.از الفضل 19 مئی 1955 ء صفحہ 3-4، الفضل 10 جون 1955 ء صفحہ 3، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 16 صفحہ 499-511)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی دمشق آمد پر مکرم منیر الحصنی صاحب ائیر پورٹ پر استقبال کرتے ہوئے شام کے ایک مقامی ہوٹل میں
MAKHZAN - TASANTERO 2009 1955 میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بعلبک لبنان کے آثار قدیمہ کی سیر کے دوران پہلی قطار میں دائیں طرف سے: سعید القبانی محمد خیر الصنی سلیم الجابی ، زکریا الشوا.دوسری قطار میں: نادر اکھنی ، علاء الدین النو یلاتی ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ منیر الحصنی آخری قطار: محمد الشوا، حمدی الزکی.بعلبک کے آثار قدیمہ کی سیر کے دوران لی گئی ایک اور تصویر
قاہرہ (مصر) کے ایئر پورٹ پر افراد جماعت احمد یہ شام و لبنان حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے گرد جمع ہیں
KLM كلام MEA بیروت کے ہوائی اڈے پر شام اور لبنان کے بعض احمدی احباب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ہمراہ.حضور کے دائیں جانب مبلغ سلسلہ شیخ نور احمد منیر صاحب اور بائیں طرف منیر الحصنی صاحب بیٹھے ہوئے ہیں.پر حکم اسر و پارک فیکم وہ نیکل دی الکی و اشتقا یکی مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة الحجم الموعود الثانی 7/5/55 (يرحمكم الله ويبارك فيكم وفي كل أعمالكم وأشغالكم) اہل شام کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی دعا جو آپ نے جماعت احمد یہ دمشق کی وزیٹرز بک میں تحریر فرمائی
مصالح العرب.جلد دوم 13 مبلغین بلاد عربیه بلاد عربیہ میں مبلغین کرام کی خدمات کے سلسلہ میں ہم حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، مولانا جلال الدین شمس صاحب، مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب، مولانا محمد صاحب، مولانا محمد شریف صاحب، مولانا رشید احمد چغتائی صاحب، اور مولانا نوراحمد منیر صاحب کا ذکر ان کے کار ہائے نمایاں کے ساتھ مفصل طور پر کر آئے ہیں.یہاں پر دیگر مبلغین کرام کا ذکر خیر بھی کر دیا جائے جن کو بلا د عربیہ میں خدمات کی توفیق ملی.اس کے بعد ہم تاریخی اعتبار سے باقی احداث و واقعات کا تذکرہ کریں گے.مکرم مولا نا محمد دین صاحب 1940ء میں مکرم مولوی محمد دین صاحب بطور مبلغ البانیہ گئے اور آپ نے کچھ عرصہ وہاں پر قیام کیا.مصر میں ایک مختصر سی جماعت قائم تھی.وہاں پر کوئی مبلغ نہیں تھا لیکن مکرم چوہدری محمد شریف صاحب جن کا ہیڈ کوارٹر حیفا میں تھا تمام بلاد عربیہ میں مشن کے انچارج تھے.1944ء میں آپ مصر کی جماعت کی خواہش پر وہاں تربیتی دورے پر گئے.آپ وہاں پر تقریباً دو ماہ مقیم رہے اور جماعت کے عہدیداروں کا انتخاب کرایا اور جماعت کے ساتھ تربیتی نشستیں ہوئیں.اس موقع پر چند احباب بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے.اس موقع پر ایک بلند پایہ از ہری عالم سے آپ کا مناظرہ بھی ہوا.پہلے تو یہ صاحب مُصر ہوئے کہ وہ وفات مسیح کی بجائے ختم نبوت پر مناظرہ کریں گے.جب دلائل کا تبادلہ ہوا تو جلد ہی عاجز آگئے.اور نہ صرف اقرار کیا بلکہ لکھ کر بھی دیا کہ عقلی طور پر اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ بھی نبی آسکتے ہیں.اُس کی
مصالح العرب.....جلد دوم 14 وقت ایک مخلص دوست مکرم عبد العزیز سیالکوٹی صاحب بھی چار سال سے مصر میں مقیم تھے.آپ کو خدمت سلسلہ کے لئے ایک غیر معمولی جوش عطا کیا گیا تھا.انہوں نے ایک مصری صاحب کی مدد کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کے لیکچر سیر روحانی اور ملائکتہ اللہ کے عربی میں تراجم تیار کروائے.مکرم مولانا جلال الدین صاحب قمر (از سلسلہ احمدیہ) آپ پہلی مرتبہ دیار عربیہ میں 22 / دسمبر 1954ء کو تشریف لائے اور تقریبا ڈیڑھ سال کے بعد 21 اپریل 1966ء کور بوہ واپس تشریف لے گئے.دوسری مرتبہ 7 / اپریل 1973 ء کو تشریف لائے اور 2 نومبر 1977 ء تک خدمت کی توفیق پائی.اس دوران آپ رسالہ البشری کی ادارت اور کبابیر میں مدرسہ احمدیہ کے امور کی نگرانی بھی کرتے رہے.آپ نے نہایت حکیمانہ انداز میں اہل کہا بیر کے علمی ذوق کو بلند کیا.آپ عربی زبان کے ماہر اور تعلیم کے طریقوں سے آشنا معلم تھے.بلا د عربیہ سے واپسی کے بعد آپ نے آخری بیماری تک جامعہ احمدیہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دیئے.مکرم فضل الہی بشیر صاحب آپ نے بھی دو مرتبہ بلاد عر بیہ میں خدمات سرانجام دیں.پہلی دفعہ جنوری 1966 سے جنوری 1968 ء تک جبکہ دوسری مرتبہ دسمبر 1977 ء سے دسمبر 1981 ء تک تبلیغی مہمات کی قیادت کی.اپنے قیام کے دوران آپ نے رسالہ البشریٰ کی ادارت کے علاوہ کئی قیمتی کتب بھی تالیف فرمائیں جن میں سے اہم ترین کتاب : نَسْأَلُ الْمُعَارِضِيْنَ وَعُلَمَاءَ هُمْ ہے.جس میں آپ نے بعض موٹے موٹے اختلافی مسائل کے بارہ میں تفصیل سے جماعت کا نقطہ نگاہ بیان فرمایا ہے اور اپنے مؤقف کی تائید میں دلائل دیئے ہیں.ازاں بعد آپ نے جامعہ احمد یہ ربوہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دیئے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کی عمر و صحت میں برکت دے، آمین.
مصالح العرب.جلد دوم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب 15 آپ ماریشس میں پیدا ہوئے، قادیان میں تعلیم حاصل کی اور 1944ء میں زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کیا.آپ فلسطین میں 18 فروری 1968 ء میں تشریف لائے اور 26 فروری 1972ء تک یہاں قیام فرمایا.آپ نے رسالہ البشری کی ادارت کے علاوہ اہم کام یہ کیا کہ مرکز کی طرز پر مختلف دینی اجلاسات اور جلسہ جات کے قیام کا رواج ڈالا، چنانچہ یوم مسیح موعود ، یوم مصلح موعود، اور یوم خلافت وغیرہ کا باقاعدہ انعقاد ہونا شروع ہوا.اسی طرح ان مواقع پر رسالہ البشری کے خاص شمارے بھی شائع کئے گئے.آپ نے بکثرت فلسطین کے مختلف علاقوں کے دورے کئے اور تبلیغ کے کام میں تیزی پیدا کر دی.مکرم مولا نا محمد منور صاحب مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب کی واپسی کے بعد مکرم مولا نا محمد منور صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ 8 فروری 1972ء کو فلسطین تشریف لائے اور تقریباً سو سال قیام کے بعد 21 / مئی 1973ء کو یہاں سے روانہ ہو گئے.اس عرصہ میں آپ نے رسالہ البشریٰ کی ادارت کے علاوہ دینی مجالس اور درس و تدریس پر زیادہ زور دیا.مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب آپ 20 /اکتوبر 1966ء کو لبنان تشریف لائے اور عربی زبان کے علاوہ حدیث کے میدان میں اکتساب علم کیا.جس کے بعد 19 / جولائی 1967ء کو آپ واپس ربوہ تشریف لے گئے.لبنان میں قیام کے دوران آپ شام بھی تشریف لے گئے جہاں مکرم منیر الحصنی صاحب اور دیگر افراد جماعت سے ملاقات کا بھی موقع ملا.ازاں بعد آپ نے جامعہ احمدیہ میں حدیث شریف کے استاد کی حیثیت سے لمبا عرصہ تدریس کے فرائض سرانجام دیئے.
مصالح العرب.جلد دوم مکرم ملک مبارک احمد صاحب 16 آپ نے پچاس کے دہائی کے شروع میں مصر اور شام میں بغرض تعلیم قیام فرمایا.شام میں آپ زاویہ اکھنی میں رہتے تھے.قلت کلام اور کثرت مطالعہ آپ کی صفات حمیدہ میں شامل تھا.آپ نے واپس آکر مختلف کتب کے ترجمہ کے ذریعہ عربوں کی بہت خدمت کی.آپ کے اہم ترین کاموں میں سے تفسیر کبیر جلد اول، مسیح ہندوستان میں، اسلام کا اقتصادی نظام، نظام نو ، دعوۃ الامیر وغیرہ کا عربی ترجمہ ہے.علاوہ ازیں آپ نے تقریباً دس سال تک ربوہ سے شائع ہونے والے مجلہ البشری کی ادارت کے فرائض سرانجام دیئے.جامعہ احمدیہ میں عربی زبان کی تدریس کے علاوہ آپ نائب پرنسپل اور قائمقام پرنسپل کے عہدوں پر بھی فائز رہے.مکرم قریشی نور الحق صاحب تنویر 1956ء میں آپ نے بطور طالب علم قاہرہ یو نیورسٹی میں داخلہ لیا اور تعلیم مکمل کی تحصیل علم کے ساتھ ساتھ آپ جماعت سے بھی رابطہ میں رہے.ازاں بعد جامعہ احمدیہ میں عربی زبان کی تدریس اور نائب پرنسپل کے عہدہ پر ایک لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی.مکرم شریف احمد امینی صاحب آپ 11 اکتوبر 1984 ء سے لے کر 16 دسمبر 1985ء تک بلا د عربیہ میں رہے.ازاں بعد جامعہ احمدیہ قادیان میں بطور استاد کام کیا ، اسی طرح ناظر امور عامہ قادیان کے اہم منصب پر بھی آپ کو خدمت کی توفیق ملی.مکرم را ناتصور احمد خان صاحب آپ اکتوبر 1988ء میں مصر میں عربی زبان کی اعلی تعلیم کے لئے تشریف لے گئے لیکن نامساعد حالات کی بناء پر آپ کے ویزہ میں توسیع ممکن نہ ہوسکی جس کی بناء پر آپ کو فروری
مصالح العرب.....جلد دوم 17 1989ء ء میں واپس پاکستان جانا پڑا.آپ کا شمار عربی زبان کے ماہر علماء میں ہوتا ہے.آج کل آپ جامعہ احمد یہ ربوہ میں صدر شعبہ عربی اور عربی ادب کے استاد کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں.مکرم محمد حمید کوثر صاحب آپ 26 اپریل 1985ء کو کہا بیر پہنچے اور 22 مئی 1998 ء تک خدمت کی توفیق پائی.اس عرصہ میں آپ نے ذیلی تنظیموں کو فعال بنانے میں کافی محنت سے کام کیا.آپ نے حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کے متعد د خطبات جمعہ اور خطابات کا بھی ترجمہ کیا.آپ کا ایک بڑا اور اہم کام جماعت احمدیہ پر ہونے والے اعتراضات کے تفصیلی جوابات پر مبنی کتاب کی تیاری ہے.آپ آج کل پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان کے طور پر خدمت بجالانے کی توفیق پارہے ہیں.مکرم مولا نا محمد عمر صاحب آپ کا تعلق انڈیا سے ہے آپ جنوری 1999 ء سے اگست 1999 ء تک کے مختصر عرصہ کے لئے حیفا میں مقیم رہے اور جماعت کی تربیتی اور انتظامی امور میں راہنمائی کی.آج کل آپ ناظر اصلاح وارشاد قادیان کے طور پر خدمات بجالانے کی توفیق پارہے ہیں.مکرم عطاء اللہ کلیم صاحب آپ حیفا میں ستمبر 1999ء میں پہنچے اور فروری 2000 ء تک قیام فرمایا.ازاں بعد آپ کو دل کا عارضہ لاحق ہونے کے باعث واپس آنا پڑا.قبل ازیں آپ نے لمبا عرصہ غانا میں پھر امریکا اور جرمنی میں گراں قدر خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی تھی.مکرم باسط رسول ڈار صاحب آپ کا تعلق انڈیا سے ہے.آپ 26 راگست 1998 ء سے اگست 2000ء تک کبابیر میں رہے اور جماعتی مفوضہ ذمہ داریوں کو باحسن نبھانے کی کوشش کی.
مصالح العرب.جلد دوم مکرم شمس الدین مالا باری صاحب 18 آپ کا تعلق انڈیا سے ہے، آپ 27 مئی 2004 ء سے بطور مبلغ سلسلہ کبابیر میں خدمات بجالانے کی توفیق پارہے ہیں.مذکورہ بالا مبلغین کرام کے علاوہ بعض مبلغین کرام بلاد عر بیہ میں عربی زبان کی اعلیٰ تعلیم کے لئے تشریف لے گئے.تاریخی لحاظ سے انکے بلاد عر بیہ میں قیام کے بعض واقعات انکی جگہ پر درج کر دیئے جائیں گے تاہم سر دست ان کے اسماء کرام یہاں درج کئے جاتے ہیں: مکرم نصیر احمد قمر صاحب (شام) مکرم منیر احمد جاوید صاحب ( شام و مصر) مکرم زین الدین صاحب آف انڈیا (اردن) مکرم عبد المؤمن طاہر صاحب (مصر) مکرم یوسف علی کائرے صاحب آف یوگنڈا ( مصر ) مکرم عبد المجید عامر صاحب، مکرم محمد احمد نعیم صاحب، مکرم داؤد احمد عابد صاحب، مکرم نوید احمد سعید صاحب، مکرم عبد الرزاق فراز صاحب، مکرم حافظ عبد الحی بھٹی صاحب، مکرم وسیم احمد فضل صاحب، مکرم مرزا خلیل احمد بیگ صاحب، مکرم حفیظ اللہ بھروانہ صاحب، مکرم مقبول احمد ظفر صاحب، مکرم میر انجم پرویز صاحب، مکرم ثاقب کامران صاحب، مکرم شیخ مسعود احمد صاحب، مکرم سید عمران احمد شاہ صاحب، ( مکرم ایم بی طاہر صاحب، مکرم طارق احمد خلیل صاحب، مکرم محمد طاہر صاحب آف انڈیا) مکرم طارق حیات صاحب اور خاکسار محمد طاہر ندیم (شام).
مبلغین بلاد عربه مکرم زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب مکرم منیر الحصنی صاحب مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب مکرم محمدسلیم صاحب مکرم مولا نا چودھری محمد شریف صاحب مکرم مولا نا جلال الدین قمر صاحب مکرم بشیر الدین عبید اللہ صاحب مکرم فضل الہی بشیر صاحب
مکرم جلال الدین شمس صاحب اور مکرم منیر الصنی صاحب مکرم مولا نا محمد منور صاحب مکرم شیخ نور احمد منیر صاحب مکرم ابوالعطا ء صاحب اور مکرم منیر الحصنی صاحب مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب مکرم شریف احمد امینی صاحب مکرم عطاء اللہ کلیم صاحب
مکرم چوہدری محمد شریف صاحب اور مکرم منیر الحصنی صاحب مکرم ملک مبارک احمد صاحب m مکرم قریشی نور الحق تنویر صاحب مکرم غلام باری سیف صاحب اور مکرم منیر الحصنی صاحب مکرم مولانا محمد عمر صاحب مکرم حمید احمد کوثر صاحب
مکرم منیر الحصنی صاحب اور مکرم منیر احمد جاوید صاحب مکرم نصیر احمد قمر صاحب مکرم زین الدین صاحب مکرم را نا نصور احمد خان صاحب مکرم عبد المومن طاہر صاحب مکرم باسط رسول ڈار صاحب مکرم شمس الدین مالا باری صاحب مکرم عبدالمجيد عامر صاحب
سیر یا میں عربی زبان کی تعلیم حاصل کرنے والے مربیان ( محمد طاہر ندیم صاحب ، محمد احمد نعیم صاحب ، اور داؤ د احمد عابد صاحب ) جلسہ سالانہ یو کے 2000 کے موقعہ پر امام مسجد ف فضل لندن مکرم عطاء المجیب راشد صاحب کے ساتھ مکرم علی کنہی صاحب مکرم منصور احمد باجوہ صاحب مکرم نوید احمد سعید صاحب مکرم عبد الرزاق فراز صاحب مکرم حافظ عبدالحی صاحب مکرم مقبول احمد ظفر صاحب
مکرم مرزا خلیل احمد بیگ صاحب مکرم حفیظ اللہ بھروانہ صاحب مکرم وسیم احمد فضل صاحب مکرم میر انجم پرویز صاحب مکرم طارق حیات صاحب مکرم شیخ مسعود احمد صاحب مکرم طارق احمد صاحب مکرم ایم بی طاہر صاحب مکرم محمد طاہر صاحب مکرم سید عمران احمد شاہ صاحب
مصالح العرب.جلد دوم 19 منکرین خلافت کا فتنہ اور عرب ممالک کی جماعتوں کا اخلاص حضرت مصلح موعودؓ کے بغرض علاج سفر یورپ کا ہم ذکر کر آئے ہیں جس کے دوران آپ نے ارضِ شام اور لبنان کو بھی شرف بخشا اور کچھ دن وہاں قیام فرمایا.سفر یورپ سے کامیاب مراجعت کے اگلے سال کے شروع میں بعض منافقین اور منکرین خلافت نے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی.اس فتنہ کو ہوا دینے والے بعض اشخاص کا دیگر افراد جماعت کے ہاں بھی آنا جانا تھا جو انکے مسموم خیالات کو پھیلانے اور فتنہ کو مزید ہوا دینے کا موجب ہو رہا تھا.ان مذموم خیالات میں ان کے ایک رکن کا یہ بیان بھی تھا کہ جب خلیفہ اسیح الثانی فوت ہو جائیں گے تو اگر جماعت نے مرزا ناصر احمد کو خلیفہ بنایا تو یہ لوگ انکی بیعت نہیں کریں گے.جن مخلص افراد جماعت کے سامنے اس منافق نے یہ بات کی انہوں نے جوابا کہا کہ مرزا ناصر احمد کی خلافت کا سوال نہیں تو ہمارے زندہ خلیفہ کی موت کا متمنی ہے اس لئے تو ہمارے نزدیک خبیث آدمی ہے.یہاں سے چلا جا ہم تجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے.جب یہ صورتحال حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے سامنے آئی تو آپ نے تمام افراد جماعت کے لئے ایک اعلان شائع کروایا جس میں فرمایا: ایک طرف تو جماعت مجھے خط لکھتی ہے کہ ہم آپ کی زندگی کے لئے رات دن دعائیں کرتے ہیں.دوسری طرف جماعت اس شخص کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے جو میری موت کا متمنی ہے آخر یہ منافقت کیوں ہے؟ آپ کو دوٹوک فیصلہ کرنا ہوگا.اگر آپ نے فورا دو می
مصالح العرب......جلد دوم ٹوک فیصلہ نہ کیا تو مجھے آپ کی بیعت کے متعلق دو ٹوک فیصلہ کرنا پڑے گا.“ 20 (الفضل 25 جولائی 1956ء) حضور کے اس اعلان پر پہلا رد عمل یہ ہوا کہ جماعت کے ہر فرد میں نظام خلافت سے محبت والفت اور منافقین سے بیزاری کے شدید جذبات ابھر آئے.اور پوری دنیائے احمدیت حضرت مصلح موعودؓ سے عقیدت و فدائیت اور وفاداری اور وابستگی کے روح پرور نعروں سے گونج اٹھی ، اور نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک کی احمدی جماعتوں نے بھی منافقین سے مکمل طور پر براءت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پیارے امام کے ساتھ بے مثال محبت و اخلاص کا ثبوت دیا، اور اپنے عہدِ بیعت کی شاندار رنگ میں تجدید کی.ذیل میں بطور نمونہ مصر، شام اور عدن کی عرب احمدی جماعتوں کے اخلاص ناموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے.ممبران جماعت احمدیہ مصر کا اخلاص نامہ بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبده المسيح الموعود سیدنا ومولانا امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کچھ عرصہ ہوا ہمیں اس فتنہ کے بارہ خبر ملی جسے بعض جماعت کی طرف منسوب ہونے والے اشخاص نے اٹھایا ہے.حالانکہ ان لوگوں نے اپنے ان بدار ادوں کی وجہ سے جن کا انہوں نے اظہار کیا ہے خود بخود ہی اپنے آپ کو جماعت سے الگ کر لیا ہے.ہم ممبران جماعت احمد یہ مصر اس موقعہ پر جبکہ منافقین حضور کی ذات بابرکات پر انتہام لگارہے ہیں.اور حضور کے بلند مقام کو گرانا چاہتے ہیں.ہم اپنے اس عہد بیعت کو دوبارہ پختہ کرتے ہیں جسے ہم قبل ازیں اپنے اوپر فرض کر چکے ہیں.اور ہم پورے شرح صدر کے ساتھ اس محبت اور اخلاص کا اعلان کرتے ہیں جو ہمیں حضور کی ذات سے حاصل ہے اور ہم اس مضبوط روحانی تعلق کی مزید برکات کو حاصل کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ.ان منافقین نے ماضی کے واقعات سے سبق حاصل نہیں کیا اگر وہ ایسا کرتے تو بغیر کسی
21 مصالح العرب.....جلد دوم مزید غور و فکر کے انہیں اس خلافت کی اہمیت معلوم ہو جاتی جسے اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے مفاد کے لئے قائم کیا ہے.اس فتنہ کے بارہ میں مرکز کے قریب رہنے والے اور باہر کے احمدیوں نے جس نفرت کا اظہار کیا وہ ہر معمولی عقل والے انسان کو بھی اس بات کا یقین کروانے کے لئے کافی ہے کہ ان منافقین نے جو طریقے استعمال کئے ہیں وہ خوارج کے طریقوں سے ذرہ بھر بھی مختلف نہیں.ہر زمانہ میں منافق اسی طریق پر چلتے رہے ہیں.اسی وجہ سے ہم بغیر کسی دقت کے اس بہت بڑے نقصان کا اندازہ کر سکتے ہیں جو منافقین ہماری جماعت کو پہنچانا چاہتے ہیں.منافقین کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جماعت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کا وعدہ ضرور پورا ہوکر رہے گا.ہمیں اس کے پورا ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں.ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس نصرت و مدد کو روکنے کی کوئی بھی کوشش خواہ وہ سازش اور فتنہ ہی کیوں نہ ہو کبھی کامیاب نہیں ہوگی.پس حضور انور، اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے اپنا کام کرتے چلے جائیں اللہ تعالیٰ ہی حضور کا بہترین محافظ ہے اور وہ سب رحم کرنے والوں میں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.آخر میں ہم حضور سے دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور اس دنیا میں اور آخرت میں بھی اپنی رضا حاصل کرنے کا موقعہ ہم پہنچائے ، آمین.خاکسار: محمد بسیونی جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ مصر (الفضل 18 اکتوبر1956 ، صفحہ 3) جماعت احمد یہ شام کا اخلاص نامہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم على عبد المسيح الموعود سیدنا ومولانا وامامنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلیفہ ثانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ہم ممبران جماعت احمد یہ شام اپنے محبوب امام و آقا مصلح موعود ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے
22 22 مصالح العرب.....جلد دوم اپنے عہد وفاداری کی تجدید کرتے ہیں اور ہم ہر فتنہ سے جسے کمزور ایمان اور کم عقل اشخاص خلافت اور منصب خلافت عالیہ کے خلاف بر پا کرتے ہیں.نفرت کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ خلافت ہی وہ نعمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو دنیا میں استحکام بخشنے اور اسلام کی عزت وعظمت و کرامت قائم کرنے کا ذریعہ بنایا ہے.اور ساری دنیا میں امن وسلامتی پھیلانے کے لئے قائم فرمایا ہے.ہمیں یہ اچھی طرح یاد ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دوسرے سفر یورپ پر روانہ ہونے سے پہلے اور اپنی بیماری کے ایام میں بھی جماعت کو منافقوں کے فتنہ سے خبر دار اور ہوشیار کر دیا تھا.اور فرمایا تھا کہ سچا مومن تو اگر اسے اپنے عقائد حقہ کی حفاظت کے لئے اپنے باپ سے بھی لڑنا پڑے تو اس کی بھی پرواہ نہیں کرتا.اور اس کا بھی مقابلہ کرتا ہے.اور آپ نے ابی بن ابی سلول کی مثال بیان فرمائی تھی کہ دیکھو اس کے بیٹے نے اپنے باپ سے کیسا سلوک کیا اور اسے مجبور کر دیا کہ وہ خود اپنی زبان سے اقرار کرے کہ وہ خود ہی ذلیل ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ معزز ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ منافقوں کی تدابیر اور سکیمیں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اپنے مرکز سے باہر ہونے اور سفر یورپ کے ایام میں کارگر نہیں ہوسکیں.اور نہ ہی حضور کے سفر یورپ سے واپس آجانے کے بعد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے بلکہ وہ بری طرح اپنے مقصد میں ناکام و نامراد ہوئے.جیسے ان سے پہلے آج تک جو شخص بھی خلافت کے خلاف اٹھا نا کام رہا.مکرر عرض ہے کہ ہم ہر ایک فتنہ کو جو حضور کی خلافت مقدسہ اور منصب خلافت کے خلاف اٹھایا جائے سخت نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور اپنے امام اور آقا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اپنے عہد وفاداری اور اطاعت کی تجدید کرتے ہیں اور حضور سے اپنے لئے دعاؤں کی درخواست کرتے ہیں.اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضور کو عزت پر عزت عطا فرمائے اور مدد پر مدد فرمائے اور کامل شفاء بخشے اور ہر شخص جو حضور کا دشمن ہو اسے بے یارو مددگار بنائے.اور اسے اس کے مقصد میں نا کام رکھے.والسلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.ہم ہیں حضور کے خادم دستخط جمله ممبران جماعت احمد یہ شام (الفضل 25 اکتوبر 1956 ، صفحہ 1)
مصالح العرب.جلد دوم جماعت احمد یہ عدن کا اخلاص نامہ بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم پلی عیده امسیح الموعود ہمارے آقا حضرت خلیفتہ مسیح الموعود بشیرالدین محموداحمدايده الله تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاننہ.23 جماعت احمد یہ عدن منافقین کے اس فتنے پر جس میں وہ اپنی بدقسمتی سے مبتلا ہو گئے ہیں افسوس کا اظہار کرتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرتی ہے کہ اس نے ان کے بدار ا دوں کو بر وقت ظاہر کر دیا.اور اس طرح انہیں نا کام کیا اور حضور کو نہ صرف اس فتنے سے محفوظ رکھا بلکہ حضور کو اپنی نصرت و مدد سے خاص طور پر نوازا.اللہ تعالیٰ نے حضور کو مصلح موعود کے لقب و اعزاز سے نوازا ہے سوضروری تھا کہ حضور کے عہد میں بھی فتنے پیدا ہوں.ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ حضور کوفتنوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت عطا فرمائے.اور حضور کو لمبی عمر بخشے اور اللہ تعالیٰ اپنا جلال حضور کے ذریعہ ظاہر فرمائے تا کہ جاہل اور منافقین یہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح پہلے حضور کی مددو نصرت فرمائی اسی طرح اب بھی حضور کو اپنی تائید و نصرت سے نوازے گا.یہ منافق روحانی بصیرت سے عاری ہیں اور اس وجہ سے وہ حضور کے بلند مقام اور خارق عادت علوم کو نہیں دیکھ سکتے.اسلام کی خدمت کے لحاظ سے اس وقت دنیا میں حضور کا کوئی نظیر نہیں.ہم حضور کے ساتھ اپنے عہد بیعت کی تجدید کرتے ہیں.اور ہم دوبارہ حضور سے اسلام کی خدمت کا پختہ عہد کرتے ہیں.کیونکہ حضور ہی ہمارے بچے امام اور خلیفہ ہیں.اللہ تعالیٰ منافقین کے شر سے جماعت کو محفوظ رکھے اور حضورانور اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت سے اپنے بلند مقاصد کی طرف بڑھتے چلے جائیں.والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته ممبران جماعت احمد یہ عدن (الفضل 8 رنومبر 1956 صفحہ 3) 23
مصالح العرب.جلد دوم مصر پر حملہ اور جماعت احمدیہ کی طرف سے اظہار ہمدردی و پجہتی پر یکم نومبر 1956ء کو عالم اسلام ایک دردناک صورتحال سے دوچار ہو گیا جبکہ برطانیہ اور فرانس نے مصر پر متحدہ بحری اور فضائی حملہ کر دیا اور قاہرہ، اسماعیلیہ، پورٹ سعید اور دوسرے بڑے بڑے شہروں پر بمباری کی جس سے کئی شہری ہلاک ہو گئے اور جائیدادوں کو بھاری نقصان پہنچا.اس حملہ میں اسرائیل کا بڑا ہاتھ اور حملہ آوروں کا مکمل ساتھ نمایاں تھا.اس حملہ سے پیدا ہونے والے درد والم کو جماعت احمدیہ نے اہل مصر کی طرح ہی محسوس کیا اور اسے عالم اسلام پر حملہ قرار دیا.در اصل اسلامی مفادات کی حمایت اور حفاظت کرنے کی وجہ سے مصر پر یہ قیامت ٹوٹی تھی.لہذا ظلم کے سامنے ڈٹ جانے اور باوجود بیرونی دباؤ کے اسلامی ممالک کی مسلسل حمایت جاری رکھنے کی وجہ سے مصر نے ایک مثال قائم کی تھی ایسی حالت میں اس پر حملہ کرنے والے ظالم اور مصر مظلوم تھا اور جماعت احمدیہ نے ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور مظلوم کا ساتھ دیا ہے.چنانچہ اس موقعہ پر بھی جماعت نے اپنا اخلاقی کردار ادا کیا جس کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے.احمد یہ انٹرنیشنل پریس ایسوسی ایشن کی قرارداد خدمت اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کی اس شرمناک جارحیت پر احمد یہ انٹر نیشنل پریس ایسوی ایشن نے حسب ذیل قرارداد مذمت پاس کی: احمدیہ انٹر نیشنل پریس ایسوسی ایشن کا یہ خصوصی اجلاس، اسرائیل، برطانیہ، اور فرانس کے 24 24
25 مصالح العرب......جلد دوم مصر پر جارحانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے.اور اسے UNO کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی سمجھتا ہے.اس قسم کے تشدد آمیز رویہ سے دنیا بھر میں امن قائم ہونے کی بجائے جنگ اور فساد کے شعلے بھڑک اٹھیں گے.برطانیہ اور فرانس جو کل تک امن اور صلح کے علمبردار ہونے کے مدعی تھے ان کا یہ فعل یقیناً نہایت ظالمانہ بلکہ وحشیانہ ہے.اور مصر اس معاملہ میں صریح طور پر مظلوم ہے اور ہماری ساری ہمدردیاں مظلوم کے ساتھ ہیں.ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ برطانیہ، فرانس اور اسرائیل اپنی فوجوں کو مصر کی حدود سے نکال لیں اور جنرل اسمبلی کے حالیہ ریزولیشن متعلقہ امتناع جنگ کی فوری اور غیر مشروط تعمیل کرتے ہوئے تمام معاملات کو باہمی مفاہمت کے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق طے کریں اور آئندہ کے لئے اپنے جارحانہ عزائم سے بالکل دستکش ہو جائیں.موجودہ حالات میں تمام امن پسند ممالک بالخصوص پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کا فرض ہے کہ مظلوم مصر کی ہر ممکن امداد کریں.“ (الفضل 6/نومبر 1956 ءصفحہ 1) جماعت احمدیہ کی طرف سے اظہار ہمدردی کا تار اس نازک موقعہ پر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور خارجہ نے مصر کے صدر جمال عبد الناصر کے نام برقی پیغام ارسال کیا جس کا ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے: موجودہ نازک وقت میں جماعت احمدیہ اور اس کے مقدس امام کی دلی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں.برطانیہ اور فرانس نے مصر پر حملہ کر کے ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنے چہروں کو داغدار کر لیا ہے.خدا تعالیٰ ضرور ان کو اس کی سزا دے گا.یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ موجودہ اسرائیلی حملہ کا سبب یہ ہے کہ آپ عربوں اور خصوصیت سے اردن کے مفادات کی علمبرداری کا فرض ادا کر رہے ہیں اسکے باوجود یہ امر ہمارے لئے حیرت کا باعث ہے کہ مختلف ذمہ دار ممالک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور صرف زبانی ہمدردی پر اکتفا کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ میں اہل مصر کی مددفرمائے.آمین.ناظر امور خارجه انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ 3 /نومبر 1956ء
26 26 مصالح العرب.جلد دوم جمال عبدالناصر کا جوابی تار اس پیغام کے جواب میں صدر جمال عبد الناصر نے حسب ذیل جوابی تار ارسال فرمایا: I have received with sincere appreciation the gracious message expressing the good wishes and fervent prayers of Ahmadiyya Community and its head for the victory of Egypt in its struggle against the aggressors.we thanks you all for these kind feelings and noble sentiments.May God help and grant us prosperity.Jamal Abdul Nasir 19 Nov 1956 یعنی میں نے آپ کا مخلصانہ پیغام قدردانی کے پر خلوص جذبات کے ساتھ وصول کیا.جس میں حملہ آوروں کے خلاف اہل مصر کی جدوجہد میں مصر کی کامیابی اور فتح کے لئے جماعت احمدیہ اور امام جماعت احمدیہ کی طرف سے نیک خواہشات اور دلی دعاؤں کا اظہار کیا گیا ہے.ہم ایسے اعلیٰ خیالات اور نیک جذبات پر آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں.خدا تعالیٰ ہماری مدد فرمائے اور ہمیں خوشحالی عطا کرے.جمال عبد الناصر مؤرخہ 19 / نومبر 1956ء مصر پر اسرائیلی برطانوی اور فرانسیسی جارحیت کے وقت مصر کی جانب سے اسلامی ممالک کے مفادات کی حفاظت اور انکی حمایت پر قائم رہنے کا اظہار کیا گیا.جماعت احمدیہ کی طرف سے مصر کے موقف کی تائید کی.اس سلسلہ میں چند مزید امور کا بیان ذیل میں کیا جاتا ہے.تعلیم الاسلام کالج یونین کی طرف سے مصر پر حملہ کی مذمت تعلیم الاسلام کالج یونین کے وائس پریذیڈنٹ مکرم عطاء الکریم صاحب شاہد نے مصر پر حملہ کی پرزور مذمت کرتے ہوئے یونین کے جملہ اراکین کی طرف سے 8 نومبر 1956ء کو سفیرم
مصالح العرب.....جلد دوم 27 مقیم کراچی کے نام ایک خط لکھا جس میں اہل مصر کی پر زور تائید وحمایت کا یقین دلایا گیا.اس نے خط کے جواب میں سفیر مصر نے لکھا: مصر پر برطانیہ فرانس اور اسرائیل کے جارحانہ حملہ کی مذمت میں آپ کا خط محررہ 8 نومبر 1956 ء موصول ہوا.آپ کے جملہ اراکین نے موجودہ نازک وقت میں مصر کے ساتھ جن ہمدردانہ جذبات کا اظہار کیا ہے اور پر زور طور پر تائید وحمایت کا یقین دلایا ہے اس پر ہماری طرف سے انتہائی پر خلوص شکر یہ قبول فرما ئیں اور ہمارے جذبات تشکر کو تمام اراکین تک پہنچا دیں.ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ خیر سگالی کے جذبات ظاہر کرنے پر مصر کی حکومت اور عوام اپنے پاکستانی بھائیوں کے ممنون ہیں اور جوابا نہایت پُر خلوص طور پر وہ بھی خیر سگالی کے ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہیں.آپ کا مخلص وزیر مختار عبدالحسیب فرسٹ سیکرٹری سفارت خانہ مصر کراچی جماعت احمد یہ انڈونیشا کا پیغام ہمدردی الفضل 29 نومبر 1956 ، صفحہ 8) مصر پر اس مذکورہ وحشیانہ حملہ کے معا بعد راڈین ہدایت صاحب جا کرتا صدر جماعتہائے احمد یہ انڈونیشیا نے بھی انڈو نیشین احمدیوں کی طرف سے جمال عبدالناصر کے نام ہمدردی اور دعا کا ایک خصوصی پیغام ارسال کیا جس میں ان طاقتوں کے جارحانہ حملہ کی مذمت کے علاوہ اہل مصر کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کیا نیز دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مصر کو حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے توفیق دے اور سرفراز کرے، اور اپنی خاص تائید و نصر فرمائے.خط میں مزید یہ لکھا گیا کہ اگر روئے زمین کے مسلمان پورے خشوع وخضوع کے ساتھ دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان حملہ آوروں کو پسپا کر دے گا.نیز انڈو نیشین حکومت سے درخواست کی کہ وہ اہل مصر کی ہر ممکن مدد کے لئے بر وقت اور فوری قدم اٹھائے کیونکہ 1947 ء میں جمہوریہ انڈونیشیا کے قیام پر سب سے پہلے مصر نے ہی اسے تسلیم کیا تھا نیز انڈونیشیا کی جدو جہد آزادی میں مصر نے ہر قسم کی اخلاقی اور مادی امداد بہم پہنچائی تھی.
مصالح العرب.....جلد دوم ہمدردی اور دعا کے مخلصانہ پیغام کے جواب میں جمہوریہ مصر کے صدر جمال عبد الناصر کی طرف سے حسب ذیل پیغام موصول ہوا: جناب راڈین ہدایت صدر جماعت احمد یہ انڈونیشیا ! 28 آپ کے مشفقانہ پیغام نے مجھ پر گہرا اثر کیا ہے.میری طرف سے دلی اور پر خلوص شکریہ قبول فرمائیں.جمال عبد الناصر الفضل 27 /نومبر 1956ء صفحہ 1) حضرت ولی اللہ شاہ صاحب کا ایک اور خط عالمگیر جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت ولی اللہ شاہ صاحب نے جو خیر سگالی کا خط مصری صدر جمال عبد الناصر کو ارسال کیا تھا صدر مصر نے اس کا نہایت پر خلوص جواب ارسال فرمایا تھا.جب یہ جواب موصول ہوا اس وقت جنگ ختم ہو چکی تھی چنانچہ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے صدر مصر کو مندرجہ ذیل عربی مکتوب لکھا: ربوة 56/11/26 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم فخامة السيد جمال عبد الناصر رئيس الجمهورية المصرية السلام عليكم ورحمة الله وبركاته وبعد، فقد تلقيت برقية فخامتكم المؤرخة في 19 /1956/11 المعبرة عن عواطف الشكر والامتنان فكان لها الصدى الحسن لدى إمام الجماعة الأحمدية الذى أثلجت صدره أخبار وقف العدوان الإنكليزى والأفرنسى والإسرائيلى وفشل المؤامرة التي حاكها الاستعمار ضد مصر العزيزة وهو يدعوه تعالى أن يكلأكم والشعب المصرى بعنايته لتكونوا الدرع القوى الغربى لكعبة
مصالح العرب......جلد دوم ترجمه الإسلام ضد أعدائه.ألا إن حضرة إمام الجماعة الأحمدية لا زال مهتما اهتماما عظيما بقضية الخطر الصهيونى الذى يهدد البيت الحرام مباشرة حتى رأيناه يقترح منذ ثماني سنوات على الشعب الباكستاني بفرض ضريبة تساوى الواحد بالمائة من أملاك كل باكستان تخصص لمساعدة عرب فلسطين ضد إسرائيل وسواها من أعداء الإسلام والعروبة ___وهناك خطب عديدة ألقاها حضرته في هذا الموضوع مقترحًا فيها الخطوات العملية الممكنة.فالمهم أن حضرته لا زال مهتما اهتماما عظيما بقضية الخطر الصهيوني وما فتئ وأفراد الجماعة داعيا الله عز وجل أن يحفظ البيت الحرام ويجمع المسلمين على حبل الله وتقواه ويلهمهم سبيل الرشاد صان الله.مصر وحفظكم، آمین.والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته ناظر الأمور الخارجية للجماعة الأحمدية سید زین العابدین ولی الله شاه بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم بخدمت گرامی ہر ایکسیلنسی جمال عبد الناصر رئیس جمہوریہ مصر.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ جناب کا شکر وامتنان کا تار مؤرخہ 19 / نومبر 1956ء موصول ہوا جس کا حضرت امام جماعت احمدیہ پر گہرا اثر ہوا اور اطمینان قلب ہوا کہ انگریزوں فرانسیسیوں اور اسرائیلیوں کا جور و ظلم رک گیا.اور امپیریلزم نے جو منصوبہ مصر کے متعلق باندھا تھا وہ ناکام رہا.حضرت امام جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کو اور مصری قوم کو اپنے خاص فضل.29 29
مصالح العرب.....جلد دوم 30 30 کرے تا کہ آپ دشمنوں کے مقابلے میں کعبہ اسلام کے رکن حصین بنیں.حضرت امام جماعت احمدیہ کو صہیونی خطرہ کے متعلق ہمیشہ فکر رہا ہے کیونکہ اس کا زبر دست اثر بیت اللہ پر پڑتا ہے یہ فکر اس حد تک ہے کہ آٹھ سال ہوئے آپ نے یہ تجویز پیش فرمائی تھی کہ ہر پاکستانی اپنے املاک پر ایک فیصدی چندہ دے تاکہ فلسطینی عربوں کو اسرائیلی اور دیگر دشمنانِ اسلام و عرب کے خلاف اپنی جدو جہد میں اس روپے سے مدد حاصل ہو.....مزید برآں حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس موضوع پر کئی تقاریر بھی فرما ئیں تا کہ عملی قدم اٹھانے کے لئے تحریک ہو.الغرض حضرت امام جماعت احمدیہ کو یہودی خطرہ کا پورا احساس وفکر ہے.اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ وہ بیت اللہ کی حفاظت فرمائے اور مسلمانوں کو تقویٰ پر اکٹھا کرے اور انہیں نیکی کے راستہ پر چلنے کی تحریک فرمائے.اللہ تعالیٰ مصر کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور اسکا حامی وناصر ہو.جمال عبد الناصر کا جواب صدر جمہوریہ مصر جمال عبد الناصر کی طرف سے مندرجہ بالا خط کا حسب ذیل جواب موصول ہوا.رئاسة الجمهورية سيادة زين العابدين بسم الله الرحمن الرحيم مكتب الرئيس ولی الله شاه باکستان تحية طيبة وبعد، فأشكر لك ورسالتك الكريمة التي أعربت فيها عن الشعور الطيب لسيادة إمام الجماعة الأحمدية نحو مصر في كفاحها ضد الاستعمار متحالفا مع الصهيونية - كما أشكر لسيادته اهتمامه بالقضية الفلسطينية والعمل على درء الخطر الصهيوني الجاثم في إسرائيل والمسائدين لها- والله
مصالح العرب.....جلد دوم يوفقنا ويسدد خطانا ويثبت أقدامنا ويجمعنا على كلمة سواء والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته رئيس الجمهورية جمال عبد الناصر القاهرة 17/ ديسمبر 1956ء 31 ترجمه خط رئیس جمہوریہ مصر بنام ناظر امور خارجه حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ آپ کے نیک پیغام کا شکر گزار ہوں جس میں امام جماعت احمدیہ کی طرف سے مصر کی اس ان جدو جہد کے بارے میں پاکیزہ جذبات کا اظہار کیا گیا ہے جو اس نے مغربی استعمار اور یہودی خطرہ کے خلاف جاری کر رکھی ہے.میں جناب امام جماعت احمدیہ کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مسئلہ فلسطین اور یہودی خطرہ کے بارہ میں جو اسرائیل اور اسکے مددگاروں کی طرف سے رونما ہوا ہے اتنا فکر فرمایا ہے اور دعائیں کی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے اور ہمارے پائے ثبات کو تقویت بخشے اور تمام مومنوں کو صحیح راستہ پر چلائے اور کلمہ حق پر سب کو جمع کرے.والسلام علیکم ورحمۃ اللہ صدر جمہوریہ جمال عبد الناصر جماعت احمدیہ کا اسلامی تعلیمات کا آئینہ دار نمونہ الفضل 12 جنوری 1957 ء صفحہ 3) مصر پر حملہ کے بعد جماعت احمدیہ نے جس طرح مرکزی، علاقائی اور انفرادی سطح پر پیغامات کے ذریعہ مصری حکومت و عوام کے موقف کی تائید کی اور اپنی مکمل حمایت کا یقین دلا یا اس تمام کارروائی کو اگر ایک منصفانہ اور غیر جانبدارانہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اس حدیث نبوی کی عملی تصویر پیش کرتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے جس کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم اسکے لئے تکلیف محسوس کرتا ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی ممالک کے دکھ درد کو جماعت نے سب سے بڑھ کر محسوس کیا.انکی فلاح و بہبود کے لئے ہر ممکن کوشش کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعائیں کیں.لیکن بدقسمتی سے اکثر اوقات جماعت کے اخلاص کو شک کی نظر سے دیکھا گیا.آج ہر طرف
32 32 مصالح العرب......جلد دوم بے حسی اور مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ کی وجہ سے اس درجہ کے اخلاص کا نمونہ عنقا ہے.بعض کی مسلم ممالک اور مسلمانوں کے غیر اسلامی سلوک کے باوجود جماعت احمد یہ آج بھی اپنے امام کی پیروی اور راہنمائی میں اپنی اسی ڈگر پر چل رہی ہے کیونکہ یہی وہ راہ ہے جس پر چلنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جس پر کار بند رہنے کی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے.
مصالح العرب.جلد دوم حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری کی وفات حضرت مولانا غلام نبی صاحب نہایت خاموش طبیعت اور بے نفس بزرگ صحابی تھے.آپ نے 1898ء میں بیعت کی اور 27 اپریل 1956ء کو آپ کی وفات ہوئی.آپ کو مصر میں بھی تبلیغ احمدیت کی توفیق ملی.آپ کی سیرت کے بعض نورانی پہلوؤں کے ساتھ مصر میں تبلیغ کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے.آپ کی تمام عمر تعلیمی خدمات بجا لانے میں وقف رہی.قرآن کریم سے عشق تھا اور مطالعہ کا جنون کی حد تک شوق.آپ کے والد صاحب نے بچپن میں آپ کو ایک مولوی رکھ کر دیا جس نے آپ کو قرآن پڑھایا.آپ نے ان مولوی صاحب کی اس قدر عزت کی کہ اپنی زمین کا ایک ٹکڑا ان کی خدمت میں ہدیہ پیش کر دیا.طب کی تعلیم بھی حاصل کی اور ہجرت کر کے قادیان آگئے.حضرت مولوی نور الدین خلیفہ امسح الاول کو کتا میں جمع کرنے کا ایک عشق تھا.اس سلسلہ میں آپ کی نظر انتخاب مولانا غلام نبی صاحب پر پڑی.چنانچہ آپ کو نایاب اور قدیم کتابوں اور قلمی نسخوں کی نقل کرنے کیلئے بھوپال بھجوا دیا.قیام بھوپال کے دوران آپ نے کمال محنت اور عرقریزی سے کام لیا اور مفوضہ کام بلا معاوضہ کرتے رہے.لیکن بھو پال کے کتب خانہ سے بھی آپ کو مولانا نور الدین کی بعض مطلوبہ کتب نہ مل سکیں اور آپ کو معلوم ہوا کہ یہ کتب مصر سے دستیاب ہو سکیں گی.اس پر آپ بھوپال سے مصر کے لئے روانہ ہو گئے.اس وقت آپ کے پاس چند ایک روپے اور ایک کمبل تھا.کراچی آکر اسے فروخت کیا اور کرایہ بنا کر بصرہ جا پہنچے.بصرہ سے آگے مصر تک کا سفر پیدل طے کیا.اگر کوئی قافلہ مل جاتا تو اس کے ساتھ شامل ہو جاتے ورنہ اکیلے ہی چلتے رہتے.بالآخر کئی دنوں کی مسافت کے بعد آپ مصر پہنچ گئے.اپنے کام کے ساتھ 33
34 مصالح العرب.....جلد دوم اس قدر مخلص تھے کہ باوجود اس کے کہ ابھی تک کام کا معاوضہ بھی نہیں ملا تھا آپ نے خود ہی یہ فیصلہ کیا کہ حضرت مولانا نورالدین کی مطلوبہ کتب اگر مصر سے دستیاب ہو سکتی ہیں تو مصر کا سفر اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں.اور پھر بے سرو سامانی کی حالت میں یہ سفر اختیار کیا جس کا ایک بڑا حصہ پیدل طے کیا.اور سب سے بڑی بات یہ کہ حضرت خلیفہ اول کو روانگی کے بارہ میں کچھ نہیں بتایا بلکہ مصر پہنچ کر خط لکھا کہ میں مصر میں مطلوبہ کتب نقل کر رہا ہوں.لائبریری میں سیاہی ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی لہذا آپ کتب کی نقل پنسل کے ساتھ کرتے تھے اور رات کو گھر میں سیاہی کے ساتھ لکھتے رہتے تھے.اس کے علاوہ جامعہ الا زہر کے درس میں بھی شریک ہوتے اور باقی وقت پھیری لگا کر اپنے گزارہ کا سامان کرتے.اس بے بضاعتی کے باوجود آپ نے مصر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتابوں کی اشاعت کی.چنانچہ اخبار بدر 14 / نومبر 1902 ء سے پتہ چلتا ہے کہ 3 نومبر 1902 ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بھی آپ کی تبلیغی خدمات کا ذکر آیا تھا.چنانچہ لکھا ہے: مولوی غلام نبی صاحب احمدی کا خط مصر سے حکیم الامت مولوی نورالدین صاحب کے نام آیا تھا.وہ حضرت اقدس کی کتابوں کی خوب اشاعت کر رہے ہیں.“ حضرت مولوی صاحب مصر میں تین سال تک قیام کرنے کے بعد اپریل 1905ء میں وطن واپس پہنچے.اخبار بدر 27 اپریل 1905ء میں آپ کی آمد کی خبر ان الفاظ میں شائع ہوئی: ملک مصر سے مولوی غلام نبی صاحب احمدی واپس ہندوستان تشریف لائے ہیں.قریبا تین سال تک انہوں نے اس ملک میں قیام کیا اور نیز سلسلہ احمدیہ کی اشاعت میں مصروف رہے ہیں.“ قیام مصر کے دوران مولوی صاحب نے چند مخالفوں کے ساتھ مباحثات بھی کئے.چنانچہ ایک مباحثہ دربارہ حیات و وفات مسیح ناصری ملک مصر میں اپنے خرچ پر طبع بھی کروایا جس کی بعض کا پیاں آپ ساتھ بھی لائے تھے.اس کا نام ہدیہ سعدیہ رکھا تھا.مصر سے واپسی کے بعد آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں استاد مقرر ہوئے.آر سے دینیات کی تعلیم حاصل کرنے والے اصحاب میں حضرت حافظ روشن علی صاحب ، سید عبدا تھی صاحب عرب ، اور ابوسعید عرب صاحب شامل ہیں.( تاریخ احمدیت جلد 18 صفحہ 290 تا 298 )
مصالح العرب.جلد دوم 35 شیخ عبدالقادر المغر بی کی وفات 1956ء کے سال میں عرب دنیا کے ایک مشہور عالم دین الشیخ عبد القادر بن مصطفیٰ المغر بی انتقال کر گئے.آپ طرابلس الشام میں پیدا ہوئے مگر تحصیل علم کے بعد مستقل طور پر دمشق میں بود و باش اختیار کر لی.الشيخ المغر بی نہایت بلند پایہ عالم " مجمع العلمی العربی “ کے نائب رئیس اور یونیورسٹی میں ادب عربی کے استاد تھے.1924 ء میں جب حضرت مصلح موعود دمشق تشریف لے گئے تو الشیخ المغربی کے ساتھ تفصیلی ملاقات اور گفتگو کا بیان گزرچکا ہے.باوجود اختلاف افکار و عقائد شیخ صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ سے عقیدت کا تعلق برقرار رکھا.اس وجہ سے حضرت مصلح موعود بھی آپ کو ایک قابل قدر اچھا دوست سمجھتے تھے.اسی لئے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین شمس صاحب کو دمشق روانہ کرتے وقت ہدایت فرمائی: مغربی میرا قابل قدر قدیم دوست ہے ان سے مجھے اپنے تعلقات کو استوار رکھنا ہوگا.“ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب سے بھی آپ کے گہرے تعلقات تھے.ایک دفعہ آپ نے حضرت شاہ صاحب کو سیر کے دوران فرمایا: ” آئیے ہم دونوں تصویر کھنچوائیں اور دوستی کا اقرار قرآن مجید پر ہاتھ رکھتے ہوئے کریں کہ ہم دونوں قرآن مجید کی خدمت کریں گے.چنانچہ دونوں نے یہ عہد کیا.اس عہد کو نبھاتے ہوئے موصوف نے اپنی آخری عمر میں قرآن کریم کے آخری پارہ کی تفسیر شائع کی.
36 مصالح العرب......جلد دوم جب حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے ایک رسالہ الحقائق عن الاحمدیہ کے عنوان سے شائع کیا تو الشیخ المغربی مرحوم نے اس کا جواب لکھنا چاہا مگر نہ لکھ سکے اور دل سے صداقت احمدیت کے قائل ہو گئے.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے حضرت شاہ صاحب کو بتایا: ”تفسیریں اور حدیثیں اپنی لائبریری سے اس نیت سے میز پر لا کر رکھیں کہ اس رسالہ کی تردید کل شائع کر دوں گا.چنانچہ پڑھنے کے بعد رڈ لکھنے بیٹا، کبھی لکھتا اور یہ دیکھ کر کہ وہ درست نہیں ہے اسے پھاڑ دیتا.اسی طرح پھٹے ہوئے کاغذوں کا ایک انبار جمع ہو گیا پھر انہوں نے انگیٹھی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ وہ ڈھیر دیکھو! ساری رات کوشش کی ، کبھی الحقائق عن الأحمدیہ کو دیکھتا کبھی حدیثوں کو اور کبھی تفسیروں کو.میری بیوی مجھ سے کہنے لگی کیا پاگل ہو گئے ہو؟ آرام کرو.لیکن مجھے نیند کہاں آتی.آخر جب صبح کی اذان ہوئی اور أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله کے الفاظ گونجے تو میرے دل نے کہا کہ صداقت کا مقابلہ باطل سے کرنا درست نہیں.میرے دوست زین العابدین نے جو کچھ لکھا ہے ٹھیک لکھا ہے.دل میں یہ کہہ کر نماز پڑھی اور اطمینان ہو گیا.اس واقعہ کے بعد انہوں نے فرمایا: تبلیغ کا کام آزادی سے کریں.“ اگر چہ اپنی زندگی میں آپ نے کھلے طور پر احمدیت کے ساتھ وابستگی کا اعلان نہیں کیا مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کے دل میں احمدیت کی صداقت رچ گئی تھی.الفضل 16 جولائی 1956 صفحہ 3-4 خلاصہ مضمون حضرت سید زین العابدین شاہ صاحب بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 18 صفحہ 352 تا 354)
مصالح العرب.جلد دوم مختلف عرب لیڈرز سے ملاقاتیں اور مراسلہ احمد یہ وفد کی الجزائری لیڈروں سے ملاقات احمدیہ 23 / جولائی 1956ء کو احمدیہ انٹرنیشنل پریس ایسوسی ایشن کے ایک نمائندہ وفد نے الجزائر کے لیڈر علامہ بشیر الا برا نہیمی اور احمد بودہ سے لائکپور (فیصل آباد ) میں ملاقات کی اور الجزائر کی آزادی کی کوششوں میں ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا.یہ وفد مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری (مدیر الفرقان) عبد الوہاب صاحب ( نمائندہ ٹروتھ قریشی عبد الرحمن صاحب ( نمائندہ Message‘ اور ملک سیف الرحمن صاحب ( مفتی سلسلہ ) پر مشتمل تھا.صدر شام شکری القوتلی کو تحفہ قرآن الفضل 26 جولائی 1056 صفحہ 1 و8) شکری القوتلی مشہور سیاسی مدبر تھے اور شام کو فرانسیسی استعمار سے آزادی کے بعد ملک شام کے پہلے صدر منتخب ہوئے.بعد ازاں کئی بار انتخاب میں کامیاب ہوئے.آپ کا آخری انتخاب 1955ء میں ہوا.آپ اتحاد شام و مصر کے زبردست حامیوں میں سے تھے مگر بعض حالات کے باعث یہ اتحاد قائم نہ رہ سکا اور آپ نے سیاست سے علیحدگی اختیار کر لی.جب آپ جنوری 1957ء میں مشرقی و مغربی پاکستان کے دورہ پر تشریف لائے تو جماعت احمدیہ ڈھاکہ کے ایک وفد نے جناب عبد القادر صاحب مہتہ ابن بھائی عبد الرحمن قادیانی کی زیر قیادت مؤرخہ 16 جنوری 1957ء کو گورنمنٹ ہاؤس میں ان سے ملاقات کی اور ان کی خدمت میں انگریزی ترجمہ قرآن کا تحفہ پیش کیا.یہ تحفہ ایک نہایت خوبصورت بکس میں جو اس غرض کے 37 37
38 مصالح العرب......جلد دوم لئے خاص طور پر تیار کیا گیا تھا ان کی خدمت میں پیش کیا گیا.صندوقچے میں چاندی کی ایک تختی کی پر صدر موصوف کا نام کندہ تھا.نیز اس پر ایک طرف ممبران وفد کے نام درج تھے.علاوہ ازیں صدر موصوف کی خدمت میں اس موقعہ پر عربی زبان میں نہایت نفاست سے فریم کیا ہوا خوش آمدید کا ایک ایڈریس بھی پیش کیا گیا.ایڈریس کا خلاصہ یہ تھا کہ: جماعت احمد یہ اگر چہ بلحاظ تعداد ایک چھوٹی سی جماعت ہے تا ہم اس نے دنیا میں احمدیہاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو سر بلند کرنے اور اس کی اشاعت کا فریضہ ادا کی کرنے کے سلسلہ میں ایک عظیم ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائی ہوئی ہے.اس جماعت کے افراد اپنے موجودہ امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی زیر ہدایت روحانیت کی پیاسی دنیا کے دور دراز علاقوں تک دین حق کے نور کو پھیلانے میں مصروف ہیں، نہ افریقہ کے بیابان جنگل اور پتے ہوئے صحرا جہاں نئی تہذیب اور نئے تمدن کا ابھی سایہ بھی نہیں پڑا ان کی پہنچ سے باہر ہیں اور نہ مغرب کے وہ متمدن شہر جنہیں اپنی مادی اور سائنسی ترقی پر ناز ہے ان کے دائرہ عمل سے خارج ہیں.مشرق و مغرب میں دین حق کو سر بلند کرنے کی ایک سعی پیہم ان کا طرہ امتیاز ہے.اس وقت جماعت کے سینکڑوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے جو پاکستانیوں، عربوں، جرمنوں، امریکیوں اور دوسری قوموں کے افراد پر مشتمل ہیں خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی ہیں.ایسے ایثار پیشہ نوجوانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور وہ دنیا کے دور دراز علاقوں میں خدمت دین کا فریضہ ادا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں.ان کا ایک ہی ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام روئے زمین پر بسنے والی تمام قوموں تک پہنچ جائے اور وہ کچ سماجی انصاف اور اخوت و مساوات کی اسلامی تعلیم سے کما حقہ واقف ہو کر اس کو اپنانے پر آمادہ نی ہو جائیں.اسی غرض کے پیش نظر جماعت احمدیہ نے دنیا کی تمام اہم زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے.علاوہ ازیں دنیا کے مختلف علاقوں میں مساجد تعمیر ہو رہی ہیں.آپ دوستی اور اخوت کے ان رشتوں کو اور زیادہ مستحکم کرنے کی غرض سے تشریف لائے ہیں جو اسلام کی بعثت کے وقت سے ہمارے اور آپ لوگوں کے درمیان قائم چلے آرہے ہیں.ہم سب ایک ہی جسم یعنی ملت کے مختلف اعضاء ہیں.ہم سب کا دین ایک، کتاب ایک قبلہ ایک ہے اور ہم سب اللہ تعالیٰ کے
مصالح العرب.....جلد دوم ایک ہی رسول کی امت اور اسکے تابع فرمان ہیں.ہم ہیں آنمحترم کے انتہائی مخلص ممبران وفد جماعت احمدیہ 39 (1) عبد القادر مہتہ ( قائد وفد ) (2) چوہدری مختار احمد (3) ملک محمد طفیل (4) خواجہ عبد الکریم (5) دولت احمد خادم (6) مولوی غلام احمد مربی انچارج.الفضل 21 جنوری 1957 ءصفحہ 7،1) متحدہ عرب جمہوریہ کے صدر کا مکتوب سید منیر اکھٹی کے نام مئی 1958ء میں احمد یہ مشن شام کے انچارج السید منیر الحصنی صاحب نے جمال عبدالناصر صدر متحدہ عرب جمہوریہ کی خدمت میں سلسلہ احمدیہ کا عربی لٹریچر بھیجا.جس پرا نے 11 مئی 1958ء کو شکریہ پر مشتمل مکتوب لکھا جس کا متن شام کے مشہور اخبار العرب" نے 15 مئی 1958 ء کی اشاعت میں دیا.چنانچہ لکھا:- ممثل الطائفة الأحمدية يتلقى كتابا رفيعا من سيادة الرئيس جمال عبدالناصر كان السيد منير الحصنى ممثل الطائفة الأحمديه في دمشق أهدى سيادة الرئيس جمال عبد الناصر بعض الكتب الأحمدية فأجابه سيادته على هديته بمايلي: بسم الله الرحمن الرحيم رياسة الجمهورية مكتب الرئيس السيد منير الحصني الاحمدى سورية تحية طيبة وبعد أشكر لك إهداء ك إلى كتابيك المودودى فى الميزان“ و ”الشيخ الأكبر محي الدين بن عربي وبقاء النبوة من تأليفك وكتاب
مصالح العرب...جلد دوم ”فلسفة الأصول الإسلامية الذى قمت بنشره وأرجو أن ينتفع الناس بالكتب القيمة وفقنا الله جميعا وسدد خطابا والله أكبر والعزة للعرب القاهرة في 1958/5/11ء رئيس الجمهورية جمال عبدالناصر ترجمہ: - جماعت احمدیہ کے نمائندے کے نام صدر جمال عبدالناصر کا خط.الحصنى.40 40 دمشق میں جماعت احمدیہ کے نمائندے السید منیر اکھنی نے متحدہ عرب جمہوریہ کے صدر جمال عبدالناصر کی خدمت میں اپنی جماعت کی بعض کتب ارسال کی تھیں جس پر صدر موصوف نے مندرجہ ذیل جواب مکتوب لکھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم السيد منير الحصنى الاحمدی بعد از آداب میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اپنی کتابیں ”المودودی فی الميزان‘ اور الشيخ الاكبر محى الدين ابن عربی و بقاء النبوة “ بھجوائی ہیں.اسی طرح فلسفة الأصول الإسلامية “ بھی جو آپ نے شائع کی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ عوام ان قابل قدر کتابوں سے فائدہ اٹھائیں گے.خدا ہم سب کو نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں راستی پر قائم رکھے.والله أكبر والعزة للعرب.القاهره رئیس الجمہوریہ جمال عبدالناصر سعودی شہزادہ فہد الفیصل مسجد مبارک ہیگ میں ( از الفضل 17 جولائی 1958 ء صفحہ 2 دسمبر 1958ء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہالینڈ مشن کی شہرت اور تبلیغ کا ایک غیر معمولی اور بابرکت موقع پیدا کر دیا اور وہ یہ کہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے لارڈ میئر پرنس فہد الفیصل ہالینڈ کی سیاحت کے دوران مسجد مبارک ہیگ میں بھی تشریف لائے.ان
مصالح العرب......جلد دوم 41 کی معیت میں ان کے سیکرٹری اور مشیر خاص کے علاوہ جرمن سعودی عرب ایمبیسی کے نمائندہ ، ڈچ براڈ کاسٹ برائے عرب ممالک کے انچارج اور جمہوریہ عرب کی ایمبیسی کے نمائندہ بھی تھے.پریس نے قبل از وقت شہزادہ فیصل کی تصویر کے ساتھ یہ خبر ایک بڑے کالم میں شائع کر دی تھی کہ آپ مسجد مبارک کی زیارت کے لئے جارہے ہیں.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور حافظ قدرت اللہ صاحب نے احباب جماعت کے ساتھ پر تپاک استقبال کیا.بعد ازاں حافظ قدرت اللہ صاحب نے عربی زبان میں ایڈریس پڑھا جس میں شہزادہ موصوف کا خیر مقدم کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ بیان کی اور بتلایا کہ یہ چھوٹی سی غریب جماعت کن مشکل حالات میں بھی خدمت دین کے مقدس فریضہ کو سرانجام دے رہی ہے.نیز جماعت کی طرف سے غیر زبانوں میں شائع کردہ اسلامی لٹریچر اور تراجم کا ذکر کرتے ہوئے ان کی خدمت میں قرآن مجید انگریزی اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ تحفہ پیش کیا.پرنس موصوف معلومات حاصل کر کے جماعت کے کام سے بہت متاثر ہوئے اور فرمایا کہ مشن کی لائبریری کے لئے اگر کچھ کتب کی ضرورت ہو تو میں وطن واپس جا کر ارسال کر سکتا ہوں.چنانچہ آپ نے سعودی عرب پہنچ کر قریباً ایک سو جلدیں بذریعہ ہوائی جہاز بھجوائیں جو تفسیر طبری، جامع الاصول فی احادیث الرسول اور دیگر مختلف کتابوں پر ر مشتمل تھیں.شہزادہ فہد الفیصل حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب سے مل کر بہت خوش ہوئے اور آپ کی ان بے مثال اور عظیم خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے جو آپ نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے سرانجام دیں اپنے پر خلوص اور تشکرانہ جذبات کا اظہار کیا.آپ نے قریباً ایک گھنٹہ تک قیام فرمایا اور ڈچ مسلمانوں سے تعارف حاصل کیا.یہاں کی خبر رساں ایجنسی کے نمائندگان بھی موقع پر موجود تھے جنہوں نے اس نظارہ کو فلمایا اور مسجد کے مختلف مناظر کی تصاویر لیں.اخبار کے نمائندگان کی طرف سے مسجد کی تصویر کے ساتھ جملہ کارروائی کی خبر شائع ہوئی.تاریخ احمدیت جلد 20 صفحہ 282 - 284)
MAKTIZAN - TASAWEER © 2007 مولانا عبد المالک خانصاحب شام کے صدر شکری قوتلی کو ان کے دورہ ہندوستان کے موقعہ پر جماعتی لٹریچر دیتے ہوئے.
MAKHZAN-E- TASAWEER© 2007 سعودی شہزادہ فہد الفیصل کو حافظ قدرت اللہ صاحب مسجد مبارک ہیگ (ہالینڈ) میں جماعتی لٹریچر دیتے ہوئے.حضرت چوھدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی اس موقعہ پر موجود ہیں.
مصالح العرب.جلد دوم جناب جمال عبدالناصر صدر جمہوریہ متحدہ عرب کو پیغام حق 42 42 جناب جمال عبدالناصر دورہ بھارت کے دوران 5 اپریل 1960ء کو مدراس تشریف لائے.جماعت احمد یہ مدر اس نے انہیں خوش آمدید کہا اور اُن کی خدمت میں تبلیغی مکتوب اور سلسلہ کی طرف سے شائع شدہ عربی انگریزی لٹریچر ارسال کیا.مولانا شریف احمد صاحب امینی ان دنوں احمدیہ مسلم مشن مدراس کے انچارج تھے.جمال عبد الناصر کولکھا جانے والا مکتوب انگریزی میں تھا جس کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم احمدیہ مسلم مشن اسلامک سنٹر مدراس نمبر 14 5 اپریل 1960ء عزت مآب جمال عبدالناصر صدر جمہوریہ متحدہ عرب نزیل راج بھون.مدراس برادر اسلام! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته عالیجناب کی شہر مدراس میں تشریف آوری پر ہم جماعت احمدیہ کی طرف سے خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کی خدمت میں اھلا و سھلا مرحبا کا تحفہ پیش کرتے ہیں.صدر محترم ! احمدیہ تحریک آپ کے لئے کوئی عجیب وانوکھی چیز نہیں.اس کی شاخیں اکناف عالم میں پھیلی ہوئی ہیں.اور آپ کے وطن عزیز جمہور یہ متحدہ عرب میں بھی قائم ہیں.آئمکرم کی ہمارے وطن ہندوستان میں تشریف آوری اپنے اندر کس قدر اہمیت رکھتی ہے اس سے قطع نظر کرتے اور اُفق سیاسیات سے بالا ہوتے ہوئے ہماری نظریں اُس گرانبها خدمت پر پڑ رہی ہیں جو دنیائے عرب نے مذہب اسلام کے ذریعہ انسانیت اور تہذیب کی انجام دی ہے.باقی نیا تو آپ کی شخصیت میں صرف مصر کی سیاسی آزادی، جمہوریہ عرب میں اصلاحات ملکی ، اور معرکہ سویز کی فتحیابی کو دیکھ رہی ہے.مگر ہماری نگاہیں آپ کی ذات میں مستقبل میں اسلام کی سر بلندی اور دنیائے عرب کی ترقی کو دیکھ رہی ہیں.مگر ہمارے اس ” مقصد اعلیٰ“ کا حصول اُس
43 مصالح العرب......جلد دوم جذبے اور ولولہ پر منحصر ہے جس کو لے کر آپ ترقی کی شاہراہ پر چلیں گے.اور ہم دیانتداری کی سے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے صرف سیاسی بیداری ہی کافی نہیں.بلکہ جب تک اللہ تعالیٰ کی حکومت انسانی قلوب پر قائم نہ ہو جائے دنیا کو امن وسکون نہیں ہو سکتا.اس لئے ہم آئمکرم کی خدمت میں خلوص قلب سے عرض کرتے ہیں کہ ہندوستان اور دنیائے عرب کے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے.صرف سیاسی حیثیت سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ پھر ہم اپنے خدا کو پالیں.اس زمانہ میں جب کہ مادی طاقتیں اپنے عروج پر ہیں یہ ایک فطرتی تمنا ہے کہ ہم جمہوریہ متحدہ عرب سے توقع رکھیں کہ وہ دنیا کی گمشدہ کڑی کو واپس لائے.وہ گمشدہ کڑی جو بندے اور اُس کے خالق و مالک سے تعلقات محبت کو از سر نو قائم کر دے.اور حقیقت میں یہی وہ عربی روایات ہیں جنہوں نے عربی نسل کو دنیا میں ایک اتحاد پیدا کرنے والی طاقت بنا دیا تھا.صدر محترم! آپ نے علیگڑھ میں خطاب فرماتے ہوئے یہ امر بالکل بجا فرمایا تھا کہ آئندہ سائنس کی اجارہ داری سرمایہ داری کی ایک نئی قسم ہوگی“.سرمایہ داری کیا بلکہ مادیت کی نئی شکل وصورت ہوگی.ہم سرمایہ داری یا مادیت کی اس نئی شکل وصورت پر قابو نہیں پا سکتے جب تک کہ انسان کی سرمایہ دارانہ ذہنیت یا مادیت کی رگوں میں مذہب اور روحانیت کا ٹیکہ نہ لگائیں.پس اس الحادو مادیت کے قلع قمع اور روحانیت و انسانیت کے اُجاگر کرنے کے لئے ہی تحریک احمدیت خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم کی گئی ہے.احمدیت کوئی انسانی تحریک نہیں.خالص خدا کی قائم کردہ ہے.اور اس کا قیام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُن پیشگوئیوں کے عین مطابق عمل میں آیا ہے جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور غلبہ دین کے لئے ظہور مہدی ومسیح موعود کی ذات سے وابستہ تھیں اور اشاعت اسلام کی جو شاندار خدمات اس جماعت نے اب تک انجام دی ہیں وہ أظهر من الشمس ہیں.ہم آپ کی خدمت میں اسلامی اصول کی فلاسفی ( جو کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود اور مہدی و معہود کی تالیف تصنیف ہے ) کا عربی ترجمہ "الخطاب الجلیل اور دوسرے لڑ پچر کا تحفہ ارسال کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں.بظاہر یہ معمولی چیز ہے مگر
مصالح العرب.......جلد دوم 44 حقیقت میں قیمتی موتی اور جواہر ہیں.امید ہے آپ ان کتب کا مطالعہ فرمائیں گے.خدا آپ کا اور ہمارا ہادی اور حامی و ناصر ہو.آمین.آپکا خیر اندیش محمد کریم اللہ سیکرٹری جماعت احمد یہ مدراس الفضل 12 را پریل 1960ء صفحہ 4) شاہ حسین آف اردن کا جماعت احمدیہ نائیجیریا کی طرف سے شاندار استقبال اسلامی مملکت اردن کے جلالة الملک شاہ حسین نے اس سال ایران ترکی اور سپین کے دورہ سے واپسی پر 9رمئی 1960ء کولیگوس میں ایک روز قیام فرمایا.شاہ کی آمد ا گر چہ غیر رسمی حیثیت کی تھی، پھر بھی یہ موقعہ اس اعتبار سے بہت اہم تھا کہ نائیجیریا جیسے اسلامی علاقہ میں پہلی دفعہ ایک عرب مسلمان بادشاہ وارد ہوا تھا.شاہ کی آمد کا اعلان صرف ایک روز پہلے کیا گیا تھا.اس کے باوجود احمدی احباب کو استقبالیہ کے لئے فوراً منظم کیا گیا.ایک سبز جھنڈے پر عربی میں أهلا و سهلا و مرحبا اور انگریزی میں Welcome King Hussain “ لکھا ہوا تھا.لیگوس کے احمدی احباب چودہ میل سفر کر کے لیگوس کے ہوائی اڈے پر پہنچے.جملہ احباب نے " احمد یہ مشن کے بیجز لگا رکھے تھے.اس طرح استقبال کرنے والوں میں یہ ممتاز گروه اخباری نمائندوں غیر ملکی اور ملکی پریس فوٹو گرافرز کے لئے بالخصوص ایک خاص کشش کا موجب ؟ انہوں نے اس منظر کی متعدد تصاویر لیں.جس وقت شاہ حسین کا طیارہ پہنچا احمدی احباب نے نعرہ تکبیر اللہ اکبر، اسلام زندہ باد، جلالةُ المَلِك يَعِيشُ المَلِك حُسين يَعِيش كے نعرے بلند کئے.نائیجیریا کے قائم مقام گورنر جنرل اور استقبال کرنے والے دوسرے افسر مشرقی انداز کے اس استقبال سے بہت متاثر ہوئے.ہوائی اڈے پر جمع ہونے والے لبنانی شامی اور دوسرے مسلمانوں نے بھی اس استقبال کو بہت سراہا اور ان میں سے بعض نعرے بلند کرنے میں احمدیوں کے ساتھ شامل بھی ہوئے.شاہ اردن کا لیگوس میں قیام صرف سولہ گھنٹے تھا.احمد یہ مشن کی طرف سے ایک روز قبل
45 مصالح العرب......جلد دوم منعقد ہونے والی مسلم فیسٹول کمیٹی (MUSLIM FESTIVAL COMMITTEE) میں دوسری مسلمان جمعیتوں کے زعماء کو شاہ سے وفد کی صورت میں ملاقات کی تحریک کی گئی.اسی طرح ہی گورنمنٹ ہاؤس سے ٹیلیفون پر ملاقات کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی گئی.لیکن اس می وقت شاہ کا پروگرام معین طور پر معلوم نہ ہونے کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا.لیگوس کے مقامی حاکم (OBA) مسلمان تھے.جن کو جناب مولانا نسیم سیفی صاحب رئیس التبلیغ مغربی افریقہ نے ٹیلیفون پر تحریک کی کہ وہ ملاقات کی کوشش کریں.ان کی طرف سے کوشش کرنے پر صرف چار اصحاب کے لئے ملاقات کی اجازت حاصل ہو سکی چنانچہ مسلمانوں کی طرف سے لیگوس کے مقامی حاکم ، ان کے ایک وزیر، احمد یہ مشن کے رئیس التبلیغ اور لیگوس شہر کے چیف امام پر مشتمل وفد نے گورنمنٹ ہاؤس میں شاہ سے ملاقات کی.جناب رئیس التبلیغ صاحب نے شاہ کو ہدیہ کے طور پر حسب ذیل کتب پیش کیں.(1) اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ الخطاب الجلیل مصنفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ.(2) لائف آف محمد تصنیف حضرت مصلح موعود (3) ہمارے بیرونی مشن (انگریزی)، مصنفہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر ربوہ.شاہ حسین نے یہ تحفہ بہت خوشی سے قبول کیا.پریس کے نمائندوں نے اس موقعہ پر متعدد تصاویر لیں.لیگوس کے ممتاز ڈیلی ٹائمنز اور پائلٹ نے شاہ حسین کے کتب کا تحفہ قبول کرنے کی تصویر شائع کی.شاہ حسین نے اپنے قیام کے دوران میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا جس میں جناب نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر اخبار ٹروتھ کی حیثیت سے شامل ہوئے.شاہ حسین کو مذکورہ کتب کے تحفہ کے ہمراہ احمد یہ مشن کی طرف سے جو مکتوب لکھا گیا تھا اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے.جلالۃ الملک شاہ حسین السلام عليكم - أهلا و سهلا و مرحباً.
مصالح العرب.....جلد دوم 46 میں بصد ادب و احترام ملک نائیجیریا کے احمدیوں کی طرف سے اعلیٰ حضرت کو ہمارے ملک میں قدم رنجہ فرمانے پر دلی خوش آمدید عرض کرتا ہوں.ہر چند آ پکی یہ زیارت مختصر حیثیت کی ہے.ہم آپ کے نائیجیریا کے دار الحکومت لیگوس میں ورود کے بہت قدرمند ہیں.جلالتہ الملک کے لئے ہمارے دلوں میں جو محبت جاگزیں ہے.اس کی ایک علامت کے طور پر آپ کی خدمت میں لائف آف محمد کا تحفہ بھی پیش کر رہا ہوں.جو ہماری جماعت کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ اسیح الثانی کی تصنیف ہے.الخطاب الجلیل اور ہمارے بیرونی مشن ، بعد میں شامل کی گئیں تھیں) اس امر کا ذکر یہاں بے تعلق نہ ہوگا کہ جلالتہ الملک کے مرحوم دادا امیر عبداللہ ہماری جماعت حیفا کے حق میں ہمیشہ مروت کا سلوک فرماتے رہے ہیں جس کے لئے ہم ان کے احسان مند رہیں گے.بالآخر ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی برکات نازل فرماتا رہے آمین.والسلام دو نسیم سیفی رئیس التبلیغ مغربی افریقہ برائے جماعت احمد یہ نا پنجیریا (الفضل 12 را پریل 1960 ء صفحہ 3) جمعیۃ الاتحاد بین المذاہب کے جنرل سیکرٹری کی لائبیریا مشن میں آمد جماعت احمدیہ کے ایک محترم مبلغ مولانامحمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ انچارج لائبیریا مشن کی تحریر فرمودہ 1960ء کی بعض ماہوار رپورٹوں میں سے ایک میں وہ فرماتے ہیں:.حال ہی میں مصر کی ایک مشہور سوسائٹی جمعیة الاتحاد بين المذاهب کے جزل سیکرٹری مسٹر بھجات قندیل اپنی سوسائٹی کی طرف سے افریقن ممالک کا دورہ کرتے ہوئے لائبیریا آئے.ان سے جمہوریت عربیہ متحدہ کے سفارت خانہ کے ذریعہ میری ملاقات ہوئی اور خاکسار نے انہیں احمد یہ مشن میں آنے کی دعوت دی.سفارت خانہ کے نائب سفیر مسٹر انور فرید ہمارے اور ہماری تبلیغی کارروائیوں کے بڑے مداح ہیں.چنانچہ آپ نے ڈاکٹر بلی گراہم مسیحی مناد کے نام میری تبلیغی چٹھی کی بہت سی کا پیاں مجھ سے حاصل کر کے ”مزوویا“ کے مختلف
47 مصالح العرب......جلد دوم با اثر عیسائیوں اور سفارت خانوں کے کارکنوں کو اپنی طرف سے پیش کی تھیں.انہوں نے مسٹر بھجات صاحب سے میرا تعارف کرا کے خود ہی انہیں جماعت احمدیہ کی یورپ وافریقہ اور امریکہ میں تبلیغی سرگرمیوں سے مختصراً آگاہ کیا.دوسرے روز شام کو مسٹر ہجات ہمارے مشن میں تشریف لائے اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ٹھہرے رہے.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ سے روشناسی کرایا گیا.نیز دنیا کے تمام اہم احمد یہ مسلم مشنوں کا بھی یکے بعد دیگرے تعارف کرایا اور ساتھ ساتھ دنیا میں جماعت احمدیہ کی طرف سے قائم کردہ مساجد سکول کالج اور مشن سنٹرز کی تصاویر بھی دکھا ئیں اور اپنے اکثر احمد یہ انگریزی اور عربی اخبارات اور رسالوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف تحفہ بغداد اور استفتاء وغیرہ کی ایک ایک کاپی بھی انہیں تحفہ پیش کی وہ یورپ اور امریکہ میں ہماری نئی مساجد کی تصاویر دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے اور جماعت احمدیہ کے ممبران اور خصوصاً مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ دینے والوں کو بہت دعائیں دیں اور ہماری ہر مسجد اور مشن کی ابتداء اور بنیاد وغیرہ کے متعلق جملہ معلومات تحریر انوٹ کرتے رہے.اس کے بعد خاکسار نے ان کے استفسار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی اور ایک احمدی اور غیر احمدی میں ما بہ الامتیاز پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ احمدیت حقیقی اسلام کے سوا اور کوئی نئی چیز دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتی اور اس کا مقصد قرآنی آیت کریمہ يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ کے مطابق مسلمان عوام کو حقیقی اور سچے مومن بنانے اور تمام دنیا کے دیگر مذاہب کے لوگوں کو بذریعہ تبلیغ دین اسلام میں داخل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے.اور مسلمانوں کے تمام فرقوں کے نزدیک یہی امام آخر الزمان کی بعثت کی غرض و غایت ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت پورا کرنے میں دن رات ہمہ تن مشغول ہے.مسٹر بھیجات صاحب نے آخر پر فرمایا کہ آپ کی باتیں واقعی نہایت قابل غور ہیں جنہوں نے مجھ پر گہرا اثر کیا ہے اور بطور مسلمان ہم شرمندہ ہیں کہ ہم اسلام کی بذریعہ تبلیغ اشاعت اور اس کی تقویت کا فریضہ جو ہم پر عائد ہوتا ہے ادا نہیں کر رہے.لیکن ہمیں خوشی ہے کہ آپ کی جماعت کے افراد دنیا کے باقی مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ کے طور پر یہ ذمہ داری ادا کر رہے ہیں نیز آپ نے کہا کہ میرے اپنے والد از ہر شریف کے خاص مشائخ میں سے
مصالح العرب.....جلد دوم 48 اور میں خود بھی از ہر شریف کا تعلیم یافتہ ہوں اور ہمیں واقعی افسوس ہے کہ مصر کے اس اہم اور مقدس اسلامی ادارے کو باقاعدہ غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کرنے اور دشمنان اسلام کے تبشیری حملوں کا مقابلہ کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوئی.میرا ارادہ ہے کہ میں اپنی واپسی پر انشاء اللہ جامعہ از ہر کے سرکردہ مشائخ کی توجہ اس طرف مبذول کراؤں.مشن سے رخصت ہونے سے پہلے آپ نے مشن کی وزیٹرز بک میں مندرجہ ذیل ریمارکس "كم كان سرورى أن أرى دعاة الإسلام الأحمديين في غرب إفريقيا وفقكم الله تعالى لأداء هذه الرسالة المباركة بهجات قنديل سيكرتير عام جمعية الاتحاد بين المذاهب یعنی مغربی افریقہ میں جماعت احمدیہ کے مبلغین کی سرگرمیاں دیکھ کر مجھے از حد خوشی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام کا مبارک پیغام پہنچاتے رہنے کی توفیق عطا کرے.بہجات قندیل جنرل سیکرٹری جمعية الاتحاد بين المذاهب 10 مئی 1960ء از الفضل 17 جولائی 1960 ء صفحہ 4 بعض عرب ممالک کے سیاسی حالات کا دینی جماعتوں پر اثر پچاس کی دہائی میں شام سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار رہا.1957 ء میں شام کے ترکی کے ساتھ تعلقات اس حد تک خراب ہوئے کہ فوجیں سرحدوں پر جمع ہو گئیں اور جنگ کے ہولناک سائے دونوں ملکوں پر منڈلانے لگے.ایسی صورتحال نے شام کو سوویت یونین کے قریب ہونے پر مجبور کیا.جب مغربی ممالک کی طرف سے شام پر دباؤ بڑھنے لگا تو شام اور مصر نے آپس میں اتحاد کر لیا اور متحدہ جمہوریت کے صدر جمال عبدالناصر منتخب ہوئے.لیکن یہ اتحاد زیادہ دیر پا ثابت نہ ہو سکا کیونکہ اشتراکی نظام کے نفاذ، سیاسی جماعتوں پر پابندی جیسے امور نے فوج کو دخل دینے پر مجبور کر دیا اور 1961ء میں یہ اتحادٹوٹ گیا.اس مختصر سی وضاحت کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کرام کو اس پورے خطے کی صورتحال کا اندازہ
49 49 مصالح العرب......جلد دوم ہو سکے کہ اس عرصہ کے سیاسی حالات کا دینی ماحول پر کس طرح اثر پڑا.اشتراکی نظام کی طرف میلان نے شام کے علاوہ اردگرد کے دیگر ممالک میں بھی نہ صرف سیاسی بلکہ دینی جماعتوں پر بھی پابندی لگادی.حتی کہ بعض ممالک میں مذہبی سرگرمیاں بھی بعض ایسے حکمرانوں کے زیر تسلط آگئیں جن کا دین سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا.اس کی ایک جھلک ذیل میں درج کی جاتی ہے.جمال عبدالناصر کے نام ایک اہم مکتوب ساٹھ کی دہائی کی ابتداء میں جب کہ شام اشتراکیت کی لپیٹ میں تھا جماعت احمدیہ پر پابندی لگا دی گئی، جماعت کے مرکز کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا اور افراد جماعت کو بحیثیت جماعت اپنی سرگرمیوں سے روک دیا گیا.ایسی صورتحال میں جناب سید میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمد یہ ربوہ نے صدر جمہوریہ مصر جمال عبد الناصر کی خدمت میں ایک اہم مکتوب ارسال کیا جس کا عربی متن انہی دنوں جامعہ احمدیہ کے ترجمان البشری کے شمارہ رمضان 1380ھ مطابق مارچ 1961 ء صفحہ 40-39 میں بھی شائع کر دیا گیا تھا.جو درج ذیل کیا جاتا ہے: "كتاب الى الرئيس جمال عبد الناصر سيادة الرئيس السلام علکیم و رحمة الله و بركاته و بعد، فاني أتشرف بأن ألفت أنظار سيادتكم إلى ما حصل بدمشق (الإقليم الشمالى ( من مصادرة مركز الجماعة الإسلامية الأحمدية وحرمان أعضائها من مزاولة الحرية الدينية والفكرية التي يقدر دستور الجمهورية العربية المتحدة كما يحترسها سائر دساتير العالم إن هذا الإجراء الشاذ قد أحدثت هزة شديدة في عموم أعضاء الجماعة الأحمدية المنتشرة فى أقطار العالم كافة، هذه الجماعة هي دينية تؤمن بجميع المبادئ الإسلامية السامية القويمة إيمانا راسخا، و لا تدخر وسعا في سبيل الدفاع عن
50 50 مصالح العرب......جلد دوم حياض الإسلام والمسلمين فى مختلف بقاع الأرض و إن لها مراكز تبشيرية قوية فى معظم أصقاع العالم و خاصة في أمريكا وإفريقيا وإنجلترا وألمانيا وهولندا وسويسرا وألمانيا الغربية وإسبانيا وإفريقيا الغربية والشرقية كما أن هذه الجماعة نشرت مجموعة قيمة من الكتب العلمية للذود عن كرامة الإسلام و نبيه محمد صلى الله عليه و سلم، وأضف إلى ذلك أنها نشرت تفاسير القرآن وتراجمه بالإنجليزية والألمانية والهولندية والسواحيلية وقامت بهذا العمل الجليل المنقطع النظير خير قيام إن اتهام هذه الجماعة بالخروج عن الإسلام ووصمها با لانحراف عن جادة الحق على غاية من السطحية والتعسف وخاصة في هذه الفترة الدقيقة من تاريخ العالم التى تدعونا بتكتل المسلمين وتوحيد كلمتهم في جميع البلاد وقد لا يخفى على سيادتك أن الجماعة الأحمديه ليست بمعزل عن القضايا العربية الكبرى، بل منذ نشأتها قامت بدور مرموق في جمع شمل المسلمين و قد نبهتهم إلى الأخطار التي تحدق بهم من كل صوب و تهدد مصالحهم في كل بلد، وإليكم ما فعلته الجماعة الأحمدية في أخطر قضية عربية ألا وهي قضية فلسطين التي تحتل الدرجة الأولى بقلب كل عربي مسلم بل هي الطعنة الغادرة فى صميم السلام التي تحز في قلوب أربعمائة مليون مسلم عند ما دبرت هذه المؤامرة اللعينة بأيدى الاستعمار والصهيونية العالمية عندئذ كتب حضرة إمام الجماعة الأحمدية الحالي الحاج الميرزا بشير الدين محمود أحمد نشرة سماها ”الكفر ملة واحدة فضح فيها هذه الخطة الشيطانية وكشف اللثام
مصالح العرب......جلد دوم عن وجه جه الحقائق وقال إن قوى الشر قد تألبت على الإسلام من وحدة كل حدب، وتجمعت رغم خلافاتها السياسية للقضاء على الإسلام قضاء نهائيا، فعلى المسلمين أن يدركوا خطر هذا الهجوم القضايا العام من قبل الأعداء فليقوموا آحادا وجماعات للذب عن جبهة الإسلام، وكذلك لم يتح لحضرته فرصة تحدث فيها عن الإسلامية إلا ووضع قضية فلسطين فى المكان الأول ودوما أبدى مخاوفه عن نوايا الصهيونية العالمية للسيطرة على سائر البلاد العربية الإسلامية بما فيها من شعائر الإسلام المقدسة وأخيرا وليس آخرا صرّح حضرته في أحد الاجتماعات السنوية للجماعة : ان احتلال اليهود لفلسطين لهو حادث مؤقت وان الأوضاع الراهنة لتنقلب رأسا على عقب و سيأتي على فلسطين زمان أن كل حجر من أحجارها سينادى المؤمن بأعلى صوته إن ورائى كافر فاقتله وإن الأيام التي سترث فيها الأمة الإسلامية أرض فلسطين جد قريبة “ فإنا لنرجو سيادتكم أن تتناولوا هذه القضية بأسلوب حكيم يتفق مع ما يقتضى الدستور من المحافظة على الحرية الدينية و الفكرية لجميع طوائف الشعب العربي دمتم ذخرا للعروبة و الإسلام والسلام عليكم المخلص 66 داؤد أحمد السيد “ ترجمه (البشری (ربوہ) رمضان 1380ھ مطابق مارچ 1961 ء صفحہ 4039 جناب صدر صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته میں آنجناب کی نظر دمشق میں جماعت احمدیہ کے مرکز کو حکومتی تحویل میں لینے اور افراد 51
52 52 مصالح العرب.....جلد دوم جماعت احمدیہ کو آئین کے مطابق دیئے ہوئے دینی اور فکری آزادی کے حق سے محروم کرنے کی کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں.کیونکہ مذہبی آزادی کے اس حق کو دستور جمہوریہ عربیہ متحدہ بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے جیسا کہ اس کی حفاظت دنیا کے تمام ممالک کے دساتیر کا اہم حصہ ہے.اس غیر آئینی اقدام سے عالمگیر جماعت احمدیہ کے افراد کو شدید دھچکا لگا ہے.جماعت احمد یہ وہ جماعت جو تمام بنیادی ارکان اسلام پر پختہ ایمان رکھتی ہے.اور دنیا کے مختلف ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کی کوششوں میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتی.اس جماعت کے مضبوط مراکز دنیا کے تمام علاقوں میں موجود ہیں خصوصا امریکا ، مغربی اور مشرقی افریقہ.اس جماعت نے اسلام اور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے دفاع میں ایک ضخیم مجموعہ کتب بھی تالیف کیا ہے.اسکے علاوہ قرآن کریم کی تفاسیر اور بڑی بڑی زبانوں جیسے انگریزی جرمن اور سواحیلی وغیرہ زبانوں میں تراجم قرآن کا بے نظیر کام سرانجام دیا تو ہے.ایسی جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج اور راہ راست سے منحرف جماعت قرار دینا نہایت سطحی خیالات کا نتیجہ اور بڑے ظلم کی بات ہے خصوصا ایسے وقت میں جب کہ دنیا کے موجودہ کی حالات کا تقاضا ہے کہ تمام مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت قائم ہو.شاید آنجناب کو معلوم ہی ہوگا کہ جماعت احمدیہ نے کبھی بھی بڑے بڑے عربی مسائل سے خود کو باہر نہیں سمجھا.بلکہ اپنی ابتداء ہی سے مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اس سلسلہ میں ان کو پیش آنے والے ایسے خطرات سے آگاہ کرتی ہے جو ان کے ممالک کے مفادات کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں.اور جہاں تک عرب دنیا کے سب سے خطر ناک مسئلے یعنی تو مسئلہ فلسطین کا تعلق ہے جو کہ ہر عربی مسلمان کے دل میں اولین درجہ کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ یہ عالمی امن کے جسم پر ایک ایسا بزدلانہ وار ہے جس کی کاٹ کو چار سومین مسلمان اپنے دلوں میں محسوس کرتے ہیں، اس اہم ترین مسئلہ کے بارہ میں جماعت کی خدمات کی ایک جھلک ملاحظہ ہو.جب عالمی استعمار اور صہیونیت کے تعاون سے اس مذموم سازش کا تانا بانا بنا جارہا تھا اس وقت حضرت امام جماعت احمدیہ الحاج مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک پمفلٹ الكُفْرُ مِلَّةٌ وَاحِدَةٌ“ شائع کر کے انکی اس شیطانی سازش کو بے نقاب کیا اور حقائق کو منظر عام 2
مصالح العرب......جلد دوم پر لائے.آپ نے فرمایا کہ: 53 آپ نے فرمایا تھا کہ شر کی تمام قوتیں جمیع اطراف سے اسلام کے خلاف متحد ہوگئی ہیں.اور باوجود آپس کے سیاسی اختلافات کے وحدت اسلام کو ہمیشہ کے لئے مٹانے کے لئے یک جان ہوگئی ہیں.مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ دشمن کے اس حملے کے خطرے کو محسوس کریں اور فردا فردا اور جماعتوں کی صورت میں اسلام کی سرحدوں کے دفاع کیلئے کھڑے ہو جائیں“.اسی طرح آپ کو جب کبھی بھی موقع ملا آپ نے مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ ترجیحات میں نمبر 1 پر رکھا.اور ہمیشہ اس خطرہ کا اظہار کیا کہ تمام عرب اسلامی ممالک کو عالمی صہیونی تنظیم کی طرف سے ناجائز قبضہ کا خطرہ ہے جس میں اسلام کے مقدس شعائر بھی شامل ہیں.آپ نے جماعت احمدیہ کے ایک جلسہ سالانہ میں تقریر کرتے ہوئے جو فرمایا وہ آخر میں پیش ہے آپ نے فرمایا: ”یہودیوں کی طرف سے فلسطین پر قبضہ ایک دردناک واقعہ ہے.لیکن آج کے حالات ضرور یکسر بدل جائیں گے اور فلسطین پر وہ زمانہ آنے والا ہے جب اس کا ہر پتھر مومنوں کو پکار پکار کر کہے گا کہ آؤ میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے اسے قتل کر دو“.اور وہ دن بہت قریب ہیں جب امت اسلامیہ ارض فلسطین کی وارث بنے گی.ہم آنجناب سے درخواست کرتے ہیں کہ (جماعت احمد یہ دمشق پر پابندی لگانے کے) اس معاملہ کو پر حکمت طریقہ سے ہینڈل کریں اور ایسا فیصلہ فرما ئیں جس کا تقاضا تمام عرب فرقوں اور جماعتوں کو دینی آزادی کا حق دینے والا حکومت کا دستور کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو عربوں اور اسلام کے لئے بیش قیمت وجود کے طور پر قائم رکھے.والسلام آپکا مخلص سید داؤ د احمد مختلف عرب لیڈرز کے ساتھ ملاقاتیں اور مراسلہ کے ساتھ اس عرصہ کے دو ایسے امور بھی یہاں درج کئے جاتے ہیں جن کا تعلق عرب صحافت ہے.
مصالح العرب.جلد دوم 54 مجلۃ الا زہر میں جماعت احمد یہ غانا کی تعلیمی خدمات کا تذکرہ افریقن ممالک سے عربوں میں جماعت احمدیہ کا تعارف اور تبلیغ کا تذکرہ ہورہا ہے تو اس ضمن میں جامعہ احمدیہ غانا کی تعلیمی خدمات کا مجلہ الا زہر کی جانب سے اعتراف کا ذکر بھی کرتے چلیں جو اپنی اصل جگہ یعنی 1958 ء کے واقعات میں درج ہونے سے رہ گیا ہے.جماعت احمد یہ غانا عرصہ دراز سے مسلمانانِ افریقہ میں تعلیم عام کرنے کی کوششیں کر رہی تھی.اس عظیم الشان جدو جہد کے شاندار نتائج و آثار عرب ممالک کے سامنے بھی آنے شروع ہوئے.چنانچہ شیخ الازہر مصر کی پریس برانچ کے ناظم الاستاذ عطیہ صقر نے ازہر یونیورسٹی کے ماہنامہ مجلہ الازہر (جولائی 1958 ء) میں الا سلام فی غانا“ کے موضوع پر ایک تحقیقی شائع کیا جس میں جماعت احمدیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا : مضمون " ولهم نشاط بارز في كافة النواحى ومدارسهم ناجحة بالرغم من أن تلاميذها.لا يدينون جميعا بمذهبهم.( جماعت احمدیہ) کی سرگرمیاں تمام امور میں انتہائی کامیاب ہیں اور ان کے مدارس کامیابی سے چل رہے ہیں.باوجود اس کے کہ ان مدارس کے تمام طلبہ ان کی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے.تاریخ احمدیت جلد 20 صفحہ 100 مصر کے صحافی السید محمود عودہ اور ڈاکٹر فوزی خلیل ربوہ میں 16 رنومبر 1959ء کو بعد دو پہر مصر کے ایک ممتاز صحافی السید محمود عودہ جو قاہرہ کے مشہور اخبار الجمہوریہ کے ایڈیٹوریل سٹاف کے رکن تھے ربوہ تشریف لائے.آپ کے ہمراہ ڈاکٹر فوزی حسن خلیل بھی تھے جو عرب جمہور یہ متحدہ کی طرف سے عربی زبان کی تعلیم و ترویج کے لئے پاکستان آئے ہوئے تھے اور ان دنوں پنجاب یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر تھے.ہر دو معزز مہمانوں کا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا بعد نماز عصر حضرت چوہدری محمد ظفر الله خان صاحب کی کوٹھی بیت الظفر کے لان میں معزز مہمانوں کے اعزاز میں ایک دعوت عصرانہ
55 مصالح العرب.......جلد دوم دی گئی جس میں صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے متعدد ناظر و وکلاء صاحبان اور دیگر بزرگان سلسلہ و علمائے کرام کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرز ا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر نے بھی شمولیت فرمائی اور مہمانوں سے تبادلہ خیالات کیا.اس موقعہ پر تلاوت قرآن کریم کے بعد جو انڈو نیشین طالب علم منصور احمد صاحب نے کی مولوی بشارت احمد صاحب بشیر، نائب وكيل التبشیر نے معزز مہمانوں کی خدمت میں عربی میں ایڈریس پیش کیا.ایڈریس میں مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں جماعت احمد یہ سے متعارف کیا گیا.اور اس سلسلے میں بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد، مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور تبلیغ کے ذریعہ جماعت احمد یہ جو دینی خدمات سرانجام دے رہی ہے اس کا مختصراً ذکر کیا گیا.ایڈریس کے جواب میں دونوں مہمانوں نے مختصر طور پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا.الاستاذ سید محمود عودہ نے اپنی تقریر میں بتایا کہ میرے پاکستان آنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں کے حالات کا جائزہ لے کر پاکستان اور عرب جمہوریہ متحدہ کے درمیان مزید گہرے روابط پیدا کرنے میں مدد دوں.آپ نے کہا کہ دونوں اسلامی ملک مل کر دنیا کے موجودہ حالات میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں.جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ میں آنا بھی میرے پروگرام کا ایک اہم حصہ تھا جسے آج میں پورا کرتے ہوئے دلی خوشی محسوس کر رہا ہوں.اسلام ایک جامد مذہب نہیں ہے.وہ پہلے بھی کئی ایک مادی فلسفوں کا کامیابی سے مقابلہ کر چکا ہے.ہمیں آج بھی متحد ہو کر یہ ثابت کر دینا چاہئے کہ اسلام اس زمانہ میں بھی ایک زندہ طاقت ہے جو زمانہ کے تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے.آخر میں آپ نے اہلِ ربوہ کا شکر یہ ادا کیا.پروفیسر فوزی خلیل نے اپنی تقریر میں عربی زبان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ یہی ایک زبان ہے جو رنگ ونسل کے فرق کے باوجود عالم اسلام میں اتحاد اور یگانگت پیدا کرسکتی ہے.اہلِ پاکستان کو بھی اس زبان کی ترویج و اشاعت میں نمایاں حصہ لینا چاہئے.تاریخ احمدیت جلد 20 صفحہ 394-395 00000
مصالح العرب.جلد دوم حضرت مصلح موعودؓ کی ابدال شام سے توقعات و دعائیں مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا چوتھا سالانہ اجتماع 31 اکتوبر، یکم نومبر، 2 /نومبر 1958ء کو منعقد ہوا.حضرت مصلح موعودؓ نے اجتماع کے دوسرے روز اپنے ایمان افروز خطاب میں فرمایا: امریکہ میں تبلیغ کا یہ اثر بھی ہے کہ دوسرے کئی ملکوں میں بھی ہماری تبلیغ کا اچھا اثر پڑ رہا ہے.چنانچہ مولوی نور الحق صاحب انور جو حال ہی میں امریکہ سے آئے ہیں انہوں نے بتایا کہ مصر کا جو وائس قونصل تھا اس کے جبڑے میں دردتھی اس نے آپ کو دعا کے لئے خط لکھا.لیکن اس کو آپ کا جواب نہیں پہنچا.میں نے دفتر والوں کو خط نکالنے کے لئے کہا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں وہ خط نہیں ملا.لیکن اب پرسوں یا ترسوں اس کا دوسرا خط آیا ہے اس نے لکھا ہے کہ غالباً میرا پہلا خط نہیں پہنچا اب میں دوسرا خط لکھ رہا ہوں.میرے جبڑے میں درد ہے آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ صحت دے.(انصار اللہ کے جلسے کے بعد مولوی نورالحق صاحب انور ملے تو انہوں نے بتایا کہ اب اس کے جبڑے کو آرام آچکا ہے بلکہ میرے یہاں آنے سے بھی پہلے اسے آرام آچکا ہے اس لئے یہ خط پہلے کا لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے) انور صاحب نے یہ بھی بتایا کہ وہ کرنل ناصر کا بچپن کا دوست ہے.اور اس پر بہت اثر رکھتا ہے.یہ امریکہ میں تبلیغ کا ہی اثر ہے ہم امریکہ میں تبلیغ کرتے ہیں تو مصری اور شامی بھی متاثر ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہی جماعت ہے جو اسلام کی خدمت کر رہی ہے.اور اس طرح قدرتی طور پر انہیں ہماری جماعت کے ساتھ ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے.پہلی شامی حکومت کی سختیوں کی وجہ سے ہمارے مبلغ منیر الحصنی صاحب کا خط آیا تھا کہ اس نے ہماری جماعت کے بعض اوقاف میں دخل اندازی کی تھی لیکن اب انہوں نے لکھا ہے کہ جو نئے قوانین بنائے گئے ہیں ان میں کچھ گنجائش معلوم ہوتی ہے ان کے مطابق 56 56
مصالح العرب.....جلد دوم ،، 57 میں دوبارہ نالش کرنے لگا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے يَدْعُونَ لَكَ ابْدَال الشّام ابدالِ شام تیرے لئے دعائیں کرتے ہیں، جس کے معنے یہ ہیں کہ شام میں جماعت پھیلے گی.پس دوستوں کو دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ وہاں جماعت کے لئے سہولت پیدا کرے اور وہاں جماعت کو کثرت کے ساتھ پھیلائے تا ابدال شام پیدا ہوں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو ہیں نہیں يَدْعُونَ لَكَ کے معنی ہیں کہ وہ جماعت کے لئے دعائیں کریں گے اور ابدال نام بتاتا ہے کہ ان کی دعائیں سنی جائیں گی.ابدال کے معنے ہیں کہ ان کے اندر بڑی عظیم الشان تبدیلی پیدا ہو جائے گی اور خدا تعالیٰ کے مقرب ہو جائیں گے.پس اس کے لئے بھی دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے کہ شام میں جو مشکلات ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دور کرے.وہاں مضبوط جماعت پیدا ہو اور ایسے ابدال پیدا ہوں جو رات دن اسلام اور احمدیت کے لئے دعائیں کرتے رہیں ہمیں پونڈ مہیا کرنے میں شام کا بھی بڑا دخل ہے.شام میں بھی ڈالر اور پونڈ کا زیادہ رواج ہے اور وہاں سے ہمیں کچھ مددمل جاتی ہے بہر حال اگر سعودی عرب میں جماعت پھیلے اس طرح امریکہ اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اور فلپائن میں ہماری جماعت پھیلے تو ڈالر مل سکتا ہے اس طرح اگر مشرقی اور مغربی افریقہ اور انگلینڈ میں جماعت پھیلے تو پونڈ جمع ہو جاتا ہے.یہ پونڈ اور ڈالر ہمیں اپنے لئے نہیں چاہئیں، خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کے گھر کی تعمیر کے لئے ہمیں ان کی ضرورت ہے.پس دعائیں کرتے رہیں کہ خدا تعالیٰ ان ممالک میں جماعت قائم کرے اور ان میں ایسا اخلاص پیدا کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے گھر سارے ممالک میں بنائیں یہاں تک کہ دنیا کے چپہ چپہ سے اللہ اکبر کی آواز آنے لگ جائے اور جو ملک اب تک تثلیث کے پھیلانے کی وجہ سے بد نام تھا وہ اب اپنے گوشہ گوشہ سے یہ آواز بلند کرے کہ مسیح تو کچھ نہ تھا اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا ہے.اگر ایسا ہو جائے تو یہ اسلام کی بڑی بھاری فتح ہے اور ہمارے لئے بھی یہ للہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے.ہم میں سے ہر شخص وہاں تبلیغ کے لئے جانہیں سکتا چند مبلغ گئے ہوئے ہیں باقی لوگ یہ کر سکتے ہیں کہ ان کی روپے سے مدد کریں اور دعاؤں کے ذریعے خدا تعالیٰ کا فضل چاہیں تا کہ وہ ان پر اپنے فرشتے اتارے اور ان کی باتوں میں اثر پیدا کرے.(روزنامه الفضل ربوه 6 / نومبر 1958 ، صفحہ 1، 2، 3، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 20 ص 161 تا 163)
مصالح العرب.جلد دوم 58 لبنان میں افراد جماعت احمدیہ کو قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا ساٹھ کی دہائی کے شروع میں مرکز احمد یہ ربوہ کی طرف سے لبنان میں پیغام حق پہنچانے کے لئے مولوی نصیر احمد خان صاحب مولوی فاضل کو 9 مارچ 1961ء کو روانہ کیا گیا.آپ اپنے فرائض کی بجا آوری کے بعد 10 دسمبر 1963ء کو واپس ربوہ تشریف لائے.آپ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں: لبنان میں مضطرب ملکی و مذہبی مخالفت کی وجہ سے ہمارے مبلغین کو با قاعدہ بطور مبلغ قیام و کام کی اجازت نہیں.اور مسیحی و غیر احمدی مسلمان حلقوں کی طرف سے ہماری مخالفت و سازشیں کی جاتی ہیں.چنانچہ مجھے وہاں کی جماعت سے معلوم ہوا کہ وہاں مجھ سے پہلے دو مرتبہ ہمارے سلسلہ کے دو مخلص ترین دوستوں اور استاذ منیر الحصنی صاحب (جو کہ سلسلہ کے مبلغ ہیں اور دراصل شام کے باشندے ہیں ) اور السید محمد در جنانی کے خلاف ان حلقوں کی طرف سے سخت اشتعال انگیزی کر کے ان کے قتل کی سازش کی گئی.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے انکی حفاظت فرمائی اور دشمنوں کی سازش کو ناکام و نامراد کر دیا.الاستاد منیر الحصنی صاحب کو تو اللہ تعالیٰ نے اس طرح محفوظ کر لیا کہ وہ اس رات اپنے مکان پر سونے کے لئے ہی نہ گئے اور دشمن انتظار کرتے کرتے خائب و خاسر رہے.اور السید محمد در جنانی کو اس طرح بچا لیا کہ دشمن کے عین ہا تھا پائی کے وقت ایک نیک دل بزرگ ادھر آ نکلے اور انہوں نے بیچ میں پڑ کر حملہ آوروں کو منتشر کر دیا.فالحمد لله و هو خير الحافظين
59 مصالح العرب......جلد دوم اسی طرح ایک مرتبہ میرے عرصہ قیام میں بھی ہمارے ایک مخلص دوست السید فائز الشهابی کے مکان کی تلاشی لی گئی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کتب کو دفتر میں جمع کروا دیا گیا.اور میری واپسی کے دو ماہ بعد مجھے بذریعہ خط خبر ملی کہ ہمارے دو دوستوں السید فائز الشھابی اور محمد در جنانی کے گھروں کی دوبارہ تلاشی لی گئی اور بعض بالکل جھوٹے الزاموں کی بنا پر انہیں کچھ وقت کے لئے زیر حراست بھی رکھا گیا.مگر بعد میں جلد ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحیح ثبوتوں کی عدم موجودگی پر انہیں بری کر دیا گیا.الحمد للہ علی ذلک.نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار لیکن ان مشکلات اور مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی دن بدن وہاں ترقی ہو رہی ہے.اور سمجھدار مخلص اور متقی لوگوں میں احمدیت کا پیغام گھر کر رہا ہے.اور جن لوگوں تک پیغام جدو جہد کے ساتھ پہنچایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کچھ عرصہ کے بعد احمدیت کے حلقہ بگوش ہو جاتے ہیں.ایک آسمانی تائید یہ شاملِ حال رہی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعا و استخارہ کے ذریعہ زیر تبلیغ لوگوں کو ان کی دعاؤں کا فوری جواب مل جاتا رہا اور حق ان پر ظاہر ہو جاتا رہا.میرے عرصہ قیام میں کئی دوستوں کو اس سے فائدہ پہنچا جن میں سے دو بیان کرتا ہوں.66 السید طعمہ رسلان کو اللہ تعالیٰ نے خواب میں بتایا کہ مُلكٌ بِلَا تَاجِ وَلَكَ تَاجٌ بِلَا مُلكِ جس پر خاکسار نے ان کو تعبیر بتائی کہ اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے بتایا ہے کہ دنیا میں کئی بادشاہ اور سلطنتوں کے مالک ایسے ہیں جو بظاہر تو تاج رکھتے ہیں لیکن وہ حقیقت میں تاج نہیں.اور وہ لوگ ایمان کے تاج سے محروم ہیں.اور آخرت میں ان کے لئے کوئی بادشاہت اور تاج خدا تعالیٰ کے نزدیک نہیں ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے تجھے اس امام مہدی پر ایمان لانے کی وجہ سے ایمان کا عظیم الشان تاج عطا فرمایا ہے.اور اگر چہ تیرے پاس دنیاوی تاج تو نہیں مگر حقیقت میں تو ایمانی تاج کی بدولت روحانی بادشاہت کا مالک ہے.اور خدا تعالیٰ کے نزدیک تیرے لئے بادشاہت موجود ہے.چنانچہ اس دوست کو یہ تعبیر خوب سمجھ آگئی اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس نے حق کو قبول کر کے شرف بیعت حاصل کر لیا.الحمد للہ.
60 مصالح العرب.....جلد دوم ایک زیر تبلیغ دوست الشیخ جمیل الحلاق کو بھی خاکسار نے استخارہ کرنے کو کہا جس پر کی اللہ تعالیٰ نے ان پر نہایت ہی صاف الفاظ میں ان کی حالت کے مطابق حق کو ظاہر کر دیا اور اس کی کے قبول کرنے کا طریق بھی سمجھا دیا.اس کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہ حج کر رہے ہیں اور جب وہ حجر اسود کے طواف کرنے اور اس کو بوسہ دینے کے لئے جانا چاہتے ہیں تو ان کو ایک سپاہی روک کر کہتا ہے کہ انتَ مَمْنُوعٌ أَنْ تَحْجِ إِلَّا بِإِذْنِ الْمَلِكَ “.خاکسار نے ان کو تعبیر بتائی کہ آپ امام مہدی علیہ السلام پر ایمان لانا اور ان کی بیعت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ امام زماں ہی دراصل وہ مبارک وجود ہوتا ہے جس کا لوگ طواف کرتے اور اس کو بوسہ دیتے ہیں.مگر آپ کو یہ سعادت صرف خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی نصیب ہو سکتی ہے.اور آپ کے لئے سخت ڈرنے کا مقام ہے کہ اگر آپ نے ستی کی تو بد نصیب رہنے کا مقام ہے.مگر رستہ موجود ہے.لیکن اجازت کی ضرورت ہے.اس لئے آپ کو بادشاہ ارض و سما جو کہ حقیقی بادشاہ ہے اس کے حضور دعاؤں پر بڑا زور دینا چاہئے تا کہ جرات پیدا ہو اور اس کا فضل واجازت نازل ہو.الغرض اس خواب میں اللہ تعالیٰ نے سائل کو صحیح اور مکمل جواب عطا فرما دیا اور اس پر حجت تمام کر دی.وہ دوست زیر تبلیغ تھے.دعا ہے مولا کریم انکو حق کے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ثم آمین.اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے ہمیں شریر لوگوں کے شر سے محفوظ رکھا اور جب کبھی کسی نے شرارت کرنی چاہی تو اس کا کچھ نہ بنا.چنانچہ ایک موقع پر ایک مشہور شیخ محمد المناصفی نے وہاں کی مسجد میں چند لوگوں کو میرے خلاف کرنا چاہا تو اس موقع پر خاکسار نے ان لوگوں کے سامنے احمدیت کے عقائد کی تشریح کی جو ان لوگوں کو سمجھ میں آگئی اور نیز خاکسار نے ان شیخ صاحب کے جھوٹے الزاموں کی بھی تردید کر کے دکھائی جس پر وہ لوگ خود اس شیخ کے خیالات کی تردید کرنے لگے اور اس پر ہنسنے لگے.بعض سرکردہ شخصیات پر اتمام حجت اس کے علاوہ لبنان کے چوٹی کے ایک عالم و ادیب الشیخ عبد اللہ الصلایلی کے ساتھ کئی مرتبہ تبادلۂ خیالات ہوا.اس عالم کو حکومت کی طرف سے ہزار ہا لیرات کا انعام واکرام اس کی ادبی و علمی خدمات پر مل چکا ہے.یہ شیخ صاحب بھی وفات مسیح کے قائل ہوئے اور انہوں نے کئی
61 مصالح العرب.....جلد دوم بار اس بات کا اظہار و اعتراف کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.نیز انہوں نے جماعت احمدیہ کی دینی خدمات کی بیحد تعریف کی اور کہا کہ اس جماعت نے اس زمانہ میں اسلام کی لاج رکھ لی ہے.انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ وفات مسیح کے متعلق با قاعدہ مدلل تحریر لکھ کر مجھے دیں گے.اس کے علاوہ لبنان کے چوٹی کے مسیحی فلاسفر وادیب میخائیل نعیمہ کو بھی اسلام و احمدیت کا نت پیغام پہنچایا گیا اور مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کی بشارت دی.وہ دلائل سن کر بہت متاثر ہوئے.ان کو ام الالسنہ کے دعویٰ کو بیان کیا جس کو سن کر وہ سخت متعجب و حیران ہوئے اور اس بارہ میں خاص غور وفکر کرنے کا وعدہ کیا.(ان کو بھی حکومت کی طرف سے ہزاروں لیرات کا انعام واکرام مل چکا ہے ) مفتی اعظم فلسطین محمد امین الحسینی جو کہ مدت سے بیروت میں مقیم ہیں سے بھی متعدد بار گفتگو کا موقع ملا.ایک بار جبکہ وہ اپنے سیکرٹری احمد الخطیب اور بعض دیگر ملاقاتیوں کے ہمراہ خاکسار کے ساتھ تبادلہ خیالات کر رہے تھے تو انہوں نے بھی وفات مسیح کا اقرار کیا اور از خود آیتہ كريم فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کو پیش کر کے اس سے مسیح علیہ السلام کی موت پر استدلال کیا.نیز وہ ہمیشہ جماعت احمدیہ کی دینی خدمات کو سراہتے ہیں.ان سے خاکسار کے اچھے دوستانہ تعلقات تھے جس کی بنا پر انہوں نے ہمارے احمدی فلسطینی دوستوں کو سینکڑوں لیرات کی اعانت و مدد فرمائی.اور اب بھی میری درخواست پر کرتے رہتے ہیں.امید افزا حالات اس عرصہ میں ہزاروں لوگوں تک مسلسل طور پر اسلام واحمدیت کے پیغام کو پہنچایا گیا.اور مسیحی احباب کو قرآن کریم کے نسخہ جات و دیگر اسلامی لٹریچر پہنچایا گیا.اور متعدد پادری صاحبان سے بھی بحث و تمحیص ہوتی رہی اور بالآخر وہ لوگ لاجواب ہی ہوتے رہے.اور حاضرین ان پر ہنتے رہے.یہ عرصہ جماعت احمدیہ کی جماعتی تربیت و تعلیم و تنظیم کا خاص عرصہ تھا.اس عرصہ میں خاکسار نے جماعت کو ان پہلوؤں کے لحاظ سے نیز چندوں میں حصہ لینے کے لحاظ سے خاص
29 62 مصالح العرب.....جلد دوم طور پر تعلیم و تربیت دی.اور نمازوں کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا رہا.چنانچہ مشن ہاؤس میں (جوی کرایہ کا مکان تھا ) با قاعدہ نماز جمعہ ہوتی تھی.اور بعد میں سلسلہ گفتگو و مسائل ہوتے تھے.اور ہر اتوار کو علمی و تربیتی میٹنگ ہوتی تھی جس میں متعدد زیر تبلیغ دوست بھی شامل ہوتے تھے.اس کے علاوہ ہر عید کی نماز و پارٹی بڑے ذوق وشوق سے منائی جاتی تھی.اور مشن ہاؤس اس موقع پر پُر رونق و آباد ہو جاتا تھا.یہ عرصہ تبلیغ احمدیت کے لحاظ سے بھی ایک نہایت مشغول و کامیاب عرصہ تھا.چنانچہ اس عرصہ میں ظہور مسیح موعود و مام مہدی علیہ السلام پر خاص طور پر زور دیا گیا.اور ہزاروں لوگوں تک اس کی بشارت دی گئی.اور خدا تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ جن لوگوں کو مسلسل اور باقاعدہ طور پر تبلیغ کی جاتی رہی وہ بالآخر احمد ی ہو گئے.چنانچہ اس قلیل عرصہ میں سولہ عدد بالغ افراد نے احمدیت کی نعمت سے حصہ پایا اور شرف بیعت حاصل کیا.اور اگر ان کے تمام اہل خانہ اور بچوں کو شامل سمجھا جائے تو ان کی تعداد قریباً ستر اسی بنتی ہے.الحمد للہ ان کو احمدیوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے استاد، پروفیسر، با قاعدہ شیخ وخطیب اور تاجر پیشہ صاحبان شامل ہیں.لبنان میں جماعت کافی ہے مگر وہاں با قاعدہ مشن ہاؤس اور مستقل مبلغ کی ضرورت ہے.لوگوں کا احمدیت کی طرف باوجود مخالفت کے میلان دن بدن ترقی کر رہا ہے.تمام مشکلات کے باوجود وہاں جگہ پیدا کی جاسکتی ہے اور مشکلوں کو زیر کیا جا سکتا ہے.اس لئے جماعت کی تنظیم و تربیت کے پیش نظر وہاں پر مستقل مشن کی اشد ضرورت ہے.ایک خاص خدمت کا جو موقع ملا وہ اپنے وطن عزیز پاکستان کی خدمت تھی.چنانچہ اس بارہ میں خاکسار نے پاکستان کو متعارف کرانے اور اس کی کشمیر کی مشکل کی وضاحت کرانے میں کافی کام کیا.اور لبنان کی یونیورسٹی میں اردو زبان اور بنگالی زبان کی تعلیم و تدریس کی سکیم پیش کر کے ان کی منظوری لی گئی.چنانچہ اب وہاں پر ان تینوں زبانوں کی تعلیم شروع ہو جائے گی.دونوں حکومتیں متفق ہو چکی ہیں.لبنان میں ابھی تک ہمارا کوئی مشن ہاؤس و مسجد تعمیر نہیں ہوئی.ہمارا لٹریچر بھی وہاں مستقل ہے اور اگر زیادہ توجہ دی جائے تو لبنان میں احمدیت زیادہ مضبوط ہو جائے گی اور بے حد مفید ہو.
مصالح العرب.....جلد دوم گی کیونکہ اس کا اثر تمام بلاد عر بیہ و تمام دنیا پر پڑتا ہے.63 بہر حال اب لبنان میں مذہبی تعصب و مخالفت کا وہ رنگ نہیں جو آغاز احمدیت میں تھا.اب زمین کافی صاف و تیار ہو چکی ہے.کچھ حکومتی پابندیاں و مشکلات ہیں جن کو حل کرنا چاہیئے اور اب وقت کا تقاضا ہے کہ اس زمین پر زیادہ کام کیا جائے.وہاں کی جماعت میں سے مکرم محمد در جنانی و میجی قزق حسین قزق اور ان کے برادران و فائز الشهابی وطعمه رسلان و شیخ عبد الرحمن سلیم ومحمود شنور ڈاکٹر مصطفیٰ خالدی، صالح الحمودی و شیخ عبد اللطيف الحداد ومحمود وظل اللہ وغیرھم اور ان کے خاندان عمدہ تعاون و اخلاص کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں.ہماری جماعتیں بیروت، طرابلس، برجا،صور، صیدا وغیرہ شہروں میں ہیں.سب ملا کر لبنان کی جماعت کی کل تعداد قریباً تین صدافراد ہے.تقریبات کی فوٹوز جن میں افراد جماعت شامل ہیں وہ دفتر وکالت التبشیر میں باقاعدہ بھجوائی جاتی رہی ہیں.لبنان میں پاکستان کے احمدی سفیر ایک خاص بات یہ ہے کہ لبنان میں پاکستان کے سفیر مکرم میاں نسیم احمد صاحب مرحوم تھے جو ایک نہایت ہی مخلص و متقی احمدی تھے.آپ نے اس عرصہ میں جماعت احمد یہ لبنان کے ساتھ نہایت ہی مخلصانہ تعلق رکھا اور اپنے اسوۂ حسنہ سے اسلام و احمدیت و پاکستان کی نمایاں و قابل تعریف خدمت کی.آپ ہر جمعہ کی نماز میں اور عیدین کی نماز میں باقاعدہ مشن میں تشریف لاتے تھے.اور آپ نے اسلام و احمدیت کی خدمت کے لئے نمایاں طور پر مالی مدد فرمائی.جماعت کی مسجد کے لئے ایک عمدہ قالین پیش کیا اور مسجد سوئٹزر لینڈ میں بھی دل کھول کر چندہ دیا.اللہ تعالیٰ آپکو اجر عظیم عطا فرمائے.آمین ثم آمین.اسی طرح مکرم میاں صاحب کی اہلیہ صاحبہ نے بھی مالی مددفرمائی.“
مصالح العرب.جلد دوم 64 بلا دعر بیہ میں انتشار جماعت کی راہ میں رکاوٹیں ساٹھ کی دہائی میں عرب ممالک میں سیاسی طور پر بڑی تبدیلیاں واقع ہوئیں.ہم ذکر کر آئے ہیں کہ بلاد شام میں عموماً ساٹھ کی دہائی میں سیاسی عدم استحکام اور بعض بیرونی خطرات کے پیش نظر ان ممالک کا رجحان بعض بڑی طاقتوں کی طرف ہو گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کہیں تو اشتراکی نظام کے سیاہ سائے بلا د عربیہ پر منڈلانے لگے اور کہیں بعض اسلامی جماعتوں کی طرف سے سیاسی میدان میں غیر معتدل اور غیر اسلامی رویوں کی وجہ سے حکمرانوں نے یہ پیغام لیا کہ ملکی سیاسی استحکام میدان سیاست میں برسر پیکار دینی جماعتوں کے کچلنے سے ہی ممکن ہے.اور جب اس سوچ کو عملی جامہ پہنایا گیا تو عام دینی جماعتیں بھی اسکی زد میں آگئیں جن کا سیاست سے دور کا بھی تعلق نہ تھا.اور اس کا سب سے زیادہ نقصان جماعت احمدیہ کو ہوا.جماعت احمدیہ کے مراکز کو بند کر دیا گیا، افراد جماعت کو جماعتی سرگرمیوں سے روک دیا گیا ، اور ی تبلیغ پر مکمل پابندی لگادی گئی.بلکہ کئی مقامات پر تو افراد جماعت کو سی آئی ڈی کی طرف سے بلا بلا کر ہراساں کیا گیا تا کہ یا تو وہ احمدیت کو چھوڑ دیں یا پھر اس قدر پیچھے ہٹ جائیں کہ ان کے احمدی یا غیر احمدی ہونے میں کوئی فرق نہ رہے.اس کے علاوہ اسلام کو اپنی سوچ اور اپنے طریقے کے مطابق چلانے کے لئے ایسے حکمرانوں نے بعض مولویوں کی ہمدردیاں لے کر یا ان کو زبردستی اپنا دست نگر بنا کر اپنے من گھڑت فتاویٰ کو اسلام کا رنگ دے کر پیش کیا.اس کے علاوہ ایسے مولویوں نے حکومتی چھتری کے نیچے جماعت احمدیہ کے خلاف اپنے عزائم پورے کرنے کی بھی سر توڑ کوشش کی جس سے ان کو روکنے والا کوئی نہ تھا کیونکہ حکومت تو پہلے ہی دینی جماعتوں کے بارہ میں اس قسم کی پالیسی پر عمل پیرا تھی.
65 55 مصالح العرب.....جلد دوم ان تمام حالات کے پیش نظر جماعت احمدیہ کی سرگرمیاں جو کسی زمانہ میں بلاد عر بیہ میں عروج پر پہنچ گئی تھیں یکدم محدود ہو کر رہ گئیں.تبلیغ نہ ہونے کی وجہ سے جہاں نو مبایعین کی تعداد صفر ہوگئی وہاں پرانے احمدی مسلسل زد و کوب کئے جانے اور ذہنی ٹارچر کی وجہ سے مرکز سے تعلق قائم رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور یوں کچھ عرصہ میں ان علاقوں میں کہیں کہیں احمدی تو موجود رہے لیکن احمدیت کا مضبوط اور فعال اور نمایاں وجود منظر عام سے غائب ہو گیا.ان سب حالات کی وجہ سے خلافت ثالثہ کے عہد مبارک میں عرب دنیا میں تبلیغ احمدیت کی سرگرمیاں اتنی تیزی سے اور کھلے عام جاری نہ رہ سکیں جتنی تیزی سے قبل ازیں ہو رہی تھیں.عربوں کے ملکی حالات کی وجہ سے عرب احمدیوں کے لئے مرکز احمدیت سے رابطہ اور خلیفہ وقت سے رابطہ نہ صرف مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن رہا.تا ہم اس عہد میں عربوں میں تبلیغ کے سلسلہ میں ہونے والی مساعی کا اگلے چند صفحات میں کیا جاتا ہے.00000 XXXXXXXXXXXX
67 00000 مصالح العرب.....جلد دوم حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے مبارک عہد میں عربوں میں تبلیغی مساعی 00000 XXXXXXXXXXX
حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ خلیفة المسح الثالث
مصالح العرب.....جلد دوم 69 69 ہم ذکر کر آئے ہیں کہ خلافت ثالثہ کے عہد مبارک میں عرب دنیا میں ایسے سیاسی حالات پیدا ہوئے جن کا گہرا اثر دینی جماعتوں اور ان کی سرگرمیوں پر بھی ہوا اور سب سے زیادہ نقصان جماعت احمدیہ کو ہوا جس کی تبلیغی سرگرمیوں پر قدغن لگا دی گئی اور کئی جگہ جماعت کے مراکز کو بند کر دیا گیا اور احمدیوں کو زدوکوب کر کے احمدیت سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی.ان حالات کے پیش نظر جماعت کی تبلیغی کوششیں زیادہ تیزی سے جاری نہ رہ سکیں.ملکی حالات کی وجہ سے عربوں کا خلیفہ وقت اور مرکز احمدیت سے رابطہ بہت مشکل ہو گیا.تاہم اس عرصہ میں عربوں میں تبلیغ کی جو بھی کوششیں ہوئیں ان کا مختصر بیان ذیل میں کیا جاتا ہے.تمنا بر آئی مکرم عبد الله اسعد عودہ صاحب کبابیر سے لکھتے ہیں کہ ان کے بھائی ابراہیم عودہ صاحب 1967ء میں جرمنی میں بغرض تعلیم مقیم تھے اور عبد اللہ اسعد عودہ صاحب ان کو ملنے اور سیر و سیاحت کی غرض سے جرمنی گئے.اسی سال حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کا جرمنی میں ورود مسعود ہوا.حضور کی آمد اور آپ سے ملاقات کی ایمان افروز داستان بیان کرتے ہوئے مکرم عبد اللہ اسعد عودہ صاحب لکھتے ہیں: میں اپنے بھائی ابراہیم عودہ صاحب کے ساتھ ائیر پورٹ پر حضور کے استقبال کے لئے گیا جہاں حضور انور بعض مبلغین کرام کے ساتھ تشریف لائے.استقبالیہ میں جب حضور انورا اپنی بارعب، پر وجاہت شخصیت اور سفید عمامہ کے ساتھ رونق افروز ہوئے تو جماعت کے افراد کے استقبال سے پہلے بعض جرمن عورتیں آپ کے لئے پھول لے آئیں.شاید انہوں نے آپ کو مسیح منتظر یا کسی مشرقی ملک کا بادشاہ خیال کیا ہو.جرمنی میں مرکز جماعت میں افراد جماعت حضور کی آمد کے منتظر تھے.آپ نے سب کے ساتھ مصافحہ فرمایا اور کئی احباب سے مختلف امور کی بابت
مصالح العرب.....جلد دوم 70 ہلکی پھلکی بات بھی کی.آخر میں ہماری باری آئی.ہمارے جذبات کی کیفیت عجیب تھی کیونکہ کسی بھی خلیفہ اُسیح سے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی.یہ عجیب لمحات تھے جن میں ہماری ایک دیرینہ تمنا پوری ہو رہی تھی.آپ نے کافی دیر تک ہمارے پاس توقف فرمایا اور ہم سے اسرائیل کے ساتھ بلاد عر بیہ کی اس جنگ کی بابت دریافت فرماتے رہے جو اس وقت ختم ہو چکی تھی اور اس کی وجہ سے فلسطین، مصر، اردن اور شام میں بہت زیادہ تباہی ہوئی تھی.پھر آپ نے ہم سے کہا بیر میں جماعت کے مدرسہ احمدیہ کی بابت پوچھا اور فرمایا کہ آپ کبھی بھی اس کو اسرائیلی حکومت کے حوالے نہ کرنا.پھر یورپ کے دیگر ممالک کے دورہ پر جانے سے پہلے بھی ہمیں یہی پیغام ارسال فرمایا کہ مدرسہ کو حکومت کے حوالے نہیں کرنا “.حضرت خلیفہ مسیح الثالث کی دعائے مستجاب مکرم عبد اللہ اسعد عودہ صاحب لکھتے ہیں کہ: میری تین بیٹیاں تھیں میں نے حضور کی خدمت میں اولاد نرینہ کے لئے دعا کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا: "Don't worry you will get one" یعنی گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور اولاد نرینہ سے نوازے گا.چنانچہ اس کے ایک سال بعد ہی اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹا عطا فرمایا اور پھر اپنے فضل سے اس کے بعد دو اور بیٹے عطا فرمائے.جماعت جسم ہے اور خلیفہ روح حضور جرمنی کے دورہ کے بعد بذریعہ ریل ڈنمارک میں مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لے گئے.شدید ژالہ باری کی وجہ سے ریل گاڑی کئی گھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہوئی اور حضور کو ریلوے سٹیشن پر ہی انتظار کرنا پڑا.انتظار کے دوران کئی یورپین لوگ حضور کے قریب ہونے کی کوشش کرتے لیکن بعض افراد جماعت ان کو دور کر دیتے تھے جس پر حضور نے فرمایا: جب وہ ہمارے قریب آنا چاہتے ہیں تو آپ ان کو دُور کیوں کرتے ہیں، بلکہ ہمیں تو انہیں
مصالح العرب.....جلد دوم welcome کہنا چاہئے.71 ہم بفضلہ تعالیٰ ڈنمارک میں مسجد کے افتتاح میں شامل ہوئے.ابھی ڈنمارک میں ہی تھے کہ حضور انور سے بعض عیسائی مشنریوں نے خلیفہ وقت اور جماعت کے باہمی تعلق کی ماہیت کے بارہ میں دریافت کیا تو حضور نے جوابا فرمایا: جماعت ایک جسم کی حیثیت رکھتی ہے اور خلیفہ اس کی روح ہے.سعودی عرب میں جماعت کی مسجد کے افتتاح کی خبریں حضرت خلیفہ اسیح الثالث فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے کہ کوپن ہیگن میں افتتاح کی ٹیلیویژن کی تصویر سعودی عرب میں دو دفعہ دکھائی جا چکی ہے، اس اعلان کے ساتھ کہ سکنڈے نیویا میں مسلمانوں کی یہ پہلی مسجد ہے اور وہ اچھی خاصی تین چار منٹ کی ٹیلیویژن فلم ہے.اس کو دو دفعہ دکھانے سے نتیجہ ہم یہ نکالتے ہیں کہ ان کو دلچسپی تھی تبھی تو دوسری دفعہ دکھائی گئی ورنہ کبھی ایسا پروگرام دوبارہ نہ دکھاتے جس پر کچھ اعتراض ہو.اور ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ اور بہت سے ملکوں میں بھی ٹیلیویژن کی یہ ریل دکھائی جائے گی تو اللہ کا کتنا بڑا فضل اور احسان ہے کہ اخبار کے ذریعہ اور براڈ کاسٹنگ کے ذریعہ ٹیلیویژن کے ذریعہ کروڑوں آدمیوں کے کان تک یہ آواز پہنچ گئی کہ خدائے واحد پر ایمان لاؤ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھنڈے سایہ تلے آکر جمع ہو جاؤ ورنہ ہلاکت تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے اور اس عاجز بندہ کی شکل انہوں نے دیکھی اور اس کی زبان سے نکلتے ہوئے الفاظ انہوں نے سن لئے خدا تعالیٰ کے ایک نمائندہ کی (خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ستمبر 1967ء) حیثیت سے.“ خداوند سے احمدیوں کے مقابلہ کی اجازت نہیں ملتی مکرم عبد اللہ اسعد عودہ صاحب کے بھائی ابراہیم عودہ صاحب کے تعلق میں ایک اور واقعہ بھی یہاں درج کرتے جاتے ہیں.مسیحی منادڈاکٹر سیموئل ماہ جون 1968 ء کے دوران فرانکفورٹ میں تشریف لائے تو فری
مصالح العرب.....جلد دوم 72 کرسچن چرچ نے ایک با اثر مقامی اخبار میں ڈاکٹر سیموئل کی تصویر کے ساتھ بڑے طمطراق سے اعلان شائع کیا کہ آپ فرانکفورٹ شہر میں ہر شام مسلسل پندرہ روز تک لیکچر دیں گے.نیز لکھا کہ زمانہ حاضر کے عظیم مسیحی منار ڈاکٹر سیموئل خداوند یسوع کے عظیم تصرف کے ساتھ انجیل کی منادی کرتے ہیں اور ان کی تقاریر سے مشرق وسطی، افریقہ، یورپ اور امریکہ میں زبردست بیداری کے آثار پیدا ہورہے ہیں.مبلغ احمدیت مسعود احمد صاحب جہلمی نے 17 جون کو ڈاکٹر صاحب کا لیکچر سنا جس میں انہوں نے مسیح کے خون، دنیا کی نجات اور الوہیت مسیح وغیرہ مسائل بیان کئے اور بڑے پر جوش انداز میں اپنے مشن اور اپنے دوروں کی کامیابی کا ذکر کیا.مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی نے اگلے روز اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے بذریعہ خط پادری صاحب کو دعوت دی کہ وہ حق و باطل کا فیصلہ کرنے کے لئے مرد میدان بنیں اور دوستانہ فضا میں تبادلہ خیالات کرنے کے علاوہ قبولیت دعا کا ان سے روحانی مقابلہ بھی کر لیں.مسعود احمد صاحب جہلمی نے اس دعوت مقابلہ کے سلسلہ میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے لکھا جس پر حضور نے تحریر فرمایا.اگر اُس نے دعوت مقابلہ کو قبول کیا تو شکست کھائے گا.انشاء اللہ.آپ جرات سے مقابلہ کریں.اگر ضرورت محسوس کریں تو زیورک سے چوہدری مشتاق احمد صاحب کو بھی بلالیں.اللہ تعالیٰ آپ کی تائید و نصرت فرمائے.آمین.“ جب حضور کے حسب ہدایت یہ جواب تیار ہو کر برائے دستخط حضور کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے اپنے قلم مبارک سے مزید لکھا.انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا.“ ڈاکٹر سیموئیل کی طرف سے ہفتہ بھر جواب کا انتظار کیا گیا.لیکن جواب نہ آنا تھا، نہ ہی آیا.انتظار کا وقت ختم ہونے پر خط کا جرمن ترجمہ خاصی تعداد میں شائع کر دیا گیا اور اس پر نمایاں حروف میں لکھا گیا.ڈاکٹر سیموئیل کے نام ایک خط جس کے جواب کا ابھی تک انتظار ہے“ اور پروگرام یہ بنایا گیا کہ پندرہ روزہ تقاریر کے آخری دو ایام مورخہ 29.30 جون یعنی ہفتہ اور اتوار کے روز جبکہ حاضرین کی تعداد بھی نسبتاً زیادہ ہوتی تھی یہ خط خیمہ تقریر کے باہر تق
73 مصالح العرب.....جلد دوم کیا جائے.چنانچہ مورخہ 29 جون کو جناب مسعود احمد صاحب امام مسجد فرانکفورٹ اور احمدی احباب وقت مقررہ سے نصف گھنٹہ قبل ہی خیمہ تقریر کے باہر کچھ فاصلے پر کھڑے ہو گئے اور مطبوعہ خط کی تقسیم شروع کر دی جس سے ہر طرف ایک زبردست ہلچل سی پیدا ہوگئی.خیال تھا کہ اپنی تقریر میں پادری صاحب اس دعوت کا ذکر کریں گے لیکن باوجود اس کے کہ سامعین میں سے تقریباً ہر شخص کے ہاتھ میں خط تھا پادری صاحب نے قطعاً خط کا ذکر نہ کیا.البتہ ان کی تقریر میں وہ پہلا سا جوش و خروش نہ تھا.تقریر کا اکثر حصہ اسلامی ممالک کے متعلق من گھڑت قصے سنا کر ختم کر دیا.اگلے روز پانچ بجے شام پادری صاحب کی خیمہ کے اندر تقریر تھی.احمدی احباب دوبارہ خیمہ کے قریب جا کھڑے ہوئے کہ اسی اثناء میں ڈاکٹر سیموئیل کی موٹر کار کچھ فاصلہ پر آ کر رکی.مبلغ احمدیت مسعود احمد صاحب جہلمی آگے بڑھے اور ڈاکٹر صاحب سے خط کے جواب کی بابت دریافت کیا.وہ چلتے چلتے کہنے لگئے ” میری تقریر سنیں ، جہلمی صاحب نے کہا: جناب تقریریں تو ہم نے آپ کی پہلے بھی سنی ہیں ان میں تو آپ نے ہمارے خط کا ذکر تک نہیں کیا.اتنے میں وہ خیمہ کے اندر داخل ہو گئے.مبلغ جرمنی نے سوچا کہ اب مزید بات چیت مناسب نہیں.لیکن عرب احمدی دوست ابراہیم عودہ صاحب تقریر کے بعد ڈاکٹر صاحب کے پاس چلے گئے.ڈاکٹر صاحب نے مصروفیت کا عذر پیش کر کے ٹیلیفون پر وقت مقرر کرنے کو کہا.لیکن ابراہیم عودہ کی صاحب کے اصرار پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ابھی میں نے بعض لوگوں کو دعا کے لئے بلایا ہے.دعا سے فراغت کے بعد آپ مل لیں.کوئی پون گھنٹہ تک دعا جاری رہی.اس کے بعد ملحقہ چھوٹے خیمہ میں ڈاکٹر صاحب ابراہیم عودہ صاحب کے پاس بیٹھ گئے.عودہ صاحب نے انہیں نہایت موثر رنگ میں تحریک کی کہ یہ فیصلہ کی بڑی آسان راہ ہے.آپ یہ دعوت مقابلہ قبول فرمالیں مگر ڈاکٹر صاحب نے دوٹوک جواب دیا کہ جس دن سے مجھے یہ خط ملا ہے میں اس دن سے مقابلہ کی اجازت کے لئے خداوند یسوع مسیح سے دعا کر رہا ہوں لیکن ہر روز جواب آتا ہے: ”نہیں“.اب کل ہی جب انہوں نے یہ خط تقسیم کیا تو میں نے پھر دعا کی لیکن جواب ملا : نہیں تم اپنا کام کرتے جاؤ ان کی طرف مت دھیان دو.“ اس پر عودہ صاحب نے کہا تو پھر آپ صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ آپ کو اس امر 66
74 مصالح العرب.....جلد دوم کا قطعاً یقین نہیں کہ خدا آپ کی دعائیں سنے گا.اس پر ڈاکٹر صاحب نے کرسی سے اٹھتے ہوئے گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا دیکھیں.آپ نے دس منٹ کا مطالبہ کیا تھا اور اب نصف گھنٹہ ہونے کو ہے اور مجھے اور بھی مصروفیات ہیں.اس طرح یہ بلند و بانگ دعا دی کرنے والے عظیم مسیحی مناڈ اسلام اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں اور غلاموں کے مقابلہ میں آنے کی جرات نہ کر سکے اور اپنے عمل سے صداقت اسلام پر مہر تصدیق ثبت کر دی.از تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 156 تا 159 ) سفیر جمہوریہ متحدہ عربیہ کی الوداعی دعوت 1970ء میں سوئٹزر لینڈ میں مکرم مشتاق احمد صاحب باجوہ مبلغ سلسلہ کے طور پر خدمت کی پارہے تھے.ان کے بعض عرب سفراء کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے جن میں سے ایک ہز ایکسی لینسی سید توفیق عبد الفتاح سفیر جمہوریہ متحدہ عربیہ بھی تھے جو کئی مرتبہ جماعت کی مسجد میں تشریف لا چکے تھے.جب ان کی سوئٹزر لینڈ سے تبدیلی ہوئی تو مبلغ احمدیت نے ان کے اعزاز میں ایک الوداعی دعوت دی جس میں تقریر کرتے ہوئے سفیر جمہوریہ متحدہ عرب نے کہا: سوئٹزر لینڈ میں میرے پہلے سال کے قیام کے دوران مجھے زیورچ میں مسجد کا علم نہ تھا، اس کے بعد مجھے ایک لبنانی ڈاکٹر سے مسجد کا علم ہوا اور ان کی تحریک پر ہم عید الاضحی کی تقریب میں شریک ہوئے اس کے بعد میں آتا رہا اور امام مسجد نے ہمیشہ مجھے خوش آمدید کہا.یہاں ہمیں بہت سے سولیس اور دوسرے مسلمانوں سے تعارف کا موقعہ ملا جن کے ساتھ اب ہمارے بہت اچھے تعلقات استوار ہو چکے ہیں اور بڑا اچھا رابطہ قائم ہو چکا ہے.جب بھی امام صاحب نے مجھے بلایا میں نے کبھی آنے میں تامل نہیں کیا.امام صاحب کی سرگرمی عمل کو میں شدت سے محسوس کرتا رہا ہوں اور اس مجلس میں اپنے ان جذبات کے اظہار سے مجھے از حد خوشی ہورہی ہے.امام صاحب! میں پھر آپ کے اس پر تپاک welcome کے لئے شکریہ ادا کرتا ہوں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ مجھے ہمیشہ یادر ہے ہیں اور کبھی نہیں بھولے، جب مجھے قاہرہ جانے کا موقعہ ملا تو میں نے وہاں بھی آپ کا ذکر خیر کیا.الا زہر کے امام سے بھی کئی دفعہ آپ کے متعلق بات ہوئی اور میں نے انہیں آپ کے مشن کی کارگزاری سے آگاہ کیا.وہ آپ کا
مصالح العرب......جلد دوم اور آپ کے مشن کا ذکر بڑی دلچسپی سے سنتے رہے.میں نے انہیں آپ کے مشن کی کامیابیوں کی بابت بتایا.آپ اور آپ کے سوئٹزر لینڈ میں کار ہائے نمایاں کے لئے اپنے ممنونیتی کے جذبات کا اظہار ایک حقیر خدمت ہے جو میں بجالائے بغیر نہیں رہ سکتا.(از الفضل 24 اپریل 1970 صفحہ 3) سپین مشن کے تحت عرب حکمرانوں کو تبلیغ احمدیت 75 71- 1970 میں سپین مشن کی تبلیغی سرگرمیوں کا دائرہ سپین سے باہر افریقہ اور مشرق وسطی تک وسیع ہو چکا تھا.چنانچہ اس مشن کی طرف سے بعض عرب حکمرانوں کو جماعتی لٹریچر ارسال کیا گیا جس کی کسی قدر تفصیل یوں ہے: سفیر مصر مصطفی لطفی» سفیر شام ”نشاة الجسی“ سفیر مراکو، نمائندہ لیبیا، نمائندہ الجزائر، نمائندہ موریطانیہ کو اسلامی اصول کی فلاسفی (عربی)، اسلام کا اقتصادی نظام (عربی)، نحن مسلمون (عربي)، سفينة نوح، دعوة الأحمدية وغرضها اور دیگر کتب اور پمفلٹ پیش کئے گئے.ان ممالک کے سفارتی عملہ کے باقی ممبروں کو بھی سلسلہ کا لٹریچر مطالعہ کے لئے دیا گیا اور کتاب "لماذا أعتقد بالاسلام کی وسیع تقسیم کی گئی ہے.علاوہ ازیں انور سادات (صدر مصر ) - بومحی الدین (صدر الجزائر ).حسن ثانی (والی مراکش).حبیب بورقبیہ (صدر تونس).میجر جنرل جعفر نمیری (صدر سوڈان).کرنل قذافی (صدر لیبیا).جنرل حافظ الاسد (صدر شام کو بھی "فلسفة الاصول الإسلامية“ ”نظام الاقتصاد في الإسلام“ ”سفينة نوح “.”دعوة الأحمديه وغرضها، وغیرہ عربی لٹریچر از تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 69) بھجوایا گیا.مزرعہ کامیابی کے لئے کھاد ہم ذکر کر آئے ہیں کہ خلافت ثالثہ کے عہد مبارک میں بلاد عربیہ میں جماعت کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور مخالفین کی سرتوڑ کوششوں سے کئی جگہ جماعت کے مراکز بھی بند کر دیئے گئے.ان میں سے ایک شام کا مرکز بھی تھا.مقامی علماء کی طرف سے یہاں مخالفت تو تھی لیکن جس نے اسے ہوا دی یا جلتی پر تیل کا کام کیا وہ پاکستان کے شر پسند مُلاں تھے جنہوں نے یہاں آکر جماعت کے خلاف زہر پھیلانا شروع کیا.
76 مصالح العرب.....جلد دوم ان ملاؤں میں سر فہرست مودودی صاحب تھے.جنہوں نے نہ صرف اُردو میں جماعت کے خلاف اعتراضات کے مجموعہ پر مشتمل کتاب شائع کی بلکہ اس کا عربی ترجمہ بھی طبع کروا کے بلا دعر بیہ میں نشر کر دیا.اسی طرح ایک رسالہ ابوالحسن الندوی صاحب نے بھی عربی زبان میں شائع کیا.آج تک جماعت کے خلاف جس قدر اعتراضات ہورہے ہیں ان میں سے شاید 99 فیصد کا تعلق ان برصغیر کے ملاؤں کی کتب سے ہے.شام میں مکرم منیر الحصنی صاحب نے مودودی صاحب کی کتاب کا عربی میں جواب المودودی فی المیز ان کے نام سے شائع کی جس سے مولویوں کی مخالفت میں اضافہ ہو گیا.یہ کتاب مختلف ممالک کو بھجوائی گئی.دمشق کے علماء نے حکومت کو درخواست دی کہ جماعت احمد یہ ہے اور یہ چندہ جمع کرتے ہیں اس لئے ان کی سرگرمیوں کو خلاف قانون قرار دیا جائے.چنانچہ ان کے دباؤ پر مفتی جمہوریہ نے فتویٰ دیا کہ احمدی ایک خلیفہ کی بیعت کرتے ہیں جو کہ نا جائز امر ہے کیونکہ اب کوئی خلیفہ نہیں ہو سکتا.اس فتویٰ اور دباؤ کے تحت شام کی حکومت نے جماعت احمدیہ کے خلاف فیصلہ دے کر جماعت پر پابندیاں لگا دیں.اس کے بعد مودودی صاحب نے شام کا دورہ کیا تو جماعت احمدیہ کے خلاف ایک منصوبہ تیار کیا گیا اور شام کی حکومت نے دمشق میں جماعت کے مرکز زاویہ اٹھنی کو سر بمہر کر دیا.اور علماء کے زیر اثر حکومت نے احمدیوں کو مختلف حیلوں اور بہانوں سے تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کیا.شام سے کچھ مخالفین لبنان جا کر بھی احمدیوں کے خلاف فتنہ انگیزی کرتے رہے لیکن جماعت احمد یہ شام یہ ابتلاء بڑی ہمت سے برداشت کرتی رہی.(ماخوذ از سلسلہ احمدیہ ) کیسے کیسے ہیں ثمر اس آگ نے پیدا کئے شاید کوئی ہٹ دھرم مخالف اس بات کو بھی اپنے لئے باعث فخر قرار دیدے کہ اس کی تی کوششوں سے بلاد عربیہ کے کئی ممالک میں جماعت احمدیہ کے مراکز بند ہو گئے.اور شاید کسی قاری کے ذہن میں بھی یہ خیال گزرے کہ جماعت احمد یہ اگر سچی ہے تو مخالفوں کے مقابلہ میں اسے کامیابی نصیب ہونی چاہئے تھی نہ کہ مخالف ان کے مراکز بند کرانے میں کامیاب ہو جاتے.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کسی قدر تفصیل سے اس کا جواب بھی درج کر دیا جائے.
77 مصالح العرب.....جلد دوم جواب خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عطا فرما دیا ہے.آپ نے فرمایا: سچ پوچھو تو ان کی یہ مخالفتیں ہماری مزرعہ کامیابی کے لئے کھاد کا کام دے رہی ہیں کیونکہ اگر مخالفوں سے میدان صاف ہو جاوے تو اس میدان کے مردانِ کارزار کے جواہر کس طرح ظاہر ہوں اور انعامات الہی کی غنیمت سے اُن کو کس طرح حصہ نصیب ہو اور اگر اعداء کی مخالفت کا بحر مواج پایاب ہو جاوے تو اس کے غوّاصوں کی کیا قدر ہو اور وہ بحرِ معانی کے بے بہا گوہر کو کس طرح حاصل کر سکیں.مادر ما قیل.نیز فرمایا: گر نبودے در مقابل روئے مکروہ وسیاہ کس چه دانستے جمال شاہد گلفام را گر نیفتادے بخصم کار در جنگ و نبرد کے شود جو ہر عیاں شمشیر خوں آشام را ( ملفوظات جلد سوم جدید ایڈیشن جلد سوم صفحه 467) " جس قدر مخالفت کی گئی اسی قدر زور کے ساتھ اس سلسلہ کی اشاعت ہوئی اور آفاق میں اس کا نام پہنچ گیا.“ ( ملفوظات جلد سوم جدید ایڈیشن صفحه (532) الہی جماعتوں کی مخالفت کی آگ ایسی آگ ہے جو بظاہر جلانے اور مسمار کرنے کے لئے بھڑ کائی جاتی ہے لیکن البہی جماعتوں کے لئے یہ آگ جلانے کی بجائے بے نظیر شیر میں شمر پیدا کرنے والی ثابت ہوتی ہے.یہ درست ہے کہ ان ملاؤں کی کتب نے وقتی طور پر عرب ممالک میں احمدیت کی مخالفت کا بازار خوب گرم کیا.وسائل کی کمی اور تبلیغ کی راہ میں رکاوٹوں کی وجہ سے جماعتی لٹریچر ا کثر لوگوں تک نہ پہنچ سکا کہ وہ جماعت کے نقطہ نظر اور عقائد و تعلیم کے متعلق بھی آگاہی حاصل کر سکتے اور حق و باطل میں خود ہی تمیز کر سکتے.لہذا یہ اعتراضات مخالفین کے زبان زد عام ہو گئے اور ہر امیرا غیرا یہی اعتراضات دہراتا رہا.ان اعتراضات کی اکثریت یا تو جھوٹ پر مبنی تھی یا مختلف تحریرات کو سیاق سے کاٹ کر وجہ اعتراض پیدا کی گئی تھی.چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے زمینی روکیں اٹھا دیں اور انٹرنیٹ اور ایم ٹی اے کے ذریعہ جماعتی علوم ہر خاص و عام تک پہنچنے لگے تو مخالفین
78 مصالح العرب.....جلد دوم کے جھوٹ کی قلعی کھلنے لگی.مثلاً جس نے ان مذکورہ ملاؤں کی کتب میں پڑھا تھا کہ احمدی قرآن کے منکر ہیں اور اس کے بالمقابل ان کی اپنی کتاب ہے جس کا نام ”کتاب مبین“ ہے، جب انہیں پتہ چلا کہ احمدیت تو قرآن کو ہر کتاب پر مقدم رکھتی ہے بلکہ عام مسلمانوں کے عقیدے کے برعکس ناسخ و منسوخ کی بھی قائل نہیں ہے تو ایسے شخص کے دل میں ملاؤں کے جھوٹ اور احمدیت کی صداقت پر روشن دلیل قائم ہوگئی.اسی طرح جب حج کے بارہ میں پتہ چلا کہ احمدی اسے نہ صرف ارکان اسلام میں سے سمجھتے ہیں بلکہ مناسک حج کی صحیح طور سے ادا ئیگی اور ان میں مضمر اعلیٰ درجہ کی حکمتوں کا جو عرفان جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے کوئی اور فرقہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں پیش کرتا تو یہ اعتراض بھی بالبداہت باطل ہو گیا کہ نعوذ باللہ احمدی مکہ کی بجائے قادیان میں حج کرتے ہیں.اب دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ مبارکہ یہ مخالفتیں ہماری مزرعہ کامیابی کے لئے کھاد کا کام دے رہی ہیں کس شان سے پورے ہوئے اور ہورہے ہیں.کیونکہ وہی جھوٹے اعتراضات جن کے ذریعہ یہ مخالف ملاں لوگوں کو احمدیت سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے تھے آج انہی کی وجہ سے لوگ احمدیت کے قریب ہو رہے ہیں بلکہ حلقہ بگوش احمدیت ہورہے ہیں.جب مخالفین نے دیکھا کہ ان کی جلائی ہوئی یہ آگ بجائے جلانے کے شیریں ثمر پیدا کرنے لگی ہے تو مجبور ہو کر ایک شدید مخالف نے اس بابت انٹرنیٹ پر مضمون لکھا ( فؤاد عطار کو تو مخالفت کے اعتبار سے عربوں کا منظور چنیوٹی کہنا غلط نہ ہوگا اس نے انٹرنیٹ پر جماعت کے خلاف دسیوں مضامین لکھے ہوئے ہیں.مذکورہ مضمون اسی کا ہے اور آج تک اس ایڈریس پر موجود ہے: (http://alhafeez.org/rashid/arabic/islamicmedia.doc) اس مضمون میں انہوں نے کہا کہ احمدیت نے ہماری غلط معلومات کی وجہ سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.کیونکہ وہ ہماری بعض غلط معلومات کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور باقی امور بھی محض ہمارے خلاف پروپیگنڈہ ہیں.ان غلط معلومات میں سے ایک یہ ہے کہ قادیانیوں کی قرآن کے علاوہ ایک کتاب ہے جس کا نام ”کتاب مبین ہے.یہ درست نہیں.بلکہ قادیانی قرآن پر ایمان لاتے ہیں.ہے دوسری یہ کہ قادیانی قادیان میں حج کرتے ہیں.یہ بات بھی غلط ہے.قادیانی مکہ مکرمہ
79 مصالح العرب.....جلد دوم میں ہی حج کرتے ہیں لیکن وہ قادیان کو بھی مقدس مانتے ہیں.وغیرہ وغیرہ.سبحان اللہ ! مسیح پاک کے کلمات طیبات یہ مخالفتیں ہماری مزرعہ کا میابی کے لئے کھاد کا کام دے رہی ہیں کی سچائی کو خدا نے کس شان سے ظاہر فرمایا کہ مخالفین خود اقراری ہو گئے کہ وہ جھوٹے ہیں.اور آج تک کئی افراد صرف اس بناء پر احمدیت کے قریب ہو رہے ہیں اور اس میں داخل ہورہے ہیں کہ جماعت کے خلاف پروپیگنڈہ صداقت سے عاری ہے.اس کھاؤ سے خدا کے فضل سے بے شمار ثمرات پیدا ہوئے اور ہورہے ہیں لیکن ان میں سے ایک شیر میں ثمر الحوار المباشر کے فعال اور ہر دلعزیز رکن مکرم ہانی طاہر صاحب بھی ہیں جو احمدیت کے مخالف تھے اور احمدیت کو اس قابل بھی نہ سمجھتے تھے کہ اس کے بارہ میں تحقیق کی جائے.لیکن مودودی صاحب کی کتاب پڑھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ ایسی جماعت بھی ہو سکتی ہے جس کے اتنے غلط عقائد میں پھر بھی اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتی ہے.تحقیق کی غرض سے جب مطالعہ شروع کیا تو حقیقت کھل گئی اور احمدیت میں داخل ہوئے بغیر نہ رہ سکے.قادیان میں حج کرنے کے بہتان کا پس منظر جماعت احمدیہ پر قادیان میں حج کرنے کا بہتان تو بعض عرب شر پسند ملاؤں کے بیانات سے ہی جھوٹا ثابت ہو گیا ہے لیکن اس سیاق میں یہ درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قادیان میں حج کرنے کا الزام کہاں سے آیا.چونکہ مولوی حضرات بزعم خویش سمجھ رہے تھے اگر وہ مختلف ممالک میں سیاسی پارٹیوں کی طرف سے جماعت کو غیر مسلم قرار دلوانے میں کامیاب ہو گئے تو گویا اسلام کی بہت بڑی خدمت کرنے والے شمار ہوں گے.اپنی ان مزعومہ ”جہادی سرگرمیوں میں انہوں نے سعودی حکومت سے بھی رابطے کئے اور افراد جماعت احمدیہ کو حج سے رکوانے کی کوشش کی.اس سلسلہ میں مولانا عبد الماجد دریا آبادی مدیر اخبار صدق جدید کا یہ بیان ملاحظہ ہو: حجرہ نشین مولویوں نے مرحوم (سلطان ابن سعود ) سے کہا کہ چونکہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں اس لئے انہیں حجاز مقدس سے نکال دیا جائے.مرحوم نے مولوی صاحبان سے پوچھا کہ قادیان حج کو اسلام کا رکن اور اس کو فرض سمجھتے ہیں یا نہیں؟ جواب میں انہیں یہ کہتے ہی بنی کہ یہ
مصالح العرب.....جلد دوم 80 لوگ حج کو فرض سمجھتے ہیں.اس پر مرحوم نے فرمایا کہ جو شخص حج کی فرضیت کا قائل ہے اور اسے اسلام کا ایک اہم رکن سمجھتا ہے اسے حج سے روکنے کا مجھے کوئی حق نہیں ہے.“ 00 اخبار صدق جدید لکھنو 6 اگست 1965 ء بحوالہ الفرقان ماہ اکتوبر 1976ء) سلطان ابن سعود کے سامنے مولویوں کا بادل نخواستہ سچ بولنا کہ احمدی حج کو فرض سمجھتے ہیں ان کی خواہشات کی تکمیل کی راہ میں حائل ہو گیا.لیکن شاید اب انہیں سمجھ آگئی تھی کہ جب تک ان کا جواب یہ رہے گا کہ احمدی حج کو فرض سمجھتے ہیں تب تلک احمدیوں کو حج کرنے سے روکنا ناممکن ہے.لہذا انہوں نے یہ بہتان تراشا کہ احمدیوں کا تو حج ہی کسی اور جگہ ہوتا ہے لہذا وہ اسلامی حج کے منکر ہیں اور ایسے شخص پر خانہ کعبہ کے دروازے بند ہونے چاہئیں.یوں انہوں نے احمدیت کی مخالفت میں جھوٹ کا سہارا لیا.پچھلی چند سطور میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ جب اس جھوٹ کا انکشاف ہوا اور لوگ اس کی بناء پر حلقہ بگوش احمدیت ہونے لگے تو ایسے مولویوں نے پینترہ بدلتے ہوئے اعلان کرنے شروع کر دیئے کہ یہ غلط باتیں ہیں جن کی ترویج سے ہمیں باز رہنا چاہئے کیونکہ اب ان جھوٹی باتوں کا احمدیوں کو نقصان کی بجائے فائدہ پہنچ رہا ہے.اسرائیلی فوج میں احمدیوں کی تعداد! ایک اور جھوٹ کا پس منظر !! انہی جھوٹے اعتراضات کی لسٹ میں ایک اعتراض جس کا عربوں سے بھی تعلق ہے اور بلا دعر بیہ سے بھی، یہ ہے کہ اسرائیل میں جماعت احمد یہ بڑی فعال ہے اور اسرائیلی فوج میں احمدی کئی سو کی تعداد میں موجود ہیں.اس اعتراض کا بھی جماعت کی طرف سے بار ہا مفصل جواب دیا گیا.آخری بار حکومت پاکستان نے جماعت احمدیہ کے خلاف اپنے نام نہاد وائٹ پیپر میں بھی اس اعتراض کا ذکر کر دیا چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس کا مفصل جواب عطا فرمایا جس میں آپ نے فرمایا کہ اس علاقہ میں جماعت کا مرکز اس وقت کا ہے جب اسرائیل کا کوئی وجود نہ تھا.آج تک کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ اسرائیلی فوج میں کوئی ایک بھی احمدی ہے.نیز حضور نے کہا بیر کے ایک احمدی کی کاوش کا بھی ذکر کیا جس نے دس مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں سے یہ شہادت لکھوا کر بھیجی کہ جماعت کا کوئی فرد اسرائیلی فوج میں
مصالح العرب.جلد دوم 81 نہیں ہے.احمدیت کے خلاف مولویوں کی کذب بیانیوں کے ذیل میں شاید یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ اس اعتراض کی ابتداء کے بارہ میں بھی حقائق کو یہاں نقل کر دیا جائے.کیونکہ دیگر اور اعتراضات کی طرح اس اعتراض کی بنیاد بھی جھوٹ اور غلط بیانی پر ہے.ہوا یوں کہ ایک یہودی جس کا نام نعمانی یا نو ماتی تھانے ایک جگہ لکھا کہ اسرائیلی فوج میں جہاں گردوں اور دوسری اقلیتوں کو داخل ہونے کی اجازت ہے وہاں پر فلسطین کے احمدی باشندوں کے لئے بھی یہ دروازہ کھلا ہے کیونکہ وہ بھی فلسطین کے لاکھوں مسلمانوں کے درمیان قریبا چھ صدافراد کی ایک فلسطینی اقلیت ہے.یہ خبر ہمارے مخالف مولویوں کے کانوں میں پڑی تو ان کے لئے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ثابت ہوئی.چنانچہ روزنامہ نوائے وقت لاہور کے مدیر نے ایک مولوی صاحب کے حوالہ سے شائع کیا کہ: 1972ء تک اسرائیلی فوج میں چھ سو پاکستانی قادیانی شامل ہو چکے تھے.“ (نوائے وقت 29 / دسمبر 1975 صفحہ 8 بحوالہ الفرقان مئی 1976 ء ) رائی کا پہاڑ بنانے کا محاورہ شاید اس خبر پر سب سے زیادہ ثابت آتا ہے.کہاں کسی کا کہنا کہ چھ سو کی تعداد کی فلاں اقلیت کے لئے بھی فوج میں بھرتی کے لئے دروازہ کھلا ہے.اور کہاں ان سب کو فوج میں شمار کر لینا ، پھر اسی پر ہی بس نہیں بلکہ چونکہ احمدیوں کی ایک کثیر تعداد پاکستان سے تعلق رکھتی ہے اس لئے وہ چھ سو عر بی احمدی کی بجائے پاکستانی قادیانی شمار کر لئے گئے.کیا کسی جگہ ایسا ہوسکتا ہے؟ شاید صرف پاکستان میں ایسا ممکن ہے.اب آگے دیکھیں کہ بعض اندھوں کو اندھیرے میں اور بھی دور کی سوجھی.چنانچہ ہفت روزہ چٹان نے لکھا: ”یہودی پروفیسر کی کتاب کے حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ اگر 1972ء میں چھ سو قادیانی تھے تو اب ان کی تعداد یقیناً ہزاروں تک پہنچ چکی ہوگی ، اور یہ اسرائیل کی فوج میں بھرتی ہونے والے لوگ ظاہر ہے پاکستان کی فوج سے نکل کر وہاں گئے ہوں گے.“ چٹان 19 جنوری 1976 ، صفحہ 16 بحوالہ الفرقان مئی 1976ء
82 مصالح العرب.جلد دوم آج کل جب ہر قسم کے علوم پھیل چکے ہیں اور کسی امر کی بابت تحقیق کرنا اتنا مشکل نہیں رہا، یہ بات بآسانی معلوم ہو سکتی ہے کہ کتنے احمدی اسرائیلی فوج میں ہیں.اور آج اس طرح کا کی دعویٰ اور اعتراض ایک مضحکہ خیز بات سے زیادہ کچھ وقعت نہیں رکھتا، لیکن ان بیانات سے کم از کم قارئین کرام کو جماعت احمدیہ کے مخالف مولویوں کی کذب بیانیوں میں تفنن طبع کا کسی قدر سامان ضرور ہو جائے گا.اب اس پر طرفہ تما شا ملاحظہ فرمائیں کہ جب ان بے سرو پاخبروں کی بناء پر اشتعال انگیزی کی فضاء پیدا ہوگئی ہر جگہ پر جماعت کی طرف سے چیلنج دیا گیا کہ کوئی چھ سو کیا چھ افراد بلکہ ایک فرد جماعت کے بارہ میں بھی ثابت نہیں کر سکتا کہ وہ اسرائیلی فوج میں ہے.چنانچہ ان میں سے ہی ایک مولوی کوثر نیازی صاحب جو اس وقت وفاقی وزیر بھی تھے نے حکومت کے نمائندہ کی حیثیت سے اعلان کیا جس کو مدبر اخبار ” لولاک نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا: ”انہوں نے بعض اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبر کی سختی سے تردید کی کہ اسرائیلی فوج میں کچھ پاکستانی احمدی موجود ہیں اور انہیں اسرائیلی حکومت نے فوج میں شامل ہونے کی پیشکش بھی کی ہے.مولانا کوثر نیازی نے اسلام آباد میں حکومت پاکستان کی طرف سے اعلان کیا کہ اسرائیل میں پاکستانی احمدیوں کے موجود ہونے کی خبر قطعی غلط ہے.انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر اسرائیل جایا ہی نہیں جاسکتا.اور پاکستان کی حکومت اپنے باشندوں کو ایک ایسے ملک میں جانے کی اجازت کیسے دے سکتی ہے جس کی عربوں کے ساتھ دشمنی ہے.اور جسے پاکستان نے تسلیم ہی نہیں کیا.انہوں نے کہا کہ ہر ذریعہ سے حکومت نے ان خبروں کے صحیح ہونے کے بارہ میں چھان بین اور تحقیقات کی ہیں اور یہ معلوم ہوا ہے کہ کوئی احمدی پاکستان سے اسرائیل نہیں گیا“.( لولاک 7 رمئی 1976 ء بحوالہ الفرقان مئی 1976ء) اب اس بیان کے بعد مذکورہ بالا اعتراض کو دہرانے والوں کے اعتراض کی اور ان کی دیگر باتوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے.اس کا فیصلہ ہم قارئین کرام پر چھوڑتے ہیں.اعتراضات محض کذب بیانی اور بے ورق و شمر خشک درخت ثابت ہوئے جبکہ مسیح پاک کے کلمات طیبات کی صداقت کس شان سے پوری ہوئی.آپ نے فرمایا تھا کہ: جس قدر مخالفت کی گئی اسی قدر زور کے ساتھ اس سلسلہ کی اشاعت ہوئی اور آفاق میں اس کا
مصالح العرب......جلد دوم 83 نام پہنچ گیا.آج کل احمدیت کی تبلیغ کا زمین کے کناروں تک پہنچنا ان کلمات مبارکہ اور ان کے کہنے والے کے خدا کی طرف سے ہونے پر کافی دلیل ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے کیا ہی سچی بات فرمائی ہے کہ ے صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار ایم ٹی اے اور جدید ایجادات سے استفادہ کی تیاری خلافت کی بے شمار برکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو مستقبل میں پیدا ہونے والے حالات کے لئے تیار کرنے کی خاطر خلیفہ وقت کے دل میں تحریکات ڈالتا رہتا ہے اور خلیفہ وقت اس سے جماعت کو آگاہ کرتے رہتے ہیں.حضرت خلیفة أسبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد خلافت میں علوم جدیدہ اس حد تک تو ایڈوانس نہیں ہوئے تھے کہ آج کل کی طرح لوگ اپنی جگہ بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھ اور سن بھی سکتے اور فاصلے اس طرح کم ہو جاتے کہ زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود ان روابط اور تعلقات کی بناء پر ایک گاؤں سے بھی چھوٹی لگنے لگتی.لیکن چونکہ یہ علمی ترقی اور اس کا درست استعمال در اصل خدا کے دین کے پھیلانے میں ممد و معاون ثابت ہو نا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے تو قبل از وقت ہی خلیفہ وقت کے دل میں اس طرح کی تحریکات ڈالیں تا جماعت مومنین آئندہ ترقی سے استفادہ کے لئے تیار ہو جائے.اگلی سطور میں بعض ایسی ہی تحریکات کا ذکر ہوگا.قلمی دوستی کی تحریک حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: ایک اور بات جس کا میں اس وقت اعلان کرنا چاہتا ہوں وہ قلم دوستی ہے اور یہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں سے ایک ہے جو ملک ملک کے درمیان قرب پیدا کرنے کے لئے ہیں.قلم دوستی ایک منصوبہ کے ماتحت عمل میں آنی چاہئے مثلاً انگلستان اور دوسرے ملکوں سے پتہ لیا جائے اور مجھے رپورٹ ملنی چاہئے کہ انگلستان میں اس قدر احباب تیار ہیں ( مجھے امید.ہے
84 مصالح العرب.....جلد دوم انگلستان میں رہنے والوں میں سے پانچ سو نو جوان مل جائیں گے.شروع میں ایک سو تو یقینی ملکی جائیں گے ) اتنے نائیجیریا کے تیار ہیں، اتنے غانا کے تیار ہیں، اتنے آئیوری کوسٹ کے تیار ہیں، اتنے لائبیریا کے تیار ہیں، اتنے سیرالیون کے تیار ہیں، اتنے گیمبیا کے تیار ہیں، اتنے سینیگال کے تیار ہیں اور بھی کئی ملکوں میں ہماری احمدی جماعتیں قائم ہیں ان میں سے بھی چاہئے احباب تیار ہوں کیونکہ اس تحریک میں ضرور شامل ہونا چاہئے.اسی طرح نبی کے رہنے والے، انڈونیشا کے رہنے والے، آسٹریلیا کے رہنے والے ، یورپین ممالک کے رہنے والے، ہندوستان کے رہنے والے، پاکستان کے رہنے والے مصر کے رہنے والے ،سعودی عرب کے رہنے والے کوئی یہ نہ سمجھے کہ عرب ممالک میں کوئی احمدی نہیں دنیا مخالفت کرتی ہے تو کرتی رہے وہاں احمدی ہیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا) ابوظہبی میں رہنے والے غرض مشرق وسطی کے سارے ممالک میں رہنے والے احمدی قلم دوستی کی مجالس میں شامل ہونے کے لئے اپنے نام پیش کریں.پھر ایک منصوبہ کے ماتحت ان کی آپس میں دوستیاں قائم کی جائیں گی.اس قسم کے قریبی اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی مثال ایک شاندار رنگ میں اور شاندار پیمانے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ملتی ہے.اب چونکہ امت محمد یہ دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے اس صورت میں ان میں دوستانہ اور قریبی تعلقات پیدا کرنے کی ایک راہ یہ ہے کہ ان کی آپس میں قلم دوستی ہو.اس کا اثر اس مثال سے واضح ہو جائے گا کہ فرض کریں سوئٹزرلینڈ میں ہماری ایک چھوٹی سی جماعت ہے.ہمارے سوئس دوست جو پہلے عیسائی تھے یا دہر یہ تھے وہ احمدی مسلمان بن گئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے جماعت احمدیہ کے سپر د جو کام کیا ہے وہ اس میں سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں پس سوئٹزرلینڈ میں گوا بھی ہماری ایک چھوٹی سی جماعت ہے لیکن اگر وہاں سے دس آدمی قلم دوستی کے لیے تیار ہوں اور ان میں سے دور بوہ میں خط و کتابت کر رہے ہوں ایک نائیجیریا سے خط وکتابت کر رہا ہو.ایک غانا سے خط و کتابت کر رہا ہو ایک سیرالیون سے خط و کتابت کر رہا ہو، ایک انڈونیشیا سے خط وکتابت کر رہا ہو، ایک شمالی امریکہ سے خط و کتابت کر رہا ہو، ایک انگلستان سے خط وکتابت کر رہا ہو اسی طرح اگر ملک ملک میں ایک دوسرے سے قلم کا تعلق قائم ہو جائے اور دوست آپس میں خط و کتابت کرنے لگیں تو اس باہمی اخوت سے خوشگوار تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا.اب مثلاً
85 مصالح العرب.....جلد دوم سوئٹزرلینڈ کے دس آدمی ہر پندرھویں دن یا ہر مہینے خط لکھیں گے اور ملک ملک سے ان کو جواب ملیں گے تو جب جمعہ اور اتوار کو یہ اکٹھے ہوں گے اور سر جوڑیں گے اور آپس میں باتیں کریں گے تو ایک کہے گا مجھے (ربوہ سے ) میرے قلم دوست نے مثلاً مجھے یہ اطلاع بھیجی ہے کہ مشاورت اس اس طرح اختتام پذیر ہوئی ہے.اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے اور نوع انسان کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے یہ یہ سکیمیں بنی ہیں اور یہ ہوا اور وہ ہوا.دوسرا کہے گا مجھے نائیجیریا سے میرے قلم دوست کا خط ملا ہے اس نے لکھا ہے کہ ہم نے یہاں اتنے اور میڈیکل سنٹر بنا دیے اور اتنے مزید سکول کھول لئے ہیں اور اتنے لوگ جو پہلے بُت پرست تھے اب تو حید کا کلمہ پڑھنے لگ گئے ہیں.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کا پیارا کلمہ ان کی زبانوں پر جاری ہو گیا ہے اسی طرح ان میں سے ایک یہ کہے گا کہ مجھے امریکہ سے خط آیا ہے جس میں اس کے قلم دوست نے لکھا ہے کہ اس طرح ہم نے غلبہ اسلام کے لئے گھنٹہ بھر رو رو کر دعائیں کیں یہاں تک کہ ہماری آنکھوں سے آنسو نہیں تھمتے تھے.ایک اور سوئس دوست کہے گا مجھے میرے قلم دوست نے انگلستان سے خط لکھا ہے کہ ہماری جماعت یہ یہ اچھا کام کر رہی ہے.پس اس طرح ہم تبلیغ کر رہے ہیں (انگلستان میں اکثر یوم التبلیغ منایا جاتا ہے ) اور اس اس طرح تبلیغی وفود گئے اور کامیاب ہو کر واپس آئے.غرض سوئٹزرلینڈ کے دس کے دس احباب جب اکٹھے مل کر بیٹھیں گے تو آپس میں تبادلہ خیال کریں گے ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جو نظارے احمدی دیکھ رہے ہیں ان کے متعلق مختلف احباب کے تاثرات اکٹھے ہو جائیں گے اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو علمی اور تبلیغی لحاظ سے حسین اور خوشکن اثر پیدا کرے گی.(خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1973ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ) ریڈیو سٹیشن کے قیام کی خواہش حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” دوسری خواہش جو بڑے زور سے میرے دل میں پیدا کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک طاقتور ٹرانسمٹنگ اسٹیشن (TRANSMITTING STATION) دُنیا کے کسی ملک میں جماعت احمدیہ کا اپنا ہو.اس ٹرانسمٹنگ اسٹیشن کو بہر حال مختلف مدارج میں سے گزرنا
مصالح العرب.....جلد دوم 86 پڑے گا لیکن جب وہ اپنے انتہاء کو پہنچے تو اس وقت جتنا طاقتور روس کا شارٹ ویو اسٹیشن (SHART WAVE STATION) ہے جو ساری دُنیا میں اشتراکیت اور کمیونزم کا پرچار کر رہا ہے اس سے زیادہ طاقتور اسٹیشن وہ ہو جو خدا کے نام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دُنیا میں پھیلانے والا ہو اور چوبیس گھنٹے اپنا یہ کام کر رہا ہو.اس کے متعلق میں نے سوچا کہ امریکہ میں تو ہم آج بھی ایک ایسا اسٹیشن قائم کر سکتے ہیں وہاں کوئی پابندی نہیں ہے.جس طرح آپ ریڈیو ریسیونگ سیٹ (RADIO RECEIVING SET) کا لائسنس لیتے ہیں اسی طرح آپ براڈ کاسٹ (BROAD CAST) کرنے کا لائسنس لے لیں وہ آپ کو ایک فری کونسی (FREQUENCY) دے دیں گے اور آپ وہاں سے براڈ کاسٹ کر سکتے ہیں لیکن امریکہ اتنا مہنگا ہے کہ ابتدائی سرمایہ بھی اس کے لئے زیادہ چاہئے اور اس پر روز مرہ کا خرچ بھی بہت زیادہ ہوگا اور اس وقت ساری دُنیا میں پھیلی ہوئی اس روحانی جماعت کی مالی حالت ایسی اچھی نہیں کہ ہم ایسا کر سکیں یعنی میدان تو کھلا ہے لیکن ہم وہاں نہیں پہنچ سکتے.دوسرے نمبر پر افریقہ کے ممالک ہیں نائیجیریا، غانا اور لائبیریا سے بعض دوست یہاں جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے تھے.غانا والوں سے تو میں نے اس کے متعلق بات نہیں کی لیکن باقی دونوں بھائیوں سے میں نے بات کی تو انہوں نے آپس میں یہ بات شروع کر دی کہ ہمارے ملک میں یہ لگنا چاہئے اور وہاں اجازت مل جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ گو پتہ تو کوشش کرنے کے بعد ہی لگے گا کہ کہاں اس کی اجازت ملتی ہے لیکن ان ممالک میں سے کسی نہ کسی ملک میں اس کی اجازت مل جائے گی اور چونکہ ہماری طرح یہ ملک بھی غریب ہیں اس لئے زیادہ خرچ کی ضرورت نہیں ہوگی شروع میں میرا خیال تھا کہ صرف پروگرام بنا کر اناؤنس کرنے والے ہی ہمیں دس پندرہ چاہئیں پہلے مرحلے میں چاہئے کہ یورپ اور مشرق وسطی کی زبانوں میں پروگرام نشر کیا جا سکے.اسی طرح عرب ممالک اور پھر ٹر کی ، ایران، پاکستان اور ہندوستان سب اس کے احاطہ میں آجائیں گے، انشاء اللہ.جہاں تک پیسے کا سوال ہے میرے دماغ نے اس کے متعلق اس لئے نہیں سوچا کہ مجھ ہی نہیں کہ اس کے لئے کتنے پیسے چاہئیں.لیکن جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ " کتنے پی چاہئیں“ کے متعلق دریافت کیا جائے تو اس کے متعلق میں نے انتظام کر دیا ہے.جلسہ پر بعض
87 مصالح العرب.....جلد دوم دوست بیرونی ممالک سے آئے ہوئے تھے ان میں سے ایک دوست کینیڈا سے آئے ہوئے تھے وہ وہاں ٹیلی ویژن میں کام کرتے ہیں میں نے ان کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہاں جا کر فوری طور پر اس کے متعلق ضروری معلومات حاصل کریں.پاکستان میں اس اسٹیشن کی اجازت نہیں مل سکتی کیونکہ ہمارا قانون ایسا ہے کہ یہاں کسی پرائیویٹ ادارہ کو ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت نہیں لیکن بعض ممالک ایسے ہیں جن میں اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں جیسے امریکہ اور بعض ایسے ممالک ہیں جن میں گویا قانونی پابندی تو ہے لیکن اس کی اجازت آسانی اور سہولت کے ساتھ مل جاتی ہے جیسے مغربی افریقہ کے ممالک میں سے نائیجیریا، گیمبیا، غانا یا سیرالیون ہیں امید ہے کہ ان ممالک میں سے کسی ایک ملک میں ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت مل جائے گی.اس وقت دنیا کے دلوں کا کیا حال ہے اس کا علم نہ تو صحیح طور پر مجھے ہے اور نہ آپ کو ہے لیکن میرے دل میں جو خواہش اور تڑپ پیدا کی گئی ہے اس سے میں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ اللہ کے علم غیب میں دُنیا کے دل کی یہ کیفیت ہے کہ اگر اللہ اور اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ان کے کانوں تک پہنچایا جائے تو وہ سنیں گے اور غور کریں گے ورنہ یہ خواہش میرے دل میں پیدا ہی نہ کی جاتی.دوست دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان جلدی پیدا کر دے.دل تو یہی چاہتا ہے کہ اسی سال کے اندر اندر یہ کام ہو جائے لیکن ہر چیز ایک وقت چاہتی ہے بہر حال جب بھی خدا چاہے یہ کام جلد سے جلد ہو جائے اور ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھیں کہ یہ کام ہو گیا ہے اور ہمارے کان چوبیس گھنٹے عربی میں اور انگریزی میں اور جرمن میں اور فرانسیسی میں اور اُردو وغیرہ وغیرہ میں اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سننے والے ہوں.گانا وغیرہ بدمزگی پیدا نہ کر رہا ہو اور اسی طرح کی اور فضولیات بھی بیچ میں نہ ہوں.علم اسلام کا ورثہ ہے کسی اور کا نہیں اس لئے علمی باتیں تو وہاں ہوں گی مثلاً ایگری کلچر (AGRICULTURE) زراعت کے متعلق ہم بولیں گے.اسی طرح دوسرے علوم ہیں ان کے متعلق بھی ہم بولیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے کہ وہ تمام علوم سے خادمانہ کام لے سکے سارے علوم ہی ہمارے خادم ہیں.آج کا فلسفہ بھی ہمارا خادم ہے.آج کی تی سائنس بھی ہماری خادم ہے.آج کی تاریخ کے اصول بھی ہمارے خادم ہیں.جب یہ للہ به غلطی
88 مصالح العرب.....جلد دوم کریں گے تو ہم ان کا ہاتھ پکڑ لیں گے اور خادم سے یہی سلوک کیا جاتا ہے اور اس وقت وہ غلطی کر رہے ہیں اور ہمارا ہا تھ ان کی طرف نہیں بڑھ رہا حالانکہ ہمارا فرض تھا اور ہمارا حق بھی ہے کہ ہم ان کا ہاتھ پکڑ لیں اور کہیں کہ اے ہمارے خادم یہ تو کیا کر رہا ہے (یعنی اس کی تصحیح کریں) بہر حال سب علوم ہمارے خادم ہیں اور ہم ان خادموں سے بھی خدمت لیں گے.اور اس طرح سب علوم کی باتیں آجائیں گی فلسفہ کی غلطیاں بھی ہم نکالیں گے ایگریکلچر AGRICULTURE زراعت کے متعلق بھی ہم لوگوں کو کہیں گے کہ یہ یہ کام کرو تا دنیا میں بھی خوشحالی تمہیں نصیب ہو.انشاء اللہ یہ کام تو ہم کریں گے لیکن گانے اور ڈرامے اور اس قسم کی دوسری جھوٹی باتیں وہاں نہیں ہوں گی اور اس طرح ایک ریڈیوڈ نیا میں ایسا ہو گا جہاں اس قسم کی کوئی لغو بات نہیں ہو گی اور شاید بعض لوگ اس ریڈیو اسٹیشن کو هُمُ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المومنون: 4) کہنا شروع خطبه جمعه فرموده 19 جنوری 1970) کر دیں.یہ عجیب بات ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ کی ریڈیو کے بارہ میں اس خواہش کے مطابق ایم ٹی اے کا یورپ سے آغاز ہوا اور شروع میں ہی مشرق وسطی اور عرب ممالک کے لئے پروگرام لقاء مع العرب شروع ہوا.بعد ازاں 24 گھنٹوں کی عربی نشریات پر مش علیحدہ چینل بھی کھل گیا.نَحْنُ مُسْلِمُون مشتمل حضرت خلیفتہ امسح الثالث رحمہ اللہ نے 27 مارچ 1970 کو مشاورت کے موقعہ پر اپنے خطاب میں فرمایا: ”ابھی مجھے خیال آیا کہ جب عرب ممالک میں اتنی توجہ ہے اور اتنی غلط باتیں مخالفین نے پھیلائی ہوئی ہیں، اس لئے ان ملکوں میں کم از کم ایک چھوٹا سا رسالہ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی عرب کتب کے اقتباسات پر مشتمل ہو، وہ شائع کر دینا چاہئے اور بڑی کثرت سے اسے پھیلانا چاہئے “ چنانچہ یہ چھوٹا سا رسالہ تیار کیا گیا جو بمشکل چالیس پچاس صفحات پر مشتمل.ہے.تحریک جدید.ایک الہی تحریک ، جلد ۴ ص 727)
89 مصالح العرب.....جلد دوم حضور کے ارشاد پر مکرم ملک مبارک احمد صاحب مرحوم نے عربی زبان میں یہ رسالہ تیار کیا جس کا نام ”الحمد لله نحن مسلمون بفضل الله “ تھا.اسی طرح ملک صاحب مرحوم نے اسی عرصہ میں مفتی محمود کے ایک معاندانہ پمفلٹ کا رڈ بھی تحریر کیا جو المهدى الحقانی في الرد على المتنبئ القادیانی “ کے نام سے شائع ہوا.مسئلہ شرق اوسط اور عالمی جنگ کے امکانات مسئلہ مشرق وسطی کئی دہائیوں سے عالمی امن کے لئے خطرات کا موجب بنا ہوا ہے.اس مسئلہ کی ابتداء سے قبل ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما بتا دیا تھا اور حضرت خلیفہ ثانی نے ان الہامات کی روشنی میں بار ہا اپنے خطبات اور خطابات میں اس کی سنگینی کی طرف متنبہ فرمایا، اور خلیفہ ثالث رحمہ اللہ نے بھی احمدیوں کو بھی اور تمام عالم اسلامی اور عالمی برادری کو اس مسئلہ کے حل کرنے کی طرف متوجہ فرمایا.حضور فرماتے ہیں: اس وقت ویسے تو دنیا کو بہت سے مسائل در پیش ہیں لیکن فوری طور پر عالمگیر نوعیت کے دو مسئلے بڑے واضح ہیں جن کی طرف آج کا انسان نوع انسانی کی حیثیت سے بھی اور انسانیت کا نچوڑ اور انسان کامل کا متبع ہونے کے لحاظ سے بھی اجتماعی طور پر غور کر رہا ہے.ان میں سے ایک مسئله مشرق وسطی میں پیدا شدہ فساد کے حالات کو دور کرنے کی کوشش سے متعلق ہے.بہر حال دنیا کے امن اور سلامتی کے لئے یہ ایک بہت بڑا اور نہایت ہی اہم مسئلہ ہے.ہم احمدیوں کو یہ مسئلہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کیونکہ وہ جنگ جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خبر دی گئی تھی اور جس سے یہ خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے (جیسا کہ بتایا گیا ہے ) کہ خطہ ہائے ارض سے زندگی (صرف انسانی زندگی نہیں بلکہ ہر قسم کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے کیونکہ لوگوں نے ایٹم اور ہائیڈروجن بم وغیرہ قسم کے مہلک ہتھیار ایجاد کر رکھے ہیں.اس بھیانک جنگ کی ( خدا اس سے محفوظ رکھے ) اگر ابتدا ہوئی تو اس کی ابتدا انہی علاقوں سے ہوگی جہاں آجکل فساد پیدا ہو رہا ہے اور مسلمان علاقوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے.جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی تھی اس وقت شام کا جغرافیہ کچھ اور تھا اور آج کچھ اور ہے.چنانچہ پیشگوئیوں میں یہ بتایا گیا کہ ارضِ شام سے اس جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں یعنی شام
90 مصالح العرب.....جلد دوم سے اس جنگ کی ابتدا ہو سکتی ہے.تاہم یہ ایک انذاری پیشگوئی ہے جو دعاؤں، صدقات، اصلاح نفس اور توبہ واستغفار سے مل سکتی ہے.اگر انسان اسلام نہ بھی لائے لیکن اپنے دل میں ایک حد تک خشیت اللہ پیدا کرے تب بھی اگر وہ اپنی فطرت کے تقاضوں کے مطابق عقل سے کام لے تو ان خطرات سے بچ سکتا ہے.اگر انسان نے اسلام کی روشنی حاصل نہ بھی کی ہو تب بھی فِطْرَةَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم : 30) سے انسانی فطرت کی کوئی نہ کوئی جھلک اور دھندلی سی روشنی کام دے سکتی ہے اگر چہ وہ اتنی منور نہیں ہوتی ، اس میں اتنی چمک نہیں ہوتی جتنی اسلام کے نور سے فطرت انسانی منور ہو کر دنیا میں روشنی پیدا کرتی ہے لیکن بہر حال انسانی کی فطرت کے اندر ایک دھندلی سی روشنی ضرور پائی جاتی ہے اس کے مطابق ہی اگر دنیا کام کرے اور خدا کی طرف رجوع کرے تب بھی لوگ خدا کے غضب سے بچ سکتے ہیں اور ایٹمی جنگوں کی تباہی سے محفوظ رہ سکتے ہیں.اس وقت انسان اپنے ہی ہاتھوں تباہی کے سامان پیدا کر رہا ہے اور ایک بین الاقوامی فساد کے خطرہ کا موجب بن رہا ہے.خطبہ جمعہ 21 دسمبر 1973ء) قرآن کریم کی لغوی بلاغت کا اعجاز 66 حضور رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ایمان کا لفظ کبھی عربی زبان میں اقرار باللسان کے معنوں میں بھی آتا ہے بلکہ یوں کی کہنا چاہئے کہ اسلامی محاورہ میں، کیونکہ عربی زبان پر قرآن کریم کی زبان کا بڑا اثر ہوا ہے گو وہ پہلے بھی بڑی اچھی اور بہترین زبان تھی لیکن قرآن کریم کی وحی کی عربی نے عربی زبان پر بڑا اثر کیا ہے.یہاں تک کہ ایک دفعہ جب ہم مصر میں ٹھہرے ہوئے تھے.گاڑی میں سفر کرتے ہوئے ایک نوجوان ہمسفر ہر بات میں قرآن کریم کی آیات کا کوئی نہ کوئی ٹکڑا استعمال کرتا تھا.چنانچہ میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ یہ نوجوان قرآن کریم سے بڑی محبت رکھتا ہے اس لئے اسے قرآن کریم از بر ہے.خیر ہم باتیں کرتے رہے.کوئی گھنٹے دو گھنٹے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ عیسائی ہے.میں نے اُسے کہا کہ تم عیسائی ہو مگر قرآنِ کریم کی آیات کے فقرے کے فقرے استعمال کرتے ہو.وہ کہنے لگا.میں عیسائی تو ہوں لیکن قرآنِ کریم کی عربی سے ہم بچ نہیں سکتے.یہ ہمارے ذہنوں اور زبان پر بڑا اثر کرتی ہے.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 19 نومبر 1971ء)
91 00000 حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ رسم کے عہدِ مبارک میں عربوں میں تبلیغ احمدیت 00000 مصالح العرب.....جلد دوم XXXXXXXXXXX
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ خلیفة امسیح الرابع MAKHZAN-E- TASAWEER© 2007
93 مصالح العرب.....جلد دوم حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کو خلافت سے قبل ہی عربوں کی طرف خاص توجہ تھی.مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1981ء میں جب ثابت صاحب کی آپ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے پوچھا کہ عربوں میں تبلیغ کے لئے کیا کر رہے ہیں اور کون سے وسائل استعمال کر رہے ہیں؟ پھر جب 1982ء میں اللہ تعالیٰ نے حضور کو مسند خلافت پر فائز فرمایا تو مصطفی ثابت صاحب نے ملاقات میں حضور انور کی خدمت میں چند لیسٹس پیش کیں جو عربی زبان میں مختلف موضوعات پر جماعتی عقائد اور ان کی شرح پر مبنی ریکارڈنگ پر مشتمل تھیں.حضور انور بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ ایک عظیم الشان تحفہ ہے.پھر آپ نے ان کو تبلیغ کی غرض سے مختلف ممالک میں پھیلانے کا ارشاد فرمایا.ہجرت کے بعد خطبات کے ترجمہ کی کیسٹس کی تیاری ، عربوں میں تبلیغ کے لئے عرب ممالک کے دورے، مغربی ممالک میں بسنے والے عربوں سے رابطے اور ایک منظم پروگرام کے مطابق عربوں میں تبلیغ کا ذکر مکرم مصطفی ثابت صاحب کے نشر ہونے والے من انٹرویو میں آچکا ہے.(ملاحظہ ہو کتاب : صلحاء العرب وأبدال الشام وعباد الله العرب جلد اوّل ( حضور کے عہد مبارک میں عربوں میں تبلیغ کے ایمان افروز واقعات کے ذکر سے قبل ہم حضور کی عربوں کے معاملات میں دلچسپی اور ان کے لئے دعاؤں کی تحریکات اور ان کی راہنمائی جیسے امور کا ذکر کریں گے جن کا تذکرہ حضور انور نے اپنے مختلف خطبات میں فرمایا.00000
مصالح العرب.جلد دوم 94 بعض عرب ممالک کے مستقبل کے بارہ میں رویا حضور کا عربوں کے معاملات میں دلچسپی اور ان کے خاص خیال کا آپ کے اس رویا سے 66 بھی پتہ چلتا ہے.آپ فرماتے ہیں: جن دنوں میں ایران کا انقلاب آرہا تھا ، 1977ء کی بات ہے میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ کا نظارہ کر رہا ہوں ایک وسیع گول دائرہ میں نوجوان کھڑے ہیں اور وہ باری باری عربی میں بہت ترنم کے ساتھ پڑھتے ہے اور وہ فقرہ جو اس وقت لگتا ہے جیسے قرآن کریم کی آیت : ” کوئی نہیں جانتا سوائے اس کے.“ اور یہ جو مضمون ہے یہ اس طرح مجھ پر کھلتا ہے کہ نظارے دکھائے جارہے ہیں ایک پہلو سے سامنے یہ نو جوان گا رہے ہیں اور پھر میری نظر پڑتی ہے اس کی طرف ، شام مجھے یاد ہے، عراق یاد ہے، اور پھر ایران کی طرف ، پھر افغانستان، پاکستان مختلف ملک باری باری سامنے آتے ہیں.جو انقلاب آرہے ہیں ان کا آخری مقصد سوائے خدا کے کسی کو پتہ نہیں.ہم ان کو اتفاقی تاریخی واقعات کے طور پر دیکھ رہے ہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ اتفاقا رونما ہونے والے واقعات ہیں.مگر رؤیا میں جب وہ مل کر گاتے ہیں تو اس سے یہ تاثر زیادہ قوی ہوتا چلا جاتا ہے کہ اتفاقاً الگ الگ ہونے والے واقعات نہیں بلکہ واقعات کی اک زنجیر ہے جو تقدیر بنا رہی ہے.اور ہم دیکھ رہے ہیں مگر ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا جس کا ہاتھ یہ تقدیر بنا رہا ہے.معلوم ہوتا ہے کوئی بڑے بڑے واقعات ان واقعات کے پس پردہ رونما ہونے والے ہیں جو ان کے پیچھے پیچھے آئیں گے.ہم جو سیاسی اندازے کر رہے ہیں یہ کچھ اور کی
مصالح العرب.....جلد دوم 66 ہیں ، جو خدا کے اصل مقاصد ہیں وہ کچھ اور ہیں.“ 95 (الفضل 8 / مارچ 1983 ء صفحہ 2) مشرق وسطی میں ہونے والے واقعات کی روشنی میں سیاسی بصیرت رکھنے والے احباب اس رویا کی بہتر تعبیر کر سکتے ہیں لیکن ہم یہاں اس رویا میں مذکور ایک بات کا ذکر ضرور کریں گے، اور وہ یہ ہے کہ 1977ء میں کون کہہ سکتا تھا کہ کچھ سالوں میں ہی عربوں میں احمدیت تیزی سے پھیلنے لگے گی اور عربوں کے وفود جلسوں میں شامل ہوں گے اور سب سے عجیب بات یہ کہ آج بھی عرب احمدی احباب قصیدہ پڑھتے ہیں تو ایک لائن میں کھڑے ہونے کی بجائے دائرے کی شکل میں کھڑے ہوتے ہیں.پھر عموما جلسہ کے اختتام پر مختلف ملکوں کی زبانوں میں نظمیں اور قصائد پڑھے جاتے ہیں.شاید یہ بھی اس رؤیا کی تعبیر کی ایک جھلک ہے.00000 XXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد دوم 96 حضورانور کا جماعت کے نام پہلا تحریری پیغام حضور نے خلیفہ بننے کے بعد اپنے پہلے تحریری پیغام میں عربوں اور اہل فلسطین کے لئے خصوصی دعا کی تحریک فرمائی.ذیل میں یہ پیغام نذر قارئین کیا جاتا ہے.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُود پیارے احباب جماعت ! هُوَ النَّ اصر السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ ہمارے سخت زخمی دلوں کے زخموں میں ایک ایسا زخم بھی ہے جو روز بروز زیادہ بھیانک ، زیادہ گہرا اور زیادہ تکلیف دہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور ہرلمحہ ہمارے دلوں سے خوننا بہ ٹپک رہا ہے.میری مراد اسرائیل کے ان انتہائی بھیانک اور بہیمانہ مظالم سے ہے جو وہ بڑی بیدردی اور سفا کی کے ساتھ مسلمانان عالم پر توڑ رہا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث اپنی زندگی کے آخری ایام میں اس کا شدید دکھ محسوس فرما رہے تھے اور اس ذکر پر ان کی آنکھیں مجسم درد بن جاتی تھیں.یہ درست ہے کہ بظاہر ہم ایک کمزور اور چھوٹی سی جماعت ہیں جو دنیا کی نظر میں التفات کے لائق بھی نہیں لیکن میں جانتا ہوں اور آپ بھی جانتے ہیں کہ ہم اپنے ربّ کے ادنی غلام ہیں اور استحقاق کے بغیر ہمیشہ اس کی رحمت اور فضلوں کے ہم مور د ر ہے ہیں اور وہ ہماری گریہ وزاری کو قبول فرماتا ہے.پس میں تمام احمدی احباب مردوزن ، بوڑھوں اور
مصالح العرب.جلد دوم 97 بچوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ بڑے درد و کرب سے اللہ کے حضور ایک شور مچادیں کہ تا وہ ی ہمارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہر فرد بشر پر رحمت اور کرم کی نظر فرمائے اور اپنے آنسوؤں سے سجدہ گاہوں کو تر کر دیں اور اپنے رب کی رحمت کے قدم چوم کر عرض کریں.اے آقا رحمن رحیم ! ہمارے سینے اس غم سے پھٹ رہے ہیں.امت محمدیہ سے درگزر اور عفو کا سلوک فرما اور اپنے محبوب محمد کے نام کی برکت سے ان کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر دے اور اور ان کمزوروں کو دشمنان اسلام کے خلاف طاقت اور غلبہ عطا فرما.مسلمانوں کے دشمنوں سے ان دردناک مظالم کا انتقام خود اپنے ہاتھ میں لے لے یا پھر یہ عظیم تر معجزہ دکھا کہ دشمنوں کے دل یکسر بدل دے اور وہ حضرت محمد مصطفے کی امت کا خون بہانے کی بجائے خود اپنے خون سے ان مظالم کا کفارہ ادا کرنے کی سعادت پائیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بیقرار دلوں کی دعاؤں کو پایہ قبولیت میں جگہ دے گا اور ہمارے سخت زخمی دلوں کے اند مال اور سکینت کا سامان پیدا فرمائے گا.اے خدا ! ایسا ہی کر! دیکھ ہم تیرے حضور ذبح ہونے والی قربانیوں کی طرح تڑپ رہے ہیں.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کا خر کنند دعوی حب پیمبرم والسلام خاکسار مرزا طاہراحمد خلیفہ المسیح (روز نامہ الفضل ربوہ.اتوار 20 /شعبان المعظم 1402 ھ ، 13 / احسان 1 136 ء ، 13 جون 1982 ء )
مصالح العرب.....جلد دوم 98 تیل کی دولت والے اسلام کے بارہ میں تحذیر حضور نے فرمایا: دو تیل کی دولت نے سب دنیا کی توجہ مشرق وسطی کی طرف کھینچی ہے اور اس سے استفادہ کرنے کے لئے بعض ایسی قومیں توجہ کر رہی ہیں جو دراصل مادیت میں دلچسپی رکھتی ہیں کیونکہ ان کے سابقہ مذاہب نے بھی انہیں خدا کا کوئی واضح تصور عطا نہیں کیا.چنانچہ چند سال قبل جاپان کی مسلم ایسوسی ایشن کے بعض عہدیداروں سے میری ملاقات ہوئی تو دوران گفتگو یہ بات کھل کر میرے سامنے آئی کہ ان کو اسلام سے زیادہ ان علاقوں میں دلچسپی ہے جہاں مسلمان قابض ہیں اور تیل دریافت ہو چکا ہے چنانچہ ان لوگوں نے محض نام تبدیل کئے اور اسلام کو گہرائی سے سمجھے بغیر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا.جس خطرہ کی میں نے نشاندہی کی تھی کہ اس میں فوائد سے زیادہ خطرہ نظر آتا ہے.وہ خطرہ کی یہ ہے کہ چونکہ وہ اسلام کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکے اس لئے مسلمان کہلانے کے باوجود مذہب اسلام کو نقصان پہنچانے کا موجب بن سکتے ہیں.چنانچہ اس کے دو ثبوت مجھے ان جا پانی مسلمانوں سے گفتگو کے دوران یہ ملے کہ انہوں نے مجھے بتایا کہ اسلام میں جو شراب حرام ہے وہ جاپان کے حالات کی رو سے حرام نہیں ہے اس لئے ہماری مسلم ایسوسی ایشن نے با قاعدہ فتویٰ شائع کر دیا ہے کہ جاپان میں مسلمانوں کے لئے شراب پینا جائز ہے کیونکہ جن حالات میں منع ہے جاپانی قوم پر وہ اطلاق نہیں پاتے.اسی طرح سور کھانا بھی جاپان کے مسلمانوں کے لئے جائز ہے کیونکہ یہ بہت صاف ستھرا جانور ہے اسے اچھی طرح حفاظت سے پال کر ذبح کیا جا تا ہے.تو جاپانی حالات میں شراب بھی حلال ہوگئی اور سور کا گوشت بھی حلال ہو گیا اسی طرح.
99 99 مصالح العرب.....جلد دوم دیگر اسلامی احکامات میں بھی ان لوگوں کا دخل دینا بعید از قیاس نہیں ہے بلکہ جہاں تک عبادات کی کا تعلق ہے عملاً وہ یہی سمجھتے ہیں کہ کبھی شوقیہ کوئی نماز پڑھ لی جائے تو یہی بہت کافی ہے اور جہاں تک روزوں کا تعلق ہے بعض ایسے مسلمانوں سے جب میں نے پتہ کیا تو انہوں نے کہا ہم ایک آدھ روزہ رکھ لیتے ہیں اس سے زیادہ روزہ اس زمانہ میں نہیں رکھا جا سکتا.تو گویا ایسا اسلام قبول کیا جا رہا ہے جو ان کے نزدیک نہ صرف مختلف قوموں کے لئے مختلف شکلیں اختیار کر جاتا ہے بلکہ مختلف زمانوں سے الگ الگ سلوک کرتا ہے.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 9 ستمبر 1983 ء ) 00000 XXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد دوم 100 ہو.عالمی طاقتوں کو عربوں کے بارہ میں انتباہ سورة الهمزة کی تفسیر کرتے ہوئے ایک خطبہ میں حضور نے فرمایا: "همزة كا معنی ٹکڑے ٹکڑے کر دینا تو ڑ کر ریزہ ریزہ کر دینا کسی کو اور اس کے بعد خود مالدار رتے چلے جانا اور جس کو گرایا جارہا ہے جس کو خاک پر پھینکا جارہا ہے اس کو ذرہ حقیر اور بے معنی سمجھ کر یہ خیال کر لینا کہ ساری دوستیں تو میرے ہاتھ میں اب آچکی ہیں اب یہ میرا مقابلہ کسی طرح کر سکتے ہیں ذرات جن کو میں نے پارہ پارہ کیا ہوا ہے.بالکل یہی سوچ مغربی دنیا کی بھی ہے اور مشرقی دنیا کی بھی ہے.عظیم الشان اشترا کی طاقتیں بھی یہ بجھتی ہیں کہ ساری قوم کے اموال تو ہمارے چند ہاتھوں میں آچکے ہیں اور ہمارے کنٹرول میں آگئے ہیں جو اس وقت کسی Regime کے نام پر حاکم ہیں ان لوگوں پر ان کے پاس تو کچھ نہیں رہا.یہ تو ذرات میں تبدیل ہو چکے ہیں لوگ اس لئے جب اموال ہمارے پاس ہیں تو یہ ہمارے مقابل پر کس طرح اٹھی سکتے ہیں اس لئے ہمیشہ کے لئے ہماری Regime ، ہماری طاقتیں ، ہمارے گروہ جو اس وقت حکومت کر رہے ہیں جاری رہیں گے ہمیشہ کے لئے اور دن بدن انفرادی طاقت کم ہوتی چلی جائے گی اجتماعی طاقت کے مقابل پر اور مغربی دنیا کا بھی بالکل یہی نقشہ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ساری دولتیں تو ہم نچوڑتے چلے جارہے ہیں.جتنی زیادہ ڈیویلپمنٹ ہو رہی ہے ہم ان پسماندہ قوموں سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے بھاگ رہے ہیں اور اموال سمٹ کر ہمارے ہاتھوں میں آتے چلے جارہے ہیں تو یہ ذرات بے معنی اور حقیر ذرے بے بس ذرے یہ ہمارا مقابلہ کس طرح کر سکیں گے اس لئے ہمیں ہمیشہ کی زندگی مل گئی ہے.تو معنوی لحاظ سے اس کا یہ معنی ہوگا کہ بعض دفعہ حقیر ذروں کے اندر بھی ایک آگ پیدا
00000 101 مصالح العرب.....جلد دوم ہونی شروع ہو جاتی ہے، ایک جلن ایک تکلیف جو بڑھنے لگتی ہے اور اس درجہ تک پھر وہ پہنچ جاتی ہے کہ اندرونی دباؤ اس کو پھٹنے پر مجبور کر دیتا ہے اور ایسا وقت آتا ہے کہ انہی حقیر ذروں سے وہ آگ پھوٹ پڑتی ہے جو ان مالکوں کو ہلاک کر دیتی ہے یعنی ان غریب اور پس ماندہ قوموں کو تم یہ نہ سمجھو کہ خطرہ سے خالی ہیں، انکے اندراندرونی دباؤ بڑھے گا.جتنا زیادہ تم ان کو توڑتے چلے جاؤ گے اتنا زیادہ اندرونی نفرتیں آگ کی شکل اختیار کرنے لگ جائیں گی ، چنانچہ اس آگ کے اکٹھا ہونے کے واضح شواہد مشرقی دنیا میں بھی مل رہے ہیں اور مغربی دنیا میں بھی مل رہے ہیں.اب مشرق وسطی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہی ہو رہا ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ کمزور ہیں نہتے ہیں بیچارے بے بس ہیں اندرونی تکلیف اور بے بسی کی آگ نے ان کے اندر ایک ایسی قوت پیدا کر دی ہے، ایسے ہو گئے ہیں، ایسا مقام بھی آرہا ہے کہ وہ کہتے ہیں ٹھیک ہے ہم ہلاک ہو جائیں گے لیکن تمہیں بھی ساتھ ہلاک کر دیں گے.چنانچہ لبنان میں جنبلات نے جو اعلان کیا ہے یہی کیا ہے.اس نے کہا کہ تمہاری جو پالیسیز ہیں تمہاری سیاستیں انہوں نے لبنان کو پارہ پارہ کیا ہوا ہے اور انصاف نہیں ہے اس میں اس لئے ہم تمہیں یہ اب نوٹس دیتے ہیں کہ تمہاری بات نہیں چلے گی.اگر لبنان کو ہلاک ہونا پڑے سارے کو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں اب وہ درجہ پہنچ چکا ہے کہ جہاں عَمَدٍ مُمُدَّدَة بن چکے ہیں وہ یعنی اندرونی پریشرز کے ذریعے جب قومیں Desprit ہو جائیں اندرونی دباؤ کے نتیجہ میں جب وہ کر گزرنے پر آمادہ ہو جائیں تو اس وقت کا نقشه عَمَدٍ مُمُدَّدَة کھینچتا ہے اور یہ جمع کی ہوئی آگ اور دیر کی حسرتیں، حسد اور تکلیفیں جب اکٹھی ہو جاتی ہیں تو اس وقت یہ صورت پیدا ہوتی ہے.“ خطبہ جمعہ فرموده 3 فروری 1984 ء) بعد کے واقعات حضور کی اس تفسیر و تحلیل کی صداقت اور آپ کی عظیم سیاسی بصیرت کی شہادت دے رہے ہیں.افسوس کہ عالمی طاقتوں نے اس ”صدائے فقیرانہ حق آشنا“ کو نہ پہنچانا اور عالمی امن کو بچانے کے لئے کوئی کردارا دا نہ کیا.
مصالح العرب.....جلد دوم 102 مقامات مقدسہ کی حفاظت اور جماعت احمدیہ ہمیشہ سے ہی جماعت احمدیہ کو مقدس مقامات کی حفاظت کی فکر رہی ہے اور اس سلسلہ میں جماعت کا ایک ایک فرد ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہے.ایک ایسے ہی موقعہ پر جب کہ مسجد اقصیٰ کو بم سے اڑانے کی یہودی کوشش ہو رہی تھی حضور نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: میں جماعت کو پھر دو دعاؤں کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں.ایک بارش کے لئے دعا اور ایک عرب دنیا کے لئے دعا.عرب دنیا میں ایک اور بڑا خطرناک واقعہ رونما ہوا ہے مسجد اقصیٰ کو بم سے اڑانے کی بڑی ذلیل اور نہایت ہی کمینی کوشش کی گئی ہے یہود کی طرف سے اگر چہ نا کام ہو گئے وہ لوگ جو مقرر تھے اس کام پر لیکن یہ پہلے بھی کوششیں ہو چکی ہیں اور نہایت ہی خبیث نہ ارادے ہیں یہود کے.ان کا مقصد یہ ہے کہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کے معزز مقامات کو تباہ کر دیا جائے اور کچھ دیر کے بعد لوگ بھول جائیں گے اور پھر وہاں ہم ان کا معبد دوبارہ بنوانے کی بجائے اپنا معبد بنا ئیں اور پھر مسجدوں کو نابود کرنے کے نتیجہ میں اگر چہ بظاہر مسلمان نابود نہیں ہوتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شعار کا قوموں کی زندگی سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے.جو قو میں اپنے شعار کی ذلت قبول کر لیں وہ ہلاک ہو جایا کرتی ہیں.آخر ایک کپڑے میں کیا بات تھی جس سے جھنڈا بنایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت فرمائی صحابہ کی کہ جھنڈے کی حفاظت کرنی ہے اور بظاہر ایک بے وقوف آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ جھنڈے کو چھوڑو جان بچانی چاہئے لیکن بالکل بر عکس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تعلیم دی ہے اور ایک جنگ کے موقع پر جو تین سپہ سالار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگر مقرر فرمائے
103 مصالح العرب.....جلد دوم تھے ایک زخمی ہوتا تھا وہ ایک ہاتھ سے جھنڈا دوسرے میں منتقل کر لیتا تھا.وہ کاٹا جا تا تھا تو بعض دفعہ ٹنڈے بازؤوں سے انہوں نے جھنڈوں کو چھاتی کے ساتھ لپیٹا جب وہ بھی کاٹے گئے تب دوسرا آگے بڑھا اور جھنڈا نہیں گرنے دیا اور یکے بعد دیگرے تینوں جرنیل جو چوٹی کے تھے جنگی صلاحیتوں کے لحاظ سے وہ شہید ہو گئے اور جھنڈے کو نہیں گرنے دیا.تو اس بات کو معمولی نہ سمجھیں یہ شعائر اللہ کی بہت بڑی عظمت ہوتی ہے اس لئے ساری دنیا میں مسلمانوں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے.اپنے اختلافات کو بھلانا چاہئے اور اکٹھے ہو کر اس کا دفاع کرنا چاہئے.اگر یہود کو یہ معلوم ہو جائے کہ ساری دنیا کے مسلمان اپنے شعائر کی عظمت اور احترام اپنے دل میں اتنا رکھتے ہیں کہ بوڑھے اور بچے کٹ مریں گے لیکن شعائر کو تباہ نہیں ہونے دیں گے تو پھر مسلمانوں کو وہ بھی تباہ نہیں کر سکتے.ایسی عظیم زندگی پیدا ہو جائے گی کہ عالم اسلام میں کہ کوئی دنیا کی طاقت پھر اس زندگی کو مٹا نہیں سکتی.ہم بھی حاضر ہیں، جماعت احمدیہ کو شعائر اسلام کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہونا چاہئے اگر کوئی قوم بلائے شعائر کی خاطر قربانی کے لئے بلائے تو ہم حاضر ہیں.یہ ہے وہ جہاد جو حقیقی جہاد ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور جس کی اسلام نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ حکم دیتا ہے اس لئے اگر آپ کو نہیں آنے دیتے اپنے ساتھ ان خدمتوں میں، اگر آپ سے فی الحال نفرتیں ہیں تو یہاں بیٹھے ایک جہاد شروع کر سکتے ہیں دعا کا جہاد ہے.آخر جنگ بدر بھی تو اس خیمہ میں جیتی گئی تھی جہاں دعائیں ہو رہی تھیں.اس میدان میں نہیں جیتی گئی تھی جہاں تھوڑی سی لڑائی ہوئی تھی.اصل وہ جنگ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ میں جیتی گئی ہے پس وہ جنگ تو آپ یہاں شروع کر دیں پھر اگر خدا توفیق دے گا اور وقت ہمیں بلائے گا تو دنیا دیکھے گی کہ جہاد کے میدان میں احمدی کسی دوسری قوم سے پیچھے نہیں بلکہ ہم ہر میدان میں صف اوّل میں ہوں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.“ خطبه جمعه فرموده 3 فروری 1984ء) 00000
مصالح العرب.....جلد دوم 104 حُبُّ الْعَرَبِ مِنَ الْإِيْمَانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم.کا پر تو ہے.آپ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہونے والی ہر چیز سے محبت کی.عربوں سے محبت، ان کے دیار وامصار سے محبت، ان کی گلی کوچوں سے محبت، سرزمین عرب کے سنگریزوں اور ریت کے ذروں تک سے ایسی محبت کی کہ یہاں تک فرما دیا کہ کاش ان کی مٹی کے ذرات کو ایسی عزت وتو قیر سے سر آنکھوں پر بٹھاؤں کہ انہیں اپنی آنکھ کا سرمہ بنالوں.صرف اس لئے کہ ان گلیوں، ان رستوں اور ان فرات پر میرے آقا و مولا کے قدم مبارک پڑے ہوں گے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ میں ”حُبُّ الْعَرَبِ مِنَ الْإِيْمَان“ کا مضمون احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات و کشوف اور تحریرات کی روشنی میں بالتفصیل بیان فرمایا ہے.ذیل میں حضور کے خطبہ سے متعلقہ حصہ پیش کیا جاتا ہے." آج کل عالم اسلام پر ایک بہت بڑا ابتلا آیا ہوا ہے اور خاص طور پر عرب ممالک بہت ہی دکھ کا شکار ہیں.ہر طرف سے ان پر مظالم توڑے جا رہے ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ عربوں کو دنیا سے نیست و نابود کر دیا جائے.اسرائیل کیا اور مغربی طاقتیں کیا اور مشرقی طاقتیں کیا یہ سارے عربوں کو مظالم کا نشانہ بنا رہی ہیں اور ان سے کھیل کھیل رہے ہیں.ہتھیار اس غرض سے دیئے جا رہے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کا خون بہائیں اور جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے اس کے مقابل پر کوئی دنیا کی طاقت بھی سنجیدگی سے اُن کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہی نہیں.معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے فیصلے ہیں کہ ایسی حالت میں عربوں کو رکھا جائے کہ ان کا تیل
مصالح العرب.....جلد دوم 105 اپنے بچے کھچے ہتھیاروں کے بدلے لوٹ لیا جائے ، ان کی دوستیں سمیٹ لی جائیں اور ان کو ایک دوسرے کے قتل پر آمادہ کیا جائے.تو انتہائی تکلیف دہ اور دکھ کا حال ہے جو ناقابل برداشت ہونا چاہئے ایک مسلمان کے لئے.جماعت احمدیہ کو میں آج خاص طور پر تاکید کرتا ہوں کہ بے حد درد اور کرب کے ساتھ ، با قاعدگی سے عربوں کے لئے دعائیں کریں یعنی ایک دفعہ کی یادو دفعہ کی دعا کا سوال نہیں بلکہ اس کو التزام کے ساتھ پکڑ لیں.ہر تہجد میں، ہر نماز میں، جہاں تک توفیق ملے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس قوم پر فضل فرمائے اور رحم فرمائے اور مصیبتوں اور دکھوں سے نجات بخشے اور ہدایت دے اور اگر ان کے کسی فعل سے خدا ناراض ہے تو ان سے مغفرت کرے، عفو کا سلوک فرمائے اور وہ نور جو پہلے ان سے پھوٹا تھا وہ دوبارہ ان میں بڑی شدت کے ساتھ اور قوت کے ساتھ داخل ہو.نور مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا میں پھیلانے کا موجب بنیں اور صف اول کی قربانیاں جس طرح پہلے انہوں نے دی تھیں دین اسلام کے لئے آئندہ بھی ان کو دین اسلام کی صفِ اوّل میں ہی اللہ تعالیٰ رکھے، پیچھے رہ جانے والوں میں شامل نہ کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عربوں میں سے ہونا ایک اتنا بڑا احسان ہے ساری دنیا پر عربوں کا ، اگر چہ بالا را دہ تو اتنا نہیں لیکن عرب قوم کا احسان ہے کہ اس میں سے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوئے اور پھر اتنی حیرت انگیز قربانی کی ہے اسلام کے لئے اس قوم نے کہ کوئی نظیر جس کی دنیا میں نظر نہیں آتی.تو پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عربوں میں سے اگر چہ بالا رادہ عرب کا احسان نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ضرور کوئی نیکی اور غیر معمولی خوبی دیکھی تھی جو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو عربوں میں مبعوث فرمایا اور بعد میں ان کے عمل نے ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب بہترین انتخاب تھا.پس یہ براہ راست ہمارے محسن بنے ، بالا راده محسن بنے جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی تائید کی اور بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے لیکن پیچھے نہیں ہٹے اور تمام دنیا کو دیکھتے دیکھتے چند سالوں میں نور اسلام سے منور کر دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: إِنِّي دَعَوْتُ لِلْعَرَبِ فَقُلْتُ اللَّهُمَّ مَنْ لَقِيَكَ مِنْهُمْ مُؤْمِنًا مُو قِناً بِكَ مصدِقاً بِلقَائِكَ فَاغْفِرُ لَهُ أَيَّامَ حَيَاتِهِ وَهِيَ دَعْوَةُ إِبْرَاهِيمَ
مصالح العرب.....جلد دوم وَاسْمَعِيلَ وَ إِنَّ لِوَاءَ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَا مَهَ بِيَدِى وَ إِنَّ اقْرَبَ الْخَلْقِ مِنْ لِوَ إِنِى يَوْمَئِذٍ الْعَرَبُ (کنز العمال جلد 6 صفحه 204) 106 کہ میں نے عربوں کے لئے دعا کی اور عرض کیا اے میرے اللہ ! جوان (عربوں ) میں سے تیرے حضور حاضر ہو اس حال میں کہ وہ مومن ہے تیری لقا کو مانتا ہے تو تو تمام عمر اس سے بخشش کا سلوک فرما.اور یہی دعا حضرت ابراہیم نے کی ،اسماعیل نے کی اور حمد کا جھنڈا قیامت کے دن میرے ہاتھ میں ہو گا اور تمام مخلوقات میں سے میرے جھنڈے کے قریب ترین اس روز عرب ہوں گے.پھر فرمایا: الْعَرَب نُورُ اللهِ فِى الْأَرْضِ وَفَنَاؤُهُم ظُلُمَة، فَإِذَا فَنِيَتِ الْعَرَبُ أَظْلَمَتِ الْأَرْضُ وَذَهَبَ النُّورُ.(کنز العمال جلد 6 صفحه 204) عرب اللہ تعالیٰ کا نور ہیں اس زمین میں اور ان کی ہلاکت تاریکی کا باعث ہوگی.جب عرب ہلاک ہوں گے تو زمین تاریک ہو جائے گی اور نور جاتا رہے گا تو معنوی لحاظ سے بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ عربوں کو ہلاکتوں سے بچائے اور ظاہری اور جسمانی لحاظ سے بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ عربوں کو ہلاکت سے بچائے.پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی: أحِبُّوا الْعَرَبَ لِثَلَاثٍ لِاَنِّى عَرَبِيٌّ وَالْقُرَانُ عَرَبِيٌّ وَكَلَامُ أَهْلِ الْجَنَّةِ 66 28 عَرَبِي (کنز العمال جلد 6 صفحه 204) عربوں سے تین وجوہ سے محبت کر و اول یہ کہ میں عربی ہوں دوئم یہ کہ قرآن کریم عربی میں نازل ہوا سوئم یہ کہ اہل جنت کی زبان بھی عربی ہوگی.پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: احِبُوا الْعَرَبَ وَبَقَاءَ هُمُ فَإِنَّ بَقَاءَ هُمُ نُورٌ فِي الْإِسْلَامِ وَإِنَّ فَنَاءَهُم ظُلُمَةٌ فِي الْإِسْلَامِ“.(کنز العمال جلد 6صفحه 204) کہ عربوں سے بہت محبت کرو اور ان کی بقا سے محبت کرو یعنی کوشش کرو کہ وہ ہر حال میں
مصالح العرب.....جلد دوم 107 باقی رہیں اور زندہ رہیں اور دنیا میں ہمیشہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہوئے جاری ساری رہیں.آپ فرماتے ہیں إِنَّ بَقَاءَ هُمُ نُورٌ فِي الْإِسلَامِ اگر یہ قوم باقی رہے گی تو اسلام کا نور باقی رہے گا وَإِنَّ فَنَاءَهُمْ ظُلُمَةٌ فِی الْاِسلام اور ان کے فنا ہونے سے اسلام میں تاریکی آجائے گی.پھر فرمایا: حُبُّ الْعَرَبِ إِيْمَانٌ وَبُغْضُهُمْ نِفَاق“.(کنز العمال جلد 12 صفحہ 44) عربوں سے محبت کرنا ایمان کا حصہ ہے، ایمان کی علامت ہے اور نفاق ہے یہ بات کہ عربوں سے بغض کیا جائے.جس کے دل میں منافقت کی رگ ہو صرف وہی عربوں سے دشمنی یا بغض رکھ سکتا ہے.پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہنچے گی."مَنْ غَشَّ الْعَرَبَ لَمْ يَدُ حُلُ فِي شَفَاعَتِي وَلَمْ تَنَلُهُ مَوَدَّ تِی“.( ترمذی ابواب المناقب باب مناقب في فضل العرب صفحہ (63) جس نے عربوں کو دھوکا دیا وہ میری شفاعت میں داخل نہیں ہوگا اور اس کو میری محبت نہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنے آقا کی پیروی میں عربوں سے غیر معمولی محبت کی اور محبت کی تعلیم دی اور ان کے لئے بے انتہا دعائیں کیں.چنانچہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض تحریرات آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ آپ کے دل میں بھی وہی جذبہ جوش مارے، اسی طرح دل گرمائے جائیں عربوں کی محبت میں اور اسی طرح عاجزی اور انکسار اور بے حد خلوص اور جذبہ کے ساتھ آپ اپنے عرب بھائیوں کو دعاؤں میں یاد پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ عربوں میں بعض لوگ بہت ہی نیک دل اور پاک فطرت اور صلحاء ایسے ہیں جنہوں نے مجھے قبول کیا ہے مخالف حالات کے باوجود اور صدق وصفا میں وہ بہت بڑھ گئے ہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا: صَرَفَ إِلَيَّ نَفَرًا مِّنَ الْعَرَبِ الْعُربَاءِ فَبَايَعُو نِي بِالصِّدْقِ وَالصَّفَاءِ
مصالح العرب.....جلد دوم وَرَأَيْتُ فِيهِمْ نُورَ الْاِخْلَاصِ وَسِمَتِ الصِّدْقِ وَحَقِيقَةٌ جَامِعَةً لا نُوَاعِ السَّعَادَةِ وَكَانُوا مُتَّصِفِينَ بِحُسُنِ الْمَعْرِفَةِ بَلْ بَعْضُهُمُ كَانُوا فَائِضِينَ فِى الْعِلْمِ وَالأدَب وَفِى الْقَوْمِ مِنَ الْمَشْهُورِينَ....وَإِنِّي معَكُمُ يَا نُجَبَاءَ الْعَرَبِ بِالْقَلْبِ وَالرُّوحِ، وَأَنَّ رَبِّي قَدُ بَشِّرِ نِي فِي العَرَبِ وَ الْهَمَنِى اَن اُ مَةٍ نَهُمْ وَ أُرِيهِمْ طَرِ يُقَهُمْ وَأَصْلِحَ لَهُمْ شُونَهُمْ وَسَتَجِدُونَنِى فِى هَذَا الْأَمْرِ إِنْ شَاءَ اللَّهِ مِنَ الْفَائِزِين- أَيُّهَا الا عِزَّةُ! إِنَّ الرَّبَّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَدْ تَجَلَّى عَلَيَّ لِتَأْتِيدِ الْإِسْلَامِ وَتَحْدِيدِهِ بِأَحَصِ التَّحَلِيَاتِ وَمَنَحَ عَلَى وَابِلَ الْبَرَكَاتِ وَا نُعَمَ عَلَى بِاَنْوَاعِ الَّا نُعَامَاتِ، وَبَشِّرَنِي فِي وَقْتٍ عَبُوسِ لِلْإِسْلَامِ وَعَيْشٍ بُوسِ لِأُمَّة خَيْرِ الْأَنَامِ بِالتَّفَضُّلَاتِ وَالْفُتُوُ حَاتِ وَالتَّابِيُدَاتِ فَصَبَوتُ إِلَى إِشْرَاكِكُمُ يامَعْشَرَ الْعَرَبِ فِي هَذَا النِّعَمِ وَكُنتُ لِهَذَا الْيَوْمِ مِنَ الْمُتَشوِفِينَ فَهَلْ تَرْغَبُونَ أَن تَلْحَقُوا بِى لِلَّهِ رَبِّ 108 الْعَالَمِينِ؟“ (حمامة البشرى روحانی خزائن جلد 7 صفحه 181-183) فرماتے ہیں خالص عربوں میں سے کچھ لوگ میری طرف مائل ہوئے اور انہوں نے سچائی اور صدق وصفا سے میری بیعت کی.میں نے ان میں اخلاص کا نور اور صدق کی علامت دیکھی اور ایسی حقیقت دیکھی جو مختلف قسم کی سعادتوں کی جامع ہے اور وہ عمدہ معرفت سے متصف ہیں بلکہ بعض علم و ادب میں فیض یافتہ ہیں اور قوم کے مشہور لوگ ہیں.اے نجباء عرب ! میں قلب اور روح کے ساتھ تمہارے ساتھ ہوں.اور میرے رب نے مجھے عربوں کے بارہ میں بشارت دی ہے اور مجھے الہام کیا ہے کہ میں ان کی روحانی خوراک کا سامان کروں اور انہیں ان کا صحیح راستہ بتاؤں اور ان کے حالات ٹھیک کروں اور انشاء اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں تم مجھے کامیاب ہوتا پاؤ گے.اے میرے عزیزو! اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھ پر تائید اسلام اور اس کی تجدید کے لئے تجلی فرمائی اور یہ خاص قسم کی تجلی تھی اور مجھے برکات کی بارش عطا کی اور مختلف قسم کے انعامات سے مجھے نوازا اور سخت پریشانی کے وقت میں مجھے اسلام کے لئے بشارت دی گئی جبکہ خیر الا نام کی امت سخت تنگ حالات میں زندگی بسر کر رہی تھی.یہ بشارات مختلف قسم کے فضلوں اور فتوحات کی
مصالح العرب.....جلد دوم 109 اور تائیدات پر مشتمل تھیں.پس میں نے چاہا کہ اے معشر العرب تم کو بھی ان نعمتوں میں شریک کروں اور میں اس دن کا منتظر ہوں.پس کیا تم پسند کرو گے کہ مجھ سے اللہ رب العالمین کی خاطر مل جاؤ ؟ پھر آپ نے یہ خوشخبری دی: "وَإِنِّي أَرَى أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ يَدْخُلُونَ أَفْوَاجاً فِي حِزْبِ اللهِ الْقَادِرِ الْمُخْتَارِ وَهَذَا مِنْ رَّبِّ السَّمَاءِ وَعَجِيبٌ فِي أَعْيُنِ اَهْلِ الْاَرْضِينَ ، 66 نور الحق حصہ دوم روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 197) اور میں دیکھتا ہوں کہ اہل مکہ خدائے قادر کے گروہ میں فوج در فوج داخل ہو جائیں گے اور یہ آسمان کے خدا کی طرف سے ہے اور زمینی لوگوں کی آنکھوں میں عجیب ہے.پس دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ اس مبشر پیشگوئی کو پورا فرمائے جلد اور جلد ہم اپنی آنکھوں سے وہ بات دیکھیں جو دنیا کی نظر میں عجیب ہے لیکن خدا کی نظر میں مقدر ہے اور لازماً ایسا ہو کر رہے گا.پھر فرماتے ہیں: إِنِّي رَأَيْتُ فِى مُبَشِّرَةٍ أُرِيتُهَا جَمَاعَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ الْمُخْلِصِينَ وَالْمُلُوكِ الْعَادِلِينَ الصَّالِحِينَ بَعْضُهُمْ مِنْ هَذَا الْمُلْكِ وَ بَعْضُهُمْ مِنَ الْعَرَبِ وَ بَعْضُهُمُ مِنَ فَارِس وَبَعْضُهُمُ مِنْ بِلَادِ الشَّامِ وَبَعْضُهُمُ مِنْ أَرْضِ الرُّومِ وَبَعْضُهُمْ مِنْ بِلادٍ لَا أَعْرِفُهَا ثُمَّ قِيْلَ لِى مِنْ حَضْرَهِ الْغَيْبِ إِنَّ هَؤُلَاءِ يُصَدِّقُونَكَ وَيُؤْمِنُونَ بِكَ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكَ وَيَدْعُونَ لَكَ وَأُعْطِي لَكَ بَرَكَاتٍ حَتَّى يَتَبَرَّكَ الْمُلُوكُ بِثِيَابِكَ وَأُدْخِلُهُمْ فِي الْمُخْلِصِينَ - هَذَا رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ وَالْهِمُتُ مِنَ اللَّهِ الْعَلَّام“.الجة النور روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 339-340) فرمایا، میں نے ایک مبشر خواب میں مومنوں اور عادل اور نیکو کار بادشاہوں کی ایک جماعت دیکھی جن میں سے بعض اسی ملک (ہند) کے تھے اور بعض عرب کے ، بعض فارس کے اور بعض شام کے بعض روم کے اور بعض دوسرے بلاد کے تھے جن کو میں نہیں جانتا.اس کے
110 مصالح العرب......جلد دوم بعد مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود بھیجیں گے اور تیرے لئے دعائیں کریں گے اور میں تجھے برکت دوں گا یہاں کی تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور میں ان کو مخلصوں میں داخل کروں گا.سیہ وہ خواب ہے جو میں نے دیکھی اور وہ الہام ہے جو خدائے علام کی طرف سے مجھ پر ہوا.وہ لوگ جو دعائیں کریں گے ان میں سے بعض کے متعلق آپ کو خبر دی گئی کہ وہ کون ہیں؟ چنانچہ آپ کو یہ الہام ہوا: يَدْعُونَ لَكَ ابْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللَّهِ مِنَ الْعَرَبِ.“ ( تذکر و صفحه : 100 ) یعنی تیرے لئے شام کے ابدال دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے ہیں.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آئینہ کمالات اسلام میں عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: السَّلَامُ عَلَيْكُمُ أَيُّهَا الْانْقِيَاءُ الْاَصْفِيَاءُ مِنَ الْعَرَبِ الْعُرْبَاءِ السَّلَامُ عَلَيْكُم يَا أَهْلَ اَرْضِ النُّبُوَّةِ وَحِيْرَانِ بَيْتِ اللهِ الْعُظمى أَنْتُمْ خَيْرُ أُمَمِ اِسْلَامِ وَخَيْرُ حِزْبِ اللهِ الأعلى - مَا كَانَ لِقَوْمٍ أَنْ يَبْلُغَ شَأْنَكُمْ قَدْ زِدُتُمُ شَرَفاً وَّمَحُدًا وَمَتَزِلًا - وَكَافِيُكُمُ مِنْ فَخْرٍ أَنَّ اللَّهَ افْتَتَحَ وَحُيَهِ مِنْ آدَمَ وَخَتَمَ عَلى نَبِيِّ كَانَ مِنْكُمْ وَمِنْ أَرْضِكُمْ وَطَناً وَمَاوى وَمَوْلِدًا - وَمَا أَدْرَاكُمُ مَنْ ذلِكَ النَّبِيُّ مُحَمَّدٌ الْمُصْطَفَى سَيِّدُ الاصْفِيَاءِ وَفَخُرُ الأَنْبِيَاءِ وَخَاتَمُ الرُّسُلِ وَاِمَامُ الوَرى-------- اللُّهُمْ فَصَلَّ وَسَلَّمَ وَبَارِك عَلَيْهِ بِعَدَدِ كُلِّ مَا فِي الْأَرْضِ مِنَ الْقَطَرَاتِ والزَّرَّاتِ وَالْاَحْيَاءِ وَالْاَمْوَاتِ وَبِعَدَدِ كُلِّ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَبِعَدَدِ كُلِّ مَاظَهَرَ وَاخْتَفَى - وَبَلِّغُهُ مِنَّا سَلَامًا يَمُلُّا اَرَجَاءَ السَّمَاءِ - طُوبَى لِقَوْمٍ يَحْمِلُ نِيرَ مُحَمَّدٍ عَلَى رَقَبَتِهِ - وَطُوبَى لِقَلْبٍ أفضى إِلَيْهِ وَخَالَطَه وَفِى حُبِّهِ فَنى - يَا سُكَانَ اَرْضِ اَوطَأْتُهُ قَدَمُ
مصالح العرب.....جلد دوم الْمُصْطَفى - رَحِمَكُمُ اللَّهُ وَرَضِيَ عَنْكُمْ وَأَرْضَى - إِنَّ ظَنِّي فِيكُمْ جَلِيلٌ - وَفِى رُوحِي لِلقَائِكُم غَلِيلٌ يَا عِبَادَ اللَّهِ - وَإِنِّي أَحِنُّ إلى عِيَانِ بِلَادِكُم وَبَرَكَاتِ سَوَادِكُمْ لِاَزُورَ مَوْطِيَّ أَقْدَامِ خَيْرِ الْوَرى وَاجْعَلَ كُحُلَ عَيْنِى تِلْكَ الثَّرى - وَلِأزُورَ صَلَاحَهَا وَصُلَحَاءَ هَا وَمَعَالَمَهَا وَعُلَمَاءَ هَا وَتُقِرٌ عَيُنِى بِرُويَةِ أَوْلِيَائِهَا وَمَشَاهِدِهَا الكُبرى - فَاسْأَلُ اللهَ تَعالى أَنْ يَرْزُقَنِي رُدُّ يَةَ ثَرَاكُمْ وَيَسَّرَنِي بِمَراكُمُ بِعِنَايَتِهِ الْعُظمى - يَا إِخْوَانُ إِنِّي أُحِبُّكُمْ وَأُحِبُّ بِلَادَكُمُ وَأحِبُّ رَمَلَ طُرُقِكُمْ وَاَحْجَارَ سِكَكِكُمْ وَأُوثِرُكُمْ عَلَى كُلِّ مَا فِي الدُّنْيَا - يَا أَكْبَادَ الْعَرَبِ قَدْ حَصَّكُمُ اللهُ بِبَرَكَاتٍ أَثِيرَةٍ، وَمَزَايَا كَثِيرَةٍ وَمَرَاحِمِهِ الْكُبْرِى فِيُكُمُ بَيْتُ اللَّهِ الَّتِى بُوُرِكَ بِهَا أُمُّ الْقُرى - وَفِيكُمُ رَوْضَةُ النَّبِيِّ الْمُبَارَكِ الَّذِى أَشَاعَ التَّوْحِيدَ فِي أَقْطَارِ الْعَالَمِ وَأَظْهَرَ جَلالَ اللهِ وَجَلَّى - وَكَانَ مِنكُمُ قَوْمٌ نَصَرُوا اللهَ وَرَسُولَهُ بِكُلّ الْقَلْبِ وَبِكُلّ الرُّوح وبِكُلِّ النُّهى، وَبَذَلُوا أَمْوَالَهُمْ وَأَنْفُسَهُمْ لإِشَاعَةِ دِينِ اللهِ وَكِتَابِهِ الْأَزْكَى فَأَنتُمُ الْمَحُصُوصُونَ بِتِلْكَ الْفَضَائِلِ وَ مَنْ لَّمْ يُكْرِمُكُمْ فَقَدْ جَارَ وَاعْتَدَى “ 111 آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه 419 تا 422) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے خالص عربوں کے اصفیا و اقیا! تم پر سلام ہو.اے ارض نبوت کے رہنے والو اور عظیم بیت اللہ کے پڑوسیو! تم پر سلام ہو.تم اسلام کی امتوں میں سے بہترین ہو اور اللہ عزوجل کی جماعت کے بہترین لوگ ہو.کوئی قوم تمہاری شان تک نہیں پہنچ سکتی.تم شرف، بزرگی اور مرتبہ میں بڑھے ہوئے ہو اور تمہارے لئے یہ فخر ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم سے وحی شروع کی اور اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کی جو تم میں سے تھا اور تمہاری زمین اس کا وطن تھا اور اس کا ماً وی اور مولد تھا.اور تمہارے لئے یہ فخر کافی ہے جو تمہیں اس نبی محمد مصطفیٰ سید الا صفیاء اور فخر الانبیاء اور خاتم المرسلین اور امام الورای کی وجہ سے ملا...اے میرے اللہ ! زمین کے قطرات اور ذرات اور زندوں اور مردوں اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور ہر ظاہر و باطن
112 مصالح العرب.....جلد دوم کے شمار کے مطابق رحمت اور سلامتی اور برکت نازل فرما حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ہماری طرف سے ایسی سلامتی بھیج جو آسمان کی اطراف کو بھر دے.خوشخبری ہے اس قوم کے لئے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا طوق اپنی گردن میں اٹھاتی ہے اور خوشخبری ہے اس دل کے لئے جو اس کے حضور تک پہنچ گیا اور اس سے جاملا اور اس کی محبت میں فنا ہو گیا.اے اس زمین کے رہنے والو! جس پر محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پڑے اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے تم سے راضی نی ہو اور تمہیں خوش رکھے.تمہارے بارہ میں میری رائے بہت بلند ہے اور میری روح میں تم سے ملاقات کے لئے پیاس ہے.اے اللہ کے بندو! میں تمہارے ملک اور تم لوگوں کی برکات دیکھنے کا بہت شوق رکھتا ہوں تاکہ میں خیر الوری صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے پڑنے کی جگہ کی زیارت کروں اور اس مٹی کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناؤں اور اس کی بھلائی اور اس کے اچھے لوگوں کو دیکھوں اور اس کے نشانات اور علماء سے ملوں اور میری آنکھیں اس ملک کے اولیاء اور بڑے بڑے غزوات کے مقامات کو دیکھ کر ٹھنڈی ہوں.میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے تمہاری زمین کا دیکھنا نصیب کرے.اور مجھے اپنی بڑی مہربانی کی بنا پر تمہارے دیکھنے سے خوشی پہنچائے.اے میرے بھائیو! میں تم سے محبت کرتا ہوں ، تمہارے ملک سے محبت کرتا ہوں ، تمہارے راستوں کی ریت اور تمہاری گلیوں کے پتھروں سے محبت کرتا ہوں اور تمہیں دنیا کی ہر چیز پر ترجیح دیتا ہوں.اے عرب کے جگر گوشو! اللہ تعالیٰ نے تم کو بہت بڑی بڑی برکات اور بہت سے فضلوں سے سرفراز فرمایا ہے اور بڑی رحمتوں کا مرجع بنایا ہے.تم میں اللہ کا وہ گھر ہے جس کی وجہ سے اُم القریٰ کو برکت دی گئی ہے اور تم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ ہے جس نے دنیا بھر میں توحید کی اشاعت کی، اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر کیا اور تم سے وہ قوم نکلی جس نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پورے دل اور پوری روح اور پوری عقل کے ساتھ محبت کی اور اپنے مال اور اپنی جانیں اللہ کے دین اور اس کی پاکیزہ ترین کتاب کی اشاعت کے لئے خرچ کر دیں.پس تم ان فضائل کے ساتھ مخصوص ہو اور جس نے تمہاری عزت نہیں کی وہ ظالم اور حد سے بڑھنے والا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام " حمامة البشری کے سرورق پر اپنا یہ شعر درج فرماتے ہیں:
113 مصالح العرب.....جلد دوم حَمَا مَتْنَا تَطِيْرُ بِرِيشِ شَوْقٍ وَفِي مِنْقَارِها تُحَفُ السَّلَام إِلَى وَطَنِ النَّبِيِّ حَبِيبٍ رَبِّي وَسَيّدِ رُسُلِهِ خَيْرِ الانام (حمامة البشری ٹائٹل پیج روحانی خزائن جلد 7) ہماری کبوتری شوق کے پروں پر اڑتی ہے اور اس کی منقار میں سلام کے تحفے ہیں وہ اڑ رہی ہے میرے رب کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے رسولوں کے سردار خیر الا نام کے وطن کی طرف.پس یہ ہے وہ عرب قوم جو سب دنیا کی محسن ہے اور عربوں ہی کا احسان ہے کہ اسلام ہم تک پہنچا اور نبی امی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم عرب تھے، اگر کوئی اور وجہ نہ ہوتی تو یہی ایک وجہ کافی تھی کہ ہم اس قوم سے محبت کریں اور اس کے لئے دعائیں کریں اور جس روح اور جذبہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو سلام بھیجے ہیں اور دعائیں دی ہیں اسی روح اور اسی جذبہ اور اسی تڑپ کے ساتھ ہم ان کو سلام بھیجیں.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حمامہ بڑے شوق اور محبت سے سلام کے تحفے اپنی منقار میں لئے ہوئے اس طرف روانہ ہوئی تھی، آج ہر احمدی دل سے دعا ئیں اڑتی ہوئیں اور عرب کی سرزمین پر رحمتوں کی بارشیں بن کر برسنے لگیں.اللہ تعالیٰ اس قوم کو ہر ابتلا سے محفوظ رکھے، اسے نور ہدایت سے منور کرے، ان کے دکھ دور فرمائے ، ان سے بخشش اور عفو کا سلوک فرمائے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ان پر رحمتوں کی بارش برسا دے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.خطبه جمعه فرموده 6/جنوری 1984ء) 00000
مصالح العرب.....جلد دوم 114 عربوں کے لئے دعا ئیں، اور تبلیغی مساعی وراہنمائی عربوں کے لئے در ددل سے دعائیں کریں حُبُّ الْعَرَبِ مِنَ الْاِیمان کے عنوان سے اس خطبہ کے تین ہفتے بعد حضور انور نے ایک دفعہ پھر نہایت پر درد انداز میں عربوں کے لئے احباب جماعت کو دعا کرنے کی تحریک فرمائی.حضور فرماتے ہیں: عربوں کے متعلق بھی خاص طور پر دعا جاری رکھیں.بہت ہی پیار اور محبت ہونی چاہئے عرب قوم کے لئے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قوم سے تشریف لائے.اگر سچا عشق ہو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تو آپ کی قوم سے محبت تو ایک طبعی بات ہے فطرتی عمل ہے.کہتے ہیں لیلیٰ کے گنتے سے بھی مجنوں کو پیار تھا تو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم قوموں سے ہمیں پیار نہ ہو، یہ ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے عربوں کے لئے بالخصوص بہت درد سے دعائیں کرتے رہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے حالات بدل دے اور ان کی طرف سے ہم خوشیوں کی خبریں پائیں.( آمین ) (خطبہ جمعہ فرمودہ 27 /جنوری 1984ء) یورپ میں بسنے والے عربوں میں تبلیغ اور ابتدائی ثمرات حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے پاکستان سے لندن ہجرت کے بعد یورپ میں بسنے والی مختلف اقوام میں تبلیغ احمدیت کی ایک رو چلا دی.یورپ میں بسنے والے عربوں میں تبلیغ کی غرض سے حضور کے حسب ہدایت مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب نے دورے کئے.ان دوروں کا اچھا اثر ہوا اور عربوں سے سعید روحیں حلقہ بگوش احمدیت ہونے لگے.حضور رحمہ اللہ نے ایک
مصالح العرب.....جلد دوم مرتبہ اس بارہ میں فرمایا: 115 اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں تبلیغ کی ایک نئی رو چل پڑی ہے اور ایسے ممالک جہاں بہت ہی سست رفتار تھی وہاں بھی خدا کے فضل سے بڑی تیزی آرہی ہے اور ایسی قومیں جن میں احمدیت کا نفوذ بہت ہلکا تھاست روی پائی جاتی تھی ان میں بھی بڑی تیزی سے اب جماعت کی طرف رجوع ہو رہا ہے.چنانچہ گذشتہ ایک دو ماہ کے اندر عربی بولنے والی قوموں میں سے خدا کے فضل سے 27 بیعتیں موصول ہوئی ہیں اور اہل عرب خالص بھی ہیں اور شمالی افریقہ کے عرب بھی اس میں شامل ہیں تو یہ رجحان پہلے نظر نہیں آتا تھا.یورپ کے دو ممالک میں بلکہ تین میں خدا کے فضل سے عربوں نے وہاں بیعتیں کیں اور بڑے مخلص ہیں.ڈنمارک میں تو اوپر تلے دو عرب نوجوانوں نے بیعتیں کی ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ وہ اخلاص میں ترقی کر رہے ہیں، لٹریچر لے رہے ہیں، توجہ دلا رہے ہیں، مشورے دے رہے ہیں کہ کس طرح ہماری قوم میں تبلیغ ہونی چاہئے اور اچھے خاصے وہاں کے تعلیم یافتہ اور اعلیٰ خاندانوں کے افراد ہیں.تو یہ بھی ایک اللہ کا غیر معمولی فضل ہے جس کو نظر میں رکھنا چاہئے.“ (خطبه جمعه فرموده 24 را گست 1984 ء) عرب ممالک کی بڑی شخصیات سے خط و کتابت کی کوشش ازاں بعد حضور نے عرب ممالک میں تبلیغ کے سلسلہ کو وسیع کرتے ہوئے پہلے ان ممالک میں بعض عرب شخصیات کے پتے منگوائے تا کہ ان کو لٹریچر بھیجا جاسکے، اس سلسلہ میں حضور انور رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے اہل عرب کے پتے مانگے تھے تو انہوں نے وہ ڈائریکٹری اٹھا کے یا شاید عرب Embassies کی کتابیں منگوا کر ان سے پتے نوٹ کر کے بھیج دیئے حالانکہ اس قسم کے پتے نہیں چاہئیں.پتے ایسے چاہئیں کہ جہاں پتہ بھیجنے والے کی نظر ہو کہ یہ کس قسم کا آدمی ہے، عمر اس کی کتنی ہے، رجحان کیا ہیں؟ ضروری تو نہیں کہ جتنے پتے آپ بھیجیں ان سب کولٹریچر بھیجوانا مناسب بھی ہو.اس لئے یہاں بھی کافی چھان بین کرنی پڑتی ہے.( خطبه جمعه فرموده 26 اکتوبر 1984ء)
مصالح العرب.....جلد دوم 116 مکرم مصطفی ثابت صاحب بیان کرتے ہیں کہ بعد میں انہوں نے بھی عرب ممالک کا دورہ کی کیا اور وہاں سے لوگوں کے پتہ جات لا کر لٹریچر روانہ کیا گیا.بعض کی طرف سے تو اچھا جواب آیا لیکن بعض نے لکھا کہ ہمیں کچھ نہ بھیجوایا جائے.سعودی عرب کلمہ مٹانے کی سازش کا حصہ نہیں ہوسکتا حضور انور رحمہ اللہ کی ہجرت کے بعد بھی بلکہ آج تک پاکستان میں احمدیوں کی مساجد سے کلمہ طیبہ کو مٹانے اور ان کے سینوں سے کلمہ طیبہ کے بیجز نوچنے کی کاروائیاں جاری رہیں.ان کا روائیوں کے بارہ میں پاکستان کے بعض حلقوں میں یہ بھی مشہور کیا جانے لگا کہ ان کے پیچھے سعودی عرب کی حکومت ہے اور اس کے ایماء اور خرچ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے.اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے سعودی عرب کی حکومت پر اپنے حسن ظن کا اظہار فرمایا اور ان کے اس سازش میں ملوث ہونے کے خیال کو بعید از قیاس قرار دیا.آپ نے فرمایا: موجودہ حکومت کے متعلق تو میں جانتا نہیں کہ وہ کیا باتیں ہیں کس حد تک اور کیوں وہ یہ باتیں ہونے دے رہے ہیں یا ان کو ان باتوں کا علم نہیں ہے لیکن سعودی عرب کے متعلق تو میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ کلمہ توحید مٹانے کی کسی سازش میں بھی شریک ہو سکتے ہیں.سعودی عرب کی حکومت تو وہ ہے جو اس وقت منصہ شہود پر ابھری جب شرک نے خانہ کعبہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا، جب نہایت ہی ناروا حرکتیں ہو رہی تھیں خانہ کعبہ میں جن کا اسلام سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں تھا.اس وقت ان کے جد امجد نے عظیم الشان کارنامہ اسلام کی خدمت کا یہ سر انجام دیا کہ مولا نا عبد الوھاب کے ساتھ مل کر شرک کے قلع قمع کرنے کی ایک تحریک چلائی جس نے رفتہ رفتہ پھیلتے سارے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.پہلے سرزمین حجاز سے وہ آواز بلند ہوئی اور پھیلتے پھیلتے وہ حجاز کی زمین سے باہر نکل کر اردو گرد کے علاقوں میں بھی پھیل گئی اور اتنی عظیم الشان قوت نصیب ہوئی کلمہ توحید کے نتیجہ میں کہ آج یہ جتنی دولتوں کے مالک بنے ہوئے ہیں ، ساری دنیا میں جتنا ان کا نفوذ ہے وہ تمام تر اگر یہ ادنی سا غور کریں تو کلمہ توحید کی برکت سے ہے.اگر تو حید کی حفاظت میں یہ جہاد نہ
117 مصالح العرب.......جلد دوم شروع کرتے تو ناممکن تھا ان کے لئے خانہ کعبہ اور حجاز کی سرزمین پر قابض ہو جاتے.جہاں سے آج تیل کے چشمے اہلے ہیں اور ہر گز بعید نہیں کہ اللہ جو تو حید کے لئے بے انتہا غیرت رکھتا ہے اسی ایک نیکی کے عوض میں کہ کسی زمانہ میں ان لوگوں نے کلمہ توحید کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی تھی آج ان کو اس قدر بے شمار دولتوں سے نوازا ہو.پس کیسے ممکن ہے، کیسے ہم یقین کریں کہ سعودی عرب کا یہ خاندان جو توحید کے نام پر قائم ہوا اور توحید کے نام پر اس نے جو کچھ پایا، پایا تو حید ہی کی برکت اور توحید ہی کی خیرات آج تک کھاتا چلا جارہا ہے، آج ایسا سر پھرا ہو جائے گا کہ کلمہ توحید مٹانے کی سازشیں خانہ کعبہ سے اٹھیں گی.یہ ناممکن ہے ہم جانتے ہیں کہ یہ جھوٹے لوگ ہیں.ہمیں تجربہ ہے کہ پاکستان کا مولوی ایک اور قسم کی مخلوق ہے اگر ہر مولوی نہیں تو دیوبندی مولوی کے کردار پہچانتے ہیں.اتنا جھوٹ بولتے ہیں جیسے شیر مادر بچہ پیتا ہے اس طرح جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں.کسی نے منیر انکوائری رپورٹ پڑھی ہو تو وہ ان کے کردار کو شاید پہچان سکے.آپ پڑھ کر دیکھیں کس طرح جسٹس منیر اور جسٹس کیانی جو احمدی نہیں تھے اور بڑے عظیم الشان جج تھے ان کی عدالت کے قصے آج تک مشہور ہیں ساری دنیا میں ان کی قوت انصاف اور عدلیہ معاملات میں علم کی شہرت ہے، وہ بڑی بیبا کی اور جرات سے لکھتے ہیں کہ یہ تو بکاؤ لوگ تھے جو ہمیشہ پاکستان کی دشمن کی طاقتوں کے ہاتھ میں کھیلتے رہے اور جب بھی پاکستان دشمن طاقتوں سے انہوں نے پیسے حاصل کئے پاکستان کے اور دوسرے تمام مسلمانوں کے مفادات کے خلاف پک جاتے ر ہے.وہی لوگ ہیں یہ جو مسجد شہید گنج کے غازی ہیں لیکن عجیب بد قسمتی ہے قوم کی کہ اتنی کچی یاد داشت اتنی کمزور یادداشت کہ ہر دفعہ انہیں بھولتی چلی جارہی ہے.لیکن احمدی کی یاد داشت تو اتنی کمزور نہیں ہے اس لئے میں کسی قیمت پر بھی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ سعودی عرب کلمہ تو حید کو مٹانے کی سازش میں ان کی پشت پناہی کر رہا ہو.جھوٹ بول رہے ہیں، ان کے ساتھ بھی جھوٹ بولتے ہوں گے ان کو جا کر کچھ اور کہانیاں بتاتے ہوں گے اس لئے وہ اپنی کو سادگی میں اور کم علمی میں ممکن ہے ان کو روپیہ دے رہے ہوں اس سے میں انکار نہیں کرتا کیونکہ وہ ساری دنیا میں جہاں بھی وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی خدمت ہورہی ہے وہ اپنا روپیہ تقسیم کر رہے ہیں.
مصالح العرب.....جلد دوم 118 جاپان تک سعودی عرب کا روپیہ پہنچا ہوا ہے، کوریا میں سعودی عرب کا روپیہ پہنچا ہوا ہے، ملائشیا میں پہنچا ہوا ہے، انڈونیشیا میں پہنچا ہوا ہے، بنگلہ دیش میں پہنچ رہا ہے، دنیا کے کونے کونے میں، افریقہ کے ممالک میں پھیل رہا ہے اور جہاں بھی کوئی مسلمان تنظیم یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ہم نے اسلام کی خدمت میں کوئی کام کرنا ہے اور سعودی عرب کی حکومت کو مطمئن کرا دیتی ہے کہ خدمت اسلام کا کام ہے تو وہ اپنے خزانے کھول دیتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ ہم کیسے مان لیں کہ تو حید کے علمبر دار تو حید کی خیرات کھانے والے اس دولت سے جو تو حید کے ہاتھوں انہوں نے پائی، کلمہ توحید مٹانے میں جد و جہد اور کوشش شروع کر دیں گے ناممکن ہے یہ بات ہو نہیں سکتی.یقیناً دھو کہ دیا جارہا ہے.“ (خطبہ جمعہ فرموده 7 سمبر 1984ء) 00000 XXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.جلد دوم 119 عرب علماء سے استفتاء جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا کہ حضور انور رحمہ اللہ نے دیگر اقوام کے علاوہ عربوں میں خاص طور پر تبلیغ کے لئے بہت سے پروگرام شروع کئے جن میں سے کئی کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.ان میں سے ایک مختلف عرب علماء سے بعض اہم اختلافی امور کے بارہ میں فتویٰ طلب کرنا بھی تھا.اس سلسلہ میں یہ ذکر کرنا بھی خالی از فائدہ نہ ہو گا کہ اس سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی عرب علماء اور اہل علم حضرات کے نام ”الاستفتاء“ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جو حقیقۃ الوحی کے ساتھ ملحق عربی حصہ ہے، اس میں حضور نے ان سے یہی پوچھا ہے کہ تمہاری اس شخص کے بارہ میں کیا رائے ہے جو تمام ارکان اسلام پر عمل کرتا ہے قرآن کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری شریعت لانے والا رسول مانتا ہے؟ کیا ایسا شخص آپ کی نظر میں کافر ہے یا مسلمان؟ اس عربی کتاب کا اکثر حصہ اسلامی عقائد کے بیان اور ان پر ایسے سوالات پر مشتمل ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ میں ان تمام عقائد پر ایمان رکھتا ہوں اور ان پر پوری طرح کاربند ہوں پھر کیا میں تمہاری نظر میں کافر ہوں یا مسلمان؟ اسی نہج پر حضرت خلیفۃ أیح الرابع نے بھی بعض عرب علماء سے فتوے منگوانے کا ارشاد فرمایا.حضور انور کے حسب ہدایت مکرم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن کی طرف سے ایک خط جناب شیخ عبداللہ اشیخلی صاحب خطیب جامع الامام الأعظم بغداد کو ارسال کیا گیا جس کا مضمون کچھ یوں تھا کہ: کیا اسلامی شریعت میں ایسے شخص کے لئے کوئی سزا مقرر ہے جو مسلمان نہ ہو پھر بھی
مصالح العرب.....جلد دوم 120 مسلمانوں کی طرح کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کا پرچار کرے، اور اپنے گلے میں نہ کوئی ایسا لاکٹ پہنے جس پر آیت قرآنی کندہ ہو، یا سینے پر کوئی ایسا بیج لگائے جس پر کلمہ طیبہ تحریر ہو؟ کیا اس کی سزا یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسکے کان کاٹ دیئے جائیں یا ناک کاٹ دی جائے، یا اس کو کوڑے مارے جائیں یا چوروں کی طرح اسکے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں.یا اس کے بارہ میں قرآن کریم میں کوئی اور حکم ہے جو نافذ العمل سمجھا جائے گا؟ براہ کرم اس بارہ میں اپنے فتویٰ سے ہمیں مستفیض فرمائیں.الشيخ عبد الله الشيخلى خطیب جامع الامام ) عظم بغداد کا فتویٰ الشيخ عبد الله الشیخلی صاحب اس وقت جامع الامام الاعظم بغداد کے خطیب تھے اس کے بارہ میں انہوں نے دیانت داری سے اسلامی شریعت کے مطابق جو فتوی دیا وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إدارة جامع الإمام الأعظم (أبي حنيفة) ١٩٨٦/٧/٢٤ السيد عطاء المجيب راشد السلام عليكم ورحمة الله وبركاته إن الشخص الذي ذكرتم في سؤالكم أنه يشهد أن لا إله إلا الله محمد رسول الله كغيره من المسلمين وأنه يعلق في رقبته أو على صدره آية من القرآن الكريم أو كلمة الشهادة وغير ذلك من شعائر الإسلام إن هذا الشخص يعتبر من المسلمين وتجرى عليه أحكام الإسلام فى الزواج والطلاق والإرث والصلاة عليه بعد الموت والدفن في مقابر المسلمين، وكذلك تقام عليه الحدود الشرعية إذا ارتكب ما يوجب إقامة تلك الحدود نحن في هذا تحكم بالظاهر و الله يتولى السرائر وحسابنا على الله
مصالح العرب.....جلد دوم عبد الله الشيخلي خطيب جامع الإمام الأعظم 121 مجلة التقوى عدد تشرين الثانی 1988 صفحہ 30 ترجمہ: جس شخص کا آپ نے اپنے سوال میں ذکر کیا ہے کہ وہ دیگر مسلمانوں کی طرح لا إله إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کی شہادت دیتا ہے اور اپنے گلے میں یا سینے پر قرآن کریم کی کوئی آیت یا کلمہ طیبہ یا دیگر اسلامی شعائر کو آویزاں کرتا ہے، تو ایسا شخص مسلمان گردانا جائے گا اور اس پر شادی بیاہ اور طلاق اور وراثت جیسے تمام اسلامی احکام لاگو ہوں گے.وہ جب فوت ہوگا تو اس کا جنازہ اسلامی طرز پر ادا کیا جائے گا اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا.اسی طرح اگر وہ کسی ایسے فعل کا مرتکب ہو گا جس کی سزا اسلامی حدود میں سے کوئی حد ہو تو اس پر ان شرعی حدود کا اطلاق بھی ہوگا.ہم اس معاملہ میں صرف ظاہری حالت و اعمال کو دیکھ کر ہی رائے دے سکتے ہیں جبکہ باطن کا علم خدا کو ہے اور یہ اس پر ہی چھوڑ دینا چاہئے.یہ فتوی کس قدر حق پر مبنی ہے.اور کس قدر احتیاط اور خدا خوفی سے فتویٰ دینے والے نے یہ خیال رکھا ہے کہ کہیں اس کی ہلکی سی غلط فہمی سے ایک شخص جو کلمہ طیبہ کو سینے سے لگائے پھرتا ہے اسلام کے دائرہ سے باہر نہ ہو جائے.حالانکہ سوال میں واضح طور پر لکھا تھا کہ وہ غیر مسلم ہے.لیکن اسکے اعمال بول رہے ہیں کہ کلمہ طیبہ پڑھتا ہے اس سے محبت رکھتا ہے اور پھر اسلام کا اعلان کرنا کس کو کہیں گے؟ دوسری اہم بات جس کا اس فتویٰ میں ذکر ہے وہ یہ کہ انسان ہمیشہ ظاہری اعمال پر ہی محاکمہ کر سکتا ہے اسے لوگوں کی نیتوں کی ٹوہ میں لگنے کی ضرورت نہیں ہے.مثلاً یہ کہنا کہ احمدی زبان سے کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں مگر دل سے محمد رسول اللہ کی بجائے مرزا غلام احمد رسول اللہ کہتے ہیں، یہ سراسر تجاوز اور لوگوں کی نیتوں پر حملہ ہے.یہ خدا تعالیٰ فیصلہ کرے گا کہ کسی کی نیت میں کیا ہے.انسانوں کو حکم ہے کہ دین کے معاملہ میں ظاہر کے مطابق فیصلے کریں.اللہ تعالیٰ جناب عبد اللہ اشخیلی صاحب کو اس کلمہ حق کی اعلیٰ جزاء عطا فرمائے.آمین.یہاں ضمنا یہ ذکر کرتے جائیں کہ جامع الإمام الأعظم کا شمار بغداد کی بڑی اور اہم
122 مصالح العرب.....جلد دوم مساجد میں ہوتا ہے.یہ مسجد حضرت امام ابو حنیفہ کی مسجد بھی کہلاتی ہے کیونکہ اس کے جوار میں امام ابوحنیفہ کا مزار ہے اور مسجد کے ساتھ دینی مدرسہ بھی ہے.اس مسجد کے ساتھ ایک بلند مینار پر ایک بڑی گھڑی لگی ہوئی ہے جو دور سے نظر آتی ہے.2003ء میں مغربی افواج کی بمباری سے گھڑی والا مینار کئی جگہ سے ٹوٹ گیا تھا اور حضرت امام ابو حنیفہ کے مزار کو بھی نقصان پہنچا تھا.تاہم اس مسجد کے ماحول میں رہنے والے مسلمانوں نے مل کر باہمی مدد سے دوبارہ ان حصوں کی تی تعمیر کا کام جلد مکمل کر لیا.اُردن کے شریعت کالج کے پرنسپل کی رائے مندرجہ بالا استفسار University of Jordan میں شریعت کالج کے پرنسپل جناب ڈاکٹر ابراہیم زید الکیلانی صاحب کو بھی ارسال کیا گیا جنہوں نے اس کا ایک اصولی جواب دیا جو یہ ہے کہ: 1.جو اسلامی حکومت میں یا اسلامی معاشرہ میں شریعت کے احکام پر کار بند ہوا سے احکام اللہ کا پابند سمجھا جائے گا.2.شریعت کی مقرر کردہ حدود اور سزاؤں کا نافذ کرنا صرف اور صرف حکومت یا حکومتی اداروں کا کام ہے، لہذ ا فردی طور پر لوگوں کو ان سزاؤں کو لاگو کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے.3 صحیح العقیدہ مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ احکام اللہ کی ادائیگی پر عملی طور پر کار بند ہو جائے.از مجله التقوی شمارہ جنوری 1989 صفحہ 29) اس فتویٰ سے بھی اتنی بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ جو کوئی اپنے آپ کو اسلامی احکام کا پابند کرتا ہے اور مسلمان کہتا ہے اسے ویسے ہی سمجھا جائے گا اس کے باوجود اگر کسی مسلمان کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ فلاں شخص عقائد کے لحاظ صحیح مسلمان نہیں بلکہ خواہ اس کی نظر میں کافر ہی کیوں نہ ہو تب بھی اس کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ اٹھ کر کسی کو واجب القتل قرار دے دے اور اس فتویٰ کی تنفیذ کرنے والوں کو جنت کی بشارتیں دیتا پھرے.
مصالح العرب.....جلد دوم 123 عرب ممالک میں واقفین زندگی مربیان کی روانگی حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے لندن ہجرت کے بعد دیگر اقوام کے علاوہ عربوں میں خاص طور پر تبلیغ کے لئے بہت سے پروگرام شروع کئے جن میں سے کئی امور کا ذکر ہم پیچھے کر آئے ہیں.ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ عرب ممالک میں واقفین زندگی بھجوائے جائیں اور عربی دان علماء تیار ہوں.چنانچہ اس غرض کے لئے سب سے پہلے مکرم عبد المومن طاہر صاحب کو مصر بھجوایا گیا.اس کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ حضور انور رحمہ اللہ کی ہجرت کے بعد مکرم ملک سیف الرحمن صاحب سابق پرنسپل جامعہ احمد یہ ربوہ بھی مستقل رہائش کے لئے کینیڈا منتقل ہو گئے.کینیڈا جاتے ہوئے آپ حضور انور سے ملاقات کے لیئے لندن رُکے.اس ملاقات میں آپ نے ی حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے کچھ مختص تیار کئے ہیں.وہ اس وقت تو پاکستان میں ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ان سب کو کسی عرب ملک میں بھیج دیا جائے تو نہ صرف ان کے علم میں ترقی ہوگی بلکہ ان کے افق بھی وسیع ہوں گے.حضور انور نے محترم ملک صاحب کی تجویز کو قبول فرماتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ ان متخصصین کو پہلے یہاں لندن بھجوایا جائے اور پھر یہاں سے کسی عرب ملک بھیجوانے کی کارروائی کی جائے گی.محترم ملک سیف الرحمن صاحب کا تاریخی کام محترم ملک صاحب نے اپنی خاص نگرانی اور محنت اور توجہ اور دعاؤں سے جامعہ احمدیہ میں سے چار طالبعلموں کا انتخاب کیا، ان کو جامعہ کی پہلی دوسری کلاس سے ہی مختلف مضامین میں
مصالح العرب.....جلد دوم 124 خصص کروانا شروع کر دیا.چنانچہ اس وقت سے ہی ان کی مختلف کتب کی طرف راہنمائی اور اساتذہ کی نگرانی وغیرہ شروع ہو گئی تھی.یہ چار خوش نصیب مکرم نصیر احمد قمر صاحب ، مکرم عبد الماجد طاہر صاحب، مکرم منیر احمد جاوید صاحب اور مکرم عبد المومن طاہر صاحب ہیں.مکرم عبد المومن طاہر صاحب کی مصر روانگی ان چاروں حصین کے لندن کے ویزا کے لئے سب سے پہلے مکرم نصیر احمد قمر صاحب اور مکرم منیر احمد جاوید صاحب کا برٹش ایمبیسی میں انٹرویو ہوا.ازاں بعد مکرم عبد الماجد طاہر صاحب اور مکرم عبد المؤمن طاہر صاحب ابھی انٹرویو کے لئے انتظار کر رہے تھے کہ حضور انور کی طرف سے ہدایت موصول ہوئی کہ عربی زبان کے متخصص کو فور ا مصر بھیجا جائے وہاں ان کی بہت ضرورت ہے.ساتھ یہ بھی پیغام موصول ہوا کہ اگر ممکن ہو تو اسے براستہ لندن روانہ کیا جائے.جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ مصر براستہ لندن بہت مہنگا ثابت ہوگا لہذا انہیں براہ راست ہی مصر روانہ ہونا پڑا.مکرم عبدالمومن طاہر صاحب 25 اکتوبر 1985ء کومصر پہنچے.ائیر پورٹ پر مکرم ابراہیم البخاری، مکرم حاتم علمی الشافعی صاحب وغیرہ موجود تھے.ابتداء میں چند روز ایک اجتماعی کمرہ میں قیام کیا بعد ازاں رہائش کے لئے ایک گھر کرائے پر لے لیا گیا اور یہ وہاں رہنے لگے.اب آگے ہم اس سلسلہ میں بعض حالات و واقعات کا ذکر خود محترم عبدالمومن صاحب کی زبانی سنتے ہیں.حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی نصیحت اور اس کے ثمرات مکرم عبدالمومن طاہر صاحب کہتے ہیں کہ: میں جب مصر پہنچا تو ذہن میں یہی تھا کہ مصر ایک سیاحتی ملک ہے وہاں دو ہی کام ہوں گے ایک پڑھنا اور دوسرا وقتاً فوقتاً آثار قدیمہ کی سیر کرنا.لیکن جب میں نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں اپنے مصر پہنچنے کی اطلاع کی تو حضور کی طرف سے ہدایت موصول ہوئی کہ یاد رکھیں آپ یہاں طالبعلم کے طور پر ہی نہیں بلکہ مربی بھی ہیں اس لئے جماعت کو
125 مصالح العرب.....جلد دوم سنبھالیں.یہ جماعت کسی زمانے میں بہت فعال جماعت ہوتی تھی اور بڑے کام ہوئے ہیں.اس لئے جماعت کی طرف توجہ دیں.دوسری بات حضور کی اس ہدایت میں یہ تھی کہ ہماری جماعت میں عربی دان تو بہت ہیں لیکن عربوں کے انداز میں اور ان کے لہجے کے ساتھ بات کرنے والا کوئی نہیں ہے.اس لئے عربوں میں بیٹھیں، ان سے گفتگو کریں اور دیکھیں کہ وہ کس طرح بات کرتے ہیں پھر ان کے سٹائل اور لہجہ کو اپنا ئیں.چنانچہ اس کے بعد میں ہفتہ بھر کچھ نہ کچھ ترجمہ کرتا رہتا اور جمعہ کے دن اس ترجمہ شدہ مواد پر مشتمل خطبہ جمعہ دینے کی توفیق پاتا رہا.یوں میری عربی زبان میں تحریر، ترجمہ اور بولنے کی ریکٹس ہوتی رہی.ان دنوں مکرم علمی الشافعی صاحب کے گھر جمعہ ادا کیا جاتا تھا.اور نمازیوں کی تعداد 6 یا 7 ہوتی تھی.صدر جماعت مکرم عبدالمجید بولا دصاحب تھے جو نائیجرین تھے اور ازہر میں پڑھ رہے تھے.بعد میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کر کے اب نائیجریا میں تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں.اُس وقت مصر میں میری سب سے زیادہ مدد جس شخص نے کی اس کا نام عمر و عبد الغفار الأحمدی ہے جو مصطفیٰ ثابت صاحب کے ذریعے نئے احمدی ہوئے تھے اور میرے ہم عمر ہی تھے.بعض مصری عادات سے گھبراہٹ مصر پہنچ کر جن امور سے مجھے سخت گھبراہٹ ہوئی وہ اونچی اونچی عمارتیں اور ان میں ہمارا فلیٹ ساتویں آٹھویں منزل پر تھا جہاں روزانہ آنے جانے سے دل میں شدید گھبراہٹ پیدا ہوتی تھی.اسی طرح ہر فلیٹ کی بالکونی ہوتی ہے اور فلیٹ آپس میں اتنے قریب قریب ہوتے ہیں کہ آس پاس کی آوازیں اور شور سے آپ بچ نہیں سکتے.اور مصریوں کی یہ عادت ہے کہ رات بھر نہیں سوتے بلکہ باتیں کرتے رہتے ہیں.پھر فجر سے کچھ پہلے سو جاتے ہیں.خصوصا رمضان المبارک میں ساری رات ان کا ٹی وی سهرات رمضانية “ کے عنوان سے رمضان کے خاص پروگرام نشر کرتا ہے جو صبح سحری تک رہتے ہیں.چنانچہ یہ لوگ ساری رات کھاتے پیتے اور یہ پروگرام دیکھتے اور ہنستے کھیلتے رہتے تھے.پھر سحری کے وقت سے ایک گھنٹہ قبل سو جاتے تھے اور صبح
مصالح العرب.....جلد دوم 126 سات یا آٹھ بجے جب انہوں نے آفس وغیرہ جانا ہوتا تھا تو ان میں سے بعض اس وقت فجر کی نماز پڑھ کر جاتے تھے اور اس کا نام انہوں نے نماز صبح رکھا ہوا تھا.دوسری بات جس کی وجہ سے مجھے کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑا وہ ان کے کھانے تھے.لوگ اپنے کھانوں میں کھٹائی بہت استعمال کرتے ہیں.اور میں زیادہ کھٹائی کھا نہیں سکتا تھا لہذا اکثر اوقات میں ناشتہ عصر کے وقت کیا کرتا تھا یعنی اس وقت جب میں نے انسٹیٹیوٹ جانا ہوتا ہے تھا جبکہ اس سے قبل کوئی پھل وغیرہ کھا کر گزارہ کر لیتا تھا.انسٹیٹیوٹ میں داخلہ اور ویزہ میں توسیع مصر میں جو طلباء جامعہ الازہر میں پڑھنے کیلئے دیگر غیر عرب ممالک سے آتے ہیں ان کے لئے عربی زبان میں کسی قدر مہارت حاصل کرنے کے لئے وہاں پر ایک انسٹیٹیوٹ ہے جس میں مجھے داخلہ مل گیا.ازاں بعد اس انسٹیٹیوٹ میں کام کرنے والے ایک کلرک کی مدد اور راہنمائی سے ویزا میں ایک سال کی توسیع ہوگئی.جب میرے پہلے سال کا ویزا ختم ہوا تو میں نے حضورانور کی خدمت میں بغرض ہدایت اور راہنمائی تحریر کیا کہ میرے پاس دو آپشن (Option) ہیں.ایک یہ کہ پہلے کی طرح اس انسٹیٹیوٹ میں رہتے ہوئے مزید ایک سال کا ویزا حاصل کرلوں اور پڑھائی ذاتی کوشش سے جاری رکھوں، کیونکہ یہ انسٹیٹیوٹ بہت ہی بنیادی ہے.دوسری آپشن جس کا یہاں کے احمدی احباب بھی مشورہ دے رہے ہیں یہ ہے کہ میں جامعہ الازہر میں داخلہ لینے کی کوشش کروں.اس پر حضور کا ارشاد ملا کہ انسٹی ٹیوٹ میں رہتے ہوئے ویزا لے کر وہاں رہنے کی کوشش کریں اور اپنے طور پر پڑھتے رہیں اللہ تعالیٰ آپ کو سکھا دے گا.لہذا میں نے انسٹیٹیوٹ کے کلرک کی مدد سے مزید ایک سال کا ویزا لے لیا.یوں دو سال تو بخیریت گزر گئے.تیسرے سال ویزا کی توسیع کی کوشش کی گئی تو اس کلرک نے یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی کہ اب میرے افسر نے پوچھا ہے کہ اس پاکستانی کی تو عربی بہت اچھی ہے پھر ابھی تک وہ اس ابتدائی انسٹیٹیوٹ میں کیا کر رہا ہے.اس عرصہ میں 1987 ء کے شروع میں مکرم منیر احمد جاوید صاحب بھی عربی زبان کی اعلیٰ تعلیم کے لئے مصر آچکے تھے.اس سال کے آخر پر میں نے حضور انور کی خدمت
مصالح العرب.....جلد دوم 127 میں لکھا کہ اب اس انسٹیٹیوٹ میں رہ کر ویزا میں توسیع کا امکان تو ختم ہو گیا ہے.اب یا تو میں جامعہ الازہر کا رخ کروں ، یا واپس پاکستان چلا جاؤں، یا ایک اور بھی آپشن موجود ہے اور وہ یہ که مصری حکومت سیاحت کو بہت اہمیت دیتی ہے اور اس سے ہر سال خاصا زرمبادلہ بھی کماتی ہے لہذا اگر وزٹ ویزا کے لئے کوشش کی جائے تو عین ممکن ہے مزید چھ ماہ کیلئے یہاں قیام کی اجازت مل جائے.اس پر حضور انور کی طرف سے جواب آیا کہ آپ کو نہ پاکستان جانے کی ضرورت ہے نہ کسی اور ویزا کی.بلکہ ہم سپانسر کے کاغذات ارسال کر رہے ہیں آپ ان کے مطابق یہاں آجائیں ہمیں یہاں پر آپ کی ضرورت ہے.لہذا اس طرح خاکسار 17/ جنوری 1988ء کو پیارے آقا کے قدموں میں لندن پہنچ گیا.فالحمد للہ علی ذلک.بعض احمدیوں کا ذکر خیر میرے مصر میں قیام کے دوران کئی ایسے احمدی تھے جن کا ذکر ریکارڈ اور دعا کی خاطر کرنا چاہتا ہوں.مکرم کا ظلم صاحب اس وقت جماعت کے ایک ممبر مکرم کا ظم صاحب تھے جو دراصل مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب کے بھانجے تھے اور سعودی عرب میں کام کرتے تھے.اس دوران انہوں نے ابوالحسن ندوی کی جماعت کے خلاف اعتراضات سے پُر کتاب کا مطالعہ کیا اور اس وقت حضرت خلیفہ ایح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں بھی لکھا کہ گو مجھے معلوم ہے کہ احمدیت سچی ہے لیکن اس کتاب کی وجہ سے میرے دل میں کچھ شکوک پیدا ہوئے ہیں اس لئے جب تک اس کتاب کا جواب نہیں دیا جاتا اس وقت تک میں دوبارہ بیعت نہیں کروں گا.اس دوست کے پاس اپنی گاڑی ہوتی تھی اور کہیں آنے جانے کیلئے مکرم عمر وعبد الغفار صاحب انہی کی خدمات حاصل کرتے تھے کیونکہ یہ بڑی خوش دلی سے یہ خدمت پیش کرتے تھے.لیکن جب بھی ان کی گاڑی میں بیٹھتے یہ کوئی نہ کوئی سوال کر دیتے.اور سوال کرنے کا انداز چیھنے والا ہوتا.مجھے یہ بات بہت ناگوار گزرتی کہ یہ احمدی ہو کر اس طرح کا درشت اور
مصالح العرب......جلد دوم 128 تلخ لہجہ کیوں استعمال کرتے ہیں.بہر حال میں نے ان کے اعتراضات اور ان کے بارہ می میں دلائل پر مبنی ایک ڈائری بنالی تھی.ایک دن میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ آپ اس قدر ہوئے لہجے میں سوال کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ دراصل جب میں ایسے لہجے میں سوال کرتا ہوں تو آپ غصے میں آجاتے ہیں اور میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ غصے میں زیادہ اچھی عربی بولتے ہیں.اس وقت تک مجھے ان کی بیعت کے بارہ میں مذکورہ واقعہ کا علم نہ تھا.بعد میں مکرم عمر و عبد الغفار صاحب نے ساری تفصیل سے مجھے آگاہ کر دیا.کاظم صاحب نے بعد میں با قاعدہ بیعت کر لی تھی لیکن اس کے باوجود جماعت سے ذرا دور دور ہی رہے.مکرم محمد گردی صاحب.اس وقت کے احمدیوں میں ایک استاذ محمد کردی صاحب بھی تھے جن کی عمر اس وقت 50 سال کے لگ بھگ تھی.وہ باقاعدگی سے اس وقت حضور کی خدمت میں خط ارسال کرتے تھے.علم اعداد سے انہیں خاصی دلچسپی تھی.یہ دوست ٹیچر تھے.ان کے دو چھوٹے بچے تھے.ہم ان کے پاس اکثر جایا کرتے تھے.اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے.جب میں 1991ء میں دوبارہ مصر گیا تو معلوم ہوا کہ وہ بچے بڑے ہو چکے تھے اور احمدیت سے دور چلے گئے تھے جبکہ گردی صاحب خود آخر دم تک احمدیت پر قائم رہے.شاید بچوں کے احمدیت سے دور ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ گردی صاحب کی بیوی غیر احمدی تھیں.گردی صاحب کے ساتھ بھی میرا ایک بہت دلچسپ واقعہ ہے.جب میں پاکستان سے مصر روانہ ہونے لگا تو میرے تخصص کے ٹیوٹر مکرم ملک مبارک احمد صاحب (مرحوم) نے نصیحت کی کہ وہاں جا کر صرف فُصحی عربی بولنا اور لوکل زبان بالکل نہ بولنا کیونکہ اس میں قواعد کا خیال نہیں رکھا جاتا.لہذا میں نے مصر پہنچتے ہی سب کو کہہ دیا کہ میرے ساتھ فُصحی عربی ہی بولا کریں.احمدی احباب نے اس کی مکمل تائید کی اور تجویز دی کہ چونکہ کر دی صاحب پرائمری سکول کے ٹیچر بھی ہیں تو ان سے مدد لی جائے.ان کے پاس گئے تو انہوں نے فرمایا کہ یہ کام ابھی شروع کر دیتے ہیں.انہوں نے ایک اخبار
129 مصالح العرب......جلد دوم سے مجھے ایک پیرا گراف پڑھنے کیلئے کہا.چونکہ خدا کے فضل سے جامعہ میں عربی کا معیار بہت اچھا ہوتا ہے اور میں نے تو پھر عر بی تخصص بھی مکرم ملک مبارک احمد صاحب سے پڑھا تھا اس لئے میں نے بڑی آسانی سے اسے پڑھ لیا تو وہ بولے انہیں ہماری کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے.مکرم تھی ناصف صاحب پھر ایک اور احمدی اس وقت وہاں موجود تھے جن کی عمر اس وقت 75 یا 80 سال ہوگی.ان کا نام فتحی ناصف صاحب تھا.ان کا ایک بیٹا بھی تھا جو اس وقت از ہر میں پڑھتا تھا.فتحی صاحب خود تو کبھی کبھار آ جایا کرتے تھے لیکن ان کا بیٹا کبھی نہیں آیا.عموما ان کی باتوں میں ایک ڈر سا تھا اس لئے اکثر پیچھے پیچھے ہی رہتے تھے.حالانکہ اس وقت وہ سب سے پرانے احمدی تھے.غالباً حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب اور مولانا ابوالعطاء صاحب کے زمانہ کے احمدیوں میں سے وہی باقی تھے.مکرم محمد بسیونی صاحب مکرم محمد بسیونی صاحب سابقہ صدر جماعت مصر ان دنوں بیمار تھے اور اپنی بہن کے پاس رہتے تھے کیونکہ انہوں نے شادی نہیں کی تھی.میں نے عمر و عبد الغفار صاحب سے محترم بسیونی صاحب سے ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا.چنانچہ ہم ملنے کے لئے گئے لیکن ایک کمرے میں ہی بیٹھ کر واپس آگئے کیونکہ ان کی طبیعت اس وقت بہت خراب تھی.پھر کچھ عرصہ کے بعد ان کی وفات ہوگئی.یوں ان سے ملاقات نہ ہو سکی.مکرم عمرو عبد الغفار صاحب نے ان کی بہن سے ان کے بعض تفاسیر اور دیگر کتب وغیرہ کے تراجم لے کر محفوظ کر لئے تھے جو بسیونی صاحب نے اپنی صحت کی حالت میں کئے تھے.بعد میں ان تراجم میں سے بعض چھپ بھی گئے.قبل ازیں ان کے یہ تراجم البشری میں بکثرت چھپتے رہے ہیں.بہر حال ایک بات جو یہاں کہنی چاہئے یہ ہے کہ اگر جماعت مصر کے چند لوگ جماعت کے ساتھ چھٹے رہے یا وقتا فوقتا وہاں کوئی اکا دُکا احمدی ہوتے رہے تو اس میں مکرم بسیونی
مصالح العرب.....جلد دوم 130 صاحب کا بہت بڑا دخل تھا.آپ نے مسلسل مرکز سے رابطہ رکھا اور جماعت کی طرف سے کوئی خط یا رسالہ یا مضمون یار یو یو آف ریلیجنز کا کوئی شمارہ بھی ان کے ہاتھ لگتا تو فورا ترجمہ کر کے ساری جماعت میں پھیلا دیتے تھے.خاکسار ( محمد طاہر ندیم ) عرض کرتا ہے کہ ان پرانے احمدیوں نے اپنے ملکوں میں مذہبی آزادی کے زمانے میں اس قدر فدائیت اور اخلاص کے ساتھ دن رات کام کئے ہیں کہ ایسے لگتا ہے کہ احمدیت کی تبلیغ کی لگن اور مصروفیت نے یا تو انہیں اپنی شادی کے بارہ میں سوچنے ہی نہیں دیا یا عین ممکن ہے خود ہی اس وجہ سے شادی نہ کی کہ شادی تو بعد میں بھی ہو سکتی ہے جبکہ ابھی کام کرنے کی عمر ہے اور یہ کام کرنے کا وقت ہے اس لئے اگر ابھی شادی کی تو کہیں بیوی اور بچے ان کے اس کام اور خدمت میں حائل نہ ہو جائیں.اس کی ایک مثال بسیونی صاحب مصر میں تھے اور دوسری مثال مکرم منیر احصنی صاحب شام میں تھے.مکرم منیر الحصنی صاحب نے ساری جوانی احمدیت کی تبلیغ اور احمدیوں کی تربیت میں گزار دی.مرکز جماعت ہی ان کا گھر تھا، یا شاید یہ کہنا مناسب ہو کہ ان کا گھر ہی مرکز جماعت تھا اور افراد جماعت احمد یہ ان کا خاندان.احمدی احباب کی تربیت اور احمدیت کی تبلیغ ان کے روزانہ کے لازمی کام ہوتے تھے.بعد میں انہوں نے بڑھاپے میں شادی کی.لیکن ان کی کوئی حقیقی اولا د تو نہ پیدا ہوئی تاہم لا تعداد اپنی روحانی اولا د چھوڑ کے گئے جو آج تک ان کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں، آوازیں بھرا جاتی ہیں.لیکن جب ان کے ملکوں میں پابندیاں لگیں اور خفیہ پولیس کے کارندوں نے احمدیوں کو بلا بلا کر دھمکایا اور مراکز احمدیت پر پہرے بٹھا دیئے گئے اور احمدیوں کو وہاں جانے سے باز رہنے کا مطالبہ کیا گیا اور بصورت دیگر کبھی جیل جانے کی دھمکی دی تو کبھی قتل کی ، تب یہ لوگ اپنے گھر کے ہو کر رہ گئے.اور اس وجہ سے بچوں میں بھی احمدیت کو راسخ نہیں کر پائے جس کی وجہ سے اکثر کی اولا دیں ان کے ساتھ احمدیت پر قائم نہ رہیں.پھر جب ایک لمبے عرصہ کے بعد جماعت کی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہونے لگیں تو یہ پرانے احمدی ابھی تک پرانے خوف سے نہیں نکل پائے تھے شاید یہ وجہ تھی کہ ان میں سے بعض پیچھے پیچھے رہتے تھے.ورنہ تھی ناصف صاحب تو مجلہ البشری میں مضامین لکھا کرتے تھے اور بڑے مخلص احمدی تھے.
مصالح العرب.جلد دوم عربی لہجہ اپنانے کی ہدایت 131 مصر میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع کا مجھے یہ ارشاد موصول ہوا کہ ہماری جماعت میں عربی دان تو بہت ہیں لیکن عربوں کے سٹائل میں اور ان کے لہجے کے ساتھ بات کرنے والا کوئی نہیں ہے.اس لئے عربوں میں بیٹھیں ان سے گفتگو کریں اور دیکھیں کہ وہ کس طرح بات کرتے ہیں پھر ان کے سٹائل اور لہجہ کو اپنا ئیں.چنانچہ میں نے اس کے بعد مسلسل چھ ماہ صرف تلفظ درست کرنے پر لگائے.شروع میں میرے تلفظ کے خراب ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے اساتذہ کا بھی تلفظ ایسا ہی تھا یا اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں تھی.صرف مکرم نورالحق صاحب تنویر کا تلفظ عربوں کی طرح ہوتا تھا لیکن اپنی جہالت کی وجہ سے ہم اسے تکلف کا نام دیتے تھے.اب اس ضمن میں مجھے ایک اور واقعہ بھی یاد آ گیا غالبا یہ 1980ء یا 1981 ء کی بات ہے کہ جامعہ احمدیہ کے ہال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتاب ”سیرۃ الا بدال" کی شرح پر مشتمل لیکچر ہوتا تھا جس میں جماعت کے بڑے بڑے علماء بھی شریک ہوتے تھے.مجھے یاد ہے اس میں ایک دفعہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے بھی کھڑے ہو کر جماعت کے ایک عالم سے پوچھا کہ عربی زبان میں ض“ کا تلفظ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب سے حضور کو اطمینان نہ ہوا.جب حضور انور کی طرف سے مجھے عربی تلفظ سیکھنے کا ارشاد موصول ہوا تو مجھے یہ واقعہ بھی یاد آگیا.چنانچہ میں نے وہاں سے ایک کتاب بھی خریدی جس کا نام ”الإمْلَاء وَالتَّقْدِيم“ تھا.اس کتاب میں ہر حرف کی آواز کے بارہ میں تصویری رنگ میں راہنمائی کی ہوئی تھی کہ کہاں اس حرف کا مخرج ہے.اور جب میں یہاں لندن آیا تو جامعہ میں پیش آنے والے اس واقعہ کا ذکر کر کے یہ کتاب حضور انور کی خدمت میں پیش کی.حضور نے فرمایا مجھے ملیں.ملاقات میں حضور نے فرمایا کہ مجھے باقی حروف کے تلفظ کا تو پتہ ہے لیکن یہ بتائیں کہ ض کا تلفظ کس طرح ادا ہوتا ہے ؟ چنانچہ اس بارہ میں جو بھی مجھے علم تھا اس کی بنا پر حضور انور کی خدمت میں وضاحت پیش کی.اس واقعہ سے حضور رحمہ اللہ کی طلب علم کی پیاس کا علم ہوتا ہے اور اس میں ہم سب کے لئے ایک نمونہ ہے.
مصالح العرب.جلد دوم ایک مخلصانہ نصیحت 132 میرے قیام مصر کے دوران مکرم نصیر احمد قمر صاحب نے جو ان دنوں حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے مجھے لکھا کہ جو بھی ترجمہ کر و حضور انور کی خدمت میں بھجوایا کرو تا حضور انور کو بھی علم ہوتا رہے کہ آپ کس سٹیج پر پہنچے ہیں اور اگر حضور انور اس سلسلہ میں ہدایات سے نواز میں تو انہی خطوط پر چل کر حضور کی دعائیں اور برکتیں بھی حاصل ہوتی رہیں.نیز نصیحت کی کہ ٹائپ کرنا سیکھو اور اپنے تراجم اچھی طرح ٹائپ کر کے ارسال کیا کرو.چنانچہ اس نصیحت پر عمل کرتے وئے میں نے ٹائپنگ سیکھی جس کا بعد میں بہت فائدہ ہوا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کی نصیحت جماعت احمدیہ مصر کے ایک بڑے مخلص ممبر تھے اور سب سے زیادہ مدد اور تعاون بھی کرنے والے تھے.یہ دوست مختلف امور میں بکثرت اپنی رائے اور مشورہ دیتے تھے لیکن ایک بات تھی کہ اپنی رائے یا مشورہ کو منوانے کیلئے اکثر بہت زیادہ اصرار کیا کرتے تھے اور اس وقت تک دہراتے رہتے تھے جب تک ان کی بات مان نہ لی جائے.اس موضوع پر ایک دن میں نے خطبہ جمعہ میں بات کی اور کہا کہ مشورہ دینے والے کی ذمہ داری مشورہ دینے کے بعد ختم ہو جاتی ہے.مرکزی نمائندہ ان تمام مشوروں اور آراء کی روشنی میں جو بہتر خیال کرے وہ فیصلہ کر سکتا ہے.کوئی اسے اپنی رائے ہی پر عمل کرنے پر مجبور نہ کرے.شاید میں نے اس خطبہ میں کافی سختی سے کام لیا.رات کو خواب میں حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کو دیکھا.انہوں نے مجھے نصیحت فرمائی کہ عربوں سے نرمی اور محبت کے ساتھ تعامل کیا کریں کیونکہ سختی سے یہ لوگ بدک جاتے ہیں.یہ میرے مصر کے ابتدائی ایام کی بات تھی اور الحمد للہ کہ شروع میں ہی اس قسم کی نصیحت مل جانے سے بعد میں مجھے بہت فائدہ ہوا.محترم حلمی الشافعی صاحب کا انکسار م حلمی الشافعی صاحب میرے وہاں جانے کے ایک سال بعد مصر واپس آئے.قبل
133 مصالح العرب.....جلد دوم ازیں وہ کسی عرب ملک میں اپنے کام کے سلسلہ میں قیام پذیر تھے.علمی صاحب کے آنے کے باوجود بھی خطبہ جمعہ میں ہی دیتا رہا.لندن سے ”النصر“ نامی ایک رسالہ وہاں جاتا تھا جس میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے خطبات کا خلاصہ ہوتا تھا.میں اس کا ترجمہ کرتا تھا اور علمی صاحب اس کو بہتر کر دیا کرتے تھے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ تقریبا نیا ترجمہ ہی کر دیا کرتے تھے.ایک عجیب بات جو میں نے اس عظیم انسان میں دیکھی وہ آج تک کسی اور عرب میں نہیں دیکھی اور وہ یہ کہ وہ بہت بڑے دل کے مالک تھے.سارا ترجمہ خود کر کے میرے نام لگا دیتے تھے.بعض اوقات کسی خاص لفظ یا کسی خاص امر میں میں نے اگر کوئی تحقیق کی ہوتی اور علمی صاحب کے سامنے کسی سیاق میں ذکر کر دیتا تو فرمایا کرتے کہ مومن صاحب میں تو آپ سے عربی سیکھتا ہوں.اور یہ بات ایسی ہے جو کوئی عام عربی نہیں کہ سکتا.یہ علمی صاحب کی تواضع کا اعلیٰ مقام تھا.بڑے دل والا انسان حلمی صاحب بڑے کھلے دل کے انسان تھے.ان میں جود وسخا کی صفت بہت زیادہ تھی.اگر آپ ان کے ہزاروں کے بھی مقروض ہوں تو علمی صاحب کبھی باتوں یا اشارہ کنایہ میں آپ کو محسوس نہیں ہونے دیتے تھے کہ آپ ان کے مقروض ہیں.حتی الوسع قرض واپس نہیں مانگتے تھے.اور اگر بفرض محال مانگنا پڑ بھی جائے تو اتنے باشرم و حیا تھے کہ خود کبھی نہیں مانگا.بلکہ کسی کی وساطت سے یہ بات کہتے تھے.ان کی اس صفت کی وجہ سے انہوں نے کافی نقصان بھی اٹھایا.حلمی صاحب کا دینی تربیت کا انوکھا انداز حلمی صاحب اپنے کام کے سلسلہ میں کئی عرب ممالک میں رہے تھے اور جب میں مصر گیا تو اس وقت وہ ابوظہبی میں تھے.آپ کی پہلی بیوی فوت ہوگئی تو آپ نے اپنی بیوی کی چھوٹی بہن سے دوسری شادی کر لی.آپ کی اس بیوی نے حج کرنے کی خواہش کا اظہار کیا.اس وقت تک وہ غیر احمدی ہی تھیں اور حجاب وغیرہ نہیں اوڑھتی تھیں.علمی صاحب نے ان سے کہا کہ خانہ کعبہ تو خدا کا گھر ہے اس کے کچھ آداب ہیں.اس لئے اگر تم وعدہ کرو کہ حجاب پہنو گی تو میں تمہیں حج کے لئے لے جاتا ہوں.چنانچہ اس طرح انہوں نے حجاب پہننا شروع کر دیا.پھر
مصالح العرب.....جلد دوم 1987ء میں انہوں نے احمدیت بھی قبول کر لی.حلمی صاحب کے بعض نکات معرفت 134 مکرم حلمی صاحب کہا کرتے تھے کہ میں علمی اعتبار سے احمدیت کی حجت و برہان کی قوت سے احمدیت قبول کر چکا تھا لیکن احمدیت کا حقیقی علم مجھے اس وقت ہوا جب میں ابوظہبی میں احمدیوں کے ساتھ رہا.اور خلافت کے مرتبہ کا پتہ اس وقت لگا جب میں حضرت خلیفہ ایح الثالث سے ملا اس وقت حضور بیمار تھے اور سارا ربوہ آپ کے لئے رو رو کر دعائیں کر رہا تھا.اس وقت مجھے خلافت کی عظمت کا احساس ہوا.اور خلیفہ وقت کا عرفان اس وقت نصیب ہوا جب مجھے حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے ساتھ بیٹھنے کا موقعہ ملا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا ذکر کرتے ہوئے علمی صاحب کی آواز بھتر ا جاتی تھی اور اکثر آخری عمر میں کہا کرتے تھے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ حضور مجھ سے اتنا پیار کیوں کرتے ہیں.تم مجھے عربی سکھاتے ہو!! علمی صاحب ابھی مصر میں ہی تھے کہ آپ کو وقف کرنے کی توفیق ملی.اس وقت حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی طرف سے آپ کو جواب آیا کہ ٹھیک ہے آپ کا وقف قبول ہے.آپ فی الحال وہیں جماعت کے لئے جو کر سکتے ہیں کریں.بعد میں جب ہمیں آپ کی کسی اور امر کے لئے ضرورت ہوگی تو آپ کو آگاہ کر دیا جائے گا.جب میں یہاں لندن آیا تو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضور انور کی خدمت میں درخواست کر کے حضور کی اجازت سے علمی صاحب کو بلوا لیتے تھے.علمی صاحب نہ صرف مجلّہ التقوی میں ہماری بہت زیادہ مدد کرتے تھے بلکہ اپنے قیام کے دوران کسی نہ کسی کتاب کا ترجمہ بھی کر جاتے تھے.ایک جلسہ پر آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی کتاب ”مذہب کے نام پر خون کا ترجمہ کیا.اسی طرح اک مرد خدا (A Man Of God) کے کچھ حصہ کا ترجمہ کیا.بعد میں 1994ء میں حضور انور نے انہیں یہیں لندن میں بلا لیا.آپ اسلام آباد میں رہتے تھے اور اپنی وفات یعنی 1996 ء تک یہیں رہے.
مصالح العرب.....جلد دوم 135 مجھے اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتے تھے اور اکثر گھر بلا کے بٹھا لیتے تھے.اسلام آباد میں ہی آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی کتاب ”اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل“ Islam's) (response to Contemporary Issues کا عربی ترجمہ کیا.جب آپ یہ ترجمہ کر رہے تھے تو مجھے ایک دفعہ ترجمہ پڑھا کر رائے لی.میں نے عرض کیا کہ اس میں کسی قدر انگریزی محاورہ کا دخل محسوس ہوتا ہے.آپ نے کچھ توقف کے بعد فرمایا : کہاں ہے؟ میری نشاندہی پر فرمانے لگے بالکل ٹھیک ہے.ایسے ہی آپ کو لگتا ہو گا.میں نے عرض کیا کہ یہ کتاب حضور کی ہے اور ترجمہ کرنے والی شخصیت آپ کی ہے.آپ جو بھی فائنل کریں گے وہی فائنل متصور ہو گا.آپ نے مجھ سے پوچھا تو میرا کام ہے کہ دیانتداری سے جو رائے بنتی ہے وہ آپ کو دوں.لہذامیں نے جو محسوس کیا وہ کہہ دیا.آگے آپ کی مرضی ہے.اگلے دن مجھے بلا کر کہنے لگے کہ مومن ! میں اپنی بیوی کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ تم مجھے عربی سکھاتے ہو.دو ممتاز ترجمان جب حضور انور نے مجھے رسالہ التقویٰ کا ایڈیٹر بنایا تو میرے پاس چھاپنے کیلئے عربی مواد کی کمی ہوتی تھی.مکرم حلمی صاحب کو یہاں لندن سے ملک خلیل الرحمن صاحب مرحوم کا حضور انور کے خطبہ جمعہ کا انگریزی ترجمہ ارسال کیا جاتا تھا جس سے علمی صاحب عربی ترجمہ کر کے بھیج دیتے تھے.میں اس کو اردو کے ساتھ ٹیلی کر کے چھاپ دیتا تھا.علمی صاحب کے ترجمہ کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان کو جیسے حضرت خلیفتہ اسیح الرابع کی روح سے ایک تعلق تھا.وہ حضور کی بات اور اس سے مراد مکمل طور پر سمجھ جاتے تھے اور اس کا بعینہ وہی ترجمہ کرتے تھے جو درحقیقت مطلوب ہوتا تھا.وہ حضور کا سٹائل اور طرز سمجھ جاتے تھے حتی کہ بعض اوقات مترادفات میں بھی وہی الفاظ استعمال کرتے تھے جو حضور نے اردو میں استعمال کئے ہوتے تھے.اس میں مکرم ملک خلیل الرحمن صاحب مرحوم کا بھی بڑا دخل ہوتا تھا کہ وہ انگلش ترجمہ اتنا اعلیٰ اور حضورانور کے الفاظ کے قریب کرتے تھے کہ علمی صاحب اس سے عربی میں جو تر جمہ کرتے وہ اصل اُردو کے بھی قریب تر ہوتا تھا.مکرم نصیر احمد مر صاحب بیان کرتے ہیں کہ : میں حضرت خلیفہ المسح الرابع کے پرائیویٹ
طور 136 مصالح العرب.....جلد دوم سیکرٹری کے طور پر خدمت بجالا رہا تھا.ان دنوں مکرم ملک خلیل الرحمن صاحب حضور کے خطبات کا انگریزی میں رواں ترجمہ کرتے تھے.بعد میں حضور کے حسب ہدایت وہ خطبہ کو سن کر تحریری پر بھی نوٹس بنا کر دوبارہ ترجمہ کی ڈبنگ (Dubbing) کرتے تھے.میں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنے نوٹس بڑے تفصیلی بنائے ہوتے تھے بلکہ ایک لحاظ سے وہ حضور کے خطبہ کا تحریری ترجمہ ہوتا تھا.مجھے خیال آیا کہ حضور انور نے تبلیغ کے لئے پوری دنیا میں ایک ہلچل سی مچادی ہے لہذا اگر یہ انگریزی ترجمہ علمی صاحب کو بھجوایا جائے تو وہ اس کا عربی میں ترجمہ کر سکتے ہیں یوں ہے عربوں میں بھی حضور انور کے خطبات پہنچنا شروع ہو جائیں گے.لہذا میں مکرم ملک صاحب سے وہ ترجمہ لے کر خود ہی حلمی صاحب کو پوسٹ کر دیا کرتا تھا اور علمی صاحب اسے عربی میں ترجمہ کر کے مومن صاحب کو بھیج دیا کرتے تھے.ملک خلیل الرحمن بھی بڑی محنت سے تحریری ترجمہ تیار کرتے تھے اور علمی صاحب بھی اس انگریزی ترجمہ سے عربی میں ترجمہ کا حق ادا کرتے تھے کہ ایسے لگتا تھا کہ عربی ترجمہ حضور انور کے اردو خطبہ کو براہ راست سن کر کیا گیا ہے.التقویٰ کے حقیقی محرر مکرم عبدالمومن طاہر صاحب بیان کرتے ہیں کہ: مختلف عرب غیر احمدیوں کی طرف سے سوالات اور اعتراضات آتے تھے ان کے جوابات بھی مکرم حلمی صاحب دیا کرتے تھے.اکثر لمبے لمبے جوابات ہوتے تھے جن کو بعد میں ہم التقویٰ میں شائع کر دیتے تھے.خطبہ جمعہ کے ترجمہ اور سوالات کے جوابات کے علاوہ التقویٰ کے اکثر مضامین میں بھی علمی صاحب کا کسی نہ کسی طرح حصہ ہوتا تھا.اور حقیقت یہ ہے کہ مجلہ التقویٰ وہی چلا رہے تھے.فرض شناس مبلغ پھر مکرم علی صاحب حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے ارشاد پر مختلف ممالک کے دورہ جات بھی کرتے تھے.مثلا نائیجیریا اور مالی بھی دورہ پر گئے.نیز جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک اور انگلینڈ میں دوروں پر جاتے اور سوال وجواب کی مجالس منعقد کیا کرتے تھے.اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمارے بعض عرب احمدیوں کو نہ جانے کیوں اپنی کتابیں تالیف کرنے کا شوق ہے.جبکہ
مصالح العرب......جلد دوم 137 حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کا تحریر و تقریر پر مشتمل اس قدر مواد انگریزی میں میسر ہے اس کا ترجمہ کیوں نہیں کرتے.ایک صدی گزر چکی ہے اور ہم ابھی تک اس مواد کا عشر عشیر بھی عربوں تک نہیں پہنچا سکے.اس لئے اب جلدی کرنی چاہئے.لہذا آپ دن رات ترجمہ کے کام میں مصروف رہتے.جماعتی اموال کی قدر و قیمت کا احساس حلمی صاحب باوجود اس کے کہ خدا کے فضل سے کروڑ پتی تھے لیکن چھوٹی سے چھوٹی چیز کے ضیاع کے بھی سخت خلاف تھے.مثلاً اکثر کہا کرتے تھے کہ آپ کا غذ کی ایک طرف استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں جبکہ ہم نے اس کی دونوں اطراف کے پیسے دیئے ہیں.اس لئے ان کے اکثر تراجم ایسے اوراق پر کچی پنسل سے لکھے ہوئے ہیں جن کی ایک طرف پہلے سے استعمال شدہ ہے.اور وہ آج تک ہماری عربی ڈیسک کی فائلز میں محفوظ ہیں.قدیم عرب احمدیوں کی اولادوں کے ضائع ہونے کا سبب جب میں مصر آنے لگا تو جامعہ احمدیہ میں ہمارے استاد محترم نورالحق صاحب تنویر نے ( جنہوں نے مصر میں تعلیم حاصل کی تھی مجھے بعض قدیم مصری احمدیوں کے نام دیئے تھے کہ ان سے جا کر ملنا.ان میں سے ایک مکرم عبد الحمید ابراہیم آفندی تھے جو اسکندریہ میں رہتے تھے.سکندریہ کا قاہرہ سے فاصلہ قریباً دو سے اڑہائی سو میل کا تھا.جب علمی صاحب مصر آئے تو تو ان کے پاس کار تھی.میں نے ان سے عرض کیا کہ اس قدیم احمدی سے ملنے جانا ہے.چنانچہ ایک دن ہم وہاں گئے.مکرم عبد الحمید صاحب کے گھر سے پتہ کیا تو کسی خاتون نے کہا کہ آپ ظہر کے بعد آئیں.ہم بازار میں گئے اور دو پہر کا کھانا وغیرہ کھایا.وہاں میں نے پہلی بار دیکھا که مکرم حلمی صاحب اس قدر زیادہ مرچ کھاتے ہیں کیونکہ آپ ایک لقمے کے ساتھ تقریبا آدھی سبز مرچ کھا جاتے تھے.بہر حال جب ہم دو پہر کے کھانے کے بعد دوبارہ عبد الحمید صاحب کے گھر گئے تو یہ جان کر بہت صدمہ ہوا کہ وہ کچھ عرصہ قبل وفات پاچکے تھے.ان کے بچوں کو احمدیت کا کچھ علم نہ تھا صرف یہ کہتے تھے کہ ایک دفعہ ہمارے والد صاحب ہندوستان میں کسی ولی
مصالح العرب.....جلد دوم اللہ سے ملنے گئے تھے.138 اس واقعہ کا میرے دل و دماغ پر گہرا اثر ہوا.میرے خیال میں عرب احمدیوں کی اولا دوں کے ضائع ہو جانے کے دو اسباب تھے.ایک تو حالات کی وجہ سے وہاں جماعت کی طرف سے مبلغ کا نہ بھیجو اسکنا تھا.جبکہ دوسرا سبب خود عربوں کی عادت ہے کہ اپنے بیوی بچوں کے بارہ میں اس قدر دینی امور کا اہتمام نہیں کرتے جتنا خود اپنے لئے کرتے ہیں.اس لئے جب وہ فوت ہوتے تھے تو ساتھ ہی گھر سے احمدیت کا خاتمہ ہوجاتا تھا.لیکن اب خدا کے فضل سے یہ مزاج کی بدل رہا ہے.قتل مرتد کی سزا کی حقیقت کا عربی ترجمہ اور علمی صاحب مصر میں مجھے حضور انور کا خطاب بعنوان ”قتل مرتد کی سزا کی حقیقت بغرض ترجمہ ارسال کیا گیا جو حضور نے 1986 ء کے جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقعہ پر ارشاد فرمایا تھا.اس کے ترجمہ کے دوران میں نے دیکھا کہ بعض حوالے نامکمل ہیں.چنانچہ حضور انور کی خدمت میں جب لکھا تو آپ نے فرمایا کہ تمام ایسے حوالے مکمل کریں اور اس کے علاوہ بھی اگر کوئی آپ کا مشورہ ہوتو ضرور لکھیں.مجھے یاد ہے کہ ان حوالہ جات میں ایک حوالہ غلطی سے مودودی صاحب کی طرف منسوب ہو گیا تھا جبکہ ان کی کتاب میں وہ کسی سائل کے کلام کے طور پر درج تھا.چنانچہ پتہ چلنے پر حضور انور نے اس کے حذف کئے جانے کا ارشاد فرمایا.(اس بات سے ہمیں یہ درس لینا چاہئے کہ خلیفہ وقت جب کسی کام کے سلسلہ میں آپ پر اعتماد کریں تو آپ کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اس کی تمام جہات سے مکمل تحقیق ، اور ہر لحاظ سے توثیق کر لیں.لیکن اگر ہم بے احتیاطی سے کام لیں گے تو ہم خود مجرم ہوں گے.) بہر حال میں نے کتاب ترجمہ کر کے ٹائپ کر کے مکرم حلمی صاحب کو دکھائی تو انہوں نے ترجمہ کی تحسین ایسے کی کہ کچھ کا کچھ بنا دیا گویا نیا ترجمہ ہی کر دیا.لیکن یہ ان کی بڑائی ہے کہ اپنی اس ساری محنت کو میری طرف ہی منسوب کیا.اللہ تعالیٰ انہیں اپنی بے پایاں مغفرت و رحمت میں لپیٹ لے.
مصالح العرب.....جلد دوم کیا تم ہمارا دین تبدیل کرنے آئے ہو؟!! 139 قتل مرتد والے خطاب کا ترجمہ کرنے کے بعد مجھے اس کی دلیلیں زبانی یاد ہو گئی تھیں.چنانچہ میں نے انسٹیٹیوٹ کے اس کلرک سے اس موضوع پر بات کی جس نے ویزا کی توسیع میں میری مدد کی تھی.حالانکہ وہ اچھا خاصا پڑھا لکھا آدمی تھا لیکن اس نے کہا کہ مجھے تو اس بابت کچھ زیادہ علم نہیں ہے تاہم میں آپ کو اس انسٹیٹیوٹ میں پڑھانے والے فلاں مولوی کے پاس لے جاتا ہوں.جب ہم اس کے پاس گئے تو اس نے بھی ایک دو باتوں کے متعلق بات کر کے کہا کہ مجھے بھی اس معاملہ میں کچھ خاص علم نہیں ہے آؤ ہم سب حدیث کے شعبہ کے ہیڈ بڑے مولوی کے پاس چلتے ہیں.چنانچہ ہم ایک اور بڑے مولوی کے پاس گئے اور جب انہوں نے میرا اس کے ساتھ تعارف کروایا تو اس نے بڑی حقارت سے مجھے کہا ہاں بولو کیا ہو؟ میں نے جب بات شروع کی تو اس نے کہا کہ قتل مرتد کے بارہ میں بڑی واضح حدیث ہے کہ مَنْ بَدَّلَ دِيْنَهُ فَاقْتُلُوهُ ( کہ جو اپنا دین بدلے اسے قتل کر دو.میں نے کہا پھر اس حدیث کے مطابق تو جو عیسائیت سے مسلمان ہوتا ہے اس کے بارہ میں عیسائیوں کو بھی حق ہے کہ وہ اسے قتل کر دیں.کیونکہ حدیث میں یہ تو کوئی تخصیص نہیں ہے کہ جو صرف اسلام سے مرتد ہو کر کسی اور دین میں جائے اسے قتل کر دو بلکہ یہ ذکر ہے کہ جو بھی اپنادین بدلے اسے قتل کر دو.اسی طرح اس کی کافی دلیلیں جب میں نے ایک ایک کر کے توڑ دیں تو وہ چھلا کر کہنے لگے : اَجِفْتَ لِتُبَدِّلَ دِينَنَا ؟ یعنی کیا تم ہمارا دین تبدیل کرنے آئے ہو.پھر کہا کہ تم ہو کون؟ ایک ہندوستانی ہی تو ہو.گویا اس کے نزدیک کسی ہندوستانی کو دین کے معاملہ میں بولنے کا کوئی حق نہیں.بہر حال کلرک نے محسوس کیا کہ ہم نے غلطی کی ہے.لہذا اس نے فورا مجھے وہاں سے نکل جانے کا اشارہ کیا.چونکہ میں ان کے انسٹیٹیوٹ میں طالبعلم تھا اس لئے اگر وہ چاہتے تو مجھے انسٹیٹیوٹ سے نکال سکتے تھے.لیکن الحمد للہ کہ خیر بیت ہی رہی.شُفْتَ الْعِلْمَ؟ ! اسی انسٹیٹیوٹ کا واقعہ ہے کہ ہم ایک دفعہ اس کی لائبریری میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک
مصالح العرب......جلد دوم 140 بڑے جیتے والے مولوی سے اس کے ایک طالبعلم نے پوچھا کہ انلْزِ مُكُمُوهَا کونسا صیغہ ہے اور اس کی ترکیب کیا ہے.مولوی نے جواب دینے کی بجائے اسے کہا کہ الاتقان فی علوم القرآن اور اس طرح کی دیگر کتب لے کے آؤ.اس دوران میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک طالبعلم سے کہا کہ یہ قواعد کی اصطلاح میں اشباع کہلاتا ہے.یعنی دراصل نُلْزِ مُكُمْهَا ہے جو کہ پڑھنا مشکل ہے اس لئے میم کی جزم کو پیش میں تبدیل کر کے اس کو اشباع کرتے ہوئے واؤ میں بدل دیا گیا ہے.بہر حال سائل جب مطلوبہ کتب لے آیا تو اس میں یہی بات مذکور تھی.لیکن مولوی نے اپنی طرف سے تو ایک لفظ نہیں بتایا تھا.شاید اپنی خفگی مٹانے کے لئے یا علمیت جتانے کیلئے کہا: شُفْتَ الْعِلْمَ ؟ یعنی دیکھا میں نے تجھے کیسا عظیم الشان علمی نقطہ نکال کے دیا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں سب علماء کا یہی حال تھا.بعض بڑے پائے کے عالم تھے.ان میں سے مجھے اپنے عربی کے استاد بہت پسند تھے.وہ عربی زبان کے عاشق تھے اور ہمیشہ نھی بولتے تھے.لیکن اس کے بالمقابل فقہ کے استاد تھے جو ہمیشہ عامیہ زبان میں ہی پڑھاتے تھے.میں نے کئی بار کہا بھی کہ میں پاکستان سے صحی اعربی سیکھنے آیا ہوں.اس پر وہ ایک دو جملے فضحی کے بولتے لیکن پھر اپنی ڈگر پر آجاتے.اس پر مستزاد یہ کہ وہ سگریٹ پیتے تھے اور کلاس میں بھی اس شغل سے باز نہیں آتے تھے.از هری عالم کی معذرت اور ٹیکسی ڈرائیور کا اصرار اسی طرح ایک دفعہ ہمارے مخلص احمدی مکرم ابراہیم بخاری صاحب نے کہا کہ میرا ایک دوست ہے جس نے ازہر سے ایم اے کیا ہوا ہے.میں آپ کا اس سے تعارف کروا دیتا ہوں آپ وقتا فوقتا اس کے پاس چلے جایا کرنا اور اپنی فضحی کی پریکٹس کر لیا کرنا.ہم اس سے ملنے گئے تو ایک دو جملوں کے بعد اس نے بخاری صاحب سے کہا کہ میں معذرت خواہ ہوں کہ میں فُصحی نہیں بول سکتا.اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کی ساری تدریس ہی عامیہ زبان میں ہوتی تھی.حتی کہ کیمسٹری فزکس وغیرہ کے مضامین بھی عامیہ زبان میں پڑھائے جاتے تھے.اسی سیاق میں مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا.ایک دفعہ میں ایک ٹیکسی میں سوار ہوا اور خاموشی سے بیٹھا ہوا تھا کہ ٹیکسی ڈرائیور نے مجھ سے باصرار پوچھا کہ آپ بولتے کیوں نہیں ہیں؟ وہاں کی
141 مصالح العرب.....جلد دوم عموماً ٹیکسی ڈرائیور باتوں باتوں میں فری ہو جاتے تھے اور بعد میں زیادہ کرائے کا مطالبہ کرتے تھے.بہر حال میں نے اس کے سوال کے جواب میں کہا کہ میں تو یہاں پر فُصحی عربی سیکھنے آیا ہوں لیکن اکثر لوگ یہاں پر عامیہ ہی بولتے ہیں.اس نے کہا میں آپ کے ساتھ فضحی ہی بولوں گا آپ بات کریں.چنانچہ راستے میں وہ بہت اچھی فصحی بولتا رہا.میں نے اسے کہا کہ آپ ٹیکسی ڈارئیور نہیں ہو سکتے.اس نے انکار کیا لیکن جب میں ٹیکسی سے اترنے لگا تو اس نے کہا کہ تمہاری بات درست ہے.میں ٹیکسی ڈرائیور نہیں ہوں بلکہ میں وکیل ہوں لیکن وکالت سے میرا گھر نہیں چل سکتا اس لئے فارغ وقت میں ٹیکسی چلاتا ہوں.مصر کی دینی اور اخلاقی حالت کے بارہ میں میرا تاثر مصر میں عورتوں کی لباس وغیرہ کے معاملہ میں یورپ کی تقلید، عربی فصحی کا بالکل نہ بولنا، قرآن کریم کی کیسٹس لگا کے باتیں کرتے رہنا یا ایسی تلاوت لگانا جس میں ہر آیت کے بعد سب سننے والے واہ واہ کہتے ہیں، وغیرہ ایسے امور تھے کہ جن کی بنا پر مصریوں کی دینی حالت کے بارہ میں میرے ذہن میں ایک منفی تاثر پیدا ہو گیا تھا.چنانچہ ایک دفعہ مکرم عمر و عبد الغفار صاحب مجھے ایک دکان پر لے کر گئے جو مولوی تو نہیں تھے لیکن ازہر کے پڑھے ہوئے تھے اور ان کا لباس بھی از ہری علماء کے لباس کے مشابہ تھا.عمرو صاحب نے ان سے میرا تعارف کروایا تو وہ مجھے کہنے لگے تم یہاں دین سیکھنے آئے ہو؟ میں نے جواب دیا: اگر یہاں مجھے مل گیا تو.اس پر اس شخص کے چہرے کا رنگ بدل گیا.مجھے عمر و صاحب نے کہا کہ یہ تم نے کیا کہہ دیا؟ مصری تو یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس از ہر ہے اور مصر اسلام کا قلعہ ہے، اور وہ شخص گو مولوی نہ تھا لیکن از ہر کا تعلیم یافتہ تھا اس لئے قریب تھا کہ تمہارے ساتھ الجھ جاتا.ایک سعید روح مصر میں میری درسگاہ میں نائیجر کا ایک لڑکا سکالرشپ پر پڑھنے کے لئے آیا ہوا تھا.نہایت سلجھا ہوا، باحیاء، محنتی اور صالح نواجون تھا.اس کو بھی عربی سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا.اس کا نام ابوبکر تھا.ہماری دوستی ہو گئی اور اکثر درسگاہ، لائبریری وغیرہ اکٹھے ہی جاتے
مصالح العرب......جلد دوم 142 تھے.وہ چونکہ معمولی سے وظیفہ پر گزارا کرتا تھا.اتنی معمولی رقم میں کھانا پینا اور رہنا بہت مشکل ہو جاتا تھا اس لئے کبھی کبھار میں اس کی مدد کر دیتا تھا.میں نے آہستہ آہستہ اسے جماعت کے بارہ میں بتانا شروع کیا.قتل مرتد والی کتاب کے ترجمہ کی وجہ سے مجھے اس کی تمام دلیلیں یاد تھیں لہذا میں نے اسے بتایا کہ دیکھو دیگر مسلمانوں کو یہ بڑی غلط فہمی ہوئی ہے.اسی طرح میں نے آہستہ آہستہ اسے بتا دیا کہ میرا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور میں جماعت کا مبلغ ہوں اور عربی زبان کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں آیا ہوں.میری ہر بات پر اس کا مثبت رد عمل ہوتا تھا.ایک دن میں نے اسے کہا کہ آپ نے کبھی پوچھا نہیں کہ احمدیت نے تمہیں کیا دیا؟ اس نے کہا کہ میرے ذہن میں سوال تو پیدا ہوا تھا لیکن میرا آپ کے ساتھ تعلق ایسا تھا کہ میں نے آپ کو اپنا استاد مانا ہے اس لئے ہمیشہ ایسے سوال سے مجتنب ہی رہا ہوں جس میں کوئی جسارت کا رنگ ہو.میں نے کہا کہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے ہمیں کیا دیا؟ آپ نے ایک تو ہمیں قرآن دیا دوسرے نماز دی.وہ بڑا حیران ہوا کہ قرآن اور نماز تو پہلے ہی موجود ہیں پھر مسیح موعود علیہ السلام نے کیسے دیئے.میں نے وضاحت کی کہ آپ علیہ السلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہر بات کو قرآن پر پرکھو، اگر تو وہ قرآن کے مطابق ہے تو اسے لے لو اور اگر اس کے خلاف ہو تو رڈ کر دو.چنانچہ وہ حدیث جو قرآن کے ساتھ متفق ہے وہی کچی حدیث ہے اور جو قرآن کے ساتھ ٹکراتی ہے یا تو اسکی ایسی تاویل کرو جو قرآن کے ساتھ متفق ہو جائے بصورت دیگر وہ درست بات نہیں ہوگی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہے کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے خلاف کوئی بات کر سکیں.یہ ایک نہایت محفوظ راہ ہے.اور جہاں تک نماز کا تعلق ہے تو آپ مجھے بتائیں کہ کیا آپ نماز میں کبھی روئے ہیں؟ اس نے کہا : کبھی نہیں.میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں فرمایا ہے کہ کبھی دروازے بند کر کے بے شک تکلف سے ہی نماز میں اپنے خدا کے آگے گڑ گڑا کے اپنی بخشش چا ہو.آہستہ آہستہ طبیعت میں رقت اور گداز پیدا ہو جائے گا اور نماز میں مزا آنے لگے گا.پھر خدا تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو کر مسنون دعاؤں کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو.کیونکہ انسان اپنی زبان میں اپنا مافی الضمیر آسانی سے ادا کر سکتا ہے اور ایسے الفاظ اور جملے
143 مصالح العرب......جلد دوم بول سکتا ہے جن سے طبیعت میں ایک رقت پیدا ہوتی ہے.اور مزا آتا ہے.پھر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا ہے کہ اگر تمہیں ایسا کرنے سے نماز میں مزہ نہیں آتا تو ایک دو دفعہ ایسا کر کے رُک نہ جاؤ بلکہ اس شرابی کی طرح جس کو جب تک نشہ نہیں آجاتا وہ خم کے خم پیتا جاتا ہے، تم بھی نماز میں اپنی کوشش کرتے جاؤ اور جب تک مزا نہ آنا شروع ہو جائے تھکو نہیں.اور خدا سے دعا کرو کہ میں اندھا ہوں ایسا نہ ہو کہ اندھا ہی رہ جاؤں، تو مجھے اپنی طرف آنے کے راستے بتا.چنانچہ میں نے اسے کہا کہ اب تم اپنی مسجد میں یا اپنے کمرے میں کسی ایسے وقت میں نماز پڑھنا جب وہاں کوئی اور نہ ہو.اور کوشش کرنا کہ خدا کے سامنے اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے رو کر دعا کرو.چنانچہ وہ دوسرے یا تیسرے دن صرف یہ بتانے آیا کہ وہ زندگی میں نماز میں پہلی دفعہ رویا ہے اور اسے ایک نا قابل بیان مزا آیا ہے.میں نے اسے کہا کہ یہ چیز ہمیں مسیح موعود علیہ السلام نے آکر دی ہے.یہ نو جوان بہت متاثر تھا.اور ایک پکے ہوئے پھل کی طرح تھا جو کسی وقت بھی صرف ہاتھ لگانے سے احمدیت کی جھولی میں آسکتا تھا.لیکن ایک تو احتیاط کے نقطہ نظر سے دوسرے اچانک مجھے اپنے ویزے کے سلسلہ میں جلدی کارروائی کرنی پڑی اور اس افرا تفری میں میں اس سے تسلی کے ساتھ اس بارہ میں بات نہ کر سکا.تاہم میں نے قاہرہ میں اور اس کے اپنے ملک میں اس کا ایڈریس لے لیا.پھر یہاں لندن سے بارہا اس سے رابطہ کی کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا.اور اس بات کا مجھے آج تک بہت زیادہ افسوس ہے.قصہ ایک خواب کا حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی خلافت کا غالباً پہلا سال تھا جب مجھے مسجد مبارک میں اعتکاف بیٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی.اعتکاف کے بارہ میں حکم یہ ہے کہ 20 رمضان المبارک کی صبح سورج نکلنے سے قبل اعتکاف بیٹھ جانا چاہئے لیکن ہم جامعہ کے ہوٹل سے جاتے جاتے لیٹ ہو گئے اور سورج نکل آیا تھا.اس لئے میرے ذہن میں اسی وقت سے خلش پیدا ہوگئی کہ نہ ای جانے یہ اعتکاف قبول بھی ہوا ہے یا نہیں.بہر حال نوافل ادا کئے اور دعا کی تو رات کو خواب میں دیکھا کہ شدید گرمی کے دن ہیں اور حضرت خلیفتہ اسیح الرابع نے ظہر کی نماز پڑھائی ہے.اس کے بعد حضور مسجد مبارک میں مشرقی جانب جہاں وضو کی جگہ ہے چل پڑتے ہیں.میں بھی
مصالح العرب.....جلد دوم 144 ساتھ ساتھ ہو لیتا ہوں اور حضور انور کی جوتیاں اٹھا لیتا ہوں.حضور انور مجھے مصافحہ کا شرف بخشتے ہیں.چلتے ہوئے حضور فرماتے ہیں کہ منفتاح کے بعد جو رعمسیس نامی فرعون ہوا تھا اس کے بارہ میں مجھے تحقیق چاہئے.میں نے عرض کیا ٹھیک ہے حضور.فرمایا: لیکن یہ بڑا مشکل کام ہے.جب حضور یہ فرما رہے ہیں اس وقت میں محسوس کرتا ہوں کہ شدت گرمی کی وجہ سے مسجد کے صحن میں میرے پاؤں جل رہے ہیں.میں عرض کرتا ہوں کہ حضور میں کوشش کروں گا.پھر حضور فرماتے ہیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے.اسی طرح بات کرتے کرتے ہم صحن کے آخر پر پہنچ جاتے ہیں جہاں میں حضور انور کی جوتیاں رکھ دیتا ہوں اور حضور پہن کر مشرق کی جانب تشریف لے جاتے ہیں.جب میں واپس مڑتا ہوں تو سامنے مکرم محمد الدین صاحب ناز کھڑے نظر آتے ہیں وہ کہتے ہیں تم بڑے خوش قسمت ہو.اس طرح یہ خواب ختم ہو جاتی ہے.اس خواب سے مجھے تسلی ہوگئی کہ اعتکاف کے بارہ میں مجھے جو وسوسہ لاحق تھا وہ درست نہیں ہے اللہ فضل فرمائے گا.انہی دنوں میں میں جامعہ سے فارغ ہوا تھا.اور جب مجھے مصر جانے کا اتفاق ہوا اور حضور انور کے ارشاد کے مطابق براستہ لندن جانے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہ ہوئی تو مجھے حضور انور کی ملاقات کے شرف سے محروم رہنے کا بہت افسوس ہوا.بہر حال مصر پہنچنے کے چھ ماہ بعد مجھے یہ خواب یاد آئی تو میں نے حضور انور کی خدمت میں لکھ دی اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ مجھے معلوم نہیں یہ خواب رحمانی ہے یا شیطانی.حضور انور نے فرمایا: یقینا یہ رحمانی خواب ہے اور مجھے اس تحقیق کی ضرورت ہے.واقعہ یہ تحقیق مشکل ہوگی.لیکن آپ بہ کریں اور ساتھ ساتھ مجھے مطلع کرتے جائیں.چنانچہ میں نے مکرم ابراہیم بخاری صاحب کی مدد سے ایک آدمی تک رسائی حاصل کی جس کے ذریعہ مصری عجائب گھر سے ملحقہ اس خاص لائبریری کا کارڈ بنوا لیا جس میں فرعون سے متعلق پرانی کتب موجود ہیں.اب میں تحقیق اس نہج پر کر رہا تھا کہ کسی طرح ثابت ہو سکے کہ فرعون سمندر میں ڈوب کر مرا تھا.لیکن مجھے اس کا کوئی ثبوت نہ ملتا تھا.اس دوران مجھے فرانسیسی سائنسدان مورس بکائے ( جو فرعون کے بارہ میں قرآنی حقائق کے ثابت ہونے کی وجہ سے مسلمان ہو گیا تھا) کی اس موضوع پر کتاب بھی ملی.جب حضور انور کی خدمت میں اس کا ذکر کیا گیا تو حضور نے فرمایا اس
مصالح العرب.....جلد دوم 145 کا مجھے پتہ ہے آپ اس کو چھوڑو اور اپنی تحقیق جاری رکھو.بہر حال میں نے پوری کوشش کی لیکن تحقیق کسی نتیجہ پر نہ پہنچی.جب میں لندن آیا تو یہ ساری تحقیق بھی اپنے ساتھ لے آیا.رمضان المبارک میں حضور انور نے درس شروع کیا تو اس درس کے دوران جب آیت قرآنی فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ (یونس : 93) کا ذکر ہوا تو حضور نے فرمایا کہ مومن سے پوچھیں اس کی تحقیق کا کیا بنا وہ مصر میں فرعون کے غرق ہونے کے بارہ میں تحقیق کرتا رہا ہے.میں نے اس وقت کے پرائیویٹ سیکرٹری نصیر احمد قمر صاحب سے عرض کیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحقیق بہت مشکل تھی لیکن یہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچی.مجھے فرعون کے غرق ہونے کا کوئی حوالہ نہیں ملا.انہوں نے کہا کہ جو بھی تحقیق ہے وہ حضور انور کی خدمت میں پیش کر دیں.جب حضور انور کی خدمت میں یہ عرض کیا گیا کہ فرعون کے ڈوب مرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا تو حضور نے فرمایا یہی تو میں ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ مرا نہیں بلکہ زندہ نکالا گیا اور بعد میں اس نے حکومت کی.لیکن وہ اس کی وقت ایک زندہ لاش سے زیادہ اور کچھ نہ تھا.اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے قہر کا نشانہ بنایا کہ وہ باوجود اس کے کہ دوبارہ تخت حکومت پر جا بیٹھا لیکن محض ایک زندہ لاش کی طرح تھا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے عبرت کا نشان بنا ڈالا.کتاب "مقتل مرتد کی سزا کی حقیقت کے عربی ترجمہ کی اشاعت حضور رحمہ اللہ کے خطاب کا عربی ترجمہ "حقيقة عقوبة الردّة في الاسلام چھپا تو اس کے بعد حضور انور نے اپنے یورپ کے دورہ میں خاکسار کو بھی از راہ شفقت شامل وفد فرمایا.اس دورہ کے دوران حضور نے مجھے فرمایا کہ مختلف عرب ملکوں اور لائبریریوں اور بڑی بڑی شخصیات کے ایڈریس اکٹھے کر کے یہ کتاب سب کو بھجواؤ کیونکہ یہ بہت ہی خطر ناک عقیدہ.اس کا سد باب ہونا چاہئے.عالمگیر غلبہ اسلام کی مہم میں عالم عرب کی اہمیت اس دورہ کے دوران حضور انور نے خدام الاحمدیہ جرمنی کے اجتماع کے موقعہ پر عربوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یاد رکھیں کہ جب تک عرب ایک بہت بڑی تعداد میں احمدی نہیں ہوتے
مصالح العرب.....جلد دوم 146 اس وقت تک عالم اسلام احمدیت کی آغوش میں نہیں آئے گا.کیونکہ عالم اسلام دین میں عالمی عرب کو فالو (Follow) کرتا ہے.اس لئے کوشش کریں کہ عالم عرب سے ایک اچھی تعداد میں لوگ احمدی ہو جائیں پھر عالم اسلام بھی کثرت سے جماعت میں داخل ہو جائے گا.آج کل بفضلہ تعالیٰ عالم عرب کی توجہ احمدیت کی طرف ہو رہی ہے اور عرب بھی بکثرت احمدیت کی آغوش میں آتے چلے جارہے ہیں.اللہ کرے کہ وہ دن جلد آئے جب تمام عالم اسلام بھی کثرت کے ساتھ احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شامل ہو جائے.آمین.مغرب سے طلوع شمس دورہ جرمنی کے دوران حضور انور نے بعض مراکشی احمد یوں کو بھی شرف ملاقات بخشا.جس میں یہ بھی فرمایا کہ حدیثوں میں جو یہ آیا ہے کہ آخری زمانہ میں مغرب سے طلوع شمس ہوگا.اس کے اور بھی کئی معانی ہیں لیکن ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عالم عرب کے مغربی علاقہ میں بڑی کثرت سے احمدیت کا نفوذ ہوگا اور گویا اسلام کا سورج اس علاقہ سے طلوع ہوگا.عین ممکن ہے کہ اس بارہ میں بعض لوگ اعتراض کریں کہ یہ علاقہ تو پہلے ہی مسلمانوں پر مشتمل تھا پھر وہاں سے اسلام کے سورج کے طلوع ہونے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے.اس لئے بطور وضاحت خاکسار ( محمد طاہر ندیم ) عرض کرتا ہے کہ احادیث نبویہ میں مذکورہ آخری زمانہ کی پیشگوئیوں میں ایک یہ طلوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا ہے یعنی اس زمانہ میں مغرب سے سورج طلوع ہوگا.غیر از جماعت حضرات ایسی تمام پیشگوئیوں کو ظاہر پر محمول کر کے ان کے پورا ہونے کی آس لگائے بیٹھے ہیں.چنانچہ وہ دجال نامی ایک شخص کے ظاہر ہونے کے قائل ہیں جو عجیب الخلقت گدھے پر سوار ہوگا.نیز وہ دَابَّةُ الأرْض یعنی زمین سے ایک ظاہری کیڑے کے نکلنے کے قائل ہیں.اسی طرح وہ اس پیشگوئی کے بھی ظاہری رنگ میں ظہور کی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کسی دن سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہو جائے گا.لیکن یہ سب نہایت بلیغ استعارے ہیں جن کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے عظام نے بڑی شرح وبسط کے ساتھ اپنی کتب اور خطابات میں فرمائی ہے.مغرب سے طلوع شمس کے کئی معانی ہو سکتے ہیں.ایک معنی یہ کہ اسلام کے سورج کو جہاں
مصالح العرب.....جلد دوم 147 مسلمانوں کی طرف سے اسلامی تعلیمات سے انحراف کی شکل میں گرہن لگ جائے گا وہاں دجالی قوتوں کے دجل اور فریب کے بادل شمس اسلام کی شعاؤں کو اہل زمین پر پہنچنے سے روک دیں گے.لیکن آخری زمانے میں مسیح محمدی کے انفاس طاہرہ اور انفاخ قدسیہ کے ذریعہ ایک طرف اہل اسلام میں ایک نئی روح پھونکی جائے گی.تو دوسری طرف عیسائیت کے دجل کو بھی پارا پارا کیا جائے گا.اور چونکہ اس دجل کی آماجگاہ مغرب یعنی یورپی ممالک بنے اس لئے یہیں سے اسلام کا سورج دوبارہ طلوع ہونے کی پیشگوئی موجود ہے.چنانچہ ان علاقوں میں بھی یہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی ہے.اور اب خلافت احمدیہ اور ایم ٹی اے کے ذریعہ انہی علاقوں سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام پوری دنیا میں پھیل رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بارہ میں کیا خوب فرمایا تھا کہ: اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا.اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 304) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے ایک اور نہایت لطیف معانی ”خطبہ الہامیہ" میں بیان فرمائے ہیں جو دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی خاصہ ہیں اور شاید اس سے قبل کسی نے بیان نہیں کئے.حضور فرماتے ہیں کہ اسلام کا سورج غروب ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا حتی کہ مسلسل زوال کی وجہ سے وہ مغرب یعنی اپنے غروب ہونے کے مقام کے قریب چلا گیا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ اس سورج کو وہاں سے دوبارہ طلوع فرما دیا اور غروب ہونے سے بچالیا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی مذکورہ بالا تفسیر اور پیشگوئی کس طرح صادق آتی ہے آپ نے فرمایا کہ عالم عرب کے مغربی علاقہ میں بڑی کثرت سے احمدیت کا نفوذ ہوگا اور گویا اسلام کا سورج اس علاقہ سے طلوع ہوگا.سو واضح ہو کہ جس ملک کو ہم اردو میں مراکش کہتے ہیں عربی زبان میں اس کا نام المغرب“ ہے.اور مراکش اس کے دارالحکومت کا نام ہے.اسی طرح عربوں کے مغربی علاقے کا نام ”المغرب العربی“ ہے جس میں مراکش، تیونس، الجزائر، لیبیا، اور موریطانیہ شامل ہیں.یوں حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی تفسیر کا تعلق نہ صرف ”المغرب“ یعنی مراکش سے ہے
148 مصالح العرب.....جلد دوم بلکہ مغربی عربی علاقہ ” المغرب العربی“ سے بھی ہے.یہ تفسیر اس وقت بعض مراکشی احمد یوں کے وجود میں بھی پوری ہوئی.لیکن حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے عہد مبارک میں یہ تفسیر اس سے بھی روشن رنگ میں صادق آئی اور آرہی ہے.قارئین کرام کی دلچسپی کے لئے اس کی ایک مثال پیش ہے.گذشتہ چند سال سے جاری عیسائیت کی عرب ممالک پر یلغار کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والا عرب علاقہ المغرب العربي “ ہی ثابت ہوا اور اس علاقے میں بھی الجزائر اور المغرب (مراکش) سر فہرست ہیں.ان علاقوں میں اسلامی تنظیموں پر تو تبلیغ کی پابندی ہے لیکن عیسائی تبلیغی مشن پوری آزادی کے ساتھ کام کر رہے ہیں.ان علاقوں میں خصوصا الجزائر میں عیسائیت کی اسلام مخالف سرگرمیوں کے نتیجہ میں سینکڑوں کی تعداد میں مسلمان اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت کا شکار ہو گئے.اور یہ لہر روز بروز شدت پکڑتی جارہی تھی.اس کی خبر جب وہاں کے بعض احمدیوں اور بعض اسلام کی غیرت رکھنے والے مسلمانوں نے حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تک پہنچائی اور بعض نے تو بڑے دردناک الفاظ میں اسلام کی نصرت اور مسلمانوں کو عیسائیت کے چنگل سے بچانے کے لئے حضور انور کی خدمت میں خطوط لکھے.چنانچہ اس وقت حضور انور کی ہدایات اور خاص توجہ اور دعاؤں سے MTA پر پروگرام ”الحوار المباشر" کا آغاز ہوا.اس پروگرام میں جب عیسائی عقائد کے ضعف اور بطلان کو ثابت کرنے کا کام شروع ہوا تو عرب علاقوں میں عیسائیت کا سحر دھواں بن کر بکھرنے لگا.چنانچہ وہ لوگ جو اپنے ضعف ایمانی کی وجہ سے اسلام ترک کر کے عیسائیت قبول کر چکے تھے، واپس اسلام کی طرف لوٹنا شروع ہوئے.کئی احباب نے لکھا کہ وہ پروگرام الحوار المباشر کی مختلف اقساط ریکارڈ کر کے مسلمانوں میں تقسیم کرتے ہیں تا کہ انہیں عیسائیت کے توڑ میں دلائل کا علم ہو سکے.اسی طرح بعض نے یہ پروگرام ریکارڈ کر کے ان لوگوں کو بھی دیئے جو اسلام چھوڑ کر عیسائی ہو گئے تھے.چنانچہ کئی لوگ واپس اسلام کی طرف لوٹنا شروع ہوئے.لیکن جب وہ واپس لوٹے تو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آگئے.الحمد للہ علی ذلک.اور یوں واقعہ عرب علاقے کے اس مغرب سے اسلام کا سورج دوبارہ طلوع ہوا اور ہورہا ہے جس کا مفصل بیان حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک عہد میں عربوں میں تبلیغ کے واقعات کے ذیل میں کیا جائے گا.انشاء اللہ العزیز }
مصالح العرب.....جلد دوم 149 اس وضاحت کے بعد ہم دوبارہ عربوں میں تبلیغ کے سلسلہ میں ہونے والے اہم اور تاریخی کاموں کا بیان مکرم عبد المؤمن طاہر صاحب کی زبانی سنتے ہیں.تفسیر کبیر کے ترجمہ کی ابتداء حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے اپنی خلافت کے شروع میں ہی عربوں کی طرف خاص توجہ فرمائی.جس کا ذکر پہلے آچکا ہے.ان میں سے ایک اہم کام حضرت خلیفہ ثانی کی تفسیر کبیر کے عربی ترجمہ کی ابتداء ہے.حضور نے اپنی خلافت کے پہلے سال میں ہی جامعہ احمدیہ کے عربی کے استاد مکرم ملک مبارک احمد صاحب ( جو قبل ازیں بلاد عربیہ میں عربی زبان کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آئے تھے ) کو یہ ارشاد فرمایا کہ جامعہ احمدیہ کی اور دیگر تمام مصروفیات چھوڑ کر تفسیر کبیر کا ترجمہ کریں.اور شاید جلدی کی وجہ سے یا کسی اور سبب سے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جو باتیں اہل ہند سے تعلق رکھتی ہیں یا جو عرب مزاج کے مطابق نہیں ہیں یا جہاں تکرار ہوا ہے اس کو بے شک چھوڑ دیں.چنانچہ ملک صاحب نے اس طرح پہلی جلد کا ترجمہ مکمل کیا.جب میں یہاں لندن آیا تو حضور نے مجھے ارشاد فرمایا کہ ملک صاحب نے پہلی جلد کا ترجمہ کیا ہے اور علمی صاحب نے اس کی نظر ثانی کی ہے.آپ اس بارہ میں اپنی رائے دیں.خاکسار نے چیک کر کے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور یہ تحریف نہیں ہاں بعض جگہ اختصار کرنے کی وجہ سے یا تکرار کو حذف کرنے سے بعض اہم نکات کا ترجمہ نہیں ہو سکا.حضور نے فرمایا کہ آپ اس کو پڑھیں اور اصل کے ساتھ ٹیلی کریں.پھر جہاں آپ سمجھتے ہیں کہ یہ حذف شدہ پیرا ڈالنا چاہئے تھا اس کا ترجمہ کر کے ڈال دیں پھر میرے ساتھ مل کر اس کو ڈسکس کر لیں.چنانچہ میں حضور کی خدمت میں ایسے امور لے کر حاضر ہوتا تھا.حضور انور کئی دفعہ ترجمہ میں بھی تبدیلی کرواتے تھے.کچھ عرصہ کے بعد مکرم منیر احمد جاوید صاحب بھی مصر سے لندن تشریف لے آئے اور وہ بھی اس کام میں شامل ہو گئے.جب پہلی جلد کا کام مکمل ہوا تو حضور انور نے فرمایا کہ اس کو تو چھپوائیں، لیکن اب دوسری جلد کے ترجمہ کے بارہ میں مشورہ دیں کہ کس سے کروایا جائے.مکرم منیر احمد جاوید صاحب نے مشورہ دیا کہ مکرم
مصالح العرب.....جلد دوم 150 را نا تصور احمد خان صاحب جامعہ احمدیہ میں عربی زبان کے استاد ہیں ان کو اگر مصر بھجوایا ای جائے تو وہ وہاں مکرم حلمی شافعی صاحب کے ساتھ مل کر اگلی جلد کا ترجمہ مکمل کر لیں گے.چنانچہ حضور انور کے ارشاد کے مطابق مکرم تصور صاحب کو مصر بھجوایا گیا لیکن ان کے ویزے میں توسیع نہ ہو سکی لہذا چندہ ماہ کے بعد ہی انہیں پاکستان واپس جانا پڑا.اس کے بعد حضورانور نے مجھے ارشاد فرمایا کہ آپ اللہ کا نام لے کر شروع کریں اور مجھے ہرسال ایک جلد کا ترجمہ چاہئے.اللہ تعالی مدد فرمائے گا.جب پہلی جلد کا عربی ترجمہ تیار کر 1992ء میں چھپا تو میں ایک کاپی حضور انور کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا.حضور انور نے اس پر یہ الفاظ تحریر فرمائے: عزیزم عبد المؤمن طاہر سلمہ اللہ کے لئے جنہوں نے اس جلد کے ترجمہ اور تیاری میں بڑی محنت اور لگن اور بڑی قابلیت کے ساتھ کام کیا.اللہ کرے اب اگلی جلد اس طرح دس سال نہ لے.چونکہ پہلی جلد کا ترجمہ 1982ء میں شروع ہوا تھا اور دس سال بعد 1992ء میں چھپا اس لئے حضور نے فرمایا کہ اب اگلی جلد بھی دس سال نہ لے.دوسری جلد نے دس سال تو نہ لئے لیکن ایک سال میں بھی مکمل نہ ہو سکی بلکہ 1995ء میں شائع ہوئی، اور تیسری جلد 1997ء میں چھپی جبکہ چوتھی جلد کافی تاخیر سے یعنی 2004 ء میں شائع ہوئی.اس کے بعد سے اب تک ہر سال ایک جلد کا ترجمہ ہو کر چھپ رہا ہے.الحمد للہ.عربی میں براہ راست ترجمہ کی ابتداء حضور جرمنی جاتے ہوئے ہالینڈ میں قیام فرمایا کرتے تھے.ایک سفر میں میں بھی ساتھ تھا.اکثریوں ہوتا تھا کہ حضور انور انگریزی میں بولتے تھے اور عربوں کیلئے جماعت کے مبلغ مکرم عبدالحکیم اکمل صاحب ڈچ میں ترجمہ کرتے تھے.گویا بعض عرب انگریزی سمجھ جاتے تھے اور بعض ڈچ سن کر حضور کی بات سمجھتے تھے.پہلے دن کی گفتگو کے بعد میں نے حضور کے سیکیورٹی آفیسر مکرم میجر محمود احمد صاحب سے سیر کے دوران یونہی کہہ دیا کہ اگر حضور انور ذرا آسان انگریزی بولیں تو شاید میں ڈائریکٹ عربی میں ہی ترجمہ کرسکوں گا.میجر صاحب نے حضور
151 مصالح العرب.....جلد دوم انور کی خدمت میں ذکر کر دیا چنانچہ حضور کی طرف سے مجھے پیغام ملا کہ کل کے ترجمہ کے لئے تیار ہو جاؤ.یوں الحمد للہ ہالینڈ میں تو گزاراہ چل گیا.جرمنی گئے تو حضور انور نے امیر صاحب جرمنی سے بات کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دفعہ ہم آپ کے لئے عربی زبان کے ایک سپیشلسٹ بھی لائے ہیں.چنانچہ وہاں سوال و جواب کی مجلس میں ایک عربی دوست بھی شامل تھے جنہوں نے عربی میں سوال کیا تو حضور نے فرمایا کہاں ہیں مومن صاحب؟ چنانچہ مجھے وہاں ترجمہ کرنے کا موقعہ ملا لیکن میں بہت بوکھلایا ہوا تھا جس کی وجہ سے شاید ترجمہ اتنا معیاری نہیں تھا لیکن حضور انور نے اس پر کچھ تبصرہ نہ فرمایا.عربی ترجمہ کی ڈبنگ کی ابتدا غالباً 1989 ء یا اس سے پہلے کی بات ہے کہ حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ ہر ماہ میرے چار وں خطبات کو سن کر ان کا ترجمہ ڈبنگ کر کے عرب ممالک میں بھجوائیں.میں نے شروع کیا.ایک جملہ سن کر ڈبنگ کرنے کی کوشش کی تو ترجمہ کی کوئی سمجھ ہی نہ آئے.بالآخر حضورانور کی خدمت میں عرض کیا کہ چار خطبوں کا ترجمہ ڈبنگ کرنا تو بہت مشکل ہو گا.حضور نے فرمایا چار نہیں تو دو ہی کر دیں اور دو نہیں تو ایک ہی کر دیں.اب جب آکر شروع کیا تو مجھے تو ایک بھی کرنا محال معلوم ہورہا تھا.پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ تو ہی سکھا اور توفیق دے.چنانچہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص فضل تھا کہ بعد میں اس کی توفیق ملتی چلی گئی.خطبہ جمعہ کا لائیو عربی ترجمہ جب ڈبنگ کا سلسلہ کسی قدر چل نکلا تو اسی عرصہ کی بات ہے کہ حضور انور کی طرف سے ارشاد موصول ہوا کہ میرے خطبہ جمعہ کا لائیو ترجمہ کریں.جو اس وقت یہاں لندن میں موجود عرب احباب کے لئے ہوتا تھا.میں حاضر ہوا تو مجھے ایک ایسے کمرہ میں ترجمہ کے لئے بٹھایا گیا جہاں باقی احباب بھی کام کی غرض سے آجارہے تھے اور کئی قسم کا سازوسامان اور مشینیں بھی پڑی ہوئی تھیں.بلکہ بعض اوقات اونچی آواز میں ایک دوسرے سے کوئی چیز مانگ بھی لیتے تھے.بہر حال حضورانور کا خطبہ شروع ہوا.حضور چار جملے بولتے تو میں بڑی مشکل سے ان میں سے
152 مصالح العرب.....جلد دوم صرف ایک کا ترجمہ کر پاتا.جمعہ کے بعد میں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ اس طرح میں تو حضور انور کے خطبہ کے بمشکل چوتھے حصہ کا ہی ترجمہ کر پایا ہوں.اس کے بعد بڑی دعا بھی کی تو اگلے خطبہ میں کافی بہتری تھی.اس کے بعد رمضان شروع ہو گیا تو روزانہ حضور انور کے درس کا ترجمہ ہونا شروع ہو گیا اور یوں یہ سلسلہ چل نکلا اور الحمدللہ پھر کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا.مکرم منیر احمد جاوید صاحب کی مصر روانگی ނ مکرم عبد المؤمن طاہر صاحب کی مصر میں عربی زبان کی تعلیم کے دوران ہی حضرت خليفة امسیح الرابع رحمہ اللہ نے مکرم منیر احمد جاوید صاحب کو بھی وہاں پر تعلیم کی غرض.بھجوایا.ان ایام کی بعض یادوں کا تذکرہ مکرم منیر احمد جاوید صاحب نے کچھ اس طرح کیا: میرا مصر میں قیام تقریبا ڈیڑھ سال رہا جس کے بعد ویزہ میں مزید توسیع نہ ہوسکی چنانچہ جب یہ صورتحال حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں لکھی گئی تو آپ نے فرمایا کہ لندن واپس آ جائیں.قیام مصر کی بعض یا دیں قیام مصر کے دوران ہم تقریبا سبھی مصری احمدیوں کے ساتھ رابطے میں رہے بلکہ ان کے گھروں میں بھی آتے جاتے رہے یوں ہم ان سے زبان کے لحاظ سے اور وہ ہم سے جماعتی علوم کے بارہ میں استفادہ کرتے رہے.ویسے تو تمام مصری احمدی ہی اخلاص ووفاء میں بڑھے ہوئے تھے لیکن ان میں سے مکرم کاظم صاحب کا ذکر میں بطور خاص کرنا چاہوں گا.یہ دوست مختلف طریقوں سے زبان سیکھنے اور اسکی پریکٹس کرنے کے بارہ میں ہماری مدد کیا کرتے تھے.انکا ایک طریق بہت ہی بھلا اور قابل قدر تھا کہ بڑی معصومیت اور حکمت کے ساتھ کوئی ایسا موضوع چھیڑتے جس کے بارہ میں انہیں یقین ہوتا کہ ہم جذباتی ہو کر لازمی کچھ بولیں گے.چنانچہ جب واقعی ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی تو یہ مسکراتے ہوئے کہتے : دیکھو تم نے کتنی اچھی عربی زبان سیکھ لی ہے اور کتنی روانی سے عربی بول رہے ہو.
مصالح العرب.جلد دوم 153 مصر میں عربی زبان کی تعلیم کے علاوہ میں نے متعد د سفارتخانوں سے بھی رابطے کئے اور انہیں جماعت احمدیہ کا تعارف کروانے کا موقعہ ملا.ان میں ویٹیکن کے سفارتخانہ میں جا کر سفیر سے ملاقات اور انہیں اسلام واحمدیت کا پیغام پہنچانا قابل ذکر بات ہے.اسی طرح رشین سفیر سے بھی ملاقات کی اور انہیں بھی جماعت کے بارہ میں بتانے کا موقعہ ملا.حسنی مبارک کو انگریزی ترجمہ قرآن کا تحفہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہر سال کتابوں کا ایک میلہ لگتا ہے جس میں نئی پرانی کتب کی نمائش اور فروخت ہوتی ہے.اس میلہ میں ہم نے بھی اپنا سٹال لگایا.ایک دن اس میلہ کو دیکھنے کیلئے سابق مصری صدر حسنی مبارک بھی تشریف لائے.جب وہ ہمارے سٹال پر تشریف لائے تو ہم نے انہیں حضرت چوہدری ظفر اللہ خانصاحب کا انگریزی ترجمہ قرآن بطور تحفہ دیا.جب وہ چلے گئے تو بعد میں انکے وفد کا ایک آدمی یہ چیک کرنے کے لئے آیا کہ یہ ترجمہ قرآن دینے والے کون لوگ تھے اور ہم سے اس بارہ میں کچھ سوال پوچھے اور مطمئن ہو کر چلا گیا.فری میسنز مصر جانے سے قبل مجھے رسالہ ” خالد کی ادارت کے فرائض سرانجام دینے کی توفیق ملی تھی.مصر پہنچ کر میرا تعارف عربی جریدہ الأخبار الوطنی کے مدیر سے ہوا.میں نے اسے بتایا کہ یہاں آنے سے قبل میرا بھی میدان صحافت سے ایک تعلق رہا ہے.اس طرح میرا اسکے ساتھ ایک اچھا تعلق بن گیا تھا.اسکی ایک بات میں کبھی نہیں بھول سکتا ہے جو ایک دن بڑی رازداری کے انداز میں اس نے مجھ سے کہی کہ آج عالم اسلام میں کوئی ایک لیڈر بھی ایسا نہیں جو فری میسن سے پے رول پر نہ ہو.ان کے علاوہ جن لوگوں سے میں ملنے چلا جایا کرتا تھا ان میں ایک معہد الجوث الاسلامیہ کی لائبریری کے انچارج بھی قابلِ ذکر ہیں.ان سے اچھی دوستی ہو گئی تھی.پرانی نایاب کتابوں کے مخطوطات تک نکال کر مجھے استفادہ کرنے کے لئے دے دیا کرتے تھے.
مصالح العرب.....جلد دوم 154 علاوہ ازیں کچھ عرصہ ایک مسجد میں جا کر ہفتہ میں تین دن ایک شیخ الحدیث سے حدیث بھی پڑھتا رہا.لیکن انکے درس بصیرت سے خالی اور نور علم سے عاری ہوتے تھے.انکا سارا زور حدیث کی سند یعنی اسکے راویوں کے بارہ میں علم جرح و تعدیل پر ہوتا تھا.مہدی سوڈانی کے بارہ میں معلومات مصر سے لندن واپسی کے ارشاد کے ساتھ ہی حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ نے خاکسار کو سوڈان جانے اور وہاں سے مہدی سوڈانی کے بارہ میں معلومات اکٹھی کر کے لانے کا بھی ارشاد فرمایا.اس وقت سوڈان میں ایک دو افریقن طالبعلموں کے علاوہ کوئی احمدی نہ تھا.ایک فیملی تھی جو احمدی تو نہ تھی لیکن احمدیت کے ساتھ اچھا حسن ظن رکھتی تھی.یہ شدید گرمی کے دن تھے.میرے ذہن میں سوڈان اور خصوصا خرطوم کے بارہ میں ایک اچھا تصور تھا شاید اس لئے بھی کہ ان دنوں خرطوم یو نیورسٹی بڑی مشہور تھی اور اس کے ذکر کے ساتھ اس علاقے کی ایک اچھی صورت ذہن میں ابھرتی تھی.بہر حال جب میں ائر پورٹ پر اترا تو اسکی حالت دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا.خرطوم شہر کی حالت ایک قصبہ سے بھی کم تر تھی ، الغرض سب کچھ میرے تصور کے بالکل برعکس تھی.بہر حال میں ڈھونڈتا ڈھانڈ تا اس مذکورہ فیملی کے گھر تک پہنچ گیا لیکن گھ میں کوئی مرد نہ تھا اسلئے میں وہاں محض چند منٹ رکنے کے بعد چلا آیا.مجھے مرکز سے یہ معلومات بھی ارسال کی گئی تھیں کہ خرطوم یو نیورسٹی میں یوگنڈا کے ایک احمدی نوجوان مکرم عز الدین صاحب تعلیم حاصل کرتے ہیں بوقت ضرورت ان سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے.لہذا میں شدید گرمی کے عالم میں بمشکل اس ہوسٹل میں پہنچا جہاں کافی دیر مجھے گیٹ پر انتظار کرانے کے بعد عز الدین صاحب سے ملوا دیا گیا جو بہت محبت سے پیش آئے.ہوٹل میں تو رہنا ممکن نہ تھا لہذا میں ہوٹل میں واپس آ گیا.خرطوم کے نواح میں ام درمان نامی بستی میں مہدی سوڈانی کی قبر ہے.اس کے ساتھ ہی ایک لائبریری تھی.میں روزانہ وہاں جا کر مختلف کتب سے استفادہ کرتا اور دو تین روز میں مطلوبہ معلومات اکٹھی کر کے وہاں سے مصر اور پھر لندن واپس آ گیا.
مصالح العرب.جلد دوم لندن میں خدمت 155 لندن پہنچ کر کچھ عرصہ کے لئے عربوں کی طرف سے خلیفہ وقت کی خدمت میں لکھے گئے عربی خطوط کے اردو ترجمہ میں اور تفسیر کبیر کے عربی ترجمہ میں مکرم عبد المؤمن طاہر صاحب کی معاونت کی توفیق ملی.ازاں بعد حضورانور کی طرف سے دیگر کئی کام سپرد ہو گئے اور بالآخر پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر خدمت بجالانے کا ارشاد ہوا جسکی خدا وند تعالیٰ محض اپنے فضل واحسان کے ساتھ آج تک توفیق دیتا چلا جارہا ہے.فالحمد للہ علی ذلک.XXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.جلد دوم 156 1985ء کا تاریخی جلسہ سالانہ برطانیہ ہجرت نے رستے کھول دیئے.ہم حضرت مصلح موعودؓ کے عہد مبارک میں عربوں میں تبلیغ کے ایمان افروز واقعات کی ذیل میں یہ ذکر کر آئے ہیں کہ جب اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا تو ان علاقوں کے ماعرب باشندے تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پڑوسی عرب ممالک کی طرف ہجرت کر گئے.بعض اپنی جائیدادیں یہودیوں کو اونے پونے بیچ کر یہ جگہ چھوڑ گئے.ایسے حالات میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اہل کہا بیر کو یہ پیغام پہنچایا کہ اپنی زمین یہودیوں کو نہیں بیچنی.لہذا یہ لوگ اسی جگہ پر آباد رہے.لیکن چونکہ یہ علاقے اسرائیلی تسلط کے نیچے تھے لہذا یہ لوگ پاکستان نہیں جاسکتے تھے، جبکہ خلافت اور جماعت کا مرکز ربوہ پاکستان میں تھا.اس طرح یہ لوگ خلیفہ وقت نی سے پاکستان میں نہیں مل سکتے تھے.نہ مرکز احمدیت کی زیارت کر سکتے تھے.جب حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ بعض اوقات یورپ یا امریکہ وغیرہ کے بعض ممالک کے دورہ پر تشریف لے گئے تو ان احمد یوں میں سے بعض نے حضور سے ملاقات کی اور کئی سالوں کی پیاس بجھائی.لیکن ایک لمبے عرصہ بعد یہ ملاقات بھی بہت مخصر تھی.تاہم اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ، فضل اور حکمتوں کے تحت جب حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے لندن ہجرت فرمائی تو جہاں اللہ تعالیٰ نے اور بے شمار نعمتوں اور برکات کی راہیں کھولیں وہاں ان احمدیوں کے لئے خلیفہ وقت سے ملاقات کی راہ بھی کھل گئی.اور وہ بند جو کئی سالوں سے لگے ہوئے تھے وہ سب ٹوٹ گئے.شاید ان کے ذہنوں میں کسی قدر محرومی کے خیالات بھی آتے ہوں گے کہ ہم خلیفہ وقت سے مل نہیں سکتے نہ مرکز احمدیت کی زیارت کرنے جا سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے سب محرومیوں کو مثالی
157 مصالح العرب......جلد دوم دیا اور خلیفہ وقت ایسے علاقے میں ہجرت کر کے تشریف لے آئے جہاں ان احمدیوں کا آنا جانا ہے ممکن تھا.یوں اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں اور تمناؤں کو بھی سنا اور سب سے زیادہ انہیں حضرت خلیفہ ثانی کے ارشاد مبارک کی اطاعت کرنے کی بے شمار برکات کے علاوہ یہ برکت بھی عطا فرمائی کہ خلافت سے رابطہ اور تعلق کے نئے راستے کھول دیئے.چنانچہ 1985ء کے جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقعہ پر کہا بیر اور دیگر عرب ممالک سے شامل ہونے والا وفد تقریباً ہمیں افراد پر مشتمل تھا.اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا، اور ان ممالک سے مرد عورتیں اور بچے جلسہ میں شامل ہوتے رہے یہاں تک کہ 2009ء کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے عرب مردوزن و بچگان کی تعداد تقریباً 100 تھی.تاریخی جلسہ سالانہ کا کچھ حال حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہجرت کے بعد 1985ء کے جلسہ سالانہ برطانیہ میں عربوں کا ایک وفد شامل ہوا یہاں پر اس جلسہ میں شامل ہونے والے بعض افراد کے جذبات اور ملاحظات و مشاہدات کا تذکرہ خالی از فائدہ نہ ہوگا.مکرم عبد الله اسعد عودہ صاحب اور مکرم عبد اللطیف اسماعیل عودہ صاحب نے ہماری درخواست پر اس بارہ میں اپنی تحریر مؤرخہ 5 / جون 2009 ء ارسال فرمائی جس کا خلاصہ نظر قارئین کیا جاتا ہے.1985ء کا جلسہ سالانہ برطانیہ 4 تا 6 اپریل کو منعقد ہوا.اس میں شامل ہونے کے لئے اہل کبابیر کا 24 افراد پر مشتمل ایک وفد حاضر ہوا.جن کے ساتھ کہا بیر میں جماعت کے مبلغ مکرم شریف احمد امینی صاحب بھی تشریف لائے.علاوہ ازیں سیر یا اور اردن اور مصر اور کویت سے بعض عرب احباب نے بھی شرکت کی یوں عربوں کے اس وفد کی کل تعداد میں کے لگ بھگ ہو گئی.اور شاید تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں عربوں کا وفد خلیفہ وقت کی موجودگی میں کسی مرکزی جلسہ سالانہ میں شامل ہوا ہو.چونکہ کہا بیر کے احمدیوں کے لئے پاکستان کا سفر تو ناممکن تھا اور قبل ازیں خلیفہ وقت.ملاقات کی یہی صورت میسر تھی کہ اُن دنوں میں جب کبھی حضور یورپ کے دورہ پر تشریف لائیں
158 مصالح العرب.....جلد دوم تو وہ بھی یورپ میں آجائیں، لیکن یہ توفیق بھی بہت کم احمدیوں کو ملتی تھی.دوسری طرف خلیفہ وقت سے ملاقات کی خواہش ہر احمدی کے دل میں موجزن تھی.لہذا حضور انور کی ہجرت کے بعد جب آپ سے ملاقات کی یہ راہ کھل گئی تو کہا بیر کے احمدی بھائیوں کی خوشی دیدنی تھی.دوسری طرف اس لئے بھی ہماری مسرت کا کوئی ٹھکانا نہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی ایک لمبے عرصہ کے انتظار کے بعد مرکزی جلسہ سالانہ میں شرکت کی توفیق دی تھی.ہمارے لئے اسلام آباد میں رہائش کا اعلیٰ انتظام کیا گیا تھا اور خدمت کرنے اور خاص خیال رکھنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی.مختلف ممالک کے وفود اور ہر رنگ ونسل کے افراد سے دینی محبت واخوت کے جذبات کے ساتھ ملاقاتوں میں ایک عجیب حلاوت اور روحانی لذت تھی جس کا بیان ناممکن ہے.علاوہ ازیں حضور نے ہمیں دعوت پر بلایا بلکہ متعدد بار بڑے پیار سے ہمیں آموں کے تحائف بھی بھیجوائے.جلسہ کے بعد مجلس شوری میں بھی حضور انور نے ہمیں شمولیت کی اجازت مرحمت فرمائی چنانچہ مبلغ سلسلہ کبابیر کے علاوہ مکرم محمود احمد عودہ صاحب اور مکرم عبد اللہ اسعد عودہ صاحب نے یہ سعادت پائی.حضور انور کی نصائح حضور نے ایک تو ہمیں ان جلسوں میں تمام احباب کو حسب استطاعت شامل ہونے کی طرف توجہ دلائی.دوسرے نظام جماعت کے پورے طور پر قیام اور ذیلی تنظیموں کے فعال کردار جیسے امور کی طرف خصوصی توجہ دلائی.حضور انور کی اس نصیحت کا یہ اثر ہوا کہ حضور انور کی وفات تک کبابیر کے اکثر احمدیوں کی جلسہ سالانہ برطانیہ میں شمولیت اور خلیفہ وقت سے ملاقات ہو گئی اور بعض کا مضبوط ذاتی تعلق قائم ہو گیا.اور ہر ایک کو یا اس کے اہل خاندان کو خلیفہ وقت سے تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی روحانی لذت کے خزانے کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور حاصل ہو گیا.واپس روانگی سے قبل حضور انور نے ہمیں شرف ملاقات بخشا اور سب کے ساتھ اجتماعی تصویر بھی بنوائی.
مصالح العرب.جلد دوم ایک حسین اتفاق 159 مکرم عبد اللہ اسعد صاحب از کبا بیر لکھتے ہیں کہ : جلسہ سالانہ برطانیہ میں شرکت کے بعد واپسی پر مجھے جرمنی جانے اور افراد جماعت سے ملاقات کا بھی اتفاق ہوا.چونکہ اس سے قبل بھی مجھے متعدد بار جرمنی جانے کا اتفاق ہوا تھا اس لئے وہاں کے متعدد احمدیوں کے ساتھ خاکسار کے اچھے تعلقات تھے.وہاں Dietzenbach کے علاقہ میں 1967 ء سے میرے ایک احمدی دوست مکرم شریف خالد صاحب رہتے تھے جنہوں نے بڑے پیار اور محبت سے مجھے کھانے پر بھی بلایا جس میں مکرم عبد اللہ واگس ہاؤزر صاحب نے بھی شرکت فرمائی جو کہ اس وقت صدر مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی تھے.اس دعوت میں مکرم شریف خالد صاحب نے ہمیں ایک بہت بڑا سرپرائز دیا ، وہ کہنے لگے کہ آپ عرب احباب اس جلسہ میں شرکت کرنے کی وجہ سے بہت خوش قسمت ہیں.کیونکہ آپ کے وجود میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آج سے پورے ایک سوسال قبل کا الہام پورا ہوا.اور وہ ہے : يَدْعُونَ لَكَ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللَّهِ مِنَ الْعَرَب.جو کہ حضور علیہ السلام کو 6 اپریل 1885ء کو ہوا یعنی اس جلسہ سالانہ کے دوسرے دن اس کو پورے سوسال ہو گئے.مکرم عبد الله اسعد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے جب حضور انور کی خدمت میں اس الہام کے پورا ہونے کی بابت لکھا تو حضور نے اس پر اپنے مکتوب گرامی میں فرمایا: I was deeply touched to hear that.ایک زبر دست پیشگوئی مکرم عبد اللہ اسعد صاحب کی مذکورہ بالا بات کے بعد جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کی مکمل تفاصیل کو دیکھا تو ایک عجیب تو ار دسامنے آیا جو نظر قارئین کیا جاتا ہے.اس الہام کی تفصیل درج کرتے ہوئے حضور 6 را پریل 1885ء کو اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں: آج اسی وقت میں نے خواب دیکھا ہے کہ کسی ابتلاء میں پڑا ہوں اور میں نے إِنَّا لِلَّهِ
160 مصالح العرب......جلد دوم وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہا.اور جو شخص سرکاری طور پر مجھ سے مواخذہ کرتا ہے میں نے اس سے کہا کیا مجھ کو قید کریں گے یا قتل کریں گے.اس نے کچھ ایسا کہا کہ انتظام یہ ہوا ہے کہ گرایا جائے گا.میں نے کہا کہ میں اپنے خداوند تعالی جلشانہ کے تصرف میں ہوں جہاں مجھ کو بٹھائے گا بیٹھ جاؤں گا اور جہاں مجھ کو کھڑا کرے گا کھڑا ہو جاؤں گا.اور یہ الہام ہوا: يَدْعُونَ لَكَ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللهِ مِنَ الْعَرَب - یعنی تیرے لئے ابدال شام کے دعا کرتے ہیں.اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے ہیں.خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیونکر اس کا ظہور ہو.واللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب“ (از مکتوب مؤرخہ 6 اپریل 1885ء مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ 86) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام اس وقت ہوا جب ابھی جماعت کا کہیں کوئی نام ونشان بھی نہ تھا اور نہ ہی حضور نے جماعت کے قیام کا کوئی اعلان فرمایا تھا بلکہ یہ اس وقت کی تی بات ہے جب آپ کو بعض بزرگوں کی طرف سے کہا جارہا تھا کہ : تم مسیحا بنوخدا کے لئے“.اور آپ ہماری بیعت لیں.لیکن آپ یہی فرما رہے تھے کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا حکم نہیں ہوا.ایسے وقت میں کسی کو یہ الہام ہو کہ ہندوستان کے چند لوگ تیری بیعت کریں گے اور پھر ایسا ہو جائے تو بھی وہ اس کی صداقت کی دلیل ہے.لیکن اگر یہ الہام ہو کہ : 1.تیری بیعت میں عربوں کی ایک جماعت شامل ہونے والی ہے.2.وہ جماعت عام لوگوں کی نہیں ہوگی بلکہ ایسے خواص ہوں گے کہ جن میں سے کچھ عباد اللہ، کچھ صلحاء اور کچھ ابدال کے درجہ پر ہوں گے.3.یہی نہیں بلکہ جتنے نیک اور صالح اور روحانیت میں ترقی کرنے والے وہ خود ہوں گے اتنا ہی تیرے ساتھ محبت، اخلاص اور وفا میں بڑھنے والے ہوں گے یہاں تک کہ تیرے لئے دعائیں کریں گے.یہ اتنی بڑی بات ہے کہ کوئی انسان از خود اس کی جرات نہیں کرسکتا.بلکہ یہ صرف اور صرف وہ خدا ہی کہہ سکتا ہے جس کا دلوں پر تصرف ہے، جو عالم الغیب ہے، جو اپنے فرستادوں کی مدد کی
مصالح العرب......جلد دوم 161 کرتا ہے اور انکی نصرت کے لئے اپنی وحی کے ذریعہ دنیا کی مختلف اقوام میں سے "رجال" کو منتخب کر کے خود ارسال کر دیتا ہے.بلا شبہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک عظیم نشان ہے.یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ رویا اور الہام آپ کی زندگی میں ہی اس طرح پورا ہوا جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت الشیخ محمد بن احمد المکی، حضرت محمد سعید الشامی الطرابلسی صاحب ، حضرت عبد اللہ عرب ، حضرت سید علی ولد شریف مصطفی حضرت عثمان عرب، حضرت حاجی مهدی بغدادی وغیرہ صلحاء العرب اور عباداللہ من العرب اور ابدال شام کی صورت میں آپ کی بیعت میں دے دیا اور یہ خوش قسمت عرب صحابہ اس الہام کے پہلے مصداق بنے.ایک عجیب توارد جیسا کے اس رویا اور الہام کے درج فرمانے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کیونکر اس کا ظہور ہو.“ اس کے مطابق اس کے اور بے شمار معانی ہوں گے اور نہ معلوم آئندہ کس طور پر اور کن معنوں میں اور کتنی دفعہ اس نے پورا ہونا ہے.تاہم اس کے پورا ہونے کی ایک صورت حضرت خليفة أسبح الرابع رحمہ اللہ کے عہد مبارک میں بھی پیدا ہوئی.آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اس الہام کے پورا ہونے کی یہ تجلی کیسے ظاہر ہوئی.اس رؤیا کی ابتداء میں حضور فرماتے ہیں: میں نے خواب دیکھا ہے کہ کسی ابتلاء میں پڑا ہوں اور میں نے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کہا.اور جو شخص سرکاری طور پر مجھ سے مؤاخذہ کرتا ہے میں نے اس سے کہا کیا مجھ کو قید کریں گے یا قتل کریں گے.اس نے کچھ ایسا کہا کہ انتظام یہ ہوا ہے کہ گرایا جائے گا.میں نے کہا کہ میں اپنے خدا وند تعالیٰ جل شانہ کے تصرف میں ہوں جہاں مجھ کو بٹھائے گا بیٹھ جاؤں گا.اور جہاں مجھ کو کھڑا کرے گا کھڑا ہو جاؤں گا.“
مصالح العرب.....جلد دوم 162 یہ کلمات بعینہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہجرت پر بھی صادق آتے ہیں جو کہ ایک بہت بڑا ابتلاء تھا.آپ کو قید وقتل کرنے کی بڑے پیمانے پر سازش تیار ہو چکی تھی جس کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں ہو رہی تھیں.اور دشمن اپنی دانست میں اس حربہ سے نہ صرف آپ کو گرانے کا سوچ رہا تھا بلکہ آپ کے بعد جماعت کے وجود کو بھی مٹتا ہوا خیال کر رہا تھا.لیکن ہوا تو وہی جو خدا نے چاہا.آپ خدا کے تصرف کے تحت چلتے گئے اور جہاں اللہ نے بٹھایا بیٹھ گئے ، جہاں کھڑا کیا کھڑے ہو گئے.اور معجزانہ طور پر خدا تعالیٰ کی حفظ وامان میں ہجرت کر کے دیار مغرب میں پہنچ گئے.اب اس رؤیا کے دوسرے حصہ کے پورے ہونے کی باری تھی جو کہ الہام الہی سے عبارت ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے 29 اپریل 1984ء کو ہجرت فرمائی.اس سال تو جلسہ سالانہ برطانیہ گزشتہ طے شدہ تواریخ کے مطابق مؤرخہ 27,26 اگست کو صرف دو دن کے لئے ہوا.یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل بھی جلسہ سالانہ برطانیہ صرف دو دن کیلئے اور اکثر اگست کے مہینے میں ہوتا تھا.اگلے سال 1985ء کے جلسہ سے قبل جماعت نے اسلام آباد تلفورڈ کی وسیع اراضی خرید لی تھی چنانچہ یہاں پر ایک عالمگیر جلسہ ہوا.اس جلسہ میں یہ عجیب بات ہوئی کہ اس کی تواریخ اگست کی بجائے 5-6 اور 7 اپریل مقرر ہوئیں، اور ان کی درمیانی تاریخ یعنی 6 اپریل کے دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس رویا اور الہام پر پورے 100 سال مکمل ہو گئے تھے.اور یہی وہ جلسہ تھا جس میں پہلی بار 47 ممالک کے وفود شامل ہوئے.اس موقعہ پر عرب ممالک سے بھی پہلی دفعہ تقریباً تمہیں افراد پر مشتمل ایک وفد شامل ہوا.اس سے قبل جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں عرب احباب شاید کسی مرکزی جلسہ میں شامل نہیں ہوئے تھے.یوں بڑی شان کے ساتھ اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام اس انوکھے رنگ میں پورا ہوا.اور آج خلافت خامسہ کے عہد مبارک میں تو صلحائے عرب اور ابدال الشام کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے دعا ئیں اس قدر نمایاں ہو کر سامنے آئی ہیں کہ اس کا ایک زمانہ گواہ بن گیا ہے.
دائیں سے بائیں: عبد الہادی عودہ، ہاشم طیب عمده محمود احمد عوده حضرت علیه مسیح الرابع رحمہ اللہ، مصطفی ثابت مرحوم ( پیچھے ) ، طا قزق مرحوم.جلسہ سالانہ 1985 میں شرکت کرنے والے وفد کہا پیر کے بعض ارکان حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ
جلسہ سالانہ 1985 میں شرکت کرنے والے عرب احباب کی حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ ایک یادگار تصویر ר جلسہ سالانہ 1985 میں شرکت کرنے والے بعض عرب احباب کا گروپ فوٹو
مصالح العرب.جلد دوم 163 مربیان کرام کی عرب ممالک میں روانگی جیسا ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت خلیفہ انبیح الرابع رحمہ اللہ نے ہجرت کے بعد دیگر بیرونی الله ممالک اور اقوام کے ساتھ ساتھ عربوں میں بھی تبلیغ کو بڑی اہمیت دی.عربوں میں تبلیغی مہمات کی کامیابی کا ایک اہم نقطہ عربی زبان میں زیادہ سے زیادہ لٹریچر مہیا کرنا تھا.اس کمی کو پورا کرنے کے لئے مربیان کرام کو عربی زبان کی مزید تعلیم کے لئے عرب ممالک میں بھجوایا.ان میں بعض مبلغین کرام کا ذکر پہلے گزر چکا ہے، بعض کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے لندن میں کسی مجلس میں اس بات کا ذکر فرمایا کہ چند مبلغین کو مختلف زبانوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرونی ممالک بھیجوایا جائے.اس سلسلہ میں مکرم ملک سیف الرحمن صاحب نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ انہوں نے جامعہ احمد یہ ربوہ میں چند ند متخصصین تیار کئے تھے اگر حضور پسند فرما ئیں تو انہیں بعض عرب ممالک میں عربی زبان کی اعلیٰ تعلیم کیلئے بھجوا دیا جائے.چنانچہ اس بنا پر پاکستان سے مکرم نصیر احمد صاحب قمر اور مکرم منیر احمد صاحب جاوید کو لندن بھجوانے کی کارروائی شروع ہوئی ، اور ویزہ ملنے پر یہ دونوں مبلغین 16 مئی 1985 ء کولندن پہنچ گئے.شام روانگی اور ہدایات لندن میں کام کی زیادتی اور عملہ کی کمی کی وجہ سے کچھ عرصہ انہوں نے لندن میں رہ کر کام کیا.ازاں بعد یہ فیصلہ ہوا کہ انہیں عربی زبان کی اعلیٰ تعلیم کے لئے شام بھجوا دیا جائے.لہذا مورخہ 2 اپریل 1986ء کو حضور انور رحمہ اللہ نے اسلام آباد میں انہیں ہدایات دیں جن میں
مصالح العرب.....جلد دوم ایک یہ بھی تھی کہ وہاں جا کے زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ جماعت کو بھی سنبھالیں.164 3 اپریل 1986ء کو یہ دونوں مربیان کرام شام پہنچ گئے.ائر پورٹ پر استقبال کے لئے آنے والے احمدیوں میں مکرم محمد الشوا صاحب، مکرم ناصر عوده صاحب، مکرم منیر ادلبی صاحب، مکرم نذیر مرادنی صاحب، اور مکرم خالد عباس ابور اجی صاحب شامل تھے.ویزہ میں توسیع نہ ہو سکی پروگرام تو یہ تھا کہ شام میں انہیں کسی انسٹیٹیوٹ میں داخلہ مل جائے گا جس کی بنا پر ان کے ویزہ میں توسیع ہو جائے گی لیکن باوجود انتہائی کوشش کے ایسا نہ ہو سکا.اور پانچ ہفتوں کے مختصر قیام کے بعد انہیں واپس لندن آنا پڑا.حضور انور نے لندن سے روانگی سے قبل دونوں مربیان میں سے مکرم نصیر احمد قمر صاحب کو نگران بنا کر ارسال کیا تھا اور ان سے تعاون کی ہدایات پر مشتمل ایک خط شام کی جماعت کو بھی ارسال کرنے کی ہدایت فرمائی تھی.مربیان کرام نے یہ خط دستی لے جانا چاہا لیکن اس وقت کے عربی ڈیپارٹمنٹ کے انچارج حسن عودہ صاحب نے اسے ڈاک کے ذریعہ بھیجنے پر ہی اصرار کیا.شام پہنچنے پر ائیر پورٹ پر تو کوئی مشکل پیش نہ آئی تا ہم چند دنوں کے بعد ان کے پاس سی آئی ڈی کے کچھ لوگ آئے جنہوں نے ان کے آنے کا سبب پوچھا.ان کے اس جواب کے بعد کہ عربی زبان کی مزید تعلیم کے لئے یہاں آئے ہیں، یہ سی آئی ڈی والے تو چلے گئے لیکن اس کے بعد نہ تو انہیں کہیں داخلہ ملا نہ ہی ویزہ میں توسیع ہو سکی اور دلچسپ بات یہ کہ لندن سے پوسٹ کیا ہوا خط نہ ان کی موجودگی میں انہیں وہاں ملا، نہ ہی ان کے بعد وہاں پہنچا..شاید یہ خط سی آئی ڈی والوں کے ہاتھ لگ گیا تھا اور انہیں نہ جانے کیا خوف تھا جس کی بنا پر دونوں مربیان کو وہاں پر تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہ دیا گیا.اس وقت میڈیا نے اتنی ترقی ابھی نہیں کی تھی نہ ہی جماعت کا ٹی وی چینل تھا نہ ویب سائٹ اور نہ دیگر تیز ترین ذرائع جو آجکل میسر ہیں.اس لئے جماعتیں ان معلومات کے سلسلہ میں زیادہ تر ڈاک پر ہی انحصار کرتی تھیں اور شام میں شاذ و نادر کے طور پر ہی ڈاک پہنچتی تھی.اس لئے ان پانچ ہفتوں کے قیام میں دوڑ بھاگ سے بچنے والے وقت میں مربیان کرام کو احمدی احباب کے ساتھ بیٹھنے کا جتنا بھی موقعہ ملا تو انہیں خلیفہ وقت کی مصروفیات ، آپ کی مختلف کی
مصالح العرب.....جلد دوم 165 تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات، اسی طرح مرکز جماعت اور دیگر علاقوں میں جماعت کی خبریں بتائی گئیں جن سے وہ بالکل ہی بے خبر تھے.ان چند دنوں کے بارہ میں مکرم نصیر احمد قمر صاحب نے اپنی کچھ یادیں بیان فرمائیں جو انکی زبانی نظر قارئین کی جاتی ہیں.جماعت کے لوگوں کو جماعت کے عالمی حالات کی کچھ خبر نہ تھی.پاکستان اور دیگر ممالک میں احمدیوں کے ساتھ ظلم کے واقعات کا بہت کم علم تھا.اس لئے جب بھی ہمیں موقعہ ملتا اور ہم انہیں یہ واقعات سناتے تو یہ بڑی دلچسپی سے سنتے تھے.ان کو مرکز سے، خلیفہ وقت سے رابطے کی ایک تڑپ تھی.ان کے ساتھ ہماری گفتگو ہوتی تو ہماری عربی زبان کی پریکٹس ہو جاتی اور انہیں جماعت کے حالات کے بارہ میں معلومات مل جاتیں.مکرم منیر احصنی صاحب ان دنوں علیل تھے.ان سے ملاقات تو ہو جاتی تھی لیکن زیادہ گفتگو نہیں کر سکتے تھے.ہمارے وہاں قیام کے دوران مکرم ناصر عودہ صاحب اور ان کے اہل خانہ نے بہت اخلاص اور محبت کا اظہار فرمایا.ان کی اہلیہ باصرار خود ہی کھانا بناتی رہیں اور ہمیں نہیں پکانے دیا.اسی طرح مکرم محمد الشوا صاحب کے بھائی مکرم زکریا الشوا صاحب نے بھی بہت سیر کروائی.وہ ہمیں لے کر وہاں پر صحابہ کرام اور صحابیات کے مزارات پر گئے.علاوہ ازیں آثار قدیمہ اور کئی تاریخی عمارات اور مقامات کی بھی سیر کروائی.مکرم نذیر مرادنی صاحب جب بھی ہمارے پاس بیٹھتے کاغذ قلم نکال کر ہماری باتوں کے نوٹس لیتے تھے.اکثر ذکر کیا کرتے تھے کہ گزشتہ عرصہ میں جو بھی جماعت کا نمائندہ یا مبلغ یہاں تشریف لایا ہے ان کی باتوں کے نوٹس ان کے پاس لکھے ہوئے موجود ہیں.ہماری وہاں موجودگی کے عرصہ میں مکرم نذیر مراد نی صاحب کے بھائی نے بیعت کی تھی.وہاں مرکز سے جو ڈاک پہنچتی تھی اس میں سے اکثر جماعت کے اردو زبان میں رسالے تھے جن کو پڑھ کے سمجھنے سے وہ قاصر تھے اس لئے ہم نے دیکھا کہ ان کو کسی نے کھولا تک نہ تھا.ہم نے کھول کر ان میں مذکور بعض خبروں اور مضامین سے احباب کو آگاہ کیا تو وہ بڑے حیران ہو کر کہنے لگے کہ ہمیں تو پتہ بھی نہیں تھا کہ ان رسائل میں اس قدرخزا نے موجود ہیں.
مصالح العرب.جلد دوم اسوہ حسنہ 166 ایک دفعہ مکرم محمد الشوا صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ان کے پاس ان کے ایک وکیل دوست بھی تشریف رکھتے تھے.وہ کہنے لگے کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ موجود ہے.چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 40 سال کی عمر میں نبوت کا اعلان کیا اور 63 سال کی عمر میں وفات پائی.یوں آپ نے 23 سال نمازیں ادا کیں.لہذا اگر کوئی 23 سال تک نمازیں پڑھ لے تو اس کے لئے کافی ہوگا.مکرم محمد الشوا صاحب نے مجھے کہا کہ ان کے سوال کا کیا جواب ہوسکتا ہے.میں نے عرض کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اُسوہ نہیں کہ 23 سال تک نمازیں ادا کیں بلکہ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ اليَقِينُ (الحجر: 100) کے حکم کی تعمیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یہ ہے کہ آپ نے زندگی کے آخری سانس تک نمازیں ادا کیں حتی کہ آخری بیہوشی کی حالت سے بھی جب افاقہ ہوتا تو آپ نماز کے بارہ میں ہی دریافت فرماتے.پس اسوہ حسنہ کی پیروی کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح زندگی کے آخری سانس تک نماز ادا کرتے رہیں.دوسری بات یہ ہے کہ یہ کس طرح تصور کر لیا جائے کہ جو نماز ہم پڑھ رہے ہیں وہ بعینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے برابر ہے.شاید ہماری ساری عمر کی نمازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نماز کے بھی برابر نہ ہوسکیں گی.پھر ایسی صورت میں کیونکر ممکن ہے کہ کوئی یہ دعوی کرے کہ میں نے اس قدر نمازیں پڑھ لی ہیں جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ادا کی تھیں.میرے اس جواب پر وہ دوست بالکل خاموش ہو گئے.عربی زبان میں خطبہ اس وقت وہاں پر باقاعدگی سے نماز جمعہ ادا کی جاتی تھی.جب ہماری واپسی کا فیصلہ ہو گیا تو آخری جمعہ میں نے پڑھایا اور ایک گھنٹے کا فی البدیہہ خطبہ عربی زبان میں دیا جس میں قرآن مجید کے حوالہ سے باہمی اتفاق و اتحاد اور حبل اللہ کے ساتھ چمٹے رہنے کا مضمون بیان کیا.احباب کرام نے اس کو بہت سراہا.بالآخر 9 مئی 1986ء کو یکم رمضان المبارک کے دن ہماری واپسی ہوئی.
مصالح العرب.جلد دوم 167 بعض یا دیں 1987ء میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ مجھے بھی ناروے کے دورہ پر ساتھ لے گئے.وہاں پر کچھ عرب مہمان بھی آگئے.ان کے ساتھ حضور انور گفتگو فرمانے لگے تو فرمایا نصیر قمر کو بلائیں.حضور انور کے پر معارف مضامین کا عربی میں ترجمہ کرنا میرے لئے بہت مشکل کام تھا.کچھ دیر تو میں نے جیسے تیسے کام چلایا پھر ایک عرب احمدی آگئے جن کو عربی کے علاوہ انگریزی بھی آتی تھی لہذا ترجمہ کی ذمہ داری انہوں نے سنبھال لی.اس ابتدائی عرصہ میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی عربی ڈاک کے جوابات تیار کرنے کی بھی توفیق ملی.حضور عربوں کو بہت وقت دیتے اور ان کا خاص خیال رکھتے تھے.جلسہ سالانہ پر عرب احباب قصیدہ پڑھا کرتے تھے.اس کی نگرانی اور تیاری بھی حضور انور نے میرے ذمہ کر دی تھی اور شاید مقصد یہ بھی تھا کہ انہیں اس طرح کچھ نہ کچھ انتظامی اور مرکز کی باتیں پتہ چلیں گی اور تربیت ہوگی.جلسہ سالانہ برطانیہ کے ایک خطاب میں حضور انور نے فرمایا کہ جماعت کا چندہ اب خدا کے فضل سے اربوں میں داخل چکا ہے اور ساتھ ہی فرمایا کہ عربوں میں بھی جماعت کثرت اور تیزی سے نفوذ کرے گی.گو اس سے قبل عربوں کا کوئی ذکر نہیں ہوا تھا لیکن حضور انور کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے اور آج ہم ان کے پورا ہونے کے نظارے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.نظام خلافت کی ایک یہ بھی خوبی ہے کہ اس کے کاموں میں تسلسل ہوتا ہے.شام سے لندن واپس آنے کے کچھ عرصہ بعد مکرم منیر احمد صاحب جاوید کو مصر میں عربی زبان سیکھنے کے لئے بھجوایا گیا جہاں وہ قریباً ڈیڑھ سال رہے.اسی طرح مکرم صفدر حسین عباسی صاحب کو بھی اسی غرض سے 8 جولائی تا 24 ستمبر 1985 ء شام میں رہنے کی توفیق ملی لیکن نامساعد حالات کی وجہ سے واپس آنا پڑا.الہی جماعتوں کا ایک روشن نشان یہ ہوتا ہے کہ سعید روحیں ان میں شامل ہوتی چلی جاتی ہیں اور دن بدن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، جبکہ ان کے مخالفین کی زمین رفتہ رفتہ کناروں سے کم ہوتی جاتی ہے.یہ امر اس قدر معلوم ومشہود ہوتا ہے کہ الہی جماعت کی صداقت.
168 مصالح العرب......جلد دوم پر ایک زبر دست دلیل بن جاتا ہے.مخالفین سر توڑ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح لوگوں کو قبول حق سے روک دیں یا جو قبول کر چکے ہیں ان کو برگشتہ کر دیں لیکن وہ اپنی اس کوشش میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں.لیکن اگر کبھی کوئی شخص اپنی بدقسمتی سے برگشتہ ہو کر ان کے پاس پہنچ جائے تو اس پر اس قدر یہ شور مچاتے ہیں کہ جیسے دنیا فتح کر لی ہو.در حقیقت ان کا شور اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ ان کو ایسا دیکھنا کبھی نصیب نہیں ہوا.لیکن اس کے بالمقابل ان کے آس پاس سے، ان کے عزیز واقارب سے اور ان کے قرب وجوار سے لوگوں کا بکثرت الہی جماعت میں داخل ہوتے چلے جانا ان معاندین کی حسرتوں اور ناکامیوں میں اضافہ کا باعث بن رہا ہوتا ہے اور ان کی ایک نہیں چلتی.
مصالح العرب.جلد دوم 169 ایک عرب کا جماعت سے ارتداد 80ء کی دہائی کے نصف آخر میں ایک عرب حسن عودہ کے ارتداد پر مولویوں نے بڑا شور مچایا.جماعت احمدیہ کے لئے یہ واقعہ اس لحاظ سے قابل افسوس ضرور تھا کہ ایک شخص نے راہ نجات کو پہچان کر چھوڑ دیا اور ایسی راہ اختیار کی جس کا نتیجہ لازما بُرا ہے.لیکن اس شعور کا کہیں دُور دُور تک بھی نام ونشان نہ تھا کہ اس کے جانے سے جماعت کو کوئی نقصان ہوا ہے.کیونکہ جو بات اس کی وجہ ارتداد بنی وہ یہی تھی کہ اس کے سپرد کئے گئے کام واپس لے لئے گئے اور اسے اپنے ملک واپس جانے کا کہا گیا تھا.لہذا جب جماعت کو اس پر اعتماد نہ رہا، اس کے کام پر اعتماد نہ رہا حتی کہ اس کے یہاں رہنے میں جماعت کو کسی قسم کی خیر کی توقع نہ رہی تو پھر اس کے مولویوں کے ساتھ جاملنے اور اعلانِ ارتداد سے جماعت کا کیا نقصان ہو سکتا تھا.اس کے ارتداد پر جب مولویوں نے بغلیں بجانی شروع کیں تو حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے 18 دسمبر 1989ء کو خطبہ جمعہ میں اس کے بارہ میں تفصیلی حقائق جماعت کے سامنے رکھے.اس خطبہ کے بعض حصے قارئین کرام کے لئے پیش کئے جاتے ہے.ذیلی عناوین اصل خطبہ کا حصہ نہیں ہیں.لندن آمد کا پس منظر " کبابیر سے 1985ء میں اس وقت کے مبلغ شریف احمد صاحب امینی نے سب سے پہلے ان کا نام اس سفارش کے ساتھ بھجوایا کہ ان سے انگلستان بلوا کے سلسلہ کا کوئی کام لیا جائے اور وجہ یہ بیان کی کہ یہاں یہ ہمارے قابو کے نہیں.بداخلاقی کرتے ہیں اور اعتراض کی بہت
مصالح العرب.....جلد دوم 170 عادت ہے.لیکن چونکہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو مخلص ہے اور یہ عربی دان بھی کی ہیں اور اُردو کا بھی کچھ ملکہ رکھتے ہیں.اس لئے یہ سلسلہ کے لٹریچر کی اشاعت میں اور عربی خطی وکتابت میں کام آسکتے ہیں.اور انہوں نے یہ حسن ظنی ظاہر کی کہ گویا یہاں آکر یہ سنبھل جائیں گے اور اپنی بد عادات سے باز آجائیں گے.“ پہلا دھوکہ اور فراغت کا حکم ” جنوری 1986ء میں ان کو عربک ڈیسک کا انچارج مقرر کیا گیا جو باقاعدہ تبشیر کے تابع مختلف ڈیسکوں میں سے ایک ڈیسک ہے.چند ماہ کے اندر ہی ان کے مزاج کی کجی کئی رنگ میں ظاہر ہونا شروع ہوئی.سب سے پہلے انہوں نے ایک شخص کے متعلق سفارش کی کہ یہ غزہ کے ایک مخلص احمدی ہیں اور بہت ہی قابل اور رسالوں کے مدیر رہے ہیں.زبان پر بڑا عبور ہے.صاحب علم و فضل انسان ہیں.ان کی خواہش ہے کہ یہ اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت میں پیش کریں اور میں پر زور سفارش کرتا ہوں کہ ان کو یہاں بلوالیا جائے اور اگر کوئی عربی رسالہ شائع کرنا مقصود ہو تو یہ اس کے لئے بہترین مدیر ثابت ہوں گے.چونکہ مجھ پہ یہ تاثر دیا گیا کہ یہ کہا بیر فلسطین سے خبریں منگوا رہے ہیں اور جو بھی باتیں کر رہے ہیں وہ وہاں کی جماعت کے علم میں بھی ہیں، میں نے ان کی بات کو قبول کر لیا.کیونکہ اس سے پہلے ان کے جھوٹ کا اور کبھی کا کوئی تجربہ نہیں تھا.جب وہ یہاں تشریف لے آئے ، غزہ کے یہ دوست تو تھوڑی دیر کے بعد ہی فلسطین کی جماعت کی طرف سے ایک بہت زور کا احتجاج موصول ہوا.اور انہوں نے کہا کہ آپ نے ایک ایسے شخص کو جماعت احمدیہ کی خدمت سپرد کی ہے یا کوئی خدمت سپرد کی گئی، جس کا جماعت احمدیہ سے تعلق ہی کوئی نہیں.یہ وہ صاحب ہیں، ان کے بیان کے مطابق، جنہوں نے حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب کے زمانہ میں احمدی ہونے کا فیصلہ کیا اور اس کے متعلق کوئی اعلان نہیں کیا.لیکن احمدی ہوتے ہی انہوں نے جماعت کبابیر سے مالی مطالبات شروع کر دیئے.جب وہ مطالبات رڈ کر دیئے گئے تو انہوں نے باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کیا اور عدالت میں حاضر ہو کر یہ بیان دیا کہ میرا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے.اور خود حسن عودہ کے والد صاحب بھی وہاں گئے اور تحقیق کے بعد ساری جماعت کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی
171 مصالح العرب.....جلد دوم کہ اس شخص کا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں.باوجود علم کئے ” عودہ نے یہ ایک جھوٹا تصور پیش کیا کہ ایک نہایت ہی مخلص احمدی جو خدمت کے لئے آمادہ اور تیار اور خواہشمند ہے اس کو یہاں بلوا لینا چاہئے.بہر حال اسی وقت ان کو فارغ کر کے واپس بھجوا دیا گیا.یہ واقعہ جون 1986ء کا ہے یعنی آنے کے چند ماہ بعد چھ مہینے کے اندر اندر.اور جب میں نے عودہ صاحب کو بلا کر یہ سرزنش کی کہ آپ نے اتنا واضح جھوٹ بولا، ایسا دھو کے سے کام لیا، آپ کیسی سلسلہ کی خدمت کریں گے؟ تو اس پر پہلے تو صاف انکار کر دیا کہ میرے تو علم میں ہی نہیں تھا.یہ مجھ پر جھوٹا الزام ہے کہ مجھے علم تھا کہ یہ شخص مرتد ہو چکا ہے.جب جماعت کبابیر کے پیش کردہ حقائق سامنے پیش کئے گئے تو 11 / دسمبر 1986ء اور پھر 12 دسمبر 1986 کو تحریری طور پر اپنی غلطی کا اقرار کیا اور یہ بھی لکھا کہ میرے والد صاحب کو بھی اس کے ارتداد کا علم تھا اس لئے مجھ سے غلطی ہو گئی ہے.اور معاف کر دیا جائے فوری طور پر ان کی فراغت کا فیصلہ کر کے ان کو واپس بھجوانے کا حکم دیا گیا.اس پر انہوں نے نہایت عاجزانہ معافی مانگی اور ایک نہایت مخلص عرب دوست کو اپنا سفارشی بنایا اور انہوں نے ایک بہت ہی پر زور سفارش کا خط لکھا اور کہا کہ یہ عدم تربیت یافتہ ہے غلطی ہوگئی معاف کر دیں، آئندہ سے کبھی اس قسم کی بیہودہ حرکت نہیں کرے گا.چنانچہ میں نے ان کے اصرار پر اور کچھ اس لئے کہ ان کے والدین کی میرے دل میں بہت عزت تھی اور ہے ، وہ دیر سے سلسلہ سے بڑے اخلاص سے وابستہ ہیں ، میں نے اس لئے اس کو معاف کر دیا اور دوبارہ جماعت کی خدمت پر مامور کر دیا.“ جماعت احمد یہ شام کی شکایت ان کے سپر د کام یہ تھا کہ عربوں سے خط وکتابت کریں اور بعض مضامین کے تراجم کریں.عربوں کی ہماری تین بڑی جماعتیں ہیں، ایک شام میں ایک فلسطین میں اور ایک مصر میں.اس کے علاوہ خدا کے فضل سے دوسرے ممالک میں بھی عرب موجود ہیں.لیکن کثرت سے نہیں.یہاں بھی بہت زیادہ بڑی تعداد میں جماعتیں تو نہیں لیکن فلسطین میں مثلاً بہت بڑی ایک جماعت ہے.سارے کا سارا گاؤں خدا کے فضل سے احمدی ہے.تو یہ تین بڑی جماعتیں ہیں جن سے خصوصیت کے ساتھ خط وکتابت کا کام ان کے سپر دتھا.لیکن سب سے پہلے شام
172 مصالح العرب......جلد دوم سے ہمیں اطلاع ملی کہ یہ صاحب ہم سے خط و کتابت کے اہل نہیں اور کئی ایسی باتیں لکھتے ہیں جو قابل اعتراض ہیں.اس لئے مہربانی فرما کر ان کو حکم دیا جائے کہ آئندہ آپ کے درمیان ہمارے ساتھ واسطہ نہ بنیں.چنانچہ ان کو 86ء میں بھی 25 ( مئی 1986 ء ) کو تحریری حکم کے ذریعہ روک دیا گیا.“ جماعت احمد یہ فلسطین کی شکایت فلسطین کی جماعت کی طرف سے بھی ایسے ہی احتجاجی خطوط موصول ہوئے اور انہوں نے کہا کہ آپ ان سے اور کام لے لیں لیکن اپنے درمیان اور ہمارے درمیان ان کو تحریر کا رابطہ نہ بنائیں کیونکہ آپ کے نام کا پیڈ استعمال کرتے ہیں اور غلط باتیں لکھتے ہیں.چنانچہ میں نے تحقیق کروائی تو دفتر سے بغیر اجازت کے میرا لیٹر پیڈ اٹھا کے لے گئے تھے اور اس پر انہوں نے خط و کتابت شروع کی ہوئی تھی.وہاں سے اس کی فوٹو کا پیز ہمیں ملیں.چنانچہ ان کو تحریرا (13 جون 1986ء) کو حکم دیا گیا کہ آئندہ آپ نے فلسطین سے بھی کوئی خط و کتابت نہیں کرنی.ہاں اس حکم کے باوجود انہوں نے کہیں کہیں بعض لوگوں کے ساتھ جماعت کی نمائندگی میں خط و کتابت جاری رکھی.جماعت چونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بیدار مغز ہے اور کسی بات کو وہ چھپا نہیں رہنے دیتی.اس لئے ہمیں اطلاعیں ملیں کہ یہ ابھی بھی بعض لوگوں سے خط و کتابت کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو جماعت کا نمائندہ ظاہر کر کے خط وکتابت کرتے ہیں.چنانچہ وکیل التبشیر نے پھر (20 اکتوبر 1986 ء) کو اس بات کا سختی سے نوٹس لیا اور ان کو حکم دیا کہ آئندہ آپ نے ہر گز فلسطین کے احمدیوں سے جماعت کی نمائندگی میں کوئی خط و کتابت نہیں کرنی.“ جماعت احمد یہ مصر کا احتجاج 1987ء کے آغاز میں مصر سے بھی احتجاجی خط موصول ہوئے کہ یہ صاحب جو ہم سے خط و کتابت کر رہے ہیں مہربانی فرما کر ان کو روک لیں.آپ اور ذریعہ اختیار کرلیں لیکن ان صاحب کو بیچ میں نہ ڈالیں.تو تین بڑی عرب جماعتیں ہیں اور تینوں نے احتجاج کر کے ان کو
مصالح العرب.....جلد دوم جماعت کی نمائندگی سے رکوا دیا.“ مالی اور انتظامی بے قاعدگیاں اور تنبیہات 173 " پھر 1986ء میں ہی ان کی بعض اور بد عادات ظاہر ہوئیں جن میں سے کچھ تو مالی معاملات سے تعلق رکھتی ہیں اور تبشیر کو 19 اپریل 1986 ء ) اور ( 21 اکتوبر 1986ء) کو تحریرا ان کو نوٹس دینے پڑے اور مجھے بھی ان کو سمجھانا پڑا کہ آپ نے اس طرح بغیر اجازت کے کوئی خرچ کیا تو میں منظور نہیں کروں گا.اب تک میں برداشت کرتا چلا آ رہا ہوں لیکن آئندہ سے یہ نخرے برداشت نہیں ہوں گے.اس لئے پہلے تحریری اجازت لیں اپنے افسران سے، پھر خرچ کریں.پھر اپنے مستقر سے یعنی جس جگہ پر مقرر تھے وہاں سے بغیر اجازت کے غائب ہونا شروع ہو گئے.چنانچہ (30 دسمبر 1986ء) تحریرا انہیں اس بات کی بھی تنبیہ کرنی پڑی.یہ کی پہلے چھ مہینے کے شگوفے ہیں جو انہوں نے یہاں چھوڑے.اور جن کے اوپر جماعت نوٹس تو لیتی رہی لیکن ان سے مغفرت کا سلوک رہا.جس کی وجہ میں نے بیان کی ہے.میں چاہتا تھا کہ اس کی نوجوان کی اصلاح ہو جائے اور جس حد تک محفوظ طور پر اس سے کام لیا جا سکتا ہے اس سے کام لیا جائے.86ء میں ہی ان کو ایک نہیں بلکہ بار بار یہ تنبیہات بھی کرنی پڑیں کہ آپ اپنے افسران کی نہ صرف حکم عدولی کرتے ہیں بلکہ واضح بد تمیزی سے کام لیتے ہیں اور یہ بات ناقابل برداشت ہے.اس لئے آپ کو اس سے تو بہ کرنی چاہئے.عدم تعاون اور افسران سے نافرمانی کے رویہ کے متعلق وکیل التبشیر نے پھر ان کو (27 رمئی 1987ء) کو سختی سے نوٹس دیا کہ آپ اس سے باز نہیں آرہے.اپنے رویہ کو ٹھیک کریں ورنہ ہمیں آپ کو فارغ کرنا پڑے گا.( 18 جولائی 1987 ء کو پھر مجھے تنبیہ کرنی پڑی.پھر ( 31 مئی 1988ء) کو ان کی بار بار کی کجیوں کی وجہ سے بالآخر جب میں نے سمجھایا اور بہت اچھی طرح قرآن وحدیث اور سنت کے حوالے دے کر سمجھایا کہ آپ اپنی اصلاح کرلیں میں بار بار آپ سے عضو کا سلوک محض اس لئے کر رہا ہوں کہ آپ کی اصلاح ہو جائے لیکن آپ باز نہیں آرہے.اس پر بھی ان کا معافی کا خط ملا جو ہمارے ریکارڈ میں موجود ہے.“ 66
مصالح العرب.جلد دوم مجلہ القوی کی ادارت سے فراغت 174 "رسالہ التقویٰ کا ان کو مدیر بنایا گیا لیکن رسالہ التقویٰ میں بھی انہوں نے بعض ایسی حرکتیں کیں اور بار بار کی نافرمانیاں شروع کیں جس کے نتیجے میں 7 / مارچ 1989 ء کو ان کو رسالہ کی ادارت سے بھی فارغ کر دیا گیا.یہ ہیں ” معتمد صاحب“ جن کے سپر د جو کام کئے بالآخر واپس لینے پڑے.یہاں تک کہ رسالہ کی ادارت سے بھی فارغ کر دئیے گئے.“ ان کے سپرد آخری کام پر بھی عرب احمدیوں کا احتجاج ایک کام خطبات کے ترجمہ کا تھا.وہ یہ صرف کرتے تھے.لیکن سیریا سے خطبات کے ترجموں کے متعلق بھی احتجاج موصول ہوا اور ایک صاحب ہیں جو انگریزی دان بھی ہیں اور بہت اچھے عربی ادیب ہیں، انہوں نے مجھے لکھا کہ یہ خطبہ ! یہاں میں نے اس کی اشاعت روک دی ہے.کیونکہ بعض دفعہ مجھے انگریزی کا ترجمہ بھی پہنچا ہے، عربی ترجمہ بھی پہنچا ہے.مجھے یہ احساس ہے کہ انہوں نے اصل مضمون سے واضح طور پر انحراف کیا ہے.اور غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.چنانچہ ان کے ترجمہ کے اوپر بھی پھر میں نے دوبارہ ہدایت کی کہ اب کڑی نظر رکھی جائے.جب تک پورا ترجمہ ہمارے بعض احمدی علماء جو خدا کے فضل سے عربی کا بہت ملکہ رکھتے ہیں اور یہاں موجود ہیں، وہ نظر نہ ڈال لیں اس وقت تک ان کے ترجمہ کو بھی اب استعمال نہ کیا جائے.یہ 7 مارچ 1989ء کا واقعہ ہے.“ اظہار بغض اور کمیشن کی کارروائی یہ آخری کام جب ان سے واپس لے لیا گیا تو پھر انہوں نے بعض اور پر پُرزے نکالنے شروع کئے جن پر ہم براہ راست اس طرح تو نظر نہیں رکھ سکتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے مختلف ذرائع سے یہ اطلاعات بھجوانے کا انتظام فرما دیا کہ اس کے بعد انہوں نے اپنے بغض کا اظہار کرنا شروع کر دیا.یہ پروپیگنڈہ شروع کیا بعض نواحمدیوں میں کہ یہ جماعت جو ہے یہ پاکستانیت کو دوسروں پر مسلط کر رہی ہے.اس واسطے racialism کا بہانہ بنا کر جن لوگوں سے انہوں نے
175 مصالح العرب......جلد دوم دیکھا کہ کچھ توقع ہے کہ وہ ہاں میں ہاں ملائیں گے ان سے پھر یہ بات کرنا شروع کی اسی تین مہینے کے عرصہ میں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی بعض پیشگوئیوں کے متعلق مجھے شک ہے کہ وہ پوری نہیں ہوئیں، اور اس رنگ میں ان کو انہوں نے بدکا نا شروع کیا.اور جب اس کی اطلاع جون میں یعنی تین مہینے کے اندر اندر ایک ایسے شخص کے ذریعہ پہنچی جو پوری طرح گواہ بن گیا جس نے تحریری طور پر یہ اطلاع دی کہ مجھ سے اس نے یہ یہ باتیں کی ہیں تو اس پر ان پر کمیشن مقرر کیا گیا جس کے صدر ایک نہایت مخلص عرب مصری احمدی تھے ، بشیر احمد صاحب رفیق اس بورڈ کے ایک ممبر تھے اور عبد الحمید عبد الرحمن، ماریشس والے بھی اس کے ایک ممبر تھے.انہوں نے متفقہ طور پر یہ رپورٹ پیش کی کہ : یہ شخص کھایا گیا ہے، منافق ہے، جھوٹ بولتا ہے اور ہرگز اس لائق نہیں کہ ایک منٹ بھی اس کو جماعت کے کسی کام پر رکھا جائے.اس لئے ہم متفقہ سفارش کرتے ہیں کہ جب اس کے جرائم ثابت ہیں اور بار بار کی مغفرت اور عفو کے سلوک نے ایک ذرہ بھی اصلاح پیدا نہیں کی.اس لئے اس کو فوری طور پر فارغ کر دینا چاہئے.16 جولائی کو میں نے کمیشن مقرر کیا ہے اسی روز (6/ جولائی ) کو انہوں نے تحریری طور پر مجھے لکھا کہ میں بہت شرمندہ ہوں کہ اپنے شکوک کا اظہار نہ کبھی آپ سے کیا نہ علمائے سلسلہ سے بات کی تحریر تو لمبی ہے یہ ایک فقرہ یادرکھنے کے لائق ہے تا کہ میں اس پر بعد میں تبصرہ کرتی سکوں.اخبارات میں انہوں نے یہ بیان دیا کہ جماعت احمدیہ کے متعلق مجھے بڑی مدت سے شکوک پیدا ہورہے تھے.جب میں میرا نام لے کر کہ اس کے سامنے ان کو پیش کرتا تھا تو وہ تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے تھے.بالآخر میں نے آمنے سامنے کر کے چیلنج کیا کہ یہ جماعت جھوٹی ہے اور اس کے باوجود وہ جب مجھے مطمئن نہ کر سکے تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب میں جماعت کو چھوڑ دیتا ہوں اور یہ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط (7 جولائی 1989 ء) کا ہے کہ میں بہت شرمندہ ہوں کہ اپنے شکوک کا اظہار نہ بھی آپ سے کیا نہ علمائے سلسلہ سے بات کی.“ " جو کچرا جماعت باہر پھینکتی ہے اسے یہ سینے سے لگا لیتے ہیں ”اب اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنا بڑا معرکہ مارا گیا ہے جو ایسے شخص کو جو اپنی تحریر سے واضح طور پر قطعی جھوٹا ثابت ہے اور بددیانت ثابت ہے اور منافق ثابت ہے اس کو
مصالح العرب......جلد دوم 176 انہوں نے جیت لیا ہے.حیرت انگیز بات ہے، جماعت جو کچرا باہر پھینکتی ہے اس کو یہ سینے سے لگا لیتے ہیں اور پھر اعلان کرتے ہیں کہ ہماری فتح ہوئی ہمارا غلبہ ہوا...یہ سزا پانے کے بعد جماعت سے علیحدہ ہوئے ہیں، ہمارے رڈ کرنے کے بعد گئے ہیں، اس لئے اس ارتداد کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہوا کرتی.جس کو آپ نکال کر باہر پھینک دیں اس کا ارتداد کیا اور عدم ارتداد کیا.جس کو ہم نے قبول ہی نہیں کیا، جس کی بیعت فسخ کر دی، اس کا بعد میں کہنا کہ میں مرتد ہوں یہ بالکل بے معنی اور بے حقیقت ہے.“ ( خطبه جمعه فرموده 8 دسمبر 1989 ء ہفت روزہ بدر قادیان 18 / جنوری 1990ء ) اس حقیقت کے پیش نظر قارئین کرام بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عودہ صاحب کے اس قول میں کس قدر سچائی ہے کہ انہوں نے بڑی تحقیق کے بعد احمدیت ترک کی ہے.انکے والدین ان کے ارتداد کے باوجود بڑے اخلاص کے ساتھ احمدیت کے ساتھ چمٹے رہے.والدہ کی وفات کے بعد ان کے والد صاحب آج تک بفضلہ تعالیٰ مخلص احمدی ہیں.قبول اسلام کی دعوت ! عودہ صاحب نے ارتداد کے بعد مختلف عرب احمدیوں کو خطوط لکھے جن میں ان کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام ترک کر کے نہ جانے کون سا اسلام قبول کرنے کی طرف بلایا.مخالفین جماعت کا یہ ایک پرانا طریق ہے جس کا مقصد سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ تصور قائم کرنا ہے کہ احمدی (نعوذ باللہ ) غیر مسلم ہیں اس لئے ان کو اسلام کی طرف بلایا جارہا ہے.لیکن احمدی ہمیشہ ان کی اس حرکت پر حیران ہو جاتے ہیں کہ ہم تو کلمہ گو ہیں، تمام ارکان اسلام پر ایمان رکھتے ہیں، شریعت کی جزئیات پر ایمان اور عمل کے قائل ہیں ، اور دنیا کے کناروں تک تبلیغ اسلام کی مہمات میں شریک ہیں، پھر ہمیں یہ کس اسلام کی طرف بلاتے ہیں؟ ان میں سے ہر فرقہ اپنے آپ کو حق پر اور دیگر فرقوں کو باطل پر خیال کرتا ہے بلکہ ایک فرقہ کے دوسرے فرقہ کے خلاف کفر کے فتوے موجود ہیں.ایک فرقہ کا اسلام دوسرے کے نزدیک کفر ہے.پھر یہ کونسا اسلام ہے جس کی طرف یہ ہمیں بلا رہے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ جس لباس کو زیب تن کرنے کی یہ ہمیں دعوت دے رہے ہیں اس کو
177 مصالح العرب.....جلد دوم تو ان کی آپس کی دست وگریبانی نے پہلے ہی چیتھڑوں میں تبدیل کر دیا ہے.اس سے تو ان کی اپنی عریانیاں طشت از بام ہو رہی ہیں ، دوسروں کی ستر پوشی کیا کریں گے؟ چونکہ ہمیشہ کی طرح آج کل بھی اسی قسم کے جماعت سے مخرج یا مرتد لوگوں کو معاندین احمدیت کی طرف سے خوب اچھالا جا رہا ہے.اس لئے ذیل میں ارتداد وغیرہ کے حوالے سے بعض عمومی امور اور بعض اعتراضات کے جوابات پیش کئے جاتے ہیں.عودہ صاحب نے بھی دیگر مرتدین کی طرح اپنے ارتداد کے بعد خطوط کے ذریعہ اور اخبارات میں اپنے انٹرویوز کے ذریعہ احمدیوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام ترک کر کے اپنے خود ساختہ اسلام کی طرف بلایا.در اصل مخالفین جماعت کا یہ ایک پرانا طریق ہے جس کا مقصد سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ تصور قائم کرنا ہے کہ احمدی (نعوذ باللہ) غیر مسلم ہیں اس لئے ان کو اسلام کی طرف بلایا جارہا ہے.لیکن احمدی ہمیشہ ان کی اس حرکت پر حیران ہو جاتے ہیں کہ ہم تو کلمہ گو ہیں، تمام ارکان اسلام پر ایمان رکھتے ہیں، شریعت کی جزئیات پر ایمان اور عمل کے قائل ہیں، اور دنیا کے کناروں تک تبلیغ اسلام کی مہمات میں شریک ہیں، پھر ہمیں یہ کس اسلام کی طرف بلاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہم انہی سے پوچھتے ہیں کہ : بتا ئیں تو سہی کہ جب تک آپ احمدی تھے اس وقت احمدیت نے آپ کو کون کون سے غیر اسلامی عقائد و اعمال سکھائے تھے جن سے اب آپ نے تو بہ کی ہے؟ کیا آپ کا کلمہ مختلف تھا؟ کیا قرآن مختلف تھا؟ کیا نماز مختلف تھی؟ کیا آپ کا روزہ اور حج مختلف تھا؟ آپ کے طرز عمل میں کونسی نئی اسلامی بات پیدا ہوئی ہے جو پہلے نہیں تھی سوائے اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کر کے قرآن کریم کی اس آیت کا مصداق بنے هو وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ ( الواقعة : 83) !! قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلِئِكَةُ إِلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ (ختم سجده: 31)
178 مصالح العرب.....جلد دوم یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے، پھر استقامت اختیار کی، اُن پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت (کے ملنے ) سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو.ہر احمدی جب یہ آیت پڑھتا ہے تو اس کا اس بات پر ایمان اور پختہ ہو جاتا ہے کہ وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے میں اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار کیا آپ نے اب یہ عقیدہ بدل لیا ہے اور اب اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ سنتا ہے، نہ بولتا ہے، نہ غیب کھولتا ہے؟ اگر حقیقت یہی ہے تو پھر : اب کہیں بولتا نہیں غیب جو کھولتا نہیں ایسا اگر کوئی خدا تم نے بنالیا تو کیا !! جماعت احمدیہ قرآنی آیت اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ اور وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ کی بناء پر یہ ایمان رکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح آسمانوں میں ہے اسی طرح زمین میں بھی موجود ہے بلکہ وہ انسان کی شہ رگ سے بھی قریب تر ہے.کیا مرتد ہونے کے بعد اب آپ نے بعض غیر احمدیوں کی طرح یہ عقیدہ اختیار کر لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں میں کسی خاص مقام پر ایک دیو قامت کرسی پر بیٹھا ہوا ہے.اس لئے جب وہ عیسی علیہ السلام کے بارہ میں کہتا ہے کہ بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْه (النساء: 160) تو اسکا مطلب ہے کہ اس نے ان کو آسمانوں میں اس مقام کی طرف اٹھا لیا جہاں وہ بیٹھا ہوا ہے؟!! جماعت احمد یہ ایمان رکھتی ہے کہ قرآن کریم ابدی ہدایت اور آخری شریعت پر مشتمل خدا کا کلام ہے.دنیا میں یہی ایک کتاب ہے جو ہر قسم کے شک اور ریب سے پاک ہے، جس کا ایک نقطہ بلکہ ایک شعشہ نہ ٹل سکتا ہے نہ منسوخ ہوسکتا ہے.لیکن کیا آپ نے یہ عقیدہ اب ترک کر دیا ہے اور بعض غیر احمدی علماء کی طرح اب آس کا ایمان ہے کہ قرآن کریم کی آیات میں باہم تضاد ہے اور اسکے بعض احکام بعض دوسرے احکام کو منسوخ کرتے ہیں، اور اسکی بعض آیات بعض کو منسوخ کرتی ہیں؟ بلکہ ان میں سے بعض کا تو یہ بھی عقیدہ ہے کہ بعض صورتوں میں احادیث و روایات بھی قرآنی آیات کو منسوخ کر دیتی ہیں!!
179 مصالح العرب.....جلد دوم جماعت احمدیہ ایمان رکھتی ہے کہ سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء ہیں اور آپ کی شریعت آخری شریعت ہے جو قیامت تک نافذ العمل رہے گی، اس کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اس کی تمام تعلیمات ہر زمانے کے لئے قابل عمل ہیں.لیکن کیا آپ نے اب اس عقیدہ سے تو بہ کر لی ہے اور اب آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہو کر اسلام میں دینی آزادی کی تعلیم کو منسوخ کر دیں گے کیونکہ وہ آکر کافروں کے سامنے دو چیزیں رکھیں گے، اسلام اور تلوار.چنانچہ جو کافر اسلام قبول کرنے سے گریز کرے گا وہ اسے تہ تیغ کردیں گے؟!! جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء معصوم ہیں، نہ ہی ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ بولا تھا، اور نہ ہی ایوب علیہ السلام نے اپنی بیوی کو سو کوڑے مارنے کی قسم کھائی تھی کیونکہ اس نے آپ کو خدا کی طرف توجہ کر کے دعا کرنے کی نصیحت کی تھی.نہ ہی داؤد علیہ السلام نے ۹۹ شادیوں کے بعد اپنے ایک سپاہی کی بیوی سے شادی کرنا چاہی اور اس کے لئے انہوں نے اس سپاہی کے قتل کی سازش تیار کی.نہ ہی سلیمان علیہ السلام گھوڑوں کو دیکھنے میں اس قدرمگن ہو گئے کہ نماز ادا کرنا بھول گئے چنانچہ یاد آنے پر غصے میں آکر انکی ٹانگیں کاٹنے لگے.نہ ہی لوط علیہ السلام نے اپنی بیٹیاں قوم کے سامنے بے حیائی کی غرض سے پیش کی تھیں.کیا آپ نے اب اس عقیدہ سے بھی تو بہ کر لی ہے اور ان تمام انبیائے عظام کی طرف ایسی بڑی بڑی غلطیاں اور قابل شرم حرکات منسوب کرنا شروع کر دی ہیں ؟!! جماعت احمدیہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّين (بقره: 257 ) کی قرآنی تعلیم کے عین مطابق دینی آزادی کی قائل ہے اور ہر ایک کو حق ہے کہ وہ فردی طور پر اپنے لئے جس دین اور عقیدے کو بہتر سمجھتا ہے اپنا لے.اور فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُر (الكهف : 30) کے تحت ہر ایک کو اختیار ہے کہ وہ اسلام کو قبول کرے یا اسکا انکار کر دے.اسکی جزاء یا سزا کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.لیکن ترک احمدیت کے بعد کیا اب آپ کا یہ ایمان ہے کہ جو بھی اسلام چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو قبول کرے گا وہ مرتد ہے اور مرتد واجب القتل ہے؟!! ہر احمدی ایمان رکھتا ہے کہ عیسی علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ اس.سے
مصالح العرب.....جلد دوم نجات پا کر اس علاقے سے ہجرت کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے.180 کیا آپ نے اب اس عقیدہ سے بھی تو بہ کر لی ہے اور اب آپ کا تہہ دل سے یہ ایمان ہے کہ عیسی علیہ السلام آسمان پر چڑھ گئے ہیں اور وہاں پر فوت شدہ انبیاء کے درمیان اپنے جسم عصری کے ساتھ دو ہزار سال سے نزول کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں؟!!.....جماعت احمدیہ کا ایمان ہے کہ دجال سے مراد عیسائی اقوام ہیں جن کی دنیا کی آنکھ بڑی تیز ہے لیکن دین کی آنکھ بے نور اور مسیح موعود کی بعثت کا ایک بڑا مقصد آخری ایام میں ان اقوام کے فتنہ کا قلع قمع کرنا ہے.کیا یہ عقیدہ بھی آپ نے ترک کر دیا ہے اور اب آپ کا ماننا ہے کہ خر دجال اسی طرح ظاہری شکل میں ظاہر ہوگا جیسے دیگر علماء مانتے ہیں؟ یا اب آپ اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ دجال کی پیشگوئی تعبیر طلب نہیں اور عیسائی قوم پر صادق نہیں آتی بلکہ واقعہ عیسی علیہ السلام کے جسمانی نزول سے پہلے ایک کا نا دیو ظاہر ہوگا ؟ !! اگر تو ان سارے سوالوں کا جواب آپ کے نزدیک ہاں میں ہے تو ایسا اسلام آپ کو ہی مبارک ہو جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نسبت نہیں ہے، جس کا قرآن سے کوئی واسطہ نہیں، جو اس صورت میں محض شکوک و شبہات، قصے کہانیوں، اور غلط اور متضاد احکام و تعلیمات کا مجموعہ ہے، جس کی طرف منسوب ہونا کوئی اعزاز کی بات نہیں.لیکن اگر آپ کا جواب نہ میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عقیدے آپ کے وہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے روشنی پا کر آپ نے حاصل کئے ہیں اور محض سستی شہرت کے لئے دیگر علماء اسلام کو دھوکہ دے رہے ہیں.بلکہ ان عقائد کے ساتھ آپ دیگر علماء سے منافقت کر رہے ہیں.آپ صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انکار میں ان کے شریک ہیں.لیکن آپ کا ابھی تک انہی عقائد پر قائم رہنا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے روشنی پا کر آپ نے حاصل کئے ہیں ثابت کر رہا ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انکار میں بھی جھوٹے ہیں اور محض سستی شہرت کی خاطر اس آیت کا مصداق بنے ہوئے ہیں: وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ (الواقعة : 83).اس صورتحال میں یہ مرتدین ہمیں کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں؟ وہ ہمیں دینا کیا چاہتے
مصالح العرب.....جلد دوم 181 ہیں؟ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے فَاقِدُ الشَّيْء لَا يُعْطِيهِ یعنی جس کا اپنا دامن خالی ہے وہ بے چارہ کسی کو کیا دے گا.عام مسلمانوں کے غلط اعتقادات آپ اپنا نہیں سکتے.احمدیت سے اخذ کردہ صحیح اسلامی مفاہیم سے بظاہر لاتعلقی کا اظہار کرنے سے آپ دینی لحاظ سے دیوالیہ ہو کر رہ گئے ہیں.پھر آپ کے پاس ہے کیا جس کی طرف آپ ہمیں بلا رہے ہیں؟!! آپ ہی بتائیں کہ آپ نے احمدیت کو چھوڑ کر کونسا اسلام قبول کیا ہے؟ کیا آپ نے اس فرقہ کا اسلام قبول کیا ہے جو قبروں کو سجدہ کرنا جائز سمجھتے ہیں؟ باد کیا اس فرقہ کا اسلام قبول کیا ہے جو فاتحہ خوانی ، چہلم، تصور شیخ، گیارھویں، عرس، اور میلادالنبی میں آنحضورا کو حاضر ناظر جان کر درود پڑھتے ہوئے کھڑے ہو جاتے ہیں؟ حمید کیا اس فرقہ کا اسلام قبول کیا ہے جس کے بنیادی عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ اصلاح معاشرہ کے لئے اقتدار پر قبضہ کر لو چاہے اس کارروائی میں جس قدر بھی فساد برپا ہو؟ حملہ کیا اس فرقہ کا اسلام قبول کیا ہے جو نہ صرف کبار صحابہ کا دشمن بلکہ ان سے بیزاری کے اظہار کو ایمانیات کا حصہ سمجھتا ہے؟ یا ان مولویوں کا اسلام قبول کیا ہے جو آئے دن نو جوانوں کو ورغلا کر خود کش دھما کے کرواتے ہیں اور معصوموں کی جانوں سے کھیلتے ہیں؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ جب تک آپ کی غلطیوں سے صرف نظر ہوتا رہا آپ اپنا اخلاص دکھاتے رہے جب ان پر گرفت کی گئی تو آپ منہ پھیر کر چل دیئے.آپ پر تو اللہ تعالیٰ کا یہ قول صادق آتا ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِين (الحج: 12) ترجمہ: اور لوگوں میں سے وہ بھی ہے جو اللہ کی محض سرسری عبادت کرتا ہے.پس اگر اسے کوئی بھلائی پہنچ جائے تو اس سے مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی ابتلا آئے تو وہ منہ پھیر لیتا ہے.وہ دنیا بھی گنوا بیٹھا اور آخرت بھی.یہ تو بہت کھلا کھلا نقصان ہے.
مصالح العرب.....جلد دوم ”ہمارے لئے تمہارا ارتداد بھی خوشی کا باعث ہے“ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو خدا تعالیٰ ہمیں اس ارتداد میں بھی خوشخبریاں سنا رہا ہے فرماتا ہے: (المائده:55) 182 يَا يُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِيْنَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لائِم ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہو جائے تو ضرور اللہ (اس کے بدلے ) ایک ایسی قوم لے آئے گا جس سے وہ محبت کرتا ہو اور وہ اُس سے محبت کرتے ہوں.مومنوں پر وہ بہت مہربان ہوں گے (اور) کافروں پر بہت سخت.وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہ رکھتے ہوں گے.یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا (اور ) دائمی علم رکھنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ارتداد کی فلاسفی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جو بعض لوگ مرتد ہو جاتے تھے تو کیا ان سے اسلام کو نقصان پہنچتا تھا؟ ہر گز نہیں بلکہ میرا خیال ہے کہ یہ پہلو انجام کار اسلام کو ہی مفید پڑتا ہے.اور اس طرح سے اہل اسلام کے ساتھ اختلاط کی ایک راہ کھلتی ہے اور جب خدا تعالیٰ نے ایک جماعت کی جماعت اسلام میں داخل کرنی ہوتی ہے تو ایسا ہوا کرتا ہے کہ اہل اسلام میں (سے) کچھ ادھر چلے جاویں.خدا کے کام بڑے دقیق اور اسرار سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آیا کرتے.“ (البدر جلد 2 نمبر 27 مؤرخہ 24 جولائی 1903 صفحہ 209) پھر ایک اور جگہ فرمایا: ایک ٹہنی کے خشک ہو جانے سے سارا باغ بر باد نہیں ہوسکتا.جس ٹہنی کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے خشک کر دیتا ہے اور کاٹ دیتا ہے اور اس کی جگہ اور ٹہنیاں پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی پیدا
مصالح العرب.......جلد دوم 183 کر دیتا ہے...اگر اس جماعت سے ایک نکل جائے گا تو خدائے تعالیٰ اس کی جگہ میں لائے گا.“ آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 346-347) حضرت خلیفة المسح الأول رضی اللہ عنہ نے ایک مرتد کے بارہ میں فرمایا: ، ”ہمارے لئے تمہارا ارتداد بھی خوشی کا باعث ہے کیونکہ قرآن کریم میں ایسے ارتداد اور مرتدوں کے بدلہ ہم کو وعدہ دیا گیا ہے مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَہ.یعنی اگر تم میں سے کوئی ایک مرتد ہو جاوے تو اس کے بدلہ اللہ تعالیٰ ایک بڑی قوم لائے گا جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والی اور اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرنے والا ہوگا.اس تارک اور اس کے مرتد بھائیوں کے بدلہ ہمیں قوموں کی قومیں مسلمان اور نیک مسلمان جو محبوب الہی ہوں گے عطا کرے گا اور ضرور عطا کرے گا.فالحمد للہ رب العالمین.“ (نورالدین صفحہ 240 تا 252) ہم ذکر کر آئے ہیں کہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہجرت کے بعد عرب جماعتوں کے لئے خلیفہ وقت سے ملنے کی راہ کھل گئی اور عربوں میں تبلیغ کے لئے اور ان تک احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے حضور انور نے متعدد پروگرام شروع فرمائے.یہ کوششیں جاری تھیں کہ حسن عودہ صاحب کے ارتداد کا واقعہ سامنے آیا.آج جب ہم بعد کے واقعات پر غور کرتے ہیں تو نہایت واضح طور پر یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ایک شخص کے ارتداد میں اپنے قرآنی وعدے کے مطابق عربوں کی ایک بڑی جماعت عطا کرنے کی بشارت دے رہا تھا.اور گویا یہ فرمارہا تھا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ خوش ہو جاؤ کہ میرے وعدے کے پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے.اب عرب کی ایک بڑی بھاری جماعت احمدیت قبول کرنے والی ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جماعت کو ایم ٹی اے کی نعمت عطا ہوئی جس پر لقاء مع العرب پروگرام شروع ہوا تو یہ موعودہ شمار ایک ایک کر کے احمدیت کی گود میں گرنے لگے اور آج خلافت خامسہ میں عرب دنیا میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ حلقہ بگوش احمدیت ہو رہے ہیں اور ایک عرب کے مرتد ہونے پر عربوں سے ایک قوم احمدیت میں داخل ہوا گئی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام اور آپ کے خلفاء اور نظام جماعت سے محبت واطاعت اور اخلاص و وفا میں ہر روز نئی شان سے آگے ہی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے.
مصالح العرب.جلد دوم يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ کا وعدہ اور حکمت 184 جب بھی اللہ تعالیٰ کوئی جماعت قائم فرماتا ہے تو یہ نہیں چاہتا کہ اس میں ہر خبیث وطیب اور صالح وطالح داخل ہو جائے بلکہ چاہتا ہے کہ اس میں داخل ہونے والے پہلے چاہے جیسے بھی ہوں لیکن جب اس جماعت میں شامل ہونے کا عہد کریں تو تمام گناہوں سے حقیقی طور پر تائب ہو چکے ہوں،انکے دلوں میں ایمان راسخ ہو چکا ہو اور شکوک وشبہات ختم ہو کر یقین کے درجہ پر پہنچ گئے ہوں.چنانچہ ارتداد اختیار کرنے والا جب اپنی طرف سے شکوک وشبہات کا اظہار کرتا ہے اور الہی جماعتوں کے اعتقادات پر انگلی اٹھاتا ہے تو ایسی صورتحال میں دینی لحاظ سے کمزور آدمی کبھی بھی الہی جماعت میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرسکتا بلکہ اسکے بعد جماعت میں وہی داخل ہوگا جو مکمل تحقیق کے بعد اس جماعت کی صداقت کے بارہ میں یقین کے درجہ تک پہنچ جائیگا اور مخالفت برداشت کرنے کے قابل ہوگا اور ایمان کے رستے میں ظلم اور دکھ سہنے کے لئے تیار ہو گا.چنانچہ صرف ایسے ہی لوگ جماعت میں داخل ہوتے ہیں جو اللہ والے ہوں اور خدا تعالیٰ کی خاطر حق قبول کر کے اس راہ میں ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہوں اور پھر اس بنا پر وہ خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار سے حصہ پاتے ہیں، اس طرح مرتد کے بدلے ایک عطا ہونے والی قوم کے حق میں يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ کا وعدہ پورا ہوتا ہے.خدائے ذوالقوۃ التین کی سزا کا ایک طریق خدا تعالیٰ کا ازل سے یہ قانون اور وعدہ ہے کہ اس کے رسول ہی غالب آتے ہیں اور ان کے مخالفین کو اللہ تعالیٰ عبرت کا نشان بنا دیتا ہے.اس موضوع کے بارہ میں خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 16 را کتوبر 2009ء میں فرمایا کہ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دشمنوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے بعض کو موت دے کر عبرت کا نشان بنایا، بعض کو ڈھیل دے کر ، اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کامیابیاں دکھا کر انہیں اپنی آگ میں جلنے پر مجبور کیا.یہ بھی ان کے لئے ایک پکڑ تھی.یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے کہ کس کو کس طرح پکڑنا ہے.“
185 مصالح العرب......جلد دوم عودہ صاحب کا تو شاید یہ گمان ہو کہ ان کے ارتداد کے بعد عرب ان کی غلط بیانی پر یقین کرتے ہوئے احمدیت سے مزید دور ہو جائیں گے.لیکن اس سے بڑی سزا اور کیا ہوگی کہ اس شخص کو اپنی زندگی میں ہی اپنی کوششوں کی ناکامی کو دیکھنا پڑا، اور اپنی زندگی میں ہی اس قوم کو سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں احمدیت قبول کرتے دیکھنے پڑا جس کو روکنے کیلئے نہ جانے انہوں نے کتنے جھوٹ بولے تھے.اور آئے دن نئے عرب احمدیوں کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام، آپ کے خلفاء اور آپ کی جماعت کے ساتھ مخلصانہ جذبات کا اظہار ایک مرتد کے لئے ایک نہ ختم ہونے والی درد ناک سزا سے کم نہیں ہے.اسرائیلی فوج میں احمدیوں کی تعداد! کسی بھی الہی جماعت کے مخالفین کے اعتراضات اور الزامات کا جائزہ لے کر دیکھ لیں ان میں جھوٹ اور بہتان کا عنصر بہت نمایاں طور پر سامنے آئے گا.یہی حال جماعت احمدیہ کے مخالفین کا ہے جو جھوٹے اعتراضات اور بہتانات تراشنے میں تمام حدیں پار کر گئے ہیں.ایسے لوگ جب کسی حسن عودہ کو پاتے ہیں تو اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے اس کی زبانی ایسے اعتراضات دہرانا چاہتے ہیں تا ثابت ہو کہ حقیقت واقعی وہی ہے جو وہ کہہ رہے ہیں.یہی حال حسن عودہ کے ساتھ ہوا.انکے حوالے سے کئی ایسی باتیں اخباروں میں نشر ہوئیں جن میں سے یہاں دو اعتراضات کا ذکر کر نا خالی از فائدہ نہ ہوگا.ایک اخبار نے لکھا کہ انہوں نے جب ان سے احمدیت اور اسرائیل کے تعلقات کی بات پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ اسرائیلی فوج میں کوئی احمدی نہیں ہے.لیکن اسرائیلی پولیس میں اور رضا کاروں میں انکی تعداد سینکڑوں میں ہے.(دیکھئے روز نامہ جنگ لندن 24 نومبر 1989) ہمیں اس بیان پر تعجب ضرور ہوا کہ جو بات اظہر من الشمس ہے اور جس کے عودہ صاحب خود گواہ بھی ہیں اس کے بارہ میں بھی وہ اتنا سفید جھوٹ بول کیسے بول سکتے ہیں.لیکن دیگر امور کی طرح اس معاملہ میں بھی غلط بیانی کوئی زیادہ حیران کن نہ تھی.تاہم جب ہم نے ان کی ارتداد کے بعد لکھی ہوئی کتاب کی ورق گردانی کی تو معلوم ہوا کہ اصل حقیقت کچھ اور ہے جس کا اعتراف انہوں نے اس کتاب میں کیا ہے یعنی یہ کہ بعض اخبارات نے ان کے فرضی انٹرویوز اور
186 مصالح العرب......جلد دوم ان سے منسوب کر کے بعض باتیں شائع کر دیں جبکہ حقیقت میں انہوں نے وہ باتیں نہیں ہیں.انہوں نے خاص طور پر اس کی مثال درج کرتے ہوئے لکھا کہ : " و ينسب إلى المحرر المذكور في جريدة ”جنك" ويُدعى جاويد جمال كلاما طالما قلت عكسه وهو وجود أحمديين في جيش أو شرطة إسرائيل - فيقول جاويد أننى قلت له "إن في جيش إسرائيل لا يوجد أحمديون ولكن هنالك مئات الأحمديين في الشرطة الإسرائيلية وفى الجيش التطوعي والحقيقة أنه لا 66 يوجد أى أحمدى حتى الآن في جيش إسرائيل ولا في الشرطة الإسرائيلية ولا في الجيش التطوعي ،، الأحمدية - - عقائد وأحداث صفحہ 135) ترجمہ: اخبار ”جنگ“ کے محرر جاوید جمال نے میری طرف ایسا کلام منسوب کیا ہے جس کی بارہا میں نے نفی کی ہے اور وہ ہے اسرائیلی فوج یا پولیس میں احمدیوں کا موجود ہونا.جاوید صاحب کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج میں تو کوئی احمدی نہیں ہے لیکن اسرائیلی پولیس میں اور رضا کاروں میں ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے.جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک اسرائیلی فوج اور اسرائیلی پولیس اور رضا کاروں میں ایک بھی احمدی نہیں ہے.ان کے اس اعتراف سے ایک بات تو واضح ہوگئی کہ اسرائیلی فوج میں احمدیوں کی موجودگی محض جھوٹ اور افتراء ہے.کیونکہ اگر یہ بات درست ہوتی تو ارتداد کے بعد عودہ صاحب نے صرف اسی مسئلہ پر ہی دنیا کو سر پر اٹھا لینا تھا.اب اس حقیقت کے آئینے میں دیکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین اور معترضین کہاں کھڑے ہیں.یہی وہ معترضین ہیں جنہوں نے مذکورہ بالا جھوٹا اعتراض دہراد ہرا کر کتابوں کے صفحے کالے کئے ہوئے ہیں.جماعت احمدیہ نے بارہا اس کے بارہ میں وضاحت کی کہ یہ بات محض جھوٹ اور بہتان ہے لیکن شاید انہیں جس طرح احمدیوں کے قتل میں جنت نظر آتی ہے اسی طرح اس جھوٹ میں
مصالح العرب......جلد دوم 187 بھی اعلیٰ درجہ کی نیکی دکھائی دیتی ہے.اب عودہ صاحب نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کر کے نہ صرف ان کی ایسی تمام نیکیوں پر پانی پھیر دیا ہے بلکہ ان کے منہ پر دوسرے لفظوں میں یہ کہا ہے کہ تم سالہا سال سے جھوٹ بول رہے ہو.ایسی صورت میں منصف مزاج خود اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان جھوٹ بولنے والوں کے باقی اعتراضات کی کیا حقیقت ہوگی.دوسری طرف با وجود یہ جاننے کے کہ یہ لوگ سالہا سال سے جھوٹ بول رہے ہیں پھر بھی عودہ صاحب کا ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنا ان کی اپنی حق پسندی اور صداقت شعاری کو بھی خوب واضح کر رہا ہے.اب دیکھیں کہ یہ مخالفت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں مزرعہ احمدیت کیلئے کس طرح کھا د ثابت ہوئی کہ: -1.اس ارتداد اور اس مخالفت سے معاندین احمدیت کو خود اس مرتد کی زبانی ایک اعتراض کا ہمیشہ کے لئے شافی جواب مل گیا.2 مخالفین کی ایک بڑی تعداد انہی کے بقول جھوٹی قرار پائی.نزول عیسی کے بارہ میں اعتقاد اُمّت اسلامیہ کے اکثر فرقوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ آخری زمانہ میں اسلام کی نشاة ثانیہ کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام نزول فرمائیں گے.اور ان کے ظاہری نزول پر ایمان لانے کی وجہ سے انہیں یہ عقیدہ بھی اختیار کرنا پڑا کہ وہ لازمی آسمان پر چڑھ گئے ہیں.جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر فرمایا کہ وہ عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں اور جس کے آنے کا وعدہ دیا گیا ہے وہ اسی امت محمدیہ میں سے ایک شخص ہوگا اور خدا تعالی نے مجھے بتایا ہے کہ وہ میں ہوں.حسن عودہ صاحب کو یہ جرات تو نہ ہو سکی کہ وفات مسیح کا انکار کر سکیں.نہ ہی وہ مولویوں کا نزول مسیح ابن مریم کا عقیدہ اپنا سکے لہذا انہوں نے ایک درمیانی راہ نکالی کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور آنے والے کے بارہ میں اختلاف ہے.چنانچہ ان کے بارہ میں خود ہی یہ فیصلہ کیا
188 مصالح العرب......جلد دوم کہ نہ پرانا مسیح آ سکتا ہے نہ ہی کسی نے اس امت سے آنا ہے.گویا نزول مسیح کی بے شمار } احادیث کا جو تواتر کے درجہ تک پہنچنے کے قریب ہیں انکار کر دیا اور انہی علماء کے بقول جن کے ہاتھوں وہ مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں ان احادیث کا انکار کر کے نہ صرف کفر بلکہ اور پتہ نہیں کس کس فتوے کی زد میں آگئے.اب قارئین کرام خود ہی اندازہ لگائیں کہ ان علماء کی نظر میں عودہ صاحب نے کیسا اسلام قبول کیا.احمدیت تو چھوڑی لیکن اسکے عقائد کو چھوڑنے سے قاصر رہے.مولویوں کا اسلام تو قبول کیا لیکن ان کے عقائد نہ اپنا سکے.اور انجامکار خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے حسن عودہ صاحب کو تو ”مولویوں کا اسلام قبول کرنے سے کچھ نہ مل سکا.لیکن اس کے بالمقابل آئیے دیکھتے ہیں کہ احمدیت قبول کرنے والوں کو کیا ملا؟ سینکٹر و ہزاروں مثالوں میں سے ایک یہاں پیش خدمت ہے.مکرم حسن عابدین صاحب آف شام نے ماہ جولائی 2009 میں ہونے والے ایم ٹی اے کے پروگرام ” الحوار المباشر میں بذریعہ فون کال ساری دنیا کے سامنے جو کہا اس کا خلاصہ نظرِ قارئین کیا جاتا ہے.”میرا ایک چالیس سالہ بیٹا ہے جو عام طور پر بڑا تیز مزاج ہے.گھر میں اہل خاندان کے ساتھ اور کام پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ بد مزاجی اور بدخلقی سے پیش آتا تھا، کبھی نماز پڑھتا تو کبھی چھوڑ دیتا تھا.چار ماہ پہلے میں نے اس میں ایک نہایت عجیب تبدیلی محسوس کی کہ وہ خوش خلقی ، وسعت حوصلگی اور بچوں کے ساتھ پیار محبت اور کھیلنے جیسے خصائل کا حامل ہو گیا ہے.اور نہ صرف خود نمازوں کا پابند ہو گیا بلکہ اہل خاندان کو تہجد کی نماز ادا کرنے کی طرف توجہ دلانے لگ گیا.میں اس کے کام کے ساتھیوں سے ملا تو انہوں نے بھی مجھے یہی بتایا کہ اس کا ہمارے کی ساتھ رویہ یکسر بدل گیا ہے.کئی دفعہ مجھے خود اس کے ساتھ نماز پڑھنے کا موقعہ ملا تو میں نے دیکھا کہ وہ نہایت گریہ وزاری کرتا اور روتا ہے، اور جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتا ہے تو آبدیدہ ہو جاتا ہے.میں نے اس تبدیلی کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں نے جماعت
189 مصالح العرب......جلد دوم احمدیہ کے ذریعہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کر لی ہے.اس پر میں نے اپنے ایک مولوی سے جماعت احمدیہ کے بارہ میں پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ کافر ہیں.میں نے ان کی تکفیر کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ ہمیں تو اس کا کوئی زیادہ علم نہیں ہے لیکن چونکہ ان کو علمائے پاکستان اور ایسے علماء نے جو ہم سے زیادہ جانتے ہیں کا فرقرار دیا ہے اس لئے ہم ان کی رائے کو درست مانتے ہیں.اس بات نے میری جستجو میں اضافہ کر دیا اور مجھے جماعت کے عقائد کے بارہ میں جاننے کی ایک کو سی لگ گئی.خصوصا اس لئے بھی کہ میں اپنے بیٹے میں قبول احمدیت کے بعد ایک بہت اچھی تبدیلی دیکھ چکا تھا.چنانچہ میں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ مل کر جماعت کے ٹی وی پروگرام دیکھنے شروع کئے ، اور کتابوں کا مطالعہ کیا.ہم تمام لوگ مطالعہ کرتے تھے.پھر آپس میں بیٹھ کر بحث کرتے اور جماعتی افکار و عقائد اور تفاسیر کا دوسرے چینلز پر پیش کئے جانے والے خیالات کے ساتھ موازنہ کرتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کے دلوں کو نور یقین سے بھر دیا.اور ہمارے لئے جماعت کی سچائی ثابت ہوگئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے عین مطابق ہم نے امام مہدی کی بیعت کر لی.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو تبدیلی مجھ میں اور میرے اہل خانہ میں پچھلے دو ماہ میں ہوئی ہے اس کے بیان کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں.میں عمر رسیدہ ہوں اور بفضلہ تعالیٰ حج کی سعادت بھی پاچکا ہوں اور چار مرتبہ عمرہ بھی کیا ہے لیکن گزشتہ دو ماہ سے نصیب ہونے والی حلاوت ایمانی جیسا مزہ پہلے کبھی نہ چکھا تھا.“ ایک وہ حسن عودہ نامی تھا جس نے امام مہدی علیہ السلام کی جماعت سے ارتداد اختیار کیا اور ایک یہ حسن عابدین ہیں جن کا یہ ایمان افروز بیان ہمیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث یاد دلاتا ہے جس میں آپ نے فرمایا: ثلاثُ مَن كُنَّ فيه وجد حلاوة الايمان: أن يكون الله و رسوله أحب إليه مما سواهما وأن يحب المرء لا يحبه إلا الله، وأن يكره أن يعود في الكفر كما يكره أن يقذف في النار - “ 66 ( بخاری کتاب الایمان باب حلاوۃ الایمان) یعنی تین باتیں جس میں ہوں وہ ایمان کی حلاوت اور مٹھاس پالیتا ہے.یہ کہ اللہ اور اس کا رسول تمام دوسری چیزوں سے بڑھ کر اس کو پیارے ہوں.اور یہ کہ جس انسان سے بھی محبت کی
مصالح العرب......جلد دوم 190 کرے صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے محبت کرے.اور یہ کہ کفر میں لوٹنا ایسا ہی برا سمجھے جس طرح وہ آگ میں پھینکے جانے کو برا سمجھتا ہے.الغرض احمدیت کی آغوش میں آنے والے لا تعداد احباب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان اور آپ کے خلیفہ سے تعلق اور انکے نصائح و تعلیمات پر عمل کے نتیجے میں ایسا حقیقی اسلام اور ایسی حلاوت ایمان نصیب ہو رہی ہے جس کا تذکرہ آپ نے مکرم حسن عابدین صاحب کے بیان میں پڑھا.اس بحث کا اختتام ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان جلالی کلمات پر کرتے ہیں، آپ فرماتے ہیں: ” یہ لوگ یاد رکھیں کہ ان کی عداوت سے اسلام کو کچھ ضرر نہیں پہنچ سکتا.کیڑوں کی طرح خود ہی مر جائیں گے مگر اسلام کا نور دن بدن ترقی کرے گا.خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اسلام کا نور دنیا میں پھیلا دے.اسلام کی برکتیں اب ان مگس طینت مولویوں کی بک بک سے رک نہیں سکتیں.خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے صاف لفظوں میں فرمایا ہے.انا الفتاح أفتح لك ترى نصرا عجيباً و يخرّون على المساجد ربنا اغفر لنا انا كنا خاطئين جلابيب الصدق فاستقم كَمَا أُمِرُتَ الخوارق تحت منتهى صدق الاقدام كُنْ لِلَّهِ جميعًا و مع الله جميعا - عسى أن يبعثك ربك مقاما محمود..........اور ایک الہام میں چند دفعہ تکرار اور کسی قدر اختلاف الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ میں تجھے عزت دوں گا اور بڑھاؤں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اب اے مولویو! اے بخل کی سرشت والو! اگر طاقت ہے تو خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں کو ٹال کر دکھلاؤ.ہر ایک قسم کے فریب کام میں لاؤ اور کوئی فریب اٹھا نہ رکھو.پھر دیکھو کہ آخر خدا تعالیٰ کا ہاتھ غالب رہتا ہے یا تمہارا.والسلام علی من اتبع الهدی.المنبه الناصح مرزا غلام احمد قادیانی جنوری 1892ء.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه 310-311
191 مصالح العرب.جلد دوم وفات مسیح ناصری علیہ السلام بعض عرب علماء کا اعتراف عربوں میں تبلیغ احمدیت کے تاریخی اعتبار سے واقعات کے ذکر میں یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وفات مسیح کے مسئلہ پر عصر حاضر کے بعض عرب علماء کی تحقیق ، آراء اور فتاوی کا ذکر کر دیا جائے.موجودہ عیسائیت کی عمارت یسوع کی صلیبی موت کے عقیدہ پر کھڑی ہے اس مضمون کے مقدمہ کے طور پر شاید مندرجہ ذیل وضاحت مفید ثابت ہوگی.بائبل میں لکھا ہے کہ صلیبی موت لعنتی موت ہے اور ایسی موت کسی ملعون کو ہی نصیب ہوسکتی ہے.چونکہ واقعہ صلیب ایک حقیقت ہے اس لئے عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی صلیبی موت کو محل زم کی بجائے محل مدح بنانے کی کوشش کی اور اس صلیبی موت پر اپنے زعم میں ایک نی ایسے عقیدہ کی بنیاد رکھی جس کے ساتھ تمام دنیا کی بقا وابستہ ہے.یہ وہ عقیدہ ہے جس پر پوری عیسائیت کی عمارت کھڑی ہے.اب اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسیح نے صلیب پر وفات نہیں پائی بلکہ اس لعنتی موت سے بچ گئے تو موجودہ عیسائیت کی ساری عمارت دھڑام سے نیچے آ گرتی ہے.اسی حقیقت کا اظہار کئی علماء اور متقین نے کیا ہے ذیل میں دو اقتباس پیش ہیں.ایک جرمن سکالر جورگن موسمین کہتا ہے: "THE DEATH OF JESUS ON THE CROSS IS THE CENTRE OF
192 مصالح العرب.....جلد دوم ALL CHRISTIAN THEOLOGY...ALL CHRISTIAN STATEMENTS ABOUT GOD, ABOUT CREATION, ABOUT SIN AND DEATH HAVE THEIR FOCAL POINT IN THE CRUCIFIED CHRIST.", (The Crucified God By Jürgen Moltmann Translated by R.A.Wilson and John Bowden from the Germam Der gekreuzegte Gott page 212 2nd edition 1973) ترجمہ: یسوع کی صلیب پر موت عیسائی عقیدہ کا مرکزی نقطہ ہے....خدا تعالیٰ مخلوق، گناہ اور موت وغیرہ کے جملہ عیسائی نظریات مصلوب مسیح کے گرد گھومتے ہیں.ایک انگریز سکالر Cardinal Manning اپنی کتاب Eternal Priesthood میں لکھتا ہے کہ: The importance of this confusing topic is obvious, for if the death of Christ on the cross is not real, then the basis of the church's doctrine will crumble from its foundations, because if Christ did not die on the cross, then there is no sacrifice, no salvation, and no trinity.” ترجمہ: اس حیران کن موضوع کی اہمیت پوشیدہ نہیں ہے کیونکہ اگر یسوع کی صلیبی موت ایک حقیقت نہیں ہے تو چرچ کا مذہب اپنی بنیادوں سے ہی پسپا ہو جاتا ہے.کیونکہ اگر یسوع صلیب پر نہیں مرا تو پھر نہ کوئی قربانی کا تصور رہے گا ، نہ نجات کا اور نہ ہی تثلیث کا.اب اگر مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے تو دوبارہ جی اٹھنے اور آسمان پر اپنے باپ ہی کے داہنے ہاتھ پر جا بیٹھنے کے تصور اور اس پر مبنی جملہ عقائد کی بھی نفی لازم ہے.عیسائیت نے اپنے اس اصول کو ثابت کرنے کے لئے ہر حیلہ آزمایا ہے.اور شاید ان کی اس حیلہ آزمائی کا ہی نتیجہ ہے کہ اسلام میں بھی اس طرح کی روایات اور مفاہیم راہ پاگئے جن سے عیسی علیہ السلام کے آسمان پر جانے کا عقیدہ وجود میں آیا ہے.عقیدہ حیات مسیح کے نقصانات گو مسلمانوں کی اکثریت نے عیسی علیہ السلام کی جگہ کسی اور کے صلیب پر چڑھنے کا عجیب
193 مصالح العرب.....جلد دوم وغریب عقیدہ گھڑ لیا پھر بھی مسیح کی صلیب پر موت کے منکر رہے.لیکن دوسری طرف عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر چڑھ جانے میں عیسائیت کے ہی ہم نوا رہے جس کا اسلام کو بہت بھاری نقصان ہوا کیونکہ عیسائیوں نے مسلمانوں کو بحثوں اور مناظروں میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ چونکہ: 1- تمام انبیاء ماں باپ سے پیدا ہوئے جبکہ یسوع کی بن باپ کے پیدائش ایک معجز تھی.2.تمام انبیاء اسی زمین میں فوت ہوئے اور بعض اپنے دشمنوں کے ہاتھوں قتل بھی ہو گئے لیکن آپ کے عقیدہ کے مطابق یسوع کو خدا تعالیٰ نے آسمان پر اٹھالیا.3.آج تک کوئی انسان زندہ آسمان پر نہیں گیا لیکن آپ کے عقیدہ کے مطابق عیسی علیہ السلام آسمان پر چڑھ گئے.4.تمام انبیاء نے ایک محدود انسانی عمر پائی لیکن آپ کے عقیدہ کے مطابق عیسی علیہ السلام آج تک آسمان پر زندہ ہیں.5.تمام انبیاء اور بنی نوع انسان کی زندگی کھانے پینے سے وابستہ ہے کیونکہ انسانی جسم اس کے بغیر زندہ نہیں رہتا لیکن عیسی علیہ السلام قریباً دو ہزار سال سے بغیر کھائے پیئے زندہ ہیں.6.تمام انبیاء اس دنیا سے جانے کے بعد دوبارہ کبھی واپس نہیں آئے جبکہ عیسی علیہ السلام نے دوبارہ آنا ہے.7 عیسی علیہ السلام وہ واحد وجود ہیں جو قرب قیامت میں نزول کریں گے اور تمام بنی نوع انسان کو آخری دفعہ حق کی طرف بلائیں گے پھر جو نہیں مانے گا ان پر قیامت آجائے گی.اور یہ بات کسی اور انسان یا نبی کے حصے میں نہیں آئی.اس لئے آپ کے اپنے عقیدہ کے مطابق مسیح علیہ السلام دیگر تمام انبیاء اور بنی نوع انسان سے کہیں افضل ہیں بلکہ وہ نبیوں اور انسانوں سے بڑھ کر کوئی وجود ہیں اور یہی عیسائیت کا عقیدہ ہے کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں.لہذا ثابت ہوا کہ جو دین وہ لے کر آئے ہیں وہ سب سے افضل ہے.اب دیکھیں کہ اس غلط عقیدہ نے اسلام کو کس قدر نقصان پہنچایا اور کس قدر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا باعث بنا.نیز اس عقیدہ کے سبب لاکھوں کی تعداد میں مسلمان عیسائیت کی صفوں میں شامل ہو کر اسلام کے خلاف جنگ کرنے لگے.الغرض صرف اس ایک غلط عقیدہ کی
مصالح العرب.....جلد دوم 194 کی بنا پر اسلام کی حمایت و حفاظت کے دعویداروں نے اسلام کو کسی بھی بیرونی دشمن سے زیادہ نقصان پہنچایا.ایسے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرما کر اس مخالف اسلام عقیدہ کا رد فرمایا.آپ نے فرمایا: وفات مسیح اور حیات اسلام یہ دونوں مقاصد باہم بہت بڑا تعلق رکھتے ہیں اور وفات مسیح کا مسئلہ اس زمانہ میں حیات اسلام کے لیے ضروری ہو گیا ہے.زندہ بجسد عنصری حضرت عیسی کی حیات اوائل میں تو صرف ایک غلطی کا رنگ رکھتی تھی مگر آج یہ غلطی ایک اثر دھا بن گئی ہے جو اسلام کو نگلنا چاہتی ہے.ابتدائی زمانہ میں اس غلطی سے کسی گزند کا اندیشہ نہ تھا اور وہ غلطی ہی کے رنگ میں تھی.مگر جب سے عیسائیت کا خروج ہوا اور انہوں نے مسیح کی زندگی کو ان کی خدائی کی ایک بڑی زبر دست دلیل قرار دیا تو یہ خطرناک امر ہو گیا.انہوں نے بار بار اور بڑے زور سے اس امر کو پیش کیا کہ اگر مسیح خدا نہیں تو وہ عرش پر کیسے بیٹھا ہے؟ اور اگر انسان ہو کر کوئی ایسا کر سکتا ہے کہ زندہ آسمان پر چلا جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی بھی آسمان پر نہیں گیا ؟ اس قسم کے دلائل پیش کر کے وہ حضرت عیسی کو خدا بنانا چاہتے ہیں اور انہوں نے بنایا اور دنیا کے ایک حصہ کو گمراہ کر دیا.اور بہت سے مسلمان جو میں لاکھ سے زیادہ بتائے جاتے ہیں اس غلطی کو صحیح عقیدہ تسلیم کرنے کی وجہ سے اس فتنہ کا شکار ہو گئے....عیسائیوں نے مسیح کی اس خصوصیت کو پیش کر کے دنیا کو گمراہ کر دیا ہے اور مسلمانوں نے بغیر سوچے سمجھے ان کی اس ہاں میں ہاں ملادی اور ضرر کی پروانہ کی جو اس سے اسلام کو پہنچا.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے اور وہ اپنی غلطی کو سمجھیں.میں سچ کہتا ہوں کہ جو لوگ مسلمان کہلا کر اس عقیدہ کی کمزوری اور شناعت کے کھل جانے پر بھی اس کو نہیں چھوڑتے وہ دشمن اسلام اور اس کے لئے مار آستین ہیں.“ بجز موت مسیح صلیبی عقیدہ پر موت نہیں آسکتی نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ( ملفوظات جلد 8 صفحہ 337)
مصالح العرب.....جلد دوم 195 خوب یاد رکھو کہ بجز موت مسیح صلیبی عقیدہ پر موت نہیں آسکتی.سو اس سے فائدہ کیا کہ برخلاف تعلیم قرآن اس کو زندہ سمجھا جائے.اس کو مرنے دوتا یہ دین زندہ ہو.“..پھر فرمایا: کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 17 ) تم عیسی کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی حیات ہے.ایسا ہی عیسی موسوی کی بجائے عیسی محمدی آنے دو کہ اس میں اسلام کی عظمت ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 694 حاشیہ.جدید ایڈیشن) ایک اور جگہ فرمایا: مسلمانوں کی خوش قسمتی ہی اس میں ہے کہ مسیح مرجائے.اب زمانہ ہی ایسا آگیا ہے کہ خیال تبدیل ہوتے ہیں.کچھ مان جائیں گے کچھ مر جائیں گے....پس مسیح کو مرنے دو کہ اسلام کی زندگی اسی میں ہے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 547-548 جدید ایڈیشن) گو کہ بعض بزرگان سلف نے اپنی کتب میں تو وفات مسیح کا ذکر کیا تھا لیکن عصر حاضر کے علماء کی طرف سے اس وقت اس عقیدہ کی مخالفت شدت اختیار کر گئی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اعلان فرمایا کہ مسیح ناصری تو وفات پاچکے ہیں اور جس کے آنے کا وعدہ ہے وہ اسی امت سے ایک فرد ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کی وجہ سے یہ مقام عطا کیا جائے گا.اور مجھے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ موعود میں ہوں.تو اس اعلان کے بعد بیشتر علماء حیات مسیح ثابت کرنے میں لگ گئے لیکن بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلمات مبارکہ اب زمانہ ہی ایسا آگیا ہے کہ خیال تبدیل ہوتے ہیں“ کی صداقت ظاہر ہوئی اور آج صرف عربوں میں ہی علماء کی ایک جماعت وفات مسیح کی قائل ہو گئی ہے.ذیل میں صرف ان عصر حاضر کے علماء کے اقوال و دلائل پیش کئے جاتے ہیں.شیخ محمد عبدہ کا موقف آپ کا شمار مصر کے ان علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے مصری اسلامی معاشرہ میں بعض غلط مفاہیم کی اصلاح کا کام کیا.عقل اور منطق کو مدنظر رکھ کر بات کرنے کی وجہ سے آپ کے کلام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.آپ جمال الدین افغانی کے شاگرد تھے اور آخری عمر میں
196 مصالح العرب.....جلد دوم (1899ء تا 1905ء ) مصر کے مفتی عام بھی رہے.آپ کے اہم شاگردوں میں شیخ محمد رشید رضا ہیں جنہوں نے اپنی تفسیر تفسیر المنار میں جگہ جگہ آپ کے فتاویٰ اور آراء درج کی ہیں.وفات مسیح کے مسئلہ پر شیخ رشید رضا اپنے استاد کی رائے لکھتے ہوئے کہتے ہیں: يقول بعض المفسرين: "إنى متوفيك" أى منومك، وبعضهم إنى قابضك من الأرض بروحك وجسدك - ورافعك إلى بيان لهذا التوفى، وبعضهم: إنى أنجيك من هؤلاء المعتدين، فلا يتمكنون من قتلك، وأميتك حتف أنفك ثم أرفعك إلى ونسب هذا القول إلى الجمهور وقال: للعلماء هاهنا طريقتان إحداهما وهى المشهورة أنه رفع حيًّا بجسمه وروحه، وأنه سينزل في آخر الزمان فيحكم بين الناس بشريعتنا ثم يتوفاه الله تعالى ولهم في حياته الثانية على الأرض كلام طويل معروف وأجاب هؤلاء عما يرد عليهم من مخالفة القرآن في تقديم الرفع على التوفي بأن الواولا تفيد ترتيبا أقول وفاتهم أن مخالفة الترتيب في الذكر للترتيب في الوجود لا يأتى فى الكلام البليغ إلا لنكتة، ولا نكتة هنا لتقديم التوفى على الرفع إذ الرفع هو الأهم لما فيه من البشارة با لنجاة ورفعة المكانة بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ اِنِّي مُتَوَفِّيكَ“ کے معنے ہیں میں تجھ پر نیند طاری کر دوں گا، جبکہ بعض کا خیال ہے کہ اس کا مطلب ہے: میں تجھے زمین سے مع جسم وروح اٹھا لوں گا ، اور وَرَافِعُكَ اِلَی “ اس توفی کی کیفیت کا بیان ہے ( یعنی تجھے بجسم وروح اٹھانا اپنی طرف رفع کرنے سے ہوگا)، اور بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں تجھے ان ظالموں کے چنگل سے چھڑاؤں گا چنانچہ وہ تجھے قتل نہیں کر سکیں گے چنانچہ میں تجھے طبعی موت دوں گا پھر تمہارا اپنی طرف رفع کروں گا.اور یہ آخری قول جمہور علماء کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.شیخ محمد عبدہ یہ آراء درج کرنے کے بعد کہتے ہیں: علماء نے اس سلسلہ میں دو موقف اختیار کئے ہیں ان میں سے جو زیادہ مشہور ہے وہ یہ ہے
مصالح العرب......جلد دوم 197 کہ عیسی علیہ السلام کا رفع زندہ ہونے کی حالت میں ان کے جسم اور روح کے ساتھ ہوا اور وہ آخری زمانہ میں نازل ہوں گے اور ہماری شریعت اسلامیہ کی رو سے لوگوں کے درمیان فیصلے کریں گے پھر اللہ تعالیٰ انہیں وفات دے گا.اس رائے کے حامی علماء زمین پر عیسی علیہ السلام کی دوسری زندگی کے بارہ میں جو بہت کچھ کہتے یا لکھتے ہیں وہ معروف و مشہور ہے.ان لوگوں پر اعتراض ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ معنی آیت مذکورہ میں رفع کے لفظ کو توفی سے پہلے لا کر کیا ہے اور یہ قرآن کریم کی ترتیب کی خلاف ورزی ہے.اس کے جواب کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَى‘ میں واؤ ترتیب کے لئے نہیں آئی.( یعنی ان کے مطابق یہاں تین چار امور کا بیان ہے اور اگر چہ ایسی عبارات میں واؤ ترتیب کے لئے آتی ہے لیکن آیت مذکورہ میں واؤ کا یہ مطلب نہیں کہ ان واقعات کی وہی ترتیب ہوگی جو آیت میں بیان ہوئی ہے کیونکہ اس ترتیب سے توفّی یعنی موت پہلے ہے اور پھر رفع کا ذکر ہے، چنانچہ یہاں کسی حکمت کے تحت خدا تعالیٰ کی طرف سے واقعات میں تقدیم و تاخیر ہے.لہذا ان کے نزدیک پہلے رفع کا واقعہ ہوا اور توفی کا واقعہ نزول عیسی کے بعد ہوگا) شیخ محمد عبدہ اس رائے پر محاکمہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ وہ بھول گئے کہ آیت مذکورہ میں امور کی ترتیب کے خلاف ان کا نئی ترتیب قائم کرنا ایک بلیغ کلام میں کسی خاص نکتہ کے بیان کے لئے ہو سکتا ہے.اور اس آیت میں توفی کے لفظ کو رفع پر مقدم رکھنے میں کوئی خاص نکتہ نہیں ہے کیونکہ رفع دراصل توفی سے اہم ہے کیونکہ اس میں عیسیٰ علیہ السلام کی نجات اور ان کے مقام و مرتبہ کی رفعت کی بشارت ہے.یہ عبارت کسی قدر وضاحت طلب ہے.اس میں شیخ محمد عبدہ صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں تقدیم و تاخیر ہے لیکن تقدیم و تاخیر ایک بلیغ کلام میں کسی بلاغی نکتہ کے بیان کے لئے ہوتی ہے.جبکہ اگر آپ کی بات مان لی جائے اور یہ کہا جائے کہ توفی کو اللہ تعالیٰ نے رفع پر مقدم کر دیا ہے جبکہ صحیح ترتیب میں رفع پہلے اور توقی بعد میں ہے تو دراصل اس تقدیم و تاخیر میں تو کوئی منطق یا بلاغت کا نکتہ سمجھ میں نہیں آتا بلکہ اگر کسی بلاغی نکتہ کی بناء پر اس آیت میں تقدیم و تاخیر ہوتی تو رفع کو پہلے ہی بیان ہونا چاہئے تھا.کیونکہ رفع زیادہ اہم ہے اس لئے کہ اس میں عیسی علیہ السلام کی ان کے دشمنوں کے چنگل سے نجات کا ذکر
مصالح العرب......جلد دوم 198 ہے.چونکہ ایسا نہیں ہوا لہذا ثابت ہوا کہ اس آیت میں کوئی تقدیم و تاخیر نہیں ہے اور جملہ واقعات آیت میں مذکور ترتیب کے مطابق ہوئے ہیں یعنی پہلے عیسی علیہ السلام کی وفات ہوئی ہے پھر رفع ہوا ہے.اور یہ ثابت شدہ امر ہے کہ وفات کے بعد ہونے والے رفع سے مراد درجہ اور مقام کا رفع ہوتا ہے نہ کہ جسم کا.شیخ محمد عبدہ کے اس کلام سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ علماء نے پہلے غلط فہمی کی بنا پر ایک غلط عقیدہ بنالیا اور اس کو جب قرآن سے ثابت کرنا چاہا تو قرآن کو اس کے برخلاف پایا.یہاں امانت اور انصاف کا تقاضا تھا کہ اس غلط عقیدہ کو بدل لیتے لیکن انہوں نے نہ تو یہ عقیدہ بدلا نہ ہی خود کو بدلا بلکہ اس کی جگہ قرآن کو بدل دیا اور تقدیم و تاخیر کا تصور پیش کیا جس سے ان کا غلط عقیدہ ثابت ہو سکے.اگر اس طرح قرآن کریم میں جا بجا بغیر کسی دلیل کے تقدیم و تاخیر کا مسئلہ کھڑا کر دیا جائے تو سارے قرآن میں شک کی نئی راہیں کھل جائیں گی جو قرآن کے اس کی عظیم دعولی خلاف ہے جو اس ابتدائی آیت میں بیان ہوا ہے کہ ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ یعنی یہ ایسی کتاب ہے جس میں کسی قسم کا کوئی شک یا ریب نہیں ہے.) (قال) والطريقة الثانية أن الآية على ظاهرها وأن التوفي على معناه الظاهر المتبادر وهو الإماتة العادية وأن الرفع يكون بعده وهو رفع الروح لا بدع في إطلاق الخطاب على شخص وإرادة روحه فإن الروح هي حقيقة الإنسان والجسد كالثوب المستعار (قال) ولصاحب هذه الطريقة في حديث الرفع والنزول في آخر الزمان تخريجان أحدهما أنه حديث آحاد متعلق بأمر اعتقادى لأنه من أمور الغيب والأمو رالاعتقادية لا يؤخذ فيها إلا بالقطعى لأن المطلوب فيها هو اليقين وليس فى الباب حديث متواتر وثانيهما تأويل نزوله وحكمه في الأرض بغلبة روحه وسر رسالته على الناس وهو ما غلب فى تعليمه من الأمر بالرحمة والمحبة والسلم والأخذ بمقاصد الشريعة دون الوقوف عند ظواهرها والتمسك بقشورها دون البابها وهو حكمتها وما شرعت لأجله،
مصالح العرب.....جلد دوم فالمسيح عليه السلام لم يأت لليهود بشريعة جديدة ولكنه جاء هم بما يزحزحهم عن الجمود على ظواهر ألفاظ شريعة موسى عليه السلام ويوقفهم على فقهها والمراد منها ولما كان أصحاب الشريعة الأخيرة قد جمّدوا على ظواهرها ألفاظها --- وكل ذلك مزهقا لروحها ذاهبا بحكمتها كان لا بد لهم من إصلاح عيسوى يبين لهم أسرار الشريعة وروح الدين وأدبه الحقيقى ـ وكل ذلك مطوى فى القرآن الذي حجبوا عنه بالتقليد الذي هو آفة الحق وعدو الدين فى كل زمان فزمان عیسی علی هذا التأويل هو الذى يأخذ الناس فيه بروح الدين والشريعة الإسلامية لإصلاح السرائر من غير تقيد بالرسوم والظواهر 66 199 ( تفسیر المنار جلد 3 صفحہ 316-317 - دار المنار، الطبعة الثالث 1368ھ ) علماء کا دوسرا موقف یہ ہے کہ آیت کا وہی ظاہری مفہوم مراد ہے جو کہ عام فہم اور واضح ہے اور وہ طبعی موت کا معنی ہے.اور موت کے بعد ہونے والا رفع ہمیشہ روحانی رفع ہوا کرتا ہے.اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ خطاب شخص کو ہو اور اس سے مراد اس کی روح ہے.کیونکہ روح ہی انسان کی اصل حقیقت ہے اور انسانی جسم اس روح کے لئے ایک مستعار لئے ہوئے کپڑے کی طرح ہے.اس موقف کے حامیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے رفع اور آخری زمانہ میں نزول سے متعلق احادیث کی دو تو جیہات پیش کی ہیں: ایک یہ کہ یہ احادیث آحاد ہیں جبکہ ان کے مضمون کا تعلق اعتقادی امور سے ہے.او چونکہ اعتقادی امور میں لوگوں سے یقین مطلوب ہوتا ہے اس لئے ان میں صرف اور صرف قط خبر پر ہی بناء کی جاسکتی ہے.لیکن ان احادیث میں سے کوئی بھی حدیث متواتر نہیں ہے جو یقین کے مرتبہ تک پہنچائے.قطعی دوسری توجیہ یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام کے نزول اور آپ کے زمین میں حکومت کرنے کی تاویل کی جائے.چنانچہ اس سے مراد آپ کی مسیحانہ روح اور آپ کے پیغام کا غلبہ ہے.اور یہ بات رحمت، محبت، صلح جوئی اور شریعت کے مقاصد اور اصل ہدف کو سمجھنے اور مغز کو اخذ کرنے اور
200 مصالح العرب.....جلد دوم نرے چھلکے پر ہی اکتفانہ کرنے کی صورت میں آپ کی تعلیمات میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے.اور کی دراصل اسے دوسرے معنوں میں احکام کی حکمت اور ان کی تشریح کا سبب کہا جاتا ہے.مسیح علیہ السلام یہودیوں کے پاس کوئی نئی شریعت نہیں لائے تھے.تاہم خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے پر حکمت دلائل ضرور لے کر آئے تھے جو یہود کو موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے ظاہری الفاظ پر بناء کر کے بیٹھے رہنے سے روکتے تھے اور ان کی اصل حقیقت اور مراد سمجھنے پر مجبور کرتے تھے...اور جب اس آخری شریعت کے پیروکاروں نے اپنی شریعت کو اس کے ظاہری الفاظ کی حد تک ہی منجمد کر کے رکھ دیا.تو گویا انہوں نے الفاظ کی روح اور حکمت کو فراموش کر دیا لہذا ان کے لئے اصلاح عیسوی بہت ضروری ہوگئی تا کہ انہیں شریعت کے اسرار اور دین کی روح اور اس کا حقیقی ادب سکھائے ، اور یہ سب کچھ قرآن کریم میں موجود ہے جس کو انہوں نے تقلید کے پردوں میں چھپا ڈالا ہے اور یہ بات ہر زمانے میں حق اور دین کی بڑی دشمن ہے.اس تاویل کے مطابق عیسی علیہ السلام کا زمانہ وہ زمانہ ہے جس میں لوگ ظاہری اشکال ، افعال، اور الفاظ کی پیروی کی بجائے دین اور شریعت اسلامیہ کی روح پر عمل پیرا ہوں گے.شیخ محمد رشید رضا کا بیان شیخ محمد رشید رضا صاحب کا شمار مصر کے مشہور علماء میں ہوتا ہے.آپ شیخ محمد عبدہ کے شاگرد تھے.اور عربی رسالہ ”المنار کے ایڈیٹر تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتاب اعجاز مسیح ، جب ان تک پہنچی تو اس میں موجود چیلنج کو پڑھ کر انہوں نے کہا کہ اہل علم حضرات اس سے کہیں بہتر کتاب سات دن میں لکھ سکتے ہیں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عربی زبان میں ایک اور کتاب الهُدى وَالتَّبْصِرَةُ لِمَنْ يَّرَى، لکھی جس میں اور امور کے علاوہ مسیح ناصری علیہ السلام کی ہندوستان کی طرف ہجرت اور وہاں وفات اور سرینگر میں ان کے مزار کا بھی ذکر فرمایا.آپ نے یہ کتاب خصوصی طور پر ان کو بھجوائی اور فرمایا: - اگر مدیر المنار نے اس کا اچھا اور عمدہ رڈ لکھا تو میں اپنی کتابیں جلا دوں گا اور اس کی قدم بوسی کروں گا، اور اس کے دامن سے وابستہ ہو جاؤں گا اور پھر دوسرے لوگوں کی قدر و قیمت اس
مصالح العرب.....جلد دوم 201 کے پیمانہ سے لگاؤں گا.سوئیں پروردگار جہان کی قسم کھاتا ہوں اور اس قسم سے عہد کو پختہ کرتا ہوں.(الهدى والتبصرة لمن بری، روحانی خزائن جلد 18 ، صفحہ 264) اس کے ساتھ ساتھ حضور علیہ السلام نے یہ پیشگوئی بھی فرما دی: أم له في البراعة يد طولى ؟ سيهزم فلا يُرى، نبأ من الله الذى يعلم السر وأخفى“.یعنی: کیا مدیر المنار کو فصاحت اور بلاغت میں بڑا کمال حاصل ہے؟ وہ یقیناً شکست کھائے گا اور میدان مقابلہ میں نہ آئے گا.یہ پیشگوئی اس خدا کی طرف سے ہے جو نہاں در نہاں باتوں کا علم رکھتا ہے.شیخ رشید رضا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد قریباً تمیں سال تک زندہ رہے لیکن ایسی کتاب لکھنے سے قاصر رہے.مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان تو ان کو نصیب نہ ہو سکا ہاں مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اہم تجدیدی مفاہیم کے قائل ہو گئے.مسیح علیہ السلام کی ہجرت کے بارہ میں انہوں نے لکھا: ففراره إلى الهند وموته فى ذلك البلد ليس ببعيد عقلا ونقلا“.یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کا ہندوستان کی طرف ہجرت کرنا اور اس ملک میں جا کر وفات مجلة المنار جلد 15 صفحہ 900-901) پانا عقل ونقل سے بعید نہیں ہے.اور وفات مسیح کے بارہ میں انہوں نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا جس کا نام تفسیر المنار ہے.اس تفسیر میں انہوں نے لکھا:..إِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا (آل عمران : 56) أى مكر الله بهم، إذ قال لنبيه إنى متوفيك إلخـ فإن هذه بشارة بإنجائه من مكرهم وجعل كيدهم في نحرهم قد تحققت، لم ينالوا منه ماكانوا يريدون بالمكر والحيلة والتوفي فى اللغة أخذ الشيء وافيا تاما ومن ثم استعمل بمعنى الإماتة قال تعالى: "الله يتوفى الأنفس حين موتها“
مصالح العرب.....جلد دوم وقال: "قل يتوفاكم ملك الموت الذى وكل بكم فالمتبادر في الآية: إنى مميتك وجاعلك بعد الموت في مكان رفيع عندى، كما قال في إدريس عليه السلام: " ورفعناه مكانا عليا والله تعالى يضيف إليه ما يكون فيه الأبرار من عالم الغيب قبل البعث وبعده كما قال في الشهداء: أحياء عند ربهم، وقال: "إن المتقين في جنات ونهر في مقعد صدق عند مليك مقتدر“.وأما تطهيره من الذين كفروا فهو انجاؤه مما كانوا يرمونه به أو يرومونه منه ويريدونه به من الشر هذا ما يفهمه القارئ الخالي الذهن من الروايات والأقوال، لأنه هو المتبادر من العبارة وقد أيدناه بالشواهد من الآيات ولكن المفسرين قد حولوا الكلام عن ظاهره لينطبق على ما أعطتهم الروايات من كون عيسى رفع إلى السماء بجسده ـ “ " 202 (تفسیر المنار جلد 3 ص316-317 - دار المنار، الطبعة الثالثة 1368 ه ) آیت کریمہ إِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا“ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ مکر کی جب اپنے نبی سے کہا : مُتَوَفِّيك الخ کیونکہ اس میں عیسیٰ علیہ السلام کی کی دشمنوں سے نجات اور دشمنوں کی تدبیر خود ان کے اوپر الٹانے کی بشارت تھی جو کہ پوری ہوئی.چنانچہ وہ اپنے مکر وہ حیلہ سے آپ کا بال بیکا نہ کر سکے.توفی کے لغوی معنی کسی چیز کو مکمل طور پر لے لینے کے ہیں، اسی بناء پر یہ موت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اللهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا، یعنی الله تعالى جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے.نیز فرمایا: ”قُلْ يَتَوَفَّكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ (السجد 120) تو کہہ دے کہ موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہیں وفات دے گا.چنانچہ اس رُو سے آیت کا واضح طور پر سمجھ آنے والا معنی یہ ہوگا کہ میں تجھے موت دوں گا اور موت کے بعد تجھے اپنے حضور ایک بلند مرتبہ پر فائز کروں گا.جیسا کہ ادریس علیہ السلام کے
203 مصالح العرب.جلد دوم بارہ میں فرمایا: "وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا“ یعنی ہم نے اس کا ایک بلند مقام کی طرف رفع کیا لی تھا.اللہ تعالیٰ کا رفع کو اپنی طرف نسبت دینا دراصل اپنے نیک بندوں کا بلند مقام ظاہر کرنا ہے جو وہ عالم غیب میں حشر سے قبل اور بعد میں پائیں گے.جیسا کہ شہداء کے بارہ میں فرمایا: أحْيَاء عِنْدَ رَبِّهِمْ یعنی وہ اپنے رب کے حضور زندہ ہیں.اسی طرح فرمایا: ” إِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِي جَنْتٍ وَنَهَرٍ فِى مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيْكِ مُقْتَدِرٍ (القمر :55-56).‘ یقینا منتفی جنتوں میں اور فراخی کی حالت میں ہوں گے.سچائی کی مسند پر ، ایک مقتدر بادشاہ کے حضور.اور جہاں تک آپ کی کافروں سے تطہیر کرنے کا تعلق ہے تو اس سے مراد آپ کی ان کے مکروں اور منصوبوں اور ان کے شر سے نجات ہے.ایک خالی الذہن قاری جس نے مروجہ روایات اور اقوال کو نہیں سنا اس آیت سے یہی معنی سمجھتا ہے کیونکہ یہی وہ واضح معنی ہے جو سب سے پہلے سمجھ میں آتا ہے.لیکن مفسرین نے اس کلام کو اسکے ظاہری معنوں سے ہٹا دیا تا کہ انکے اس مفہوم پر صادق آسکے جو انہوں نے مختلف روایات سے اخذ کیا ہے کہ عیسی علیہ السلام کا جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر رفع ہو گیا ہے.شیخ رشید رضا صاحب اپنی اسی تفسیر میں آیت قرآنى وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَا مِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُم ( آل عمران 145) کی تفسیر میں لکھتے ہیں: و حاصل المعنى أن محمدًا ليس إلا بشرًا رسولا قد خلت ومضت الرسل من قبله فماتوا وقد قتل بعض النبيين كزكريا ويحيى فلم يكن لأحد منهم الخلد وهو لا بد أن تحكم عليه سنة الله بالموت فيخلو كما خلوا من قبله إذ لا بقاء إلا لله وحده ولا ينبغي للمؤمن الموحد أن يعتقده لغيره، أفإن مات كما مات موسى وعيسى، (أو قتل) كما قتل زكريا ويحيى، تنقلبون على أعقابكم) أي تولون الدبر راجعين عما كان عليه، يهديهم الله بهذا إلى أن الرسول ليس مقصودا لذاته فيبقى للناس وإنما المقصود من إرساله ما أرسل به من الهداية فيجب العمل بها من بعده “ تفسير المنار جلد 4 صفحه 161 دار المنار، الطبعة الثالثة 1368ه)
204 مصالح العرب.....جلد دوم خلاصہ کلام یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بشر رسول ہی تھے اور آپ سے پہلے رسول گزرے ہیں جو کہ سب وفات پاچکے ہیں جبکہ بعض کی موت قتل کے ذریعہ ہوئی جیسے زکریا اور یحییٰ علیہما السلام.تاہم ان میں سے کسی کو بھی ہمیشہ کی زندگی نصیب نہ ہوئی.اس لئے ضروری کی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی خدا تعالیٰ کی سنت کے مطابق وفات ہوتی.چنانچہ آپ بھی اپنے سے پہلے انبیاء کی طریق پر اس جہان سے گزر گئے کیونکہ بقا صرف خدا تعالیٰ کو ہی ہے اور ایک موحد مؤمن کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی بقاء کا بھی قائل ہو.أَفَإِن مَّاتَ کا مطلب ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی وفات پا جائیں جس طرح موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام وفات پاگئے.اَوْ قُتِلَ یا زکریا اور بیٹی علیہما السلام کی طرح قتل ہو جائیں تو تم اپنی ایڑھیوں کے بل پھر جاؤ گے اور آپ کے لائے ہوئے دین سے پھر جاؤ گے؟ اللہ تعالیٰ انہیں اس قول کے ذریعہ یہ ہدایت دینا چاہتا ہے کہ اصل مقصود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نہیں ہے تا ان کے ہمیشہ زندہ رہے کا سوال پیدا ہو.بلکہ اصل مقصود وہ تعلیم اور ہدایت ہے جس کے ساتھ آپ مبعوث ہوئے لہذا آپ کے بعد آپ کی اس تعلیم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.شیخ احمد مصطفیٰ المراغی کی رائے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ شیخ محمد عبدۂ صاحب بہت بڑے عالم اور علماء کی ایک جماعت کے استاد تھے اس لئے آپ کے بعض شاگردوں نے بیشتر مسائل میں نہ صرف آپ کی رائے سے اتفاق کیا بلکہ اپنی تفاسیر اور کتب میں ایسے مسائل پر لکھتے ہوئے اپنی رائے کو شیخ محمد عبدہ صاحب کے الفاظ میں ہی درج کیا.ان میں سے ایک احمد مصطفیٰ المراغی ہیں جو مصر کے کلیتہ دار العلوم میں شریعت اسلامیہ اور عربی زبان کے استاد رہے اسی طرح شیخ الازہر بھی رہے، ا اور 1945ء میں ہی انہوں نے تمہیں جلدوں پر مشتمل ایک تغییر تفسیر المراغی شائع کی ، اس میں وفات مسیح کے بارہ میں انہوں نے بعینہ شیخ محمد عبدہ صاحب کے الفاظ درج کر کے اپنی رائے کا اظہار کیا.تکرار کے خوف سے اسی رائے کو دوبارہ یہاں درج نہیں کیا جا رہا.علاوہ ازیں انہوں نے آیت کریمہ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَا مِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقَابِكُمْ ( آل عمران 145 کی تفسیر میں شیخ رشید
مصالح العرب.جلد دوم 205 رضا صاحب کی رائے سے ملتے جلتے الفاظ میں عیسی و موسیٰ علیہما السلام کی وفات کا ذکر کر کے آخر می رلکھا: " والخلاصة أن محمدًا بشر كسائر الأنبياء وهؤلاء قد ماتوا أو قتلوا“ (تفسير المراغى جلد 4 صفحه 88 شركة ومطبعة مصطفى البابي وأولاده مصر طبعة 1962م) یعنی خلاصہ کلام یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کی طرح ایک بشر ہیں اور یہ تمام انبیاء یا تو طبعی وفات پاگئے ہیں یا شہید ہو گئے ہیں.ڈاکٹر محمدمحمود الحجازی کی تفسیر آپ کا شمار بھی علمائے ازہر میں ہوتا ہے آپ ایک دینی درسگاہ کے روح رواں بھی پ نے بھی تفسیر قرآن لکھی اس میں آیت کريم يُعِيْسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَى کے بارہ میں لکھتے ہیں: "فهذه بشارة له بنجاته من مكرهم وتدبيرهم ورافعك في مكان أعلى والرفع رفع مكانة لا مكان كما قال الله في شأن إدريس عليه السلام ورفعناه مكانا عليا وكقوله في المؤمنين (في مقعد صدق عند مليك مقتدر فليس المعنى والله أعلم به أن عيسى رفع إلى الله وأنه سينزل آخر الدنيا ثم يموت “ 66 التفسير الواضح للدكتور الحجازی جلد 1 صفحہ 108 ) اس میں تو عیسی علیہ السلام کی یہود کی مکر سے نجات کی خوشخبری ہے.اور یہ ذکر ہے کہ میں تیرا اعلیٰ اور بلند مقام پر رفع کروں گا.اور یہاں مقام ومرتبہ کا رفع مراد ہے نہ کہ رفع مکانی مقصود ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا: (وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا ) یعنی ہم نے اس کا بلند مقام پر رفع کیا.اور جیسے اللہ تعالی کا مومنوں کے بارہ میں فرمانا ہے کہ : (فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيْكَ مُقْتَدِرٍ) یعنی یہ مؤمنین اپنے قادر بادشاہ کے حضور سچائی کی مسند پر تشریف فرما ہوں گے.چنانچہ اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ عیسی علیہ السلام کا
مصالح العرب.....جلد دوم 206 اپنے جسم سمیت خدا کی طرف رفع ہوا ہے اور آپ دنیا کے خاتمہ کے قریب نزول فرمائیں گے اور پھر آپ مریں گے.واللہ اعلم.اسی طرح حجازی صاحب آیت کریمہ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل کے بارہ میں لکھتے ہیں: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ كمن سبقه من الرسل منهم قد خلوا وانتهت حياتهم بموت كموسى وعيسى أو قتل كزكريا ويحيى ـ التفسير الواضح للدكتور الحجازی جز1 صفحہ 131 ، دار الكتاب العربی بیروت طبعة 1982م) محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے سے قبل رسولوں کی طرح ایک رسول ہی تو تھے ان میں سے بعض انبیاء کی زندگی موت آنے سے ختم ہوگئی جیسے موسیٰ اور عیسی علیہما السلام ، اور بعض کی زندگی قتل کے ذریعہ ختم ہوئی جیسے ذکر یا اور یحییٰ علیہما السلام.شیخ محمد الطاهر بن عاشور کا واضح موقف محمد الطاهر بن عاشور (1879-1973ء) تیونس کے عالم دین فقیہ اور عربی دان ، قدیم ترین اسلامی یونیورسٹی جامع الزیتونہ کے شیخ اور مالکی مذہب کے مفتی، چالیس کے قریب دینی اور عربی زبان کے علوم پر مبنی کتب کے مصنف اور حق بات کہنے کی جرات رکھنے والی ایک معروف دینی شخصیت تھے.آپ نے اپنی مصنفات میں ایک تفسیر قرآن بھی لکھی جس میں وفات مسیح کے عقیدہ کی سچائی کا اعتراف کیا.آپ لکھتے ہیں: وقوله ( إنى متوفيك ظاهر معناه إني مميتك، هذا هو معنى هذا الفعل فى موقع استعماله لأن أصل فعل توفّى الشيء أنه قبضه تاما واستوفاه فيقال توفاه الله أى قدر موته، ويقال توفاه ملك الموت أي نفذ إرادة الله ،بموته ويطلق التوفى على النوم مجازا بعلاقة المشابهة فى نحو قوله تعالى (وهو الذي يتوفاكم بالليل) وقوله (الله يتوفّى الأنفس حين موتها والتي لم تمت في
مصالح العرب......جلد دوم منامها فيمسك الله قضى عليها الموت ويرسل الأخرى إلى أجل مسمّى أى وأما التي لم تمت الموت المعروف فيميتها في منامها موتًا شبيها بالموت التام كقوله (هو الذي يتوفاكم بالليل) ثم قال (حتى إذا جاء أحدكم الموت توفته رسلنا) فالكل إماتة في التحقيق، وإنما فصل بينهما العرف والاستعمال ولذلك فرّع بالبيان بقوله (فيمسك الله قضى عليها الموت ويرسل الأخرى إلى أجل مسمّى) - فالكلام منتظم غاية الانتظام وقد اشتبه نظمه على بعض الأفهام وأصرح من هذه الآية آية المائدة (فلما توفيتني كنت أنت الرقيب (عليهم لأنه دلّ على أنه قد توفى الوفاة المعروفة التي تحول بين المرء وبين علم ما يقع على الأرض، ومحلها على النوم بالنسبة لعيسى لا معنى له لأنه إذا أراد رفعه لم يلزم أن ينام ولأن النوم حينئذ وسيلة للرفع فلا ينبغى الاهتمام لذكره وترك المقصد فالقول بأنها معنى الرفع عن هذا العالم 207 إيجاد معنى جديد للوفاة فى اللغة بدون حجة ! إِنِّي مُتَوَفِّيكَ کا ظاہری معنی ہے مُمِيتُكَ یعنی میں تجھے موت دوں گا.اس فعل کا اس کے استعمالات میں یہی معنی ہے.کیونکہ فعل توفّی دراصل تو فى الشئ سے ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کو مکمل اور پورے طور پر لے لینا.اس لئے جب کہا جاتا ہے تَوَفَّاهُ اللہ تو اس کا معنی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے مرنے کا فیصلہ کر دیا.اور جب یہ کہا جائے کہ تَوَفَّاهُ مَلَكُ الْمَوْتِ تو معنی یہ ہوتا ہے کہ فرشتے نے کسی کو موت دینے کے خدائی ارادہ کو نافذ کر دیا.اور نیند کی موت سے مشابہت کی وجہ سے اس پر بھی لفظ توفی مجاز کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْل (الانعام: 61) اور فرماتا ہے: اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مسمى (الزمر: 43).
مصالح العرب......جلد دوم 208 یعنی جن نفوس کی عام اور معروف موت کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہوتا انہیں اللہ تعالیٰ نیند کی حالت میں ایک موت دیتا ہے جو حقیقی موت سے مشابہ ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا: (وَهُوَ الَّذِى يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْل) یعنی وہ تمہیں رات کو ایک قسم کی موت دیتا ہے.پھر فرمایا: (حَتَّى إِذَا جَاءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتُهُ رُسُلُنَا (الانعام: 61) یعنی جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) وفات دیتے ہیں.چنانچہ دونوں حالتوں میں حقیقی معنی موت کا ہی ہے جبکہ عُرف اور ( توفی کا ) استعمال دونوں معنوں کے درمیان فرق کر دیتا ہے( کہ یہاں توفی سے مراد حقیقی موت ہے یا نیند کی حالت ہے کیونکہ استعمال میں قرینہ ہوگا جیسے آیت کریمہ میں یوفا گم بالگنیل میں الگیل کے لفظ میں بتایا گیا ہے کہ یہاں حقیقی موت مراد نہیں بلکہ اسکی ایک حالت مراد ہے جو عموماً رات کے وقت طاری ہوتی ہے ) اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسکی مزید وضاحت کرتے ہوئے یہاں فرمایا ہے ( فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّی) یعنی جس کے بارہ میں حقیقی موت کا فیصلہ ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ روک لیتا ہے جبکہ دوسرے کو ایک مقررہ میعاد تک کے لئے بھیج دیتا ہے ( جس پر کہ موت سے مشابہ حالت یعنی نیند طاری ہوتی ہے).تو یہ ایک مسلسل اور محکم تر تیب پر مشتمل کلام ہے.لیکن پھر بھی اسکی یہ محکم ترتیب بعض افہام پر مشتبہ ہو گئی ہے.اس آیت سے زیادہ صریح اور واضح سورہ مائدہ کی یہ آیت ہے: (فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ) کیونکہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام نے وہی معروف وفات پائی جو انسان کے زمین پر ہونے والے واقعات کے بارہ میں جاننے میں حائل ہو جاتی ہے.اس جگہ توفی کو بالخصوص عیسی علیہ السلام کے بارہ میں نیند پر محمول کرنا سراسر بے معنی اور بے حقیقت امر ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے انکا جسمانی رفع کرنا تھا تو اس کے لئے ان کا سونا ضروری نہیں تھا کیونکہ اس صورت میں نیند نے رفع کے لئے ایک وسیلہ بننا تھا اور اصل مقصد کو چھوڑ کر اس وسیلہ کے ذکر کی چنداں ضرورت نہ تھی.پس یہ کہنا کہ یہاں وفات سے مراد اس دنیا سے جسمانی طور پر اٹھ جانا ہے وفات کے لفظ کے بغیر کسی دلیل کے نئے معنے ایجاد کرنے کے مترادف ہے......وكنت عليهم شهيدًا ما دمت فيهم ---- إلخ) أى كنت
مصالح العرب.جلد دوم شاهدًا لهم ورقيبا يمنعهم من أن يقولوا مثل هذه المقالة الشنعاء- (ما دمت فيهم) أى ما بقيت فيهم، أى ما بقيت في الدنيا (فلما توفيتنى كنت أنت الرقيب عليهم أي فلما قضيت بوفاتي، والوفاة: الموت، وتوفاه الله أى أماته أى قضى به، وتوفاه ملك الموت أى قبض روحه وأماته والمعنى: أنك لما توفيتنى قد صارت الوفاة حائلا بينى وبينهم فلم يكن لي أن أنكر ضلالهم ولذلك قال: (كنت أنت الرقيب عليهم) فجاء بضمير الفعل الدال على القصر أى كنت أنت الرقيب لا أنا، إذ لم يبق بيني وبين الدنيا اتصال..209 كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ الخ) کا معنی ہے میں ان پر گواہ ونگران ہونے کے ناطے انہیں اس قسم کے کلمہ کفر سے اس وقت تک روکتا رہا جب تک میں ان میں رہا، یعنی جب تک میں دنیا میں رہا.(فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ (المائده: 118): کا مطلب ہے جب تو نے میری وفات کا فیصلہ فرما دیا.وفات کا مطلب ہے موت تو فاہ اللہ کا مطلب ہے اسکو موت دے دی یعنی اسکا فیصلہ صادر فرما دیا، اور تو فاہ ملک الموت کا مطلب ہوتا ہے ملک الموت نے اس کی روح قبض کرلی اور اسکو موت دے دی.اس لحاظ سے آیت کا معنی یہ ہوگا کہ جب تو نے مجھے وفات دے دی تو یہ وفات میرے اور ان کے درمیان حائل ہو گئی.اس لئے میں ان کی گمراہی کا انکار نہیں کر سکتا لہذا انہوں نے کہا: (كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيب عَلَيْهِمْ) اور اس میں بھی فعل کی ایسی ضمیر استعمال کی جو حصر کے معنے دیتی ہے گویا یوں کہا کہ صرف اور صرف تو ہی نگران تھا میں نہ تھا کیونکہ وفات کے بعد میرے اور اس دنیا کے درمیان کوئی رابطہ نہ رہا.ڈاکٹر احمد علمی کی تحقیق ڈاکٹر احمد شلمی صاحب سابق صدر شعبہ تاریخ اسلامی کلیتہ دار العلوم جامعہ قاہرہ ہیں، کئی ملکوں میں مصری سفیر رہنے کا اعزاز پایا اور مختلف زبانوں میں پچاس سے زائد کتب کے مصنف
مصالح العرب.....جلد دوم 210 ہیں.ان میں سے ایک مقارنة الادیان ہے جس کے دوسرے حصہ میں انہوں نے عیسائیت کے عقائد اور عیسی علیہ السلام کے بارہ میں مفصل تحقیق درج کی ہے.اس تحقیق میں انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی صلیبی موت سے نجات ثابت کی ہے، جس کی بنا پر عیسائیت کے عقائد کا بطلان ثابت کیا ہے.اس کے بعد یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر عیسی علیہ السلام صلیب سے بچ گئے تھے تو پھر اس کے بعد کہاں گئے؟ اس سوال کے جواب سے ہم قارئین کرام کی دلچسپی کے لئے ان کی تحقیق مع ترجمہ ذیل میں درج کرتے ہیں: أين ذهب عيسى بعد النجاة من المؤامرة؟ لم تتحدث المراجع التاريخية عن المكان الذي ذهب إليه عيسى عليه السلام عقب نجاته من المؤامرة، والذى يرشد له العقل أن عيسى عليه السلام بعد ذلك ترك فلسطين لأن بقاءه فيها كان معناه أن يعثر عليه اليهود والسلطة الحاكمة في يوم من الأيام، وأن ينفذوا فيه الحكم الذي صدر عليه وعلى كل حال فقد اختفى السيد المسيح عقب نجاته، واختفت معه اخباره، على أن هناك قولا يرى أن المسيح هاجر إلى بلاد الهند ومات هناك فى لاهور، وهو قول ينقصه التأكيد والوثائق صلیب پر مارنے کی سازش سے نجات کے بعد عیسی علیہ السلام کہاں گئے؟ کتب تاریخ اس جگہ کے بارہ میں بالکل خاموش ہیں جہاں حضرت عیسی علیہ السلام یہود کی سازش سے بچنے کے بعد تشریف لے گئے.لیکن عقل اس بات کی طرف راہنمائی کرتی ہے کہ آپ اس کے بعد فلسطین سے ہجرت کر گئے کیونکہ اگر آپ وہاں رہتے تو یہود اور حکومتی کارندوں نے کسی دن آپ کو ڈھونڈ نکالنا تھا اور پھر آپ کے خلاف صادر شدہ فیصلہ نافذ کر دینا تھا.بہر حال حضرت عیسی علیہ السلام صلیب سے نجات کے بعد روپوش ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی آپ کے بارہ میں خبریں بھی منقطع ہو گئیں.تاہم ایک رائے یہ کہی جاتی ہے کہ عیسیٰ علیہ
مصالح العرب......جلد دوم 211 السلام نے بلاد ہند کی طرف ہجرت کی اور وہاں لاہور میں وفات پائی.لیکن یہ قول اپنے ثبوت کے لئے تاریخی دلائل اور وثائق کا محتاج ہے.(لا ہور میں عیسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر تو شاید کسی جگہ نہ ہو تا ہم ہندوستان کی طرف ہجرت کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بکثرت اپنی کتب میں فرمایا ہے اور رہی بات دلائل اور مضبوط ثبوتوں کی تو حضور علیہ السلام نے اپنی کتاب «مسیح ہندوستان میں عقلی نقلی، اور تاریخی شواہد و وثائق کے ساتھ اس بات کو ثابت کیا ہے ) ماذا كانت نهاية عيسى بعد النجاة: هل رفع إلى السماء حيا بجسمه وروحه؟ هل استوفى أجله على الأرض وهو مختف ثم مات ودفن جسمه و رفعت روحه إلى بارئها؟ كان هناك اتجاه شاع بين الناس بأن عيسى عليه السلام عندما نجا من المؤامرة رُفع بجسمه وروحه إلى السماء، وكان هذا الرأى يصوّر اختفاءه الذى تحدثنا عنه ولكن هذا الاتجاه واجه دراسة واسعة قام بها المفكرون في العصر الحديث، واعتمدوا في كلامهم على نصوص قديمة ودراسات موثقة، وأوشك هذا الاتجاه الجديد أن يقضى على المزاعم القديمة التي كانت تقول برفع السيد المسيح بجسمه وروحه وعلى كل حال فينبغى أن نورد دعائم الرأى القديم وأن نناقش هذه الدعائم لنسهم في تأصيل الرأى الجديد الذي نرتضيه - عیسی علیہ السلام کا صلیب سے نجات کے بعد کیا انجام ہوا؟ کیا آپ زندہ اپنی روح اور جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے؟ کیا آپ کی تمام عمر اسی زمین پر چھپتے چھپاتے گزرگئی اور اسی حالت میں آپ کی وفات ہوگئی اور آپ کا جسم اسی زمین میں دفن ہوا جبکہ آپ کی روح کا خدا تعالیٰ کے حضور رفع ہوا ؟.
مصالح العرب.....جلد دوم 212 اس سلسلہ میں ایک عام مشہور رائے یہ بھی ہے کہ عیسی علیہ السلام نے جب صلیب سے نجات پائی تو آپ کا اپنے جسم اور روح کے ساتھ آسمان کی طرف رفع ہو گیا.اور اس رائے کی بنیاد عیسی علیہ السلام کے واقعہ صلیب کے بعد مکمل طور پر روپوش ہو جانے پر ہے.لیکن عصر حاضر کے مفکرین اور علماء کی طرف سے اس رائے کے رڈ میں بہت گہری اور وسیع تحقیق پیش کی گئی.انہوں نے اپنی اس تحقیق کی بنیاد پرانی نصوص اور وثائق و شواہد پر رکھی ہے.اور قریب ہے کہ یہ نئی رائے عیسیٰ علیہ السلام کے جسم اور روح سمیت آسمان پر چلے جانے کے پرانے عقیدہ کو جڑ سے اکھیڑ کر رکھ دے.بہر حال ہم یہاں پر پہلے پرانے عقیدہ کے دلائل بیان کرتے ہیں پھر ان پر محاکمہ کریں گے اور آخر میں اس نئی رائے کی پختگی اور قوت کو ثابت کریں گے جو کہ ہماری بھی رائے ہے.بنى الرأى القديم على فهم غير دقيق للآيات والأحاديث التالية: قوله تعالى : وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينَا - بَل رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ....وقوله : إِنِّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ما ورد فى البخارى ومسلم من أن رسول الله ﷺ قال: والذي نفسي بيده ليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم حكما عدلا مقسطا يكسر الصليب ويقتل الخنزير..مناقشة هذه الأدلة وردّها: ويناقش جمهور المفكرين المسلمين هذه الأدلة فيقولون إن عيسى بعد أن نجا من اليهود عاش زمنًا حتى استوفى أجله، ثم مات ميتة عادية ورفعت روحه إلى السماء مع أرواح النبيين والصديقين والشهداء، وقد ورد النص برفع عيسى، مع أن روحه سترفع بطبيعة الحال لأنه نبي، تكريما لمكانته بعد التحدي الذي واجهه من اليهود، فذكر الله نجاته، ثم مكانته التي استلزمت رفع
213 مصالح العرب.جلد دوم روحه ويقولون عن الآية الأولى ”بل رفعه الله إليه إنها تحقيق الوعد الذي تضمنته الآية الثانية "إِنِّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا فإذا كان قوله تعالى "بل رفعه الله إليه خلا من ذكر الوفاة والتطهير واقتصر على ذكر الرفع فإنه يجب أن يلاحظ فيها ما ذكر في قوله "إني متوفيك“ جمعا بين الآيتين ويرى هؤلاء العلماء أن الرفع معناه رفع المكانة وقد جاء الرفع في القرآن الكريم بهذا المعنى كثيرا، قال تعالى: في بيوت أذن الله أن ترفع نرفع درجات من نشاء ورفعنا لك ذكرك ورفعناه مكانا عليا رفع الله الذين آمنوا منكم والذين أوتوا العلم درجات وإذن فالتعبير بقوله ”رافعك إلى وقوله ”بل رفعه الله إليه“ كالتعبير في قولهم: لحق فلان بالرفيق الأعلى، وفى (إن الله معنا) وفي (عند مليك مقتدر، وكلها لا يفهم منها سوى معنى الرعاية والحفظ والدخول في الكنف المقدس وهناك آية كريمة أقوى دلالة من آيات الرفع، ولكنها هذا لا تغنى سوى خلود الروح لا الجسم وهى قوله تعالى: ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون فرحين بما آتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم.مع فمع أن الآية قررت أنهم أحياء فليس معنى هذا حياة الجسم، فجسم الشهيد قد وُورى التراب، ومع أنها قررت أنهم عند ربهم
214 مصالح العرب.....جلد دوم وأنهم يرزقون فليس المقصود هو العندية المكانية ولا الرزق المادى، وإنما المقصود تكريم الروح بقربها من الله قرب مكانة والاستمتاع باللذائذ استمتاعا روحيا لا جسمانيا- وعن الحديثين يجيب الباحثون بإجابتين: أولا هما من أحاديث الآحاد وهى لا توجب الاعتقاد، والمسألة هنا اعتقادية كما سبق ثانيا: الحديثان ليس فيها كلمة واحدة عن رفع عيسى بجسمه، وقد فُهم الرفع من نزول عيسى فاعتقد بعض الناس أن نزول عیسی 6 معناه أنه رفع وسينزل، وهكذا قرر هؤلاء أن عيسى رفع لمجرد أن في الحديثين كلمة ينزل مع أن اللغة العربية لا تجعل الرفع ضرورة للنزول، فإذا قلت نزلت ضيفا على فلان، فليس معنى هذا أنك كنت مرتفعا ونزلت وإذا رجعنا إلى مدلول هذه الكلمة (نزل وأنزل) في القرآن الكريم وجدنا أنه لا يتحتم أن يكون معناها النزول من ارتفعاع بل قد يكون معناها: جعل أو قدّر، أو وقع، أو منح، قال تعالى: و أنزلنا الحديد فيه بأس شديد أى جعلنا في الحديد قوة وبأسا.وقال: "وقل رب أنزلنى منزلا مباركا وأنت خير المنزلين أى قدر لى مكانا طيبا وقال: "فإذا نزل بساحتهم فساء صباح المنذرين.“ أى وقع.وقال: "وأنزل لكم من الأنعام ثمانية أزواج أى منحكم وأعطاكم وهناك آيتان اختلف المفسرون في تفسيرهما، وجاء في بعض ما قيل عنهما أنهما تدلان على نزول عيسى في آخر الزمان، وهاتان الآيتان هما:
مصالح العرب.....جلد دوم وَإِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ (النساء: 160) إِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا (الزخرف: 62) ،، فعن الآية الأولى يرى بعض المفسرين أن الضمير في ”به وفي ”موته عائد على عيسى ويكون المعنى على ذلك عندهم أنه ما من أحد من أهل الكتاب إلا ليؤمنن بعيسى قبل أن يموت عيسى أى سيؤمنون به عند عودته آخر الزمان ولكن هذا مردود بما ذكره مفسرون آخرون من أن الضمير في ”به“ لعيسى وفي 66 ”موته لأهل الكتاب والمعنى أنه ما من أحد من أهل الكتاب يدركه الموت حتى تنكشف له الحقيقة عند حشرجة الروح فيرى أن عيسى رسول ورسالته حق فيؤمن بذلك، ولكن حيث لا ينفعه إيمان وأما عن الآية الثانية "وإنه لعلم للساعة....“ فيرى بعض المفسرين أن الضمير فى إنه راجع إلى محمد له أو إلى القرآن على أنه من الممكن أن يكون راجعا كما يقول مفسرون آخرون إلى عيسى لأن الحديث في الآيات السابقة كان عنه فالمعنى وإن عيسى لعلم للساعة ولكن ليس معنى هذا أن سيعود للنزول بل المعنى أن وجود عيسى في آخر الزمان (نسبيا) دليل على قرب الساعة وشرط من أشراطها، أو أنه بخلقه بدون أب أو بإحيائه الموتى دليل على صحة البعث.عیسی 215 پرانے عقیدہ کی بنیاد مندرجہ ذیل آیات اور احادیث کو درست نہ سمجھنے پر ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ قول جس کا ترجمہ ہے: اور ان کا یہ قول کہ یقیناً ہم نے مسیح عیسی ابن مریم کو جو اللہ کا رسول تھا قتل کر دیا ہے.اور وہ یقیناً اسے قتل نہیں کر سکے اور نہ اسے صلیب دے کر مار) سکے بلکہ ان پر معاملہ مشتبہ کر دیا گیا اور یقیناً وہ لوگ جنہوں نے اس بارہ میں اختلاف کیا ہے اس کے متعلق شک میں مبتلا ہیں.ان
مصالح العرب......جلد دوم 216 کے پاس اس کا کوئی علم نہیں سوائے ظن کی پیروی کرنے کے.اور وہ یقینی طور پر اسے قتل نہ کر سکے.بلکہ اللہ نے اپنی طرف اس کا رفع کرلیا.نیز خدا تعالیٰ کا یہ قول جس کا ترجمہ ہے : جب اللہ نے کہا اے عیسی ! یقیناً میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں اور تجھے ان لوگوں سے نتھار کر الگ کرنے والا ہوں جو کافر ہوئے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث جس کا ترجمہ ہے: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ قریب ہے کہ عیسی ابن مریم تم میں حکم عدل اور انصاف قائم کرنے والے کے طور پر نازل ہوگا جو صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا.ان دلائل پر تبصرہ اور ان کا رو جمہور مسلمان مفکرین ان دلائل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام یہودیوں کے چنگل سے نجات کے بعد ایک عرصہ تک زندہ رہے یہاں تک کہ اللہ کی مقرر کردہ اجل آگئی تو عام معروف طریق پر انہوں نے وفات پائی، اور آپ کی روح کا آسمان کی طرف رفع ہوا جیسا کہ انبیاء اور صدیقین اور شہداء کی ارواح کا رفع ہوتا ہے.گو کہ نص قرآنی میں عیسی علیہ السلام کے رفع کا ذکر ہے لیکن چونکہ آپ نبی تھے اس لئے (تمام نبیوں کی طرح) آپ کی روح کا ہی رفع ہونا تھا خصوصا اس لئے بھی کہ یہودیوں کی طرف سے آپ کو (قتل کا جو ) خطرہ تھا اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے عزت و اکرام کے ساتھ آپ کی نجات کا ذکر فر مایا اور اس کے بعد آپ کے اعلیٰ مقام کا ذکر کیا ہے جو روحانی رفع کا متقاضی ہے.اور یہ مسلمان مفکرین پہلی آیت بَل رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کے بارہ میں کہتے ہیں کہ دراصل یہ اس وعدہ کے پورے ہونے کا بیان ہے جو دوسری آیت " إِنِّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهِّرُكَ.الَّذِينَ كَفَرُوا میں مضمر ہے.اگر چہ بَل رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ وفات اور تطہیر کے بیان سے خالی ہے اور صرف رفع کے بیان پر ہی مشتمل ہے لیکن دونوں آیات کو ملا کر معانی کرتے وقت رفع والی آیت میں دوسری آیت کے لفظ مُتَوَفِّيْكَ کا معنی مد نظر رہنا چاہئے.ان علماء کا خیال ہے کہ یہاں رفع سے مراد مقام ومرتبہ کا رفع ہے اور ان معنوں میں رفع
مصالح العرب......جلد دوم 217 کا لفظ قرآن کریم میں کثرت سے استعمال ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ.(ایسے گھروں میں جن کے متعلق اللہ نے اذن دیا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے ) نَرْفَعُ دَرَجتٍ مَّنْ نَّشَاءُ (الانعام: 84) - (ہم جسے چاہیں درجات کے لحاظ سے بلند کرتے ہیں) تھا.) وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَك (الانشراح : 4 ).(اور ہم نے تیرے لئے تیرا ذکر بلند کر دیا) وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا ( مریم : 58 ) - ( اور ہم نے اس کا ایک بلند مقام کی طرف رفع کیا ہی يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَختِ (المجادلہ: 12).( اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور خصوصاً ان کے جن کو علم عطا کیا گیا ہے) چنانچہ رَافِعُكَ إِلَی اور بَل رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کا استعمال ایسے ہی ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ کوئی اپنے رفیق اعلیٰ یا خالق حقیقی سے جاملا، یا جیسا کہ آیت إِنَّ اللهَ مَعَنَا یعنی اللہ ہمارے ساتھ ہے کا استعمال ہے، یا جیسے مومنوں کے بارہ میں آیا ہے کہ وہ عِندَ مَلِيْكَ مُقْتَدِر یعنی اپنے قادر خدا کے پاس ہوں گے.ان تمام استعمالات سے خدا تعالیٰ کی حفظ وامان اور اسکی طرف سے عزت واکرام عطاء ہونے کے علاوہ اور کوئی معنی نہیں بنتا.علاوہ ازیں ایک اور آیت کریمہ بھی ہے جو تمام آیات رفع سے قوی تر ہے پھر بھی اس سے روحانی بقا اور روحانی خلود مراد ہے، نہ کہ جسمانی.اور وہ آیت ہے: وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوْا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُون فَرِحِيْنَ بِمَا اتْهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ - عمران آیت نمبر 170-171) ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اُن کو ہر گز مُردے گمان نہ کر بلکہ ( وہ تو زندہ ہیں (اور ) انہیں ان کے رب کے ہاں رزق عطا کیا جا رہا ہے.باوجود اس کے کہ اس آیت کریمہ میں صراحتاً یہ ذکر ہے کہ شہید زندہ ہیں پھر بھی اس سے مراد جسمانی زندگی نہیں ہے کیونکہ
218 مصالح العرب......جلد دوم شہید کا جسم تو اسی زمین میں ہی دفن کیا جاتا ہے.پھر آیت کریمہ بیان کرتی ہے کہ شہید خدا کے حضور رزق دیئے جار ہے ہیں.اس سے بھی جسمانی قربت مراد نہیں ہے نہ ہی مادی رزق مراد ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے قرب کی وجہ سے روح کی عزت و تکریم مراد ہے اور خدا تعالیٰ سے قربت کی وجہ سے روحانی طور پر لذتیں پانے کا بیان ہے نہ کہ جسمانی طور پر.مذکورہ بالا دو حدیثوں کے بارہ میں مفکرین و محققین دو جواب دیتے ہیں: اول: یہ احادیث آحاد ہیں جن پر کسی عقیدہ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی جبکہ یہ مسئلہ ایک اعتقادی مسئلہ ہے.دوم : حدیثوں میں عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی رفع کے بارہ میں ایک لفظ بھی نہیں آیا.بلکہ رفع کا عقیدہ احادیث میں ان کے نزول کے ذکر کی بنا پر بنایا گیا ہے.اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ احادیث میں عیسی کے نزول کا معنی ہے کہ قبل از میں ان کا رفع ہو چکا ہے اس لئے وہ جسمانی طور پر نزول فرمائیں گے.یوں ان لوگوں نے عیسی علیہ السلام کے جسمانی رفع کا فیصلہ حدیثوں میں لفظ نزول آنے کی بنا پر کیا ہے.جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان میں نزول کے لئے کسی چیز کے رفع کی ضرورت نہیں ہوتی.مثلا اگر آپ کہیں کہ نَزَلتَ ضَيْفًا عَلَى فُلَانٍ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ پہلے آپ کا کہیں رفع ہوا ہوا تھا اور اب آپ وہاں سے نزول فرمائیں گے.( بلکہ اگر آپ دسویں منزل پر بھی لفٹ کے ذریعہ چڑھ کر جائیں تو بھی یہی کہیں گے کہ نَزَلتَ ضَيْفًا، اور معنی ہوگا میں مہمان کے طور پر کسی کے گھر گیا.ناقل ) اب ہم اگر ( نزل اور انزل) کا قرآنی استعمالات کی روشنی میں معنی تلاش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم نے نزول کے لئے رفع کو ضروری قرار نہیں دیا؟ بلکہ کبھی اسکا معنی ہوتا ہے" رکھنا جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ: وانْزَلْنَا الحَدِيدَ فيه بأس شديد ( الحديد : 26) یعنی ہم نے لوہے میں شدت اور سختی اور کبھی نزول کا معنی ہوتا ہے ” مقدر کرنا جیسے کہ فرمایا: وَقُل رَّبِّ انْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَرَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ (المومنون: 30) یعنی اے میرے پروردگار میرے لئے مبارک مقام مقدر فرما دے.
مصالح العرب...جلد دوم اور کبھی نزول کا مطلب واقع ہونا ہوتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے کہ: واقع ہوا.219 فَإِذَا نَزَلَ بِسَاحَتَهُمْ فَسَاء صَبَاحُ الْمُنْذِرِينَ (الصفت : 178 ).یعنی جب عذاب یا کبھی معنی ہوتا ہے عطا کرنا جیسے کہ اس آیت میں : وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمْنِيَةَ أَزْوَاجِ (الزمر: (7).“ یعنی تمہیں چوپائے عطا کئے." چنانچہ واضح ہو گیا کہ اگر مذکورہ بالا دونوں حدیثوں کو صحیح مان لیا جائے تو ان میں لفظ ينزل “ کا معنی سوائے آنے اور ظہور کرنے کے اور کچھ نہیں.عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ زندہ کر دے اور قیامت سے قبل شریعت محمدی پر رسول بنا کر دوبارہ بھیج دے.اگر ایسا ہو جائے تو یہ خدا تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں ہے.لیکن جو ( رفع عیسی کا) استدلال ان احادیث سے انہوں نے کیا ہے وہ اصل کلمات کو ان کے مدلول سے ہٹانے کے مترادف ہے.کیونکہ رفع کا لفظ حدیث میں آیا ہی نہیں، بلکہ یہ صرف بعض اس دور کے قارئین کی سوچ کا نتیجہ ہے.اور ان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ حدیث میں اپنی پسند کے مطابق کچھ ایسے الفاظ کا اضافہ کردیں جو دراصل اس کا حصہ نہ ہوں اور جس کے اضافہ کی حدیث کے الفاظ اجازت بھی نہ دیتے ہوں.اسی تعلق میں دو آیات قرآنیہ ایسی بھی ہیں جن کی تفسیر کے بارہ میں مفسرین نے اختلاف کیا ہے.ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ آیات عیسی علیہ السلام کے آخری زمانہ میں نزول پر دلالت کرتی ہیں.یہ آیات درج ذیل ہیں: وَإِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ (النساء: 160) وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا (الزخرف: 62) وو 66 پہلی آیت کے بارہ میں بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس میں یہ اور مَوْتِہ " کی ضمیر عیسی علیہ السلام کی طرف جاتی ہے اس بنا پر ان کے نزدیک اس آیت کا یہ معنی ہوگا کہ ہر اہل کتاب عیسی علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا یعنی آخری زمانہ میں جب وہ دوبارہ تشریف لائیں گے تو تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے.لیکن بعض دیگر مفسرین
220 مصالح العرب......جلد دوم کا یہ قول ان کے رڈ کے لئے کافی ہے کہ یہ “ میں تو ضمیر عیسی علیہ السلام کی طرف راجع ہے لیکن کی ”موته “ میں اہل کتاب کی طرف ہے.اس لحاظ سے آیت کا معنی ہوگا کہ ہر ایک اہل کتاب پر اس کی موت کے وقت حضرت عیسی علیہ السلام کی حقیقت کھل جائے گی چنانچہ وہ جان لے گا کہ عیسی علیہ السلام رسول ہیں اور آپ کا پیغام حق و صداقت پر مبنی ہے، لہذا وہ ان پر ایمان لے آئے گا لیکن اس وقت اس کو یہ ایمان کوئی فائدہ نہ دے گا.وو دوسری آیت ” وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ“ کے بارہ میں بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس میں ” إِنَّہ کی ضمیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن کریم کی طرف راجع ہے.لیکن جیسا کہ دیگر مفسرین کا خیال ہے یہ بھی ممکن ہے کہ اس ضمیر کا مرجع عیسی علیہ السلام ہوں کیونکہ پچھلی آیات میں بات انہی کی بارے میں ہو رہی ہے.اس بنا پر اس آیت کا معنی یہ ہوگا کہ عیسی علیہ السلام قیام ساعت کی ایک بڑی علامت ہیں.پھر بھی اس کا یہ مطلب نہیں بنتا کہ عیسی علیہ السلام دوباره نزول فرمائیں گے بلکہ یہ معنی ہے کہ انکا آخری زمانہ میں وجود قرب قیامت کی دلیل ہو گا.یا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو بغیر باپ کے پیدا کرنے کی وجہ سے یا انکو مردوں میں سے دوبارہ زندہ کر کے بعث بعد الموت کی صداقت پر دلیل قائم کر دے گا.وعلى كل حال فنزول عيسى في آخر الزمان على فرض حدوثه ليس معناه رفعه حيًّا بجسمه كما سبق القول، ثم إن الدليل إذا تطرق له الاحتمال سقط به الاستدلال كما يقول علماء الأصول، وفى هذه الأدلة أكثر من الاحتمال بل فيها اليقين عند الأكثرين ( مقارنة الأديان ص 56-62، مكتبة النهضة المصرية القاهرة الطبعة الثامنة 1984م ) تا ہم اگر بفرض محال آخری زمانہ میں نزول عیسی علیہ السلام کو مان بھی لیا جائے تب بھی یہ لازم نہیں آتا کہ انکا جسمانی رفع ہو چکا ہے.پھر علمائے اصول کا قاعدہ ہے کہ اگر کسی دلیل میں برعکس معنی کا احتمال بھی وارد ہو جائے تو اس سے استدلال کرنا باطل ہو جاتا ہے.اور یہاں بیان کردہ دلائل میں تو ایک سے زیادہ احتمال ممکن ہے بلکہ اکثر کے نزدیک تو یقینی طور پر اسکا برعکس معنی غالب ہے.
مصالح العرب.....جلد دوم حیات و وفات مسیح کے موضوع پر سیمینار 221 اپنی تحقیق کے اگلے حصہ میں ڈاکٹر شلمی نے 1963ء میں 'حیات و وفات مسیح کے موضوع پر ہونے والے ایک سیمینار کا ذکر کیا ہے جس میں متعدد علماء نے شرکت کی اور بالآخر تمام علماء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.ذیل میں ہم ان علماء کے دلائل اور خیالات پر مبنی اصل نصوص مع ترجمہ پیش کرتے ہیں.رفع روح عیسی لا جسمه: ونجيء الآن لإيراد بعض التفاصيل والأدلة التي ترى أن عيسى عليه السلام مات كما مات الأنبياء والصالحين وغيرهم، وأن الذي رفع هو روحه وبادئ ذي بدء أذكر أن ندوة كبيرة أقامتها مجلة "لواء الإسلام" في أبريل سنة 1963م عن هذا الموضوع، وقد اشترك فيها مجموعة من العلماء الأفذاذ واتفق الجميع على مبدأين مهمين هما: 1 ـ ليس فى القرآن الكريم نص يلزم باعتقاد أن المسيح عليه السلام قد رفع بجسمه إلى السماء 2- عودة عيسى عليه السلام جاء بها أحاديث صحاح ولكنها أحاديث آحاد وأحاديث الآحاد لا توجب الاعتقاد والمسألة هنا اعتقادية فلا تثبت بهذه الأحاديث وسنقتبس مما قاله هؤلاء العلماء بعد قليل عن موت عيسى ودفنه وصعود روحه إلى بارئها مع أرواح الأنبياء، والصديقين والشهداء وعلى كل حال فالعلماء الذين يرون أن الذي رفع هو روح عيسى لا جسمه يعتمدون أساسا على الآيات القرآنية التالية: إذ قال الله يا عيسى إِنِّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وجاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا إلى يوم القيامة ثم
222 مصالح العرب.....جلد دوم إلى مرجعكم فهذه الآية تذكر بوضوح ما سبق أن ذكرناه، أى وفاة عيسى وتطهيره وحمايته من أعدائه، وتجعل عيسى ضمن أتباعه إلى الله مرجعهم ماقلت لهم إلا ما أمرتني به، أن اعبدوا الله به، أن اعبدوا الله ربي وربكم، وكنت عليهم شهيدًا ما دمت فيهم فلما توفيتنى كنت أنت الرقيب عليهم وأنت على كل شيء شهيد.وواضح من الآية وفاة عيسى ونهاية رقابته على أتباعه بعد موته وترك الرقابة لله وقوله تعالى حكاية عن عيسى والسلام على يوم ولدت ويوم أموت ويوم أبعث حيا- والآية واضحة الدلالة على أن عيسى ككل البشر يولد ويموت منهى ويبعث وكل ما يخالف ذلك تحميل اللفظ فوق ما يحتمل وقد اشترك في هذا الرأى كثير من العلماء في العصور الماضية وفي العصر الحديث، وفيما يلى نسوق بعض تفاسير لهذه الآيات الكريمة كما نسوق آراء العلماء الأجلاء يقول الإمام الرازى فى تفسير الآية الأولى : إني متوفيك أى أجلك، ورافعك أى رافع مرتبتك ورافع روحك إلى، ومطهرك أي مخرجك من بينهم، ومفرّق بينك وبينهم وكما عظم شأنه بلفظ الرفع إليه خبّر عن معنى التخليص بلفظ التطهير، وكل هذا يدل على المبالغة فى إعلاء شأنه وتعظيم منزلته ويقول في معنى قوله تعالى: وجاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا“ المراد بالفوقية الفوقية بالحجة والبرهان- ثم يقول: واعلم أن هذه الآية تدل على أن رفعه في قوله: ”ورافعك إلى“ هو رفع الدرجة والمنقبة لا المكان ،والجهة كما أن الفوقية في هذه الآية
223 مصالح العرب.جلد دوم ليست بالمكان بل بالدرجة والمكانة ويقول الألوسى إن قوله تعالى: "إنى متوفيك معناه على الأوفق إنى مستوف أجلك، ومميتك موتا طبيعيا، لا أسلط عليك من يقتلك، والرفع الذى كان بعد الوفاة هو رفع المكانة لا رفع الجسد خصوصا وقد جاء بجانبه قوله تعالى: "و مطهرك من الذين كفروا مما يدل على أن الأمر تشريف وتكريم ويرى ابن حزم وهو من فقهاء الظاهر أن الوفاة في الآيات تعنى الموت الحقيقي، وأن صرف الظاهر عن الحقيقة لا معنى له وأن عيسى بناء على هذا قد مات.وقد تعرض الأستاذ الإمام محمد عبده إلى آيات الرفع وأحاديث النزول، فقرر الآية على ظاهرها وأن التوفي هو الإماتة العادية، وأن الرفع يكون بعد ذلك هو رفع الروح ويقول الأستاذ الشيخ محمود شلتوت إن كلمة "توفى“ قد وردت في القرآن كثيرا بمعنى الموت حتى صار هذا المعنى هو الغالب عليها المتبادر منها، ولم تستعمل في غير هذا المعنى إلا بجانبها ما يصرفها عن هذا المعنى المتبادر، ثم يسوق عددا كبيرا من الآيات استعملت فيه هذه الكلمة بمعنى الموت الحقيقي، ويرى أن المفسرين الذين يلجأون إلى القول بأن الوفاة هي النوم أو أن في قوله تعالى : "متوفيك ورافعك تقديما وتأخيرا، يرى أن هؤلاء المفسرين يحملون السياق ما لا يحتمل تأثرا بالآية: "بل رفعه الله إليه“ وبالأحاديث التي تفيد نزول عيسى ويُردّ على ذلك بأنه لا داعى لهذا التفكير، فالرفع رفع مكانة، والأحاديث لا تقرر الرفع على الإطلاق ----- (تفسیر المنار) أما السيد محمد رشيد رضا، فقد أضاف إلى هذه الدراسة نقطة
224 مصالح العرب.جلد دوم جديدة هي أن مسألة الرفع بالجسم والروح هي في الحقيقة عقيدة النصارى، وقد استطاعوا بحيلة أو بأخرى دفعها تجاه الفكر الإسلامي، كما استطاعوا إدخال كثير من الإسرائيليات والخرافات، وفيما يلي نص كلام هذا الباحث الكبير : ليس في القرآن نص صريح على أن عيسى رفع بروحه وجسده إلى السماء، وليس فيه نص صريح بأنه ينزل من السماء وإنما هي عقيدة أكثر النصارى، وقد حاولوا في كل زمان منذ ظهور الإسلام بثّها في المسلمين ويضيف هذا الباحث قوله: وإذا أراد الله سبحانه وتعالى أن يصلح العالم فمن السهل أن يصلحه على يد أى مصلح ولا ضرورة إطلاقا لنزول عيسى أو أى واحد من الأنبياء (تفسير المنار) ويتفق الأستاذ أمين عز العرب مع اتجاهات الإمام محمد عبده والسيد محمد رشيد رضا فيقول: أستطيع أن أحكم أن كتاب الله من أوله إلى آخره ليس فيه ما يفيد نزول عيسى ويثير الأستاذ محمد أبو زهرة نقطة دقيقة حول الأحاديث السابقة فيقرر أنها - بالإضافة إلى أنها أحاديث آحاد وليست متواترة - لم تشتهر قط إلا بعد القرون الثلاثة الأولى، ويمكن ربط هذا بما ذكره السيد محمد رشيد رضا عن محاولات النصارى، فإنهم في خلال هذه القرون كانوا يحاولون إدخال بعض عقائدهم في الفكر الإسلامي بطريق أو بآخر....، ويختم الأستاذ محمد أبو زهرة كلامه بقوله إن نصوص القرآن لا تلزمنا بالاعتقاد بأن المسيح رفع إلى السماء بجسده، وإذا اعتقد أحد أن النصوص تفيد هذا وترجحه فله أن يعتقد في ذات نفسه ولكن له أن يلتزم ولا يُلزم
مصالح العرب.....جلد دوم ويقول الأستاذ الأكبر الشيخ المراغى: ليس في القرآن نص قاطع على أن عیسی عليه السلام رفع بجسمه وروحه وعلى أنه حى عند الله الآن بجسمه وروحه، والظاهر من الرفع أنه رفع درجات.كما قال تعالى فى إدريس ورفعنا مكانا عليا فحياة عيسى حياة روحية كحياة الشهداء وحياة غيره من الأنبياء ويقول الأستاذ عبد الوهاب النجار: إنه لا حجة لمن يقول بأنه الله مبعده عنهم عيسى رفع إلى السماء لأنه لا يوجد ذكر السماء بإزاء قوله تعالى: ورافعك إلى وكل ما تدل عليه هذه العبارة أن إلى مكان لا سلطة لهم فيه إنما السطان فيه ظاهرا وباطنا لله تعالى، فقوله تعالى: "إلى" هو كقول الله عن لوط " إني مهاجر إلى ربي فليس معناه أنى مهاجر إلى السماء بل هو على حد قوله تعالى: "ومن يخرج من بيته مهاجرا إلى الله ورسوله___“ 66 225 ( قصص الأنبياء صفحه 115) ويقول الأستاذ الشهيد سيد قطب عند تفسير الآية الأولى من الآيات الثلاثة السابقة: لقد أرادوا قتل عيسى وصلبه وأراد الله أن يتوفاه وفاة عادية ففعل، ورفع روحه كما رفع أرواح الصالحين من عباده،...فی ظلال القرآن جلد 3 صفحہ 78، مقارنة الأديان صفحہ 62-68، مكتبة النهضة المصرية القاهرة الطبعة الثامنة 1984م) ونجيء الآن إلى الباحث الأستاذ محمد الغزالي وله في هذا الموضوع دراسة مستفيضة نقتبس منها بعض فقرات بنصوصها: أميل إلى أن عيسى مات وأنه كسائر الأنبياء مات ورفع بروحه فقط، وأن جسمه في مصيره كأجساد الأنبياء كلها: وتنطبق عليه الآية "إنك ميت وإنهم ميتون" والآية "وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل وبهذا يتحقق أن عيسى مات.“
226 مصالح العرب.جلد دوم " ومن رأيي أنه خير لنا نحن المسلمين و كتابنا القرآن الكريم لم يقل قولا حاسما أبدًا أن عيسى حى بجسده، خير لنا منعا للاشتباه من أنه ولد من غير أب وأنه باق على الدوام مما يروّج لفكرة شائبة الألوهية فيه خير لنا أن نرى الرأى الذي يقول إن عيسى مات، وإنه انتهى، وإنه كغيره من الأنبياء لا يحيا إلا بروحه فقط، حياة كرامة وحياة رفعة الدرجة _ وو 66 وأنتهى من هذا الكلام إلى أنى أرى من الآيات التي أقرأها في الكتاب أن عيسى مات، وأن موته ،حق وأنه كموت سائر النبيين ويثير الأستاذ صلاح أبو إسماعيل نقاطا دقيقة تتصل بالرفع فيقول: إن الله ليس له مكان حسى محدود حتى يكون الرفع حسيا، وعلى هذا ينبغى تفسير الرفع على أنه رفع القدر وإعلاء المكانة، ثم إن رفع الجسد قد يستلزم أن هذا الجسد يمكن أن يُرى الآن وأنه يحتاج إلى ما يحتاج إليه الأجسام من طعام وشراب ومن خواص الأجسام على العموم، وهو ما لا يتناسب في هذا المجال.“ وأحب أن أجيب على من قال إن في مقدور الله أن يوقف خواص الجسم في عيسى، بأن إيقاف خواص الجسم بحيث لا يُرى ولا يأكل ولا يشرب ولا يهرم ---- معناه العودة إلى الروحانية أو شيء قريب منها، وذلك قريب أو متفق مع الرأي الذي يعارض رفع عیسی بجسمهـ وبعض الناس يقولون إن عيسى رفع بجسمه وروحه، فإذا سئلوا إلى أين؟ وما العمل في خواص الجسم؟ قالوا لا نتعرض لهذا وهو ردّ ليس – فيما نرى – شافیا.“ ونعود إلى الأستاذ صلاح أبو إسماعيل الذي يتساء ل قائلا: إذا
مصالح العرب.جلد دوم كان رفع عيسى رفعا حسيًّا معجزة، فما فائدة وقوعهاغير واضحة أمام معاندى المسيح عليه السلام و جاحدى رسالته؟ وأنا أعتقد الأستاذ صلاح أبو إسماعيل أن كلمة "متوفيك، تعنى وعدًا من الله بنجاة عيسى من الصلب ومن القتل كما وعد محمدًا عليه الصلاة والسلام بأن يعصمه من الناس ـ وبعد لقد أثيرت هذه المسألة منذ سنين في فتوى أجاب عنها الأستاذ المراغى والأستاذ شلتوت كما رأينا، وقد قامت ضجة على إثر إذاعة هذه الفتوى شأن كل جديد يخرج للناس، ومرّ الزمن ورجحت هذه الفكرة وأصبحت شيئا عاديا يدين بها الغالبية العظمى من المثقفين وطالما وقف كاتب هذه السطور يرفع صوته بها في قاعات المحاضرات بأعرق جامعة إسلامية في العالم وهي جامعة الأزهر وبغيرها من الجامعات وقاعات المحاضرات وكان الناس يتقبلون هذه الآراء قبولا حسنًا، والذي أرجوه أن يرفق المعارضون في تلقى الآراء الجديدة وأن يفحصوها بروح هادئة والله يهدينا سواء السبيل ونختم هذا البحث بأن نقرر أن الاعتقاد بأن عيسى رفع بجسمه وروحه اعتقاد متأثر بالفكر المسيحى الذى يرى أن عيسى هو الإ له الابن نزل من السماء ثم رفع ليعود للجلوس بجوار أبيه الإله الأب أما المسلمون الذين يعتقدون أن الله واحد، وأنه في كل مكان، وليس جسما، فكيف يوفقون بين هذا وبين رفع عيسى ليكون بجوار الله، فالله مرة أخرى في كل مكان ولو بقى عيسى على الأرض لكان مع الله أيضا وكيف يوفقون بين هذا وبين قوله تعالى: "وما جعلنا لبشر من قبلك الخلد 227 مجله لواء الإسلام شمارہ اپریل 1963ء بحوالہ مقارنة الأديان مكتبة النبضة المصرية القاهرة الطبعة الثامنة 1984م )
مصالح العرب.....جلد دوم حضرت عیسی علیہ السلام کا روحانی رفع ہو نہ کہ جسمانی 228 اب ہم اس مسئلہ کی کسی قدر تفصیل اور دلائل درج کرتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام دیگر انبیاء اور صلحاء کی طرح فوت ہو گئے اور یہ ثابت کریں گے کہ جس کا رفع ہوا وہ آپ کی روح تھی نہ کہ جسم.اس سلسلہ میں سے سب سے پہلے میں اس موضوع پر ہونے والے ایک بہت بڑے سیمینار کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کا اہتمام مجلہ "لواء الا سلام نے اپریل 1963ء میں کیا.اس میں بڑے بڑے علماء کے ایک مجموعہ نے شرکت کی اور بنیادی طور پر مندرجہ ذیل دوا ہم اصولوں پر اتفاق کیا: 1 - قرآن کریم میں کوئی ایک بھی ایسی نص نہیں ہے جو یہ عقیدہ رکھنا لازم قرار دیتی ہو کہ عیسی علیہ السلام جسم سمیت آسمان پر اٹھالئے گئے ہیں.2 عیسی علیہ السلام کے واپس آنے کا ذکر جن احادیث میں آیا ہے وہ اگر چہ صحیح احادیث ہیں لیکن وہ سب کی سب آحاد ہیں اور آحاد حدیث پر کسی عقیدہ کی بنا نہیں رکھی جاسکتی، جبکہ ظاہر ہے کہ یہ ایک اعتقادی مسئلہ ہے جو اس قسم کی آحاد حدیثوں سے ثابت نہیں ہوسکتا.مجله لواء الا سلام شمارہ اپریل 1963ء صفحہ 263) حضرت عیسی علیہ السلام کی طبعی موت اور اسی زمین میں دفن ہونے اور دیگر انبیاء وصدیقین اور شہداء کی روحوں کی طرح آپ کی روح کے اپنے خالق حقیقی کی طرف پرواز کر جانے کے بارہ ان میں علماء کے اقوال تو ہم آگے چل کر نقل کریں گے.بہر حال عیسی علیہ السلام کے جسمانی رفع کی نفی اور روحانی رفع کے قائل علماء بنیادی طور پر مندرجہ ذیل دو آیات پر اپنے موقف کی بنارکھتے ہیں:.إِذْ قَالَ اللهُ يَعِيْسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقَيْمَة ثُمَّ إِلَى مَرْجِعُكُمْ فَاحْكُمْ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ (آل عمران : 56) ترجمہ: جب اللہ نے کہا اے عیسی ! یقیناً میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا
مصالح العرب.....جلد دوم 229 رفع کرنے والا ہوں اور تجھے ان لوگوں سے نتھار کر الگ کرنے والا ہوں جو کافر ہوئے ، اور ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالا دست کرنے والا ہوں.پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے.یہ آیت بڑی وضاحت کے ساتھ وہ سب کچھ بیان کر رہی ہے جس کا ذکر ہم کر آئے ہیں یعنی عیسی علیہ السلام کی طبعی وفات، آپ کی کافروں سے تطہیر، اور دشمنوں کے شر سے حفاظت.نیز یہ آیت آپ علیہ السلام کو اس بات میں آپ کے متبعین کے ساتھ شامل کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ان سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے.....دوسری آیت یہ ہے: مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا اَمَرْتَنِي بِهِ أَن اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبِّكُمْ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ.( المائده : 118) ترجمہ: میں نے تو انہیں اس کے سوا کچھ نہیں کہا جو تُو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے.اور میں ان پر نگران تھا جب تک میں ان میں رہا.پس جب تو نے مجھے وفات دے دی، فقط ایک تو ہی ان پر نگران رہا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے.اس آیت میں بھی عیسی علیہ السلام کی موت اور اس موت کی وجہ سے ان کی اپنے متبعین کی نگرانی سے سبکدوشی اور بعد ازاں یہ نگرانی اللہ تعالیٰ کو سونپنے کا بیان ہے.تیسری آیت عیسی علیہ السلام کی زبانی خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا: وَالسَّلَامُ عَلَى يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ أَبْعَثُ حَيًّا ( مريم : 34) - ترجمہ: اور سلامتی ہے مجھ پر جس دن مجھے جنم دیا گیا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن میں زندہ کر کے مبعوث کیا جاؤں گا.یہ آیت واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ عیسی علیہ السلام دیگر لوگوں کی طرح ہیں جو پیدا ہوتے اور وفات پاتے اور پھر زندہ کر کے مبعوث کئے جاتے ہیں.جو اس آیت کے اس کے سوا کوئی معنی کرتا ہے وہ اس کے الفاظ کا ایسا مطلب نکالتا ہے جس کے وہ متحمل نہیں ہیں.گزشتہ زمانوں میں بھی اور اس موجودہ عرصہ میں بھی علماء کی ایک کثیر تعداد نے اس رائے کو اپنایا ہے.
230 مصالح العرب.....جلد دوم ذیل میں ہم ان آیات کریمہ کی بعض تفاسیر اور گزشتہ بڑے علماء کی آراء نقل کرتے ہیں.امام رازی پہلی آیت کی تفسیر کے بارہ میں فرماتے ہیں: إِنِّي مُتَوَفِّيكَ یعنی میں تیری مقررہ میعاد حیات ختم کرنے والا ہوں اور رافِعُكَ یعنی تیرا مرتبہ بلند کرنے والا ہوں اور تیری روح کو اپنے حضور رفعت دینے والا ہوں.اور مُطَهِّرُكَ یعنی تجھے دشمنوں کے چنگل سے نکالنے والا ہوں اور تیرے اور انکے درمیان فرق کر کے دکھانے والا ہوں.جیسے اپنے طرف رفع کے الفاظ استعمال کر کے آپ کی عظمت شان کا اظہار فرمایا ویسے ہی تطهیر کے لفظ سے دشمنوں کی سازش سے بچنے کی نوید دی.یہ سب مبالغہ کی حد تک آپ کی عظمت شان اور بلند مرتبہ کا بیان ہے.اسی طرح امام رازی آیت کریمہ: وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ یہاں کا فروں پر غلبہ اور فوقیت سے مراد حجت و برہان کا غلبہ ہے.پھر فرماتے ہیں اس آیت میں رَافِعُكَ إِلَى سے مراد درجہ اور منقبت کا رفع ہے نہ کہ مکانی یا جہتی اعتبار سے کسی طرف یا کسی جگہ اٹھا لینے کا مفہوم ہے.اسی طرح اس آیت میں فوقیت بھی مکانی نہیں ہے بلکہ درجہ اور مقام کی فوقیت مراد ہے.امام الوسی فرماتے ہیں کہ اِنِّي مُتَوَفِّيْكَ كا سب سے مناسب اور درست معنی یہی ہے کہ میں تجھے پوری عمر تک پہنچانے والا ہوں، اور تجھے طبعی موت مارنے والا ہوں ، اور تجھ پر کسی ایسے شخص کو مسلط نہیں کروں گا جو تجھے قتل کر سکے.وہ رفع جو وفات کے بعد ہو وہ مقام ومرتبہ کا رفع ہوتا ہے نہ جسم و بدن کا ، خصوصا اس لئے بھی جسمانی رفع کا معنی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسکے آگے آیت کریمہ میں ذکر ہے کہ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا جو سراسر آپ کی عزت و وتو قیر و تکریم پر دلالت کرتا ہے.امام ابن حزم ( جو کہ ظاہر یہ فرقہ کے فقہاء میں سے ہیں ) کی رائے میں ان آیات میں وفات سے مراد حقیقی موت ہے.اور ان ظاہری معنوں کو حقیقت سے پھیرنے سے آیت کا کوئی مطلب نہیں بنتا.حقیقت یہی ہے کہ عیسی علیہ السلام کی موت واقع ہو چکی ہے.شیخ محمد عبدہ نے آیات رفع اور احادیث نزول پر تبصرہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اس آیت میں مُتَوَفِّيكَ کے ظاہری معنے ہی مراد ہیں اور توفی سے مراد طبعی موت.اور جو رفع اسکے بعد ہوتا ہے وہ روحانی ہوتا ہے.ہے،
مصالح العرب.....جلد دوم 231 شیخ محمود شلتوت صاحب کہتے ہیں کہ توفی کا لفظ قرآن کریم میں بکثرت موت کی کے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے حتی کہ اس لفظ کا یہی ایک غالب اور ظاہر معنی ہو گیا.اور اس کی معنے کے علاوہ یہ لفظ جب بھی کسی اور معنی میں استعمال ہوا ہے تو اسکے ساتھ کوئی نہ کوئی قرینہ ایسا کی ضرور ہوتا ہے جو اسکو اسکے ظاہری معنوں سے پھیر دیتا ہے.پھر آپ نے متعدد آیات درج کیں جن میں یہ لفظ حقیقی موت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.آپ کا خیال ہے کہ جو مفسرین آیت كريم مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ ، میں وفات بمعنی نیند مراد لیتے ہیں اور اس میں تقدیم و تاخیر کی بحث اٹھاتے ہیں یہ مفسرین آیت کریمہ بَل رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْه “ اور احادیث نزول عیسیٰ سے متاثر ہونے کی وجہ سے سیاق آیت (مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ) کے ایسے معنے کرتے ہیں جن کا وہ متحمل نہیں.ان کو جواب دیتے ہوئے شلتوت صاحب کہتے ہیں کہ اس قسم کی سوچ کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ رفع سے مراد یہاں پر مقام ومرتبہ کا رفع ہے اور احادیث مذکورہ میں بھی ( اگر چہ نزول کا ذکر ہے لیکن ) رفع عیسی کا کہیں ذکر نہیں ہے.اور شیخ محمد رشید رضا صاحب نے اس ساری تحقیق میں ایک نئے نقطے کا اضافہ کیا اور وہ یہ کہ جسم و روح کے ساتھ عیسی علیہ السلام کے رفع کا تصور دراصل عیسائیوں کا عقیدہ ہے جسے مختلف حیلوں بہانوں سے وہ اسلامی افکار کے ساتھ خلط ملط کرنے کیلئے وہ ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں.جیسا کہ وہ اسلامی روایات میں اسرائیلیات اور بے سروپا قصے کہانیاں شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں.ہم ذیل میں اس عظیم محقق کے الفاظ نقل کرتے ہیں: قرآن کریم میں عیسی علیہ السلام کے جسم و روح کے ساتھ رفع کے بارہ میں کوئی صریح نص موجود نہیں ہے، نہ ہی آپ کے آسمان سے جسمانی نزول کی بابت کوئی صریح آیت پائی جاتی ہے، بلکہ یہ اکثر عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو اسلام کی ابتداء سے ہی اپنے غلط عقائد کو اسلامی افکار وعقائد میں شامل کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں.آپ مزید فرماتے ہیں کہ جب بھی اللہ تعالیٰ دنیا کی اصلاح کا ارادہ کرے گا تو اس کے لئے نہایت آسان ہے کہ وہ یہ اصلاح کسی بھی مصلح کے ذریعہ کر دے.اس سلسلہ میں اسے عیسی علیہ السلام یا کسی اور نبی کے نزول کی قطعا ضرورت نہیں ہے.( گویا ان کے نزدیک پرانے کسی نبی کی ضرورت نہیں ہے اسی امت سے کسی کو اللہ تعالیٰ اس اہم کام کے لئے چن سکتا.ہے.
مصالح العرب.....جلد دوم دوسرے الفاظ میں یہ جماعت احمدیہ کے موقف کی تائید کر رہے ہیں) 232 جناب امین عز العرب بھی اس بارہ میں شیخ محمد عبدہ اور محمد رشید رضا صاحب کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں: میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ قرآن کریم میں اوّل سے لے کر آخر تک کوئی ایک آیت بھی نہیں ہے جو عیسی علیہ السلام کے جسمانی نزول کا تصور پیش کرتی ہو.شیخ محمد ابو زہرہ (1898ء.1974ء) کا پورا نام محمد احمد مصطفیٰ احمد ہے کلیہ - اصول الدین اور لاء کالج میں تدریس کے شعبہ سے منسلک رہے پھر صدر شعبہ شریعت اسلامیہ بھی رہے، اسی طرح مجمع الجوث الاسلامیہ کے عضو بھی رہے.آپ نے ایک تفسیر، فقہ اسلامی کے مختلف موضوعات پر متعدد کتب اور عیسائیت کے بارہ میں ایک مشہور کتاب ” محاضرات فی النصرانية “ سمیت تمہیں کے قریب کتب تصنیف کیں.) شیخ محمد ابو زہرہ مذکورہ بالا احادیث کے بارہ میں ایک بار یک نقطہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ احادیث، علاوہ اس کے کہ متواتر نہیں بلکہ آحاد ہیں، اسلام کی پہلی تین صدیوں کے بعد مشہور ہوئی ہیں.اس کا تعلق بھی محمد رشید رضا صاحب کی عیسائیوں کی طرف سے اسلامی عقائد کو بگاڑنے کی کوششوں کے ساتھ ہوسکتا ہے کیونکہ وہ صدیوں سے فکر اسلامی میں اپنے غلط عقائد داخل کرنے کے لئے کوشاں ہیں...جناب محمد ابوزہرہ اپنی بات اس قول پر ختم کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں کوئی ایسی نص موجود نہیں ہے جو یہ عقیدہ رکھنا لازم قرار دیتی ہو کہ عیسی علیہ السلام اپنے جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھالئے گئے ہیں.پھر بھی اگر کسی کے نزدیک بعض نصوص سے ایسا ثابت ہوتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ خود تو جو چاہے عقیدہ اختیار کر لے لیکن کسی دوسرے کو اس کا پابند نہ کرے.اور استاد اکبر شیخ مصطفیٰ المراغی کہتے ہیں: قرآن کریم میں نہ تو عیسی علیہ السلام کے جسم و روح سمیت آسمان پر اٹھائے جانے کے بارہ میں نہ ہی آپ کے ابھی تک جسم و روح سمیت زندہ ہونے کے بارہ میں کوئی قاطع نص پائی جاتی ہے.رفع کے الفاظ سے صرف یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ کا درجات کے لحاظ سے اپنے رب کے حضور رفع ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا:
مصالح العرب......جلد دوم 233 ورفعناه مَكَانًا عَلِيًّا.یعنی ہم نے اس کا اعلیٰ مقامات کی طرف رفع کیا.پس عیسی علیہ السلام کا ن زندہ ہونا روحانی لحاظ سے ہے جیسے شہداء اور دیگر انبیاء روحانی طور پر زندہ ہیں.عبد الوہاب نجار ایک محقق اور سکالر ہیں جنہوں نے جامعتہ الازہر میں انبیاء کرام کے نقص پر مبنی لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جنہیں بعد میں اپنی شہرہ آفاق کتاب قصص الأنبیاء" میں جمع کر دیا.آپ نے کئی کتب کی تحقیق و تلخیص کی ہے اس کے علاوہ خلفائے راشدین پر بھی آپ کی ایک ضخیم کتاب مقبول عام ہے.) جناب عبد الوہاب نجار کہتے ہیں: جو یہ کہتا ہے کہ عیسی علیہ السلام اپنے جسم سمیت آسمان پر اٹھا لئے گئے ہیں اس کے پاس اس دعوی کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ آیت کریمہ "وَرَافِعُكَ إِلَى “ کے ساتھ السَّمَاء کا لفظ موجود نہیں ہے.اور اس حالت میں عبارت مذکورہ کے معنی صرف یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کسی ایسی جگہ لے جانے والا ہے جو انکے دشمنوں کی پہنچ سے دور ہوگی لیکن ظاہری و باطنی طور پر وہ خدا تعالیٰ کے زیر تصرف ہوگی.اور رَافِعُكَ إِلَی میں جہاں تک ائی کے لفظ کا تعلق ہے تو یہ اسلوب حضرت لوط علیہ السلام کے اس قول کے مشابہ ہے جو خدا تعالیٰ نے انکی زبانی درج فرمایا ہے کہ: إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَى رَبِّي (العنکبوت: 27).یہاں بھی یہ معنی نہیں ہے کہ میں آسمان کی طرف ہجرت کر کے جانے والا ہوں بلکہ یہ تو ایسے ہی تھا جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ ( النساء : 101 ).یعنی جو اپنے گھر سے خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی نیت سے نکل پڑے گا.سید قطب (1906-1966 ) ایک ادیب اور کا تب اور مصری تحریک اخوان المسلمین کی مؤثر ترین شخصیت تھے.کئی بار جیل کاٹی اور آخری دفعہ اسلامی انقلاب اور حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کے جرم میں پھانسی کی سزا ہوئی.آپ نے جیل میں ہی اپنی مشہور تفسیر فی ظلال القرآن تالیف کی.اس کے علاوہ دس کے قریب ادبی کتب اور دس سے زائد اسلامی موضوعات پر مشتمل کتب تالیف کیں.آج بھی اسلامی فکر اور دینی حلقوں میں آپ کی آراء کو ایک خاص مقام دیا جاتا ہے.) سید قطب گزشتہ تین آیات میں سے پہلی آیت کے بارہ میں کہتے ہیں کہ:
234 مصالح العرب.....جلد دوم یہود نے عیسیٰ علیہ السلام کے قتل اور صلیب کے ذریعہ مارنے کی کوشش کی اور اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ آپ کو طبعی وفات دے.چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا.اور اپنے صالح بندوں کی طرح آپ کی روح کا ہی رفع فرمایا.محمد الغزالی کی رائے (محمد الغزالی (1917-1996 ) مفکر اسلام، اخوان المسلمین کے اوائل کارکنوں میں سے ایک تھے، تمہیں سے زائد کتب کے مصنف تھے.آپ نے علوم اسلامیہ کے شعبہ میں 1989 ء میں کنگ فیصل ایوارڈ بھی حاصل کیا.ڈاکٹر شلمی ان کی رائے درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:) اب ہم ایک محقق جناب محمد الغزالی صاحب کی رائے درج کرتے ہیں جنہوں نے اس بارہ میں گہری تحقیق کی ہے.ہم ان کی تحقیق سے بعض پیرا گراف یہاں درج کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں: میں اس رائے کے حق میں ہوں کہ عیسی علیہ السلام دیگر تمام انبیاء کی طرح فوت ہو گئے ہیں جبکہ رفع صرف آپ کی روح کا ہی ہوا.اور آپ کے جسم کا انجام بھی باقی انبیاء کے جسم کی طرح ہوا.آپ کی وفات پر یہ آیت دلالت کرتی ہے : إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَّيِّتُونَ (الزمر: 31) “ نیز یہ آیت : "وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران 145 ).چونکہ ہماری کتاب قرآن کریم میں عیسی علیہ السلام کے جسم عنصری کے ساتھ زندہ ہونے کے بارہ میں کوئی صراحت نہیں آئی اس لئے ہم مسلمانوں کے لئے بہتر یہی ہے کہ اس رائے کو مان لیں کہ عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں اور آپ کی زندگی کا خاتمہ ہو چکا ہے اور آپ دیگر انبیاء کی طرح عزت و تکریم اور درجات کی رفعت والی روحانی زندگی ہی جی سکتے ہیں جسمانی نہیں.ہمارا یہ اعتقاد رکھنا اس لئے بھی ضروری ہے تاہم حیات مسیح کا عقیدہ رکھنے سے یہ شبہہ نہ پیدا کرنے والے بنیں کہ چونکہ عیسی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور 66 ہمیشہ کے لئے زندہ بھی ہیں اس لئے ان میں نعوذ باللہ کوئی خدائی کا عنصر شامل ہے.اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ آیات قرآن کریم کے مطالعہ کی بناء پر میں کہہ سکتا ہوں کہ عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں اور آپ کی موت ایک حقیقت ہے جو کہ دیگر انبیاء کی موت کی طرح ہے.
مصالح العرب.جلد دوم شیخ صلاح ابواسماعیل کی دلیل 235 شیخ صلاح ابو اسماعیل (1927-1990) مفکر اور مبلغ اسلام، فصاحت و بلاغت اور خطابت میں اپنی مثال آپ تھے.متعدد کتب کے مصنف اور ہر دلعزیز شخصیت تھے.متعدد ٹی وی تو چینلز پر بیسیوں پروگرام کرنے کا بھی آپ کو موقع ملا.آپ کی رائے درج کرتے ہوئے شلمی صاحب کہتے ہیں:) جناب صلاح ابو اسماعیل صاحب رفع کے بارہ میں بعض بنیادی نکات اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں: خدا تعالیٰ کا تو حسی اعتبار سے کوئی ایسا معین مقام نہیں ہے جس کی بناء پر کہا جاسکے کہ عیسی علیہ السلام کا فلاں مقام کی طرف رفع ہوا ہے.اس وجہ سے رفع کی تفسیر یہی ہوگی کہ یہ آپ کی قدر و منزلت اور مقام کا رفع ہے.پھر جسمانی رفع کو یہ بھی لازم آتا ہے کہ یہ جسم آج بھی معین مقام پر دیکھا جا سکتا ہو اور دیگر اجسام کی طرح کھانے پینے جیسے دیگر لوازم کا بھی محتاج ہو، جبکہ رفع عیسی کے ساتھ ان امور کا بھی موجود ہونا مسلم نہیں ہے.جو کوئی یہ کہتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ عیسی علیہ السلام کے جسم کے خواص کو ظاہر ہونے سے اس طرح روک دے کہ نہ ان کا جسم نظر آئے نہ انہیں کھانے پینے کی حاجت ہو اور نہ ہی ان پر بڑھاپا آئے تو ایسے شخص کو میرا جواب یہ ہے کہ پھر یہ تو روحانی زندگی یا اس سے قریب قریب کی حالت کا نام ہے جو کہ اس رائے کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے جو عیسی علیہ السلام کے جسمانی رفع کی مخالف ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام جسم وروح کے ساتھ اٹھا لئے گئے ہیں.لیکن جب ان سے پوچھا جائے کہ کہاں لے جائے گئے ہیں اور ان کے جسم کے خواص کا کیا بنا؟ تو کہتے ہیں کہ اس بارہ میں ہم کچھ نہیں کہتے.ہمارے نزدیک یہ تو کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے.ہم دوبارہ صلاح ابو اسماعیل صاحب کی طرف لوٹتے ہیں جو یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ : اگر عیسی علیہ السلام کا جسمانی طور پر رفع ایک معجزہ تھا تو اس معجزے کا کیا فائدہ ہوا جو سیح علیہ السلام کے مخالفوں اور آپ کی رسالت کے منکروں کے لئے غیر واضح طور پر ظہور پذیر ہوا ؟ میرے
مصالح العرب.....جلد دوم 236 خیال میں "متوفیک کے لفظ میں عیسی علیہ السلام کی صلیبی موت اور قتل سے نجات کا وعدہ دیا گیا ہے جس طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا تھا کہ وہ آپ کو لوگوں کے قتل کرنے ) سے محفوظ رکھے گا.خلاصه تحقیق سابقہ تحقیق کے خلاصہ کے طور پر ڈاکٹر شلمی صاحب لکھتے ہیں: کچھ سال قبل اس مسئلہ کو خوب اٹھایا گیا تھا جب شیخ مصطفی المراقی اور شیخ محمود شلتوت نے اس بارہ میں ایک فتوی دیا جس کے بعد میڈیا میں ایک شور برپا ہو گیا جیسا کہ ہرنئی چیز کے بارہ میں لوگوں کا طریق ہے کہ شروع شروع میں شور مچا دیتے ہیں.لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی موقف غالب ہوتا گیا اور اب یہ عقیدہ عام ہو گیا ہے جسے پڑھے لکھوں کی ایک اچھی خاصی اکثریت نے اپنا لیا.اور راقم الحروف ( ڈاکٹر شلمی ) نے کتنی ہی دفعہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی یعنی جامعہ الازہر اور دیگر یونیورسٹیوں کے ایوانوں میں اس عقیدہ کا پر چار کیا جسے لوگوں نے بڑے احسن طریق پر قبول کیا.اس لئے میں اس رائے کے مخالفوں سے کہتا ہوں کہ وہ نئی آراء کے قبول کرنے میں کسی قدر نرمی کا مظاہرہ کریں اور ٹھندے دل سے انکے بارہ میں تحقیق ضرور کر لیں.اللہ ہم سب کو سیدھے راستہ کی طرف ہدایت دے.اس بحث کا اختتام میں اس نتیجہ پر کرتا ہوں کہ عیسی علیہ السلام کے جسم و روح کے ساتھ رفع کا عقیدہ اس عیسائی طرز فکر سے متاثر ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام دراصل خدا کا بیٹا ہیں جو آسمان سے نازل ہوئے ہیں پھر دوبارہ اپنے باپ یعنی خدا باپ کے پہلو میں جا کر بیٹھنے کیلئے واپس آسمان پر چلے گئے.جبکہ مسلمان اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا صرف ایک ہے، وہ ہر جگہ موجود ہے اور اس کا کوئی مادی جسم نہیں ہے ہے.پھر رفع عیسی کے قائلین اس بات میں اور رفع عیسی اور خدا کے پہلو میں جابیٹھنے میں کس طرح مطابقت پیدا کر سکتے ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ موجود ہے.لہذا اگر عیسی علیہ السلام زمین پر ہی رہیں تو بھی اللہ کے ساتھ ہی رہیں گے.
مصالح العرب.....جلد دوم 237 نیز رفع عیسی کا اعتقاد رکھنے والے اپنے اس عقیدہ میں اور خدا تعالیٰ کے فرمان: "وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ( انبياء: 35 ) میں کس طرح تو فیق پیدا کر سکتے ہیں.خدائی تعلیم اور وضعی عقائد کا فرق وفات مسیح ناصری علیہ السلام کے بارہ میں ڈاکٹر شلمی صاحب کی مفصل تحقیق درج کرنے کے بعد ہم قارئین کرام کو بتاتے چلتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ تعلیم اور عقائد ایسے ہوتے ہیں کہ ہر قسم کی طبائع اپنی استعداد کے مطابق اس کو سمجھ کر اپنا سکتی ہیں اور ان میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہوتی.کیونکہ خدا تعالیٰ خالق کا ئنات ہے وہ ایسی تعلیم نازل فرماتا ہے جو فطرت صحیحہ کے مطابق ہوتی ہے اور نیک فطرتیں اسے قبول کرنے میں کسی طرح کی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتیں.اس کے برعکس انسان کے خود ساختہ عقائد کو چونکہ انسانی فطرت سے مکمل مناسبت نہیں ہوتی اس لئے ایسے عقائد ہمیشہ ہی محل نظر رہتے ہیں اور ہر طبقہ ان میں اپنی سہولت اور فہم کے اعتبار سے تبدیلی کر لیتا ہے.یہی حال حیات مسیح کے عقیدہ کے ساتھ ہوا.حیات مسیح کے قائلین کی پہلی غلطی قرآن کریم میں عیسی علیہ السلام کے لئے رفع کا لفظ انہی معنوں میں آیا ہے جن معنوں میں دیگر تمام انبیاء کا رفع مانا جاتا ہے.اور امت محمدیہ میں آنے والے مسیح محمدی کو عیسی بن مریم سے مشابہت کی وجہ سے احادیث نبویہ میں عیسی بن مریم کا ہی نام دیا گیا.نیز غلبہ اسلام کی عظیم مہم سر کرنے کی بنا پر آپ کی عزت و تکریم کے لئے نزول کے الفاظ استعمال ہوئے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نافع الناس اور عظیم فیض رساں ہونے کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارہ میں نزول کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں.فرمایا: (قَدْ أَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُوْلاً - و الطلاق: 11-12) یعنی ہم نے تمہاری طرف ایک ایسا رسول بھیجا جو مجسم ذکر ہے.کوئی بھی اس کی آیت سے یہ معنی نہیں سمجھتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے آسمان پر بجسم عصری موجود تھے پھر آپ کا ظاہری نزول ہوا.بلکہ آپ کی عزت و تکریم و بلند مرتبہ کا بیان ہی سمجھ میں آتا ہے.یہ درست ہے کہ قرآن کریم میں عیسیٰ علیہ السلام کے لئے رفع کے الفاظ آئے ہیں، لیکن
238 مصالح العرب.....جلد دوم اس کے ساتھ نہ آپ کے زندہ ہونے کا ذکر ہے نہ آسمان کا اور نہ ہی جسم عنصری کا.اسی طرح کی احادیث میں آپ کے نزول کا تو ذکر ہے لیکن اس کے ساتھ نہ آسمان کا ذکر ہے نہ ہی جسم عنصری کا.پھر بھی محض رفع اور نزول کے الفاظ سے یہ اعتقاد بنالیا گیا کہ خدا تعالیٰ آسمان میں بیٹھا ہوا ہے اس لئے عیسیٰ علیہ السلام کا رفع بجسمه العنصری آسمان کی طرف ہوا اور وہیں سے نزول ہوگا.سواس عقیدہ کے اپنانے سے وہ پہلی غلطی جس کے حیات مسیح کے قائلین مرتکب ہوئے یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کو آسمانوں میں ہی کسی جگہ بیٹھے ہوئے تصور کر لیا.یوں شاید نادانستگی میں آیات كريمة: اللهُ نُورُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ) (النور : 36) اور (وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ) کریمہ: (الحديد: 5) اور (هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ( (المجادلة : 8 ) اور (نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَريد ) (ق: 17) اور ان جیسی متعدد آیات کی نفی کر بیٹھے جن میں اللہ تعالیٰ کا ہر جگہ ہونا ثابت ہے.کیونکہ اگر یہ لوگ خدا کے ہر جگہ موجود ہونے کے قائل ہوں تو رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ سے آسمان کی طرف رفع مراد نہ لیں.دوسری غلطی ایک اور غلطی ان سے یہ ہوئی کہ مصادر شریعت کی ترتیب اور مقام کو ملحوظ نہ رکھا.اگر حدیث میں نزول کے الفاظ آئے تو چاہئے تھا کہ اس حدیث کو قرآن کریم کی روشنی میں سمجھتے.لیکن انہوں نے حدیث کو قرآن پر مقدم کیا اور اسی پر بس نہیں بلکہ اس حدیث سے اپنے اخذ کردہ مفہوم کو ثابت کرنے کے لئے نصوص قرآنیہ اور احادیث کی اس کے مطابق تفسیر کی.تیسری غلطی ایک اور غلطی یہ ہوئی کہ حیات مسیح کو ثابت کرنے کے لئے آیت کریمہ یعیتی إِنِّی مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ میں مُتَوَفِّيْكَ کے واضح اور معروف ”موت“ کے معنوں کو چھوڑ دیا اور یہ تاویل کی کہ وفات نیند کے معنوں میں ہے.اب سوال یہ پیدا ہوا کہ نیند کا رفع کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اور نیند اس قدر اہم کس طرح ہو سکتی ہے کہ اسے رفع سے بھی پہلے بیان کیا گیا ہے؟ حیات مسیح کے قائلین نے جب پہلی اینٹ
239 مصالح العرب.....جلد دوم ہی غلط رکھ دی تو اب جو عمارت تعمیر ہوگی ٹیڑھی ہو گی.چنانچہ انہوں نے اس کی توجیہ یہ کی کہ اگر ی انسان کو زمین سے آسمان پر لے جایا جائے تو اسے بہت خوف کی حالت سے دو چار ہونا پڑے گا اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سینہ میں شدید تنگی محسوس ہوگی.لہذا اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرماتے ہوئے عیسی علیہ السلام کو سلا دیا تا کہ انہیں رفع کے وقت تکلیف نہ ہو.گویا ان کے خیال میں عیسی علیہ السلام کا رفع ان کے اسی بشری جسم اور بشری لوازم کے ساتھ ہو اور نہ ان کے خوف کرنے یا سینہ کی تنگی کا سوال پیدا نہ ہوتا.لیکن وہ بھول گئے کہ جو خدا اپنی سنت کے خلاف کسی انسان کو جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھا سکتا ہے وہ اس خوف کی حالت کو کیوں نہیں دور کر سکتا.دوسری طرف اتنا لمبا سفراتنی تیزی کے ساتھ طے کرنے میں کیا عیسی علیہ السلام کو اور کوئی خطرہ نہ تھا صرف ان کے ڈر جانے کا ہی خطرہ تھا، جس کا بیان کرنا ضروری تھا؟ سائنسی اعتبار سے ثابت ہے کہ اوپر کی فضا میں آکسیجن بتدریج کم ہوتی جاتی ہے اور بالآخر سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور انسان زندہ نہیں رہ سکتا.اتنی تیزی سے اگر فضا میں پتھر بھی سفر کرے تو اس کو آگ لگن جائے گی اور اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.پھر ان خطرات کا حل کیوں نہ پیش کیا گیا ؟ نیز غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیند کوئی عام نیند نہیں تھی کیونکہ عام نیند میں تو انسان کو ذراسی حرکت بھی جگا دیتی ہے، لیکن یہ ایسی نیند تھی کہ کروڑہا میل کا سفر بھی ظاہری شکل میں طے ہو گیا، نہ آپ کو سانس لینے کی حاجت ہوئی، نہ جسم کو جلنے اور بکھرنے کی پرواہ ہوئی تو کیا اس قسم کی نیند اور موت میں کچھ فرق بتلایا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں ہے تو کیا مشکل ہے کہ اسے حقیقی موت ہی مان لیا جائے اور آپ کا رفع دیگر انبیاء کی طرح روحانی رفع قرار دیا جائے؟ چوتھی غلطی حیات مسیح کے بعض قائلین نے مذکورہ بالا اعتراضات سے بچنے کے لئے کہا کہ "متوفیک کا مطلب تو حقیقی وفات ہی ہے لیکن اس آیت میں تقدیم و تاخیر ہے.لہذا ان کے مطابق آیت كريم إِذْ قَالَ اللهُ يَعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقَيْمَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاحْكُمْ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ (آل عمران : 56 ) میں واقعات کی حقیقی ترتیب بیان نہیں ہوئی بلکہ کسی و
240 مصالح العرب.....جلد دوم سے خدا تعالیٰ نے متوفیک کو پہلے بیان فرما دیا ہے جبکہ ان کے خیال کے مطابق واقعات کی صحیح ترتیب میں سب سے پہلے رَافِعُكَ ہے.افسوس کہ وہ اپنے اس موقف میں بھی بہت کمزور ثابت ہوئے.اوّل تو کسی بھی بلیغ کلام میں کسی لفظ کے پہلے لانے اور کسی کے بعد میں رکھنے کی حکمت ہوتی ہے.اس پوری آیت میں سب سے اہم بات عیسی علیہ السلام کا رفع ہے لہذا اسی سے ابتداء ہونی چاہئے تھی اگر تو فی کو اس سے قبل لایا گیا ہے تو ثابت ہوا کہ توفی زیادہ اہم ہے.لیکن اگر ہم بفرض محال ان کی بات مان بھی لیتے ہیں تو صورتحال یہ بنتی ہے کہ اس آیت میں مذکورہ چار چیزوں میں سے تین پوری ہو چکی ہیں.رفع بھی ہو گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ کی تعلیم کے ذریعہ عیسی علیہ السلام پر کافروں کے لگائے ہوئے الزامات سے آپ کی تطہیر بھی ہو چکی ہے، اور آپ کے متبعین کا خواہ وہ عیسائی ہوں یا مسلمان جو آپ کو سچا رسول مانتے ہیں آپ کے کا فریعنی یہودیوں پر غلبہ بھی ظاہر وباہر ہے.اگر باقی ہے تو صرف آپ کی وفات.تقدیم و تاخیر کا مسئلہ کھڑا کر کے انہوں نے یہ کیسی ترتیب بنائی ہے کہ جس میں مُتَوَفِّيك، کو جہاں بھی رکھیں درست نہیں بیٹھتا.وفات سے قبل اور وفات کے بعد ہونے والے سب وعدے پورے ہو چکے ہیں صرف درمیان میں ایک بات ابھی تک پوری نہیں ہوئی.ثابت ہوا کہ ان کا یہ حل بھی درست ثابت نہیں ہو سکا.بلکہ درست وہی ہے جو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے اور وہی ترتیب منطقی اور عین حقیقت ہے جس میں پہلے نمبر پر آپ کی وفات ہے.حکم عدل کا فیصلہ اس موضوع کا اختتام ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اقتباس سے کرتے ہیں جس سے اس مسئلہ کی حقیقت پر خوب روشنی پڑتی ہے.آپ فرماتے ہیں: اگر مخالف سمجھتے تو عقائد کے بارے میں مجھ میں اور ان میں کچھ بڑا اختلاف نہ تھا.مثلا وہ کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام مع جسم آسمان پر اٹھائے گئے.سو میں بھی قائل ہوں کہ جیسا کہ آيت إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَى کا منشاء ہے، بے شک حضرت عیسی بعد وفات مع جسم آسمان پر اٹھائے گئے.صرف فرق یہ ہے کہ وہ جسم عصری نہ تھا.بلکہ ایک نورانی جسم تھا جو ان کو اسی طرح خدا کی طرف سے ملا جیسا آدم اور ابراہیم اور موسیٰ اور داؤد اور بیٹی اور ہمارے نبی صلی اللہ.
241 مصالح العرب.....جلد دوم علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کو ملا تھا.ایسا ہی ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ضرور دنیا میں دوبارہ آنے والے تھے.جیسا کہ آگئے.صرف فرق یہ ہے کہ جیسا کہ قدیم سے سنت اللہ ہے ان کا آنا صرف بروزی طور پر ہوا جیسا کہ الیاس نبی دوبارہ دنیا میں بروزی طور پر آیا تھا.پس سوچنا چاہئے کہ اس قلیل اختلاف کی وجہ سے جو ضرور ہونا چاہئے تھا اس قدر شور مچانا کس قدر تقویٰ سے دور ہے.آخر جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم بن کر آیا، ضرور تھا کہ جیسا کہ لفظ حکم کا مفہوم ہے کچھ غلطیاں اس قوم کی ظاہر کرتا جن کی طرف وہ بھیجا گیا.ورنہ اس کا حکم کہلا نا باطل ہو گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 547 00000 XXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد دوم 242 مجله "القوى" عرب دنیا میں تبلیغ کو وسیع اور تیز کرنے ، عرب احمدی احباب سے رابطہ رکھنے ، ان کی تبلیغی ، تربیتی اور علمی لٹریچر کی ضروریات پوری کرنے ، اسی طرح عربی زبان میں تراجم ، مزید لٹریچر کی تیاری ، اور عربی زبان میں ایک رسالہ کے اجراء کے لئے جنوری 1986ء میں حضرت خلیفہ ایح الرابع رحمہ اللہ نے لندن میں ایک مرکزی عربک ڈیسک قائم فرمایا جس کے بارہ میں تفصیل بیان کی ہو چکی ہے.ذیل میں عربی رسالہ کے اجراء اور اس کے اثر ونفوذ کے بارہ میں مکرم عبد المومن طاہر صاحب کے اخبار بدر قادیان میں شائع ہونے والے ایک مضمون سے کچھ معلومات کسی قدر تصرف کے ساتھ نظر قارئین کی جاتی ہیں.اجراء اور پہلا ایڈیٹوریل بورڈ 12 جنوری 1988ء کو دعا کے ساتھ حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے عربک ڈیسک کے تحت عربی ماہانہ رسالہ کا اجراء فرمایا اور اس کا نام ” التقوی تجویز فرمایا.اس کا ایڈیٹوریل بورڈ بھی حضور نے خود ہی مقر فرمایا جو درج ذیل احباب پر مشتمل تھا: مکرم صفدر حسین عباسی صاحب ( چیئر مین بورڈ)، مکرم عبدالمومن طاہر صاحب، مکرم نصیر احمد قمر صاحب، مکرم منیر احمد جاوید صاحب، مکرم عبد الماجد طاہر صاحب، مکرم حسن عودہ ( رئیس التحرير ) - مؤخر الذکر شخص کو حضور انور نے اس کی بعض حرکات کی بناء پر مارچ 1989ء میں معطل کر دیا تھا.بعد میں حضور انور نے الحاج محمد حلمی الشافعی صاحب کا نام بھی اس فہرست میں شامل
243 مصالح العرب.....جلد دوم فرمایا.یہ بات محتاج بیان نہیں کہ اس عرصہ میں ”التقوی کے تقریبا ہر شمارے کا اکثر حصہ اور بعض دفعہ سارے کا سارا شمارہ آپ ہی کے مقالات یا تراجم پر مشتمل ہوتا تھا جن کو بیک وقت شائع کرنے کے لئے آپ کے مختلف قلمی نام استعمال کئے جاتے تھے.مدیران مجله، ادارتی اور ایڈیٹوریل بورڈ میں توسیع اس رسالہ کے اب تک ہونے والے مدیران اعلیٰ کے اسماء درج ذیل ہے حسن عودہ (مئی 1988ء - فروری1989ء) عبد المؤمن طاہر (1989ء - 1994ء) الحاج محمد حلمی الشافعی صاحب مرحوم (1994ء - 1996ء) ابو حمزه التونسي (1996ء - تا حال) التقوی کا ادارتی بورڈ تو نصیر احمد قمر صاحب ، منیر احمد جاوید صاحب، عبدالماجد طاہر صاحب پر ہی مشتمل رہا ، جبکہ ایڈیٹوریل بورڈ میں مختلف وقتوں میں توسیع ہوتی رہی جو کہ اب و مندرجہ ذیل احباب پر مشتمل ہے: عبد المؤمن طاہر صاحب، عبد المجيد عامر صاحب، ہانی طاہر صاحب، محمد احمد نعیم صاحب اور محمد طاہر ندیم.اس مجلہ کا پہلا شمارہ مئی 1988ء میں شائع ہوا.اب تک اہم ترین شمارہ جات میں صد ساله جشن تشکر کے موقع پر شائع ہونے والا نمبر اور خلافت جو بلی 2008 ء کے موقع پر شائع ہونے والا ” جوبلی نمبر ہے.جن میں جماعت کی صد سالہ تاریخ بڑے ٹھوس اور دلآویز مقالات اور خوبصورت تصاویر کے ساتھ ایک اچھوتے انداز میں محفوظ کر دی گئی ہے.والحمد للہ.مقبوليت ونفوذ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اس رسالہ میں بڑی برکت ڈالی.باوجود مشکلات کے یہ رسالہ عرب دنیا میں پہنچا.بہتوں کے شکوک و شبہات دور ہوئے اور کئی روحوں نے ہدایت پائی.اُس وقت جماعت کا ٹی وی چینل یا ویب سائیٹ تو نہیں تھے اس لئے جماعت کا پیغام پہنچانے کے لئے رسائل اور اخبارات ہی بنیادی ذریعہ متصور ہوتا تھا.
244 مصالح العرب.....جلد دوم شروع میں یہ رسالہ دنیا بھر کے بڑے بڑے علماء، مفتیان، فقہاء، مذہبی مفکرین، عرب حکمرانوں، بڑی بڑی لائبریریوں، یونیورسٹیوں اور تنظیموں کو بھجوایا جاتا رہا.لیکن کچھ عرصہ تک اکثر عرب ممالک کی طرف سے اس کی وصولی کی خبر نہ آئی.تحقیق کروائی گئی تو پتہ چلا کہ یہ رسالہ اکثر عرب ملکوں میں پہنچتے ہی ضبط کر لیا جاتا ہے.اس پر حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ ایسے عرب ممالک میں رسالہ نہ بھیجیں.اس کی بجائے غیر عرب ممالک میں خصوصاً یورپ اور افریقہ وغیرہ میں رہنے والے عربوں اور عربی دان طبقہ کی طرف زیادہ توجہ دیں اور دلچسپی لینے والے نادار قارئین کو بے شک مفت دیں.چنانچہ اس ارشاد پر عمل کیا گیا اور اس کے نہایت بابرکت پھل ملے.ان امور کی قدرے تفصیل قارئین ہی کے خطوط اور بیانات کی روشنی میں پیش ہے.اہل صحافت کے تبصرے ناروے میں مقیم ایک غیر از جماعت عرب صحافی ڈاکٹر احمد ابومطر لکھتے ہیں: اگست 1995 ء کے شمارہ میں نصوص اسلامیہ مقدسہ کے زیر عنوان مضمون پر میں آپ لوگوں کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں.واقعی آپ نے صحیح اسلامی موقف پیش کیا ہے.آج بہت سے لوگ دین کے نام پر کئی قسم کی ہلاکت خیز حرکتیں کر رہے ہیں خصوصاً جو آزادی فکر و اجتہاد پر پابندی لگاتے ہیں.یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والا سب سے بہترین عطیہ عقل انسانی ہے.لبنان کے ایک صحافی محمود رمضان صاحب لکھتے ہیں: میں لبنانی ہوں اور جنیوا ( سوئٹزر لینڈ ) میں مقیم ہوں.مجھے دینی مسائل کے بارہ میں بہت دلچسپی ہے مگر مجھے اسلامی لڑ پچر میں بہت سے رخنے اور تضادات نظر آتے ہیں.ان تضادات کو سلجھانے کے لئے میں نے بہت مطالعہ اور سوچ بچار کی مگر ناکام رہا.خوش قسمتی سے ایک پاکستانی احمدی نوجوان سے ملاقات ہوئی اور اس سے گفتگو کے ذریعے مجھے احساس ہوا کہ اس شخص کے پاس قرآن کریم کی مشکل آیات کی ایسی تفسیر ہے جو نہایت معقول ہے.اس تفسیر سے قرآنی آیات میں بظاہر نظر آنے والا تقضاد رفع ہو جاتا ہے اور کسی ایسی نامعقول تاویل کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی جو بعض علماء کرتے ہیں.خصوصاً وفات مسیح کے بارہ میں احمدیت کا
245 مصالح العرب.....جلد دوم موقف بڑا مدلل اور واضح ہے.یہ احمدی نوجوان عربی نہیں جانتا تھا مگر اس نے عربی لٹریچر بھجوانے کا وعدہ کیا.بعد ازاں وہ عربی رسالہ ”التقوی“ کے بعض شمارے لایا.مجھے اس رسالہ کا انداز بہت اچھا لگا ہے کیونکہ اس میں جدید سائنس اور وفات مسیح کے بارہ میں جماعت احمدیہ کے مسلک میں حسین تطابق نظر آتا ہے.براہ کرم مجھے مزید لٹریچر ارسال کریں شاید اللہ تعالیٰ میری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائے.نانا سے ایک مجلہ کے ایڈیٹر مکرم ابوبکری صاحب لکھتے ہیں.اللہ کے نام سے میں شروع کرتا ہوں اور محبت کے نام سے لکھتا ہوں اور پیار کے نام سے تحریر کرتا ہوں.میری خوشی کی اس وقت کوئی انتہا نہ تھی جب آپ کی طرف سے اسلام کے جہاد میں سرگرم یہ رسالہ ملا تھا.مگر اب آپ اسے بند کرنا چاہتے ہیں.اے میرے اسلامی بھائیو.......مجھے اس رسالہ کی شدید ضرورت ہے کیونکہ اسی کے ذریعہ تو مجھے احمدیت کا تعارف ہوا تھا اور اس جماعت کی عظیم خدمات کا پتہ چلتا ہے.آپ اس طرح کریں کہ اس رسالہ کے تبادلہ میں آپ میرا رسالہ قبول فرمائیں.مگر خدارا التقوی“ بھیجنا ہرگز بند نہ کریں.لندن میں مقیم ایک بہت بڑے عرب سکالر ، صحافی اور کئی کتب کے مصنف الشیخ حسین العاملی لکھتے ہیں: ’التقوی میں چھپنے والے امام جماعت احمدیہ کے خلیجی جنگ کے بارہ میں خطبات میں ان دنوں پڑھ رہا ہوں.براہ کرم مسلمانوں کے سیاسی مسائل کے حل کے بارہ میں خلیفہ صاحب کے یہ سب خطبات مجھے ارسال کریں.کیونکہ مجھے ان خطبات سے اپنی تصنیفات کی تیاری میں بڑی مدد ملے گی.اہل دانش کے تبصرے الجزائر سے ایک بہن نے لکھا: آپ کا مجلہ القوی‘ ملا.میری خوشی کا آپ تصور نہیں کر سکتے.بہت حیران ہوئی کہ میرے ایسے بھائی ہیں جنہوں نے تراجم قرآن کر کے ایسی شاندار خدمت کی ہے.مگر پاکستانی نام نہاد علماء کی طرف سے ہونے والے ظلم پر افسوس ہوا.اس رسالہ کی افادیت کے پیش نظر ہم
246 مصالح العرب......جلد دوم نے اسے اپنی مسجد کی لائبریری میں رکھا ہے.میں بڑی ہی خوشی کے ساتھ آپ کو بتاتی ہوں کہ آپ جس طرح اسلام کے محاسن پیش کر رہے ہیں میں اس کی دن بدن قائل ہوتی جا رہی ہوں.گویا میں بھی آپ میں سے ایک ہوں.مجھے تو اسی گھر کی تلاش تھی.لکھتے ہیں: سری لنکا سے ایک عالم دین مکرم بی صاحب کس مؤمنانہ انکساری اور تواضع سے میں نے ہندوستان سے مولوی فاضل کیا ہے.مجھے احمدیت کا قبل از میں کچھ زیادہ علم نہ تھا.اب مجھے پتہ چلا ہے کہ میں تو اس گدھے کی طرح تھا جس پر کتابیں لدی ہوں.الحمد للہ کہ اس نے مجھے بچا لیا اور میرا دل کھول دیا تا کہ حق اس میں داخل ہو.اور یہ اس طرح ہوا کہ کولمبو میں ” بیت الحمد کے امام صاحب نے ” التقوی رسالے کے بعض شمارے ارسال کئے.جزاھم اللہ احسن الجزاء.تیونس سے محمد شریف صاحب لکھتے ہیں.مجھے ” التقوی بڑھنے کا اتفاق ہوا.اس میں تو ایسے اسلامی اور تحقیقی مضامین ہیں جو رواداری کی تعلیم دیتے ہیں.امت مسلمہ کو اس وقت ایسے ہی رسالوں کی شدید ضرورت ہے.اس کے جوبلی نمبر نے تو مجھے حیران کر دیا.تعجب ہے کہ ایسی جماعت سے اب تک ہم کیسے بے خبر رہے ؟ ! ہمارے علماء نے تو آپ کی جماعت کے بارہ میں ہمیں اندھیرے میں رکھا ہوا ہے.براہ کرم ایسی نیک جماعت کے بارہ میں مزید معلومات والا لٹریچر دیں.اس جماعت نے تو واقعی اپنے تن من دھن اور اپنے علماء کو دنیا بھر میں اسلامی اقدار پھیلانے کے لئے وقف کر ڈالا سڈنی آسٹریلیا سے ایک عرب دوست حسین حمید صاحب نے لکھا: مجلہ "التقوی میں ” موازنہ تفسیر القرآن“ کے موضوع کے تحت آپ نے نہایت مفید سلسلہ مضامین شروع کیا ہے.براہ کرم اسے مکمل کئے بغیر نہ چھوڑیں تا کہ لوگوں کو قرآن کی صحیح اور اس کے شایان شان تفسیر پتہ لگے.انہیں قرآن کے عظیم دلائل کی خبر ہو.مسلمانوں کی اکثریت قرآن کے معقول اور صحیح مفاہیم سے بے خبر ہے.یہ لوگ قرآن کو عقل سے دور سمجھتے ہیں.قرآن کے اکثر تراجم و تفاسیر میں خرافات اور اسرائیلیات شامل کر دی گئی ہیں اور افسوس ہے کہ اکثر مسلمان انہی نامعقول تفاسیر سے چھٹے بیٹھے ہیں.
مصالح العرب.....جلد دوم مراکش سے محمد القاسمی صاحب لکھتے ہیں: 247 میں نے فلسفہ میں ڈگری کی ہوئی ہے.میں اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس رسالہ کے ذریعہ مجھے صراط مستقیم دکھائی.میں آپ سے یہ بات چھپا نہیں سکتا کہ میں مجلہ میں چھپنے والی ہر چیز سے بیحد متاثر اور مسرور ہوتا ہوں.اس مجلہ کا مطالعہ کر کے میں دوسروں کے سامنے سب کچھ بے کم و کاست پیش کر دیتا ہوں جس کی وجہ سے میں نوجوانوں کے حلقہ میں بڑا عالم سمجھا جانے لگا ہوں.اردن سے ہمارے احمدی دوست عبد الرحمن محمد صاحب تحریر کرتے ہیں: میں نے رسالہ ”التقوی اپنی یونیورسٹی کے بعض دوستوں کو دکھایا تو انہیں بہت ہی اچھا لگا.بعض نے مزید کا مطالبہ کیا ہے.جماعت کے پیش کردہ افکار پڑھ کر یہ لوگ کہتے ہیں کہ واقعی یہ ایسے انقلابی افکار و خیالات ہیں جو سابقہ غلط افکار یعنی اسرائیلیات کا قلع قمع کر دیتے ہیں.آپ لوگوں کو مبارک ہو.درسگاہوں کے نصاب میں افریقہ کے کئی عربی مدارس اور اسلامی مراکز (جو ہماری جماعت کے نہیں ) بڑے اصرار کے ساتھ ہمارا رسالہ منگواتے ہیں تاکہ اسے اپنے نصاب میں شامل کریں اور اپنی لائبریریوں میں رکھیں.بطور نمونہ نائیجریا کی ایک ایسی ہی درسگاہ "مرکز محمود للدعوة الاسلامیة" کے ڈائریکٹر محمود احمد تیجانی کے متعدد خطوط میں سے بعض اقتباسات پیش ہیں.لکھتے ہیں: براہ کرم النقوی اور دیگر کتب ہمیں ارسال کریں اور کرتے رہیں تا لوگوں کو پتہ لگے کہ مخالفین کا پراپیگنڈہ کہاں تک درست ہے.میں آپ کے رسالہ سے کانو یونیورسٹی میں طالبعلمی کے زمانہ میں متعارف ہوا تھا.میں جب بھی لائبریری جاتا آپ کا مجلہ پڑھتا.اس کے تحقیقی مضامین نہایت ہی اعلیٰ پائے کے ہوتے ہیں.اسی رسالہ کے ذریعہ مجھے علم ہوا کہ احمدی حقیقی مسلمان ہیں.ان کے عقائد میں کوئی ایسی بات نہیں جو اُنہیں بدعتی یا غیر مسلم قرار دے.شیعہ دوسرے مسلمانوں کو کیا کچھ نہیں کہتے مگر اس کے باوجود انہیں غیر مسلم قرار دینے کی کوئی جرات نہیں کرتا، تو احمدیوں کو جو کلمہ
مصالح العرب.....جلد دوم 248 شہادت پڑھتے ہیں کوئی کس بناء پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے سکتا ہے؟ یہ بگڑے ہوئے علماء، حدود اللہ کو بدلتے اور احمدیوں کو کافر قرار دیتے ہیں.میرے نزدیک تو احمدی دوسرے مسلمانوں سے بہت بہتر اسلام رکھتے ہیں کیونکہ وہی ہیں جو اسلام کی بہترین رنگ میں تبلیغ کرتے ہیں.ہاں ایک بات تھی جس کی مجھے سمجھ نہیں آتی تھی.وہ یہ تھی کہ خاتم الانبیاء، آخر الانبیاء کے بعد نبی کیسے آسکتا ہے ؟ مگر جب "القوی کا ایک عرصہ تک مطالعہ کیا تو یہ عقدہ بھی حل ہو گیا.مجھے حق الیقین ہو گیا کہ مخالف علماء کی باتیں بے بنیاد، بے دلیل اور خرافات ہیں اور اس بارہ میں جماعت کا عقیدہ ہی حقیقی اسلامی عقیدہ ہے.میں اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ لفظ مسلمان کا سب سے سچا اور حقیقی اطلاق احمدی مسلمانوں پر ہوتا ہے.لفظ مسلم کے آپ ہی سب سے زیادہ حقدار ہیں.اور چونکہ اس عظیم حقیقت کا علم مجھے ” التقوی کے ذریعہ ہوا ہے اس لئے براہ کرم اس رسالہ کے باقی شمارے بھی اگر میسر ہوں تو مجھے ارسال کر دیں تا کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تفسیر کی اقساط میرے پاس مکمل ہو جائیں.مجھے ان کا ہم نام ہونے پر فخر ہے.اسی طرح کلام الامام کا کالم بھی مجھے بہت ہی پسند ہے.وو ہماری درسگاہ کو اس رسالہ کی سخت ضرورت ہے.ہم اسے اپنی درسگاہ کی لائبریری میں رکھنا چاہتے ہیں.خاکسار خود بھی طلباء، اساتذہ اور دوست احباب کے سامنے احمدیت کی حقیقی شکل پیش کرتا رہتا ہے.چین کے صوبے قانسو کے شہر لانچو (Lanzhou) میں ایک دینی درسگاہ المدرسہ العربیہ بلانشتو کے پرنسپل لکھتے ہیں: ہمارا یہ دینی مدرسہ 10 سال سے قائم ہے جو یہاں کے مسلمانوں کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے.اس میں 200 سے زائد طلبہ و طالبات ہیں اور 5 کلاسز ہیں.اس کے اکثر اساتذہ برائے نام گذارہ لیتے ہیں.اب تک کئی طلباء فارغ التحصیل ہو چکے ہیں.براہ کرم اپنا یہ مشہور رسالہ ہمارے مدرسے کے نام جاری کر کے ہماری مدد کریں اور ہمیشہ ہمیں بھیجتے رہیں.
مصالح العرب.جلد دوم لائبریریوں وغیرہ کی طرف سے مطالبے تیونس سے ایک لائبریری کے ہیڈ عبدالحمید عجمی صاحب لکھتے ہیں: 249 ہمیں آپ کے رسالہ کا دوسرا شمارہ ملا ہے.اس کے مضامین نہایت بلند پایہ ہیں.تحقیقی مقالات بڑے گہرے اور با مقصد ہیں.براہ کرم اس مجلہ کے سارے شمارے ہمیں عنایت کریں.سری لنکا کے شہر الوتجد کی ایک مسجد کے امام وخطیب نے اپنے خط میں تحریر فرمایا: میں نے ”التقوی رسالہ میں جماعت کی عربی کتب کا ذکر بھی پڑھا ہے.میری شدید خواہش ہے کہ آپ جماعت کی یہ عربی کتب ہماری مسجد کو ارسال کریں.میں خود بھی ان سے استفادہ کروں گا نیز دوسرے دوستوں کو بھی دونگا جو ہماری مسجد کی لائبریری سے آپ کا رسالہ التقوی مستعار لے جا کر مطالعہ کرتے ہیں.اسی طرح بیروت سے اذاعۃ الاسلام نامی تنظیم نے رسالہ با قاعدہ بھجوانے کی درخواست کی.عمان کی ایک دینی تنظیم ” دعاء“ کے ترجمان لکھتے ہیں: میں مجلہ ” التقویٰ“ بڑی دلچسپی اور گہری نظر سے پڑھتا ہوں.اس میں ہر مضمون پر ، خواہ دینی ہو یا دنیوی، سیر حاصل بحث کی جاتی ہے.انداز بیان بالکل اچھوتا اور آسان ہوتا ہے.میں یہ رسالہ اپنے دوستوں کو بھی پڑھنے کے لئے دیتا ہوں.الجزائر سے جمال اغزول صاحب نے لکھا: مجھے ایک دوست سے مجلہ القوی کے چار شمارے ملے ہیں.مجھے باقی شماروں کے حصول کا شوق ہے.میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس اس رسالہ کی ساری کا پیاں ہوں تاکہ میں جلد کرا کے اپنی لائبریری میں محفوظ کرلوں اور مختلف مضامین کی تیاری میں ان سے مدد لے سکوں.مضبوط ہتھیار گیمبیا میں ہمارے مقامی معلم مکرم علی محبت فاتی صاحب لکھتے ہیں: یہ رسالہ عربی قاری کے لئے روشن چراغ اور ہم مبلغین کے لئے مضبوط ہتھیار کا درجہ رکھتا ہے.اس میں شائع ہونے والے مضامین نہایت دیانت داری، احتیاط اور باریک نظر سے تیار
250 مصالح العرب.....جلد دوم کئے جاتے ہیں.زبان نہایت متین، جدید اور خوبصورت ہے.ہر تحریر سے اخلاص اور سچی ہمدردی چھلکتی نظر آتی ہے.کہیں احادیث مبارکہ ہیں تو کہیں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور کہیں صحابہ کرام کی عظیم قربانیوں کا بابرکت تذکرہ.یہ رسالہ تو ہماری تمام دینی علمی ضروریات کو پورا کر دیتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی عظیم دلیل بن گیا ہے.یہ رسالہ حدیث مبارک لَو كَانَ الايْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ أَو رِجَالٌ مِنْ هؤلاء “ کا واضح نقشہ پیش کر رہا ہے.کیونکہ یہ حدیث مبارک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود پر فردی طور پر پوری ہوئی ہے اور اب اجتماعی شکل میں پوری ہورہی ہے.”اے انسانی روحو ! خدائے رحمان کی کتنی ہی آیات ہیں جن کے پاس سے تم غافلانہ حالت میں گذر جاتی ہو.اے انسانی روحو تم اس داعی کی آواز پر لبیک کیوں نہیں کہتی.“ موریطانیہ سے محمد سنبری صاحب لکھتے ہیں: میں نے اس رسالہ سے وہ فائدہ اٹھایا ہے جو میں نے کئی سال تک اپنی درسگاہ سے نہ اٹھایا تھا.ہم جماعت کے بارہ میں بہت کچھ سنتے رہے ہیں مگر اب حقیقت کا علم ہوا ہے.کاش میرے اصلی وطن مائی میں بھی آپ کے مراکز اور مساجد ہوں.(یادر ہے کہ یہ خط کافی پرانا ہے.اب تو خدا کے فضل سے مالی میں ہمارا مشن اور لاکھوں احمدی احباب ہیں ) میں آپ سے یہ بات چھپا نہیں سکتا کہ میرے بعض عیسائی دوست تھے جو میرے ساتھ اکثر دینی بحث کرتے ہوئے کہتے کہ ہمارا دین سب سے بہتر دین ہے.اس کے علاوہ نجات کا کوئی راستہ نہیں.مگر میں ان کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکتا تھا کیونکہ ہم لوگ بعض ایسے عقائد رکھتے تھے جو ان کے موقف کی تائید کرتے تھے.مگر جب مجھے مجلہ "التقوی“ ملا تو میں نے اس میں سے بعض باتیں ترجمہ کر کے ان عیسائی دوستوں کو سنانا شروع کیں.وہ بھلا ہمارے ان دلائل کو کیسے توڑ سکتے تھے جو انہیں کی مقدس کتاب سے لیے گئے تھے.آخر انہوں نے فرار میں ہی عافیت سمجھی.مگر دوسری طرف میرے مسلمان دوست ہیں جو مجھے مجلہ القوی کے مطالعہ سے منع کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ تم نے پہلی دینی درس گاہ میں ہمارے ساتھ جو پڑھا تھا اسی پر اکتفا کرو.مگر اس غیر منصف درسگاہ میں تو وہ کچھ پڑھایا گیا تھا جسے عقلِ سلیم دور سے دھکے دیتی
مصالح العرب......جلد دوم ہے.انسان کو چاہیے کہ فیصلہ کرنے سے پہلے وہ دونوں اطراف کی سنے ورنہ وہ ظلم کر بیٹھے گا.مدینہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل عالم کا اقرار : 251 رابطہ عالم اسلامی والے سعودی عرب، کویت اور مصر کی بعض یونیورسٹیوں میں طلباء کو خاص طور پر احمدیت کے خلاف تیار کر کے افریقہ میں کام کرنے کے لئے بھجواتے ہیں.لیکن خدا کی عجیب قدرت ہے کہ ان علماء میں سے اکثر مقابلہ میں آتے ہی پکے ہوئے پھل کی طرح آغوشِ احمدیت میں آگرتے ہیں.پھر یہ بنے بنائے مبلغ ، احمدیت کے دفاع میں رابطہ کے مقابلہ پر کھڑے ہو جاتے ہیں.حالانکہ رابطہ والے انہیں پہلے بڑی بڑی تنخواہیں اور بڑی مراعات دیتے ہیں.چنانچہ بورکینا فاسو کے ایک عالم دین مکرم کندا ابراہیم صاحب بیان کرتے ہیں: میں مدینہ منورہ یو نیورسٹی کی شاخ دعوت و ارشاد میں اعلی دینی تعلیم کی ڈگری حاصل کر کے اپنے وطن واپس لوٹا اور دعوت وارشاد میں مصروف ہو گیا.ایک روز احمدی مبلغین سے بحث ہوگئی جس میں میں مغلوب رہا.اس پر میں نے فیصلہ کیا کہ احمدیت کی اصلیت جان کر رہونگا.دوران تحقیق خوش قسمتی سے مجھے ” التقوی رسالہ کے بعض شمارے ہاتھ لگے جن میں متعدد مسائل پر مضامین تھے.یہ مضامین واقعی اسلام کو حقیقی اور خوبصورت شکل میں پیش کر رہے تھے جس پر اہل اسلام کو فخر کرنا چاہئے.اس پر مجھے یقین ہو گیا کہ احمدیت کچی ہے اور میں 1991ء میں احمدی مسلمان ہو گیا.یادر ہے کہ اب یہ عالم دین ہمارے مبلغ کے طور پر خدمت اسلام بجالا رہے ہیں.الحمد للہ.832 بیعتیں محترم امیر صاحب سینیگال لکھتے ہیں: سینیگال کے Chako نامی ایک گاؤں میں میں نے ایک احمدی نوجوان کو التقوی کا جوبلی نمبر دیا.اس نے آگے مدرسہ کے عربی کے استاد کو یہ رسالہ دیا اور تبلیغ شروع کر دی.استاد نے رسالہ پڑھا اور نوجوان کو کہا کہ جب آپ کے مبلغ آئیں تو مجھے ضرور ملوانا.ایک دن خاکسار اس گاؤں کے دورہ پر گیا تو ان استاد صاحب سے ملاقات ہوئی.انہوں نے چند سوالات کئے اور بیعت کر لی اور مجھے کہا کہ اس رسالہ کو پڑھ کر میں نے یقین کر لیا تھا کہ یہ جماعت کچی ہے.
252 مصالح العرب......جلد دوم میں نے اپنے گاؤں میں جو یہاں سے دس میل دور ہے پہلے ہی جماعت کا تعارف کروا دیا ہے.کی ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمارے گاؤں چلیں اور احمدیت کا پیغام دیں.چنانچہ ہم لوگ وہاں گئے اور سارا گاؤں احمدی ہو گیا.اس استاد کے بعض دیگر عربی دان دوست اسا تذہ نے بھی اس رسالہ کے ذریعہ اس دورہ میں احمدیت قبول کی اور وہ بھی اپنے مدرسوں سمیت احمدی ہوئے.یوں کل 832 بیعتیں ہوئیں.الحمد للہ.پیار بھرے شکوے کسی وجہ سے رسالہ کے دیر سے پہنچنے یا منقطع ہو جانے پر عجیب پیارے پیارے شکوے موصول ہوتے ہیں.نمونہ کے طور پر دوشکوے ہدیہ قارئین ہیں.اردن کے ایک احمدی دوست مکرم غانم صاحب لکھتے ہیں.التقوی کی تیاری اور اسلام کا پرچم بلند رکھنے کے لئے آپ جو سعی فرماتے ہیں اس پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں.یہ رسالہ ہمارے لئے تو پھیپھڑوں کی طرح ہے جن کے ذریعہ ہمیں پاک صاف روحانی ہوا میسر آتی ہے جو ہماری روحوں کو زندہ رکھتی ہے.براہ کرم رسالہ بھیجتے رہا کریں کہ ان حالات میں مرکز سے دور بیٹھے ہم لوگوں کے لئے تو صرف یہ رسالہ ہی تسلی کی سبیل ہے.ان ایام میں فتنے بڑھ گئے ہیں.شر اور ظلم کی طاقتیں اسلام کے نام کا سہارا لے کر ظلم پر تلی ہوئی ہیں.احمدیت کی حقیقت سے بے خبر لوگ ہمیں مرتد قرار دینے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں.گیمبیا میں ہمارے مقامی مبلغ یولی باہ صاحب کیا ہی پیارے انداز میں لکھتے ہیں: میں عرصہ سے بہت دلگیر ہوں کیونکہ ”میرے استاد سے میرا رابطہ ٹوٹ گیا ہے.یہ رسالہ تو میرے لئے ایسی لائبریری کی طرح ہے جس میں نادر و نایاب کتب ہوں اور جو ہر ماہ مجھے مل رہی ہوں.ائے التقوی“ تو کب دوبارہ آئے گا.میری نظریں ہرلمحہ تیرے انتظار میں فرش راہ ہیں.اے میرے پیارے التقوی“ تو نے عالم اسلام کو دوبارہ زندگی بخشی ہے.تو نے خواب غفلت میں سوئی پڑی امت اسلامیہ کو اپنا پیغام پہنچایا.تو نے ملت اسلامیہ میں محبت واخوت کے رشتے تقویٰ کی بنیاد پر دوبارہ قائم کر دیئے ہیں.تو نے رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے
مصالح العرب.....جلد دوم 253 مطابق اسلامی تعلیمات کو پھیلایا.اس لئے اے میرے پیارے تو شکریہ اور تعریف کا مستحق ہے.اے پیارے ”التقوی “ تو اب ہم سے جدا نہ ہونا.اللَّهُ أَكْبَر خَرِبَتْ خَيْبَر انڈونیشیا ان ممالک میں سے ہے جہاں پر اسلام شروع زمانہ کے نیک دل اور پاک سیرت عرب مسلمان تاجروں کے ذریعہ پہنچا اور پھیلا.یہ عرب وہاں پر بکثرت آباد ہو گئے.اس وجہ سے شروع سے ہی عربی زبان کا وہاں پر بڑا وسیع اور گہرا اثر ہے.ہزار ہا دینی مدارس ہیں.کئی عربی یونیورسٹیاں ہیں.ہزارہا طلباء عرب ممالک میں جا کر اعلیٰ عربی اور دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں.عربی دان علماء کی یہ کثرت وہاں پر التقوی کے لئے ایک زرخیز زمین مہیا کرتی ہے.چنانچہ انڈونیشیا سے ہمارے نہایت مخلص دوست پروفیسر ابو بکر با سلامہ صاحب (جواب اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے ہیں ) نے لکھا: اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ رسالہ عربی دان احمدی مسلمانوں کے لئے انسائیکلو پیڈیا سے کم نہیں.اس سے صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ثابت کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے.میں آپ کا دوبارہ شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے یہ رسالہ ارسال فرمایا جس میں حضور انور کی نصائح، جماعتی خبریں اور دیگر دلچسپ مضامین ہیں.اگر کبھی مجھے ”التقوی“ نہ ملے یا اس کے ملنے میں تاخیر ہو جائے تو میں پریشان ہو جاتا ہوں.یو نیورسٹی میں اپنے ساتھی پروفیسر حضرات کو بھی خاکسار یہ رسالہ دیتا ہے.اسے پڑھنے کے بعد وہ مجھ سے جماعت احمدیہ کے عقائد اور دیگر موضوعات کے بارہ میں گفتگو کرتے ہیں.اب ان کے ذہنوں سے احمدیت کی منفی تصویر زائل ہو چکی ہے.ان میں سے بعض کے اسماء ارسال ہیں تا ان کو آپ براہ راست رسالہ بھجوایا کریں.ان میں سے بعض از ہر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں اور بعض یہاں مرکزی وزیر بھی رہ چکے ہیں“.ایک اور خط میں تحریر فرمایا: الحمد للہ” التقوی کے جون اور جولائی 89ء کے دو نسخے مل گئے ہیں.ان میں شائع شدہ مضامین بہت عمدہ اور بڑے معیاری ہیں.ایسے ہی مضامین کی تبلیغ و تربیت کے لئے ضرورت ہے.
- 254 مصالح العرب.جلد دوم یہاں لاہوریوں (غیر مبایعین ) نے 24 اور 25 دسمبر 89ء کو جوبلی منائی.اس موقعہ پر انہوں نے مختلف اسلامی جماعتوں کو دعوت دی.ہم بھی مدعو تھے.انہوں نے بہت لٹریچر بھی شائع کیا جس میں جماعت کو ضال اور خارج از اسلام قرار دیا اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نبوت کا قطعاً کوئی دعوی کہیں نہیں کیا بلکہ یہ (نعوذ باللہ ) حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی اختراع ہے.وغیرہ وغیرہ.ان کا خیال تھا کہ اس طرح کی باتوں سے لوگ ان کی طرف مائل ہوں گے.مگر ان کے جلسوں میں خدا کی تقدیر ظاہر ہوئی اور جماعت احمد یہ اور دیگر لوگوں کی طرف سے سوالوں کے دوران انہیں بری طرح زک اٹھانا پڑی.حاضرین میں بڑے بڑے علماء تھے جنہوں نے ان سے کہا کہ اگر بالفرض مرزا صاحب ہی حقیقی مسیح موعود ہیں تو لازماً وہ غیر تشریعی نبی ہوں گے.یہ ختم نبوت کے خلاف نہیں.یہی یہاں کے مسلمانوں کا عقیدہ ہے.اس دوران ایک مسلمان عالم دین کھڑے ہوئے اور ثابت کیا کہ حضور علیہ السلام نے بغیر شریعت والی نبوت کا دعوی کیا ہے.پھر انہوں نے ” التقوی رسالہ کا ایک شمارہ نکال کر کہا کہ یہی جماعت حقیقی جماعت ہے اور یہی اسلامی تعلیم پھیلا رہی ہے اور قرآن کی زبان کو زندہ کر رہی ہے.قرآنی تعلیم کو پھیلانا اسی کی خصوصیت ہے.یہ واقعات اللہ تعالیٰ کی تائید کا نشان ہیں اور اِنِّی مُعين مَن اَرَادَ إِعَاتَنگ کی بشارت کو پورا 66910 کرنے والے ثبوت - اللهُ أَكْبَر خَرِبَتْ خَيْبَرُ دعوت مقابلہ دینے والے بزرگ کی بیعت یمن کے ایک بزرگ، جن کا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں ، احمدیت سے اپنے ابتدائی تعارف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اتفاقاً آپ کے رسالہ ” التقوی“ کا چوتھا اور پانچواں شمارہ میری نظر سے گزرا.میں آپ سے یہ بات چھپا نہیں سکتا کہ نہ جانے کیوں مجھے آپ کی دعوت کے بارہ میں انشراح صدر محسوس ہو رہا ہے.براہ کرم مجھے اپنے عقائد و تعلیم کے بارہ میں مزید معلومات بہم پہنچا ویں خواہ کتب ہوں یا کچھ اور.آپ کے اصولوں کو دیکھ کر یا تو میں آپ کی جماعت میں شامل ہو کر اہل یمن کو کی
255 مصالح العرب.....جلد دوم اس طرف بلاؤں گا یا آپ سے مناظرہ کر کے حق و باطل کو واضح کروں گا.میں کوئی معمولی شخص نہیں.اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ مجھے علم بخشا ہے اور بعض اوقات رؤیا کے ذریعہ مجھے تفسیر قرآن کریم کی قدرت عطا کی گئی ہے.میں نے کئی غلط تفاسیر کی تصحیح کی ہے.مثلاً یہ کہ عذاب قبر جیسی کوئی چیز نہیں.حضرت آدم علیہ السلام کو جب خلیفتہ اللہ بنایا گیا تو کی آپ جنت میں نہ تھے بلکہ زمین پر تھے.اور جب آپ نے شجرہ کھایا تو آپ اپنے مرتبہ سے گر گئے.انسان اور خدا کے درمیان براہ راست رابطہ ہو سکتا ہے.خدا نے ہر چیز انسان کے لئے مسخر کی ہے، باہم دشمنی نہیں ہونی چاہئے وغیرہ.اس کے علاوہ بھی اور باتیں ہیں شاید ہم ان کے بارہ میں اختلاف کریں یا اتفاق.بہر حال میں چاہتا ہوں کہ آپ کے اصولوں پر اطلاع پاؤں تا کہ یا تو ہم اکٹھے آگے بڑھیں اور لوگوں کو رب العالمین کی طرف بلائیں یا پھر باہم مقابلہ پر نکلیں.میری ایک ہی حجت قرآن کریم ہے.سنت اور احادیث پر میں ایمان نہیں رکھتا سوائے ایک محدود حد تک.تورات و انجیل پر میرا ایمان ہے.ایک مسلمان کے لئے یہ ضروری ہیں.اگر چہ میرا یہ بھی ایمان ہے کہ ان کتب میں بعض حصے خدا کی طرف سے نہیں بلکہ بعد میں غلطی سے دوسرے لوگوں نے اپنے انبیاء کے سیرت نامے کے طور پر داخل کر دیئے ہیں.صراط مستقیم صرف ایک ہی راہ ہوسکتی ہے.ناجی امت صرف ایک ہی ہوگی.سب نہیں ہوسکتیں.یہ میرے اصولوں میں سے بعض اصول ہیں.آپ بھی مجھے اپنے اصولوں سے مطلع کریں.میرا یہ خط مرزا صاحب کے سامنے پیش کئے جانے کی درخواست ہے.اگر وہ مسکرائے تو وہ حق پر ہونگے اور میں غلطی پر.اور اگر ان کے چہرے پر غصے کی علامات ظاہر ہوئیں تو وہ غلطی پر اور میں حق پر ہونگا.میرے اس خط کو حقیر نہ جائیں.میں ہاشمی ہوں.ہوسکتا ہے کہ خدا مجھے وہ دے جو کسی اور کو نہ دیا ہو.ہوسکتا ہے کہ میں ہی ان امتوں کا مہدی ہوں.میں نے یہ خط ایک خاص حالت میں لکھا ہے.اگر یہ حالت نہ ہوتی تو میں اس خط کو حقیر سمجھتا اور پھاڑ دیتا اور اپنے آپ کو مجنون خیال کرتا.“
مصالح العرب.....جلد دوم 256 حضور انور کا پر معارف جواب اس بزرگ کا یہ دلچسپ خط حضور انور کی خدمت میں برائے ملاحظہ پیش کیا گیا.آپ نے جو جواب عطا فرمایا اس کے بعض اقتباسات قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لئے پیش ہیں.فرمایا کہ ان صاحب کو لکھیں کہ : ' آپ کا بہت دلچسپ خط ملا ہے.آپ نے آخر پر جو بات کہی ہے اس سے پہلے میں مسکرا ہی رہا تھا.خط پڑھ کر غصہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ہمیں تو اللہ تعالی نے یہی تعلیم دی ہے کہ کوئی گالیاں بھی دے تو اس کے لئے دعا کرو اور یہ سب کچھ ہنس کر برداشت کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا شعر ہے: گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار لیکن آپ کے خط میں تو گالیاں نہیں بلکہ بہت ہی اچھا مضمون تھا اور نہایت صاف گوئی سے آپ نے کام لیا ہے.قولِ سدید سے بات کی ہے.اس خط پر ناراض ہونا تو بڑی حماقت ہوگی.جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے دعوی مہدویت کا تعلق ہے اسکے ثبوت کے لئے عام دنیا کے انسانوں کے لئے تو اور بہت سے دلائل بھی پیش کئے جاسکتے ہیں لیکن آپ کو چونکہ قرآنِ کریم سے محبت ہے اور آپ اس کا باریک نظر سے مطالعہ کرتے ہیں اس لئے آپ کی کے لئے سب سے اچھی دلیل یہی ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی تفاسیر کا مطالعہ کر کے دیکھیں اور پھر اپنے دل کی گواہی لیں کہ کیا یہ شخص اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہے یا دوسرے لوگوں کی طرح انسانی نظر سے اور کیا لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُون میں ان کا مُطَهَّرُونَ کا مقام ہے یا نہیں؟ آپ نے جو نکات بیان فرمائے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فراست عطا فرمائی ہے لیکن مزید رہنمائی کے لئے یہ آسمانی نور کی محتاج ہے.آپ کے نکات احمدی تعلیم کے قریب تر ہیں لیکن تھوڑی سی اور روشنی پڑ جائے تو نور علی نور ہو جا ئیں...حیات ،موت، حیات کا جو تصور آپ نے پیش کیا ہے یہی درست تصور ہے لیکن قبر کا جو
مصالح العرب.....جلد دوم 257 روحانی مفہوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام پر روشن کیا گیا ہے اس کی روشنی میں یہ سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں اور ایک نیا جہان روشن ہو جاتا ہے......یہ کہنا درست ہے کہ آدم اس دنیا میں ہی تھے جب خلیفہ بنائے گئے لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ جنت میں نہیں تھے.جنت اور شجرہ ممنوعہ کے متعلق میں بار ہا روشنی ڈال چکا ہوں کہ جنت دراصل وہ روحانی تعلیم ہے جو انبیاء لے کر آتے ہیں.اس سے انحراف پہلے دنیاوی جہنم اور پھر اخروی جہنم پیدا کرتا ہے.شجر ممنوعہ، شجرہ خبیثہ کی ہی قسم ہے یعنی خدا کی تعلیم سے باہر قدم رکھنا.یہ درست ہے کہ انسان میں شر نہیں لیکن خیر سے باہر شر کا پہلو ہوتا ہے.جو جس قدر خیر سے باہر ہو گا اس قدر شر میں ہوگا.خیر اور شر کی مثال روشنی اور سائے کی سی ہے.یہ سو فیصد درست ہے کہ انسان براہِ راست خدا سے رابطہ کر سکتا ہے.اور یہ بھی بالکل درست ہے کہ ہر چیز خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے مسخر کی ہے.قرآن کریم ہی حجت ہے اور احادیث وہی قابلِ قبول اور قابل استناد ہیں جو قرآن سے متناقض نہ ہوں......تورات وانجیل کے متعلق آپ کے نظریہ سے بالکل اتفاق ہے....صراط مستقیم ایک ہی ہو سکتی ہے، یہ درست ہے لیکن شروع سے لے کر تمام انبیاء صراط مستقیم پر ہی آئے ہیں.اس لئے ان معنوں میں اس بات کا آپ کی اس بات سے تضاد نہیں کہ تو رات و انجیل پر بھی میرا ایمان ہے.صراط مستقیم تو ایک ہی ہوگی لیکن وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا میں یہ پیغام ہے کہ ہر شخص جو تقویٰ سے خدا تعالیٰ کی طرف جانا شروع کرے اس کو خدا اپنے قرب کی مختلف را ہیں دکھاتا ہے.آپ کے متعلق مجھے خوشی بھی ہے اور فکر بھی.خوشی اس لئے کہ آپ کے اندر واضح طور پر صداقت و شرافت کی روشنی دکھائی دے رہی ہے.اور فکر اس لئے کہ بعض دفعہ انسان خدا تعالیٰ کے تھوڑے سے فضل اور شفقت پر ٹھو کر کھا جاتا ہے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے اور خدا کے مقرر کردہ امام سے روگردانی کر بیٹھتا ہے.اس صورت میں اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو ایسے ہی ایک شخص کا ہوا جس کے بارہ میں قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ولَو شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ
مصالح العرب.....جلد دوم 258 بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الأَرْضِ یعنی اگر ہم چاہتے تو ان آیات کے ذریعہ ضرور اس کا رفع کرتے لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا.لیکن میں دعا کرتا ہوں.خدا سے بھاری امید ہے کہ وہ آپ کو اپنی تقوی اور رضا کی راہ پر ثابت قدم رکھے گا اور اس کی رضا کے لئے آپ قربانی کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہیں گے.“ اک نشاں کافی ہے حضور انور کے ان کلمات مبارکہ نے اس بزرگ پر جادو کا سا اثر کیا.چنانچہ ایڈیٹر التقوی کے نام اگلے خط میں انہوں نے لکھا: آپ کے لمبے عرصہ کے بعد ملنے والے خط سے بہت خوشی ہوئی اور اس سے بڑھ کر خوشی ہمارے روحانی معلم حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ایدہ اللہ جل شانہ کے جواب سے ہوئی.ان کے کلمات مبارکہ واقعی ان کے مشن کی سچائی پر دلالت کرتے ہیں.ان کے اس فرمان سے میں سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ انسان بعض دفعہ تھوڑے سے علم پر جو اللہ تعالیٰ نے اسے دیا ہوتا ہے مغرور ہو جاتا ہے اور سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ اللہ کے ہاں بڑا مقام اور شان رکھتا ہے.واقعی میں آسمانی نور کا محتاج ہوں.ہمیں ایک ایسے امام کی اشد ضرورت تھی جو صراط مستقیم کی طرف ہماری راہنمائی فرماتا.جو باتیں سمجھنی مشکل ہیں وہ واضح فرماتا.اہل الذکر کی طرف لوٹنا واجب ہے یعنی ایسے امام کی طرف جسے اللہ تعالیٰ نے علم و معرفت اور عظیم روحانی درجہ عطا فرمایا ہو.مومن کی یہ بڑی ہی خوش بختی ہے کہ وہ ایسے امام کی پیروی کرے جو اسے اس راہ کی طرف لے جائے جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لئے بنائی ہے.حقیقت یہ ہے جس بات کی طرف بانی سلسلہ احمد یہ بلا رہے ہیں (خصوصاً بیعت کے الفاظ ) وہ عقل اور اس فطرت اسلام کے عین مطابق ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا فرمایا ای ہے.لہذا میں باوجود اپنی کم علمی کے اپنے آپ کو آپ کی طرف کھنچا ہوا پاتا ہوں تا آپ لوگوں میں شامل ہو جاؤں اور اس امام کی پیروی میں آجاؤں جسے اللہ تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے.سوئیں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میری یہ خواہش حضرت امام تک پہنچا دیں.نیز اُن سے درخواست کریں کہ میرے لئے دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے نور میں بڑھائے اور
مصالح العرب.....جلد دوم 259 میرادل ایمان پر مضبوط کر دے تا کہ میں بھی اس روحانی فوج کا سپاہی بن جاؤں.اللہ کے دین کی اشاعت کے لئے پوری جدو جہد کروں اور اللہ تعالیٰ سے غافل لوگوں کو ہوشیار کروں.انشاء اللہ حضرت مسیح پاک نے کیا ہی سچ فرمایا ہے کہ : صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار بہت بڑے عالم اور شاعر کا قبول احمدیت مڈغاسکر میں ایک شامی دوست مکرم ڈاکٹر رحمون صاحب چند سال قبل احمدی ہوئے ہیں.وہاں پر ہمارے مبلغ مکرم صدیق احمد منور صاحب کے خط کے مطابق التقوی ہی ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کا موجب بنا.آپ بہت بڑے عالم، زبر دست مصنف اور بلند پایہ شاعر ہیں.انہوں نے احمدیت قبول کرنے کے فوراً بعد قطر کے بعض مولویوں کی طرف سے شائع ہونے والے اعتراضات کا جواب لکھا ہے جو کتابی شکل میں چھپنے کے لئے تیار کیا جارہا ہے.ان کا انداز استدلال نہایت انوکھا اور مؤثر ہے.ان کا اخلاص مجھے مجبور کر رہا ہے کہ ان کے ایسے ہی ایک انوکھے جواب کو احباب کے فائدہ کے لئے یہاں درج کروں.وو مسجد مبارک قادیان پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام درج ہے مَنْ دَخَلَهُ كَانَ امنا ایک معترض نے کہا کہ یہ تو قرآنی آیت ہے جو خانہ کعبہ کے بارہ میں ہے.مرزا صاحب نے اسے اپنی مسجد پر چسپاں کر دیا ہے؟ اس اعتراض کے رد میں ڈاکٹر رحمون صاحب نے دیگر جوابات کے علاوہ لکھا کہ یہ اعتراض کرنے والے عرب، قاہرہ ائیر پورٹ پر اترتے ہیں تو اپنے سامنے بڑے موٹے الفاظ میں یہ آیت قرآنی لکھی ہوئی پاتے ہیں: اُدْخُلُوا مِصْرَانٌ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَـاب ہر چھوٹے بڑے کو پتہ ہے کہ قاہرہ خدا کے گھروں میں سے کوئی گھر نہیں ہے.بے شک اس شہر میں سینکڑوں مسجدیں ہیں مگر اس کے اندر دنیا بھر کے خصوصاً یورپ اور امریکہ کے سیاحوں کی خاطر تواضع کے لئے جوئے شراب اور ہر قسم کی عیاشی کے ہزار ہا اڈے بھی قائم ہیں.پھر
260 مصالح العرب......جلد دوم عیسائی مشنریوں کے گڑھ ہیں.امریکہ کے جاسوسی کے اڈے ہیں.اس کے باوجود اس شہر کے ماتھے پر یہ آیت کریمہ لکھی ہوئی ہے : اُدْخُلُوا مِصْرَانُ شَاءَ اللهُ امِنِین اور کوئی مولوی یا شیخ اس پر اعتراض نہیں کرتا.بے شک ہر احمدی دعا گو ہے کہ قاہرہ دوبارہ امن کا گہوارہ بن جائے کہ اس شہر نے صدیوں خدمت اسلام کی ہے.نیز اس لئے کہ اسی میں اسلام کی عظمت ہے.مگر سوال یہ ہے کہ قادیان کی مسجد مبارک کے ماتھے پر مَنْ دَخَلَهُ كانَ امِناً “ پڑھ کر یہ مولوی کیوں سیخ پانچ ہو جاتے ہیں؟ کیا جوئے ، شراب اور بدکاری کے اڈوں سے اٹا پڑا یہ شہر ان لوگوں کے نزدیک خدا کے گھروں سے زیادہ پُر امن ہے.پھر کیا یہ مولوی لوگ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مشہور قول بھول گئے جو آپ نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا تھا.آپ نے فرمایا تھا: مَنْ دَخَلَ بَيْتَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ امِنْ کہ جوابو سفیان کے گھر میں داخل ہوا وہ امن پا گیا.حالانکہ ابوسفیان کا گھر اس وقت تک کفر و شرک ، بتوں کی عبادت اور خدا اور رسول کی دشمنی کا گڑھ تھا.اگر ایسا گھر لوگوں کے لئے امن کا باعث بن سکتا تھا تو خدائے واحد کی عبادت کے لئے بنائے ہوئے خدا کے اس گھر یعنی مسجد مبارک قادیان کے بارے میں تبرک اور تفاؤل کے طور پر کیوں نہیں کہا جاسکتا کہ جو اس میں داخل ہوا وہ امن میں آگیا.مفتی اعظم کی حضور انور سے ملاقات ایک عرب ملک کے مفتی اعظم ، جن کا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں ، اپنے پہلے خط میں رسالہ التقوی اور احمدیت سے اپنے ابتدائی تعارف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: پانچ سال قبل میری ملاقات سپین میں ایک احمدی بھائی سے ہوئی تھی.اس وقت سے آپ کا یہ رسالہ متواتر مجھے پہنچ رہا ہے.خاکسار خود بھی اسے بڑی توجہ سے پڑھتا ہے اور دوست احباب بھی پڑھتے ہیں.اس سے ہمیں بہت ہی فائدہ پہنچ رہا ہے.براہ کرم یہ رسالہ ہمیں بھیجتے رہیں.اللہ تعالیٰ آپ کی اسلام کی راہ میں یہ خدمات جلیلہ قبول کرے.آمین.ان کا یہ خط جب حضور انور کی خدمت میں بغرض ملاحظہ پیش ہوا تو آپ نے اس پر اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا:
261 مصالح العرب.....جلد دوم ”التقوی“ کی وہی قدر کر سکتا ہے جسے تقوی کی آنکھ اور تقوی کا دل عطا ہوا ہو.اس زمانہ میں جب کہ علم تو ہے مگر تقوی کا بحران ہے، آپ کا خط آپ کی سعید، منکسر مزاج، متقیانہ شخصیت کو ایک بلند روشن مینار کے طور پر پیش کر رہا ہے.زاد الله فی حبكم، وجزاكم الله احسن الجزاء حضور انور کا یہ پیغام جب مفتی صاحب کو پہنچایا گیا تو انہوں نے تحریر فرمایا: آپ کے جواب کا بہت شکریہ.آپ کے لئے دل سے دعا کی ہے.”کارثۃ الخلیج “ کتاب بھی مل گئی ہے جسے اول سے آخر تک پڑھا ہے.یہ خطبات مجلّہ التقوی“ میں بھی (جواہل انصاف اور غیر متعصب لوگوں کے لئے نہایت مفید ہے) پڑھے تھے.اللہ تعالیٰ مولا نا الا مام کو اپنی حفاظت میں رکھے.آمین.رسالہ ”التقوی کی پر شوکت زبان، نفاست، دیدہ زیبی اور مفید معلومات پر ہم آپ کو بہت مبارکباد پیش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی محبت پر اکٹھا رکھے.آمین.پھر حضور انور سے ان بزرگ کا پیارا تنا بڑھا کہ حضور سے عرض کی کہ میں اپنے کسی کام کے لئے مع اہلیہ، بیٹی اور بیٹا لندن آرہا ہوں اور حضور سے ملاقات کا خواہاں ہوں.چنانچہ یہ تشریف لائے اور حضور سے مل کر بہت خوش ہوئے.بہت سی تصاویر اتروا ئیں.حضور انور بھی ان کے اخلاص سے بہت متاثر ہوئے اور انہیں تحائف سے نوازا.فالحمد للہ علی ذلک.مجلہ " الشقوی انٹرنیٹ پر سن 2000ء سے لے کر آج تک کے مجلہ ” التقوی کے شمارہ جات ہماری عربی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہیں.اور اس کے بھی بہت مبارک ثمرات ملنے لگے ہیں.الحمدللہ.ہالینڈ میں مقیم ہمارے ایک مصری احمدی دوست خالد صالح صاحب پیشہ صحافت سے منسلک ہیں.آپ ایک بلند پایہ دینی علمی گھرانہ میں پیدا ہوئے.بہت دیندار تھے مگر ملاؤں کی دین میں شدت پسندی کے خلاف تھے.مسلمانوں کی بری حالت دیکھ کر اور اس کا کوئی حل نہ پا کر اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ عیسائیت کے جال میں جا پھنسے حتی کہ ایک عیسائی عورت سے شادی کر لی.مگر ان لوگوں کو اندر تک دیکھ کر انہیں بھی چھوڑ دیا.چونکہ سچے دل سے تلاش حق میں سرگرداں تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی سرگردانی پر رحم فرمایا اور احمدیت کے ذریعہ انہیں
مصالح العرب.....جلد دوم 262 دوباره آغوش اسلام میں لے آیا.ہالینڈ میں کسی سٹال پر تفسیر کبیر (عربی) اور مجلہ ” التقوی ان } کے ہاتھ لگا جو ان کی ہدایت کا موجب بنا.ان کے دوبارہ اسلام لانے کا بڑا دلچسپ خط التقوی میں چھپ چکا ہے.خالد صالح صاحب بتاتے ہیں کہ گزشتہ دنوں وہ انٹرنیٹ پر گفتگو کے ایک پروگرام میں شریک تھے.وہاں مختلف مکاتب فکر کے مسلمان عربی میں خیال آرائی کر رہے تھے اور موضوع تھا ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہودیوں کی طرف سے کئے ہوئے جادو کا اثر‘.اس دوران ایک مراکشی مسلمان شریک گفتگو ہوا اور اس نے اس باطل نظریہ کے خلاف ایسے مسکت اور معقول جواب دیئے کہ سب بہت خوش ہوئے اور پوچھنے لگے کہ یہ زبردست معلومات اور مضبوط دلائل آپ نے کہاں سے حاصل کئے ہیں؟ اس مراکشی مسلمان نے کہا کہ میں نے جماعت احمدیہ کے انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے عربی لڑیچر اور رسالہ القوی سے یہ دلائل اخذ کئے ہیں.اس پر ان سے کہا گیا: اس کا مطلب ہے تم احمدی ہو؟ وہ کہنے لگے کہ میں احمدی تو نہیں مگر اس بات میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ احمدیوں کے اکثر عقائد سے مجھے اتفاق ہے.انہی کے عقائد اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی شکل میں پیش کرتے ہیں جو اصل، حقیقی، خوبصورت اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہے.اسی طرح امیر صاحب سینیگال محترم منور احمد صاحب خورشید نے MTA جرمنی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب سے انٹرنیٹ پر مجلہ القوی دیا جانے لگا ہے فوری تبلیغی و تربیتی ضرورتیں پوری کرنے میں بڑی آسانی ہوگئی ہے.ہم انٹرنیٹ سے ”التقوی“ کے بنے بنائے مضامین فورا لے کر چھاپ لیتے ہیں اور اس سے نو مبائعین کی بر وقت راہنمائی ہو جاتی ہے.مجلہ القوی کا خلافت جوبلی نمبر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شفقت اور نصائح کی روشنی میں مجلّہ التقوی کا خلافت جوبلی نمبر تیار ہوا جس میں خلافت کے موضوع پر مضامین، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کے مبارک ادوار میں ہونے والی ترقیات، اہم واقعات، تحریکات ، اور عرب ممالک میں جماعت احمدیہ کی تاریخ، مبلغین کرام کی خدمات، صلحاء العرب
مصالح العرب.....جلد دوم 263 وابدال الشام کا ذکر خیر، جماعت احمدیہ کی عربوں کے لئے خدمات اور عصر حاضر کے عرب احمدیوں کے تاثرات اور سینکڑوں قدیم و جدید احمدیوں کی تصاویر محفوظ کر دی گئی ہیں.تازہ واقعات التقویٰ کے بارہ میں اس مضمون کے آخر پر دوتازہ واقعات درج کئے جاتے ہیں.سیرالیون کے علاقے Rukupur ( روکو پور) میں ایک استاد ہیں جو عربی نہیں جانتے لیکن عربی سے لگاؤ ہے.ہمارے مبلغ مکرم محمدنعیم اظہر صاحب نے انہیں التقویٰ کے بعض شمارے دیئے، جن میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر بعض مضامین تھے، ان استادصاحب نے کسی عرب سے پڑھوا کے یہ مضامین سنے، اور ان کا مفہوم جاننے پر احمدی ہو گئے، یہ 2003ء کا واقعہ ہے.نائیجر کے مبلغ سلسلہ مکرم اصغر علی بھٹی صاحب نے ایک تازہ واقعہ ارسال کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ: کچھ دنوں کی بات ہے کہ خاکسار نائیجر کے شہر برنی کونی“ میں ایک دکان سے نکل کر گاڑی ریورس کر رہا تھا شیشہ میں پیچھے دیکھا تو ایک شخص بڑے ٹرک سے اتر کر میری گاڑی کی طرف دوڑتا آ رہا تھا اور دونوں ہاتھوں سے رکنے کا اشارہ بھی کر رہا ہے.خاکسار نے گاڑی کھڑی کر لی اتنے میں وہ شخص بھی پہنچ گیا، سلام کے بعد اس نے پوچھا: احمدیہ؟ یعنی کیا آپ کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے؟ میں نے کہا جی میں جماعت احمدیہ کا مبلغ ہوں.اس نے کہا : میں ایک ٹرک ڈرائیور ہوں.الجزائر کا رہنے والا ہوں اور اس وقت براستہ نائیجر اسی طرف جا رہا ہوں.ابھی اس شہر سے گزرتے ہوئے آپ کی گاڑی پر جماعت کا سٹکر دیکھا تو آپ سے ملنے کے لئے آگیا.اس کے ہاتھ میں رسالہ التقویٰ کی بہت پرانی کا پی تھی جو اس کو سفر کے دوران مالی میں کسی نے دی تھی.اس نے مجھے پرانی کاپی دکھاتے ہوئے بتایا کہ اس میں درج تمام مضامین اس نے اتنی بار پڑھے ہیں کہ وہ اسے زبانی یاد ہو گئے ہیں.یہ کہہ کر اس نے مجھ سے رسالہ التقویٰ کی کچھ کا پیاں مانگیں.میں نے کہا کہ میرے پاس گاڑی میں تو نہیں ہیں تاہم مشن ہاؤس
مصالح العرب.....جلد دوم 264 جا کر دی جا سکتی ہیں.اس نے کہا کہ ابھی اس کا سفر بہت لمبا ہے اور رکنے سے قاصر ہے، لہذا اس نے مجھ سے ایڈریس وغیرہ لے لیا اور وعدہ کر کے گیا ہے کہ جب اگلی دفعہ اس شہر سے گزرے گا تو جماعت کے بارہ میں تفصیل سے بات ہوگی.جلسہ سالانہ برطانیہ 201 کے دوسرے دن کے خطاب میں حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: امسال 7 جولائی 2011ء کوٹوکیو میں انٹر نیشنل بک فیئر ز کے موقع پر سعودی عرب کے سفیر نے بھی جماعت کے سٹال پر وزٹ کیا اور قرآنِ کریم کے تراجم کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی خدمات کو سراہا.عربی زبان میں لٹریچر کا پوچھا، اتفاق سے اُس وقت سب سے اوپر التقوی کا ایک پرانا شمارہ پڑا ہوا تھا.سفیر صاحب نے اُسے کھول کر دیکھنا شروع کیا تو جو صفحہ سب سے پہلے کھلا اس پر مسجد فضل لندن کے افتتاح کے موقع پر شاہ فیصل کی تصویر اور اہلِ عرب کے لئے جماعت احمدیہ کی خدمات کا تذکرہ تھا.سفیر موصوف نے غیر معمولی دلچسپی سے مضمون کو پڑھنا شروع کیا اور جماعت کا تعارف حاصل کرنے کے لئے سٹال پر بیٹھ گئے.بعد میں اُنہیں باقی لٹریچر پہنچایا گیا.
انتوی کے ادارتی اور تحریری بورڈ کی حضرت امیر المو منین خلیفة اصبح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ 2009 میں ایک یادگار تصویر
اراکین عربک ڈیسک کی حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ 2009 میں ایک یادگار تصویر
مصالح العرب.جلد دوم 265 بلا دعربیہ میں مزید مبلغین کی روانگی عربی زبان میں تبلیغی لٹریچر اور کتب کے تراجم کی تیاری کے لئے مرکز کی طرف سے وقتاً فوقتاً مبلغین کرام کو عربی زبان کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے عرب ممالک میں بھیجا جاتا ہے.1993 ء سے جماعت کی طرف سے بعض مبلغین کو بلا دعر بیہ میں بھیجنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جو بفضلہ تعالیٰ آج تک جاری ہے.اس کھیپ کے پہلے مبلغ مکرم عبد المجید عامر صاحب حال عربک ڈیسک یو کے ) تھے.آئیے ان سے ان کے اس سفر کی بابت سنتے ہیں.جامعہ احمدیہ میں داخلہ اور عربی زبان سے شغف میں نے1972ء میں جامعہ احمد یہ ربوہ میں داخل ہو کر 1979ء میں شاہد کا امتحان پاس کیا.جامعہ کے زمانہ میں عربی زبان سے خاص شغف تھا خصوصا ادب عربی کی بعض کتب سے جو ذاتی مطالعہ میں ہوتی تھیں.اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ عربی زبان کے کسی ایک رائٹر کا نام لوں جو میرے نزدیک سب سے بہتر ہے تو میں مصطفی لطفی المنفلوطی کا نام لوں گا، ان کی کتاب العبرات “ کا تو جواب نہیں، اس کتاب کے مطالعہ نے میرے دل میں عربی ادب کا غیر معمولی شوق پیدا کر دیا.مصطفى الطفی منفلوطی (1876 ء-1924ء) مشہور مصری ادیب ہیں جو اپنے منفرد عربی اسلوب کی وجہ سے پوری عرب دنیا میں خاص مقام رکھتے ہیں.والدہ ترکی ہونے کے باوجود یہ عربی کے عہد ساز ادیب بنے ، اور فریج زبان کے نہایت محدود علم کے باوجود بعض دوستوں کی مدد سے بے شمار فرانسیسی روایات کا ایسے انداز میں ترجمہ کیا کہ ہر کتاب اور ہر روایت ادب عربی کا
مصالح العرب.....جلد دوم 266 شہ پارہ بن گئی.شاید انہیں غم و دکھ کو نہایت مؤثر طریق پر بیان کرنے کی ماورائی قوت عطا ہوئی تھی.ان کی کتاب ” العبرات مختلف کہانیوں کا مجموعہ ہے.اس کا مطلب ہے ” آنسو، اور یہ حقیقت ہے کہ ان کہانیوں کو پڑھ کر آنسو نکل آتے ہیں.ندیم } جامعہ کا مقالہ عربی زبان سے مذکورہ شغف کی بناء پر ہی میں نے جامعہ کے آخری سال میں مقالہ کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”شہادۃ القرآن" کا عربی ترجمہ کیا تھا.اور شاید جامعہ احمدیہ میں مقالہ کے طور پر کسی کتاب کے عربی ترجمہ ہونے کا یہ پہلا موقع تھا.میرے اس مقالہ کے نگران مکرم ملک مبارک احمد صاحب ( مرحوم ) تھے، جو کہ عربی زبان کے علم میں ایک سند کی حیثیت رکھتے تھے.ظاہر ہے مجھے تو عربی زبان کا سطحی ساعلم تھا لیکن ملک صاحب نے اس ترجمہ میں میری بہت مدد کی اور ہر قدم پر راہنمائی فرمائی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.آمین.بیرون ممالک خدمت کی توفیق اور عربوں سے رابطہ جامعہ پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ پاکستان میں مختلف جماعتوں میں خدمت کی توفیق پائی، پھر 1986ء میں پہلی دفعہ سویڈش زبان سیکھنے کے لئے مجھے سویڈن بھجوادیا گیا.جہاں میں نے شروع شروع میں سکول میں داخلہ لے کر زبان سیکھی لیکن بعد میں امیر ومشنری انچارج کی ذمہ داری کی وجہ سے اس طریق پر زبان سیکھنے کا سلسلہ نہ چل سکا.ان دنوں سویڈن میں ایک مصری احمدی مصطفی کامل جامع صاحب رہا کرتے تھے جن سے اکثر رابطہ رہتا تھا.ان دنوں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے خطبات کی کیسٹس مختلف ممالک میں ارسال کی جاتی تھیں، اور عربی ترجمہ میسر نہ ہونے کی وجہ سے مصطفی کامل صاحب انگریزی ترجمہ سنا کرتے تھے ، اور کئی دفعہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ حضور کا خطبہ سنتے جاتے اور روتے جاتے تھے.اکثر کہا کرتے تھے کہ حضور انور کا اگلا خطبہ آنے تک میں پہلے خطبہ کو متعدد بار سنتا ہوں.خدا کے فضل سے وہ آج بھی زندہ ہیں اور اخلاص کے اسی اعلیٰ معیار پر قائم
مصالح العرب.جلد دوم 267 اس کے بعد 1989ء میں میرا تبادلہ سیرالیون ہوگیا.وہاں پر بھی بعض عرب فیملیز موجود تھیں لیکن کئی دہائیوں سے وہاں پر ہی رہنے کی وجہ سے یہ عرب صحی عربی سے بہت دور ہو گئے تھے.سیرالیون کے دوسرے بڑے شہر کینیا میں ایک لبنانی الاصل احمدی مکرم خلیل احمد سکیکی صاحب رہتے تھے ان کے ساتھ میرا رابطہ رہتا تھا، کیونکہ ان کی عربی کافی اچھی تھی ، وہ اکثر رسالہ التقویٰ“ پڑھتے تھے.انہوں نے کچھ عربی قصیدے بھی لکھے جن میں سے بعض النقوی میں شائع بھی ہو چکے ہیں.عربی زبان میں مخصص 1991ء میں جب میں سیرالیون سے واپس پاکستان گیا تو بعض دیگر مربیان کرام کے ساتھ میرا نام بھی عربی زبان میں تخصص کے لئے پیش ہوا.تخصص کے ساتھ حسب ارشاد جامعہ احمدیہ میں عربی زبان کی تدریس کی ڈیوٹی بھی ادا کرنے کا موقعہ ملا.عربی زبان کی تعلیم کے لئے شام روانگی میں ابھی پاکستان میں ہی تھا کہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع حمہ اللہ کا ارشاد موصول ہوا کہ پاکستان میں موجود مختلف عرب ممالک کے سفارتخانوں سے رابطہ کر کے جائزہ لوں کہ کسی عرب ملک کا سٹڈی ویزامل سکتا ہے یا نہیں.مجھے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کا کم از کم میرے لئے کوئی امکان نہیں.کیونکہ تقریباً سب ممالک کی طرف سے دو بنیادی معیار تھے جن پر میں پورا نہیں اتر تا تھا.ایک تو تعلیم بی اے ہونی چاہئے تھی جبکہ میں ان کے لحاظ سے محض میٹرک پاس اتا تھا.تعلیم یاے تھی کہ میں ان حال تھا، دوسرا میری عمران کی مطلوبہ عمر سے زیادہ تھی.1993ء میں مجھے جلسہ سالانہ برطانیہ میں شمولیت کی توفیق ملی.اور بعد از جلسہ واپسی سے ایک دن قبل جب حضور انور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو حضور نے دریافت فرمایا کہ آپ کا پروگرام کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور کل میری فلائٹ ہے.آپ نے فرمایا: کوئی جلدی کی ضرورت نہیں ، یہاں عربک ڈیسک میں بیٹھ کر کام سیکھو اور یہاں سے مختلف عرب ممالک کے
مصالح العرب......جلد دوم سفارتخانوں سے رابطہ کر کے دیکھو کہ آپ کو ویزامل سکتا ہے یا نہیں.268 لندن میں مختلف عرب سفارتخانوں سے رابطہ کیا تو وہی جواب ملا جو پاکستان میں ملا تھا بلکہ انہوں نے ایک بات کا اضافہ بھی کر دیا کہ ہم زائر کو اس طرح کا ویزہ نہیں دے سکتے بلکہ اسے اپنے ملک میں جا کر ویزہ لینا ہوگا.حضور انور نے ایک مخلص احمدی عرب دوست کا نام لے کر فرمایا کہ ان سے کہیں کہ اس بارہ میں کوشش کریں.چنانچہ اس احمدی دوست کی کوششوں سے مجھے شام کا ویزہ مل گیا اور میں اکتوبر 1993ء میں شام پہنچ گیا.انسٹیٹیوٹ میں داخلہ اور حضور گا پر حکمت ارشاد ابتدائی کچھ دن ہمارے سیرین احمدی بھائی مکرم مسلم الدروبی صاحب کے گھر پر گزار.بعد ازاں غیر ملکیوں کے لئے عربی سکھانے والے حکومتی انسٹیٹیوٹ میں مجھے داخلہ مل گیا جس کا نام معهد تعليم اللغة العربية لغير الناطقين بھا“ تھا.داخلہ سے قبل میرا ہلکا سا ٹیسٹ لیا گیا اور زبان کے معیار کے لحاظ سے مجھے اس کی آخری کلاس میں رکھا گیا.لیکن چند دن کی پڑھائی کے بعد میں نے محسوس کیا کہ یہ انسٹیٹیوٹ بہت ابتدائی قسم کا ہے جس سے شاید مجھے خاطر خواہ فائدہ نہ ہو سکے گا.لہذا میں نے اپنی یہ رائے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں لکھنے کے ساتھ یہ بھی عرض کی کہ اگر ارشاد ہو تو کسی بہتر سکول میں داخلہ کی کوشش کی جائے.کچھ دنوں کے بعد حضور انور کا ارشاد موصول ہوا کہ مجھے پتہ ہے آپ کو کتنی عربی آتی ہے.آپ تو اس انسٹیٹیوٹ کی آخری کلاس میں ہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ آپ اس کی پہلی کلاس میں منتقل ہونے کی کوشش کریں اور بچوں کی طرح پڑھیں.چنانچہ میں نے ایسے ہی کیا.اور یہی فیصلہ درست تھا کیونکہ مجھے عربی زبان کے بڑے بڑے لفظ اور جملے اور قدیم عربی ادب کے بارہ میں تو کچھ علم تھا لیکن بنیادی امور سے اس قدر شناسائی نہ تھی.مختصر دورانیہ کی ان پہلی کلاسوں میں پڑھنے سے یہ بنیادی امور راسخ ہو گئے.اس انسٹیٹیوٹ میں تقریباً ایک سال تک تعلیم حاصل کی.چونکہ سکول کی پڑھائی تو بالکل ہلکی پھلکی تھی اور کسی عرب ملک میں قیام سے اصل مقصد وہاں رہ کر کثرت سے زبان بولنے، ذاتی طور پر کثرت مطالعہ کرنے اور ترجمہ وغیرہ کے
مصالح العرب.....جلد دوم 269 کام کی پریکٹس کرنا تھا.اس لئے میرا طریق یہ تھا کہ روزانہ ایک عربی اخبار خرید تا اور اس کو شروع سے لے کر آخر تک مکمل پڑھنے کی کوشش کرتا تھا.شروع میں تو جو الفاظ اور استعمالات مشکل لگتے تھے میں ان کو لکھ لیا کرتا تھا اور سکول میں کلاس شروع ہونے سے پہلے یا بعد اپنے استاد سے ٹائم لے کر سمجھانے کی درخواست کرتا.فیصلہ آپ خود کریں، خدا کی بات ماننی ہے یا علماء کی ! میرے استاد کا نام عرفان المصری تھا اور وہ نہایت قابل اور مخلص انسان تھے جن کی مدد اور راہنمائی سے میں نے بہت فائدہ اٹھایا.اس استاد کا طریق تھا کہ تدریس کے دوران بعض اوقات مختلف مسائل کے بارہ میں اسلامی رائے کا بھی ذکر کر دیا کرتا تھا، شاید اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ یورپین سٹودنٹس اس کے خلاف ضرور بولیں گے اور اس طرح عربی بولنے کی پریکٹس ہوگی.ایک دن اس نے ذکر کیا کہ اسلام چار قسم کے آدمیوں کو قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے جن میں ایک مرتد بھی ہے.میں نے عرض کیا کہ آپ کی شخصیت ہمارے لئے بڑی محترم ہے لیکن مجھے آپ کے اس نظریہ سے اختلاف ہے.انہوں نے کہا: پھر آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفَراً لَّمْ يَكُن اللهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلاً - (النساء: 138) یقیناً وہ لوگ جوایمان لائے پھر انکار کر دیا پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے، اللہ ایسا نہیں کہ انہیں معاف کر دے اور انہیں راستہ کی ہدایت دے.اس کے بعد میں نے جماعت کا موقف اور استدلال پیش کیا کہ اگر مرتد کی سزا قتل ہوتی تو پہلی دفعہ کفر اختیار کرنے کے بعد ایمان لانے کی نوبت ہی نہ آتی بلکہ اس کی بجائے تو پھر قتل کا حکم ہونا چاہئے تھا.پھر متعدد دفعہ ایمان لانے اور ارتداد اختیار کرنے کے باوجود کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ بالآخران کو قتل کر دو بلکہ یہ ذکر ہے کہ اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا.میری یہ بات سن کر وہ اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر کچھ دیر تو خاموش رہے پھر بولے کہ آپ
مصالح العرب.....جلد دوم کی بات تو منطقی ہے لیکن تمام علماء کا تو یہی فتویٰ ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے.270 میں نے عرض کیا کہ میں نے اپنی طرف سے کوئی بات پیش نہیں کی.میں نے تو قرآن کریم کی آیت پیش کی ہے، اب آپ کے سامنے ایک طرف علماء کا فتوی ہے ایک طرف قرآن کریم کا فرمان ہے، آپ خود فیصلہ کر لیں کہ آپ نے کس کی بات ماننی ہے.نیز میں نے عرض کیا کہ اس غلط عقیدہ کے رد میں صرف یہ ایک ہی دلیل نہیں ہے بلکہ اگر آپ چاہیں تو میں اس موضوع پر آپ کو مزید مواد فراہم کر سکتا ہوں.ان کی خواہش میں نے اگلے دن ہمارے سیرین احمدی مکرم محمد منیر ادبی صاحب کی کتاب و قتل المرتد انہیں لا کر دی.ان کی یہ کتاب بنیادی طور پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی کتاب ”مذہب کے نام پر خون اور اس موضوع پر حضور کے دیگر لیکچرز سے ماخوذ ہے.چند دنوں کے بعد میرے استاد نے یہ کتاب مکمل پڑھ کر جب مجھے واپس دی تو کہنے لگے کہ واقعی یہی درست رائے ہے جو نہایت منطقی اور مدلل ہے اور آج مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہی حقیقی اسلامی نقطۂ نظر ہے.اسی طرح کے بعض دیگر امور کی وجہ سے استاد عرفان کے ساتھ ایک بہت اچھا احترام کا تعلق قائم ہو گیا تھا.ایک دن انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا ایک عزیز ہے جو کسی عرب ملک میں چیف جسٹس بھی رہے ہیں انہوں نے اسلامی سزاؤں کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جو مختلف یو نیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کی جائے گی، اور میری خواہش ہے کہ آپ بھی اسے ایک دفعہ دیکھ کر اپنی رائے دیں.مجھے اس کتاب کا مسودہ دے دیا گیا جس کو پڑھ کر میں نے متعدد مقامات پر اپنے مختصر نوٹس لکھ دیئے.جب مؤلف نے ان کو پڑھا تو استاد عرفان سے کہا کہ میں اس شخص سے ملنا چاہتا ہوں.اور یوں ایک دن استاد عرفان مجھے لے کر اس کے گھر پہنچ گئے.اس نے بھی استاد عرفان کی طرح مجھے کہا کہ میں نے تو علماء کی متفق علیہ آراء کا ذکر کیا ہے لیکن آپ نے اپنے نوٹس میں آیات واحادیث کے حوالے سے مختلف رائے دی ہے.اگر چہ نہ آپ کی بات بالکل درست ہے لیکن اگر میں اسے درج کر دوں تو نہ تو میری یہ کتاب ہی کسی کالج یا یونیورسٹی کے نصاب میں لگ سکے گی.میں نے انہیں بھی وہی جواب دیا جو اس سے قبل استاد عرفان کو دیا تھا کہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی بات ماننی.یا نام نہاد علماء کی.
مصالح العرب.....جلد دوم سیر یا میں قیام کے دوران بعض علمی کام 271 سیر یا میں قیام کے دوران مختلف مضامین کے ترجمہ کے علاوہ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کی طرف سے حضور انور کے ہومیو پیتھی کے موضوع پر ہونے والے لیکچرز کا عربی ترجمہ کرنے کا ارشاد ہوا تھا.چنانچہ ان لیکچرز کی کیسٹس مجھے بذریعہ پوسٹ ارسال کی جاتی تھیں جن کو سن کر پہلے میں اردو میں لکھ لیتا تھا پھر اس کا تحریری طور پر ترجمہ کر لیتا تھا.سیریا میں قیام کے دوران میں نے تقریبا ہیں یا پچیس لیکچرز کا ترجمہ مکمل کر لیا تھا.سیریا سے واپسی سیر یا میں پونے دو سال یا اس سے کچھ زائد عرصہ کے بعد میں نے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں لکھا کہ میرے خیال میں شاید اب مجھے مزید یہاں رہنے میں زبان کے لحاظ سے فائدہ نہیں ہوگا.حضور نے فرمایا کہ پھر پاکستان واپس جائیں اور جامعہ احمدیہ میں پڑھائیں.پاکستان جانے سے قبل میں نے حضور انور کی خدمت میں لکھا کہ اگر اجازت ہو تو پاکستان جانے سے قبل حضور انور کی ملاقات کا شرف حاصل کرتا جاؤں.حضور نے ارزاہ شفقت اجازت مرحمت فرما دی اور جب میں ملاقات کے لئے حضور انور کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور انور نے فرمایا کہ آپ یہاں ایک طرف کسی گوشے میں لگ کے بیٹھ جائیں اور ہومیو پیتھی کے بقیہ لیکچرز کا عربی ترجمہ کریں.دوسری طرف حضور نے بعض احباب جماعت کو میرے وزٹ ویزہ کو مستقل ویزہ میں بدلوانے کی کوشش کرنے کی ہدایت فرمائی.جب حضور انور کی خدمت میں یہ رپورٹ پیش ہوئی کہ یہاں لندن سے ایسا ہونا ناممکن ہے تو حضور نے فرمایا پھر پاکستان جا کر اس کی کوشش کریں اور ویزہ لگنے پر فیملی کے ساتھ ہی آجائیں.یوں پاکستان سے ویزہ لے کر فیملی کے ساتھ میں اپریل 1997ء میں یہاں حاضر ہو گیا.
مصالح العرب.جلد دوم چار مزید مر بیان کی شام روانگی 272 مکرم عبدالمجید عامر صاحب کے قیام شام کے دوران ہی وہاں پر عربی زبان کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے مزید مربیان بھیجنے کی کارروائی ہونا شروع ہوئی اور وہاں کے بعض احمدی احباب کی کوششوں سے ہم چار مربیان ( محمد احمد نعیم صاحب، داؤداحمد عابد صاحب، نوید احمد سعید صاحب اور خاکسار محمد طاہر ندیم ) کو وہاں پر غیر ملکیوں کو عربی سکھانے والے ایک حکومتی انسٹیٹیوٹ میں داخلہ مل گیا جس کی بناء پر ویزے کا حصول بھی نسبتاً آسان ہو گیا اور ہم 30 رستمبر 1994ء کو ربوہ سے شام کے لئے عازم سفر ہوئے اور یکم اکتوبر کی صبح دمشق پہنچ گئے.مکرم محمد احمد نعیم صاحب نے 1990ء میں، مکرم داؤد احمد عابد صاحب اور نوید احمد سعید صاحب نے 1991ء میں جبکہ خاکسار نے 1992 میں جامعہ سے شاہد کا امتحان پاس کیا.1992ء میں ہم چاروں کا تخصص ادب عربی اور صرف ونحو میں ہوا تخصص کے ساتھ ساتھ جامعہ میں بعض کلاسوں میں عربی اور صرف ونحو کی تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا تا آنکہ شام جانے کی کارروائی مکمل ہوگئی.دمشق پہنچ کر حکومتی انسٹیٹیوٹ میں ہمارے داخلہ کی رسمی کارروائی کے بعد کلاسیں شروع ہو گئیں جو ہفتہ میں دوتین دن شام کے وقت مختصر دورانیہ کی کلاسوں کی شکل میں تھیں.اس انسٹیٹیوٹ میں تقریباً ڈیڑھ سال تک تعلیم حاصل کی، پھر دمشق یو نیورسٹی کے تحت غیر ملکیوں کو عربی سکھانے والے ایک انسٹیٹیوٹ میں تین ماہ کا ایک کورس مکمل کیا.اس کے بعد کوشش کی تو دمشق یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا اور پھر یو نیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے لئے چار سال مزید وہاں قیام کیا.یوں تقریباً چھ سال یعنی 1994 ء سے لے کر 2000ء تک سیریا میں قیام رہا.اب اس عرصہ کی یادیں، واقعات، اور قابل ذکر امور پیش خدمت ہیں.جماعتی حالات گو کہ شام کی جماعت بہت پرانی ہے لیکن ایک لمبے عرصہ تک حکومتی پابندیوں کی وجہ سے جماعتی سرگرمیوں کی اجازت نہ ہونے کے سبب افراد جماعت تو موجود تھے مگر جماعت کی کوئی
273 مصالح العرب.....جلد دوم صورت موجود نہ تھی.اور اس پابندی پر لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود بڑی عمر کے احمدی تو ابھی تک احمدیت پر قائم تھے لیکن آپس میں میل ملاپ کی کمی اور جماعتی سرگرمیوں اور اجتماعات کے نہ ہونے کی وجہ سے آئندہ نسل احمدیت سے قدرے دور ہو گئی تھی.نیز نئی نسل کے اکثر نو جوان پرانے احمدیوں کو جانتے تک نہ تھے.اس عرصہ میں ان کو نہ تو آپس میں بیٹھنے اور جماعت کے حالات سننے سنانے کا کوئی قابل ذکر موقعہ ملا تھا، نہ آپس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام کی سیرت کے ایمان افروز واقعات کے تذکرے ہوئے.اس لئے ان میں کی احمدیت کا حقیقی رنگ منتقل نہیں ہو سکا تھا.ایک خوشگوار تبدیلی ہمارے شام میں پہنچنے کے بعد ہمیں مرکز کی یہی ہدایت تھی کہ آپ کے قیام کی غرض عربی زبان کی تعلیم ہے اس کے علاوہ وہاں کے احمدیوں سے میل ملاپ میں بھی ملکی قوانین کو ملحوظ رکھیں.وہاں کے قوانین و حالات تو اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ کوئی دینی سرگرمیاں منعقد ہوں.تاہم ملنے ملانے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی.لہذا جب جب احمدیوں کو پتہ چلا وہ ہمیں ملنے کیلئے آتے رہے.دوسری طرف ہم بھی وقتا فوقتا پرانے اور نئے احمدیوں سے ملنے کے لئے آتے جاتے رہتے تھے.کئی دفعہ ایسے ہوتا کہ ہمارے ہاں کوئی بزرگ احمدی تشریف لائے ہوتے اور کوئی نوجوان احمدی ملنے آجاتا تو ہمیں یہ جان کر حیرانی ہوتی کہ ایک ہی شہر میں رہنے کے باوجود یہ ان کی پہلی ملاقات ہے.اس لئے ہمیں ہی ان دونوں کو ایک دوسرے سے متعارف کروانا پڑتا تھا.اس کے علاوہ کئی احمدی احباب وقتاً فوقتاً دعوتیں بھی کرتے رہتے تھے، نیز ہم بھی احباب جماعت کی دعوتیں کرتے تو قصدا کچھ نئے اور کچھ پرانے احمدیوں کو بلا لیتے.اس طرح ان سب کا آپس میں تعارف ہو جاتا تھا.یوں ملکی قوانین کے اندر رہتے ہوئے جماعتی سرگرمیوں کے بغیر محض ملنے ملانے سے ہی افراد جماعت کے آپس میں تعلقات مضبوط ہو گئے.کئی نو جوانوں کا ہمارے ہاں آنا جانا ہو گیا.ہم بھی ان کے ساتھ بولنے سے فائدہ اٹھاتے اور ان کو بھی مختلف موضوعات کے بارہ میں اپنی معلومات کسی قدر بڑھانے کا موقع مل جاتا تھا.اُس وقت ان امور کی بہت اہمیت تھی، کیونکہ جماعت کی کتابیں میسر نہ تھیں، آپس کے
274 مصالح العرب.....جلد دوم تعلقات بہت محدود ہو کر رہ گئے تھے، بہت کم احمدی خلیفہ وقت کو خط لکھتے تھے اور جو لکھتے تھے ان کو خلیفہ وقت کی طرف سے مرسلہ جواب پہنچتے نہیں تھے بلکہ ضبط ہو جایا کرتے تھے.آج خدا تعالیٰ نے اس طرح کی بندشوں کو ختم کر دیا ہے.آج احمدی جہاں کہیں بھی ہوں، عربی ویب سائیٹ ، عربی چینل اور ای میلز کے ذریعہ خلیفہ وقت اور تمام دنیا کے احمدیوں کے ساتھ رابطہ کر سکتا ہے.اور یہ ظاہری قدغنیں بے معنی ہوگئی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے دروازے کھول دیئے ہیں.ایک یادگار رات گو کہ گاہے گاہے احمدی احباب کے ساتھ ملاقاتوں میں مختلف امور کے بارہ میں بات ہوتی رہتی تھی لیکن ایک رات بطور خاص یادگار ہے.دمشق سے چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر حوش عرب نامی ایک بستی میں کچھ احمدی رہتے ہیں انہوں نے ہمیں دعوت پر بلایا اور شام کے کھانے کے بعد انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے بارہ میں کچھ بتا ئیں.ہم باری باری حضور علیہ السلام کی سیرت کے واقعات بیان کرتے رہے، یہ سلسلہ نماز تہجد تک جاری رہا.ہمارا پڑھائی کا طریق چونکہ ہم چار دوست ایک ہی گھر میں رہتے تھے.اکثر اوقات مرکزی لائبریری چلے جاتے تھے جہاں مختلف پڑھے لکھے دوستوں کے ساتھ بات چیت کے علاوہ نئے عربی اخبارات ورسائل اور کتب کا مطالعہ کرنے کا موقع مل جاتا.گھر میں رہنے کی صورت میں گھر میں موجود اخبارات و کتب کے علاوہ مختلف آرٹیکلز کا ترجمہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے، نیز لقاء مع العرب اور مختلف عربی چینلز پر خبریں باقاعدگی سے دیکھتے تھے.ہم آپس میں بھی عربی بولنے کی کوشش کرتے تھے نیز گھر میں فجر کے بعد تفسیر کبیر (عربی) کا درس ہوتا اور خطبہ جمعہ بھی عربی زبان میں ہوتا تھا.
مصالح العرب.جلد دوم عصر حاضر کے عرب اور عربی زبان 275 سیر یا جانے سے قبل ہمارے ذہنوں میں یہ تصور تھا کہ وہاں لوگ قسطی عربی بولتے ہوں گے اور ہم جہاں بھی جائیں گے اور جس کے ساتھ بولیں گے ہماری عربی کی پریکٹس ہوتی جائے گی اور زبان صیقل ہوتی رہے گی.لیکن ابتدائی ایام میں ہی ہمیں اندازہ ہو گیا کہ یہ تصور غلط تھا.قومی اور دفاتر کی رسمی زبان فصیحی عربی ہونے کے باوجود وہاں ہر شخص عامیہ یعنی اصل عربی زبان کا بگاڑا ہوا لوکل لہجہ استعمال کرتا تھا اور پڑھا لکھا طبقہ بھی اس نہج پر چل رہا تھا.ہمیں یہ بات نہایت عجیب معلوم ہوتی تھی.کئی دفعہ ہم بولنے والے سے کہہ بھی دیتے تھے کہ ہمارے ساتھ صحیح عربی میں بات کریں.چنانچہ ہماری اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے وہ صحی عربی بولنا شروع کر دیتا تھا اور شاید یہ سمجھ رہا ہوتا تھا کہ وہ نہایت فصیح عربی بولے جا رہا ہے جبکہ در حقیقت محض ایک دو جملوں کے بعد وہ ہماری درخواست بھول کر اپنی لوکل زبان بولنا شروع کر دیتا تھا.اور راگر کبھی ہم دوبارہ یاد کروانے کی جرات کر لیتے تو ان میں سے کئی کا جواب یہ ہوتا تھا کہ ہم فصیحی عربی ہی تو بول رہے ہیں.افسوس کہ ایسی کوئی جگہ نہیں اس تجربہ کے باوجود ہمارا خیال تھا کہ کئی ایک ایسے مقامات ہوں گے جہاں پر ابھی بھی فصیح عربی بولنے والے پائے جاتے ہوں گے.لہذا ابتدائی ایام میں ہی میں نے اپنی ٹیچر سے پوچھا کہ مجھے دمشق میں کوئی ایسی جگہ بتائیں جہاں پر لوگ فصیح عربی بولتے ہوں تا کہ میں روزانہ وہاں جا کر کچھ وقت بتاؤں اور عربی سننے اور بولنے کی پریکٹس کر سکوں.وہ میری اس عجیب وغریب درخواست پر حیران رہ گئی اور کہنے لگی: افسوس کہ دمشق میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے.پھر اس نے بتایا کہ دمشق شہر کے وسط میں ضلعی دفاتر کے قریب ایک کیفے متقی الہافا نا ہے اس میں کسی زمانہ میں ادیب اور شعراء آکر بیٹھا کرتے تھے اور اکثر اوقات آپس میں فصیح عربی زبان میں گفتگو کرتے تھے.لیکن مجھے پتہ نہیں کہ ابھی تک ایسا ہوتا ہے یا نہیں.ایک دن خاکسار اور محترم نوید احمد سعید صاحب اس کیفے میں گئے جہاں پر ایک چائے کے کپ کی قیمت شاید 70
276 مصالح العرب.جلد دوم لیرہ ادا کرنی پڑی جبکہ باہر اسی کپ کی زیادہ سے زیادہ قیمت 10 سے 20 سیرین لیرہ کے درمیان تھی.بہر حال اس کیفے میں ہمیں کوئی ایسی نشست نہ ملی جس میں ادباء گفتگو کر رہے ہوں.بالآخر اس خیال سے کہ شاید ہفتہ کے کسی ایک دن یہ لوگ یہاں آتے ہوں ہم نے وہاں کام کرنے والے ایک شخص سے بھی پوچھا کہ کیا یہاں پر ادباء اور شعراء آکر بیٹھتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ محض چائے پینے کے انداز سے تو میں معلوم نہیں کر سکتا کہ یہ ادیب ہے اور یہ شاعر.اس کے اس جملہ میں ہمارے سارے سوالوں کا جواب تھا.جگ ہنسائی کا معیار ہم نے اپنا طریق بنا لیا تھا کہ جن عرب احباب کے ساتھ بیٹھتے ان سے درخواست کرتے کہ آپس میں بھی فصحی بولیں تا کہ ہم بھی فائدہ اٹھا سکیں.ایک دن دمشق کی سب سے بڑی لائبريرى مكتبة الأسد“ کے کیفے میں جامعہ دمشق کے بعض سٹوڈنٹس کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی موضوع پر بات چل نکلی اور ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پورے شام میں کوئی ایک بھی خاندان ایسا نہیں ہے جس کے افراد آپس میں فُصحی عربی بولتے ہوں.اس پر خاکسار نے ان سے کہا کہ آپ جو نئی نسل کے نوجوان ہیں وہ اس سلسلہ میں پہلا قدم کیوں نہیں اٹھاتے اور اپنے اپنے گھروں میں فصحی عربی بولنی شروع کیوں نہیں کرتے ؟ اس پر ان میں سے ایک نے جو جواب دیا وہ مایوس کن تھا.اس نے کہا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم ایسا کریں اور معاشرے میں ہماری جگ ہنسائی ہو؟ منفرد جمهوری روایات دمشق یونیورسٹی میں ہمارے ابتدائی ایام تھے اور اگر مضمون مشکل ہوتا اور لیکچرار بھی لوکل زبان میں لیکچر دینا شروع کر دیتا تو ہمیں کچھ سمجھ نہ آتی تھی.اس لئے ہم اکثر کھڑے ہو کر درخواست کر دیتے تھے کہ براہ کرم فصحی بولیں تا کہ ہم بھی کچھ سمجھ سکیں.اکثر تو ہماری بات مان لیتے تھے.لیکن ایک لیکچرار نے ہماری اس درخواست پر کہا کہ جو زبان میں بول رہا ہوں اس کو نہ سمجھنے والے صرف آپ ہیں باقی سب کو سمجھ آرہی ہے.میں ابھی ہال میں موجود طالبعلموں
مصالح العرب.....جلد دوم 277 سے پوچھ لیتا ہوں کہ ان کا ووٹ کس زبان کے حق میں ہے.چنانچہ اسی وقت انہوں نے پوچھا کہ جو لوکل زبان میں لیکچر کے حق میں ہیں ہاتھ کھڑے کر دیں.اور ہمارے علاوہ سب کے ہاتھ کھڑے تھے.اس پر انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں تو جمہوریت ہے ہم تو اکثریت رائے کے حق میں ہیں.اور اکثریت کا فیصلہ ہے کہ لوکل زبان میں ہی لیکچر ہو.سیرین کلچرل سینٹر میں ہماری کوشش یہ ہوتی تھی کہ پڑھے لکھے افراد کے ساتھ ہماری علیک سلیک رہے تا کہ ان کی زبان سن کر اور ان کے ساتھ بات کر کے ہماری عربی زبان کی بھی پریکٹس ہوتی رہے.ان میں سے ایک دوست عربی ادب میں ڈاکٹریٹ کر رہے تھے اور بہت اچھے رائٹر اور نقاد اور متعدد کتب کے مصنف تھے.ایک دفعہ میں نے دنیا کے دکھ و آلام اور لوگوں کی بے حسی کے موضوع پر ایک چھوٹا سا مضمون لکھا جو بعد میں ایک ہفت روزہ عربی اخبار الاعتدال میں بھی شائع ہو گیا، یہ مضمون میں نے انہیں تصحیح کرنے کے لئے دیا.مجھے یاد ہے کہ پڑھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ تم نے بڑے مؤثر انداز میں لکھا ہے اور یہ رلا دینے والی تحریر ہے.شاید ان کے اسی حسن ظن کی وجہ سے انہوں نے ایک دن مجھے کلچرل سینٹر میں ایک سیمینار میں آنے کی دعوت دی جس میں اس دوست نے بطور میزبان اور ناقد شرکت کرنی تھی جبکہ سیمینار کا عنوان تها المهندسون القصاصون“ یعنی اس میں ایسے افسانہ نگاروں نے اپنے افسانے پیش کرنے تھے جو پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھے.اور اس کے بعد اس دوست نے ان پر اپنی ناقدانہ رائے دینی تھی.سیمینار اس طرح پر شروع ہوا کہ پہلے ایک افسانہ نگار اپنا افسانہ پڑھتا تھا پھر اس پر ہال میں موجود حاضرین کو اپنی اپنی رائے دینے کا موقع دیا جاتا تھا پھر آخر پر میز بان اپنی ناقدانہ رائے کا اظہار کرتا تھا.مجھے ان کے فلسفیانہ افسانوں کی تو کچھ خاص سمجھ نہ آئی تا ہم ایک بات سے مجھے بہت افسوس ہوا کہ ایک افسانہ نگار نے اپنے افسانہ میں کہیں کہیں فصحی کی بجائے لوکل زبان کے فقرات استعمال کئے تھے.جب اس کے بارہ میں حاضرین کی رائے لی گئی تو میں نے بھی اپنا ہاتھ کھڑا کر دیا.میرے اس میزبان دوست نے شاید اس خیال سے کہ ایک غیر ملکی ایک عربی
278 مصالح العرب.....جلد دوم ادیب کے افسانہ پر رائے دینے لگا ہے میری حاضرین کے سامنے کچھ تعریف بھی کر دی کہ ان کی عربی کافی اچھی ہے اور ان کے مضامین اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں وغیرہ (ان دنوں خاکسار کے چند مضامین سیرین اخبار الاعتدال میں شائع ہوئے تھے ) پھر مجھے مائیک پر بلایا.میں نے عرض کیا کہ مجھے ان افسانوں کے ادبی پہلؤوں کے بارہ میں تو زیادہ معلومات نہیں ہیں بلکہ ہم تو اس نظر سے ہی ان کا مطالعہ کرتے ہیں کہ ان میں استعمال شدہ الفاظ اور ان کے نئے استعمال اور نئی تراکیب کو یاد کر لیں اور اس طرح ہماری زبان زیادہ اچھی ہو جائے.لیکن مجھے بڑی حیرت ہوئی ہے کہ اس افسانہ نگار کے افسانہ کا ایک حصہ لوکل زبان پر مشتمل تھا.میرا ان سے سوال ہے کیا فصیح عربی زبان اب اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ بعض مفاہیم کو ادا کرنے کے لئے آپ کو لوکل زبان کی ضرورت پڑی ہے.اس پر اس افسانہ نگار نے میری بات ٹوک کر جواب دیا کہ یہ مفاہیم ہمارے کلچر کا حصہ ہیں اور میں نے لوکل زبان میں ان مفاہیم کو زیادہ واضح شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے.میں نے کہا کہ قارئین کرام کے ساتھ زیادتی ہوگی اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ آپ فصیح عربی میں لکھیں گے تو شاید وہ نہ مجھ سکیں.اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ آج عرب دنیا میں ہر عربی ملک کی علیحدہ زبان اور لہجہ ہے ہر قسم کے باہمی اتحاد کے دھاگے ٹوٹتے جارہے ہیں.ایک فصیح عربی زبان کا واحد دھاگہ ایسا ہے جو تمام عرب ملکوں میں اتحاد کی ایک صورت پیش کر رہا ہے اگر اس کو بھی توڑتے ہوئے ہر ملک والے اپنی اپنی لوکل زبان کو فصیح زبان پر فوقیت دینے لگ گئے تو پھر یہ آخری امید بھی جاتی رہے گی.میرا اتنا کہنا تھا کہ سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا.سیمینار ختم ہونے کے بعد کلچرل سینٹر کی انچارج خود میرے پاس آئی اور کہا کہ عربی زبان کے بارہ میں جس غیرت کا اظہار آپ نے کیا ہے اس پر میں سینٹر کی طرف سے آپ کا شکر یہ ادا کرتی ہوں.ایک کلاس ٹیچر کا تبصرہ غیر ملکیوں کو عربی زبان سکھانے کے لئے دمشق یونیورسٹی کے تحت ایک انسٹیٹیوٹ کھولا گیا ہے.یو نیورسٹی میں داخلہ سے قبل ہم نے اس انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لینے کی کوشش کی تو ہمیں اس کی آخری کلاس میں داخلہ ملا.اس کلاس میں بعض اوقات ہماری ٹیچر گھر سے کسی موضوع پر چند
279 مصالح العرب......جلد دوم فقرات لکھ کر لانے کے لئے کہتی تھی.ایک دن کسی موضوع پر خاکسار نے ایک صفحہ لکھا جس کو نہ پڑھنے کے بعد ٹیچر نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا ، کہنے لگی کہ یہاں تو یو نیورسٹی کے طالبعلم ایسا نہیں لکھ سکتے ، میں تمہیں یہاں استاد لگوا دوں گی.گو کہ اس انسٹیٹیوٹ کا تو کوئی خاص معیار نہیں تھا اور شاید ٹیچر کی اس بات میں مبالغہ بھی تھا پھر بھی اس کے یہ الفاظ میرے لئے بہت حوصلہ افزا ثابت ہوئے.”کاش آپ لوگ احمدی نہ ہوتے !!! حکومتی انسٹیٹیوٹ میں چونکہ طالبعلموں کی اکثریت یورپ اور امریکا سے تھی ، اور ان دنوں چیچنیا کے مسلمان لیڈر دودا بیف کی رشیا کے ساتھ ٹکر کا ذکر زبان زد عام تھا جس کی بناء پر ان غیر ملکی طالبعلموں کی طرف سے اسلام پر اکثر اعتراضات ہوتے رہتے تھے جن کا جواب کبھی کبھی استاد صاحب بھی دے دیتے تھے تاہم اکثر اوقات ہم مربیان میں سے کوئی نہ کوئی صحیح اسلامی نقطہ نظر پیش کر کے اس کا جواب دینے کی کوشش کرتا.ہماری کلاس میں ادھیڑ عمر کی ایک ترک مسلمان خاتون بھی تھیں جن کا خاوند ایک مصری بزنس مین تھا اس لئے ان کو عامیہ زبان تو آتی تھی لیکن فصحی سیکھنے کے لئے انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لیا تھا.یہ خاتون ایک شدت پسند مسلمان تھی جس کا پتہ اس بات سے بھی چلتا ہے کہ جس دن دو دا ییف مارا گیا اس نے روتے ہوئے ٹیچر سے کہا کہ آج کا دن کوئی معمولی دن نہیں ہے اور دو دا بیف کے بارہ میں آپ کو کچھ کہنا چاہئے.ٹیچر نے خود تو کچھ نہ کہا تاہم انہیں اجازت دے دی کہ آپ جو کہنا چاہتی ہیں سب کے سامنے آکر کہہ لیں.بہر حال انہوں نے جو کہنا تھا کہا اس کا غیر ملکی طلباء پر یہ اثر ہوا کہ ان میں سے کئی ان کی تقریر کے دوران ہی واک آؤٹ کر گئے.بہر حال اسلام پر مغربی طلباء کے اعتراضات کے جوابات اور صحیح اسلامی تعلیم پیش کرنے کی وجہ سے یہ خاتون ہمارا بہت احترام کرتی تھی اور اس نے کئی دفعہ کہا کہ آپ میرے بیٹوں کی طرح ہیں.جب ہم اس انسٹیٹیوٹ سے فارغ ہوئے تو آخری دن مکرم داؤد احمد عابد صاحب نے انہیں بتادیا کہ ہمارا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے.یہ بتانا تھا کہ وہ ایک لمحہ کے لئے بالکل سکتہ میں آگئیں، پھر اس طرح رونے لگیں جیسے ان کے کسی قریبی رشتہ دار کی وفات ہو گئی ہو.پھر
مصالح العرب.....جلد دوم 280 یوں گویا ہوئیں: مجھے آج شدید دھچکا لگا ہے، آپ سب اتنے اچھے مسلمان ہیں ، اسلام کا دفاع کرتے ہیں،اس لئے میرے دل میں آپ کا بہت زیادہ احترام ہے.کاش کہ آپ لوگ احمدی نہ ہوتے.کاش آپ مجھے یہ نہ ہی بتاتے.میں مرزا غلام احمد صاحب کو ایک بڑا عالم مان سکتی ہ ہوں، ایک ولی اللہ بھی مان سکتی ہوں، لیکن ان کو ایک نبی نہیں مان سکتی.ہم نے ان کے جذبات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کو یہی جواب دیا کہ ہم میں اگر کوئی اچھائی آپ کو نظر آتی ہے تو یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی ہے.لقاء مع العرب لقاء مع العرب کی ابتداء ہوئی تو اس وقت MTA کی نشریات عرب دنیا میں ” یوٹیل ساٹ‘( Eutelsat) کے ذریعہ دیگر عربی چینلز کے ساتھ ہی دیکھی جا سکتی تھیں.اس لئے احمدیوں کے ساتھ ساتھ غیر احمدی شامی عربوں میں بھی لقاء مع العرب ایک مقبول پروگرام بن گیا تھا.اس وقت وہاں ڈش لگانے والے حضرات ڈش سیٹ کر کے اس پر آنے والے چینلز کی فریکوینسی اور ان کے نام پر مشتمل ایک لسٹ بھی دیتے تھے تا کہ لوگ اپنی پسند کا چینل سہولت سے لگا سکیں.ہمارے ایک احمدی بھائی نے بتایا کہ جب انہوں نے ڈش لگانے والے سے یہ کہا کہ انہیں عربی چینلز کے علاوہ MTA کی فریکوینسی بھی سیٹ کر کے دیں تو ڈش لگانے والے نے تھوڑی تفصیل پوچھنے کے بعد کہا کہ مجھے سمجھ آگئی ہے یہ وہی چینل ہے جس پر اکثر سفید پگڑی اور نورانی چہرے والے ایک بزرگ نظر آتے ہیں.ہم ڈش لگانے والوں کے درمیان یہ چینل ”امیر المؤمنین چینل کے نام سے مشہور ہے.حضرت مرزا طاہر احمد الخلیفۃ الرابع ان دنوں میں جبکہ ہم حکومتی انسٹیٹیوٹ میں پڑھ رہے تھے ایک دن مکرم محمد احمد نعیم صاحب نے حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے کسی خطبہ سے ایک اقتباس کا ترجمہ کیا اور اپنے استاد مکرم عرفان المصری صاحب کو زبان کی اصلاح وتحسین کے لئے دکھایا.مکرم نعیم صاحب نے پہلی لائن میں لکھا تھا کہ قال حضرة مرزا طاهر احمد اور آگے اقتباس کا ترجمہ تھا.ابھی
مصالح العرب.....جلد دوم 281 انہوں نے حضور کا نام ہی پڑھا تھا کہ استاد عرفان نے بے ساختہ کہہ دیا حضرۃ مرزا طاہر احمد الخليفة الرابع مکرم نعیم صاحب نے بہت حیرانی کے عالم میں ان سے پوچھا کہ آپ ان کو کیسے جانتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ وہ لقاء مع العرب بڑی باقاعدگی سے دیکھتے تھے لیکن اب نہ جانے یہ چینل کہاں چلا گیا ہے.دراصل کچھ عرصہ کے بعد MTA کسی اور سیٹلائیٹ پر شفٹ ہو گیا تھا اور شام میں بڑی ڈش کے بغیر اس کو دیکھنا ممکن نہ رہا تھا.عربوں کا حافظہ عربوں کی کئی خصوصیات ایسی ہیں جن میں انکا ثانی کوئی نہیں.ان میں سے ایک انکی قوت حافظہ ہے.اس کی دو مثالیں جو ہمارے کلاس فیلوز میں ہمیں نظر آئیں پیش خدمت ہیں.ہمارے ایک عرب کلاس فیلو کا امتحان کے لئے تیاری کا یہ طریق تھا کہ کتاب کے ہر باب کے اہم نکات کو شعر میں ڈھال کر لکھ لیتا تھا اور پھر امتحان میں ان شعروں کی بناء پر تمام مضمون بیان کر دیتا تھا.اسی طرح ایک اور دوست کا بلا کا حافظہ تھا.ایک دن جبکہ ایک بہت ہی مشکل مضمون کا پیپر تھا ہم نے اس سے کسی نقطہ کی وضاحت چاہی تو انہوں نے بتایا کہ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ اسکی کیا تفصیل وشرح ہے ہاں اگر آپکو کتاب کی نص مطلوب ہے تو میں سنائے دیتا ہوں کیونکہ میں نے شروع سے لے کر تقریباً صفحہ نمبر 200 تک کتاب حفظ کی ہوئی ہے.وفات مسیح علیہ السلام شریعت کالج میں پڑھائی کے دوران عقیدہ اسلامیہ کے مضمون میں جماعت احمدیہ کے بارہ میں غلط سلط معلومات بھی درج تھیں جن میں ایک یہ الزام بھی تھا کہ جماعت احمد یہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کی قائل ہے جبکہ قرآن صراحتا ان کے زندہ آسمان پر جانے کا ذکر کرتا ہے.وغیرہ وغیرہ.چونکہ وہاں پر تحقیق کے لئے ہر قسم کی کتب میسر تھیں اس لئے خاکسار نے اس وقت عصر حاضر کے ان عرب علماء کے اقوال اور بیانات ان کی اصل کتب سے اکٹھے کئے پھر ان پر تبصرہ اور اس مضمون سے متعلقہ بعض امور کی وضاحت کے ساتھ ساری تحقیق ایک چھوٹی سی کتاب کی
مصالح العرب.....جلد دوم 282 شکل میں مرتب کر کے عربک ڈیسک کو ارسال کر دی.”مصالح العرب“ کے گزشتہ صفحات میں وفات مسیح کے بارہ میں عصر حاضر کے عرب علماء کی آراء کے عنوان سے یہ تمام جمع شده اقوال معہ ترجمہ و تشریح پیش کر دیئے گئے ہیں.بعض مخلصین کا ذکر خیر گو که دمشق میں تمام احمدی احباب خدا کے فضل سے مخلص تھے ان میں سے کئی احباب کا ذکر ہم 80 کی دہائی میں بیعت کرنے والے بعض مخلصین“ کے عنوان کے تحت کر آئے ہیں.کئی بزرگ بعض اوقات کافی فاصلہ طے کر کے صرف ہم سے ملنے اور جماعت کی خبریں سننے آتے تھے.ان میں سے سرفہرست مکرم ابونعیم صاحب تھے.ان کا گھر پہاڑ کے اوپر تھا اور وہ بڑھاپے کے باوجود ہفتہ عشرہ میں ایک بار ضرور ہم سے ملنے آجاتے تھے.خلافت سے انکی محبت کا عجیب رنگ تھا، کئی دفعہ لفظ ساتھ نہ دیتے تھے اور آنکھیں اور ان سے ٹپکنے والے آنسو دل کی بات کہہ جاتے تھے.شاید انکی یہ سچی محبت اور اخلاص ہی تھا کہ باوجود نامساعد حالات کے اللہ تعالیٰ نے انکی وفات سے قبل انہیں 2005ء میں جلسہ سالانہ برطانیہ میں شمولیت اور خلیفہ وقت سے ملاقات کا شرف عطا فر ما دیا.اسی طرح ایک پرانے مخلص دوست ابوسلیم صاحب تھے جن کی ہمارے شام کے قیام کے دوران ہی وفات ہوگئی تھی.یہ دوست ایک دفعہ ہم سے ملنے کے بعد دوبارہ باوجود ضعیف العمری کے سخت سردی میں نجانے کتنی دور سے ہمیں شرح ابن عقیل کی دو جلدیں دینے کے لئے تشریف لائے کہ شاید یہ ہماری پڑھائی میں مفید ثابت ہوں.مکرم سامی قزق صاحب مکرم سامی قزق صاحب فلسطین کے ایک مخلص احمدی مکرم خضر قزق صاحب کے بیٹے تھے.مالی کشائش کے ساتھ ساتھ گوانکی اہلیہ بھی دمشق کے پرانے مخلص احمدی کی بیٹی تھیں لیکن وہ احمدیت سے برگشتہ ہو چکی تھیں اور انکے ساتھ ساری اولاد بھی احمدیت سے بہت دور تھی.کئی دفعہ یہ ذکر کر کے بہت غمگین ہو جایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ افسوس، میں اپنے گھر میں اکیلا احمدی ہوں..
مصالح العرب.....جلد دوم 283 دمشق میں ہم ان کے گھر واقع محلہ رکن الدین ہی آکر ٹھہرے تھے جس کا یہ معمولی کرایہ لیتے تھے.ہمارے توجہ دلانے پر 1996ء کے جلسہ برطانیہ میں شمولیت کے لئے تین افراد پر مشتمل ایک وفد شام سے بھی روانہ ہوا جس میں مکرم نذیر المرادنی صاحب سابق امیر جماعت شام، مکرم عمار المسکی صاحب اور مکرم سامی قزق صاحب شامل تھے.مکرم سامی قزق صاحب احمدی تو تھے لیکن زندگی کا بیشتر حصہ جماعت اور نظام جماعت سے دوری میں ہی گزار دیا تھا اس لئے جلسہ کے بارہ میں ان کے ذہن میں کوئی تصور نہیں تھا.جلسہ پر روانگی سے قبل ایک دن کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ مکرم مسلم الدروبی صاحب نے انہیں کہا کہ آپ کو وہاں جا کر ایک عجیب خوشی اور انبساط کا احساس ہوگا.ادھر ہم نے بھی عربک ڈیسک کو ان کے آنے کی اطلاع دے دی تھی.لیکن ہوا یوں کہ انکے اسلام آباد پہنچنے کی خبر عربک ڈیسک کے ممبران کو نہ ہوئی اور جلسہ کی انتظامیہ نے انہیں عام انتظام کے تحت ایک خیمہ میں جگہ دی.ایک تو انہیں خیمہ میں سونے کی عادت نہیں تھی اس پر مستزاد یہ کہ نماز کے بعد انکے جوتے کا ایک پاؤں تبدیل ہو گیا.اور بظاہر ان کے پاس بازار جانے اور نیا جوتا خریدنے کا بھی کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ ابھی تک ان کا رابطہ عربک ڈیسک سے بھی نہیں ہوا تھا.گو انہیں کچھ دیر تک سوٹ کے ساتھ وہی عجیب و غریب جوتا پہننا پڑا لیکن اسکے بعد کے حالات نے ان کی کایا پلٹ دی.ہوا یوں کہ عربک ڈیسک کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے فورا انکو دیگر عرب برادران کے ساتھ انکی مخصوص رہائش گاہ پر منتقل کر دیا جہاں اپنے فلسطینی بھائیوں سے مل کر ان کو سب کچھ بھول گیا.اگلے دن جلسہ کی انتظامیہ کا ایک کارکن ایک ڈبے میں کچھ جوتے لئے انکے کمرے میں بھی آیا اور پوچھا کہ کسی کا جو تا وغیرہ اگر گم ہوا ہو تو بتا ئیں.محترم سامی قزق صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ انکا تبدیل ہونے والا جوتا اس میں موجود تھا.وہ کہتے تھے کہ میں سوچ نہیں سکتا کہ اتنے بڑے مجمع میں تبدیل ہونے والا جوتا اتنی آسانی سے مل سکتا ہے.یہ بظاہر بہت معمولی سا واقعہ ہے لیکن ان کے ایمان میں غیر معمولی اضافہ کا سبب بنا.اس واقعہ سے نظام جماعت کی عظمت وافادیت بھی کھل کے سامنے آجاتی ہے اور جلسہ کے ہر شعبہ کی ظاہری اغراض و مقاصد کے علاوہ اس کی بعض پوشیدہ حکمتوں پر بھی روشنی پڑتی ہے.
284 مصالح العرب.....جلد دوم جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے دیگر عرب احباب کی طرح ان تین شامی احمدیوں کے ساتھ بھی نہایت محبت اور شفقت کا سلوک فرمایا، جس سے انکے اخلاص کا درخت شیریں شمار سے لد گیا.چنانچہ جب محترم سامی قزق صاحب واپس دمشق تشریف لائے تو ایک عجیب پر جوش انداز میں کہنے لگے: خدا کی قسم مجھ پر حرام ہے کہ آج کے بعد مکان کے کرائے کے طور پر میں آپ سے ایک پیسہ بھی وصول کروں.مجھے تو جماعت کا پتہ ہی اب چلا ہے.لہذا اسکے بعد ہم انکے فلیٹ میں 2000 ء تک رہے لیکن انہوں نے ہم سے بھی کرایہ نہ لیا.اسی سال ہم چار مبلغین کو دمشق یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے سلسلہ میں آٹھ ہزار ڈالر کی خطیر رقم کی فوری ضرورت پڑ گئی، اور اسکے لئے ہمارے پاس صرف ایک دن تھا.متعدد احباب سے رابطہ کرنے کے بعد جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے فوراً کہا کہ چار ہزار ڈالرز کے برابر رقم تو میرے گھر میں موجود ہے باقی کل صبح بنک سے نکلوا دوں گا.چنانچہ اگلے دن ہمیں وقت پر مطلوبہ رقم مل گئی.بعد میں جب مرکز سے ہمارے اکاؤنٹ میں یہ رقم ٹرانسفر ہوئی تو ہم نے محترم سامی قزق صاحب کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ وہ اپنی رقم ڈالرز میں لینا پسند کریں گے یا سیرین کرنسی میں؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے تو آپ سے کوئی رقم نہیں لینی.میں نے تو وہ رقم مسجد بیت الفتوح میں چندے کے طور پر دی تھی.آپ نے اگست 2008ء میں وفات پائی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو غریق رحمت فرمائے ، آمین.مکرم محمد الشوا صاحب مكرم محمد الشوا صاحب 1924 میں دمشق میں پیدا ہوئے اور 1950 میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور پھر تمام عمر وکالت کے شعبہ سے منسلک رہے جس میں بار کونسل کے چیئر مین آپ ایک منجھے ہوئے وکیل تھے.شروع شروع میں ہمارے گھر میں فون کی سہولت موجود اور پاکستان فون یا فیکس کرنے کیلئے بازار جانا پڑتا تھا، مکرم محمد الشوا صاحب کا مکان ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر تھا.ان کے گھر میں فون بھی تھا اور فیکس بھی.انہوں نے خود آ کر اس کی
مصالح العرب.جلد دوم 285 سہولت سے فائدہ اٹھانے کی پیش کش کی.اور ہمارے اصرار پر یہ طے پایا کہ ہم بل ادا کر نے کی شرط کے ساتھ انکا فون اور فیکس حسب ضرورت استعمال کر لیا کریں گے.باوجود اپنی مصروفیت کے انہیں اس بات کا بہت خیال رہتا تھا کہ نہ صرف ہم سیریا میں رہ کر زیادہ سے زیادہ عربی زبان سیکھیں بلکہ اسکا صحیح تلفظ ادا کرنا بھی ہمیں آنا چاہئے.اس لئے اکثر اوقات مجالس میں باتوں کے دوران احباب کو متنبہ کیا کرتے تھے کہ وہ اچھی فصحی عربی بولیں تا کہ ہم لوگ مستفید ہو سکیں.اسی طرح جب ہم بولتے تھے تو جہاں تصحیح کی ضرورت ہوتی ہمیں بتا دیا کرتے تھے اور جہاں تلفظ کی غلطی ہوتی تھی وہیں اسکی بھی درستگی فرما دیتے تھے.بلکہ انہوں نے ہمیں تلفظ درست کرنے کے لئے اس قدر وقت دیا کہ کچھ عرصہ کے لئے روزانہ ہم ان کے سامنے بلند آواز سے کوئی کتاب پڑھتے اور وہ ہر لفظ کو غور سے سن کر اس کا صحیح تلفظ ہمیں بتاتے تھے.اسی طرح جب بھی انہیں کوئی پڑھا لکھا شخص ملتا جس کے پاس وقت ہوتا تو فصحی عربی کی بول چال کی پریکٹس کے لئے اسے ہمارے پاس بھیج دیتے.ان میں سے ایک دوست بہت ہی قابل آدمی تھا اور ہم نے اپنے عرصہ قیام میں اس سے بہت فائدہ اٹھایا.محترم الشواء صاحب کی وفات 14 اکتوبر 2009ء کو ہوئی اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے.آمین مكرم محمد اکرم الشوا آپ مکرم محمد الشوا صاحب کے بیٹے تھے تقریباً روزانہ ہی اپنے بچوں کو لے کر ہمارے گھر تشریف لاتے تھے اور بچوں سے کہتے کہ فلاں سوال پوچھ لو.یوں ہماری بولنے کی پریکٹس ہوتی رہتی تھی.اکثر اپنی گاڑی پر ہمیں سیر کو بھی لے جاتے تھے.ان کے برین میں ٹیومر تھا جس کا بیرون ملک سے آپریشن بھی کروا لیا تھا اسکے باوجود ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ یہ چند ماہ کے مہمان ہیں.انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں لکھا تو حضور نے فرمایا کہ اگر آپریشن نہ کرواتے تو علاج کا زیادہ فائدہ ہو سکتا تھا بہر حال حضور نے انکا ہو میو پیتھی علاج شروع فرمایا جس کی وجہ سے ایک دفعہ جب چیک اپ کے لئے گئے تو ڈاکٹر ز ر پورٹس دیکھ کر
مصالح العرب.....جلد دوم 286 حیران رہ گئے کہ برین میں آپریشن کا نشان تک مٹ گیا تھا.بہر حال اس علاج کے بعد چند ماہ کی بجائے آپ تقریباً دو سال زندہ رہے اور بالآخر بیماری کے شدید حملہ کی وجہ سے شاید 45 سال کی عمر میں ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے.مکرم نذیر المرادنی صاحب آپ محترم منیر الحصنی صاحب کی وفات کے بعد شام کے امیر مقرر ہوئے لیکن 1989ء میں جماعت پر پابندیاں لگ گئیں اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اب آپ اصحاب الکہف والرقیم کی طرح تالیف و تصنیف کی طرف توجہ دیں.چنانچہ مکرم نذر صاحب نے متعدد اختلافی موضوعات پر کئی کتابیں لکھیں جو وہاں پر شائع بھی ہو گئیں.جیسا کہ ہم ذکر کر آئے ہیں کہ آپ کو بھی 1996 ء کے جلسہ سالانہ برطانیہ میں شمولیت کی توفیق ملی.آپ اس جلسہ پر حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ بتائے ہوئے بعض لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : حضور نے ملاقات میں معانقہ کا شرف بخشا اور مجھے ایسے لگا جیسے مجھ سے زیادہ شدت کے ساتھ حضور انور مجھے اپنے سینے سے لگا رہے تھے.پھر حضور نے فرمایا: آپ نے آنے میں کافی دیر کی ، آپ کو تو کافی عرصہ پہلے آجانا چاہئے تھا.جلسہ کے بعد حضور انور نے ایک دعوت میں ہمیں بھی مدعو فر مایا.میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھنے لگا تو مکرم عطاء المجیب راشد صاحب نے بتایا کہ حضور انور نے آپ کو مرکزی ٹیبل پر بیٹھنے کا ارشاد فرمایا ہے.جب حضور انور تشریف لائے اور کھانا شروع ہوا تو میرے دل میں خیال گزرا کہ حضور انور کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کروں لیکن جب میں نے دیکھنے کے لئے نظریں اٹھا ئیں تو دیکھا کہ حضور انور میری طرف ہی دیکھ رہے تھے.واپسی سے قبل ہم نے چاہا کہ حضور انور سے الوداعی ملاقات ہو جائے.ہمیں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ حضور انور اس وقت پروگرام ”لقاء مع العرب میں تشریف فرما ہیں تاہم میں حضور انور کی خدمت میں عرض کئے دیتا ہوں.حضور انور کو اطلاع ہوئی تو حضور خود باہر تشریف لائے ، معانقہ کا شرف بخشا اور ہمیں پروگرام میں لے گئے.اور خود اپنے دفتر سے جگ
مصالح العرب.....جلد دوم 287 میں امرود کا جوس لے کر تشریف لائے.میں سراپا حیرت بنا سوچ رہا تھا کہ یہ کتنا عظیم انسان ہے جو اپنے ادنی خدام کو بھی اس قدر پیار اور شفقت کے ساتھ نواز رہا ہے کہ ایک گلاس ختم ہوتا ہے تو وہ آگے بڑھ کر اسکے گلاس میں اور جوس ڈال دیتا ہے.قافلے لے چلا ہوں یادوں کے ہمیں سیریا سے 1999 ء اور 2000ء کے جلسہ سالانہ یو کے میں شرکت کی توفیق ملی.2000ء میں ہی ہماری پڑھائی مکمل ہوگئی اور اسکے بعد پاکستان واپس جانے کا ارشاد ہوا.اس لحاظ سے بظاہر یہ خلیفہ وقت سے ملنے کا آخری موقع تھا.انہی جذبات کو خاکسار نے ٹوٹے پھوٹے شعروں کی صورت میں حضور انور کی خدمت میں پیش کر دیا.میرا خیال تھا کہ جلسہ سالانہ کی مصروفیات کی وجہ سے اسکا جواب مجھے شاید پاکستان میں ہی ارسال کیا جائے گا.لیکن اگلے دن ہی محترم منیر جاوید صاحب نے بتایا کہ حضور انور نے آپ کی نظم کو پسند فرمایا ہے.پھر جب مجھے حضور انور کی طرف سے تحریری جواب ملا تو عمومی طور پر پسندیدگی کے اظہار کے ساتھ حضور انور نے فرمایا تھا کہ یہ شعر بہت عمدہ ہے“: قافلے لے چلا ہوں یادوں کے مجھ تنہا سفر نہیں ہوتا ازاں بعد جب چند ماہ بعد یہ نظم رسالہ خالد میں چھپی اور حضور انور کی نظر سے گزری تو حضور کی طرف سے دوبارہ حوصلہ افزائی کا خط موصول ہوا جس میں حضور انور نے ایک شعر کی صحیح فرما کر اس عاجز غلام کو نواز دیا.فالحمد للہ علی ذلک.عربی زبان کی تعلیم کے بعد 2001ء میں خاکسار کی تقرری عربک ڈیسک میں ہوگئی اور اس وقت سے آج تک خدا تعالیٰ کے فضل سے مفوضہ امور کی انجام دہی کی توفیق مل رہی ہے.الحمد للہ.مکرم محمد احمد نعیم صاحب کی تقرری جامعہ احمدیہ یو کے میں 2006 میں ہوئی ، بعد میں دسمبر 2008ء میں آپ کا تبادلہ عربک ڈیسک میں ہو گیا.
288 مصالح العرب.جلد دوم دیگر دوساتھیوں میں سے مکرم داؤد احمد عابد صاحب جامعہ احمد یہ سیرالیون کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمت بجالانے کے بعد آج کل جامعہ احمدیہ یو کے میں بطور استاد خدمات بجالا رہے ہیں جبکہ مکرم نوید احمد سعید صاحب جامعہ احمد یہ ربوہ میں عربی ادب کی تدریس کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں.XXXXXXXXXXXX XXXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.جلد دوم 289 خلیج کا بحران 2 اگست 1990ء کو عراق کے کویت پر حملے سے ارض عرب پر ایک ایسی جنگ کی ابتدا ہوئی جس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ استعماری طاقتوں کا اثر ونفوذ ان ممالک میں پہلے سے کہیں بڑھ گیا ؟ ہے، ان ممالک کے قدرتی وسائل اور دولت کو بری طرح لوٹا گیا اور آج تک لوٹا جارہا ہے، عراق اس آگ میں جل کر راکھ ہو گیا ہے اور ہنستے بستے لوگ آج لقمہ عیش اور مسکن و ماوی کی تلاش میں سرگرداں ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ اس پورے عرصہ میں دوران جنگ اور پھر گروہی فسادات میں اسلام کے نام پر ایسے تصرفات روا ر کھے گئے جس کی وجہ سے اسلام کا نام بدنام ہوا اور اس کی تعلیمات کی تصویر نہایت شرمناک صورت میں پیش کی گئی.اور پھر اس جنگ کے نتیجہ کے طور پر ہی پوری دنیا میں عموماً بعض ایسے تکلیف دہ اور انسانیت سوز واقعات ہوئے جن میں اسلام کو ہی ملزم قرار دیا گیا اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج اسلام مخالف جو تحریکات جنم لے رہی ہیں اور جو اسلام کے خلاف نفرت و عداوت کے جذبات پیدا ہور ہے ہیں اور جو نا زیبا اور ناشائستہ کارروائیاں ہو رہی ہیں شاید ان امور کی منظم اور محسوس و مشہود طور پر ابتدا اسی جنگ سے ہی ہوئی.اس جنگ میں شروع سے لے کر آج تک متعدد عرب اور اسلامی ممالک ایک فریق کی حیثیت سے ایک مسلمان ملک کا ساتھ دیتے ہوئے دوسرے مسلمان ملک اور اس کے معصوم عوام کے خلاف کاروائیوں میں شریک رہے ہیں.جلسہ جلوس، مظاہرات ،جلاؤ گھیراؤ، جملے بازیاں اور بالآخر خود کش دھماکوں جیسے واقعات روز مرہ کا معمول ہو گیا.ایسے میں صرف ایک آواز ایسی تھی جو حق کی آواز کہلائی، جس نے انصاف کی بات کی،
290 مصالح العرب......جلد دوم جس کی محبتیں ، ہمدردیاں اور جذبات دعاؤں میں ڈھلتے ہوئے مخلصانہ اور تقویٰ پر مبنی مشوروں اور نصائح میں بدلتی گئیں.یہ آواز امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی تھی.آپ نے اس حادثہ کی ابتداء سے ہی یعنی جنگ کی ابتدا کے اگلے روز 3 /اگست 1990 ء سے ہی خطبات جمعہ کے ذریعہ عالم اسلام کی عموماً اور عرب ممالک کی خصوصا را ہنمائی فرمائی.آپ نے ان خطبات میں اس ہولناک جنگ کے پس پردہ عوامل اور مہلک مضمرات کے علاوہ عالم اسلام پر مرتب ہونے والے اس کے دور رس اثرات کا نہایت گہری نظر سے تجزیہ فرمایا اور صہیونیت اور مغربی طاقتوں کی ان خطرناک سازشوں سے پردہ اٹھایا جو وہ عالم اسلام کے خلاف کر رہے ہیں.آپ نے امت مسلمہ کو ان مہیب خطرات سے بھی متنبہ فرمایا جو مستقبل میں انہیں پیش آسکتے ہیں نیز دردمند دل کے ساتھ ایسی بیش قیمت نصائح سے نوازا جن پر عمل پیرا ہونے سے دین و دنیا سدھر سکتے تھے.آپ نے واضح فرمایا کہ دنیا میں پائیدار امن اور بنی نوع انسان کی حقیقی آزادی اور خوشحالی کی ضمانت صرف وہ نظام دے سکتا ہے جس کی بنیاد قرآن کریم کے پیش کردہ نظام عدل پر ہو.لیکن افسوس کہ ان ملکوں نے اس آواز پر کان نہ دھرے اور آج انہی آفتوں اور مصیبتوں کی زد میں آگئے ہیں جن کے خدشہ کا حضور انور نے اپنے خطبات میں اظہار فرمایا تھا.اس ساری صورتحال کے بارہ میں مفصل معلومات کے لئے ان خطبات کا مطالعہ بہت ضروری ہے جو خلیج کا بحران اور نظام جہان نو“ کے نام سے چھپ چکے ہیں.ہم ذیل میں اس کتاب سے بعض اقتباسات قارئین کرام کی نظر کرتے ہیں جن کے مطالعہ سے قارئین کرام کو حضور انور کے گہرے تجزیات مینی برحق کلمات، اور مخلصانہ مشوروں کی افادیت کا اندازہ ہو سکے گا.یہ اقتباسات ایک خاص ترتیب اور ذیلی عناوین کے اضافہ کے ساتھ پیش خدمت ہیں.ایک فرض کی ادائیگی کسی کے ذہن میں خیال آسکتا ہے کہ حضور انور نے کیوں اتنے خطبات میں اس مضمون کو بیان فرمایا، اور کیوں عالم اسلام کے لئے یہ تمام امور بیان فرمائے.اسکا جواب حضور انور.
مصالح العرب.جلد دوم خود یوں ارشاد فرمایا: 291 ہم اسلام کے وفادار ہیں اور اسلامی قدروں کے وفادار ہیں...ہمارا یہ طرز عمل......خالصہ اللہ ہے...ہماری پناہ ہمارے خدا میں ہے.ہمارا تو کل ہمارے مولا پر ہے اور ہمیں دنیا کی سیاستوں سے کوئی خوف نہیں.اس ضمن میں میں آپ کو ایک خوشخبری بھی دینی چاہتا ہوں کہ جو نصیحت میں نے کی ہے یہ نصیحت حقیقت میں آج میرے مقدر میں تھی کہ میں ضرور کروں اور خدا نے اس کا آج سے بہت پہلے فیصلہ کر لیا تھا.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام حمامة البشرى میں یہ لکھتے ہیں کہ : إن ربي قد بشّرنى فى العرب وألهمنى أن أمونهم وأريهم طريقهم، وأصلح لهم شئونهم، وستجدوني في هذا الأمرإن شاء الله من الفائزين حمامة البشریٰ صفحہ 7 روحانی خزائن جلد نمبر 7 صفحہ (182 یعنی میرے رب نے عرب کی نسبت مجھے بشارت دی ہے اور الہام کیا ہے کہ میں ان کی خبر گیری کروں اور ٹھیک راہ بتاؤں اور ان کا حال درست کروں اور انشاء اللہ تم مجھے اس معاملہ میں کامیاب وکامران پاؤگے.پس خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کو جس فریضہ کی ادائیگی پر مامور فرمایا، آج آپ کے ادنی غلام کی حیثیت سے میں آپ کی نمائندگی میں اس فریضے کو ادا کر رہا ت ہوں اور اس الہام کی خوشخبری کی روشنی میں تمام عالم اسلام کو بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ ان عاجزانہ غریبانہ نصیحتوں پر عمل کریں گے تو بلا شبہ کامیاب اور کامران ہوں گے، اور دنیا میں بھی سرفراز ہوں گے اور آخرت میں بھی سرفراز ہوں گے.لیکن اگر خدانخواستہ انہوں نے اپنے عارضی مفادات کی غلامی میں اسلام کے مفادات کو پرے پھینک دیا اور اسلامی تعلیم کی پرواہ نہ کی تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو دنیا اور خدا کے غضب سے بچا نہیں سکے گی.“ ( خطبه جمعه فرموده 17 راگست 1990ء)
مصالح العرب.جلد دوم یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا 292 ہماری تو ایک درویشانہ اپیل ہے، ایک غریبانہ نصیحت ہے اگر کوئی دل سے اسے سنے اور سمجھے اور قبول کرے تو اس کا اس میں فائدہ ہے کیونکہ یہ قرآنی تعلیم ہے جو میں پیش کر رہا ہوں اور اگر تکبر اور رعونت کی راہ سے ہماری اس نصیحت کو رڈ کر دیا گیا تو میں آج آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ اتنے بڑے خطرات عالم اسلام کو در پیش ہونے والے ہیں پھر مدتوں تک سارا عالم اسلام نوحہ کناں رہے گا.اور روتا رہے گا، اور دیواروں سے سر ٹکراتا رہے گا اور کوئی چارہ پیش نہیں جائیگا کہ اپنی ان کھوئی ہوئی طاقتوں اور وقار کو حاصل کر لے جو اس وقت عالم اسلام کا دنیا میں بن رہا ہے اور مزید بن سکتا ہے.عملاً اس وقت مسلمان ممالک ایک ایسی منزل پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے اگر خاموشی اور حکمت کے ساتھ اور فساد مچائے بغیر وہ قدم آگے بڑھائیں تو اگلے دس یا پندرہ سال کے اندر عالم اسلام اتنی بڑی طاقت بن سکتا ہے کہ غیر اس کو ٹیڑھی نظر سے نہیں دیکھ سکیں گے اور چاہیں بھی تو ان کی پیش نہیں جائے گی.اور اگر آج ٹھو کر کھائی ، آج غلطی کی تو ایک ایسی خطر ناک منزل ہے کہ یہاں سے پھر ٹھوکر کھا کر ایک ایسی غار اور ایسی تباہی کے گڑھے میں بھی گر سکتے ہیں جہاں سے پھر واپسی ممکن نہیں رہے گی.“ کل رونما ہونے والی باتیں (خطبه جمعه فرموده 17 راگست 1990ء) دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمان ممالک کو اب بھی عقل دے اور وہ اس ظلم میں غیر مسلم قوموں کے شریک نہ بنیں اور اس بات کے روادار نہ ہوں کہ...تاریخ عالم میں ہمیشہ کے لئے ایک ایسی قوم کے طور پر لکھے جائیں جنہوں نے اپنی زندگی کے نہایت منحوس فیصلے کئے تھے.ایسے فیصلے کئے تھے جو بدترین سیاہی سے لکھے جانے کے لائق بنتے ہیں.جس کے نتیجے میں دنیا کے اندر ایسے تغیرات برپا ہونے ہیں اور آئندہ لکھنے والا لکھے گا کہ ایسے تغیرات بر پا ہو چکے ہیں کہ ان فیصلوں کے بعد پھر دنیا کا امن ہمیشہ کے لئے اٹھ گیا اور امن کے نام پر جو جنگ لڑی گئی تھی اس نے اور جنگوں کو جنم دیا اور ساری دنیا میں بدامنی پھیلتی چلی گئی.مؤرخ نے یہ
293 مصالح العرب.....جلد دوم باتیں جو بعد میں لکھنی ہیں آج ہمیں دکھائی دے رہی ہیں کہ یہ کل رونما ہونے والی ہیں.اگر مسلمان ممالک نے ہوش نہ کی اور بروقت اپنے غلط اقدامات کو واپس نہ لیا اور اپنی سوچوں کی اصلاح نہ کی اور اگر یہ انہی باتوں پر قائم رہے تو عراق مٹتا ہے یا نہیں ملتا، یہ تو کل کی دیکھنے کی بات ہے مگر اس سارے علاقے کا امن ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا اور کبھی عرب اپنی پہلی حالت کی طرف دوبارہ واپس نہیں لوٹ سکیں گے.اسرائیل پہلے سے بڑھ کر طاقت بن کر ابھرے گا اور اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کے متعلق کوئی عرب طاقت لمبے عرصہ تک سوچ بھی نہیں سکے گی.اسکے نتیجہ میں تمام دنیا میں شدید مالی بحران پیدا ہوں گے.اور چونکہ آج کل دنیا کے ترقی یافتہ ممالک خود مالی بحران کا شکار ہیں اس لئے تیسری دنیا کے مالی بحران کے نتیجے میں ایسے اثرات پیدا ہوں گے کہ اور جنگیں چھڑیں گی اور دنیا کا امن دن بدن بر باد ہوتا چلا جائے گا.اگر آج مسلمان ممالک نے اصلاح احوال نہ کی تو مختصرا یہ کچھ ہے جو آئندہ پیش آنے والا ہے.“ خطبه جمعه فرموده 11 جنوری 1991ء) کیا بعد کے واقعات اور آج کی عالمی صورتحال یہی نقشہ پیش نہیں کر رہی جو آج سے قریباً 20 سال قبل حضور انور نے بیان فرمایا تھا؟ تنازعات کے حل کے بارہ میں اسلامی تعلیم مسلمانوں کے رد عمل کا جہاں تک حال ہے یہ ایک نہایت ہی خوفناک اور افسوسناک رد عمل ہے.قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ : فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْ ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَيْ اللهِ وَالرَّسُول (سورۃ النساء آیت: 60) جب تم آپس میں اختلاف کیا کرو تو محفوظ طریق کار یہی ہے اور اسی میں امن ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی طرف بات کو لوٹایا کرو.قرآن اور سنت جس طرف چلنے کا مشورہ دیں اسی طرف چلو اسی میں تمہارا امن ہے اور اسی میں تمہاری بقاء ہے.اس لئے بجائے اس کے کہ دنیا کے سیاستدانوں کے ساتھ جوڑ تو ڑ کر کے اپنے معاملات طے کرنے کی کوشش کرو، قرآنی تعلیم کی طرف لوٹو....اور وہ یہ ہے کہ صرف ایک قوم کے مسلمان نہیں بلکہ ہر ایسے جھگڑے کے وقت جس میں دو مسلمان ممالک ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہونے والے ہوں تمام مسلمان ممالک اکٹھے ہو کر سر جوڑ کر اس ایک ملک پر دباؤ ڈالیں
مصالح العرب.....جلد دوم 294 جو ان کے نزدیک شرارت کر رہا ہو اور پھر انصاف کے ساتھ ان دونوں کے معاملات سن کر صلح کرانے کی کوشش کریں اگر اس کے باوجود صلح نہ ہو اور ایک دوسرے پر حملہ سے باز نہ آئے تو یہ مسلمان ممالک کا کام ہے کہ وہ اس ایک ملک کا مقابلہ کریں اور اس میں غیروں سے مدد کا کہیں ذکر نہیں فرمایا گیا.اگر اس تعلیم کو پیش نظر رکھا جاتا تو یہ حالات جو آج بد سے بدتر صورت اختیار کر چکے ہیں اور نہایت ہی خطرناک صورت اختیار کر چکے ہیں ان کی بالکل اور ان کیفیت ہوتی.“ رغمالیوں کے بارہ میں عراق کی راہنمائی خطبه جمعه فرموده 17 اگست 1990 ء ) " حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اور اس زندگی میں ہونے والے تمام غزوات گواہ ہیں کہ ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ جس قوم کے ساتھ اسلام کی فوجیں برسر پیکار تھیں ان کے آدمی جو مسلمانوں کے قبضہ قدرت میں تھے ان سے ایک ادنی بھی زیادتی ہوئی ہو.وہ کلیہ آزاد تھے.جس طرح چاہتے زندگی بسر کرتے اور کسی ایک شخص نے بھی ان پر کبھی کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ اسلام تو یہ تقاضا کرتا ہے کہ اگر کوئی پناہ مانگتا ہے تو خواہ وہ دشمن قوم سے تعلق رکھنے والا ہو اس کو پناہ دو لیکن عراق نے اسلام کے اس اخلاق کے پیمانے کو کلیۂ نظر انداز کرتے ہوئے اعلان کیا کہ تمام برٹش قوم سے تعلق رکھنے والے جو کسی حیثیت سے کویت میں یا عراق میں زندگی بسر کر رہے تھے اور تمام امریکن جوان علاقوں میں موجود تھے ان کو نہ ملک چھوڑنے کی اجازت ہے نہ اپنے گھرں میں رہنے کی اجازت ہے.وہ فلاں فلاں ہوٹل میں اکٹھے ہو جا ئیں.اسی طرح دیگر غیر ملکیوں کو بھی جو اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے ہیں ان کو بھی باہر نکلنے کی اجازت نہیں.اب ظاہر ہے کہ جس طرح یہ معاملہ آگے بڑھ رہا ہے انکو Hostages کے طور استعمال کیا جائے گا.اب یہ بات اپنی ذات میں کلیتہ اسلامی اخلاق تو در کنار دنیا کے عام مروجہ اخلاق کے بھی خلاف ہے.اس لئے اخلاق ہیں کہاں؟ اب حال ہی میں یہ جو یونا یکیٹڈ نید کے ریزولیوشنز کو بہانہ بنا کر تمام طرف سے عراق کا Blockade کیا گیا یعنی فوجی اقدام کے ذریعے عراق میں چیزوں کا داخلہ بند کیا گیا اور وہاں سے چیزوں کا نکلنا بند کیا گیا اس میں دو قسم
295 مصالح العرب.....جلد دوم کی اخلاقی زیادتیاں ہوئی ہیں جو بہت ہی خطرناک ہیں.ایک یہ کہ یونائٹڈ نیشنز نے ہرگز کھانے پینے کی اور ضروریات زندگی کی اشیاء کو بائیکاٹ میں شامل نہیں کیا تھا.دوسرے یونائیٹڈ نیشنز نے ہرگز یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اگر کوئی ملک بائیکاٹ نہ کرنا چاہے تو اسے زبر دستی بائیکاٹ کرنے پر مجبور کیا جائے.اب ان دونوں باتوں میں امریکہ بھی اور انگلستان بھی کھلی کھلی دھاندلی کر رہے ہیں.ایک طرف عراق پر بد اخلاقی کا الزام ہے جو ہم مانتے ہیں کہ اسلامی نقطہء نظر کی سے بد اخلاقی ہے لیکن دوسری طرف خود ایک ایسی خوفناک بداخلاقی کے مرتکب ہوتے ہیں جو بظاہر ڈپلومیسی کی زبان میں لپٹی ہوئی ہے..امر واقعہ یہ ہے کہ بغداد کی حکومت نے جو چار ہزار انگریز اور دو ہزار امریکن کو پکڑ کر اپنے پاس Hostages کے طور پر رکھا ہوا ہے اگر ان کو بالآخر خدانخواستہ ظالمانہ طور پر وہ ہلاک بھی کر دے تو بھی یہ ظلم جو انگریز اور امریکہ مل کر عراق پر کر رہے ہیں یہ اس سے بہت زیادہ بھیانک جرم ہے...جہاں تک عراق کا تعلق ہے ان کے لئے سب سے پہلی بات تو یہ ضروری ہے کہ اسلامی اخلاق کو مجروح نہ کریں اور زیادہ دنیا میں اسلام کو تضحیک کا نشانہ نہ بنائیں.وہ غیر ملکی جوان کی پناہ میں ہیں خواہ ان کا تعلق امریکہ سے ہو یا انگلستان سے ہو یا پاکستان سے ہو ان کو کھلی آزادی دیں کہ جہاں چاہو جاؤ، ہمارا تم پر کوئی حق نہیں ہے.اور امر واقعہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے ہر غیر ملکی اس ملک میں امانت ہوا کرتا ہے جس میں وہ کسی وجہ سے جاتا ہے.خواہ اس ملک کی اس غیر ملکی کے ملک سے لڑائی بھی چھڑ جائے تب بھی وہ امانت رہتا ہے.پس اس امانت کی میں خیانت کا نہایت ہولناک نتیجہ نکلے گا.ان کی انتقام کی آگ جو پہلے ہی بھڑک رہی ہے وہ کی اتنی شدت اختیار کر جائے گی کہ وہ لکھوکھا معصوم مسلمانوں کو بھسم کر کے رکھ دے گی.حکومت کے سر براہ اور اس سے تعلق رکھنے والے تو چند لوگ ہیں، جو مارے جائیں گے وہ مسلمان معصوم عوام مارے جائیں گے، جنگ کے ایندھن بھی وہی بنیں گے.اور جنگ کے بعد کے انتظامات کا نشانہ بھی انہیں کو بنایا جائے گا.اس لئے سوائے اس کے کہ عراق کی حکومت تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اسلامی تعلیم کی طرف لوٹے ، اس کے لئے امن کی کوئی راہ کھل نہیں سکتی.عراق یہ قدم اٹھائے اور دوسرے عالم اسلام کو یہ پیغام دے کہ میں پوری طرح تیار ہوں تم جو فیصلہ کرو میں
296 مصالح العرب.....جلد دوم اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں اور ہر گارنٹی دیتا ہوں کہ کویت سے میں اپنی فوجوں کو واپس کی بلاؤں گا ، امن بحال ہو گا، لیکن شرط یہ ہے کہ فیصلہ عالم اسلام کرے اور غیروں کو اس میں شامل ہی نہ کیا جائے.اگر یہ تحریک زور کے ساتھ چلائی جائے اور عالم اسلام کے ساتھ جس طرح ایران سے صلح کرتے وقت نہایت لمبی خون ریزی کے بعد جس میں ملینز ہلاک ہوئے یا زخمی ہوئے جو علاقہ چھینا تھا وہ واپس کرنا پڑا.اگر یہ ہوسکتا ہے تو خونریزی سے پہلے کیوں ایسا اقدام نہیں ہوسکتا.اس لئے دوسرا قدم عراق کے لئے یہ ضروری ہے کہ کویت سے اپنا ہاتھ اٹھا لے.اور عالم اسلام کو یقین دلائے کہ جس طرح میں نے ایران سے صلح کی ہے اسلام دشمن طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کی خاطر ان کے ظلم سے بچنے کیلئے میں تم سب سے صلح کرنی چاہتا ہوں کیونکہ یہ ظلم صرف ہم پر نہیں ہوگا بلکہ سارے عالم اسلام پر ہو گا.اسلام کی طاقت بیسیوں سال تک بالکل پچلی جائے گی اور اسلامی مملکتیں پارہ پارہ ہو جائیں گی اور کاملہ غیروں پر ان کو انحصار کرنا پڑے گا.پس ضروری ہے کہ عراق یہ پیغام دے اور بار بار پیغام ریڈیو ٹیلی ویژن کے اوپر نشریات کے ذریعہ تمام عالم اسلام میں پہنچایا جائے کہ ہم واپس ہونا چاہتے ہیں.ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے عالم اسلام کی عدالت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں.لیکن غیروں کو شامل نہ کرو.یہ ایک ایسی اپیل ہے جس کے نتیجہ میں تمام مسلمان رائے عامہ اتنی شدت کے ساتھ عراق کے حق میں اٹھے گی کہ یہ حکومتیں جو ارادہ بدنیتوں کے ساتھ بھی غیروں کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر مجبور ہیں وہ بھی مجبور ہو جائیں گی کہ اس اپیل کا صحیح جواب دیں.اور اگر نہیں دیں گی تو پھر اگر یہ خدا کی خاطر کیا جائے اور خدا کی تعلیم کے پیش نظر اسلامی تعلیم کی طرف لوٹ جائے تو اللہ تعالیٰ خود ضامن ہوگا اور یقیناً اللہ تعالیٰ عراق کی ان خطرات سے حفاظت فرمائے گا جو خطرات اس وقت خطبه جمعه فرموده 17 اگست 1990 ء ) 66 عراق کے سر پر منڈلا رہے ہیں.“ یا جوج ماجوج اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تجویز کردہ علاج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف بڑی لمبی پیشگوئیاں....آخری زمانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یاجوج ماجوج دنیا پر قابض ہو جائیں گے اور موج در موج اٹھیں گے
297 مصالح العرب......جلد دوم اور تمام دنیا کو ان کی طاقت کی لہریں مغلوب کر لیں گی.اس وقت دنیا میں مسیح نازل ہوگا اور مسیحی علیہ السلام اپنی جماعت کے ساتھ ان کے مقابلے کی کوشش کرے گا.تب اللہ تعالیٰ مسیح علیہ السلام سے یہ فرمائے گا کہ : لا يدان لأحد لقتالهما كہ ہم نے جو یہ دو قو میں پیدا کی ہیں ان دونوں سے مقابلے کی دنیا میں کسی انسان کو طاقت نہیں بخشی ، تمہیں بھی نہیں بخشی ، ایک ہی علاج ہے کہ تم پہاڑ کی پناہ میں چلے جاؤ اور دعائیں کرو.دعا ہی وہ طاقت ہے جو ان قوموں پر غالب آئے گی.اس زمانے کے تمام مسلمانوں میں سے کسی کے متعلق نہیں فرمایا کہ خدا ان کو کہے گا کہ تم دعائیں کرو.صرف مسیح اور مسیح کی جماعت کے متعلق یہ فرمایا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا اس زمانے میں حقیقت میں دعا پر سے ایمان اٹھ چکا ہوگا.دعا کو وہ لوگ اہمیت نہیں دیں گے چنانچہ اب آپ دیکھ لیجئے کہ کتنے ہی مسلمان راہنماؤں کے بڑے بڑے بیانات آرہے ہیں.کوئی کہتا ہے کہ امریکہ کی طرف دوڑو اور اس سے پناہ کے طالب بنو اور اس سے مدد لو.اور کوئی ایران سے صلح کر رہا ہے یا اپنی تقویت کی اور باتیں بیان کر رہا ہے.لیکن کسی ایک نے بھی خدا کی پناہ میں جانے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں جانے کا کوئی ذکر نہیں کیا.کسی نے یہ نصیحت نہیں کی کہ اے مسلمانو! یہ دعا کا وقت ہے، دعائیں کرو کیونکہ دعاؤں کے ذریعہ ہی تمہیں دشمن پر غلبہ نصیب ہوگا.ہاں ایک جماعت ہے اور صرف ایک جماعت ہے جو مسیح محمد مصطفیٰ کی جماعت ہے جس کے متعلق خدا نے یہ مقدر کر رکھا تھا کہ اگر عالم اسلام کو بچایا گیا تو اس جماعت کی دعاؤں سے بچایا جائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت میں پناہ لیں، آپ کی تعلیم میں پناہ لیں ، آپ کے کردار میں پناہ لیں، آپ کی سنت میں پناہ لیں، اور پھر دعائیں کریں....آپ دعائیں کریں اور دعائیں کرتے چلے جائیں.“ پیشگوئی اور انذار (خطبہ جمعہ فرمودہ 24 /اگست 1990ء) ان کے کیا پروگرام ہیں؟ اور کن طاقتوں پر یہ بھروسہ کئے ہوئے ہیں.Desert Storm کی باتیں کرتے ہیں یعنی صحراؤں کا ایک طوفان ہے جو دشمن کو ہلاک اور ملیا میٹ کر دے گا.یہ نہیں جانتے کہ طوفانوں کی باگیں بھی خدا کے ہاتھ میں ہوتی ہیں.میں نہیں جانتا کہ
298 مصالح العرب.....جلد دوم خدا کی تقدیر کیا فیصلہ کرے گی، مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ خدا کی تقدیر جو بھی فیصلہ کرے گی وہ بالآخر متکبروں کو ہلاک کرنے کا موجب بنے گا.آج نہیں تو کل یہ تکبر ملیا میٹ کئے جائیں کی گے.کیونکہ وہ خدا جس کی بادشاہت آسمان پر ہے اسی خدا کی بادشاہت زمین پر بھی ضرور قائم ہو کر رہے گی.پس آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں آپ دیکھیں گے کہ یہ تکبر دنیا سے ہلاک کیا جائے گا اور طوفان ان پر الٹائے جائیں گے.اور ایسے ایسے خوفناک Storms خدا کی تقدیر ان پر چلائے گی کہ جن کے مقابل پر ان کی تمام اجتماعی طاقتیں بھی ناکام اور پارہ پارہ ہو جائیں گی.یہ اقوام قدیم جن کو آج اقوام متحدہ کہا جاتا ہے ان کے اطوار زندہ رہنے کے نہیں ہیں.یہ قومیں یادگار بن جائیں گی اور عبرت ناک یادگار بن جائیں گی اور انکے کھنڈرات سے اے توحید کے پرستارو! وہ آپ ہیں جو نئی عمارتیں تعمیر کریں گے.نئی اقوام متحدہ کی عظیم الشان فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے والے تم ہو، اے مسیح محمدی کے غلامو! جن کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے.تم دیکھو گے، آج نہیں تو کل دیکھو گے.اگر تم نہیں دیکھو گے تو تمہاری نسلیں دیکھیں گی.اگر کل تمہاری نسلیں نہیں دیکھیں گی تو ان کی نسلیں دیکھیں گی.مگر یہ خدا کے منہ کی باتیں ہیں اور اس کی تقدیر کی تحریریں ہیں جنہیں دنیا میں کوئی مٹا نہیں سکتا.(خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1991ء) خدا کی راہ کے مزدور حضور انور نے مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کے بعض ظالمانہ مؤقف کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اقوام متحدہ دراصل اقوام متحدہ نہیں ہے.اقوام متحدہ کی عمارت انصاف پر قائم ہونی چاہئے اور خدا کے صالح عباد ہی اس کی یہ عمارت اس کی بنیادوں سے اٹھائیں گے.اس ضمن میں آپ نے افراد جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آپ وہ مزدور ہیں جنہوں نے وہ نئی عمارتیں تعمیر کرنی ہیں.نئی اقوام متحدہ کی بنیادیں تو ڈالی جاچکی ہیں، آسمان پر پڑ چکی ہیں.ان کی عمارتوں کو آپ نے بلند کرنا ہے.پس ان دو مقدس مزدوروں کو کبھی دل سے محو نہ کرنا جن کا نام ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام تھا.اور ہمیشہ یادرکھنا اور اپنی نسلوں کو نصیحتیں کرتے چلے جانا کہ اے خدا کی راہ کے مزدورو! اسی تقویٰ اور سچائی اور خلوص کے ساتھ ، اسی توحید کے ساتھ وابستہ ہو کر اسے اپنے رگ وپے میں
.299 مصالح العرب.....جلد دوم سرایت کرتے ہوئے تم اس عظیم الشان تعمیر کے کام کو جاری رکھو گے.ایک صدی بھی جاری رکھو گے، اگلی صدی بھی جاری رکھو گے یہاں تک کہ یہ عمارت پایہ تکمیل کو پہنچے گی.اس عمارت کی تکمیل کا سہرا جس کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے ڈالی تھی جن کے ساتھ ان کے بیٹے اسماعیل نے مزدوری کی تھی خدا کی تقدیر میں ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر باندھا جا چکا ہے.کوئی نہیں جو اس تقدیر کو بدل سکے.ہم تو مزدور ہیں، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے غلام، آپ کی خاک پا کے غلام ہیں.پس آپ وفا کے ساتھ کام لیں اور نسلا بعد نسل اپنی اولاد کو یہ نصیحت کرتے چلے جائیں کہ تم خدا اور رسول کے مزدوروں کی طرح کام کرتے رہو گے، کرتے رہو گے، کرتے رہوگے، اپنے خون بھی بہاؤ گے اور پسینے بھی بہاؤ گے، اور کبھی نہیں تھکو گے نہ ماندہ ہو گے، یہاں تک کہ خدا کی تقدیر اپنے اس وعدہ کو پورا کر دے کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِه (الصف:10 ) که محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین اس لئے دنیا میں بھیجا گیا تھا کہ تمام ادیان پر غالب آجائے.اور ایک ہی جھنڈا ہو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہو، اور ایک ہی دین ہو جو خدا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہو، اور ایک ہی خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم ہو.خدا کرے کہ ہم اس کی بادشاہت کو اپنی آنکھوں.دیکھیں.“ میری روح کی آنکھ دیکھ رہی ہے ނ خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1991ء) ئیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان دنیا کی آنکھوں سے آپ دیکھ سکیں یا نہ دیکھ سکیں، میری روح کی آنکھیں آج ان واقعات کو دیکھ رہی ہیں.ان عظیم الشان تغییرات کو اس طرح دیکھ رہی ہیں جیسے میرے سامنے واقعہ ہور ہے ہیں.اور ہمارے مرنے کے بعد ہماری روحوں کو آشنا کیا جائے گا اور خبریں دی جائیں گی کہ اے خدا کے غلام بندو! خدا سے عشق اور محبت کرنے والے بندو! تمہاری روحیں ابدی سرور پائیں اور ابدی سکینت حاصل کریں کہ جن را ہوں میں تم نے قربانیاں دی تھیں وہ راہیں شاہراہیں بن چکی ہیں.اور جن تعمیرات میں تم نے اینٹ اور روڑے اور پتھر رکھے تھے وہ خدا کی توحید کی ایک عظیم الشان عمارت بن کر پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے.ہوگا اور ایسا ہی ہو گا.اللہ کرے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ اس رنگ
مصالح العرب......جلد دوم میں خدمت کی توفیق عطا ہو.“ اسلام کا نظام عدل رائج کریں 300 خطبه جمعه فرموده 25 جنوری 1991ء) اسلام کو دنیا کے سامنے ایک ایسے مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس کا عدل کے ساتھ کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.اس میں سب سے بڑا قصور ملاں اور سیاستدان کا ہے.ان دونوں کے گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں اسلام کے نظام عدل کو تباہ کیا جارہا ہے.پہلا نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ تلوار کا استعمال نظریات کی تشہیر میں نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے.اور تلوار کے زور سے نظریات کو تبدیل کر دینے کا نام اسلامی جہاد ہے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ حق صرف مسلمانوں کو ہے، عیسائیوں یا یہود یا ہندؤوں یا بدھوں کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی مسلمان کے نظریئے کو بزور تبدیل کریں.دوسرا جزو اس کا یہ ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم مسلمان ہو جائے تو کسی کا حق نہیں کہ اسے موت کی سزا دے....لیکن اگر کوئی مسلمان دوسرا مذہب اختیار کرلے تو دنیا کے ہر مسلمان کا حق ہے کہ اس کی گردن اڑا دے.....تیسرا اصول یہ ہے کہ مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ شریعت اسلامیہ کو زبر دستی ان شہریوں پر بھی نافذ کریں جو اسلام پر ایمان نہیں لاتے.لیکن دوسرے مذاہب کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی اپنی شریعت مسلمانوں پر نافذ کریں.آج دنیا میں اسلام کے خلاف سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ہتھیار یہی وہ تین اصول ہیں جن کی فیکٹریاں مسلمان ملکوں میں لگائی گئی ہیں.مسلمانوں کے لئے اور حقوق، غیروں کے لئے اور حقوق ، سارے حقوق دنیا میں راج کرنے کے مسلمانوں کو اور سب غیر ہر دوسرے حق سے محروم.اگر ، نعوذ باللہ من ذلک، یہ قرآنی اصول ہے تو لازما ساری دنیا اس اصول سے متنفر ہوگی اور مسلمانوں کو امن عالم کے لئے شدید خطرہ محسوس کرے گی.پس امر واقعہ یہی ہے کہ اسلامی ممالک میں اسلام کی طرف منسوب کئے جانے والے نہایت مہلک ہتھیاروں کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں.اور مُلاں ان کارخانوں کو چلا رہے ہیں.اور بھاری تعداد می
مصالح العرب......جلد دوم 301 میں دشمن ممالک کو بھیجے جاتے ہیں اور پھر یہی ہتھیار عالم اسلام کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں.(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ 1991ء) عالم اسلام کے لئے مزید مشورے پس عالم اسلام کو میرا مشورہ یہی ہے کہ پہلے اسلام کی طرف لوٹو اور اسلام کے دائمی اور عالمی اصولوں کی طرف لوٹو، پھر تم دیکھو گے کہ خدا کی برکتیں کس طرح تم پر ہر طرف سے نازل ہوتی ہیں.دوسرا اہم مشورہ یہ ہے کہ علوم وفنون کی طرف توجہ کرو.نعرہ بازیوں میں کتنی صدیاں تم نے گزار دیں.دوسری قومیں علوم وفنون میں ترقی کرتی رہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تم پر ہر پہلو سے فتح یاب ہوتی رہیں اور تم پر ہر پہلو سے فضیلت لے جاتی رہیں.پس بہت ہی بڑی اہمیت کی بات ہے کہ علوم وفنون کی طرف توجہ دو اور مسلمان طالب علموں کے جذبات سے کھیل کر ان کو گلیوں میں لڑا کر ، گالیاں دلوا کر ان کی اخلاقی تباہی کے سامان نہ کرو، اور ان کی علمی تباہی کے سامان نہ کرو اور پھر پولیس کے ذریعہ ان پر ڈنڈے برسا کر یا گولیاں چلا کر ان کی جسمانی تباہی کے سامان نہ کرو اور ان کی عزتوں کی تباہی کے سامان نہ کرو.اب تک تو تو تم یہی کھیل کھیل رہے ہو.مسلمان نسلوں کو جوش دلاتے ہو اور پھر وہ بیچارے گلیوں میں نکلتے ہیں، اسلام کی محبت کے نام پر، پھر ان کو رسوا اور ذلیل کیا جاتا ہے.ان پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں، ان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں، اور ان کو کچھ پتہ نہیں کہ ہم سے یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس لئے جذبات سے کھیلنے کی بجائے ان کو حوصلہ دو، ان کو سلیقہ دو، ان کو حمل کی تعلیم دو، ان کو بتاؤ کہ اگر تم دنیا کی قوموں میں اپنا کوئی مقام بنانا چاہتے ہو تو علم وفضل کی دنیا میں مقام بناؤ اس کے بغیر تمہیں دنیا میں قابل عزت مقام عطا نہیں ہو سکتا.(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ 1991ء) عرب اقوام کے لئے چند قیمتی مشورے 66 عربوں کو فوری طور پر اپنے اندرونی مسائل حل کرنے چاہئیں اور اس اندرونی مسائل
مصالح العرب.....جلد دوم 302 کے دائرے میں میں ایران کو بھی شامل کرتا ہوں کیونکہ تین ایسے مسائل ہیں جو اگر فوری طور پر ی حل نہ کئے گئے تو عربوں کو فلسطین کے مسئلے میں کبھی اتفاق نصیب نہیں ہو سکے گا.ایران کی عربوں کے ساتھ ایک تاریخی رقابت چلی آرہی ہے جس کے نتیجے میں سعودی عرب اور کویت عراق کی مدد پر مجبور ہو گئے تھے اور باوجود اس کے کہ اندرونی طور پر اختلافات تھے وہ کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتے کہ ایران ان کے قریب آکر بیٹھ جائے.دوسرا شیعہ سنی اختلاف کا مسئلہ ہے اور اس مسئلے میں بھی سعودی عرب حد سے زیادہ الرجک ہے.وہ شیعہ فروغ کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کرسکتا.تیسرا مسئلہ کردوں کا مسئلہ ہے.جہاں تک دشمن کی حکمت عملی کا تعلق ہے اسرائیل سب سے زیادہ اس بات کا خواہش مند ہے کہ یہ تینوں مسائل بھڑک اٹھیں.چنانچہ جنگ ابھی دم تو ڑ رہی تھی کہ وہاں عراق کے جنوب میں شیعہ بغاوت کروادی گئی.اور شیعہ بغاوت کے نتیجے میں ایران عرب رقابت کا مسئلہ خود بخود جاگ جانا تھا.دشمن کی طرف سے یہ کوشش ابھی تک جاری ہے اور اگر کامیاب ہو گئی تو اس کے نتیجہ میں دشمنوں کو دو اہم مقصد حاصل ہو جائیں گے.اول : ایران عرب رقابتیں بڑھنی شروع ہوں گی.اور دوم : شیعہ سنی اختلافات بھڑک اٹھیں گے.اور یہ دونوں افتراق پھر دوسرے کئی قسم کے جھگڑوں حتیٰ کہ جنگوں پر بھی منتج ہو سکتے ہیں.کر دوں کو بھی اسی وقت انگیخت کیا گیا ہے.لیکن نہایت ضروری ہے کہ یہ تمام مسلمان قومیں جن کا ان مسائل سے تعلق ہے فوری طور پر آپس میں سر جوڑیں اور ان مسائل کو مستقل طور پر حل کرلیں ، ورنہ یہ مسائل ایک ایسی تلوار کے طور پر ان کے سروں پر لٹکے رہیں گے جو ایسی تار سے لٹکی ہوئی ہوگی جس کا ایک سرا مغربی طاقتوں کی انگلیوں میں لپٹا ہوا ہے تا کہ وہ جب چاہیں اس کو گرا کر سروں کو زخمی کریں، جب چاہیں اتار کر سر سے لے کر دل تک چیرتے چلے جائیں......ایک اور اہم مشورہ ان کے لئے یہ ہے کہ امریکہ اسرائیل پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اردن کا مغربی کناره خالی کر دے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ سب قصہ ہے، ایک ڈرامہ کھیلا جارہا ہے.اگر امریکہ اس بات میں مخلص ہوتا کہ اسرائیل اردن کا مغربی کنارہ خالی کر دے تو صدام حسین کی یہ
303 مصالح العرب......جلد دوم پہلے دن کی پیشکش قبول کر لیتا کہ ان دونوں مسائل کو ایک دوسرے سے باندھ لو، میں کو یت خالی کرتا ہوں تم اسرائیل سے عربوں کے مقبوضہ علاقے خالی کرالو.خون کا ایک قطرہ بہے بغیر یہ سارے مسائل حل ہو جانے تھے.پھر بڑی تیزی سے اسرائیل وہاں یہودی بستیاں تعمیر کر رہا ہے.جو روپیہ اسرائیل کو اس وقت مغربی طاقتوں کی طرف سے دیا گیا ہے وہ اکثر اردن کے مغربی کنارہ کے علاقہ میں روس کے یہودی مہاجرین کو آباد کرنے کی غرض سے دیا گیا.اس لئے عقلاً کوئی وجہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ ایسا واقعہ ہو جائے کہ امریکا اس دباؤ میں سنجیدہ ہو اور اسرائیل اس بات کو مان جائے.ایک خطرہ ہے کہ اس کو ایک طرف رکھ کر شام کو یہ مجبور کیا جائے کہ مصر کی طرح تم بھی باہمی دو طرفہ سمجھوتے کے ذریعہ اسرائیل سے صلح کر لو.اگر یہ ہوا تو فلسطینیوں کا عربوں میں نگہداشت کرنے والا اور ان کے سر پر ہاتھ رکھنے والا سوائے عراق اور اردن کے اور کوئی نہیں رہے گا.عراق کا جو حال ہو چکا ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں، اردن میں پہلے ہی اتنی طاقت نہیں ہے.بلکہ یہ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل اردن سے چھیڑ چھاڑ جاری رکھے کہ چونکہ اردن نے ہمارے خلاف جارحیت کا نمونہ دکھایا ہے یا ہمارے دشمنوں کی حمایت کی ہے، اردن کو بھی اپنے قبضہ میں لے سکے.اس نقطہ نگاہ سے مشرق وسطی کی تین قوموں ایران عراق اور اردن کا اتحاد انتہائی ضروری ہے.اور اسکے علاوہ دیگر عرب قوموں سے ان کی مفاہمت بہت ضروری ہے.تا کہ یہ تین ایک طرف نہ رہیں بلکہ کسی نہ کسی حد تک دیگر عرب قوموں کی حمایت بھی انکو حاصل ہو.ایک اور مسئلہ جواب اٹھایا جائے گا وہ سعودی عرب کے اور کویت کے تیل سے ان عرب ملکوں کو خیرات دینے کا مسئلہ ہے جو تیل کی دولت سے خالی ہیں.یہ انتہائی خوفناک خود کشی ہوگی.اگر ان ملکوں نے اس طریق پر سعودی عرب اور کویت کی امداد کو قبول کر لیا کہ گویا وہ حقدار تو نہیں لیکن خیرات کے طور پر ان کی جھولی میں بھیک ڈالی جارہی ہے.اس کے نتیجہ میں فلسطین کے مسئلے کے حل ہونے کے جو باقی امکانات رہتے ہیں وہ بھی ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں گے.اس لئے اس مسئلہ پر عربوں کو یہ موقف اختیار کرنا چاہئے کہ عربوں کو خدا تعالیٰ نے جو تیل کی دولت دی ہے وہ سب کی مشترک دولت ہے.اور ایسا فارمولہ طے کرنا چاہیئے کہ اس مشترک دولت کی حفاظت بھی مشترک طور پر ہو اور اس کی تقسیم بھی منصفانہ ہو.البتہ جن ملکوں میں
304 مصالح العرب.....جلد دوم دولت دریافت ہوئی ہے ان کو پانچواں حصہ (جیسا کہ اسلامی قانون خزائن کے متعلق ہے ) یا فقہاء کے نزدیک اگر اختلافات ہوں جو کچھ نہ کچھ حصہ زائد دے دیا جائے مگر مشتر کہ دولت کے اصول کو منوانا اور اس پر قائم رہنا ضروری ہے.اس کے بعد ان کو جو کچھ ملے گا وہ عزت نفس قربان کر کے نہیں ملے گا بلکہ اپنا حق سمجھتے ہوئے ملے گا.اور امر واقعہ یہی ہے کہ سارا عالم عرب ایک عالم تھا جسے مغربی طاقتوں نے توڑا ہے.اور اپنے وعدے توڑتے ہوئے تو ڑا ہے.ورنہ پہلی جنگ عظیم کے معا بعد واضح اور قطعی و عدہ انگریزی حکومت کی طرف سے تھا کہ ہم ایک ہی متحد آزاد عرب کو پیچھے چھوڑ کر جائیں گے.وہ متحد آزاد عرب کا وعدہ انکے حق میں ابھی تک پورا کی نہیں ہوا.جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت سارے عرب کی دولت مشتر کہ دولت تسلیم کر لی گئی تھی.اس اصول کو پکڑ کر اسے مضبوطی سے تھام لینا چاہئے اور اس گفت و شنید کو ان خطوط پر آگے بڑھانا چاہئے.اپنی نیتوں کو ٹولو (خطبہ جمعہ فرمودہ 8 / مارچ 1991ء) ی فصیحتیں کن پر اثر کریں گی؟ کون سے کان ہوں گے جو ان نصیحتوں کو سنیں گے؟ کون سے دل ہوں گے جو ان نصیحتوں کو سن کر ہیجان پذیر ہوں گے اور ان میں حرکت پیدا ہوگی؟ اگر تمام تر سیاست اور اخلاق اور اقتصادیات کی بنیاد ہی متزلزل ہو، اگر نظریات بگڑے ہوئے ہوں، اگر نیتیں گندی ہو چکی ہوں تو دنیا میں کوئی صحیح نصیحت کسی پر اثر نہیں دکھا سکتی.اس لئے جس طرح میں نے غیر قوموں کو نصیحت کی ہے کہ خدا کے لئے اپنی نیتوں کی حفاظت کرو، تمہاری نیتوں میں شیطان اور بھیڑئیے شامل ہیں اور دنیا کی ہلاکت کا فیصلہ تمہاری نیتیں کرتی ہیں.اسی طرح میں مسلمان ملکوں اور تیسری دنیا کے ملکوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ خدا کے لئے اپنی نیتوں کو ٹولو.اگر تم اس لئے بچپن سے انجینئر نگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہو کہ رشوت لینے کے بڑے مواقع ہاتھ آئیں گے اور بڑی بڑی کوٹھیاں بناؤ گے.تو اس نیت کے ساتھ تم دنیا میں کچھ بھی تعمیر نہیں کر سکتے.اگر سیاستدان بننے کے وقت تم نے یہ خواہیں دیکھیں یا اس سے پہلے یہ خواہیں دیکھی تھی کہ جس طرح فلاں سیاستدان نے اقتدار حاصل کیا (اس سے پہلے وہ دو کوڑی کا چپڑاسی یا تھانیدار تھا یا کسی اور محکم کا افسر تھا.استعفیٰ دیا اور سیاست میں آیا اور پھر اس طرح کروڑ پتی بن
مصالح العرب.....جلد دوم 305 گیا اور اتنی عظمت اور جبروت حاصل کی ) آؤ ہم بھی اس کے نمونے پر چلیں تو پھر تم نے سیاست کی ہلاکت کا اسی دن فیصلہ کر لیا اور تم اگر کسی قوم کے راہنما ہوئے تو تم پر یہ مثال صادق آئیگی کہ:.إذا كان الغراب دليل قوم سيهديهم طريق الهالكين کہ دیکھو جب کبھی بھی کوے قوم کی سرداری کیا کرتے ہیں تو ان کو ہلاکت کے رستوں کی طرف لے جاتے ہیں.پس نیتوں کی اصلاح کرو اور یہ فیصلے کرو کہ جو کچھ گزر چکا گزر چکا ، آئندہ سے تم قوم کی سرداری کے حقوق ادا کرو گے، سرداری کے حقوق اس طرح ادا کرو جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام عالم کی سرداری کے حق ادا کئے تھے وہی ایک رستہ ہے سرداری کے حق ادا کرنے کا.اسکے سوا اور کوئی رستہ نہیں.حضرت عمرؓ جب بستر علالت پر آخری گھڑیوں تک پہنچے اور قریب تھا کہ دم توڑ دیں تو بڑی بے چینی اور بے قراری سے یہ دعا کر رہے تھے کہ اے خدا! اگر میری کچھ نیکیاں ہیں تو بے شک ان کو چھوڑ دے.میں ان کے بدلے کوئی اجر طلب نہیں کرتا مگر میری غلطیوں پر پرسش نہ فرمانا.مجھ میں یہ طاقت ہی نہیں کہ میں اپنی غلطیوں کا حساب دے سکوں.یہ وہ روح ہے جو اسلامی سیاست کی روح ہے اس روح کی آج مسلمانوں کو ضرورت ہے.اور غیر مسلموں کو بھی ضرورت ہے.آج کے تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ سیاست کی اس روح کو زندہ کر دو تا مرتی ہوئی انسانیت زندہ ہو جائے.یہ روح زندہ رہی تو جنگوں پر موت آجائیگی ، لیکن اگر یہ روح مرنے دی گئی اور جنگیں پھر زندہ ہوگئیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت جنگوں کو موت کے گھاٹ اتار نہیں سکتی.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ 1991ء) اس دردناک واقعہ سے سبق خلیج کی جنگ کے اس دردناک واقعہ میں ہمارے لئے بہت گہرے سبق ہیں اور سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اعلیٰ پائیدار اور ناقابل تسخیر اصولوں کی طرف لازما لوٹنا ہوگا.اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کے حق میں یہ وعدہ پورا نہیں ہو گا کہ ارض کے اوپر خدا کے
306 مصالح العرب.جلد دوم پاک بندوں کی حکومت لکھی جاچکی ہے ( أن الأرض يرثها عبادى الصالحون.ناقل ) الأرض یعنی فلسطین کی زمین ہو یا ساری دنیا مراد ہو جب تک عباد الصالحین پیدا نہیں ہوتے اور قرآن کریم کے پاکیزہ، ہمیشہ رہنے والے، ہمیشہ غالب آنے والے اصولوں پر عمل نہیں کرتے اسی وقت تک ان کے مقدر میں کوئی دنیا وی فتح بھی نہیں لکھی جائے گی.(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ 1991ء) پرسوز دعاؤں کی تحریکات کے بعض نمونے ”جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میری نصیحت یہ ہے کہ خواہ وہ آپ سے فائدہ اٹھائیں یا نہ اٹھائیں، خواہ وہ آپ کو اپنا بھائی شمار کریں یا نہ کریں، دعا کے ذریعے آپ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتے چلے جائیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی اس تعلیم کو کبھی فراموش نہ کریں کہ اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کاخر کنند دعوی حبّ پیمبرم کہ اے میرے دل! تو اس بات کا ہمیشہ دھیان رکھ، ہمیشہ اس بات کا خیال رکھ کہ یہ تیرے دشمن یعنی مسلمانوں میں سے جو دشمنی کر رہے ہیں، آخر تیرے محبوب رسول کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.پس تو اس محبوب رسول کی محبت کی خاطر ہمیشہ ان سے بھلائی کا سلوک کرتا چلا جا.خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.“ دنیا کو بتادیں کہ خدا آپ کا ہے ( خطبه جمعه فرمودہ 3 اگست 1990 ء) ”ہم بہت کمزور ہیں، لیکن ہم دعا کر سکتے ہیں، دعا کرنا جانتے ہیں، دعاؤں کے پھل ہم نے کھائے ہوئے ہیں اور کھاتے ہیں.پس جب نمازوں میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْن كى دعا کیا کریں تو خصوصیت کے ساتھ موجودہ حالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ سے یہ عرض کیا کریں کہ مکے اور مدینے کی بستیوں کا تقدس تو عبادت سے وابستہ ہے اور ہمیشہ عبادت سے وابستہ رہے گا.یہ بستیاں اس لئے مقدس ہیں کہ ان بستیوں میں ابراہیم علیہ السلام اور محمد مصطفیٰ
مصالح العرب.....جلد دوم 307 صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادتیں کی ہیں.پس آج ان عبادتوں کو زندہ کرنے والے ہم تیرے عاجز غلام ہیں، اُس شان کے ساتھ نہیں مگر جس حد تک بھی توفیق پاتے ہیں ہم ان عبادتوں کو اسی طرح زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.پس اے ہمارے معبود ! ہماری عبادتوں کو قبول فرما اور ہماری مدد فرما اور آج اگر تو نے عبادت کرنے والوں کی مدد نہ کی تو دنیا سے عبادت اٹھ جائے گی اور دنیا سے عبادت کا ذوق اٹھ جائے گا.پس تو ہماری التجاؤں کو قبول فرما.إِيَّاكَ نَعْبُدُ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں ، دنیا کی قوم کی طرف نہیں دیکھ رہے تیری طرف دیکھ رہے ہیں، تیرے حضور جھک رہے ہیں، تو مدد فرما.اگر ہماری یہ دعا قبول ہو جائے اور اگر دل کی گہرائیوں سے اٹھے اور تمام دنیا سے احمدی یہ دعائیں کر رہے ہیں تو ہر گز بعید نہیں کہ یہ دعا قبول ہو جائے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ انشاء اللہ Ball کسی اور کی کورٹ میں نہیں رہے گا ، Ball تقدیر الہی کی کورٹ کی طرف واپس چلا جائے گا.اور آپ کی دعائیں ہیں جن کا ہاتھ تقدیر الہی پر پڑتا ہے یا جن کا ہاتھ تقدیر الہی کے قدموں کو چھوتا ہے اور پھر تقدیر الہی آپ کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ رنگ بدلتی چلی جاتی ہے.اب دنیا کو یہ بدلتے ہوئے رنگ دکھا دیں اور دنیا کو بتا دیں کہ خدا آپ کا ہے اور آپ جس کے ساتھ ہیں خدا اس کے ساتھ ہوگا.( خطبه جمعه فرموده 11 جنوری 1991ء) روح کا آستانہ الوہیت پر پگھلنا شرط ہے خطبہ الہامیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام یہ لکھتے ہیں کہ یہ مقدر تھا اور ہے کہ ایسا ضرور ہوگا.آپ فرماتے ہیں کہ جب مسیح کی روح آستانہ الوہیت میں پچھلے گی اور راتوں کی اس کے سینے سے درد ناک آواز میں اٹھیں گی تو خدا کی قسم دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اس طرح پگھلنے لگیں گی جیسے برف دھوپ میں پچھلتی ہے اور اس طرح ان طاقتوں کے ہلاک ہونے کے دن آئیں گے اور ان کے تکبر کے ٹوٹنے کے دن آئیں گے.مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام تو آج نہیں لیکن مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کی روح جماعت احمدیہ میں زندہ ہے.پس اے مسیح موعود کی روح کو اپنے سینے میں لئے ہوئے احمد یو! خدا کے حضور راتوں کو اٹھو اور اس طرح پگھلوا اور دردناک کراہ کے ساتھ اور دردناک چیخوں اور سسکیوں کے ساتھ خدا کے حضور گریہ وزاری کرو، اور یقین رکھو کہ جب تمہاری روحیں اسکے
مصالح العرب...جلد دوم 308 آستانہ پر پچھلیں گی تو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کے پگھلنے کے دن آجائیں گے.اور یہ وہ تقدیر ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت تبدیل نہیں کر سکتی.“ ہماری دعا ئیں ضرور قبول ہونگی خطبہ جمعہ فرموده 22 فروری 1991 ء) انشاء اللہ ہماری دعائیں ضرور قبول ہوں گی اور یہ عظیم تاریخی دور جس میں ہم داخل ہوئے ہیں اس کا پلہ بالآخر انشاء اللہ اسلام کے حق میں ہو گا مگر ہماری دعا اور کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اس تقدیر کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے دیکھ لیں.“ 66 خطبه جمعه فرموده 15 / مارچ 1991ء) 00000
مصالح العرب.جلد دوم 309 ایم ٹی اے پر ” لقاء مع العرب“ کا پروگرام انبیاء کے الہامات اور رویا ضروری نہیں کہ نبی کی زندگی میں ہی پورے ہوں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ صرف ایک دفعہ ہی پورے ہوں بلکہ ہوسکتا ہے کہ نبی کی زندگی میں بھی پورے ہوں اور بعد میں بھی مختلف زمانوں میں پورے ہوتے رہیں.پھر بعض الہامات و رؤیا نبی کی ظاہری اولاد کے ذیعہ پورے ہوتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی متبع کے ذریعے پورے ہوتے ہیں.اور چونکہ خلافت در اصل نبوت کا ہی امتداد ہوتا ہے اس لئے نبی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسی خبریں بھی عطا ہوتی ہیں جن کا تعلق زمانہ خلافت سے ہوتا ہے.اس مختصر تمہید کے بعد ہم ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات ورؤیا کا ذکر کرتے ہیں جو شاید کسی طور پر پہلے بھی پورے ہو چکے ہوں اور شاید آئندہ بھی مختلف زبانوں اور ادوار میں مختلف شکلوں میں پورے ہوتے رہیں گے.لیکن ایک طور سے وہ پروگرام لقاء مع العرب پر بھی چسپاں ہوتے ہیں.آدھا عربی آدھا انگریزی نام ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: کوئی چھپیں چھبیس سال کا عرصہ گزرا ہے ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا ہے تو آدھا نام اس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی میں لکھا ہے.“ الحکم جلد 9 نمبر 23 مؤرخہ 10 ستمبر 1905 صفحہ 3 کالم نمبر (3) 1905ء میں حضور فرماتے ہیں کہ چھپیں چھبیس سال پہلے کا یہ رویا ہے اس کا مطلب.ہے
مصالح العرب.....جلد دوم کہ غالبا یہ 1880 ء کی بات ہے.310 شاید حضور کا مندرجہ ذیل اقتباس اس رویا کی تفسیر ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: اس وقت ہمارے دو بڑے ضروری کام ہیں، ایک یہ کہ عرب میں اشاعت ہو دوسرے یورپ پر اتمام حجت کریں.عرب پر اس لئے کہ اندرونی طور پر وہ حق رکھتے ہیں.ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہوگا کہ ان کو معلوم بھی نہ ہو گا کہ خدا نے کوئی سلسلہ قائم کیا ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کو پہنچائیں، اگر نہ پہنچا ئیں تو معصیت ہوگی.ایسا ہی یورپ والے حق رکھتے ہیں کہ انکی غلطیاں ظاہر کی جاویں کہ وہ ایک بندہ کو خدا بنا کر خدا سے دور جا پڑے ہیں.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 253) حضور علیہ السلام نے اسی مذکورہ رویا کے بارہ میں مزید کچھ وضاحت اپنے ایک کشف کے ذیل میں بیان فرمائی.آپ اپنے کشف : مَصَالِحُ الْعَرَبِ، مَسِيرُ الْعَرَبِ کے بارہ میں فرماتے ہیں: اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ عربوں میں چلتا.شاید مقدر ہو کہ ہم عرب میں جائیں.مدت ہوئی کہ کوئی چھپیں چھبیس سال کا عرصہ گزرا ہے ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا ہے تو آدھا نام اس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی میں.انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے لیکن بعض رؤیا نبی کے اپنے زمانہ میں پورے ہوتے ہیں اور بعض اولاد یا کسی متبع کے ذریعے پورے ہوتے ہیں.مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قیصر وکسری کی کنجیاں ملی تھیں تو وہ ممالک حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح ہوئے.“ ( بدر جلد 1 نمبر 23 ، مؤرخہ 7 ستمبر 1905 ء صفحہ 2 ، الحکم جلد 9 نمبر 32 مؤرخہ 10 ستمبر 1905 ، صفحہ 3) حضور علیہ السلام کے یہ الفاظ بعض رؤیا نبی کے اپنے زمانہ میں پورے ہوتے ہیں اور بعض اولاد یا کسی متبع کے ذریعے پورے ہوتے ہیں قابل غور ہیں.ان الفاظ کے پورا ہونے کی ایک صورت یہ بھی قرار دی جاسکتی ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کو پاکستان سے ہجرت کر کے دیار مغرب میں آنا پڑا جس کے بعد خلیفہ وقت کے لئے سیٹلائیٹ کے ذریعہ عربوں میں جانے کی صورت پیدا ہوئی.اور پروگرام لقاء مع العرب شروع ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا رؤیا کے پورے ہونے کا بھی ایک جلوہ نظر آیا کہ یہ پروگرام جو مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کی تبلیغ پر مشتمل تھا اور آپ کا نام عربوں میں پہنچانے کے لئے شروع ہوا تھا اس کا کی
مصالح العرب.....جلد دوم 311 فارمیٹ یہ بنا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الرابع انگریزی میں بات کرتے تھے جبکہ علمی شافعی صاحب عربی میں اس کا ترجمہ کرتے تھے.یوں آپ کا آدھا نام عربی میں اور آدھا انگریزی میں لکھنے کی ایک جھلک اس پروگرام میں بھی نظر آتی ہے.واللہ اعلم بالصواب.اس پروگرام میں حضور انور نے تفصیل کے ساتھ تمام اختلافی مسائل پر مدلل گفتگو فرمائی.نیز تفسیر آیات قرآنیہ، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دلکش پہلو، سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایمان افروز واقعات، حضور کے مختلف دورہ جات کے بارہ میں رپورٹس، عربوں کے بعض خطوط اور تبصرے اور عرب حکومتوں اور عرب قوم کو نصائح جیسے موضوعات اور حضور انور کے سحر بیان اور اسی طرز پر علمی الشافعی صاحب کے ترجمہ کی مٹھاس نے اس پروگرام کو ہر دلعزیز بنا دیا اور آج تک عرب و عجم اس روحانی مائدہ سے مستفیض ہوتے چلے آرہے ہیں.یہ پروگرام مؤرخہ 17 جولائی 1994ء کو شروع ہوا اور 2 دسمبر 1999ء تک اس کے تقریباً 473 پروگرام ریکارڈ ہوئے.شروع سے لے کر 7 دسمبر 1995ء تک علمی صاحب نے ترجمہ کرنے کی سعادت پائی.جبکہ 12 دسمبر 1995ء تا 4 جنوری 1996ء منیر ادلبی صاحب نے اور 8 جنوری تا 15 راگست 1996 ء منیر عودہ صاحب نے اور 5 ستمبر 1996ء تا آخری پروگرام بتاریخ 2 دسمبر 1999ء مکرم عبادہ بر بوش صاحب نے عربی ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی.ہم ذیل میں ان پروگراموں میں مذکور عربوں سے متعلق بعض امور کا مختصر تذکرہ کریں گے.چونکہ حضور انور اس پروگرام میں انگریزی میں گفتگو فرماتے تھے.اس لئے یہ امور جن کا ہم تذکرہ کریں گے نہ تو حضور انور کا کلام ہے نہ ہی اس کا لفظی ترجمہ.بلکہ یہ حضور انور کے کلمات کے قریب رہتے ہوئے آپ کی گفتگو کا خلاصہ ہے جو خاکسار کے اپنے الفاظ میں پیش ہے.يدعُونَ لَكَ أَبْدَال الشَّام اور يُصَلُّونَ عَلَيْكَ صُلَحَاءِ الْعَرَبِ وَأَبْدَالُ الشَّامِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کے بارہ میں سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ سب سے پہلے تو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہاں پر اہل حجاز وغیرہ کا ذکر نہیں بلکہ ابدال شام کا ذکر آیا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نعوذ باللہ یہ پیشگوئی اپنی طرف سے بنائی ، ہے کہ سبہ ہوتی تو سب سے پہلے مکہ ومدینہ کا نام ذہن میں آنا چاہئے تھا، اور حقیقت بھی یہی
مصالح العرب.....جلد دوم 312 سے پہلے عرب احمدی حجاز سے اور پھر عراق سے تھے.لیکن پیشگوئی میں صرف ابدال شام کے ذکر سے اس پیشگوئی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے.اس وقت بلا دشام سے مراد صرف آج کا شام ہی نہیں تھا بلکہ فلسطین اردن اور لبنان وغیرہ علاقے بھی اس میں شامل تھے.يَدْعُونَ کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک تو يُصَلُّونَ کی طرح یہ ہے کہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں.اور دوسرا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تجھے بلاتے ہیں جیسے کہ وہ آپ کے منتظر ہوں.اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوا.بلاد شام میں سب سے بڑی جماعت فلسطین میں قائم ہوئی اور اس کے بعد خود شام میں جماعت کا قیام عمل میں آیا.شام میں احمدیت کا انتشار بہت غیر معمولی ہے.اگر چہ بعض اوقات انہیں کئی طرح کی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی طرح کے ظلموں سے دو چار ہونا پڑتا ہے پھر بھی وہاں کے لوگ احمدیت قبول کرنے سے نہیں رکتے.آجکل تو یہی کچھ ہو رہا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ زمانہ آنے والا ہے اور زیادہ دور نہیں ہے جب شام کی گورنمنٹ اور عوام کا احمدیت کے بارہ میں رویہ بہت تیزی سے بدلے گا اور وہ بکثرت احمدیت قبول کریں گے.سیرین احمدی اخلاص کے لحاظ سے بہت غیر معمولی ہیں، اور جب وہ احمدیت قبول کرتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ان کی محبت کا وہی عالم ہوجاتا ہے جو اس الہام میں مذکور ہے.( لقاء مع العرب بتاریخ 25 نومبر 1994ء) قبولیت احمدیت سے عربوں کو انکی عظمت رفتہ واپس مل جائے گی عربوں کے احمدیت قبول کرنے اور خدا تعالیٰ کی برکات سے مستفید ہونے کے بارہ میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس ضمن میں مثبت نقطہ یہ ہے کہ انہوں نے قبل ازیں خدا کے ان افضال و برکات اور الہی فتح و نصرت کا مزہ چکھا ہوا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ وہ کچھ بھی نہ تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر نعمت سے نوازا.اب اگر وہ اسلام کی اس نشاۃ ثانیہ کے دور میں بھی آگے بڑھ کر صف اول میں شامل ہوں گے تو وہ تصور نہیں کر سکتے کہ کس قدر خدا تعالیٰ کی برکات سے مستفیض ہوں گے.اور وہ ساری عظمت رفتہ انکو واپس مل جائیگی جو کہ بدقسمتی سے ان سے چھن گئی.قبل ازیں اسلام کی خاطر محض اپنے چھوٹے موٹے قبائلی مناصب کی قربانیوں کے بدلے
مصالح العرب......جلد دوم 313 وہ دنیا کے لیڈر بنائے گئے.حتی کہ ان کے بڑے ادنی ادنی افراد کو اعلیٰ ترین مناصب و اعزاز عطا ہوئے.لیکن انہوں نے قربانیاں ان مناصب کے حصول کے لئے نہیں دی تھیں بلکہ انہیں تو اسلام کی تائید و نصرت میں ان امور کی کچھ پرواہ ہی نہ تھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں ان چیزوں میں کوئی طمع نہیں ہے اس لئے میں یہ سب کچھ تمہیں عطا کرتا ہوں اور تمہاری تائید ونصرت کرتا ہوں.پھر جب ان دنیاوی چیزوں میں طمع پیدا ہونا شروع ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے یہ نعمتیں واپس لے لیں.عظمتیں تو خدا کے فضل کے نشان کے طور پر آتی ہیں اور اس حد تک ان دنیاوی نعمتوں پر خوش ہونا جائز ہے.میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ آپ ان دنیاوی عظمتوں کے حصول کے لئے احمدیت قبول کریں بلکہ یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی محبت کے لئے قبول کریں.اگر آج بھی عربوں نے انہیں سابقہ امور کو روا رکھا تو آج بھی خدائی تائید و نصرت ان کے ساتھ ہوگی.پس اولین میں بھی تم اسلام کی تائید و نصرت کرنے والے پہلے لوگ تھے اور اسی جذبہ کے ساتھ آخرین میں بھی پہلے بن سکتے ہو.اگر تم اسلام کے ساتھ چمٹتے ہوئے اس زمانہ کے امام پر ایمان لاؤ گے اور اس کی اطاعت میں فنا ہو جاؤ گے اور اس کی تائید و نصرت میں کھڑے ہو جاؤ گے تو تمہیں تمہاری عظمت رفتہ واپس مل جائے گی.(لقاء مع العرب بتاریخ 2 جنوری 1996 ء ) عربوں کے رد عمل کا ذکر 1.اٹلی میں رہنے والے ایک مراکشی شخص کا خط موصول ہوا جس میں اس نے لکھا کہ میں نام کا مسلمان تھا، بلکہ وہ اسلام جو آباء واجداد سے مجھے ورثہ میں ملا تھا اس سے میں بیزار ہو چکا تھا.ایک دن اتفاقا ایم ٹی اے دیکھا، اور میں حیران ہو گیا کہ یہ کیسا عظیم اسلام پیش کیا جارہا ہے جو قلب و دماغ کو مطمئن کرنے والا ہے.میں جتنا جتنا ایم ٹی اے دیکھتا گیا میری پیاس بڑھتی گئی.مجھے آپ کی تفسیر قرآن بہت پسند ہے.براہ کرم مجھے تفسیر کبیر ارسال کریں.حضور نے فرمایا کہ ہم ان کو انکی مطلوبہ کتب ارسال کر رہے ہیں.الحمد للہ کہ اب یہ تبدیلی ہر جگہ ہو رہی ہے.اور اسکے بارہ میں بعض اوقات خود عرب لکھ رہے ہیں اور بعض اوقات عربوں کی نمائندگی میں احمدی لکھ رہے ہیں.
314 مصالح العرب.....جلد دوم -2 اسی طرح ابھی کل ہی مجھے ایک ایسے یورپی ملک سے خط ملا ہے جس کے ایک شہر میں عربوں کی خاصی بڑی تعداد آباد ہے.میں اس شہر میں گیا تو وہاں پر ان عربوں کو بھی دعوت دی گئی تھی.انہوں نے بہت اپنائیت کا اظہار کیا اور بعد میں بھی ہماری میٹنگز اور اجتماعات میں آنا جانا شروع کر دیا.لیکن جب میں اگلی دفعہ گیا تو ان میں سے ایک بھی موجود نہ تھا.مجھے بتایا گیا کہ وہاں پاکستانی اور ترکی مولویوں نے احمدیت کے خلاف نہایت گندے طریق پر پروپیگنڈہ کیا ت ہے جس کا ان عرب احباب پر ایسا اثر ہوا ہے کہ اب وہ ہمارے سلام کا جواب دینے کے بھی روادار نہیں.میں نے کہا کہ ان میں سے کسی کو لے کر آؤ تا میں اس سے سنوں کہ کیا کہتے ہیں.چنانچہ ان میں سے ایک شخص آیا اور میں یہ جان کر حیران ہوگیا کہ وہ پہلے احمدی تھا اور اس پروپیگنڈہ کی رو میں بہہ کر دور ہو گیا.اس نے کہا کہ بتائیں مرزا صاحب کہاں فوت ہوئے کی تھے؟ اور اسی طرح کی گری ہوئی باتوں کا ذکر کیا.میں سمجھ گیا کہ اس نے کون سی کتاب پڑھی ہے.جب میں نے اسے سمجھایا تو وہ واپس آگیا.میں نے اسے کہا کہ جب تم نے یکطرفہ پرو پیگنڈہ سنا تو تمہاری دیانتداری کہاں گئی ؟ تم ہمارے پاس کیوں نہ آئے اور ہمیں وضاحت کا موقعہ کیوں نہ دیا.بہر حال اس ملاقات کے آخر پر وہ تو بہت مطمئن نظر آرہا تھا.لیکن وہ دوسروں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا کیونکہ ان میں سے کوئی بھی لوٹ کر نہ آیا.یہ ہے اس خط کا پس منظر جو مجھے موصول ہوا ہے.اسکے بعد حضور انور نے اس خط کا ذکر فرمایا جو آپ کو موصول ہوا.حضور نے فرمایا: اس خط میں مجھے بتایا گیا ہے کہ عربوں نے اب جبکہ از خود ہمارے پروگرام دیکھنے شروع کئے ہیں تو انکی کا یا پلٹ گئی ہے.اب انہوں نے دوبارہ جماعت سے رابطہ کیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں اب صحیح طور پر سمجھ آئی ہے.اور لقاء مع العرب نے ان کو نئی زندگی عطا کی ہے.قبل از میں یہ احمدیت مخالف پر پیگنڈہ کا شکار ہو گئے تھے لیکن اب جب سے خود ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا ہے اور جب سے یہ دیکھا ہے کہ عرب احمدی بیٹھ کر آپ کے الفاظ کی ترجمانی کرتے ہیں تو اس کا ان پر بہت گہرا اثر پڑا ہے.الحمد للہ یہ بھی خدا کے فضل سے خدا تعالیٰ کی برکات ہیں جو ایم ٹی اے کی صورت میں ہمیں مل رہی ہیں.(17/جنوری 1996ء).ایک عرب ملک میں ایک احمدی ماں کے دو تین بچے تھے جبکہ خاوند غیر احمدی تھا.
مصالح العرب.....جلد دو 315 شاید ماں کسی قدر کمزور تھی اس وجہ سے رفتہ رفتہ بچے جماعت سے دور ہو گئے ، یہاں تک کہ اس کی احمدی ماں کا بھی جماعت کے ساتھ رابطہ اتنا مضبوط نہ رہا.ایک احمدی نے ان کے تعلق کو دوبارہ بحال کرنے کی نیت سے انہیں ایم ٹی اے پر نشر ہونے والی تفسیر القرآن کی کلاسز کی بعض ٹیسٹس دیں جن کو دیکھنے کے بعد ان کی کایا پلٹ گئی اور دوبارہ جماعت کے ساتھ آملے.ان کا شوق اتنا بڑھا کہ انہوں نے ایم ٹی اے ریسیو کرنے کیلئے نیا ڈش انٹینا لگوانے کا فیصلہ کیا تا کہ رمضان کا درس قرآن براہ راست دیکھ اور سن سکیں.اس احمدی عورت نے نئے ڈش انٹینا لگوانے کا ذکر اپنی ایک غیر احمدی سہیلی سے کیا.یہ غیر احمدی سہیلی پہلے سے ہی ایم ٹی اے دیکھتی رہتی تھی اور خصوصاً تفسیر قرآن سے بہت متاثر تھی لہذا اس نے کہا اگر تم ڈش انٹینا لگوانے ہی لگی ہو تو رمضان سے پہلے لگوا لو اور میں تمہیں ایک چینل کے بارہ میں بتاؤں گی جس پر ایسا عمدہ درس قرآن آتا ہے جیسا میں نے اور کہیں نہیں سنا.اور جب اس نے تفصیل بتائی تو معلوم ہوا کہ یہ چینل ایم ٹی اے ہے.چنانچہ خدا کے فضل سے ایم ٹی اے یہ سب کچھ کر رہا ہے.اور عرب جنہوں نے اپنے دروازے بند کر لئے تھے اب اللہ تعالیٰ ان کو کھول رہا ہے اور جب اللہ دروازے کھولتا ہے تو پھر کوئی ان کو بند نہیں کر سکتا.خاکسار ( محمد طاہر ندیم ) عرض کرتا ہے کہ یہ واقعہ ہمارے شامی احمدی دوست عمار المسکی صاحب اور ان کی والدہ مکرمہ نوال اٹھنی کا ہے جو مکرم عبدالرؤف اٹھنی صاحب کی بیٹی اور مکرم منیر ابھنی صاحب کی بھیجی ہیں.انکے خاوند کا نام مکرم نصوح اسکی صاحب تھا جو احدی تو نہ تھے لیکن نہایت شریف النفس انسان تھے.ان کے دوہی بچے ہیں ایک عمار المسکی صاحب اور ایک ان کی بڑی بہن.یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم شام میں عربی زبان کی تعلیم کے لئے مقیم تھے.مرحوم اکرم الشوا صاحب ایک دن عمار المسکی صاحب کو لے کر ہمارے گھر آئے اور یوں یہ نوجوان ہمارے گھر آنے جانے لگا اور آہستہ آہستہ احمدیت کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتا گیا.اس کے بعد انہیں ہماری تحریک پر جلسہ پر لندن آنے کی بھی توفیق ملی.ان کے اچھے رویے اور تبلیغ سے ان کے والد مکرم نصوح المسکی صاحب نے بھی بالآخر بیعت کرلی اور اپنی وفات سے قبل 2005ء میں جلسہ پر حاضر ہو کر حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا.مکرم عمار المسکی صاحب کی بھی یہاں لندن میں شادی ہوگئی (17/جنوری 1996ء)
مصالح العرب.....جلد دوم اور آج کل یہیں پر مقیم ہیں.ایک مصری غیر احمدی کی لقاء مع العرب میں شرکت 316 محترم علمی الشافعی صاحب کی وفات کے بعد لندن میں مقیم ایک مصری غیر احمدی نے حضور انور سے مل کر بعض سوالات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو حضور نے اسے لقاء مع العرب میں شامل ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی.اس نے پہلے پروگرام میں کہا کہ: میرا نام محمد احمد ابو حسین ہے میرا تعلق مصر سے ہے.میرا تعلق اخوان المسلمین سے ہے.حلمی شافعی صاحب میرے کولیگ تھے.میں نے احمدیت کے بارہ میں بہت کچھ پڑھا ہے لیکن یہ سارا لٹریچر جماعت کے مخالفین کا لکھا ہوا ہے.اسی طرح بعض پاکستانیوں نے بھی مجھے بہت عجیب و غریب باتیں بتائی ہیں.میں نے ایم ٹی اے پر دیئے جانے والے فون نمبر کے ذریعہ رابطہ کیا تو میرے ساتھ محترمہ مہاد بوس صاحبہ نے بات کی پھر مکرم علمی الشافعی صاحب سے بھی فون پر بات ہوئی تو انہوں نے یہاں آنے کا کہا.لیکن اسی اثناء میں وہ مصر چلے گئے.بعد میں جب مکرم عبادہ صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ علمی صاحب کی وفات ہو گئی ہے.میں تو یہ سن کر سکتہ میں آگیا.ازاں بعد میں نے عبادہ صاحب سے عرض کیا کہ میں جماعت احمدیہ کے سربراہ حضرت امیر المؤمنین سے مل کر بعض سوالات پوچھنا چاہتا ہوں.- ( 5 مارچ 1996 ء ) چنانچہ انہوں نے کئی سوالات پوچھے.حضور انور نے باوجود اس کی طرف سے کثرت سوال اور بار بار بات کاٹنے کی عادت کے نہایت لطف و کرم اور دلی انبساط کے ساتھ اس کے ہر سوال کا کافی وشافی جواب عطا فرمایا.گو کہ اس نے دو پروگراموں میں شرکت کے بعد حضرت مسیح موعود کے نام کے ساتھ علیہ السلام کہنا شروع کر دیا پھر بھی اسکے سوالات کا سلسلہ جاری رہا.بہر حال پانچ پروگرامز میں انہیں شرکت کا موقعہ ملا اور حضور انور نے انکے تمام سوالوں کے جواب دیئے، بالآخر یہ کہہ کر یہ دوست چلے گئے کہ میں جماعت کے بارہ میں مزید پڑھوں گا اور ا سکے بعد آپ کے پاس دوبارہ آؤں گا.مکرم عبادہ صاحب سے خاکسار نے اس شخص کے بارہ میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا:
317 مصالح العرب.....جلد دوم یہ شخص ایک مصری ریٹائرڈ جنرل تھے.پروگراموں میں شرکت کے بعد مکرم مصطفی ثابت صاحب اور خاکسار ان کے بلانے پر انکے گھر گئے جہاں انہوں نے اختلافی عقائد کی بحث چھیڑی تو مصطفی ثابت صاحب نے ایک ایک اختلافی مسئلہ لے کر مکمل تفصیل کے ساتھ ان کی تشفی کرائی.بالآخر انہوں نے مان لیا کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بچے مسیح موعود و امام مهدی ہیں.لیکن نہ جانے ان کو کیا انقباض تھا کہ اس کے باوجود شکوک میں گرفتار رہے اور مصطفیٰ ثابت کی صاحب سے کہنے لگے کہ میں اس شرط پر ایمان لاتا ہوں کہ قیامت والے دن تم میرے اس ایمان کے ذمہ دار ہو گے.مصطفیٰ ثابت صاحب نے کہا کہ قرآن کہتا ہے کہ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اخرای، یعنی کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی ہے.لہذا میں اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ کا ذمہ کیونکر لے سکتا ہوں.انگریز کا ایجنٹ ہونے کا الزام !! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پاک پر مخالفین کی طرف سے ایک یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ نعوذ باللہ برٹش ایجنٹ ہیں اس ضمن میں وہ آپ علیہ السلام کی سیالکوٹ میں ضلعی عدالت میں ملازمت کو دلیل قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ آپ کا برٹش گورنمنٹ کے ساتھ پہلا رابطہ تھا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: آپ کے دشمن جو پاکستان، ہندوستان اور بعض عرب ممالک میں ہیں یہ الزام تراشی کرتے ہیں کہ آپ انگریز کا لگایا ہوا پودہ ہیں.انگریز نے آپ کو اپنا ایجنٹ بنایا.سیالکوٹ میں پہلی مرتبہ برٹش گورنمنٹ کے ساتھ آپ کا جس رنگ میں رابطہ ہوا اس کا مختصر حال میں پہلے بیان کر چکا ہوں.جس وقت سیالکوٹ کی ضلعی عدالت میں آپ نے ملازمت اختیار کی اس وقت آپ کی عمر 29 سال تھی.آپ ایک معمولی کلرک تھے.اس وقت کی برٹش گورنمنٹ کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ وہ کسی 29 سالہ معمولی کلرک کو اپنی نمائندگی کے لئے مقرر کرے جو یہ دعوی کرے کہ میں مسیح موعود ہوں.یہ تو ان مخالفین کی عقل وفراست کی انتہا ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ وہ موقع ہے جب مرزا غلام احمد کا برٹش گورنمنٹ کے ساتھ رابطہ ہوا تھا.لیکن یہ رابطہ کیسا تھا؟ وہ چھوٹے چھوٹے عیسائی پادری جو کچہری کے گرد چکر لگا کر عیسائیت کا پرچار کیا کرتے
مصالح العرب.....جلد دوم 318 تھے آپ نے مسلمانوں کو ان پادریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ان کا مقابلہ کیا اور آپ اس وقت مسلمانوں کی طرف سے چیمپیئن تھے.اس طرح یہ لوگ آپ کو انگریز کا ایجنٹ بناتے ہیں.ایجنٹ کون؟ ( لقاء مع العرب بتاريخ 7 مارچ 1995 ء ) ایک نشست میں حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں برٹش ایجنٹ ہونے کے غلط پروپیگنڈے کا ذکر کرتے ہوئے عربوں کو مخاطب کر کے فرمایا:.میں خصوصاً عربوں کو سمجھانے کیلئے بیان کر رہا ہوں کہ وہ جو احمد یوں پر اس الزام کی رٹ لگائے ہوئے ہیں که احمدی برٹش ایجنٹ ہیں، بدقسمتی سے اس جھوٹ کی سزا میں اس وقت سارا عرب برٹش اور امریکہ کا ایجنٹ بنا ہوا ہے.احمدیوں پر اس جھوٹے الزام کی سزا تو انہیں ضرور مل کر رہے گی.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان کا یہ دعویٰ درست ہے کہ مرزا غلام احمد کو بچانے کیلئے برٹش گورنمنٹ آڑے آگئی تھی تو پھر وہ خدا کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ انہیں تو برٹش گورنمنٹ کی عبادت کرنی چاہئے ، اور یہی کچھ وہ کر رہے ہیں.جس وقت بھی انہوں نے احمدیت کے خلاف کوئی قدم اٹھایا احمدیت نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی اور ملکوں ملکوں میں پھیلتی چلی گئی...خصوصاً عربوں کی ایک بڑی تعداد اب حلقہ بگوش احمدیت ہو رہی ہے.انہوں نے کہا تھا ہم اسے برباد کر دیں گے.ہم نے کہا ٹھیک ہے لگا لوزور جتنا لگا سکتے ہو.اسی لئے ایک عجیب قسم کا ہیجان ان کے دلوں میں برپا ہے.عبداللہ نصیف ( مدیر جامعہ ملک عبد العزیز سعودی مجلس شوری کے نائب رئیس اور سابق جنرل سیکرٹری رابطہ عالم اسلامی.ناقل ) کو دیکھیں کیسی پریشانی لگی ہوئی ہے.کہتا ہے کہ یہ کمتر اور بے حیثیت سے لوگ! انکی یہ جرأت اور مجال کہ ان کا اپنا مسلم ٹیلیویژن ہو اور ہم جو طاقتوں کے مالک ہیں اور دولت کے پہاڑوں پر براجمان ہیں ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم ایک بڑا مسلم ٹیلی ویژن قائم کریں گے جو حقیقی اسلامی ٹیلیویژن ہوگا پھر دیکھیں گے کہ یہ احمدی کہاں ٹھہرتے ہیں اور انکی کیا حیثیت ہے؟ میں بھی ایک پیش خبری کرتے ہوئے متنبہ کرتا ہوں...قرآن کریم شیطان کو مخاطب
319 مصالح العرب.....جلد دوم کر کے فرماتا ہے کہ اس وقت جبکہ اس نے فرمانبرداری سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ میں تیرے بندوں کے راستہ میں مچان لگاؤں گا اور انہیں بہکاؤں گا کہ اے شیطان جو کچھ تیرے بس میں ہے اور جس قسم کی بھی طاقت تجھے میسر ہے استعمال کر کے دیکھ، جس قسم کی بھی فوجی طاقت تجھے حاصل ہے میدان میں اتار لے اور اپنی Infantries اور Mountain Divisions اور شاہی دستے جو کچھ تیری طاقت میں ہے آزما کے دیکھ لے لیکن: إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَان (الحجر: 43) میرے بندے، میرے بندے ہی رہیں گے اور تو کبھی بھی ان پر غلبه یا دسترس حاصل نہ کر سکے گا.یہی میرا جواب ہے کہ اے مخالفو! تم جب بھی جماعت کو مٹانے کی کوشش کرو گے تم دیکھو گے کہ ہر مرتبہ پہلے کی نسبت تمہیں زیادہ ہزیمت اور شکست کا سامنا کرنا پڑے گا.سادہ ، غریب عرب لوگ نہیں جانتے کہ ہماری اصل حقیقت کیا ہے.جب وہ ان کے اس مسلم ٹیلیویژن کو سنیں اور دیکھیں گے اور پھر جب اس ٹیلیویژن کا ہمارے مسلم ٹیلیویژن احمدیہ سے موازنہ کریں گے تو ان کی اکثریت جو سادہ اور بچے لوگوں پر مشتمل ہے برملا اس امر کا اظہار کرے گی کہ ان کا مسلم ٹیلیویژن تو سراسر جھوٹ اور غلط پروپیگنڈہ ہے.یہ اطلاعیں اور خبریں مجھے روزانہ بہت سے ممالک سے مل رہی ہیں.اس دنیا میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے احمدیت کا صرف نام سنا ہوا ہے اس کا حقیقی چہرہ نہیں دیکھا.یہی میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ احمدیت ہی اصل اور حقیقی اسلام ہے.اور جب ملاں جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ احمدی انگریزوں کے ایجنٹ ہیں یا اسرائیل کے ایجنٹ ہیں تو عام لوگوں کو تو سچائی تک پہنچنے اور جانچنے کی طاقت ہی نہیں کیونکہ وہ تو قرآنی علوم سے بے بہرہ اور نابلد ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے MTA بہت ہی اچھا حربہ اور ذریعہ ہمارے ہاتھ میں ہے.اس لئے میں عبداللہ نصیف صاحب سے کہتا ہوں کہ تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرو.اپنی دولت، اپنی طاقت جس حد تک تمہارے قبضہ میں ہے استعمال کر کے دیکھ لو.ناکامی تمہارا مقدر ہے، کیونکہ تم خدا کی مخالفت کر رہے ہو.اور ماضی کی سوسالہ مخالفت یہ ثابت کر چکی ہے کہ تم ہمیں ناکام و بر باد نہیں کر سکے.ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں نصیف بھی جمع ہو جائیں وہ کبھی بھی احمدیت کو مٹا نہیں سکتے کیونکہ یہ خدا کی طرف سے ہے.(لقاء مع العرب بتاريخ 19 نومبر 1994ء)
مصالح العرب.جلد دوم مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ جماعت میں شامل ہو جاؤ ایک پروگرام کے آخر پر حضور انور نے فرمایا:.320 میں ان عرب ناظرین سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں جو MTA پر یہ پروگرام دیکھتے ہیں.اب ان کی آنکھیں ان کے کانوں کی نسبت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں.وہ اب ہمیں صرف سن ہی نہیں رہے بلکہ دیکھ بھی رہے ہیں.اور وہ زبان جو احمدیت سے متعلق ان سے کلام کر رہی ہے وہ اس سے بہت مختلف ہے جو وہ ادھر ادھر سے سنا کرتے تھے.وہ کلام کرنے والے شخص کو بات کرتے ہوئے سامنے دیکھتے ہیں کہ وہ کس انداز سے باتیں بیان کر رہا ہے.ہر وہ شخص جو فیصلہ کرنے کی استعداد رکھتا ہے انصاف کر سکتا ہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے یا منافق ہے یا سچا مومن ہے.اس لئے اے اہل عرب! اگر تم سچائی اور حقانیت کا نشان دیکھتے اور سمجھتے ہو کہ ایسا کلام کرنے والا شخص جھوٹا نہیں ہوسکتا تو پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کیونکہ خدا ہی ہے جو دلوں کو بدلتا ہے اور راستی اور صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے.میرا ایمان ہے کہ اب اسلام کی فتح جماعت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہے.ساری دنیا میں ہم بڑی عمدگی اور احسن طریق سے اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہیں تو پھر کیوں نہ تم بھی حق قبول کر کے مسیح موعود کی اس پاکیزہ جماعت میں شامل ہو جاؤ.( لقاء مع العرب بتاریخ 16 مارچ 1995 ء ) امام مہدی علیہ السلام عربوں سے کیوں نہیں آئے؟ عربوں کے حوالے سے ایک سوال یہ بھی پوچھا گیا کہ عربوں کے ایمان لانے میں ایک بات بھی حائل ہے کہ حضرت مرزا صاحب عربوں سے نہیں آئے جبکہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ امام مہدی ان میں سے آئیگا.اسکے جواب میں حضور نے فرمایا: اسلام جزیرہ عرب سے شروع ہوا اور قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام اولین کے دور میں تمام دنیا پر غالب نہیں آئے گا لیکن (لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهِ) میں یہ وعدہ ہے کہ وہ اسے تمام دنیا پر غالب کر دے گا.عربوں نے دین اسلام کے دور اول میں اس کی تائید و نصرت کی
مصالح العرب......جلد دوم 321 کی اور بڑی قربانیاں دیں، لیکن یہ سب کچھ انہوں نے محض عربوں کی خاطر نہیں کیا بلکہ اسلام کے عظیم پیغام کی خاطر کیا.اگر یہ بات درست ہے تو کیا اگر کوئی شخص یا کوئی اور قوم اسی پیغام کو دنیا میں پھیلانے میں سب پر سبقت لے جانے والی ہو تو عرب صرف اس خیال سے پیچھے بیٹھے رہیں گے کہ یہ شخص عربی نہیں ہے؟ اگر اللہ مستقبل میں اسلام کے پھیلانے کیلئے ایک غیر عرب کو چن لیتا ہے تو تمہارا موقف کیا ہو سکتا ہے؟ کیا اسلام عربی ہے؟ اور کیا ان کا اس حجت پر پیچھے بیٹھے رہنے کا کوئی جواز ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اب غلبہ اسلام کی مہم ایک غیر عربی کے سپر د کر دی ہے؟ ہر گز نہیں.بلکہ ایسا کہیں گے تو اس کے پس پردہ محرکات کھل کر سامنے آجائیں گے.اس کا جواب پہلے سے ہی قرآن کریم میں دیا جا چکا ہے: (أَهُمْ يَقْسِمُوْنَ رَحْمَةَ رَبِّكَ) کیا وہ خدا کی رحمت کو تقسیم کر سکتے ہیں؟ یہی سوال قبل ازیں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا جاچکا ہے جب خود عربوں نے کہا: (لَوْ لَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِیم) کہ یہ قرآن ان دو عظیم بستیوں کے کسی اعلیٰ درجہ کے شخص پر کیوں نہ نازل ہو گیا.یہ کوئی نیا اعتراض نہیں جو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی کیا گیا بلکہ جب بھی کوئی رسول خدا تعالیٰ نے بھیجا تو مخالفین کی طرف سے یہی سوال اٹھایا گیا کہ آخر اس کو ہی کیوں چنا گیا؟ اور ہمیں کیوں نہ چنا گیا؟ چنانچہ اس مسئلے کا تعلق چننے سے ہے.کیا مبعوث کو چنے کا اختیار انسانوں کا ہے یا خدا کا؟ اگر انسانوں کا اختیار ہوتا تو کسی نبی کا انکار نہ کیا جاتا.کیا نوح علیہ السلام کا انکار نہ کیا گیا ؟ کیا ابراہیم جس کو امام بنایا گیا اس کا انکار نہ کیا گیا؟ آخر یہ سوال کیوں کیا جاتا ہے؟ اسکا جواب یہ ہے کہ یہ محض انسانوں کے تکبر اور ان کی خود پسندی اور عجب کا نتیجہ ہے.کیونکہ انسان کی اندر یہ بات ہے کہ وہ ہر چیز کو اپنے قبضہ میں کرنا چاہتا ہے اور ہر چیز کو اپنے زیر تصرف کر کے اپنی خدائی نافذ کرنا چاہتا ہے.خدا تعالیٰ ان کا یہ غرور توڑنے کے لئے ان لوگوں میں سے اپنا رسول چنتا ہے جن کو یہ لوگ اپنے تکبر کی وجہ سے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ کی چنیدہ شخصیات کے بارہ میں نسلی بنیادوں پر اس طرح کے اعتراضات ہر زمانے میں اٹھتے رہے ہیں کہ ان میں سے کیوں؟ اور ان میں سے کیوں نہیں؟ اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ سوال کرنے والے کے ذہن میں کیا ہے؟ اگر آج ہم صدق دل
322 مصالح العرب.....جلد دوم سے اللہ تعالیٰ کے اختیار و اصطفاء کی بناء پر امام مہدی کی اتباع کرنے پر تیار ہیں تو یہ سوال سرے کی سے ختم ہو جاتا ہے کہ عرب کیوں اس کی پیروی کریں؟ کیونکہ ایسی صورت میں یہ سوال بھی اٹھے گا کہ جب اللہ اپنا اختیار واصطفاء عرب سے فرمائے گا اس وقت غیر عرب اس کی پیروی کیوں کریں؟ اور پھر یہ سوال چودہ سو سال قبل اٹھایا جانا چاہئے تھا، خصوصا اس لئے بھی جبکہ حقیقت میں غیر عرب زیادہ ترقی یافتہ، زیادہ تہذیب یافته، زیادہ تعلیم یافتہ ، اور ایک زبر دست تاریخ کے حامل تھے.عرب کے دائیں بائیں بڑی عظیم مملکتیں آباد تھیں ایک طرف فارس اور دوسری طرف روم کی حکومتیں آباد تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے نبی نہ چنا.کیا مذکورہ منطق کے تحت ان کا حق نہ بنتا تھا کہ سوال کرتے کہ ہم میں سے کیوں نبی نہیں آیا اور ہم کیوں عرب کے نبی کی پیروی کریں؟.اب بتائیں کہ کیا یہ سوال جائز ہے؟ اگر نہیں، تو پھر نہ پہلے تھا نہ آج ہے.یہ تو سوال ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی آکر اسلامی تعلیمات میں ہی تبدیلی کر کے پیش کرے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو بدل دے تو ہم اس کی پیروی کیوں کریں؟ ایسے شخص کے بارہ میں میرا جواب بھی یہی ہے کہ اس کی پیروی اور اس کی مدد و نصرت کی ہرگز ضرورت نہیں ہے.لیکن اس کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں.اگر وہ شخص خدا کے نزدیک جھوٹا ہوا تو اللہ خود ہی اس کا سد باب فرما دے گا.اس کے خلاف تمہیں کسی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جب فرعون کے لوگ موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے منصوبے بنانے لگے تو اس کی قوم کے ایک شخص نے بڑی حکمت کی بات کی.اس نے کہا: (إِنْ يَكُ كَاذِبَاً فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِنْ يَّكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ) کہ اگر تمہارے خیال میں یہ جھوٹا ہے تو اس کا وبال اس پر پڑے گا تمہیں قتل کے منصوبے بنانے کی کوئی ضرورت نہیں.لیکن اگر یہ سچا ہے تو پھر جو وہ تمہارے متعلق پیشگوئیاں کرتا ہے وہ ضرور پوری ہو جائیں گی.یہ وہ سنہری اصول ہے جو ہمیں قرآن کریم نے بتایا ہے.اب اگر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام آپ کے نزدیک اپنے دعوے اور تعلیم کے لحاظ سے اسلام کے دائرہ سے نکل جاتے ہیں تو آپ کا کام نہیں کہ اس کے خلاف کوئی کارروائی کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ اکیلا ہی اس کے لئے کافی ہے.لیکن اگر آپ قرآن کی طرف بلا -
مصالح العرب.....جلد دوم 323 رہے ہیں، اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کی طرف بلا رہے ہیں اور ان اضافوں کو رد کر رہے ہیں جو تم نے صدیوں سے اسلام کی تعلیمات کے ساتھ لگا رکھے ہیں تو پھر وہ اسلام کی ان تعلیمات کا احیاء کر رہے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے.سو تم نے قبول نہیں کرنا تو نہ کرو، ہاں اتنا کہنے کا اختیار ہے کہ ہم نہیں مانتے اور اللہ تمہارا سد باب کرے.لیکن اس کا آپ کے عربی ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ( لقاء مع العرب بتاریخ 16 جنوری 1996ء) ایک پروگرام میں حضور انور نے سورہ جمعہ کی آیات کی روشنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخرین میں بعثت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب سوال ہوا کہ دین آپ کے آنے سے کامل ہو چکا ہے پھر یہ آخرین کون ہیں؟ کیا بعد کے زمانہ میں آپ دوبارہ ظہور فرمائیں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عرب کا انتخاب نہیں کیا بلکہ آپکی مجلس میں صرف ایک ہی غیر عرب تھا اور آپ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الشَّرَيَا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ هوَلَاء یعنی اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی چلا جائے گا تو ان میں سے ایک شخص اس کو وہاں سے بھی واپس لے آئے گا.اس مضمون کو تفصیل بیان فرمانے کے بعد حضور نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا: آپ لوگ اور جو بھی عرب اس پروگرام کوسن رہے ہیں یاد رکھیں کہ یہ آیت آپ لوگوں سے سیادت عرب نہیں چھین رہی، کیونکہ اس آیت میں مذکور حجمی ایک عرب وجود یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل مطیع و غلام ہو گا.آپ کا اثر ورسوخ تو عالمگیر ہے.جو کچھ بھی آئندہ اس دنیا میں رونما ہونے والا ہے وہ اس عرب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی میں رونما ن ہوگا.اس لئے آپ لوگوں کو اس سلسلہ میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں.لیکن یہ بات یا درکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر جب عجمیوں نے یہ اعتراض اٹھایا کہ عربوں سے ہی کیوں؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: أَهُمْ يَقْسمُوْنَ رَحْمَةَ رَبِّكَ ؟ کیا تیرے رب کی رحمت کو تقسیم کرنے کا اختیار ان کا ہے؟.لقاء مع العرب 21 مارچ 1995 ء )
مصالح العرب.جلد دوم اہل بوسنیا کے لئے عرب امداد کے اصل محرک 324 جب بوسنیا کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی تو ایک طرف مغربی طاقتوں کی پشت پناہی میں عیسائیوں نے ان کی امداد کے ساتھ چرچ کے دروازے بھی کھول دیئے اور اسلام سے کسی قدر پہلے ہی دُور یہ مسلمان مجبوری کے عالم میں عیسائیت کے اس جال میں پھنسنے لگے.اس وقت بوسنین مسلمانوں کی مدد کے لئے ایک جماعت احمدیہ تھی جو مختلف طریقوں سے کوشش کر رہی تھی.اس وقت اسلامی اور خصوصاً تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک کی طرف سے امداد نہ ہونے کے برابر تھی.اور ان دنوں میں پاکستان اقوام متحدہ میں سیکیورٹی کونسل کا چیئر مین تھا.اس ساری صورتحال کے بیان کے بعد حضور رحمہ اللہ نے ایک پروگرام میں بتایا: ہم نے یہ سوچ کر کہ وہ پاکستانی ہے اس لئے ہماری اس معاملہ میں بات سنے گا اور بوسنینز کی مدد کے لئے کوئی کارروائی کرے گا.جب میں نے ایک وفد اس کے پاس بھجوایا.تو اس کا جواب تھا کہ میں کیا کر سکتا ہوں.تم کہتے ہو کہ باقی دنیا بوسنینز کی امداد کے لئے کافی کچھ نہیں کر رہی ، میں تمہیں مسلمان عرب ملکوں کی افسوسناک حالت بتاتا ہوں کہ ان عرب ملکوں نے بوسنینز کی مدد کے لئے جو بھی وعدے اقوام متحدہ سے کئے ہیں ان میں سے ابھی تک ایک بھی پورا نہیں کیا.ان عرب ممالک کا عذر یہ تھا کہ بوسنیا کی اندرونی حالت خانہ جنگی کی ہے، حالات بہت خراب ہیں، بارڈر بند ہو چکے ہیں، ہم براہ راست ان کی مدد نہیں کر سکتے.اقوام متحدہ نے کہا ٹھیک ہے پھر جو بھی امداد ہے ہمیں دو ہم ان بوسنیز تک پہنچانے کا انتظام کریں گے..لیکن ان عرب ممالک کو اقوام متحدہ کی یہ تجویز بھی پسند نہ آئی، اور بوسنیز اب بھوک، پیاس ر اور بیماریوں اور نا کافی خوراک کے باعث ہزاروں کی تعداد میں مررہے ہیں.اس کے با وجود ان مسلمان ملکوں پر کچھ اثر نہیں ہو رہا.میں نے تمام دنیا کے احمدیوں کو ہدایت کی کہ اس سلسلہ میں کوششیں شروع کر دیں....احمدیوں نے حیرت انگیز ردعمل دکھایا یہاں تک کہ احمدی عورتوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے اپنے زیورات، چوڑیاں، انگوٹھیاں اور جو بھی قیمتی گہنے تھے پیش کر دیئے...میں نے احمدیوں کو ہدایت کی کہ وہ ان تمام مسلمان ممالک، ان کی حکومت کے
325 مصالح العرب.....جلد دوم کارندوں اور سرکردہ لیڈز کو نیز ان ملکوں کے سفارتی نمائندوں کو خواہ جو کوئی بھی ہوں احتجاجی اور یاددہانیوں کے خطوط لکھیں.اس کثرت کے ساتھ خطوط کی بوچھاڑ کی گئی کہ ان کی حکومت کو اس کی بازگشت سنائی دی...اس کارروائی کا اتنا ز بر دست اثر ہوا کہ اس کے جواب میں ہمیں عرب ملکوں کی طرف سے تہنیت کے خطوط ملنے لگے.انہوں نے کہنا شروع کیا کہ ہم ایک ملین اور دوملین ڈالرز کی امداد دے رہے ہیں اور عام لوگوں کو معلوم بھی نہیں کہ امداد کا یہ سلسلہ کن کی کوششوں اور تحریک سے شروع ہوا.اور خدا کے فضل سے جب انہوں نے مدد دینی شروع کی تو پھر خدا نے بھی ان کے دل کھول دیئے.( لقاء مع العرب بتاریخ 3 جنوری 1995 ء ) فَبَايِعُوهُ حاضرین مجلس میں سے کسی نے سوال کیا کہ عرب دنیا کے عام مسلمانوں میں سے بعض کہتے ہیں کہ ہم دیندار ہیں اور احکام دینیہ پر پورا پورا عمل کرنے والے ہیں، ہم قرآن کو سمجھتے ہیں اور سنت رسول پر عمل کرنے والے ہیں اس وجہ سے ہمیں احمدیت میں شامل ہونے کی چنداں ضرورت نہیں.انہیں کیا جواب دیا جائے؟ حضور انور نے فرمایا: انہیں یہ بتانا چاہئے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے زیادہ جاننے والے تھے.آپ کو جو بھی خدا تعالیٰ نے علم عطا فر مایا اس کے مطابق ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ اکثر مسلمان اور ان کے علماء اور لیڈر دین سے برگشتہ، غافل اور کنارہ کش ہو جائیں گے.اپنی کوششوں میں غیر متحد ہوں گے اور ان میں انتشار پیدا ہو جائے گا.اور حقیقت میں لوگ اصل قبلہ کو گم کر بیٹھیں گے.اگر یہ لوگ جن کی آپ بات کر رہے ہیں اس بات کو نہیں مانتے تو پھر یہ بالکل بھی نیک لوگ نہیں ہیں.کیونکہ کوئی بھی مومن ان باتوں سے انکار نہیں کر سکتا.اس مسئلہ کا حل بڑی وضاحت کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی میں بیان ہوا ہے.آپ نے اس کا حل یہ نہیں بیان فرمایا کہ جو تم پسند کرتے ہو یا جسے تم اچھا سمجھتے ہو اس مسلک کو اختیار کئے رکھو.بلکہ اس مسئلہ کا حل یہ بیان فرمایا کہ خدا تعالیٰ اپنے برگزیدہ امام مہدی کو بھیجے گا اور جب تمہارے کانوں میں اسکی آمد کی خبر پہنچے اور تمہیں معلوم ہو کہ وہ آ گیا ہے تو
مصالح العرب.جلد دوم 326 اس وقت بے شک تمہیں اپنے گھٹنوں کے بل بھی چل کے جانا پڑے اور برف کے تودوں پر سے بھی گزرنا پڑے تو اسکے پاس جاؤ ”فَبَايِعُوه ، پس اسکی بیعت کرو.اور اگر یہ حدیث نہ بھی ہوتی تو بھی Common Sense تقاضا کرتی ہے کہ اگر ایک شخص کو خدا تعالیٰ کھڑا کرتا ہے تو اسے مانا جائے اور اس پر ایمان لایا جائے.اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے اس نبی پر ایمان نہیں لاتا تو کیا پھر بھی وہ شخص جسے تم نیک بتا رہے ہو، نیک اور صالح کہلا سکتا ہے.نیک وہ ہے جو خدا کے حضور نیک لکھا جاتا ہے.اور ایسے لوگوں کو ہر حال میں خدا تعالیٰ کے رسول پر ایمان لانا اور اسے قبول کرنا لازم ہے.اگر وہ چاہتے ہیں کہ نیک لوگوں میں ان کا شمار ہو تو پھر ان کا فرض ہے کہ وہ کی آپ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور سچائی کے ثبوت اور دلائل طلب کریں.بعد اس کے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ صداقت کے جو ثبوت اور دلائل انہیں دیئے گئے ہیں اور احمدیت کے متعلق جو انہوں نے مطالعہ کیا ہے اس سے ان پر یہی ظاہر ہوا ہے کہ احمدیت جھوٹی ہے اس میں کوئی سچائی نہیں تو پھر وہ بے شک اسی نہج پر رہیں جس پر وہ چل رہے ہیں.کیونکہ پھر کوئی اور چارہ یا اختیار نہیں.لیکن اگر خدا تعالیٰ کے نام کے ساتھ ایک آواز اٹھتی ہے تو کوئی نیک انسان یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ اس سے بالا ہے.اگر وہ اپنے آپ کو اس سے بالا سمجھتا ہے تو ایسی صورت میں اس کا شمار کسی اور گروہ میں ہو گا جس کا ذکر قرآن کریم میں آچکا ہے.( لقاء مع العرب بتاریخ 25 نومبر 1995ء)
مکرم علمی الشافعی صاحب پروگرام لقاء مع العرب میں بطور تر جمان MAKHZAN-E- TASAWEER© 2007
مکرم عباده بر بوش صاحب پروگرام لقاء مع العرب میں ترجمہ کرتے ہوئے
مصالح العرب.جلد دوم 327 مبلغ سلسلہ برائے کیا بیر مبلغ سلسلہ کہا بیر مکرم محمد حمید کوثر صاحب نے کم و بیش 13 سال ( 1985 تا 1998ء ) کہا بیر میں بطور مبلغ ذمہ داریاں ادا کیں.آپ نے یکم تمبر 1973ء کو جامعہ احمد یہ قادیان میں اپنی تعلیم مکمل کی.اس کے بعد کچھ عرصہ مختلف مرکزی دفاتر میں کام کیا.پھر بھاگلپور، کشمیر، اور بمبئی وغیرہ میں بطور مبلغ کام کرنے کی توفیق ملی.اکتوبر 1984ء میں آپ کی تقرری حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بطور مبلغ کہا بیر (حيفا) فرمائی.26 اپریل 1985ء کو آپ کہا بیر پہنچے.تبلیغی و تربیتی مہمات کا آغاز مکرم محمد حمید کوثر صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب خاکسار کہا بیر پہنچا تو محترم مولانا شریف احمد صاحب امینی وہاں فریضہ تبلیغ و تربیت ادا کر رہے تھے جو اپنی صحت اور بیماری کی وجہ سے کہا بیر میں زیادہ دیر قیام نہ فرما سکے.اور 16 دسمبر 1985ء کو قادیان کے لئے روانہ ہو گئے.یوں 6 دسمبر 1985 ء تک خاکسار مولانا شریف احمد صاحب امینی کے نائب کے طور پر خدمت بجالاتا رہا.اُن کی واپسی کے بعد امیر جماعت و مبلغ انچارج کے طور پر خدمت کی توفیق ملی.الحمد للہ علی ذلک.ذیلی تنظیموں کو فعال بنانے کا کام تبلیغ کے سلسلہ کو منظم طور پر شروع کرنے کے لئے سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ذیلی تنظیمات کا جو قیام فرمایا ہے، اس میں بڑی حکمت ہے اور ان تنظیمات کو متحرک کئے بغیر
328 مصالح العرب.....جلد دوم تبلیغ و تبشیر کے فریضہ کی ادئیگی مشکل ہے.چنانچہ ذیلی تنظیموں کو قائم کیا گیا اور مکرم عبد اللطیف عودہ صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ، مکرم عبد الله اسعد صاحب زعیم مجلس انصار اللہ، اور خاکسار کی اہلیہ سلیمہ بانو صاحبہ لجنہ اماءاللہ کی صدر منتخب ہوئیں.بفضلہ تعالیٰ ذیلی تنظیموں کے فعال ہونے سے تبلیغ و تربیت کے کاموں میں بہتری پیدا ہوتی چلی گئی.عربی میں ہجری شمسی کیلنڈر کی اشاعت عام غیر احمدی احباب میں یہ خیال پایا جاتا تھا کہ جماعت احمد یہ بہائیوں کی طرح کا کوئی فرقہ ہے.ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے.حتی کہ ان کے مہینے وسال بھی وہ نہیں ہیں جو کہ ہجری قمری کہلاتے ہیں.چنانچہ اس خیال کے ازالہ کے لئے 1987ء میں پہلی بار 1407.1408ء ہجری قمری اور 1367ء ہجری شمسی کیلنڈر عربی میں شائع یا.اس کیلنڈر میں یہ وضاحت کی گئی کہ ہجری شمسی کیلنڈر سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس خیال سے جاری فرمایا تھا کہ مذہبی و دینی امور کے لئے تو مسلمان ہجری قمری سن استعمال کرتے ہیں.مگر روز مرہ کے کاموں کے لئے عیسوی سن استعمال کرنے پر مجبور ہیں.چنانچہ آپ کی ہدایت پر ہجری شمسی کیلنڈر تیار کیا گیا جو ہجری قمری سال کی طرح ہجرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوتا ہے.اور مہینوں کے نام خاص واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں.اس کی کیلنڈر میں مہینوں کے نام اور ان کا پس منظر بھی شائع کیا گیا.یہ کیلنڈر ہر سال شائع ہوتا رہا اور عربوں میں کافی مقبول ہوا.کیلنڈر کے بارہ میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا مکتوب گرامی یہ کیلنڈر عبد اللطیف صاحب اسماعیل قائد مجلس خدام الاحمدیہ نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھجوایا.چنانچہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جوابی عربی مکتوب گرامی میں فرمایا.وصلنى مكتوبك وتقويم "هجری شمسی “ فجزاكم ا الله احسن الجزاء ما احسن ما فعلتم و خدمتم بنشر هذا التقويم لانه كان ضرورة للجماعة ان العرب لا يعرفون اهمية هذا التقويم فبارك
مصالح العرب.....جلد دوم الله فيكم و في حبكم بلغ سلام المحبة الى الاخوان الذين عملوا و تعاونوا معكم في هذه المهمة فكان الله معكم (دستخط) میرزا طاهر احمد 329 ترجمہ: آپ کا خط اور کیلنڈر ہجری شمسی مل گیا ، جزاکم اللہ احسن الجزاء.اس کیلنڈر کو شائع کر کے آپ نے بہت اچھا کام ہے اور خدمت سرانجام دی ہے.جماعت میں اس بات کی بہت ضرورت تھی، کیونکہ عرب اس کیلنڈر کی اہمیت کو نہیں جانتے.اللہ تعالیٰ آپ کو برکت عطا فرمائے اور محبت میں بڑھائے.میرا محبت بھرا سلام تمام بھائیوں تک پہنچا دیں جنہوں نے اس اہم کام کی بجا آوری میں آپ کے ساتھ تعاون کیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.(میرزا طاہر احمد ) اخبارات میں مخالفت، اس کا رڈ اور جماعت کی تبلیغ مورخہ 21 /اگست 1987ء کو بمقام ناصرہ سے شائع ہونے والے ہفتہ روزہ ”الوطن نے اپنے ایک مقالہ میں یہ فقرہ لکھا: "إن بعض الطوائف الإسلامية استقلت عن الإسلام السني مثل البهائية والدرزية و الأحمدية “ ترجمہ: بعض اسلامی فرقوں نے اہل السنۃ والجماعۃ سے علیحدگی اختیار کر لی بہائیت ، دروز اور احمدی.ہے.مثلاً اس پر جماعت احمدیہ کی طرف سے اُسی ہفت روزہ میں یہ جواب شائع کروایا گیا کہ: جماعت احمدیہ حقیقی اسلام کا دوسرا نام ہے.اور مصنف مقالہ کی یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کو بہائیوں اور دروز کے ساتھ ملا رہے ہیں.حالانکہ یہ دونوں فرقے خود اپنا تعلق اسلام سے قطع کر چکے ہیں.اس کے برعکس جماعت احمد یہ اس حقیقی اسلام پر عمل پیرا ہے جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل دنیا کے سامنے پیش کیا تھا، اور اسی اسلام پر دل و جان سے ایمان رکھتی اور اس کی تبلیغ کرتی ہے.یہ تردیدی بیان ”الوطن“ 4 ستمبر 1987 ء کے شمارہ میں شائع ہوا.اس کے بعد اس تردیدی بیان کے جواب میں ناصرہ سے ہی شائع ہونے والے ایک دوسرے عربی ہفت روزہ "
مصالح العرب.....جلد دوم 330 الصنارة‘ نے اپنی 6 نومبر 1987ء کی اشاعت میں ایک اور مخالف کا مقالہ جماعت کے خلاف شائع کر دیا جس میں جماعت پر شدید اعتراض کے گئے تھے.اس مقالہ کا جواب جماعت کی طرف سے اسی ہفتہ روزہ میں 20 نومبر 1987ء میں شائع ہوا.بعد ازاں اسی ہفت روزہ میں 27 نومبر 1987ء کو ایک اور مقالہ جماعت کے خلاف شائع ہوا.اور اس کا عنوان تھا بعض نقاط الخلاف بين أهل السنة والجماعة الأحمدية‘جس کا جواب جماعت کی طرف سے 11 دسمبر 1987 ء کے شمارہ میں شائع ہوا.لیکن افسوس کہ مفتی روزه ” الصنارة “ نے غیر جانب داری کا ثبوت نہیں دیا.کیونکہ اس نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک انتہائی مخالفانہ مضمون شائع کر کے یہ اعلان کیا کہ ہم اب اس سلسلہ کو بند کرتے 66 ہیں.چنانچہ مجبورا ہم نے اس مضمون کا جواب مجلۃ البشری میں شائع کر دیا.ان مضامین کی اشاعت سے ہزاروں افراد تک جماعت احمدیہ کی تبلیغ پہنچ گئی.بعد ازاں بہت سے افراد نے رابطہ کر کے ہم سے لٹریچر منگوایا اور مختلف مسائل کے بارہ میں معلومات حاصل کیں.خدام الاحمدیہ کے اجتماعات 1986ء کے شروع میں مجلس خدام الاحمدیہ کبابیر کو از سر نو منظم کیا گیا اور فعال بنایا گیا چنانچہ 1986ء 19ء 12 فروری 1986ء کو مجلس نے اپنا پہلا سالانہ اجتماع مدرسہ احمدیہ کہا بیر کی گراؤنڈ میں منعقد کیا.اس کے بعد بفضلہ تعالیٰ ہر سال خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع منعقد ہوتا رہا.ایک اجتماع کے بارہ میں: 1.حیفا سے شائع ہونے والے اخبار الانوار نے مورخہ 18ر پریل 1988ء کی اشاعت میں مندرجہ ذیل خبر شائع کی: جبل کرمل کے محلہ کہا بیر نے بروز جمعہ و ہفتہ دوروز عظیم الشان اجتماع مشاہدہ کیا ہے جس میں سینکڑوں طلبا اور نو جوانوں نے حصہ لیا.یہ تیسرا سالانہ اجتماع ہے جو مجلس خدام الاحمدیہ نے منعقد کیا ہے.اس اجتماع میں دو روز تک ورزشی مقابلہ جات منعقد ہوئے.اور مختلف ٹیموں نے 1ء سے مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماعات کے انعقاد کا سلسلہ شروع ہوا.
مصالح العرب......جلد دوم 331 والی بال، فٹ بال، باسکٹ بال، جمناسٹک، رسہ کشی، کرائے اور دوسری کھیلوں کے مقابلہ میں حصہ لیا.علاقہ کے باشندے بڑی تعداد میں اس اجتماع میں شریک ہوئے.کہا بیر کے علاوہ باہر سے بھی مہمان تشریف لائے، جنہوں نے مجلس خدام الاحمدیہ کی سرگرمیوں کو دیکھ کر نہایت خوشی اور فرحت کا اظہار کیا.2.بمقام ناصرۃ سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ” الصنارة“ نے 8 اپریل 1988ء کے شمارہ میں مندرجہ ذیل خبر شائع کی: منعقد کیا.مجلس خدام الاحمدیہ کہا بیر نے ، کبابیر حیفا میں جمعہ و ہفتہ دو روز اپنا تیسرا سالانہ اجتماع اجتماع کے موقعہ پر یہ اعلان بھی کیا گیا کے جماعت احمد یہ اگلے سال ماہ مارچ میں صد سالہ جشن ( تشکر ) منائے گی.جس میں ایسی خاص نمائش کا اہتمام کیا جائے گا، جس میں قرآن مجید کے سو زبانوں میں تراجم ( کامل یا جزوی ) پیش کئے جائینگے ، اس کے علاوہ دوسری کتب بھی اس نمائش میں رکھی جائیں گی.3.حیفا سے شائع ہونے والے اخبار کول بو نے مورخہ 7 اپریل 1988 کے شمارہ میں مندرجہ ذیل خبر شائع کی : جماعت احمدیہ کے نوجوانوں نے اس ہفتہ کے آخر پر بانی جماعت احمدیہ کے ظہور پر 99 سال مکمل ہونے کی خوشی میں اجتماع منعقد کیا.یہ اجتماع حیفا شہر کے محلہ کہا بیر میں منعقد ہوا.اجتماع منعقد کرنے والوں نے اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا کہ مجلس خدام الاحمدیہ کی تأسیس پر پچاس سال مکمل ہونے کی خوشی میں یہ اجتماع منعقد کیا گیا.مجلس خدام الاحمدیہ بلا تمیز رنگ و مذہب انسانی ہمدردی اور محتاجوں کی مدد کے لئے ہر وقت مستعد رہتی ہے.اجتماع کی تقاریر میں امن اور اسلام کی طرف بلایا گیا.(تلخیص رپورٹ مطبوعہ مجلة البشری مئی، جون 1988ء از صفحہ 19 تا صفحہ 48)
مصالح العرب.جلد دوم 332 جماعت احمدیہ کبابیر کی طرف سے مستحق فلسطینیوں کی مالی امداد دسمبر 1988ء کو دریائے اردن کے مغربی کنارہ پر آباد فلسطینی علاقے اور غزہ میں ایک انقلابی تحریک شروع ہوئی اور جوں جوں اس میں شدت پیدا ہوئی اسرائیلی حکومت کی سختیاں بھی بڑھتی گئیں.فلسطینی مزدورں کی ایک بہت بڑی تعداد صبح سویرے اسرائیلی علاقہ میں محنت مزدوری کرتی اور شام کو واپس چلی جاتی.یہی اُن کی گزر بسر کا سب سے بڑا ذریعہ تھا.حکومت اسرائیل جب انہیں سزا دینا چاہتی ان کی اسرائیل میں آمد پر پابندی لگا دی جاتی.چنانچہ ان پابندیوں کی وجہ سے فلسطینیوں کے اقتصادی و معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے.ایسے حالات میں جماعت احمد یہ کہا بیر نے اپنی استطاعت کے مطابق خدمت خلق کے جذبہ کے تحت مندرجہ ذیل اقدام ٹھائے.سال میں کم از کم دو بار تمام افراد جماعت کہا بیر نئے پرانے کپڑے مسجد کے نچلے ہال میں جمع کر دیتے.ممبرات لجنہ بچوں، بچیوں ، عورتوں، مردوں کے کپڑے الگ الگ کرتیں.پھر انہیں فلسطینی علاقوں اور غریب بستیوں اور مستحقین میں تقسیم کیا جاتا.آٹا چاول دال تیل وغیرہ خوردنی اشیاء کے تھیلے غریب فلسطینیوں کے گھر پہنچائے جاتے.ماہ اگست ستمبر میں جب اسکول اور مدر سے کھلتے مستحق بچوں کو کتابیں اور کاپیاں دی جاتیں.بیوگان اور یتامیٰ کی خاص طور پر مدد کی جاتی.مریضوں کے علاج کے لئے ہر ممکن مالی مدد کی جاتی.صدقۃ الفطر کا بڑا حصہ انہیں غرباء میں تقسیم کر دیا جاتا.عید الاضحیٰ کے موقعہ پر قربانی کے جانوروں کا گوشت بھی اُن میں تقسیم کیا جاتا.جماعت احمد یہ کہا بیر کی طرف سے غیر احمدی مسلمانوں کی امداد 1948 میں فلسطینیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اس وقت کے فلسطین سے ہجرت پر مجبور ہونا پڑا.اور اس میں جماعت احمدیہ کے افراد کی بھی خاصی تعداد تھی.بعض مقامات سے تمام کے تمام افراد جماعت کو ہجرت کر کے پاس کے عرب ملکوں میں پناہ لینی پڑی.اس کے علاوہ
333 مصالح العرب.....جلد دوم فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد اُس حصہ فلسطین میں بھی باقی رہ گئی جسے ”اسرائیل“ کہا جاتا ہے.اپنے ان فلسطینی بھائیوں کی طرح جماعت احمد یہ کبابیر کے افراد نے بھی اپنی ارضِ وطن کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا.ہر ظلم کو برداشت کیا اور ہر مصیبت کو سینے سے لگایا.شروع میں ان لوگوں کی اقتصادی حالت بہت خراب تھی.اسی حالت میں جب کبھی ہمارے مسلمان بھائیوں نے جماعت احمدیہ کے افراد سے مالی مدد کا مطالبہ کیا.جماعت نے اپنی کم مائیگی کے باوجود ان کی مدد کی.خاص طور پر جب کبھی کسی قریہ یا شہر سے مسجد بنانے یا اس کی مرمت کیلئے افراد جماعت کہا بیر سے مدد و استعانت چاہی گئی جماعت احمدیہ نے فراخ دلی سے ان کی مدد کی.بعض کے اسماء درج ذیل ہیں.1 - مسجد السلام بمقام الناصرة 2 - مسجد الهدى بمقام جبل الدولۃ الناصرة ،3.مسجد المشهد بمقام المنش بمقام المشهد 4 - مسجد الطن بمقام البطن ، 5 - مسجد الصديق بمقام الناصرة ، 6 - مسجد النور بمقام رینہ، 7 - مسجد النور مقام الناصرة 8 - مسجد الحنين الجديد بمقام کنین ، 9 - مسجد المغار بمقام مغار، 10 - مسجد عمر بن الخطاب بمقام شفاعمر، 11- مسجد كفر قرع بمقام كفر قرع ، 12 - مسجد ام الفحم بمقام ام الفحم.کبابیر میں صد سالہ جو بلی تقریبات کا انعقاد 1989ء.1889ء دنیا کی تمام جماعتہائے احمدیہ کی طرح کہا بیر میں بھی صد سالہ تقریبات کا انعقاد ہوا.اس کے لئے 1986 میں ہی تیاریاں شروع کر دی گئی تھیں.جس کا خلاصہ درج ذیل ہے.1.جامع سید نا محمود کی تعمیر کی تکمیل.2.مسجد کے دو میناروں کی تعمیر کی تکمیل جن کی بلندی تینتیس تینتیس (33-33) میٹر ہے.3.مسجد کی زمین کے ارد گرد پتھر کی خوبصورت چاردیواری بنا کر دو طرف گیٹ لگوانا، اردگرد کے علاقے کی تزئین وغیرہ کا کام مکمل کرنا.4.مسجد کے ہال میں کتابوں کی جو نمائش ہے اُس کو مزید بہتر بنانا.5 منتخب آیات، احادیث، اقتباسات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عبرانی اور ایڈش (Yidish) زبانوں میں تراجم شائع کرنا.
مصالح العرب.....جلد دوم 6.مجلہ البشری کا موقعہ کی مناسبت سے خاص شمارہ شائع کرنا.334 الحمد للہ مدت مقررہ میں یہ تمام کام پایہ تکمیل کو پہنچ گئے جس کی کسی قدر تفصیل آگے آئے گی.مسجد احمد یہ کہا بیر کی تعمیر نو مسجد احمد یہ کہا بیر جس کی بنیاد محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے 16 ذو القعدہ 1349 ھ مطابق 3 اپریل 1931 ء کو رکھی ، جس کی تکمیل مولا نا ابو العطاء صاحب کے زمانہ میں ہوئی.کم و بیش نصف صدی گزرنے کی وجہ سے مسجد کی عمارت خستہ ہو گئی تھی جس کی بنا پر 1979 ء میں اس کی تعمیر نو کا منصوبہ صد سالہ جوبلی کے منصوبہ کے تحت عمل میں آیا.مورخہ 22 / رجب 1399ھ بمطابق 18 جون 1979 ء کو مولانا فضل الہی بشیر صاحب نے مسجد کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا.ابھی مسجد کی پہلی منزل کی چھت مکمل ہوئی تھی کہ مولانا موصوف کا تبادلہ عمل میں آیا ، اور وہ 16 دسمبر 1981ء کور بوہ تشریف لے گئے.بعد ازاں مسجد مختلف مراحل میں تعمیر ہوتی رہی.یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسجد کا نقشہ ایک مسلمان انجینئر محمود طبعونی صاحب آف ناصرہ نے محترم مولانا فضل الہی بشیر صاحب کے مشورہ سے تیار کیا.مسجد احمد یہ کہا پیر اور وقار عمل انجینئرز کے اندازے کے مطابق اس مسجد کی تعمیر کے اخراجات چھپیس لاکھ ڈالر کے برابر مقامی کرنسی میں تھے.لیکن جو اصل اخراجات اس مسجد کی تعمیر پہ ہوئے وہ صرف نو سے دس لاکھ ڈالر کے درمیان ہیں.اس کی بڑی وجہ احباب جماعت اور خدام کا مسجد کی تعمیر کیلئے دن رات وقار عمل کرنا تھا، حقیقت تو یہ ہے کہ سوائے بعض خاص امور کے معماری سے لے کر مزدوری تک جملہ اخراجات ( تقریباً دس لاکھ ڈالر ) کہا بیر کی جماعت نے جو بلی فنڈ اور مسجد کا چندہ جمع کر کے پورا کیا اور کسی قسم کی کوئی بیرونی امداد حاصل نہ کی گئی.یہ مسجد حقیقت میں وقار عمل کی نیک تحریک کا ثمرہ ہے.
مصالح العرب.جلد دوم مسجد کے منارے 335 1987ء میں جب مسجد کے میناروں کی تعمیر کا منصوبہ زیر غور آیا تو خاکسار نے انجینئر زکو قادیان سے منارہ اسیح کی بڑی تصاویر اور تفاصیل منگوا کر دیں، تا وہ مسجد کے منارے اس کے کسی قدر مشابہ بنانے کی کوشش کریں.چنانچہ مینارہ اسیح کی طرح ہر مینارے کی تین تین منزلیں بنائی گئیں.الحمد للہ دونوں مینارے جوبلی سال 1989ء میں پایہ تکمیل کو پہنچے.زائرین اور اخباروں کے نمائندے آتے ہیں اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں.ایک مقامی اخبار کے صحافی نے مسجد دیکھنے کے بعد اپنے اخبار میں مندرجہ ذیل خبر شائع کی.بلاشبہ جماعت احمدیہ کی مسجد مشرق وسطی کی خوبصورت مساجد میں سے ایک ہے.مستقل نمائش کا قیام صد سالہ جوبلی منصوبہ کے تحت مسجد احد یہ کہا بیر ( جامع سید نا محمود ) کے نچلے ہال کے ایک حصہ میں یہ مستقل نمائش بنائی گئی ہے.اس نمائش کا افتتاح فروری 1987 میں ہوا.نمائش کی زینت بننے والے wings کی کچھ تفصیل اس طرح ہے: قرآن کریم کے شائع ہونے والے تراجم وتفاسیر.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی تصاویر.جماعت احمدیہ کے ذریعہ اکناف عالم میں تعمیر ہونے والی مساجد کی تصاویر.جماعت احمدیہ کے مختلف عالمی مراکز سے شائع ہونے والے اخبارات و رسائل کے نمونے.مبلغین کرام کی تصاویر جنہیں کہا بیر میں تبلیغی خدمات بجالانے کی توفیق ملی.مقامی جماعت احمدیہ کی مختلف تصاویر.عربی اور دوسری زبانوں میں مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہونے والی جماعت احمدیہ کے بارے میں آراء.
مصالح العرب.....جلد دوم 336 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہم پیشگوئیاں جو عصر حاضر کے بارے میں ہیں.عربی میں دنیا کا ایک بڑا سا نقشہ اور اس میں چھوٹے چھوٹے قمقموں سے مراکز جماعت کی نشان دہی کی گئی ہے.اپریل 1998 ء تک ایک اندازہ کے مطابق اس نمائش کو دس ہزار زائرین نے دیکھا اور بہت نیک تاثرات کا اظہار کیا.صد سالہ جشن تشکر کی تقریبات صد سالہ جوبلی کی تقریبات کی ابتدا مورخہ 20 مارچ 1989 ء کوسیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قبر پر اجتماعی دعا کے ساتھ ہوئی.اس کے بعد بمقام القدس (یروشلم) میں مسجد اقصیٰ و مسجد صخرہ میں نوافل ادا کئے گئے.مورخہ 22 / مارچ 1989 ء بروز بدھ افراد جماعت کبابیر نے نماز تہجد با جماعت ادا کی اور روزہ رکھا اور مغرب کے وقت مسجد میں اجتماعی طور پر افطاری کی گئی.مؤرخہ 23 / مارچ 1989ء بروز جمعرات افراد جماعت کیا بیر نے نماز تہجد با جماعت ادا کی.فجر کی نماز اور درس کے بعد قبرستان میں مرحومین کے لئے اجتماعی دعا کی گئی.سات بجے صبح مسجد کے سامنے چھ عدد بکروں اور دو بچھڑوں کی قربانی کی گئی.ان میں ایک بکرے کی قربانی مرحوم محمد داؤ د عودہ کے لڑکوں نے بانی جماعت احمد یہ سید نا حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی طرف سے دی.محمد عبد الہادی صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع" کی طرف سے ایک بچھڑے کی قربانی کی.ان کے علاوہ غزالہ داؤد صاحبہ.فوزی عبد اللہ صاحب.زیدان خضر صاحب برادران - عبد الکریم صاحب و منصور صاحب.عبد القادر قصینی صاحب، ہاشم طیب صاحب نے بھی ایک ایک بکرے کی قربانی کی.تمام مرد حضرات مسجد کے سامنے صحن میں اور خواتین دار التبلیغ میں جمع ہو گئے اور ٹھیک دس بجے دعاؤں اور نعرہ ہائے تکبیر و تہلیل کے درمیان لوائے احمدیت لہرایا گیا.بعد ازاں تمام مرد وزن مسجد کے نچلے ہال میں تشریف لے گئے جسے دوحصوں میں پردہ لگا کر تقسیم کر دیا گیا.تلاوت اور قصیدہ کے بعد سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے جو بلی پیغام کا عربی ترجمہ
مصالح العرب......جلد دوم 337 سُنایا گیا.بعد ازاں عبدالہادی اسعد صاحب (صدر برائے جو بلی کمیٹی ) اور فلاح الدین صاحب صدر جماعت احمد یہ کہا بیر نے تقریر کی.اس پروگرام کے اختتام پر تمام حاضرین جلسہ نے قرآن مجید کے تراجم اور کتب کی نمائش دیکھی.عصر کے بعد خدام الاحمدیہ کی طرف سے مدرسہ احمدیہ کے صحن میں مختلف تفریحی کھیلوں کا انتظام تھا.مغرب کے بعد کہا بیر کے تمام گھرانوں مسجد مدرسہ اور گزرگاہوں پر جدید طرز سے چراغاں کیا گیا، دور سے کرمل پہاڑ کی یہ چوٹی بقعہ نور بنی ہوئی دکھائی دیتی تھی.جو بلی کی ان تقریبات میں خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کی طرف سے بھی علیحدہ طور پر مختلف پروگراموں کا اہتمام کیا ہوا تھا جو بفضلہ تعالیٰ بہت کامیابی کے ساتھ منعقد ہوئے.اسی طرح لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کی طرف سے بھی 24 / مارچ کو علیحدہ تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں دیگر پروگرامز کے علاوہ مختلف اہم موضوعات پر ممبرات لجنہ نے خطابات کئے.مورخہ 24 مارچ 1989ء کو بعد نماز مغرب و عشاء مسجد کے نچلے ہال میں صد سالہ جو بلی کے سلسلہ کی اختتامی تقریب منعقد ہوئی جس میں غیر از جماعت دوستوں کو بلایا گیا تھا جن میں سے بعض احباب نے جماعت کے بارہ میں بہت اچھے ریمارکس دیئے ان احباب کے اسماء درج ذیل ہیں.1.ڈاکٹر محمود عباسی لیکچرار جامعہ حیفا - 2 - جورج شقیر (مسیحی مہمان) 3- کامل فارس مفتش المعارف العربیة حیفا ( دروز فرقہ سے ہیں 4 فرید و جدی الطبری قاضی المحکمة الشرعية حيفا.ان تقریبات کی ابتدا سے لے کر انتہا تک خبریں بعض اخبارات میں شائع ہوئیں ، ذیل میں ان کے نام اور اشاعت کی تاریخیں درج کی جاتی ہیں: كل العرب مورخہ 17 مارچ 1989، الصنارة 17 مارچ 1989، كل العرب 31 مارچ 1989، الصنارة 31 مارچ 1989ء.وفود کی شکل میں جلسہ سالانہ برطانیہ میں شرکت کا آغاز جب سے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے برطانیہ میں ہجرت کے بعد برطانیہ کا
مرحوم کے 338 مصالح العرب......جلد دوم جلسہ سالانہ عالمی جلسے کی شکل اختیار کر گیا، جماعت احمد یہ کہا بیر سے کچھ نہ کچھ لوگ اجتماعی و انفرادی طور پر اُس میں شریک ہوتے رہے.لیکن 1990ء سے باقاعدہ وفد کی صورت میں جلسہ میں شرکت کا سلسلہ شروع ہوا اور پہلی پار 36 انصار،خدام،اطفال شریک ہوئے.خاکسار ( حمید احمد کوثر صاحب) نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں درخواست کی کہ اطفال الاحمد یہ کہا بیر کے ایک گروپ کو جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقعہ پر محترم منیر الحصنی صاحب کا قصیدہ خبّروا عنا العصور بعدنا.....) پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائیں.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پہلے میں خود سنوں گا پھر پڑھنے یا نہ پڑھنے کا فیصلہ ہوگا.چنانچہ مورخہ 28 جولائی 1990ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسلام آباد کی مسجد میں قصیدہ سماعت فرمایا اور اپنی رضامندی اور مسرت کا اظہار فرماتے ہوئے اختتامی اجلاس میں قصیدہ پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی.اگلے روز حضور رحمہ اللہ کی موجودگی میں اختتامی خطاب سے قبل یہ قصیدہ پڑھا گیا جسے بہت پسند کیا گیا، یہ پہلا موقعہ تھا، لیکن اس کے بعد پھر ہر سال وفد کہا بیر کو جلسہ میں شرکت کرنے اور قصیدہ پڑھنے کا موقعہ ملتا رہا.بعد ازاں یہ سلسلہ خواتین کے جلسہ میں بھی شروع ہو گیا.وہاں بھی لجنہ اماء اللہ کہا بیر کا ایک گروپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قصائد میں سے کوئی قصیدہ پڑھتا رہا.ڈروز میں تبلیغ کا اسلوب 1992ء میں جو وفد جلسہ میں شریک ہوا اس میں دروز فرقہ کے ایک دوست طویل اعظم ابو ادیب (از دالية الكرمل) بھی شامل تھے.مورخہ 8 اگست 1992 ء کو کہا بیر کے وفد کی انفرادی ملاقات تھی.جب یہ ملاقات والے کمرے میں آئے تو حضور رحمہ اللہ نے فرمایا دروز فرقہ کے لوگوں کو تبلیغ کرتے ہوئے یہ سمجھانا چاہئے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود حضرت سلمان فارسی کی طرح فارسی النسل ہیں.اور سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی سے یہ واضح ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور فارسی النسل میں سے ہی ہونا تھا.ابوادیب صاحب کو جب یہ بتایا گیا تو وہ اس بات سے بہت خوش ہوئے اور اپنے فرقہ کے لوگوں میں تبلیغ کا وعدہ کیا.
مصالح العرب.جلد دوم شفقت اور عنایت 339 اسی سال جلسہ سالانہ کے موقع پر ملاقات کے دوران حضور ڈاک دیکھنے میں بھی مصروف تھے.حضور نے خاکسار سے دریافت فرمایا کتنے افراد فلسطین سے آئے ہیں.خاکسار نے عرض کیا 35.تو حضور نے اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کی 35 انگوٹھیاں مجھے دیں.نیز حضرت مسیح موعود کی اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی مرحمت فرمائی اور ارشاد فرمایا ہر انگوٹھی کے ساتھ اسے مس کریں.خاکسار نے ارشاد کی تعمیل کی ، اس موقعہ پر اس بابرکت انگوٹھی سے خاکسار کو برکت حاصل کرنے کا موقعہ ملا.پھر یہ انگوٹھیاں حضور نے کہا بیر کے وفد کے تمام ممبران کو عطا فرمائیں.طریق تبلیغ 1995ء کے جلسہ سالانہ میں 45 مرد و زن فلسطین سے شریک جلسہ ہوئے.اس میں ایک غیر احمدی دوست ابو مامون (قلنسوہ) بھی تھے.انہیں اس جلسہ سالانہ کے موقعہ پر بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.مورخہ یکم اگست 1995 ء کو انفرادی ملاقات کے دوران حضور نے ان کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : اُدْعُ إِلى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِىَ اَحْسَنُ (النحل: 126) کے ارشاد ربانی کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں.اپنے علاقہ میں حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ تبلیغ شروع کریں.تبلیغ میں کامیابی کے لیے دعاؤں پر دوام اختیار کریں.ضدی اور شر پھیلانے والے لوگوں سے احتراز کریں ، اور باشعور انسانوں کو تلاش کر کے تبلیغ کرنی چاہیئے.کہا پیر میں مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ دیکھنے کی ابتدا مورخہ 7 / رمضان 1413ھ بمطابق 28 فروری 1993ء وہ تاریخی اور مبارک دن تھا، جب سے کہا بیر کے احباب نے ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا.جماعت احمدیہ نے اپنی ڈش خریدی اور دارالتبلیغ کی چھت پر نصب کی.بعد ازاں کیبل کے ذریعہ ہر احمدی گھرانے کو ایم ٹی
340 مصالح العرب.....جلد دوم اے دیکھنے کی سہولت بہم پہنچائی گئی.اس تاریخی روز سے عرب احباب جماعت کو بھی براہِ راست خلیفہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطابات سننے کا موقع میسر آ گیا جو بفضلہ تعالیٰ اب تک جاری ہے.ورنہ اس سے پہلے حالت یہ تھی کہ اخبار الفضل ربوہ سے لندن آتا تھا اور وہاں سے کہا بیر بھجوایا جاتا ہے.اُس میں جو خطبہ ہوتا اُسے مبلغ صاحب ترجمہ کر کے سناتے تھے.یوں حضور انور کا خطبہ عرب احباب تک پہنچنے میں کم و بیش ڈیڑھ ماہ کا عرصہ لگ جاتا تھا.لیکن MTA شروع ہونے سے احباب کا خلیفہ وقت کے ساتھ براہ راست تعلق قائم ہو گیا.الحمد للہ علی ذلک.کبابیر میں ایم ٹی اے کے اسٹوڈیو کا قیام 23 مارچ جماعت احمدیہ کا یوم تاسیس ہے.اُسی روز 23 / مارچ 1993ء کو دارالتبلیغ کی اوپر والی منزل میں ایک ابتدائی نوعیت کا اسٹوڈیو قائم کیا گیا.اس کے قیام کے لئے عزیزم محمد شریف صلاح الدین صاحب (حال امیر جماعت احمدیہ کبابیر ) رشاد فلاح صاحب، منیر عوده و صاحب، ایاد کمال صاحب نے بہت محنت کی.فجزاهم الله احسن الجزاء.اس اسٹوڈیو میں عربی پروگرام تیار کر کے ایم ٹی اے لندن کو بھجوانے کا سلسلہ شروع ہو گیا.اب بفضلہ تعالیٰ ہے سلسلہ اتنا ترقی کر گیا ہے کہ کہا بیر سے بھی لائیو پروگرام شروع ہو گئے ہیں.بوسنین مسلمانوں کی کہا بیر میں آمد 1993 ء میں بوسنیا کے قریباً ایک سو افراد کو حکومت نے حیفا کے قریب ایک بستی میں رکھا.جماعت احمد یہ کبابیر کا وفد ان سے ملنے گیا اور کہا بیر آنے کی دعوت دی.چنانچہ عید الفطر کے موقعہ پر نماز ادا کرنے وہ مسجد احمد یہ کہا بیر آئے.نماز عید ادا کرنے کے بعد کہا بیر کے ہر احمدی گھرانہ کے سپر د ایک ایک دو دو مہمان کر دیئے گئے.شام تک یہ مسلمان بھائی کبابیر میں رہنے کے بعد واپس چلے گئے مگر جماعت نے اُن سے رابطہ رکھا.ان کے لئے مرکز جماعت لندن سے بوسنین زبان میں کتب منگوائی گئیں جو ان میں تقسیم ہوئیں.انہیں نماز پڑھنے کا طریق نیز دعا ئیں سکھائی گئیں.جماعت نے حسب استطاعت ان کی ہر طرح سے مدد کی.تقریباً چھ ماہ کی کے بعد آہستہ آہستہ یہ اپنے وطن کو لوٹ گئے.جانے کے بعد بھی ان میں سے بعض نے بذریعہ کی
مصالح العرب.....جلد دوم 341 ٹیلی فون ہم سے رابطہ رکھا.حیفا میں قیام کے دوران یہ لوگ بتایا کرتے تھے کہ بوسنیا میں بھی جماعت احمدیہ کے افراد ہمیں کھانا لا کر دیا کرتے تھے.انہوں نے ہماری بہت مدد کی ہے.اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی میں شرکت مجلس خدام الاحمدیہ کہا بیر ایک ایسی منفرد مجلس ہے جس کے تمام خدام عرب ہیں.اور سارے ملک میں اپنی خدمت خلق کے لحاظ سے اسی نام سے مشہور ومعروف ہے.1994ء کے خدام الاحمدیہ جرمنی کے اجتماع سے قبل خاکسار نے حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی خدمت میں درخواست کی کہ اگر خدام الاحمدیہ کبابیر کا ایک وفد مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے اجتماع میں شریک ہو سکے تو انہیں مرکزی طرز پر منعقد ہونے والے اجتماع سے بہت سے امور سیکھنے اور آئندہ اپنے اجتماعات کو بہتر سے بہتر بنانے کی توفیق ملے گی.حضور نے از راہ شفقت اجازت مرحمت فرمائی اور خدام الاحمدیہ کبابیر کا ایک وفد جو کہ چالیس خدام پر مشتمل تھا 24 مئی 1994ء کو ناصر باغ پہنچا.24 مئی سے کھیلوں کے مقابلہ جات شروع ہوئے.الحمد للہ کہا بیر کی دو ٹیموں فٹ بال اور باسکٹ بال نے ہر میچ جیتا.فٹ بال ٹیم کی قیادت مطیع عبد الہادی صاحب اور باسکٹ بال کی قیادت منیر صلاح الدین عودہ صاحب کر رہے تھے.ہر دو ٹیمیں اول آنے پر انعام کی حقدار قرار پائیں.اجتماع کے اختتامی اجلاس میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے بنفس نفیس شرکت فرمائی.1994ء وہ سال تھا جس میں کسوف خسوف کی پیشگوئی پوری ہونے پر ایک سو سال مکمل ہو رہا تھا.اجتماع کی کاروائی تلاوت و عہد سے شروع ہوئی.بعد ازاں کہا بیر کے وفد کے بعض ممبران نے شوقی زیدان صاحب کی قیادت میں سیدنا حضرت مسیح موعود کا کسوف و خسوف کے نشان کے ظہور پر لکھا جانے والا قصیدہ: بشرى لكم يا معشر الإخوان طوبى لكم يا مجمع الخلان خوش الحانی سے پڑھا.
مصالح العرب.جلد دوم کہا بیر میں پہلے جلسہ سالانہ کا انعقاد 342 مورخہ 18 /رمضان 1415 ہجری مطابق 18 فروری 1995ء کو مجلس عاملہ کہا بیر کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مجلس عاملہ کے ممبران کے علاوہ سید داؤ د عبدالجلیل سیکرٹری تبلیغ مجلس انصار الله اور سید محمد شریف صلاح الدین سیکرٹری تبلیغ مجلس خدام الاحمدیہ بھی شریک ہوئے اس اجلاس میں تبلیغ اور تبشیر کے بارہ میں تبادلہ خیالات ہوا اور یہ طے پایا کہ دنیا کی باقی جماعتوں کی طرح جماعت احمد یہ کبابیر کو بھی ہر سال جلسہ سالانہ منعقد کرنا چاہئے اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا جلسہ سالانہ ہو گا.جلسہ کے لئے 24 / مارچ 1995ء کی تاریخ مقرر ہوئی.اس فیصلہ کے بعد مختلف امور کی تکمیل کے لئے خدام وانصار کی نظامتیں بنا دی گئیں.اس جلسہ میں شمولیت کے لئے کم از کم تین صد غیر از جماعت عرب دوستوں کو دعوت نامے ارسال کئے گئے اور کئی مہمانان سے بذریعہ ٹیلی فون رابطے کئے گئے.جو نظامتیں قائم کی گئیں وہ یہ تھیں.نظامت استقبال ، نظامت ٹریفک، نظامت تزین و صفائی، نظامت ویڈیو ریکاڈنگ، نظامت جلسہ گاہ اور نظامت طعام.کھانے کی تیاری کی ذمہ داری لجنہ اماء اللہ نے قبول کی.اس جلسہ میں لوائے احمدیت لہرایا گیا اور مختلف موضوعات پر خطابات ہوئے نیز سوال وجواب کی مجلس بھی قائم کی گئی.اور آخر میں مہمان کرام کو مندرجہ ذیل کتب تحفہ میں دی گئیں.تعرّف على الجماعة الإسلاميه الأحمديه، القول الصريح في ظهور المهدى والمسيح، مجلہ البشریٰ کا خصوصی شمارہ، نصيحة لوجه الله بمقام خلیل مسلمانوں کا بہیمانہ قتل اور جماعت کا مذمتی بیان مؤرخہ 25 فروری 1994ء کو فلسطین کے ایک شہر الخلیل، جہاں سید نا ابراہیم علیہ السلام کی قبر ہے.اور اُس قبر کے قرب میں ایک مسجد ہے.اس مسجد میں مسلمان فجر کی نماز ادا کر رہے تھے کہ ایک یہودی نے نمازیوں پر گولیوں کی بچھاڑ کر دی گئی جس کے نتیجہ میں ساٹھ (60) مسلمان موقع پر ہی دم توڑ گئے.اس حادثہ کی خبر سننے کے بعد مجلس عاملہ کبابیر کا ایک خصوصی اجلاس مورخہ 26 فروری 1994ء کو ہوا جس میں جماعت کی طرف سے اس حادثہ کی شدید
مصالح العرب.....جلد دوم 343 مذمت کی گئی.اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ آئندہ اس قسم کے حملوں کا سد باب کرنے کے لئے ٹھوس منصوبہ بنایا جائے.جماعت کے بیان کا کچھ حصہ عربی روز نامہ الاتحاد ( از حیفا) میں مورخہ 26 فروری کی اشاعت میں صفحہ 16 پر شائع ہوا.اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کا ایک وفد الخلیل گیا.اور شہداء کے لواحقین کے لئے دس ہزار شیکل کی امداد بھی دی گئی.اسلامی اصول کی فلاسفی کی تصنیف پر سو سال پورے ہونے پر تقریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معرکۃ الآراء تصنیف ”اسلامی اصول کی فلاسفی پر ایک " سال مکمل ہونے کے موقعہ 28 / دسمبر 1996 ء کو ایک خصوصی جلسہ کے انعقاد کا فیصلہ کیا اور اس.ں سے قبل اس کتاب کا عبرانی اور ایڈش زبانوں میں ترجمہ کیا.جلسہ گاہ کے نزدیک کتابوں کی نمائش لگائی گئی جس میں اس کتاب کے مختلف زبانوں میں ترجمے رکھے گئے تھے.اور ہر مہمان کو اُس کے مطالبہ پر عربی.عبرانی.ایڈش اور انگریزی زبانوں میں سے کوئی ایک تحفہ دی جاتی.اس موقع پر جو خصوصی جلسہ منعقد کیا گیا، اُس میں حیفا شہر کے میئر اور قریباً پانچ صد غیر از جماعت صاحب علم دوست مہمانوں نے شرکت کی جس میں جلسہ کی غرض و غایت بیان کی گئی.محترم عبد الہادی اسعد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف بیان کیا اور اس کتاب میں مذکور چند اہم امور کو حاضرین کے سامنے رکھا.ازاں نی بعد محترم فلاح الدین صاحب صدر جماعت احمد یہ کبابیر نے اس کتاب کی مقبولیت اور اثرات کے بارہ میں تقریر فرمائی.بعد میں ڈاکٹر شحادہ (جو کہ پروٹیسٹنٹ عیسائی فرقے کے پادری تھے ) نے اپنے خیالات کا اظہار کیا.ان کے بعد دروز فرقے کے پروفیسر شیخ فاضل منصور نے تقریر کی.بعد ازاں ماہر قانون علی رافع صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا.اس جلسہ کے آخر پر خاکسار نے اسلامی اصول کی فلاسفی کی روشنی میں انسان کی پیدائش کا مقصد بیان کیا.اُس کے بعد قرآن مجید اور تورات کی روشنی میں یہ بتایا کہ اس خطہ ارض میں امن تب قائم ہو سکتا ہے جب ”عدل“ قائم کیا جائے اور ہر قوم کو اس کا جائز حق دیا جائے اور ہر
مصالح العرب......جلد دوم انسان کی عزت و تکریم کی جائے.آخر میں اجتماعی دعا ہوئی.344 اس علاقہ کے مشہو اخبار ” بانوراما نے اپنے شمارہ 482 تاریخ 3 /جنوری 1987 میں درج ذیل خبر شائع کی.الخطاب الجلیل کی تصنیف پر سو سال مکمل ہونے پر جماعت احمدیہ نے ایک جلسے کا انعقاد کیا.اور تمام مقررین نے بین المذاہب محبت والفت کا ماحول پیدا کرنے پر زور دیا.“ اخبار نے مقررین اور جلسہ کی تصاویر بھی شائع کیں.طباعت کتب و منشورات خاکسار کے اس عرصہ قیام میں متعدد کتب دوبارہ پرنٹ ہوئیں نیز خاکسار کو بھی چند ایک چھوٹی چھوٹی کتب لکھنے اور بعض کا ترجمہ کرنے کی توفیق ملی، بعض کے نام حسب ذیل ہیں.لاحياة للمسيح عيسى ابن مريم في القرآن ابدا.تفسير خاتم النبين حسب القرآن والاحاديث افتراءات على الجماعة الإسلامية الأحمدية و الرد عليها ملكوت الله ينزع منكم تعليم الصلاة أليست الأحمدية جماعة مسلمة ؟ ( ترجمه ) - اس کے علاوہ اہل کتاب کو پیغام اسلام پہنچانے کے لئے درج ذیل کتب عبرانی میں تیار کروائی گئیں: 1 منتخب آیات قرآن کریم.( ترجمہ ) مکرم موسی اسعد عودہ صاحب.2 منتخب احادیث سید نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.3 - منتخب اقتباسات از تالیفات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام - 4 اسلامی اصول کی فلاسفی کا عبرانی اور ایڈش زبانوں میں ترجمہ شائع کیا گیا.جماعت احمدیہ کا تعارف ( تالیف مکرم فلاح الدین محمد صاحب).اسی عنوان سے ایک فولڈر صد سالہ جوبلی 1989ء کے موقعہ پر عربی ، عبرانی اور انگریزی زبان میں شائع کیا گیا.
مصالح العرب.جلد دوم 345 اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل پر ایک منصفانہ تبصرہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کے عہد مبارک میں عربوں میں تبلیغی مساعی کے آخر میں حضور انور کی ایک کتاب پر شام کے ایک دار النشر کا تبصرہ نقل کیا جاتا ہے جو دمشق کی ایک پبلشنگ کمپنی نے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب Islam's response to | contemporary issues کے عربی ایڈیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: میں اپنی انتہائی خوشی کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا جو مجھے آپ کی کتاب پڑھنے سے حاصل ہوئی ہے.کتاب کے مضمون کو جس تفصیل ، ربط اور ترتیب کے ساتھ آپ نے پیش فرمایا ہے وہ دل موہ لینے والا ہے.آپ نے اس زرخیز مضمون کے ذریعہ اسلامی علوم میں گرانقدر اضافہ فرمایا ہے.یہ سب چیزیں مجھے مجبور کر رہی ہیں کہ میں اس کتاب کے مضمون کو اپنے اور آپ کے درمیان گفتگو کا نقطۂ آغاز بناؤں اور امن و آشتی کے قیام کی اس کوشش میں کچھ حصہ ڈال سکوں جسے آپ سب مسلمانوں کا نصب العین قرار دیتے ہیں.میں اس بات کی بھی گواہی دیئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ کتاب مسائل کے حل کے لئے ایسے خالص اسلامی مفاہیم پیش کرتی ہے جن کی بنیاد اسلامی نصوص اور اسلامی تاریخ پر ہے.یہ یه تحقیقی کتاب بیسویں صدی کے شروع میں نمودار ہونے والے تقاضوں اور ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر لکھی گئی ہے.اس مرحلہ میں اسلامی نصوص کا اس طرح برمحل
346 مصالح العرب.....جلد دوم استعمال اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اور انکے بعد کے مسلمانوں کی تاریخ کی کو خاص اہمیت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کتاب کا خمیر خالص اسلامی مٹی سے اٹھا ہے.میری رائے میں اس کتاب نے اپنے مضمون کا حق ادا کر دیا ہے.مجھے تو جماعت احمد یہ میں صحیح اسلام کا چہرہ نظر آ رہا ہے.جو ذمہ داری اس وقت جماعت احمدیہ نے اٹھائی ہے وہ بہت بڑی ہے.آپ لوگ اپنے علم و عمل سے ثابت کر رہے ہیں کہ آپ اسلام کی پوری قوت اپنے اندر رکھتے ہیں اور یہ قوت آپ کے اخلاص اور مسلسل جد وجہد کے نتیجہ میں مسلسل بڑھ رہی ہے.اس کا سبب یہ ہے کہ آپ لوگ اسلام کا مطالعہ عصر حاضر کی روح اور تقاضوں کو مد نظر رکھ کر کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے اعلیٰ مقاصد میں کامیابی فرمائے.خلاصه خط از دار الشفیق پبلشرز دمشق مورخہ 30 مئی 2002ء) 00000
347 مصالح العرب.جلد دوم 00000 حضرت خلیفة اریح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے عہد مبارک میں عربوں میں تبلیغ XXXXXXXXXXXXXX
حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلیفة المسیح الخامس
مصالح العرب.جلد دوم 349 عربوں میں جماعت احمدیہ کی تبلیغ کے سفر میں چلتے چلتے اب ہم خلافت خامسہ کے مبارک عہد میں آپہنچے ہیں.وہ عہد جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص تقدیر کے تحت عرب ممالک میں تبلیغ اور احمدیت کے پھیلاؤ کے لئے نئے آسمانی ابواب کھول دیئے ہیں، اور آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام : يدعُونَ لَكَ أبْدَال الشَّام وعِباد الله مِنَ الْعَرَب ( یعنی تیرے لئے ابدال شام کے دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے ہیں ) اور يُصَلُّونَ عَلَيْكَ صُلَحَاءِ الْعَرَب وَأَبْدَالُ الشَّام ( یعنی صلحائے عرب اور ابدال شام تجھ پر درود بھیجتے ہیں ) عجیب شان سے پورے ہورہے ہیں.تقدیر الہی اور میعاد مقرر مکرم منیر عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک دفعہ عربوں کے لئے عربی زبان میں خطاب ریکارڈ کروانے کا بھی ارادہ فرمایا.لیکن پھر یہ ارشاد فرمایا کہ: میرا خیال ہے کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا.دوسری طرف جب حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اللہ تعالیٰ نے خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا تو حضور انور نے فرمایا کہ میرے عہد میں عربوں میں تبلیغ کے لئے راہ کھلے گی اور عربوں میں احمدیت کا نفوذ ہوگا.یہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے عجیب رنگ ہیں کہ اس نے ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر فرمایا ہوا ہے.اور وہ باتیں جو اس مقررہ وقت سے پہلے ناممکنات کی طرح نظر آتی ہیں وقت آنے پر اس طرح آسان ہو جاتی ہیں جیسے ہر چیز اس کی انجام دہی کے لئے مسخر کر دی گئی ہو.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عہد مبارک کے اب تک کے تقریبا پونے آٹھ سال کے دوران صرف عربوں میں تبلیغ کے حوالہ سے خدا تعالیٰ کی تقدیر کے
مصالح العرب.....جلد دوم 350 موافق جو اہم کام ہوئے ان کی ایک جھلک یہاں درج کی جاتی ہے جبکہ اس کا تفصیلی بیان آئندہ صفحات میں ہوگا : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثر عربی کتب کی اشاعت نئی اور دیدہ زیب کمپوزنگ کے ساتھ ہوئی.روحانی خزائن اور انوار العلوم کی متعدد کتب کے تراجم نیز کئی عربی کتب کی تالیف کا کام بہت تیزی کے ساتھ ہوا اور ہو رہا ہے.پہلی عربی ویب سائٹ کا قیام عمل میں آیا.خلافت جوبلی کے حوالہ سے مجلہ التقویٰ کا ضخیم با تصویر نهایت دیدہ زیب خلافت جوبلی نمبر شائع ہوا جو تاحال جماعت کی طرف سے شائع ہونے والا عربی زبان میں ایک منفر دسود نیئر ہے.پہلی دفعہ خلافت جوبلی والے سال جلسہ سالانہ برطانیہ میں 100 کے قریب عرب احباب نے شرکت کی.اس سے قبل کبھی اتنی تعداد میں عرب کسی مرکزی جلسہ میں شریک نہیں ہوئے تھے.خلافت احمدیہ کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ جہاں کہیں اور جس زبان میں بھی اسلام کے خلاف کوئی اعتراض ہوا ہے اس کے رڈ کے لئے پہلی مؤثر آواز خلافت احمدیہ کی رہی ہے.لیکن عہد خلافت خامسہ میں عربی زبان میں اسلام کے خلاف حملوں کا جواب جہاں حضور انور نے خود بھی خطبہ جات اور خطابات میں دیا وہاں عربی زبان میں اس بارہ میں پروگرام تیار کرنے کی ہدایت بھی فرمائی، اس طرح متعدد پروگرامز کی سیریز شروع کی گئیں، جن میں سے سب سے اہم عیسائی پادری کے اسلام دشمن حملوں کے جواب میں مصطفیٰ ثابت صاحب کے پروگرامز کی سیریز بعنوان أجوبة عن الإیمان ہے.* پہلا لائیو عربی پروگرام شروع کیا گیا.پہلے مکمل عربی چینل MTA3 کا اجراء ہوا جس پر 24 گھنٹے عربی پروگراموں کی نشریات کا آغاز ہوا.عیسائیت کے حملہ کے رد کے طور پر عیسائی عقائد اور بائبل کی تعلیمات پر بحث پر مبنی ایم ٹی اے پر لائیو عربی پروگرام الحوار المباشر شروع کیا گیا.ابھی تک اپنی نوعیت کا یہ واحد
مصالح العرب.....جلد دوم 351 پروگرام ہے جس میں عیسائی پادریوں کے ساتھ بحث کی گئی اور پوری دنیا کے سامنے لائیو نشریات کے ذریعہ کسر صلیب کا تاریخی کام ہوا.پہلی دفعہ عربی زبان میں صداقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت اسلام کے دلائل پر مبنی طویل سیریز پیش کی گئیں.اور عرب دنیا کے سعید فطرت لوگوں پر واضح ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اور قرآن کا مرتبہ اور اسلام کی درست تعلیم صرف اور صرف احمدیت ہی پیش کر رہی ہے.پہلی دفعہ عربی زبان میں اختلافی مسائل وفات مسیح، ختم نبوت وغیرہ کو لائیو نشریات میں عرب دنیا کے سامنے بیان کیا گیا اور اس بارہ میں ان کے جملہ سوالات کے جوابات دیئے گئے.ی پہلی دفعہ عربی زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دلائل پر 18 لائیو پروگرامز پر مشتمل ایک سیریز پیش کی گئی.اسی طرح تمام معترضین کے اعتراضات کے مفصل اور مدلل لائیو جوابات دیئے گئے.عربوں کے لئے اتنے بڑے پیمانے پر اختلافی مسائل اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل پہلی دفعہ یکجائی طور پر بیان کئے گئے.پہلے کبھی کبھی عرب دنیا سے کوئی بیعت آتی تھی لیکن اب خدا کے فضل سے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جس میں عربوں کی طرف سے ہماری ویب سائٹ اور فون و فیکس نیز ای میل کے ذریعہ متعدد بیعتیں نہ آئی ہوں.اب بفضلہ تعالیٰ متعدد ملکوں میں جماعتیں قائم ہوئی ہیں.یہ احمدی صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ ان میں بڑے بڑے سکالرز، انجنیئر ز، ڈاکٹر ، وکلاء، ادیب، لیکچررز اور دینی علماء بھی شامل ہیں.عربوں کی حالیہ دگر گوں سیاسی صورتحال میں قرآن وسنت پر مبنی مخلصانہ راہنمائی فرمائی.آج ایم ٹی اے پر صلحاء عرب اور ابدال شام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور آپ پر درود بھیجتے ہیں.یہ فتح نمایاں اور یہ ترقیات بتارہی ہیں کہ حضور انور کے یہ الفاظ ” میرے عہد میں عربوں میں تبلیغ کے لئے راہ کھلے گی اور عربوں میں احمدیت کا نفوذ ہوگا خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارت تھی جس کے پورا ہونے کے ہم گواہ ہیں.
مصالح العرب.جلد دوم 352 الداعي دور خلافت خامسه سے تعلق رکھنے والی بعض عرب احمدیوں کی رؤیا مکرمہ فجر عطایا ر عطا یا صاحبه مرحوم علمی شافعی صاحب کی نواسی اور مکرم تمیم ابو دقہ صاحب آف اردن کی اہلیہ ہیں ، وہ بھتی ہیں: میں نے حضور انور کے خلافت پر متمکن ہونے سے تقریباً نو ماہ قبل مورخہ 22 جولائی 2002ء کو خواب میں دیکھا کہ گویا قیامت کا روز ہے اور آسمان پر اللہ جَلَّ حَلَالُهُ لكها ہے.ساتھ میں نے ایک پہاڑ پر ایک شخص کو دیکھا جس نے سفید لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور لوگ اسے الدَّاعِی“ کہہ کر پکار رہے تھے.میں اس وقت حضور انور کو جانتی تک نہ تھی اس لئے پہچاننے سے قاصر رہی.اب حضور انور کے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد جب حضور انور کو دیکھا تو بے اختیار پکار اٹھی کہ یہ تو وہی شخصیت ہے جسے لوگ الدَّاعِی“ کہہ کر پکار رہے تھے.مسرور اور مبارک مکرم عبد القادر ناصر عود و صاحب آف شام لکھتے ہیں : میں نے حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی وفات کے دوروز بعد خواب میں دیکھا کہ
353 مصالح العرب.....جلد دوم بہت سے لوگ ایک جگہ جمع ہیں اور انہوں نے دو اشخاص کو بطور خلیفہ منتخب کیا ہے، ایک کا نام مسرور ہے اور دوسرے کا نام ”مبارک میں خواب میں سخت حیران و پریشان ہو جاتا ہوں کہ دو خلیفہ کس طرح ہو سکتے ہیں؟ لیکن جاگنے پر جو تعبیر میرے ذہن میں آئی اس سے میری تسکین ہوگئی.وہ تعبیر یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ جس کو بھی خلیفہ منتخب فرمائے گا اس کا عہد مسرتوں اور برکات سے معمور ہو گا.انشاء اللہ تعالیٰ.لیکن جب حضرت خلیفہ اسیح الخامس کے نام حضرت مرزا مسرور احمد کا اعلان ہوا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کیوں کہ میں تو اس سے قبل حضور انور کو جانتا تک نہ تھا.ہو بہو وہی 2002 ء میں فلسطین کے ایک نواحمدی دوست مکرم امجد کمیل صاحب نے خواب میں دیکھا کہ خلیفہ خامس کا انتخاب ہوا ہے، نیز انہوں نے خلیفہ خامس کو بھی دیکھا.ان کو حضور انور کی شخصیت اور شکل وصورت کی جملہ تفاصیل یاد تھیں.انہوں نے بیان کیا کہ خلیفہ خامس کی داڑھی چھوٹی ہے اور ان کی آنکھ کے نیچے ایک تل کا نشان بھی ہے اور انہوں نے ہلکے خاکی رنگ کے کپڑے اور ان کے اوپر اسی رنگ سے ملتا جلتا کوٹ پہنا ہوا ہے.یہ دوست فلسطین کے جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں ان کو ایم ٹی اے یا انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہ تھی اس لئے لائیو انتخاب خلافت کی کارروائی نہ دیکھ سکے.بعد ازاں جب حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی وہ تصویر دیکھی جو حضور انور کے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے فورا بعد کی ہے جس میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوٹ زیب تن کیا ہوا ہے تو بے ساختہ کہا کہ یہی وہ شخص ہے جسے میں نے خواب میں خلیفہ وقت کے طور پر دیکھا تھا.فرق صرف یہ ہے کہ خواب میں انہوں نے کیمل کلر کا کوٹ پہنا ہوا تھا جبکہ تصویر میں یہ کوٹ سبزی مائل ہے.در حقیقت انتخاب کے بعد عام بیعت لینے سے قبل حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مبارک کوٹ زیب تن فرمایا تھا جبکہ اس سے قبل آپ نے کیمل کلر کا کوٹ ہی زیب تن فرمایا ہوا تھا.اس لحاظ سے مکرم امجد کمیل صاحب کی خواب حرفا حرفا پوری ہوگئی.
مصالح العرب.....جلد دوم 354 سفید پوشاک اور چشم پرنور مکرم را کان المصر کی صاحب شام سے لکھتے ہیں: میں بوجوہ ایم ٹی اے پر انتخاب خلافت کی کارروائی تو نہ دیکھ سکا لیکن اللہ تعالیٰ نے رات کو خواب میں مجھے حضرت خلیفہ اسیح الخامس کی زیارت کروا دی.آپ کا رنگ گندمی اور آنکھیں کشادہ تھیں، آپ نے سفید رنگ کی عربی پوشاک زیب تن کی ہوئی تھی اور کسی بڑے اجتماع میں خطاب فرمارہے تھے.جب اگلے دن حضور انور کوئی وی پر دیکھا تو سخت حیرت ہوئی کہ جس شخص کو خواب میں دیکھا تھا وہی بعینہ حضورانور کی شخصیت تھی.لِقَاء مَعَ الْعَرَب میں مکرمہ خلود محمود صاحب دمشق سے لکھتی ہیں کہ: انتخاب کے بعد حضور انور کوٹی وی سکرین پر دیکھنے سے قبل اللہ تعالیٰ نے مجھے خواب میں ہی حضور انور کی زیارت سے نواز دیا تھا.میں نے دیکھا کہ حضور انور لِقَاء مَعَ الْعَرَب میں تشریف رکھتے ہیں اور درس دے رہے ہیں.ایک عجیب بات جو اس وقت نظر آئی یہ تھی کہ حضور انور کے بال سرخی مائل تھے.پھر جب حضور انور کو ٹی وی پر دیکھا تو بالوں کے سوا باقی شکل وصورت بعینہ وہی تھی جو خواب میں دیکھی تھی.نسل احمد کا فیض حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے انتخاب پر ہر زبان اور ہر ملک وقوم سے تعلق رکھنے والے احمدیوں نے اپنے اپنے طریق پر محبت ، اطاعت ، اخلاص ، اور جذبات کا اظہار کیا.عربوں نے بھی اپنے طریق پر جذبات کا اظہار کیا.کئی قادر الکلام شعراء نے قصائد تحریر کئے.ان قصائد میں سے صرف ایک بطور خاص مشتے از خروارے کے طور ہے پیش ہے.یہ قصیدہ بعنوان: ”یا سیدی مکرم اسعد موسیٰ اسعد عودہ صاحب آف کبابیر کا ہے.
مصالح العرب.....جلد دوم یا سیدی من ذا يجيد قصيدا وهل الحمام سيحسن التغريدا لبس الخلافة عبقرى زمانه قسمت به دون الرجال صرودا سُرّت بمسرور خوافق أمة لبست له كل البلاد جديدا فاليوم عيد عيد كل مزية بانت به أو بايعته عميدا من نسل أحمد، فالسماء غدت به تهب الدني إثر الحفيد حفيدا أبقاك آزاد ترجمه ربی شعلة ضواءة وأصبت دوما في البعيد بعيدا 355 سیدی، آپ کی مدح میں شایانِ شان قصیدہ کون لکھ سکتا ہے؟ خصوصا میرے جیسے کبوتر کی بساط کہاں کہ مدح سرائی کا حق ادا کر سکے.اس زمانہ کے قابل ترین شخص نے لباس خلافت زیب تن کیا ہے اور خلافت نے اسے تمام اعلیٰ نسب لوگوں سے زیادہ بلند مقام پر فائز فرما دیا ہے.سیدنا مسرور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خلافت پر متمکن ہونے کی خوشی سے ساری امت کے دل مسرتوں سے لبریز ہو گئے اور آپ کے لئے ہر ملک نے بھی ایک نیا لباس زیب تن کرلیا ہے.پس آج عید کا دن ہے بلکہ ہر اس خوبی اور فضیلت کے لئے بھی عید کا دن چڑھا ہے جو آپ کے ذریعہ جلوہ گر ہوئی اور جس نے آپ کی اتباع کا عہد کر لیا ہے.سید نا احمد علیہ السلام کی نسل مبارک سے آسمان دنیا کونسل در نسل فیض پہنچا تا چلا جارہا ہے.دعا گو ہوں کہ مولا کریم آپ کو ہمیشہ روشنی کے مینار کے طور پر قائم رکھے اور آپ کو دور رس نتائج کے حامل فیصلے فرمانے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین.00000
مصالح العرب.....جلد دوم 356 مسجد بیت الفتوح اور حاسد ملاں حضور انور نے اپنے عہد خلافت کی ابتدا میں مورخہ 3 اکتوبر 2003 کو مسجد بیت الفتوح کا افتتاح فرمایا جو بفضلہ تعالیٰ مغربی یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے.اس مسجد کے افتتاح کی خبریں عرب میڈیا میں بھی جلی عناوین سے شائع کی گئیں، لیکن اس اخبار نے جہاں مسجد کی تعریف و توصیف میں بعض جملے لکھے وہاں ہمیشہ کی طرح بعض مولویوں سے مسجد کے بارہ میں رائے لی ، اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی مولوی کو جماعت کے بارہ میں بولنے کا موقعہ ملے اور اس کے منہ سے کوئی اچھی بات نکل جائے، لہذا اس بار بھی انہوں نے اپنے حسد اور دشمنی کومکروہ ترین لفظوں میں ڈھال کر پیش کیا.ان میں سے ایک اخبار الشرق الأوسط" نے اپنی 7 /1 اکتوبر 2003 میں یہ عنوان باندھا: یورپ کی سب سے بڑی مسجد میں مسلمانوں کا داخلہ منع ہے.اس کے بعد لکھا کہ: بنیاد پرست مسلمان کہتے ہیں کہ یہ لندن میں مسجد ضرار ہے، جبکہ معتدل مزاج مسلمان اسے مسجد نہیں بلکہ محض عبادتگاہ کا نام دیتے ہیں.احمدیت برطانیہ میں سب سے زیادہ پھیلنے والا فرقہ ہے جس کے تین ٹی وی چینل اور تین ریڈ یوٹیشن کام کر رہے ہیں.باوجود اس کے کہ یورپ کی اس سب سے بڑی مسجد میں تقریباً دس ہزار نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں لیکن مسلمانوں کو نہ تو اس کے کسی ہال میں داخل ہونے کی اجازت ہے نہ ہی اس کے قریب جانے کی، کیونکہ یہ احمد یہ فرقہ کی مسجد -.اس کے بعد مختلف مولویوں سے مسجد کے بارہ میں رائے لی گئی ہے جس کا خلاصہ شروع میں آچکا ہے.علاوہ ازیں مسجد کی خوبصورتی اور اس کے اور جماعت کے بارہ میں غلط و صیح معلومات بھی اس آرٹیکل میں فراہم کی گئی ہیں.
357 مصالح العرب.....جلد دوم بہر حال یہ خبر ایک عرب ملک میں بسنے والے احمدی نے پڑھی تو حضورانور کی خدمت میں کی ارسال کر دی.حضور انور نے اس کے بارہ میں مومن صاحب کو ارشاد فرمایا کہ اس خبر کی ہر غلط بات کا جواب تیار کریں اور پھر اخبار کے ایڈیٹر کو لکھیں کہ اگر تم واقعی سچی صحافت پر یقین رکھتے ہو تو میرا یہ جواب بھی شائع کرو.علاوہ ازیں مل بیٹھ کر اس پر پروگرام بھی بنائیں اور غلط الزامات کا جواب دیں.نیز فلسطین وغیرہ سے بھی خط لکھوائیں.چنانچہ مکرم محمد شریف عودہ صاحب نے اس اخبار کو مختصر سا خط لکھا جسے اخبار نے شائع کر دیا.دوسری طرف مکرم عبد المومن طاہر صاحب نے حضورانور کی راہنمائی میں بڑی محنت سے جملہ اعتراضات اور شبہات کا مفصل جواب تیار کر کے اخبار کے ایڈیٹر کو مورخہ 10 نومبر 2003ء کو روانہ کر دیا لیکن اخبار نے اس کو شائع نہ کیا.چنانچہ اس کے بعد اس مضمون کو رسالہ انقلای“ کے صفحات پر شائع کر دیا گیا.اس طرح عربوں کی طرف سے ہونے والے اعتراضات کے فورا جواب دینے اور شر پسند مفتری معترضین کا فوری طور پر پیچھا کرنے کے ایک نئے مرحلہ کا آغاز ہوا.ایک ٹیم بنانے کا ارشاد ایسے مسائل سے نمٹنے کے لئے حضور انور نے 2 / دسمبر 2003ء کو فرمایا کہ عرب ممالک سے پچاس ساٹھ آدمیوں کی ایک ٹیم بنائیں تا کہ جب بھی ایسا مسئلہ پیدا ہوتو یہ لوگ مختلف علاقوں سے خطوط لکھیں اور اعتراضات کا جواب دیں.بعد میں اس تعداد کو بڑھاتے رہیں.چنانچہ آج کسی بھی عرب اخبار میں جماعت کے خلاف کچھ چھپتا ہے تو بفضلہ تعالیٰ اس کا پورا، تسلی بخش، اور حقائق پر مبنی مدلل جواب دیا جاتا ہے.ٹی وی پروگرام کئے جاتے ہیں اور لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کیا جاتا ہے.قبل ازیں عربوں میں جماعت کے خلاف پرو پیگنڈہ کی مہم یکطرفہ تھی اور جماعت کی طرف سے مؤثر طریق پر اور فوری طور پر وضاحت اور جواب اگر چہ دیا جاتا تھا لیکن اسکو شائع نہیں کیا جاتا تھا یوں جماعت کے خلاف عامۃ الناس میں غلط فہمیاں پھیلتی چلی جارہی تھیں، لیکن آج ایسے جوابات ہماری اپنی ویب سائٹ پر دے دیئے جاتے ہیں، نیز مختلف پروگراموں میں اس کو بار بار نشر کر دیا جاتا ہے،
358 مصالح العرب.....جلد دوم اور احمدی احباب انٹرنیٹ پر اس کو اس قدر پھیلا دیتے ہیں کہ ہر حملہ آور معترض دفاعی موقف اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.اور آئندہ ایسی جرات کرنے سے پہلے اسے کافی سوچنا پڑتا ہے.یہ سب خلافت کی برکت ہے اور حضور انور کی راہنمائی میں قدم بڑھانے کا نتیجہ ہے.فالحمد للہ علی ذلک.XXXXXXXXXXXX XXXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد دوم 359 سعودی حکومت اور یہودی سازش 1893ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عربی کتاب حمامۃ البشری تالیف فرمائی اس میں خدائی بشارت اور حکم لکھتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: وَإِنَّ رَبِّي قَد بَشَّرَنِي فِي الْعَرَبِ وَالْهَمَنِي أَنْ أُمَوِّنَهُمْ وَارِيَهُمْ طَرِيْقَهُمْ وَأَصْلِحَ لَهُمْ شُيُوْنَهُم - (حمامة البشرى روحانی خزائن جلد 7 ص 182) ترجمہ: اور میرے رب نے اہلِ عرب کی نسبت مجھے بشارت دی اور الہام کیا ہے کہ میں انکی خبر گیری کروں اور ٹھیک راہ بتاؤں اور انکے معاملات کو درست کروں.اس الہی ارشاد کے تحت جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عربوں کے لئے کتب تالیف فرما ئیں اور مختلف امور میں ان کی راہنمائی فرمائی وہاں آپ کے خلفائے عظام بھی آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر موقع پر نہ صرف فرض نصیحت ادا فرمایا بلکہ عربوں کی خبر گیری اور ان کے معاملات کی درستگی کے لئے ہر ممکن عملی قدم بھی اٹھایا.جماعت احمدیہ کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والا اس کے صفحات میں دین اسلام کی تبلیغ واشاعت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی غیرت اور قرآن کریم کی عظمت و اعجاز کے پر چار اور ایمان وایقان کی حکایتوں اور اخلاص و وفا کی داستانوں کے علاوہ زریں الفاظ میں خلافت احمدیہ کے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہونے کی مثالیں بھی درج پائے گا.جب بھی مقامات مقدسہ کو خطرہ لاحق ہوا اس کے دفاع میں اٹھنے والی پہلی مؤثر آواز خلافت احمدیہ کی رہی ہے.2000ء میں سعودی حکومت نے ایک قانون پاس کیا جس کے تحت غیر ملکیوں کو سعودی
360 مصالح العرب.....جلد دوم عرب میں رہائشی مکانات کے مالکانہ حقوق حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تھی.اس فیصلہ پر مشتمل تفاصیل SAGIA یعنی Saudi Arabian General Investment) (Authority کی آفیشل ویب سائٹ پر دی گئیں جبکہ مندرجہ ذیل لنک پر بھی اس کی تفاصیل آج تک انٹرنیٹ پر موجود ہیں: /information http://www.saudi embassy.net/about/country- Foreign Rules.aspxlaws.Investment_ Act_and_Executive_ اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عہد مبارک کی ابتدا میں ہی سعودی عرب کے ایک روز نامہ "الوطن" کی 19 جولائی 2003ء کی اشاعت میں کنگ فیصل یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر امیمہ احمد الجلا ہمہ نے ایک آرٹیکل شائع کیا جس کا انگلش ترجمہ (MEMRI) یعنی The Middle East Media Research Institute کی طرف سے ایک رپورٹ کی شکل میں انٹرنیٹ پر آج بھی موجود ہے.اس آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ بعض شدت پسند یہودی ربیوں نے فتوی دیا ہے کہ عراقی سرزمین بھی گریٹر اسرائیل کی حدود میں داخل ہے.لہذا امریکی اور برطانوی فوجوں کی حفاظت میں یہودی کثرت سے عراق میں زمینیں خریدنے کے منصوبے بنارہے ہیں.وغیرہ وغیرہ.2004 ء کے شروع میں خبریں آنی شروع ہوئیں کہ سن 2000 ء میں بنائے ہوئے سعودی قانون میں یہودی خیبر ، تبوک اور دیگر ایسے علاقوں میں واپسی کا خواب پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں جہاں پرانے زمانے میں یہودی آباد تھے.چونکہ فلسطین میں بھی یہی غلطی ہوئی اور عراق میں بھی اسی غلطی کو دہرایا جارہا تھا اس لئے حضور انور نے اس بارہ میں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو اس سنگین خطرے سے آگاہ کرنے کا ارشاد فرمایا.اور خلافت کی راہنمائی میں جماعت نے اس بارہ میں اپنا کردار ادا کیا اور مختلف سطح پر اس مسئلہ کو اجاگر کیا گیا.اس سلسلہ میں ایک دو عربی اخبارات نے ہمارے بعض احمدیوں کی طرف سے مرسلہ خطوط بھی شائع کئے ، اس سلسلہ میں یمن کا اخبار البلاغ ، خصوصی طور پر قابل ذکر ہے.2004ء میں سعودی مجلس شوری کے وفد نے دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کیا جہاں مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو اپنے نظام شوری کے بارہ میں آگاہ کیا اور اس کے
361 مصالح العرب.....جلد دوم بارہ میں ان کی آراء سنیں اور سوالات کے جوابات دیئے.اس سلسلہ میں مورخہ 21 مارچ 2004ء کو اس وفد نے اوسلو یونیورسٹی کا دورہ بھی کیا جہاں مسلمان طلباء کے ساتھ ایک سیشن ہوا جس میں ناروے میں بسنے والے ہمارے احمدی طالبعلم مکرم حمزہ راجپوت صاحب نے بھی شرکت کی.سوالات کے وقفہ میں انہوں نے اس وفد سے کہا کہ ہمیں سعودی عرب میں غیر ملکیوں کو جائیداد کے مالکانہ حقوق دینے کے بارہ میں صادر ہونے والے آپ کے نئے قانون کے بارہ میں کچھ خدشات لاحق ہیں، کیونکہ یہودی بھی اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر اپنی دیرینہ خواہش کے مطابق مکہ اور مدینہ میں زمینیں خریدنے کی کوشش کریں گے جس کا نتیجہ بہر حال اچھا نہیں ہے.اس وفد نے اس کا یہ جواب دیا کہ ایک تو یہ بیچی جانے والی زمین مکہ اور مدینہ میں نہیں ہے دوسرا صرف رہائش کے لئے مخصوص ہے، یعنی رہائشی مکانات کے علاوہ زمین فروخت نہیں ہوگی.یوں ایک ایسے وقت میں جب کہ دنیا کے مسلمانوں نے اس معاملہ کی سنگینی کو نہ سمجھا اس وقت حضور انور کے ارشاد اور راہنمائی میں اس سنگین خطرہ سے عرب دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے جماعت نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا.00000
362 مصالح العرب.....جلد دوم یاسر عرفات کی وفات پر تعزیت 11 نومبر 2004ء کو فلسطینی تحریک آزادی کے چیئر مین اور صدر فلسطین یاسر عرفات ނ فرانس کے ایک ہسپتال میں وفات پاگئے.ان کی وفات پر حضور انور کی طرف 12 نومبر کو فلسطینی تحریک آزادی کے نئے چیئر مین عباس محمود، عبوری حکومت کے صدر روحی فتوح اور فلسطینی وزیر اعظم احمد قریع کو تعزیتی خط ارسال کیا گیا جس میں فلسطین اور اہل فلسطین کے لئے مرحوم کی خدمات کو سراہا گیا.نیز جماعت احمدیہ اور فلسطین کے قضیہ کے دفاع اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات کا ذکر کیا گیا.00000
مصالح العرب.....جلد دوم 363 پہلی عربی ویب سائٹ کا قیام گو کہ 2001ء کی ابتداء میں جماعت کی مرکزی ویب سائیٹ www.alislam.org کا اجراء ہو گیا تھا جس میں عربی سیکشن بھی رکھا گیا تھا اور اس سیکشن میں گل چھ کتب، چار پمفلٹس ، تفسیر سورۃ فاتحہ اور بیعت فارم رکھے گئے تھے.لیکن عرب احباب کی اس مواد تک سہولت کے ساتھ رسائی اور اس کی بنا پر جماعت کے ساتھ رابطہ کسی قدرمشکل امر تھا.نیز جماعت احمدیہ کا سارا عربی لٹریچر ویب سائٹ پر میسر نہ تھا.دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر آج تک جماعت کی اکثر کتب عرب ممالک میں پہنچانا مشکل امر رہا ہے کیونکہ عرب ملکوں میں ان کو چھپوانے کی اجازت نہیں ہے جبکہ دیگر ملکوں سے ان کا بھیجنا تقریبا ناممکن ہے کیونکہ راستہ میں ہی ان کو ضبط کر لیا جاتا ہے.علاوہ ازیں اسی عرصہ میں انٹرنیٹ پر مختلف عربی ویب سائیٹس کا بہت زیادہ اضافہ اور رواج ہوا اور بعض عیسائی ویب سائٹس پر اسلام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے خلافت پرو پیگنڈا شروع ہوا جس کا جواب دینے کے لئے نیز جماعت کا سارا لٹریچر عربوں تک پہنچانے کے لئے عربی ویب سائیٹ کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا گیا.جلسہ سالانہ برطانیہ 2004ء کے موقعہ پر مکرم محمد شریف عودہ صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ کی خدمت میں ویب سائٹ بنانے اور جماعت احمدیہ کہا بیر کو یہ کام سونپنے کی درخواست کی.حضور انور نے اس بارہ میں مکمل سکیم بنا کر پیش کرنے کا ارشاد فرمایا.نیز اس ویب سائٹ پر مواد ڈالنے اور دیگر انتظامی امور کے بارہ میں ہدایات ارشاد فرما ئیں.جماعت احمد یہ کبابیر نے اس پر کام شروع کر دیا اور بعد میں مختلف امور کے جائزہ کے بعد حضور انور نے 19 اکتوبر
مصالح العرب.....جلد دوم 364 2004ء کو یہ ویب سائٹ بنا کر چلانے کی اجازت مرحمت فرما دی اور عربک ڈیسک کو اس کے جمله مواد کی چیکنگ کی ہدایت فرمائی.چنانچہ اس سال کے آخر تک اس ویب سائٹ نے www.islamahmadiyya.net کے ایڈریس کے ساتھ تجرباتی طور پر کام شروع کر دیا تھا جبکہ اس کا رسمی طور پر اعلان حضور انور نے جلسہ سالانہ برطانیہ 2005ء کے موقع پر فرمایا.آپ نے اس جلسہ میں مورخہ 29 جولائی 2005 ءکو اس ویب سائٹ کے بارہ میں فرمایا: امسال عربی زبان میں جماعت کی پہلی ویب سائٹ لانچ کی جارہی ہے جو کہ جماعت احمدیہ کہا بیر نے بڑی محنت سے تیار کی ہے اور ماشاء اللہ اس میں ڈالے گئے مواد، اس کی ترتیب و تزئین اور سہولت کے ساتھ اس مواد تک رسائی کے اعتبار سے نہایت شاندار اور قابل قدر محنت کا یہ معلوم ہوتی ہے.مکرم امیر صاحب کہا بیر کی نگرانی میں ہمارے کہا بیر کے خدام کی ایک ٹیم نے دن رات محنت کر کے اس کو تیار کیا ہے.اس کے مینجر میمون لطفی عودہ صاحب ہیں جبکہ دیگر خدمت کرنے والوں میں سے چند کے نام قابل ذکر ہیں: ربیع مصلح، جعفرمحمد عودہ، بلال عبد الکریم عودہ، ہاشم عودہ اور عبد السلام عودہ.عربی ویب سائٹ پر موجود مواد کئی دفعہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے احمدی برادران کئی عربوں کو تبلیغ کرتے ہیں اور مختلف کتب اور تبلیغی مواد کے سلسلہ میں بسا اوقات پوچھتے ہیں ، اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر عربی ویب سائٹ پر موجود مواد کا مختصراً ذکر کر دیا جائے تا کہ احباب کو پتہ چل سکے کہ کس قدر مواد ہماری عربی ویب سائٹ پر موجود ہے اور کس طرح وہ اپنے زیر تبلیغ عرب دوستوں کو ویب سائٹ کے ذریعہ ہی اچھی خاصی معلومات فراہم کر سکتے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے عربی ویب سائٹ پر اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ عربی اور کئی ترجمہ شدہ کتب تفسیر کبیر جلد 1 تا 10 کا عربی ترجمہ، خلفائے احمدیت کی 20.
مصالح العرب......جلد دوم 365 زائد مختلف کتب کے تراجم ، جبکہ دیگر علمائے احمدیت کی 16 کتب اور تراجم موجود ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ کتب روحانی خزائن“ کا لنک بھی دیا گیا ہے.ویڈیوز عربی ویب سائٹ پر 600 سے زیادہ "لقاء مع العرب ، سبیل الہدی اور دیگر عربی پروگرامز کی ویڈیوز موجود ہیں.جبکہ ”الحوار المباشر" کے آج تک ریکارڈ ہونے والے تمام پروگرامز بھی میسر ہیں.آڈیوز : 2005 ء سے لے کر 2007 ء تک چیدہ چیدہ جبکہ فروری 2008 ء سے آج تک با قاعدہ ہر خطبہ کی عربی ڈبنگ (Dubbing) کے ساتھ آڈیو اور تحریری عربی ترجمہ کی فائلز موجود ہیں.علاوہ ازیں مختلف قصائد کی ریکارڈنگز بھی موجود ہیں.تعارفی مواد بعض لوگ جماعت کے بارہ میں اختصار کے ساتھ معلومات کے خواہاں ہوتے ہیں تا کہ جماعت کے بارہ میں ان کے ذہن میں ایک تصور قائم ہو جائے پھر مزید تحقیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے ویب سائٹ پر مختصر طور پر سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ودلائل صدق اسیح الموعود، بیعت فارم، نظام خلافت و سیرت خلفائے احمدیت ، عربوں میں مختصر تاریخ احمدیت، جماعت کے عقائد، مفاہیم اور تفاسیر وافکار مختلف اہم موضوعات پر مضامین، مختلف تصاویر وغیرہ بھی ویب سائٹ کا حصہ ہیں.مجلہ التقوی اور متفرق سوالات کے جوابات ویب سائٹ پر 2001 ء سے لے کر آج تک مجلّہ التقوی کے تمام شمارے موجود ہیں.نیز سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کے سوالات اور ان کے جوابات موجود ہیں جن کی تبویہ
مصالح العرب.....جلد دوم 366 کر کے ان کو عناوین کے تحت رکھا گیا ہے تا کہ نئے سوال کرنے والوں کے لئے سابقہ جوابوں سے استفادہ آسان ہو سکے.مبارکبادیں اور علمی مقابلے کچھ عرصہ سے عیدین وغیرہ کے مواقع پر احباب کے حضورا نور ایدہ اللہ کو عید مبارک کے پیغامات نیز آپس میں ایک دوسرے کو عید مبارک کہنے کے لئے بھی ایک خاص حصے کا اضافہ کیا گیا ہے.لوگوں کے مرسلہ پیغامات کو چیک کرنے کے بعد ویب سائٹ پر ڈال دیا جاتا ہے.اسی طرح کچھ عرصہ سے جماعت احمد یہ کہا بیر بعض خاص مواقع پر ویب سائٹ پر علمی مقابلہ جات بھی کرواتی ہے جن سے نہ صرف علمی فائدہ ہوتا ہے بلکہ عربی ویب سائٹ پر موجہ مواد کے بارہ میں لوگوں میں آگاہی بھی بڑھتی ہے.خارجی روابط : ویب سائٹ پر ایم ٹی اے 3 لائیو، ایم ٹی اے 1,2، جماعت کی مرکزی ویب سائٹ alislam.org ، ہیومینٹی فرسٹ، جلسہ سالانہ اور عربی کتب خرید نے والی ویب سائٹ kitaabee.net کے لنک موجود ہیں.جہاں سے لوگ رقم ادا کر کے کتب خرید سکتے ہیں.بعض تبصرے خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس وقت 3-TA العربیہ پر 24 گھنٹے عربی زبان میں مختلف پروگرام چل رہے ہیں.اسی طرح کئی عرب احمدی ای میل اور اپنے بلاگز وغیرہ سے تبلیغ کر رہے ہیں اور ویب سائٹ پر سوالات اور دیگر مواد سے بھی لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں.ایسی صورتحال میں یہ کہنا تو مشکل ہے کہ کسی نے جماعت کی صرف ویب سائٹ ہی دیکھی ہو اور احمدیت کے بارہ میں تحقیق کے دوران ایم ٹی اے العربیہ نہ دیکھا ہو، یا اس کے برعکس ایم ٹی اے العربیہ دیکھا ہو اور ویب سائٹ کے مواد سے بے خبر ہو، اس لئے لوگوں کے تبصرہ جات میں ٹی وی پروگرامز اور ویب سائٹ وغیرہ سب کا مجموعی بیان ہوتا ہے.ذیل میں چند ایسے
مصالح العرب.....جلد دوم تبصرے پیش ہیں جن میں ویب سائٹ کا بھی نمایاں طور پر ذکر آیا ہے: ویب سائٹ بہت پسند آئی مکرم طارق نصیر صاحب اردن سے لکھتے ہیں:.367 احمدی بھائیو، السلام علیکم.میں کسی وجہ سے ایک دینی مسئلہ کو ویب سائٹوں کے ذریعہ حل کر نے کی کوشش کر رہا تھا.اتفاق سے آپ کا ویب سائٹ بھی دیکھنے کا موقع ملا جو مجھے بہت پسند آیا اور بار بار اسے پڑھا اور حیران رہ گیا کہ آپ کی جماعت قرآن کریم کی حفاظت پر کمر بستہ ہے.اس کی تحریرات میں جگہ جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بھری پڑی ہے.آپ ساری امت مسلمہ کے لئے جو علمی کام کر رہے ہیں اس کو دیکھ کر میں بھی اپنے آپ کو آپ کی جماعت کا ہی ایک فرد محسوس کرتا ہوں اور ایسا لگتا ہے کہ میری گمشدہ چیز مجھے واپس مل گئی ہے.ساری کتابیں ڈاؤن لوڈ کر لی ہیں فون بتایا: روز یار غازی محمد صدیق کردستان (عراق) کے اہم صحافی ہیں انہوں نے بذریعہ میں آپ کے چینل کی نشریات دیکھتا رہتا ہوں.اور خدا کے فضل کے بعد آپ کے چینل پر نشر ہونے والے پروگرامز کی وجہ سے میں خود کو آپ کی جماعت کا ایک فرد سمجھتا ہوں.ہم نے جماعت کی عربی ویب سائٹ سے اکثر مضامین اور کتب ڈاؤن لوڈ کر لی ہیں اور ان کا مطالعہ کر رہے ہیں.میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کرنا چاہتا ہوں اور میرے ساتھ میری بیوی بھی بیعت کرنا چاہتی ہے.اسی طرح میرے تین بھائی اور ایک کزن بھی جو کہ انجینئر ہے بیعت کے خواہاں ہیں.مکرم رضا الزیانی صاحب تیونس سے تحریر کرتے ہیں: خدا کی قسم مجھے آپ سے خدا کی خاطر محبت ہے اور جب سے میں نے بیعت کی ہے اپنے اندر خدا تعالیٰ کے افضال و برکات کا نمایاں طور پر مشاہدہ کر رہا ہوں.جب سے آپ لوگوں نے عیسائی پادریوں کے جواب دینے شروع کئے مجھے آپ کے پروگرام نے کھینچا، اور آپ کے دلائل اور انداز گفتگو نے
مصالح العرب.....جلد دوم 368 مجھے قائل کیا اور میرا روز کا معمول ہو گیا کہ ایم ٹی اے دیکھوں.میں نے انٹرنیٹ پر موجود ساری کتابیں ڈاؤن لوڈ کر کے مطالعہ کر لی ہیں.میں اپنے آپ کو احمدی سمجھنے لگا تھا لیکن جب سے یہ پتہ چلا ہے کہ با قاعدہ حضرت خلیفتہ اسیح کی بیعت ضروری ہے تو میں نے بیعت کر لی ہے.ویب سائٹ کا اثر کرم محمود صاحب الجزائر سے لکھتے ہیں: عید کے مبارک موقع پر تمام دنیا کے احمدیوں اور خاص طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس حفظہ اللہ کی خدمت میں پر خلوص مبارکباد عرض ہے.مجھے آپ کی خاکساری اور خطبوں میں استقلال اور دینی گفتگو اور تبلیغی دوروں نے بہت متاثر کیا ہے.جو شخص جماعت کے افکار کا علم رکھتا اور اس کی کتابیں پڑھتا اور اس کی ویب سائٹ کا مطالعہ کرتا ہے اس کے دل میں برکت کی روح ڈالی جاتی ہے اور اس پر ہدایت کی روشنی منکشف ہو جاتی ہے.اور وہ خدا اور اس کے دین اور اس کی مخلوق کی محبت میں بڑھتا جاتا ہے، اور اس کا سینہ اپنے ارد گرد کے مسلمانوں اور غیروں سب کے لئے کشادہ ہو جاتا ہے.اے خدا تو حق اور حق کی تائید کرنے والے ہر شخص کی نصرت فرما اور ہر طالب حق و ہدایت کے دل میں حق کی شعاع پیدا فرما.اور ہر اس شخص کی مدد فرما جو امن و سلامتی اور محبت کا پیغام دیتا ہے.اور ہر گمراہ کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت دے.آمین.والحمد للہ رب العالمین.ویب سائٹ دیکھنے پر خدا کا شکر مکرم سلطان ابھیمی صاحب جن کا اصل وطن چیچنیا ہے اور اس وقت آسٹریا میں مقیم ہیں، عربی زبان جانتے ہیں لہذا انہوں نے عربی زبان میں اپنے خط میں لکھا: آپ کی ویب سائٹ پر کیا ہی خوبصورت تفسیر قرآن پڑھنے کو ملی.خدا کا شکر ہے کہ اس نے اس سائٹ کی طرف میری راہنمائی کی تا کہ اس روحانی کلام سے لذت اٹھاؤں.یہ انسانی کلام نہیں ہے.اس میں ایسی روحانیت ہے جو دلوں کو زندہ کرتی ہے.واللہ اس پُر لطف کلام سے بڑھ کر کوئی چیز دل کو لبھانے والی نہیں.میری دلی تمنا ہے کہ آپ روسی -
مصالح العرب.....جلد دوم 369 زبان میں بھی ایسی سائٹ تیار کریں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میرے چیچنیا کے ہم قوم بھائی بھی کثیر تعداد میں اس عظیم انسان کو پہچانیں اور دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی کس طرح مدد فرمائی ہے.ربانی علوم کا سمندر مکرم احمد انیس صاحب الجزائر سے لکھتے ہیں: جب سے مجھے آپ کی ویب سائٹ کا پتہ چلا ہے میں اس کا دیوانہ ہو کر رہ گیا ہوں.ربانی علوم کے اس سمندر سے اپنی پیاس بجھا رہا ہوں اور دن بدن اس بات پر میرا یقین بڑھتا جا رہا ہے کہ آپ لوگ ہی حق پر ہیں.لہذا میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.مطالعہ اور بیعت مکرمہ نسیبہ صاحبہ از دمشق اپنے بیعت کے تفصیلی واقعہ میں بیان کرتی ہیں: میں نے جماعت کی ویب سائٹ دیکھی اور اس پر موجود کتابوں کا مطالعہ کیا اور خدا تعالی کی توفیق اور میری خوش قسمتی سے سب سے پہلے میں نے کتاب مسیح ہندوستان میں کا مطالعہ کیا ، پھر اسلامی اصول کی فلاسفی اور مکتوب احمد کا مطالعہ کیا اور اس کے علاوہ ویب سائٹ پر موجود کچھ اور مضامین پڑھے.خصوصاً ختم نبوت کے بارہ میں تفصیل سے پڑھا اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے میری تسلی کرا دی.میں نے ان کتب اور مقالات اور قصائد کا مطالعہ جاری رکھا اور ایم ٹی اے کے پروگرامز بھی دیکھتی رہی حتی کہ خدا تعالی نے چھ ماہ بعد مجھے اس مبارک جماعت میں شمولیت کی توفیق دے دی.بیعت کے بغیر چارہ نہ رہا بكرمه حياة حرز اللہ صاحبہ از تیونس بیان کرتی ہیں: مجھے شروع سے ہی دینی لگاؤ ہے.اسی نقطہ نظر سے صوفیاء اور علماء کی کتب پڑھتی رہتی ہوں.لیکن کوئی خاص اندرونی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی.صوفیاء کی جماعت میں چارسال شامل رہی
370 مصالح العرب.....جلد دوم لیکن کوئی روحانی فائدہ نہ ہوا.اسی دوران ایم ٹی اے کے ذریعہ جماعت سے تعارف ہوا اور جب انٹرنیٹ پر جماعت کی ویب سائٹ سے حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھیں تو کیفیت بدل گئی اور بیعت کے بغیر چارہ نہ رہا.میری سب سے بڑی خواہش وصال الہی ہے.براہ کرم دعا کریں کہ اللہ تعالی مجھے روحانی ترقی نصیب فرمائے.اگر تیونس میں جماعت موجود ہے تو میری خواہش ہے کہ ان سے رابطہ ہو.اللہ تعالیٰ حضور کے ہاتھ پر جلد ساری دنیا پر غلبہ اور فتح فرمائے.آمین.XXXXXXXXXXXX XXXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد دوم 371 الا زہر کے لئے وثیقہ کی تیاری 2004 ء کے آخر میں جماعت احمد یہ کہا بیر کے ایک قدیم مخلص احمدی مکرم ابراہیم اسعد عودہ صاحب کو مصر کے شہر اسکندریہ میں کسی موضوع پر لیکچر کے لئے بلایا گیا.انہوں نے وہاں پر شيخ الأزهر محمد سید الطنطاوی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو منتظمین نے اس ملاقات کا انتظام کر دیا.شیخ الازہر سے ملاقات کے دوران ابراہیم اسعد عودہ صاحب نے انہیں جماعت کا تعارف کروایا اور ان سے کہا کہ اگر آپ پسند فرمائیں تو مختلف استفسارات کے جوابات دینے اور اپنے عقائد کے بارہ میں غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے جماعت کا ایک وفد بھی آپ کے پاس بھیجا جاسکتا ہے.شیخ الازہر نے رضامندی کا اظہار کیا.چنانچہ حضور انور سے اجازت اور راہنمائی میں ایک وفد تشکیل دیا گیا جو مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل تھا: مکرم محمد شریف عوده و صاحب ( رئیس الوفد ) مکرم عبد الله اسعد عوده صاحب، مکرم ابراہیم اسعد عوده صاحب از کہا بیر اور مکرم محمد منیر ادبی صاحب از شام اس وفد نے فروری 2005ء میں مصر میں شیخ الازہر سے ملاقات کی.انہوں نے بڑی گرمجوشی سے اس وفد کا استقبال کیا اور بلاوجہ تکفیر کے فتاوی صادر کرنے کی بیماری کی سخت مذمت کی.اس کے بعد انہوں نے اس وفد کو مجمع البحوث کے سر براہ شیخ فوزی زفزاف کے ساتھ ملنے کو کہا جنہوں نے یہ وعدہ کیا کہ اگر آپ ہمیں جماعت کی کتب فراہم کریں تو ہم نئے سرے سے پڑھ کر کسی نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں.چنانچہ انہیں کچھ کتب بھی مہیا کردیں.اس دفعہ بھی انکی طرف سے بہت گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اور بڑی آؤ بھگت کی گئی.مکرم شریف عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہم شیخ فوزی زفزاف کے گھر کے برآمدے میں بیٹھے تھے جب انہوں نے کہا: آج جماعت احمدیہ کے علاوہ اسلام کی خدمت کرنے والی کوئی
مصالح العرب.....جلد دوم 372 جماعت نہیں ہے.لیکن شاید یہ حق بات علی الاعلان کہنے کی جرات ان میں نہ تھی.اس کے بعد الا زہر کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ انہیں کتابی شکل میں جماعت کے عقائد لکھ کر دیئے جائیں.چنانچہ یہ کتاب تیار کرنے کی تجویز حضور انور کی خدمت میں منظوری کے لئے پیش ہوئی تو حضور انور نے فرمایا: "کر لیں ، ان پر تو شاید کوئی اثر نہ ہو، ہاں اسی بہانے ایک کتاب بن جائے گی.چنانچہ اس کے نتیجہ میں مکرم عبد المومن طاہر صاحب نے مکرم تمیم ابو دقہ صاحب سے مل کر یہ کتاب تیار کی جس کا نام ہے: "الجماعة الإسلامية الأحمدية، عقائد، مفاهيم ونبذة تعریفیة.اس کتاب میں جماعت کے عقائد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے حوالے سے بیان ہوئے ہیں.یہ کتاب اپریل 2005 ء میں الازہر کو پیش کی گئی لیکن بجائے اس کے کہ اس پر کوئی معقول رد عمل ظاہر کیا جاتا الا زہر والوں نے مزید مطالبے شروع کر دئیے مثلاً یہ کہ ہمیں فلاں اخبار اور فلاں مجلہ اور فلاں کتاب چاہئے حالانکہ انہیں قبل ازیں جملہ کتب کی سی ڈیز (CD) اور بعض پر بلڈ کتب دے دی تھیں نیز مرکزی ویب سائٹ کا ایڈریس بتا دیا تھا کہ وہاں پر ہمارا تمام لٹریچر موجود ہے.بالآخر ساری کوششوں کا نتیجہ وہی ہوا جو حضور انور نے فرمایا تھا کہ ان پر تو کوئی اثر نہ ہوا، لیکن اسی بہانے کتاب بن گئی جسے اب جماعت احمدیہ کے تعارف اور تبلیغی غرض سے احمدی احباب بکثرت استعمال کرتے ہیں.00000
مصالح العرب.....جلد دوم 373 فائیو والیم کمنٹری کا عربی ترجمہ مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب (مرحوم) بیان کرتے ہیں کہ 2004ء کی بات ہے کہ ہم ایک دن ڈاکٹر حاتم الشافعی صاحب ابن مرحوم علمی الشافعی صاحب کے گھر میں جمع تھے کہ تفسیر کبیر کے موضوع پر بات ہوئی کہ یہ قرآنی علوم و معارف کا خزانہ ہے، لیکن چونکہ یہ تفسیر قرآن کریم کی تمام سورتوں کی نہیں ہے.اس لئے سب نے مشورہ دیا کہ حضورانور کی خدمت میں فائیو والیم کمنٹری میں سے ان حصوں کے عربی ترجمہ کی تجویز پیش کی جائے جن کی تفسیر تفسیر کبیر میں موجود نہیں ہے.جب یہ تجویز حضور انور کی خدمت میں پیش کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ دونوں تفسیروں کو یوں اکٹھا کرنے کی بجائے اس کا علیحدہ طور پر ترجمہ کر لیں ، اس طرح عربوں کو دو تفسیر میں میسر ہو جائیں گی.چنانچہ حضور انور نے یہ کام مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب کے سپر دفرمایا جنہوں نے فائیو والیم کمنٹری کی پہلی جلد کے ترجمہ کے کام میں مختلف دوستوں سے مدد لی اور خود اس کی نگرانی اور نظر ثانی کا کام سنبھالا.پہلی جلد دوحصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ اردوزبان میں دیباچہ تغیر القرآن کے نام سے شائع شدہ ہے جبکہ دوسرے حصہ میں تفسیر سورہ فاتحہ و بقرہ کی تفسیر ہے.اسی طرح چہ تفسیر القرآن کے بھی دو حصے ہیں پہلے حصہ میں ضرورت نزول قرآن، سابقہ کتب میں تحریف و تبدیل، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں سابقہ کتب مقدسہ کی پیشگوئیاں اور کئی اعتراضات کا جواب ہے جبکہ دوسرا حصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے عبارت ہے.کینیڈا میں مقیم ہمارے شامی احمدی مکرم نادر احصنی صاحب پہلے ہی دیباچہ تفسیر القرآن کے پہلے حصہ کا کسی قدر ترجمہ کر چکے تھے لہذا مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب نے یہ حصہ ان کے ہی سپرد دیباچه
374 مصالح العرب......جلد دوم کر دیا.جبکہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم والے حصہ کا ترجمہ مصر کے نواحمدی دوست مکرم فتحی عبد السلام مبارک صاحب کو دیا.اور خود تفسیر سورہ فاتحہ و بقرہ پر مشتمل اس جلد کے دوسرے حصہ کا ترجمہ شروع کیا.ایک سال میں پہلی جلد کے ترجمہ کا کام مکمل ہو گیا تو معلوم ہوا کہ صرف ترجمہ کے مواد کا حجم 1200 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، جبکہ مقدمات و فہرستیں وغیرہ اس کے علاوہ ہیں.لہذا حضور انور کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ فائیو والیم کمنٹری کی ہر جلد کا ترجمہ دوجلدوں میں شائع کیا جائے.یوں آخر پر اس تفسیر کا ترجمہ بھی تفسیر کبیر کی طرح دس جلدوں میں مکمل ہوگا.حضور انور کی منظوری سے طے پایا کہ پہلی جلد میں صرف دیباچہ تفسیر القرآن کے ترجمہ کی اشاعت ہو اور دوسری میں تفسیر سورہ فاتحہ و بقرہ.اس طرح بفضلہ تعالیٰ 2006ء میں یہ پہلی جلد التفسیر الوسیط“ کے نام سے شائع ہوگئی.ނ 2005ء میں عرب دنیا میں عیسائیت کا بھر پور حملہ شروع ہو گیا اور حضور انور کی طرف.اس کے رڈ میں پروگرام بنانے کا ارشاد ہوا نیز پروگرام الحوار المباشر شروع ہو گیا جس میں ہر ماہ مکرم مصطفی ثابت صاحب شرکت کے لئے تشریف لاتے تھے جس کی تفصیل بعد میں آئے گی ، بہر حال اس مصروفیت کی وجہ سے مکرم ثابت صاحب اس ترجمہ کو پوری رفتار کے ساتھ جاری نہ رکھ سکے.تاہم وقتاً فوقتاً انہوں نے اپنی وفات تک فائیو والیم میں سے دو جلدوں کا ترجمہ مکمل کر لیا تھا.علاوہ ازیں بیچ بیچ میں سے اور آخری پارے کی بعض سورتوں کی تفسیر کا ترجمہ بھی کر لیا تھا.مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب کی وفات کے بعد مکرم ہانی صاحب نے بقیہ تین جلدوں کے ترجمہ کو مختلف احباب پر تقسیم کرنے کی تجویز دی.ا ان احباب میں مکرم محمد العانی صاحب آف شام اور ڈاکٹر حاتم صاحب آف مصر آف شام قابل ذکر ہیں جن کی انگریزی زبان بھی اچھی ہے نیز عربی زبان پر بھی گرفت کافی مضبوط ہے.حضور انور کی منظوری سے مکرم محمد العانی صاحب اور ڈاکٹر حاتم صاحب کو ایک ایک جلد کے ترجمہ کا کام دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں یہ کام مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.00000
مصالح العرب.....جلد دوم 375 صلیبی فتنه آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ کا سب سے بڑا دجالی فتنہ عیسائیت کا فتنہ ہے جسے توڑنے کے لئے مسلمانوں کو کا سر صلیب کے مبعوث ہونے کی خبر دی ا.عجیب بات یہ ہے کہ اس کا سر صلیب یعنی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مهدی مسعود علیہ السلام کی بعثت کے زمانے یعنی انیسویں صدی کے اواخر سے ہی بڑے بڑے پادری اور عیسائی آرگنا ئزیشنز مل کر پوری شدت کے ساتھ دنیا کو عیسائی بنانے کی پلاننگ کرنے کے لئے کا نفرنسز منعقد کرتے نظر آتے ہیں اور عیسائی حکومتوں کے پشت پناہی میں عیسائی مناد ہر روک کو پھلانگنے کی کوشش میں ہیں، جس کے نتیجہ میں وقتا فوقتا دنیا کے مختلف اسلامی ملکوں میں کر سنائزیشن کی تحریکات اٹھتی رہی ہیں.لیکن عرب ممالک تک عموما اور ارض حجاز اور مکہ و مدینہ تک پہنچنا عیسائیت کا دیرینہ خواب رہا ہے.کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت عربوں کے پیچھے چلتی ہے لہذا اس طریق سے عالم اسلام تک رسائی سب سے کارآمد ہتھیار ہے.چنانچہ مشہور عیسائی مناد اور شکاگو یونیورسٹی میں موازنہ مذاہب کے لیکچرر جان ہنری بیروز (John Henry Barrows) نے اسی عرصہ میں مسیحی ترقی کا جائزہ لینے کیلئے ساری دنیا کا دورہ کیا اور اس دورہ کے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: اب میں اسلامی ممالک میں عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا ذکر کرتا ہوں.اس ترقی کے نتیجہ میں صلیب کی چہکار آج ایک طرف لبنان میں ضوفگن ہے تو دوسری طرف فارس کے پہاڑ اور چوٹیاں اور باسفورس کا پانی اس کی چمکار سے جگمگ جگمگ کر رہا ہے.یہ صورت حال پیش
مصالح العرب.....جلد دوم 376 خیمہ ہے اس آنے والے انقلاب کا جب قاہرہ، دمشق اور طہران کے شہر خداوند یسوع مسیح کے خدام سے آباد نظر آئیں گے.حتی کہ صلیب کی چمکار صحرائے عرب کے سکوت کو چیرتی ہوئی وہاں (یعنی حجاز میں.ناقل ) بھی پہنچے گی.اس وقت خداوند یسوع اپنے شاگردوں کے ذریعہ مکہ کے شہر اور خاص کعبہ کے حرم میں داخل ہوگا اور بالآخر وہاں اس حق و صداقت کی منادی کی جائے گی که ابدی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھے خدائے واحد اور یسوع مسیح کو جانیں جسے تو نے بھیجا ہے.“ (Barrows Lectures 1896-97 page 42 First Ed.1897 in Madras by: The Christian Litrature Society for India) یہی عزم لے کر یہ لوگ جب ہندوستان میں آئے تو جس طرح انہیں کا سر صلیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں منہ کی کھانی پڑی اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑا وہ تاریخ اسلام کا ایک روشن باب ہے.یوں تو کر سنائزیشن کے لئے بہت سی کا نفرنسز منعقد ہو چکی ہیں لیکن 1978ء میں امریکہ کی ایک ریاست کولوراڈو میں ہونے والی کانفرنس سب سے خطر ناک شمار کی جاتی ہے جس میں 150 بڑی بڑی متشد د عیسائی شخصیات نے شرکت کی اور 720 ملین مسلمانوں کو عیسائی بنانے کا منصوبہ تیار کیا گیا.(یاد رہے کہ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کی کل تعداد بھی تقریبا اتنی ہی تھی ).دو ہفتے جاری رہنے والی اس کا نفرنس میں بہت بڑے بجٹ کی منظوری دی گئی اور جہاں عالم اسلامی کو عیسائیت کی طرف مائل کرنے کے لئے بیرونی طور پر مختلف طریقے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا وہاں مسلمان ملکوں میں موجود کلیساؤں اور پادریوں کو بھی فعال طور پر اس مہم میں اپنا کردار ادا کرنے کا کہا گیا.عجیب بات ہے کہ اسی سال اور اس کا نفرنس کے انعقاد سے چند ماہ پہلے جماعت احمدیہ نے عیسائیت کے گڑھ برطانیہ میں کسر صلیب کا نفرنس منعقد کی جس میں امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے بھی شرکت فرمائی.بہر حال عیسائی مذہبی تنظیموں اور شخصیات کی مسلمان ممالک کو عیسائی بنتا دیکھنے کی خواہشیں پنپتی اور بڑھتی رہیں اور بند کمروں کی خفیہ باتیں بھی زبان زد عام ہوتی رہیں حتی کہ پوپ کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں سے ایک Cardinal Paul Poupard نے 30 ستمبر 1999ء کو ایک فرانسیسی اخبار Le Figaro کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ اسلام مغرب کے لئے
مصالح العرب.....جلد دوم 377 ایک ہولناک چیلنج اور عیسائی خواہش کی تکمیل کی راہ میں ایک خطرناک رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے.پھر اس چیلنج کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چیلنج دراصل یہ ہے کہ اسلام ایک دین، ایک ثقافت، ایک معاشرہ اور اسلوب حیات و طرز فکر وعمل ہے.گویا ان کے نزدیک اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے انہیں نہ صرف اسلام کی دینی ، ثقافتی اور معاشرتی اقدار کا خاتمہ کرنا ہوگا بلکہ اس کے اسلوب حیات و طرز فکر و عمل کو بھی بدلنا ہو گا.اسی طرح ”ازمیر ترکی کے آرچ بشپ Giuseppe G.Bernardini نے کہا کہ اسلام نے یورپ کو فتح کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے.اسلام پٹرول سے حاصل شدہ ڈالرز کی بدولت پہلے ہی اپنا نفوذ بڑھا رہا ہے.اور اب یہ ڈالرز شمالی افریقہ کے غریب ملکوں یا مشرق وسطی میں کام کے مواقع پیدا کرنے پر نیز عیسائی ملکوں میں ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں کے لئے مساجد و مراکز کی تعمیر پر خرچ ہورہے ہیں اور ان میں اٹلی کا دارالحکومت روم بھی شامل ہے.کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس واضح توسیعی منصو بہ اور اس نئی طرز کی فتح کے پروگرام سے بے خبر رہیں.اسی طرح کی بعض اور آراء پر مشتمل ایک مضمون لندن سے شائع ہونے والے ایک عربی اخبار القدس العربی“ نے اپنی یکم نومبر 1999ء کی اشاعت میں شائع کیا، جن سے اور بے شمار امور کے علاوہ عرب ملکوں کو عیسائیت کی یلغار کا ہدف بنانے کا واضح عندیہ ملتا ہے.حوالہ کے لئے ملاحظہ ہو: (AL-QUDS AI - Arabi Volume 11 - Issue 3261 Monday 1 November 1999 p 18) اسلام دشمن مہم اور عیسائی پادری زکریا بطرس اسی پس منظر میں مختلف عیسائی چینلز پر اسلام کے خلاف مہم کا آغاز ہوا جن میں سب سے زیادہ سخت حملہ 2003ء میں قبرص سے شروع ہونے والے ایک عیسائی چینل ”الحیاۃ کے ذریعہ کیا گیا جس پر ایک پادری نے اسلام اور نبی ء اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر حملہ شروع کیا.اس حملہ کی تفاصیل بتانے سے قبل اس پادری کے بارہ میں کچھ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے.اس پادری کا نام زکریا بطرس ہے اور اس کا تعلق مصر کے قبطی آرتھوڈ کس چرچ سے ہے.یہ قاہرہ کے چرچ مار مرقس میں بطور کا بہن کام کرتا رہا پھر آسٹریلیا میں اور بعد ازاں
مصالح العرب.....جلد دوم 378 یہاں برائن انگلینڈ میں بھی کام کیا، بالآخر آرتھوڈ کس چرچ سے استعفیٰ دے کر اسلام دشمن حملہ میں شامل ہو گیا.مصرعیسائیت کے فرقہ آرتھوڈ کس کا مرکز مانا جاتا ہے.یہاں پر عرصہ دراز سے عیسائی اور مسلمان اکٹھے رہ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے سے پر ہیز کیا جاتا ہے، بلکہ اب تو معاشرہ کا امن برقرار رکھنے کے لئے اس بارہ میں ملکی سطح پر قانون سازی بھی کی گئی ہے، جس کی بناء پر آرتھوڈ کس چرچ سے منسلک کوئی پادری کھلے عام اسلام دشمنی پر مبنی مہم شروع نہیں کر سکتا.یہاں سے ہمیں اس پادری کے الحیاۃ چینل کی اسلام دشمن مہم میں شریک ہونے سے قبل آرتھوڈ کس چرچ سے استعفیٰ دینے کی بات بھی سمجھ آجاتی ہے.کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آرتھوڈ کس چرچ سے منسلک ہونے کی وجہ سے مصر میں اس پر دباؤ بڑھ جانا تھا اور اس حملہ کو رو کے بغیر چارہ نہیں ہونا تھا.اور حقیقتا ایسا ہی ہوا کہ جب آرتھوڈ کس چرچ سے اس کا شکوہ کیا گیا تو چرچ نے واضح طور پر اس سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا کہ اس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے.پادری کے مصادر ومراجع اس پادری نے اپنے پروگراموں میں خصوصی طور پر ان روایات اور مسلمانوں کے ان عقائد کو موضوع بحث بنایا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے قرآن کی حقیقی تعلیم سے دور ہونے کا باعث بنے اور بالآ خر غلط فہمیوں اور بگاڑ نے وہ صورت اختیار کر لی جس کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اسلام پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ اس کا صرف نام باقی رہ جائے گا.اور یہی وہ عقائد ہیں جن کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے.مثلاً ناسخ و منسوخ کے عقیدہ نے قرآن میں شک وریب کی راہ کھول دی، اور حدیث کو قرآن کریم پر حکم قرار دے کر قرآنی آیات کے منسوخ کرنے کے عقیدہ نے روایات کو قرآنی آیات پر بھی فوقیت دے دی.اسی طرح لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّين کے عظیم الشان اعلان کے باوجود قتل مرتد کے اعتقاد نے اسلام کو دینی آزادی سلب کر دینے والے مذہب کے طور پر پیش کیا.خود تراشیدہ جنگ و جدال کے متشددانہ خیالات نے امن وسلامتی کے مذہب کو ایک خونی دین کے طور پر پیش کیا.ان تمام کی
379 مصالح العرب.....جلد دوم امور کے علاوہ اس پادری نے مختلف اسلامی فرقوں کے آپس کے اختلافات کو بھی پیش کر کے مختلف اعتقادات کا مذاق اڑایا.اور سب سے زیادہ ان بے سروپا روایات اور خرافات کو پیش کیا جن کو مفسرین نے بغیر تحقیق کے ایک دوسرے سے نقل کیا ہے اور آج تک مولوی حضرات اپنی تقاریر اور وعظوں اور کتب میں ان کو نقل کرتے چلے آرہے ہیں، جبکہ اسلامی تعلیمات سے ان کا دُور کا بھی تعلق نہیں ہے.اس پادری نے اپنے پروگرام کا نام أسئلة عن الإيمان رکھا، اور اسلام کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنے کے علاوہ بعض ایسے عرب لوگوں کو بھی اپنے پروگرام میں دنیا کے سامنے پیش کیا جنہوں نے اس کے بقول اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی تھی.یہ کہ یہ ایک ایسا حملہ تھا جس کا مسلمان مولویوں کے پاس کوئی منطقی جواب نہ بن پڑا.اوّل تو اس حملہ نے مسلمانوں کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا تھا.لیکن دفاعی پوزیشن میں بھی ان کی حالت نہایت ہی بے سروسامانی کی تھی.عیسائی پادری مسلمان علماء کی کتب و تفاسیر کے حوالے نکال کر دکھاتا تھا اور کہتا تھا کہ اس کا کوئی جواب ہے تو دو.اور کوئی ان امور کے رڈ میں بولنے والا ہو تو سامنے آئے.مناسب جواب نہ ملنے کی وجہ سے کئی کمزور ایمان لوگ اسلام سے نکل کر عیسائیت کی آغوش میں جا پہنچے.بعض عرب ممالک میں عیسائیت کی یہ یلغار اتنی شدید تھی کہ کثرت سے لوگ اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت کے جال میں پھنسنے لگے.بلکہ ان میں سے بعض تو اسلام کے خلاف اس مہم میں بھی شریک ہو گئے.مسلمانوں کارڈ عمل پادری نے جہاں تمام مسلمانوں کو للکارا وہاں بڑے بڑے مولویوں کو بلکہ الا زہر کے علماء کو بھی چیلنج دیا کہ اگر ہمت ہے تو وہ میرے سامنے آکر ان امور کا جواب دیں جو انہی کی کتب سے پیش کئے گئے ہیں.لیکن اس پادری کا منہ توڑ جواب دینے کی بجائے اسلامی دنیا میں مندرجہ ذیل رد عمل سامنے آئے: 1.بعض جو شیلے اور ناسمجھ مسلمانوں نے بدزبانی اور بدکلامی کے چند جملے بول کر یہ سمجھا کہ دفاع اسلام کا فریضہ ادا ہو گیا ہے.
مصالح العرب.....جلد دوم 380 2.کچھ لوگوں نے انفرادی طور پر پادری کے پیش کردہ مسلمانوں کی کتب کے حوالوں کا مختلف تاویلوں کے ذریعہ سے جواب دینا شروع کر دیا جس نے موقف کو مزید کمزور کر دیا.3.بعض ہمت ہار کر اس بے بسی پر خدا کے حضور مدد کے لئے گریہ وزاری کرنے لگے کہ اے خدایا تو خود ہی کسی کو کھڑا کر جوان کا منہ بند کرے.4.اور بعض نے یہ فتویٰ جاری کیا کہ اس چینل کو نہ دیکھا جائے اور اس کو کوئی جواب نہ دیا جائے ، بلکہ اس موضوع کو نہ کسی خطبہ اور نہ درس میں ذکر کیا جائے.اور یہ رائے ازہر کے بعض شیوخ کی تھی.بہر صورت کسی طرف سے کوئی ایسا مد مقابل نہ آیا کہ اس دشمن اسلام کے دانت کھٹے کرے اور اس کی تدبیروں کو خود اس پر ہی الٹا دے.مشائخ از ہر کے موقف کی ایک مثال ابھی تک عیسائی پادری مسلسل مسلمانوں کو للکارے جارہا تھا اور علی الاعلان کہہ رہا تھا کہ کوئی ہے تو میرے مد مقابل آئے اور ان اعتراضات کا جواب دے.ایسی صورتحال میں بعض عرب چینلز پر بھی پادری کے اٹھائے ہوئے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے علماء کو بلایا جانے لگا.یہاں پر بطور مثال ایک چینل پر ہونے والی گفتگو کا خلاصہ درج کرنا خالی از دلچسپی نہ ہو گا.اس عربی چینل پر الا زہر کی فتوی کمیٹی کے سابق صدر شیخ جمال قطب اور ایک اور شیخ مبروک عطیہ کو بلایا گیا اور میز بان بسمہ وہبہ نے لونڈیوں کے بارہ میں اعتراض کا جواب چاہا.لیکن لمبی بحث کے بعد جب کوئی معقول جواب نہ ملا تو میزبان نے کہا : شاید آپ کو پتہ نہیں کہ ایک عیسائی پادری بیسیوں دفعہ الا زہر کے بڑے بڑے مشائخ کو للکار چکا ہے لیکن کوئی اس کو جواب نہیں دیتا.شیخ جمال: اس پادری کو کوئی جواب نہیں دیا جائے گا.میزبان : کیا مطلب کہ کوئی جواب نہیں دیا جائے گا؟ اگر آپ میں سے کوئی جواب نہیں دے گا تو کیا میں جواب دوں گی؟ شیخ جمال: اس موضوع پر نہ خطبہ میں بات ہوگی ، نہ کسی ٹی وی کے پروگرام میں ، نہ ہی اس کا کوئی جواب دیا جائے گا.
مصالح العرب.....جلد دوم 381 میزبان : لیکن شیخ صاحب! اس کی وجہ سے ہمارے بچے مرتد ہورہے ہیں.شیخ جمال: جو اس پادری کو سنے گا خود ہی سمجھ جائے گا کہ اس کو جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے.میزبان : لیکن میں امر واقعہ کے بارہ میں بات کر رہی ہوں.( یعنی مسلمان بچے اس کی باتیں سن کر مرتد ہورہے ہیں).شیخ جمال: میں اس کو سن سکتا ہوں لیکن ایسے لوگوں اور ان کے چینل اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں سے تجاہل اختیار کرنا چاہئے.کیا میں زکریا بطرس جیسے کو جواب دوں؟ ہر گز نہیں.میزبان : لیکن میں ایک مسلمان کی حیثیت سے اس کا جواب جاننا چاہتی ہوں.شیخ جمال: ضروری نہیں کہ تمہیں ہر چیز کا علم ہو.بہر حال ایک گھنٹے کا یہ پروگرام ”مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ“ کی وضاحت کے بارہ میں تھا جس میں شیخ جمال اور شیخ مبروک عطیہ نے کوئی مطمئن کرنے والا جواب نہ دیا بلکہ شیخ جمال غصے میں آکر پروگرام سے نکل گئے.اس دوران میزبان بار بار خالی کرسی دکھا کر شیخ جمال کی غیر موجودگی کے بارہ میں ناظرین کو بتاتی رہی.بہر حال آدھے گھنٹے کے بعد شیخ صاحب دوبارہ تشریف لے آئے.یہ پروگرام یو ٹیوب پر کئی کلپس کی شکل میں موجود ہے لیکن مذکورہ بالا بات چیت اس لنک پر دیکھی اور سنی جاسکتی ہے.http://www.youtube.com/watch?v=K3xGjwfLB4&feature=related اس پروگرام کو عیسائیوں نے خوب اچھالا اور لکھا کہ الا زہرایسے مشائخ کہاں سے لائے جو ان سوالوں کے جواب دے سکیں.نیز کہا کہ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ اسلام صرف ایک سوال کی مار ہے.اور اے مسلمان! کیا اتنا سارا کچھ ہو جانے کے بعد بھی تو یہ کہتا رہے گا کہ یہ دین خدا کی طرف سے ہے.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو یہ ویب سائٹ :.http://truth-way.net/vb/showthread.php?t=303&page=2 خود زکریا بطرس نے بھی ان باتوں پر اپنے تبصرے کے ساتھ ویڈیو بنا کر یو ٹیوب پر ڈال دی جو آج تک موجود ہے.
382 مصالح العرب.....جلد دوم اور تو اور اس پروگرام کی میزبان نے جو ایک عرصہ سے بعض دینی اور معاشرتی امور پر کی نہایت کامیاب پروگرام کر رہی تھی اور حجاب اوڑھا کرتی تھی اپنا حجاب اتار دیا جسے عیسائیوں نے خوب اچھالا.ی محض ایک مثال ہے جو یہاں بیان کی گئی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کئی کمزور ایمان اس حملہ کی زد میں آگئے اور کئی اس کی رو میں بہہ کر اسلام سے منحرف ہو بیٹھے.امید کی کرن ان ایام میں مکرم طلا قزق صاحب مرحوم آف اردن نے حضور انور کی خدمت میں اس صورتحال کے بیان پر مشتمل خط لکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب "مسیح ہندوستان میں“ اور حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی کتاب Christianity: A Journey from Facts to Fiction کے عربی ترجمہ کو بکثرت چھپوا کر عرب ملکوں میں پھیلانے کی تجویز عرض کی.اسی طرح ہمارے ایک مصری قدیم احمدی مکرم عمر و عبدالغفار صاحب نے 8اگست 2004 ء کو حضور انور کی خدمت میں لکھا کہ عیسائیت کا فتنہ آج اپنے عروج پر پہنچا ہوا ہے اور متعدد علاقوں میں کئی مسلمان عیسائی ہو گئے ہیں.میں مختلف مولویوں کے جوابات سنتا ہوں لیکن ان کا دفاع نہایت کمزور ہے کیونکہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پر عمل نہیں کیا اور امام مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کیا ہے اس لئے جماعت احمدیہ کے سوا اس کا کافی وشافی جواب اور کوئی نہیں دے سکتا.لہذا میری تجویز ہے کہ اس بارہ میں لائیو پروگرامز شروع کئے جائیں، نیز مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب کو ان پروگرامز کا جواب دینے کا کام سونپا جائے.چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی دعاؤں اور خصوصی راہنمائی کے ساتھ م مصطفیٰ ثابت صاحب کو اس بارہ میں پروگرام تیار کرنے کا ارشاد فرمایا.2004ء کے آخر پر مکرم محمد شریف عودہ صاحب کی تجویز پر حضور انور نے کہا بیر میں ان پروگرامز کی تیاری اور ریکارڈنگ کی اجازت مرحمت فرمائی اور یوں مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب 2005ء میں کہا بیر
مصالح العرب.....جلد دوم 383 تشریف لے گئے اور وہاں پر کچھ عرصہ قیام کے دوران چند پروگرامز کا مواد تحریر کر لیا.اسی دوران جلسہ سالانہ برطانیہ آگیا تو اس میں شرکت کے لئے تشریف لائے لیکن لندن میں بھی قیام کے دوران متعدد پروگرامز کا مواد تحریر کرتے رہے.بعد از جلسہ کہا بیر تشریف لے گئے اور لکھنے کے ساتھ ساتھ ریکارڈنگ بھی شروع کروادی، اور بالآخر 30 پروگرامز کی پہلی کھیپ ریکارڈ ہو کر مرکز پہنچ گئی تو مکرم مصطفی ثابت صاحب 30 اقساط پر مبنی انگلی کھیپ کی تیاری میں لگ گئے.مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب نے پادری کے پروگرام أَسْئِلَة عن الإيمان كے جواب میں تیار کئے جانے والے پروگراموں کے اس سلسلہ کا نام أَخْوِبَة عَنِ الْإِيْمَان رکھا جو بڑا مناسب اور اسم بامسمی تھا یعنی اس میں پادری کو کافی وشافی جواب دیا گیا تھا.اطاعت خلافت کی برکات ان پروگرامز کی تیاری میں غیر معمولی تائید الہی کا ذکر کرتے ہوئے مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب بیان کرتے ہیں کہ : ” خدا کے خلیفہ کی طرف سے مفوضہ کاموں میں اخلاص کے ساتھ کوشش کرنے پر اللہ تعالیٰ ان کاموں میں ٹیسر اور برکت رکھ دیتا ہے.اس سلسلہ میں میں ایک مثال یہ پیش کرتا ہوں کہ جب عیسائی پادری ذکر یا بطرس اسلام اور نبئی اسلام پر اعتراض اور حملے کر رہا تھا اور چیلنج کر رہا تھا کہ مسلمانوں میں سے کوئی ہے جو ان اعتراضات کا جواب دے سکے، تو ہمارے مصری احمدی مکرم عمر وعبد الغفار صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا کہ مصطفیٰ ثابت کو ارشاد فرمائیں کہ وہ ان پادریوں کے اعتراضات کا جواب دیں.چنانچہ حضور انور کی طرف سے مجھے ارشاد آ گیا اور میں حضورانور کی اجازت کے ساتھ کہا بیر چلا گیا جہاں پروگرام أجْوِبَة عَنِ الْإِيْمَان کی قسطیں لکھنا شروع کیں.خلیفہ وقت کے ارشاد کی تعمیل کے نتیجہ میں اس کام میں ایسی برکت پڑی کہ میں بعض اوقات ایک قسط ایک دن میں لکھ لیتا تھا.کئی دفعہ میں عنوان مقرر کر کے لکھنا شروع کرتا تو مضمون کسی اور طرف ہی چلا جاتا اور اتنا مضبوط اور مدلل ہوتا کہ مجھے مضمون کا عنوان تبدیل کرنا پڑتا تھا.پھر اس دوران میں جلسہ پر آ گیا اور باوجود روزانہ جلسہ میں شمولیت، اس کی کارروائی سننے، اور مختلف مہمانوں سے برطانیہ پرا
مصالح العرب.....جلد دوم 384 ملاقاتیں کرنے کے ان چند دنوں میں بھی میں نے 6 قسطیں لکھ لیں.میں خود حیران ہوں کہ یہ کیسے ہو گیا.یہ محض خلیفہ وقت کے ارشاد کی تعمیل کی برکت ہے.جب خلیفہ وقت کوئی ارشاد فرماتے ہیں تو خدا تعالیٰ اس کی تعمیل کرنے والوں کی کوششوں میں غیر معمولی برکت ڈال دیتا ہے.“ ایم ٹی اے کہا بیر کے پروگرام جن دنوں میں مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب انبوبة عن الایمان کی قسطیں لکھ رہے تھے انہی ایام میں MTA کبابیر نے عیسائی پادری کے اٹھائے ہوئے بعض بڑے بڑے اعتراضات کے تفصیلی جوابات پر مشتمل کئی ایک پروگرام ریکارڈ کئے جو مسلسل ایم ٹی اے پر نشر ہونے شروع ہو گئے.لیکن چونکہ اس وقت ایم ٹی اے عرب دنیا میں اتنی کثرت سے نہ دیکھا جاتا تھا نیز عربی نشریات کا وقت بھی محدود تھا اس لئے ہمارے ان پروگرامز کا کوئی خاص اثر نہ ہوا.أجوبَة عَنِ الْإِيْمَانِ اور اس کا اثر مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب نے کا سر صلیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام سے لیس ہو کر تمیں قسطوں پر مشتمل ویڈیو پروگرامز کی ایک سیریز ریکارڈ کی اور اس کو تحریر میں بھی محفوظ کر لیا، اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان پروگرامز کو ایم ٹی اے پر قسط وار چلانے کا ارشاد فرمایا.نیز ان کے بارہ میں یہ ہدایت بھی فرمائی کہ انہیں ایک ویب سائٹ پر ڈال کر افادہ عام کے لئے وقف کر دیا جائے جہاں سے لے کر فائدہ اٹھانے کی ہر ایک کو اجازت ہو.چونکہ یہ پروگرامز تحریری صورت میں بھی موجود تھے اس لئے حضور انور کے اس حکیمانہ ارشاد کا یہ عظیم اثر سامنے آیا کہ وہ لوگ جن کو پادری کا منہ بند کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں مل رہی تھی ان کے ہاتھ میں مضبوط ہتھیار آ گیا.چنانچہ کئی ایک اخبارات اور رسالوں اور ویب سائٹس نے ان پروگراموں کو شائع کرنا شروع کر دیا.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ الا زہر والوں نے اس پروگرام کے ٹیکسٹ کو اپنی طرف.عیسائی معترضین کے سامنے آفیشل جواب کے طور پر پیش کیا.
385 مصالح العرب.....جلد دوم کئی ایک ٹی وی پروگراموں اور ویب سائٹس پر بھی ان پروگراموں کو سراہا گیا.ان کی پروگراموں کا تحریری نسخہ کتاب کی شکل میں مصر میں شائع ہو گیا.جس کو کافی مقبولیت اور پذیرائی کی حاصل ہوئی ہے.ایک ماہ میں جب یہ 30 پروگرام ایک پروگرام روزانہ کے حساب سے چل چکے تو اتنے میں مکرم ثابت صاحب کے مزید 30 پروگرام بھی تیار ہو کر آگئے.یوں روزانہ ایک نیا پروگرام چلایا جاتا اور اور اس کے ساتھ پہلی کھیپ کے 30 پروگرامز میں سے ایک پروگرام کو نشر مکرر کے طور پر پیش کیا جانے لگا.قارئین کرام ضرور جاننا چاہیں گے کہ آخر مصطفیٰ ثابت صاحب کے پروگرامز میں ایسی کیا بات تھی؟ اور وہ کون سا اسلوب تھا جس نے پادری کے پورے کھیل کا پانسا پلٹ دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ثابت صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جدید علم کلام کو استعمال کیا اور انہی خطوط پر اپنے جوابات تیار کئے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیت کے فتنہ کو فرو کرنے کیلئے وضع فرمائے تھے.تقلیدی طریق سے منظم کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مذکورہ اسلوب کے بارہ میں کچھ لکھنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تقلیدی طریق اور اس کے بڑے سقم کے بارہ میں کچھ عرض کر دیا جائے.عیسائیت کے فتنہ کا مقابلہ کرنے میں دیگر مسلمان علماء کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کر بیٹھے ہیں کہ جن نصوص و تفاسیر کی بنا پر اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ اور ان کو لکھنے والے غلطی سے پاک ہیں لہذا جو کچھ ان کی کتب میں لکھا ہے سب سچ ہے خواہ صریحا وہ قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے ٹکراتا ہو.لہذا اس مجبوری کی بنا پر وہ ان نصوص و روایات و تفاسیر کی وضاحت کرتے ہیں.لیکن اکثر مسلمانوں کا ان کتب کے مؤلفین کو ائمہ اور مجددین قرار دینا ان کے ہر وضاحتی جواب کو کمزور کرنے کے لئے کافی ہے.بعض علماء کے اسی اسلوب کی بنا پر عیسائی پادری کے بیشتر اعتراضات اپنی جگہ پر جوں کے توں قائم رہے بلکہ ایسے جوابات نے پادری کی خنجر صفت زبانِ اعتراض کے گھاؤ مزید گہرے کر دیے.
مصالح العرب.....جلد دوم ہمارا طریق 386 ہم تو انہی اصولوں کی پیروی کرنے والے ہیں جو ہمیں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں سکھائے ہیں.اللہ تعالیٰ نے غیر مسلموں سے بحث کرنے کا بنیادی اصول یوں بیان فرمایا ہے کہ : وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلى هُدًى أَوْ فِي ضَللٍ مُّبِينٍ (سبا: 25 ) یعنی گو کہ ہمیں پتہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے حق پر ہیں لیکن آپ کی تسلی کے لئے ہم اس نقطہ سے بحث کا آغاز کرتے ہیں کہ دیکھیں حق پر کون ہے؟ آپ یا ہم ؟ اور گمراہ کون ہے؟ آپ یا ہم؟ لہذا آپ کے اعتراضات کا جواب دینے سے قبل دیکھ لیتے ہیں کہ اسلام کے بدلہ میں جو دین آپ ہمیں دینا چاہتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ لہذا ہمارا حق ہے کہ آپ کے عقائد کو آپ کی کتاب کی رُو سے چیک کریں اور قبول کرنے سے پہلے ان کی صداقت کو پرکھیں.چنانچہ بائبل پر ایک نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ آپ کا تراشیدہ ہے.یسوع کو جن معنوں میں بیٹا کہا گیا ان معنوں میں تو تمام بنی اسرائیل کو بیٹے کہا گیا ہے.اناجیل یسوع کی نسبت نہایت رذیل قسم کے اخلاق بیان کرتی ہیں.اناجیل کے مطابق یسوع صلیبی موت سے بچ کر اس علاقے سے ہجرت کر گئے تھے ، اور اگر وہ صلیبی موت سے بچ گئے تھے تو آپ کے موجودہ دین کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے جو کفارہ کے تصور پر قائم ہے.اب آپ ہی ہمیں بتائیں کہ ہم اس دین کو کس طرح مانیں جسے آپ کی اپنی کتاب ہی جھوٹا قرار دے رہی ہے.اس بات کے ثبوت کے بعد ہم بتائیں گے کہ اسلامی تعلیم پر مشتمل الہامی کتاب قرآن کریم کے مطابق کس طرح اسلام ہی سچا اور منجانب اللہ مذہب ٹھہرتا ہے.جو بات صریحا کتاب اللہ کے مخالف ہوگی اسے اصل تعلیم کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا.لہذا دیگر کتب کی نصوص اور روایات پر اعتراض ان کے مؤلفین پر نقطہ چینی کے طور پر تو ہوسکتا ہے اس کا اصل الہامی تعلیم پر کوئی اثر نہیں پڑتا.کا سر صلیب کے علم کلام کی خصوصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس علم کلام کی بنیاد رکھی اس کی رُو سے آپ نے فرمایا کہ ہر مذہب اپنی کتاب کی رُو سے اپنی صداقت ثابت کرے، اور اپنے جملہ عقائد اور ان کی صحت
387 مصالح العرب......جلد دوم کے دلائل کو اپنی الہامی کتاب سے ثابت کرے.چنانچہ آپ نے جب اپنی کتب میں عیسائیوں کے بعض باطل عقائد اور عیسائیوں کے مزعومہ یسوع کے بعض قابل اعتراض اخلاق و اقوال درج فرمائے تو دراصل یہ ان کی وہ صورت تھی جو عیسائی کتب میں مذکور تھی نہ کہ وہ جسے قرآن کریم بیان کرتا ہے.اس لئے بعض نادان نا سمجھی میں آج تک ان تحریرات پر اعتراض کرتے جارہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارہ میں سخت کلمات استعمال فرمائے ہیں.حالانکہ آپ نے عیسائی کتب کے مطابق انجیلی یسوع کی حقیقی تصویر نقل فرمائی ہے تا منصف مزاج لوگ فیصلہ کر سکیں کہ کونسی کتاب عیسی علیہ السلام کو ان کا صحیح مقام دینے والی تعلیم لائی ہے اور کس کتاب کی تعلیم ان کی کسر شان کی مرتکب ہوتی ہے.بہر حال یہی طریق مصطفیٰ ثابت صاحب نے اختیار کیا اور عیسائی پادری کی بیان کردہ عیسائیت کی تعلیم کو بائبل سے ہی غلط ثابت کیا.جس کی وجہ سے پادری کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور وہ زیادہ دیر اپنے موقف پر کھڑا نہ رہ سکا.جدید علم کلام پر ایک نوٹ یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تاریخی اعتبار سے اس جدید علم کلام کی کسی قدر وضاحت کر دی جائے تا کہ اس طرح قارئین کرام کو اس عظیم مہم اور شاندار کارنامہ کا کچھ اندازہ ہو سکے گا.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر سر انجام دیا ہے.مولا ناشبلی نعمانی نے علم الکلام کے موضوع، تاریخ اور اس کے تدریجی ارتقاء کے بارہ میں و علم الکلام کے نام سے ایک جامع کتاب تالیف فرمائی جس میں آپ لکھتے ہیں: علم کلام نے اگر چہ بارہ سو برس کی عمر پائی لیکن کمال کے رتبہ تک نہ پہنچ سکا.“ ( علم الکلام صفحہ 129 بحوالہ کسر صلیب تالیف عطاء المجیب راشد صاحب صفحه 20) پھر لکھتے ہیں: ’ حال میں علم کلام کے متعلق مصر، شام اور ہندوستان میں متعدد کتابیں تصنیف کی گئی ہیں اور نئے علم کلام کا ایک دفتر تیار ہو گیا ہے، لیکن یہ نیا علم کلام دو قسم کا ہے.یا تو وہی فرسودہ اور دُور از کار مسائل اور دلائل ہیں جو متاخرین اشاعرہ نے ایجاد کئے تھے.یا یہ کیا ہے کہ یورپ کے ہری
مصالح العرب.....جلد دوم 388 قسم کے معتقدات اور خیالات کو حق کا معیار قرار دیا ہے اور پھر قرآن وحدیث کو زبردستی کھینچ تان کر ان سے ملا دیا ہے.پہلا کورانہ تقلید اور دوسرا تقلیدی اجتہاد ہے.علم الکلام صفحہ 8 بحوالہ کسر صلیب تالیف عطاء المجیب راشد صاحب صفحه 21) پھر لکھتے ہیں کہ: عباسیوں کے زمانہ میں اسلام کو جس خطرہ کا سامنا ہوا تھا آج اس سے کچھ بڑھ کر اندیشہ ہے.مغربی علوم گھر گھر پھیل گئے ہیں اور آزادی کا یہ عالم ہے کہ پہلے زمانہ میں عموما بھونچال سا آ گیا ہے.نئے تعلیم یافتہ بالکل مرعوب ہو گئے ہیں.قدیم علماء عزلت کے دریچہ سے کبھی سر نکال کر دیکھتے ہیں تو مذہب کا افق غبار آلود نظر آتا ہے.ہر طرف سے صدائیں آ رہی ہیں کہ پھر ایک نئے علم کلام کی ضرورت ہے.اس ضرورت کو سب نے تسلیم کیا ہے.علم الکلام صفحہ 4 بحوالہ کسر صلیب تالیف عطاء المحجیب راشد صاحب صفحه 22) ایسی صورتحال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تشریف لا کر ایک ایسے علم کلام کی بنیاد رکھی جس کی جڑیں قرآن کریم میں ملتی ہیں اور عقل سلیم و منطق صحیح اس کی تائید کرتے ہیں.اس کی بات کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے نہایت حسین پیرائے میں یوں بیان فرمایا ہے: ”آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام.ناقل ) نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے رائج الوقت علم کلام کو بالکل بدل دیا اور اس کے ایسے اصول مقرر فرمائے کہ نہ تو دشمن انکار کر سکتا ہے اور نہ ان کے مطابق وہ اسلام کے مقابلے میں ٹھہر سکتا ہے.اگر وہ ان اصولوں کو رد کرتا ہے تب بھی مرتا ہے اور اگر قبول کرتا ہے تب بھی مرتا ہے.نہ فرار میں اسے نجات نظر آتی ہے نہ مقابلے میں حفاظت.آپ سے پہلے تنقید اور مباحثے کا یہ طریق تھا کہ ایک فریق دوسرے فریق پر جو چاہتا اعتراض کرتا چلا جاتا تھا اور اپنی نسبت جو کچھ چاہتا تھا کہتا چلا جاتا تھا اور یہ بات ظاہر ہے کہ جب مناظرہ کا میدان غیر محدود ہو جائے تو مناظرہ کا نتیجہ کچھ نہیں نکل سکتا.پہلے یہ طریق تھا کہ ہر شخص کو جو بات اچھی معلوم ہوئی خواہ کسی کتاب میں پڑھی ہو اپنے مذہب کی طرف منسوب کر دی اور کہ دیا کہ دیکھو ہمارے مذہب کی تعلیم کیسی اچھی ہے.گویا اصل مذہب کے متعلق گفتگو ہی نہ ہوتی تھی بلکہ علماء اور مباحثین کے ذاتی خیالات پر گفتگو ہوتی رہتی تھی.نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ متلاشیان حق کو فیصلہ کرنے کا موقع نہ ملتا تھا.آپ نے آ کر اس طریق مباحثہ کو خوب وضاحت
مصالح العرب.....جلد دوم 389 سے غلط ثابت کیا اور بتایا کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی کتاب ہماری ہدایت کے لئے آئی ہے تو چاہئے کہ جو کچھ وہ ہمیں منوانا چاہتی ہے وہ بھی اس میں موجود ہو اور جن دلائل کی وجہ سے منوانا چاہتی ہے وہ بھی اس میں موجود ہوں.کیونکہ اگر خدا کا کلام دعوے اور دلائل دونوں سے خالی ہے تو پھر اس کا ہمیں کیا فائدہ؟ اور اگر دعوی بھی ہم پیش کرتے ہیں اور دلائل بھی ہم ہی ای دیتے ہیں تو پھر اللہ کے کلام کا کیا فائدہ؟ اور ہمارا مذہب اللہ کا دین کہلانے کا کب مستحق ہے؟ پس ضروری ہے کہ مذہبی تحقیق کے وقت یہ امر مد نظر رکھا جائے کہ آسمانی مذاہب کے مدعی جو دعوئی اپنے مذہب کی طرف سے پیش کریں وہ بھی ان کی آسمانی کتب سے ہو اور جو دلائل دیں وہ بھی انہی کی کتب سے ہوں غرض غیر مذاہب کے لوگ اس اصل کو نہ رد کر سکتے تھے کیونکہ ان کے رد کرنے کے یہ معنی تھے کہ ان کے مذہب بالکل ناقص اور ردی ہیں اور نہ قبول رسکتے تھے کیونکہ....جب اس اصل کے ماتحت دوسرے مذاہب کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ قریباً نوے فیصدی ان کے دعوے ایسے تھے جو ان کی الہامی کتب میں نہیں پائے جاتے تھے.پھر آپ نے ثابت کیا کہ قرآن کریم تمام اصول اسلام کو خود پیش کرتا ہے اور ان کی سچائی کے دلائل بھی دیتا ہے.اور اس کے ثبوت میں آپ نے سینکڑوں مسائل کے متعلق قرآن کریم کا دعوئی اور اس کے دلائل پیش کر کے اپنی بات کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیا اور دشمنان اسلام آپ کے مقابلہ سے بالکل عاجز آ گئے.یہ علم کلام ایسا مکمل اور اعلیٰ ہے کہ نہ اس کا انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کی موجودگی میں جھوٹ کی تائید کی جاسکتی ہے.( دعوة الأمیر ، انوار العلوم جلد 7 صفحہ 444 تا 446) اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کا اقرار غیر از جماعت منصف مزاج علماء ومحققین نے بھی کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر اخبار کرزن گزٹ کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی صاحب نے 1/6/1908 کی اشاعت میں لکھا: "مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت تعریف کی مستحق ہیں.اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی.بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ ایک محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ
مصالح العرب.....جلد دوم وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا.“ کسر صلیب کے لئے بے نظیر معرفت 390 یہاں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ مکرم مصطفی ثابت صاحب کے پروگرامز کے بعد متعدد مسلمان علماء نے بھی یہی اسلوب اپنایا اور اسی طریق پر عیسائی عقائد اور تعلیمات کا رڈ کیا ، جوان کی طرف سے خاموش اعتراف ہے کہ آج اگر صلیب کو توڑنے کا کوئی حربہ ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ہے.اور اس کو استعمال کئے بغیر یہ کام کرنا ناممکن ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ: ” خدا تعالیٰ نے مجھے کسر صلیب کے لئے وہ معرفت عطا فرمائی کہ اس کی نظیر دوسرے نجم الہدی، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 105 ) مسلمانوں میں پائی نہیں جاتی.“ أجُوبَة عَنِ الْإِيْمَان...کتابی صورت میں پہلی تھیں قسطوں کے ٹیکسٹ پر مشتمل کتاب أجوبة عَنِ الْإِيْمَانِ کے نام سے ہی مصر میں شائع ہوئی، اس کی اشاعت کے بارہ میں مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب بیان کرتے ہیں کہ: میرا ایک مصری دوست احمد رائف تھا جس کا تعلق اخوان المسلمین سے تھا.پچاس کی دہائی میں میرا اس سے تعارف ہوا.جب اسے پتہ چلا کہ میں احمدی ہو گیا ہوں تو ادھر ادھر سے سن کے اس نے بھی مکرم محمد بسیونی صاحب صدر جماعت کے پاس جا کر بیعت کر لی.لیکن دراصل اس کا مقصد یہ تھا کہ اس نے کہیں سے غلط پروپیگنڈہ سنا تھا کہ جماعت بیعت کرنے والے کو مال دیتی ہے.چنانچہ جب احمدی ہوئے تو انہیں معلوم ہوا کہ یہاں سے لینے کی بجائے چندہ دینا پڑتا ہے، لہذا یہ احمدیت چھوڑ گیا.لیکن اس عرصہ میں ایک یہوو او ٹنس فرقہ سے تعلق رکھنے والے عیسائی اور ایک چرچ کے پادری سے میری عیسائی عقائد کے بارہ میں بحث ہوتی رہتی تھی اور احمد رائف صاحب میرے ساتھ ہوتے تھے جو اکثر حیران ہو کر پوچھا کرتے تھے کہ تمہارے پاس یہ علوم کہاں سے آئے ہیں؟ اس کے بعد ساٹھ کی دہائی میں یہ قید ہو گئے اور بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.ازاں بعد ان کی رہائی ہوئی تو انہوں نے اپنا دار النشر کھول لیا.جب عیسائی پادری
مصالح العرب.....جلد دوم 391 نے اسلام اور نبی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں توہین آمیز پروگرام شروع کئے تو انہوں نے کہا کہ اس پادری کا جواب صرف ایک شخص دے سکتا ہے اور اس کا نام مصطفیٰ ثابت ہے.انہوں نے مجھے تلاش کرنے کی بھی کوشش کی لیکن میں مصر میں نہیں تھا.دوسری طرف مجھے ان کے دارالنشر کا علم ہوا تو میں نے بھی ان سے رابطہ کی کوشش کی.پھر ہمارے مصری احمدی مکرم عمر وعبد الغفار صاحب کے ذریعہ ان سے رابطہ ہوا اور فون پر بات چیت ہوگئی ، اس وقت تک أَخْوِبَة عَنِ الْإِيْمَانِ کی اقساط ٹی وی اور انٹرنیٹ پر آچکی تھیں.احمد رائف صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اُخْوِبَة عَنِ الْاِیمان کی پہلی جلد اپنے دار النشر سے شائع کرے.چنانچہ انہوں نے اپنے دار النشر سے نہ صرف پہلی بلکہ دوسری جلد بھی شائع کی.کتاب کا مقدمہ اس کتاب کا مقدمہ ایک مشہور مصری شخصیت ڈاکٹر محمد عمارہ مصطفیٰ صاحب نے لکھا ہے جو کہ اسلامی حلقوں میں عصر حاضر کے ایک مشہور و معروف اسلامی سکالر اور مفکر مانے جاتے ہیں.100 سے زائد کتب کے مصنف ہیں اور ان کے لا تعداد ٹی وی پروگرامز اور دروس کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر موجود ہیں.انہوں نے تقریبا 14 صفحات پر مشتمل اپنے مقدمہ میں عرب ممالک کے مقامی چرچ کی کر سنائزیشن کی مہم میں شرکت کو تاریخی پس منظر کے حوالے سے بیان کیا.اس مقدمہ کے دوران انہوں نے مؤلف کے بارہ میں جو لکھا وہ خلاصہ اس طرح سے ہے: کتاب کا مؤلف اور عالم جلیل الأستاذ مصطفیٰ ثابت اس کتاب کے ذریعہ جنگ کو اس کے حقیقی اور طبیعی میدان میں لے آیا ہے، اور جنگ کا رخ ان عقائد کی طرف کر دیا ہے جس پر اس پادری اور اس کے ہمنواؤں کا ایمان ہے.انہوں نے ان کے عقیدہ کے اصول.توڑ دیئے ہیں، اور ایسا عقیدہ رکھنے والوں کے فکری دیوالیہ کا پردہ چاک کیا ہے.نیز انہوں نے اسلامی نصوص کے استعمال کرنے میں ان عیسائیوں کے صریح جھوٹ اور دجل پر مبنی حیلوں کو بے نقاب کیا ہے.(أَجْوِبَة عَنِ الْإِيْمَانِ جلد 1 صفحہ 18-17 )
مصالح العرب.....جلد دوم الا زہر کا پادری کو آفیشل جواب 392 ڈاکٹر محمد عمارہ کی کوششوں سے یہ کتاب الا زہر کی مجمع الجوث الاسلامیہ میں پیش ہوئی اور پھر اس مجمع کی سفارش اور شیخ الازہر کی اجازت سے ان کے آفیشل جریدہ "صوت الا زہر میں قسط وار چھپنے لگی ، بلکہ الا زہر نے اسے اپنی طرف سے اس عیسائی پادری کو رسمی جواب کے طور پر پیش کیا.کچھ عرصہ کے بعد جب مصطفیٰ ثابت صاحب ان ریکارڈ ڈ پروگرامز کے علاوہ لائیو عربی پروگرام "الحوار المباشر میں بھی آنے لگے اور لوگوں کو خوب علم ہو گیا کہ یہ احمدی ہیں تو کئی ویب سائٹس اور جرائد اور ٹی وی چینلز پر شور و غوغا بلند ہوا کہ جس شخص کے پروگراموں کی بہت تعریف کی گئی ہے اور ڈاکٹر محمد عمارہ نے اس کی کتاب کا مقدمہ لکھا ہے اور الا زہر کے رسمی ترجمان رسالہ میں اس کو قسط وار شائع بھی کیا ہے، وہ شخص احمدی ہے.لہذا کئی ویب سائٹس پر ابھی تک لوگوں کی قیاس آرائیاں موجود ہیں.کسی نے کہا کہ مسلمانوں کے تفرقہ کی وجہ سے اس مسلمان عالم دین کو پادری کا جواب دینے کے لئے احمدیوں کے چینل پر جانا پڑا.( شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی یہ 30 قسطیں عیسائی عقائد کے رڈ پر مشتمل تھیں جس کے دوران زیادہ تر بائبل کی نصوص ہی پیش کی جاتی رہیں اور کہیں بھی جماعت کے بارہ میں بات نہیں ہوئی تھی، تاہم مصطفیٰ ثابت صاحب نے کہیں کہیں قرآن کے ناسخ و منسوخ سے پاک ہونے ، وفات مسیح اور صلیبی موت سے مسیح کی نجات وغیرہ جیسے اپنے عقائد کا اظہار کیا تھا) کسی نے لکھا کہ اگر یہ شخص عیسائی پادری کا منہ بند کر رہا ہے تو ہمیں اس کے دین و عقیدہ سے غرض نہیں ہونی چاہئے.کسی نے کہا کہ مجھے ان کی احمدیت کے بارہ میں جان کر شدید صدمہ ہوا ہے کیونکہ مجھے پادری کے خلاف ان کا اسلوب بہت پسند تھا.ایک شخص یا سر جبر نے الفرقان نامی ایک ویب سائٹ پر لکھا کہ انہوں نے یہ کتاب خریدی تھی لیکن ثابت صاحب کے درج ذیل ” جرائم کی وجہ سے مکمل نہیں پڑھی.یہ قرآن کریم میں
393 مصالح العرب.....جلد دوم ناسخ اور منسوخ کے منکر ہیں.عیسی علیہ السلام کے رفع الی اللہ کے منکر ہیں اور ایک پرانے فتوی اور شیخ محمد عبدہ کی بعض تحریرات سے اس کی وفات ثابت کرتے ہیں.مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت کے منکر ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ ان کو صلیب پر لٹکایا گیا لیکن صلیب پر ان کی وفات نہیں ہوئی.(http://www.elforkan.com/7ewar/showthread.php?t=4408) ایک شخص ابو عبیدہ نے 25 دسمبر 2006ء کو اتباع المرسلین نامی ویب سائیٹ پر ثابت صاحب کو کافر اور ضال وغیرہ کہنے کے بعد لکھا کہ: میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں اس شخص ( مصطفیٰ ثابت) کے علم کو بالکل ہی رڈ کر دینا چاہئے ، بلکہ ہمیں اس کے بعض دلائل و براہین لے لینے چاہیں لیکن اس کی تعریف یا اس کے لئے دعا وغیرہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ خدا کی خاطر ہمیں اس سے بغض رکھنا چاہئے“.(http://www.ebnmaryam.com/vb/t12986.html) اس قسم کے تبصروں کے ساتھ تقریباً ہر ایک نے ہی یہ بھی لکھا کہ ڈاکٹر محمد عمارہ نے شاید مصطفیٰ ثابت صاحب کی کتاب کا مقدمہ اس لئے لکھ دیا کیونکہ انہیں ثابت صاحب کے احمدی ہونے کا علم نہ تھا، اور یہ کہ انہیں ایک بیان کے ذریعہ اپنے مقدمہ کو واپس لینا چاہئے وغیرہ وغیرہ.چنانچہ اسی عرصہ میں جب أَجْوِبَة عَنِ الْإِيْمَان کا دوسرا حصہ چھپا تو اس کا بھی ڈاکٹر محمد عمارہ نے 10 صفحات پر مشتمل مقدمہ لکھا جس کے آخر پر حاشیہ میں لکھا کہ پہلے حصہ کی اشاعت پر بہت سے لوگوں نے شور مچایا ہے کہ ایسی کتاب کی اس قدر پذیرائی کیوں کی گئی جس کے مؤلف کے مذہب سے جمہور مسلمین کا اختلاف ہے.اس کے جواب میں ہم سب کو یہ زریں اصول یاد دلاتے ہیں : لا تعرف الحق بالرجال ولكن اعرف الحق تعرف أهله_اس کا مطلب ہے کہ کسی کی شخصیت کی بنا پر حق کے حق ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاتا بلکہ جس کے پاس حق ہو گا وہی اہل حق کہلائے گا.اور ہم اپنے آپ کو ایک کلمہ حق کے سامنے پاتے ہیں جو اس کتاب کے مؤلف کے قلم سے نکلا ہے.ہمیں اس کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں.ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہم نے ذکر کیا ہے کہ احمد رائف صاحب مصر کے ایک دار النشر "الزهراء للإعلام
394 مصالح العرب.....جلد دوم العربی‘ کے مالک ہیں.یہ مصطفیٰ ثابت صاحب کے قدیمی دوست تھے.انہوں نے آپ کی کتاب اپنے دار النشر سے شائع کی.انہوں نے جب اس کتاب کا مطالعہ کیا تو اسے کئی ایسے علماء کے سامنے پیش کیا جو یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالہ جات کی بنا پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے کا فیصلہ کرتے ہیں اور ان سب نے کتاب أجوبة عَنِ الْإِيْمَان کے مصنف کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کا فیصلہ کیا.گو کہ اس ڈگری کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن یہ ان کی طرف سے جذبات کا اظہار ہے جس کا بیان انہوں نے 8 ستمبر 2007 کو ہونے والے الحوار المباشر میں فون کال کے ذریعہ کیا.چنانچہ اس دار النشر سے شائع ہونے والے کتاب کے دونوں حصوں پر مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب کے نام کے ساتھ ”الدکتور کے لفظ کا اضافہ کر دیا گیا ہے.أَخْوِبَة عَنِ الْإِيْمَان کی ویب سائٹ نیز الحوار المباشر میں اور جماعت کی مرکزی عربی ویب سائٹ پر بہت سے لوگوں نے عیسائی حملے کے جواب کے لئے جماعت کی خدمات کو سراہا اور اسلام کے دفاع کے اس کام پر مبارکباد دی.ان تمام امور کا مفصل بیان الحوار المباشر کے ذکر میں آئے گا.ان شاء اللہ العزیز.00000
مصالح العرب.جلد دوم 395 الْحِوَارُ الْمُباشر جب حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب کے تیار کردہ پروگرامز أَخْوِبَة عَنِ الْاِیمان کو ایم ٹی اے پر چلانے کا ارشادفرمایا تو کچھ ہی دنوں میں اعتراضات کی چھریوں سے گھائل غیور مسلمانوں کے زخم بھرنے لگے اور ایسے پروگرامز کو بڑھانے کے مطالبے آنے شروع ہوئے.مثال کے طور پر مصر کے ایک غیر از جماعت دوست مکرم ناصر علی صالح البرکاتی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا: اللہ تعالی آپ کو بہترین جزاء عطا فرمائے کہ آپ نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت اور دفاع کا حق ادا کیا ہے اور عیسائی ضَالین اور مَغْضُوبِ عَلَيْهِم اور صَابِئِین کے جواب میں ہمارے پیارے دین کی صحیح وضاحت کی ہے.براہ مہربانی مزید ایسے پروگرام پیش کریں اور ایم ٹی اے پر کچھ مزید گھنٹے اس کام کے لئے مخصوص کر دیں.یہ کام جلدی کر دیں تا اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی دنیا پر ثابت ہو سکے.“ کچھ عرصہ کے بعد ہی لائیو عربی پروگرامز شروع ہو گئے ، اور ابتدائی چند پروگرامز کے بعد ہی حضور انور کے حسب ہدایت و راہنمائی رد عیسائیت کا موضوع چنا گیا جو بہت دیر تک جاری رہا.بعد میں اس پروگرام میں دیگر بہت سے دینی مسائل اور موضوعات بھی زیر بحث لائے گئے اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے.آئیے تاریخی اور واقعاتی لحاظ سے اس لائیو پروگرام کے بارہ میں کسی قدر تفصیل سے بات کرتے ہیں.
مصالح العرب.جلد دوم ایم ٹی اے پر لائیو (Live) عربی پروگرامز کی ابتدا مکرم محمد شریف عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ: 396 ’2005ء تک MTA پر سوائے حضورانور کے خطبہ کے اور کوئی لائیو پروگرام نہ تھا.2005ء کی ہی بات ہے کہ ایک دن خاکسار اور مکرم ہانی طاہر صاحب اور عبد المومن طاہر بعد فضل سے ملحقہ نصرت ہال میں بیٹھے تھے کہ اس موضوع پر بات ہوئی چنانچہ سب کے اتفاق کرنے پر اسی وقت حضور انور کی خدمت میں خط لکھا گیا اور حضور انور نے از راہ شفقت عربی زبان میں لائیو پروگرام کرنے کی منظوری عطا فرمائی.“ چنانچہ پہلا لائیو عربی پروگرام 4 اگست 2005ء کو مسجد فضل لندن کے احاطہ میں ایم ٹی اے سٹوڈیو میں ہوا جس میں فلسطینی علاقہ کے ایک مفتی کے جماعت کے خلاف اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دیا گیا.اس پہلے پروگرام میں مکرم محمد شریف عودہ صاحب اور ہانی طاہر صاحب نے شرکت اختیار کی.پھر اسی ماہ تین مزید پروگرام کئے گئے جن میں ان دو احباب کے علاوہ حضور انور کے ارشاد پر مکرم عبد المومن طاہر صاحب نے بھی شرکت فرمائی نیز ربوہ سے مکرم مبشر احمد کاہلوں صاحب کو بھی فون پر اس پروگرام میں شامل کیا گیا.ازاں بعد مکرم شریف صاحب اور ہانی طاہر صاحب واپس چلے گئے اور پھر نومبر میں دوبارہ لندن آئے.یوں اگلا پروگرام 24 نومبر 2005ء کو نشر ہوا جو تین دن یعنی 26 نومبر تک جاری رہا.اس وقت اس کا کوئی نام نہ تھا بلکہ لائیو عربی نشریات یا لائیو پروگرام کے نام دیئے گئے تھے.ان تین پروگرامز میں مکرم محمد شریف عودہ صاحب میزبان اور مکرم عبد المومن طاہر صاحب اور مکرم ہانی طاہر صاحب مہمان کے طور پر شامل ہوئے جبکہ مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب نے کینیڈا سے اور مکرم محمد منیر ادلیبی صاحب نے شام سے اور مکرم تمیم ابو دقہ صاحب نے اُردن سے بذریعہ فون شمولیت اختیار کی.اس دوسرے لائیو عربی پروگرام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد، جماعت کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈہ کا رڈ ، قرآن کریم پر حدیث کو حاکم قرار دینے کے خیال کا رڈ وغیرہ جیسے بنیادی مضامین کو بیان کیا گیا اور غیر از جماعت مسلمانوں کے خودساختہ قواعد کے سقم کا مفصل بیان ہوا اور اس کے نتیجہ میں تفاسیر اور مفاہیم میں راہ پا جانے والی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی.دو تین احمدی
397 مصالح العرب.....جلد دوم احباب نے فون کر کے مبارکباد دی اور دو غیر از جماعت احباب نے بھی اپنے سوال کئے.تین روز کے اس پروگرام کے آخر پر یہ کہا گیا کہ ہم کوشش کریں گے کہ ایسے پروگرام ہر ماہ می کئے جائیں اور احمدی احباب سے درخواست ہے کہ انٹرنیٹ پر ان پروگرامز کا خوب چرچا کر دیں تا که غیر از جماعت احباب کثرت سے اس میں شامل ہوں اور اپنے شکوک اور اعتراضات کا درست جواب حاصل کر سکیں.دسمبر میں محمد شریف عودہ صاحب جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے لئے چلے گئے اور جنوری میں واپسی ہوئی لہذا اگلا پروگرام فروری 2006ء میں ہوا.پروگرام کا نام "الْحِوَارُ الْمُبَاشَر" اس پروگرام کے لئے بہت سے نام تجویز ہوئے لیکن مکرم تمیم ابو دق صاحب آف اردن کے مجوزه نام "الحِوَارُ الْمُباشر" پر اتفاق کیا گیا اور حضور انور کی منظوری کے بعد اس کو اختیار کیا گیا.لہذا 2 تا 4 فروری 2006 کو ہونے والا لائیو پروگرام الْحِوَارُ الْمُبَاشَر“ کے نام کے ساتھ شروع ہوا جس میں ہجرت نبوی اور اس سے ملنے والے دروس کے حوالے سے اسلام کی رواداری اور امن پسندی اور اس حوالے سے احمدیوں کو تختہ مشق ستم بنانے کے غیر اسلامی افعال کے بارہ میں بات ہوئی.اور اس کے بعد سے یہ پروگرام ہر ماہ با قاعدگی سے ہونے لگا.پروگرام کا موجودہ فارمیٹ مارچ 2006ء کا ”الْحِوَارُ الْمُبَاشَر اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں پروگرام کا موجودہ فارمیٹ بنا جو بفضلہ تعالیٰ آج تک قائم ہے، یعنی محمد شریف صاحب میز بان، دو عدد عرب احمدی علماء اور عربک ڈیسک میں سے ایک ممبر قبل ازیں تقریبا تین ماہ کے پروگرامز میں یا تو صرف دو عرب احمدی علماء ہی تھے جن میں سے ایک میزبان اور ایک مہمان ہوتا تھا یا ان کے ساتھ عربک ڈیسک میں سے ایک دوست ہوتے تھے.اس نئے فارمیٹ میں بھی خدا تعالیٰ کی خاص حکمت تھی اور اسی کی تدبیر سے سب ہوا.اس کی تفصیل مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب یوں بیان کرتے ہیں کہ: ”جب ایم ٹی اے پر پروگرام أَحْوِبَة عَنِ الْإِيْمَان چلے تو اس پر ہمیں بہت زیادہ Responce ملنا شروع ہوا جس کی وجہ سے محمد شریف عوده صاحب امیر جماعت کبابیر نے
مصالح العرب.....جلد دوم 398 مجھے کہنا شروع کیا کہ میں حاضر ہوں اور کوئی لائیو پروگرام اس حوالے سے شروع کیا جائے حتی ہے کہ بالآخر انہوں نے کہا کہ اب میں نے آپ کا کوئی جواب نہیں سننا لہذا اس دفعہ آپ لندن آجائیں.چنانچہ مجھے آنا پڑا.یہ مارچ 2006ء کی بات ہے.میں نے لندن آتے ہوئے جہاز سے کچھ کھایا جس کی وجہ سے مجھے اسہال کی شکایت ہوگئی اور اگلے دن اس قدر ضعف اور طبیعت خراب ہوئی کہ میری اس حالت کے پیش نظر مکرم تمیم ابو دقہ صاحب کو اردن سے بلوایا گیا نیز عربک ڈیسک سے مکرم عبد المومن طاہر صاحب کو شامل کیا گیا.اگلے دن پروگرام کے وقت خدا کے فضل وکرم سے میری صحت بھی ٹھیک ہو گئی.یوں اس پروگرام کا (جو کہ چند ماہ سے جاری تھا اور اس میں عموماً ایک میز بان اور ایک مہمان ہوا کرتا تھا) انداز بدل گیا اور اس میں دوعرب مہمان اور ایک عربک ڈیسک کا ممبر شامل ہونے لگے.66 مکرم تمیم صاحب اس بارہ میں کہتے ہیں کہ : عربی لائیو پروگرام شروع ہونے کے ساتھ ہی شریف صاحب نے مجھے ویزہ کے لئے کوشش کرنے اور ذہنی طور پر کسی پروگرام میں بطور مہمان شامل ہونے کے لئے تیار رہنے کا کہہ دیا تھا.میں نے ویزہ کے لئے کاروائی شروع کر دی تھی اور ابھی ویزہ ملنے کا انتظار ہی کر رہا تھا کہ شریف صاحب نے کہا کہ اس ماہ یعنی مارچ 2006ء کے پروگرام میں ویزہ ملنے کی صورت میں وہ مجھے بطور مہمان بلائیں گے.لیکن چونکہ مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب کے عیسائیت کے رڈ میں پروگراموں کا سلسلہ أَخْوِبَة عَنِ الْإِيْمَان MTA پر چلایا جا چکا ہے اس لئے اس ماہ یہ طے پایا کہ مصطفیٰ ثابت صاحب کو مہمان کے طور پر بلایا جائے.الحمد للہ مجھے ویزہ مل گیا اور ادھر پروگرام میں شرکت کے لئے مکرم مصطفی ثابت صاحب اور محمد شریف عودہ صاحب بھی لندن پہنچ گئے.اس دوران میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے بڑی عجلت میں لندن جانا پڑا ہے اور وہاں جا کر حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات ہوئی ہے.ملاقات کے دوران میں اپنا تعارف کروانے کی کوشش کرتا ہوں تو حضور انور فرماتے ہیں | know you میں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ شاید اس رویا میں اگلے ماہ حضور انور سے میری ملاقات ہونے کی بشارت دی گئی ہے.اس ماہ کا پروگرام شروع ہونے سے ایک دن قبل مجھے محمد شریف صاحب نے فون کیا، ان کی آواز سے پریشانی نمایاں تھی.انہوں نے مجھے بتایا کہ مکرمہ
نہیں.399 مصالح العرب.....جلد دوم مصطفی ثابت صاحب شدید بیمار ہو گئے ہیں اور پروگرام میں شرکت نہیں کر سکیں گے.ہم ابھی حضور انور کی خدمت میں حاضر ہو کر مصطفیٰ ثابت صاحب کی جگہ آپ کو شامل کرنے کی درخواست کرتے ہیں اور حضور انور سے منظوری کی صورت میں آپ کو ابھی سفر کے لئے نکلنا ہوگا، اس لئے آپ اپنی تیاری مکمل کر لیں تا کہ منظوری ہوتے ہی وہاں سے چل پڑیں.میں سوچ میں پڑ گیا کہ ایک تو یہ میرا پہلا لائیو پروگرام ہوگا، پھر یہ پروگرام اس موضوع کے بارہ میں نہیں ہوگا جس کی میں نے تیاری کی ہے بلکہ کسی ایسے موضوع کے بارہ میں ہوگا جس کا ابھی تک مجھے علم ہی ہے.نہ جانے وہاں کیا صورتحال پیدا ہو جائے.بہر حال ان سب سوچوں اور سوالوں کا میرے پاس ایک ہی جواب تھا کہ تمہارا کام لبیک کہتے ہوئے حاضر ہو جانا ہے.باقی یہ خدا کے کام ہیں وہ خود ہی ساری کمی پوری فرمادے گا.بہر حال حضور انور کی منظوری سے میں اردن سے ٹکٹ خرید کر لندن کے لئے عازم سفر ہوا اور پروگرام شروع ہونے سے صرف دو گھنٹے قبل لندن میں مکرم شریف صاحب کے پاس پہنچ گیا.لندن پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل.مصطفى ثابت صاحب کی صحت بہتر ہوگئی ہے اوروہ اب اس پروگرام میں شامل ہوسکیں گے.چنانچہ حضور انور کی ہدایت اور منظوری سے الْحِوَارُ الْمُبَاشَر کے نام سے شروع ہونے والے اس پہلے پروگرام کا شروع سے ہی یہ فارمیٹ بن گیا کہ محمد شریف عودہ صاحب اس کے میز بان ہوں اور دو عرب دوستوں کے ساتھ عربک ڈیسک سے ایک ممبر شریک ہوا کریں.یہ پروگرام بہت اچھا اور کامیاب رہا.پروگرام کے اختتام پر حضور انور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا : حضور میرا نام تمیم ابودقہ ہے.ابھی میں نے اپنا جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ حضور نے فرمایا: I know you.اس پر میں نے حضور انور کی خدمت میں اپنے رویا کا ذکر کیا جس میں چند دن قبل حضور انور کی زبانی یہی کلمات سن چکا تھا.فالحمد للہ ثم احمدللہ.الْحِوَارُ الْمُبَاشَر میں رو عیسائیت ނ مارچ 2006ء کے پروگرام الْحِوَارُ الْمُبَاشَر میں أَجْوِبَة عَنِ الْإِيْمَانِ کی اقساط کے فالو اپ کے طور پر عیسائیت کے عقائد اور عیسائی پادری کے اعتراضات کے رڈ کا آغاز ہوا.جس میں پہلے نصف گھنٹے میں اُجُوبَة عَنِ الْإِيْمَانِ کی ایک قسط چلائی جاتی تھی اور اس کے بعد مختلف
مصالح العرب.....جلد دوم اعتراضات وسوالات کا جواب دیا جاتا تھا اور بعض لا ئیو کالز بھی لی جاتی تھیں.400 رڈ عیسائیت کے ان لائیو پروگرامز کے سلسلہ کا اعلان ای میلز کے ذریعہ لاکھوں افراد تک پہنچایا گیا، اسی طرح انٹرنیٹ پر مختلف عربک فورمز پر بھی اس اعلان کو نشر کیا گیا اور لندن سے چھپنے والے اخبار الشرق الاوسط نیز کویت اور اردن کے بعض اخبارات میں یہ اعلان شائع ہوا.ابتدائی پروگراموں کی کچھ جھلکیاں صرف جماعت احمدیہ ہی وہ واحد جماعت تھی جس کی طرف سے عیسائی پادری کا منہ توڑ جواب دیا گیا.یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ردّ عیسائیت کے چند لائیو پروگرامز کی کچھ جھلکیاں یہاں درج کر دی جائیں.تہجد کی دعائیں قبول ہو گئیں عیسائیت کے رڈ میں پہلے لائیو پروگرام میں سعودی عرب سے ایک غیر از جماعت خاتون اُتم محمد نے اس پروگرام میں فون پر کہا : میں پانچ ماہ سے زائد عرصہ سے عیسائی چینل انحياة دیکھ رہی تھی اور نہایت حیران و پریشان تھی کہ عالم اسلام میں کوئی ایک بھی ایسا عالم نہیں جو ان کو جواب دے.میں نے کئی اسلامی اداروں اور متعدد مولویوں سے رابطہ کیا.کسی نے جواب دینے کا وعدہ کیا، تو کسی نے کہا کہ ہم نے پادری کی باتیں نہیں سنیں اس لئے کچھ کہہ نہیں سکتے ، اور کسی نے کہا کہ تم ایسے چینل کیوں دیکھتی ہو؟ اس صورتحال میں میرے سامنے صرف ایک ہی راستہ بچا تھا یعنی یہ کہ اپنے خدا سے اس بارہ میں دعا کروں.چنانچہ میں روزانہ تہجد میں رو رو کر خدا کے حضور دعا کیا کرتی تھی کہ اے خدا تو خود ہی ایسے لوگ کھڑے کر دے جو اس عیسائی چینل کا منہ توڑ جواب دیں، اور الحمد للہ کہ آج میرے خدا نے میری تہجد کی دعائیں سن لی ہیں، اور میں نے آپ کے چینل پر آپ کے روشن چہرے دیکھ لئے ہیں.اور چونکہ ضرر رساں چیز میں بھی کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوتا ہے، چنانچہ پادری کے ضرر رساں حملے کا کم از کم یہ فائدہ تو ہوا مجھے آپ جیسے نیک لوگوں کو دیکھنے کا موقعہ مل گیا.اللہ آپ کے ساتھ ہو.
مصالح العرب.....جلد دوم 401 عیسائی پادری کے چیلنج کے بارہ میں گو کہ ہم اپنے مشائخ کو ارفع قرار دیتے ہیں کہ وہ اس کی معمولی معترض کا جواب دیں، لیکن مشائخ نہیں تو کوئی تو ایسا ہو جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کے لئے اور خدا کی رضا جوئی کی خاطر اس پادری کو جواب دے.خدا تعالیٰ نے آپ جیسے لوگوں کو اس کام کے لئے چنا ہے کہ یہاں بیٹھ کر اس شخص کا منہ توڑ جواب دیں.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے.قبل ازیں ہم اس عیسائی پادری کی اسلام دشمن مہم کے بارہ میں الا زہر کا موقف بیان کرچکے ہیں.لیکن یہاں اُم محمد صاحبہ آف سعودی عرب کی فون کال کے حوالے سے ایک اہم امر کی وضاحت ضروری ہے.وہ یہ کہ گو پادری نے الا زہر کا نام لے کر چیلنج کیا کہ اگر کوئی ان میں سے میری باتوں کا جواب دینے کی طاقت رکھتا ہے تو میرے سامنے آئے.اس کے باوجود علمائے از ہر نے اس کو کوئی جواب نہ دیا اور عامتہ الناس میں اس کے ایک بڑے اہم سبب نے بہت گردش کی جس کا ذکر اُم محمد کی اس فون کال میں ہے.یعنی یہ کہ پادری تو بہت معمولی شخصیت ہے اس کی شیخ الا زہر یا الا زہر کے دیگر مشائخ سے کیا نسبت؟ بلکہ اس کی مثال یوں ہے کہ کسی گاؤں کی مسجد کا مولوی کھڑا ہو کر کہے کہ میں پوپ کو چیلنج کرتا ہوں کہ میرے سامنے آئے اور میرے سوالوں کا جواب دے.لہذا الا زہر کے مشائخ کی طرف سے اس طرح کے پادری کا جواب نہیں دیا جائے گا.لیکن قارئین کرام کو اس سقیم طرز فکر کے نقصان کا اندازہ ہو گیا ہو گا جس کا نتیجہ سوائے یاس وحسرت کے کچھ نہیں.اور اسی حسرت کا اظہار اُم محمد صاحبہ نے کیا ہے کہ ٹھیک ہے اگر علماء اس کو جواب نہیں دیتے تو کوئی تو ہو جو اس پادری کا منہ بند کرے کیونکہ یہاں اپنی عزتوں اور جھوٹی اناؤں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف و ناموس کی حفاظت و دفاع کا ہے.کسی علمی رو کی ضرورت نہیں.( الا زہر ) اس وضاحت کے بعد اب ہم دوبارہ رڈ عیسائیت کے اس پہلے لائیو پروگرام کی طرف لوٹتے ہیں جس میں الازہر کے شعبہ حدیث کے صدر ڈاکٹر عزت عطیہ نے بھی فون کر کے
مصالح العرب......جلد دوم 402 شمولیت اختیار کی اور الا زہر کا موقف بیان کیا.انہوں نے کہا کہ: الازہر کو پادری کے کلام میں کوئی ایسی بات نہیں ملی جس کے کسی علمی رڈ کی ضرورت ہو.عامة ا المسلمین پر واجب ہے کہ وہ کفر و ایمان سمجھ کر اور جھوٹ کو سچ سمجھ کر اختیار کرنے سے مجتنب رہیں.اس لئے ہم عامتہ المسلمین کو خبر دار کرتے ہیں کہ ہر شخص جو کسی کتاب کی عبارتیں پیش کرتا ہے ضروری نہیں کہ اس نے وہ کتاب بھی پڑھی ہو.یہاں اب معاملہ اپنے نفس کے دفاع کے مشابہ ہے جس کا ہر انسان خود ذمہ دار ہے.ہاں جو الا زہر سے مدد کا مطالبہ کرے گا اسے مدددی جائے گی.ہم آپ کا شکر یہ ادا کرتے ہیں اور آپ کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں.“ ڈاکٹر عزت عطیہ صاحب کی اس بات کا مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب نے یہ جواب دیا کہ الا زہر کو اور بہت سے کام ہیں اور یہ کام یعنی اس پادری کو جواب دینے کا کام شاید میرے جیسے عام آدمی کے ہی مناسب حال ہے.اس پر مکرم تمیم صاحب کا تبصرہ بھی بہت مناسب تھا جنہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صرف تلوار کے ذریعہ ہی حملہ نہ کیا جاتا تھا بلکہ کفار کے شعراء اپنے اشعار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کے ذریعہ بھی حملے کرتے تھے.اور تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حملوں کا بھی جواب دینے کا ارشاد فرمایا.اس لحاظ سے ہم یہاں پر بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہم یہاں پر ایک جماعت کی حیثیت سے یہ کام کر رہے ہیں اور ہمارے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے اس پادری کو جواب دینے کا ارشاد فرمایا ہے جس کے لئے مصطفیٰ ثابت صاحب اور دیگر افراد جماعت نے کوشش کی ہے.کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے لوگوں کا رڈ کرنے سے اعراض انہیں تکبر و تمرد میں اور اہانت کے ارتکاب میں مزید بڑھائے گا.اگلے دن مؤرخہ 14 مارچ 2006 ء کے پروگرام میں دینی سے تا مرحسین صاحب نے کہا کہ: کل الا زہر کے ڈاکٹر عزت عطیہ نے جو بات کی تھی میں اس کے بارہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں ازہر کے کئی مشائخ کے ساتھ ذاتی طور پر ملا ہوں جن کے نام یہاں لینے کی ضرورت نہیں اور ایسا پروگرام شروع کرنے کا کہا تھا جواب آپ نے شروع کیا ہے لیکن بالآخر ان کی تی طرف سے یہی آخری جواب تھا کہ الازہر کے پاس اپنے مسائل ہی کافی ہیں.( یعنی ایسے
مصالح العرب......جلد دوم 403 پروگرام شروع کرنے کی فرصت نہیں) بہر حال ہم آپ کے چینل کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور جس کی طریق پر آپ کہیں ہم آپ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں.“ اسی پروگرام میں حیفا سے مکرم یچی شنبور صاحب نے ڈاکٹر عزت عطیہ کی فون کال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: میں الا زہر کے ڈاکٹر صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں جنہوں نے آ کر الا زہر کے مشائخ کا دفاع کیا اور کہا کہ ہر انسان اپنا دفاع خود کرے، لیکن جب افغانستان میں طالبان کی حکومتی نے بدھا کے مجسمے توڑ ڈالے تھے تو مسلمانوں کے قافلے ان کو بچانے کے لئے روانہ ہوئے تھے.بلکہ اس سلسلہ میں جب شیخ الازہر پر بہت اعتراض ہوا کہ انہوں نے اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا نہیں کیا تو انہوں نے اپنا تو بہت زیادہ دفاع کیا تھا، حالانکہ شیخ الا زہر کو چاہئے تھا کہ وہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع بھی کرتے.“ مسموم خیالات سے رہائی اسی پروگرام میں الجزائر سے مکرم عبد الرزاق قماش صاحب نے بھی فون کیا ( یہ دوست جماعت احمدیہ کی رڈ عیسائیت کی مہم سے متاثر ہو کر جماعت کے قریب ہوئے اور پھر کچھ عرصہ کی تحقیق کے بعد بیعت کر لی ، تاہم یہ فون کال بیعت سے پہلے کی ہے ) انہوں نے کہا: ” نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس پادری کو کمزور مسلمانوں کی عقل و دماغ میں فساد بھرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے.اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پادری کی بدنی زبانیوں کا جواب دینے کے لئے مسلمان مبلغین بھی میدان سے غائب نظر آتے ہیں.اس پادری کی کارروائی کے خطرناک نتائج جو سامنے آرہے ہیں ان میں سے ایک یہ ہوا کہ میرا بھائی بھی اس کے خیالات کے زیر اثر آ گیا.لیکن بفضلہ تعالیٰ میں نے عیسائیت کے رد میں احمدیت کے طرز فکر کو استعمال کرتے ہوئے اس کو سمجھانا شروع کیا اور الحمد للہ میں اس سے پادری کے پھیلائے ہوئے ان زہر ناک خیالات کو دور کرنے میں کامیاب ہو گیا.لیکن میں سوچتا ہوں کہ کیا ہر بھٹکنے والے نوجوان کو کوئی سمجھانے والا مل سکے گا جو اسے پادری کے خطرناک خیالات کی زد سے باہر نکال لائے؟“
مصالح العرب.جلد دوم ابتدائی پروگرامز پر حقیقت پسندانہ تبصرہ مکرم شریف عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ: 404 مکرم عادل ابو مرخیہ صاحب جو اردن کے سابقہ شیعہ عالم دین تھے بیان کرتے ہیں کہ جب پادری زکریا بطرس نے اسلام اور نبی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی اور حملہ شروع کیا تو ہم شیعہ مولویوں نے اس کے رڈ کا سوچا، بلکہ میں نے کہا کہ اس کیلئے ہمیں کتب اور بعض علماء کی مدد اور بہت بڑے بجٹ کی ضرورت ہو گی.ہم ابھی اسی سوچ بچار میں تھے کہ جماعت احمدیہ نے اس کے رد میں پروگرام شروع کر دیئے.میں ان پروگراموں میں بیٹھنے والوں کو دیکھ کر کہنے لگا کہ یہ تو کل کے بچے ہیں یہ اس پادری کا جواب کیسے دے سکتے ہیں جس کے ساتھ ایک بہت بڑی آرگنائزیشن کام کر رہی ہے.عادل ابو مزحیہ صاحب اردن میں مکرم تمیم ابو دقہ صاحب کے ساتھ اکثر بحث مباحثہ کرتے رہے تھے.لیکن الحوار المباشر کے ان پروگرامز کو دیکھنے کے بعد انہیں یقین ہو گیا کہ جس طرح کے یہ جواب دیتے ہیں یہ ان کی اپنی طرف سے نہیں ہو سکتے ضرور کوئی خدائی ہاتھ اور اس کی تائید ان کے شامل حال ہے.اس بات کی نے انہیں جماعت کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا.چنانچہ پروگرامز دیکھتے دیکھتے بالآخر یہ اس یقین پر پہنچ گئے کہ خدائی تائید اور حق یقینا ان لوگوں کے ساتھ ہے.اور پھر 2008ء کے جلسہ سالانہ UK میں بطور مہمان تشریف لائے تو دل میں یہ ارادہ رکھتے تھے کہ اگر مطمئن ہو کر بیعت کرنے کے مرحلہ تک پہنچ بھی گئے تب بھی چھ ماہ سے قبل بیعت نہیں کریں گے تا کہ مزید سوچ سمجھ لیں اور ہر طرح کی تحقیق کر لیں.لیکن جلسہ کے دوسرے دن ہی اُن کی کایا پلٹ گئی اور انہوں نے بیعت کرلی اور عالمی بیعت میں نو مبایع کی حیثیت سے شرکت کی.“ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب تاثیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی ہے اور یہ سب حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خاص دعاؤں کا ثمر ہے.پروگرام میں شامل ہونے والی شخصیات ان پروگرامز میں جہاں عرب دنیا کے پڑھے لکھے عیسائیوں اور مسلمانوں نے شرکت کی
405 مصالح العرب.....جلد دوم وہاں بہت بڑے بڑے پادریوں ، عیسائی اور مسلمان علماء اور الازہر کے بعض شیوخ و اساتذہ نے بھی شمولیت اختیار کی.ان میں سے مصر کے ایک بہت بڑے عیسائی پادری عبد ا سیح بسیط اور پادری مقیاس، بیت المقدس کے پادری پیٹر مدروس اور حنا رشماوی، اور شام کے پادری صحیح الصدی، لبنان کے پادری میخائیل اور پادری موسیٰ جبریل وغیرہ شامل ہیں.نیز عیسائی سکالرز میں سے فرانس سے ریاض حنا، مصر کے السید جرجس و ہانی الکمال، پروفیسر جورج اور ڈاکٹر راجی ریاض وغیرہ قابل ذکر ہیں.اسی طرح مسلمانوں میں سے ڈاکٹر عبد السلام محمد استاد علوم بائبل جامعة الازہر مصر، الا زہر کے ہی ڈاکٹر خالد احسینی، عمر الشاعر اور الشیخ عزت عطیۃ، مکہ مکرمہ سے محمود الشرباصی صاحب، ابو ہی سے مجدی صاحب، مصر سے الشیخ ابو عبد المنیاوی، شاعر یا سر انور صاحب اور کو یت سے علاء سرور اور احمد الشیخ وڈاکٹر محمد جعارہ ، اور لندن سے رد عیسائیت میں کئی کتب کے مصنف مکرم شریف سالم صاحب وغیرہ قابل ذکر ہیں.علاوہ ازیں نہ صرف عرب دنیا سے بلکہ یورپ اور آسٹریلیا و افریقہ اور برازیل وغیرہ بلکہ دنیا کے ہر کونے سے فون کے ذریعہ اس پروگرام میں شامل ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے.اور ای میلز کے ذریعہ اس پروگرام پر تبصرہ کرنے اور تجاویز ارسال کرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے.ان پروگرامز کے بارہ میں مختلف لوگوں کی آراء اور فون کالز اور تبصروں کے درج کرنے سے قبل عیسائیوں کے ساتھ ان پروگرامز کے بعض اہم واقعات کا درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے.پروگرام کی مقبولیت رڈ عیسائیت پر شروع ہونے والے ان پروگرامز کے بارہ میں ایک بات جس کا سب نے اعتراف کیا یہ تھی کہ پروگرام سب کے لئے کھلا ہے اور ہر ایک کو مناسب وقت دیا جاتا ہے، ہر ایک کا احترام کیا جاتا ہے، اور بڑے دوستانہ ماحول میں بحث ہوتی ہے.حتی کہ بعض پادریوں کے ساتھ ہنسی مذاق بھی چلتا تھا، اور اگر ریگولر کا لرز میں سے کوئی کسی روز شرکت نہ کر سکتا تو اگلے دن اس سے شکوہ بھی کیا جاتا کہ آپ کا انتظار کیا گیا تھا.
406 مصالح العرب......جلد دوم محمد شریف عودہ صاحب کی حضور انور کے ساتھ ملاقات میں خاکسار ایک دفعہ ترجمان کے طور پر حاضر ہوا، اس میں حضور انور نے فرمایا: ہر معاملہ میں آپ دلائل کی رو سے اپنا نقطہ نظر پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دیں، کسی کو زبردستی منوانا یاprovoke کرنا تو ہمارا مقصد نہیں ہے.خاکسار کے خیال میں سب سے زیادہ برکت حضور انور کے اس ارشاد پر عمل کرنے سے ہوئی.کیونکہ دوستانہ ماحول میں نقطہ نظر خوب واضح کر دیا جا تا تھا اور جوش کے مقابلہ پر بعض اوقات جوش بھی نظر آتا تھا ، غلط اور خلاف واقعہ وخلاف اخلاق بات کا سختی سے نوٹس بھی لیا جاتا تھا.مد مقابل کو اصل سوال کا جواب دینے کا ایک دوبار پابند بھی کیا جاتا تھا، لیکن آخری فیصلہ دیکھنے والوں پر چھوڑ دیا جاتا تھا.اس اسلوب کو بہت سراہا گیا اور اس کی وجہ سے پروگرام کی مقبولیت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا.سادہ لوح عیسائیوں کے حیلے پروگرام کی ابتدا سے ہی مکرم شریف صاحب نے پادریوں کو دعوت عام دینا شروع کی.شروع میں تو کوئی پادری سامنے نہ آیا، صرف عام عیسائیوں نے آکر دفاع کی کوشش کی لیکن و بہت کمزور ثابت ہوئے.جس کے رد عمل کے طور پر بعض سادہ لوح عیسائیوں کی طرف سے بعض حیلے بھی سامنے آئے.کئی بار ایسا بھی ہوا کہ بعض عیسائیوں نے اسلامی ناموں کے ساتھ پروگرام میں شرکت کی، لیکن اپنی باتوں سے پہچانے گئے.مثلاً بعض نے آ کر کہا کہ پادری ذکر یا بطرس اپنی طرف سے تو کچھ نہیں لے کر آیا آخر ہماری کتب سے ہی بعض نصوص اس نے پیش کی ہیں ، پھر ہمیں اس کو یا اس کے عقائد کو برا بھلا کہنے کا کیا حق ہے؟ کسی نے یہ کہا کہ ہمیں عیسائیوں کے عقائد کو غلط ثابت کرنے کی بجائے اس پادری کی پیش کردہ اسلامی کتب کی نصوص کا دفاع کرنا چاہئے اور ثابت کرنا چاہئے کہ یہ نصوص درست ہیں اور پادری کے لگائے ہوئے بہتان غلط ہیں.کسی نے آکر یہ کہا کہ میں مسلمان تھا اور عیسائیت کی فلاں خصوصیت اور اسلام کی فلاں خرابی کی وجہ سے عیسائیت قبول کر لی اور میں سمجھتا ہوں کہ عیسائیت حق ہے.وغیرہ وغیرہ.
407 مصالح العرب.....جلد دوم اس بات پر چھوٹا سا تبصرہ ضروری ہے.ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ لوگ حقیقتا مسلمان تھے یا عیسائی ، لیکن جس نہج کی طرف وہ ہمیں لے جانا چاہتے تھے وہ نج درست نہیں ہے.افسوس کہ کئی مسلمانوں نے اسی نہج کو اپنایا اور اسلام کے دفاع کی بجائے اس کی حجت کو مزید کمزور شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کا باعث ٹھہرے.جبکہ اس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق جماعت احمدیہ کا موقف بڑا واضح اور دو ٹوک ہے کہ تمام امور کو اصل الہامی کتاب کی طرف لوٹا دیں.اگر یہ نصوص کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے متصادم ہیں تو یہ بجا طور پر مؤلف کی غلطی ہے جس کا اصل اسلامی تعلیمات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ، لہذا ہمیں اس کے دفاع کی ضرورت بھی نہیں ہے.ہاں جو اصل قرآنی اور صحیح احادیث کی نصوص پر اعتراضات ہیں ان کی وضاحت اور ان کا جواب دینا ہمارا فرض ہے.اس کے بالمقابل جب بھی دیگر مذاہب کے بارہ میں بات ہوتی ہے تو ہم ان کی الہامی کتب اور ان کی معتبر تحریرات پر ہی بنا کرتے ہیں اور ادھر ادھر جانے کی بجائے انہیں ان کے اصلی مصادر تک ہی محدود رہنے کا پابند کرتے ہیں.اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا انکار صرف وہی کرے گا جس کی حجت کمزور اور خلاف واقعہ واخلاق و آداب تعلیم ہوگی اور ایسی تعلیم کے الہامی ہونے پر سوال اٹھیں گے.پادریوں کی شرکت عام عیسائیوں کے کمزور دفاع اور ایم ٹی اے کے مسلسل چیلنج کی وجہ سے چرچ پر عیسائیوں نے دباؤ ڈالنا شروع کیا اور بڑے بڑے پادریوں کو دفاع کے لئے فون کرنے پر اکسایا جس کی وجہ سے بالآ خر مختلف پادری حضرات نے آکر اپنے عقائد کا دفاع کرنے کی کوشش کی.ان میں سے دو پادریوں کا ذکر خصوصی طور پر یہاں کرنا ضروری ہے.یا دری عبد المسیح بسیط کے اعترافات یہ مصر کے مريم العذراء نامی چرچ کے باقاعدہ پادری، کئی کتب کے مصنف، اور آرتھوڈ کس
مصالح العرب.....جلد دوم عیسائیوں میں بڑا مقام رکھتے ہیں.408 5 مئی 2006ء کے پروگرام میں انہوں نے کہا کہ : ”اس پروگرام کے بارہ میں جو بات مجھے سب سے زیادہ اچھی لگی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کے لئے کھلا ہے، میں آپ کا یہ پُر شجاعت اقدام قابل رشک ہے.اور ہم آپ کی وسعت حوصلگی کی داد دیتے ہیں اور آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں.اسی طرح انہوں نے 3 مارچ 2007 ء کے پروگرام میں جماعت احمدیہ کے بارہ میں ایک اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ: احمد یہ فرقہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ دین کے معاملہ میں جبر واکراہ اور طاقت کے استعمال کو جائز نہیں بجھتی.اس لئے اس جماعت میں سے نہ کوئی دہشت گرد ہے نہ پُر تشد د خیالات کا حامل.“ اسی طرح متعدد پروگرامز میں ان پر اتمام حجت ہوئی اور ان سے جواب نہ بن پڑا.چنانچہ انہوں نے اس بات کا سہارا لیا کہ آپ مجھے جواب دینے کے لئے پورا وقت نہیں دیتے ، حالانکہ انہیں بعض اوقات ایک گھنٹہ تک فون لائن پر رکھا جاتا تھا.کئی عیسائیوں نے جوش میں آکر فون کئے اور بعض نے کہا کہ اس پادری کو جواب دینے کا طریق نہیں آتا.وغیرہ وغیرہ.آخری بار جب ان کو گھیر کر لا جواب کیا گیا تو انہوں نے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ میں آپ سے گفتگو نہیں کروں گا اور اپنے پیروکاروں سے بھی کہوں گا کہ آپ کا پروگرام نہ دیکھیں.لیکن اس کے باوجود لا تعداد عیسائی اور ان کے پادری الْحِوَارُ الْمُباشر میں شرکت کرتے رہے.جب ایم ٹی اے 3 شروع ہوا اور نائل ساٹ پر اس کی نشریات مصر اور دیگر عرب ممالک میں بڑے پیمانے پر دیکھی اور سنی جانے لگیں تو عیسائی حلقوں میں ہلچل مچ گئی.چنانچہ ایم ٹی اے کو نائل ساٹ سے بند کروانے کی کوششیں ہونے لگیں جس کے بارہ میں تفصیلی طور پر بعد میں لکھا جائے گا.لیکن یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اس کارروائی کے بارہ میں جب پادری عبد ا سیح بسیط کی رائے لی گئی تو انہوں نے کہا : ”آپ نے مجھے میرے لوگوں کے سامنے ایسے طور پر پیش کیا ہے کہ گویا میں لا جواب ہو
409 مصالح العرب......جلد دوم گیا ہوں.آپ نے چرچ کو اخلاق اور پیار محبت کی تعلیم پھیلانے کے کام سے روک کر اپنے عقیدہ کے دفاع پر مجبور کر دیا ہے.عیسائی لوگ اپنے روز مرہ کے معاشی امور چلانے کی بجائے اب مذہبی امور پر بحث کرنے لگے ہیں.اور جو کچھ آپ لوگ پیش کر رہے ہیں وہ عام عیسائیوں کی نظر میں عیسائیت کی عمارت کو زمین بوس کرنے کے مترادف ہے.“ اتنے بڑے پادری کی زبان سے پوری دنیا کے سامنے اتنا بڑا اعتراف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں يَكسر الصلیب کی پیشگوئی کے پورا ہونے کی بین دلیل ہے.پادری ڈاکٹر پیٹر مدروس دوسرے پادری پیٹر مدروس ہیں جو القدس کے پادری ہیں اور علم لاہوت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی ہوئی ہے.ان کے ساتھ بھی کئی پروگراموں میں بات جاری رہی اور متعدد دیکھنے والوں نے واضح طور پر اپنی رائے دی کہ پادری صاحب کے پاس کوئی دلیل نہیں یا فلاں بات کا کوئی جواب نہیں.نومبر 2006ء میں ہونے والے پروگرام میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: مجھ میں اس سوال کے جواب کی اہلیت نہیں ہے.بائبل میں تحریف کے موضوع پر الْحِوَارُ الْمُبَاشَر کی ایک قسط میں جب چند نصوص پیش کر کے ان سے کہا گیا کہ ان میں اختلاف ہے جو تحریف کا بین ثبوت ہے اس پر آپ کا کیا جواب ہے؟ انہوں نے کہا: یہ نصوص ہمیں قبل از وقت دینی چاہئے تھیں تا کہ ہم اس کا جواب تیار کرتے.اب اچانک ان کے بارہ میں پوچھنا ایک سوچے سمجھے منصوبے کی کوئی کڑی معلوم ہوتا ہے.ان کی اس بات پر بہت سے مسلمانوں اور عیسائیوں نے تبصرے کئے کہ جب آ.جیسے بائبل کے علماء اور متخصصین کو ایسی نصوص کے جواب کے لئے ٹائم چاہئے تو پھر عام عیسائی کا کیا حال ہوگا.پادریوں کی آراء مصری یا دری عید امسح بسیط نے ایک پروگرام میں کہا.پادری
مصالح العرب.....جلد دوم 410 میں آپ کو بین المذاہب بات چیت پر مبنی غیر جانبدارانہ پروگرام پیش کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں.کاش کہ بین المذاہب بحث و مباحثہ پر مبنی دیگر چینلز بھی آپ کے اس پروگرام کے اسلوب کو اپنا لیں“.ایک لبنانی پادری میخائیل نے 6 دسمبر 2007ء کے پروگرام میں کہا کہ : و مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ مجھے وہ چیز مل گئی جس کی مجھے تلاش تھی.آپ قرآن پر اعتراض سننے کے لئے بھی تیار ہیں اور زکریا بطرس کی بات کا بھی جواب دیتے ہیں.میں اس پروگرام کے شروع کرنے پر آپ کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں.کاش مسلمانوں کے شیعہ وسنی فرقے بھی اگر آپ کے نقش پر چلیں اور آپ کے اسلوب کو اپنا لیں تو ساری دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے.کاش کہ سارے مسلمان احمدی بن جائیں“.بیت المقدس کے پادری حنار شماوی صاحب نے 8 ستمبر 2007ء میں کہا کہ : آپ کے پروگرام میں ایک طرح کی ڈیموکریسی اور رواداری ہے کیونکہ آپ عیسائیوں کے تمام فرقوں کو باوجود انکے آپس کے چھوٹے بڑے اختلافات کے اپنے پروگرام میں بات کرنے کا موقعہ دیتے ہیں“.مصر کے مسلمان منصفین کی آراء ذکر یا بطرس کا تعلق مصر کے آرتھوڈ کس چرچ سے ہے اور عرب ملکوں میں سے مصر ہی وہ واحد ملک ہے جس میں عیسائیوں کا اس طرح کا مرکز موجود ہے.اس لئے اس مصری پادری کے حملہ کا سب سے زیادہ اثر مصر کے مسلمانوں پر تھا اور جب اس کا جواب MTA نے دیا تو اس قدم کی پسندیدگی پر مشتمل سب سے زیادہ فون کالز اور ای میل بھی مصر سے ہی موصول ہوئے.ان میں سے بعض کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے.عمومی پسندیدگی پر مبنی تبصرے الحاج ابراہیم صاحب نے مصر سے 5 مئی 2007ء کے پروگرام میں کہا: ”آپ نے اس خوبصورت پروگرام کے ذریعہ مسلمانوں کا جھنڈا کل عالم میں بلند کرد
مصالح العرب.....جلد دوم 411 ہے.ہم نے لاکھ کوشش کی کہ اسلام کے دفاع کے لئے کوئی سامنے آئے لیکن آپ کے سوا کوئی نہ آیا.میں آپ کا ، اس پروگرام کے شروع کرنے والوں کا شکر گزار ہوں“......عبد الحى محمد فتحی صاحب نے مصر سے لکھا: میں اس چینل کے منتظمین کو مبارکباد اور سلام پیش کرتا ہوں جو نائل ساٹ پر اسلام کا دفاع اور زکریا بطرس کے افتراءات کا جواب دے رہا ہے اور اس کام میں اپنے خاص اسلوب کی بنا پر سب پر سبقت لے گیا ہے.میرا ایک دوست آپ کے چینل کا عاشق ہے.اسی نے ہی مجھے اس کے بارہ میں بتایا اور جب میں نے دیکھنا شروع کیا تو خود بھی اس کی طرف کھنچتا چلا گیا.م محمدحسن ابراہیم صاحب آف مصر نے مصطفیٰ ثابت صاحب کو مخاطب کر کے لکھا: مجھے آپ سے محبت ہے کیونکہ آپ ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے زکریا بطرس کی کذب بیانیوں کا جواب دیا ہے.اور جماعت احمدیہ کاٹی وی چینل نائل ساٹ پر سب سے بہترین چینل ہے.آپ نے سب کے لئے بحث مباحثہ کا دروازہ کھولا ہے حتی کہ عیسائیوں کو بھی شامل کیا ہے جو آپ کی مضبوطی اور خود اعتمادی پر دلالت کرتا ہے.ابراہیم خلیل علی صاحب آف مصر نے مصطفی ثابت صاحب کو مخاطب کر کے لکھا: میں زکریا بطرس کے پروگرام دیکھا کرتا تھا اور نہایت درجہ پسپائی کا شکار ہو جاتا تھا اور میرا بلڈ پریشر بہت بڑھ جاتا تھا.لیکن اس شخص کے پروگراموں کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ میں نے اناجیل کا مطالعہ کیا اور دینی علوم حاصل کرنے لگا.آپ کے پروگرامز ہمارے سینوں کے زخموں کی شفا لے کر آئے ہیں.حقیقت یہی ہے کہ جب تاریکی پھیل جائے تب انسان کو نور کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور جب انسان دکھ اور آلام کے لمبے دور سے گزرے تب اسے راحت وسکون کی صحیح قدر ہوتی ہے“.ابراہیم خلیل صاحب نے ہی مورخہ 12 جولائی 2007ء کو اپنے خط میں لکھا: ہم شروع سے ہی MTA میں اَلْحِوَارُ الْمُبَاشَر کا پروگرام بہت شوق سے دیکھتے آرہے ہیں.میں اس کا اس قدر اہتمام کرتا ہوں کہ ہر مہینے کے ابتدائی جمعرات، جمعہ اور ہفتے کے دن اپنے کام کو چھوڑ کر اس شاندار پروگرام کا بڑی دلچسپی سے مشاہدہ کرتا رہتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کی
مصالح العرب.جلد دوم تائید و نصرت فرمائے.حمدی فوزی السید صاحب نے مصر سے لکھا: 412 مفید معلومات پر مبنی پروگرام پیش کرنے پر میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اللہ سے دعا گو ہوں کہ وہ اس کی آپ کو بہترین جزا عطا فرمائے.اے برادران آپ نے ہمارے رسول کریم کا دفاع کر کے ہمارے سینے ٹھنڈے کر دیئے ہیں“.محمد مصيلحی موسیٰ صاحب نے مصر سے لکھا: میں بہت خوش ہوں اور MTA پر پادری زکریا بطرس کے رد میں پروگرام نشر کرنے پر میری حقیقی خوشی کو صرف میرا خدا ہی جانتا ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس پادری جیسے تمام لوگوں کو جواب دینے کی توفیق عطا فرمائے جو اسلام پر گند اچھال رہے ہیں“.احمد کریا احمد عفیفی صاحب نے مصر سے لکھا: اسلام اور مسلمانوں کی آپ جو مدد و نصرت کر رہے ہیں واقعی عظیم الشان ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے اخلاص میں برکت دے اور دشمن کے بالمقابل آپ کی مدد فرمائے ، اور ان کے شر سے محفوظ رکھے اور خدمت کے مزید مواقع عطا فرمائے ، آمین.عبد الوہاب محمد حسین صاحب آف مصر لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ آپ کو برکت دے اور آپ جیسے لوگ بکثرت پیدا کرے.اللہ تعالی خود دین اسلام کی حفاظت فرمائے جس پر مغرب کی طرف سے گمراہی و ضلالت سے بھر پورنت نئے حملے کئے جا رہے ہیں.اللہ تعالی ہمیں ان سے نجات عطا فرمائے اور آپ کو عزت دے اور مخالفین کے مقابل پر وہ خود آپ کی مدد فرمائے خصوصا پادری زکریا پطرس کے خطرناک حملے کے بالمقابل جس کا آپ نے خاص طور پر بڑی ہمت اور قوت اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے.ایاب خیری تھامی صاحب آف مصر لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو، آپ کو برکتوں اور فضلوں اور مزید علوم سے نوازے، اسلام کے حقیقی مدافع بنادے اور بہتوں کی ہدایت کے موجب بنادے.میں ایک عرصے سے موازنہ مذاہب، اسلام کے دفاع اور اعجاز قرآن جیسے مضامین میں دلچسپی رکھتا ہوں.الحياة چینل کو
مصالح العرب.....جلد دوم 413 با قاعدہ دیکھتا تھا اور اس کے جواب میں ادھر ادھر سے اناپ شناپ مواد جمع کیا کرتا تھا.اب ایک ہفتہ قبل ( مئی 2007ء کی بات ہے) میں نے جماعت احمدیہ کا چینل دیکھا.افسوس.کہ مجھے پہلے اس کا علم نہیں تھا.میں نے آپ کو اسلام کے دفاع میں منفرد اسلوب کے ساتھ عظیم کام کرنے والے پایا.بَارَكَ اللهُ لَكُمْ.آپ سے مزید علمی معجزات کی توقع ہے“.سر فخر سے بلند کر دیا اسماعیل منصوری صاحب نے لکھا: میں MTA پر نشر ہونے والے مصطفیٰ ثابت صاحب کے پروگرام اور خصوصی طور پر الحِوَارُ الْمُباشر کے اجراء پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ نے ان پروگراموں کی وجہ سے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا ہے اور ذکر یا بطرس کو جو آپ نے جواب دیا ہے اس نے مسلمانوں کے دل خوش کر دیئے ہیں.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ آپ کے علاوہ اور کوئی بھی اس شخص کی بدزبانیوں کا جواب نہیں دیتا حتی کہ باوجود اس پادری کے چیلنج کرنے کے بڑے بڑے مشائخ چپ سادھے بیٹھے ہیں.میں نے خود کئی ایسے مشائخ سے رابطہ کیا ہے لیکن کسی نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا.شاید دیگر مشائخ اس پادری کے چیلنج کا جواب دینے سے ہی قاصر ہیں اور ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے.بچے فخر سے پھر مسکرانے لگے ہیں الا زہر کے شیخ عبد السلام محمد جو بائبل کے علوم کے ماہر ہیں کہتے ہیں کہ: میں اس کامیاب پروگرام پر آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں.پروگرام بہت کامیاب، گفتگو نہایت اعلیٰ پائے کی ، انداز بیان نہایت مہذب ہے.اللہ تعالی آپ کو خوشیاں دکھائے اور بہت عزت دے کیونکہ آپ نے دین اسلام کے خلاف شبہات کا رڈ کر کے ہمارے دلوں کو خوش کر دیا ہے.ہمارے بچے بچیاں خوشی اور فخر سے ایک بار پھر مسکرانے لگے ہیں“.پھر لکھتے ہیں کہ: افسوس کہ دوسرے عربی چینل نہایت علمی اور فکری پستی کا شکار ہیں.رسوائی اور خوف نے
مصالح العرب......جلد دوم 414 انہیں گھیرا ہوا ہے.ان کا سارا اسلام فروعی مسائل داڑھی اور نقاب ، اور جن بھوت اور جادوٹو نے جیسے موضوعات میں رہ گیا ہے.اس بارہ میں یہ لوگ ایک دوسرے کے موقف کے برعکس فتوے دیتے اور امت کو مزید بانٹتے ہیں.کاش وہ بھی آپ کے نقش قدم پر چلتے“.عبد الوہاب صاحب مصر سے ایک اور خط میں لکھتے ہیں:.خدا کی قسم ، آپ لوگ خدا کے وہ مخلص سپاہی ہیں جو خدا کی خاطر کسی ملامت سے نہیں ڈرتے.ہمارے علماء جو آپ لوگوں کو دین کی حمایت میں پادری زکریا جیسے خطرناک اثر دہا اور مسیحی الدجال کا مقابلہ کرتے دیکھ رہے ہیں، مگر خود وہ اس فاجر کو جواب دینے سے قاصر ہیں اور بے جا بہانے بناتے ہیں.ان پر افسوس ہے.کاش کہ وہ لوگ اسلام کی حمایت میں آپ کے نقش قدم پر چلتے اور آپ کی تکفیر میں وقت ضائع کرنے کی بجائے دشمن کا مقابلہ کرتے.خاص طور پر جبکہ آپ لوگ لا إِلهَ إِلَّا الله کے قائل ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کو مانتے ہیں.“ آپ نے وہ کام کر دکھا یا جو کوئی نہ کر سکا صابر الفتوری صاحب ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں.جارج برناڈشا کہتا ہے :.کتاب مقدس کو الماری میں رکھ کر اسے تالا لگادینا چاہئے.کچھ عرصہ قبل ایک عیسائی عربی چینل "الحياة" پر پادری زکریا بطرس نے ایک پروگرام أَسْئِلَهُ عَنِ الْإِيْمَان کے نام سے شروع کیا جس میں اس نے بعض پرانی تفاسیر کو ( جنہیں بعض جاہل مولوی پکڑے بیٹھے ہیں) بنیاد بنا کر اسلام پر مختلف قسم کے اعتراضات کا سلسلہ شروع کیا اور کہا کہ اس میں بہت سی بعید از عقل باتیں ہیں اور باہمی تضادات بھی ہیں.اس پر عرب دنیا میں بہت شور اٹھا خاص طور پر اس وقت جبکہ جامعہ ازہر نے یہ اعلان کیا کہ ان کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں دیا جائے گا.اسی طرح بعض دیگر مذہبی تنظیموں نے بھی حیلے بہانے بنا کر جواب دینے سے گریز کیا.دوسری طرف اسلام پر حملے اپنی شدت کی انتہا کو پہنچ گئے.تب ایک اور چینل رونما ہوا جو جماعت احمدیہ کی ملکیت ہے.اس چینل نے اسلام پر کئے جانے والے تمام اعتراضات اور تمسخر کا جواب اپنے ایک پروگرام اَجْوِبَهُ عَنِ الإِيْمَان میں دینا شروع کیا.پھر الْحِوَارُ الْمُبَاشِر میں
مصالح العرب.....جلد دوم 415 تورات وانجیل کے غیر الہامی ہونے اور ان کے تحریف کا شکار ہونے کے بارہ میں بھی بحث کی گئی.اس پروگرام میں عیسائیوں کو بھی آزادی سے کھل کر جواب دینے کا موقع دیا جاتا ہے.تاہم وہ جواب دینے سے قاصر رہے.بعض پادریوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ تورات وانجیل میں تحریف ہو چکی ہے.اس پروگرام الْحِوَارُ الْمُبَاشَر نے گفت و شنید کے ذریعہ وہ کام کر دکھایا جسے انجام دینے سے وہ تمام مذہبی جماعتیں قاصر ر ہیں جو اسلام کی تبلیغی جماعتیں ہونے کا دعوی کرتی ہیں“.نا قابل بیان تسکین انجينئر على فَرَجُ اللہ صاحب مصر سے لکھتے ہیں: آج کل اسلام کے خلاف کئی قسم کے واقعات ہو رہے ہیں جن میں ڈنمارک میں تو ہین آمیز خاکوں کی اشاعت اور یورپ کے اسلام کے خلاف الزامات اور جھوٹا پرو پیگنڈہ اور امریکی صدر کی طعن و تشنیع شامل ہیں، اور اب پادری زکریا بطرس کا اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ.لیکن علماء میں سے کوئی بھی اس کا جواب نہیں دے رہا.اس وجہ سے عامۃ الناس مظاہروں اور توڑ پھوڑ اور قتل وغارت کی راہ اختیار کرتے ہیں.چونکہ علماء نے اپنا کردار ادا نہیں کیا اس لئے عام لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں ایک کے بعد دوسرا زخم لگایا جارہا ہے.اتفاق سے ایک بار ایک عیسائی سے میری ملاقات ہوئی.دوران گفتگو اس نے کہا کہ تم تو وہی باتیں کہہ رہے ہو جو MTA پر کہی جاتی ہیں.میں نے کہا کہ مجھے تو اس چینل کے بارہ میں کچھ علم نہیں.پھر گھر آ کر میں نے اس چینل کو تلاش کیا.اس وقت اس پر الْحِوَارُ الْمُبَاشَر چل رہا تھا جسے سن کر مجھے ایسی تسکین ملی جس کا بیان کرنا ممکن نہیں“.مسلمانوں کے لئے آسمانی مدد محمد عبد الرؤف محمد صاحب، ناظم بلدیۃ العریش ، مصر لکھتے ہیں: ایک روز میرے ایک دوست نے بتایا کہ ایک پادری ٹی وی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا اور گالیاں دیتا ہے جس سے سب کو بہت دکھ ہوا.ایک روز جب کہ
مصالح العرب.....جلد دوم 416 میں مختلف چینلز ڈھونڈ رہا تھا تو اچانک MTA مل گیا جس پر مصطفیٰ ثابت صاحب بات کر رہے تھے.ان کا چہرہ چاند کی طرح روشن تھا.ان کے ساتھ پروگرام میں موجود دیگر حاضرین کے جوابات نے میری آنکھیں کھول دیں.میں دعائیں کیا کرتا تھا کہ موت سے قبل ایسے لوگوں کو دیکھ سکوں جو دین کی نصرت کا فریضہ سرانجام دینے والے ہوں.الْحِوَارُ الْمُبَاشَر کے شرکاء دین اسلام اور مسلمانوں کیلئے آسمانی مدد بن کر آئے ہیں.اس پروگرام کے شروع ہونے سے قبل میں دو نفل ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی شرکاء پروگرام کو حاسدوں کے شر سے محفوظ رکھے“.میں نے اس سے قبل کوئی شخص نہیں دیکھا جس کا ایمان اور علم اور جس کا عام فہم سادہ طرز بیان ان شرکائے پروگرام جیسا ہو.تمام امور درست کر دئیے عبد الوہاب دندش صاحب مصر سے لکھتے ہیں: میرے بھائیو اور روئے زمیں پر سب سے اچھی اور خوبصورت گفتگو کرنے اور پروگرام چلانے والو، اللہ آپ کو لمبی عمر دے اور آپ کی رہنمائی فرمائے اور دشمنوں کے مقابل پر آپ کی نصرت فرمائے.آپ کا چینل دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور آپ کے منفرد پروگرام الْحِوَارُ الْمُبَاشَر سے میرا دل خوشی سے بھر گیا ہے.اس پروگرام نے تمام امور درست کر دیئے ہیں اور عیسائیوں کو اپنی حد میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے.قبل ازیں ہمارے دل مایوسی کے قریب پہنچ گئے تھے کیونکہ ہمارے علماء اس چینل کے بارہ میں بات کرتے ہوئے جھجکتے تھے اور اس پر جو کچھ کہا جاتا ہے اسے توڑ مروڑ کر بیان کرتے ہیں گویا یہاں پر کسی اور مذہب کے بارہ میں بات کی جارہی ہو.میں نے آپ کے بارہ میں بہت کچھ پڑھا اور سنا ہے اور میرا خیال ہے کہ میں اب آپ لوگوں کا پوری طرح ادب واحترام کرنے لگا ہوں.جب میں آپ کے بارہ میں بات کرتا ہوں تو بعض لوگ میری مخالفت کرتے ہیں اور مجھے کافر کہ دیتے ہیں.میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر واقعتا احمدی اس مہدی کے پیروکار ہیں جس کی بشارت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے تو پھر ان کی مخالفت کر کے ہم تو بہت بڑے گھاٹے اور نقصان میں پڑنے والے ہو جائیں گے اور قیامت کے دن ہمارے
مصالح العرب......جلد دوم 417 حصہ میں سوائے ندامت کے کچھ نہ آئے گا.لیکن اس روز ندامت بھی کسی کام نہ آئے گی“.آپ ہی حقیقی مسلمان ہیں محمد حسین صاحب نے مصر سے دوران پروگرام ( بتاریخ 6 / دسمبر 2007 ء ) الحوار المباشر میں فون کے ذریعہ کہا: میں مصر کے زمیندار طبقہ کا ایک عام سا آدمی ہوں.میرا تعلق مصر کے علاقہ الصعید سے ہے.میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صحیح اسلام آپ کے ذریعہ پھیلا ہے.آپ لوگ ہی ہیں جنہوں نے اسلام کا جھنڈا بلند کیا ہے.ہاں آپ لوگ ہی ہیں جن کے بارہ میں قرآن کریم میں آیا ہے کہ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ (الاحزاب : 24) مجسم فتق چینل کے خلاف مسلمانوں کی مدد کو صرف آپ ہی آئے اور اسلام کا جھنڈا اونچا کر کے دکھا دیا.اس اسلام دشمن چینل کھلنے پر مجھے تو کچھ بجھائی نہیں دیتا تھا کہ کیا کروں ؟ بالآخرمیں نے جامعہ الا زہر کو لکھا اور اپنے علماء سے کہا، لیکن سوائے آپ کے کسی کو میدان میں آنے کی جرات نہ ہوئی.میں اپنے دل کی گہرائیوں سے اللہ کے حضور آپ لوگوں کے لئے دعا گو ہوں.آپ احمدی کہلائیں یا محمدی میرے نزدیک آپ ہی حقیقی مسلمان ہیں جنہوں نے اسلام کا جھنڈا سر بلند کیا ہے اور اسلام کی نصرت کے لئے کمر بستہ ہو گئے ہیں.اللہ آپ کو نوروں سے مالا مال کر دے اور یہ جو کام آپ کر رہے ہیں اس کو آپ کی نیکیوں میں لکھ لے.میں آپ کے اس پروگرام کے موضوع پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آپ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں وہ نہ صرف ہرستی اور شیعہ کے کلام سے بالا تر ہے بلکہ زمین پر موجود ہر فرقہ اور مذہب کی باتوں سے افضل ہے“.سیف کا کام قلم سے محمود تو فیق صاحب مصر سے لکھتے ہیں: "ہم پہلے کاغذ سے بنی تلواروں کے ساتھ اسلام کے دفاع کی جنگ کر رہے تھے.لیکن اب آپ کی بدولت اسلام اور مسلمانوں کے ہاتھ میں حقیقی تلوار بھی ہے اور زرہ بھی.یعنی اب
418 مصالح العرب.....جلد دوم مسلمانوں کے پاس دفاع کی بھی طاقت آگئی ہے اور ہر حملہ سے بچنے کا سامان بھی میسر ہے.پروگرام الْحِوَارُ الْمُبَاشَر کے یہ نتائج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام اور آپ کی حجت و برہان کے استعمال کرنے سے سامنے آئے ہیں.محمود تو فیق صاحب کا یہ تبصرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر یاد دلاتا ہے کہ: صف دشمن کو کیا ہم نے بحجت پامال سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے دیگر عرب ممالک کے منصفین کے تبصرے مختلف ممالک سے مسلمانوں نے جہاں عمومی پسندیدگی کا اظہار کیا اور جذبات تشکر مشتمل فون کالز کیں اور ای میل ارسال کئے وہاں کئی لوگوں نے کہا کہ ہم اس کار خیر میں حصہ ڈالنا چاہتے ہیں لہذا ہمیں بتائیں ایم ٹی اے میں چندہ کیسے دیں.الجزائر میں بھی عیسائیت کا حملہ شدید تھا اس لئے بعض احباب نے وہاں پر لوگوں کو بلا بلا کے الحوار المباشر سنانے کی کوشش کی بلکہ بعض نے اس کو ریکارڈ کر کے ایسے دوستوں کو دینا شروع کیا جو عیسائی ہو گئے تھے.چنانچہ جب حق کھل گیا اور یہ سب لوگ اسلام کی طرف واپس آئے تو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آگئے.ذیل میں مصر کے علاوہ باقی ممالک سے مسلمانوں کے بعض عمومی تبصرے اور مختلف آراء پیش کریں گے اس وضاحت کے ساتھ کہ الحوار المباشر کے شروع ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی ایم ئی اے 3 شروع ہو گیا تھا اس لئے ذیل کے تبصروں میں سے بعض ایم ٹی اے 3 شروع ہونے کے بعد کے بھی ہیں.تاہم ایم ٹی اے 3 کی ابتدا اور دیگر مراحل کا ذکر علیحدہ طور پر اس کے بعد کیا جائے گا.عمومی تبصرے کاظم احمد النداوی صاحب نے عراق سے لکھا: اللہ تعالیٰ آپ کو دین اسلام پر حملہ کر نیوالے دجالوں کا ردکرنے کی توفیق عطا
مصالح العرب......جلد دوم 419 فرمائے.میں آپ کے الحوار کے اور دیگر مفید پروگرام با قاعدگی سے دیکھتا ہوں، اور میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ قرآن میں کوئی ناسخ و منسوخ نہیں ہے.احمد ابوایوب صاحب آف الجزائر نے کہا: اے اسلام کا دفاع کرنے والے بھائیو! السلام علیکم.صرف ایک مہینے سے میں نے آپ کا چینل دیکھنا شروع کیا ہے.اجوبه عَنِ الِایمان کے پروگرام دیکھ کر مجھے بیحد خوشی ہوئی.اس چینل پر کام کرنے والے سب بھائیوں کو میری طرف سے محبت بھرا سلام.میں نے اپنے علماء پر افسوس کرتے ہوئے بڑے درد کے ساتھ راتیں کاٹیں ہیں یہاں تک کہ خدائی نور سے منور آپ کا چینل دیکھا اور بہت ہی خوش ہوا.ابو میں صاحب آف فلسطین نے کہا: پیارے احمدی بھائیو! میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں.میں نے آپ کے متعلق.اور اب آپ کا چینل دیکھتا ہوں.آپ کے دینی فہم و فراست طریق تبلیغ ، غیر اسلامی کتب پر طرز تنقید اور ان میں تحریف ثابت کرنے کا طریق اور اسلام کی تبلیغ کا انداز بالکل منفرد ہے.میرے دینی بھائیو ، میں بھی اس جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں.محمد بن حمد بن ابو خوصه از فلسطین کہتے ہیں: ٹیلی ویژن پر احمد یہ چینل دیکھ کر مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا.یہی وہ نصرت یافتہ جماعت ہے جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشخبری دی ہے.حسن عابدین صاحب نے شام سے لکھا: میں تمام عرب بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ جلدی بیعت کریں تا کہ خدا تعالی کی تجلیات کا مشاہدہ کریں.ان کے لئے ان نورانی چہروں پر نظر ڈالنا ہی کافی ہونا چاہئے جو سٹوڈیو میں موجود ہیں اور جو عیسائی چینل الحیاۃ کے خلاف ننگی تلواریں ہیں اور جو اسے حیات چینل کی بجائے موت کا چینل بنا دیں گے.انشاء اللہ.السيد اعراب صاحب نے الجزائر سے کہا: جو کچھ آپ لوگ پیش کرتے ہیں اس کی اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے.ہماری بڑی خواہش ہے کہ آپ کا پیغام الجزائر میں جلد پہنچے خصوصا ان قبائل میں جہاں عیسائیت عوام کو بکثرت اپنا
مصالح العرب.....جلد دوم 420 شکار بنا چکی ہے لیکن نام نہاد مسلمان جس طرح سے اسلام کا دفاع کر رہے ہیں اس سے صورت حال مزید خراب ہو رہی ہے اور فتنہ کی آگ اور بھڑک رہی ہے.امید بر آئی جمال على اسلیم صاحب نے ( جگہ کا نام مذکور نہیں ) لکھا: میں آپ کے لائیو پروگرامز پر اپنے شکر اور احسان مندی کے جذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں.میں گزشتہ سات ماہ سے انتظار کر رہا تھا کہ کوئی تو امت اسلامیہ میں سے اس پادری کو جواب دینے کے لئے سامنے آئے بلکہ حیران تھا کہ اس کے اعتراضات کا جواب دینے میں اتنی تاخیر کیوں ہورہی ہے.ایک دن جب میں مختلف چینل تبدیل کر رہا تھا تو اتفاق سے آپ کا چینل مل گیا جس پر اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی.میں اپنی خوشی کو لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں.میری استدعا ہے کہ آپ اس سلسلہ کو جاری رکھیں اور ہو سکے تو مجھے ان لائیو پروگرامز کی ریکارڈنگ عطا فرما کر ممنون فرمائیں.احمدیت اسلام کی طرف واپس لے آئی مجید محمد صدیق صاحب آف کردستان عراق کہتے ہیں: میں آپ کو آسمانوں میں ڈھونڈتا رہا لیکن الحمد للہ اسی زمین پر ہی پالیا.میں ایک کمزور مسلمان تھا، نماز بھی نہ پڑھتا تھا اور قریب تھا کہ عیسائی ہو جاتا.بلکہ ایک دفعہ میں گرجا بھی گیا اور وہاں ایک شخص نے مجھے عیسائی بنانے کی کوشش بھی کی لیکن احمدیت اور اس کی تعلیمات مجھے اسلام کی طرف واپس لے آئیں.میرے دل میں قرآن کریم کی محبت نہ تھی لیکن احمدی چینل نے کھول کر بتایا کہ محبتوں اور ہدایتوں کا سر چشمہ قرآن ہی ہے.اسی طرح وفات مسیح کے مسئلے کو واضح کر دیا اور یہ کہ شکوک و شبہات انجیل میں ہیں نہ کہ قرآن میں.یہی جماعت حق پر ہے یوسف د شمش صاحب شام سے لکھتے ہیں:
مصالح العرب.....جلد دوم 421 میں امت مسلمہ کی دینی حالت کو دیکھ کر مایوس ہو چکا تھا، اور یہ بھی سنا کرتا تھا کہ امت محمدیہ کو بچانے کی عرض سے ایک مصلح موعود آئے گا.چنانچہ ایک دن اچانک ٹیلی ویژن پر جماعت احمدیہ کا چینل نظر آیا، جس میں اَلْحِوَارُ الْمُبَاشَر چل رہا تھا.اس وقت سے میں اس چینل کو دیکھ رہا ہوں.یہاں تک کہ مجھے پوری تسلی ہو گئی ہے کہ یہی جماعت حق پر ہے، اور میں اس جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں، مجھے بتائیں اب مجھے اس کے لئے کیا کرنا ہوگا.سر فخر سے بلند کر دیا محمد عمر صاحب از فرانس لکھتے ہیں: ان پروگراموں کے ذریعہ آپ نے دیار غیر میں رہنے والے سب مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے.ہم سب آپ کا پروگرام بڑے اہتمام سے دیکھتے ہیں.اللہ آپ کو برکتوں سے مالا مال کرے اور آپ کے نور کو بڑھائے.اے وہ جماعت جس نے فسق و فجور کے چینلز کا دندان شکن جواب دیا.اے وہ جماعت جس نے پادری زکریا بطرس کا منہ بند کیا.اللہ آپ کی عمر دراز کرے.آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معطر سیرت کا بیان جاری رکھیں.میں جانتا ہوں کہ آپ کا سفر بہت دشوار ہے لیکن اسے جاری رکھیں.ہم سب آپ کی تائید میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں.گم گشته متاع مل گئی...سویڈن سے ایک شخص سلیم القصاص نے پروگرام میں کہا کہ: میں ان پروگراموں کو بڑے شوق اور انہماک سے دیکھتا ہوں مجھے آیت قرآنی وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُم ﷺ کے معنے صحیح طور پر سمجھ نہیں آئے.چونکہ یہ مضمون ہمارے پروگرام کے اس دن کے موضوع سے متعلق نہ تھا اس لئے پروگرام ختم کرنے کے بعد اس معاملہ کی فون پر وضاحت کا وعدہ کیا.جب فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ ] مجھے دین اور علوم دین سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا.لیکن جب میں یورپ میں آیا تو پتہ چلا کہ
422 مصالح العرب......جلد دوم یہاں تو عیسائی خوب سرگرم عمل ہیں.ایک دفعہ میرے ایک عیسائی دوست نے مجھے اپنے گھر دعوت پر بلایا.ساتھ انہوں نے ٹی وی بھی آن کر دیا.اس وقت پادری ذکر یا بطرس کا پروگرام لگا ہوا تھا اور وہ مختلف کتب کی نصوص نکال نکال کر اسلام کے خلاف حملے کر رہا تھا.تھوڑی دیر کے بعد سات مزید لوگ بھی وہاں آگئے.اور جب پادری زکریا بطرس کوئی حوالہ پیش کرتا تھا یہ لوگ مجھے کہتے دیکھا! دیکھا آپ نے.مجھے ان باتوں کا جواب تو نہیں آتا تھا تا ہم اس بات نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور میری اسلامی غیرت نے مجھے جھنجوڑا.چنانچہ میں نے ان باتوں کا رد تلاش کرنا شروع کر دیا اور اس تلاش میں مجھے آپ کا چینل مل گیا جس پر الحوار المباشر لگا ہوا تھا.اس کوسن اور دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی ، جیسے مجھے میری گم گشتہ متاع مل گئی ہو.اب میں اکثر جب پروگرام الحوار المباشر لا ا ہوا ہوتا ہے تو اپنے کسی عیسائی دوست کو فون کر کے بذریعہ فون اس کو یہ پروگرام سناتا ہوں.مجھے آپ کے پروگرام کی ایک صفت بہت پسند آئی کہ آپ دوسرے مسلمانوں کے طریق سے ہٹ کر جواب دیتے ہیں اور آپ کی باتیں زیادہ مؤثر اور بہترین ہیں.فالحمد للہ علی ذلک.سچائی کی دلیل...احمد الجزائری صاحب نے لکھا: میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں محض اللہ آپ سے محبت کرتا ہوں.اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ میں سے ہر ایک کا ماتھا چوم لوں.میں اس پروگرام کے شروع کرنے پر از حد ممنون ہوں جو کہ نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ عیسائیوں کے لئے بھی ایک سٹیج کی حیثیت اختیار کر گیا ہے.بعض اوقات آپ عیسائیوں کو مسلمانوں سے زیادہ بولنے کا وقت دیتے ہیں اور یہ آپ جیسے بچے اور حقیقی مسلمانوں کے راسخ ایمان اور اپنے دین کی سچائی پر یقین کامل ہونے کی دلیل ہے.بیش قیمت خزانه ا حسین المنشاوی صاحب نے مصر سے کہا:
مصالح العرب.....جلد دوم 423 آپ میری خوشی اور میرے انشراح صدر کا اندازہ نہیں لگا سکتے جو مجھے ایم ٹی اے دیکھ کر ملا ہے.ایم ٹی اے نے میری پیاس بجھا کر مجھے سیراب کر دیا ہے.میں آپ کو بتانے سے قاصر ہوں کہ جب سے میں نے پادری زکریا بطرس کا پروگرام دیکھا ہے یہ عرصہ کس اذیت میں گزارا ہے.میرے لئے یہ بات نہایت تکلیف دہ تھی کہ پادری اپنے گمراہ کن خیالات سے مسلمانوں کی کے جذبات کے ساتھ کھیلتا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے مسلمانوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب انکے ہی کی خلاف جاتا ہے.مجھے اسکا جواب دینے کا کوئی طریق سمجھائی نہیں دیتا تھا.نہ تو مجھے عیسائیت کے بارہ میں کچھ علم تھا نہ ہی اسلامی نقطہ نظر سے اتنی واقفیت.ایم ٹی اے کی شکل میں عظیم اور بیش قیمت خزانہ ملنے سے قبل میری تمنا تھی کہ وہ دن بھی آئے جب پادری کے غرور کا سر نیچا ہو اور اسکی اسلام کے خلاف بد زبانی کا منہ توڑ جواب ملے.آج الحمد للہ آپ کے پروگرام الحوار المباشر اور أجوبة عن الایمان دیکھتا ہوں تو ایسے لگتا ہے جیسے میں اطمینان وسکیت بخش دودھ پی رہا ہوں.اور میں جب بھی آپ کا یہ بے مثال پروگرام دیکھتا ہوں تو چین کا سانس لیتا ہوں.آپ نے حملہ روک دیا محمود الشرباصی صاحب نے مکہ المکرمہ سے لکھا: میں اس کامیاب پروگرام پر اور اسلام کے دفاع پر آپ کا از حد ممنون ہوں.اللہ آپ کو اس کی مزید توفیق عطا فرمائے اور اپنی جناب سے حجت و برہان عطا فرمائے.اللہ آپ کے ذریعہ اپنے دین کو عزت بخشے اور دشمن کو اپنے دین اور اپنی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر حملہ کرنے سے روک دے.پچھلے ماہ کے پروگرام بہت عمدہ تھے میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب پادری عبد ا سی بسیط نے بھی اس پروگرام میں فون کیا تھا.موجب از دیادِ ایمان حسن صاحب نے اٹلی سے الحوار المباشر میں فون کر کے کہا: میں ایک حقیقت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ پروگرام الحوار المباشر کا ہم بڑی شدت کے ساتھ انتظار کرتے ہیں اور شوق سے دیکھتے ہیں اور ہر دفعہ اس خوبصورت پروگرام کو
424 مصالح العرب.....جلد دوم دیکھنا میرے ایمان میں اضافہ کا موجب ہوا ہے.میں احمدی نہیں ہوں لیکن میرا بھی آپ کی طرح اسلام پر ایمان ہے.میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ بائبل کی حقیقت کے بیان پر مشتمل ان پروگراموں کے سلسلہ کو مکمل کریں.اس موضوع پر اب تک ہونے والے پروگرامز نہایت اعلیٰ تھے اور ہم نے بہت استفادہ کیا ہے.میرا ایک عیسائی دوست ہے جسے میں آپ کے پروگرام میں مذکور دلائل کی رو سے تبلیغ کرتا ہوں اور خدا کے فضل سے بیشتر باتوں کو اس نے تسلیم کیا ہے اور اس کا کریڈٹ آپ لوگوں کو جاتا ہے.اسلام کا مستقبل.تونس سے محمد الناجری صاحب نے فیکس کے ذریعہ اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں بائبل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی پیشگوئیوں پر مشتمل پروگرام الحوار المباشر کے بعد آپ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے.میں پروگرام کے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کی پیشانیوں پر محبت بھرے اور شکرانے کے جذبات سے لبریز ہزار ہزار بوسے دینا چاہتا ہوں.یقیناً آپ لوگوں نے حقیقت کو آشکار کر دیا ہے.میں اس بات کا اعتراف کئے بغیر رک نہیں سکتا کہ میں دلی طور پر آپ سے بہت متاثر ہوا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ نے صبر کے ساتھ اس کام کو جاری رکھا تو انشاء اللہ اسلام کا تو مستقبل جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں ہے.میں عقیدے کے لحاظ سے سنی ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کا معین و مددگار ہو.آمین.مناسب پروگرام اور مناسب لوگ علاء سرور صاحب نے کویت سے 2 فروری 2007 کے پرگرام میں کہا: جماعت احمدیہ کے اس چینل نے مختلف (اسلامی و عیسائی) جہات سے مناسب لوگوں کا انتخاب کر کے اس الحوار المباشر میں پیش کیا ہے.میں خدا کو گواہ ٹھہرا کے کہتا ہوں کہ میں خدا کی خاطر آپ سے محبت کرتا ہوں.
مصالح العرب.....جلد دوم 425 علاء سرور صاحب ہمارے ریگولر کالر تھے اور ردّ عیسائیت کے پروگرامز میں ان کی فون کالز بہت مفید اور علمی نکات پر مشتمل ہوتی تھیں.ایک پروگرام کے دوران جب کہ عیسائی پادریوں کے ساتھ بحث عروج پر تھی اور وہ اس ماہ کا آخری پروگرام تھا اس لئے مکرم شریف عودہ صاحب بار بار کہہ رہے تھے کہ اختصار کے ساتھ اپنے دلائل سمیٹنے کی کوشش کریں کیونکہ پروگرام کا وقت ختم ہو رہا ہے.اس وقت مکرم علاء سرور صاحب نے سٹوڈیو میں فون کر کے کہا کہ بحث نہایت اعلیٰ پائے کی ہو رہی ہے اور میری درخواست ہے کہ آپ اس پروگرام کو ایک گھنٹہ مزید جاری رکھیں اور اس گھنٹہ کی نشریات کا خرچ ادا کرنے کا شرف مجھے عطا فرمائیں.جماعت احمدیہ کے کام بفضلہ تعالیٰ حضرت خلیفہ امسیح کے ارشادات اور راہنمائی کی روشنی میں ایک پر حکمت طریق اور ترتیب کے مطابق چلتے ہیں.جماعت کی مالی ضرورتیں پوری کرنے کا اللہ تعالیٰ نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ فرمایا ہے اس لئے جب بھی خلیفہ وقت کی طرف سے کوئی مالی تحریک ہوتی ہے خدا کے فضل سے افراد جماعت پورے جوش و جذ بہ کے ساتھ اس میں حصہ لیتے ہیں اور ہمیشہ توقعات سے بڑھ کر ثمرات ظاہر ہوتے ہیں.پھر پاک جذبات کے ساتھ حلال کمائی سے دیئے گئے تھوڑے مال میں بھی اللہ تعالیٰ اتنی برکت رکھ دیتا ہے کہ ہمیں کسی غیر کی مالی امداد کی کوئی ضرورت یا حاجت نہیں رہتی.مندرجہ بالا تبصرہ کے یہاں ذکر کرنے سے مقصد قارئین کرام کے لئے وہ صورتحال اور لمحات نقل کرنا ہے جن کی افادیت اور عظمت کو غیروں نے بھی بشدت محسوس کیا.پروگرام کا لائیو تر جمعہ جب ایم ٹی اے پر ہر ماہ عربی زبان میں لائیو اور پوری دنیا کے سامنے کسر صلیب کا کام ہونے لگا تو اردو بولنے والے احمدی احباب کی طرف سے اس کے ترجمہ کے مطالبے بھی موصول ہونے لگے.جب یہ مطالبے حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش ہوئے تو حضور انور نے مکر مہ مہاد بوس صاحبہ کو اس پروگرام کا عربی سے انگریزی جبکہ ممبران عربک ڈیسک کو عربی سے اردو لائیو ترجمہ کا ارشاد فرمایا.چنانچہ 3 اگست 2006 کو پہلی دفعہ اس پروگرام کا لائیو ترجمہ بھی شروع ہو گیا.جو بفضلہ تعالیٰ آج تک جاری ہے.اردو ترجمہ
426 مصالح العرب......جلد دوم میں عربی ڈیسک کے ممبران کے علاوہ مکرم داؤد احمد عابد صاحب استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ بھی شامل ہو گئے ہیں جبکہ انگریزی ترجمہ میں مکرمہ مہا دبوس صاحبہ کے ساتھ مکرمہ ریم شریقی صاحبہ معاونت کرتی ہیں.علاوہ ازیں 2009ء میں کچھ عرصہ کے لئے بنگالی زبان میں بھی اس پروگرام کا لائیو تر جمہ ہوا.لائیو ترجمہ کو بہت سے احمدی و غیر احمدی احباب نے سراہا اور احمدی احباب کو اس طرح الحوار کے نفس مضمون اور بحث کے متعلق آگاہی ہونے لگی.یہاں اس حوالے سے بھی دو تبصرے پیش ہیں: حسن صاحب آف اٹلی کی فون کال کا ذکر آچکا ہے انہوں نے ایک اور پروگرام میں فون کر کے کہا کہ پروگرام کو اس حکمت اور حقیقت پسندی کے چلانے کے لئے ہم آپ کے شکر گزار ہیں.اس میں ہر ایک کو شرکت کی دعوت و اجازت اور وقت دینے سے لگتا ہے کہ یہ پروگرام ہماری اپنی ملکیت ہو گیا ہے.اور اگر ہماری ملکیت ہے تو ہم یہ تجویز دیتے ہیں کہ اس کی پروگرام کے لائیو ترجمہ کے علاوہ بعد میں تسلی کے ساتھ مفصل طور پر متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا جائے.شروع کے پروگرامز میں مکرم عبادہ بر بوش صاحب فون کالز لیتے تھے.ماریشس سے ایک دوست نے فون کر کے پیار بھری ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے عبادہ صاحب سے کہا: مجھے بتائیں کہ کیا اسلام صرف عربوں اور پاکستانیوں کے لئے آیا ہے؟ عبادہ صاحب نے کہا: نہیں، بلکہ اسلام تو تمام دنیا کے لئے آیا ہے.اس نے کہا پھر یہ پروگرام صرف عربی میں ہی کیوں ہے؟ اور اس کا ترجمہ صرف اردو میں ہی کیوں ہے؟ اس نے مزید کہا کہ ہم انگلش سمجھ لیتے ہیں اور کئی ایک دوست اکٹھے ہو کر اس پروگرام کا انگریزی ترجمہ سنا کرتے تھے اس دفعہ وہ ترجمہ نہیں آیا تو ہم استفادہ سے محروم ہیں.00000
مصالح العرب.جلد دوم 427 حضور انور ایدہ اللہ کی الحوار المباشر میں تشریف آوری الْحِوَارُ الْمُبَاشَر پروگرام کے تفصیلی ذکر کے بعد تاریخی اعتبار سے ایم ٹی اے 3 العربیہ کے اجراء اور اس کے مختلف مراحل کا ذکر کرنے کے بعد اب ہم الْحِوَارُ الْمُبَاشَر کے ایک نہایت اہم، عظیم الشان و بابرکت دن کی بات کریں گے، اس ساعت کا تذکرہ کرتے ہیں جو اس پروگرام کے سر پر ایک تاباں تاج کی مانند ہے، یہ وہ دن تھا جب حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس الْحِوَارُ الْمُبَاشَر میں تشریف لائے اور اپنے وجود باجود سے اسے برکت اور رونق بخشی.جون 2008ء کا پروگرام الْحِوَارُ الْمُبَاشَر 27 مئی کو منائے جانے والے صد سالہ یوم خلافت کے فورا بعد آیا تھا اور اس موقعہ پر حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے تاریخی روحانی خطاب کی عظیم تاثیر ہر احمدی کے قلب و ذہن میں تازہ تھی.اس موقع پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ ماہ جون کے الْحِوَارُ المُباشر میں ” خلافت احمدیہ کے موضوع پر بات کی جائے اور عربوں کو نظام خلافت، اس کی اہمیت، برکات اور خلفائے احمدیت کی سیرت اور کارناموں کے بارہ میں بتایا جائے.اس تاریخی موقعہ پر شرکائے اَلْحِوَارُ الْمُبَاشَر کی طرف سے حضور انور کی خدمت میں اس پروگرام میں رونق افروز ہونے اور عربوں کو براہ راست مخاطب فرمانے کی درخواست کی گئی.صد سالہ خلافت جوبلی کے ان ایام میں حضور انور کی مصروفیت عام دنوں سے بہت زیادہ تھی اس لئے اس پروگرام میں حضور انور کی تشریف آوری کی توثیق نہ ہوسکی.پروگرام کے پہلے
428 مصالح العرب.....جلد دوم تین دن گزر چکے تھے اور یہ 8 جون 2008ء کا دن تھا جو کہ اس ماہ کے الْحِوَارُ الْمُبَاشَر کا آخری دن تھا.اس دن حضور انور مسجد بیت الفتوح میں کسی فنکشن کے سلسلہ میں تشریف لائے ہوئے تھے.اس موقعہ پر مکرم محمد شریف عودہ صاحب نے اپنے بھائی منیر عودہ صاحب کے ذریعہ حضور انور کی خدمت میں دوبارہ درخواست عرض کی جسے قبول فرماتے ہوئے حضور انور اس پروگرام میں تشریف لائے اور تقریبا 16 منٹ تک تشریف فرما ر ہے جس میں عربوں کو خطاب فرمایا اور ایک فون کال بھی سماعت فرمائی.ذیل میں ہم حضور انور کے اس تاریخی خطاب کا مکمل متن پیش کرتے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا عربوں سے خطاب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.اسے تمام اہالیان عرب ! آپ پر اللہ تعالی کے بے شمار فضل اور انعامات اور احسانات ہوں.آپ کی تعداد اس وقت گو دنیا کی نظر میں تھوڑی ہے لیکن آپ کے دل اس وقت ایک نور سے بھرے ہوئے ہیں اور مجھے امید ہے کہ یہ تعداد جلدی انشاء اللہ ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں میں بدلنے والی ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس چیز کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لے کر آئے ، اور یہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ذریعہ سے ملا ہے.وہ حقیقی اسلام، وہ حقیقی تعلیم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کی ، جس کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے، جس کو دنیا بھول بیٹھی تھی ، آج گو بظاہر اہل عرب عربی جاننے والے اس بات کے دعویدار ہیں کہ ہم اس زبان کے بولنے والے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے، اور یقیناً ہمیں بھی اس زبان سے بہت پیار ہے کیونکہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ماننے والوں میں سے ہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ ایمان اور عرفان عطا فرمایا ہے جس کو آج دنیا بھول چکی ہے، ہمیں اپنے تمام عرب احمدی بھائیوں کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ آج جس اسلام اور فضل سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو متمتع فرمایا ہے اس کو آگے بھی پھیلائیں اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک تمام دنیا کو ، تمام عالم عرب کو مسیح محمدی کے قدموں تلے نہ لے آئیں.اور یہ اس لئے نہیں کہ مسیح محمدی کے قدموں تلے لانے میں مسیح محمدی کی بڑائی ہے
مصالح العرب.....جلد دوم 429 بلکہ یہ حقیقی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں تلے لانے والی بات ہے جس کو آج دنیا کی بھول چکی ہے.کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں لیکن بہت سارے مسلمانوں کے عمل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جو تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے، جو تعلیم ہمیں قرآن کریم نے دی ، اس پر عمل عملاً نا پید ہے.اور آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو اس علم کو اٹھائے ہوئے ہے.اگر ہم نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو کل کی آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے والے بنیں.آمین.مجھے امید ہے کہ 27 رمئی کو یوم خلافت کے دن میں نے جو تمام احمدیوں سے عہد لیا تھا کہ آپ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے اور خلافت احمد یہ کے قائم رکھنے کے لئے ہر قربانی دینے کیلئے تیار رہیں گے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک تمام دنیا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا نہ لہرائے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ میں سے ہر احمدی جو عرب دنیا میں بستا ہے میرا سلطان نصیر بن کر اس کام میں ہاتھ بٹائے گا.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاننہ.یہ چند الفاظ میں نے آپ سے کہنے تھے.اور یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ آج ایک ( Function) کیلئے میں یہاں موجود تھا.اور یہاں ہمارے بھائی جو اس پروگرام الحوار المباشر میں حصہ لیتے ہیں انکے کہنے پر مجھے خیال آیا کہ آجاؤں.پہلے تو میرا ارادہ تھا کہ نہیں آؤں گا لیکن پھر آپ کے جذبات کی وجہ سے اور ان کے جذبات کی وجہ سے میرے دل نے مجھے مجبور کیا که ضرور آپ کے اس پروگرام میں شامل ہوں اور چند لمحے اور چند منٹ آپ میں گزاروں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خطاب فرموده 8 جون 2008ء) جیسا کہ حضور انور نے خود بیان فرمایا کہ ” پہلے ارادہ تھا نہیں آؤں گا.اس لئے ناظرین کے لئے کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حضور انور کے تشریف لانے سے قبل کسی کو اس بارہ میں کچھ خبر نہ تھی.اس میں بھی خدائی حکمت نظر آتی ہے کیونکہ اس طرح اچانک حضور انور کو پروگرام میں دیکھ کر شرکائے پروگرام اور دیکھنے والے احمدی اور غیر احمدی ایک عجیب جذباتی کی
مصالح العرب.جلد دوم 430 و روحانی کیفیت سے دوچار ہو گئے، ناظرین کی اکثریت فرط جذبات سے اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکی، کئی احمدی احباب نے لکھا کہ ہم احمدی تو تھے لیکن خلافت کے موضوع پر ان کی پروگراموں نے ہمیں علمی طور پر منصب خلافت کی عظمت سے روشناس کرایا لیکن اس کا حقیقی اور روحانی ادراک حضور انور کی اس پروگرام میں شرکت کے وقت ہوا جسے ہم نے اپنے قلب ونظر و دماغ و احساسات میں محسوس کیا.یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر عربوں کی طرف سے مرسلہ احساسات اور جذبات میں سے کچھ پیش کر دیئے جائیں.عمومی با برکت تا شیر مکرم محمد شریف عودہ صاحب نے اس پروگرام کے بعد حضور انور کی خدمت میں لکھا: سیدی! سٹوڈیو میں حضور انور کی تشریف آوری کا ہم پر بھی اور دیگر تمام لوگوں پر بہت ہی بابرکت اور غیر معمولی اثر تھا.لوگ تو حضور کی اچانک تشریف آوری کو دیکھ کر گویا خوشی سے بے خود ہو گئے.مختلف عرب ممالک سے تمام فون کرنے والوں نے یہی کہا کہ شدت جذبات سے ہمارے آنسو نکل آئے.عجیب بات ہے کہ کئی غیر احمدی جن کا جماعت کے ساتھ رابطہ ہے وہ بھی شدت جذبات کی وجہ سے روئے بغیر نہ رہ سکے.مثلا : اردن کے ایک ہسپتال میں امراض چشم کے ڈاکٹر وائل بلعاوی نے کہا کہ میں اس مسحور کن منظر کو دیکھ کر شدت جذبات سے مغلوب ہو گیا.انہوں نے ابھی بیعت تو نہیں کی لیکن اس منظر سے بہت متاثر ہوئے.( بعد میں بفضلہ تعالیٰ انہوں نے بیعت کر لی اور الحمد للہ اب یہ کی جماعت احمد یہ اردن کے مخلص کارکن ہیں) ایک خاتون ( جنہوں نے ابھی تھوڑا عرصہ قبل بیعت کی ہے) نے کہا کہ اس کے والد صاحب احمدی نہیں ہیں لیکن وہ بھی حضور انور کی پروگرام میں تشریف آوری کو دیکھ کر بے اختیار رونے لگ گئے.کہا بیر کی ایک غیر احمدی عورت نے کہا: حضور کے اسٹوڈیو میں تشریف لانے پر میری حیرت کی انتہا نہ رہی اور میں بے حد متاثر
مصالح العرب......جلد دوم 431 ہوئی.میں نے دل میں کہا کہ اگر میری یہ حالت ہے تو ان کی حالت کیا ہو گی جو اس وقت حضور انور کے ساتھ سٹوڈیو میں بیٹھے ہیں.عجیب بات ہے کہ جتنے لوگوں نے بھی مجھ سے بات کی ہے یہی کہا ہے کہ جب حضور انور کی آمد پر شرکاء پروگرام کھڑے ہوئے تو ہم بھی ساتھ کھڑے ہو گئے.اس واقعہ نے ہمارے نفوس کو ہلا کر رکھ دیا ہے.یہ تو غیر احمدیوں کے تاثرات تھے جبکہ احمدی احباب میں سے جس شخص سے بھی فون پر بات ہوئی سب نے یہی کہا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے.بہتوں نے حضور انور کی تشریف آوری کے وقت فون کر کے حضور سے بات کر نیکی کوشش بھی کی لیکن ان کی فون کال کی باری نہ آئی.میری والدہ کہ رہی تھیں کہ یوں لگتا تھا کہ گویا حضور ہمارے گھر میں تشریف لے آئے ہیں.مجلس صحابہ کا احساس ایک غیر از جماعت دوست مکرم عماد عبدالبدیع صاحب آف مصر نے لکھا: میں ٹی وی کے آگے بہت کم بیٹھتا تھا لیکن بیماری کی وجہ سے ایک دن میں بیٹھا مختلف چینل بدل رہا تھا کہ اچانک آپ کا یہ چینل مل گیا.مجھے ایک خزانہ مل گیا.اگر میری بیماری نہ ہوتی تو شاید اس خزانہ سے محروم رہتا.اس پر میں خدا تعالی کا شکر گزار ہوں کیونکہ میرے ذہن میں مذہب کے بارہ میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے تھے جن کا جواب مجھے کبھی بھی نہ ملتا تھا اور کوئی میری تسلی نہ کراتا تھا.خدا شاہد ہے کہ یہ چینل اور اس کو چلانے والے نیک لوگ میرے درد کی دوا بن گئے حتی کہ میں سخت بیماری کی ساری تکلیفیں بھول کر خلیفۃ المہدی کی محبت سے مجبور ہو کر انٹرنیٹ کیفے گیا ہوں تا کہ یہ خط بھیجوں.آپ کا چینل اس دنیا میں امید کی ایک واحد کرن ہے.آپ کے پاس محمدی فیوض کا خزانہ ہے.جب حضور انور الْحِوَارُ الْمُبَاشَر میں تشریف لائے تو اس دوست نے لکھا: اس بار جب حضرت خلیفتہ اسیح سٹوڈیو میں تشریف لائے تو میں اپنے جذبات ضبط نہیں کر سکا اور زار و قطار رونا شروع کر دیا.مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے
مصالح العرب.....جلد دوم 432 صحابہ کی مجلس میں موجود ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں ہوں.میں ساری تکلیف اور درد بھول گیا.آپ کے پروگرام بہت خوبصورت اور دلکش ہیں.اور ا تاریکیوں کو منور کرنے والے ہیں.بعض احمدیوں کے جذبات مکرمہ عائشہ عبد الکریم عودہ صاحبہ نے کہا بیر سے لکھا: سیدی حضور انور کا اَلْحِوَارُ الْمُبَاشَر میں یوں اچانک تشریف لانا کس قدر خوشی وفرحت اور سرور کا موجب ہوا اس کا بیان الفاظ میں ناممکن ہے.ایسے لگا جیسے فرشتوں کا لشکر حضور انور کے ساتھ سٹوڈیو میں داخل ہو گیا ہو.مارے خوشی کے میری تو جیسے سانس ہی بند ہوگئی.میرے والد صاحب زار و قطار رونے لگ گئے.دعا کی درخواست کرتی ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں خلافت سے محبت میں اور بڑھائے اور اس کے ساتھ چھٹے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین.مکرمہ مروہ غالول صاحبہ نے سیریا سے لکھا: پروگرام الْحِوَارُ الْمُبَاشَر میں حضور انور کا تشریف لانا ایک نا قابل فراموش تاریخی واقعہ ہے.کاش میں اس سٹوڈیو کے درودیوار کا کوئی حصہ ہوتی اور حضور انور کا قرب حاصل کر سکتی.گو کہ یہ ممکن نہ تھا تا ہم میرا دل وفور شوق و محبت میں وہیں کہیں تھا.کچھ عرصہ قبل ہماری اس بہن کی ایک حادثہ میں وفات ہوگئی.حضور انور نے ارزاہ شفقت خطبہ جمعہ میں انکا ذکر خیر بھی فرمایا اور نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی.) مکرمه بدیل فضل عوده آف کیا بیر نے حضور انور کی خدمت میں لکھا: سیدی میں خوشی کے جذبات سے اس قدر مغلوب ہوں کہ اپنی مسرت کا اظہار ناممکن ہے.الْحِوَارُ الْمُبَاشَر میں حضور انور کے پر نور چہرے مبارک کی زیارت نے عجیب سماں پیدا کر دیا.اس طرح حضور انور کی شرکت سے ہمارے قلب ونفوس میں پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں.مکرم محمد حول صاحب نے لبنان سے لکھا: حضور گذشتہ دنوں میں اپنے گھر صوفے پر بیٹھا پروگرام اَلْحِوَارُ الْمُبَاشَر دیکھ رہا تھا
433 مصالح العرب.....جلد دوم کہ جب مکرم شریف صاحب نے کہا کہ حضور تشریف لائے ہیں میرا حال اس شخص کی طرح تھا جس کے پاس اچانک کوئی فوجی جرنیل آ جائے.اس منظر کے رعب سے چھلانگ لگا کر اٹھ بیٹھا.قریب تھا کہ میرا سر چھت سے جا لگتا.میں نے شدت رعب سے ہاتھ آنکھوں پر رکھ لئے اور آنسو جاری ہو گئے.میں برف کی طرح ٹھنڈا ہو گیا اور حضور کی باتیں سننے لگا.اس وقت میرے سامنے یہ آیت آ گئی لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيْعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ (الانفال : 64) - حضور آپ ہمارا فخر ہیں.ہم آپ کی ہمیشہ اطاعت کریں گے.مکرمہ دعاء منصور عودہ صاحبہ نے کہا بیر سے لکھا: پیارے آقا کا پروگرام الْحِوَارُ الْمُبَاشَر میں تشریف لا نا عجیب تاثیر رکھتا تھا.خوشی ومسرت کے جذبات نے ہمیں ہمارے ارد گرد سے بے خبر کر دیا تھا.ہماری سوچ، اور احساسات حضور کی طرف کھچے چلے جارہے تھے.یہ ایک عظیم منظر تھا.ایسے لگتا تھا جیسے ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں لوٹ گئے ہیں.سیدی! اس واقعہ کے بعد ہمارے دلوں میں خلافت سے تعلق مزید جوش مارنے لگا ہے.ایم ٹی اے کے ذریعہ مسیح موعود کا آسمان سے نزول ذکر بھی کیا : مکرم عبد اللطیف اسماعیل عودہ نے کہا بیر سے اپنے جذبات کے ساتھ ایک رؤیا کا الْحِوَارُ الْمُبَاشَر میں آپ کے اچانک تشریف لانے کا عظیم اثر دلوں پر ہے اور اس سے جہاں جماعت کے افراد کی آپس میں محبت واخوت کا اظہار ہوتا ہے وہاں حضرت اقدس مسیح ہے.موعود علیہ السلام اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کی عربوں سے شدید محبت کا اظہار ہوتا.حضور ! ایم ٹی اے کو جو عظیم کا میابیاں مل رہی ہیں ان کو دیکھ کر مجھے چار سال پہلے کی دیکھی ہوئی ایک خواب یاد آ گئی جو میں نے آپکی خدمت میں بھجوائی تھی جبکہ ابھی ایم ٹی اے العربیہ کا کوئی وجود نہ تھا.میں نے خواب میں دیکھا کہ ریڈیو اور ٹی وی اور دوسرے وسائل اطلاعات کے ذریعہ یہ خبر نشر ہوئی ہے کہ عنقریب امام مہدی ومسیح کا نزول آسمان سے ہونے والا ہے.کہا بیر
434 مصالح العرب.....جلد دوم میں یہ خبر ہمیں ایک غیر احمدی کے ذریعہ ملتی ہے.میں اسے کہتا ہوں کہ یہ خبر غلط ہے کیونکہ اصل مسیح موعود ایک سو سال قبل آچکا ہے اور اب کوئی آسمان سے نہیں آئے گا.ہم اسی بحث میں ہیں کہ آسمان سے ایک گول شکل کی بہت بڑی خلائی سواری زمین پر اترتی دکھائی دیتی ہے جس سے بکثرت نور نکل رہا ہے.اس پر غیر احمدیوں نے کہنا شروع کر دیا کہ دیکھو مسیح آ گیا.اس پر ہم احمدی حیرت میں پڑے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن جب وہ سواری ہمارے قریب آتی ہے تو ہمیں اس کے اندر سے حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ احمدی احباب و خواتین کے ساتھ تشریف فرما نظر آتے ہیں.جس پر ہم لوگ نہایت خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں لیکن غیر احمدی شک میں پڑتے ہیں کہ احمدیوں کا امام میسج کیسے ہو گیا؟ اس پر میں حضور کے قریب جا کر عرض کرتا ہوں کہ حضور بعض دوست ابھی تک شک میں ہیں.اس پر آپ کمال شفقت سے ان کے پاس جا کر فرماتے ہیں کہ اب بھی اگر آپ لوگ تصدیق نہیں کرتے تو میں ایک اور نشان دکھاتا ہوں.یہ کہہ کر آپ سواری کی طرف چلے گئے اور آسمان کی طرف بلند ہو گئے اور پھر تھوڑی دیر بعد واپس تشریف لائے اور ان سے پوچھا کہ اب تم تصدیق کرتے ہو؟ تو اس پر لوگ بکثرت آپ کے گرد جمع ہونا شروع کر دیتے ہیں اور ان کی تعداد بڑھ رہی ہے اور وہ نعرے لگا رہے ہیں.ایم ٹی اے جو پروگرام پیش کر رہا ہے یہ خواب کے ایک حصہ کی تعبیر ہے.اللہ کرے کہ ان پروگراموں کو دیکھ کر لاکھوں کروڑوں سعید روحیں حضور کے گرد جمع ہوں.ہمیں انتظار رہے گا محترمہ نسیبہ اسلامبولی صاحبہ نے شام سے لکھا: الجوار المباشر میں اچانک حضور کی آمد اور رحمتوں اور برکتوں سے بھر پور وہ چند لمحات جو حضور نے ہمیں عنایت فرمائے ، ان کے بعد جو آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے اور دل کو ٹھنڈک پہنچی اور فرط مسرت سے جذبات کی جو کیفیت تھی اسے بیان نہیں کیا جاسکتا.مجھے نہیں معلوم کہ اب میں اس پروگرام کو کیسے دیکھا کروں گی کیونکہ ہر گھڑی ہمیں یہی انتظار رہے گا کہ کاش حضور چندلحوں کیلئے دیدار کرانے کیلئے تشریف لائیں.کاش ہمیشہ اسی طرح ہمیں اپنے پیارے چینل پر
435 مصالح العرب.....جلد دوم حضور کی زیارت نصیب ہوتی رہے.آخر پر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے جب ہم حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے عربوں کو مخاطب کر کے فرمائے ہوئے ان کلمات مبارکہ : ”مجھے امید ہے کہ یہ تعداد جلدی انشاء اللہ ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں میں بدلنے والی ہے“ کا پورا ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ، آمین ثم آمین.00000
پروگرام الحوار المباشر کے بعض مناظر الحوار المباشر الحوار الساهر حوار المباشر الحوار المباشر الحوار المباشر الحوال الحوار المباشر جوار المباشر الحوار المباشر الحوار المباشر الحوار شرکائے الحوار المباشر کا ایک گروپ فوٹو حوار المباشر الحوار البناشر الحوار المباشر الدية الحوار المباشر عاء السائر الحوار البناشر الدوار السياسر الحيالة الحوار المباشر کے شرکاء اور کنٹرول روم میں خدمت بجالانے والے بعض خدام کا گروپ فوٹو الحوار المباشر پروگرام الحوار المباشر کے بعض مناظر الحوار المباشر 廢 EVER
وَعَدَ الله الذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ اليوبيل المئوي للخلافة الأحمدية 2008 - 1908 ى آخرون، سيكونون مظاهر قدرة الله الثانية" أنا قدرة الله المتجسدة، وسياتي من بعدي حضرت خلیفہ اصبح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی پروگرام الحوار المباشر میں تشریف آوری کے موقعہ پر 8 جون 2008 کو لی گئی یادگار تصویر
مصالح العرب.جلد دوم 436 ایم ٹی اے 3 العربية ال الْحِوَارُ الْمُبَاشَر اور رڈ عیسائیت پر مشتمل پروگراموں کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ ایم ٹی اے3 العربیہ کا اجراء عمل میں آیا جس پر دیگر پروگرامز کے علاوہ انجوار المباشر بھی چلتا رہا اور بفضلہ تعالیٰ آج تک بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے.اس میں عیسائیت کے رد میں پروگراموں کے علاوہ مختلف اختلافی مسائل اور موضوعات پر بحث ہوئی جن کے بارہ میں ہم تفصیلی طور پر بعد میں لکھا جائے گا.وَاللَّهُ مُتِمُّ نُوْرِہ کا جلوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے میڈیا کے عظیم الشان انقلاب کی طرف بڑے لطیف پیرائے میں اشارہ فرمایا ہے.آپ نے اپنی پہلی کتاب براہین احمدیہ میں نئی ایجادات اور سرعت وسائلِ رسل و رسائل واتصالات کی وجہ سے دنیا کے گلوبل و پیج یا ایک ملک بن جانے کا ذکر فرمایا ہے، جس کی بنا پر پرانے زمانوں میں تبلیغ و تبشیر کا سالوں میں ہونے والا کام اب محض چند ایام میں ہونا ممکن ہو گیا ہے.اس اقتباس میں مجموعی طور پر نئی ایجادات کا دین اسلام کی تبلیغ اور اسے تمام دنیا پر غالب کرنے میں اہم کردار کھل کر سامنے آ جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: روحانی طور پر دین اسلام کا غلبہ جو حج قاطعہ اور براہین ساطعہ پر موقوف ہے اس عاجز کے ذریعہ سے مقدر ہے.گو اس کی زندگی میں یا بعد وفات ہو.اور اگر چہ دین اسلام اپنے دلائل حقہ کے رو سے قدیم سے غالب چلا آیا ہے اور ابتدا سے اس کے مخالف رسوا اور ذلیل ہوتے
437 مصالح العرب......جلد دوم چلے آئے ہیں.لیکن اس غلبہ کا مختلف فرقوں اور قوموں پر ظاہر ہونا ایک ایسے زمانہ کے آنے پر مج موقوف تھا کہ جو بباعث کھل جانے راہوں کے تمام دنیا کو ممالک متحدہ کی طرح بناتا ہے اور ایک ہی قوم کے حکم میں داخل کرتا ہے.اور اندرونی اور بیرونی طور پر تعلیم حقانی کے لئے نہایت مناسب اور موزون ہو.سب اب وہی زمانہ ہے کیونکہ باعث کھل جانے راستوں اور مطلع کی ہونے ایک قوم کے دوسری قوم سے اور ایک ملک کے دوسرے ملک سے سامان تبلیغ کا بوجہ احسن میسر آ گیا ہے اور بوجہ انتظام ڈاک و ریل و تار و جہاز و وسائل متفرقه اخبار وغیرہ کے دینی تالیفات کی اشاعت کے لئے بہت سی آسانیاں ہو گئی ہیں.غرض بلاشبہ اب وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ جس میں تمام دنیا ایک ہی ملک کا حکم پیدا کرتی جاتی ہے.اور باعث شائع اور رائج ہونے کئی زبانوں کے تفہیم تفہیم کے بہت سے ذریعے نکل آئے ہیں اور غیریت اور اجنبیت کی مشکلات سے بہت سی سبکدوشی ہوگئی ہے.خلاصہ کلام یہ کہ اس زمانہ میں ہر یک ذریعہ اشاعت دین کا اپنی وسعت تامہ کو پہنچ گیا ہے.ماسوا اس کے یہ زمانہ اشاعت دین کے.لئے ایسا مددگار ہے کہ جو امر پہلے زمانوں میں سو سال تک دنیا میں شائع نہیں ہوسکتا تھا.اب اس زمانہ میں وہ صرف ایک سال میں تمام ملکوں میں پھیل سکتا ہے.اس لئے اسلامی ہدایت اور ربانی نشانوں کا نقارہ بجانے کے لئے اس قدر اس زمانہ میں طاقت وقوت پائی جاتی ہے جو کسی زمانہ میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی.صدہا وسائل جیسے ریل و تار و اخبار وغیرہ اسی خدمت کے لئے ہر وقت طیار ہیں کہ تا ایک ملک کے واقعات دوسرے ملک میں پہنچادیں.سو بلاشبہ معقولی اور روحانی طور پر دین اسلام کے دلائل حقیقت کا تمام دنیا میں پھیلنا ایسے ہی زمانہ پر موقوف تھا اور یہی با سامان زمانہ اس مہمان عزیز کی خدمت کرنے کے لئے من کل الوجوہ اسباب مہیا رکھتا ہے.پس خداوند تعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کر کے اور صد با نشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صد با دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ کی فرمایا ہے کہ تا تعلیمات حقہ قرآنیہ کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرمادے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے غرض خدا وند کریم نے جو اسباب اور وسائل اشاعت دین کے اور دلائل اور براہین اتمام حجت کے محض اپنے فضل وکرم سے اس عاجز کو عطا فرمائے ہیں وہ اُمم سابقہ میں سے آج تک کسی کو عطا نہیں فرمائے.اور جو کچھ اس بارہ میں تو فیقات غیبیہ اس عاجز کو
438 مصالح العرب......جلد دوم دی گئی ہیں وہ ان میں سے کسی کو نہیں دی گئیں.ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاء....اس ا نے اپنے تفضلات و عنایات سے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ روز ازل سے یہی قرار یافتہ ہے کہ آیت متذکرہ بالا اور نیز آیت وَاللهُ مُتِمُّ نُورہ کا روحانی طور پر مصداق یہ عاجز ہے، اور خدا تعالیٰ ان دلائل و براہین کو اور ان سب باتوں کو کہ جو اس عاجز نے مخالفوں کے لئے لکھے ہیں خود مخالفوں تک پہنچا دے گا اور ان کا عاجز اور لا جواب ومغلوب ہونا دنیا میں ظاہر کر کے مفہوم آمیہ متذکرہ بالا کا پورا کر دے گا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِك 66 ( براہین احمدیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3 ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 594 تا 597) ایک دم میں چمک کر ہر طرف پھیل جانے والی بجلی 66 علاوہ ازیں حضور علیہ السلام نے مسیح موعود کے متعلق احادیث نبویہ میں مذکور لفظ " نُزُول کی شرح میں بعض بڑے دقیق رنگ میں اشارے فرمائے ہیں جن کا ایک طور پر اطلاق سیٹلائٹ چینل پر بھی ہو سکتا ہے اور چونکہ ہم اس وقت جماعت احمدیہ کے عربی چینل کے بارہ میں بات کر رہے ہیں اس حوالہ سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان مذکورہ دقیق اشاروں پر مبنی مضمون عربی کتاب خطبہ الہامیہ میں مذکور ہے.حضور علیہ السلام نزول کا لفظ استعمال ہونے کی دو حکمتیں بیان فرماتے ہیں.ان میں سے دوسری اس طرح سے ہے: " ثانيهما: لإظهار شهرة المسيح الموعود في أسرع الأوقات والزمان في جميع البلدان فإن الشيئ الذي ينزل من السماء يراه كلّ أحدٍ من قريب وبعيد ومن الأطراف والأنحاء ولايبقى عليه ستر في أعين ذوى الإنصاف ويشاهد كبرق يبرق من طرف إلى طرف حتى يحيط كدائرة على الأطراف“.الخطبة الإلهامية ج 16 صفحہ 43) (ترجمه از ناقل) نزول کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ مسیح موعود کی تمام ممالک میں غیر معمولی تیزی کے ساتھ شہرت پھیل جائے گی.کیونکہ جو چیز آسمان سے نازل ہوتی ہے اسے قریب سے اور دور سے اور ہر ایک سمت و جہت سے ہر کوئی دیکھتا ہے اور وہ اہل انصاف کی نظر میں وہ کبھی
00000 مصالح العرب......جلد دوم 439 پوشیدہ نہیں رہتی، بلکہ یہ اس بجلی کی طرح دکھائی دیتی ہے جو ایک سمت سے کوند کر دوسری سمتوں میں چمکتی ہے یہاں تک کہ تمام اطراف و جہات پر ایک دائرے کی طرح محیط ہو جاتی ہے.اسی طرح اسی کتاب میں ایک اور جگہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں جس کا ترجمہ نقل کیا جاتا ہے: اور نزول کے لفظ میں جو حدیثوں میں آیا ہے یہ اشارہ ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں امر اور نصرت انسان کے ہاتھ کے وسیلہ کے بغیر اور مجاہدین کے جہاد کے بغیر آسمان سے نازل ہوگی اور مدبروں کی تدبیر کے بغیر تمام چیزیں اوپر سے نیچے آئیں گی.گویا مسیح بارش کی طرح فرشتوں کے کے بازؤوں پر ہاتھ رکھ کر آسمان سے اترے گا، انسانی تدبیروں اور دنیاوی حیلوں کے بازؤوں پر اس کا ہاتھ نہ ہوگا.اور اس کی دعوت اور حجت زمین میں چاروں طرف بہت جلد پھیل جائے گی اس بجلی کی طرح جو ایک سمت میں ظاہر ہو کر ایک دم میں سب طرف چمک جاتی ہے.یہی حال اس زمانہ میں واقع ہوگا.الخطبة الإلهامية ، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 283 تا 285) ایک رنگ میں سیٹیلائٹ سسٹم بھی اس طرح کام کرتا ہے کہ اس کی نشریات آسمان پر ایک مقام سے تمام دنیا میں منتشر ہو جاتی ہیں اور بجلی کی طرح ایک جگہ سے کوند کر دنیا کے کناروں تک پہنچ جاتی ہیں اور بیک وقت ہر جگہ دکھائی دینے لگتی ہیں.گویا اس طرح مسیح موعود کا نزول ہر گھر میں ہو رہا ہے.حضور علیہ السلام کی تحریرات واقوال کے حوالے سے جملہ عقائد کی وضاحت ہو رہی ہے اور گندا چھالنے والے تمام دریدہ دہن معترضین کے جملہ اعتراضات کا جواب دیا جا رہا ہے.شاید اسی دن کے لئے حضور علیہ السلام نے اپنے ایک عربی قصیدہ میں فرمایا تھا کہ: وَ يَأْتِي يَوْمُ رَبِّي مِثْلَ بَرْقٍ فَلَا تَبْقَى الْكِلابُ وَلَا النُّبَاحُ تحفه بغداد، روحانی خزائی جلد 7 صفحہ 38) ترجمہ: اور میرے رب کا دن بجلی کی طرح آئے گا.تب نہ تو گنتے باقی رہیں گے نہ ہی ان کا بھونکنا.
مصالح العرب.جلد دوم 440 ایم ٹی اے 3 العربیة کا باقاعدہ اجراء گذشتہ صفحات میں مذکور تمہید کے بعد اب ہم ایم ٹی اے 3 العربیہ کے اجراء کے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں.ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد مکرم منیر عودہ صاحب کو فرمایا تھا کہ میرے عہد میں عربوں میں تبلیغ کے لئے راہ کھلے گی اور عربوں میں احمدیت کا نفوذ ہو گا اور وہ کثرت سے احمدیت کی آغوش میں آئیں گے.چنانچہ حضور انور کے یہ کلمات آج عربوں میں فتوحات اور جماعت کے انتشار کی شکل میں پورے ہو رہے ہیں.ایم ٹی اے 3 العربیہ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی تھی.اس سلسلہ میں مکرم منیر عودہ صاحب نے ہمیں بتایا کہ: حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی خلافت کے شروع سے ہی عربوں میں تبلیغ کو خاص اہمیت دی اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2004ء کی ابتدا میں ایک ملاقات کے دوران حضور انور نے فرمایا کہ ایسے عربی پروگرامز کی تیاری کے امکانات کا جائزہ لے کر بتائیں جو جماعت کے ایک علیحدہ عربی چینل پر چلائے جا سکیں.چنانچہ اس کے بعد جب میں کہا بیر گیا اور وہاں پر امیر جماعت محمد شریف عودہ اور مکرم ہانی طاہر صاحب سے اس بارہ میں بات کی کہ حضور انور کا منشاء یہ ہے کہ یہ پروگرام بے شک بہت ہی معمولی درجہ کے ہوں جن کے ذریعہ صرف جماعت کا پیغام عرب دنیا کے بڑے حصہ تک پہنچ جائے.انہوں نے کہا کہ بظاہر تو حالت ایسی ہے کہ ہمارے پاس ایک علیحدہ چینل کو چلانے کیلئے پروگرام تیار کرنے اور ریکارڈنگ کرنے اور جملہ انتظامی اور تکنیکی امور کی انجام دہی کے لئے ماہرین
441 مصالح العرب.....جلد دوم کی کمی ہے.بہر حال میں نے واپسی پر حضور انور کی خدمت میں تمام صورتحال پیش کر دی ہے لیکن ایسے محسوس ہوا جیسے حضورانور اس بات کا فیصلہ کر چکے ہیں کہ ایسا ہو کر ہی رہے گا ، کیونکہ حضور انور نے فرمایا ابتدا میں چاہے کوئی شخص بیٹھ کر بعض کتابیں ہی پڑھ کر ریکارڈ کرا دے،صرف ایسی نصوص چینی جائیں جن کے ذریعہ سے جماعت کا پیغام عرب دنیا تک پہنچ جائے.چنانچہ حضورانور کے ارشاد کے مطابق چیئر مین ایم ٹی اے اور بعض دیگر کارکنان نے کسی عربی سیٹیلائٹ پر جماعت کے عربی چینل کی نشریات کے امکانات کا جائزہ لینا شروع کر دیا.2005ء کے آخر تک کئی کمپنیوں کے ساتھ بات چلی لیکن کہیں بھی کامیابی نہ مل سکی.2006ء میں مشرق وسطی میں سیٹیلائٹ پر جگہ فراہم کرنے والی ایک کمپنی سے بات ہوئی اور عرب ساٹ یا نائل ساٹ میں سے کسی ایک پر ہمیں جگہ ملنے اور لاکھوں عربوں تک رسائی حاصل کرنے کی امید ہوگئی جس نے 2007 ء میں حقیقت کا روپ دھار لیا اور اٹلانٹک برڈ 4 ( 4 Atlantic bird) کے ذریعہ مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام عرب کی فضاؤں کو معطر کرنے لگا.اور بالآخر 23 مارچ 2007ء کو حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دست مبارک سے اس نئے عربی چینل کا افتتاح فرمایا جس کا نام 3-mta العربیہ رکھا گیا.تجرباتی نشریات کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربوں کو مخاطب کر کے فصیح و بلیغ عربی زبان میں تحریر فرمودہ نہایت مؤثر اور دل میں اتر جانے والے اقتباسات پر شوکت آواز میں پڑھ کر پیش کئے گئے.جس پر ابتدا پر کئی لوگوں کی طرف سے استفسار کیا گیا کہ آپ کون لوگ ہیں اور یہ مؤثر اور دل میں اتر جانے والے کلمات کس شخصیت کے ہیں؟ لوگوں کے اچھے رد عمل اور کثرت سے جماعت کے عقائد کو سراہنے اور احمدیت قبول کرنے نے ثابت کر دیا کہ خدا تعالیٰ نے ہر کام کرنے کا ایک وقت رکھا ہے اور جب وہ وقت آ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر چیز مسخر میسر ہو جاتی ہے اور وہ کام بظاہر ناممکن و محال دکھائی دینے کے غیر معمولی آسانی اور ٹیسر سے ہونے لگتا ہے.
442 مصالح العرب.جلد دوم خصوصی تقریب افتتاح کے چند دنوں کے بعد 6 مئی 2007 ء کو باقاعدہ طور پر اس چینل کی نشریات کی ابتدا کی مناسبت سے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کا تفصیلی احوال ایک رپورٹ کی شکل میں مکرم نصیر احمد قمر صاحب مدیر الفضل انٹرنیشنل نے 25 مئی 2007 ء کے شمارہ میں شائع کیا.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مفصل رپورٹ کے اکثر حصہ کو یہاں نقل کر دیا جائے.( بیت الفتوح - لندن - 6 مئی آج 6 رمئی بروز اتوار قریباً ساڑھے سات بجے بیت الفتوح لندن کے طاہر ہال میں 3-mta العربیہ کی نشریات کے اجراء کی مناسبت سے ایک خصوصی تقریب عشائیہ منعقد ہوئی جس میں ایم ٹی اے کے کارکنان مجلس عاملہ برطانیہ کے اراکین اور مرکزی عہدیداران کے علاوہ بعض منتخب مہمانوں نے شرکت کی.یہ نہایت خوبصورت اور پر وقار تقریب کئی پہلوؤں سے بہت ہی روح پرور اور ایمان افروز تھی.اس تقریب کے مہمان خصوصی ہمارے محبوب امام امیر المومنین حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تھے.آپ کے کرسی صدارت پر رونق افروز ہونے پر تلاوت قرآن کریم سے کارروائی کا آغاز ہوا جو ہمارے عرب احمدی بھائی مکرم تمیم ابو دقتہ صاحب نے کی.آپ نے سورۃ الفتح کے پہلے رکوع کی تلاوت کی جس کا اردو ترجمہ مکرم ندیم کرامت صاحب وائس چیئر مین ایم ٹی اے نے پڑھ کر سنایا.بعد ازاں مکرم منیر عودہ صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت میں لکھے گئے عربی قصیدہ يَا قَلْبِيَ اذْكُرْ أَحْمَدَا کے بعض منتخب اشعار پڑھے جس کے بعد مکرم شریف عوده صاحب امیر جماعت کہا بیر نے عربی زبان میں بہت پُر جوش اور پُر ولولہ خطاب کیا.اس خطاب کا اردو تر جمہ بعد ازاں مکرم سید نصیر احمد شاہ صاحب چیئر مین ایم ٹی اے نے پیش کیا.مکرم شریف عودہ صاحب کی تقریر مکرم شریف عودہ صاحب نے اپنے عربی خطاب میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد اس بات پر اللہ تعالیٰ کے شکر کا اظہار کیا کہ اس.
443 مصالح العرب......جلد دوم ہمیں اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند، آپ کے عاشق صادق اور کی خادم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے غلاموں اور خادموں میں شامل ہونے کی سعادت بخشی ہے.انہوں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عربوں سے شدید محبت رکھتے تھے.آپ نے نہ صرف عربوں سے محبت کی بلکہ ان کی زبان اور ان کی زمین سے بھی محبت کی.اور یہ سب کچھ آپ علیہ السلام کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا پر تو تھا.آپ نے عربی زبان سے محبت کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا معیار قرار دیا.آپ علیہ السلام کی خواہش تھی کہ آپ عرب ممالک اور اس سرزمین کا دیدار کریں اور ان گلیوں میں جائیں جہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پڑے، اور یہ کہ اس خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنائیں.عربوں سے آپ نے اس حد تک محبت کی کہ اللہ تعالیٰ نے عربوں کی اصلاح اور انہیں سیدھا راستہ دکھانے کی مہم آپ کے سپرد کرنے کی بشارت دی، جس کی بنا پر آپ نے عربوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ مجھے اس اصلاح کی مہم میں کامیاب وکامران پائیں گے.مکرم شریف عودہ صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عربوں کی طرف اپنے خطوط اور کتب بھیجنے کے بارہ میں فکرمند تھے کیونکہ آپ نے سنا تھا کہ عرب ممالک کے حکمرانوں کے کارندے راستہ میں اس قسم کا مواد ضبط کر لیا کرتے ہیں.لہذا آپ علیہ السلام عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.”اے عزیزو! مجھے بتاؤ کہ میں کیا کروں اور کونسی تدبیر استعمال کروں تا تم تک.پہنچوں.میں اپنی جگہ اس مقصد کے حصول کے لئے کوشاں ہوں اور اہل تجر بہ لوگوں سے مشورہ کر رہا ہوں.الحمد للہ کہ حضور علیہ السلام کی یہ خواہش آج پوری ہو گئی ہے.اے ہمارے پیارے مسیح موعود ! آپ کا پیغام پہنچ گیا.اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی عاشق آپ کا پیغام بصد شوق اپنی منزل پا گیا.آپ علیہ السلام اپنے عربی شعر میں فرماتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے: ہمارے پیغام کا نامہ بر اپنی چونچ میں امن وسلامتی کے تحفے لئے شوق کے پروں پر سوار خدا کے پیارے، تمام رسولوں کے سردار اور تمام خلائق سے افضل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وطن کی طرف محو پرواز ہے.
444 مصالح العرب......جلد دوم مکرم شریف عودہ صاحب نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ اے ہمارے پیارے آقا! عربوں کے لئے آپ کا امن وسلامتی کا تحفہ ان کے گھروں تک جا پہنچا ہے تا وہ ان کا کھویا ہوا اطمینان وسکون اور امن وسلامتی انہیں واپس دلا دے اور ان کے ہونٹوں پر دوبارہ مسکراہٹیں بکھیر دے.اے مسیح موعود علیہ السلام ! آج آپ کا پیغام اور آپ کے خلیفہ کے خطبہ اور خطابات عربوں کے گھروں میں سنے جارہے ہیں جو ان کے احیائے نو کے لئے ان کے زخموں کی مرہم بن رہے ہیں جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں زندگی کی روح پھونکی تھی.آخر پر مکرم شریف عودہ صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ:.سیدی حضرت امیر المومنین! یہ عاجز آپ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہے اور ساتھ ہی تمام دنیا کے احمدیوں سے بھی ملتمس ہے کہ وہ عربوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی عظمت رفتہ انہیں واپس دلا دے اور پھر سے انہیں خدا اور اس کے رسول کا پیارا بنا دے.آمین چیئر مین ایم ٹی اے کا اظہار تشکر مکرم امیر صاحب کہا بیر کے سپاس نامہ کا ترجمہ پیش کرنے کے بعد مکرم سید نصیر احمد صاحب چیئر مین ایم ٹی اے نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں اپنے جذبات کا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیارے آقا! اب خاکسارایم ٹی اے مینجمنٹ بورڈ اور تمام سٹاف کی جانب سے حضور انور کی خدمت میں 3-mta العربیہ کے اجراء پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہے.مکرم چیئر مین صاحب نے کہا کہ مجھے آج بھی یاد ہے جب حضور انور نے ایم ٹی اے کی نشریات کو کسی لوکل ڈائریکٹ ٹو ہوم سروس کے ذریعہ عرب دنیا کے دلوں تک پہنچانے کے فیصلہ کی توثیق فرمائی اور اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا تو اس وقت کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کام نہایت دشوار محسوس ہوتا تھا.لیکن پیارے آقا کا تو کل علی اللہ پر مبنی اعتماد اور وثوق اس بات کا مظہر تھا کہ یہ کام انشاء اللہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی منشاء سے اپنے وقت پر ہوگا، سوالحمدللہ یہ ہوا.محض اس لئے کہ یہ خدا تعالیٰ کی منشاء کے تحت ہونا مقصود تھا کہ پیارے مسیح موعود کا عربوں کے لئے
مصالح العرب.....جلد دوم 445 پیغام ضرور اُن تک پہنچے اور اس میں سوائے خلیفہ اسیج کی پُر اعجاز دعاؤں کے کوئی انسانی ہاتھ کارفرمانہیں تھا، بالکل وہی اعجاز جو ہم ایم ٹی اے کے ہر پراجیکٹ کی تکمیل کے سلسلہ میں شروع سے دیکھتے آئے ہیں.ہم اپنے آقا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم عاجزوں کو توفیق دے کہ اس سلسلہ میں ہم اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریق سے نبھا سکیں.مصطفیٰ ثابت صاحب کی تقریر اس کے بعد ہمارے مصری احمدی دوست، ممتاز عالم دین اور ایم ٹی اے کے عربی پروگراموں کی ایک معروف و مقبول شخصیت مکرم مصطفییٰ ثابت صاحب نے حاضرین سے خطاب میں اپنے نیک جذبات کا اظہار کیا.آپ نے حاضرین کی سہولت کے لئے بیک وقت عربی اور انگریزی میں خطاب کیا.پہلے آپ عربی میں کچھ کلمات کہتے اور پھر ان کا خود ہی انگریزی میں ترجمہ بھی سناتے.آپ کا خطاب بھی بہت ہی ایمان افروز تھا.آپ نے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 3-mta العربیہ کے چینل کے آغاز پر مجھے ایک شعر یاد آ گیا جو ہم مصر میں پچاس کی دہائی میں اَلسَّدُّ العَالِي High Dam) کی تعمیر کے حوالہ سے گایا کرتے تھے.اس شعر کا اردو مفہوم یہ ہے کہ یہ ایک خواب تھا پھر یہ ایک خیال میں ڈھلا ، پھر ایک امکان بنا اور پھر حقیقت میں تبدیل ہو گیا.مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب نے کہا کہ 3-mta العربیہ کے چینل کا اجراء ایک ناممکن سا خواب تھا لیکن پھر یہ خواب، خیال میں بدلا ، پھر امکان میں ڈھلا اور آج وہ دن آیا ہے کہ یہ ایک حقیقت بن گیا ہے اور محض خواب و خیال نہیں رہا.انہوں نے کہا کہ 3-mta العربیہ ایک بلند قامت، جری و بہادر اور عظیم چینل ہے اور دوسرے چینل اس کے مقابل پر بونے دکھائی دیتے ہیں.اس چینل کو دیکھنے والے ایک غیر از جماعت شخص نے کہا کہ تمام عربی چینلز میں یہ سب سے بہتر ہے.مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب نے کہا کہ ایک لمبے عرصہ سے جماعت احمدیہ کے خلاف عرب ممالک میں منفی اور جھوٹا پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا اور اس کے ازالہ کی کوئی صورت دکھائی نہ دیتی تھی.اب ایم ٹی اے کے تمام عرب ممالک کے ہر گھر میں داخل ہونے سے مخالفین کے پراپیگنڈہ کا اثر ختم ہونے کے دور کا آغاز ہو گیا.اب
446 مصالح العرب.جلد دوم عرب علماء اور عام لوگ اپنی آنکھوں سے خود دیکھیں گے کہ احمدیہ مسلم جماعت کے افراد حقیقی مسلمان ہیں جو دفاع اسلام میں سب سے آگے اور قرآن مجید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت کو ظاہر کرنے والے ہیں.ہم عربوں سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا تھا وَ اسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَكَان قَرِيْبٍ کہ اس دن غور سے بات کو سنو جب ایک پکارنے والا قریب کی جگہ سے پکارے گا.مکرم مصطفی ثابت صاحب نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی کے قریب ہو کر اسے بلائے تو وہ بعض دوسروں کی نسبتنا دور ہوگا.اور عام طور پر یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص سارے عالم میں لوگوں سے مخاطب ہو اور بیک وقت ہر ایک کے قریب بھی ہو.لیکن ایم ٹی اے کے ہر گھر میں داخل ہونے کی وجہ سے ٹیلویژن کے ذریعہ گویا آسمانی منادی ہر ایک کو قریب سے بلا رہا ہے.پس ہم ان سے کہتے ہیں کہ اِسْمَعُوا صَوْتَ السَّمَاءِ جَاءَ الْمَسِيحَ جَاءَ الْمَسِيحَ - ایم ٹی اے کے ذریعہ یہ ندا ہر ایک کے قریب ہو چکی ہے.مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے عرب ناظرین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب مسیح موعود آئے تو خواہ برف کے پہاڑوں پر گھسٹتے ہوئے جانا پڑے تو جاؤ اور اس کی بیعت کرو کیونکہ وہ خلیفہ اللہ المہدی ہے.مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب نے حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اس عظیم ہدیہ پر جو حضور نے عالم عرب کو عطا فرمایا ہے میں ان لاکھوں عربوں کی طرف سے جو 3-mta العربیہ کو دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں حضور انور کا اور اس چینل کے لئے تمام کام کرنے والوں کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ یہ چینل مخلص اور صداقت پسند لوگوں کو سچائی کی طرف کھینچ لائے.دلاویز Presentation د و مکرم م مصطفیٰ ثابت صاحب کے خطاب کے بعد سکرین پر 3-mta العربیہ کے اجراء اور اس کے پروگراموں سے متعلق ناظرین کے تاثرات پر مشتمل ایک بہت ہی عمدہ طور پر ترتیب دی گئی تصویری جھلکیوں کا پروگرام شروع ہوا.اس میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے
447 مصالح العرب.....جلد دوم دور میں ایم ٹی اے کے آغاز اور اس کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے mta-2 الثانیہ.اور پھر mta-3 العربیہ کے آغاز تک کی منتخب تصویری جھلکیاں پیش کی گئیں.اس نہایت درجہ دلاویز Presentation میں ہمارے عربی پروگراموں سے متعلق مختلف مسلم و غیر مسلم ناظرین کے تاثرات پر مشتمل ویڈیو جھلکیاں بھی دکھائی گئیں اور ان کے خطوط وای میل کے ذریعہ ملنے والے تاثرات بھی پیش کئے گئے جن میں انہوں نے جماعت کے عربی پروگراموں کو سراہا اور ان کی تعریف کی ہے.ہر پیغام یارائے کے بعد جوعربی میں پیش کی جاتی تھی مکرم محمد طاہر ندیم صاحب کا رکن عربک ڈیسک اس کا اُردو میں ترجمہ پیش کرتے رہے...یہ Presentation ایسی مسحور کن تھی کہ سب حاضرین پر اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات کی وجہ سے تشکر و امتنان کی ایک عجیب کیفیت طاری تھی.یقیناً ایم ٹی اے اللہ تعالیٰ کی ایک خاص عطا ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیقرار تمناؤں اور متضرعانہ دعاؤں اور آپ سے اللہ تعالیٰ کے عظیم وعدوں کا فیضان ہے جو خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کے توسط سے جماعت کو عطا ہوا.الحمد لله - اللَّهُمَّ زِدْ وَبَارِكْ - 66 اس Presentation کے اختتام پر چند اطفال نے جو عربی لباس زیب تن کئے ہوئے تھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قصیدہ یا عَيْنَ فَيْضِ اللَّهِ وَالْعِرْفَانِ “ سے بعض منتخب اشعار خوبصورت آواز میں پڑھ کر سنائے.بچوں کے اس گروپ میں دو بھائی ایسے بھی تھے جنہیں یہ سارا قصیدہ زبانی یاد ہے اور ایسی عمدگی سے یاد ہے کہ اگر انہیں شعر کا نمبر بتا دیا جائے تو وہ زبانی وہ شعر سنا سکتے ہیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے Quiz کے انداز میں ان کا ٹیسٹ لیا اور مختلف اشعار سنانے کے لئے کہا.اس کے بعد دونوں بچوں کو پاس بلا کر کینیڈا سے ایک احمدی دوست کی طرف سے ان بچوں کے لئے بھجوائی گئی انعام کی رقم تحفہ عطا فرمائی.اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالٰی ڈائس پر تشریف لائے اور خطاب فرمایا.یہ لمحہ اس تقریب کا معراج تھا.حضور انور ایدہ اللہ نے اردو زبان میں خطاب فرمایا.حضور چند جملوں کے بعد سکوت اختیار فرماتے اور اس دوران مکرم عبدالمومن صاحب طاہر ( انچارج عربی ڈیسک) عربی زبان میں اس کا مفہوم بیان کرتے.
مصالح العرب.....جلد دوم خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تشہد وتعوذ کے بعد فرمایا: 448 " آج یہ فنکشن ایم ٹی اے کے کارکنان اور ہمارے عرب بھائیوں کے اعزاز میں ترتیب دیا گیا ہے کہ 3mta - العربیہ کا اجراء کرنے میں ان لوگوں نے جو مدد کی ، جو تعاون کیا اور آئندہ بھی کریں گے اس کو ہم یا درکھیں.حضور انور نے فرمایا کہ ابھی ایک عارضی انتظام کیا گیا ہے لیکن مئی کے تیسرے ہفتے میں با قاعدہ طور پر mta 3.العربیہ کے پروگرام عرب دنیا میں دیکھے اور سنے جائیں گے.ویسے تو اب بھی اسی طرح دیکھے جارہے ہیں لیکن اس میں با قاعدگی آجائے گی اور جو بعض ٹیکنیکل کمیاں اور سقم ہیں ان کو بھی پورا کر دیا جائے گا.انشاء اللہ تعالی.حضور انور نے فرمایا کہ جیسا کہ ہم میں سے ہر احمدی جانتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے مبعوث فرمایا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات سے ہمیں پتہ چلتا ہے، آپ کے عمل سے پتہ چلتا ہے، آپ کے ساتھ رہنے والوں کی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جو عشق اور محبت اور پیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا وہ بیان نہیں کیا جاسکتا اور اس کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی.آپ کا یہ عشق و محبت ہی تھا جس نے عرش کے پائے ہلائے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو چنا.اور آپ کا یہ عشق و محبت ہی تھا جس نے اسلام کے لئے آپ کے دل میں بے انتہا درد پیدا کیا اور آپ کے دل میں اسلام کی تبلیغ اور اسلام کا پیغام پہنچانے کی ایک ایسی تڑپ اور لگن لگائی کہ اگر آپ کے بس میں ہوتا تو راتوں رات ساری دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے آتے.جب آپ کے دل میں اتنی تڑپ تھی تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ اس علاقے میں، ان ممالک میں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلام پھیلا ان میں کسی بھی دوسرے مذہب کی موجودگی آپ برداشت کرتے یا آپ یہ برداشت کر سکتے کہ مسلمانوں کی حالت ان علاقوں میں ایسی ہے جس سے بعض جگہوں پر تو مسلمان کہلانے والوں کو دیکھ کر بھی شرم آتی ہے.آپ کی اس تڑپ نے کہ اسلام کا پیغام اور آنحضرت صلی اللہ
مصالح العرب.....جلد دوم 449 علیہ وسلم کی حکومت تمام دنیا پر قائم ہو آپ کے دل میں اتنا درد پیدا کر دیا تھا کہ آپ کی راتیں بھی روتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے گزرتیں.آپ کی اسی تڑپ کو دیکھتے ہی ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ خدا تیری ساری مرادیں پوری کرے گا اور پھر فرمایا کہ وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کر دے گا.حضور نے فرمایا کہ یہ الہام جو ہے کہ وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کر دے گا ، یہ نہیں کہا کہ کرے گا.” کر دے گا“ کے الفاظ ہیں.یعنی آپ بے چین نہ ہوں، یہ یقینی بات ہے اور یہ کھی گئی ہے، یہ تقدیر الہی بن چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد کے دروازے کھول دیئے ہیں اور ضرور تمہاری مدد کرے گا.حضور انور نے فرمایا کہ پھر ایک الہام ہے مبارک سو مبارک.آسمانی تائیدیں ہمارے ساتھ ہیں.اور اسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ آگے فرماتا ہے اَجْرُكَ قَائِم وَذِكْرُكَ دَائِمٌ.تیرا اجر قائم اور ثابت ہے اور تیرا ذ کر ہمیشہ رہنے والا ہے.حضور نے فرمایا کہ جب ہم ان پیشگوئیوں کو دیکھتے ہیں، ان الہاموں کو دیکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کو دیکھتے ہیں اور پھر جماعت احمدیہ کے ساتھ ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کو دیکھتے ہیں تو یقیناً ہمارے دل تسلی پکڑتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب ہم اسلام اور احمدیت کی فتح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تمام دنیا پر لہراتا ہوا دیکھیں گے.حضور نے فرمایا کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے عرب ممالک کے لئے جو ایک نیا اجراء ہوا ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ساتھ ہو رہا ہے اور اسی کے لئے اللہ تعالیٰ نے مبارک سو مبارک دی ہے.اس کے لئے تمام عرب دنیا کے احمدی اور تمام وہ لوگ جو MTA پر اپنا وقت دیتے ہیں اور اس خدمت پر مامور ہیں ان کے لئے بھی مبارکباد ہے اور یہ خوشخبری بھی ہے کہ یہ جو تمہاری کوششیں ہیں انشاء اللہ تعالیٰ رائیگاں نہیں جائیں گی.تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبارک ہو کہ یہ کامیابی کی طرف جو قدم چلے ہیں اور جماعت احمدیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی تائیدات کی یہ پروازیں جو چل پڑی ہیں یہ بہت جلد انشاء اللہ تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں حضور انور ایدہ اللہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اور الہام الہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی
مصالح العرب.....جلد دوم 450 بڑھاؤں گا.حضور نے فرمایا کہ ہر روز ہم دیکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ میں شامل ہونے والا ہر شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت کرنے والے گروہ میں شامل ہو رہا ہے.وہ شخص جو قادیان کی ایک چھوٹی سی بستی میں اکیلا اور یکا و تنہا تھا آج اس کے لاکھوں کروڑوں صحت پیدا ہو چکے ہیں.یہ یقیناً اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کی تکمیل کی ایک کڑی ہے ورنہ لوگوں کے دلوں کو بدلنا کسی انسان کا کام نہیں ہے.انہی دلی محبوں کے گروہ میں ہمیں عرب دنیا میں بھی وہ محب نظر آتے ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بے انتہا عشق و محبت ہے اور اس کی جھلک آپ ہمارا جو عربی کا پروگرام چل رہا ہے اس میں دیکھ چکے ہیں.مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب نے اپنے جذبات کا اظہار کیا، شریف عودہ صاحب نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا، یہ ہانی طاہر صاحب بیٹھے ہوئے ہیں، تمیم ابو دقہ صاحب ہیں اور بہت سے عرب ہیں جن کی محبت ان کے چہروں سے ٹپکتی ہے.حضور نے فرمایا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے عرب ملکوں میں جا کر یہ انقلاب پیدا کیا.وہ یقینا اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میں تیرے محبوں کا گروہ پیدا کروں گا جو محبت میں اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے.حضور نے فرمایا کہ یہ محبوں کا گروہ ہمیں مردوں میں بھی نظر آتا ہے، عورتوں میں بھی نظر آتا ہے، بچوں میں بھی نظر آتا ہے.جب عرب ملکوں کے لوگ مجھے خط لکھتے ہیں، اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، یہاں آتے ہیں اور جب ملتے ہیں اور جس محبت کا اظہار کرتے ہیں وہ صاف بتا رہی ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے کہ میں تیرے محبوں کا گروہ پیدا کروں گا وہ انقلاب شروع ہو چکا ہے اور اب عرب دنیا میں بھی ان محبتوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے اور انشاء اللہ بڑھتی چلی جائے گی اور ایک وقت آئے گا جب تمام عرب امت واحدہ بن کر ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو جائے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ یک زبان ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے والی ہوگی.حضور انور نے فرمایا: پس یہ 3mta کا جو چینل ہے یہ بھی خدائی تائیدات کا ایک نشان ہے اور یہ چیزیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب اسلام اور احمدیت کا جھنڈا تمام دنیا پر لہرائے گا.پس اس بات کو ہمیں اور زیادہ دعاؤں کی طرف توجہ دلانے والا بننا
مصالح العرب.....جلد دوم 451 چاہئے.اللہ کرے کہ ہم ان دعاؤں کی طرف توجہ دیتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہوتے ہوئے اس کا فضل مانگتے ہوئے ان ترقیات کو جلد سے جلد حاصل کر نے والے بن جائیں.آخر پر حضور انور نے جماعت کے عربی پروگراموں سے متعلق اپنے نیک تاثرات کا اظہار کرنے والے عرب بھائیوں اور بہنوں کا ذکر کرتے ہوئے جن میں سے کچھ کے تاثرات آج ی کی تقریب میں پیش کئے گئے تھے فرمایا کہ ان سے میں کہتا ہوں کہ تمہارے ان جذبات کا اظہار بجا، ہم اس پر شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن صرف جذبات کا اظہار کر دینا کافی نہیں ہے.آج اسلام کی تائید کے لئے اس چنیدہ کی مدد کے لئے آگے آؤ اور اس کی جماعت میں شامل ہو جاؤ اور ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو کر اسلام کا دفاع کرو اور اسلام کی فتوحات میں اس کے سپاہی بن جاؤ.یہی ایک جری اللہ ہے، یہی ایک سپہ سالار ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بھیجا ہے.اس لئے اب تمام عرب دنیا کا فرض بنتا ہے جو اولین طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کے مخاطب تھے کہ جب میرا مسیح و مہدی آئے تو اس کے پاس جانا اور اس کو میر اسلام کہنا.اب تمہارا یہ فرض ہے کہ اس فرض کو نبھاؤ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے والے بن جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن جاؤ.اللہ کرے کہ میرا یہ پیغام بھی آپ کے دلوں کو نرم کرنے والا بن جائے.حضور انور نے فرمایا کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد جو ہمارے پر فرض بنتا ہے اور جماعت کا جو ہم پر حق بنتا ہے اس کو صحیح طور پر ادا کرنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے والے بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہماری تائید و نصرت فرما تار ہے.اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اجتماعی دعا کروائی.دعا کے بعد تمام حاضرین کی خدمت میں عربی طرز پر تیار کردہ کھانا پیش کیا گیا جس کے ساتھ یہ نہایت پر مسرت، مبارک اور ایمان افروز تقریب اختتام کو پہنچی.( الفضل انٹر نیشنل 25 مئی 2007)
ma3 العربية نبض الإسلام الأصيل حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایم ٹی اے 3 العربیہ کی افتاحی تقریب میں تاریخی خطاب فرماتے ہوئے حمة العربية MAKHZAN-E- TASAWEER © 2008
حضرت خلیلة اسمع الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز ایم ٹی اے 3 العربیہ کی افتتاحی تقریب میں خطاب فرماتے ہوئے مکرم مصطفی ثابت صاحب مکرم شریف عودہ صاحب مکرم ہانی طاہر صاحب مکرم تمیم ابودقہ صاحب
مصالح العرب.جلد دوم 452 جذبات ، تبصرے، آراء 3mta - العربیہ کی اس روح پرور و مسحور کن تقریب کے احوال کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مبارک چینل کے شروع ہونے پر بعض عربوں کے تبصرے نقل کر دیئے جائیں.چینل توجہ کا مرکز بن گیا مکرم خالد سعید امیمی صاحب یمن سے لکھتے ہیں: میں قاہرہ میں پڑھ رہا ہوں.جماعت احمدیہ کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا.لیکن اتفاق سے آپ کا چینل دیکھا.پھر وہی میری توجہ کا مرکز بن گیا، اور دن رات احمدیت کے بارے میں غور کرتا رہتا ہوں.میں حق تک پہنچنا چاہتا ہوں.مذہبی دنیا کے سرجن حمد عبد الحمید السید صاحب آف سیر یا لکھتے ہیں: میں اس نہایت پیارے چینل کو شروع کرنے پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو عقل کو روشن کرنے والے اعلیٰ درجہ کے مضامین پیش کرتا ہے اور دینی عقائد کے بارہ میں حق کھول کر رکھ دیتا ہے تاہر ایک ٹھوس تشریحات کی روشنی میں اپنی راہ متعین کر سکے.یقیناً یہ تشریحات عظیم ثمرات کا پیش خیمہ ہیں.جو بھی آپ لوگوں کی بات سنتا ہے مطمئن ہو جاتا ہے.آپ دینی عقائد پر مضبوطی سے قائم ہونے والے لوگ ہیں.آپ دین کے میدان میں ایسے ہیں جیسے طب کے میدان میں سرجن ہو، چنانچہ آپ نے بڑے بڑے آپریشن کئے ہیں.
مصالح العرب.جلد دوم فطرت یہ پیغام قبول کرتی ہے لا مكرم عبد اللہ صاحب عراق سے لکھتے ہیں: 453 میں عراق کی ایک غریب سی بستی کا باشندہ ہوں.Law میں ڈگری کی ہوئی ہے.انجوار المباشر اور اجوبہ عن الایمان اور خطابات اور قصائد کے ذریعہ آپ کی جماعت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بلندی فکر کا پتہ چلا.جب مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لائے ہوئے پیغام کو سمجھنے کی تو فیق ملی تو میں نے دیکھا کہ میری فطرت نے اسے قبول کیا ہے.جب میں نے اس بات کا اظہار سر عام کرنا شروع کیا تو بعض متکبر مولویوں کے ہاتھوں مجھے ظلم کا نشانہ بھی بننا پڑا.مجھے آپ کے علاوہ اور کہیں جائے رحمت اور جائے پناہ نظر نہیں آتی.میری کیفیت اس پیاسے کی سی ہو رہی ہے جو صحرا میں صاف پانی کو ترس رہا ہو.تسکین قلب میسر آگئی مکرم حسین محمد حس محمد نعیمی صاحب عراق سے لکھتے ہیں: میں چالیس سالہ سنی عراقی مسلمان ہوں.بیس سال سے حق کی تلاش میں لگا ہوں اور اب آپ کے چینل کو دیکھ کر تسکین قلب حاصل ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ اس مبارک چینل کو مجھ جیسوں کے لئے علم و ہدایت کا مینار بنائے.میں بہت سے مسلمان بھائیوں سے بعض فقہی و عقائدی امور میں اختلاف رکھتا ہوں حتی کہ بعض امور عبادت میں بھی مجھے ان سے اختلاف ہے لہذا آج کل مساجد میں نہیں جاتا بلکہ گھر میں ہی نمازیں پڑھتا ہوں.اب آپ کے چینل کو دیکھا تو ایسے لگا ہے کہ اب مجھے وہ چیز مل گئی ہے جس کی مجھے تلاش تھی اور دل کو تسلی ہوئی ہے.امید کرتا ہوں کہ آپ مجھے بھی اس جماعت میں قبول فرمائیں گے.میں اس جماعت کی اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے خدمت کروں گا.از راہ کرم مجھے جماعت کے بارے میں مزید معلومات اور کتب فراہم فرمائیں تاکہ میں ان لوگوں کو اس حق کی تبلیغ کروں جن تک ابھی یہ باتیں نہیں پہنچیں اور جو حق کے متلاشی ہیں.اللہ تعالیٰ حضرت مرزا غلام احمد صاحب پر رحمتیں نازل فرمائے اور سب کو اسلام
مصالح العرب......جلد دوم کی صحیح اشاعت کی توفیق عطا فرمائے.آمین.منفرد انداز پسند آیا ہے مکرم ابو میں صاحب از فلسطین لکھتے ہیں: 454 پیارے احمدی بھائیو! میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں.میں نے آپ کے متعلق سنا اور اب آپ کا چینل دیکھتا ہوں.آپ کے دینی فہم وفراست، طریق تبلیغ، غیر اسلامی کتب پر طرز تنقید اور ان میں تحریف ثابت کرنے کا طریق اور اسلام کی تبلیغ کا انداز بالکل منفرد ہے.میرے دینی بھائیو، میں بھی اس جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں.گم گشتہ متاع مل گئی مکرم زیزی فضل صاحب الجزائر سے لکھتے ہیں: 33 سال کی مسلسل نا امیدی اور دھکے کھانے کے بعد اب خوشی ملی ہے اور ایم ٹی اے کی صورت میں اپنی گم گشتہ متاع ملی ہے.میں نے آپ کے علم کلام کا دیگر سارے علوم کلام کے ساتھ موازنہ کیا.آپ کا خوبصورت علم کلام روحانی اور عقلی اور منطقی غرض ہر لحاظ سے سیر کن اور لا جواب ہے البتہ کلام اللہ اور کلام رسول تو بہر حال سب سے مقدم ہے.واقعی حضرت مرزا غلام احمد صاحب کا علم کلام فطرت کے عین مطابق ہے اور کوئی اس کا انکار نہیں کر سکتا سوائے اس کے جس کا خدا نے سینہ نہ کھولا ہو.یہ حقیقتا ربانی وحی ہے.ایک مہینے سے میں آپ کا چینل دیکھ رہا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ مرزا غلام احمد صاحب کی کتب اور تفاسیر پڑھوں اسی طرح آپ کے وہ سارے قصائد بھی جن کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.آپ کے عقائد قرآن وسنت کے مطابق ہیں ل مکرم راشد صاحب نے مراکش سے لکھا: میں مراکش کا ایک مسلمان ہوں.آپ کے جملہ عربی پروگرام دیکھتا ہوں، اور مجھے یقین
مصالح العرب.....جلد دوم 455 ہو گیا ہے کہ آپ کے عقائد قرآن وسنت کے مطابق ہیں.میں نے مختلف مضامین میں Specialisation کی ہوئی ہے، اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو میں ہجرت کر کے آپ کے پاس آنے اور خدمت کرنے کو تیار ہوں.ہمارے گھر میں صرف یہی چینل چلتا ہے...خالد محمد صاحب اردن سے لکھتے ہیں: میں دو تین ماہ سے آپ کے چینل کے پروگرام دیکھ رہا ہوں.جس دن سے ہمیں اس چینل کا پتہ چلا ہے اس دن سے ہمارے گھر میں اس کے علاوہ اور کوئی چینل نہیں دیکھا جاتا.میں پورے طور پر جماعت کی صداقت سے مطمئن تھا پھر بھی استخارہ کیا تو اللہ تعالی نے مجھے بتا دیا ج کہ یہ جماعت حق پر ہے.اور خدا گواہ ہے کہ میں نے آپ کے چینل سے سن کر شروط بیعت لکھ لی ہیں اور ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں.فتح مبین مکرم سامر اسلامبولی صاحب شام سے لکھتے ہیں:.آپ کا عربی چینل شروع ہونے کے ساتھ دنیا کے مشرق اور مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کو ایک فتح مبین اور عظیم الشان نصرت نصیب ہوئی ہے.بعض حکمرانوں کے تنخواہ دار ) فقہاء ایک عرصے سے احمدیت کی نہایت غلط تصویر پیش کرتے چلے آرہے ہیں.لیکن یہی احمدیت، اسلام دشمن چینل کے منہ میں ایسا پتھر بن گئی ہے جسے نہ وہ نگل سکتا ہے نہ اگل سکتا ہے.آپ نے وہ کام کر دکھایا ہے جس کے کرنے سے بیسیوں مفکرین اور سینکڑوں کتب اور تحقیقات قاصر رہیں.اب آپ ہر گھر میں داخل ہو چکے ہیں اور ہر فیملی کا ایک فرد بن گئے ہیں اور آپ نے ہر کا ذب اور مفتری کی آنکھ پھوڑ دی ہے.آپ نے مسلمانوں کی امیدیں بحال کی ہیں اور قرآن کریم کے ساتھ اپنے محکم تعلق کی بناء پر ایک پر اعتماد دینی اور علمی محاذ قائم کیا ہے.پیارے برادران، انوار المباشر کا شروع کرنا ضروری اقدام تھا جس کے ذریعہ عیسائیت
مصالح العرب......جلد دوم 456 کے پراپیگنڈے کا بھر پور جواب دیا جا رہا ہے.نیز ان کو اپنی حدود کے اندر رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے اور دوسرں پر حملے کرنے سے روک دیا گیا ہے.چینل دل میں گھر کر گیا مکرم صابر خمیلہ صاحب الجزائر سے لکھتے ہیں: میرے اس خط میں محبت اور ناراضگی دونوں کا پیغام ہے.محبت کا ان عظیم الشان کوششوں کی وجہ سے جو آپ لوگ اسلام کی صحیح تعلیمات پھیلانے کے سلسلہ میں کر رہے ہیں.آپ کی باتیں بہت منطقی اور عقل و فہم کے بالکل قریب ہوتی ہیں.اسی وجہ سے اب میں انہیں ماننے لگ گیا ہوں.گواس چینل میں سوائے چند افراد جیسے مکرم ہانی طاہر صاحب، مکرم مصطفی ثابت صاحب، مکرم امیر صاحب اور چند دوستوں کے لوگ نظر نہیں آرہے ہیں پھر بھی یہ چینل یہاں الجزائر کے نو جوانوں کے دلوں میں گھر کر گیا ہے اور وہ اس سے کافی متاثر ہیں.اس مختصر عرصہ میں آپ اپنی اسلامی خدمات کی وجہ سے شکریہ کے مستحق ہو چکے ہیں، جبکہ دیگر اسلامی جماعتوں سے ہمیں سوائے تکفیر اور بدعت کے اور کچھ نہیں ملا.انہوں نے تو اسلام اور عقل و منطق کے برخلاف باتیں پھیلائی ہیں.نہ تو انہوں نے اسلام پھیلایا نہ اسلام پر عمل کرنے کی کسی کو تلقین کی بلکہ الٹا انہوں نے ہمارے اندر اسلام کے خلاف نفرت پیدا کی ہے اور خونریزی کو جہاد کا نام دے کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے.آپ سے ناراضگی اس وجہ سے ہے کہ آپ نے بہت دیر کی ہے.اتنے سالوں تک آپ کہاں تھے؟ اور ہمیں آپ کا علم کیوں نہیں ہوا ؟ اسی دیر کی وجہ سے آج ہمارے دین کے نام کے ساتھ ایسے مفاہیم لگا دیئے گئے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور آج ہم پر دہشتگردی کی تہمتیں لگائی جارہی ہیں.مکرم صابر خمیلہ صاحب آف الجزائر اپنے ایک اور خط میں لکھتے ہیں : آپ میری اس خوشی کا اندازہ نہیں کر سکتے جو مجھے MTA کے پروگرامز اور ان کوششوں کو دیکھ کر حاصل ہوتی ہے جو آپ اسلام اور امت مسلمہ کے لئے اور ان غلط اور فرسودہ مفاہیم کو بدلنے کے لئے کر رہے ہیں جو اسلام کی بجائے خرافات کے زیادہ قریب تھے.براہ کرم مجھے بھی اپنی جماعت میں شمار کر لیں.
مصالح العرب.جلد دوم 457 ایم ٹی اے 3 العربیہ کی مخالفت ابتدائی مراحل کی کہانی ایم ٹی اے 3 العربیۃ کے اجراء کا ذکر کیا تھا.تاریخی اعتبار سے اس کی ابتداء کے بعض مراحل کے بارہ میں چیئر مین ایم ٹی اے مکرم سید نصیر احمد شاہ صاحب نے ہمیں بتایا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات و ہدایات کی روشنی میں ہم نے Arabsat یا Nilesat پر اپنے عربی چینل کے اجراء کے لئے مختلف subcontractor کمپنیوں سے رابطہ کیا لیکن کسی مپنی سے بھی مثبت جواب نہ ملا.عرب دنیا میں پہنچنے کے لئے ان دوسیٹلائٹس کے علاوہ بھی کئی سیٹلائٹس میسر تھے جن پر ہمارے چینل کی نشریات بآسانی چل سکتی تھیں لیکن ان سیٹلائٹس پر موجود چینلز کو دیکھنے والے عربوں کی تعداد بہت کم تھی.بہر حال تلاش بسیار اور سعی بے شمار کے بعد ایک کمپنی نے ہاں کر دی لیکن انہوں نے بھی کہہ دیا کہ ہم سو فیصد گارنٹی نہیں دے سکتے کیونکہ کسی وقت بھی ہم پر دباؤ بڑھ سکتا ہے اور آپ کے چینل کی نشریات بند ہوسکتی ہیں.بہر حال ایسے حالات میں چینل شروع کر دیا گیا.23 فروری 2007 ء سے اس کی تجرباتی نشریات کا آغاز ہوا، اور پھر 23 / مارچ 2007ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے اس کا افتتاح فرمایا.مخالفت کا آغاز مذکورہ معاہدہ کے تحت ایم ٹی اے 3 العربیہ کی نشریات کم و بیش ایک سال تک جاری رہیں جس کے دوران نشریات بند کروانے کی مختلف دھمکیاں موصول ہوتی رہیں.عربوں
مصالح العرب.....جلد دوم 458 میں ہمارے چینل کی نشریات کو دو طرح کی مخالفت کا سامنا تھا.عیسائیوں کی طرف سے اس مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ ایم ٹی اے 3 العربیہ کی نشریات کے آغاز سے ہی عیسائیت کے رد میں پروگرام نشر کئے گئے جن میں عیسائی علماء اور پادریوں کی پسپائی کے بعد ردعمل کے طور پر انہوں نے سیٹلائٹ کی انتظامیہ اور subcontractor کمپنیوں پر ایم ٹی اے بند کروانے کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا.یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ عرب ممالک میں کسی چینل کی نشریات کو بند کر وانے کیلئے عیسائی کس طرح دباؤ ڈال سکتے ہیں.اس کے جواب کے طور پر عرض ہے کہ یہ عیسائی مصر میں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں سے زیادہ کا تعلق آرتھوڈ کس فرقہ سے ہے، بلکہ مصران کا مرکز ہے.دوسری طرف مسلمانوں کی ایک بڑی علمی دینی درسگاہ جامعتہ الا زہر بھی مصر میں ہی ہے.اس لئے عیسائیوں اور مسلمانوں کا آپس میں اکثر جھگڑا رہتا تھا جس کی بناء پر مصر میں از دراء الادیان، یعنی تو ہین ادیان کے نام سے ایک قانون بنایا گیا ہے جس کا دائرہ کار است قدر وسیع ہے کہ اس میں دونوں اطراف جب چاہیں کسی چھوٹی سے چھوٹی بات کو معقول وجہ قرار دے کر مذکورہ قانون کے تحت دعوی دائر کر دیتے ہیں.جب دریدہ دہن عیسائی پادری نے اسلام کے خلاف دل آزارانہ مہم کا آغاز کیا تو خصوصی طور پر مصر کے مسلمانوں نے اسی قانون کے تحت اس کے خلاف آواز اٹھائی کیونکہ وہ آرتھوڈ کس ہے اور مصر میں بطور پادری کام کرتا رہا ہے، لیکن مصر میں آرتھوڈ کس فرقہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ ایک تو یہ پادری استعفیٰ دے کر ہم سے علیحدہ ہو چکا ہے دوسرا اس کے چینل کی نشریات عربوں کے سیٹیلائیٹ سے نہیں ہو رہی ہیں.پھر جب احمدیت کی طرف سے اس پادری کے اعتراضات اور عیسائیت کا رڈ پیش کیا جانے لگا جو تمام مسلمانوں کے دل کی آواز بن گیا تو عیسائی اس پر بہت جزبز ہوئے اور چونکہ ایم ٹی اے 3 العربیة کی نشریات عربوں کے سیٹیلائیٹ پر ہو رہی تھیں لہذا انہوں نے مذکورہ قانون اور اس قسم کے دیگر معاہدات کے حوالہ سے اس مسئلہ کو اٹھایا اور کہا کہ اگر عرب اس چینل کے اجراء میں شامل نہیں تو پھر اس چینل کی نشریات کو روکنے کیلئے ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیتے.اور انہوں نے اس سلسلہ میں قانونی کاروائی کی دھمکیاں بھی دینی شروع کر دیں.دوسری طرف گو کہ عامتہ المسلمین اور بعض منصف مزاج لوگ احمدیت کی طرف.ނ
459 مصالح العرب.....جلد دوم عیسائیت کے رڈ میں ان کامیاب پروگرامز پر بہت خوش ہوئے اور شروع میں بعض بڑے بڑے علماء نے بھی اس کام کو سراہا، لیکن جب اسلام کے دفاع کے ان دعویداروں نے دیکھا کہ یہ منصب تو عملی طور پر احمدیت نے اپنے نام کر لیا ہے تو ایسے بڑے بڑے مولوی بھی ہمارا چینل بند کرانے کے لئے سر توڑ کوششیں کرنے لگ گئے.لیکن چونکہ مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت پر عیسائیت کے خلاف احمدیت کے کامیاب جہاد کی وجہ سے یہ حقیقت آشکار ہو چکی کہ اسلام کا حقیقی دفاع کرنے والی جماعت صرف جماعت احمدیہ ہی ہے، اس لئے ان بڑے بڑے مولویوں نے اپنی اس مخالفانہ مہم کی بنا ایک دفعہ پھر ان فرسوده اعتراضات پر رکھی جوا کثر جماعت کے خلاف دہرائے جاتے ہیں جبکہ ان کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے.لہذا اسی عرصہ میں جہاں عیسائیوں کی طرف سے ہمارا چینل بند کروانے کی کارروائی شروع ہوئی وہاں انٹرنیٹ پر عرب مسلمانوں کی سینکڑوں ویب سائٹس پر ایم ٹی اے 3 العربیہ کو بند کروانے کے اعلانات نشر کئے گئے اور اس کی وجہ یہ کھی گئی کہ یہ جماعت اسلام سے خارج ہے اور انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے وغیرہ وغیرہ.یہ اعلانات آج تک بیسیوں ویب سائٹس پر موجود ہیں.مخالفت نے کھاد کا کام کیا ان کے اس اقدام کو بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کی تبلیغ کا ذریعہ بنا دیا کیونکہ انصاف پسند طبیعتوں نے سوچا کہ ایک طرف اسلام کے دفاع کے لئے سوائے اس جماعت کے میدان عمل میں اور کوئی بھی موجود نہیں ہے دوسری طرف بڑے بڑے علماء اس کے کفر کے فتوے دے رہے ہیں اور یہ وہی علماء ہیں جن کے پاس قبل از میں عام مسلمانوں نے جا جا کر کہا تھا کہ عیسائیت کے اسلام مخالف حملے کا جواب دیں لیکن وہ آگے نہ آئے ، لہذا ان منصفین کو سمجھ آگئی کہ حقیقت شاید کچھ اور ہے اور اسی بنا پر بعض لوگوں نے تحقیق شروع کی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت عطا فرمائی.ایم ٹی اے 3 العربیہ کو دیکھنے سے باز رہنے کی ان صداؤں میں ان لوگوں نے کہیں کہیں ان لوگوں نے ہمارے اس چینل کی فریکوینسی بھی درج کر دی گئی تھی.اسی طرح ہماری ویب سائٹ کا بھی ایڈریس دے دیا تھا.چنانچہ کئی لوگوں کو اس فریکوینسی اور ویب سائٹ کے ایڈریس کے ذریعہ جماعت کے بارہ میں معلومات حاصل کرنے میں مدد حاصل ہوئی.بلکہ اُس وقت
مصالح العرب.....جلد دوم 460 انٹرنیٹ پر ایک ڈسکشن فورم میں ایک ممبر نے یہ نفرت انگیز بیان پڑھا تو اس پر رائے دینے سے قبل نہایت سادگی سے لکھا : مجھے تو اس جماعت کے بارہ میں کچھ علم نہیں ہے لیکن چینل کی فریکوینسی میں نے نوٹ کر لی ہے اور آج یہ چینل دیکھوں گا پھر بات ہوگی.حقیقی صد ایک ویب سائٹ پر ایم ٹی اے 3 العربیہ اور جماعت احمدیہ سے دور رہنے کی تنبیہ پر مشتمل ایک اعلان میں اس کے لکھنے والے الشیخ ابومحمد موسیٰ صاحب نے مختلف دینی مراکز کے فتاوی اور علماء کے اقوال نقل کئے اور جماعت احمدیہ کو کافر اور مرتد ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن بظاہر نفرت اور مخالفت کی مہمات میں بھی کبھی کبھا ریچ منہ سے نکل جاتا ہے.یہ موصوف لکھتے ہیں: آج کل مسلمانوں پر ہر طرف سے دشمنان اسلام اور کافر و گمراہ فرقے ٹوٹے پڑتے ہیں ان حالات میں الجماعة الإسلامية الأحمدية القاديانية کے نام سے ایک نیا فرقہ سامنے آیا ہے جو اپنے ٹی وی چینل کے ذریعہ مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہو چکا ہے.یہ فرقہ پادری زکریا بطرس کے مزاعم کے رڈ کے تمنائی مسلمانوں کے دلوں میں اس لئے بھی اپنی جگہ بنائے جارہا ہے کیونکہ مسلمانوں کو الا زہر کے شیوخ اور مختلف دینی چینلز پر نظر آنے والے دیگر بڑے بڑے علماء سے کوئی ایسا معقول جواب نہیں ملا جو ان کی پیاس بجھا سکے.....( آگے انہوں نے جماعت کے خلاف مختلف فتاوی تکفیر درج کئے ہیں ، اس کے بعد لکھتے ہیں ) اس بناء پر اس فرقہ کے بارہ میں انتباہ کرنا ہمارا فرض بنتا ہے کہ یہ مسلمان نہیں ہیں.“ (http://www.muslm.net/vb/showthread.php?t=223130) گویا ان کو اصل صدمہ یہ تھا کہ الازہر کے مشایخ اور دیگر علماء عیسائیت کے حملہ کے خلاف اسلام کے دفاع سے عاجز آگئے اور احمدیت نے یہ کام کر دکھایا ہے اس لئے لوگ ان کی طرف مائل ہو گئے ہیں ورنہ ان کے نزدیک حقیقت میں یہ کافر اور مرتد جماعت ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ وقت کے اس واضح فیصلہ کے بعد بھی اتمام حجت کی کوئی کسر باقی رہتی ہے.سادہ سی بات کیوں نہیں مان لیتے کہ جس نے اسلام کا دفاع کیا ہے وہی اسلام کا دفاع کرنے والا ہے، اور جو اس سے عاجز ہے وہ حقیقی دفاع کرنے والا نہیں ہے، بلکہ یہ
461 مصالح العرب.....جلد دوم خود بھی تو اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں پھر بھی نہ جانے کیوں جماعت احمدیہ کے ساتھ ساتھ خو دکو بھی جھٹلائے جا رہے ہیں اور دوسروں کو بھی اس جھوٹ کو قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہیں.ان کے اس بیان کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ جماعت احمد یہ ہے تو کافر اور مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج، لیکن عیسائیت کے اسلام پر نہایت زہرناک حملہ کے وقت صرف یہی وہ واحد جماعت ہے جس نے دفاع اسلام کا حق ادا کیا جبکہ ایسے وقت میں باوجود عامتہ السلمین کے الحاح اور پکار کے نہ علماء کا کوئی ادارہ سامنے آیا اور نہ ہی کوئی علمی سوسائٹی اور گروہ اس کام کے لئے آگے بڑھا.افسوس ہے کہ یہ لوگ ابھی تک یہی سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کہہ دیں گے عامتہ المسلمین آنکھیں بند کئے اسے مانتے جائیں گے.آخر کب تک یہ نام نہاد علماء لوگوں کی عقل و فہم کو پابند سلاسل رکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے؟ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے انصاف پسند طبائع اس حقیقت کو جان چکی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب وہ بکثرت قبول حق کی طرف مائل ہو رہی ہیں.مسلمانوں کی طرف سے مقدمہ بہر حال جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ غیر احمدی مسلمانوں اور عیسائیوں کی جانب سے ایم ٹی اے 3 العربیہ کو بند کرانے کی کوششیں شروع ہو گئیں، اس سلسلہ میں غیر احمدی مسلمانوں کی طرف سے کئی ایک مصری مولویوں نے ہرزہ سرائی اور بیان بازی کا شوق پورا کیا اور بالآخر اشرف عبداللہ نامی ایک مصری نوجوان نے وزیر اطلاعات، شیخ الازہر، اور مفتی مصر کے خلاف عدالت میں یہ کہہ کر کیس دائر کیا کہ ان شخصیات نے ایم ٹی اے 3 العربیہ کو نائل ساٹ پر چلانے کی اجازت دی ہے اور یہ چینل اسلام اور مسلمانوں کے عقیدہ کو بگاڑنے کا مرتکب ہو رہا ہے اور مذکورہ شخصیات نے اس کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا نہیں کیا.اس کے کیس کا نمبر 19119 ہے.یہ خبر اور اس پہ تبصرہ پر مشتمل "عصام عبد الجواد " کا ایک آرٹیکل اخبار روز الیوسف میں شائع ہوا جسے مختلف ویب سائٹس نے نقل کیا ہے.مذکورہ اخبار کی ویب سائٹ سے ہمیں یہ آرٹیکل نہیں مل سکا تاہم مندرجہ ذیل دو ویب سائٹس پر یہ آج تک موجود ہے.http://coptsegypt.akbarmontada.com/t5-topic.http:/www.araldimes.com/pordisplay.cf
مصالح العرب.....جلد دوم 462 عیسائیوں کی طرف سے مقدمہ جہاں مسلمانوں کی نیابت میں مصری نوجوان نے یہ قدم اٹھایا وہاں عیسائیوں کی طرف سے بھی ایک شخص نے بطور خاص اس مہم کی قیادت کی.یہ شخص مصر کے آرتھوڈکس چرچ کا مشیر قانونی اور مصر کی انسانی حقوق کی تنظیم کا چیئر مین نجیب جبرائیل ہے جو پہلے بھی بات بات پر کبھی مسلمانوں کے خلاف کبھی ٹی وی چینل کے پروگراموں کے خلاف اور کبھی مسلمان علماء کے مختلف بیانات پر مذکورہ بالا قانون کا حوالہ دے کر مقدمہ دائر کرنے میں مشہور و معروف شخصیت ہے.اس شخص نے پہلے تو ایم ٹی اے 3 العربیہ کے خلاف متعدد بیانات دیئے اور مقدمہ کرنے کی دھمکی دی، ازاں بعد اس شخص نے مقدمہ دائر کر دیا جس کی خبر مصری جریدہ ”الدستور نے اپنے یکم مئی 2007 ء کے شمارہ میں شائع کی ، ذیل میں اس کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے: مصر کی انسانی حقوق کی تنظیم کے چیئرمین نجیب جبرائیل نے مصر کے وزیر اطلاعات ونشریات کے خلاف عابدین نامی Court for urgent matters میں قضائی دعوی دائر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مصری حکومت نائل ساٹ کی مالک ہے اور وزیر اطلاعات و نشریات اس کے نگران اور انچارج سمجھے جاتے ہیں لیکن اسی سیٹیلائٹ پر ان کی اجازت سے MTA نامی ایک چینل پر ایک پروگرام میں عیسائی عقیدہ کے بارہ میں شکوک پھیلانے کا کام ہو رہا ہے، اس میں بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ انجیل میں تحریف ہوئی ہے اور یہ بات نجیب جبرائیل کے مطابق تو ہین ادیان کے زمرے میں آتی ہے.لہذا اس کیس میں حکومت اور وزیر اطلاعات سے اس چینل کی نشریات نائل ساٹ سے بند کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے.نجیب جبرائیل کے بقول اس چینل کی مالک جماعت احمدیہ ہے جو تثلیث اور توحید اور کفارہ کے عیسائی عقائد کے بارہ میں شکوک پھیلا رہی ہے، اور یہ بات مصر میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین اتحاد اور معاشرتی امن وسلامتی کے لئے خطرہ ہے.نجیب جبرائیل کی طرف سے اس کیس میں بڑی بڑی عیسائی شخصیات بھی شامل ہیں جن میں پادری مرقص عزیز، پادری عبد امسیح بسیط بھی شامل ہیں.
مصالح العرب.....جلد دوم 463 قبطی عیسائیوں کے خوف کا حقیقی سبب یہ کیس تو چلتا رہا.ساتھ ساتھ اخبارات میں اس کے متعلق خبریں بھی شائع ہوتی رہیں.اس سلسلہ میں مورخہ 22 جولائی 2007 ء کو مصر کے اخبار "النبا الوطنی میں ” جمال فوزی صاحب نے ایک آرٹیکل شائع کیا جس کا عنوان تھا : نائل ساٹ پر ایک چینل کی عیسائی مذہب کے خلاف مہم اور انجیل کے بارہ میں شکوک پھیلانے کی کوشش ، اس آرٹیکل کے بعض حصوں کا ترجمہ پیش خدمت ہے: اکثر قبطی عیسائی ایم ٹی اے انٹر نیشنل پر پیش کئے جانے والے جملہ امور کا انکار کرتے ہیں، ان کے مطابق اس چینل کے عیسائیت کے خلاف پروگرام دراصل ایک انتقامی کارروائی ہے جو قبطی پادری زکریا بطرس کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم کے رد عمل کے طور پر کی گئی ہے.اور نائل ساٹ کی انتظامیہ نے اس چینل کو اسی ہدف کے حصول کے لئے ھاٹ برڈ سے اپنے ہاں منتقل کروایا ہے.قبطی کہتے ہیں کہ یہ چینل روزانہ 6 پروگرام ایسے پیش کرتا ہے جن میں انجیل میں تحریف کے بارہ میں بات کرتے ہیں جن میں عرب ممالک خصوصا اردن اور سعود اور سعودیہ سے کئی مسلمان مشایخ بھی شامل ہوتے ہیں.ان قبطی عیسائیوں کو اس امر نے دہشت زدہ کر رکھا ہے کہ اس چینل کے مذکورہ پروگراموں میں مصر، سعودی عرب، کویت، اور اردن وغیرہ سے بکثرت فون کال آتی ہیں جن میں لوگ اس کو بات کا اظہار کرتے ہیں کہ یہی وہ چینل ہے جس کا مسلمانوں کو انتظار تھا اور جس کی اشد ضرورت تھی.قبطیوں کا خیال ہے کہ لوگوں کی پسندیدگی کا بڑا سبب یہ ہے کہ یہ چینل قبطیوں اور انکی کتب مقدسہ کے خلاف بولتا ہے.پادری عبد ا سیح بسیط نے اس چینل کے ایک لائیو پروگرام میں آ کر تمام قبطیوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ہر قبطی عیسائی کے لئے اس چینل کا دیکھنا منع ہے.چنانچہ اس چینل نے اسی وقت نشریات کو کاٹ دیا.( یہ بات درست نہیں ہے بلکہ پادری عبد ا سی بسیط صاحب نے فورا فون بند کر دیا تھا، جبکہ ہمارا لائیو پروگرام چلتا رہا جس میں شریف صاحب بار بار اس پادری کو واپسی کی
مصالح العرب.....جلد دوم 464 دعوت دیتے رہے، جو اس دن تو نہیں آئے تا ہم اگلے بعض پروگراموں میں اپنے اس مذکورہ کی بیان کے باوجود بھی انہوں نے شرکت کی).نجیب کا جواب نجیب جبرائیل کے اس اقدام کے بعد اس کو الْحِوَارُ الْمُبَاشَر میں بذریعہ فون شامل کیا گیا جس میں ان سے پوچھا گیا کہ ہم نے جو کچھ پیش کیا وہ بائبل سے پیش کیا ہے اگر اس پر آپ کو اعتراض ہے تو دراصل آپ کا اعتراض بائبل پر بنتا ہے.لیکن اگر اس کے علاوہ آپ کو ہماری کسی بات پر اعتراض ہے تو وہ بتادیں تا کہ اس کا مناسب جواب دیا جا سکے.لیکن انہوں نے اسی بات کا اعادہ کر کے اپنی بات ختم کر دی کہ آپ لوگوں کو کوئی حق نہیں ہے کہ عیسائیت کو غلط اور انا جیل میں تحریف ثابت کریں یہ ہمارے مصری قانون کے خلاف ہے اور میں نے قانونی چارہ جوئی کی ہے.نائل ساٹ سے ایم ٹی اے 3 العربیہ کی نشریات کی بندش کے لئے ان کارروائیوں کی ابتداء سے ہی اس کیس کے بارہ میں بہت سے عرب احباب نے اپنے جذبات کا اظہار کرنا شروع کر دیا، نمونے کے طور پر ان میں سے چند ایک کا تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے.فتح عظیم مكرم أبو ادیب صاحب نے سیریا سے لکھا: کئی ماہ سے میں پروگرام الْحِوَارُ الْمُبَاشَر دیکھ رہا ہوں، اور میں خاص طور پر پادری حضرات کے جوابات کو غور سے سنتا تھا لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مجھے ان کے جوابات میں سے کوئی مفید بات نہیں مل سکی.اور جب اس چینل کے بند کرنے کے خلاف یہ طوفان کھڑا ہوا ہے تو میرے نزدیک یہ آپ کی فتح عظیم ہے کیونکہ پادری حضرات اطمینان بخش اور مفید جواب دینے سے عاجز آگئے ہیں اور اب یہ چاہتے ہیں کہ یہ تلخ حقائق ان کے مریدوں تک نہ پہنچیں لہذا یہ اس چینل کو بند کرانے کے درپے ہو گئے ہیں.انہوں نے اس اعلی درجے کی علمی آواز کو دبانے کی کوشش کی ہے جو لوگوں کی عقول کو نہایت باریک بینی ، اخلاص اور غیر جانبداری
مصالح العرب.....جلد دوم اور شفافیت کے ساتھ مخاطب کرتی ہے.یہ پروگرام جاری رہنے چاہئیں 465 جامعہ ازہر کے پروفیسر عمر الشاعر نے لکھا MTA نے قرآنی حکم اُدْعُ إلى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کے تقاضوں کے مطابق پادری زکریا بطرس کی ہرزہ سرائی کا جواب دیا ہے.گو ہمارے اور احمدیوں کے درمیان بعض اختلافات ہیں لیکن احمدی مسلمان ہیں اور انہوں نے ہی ایک عیسائی کے بہتانات کا جواب دیا ہے.کسی کا یہ کہنا کہ اس کی وجہ سے اس کے دین کی ہتک ہوئی ہے اور اس بناء پر MTA کے خلاف مقدمات کھڑے کر دینا اس کی کمزوری کی علامت ہے.اس پروگرام میں حصہ لینے والوں نے عیسائیوں کو ایسی ایسی باتیں بتائی ہیں جو انہوں نے قبل ازیں نہ سنی تھیں.اس پر ہم انکا شکر یہ ادا کرتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ یہ پروگرام جاری رہے اور بائیبل میں تحریف کے ساتھ ساتھ دوسرے مضامین پر بھی بحث ہونی چاہیئے.یہ حملہ تنگ نظری کا عکاس ہے مکرم عبد اللہ صاحب نے اٹلی سے کہا: نہ میں احمدی ہوں نہ ہی عیسائی.بلکہ میں ایک سادہ اور عام سا آدمی ہوں.نہ مجھے اسلام کے بارہ میں اتنا علم ہے نہ ہی عیسائیت کے بارہ میں.لیکن میں آپ کی گفتگو سنتا رہتا ہوں اور میری رائے میں اسلام اور عیسائیت کے مابین موازنہ کرنے کے لئے یہ گفتگو نہایت علمی اور فائدہ مند ہے.اس لئے بعض تنگ نظر لوگوں کی طرف سے اس چینل پر حملہ اور بند کرنے کی کوشش سے مجھے بہت افسوس ہوا ہے اور میں کہتا ہوں کہ آپ اپنا کام جاری رکھیں اور یا درکھیں کہ ہمارے دل آپ کے ساتھ ہیں اور ہم آپکی ان کوششوں پر بہت شکر گزار ہیں.ہم آپ کے ساتھ ہیں ل مکرم یا سر انور نے مصر سے کہا کہ : یہ واحد چینل ہے جس نے اسلام کے مخالفین کے
مصالح العرب.....جلد دوم 466 بے ہودہ پراپیگنڈے اور جھوٹ کا مقابلہ کیا اور اسکا جواب دیا ہے.آجکل اسلام کے خلاف کئی قسم کے جھوٹے الزامات لگائے جارہے ہیں جن کا علمی جواب دیا جانا چاہئے.اور یہی کام MTA کر رہا ہے.جس بات سے مجھے دھچکا لگا ہے وہ یہ ہے کہ بعض لوگ جن سے MTA والے بڑے ادب سے بات کرتے ہیں جسے وہ خود بھی مانتے ہیں پھر وہی لوگ MTA پر یہ کہہ کر کہ اس سے دیگر ادیان کی توہین ہوتی ہے MTA کے خلاف مقدمات کر رہے ہیں.لیکن میں کہتا ہوں کہ تو ہین اور گفت و شنید میں فرق ہوتا ہے اور MTA پر تو صرف دوستانہ ماحول میں گفتگو ہوتی ہے.اسلام کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے والوں سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ MTA پر آ کر مناظرہ کریں تا بالمشافہ گفتگو ہو.ہم کسی سے ڈر کر چھپنے والے نہیں بلکہ اسلام کے مخالفین ہی چھپ رہے ہیں.ہم دوبارہ ان چینلز کو دعوت دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ MTA پر مناظرہ کریں.یہ چینل سب کے لئے کھلا ہے تا ایک دوسرے کی بات کا موقعہ پر جواب دیا جائے جیسا کہ MTA رہا ہے.لیکن یکطرفہ باتیں بنانا کسی طرح بھی درست نہیں بلکہ یہی در اصل دوسروں کی تو ہین ہے.ہم MTA سے کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں.اسلام پر ہر طرف سے حملے ہور ہے ہیں اور یہ جنگ شدید ہوتی جارہی ہے.اور ہم اسلام کا دفاع کرنے والوں کے مورچہ میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے.اسی طرح میں دوسرے لوگوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ اس دفاع میں ہمارے ساتھ شامل ہوں کیونکہ یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے.نشریات کی بندش اور دوبارہ ابتداء قصہ مختصر یہ کہ دباؤ بڑھتا رہا اور ایم ٹی اے کو بند کروانے کی دھمکیوں میں اضافہ ہوتا گیا.مکرم نصیر شاہ صاحب چیئر مین ایم ٹی اے بیان کرتے ہیں کہ ہم اس سلسلہ میں اپنی subcontractor کمپنی سے مذاکرات کے لئے ایک عرب ملک میں پہنچے ہی تھے کہ ہمیں ایم ٹی اے 3 کی نشریات بند ہو جانے کی اطلاع ملی.یوں 23 فروری 2007 ء سے شروع ہونے والی اس چینل کی نشریات 28 جنوری 2008 ء کو بند کروا دی گئیں.بہر حال متعلقہ کمپنی - بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ اپنے چینل کا نام تبدیل کر کے اور اس پر پیش ہونے والے ނ
مصالح العرب.....جلد دوم 467 مواد کو بدل کر دوبارہ اسی سیٹیلائٹ پر آسکتے ہیں.لیکن ہم نے دوٹوک کہہ دیا کہ ہم نہ تو اپنی شناخت بدلیں گے نہ ہی اس چینل پر نشر ہونے والے پروگرام تبدیل کئے جاسکتے ہیں.چنانچہ چند دن کے بعد 18 فروری 2008ء کو ایم ٹی اے 3 کی نشریات ھاٹ برڈ پر شروع ہوگئیں جو بعد میں 24 اپریل کو یورو برڈ 9“ پر بھی جاری کر دی گئیں.لیکن ان سیٹیلائٹس کے ذریعہ ہماری نشریات عربوں کی اکثریت کی پہنچ سے باہر تھیں اور بہت تھوڑی تعداد اس سے استفادہ کرتی سکتی تھی.بالآ خر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خاص دعاؤں کی بدولت بفضلہ تعالیٰ 23 جون 2009ء کو دوبارہ نائل ساٹ پر ہماری نشریات بحال ہو گئیں جو خدا تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے آج تک جاری ہیں اور انشاء اللہ العزیز جاری وساری رہیں گی.تم بھی مشغول ، ہم بھی ہیں مشغول ایم ٹی اے 3 العربیہ کی نائل ساٹ سے بندش کی کارروائی کے لئے مسلمانوں اور عیسائیوں کی متفقہ کوششیں کرنا جماعت کے مخالفین کے رویے کو کھول کر ہمارے سامنے لے آتی ہے.جماعت کی تاریخ میں ایسا واقعہ بار بار ہوا ہے کہ جب جب فتنہ صلیب نے شدت پکڑی ہے، عامتہ المسلمین اور ان کے مشائخ و مولوی حضرات اس کا جواب دینے سے عاجز دکھائی دیئے ہیں اور ہر دفعہ اس حملہ کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے صرف اور صرف جماعت احمد یہ مرد میدان ثابت ہوئی ہے.لیکن دوسری طرف ہر دفعہ جب پسپائی کے مارے مسلمانوں کے کانوں میں اسلام کی فتح کے نقارے کی آواز پڑنے لگی تو اس فتح کا حصہ بننے اور اس جماعت میں شامل ہونے کی بجائے یہ لوگ اس کی مخالفت پر اتر آئے ، بلکہ اس میں اس قدر بڑھ گئے کہ اسلام کے اسی دشمن کے ساتھ مل کر جماعت کے خلاف کارروائیاں کرنے لگے.یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ہوا.جب اسلام کے اس بطل جلیل اور موعود کا سر صلیب نے عیسائی منادوں کے دانت کھٹے کئے تو مسلمان علماء جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آ جانا چاہئے تھا عیسائیوں کے ساتھ مل کر آپ پر کبھی جھوٹے مقد مے کرنے لگے اور کبھی قتل کے الزام لگانے لگے اور کبھی ان عیسائیوں کے ساتھ مل کر حضور
مصالح العرب.....جلد دوم علیہ السلام کے خلاف عدالتوں میں شہادتیں دینے لگے.468 عصر حاضر میں یہی واقعہ پھر دہرایا گیا.غرض آج تک جماعت احمد یہ بھی اپنے موقف پر قائم ہے اور اپنا فرض نبھاتی آرہی ہے اور نام نہاد مولوی بھی اپنی اسی قدیم روش پر قائم ہیں.مخالف احمدیت مولویوں کی روش...جھوٹ کا پلندہ ایم ٹی اے 3 العربیہ کو بند کروانے کی قانونی کوششوں کے ساتھ ساتھ یا ان کے ایک حصہ کے طور پر عرب دنیا کے چند ایک مشہور مولوی حضرات نے (جن میں سے بعض کے اپنے ٹی وی چینل بھی ہیں ) جماعت کے عقائد کے بارہ میں نہایت نفرت انگیز پروگرام نشر کئے.ان میں شیخی جمال المرا کمی، شیخ محمد حسان، شیخ محمد الزغمی، شیخ ابو اسحاق الحوینی اور ڈاکٹر حمدی عبید وغیرہ قابل ذکر ہیں.باوجود اس کے کہ اب اس دور میں جماعت کا تمام لٹریچر انٹرنیٹ پر موجود ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب دستیاب ہیں پھر بھی ان نام نہاد حق پرست علماء نے جماعت کے مخالفین کی لکھی ہوئی کتب سے ہی اعتراضات، اتہامات اور گالیاں نقل کیں اور خودان امور کے بارہ میں توثیق و تحقیق کرنے کی ادنی کوشش بھی نہ کی، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سنی سنائی باتوں کو دہرا کر علی الاعلان کفر کے فتوے جاری کرنے لگ گئے ، اور بھول گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوا ہے کہ: كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ.سَمِع.( صحیح مسلم) یعنی کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ہرسنی سنائی بات کو بیان کرتا پھرے.ان میں سے ایک شیخ حسان ہیں (جنہوں نے بار بار اس بات کی رٹ لگائی کہ میں احمدیوں کا عقیدہ ان کی اپنی کتب سے بیان کر رہا ہوں ) انہوں نے ہندو پاک میں شائع ہونے والی سب وشتم اور بد زبانی و بد کلامی سے بھری ہوئی تحریرات عوام الناس کے سامنے پڑھ کر سنا ئیں جن میں اللہ تعالیٰ کے بارہ میں جماعت کی طرف منسوب کئے جانے والے بعض باطل عقائد کو خوب ابھارا اور دُہراؤ ہرا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا.لیکن نقل را عقل باید.اس شخص نے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ سب باتیں احمدیوں کی کتب میں مذکور ہیں اور اگر میں آج کچھ ایسا پیش کروں جو ان کی کتب میں نہ ہو تو انہوں نے شور قیامت برپا کر دینا
مصالح العرب......جلد دوم 469 ہے.لہذامیں بتاتا ہوں کہ یہ تمام باتیں مرزا غلام احمد کی کتاب ”البشری جلد 2 صفحہ 79 پر درج ہیں.(http://www.youtube.com/watch?v=tKFhcS1R00A) آج سے بیس سال قبل اگر کوئی ایسی حرکت کرتا تو شاید یہ بہانہ بنا یا جا سکتا تھا کہ جماعت کی تمام کتب ہر جگہ میسر نہیں ہیں اس لئے کتاب کا نام لکھنے میں غلطی ہو گئی.لیکن آج کے دور میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ کتب انٹرنیٹ پر میسر ہیں اور ہر انسان اپنے گھر میں بیٹھ کر ان کا مطالعہ کر سکتا ہے، کیا ایسی حالت میں ان مولوی صاحب کا اخلاقی ، دینی اور صحافتی فرض نہ تھا کہ وہ کسی کی لکھی ہوئی تحریر کی بنا پر بدزبانی کی انتہا کرنے سے قبل یہ تو دیکھ لیتے کہ کیا مرزا صاحب نے اس نام کی کوئی کتاب لکھی بھی ہے یا نہیں.لیکن ان کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ اس فرضی کتاب کو حضور علیہ السلام کی طرف منسوب کر کے اس کی جلد اور صفحہ بھی بتائے جارہے ہیں.پھر بار باررٹ بھی لگائے جارہے ہیں کہ یہ احمدیت کے وہ عقائد ہیں جو ان کی کتب سے بیان کئے جارہے ہیں.اس پر ہم اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ : وتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِبُونَ (الواقعة : 83) یعنی تم اپنا رزق جھٹلا کر اور جھوٹ بول کر ہی کما رہے ہو.تحفہ گولڑویہ ایک اور مولوی ڈاکٹر حمدی عبید صاحب ہیں جو جماعت کے خلاف ایک ویب سائٹ کی سر پرستی بھی کرتے ہیں.انہیں زعم ہے کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کی کتب اور عقائد کے بارہ میں سب سے زیادہ علم ہے.انہوں نے بھی مختلف چینلز پر بہت سے پروگرام پیش کئے جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب بھی لے آئے اور ان کو اٹھا اٹھا کے دکھایا اور کہا کہ یہ سب کتب جھوٹ کا پلندہ ہیں وغیر وغیرہ.(نعوذ باللہ ).آئیے دیکھتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو کس طرح سمجھا.انہوں نے ایک پروگرام میں تحفہ گولڑویہ میں موجود خدا تعالیٰ کے ایک الہامی نامیلاش
مصالح العرب.....جلد دوم 470 کا مذاق اڑایا.اس کے ساتھ انہوں نے شیخی کے طور پر یہ بھی کہہ دیا کہ گولڑویہ اُردو میں ایک حلوے کو کہتے ہیں جو گنے کے رس) سے بنایا جاتا ہے.(http://www.youtube.com/watvh?v=Q8Zk7M3TcRM&feature=related) اسی طرح انہوں نے شاید عرب ناظرین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ انہیں اچھی خاصی اردو آتی ہے حتی کہ اس کے بعض مشکل سے مشکل الفاظ کے معانی بھی ازبر ہیں جیسا کہ گولڑویہ کا لفظ ہے، اس لئے وہ جو کچھ بھی ان کتب سے پیش کریں گے وہ سیاق وسباق سے کٹا نہیں ہوگا اور اس کا وہی معنی ہو گا جو وہ پیش کریں گے، لیکن ان کی مذکورہ وی تشریح سے اُردو زبان کا ایک پرائمری کا طالبعلم بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس کتاب کے نام میں ان کے بیان کردہ معنے کا کہیں دور کا بھی تعلق نہیں.ہاں اگر مولوی صاحب سے حلوے کی ( خواب دیکھتے ہوئے یہ جملہ سرزد ہو گیا ہو تو انہیں معذور سمجھا جاسکتا ہے.) کاش یہ مولوی صاحب تحفہ گولڑویہ کے اس ٹائٹل پیج کی جسے بار بار ٹی وی پر دکھا رہے تھے پہلی دو تین سطور ہی پڑھ لیتے تو انہیں سمجھ آجاتی کہ گولڑویہ کا کیا مطلب ہے.ان سطور میں حضور وو علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: یہ رسالہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اور ان کے مریدوں اور ہم خیال لوگوں پرا تمام حجت کے لئے محض نصیح اللہ شائع کیا گیا ہے.یعنی گولڑہ ایک جگہ کا نام ہے اور گولڑوی کیلئے کتاب لکھنے کی مناسبت سے اس کا نام تحفہ گولڑویہ رکھا گیا تھا.لاش پر اعتراض کا جواب تحفہ گولڑویہ کے حوالے سے ان مولوی صاحب نے ایک اعتراض کو متعدد بار ٹی وی چینل پر ہوا دی اور نہایت درجہ کی بد زبانی کرنے کے بعد یہاں تک کہہ دیا کہ اگر احمدیوں کے نزدیک یہ نام فی الحقیقت اللہ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے تو اپنے چینل پر لَا إِلهَ إِلَّا اللہ کی بجائے لَا إِلهَ إِلَّا يَلاش لکھ لیں.آج کل بھی یہ سوال کثرت سے گردش کر رہا ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ذیل میں جواب لکھ دیا جائے.
مصالح العرب.جلد دوم پہلے حصہ کا جواب 471 اس اعتراض کے دو حصے ہیں.ایک یہ کہ کیا اصولی طور پر خدا تعالیٰ کا کوئی نیا نام کسی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہو سکتا ہے یا نہیں.اس کا جواب خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا ہوا ہے.آپ نے غم وحزن کے وقت کی ایک دعا ہمیں سکھائی ہے جو اللهم إنى عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ اَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِي به حُكْمُكَ، عَدَلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ نَفْسَكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَلْهَمْتَ عِبَادِكَ، أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي مَكْنُونِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ قَلْبِي وَنُورَ صَدْرِى وَجَلَاءَ حُزْنِي وَذَهَابَ هَمِّنْ - (مشكاة المصابيح، كتاب أسماء اللہ ، باب الدعوات في الأوقات ) ترجمہ: اے اللہ میں تیرا غلام ہوں، اور تیرے غلام اور تیری لونڈی کا بیٹا ہوں میں ہر آن تیرے قبضہ اور تصرف میں ہوں ، میری پیشانی کے بال تیرے ہاتھ میں ہیں، تیرا حکم میرے حق میں جاری ہے، میرے بارہ میں جو تیرا فیصلہ ہے وہ عین عدل وانصاف ہے.میں تیرے ہر اس نام کا واسطہ دے کے عرض کرتا ہوں جسے تو نے اپنی ذات کے لئے اختیار کیا ہے، یا اسے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے، یا اسے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو سکھایا ہے، یا اپنے بندوں میں سے کسی کو الہاما بتایا ہے یا اسے اپنے پاس پردہ غیب میں رکھا ہوا ہے، ان تمام ناموں کا واسطہ دے کر کہتا ہوں ) کہ تو قرآن کریم کو میرے دل کی بہار اور میری آنکھوں کا نور اور میرے فکر و غم وحزن کو دور کرنے والا بنادے.جسے تو نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو سکھایا ہے، یا اپنے بندوں میں سے کسی کو الہاما بتایا“ کے الفاظ اس زعم کے رڈ کے لئے کافی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنا کوئی نیا نام کسی کو الہاما نہیں بتا تا اور خدا تعالیٰ کے معروف ناموں کے علاوہ اور کوئی نام نہیں ہوسکتا.
مصالح العرب.جلد دوم دوسرے حصہ کا جواب 472 اب اس اعتراض کے دوسرے حصہ کو لیتے ہیں جو اس نام کی تضحیک اور مذاق اڑانے سے متعلق ہے.اس کے جواب سے قبل صرف اتنا عرض ہے کہ جہاں بھی دشمن اعتراض کرتا ہے وہاں دراصل کوئی علمی خزانہ چھپا ہوا ہوتا ہے.آئیے دیکھتے ہیں کہ تحفہ گولڑویہ کی اس عبارت کا سیاق کیا ہے اور یہاں کونسا خزانہ مخفی ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: - ”یہ نہیں کہہ سکتے کہ بغیر باپ پیدا ہونا ایک ایسا امر فوق العادت ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام سے خصوصیت رکھتا ہے.اگر یہ امر فوق العادت ہوتا اور حضرت عیسی علیہ السلام سے ہی مخصوص ہوتا تو خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اس کی نظیر جو اس سے بڑھ کر تھی کیوں پیش کرتا اور کیوں فرماتا إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ( آل عمران : 60).یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی مثال خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسی ہے جیسے آدم کی مثال کہ خدا نے اس کو مٹی سے جو تمام انسانوں کی ماں ہے پیدا کیا.اور اس کو کہا کہ ہو جا تو وہ ہو گیا.یعنی جیتا جاگتا ہو گیا.اب ظاہر ہے کہ کسی امر کی نظیر پیدا ہونے سے وہ امر بے نظیر نہیں کہلا سکتا.اور جس شخص کے کسی عارضہ ذاتی کی کوئی نظیر مل جائے تو پھر وہ شخص نہیں کہہ سکتا کہ یہ صفت مجھ سے مخصوص ہے.اس مضمون کے لکھنے کے وقت خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ یکاش خدا کا ہی نام ہے.یہ ایک نیا الہامی لفظ ہے کہ اب تک میں نے اس کو اس صورت پر قرآن اور حدیث میں نہیں پایا اور نہ کسی لغت کی کتاب میں دیکھا.اس کے معنے میرے پر یہ کھولے گئے کہ یا لَا شَرِيكَہ اس نام کے الہام سے یہ غرض ہے کہ کوئی انسان کسی ایسی قابل تعریف صفت یا اسم یا کسی فقتل سے مخصوص نہیں ہے جو وہ صفت یا اسم یا فعل کسی دوسرے میں نہیں پایا جاتا.یہی سر ہے جس کی وجہ سے ہر ایک نبی کی صفات اور معجزات اظلال کے رنگ میں اس کی اُمت کے خاص لوگوں میں ظاہر ہوتی ہیں جو اس کے جوہر سے مناسبت تامہ رکھتے ہیں تا کسی خصوصیت کے دھوکا میں جہلاء امت کے کسی نبی کو لا شریک نہ ٹھیرائیں.یہ سخت کفر ہے جو کسی نبی کو یلاش کا نام دیا جائے.کسی نبی کا کوئی معجزہ یا اور کوئی خارق عادت امر ایسا نہیں ہے جس میں ہزار ہا اور لوگ شریک نہ ہوں اسے عقلمندو ذرا سوچو کہ اگر مثلاً حضرت
مصالح العرب.....جلد دوم 473 عیسی علیہ السلام انیس سو برس سے دوسرے آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں اور باوجود یکہ فوت شدہ کی روحوں کو جاملے اور حضرت یحیی کے زانو بزانو ہم نشین ہو گئے پھر بھی اسی جہان میں ہیں اور کسی آخری زمانہ میں جو گویا اس امت کی ہلاکت کے بعد آئے گا آسمان پر سے اتریں گے تو شرک سے بچنے کے لئے ایسی فوقت العادت صفت کی کوئی نظیر تو پیش کر د یعنے کسی ایسے انسان کا نام لوجو قریباً دو ہزار برس سے آسمان پر چڑھا بیٹھا ہے اور نہ کھاتا نہ پیتا نہ سوتا اور نہ کوئی اور جسمانی خاصہ ظاہر کرتا اور پھر مجسم ہے اور روحوں کے ساتھ بھی ایسا ملا ہوا ہے کہ گویا اُن روحوں میں ایک رُوح ہے...پھر آخری زمانہ میں بڑے کروفر اور جلالی فرشتوں کے ساتھ آسمان پر سے اُترے گا.اور گو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج کی رات میں نہ چڑھنا دیکھا گیا اور نہ اتر نا مگر حضرت مسیح کا اُترنا دیکھا جائے گا.تمام مولویوں کے روبرو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اُترے گا.پھر اسی پر بس نہیں بلکہ مسیح نے وہ کام دکھلائے جو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم با وجود اصرار مخالفوں کے دکھلا نہ سکے.بار بار قرآنی اعجاز کا ہی حوالہ دیا.بقول تمہارے مسیح سچ سچ مُردوں کو زندہ کرتا رہا.شہر کے لاکھوں انسان ہزاروں برسوں کے مرے ہوئے زندہ کر ڈالے.ایک دفعہ شہر کا شہر زندہ کر دیا.مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک مکھی بھی زندہ نہ کی.اور پھر مسیح نے بقول تمہارے ہزار ہا پرندے بھی پیدا کئے اور اب تک کچھ خدا کی مخلوقات اور کچھ اس کی مخلوقات دنیا میں موجود ہے اور ان تمام فوق العادت کاموں میں وہ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ ہے...اب بتلاؤ کہ اس قدر خصوصیتیں حضرت عیسی علیہ السلام میں جمع کر کے کیا اِن مولویوں نے حضرت عیسی کو خدائی کے مرتبہ تک نہیں پہنچایا.اور کیا کسی حد تک پادریوں کے دوش بدوش نہیں چلے؟ اور کیا اِن لوگوں نے حضرت عیسی کو وَحْدَهُ لَا شَرِيْك كا مرتبہ دینے میں کچھ فرق کیا ہے؟ مگر مجھے خدا نے اس تجدید کے لئے بھیجا ہے کہ میں لوگوں پر ظاہر کروں کہ ایسا خیال کرنا کفر اور صریح کفر اور سخت کفر ہے.بلکہ اگر واقعی طور پر حضرت مسیح نے کوئی معجزہ دکھلایا ہے یا کوئی اعجازی صفت حضرت موصوف کے کسی قول یا فعل یا دُعا یا تو توجہ میں پائی جاتی ہے تو بلا شبہ وہ صفت کروڑ ہا اور انسانوں میں بھی پائی جاتی ہے.66 (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 203 تا 7 20 حاشیہ) اس تحریر میں حضور علیہ السلام نے ایک عظیم قاعدہ پیش فرمایا ہے جس سے کسی کو انکار نہیں
مصالح العرب.....جلد دوم ہوسکتا.وہ قاعدہ یہ ہے کہ: وو 474 ہر ایک نبی کی صفات اور معجزات اظلال کے رنگ میں اس کی امت کے خاص لوگوں میں ظاہر ہوتی ہیں جو اس کے جوہر سے مناسبت تامہ رکھتے ہیں.“ اور ”کسی نبی کا کوئی معجزہ یا اور کوئی خارق عادت امرایسا نہیں ہے جس میں ہزار ہا اور لوگ شریک نہ ہوں.“ یعنی وَحْدَهُ لَا شَرِيك ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے.نہ اس کا شریک اور نہ اس کی نظیر ہے.اس کے علاوہ باقی ہر چیز کی نظیر اور مثل ہے.اور انبیاء کا کوئی معجزہ ایسا نہیں جس کی نظیر اس کی امت کے لوگوں میں یا دیگر انبیاء میں نہ پائی جائے.اس لحاظ سے اگر مسیح نے مردے زندہ کئے تو اس کے اتباع میں بھی بعض لوگوں کو یہ معجزہ دکھانا چاہئے تھا.یا کسی اور نبی کو بھی یہ معجزہ عطا ہونا چاہئے تھا.لیکن ظاہری مردے زندہ کرنے کا معجزہ کسی اور کو عطا نہیں ہوا بلکہ سب نبیوں کے سردار اور افضل المرسلین کو بھی نہیں ملا جس کا مطلب ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اس معاملہ میں وَحْدَهُ لَا شَرِيْك ٹھہرے جو کہ خدا کی توحید کے خلاف ہے لہذا یہ بات باطل ہے.حالا اگر سلیمان علیہ السلام ہوا سے باتیں کرتے اور پرندوں سے گفتگو فرماتے اور پہاڑوں کو ساتھ لے کر چلتے تھے تو آپ کی اُمت میں سے بعض لوگوں کو بھی یہ معجزہ کسی نہ کسی رنگ میں عطا ہونا چاہئے تھا.اگر امت کے بعض افراد کو نہیں تو کسی نبی کو عطا ہونا چاہئے تھا.اگر کسی نبی کو نہیں ملا تو پھر سب نبیوں کے سردار کو تو ضرور یہ معجزہ عطا ہونا چاہئے تھا.لیکن ایسا نہیں ہوا تو ثابت ہوا کہ یہ صفت جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو واحد لاشریک ثابت کرتی ہے درست نہیں کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی توحید کے خلاف ہے.اسی طرح عیسی علیہ السلام کے آسمان پر جانے کا معجزہ ہے.اس معجزہ میں بھی آپ کے علاوہ پہلے یا بعد میں کسی کو شریک ہونا چاہئے تھا لیکن ہمیں کسی ایسے شخص کی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جو دو ہزار سال تک آسمانوں میں رہ کر دوبارہ سب لوگوں کے سامنے آسمان سے نازل ہوا ہو.اور تو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تو کفار نے یہ معجزہ دکھانے کا چیلنج رکھا تھا کہ اگر یہ دکھا دیں تو ایمان لے آئیں گے.لیکن آپ کو یہی حکم ہوا کہ انہیں کہیں کہ میں بشر رسول ہوں جو آسمان پر نہیں جاسکتا.ثابت ہوا کہ یہ کہانی ہی غلط ہے.ورنہ عیسی علیہ السلام واحد
مصالح العرب.....جلد دوم 475 لا شریک ٹھہرتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کو زیبا نہیں.م اس عظیم الشان قاعدہ نے دجال اور اس کی عجیب وغریب طاقتوں اور خارق عادت اعمال اور خدا کے مشابہہ افعال کا بھی مسئلہ حل کر دیا کہ ایسی طاقتیں اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو دی وی تھیں تو اس کی نظیر ہونی چاہئے تھی ورنہ دجال بھی واحد لا شریک ٹھہرتا ہے.جبکہ حقیقت یہ ہے کہ واحد لا شریک صرف اور صرف خدا کی ذات ہے.لہذا ثابت ہوا کہ دجال کے ضمن میں بیان کی ہونے والے امور کا معنی بھی کچھ اور ہے.نہ یہ کہ وہ خدا کی طرح زندہ کرے گا اور مارے گا اور بارش برسائے گا اور روئیدگی اگائے گا.دنیا میں کسی نبی یا ولی یا پارسا انسان کو کوئی ایسا معجزہ نہیں عطا ہوا جو اعلیٰ اور اکمل شکل میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا نہ ہوا ہو.اور دنیا میں کسی نبی یا ولی یا صالح انسان کا معجزه یا کرامت یا نشان ایسا نہیں جو صرف ایک بار ظاہر ہوا ہو بلکہ اس میں کئی اور صلحاء اور انبیاء بھی شریک ہیں.یہ وہ عظیم الشان قاعدہ ہے جس کی بنا پر گزشتہ انبیاء سے منسوب تمام دیو مالائی اور بے سروپا کہانیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے.اور خصوصی طور پر حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات اور ان کے آسمان پر جانے اور واپس جسمانی طور پر نازل ہونے کا یکدفعہ رڈ ہو جاتا ہے.اور ثابت ہو جاتا ہے کہ یکاش صرف خدا کی ذات ہے.قارئین کرام ! اس سارے موضوع پر ایک نظر کرنے کے بعد اب اگر آپ معترض کے اعتراض کو پڑھیں تو اس کی سطحیت ، جہالت اور لغویت کا اندازہ کرنا مشکل نہ ہوگا.بعض مصری مولویوں کی کارروائیوں کے ذکر کے بعد اب ہم ایم ٹی اے 3 العربیہ کے بند ہونے کے بعد کا حال بیان کرتے ہیں.فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبِّهُمْ کا نشان مکرم سید نصیر احمد شاہ صاحب چیئر مین ایم ٹی اے اور مکرم محمد شریف عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایم ٹی اے 3 العربیہ کی نائل ساٹ سے نشریات کی بندش کے بعد حضور انور نے فرمایا تھا کہ: اب فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبِّهُم كا وعدہ پورا ہوگا.
476 مصالح العرب.....جلد دوم آیئے دیکھتے ہیں خدا کے خلیفہ کی زبان سے نکلے ہوئے یہ کلمات کس طرح پورے ہوئے.مشرق وسطی، عرب ممالک مشرق بعید اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کو آپس میں نیز یورپ کے ممالک سے انٹرنیٹ کے ذریعہ ملانے کے لئے پانچ بڑی فائبر کیبلز استعمال ہوتی ہیں جن کو دو بڑی کمپنیاں آپریٹ کرتی ہیں.ایک کمپنی کا نام 4-SeaMeWe ہے جو ہے، (4-South East Asia - Middle East Western Europe) کا مخفف جبکہ دوسری کمپنی کا نام FLAG ہے جو Fiber Optic Link Around the Globe کا ہے.ایم ٹی اے 3 العربیہ کی نشریات نائل ساٹ سے 28 جنوری 2008ء کو بند کرا دی گئیں اور اس کے دو ہی روز کے بعد مؤرخہ 30 جنوری 2008ء کو صبح آٹھ بجے GMT وقت کے مطابق مصر کی بندرگاہ اسکندریہ سے 8.3 کلومیٹر کے فاصلے پر FLAG کی،جبکہ اسی دن 4-SeaMeWe کی بھی ایک کیبل میں مرسیلیا کے مقام پر خلل واقع ہو گیا جس کی وجہ سے مشرق وسطی اور ایشیا کے کئی ممالک میں کمیونیکیشن کا نظام بری طرح متاثر ہوا.پرت اس کے مزید دو روز بعد ہی یکم فروری 2008ء کو صبح چھ بجے GMT وقت کے مطابق FLAG کی ہی ایک Falcon نامی کیبل جو خلیج فارس کے امیریا کے ملکوں کو آپس میں ملاتی ہے دبئی سے 56 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک جگہ سے کٹ گئی جس کی بنا پر مختلف عرب اور خلیج کے ممالک اور ایران و ہندوستان کا رابطہ کٹ کے رہ گیا.اس کے دو روز بعد مورخہ 3 فروری 2008ء کو قطر اور متحدہ عرب امارات کو ملانے والی کیبل کٹ گئی.اس سے اگلے ہی روز 4 فروری کو اعلان کیا گیا کہ 4-SeaMewe کی ایک اور کیبل میں ملیشیا کے علاقے Penang کے قریب خلل پیدا ہو گیا ہے.یہ خبر بیسیوں ویب سائٹس پر آج بھی موجود ہے چند ایک یہ ہیں: | http://www.marefa.org/index.php, http://www.marefa.org/ind, http://www.flagtelecom.com www.khaleejtimes.com/Display ArticleNew.asp?section |=theuae&xfile=data/heuae/ 2008/ february/theuae_ february 121.xml
477 مصالح العرب.....جلد دوم یوں ایم ٹی اے 3 العربیہ کی نشریات بند کر کے اس ناقتہ اللہ کی کونچیں کاٹنے والوں کے بارہ میں فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم کا وعدہ پورا ہوا اور خود ان کا رابطہ دنیا سے کٹ کے رہ گیا.کاش کہ لوگ اس سے عبرت حاصل کرتے.اس واقعہ میں ایک اور بھی عجیب مشابہت پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اونٹنی کو عربی میں الناق" کہتے ہیں اور یہی نام حضرت صالح کی اوٹنی کے لئے قرآن میں آیا ہے.اسی طرح کی کی وی چینل کو عربی میں ”القناة“ کہتے ہیں.اور ان دونوں کلمات ( الناقۃ اور القناة) کے حروف ایک سے ہیں اس لئے دونوں کی عددی قیمت بھی ایک ہے اور اُس الناقۃ اور اس القناۃ کا مقصد اور ہدف بھی مشترک ہے یعنی تبلیغ حق.اس لحاظ سے بھی حضور انور کا جملہ: اب فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم کا وعدہ پورا ہوگا اس حقیقت حال کے عین مطابق ایک نہایت ہی بلیغ اشارہ پر مشتمل تھا جو بڑی شان سے پورا ہوا.ایم ٹی اے العربیہ کی بندش کے بعد نشریات کا آغاز ایم ٹی اے 3 العربیہ کی نشریات کو نائل ساٹ سے ایک دفعہ تو بند کروا دیا گیا لیکن بہت جلد پہلے سے بہتر سیٹیلائیٹ پر ہمیں جگہ مل گئی اور دوبارہ یہی نشریات انہی ممالک میں جانے لگیں.نشریات دوبارہ شروع ہونے کے موقعہ پر حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گزشتہ دنوں عربوں کو بھی بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا.جن میں احمدی بھی ہیں اور ہمارے ہمدرد اور اسلام کا درد رکھنے والے عرب بھی ہیں.پریشانی اس طرح ہوئی کہ بعض بڑی بڑی عرب حکومتوں نے مولویوں اور عیسائیوں کے خوف اور احمدیت کی ترقی کو دیکھتے ہوئے ، اور اس کی ایک وجہ حسد کی آگ بھی ہے اس میں جلتے ہوئے ہمارے ایم ٹی اے العربیہ کی نشریات کو جو Nile سیٹ پر یہ سیٹلائٹ جو بعض عرب حکومتوں کی ملکیت ہے ) آتی تھیں بند کروا دیا اور کیونکہ سب اخلاق کو بالائے طاق رکھ کر بغیر نوٹس کے یہ چینل بند کر دیا گیا تھا اس لئے اپنے اور عربوں میں سے غیر از جماعت جتنے تھے ان کے مجھے بھی اور انتظامیہ کو بھی پیغام اور خطوط آئے کہ یہ کیا ظلم ہوا ہے کہ ایک دم بغیر اطلاع کے آپ لوگوں نے چینل بند کر دیا ہے.انہیں تو ہم
478 مصالح العرب......جلد دوم نے یہی کہا تھا کہ صبر کریں انشاء اللہ تعالیٰ جلد شروع کرنے کی کوشش کرتے ہیں.آج میرے اس خطبے سے انہیں پتہ چل گیا ہو گا کہ وجہ کیا ہوئی تھی.ان مداہنت پسند حکومتوں نے لوگوں سے ڈر کر اور کچھ نے حسد کی وجہ سے اس چینل کو بند کرنے کی کوشش کی تھی.کیونکہ عرب ملکوں میں بعض عیسائی پادریوں کی طرف سے بھی مخالفت ہورہی تھی جس کا ایم ٹی اے پہ جو اب جا رہا تھا ، جس کی وجہ سے انہوں نے بھی زور دیا کہ اس کو بند کیا جائے عیسائیوں پر برا اثر پڑ رہا ہے.تو بہر حال ان کا معاملہ تو اب خدا کے ساتھ ہے جنہوں نے خدا کے نام پر خدا والوں سے اس زعم میں دشمنی کی ہے کہ ہم سب طاقتوں والے ہیں لیکن وہ عزیز اور سب قدرتوں کا مالک خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ مَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِین یعنی انہوں نے بھی تدبیریں کی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی تدبیریں کی ہیں اور اللہ تعالیٰ سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے.پہلے بھی مسیح اول کے خلاف بھی تدبیریں کی گئی تھیں جس پہ یہ اعلان کیا اور اب بھی مسیح محمدی کے خلاف بھی تدبیریں کی جارہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ تسلی دلاتا ہے.پس یہ جو روکیں ہمارے آگے ڈالنے والے ہیں اس کا ہمیں کوئی فکر نہیں ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اللہ تعالیٰ کا مسیح ہے اور وہ ایسے ذریعہ سے پیغام پہنچاتا ہے کہ ایک انسان سوچ بھی نہیں سکتا.اور اللہ تعالیٰ نے کیا دیا؟ چند گھنٹے کے لئے یا ایک دن کے لئے شاید بند ہوا ہوگا.اس کے بعد ہم نے متبادل عارضی انتظام کر لیا.لیکن اس کوشش کے جواب میں جو انہوں نے اس کو بند کرنے کی کی تھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یورپ کی ایک سیٹلائٹ سے رابطہ کروا دیا جو پہلے بھی ہم کر رہے تھے اور بہت کوششیں کی تھیں.ان کوششوں کے باوجود وہاں کوئی جگہ نہیں تھی اور یہ نہیں مل رہا تھا.لیکن اس روک کے بعد خود ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے ملنے کا انتظام کروا دیا.پہلا سیٹیلائٹ جو انہوں نے بند کیا اس کی کوریج تھوڑے علاقے میں عرب کے چند ملکوں میں تھی اس سیٹیلائٹ کی کوریج اس سے بہت زیادہ ہے.مرا کو وغیرہ اور ساتھ کے ملکوں وغیرہ سے بھی پیغام آتے تھے کہ ہم ایم ٹی اے العربیہ نہیں دیکھ سکتے اور یہاں ہمیں بھی ضرورت ہے.اس کا انتظام کریں تو اب انشاء اللہ تعالیٰ اس نئے سیٹلائٹ کے ملنے سے یہ کمی بھی پوری ہو گئی.پس یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں.وہ سچے وعدوں والا ہے.عارضی روکیں آتی ہیں آئیں گی.دشمنوں اور حاسدوں کے وارہوں گے لیکن اس سے کسی احمدی میں مایوسی نہیں آنی اور
479 مصالح العرب.....جلد دوم چاہئے.ان روکوں کو دیکھ کر جیسا کہ میں نے بتایا مومن مزید اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے اور جھکنا چاہئے.پس دعاؤں کی طرف توجہ دیں.اپنی نمازیں سنوار میں.فرائض پورے کریں اور پھر نوافل کی طرف توجہ دیں.کیونکہ یہ دعائیں اور عبادتیں ہی ہیں جنہوں نے ہمارے مقاصد کے حصول میں ہماری مدد کرنی ہے.اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانیں تر رکھیں اور زبانیں تر رکھنے سے ہی ہماری فتوحات کے دروازے کھلنے ہیں.انشاء اللہ“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 8 فروری 2008ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن) 00000 XXXXXXXXXXXX XXXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد دوم 480 عیسائی چینل کے جماعت کے بارہ میں پروگرام جماعت کے خلاف پروگرام نشر کرنے کا رد عمل اس عیسائی چینل کی طرف سے سامنے آیا جس پر پادری زکریا بطرس اسلام پر حملے کرتا تھا.اس چینل نے جس کا نام الْحَيَاة چینل ہے جماعت احمدیہ کے خلاف خصوصی طور پر 24 اپریل 2008ء اور یکم مئی 2008ء کو دو پروگرام پیش کئے.ان پروگراموں میں جماعت کے خلاف کافی زہر اگلا اور متعدد اعتراضات کئے اور ا کا د کا فون کالز بھی لی گئیں.ان پروگراموں کی تفصیل میں جانے سے قبل اتنا کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کو سننے والا شخص اگر پروگرام میں شریک عیسائیوں کے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارہ میں طریق تکلم پر غور نہ کرے تو اسے جماعت کے خلاف مولویوں اور ان عیسائیوں کے پروگراموں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا.کیونکہ انہوں نے بھی وہی اعتراض ، اعتراضات کی وہی زبان، اور وہی استدلال، وہی گندی زبان استعمال کی.ہاں ان عیسائیوں نے بعض امور اضافی طور پر بھی پیش کئے جن کا تذکرہ بھی ہم ذیل میں کریں گے.ان عیسائیوں نے شیخ حسان کے (جن کا ذکر گزر چکا ہے) جماعت کے خلاف پروگراموں کو شروع شروع میں اپنی ویب سائٹ پر بھی ڈالا تھا اور جب ہم نے اپنے بعض پروگراموں میں اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ پروگرام وہاں سے غائب کر دیے.اور یہ ایک معروف امر ہے کہ کسی ویب سائٹ پر آپ کسی کا آدھے گھنٹے یا گھنٹے کا پروگرام اس کی اجازت اور خواہش کے بغیر نہیں ڈال سکتے.اس ساری صورتحال کو دیکھ کر ایک انصاف پسند شخص یہ سوچنے پر مجبو ہو جاتا ہے کہ کیا واقعی
481 مصالح العرب.....جلد دوم ان عیسائیوں نے کلمہ پڑھ لیا ہے اس لئے اب مسلمان مولوی ان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے احمدیت کی مخالفت پر متحد ہو رہے ہیں؟ یا کیا بعض مسلمان مولویوں کو عیسائی عقائد پر اعتراض نہیں رہا اس لئے دونوں کو صرف جماعت احمد یہ مشترکہ دشمن نظر آ رہی ہے؟ اور عیسائیت مسلمانوں کو احمدیت سے متنفر کرنے کی کوشش کیوں کر رہی ہے؟ اور وہ کیوں یہ ثابت کرنے کے لئے کوشاں ہے کہ احمدیت مسلمان جماعت نہیں ہے؟ کیا کبھی کسی مسلمان نے بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عیسائیوں کا فلاں فرقہ عیسائی نہیں ہے؟ یا کسی مسلمان نے کبھی یہ کہانی ہے کہ اب ہم فیصلہ کریں گے کہ کون عیسائی ہے اور کون عیسائی نہیں ہے؟ آخر اس ساری کارروائی کا کوئی تو سبب ضرور ہے جس کا اندازہ ہمیں ان دو پروگراموں پر ایک نظر ڈالنے سے ہو جائے گا.گو کہ ان پروگراموں میں بہت سے بہتانات، اعتراضات اور غلط باتیں بھی کی گئیں لیکن مجموعی طور پر یہ پروگرام جماعت کی تبلیغ کا باعث ہی ٹھہرے.آئیے ان پر کسی قدر تفصیلی نظر ڈالتے ہیں.متضاد باتیں پروگرام کے میزبان نے ابتدا یوں کی : آج کے پروگرام کا موضوع ہے جماعت احمدیہ اور اس کا عیسائی عقائد پر حملہ.گو کہ ہمیں غیرت ایمانی رکھنے والے بہت سے عیسائی برادران نے بارہا اس موضوع کے بارہ میں لکھا تھا لیکن ہم اس بارہ میں علم الیقین رکھتے ہیں کہ یہ فرقہ تو مسلمان ہی نہیں.اس لئے قبل ازیں ہم نے سوچا کہ یہ اس قدر وقعت اور توجہ کا مستحق فرقہ نہیں ہے.لیکن اب اپنے دیکھنے والوں کی خواہش کے مطابق ہم اس فرقہ کے عقائد کا رڈ پیش کریں گے.اس کے محض دو منٹ کے بعد ہی اسی میزبان نے کہا: بہت سے مسلمان، جماعت احمدیہ سے اس لئے خوش ہیں کیونکہ اس نے ہمارے پروگراموں کا جواب دیا.گو کہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد نے ان پروگراموں کا کوئی جواب نہیں دیا، صرف جماعت احمدیہ نے دیا اس لئے بہت سے مسلمان ان سے بہت خوش ہیں.لیکن عجیب
مصالح العرب.....جلد دوم 482 بات یہ ہے کہ ان مسلمانوں کو علم ہی نہیں کہ جماعت احمدیہ کی حقیقت کیا ہے؟ اس حقیقت کا بیان ہمارے اس پروگرام میں ہوگا.تبصره ان کے بیان کے مطابق ایک تو وہ لوگ ہیں جن کو نہ اسلام کے دفاع کی فکر ہے نہ ناموس رسالت پر لگے اعتراضات کا جواب دینے کی سکت ہے.ان کو عیسائی بھی سچے مسلمان تسلیم کرتے ہیں.دوسری طرف جماعت احمد یہ ہے جو انہی کے بقول واحد جماعت ہے جس نے عیسائی حملہ کا جواب دیا اور اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کا رڈ کیا.ان کو بعض مسلمان علماء اور عیسائی دونوں اسلام سے خارج خیال کرتے ہیں.لیکن لوگ کیوں خوش ہیں ؟ کیونکہ انہیں پتہ چل گیا ہے کہ اسلام کے اصل دفاع کرنے والے کون ہیں، یعنی وہی جن کی بات کا عیسائیت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے.پھر یہ منصف مزاج مسلمان ان دفاع کرنے والوں کو مسلمان نہ سمجھیں تو اور کیا سمجھیں؟ اور یہی غم عیسائیوں کو ستائے جا رہا ہے کہ اگر جماعت احمدیہ کو بھی مسلمان سمجھ لیا گیا تو ان کا عیسائیت پر غلبہ، اسلام کا غلبہ متصور ہوگا.لہذا بہتر یہی ہے کہ مسلمان علماء کے ساتھ مل کر اس کو خارج از اسلام ثابت کیا جائے.ایک طرف کہتے ہیں کہ یہ جماعت اس قدر وقت اور توجہ کی مستحق نہیں کہ اس کے متعلق کوئی پروگرام کیا جائے لیکن دو منٹ بعد ہی کہتے ہیں کہ تمام مسلمانوں میں سے سوائے احمدیت کے سی نے ہمارے اعتراضات کا جواب نہیں دیا.ایسی صورتحال میں آپ ہی بتائیں کہ آپ پر کون بھاری ہے؟ اعترافات پروگرام کے میزبان نے شروع میں کہا تھا کہ مسلمانوں کو علم ہی نہیں کہ جماعت احمدیہ مسلمان جماعت نہیں ہے، لیکن محض چند منٹ کے بعد ہی اسی میزبان نے ایک اور بات کہہ دی جس کا نتیجہ تو انہوں نے کچھ اور ہی نکالا تا ہم اس میں سچ بھی زبان پر آ گیا.حضرت مسیح موعود
483 مصالح العرب.....جلد دوم علیہ السلام کے بارہ میں کہتے ہیں کہ: اپنے مطالعہ کی بنا پر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس شخص کو اسلام کی بڑی غیرت تھی.اس کے وقت میں انڈیا میں اسلام سے ارتداد کی ایک بڑی لہر آئی ہوئی تھی اور اس حالت میں یہ شخص عیسائیوں اور پادریوں سے مباحثے اور مناظرے کرتا تھا.اور اس کو خصوصی طور پر اس معاملہ میں غیرت آتی تھی لہذا وہ اسلام اور عیسائیت کا موازنہ کرتا تھا.اور عیسائی بھی محمد اور مسیح کے درمیان موازنہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم ایسے شخص کی پیروی کیسے کر سکتے ہیں جو فوت ہو چکا ہے جبکہ مسیح آسمانوں میں زندہ ہے.ہم ایسے شخص کی پیروی کیونکر کریں جو شاید اب واپس نہ آئے جبکہ مسیح دوبارہ آئے گا.چنانچہ اس شخص نے جب دیکھا کہ قرآن مسیح کو محمد سے بہتر گردانتا ہے تو یہ نفسیاتی اور روحانی طور پر ایک بحران کا شکار ہو گیا جس سے نکلنے کا اس نے یہ راستہ اختیار کیا کہ یہ خیال پیش کیا کہ مسیح کی آمد ثانی مسیح محمدی کے رنگ میں ہوئی تھی اور میں وہ مسیح محمدی ہوں.پھر اس کے چند منٹ بعد اسی بات کو مزید وضاحت سے یوں پیش کیا: مرزا غلام احمد قادیانی کا خیال ہے کہ موجودہ عیسائیت کا رڈ ہی کسر صلیب کے مترادف.کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ اس نے تمام عیسائی مناظروں کو شکست دی، اور اس کی جماعت عیسائیت کو شکست دے کر چھوڑے گی.دراصل اس کی جماعت کی بنیاد ہی عیسائیت کے سدبا کا مطلب ہے کہ اس نے اپنی جماعت در اصل عیسائیت کے مقابلہ کے لئے ہی تشکیل دی.جس شخص کو اسلام کی سب سے زیادہ غیرت تھی، جو اسلام سے ارتداد کی لہر کے وقت عیسائیوں سے مناظرے اور مباحثے کا مرد میدان ثابت ہوا، جس نے آپ کے بقول اپنی جماعت کی بنیاد ہی رڈ عیسائیت پر رکھی اور اسی کو کسر صلیب کے مترادف قرار دیا، وہی تو حقیقی مسلمان ہے، اس کو آپ غیر مسلم کیسے ثابت کر سکیں گے.آخر وہ عیسائیت کی ہزیمت سے اسلام کے سوا اور کس کی فتح ثابت کرنا چاہتا ہے؟ آپ کی مہربانی کہ آپ نے اس کے کام گنوادیئے، کیونکہ اس کے بعد اس کے حقیقی اور بچے مسلمان ہونے کی اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے.
مصالح العرب.....جلد دوم سہو ایا عمدا 484 لوگوں کو یہ بتانے کے لئے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے دعوئی کے محرکات کیا تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” التبلیغ کا ایک حوالہ پڑھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ عیسائی فساد برپا کر رہے ہیں اور لوگوں کو دین اسلامی سے روک رہے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچاتے اور آپ کی تحقیر کرتے ہیں اور ابن مریم کے مقام کو ناحق بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تو اس کی غیرت نے غضب میں آ کر کی جوش مارا اور اس نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ میں تجھے عیسی ابن مریم بناتا ہوں.اس اقتباس کو پڑھتے وقت انہوں نے سہو ایا عمدا عیسائیوں کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے اور آپ کی تحقیر کرنے والا حصہ بیان نہیں کیا اور محض اسی بات کو بنیاد بنایا کہ مرزا صاحب نے چاہا کہ عیسی علیہ السلام کا مقام کچھ کم ہو اس لئے جذباتی ہو کر خود مسیحیت کا دعوی کر دیا.اگر پوری عبارت نقل کرتے تو ہر سننے، پڑھنے والے کے لئے حقیقت واضح ہو جاتی کہ آپ کو اس بات کا سب سے زیادہ درد تھا کہ کسی نبی کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے.اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا جوش تھا جس کی بنا پر اللہ تعالی نے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے عظیم مقام پر فائز فرمایا اور هَذَا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُولُ اللہ کے سرٹیفیکیٹ سے نوازا.، جماعت کو غیر مسلم کہنے کا اصل محرک جہاں اس پروگرام میں متعدد مرتبہ احمدیت کو غیر مسلم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی وہاں یہ عجیب بات بھی کی گئی کہ قرآن کریم کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور خاتم النبیین کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا لیکن مرزا غلام احمد قادیانی نے اس کی تاویل کی.یہ بات انہوں نے اس طرح کی کہ جیسے عام مسلمانوں کے ساتھ ایک صف میں کھڑے ہیں اور انہی کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر ان کا پورا ایمان ہے.
مصالح العرب.....جلد دوم 485 یہی نہیں بلکہ اس کے بعد انہوں نے بڑی وضاحت سے وہ بات کہہ دی جو ان پروگراموں کا کی اصل محرک سمجھی جاسکتی ہے.انہوں نے کہا: اگر مرزا صاحب مجدد ہیں تو اس اسلام کی ہی تجدید کیوں نہیں کرتے جو مسلمانوں کا اسلام ہے اور جسے ہم بھی جانتے ہیں.یہ نیا اسلام کیوں پیش کرتے ہیں.تبصرہ عیسائی چاہتے ہیں کہ جماعت احمد یہ بھی اسلام کے نام پر دیگر مسلمانوں جیسے عقائد پیش کرے تاکہ ان پر اعتراض کر کے وہ یہ کہہ سکیں کہ یہ دین عالمی نہیں ہوسکتا، اور چونکہ احمدیت نے صحیح اسلام پیش کر کے عیسائیت کے تمام مزاعم کا رڈ پیش کیا ہے اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ یہ آواز اسلام کی آواز شمار ہو.کیونکہ دیگر مسلمان قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ کے قائل ہیں، وہ غیر مسلمانوں کے قتل اور پر تشدد کارروائیوں پر یقین رکھتے ہیں، وہ رضاع الکبیر جیسی خرافات پر یقین رکھتے ہیں.ایسے امور کو ہوا دے کر عیسائیت اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرتی ہے کہ یہ دین کیسے درست دین ہو سکتا ہے.لیکن جب ان کی بات احمدیت کے ساتھ ہوتی ہے تو نہ صرف ان تمام امور کا مدلل اور مسکت جواب ملتا ہے بلکہ عیسائی مذہب کے عقائد اور بائبل کی تعلیمات کے بارہ میں ان کو ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے.ایسی صورتحال میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم ثابت کرنے کی عیسائی کوشش کا حقیقی محرک بے نقاب ہو جاتا ہے.عرب احمدیوں کی پروگرام میں شرکت پہلا پروگرام نصف سے زیادہ گزر چکا تھا جب مکرم محمد شریف عودہ صاحب نے ٹیلی فون کے ذریعہ رابطہ کیا.اور ادب و احترام کی زبان استعمال کرنے کی تلقین کے بعد یہ کہا کہ آپ کو چاہئے تھا کہ جماعت احمدیہ کے کسی فرد کو بلاتے اور اس سے سنتے کہ جماعت کے عقائد کیا ہیں اور مختلف امور کے بارہ میں کیا موقف ہے.اس پر میزبان نے نہ صرف اس پروگرام میں ان کو موقعہ دیا بلکہ اگلے پروگرام میں دو افراد کو شامل کرنے کا وعدہ کیا.گو اس پہلے پروگرام میں مکرم
مصالح العرب.....جلد دوم 486 شریف صاحب نے بعض بہت اچھے جواب دیئے لیکن شریف صاحب کی آواز پورے پروگرام میں تاخیر سے ٹیلی کاسٹ ہوتی تھی جس کی بناء پر وہ جہاں چاہتے تھے اسے کاٹ دیتے تھے اور جواب مکمل ہونے سے قبل بولنا شروع کر دیتے تھے.لہذا اگلے پروگرام میں شرکت کے لئے بعض شروط لکھ کر ارسال کی گئیں جن کی بنا پر مکرم محمد شریف صاحب نے حیفا سے اور مکرم ہانی طاہر صاحب نے لندن سے بذریعہ فون اس پروگرام میں شرکت کی اور مختلف سوالات کے جوابات دیئے.یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض سوالات اور ان کے جوابات نقل کر دیئے جائیں.میزبان : اگر آپ کے نزدیک مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود ہیں تو ہمارے ناظرین کو بتائیں کہ کس چیز میں وہ مسیح ناصری کے مشابہہ ہیں.خصوصا اس لئے بھی یہ سوال اہم ہے کیونکہ مسیح نے تو جسمانی طور پر دوبارہ آنا ہے.شریف صاحب: یہ مسئلہ تو مسیح نے خود حل کر دیا تھا جب یہودیوں نے اس پر اعتراض کیا کہ تو اس لئے سچا نہیں ہے کیونکہ مسیح کی آمد سے قبل تو ایلیا نے آسمان سے اتر نا تھا جو ابھی اترا نہیں پھر کیسے مان لیں کہ مسیح ایلیا سے پہلے آ گیا ہے.مسیح علیہ السلام نے کہا کہ آنے والا ایلیا یہ یوحنا معمدان ہے چاہو تو مانو چاہو تو نہ مانو.یوں مسیح نے خود یہ مسئلہ حل کر دیا کہ کسی کے آسمان سے آنے سے مراد اس کے مشابہ شخص کا اسی دنیا میں پیدا ہونا ہے.سوال: اگر مرزا صاحب مسیح موعود ہیں تو کیا مسیح ناصری کی طرح معجزات لے کر آئے؟ انکے پاس تو کوئی معجزہ نہیں.شریف صاحب: وہ دین مردہ دین ہے جس میں معجزات نہیں.ہمیں صرف پرانے زمانے میں ہی معجزات نہیں دیئے گئے بلکہ ہم آج بھی ان کو دیکھ رہے ہیں.لیکن اگر مسیح نے معجزات اتنے دکھائے تھے تو یہود ایمان کیوں نہ لائے.پھر مسیح نے تو اس مسئلہ کا بھی حل دے دیا کہ معجزہ کون طلب کرتا ہے اور اس پر کس کی نظر ہوتی ہے.مسیح کہتا ہے کہ اس زمانے کے شریر اور فاسق لوگ معجزہ طلب کرتے ہیں.دوسرے پروگرام میں ہانی طاہر صاحب نے بھی شرکت کی اور یہ پروگرام ایک مناظرے کی شکل اختیار کر گیا.انہوں نے پچھلے پروگرام پر اپنے تبصرہ میں کہا:
487 مصالح العرب.....جلد دوم مسلمان ہمیں کیا سمجھتے ہیں یا کیا کہتے ہیں اس سے آپ لوگوں کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے یہ ہمارا مسلمانوں کا داخلی معاملہ ہے.ہمارے اختلافات کے باوجود ہمارا قرآن ایک ہے اس کی آیات مسلم ہیں.آپ چاہیں تو میں آپ کے عیسائی فرقوں کا اختلاف بیان کرسکتا ہوں جو اس حد تک پہنچا ہوا ہے کہ آپ اپنی مقدس کتاب کے بارہ میں بھی اختلاف رکھتے ہیں بعض کے نزدیک اس کی کتابیں کم بعض کے نزدیک زیادہ ہیں.کم از کم ہم میں یہ اختلاف تو نہیں ہے..عیسائی اعتراض: تمہارے مسیح موعود تو حد درجہ کے بیمار اور نہ جانے کون کونسی بیماریوں میں مبتلا تھے، وہ ہمارے مسیح ناصری کی طرح کیسے ہو سکتے ہیں جو لوگوں کو بیماریوں سے شفا دیتے تھے.جواب: انجیل میں ہے کہ تم عیب جوئی نہ کرو تا کہ تمہاری عیب جوئی نہ کی جائے کیونکہ جس طرح تم عیب جوئی کرو گے اسی طرح تمہاری عیب جوئی کی جائے گی.ނ صلیب پر لٹکائے جانے سے قبل یسوع نہایت حزین اور نہایت غم والم کی کیفیت گزر رہا تھا اور اپنے حواریوں سے کہتا تھا کہ میرے ساتھ رہو، اب آپ ہی بتائیں کہ جوشخص خود اپنے غم و حزن دور نہیں کر سکتا اس کے بارہ میں یہ کہنا کیسے جائز ٹھہرتا ہے کہ وہ دنیا کو غموں سے اور آلام سے نجات دینے آیا ہے.پھر آپ کی کتاب مقدس حضرت ایوب علیہ السلام کو ایسے رنگ میں پیش کرتی ہے کہ وہ سر سے لے کر پاؤں تک امراض میں مبتلا تھے اس پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں.پھر جسمانی امراض کے علاوہ مسیح کے نسب نامہ میں ایسے اشخاص موجود ہیں جو بائبل کے مطابق نہایت گری ہوئی روحانی بیماریوں میں مبتلا تھے.اس پر بھی آپ کو کوئی اعتراض نہیں.اس جواب کے بعد انہوں نے مسیح کی صلیب پر موت یا نجات کے بارہ میں بات کی اور واضح طور پر دفاعی حکمت عملی اختیار کی.پیلاطوس کی بیوی کا خواب دوسرے پروگرام کے آخر میں انہوں نے اپنی طرف سے ایک ایسا نکتہ پیش کیا جو ان کے خیال میں سب سے مضبوط تھا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” مسیح ہندوستان
488 مصالح العرب......جلد دوم میں کا حوالہ نقل کیا جس میں حضور نے فرمایا ہے کہ : ” اور اس کے ساتھ ایک اور آسمانی سبب یہ پیدا ہوا کہ جب پیلاطوس کچہری کی مسند پر بیٹھا تھا اس کی جورو نے اُسے کہلا بھیجا کہ تو اس راستباز سے کچھ کام نہ رکھ (یعنی اس کے قتل کرنے کے لئے سعی نہ کر ) کیونکہ میں نے آج رات خواب میں اس کے سبب سے بہت تکلیف پائی.(دیکھو متی باب 27 آیت 19 ).سو یہ فرشتہ جو خواب میں پیلاطوس کی جورو کو دکھایا گیا.اس سے ہم اور ہر ایک منصف یقینی طور پر یہ سمجھے گا کہ خدا کا ہرگز یہ منشاء نہ تھا کہ مسیح صلیب پر وفات پاوے.“ اس کی طرف اشارہ کر کے انہوں نے کہا کہ پوری انجیل میں کہیں یہ دکھا دیں کہ پیلاطوس کی بیوی کو خواب میں فرشتہ نے آ کر کہا ہو.بلکہ یہ عام خواب تھی جس کا خدا تعالیٰ یا فرشتہ سے کوئی تعلق نہ تھا.لہذا ثابت ہوا کہ مرزا صاحب نے اپنی کہانی کو سچا ثابت کرنے کے لئے فرشتہ کے لفظ کا اضافہ کیا اور پھر اس کو خدائی منصوبہ قرار دے دیا.گو کہ پروگرام میں اس اعتراض کا عام منطقی جواب دیا گیا.لیکن وہ اسی بات پر قائم رہے کہ انا جیل سے فرشتہ کا لفظ نکال کر دکھا ئیں.ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ صلیب سے بچانا الہی منصوبہ نہ تھا بلکہ صلیب پر مارنا ہی الہی منصوبہ تھا اس لئے ایسا رویا جس کا نتیجہ صلیب سے بچانے کی صورت میں نکل سکتا ہے وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوسکتا لہذا اس رویا کو فرشتہ کی طرف منسوب کرنا غلط ہے.اور اناجیل میں فرشتہ کا لفظ بھی نہیں آیا لہذا یہ مرزا صاحب نے خود کہانی بنائی ہے.یہ پروگرام تو ختم ہو گیا بعد میں اس عیسائی چینل نے اپنی ویب سائیٹ پر اس پروگرام کی ویڈیو اور پورا ٹیکسٹ بھی لکھ کر ڈال دیا.یہ دونوں پروگرام آج تک اس ایڈریس پر موجود ہیں: http://islamexplained.com/DNN ArticleView/tabid/104/ rticleld/194/062.aspx http://islam explained.com/DNNArticle | View/tabid/104/ArticleId/195/063.aspx ان عیسائی پروگراموں کے بعد ہونے والے الحوار المباشر میں ان کے جملہ اعتراضات کو اکٹھا کر کے تفصیلی جواب دیا گیا.ان میں پیلاطوس کی بیوی کے رویا سے متعلق اعتراض کا بھی رڈ شامل تھا.اس بارہ میں ہماری کوشش تھی کہ عیسائی مصادر سے کوئی ایسا حوالہ مل جائے جس سے.
489 مصالح العرب.....جلد دوم بات ثابت ہوتی ہو تو عیسائیوں پر حجت ہو سکتی ہے کیونکہ عام منطقی اور عقلی بات کو وہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے.اس سلسلہ میں تحدیث نعمت کے طور پر عرض ہے کہ خاکسار نے انٹرنیٹ پر مختلف عیسائی ویب سائٹس پر تحقیق کی تو پروگرام کے شروع ہونے سے قبل ایک حوالہ مل گیا.لیکن مکمل تحقیق کے بغیر اسے پروگرام میں پیش نہیں کیا جاسکتا تھا لہذا دورانِ پروگرام ہی اس حوالہ کے بارہ میں تحقیق جاری رہی حتی کہ مذکورہ سوال کے جواب کے وقت بفضلہ تعالیٰ سب کچھ واضح ہو گیا.اور جب اس سوال کے جواب میں یہ حوالہ پیش کیا گیا تو سب شرکاء کو بھی ایک عجیب خوشی اور خوشگوار حیرت ہوئی کیونکہ ہم اس قسم کے حوالے کی تلاش میں تھے اور اس کے مل جانے کی کسی کو خبر نہ تھی.ازاں بعد اسی پروگرام میں اور اگلے دن دوبارہ اسی حوالے کو متعدد بار پیش کیا گیا.فالحمد للہ علی ذلک.قارئین کرام کی دلچسپی اور ریکارڈ کی خاطر یہ حوالہ یہاں درج کیا جاتا ہے.اسکندریہ مصر کے شہید مارجرجس" نامی چرچ کے پادری" تادرس یعقوب مد ملطی“ نے بائیبل کی تفسیر جمع کی ہے جس کی بناء پرانے قدیسوں کی تفاسیر پر ہے.اس تفسیر کی ویب سائٹ کا صفحہ کھولتے ہی پہلا جملہ جو لکھا ہوا نظر آتا ہے یہ ہے کہ تفاسیر کا یہ نہایت اہم سیکشن ہے جس میں بہت سے غلط خیالات اور غلط تفسیرات کا رد ہو جاتا ہے.اس تفسیر میں جب ہم انجیل متی باب 27 کے اس حصہ کی تفسیر دیکھتے ہیں جہاں پیلاطوس کی بیوی کے رویا کا ذکر ہے تو یہ کلمات ملتے ہیں: وإذ أراد الله أن يرشده حدّثه خلال زوجته في حلم، فأرسلت تقول له : إياك وذلك البار، لأنى تألمت اليوم كثيرا في حلم من أجله كان ذلك درسا ليس لبيلاطس وحده وإنما لرؤساء الكهنة والشيوخ لكى يرو ا ويسمعوا غريب الجنس بيلاطس يعلن براءة السيد بغسل يديه قدام الجميع وهو يقول : إنى برىء من دم هذا البار (http://st-takla.org/pub_ Bible- Interpretations/Holy-Bible-Tafsir-02- New-Testament/Father-Tadros-Yacoub-Malaty /01- Engeel-Matta/Tafseer - Engil- Mata _01- Chapter-27.html) اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے پیلاطوس کی راہنمائی کرنے کا ارادہ کیا لہذا اس کی بیوی کی خواب کی
490 مصالح العرب......جلد دوم کے ذریعہ سے اس تک اپنی بات پہنچائی، چنانچہ اس کی بیوی نے اسے کہلا بھیجا کہ تو اس راستباز سے کچھ کام نہ رکھ کیونکہ میں نے آج خواب میں اس کے سبب سے بہت دکھ اٹھایا ہے.اس میں نہ صرف پیلاطوس بلکہ تمام سردار کاہنوں اور بزرگوں کے لئے بھی ایک درس تھا تا کہ وہ دیکھیں اور سنیں کہ ایک غیر قوم کا آدمی پیلاطوس لوگوں کے روبرو ہاتھ دھو کر مسیح کی براءت کا اعلان کر رہا ہے کہ میں اس راستباز کے خون سے بری ہوں.اس حوالہ کے مطابق یہ خواب خدا کی طرف سے تھی بلکہ یہ پیلاطوس کے لئے خدا کا پیغام تھا.اور پیلاطوس کا ہاتھ دھو کر مسیح کی براءت کا اعلان کرنا اسی پیغام کی وجہ سے تھا.اب اس تفسیر کے مطابق جو عیسائیت کے اوائل علماء کی تفسیر کہلاتی ہے عیسائی خود فیصلہ کر لیں کہ کیا خدا نے خود آ کر پیلاطوس کی بیوی سے بات کی تھی یا کوئی فرشتہ آیا تھا.عیسائی معترضین کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ قول کی صداقت کی اس سے زیادہ 00000 اور کیا دلیل چاہئے؟! XXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد دوم 491 الحوار المباشر اور ایم ٹی اے 3 العربیہ کے بارہ میں معلومات درج کرنے کے بعد اب ہم اس عرصہ کے بعض متفرق امور کا ذکر کرتے ہیں.وو مریم نے صلیب تو ڑ دی ہے 2005ء میں عیسائیت کا فتنہ عروج پر تھا.اسی سال تفسیر کبیر کی جلد نمبر 5 کا ترجمہ ہورہا تھا جو سورہ مریم کی تفسیر سے شروع ہوتی ہے.سورہ مریم کی ابتدا لھیعص کے مقطعات سے ہوتی ہے جس کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لکھا ہے کہ مقطعات کے ان حروف سے مراد الہی صفات کافی و ہادی اور علیم و صادق ہیں جن کو عیسائیت نے نہ سمجھ کر غلط مذہب اختیار کیا اور انہی صفات سے کام لے کر ہم نے عیسائیت کا رد کر دیا.چنانچہ آپ نے لکھا کہ ان حروف مقطعات میں عیسائی عقائد کا بطلان پوشیدہ ہے.ان حروف مقطعات کی تفسیر جلد پنجم کے تقریباً 120 صفحات پر محیط ہے.جب تغیر کبیر جلد پنجم کا عربی ترجمہ تیار ہو گیا تو حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عیسائیت کے رڈ پر مشتمل اس حصہ کو علیحدہ کتاب کی صورت میں شائع کرنے کا ارشاد فرمایا تا عیسائیت کے فتنہ کو فرو کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ مواد فراہم کیا جائے.چنانچہ اس حصہ کو کتابی شکل میں تیار کیا گیا.اب مرحلہ اس کے مناسب عنوان کا تھا جس کے لئے مختلف عرب احباب نے کئی نام تجویز کئے جن میں سے حضور انور نے مکرم تمیم ابو دقہ صاحب آف اردن کا تجویز کردہ نام ( مریم، تكسر الصليب ) منظور فرمایا جس کا مطلب ہے کہ سورۃ مریم نے صلیب توڑ کے رکھ دی ہے.یہ نام کتاب کے مضمون کے عین مطابق اور مناسب حال ہے.وو
مصالح العرب.....جلد دوم 492 اسلامی اصول کی فلاسفی ایک مُلهَم مِنَ اللہ کی نظر سے ڈاکٹر محمد عبد وصاحب ایک عرب ملک میں یونیورسٹی کے استاد ہیں انہوں نے 12 / نومبر 2007 ء کو اپنے ایک خط میں لکھا: مجھے آپ کی طرف سے مرسلہ کتب ملیں ، جن میں سے میں نے اسلامی اصول کی فلاسفی (عربی ترجمه) تالیف مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ساری کی ساری پڑھ لی ہے.یہ بہت ہی گہری، غیر معمولی فائدہ بخش اور نہایت اعلی پائے کی کتاب ہے.بلکہ علم المقاصد کے موضوع پر میں نے اسے نہایت خوبصورت اور عظیم الشان پایا ہے.کیونکہ اس میں مؤلف نے شرعی احکام کے مقاصد اور ان کی علت کے بارہ میں بعض ایسے نکات بیان فرمائے ہیں جو صرف انہی کا خاصہ ہیں.اور یہ بات مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں مؤلف کا شمار ان عظیم علماء میں کروں جنہوں نے شریعت اسلام کو ایک ملہم من اللہ کی نظر سے دیکھا ہے نہ کہ ایک مقلد کی نظر سے.وہ ایک عارف باللہ کے دل کے ساتھ شریعت اسلامیہ کی گہرائیوں تک پہنچے ہیں.میں یہ سچ کہنے سے رک نہیں سکتا کہ اگر احکام شریعت کے مقاصد سے بے بہرہ لوگوں کے فتنہ کا ڈر نہ ہو جو اس شخص کی قدر و منزلت سے بے خبر ہیں، تو میں اس کتاب کو یونیورسٹی میں مقاصد الشریعہ کے اپنے طلباء کے نصاب کے طور پر مقرر کر دوں.یادر ہے کہ خاکسار یونیورسٹی میں علم المقاصد اور اصول فقہ کا مضمون پڑھاتا ہے.
مصالح العرب.جلد دوم 493 قرآن پر عیسائی حملہ کا جواب 2004 ء کے آخر اور 2005ء کے شروع میں انٹرنیٹ پر ایک خبر بڑی تیزی سے گردش کرنے لگی کہ عیسائیت کی سازش سے ”الفرقان الحق“ کے نام سے تیار کی جانے والی کتاب کو نئے قرآن کے نام سے پھیلایا جارہا ہے اور کویت کے بعض مدارس میں یہ کتاب طالب علموں میں تقسیم کی جارہی ہے.اس کتاب کی پہلی دفعہ اشاعت 1999ء میں کیلی فورنیا میں ہوئی.اس کے ناشر کا نام Wine Press Publishing, Enumclaw, WA ہے.یہ کتاب عربی اور انگریزی ہر دوزبانوں میں شائع کی گئی.عربی کتاب 366 صفحات مشتمل ہے جس میں 77 سورتیں ہی گھڑ کے شامل کی گئی ہیں.اس کتاب کے بارہ میں کہا گیا کہ یہ ٹوٹل بارہ اجزاء پر مشتمل ہے اور اس کا پہلا جز و الفرقان الحق کے نام سے شائع کیا گیا جبکہ باقی اجزاء بھی اسی نام سے مختلف اوقات میں شائع کئے جائیں گے.عربی کتاب پر اس کے مؤلف کا نام ”الصفی، المہدی لکھا گیا جب کہ اس کے انگریزی مترجم انیس شوریش ہیں.اس کتاب کا انتشار شروع شروع میں امریکا تک ہی محدود رہا یا اسے انٹرنیٹ کے ذریعہ فروخت کیا جاتا رہا.لیکن رفتہ رفتہ یہ کتاب بعض غیر ملکی مدارس کے ذریعہ کو بیت میں بھی داخل ہو گئی جہاں اسے مختلف مضامین میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء میں بطور انعام تقسیم کیا جانے لگا.چنانچہ 2004 ء کے آخر اور 2005 ء کے شروع میں جب یہ خبر انٹرنیٹ پر عام ہوئی تو یہی وہ دن تھے جب ہمارے بعض عرب احمدیوں کی طرف سے الا زہر کی انتظامیہ اور ان کے مشایخ کی بعض غلط فہمیوں کو دور کرنے اور ان تک جماعت کی صحیح تعلیمات کی پہنچانے کی کوشش
مصالح العرب.جلد دوم ہورہی تھی.494 انہی دنوں میں 22 / مارچ 2005ء کو دوران ملاقات حضور انور نے مکرم عبد المومن طاہر صاحب کو فر مایا کہ محمد شریف عودہ صاحب سے کہیں کہ ”الفرقان الحق“ نامی اس کتاب کے بارہ میں عربوں کو ہلائیں.ازھر والوں کو یہ کتاب دیں اور انہیں کہیں کہ اس کتاب کا آپ جواب کیوں نہیں دیتے؟ ان کی کوشش ہے کہ اسے اسلامی دنیا میں پڑھایا جائے اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کا Brain wash کیا جائے.ان کا ارادہ ہے کہ عیسائیت کو مسلمانوں کے افکار میں Mix کیا جائے ، جیسا کہ ان کی عادت ہے کہ ہر جگہ عیسائیت کا مقامی برانڈ ہوتا ہے،مشرق میں اور عیسائیت اور مغرب میں اور.کیونکہ یہ لوگ مقامی Traditions کو بھی دین میں Mix کر لیتے ہیں.چنانچہ محمد شریف صاحب کو حضور انور کا یہ ارشاد پہنچایا گیا جس پر عمل کرنے کے بعد مکرم شریف صاحب نے 24 اپریل 2005 ء کو اپنے ایک خط میں رپورٹ دی کہ انہوں نے ازہر والوں کو جماعت کے تعارف پر مشتمل کتاب دی اور ساتھ ”الفرقان الحق کا جواب دینے کے بارہ میں بھی کہا تو از ہر والوں نے کہا کہ ہمارا یہ تقریباً متفقہ فیصلہ ہے کہ ہم نہ تو اس کتاب کا ، نہ ہی تو عیسائیوں کے دیگر حملوں کا جواب دیں گے.ہم تفصیل اس کے سبب کا ذکر کر آئے ہیں اور وہ ہے مصر میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان امن کی فضا قائم رکھنے کی خاطر بنایا ہوا قانون، جسے دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف عدالت میں استعمال کرتے رہے ہیں.اور چونکہ یہ حملے مصر کے باہر کے عیسائیوں کی طرف سے تھے اس لئے گویا مصری عیسائیوں کا اس میں کوئی قصور نہ تھا اور ان حملوں کا جواب دینا گویا مصری عیسائیوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ٹھہرنے کا خدشہ تھا اور ایسی صورت میں مذکورہ قانون کی زد میں آنے کا امکان تھا.لہذا الا زہر نے نہ عیسائی حملہ کا جواب دیا نہ اس ” الفرقان الحق“ نامی جھوٹ کے پلندے کا رڈ لکھا.الازہر کے مذکورہ جواب پر حضور انور نے فرمایا: اگر ان کا یہی فیصلہ ہے تو ہم اس پر إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا لَيْهِ رَاجِعُوْنَ“ کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں.اللہ ان کو ہدایت دے اور انہیں غفلت کی نیند سے جگائے.“
495 مصالح العرب.....جلد دوم چنانچہ اس کے بعد پھر حضور انور نے فرمایا کہ آپ اپنے پروگراموں میں عیسائی حملہ کا جواب دیں اور پھر مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب مرحوم کے پروگرام أَحْوِبَه عَنِ الْإِيْمَانَ “ اور الْحِوَارُ الْمُبَاشَر میں لمبے عرصہ تک عیسائی اعتراضات کے رڈ اور بائبل کے مطابق ان کے عقائد کی بحث جاری رہی.اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خبر تو مسلمانوں کی بے شمار ویب سائٹس نے نشر کی اور اس پر لاحول پڑھے اور اسے عیسائی اور یہودی سازش قرار دیا لیکن اگر عالمی سطح پر کسی نے اس کا صحیح اور مسکت اور معقول جواب دیا تو وہ صرف اور صرف امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دیا.آپ نے تین چار خطبات میں اس موضوع پر روشنی ڈالی.اس ضمن میں حضور انور کے ارشادات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے.پہلے حصہ میں آپ نے آیات قرآنیہ خصوصًا إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحْفِظُونَ (الحجر:10) کے حوالے سے قرآن کریم کی الہی حفاظت اور اس میں کبھی تحریف و تبدل کا امکان نہ ہونا ثابت فرمایا.پھر مستشرقین کے اقوال کا ذکر کیا جن میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ مسلمانوں کے پاس وہی قرآن کریم ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا.دوسرے حصہ میں اس دجالی سازش کا تفصیلی ذکر فرمایا اور اس کے تاریخی پس منظر اور اہداف پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: فی زمانہ دقبال نے ایک یہ چال چلی کہ اس میں رد و بدل کر سکے لیکن یہ کوششیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتیں.جیسا کہ پہلے بھی میں ایک دو دفعہ ذکر کر چکا ہوں.اس قرآن کریم میں رڈ و بدل کا یا اس کے مقابل پر نیا قرآن کریم پیش کرنے کی جو عیسائیوں کی ایک چال تھی ، بہت بڑا خوفناک منصوبہ تھا اور اس کو پہلی دفعہ انہوں نے ” فرقان الحق“ کے نام سے شائع کیا.خود ہی اپنے پاس سے الفاظ بنا کر، کچھ قرآن کریم کے الفاظ لے کر کچھ اپنے پاس سے ملا کر، جوڑ جاڑ کر کچھ آیتیں بنائیں اور کچھ سورتیں بنالیں.ستر یا ستہتر میرا خیال ہے اور پہلی دفعہ اس کی اشاعت 1999ء میں ہوئی ان کا خیال ہے کہ جو آنے والا مسیح ہے اس کے آنے کی خبر دینے کے لئے آسان طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو پہلے ذہنی طور پر تیار کر لیا جائے اور فرقان الحق کے نام
496 مصالح العرب......جلد دوم سے ایک کتاب ان میں متعارف کروا دی جائے.“ خطبه جمعه فرموده 11 /جنوری 2008) تیسرے حصہ میں حضور ایدہ اللہ نے ساری جماعت کو خصوصا اور غیر احمدی مسلمانوں کو عموما قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے اور ان پر مضبوطی سے قائم ہو جانے کی تلقین فرمائی کیونکہ اس حملہ کا اس سے بہتر اور کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا کہ جب دشمن اسلامی تعلیمات میں تحریف کی کوشش کر رہا ہے اس وقت ہم اس تعلیم کے ساتھ چمٹ جائیں اور اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں.اس دجالی کوشش کے جواب میں اکثر مسلمانوں، بڑے بڑے اداروں اور تنظیموں اور نام نہاد محافظین اسلام کے کانوں پر تو جوں بھی نہ رینگی اور جو چند بولے ان کا جواب نہایت سطحی رہا.اس سلسلہ میں حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مذکورہ حکیمانہ جواب جیسا کوئی جواب کسی اور طرف سے دیکھنے سننے میں نہ آیا.اور ایک دفعہ پھر ثابت ہوگیا کہ جب بھی اسلام کی ناموس اور قرآن کی عزت و توقیر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف کا معاملہ اٹھے گا جماعت احمد یہ اس کے مؤثر دفاع میں صف اول میں کھڑی نظر آئے گی.00000 XXXXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.جلد دوم 497 انہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی صد سالہ خلافت جوبلی کی تقریبات ایک ایسی بے مثال خوشی کا موقع تھا جس کا صحیح اندازہ صرف اور صرف افراد جماعت احمدیہ ہی لگا سکتے ہیں.یہ دن نعمت خداوندی کے استمرار ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے اور احمدیوں کے اس نعمت سے بہرہ مند ہونے پر اظہار تشکر کے دن تھے.در حقیقت جو بلیاں اور خوشیاں منانے کا ہمارا نقطہ نظر اور انداز پوری دنیا سے مختلف ہے.خوشیوں کا دن ہمارے لئے دنیا جہان کی لذتوں میں گم ہونے اور مادر پدر آزاد ہونے اور اسراف و فضول خرچی کا نام نہیں ہے بلکہ خدا کی نعمتوں پر شکر کرنے سے عبارت ہے.پھر ہماری یہ خوشیاں صرف ایک دن تک ہی محدود نہیں رہتیں بلکہ شکر کے سلسلے اس معین دن میں دو چند ہو جاتے ہیں جس کے بعد ایک نئے رنگ میں پہلے سے بڑھ کر حسین صورت میں جاری رہتے ہیں.اس لحاظ سے جو بلی کی تقریبات اور خدا تعالیٰ کے شکر کے ساتھ خوشیاں منانے کا یہ دن صرف 28 مئی 2008 ء تک ہی محدود نہ رہا، نہ ہی اس سال تک اس پر عمل رہا بلکہ یہ تو ایک سلسلہ کی ابتدا تھی جو آج تک جاری ہے اور اگلی صدی تک جاری رہے گا جہاں سے پھر ہم ایک نئے عزم اور نئے ولولے کے ساتھ مزید آگے بڑھتے جائیں گے.ایک کو تاہ نظر دنیا دار اور مغرب کے طور طریقوں کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے والے کو ہمارا خوشیاں منانے کا طریق کیونکر پسند آئے گا.ایمان و اخلاص کی فصلوں پر جب شکر و احسان مندی کے پھل لگتے ہیں اور خدا کی رحمت وافضال کی ہواؤں سے وہ فصلیں لہلہاتی ہیں اور ان پر انعامات و تائیدات اور نشانات ربانیہ کی جب پھوار پڑتی ہے تو الہی جماعتوں کی خوشی شکر کے
مصالح العرب......جلد دوم 498 جذبات میں ڈھل کر سجدوں کی صورت آستانہ الوہیت پر گرتی ہے.یہ وہ خوشی ہے جس کا بیان ممکن نہیں.یہ وہ لذت ہے جس کا ثانی کوئی نہیں اور اسی کو دیکھ کر کفار اور مخالفین طیش و غضب میں آجاتے ہیں اور یہی وہ روحانی فصلیں ہیں جو لِبَغِیظُ بِهِمُ الكُفَّار کا سبب بنتی ہیں.ایسی ہی ایک صورت ہمارے عرب مخالفین کے ساتھ پیدا ہوئی.ہوا یوں کہ جب دریا دہن پادری کے مزاعم کا مسلمانوں میں سے صرف اور صرف جماعت احمدیہ نے مؤثر جواب دیا اور مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت اور راہنمائی میں اس کام میں نمایاں خدمت کی توفیق ملی تو جماعت کے عرب مخالفین میں سے ”محمود القاعود نامی شخص نے مصطفیٰ ثابت صاحب کو خط لکھا کہ آپ اس جماعت سے کنارہ کش ہو جائیں.چونکہ وہ جانتے تھے کہ دیگر مسلمانوں میں سے اس طرح کے مؤثر کام کی توفیق کسی کو نہیں ملی، اور اگر توفیق ملی تو ایک ایسی جماعت کو جسے وہ مسلمان ہی نہیں سمجھتے لہذا ان کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو اس جماعت کو مسلمان سمجھیں اور یوں یہ پادری کے اعتراضات کا رڈ ، اسلام کی طرف سے شمار ہو یا دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس شخص کو جماعت سے توڑ کر اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی جائے جس نے اس حملہ کے رد میں نمایاں کردار ادا کیا ہے.محمود القاعود جماعت کا شدید مخالف اور بد زبان ہے لیکن اس کے باوجود اس کے منہ سے ایک آدھ دفعہ کلمہ حق بھی نکل گیا ہے.جب ایم ٹی اے 3 العربیہ کی نشریات بند کروانے کیلئے مصر کے قبطی چرچ کے مشیر نجیب جبرائیل نے کوششیں شروع کیں تو القاعود صاحب نے آرٹیکل لکھا جو آج تک انٹرنیٹ پر موجود ہے جس میں لکھا کہ اے جبرائیل کیا تجھے اب یہ رونا رونے کا خیال آیا ہے.جب عیسائی پادری بد زبانی اور گندے اعتراضات کر رہا تھا اس وقت تم کہاں تھے؟ کیا اس وقت مسلمانوں کے جذبات مجروح نہیں ہوتے تھے؟ اب جماعت احمد یہ کے چینل نے اس کا رڈ کرنا شروع کیا تو اب تجھے یاد آیا کہ اس سے عیسائیوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں! وغیرہ وغیرہ.اس کے اس مذکورہ آرٹیکل پر مصطفیٰ ثابت صاحب نے شاید انہیں شکریہ کا خط لکھا جس کے جواب میں انہوں نے ثابت صاحب کو جماعت احمدیہ سے دور ہونے کا مشورہ دیا.بہر حال مصطفیٰ ثابت نے اس کے جواب میں ایک مفصل خط تحریر کیا جس کی ابتدا میں لکھا
499 مصالح العرب.....جلد دوم کہ مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی بات نہیں مان سکتا لیکن اس کے ساتھ ہی میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ میرے لئے اس چیز کے خواہاں ہیں جسے آپ اپنی دانست میں میرے لئے بہتر سمجھتے ہیں.اس کے جواب میں میرا بھی فرض بنتا ہے کہ آپ کو اس چیز سے آگاہ کروں جسے میں آپ کے لئے بہتر سمجھتا ہوں.چونکہ میں مصری ہوں اس لئے میری درخواست ہے کہ آپ اُس مصری کا قول یا درکھیں جسے قرآن نے تا قیامت محفوظ کر لیا ہے: وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيْمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُوْلَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَ كُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ وَإِن يَكُ كَاذِباً فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِن يَكُ صَادِقاً يُصِبُكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا و.يَهْدِى مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ.(سورة غافر: 29) اور فرعون کی آل میں سے ایک مومن مرد نے کہا جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا کہ کیا تم محض اس لئے ایک شخص کو قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے کھلے کھلے نشان لے کر آیا ہے.اگر وہ جھوٹا نکلا تو یقیناً اُس کا جھوٹ اُسی پر پڑے گا اور اگر وہ سچا ہوا تو جن چیزوں سے وہ تمہیں ڈراتا ہے ان میں سے کچھ ضرور تمہیں آپکڑیں گی.یقینا اللہ اُسے ہدایت نہیں دیا کرتا جو حد سے بڑھا ہوا ( اور ) سخت جھوٹا ہو.اس کے بعد جماعت کا تعارف مختلف بلاد میں پھیلنے، تراجم قرآن اور تبلیغ کا فریضہ سرانجام دینے ، اور صد سالہ جوبلی اور اس کے بعض پروگرامز کا بھی تفصیلی ذکر کیا، اور اسے جماعت کی صداقت کو قبول کرنے کی دعوت دی.القاعود صاحب خود تو اس خط کا جواب دینے سے قاصر رہے تا ہم انہوں نے اپنے استاد فؤاد العطار کی مدد حاصل کی جنہوں نے ثابت صاحب کے پورے خط کی نص درج کرنے کے بعد اپنے معروف اوچھے انداز میں مختلف امور پر اعتراضات کئے جو انہوں نے قبل ازیں بھی اپنے دیگر آرٹیکلز میں بارہا بیان کئے ہیں.ان میں جوزائد بات تھی وہ انہوں نے خلافت جو بلی کے حوالے سے کہی.مصطفیٰ ثابت صاحب نے لکھا تھا کہ 2008ء میں جماعت خلافت علی منہاج النبوۃ کے دوبارہ قیام پر سو سال پورے ہونے کی خوشی میں خلافت جوبلی منا رہی ہے.اس پر انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے جو بلی منانی ہے، میں نے
500 مصالح العرب.....جلد دوم اس سلسلہ میں آپ کی جماعت کا شائع کردہ اعلان بھی پڑھا ہے کہ وہ اس موقع پر مرزا مسرور احمد صاحب کو ایک ملین پونڈز کا تحفہ پیش کرنے کے لئے کوشاں ہے تا کہ وہ اسے جہاں چاہیں خرچ کریں.یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی جماعت دین کے نام پر لوٹ کھسوٹ کرنے والا لٹیروں کا ایک گروہ ہے.(?http://www.odabasham.net/show.php) ان کی اس ہرزہ سرائی پر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہی ان کی سوچ کی آخری حد ہے.لیکن یہ جان کر ان کے حسد کی آگ شاید دو چند بلکہ اڑھائی چند ہوگئی ہو گی کہ ایک ملین کی بجائے اللہ تعالیٰ نے اپنی اس پیاری جماعت کو اڑھائی ملین پونڈ ز اپنے آقا کے قدموں میں پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اب رہی ان کی بدظنی تو اس کا بہترین جواب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے جلسہ سالانہ برطانیہ 2009ء کے دوسرے دن کے خطاب کا وہ حصہ ہے جہاں حضور نے اس خطیر رقم کے مصرف کے بارہ میں گفتگو فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں: میں ان سب جماعتوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ایک بڑی رقم پیش کی ہے.جن منصوبوں کے متعلق فکر تھی کہ وہ کیسے مکمل ہوں گے اب وہ اس رقم سے مکمل ہوں گے.انشاء اللہ.جو بلی سال میں افریقہ کے ممالک میں مساجد اور مشن ہاؤسز میں اس رقم میں سے جو رقم خرچ ہو چکی ہے وہ تقریباً دس لاکھ 65 ہزار پاؤنڈز ہے.اسی طرح مسجد اقصیٰ قادیان کی توسیع کی گئی ہے.اب پانچ ہزار نمازیوں کے لئے گنجائش ہوگئی ہے.لائبریری کی بلڈنگ بنائی گئی ہے جس میں کئی لاکھ کتابیں رکھی جاسکتی ہیں.پریس، گیسٹ ہاؤسز وغیرہ بنائے گئے ہیں.ان منصوبوں پر 8لاکھ پاؤنڈ ز کے قریب خرچ ہوئے ہیں.بنگلہ دیش میں بھی مساجد تعمیر کی گئی ہیں.یورپ میں مساجد ومشن ہاؤسز پر پانچ لاکھ پاؤنڈز خرچ ہوئے ہیں.بعض اور ممالک میں بھی اس فنڈ سے رقم خرچ ہوئی ہے“.اس پیار اور اخلاص سے دیئے گئے تحفہ کو پیارے آقا نے فَحَبُّوْا بِأَحْسَنَ مِنْهَا كا نہایت ہی دلکش نمونہ پیش فرماتے ہوئے ایسے کاموں میں خرچ فرمایا کہ صدقہ جاریہ بن کر ہمیشہ کے لئے پوری جماعت کے لئے ثواب کا موجب بنتا ر ہے.
مصالح العرب.جلد دوم دل کا پہلا وا 501 جماعت احمدیہ کی صد سالہ خلافت جوبلی پر بعض عرب مخالفین کو بڑی دور کی سوجھی اور انہوں نے اپنا حسد یوں نکالا کہ جوش میں آکر پیشگوئی کر دی کہ جماعت احمدیہ کی اس جو بلی کے سال 2008ء میں صف لپیٹ دی جائے گی.اس عنوان سے ڈاکٹر ابراہیم محمد خان کے نام سے ایک شخص نے 23 اگست 2006ء کو ایک طویل مقالہ لکھا جس میں جملہ افتراءات واعتراضات کو درج کرنے کے بعد آخر پر یہ پیشگوئی بھی کر دی کہ 2008ء تک اہل سنت جماعت والے احمدیت کا پول کھولنے کے لئے ایک چینل کھول رہے ہیں جس کی بنا پر احمدیت کی جو بلی کا سال نحوست کے سال میں بدل جائے گا.(http://pulpit.alwatanvoice.com/articles/2006/08/23) اس خبر کے نشر ہونے پر مکرم تمیم ابو دقہ صاحب آف اردن نے اس پر تبصرہ لکھا جو آج تک اس ویب سائٹ پر موجود ہے.انہوں نے لکھا کہ ہم اس مزعومہ چینل کے شروع کرنے پر آپ کے شکر گزار ہیں کیونکہ یہ آپ کے جھوٹ اور سوء خلق کو دنیا کے سامنے مزید کھولنے کا سبب ٹھہرے گا اور جماعت احمدیہ کی تبلیغ کو پھیلانے کا باعث بنے گا.سن 2008ء قریب ہے اور آپ دیکھیں گے کہ جماعت ایک کامیابی سے دوسری کی طرف رواں دواں رہے گی.اور آپ خود ہی دیکھ لیں گے کہ انجام کارکون کامیاب وکامران ٹھہرتا ہے.جب جماعت احمدیہ کی خلافت جو بلی گزرگئی اور جماعت پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ آگے بڑھتی گئی تو 11 مئی 2009ء کو فلسطین کے احمدی مکرم علاء نجمی صاحب نے اس آرٹیکل پر تبصرہ لکھا جو اس ویب سائٹ پر موجود ہے کہ اے ڈاکٹر ابراہیم صاحب آپ کہاں ہیں؟ آج ہم 2008ء کے بعد 2009 ء کے وسط میں آپہنچے ہیں اور جماعت پہلے سے بڑھ کر ترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہے.19 جولائی 2009 ء کو اسی صفحہ پر ایک شخص مکرم اسامہ صاحب نے تبصرہ لکھا کہ آرٹیکل کے لکھنے والے کو سمجھ لینا چاہئے کہ ہم اکیسویں صدی میں ہیں.ان کے جھوٹ سن سن کر ہم تھک چکے ہیں.میں نو احمدی ہوں اور میرے احمدیت قبول کرنے کی بڑی وجہ آپ لوگوں کا جھوٹ ہے جو ی
مصالح العرب.....جلد دوم آپ بولتے جارہے ہیں.502 پھر 10 اپریل 2010 ء کو کرم کمال صاحب نے مصر سے ایس آرٹیکل پر تبصرہ لکھا کہ اب ہم سن 2010ء میں ہیں اور جماعت احمدیہ ترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہے.عجیب بات یہ ہے کہ اس عرصہ میں جماعت کے خلاف متعدد عربی چینل کھولے گئے لیکن تمام کے تمام ہی مالی یا دیگر مختلف اسباب کی وجہ سے بند ہو گئے ہیں اور ان میں سے جو بعد میں دوبارہ کھولے گئے تو انہیں نام بدلنا پڑا.جبکہ ایم ٹی اے العربیہ 3 اسی نام سے آج تک جاری ہے اور جاری رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ.00000 XXXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.جلد دوم 503 خلافت کی تمنا جماعت احمدیہ کی خلافت جوبلی کے حوالے سے بعض عرب مخالفین کے حاسدانہ اور معاندانہ رویوں کی ایک جھلک پیش کرنے کے بعد اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان عرب مخالفین کا خلافت کے بارہ میں نقطہ نظر بھی یہاں بیان کر دیا جائے.خلافت کے قیام کا وعدہ تو قرآن کریم میں بھی موجود ہے.(سورۃ النور آیت) اور خلافت علی منہاج نبوت کی پیشگوئی کا ذکر حدیث شریف میں ہے.پھر یہ لوگ خلافت کی اہمیت اور افادیت سے تو منکر نہیں ہو سکتے.لیکن یہ لوگ کس قسم کی خلافت کے قائل ہیں؟ اس لئے ذیل میں خلافت کے بارہ میں ان لوگوں کا نقطہ نظر پیش کر کے اس کا تجزیہ قارئین کرام کی دلچسپی کے لئے پیش ہے.خلافت کی اہمیت اور افادیت کا اعتراف القاہرہ یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کے سابق لیکچرار ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب اپنی كتاب ( الإسلام والخلافۃ فی العصر الحاضر ) میں لکھتے ہیں : ” خلافت کا قیام فرض کفایہ ہے.پھر دین کے اس سب سے بڑے فرض کی ادائیگی سے غفلت اور پہلو تہی کی حد تک کو تا ہی اختیار کرنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے...امت مسلمہ کی کمزوری، ناکامی، انحطاط اور باہمی روابط کے ختم ہونے کے اسباب میں سب سے بڑا سبب اس فرض سے غفلت ہے.صرف اور صرف خلافت سے ہی امت مسلمہ کو یکجا کیا جاسکتا ہے.اسی سے ہی ناامیدی کے مارے ہوئے نفوس کے لئے امید کی کوئی کرن پیدا ہو سکتی ہے اور اسی کے
504 مصالح العرب......جلد دوم ذریعہ ہی عزت اور وقار کی منزل کی طرف بڑھا جا سکتا ہے.کیونکہ عالم اسلامی میں ایسی کوئی طاقت یا حکومت یا لیڈرشپ نہیں ہے جس سے مذکورہ بالا اہداف کی تکمیل ہو سکے، خصوصا ایسی حالت میں جبکہ ہم آپس کے لڑائی جھگڑے، باہمی پھوٹ ، انحطاط اور ذلت کا شکار ہیں.“ الإسلام والخلافة في العصر الحاضرص 296 القاہر 0 1973 ء)....ایک اور مسلمان مفکر سعید حوا صاحب اپنی کتاب ( الا سلام، دراسات منہجیۃ ) کے صفحہ 377 پر لکھتے ہیں :.”بہت سے شرعی واجبات کی ادائیگی کا تعلق خلیفہ اور امام سے ہے اور ان کی انجام دہی خلیفہ کے علاوہ ممکن نہیں تجربہ گواہ ہے کہ خلیفہ کی عدم تقرری دین کے کاموں کو معطل کرنے اور دین کے خلاف بغاوت کے مترادف اور مسلمانوں کے تفرقہ کا موجب ہے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے.66 "حزب التحریر" کی ویب سائٹ پر آج سے پانچ سال قبل خلافت کے موضوع پر ایک طویل مضمون موجود تھا جس میں سے ایک پیرے کا خلاصہ یہ ہے: امت مسلمہ کی زندگی اور موت کا مسئلہ دین اسلامی کا مکمل طور پر قیام اور اس کے پیغام کو تمام دنیا تک پہنچانا ہے.دوسرے لفظوں میں اس کا نام اسلامی خلافت کا قیام اور شریعت کا نفاذ اور تمام لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہے.اسی سے ہی امت مسلمہ اپنے اس وصف کی مصداق ہو سکتی ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے: كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ) آل عمران : 111 ).خلافت کا قائم کرنا مسلمانوں پر فرض ہے بلکہ یہ تمام فرائض سے بڑا فرض و ہے.خلافت کے قیام کے لئے صرف انفرادی کوشش ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے لوگوں کے ایک بڑے پر عزم گروہ کے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے جو ایسا کرنے پر قادر ہو.“ (http://www.hizb-ut-tahrir.org/arabic/welayat/htm/01ramdan.htm) قیام خلافت کی امیدیں...ایک عربی ماہنامہ (الوعی ) نے اپنے شمارہ نمبر 197 ، بابت ماہ اگست 2003 ء میں (الخلافة أمنية) کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا جس میں قرآنی آیات اور ان
505 مصالح العرب.....جلد دوم احادیث سے ثابت کیا گیا ہے کہ خلافت کا قیام لازمی امر ہے.اس کے بعد لکھتے ہیں: خلافت علی منہاج النبوۃ صرف ایک تمنا ہی نہیں بلکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کیا کرتا...رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آخری زمانے میں خلافت کے قیام کی خوشخبری دی ہوئی ہے.پھر کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ خلافت محض ایک تمنا ہے.خدا کی قسم اللہ کی بات سچی ہے اور اس کا وعدہ سچا ہے اور خلافت کا قیام ہونے ہی والا ہے انشاء اللہ.(http://www.al-waie.org/home/issue/197/htm/197w09.htm) نبوت کے بغیر خلافت علی منہاج نبوت !! ہے کہ: خلافت نامی ایک ویب سائٹ پر ایک لمبا مضمون موجود ہے جس میں ایک جگہ لکھ خلیفہ کا بنانا تمام دنیا کے مسلمانوں پر دوسرے فرائض کی طرح ایک عظیم فرض ہے.اور یہ ایسا فرض ہے جس سے غفلت بہت بڑا گناہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ شدید ترین عذاب دے گا.“ (http://khilafah.net/main/index.php/default/khilafah/) اس ویب سائٹ کے مین پیج پر بھی جلی حروف سے حدیث نبوی کے یہ الفاظ لکھے ہیں: تَكُونُ خِلَافَة عَلَى مِنْهَاج النُّبُوَّة - لیکن تعجب ہے کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ منہاج نبوت پر قائم ہونے والی خلافت کے لئے پہلے نبوت ضروری ہے اور اس کو منہاج نبوت پر قائم ہونے والی خلافت راشدہ سے ایک نسبت ہے جسے خود خدا نے قائم فرمایا تھا.چنانچہ ایسی خلافت لوگ خود قائم نہیں کر سکتے بلکہ خدا کی طرف سے انعام ہوتی ہے.خود خلیفہ بنانے کے نظریہ کے منطقی نتائج 1.اگرلوگوں میں خلافت کو خود قائم کرنے کی باتیں ہوں گی تو یہ سوالات بھی پیدا ہوں گے کہ کون خلیفہ بننے کے لائق ہے.چنانچہ کئی ویب سائٹس پر یہ سوال بھی پوچھا گیا ہے جس کے کئی جواب دیئے گئے ان میں سے دو تین نمونے کے طور پر یہاں پیش ہیں.ایک ممبر نے لکھا کہ اگر آپ کسی ایک شخص کو مسلمانوں کے خلیفہ بننے کا اہل
506 مصالح العرب.....جلد دوم قرار دیں گے تو دیگر مسلمان اس بات پر بھی آپ کے دشمن ہو جائیں گے کیوں کہ وہ ان کی نظر می میں اس منصب کا اہل نہیں ہوگا.بلکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم کسی بات پر اتفاق نہیں کر سکتے.ہم صرف ایک ہی بات پر متفق ہیں اور وہ یہ کہ ہم کبھی کسی بات پر اتفاق نہیں کریں گے.ایک اور ممبر نے لکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ آج کے زمانے میں کوئی شخص بھی اس لقب کا اہل نہیں ہے.ایک شخص نے لکھا کہ سابقہ خلفاء میں سے ہر ایک خلیفہ مختلف صفات کی بنا پر معروف و مشہور ہوالیکن افسوس کہ آج ان کی صفات کا حامل کوئی بھی نہیں ہے.(http://www.ibnsina4s.com/vb/showthread.php?4070) 2.جب خود خلیفہ المسلمین بنانے کے نظریے پیش کئے جانے لگے تو اس کا اگلا منطقی قدم یہ تھا کہ خلیفہ کی اہلیت کے قوانین وضع کئے جائیں جس کے لئے ہر فرقہ نے اپنے عقائد کے مطابق خلیفہ کے اوصاف وقواعد کا ذکر کیا.ان قوانین کے مطابق کوئی شخص اس معین فرقہ کا خلیفہ تو ہو سکتا ہے باقی فرقوں کے نزدیک قابل قبول نہ ہوگا.3.جب خلیفہ کی اہلیت کے قانون بنانے تک نوبت پہنچ گئی تو یہ خیال بھی گزرا کہ اگر خلیفہ کبھی ان قوانین اہلیت کی پاسداری سے عاری ہو جائے تو کیا کرنا چاہئے؟ چنانچہ خود خلیفہ بنانے والوں کو اس سوچ کے آتے ہی یہ بھی قانون بنانا پڑا کہ مذکورہ حالت میں خلیفہ کو معزول بھی کیا جاسکتا ہے.اور پھر اس کے بھی قواعد وضع کئے گئے اور معزول کرنے کے طریق پر بحث کی گئی.ان کی سوچ کا سقم اس سارے مضمون پر یکجائی نظر سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان کی یہ بات تو درست ہے کہ خلافت کے بغیر مسلمان اپنی موجودہ مشکلات سے نہیں نکل سکتے اور خلافت ہی سارے مسائل کا حل ہے.لیکن انسانی کوششوں سے یا تحریکوں سے اس کے قیام کا نظریہ درست نہیں ہے.ایک تنظیم کی ویب سائٹ پر نشر ہونے والی اسی طرح کی ایک رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے 25 فروری 2011ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
507 مصالح العرب.....جلد دوم مسلمانوں کو ایک کرنے کے لئے ، انصاف قائم کرنے کے لئے، دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے یقیناً نظام خلافت ہی ہے جو صحیح رہنمائی کر سکتا ہے.حکمرانوں اور عوام کے حقوق کی نشاندہی اور اس پر عمل کروانے کی توجہ یقیناً خلافت کے ذریعے ہی مؤثر طور پر دلوائی جاسکتی ہے.یہ لکھنے والے نے بالکل صحیح لکھا ہے، لیکن جو سوچ اس کے پیچھے ہے وہ غلط ہے.جو طریق انہوں نے بتایا ہے کہ عوام اٹھ کھڑے ہوں اور نظام خلافت کا قیام کر دیں، یہ بالکل غلط ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ نظام خلافت سے وابستگی سے ہی اب مسلم امہ کی بقاء ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا اس تنظیم نے بہت صحیح حل مسلمانوں کی حیثیت منوانے اور اُن کو صحیح راستے پر چلانے کے لئے بتایا ہے، لیکن اس کا حصول عوام اور انسانوں کی کوششوں سے نہیں ہوسکتا.کیا خلافت راشدہ انسانی کوششوں سے قائم ہوئی تھی؟ باوجود انتہائی خوف اور بے بسی کے حالات کے، اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کے دل پر تصرف کر کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لئے کھڑا کر دیا تھا.پس خلافت خدا تعالیٰ کی عنایت ہے.مومنین کے لئے ایک انعام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کچھ عرصہ تک خلافتِ راشدہ کے قائم ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی.اور اس کے بعد ہر آنے والا اگلا دور ظلم کا دور ہی بیان فرمایا تھا.پھر ایک امید کی کرن دکھائی جو قرآنی پیشگوئی وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة:4) میں نظر آتی ہے، اور اس کی وضاحت آنحضرت نے مسیح و مہدی کے ظہور سے فرمائی، جو غیر عرب اور فارسی الاصل ہو گا.جس کا مقام آنحضرت کی غلامی اور مہر کے تحت غیر تشریعی نبوت کا مقام ہو گا.پس اگر مسلمانوں نے خلافت کے قیام کی کوشش کرنی ہے تو اس رہنما اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کریں.“ تاریخ سے سبق سیکھیں (خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 2011ء) بنا نچہ مسیح محمدی اور امام مہدی کی آمد کے ذریعہ جس خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کی پیشگوئی تھی اس کا پورا ہونا کسی انسانی ہاتھ کا مرہون منت نہ تھا بلکہ یہ کام صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ہے کہ کسے یہ تاج پہناتا ہے اور کس کو اس عظیم کام کے لئے چلتا ہے.پھر جو کام خدا کا ہے اور اس نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے اس کو دنیا والے کس طرح اپنی کمزور تدبیروں سے سر
مصالح العرب.....جلد دوم 508 انجام دے سکتے ہیں.بلکہ ایسے امور میں دخل اندازی باعث غضب الہی ہوا کرتی ہے.اور ایسی تدبیروں کا نصیب نا کامی اور صرف ناکامی کے علاوہ کچھ نہیں ہوا کرتا.کئی دہائیاں پہلے مصر میں خلافت کے قیام کے لئے اٹھنے والی تحریک کا بھی یہی مال ہوا.پھر جب الشریف حسین کو الحجاز میں خلافت کا منصب دینے کی کوشش کی گئی کیونکہ ان کا نسب بنی ہاشم سے ملتا تھا تو اس کا انجام بھی یہ ہوا کہ الشریف حسین کو ہی ملک بدر کر دیا گیا.پھر مصر کے شاہ فاروق کو خلیفتہ المسلمین بنانے کی کوششیں کی گئیں لیکن آخر کار یہ کوشش بھی دین کے ساتھ کسی مذاق سے کم ثابت نہ ہوئی.پھر 1974 ء میں پاکستان میں ہونے والی اسلامی سربراہی کا نفرنس میں شاہ فیصل کو خلیفہ بنانے کیلئے سر توڑ کوششیں کی گئیں لیکن ان کوششوں کا انجام بھی کسی پر پوشیدہ نہیں ہے.ایسی تدابیر کا یہ انجام ماضی میں بھی سامنے آیا اور مستقبل میں بھی آتا رہے گا اور کوئی ایسی کوشش اور کوئی ایسی تدبیر اور کوئی ایسا اقدام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگا.کیونکہ ان لوگوں نے خدا کے بھیجے ہوئے کا انکار کر دیا جو بالکل درست وقت پر آیا جبکہ یہ لوگ بزبان حال اس کے ظاہر ہونے کے متمنی تھے.لیکن جب وہ موعود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی شکل میں ظاہر ہو گیا تو انہوں نے نہ صرف اس کا انکار کیا بلکہ اس کی مخالفت پر بھی کمر بستہ ہو گئے.اب وہ امام کا مگار آ کر رخصت بھی ہو چکا ہے اور اس کے بعد منہاج نبوت پر خلافت کا نظام قائم و دائم ہے اور اللہ تعالیٰ اس خلافت کی حقانیت اور برکات دن بدن نہایت زور آور حملوں سے اس طرح ظاہر فرما رہا ہے کہ ایک عالم اس کا گواہ بنتا چلا رہا ہے.لیکن افسوس کہ یہ لوگ چڑھے ہوئے سورج سے منہ موڑ کر روشنی کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں.چشمہ حیات روحانی پھوٹ پھوٹ کر آبیاریاں کر رہا ہے اور یہ دو بوند پانی کی تلاش میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں.مسیحا چل کے ان بیماروں کے پاس آیا ہے مگر یہ اس سے آنکھیں چرا رہے ہیں.کاش کہ تم یہ لوگ آتے تو دیکھتے کہ فتوحات کے کتنے ابواب اس زمانے کی خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کے ساتھ کھلے ہیں اور کھلتے چلے جارہے ہیں.اخوت اسلامیہ کا عالمگیر معاشرہ قائم ہو چکا ہے اور یکجان ہو کر ایک امام کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی تعداد کروڑوں سے تجاوز کرتی جارہی ہے اور خدا تعالیٰ کے افضال اور اسکی خاص نصرتیں موسلا دھار بارشوں کی طرح نازل ہوتی
مصالح العرب.....جلد دوم 509 رہے ہیں.ہم آج بھی ان کو وہی صدا دیتے ہیں جو اس زمانے کے امام علیہ السلام نے دی تھی جی قوم کے لوگو ادھر آؤ کہ نکلا آفتاب وادی ظلمت میں کیا بیٹھے ہو تم لیل و نہار ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جسکی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجامکار
مصالح العرب.جلد دوم 510 خطبات جمعہ کا عربی ترجمہ خلیفہ وقت کے خطبات جمعہ کا رواں عربی ترجمہ تو خلافت رابعہ کے زمانے سے جاری تھا لیکن عربی ویب سائٹ بنے اور ایم ٹی اے 3 العربیہ کے اجراء کے بعد حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے تحریری طور پر خطبات جمعہ کا ترجمہ کرنے کا ارشاد فرمایا.شروع شروع میں تو آڈیو فائل سے سن کر ممبران عربی ڈیسک ترجمہ کرتے تھے جو ہفتہ کی رات کو مکمل ہوتا تھا اور پھر ایک عرب دوست کی آواز میں ڈبنگ ہو جاتی تھی لہذا اتوار کے دن خطبہ جب دوبارہ نشر ہوتا تو اس مفصل ترجمہ کی ڈبنگ کے ساتھ ہوتا تھا.نیز اس تحریری ترجمہ کی فائل تیار کر کے ویب سائٹ پر بھی ڈال دی جاتی تا کہ جو خطبہ سننے سے محروم رہ گئے ہوں وہ اسے پڑھ کر استفادہ کر سکیں.ازاں بعد پریکٹس ہو جانے کی وجہ سے ترجمہ کرنے کا وقت کم ہوتا گیا اور اب بفضلہ تعالیٰ اکثر ہفتہ کے روز ظہر تک ترجمہ مکمل ہو جاتا ہے.اور اس وقت فروری 2008ء سے لے کراب تک کے خطبات جمعہ اور اکثر خطابات کا تحریری ترجمہ ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے.فالحمد اللہ علی ذلک.اس مبارک کام کی برکتیں اس طور بھی ظاہر ہوئیں کہ ترجمہ کرنے کی رفتار بڑھتی گئی جس کا نتیجہ اب بفضلہ تعالیٰ سلسلہ کی کتب کے بکثرت عربی تراجم کی شکل میں نکل رہا ہے.کلمہ شکر کے طور پر عرض ہے کہ شاید خطبات کے ترجمہ کے کام میں تیزی کی ایک وجہ یہ بھی ٹھہری کہ جب رشین ڈیسک کا قیام عمل میں آیا تو انہوں نے بھی پیارے آقا کے ارشاد کے مطابق خطبات جمعہ کا ترجمہ شروع کیا.چنانچہ مکرم را نا خالد احمد صاحب انچارج رشین ڈیسک نے سابقہ رشین ریاستوں میں سے ایک ریاست میں ہمارے مبلغ سلسلہ مکرم سرفراز احمد باجوہ
511 مصالح العرب.....جلد دوم صاحب سے آڈیو فائل سے سن کر خطبہ لکھنے کے بارہ میں بات کی.باجوہ صاحب نہایت محنت سے دو تین گھنٹوں میں پورا خطبہ سن کر لکھ لیتے ہیں اور ہمیں بھی ارسال کر دیتے ہیں جس سے ترجمہ کرنانہ صرف آسان ہو جاتا ہے بلکہ وقت بھی کافی حد تک بچ جاتا ہے،فجر اہم اللہ احسن الجزاء.00000
مصالح العرب.جلد دوم 512 جماعت احمدیہ کہا بیر کا جلسہ سالانہ جون 2009ء میں جماعت احمد یہ کہا بیر کا جلسہ سالانہ منعقد ہونا تھا جس پر امیر صاحب کہا بیر نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیغام اور دعا کے لئے تحریر کیا.12 جون 2009 کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام وسع مَكَانَك پر روشنی ڈالی اور اسی سیاق میں جماعت احمد یہ کہا بیر کے جلسہ کا ذکر فرمایا اور قیمتی نصائح فرمائیں.حضور انور نے فرمایا ( ذیلی عناوین خاکسار نے لگائے ہیں ): جماعت کہا بیر کا عمومی ذکر آج کہا بیر کی جماعت کا جلسہ سالانہ بھی ہو رہا ہے اور فلسطین اور دوسرے ممالک کے احباب بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں.کہا بیر کے امیر صاحب کی خواہش تھی کہ اس جلسہ کی مناسبت سے ان کا بھی خطبہ میں ذکر کروں یا کچھ مختصر پیغام دوں.تو بہر حال مختصر ذکر کروں گا اور ان ان کے لئے پیغام دوں گا.وسع مگا نگ کا ذکر چل رہا ہے تو کہا بیر کی جماعت کا بھی اس ضمن میں ذکر کر دوں کہ یہاں ابتداء میں ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت خوبصورت مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی تھی اور یہ بہت پرانی مسجد ہے اور بہت خوبصورت جگہ پر واقع ہے اور ہر سیاح کو، آنے والے کو یہ اپنی طرف کھینچتی ہے.اس کی تصویریں جو میں نے دیکھی ہیں بڑی خوبصورت مسجد نظر آتی ہے اور یہی دیکھنے والے لوگ بتاتے بھی ہیں اور اس ذریعہ سے تبلیغ کے راستے بھی کھل رہے ہیں.“
مصالح العرب.....جلد دوم خلافت جو بلی پر مسرورسنٹر“ کی تعمیر کا منصوبہ 513 خلافت جوبلی کے موقعہ پر جماعت احمد یہ کہا بیر نے مسرور سنٹر“ کے نام سے ایک وسیع تعمیراتی منصوبہ بنایا جس میں ایک بڑا ہال اور ایم ٹی اے کا سٹوڈیو اور دیگر جماعتی ضروریات کے دفاتر وغیرہ شامل ہیں.اسکا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا: خلافت جوبلی کے سال میں وہاں کی جماعت نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس مسجد کی جو جگہ خالی ہے اس میں ایک وسیع ہال اور دوسری تعمیرات کی جائیں جن کی ضرورت ہے.میں نے ان کو اس کی اجازت تو دے دی تھی لیکن جو منصو بہ انہوں نے بنایا وہ بہت بڑا بنالیا.جو بظاہر لگتا تھا کہ ان کے وسائل سے بہت زیادہ ہے.لیکن یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کو پورا فرمایا اور امیر صاحب نے مجھے بتایا کہ معجزانہ طور پر منصوبہ اپنی تکمیل کے مراحل پہ پہنچ رہا ہے.“ ترقی کا راز حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے العربیہ کے ذریعہ دنیائے عرب میں تبلیغ کو بھی بہت زیادہ وسعت دی ہے اور اس میں بھی کہا بیر کی جماعت کے افراد کا بہت ہاتھ ہے.مختلف طریقوں سے ان کے نو جوان مدد کرتے رہتے ہیں.اسی طرح بعض دوسرے عرب ممالک کے احمدی بھی اس میں بڑا اہم کردار ادا کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.لیکن ہمیشہ ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کی یہ کوشش اور کامیابیاں آپ کی کسی ذاتی صلاحیت کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی وجہ سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری زمانے کے امام کے حق میں دعاؤں اور پیشگوئیوں کے پورے ہونے کی وجہ سے ہیں.“.اہل جلسہ اور تمام عربوں کو نصائح حضور انور نے تمام عربوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
514 مصالح العرب.....جلد دوم تمام وہ احمدی جن کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے، تمام وہ عرب احمدی جنہوں نے اپنے عرب ہونے کو بڑائی کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ امام الزمان کی آواز کوسن کر سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کا نمونہ دکھایا ہے یا درکھیں کہ ایک احمدی اور حقیقی مسلمان کا ہر نیا دن اس کے ایمان اور تقویٰ میں ترقی کا دن ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہر دن اگر تمہارے اندر ترقی نہیں ہو رہی تو توجہ کرو اور غور کرو اور جائزےلواور اس ترقی کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الفاظ کو ہمیشہ یادرکھیں کہ ہم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا اور تقویٰ سے رات بسر کی.اور یہ تقویٰ میں ترقی ہی ہے جو ان جلسوں کا مقصد ہے.پس اس عہد کے ساتھ یہاں سے واپس جائیں کہ ہم نے پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کرنی ہیں ان کو زندگیوں کا حصہ بناتا ہے اور تقویٰ میں ترقی کرنی ہے ہے.اور اس کے حصول کے لئے جلسے کے یہ جو دن ہیں یہاں گزاریں.ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری ترقی تبلیغ کے ساتھ دعاؤں سے اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی وابستہ ہے.پس دعاؤں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں.دعاؤں پر زور دیں اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں.تو آپ کی دعائیں آسمانوں میں ارتعاش پیدا کر کے وہ انقلاب لائیں گی جو اسلام اور مسلمانوں کے ہر مخالف کو حضرت محمد رسول اللہ ا کے قدموں میں لا ڈالے گی.ہمیشہ یاد رکھیں کہ مسیح و مہدی کا زمانہ تیر و تفنگ کا زمانہ نہیں ہے.بلکہ دعاؤں انقلاب لانے کا زمانہ ہے اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ يَضَعُ الحَرْب (صحیح) بخاری، کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم.مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی) سے ہم پر ثابت ہے.اللہ تعالیٰ نے عربوں کو تبلیغ اور تقریر کا خاص ملکہ عطا فرمایا ہوا ہے اگر اپنے پاک نمونوں اور دعاؤں سے اسے سجاتے ہوئے استعمال میں لائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے وسیع تر فضلوں کی بارش اپنے پر برستی دیکھیں گے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو عرب دنیا میں پھلتا پھولتا دیکھیں گے.پس آج یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عیسائیوں کی بھی حقیقی نجات کا باعث بنیں اور یہودیوں کو بھی ان کی تاریخ اور تعلیم کے حوالے سے صحیح راستے دکھانے کی کوشش کریں.ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی بھلائی کے سامان کریں اور دوسرے مذاہب والوں کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے راستے دکھائیں اور خدا تعالیٰ
مصالح العرب.....جلد دوم 515 کو نہ ماننے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے کی کوشش کریں.یہ بہت بڑا کام ہے جو دنیا کی اصلاح کے لئے مسیح محمدی کے ماننے والوں کے سپرد کیا گیا ہے.“ اہل کہا بیر کو خصوصی خطاب - حضور انور نے اپنے اس خطبہ جمعہ کے آخر میں اہل کہا بیر کو ایک اہم فریضہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: وو ” پس اے کہا بیر! اور فلسطین کے رہنے والے احمد یو! اس وقت عرب دنیا میں تم سب سے منظم جماعت ہو.اٹھو اور اس زمانے کے امام کے مددگار بنتے ہوئے نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کا نعرہ لگاتے ہوئے اس کے پیغام کو ہر طبقہ تک پہنچانے کے لئے کمر بستہ ہو جاؤ.آج مسلمانوں کی بھی نجات اسی میں ہے کہ امام الزمان کو مان لیں.اگر آج عرب دنیا کے احمدیوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیا تو سمجھ لو کہ جس طرح قرون اولیٰ کے عربوں نے اسلام کے پیغام کو پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور غلام صادق کا پیغام پہنچانے میں اپنا کردار ادا کر کے تم بھی اُن آخرین میں شامل ہو جاؤ گے جو اولین.ملائے گئے.ނ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھے بھی اس ذمہ داری کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ سب شاملین جلسہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام دعاؤں کا وارث بنائے اور یہ جلسہ بے انتہا برکات سمیٹنے والا ثابت ہو اور ہم جلد تمام دنیا پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو لہراتا ہوا دیکھیں.آمین.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 12 جون 2009 ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن)
مصالح العرب.جلد دوم 516 نحن انصار اللہ کا نعرہ بلند کریں جلسہ سالانہ برطانیہ 2009ء کے اختتامی خطاب میں حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ الہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام دنیا کے احمدیوں کو نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کے لئے مستعد ہو جانے کی طرف بلایا، جس کے ذریعہ مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہہ کر ان کے لئے سچے حواریوں کا درجہ پاناممکن ہو سکے گا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پس آج یہی کام ہر احمدی کا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائے ہیں.آپ کو اس زمانہ کا امام اور مسیح و مہدی مانا ہے تو نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کا نعرہ لگاتے ہوئے اس مشن کی تکمیل کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہو جائیں اور اس کام کو پورا کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کارلائیں جس کے لئے مسیح محمدی کو خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا.آج سچے حواریوں کا حق ادا کرتے ہوئے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ جس مقصد کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے یعنی خدائے واحد و یگانہ کی حکومت اور ان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کا قیام، اس کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.آج دنیا کی بقا اسی میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آجائیں اور اس غلامی کا حق تبھی ادا ہو سکتا ہے جب آپ غلام صادق کی بیعت اور اطاعت کا جو اپنی گردن پر ڈالیں....پس اس مقصد کے حصول کے لئے خاص کوشش کے ساتھ دعوت الی اللہ کرنے کی ضرورت ہے.ہر ملک اور ہر شہر اور ہر قصبہ اور ہر گاؤں کے رہنے والے احمدیوں کو خاص پلاننگ کر کے اس کام کو سر انجام دینے کی ضرورت ہے.صرف دو چار فیصد تک یہ پیغام پہنچا کرتی
517 مصالح العرب......جلد دوم ہم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہو جاتے.دنیا ایک پاک انقلاب چاہتی ہے....پس اٹھیں ان پاک تبدیلیوں کے ساتھ اپنی سجدہ گاہوں کو تر کرتے ہوئے اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے عرش پر ایک ارتعاش پیدا کر دیں.خدائی تقدیر نے تو مسیح محمدی کی جماعت کے غلبہ کا فیصلہ کیا ہوا ہے.ہمارا کام ہے کہ اس تقدیر کو اپنی زندگیوں میں پورا ہوتا دیکھنے کے لئے اور اس کا حصہ بننے کے لئے دعاؤں پر ، دعاؤں پر اور دعاؤں پر زور دیتے چلے جائیں تا کہ عرش سے ہم یہ آواز سننے والے ہوں کہ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيْب سنو یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد قریب ہے.فتح وظفر کی کلید تم کو ملنے والی ہے.“ عربوں کو خصوصی طور پر خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جہاں ہر خطہ کے احمدیوں کا نام لے لے کر اس اہم اور بنیادی فرض کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی وہاں عربوں کو بھی خصوصی طور نہائت پر تاثیر کلمات سے اس طرح مخاطب فرمایا: پس آج اس مقصد کے حصول کے لئے ایشیا کے احمدیوں کا بھی فرض ہے، یورپ کے احمدیوں کا بھی فرض ہے ، امریکہ کے احمدیوں کا بھی فرض ہے، آسٹریلیا کے رہنے والے احمدیوں کو کا بھی فرض ہے ، جزائر کے رہنے والے احمدیوں کا بھی فرض ہے، اور افریقہ کے احمدیوں کا بھی فرض ہے کہ مسیح محمدی اور مہدی معہود کے پیغام کو اپنے ہر شہر، ہر قصبے اور ہر گلی میں پہنچا دیں کہ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنا اور آپ کے بچے حواریوں کا حق ادا کرنا ہے.ہندوستان اور پاکستان کے احمد یو! تمہارا بھی اولین فرض ہے کہ مسیح موعود کے پیغام کو پہنچانے کے لئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اپنی تمام تر استعداد میں بروئے کار لاؤ کہ مسیح موعود وہاں پیدا ہوئے اور وہیں سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے مسیح موعود ہونے کا پر شوکت اعلان کروایا.اور اے عرب کے رہنے والے احمد یو! تمہارا ان سب سے زیادہ فرض بنتا ہے کہ تم زبان کے لحاظ سے بھی اور مکان کے لحاظ سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین ہو، اپنے ہم وطنوں کو بتاؤ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مسیح و مہدی کو سلام پہنچانے کا جوارشاد فرمایا تھا اس کے سب سے اوّل مخاطب تم ہو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ مج
مصالح العرب.....جلد دوم 518 وقت آئے گا جب اکثریت عربوں کی مسیح موعود کی بیعت میں آکر آپ کے لئے دعائیں کی کرنے والی ہوگی کیونکہ یہ بھی اس خدا کا الہام ہے جس نے آپ کو مبعوث فرمایا تھا.فرمایا يَدْعُونَ لَكَ ابْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللهِ مِنَ الْعَرَب یعنی تیرے لئے ابدال شام کے بھی دعا کرتے ہیں اور بندے عرب میں سے بھی دعا کرتے ہیں.جنہوں نے مسیح موعود کو مان لیا ہے آج ان پر یہ بھی فرض ہے کہ مسیح محمدی کے مشن کیلئے دعائیں کریں.دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں.جس کو بھی موقعہ ملے خانہ کعبہ میں جا کر اور مسجد نبوی میں جا کر مسیح موعود کے مقصد کے پورا ہونے کے لئے روئیں اور چلا ئیں.مجھے خوشی ہے کہ عربوں میں سے ایک طبقہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے مصروف ہے اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے.اس کام میں کبھی روک نہ پڑنے دیں کبھی ست نہ ہوں.اللہ تعالیٰ کی تائیدات بھی آپ کے ساتھ ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے نشان کے طور پر عرب ممالک میں رہنے والے احمدی جانتے ہیں کہ ایم ٹی اے العربیہ کے مختلف چینل کا چلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کا دعویٰ سچا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نامساعد حالات کے باوجود اس چینل کو جاری رکھا ہوا ہے.نَحْنُ اَنْصَار اللہ کا جو نعرہ آپ نے لگایا ہے اُسے کبھی مرنے نہ دیں.اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کی ایجادات کو بھی ہمارے لئے زیر کر دیا ہے.ان سے بھر پور فائدہ اٹھاتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں نبھانے کی توفیق دیتا چلا جائے.آمین.“ (خطاب فرمودہ 26 جولائی 2009 ء جلسہ سالانہ برطانیہ ) لبیک لبیک کی صدائیں اور حسن انصار اللہ کا نعرہ یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ان پر تاثیر کلمات نے جلسہ میں بیٹھے ہوئے عربوں کے دلوں کو چھو لیا اور ان میں سے بعض بے اختیار ہو کر دوران خطاب ہی اٹھ کھڑے ہو کر نہائیت والہانہ انداز میں لبیک لبیک اور نحن انصار اللہ اور نعرہ ہائے تکبیر بلند کرنے لگے.شروع میں مکرم ایا د عودہ صاحب آف جرمنی کھڑے ہوئے بعد میں انکے کزن فؤاد عودہ صاحب اور پھر ایاد صاحب کے بھائی مراد عودہ صاحب نے کھڑے ہو کر
مصالح العرب.....جلد دوم 519 عربوں کی طرف سے یہ نعرے بلند کئے.اس کے ساتھ ہی جلسہ گاہ میں ہر طرف دیوانہ وار فدائیت کے ساتھ نعرہ ہائے تکبیر بلند ہونے لگے اور خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہنے کا یہ ایک عجیب روح پرور منظر ایم ٹی اے نے دنیا کو دکھایا جو در اصل دنیا کے کناروں تک پھیلے ہوئے احمدیوں کے جذبات کی ترجمانی کر رہا تھا.پیچیم کی ایک عرب ممبر پارلیمنٹ کے تاثرات بیلجیئم کی ایک ممبر پارلیمنٹ محترمہ سعاد رزوق صاحبه Mrs.Souad) (Razzouk بھی اس جلسہ میں شامل تھیں.انہوں نے اس جلسہ میں چھوٹی سی تقریر بھی کی جس میں کہا کہ جلسہ میں شرکت کر کے مادی مائدہ سے زیادہ روحانی مائدہ سے استفادہ کیا ہے.ہم سب کو چاہئے کہ ہم دنیا کو اسلام کا صحیح چہرہ دکھا ئیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے.انہوں نے کہا کہ یہ جلسہ سالانہ اس سلسلہ میں ایک بہترین کردار ادا کر رہا ہے.نیز انہوں نے کہا کہ میں بیلجیئم کی ممبر پارلیمنٹ ہوں اور اس لحاظ سے آپ بیلجیئم کی پارلیمنٹ میں مجھے اپنا نمائندہ ہی سمجھیں.انکا ذکر کرتے ہوئے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: محترمه سعاد رَ زُوق صاحبہ، بیلجیئم کی مسلمان ممبر پارلیمنٹ ہیں.بنیادی طور پر بہ مرا کو سے تعلق رکھتی ہیں.لیکن عرصے سے یہاں آباد ہیں، ممبر پارلیمنٹ بھی ہیں.انہوں نے وہاں تقریر بھی کی تھی جلسے پر پیغام دیا تھا.انہوں نے لکھا کہ جلسے میں شامل ہونا میرے لئے یہ پہلا عظیم تجربہ تھا جو میں پہلے سوچ بھی نہیں سکتی تھی.پھر جب دعوت تھی اس میں گئی ہیں تو وہاں میری اہلیہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں تو انہوں نے ان کو تبلیغ کی تبلیغ اس طرح کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام حضرت عیسی کا مقام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد ، بعثت، احمدی کیا سمجھتے ہیں، ان باتوں پہ آدھا گھنٹہ ان سے گفتگو ہوتی رہی.اس کے بعد انہوں نے ہمارے جو مشنری ہیں ان کو ان کا حوالہ دے کر کہا کہ میں اُن کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور انہوں نے مجھے اس طرح سمجھایا ہے کہ میرا ذ ہن اب بالکل تبدیل ہو چکا ہے اور وہاں اس کے بعد کہتی ہیں کہ میں مزید جو معلومات ہیں امام مہدی کے بارے میں وہ حاصل کرنا چاہتی ہوں اور رات ڈھائی بجے تک وہ بیٹھی معلومات لیتی رہی ہیں.اور انہوں نے میری اہلیہ کا حوالہ
520 مصالح العرب......جلد دوم دے کر کہا کہ انہوں نے مجھے کچھ ایسا سمجھا دیا کہ اب چین نہیں آ سکتا جب تک میں پوری معلومات نہ لے لوں.اور پھر کہتی ہیں کہ جماعت احمدیہ کے عقائد و نظریات سے مجھے دوبارہ کی روحانی زندگی عطا ہوئی ہے اور اب امام مہدی کی آمد کے بعد جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے مسلمانوں کا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے.میں جماعت احمدیہ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتی ہوں اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں احمدیت قبول کروں تو صرف میں اکیلی احمدیت قبول نہیں کروں گی بلکہ میرے ساتھ میرے عزیز واقارب اور دوست اور کئی تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہوں گے.اور میرے آخری خطاب کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ آخری حصے میں عرب سے تعلق رکھنے والے احمدیوں سے خطاب کرتے ہوئے جو آپ نے کہا کہ لوگ جاگیں ، یہ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں اور مکہ میں جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی جماعت کے لئے بھی دعائیں کریں.اس دوران کہتی ہیں میں بہت روئی اور میری آنکھوں سے آنسو امڈ آئے کیونکہ میں عرب قوم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ہوں اور ایک دن قبل ہی بیگم صاحبہ نے مجھے ضرورت امام مہدی علیہ السلام اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں بتایا.مجھے اس لیے محسوس ہوا ( پھر میرا حوالہ دیا ) کہ جیسے وہ مجھے خود مخاطب ہیں.تو کہتی ہیں کہ میرے دل میں اس وقت یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ آپ لوگوں پر دنیا می کے کئی ممالک میں بے حد ظلم جاری ہے جو سراسر نا انصافی ہے.کہتی ہیں کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ سال میں انشاء اللہ جلسہ سالانہ UK میں اکیلی نہیں ہوں گی بلکہ میرے ساتھ پارلیمنٹ کے مزید ممبر بھی شامل ہوں گے.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009 ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن) جلسہ کے بارہ میں بعض نواحمدی عربوں کے تاثرات حضورا نو را یدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اسی خطبہ جمعہ میں بعض عرب احمدیوں کے تاثرات بھی بیان فرمائے جنہیں نے پہلی دفعہ جلسہ سالانہ میں شرکت کا موقعہ ملا تھا.فرمایا: ایک احمدی خاتون ہیں مکرمہ رِیم شَرِيْقِی اِخْلف صاحبہ، یہ کہتی ہیں پہلی دفعہ میں نے
521 مصالح العرب......جلد دوم شرکت کی اور جو جذبات تھے انہیں دنیا کی کوئی زبان بیان نہیں کر سکتی.اس جلسے کی عظمت اور ان حسن اور تنظیم اور رضا کارانہ ڈیوٹی دینے والوں کا جذبہ دیکھ کر فوراً یہ سوال دل میں اٹھتا تھا کہ دنیا میں کون اتنی منظم شکل میں یہ کام کر سکتا ہے.اتنی بڑی تعداد کی ضیافت کون کر سکتا ہے.ایک دل پر اتنے ہزاروں ہزار لوگوں کو کون جمع کر سکتا ہے.تو اس کا ایک ہی جواب ملتا کہ خدا کا ہاتھ آپ کے اوپر ہے اور وہی دلوں میں محبت اور الفت پیدا کرتا ہے اور وہی کام آسان کرتا ہے.کہتی ہیں پہلے میں عالمی بیعت ٹی وی پر دیکھتی تھی.خود حاضر ہو کر بیعت کرنا تو ایک خواب تھا جو امسال خدا تعالیٰ نے پورا کیا.( انہوں نے بھی کچھ عرصہ پہلے ہی بیعت کی ہے.جلسہ گاہ میں بیٹھ کر کی بیعت کرتے وقت لگا کہ گویا میں ایک نئی دنیا میں ہوں.شدت جذبات سے دل کی اور ہی حالت ہو رہی تھی.بدن پر لرزہ طاری تھا.آنکھوں سے آنسو رواں تھے.خدا کی رحمت و عفو پر نظر تھی اور دل میں خوشی کی لہر.سجدہ شکر میں تو گویا میں نے خدا تعالیٰ کو اپنے سے چند قدم کے فاصلے پر محسوس کیا.خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں اور تقصیروں کی معافی مانگی.ایسے لگا کہ یوم قیامت ہے اور دنیا بہت چھوٹی ہوگئی ہے.پھر ایک اور خاتون ہیں مکرمہ عمیر رضا علمی صاحبہ، کہتی ہیں کہ جلسہ کے آخری لمحات میں شدید جذبات غالب رہے اور میں کہہ رہی تھی کہ جب میں واپس مصر پہنچوں گی تو اہل وطن کو چیخ چیخ کر کہوں گی کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ! اپنی نیند سے اٹھو.تمہارا مہدی آ گیا ہے اور نشان ظاہر ہو گیا ہے.پس اس کی تصدیق کے لئے دل سے کوشش کرو....مکرم عبدالرؤوف ابراہیم قزق صاحب کہتے ہیں کہ میں نے یہ محسوس کیا کہ یہ جلسہ عربوں کے لئے مخصوص تھا.انشاء اللہ دشمنوں کی ڈالی ہوئی تمام روکیں زائل ہو جائیں گی.اور انشاء اللہ عرب فوج در فوج جماعت میں داخل ہوں گے.گویا کہ ایک بند ٹوٹ گیا ہے.مخالفین کا تکبر ٹوٹ جائے گا اور عنقریب حضرت امام مہدی علیہ السلام کا جھنڈا پورے بلاد عربیہ پر لہرانے لگے گا اور عنقريب يُصَلُّوْنَ عَلَيْكَ صُلَحَاءُ الْعَرَبِ وَاَبْدَالُ الشَّامِ کا الہام بڑی شان سے پورا ہوگا.دنیا کے بہت سے ممالک اور خاص طور پر عرب ممالک سے ایسے پیغامات جلسہ کے بعد ملے جن سے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضلوں کی بارش برسائی ہے.جہاں دنیا ہوا و ہوس میں مبتلا ہے مسیح محمدی کے غلام اپنی روحانیت میں ترقی کے لئے کوشش میں مصروف ہیں اور
522 مصالح العرب.....جلد دوم ایک نئے جذبے سے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں.دنیا کے ہر ملک سے یہ پیغامات آرہے ہیں اور کثرت سے آ رہے ہیں اور جذبات کا اظہار اس شدت سے ہے کہ جسے بیان کرنا ممکن نہیں کم از کم مشکل ضرور ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایسی محبت دلوں میں ڈالی ہے جس کی مثال آج کی دنیا میں کہیں نہیں ملتی اور آپ کے ناطے پھر یہ خلافت سے محبت ہے.اللہ تعالیٰ اخلاص اور وفا اور محبت میں ہر احمدی کو بڑھاتا چلا جائے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات پر ہمارے جذبات تشکر پر سے بڑھ کر ظاہر ہوں اور ہماری تمام محبتوں کا مرکز خدا تعالیٰ کی ذات بن جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.(خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 2009ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن) 00000
مصالح العرب.جلد دوم 523 مصر کے اسیران راه مولیٰ مذہب کے نام پر خون کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ خود تاریخ ادیان.ازل سے ربنا اللہ کہنے والے صبر واستقامت کے ساتھ مخالفین کے ہرستم و تعذیب کو خدا کی راہ میں ہنس کر سہتے آئے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ حق پر ہیں اور غلبہ اور کامیابی انہی کا ہی مقدر ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ہر بار یہی لوگ کامیاب وسرفراز ہوتے آئے ہیں.جماعت احمدیہ کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ اپنی ابتدا سے لے کر آج تک راہ مولیٰ میں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے کی توفیق پارہی ہے.ان قربانیوں میں ہر قوم اور ہر علاقہ کے احمدی شامل ہیں.لیکن چونکہ ہمارے مضمون کا تعلق عربوں سے ہے اس لئے ہماری بات کا محور دور حاضر میں امام الزمان کی بیعت کرنے کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے عرب احمدی ہیں.کئی اسلامی ممالک کی طرح عرب ممالک میں بھی ان احمدیوں کو مختلف قسم کی پابندیوں کا سامنا ہے.اس کے محرکات کبھی سیاسی ہوتے ہیں تو کبھی دینی ، جن کی بنا پر احمدیوں کو عدالتوں میں بلا بلا کر پریشان کرنے اور کبھی کبھی حبس بے جا میں رکھنے کے اکا دکا واقعات تو ہوتے رہتے ہیں لیکن مارچ 2011ء کو مصر میں ایک منظم کارروائی کے ذریعہ متعدد افراد جماعت کو گرفتار کر لیا گیا اور ان بے گناہوں پر احمدیت قبول کرنے اور جماعت کے ساتھ تعلق رکھنے کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا اور تقریباً تین ماہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا.آئیے اس کیس کی تفاصیل سے آگاہی حاصل کرتے ہیں.
مصالح العرب.جلد دوم گرفتاریوں کی تفصیل 524 15 مارچ 2010ء کی صبح صادق کے وقت کذب پر مبنی بعض الزامات کی آڑ میں معصوم احمدیوں کی گرفتاری کی کارروائی عمل میں لائی گی.یہ گرفتاریاں تین مختلف گروپس میں ہوئیں.پہلے گروپ میں مندرجہ ذیل احمدی شامل تھے: 1 - مکرم ڈاکٹر محمد حاتم بن مرحوم علمی الشافعی صاحب ( بیعت 1984ء) 2.مکرم خالد عزت صاحب ( بیعت 2006ء) مج 3.مکرم اشرف عبد الفاضل ابراہیم الخیال صاحب ( بیعت جنوری 2008ء) 4 - مکرم معروف صابر السید عبد اللہ صاحب (بیعت فروری 2008ء) 5 مکرم محمود و فدی محمد حسن صاحب ( بیعت مارچ 2008ء) 6 مکرم نصر عبد امنعم محمد نصر صاحب (بیعت مارچ 2008ء) 7 - مکرم ابراہیم محمود احمد سعد صاحب ( بیعت اپریل 2008ء) 8 - مکرم مصطفی حسن احمد صاحب ( بیعت جولائی 2008ء) 9 - مکرم ابراہیم مصطفی محمد الجابری عطاء اللہ ( بیعت اکتوبر 2008ء) دوسرے گروپ میں مندرجہ ذیل دو افراد جماعت کو گرفتار کیا گیا: عبدا 1 - مکرم عبد المنعم علی عبد السید علی صاحب (بیعت مارچ 2008ء) 2- مکرم عمادالدین عبد الحمید محمد فکار اشعینی صاحب (بیعت اپریل 2008) ان دو افراد جماعت کو تین ہفتوں تک قید میں رکھا گیا لیکن ان کے خلاف کوئی کیس رجسٹر نہ کیا گیا اور تین ہفتوں بعد ان کی رہائی عمل میں آگئی.تیسرے گروپ میں مندرجہ ذیل دو افراد کو گرفتار کیا گیا: 1- مکرم سالم محمد سالم صاحب 2.مکرم عادل حسن صاحب یہ دو اشخاص احمدی نہ تھے، بلکہ ان کی گرفتاری اپنے رشتہ داروں وغیرہ کے ساتھ احمدیت کے بارہ میں باتیں کرنے کے جرم میں عمل میں لائی گئی اور جب چند دنوں کی تحقیق کے بعد واضح
مصالح العرب......جلد دوم ہو گیا کہ ان کا احمدیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو ان کو رہا کر دیا گیا.525 یوں پہلے گروپ میں گرفتار ہونے والے احباب جماعت سب سے زیادہ عرصہ جیل میں رہے اور ان کے خلاف ہی با قاعدہ مقدمہ چلا اور طوالت اختیار کرتا گیا حتی کہ انہیں 84 دن تک جیل کی کال کوٹھڑیوں میں رہنا پڑا.اس لئے ہم ذیل میں اسی پہلے گروپ کے بارہ میں ہی بات کریں گے.گرفتاری کی کارروائی مورخہ 15 مارچ 2010 کی صبح صادق کے وقت سابق وزیر داخلہ کے حکم سے پولیس کی بھاری نفری جو کہ اسلحہ سے لیس تھی ان احمدیوں کے گھروں میں گھس گئی جہاں وہ دہشت پھیلاتے ہوئے نہ صرف ان احباب کو گرفتار کر کے ساتھ لے گئے بلکہ ان کے ساتھ ان کے گھروں میں موجود جماعتی کتب، لٹریچر اور کمپیوٹرز کے علاوہ بعض ذاتی استعمال کی اشیاء بھی اٹھاتی کر لے گئے.تفتیش یا تعذيب؟! گرفتاری کی کارروائی کے بعد ان احباب کو اپنے اپنے علاقے کے لحاظ سے علیحدہ علیحدہ جیلوں میں رکھا گیا اور State Security Investigations کے آفیسرز نے ان سے تفتیش شروع کی.دوران تفتیش ان کے ہاتھ بیڑیوں میں جکڑے اور آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہوتی تھیں.علاوہ ازیں بعض احباب کو دوران تفتیش گالی گلوچ ، اہانت آمیز سلوک اور جسمانی اذیت کے علاوہ بعض حساس مقامات پر بجلی کے شارٹ بھی لگائے گئے.قانون کی آڑ میں اس غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک کا شکار ہونے کے باوجود یہ وفا کے پتلے اپنے جرم کے اقرار سے باز نہ آئے اور جماعت کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعتراف کرتے رہے.الغرض یہ سلسلہ ڈیڑھ ماہ تک جاری رہا، جس میں ان کے خلاف الزامات کے پلندے تیار کئے گئے تا کہ ان کی بنا پر مقدمہ درج کیا جائے اور پھر کیس چلایا جائے.اس ڈیڑھ ماہ کے عرصہ میں جزوی طور پر فیملی ممبرز کے ساتھ ملاقات کی اجازت تھی لہذا ان احباب کی اپنے اہل خانہ سے ملاقاتیں ہوتی
مصالح العرب.جلد دوم رہیں.مکرم ڈاکٹر حاتم الشافعی صاحب بیان کرتے ہیں کہ: 526 ڈیڑھ ماہ کی تعذیب کے بعد ہم سب کو ہائی سیکورٹی والی ”طر " جیل میں منتقل کر دیا جہاں ہم سب کو چند دن کے لئے علیحدہ علیحدہ کو ٹھریوں میں بند کر کے رکھا گیا جس کے بعد دو گروپس میں تقسیم کر کے دو بڑے جیل خانوں میں منتقل کر دیا گیا.5 احباب ایک جیل خانہ میں جبکہ 4 دوسرے میں تھے.یہ تقسیم ہمارے لئے نسبتا بہتر تھی ایک تو کمرے کھلے تھے دوسرے اکٹھے ہونے کی وجہ سے نماز با جماعت کی ادائیگی کی توفیق مل جاتی تھی نیز مل بیٹھنے اور باہم بات چیت کر لینے سے حوصلے مزید بلند ہو جاتے تھے.چنانچہ احباب جماعت جیل میں خدا تعالیٰ کے اس فضل پر شکر گزاری کے جذبات سے لبریز تھے.اس جگہ منتقل ہونے کے ایک روز بعد یعنی 2 رمئی 2010ء کو Supreme State | Security Prosecution کے سامنے میرے اور مکرم خالد عزت صاحب کے ساتھ تفتیش شروع ہوئی.ہمارے خلاف دین اسلام کی توہین کے ارتکاب کا الزام لگا کر مقدمہ دائر کیا گیا جس کا نمبر 357/2010 ہے.کیونکہ ان کی دانست میں ہمارا جماعت کے ساتھ تعلق رکھنا اور جماعت کے عقائد اور افکار کی تبلیغ کرنا دین اسلامی کی توہین کے مترادف ہے.بہر حال روزانہ ہم دونوں کے ساتھ کئی کئی گھنٹوں تک ممتد رہنے والے طویل دورانیہ کے تفتیشی سیشن ہوئے.ہم اس طویل ترین تفتیش سے بہت خوش تھے کیونکہ ہمیں وہ سب کچھ بلا خوف وخطر کہنے کی توفیق ملی جس کے عام اظہار پر قدغنیں لگی ہوئی تھیں.ہم نے بتفصیل تمام الزامات اور اعتراضات کے جواب پیش کئے اور اپنا موقف کھل کر بیان کیا.اور الحمد للہ کہ اس ساری کاروائی کو ساتھ کے ساتھ تحریر میں لا کر بھی عدالتی ریکارڈ میں محفوظ کیا جاتا رہا.ہمارے بعد دیگر سات دوستوں کے ساتھ بھی اسی طرح کی تفتیش ہوئی اور یہ سلسلہ ایک ماہ تک یعنی مئی 2010ء کے آخر تک جاری رہا.دو ظالمانہ قوانین قارئین کرام کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور پیدا ہوا ہوگا کہ آخر یہ کونسا قانون ہے جس کی
527 مصالح العرب.....جلد دوم بنا پر ہمارے مصری احمدیوں کو ایسے عجیب طریق پر جیل کی کال کوٹھڑیوں میں جکڑ کے رکھا گیا.کی اس لئے وضاحت کے لئے عرض ہے کہ مصری صدر حسنی مبارک نے حکومت خلاف ہونے والی ہر قسم کی شورش کو کچلنے کا یہ انوکھا طریق اپنایا کہ ایمر جینسی کے نام سے ایک قانون نافذ کر دیا جس کا دائرہ اس قدر وسیع رکھا گیا کہ جہاں چاہے لاگو ہو جائے.لہذا گزشتہ 30 سال سے یہ قانون جاری تھا اور اس کی بنا پرحکومت جب چاہتی تھی اور جسے چاہتی تھی اور جیسے چاہتی تھی پکڑ کر جیل میں ڈال دیتی تھی.ہمارے ان اسیران راہ مولیٰ بھائیوں کی ابتدائی گرفتاری اور مقدمہ کے بغیر جیل میں رکھنے کی کارروائی اسی ایمر جینسی والے قانون کے ماتحت کی گئی.دوسرا قانون ازدراء الأديان“ یعنی تو ہین ادیان کے نام سے بنایا گیا.اس کا پس منظر یہ ہے کہ مصر میں عیسائی بھی خاصی بڑی تعداد میں رہتے ہیں.اور عیسائیوں و مسلمانوں کا آپس میں اکثر مذہبی بنیاد پر جھگڑا رہتا ہے لہذا اس قانون کے تحت ہر ایک کو اس بات کا پابند کر دیا گیا کہ وہ دوسرے کے مذہب پر حملہ نہ کرے ورنہ یہ تو ہین دین کے زمرہ میں آئے گا.لیکن اس قانون میں اس قدر گنجائش موجود تھی کہ ہر دو مذاہب کے لوگ چھوٹی سے چھوٹی بات کو معقول وجہ قرار دے کر اس قانون کے تحت فریق ثانی کے خلاف دعوی دائر کرتے رہے ہیں.جب مصری پادری نے اسلام پر حملہ کیا تو نہ صرف مصری آرتھوڈ کس چرچ سے استعفیٰ دے دیا بلکہ ارض مصر سے باہر نکل کر ایسا کیا تا کہ وہ بھی اس قانون کی زد سے بچ جائے اور باقی عیسائیوں پر اس کا الزام نہ آئے.پھر جب جماعت احمدیہ کی طرف سے ایم ٹی اے العربیہ پر اس عیسائی حملے کا منہ توڑ جواب دیا گیا اور یہ پروگرامز مصری سیٹلائیٹ نائل ساٹ کے ذریعہ مصر میں بھی دیکھے اور سنے گئے تو اسی قانون کا سہارا لیتے ہوئے مصری عیسائیوں نے ایم ٹی اے العربیہ کو نائل ساٹ سے بند کروانے کی کوشش کی.اور اب اسی قانون کو استعمال کرتے ہوئے حکومتی اداروں نے گرفتار احمدیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنے عقائد وافکار کے لحاظ سے دین اسلام کی اہانت کے مرتکب ہوئے ہیں.در د غم فراق کے یہ سخت مرحلے مکرم ڈاکٹر حاتم صاحب کی اسیری کے دوران ان کے بیٹے کی وفات ہو گئی اس کا ذکر
مصالح العرب.....جلد دوم 528 کرتے ہوئے وہ بیان کرتے ہیں کہ : میرا بڑا بیٹا احمد الشافعی پہلے ہی پیار تھا، میری گرفتاری کا اس کی طبیعت پر بہت گہرا اثر ہوا اور اس کی صحت دن بدن گرنے لگی.میری عدم موجودگی میں میری بیوی امیرہ ہاشم صاحبہ اس کی دیکھ بھال کرتی رہیں.اسی دوران میری بیوی کو بھی صدر لجنہ کی حیثیت سے کام کرنے کی بنا پر گرفتار کرلیا گیا.ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور ان پر بھی وہی دفعہ لگائی گئی جس کی بنا پر ہمیں جیل میں رکھا گیا تھا.ایک رات جیل میں رکھنے کے بعد اگلے دن ہی ہمارے وکیل عادل رمضان صاحب (جو انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے لئے کام کرتے ہیں ) نے میرے بیٹے احمد الشافعی کی بیماری کی مختلف طبی رپورٹس پیش کر کے ثابت کیا کہ اس بچے کی گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر اس کی ماں کا ہر وقت اس کے ساتھ رہنا ضروری ہے لہذا عدالت نے میری اہلیہ کو جانے کی اجازت تو دے دی لیکن تفتیش کے لئے عدالت میں آتے رہنے کا پابند کیا.لہذا وہ کئی دن تی تک تفتیش کے لئے جاتی رہیں اور یہ تفتیشی عمل کئی کئی گھنٹوں تک ممتد رہا.ابھی یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ میرے بیٹے کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی جس کا نتیجہ kidney failure کی صورت میں ظاہر ہوا.مختلف چیک اپ اور Dialysis کے لئے احمد کو ہسپتال داخل کروانا پڑا.گردوں کے فیل ہو جانے کی بنا پر اسے کسی طبی کوشش نے کوئی فائدہ نہ دیا اور مختصر علالت کے بعد وہ خاموشی سے 20 رمئی 2010ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ طرہ جیل میں ہم سے کسی کو بھی ملنے کی اجازت نہ تھی، نیز میرے اہل خانہ نے خیال کیا کہ جیل میں میرے لئے یہ خبر مزید دکھ کا باعث ٹھہرے گی لہذا مجھے میرے بیٹے کی وفات کے بارہ میں کچھ نہ بتایا.لیکن جب حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اس بات کی اطلاع دی گئی تو حضور انور نے فرمایا کہ حاتم صاحب کو اس بارہ میں بتا دیں.“ جیل میں صرف کپڑے بھجوانے کی اجازت تھی چنانچہ میری اہلیہ نے کپڑوں کے ساتھ مختلف دعائیں ارسال کر دیں جو وفات کے موقعہ پر انہوں نے پڑھنے کے لئے پرنٹ کی تھیں، جن کے ذریعہ مجھے یہ خبر وفات کے دس دن بعد ملی.مجھے طبعی طور پر اس کی جدائی کا بہت زیادہ حزن و ملال ہوا، اور کچھ دیر غم والم کی گھٹا بھی چھائی لیکن الحمد للہ کہ جلد ہی چھٹ گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص سکینت اور اطمینان سے میرا دل بھر دیا.چنانچہ میں نے جیل میں ہی اپنے ساتھیوں
مصالح العرب.....جلد دوم 529 کے ساتھ مل کر مرحوم کی نماز جنازہ غائب ادا کی.اس بات نے میرے ساتھیوں کے بھی حوصلے مزید بلند کئے اور ان میں ایک عجیب ایمانی جوش کی روح پھونک دی.میں سمجھتا ہوں ایسا خلیفہ وقت کے ارشاد کی تعمیل کی برکت سے ہوا.فالحمد للہ علی ذلک.قارئین کرام ! مصائب پر احمدیوں کا غیر معمولی صبر اور نہایت پر وقار طریق پر ان کو برداشت کر جانا ان کی قربانیوں کو حسن و جمال کی خلعتیں پہنا جاتا ہے، اور ان کی اس حالت کو چشم حیران بن کر د یکھنے والے شاید بزبان حال یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ : دردِ غم فراق کے یہ سخت مرحلے حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم اتنے حسیں خلیفہ وقت کی شفقت اور ذکر خیر رہے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم ڈاکٹر حاتم صاحب کے بیٹے کی وفات پر خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر خیر بھی کیا اور نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی.حضور انور نے فرمایا: ” ہمارے مصر کے ایک احمدی احمد محمد حاتم علمی شافعی ، یہ 20 مئی کو گردے فیل ہونے کی وجہ سے جوانی کی عمر میں ہی فوت ہو گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.....یہ ڈاکٹر محمد حاتم صاحب کے بڑے بیٹے تھے، اور علمی شافعی صاحب مرحوم کے پوتے تھے.یہ بچپن سے معذور تھے.اور wheel chair پر تھے.لیکن اس کے باوجود بڑے صبر سے اپنی بیماری برداشت کرتے رہے اور اپنی والدہ کو بھی کہتے تھے کہ میں صبر سے سب کچھ برداشت کرتا ہوں پریشان نہ ہوں.ان کی والدہ کہتی ہیں کہ میں حیران ہوتی تھی ان کا صبر دیکھ دیکھ کے.اور تسلی جب ان کو دلائی جاتی، جب بیماری ان کی بڑھی ہے، تو خود ہی اپنی والدہ کو، اپنے عزیزوں کو بڑی تسلی دیا کرتے تھے.والدہ نے کہا کہ سب بہن بھائیوں سے بڑھ کر یہ ہماری اطاعت کرنے والے تھے.اور ان کے والد ڈاکٹر حاتم شافعی صاحب.....صدر جماعت بھی ہیں.تو وہ جیل میں تھے جب یہ فوت ہوئے ہیں.باوجود معذوری کے، معذور تو تھے لیکن بزنس کی ڈگری انہوں نے لی ہے، پڑھتے رہے ہیں.کمپیوٹر کے کورس کئے ہوئے تھے.اور یہ بڑا ارادہ رکھتے تھے کہا.پنے دادا
530 مصالح العرب.....جلد دوم مرحوم کی طرح جماعتی لٹریچر میں ان کی مدد کریں گے.خلافت سے بڑی محبت کا تعلق تھا ، میرے اس عرصہ میں گزشتہ دو دفعہ یہاں جلسہ میں بھی آچکے ہیں.والدہ یہ کہتی ہیں کہ وفات کے وقت ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے.إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ ، اور پھر لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ کہا.گردے فیل ہونے کی وجہ سے کچھ عرصے سے ڈائی لیسز (Dialysis) کے لئے جاتے تھے.والد ان کے اسیر راہ مولیٰ ہیں اور ابھی جیل میں ہی ہیں، وہ تو ان کے جناز.میں شامل نہیں ہو سکے.اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند کرے.اور والدین کو اور عزیزوں کو صبر جمیل عطا فرمائے.اور اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے ہمیشہ محفوظ رکھے.از خطبه جمعه فرموده 11 جون 2010ء) XXXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.جلد دوم 531 حاکم و محکوم کی مخلصانہ راہنمائی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عربی کتاب حَمَامَةُ البُشْری میں خدا تعالیٰ کی ایک عظیم بشارت کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ: وَإِنَّ رَبِّي قَد بَشَّرَنِي فِي الْعَرَبِ وَالْهَمَنِي أَنْ أُمَوِّنَهُمْ وَارِيَهُمْ طَرِيْقَهُمْ وَأَصْلِحَ لَهُمْ شُيُوْنَهُم - حمامة البشری روحانی خزائن جلد 7 صفحه (182) ترجمہ: اور میرے رب نے اہلِ عرب کی نسبت مجھے بشارت دی اور الہام کیا ہے کہ میں ان کی خبر گیری کروں اور ٹھیک راہ بتاؤں اور ان کے معاملات کو درست کروں.اس الہی ارشاد کے تحت جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عربوں کے لئے کتب تالیف فرما کر ان کی راہنمائی فرمائی وہاں آپ کے بعد آپ کے خلفائے عظام نے بھی آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر موقع پر نہ صرف فرض نصیحت ادا فرمایا بلکہ عربوں کی خبر گیری اور ان کے معاملات کی درستگی کے لئے ہر ممکن عملی قدم بھی اٹھایا.دینی ، دنیاوی اور سیاسی بلکہ ہر سطح پر خلفائے احمدیت نے خدا داد بصیرت سے ہمیشہ عربوں کو اپنے معاملات درست کرنے کی ہمیشہ ٹھیک راہ بتائی.چاہے یہ امور عرب ممالک کی آزادی سے تعلق رکھتے ہوں یا ان ممالک میں موجود مقدس مقامات کی حفاظت سے ، خواہ ان کا تعلق عرب ممالک کے مغربی ممالک کے ساتھ بڑے بڑے تجارتی معاہدوں سے ہو یا سیاسی مقاصد سے، عربوں کے مفادات کے تحفظ کا معاملہ ہو یا انکے ملکی اور علاقائی استحکام اور امن و امان کا ، الغرض ہر معاملہ میں خلفائے احمدیت نے اپنے قیمتی اور مخلصانہ مشوروں اور کوششوں اور دعاؤں سے ہمیشہ عرب ممالک کی مدد کی.اور
مصالح العرب......جلد دوم 532 ہمیشہ خبر گیری کے اس فرض کو کماحقہ ادا کیا.خلیج کے بحران پر حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس فرض کو ادا کرتے ہوئے متعد د خطبات ارشاد فرمائے جن کے آخر پر عرب حکومتوں کے بارہ میں فرمایا: اگر وہ ان عاجزانہ غریبانہ نصیحتوں پر عمل کریں گے تو بلاشبہ کامیاب اور کامران ہوں گے، اور دنیا میں بھی سرفراز ہوں گے اور آخرت میں بھی سرفراز ہوں گے.لیکن اگر خدانخواستہ انہوں نے اپنے عارضی مفادات کی غلامی میں اسلام کے مفادات کو پرے پھینک دیا اور اسلامی تعلیم کی پرواہ نہ کی تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو دنیا اور خدا کے غضب سے بچا نہیں سکے گی.“ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس نصیحت پر کسی عرب حکومت نے کان نہ دھرے اور پھر اس کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی وہ حقیقت میں حضور انور رحمہ اللہ کے مذکورہ کلمات کا واضح عکس لئے خلیفہ ہوئے تھی.حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی اپنی خلافت کے آغاز سے ہی متعدد بار کئی امور میں عربوں کی خبر گیری کا فرض ادا کیا لیکن جب عرب ممالک میں مظاہرات اور حکومت کے خلاف بعض عوامی تحریکوں سے امن و امان کی صورتحال دگر گوں ہوئی تو جس تفصیل کے ساتھ حضور انور نے اس حالت کا تجزیہ اور اس کے حل کے لئے مخلصانہ مشورے عطا فرمائے ہیں وہ صرف خلافت کا ہی خاصہ ہے.ان مشوروں اور نصائح کے مفصل بیان سے قبل کسی قدر اختصار کے ساتھ ان عوامی مظاہروں کی ابتدا کے بارہ میں جاننا ضروری ہے.انقلابی تحریکات کا نقطہ آغاز مختلف عرب حکومتوں کے خلاف ان مظاہروں ، توڑ پھوڑ اور شور و غوغا.جسے انقلابی تحریکات کا نام دیا گیا.کی ابتدا تیونس سے ہوئی.اور اس آگ کو بھڑ کانے والا وہ پہلا شعلہ ”محمد البوعزیزی نامی ایک شخص کی خود کشی ٹھہرا.یہ شخص یو نیورسٹی کا فارغ التحصیل تھا لیکن کوئی کام نہ ملنے کی وجہ سے بالآخر ریڑھی لگانے پر مجبور ہو گیا.ایک دن پولیس کی طرف سے اس کے رزق کا واحد ذریعہ یہ ریڑھی بھی ضبط کر لی گئی کیونکہ اس کے پاس ریڑھی لگانے کی اجازت یا لائسنس نہ
533 مصالح العرب.....جلد دوم تھا.اور اس کے احتجاج پر اسے تھپڑ مارا گیا.جب وہ تھانے میں رپورٹ لکھوانے گیا تو اس کی کی کوئی شنوائی نہ ہوئی.تنگ آ کر اس نے 17 دسمبر 2010 ء کو سیدی بوزید کے ضلعی دفتر کے سامنے خودسوزی کر لی.اسکے اگلے ہی دن 18 دسمبر 2010ء کو ہزار ہا تیونسی باشندوں نے اس افسوسناک حادثے اور ملک میں عدالتی نظام کے فقدان اور بے روزگاری کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا جن میں اس وقت مزید شدت آگئی جب 4 جنوری 2011ء کو خودسوزی کرنے والے اس نوجوان کی 26 سال کی عمر میں وفات ہو گئی.اور بالآخر 14 جنوری 2011ء کو صدر تیونس زین العابدین بن علی کو 23 سال حکومت کرنے کے بعد اپنا ملک چھوڑنا پڑا.جس کے بعد 25 جنوری 2011ء کو یہ مظاہرے مصر کی سرزمین میں بھی پھیل گئے.اور 11 فروری 2011ء کو مصری صدر حسنی مبارک کو اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا.اسی دن یعنی 11 فروری 2011 ء کو ہی یمن میں حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے.پھر 14 فروری 2011ء کو مظاہروں کا یہ سلسلہ بحرین تک جا پہنچا.جبکہ 15 فروری 2011ء کو لیبیا میں ان مظاہروں کی رو چلی اور 15 مارچ 2011ء کو یہ فضا شام کے گلی کوچوں میں بھی پھیلنے لگی.اسی طرح دیگر عرب ممالک تک بھی کسی نہ کسی طرح اس آگ کی تپش ضرور پہنچی جس کا آغاز محمد البوعزیزی کی خودسوزی سے ہوا.دستور عمل اور گلدستہ نصیحت بلا دعر بیہ میں لگی اس آگ پر جہاں اہل غرب نے تیل کا کام کیا وہاں خود ان ممالک کے باشندوں اور دیگر مسلمان ممالک نے بھی کلمہ حق کہنے کی بجائے مختلف سیاسی بیانات اور مفاد پرستی کے لبادے میں ملبوس آراء کو ہی اپنا موقف قرار دیا.ایسی حالت میں صرف ایک ایسی آواز تھی جو محض خدا کی خاطر نہایت مخلصانہ نصیحت پر مشتمل تھی، جو صرف حاکم کو ہی نہیں سمجھا رہی تھی بلکہ محکوم کو بھی درست راہ دکھا رہی تھی.یہ آواز حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تھی.آپ نے 25 فروری 2011ء کو تمام صورتحال کے تجزئیے اور مختلف مشوروں اور راہنمائی پر مشتمل ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جو عربوں کے لئے خصوصا اور تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے عموما ایک دستور عمل اور گلدستہ نصیحت کی حیثیت رکھتا ہے.ذیل میں مختلف
مصالح العرب.....جلد دوم عناوین کے تحت اس خطبہ جمعہ کے بعض حصے پیش ہیں.عالم اسلام کے لئے پر درد دعاؤں کی تحریک 534 اس خطبہ جمعہ میں حضور انور نے سب سے پہلے افراد جماعت احمدیہ کو ایک فرض دعا کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ، آپ نے فرمایا: ”آج میں ایک دعا کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کا تعلق تمام عالم اسلام سے ہے.اس وقت مسلمانوں سے ہمدردی کا تقاضا ہے اور ایک احمدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت ہے اور ہونی چاہئے ، اُس کا تقاضا ہے کہ جو بھی اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہوئے کلمہ پڑھتا ہے، جو بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، جو بھی مسلمان ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کے نقصان کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یا کسی بھی مسلمان ملک میں کسی بھی طرح کی بے چینی اور لاقانونیت ہے اُس کے لئے ایک احمدی جو حقیقی مسلمان ہے، اُسے دعا کرنی چاہئے.ہم جو اس زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں ہمارا سب سے زیادہ یہ فرض بنتا ہے کہ مسلمانوں کی ہمدردی میں بڑھ کر اظہار کرنے والے ہوں.جب ہم عہد بیعت میں عام خلق اللہ کے لئے ہمدردی رکھنے کا عہد کرتے ہیں تو مسلمانوں کے لئے تو کر اس جذبے کی ضرورت ہے.“ پھر فرمایا: احمدی کو اسلامی دنیا کے لئے خاص طور پر بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے.اس سے پہلے کہ ہر ملک اس پیٹ میں آ جائے اور پھر ظلموں کی ایک اور طویل داستان شروع ہوتی جائے خدا تعالیٰ حکومتوں اور عوام دونوں کو عقل دے اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے.“ عملی مدد کی خواہش جماعت احمد یہ ان عرب ممالک کی خبر گیری کے فرض کی انجام دہی کیلئے اپنی تمام تر کوشش صرف کرنے کو تیار ہے لیکن ہمارے پاس عملی طور پر ان کی مدد کے وسائل نہیں ہیں، حضور انور
مصالح العرب.جلد دوم نے فرمایا: 535 ”ہمارے پاس دنیاوی حکومت اور وسائل تو نہیں جس سے ہم مسلمانوں کی عملی مدد بھی کر سکیں یا کسی بھی ملک میں اگر ضرورت ہو تو کر سکیں ، خاص طور پر بعض ممالک کی موجودہ سیاسی اور ملکی صورتِ حال کے تناظر میں ہمارے پاس یہ وسائل نہیں ہیں کہ ہم جا کر مدد کر سکیں.ہاں ہم دعا کر سکتے ہیں اور اس طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے.“ عملی مدد کی ایک کوشش کرنے کی ہدایت نے فرمایا: حضور انور نے ان حالات میں احمدیوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ہدایت فرمائی، آپ جو احمدی ان ممالک میں بس رہے ہیں یا اُن ممالک کے باشندے ہیں جن میں آج کل بعض مسائل کھڑے ہوئے ہیں، اُن کو دعا کے علاوہ اگر کسی احمدی کے ارباب حکومت یا سیاستدانوں سے تعلق ہیں تو انہیں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانی چاہئے کہ اپنے ذاتی مفادات کے بجائے اُن کو قومی مفادات کو ترجیح دینی چاہئے.“ پھر فرمایا: میں پھر کہتا ہوں کہ ہمارے احمدی جو عرب ملکوں میں بھی رہتے ہیں یا اُن کا اسلامی حکومتوں کے سیاستدانوں اور لیڈروں سے بھی کوئی تعلق ہے یا رسوخ ہے تو اُن کو بتائیں کہ اگر تم نے ہوش نہ کی ، انصاف اور تقویٰ کو قائم کرنے کے لئے بھر پور کوشش نہ کی ، مُلاں کے چنگل سے اپنے آپ کو نہ نکالا، شدت پسند گروہوں پر کڑی نظر نہ رکھی تو کوئی بعید نہیں کہ مُلاں مذہب کے نام پر بعض ملکوں میں حکومت پر مکمل قبضہ کرنے کی کوشش کرے.اور پھر مذہب کے نام پر ایسے خوفناک نتائج سامنے آئیں گے جو عوام کو مزید اندھیروں میں دھکیل دیں گے.مذہب کے نام پر ایک فرقہ دوسرے فرقے پر ظلم کرتا چلا جائے گا.اور اس فساد کی صورت میں پھر بڑی طاقتوں کو متعلقہ ملکوں میں اپنی مرضی سے در آنے کا پروانہ مل جائے گا.امن کے نام پر وہاں آ کر بیٹھ جانے کا اُن کو آپ لائسنس دے دیں گے، جس سے پھر فساد ہوگا، جانوں کو نقصان ہوگا، املاک کا نقصان ہوگا اور بالواسطہ یا بلا واسطہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جانے کا انتظام بھی ہو
536 مصالح العرب...جلد دوم سکتا ہے بلکہ یقینی طور پر ہو گا.اور سب سے بڑھ کر یہ جیسا کہ میں نے کہا کہ ایک وسیع جنگ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، لے لے گی.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور مسلم امہ کو اور ان کے رہنماؤں کو عقل دے، سمجھ دے کہ خدا تعالیٰ کا خوف دلوں میں پیدا کرنے والے ہوں.“ خرابی کی نشاندہی جماعت احمدیہ کے فرض اور عملی کوشش کے ذکر کے بعد حضور انور نے ان حالات کا نہایت حکیمانہ تجزیہ فرماتے ہوئے اس خرابی کی نشاندہی فرمائی جو اس فساد کی جڑھ کی حیثیت رکھتی ہے.اس ضمن میں مختلف حکام کی ایک مشترکہ غلطی کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا: عموماً مسلمان ارباب اختیار اور حکومت جب اقتدار میں آتے ہیں، سیاسی لیڈر جب اقتدار میں آتے ہیں یا کسی بھی طرح اقتدار میں آتے ہیں تو حقوق العباد اور اپنے فرائض بھول جاتے ہیں.اس کی اصل وجہ تو ظاہر ہے تقویٰ کی کمی ہے.جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہیں، جس کتاب قرآنِ کریم پر ایمان لانے اور پڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اُس کے بنیادی حکم کو بھول جاتے ہیں کہ تمہارے میں اور دوسرے میں مابہ الامتیاز تقویٰ ہے.اور جب یہ امتیاز باقی نہیں رہا تو ظاہر ہے کہ پھر دنیا پرستی اور دنیاوی ہوس اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے.گو مسلمان کہلاتے ہیں، اسلام کا نام استعمال ہو رہا ہوتا ہے لیکن اسلام کے نام پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پامالی کی جا رہی ہوتی ہے.دولت کو ، اقتدار کی ہوس کو ، طاقت کے نشہ کو خدا تعالیٰ کے احکامات پر ترجیح دی جا رہی ہوتی ہے یا دولت کو سنبھالنے کے لئے ، اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے غیر ملکی طاقتوں پر انحصار کیا جا رہا ہوتا ہے.غیر طاقتوں کے مفادات کی حفاظت اپنے ہم وطنوں اور مسلم امہ کے مفادات کی حفاظت سے زیادہ ضروری سمجھی جاتی ہے اور اس کے لئے اگر ضرورت پڑے تو اپنی رعایا پر ظلم سے بھی گریز نہیں کیا جاتا.پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دولت کی لالچ نے سر براہانِ حکومت کو اس حد تک خود غرض بنا دیا ہے کہ اپنے ذاتی خزانے بھرنے اور حقوق العباد کی ادنی سی ادائیگی میں بھی کوئی نسبت نہیں رہنے دی.اگر سو (100) اپنے لئے ہے تو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لئے ہے.جو خبریں باہر نکل رہی ہیں اُن سے پتہ چلتا ہے کہ کسی سر براہ نے سینکڑوں کلو گرام سونا باہر نکال دیا تو کسی نے اپنے تہ خانے
537 مصالح العرب.....جلد دوم خزانے سے بھرے ہوئے ہیں.کسی نے سوئس بینکوں میں ملک کی دولت کو ذاتی حساب میں رکھا ہوا ہے اور کسی نے غیر ممالک میں بے شمار، لا تعداد جائیدادیں بنائی ہوئی ہیں اور ملک کے عوام روٹی کے لئے ترستے ہیں لیکن سربراہ جو ہیں، لیڈر جو ہیں وہ اپنے محلوں کی سجاوٹوں اور ذاتی استعمال کے لئے قوم کے پیسے سے لاکھوں پاؤنڈ کی شاپنگ کر لیتے ہیں.مسلمان سر برا ہوں نے جن کو ایک رہنما کتاب، شریعت اور سنت ملی جو اپنی اصلی حالت میں آج تک زندہ و جاوید ہے باوجود اس قدر رہنمائی کے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی دھجیاں اڑائی ہیں.“ پھر فرمایا: کہاں تو مومن کو یہ حکم ہے کہ مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں.ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو دوسرے کو تکلیف ہوتی ہے.قرآنِ کریم بھی یہ فرماتا ہے کہ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (الحجرات: 11) کہ مومن تو بھائی بھائی ہیں.لیکن بعض ملکوں میں مثلاً مصر سے بھی اور دوسرے ملکوں سے بھی یہ خبریں آئی ہیں کہ حکومت نے قانونی اختیار کے تحت عوام کے خلاف جو کارروائی کی ہے وہ تو کی ہے لیکن اسی پر بس نہیں بلکہ عوام کو بھی آپس میں لڑایا گیا ہے.“ پھر فرمایا: اگر سیاستدان ایماندار ہوں ، سربراہان مملکت اپنے عوام کی خیر خواہی نیک نیتی سے چاہتے ہوں، اُن کے حقوق کا تحفظ کریں تو نہ بھی بے چینی پھیلے، نہ ہی شدت پسند تنظیموں کو اُبھرنے کا موقع ملے، نہ بیرونی طاقتیں غلط رنگ میں اپنے مفاد حاصل کر سکیں.بہر حال مختصر یہ کہ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ جو ظلم ہر جگہ نظر آ رہے ہیں دنیا کو تباہی کی طرف لے جاتے نظر آ رہے ہیں.اگر حقیقی تقویٰ پیدا نہ ہوا، انصاف قائم نہ ہوا تو آج نہیں تو کل یہ تباہی اور جنگ دنیا کو لپیٹ میں لے لے گی.اور بعید نہیں کہ اس کے ذمہ دار یا وجہ بعض مسلمان ممالک ہی بن جائیں.“ اس خرابی کا منطقی رو عمل حضور انور نے مفصل طور پر اس خرابی کا ذکر کیا جو مختلف عرب اور اسلامی ممالک میں حکمرانوں کا شیوہ بن گیا ہے چنانچہ اس کا رد عمل تو ظاہر ہونا تھا.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور
مصالح العرب.جلد دوم انور نے فرمایا: 538 پس امتِ مسلمہ تو ایک طرف رہی یعنی دوسرے ملک جن کے حقوق ادا کرنے ہیں یہاں تو اپنے ہم وطنوں کے بھی مال غصب کئے جا رہے ہیں.تو ایسے لوگوں سے کیا توقع کی ج جاسکتی ہے کہ وہ تقویٰ پر چل کر حکومت چلانے والے ہوں گے، یا حکومت چلانے والے ہو سکتے ہیں.یہ لوگ ملک میں فساد اور افراتفری پیدا کرنے کا ذریعہ تو بن سکتے ہیں.طاقت کے زور پر کچھ عرصہ حکومتیں تو قائم کر سکتے ہیں لیکن عوام الناس کے لئے سکون کا باعث نہیں بن سکتے.پس ایسے حالات میں پھر ایک رد عمل ظاہر ہوتا ہے جو گواچانک ظاہر ہوتا ہوا نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک نہیں ہوتا بلکہ اندر ہی اندر ایک لاوا پک رہا ہوتا ہے جو اب بعض ملکوں میں ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے اور بعض میں اپنے وقت پر ظاہر ہوگا.جب یہ لاوا پھٹتا ہے تو پھر یہ بھی طاقتوروں اور جابروں کو بھسم کر دیتا ہے.اور پھر کیونکہ ایسے رد عمل کے لئے کوئی معین لائحہ عمل نہیں ہوتا.اور مظلوم کا ظالم کے خلاف ایک رد عمل ہوتا ہے.اپنی گردن آزاد کروانے کے لئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کی جا رہی ہوتی ہیں.اور جب مظلوم کامیاب ہو جائے تو وہ بھی ظلم پر اُتری آتا ہے.66 حقیقی تقوی کے فقدان کے نتائج اگر مسلمان لیڈرشپ میں تقویٰ ہوتا، حقیقی ایمان ہوتا تو جہاں سربراہانِ حکومت جو بادشاہت کی صورت میں حکومت کر رہے ہیں یا سیاستدان جو جمہوریت کے نام پر حکومت کر رہے ہیں، وہ اپنے عوام کے حقوق کا خیال رکھنے والے ہوتے.پھر اسلامی ممالک کی ایک تنظیم ہے، یہ تنظیم صرف نام کی تنظیم نہ ہوتی بلکہ مسلمان ممالک انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہوتے نہ کہ اپنے مفادات کے لئے اندر خانے ایسے گروپوں کی مدد کرنے والے جو دنیا میں فساد پیدا کرنے والے ہیں.اگر حقیقی تقویٰ ہوتا تو عالم اسلام کی ایک حیثیت ہوتی.عالم اسلام اپنی حیثیت دنیا سے منوا تا.براعظم ایشیا کا ایک بہت بڑا حصہ اور دوسرے بر اعظموں کے بھی کچھ حصوں میں اسلامی ممالک ہیں، اسلامی حکومتیں ہیں.لیکن دنیا میں عموماً ان سب ممالک کو غریب قوموں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یا غیر ترقی یافتہ
539 مصالح العرب.....جلد دوم قوموں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یا کچھ ترقی پذیر کہلاتی ہیں.بعض جن کے پاس تیل کی دولت ہے، وہ بھی بڑی حکومتوں کے زیر نگیں ہیں.ان کے بجٹ ، ان کے قرضے جو وہ دوسروں کو دیتے ہیں، اُن کی مدد جو وہ غریب ملکوں کو دیتے ہیں، یا مدد کے بجٹ جو غریب ملکوں کے لئے مختص کئے ہوتے ہیں اُس کی ڈور بھی غیر کے ہاتھ میں ہے.خوف خدا نہ ہونے کی وجہ سے، خدا کے بجائے بندوں سے ڈرنے کی وجہ سے، نااہلی اور جہالت کی وجہ سے اور اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے نہ ہی دولت کا صحیح استعمال اپنے ملکوں میں انڈسٹری کو ڈویلپ ( Develop) کرنے میں ہوا ہے، نہ زراعت کی ترقی میں ہوا ہے.حالانکہ مسلمان ممالک کی دولت مشتر کہ مختلف ملکوں کے مختلف موسمی حالات کی وجہ سے مختلف النوع فصلیں پیدا کرنے کے قابل ہے.مسلمان ملک مختلف قدرتی وسائل کی دولت اور افرادی قوت سے اور زرخیز ذہن سے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں.لیکن کیونکہ مفادات اور ترجیحات مختلف ہیں، اس لئے یہ سب کچھ نہیں ہو رہا.آخر کیوں مسلمان ملکوں کے سائنسدان اور موجد اپنے زرخیز ذہن کی قدر ترقی یافتہ ممالک میں جا کر کرواتے ہیں.اس لئے کہ ان کی قدر اپنے ملکوں میں اُس حد تک نہیں ہے.اُن کو استعمال نہیں کیا جاتا.اُن کو سہولتیں نہیں دی جاتیں.جب اُن کے قدم آگے بڑھنے لگتے ہیں تو سر برا ہوں یا افسر شاہی کے ذاتی مفادات اُن کے قدم روک دیتے ہیں.“ حقیقی تقومی کی راہیں تلاش کریں حضور انور نے دونوں اطراف یعنی حاکم ومحکوم کو عمومی نصیحت کے طور پر فرمایا: وو یہ یہ سب کچھ گزشتہ چند ہفتوں میں مصر، تیونس یا لیبیا وغیرہ دوسرے ملکوں میں ہوا یا ہو رہا ہے.یہ سب عالم اسلام کی بدنامی کا باعث ہے.پس اس وقت اسلام کی ساکھ قائم کرنے کے لئے ، ملکوں میں امن پیدا کرنے کے لئے ، عوام الناس اور ارباب حکومت واقتدار میں امن کی فضا پیدا کرنے کے لئے تقویٰ کی ضرورت ہے جس کی طرف کوئی بھی توجہ دینے کو تیار نہیں.توجہ کی صرف ایک صورت ہے کہ تو بہ اور استغفار کرتے ہوئے ہر فریق خدا تعالیٰ کے آگے جھکے.تقومی کے راستے کی تلاش کرے...اس فساد کو دور کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ ہے اس زمانے میں آپ کے مسیح و مہدی کو قبول کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچانا.جب
مصالح العرب.....جلد دوم 540 تک اس طرف توجہ نہیں کریں گے، دنیاوی لالچ بڑھتے جائیں گے.اصلاح کے لئے راستے بجائے روشن ہونے کے اندھیرے ہوتے چلے جائیں گے.اس کے علاوہ اب اور کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ تقویٰ کا حصول خدا تعالیٰ سے تعلق کے ذریعے سے ہی ملنا ہے.اور خدا تعالیٰ سے تعلق اُس اصول کے تحت ملے گا جس کی رہنمائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی ، اللہ تعالیٰ نے فرما دی.“ نظام خلافت ہی حل ہے حضور انور نے ایک ویب سائٹ کی خبر کا ذکر فرمایا اور آخر پر اس خبر میں موجود امور کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش فرمایا: ” یہ اُس کی باتوں کا خلاصہ ہے، مسلمانوں کو ایک کرنے کے لئے ، انصاف قائم کرنے کے لئے ، دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے یقیناً نظام خلافت ہی ہے جو صحیح رہنمائی کر سکتا ہے.حکمرانوں اور عوام کے حقوق کی نشاندہی اور اس پر عمل کروانے کی طرف توجہ یقیناً خلافت کے ذریعے ہی مؤثر طور پر دلوائی جاسکتی ہے.یہ لکھنے والے نے بالکل صحیح لکھا ہے لیکن جو سوچ اس کے پیچھے ہے وہ غلط ہے.جو طریق انہوں نے بتایا ہے کہ عوام اٹھ کھڑے ہو جائیں اور نظام خلافت کا قیام کر دیں، یہ بالکل غلط ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ نظام خلافت سے وابستگی سے ہی اب مسلم امہ کی بقا ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا اس تنظیم نے مسلمانوں کی حیثیت منوانے اور ان کو صحیح راستے پر چلانے کے لئے بہت صحیح حل بتایا ہے لیکن اس کا حصول عوام اور انسانوں کی کوششوں سے نہیں ہو سکتا.کیا خلافت راشدہ انسانی کوششوں سے قائم ہوئی تھی.باوجود انتہائی خوف اور بے بسی کے حالات کے اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دل پر تصرف کر کے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لئے کھڑا کر دیا تھا.پس خلافت خدا تعالیٰ کی عنایت ہے.مومنین کے لئے ایک انعام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کچھ عرصہ تک خلافت راشدہ کے قائم ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی.اور اس کے بعد ہر آنے والا اگلا دور ظلم کا دور ہی بیان فرمایا تھا.پھر ایک امید کی کرن دکھائی جو قرآنی پیشگوئی وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة :4) میں نظر آتی ہے اور اس کی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
مصالح العرب.....جلد دوم 541 نے مسیح و مہدی کے ظہور سے فرمائی جو غیر عرب اور فارسی الاصل ہو گا.جس کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور مُہر کے تحت غیر تشریعی نبوت کا مقام ہو گا.پس اگر مسلمانوں نے خلافت کے قیام کی کوشش کرنی ہے تو اس رہنما اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کریں.“ انسانی کوششوں سے نظام خلافت قائم کرنے کے خواب دیکھنے والوں کو مخاطب کر کے حضور انور نے فرمایا: وو پس خلافت کے لئے اللہ تعالیٰ کے رحم نے جوش مارنا تھا نہ کہ حکومتوں کے خلاف مسلمانوں کے پُر جوش احتجاج سے خلافت قائم ہونی تھی.کیا ہر ملک میں خلافت قائم کریں گے؟ اگر کریں گے تو کس ایک فرقے کے ہاتھ پر تمام مسلمان اکٹھے ہوں گے.نماز میں امامت تو ہر ایک فرقہ دوسرے کی قبول نہیں کرتا.پس اس کا ایک ہی حل ہے کہ پہلے مسیح موعود کو مانیں اور پھر آپ علیہ السلام کے بعد آپ کی جاری خلافت کو مانیں.یہ وہ خلافت ہے جو شدت پسندوں کا جواب شدت پسندی کے رویے دکھا کر قائم نہیں ہوئی.مسلم امہ کے دو گروہوں کے درمیان گولیاں چلانے اور قتل وغارت کرنے سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے رحم کو جوش دلانے سے قائم ہونے والی خلافت ہے.اور جو خلافت اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کی عنایت سے ملے گی تو وہ نہ صرف مسلم اُمہ کے لئے محبت پیار کی ضمانت ہوگی بلکہ گل دنیا کے لئے امن کی ضمانت ہوگی.حکومتوں کو اُن کے انصاف اور ایمانداری کی طرف توجہ دلائے گی.عوام کو ایمانداری اور محنت سے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائے گی.پس جماعتِ احمد یہ تو ہمیشہ کی طرح آج بھی اس تمام فساد کا جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے ایک ہی حل پیش کرتی ہے کہ خیر امت بننے کے لئے ایک ہاتھ پر جمع ہو کر، دنیا کے دل سے خوف دور کر کے اُس کے لئے امن، پیار اور محبت کی ضمانت بن جاؤ.خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے بن جاؤ.اس یقین پر قائم ہو جاؤ کہ خدا تعالیٰ اب بھی جسے چاہے کلیم بنا سکتا ہے تا کہ خیر امت کا مقام ہمیشہ اپنی شان دکھاتا رہے.یہ سب کچھ زمانے کے امام 66 سے جُڑنے سے ہوگا.اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے مسلمانوں کی حالت بھی سنورے گی.“
مصالح العرب.جلد دوم دنیا کے امن کی ضمانت 542 آج احمدی ہی اس دنیا کے امن کی ضمانت ہیں.آج دنیا دنیا وی داؤ پیچ کو سب کچھ سمجھتی ہے لیکن احمدی جو زندہ خدا کے نشانوں کو دیکھتا ہے، خدا تعالیٰ کی ذات پر انحصار کرتا ہے، خدا تعالیٰ کی قدرت کے نظارے دیکھتا ہے، خدا تعالیٰ کا خوف دلوں میں قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے ہے، اس کے لئے خدا کے آگے جھکنا ہی سب کچھ ہے.مذہبوں ایک بنگالی پروفیسر صاحب چند دن ہوئے مجھے ملنے آئے.کہنے لگے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگر جماعت احمد یہ اکثریت میں ہو گی، ہوتی ہے یا ہو جائے تو دوسرے فرقوں یا رہیوں پر زیادتی نہیں ہوگی اور لوگوں کے حقوق نہیں دبائے جائیں گے؟ تو میں نے اُن کو کہا کہ جوا کثریت دلوں کو جیت کر بنی ہو، جو جبر کے بجائے محبت کا پیغام لے کر چلنے والی ہو، وہ ظلم نہیں کرتی بلکہ محبتیں پھیلاتی ہے.اس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہوتا ہے.اُس کے پیش نظر خدا تعالیٰ کی رضا ہوتی ہے.وہ نیکیوں پر تعاون کرتی ہے اور تعاون لیتی ہے، اور پھر جو خلافت راشدہ کا نظام ہے یہ انصاف قائم کرنے کے لئے ہے، حقوق دلوانے کے لئے ہے، حقوق غصب کرنے کے لئے نہیں ہے.اور جو حکومت خلافت کی بیعت میں ہوگی وہ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف تو توجہ دے گی ، حقوق غصب کرنے کی کوشش نہیں کرے گی.بشری تقاضے کے تحت بعض غلط فیصلے ہو سکتے ہیں لیکن اگر تقویٰ ہو تو اُن کی بھی اصلاح ہو جاتی ہے.“ مذکورہ بالا اقتباسات حضرت خلیفہ اسی الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 فروری 2011 ء سے لئے گئے ہیں.) عرب ممالک کے احمدیوں کے لئے خصوصی پیغام گو که حضور ا نو را یدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 25 فروری 2011ء کے خطبہ جمعہ میں اصولی طور پر حاکم و محکوم دونوں کے لئے تفصیلی را ہنمائی فرما دی تھی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اول: دونوں اطراف تقوی سے کام لیں.دوم : إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إخوة کے مضمون پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.
مصالح العرب.....جلد دوم 543 سوم: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ کے اصل کو پکڑنے کی کوشش کریں.اور اس میں واضح طور پر عوام کے لئے یہ نصیحت تھی کہ ایسے کام جو ملکی امن وسلامتی کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں جن سے قتل وغارت اور خون ہو یا املاک کو نقصان پہنچے ایسے کام تقویٰ پر مبنی تو نہیں ہو سکتے.اور ایسے کاموں سے إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ کا مضمون تو کسی صورت ظاہر نہیں ہوتا.نہ ہی ایسے کام وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْویٰ کا عکس پیش کرنے والے ہیں.اسی طرح حاکموں کی طرف سے مسلسل ظلم کی فضا اور حقوق ادا کرنے کی بجائے حقوق غصب کرنے کی سیاست بھی ان مذکورہ امور کو پس پشت ڈالنے کے مترادف ہے.اس اصولی وضاحت کے ساتھ ساتھ حضور انور نے فرمایا: ایسے لوگوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ تقویٰ پر چل کر حکومت چلانے والے ہوں گے، یا حکومت چلانے والے ہو سکتے ہیں.یہ لوگ ملک میں فساد اور افراتفری پیدا کرنے کا ذریعہ تو بن سکتے ہیں.طاقت کے زور پر کچھ عرصہ حکومتیں تو قائم کر سکتے ہیں لیکن عوام الناس کے لئے سکون کا باعث نہیں بن سکتے.پس ایسے حالات میں پھر ایک رد عمل ظاہر ہوتا ہے جو گو اچانک ظاہر ہوتا ہوا نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک نہیں ہوتا بلکہ اندر ہی اندر ایک لاوا پک رہا ہوتا ہے جو اب بعض ملکوں میں ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے اور بعض میں اپنے وقت پر ظاہر ہوگا.جب یہ لاوا پھٹتا ہے تو پھر یہ بھی طاقتوروں اور جابروں کو بھسم کر دیتا ہے.اور پھر کیونکہ ایسے رد عمل کے لئے کوئی معین لائحہ عمل نہیں ہوتا.اور مظلوم کا ظالم کے خلاف ایک رد عمل ہوتا ہے.اپنی گردن آزاد کروانے کے لئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کی جا رہی ہوتی ہیں.اور جب مظلوم کامیاب ہو جائے تو وہ بھی ظلم پر اُتر آتا ہے.“ آخری دو فقروں میں ساری نصائح کا خلاصہ آ گیا ہے.یعنی یہ درست ہے کہ حاکموں کے ظلم کا نتیجہ ایسے لاوے کی شکل میں نکلتا ہے جو انہیں بھسم کر دیتا ہے.لیکن یہ رد عمل اتنا شدید جاتا ہے کہ مظلوم انتقام لینے کیلئے ظالم ہو جاتا ہے.لہذا ایسا کرنا درست نہیں ہے اگر یہ سلسلہ چلتا رہے تو کبھی امن کی فضا قائم ہی نہ ہو.اس لئے ظلم کا جواب ظلم سے نہیں دینا تا محکوم بھی ظالم شمار نہ ہوں.اس کے باوجود بعض عرب ممالک سے احمدیوں کو واضح پیغام کی سمجھ نہ آئی اور انہوں نے
544 مصالح العرب.....جلد دوم مختلف امور کے بارہ میں استفسارات ارسال کئے.اس لئے حضورانو رایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یکم اپریل اور 15 اپریل 2011ء کو اسی موضوع پر خطبات ارشاد فرمائے.ذیل میں ان خطبات سے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں.احمدی کی ذمہ داری یکم اپریل کے خطبہ جمعہ کی ابتدا میں حضور انور نے 25 فروری کے خطبہ کا حوالہ دے کر موجودہ حالات میں احمدیوں کو اپنی ذمہ داری کے ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: فروری کے آخری جمعہ میں میں نے خطبہ میں عالم اسلام کے لئے دعا کی تحریک کرتے ہوئے احمدی کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ہمارے پاس ذرائع نہیں ہیں، طاقت نہیں ہے، مسلمان ملکوں کے بادشاہوں تک کھل کر براہ راست آواز نہیں پہنچا سکتے کہ انہیں سمجھا ئیں کہ تم اپنے بادشاہ ہونے یا حکمران ہونے کا صحیح حق ادا کرو.چند جگہوں پر ہوسکتا ہے کسی ذریعہ سے آواز پہنچ جائے لیکن واضح پیغام پہنچ سکے کہ نہ یہ علم نہیں.بہر حال یہ میں نے اس لئے کہا تھا کہ احمدی جو دعا پر یقین رکھتے ہیں انہیں دعا کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان حکمرانوں کو عقل دے اور یہ اسلامی ممالک ہر قسم کی شکست وریخت سے بچ جائیں.اسی طرح عوام کو بھی پیغام تھا کہ وہ بھی اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور اپنے ملکوں کو شدت پسندوں کی یا غیروں کی جھولی میں نہ گرا ئیں.بہر حال میں اس خطبہ میں ان ملکوں میں رہنے والے احمدیوں کو بھی دوبارہ پیغام دیتا ہوں، پہلے بھی پیغام دیا تھا کہ دعاؤں کی طرف توجہ دیں اور جس حد تک دونوں طرف کو یہ عقل دلا سکتے ہیں دلائیں کہ شدت پسندی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور جوسب سے بڑا ہتھیار ہے وہ دعا ہے.احمدیوں کی اکثریت نے اس پیغام کو سمجھ لیا تھا اور اللہ کے فضل سے احمدی تو عموماً اس توڑ پھوڑ میں حصہ نہیں لیتے.اس لئے انہوں نے عموماً نہ فساد میں حصہ لیا ، نہ جنگ و جدل میں حصہ لیا.“ حکمران کی غلط پالیسیوں پر کہاں تک صبر کیا جائے؟ حضور انور نے فرمایا:
545 مصالح العرب.....جلد دوم بعض ایسے بھی ہیں جن کے ذہنوں میں سوال اٹھتے ہیں کہ ہم جابر اور ظالم حکمران کے خلاف یا اس کی غلط پالیسیوں کے خلاف کس حد تک صبر دکھائیں؟ کیا رد عمل ہمارا ہونا چاہئے؟....اور کس حد تک احمدیوں کو باقی عوام کے ساتھ مل کر اس شدت پسندی میں شامل ہونا چاہئے جس کا رد عمل عوام دکھا رہے ہیں.یا حکومت کے خلاف جلوسوں میں شامل ہونا چاہئے...اور کس حد تک ظلموں کو برداشت کریں؟ سب سے بنیادی چیز قرآن کریم ہے..اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا......ہے کہ وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْى (نحل: 91) اس کے معنے یہ ہیں کہ ہر قسم کی بے حیائی ، ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے تمہیں اللہ تعالیٰ روکتا ہے.اس حکم میں خیال نہیں آ سکتا کہ ایک طبقے کو حکم ہے اور دوسرے طبقے کو نہیں ہے.اس آیت کی مکمل تفسیر تو اس وقت بیان نہیں کر رہا، صرف بغاوت کے لفظ کی ہی وضاحت کرتا ہوں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے، حق واجب میں کمی کرنے اور حق واجب میں زیادتی کرنے دونوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے.یعنی جب حاکم اور محکوم کو حکم دیا جاتا ہے تو دونوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کا حکم دیا جاتا ہے.نہ حاکم اپنے فرائض اور اختیارات میں کمی یا زیادتی کریں، نہ عوام اپنے فرائض میں کمی یا زیادتی کریں.اور جو بھی یہ کرے گا اللہ تعالیٰ کی حدود کوتوڑنے والا ہوگا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑنے والا پھر خدا تعالیٰ کی گرفت میں بھی آسکتا ہ...حمد کئی احادیث ہیں جو حکمرانوں کے غلط رویے کے باوجود عوام الناس کو ، مومنین کو صبر کی تلقین کا حکم دیتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے بعد دیکھو گے کہ تمہاری حق تلفی کر کے دوسروں کو ترجیح دی جا رہی ہے.نیز ایسی باتیں دیکھو گے جن کو تم بُراسمجھو گے.یہ سن کر صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! پھر ایسے وقت میں آپ کیا حکم دیتے ہیں.فرمایا: اُس وقت کے حاکموں کو اُن کا حق ادا کرو اور تم اپنا حق اللہ سے مانگو.پھر فرمایا : جو شخص اپنے امیر کی کسی بات کو نا پسند کرے تو اُس کو صبر کرنا چاہئے.اس لئے کہ جو شخص اپنے امیر کی اطاعت سے بالشت برابر بھی باہر ہوا تو اس کی موت جاہلیت کی سی ( بخاری کتاب الفتن ) موت ہو گی.( بخاری کتاب الفتن )
مصالح العرب......جلد دوم 546 سلمہ بن یزید الجھی نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ ! اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوں جو ہم سے اپنا حق مانگیں مگر ہمارا حق ہمیں نہ دیں تو ایسی صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے حالات میں اپنے حکمرانوں کی بات سنو اور اُن کی اطاعت کرو.جو ذمہ داری اُن پر ڈالی گئی ہے اُس کا مواخذہ اُن سے ہوگا اور جو ذمہ داری تم پر ڈالی گئی ہے اُس کا مواخذہ تم سے ہو گا.کھلا کھلا کفر دیکھنے کی حالت میں تعلیم (مسلم کتاب الامارة ) ، بعض متشدد جماعتوں کا یہ موقف ہے کہ کھلا کھلا کفر دیکھنے کی صورت میں بغاوت جائز ہے اور حکمرانوں کے ساتھ جھگڑا کرنا عین شریعت کے مطابق ہے.اس غلط طرز فکر کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا: " " جنادہ بن امیہ نے کہا کہ ہم عبادہ بن صامت کے پاس گئے.وہ بیمار تھے.ہم نے کہا اللہ تمہارا بھلا کرے ہم سے ایسی حدیث بیان کرو جو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو.اللہ تم کو اُس کی وجہ سے فائدہ دے.اُنہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بلا بھیجا.ہم نے آپ سے بیعت کی.آپ نے بیعت میں ہمیں ہر حال میں خواہ خوشی ہو یا نا خوشی تنگی ہو یا آسانی ہو اور حق تلفی میں بھی یہ بیعت لی کہ بات سنیں گے اور مانیں گے.آپ نے یہ بھی اقرار لیا کہ جو شخص حاکم بن جائے ہم اُس سے جھگڑا نہ کریں سوائے اس کے کہ تم اعلانیہ اُن کو کفر کرتے دیکھو جس کے خلاف تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل ہو.( صحیح مسلم کتاب الامارة ) ان احادیث میں اُمراء اور حکام کی بے انصافیوں اور خلاف شرع کاموں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن پھر بھی آپ نے یہ فرمایا کہ ان کے خلاف بغاوت کرنے کا تمہیں حق نہیں ہے.حکومت کے خلاف مظاہرے ، توڑ پھوڑ اور باغیانہ روش اختیار کرنے والوں کا طرز عمل خلاف شریعت ہے.اس آخری حدیث کی مزید وضاحت کر دوں کہ اس حدیث کے آخری الفاظ میں جو عربی
547 مصالح العرب......جلد دوم کے الفاظ ہیں کہ وَاَنْ لَّا نُنَا زَعَ الْاَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَن تَرَوْا كُفْرًا بَوَّاحًا عِنْدَكُم مِنَ اللهِ فِيه بُرْهَانُ.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ اقرار بھی لیا کہ جو شخص حاکم بن جائے ہم اُس سے جھگڑا نہیں کریں گے سوائے اس کے کہ تم اعلانیہ اُس کو کفر کرتے ہوئے دیکھو جس پر تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل ہو.حدیث کے یہ جو آخری الفاظ ہیں ان کے معنی بعض سلفی ، وہابی اور باقی متشدد دینی جماعتیں یا جو فرقے ہیں وہ یہ لیتے ہیں کہ صرف اُس وقت تک حکام سے لڑائی جائز نہیں جب تک کہ اُن سے کفر 3 اح نہیں ظاہر ہو جاتا ( کھلا کھلا کفر ظاہر نہیں ہو جاتا).اگر حاکم سے کفر اح نظر آ جائے تو پھر اس کے ازالے کے درپے ہونا اور اُس سے حکمرانی چھین لینا فرض ہے.یہی متشدد جماعتیں ہیں جنہوں نے اس پر یہ دلیل سوچ رکھی ہے کہ حکومتوں کے خلاف بغاوت کی جاسکتی ہے.بلکہ بعض اپنے فتووں کو آپس میں ہی اتنا مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فتوے دینے والے یہ کہتے ہیں کہ جن کو ہم نے کافر قرار دے دیا اُن کو جو کافر نہ سمجھے وہ بھی کافر ہے.اور کافرکو کافر نہ سمجھے والا بھی کافر ہے.تو یہ جو تکفیر ہے اس کا ایک لمبا سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے.بہر حال اس حدیث میں اصل الفاظ یہی ہیں کہ تم نے اطاعت کرنی ہے سوائے اس کے کہ ایسی بات کی جائے جو کفر کی بات ہو یا تمہیں کفر پر مجبور کیا جا رہا ہو.اس کے علاوہ ہر معاملے میں اطاعت ہونی چاہئے اور اُس صورت میں بھی بغاوت نہیں ہے بلکہ وہ بات نہیں مانتی.“ نا پسندیدہ کام کو ہاتھ سے تبدیل کرنے کا درست فہم ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو کوئی ناپسندیدہ کام دیکھے وہ اُسے اپنے ہاتھ سے بدل دے.اگر اسے طاقت نہ ہو تو پھر اپنی زبان.اور یہ طاقت بھی نہ ہو تو پھر اپنے دل سے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے.(صحیح مسلم.کتاب الایمان) بعض لوگ اس کے غلط معانی بیان کر کے ملک میں ناپسندیدہ کاموں کو خود دخل اندازی کر کے درست کرنے کا جواز نکالتے ہیں.حضور انور نے اس خیال کی بھی تصحیح فرمائی اور اس
548 مصالح العرب.....جلد دوم حدیث کو پیش کر کے فرمایا: اس حدیث کی شرح میں ) امام ملا علی قاری لکھتے ہیں....ہمارے بعض علماء کہتے ہیں کہ نا پسندیدہ کام کو ہاتھ سے تبدیل کرنے کا حکم حکمرانوں کے لئے ہے.زبان سے تبدیل کرنے کا حکم علماء کے لئے ہے اور دل سے ناپسندیدہ بات کو نا پسند کرنے کا حکم عوام مومنین کے لئے ہے.(مرقاۃ شرح مشكاة - جز 9 صفحہ نمبر 324) پس یہ اس حدیث کی بڑی عمدہ وضاحت ہے کہ تین باتیں تو ہیں لیکن تین باتیں تین مختلف طبقوں کے لئے اور صاحب اختیار کے لئے ہیں.اگر ہر کوئی اس طرح رو کنے لگ جائے گا تو پورا ایک فساد پیدا ہو جائے گا.اور فساد اور بدامنی کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كم وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ.سورۃ بقرۃ کی آیت 206 ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا.اگر یہ مراد لی جائے کہ عوام حکمران کی کسی بات کو نا پسند کریں تو وہ حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور توڑ پھوڑ اور فتنہ و فساد اور قتل و غارت اور بغاوت شروع کر دیں تو یہ مفہوم بھی شریعت کی ہدایت کے مخالف ہے.اس بارہ میں قرآنِ کریم کا جو حکم ہے، فیصلہ ہے وہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں کہ وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ (النحل: 91) “ حکومت وقت کی اطاعت کے بارہ میں انبیاء کا نمونہ انبیاء کا حکومتِ وقت کی اطاعت کے بارے میں کیا نمونہ رہا ہے؟ قرآن کریم نے دو درجن کے قریب انبیاء، بیس پچپیں انبیاء کے حالات بیان فرمائے ہیں مگر کسی نبی کی بابت یہ ذکر نہیں فرمایا کہ اُس نے دنیاوی معاملات میں اپنے علاقے کے حاکم وقت کی نافرمانی یا بغاوت کی ہے.یا اُس کے خلاف اپنے متبعین کے ساتھ مل کر مظاہرے کئے ہوں یا کوئی توڑ پھوڑ کی ہو.دینی امور کے بارے میں تمام انبیاء نے اپنے اپنے علاقوں کے حکمرانوں کے غلط عقائد کی کھل کر تردید کی اور سچے عقائد کی پر زور تبلیغ کی....اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: كَذلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ (یوسف: 77).اس طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کی.اس کے لئے ممکن نہ تھا کہ اپنے بھائی کو بادشاہ کی حکمرانی میں روک لیتا سوائے اس کے کہ اللہ چاہتا.یعنی حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہ مصر کے قانون کے
549 مصالح العرب.....جلد دوم مطابق اپنے حقیقی بھائی کو مصر میں روکنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ تدبیر کی کہ حضرت یوسف علیہ السلام سے بھلوا کر شاہی پیمانہ جو تھا اپنے بھائی کے سامان میں رکھوا دیا کی اور تلاشی لینے پر اُن کے بھائی کے سامان میں سے ہی وہ پیما نہ نکل آیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے کافر اور مشرک بادشاہ کے قانون کے پابند تھے.دنیاوی معاملات میں حضرت یوسف علیہ السلام کافر بادشاہ کے قانون کی پابندی اور وفاداری سے اطاعت کے باوجود دینی امور میں اس کے غلط عقائد کی پابندی اور اطاعت نہیں کرتے تھے.“ أولو الأمر منكم سے مراد بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اولوالاً مرصرف مسلمانوں میں سے ہی ہوسکتا ہے.اس بناء پر غیر مسلم حاکم کے خلاف نکل کھڑے ہونے اور فتنہ وفساد برپا کرنے کو جائز سمجھا جاتا ہے.حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں حکم ہے اَطِيْعُوا الله واَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأوْلِي الأمْرِ مِنْكُمْ.یہاں اُولی الامر کی اطاعت کا حکم صاف طور پر موجود ہے.اور اگر کوئی شخص کہے کہ منگم میں گورنمنٹ داخل نہیں تو یہ اس کی صریح غلطی ہے.گورنمنٹ جو حکم شریعت کے مطابق دیتی ہے وہ اسے منگم میں داخل کرتا ہے.مثلاً جوشخص ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے.اشارة النص کے طور پر قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہئے اور اس کے حکم مان لینے چاہئیں.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 171 مطبوعہ ربوہ ) فرمایا کہ " اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے.اور جسمانی طور پر جو شخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اُس سے مذہبی فائدہ ہمیں 66 حاصل ہو سکے وہ ہم میں سے ہے.ضرورت الامام.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 493)....أولى الأمرِ مِنْكُم سے مراد صرف مسلمان حکمران نہیں.اس بارے میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بعض مسلمان غلطی سے اس آیت کے
550 مصالح العرب.....جلد دوم معنی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکم صرف مسلمان حکام کے حق میں ہے کہ اُن کی اطاعت کی جاوے.لیکن کی یہ بات غلط ہے اور قرآنِ کریم کے اصول کے خلاف ہے.بیشک اس جگہ لفظ مِنْگم کا پایا جاتا ہے ہے.مگر منگم کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو تمہارے ہم مذہب ہوں بلکہ اس کے یہی معنی ہیں کہ جو تم میں سے بطور حاکم مقرر ہوں.من ان معنوں میں استعمال ہوتا ہے.قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کفار کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اَلَمْ يَاتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ (الانعام : 131 ).اس آیت میں منگم کے معنی اگر ہم مذہب کریں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ نعوذ باللہ من ذالک ، رسول ا کفار کے ہم مذہب تھے.پس ضروری نہیں کہ منگم کے معنی ہم مذہب کے ہوں.یہ اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس جگہ اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ حاکم جو تمہارے ملک کے ہوں یعنی یہ نہیں کہ جو حاکم ہو اُس کی اطاعت کرو بلکہ اُن کی اطاعت کرو جو تمہارا حاکم ہو.“ ہماری تعلیم قتل وغارت گری اور توڑ پھوڑ کے بارہ میں حضور انو رایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا یہ اقتباس پیش فرما کر جماعتی موقف کی وضاحت فرمائی: بعض جماعتیں ایسی ہیں جو بغاوت کی تعلیم دیتی ہیں.بعض قتل و غارت کی تلقین کرتی ہیں.بعض قانون کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھتیں.ان معاملات میں کسی جماعت سے ہمارا تعاون نہیں ہو سکتا.کیونکہ یہ ہماری مذہبی تعلیم کے خلاف امور ہیں.اور مذہب کی پابندی اتنی ضروری ہے کہ چاہے ساری گورنمنٹ ہماری دشمن ہو جائے اور جہاں کسی احمدی کو دیکھے اُسے صلیب پر لٹکانا شروع کر دے پھر بھی ہمارا یہ فیصلہ بدل نہیں سکتا کہ قانونِ شریعت اور قانونِ ملک کبھی تو ڑا نہ جائے.اگر اس وجہ سے ہمیں شدید ترین تکلیفیں بھی دی جائیں تب بھی یہ جائز نہیں کہ ہم اس کے خلاف چلیں“.( الفضل 6 اگست 1935 ءجلد 23 نمبر 31 صفحہ 10 کالم 3) نصیحت کا نچوڑ اور ہدایات کا خلاصہ حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش فرمایا جو اس سارے
مصالح العرب.....جلد دوم مضمون کا خلاصہ پیش کرتا ہے.551 فرمایا: ” اگر حاکم ظالم ہو تو اُس کو برا نہ کہتے پھرو بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو، خدا اُس کو بدل دے گا یا اُسی کو نیک کر دے گا.جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بدعملیوں کے سبب آتی ہے.ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا ستارہ ہوتا ہے، مؤمن کے لئے خدا تعالیٰ آپ سامان مہیا کر دیتا ہے.میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو.خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو.“ الحکم 24 مئی 1901 ء.نمبر 19 جلد 5 صفحہ 9 کالم نمبر 2) یہ نہایت حکیمانہ نصیحت ہے.اگر سارا ملک اسی نہج پر سوچنے لگے اور ہر ایک اپنی اصلاح کی کوشش کرے تو بالآ خر حاکم تو انہیں میں سے منتخب ہوگا جو نیک ہوگا.نیز حاکم چاہے جتنا برا ہو اگر اسکے ساتھ کام کرنے والے سب نیک ہوں اور برے کاموں میں اسکے ساتھ شامل نہ ہوں اور خلاف شرع کاموں میں اسکی اطاعت نہ کریں تو وہ اپنے برے کاموں کی انجام دہی سے خود ہی عاجز آ جائے گا.اس لحاظ سے یہ نصیحت نہایت اعلیٰ درجہ کی حکمت پر مبنی ہے.(مندرجہ بالا اقتباسات حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمع فرمودہ یکم اپریل 2011 ء سے لئے گئے ہیں.) علاوہ ازیں حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 15 اپریل 2011 کو بھی اسی موضوع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی كتاب الهُدى وَالتَّبْصِرَةُ لِمَن يراى“ سے مختلف اقتباسات پیش فرمائے جس میں آپ نے سوسال سے زائد عرصہ قبل حکمرانوں کے اور علماء کے حالات بیان فرمائے تھے جو آج کی صورتحال پر بھی صادق آتے ہیں.اور اس حوالے سے آپ نے عرب ممالک کے رہنے والے حکام اور عوام کی عمومی راہنمائی فرمائی.
1 15 21 انڈیکس اسماء مقامات کتابیات XXXXXXXXXXXXXXX
مصالح العرب.....جلد دوم 1 اسماعي آدم حضرت 1,256,255,241,111 ابوسعید عرب صاحب 34 ابراہیم اسعد عوده 371 ابراہیم البخاری 144,140,124 ابراہیم الحاج 410 ابراہیم خلیل علی 411 ابوسلیم 282 ابوعبید المنیاری 405 ابو عبيده 393 ابومحمد موسی شیخ 460 ابراہیم زید الکیلانی ڈاکٹر 122 ابراہیم عوده,73,71,69 ابونعیم 282 ابوبکر سلامہ 253 انڈیکس ابراہیم محمود احمد اسعد 524 ابوبکر (مصری)141 ابراہیم مصطفیٰ محمد الجابری عطاء اللہ 524 ابو میں,454,418 ابراہیم حضرت 2984117906 ابوسفیان 260 336,306,299, ابراهيم الجبان السيد 109 ابن حزم، امام 230 ابواديب 464 ابو اسحاق الحويني شيخ 468 ابوالحسن الندوي, 127,76 ابی بن ابی سلول 22 أجوبة عن الايمان 399,384,383-1390 495,453,414, احمد ابوایوب 418 احمد ابو مطر ڈاکٹر 244 احمد الجزائری 422 ابو العطاء جالندھری مولانا 11293 احمد الخطيب,61 احمد الشافعي 529,528 334, 132, احمد بوده, 37 ابوالولید شهاب الدین 10 ابوبکری 245 ابوحمزه التونسى 243 ابوحنیفہ امام 122 احمد رائف,393,390 احمد زکریا احمد عفیفی 412 احمد شیلی ڈاکٹر , 237,234,221,209-2235
مصالح العرب.....جلد دوم احمد ح 405 احمد قریع ,362 2 الوسی امام 230 الیاس حضرت 241 ام محمد, 401,400 احمد مصطفى المراغی شیخ 2236,232,204 ام متین,3,1 احمد مینیس,369 احمدیہ انٹر نیشنل پریس ایسوسی ایشن 37,24 امجد کمیل 352 اخوان ا لمسلمين,390,316,233 امیر عبداللہ شاہ حسین کے دادا), 46 امیمہ احمد الجلا ہمہ ڈاکٹر , 360 اور میں حضرت 232,205,202 امیرہ ہاشم, 528 اسامه, 501 اسعد موسی اسعد عوده,354 اسماعیل منصوری 413 اسماعیل حضرت 298,106 امین الحسینی ( مفتی اعظم فلسطین ), 61 امین عز العرب 232 امته الجمیل صاحبزادی صاحبہ 3,1 أسئلة عن الايمان,1414,383,379 امتہ المتین صاحبہ,3,1 اشرف عبد الفاضل ابراہیم الخيال 524 انجم پرویز میر, 18 اشرف عبدالله 461 اصغر علی بھٹی 263, اکراد 302 اكرم الشواء,315 انڈیکس انور فرید ( نائب سفیر جمہوریہ عربیہ متحدہ), 46 انور سادات (صدر مصر),75 انیس شوریش 493 ایاد عوده,518 الحوار المباشر 392,374,365,148, ایاد کمال, 340 486,414,411,409,408,399,397,394 436,432427-429,418-423,415, ایم بی طاہر 18 495,464,455,453 ایوب ",487,179 الحياة چینل 462,458,410,378,377 ايهاب خیری تہامی 412 527,498, الصفى المهدى 493 باسط رسول ڈار صاحب 17 الحصنى السيد الحاج,8,7,5,3,2 بدرالدین
مصالح العرب.....جلد دوم بدها, 403 بسمہ وہیہ 380 بشارت احمد بشیر 55 بشیر احمد رفیق 175 بشیر احمد مرزا, 4,5 3 عربي),74 ثاقب کامران 18 جارج برناڈشا 414 جان ہنری بیروز 375 جاوید جمال 186 انڈیکس بشیر الابراهیمی علامہ, 37 بشیر الدین عبید اللہ حافظ 15,170 جرجس السيد , 405 جعفر محمد عوده,364 بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی 10,9,2,1 جعفر نمیری میجر جنرل (صدر سوڈان) ,75 ,20 ,21 ,23 ,56,52,638,35,30 جلال الدین شمس مولانا 334,129,35,13 ,362,327,254,248,157,156,89, جلال الدین قمر مولانا, 14 491,388 بلال عبد الکریم عوده,364 بلعاری ڈاکٹر , 430 بلی گراہم ڈاکٹر ( مسیحی مناد ), 46 بومحی الدین (صدر الجزائر ) ,75 بہائی,329,328 بھیجات قندیل, 48-46 پیلاطوس, 490-488 تا درس یعقوب ملطی 489 تامرحسین,402 نصور احمد خان را نا, 16, 149 جمال احمد مرزا 10 جمال اغزول 249 جمال المراكبى 468 جمال عبد الناصر 31-49,48,42,39,25 جمال علی اسلیم 420 جمال قطب شیخ 381,380 جمعیة الاتحاد بین المذاہب, 46 جميل الحلاق الشيخ 60 جنرل اسمبلی 25 جورج پروفیسر, 405 جورج شقير 337 تمیم ابو دقه 399,372,352-402,396, جورگن موسمین 191 501,491,450,442,404 حاتم حلمی الشافعی 33732514 ' توفیق عبدالفتاح سید سفیر جمہوریہ متحدہ 529-526
مصالح العرب.....جلد دوم حافظ الاسد جنرل (صدر شام ), 75 حبيب بورقبیہ (صدر تونس), 75 حزب التحرير 504 حسن,423,426 حسن ثانی ( والی مراکش) ,75 4 خالد احمد رانا, 510 خالد الحسینی ڈاکٹر , 405 خالد سعیدا بھی 453 خالد صالح,262,261 خالد عباس ابورا جی 164 حسن عابدین آف شام 188 1419,189 خالد عزت 526,524 حسن عوده 171164-169, 176, 177, خالد محمد 455 انڈیکس 243,183-189,242, خضر قزق,282 حسنی مبارک 15327 حسین الشريف, 508 حسين العاملي الشيخ, 245 حسین المنشاوی, 422 حسین حمید : 246 حسین قزق,63 خلود محمود 354 خلیل احمد سلمیکی,267 خلیل الرحمان ملک 135, 136 داؤ د احمد عابد شیخ 287,279,272,18 داؤد احمد میرسید, 53,49 داؤد عبد الجليل 342 حسین محمد حسن محمد النعیمی 453 حفیظ اللہ بھروانہ 18 داود حضرت 179 دروزی 343,338,329 علمی الشافعی 138-132, 243,242,149, دعاء منصور عوده, 433 ,529,352,316,311,310 حمدی عبید ڈاکٹر, 469,468 دعاء ( دینی تنظیم) 249 دودا بیف ( چیچن لیڈر ), 279 حمدی فوزی 412 حمزہ راجپوت,361 حنار شماوی,410,405 حياة حرز الله 369 حیرت دہلوی مرزا, 1389 دولت احمد خادم 39 راجی ریاض ڈاکٹر 405 راڈین ہدایت صاحب جا کرتا صدر جماعتہائے انڈونیشیا, 28,27 رازی امام 230
مصالح العرب.....جلد دوم راشد 454 را کان المصری 354 مفل ربیع 364 رشاد فلاح, 340 رشدى البسطى السيد.8 رشید احمد چغتائی مولانا 13 رضا الزیانی, 367 عمسيس 143, روحی فتوح, 362 روز یار غازی محمد صدیق 367 روشن علی حافظ 34 ریاض حنا, 405 5 سبيل الهدى 365 سرفراز احمد باجوه, 510 سعاد رزوق 519 سعید القبانى السيد , 10,7 سعید حوا, 504 سلطان الهيبي 368 سلطان بن سعود 80,79 سلیم حسن الجابی 10 سلیمان حضرت 474,179 سلیمہ بانو,328 سموئیل ڈاکٹر 73-71 سمیح الصدى,405 انڈیکس ریم شریقی اخلف 520 زكريا الشوا, 165,10 سید علی ولد شریف مصطفى 161 سیف الرحمان ملک, 163,37 زكريا بطرس, 410,406,383,381,377 شاه حسین آف اردن 45,44 480,463,422,414,411, زکریا حضرت 206,204 زیزی فضل 454 زین الدین 18 شاہ فاروق,508 شاہ فیصل 264, شبلی نعمانی مولانا, 387 شحادہ ڈاکٹر , 343 زین العابدین شاہ ولی اللہ حضرت شریف احمد امینی 327,169,157,42,16 36,35,31,30,28, سالم محمد سالم 524 سامر اسلامبولی 455 سامی قزق 284-282 شریف خالد 159 شریف سالم 405 شکری قوتلی (صدر شام ), 37 شوقی زیدان 341
مصالح العرب.....جلد دوم صابر الفتوری,414 صابر خمیلہ 456 صالح حضرت, 477 صالح الحمودی, 63 صدام حسین 302 صدیق احمد منور 259 صفدر حسین عباسی,242,167 صلاح ابو اسماعیل شیخ 235 ضیاء الدین, 503 طارق حیات 18 طارق خلیل 18 00 6 عابدین, 462 عادل ابو مزحیہ 404 عادل حسن 524 عادل رمضان, 528 عائشہ عبدالکریم عوده,432 عباده بر بوش, 426,316,311 عباس محمود ,362 انڈیکس عبد الحسيب (فرسٹ سیکرٹری سفارت خانہ مصر، کراچی),27 عبدالرحمن سلیم شیخ 63 عبدالرحمن قریشی, 37 طارق نصیر , 366 عبدالرزاق فراز 118 طاہر احمد مرزا، خلیفة المسح الرابع 193,801 عبدالرؤف الحصنی مرحوم 8, 1315 ,94 ,96 ,98 ,100 ,104 ,116 119 عبد المجید بولاد 1,125 ,143130-138127,124,123 | عبدالمجيد عامر 18, 272,265,243 ,154,152,148,,161-169,157 | عبدائمی عرب صاحب : 34 ,266-268,260,258,242,183 عبد الحکیم الکمل 150 290, 284-286, 280, 271,270, عبدالحمید آفندی, 137 ,337,328,327,317,314,311,310 عبدالحمید عبدالرحمن 175 446,382,352,345,341,338, طعمه رسلان السيد 63,59 طویل اعظم ابواديب, 338 ط قزق 382 مل الله 63 عبدالحمید عجمی 248, عبدالحمید,452 عبد الحئی محمد فتح 411 عبدالرحمن البرحاوى الشيخ , 11 عبد الرحمن محمد , 247
مصالح العرب.....جلد دوم عبد الرزاق قماش 403 عبدالرؤف ابراہیم قزق 521 عبدالرؤف محمد , 415 عبد السلام عوده, 364 عبد السلام محمد ڈاکٹر , 413,405 عبدالعزیز سیالکوٹی, 14 7 عبدالماجد دریا آبادی مولانا 79 عبد الماجد طاہر, 243,242,124 عبدالمالک خانصاحب مبلغ سلسلہ 1 انڈیکس عبداح بسيط 409,405-463,462,407 عبدالمنعم علی عبد السید علی 524 عبد المؤمن طاہر , 18 ,1136,124,123 عبدالقادر المغربی بن مصطفی ( وشقی عالم 447,296,372,357,242,154,1509.9 36,35, 494, عبدالقادر مہتہ بن بھائی عبدالرحمان قادیانی 37 عبد الوہاب دندش 416 39, عبد القادر ناصر عوده,352 عبدالکریم خواجہ 39 عبداللطيف اسماعیل عوده, 433,157 عبداللطيف الحداد شیخ 63 عبد اللطیف عوده, 328 عبدالله 465 عبدالوہاب محمد حسین,414,412 عبد الوہاب نجار 233 عبدالوہاب 116,37 عبدالہادی اسعد 343 عبیر رضا حلمی ,521 عثمان عرب حضرت 161 عربک ڈیسک,287,283,267,265 عبدالله اسعد عوده, 71-159,69-328,157 | 425 371, عبد الله الشيخلي، 121-119 عبدالله الصلایلی شیخ, 60 عبد اللہ عرب 161 عبد اللہ نصیف 318 عبداللہ واگس ہاوزر, 159 عبدالله : 453 عرفان المصرى,281,280,270,269 عزالدین, 154 عزت عطیہ,405,402,401 عطاء الکریم صاحب شاهد (وائس پریذیڈنٹ تعلیم الاسلام کالج یونین) ,26 عطاء الله عليم 17 ' عطاء المجیب راشد, 286,119
مصالح العرب.....جلد دوم عطیہ صقر 54 علاؤالدین نویلاتی, 10 علاء سرور,424,405 علا عجمی, 501 على رافع 343 علی فرج الله, 415 علی محب فاتی, 249 8 انڈیکس 274,273,259,256,252,250,240, 322-326,317, 307-312, 280, 443,436,428,338,336,335,333, 515,508,483,482,467,454,448, 520,519, غلام احمد مربی انچارج, 39 غلام باری سیف 15 عماد الدین عبدالحمید محمد فکار اشعینی, 524 غلام نبی صاحب مصری " 34,33 عماد عبدالبدیع 431 عمار المسکی,315,283 عمر الشاعر 465,405 عمران احمد سید شاہ 18 فاضل منصور شیخ , 343 فائز الشهابي,59,63 تحی عبد السلام مبارک 374 فتحی ناصف 130,129 عمر وعبد الغفار الاحمدی 125 129-127 فجر عطايا 352 391,383,382, 141, فرعون 499,322,145 عمر بن الخطاب حضرت 305 فریدالدین فرید الدین شمس 18, عیسی 180-220,187,180,178-191 | فرید وجدى الطبری ,337 ,474,473,386,281,228-241 | فضل الهی بشیر 333414 519,480, عیسی رحمون ڈاکٹر ،259 غانم,252 فلاح الدین عوده, 343,337 فوزی حسن خلیل ڈاکٹر ، 55,54 فوزی زفزاف شیخ, 371 غلام احمد قادیانی حضرت مسیح موعود 141,82 فؤاد عوده 5,518 ,119,107,104,87-89,83,78,77 | فؤاد العطار, 499,78 ,1159-162,147,142,131,121 | فهد الفیصل ( سعودی شہزادہ), 41,40 ,180-195,175-177 ,201,200 | قدرت اللہ حافظ,41
مصالح العرب.....جلد دوم قذافی کرنل (صدر ليبيا) ,75 قطب سید , 233 9 مجدی 405 مجلس اطفال الاحمدیہ کہا بیر 339,337 قطبی آرتھوڈکس چرچ 410,378,377 مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی 341 527,498,462,458, کاظم 128,127 کاظم احمد النداوی 418 کامل فارس 337 کمال 502 کمیل شھلوب 12 كندا ابراہیم 251 کوثر نیازی مولوی 82 کیا نی جسٹس 117 لائبیریا مشن 46 انڈیکس مجلس خدام الاحمدیہ کبابیر 328 330 331 341,337, مجلس لجنہ اماء اللہ کہا بیر , 338,337 مجمع البحوث الاسلامیہ,392,232 مجید محمد صدیق 420 محمد ابراہیم ڈاکٹر, 501 محمد ابوزہرہ شیخ 232 محمد احمد ابو حسین, 316 محمد احمد نعیم 281,280,272,438 287, لقاء مع العرب,286,281,280,183 | محمد الدین ناز 144 365,354,316,310,309, لوط حضرت 179 لیلی 114 مار جرجس شہید چرچ 489 مار مرقس چرچ, 377 محمد الزغبی شیخ , 468 محمد الشوا پلیڈر 166,10-285,284,164 محمد الطاهر بن عاشور,206 محمد العانی آف شام 374 محمد الغزالي 234 مبارک احمد مرزا (وکیل التبشير ) ,55 محمد القاسمی, 246 مبارک احمد ملک 266,140,128,896 محمد المناصی شیخ 60 , مبروک عطیہ شیخ 381,380 مبشر احمد کاہلوں 396 مقیاس پادری 405 محمد الناجری 424 محمد بسیونی 3390,130,129,21 محمد بن احمد المکی الشیخ , 161
مصالح العرب.....جلد دوم 10 انڈیکس محمد بن حمد بن ابو خوصه 419 محمد توفيق الصفدی, 12,11,10, محمد توفیق 418,417 محمد جعارہ ڈاکٹر ,405 محمد حسان شیخ 480,468 محمد حسن ابراهیم, 411 محمد حسین ,417 محمد حمید کوثر 338,327,17 محمد داؤد عوده 336 محمد در جنانی, 63,59,58,12,11 محمد عبدوڈاکٹر ,492 محمد عبدہ شیخ 204-2232,231,195 محمد عمارہ مصطفیٰ ڈاکٹر , 393-391 محمد عمر مولانا 17 محمد عمر 421 محمد کردی 128 محمد کریم اللہ (سیکرٹری جماعت احمد یہ مدراس) 44, محمدمحمود الحجازی,206,205 محمد مخول 432 محمد دین مولانا مبلغ البانیہ, 13 محمد مصطفی 43,38,32,31,22 محمد ذکی السید, 10,9 محمد ربانی السید, 9 محمد سعید الشامی الطرابلسی 161 محمد سلیم مولانا , 13 محمد سنبری, 250 111-114, 102-107, 97, 84-87, 188, 179-181, 166, 142, 119, 220,216,205,204, 195, 193, 189, 252,,249,248,241,240,237, 306, 305, 294-298, 262, 260, 346, 338, 329, 328, 321-323, محمد شریف صلاح الدین 342,340 محمد شریف مولانا, 13 محمد شریف ( تونس ) ,246 محمد صدیق مولانا امرتسری, 46 350, محمد مصيلحی موسی412 محمد منور مولانا 15 محمد طاہر ندیم 315,272,243,146,130 محمد نعیم اظہر : 263 محمد طاہر 18 محمد طفیل ملک, 39 محمد عبدالہادی 337,336 محمد سید الطنطاوى, 371 محمد شریف عوده 382,371,363,357 ,428,424,405,404, 396-399,
مصالح العرب.....جلد دوم 11 انڈیکس 485,475,442-444,450,440,429 | مرکز محمود للدعوة الاسلامية, 247 494,486, رض مروہ غالول 432 محمد ظفر اللہ خان سر 554,416,5,3,1 مريم العذراء چرچ 405 362,153, محمود ابراهیم , 11 محمود احمد تیجانی 247 محمود احمد میجر 150 محمود الشرباصی 405,423 محمود القاعور,499,498 محمود رمضان 244 محمود شلتوت شیخ 236,231 محمود شنور 63 محمود طبعونی 334 محمود عباسی ڈاکٹر ,337 محمود عوده,158,55,54 محمود مفتی 89 محمود و فدی محمد حسن, 524 محمود 63 محمود (الجزائر) ,368 مسرور احمد مرزا حضرت خلیفۃ ایح الخامس خلیفة المسیح 349,315,263,262, 184, 162, 148, 395,383,368,360,357,353,352, 442,440,434,427,425,398,402, 516,508,506,500,495,491,477, 528, مسرور احمد 18 مسعود احمد تیمی 73,72 جہلم مسعود احمد سلیم شیخ 18, مسلم الدروبي,283,268 مسلم القصاص, 421 مشتاق احمد باجوہ پرائیوٹ سیکرٹری 103 74,72,11, مصطفى ثابت114,93 ,127,125,116 382-399, 374,373, 350, 317, 498,450,446,415,445,411,402, مختار احمد چوہدری, 39 499, مدرسہ احمد یہ کہا بیر, 3333,332,330 مصطفیٰ خالدی ڈاکٹر , 63 مدینہ یونیورسٹی, 250 مراد عوده,518 مرقص عزیز,462 مصطفی کامل جامع 266 مصطفى الطفى منفلوطی, 265 مصطفى الطفى (سفير مصر ), 75
مصالح العرب.....جلد دوم مطبع عبدالہادی, 341 12 مہدی سوڈانی 154 معروف صابر السید عبداللہ 524 مقبول احمد ظفر 18 مہر آپا سیدہ صاحبہ,3,1 میخائیل نعیمه , 61 منصور احمد ( انڈونیشین طالب علم ), 55 میخائیل ,410,405 منظور چنیوٹی 78 منفتاح 143 منور احمد خورشید 262 میمون لطفی عوده, 364 نادر الصعنی السید, 8, 373,10 انڈیکس منور احمد مرزا ڈاکٹر 5,3,1, ناصر احمد مرزا خلیفہ اسیح الثالث 7069,55 376,156,134,96,89,88,83,73, منیر احمد جاوید 12418 152,149,126 ناصر علی صالح البرکاتی 395 287,243,242,167,165, 163, ناصر عوده,165,164 منیر ادلبی 396,371,311,270,164 ناصر کرنل 56 نجمیه سیده ( بنت الحسن الجابي المرحوم ) ,7 منیر المالکی السید, 8 نجم الدین السيد , 11 منیر جسٹس 117 منیر صلاح الدین عوده, 341 نجیب جبرائیل,498,464,462 منیر عوده4404893401 ندیم کرامت 442 442, نذیر مراد نی,286,283,165,164 منير الحصنى السيد , 56,39,15,106,5,3,2 نسیبہ اسلامبولی 1434 338,315,286,165,130,76,58, مودودی, 138,79,76 نی : 369 نسیم احمد میاں ( پاکستانی سفیر ) ,63 مورس بکائے (فرانسیسی سائنسدان ), 144 نسیم سیفی رئیس التبلیغ مغربی افریقہ, 46,45 موسی جبریل,405 نشاة الجسی (سفیر شام) ,75 موسی حضرت 322,241,206,204,200 نصر عبد المنعم محمد نصر 524 مہاد بوس, 425,316 مهدی بغدادی حاجی 161 نصوح المسکی 315 نصیر احمد خان مولوی فاضل 58
مصالح العرب.....جلد دوم 13 نصیر احمد شاہ سید 466,574,442 | پلاش,472,470 475, یورو برڈ 467 نصیر احمد قمر 1,14413514 یوسف الموصلی ڈاکٹر, 14 442,243,242,167, 163-165, نعماتی یانو ماتی, 81 نوال احصنی 315 یوسف ونمش 420 یوسف علی کا ئرے آف یوگنڈا 18 یولی باه, 252 انڈیکس نور احمد شیخ منیر مبلغ لبنان 4, 10, 11, 13, یونائٹڈ نیشنز 3324,298,295,294 نور الحق تنویر قریشی 131,16: 1,137 454,448,442,427,415,410,408, نور الدین حافظ مولوی ، خلیفة اصبح الاول 46633 183,34, نور الحق انور مولوی 56 457, Arabsat 441, Atlantic bird4 280, Eutelsat 476, FLAG 1,2, KLM 366, Kitaabee.net نورالدین الحصنى السيد , 8 نوید احمد سعید, 288,279,272,18 ہاشم عوده, 364 ہانی الکمال, 405 309,262, 189, 183, MTA 440,396,374,243,79, bŮį 366,352,350,340, 338, 313-320, 398,395,384,369, 486,450, بدیل فضل عوده,432 یا جوج ماجوج, 296 یا سر انور ,465,405 یاسر عرفات 362 يمي 246 یی شنور 403 حي, حضرت 241,206,204 MTA العربية, 452,440,436,434-444 510,502,498,475-480, 457-468, 527,518,513, 527,476,457, Nilesat OBA ( لیگوس کے مقامی مسلمان حاکم) ,45 476, SeaMeWe-4
انڈیکس 14 Wine مصالح العرب.....جلد دوم 25, UNO Press Publishing 493, Enumclaw, WA 366,363, alislam.org 364, islamahmadiyya,net
مصالح العرب.....جلد دوم ابومی 134, 133,84, 15 مقامات القاہرہ یونیورسٹی 503 465,426,423,377,313,36, اردن, 25, 252,247,157,122,709 المدرسه العربيه بلانشتو248 المنشية, ,303,302 ,382,367,312 الوتجد ( سری لنکن شہر ) 249 396-398, الهافانة مقهى (دمشق) 275 از دالية الكرمل 338 از میر, 377 اسپین, 75،44، انڈیکس امریکہ, 87,72,57,56,52,47,17-85 303,302,297,295,279,259,156, 517,376,360,318, اسرائیل 27-24 ,70 ,82-80 ,96 ,104 انڈونیشیا 27، 253،118،84،28، 360,332,303,302,293, 185, 156, اوسلو یونیورسٹی, 361 اسلام آباد، پاکستان 82 ایران,303,297,296,94,86-301 اسلام آباد،ٹلفورڈ 163,162,158,134 | ایشیا 538،517,476، 463,455,429,404338,,400,283, آسٹریا 368 اسماعیلیہ 24 آسٹریلیا, 517,405,377,246,847 افریقہ (251,247,86,75,72,52,47 آئیوری کوسٹ 84 517,405,377, باسفورس 375 برازیل 405 افغانستان,403,94 البانيه 13 برائٹن (انگلستان ).378 الجزائر 263,249,245,148,147,37 برجا, 11, 63 <85.84 <83 <27 <26.25.24456,454,419,418,403,369,368, الخليل,343,342 الصعيد (مصر),417 360 337.295.288 287.169 $376
مصالح العرب..جلد دوم برنی کونی ( نائیجر ) ,263 بصره 33 بعلبك (لبنان), 10 بغداد, 295 بمبئی 327 بنگلہ دیش 500،118، بورکینا فاسو, 251 بوسنیا, 341,340,324 16 تعلیم الاسلام کالج, 26 تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان, 34 انڈیکس تتونس 369,367,248,246,206,147 424,370, ٹوکیو 264 جاپان 117,98 جامع الزيتون ( یونیورسٹی) ,206 جامعہ احمد یہ ربوہ, 17-288,265,14 بھارت (انڈیا، ہندوستان ، 9 ، 17 ، 34 ، 42 ، جامعہ احمدیہ سیرالیون 287 43، 84، 86، 109 ، 137 ، 160 ، 200 ، | جامعہ احمدیہ قادیان, 16, 17 201 ، 211، 246 ، 317، 376 ، 387 ، جامعہ احمدیہ.UK ,288,287.517.483.476.389 جامعہ الازہر 474 ,129-125 ,140 بھاگلپور 327 بھوپال,33 بیت المقدس, 410,405 بیروت,12,10,8,6,4,1 بیلجئم, 519 372,371,253,236,233,204,141, 458,417,401,392, 379-381,384, 494,465,460, جامعہ قاہرہ, 209 جبل کرمل 330 150,146,136,70,69, 17, 94, 80-87, 37, 25, 20,17, 262,159, 156, 157, 140, 128, 127, 123, 117, ,295,287,284,271,267,266,165 جمہوریہ عربیہ متحده,56,52-76,54 517, پورٹ سعید 24 جینوا 244 چیچنیا 368,279 تبوک 360 ترکی,265,86,48,4 چین 248 حجاز مقدس 11679 117 ,312,311
مصالح العرب.....جلد دوم 508,376,375, حوش عرب 274 486,403,343,331,17,13, خرطوم یو نیورسٹی 154 خرطوم 154 17 انڈیکس سرینگر, 200 سعودی عرب 118,84,71,5740-116 303, 302, 264, 250, 127, 463,401,359-361, خیبر,360 دبئی,402 دمر (دمشق) ,4 دمشق یونیورسٹی 278,276,272 سکندریہ ( مصر ),489,476,371,137 سکنڈے نیویا, 71 سوڈان 154 سوویت یونین, 48 سوئیٹزرلینڈ,244,85,84,75,74,6 266,421,275, 274, 51, 35, 8-10, 1-5, 376,369,354,282-284, سیالکوٹ, 317 ڈرگ روڈ کراچی 1 ڈنمارک, 115,71,70 سیرالیون, 267,263,8784 سیرین کلچرل سنٹر 2,277 ربوہ (پاکستان) 15-84,855,5414 سینیگال 262,251,84 396,334,272,156, رکن الدین محله (دمشق),283 روس,303 روم, 377,322,100 ریاض, 40 زاوية الحصنی,16,4,2 زیورچ 7372,12 چین 260,75 سڈنی,246 سری لنکا, 249,246 48,37,23,21,20, 16, 12, 10, ¿ª³ 94, 89, 76, 75, 70, 64, 57, 53, 49, 171,167,164,163, 157, 130, 100, 312, 303,,271-274, 268, 174, ,303,287,285,281,345,315, ,432-434,419,405,387,396,312 464,455,452 شتوره (لبنان) 10 صور,63 صيدا, 63
جلد دوم مصالح العرب..طرابلس, 6335,11 18 503,377,376, طرہ جیل ( مصر ),528,526 قبرص 377 کانو یونیورسٹی 247 طهران 376 عالیه (لبنان).10 عدن 20، 23، انڈیکس کیا بیر, 14, 158,80,70,17-170,156 341, 338, 333, 331, 327, 331, 440,432,431,383,342,382, 303, 302, 294-296, 289, 94, Ülƒ 453,418,360, کیبا بير 371,264,342,338,336 علیگڑھ, 43 عمان, 249 512, کراچی,33,27,1 245,87,86,84,54,17,0 332,170,0** کردستان,420,367 کشمیر 327,62 فارس, 375,322,109 فنجی 84 فرانس, 27-421,405,362,37,24 فرنكفورٹ 73-71 کویت 296,289,25057-294 کوپن ہیگن 71 كولمبو, 246 کولوراڈو,376.فلپائن, 57 493,463,424,405,400, 303,302, فلسطین96,81,70,532,30154 کیلی فورنیا, 493 447,396,373,123,87,312, 305, 303, 210, 172, 171, لینیما (سیرالیون),267 گیمبیا, 252,249,87,84 419,362,360,357,352,338,332, 515,512,501,454, لانچو ( چینی شہر), 248 قادیان, 335,327,79,78,335 قانسو ( چینی صوبہ ),248 قاہرہ یونیورسٹی, 16 259, 153, 143, 137, 74, 24, لائکپور (فیصل آباد ), 37 لائیبر یا 86,84 لاہور 211,81،
مصالح العرب.....جلد دوم 19 لبنان 12-636281911 مسجد المشهد بمقام المشهد 333 58, 15, 4, 432,405,375,312,101,76, مسجد المغار بمقام مغار, 333 انڈیکس لندن 149,144,134,131,124,123 مسجد النور بمقام رینہ 333 ,154,151 ,164,163,156 242,169 مسجد الھد کی بمقام جبل الدولة الناصرة 333 ,340,316,315,271,268,245,261 مسجدام الهم بمقام ام الحم, 333 486,398,356, ليبيا, 147 لیگوس ( نائیجیریا ) ,46,44 ماریشس, 426,15 مالی,263,250,136 مجمع العلمي العربي 35 مدراس,44,42 مدرسہ احمدیہ ( کبابیر ) ,14 مسجد بیت الفتوح لندن 442,356,284, مسجد شہید گنج 117 مسجد صخرة,336 مسجد عمر بن الخطاب بمقام شفاعمر 333 مسجد فضل لندن 396,264 مسجد کفر قرع بمقام كفر قرع 336 مسجد مبارک ربوه ,143, مسجد مبارک قادیان 259 260 مدینه منوره, 375,361,311,306,251 مسجد مبارک ہیگ, 40 مڈغاسکر,259 مراکش,148-1519,454,246,16 مرسيليا , 476 مزوديا, 46 مسجد احمدیہ ( کبابیر ),335,334 مسجد اقصی القدس,366,102 مسجد البطن بمقام البطن, 333 مسجد اسخنين بمقام کنین , 333 مسجد السلام بمقام ناصره, 333 مسجد الصديق بمقام الناصرة, 333 مسجد النور بمقام الناصرة 333 مسرورسنٹر (کبابیر ),513 مشرق وسطی 84,75,72,4 ,89,86 ,95 476,441,337,98, 70, 37, 24-34, 21, 20, 16, 13, 144, 141, 123-134,137,90,84, 172,171,167, 157, 149, 152-154, 316,303,250,204,200, 195, 196, 391,387,385,378,377,374,371, 458,431, 422, 410-418, 405,
مصالح العرب.....جلد دوم 523,508,502,494,465,463, 20 نیوزی لینڈ, 57 انڈیکس مكتبة الاسد, 276 ہالینڈ 261,150,40 مکه مکرمه 78 ,109 ,306,260 ,311 پروم 336 520,432,405,376,375,361, موریطانیہ, 250,147 مينارة اصبح 335 ناصره ( فلسطین),331,328 نائیجر 263 نا پیجیریا 87,46,44-136,125,84 263,247,141, یمن,452,360,254 86,84, 72, 70,47,21, 19, 1, 147, 145, 136, 115, 114, 387,310,356,279,259,156-158, 517,405, 159, Dietzenbach Rukupur ( سیرالیون) 263
مصالح العرب.....جلد دوم 21 انڈیکس استفتاء 119،47، کتابیات که البشری رسالہ 14 ، 16 ،49، البلاغ (اخبار), 360 اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل البناء الوطني (اخبار) 463.345.134 اسلام کا اقتصادی نظام, 16, 75 التبليغ 484 التفسير الوسيط 374 اسلامی اصول کی فلاسفی 343754341 التقوی رسالہ 136-242174134 492,369,344, اعجاز ا ح 200 افتراء ات على الجماعة الإسلامية والرد عليها 344 365,350,267,245-264, الجماعة الإسلامية الأحمدية، عقائد $372, الجمهوريه (اخبار) 54، اک مرد خدا 134 الاتحاد (اخبار),343 الاتقان في علوم القران, 139 الاخبار الوطني, 153 الحقائق عن الاحمدیہ, 36، الحکم،اخبار510،509،309، الحمد لله نحن مسلمون بفضل الله $89, الاسلام و دراسات منهجية 504, الخطاب الجلیل (اسلامی اصول کی فلاسفی) ,43 الاسلام والخلافة في العصر الحاضر 45، $503 الاعتدال (اخبار),278,277، الاملاء والتقويم,1,131, الانوار (اخبار) 330 الأحمدية والرد عليها 344, البدر، اخبار 34 ، 176 ، 182، 242، 310، الدستور (اخبار) 462 الشرق الاوسط (اخبار) ,400,356 الشيخ الاكبر محی الدین بن عربی و بقاء النبوة40 الصنارة وفت روزه),331,330 337,
مصالح العرب.....جلد دوم العبرات,266,265, الفرقان الحق 495-493 الفرقان 37 الفضل اخبار 2، 6، 8، 12،9، 20، 21، 22 <495.487 پائلٹ (لیگوس) ,45 انڈیکس تاریخ احمدیت 12،9، 36،34، 41، 54، €74.71.61.57 22، 23، 25، ،27، 28، 31، 36، تحفہ بغداد, 47 37، 39 ، 40 ،44، 46، 48، 57، تحفہ گولڑویہ 472,469 تفسير المراغى 204 تفسیر المنار, 200,196 451 442 304 97 95.75 $550 القدس العربي (اخبار), 377 تفسير خاتم النبيين القران الكفر ملة واحدة 52, المنار رسالہ, 200 المودودي في الميزان, 76,40 والاحاديث344 تفسیر طبری,41 تفسير كبير ,149 ,154 ,274,261 المهدى الحقاني في الرد على المتنئ 491,374,373,364، القادياني 89 تكسير الصليب ,491 النصر (رساله),132 الوطن (هفت روزه),360,329 الوعی (ماہنامہ), 504 تورات,343,257 ٹروتھ 37 جامع الاصول في احاديث الرسول الهدى والتبصرة لمن يرى 200, 41, انجیل 257 جنگ 186 أليست الأحمديه جماعة مسلمة؟ چٹان (هفت روزه), 81 344, بانوراما (اخبار) 344 حقیقة الوحی, 119 حقيقة عقوبة الردة في الاسلام 145 بائبل 191، 350، 386، 387 ، 392، حمامة البشرى, 469,334,330,10,129 405، 409، 413، 424، 464، 485 | خالد ماہنامہ, 153
مصالح العرب.....جلد دوم خطبہ الہامیہ 307,147 خلیج کا بحران اور نظام جہان نو 290 دعوة الأحمدية وغرضها 75 دعوة الامير, 16 یباچہ تفسیر القرآن 373 ڈیلی ٹائمنر (لیگوس) ,45 ریویو آف ریلیجنز 130 سفينة نوح,75 سلسلہ احمدیہ 14 ، 76 ، سیر روحانی 14 سيرة الابدال 131 شرح ابن عقیل 282 شهادة القرآن 266 23 انڈیکس 281, 270, 264, 257,256, 245, 335,331,321,320,318,305,293, 493,388,378,367,343, قصص الانبياء 233 کتاب مبین 78 کرزن گزٹ,389 کسر صلیب 388، كل العرب (اخبار), 337 کول بو( اخبار ), 331 لا حياة للمسيح عيسى بن مريم في القرآن ابدا344 لائف آف محمد, 46,45 لماذا أعتقد بالاسلام 75 صدق جدید (اخبار) 79، 80، لواء الاسلام مجله 228 صوت الازہر (اخبار),392 لولاک (اخبار),82 صوت العرب 39 مجلہ الازہر 54 ضرورت الامام 459 علم الکلام, 387 علم الکلام 388، فلسفة تعاليم الاسلام 7540 في ظلال القرآن (کتاب) ,233 محاضرات في النصرانية 232 مذہب کے نام پر خون 1,134, مسیح ہندوستان میں 3382,369,116 487, مصالح العرب 282 قتل مرتد کی سزا کی حقیقت 145,138 مقارنة الادیان (کتاب), 210 قتل مرتد 270 مکتوب احمد ,369 قرآن مجید 234,220-231 ,244,238 ملا مگہ اللہ 114
مصالح العرب.....جلد دوم 24 ملفوظات 77، 194، 195 ، 310، 335، نوائے وقت ,81 $549 ملكوت الله ينزع منكم 344, منتخب احادیث سیدنا مصطفی ام 344 منتخب اقتباسات 344 منتخب آیات قرآن کریم, 344 نحن مسلمون (کتاب) ,75 ہدیہ سعدیہ 34 ہمارے بیرونی مشن, 45 انڈیکس 134, A Man of God Christianity:A Journey from Facts to 382, Fiction Islam's response to Contemorary نسال المعارضين و علماؤهم 14-16, Le Figaro(اخبار) نظام نو, 16 345,134, Issues 376 37, Message ☆......☆ XXXXXXXXXXXX